Tarikh-eAhmadiyyat V22

Tarikh-eAhmadiyyat V22

تاریخ احمدیت (جلد 22)

1963ء ۔ 1964ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین کا آغاز حضرت مصلح موعود ؓ کی خصوصی تحریک اور روحانی توجہ کی بدولت جون 1953ء میں ہوا۔ اور اس کی پہلی جلد دسمبر 1958ء میں سامنے آئی۔ اس وسیع پراجیکٹ پر کام جاری و ساری ہے۔ مؤلفہ جلد ۱ تا ۲۱ : دوست محمد شاہد ۔ ایڈیشن 2007ء قادیان۔ مؤلفہ جلد ۲۲ تا ۲۸۔۔۔ نوٹ: اس ایڈیشن میں جلدنمبر 1 اور 2 کو ایک جلد (یعنی جلد نمبر 1) میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح جلد نمبر 3 نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 2 ہے ۔ اسی طرح نئے ایڈیشن میں باقی سب جلدوں کے نمبر پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ایک نمبر پیچھے ہے۔ اور چونکہ جلد نمبر 20 پرانے نمبر کے مطابق ہے، اس لیے  جلد نمبر 19 نہیں ہے۔


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد نمبر 22 $1964-1963

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عرض ناشر خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے تاریخ احمدیت کی جلد نمبر 22 ہدیہ قارئین ہے یہ 1963 ء اور 1964ء کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے.محترم مولانا دوست محمد شاہد مورخ احمدیت نے تاریخ احمدیت کی 21 جلدیں مرتب فرمائیں.اس سلسلہ میں آپ کی گرانقدر خدمات ہمیشہ یادرکھی جائیں گی.حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 /اگست 2009ء میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: " 1953ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو تاریخ احمدیت مدون اور مرتب کرنے کے لئے مقررفرمایا.اس کی 20 جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور باقی بھی 2004 ء تک مکمل ہیں اور اس کے بعد نوٹس بنا کر چھوڑ گئے ہیں...آپ مؤرخ احمدیت کہلاتے تھے.تاریخ احمدیت آپ نے لکھی ہے...لیکن میں سمجھتا ہوں کہ صرف مؤرخ احمدیت نہیں تھے بلکہ آپ تاریخ احمدیت کا ایک باب بھی تھے.“ حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے بڑی محنت لگن اور شوق سے اس مفوضہ خدمت کو سرانجام دینے کی توفیق پائی.فجزاه الله خير الجزاء.جو بڑی تندہی اور اخلاص سے مصروف کار ہیں.آپ نے جلد 22 کے لئے موجود مواد پر نظر ثانی کی اور بڑی مفید اور وقیع ایز ادیاں کی ہیں.آپ کے جن رفقائے کار نے آپ کا ہاتھ بٹایا.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرماۓ.فجزاهم الله احسن الجزاء.ان کاوشوں کا ثمرہ بصورت جلد ہذا پیش ہے.امید ہے قارئین کے ذوق اور دلچسپی اور توجہ کا سامان قرار پائے گا.اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ احباب کو اس سے استفادہ کی توفیق بخشے.آمین.

Page 3

پیش لفظ احباب جماعت کی خدمت میں تاریخ احمدیت جلد ۲۲ پیش کی جارہی ہے جو سال ۱۹۶۳ء ہے اور ۱۹۶۴ء کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے اس جلد میں حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کے مختلف مواقع پر دیئے گئے روح پر دور اور زندگی بخش پیغامات ، خلافت ثانیہ کے فتح و ظفر سے معمور پچاس سال پورے ہونے پر پُر مسرت تقاریب، اجتماعات، پیغامات ، غیر معمولی معجزانہ جماعتی ترقیات اور احباب جماعت کا خلافت احمد یہ سے اطاعت و وفا کا ایمان افروز تذکرہ شامل ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ اور ایک غلطی کا ازالہ پر حکومتی پابندی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا ملکی وغیر ملکی رد عمل، ان سالوں کی مجالس مشاورت ، جلسہ ہائے سالانہ ، حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب جیسے احمدی سپوتوں کی عالی پذیرائی ، بیرونی ممالک میں دین حق کی شاندار پیش قدمی کا روح پرور تذکرہ، نیز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیلی اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ہوتی مردان جیسے بزرگان کی وفات اور ان کے تفصیلی حالات کا ذکر ہے.اسی طرح بہت سی نادر اور نایاب تصاویر بھی اس جلد میں شامل کی گئی ہیں.اس جلد کے مسودہ کی تیاری کے سلسلہ میں متعلقہ سالوں کی فائلوں میں موجود مواد سے استفادہ کے علاوہ ان سالوں میں شائع شدہ اخبارات و رسائل اور دیگر مطبوعہ و غیر مطبوعہ مواد کا از سرنو مطالعہ کر کے بیش قیمت حقائق و واقعات کا اضافہ بھی کیا گیا ہے.نیز اس جلد میں مندرج حوالہ جات کو الوسع اصل ماخذ سے چیک کیا گیا ہے.نے گہری توجہ اور محنت سے کام کیا.مجز اھم اللہ احسن الجزاء.

Page 4

i عنوان تاریخ احمدیت جلد 22 فهرست مضامین صفحہ عنوان صفحه صلح تا فتح ۱۳۴۲هش/ جنوری تا دسمبر ۱۹۶۳ء کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا 21 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے 1 جواب کی ضبطی.زبر دست عالمی احتجاج اور 1 حق وانصاف کی فتح صدق جدید“ کا خراج تحسین ایک احمدی سائیکل سیاح کا ذکر پریس میں.قومی اسمبلی کے اراکین حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو 4.صوبائی اسمبلی کے اراکین.بارایسوسی ایشن اور وکلاء امریکی پریس کا خراج تحسین ایک سازش اور اسکے خلاف احتیاطی تدابیر 7 - ادارہ تحفظ حقوق شیعان پاکستان 31 32 32 34 34.اہلسنت والجماعت دھیر و کے ضلع لائل پور 35 مباہلہ کے نام پر ایک افسوسناک حرکت اور 8 - فارورڈ بلاک اثناعشریہ جماعت احمدیہ کی وضاحت پنجا گڑھ میں آتشزدگی اور جماعت کی بے لوث 12.اہلسنت والجماعت چک ۳۸ جنوبی ضلع سرگودها 35.انجمن اسلامیہ سیالکوٹ خدمات مجلس مشاورت ۱۹۶۳ء 12 36.انجمن رفاہ عامہ واتحاد بین المسلمین سیالکوٹ 37 37 37 مشاورت کے متعلق ایک دوست کے تاثرات 15 - جنرل سیکرٹری مرکز تحقیق مسیحیت لاہور جلسہ سیرت النبی اور علماء رحیم یار خاں کا مسلح مظاہرہ 16.رائٹرز گلڈ سیالکوٹ حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو شاہ مراکش 18.ڈسٹرکٹ اور تحصیل کونسلوں، میونسپل کمیٹیوں اور 38 کا خراج تحسین ٹاؤن کمیٹیوں کے چیئر مین اور ممتاز اراکین ضلع لاڑکانہ اور ضلع نواب شاہ کے اجتماعات اور 20.یونین کونسلوں کے چیئر مین اور اراکین صدر مجلس انصاراللہ کے پیغامات - رؤساء 39 24 40

Page 5

ii ==== عنوان صفحہ 40 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زیر صدارت 74 عنوان صفحہ تاجر صاحبان بعض دیگر معززین 40 نگران بورڈ کا آخری اجلاس.بیرونی ممالک کے مسلمانوں کا احتجاج 40 ذیلی تنظیموں سے متعلق حضرت مصلح موعود کی 74 مغربی پاکستان کے پریس کا احتجاج 42 زریں ہدایات کی اشاعت.پاکستان کے مسیحی لیڈر کا بیان 53 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو ڈاکٹر 75 فیصلہ کے اعلان میں ناروا تاخیر 54 آف لاز کی اعزازی ڈگری ( کولمبیا یونیورسٹی) ایڈیٹر ہفت روزہ لاہور کا بیان 55 حضرت مصلح موعود کے احسانات پر قلم اٹھانے 76 حکومت مغربی پاکستان کا مبارک اور دانشمندانہ 58 کی اہم تحریک فیصلہ اور اس کا شکریہ.کتاب کی وسیع اشاعت کتب مسیح موعود علیہ السلام کے انگریزی تراجم 77 59 مقدس احمدیہ حلقہ قادیان سے متعلق محکمہ 79 افریقہ میں اسلام کی شاندار پیش قدمی 60 بحالیات کا غیر منصفانہ نوٹس خدام الاحمدیہ کی تربیتی کلاس کیلئے اہم پیغام 62 حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا 82 پاکستانی احمدیوں کی طرف سے مالی قربانی کا 62 دورہ روس عظیم الشان مظاہرہ صاحبزادہ مرزا ا مبارک احمد صاحب مشرق بعید میں 82 ایک غیر متعصب ادیب جناب شوکت تھانوی 64 انصار اللہ ضلع حیدر آباد کا اجتماع ، مسجد کا سنگ 87 صاحب کی وفات بنیا داور استقبالیہ تقریب مشرقی پنجاب (بھارت) کی ایک کتاب میں 70 ایک نہایت مبارک تحریک دعا اور اس کی عظیم برکات 87 جماعت احمدیہ کا ذکر حضور انور کا سفر لاہور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو ڈاکٹر 92 71 | آف لاز کی اعزازی ڈگری ( ڈینور یونیورسٹی) مشرقی پاکستان کا طوفان اور صدر انجمن احمدیہ 71 جناب عبد السلام میڈسن کا دورہ متحدہ عرب جمہوریہ 93 پاکستان کی طرف سے عطیہ د فضل عمر پبلک لائبریری“ کراچی کا افتتاح اور 93 چٹا گانگ کے احمدی نوجوانوں کی قابل قدر مساعی 72 علامہ نیاز فتح پوری کا پُر اثر خطاب

Page 6

iii عنوان صفحه عنوان قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد 95 - جلیل القدر انتظامی خدمات صاحب کا وصال.( سوانح اور سیرت و شمائل ).سیرت و شمائل پر طائرانہ نظر.لاہور سے سوگوار قافلہ کی سُوئے ربوہ روانگی 101.قمر الانبیاء فنڈ عنسل اور تجہیز و تکفین - صفحہ 114 116 119 101 - حضرت صاحبزادہ صاحب کی حیات مقدسہ 119 حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حادثہ کی 102 پر پانچ بصیرت افروز مضامین اطلاع - حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے 119 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب 124.پاکستان اور بیرون ملک سے ہزاروں 102 تاثرات مشتاقان دید کی آمد -.آخری زیارت کا شرف 103 کے تاثرات جنازہ اٹھانے اور کندھا دینے کا منظر 104 - (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب 127.نماز جنازہ.تدفین اور اجتماعی دعا 104 کے تاثرات 104 - صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے تاثرات 140 حضرت مصلح موعود کا تعزیتی مکتوب 105 - تالیفات 151 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی طرف 106 - حضرت صاحبزادہ صاحب کی سوانح حیات 154 سے شکریہ تعزیت کا پیغام اولاد پر مطبوعہ لٹریچر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا 108 تعزیتی مکتوب 155 حضرت مصلح موعود کا ولولہ انگیز اور زندگی بخش 156 - اخبار ”پیغام صلح لا ہور کا نوٹ 109 پیغام.تعزیت کا تار ( از طرف غیر مبایعین ) 109 مالا بار میں نصرت خداوندی کا عظیم نشان.اخبار بھیم پتریکا جالندھر کا نوٹ 110 مرکزی نمائندہ مشرقی افریقہ میں سلسلہ کے جرائد ورسائل کے خصوصی نمبر 110 مغربی پاکستان کی وزیر تعلیم ربوہ میں 159 161 161.وحی ربانی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا 111 (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا 162 ذکر مبارک سفر مشرقی پاکستان

Page 7

iv عنوان صفحہ عنوان مشرقی افریقہ میں احمدیوں کی جد وجہد مسٹر 167 بھارت میں چار معرکہ آراء مناظرے ایچ.جے.فشر کی نظر میں صفحہ 190 سیدنا حضرت مصلح موعود کا تاریخ احمدیت سے 191 الشیخ محمود شلتوت کا بیان جماعت احمدیہ کی نسبت 170 متعلق اہم پیغام جنوبی افریقہ کے ایک معزز ستی مسلمان کا 171 جماعت احمدیہ کراچی کا پہلا سالانہ تربیتی اجتماع 192 حقیقت افروز اعتراف | حضرت سیدہ ام وسیم صاحبہ کا انتقال پر ملال 193 195 مجلس خدام الاحمد ید ربوہ کا پہلا مقامی اجتماع 173 شیخ الازھر السید محمود شلتوت کی وفات یہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا 173 حضرت مصلح موعود کا جلسہ سالانہ قادیان کے 197 خصوصی پیغام - (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب 174 لئے روح پرور پیغام.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب 198 کا پیغام بشیر بال کا افتتاح 177 تعلیم الاسلام کا لج گھٹیالیاں کی نئی عمارت کا سنگ 177 بنیاد اور ہوٹل کی عمارت کا افتتاح حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب دوبارہ 178 عالمی عدالت کے جج کا وجد آفرین پیغام.قافلہ قادیان ۱۹۶۳ء جلسہ سالانہ ربوہ.حضرت مصلح موعود کا افتتاحی پیغام.حضرت مصلح موعود کا اختتامی پیغام 200 201 202 204 جلسہ کے متعلق ایک معزز غیر احمدی کے 206 خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع اور (حضرت) 180 صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا قیمتی مقالہ مشاہدات حضرت مصلح موعود کا انصار اللہ مرکزیہ کے اجتماع پر 182 حوالہ جات (صفحہ۱ تا ۲۰۸) بصیرت افروز پیغام تحریک جدید کی عظیم الشان عالمی خدمات پر 185 صحابہ کرام کا انتقال ایک ٹھوس اور مؤثر تقریر 209 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت 219 حضرت خان عبدالمجید خان صاحب کپور تھلوی 238 مکرم عثمان غنی صاحب اور مکرم عبد الرحیم 189 احمد یہ صوبہ سرحد صاحب ( مشرقی پاکستان ) کی شہادت

Page 8

عنوان صفحہ عنوان صفحہ 273 حضرت صوفی محمد فضل الہی صاحب 240 حضرت مرزا عطاء اللہ صاحب آف لاہور حضرت مولوی فضل دین صاحب آف مانگٹ اونچے 241 حضرت مرزا حاکم بیگ صاحب موجد تریاق چشم 273 277 277 حضرت منشی دیانت خان صاحب نادون ضلع کانگڑہ 242 کجرات حضرت مولوی محمد عزیز الدین صاحب 243 حضرت شیخ غلام جیلانی صاحب حضرت منشی عبدالخالق صاحب کپور تھلوی 246 حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی حضرت حکیم قریشی شیخ محمد صاحب 248 حضرت الحاج شیخ منظور علی صاحب لدھیانوی 315 حضرت حکیم مولوی اللہ بخش خان صاحب زیر وی 249 ۱۹۶۳ء میں وفات پانے والے حضرت میاں اللہ دتہ صاحب تر گڑی ضلع 251 مخلصین جماعت گوجرانوالہ مسٹر مبارک احمد فرائی 316 حضرت سید مبارک علی شاہ صاحب باہری لدھیانوی 252 حضرت سیدہ عائشہ بیگم صاحبہ (والدہ ماجدہ 316 حضرت خواجہ بھائی محمد عبد اللہ صاحب ولد خواجه 257 حضرت سیده ام و سیم صاحبہ ) گلاب صاحب محترمه محمد الہی بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت شیخ محمد 316 حضرت آغا سلطان احمد صاحب لدھیانوی 259 اسماعیل صاحب پانی پتی 260 پیر زمان شاه صاحب مانسہرہ حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحب 316 حضرت سید ولایت شاہ صاحب انسپکٹر وصایا 263 نواب سید عبدالمومن صاحب رضوی حیدر آبادی 317 حضرت شیخ عبدالشکور صاحب آف حافظ آباد 266 محترمہ عنایت بیگم صاحبہ بنت مرزا احمد بیگ اہلیہ 317 حضرت عنایت بیگم صاحبہ بیوہ مرزا محمد علی صاحب 266 مرزا ارشد بیگ قادیان حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب پنشنز 267 میاں نیم حسین صاحب ابن سر فضل حسین صاحب 317 حضرت مہتاب بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولاناسید 270 الاستاذ احمد علمی محمد سرور شاہ صاحب محترمه عمده بیگم صاحبه حضرت میاں عبدالکریم صاحب آف فتح پور ضلع 271 مرزا عبد الغنی صاحب گجرات مولانا محمد شہزادہ خان صاحب افغان 317 318 318 319

Page 9

vi عنوان صفحہ میاں عبدالرحیم صاحب بنوں عنوان 319 قادیان کا ایک وفد جنوبی ہند میں صفحہ 338 مولوی عطاءالرحمن صاحب طالب 319 حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے 339 السيد عبدالرحمن قزق بن الحاج محمد قزق 319 | احمدی احباب مولوی غلام نبی صاحب رائے خان محمد بھٹی صاحب خواجہ محمد شفیع صاحب پلیڈر چکوال مولوی برکات احمد صاحب را جیکی مولوی برکت علی صاحب لائق 320 جماعت احمدیہ آزاد کشمیر کا پہلا سالانہ جلسہ 320 دولیاہ جٹاں میں جلسہ 320 کراچی میں پرائمری سکول کا اجراء 320 احمد یہ حلقہ قادیان کے معاملہ میں مفاہمت 321 لیفٹیننٹ ڈاکٹر عبدالکریم صاحب آف چک 321 ۹۶ صریح ضلع لائل پور ربوہ میں ایک مشترکہ تربیتی اجلاس جماعت احمدیہ کراچی کا پہلا جلسہ سالانہ کرنل ملک سلطان محمد خان صاحب امیر 322 ہائی کمشنر غانا کا استقبال جماعتہائے احمد یہ ضلع کیمل پور حوالہ جات (صفحہ ۲۱۹ تا ۳۲۳) ۱۹۶۳ء کے متفرق اہم واقعات 324 خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی 332 تقاریب.ولادت شادی احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں اور اعزازات 332 332 332 باب الابواب ( ربوہ ) میں مسجد کا سنگ بنیاد وزیر اعظم ملایا کی خدمت میں لٹریچر دیگر متفرق واقعات بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی آئیوری کوسٹ افریقہ امریکہ انگلستان برما بورنیو (شمالی) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک 335 تنزانیہ ( ٹانگانیکا) نادرو نایاب نظم ٹو گولینڈ قادیان کی میونسپل کمیٹی میں احمدی ممبران 337 جرمنی 339 341 341 342 342 342 343 343 343 343 345 345 346 347 348 348 349 350 359

Page 10

vii عنوان صفحہ عنوان صفحہ سپین سنگا پور 359 - ترجمہ فتاوی احمدیہ 360 - تراجم کتب تاریخ وسیرت 398 سیرالیون 360 - تراجم کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام غانا کینیا 379 362.دیگر اساسی لٹریچر 364 - پُر مسرت ، ایمان افروز اور ولولہ انگیز تقاریب 401 کینیڈا ( مختصر تاریخ ۱۹۶۳ء تا ۱۹۸۹ء) 364 - ربوہ گیمبیا لائبیریا 378 | - قادیان 402 407 مشرق و مغرب سے دلی مبارک باد کے 407 399 399 399 - نائیجیریا ہالینڈ 379 پیغامات اور خطوط 380.پاکستان کے طول وعرض سے برقی پیغامات 413 یوگنڈا 380 اور خطوط مبلغین احمدیت کی آمد ور وانگی 382 - مجالس خدام الاحمدیہ کا تجدید عہد نئی مطبوعات 384 - بیرونی مشنوں میں عظیم الشان جلسے 415 415 حوالہ جات ( صفحه ۳۳۲ تا ۳۸۸) 389 پاکستان کے مشہور عالم سائنسدان محترم پروفیسر 419 صلح تا فتح ۱۳۴۳هش/ جنوری تا دسمبر ۱۹۶۴ء ڈاکٹر عبدالسلام کی ایک جدید سائنسی تحقیق خلافت ثانیہ کے فتح و ظفر سے معمور پچاس سال.393 وفات مسیح کا ببانگ دہل اقرار اور حضرت مسیح موعود 420 علیہ السلام کے علم کلام کی فتح مبین پُر مسرت تقاریب، تجدید عہد تعمیر مساجد 394 تبرکات کی حفاظت کا شرعی جواز اور انتظام تعلیمی ادارہ جات 395 | مجلس مشاورت ۱۹۶۴ء 427 430 اخبارات ورسائل 396 برٹش گی آنا میں ایک یورپی باشندہ کا قبول حق 1439 تراجم قرآن کریم 397 جلسہ تقسیم اسناد تعلیم الاسلام کا لج ربوہ - تراجم کتب حدیث 398 دفتر انجمن احمد یہ وقف جدید کا افتتاح 439 442

Page 11

viii عنوان ایبٹ آباد میں جلسہ یوم والدین صفحہ عنوان 444 باؤنڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کا کردار صفحہ 482 سکھ یاتریوں کے لئے پیغام محبت 446 - محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا مکتوب 483 مسئلہ کشمیر اور جماعت احمدیہ کی مساعی 448 - محترم شیخ بشیر احمد صاحب کا خط 484 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا 450 ہالینڈ میں یورپ کے احمدی مبلغین کی سالانہ 486 ایک پیغام کانفرنس 491 491 492 493 جلسہ تقسیم اسناد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ 451 پیارے امام کی شفایابی کیلئے صدقہ کی تحریک.سکول کی ورکشاپ کا سنگ بنیاد 453 رسالہ منڈونیگر و میڈرڈ میں احمدیت کا ذکر ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب 453 جماعت احمدیہ حیدرآباد کی قابل قدر مساعی کی اجتماعات کے لئے راولپنڈی و پیشاور آمد دنیا کا عظیم سائنسدان.پروفیسر عبدالسلام وقف جدید کی وقف زندگی کے لئے بھر پورا پیل 457 روس کی سائنس کانفرنس میں ڈاکٹر عبدالسلام کو 497 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی 458 خراج تحسین احمدی بچوں کیلئے قیمتی نصائح درس قرآن کا مبارک سلسلہ اخبار الجمعیۃ کا جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا 497 459 برملا اقرار کتاب ”ایک غلطی کا ازالہ کی ضبطی اور اشاعت 459 جماعت احمدیہ برطانیہ کے پہلے جلسہ سالانہ 498 نواب آف کالا باغ سے جماعتی وفد کی 468 ۱۹۶۴ ء کی روئیداد ملاقات مسجد محمود واہ کینٹ فضل عمر مرکزی تعلیم القرآن کلاس کا آغاز 471 احمد یہ ہوٹل لاہور کا دوبارہ اجراء 501 504 - (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب 475 ربوہ میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ابتدائی انتظامات 505 حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا اہم پیغام 506 کا خطاب 509 فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کا احیائے نو 478 لنگر خانہ ربوہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کا لٹریچر 479 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی ایک تقریر 509 ایک امریکن احمدی خاتون کا دلچسپ مکتوب 480 صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا دورہ آزاد کشمیر 511

Page 12

عنوان صفحہ ix عنوان صفحہ ربوہ میں پہلی اردو کا نفرنس ذیلی تنظیموں کے سالانہ مرکزی اجتماعات.سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ |511 جلسہ سالانہ ربوہ 515.سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کا فتتاحی پیغام 556 557 515 - سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا پُر معارف 560 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ 517 اختتامی پیغام سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ 518 - سیدہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا 562 سالانہ اجتماع انصار الله 518 بصیرت افروز خطاب مجلس خدام الاحمدیہ کے چھبیس سالہ دور پر ایک نظر 519 - احمدی خواتین کے جلسہ سالانہ کی دوسری مقررات 566 حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام 527 - احمدی خواتین کی مالی قربانی کا شاندار مظاہرہ 566 خدام الاحمدیہ کے نام سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی 528 - مجلس خدام الاحمدیہ بوہ کوعلم انعامی کا اعزاز 567.جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ ء کے متعلق معزز غیر احمدی 567 کا تازہ پیغام 577 اسلامی مشاورتی کونسل کے رکن مولانا ابوالہاشم 528 دوستوں کے تاثرات صاحب کا تعلیم الاسلام کالج کے طلبہ سے خطاب رپورٹ نظامت جلسہ سالانہ بابت ۱۹۶۴ء 572 شمالی نائیجیریا ( مغربی افریقہ میں مسلم کورٹ کا قیام 529 حوالہ جات ( صفحه ۳ ۳۹ تا ۵۷۶) بمبئی میں بین الاقوامی کیتھولک کا نفرنس اور 533 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر جماعت احمدیہ کی شاندار تبلیغی مساعی دفاتر تحریک جدید کے احاطہ میں باغیچہ اطفال کا 547 حضرت حامد حسین خان صاحب مراد آبادی حضرت میاں محمد الدین صاحب آف مانگٹ اونچا 586 افتتاح صحابہ کرام کا انتقال 582 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا 549 حضرت چوہدری خدا بخش صاحب بانڈ و گجر 587 جامعہ احمدیہ سے خطاب ضلع لاہور خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کے آخری سالانہ جلسے 552 حضرت سیدہ محمدی بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمد اشرف 589 جلسه سالانه قادیان 552 صاحب مرحوم جلسہ میں دنیا کی مختلف چھتیں زبانوں میں تقاریر 554 حضرت خان امیر اللہ خان اسماعیلیہ ضلع مردان 589

Page 13

X عنوان صفحہ عنوان صفحہ حضرت قاضی سید حبیب اللہ شاہ صاحب آف 589 حضرت ڈاکٹر اعظم علی صاحب آف گجرات 616 شاہدرہ (لاہور) حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری 591 حضرت عزیزہ فاطمہ صاحبہ زوجہ حضرت منشی 608 خیر الدین صاحب سیکھوانی عبدالسمیع صاحب کپورتھلوی حضرت سکینہ بیگم صاحبہ زوجہ حضرت شیخ احمد علی 608 بخش صاحب حب حضرت بابا اللہ بخش صاحب در ویش قادیان 617 حضرت امیر بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت میاں 618 حضرت غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ حضرت شیخ حسین 621 حضرت آلہ بی بی صاحبہ زوجہ حضرت مولانا محمد 621 حضرت شیخ فضل قادر صاحب ولد حضرت شیخ نور 622 حضرت با با نواب دین صاحب عرف میاں کا لو 622 حضرت سید محمد حسین شاہ صاحب آف راہوں 608 اسمعیل صاحب حلالپوری ضلع جالندھر حضرت شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگرو آف 610 | احمد صاحب گوجرانوالہ حضرت مہراں بی بی صاحبہ زوجہ حضرت میاں 611 حضرت منشی شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب ( سابق 623 عبدالرحیم صاحب پوہلہ حضرت حاکم بی بی صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر مرزا 611 عبد الکریم صاحب کشن لال) حضرت قریشی محمد اسمعیل صاحب معتبر 627 حضرت چوہدری غلام محمد صاحب گوندل چک 612 حضرت غلام فاطمہ صاحبہ زوجہ حضرت ڈاکٹر فیض 629 ۹۹ شمالی سرگودھا علی صابر صاحب 629 632 حضرت میاں غلام قادر صاحب ساکن تھہ غلام نبی 613 حضرت مولوی عبدالحق صاحب بد وماهوی حضرت گل حسن صاحب ساکن داته مانسہرہ 615 حضرت محمد مسعود خان صاحب مندرانی حضرت رحیمہ بیگم صاحبہ ( بنت حضرت ڈاکٹر 615 حضرت مولوی محمد عثمان صاحب امیر جماعت 633 احمد یہ ڈیرہ غازی خان کرم الہی صاحب آف امرتسر ) حضرت حسین بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری برکت علی 616 حضرت مولوی عمر دین صاحب شادی وال ضلع 642 صاحب مرحوم اراضی یعقوب سیالکوٹ گجرات

Page 14

xi عنوان ۱۹۶۴ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت صفحہ عنوان صفحہ محترم میاں شیر محمد صاحب ریٹائرڈ چیف انسپکٹر 680 پولیس ملایا چوہدری اللہ دین صاحب آف اور حمہ ضلع سرگودھا 64 چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ ایڈووکیٹ و ممبر 681 اورحم میجر جنرل نذیر احمد صاحب آف دوالمیال ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف موگا مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی ڈاکٹر لعل محمد صاحب لکھنوی (ڈھاکہ) ملک عمر علی صاحب کھو کھر رئیس ملتان ڈاکٹر سردار علی صاحب ایم بی بی ایس حاجی میاں تاج محمود صاحب آف چنیوٹ 644 645 646 646 647 648 649 نگران بورڈ دیگر مخلصین سلسلہ کی وفات حوالہ جات (صفحه ۵۸۲ تا ۶۸۸) 683 689 ۱۹۶۴ء کے متفرق اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی 695 تقاریب.ولادت چوہدری عبدالواحد صاحب سابق ایڈیٹر 650 - نکاح اور شادی اصلاح سرینگر محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا رحمت علی صاحب 651 احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں اور اعزازات سہ ماہی مجلہ الجامعہ کا اجراء 652 افغان وفد قادیان میں 695 695 696 697 698 سیٹھ عبدالحی صاحب یادگیری خضر سلطانہ صاحبہ اہلیہ باب محمد یونس صاحب دہلوی 652 پاکستان کے سابق وزیر خارجہ کی ربوہ میں آمد 698 میر عبدالقادر صاحب امیر جماعت احمدیہ 654 کلکتہ میں مسجد کا افتتاح تهران (ایران) 698 برطانیہ کی نواحمدی خاتون علیمہ صاحبہ کی ربوہ آمد 701 امة اللطیف صاحبہ بیگم حضرت ڈاکٹر میر محمد 655 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی تحریر 701 اسمعیل صاحب فرمودہ ایک نہایت اہم روایت مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ 658 سیرالیون کے ڈپٹی پرائم منسٹر کا استقبال ز ود نویسی 703 نائیجیریا کے پریس نمائندگان کی پاکستان آمد 703 شیخ عمری عبیدی وزیر تعمیرات و ثقافت ملتی ٹانگانیکا 663 سنگ بنیاد مسجد غازی اندرون شیخو پوره تنزانیہ مشرقی افریقہ) 703 پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام کا نیا اعزاز 704

Page 15

xii عنوان صفحہ عنوان صفحہ حج بیت اللہ سے مشرف ہونے والے احمدی 704 ہالینڈ بھارت کی معزز شخصیات کو دینی لٹریچر کا تحفہ 705 یوگنڈا 726 727 729 731 733 جماعت احمد یہ غیروں کی نظر میں 706 مبلغین احمدیت کی آمدور وانگی افریقہ میں جماعت احمدیہ کی مساعی ”ماہنامہ 706 نئی مطبوعات سیارہ لاہور کی نظر میں مغربی بنگال کے ایک جید عالم کا قبول احمدیت 707 خدمت خلق کا ایک واقعہ اور تنظیم السادات و 707 مومنین کا نفرنس کی قرار داد تشکر بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی آئیوری کوسٹ حوالہ جات (صفحه ۶۹۵ تا ۷۳۲ ) 709 709 710 711 715 715 715 716 717 719 722 723 723 724 انگلستان جماعت احمد یہ برمنگھم کی ابتدائی تاریخ برما تنزانیہ جرمنی سنگا پور و ملائیشیا سیرالیون غانا کینیا گیمبیا لائبیریا نائیجیریا

Page 16

تاریخ احمدیت.جلد 22 1 سال 1963ء صلح تا فتح ۱۳۴۲هش/ جنوری تا دسمبر ۱۹۶۳ء حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو صدق جدید کا خراج تحسین مولا نا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے اخبار ” صدق جدید (۱۱ جنوری ۱۹۶۳ء) میں کلمہ گو کا اعزاز کے زیر عنوان درج ذیل نوٹ سپر دا شاعت فرمایا:.وو یاد ہوگا کہ مجلس اقوام کی جنرل اسمبلی کی کرسی صدارت سے آیات قرآنی (رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِى وَيَرْلِی اَمْرِی.طه : ۲۷،۲۲) کی تلاوت اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار انہیں ظفر اللہ خاں نے کی تھی اور چند سال اُدھر جب مغربی پاکستان میں رات کے پچھلے پہر ریل کا ایک عظیم حادثہ پیش آیا تھا تو اس وقت بھی یہی ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ اپنے سیلون میں نماز تہجد ادا کرتے پائے گئے تھے.ایک احمدی سائیکل سیاح کا ذکر پریس میں قریشی محمد حنیف صاحب قمر علوی احمدی سائیکل سیاح کی حیثیت سے دنیائے احمدیت میں معروف تھے اور چالیس سال سے دینی خدمات بجا لا رہے تھے.اس سال برصغیر کے پریس میں بھی ان کا بار بار تذکرہ کیا گیا اور ان کے مذہبی جذ بہ کوسراہا گیا.موضع کنڈ ور ضلع میر پور آزاد کشمیر کے باشندہ قریشی محمد حنیف قمر صاحب علوی مارچ ۱۹۱۹ء میں جناب مرزا محمد اشرف صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ ( ابن جناب مرز انشی جلال الدین صاحب بلانوی) کے ذریعہ قادیان آکر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے.۱۹۲۳ء سے شروع کر کے ۶ نومبر ۱۹۶۳ء تک قریباً ۴۰ سال میں بائیسکل پر انڈیا اور پاکستان اور آزاد کشمیر میں آپ ۳۳۶۰۰ میل تبلیغی سفر کر چکے ہیں.ان کی عمر اب ۲۶ برس کی ہو چکی ہے.قریباً ۴۰ ہزار شہر ودیہات میں قریباً ۴۰ ہزار کتب و رسائل تقسیم کر کے فضائل اسلام پر ہزار ہا لیکچر دے چکے ہیں.وہ ایک طرف جگن ناتھ مندر پوری میں پہنچے.پھر ضلع بالاسور کی بندرگاہ چاند بالی اور چاندی پور میں اترے اور بنگال کے ۲۴ اضلاع کے کناروں میں جا کر آسام کے علاقہ میں بھی گئے.پنجاب کے

Page 17

تاریخ احمدیت.جلد 22 2 سال 1963ء بیسیوں اضلاع میں پھر کر براستہ پشاور، کوہاٹ،ٹل اور پاڑہ چنار سے آگے قلعہ خرلاچی تک جو افغانستان کی سرحد پر ہے، گئے.پھر ایبٹ آباد کی شاہراہ سے بالا کوٹ اور گڑھی حبیب اللہ کے راستے مظفر آباد اور پھر کوہالہ کے راستے کوہ مری اور راولپنڈی آئے اور اس طرح متفرق آبادیوں میں پیغام حق پہنچاتے رہے ہیں.علاقہ ملکانہ میں چار سال میں قریباً دس اضلاع کا دورہ کر کے آریوں کے پرو پیگنڈہ کا مقابلہ کیا.اور ملکانہ قوم کے نومسلموں کو اسلام کی تعلیم دی.ہندوستان کے کئی مقامات پر قریباً ایک درجن اسلامی مکتب قائم کرائے اور قریب دو درجن بنگال اور اڑیسہ کے طلباء کے لئے دینی تعلیم کا انتظام کیا.جن میں سے قریباً نصف طلبا ءاب با قاعدہ اپنے علاقوں کے مبلغ ہیں.اخبار نوائے وقت لاہور ( ۱۸ جنوری ۱۹۶۳ء) نے آپ کی تصویر دے کر لکھا:.ضلع میر پور ( آزاد کشمیر ) کے موضع کنڈور کا ابولطیف قریشی محمد حنیف قمراب تک سائیکل پر ۳۳ ہزار میل کا سفر کر چکا ہے.محمد حنیف قمر کو خاتم الانبیاء نبی آخر الزمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری محبت ہے اور وہ جہاں کہیں جاتا ہے رسول مقبول کی شان میں نعتیں پڑھتارہتا ہے.انہوں نے سیاحت کی ابتداء ۱۹۲۷ء میں کی.۱۹۲۷ ء تک یوپی کے علاقوں کا وسیع دورہ کیا.اس کے بعد آٹھ سال صو بہ اڑیسہ میں گزارے پھر بہار ہی پی اور متحدہ بنگال میں اس نے سائیکل پر لمبے لمبے سفر کئے.قیام پاکستان کے بعد ۵ سال سے مغربی پاکستان میں سفر کر رہے ہیں.بنگال میں اس نے سب سے لمبا سفر ۲۰۶۳ میل کا کیا اور مغربی پاکستان میں ۱۹۵۸ء سے لے کر آج تک دوسرا لمبا سفر قریباً (۴۰۰۰) چار ہزار میل کا طے کیا ہے.حنیف قمر لاہور سے اار جولائی ۱۹۵۸ء کو جی ٹی روڈ پر سفر کر کے کوہ مری جا پہنچا اور پھر راولپنڈی واپس آکر واہ ، حسن ابدال، کیمل پور کے راستے نوشہرہ اور پشاور پہنچا.پھر چارسدہ، مردان اور ٹوپی سے گذر کر ہری پور کے راستے ایبٹ آباد، مانسہرہ اور آخر بالا کوٹ پہنچ کر شہدائے ملت کی قبروں پر فاتحہ پڑھی اور زیارت کی.پھر گڑھی حبیب اللہ کے راستے مظفر آباد پھر براستہ کو ہالہ ۱۰۰ میل سفر کر کے دوبارہ کوہ مری سے گذر کر راولپنڈی آیا.انہوں نے بتایا کہ بنگال میں کل سفر ۹۱۷۵ میل اور مغربی پاکستان میں ۶۶۹ ۵ میل کیا ہے.وہ عربی، فارسی، اردو، بنگالی اور دیگر زبانوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعتیں سنا کر

Page 18

تاریخ احمدیت.جلد 22 3 سال 1963ء حاضرین کے اندر ایک دینی جوش اور ولولہ پیدا کر دیتا ہے.اب اس کی عمر ۶۵ سال ہے.عربی، اردو، ہے.اب انگریزی کا خوشنویس اور پینٹر بھی ہے اور پنجابی کا شاعر بھی.اسی ذریعہ سے وہ اپنی روزی کماتا ہے.اسلامی کیلنڈر، دعا ئیں، نماز مترجم اور نعتوں کے چارٹ چھپوا کر فروخت کرتا ہے مساجد پر کلمہ طیبہ اور آیات قرآنی و احادیث بھی لکھتا ہے.خوش الحانی سے جب وہ عمدہ عمدہ نظمیں اور نغمے سناتا ہے تو سینکڑوں لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں.حنیف قمر اسلام کے فضائل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے پاکیزہ خصائل پر سکولوں میں لیکچر بھی دیتا ہے.66 اس کے سائیکل پر تین بکس، دو بالٹیاں، چار بیگ مختصر بستہ، بڑا پوسٹر آگے کلمہ شریف کا پرچم سر سر پر چھتری لگی ہے اور سرخ کپڑے پر پورا کلمہ طیبہ لکھ کر خوبصورت اور دلکش بنایا ہے.پیچھے ٹیبل کلاتھ کا ایک بورڈ جس پر نام اور ۹ دسمبر ۱۹۶۲ ء تک کے سفر کی کل میزان ۳۲۶۰۲ میل وغیرہ لکھی ہے.سامان کا وزن ڈیڑھ من ہے.جنگلوں اور پہاڑوں کے سفر میں اپنا کھانا خود پکاتا ہے.ضروری برتن ، انگیٹھی کوئلہ اور راشن اس کے ساتھ ہے.ایسے صوفی اور مجاہد قرون اولیٰ میں ہی نظر آتے ہیں.موجودہ زمانے میں اس کی مثال شاذ ہی ملتی ہے.الا ما شاء اللہ.اس کے پاس ہزاروں دیہات کی فلم ہے.“ پانچ ماہ بعد راولپنڈی کے اخبار ” تعمیر نے بھی آپ کا نہایت عمدہ الفاظ میں تعارف شائع کیا.جسے اخبار بدر قادیان نے ۱۰ راکتو بر ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں حسب ذیل نوٹ کے ساتھ ہمیشہ کے لئے ریکارڈ کر دیا.موضع کنڈور ضلع میر پور آزاد کشمیر کے رہنے والے قریشی محمد حنیف صاحب قمر علوی نے سائیکل پر کافی سامان لوڈ کر کے سفر کرنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے جس کے اوپر عمدہ طریق سے تین بکس، دو بالٹیاں، چار بیگ، سر پر چھتری، کیریئر پر ایک بڑا پوسٹر اور نیچے ایک کپڑے کا بڑا بورڈ ، ہینڈل کے اوپر سامنے ایک سرخ کپڑے پر سفیدے سے کلمہ طیبہ لکھا ہے.اس کے سارے سامان کا بوجھ ۱۲۰ پونڈ (ڈیڑھ من) ہے.کھانا پکانے کے برتن، مرمت کا سامان ، بستر ، کپڑے، کتب، چارٹ، خشک راشن، کوئلہ، انگیٹھی سب ضروری اشیاء رکھی ہیں.یہ سائیکل بارہ فٹ لمبا اور ۹ فٹ اونچا بنایا گیا ہے اور یہ اس کا چوتھا سائیکل ہر کولیس کمپنی کا ہے جو کہ پندرہ سال سے زیر استعمال ہے.اس پر قریباً ۱۵ ہزار میل سفر کیا گیا ہے.تقسیم ملک سے قبل اس نے ہندوستان کے صوبہ یوپی ،سی پی ، اڑیسہ اور متحدہ بنگال میں لمبے سفر کئے.ایسی زندگی اس نے ۱۹۲۳ء سے شروع کر رکھی ہے گویا قریباً ۴۰ سال ہوئے ہیں.بنگالی اور اڑیہ اور عربی ، فارسی، اردوزبانوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعتیں بہت

Page 19

تاریخ احمدیت.جلد 22 4 سال 1963ء خوش الحانی سے پڑھ کر اور قرآن مجید اور اسلام کے فضائل سنا کر لوگوں کو مذہب اسلام کی طرف راغب کرتا ہے.عیسائی صاحبان کو بھی دعوت اسلام دیتا اور ان کے اعتراضات کو سن کر شافی جواب دیتا ہے.اس کے پاس قریباً دو درجن خوبصورت ، خوش نما قلمی چارٹ بھی ہیں جن پر دینِ اسلام کی خوبیاں اور صحابہ کرام کے فضائل اور خصائل لکھے ہیں.وہ عربی، اردو، انگریزی کا پینٹر اور اردو پنجابی کا شاعر بھی ہے.انہی پیشوں سے وہ اپنی روزی خود کماتا ہے.۱۹۵۸ء اور پھر ۱۹۶۱ء میں اس نے لاہور سے روانہ ہو کر راولپنڈی ، کوہ مری، واہ ، کیمبل پور، نوشہرہ، پشاور، چارسدہ، مردان، ٹوپی، ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ ، بالاکوٹ ، گڑھی حبیب اللہ ، مظفر آباد، کوہالہ، پھر کوہ مری کے پہاڑی مقامات کا نکل سفرا کیلے اکیلے ہی کیا ہے.ان سفروں سے اس کا بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں میں یہ تحریک کرے کہ با ہمت انسان اب بھی پہلے بزرگوں کی طرح تو کل علی اللہ گھر سے نکل کر اسلام کا پیغام کو نے کونے میں پہنچا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کے شامل حال رہتی ہے.وہ اپنے سفروں کے دلچسپ حالات پھر بھی اسی اخبار میں پیش کرے گا.اس کے سفروں کا ذکر ہندوستان اور پاکستان کے مختلف اخباروں میں آچکا ہے.اب وہ عنقریب کوئٹہ اور کراچی کے سفر کا بھی ارادہ رکھتا ہے.اس کی عمر اب ۶۶ سال ہے.اس کے تین بیٹے برسر روزگار اور ایک بیٹی ہے جو شادی شدہ ہے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو امریکی پریس کا خراج تحسین محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سترہویں سیشن کے صدر کی حیثیت سے جو گراں بہا خدمات سرانجام دی تھیں امریکی مضمون نگار مسٹر پیئر بے بس (Mr.Pierre J.Huss) نے ان پر اپنے ایک مضمون میں آپ کو نہایت زور دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا.ان کا یہ مضمون امریکی اخبار (Milwaukee Journal) کے ۱۸ فروری ۱۹۶۳ء کے شمارہ میں شائع ہوا.جس میں انہوں نے حضرت چوہدری صاحب موصوف کے ایک اور تعجب خیز کارنامہ کا بھی ذکر کیا تھا جو اسلام کے بارہ میں اہل مغرب کی غلط فہمیوں کے ازالہ سے تعلق رکھتا ہے.ان کے اس مضمون کا اردو تر جمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.سر محمد ظفر اللہ خاں نے جو پاکستان کے ایک باریش فرد ہیں جنرل اسمبلی میں اپنے

Page 20

تاریخ احمدیت.جلد 22 5 سال 1963ء عرصۂ صدارت کے دوران ایک ایسا کارنامہ جو ناممکن نظر آ رہا تھا انجام دے کر اقوام متحدہ کی تاریخ میں اپنے لئے ایک منفرد امتیازی مقام پیدا کر دکھایا ہے.آپ نے ایک سو دس اراکین اقوام پر مشتمل جنرل اسمبلی کے سیشن کو حسب پروگرام نہ صرف تین ماہ میں بلکہ مقررہ عرصہ سے ایک روز قبل ہی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا.آپ نے اُن لوگوں کے خدشات کو یکسر باطل کر دکھایا جو گزشتہ سال اس بارہ میں شا کی تھے کہ اسمبلی اپنی وسعت پذیری کے باعث بہت زیادہ بے قابو ہو چکی ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ اسے اپنی کارگزاری کو بسرعت انجام دینے کے قابل بنایا جا سکے یا ایجنڈے پر درج شدہ نوے کے قریب مسائل اور ان میں سے بھی علی الخصوص نہایت اہم معاملات پر سنجیدگی سے غور کیا جاسکے.سر ظفر اللہ نے اس مقصد کے حصول کی خاطر صاف اور سیدھا طریق اختیار کیا.آپ نے اجلاسوں میں با قاعدگی پیدا کرنے کی غرض سے قطع نظر اس سے کہ تیز وطرار مندوبین روزمرہ کے اجلاس میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہوں یا ہنوز اپنے بستروں میں ہی محو خواب ہوں ، اجلاسوں کو اعلان کردہ وقت کے عین مطابق منعقد کرنا شروع کر دیا.مزید برآں جب بھی کسی مقرر نے اپنی حکومت پر وکالت کا سکہ بٹھانے کی نیت سے طولانی تقریروں یا دیگر حربوں سے کام لینا چاہا آپ نے کسی رو رعایت کے بغیر اپنے صدارتی اختیارات استعمال کرنے میں قطعا کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی.لیکن سطور ہذا میں فی الوقت سر ظفر اللہ کا ایک اور ہی تعجب خیز کارنامہ پیش کرنا مقصود ہے.آپ نے ایک دلچسپ کتاب تصنیف فرمائی ہے اس کا نام ہے: "Islam: Its Meaning for Modern Man" اسلام.دور جدید کے انسان کے لئے اس کا مفہوم ) اس کتاب میں آپ نے سلیس زبان میں اہل مغرب پر اسلام کے ان احکام اور فلسفوں کو واضح فرمایا ہے جن کی وجہ سے اسلام دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک مذہب شمار ہوتا ہے.آپ کتاب کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.مقصد یہ ہے کہ ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے جو اسلام کے متعلق مغربی ذہن میں موجود چلی آ رہی ہیں.آپ اس فساد زدہ دنیا کے دکھوں کا مداوا اسلام میں پاتے ہیں.آپ نے بتایا ہے کہ ”اسلام“ کا لفظ "سلم" سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں امن اور اطاعت“.مسلمانوں کو جو اسلام کے پیرو ہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ امن کے قیام میں دل و جان کے ساتھ کوشاں رہیں، چنانچہ وہ اس بات پر ایمان

Page 21

تاریخ احمدیت.جلد 22 6 سال 1963ء رکھتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات کے استحکام میں مختلف مذاہب کے باہمی تعلقات کو بہت اہم مقام حاصل ہے.سرظفر اللہ لکھتے ہیں :.موجودہ عالمی صورت حال میں مختلف اقوام کے لئے یہ امر از بس ضروری ہے کہ وہ بہتر انداز کی باہمی افہام و تفہیم کے ذریعہ ایک دوسرے کے قریب تر آجائیں.ایٹمی دور میں یہ بنیادی عقیدہ کہ ایک ہی بالا ہستی ہے جو اس کائنات کی خالق ہے بنی نوع انسان کی نجات کے حق میں منفرد امید کی حیثیت رکھتا ہے.انسانی تعلقات کے دائرہ میں مذہب کو ایک اور اہم بنیادی عامل کی حیثیت حاصل ہے اور اس امید کی بہت کافی وجہ جواز موجود ہے کہ یہ عامل یعنی مذہب رفتہ رفتہ مستقبل میں افتراق اور باہمی جھگڑوں کا ذریعہ بنارہنے کی بجائے اتحاد اور باہمی ربط و ضبط کو بڑھانے کا زیادہ کارگر اور مؤثر ذریعہ ثابت ہوتا چلا جائے گا.اندریں حالات یہ جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کے تعلق میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے“.سرظفر اللہ نے بتایا کہ مسیح (علیہ السلام ) اور بہت سے دوسرے انبیائے بنی اسرائیل کا ذکر قرآن نے نام لے لے کر کیا ہے.مسلمانوں کے عقیدہ کے بموجب یہ وہ صحیفہ آسمانی ہے جو اس وحی پر مشتمل ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی.مسلمانوں کے نزدیک قرآن کی وہی اہمیت ہے جو عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک بائبل کی ہے.مسلمان حضرت مسیح اور حضرت مریم“ کی خاص تکریم و تعظیم کرتے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی کو تو بار بار ہدایت اور نور کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے.اسلامی تعلیم کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ نے توجہ دلائی ہے کہ اسلام میں نہ صرف یہ کہ ایک قوم پر دوسری قوم کے قبضہ و تسلط کی مذمت کی گئی ہے بلکہ ایک ملک کے خلاف دوسرے ملک یا قوم کی اقتصادی لوٹ کھسوٹ اور ناجائز فائدہ کو بھی یکساں طور پر قابل مذمت ٹھہرایا گیا ہے.آپ نے اس امر پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ قرآن نے معاہدوں اور عہد ناموں کے پورے پورے احترام اور ان کے ایفاء کو بڑی شدومد کے ساتھ پیش کیا ہے اور لازمی قرار دیا ہے کہ یہ معاہدے پورے طور پر نافذ العمل ہو کر قوموں اور ملکوں کو باہم متحد کرنے اور انہیں زیادہ طاقتور بنانے کا موجب ہونے چاہئیں.اگر چہ آپ نے روس کی طرف جود ہریت کا قائل ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کے

Page 22

تاریخ احمدیت.جلد 22 7 سال 1963ء نقض عہد کے ۵۶ واقعات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا تاہم روس اس کتاب کے اوراق سے بہت سے اہم سبق سیکھ سکتا ہے.سرظفر اللہ جو اسلامی احکام کی تعمیل میں بالالتزام دن میں پانچ مرتبہ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں لکھتے ہیں:.اسلام میں معاہدات اور ان کے تحت عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو ایک خاص حرمت حاصل ہے.ہمیں متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اپنے عہدوں کو در پردہ مقاصد کے حصول کا آلہ کار نہ بناؤ.ورنہ تمہارا قدم ایک دفعہ مضبوطی سے قائم ہونے کے بعد پھسل جائے گا اور پھر تمہیں اس کے برے نتائج بھگتنے ہوں گے.ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے مسلمانوں کی مدد کرے جن پر محض ان کے مذہب کی وجہ سے ظلم ڈھایا جارہا ہو لیکن یہ فریضہ معاہدات کی پابندی کے ساتھ مشروط ہے.ان کے بارہ میں یہی حکم ہے کہ ان کا ایفا کما حقہ عمل میں آنا چاہیئے.ایک سازش اور اسکے خلاف احتیاطی تدابیر جیسا کہ ۱۹۶۲ء کے واقعات میں بتایا جا چکا ہے.۱۹۶۲ء کے آخر ہی سے مرکز سلسلہ ربوہ میں ، اطلاعات موصول ہونی شروع ہو گئیں کہ پاکستان میں دوبارہ ۱۹۵۳ء کے حالات پیدا کرنے کی در پرده سازش جاری ہے.اس فکر انگیز صورت حال کے پیش نظر اس سال کے شروع میں صدر نگران بورڈ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ملک بھر کے تمام علاقائی اور ضلع دار امراء کو اس فتنہ سے ہوشیار رہنے اور مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تحریک فرمائی اور اس سلسلہ میں حسب ذیل مکتوب گرامی سپرد قلم فرمایا جو احتیا طارجسٹری بھجوایا گیا.مکرمی و محترمی امیر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اخباری اطلاعات اور مختلف جلسوں کی رپورٹوں نیز دیگر ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اب پھر جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفت کا سیلاب تیزی کے ساتھ اٹھ رہا ہے اور ختم نبوت کے عقیدہ کی آڑ لے کر اور دیگر غلط اعتراضات اٹھا کر جماعت کے خلاف عوام کو اور حکومت کو اکسایا جا رہا ہے اور سازش یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۱۹۵۳ء والے حالات پیدا کر دئیے جائیں.پس میں جماعت کے امیروں

Page 23

تاریخ احمدیت.جلد 22 8 سال 1963ء اور دیگر دوستوں کو ہوشیار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ قرآنی ارشاد خُذُوا حِذْرَكُمْ (النساء:۷۲) کے ماتحت ہوشیار اور چوکس رہیں اور مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر خاص طور پر ملحوظ رکھیں :.(۱) اپنے علاقہ میں ہر قسم کے فتنہ کی اطلاعات سے پوری طرح باخبر رہنے کی کوشش کریں.(۲) جہاں جہاں کوئی فتنہ کی چنگاری نظر آئے وہاں علاقہ کے حکام یعنی ڈپٹی کمشنر اور کپتان پولیس وغیرہ کو صحیح صحیح اطلاع بھجواتے جائیں جس میں کسی قسم کا مبالغہ نہ پایا جائے.(۳) مرکز میں بھی یعنی ناظر امور عامہ اور ناظر اصلاح وارشاد کو بھی اطلاع بھجواتے رہیں.(۴) انصاف پسند با اثر غیر احمدی اصحاب کے ساتھ تعلقات بڑھائیں اور جماعت کے متعلق جو غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں ان کا بصورت احسن ازالہ کرتے رہیں.(۵) ان ایام میں خاص طور پر دعاؤں سے کام لیں اور خدا کے حضور گر کر دعا کرتے رہیں کہ وہ حکم الحاکمین جماعت کا حافظ و ناصر ہے اور اسے ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رکھے.(۶) اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں کیونکہ پاک تبدیلی خدا کی نصرت کو کھینچتی ہے.(۷) اپنی طرف سے کوئی ایسی بات نہ کریں جو کسی رنگ میں اشتعال دلانے والی یا عوام میں بیجان پیدا کرنے والی ہو.والسلام.خاکسار مرزا بشیر احمد صدر نگران بور ڈ ر بوه مباہلہ کے نام پر ایک افسوسناک حرکت اور جماعت احمدیہ کی وضاحت اس سال مولوی منظور احمد صاحب چنیوٹی ( یہ مولوی چنیوٹ کا رہنے والا تھا.شدید معاندین سلسلہ میں شامل تھا.۷۵ سال کی عمر میں احمدیت کی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر حسد کی آگ میں جل کر ۲۷ جون ۲۰۰۴ء کو دار فانی سے کوچ کر گیا) نے رمضان المبارک کے مقدس ایام میں یہ افسوس ناک حرکت کی کہ شرائط مباہلہ کا تصفیہ کئے بغیر از خود مباہلہ کی ایک تاریخ مقرر کر کے اعلان کر دیا که ۲۶ فروری ۱۹۶۳ء کو نماز عید الفطر کے بعد (ربوہ سے متصل ) دریائے چناب کے دو پلوں کے درمیان مباہلہ کریں گے.مباہلہ سے عملا گریز کا بعینہ یہ وہی طریق تھا جو ۱۹۳۵ء میں محض ہنگامہ آرائی کے لئے احراری لیڈروں نے اختیار کیا اور جس پر مولوی ثناء اللہ امرتسری اور ادارہ اخبار " احسان (لاہور) نے بھر پور تبصرہ کیا تھا.ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب جھنگ نے چنیوٹی صاحب کے اس اقدام کو دو فرقوں کے درمیان اشتعال اور منافرت کا موجب تصور کیا اور دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی لیکن پنجاب کے بعض اخبارات نے یہ

Page 24

تاریخ احمدیت.جلد 22 9 سال 1963ء تاثر پیدا کرنا چاہا کہ احمدیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا ہے حالانکہ یہ امر بالکل بے بنیاد اور جماعتی روایات کے سراسر منافی تھا.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں متعد دمباہلوں کا ذکر موجود ہے بلکہ ایک سال قبل مارچ ۱۹۶۲ء میں مباہلہ سورو ( اڑیسہ ) ہو چکا تھا.جس میں مخالفین احمدیت خصوصاً ان کے علماء خدا کے قہر و غضب کا نشانہ بنے اور احمدیوں پر افضال ربانی کی بارش ہوئی.ع اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار بہر حال پبلک کو اصل حقائق سے باخبر رکھنے کے لئے جماعت احمدیہ کی طرف سے یکم مارچ ۱۹۶۳ء کو حسب ذیل وضاحتی بیان جاری کیا گیا.”مولوی منظور احمد صاحب چنیوٹی کی دعوت مباہلہ اور ہنگامہ آرائی پر دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ سے متعلق جو خبریں شائع ہوئی ہیں.ان میں بعض اخبارات نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ گویا جماعت احمدیہ نے دعوت مباہلہ قبول کرنے سے انکار کیا ہے.یہ تاثر سراسر غلط اور بے بنیاد ہے.جماعت احمد یہ اسلام کے مقرر کردہ طریق کے مطابق بعد تصفیہ شرائط مباہلہ کرنے پر آمادہ تھی لیکن مولوی منظور احمد نے شرائط کا تصفیہ کئے بغیر ہی از خود مباہلہ کی تاریخ مقرر کر کے اعلان کر دیا کہ وہ عید الفطر کے موقعہ پر نماز عید کے بعد دریائے چناب کے دونوں پلوں کے درمیان مباہلہ کا اجتماع کریں گے.ان کا تصفیہ شرائط سے گریز اور ان کی یہ سراسر یکطرفہ کارروائی صاف اس امر پر دلالت کرتی تھی کہ وہ محض ہنگامہ آرائی اور فساد کی نیت سے یہ سارا کھیل کھیل رہے ہیں.چنانچہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب جھنگ نے دفعہ ۱۴۴ نافذ کر کے اس ہنگامہ آرائی کا دروازہ بند کر دیا.مولوی منظور احمد جس ہنگامہ آرائی پر تلے ہوئے تھے اس کا پس منظر یہ ہے کہ انہوں نے ایک عرصہ قبل حضرت امام جماعت احمدیہ کو مباہلہ کی دعوت دی.اس کے جواب میں جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ مباہلہ کوئی کھیل نہیں ہے.یہ خدا تعالیٰ سے حق و باطل میں فیصلہ کرانے کا آخری طریق ہے جس کے لئے کچھ شرائط ہیں.جن کا پہلے طے ہونا ضروری ہے.ان میں سے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ مباہلہ وسیع الاثر ہو یعنی دونوں طرف سے ایسے علماء اور لیڈ رمیدان میں آئیں جو اپنی اپنی جماعت یا قوم میں نمائندوں کی حیثیت رکھتے ہوں.تا کہ ان پر مباہلہ کا اثر ساری جماعت یا قوم پر حجت ہو سکے.چنانچہ مولوی منظور احمد نے اس تعلق میں جو آخری چٹھی لکھی تھی.اس کے جواب میں جماعت احمدیہ کی طرف سے انہیں لکھا گیا :.

Page 25

تاریخ احمدیت.جلد 22 وو 10 سال 1963ء حالات یہ ہیں کہ آپ ابھی تک با قاعدہ مطلوبہ سند نمائندگی پیش نہیں کر سکے اور ابھی تک آپ سے شرائط مباہلہ کا بھی تصفیہ نہیں ہوا شرائط کے تصفیہ کے بغیر ہی آپ یکطرفہ از خود تاریخ مقرر کر کے دریائے چناب پر مباہلہ کے لئے پہنچنے کا اپنی چٹھی میں ذکر فرما رہے ہیں.یہ طریق محض ہنگامہ آرائی اور شہرت پسندی کا مظاہرہ ہے.یہ صورتِ حال اس تقویٰ ، خدا ترسی اور خشیت اللہ کے سراسر منافی ہے جو طالب حق مباہلین کو اختیار کرنی چاہیئے.اگر آپ اس قسم کی ہنگامہ آرائی کے مرتکب ہوں گے تو نتائج کی ذمہ داری آپ پر ہوگی.بہتر ہوگا کہ آپ شہرت پسندی اور ہنگامہ آرائی کو چھوڑ کر سنجیدگی کا طریق اختیار کریں.اگر آپ سنجیدگی سے مباہلہ کے ذریعہ اپنے مزعومہ اور روز روز کے جھگڑے کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو مباہلہ کو آیت قرآنی فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُم وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ (آل عمران : ۶۲) کے مطابق زیادہ سے زیادہ وسیع الاثر بنانا چاہیئے.مزید برآں انہیں یہ بھی لکھا گیا:.ان چالیس علماء کے بالمقابل مباہلہ کے میدان میں جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی چالیس علماء سلسلہ احمدیہ مباہلہ میں شامل ہوں گے.پس اندریں حالات آپ کو پاکستان کے کم از کم چالیس مقتدر اور مسلّمہ جید علماء اہل السنت کی طرف سے یہ اعلان کرانا چاہئے کہ وہ مباہلہ کی شرائط کے تصفیہ کے لئے آپ کو نمائندہ منتخب کرتے ہیں اور وہ آپ کے ساتھ مباہلہ میں خود بھی شامل ہوں گے تا مباہلہ کا اثر وسیع ہو اور اہل السنت کے مکتب خیال کے عوام کے لئے یہ مباہلہ حجت ہو سکے.نیز اسی خط میں انہیں یہ بھی اطلاع دی گئی:.آپ کم از کم چالیس مقتدر علمائے اہل السنت کی طرف سے مباہلہ میں شمولیت اور آپ کو تصفیہ شرائط کا اختیار دینے کا اعلان شائع کرائیں.اس کے بعد ہم سے شرائط مباہلہ کا تصفیہ کر لیں اور تاریخ مباہلہ بھی مقرر کر لیں تا کہ جماعتی سطح پر فیصلہ کن مباہلہ وقوع میں آسکے.بالآخر جماعت احمدیہ کی طرف سے انہیں یہ بھی لکھا گیا :.10- ”ہم آپ کے اس اصرار پر قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق آپ سے مباہلہ کے لئے تیار ہیں اور آپ کو یہ موقع نہیں دینا چاہتے کہ آپ کہہ سکیں کہ آپ کی مباہلہ کی خواہش کو پورا نہیں کیا گیا.مباہلہ کا

Page 26

تاریخ احمدیت.جلد 22 11 سال 1963ء انعقاداب آپ کی اس کوشش پر موقوف ہے کہ آپ کم از کم چالیس مقتدر اور جید علماء اہل السنت کو جو ہر مکتب خیال پر مشتمل ہوں مباہلہ میں شامل ہونے کے لئے آمادہ کر سکیں.جو نہی آپ ایسے چالیس علماء کو مباہلہ میں شامل کرنے کے لئے تیار کر کے ان کی طرف سے اعلان شائع کرا دیں گے جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کی خواہش کو پورا کرنے میں کوئی دیر نہ ہوگی.11 اس سے ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ نے مولوی منظور احمد کی دعوت مباہلہ کو نا منظور نہیں کیا.چونکہ وہ اپنے تئیں اہل السنت کا واحد منتخب نمائندہ ثابت نہیں کر سکے تھے اس لئے انہیں یہ رعایت دی گئی کہ وہ کم از کم چالیس مقتدر علمائے اہل السنت کو جو ہر مکتب خیال کے ہوں مباہلہ میں شامل کرائیں تا مباہلہ کا اثر وسیع ہو اور وہ پورے طور پر حجت ہو سکے.یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ شرط جماعتی سطح پر مباہلہ کے لئے لگائی گئی تھی.جہاں تک انفرادی مباہلہ کا تعلق ہے پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ چنیوٹ ، مولوی منظور احمد کی دعوت مباہلہ منظور کر چکے ہوئے ہیں.نیز جماعت احمدیہ کے ایک فاضل مکرم مولوی عزیز الرحمن صاحب آف منگلا بھی مع جماعت احمد یہ منگلا ان سے مباہلہ پر آمادگی کا تحریری اعلان فرما چکے ہوئے ہیں.مگر مولوی منظور احمد صاحب ان ہر دو سے مباہلہ کے لئے آمادہ نہیں ہوئے اور یکا یک تصفیہ شرائط کے بغیر ہی از خود تاریخ مقرر کر کے دریائے چناب پر مباہلہ کے اجتماع کا اعلان کر دیا.انفرادی مباہلہ سے فرار اور جماعتی سطح پر مباہلہ کے لئے شرائط کا تصفیہ کرنے اور تمام اہل السنت مکاتیب خیال کی نمائندگی ثابت کرنے سے عمد اگریز کا صاف مطلب یہ تھا کہ ان کا مقصد مباہلہ کرنا نہیں بلکہ محض ہنگامہ آرائی اور فساد برپا کرنا ہے.اس سے قبل بھی وہ جماعت احمدیہ کے خلاف مسلسل انتہائی دلآ زار گندے اور اشتعال انگیز پمفلٹ اور کتابچے شائع کر کے اپنی فساد انگیزی کا حتمی ثبوت فراہم کر چکے ہیں اور خود چنیوٹ میں اکا دکا احمدیوں پر آوازے کسنے اور نا جائز چھیڑ چھاڑ کے واقعات سے اس کی مزید تصدیق ہو چکی ہے.ورنہ جماعت احمدیہ کو معقول شرائط کے تصفیہ کے ساتھ مباہلہ سے ہرگز انکار نہیں اور نہ پہلے کبھی اُس نے انکار کیا ہے.خودحضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب ”انجام آتھم میں علماء اور گدی نشینوں کو نام به نام مباہلہ کی دعوت دے چکے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی مباہلہ پر آمادہ نہیں ہوا.دراصل مولوی منظور احمد کو اپنی طرف سے نیا چیلنج دینے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ انہیں اس چیلنج کو منظور کرنا چاہئے تھا اور اس کی صورت یہی ہوسکتی تھی کہ وہ پاکستان کے بڑے بڑے علماء میں سے کم از کم چالیس علماء مباہلہ میں اپنے ساتھ شامل

Page 27

تاریخ احمدیت.جلد 22 12 سال 1963ء کرتے کیونکہ مباہلہ کوئی کھیل نہیں ہے.افسوس ہے کہ مولوی منظور احمد تصفیہ شرائط کی طرف آئے ہی نہیں اور از خود تاریخ مقرر کر کے عین عید الفطر کے روز ہنگامہ آرائی کی ٹھان لی اور دریائے چناب پر مباہلہ کے اجتماع کا سراسر یکطرفہ اشتہار شائع کر ڈالا.اس پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب جھنگ نے اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے کہ ایسے اجتماع سے دو فرقوں کے درمیان اشتعال اور منافرت پیدا ہوگی دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی.اگر مولوی منظور احمد مباہلہ کی دعوت میں سنجیدگی اختیار کرتے اور اسے ہنگامہ آرائی اور فساد کا ذریعہ نہ بناتے تو بعد تصفیہ شرائط بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے مباہلہ وقوع میں آسکتا تھا جس سے حکومت کو بھی کوئی تشویش پیدا نہ ہوتی.امید ہے اس وضاحت کے بعد بعض اخباروں کی پھیلائی ہوئی یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی کہ جماعت احمدیہ مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھی.جماعت احمد یہ اسلامی طریق کے مطابق بعد تصفیہ شرائط مباہلہ کے لئے ہر وقت تیار ہے لیکن وہ کسی فتنہ انگیز کو اس کی آڑ میں کھل کھیلنے کا موقع بہم پہنچانے کوملکی اور قومی مفادات کے ساتھ غداری تصور کرتی ہے.پنجا گڑھ میں آتشزدگی اور جماعت کی بے لوث خدمات پنا گڑھ ضلع دیناج پور ( مشرقی پاکستان) سے ملحق ” یا بستی میں ۱۶ مارچ ۱۹۶۳ء کو ڈیڑھ بجے دن یکایک آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور خوفناک آتشزدگی نے پوری بستی کو خاکستر کر کے رکھ دیا اور ہزار ہا لوگ بے خانماں ہو گئے.جماعت احمد یہ احمد نگر کے افراد جن کی تعداد چون (۵۴) تھی ایک نظام عمل کے ماتحت مسلسل تین روز تک اس حادثہ سے متاثر افراد کی بے لوث خدمات بجالاتے رہے.چنانچہ انہوں نے انتیس مکان تعمیر کئے.حسب ضرورت سامان مہیا کر کے دیا اور کچھ چاول اور نقدی بھی تقسیم کی.الغرض خدمت خلق کے جذبہ کے تحت بڑے جوش اور اخلاص سے کام کیا.مجلس مشاورت ۱۹۶۳ء لمصل 13 سیدنا فضل عمر الصلح الموعود نے اکتالیس سال قبل ۱۹۲۲ء میں متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی تھی.انہی دعاؤں کی برکت ہے کہ اس عظیم ادارہ کو سلسلہ احمدیہ کے نظام عمل میں ہمیشہ ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اس کے انعقاد سے جماعت ایک نئی زندگی نئے جوش اور

Page 28

تاریخ احمدیت.جلد 22 13 سال 1963ء نئے ولولہ سے ہمکنار ہوتی ہے.یہی نظارہ ۱۹۶۳ء میں بھی دکھائی دیا.اس سال یہ مبارک مجلس ۲۲ ۲۳ ۲۴ مارچ ۱۹۶۳ء کو تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے ہال میں منعقد ہوئی.حضرت مصلح موعود کے ارشاد کی تعمیل میں صدارت کے فرائض حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے انجام دیئے اور آپ نے تینوں دن اپنی فراست، معاملہ نہی، اصابت رائے ، نکتہ نوازی اور قوت بیانیہ سے گویا مسحور کئے رکھا.کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ مشاورت آپ کی زندگی کی آخری مشاورت ثابت ہوگی.اس پُر وقار مجلس کی کارروائی میں مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی وسیکرٹری نگران بورڈ کو حضرت قمر الانبیاء کی معاونت کا شرف حاصل ہوا.مجلس میں اصلاح وارشاد کے کام کی وسعت، رشتہ ناطہ کی مشکلات کاحل، لاہور میں احمدیہ ہوٹل کا قیام ، مربیان سلسلہ کے لئے مرکزی مقامات میں مکانات کی تعمیر وغیرہ اہم امور زیر غور آئے اور مندرجہ ذیل اہم رپورٹس پڑھ کر سنائی گئیں.رپورٹ نگران بورڈ ، رپورٹ صیغہ جات متعلقہ تحمیل فیصلہ جات، رپورٹ سیمینار اصلاح وارشاد، رپورٹ انسداد فتنه مسیحیت، رپورٹ انسداد فتنه مخالفین احمد بیت ، رپورٹ اشاعت لٹریچر، رپورٹ وفد مشرقی پاکستان.یہ سب رپورٹیں جماعت احمدیہ کی ترقی پذیر جدو جہد کی آئینہ دار تھیں جن سے یہ حقیقت نمایاں تھی کہ مشکلات کے باوجود خدا کے اس پاک اور آسمانی سلسلہ کا قدم سرعت کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدرانجمن احمدیہ نے بھی اس موقع پر ایک رپورٹ پیش فرمائی جس میں دوستوں کو نہایت موثر طریق سے دو امور کی طرف توجہ دلائی.اوّل یہ کہ جماعت کے خلاف فتنہ پھر سر اٹھا رہا ہے.ہمارا تو کل، ہمارا بھروسہ اپنے رب پر ہے.وہی ہماری پناہ ہے اور ہمیشہ وہی ہماری سپر بنے گا.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سو جائیں.ہمیں چاہئے کہ ہم چوکس اور بیدار رہیں اور فروتنی تبلیغ ، حکومت سے تعاون اور عاجزانہ دعاؤں سے اس ابھرتے ہوئے فتنہ کو دبانے کی کوشش کریں.دوسرے یہ کہ صرف یہی کافی نہیں کہ کتا ہیں اور اشتہار شائع کئے جائیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس کافی تعداد میں علماء کی ایک ایسی جماعت ہو جنہوں نے خدمت دین کے لئے اپنی

Page 29

تاریخ احمدیت.جلد 22 14 سال 1963ء زندگیاں وقف کر رکھی ہوں.پس دوست زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے بچوں کی زندگیاں وقف کریں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلبگار ہے تو وہ اللہ 14 کے لئے اپنی زندگی وقف کرے“.الخ مجلس مشاورت میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے تحریک جدید کی عظیم الشان عالمی مساعی پر بہت دلچسپ اور اثر انگیز پیرا یہ میں روشنی ڈالی اور بتایا کہ دنیا کے۳۲ ممالک میں ہمارے مرکزی مشن موجود ہیں جن کی تعداد ۶۲ ہے.کل مبلغین تحریک جدید ۹۰ ہیں جن میں سے ۶۹ کے قریب ممالک بیرون میں مصروف جہاد ہیں.تحریک جدید کے زیرانتظام اب تک ۲۹۱ مساجد تعمیر ہو چکی ہیں.انہوں نے غیر زبانوں میں سلسلہ کے لٹریچر کی اشاعت کا تذکرہ بھی فرمایا.نمائندگان شوری نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں سفارش کی کہ صدرانجمن احمد یہ پاکستان اور انجمن تحریک جدید کے بجٹ بابت ۶۴-۱۹۶۳ء تفصیل ذیل منظور فرمائے جائیں جسے حضور نے مع دیگر تمام سفارشات کے شرف قبولیت بخشا.15- بجٹ صدر انجمن احمد یه آمد و خرچ (۲۶۷۸۷۷۸) بجٹ انجمن تحریک جدید آمد و خرچ (۳۰۴۸۳۰۰) مجلس کی آخری نشست میں صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے تحریک دعا کی غرض سے حضرت مصلح موعود کی صحت سے متعلق ڈاکٹری رپورٹ پیش کی کہ حضور کی علالت کی کیفیت ایک ہی حالت میں رہی ہے نہ تو بظا ہر ترقی محسوس ہوئی ہے نہ کوئی کمی بایں ہمہ حضور اہم جماعتی امور میں براہ راست ہدایات جاری فرماتے ہیں.جماعت کے نام پیغامات جو چھپتے ہیں خود لکھواتے ہیں نیز صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے جو ضروری معاملات حضور کے سامنے پیش ہوتے ہیں ان پر بنفس نفیس احکام صادر فرماتے ہیں.حضور کے علاج کی نسبت بتایا کہ ڈنمارک کے مشہور ڈاکٹر میتھی سن (Methi Sun) اور ان کے اسٹنٹ کو اکتوبر ۱۹۶۲ء میں بلوایا گیا تھا.وہ فزیکل تھراپی (physical therapy) یعنی مالش کے ذریعہ علاج کے ماہر ہیں.چند روز انہوں نے مالش اور ورزشوں کے ذریعہ علاج کیا مگر اس طریق علاج سے صرف پہلے ہفتہ کچھ فائدہ محسوس ہوا.کینیڈا کے ایک مشہور ماہر اعصاب سے بھی رابطہ

Page 30

تاریخ احمدیت.جلد 22 15 سال 1963ء کیا گیا ان کا جواب یہ تھا کہ جو علاج کیا جا رہا ہے وہی بہترین ہے.دیسی طب کے مجرب نسخے بھی زیر استعمال لائے گئے.ہومیو پیتھک علاج کے لئے صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے کلکتہ کے ایک ماہر ڈاکٹر سے ( مفصل کو ائف بھجوا کر ) مشورہ حاصل کیا.جس کے مطابق علاج جاری ہے.اس رپورٹ کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اختتامی خطاب فرمایا جس میں جماعت کے نمائندوں ، مقامی جماعتوں ، مقامی امراء ، ضلع وارامراء اور علاقائی امراء کو نہایت تاکید کے ساتھ اس فرض کی طرف توجہ دلائی کہ وہ چوکس ہو کر ان دنوں میں اپنی زندگی گذاریں اور جماعت کے خلاف جو فتنے اٹھ رہے ہیں ان پر گہری نظر رکھیں اور ان کے خلاف جو بھی تدابیر وہ پُر امن طریق پر اختیار کر سکتے ہوں ان کو اختیار کریں اور حکام کو بھی ان سے مطلع رکھیں“.آخر میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم مبارک سے نکلی ہوئیں وہ قیمتی نصائح پڑھ کرسنائیں جو رسالہ ” الوصیت میں درج ہیں اور جن کا آغاز ان مبارک ارشادات سے ہوتا ہے کہ:.تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں.ان کے لئے موقعہ ہے کہ اپنے جو ہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.الخ 16 مشاورت کے متعلق ایک دوست کے تاثرات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں:.شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ وامیر جماعت احمد یہ لائکپور ایک بڑے مخلص اور بہت سمجھدار دوست ہیں.انہوں نے مشاورت سے واپس جانے کے بعد مجھے ایک خط اپنے تاثرات کے متعلق لکھا ہے جو میں دوستوں کی اطلاع کے لئے الفضل میں بھجوا رہا ہوں.مشاورت کے تینوں دن میں تو سر درد اور حرارت اور ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا رہا.مگر یہ شکر کی بات ہے کہ مخلص دوستوں اور

Page 31

تاریخ احمدیت.جلد 22 16 سال 1963ء نو جوانوں نے کام کو فی الجملہ اچھے رنگ میں سنبھالے رکھا.اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جماعت کا حافظ و ناصر ہو.اور ہمارے بوڑھوں اور نوجوانوں اور مردوں اور عورتوں اور مرکزی کارکنوں اور مقامی عہد یداروں کی روح القدس سے نصرت فرمائے.شیخ صاحب موصوف کا خط درج ذیل کیا جاتا ہے.مخدومنا.السلام علیکم.تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں.(۱) مشاورت بفضل خدا نہایت خیر و خوبی اور حسن انتظام سے نیک نتائج کے ساتھ انجام پذیر ہوئی.الحمد للہ (۲) میرے آقا زادوں ناصر احمد صاحب، مبارک احمد صاحب، منور احمد صاحب، طاہر احمد صاحب، رفیع احمد صاحب اور پھر وسیم احمد صاحب اور انور احمد صاحب نے اس وقت جس خوبی سے سینہ سپر ہوکر جماعتی کاموں کو سنبھالا ہوا ہے.مجھے اس سے خاص خوشی ہوتی ہے اور جماعت میں بھی یہ احساس جابجا پایا جاتا ہے.ابنائے فارس کے مصداق مذکورہ اصحاب ہیں.خصوصاً مرزا منور احمد صاحب کی ڈیوٹی بہت مردانگی اور فولادی اعصاب کو چاہتی ہے.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.اظہر احمد صاحب اور نعیم احمد صاحب نے بھی اچھے انداز میں خدمت سلسلہ کا کام شروع کیا ہے اور مجید احمد صاحب افریقہ میں خدمت بفضلہ سرانجام دے رہے ہیں.(۳) محترم ملک غلام فرید صاحب نے تفسیر قرآن کو لیبی محنت کے بعد با وجود بیماری کے مکمل کر لیا ہے.الحمد للہ.میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی ہے کہ صدرانجمن احمد یہ یا مرکز کی طرف سے ایک تقریب کے ذریعہ ان کی خدمات کا اعتراف اشاعت تغییر اور غیر مبائعین کے بے جا تفاخر کے بارے میں مفید ہو گا.ملک صاحب تو بے نفس اور بے ریا مخلص ہیں.لیکن میری یہ تجویز اگر مفید خیال کی جائے تو اسے زیر غور لایا جائے.بعض نیکیاں قدر افزائی سے فروغ پاتی ہیں کہ دیے سے دیا یونہی جلتا رہا ہے جلسہ سیرت النبی ﷺ اور علماء رحیم یارخاں کا مسلح مظاہرہ (خاکسار محمد احمد ) پنجاب کی سابق ریاست بہاولپور میں رحیم یار خاں مشہور شہر ہے.یہاں جماعت احمدیہ کی طرف سے ۳۰ ، ۳۱ مارچ ۱۹۶۳ء کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ مقرر تھا جسے علماء رحیم یارخاں نے مسلح مظاہرہ کر کے رکوا دیا.

Page 32

تاریخ احمدیت.جلد 22 17 سال 1963ء بہاولپور کے اخبار ”رہبر نے اپنی ۲/ اپریل ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں اس مظاہرہ کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا: جماعت احمدیہ کے امیر ضلع چوہدری فضل احمد صاحب باجوہ آڑھتی غلہ منڈی نے ۳۱،۳۰ مارچ کو رحیم یارخان میں بالمقابل گرلز ہائی سکول کا رخانہ میں جلسہ عام کی اجازت لی تھی.جب اس جلسہ کے ہینڈ بل تقسیم ہو گئے اور پوسٹر لگائے گئے تو شہری لوگوں نے غم وغصہ کا اظہار کیا اور ایک وفدتر تیب دیا یہ وفد ڈپٹی کمشنر کو ملا اور جلسہ کی منسوخی کا مطالبہ کیا.ڈپٹی کمشنر نے ایس پی رحیم یار خاں سے رپورٹ طلب کی.فضل احمد صاحب باجوہ احمدی نے کہا کہ ہم نے حامد رضا وکیل سے کارخانہ مذکور میں جلسہ کرنے کی اجازت لی ہوئی ہے اور جب حامد رضا کا بیان لیا گیا تو اس نے منظوری دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ جلسہ جماعت احمدیہ کا ہے فضل احمد باجوہ نے مجھے کہا تھا کہ ہم سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلسہ کر رہے ہیں.اس لئے میں نے اجازت دے دی تھی مگر اب میں اس جگہ پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا.چنانچہ اس کے انکار پر ڈی ایس پی نے ڈی سی کو رپورٹ کر دی.اس کے باوجود شہر میں کشیدگی پائی جاتی رہی.کل چار بجے کسی شخص نے مولوی غلام ربانی کو فون پر اطلاع دی کہ جماعت احمدیہ کا جلسہ ہورہا ہے.چنانچہ مولوی مذکور تین چار صد افراد جن میں بندوقوں ، کلہاڑیوں، لاٹھیوں سے مسلح افراد کی تعداد بھی کافی تھی روانہ ہو گئے اور جلسہ گاہ پر دیکھنے کے لئے منتخب جگہ پر پہنچے تو معلوم ہوا اطلاع غلط دی گئی.اس کے بعد تمام لوگ جلوس کی شکل میں شہر کی سڑکوں اور بازاروں سے گزرے اور احمد یہ ارکان اب بھی جلسہ کی اجازت لینے کی کوشش کر رہے ہیں.اس خبر سے ظاہر ہے کہ جلسہ سیرت النبی ﷺ کا تھا اور اسی وجہ سے حامد رضا صاحب وکیل نے کارخانہ میں جلسہ کرنے کی اجازت دی تھی جس وفد نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے مل کر جلسہ کی منسوخی کا مطالبہ کیا.جناب ڈپٹی کمشنر صاحب نے فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں نفی میں جواب دیا اور فرمایا کہ جماعت کو جلسہ کرنے کا حق ہے.وہ کرے گی.اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حامد رضا صاحب کا قصد کیا گیا.جب حامد رضا صاحب نے فضا مکدردیکھ کر کارخانہ میں جلسہ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا.تو ڈی ایس پی صاحب کی رپورٹ پر جناب ڈپٹی کمشنر صاحب نے پہلی اجازت منسوخ کر دی.اور ادھر ڈی ایس پی صاحب اور بعض ماتحت افسران پولیس نے شہر کی فضا کو خراب پا

Page 33

تاریخ احمدیت.جلد 22 18 سال 1963ء کر جماعت احمد یہ رحیم یار خان سے خواہش کی کہ جلسہ نہ کیا جائے.اس لئے جماعت احمدیہ نے افسران حکومت سے تعاون کرتے ہوئے کسی اور مقام پر جلسہ کرنے کا خیال بھی ترک کر دیا.تا افسران حکومت کو کسی پریشانی کا سامنانہ کرنا پڑے.یہ وہ صورت حال تھی جس سے متاثر ہوکر امیر جماعت احمد یہ رحیم یار خاں نے نہایت دردمندانہ دل کے ساتھ ایک مختصر سا پمفلٹ شائع کیا.جس کا عنوان تھا جلسہ سیرت النبی علیہ سے رحیم یار خان کے معزز علماء کو شدید خطرہ“ اس پمفلٹ پر حضرات علماء سے یہ اپیل کی گئی کہ وہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ فرمائیں اور اپنی پوری زندگی اسوۂ رسول کے قالب میں ڈھال دیں.کیونکہ عشق رسول کے جذبہ کا احیاء اور نظام اسلامی کا قیام اسی پر موقوف ہے.اس محبت بھری درخواست کے جواب میں اراکین جمعیت اشاعت التوحید والسنتہ کی مسجد رحیم یارخاں کی طرف سے ایک پمفلٹ عوام مسلمانوں کو دھوکا دینے کی ناپاک سازش“ کے عنوان سے شائع کیا گیا.جس میں جماعت احمدیہ کو دھوکا باز، فریبی ، منافق وغیرہ القاب سے یاد فرماتے ہوئے علمائے رحیم یار خان کو ناموس رسالت کا علمبر دار قرار دیا ہے.اور مسلح مظاہرہ کروانے پر دل 17 کھول کر سراہا گیا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو شاہ مراکش کا خراج تحسین حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اہل مراکش کے لئے جو شاندار خدمات سرانجام دیں مراکش کے شاہ حسن نے اپریل ۱۹۶۳ء میں حضرت چوہدری صاحب کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا.اس ضمن میں اخبار پاکستان ٹائمز (The Pakistan Times) کے خصوصی نامہ نگار مقیم نیویارک نے حسب ذیل خبر دی: "United Nations, April 4: Morocco's king Hassan spent most of his day at the United Nations today.In the morning after a short private conference with U Thant on the 28th floor, he came down to the second floor for the inauguration of the mosaic panel, a gift from Morocco to the U.N.Short speeches were made right under the panel, while photographers and cameramen crowded on the steps of the

Page 34

تاریخ احمدیت.جلد 22 19 سال 1963ء escalator which faced the panel and had been immobilised for the occasion.The King then descended to the first basement where conference room IV is located - the large room where the Political Committee usually holds its session.Chaudhri Mohammad Zafrullah Khan, this month's Chairman of the Afro-Asian Group, greeted the King at the door.He said he was glad to greet "not only the exalted King but also a friend." It was a happy coincidence, he added, that it should be Pakistan's turn to preside over the Group's meeting.The meeting was held as usual behind closed doors.The King said in reply that his father as well as the Moroccan people owed a debt of gratitude to Chaudhri Zafrullah for ever because at the time when Morocco had very few friends, it was Chaudhri Zafrullah who was fighting for her cause.He said the fact that there is an Asian Secretary-General and that Chaudhri Zafrullah is also Assembly President shows what place of eminence the Afro-Asian Group has come to achieve today in the United Nations.In answer, Chaudhri Zafrullah thanked him and said that King Hassan's work is an inspiration to the entire Group.The King was the chief guest in the evening at a dinner arranged by U Thant."18 یونائیٹڈ نیشنز.شاہ مراکش حسن ثانی جو آجکل امریکہ کے سرکاری دورہ پر ہیں.جب اقوام متحدہ کا صدر دفتر دیکھنے گئے اور یو این او عمارت میں داخل ہوئے تو چوہدری محمد ظفر اللہ خان جو افریقی ایشیائی گروپ کے ماہ رواں کے صدر ہیں نے شاہ موصوف کا استقبال کیا.آپ نے فرمایا کہ میں ایک

Page 35

تاریخ احمدیت.جلد 22 20 سال 1963ء شاہ ذی شان کا ہی نہیں بلکہ اپنے ایک دوست کا بھی خیر مقدم کر رہا ہوں.آپ نے مزید فرمایا یہ مجیب حسن اتفاق ہے ایسے خوشگوار موقعہ پر جبکہ شاہ مراکش یہاں تشریف لائے ہیں باری کے لحاظ سے افریقی ایشیائی گروپ کے اجلاس میں صدارت کے فرائض کی انجام دہی پاکستان کے حصہ میں آئی ہے.شاہ حسن صاحب نے جوابی تقریر میں فرمایا کہ:.”میرے والد محترم کی طرح اہل مراکش محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے ہمیشہ ممنون احسان رہیں گے کیونکہ ایسے وقت میں کہ جب چند ایک کے سوا مراکش کا کوئی دوست نہ تھا.یہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان ہی تھے کہ جنہوں نے مراکش کی حمایت میں آواز بلند کی اور اس کے مفاد کے لئے سینہ سپر ہوئے.“ نیز شاہ نے کہا کہ یو این او کے سیکرٹری جنرل اور جنرل اسمبلی کے صدر دونوں ایشیاء سے تعلق رکھتے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ افریقی ایشیائی گروپ کو یو این او میں کتنا نمایاں اور بلند مقام حاصل ہو چکا ہے.آخر میں جناب چوہدری ظفر اللہ خان نے شاہ مراکش کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ شاہ حسن کا کام افریشیائی گروپ کے لئے حوصلہ افزائی کا سبب ہے.ضلع لاڑکانہ اور ضلع نواب شاہ کے اجتماعات اور صدر مجلس انصاراللہ کے پیغامات اس سال ۱۶، ۱۷ مارچ ۱۹۶۳ء کو رحیم آباد میں اور ۱۳.۱۴ را پریل ۱۹۶۳ء کو مسن باڈہ میں بالترتیب ضلع نواب شاہ اور ضلع لاڑکانہ کی مجالس انصار اللہ کے کامیاب اجتماعات ہوئے.صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنی طرف سے اور مجلس مرکزیہ کی طرف سے شیخ محبوب عالم صاحب خالد قائد عمومی کو اجتماع ضلع نواب شاہ کے لئے بطور نمائندہ بھجوایا اور اجتماع کے لئے ایک خصوصی پیغام دیا جس میں قرآن مجید اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک ملفوظات کے پیش نظر تلقین فرمائی کہ اتحاد و اتفاق کی نعمت کی ہمیں دل سے قدر کرنی چاہیئے.اور کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہونی چاہیئے جس سے اس کو ٹھیس لگے.اسی طرح آپ نے انصار اللہ ضلع لاڑکانہ کو بھی نصیحت فرمائی کہ وہ رشتہ اخوت کو مضبوط سے مضبوط تر کریں اور سلسلہ کے عہدیداروں سے ہر طرح تعاون کرتے ہوئے ان کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں.

Page 36

تاریخ احمدیت.جلد 22 21 کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کی ضبطی.زبر دست عالمی احتجاج اور حق و انصاف کی فتح سال 1963ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام ، قرآن مجید اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں ۲۲ جون ۱۸۹۷ء کو کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چارسوالوں کا جواب‘ تصنیف فرمائی.قیام پاکستان تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے لیکن اس سارے عرصہ میں عیسائی حکومت نے اسے لائق تعزیر نہیں گردانا.قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۱ء میں بھی یہ چھپی، اس وقت بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا.برصغیر پاک و ہند کے علاوہ غیر ملکی زبانوں میں بھی یہ کتاب ممالک غیر میں شائع ہوئی اور کسی جگہ اسے ضبط نہیں کیا گیا اور نہ اسے امن عامہ کے منافی تصور کیا گیا.الغرض اس پُر معارف کتاب سے دنیا کے کسی خطہ میں کوئی تلخی اور کشیدگی پیدا نہیں ہوئی.ان حقائق کے باوجود حکومت مغربی پاکستان نے ۷ار اپریل ۱۹۶۳ء کے ایک غیر معمولی گزٹ کی رو سے اسے بحق سرکار ضبط کر لیا اور اس سراسر غیر منصفانہ اور غیر دانشمندانہ اقدام کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس سے عیسائیوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور دونوں فرقوں کے درمیان کشیدگی سے ملکی فضا کے مکدر ہونے کا امکان ہے.اُن دنوں فروغ عیسائیت کی خبروں سے پورے ملک میں اضطراب و تشویش پھیلی ہوئی تھی حتی کہ اسمبلی میں یہاں تک مطالبات کئے جارہے تھے کہ عیسائی مشنریوں پر پابندی عائد کردینی چاہیئے اور ان کے تعلیمی اور معالجاتی اداروں کو سر بمہر کر دینا چاہیئے مگر افسوس حکومت مغربی پاکستان نے اس مقدس تحریر پر پابندی عائد کر دی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیت کے سیلاب کو روکنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام اور قرآن کی عظمت شاں کو اجاگر کرنے کے لئے رقم فرمائی.اس موقعہ پر پاکستان اور دنیا بھر کی جماعت ہائے احمدیہ کا رد عمل نہایت شدید اور اپنی نظیر آپ تھا.ان کا مضطرب اور بے چین ہونا ایک طبعی امر تھا کیونکہ انہیں عیسائیت سے لڑی جانے والی تبلیغی جنگ کے دوران معین میدان کارزار میں ایک نہایت اہم اور موثر ترین روحانی ہتھیار سے محروم کر دیا گیا تھا.یہی وجہ تھی کہ ضبطی کی جگر پاش اور اندوہناک خبر پر شرق وغرب اور عرب و عجم کی احمدی

Page 37

تاریخ احمدیت.جلد 22 22 سال 1963ء جماعتیں دیوانہ وار اٹھ کھڑی ہوئیں اور اسلامی غیرت کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے ریزولیوشنوں اور احتجاجی مراسلوں کے ذریعہ اس کثرت سے اپنے دلی غم وغصہ کا اظہار کیا کہ گو یا ملک میں احتجاجوں کا ایک سیلاب آ گیا.اس سلسلہ میں ۶ مئی ۱۹۶۳ء کو مسجد مبارک ربوہ میں (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں اہل ربوہ نے حکومت سے اس غیر منصفانہ حکم کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے حسب ذیل قرار داد منظور کی.( یہ قرارداد چوہدری محمد صدیق صاحب صدر عمومی لوکل انجمن احمدیہ نے پیش کی تھی.) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ کے ضبط کئے جانے کے بارے میں حکومت مغربی پاکستان نے جو حکم دیا ہے.ہم ممبران جماعت احمدیہ مقامی ربوہ اس کے خلاف پر زور احتجاج کرتے ہیں.اس کتاب کی ضبطی کے بارہ میں جو وجہ بیان کی گئی ہے.وہ حقائق پر مبنی نہیں.یہ کتاب سب سے پہلے ۱۸۹۷ء میں شائع ہوئی تھی اور گزشتہ چھیاسٹھ سال میں اس کے کم از کم سات ایڈیشن اردو اور انگریزی شائع ہو چکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مختلف ممالک میں پھیل چکی ہے.اور ہر زمانہ میں عیسائی مناد، مناظرین اور علماء کے زیر مطالعہ رہی ہے.اسی طرح مختلف مواقع پر حکام کے سامنے بھی پیش ہوتی رہی ہے لیکن کبھی کسی موقعہ پر نہ عیسائی علماء کی طرف سے اور نہ عیسائی حکام کی طرف سے پچاس سالہ دور حکومت میں اسے فرقہ وارانہ کشیدگی یا منافرت کا باعث قرار دیا گیا.پس حکومت کا یہ اقدام صحیح معلومات اور حقیقی وجوہات پر مبنی نہیں اور بے ضرورت ہے.ہمارے نزدیک حکومت کا یہ اقدام غیر دانشمندانہ بھی ہے کیونکہ عیسائیت کا وہ زبر دست سیلاب جو انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستان پر امڈا چلا آ رہا تھا اور عوام الناس تو کیا مسلمان شرفاء اور علماء کے گھرانے بھی اس کی زد سے محفوظ نظر نہیں آتے تھے اور لاکھوں مسلمان زادے عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے تھے.صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانیت اور علم کلام کی برکت سے رک گیا.آپ نے نہ صرف اسلام کی طرف سے کامل دفاع کیا بلکہ عیسائیت پر ایسے زور دار حملے کئے کہ آج تک عیسائی مناد سر چھپاتے پھرتے ہیں.آج اگر ہمیں اس سیلاب کا رخ بدلا ہوا نظر آتا ہے تو وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی برکت اور آپ کے لٹریچر ہی کی بدولت ہے.کیا

Page 38

تاریخ احمدیت.جلد 22 23 سال 1963ء ہماری حکومت اسلام کے اس زبر دست پہلوان کی خدمت کا یہ صلہ دے رہی ہے کہ آپ کی کتابوں کو ضبط کرے.دوسرے لفظوں میں یہ بات ایک دفعہ پھر عیسائیت کے سیلاب کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دینے کے مترادف ہوگی.پس ان حالات میں حکومت کا یہ اقدام نہایت غیر دانشمندانہ اقدام ہے ہمارے نزدیک حکومت کا یہ فعل نہایت غیر منصفانہ بھی ہے کیونکہ اس قسم کی پابندی قانون کی کسی عدالت میں یا عقلمند دنیا کی رائے کی عدالت میں ایک منٹ کے لئے بھی ٹھہر نہیں سکتی.ہمارے نزدیک حکومت کا یہ اقدام مذہبی معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے اور ہمارے جذبات کو سخت مجروح کرنے والا ہے.ہمارے لئے قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ قیمتی چیز ہمارے امام کے ارشادات ہیں اور یہ چیز ہمارے لئے انتہائی دکھ اور رنج کا باعث ہے کہ ہمیں اپنے امام کے ارشادات عالیہ کو اپنے پاس رکھنے انہیں پڑھنے اور دوسروں کو پڑھانے سے قانو نا روک دیا جائے.نیز ہم ہرگز یہ باور کرنے کے لئے تیار نہیں کہ جو شخص دنیا میں امن اور سلامتی اور آشتی اور محبت اور صلح کا پیغام لے کر آیا تھا اس کی کوئی تحریر منافرت یا دشمنی کا باعث ہو.لہذا ہم ممبران جماعت احمدیہ مقامی ربوہ بالا تفاق حکومت کے اس فعل کو سراسر غیر منصفانہ اور بے ضرورت اور غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے زبردست احتجاج کرتے ہیں اور حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ فوری طور پر اس حکم کو واپس لے لیا جاوے.ہم ہیں ممبران جماعت احمدیہ مقامی ربوہ 21 اس قرارداد کے بعد (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدرصد را مجمن احمد یہ پاکستان نے اپنے صدارتی ارشادات میں فرمایا:.ہم امن پسند جماعت ہیں.ہمیں اسلام نے اور پھر اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یاد دہانی کے رنگ میں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم قانون کا احترام کریں اور کبھی بھی قانون شکنی کے مرتکب نہ ہوں.ہم محض ایک شہری کی حیثیت سے ہی قانون کے احترام کو ضروری خیال نہیں کرتے ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہم قانون کے احترام اور امن پسندی کو اپنا جزو ایمان سمجھتے ہیں.اس سے دو گونہ فرائض عائد ہوتے ہیں ایک فرض حکومت پر اور دوسرا خود ہم پر.

Page 39

تاریخ احمدیت.جلد 22 24 سال 1963ء جب ایک جماعت اس درجہ پر امن اور امن پسند ہے کہ وہ قانون شکنی کو جرم ہی نہیں بلکہ گناہ خیال کرتی اور اس سے بہر حال مجتنب رہتی ہے تو حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو ایسی پُرامن جماعت کا دل دکھانے والا اور اسے قلبی اذیت پہنچانے والا ہو.کتاب کی ضبطی کا موجودہ حکم ہوسکتا ہے حکومت نے بے خبری میں دیا ہو.ایسی صورت میں ہر احمدی کے لئے ضروری اور لازمی ہو جاتا ہے کہ وہ حکومت کو احساس دلائے کہ اس کے اس فعل سے احمدیوں کے دل مجروح ہوئے ہیں.حکومت وقت پر یہ واضح کرنے کے لئے کہ اس قسم کے احکام لاکھوں پر امن شہریوں کو دیکھ پہنچانے والے ہیں.ہر احمدی مرد، ہر احمدی عورت، ہر احمدی بچے ، ہر احمدی بوڑھے اور ہر احمدی جوان کا یہ فرض ہے کہ وہ حکومت کو بتائے اور یاد دلائے کہ اس کے فلاں حکم سے اسے اور اس جیسے لاکھوں انسانوں کو دکھ پہنچا ہے.اگر ایسا نہ کیا جائے تو حکومت کہ سکتی ہے اور وہ ایسا کہنے میں حق بجانب ہوگی کہ اگر تمہیں کسی حکم سے دُکھ پہنچا تھا تو تم اسے حکومت کے نوٹس میں کیوں نہیں لائے.بہر حال یہ تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کا احترام اور اس کی سختی سے پابندی کرنے والی پُر امن جماعت کے جذبات اور حقوق کا خیال رکھے اور وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جو اس جماعت کے افراد کے لئے دکھ کا موجب ہو اور ان کے دلوں کو مجروح کرنے والا ہو.دوسری ذمہ داری خود ہم پر عائد ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم یہ امر بھی فراموش نہ ہونے دیں کہ ہم قانون کے احترام کو جزو ایمان سمجھتے ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ پر امن رہتے ہوئے ہم اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتے.اگر ایسا ہوتا تو خدا تعالیٰ کبھی ہمیں ایسی تعلیم نہ دیتا.ایسا خیال کرنے میں نعوذ باللہ خدا تعالیٰ پر اعتراض آتا ہے کہ اس نے کیوں ایسی تعلیم دی.یقیناً ایسے پر امن ذرائع موجود ہیں جن سے ہم اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں.اب حقوق حاصل کرنے کے دوذرائع ہیں ایک دنیوی اور دوسرے روحانی.دنیوی ذریعہ تو جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں.یہی ہے کہ ہم اپنا سینہ پھاڑ کر حکومت کے سامنے رکھ دیں اور اسے بتائیں کہ اس نے اپنے فلاں اقدام یا حکم سے کس طرح ہمارا سینہ چھلنی چھلنی کیا ہے اور روحانی ذریعہ یہ ہے کہ ہم خدا کے آگے جھکیں اور اس سے کہیں کہ اے خدا تو خود ہماری داد رسی فرما.ہمارے افسران حکومت کو اتنی توفیق دے کہ وہ نا انصافی کا طریق چھوڑ کر ہم کو ہمارے حق سے محروم نہ کریں.یا پھر تو خود ہی کوئی ایسی راہ نکال دے کہ جس سے ہم کو ہمارا حق مل جائے.پس دعائیں کریں، دعائیں کریں

Page 40

تاریخ احمدیت.جلد 22 25 سال 1963ء اور اس طرح دعائیں کریں کہ رب العرش کا عرش ہل جائے اور ہماری دادرسی کے لئے آسمان سے اس کے فرشتے نازل ہوں.اور وہ آسمان سے زمین پر آئیں اور اُن تمام روکوں کو دور کر دیں.جو ہمارے مقصد حیات کی راہ میں حائل ہو رہی ہوں.ہمارا مقصد اور ہمارے وجود کی علت غائی یہی ہے کہ اسلام دنیا میں غالب آئے اور وہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں آ کر آپ کے جھنڈے تلے آ جمع ہوں.پس دعائیں کریں اور خدا تعالیٰ سے مدد چاہتے ہوئے اپنے اس مقصد کی طرف بڑھتے چلے جائیں.ربوہ کے اس جلسہ عام کے چند روز بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پاکستان کی مسلمان 166 حکومت کو غیرت دلانے کے لئے ایک پر شوکت مضمون دو اقساط میں سپر دا شاعت فرمایا:.آپ نے اخبار ” کرزن گزٹ ( دہلی ) اور اخبار وکیل (امرتسر ) کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسلم کلام کوزبردست خراج تحسین کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:.مسیحیوں نے اسلام کو کمزور پا کر اور مسلمانوں کو خاموش اور بے بس دیکھ کر اسلام پر اتنے حملے شروع کر دیے تھے کہ جن کی وجہ سے اسلام کی عمارت بظاہر کرتی نظر آتی تھی.اس لئے مقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور خدائی حکم کے مطابق یہ دعوئی فرمایا تھا کہ اسلام اپنے پر زور لٹریچر اور زبر دست علم کلام اور روحانی نشانات سے صلیب کے زور کو تو ڑ کر رکھ دے گا.چنانچہ یہی ہوا کہ حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ سے تنگ آ کر عیسائیوں نے ہندوستان میں اپنے بوریئے بسترے باندھنے شروع کر دئیے.مگر پاکستان بننے کے بعد جہاں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو آزادی کی نعمت سے نواز اوہاں اس ملک میں یہ کمزوری بھی پیدا ہوگئی کہ اُسے مالی مدد کے لئے امریکہ کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا پڑا اور امریکہ نے پاکستان کی حد سے بڑھی ہوئی رواداری اور دوسری طرف مالی تنگی سے ہاتھ اٹھا کر پاکستان میں اتنے عیسائی مشنری بھجوا دیئے کہ گویا اُن کا ایک سیلاب ہو گیا اور کمزور طبیعت کے مسلمان جو اپنے دین سے ناواقف تھے اسلام کو خیر باد کہنے لگے.ان حالات میں اس بات کی بدرجہ اولیٰ ضرورت تھی کہ مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے پر زورلٹر پچر کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے تاکہ مسیحیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکے اور کمزور دل مسلمان اس لٹریچر کے ذریعہ سے زیادہ طاقت اور زیادہ سے زیادہ سہارا حاصل

Page 41

تاریخ احمدیت.جلد 22 26 سال 1963ء کریں.مگر خدا حکومت کو سمجھ دے.ہوا یہ کہ حضرت مرزا صاحب کے لٹریچر کو زیادہ وسیع طور پر پھیلانے اور مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط اور اُن کے قدموں میں استواری پیدا کرنے کی بجائے حکومت نے.ہاں مسلمان کہلانے والی حکومت نے.بانی سلسلہ احمدیہ کی اُس کتاب کو جو آج سے چھیاسٹھ سال پہلے لکھی گئی تھی.اور اسے مسیحی حکومت پچاس سال تک غیر معمولی فراخ دلی کے ساتھ برداشت کرتی چلی آئی تھی ضبط کر لیا تھا.یہ نا انصافی غالباً دنیا میں اپنی نوعیت کی اوّل درجہ کی نا انصافی ہے کہ کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کو تو پاکستان بننے سے پہلے ملک کی عیسائی حکومت پچاس سال تک برداشت کرے اور اسے قابلِ اعتراض خیال نہ کرے.مگر اب چھیاسٹھ سال بعد جبکہ اس کتاب کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں اور دوسری طرف ملک میں مسیحی مشنریوں کا سیلاب آیا ہوا ہے حکومت پاکستان نے اسے بحق سرکا ر ضبط کرنا ضروری خیال کیا ہے.حالانکہ اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو حقیقی رنگ میں دل آزاریا اشتعال انگیز ہو.بلکہ جو کچھ لکھا گیا ہے مسیحی معتقدات کی بناء پر لکھا گیا ہے اگر جائز تنقید سے کسی کتاب کو ضبط کیا جا سکتا ہے.تو پھر انجیل اور تورات کو بھی ضبط کرنا ہوگا جو بہت ہی دل آزار باتوں سے بھری پڑی ہیں.بلکہ (خاکم بدہن ) بقول دشمنانِ اسلام قرآن پاک کو بھی ضبط کرنا ہو گا جس کے بعض حصوں میں جائز طور پر عیسائیوں اور مشرکوں کے متعلق کافی سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد تو سمجھدار و قدرشناس مسلمانوں نے آپ کی شاندار اسلامی خدمات کو انتہائی قدرشناسی کی نظر سے دیکھا اور آپ کے اسلامی لٹریچر کو سر آنکھوں پر رکھا مگر اب آ کر جبکہ مسیحی مشنریوں نے اسلام کے خلاف تازہ حملے شروع کر رکھے ہیں موجودہ وقت کی مسلمان حکومت حضرت مرزا صاحب کی ایک ایسی کتاب کو ضبط کرتی ہے جو آج سے چھیاسٹھ سال پہلے عیسائی حکومت کے زمانہ میں مسیحیت کے خلاف اور اسلام کی تائید میں لکھی گئی.العجب ثم العجب !! “ آخر میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے تحریر فرمایا:.پاکستان کی مسلمان حکومت یعنی صدر صاحب مملکت پاکستان اور گورنر صاحب مغربی پاکستان اور وزراء صاحبان مغربی پاکستان اور ہوم سیکرٹری صاحب مغربی پاکستان خدا کے نام پر اور اسلام کے نام پر اور انصاف کے نام پر اس حوالے کو دیکھیں کہ آج سے پچپن سال پہلے سمجھدار قدرشناس دردمند دل

Page 42

تاریخ احمدیت.جلد 22 27 سال 1963ء رکھنے والے مسلمانوں نے مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی اسلامی خدمات کو کس نظر سے دیکھا! مگر اس کے مقابل پر آج کے مسلمان حکام جبکہ ملک میں عیسائی مشنریوں کا سیلاب آ رہا ہے حضرت مرزا صاحب کی کتابوں کے متعلق کیا رویہ اختیار کر رہے ہیں؟ دنیا کی حکومتوں کو یا درکھنا چاہیئے کہ اُن کے سروں پر ایک خدا کی حکومت بھی ہے اور وہ اُن کی نا انصافی کو دیکھ رہا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے علاوہ سید داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے اخبار الفضل میں ”نار واضبطی کے عنوان سے اور مکرم مسعود احمد صاحب دہلوی نے ” عیسائیت کا سحر باطل کر دکھانے میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا عظیم الشان کارنامہ کے زیر عنوان پر اثر اور مبسوط مضامین سپرد قلم فرمائے اسی طرح مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر، مولانا غلام احمد فرخ صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کے بھی عمدہ نوٹ شائع ہوئے.مرکز احمدیت کے احتجاج کی گونج سارے ملک اور پھر ساری دنیا میں سنائی دینے لگی.ہر جگہ ایک تہلکہ مچ گیا اور پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی احمدی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی قرار دادوں، مراسلوں اور تاروں کا تانتا بندھ گیا.جن کے ذکر سے اس دور کا الفضل بھرا پڑا ہے.جہاں تک بیرونی ممالک کی احمدی جماعتوں کا تعلق ہے ان کا رد عمل بھی انتہائی شدید تھا خصوصاً اُن مخلصین کا جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بے نظیر دینی لٹریچر کے طفیل دولت اسلام نصیب ہوئی.چنانچہ سوئٹزر لینڈ کے نو مسلموں نے ایک متفقہ قرارداد پاس کی جس میں ضبطی پر پر زور احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ صوبائی حکومت نے اس کتاب کو ضبط کیا ہے جو ان عظیم کتابوں میں سے ایک ہے جن کے طفیل ہمیں عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی.نیز کہا ہم اس امر کو مذہبی آزادی کی جڑوں پر تبر سے کم نہیں سمجھتے کہ ایک پر امن جماعت کے ہاتھوں.اس کی واجب التعظیم کتاب کو چھین لیا جائے.ایک سوئس نو احمدی ایم فلو کی گر (M Fluchiger) نے صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کے نام ایک پر درد اور پر سوز مکتوب میں لکھا کہ ہم یورپین نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی گرانقدر کتب پڑھ کر ہی اسلام قبول کیا ہے.ہم آپ کی تحریرات کے ایک ایک لفظ کو مقدس سمجھتے ہیں اور اُن کا لفظ لفظ ہمیں بے حد عزیز ہے.کتاب کی ضبطی کے اقدام سے ہمیں بے حد دکھ پہنچا ہے اور علی الخصوص میں اپنے آپ کو ایک دُکھی انسان محسوس کرتا ہوں.29 30

Page 43

تاریخ احمدیت.جلد 22 ☆ 28 سال 1963ء احمد یہ کمیونٹی کے جاپانی نژاد ممبروں کے جنرل سیکرٹری ( نور احمد ) ہیکاردوٹا کاری نے صدر پاکستان کی خدمت میں لکھا:.اس اقدام سے ہم احمدیوں کے جذبات شدید طور پر مجروح ہوئے ہیں کیونکہ عیسائی اپنی بائبل کو جتنا مقدس اور واجب التعظیم سمجھتے ہیں ہم احمدی اپنے سلسلہ کے بانی حضرت احمد علیہ السلام کی تحریرات کو اس سے کم مقدس اور واجب التعظیم نہیں سمجھتے.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو حکومت کا یہ اقدام بائبل یا ایسی ہی کسی مقدس کتاب کی اشاعت پر پابندی عائد کرنے کے مترادف ثابت ہوتا ہے.اسے ہم لاعلمی سے تعبیر کر سکتے ہیں یا پھر بعض ملازمین کے تعصب سے.ہم جماعت احمدیہ کے جاپانی اراکین عیسائیت، شنٹوازم اور بدھ مت وغیرہ مذاہب کو ترک کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں.ہم کو اسلام کی طرف کھینچ لانے کا ذریعہ حضرت احمد علیہ السلام کی ذات اور آپ کی تحریرات ہی تھیں اس لحاظ سے ہمیں حکومت مغربی پاکستان کا یہ اقدام اسلام دوستی پر ہی نہیں بلکہ عیسائیت نوازی پر 31- مینی نظر آتا ہے.ہم جاپانی ممبران جماعت احمدیہ حکومت کے اس غیر مناسب اقدام کے خلاف پر زور احتجاج کرتے ہیں.یہ اقدام مذہبی آزادی کے بنیادی انسانی حق کی نفی پر دلالت کرتا ہے.ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس حق تلفی کا فوری طور پر ازالہ کیا جائے اور ایسے اقدامات عمل میں لائے جائیں جن سے اس امر کی ضمانت مل سکے کہ آئندہ کسی ایسے اقدام کا اعادہ ممکن نہیں ہوگا.یہ چیز بیرونی دنیا میں آپ کے ملک کے وقار کو بڑھانے اور اسے سر بلند کرنے کا موجب ہوگی.سٹاک ہائم (سویڈن ) کے نواحمدی سیف الاسلام محمودار کسن اعزازی مبلغ نے لکھا.ہم پوری شدت کے ساتھ ضبطی کے اس حکم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے اور حضرت احمد علیہ السلام نے اس کتاب میں اسلام پر سراج الدین نامی ایک عیسائی کی طرف سے کئے گئے اعتراضوں کا ہی جواب دیا ہے.کتاب دیگر ادیان اور علی الخصوص عیسائیت کے بالمقابل اسلام کے حق میں بہت سے مضبوط دلائل پر مشتمل ہے.ایک اسلامی مملکت کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ وہ ایک ایسی تحریک کا ہاتھ بٹائے جس نے ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے.نہ یہ کہ وہ اس کے لٹریچر کو ضبط کر کے اشاعت اسلام کی راہ میں رکاوٹیں

Page 44

تاریخ احمدیت.جلد 22 29 سال 1963ء کھڑی کرے.یہ اقدام اس لئے بھی نا قابل فہم ہے کہ اس کا یہ لٹریچر تو پاکستان کے ابتدائی ایام سے ہی آزادانہ طور پر اشاعت پذیر ہوتا چلا آ رہا ہے.عبدالکریم ڈنکر (Abdul Karim Duncker) نائب صدر جماعت ہائے احمد یہ مغربی جرمنی نے صدر پاکستان کی خدمت میں حسب ذیل تار دیا.ہمارے جان و دل سے عزیز امام مقدس بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلواۃ والسلام کی کتاب کی ضبطی ہمارے جذبات کو انتہائی طور پر مجروح کرنے کا موجب ہوئی ہے.اسلام اور پاکستان کے لئے احمدی غیر معمولی قربانیاں کر رہے ہیں جرمنی میں احمدی جماعتیں اس کے ایک زندہ ثبوت کی حیثیت رکھتی ہیں.آپ اس معاملہ میں براہ راست مداخلت فرما کر حکومت مغربی پاکستان کے اس حکم کو منسوخ کرائیں.ہم انصاف کے طالب ہیں.مکرم بشیر بلوچر صاحب (Bashir Blucher ) سیکرٹری جماعت احمدیہ مغربی جو منی تحریر کرتے ہیں کہ جماعت احمد یہ ہمبرگ (مغربی جرمنی ) نے متفقہ قرارداد پاس کی کہ:.ہم یہ امر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم جرمنی کے احمدی ہیں.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو پڑھ کر ہی اسلام قبول کیا ہے.مغربی ممالک میں ان کتابوں نے اسلام کے حق میں ایک ہلچل مچادی ہے.ہم احمدیوں پر ایک نہایت ضروری فریضہ کے طور پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم احمدیت کے پیغام کو ساری دنیا تک پہنچائیں.اس اہم فریضے کی ادائیگی صرف اور صرف جماعت احمد یہ کے لٹریچر کے ذریعہ ہی ممکن ہے.حکومت مغربی پاکستان نے مفاد اسلام کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی کی ہے.یہ خبر ہمیں شدید صدمہ پہنچائے اور ہلائے بغیر نہ رہ سکی.اس لئے ہم اپنے پورے دل کے ساتھ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں.مکرم محمد در جنانی صاحب لبنان تحریر کرتے ہیں کہ لبنان کے احمدیوں نے گہرے رنج و غم اور درد و الم کا اظہار کرتے ہوئے عربی میں ایک متفقہ قرارداد پاس کی.اس کے ایک حصہ کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.ہمیں اس بات کا یقینی علم ہے کہ ہمارے امام نے جو کتابیں تصنیف فرمائی ہیں وہ پاک اور نہایت عمدہ اور قیمتی ہیں اور اس زمانہ میں اسلام کی تقدیں اور اس کی بلندشان کی علمبردار ہیں پھر اس زمانہ میں بحث و تمحیص کے طریقے اور دینی علمی اور اصلاحی میدان میں اعلیٰ پایہ کی تفسیر جو

Page 45

تاریخ احمدیت.جلد 22 30 سال 1963ء فصاحت و بلاغت اور قطعی دلائل سے پر اور انسانی قلوب میں ایمان کی تجدید اور پختگی کا باعث بنتی ہیں.آپ ہی کے وجود باجود کے طفیل ظہور پذیر ہوئی ہیں.لہذا ان عظیم خدمات اور قیمتی مؤلفات کی بنا پر جو اسلام کی سر بلندی کا باعث ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ہر قسم کے اعزاز اور احترام کے مستحق تھے اور پاکستان کی اسلامی حکومت کو چاہیئے تھا کہ وہ اس عظیم امام (علیہ السلام) کی کتب کی تائید کرتی اور ان کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی حوصلہ افزائی کرتی.چہ جائیکہ ان کے خلاف اس قسم کا مخالفانہ رویہ اختیار کیا جاتا اور یہ سلوک اس امر کے باوجود کیا جا رہا ہے کہ برصغیر ہند و پاک پر غیر ملکی عیسائی حکومت کے دور اقتدار میں ان کے خلاف کوئی اعتراض نہ ہوا تھا اور نہ کوئی تعزیری کا رروائی ہی کی گئی تھی.ان حالات کی روشنی میں ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس غیر منصفانہ حکم کو جو کتاب مذکور کے بارہ میں صادر کیا گیا ہے اور جس نے ہمارے دلوں کو بُری طرح مجروح کیا ہے فوراً منسوخ کرے اور اسے دوبارہ شائع کرنے اور لوگوں کے لئے اس سے استفادہ کرنے کی مکمل آزادی 35 کو بحال کرے.“ ی جنوبی عرب کی فیڈ ریشن کے احمدی اراکین نے ضبطی کے حکم کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا:.” برطانوی حکومت ( جو بلاشبہ ایک عیسائی حکومت تھی ) کے پچاس سالہ دور میں اور پاکستان کی سابقہ حکومتوں کے سولہ سالہ دور میں کبھی بھی اس قسم کی کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی کہ اس کتاب کی وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں میں منافرت پیدا ہو رہی ہے.ایسا تو کبھی اُس وقت بھی سننے میں نہیں آیا جب عیسائیوں اور مسلمانوں میں باہم مقابلہ اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا.اب یکا یک یہ کتاب اتنی خطر ناک کس طرح بن گئی کہ اسے ضبط کرنے کی نوبت آ گئی.یہ ایک ایسی بات ہے کہ جو کسی عقلمند کی سمجھ میں نہیں آسکتی.کتاب کی بلا وجہ منبطی پر ہم اپنے آپ کو بہت رنجیدہ اور غمزدہ محسوس کرتے ہیں.پھر یہ بات ایک مسلمان حکومت کے لئے کتنی غیر دانشمندانہ نظر آتی ہے کہ وہ عیسائیت کے بالمقابل مسلمان مبلغین سے ان کا ایک مؤثر اور کارگر ہتھیار چھین کر انہیں غیر مسلح کر دے.جب کہ یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ عیسائی حکومتیں بالواسطہ اور بلا واسطہ ہر طرح سے بڑھ چڑھ کر اپنے مشنریوں کی مدد کرتی ہیں.“ 36

Page 46

تاریخ احمدیت.جلد 22 ☆ 31 سال 1963ء جماعت احمد یہ آئیوری کوسٹ مغربی افریقہ کے پریذیڈنٹ یوسف سیلا صاحب (Yusuf Sylla) نے صدر مملکت کے نام اپنے احتجاجی مکتوب میں لکھا:.و ہی موثر ، قائل کر دینے والے، معقول اور بین دلائل جن کی وجہ سے ہم میں سے بہتوں نے عیسائیت کو خیر باد کہہ کر اسلام قبول کیا.ہماری مسلمان حکومت کو قابل اعتراض نظر آنے لگے.یہ ایسی عجیب بات ہے کہ ہم تو اسے تصور میں بھی نہیں لا سکتے.“ ان جماعتوں کے علاوہ برما، شمالی بورنیو، سنگا پور، سیلون، ماریشس، عدن، کمپاله، نیروبی ، دار السلام ( ٹانگانیکا ) ، میڈرڈ (سپین)، مانٹریال (کینیڈا)، کلیولینڈ ، اوہائیو (امریکہ) کی جماعتوں نے بھی صدر پاکستان کو تار اور مراسلے بھجوائے اور ضبطی کے غیر دانشمندانہ اقدام کے خلاف پوری قوت 38 سے آواز اٹھائی.جماعت احمدیہ کا یہ عالمی احتجاج چونکہ خالص دینی اور تبلیغی نوعیت کا تھا جس کے پیچھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت کے تحفظ اور دفاع اسلام کا مقدس جذ بہ کارفرما تھا اس لئے بے شمار در دمند اور غیور مسلمان یک زبان ہو کر اس احتجاج میں شامل ہو گئے.اتحاد بین المسلمین کا یہ ایسا روح پرور نظارہ تھا جس نے ۱۹۲۸ء کی تحریک جلسہ سیرت النبی ﷺ کے زمانہ کی یاد تازہ کردی.اس ملٹی پلیٹ فارم پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر، مختلف مذہبی اور ادبی اداروں کے سربراہ، یونین کونسلوں کے چیئر مین، وکلاء، رؤساء، تاجر الغرض زندگی کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے معزز مسلمانوں نے حکومت مغربی پاکستان کے اقدام کی کھلے لفظوں میں مذمت کی اور ضبطی کے احکام کو منسوخ کرنے کا پُر زور مطالبہ کیا.ملت اسلامیہ کی اس وحدت و یکجہتی کو دیکھ کر اسلام کے خلاف برسر پریکار عیسائی طاقتیں حیرت زدہ ہو گئیں اور ان کے منصوبے پیوند خاک ہو کے رہ گئے.بطور نمونہ چند اہم شخصیات کے اسمائے گرامی اور بعض کے بیانات بھی اختصار کے ساتھ ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں.قومی اسمبلی کے اراکین رکن قومی اسمبلی غلام حیدر صاحب بھروانہ.39 جناب محمد ذاکر قریشی صاحب رکن قومی اسمبلی.

Page 47

تاریخ احمدیت.جلد 22 ☆ ☆ احتجاجی تار لکھا.32 جناب خداداد خاں صاحب رکن قومی اسمبلی.40 سید مرید حسن شاہ صاحب رکن قومی اسمبلی سیالکوٹ.ارشاد اللہ صاحب ایم این اے حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ.سال 1963ء غلام محمد وسن رکن قومی اسمبلی میر پور خاص نے صدر مملکت و گورنر مغربی پاکستان کو 41 صوبائی اسمبلی کے اراکین ☆ ☆ ضلع گوجرانوالہ.منظور حسین صاحب ایم پی اے و پارلیمنٹیری سیکرٹری شیخو پور - رائے منصب علی خاں ایم پی اے شیخو پورہ.43 42 جناب احمد خان صاحب ایم پی اے جڑانوالہ ضلع لائل پور.سیف اللہ خاں صاحب تارڑ ایم پی اے حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ.سرفراز خاں صاحب ملک رکن صوبائی اسمبلی سرگودھا.شیخ محمد حسین بھنڈاری ایم پی اے وصدر انجمن اسلامیہ چیئر مین ٹاؤن کمیٹی ، ایمن آباد 45- محمد ابراہیم صاحب ایم پی اے تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ.بارایسوسی ایشن اور وکلاء ہلے اراکین سیالکوٹ بارایسوسی ایشن.47 (۱) چوہدری صلاح الدین احمد ایڈووکیٹ (۲) چوہدری غلام مرتضے' بارایٹ لاء ایڈووکیٹ (۳) چوہدری احسان الہی جنجوعہ ایڈووکیٹ (۴) سردار صغیر احمد پلیڈر (۵) میاں احمد علی پلیڈر (۶) پیر افتخار احمد پریذیڈنٹ بار ایسوسی ایشن و چیئر مین ٹاؤن کمیٹی (۷) خواجہ اعجاز حسین ایڈووکیٹ (۸) میاں محمد ظہور لالی سیکرٹری بار ایسوسی ایشن (۹) مہر سکندر خاں جائنٹ سیکرٹری بار ایسوسی ایشن (۱۰) شیخ عبدالحق پلیڈر (۱۱) چوہدری محمد ممتاز خاں پلیڈ ر (۱۲) چوہدری محمد اسلم خاں پلیڈ ر (۱۳) خان لال خاں پلیڈر چیئر مین یونین کونسل و ممبر ڈسٹرکٹ کونسل (۱۴) ملک ولی محمد پلیڈ ر (۱۵) نثار احمد بھٹی پلیڈر (۱۶) چوہدری محمد حفیظ ایڈووکیٹ (۱۷) سید محمد یوسف ایڈووکیٹ.

Page 48

تاریخ احمدیت.جلد 22 33 سال 1963ء حمام اراکین سیالکوٹ بارایسوسی ایشن.(۱) مسٹر بخت اقبال (۲) مسٹر یوسف خان (۳) مسٹر حامد اسلم (۴) ملک ممتاز حسین صاحب (۵) چوہدری حفیظ احمد صاحب (۶) چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ (۷) خواجہ محمد عظیم صاحب (۸) خواجہ سرفراز احمد صاحب (۹) چوہدری محمد مالک صاحب (۱۰) حاجی محمد سلیم صاحب (۱۱) مسٹر ابوبکر (۱۲) سید ظہور رضوی صاحب (۱۳) شیخ ارشد علی صاحب (۱۴) مسٹر وارث علی (۱۵) سرفراز احمد صاحب (۱۶) عرفان الحق صاحب (۱۷) چوہدری ایم عبداللہ صاحب (۱۸) چوہدری بشیر صاحب (۱۹) خواجہ مشتاق صاحب (۲۰) ماسٹر علی احسن (۲۱) چوہدری اعظم صاحب (۲۲) چوہدری محمد اسلم صاحب (۲۳) چوہدری نعیم صاحب (۲۴) سید اقبال حسین بخاری صاحب (۲۵) چوہدری خورشید عالم صاحب چیمہ (۲۶) چوہدری غلام قادر صاحب (۲۷) چوہدری ظہور الہی صاحب (۲۸) چوہدری عبدالحفیظ صاحب (۲۹) مرزا سکندر بیگ صاحب (۳۰) مسٹر اسلم اعوان (۳۱) چوہدری محمد علی صاحب وائس پریذیڈنٹ (۳۲) چوہدری محمد ارشد صاحب (۳۳) مسٹر بشیر احمد قریشی (۳۴) چوہدری ناصر احمد صاحب چیمہ (۳۵) چوہدری امان اللہ صاحب باجوہ (۳۶) میاں رفیع الدین صاحب (۳۷) شیخ محمد احمد صاحب (۳۸) چوہدری ناصر احمد صاحب باجوہ (۳۹) چوہدری انوار علی صاحب (۴۰) چوہدری محمد اسلم صاحب (۴۱) چوہدری اسلم باجوہ صاحب (۴۲) محمد شریف خان صاحب (۴۳) میاں اسمعیل صاحب (۴۴) ایم بیبین صاحب (۴۵) مسٹر امتیاز علی خان (۴۶) مسٹر انور علی صاحب (۴۷) ماسٹر محمد یوسف (۴۸) مسٹر غلام رسول (۱) (۴۹) سردار عبدالرحیم صاحب (۵۰) چوہدری محمد یوسف صاحب (۵۱) مسٹر اے رشید (۵۲) مسٹر غلام رسول (ب) (۵۳) ملک سلیمان صاحب (۵۴) مطیع اللہ صاحب (۵۵) مسٹر ایم اے خان (۵۶) خواجہ اسلم پال صاحب (۵۷) مسٹر برکت اللہ (۵۸) شیخ ارشد علی صاحب 49 ہیں صغیر احمد بی اے ایل ایل بھی وائس چیئر مین میونسپل کمیٹی چینوٹ.☆ 50 خواجہ عبدالوحید صاحب ایڈووکیٹ پریذیڈنٹ ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن سیالکوٹ.چوہدری حمید اللہ صاحب پلیڈ ر بی اے.ایل ایل بی رکن یو نین کونسل نارووال.محمد مهدی خان صاحب وکیل سرگودھا.52

Page 49

تاریخ احمدیت.جلد 22 ادارہ تحفظ حقوق شیعان پاکستان 34 سال 1963ء و جناب اقبال حسین صاحب کرمانی رکن دور کنگ کمیٹی ادارہ تحفظ حقوق شیعان پاکستان نے اپنے احتجاجی تار میں حکومت کی خدمت میں لکھا کہ :.حکومت کا وہ اقدام جس کے تحت کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ضبط کر لی گئی ہے.نہایت قابل اعتراض ہے.ایک کتاب جو ۶۵ سال قبل شائع کی گئی تھی اور جس کے برطانوی دور حکومت میں کئی زبانوں میں متعدد ایڈیشن بھی شائع ہوئے ایک اسلامی جمہوریہ میں اس کی ضبطی قابل افسوس ہے درخواست ہے کہ اس حکم کو فوری طور پر واپس لیا جائے.“ ☆ امجد حسین شیرازی جنرل سیکرٹری ادارہ تحفظ حقوق شیعہ.فارورڈ بلاک اثنا عشریہ 54 حمد اصغر حسین آزاد سو جانپوری سیکرٹری فارورڈ بلاک صادقیہ اثناعشریہ سیالکوٹ نے کہا کہ:.گزشتہ کئی دنوں سے مختلف اداروں کے سربراہوں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے معزز اراکین، وکلا صاحبان اور دیگر انصاف پسند حضرات کی طرف سے حکومت کی خدمت میں روزانہ کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کی ضبطی کے خلاف اپیلیں شائع ہو رہی ہیں.میں حکومت کے ارباب اختیار سے گزارش کرتا ہوں کہ ایسی کتاب کو جو گزشتہ ۶۵ سال سے لوگوں میں برائے تبلیغ تقسیم ہوتی چلی آ رہی ہے.اور اتنے طویل عرصہ میں کبھی اس کتاب پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کے پندرہ سالہ مختلف ادوار میں اسے کبھی ضبط نہ کیا گیا.اب اچانک مطبوعہ کتاب کو ضبط کر لینا چه معنی دارد؟ امریکہ کے رسالہ ”لائف میں اشتعال انگیز مضمون اور حضرت علی علیہ السلام کی فوٹو جو کہ تضحیک اسلام ہے، کی اشاعت پر حکومت کی رگ حمیت قطعا نہ پھڑ کی.حالانکہ اس گستاخ اور فتنہ بردار رسالہ کا داخلہ اندرون ملک فوراً بند کیا جانا مقصود تھا.لیکن ردّ عیسائیت کے ایک پرانے مطبوعہ کتا بچے کو ضبط کر لینا قابل صد افسوس ہے.لہذا حکومت عالیہ کو چاہئے کہ اس ضبط شدہ کتابچے کی ضبطی کے احکام کو فی الفور واپس لے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں.

Page 50

تاریخ احمدیت.جلد 22 35 سال 1963ء السنت والجماعت دھیرو کے ضلع لائل پور افراد اہل سنت و الجماعت دھیرو کے چک ۴۳۳ ضلع لائل پور نے حکومت سے التجا کرتے ہوئے کہا کہ:.ہم افراد اہل سنت والجماعت دھیرو کے چک ۴۳۳ ضلع لائل پور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی کتاب سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ضبط ہونے پر نہایت گہرے غم و افسوس کا اظہار کرتے ہیں.اور حکومت سے پُر زور التجا کرتے ہیں کہ اس حکم کو منسوخ فرما ئیں.یہ کتاب اسلام کی فضیلت بیان کرتی ہے.اور عیسائیوں کے ناپاک اعتراضات کا رڈ کرتی ہے.اسلامی حکومت کی شان کے خلاف ہے کہ ایسی کتاب ضبط کی جائے جس کی ضبطی سے عیسائیوں کو تقویت حاصل ہو.166 اہلسنت والجماعت چک ۳۸ جنوبی ضلع سرگودھا حمد سرگودھا چک نمبر ۳۸ جنوبی کے افراد اہل سنت والجماعت نے لکھا کہ:.جناب عالی ! ہم اہل سنت و الجماعت نہایت ادب کے ساتھ گذارش کرتے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم کر کے سخت صدمہ اور رنج ہوا.کہ کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب حکومت نے ضبط کی ہے کیونکہ: (۱) اس کتاب میں حضرت مسیح کی عیسائی الزامات سے بریت کی گئی ہے.(۲) جواب بائبل کی رو سے دیئے گئے ہیں.(۳) اس کتاب میں قرآن کریم کی عظمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلی شان ثابت کی ہے.(۴) یہ کتاب عیسائی حکومت کے زمانے میں چالیس سال سے شائع ہوتی رہی اور پاکستان میں بھی چھپتی رہی مگر عیسائی حکومت نے اس کو منافرت انگیز قرار نہیں دیا اور نہ ضبط کر کے مداخلت فی الدین کا ارتکاب کیا.(۵) وہ کام جو عیسائی حکومت اور عیسائیوں نے نہیں کیا تھا.ہماری اسلامی مغربی پاکستان کی حکومت نے اسے کرنے کی نہ جانے کس طرح جرات کی ہے.ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں

Page 51

تاریخ احمدیت.جلد 22 36 سال 1963ء کہ اس حکم کو واپس لے کر پاکستان کو عیسائیت نوازی کے خطرناک الزام سے بچائیں.خاکساران دستخط : (۱) ضیاء الحق ۳۸ جنوبی (۲) عبدالعزیز بشمس (۳) عبدالرحمان خان ممبر یونین کونسل نمبر ۲ چک نمبر ۳۸ جنوبی (۴) نصیر احمد خاں ۳۸ جنوبی (۵) محمد صدیق خاں (۶) عبدالرحمن خاں (۷) عبدالعزیز ٹیلر ماسٹر (۸) رلے خاں (۹) غلام حسین ۳۸ جنوبی ضلع سرگودها ۲۴ مارچ ۱۹۶۳ء (۱۰) بشیر حسین حوالدار پنشنر انجمن اسلامیہ سیالکوٹ ☆ 57 58 766 خواجہ حاکم دین صاحب پریذیڈنٹ انجمن اسلامی سیالکوٹ نے کہا کہ:.«کتاب نامی "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ کی ضبطی کا حکم پڑھ کر حیرانی ہوئی.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی غلط فہمی کی بناء پر ایسا کیا گیا ہے.کیونکہ عیسائی حکمرانوں نے اپنے عہد حکومت میں اس کتاب کو ضبط نہیں کیا اور نہ ہی ساٹھ ستر سال میں اس کتاب کی وجہ سے دونوں فرقوں میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے.ان حالات کی موجودگی میں ہم اپنی گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مہربانی فرما کر اپنے حکم پر نظر ثانی فرما ئیں.ملک عبدالکریم صاحب نائب صدرانجمن اسلامیہ سیالکوٹ نے کہا کہ:.۲۶.۱۹۲۵ء میں جب میں طالب علم تھا ریاست جموں میں عیسائیت کی تبلیغ بہت زور شور سے جاری تھی اور ہم لوگ عیسائیوں کے اعتراضات کے جواب میں لٹریچر کی جستجو میں رہتے تھے.اس سلسلہ میں سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ نامی رسالہ دیکھنے کا موقعہ ملا اور مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا.اسے پڑھ کر اسلام پر اعتقاد مضبوط ہوا.دلی اطمینان صداقت اسلام پر حاصل ہوا اور عیسائیت کے اعتراضات کا بود این ثابت ہو گیا.اب مجھے یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی اور افسوس بھی کہ حکومت پاکستان نے اسلام کی تائید میں شائع شدہ اس کتاب کو ضبط کر لیا ہے.حالانکہ آج کل عیسائی منادا سلام کے متعلق جو شبہات پیدا کر رہے ہیں.ان کے ازالہ کے لئے ضروری تھا کہ اس کی اشاعت بکثرت کی جاتی.حکومت کے لئے لازم ہے کہ اس حکم کو فورا واپس لے کر اپنی حقیقت پسندی کا ثبوت دے“.59

Page 52

تاریخ احمدیت.جلد 22 37 سال 1963ء انجمن رفاہ عامہ واتحاد بین المسلمین سیالکوٹ ☆ مبارک علی چیمہ ناظم اعلی انجمن رفاہ عامہ واتحاد بین السلمین سیالکوٹ نے کہا کہ :.کوئی مسلمان بھی خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو.ایسی کتاب کی ضبطی کو کیسے برداشت کر سکتا.جو خالصہ اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور افضلیت ظاہر کرنے کے لئے لکھی گئی ہو اور جس میں عیسائیت کا خودان کے مسلمات اور عقائد سے بطلان ثابت کیا ہو.جنرل سیکرٹری مرکز تحقیق مسیحیت لاہور 66 ی محمد اسلم را نا جنرل سیکرٹری مرکز تحقیق مسیحیت اچھرہ لا ہور نے کہا کہ :.’اخباری خبر کے مطابق حکومت مغربی پاکستان نے رسالہ ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب اس لئے ضبط کر لیا ہے کہ اس سے مسیحیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے.یہ پمفلٹ پہلی بار ۱۸۹۷ء میں شائع ہوا.مسیحی مشنری ان دنوں اسلام پر بھر پور حملے کر رہے تھے.اور وطن عزیز پر مسیحیوں کا قبضہ تھا اس کے مندرجات کے خلاف عیسائی مبلغوں نے کچھ نہ کہا.اور مسیحیت نواز حکومت وقت نے بھی اشاعت پر پابندی عائد نہ کی.دو ایڈیشن قیام پاکستان کے بعد شائع ہوئے.فی زمانہ جب کہ امریکی اور یورپی مسیحی مشنری دیار مغرب کے عوام اور حکومتوں کی اخلاقی و مالی اعانتوں کی مدد سے گوناگوں حیلوں بہانوں کے ذریعہ اہل اسلام کے ایمان پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں اور بے سروسامان مسلم مبلغین یہ دل گیر از منظر حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ قابل قدر کتا بچہ کی ضبطی کا حکم حیرت انگیز ہے.راقم الحروف نے ارباب اختیار پر زور دیا ہے کہ ایسی کتابوں کو ضبط کرنا اچھا نہیں.علمی اور تحقیقی نقطۂ نظر سے اظہار خیال کی آزادی چاہیئے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فریق مخالف کی دل آزاری کی جائے.صرف عقلی علمی اور حق پرستی کے معیار سے گری ہوئی اور متعصبانہ تحریروں کی اشاعت ممنوع ہونی چاہیئے.رواداری اور اقلیت پرستی کے یہ معنے نہیں کہ ان کے سوالات اور اعتراضات کا جواب بھی نہ دیا جائے.رائٹرز گلڈ سیالکوٹ 61 جناب اصغر سودائی صاحب ایم اے سیکرٹری رائٹرز گلڈ سیالکوٹ نے کہا کہ:.

Page 53

تاریخ احمدیت.جلد 22 38 سال 1963ء مجھے ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب نامی ایک تاریخی کتاب جس نے ربع صدی تک مسلمانان عالم اسلام کو حضور نبی اکرم کی زندگی، پیغام اور اسلامی اقدار سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ اپنے صحت مند دلائل و براہین سے عیسائیت کے عزائم کے سینے میں روشنی اور علمی کمالات کا ایک ایسا تیر پیوست کیا جس سے مسیحیت کے قلب سے خون برسنے لگا کی ضبطی پر انتہائی حیرت و تعجب ہوا ہے.افسوس اس بات کا ہے کہ وہ تمام لٹریچر جو ہمارے اور ہمارے مذہبی مسائل کا ایک بے باکانہ اور جرات مندانہ حل پیش کرتا ہے.ہمارے خواص کی نگاہوں تک یا تو پہنچا ہی نہیں یا پھر دانستہ طور پر اس کو غلط معنی ومفہوم پہنا کر طاق نسیاں کی زینت بنا دیا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت کے فرسودہ سوالات کا مسکت جواب جس حسن اور خوبی سے اس کتاب میں دیا گیا ہے.اس عہد کی کوئی اور مذہبی کتاب شاید ہی اس کا مقابلہ کر سکے.آج ہمیں دنیا میں بڑھتی ہوئی مسیحیت کی مخالف طاقت کو رام کرنا ہے اور اس کے ہر خود ساختہ اور بے بنیاد اعتراض کا جواب دینا ہے.اس کے لئے ہمیں پورے طور پر مسلح ہو جانا چاہیئے اور ایسی کتاب کی اشاعت پر پہلے سے زیادہ توجہ صرف کرنا چاہیئے نہ کہ پہلے سے مطبوعہ افادی کتب کا گلہ گھوٹنا چاہیئے.میں حکومت پاکستان سے مذہبی محبت و شیفتگی کے نام پر اپیل کرتا ہوں کہ اگر اسے ذرا بھی اسلام کی تبلیغ واشاعت کے کام سے عقیدت ہے تو وہ فوری طور پر اس کتاب کی ضبطی کا حکم منسوخ کر کے مسلمانان عالم اسلام کی تحسین کا باعث ہو.ڈسٹرکٹ اور تحصیل کونسلوں، میونسپل کمیٹیوں اور ٹاؤن کمیٹیوں کے چیئر مین اور ممتاز اراکین 166 بشیر احمد صاحب رکن ڈسٹرکٹ کونسل شیخو پورہ کا حکام اعلیٰ کے نام خط - محمد خورشید صاحب رکن تحصیل کونسل چنیوٹ ضلع جھنگ.64 ی ڈاکٹر بشیر احمد خاں صاحب وائس چیئر مین سٹی کونسل سیالکوٹ.☆ 65 63 نذر احمد تارڑ صاحب وائس چیئر مین میونسپل کمیٹی حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ چیئر مین ٹاؤن کمیٹی سانگلہ ہل.67 ٹاؤن کمیٹی چوہڑ کا نہ (حال فاروق آباد) ضلع شیخو پورہ.66- چوہدری محمد بشیر چیئر مین ٹاؤن کمیٹی چوہڑ کا نہ منڈی ضلع شیخو پورہ.چوہدری عبد الحلیم نمبر دارو چیئر مین یونین کونسل سچا سود اضلع شیخو پورہ، بابو صادق علی میر ٹاؤن کمیٹی چوہڑ کا نہ منڈی ضلع شیخو پورہ.

Page 54

تاریخ احمدیت.جلد 22 39 سال 1963ء حاجی عبدالمجید کلاتھ مرچنٹ ممبر ٹاؤن کمیٹی چوہڑ کا نہ منڈی ضلع شیخو پورہ.جمعدار سلیمان خان ممبر ٹاؤن کمیٹی چوہڑ کا نہ ضلع شیخو پورہ.چوہدری محمدعلی ورک ممبر ٹاؤن کمیٹی چوہڑ کا نہ ضلع شیخو پو ٹاؤن کمیٹی کھاریاں.166 68 چوہدری عبدالرحمن ممبر ٹاؤن کمیٹی کھاریاں.چوہدری قدر داد ممبر ٹاؤن کمیٹی کھاریاں.چوہدری محمد خان ممبر ٹاؤن کمیٹی کھاریاں.چوہدری سلطان علی ممبر ٹاؤن کمیٹی کھاریاں.چوہدری بشیر احمد چیئر مین ٹاؤن کمیٹی کھاریاں.69 یونین کونسلوں کے چیئر مین اور اراکین محمد شفیع صاحب چیئر مین منڈی ڈھاباں سے ہو چیئر مین یونین کونسل احمد نگر.☆ ☆ 71 سنگھ.70 امیر خان چیئر مین یونین کونسل نمبر ۵۷ چک نمبر ۱۳۱ تحصیل چنیوٹ.مختار احمد چیئر مین یونین کونسل نمبر ۴۵ بھلوال ضلع سرگودھا.عبدالرحمن چیئر مین یونین کونسل سلانوالی.72 ڈاکٹر نصر اللہ خان چیئر مین یونین کونسل نمبر ۳۹ ضلع سرگودھا.شریف احمد چیئر مین یونین کونسل ۶ گلوٹیاں تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ.عبد الغنی صاحب چیئر مین یونین کونسل گدیاں.74 73.چوہدری بشیر احمد چیئر مین یونین کونسل قلعہ صوبہ سنگھ III ضلع سیالکوٹ.چوہدری نصر اللہ خان صاحب چیئر مین یونین کونسل اونچا جا ضلع سیالکوٹ.رکن یونین کونسل نمبر ۱۴ چک نمبر ۳۷ جنوبی ضلع سرگودھا.75 چوہدری محمد اشرف ممبر یونین کونسل نمبر ۱۴ چک نمبر ۳۷ جنوبی ضلع سرگودھا.چوہدری سلطان علی باجوہ ممبر یونین کونسل نمبر ۴ اضلع سرگودھا.عبد الغنی نمبر یونی کونسل نمبر ۱۴ چک نمبر ۳۷ جنوبی تحصیل و ضلع سرگودھا.اسی طرح اس کتاب کی ضبطی کے فیصلہ کو واپس لینے کے لئے درج ذیل افراد کی طرف سے بھی احتجاجی مراسلے حکومت کو بھیجے گئے.

Page 55

تاریخ احمدیت.جلد 22 40 سال 1963ء چوہدری مراد علی ممبر یونین کونسل از پیر کوٹ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ فضل الرحمن محمود بی اے، ایل ایل بی.چیئر مین یونین کونسل چک ۴/ اے ڈی، وائس پریذیڈنٹ ڈسٹرکٹ مسلم لیگ شیخوپورہ میاں محمد نواز صاحب چیئر مین یونین کونسل چک چٹھہ ضلع گوجرانوالہ ممبران یونین کمیٹی نمبرا، مردان.(۱) ڈاکٹر ایس ایم لطیف کو نسلر یونین کمیٹی نمبرا، مردان.(۲) ملک عبد السلام خان کو نسلر یونین کمیٹی نمبر ، مردان.(۳) میاں حسام الدین بی اے، ایل ایل بی وکیل کو نسلر یونین کمیٹی نمبر ا، مردان - (۴) شیخ نذیر احمد کو نسلر یونین کمیٹی نمبرا ، مردان.(۵) محمد عثمان خاں کونسلر.(۶) غلام سرور خان قریشی کونسلر.رؤساء ☆ ☆ 80 سید الطاف حسین شاہ صاحب سابق ایم ایل اے رئیس چنیوٹ ضلع جھنگ.سید صدرحسین رئیس ٹھٹھی خدا یار تحصیل چنیوٹ ضلع جھنگ.میاں احمد علی صاحب بی اے، ایل ایل بی رئیس ہر سہ شیخ.83 سردار سید ناصر علی شاہ صاحب رئیس و ممبر یونین کونسل رجوعہ.81 سید غلام حسین شاہ رئیس حسین آباد ممبر یونین کونسل نمبر ۳۷ تحصیل چنیوٹ ضلع جھنگ.جہلم کے ۳۷ تا جر صاحبان کا مشترکہ بیان.تاجر صاحبان بعض دیگر معززین ہلو ضیاء الحق صاحب ایم اے سکھر نے ایڈیٹر صاحب الفضل کے نام خط لکھا.مرزا محمد امین صاحب ممبر یونین کمیٹی اے کوئٹہ سٹی.86 چوہدری عبدالرشید صاحب بی کام ایل ایل بی.ممبر بنیادی جمہوریت سیکرٹری کالونی تھل ٹیکسٹائل ملز لمٹیڈ لا ہور.بیرونی ممالک کے مسلمانوں کا احتجاج کوپن ہیگن میں مقیم ڈینیش، عراقی، مصری، افریقی اور پاکستانی مسلمانوں نے صدر پاکستان کو

Page 56

تاریخ احمدیت.جلد 22 41 سال 1963ء بذریعہ تار عرضداشت بھیجی کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب (علیہ السلام) کی کتاب پر حکومت مغربی پاکستان کی طرف سے عائد کردہ پابندی کو اٹھانے کا حکم صادر فرمائیں.☆ وہ سنگاپور کے ایک غیر از جماعت دردمند مسلمان نے حسب ذیل احتجاجی مکتوب صدر پاکستان کی خدمت میں لکھا:.صدر والا قدر مجھے یہاں سنگا پور میں اتفاقیہ طور پر اپنے بعض احمدی دوستوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ حکومتِ مغربی پاکستان نے سلسلہ احمدیہ کی مشہور ومعروف کتابوں میں سے ایک کتاب کو ضبط کر لیا ہے.اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس کے مندرجات اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایسے ہیں کہ جن سے پاکستان میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان نقض امن کا احتمال ہے.میں احمدی نہیں ہوں نہ ہی میں کوئی مذہبی عالم ہوں اس لئے میں پورے طور پر اس کا اہل نہیں ہوں کہ میں حتمی طور پر یہ کہہ سکوں کہ آیا فی الواقعہ کتاب کے مندرجات امن اور خوشحالی کے مفاد کو نقصان پہنچانے والے ہیں.تاہم جہاں تک میرے ذاتی علم کا تعلق ہے کتاب میں توحید باری تعالیٰ سے متعلق اسلام کی پیش کردہ تعلیم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے.میں احمدیوں اور ان کی تحریک سے اچھی طرح واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ وہ قانون کی پابندی اور اس کا احترام کرنے والے امن پسند لوگ ہیں اور یہی حال ان کے لٹریچر کا ہے.ان حالات میں میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس طرح وہ لٹریچر جو گذشتہ ساٹھ سال سے بھی زائد عرصہ سے شائع ہوتا چلا آ رہا ہے اور جو عملاً مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کسی قسم کی منافرت پھیلانے کا موجب نہیں بنا ہے اسے یکا یک ایک ایسا آلہ کار قرار دیا جائے کہ جس سے دو مذاہب کے ماننے والوں میں مخاصمت کی آگ بھڑک سکتی ہو.آج دنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہیں پاکستان کی طرف اٹھتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے یعنی ایسی مملکت ہے جو حقیقی معنوں میں اسلامی عقائد اور ثقافت کی علمبردار ہے.ان حالات میں قدرتی طور پر ہر شخص یہی توقع کرے گا کہ وہاں اس نوعیت کی کتاب کو بہت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیئے بالخصوص یہ توقع اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کتاب توحید باری تعالیٰ سے متعلق عیسائیوں کے اعتراضات کے جواب پر مشتمل ہے.

Page 57

تاریخ احمدیت.جلد 22 42 سال 1963ء اندریں حالات میں صحیح معنوں میں دلی طور پر التجا کرتا ہوں کہ آپ مفاد اسلام کی خاطر اس ایڈیٹر ”فللاسیا ۵۰۰ وکٹوریہ سٹریٹ سنگا پور نمبرے سارے معاملہ پر نظر ثانی فرمائیں.میں ہوں جناب والا کا نہایت ہی مخلص مغربی پاکستان کے پریس کا احتجاج مورخه ۲۳ مئی ۱۹۶۳ء مغربی پاکستان کے مسلم پریس نے اس موقعہ پر غیرت ملتی ، دینی شعور اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت موثر اور زور دار رنگ میں صدائے احتجاج بلند کی اور سلطان کے سامنے حق بات کہنے کا حق ادا کر دیا.ان میں سے بعض کے شذرات ہدیہ قارئین ہیں:.(۱) ہفت روزہ لاہور اخبار ”لاہور ابتدا ہی سے حق و صداقت کے لئے سینہ سپر رہا ہے.مغربی پاکستان کے اخباروں میں (اخبار الفضل کے بعد ) یہ پہلا اخبار تھا جس نے پوری غیرت مندی کے ساتھ حکومت کے اس ناروا اور غیر دانشمندانہ اقدام کا نوٹس لیا اور ۱/۲۹اپریل ۱۹۶۳ء کے پرچہ میں حسب ذیل ادار یہ شائع کیا.لاہور کے مدیر جناب ثاقب زیروی صاحب نے اس اداریہ کے بعد رسالہ کی ۱۳مئی ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں دوسرا ادار یہ لکھا نیز سرورق پر ضبطی کی دیگر از خبر پر ایک حقیقت افروز نظم بھی زیب قرطاس کی.اخبار لاہور نے موہوم دل آزاری کی آڑ لے کر“ کے عنوان سے لکھا کہ:.کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے جس کا حکومتی مذہب اسلام ہے.بتایا جاتا ہے کہ اس کے قیام کا مطالبہ اسلام اور فروغ ثقافت و علوم اسلامیہ ہی کے لئے کیا گیا تھا.دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کا آئین اس کے نظم و نسق کے قواعد وضوابط اور عدل وانصاف کے احکام وفرامین سب کے سب رُوح اسلام ہی کے مطابق ترتیب پاتے ہیں.لیکن شاید یہ سب کچھ کہنے اور بتانے کے لئے ہے کیوں کہ اس دین فطرت سے محبت اور وارفتگی رکھنے والی نگاہ کو اب تک تو وطن عزیز میں ایسی کوئی قابل ذکر سرگرمی دکھائی نہیں دی.سوائے اس کے کہ اہل ملک کے شدید احتجاج کے باوجود پاکستان کے اُن تعلیمی اداروں میں (جن کا اہتمام و انصرام عیسائی حضرات کے ہاتھوں میں ہے.نئی پاکستانی

Page 58

تاریخ احمدیت.جلد 22 43 سال 1963ء پود کو عام عیسائیت کا درس دیا جاتا اور اُن کی معصوم روحوں اور نو خیز دماغ کو نصرانیت کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں.وہ بچے جو ان گھرانوں میں پیدا ہوئے جن میں صرف ایک خدا کا چرچا اور تذکرہ ہے.انہیں اب دن دیہاڑے تین خداذہن نشین کرائے جاتے ہیں.عوام اور خواص ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ چیخ چکے لیکن ہماری عالی ظرف و بے نیاز حکومت ذرہ بھر ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اس ہفتہ تو اُس نے ایک ایسا حکم دیا ہے جس کی حیثیت کو اصابت و بصیرت کے ترازو میں تولنے کے بعد قلب و نظر کا یہ شبہ قوی تر ہو جاتا ہے کہ واقعی یہ سب کچھ کہنے اور بتانے کے لئے ہی ہے.عملاً ہماری حکومتیں اسلام کے نام پر صرف یہودیت و نصرانیت ہی کی تخم ریزی کی نگہداری فرمارہی ہیں.یہ حکم ایک ایسے کتابچہ کی ضبطی سے متعلق ہے جو ایک دردمند نقیب و داعی اسلام نے اپنے دور کے ایک عیسائی پر چارک سراج الدین نامی کے چار سوالوں کے جواب میں جون ۱۸۹۷ء میں لکھا تھا.جب برصغیر پاک و ہند پر ایک نصرانی قوم (انگریز) کی حکومت تھی.اور جو اس وقت اپنی حکومت کی جڑوں کو دلوں اور روحوں میں گہرا گاڑنے کے لئے مسلمانوں پر ہر قسم کی یلغار روا جانتی تھی.اگر ایک طرف مسلمانوں کو اعلیٰ و ادنی سرکاری ملازمتوں سے دور رکھ کر اور انہیں حکومتی مراعات سے محروم کر کے اُن میں احساس کمتری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی.تو دوسری طرف اُن کے عبد اللہ آتھم ، ٹھاکر داس ، بی ایچ راوز ، کمین یل، ریورنڈ نمبکن ایسے متعصب مصنف آئینہ اسلام“ ا مسیحیت والا سلام ، اسمائے الہی“.”بحث مابین توحید و تثلیث“.” دینِ اسلام اور حضرت محمد “ ایسی کتب لکھ کر اسلام کے عقائد کا مذاق اُڑانے اور اُس کی آفاقی تعلیم کی تضحیک میں مصروف تھے اور اس کے ساتھ ساتھ در پردہ عیسائیت قبول کرنے کے لالچ پر حکومتی قرب کا من وسلویٰ بھی عام تھا.اسلام کے ہر بچے جاں شار کا نام اس کے تھانوں کی گھناؤنی کتب کی زینت تھا.یہ چاروں سوال کفارہ مسیح ناصری کی صلیبی موت ، عیسائیوں کے تین خداؤں کی حقیقت سے متعلق تھے جن کے جواب میں اسلام کے جاں نثار مصنف نے بہ دلائل ثابت کیا کہ.اول قرآن اور ایک خدا کی ماننے والی قوم مسلمان جس ناصری نبی (عیسی ) کو جانتی اور مانتی ہے.وہ ہرگز ( یہودیوں کے دعوے کے مطابق ) لعنت کی موت نہیں مرے.وہ نہ قتل ہوئے اور نہ صلیب پر ہلاک کئے گئے اور عیسائی قوم جو اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کے لئے کفارہ کا مسئلہ گھڑے بیٹھی ہے.اُس سے قرآن والے حضرت عیسی" کے نام، مقام اور مشن سب کی تو ہین ہوتی ہے.سچ تو

Page 59

تاریخ احمدیت.جلد 22 44 سال 1963ء یہ ہے کہ ایسا کر کے عیسائیوں نے یسوع مسیح کی وہ بے ادبی کی ہے کہ دنیا میں کسی قوم نے بھی اپنے رسُول یا نبی کی نہیں کی ہوگی.دوم.آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ظہور کے وقت اکثر یہود اور نصاریٰ فاسق تھے جیسا کہ قرآن شریف بڑے واضح الفاظ میں گواہی دیتا ہے وَ اَكْثَرُهُمْ فَسِقُوْنَ (التوبه: ۸) سوم.توریت کے پیش نظر صرف یہودی تھے اور اس کی تعلیم کی بھی تمام پرواز یہودیوں ہی کے سروں تک ہے.لیکن وہ قانون جو عام عدل اور ہمدردی و احسان کے لئے دُنیا میں آیا وہ صرف قرآن شریف ہے.اور وہ رسول صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام عالموں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا.چہارم.اس سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں کہ انسان خدا کا پیارا ہو جائے.پس جس کی راہ پر چلنا انسان کو محبوب الہی بنا دیتا ہے.اس سے زیادہ کس کا حق ہے کہ اپنے تئیں روشنی کے نام سے موسوم کرے.اسی لئے اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ”نور“ رکھا ہے.عرصہ ہوا جب کہ یہ مدلل کتا بچہ ہمارے مطالعہ میں آیا تھا لیکن اس کے مطالعہ کی یہ لذت اور خوبی آج تک ہمارے قلب و ذہن پر مستولی ہے کہ اس کے مصنف نے ان سوالوں کے جواب میں جو زبان استعمال کی وہ سراسر انجیلی تھی.ایسی کہ سطروں کی سطریں اور پیروں کے پیرے الزامی رنگ میں انا جیل ہی کے چلتے چلے جاتے تھے.جو پڑھنے والے کو نہ صرف اس راز سے آگاہ کرتے تھے کہ عیسائیت کی اساس کیسے بودے دلائل پر ہے.اس حقیقت سے بھی آشنا کرتے تھے کہ اسلام اور قرآن نے کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کی عصمت کا تحفظ کیا ہے.خاص طور پر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا.چونکہ یہ تمام باتیں سچی ، مدلل ، حقائق سے معمور اور مسکت تھیں.اس لئے اس کا نہ صرف ۱۸۹۷ء کی عیسائیت میں متعصب و متشد د حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا.اس کے بعد بھی ( گو اس کے کتنے ہی ایڈیشن شائع ہوئے) کسی بھی عیسائی حکومت نے اس حق کو بالجبر دبانے کی کوشش نہ کی.اور چونکہ ان جوابوں میں مستعمل مذہبی اصطلاحیں، بندشیں اور کہاوتیں ساری کی ساری توربیت وانا جیل سے اخذ کردہ تھیں.اس لئے انہیں پڑھنے کے بعد دل آزاری کا تاثر ہرگز پیدا نہیں ہوا.اور نہ کبھی کسی نے اس پر دل آزار تحریر ہونے کا فقرہ کسا کیونکہ یہ تو خود عیسائیوں ہی کی زبان تحریریں، روایتیں اور

Page 60

تاریخ احمدیت.جلد 22 45 سال 1963ء اصطلاحیں تھیں.مسیح ناصری کے لئے لعنتی موت کی موشگافی آج تک کسی بھی سچے مسلمان کی طرف سے نہیں کی گئی.کیونکہ قرآن تو اس اتہام کو سراسر باطل قرار دیتا ہے.حیرت ہے تو اس پر کہ مغربی پاکستان کی موجودہ حکومت کو دل آزاری ناپنے کا یہ پیمانہ کہاں سے ہاتھ آ گیا.جس کے ذریعہ اُس نے اس کی گہرائی و گیرائی ناپتے ہی اسلام کی تائید میں مبرہن جوابات پر مشتمل اس پمفلٹ کے بارے میں ایک ایسا حکم جاری کرنے میں ذرہ بھر تذبذب سے کام نہ لیا.جس کی توفیق انگریزی دور میں نصرانی مذہب رکھنے والی حکومت کو بھی نہ ملی تھی.کیا ایسا کر کے دل آزاری کا سد باب کیا گیا ہے.یا جدید قسم کی دل آزاری کی طرح ڈالی گئی ہے؟ کیونکہ ہمارے خیال میں اسلام کی مبرہن تنظیم کو ڈھانپ کر اور چھپا کر تو عیسائیوں کی اس جدید قسم کی دل آزاری کی تشفی کبھی نہ ہو سکے گی.اسلام کا قرآن تو جب ان ( ایک انسان کو ) خدا اور خدا کا بیٹا بنانے والوں کے اس عقیدے کو دیکھتا ہے تو فرط کرب سے یہاں تک پکار اٹھتا ہے.” قریب ہے کہ آسمان اور زمین پھٹ جائیں.اگر کل کلاں کو ۱۹۶۳ء کے ان انو کھے جذبات رکھنے والے عیسائیوں نے یہ عرضی داغ دی کہ حضور ہماری تو قرآن کی اس آیت سے بھی دل آزاری ہوتی ہے.تو کیا حکومت آئندہ کے لئے اس آیت کے حامل قرآن کی اشاعت بھی روک دے گی.صاحب اختیار جوٹھہری.کاش دل آزاری کا مالہ وماعلیہ زیر غور لاتے وقت حکومت یہ بھی ذہن میں رکھتی کہ وہ ایک کتابچہ کی ضبطی کا حکم ہی نہیں دے رہی.ایک ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ( خدمت و تبلیغ اسلام کے نشہ میں سرشار ) جماعت کے واجب الاطاعت بانی کی تحریر کو بالجبر دبا دینے کا حکم جاری کر کے ایک پوری جماعت کی دل آزاری کا ارتکاب کر رہی ہے.جس کے بعد اُس کا اپنی حکومت پر اعتماد اور اُس کے طرز فکر سے متعلق نظریہ یکسر تبدیل ہو کر رہ جائیں گے.کاش اُسے اس فرضی اور موہوم دل آزاری کی آڑ میں اسلام کے مبسوط دلائل کو دبانے اور ایک آئین پسند جماعت کے لکھوکھا افراد کی دلآزاری کرنے کا مشورہ نہ دیا جاتا.بلکہ ہمیں یہ بھی بتا دینے کی اجازت دی جائے کہ جس شخص یا ادارہ نے بھی گورنر مغربی پاکستان کو اس کتابچہ کی ضبطی کا مشورہ دیا ہے.اُس نے پاکستان اور اسلام کی کوئی خدمت بجالانے کی بجائے ایک ایسے فتنے کی بنیاد رکھ دی ہے.جسے " سجدہ سہو کے بعد اگرا بھی نہ دبا لیا گیا تو ملک بھر میں تشت وافتراق تراشنے ، پرانی کتب کے مواد کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور اُن کے مفاہیم سے موہوم دل آزاریوں کے عرق نچوڑنے کی ایک ایسی خطرناک دوڑ شروع ہو جائے گی.جس کا

Page 61

تاریخ احمدیت.جلد 22 46 سال 1963ء انسداد محال ہو گا.بہتر ہو کہ اس پر ابھی نظر ثانی کر لی جائے اور غریب اسلام کو اُن صدموں اور زخموں 91 سے بچالیا جائے جو اُ سے اس کے شدید ترین دشمنوں نے بھی پہنچانے کی کبھی جرات نہیں کی تھی.( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اس ادارتی نوٹ پر مدیر لا ہور کو حسب ذیل مراسلہ لکھا:.مکرم و محترم ثاقب صاحب.السلام علیکم ! سب سے پہلے تو میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ کی ضبطی سے متعلق آپ نے لا ہور میں جو احتجاج کیا ہے.اُسے پڑھ کر بے اختیار آپ کے لئے دعا نکلتی ہے.اس کی ابتداء بھی مجھے پسند آئی.انتہا اور درمیان بھی.حیرت ، افسوس اور نفرین کے جذبات سے لبریز ایک بے اختیار شیخ کا رنگ اس میں پایا جاتا ہے.اور حق بھی یہی تھا.اول تو کتا بیں ضبط کرنے کی رسم ہی بے ہودہ ہے.دوسرے دشکنی ایک غیر معین لفظ ہے.جو ہر قید وبست سے آزاد ہے.وہ واقعہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ایک غریب بھیڑیے کی اس وجہ سے بہت دشکنی ہوئی تھی کہ ایک ظالم بھیڑ کا بچہ اُس ندی کے بہاؤ کی طرف پانی پی پی کر گدلا کر رہا تھا.جس ندی کے اوپر کی طرف وہ بھیٹر یا پانی پی رہا تھا.ظلم کی حد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں لکھی جانے والی کتا ہیں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت ضبط کر رہی ہے.ع چوں کفر از کعبه بر خیز دکجا ماند مسلمانی....حضرت صالح کی قوم یاد آ جاتی ہے جس نے اپنے نبی کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی تھیں“.۲.رسالہ الفرقان (ربوہ) 92 رسالہ ”الفرقان“ نے ”احتجاج“ کے عنوان سے درج ذیل خصوصی نوٹ شائع کیا.انتہائی حیرت ، تعجب اور گہرے رنج کی بات ہے کہ اسلام سے برگشتہ ہونے والے ایک عیسائی پادری سراج الدین کے چار سوالوں کے اسلام، قرآن مجید اور سرور کونین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و برتری ثابت کرنے والے جو مسکت ، مدلل اور واضح جوابات ۲۲ جون ۱۸۹۷ء کو اسلام کے فتح نصیب جرنیل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے شائع فرمائے تھے انہیں آج ۱۹۶۳ء میں مغربی پاکستان کی اسلامی حکومت نے ضبط قرار دیا ہے.کیوں؟ کہا گیا ہے کہ اس سے عیسائیوں

Page 62

تاریخ احمدیت.جلد 22 47 سال 1963ء اور مسلمانوں بالخصوص عیسائیوں اور احمدیوں میں منافرت پیدا ہو سکتی ہے.مگر یہ عجیب معتمہ ہے کہ گزشتہ چھیاسٹھ سال میں یہ منافرت نہ پیدا ہوئی.انگریزی حکومت کے عہد میں نہ پیدا ہوئی اور اس کتاب کے خلاف کبھی احتجاج نہ ہوا.صرف آج مغربی پاکستان کے حکام کو ہی اس کا احساس ہوا ہے.کیا عیسائی پادریوں کو خوش کرنے کی یہ سکیم عمداً اختیار کی گئی ہے؟ آج پاکستان میں شور ہے کہ عیسائی پادری دھڑا دھڑ مسلمانوں کو عیسائی بنا رہے ہیں اور جائز و نا جائز ذرائع سے کلمہ گوؤں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے.مگر ہماری حکومت ہے کہ اس جارحانہ حملہ کے دفاع کے لئے جوابی مفید لٹریچر کو ضبط کرنے کے درپے ہے.ان حالات میں اللہ تعالیٰ ہی ہماری قوم اور ہمارے ملک کا محافظ ہے.ہمیں بتایا گیا ہے کہ پادریوں نے دیگر مختلف مسلمان مصنفین کی پچاس کے قریب کتابوں کی ضبطی کے لئے بھی سکیم بنارکھی ہے.اس لئے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس موقعہ پر متحدہ طور پر حکومت پر واضح کریں کہ اس کا یہ اقدام غیر دانشمندانہ اور سراسرنا مناسب ہے.ہم نے رسالہ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب “بارہا پڑھا ہے اور آج بھی اسے مطالعہ کیا ہے اس میں صرف قرآن مجید اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و برتری کا نہایت دلنشین انداز میں اثبات ہے اور عیسائی سائل کے سوالات کے جواب میں اسلام اور عیسائی عقائد کا مؤثر موازنہ ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ اس رسالہ کو پڑھنے سے عیسائی عقائد کا بودا پن بالکل نمایاں ہو جاتا ہے.مگر کیا حکومتِ مغربی پاکستان کے لئے روا ہے کہ صرف اس بناء پر کسی رسالہ کو ضبط کر لیا جائے؟ ہمارے نزدیک اس جوابی رسالہ میں کوئی حصہ یا عبارت اشتعال انگیز یا منافرت پھیلانے والی نہیں ہے اور ہمیں کامل یقین ہے کہ کوئی غیر جانبدار حج حکومت کے اس حکم کو ہرگز جائز قرار نہ دے گا.اسلئے ہم پورے زور سے اپیل کرتے ہیں کہ حکومت مغربی پاکستان عدل و انصاف کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے اپنے حکم کو واپس لے کر عمدہ مثال قائم کرے..ہفت روزہ ”پیغام قائد (سرگودھا) ،، 93 سرگودھا سے شائع ہونے والے اس ہفت روزہ نے لکھا:.جماعت احمدیہ سرگودھا کے ممبران نے سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ کی

Page 63

تاریخ احمدیت.جلد 22 48 سال 1963ء ضبطی پر شدید احتجاج اور انتہائی رنج والم کا اظہار کیا ہے.اور احتجاجی مراسلات حکام بالا کی خدمت میں بھیجے ہیں.ممبران جماعت احمد یہ مقامی ربوہ کی ایک احتجاجی قرار داد بھی موصول ہوئی ہے علاوہ ازیں وقف جدید انجمن احمد یہ پاکستان اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے احتجاجی تار صدر مملکت، گورنر مغربی پاکستان اور بعض دیگر حکام کے نام ارسال کئے گئے ہیں.جماعت احمدیہ کے حلقوں کی طرف سے کتاب کی ضبطی کے حکم کو انتہائی غیر دانشمندانہ اور سراسرنا جائز قرار دیا جا رہا ہے اور حیرت اور اضطراب کا اظہار کیا جا رہا ہے.چونکہ مذکورہ کتاب شائع ہوئے ایک طویل عرصہ گذر چکا ہے اور اس لمبے عرصے میں اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.اگر اتنا طویل عرصہ اس کتاب کو برداشت کیا جاتا رہا ہے اور اس کتاب کی وجہ سے کسی فرقہ کی دلآزاری نہیں ہوئی تو آج کون سے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ اچانک اس کو ضبط کرنے کی ضرورت پیش آئی.ہمیں اپنے اعلیٰ حکام سے توقع ہے کہ وہ اس حکم پر نظر ثانی فرماتے ہوئے اس فیصلہ کو فورا منسوخ قرار دیں گئے.94 ۴.ہفت روزہ 'عقاب (سرگودھا) 66 اسی طرح ایک اور ہفت روزہ ” عقاب نے لکھا: ایک جائز مطالبہ : ایک سرکاری اعلان کے مطابق صوبائی حکومت نے تحریک احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کی تصنیف کردہ ایک کتاب عیسائی سراج دین کے چار سوالوں کا جواب“ کو حبق سرکا رضبط کرنے کا حکم دیا ہے.ہم اس سرکاری اعلان کے حسن و قبح پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی پوزیشن میں نہیں.کیونکہ سرکاری اعلان میں سوائے اس کے کہ اس کتاب میں مذہبی منافرت کا رجحان پایا جاتا ہے اور کوئی توضیح درج نہیں ہے.صوبائی حکومت کے اس اعلان سے فرقہ احمد یہ اور مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں میں اضطراب اور احتجاج ایک فطری امر ہے کیوں کہ بقول ایک حالیہ قرار داد جور بوہ اور سرگودھا کی انجمن احمدیہ نے منظور کی ہے کہ قرآن اور حدیث رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد مرزا غلام احمد صاحب کی تمام تحریریں اُن کے لئے نہایت مقدس اور قابل احترام ہیں.

Page 64

تاریخ احمدیت.جلد 22 49 سال 1963ء ختم نبوت پر ہمارے خیالات کسی مسلمان سے ڈھکی چھپی بات نہیں.ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول اکرم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں لیکن احمدی حضرات کے اس موقف کو جسے اس موقعہ پر منظور شدہ متعدد قرار دادوں میں دہرایا گیا ہے چند الفاظ میں یہ ہے: (۱) اس کتاب میں کوئی ایسا مواد موجود نہیں جس سے کسی طبقہ میں منافرت پھیلنے کا احتمال ہو.(۲) یہ کتاب عیسائی سراج الدین کے چار سوالوں کے جواب میں آج سے ۶۶ سال قبل رقم کی گئی تھی.سراج الدین نے ان سوالوں میں حضور اکرم سرور کائنات کی شان میں (خاکم بدہن ) گستاخی کرنے کی جسارت کی تھی جس کا جواب مرزا صاحب نے دیا.(۳) برطانوی عہد حکومت جب ہند میں برطانوی راج مسلط تھا کتاب کو ضبط کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ ہر زمانہ میں عیسائی مناد، مناظرین اور علماء کے زیر مطالعہ رہی.اسی طرح مختلف حکام کے سامنے بھی پیش ہوتی رہی لیکن کبھی بھی کسی موقع پر نہ عیسائی علماء کی طرف سے اور نہ عیسائی حکام کی طرف سے، پچاس سالہ دور حکومت میں اسے فرقہ وارانہ کشیدگی یا منافرت کا باعث قرار دیا گیا.(۴) اس کتاب میں عیسائیت پر زور دار بھر پور حملے کئے گئے ہیں.اس کتاب کو ضبط کرنا عیسائیت کے سیلاب کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دینے کے مترادف ہوگا.انجمن احمدیہ کے ان اٹھائے ہوئے اعتراضات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اُن میں کچھ نہ کچھ وزن ضرور ہے اگر ان اعتراضات میں ذرہ بھر بھی کوئی صداقت ہو تو ہم حکومت کے اس اقدام پر خراج تحسین پیش نہیں کر سکتے بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس فرقے کے مذہبی احساسات اور خدمات کا احترام کرتے ہوئے ضبطی کا حکم واپس لے لے.اگر یہ رسم چل نکلی تو پھر کسی بھی فرقہ کی مقدس کتب کو ذہبی منافرت کا رنگ دے کر ضبط کر لیا جائے گا.اور یہ صورت حال پاکستان جیسی نظریاتی اور جمہوری مملکت کے شایان شان نہیں ہوگی.ہمیں امید ہے کہ ہماری ان گزارشات کو اس سپرٹ میں قبول کیا جائے گا جس کے تحت یہ رقم کی گئی ہیں.۵.روزنامہ ” کوہستان (لاہور) روز نامہ کوہستان“ نے اپنی ۹ مئی ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں درج ذیل نوٹ شائع کیا.

Page 65

تاریخ احمدیت.جلد 22 50 سال 1963ء حکومت مغربی پاکستان نے سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ نامی ایک کتاب کو منافرت پھیلانے کے الزام میں ضبط کر لیا ہے.کہتے ہیں کہ یہ کتاب حامی دین مسیح سرکار برطانیہ کے دورِ حکومت میں پچھتر سال تک چھپتی اور بکتی رہی.لیکن اس سے تعرض نہیں کیا گیا اور اب جبکہ پاکستان میں مسلمانوں کا اپنا راج پاٹ ہے تو اس کتاب کو عیسائی اثرات نے ضبط کرا دیا.ہمیں تو اس کتاب کے مطالعہ کا شرف حاصل نہیں ہوا.لیکن اخبارات میں جو مراسلے چھپ رہے ہیں.ان میں تواتر کے ساتھ یہ بات کہی جارہی ہے کہ اس میں ایک لفظ بھی قانون کی زد میں نہیں آتا اور نہ اس میں کسی کی دل آزاری کی گئی ہے.منافرت بھی ایک دلچسپ اصطلاح ہے.قومی ، مذہبی اور ملکی بنیادوں کے خلاف ہر روز ہزارہا الفاظ بولے اور لکھے جاتے ہیں لیکن وہ آزادی تحریر و تقریر کے بنیادی حق کی بناء پر گرفت میں نہیں آتے.لیکن اگر آپ کسی فرقہ کے عقائد باطلہ کا پوسٹ مارٹم کریں اور اس فرقے کی حکومت تک پہنچ ہو تو آپ کی تحریر ضبط.96- ۶.رسالہ ”المنبر (لائل پور ) جماعت کے اشد مخالف اس رسالہ نے ایک مقالہ افتتاحیہ ” قادیانی کتاب کی ضبطی اور واگزاری“ لکھا جس کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں: الف.حکومت مغربی پاکستان کی بے تدبیری قابلِ ماتم ہے کہ اس نے ایک ایسے کتابچے کو ضبطی کے لئے منتخب کیا جو عیسائیوں کے خلاف ہے لیکن آج سے ستر انٹی سال قبل شائع ہوا.عیسائی حکومت کے زمانے میں دو چار بار چھپا مگر اس نے اسے ضبط نہ کیا.“ (ب ) " تعجب تو خیر نہیں کہ حکومت کے اور کونسے کام ایسے ہیں جو بے تدبیری کے داغ سے پاک ہیں لیکن اس امر کا افسوس ضرور ہے کہ حکومت نے بیٹھے بٹھائے ایک ایسا اقدام کیا جس سے اس کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا.اس کی بہت سی کمزوریوں سے پردہ اٹھا اور اس کے سیکرٹریٹ کی نا اہلی پر ایک مضبوط مُہر لگ گئی...( 3 ) '' حکومت کو اس حقیقت سے باخبر ہونا ضروری تھا کہ قادیانی جماعت...دنیا کے بیشتر ممالک میں موجود ہے اور ہر ملک کے قادیانی تعداد میں دو چار ہوں یا دو چارسو.لازماً اس حکم کے

Page 66

تاریخ احمدیت.جلد 22 51 سال 1963ء خلاف احتجاج کریں گے.وہ بحری تار بھجوائیں گے، اپنے اپنے ملک کے اخبارات ورسائل میں مضامین شائع کرائیں گے اور ہر جگہ سے قرار دادوں اور ریزولیوشنوں کا ایک طوفان امڈ آئے گا.اگر اس سیلاب کے مقابلے کی ہمت حکومت میں نہیں تھی تو اسے کس پاگل نے کہا تھا کہ وہ رسوائی کو مول لئے.ے.پندرہ روزہ طوفان (ملتان) ملتان کے پندرہ روزہ طوفان نے حسب ذیل اداریہ شائع کیا:.عیسائی مبلغین ایک عرصہ سے قرآن و پیغمبر اسلام علیہ السلام اور اسلام پر نا روا حملے کر رہے ہیں اور جب بھی اس کے خلاف کوئی آواز بلند کی گئی.انہوں نے اپنے مؤقف کی تائید میں بیرونی عیسائی دنیا کے اثرات سے کام لیا اور ہمارے حکام کو اپنے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے باز رکھا.گزشتہ دنوں مسلمانان پاکستان نے خطہ پاکستان میں عیسائی مشنریوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں ، خاموش تبلیغی کوششوں کے تحت تبدیلی مذہب کے ان گنت واقعات اور اس طرح حیرت انگیز طور پر ان کی روز افزوں تعداد پر کھل کر اظہار تشویش کیا اور حکومت کو اس تکلیف دہ صورتِ حال کی طرف توجہ دلائی تو ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا.یورپ اور امریکہ میں اس کی صدائے بازگشت اس طرح سنی گئی کہ ان کے کثیر الاشاعت اخبارات نے کبھی پیغمبر اسلام کی فرضی تصویر میں شامل اشاعت کر کے مسلمانان عالم کے قلوب کو مجروح کیا کبھی اپنے کسی سفیر کے متعلق یہ خبر شائع کر کے چٹکیاں لیں کہ اس نے (نعوذ باللہ ) اپنی بلی کا نام احمد رکھ لیا ہے.بہر حال جب مسلمانوں نے عیسائی دنیا کی ان چھچھوری حرکات پر صدائے احتجاج بلند کی اور اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں ایسے گستاخ اور فتنہ انگیز رسائل کے داخلے پر پابندی عائد کر کے اپنی اور مسلمانان پاکستان کی طرف سے اظہار ناپسندیدگی کرے تو ہمارے ہاں کے عیسائی مبلغین نے بعض ان کتابوں پر پابندی لگائے جانے کی مہم شروع کی جو عیسائیت کے رد اور اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کے سلسلے میں مختلف فرقوں کی طرف سے آج نہیں انگریزی حکومت کے دور میں لکھی اور شائع کی گئی تھیں.اس سلسلے میں پہل ایک ایسی کتاب سے کی گئی جو ایک خاص طبقے کے رہنما نے تقریباً ۶۷ سال قبل ایک مرتد سراج الدین کے چارسوالوں کے جواب میں لکھی تھی.اور جو اس وقت تک کئی بار شائع ہو چکی ہے.نیز ۱۹۴۷ء کے دوران انگریزی میں ترجمہ

Page 67

تاریخ احمدیت.جلد 22 52 سال 1963ء ہو کر بھی اس کا ایک ایڈیشن چھپ چکا ہے.اس کتاب میں بظاہر کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے ایک فرقے کی دل آزاری سے تعبیر کیا جاسکے.بلکہ ایک عیسائی نے جو کچھ پوچھا ہے اس کا معقول مدلل جواب خودا نہی کی کتابوں اور قدیم وجدید عہد ناموں کے حوالوں کے دیا گیا ہے.مقامِ حیرت ہے کہ اس کتاب پر ہمارے عیسائی بھائیوں کو عیسائی حکومت کے دور اقتدار میں مسلسل پچاس سال تک اعتراض کرنے اور انگلی اٹھانے کی توفیق نہ ہوئی.قیام پاکستان کے بعد بھی پندرہ سال تک ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم و الا مضمون رہا.اب پورے سڑسٹھ برس کے بعد اس میں دل آزاری کا پہلو نظر آیا.ہمارے خیال میں حکومت مغربی پاکستان کو اس کتاب کے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیئے چونکہ اس اقدام سے ہماری تمام تبلیغی جماعتوں کو بڑے تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑے گا.کیونکہ اس ایک مثال کو سامنے رکھ کر ہمارے عیسائی دوست ان گنت ایسی کتابوں پر انگلی دھر دیں گے.جن میں عیسائیت کے خلاف ذرا سا بھی موادل سکے گا.جہاں تک "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ نامی رسالے کا تعلق ہے.اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو.بلکہ انہیں کے الفاظ سے اور ان کی کتابوں سے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے.اس لئے آزادی مذہب کے نام پر ہم حکومت مغربی پاکستان سے بہ ادب گذارش کرتے ہیں کہ وہ اپنا حکم واپس لے کر حق پسندی کا ثبوت دے“.د و.ہفت روزہ ” تنظیم اہلحدیث (لاہور) 98.اس ہفت روزہ نے بہت واشگاف الفاظ میں حسب ذیل نوٹ سپر داشاعت کیا.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب نامی کتاب اس ملک میں گزشتہ پچھتر سال سے بار بار چھپتی اور بکتی چلی آ رہی تھی.حامی دین مسیح حکومت برطانیہ کے دور میں اس کتاب سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا اور نہ اسے عیسائیوں کی دل آزاری کا باعث سمجھا گیا اور نہ ہی اس پر منافرت پھیلانے کا کوئی الزام عائد ہو سکا لیکن اب مسلمانوں کی اپنی حکومت ہے، اب پاکستان میں بڑھتے ہوئے عیسائی اثرات نے اس کتاب کو ضبط کرا دیا ہے.من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم که با من هرچه کرد آں آشنا کرد

Page 68

تاریخ احمدیت.جلد 22 53 حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرے“.۹.چار ہفتہ وار اخبارات 99 سال 1963ء سرگودھا کے چار ہفتہ وار اخبارات کے ایڈیٹروں کی طرف سے اخبار الفضل (۲۸ مئی ۱۹۶۳ء) میں درج ذیل مشترکہ بیان شائع ہوا.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کی ضبطی سے متعلق حالیہ حکم سے بجاطور پر جماعت احمدیہ میں بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی ہے.ہزار ہا تاروں اور خطوط کے ذریعہ احمدی اور غیر احمدی حضرات کی طرف سے حکومت مغربی پاکستان کے اس حکم کو منسوخ کرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے.ہم اس مطالبہ کو جائز اور معین منصفانہ سمجھتے ہوئے حکومتِ مغربی پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کتاب کی ضبطی کے غیر دانشمندانہ حکم کوفور اوا پس لیں تا کہ لاکھوں ملکی اور غیر ملکی جس بے اطمینانی میں مبتلا کئے گئے ہیں ان کو سکون میسر ہو سکے.“ (۱) عمر دراز خاں ایڈیٹر پیغام قائد سرگودھا.(۲) احمد بخش قریشی ایڈیٹر ” عقاب سرگودھا.(۳) عبدالرشید اشک ایڈیٹر شعلہ سرگودھا.(۴) تاجدار دہلوی ایڈیٹر ”سلطان“ سرگودھا.پاکستان کے مسیحی لیڈر کا بیان 66 ملت اسلامیہ کے اس متفقہ احتجاج کو دیکھ کر پاکستان کے مشہور مسیحی لیڈر مسٹر جوشوا فضل دین صاحب نے ایک پریس بیان دیا جس میں کہا کہ :.میں اپنے پاکستانی عیسائیوں کو بھی نصیحت کروں گا کہ وہ اپنے مخالف لٹریچر کے بارہ میں حد سے زیادہ عیب چینی اور تنقید سے اجتناب کریں.پچھلے دنوں مجھے یہ پڑھ کر افسوس ہوا کہ کتا بچہ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ جو حضرت مرزا غلام احمد نے ۱۸۹۷ء میں لکھا تھا.۱۹۶۳ء میں ضبط کر لیا گیا ہے بظاہر ایک ایسا کتابچہ جو برطانوی راج میں پچاس سال تک اور پھر تقسیم برصغیر کے بعد ۱۵ سال تک چرچ کے لئے کسی تکلیف یا نقصان کا موجب نہ ہوا.وہ ایک ایسی دستاویز قرار نہیں پاسکتا جس پر کوئی شخص برہمی کا اظہار کرے.اگر عیسائی ہوا کے ہر جھونکے پر گھبرا اٹھنے کی بجائے جو کچھ ان کے متعلق کہا جاتا ہے اسے نظر انداز کریں گے تو انسانی تعلقات کے نقطہ نگاہ سے یہ امران کے لئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہوگا اور وہ نفع میں رہیں گے.100

Page 69

تاریخ احمدیت.جلد 22 فیصلہ کے اعلان میں ناروا تاخیر 54 سال 1963ء اخبار الفضل نے ۲۹ مئی ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں لکھا کہ: ایک ماہ سے زائد کا طویل اور صبر آزما عرصہ گزرتا ہے کہ حکومت مغربی پاکستان نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ جو تمام تر اسلام کی صداقت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلالت شان کے نہایت درجہ مؤثر اظہار پر مشتمل ہے اور جو گزشتہ ۶۶ سال سے برابر شائع ہوتی چلی آ رہی ہے یکا یک ضبط کر لی.اس ناروا اقدام پر دنیا بھر کے احمدیوں میں انتہائی بے چینی و اضطراب کی لہر کا دوڑنا ایک قدرتی اور طبعی امر تھا.چنا نچہ انہوں نے اس یقین اور اعتماد کے پیش نظر کہ اگر اس ناروا اقدام کے خلاف اسلام اثرات و مضمرات حکومت کے گوش گزار کئے جائیں تو وہ ضرور اپنا فیصلہ واپس لے لے گی بڑے ہی دردمند دل کے ساتھ اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا اور خود مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی مقدس تحریرات میں سے ایک تحریر کے ضبط کئے جانے سے انہیں جو قلبی اذیت پہنچی تھی اس سے حکومت کو آگاہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.جماعت احمدیہ پر ہی کیا منحصر ہے وہ غیر از جماعت دردمند دل رکھنے والے مسلمان بھی جنہیں اس کتاب میں مندرج صداقت اسلام کے دلائل قاطعہ اور اُن کی اثر انگیزی کا علم تھا تڑپ اٹھے اور وہ بھی اس کتاب کی ضبطی کے خلاف احتجاج کرنے میں پیچھے نہیں رہے.حتی کہ بعض مقتدر عیسائیوں نے بھی جن کی دل آزاری کی آڑ میں ضبطی کا حکم نافذ کیا گیا تھا حکومت کے اس اقدام کو بہت قابل افسوس گردانا اور بر ملا اس خیال کا اظہار کیا کہ ۶۶ سال پرانی کتاب کو جو مسلسل شائع ہوتی چلی آ رہی ہے اور مسیحی حکومت اسے پچاس سال تک فراخ دلی سے برداشت کرتی رہی ہے.اب آ کر ۱۹۶۳ء میں ضبط کرنا اپنے اندر کوئی جواز اور معقولیت نہیں رکھتا.ہم حیران ہیں کہ اس ہمہ گیر اور انتہائی طور پر درد مند احتجاج کے باوجود جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے حکومت کی طرف سے ابھی تک باضابطہ طور پر اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے.اس سلسلہ میں ہم یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی ناروا اقدام کے خلاف احتجاج وہیں کیا جاتا ہے جہاں یہ یقین ہو کہ حکام اصل حقائق اور ان کے اپنے اقدام کے اثرات و مضمرات سے پورے طور پر آگاہ ہو جانے پر ضرور انصاف اور داد رسی کریں گے.کیونکہ جسے دادرسی کا یقین ہی نہ ہو وہ کبھی اپنا دکھ درد بیان کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتا.یہ دردمند احتجاج خود حکومت پر اعتماد اور اپنائیت کے بے پناہ جذبے پر دلالت

Page 70

تاریخ احمدیت.جلد 22 55 سال 1963ء کرتا ہے.اپنائیت اور اعتماد کے اتنے گہرے اظہار کے باوجو د حکومت کا اتنا طویل عرصہ تک خاموشی اختیار کئے رکھنا در دو کرب اور قلبی اذیت میں اضافہ کا موجب ہے.اتنے ہمہ گیر اور اعتماد کے آئینہ دار احتجاج کی موجودگی میں جس میں جماعت احمدیہ کے افراد، بیرونی ممالک کے نو مسلم، غیر از جماعت دردمند مسلمان حتی کہ خود بعض عیسائی لیڈر بھی شامل ہیں حکومت کا یہ اولین فرض ہو جاتا ہے کہ وہ بلا تاخیر ضبطی کے حکم کو واپس لے کر اُس بے چینی کو دور کرے جو اس کے اس ناروا اقدام کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.ہم انصاف اور اسلام کے نام پر حکومت سے پُر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تائید وحمایت اسلام میں لکھی ہوئی کتاب کی ضبطی کے حکم کو واپس لینے کے فیصلہ کا جلد تر اعلان کرے.تا اس وقت جو بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور فیصلہ کے اعلان میں تاخیر کی وجہ سے جس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے.وہ دور ہو اور ایک ناروا اقدام کی جلد تر تلافی نہ صرف ملک کے اندر بلکہ دنیا بھر میں ملک کی نیک نامی کا موجب بنے.ہمیں یقین ہے کہ ہماری یہ دردمندانہ آواز صدا بصحر اثابت نہ ہوگی اور حکومت فی الفور ضبطی کے حکم کی واپسی کا اعلان کر کے لاکھوں مجروح دلوں پر تسکین کا چھایا ر کھے گی.اے کاش ہماری حکومت اس معاملہ میں تاخیر کی کرب انگیز اذیت کا خاتمہ کرے اور تائید وحمایت اسلام کے معاملہ میں خود اپنی در دمندی کا ثبوت دے اور بلا توقف فیصلہ کر کے زخمی دلوں پر مرہم کا 66 پھایا ر کھے.“ ایڈیٹر ہفت روزہ لاہور کا بیان مکرم ثاقب زیروی صاحب اس ضبطی کے حوالے سے ایک تاریخی واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:.جناب امیر محمد خان (نواب آف کالا باغ) بڑی خوبیوں کے مالک تھے.ان کے عہد میں ان کے ہوم سیکرٹری کی کوشش سے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی ایک مختصر سی کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ضبط کر لی گئی.ان دنوں نواب صاحب کی تقریریں لکھنے کی ڈیوٹی میری تھی.میں نے کتاب کی ضبطی سے متعلق خبر پڑھی تو خون کھول گیا کہ یہ کتاب عیسائیوں کے خلاف ہے انگریز نے ستر سال تک اسے برداشت کیا.پاکستان کی حکومت سے چند سال بھی یہ برداشت نہ ہو سکی حالانکہ اس ساری کتاب میں لفظ ”احمدیت تک نہیں ہے.انجمن حمایت اسلام‘ والوں نے ان چار

Page 71

تاریخ احمدیت.جلد 22 56 سال 1963ء سوالوں کا جواب حضرت بانی سلسلہ سے لکھوایا جو اجلاس میں سنوایا گیا.میں نے ایک ایڈیٹوریل لکھا: موہوم دل آزاری کی آڑ لے کر ہزار احتیاط کے باوجود اس اداریئے کے لب ولہجہ میں تلخی و تندی کا آجانا یقینی تھا.چیف سیکرٹری صاحب (جناب وہاب الدین عباسی) کے نوٹس میں لایا گیا تو انہوں نے مجھے نوٹس دیا کہ گیارہ دن کے اندر اندر آپ آ کر جواب دیں کہ آپ کا پرچہ کیوں نہ بند کر دیا جائے جس کی زبان استقدر تلخ ہے.“ گیارہ دنوں میں صرف ایک پر چہ نکل سکتا تھا میں نے تازہ شمارہ کیلئے ایک نظم کہہ کر سر ورق پر شائع کر دی اس کا مطلع تھا: تقدیس کی کو ضبط ارادت کی جلا ضبط اس شہر وفا میں ہوئی ہر رسمِ وفا ضبط اس ادارئیے اور نظم کی اشاعت کے بعد میں عباسی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو کوئی آدھ گھنٹے کی حیث بحث کے بعد آخر طے پایا کہ میں اُن سے تقریر لکھنے کی چٹ لے جاؤں اور تقریر لکھنے کے بعد کتاب کے بارے میں جو گزارشات کرنا چاہوں کر آؤں.اسی شام میں نے کوثر نیازی صاحب کو دفتر میں بلایا.جی بھر کر انہیں مرغوب مچھلی کھلائی اور کہا کہ تمہاری برداشت کی طاقت کس قدر کمزور ہے کہ جس کتاب کو انگریز نے ۷۰ سال تک برداشت کیا اسے تم چند سال بھی نہ کر سکے حالانکہ اس میں لفظ ”احمد بیت“ تک نہیں ہے جواب ملا ”میں لکھ نہیں سکتا، میں نے کہا پرسوں ایڈیٹرز کا نفرنس ہے اُس میں یہی ذکر کرو.کہنے لگے ” تم کیوں نہ کرو میں نے کہا میری چیف سیکرٹری صاحب سے ملاقات ہو چکی ہے اب میں اگر ذکر چھیڑروں گا تو وہ فوراً فرما دیں گے کہ آپ سے تو بات ہو چکی ہے.بہر حال میں نے ایڈیٹرز کا نفرنس میں اپنی نشست کا ایسا اہتمام کیا کہ اگر ایک طرف کوثر نیازی تھے تو دوسرے طرف آغا شورش کا شمیری اور خود دوسرے دن عباسی کی چٹ لے کر گورنر کے دربار میں جا پہنچا.نواب صاحب کا معمول تھا وہ دریافت کرتے : ”اوئے منڈیا کافی پیئیں گالستی کہ چائے.“ اس دن میری طبیعت بھی بھری ہوئی تھی انہوں نے معمول کے مطابق پوچھا مگر مجھ سے کوئی معقول جواب بن نہ پڑا جس پر نواب صاحب نے دریافت کیا : ” منڈیا توں کھر اوا کیوں ویخ ریا ایں

Page 72

تاریخ احمدیت.جلد 22 57 سال 1963ء جیہڑی گل کرنی اسے کھل کے کر.میں نے عرض کیا کہ: ”جناب ایہہ کتاب ضبط کر کے آپ نے اپنا ہی کچھ نقصان کیا ہے.کیا غلام غوث ہزاروی کی خواہش کی تکمیل کسی اور رنگ میں نہیں ہو سکتی تھی.“ فرمایا! ' غلام غوث ہزاروی کی مجھے کیا تکمیل خواہش منظور تھی اور کیوں؟“ عرض کیا : ”اس نے نواب مظفر خاں کے الیکشن میں انکی مدد کی تھی.“ تمہارا مطلب یہ ہے کہ غلام غوث ایسے مولویوں کی خاطر میں اپنے صوبے کا نظام درہم برہم کر لوں.ایسا ہر گز ممکن نہیں اب تو بتا کہ ہم نے اپنا کیا نقصان کیا ہے؟“ عرض کیا یہ ایک غریب جماعت ہے جس کا ہر فرد ہر نماز میں دعا مانگتا رہتا ہے اللہ حکومت وقت کو مضبوط 66 رکھنا.وہ دعا تو اب بھی مانگتا رہے گا کہ اس کے امام کا حکم ہے لیکن وہ پہلی سی بشاشت اس میں نہیں ہوگی.“ ”آپ نے شاید کتاب دیکھی نہیں یہ دیکھیں اس میں تو لفظ ” احمدیت تک نہیں ہے.کہنے لگے.یہ کتاب تو ضبط ہو چکی ہے.“ عرض کیا : گورنمنٹ ہاؤس میں تو کچھ ضبط نہیں ہوتا.“ اب تقریر کی ریہرسل بھی ہو چکی تھی میں نے کھڑے ہو کر کچھ عرض کرنا چاہا تو بولے.تو بھی نراشا عر ہی ہے.عباسی صاحب سے کہہ کتاب واگزار کر دیں.“ عرض کیا: ” پرسوں عباسی صاحب نے فرمایا تھا کہ نواب صاحب کی خدمت میں عرض کرنا.“ فرمایا: ”عباسی صاحب سے کہو نواب صاحب نے کہا ہے کہ کتاب واگزار کر دو.“ اگلی صبح ایڈیٹرز کا نفرنس تھی محفل جمتے ہی کوثر نیازی نے اتنا ہی کہا تھا کہ جناب مرزا غلام احمد کی کتاب" آراے پی پی کے احمد بشیر صاحب نے مصرع اٹھا لیا اور کہا: ” ہمارے تو احتجاجی خطوط سے میز بھرے پڑے ہیں.“ اس پر مجید نظامی صاحب نے بھی یہی فقرہ دہرایا اس پر عباسی صاحب نے محمد علی شاہ ہوم سیکرٹری کو بلوایا اور ان سے کہا کہ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب نامی کتاب کی واگزاری کا نوٹیفیکیشن کر دیں.66 101

Page 73

تاریخ احمدیت.جلد 22 58 سال 1963ء حکومت مغربی پاکستان کا مبارک اور دانشمندانہ فیصلہ اور اس کا شکریہ اس قدر ملکی اور غیر ملکی احتجاج کو دیکھ کر آخر کار گورنمنٹ کو پسپا ہونا پڑا.چنانچہ حکومت مغربی پاکستان نے ۳۰ مئی ۱۹۶۳ء کو ضبطی کا حکم واپس لے لیا اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی انقلاب انگیز کتاب کی اشاعت بحال کر دی.جس سے جماعت احمد یہ اور دنیا بھر کے اسلامی حلقوں کو انتہائی خوشی ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس فیصلہ کو حق و انصاف کی فتح سے تعبیر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے تقریر و تحریر کے ذریعہ اسلام کی جو عدیم المثال خدمات سرانجام دی ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں اور دوست اور دشمن اپنے اور بیگانے اُن کا لو ہامان چھکے اور آپ کو اسلام کا ایک فتح نصیب جرنیل قرار دے چکے ہیں.پس یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات تھی کہ وقت کی مسلمان حکومت نے جلد بازی اور کوتاہ اندیشی سے آپ کی ایک ایسی کتاب کو ضبط کرنے کا فیصلہ کیا جو اسلام کی تائید اور ایک نادان مسیحی کے اعتراضوں کے جواب میں پینسٹھ سال پہلے لکھی گئی تھی اور جسے خود اُس وقت کی عیسائی حکومت اپنے پچاس سالہ دور میں وسعت قلب کے ساتھ برداشت کرتی چلی آئی تھی.بہر حال اگر صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آ جائے تو اُسے بھولا ہوا نہیں سمجھنا چاہیئے اور ہم حکومت کے شکر گذار ہیں کہ اُس نے اپنے اس ناواجب اور غیر منصفانہ فیصلے کو جلدی منسوخ کر کے ہمارے زخمی دلوں پر مرہم کا پھا یہ رکھا ہے.دعا ہے کہ خدا اُسے آئندہ ایسی غلطی سے محفوظ رکھے آمین.دراصل اگر حکومت غور کرے تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا وجود حکومت کے لئے ایک مقدس تعویذ ہے.کاش وہ سمجھے !!! (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے ایک بیان میں حمد باری تعالیٰ کے بعد حکومت کا شکریہ ادا کیا.جس نے دنیا کے جھوٹے وقار کی پروانہ کرتے ہوئے اعلیٰ انسانی اقدار اور اسلام دوستی پر اپنی دنیاوی پر سٹیج (prestige) کو خوشی سے قربان کر کے صحیح اسلامی روح کا مظاہرہ کیا.نیز خدا تعالیٰ کے حضور اپنے عملی شکریہ کا ایک طریق یہ بیان فرمایا کہ.”ہم ہر عیسائی تک سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب پہنچا ئیں اور انہیں عیسائیت کی روح جھلنے والی تپش سے نکل کر اسلام کے ٹھنڈے سایہ تلے آنے کی دعوت دیں تا وہ دل جو اسلام

Page 74

تاریخ احمدیت.جلد 22 59 سال 1963ء پر غلط نکتہ چینی کی طرف مائل ہیں انہیں دلوں سے اسلام کی صداقت کے چشمے پھوٹ نکلیں اور اُن کی زبانیں بے اختیار ہو کر لا اله الا الله محمد رسول اللہ کا ورد کرنے لگیں.کتاب کی وسیع اشاعت 104 حکومت مغربی پاکستان کے دانشمندانہ فیصلہ پر احمدیوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا یہ عید مسرت تھی جس میں اُن کا جوش و خروش اور رد عمل بہت ایمان افروز اور قابل دید تھا.پہلے تو اخبار الفضل کی تین اقساط (۸،۶،۵ جون ۱۹۶۳ء) میں اس مقدس دستاویز کا مکمل اردو متن چھاپ دیا گیا اس کے بعد صدر انجمن احمد یہ پاکستان اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے کتابی صورت میں اس کی نہایت وسیع پیمانے پر اشاعت کی اور اسے پورے ملک میں پہنچا دیا.اس کے علاوہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی ہدایت پر مولانا غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ نے پانچ ہزار کی تعداد میں اس کا سندھی ایڈیشن اور بابو شمس الدین خاں امیر صاحب جماعت احمد یہ سرحد نے اس کا پشتو ایڈیشن شائع فرمایا.علاوہ ازیں جناب ملک مبارک احمد صاحب استاذ جامعہ احمدیہ مدیر البشری نے اسے فصیح و بلیغ عربی میں منتقل کیا.جو انہی کے زیر انتظام رسالہ ”البشری میں چھپا اور عرب دنیا کو بھجوایا گیا.(سندھی ایڈیشن کی اشاعت میں مندرجہ ذیل احباب نے بھی حصہ لیا.حضرت صوفی محمد رفیع صاحب امیر جماعت احمد یہ خیر پور ڈویژن، حاجی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع نواب شاہ، ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد ڈویژن ، چوہدری عزیز احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع حیدر آباد، ماسٹر رحمت اللہ صاحب صدر حیدر آباد شہر ) نظارت اصلاح و ارشاد کی طرف سے ۶ / اکتوبر ۱۹۶۳ء کو کتاب کے امتحان کی تاریخ مقرر کی گئی.10 اور اعلان کیا گیا کہ اوّل ، دوم، سوم آنے والوں کو انعام دیا جائے گا.چنانچہ حسب پروگرام ۶ نومبر ۱۹۶۳ء کو ملک گیر بنیادوں پر امتحان ہوا جس میں مغربی پاکستان کے ۲۰۱۷ ر احمدی احباب اور ۵۵۲ خواتین نے شرکت فرمائی ( مردوں میں سے کامیاب ۱۴۶۱ راور خواتین میں سے ۴۳۲).اس خصوصی امتحان میں مولوی عبدالمجید صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی ۱۰۰ / ۹۸ نمبر لے کر اوّل آئے.دوم پوزیشن کے حقدار مشترکہ طور پر کراچی کے جناب آفتاب احمد صاحب بسمل اور کوئٹہ کے مکرم عمر در لیں صاحب قرار پائے جنہوں نے ۹۵/۱۰۰ نمبر حاصل کئے اور سوم کوئٹہ کے مکرم محمد احمد صاحب مولوی فاضل رہے.مولانا جلال الدین صاحب شمس خالد 106 108

Page 75

تاریخ احمدیت.جلد 22 60 سال 1963ء احمدیت نے جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۳ء کے دوسرے اجلاس میں ان سب امتیاز حاصل کرنے والے احباب میں بالترتیب انعامات تقسیم فرمائے جو اہم دینی کتب پر مشتمل تھے.امتحان میں مندرجہ ذیل چار خواتین کو امتیازی پوزیشن حاصل ہوئی جنہیں زنانہ سٹیج سے انعامات دیئے گئے.اول: قانتہ شاہدہ صاحبہ جامعہ نصرت ربوه ۸۴/۱۰۰- دوم: سیدہ تنویر صاحبہ ڈیرہ غازی خان ۸۲/۱۰۰.سوم نمبر : مریم حنا صاحبہ نصرت گرلز ہائی سکول ربوه ۸۱/۱۰۰.نمبر۲: مودوده طلعت صاحبه حیدر آبادسندھ ۸۱/۱۰۰-O افریقہ میں اسلام کی شاندار پیش قدمی مجاہدین احمدیت افریقہ میں عیسائیت کا جس مومنانہ عزم ، اور جوانمردی اور روحانی واخلاقی قوت سے مقابلہ کر رہے تھے.اس کا نتیجہ بالآخر یہ ہوا کہ عیسائیت کی بڑھتی ہوئی یلغار رک گئی اور اسلام نے پورے بر اعظم میں نہ صرف اپنے پاؤں مضبوطی سے جما لئے بلکہ پیش قدمی کرنا شروع کر دی.چنانچہ اس سال کے ابتداء میں بھی امریکن بائبل سوسائٹی کو اعتراف کرنا پڑا کہ افریقہ کے بہت سے علاقوں میں عیسائی مشنری جس رفتار سے افریقنوں کو عیسائی بناتے ہیں مسلم مشنری اس سے دگنی تعداد میں انہیں حلقہ بگوش اسلام بنا لیتے ہیں.سوسائٹی کے ۱۴۷ ویں سالانہ اجلاس سے معاقبل ایک رپورٹ شائع کی گئی.جس میں کہا گیا کہ جنوب کی طرف اسلام کی کامیاب یلغار افریقہ میں سوسائٹی (امریکن بائیبل سوسائٹی) کے کام کو اور زیادہ مشکل بنا رہی ہے بہت سے علاقوں میں کم سے کم اندازے کے مطابق مسلم مشنری افریقہ کے مشرکوں کو اس رفتار سے اسلام کا حلقہ بگوش بنا رہے ہیں کہ ہر اُس ایک مشرک کے بالمقابل جسے عیسائیت اپنی طرف کھینچتی ہے وہ دو مشرکوں کو اسلام کی آغوش میں کھینچ لیتے ہیں.اسی طرح گرا ہمز ٹاؤن کے ایک ٹیچر مسٹراے کے گراہم نے بیان دیا کہ عنقریب اشاعت اسلام کی رفتار اور بھی زیادہ تیز ہو جائے گی نیز بتایا کہ بہت سے مبصرین کی رائے یہ ہے کہ اگر عیسائیت نے خطرہ کا پورے طور پر احساس نہ کیا تو اسلام بآسانی سارے افریقہ کا مذہب بن جائے گا.انہوں نے کہا کہ بیسویں صدی کا سب سے اہم اور تعجب خیز امروہ مخصوص اسلام ہے جو حیات نو سے ہمکنار ہونے 111

Page 76

تاریخ احمدیت.جلد 22 61 سال 1963ء کے علاوہ اپنی ذات میں جارحانہ نوعیت کا حامل ہے اور یہی وہ اسلام ہے جو بیداری سے ہمکنار ہونے والے افریقہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا جارہا ہے.چند ماہ بعد مشہور عالم ادارہ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری ریورنڈ ہے.ٹی.واٹسن (Rev.J.T.Watson) نے افریقہ کا دورہ کرنے کے بعد کیپ ٹاؤن میں بیان دیا کہ بلاشبہ اسلام نہایت سرعت سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے.یہ بیان افریقہ کے قریباً تمام اخباروں میں شائع ہوا.چنانچہ فری ٹاؤن کے اخبار ڈیلی میل (Daily Mail) نے ۸ نومبر ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں لکھا:.کیپ ٹاؤن، ۷ رنومبر بروز جمعرات ) برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری ریورنڈ جے ٹی واٹسن نے آج کیپ ٹاؤن میں اس خیال کا اظہار کیا کہ یہ بات عین ممکن ہے کہ قریب مستقبل میں اسلام افریقہ کے ایک عوامی مذہب کی حیثیت سے عیسائیت کو شکست دے کر اس کی جگہ لے لے.انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا کی آبادی دس لاکھ نفوس فی ہفتہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے لیکن چرچ دنیا کی روحوں کو جیتنے اور انہیں عیسائیت کا گرویدہ بنانے کی جد و جہد میں نا کام ہوتا جارہا ہے.مسٹر واٹسن دوروز کے لئے کیپ ٹاؤن آئے ہوئے ہیں.آپ افریقہ میں بائبل سوسائٹیوں کے سیکرٹری کی دس روزہ کانفرنس میں شرکت کے بعد جو کینیا کے مقام لیمور میں منعقد ہوئی تھی انگلستان واپس جاتے ہوئے کیپ ٹاؤن تشریف لائے ہیں.انہوں نے کہا کہ مجھے افریقہ میں زیادہ عرصہ ٹھہرنے کا موقع نہیں ملا ہے اس لئے میں افریقہ کے نئے آزاد ملکوں میں غیر ملکی پادریوں اور اُن کی کلیسیائی تنظیم کے خلاف مخالفانہ جذبہ سے پورے طور پر آگاہ نہیں ہوں تا ہم موجودہ صورتِ حال فوری توجہ کی محتاج ضرور ہے.ہمیں چاہیئے کہ ہم مقامی پادریوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیں اور اگر ہمارا وہاں سے چلا آنا ہی بہتر ہو تو چلے آئیں.انہوں نے مزید کہا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام افریقہ میں برابر ترقی کر رہا ہے.اگر ایک شخص عیسائیت قبول کرتا ہے تو اسلام اس کے مقابلہ میں دو افراد کو اپنا حلقہ بگوش بنالیتا ہے.ابھی موقع ہے کہ ہم اپنے آپ کو سنبھال لیں.ہمیں اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیئے لیکن اس امر کا قوی امکان موجود ہے کہ ہم اس موقع کو گنوا دیں گے.نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام عیسائیت سے بازی لے جائے گا.113

Page 77

تاریخ احمدیت.جلد 22 62 سال 1963ء خدام الاحمدیہ کی تربیتی کلاس کیلئے اہم پیغام اس سال خدام کی دسویں مرکزی تربیتی کلاس ۱۹ار اپریل سے ۳ رمئی ۱۹۶۳ء تک جاری رہی.کلاس کے پہلے روز مغربی پاکستان کی ۲۳ مجالس کے ۱۲ اخدام شریک ہوئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس موقع پر مندرجہ ذیل روح پرور پیغام مرحمت فرمایا :." مجھے معلوم ہوا ہے کہ خدام الاحمدیہ کے شعبہ تعلیم کی طرف سے سالانہ تربیتی کلاس عنقریب شروع ہو رہی ہے.سو میرا احمدی نوجوانوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ دین کا علم سیکھیں اور پھر اس علم کو دلیری مگر حکمت اور موعظہ حسنہ کے رنگ میں اپنے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسایوں تک پہنچائیں.دین کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ دین کی اصل غرض مومنوں میں نیکی اور قوت عمل پیدا کرنا ہے.پس خدام الاحمدیہ کو چاہیئے کہ اپنے اندر قوت عمل پیدا کریں اور ایمان کے معاملہ میں ایسی جرات دکھائیں کہ کوئی چیز اُن کے مقابلہ پر نہ ٹھہر سکے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ حکم دیا ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی کوئی منکر بات دیکھو جو دین یا اخلاق یا محبت الہی یا اکرام رسول یا آداب بزرگان کے خلاف ہوتو بڑی جرات کے ساتھ اُس کا مقابلہ کرو.بے شک آپ لوگوں کو لڑنے بھڑنے سے روکا گیا ہے مگر لڑنا بھڑنا اور چیز ہے لیکن جرات کے ساتھ بدی کا مقابلہ کرنا اور نیکی کو پھیلانا بالکل اور چیز ہے اور یہ بات صاف ایمان کے ذریعہ پیدا ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد - ۱۷ سراپریل ۱۹۶۳ء پاکستانی احمدیوں کی طرف سے مالی قربانی کا عظیم الشان مظاہرہ 114 سید نا حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ء کے موقع پر اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ صدر انجمن احمدیہ کا چندہ اور تحریک جدید کا چندہ پچیس پچیس لاکھ تک پہنچ جانا چاہیئے.اس سے قبل یعنی ۵۵-۱۹۵۴ء میں صدر انجمن احمدیہ کے لازمی چندوں کی وصولی نو لاکھ کے اندر تھی لیکن اس کے بعد جماعت پاکستان نے والہانہ انداز میں جدو جہد شروع کر دی اور غیر معمولی اضافہ شروع ہو گیا.

Page 78

تاریخ احمدیت.جلد 22 63 سال 1963ء یہاں تک کہ ۳۰ را پریل ۱۹۶۳ ء تک صدر انجمن احمدیہ کی وصولی سترہ لاکھ تک پہنچ گئی جو اس سے پہلے سال کی نسبت دو لاکھ روپے سے بھی زیادہ رقم کی ایزادی تھی.اس طرح وہی منزل جو چند سال قبل بہت دور اور بظاہر ناممکن الحصول نظر آتی تھی خدا کے فضل کے ساتھ حقیقت نظر آنے لگی.حضرت مصلح موعود نے ایک بار فرمایا تھا کہ:.’خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ سلوک ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے فضل سے میری رہنمائی فرماتا ہے بعض دفعہ الفاظ میں وہ مجھ پر وحی نازل کر دیتا ہے اور بعض دفعہ میرے قلب پر وہ اپنا فیصلہ نازل کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک میرے ساتھ اتنی کثرت اور تواتر سے ہوتا ہے کہ میں خود حیران رہ جاتا ہوں کہ میری زبان سے کیا نکل رہا ہے مگر ابھی چند دن نہیں گذرتے کہ جو کچھ میری زبان پر جاری ہوا ہوتا ہے.وہ واقعات کی صورت میں دنیا میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے.قادر خدا کی آسمانی نصرتوں کا یہ ایمان افروز نشان اس تحریک میں بھی ظاہر ہوا.میاں عبدالحق صاحب رامہ ( ناظر بیت المال) نے پاکستانی احمدیوں کے اخلاص اور غیر معمولی ایثار و قربانی کے اس عظیم الشان مظاہرہ پر ایک خصوصی نوٹ سپر د قلم کیا جس میں بتایا کہ:.ر قم کے لحاظ سے جماعت لاہور کا اضافہ سب سے زیادہ یعنی سوا لاکھ روپے کے قریب ہے.اس کے بعد جماعت احمدیہ کراچی کا نمبر آتا ہے جس کا اضافہ ایک لاکھ سے کچھ اوپر ہے.ترقی کی رفتار کے لحاظ سے زیادہ بڑی جماعتوں میں سے مرکز ربوہ سب سے آگے ہے.اس جماعت کی چندہ عام و حصہ آمد و چنده جلسہ سالانہ کی حالیہ وصولی ۵۳-۱۹۵۴ء کی وصولی کے مقابلہ میں ساڑھے تین گنا سے بھی اوپر ہے.اس وصولی میں انجمن اور تحریک جدید وغیرہ کے کارکنوں کا چندہ بھی شامل نہیں اس لحاظ سے یہ ایزادی نہایت ہی قابل قدر ہے.اس سے کم بڑی جماعتوں میں سے حیدر آباد اول نمبر پر ہے جس کی وصولی چھ گنا کے قریب بڑھ گئی ہے.درمیانہ جماعتوں میں سے وزیر آباد پیش پیش ہے.کیونکہ اس جماعت کی وصولی ساڑھے چار گنا سے بھی بڑھ چکی ہے.زمیندارہ جماعتوں میں سے چک نمبر ۹ پنیار ضلع سرگودھا نے نہایت ہی اعلیٰ مثال قائم کی ہے.اس جماعت کی وصولی دس گنا سے بھی اوپر نکل گئی ہے.بہت سی جماعتوں نے ترقی کا شاندار معیار قائم کیا ہے.116 766

Page 79

تاریخ احمدیت.جلد 22 64 سال 1963ء ایک غیر متعصب ادیب جناب شوکت تھانوی صاحب کی وفات برصغیر پاک و ہند کے نامور اور صاحب طرز ادیب اور مزاح نگار، جناب محمد عمر شوکت تھانوی جن کے سیدنا حضرت مصلح موعود اور سلسلہ کے کئی بزرگوں سے نہایت گہرے روابط و مراسم تھے،اس سال ۴ مئی ۱۹۶۳ء کو لاہور میں وفات پاگئے.(ولادت ۱۹۰۴ء ) متحدہ ہندوستان میں اخبار ”ہمدم اودھ ، اخبار ” سرپیچ “ اور ”حق“ میں کام کیا.تقسیم ملک کے بعد دس سال ریڈیو پاکستان لا ہور.وابستہ رہے.پھر روزنامہ جنگ کے عملہ ادارت سے منسلک ہو گئے.آپ کی شہرت و مقبولیت کا سنگ بنیاد آپ کا مشہور مزاحیہ افسانہ ”سودیشی ریل“ ہے جو ۱۹۳۰ء میں رسالہ نیرنگ خیال لاہور کے سالنامہ چھپا.برصغیر کے مختلف اردو، ہندی، بنگالی اور مرہٹی اخبارات جن میں یہ افسانہ نقل ہوا یا ترجمہ کر کے چھاپا گیا.اُن کی تعداد چھپن تھی اس کے علاوہ انگلستان کے اخبار گلوب (Globe) نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا.سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفہ ثانی نے اپنے ایک خطبہ میں بھی اس افسانہ کا خاص طور پر ذکر فرمایا.صدر پاکستان محمد ایوب خاں نے آپ کی ادبی اور صحافتی خدمات پر تمغہ امتیاز دیا نیز آپ کی وفات پر خراج تحسین ادا کرتے ہوئے فرمایا ” ملک کی چوٹی کی ادبی شخصیت تھی اور اردو نظم ونثر میں اُن کا حصہ منفرد ہے.مولانا صلاح الدین صاحب مدیر ادبی دنیا‘ نے کہا.” مرحوم کا شمار اردو کے چوٹی کے مزاح نگاروں میں ہوتا ہے.117 جناب شوکت تھانوی صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح حیات مابدولت“ کے نام سے لکھی.جس میں نہایت دلچسپ انداز میں اپنے سفر قادیان، حضرت مصلح موعود کی ملاقات اور جماعت احمدیہ کے جلسہ ہائے سیرت النبی میں شرکت اور بزرگان سلسلہ سے خصوصی تعلق کے اہم واقعات سپر د قلم فرمائے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.(۱) پنجاب کا پہلا سفر و کسی کو کلکتہ اور بمبئی دیکھنے کا شوق ہوتا ہے.کسی کو کشمیر جنت نظیر کی زیارت کی تمنا مگر ہم کو نہ معلوم کیوں ہمیشہ سے لاہور دیکھنے کی تمنا تھی.بچپن ہی سے لاہور میں ہمارے لئے خدا جانے کیا کشش تھی کہ ہمیشہ لا ہور جانے کو دل چاہا مگر یہ آرزو بھی پوری نہ ہو سکی مگر جب اس تمنا کے بر آنے کا وقت آیا تو اچانک پوری بھی اس طرح ہوگئی کہ گمان تک نہ ہوسکتا تھا.ایک دن ڈاکٹر محم عمر صاحب نے

Page 80

تاریخ احمدیت.جلد 22 65 سال 1963ء فرمایا چلتے ہو پنجاب.دل نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ.وہ لاہور سے بھاوج صاحبہ مسز عمر کو لینے جا رہے تھے اور ارادہ تھا کہ راستہ میں قادیان میں ٹھہریں گے.چنانچہ ہم ان کے ہمرکاب ہو گئے.امرتسر پہنچ کر ہم لوگ قادیان کی طرف مڑ گئے.قادیان پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ڈلہوزی تشریف لے گئے ہیں پھر بھی تمام دن قادیان میں گذرا.قادیان کے مختلف شعبے سرسری طور پر دیکھے.بہشتی مقبرہ دیکھا.اخبار الفضل کے دفتر گئے.قاضی اکمل صاحب سے ملے اور سہ پہر کو یہ سن کر کہ آج ہی حضرت صاحب ڈلہوزی سے شملہ جاتے ہوئے امرتسر سے گذریں گے ہم لوگ واپس امرتسر آگئے اور امرتسر میں حضرت صاحب سے ملاقات ہو گئی.خیال تھا کہ ہم کو دیکھتے ہی احمدیت کی تبلیغ شروع کر دیں گے ہم کو بیعت کی دعوت دی جائے گی اور ہم جب انکار کریں گے تو ڈاکٹر صاحب کو ہدایت دی جائے گی کہ ان کو جماعت کا لٹریچر پڑھنے کو دیا جائے مگر نہ وہاں احمدیت کا کوئی ذکر تھا.نہ بیعت کا کوئی سوال نہ کوئی اور ایسی بات جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ ہم کو غیر احمدی سمجھا جارہا ہے اور احمدی بنانے کی تحریک ہو رہی ہے بلکہ بجائے اس کے حضرت صاحب نے کچھ ادبی اور کچھ شاعرانہ گفتگو چھیڑ دی تا کہ ہم کو کچھ دلچسپی ہو سکے سب نے مل کر ریفریشمنٹ روم میں ہندوستانی کھانا کھایا اور اس کے بعد حضرت صاحب شملہ کی طرف روانہ ہو گئے.اس پہلی ملاقات میں ان کی گفتگو کا رُخ زیادہ تر سیاسیات کی طرف تھا اور ہم صرف یہ اندازہ کر سکے کہ ان کی مذہبی حیثیت تو در کنار ان کی سیاسی حیثیت بھی نہایت بلند ہونا چاہیئے جو عمیق نظر ان کی سیاست کی باریکیوں پر پڑ رہی تھی.وہ صرف ایک مشاق ماہر سیاست کی ہو سکتی تھی.ادبی معاملات میں جو گفتگو آپ نے فرمائی وہ خالص ادبی رنگ لئے ہوئے تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ ایک منجھا ہوا ادیب یہ باتیں کر رہا ہے ان تمام باتوں کے علاوہ نگاہیں نیچی، لبوں پر تقسیم اور آواز میں ایک دلکشی غالباً ان ہی باتوں کو غیر احمدی قادیانیوں کی جادوگری 119 کہتے ہوں گے.10 (۲) گہرستان ” میری نظموں اور غزلوں کا مجموعہ گہرستان کے نام سے عرصہ سے زیر تر تیب تھا اور میں اس کو خود چھاپنا چاہتا تھا.برادر محترم مولوی محمد عثمان صاحب احمدی نے اس کی طباعت کے لئے تمام انتظامات اس طرح کر دیئے تھے کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے چنانچہ ہم کو کچھ صرف کرنا بھی نہیں پڑا اور کتاب بھی خود ہم نے چھاپ لی...

Page 81

تاریخ احمدیت.جلد 22 66 سال 1963ء گہرستان کی ایک جلد برادر محترم مولوی محمد عثمان صاحب احمدی نے آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان کو بھی بھیج دی تھی.چوہدری صاحب نے اس کتاب کو گول میز کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کے لئے جاتے ہوئے اپنے ساتھ رکھ لیا اور اس پر عجیب حالات میں تبصرہ لکھ کر بھیجا جو رسالہ نیرنگ خیال لاہور میں چھپ چکا ہے یوں تو گہرستان پر علامہ سر محمد اقبال، سر شاہ محمد سلیمان چیف جسٹس اللہ آباد ہائی کورٹ ، سر محمد مزمل اللہ خان، سرسید لیاقت علی وغیرہ بہت سے بزرگوں نے تبصرہ کیا تھا مگر سرمحمد ظفر اللہ کا یہ تبصرہ رسمی اور فرمائشی قسم کا نہ تھا.سر ظفر اللہ نے فرمایا کہ یہ کتاب ایک سوٹ کیس میں رکھی ہوئی تھی اور وہ سوٹ کیس اسی سفر میں ایک جگہ سمندر میں جاگرا.بمشکل تمام اس کو نکالا گیا اور گہرستان کو پھر میں احتیاط کے ساتھ اپنے ہمراہ لے گیا.اسی تبصرہ میں ایک جگہ سر ظفر اللہ نے ایک عجیب بات فرمائی ہے.میں تو شوکت صاحب کی دلی کیفیات کا اندازہ کر کے خوش ہو رہا ہوں اور لطف اندوز بھی اور ساتھ ہی ساتھ مجھے یقین بھی ہے کہ شوکت صاحب کو یہ احساس ہوگا کہ میں ان کے تخیل کی پرواز اور فکر کی گہرائیوں سے بالکل بے بہرہ ہوں.صاحب کلام ایک کیفیت کا اظہار ایک خاص ترکیب الفاظ سے کرنا چاہتا ہے.پڑھنے والے اور سننے والے اپنے اپنے ذوق اور ظرف کے مطابق اس سے استفادہ کرتے ہیں.اگر شوکت صاحب کے فکر و تخیل کا مالک ہوتا تو میں بھی اپنی کیفیات قلبی کو مزین الفاظ اور مرصع ترکیبوں میں ادا کر سکتا.اس اقتباس کے بعد ایک لطیفہ پیش کیا جاتا ہے کہ بریلی کے ایک رئیس اکثر اس خاکسار سے کلام سنانے کی فرمائش کیا کرتے تھے اور اس خاکسار کا دم نکل جایا کرتا تھا اس فرمائش پر ، اس لئے کہ پھر شروع ہو جاتے تھے ان کے وہ تبصرے جن کا ہمارے بیچارے شعر سے دُور کا تعلق بھی نہ ہوتا تھا.کہنے لگے میاں ٹھہر و دوسرا مصرعہ ابھی نہ پڑھنا.پتہ بھی ہے تم کو کیا کہ دیا ہے تم نے یہ کہا ہے یہ کہا ہے اور یہ کہا ہے یعنی جو ہم نے نہیں کہا تھا وہ سب یہ بزرگ فرما جاتے تھے اور آخر میں کہتے تھے کہ اب تم ہی بتاؤ کہ اس کے بعد دوسرے مصرعے کی کیا ضرورت رہ سکتی ہے پہلا ہی مصرعہ مکمل شعر ہے اور دوسرا مصرعہ محض بھرتی کا ہوگا.جب دوسرا مصرعہ سنایا تو ہاتھ کے اشارے سے روک دیا آنکھیں بند کر کے کچھ غور فرمایا.اور ایک دم چونک کر بولے نہیں صاحب دوسرے مصرعے نے حالات ہی بدل دیئے.اب اس شعر کا مفہوم یہ ہوا.یہ ہوا اور یہ ہوا.یعنی جو کچھ نہیں ہوا تھا وہ بیان فرما گئے.سر محمد ظفر اللہ خان نے اس

Page 82

تاریخ احمدیت.جلد 22 67 سال 1963ء تبصرے میں کسی ایک موقع پر بھی ہمارے کسی شعر کو کسی ایسے رنگ میں پیش نہیں کیا ہے جو ہمارے مفہوم سے علیحدہ ہومگر بات یہ بالکل سچی کہی ہے کہ شاعر کچھ کہتا ہے اور سمجھنے والے اس کو اپنے اپنے رنگ میں سمجھا کرتے ہیں.ہماری ایک ممانی صاحبہ ہیں آپ پڑھی لکھی تو خیر نہیں ہیں مگر خن شناس بہت ہیں.ہمارے شعر سننے کا بڑا شوق ہے اور ہر شعر سن کر یہی ایک بات ہمیشہ کہی کہ چاہے اس شعر کو ادھر لے جاؤ چاہے اُدھر لے جاؤ.مطلب ہوتا ہے ادھر اُدھر کا حقیقت اور مجاز مگر یہ باتیں تو وہ جانتی نہیں البتہ ادھر ادھر کی مختلف شرحیں دیکھ کر کر لیجئے.کاش غالب خود زندہ ہوتے اور اپنا مفہوم خود بھی بیان کر سکتے.“ طوفان تبسم اپنی بکڈپو قائم کرنے کا مستقل خیال تھا.اب تک ہماری تین کتابیں نکل چکی تھیں موج تبسم اور بحر قسم نسیم انہونوی صاحب نے چھاپی تھیں.سیلاب تبسم صدیق بکڈ پو نے لہذا چوتھا مجموعہ طوفان تبسم اور گہرستان ہم نے خود چھاپے طوفان قسم کے لئے بھی برادر محترم مولوی محمد عثمان صاحب احمدی نے سرمایہ کا انتظام ایک ایسے بزرگ کے یہاں سے کرادیا.جن کی پہلی شرط یہی تھی کہ اس کے نام کو اچھالا نہ جائے مولوی محمد عثمان صاحب احمدی نے ہماری تعمیری زندگی میں بہت کچھ ہاتھ بٹانا چاہا اور بہت کوشش کی کہ ہم کسی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں مگر وہ بیچارے کیا کرتے.مری تعمیر میں مضمر تھی اک صورت خرابی کی.ع 120 ۳.پنجاب کا دوسرا سفر روز نامہ ”حق“ کی ملازمت ہی کے درمیان ہم کو پھر قادیان جانا پڑا.لکھنو میں احمدیت کے خلاف جو پرو پیگنڈا ہو رہا تھا.اسی سلسلہ میں مولوی محمد عثمان صاحب احمدی نے ”حقیقت کے ایڈیٹر انیس احمد صاحب عباسی کو اور اس خاکسار کو دعوت دی کہ آپ لوگ قادیان چل کر وہاں کے حالات کا خود مطالعہ کریں اور اپنے اس مطالعہ کی روشنی میں اگر مناسب سمجھیں تو کچھ لکھیں.انیس احمد صاحب عباسی نے اور ہم نے علیحدہ مشورہ کیا اور آخر اس دعوت کو منظور کر لیا....اس مرتبہ قادیان پہنچ کر ہم لوگوں نے نہایت تفصیل کے ساتھ ہر شعبہ کو تنقیدی نظر سے دیکھا.خود حضرت صاحب سے ملے اور دعوت بھی ان کے ساتھ کھائی.ہمارے اعزاز میں ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا.اسکول کو دیکھا اور حضرت صاحب کی مکمل سیکرٹریٹ کی سیر کی.جہاں ہر ایک شعبہ کا ایک علیحدہ ناظم تھا اور جتنے ناظم تھے وہ سب نہایت ایثار کے ساتھ اپنی اعلیٰ قابلیتوں کے باوجود

Page 83

تاریخ احمدیت.جلد 22 68 سال 1963ء نہایت قلیل معاوضہ پر کام کر رہے تھے.برادر محترم مولوی محمد عثمان صاحب نے ہم دونوں کی تواضع اور 121 66 آرام کا ہر ممکن انتظام ہر جگہ کیا اور آخر ہم سب ایک رائے قائم کر کے وہاں سے واپس ہوئے.۴.جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جماعت احمدیہ کی طرف سے ہر سال جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوا کرتا تھا اور ہر جلسہ میں ہم ایک نظم پڑھا کرتے تھے.مسلسل چار سال تک ہم نے جلسہ میں نظمیں پڑھی تھیں اور اب تک اس جلسہ کے سلسلہ میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہ تھا.چنانچہ جس جلسہ کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس کے لئے صدر ہم کو منتخب کیا گیا تھا اور لکھنو میں اس جلسہ کے خلاف یہ پرو پیگنڈا ہورہا تھا کہ یہ قادیانی جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پردے میں دراصل اپنی تبلیغ کرتے ہیں اور ان کی چالا کیوں کو مسلمان سمجھتے نہیں بلکہ اس دھو کے میں چلے جاتے ہیں کہ یہ جلسہ سیرۃ ہے.مگر ہم پر اس پروپیگنڈے کا کوئی اثر نہ تھا ہمارے پاس بھی لوگ آئے اور ہم کو منع کیا.مگر ہم اپنی رائے پر قائم رہے کہ یہ ذکر رسول ہے اور ذکرِ رسول خواہ کسی جماعت کی طرف سے بھی ہو ہر مسلمان کے لئے باعث کشش ہونا چاہئے.سمجھ میں نہ آیا کہ آخر اب اختلاف کی کیا وجہ پیدا ہوگئی.اب سے پہلے ہر سال بڑے بڑے غیر احمدی علماء نے اس جلسہ میں شرکت کی تھی.غیر مسلم مقرراس میں حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر اپنے خیالات پیش کرتے تھے.شیعہ اور سنی علماء ہر مرتبہ شریک رہے تھے.مگر اب اس جلسہ کو یکا یک احمدی حضرات کا ایک داؤں سمجھ لیا گیا تھا.بہر صورت ہم نے کسی کی ایک نہ سنی اور جلسہ کی صدارت کرنے مقررہ وقت پر گنگا پر شاد میموریل ہال پہنچ گئے.اس وقت بھی ہال کے دروازہ پر ایک قسم کی پکٹنگ ہو رہی تھی.لوگوں کو جلسہ کی شرکت سے روکا جار ہا تھا مگر اس کے باوجود جلسہ میں حاضرین کی تعداد کافی تھی.ہم نے ایک مختصر سے خطبہ صدارت کے بعد جلسہ کی کارروائی شروع کر دی.مگر حاضرین جلسہ میں بہت سے حضرات اسی غرض سے آئے تھے کہ جلسہ میں ابتری پیدا کریں چنانچہ ہال کے اندر ہی کچھ لوگوں نے شور و غل شروع کر دیا.ہم نے ایک مختصر تقریر میں پھر لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کی کہ آپ حضرات سینما ہاؤسز میں خاموش بیٹھ سکتے ہیں.اور تماشہ کے اختتام پر خدا بادشاہ کو سلامت رکھنے والا ترانہ نہایت ادب سے کھڑے ہو کر سنتے ہیں مگر یہاں اس وقت شہنشاہ دو عالم کا ذکر ہو رہا تھا اور آپ اس کو خود سنا تو در کنار دوسروں کو بھی سننے دینا نہیں چاہتے.فرض کر لیجئے کہ یہ جلسہ احمدیوں کا ہے مگر ذکر کن کا ہو رہا ہے.جن کے نام لیوا آپ بھی ہیں اور رویہ

Page 84

تاریخ احمدیت.جلد 22 69 سال 1963ء آپ نے اختیار کیا ہے گویا احمدیوں کی ضد میں آپ ان سے بھی بغاوت کر رہے ہیں جو آپ کے ہیں مگر ان الفاظ کا بھی بہت کم لوگوں پر اثر ہوا اس لئے کہ وہ تو گھر ہی سے طے کر کے آئے تھے کہ جلسہ میں ابتری پیدا کریں گے تھوڑی ہی دیر میں جلسہ کے باہر بہت کافی مجمع ہو گیا اور لوگوں نے نعرے بلند کرنا شروع کر دئیے جو جماعت احمدیہ کے خلاف تھے مگر اس کے باوجود جلسہ کی کارروائی جاری رہی مگر باہر کے شور وغل کا اثر اب ہال کے اندر بھی پہنچنے لگا.آخر حاضرین جلسہ میں سے ایک بزرگ نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں جناب صدر سے استدعا کروں گا کہ وہ اس جلسہ کی کارروائی کوختم کر دیں اس لئے کہ ہم کو ذکر حبیب سُنے کے لئے جس سکون کی ضرورت ہے.وہ یہاں حاصل نہیں ہو رہا ہے.اس آواز کی تائید اور لوگوں نے بھی کی اور اسی وقت باہر سے پھر ایک طوفان اٹھا.اب جو نعرے بلند ہو رہے تھے وہ اس خاکسار کے متعلق تھے یعنی شوکت تھانوی مُردہ باد.ادھر سے کچھ لوگوں نے نعرہ بلند کیا.شوکت تھانوی زندہ باد.اور ہم حیران تھے کہ ہم کو ان دونوں میں سے کس مشورہ پر عمل کرنا چاہیئے.لوگوں نے ہم کو مشورہ دیا کہ آپ پشت کے دروازہ سے نکل جائیے مگر ہم نے اس کو منظور نہ کیا اور اس وقت اپنے دل میں بلا کی جرات پیدا کر کے ہم صدر دروازہ ہی سے باہر نکلے جہاں دورویہ لوگوں کی ایک بہت بڑی بھیڑ ہمارے خلاف نعرے بلند کر رہی تھی مگر ہمارے پہنچتے ہی پھر دو قسم کے نعرے شروع ہو گئے.شوکت تھانوی مردہ باد اور شوکت تھانوی زندہ باد “ اور ہم اسی طوفان سے گذر کر سواری تک آئے.بانیان جلسہ نے اسی درمیان پولیس کا بھی انتظام کر لیا تھا مگر ہم نے باہر نکل کر پولیس کو اپنی حفاظت سے روکا اور یہ کہہ کر اس مجمع سے گذرنے لگے کہ میرا فیصلہ ان ہی حضرات کو کرنے دیجئے.ایک صاحبزادے کچھ حملہ کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تھے کہ ان ہی کے چند ساتھیوں نے ان کو روکا اور ہم بخیریت مجمع سے گذر کر اپنے گھر آگئے.گھر پر اس ہنگامے کی اطلاع پہنچ چکی تھی اور سب بیحد پریشان تھے.مگر ہم نے گھر جا کر سب کو مطمئن کر دیا کہ دیکھ لو میرے دھڑ پر میرا سر موجود ہے اور میرے تمام اعضاء صیح سالم ہیں.احمدی : اس سے قبل بھی اس بات کی شہرت تھی کہ شوکت تھانوی قادیانی ہے.وجہ یہ تھی کہ برادران محترم ڈاکٹر محمد عمر صاحب.مولوی محمد عثمان صاحب، ڈاکٹر محمد زبیر صاحب اور مولوی محمد طلحہ صاحب ایڈووکیٹ احمدی عقائد رکھتے ہیں اور ان ہی کی حقیقی بھتیجی سعیدہ ہیں چنانچہ یہ عام طور پر خیال تھا کہ ایک احمدی لڑکی غیر احمدی کے نکاح میں نہ آئی ہوگی.اس لئے کہ احمدی حضرات غیر احمدی لڑکی

Page 85

تاریخ احمدیت.جلد 22 70 سال 1963ء بیاہ تو لاتے ہیں مگر غیر احمدی کو دیتے نہیں.اس کے علاوہ اب تک دو مرتبہ ہم قادیان جاچکے تھے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے مل چکے تھے ان کے یہاں دعوت کھا چکے تھے.بعض احمدی مسائل پر مضامین لکھ چکے تھے.ان تمام حالات کے ماتحت ہمارے احمدی ہونے کی جو خبر گرم تھی اس کو بلا وجہ تو نہیں کہا جا سکتا خواہ وہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو مگر اس جلسہ کے بعد تو اس روایت پر گویا تصدیق کی مہر بھی لگ گئی اور اب ہمارے احمدی ہونے کا ان سب کو بھی یقین ہو گیا جواب تک مشکوک تھے ہم سے جس کسی نے بھی پوچھا ہم نے یہی جواب دے دیا کہ حضرت سچ پوچھئے تو احمدی ہم آپ سب ہی ہیں احمد ہمارے رسول برحق کا اسم پاک تھا اور ان سے نسبت دینا ہم اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں.رہ گیا آپ کا یہ خیال کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود مانتے ہیں یا نہیں اس کے متعلق ہم نے کبھی آج تک غور ہی نہیں کیا ہے البتہ احمدی حضرات کے اسلامی جوش، ان کے اسلامی اصولوں پر سختی سے کاربند ہونے اور تبلیغ و اشاعت اسلام کے سلسلہ میں ان کی دیوانہ وار سرگرمیوں کو ہم بیشک نہایت قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں.مگر اس کے باوجو دلوگ یہی کہتے رہے کہ صاحب یہ کیونکر ممکن ہے کہ شوکت قادیانی نہ ہوں اور سر محمد ظفر اللہ خاں ان کے دیوان پر گول میز کا نفرنس کے اجلاس کی مصروفیتوں کے باوجو د لندن میں بیٹھ کر تبصرہ لکھیں.خلیفہ صاحب قادیان اپنے خطبہ جمعہ میں ان کی سودیشی ریل کا ذکر کریں.اور قادیانیوں کا اخبار الفضل ان کا ذکر اپنے کالموں میں کرے مگر ہم نے اپنی احمدیت کی اس شہرت پر سنجیدگی کے ساتھ کبھی غور نہیں کیا.اس لئے کہ اول تو ہم مذہبی آدمی نہیں ہیں دوسرے اگر مذہبی آدمی ہوتے بھی تو مذہب کے معاملہ میں خدا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے نہ کہ اس کے بندوں کو ، مذہب تو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ایک رشتہ کا نام ہے یہ کوئی سوسائٹی کی چیز نہیں.122 66 مشرقی پنجاب (بھارت) کی ایک کتاب میں جماعت احمدیہ کا ذکر ۱۹۶۳ء کے آغاز میں مشرقی پنجاب کے ایک سکھ مؤلف پروفیسر گنڈا سنگھ صاحب نے پنجابی زبان میں اپنی کتاب پنجاب کے صفحہ ۶۸ پر تحریر کیا کہ:.”مرزا صاحب نے جب اپنا مشن شروع کیا تو بہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت کی.شروع میں انگریزی سرکار نے بھی اپنے راج کے خلاف سمجھ کر آپ کی مخالفت کی لیکن یہ پودا بڑھتا گیا.مرزا صاحب

Page 86

تاریخ احمدیت.جلد 22 71 سال 1963ء کی وفات کے وقت (۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) آپ کی آواز بھارت سے باہر افغانستان اور عرب وغیرہ ممالک میں پہنچ چکی تھی.“ 166 123 حضور انور کا سفر لاہور حضور مورخہ ۱۶ مئی ۱۹۶۳ کی شب چیک اپ کے لئے لاہور تشریف لے گئے.جہاں ایلو پیتھک اور ہومیو پیتھ ڈاکٹروں نے حضور اقدس کا طبی معائنہ کر کے علاج تجویز کیا.19 مئی کو دہلی کے مشہور حکیم محمد اجمل کے پوتے حکیم محمد نبی جان نے حضور کا معائنہ کیا اور علاج تجویز کیا.قیام لاہور کے دوران احباب لاہور نے اپنے مقدس امام سے نہایت محبت کا نمونہ دکھایا.۲۴ مئی کو حضور انور کی ربوہ واپسی ہوئی..124 مشرقی پاکستان کا طوفان اور صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی طرف سے عطیہ ۲۸ مئی ۱۹۶۳ء کو چاٹگام اور کاکس بازار کے ساحلی علاقے ایک ہولناک طوفان کی زد میں آگئے.جس کے نتیجہ میں زبر دست جانی و مالی نقصان ہوا.انسانی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے اور متاثرہ آبادیاں ویران ہو گئیں.سیلاب کی قیامت خیز تباہ کاری کے پیش نظر صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں نے مشرقی پاکستان ریلیف فنڈ کھولا جس میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے چھ ہزار روپے کا عطیہ ارسال کیا.اس کے جواب میں صدر مملکت نے اپنے ڈپٹی سیکرٹری کی وساطت سے صدر انجمن احمد یہ پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ اس سے مشرقی پاکستان کے بھائیوں کی مصیبت کا مداوا کرنے میں مدد ملے گی.اس ضمن میں صدر مملکت کے ڈپٹی سیکرٹری نے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر امور خارجہ کے نام جو مکتوب ارسال کیا اس کا متن درج ذیل ہے.جناب عالی صدر مملکت کی طرف سے مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ میں آپ کے اس خط کے جواب میں جس میں آپ نے مشرقی پاکستان کے حالیہ طوفان پر ہمدردی کا اظہار کیا ہے آپ کا شکر یہ ادا کروں.صدرمملکت صدر انجمن احمد یہ کے ممنون ہیں کہ اس نے صدر مملکت کے امدادی فنڈ برائے مشرقی پاکستان میں

Page 87

تاریخ احمدیت.جلد 22 72 سال 1963ء چھ ہزار روپے بطور چندہ ارسال کئے ہیں.اس سے ہمارے مشرقی پاکستان کے بھائیوں کی مصیبت کا مداوا کرنے میں مدد ملے گی.صدر انجمن احمدیہ کا ارسال کردہ چیک کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی معرفت صدر کے امدادی فنڈ برائے مشرقی پاکستان کے اعزازی خزانچی کو بھیج دیا گیا ہے جو دریں اثناء آپ کو اس کی باضابطہ رسید ارسال کر دیں گے.آپ کا مخلص ڈپٹی سیکرٹری صدر مملکت چٹا گانگ کے احمدی نوجوانوں کی قابل قدر مساعی وو 126 اس موقع پر جبکہ طوفان سے ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے سینکڑوں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو گئیں اور چاروں طرف غم والم کی صف بچھ گئی تھی.چٹا گانگ کے احمدی نو جوان میدان عمل میں آگئے اور قریباً ایک ماہ تک مخلوق خدا کی خدمت میں سرگرم عمل رہے جس پر عوام اور پریس نے ان کی بے لوث مساعی پر خراج تحسین ادا کیا.چنانچہ مصلح الدین صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ چٹا گانگ اپنی ایک رپورٹ میں رقمطراز ہیں کہ :.هم مخلوق خدا کی اس بے بسی اور لاچارگی پر خون کے آنسورور ہے تھے.ان حالات میں ہمارا اولین فرض تھا کہ اس موقع پر زیادہ سے زیادہ خدمت خلق کا کام بھی کیا جائے جو اسلام واحمد بیت کی عین تعلیم ہے.چنانچہ مجلس خدام الاحمد یہ چٹا گانگ نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے ریلیف کا کام شروع کر دیا.سب سے پہلے ہم نے اس کام کا آغاز خانہ خدا سے شروع کیا.ہماری مسجد جس کی چھت ٹین کی بنی ہوئی تھی اس طوفان سے بالکل اُڑ گئی تھی موسم برسات کے زمانہ میں چھت کی فوری مرمت کے بغیر وہاں نماز کی ادائیگی ممکن نہ تھی.مجلس خدام الاحمدیہ کے چند نوجوانوں نے دو دن لگا تار محنت و کاوش کے بعد مسجد کی چھت مرمت کر دی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے مسجد اس قابل ہوگئی کہ پنجگانہ نماز کے علاوہ جمعہ کی نماز بھی ادا ہو سکے.اس کے بعد ہم نے ایک احمدی دوست سے ایک گاڑی حاصل کی اور چند نو جوانوں کو طوفان زدہ علاقہ میں بھجوا دیا گیا.یہ خدام مختلف دیہات میں جاتے رہے اور وہاں لوگوں کو ٹیکے لگاتے رہے اور

Page 88

تاریخ احمدیت.جلد 22 73 سال 1963ء ادویات تقسیم کرتے رہے.اس پارٹی میں میڈیکل کالج کے چند طلباء بھی شامل تھے.یہ ریلیف پارٹی تقریب دس بارہ روز تک بہت جانفشانی کے ساتھ اس کام کو سرانجام دیتی رہی.پھر خدام کو ایک اور پارٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقعہ ملا.ان لوگوں کے ساتھ مل کر ہمارے خدام نے مختلف دیہات میں کئی من گیہوں، چاول، دودھ اور کپڑے وغیرہ تقسیم کئے.یہ تمام کام نہایت نامساعد حالات میں ہوتا رہا.ان دنوں کئی دن تک لگا تار موسلا دھار بارش بھی ہو رہی تھی.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے خدام نے اس بارش اور طوفان کا مسکراتے ہوئے مقابلہ کیا اور ریلیف کے کام کو جاری رکھا.اس عرصہ میں جناب مولوی محمد صاحب امیر جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان اور ریجنل قائد مکرم احمد تو فیق صاحب بھی چٹا گانگ آئے اور ریلیف کے کام کے سلسلہ میں ضروری ہدایات دے گئے.ڈھا کہ اور برہمن بڑیہ کی جماعتوں سے نئے و پُرانے کپڑے جمع کر کے مصیبت زدگان میں تقسیم کئے.وہ علاقہ جہاں ہم لوگ ریلیف کا کام کر رہے تھے بعد میں مزید سیلاب کا شکار ہو گیا.جس کی وجہ سے کام کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا لہذا ہم لوگوں نے مقامی پریذیڈنٹ کے مشورہ سے ایک اور علاقہ کو کام کے لئے منتخب کیا اور تقریباً دو ہفتہ تک ہمارے خدام اس علاقے میں ریلیف کا کام کرتے رہے.ہمارے کاموں کی رپورٹ یہاں مقامی بنگالی اور انگریزی اخباروں میں مختلف تاریخوں میں شائع ہوتی رہی ہیں.خدام کی بے لوث مساعی کا خوب چرچا ہوا ہے.بالخصوص جس دوسرے علاقہ میں ہم نے بعد میں کام کیا وہاں اور کوئی جماعت کام کرنے کے لئے نہیں پہنچی تھی.اس لئے اس علاقہ کے لوگ ہمارے بے حد مشکور ہوئے.اس علاقہ میں ہم نے پار چا جات اور ادویات کی تقسیم کے علاوہ متعد د غریب لوگوں کے منہدم شدہ گھروں کو بھی بنوا دیا تھا.افسوس فنڈز کی کمی کی وجہ سے اس کام کو جاری نہ رکھا جا سکا.محترم مولوی محمد صاحب امیر جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان نے وقف جدید کے چار معلمین کو بھی ریلیف کے کام کے لئے چٹا گانگ بھجوا دیا.ان لوگوں کو دوسری جگہ کام پر لگا دیا گیا تھا اور انہوں نے بہت محنت سے اس جگہ کام کیا.قریباً ایک ماہ تک ہمارار بلیف کا کام جاری رہا.اس کام میں مندرجہ ذیل خدام اور ممبران جماعت کی خدمات قابلِ تعریف ہیں.(1) ڈاکٹر محمد شفیق صاحب سہگل (۲) مکرم غلام احمد صاحب نائب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ (۳) مکرم نظام الدین صاحب (۴) مکرم محمد افضل صاحب طالب علم (۵) مکرم ضیاء الحق صاحب

Page 89

تاریخ احمدیت.جلد 22 74 سال 1963ء طالب علم (۶) مکرم صلاح الدین ایوبی صاحب (۷) مکرم جلال الدین صاحب (۸) مکرم محمد یوسف صاحب شینوگرافر ریلوے بلڈنگ (۹) مکرم فضل احمد صاحب (۱۰) مکرم سعید الحق صاحب (۱۱) مکرم مصلح الدین صاحب سعدی (۱۲) مکرم مولوی اعجاز احمد صاحب مربی سلسله (۱۳) مکرم لطف الحق صاحب“.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زیر صدارت نگران بورڈ کا آخری اجلاس قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی صدارت میں نگران بورڈ کا آخری اجلاس ۲ جون ۱۹۶۳ء کو منعقد ہوا جس میں متعدد اہم امور بغرض مشورہ پیش ہوئے.(اس اجلاس کی صدارت کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی زیر صدارت کوئی اور اجلاس نہ ہوا.پھر آپ کی وفات کے بعد مکرم مرزا عبدالحق صاحب صدر نگران بورڈ بنے اور نگران بورڈ کی تحلیل تک صدر رہے.) اس اہم اجلاس میں سیدنا حضرت مصلح موعود کے علاج سے متعلق امور کا بہتر انتظام اور عملہ دفاتر کی چھان بین کے لئے دو کمیٹیاں مقرر کی گئیں.پہلی کمیٹی کے صدر (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور دوسری کمیٹی کے صدر شیخ محمود الحسن ڈھا کہ تجویز ہوئے.قضاء کے اختیارات بابت سماعت مقدمات سے متعلق فیصلہ ہوا کہ جہاں تک خلیفہ وقت کے فیصلوں کا سوال ہے خواہ وہ انتظامی ہوں یا قضائی وہ بہر حال آخری صورت رکھتے ہیں سوائے اس کے کہ خود حضور کے پاس نظر ثانی ہونے پر حضور اس کو بدل دیں.بیرونی ممالک میں خدام الاحمدیہ اور جماعتی تنظیم کے بارے میں فیصلہ کیا گیا کہ بیرونی ممالک کے نائب صدر اور دیگر عہدیدار خدام الاحمدیہ ہمیشہ وکیل التبشیر صاحب کے مشورہ سے مقرر کئے جائیں اور مبلغ انچارج ہی نائب صدر خدام الاحمدیہ ہوا کرے.ایک فیصلہ یہ ہوا کہ آئندہ وقف جدید کا بجٹ بھی مجلس مشاورت میں پیش ہوا کرے اور اگر کوئی ضروری تجویز وقف جدید سے متعلق ہو تو وہ بھی زیر غور لا ئی جائے.سٹینڈ نگ فنانس کمیٹی بھی اس پر نظر 128 ذیلی تنظیموں سے متعلق حضرت مصلح موعود کی زریں ہدایات کی اشاعت سیدنا حضرت الصلح الموعود نے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو صحیح خطوط پر چلانے کے لئے برسوں

Page 90

تاریخ احمدیت.جلد 22 75 سال 1963ء قبل غیر مبہم الفاظ میں یہ وضاحت فرما دی تھی کہ ذیلی تنظیمیں مقامی انجمن کے بازو ہیں اور ان کی غرض یہ ہے کہ جماعت ترقی کرے.انجمن کا پریذیڈنٹ کو بحیثیت جماعت خدام اور انصار کو کوئی حکم نہ دے سکے مگر وہ ہر مبر کو ایک احمدی کی حیثیت سے بلا سکتا ہے اور خدام اور انصار دونوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں.نیز ہر شخص کو خواہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہو یا انصار اللہ میں ، اپنے آپ کو محلہ کی یا اپنے شہر کی یا اپنے ضلع کی انجمن کا ایک فرد سمجھنا چاہئے.( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے الفضل ( ۲۴ تا ۳۰ جولائی ۱۹۶۳ء) میں حضور کی ان زریں ہدایات اور قیمتی نصائح کی بطور یاد دہانی اشاعت فرمائی تا احباب جماعت ان کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور ان پر عمل پیرا ہوکر اس مقصد کو پورا کرنے والے بنیں جس کے تحت ان تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو ڈاکٹر آف لاز کی اعزازی ڈگری حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب صدر عالمی اسمبلی کی عظیم الشان عالمی خدمات کے اعتراف میں کولمبیا یونیورسٹی کی طرف سے جون ۱۹۶۳ء میں آپ کی خدمت میں ڈاکٹر آف لاء کی اعزازی ڈگری پیش کی گئی.اس موقع پر کولمبیا یو نیورسٹی کے پریذیڈنٹ جناب ڈاکٹر گرے سن کرک (Dr.Grayson Kark) نے پاکستان کے اس مد بر اور بزرگ سیاستدان کو زبر دست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری صاحب موصوف کی عظیم شخصیت نے اقوام یورپ کو مسائل مشرق کے سمجھنے میں بہت مدددی ہے.اُن کی تقریر کا متن اور ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے."Elder statesman of the world, your beneficent influence has lighted the dark and winding trail as men and nations in our century have groped toward the ultimate goal of peace.In the League of Nations of another day, in the International Court of Justice in the chambers of the United Nations, your patience, born of spiritrual strength, your courage, veiled in

Page 91

تاریخ احمدیت.جلد 22 76 سال 1963ء gentle mien, your mastery of international law have served the cause of concord in many crises.As representative of Pakistan in the United Nations, and now as President of the Seventeenth Genernal Assembly, your leadership, moral and political, is gratefully acknowledged by your colleagues.You have helped the West to know the East in a world grown suddenly small.Men of goodwill in every land have cause to give you thanks - Reuter." 130 ( ترجمہ ): اے بین الاقوامی دانا سیاستدان! آپ کی نافع الناس شخصیت کے اثر کی بدولت وہ تاریک اور پیچ دار راستہ جس میں اس صدی کے افراد و اقوام امن کے حصول کے لئے کوشاں ہیں روشن ہو گیا ہے.آپ نے اپنے تحمل سے جو دراصل روحانی قوت کا نتیجہ ہے اور اپنے حوصلہ سے جس کے پیچھے آپ کی اخلاقی قوت کا جذبہ کارفرما ہے اور بین الاقوامی قانون میں مہارت کے زور سے کیا لیگ آف نیشنز ، کیا عالمی عدالت انصاف اور کیا اقوام متحدہ کے ایوانوں میں متعدد نازک مواقع پر اتحاد و یگانگت کی صورت پیدا کر دی ہے.نیز اقوام متحدہ میں پاکستان کے(مستقل) مندوب کی حیثیت سے اور آج کل سترھویں جنرل اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے آپ کے رفقائے کار نے آپ کی اخلاقی اور سیاسی قیادت کے سامنے نہایت تشکر اور امتنان کے جذبات کے ساتھ سر تسلیم خم کیا ہے.آج کی سمٹتی ہوئی دنیا میں آپ نے اقوام مغرب کو مشرق کے مسائل سمجھنے میں جو خدمات سرانجام دی ہیں ان کی وجہ سے اگر ہر ایک ملک کا سمجھ دار طبقہ آپ کی بے لوث خدمات پر اظہار تشکر کرے تو 131 بالکل حق بجانب ہوگا.حضرت مصلح موعود کے احسانات پر قلم اٹھانے کی اہم تحریک جولائی ۱۹۶۳ء میں میر داؤ د احمد صاحب مینیجنگ ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز نے احباب جماعت کو موثر تحریک کی کہ وہ حضرت مصلح موعود کے احسان، محبت اور شفقت کے واقعات تحریر فرما کر دفتر ریویو کو ارسال فرما دیں تا ان کو کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے اس طرح پیشگوئی وہ حسن واحسان میں تیر انظیر ہوگا.‘ کی تاریخی اور واقعاتی رنگ میں شہادت دنیا کے سامنے آجائے گی.

Page 92

تاریخ احمدیت.جلد 22 77 سال 1963ء آپ نے مزید توجہ دلائی کہ اس ضمن میں ایسے واقعات بھی درج کئے جائیں جن سے حضور کی مندرجہ ذیل صفات پر بھی روشنی پڑتی ہو.(۱) تبحر علمی (۲) سخت ذہین اور فہیم ہونا (۳) دل کا حلیم ہونا (۴) خاص قبولیت دعا (۵) انفاس قدسیہ کی بدولت روحانی بیماریوں کا علاج کرنا (۶) اسیروں کی رستگاری کا موجب ہونا (۷) خدمت اسلام کی سچی تڑپ اور اس کے لئے جد و جہد (۸) غیر معمولی یاد داشت (۹) غریب پروری.احباب جماعت نے اس تحریک پر بہت عمدہ واقعات سپرد قلم کئے جو جامعہ احمدیہ کے علمی وادبی رسالہ "مجلة الجامعه ( جلد نمبر۲) مصلح موعود نمبر میں اشاعت پذیر ہوئے.کتب مسیح موعود علیہ السلام کے انگریزی تراجم 132 احمدیت کا عالمی اثر ونفوذ جب تیزی سے بڑھنا شروع ہوا تو غیر ممالک کی یونیورسٹیوں سے یہ مطالبات آنے شروع ہوئے کہ بعض طلبہ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے لئے اپنے تحقیقی مقالہ (Thesis) کا مضمون تحریک احمدیت (Ahmadiyya Movement) رکھا ہے.انہیں بانی جماعت احمدیہ کی کتابوں سے اور آپ کے اپنے الفاظ میں ان کے سوالات سے متعلق مواد مہیا کیا جائے.اس سال یہ مطالبات لندن، پیرس اور امریکہ سے بھی مرکز میں پہنچے.ظاہر ہے کہ ایسے مقالے تبھی تیار ہو سکتے تھے کہ اصل کتابیں انگریزی زبان میں مع انڈیکس کے شائع شدہ ہوں اور ریسرچ کرنے والے اُن کا براہ راست مطالعہ کر کے اپنی ضرورت کے مطابق مواد اخذ کر سکیں.لیکن اب تک صورت حال یہ تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے انقلاب انگیز وسیع لٹریچر میں سے وکالت تبشیر کی طرف سے وسط ۱۹۶۳ء تک صرف درج ذیل چھ کتب کے تراجم شائع ہو سکے تھے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، الوصیت مسیح ہندوستان میں ، چشمہ مسیحی ، ایک غلطی کا ازالہ کشتی نوح ( حصہ تعلیم ).تجلیات الہیہ، چشمہ معرفت اور سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ کے تراجم کی تکمیل ہو چکی تھی.مگر ان کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی تھی.اسی طرح حقیقۃ الوحی کے صرف پہلے ۶۹ صفحات اور آئینہ کمالات اسلام کا صرف ایک حصہ انگریزی میں منتقل کیا جا سکا تھا.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے اس صورتحال کے پیش نظر الفضل

Page 93

تاریخ احمدیت.جلد 22 78 سال 1963ء مورخہ ۱۶ جون ۱۹۶۳ء میں ایک ضروری اعلان کے ذریعہ جماعت کے اہل علم و قلم طبقہ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ تبلیغ اسلام کی غرض سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کے غیر زبانوں خصوصاً انگریزی میں تراجم شائع کرنا ہماری اہم ترین ذمہ داری ہے اور گو وکالت تبشیر نے سلسلہ کے لٹریچر کو دوسری زبانوں میں چھپوا کر گذشتہ سالوں میں خاصا کام کیا ہے تاہم جو کام کرنا باقی ہے وہ اپنی مقدار اور وسعت کے اعتبار سے بہت زیادہ ہے اور اسے جماعت کے مجموعی اور 133- انفرادی تعاون کے بغیر سرانجام نہیں دیا جا سکتا اس مقصد کے حصول کے لئے تین صورتیں بیک وقت اختیار کرنا مناسب ہوں گی.اول.ہر سال بعض کتب انتخاب کرلی جائیں اور شروع سے لے کر آخر تک ترجمہ کروائی جائیں.دوم.حضور کی کتب میں سے ایسے حصے یا ابواب منتخب کر لئے جائیں جہاں کسی ایک سوال کے مختلف پہلوؤں کا ایک ہی جگہ مسلسل اور مفصل جواب آ گیا ہو.ایسے حصص کو ترجمہ کرا کے کتا بچوں کی صورت میں شائع کرا دیا جائے.سوم.حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض سوالات کے مختلف پہلوؤں پر اپنی مختلف کتابوں میں روشنی ڈالی ہے ایسے پہلوؤں کے متعلق ان کتابوں میں سے اقتباسات جمع کرالئے جائیں اور پھر کتابی صورت میں مرتب کر کے ان کا انگریزی ترجمہ شائع کرایا جائے.صاحبزادہ صاحب نے احباب جماعت سے اپیل کی کہ (1) وہ مشورہ دیں اور کوئی اور مفید تجویز پیش کریں.(۲) کم از کم پانچ کتابیں ایسی تجویز کریں جن کا ترجمہ اُن کے نزدیک فوری طور پر ہونا چاہیئے.(۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے جو حصے بعض سوالات کا مکمل جواب ہیں ان کی نشان دہی کریں.(۴) اس امر سے مطلع فرمائیں کہ آپ (با معاوضہ یا بغیر معاوضہ ) کسی کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرسکیں گے.(۵) کیا آپ (با معاوضہ یا بغیر معاوضہ ) کسی ترجمہ شدہ کتاب کا انڈیکس تیار کرسکیں گے.(1) جو صاحب ترجمہ یا انڈیکس تیار کرنے کے قابل ہوں ان کے نام و پستہ سے مطلع فرمائیں.

Page 94

تاریخ احمدیت.جلد 22 79 سال 1963ء مقدس احمد یہ حلقہ قادیان سے متعلق محکمہ بحالیات کا غیر منصفانہ نوٹس مقدس احمد یہ حلقہ قادیان کے بعض مکانات کی نیلامی کا معاملہ عرصہ چھ سال سے مرکزی محکمہ بحالیات ( بھارت) سے زیر تصفیہ چلا آ رہا تھا.مارچ ۱۹۵۸ء میں جماعت کے ایک مرکزی وفد نے جناب پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم ہندوستان سے ملاقات کی.انہوں نے یقین دلایا کہ موجودہ احمدی امیر یا جس میں جماعت احمدیہ کے مقدس پیشوا اور ان کے خلفاء کے مکانات اور مساجد اور مقدس مقامات شامل ہیں اس میں کسی غیر کو دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ حسب سابق ہر حال میں یہ احمد یہ جماعت کے پاس ہی رہے گا اور اس میں جو بعض مترو کہ مکانات ہیں ان کی کم از کم ریز رو قیمت صدر انجمن احمدیہ قادیان سے وصول کر کے انجمن کو ان کے مستقل حقوق ملکیت دے دیئے جائیں گے.وزیر بحالیات جناب مہر چند صاحب کھنہ نے بھی ملاقات کے دوران اپنے محکمہ کے اس موقف کے متعلق پوری یقین دہانی کرائی.لیکن جب عملی طور پر ایسے مکانات کی ریز رو قیمت لگائی گئی تو وہ ان مکانوں کی خستہ حالت کے مقابل پر بہت زیادہ رکھی گئی اور قادیان میں اس قسم کے دیگر مکانات کی قیمتوں سے جو محکمہ بحالیات نے خود بذریعہ عام نیلامی فروخت کئے.ڈھائی گنا زیادہ مطالبہ کر دیا گیا جس پر صدرانجمن احمد یہ قادیان کی طرف سے مرکزی وزارت بحالیات کو متعدد مرتبہ محضر نامے بھجوائے گئے نیز توجہ دلائی گئی کہ انجمن کی واگذار شدہ جائیدادیں چونکہ گذشتہ ساڑھے تیرہ سال سے حکومت کے ناجائز قبضہ میں رہی ہیں.اس لئے ایسی جائیدادوں کی واجبی آمد اور کرایہ کی حساب منہمی بھی صدرانجمن احمدیہ کے ساتھ کی جائے.لیکن اس طرف تو کوئی توجہ نہ دی گئی.اس کے مقابل محکمہ مذکورہ کی طرف سے ۸ جون ۱۹۶۳ء کو نوٹس موصول ہوا کہ صدر انجمن احمد یہ ایک ماہ کے اندر اندر سات لاکھ چونسٹھ ہزار سات سو نوے روپے حکومت کو ادا کر دے ورنہ احمد یہ امر یا کے مکانوں کو بذریعہ عام نیلام فروخت کر دیا جائے گا.اس غیر منصفانہ نوٹس پر دنیا بھر کے احمدیوں میں انتہائی تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی.۱۱ جون ۱۹۶۳ء کو مقامی جماعت احمدیہ قادیان کا مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان کی زیر صدارت ایک غیر معمولی اجلاس مسجد مبارک میں ہوا جس میں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعہ جناب پنڈت جواہر لال صاحب نہرو وزیر اعظم بھارت سے خصوصاً اور دیگر ارکان حکومت

Page 95

تاریخ احمدیت.جلد 22 80 سال 1963ء سے عموماً پر زور اپیل کی گئی کہ وہ محکمہ بحالیات کے اس غیر دانشمندانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ پر نظر ثانی کا حکم صادر کر کے ایک پُر امن اور پابند قانون جماعت کے حقوق کا تحفظ کریں.قرار داد کا مکمل متن اخبار بدر کی ۱۳ جون ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں چھاپ دیا گیا اور اس کی نقول وزیر اعظم صاحب ہندوستان کے علاوہ ڈاکٹر رادھا کرشنن صاحب پریذیڈنٹ ہندوستان، ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب وائس پریذیڈنٹ ہندوستان، مہر چند صاحب کھنہ مرکزی وزیر بحالیات اور جناب بخشی غلام محمد صاحب وزیر اعلی کشمیر کی خدمت میں بھی بھجوائی گئیں.,, وو مرکزی قرارداد کی اشاعت کے بعد جماعت ہائے احمد یہ ہندوستان اور بعض بیرونی ممالک کی جماعتوں نے بھی بھارتی حکومت کو اس فیصلہ پر نظر ثانی اور ہمدردانہ توجہ کے لئے ریزولیوشن بھجوائے.ہندوستان کے مسلم پریس نے بھی اس نوٹس کے خلاف احتجاجی نوٹ شائع کئے.چنانچہ روز نامہ ہندوستان (بمبئی) اور روزنامہ ” اجمل، بمبئی نے اپنے ۱۹ اور ۲۱ جون ۱۹۶۳ء کے پرچوں میں صدر انجمن احمد یہ قادیان کی جائیدادوں کا مسئلہ" کے عنوان سے محکمہ بحالیات کے نوٹس پر کڑی تنقید کی اور اس معاملے کا تفصیلی پس منظر تحریر کر کے جناب پنڈت جواہر لال صاحب نہرو اور مرکزی وزیر بحالیات اور دیگر مرکزی افسروں سے درخواست کی کہ وہ مداخلت کر کے نوٹس کو منسوخ کرائیں.اسی طرح ہفت روزہ روشنی ( سرینگر ) مورخہ ۲۵ جون ۱۹۶۳ء نے مرکزی حکومت کا غیر دانشمندانہ رویہ کے زیر عنوان ایک احتجاجی ادار یہ تحریر کیا.جس میں احمدیہ جماعت کے عقائد اور پر امن تعلیمات پر روشنی ڈالنے کے بعد ذکر کیا کہ کس طرح ایک غیر ذمہ دار افسر کے غلط فیصلہ کی بناء پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب کو ممنوع قرار دیا جس سے ایک بین الاقوامی مذہبی جماعت کے مذہبی جذبات شدید طور پر مجروح ہوئے اور زمین کے طول و عرض سے احتجاجی قرار داد میں حکومت پاکستان کو موصول ہوئیں.یہاں تک کہ حکومت کو اپنے موقف کی غلطی کا یقین ہوا اور اسے ضبطی کا حکم واپس لینا پڑا.اخبار روشنی نے مزید لکھا کہ محکمہ بحالیات کا نوٹس بھی کسی افسر نے دیا ہے جو غیر دانشمندانہ اور غیر ذمہ دارانہ ہے.اس مذہبی مقدس حلقہ کے ساتھ تمام دنیا کے احمدیوں کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بین الاقوامی اور پر امن جماعت کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس نوٹس کو منسوخ کرے اور اقلیتوں کے متعلق اپنی سیکولر پالیسی کا اظہار فرمائے.185

Page 96

تاریخ احمدیت.جلد 22 81 سال 1963ء یکم جولائی ۱۹۶۳ء کو ایک مرکزی وفد جو حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ، شیخ عبدالحمید صاحب عاجز ناظر بیت المال، نواب غلام احمد خاں صاحب ایڈووکیٹ حیدر آباد دکن اور مکرم محمد کریم اللہ صاحب ایڈیٹر اخبار آزاد نو جوان (مدراس) پر مشتمل تھا دہلی گیا.وفد کی ملاقات شری مہر چند صاحب کھنہ (وزیر بحالیات)، جنرل شاہنواز صاحب، ہمایوں کبیر صاحب ،شری مرار جی ڈیسائی (وزیر مال) اور انیس احمد صاحب عباسی ایڈیٹر ” قومی آواز سے ہوئی.جس کے نتیجہ میں وزارت بحالیات نے اپنے محکمہ کے افسران کی رپورٹوں کی بناء پر اس حد تک اتفاق کر لیا کہ بجائے ڈھائی گنا ریز رو پرائس کے جائیدادوں کی اصل مارکیٹ قیمت کے مطابق ریز رو قیمت کا چوالیس فیصدی جماعت سے وصول کیا جائے.اس بناء پر وزارت بحالیات نے اپنا مطالبہ دولاکھ چوبیس ہزار سات سورو پیہ تک محدود کر دیا لیکن صدرا انجمن احمدیہ کی تقریباً چودہ لاکھ کی رقم ادا کرنے سے معذوری ظاہر کر دی جو اس کے ذمہ واجب الا داتھی.جناب وزیر بحالیات نے ملاقات کے دوران بہشتی مقبرہ کے بڑے باغ کی قیمت کو محکمہ کے مطالبہ سے کم کرانے کا وعدہ کیا.قبل ازیں وزارت بحالیات نے اپنے نوٹس مجریہ 4 جون ۱۹۶۲ء میں یہ بھی تحریر کیا کہ اس نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے رہائشی مکان کی قیمت کو مطالبہ میں شامل نہیں کیا لیکن وزارت بحالیات نے بالآخر یہ مطالبات بھی مستر دکر دئیے.انجمن کی مالی حالت اُن دنوں مخدوش تھی لیکن مقامات مقدسہ کی حفاظت کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کے مطالبہ کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر لی جائے.چنانچه ۴ ستمبر ۱۹۶۳ء کو شیخ عبدالحمید صاحب عاجز (ناظر بیت المال ) اور ملک صلاح الدین 136 صاحب ایم اے مولف اصحاب احمد نے دہلی میں جنرل شاہ نواز خاں صاحب مرکزی وزیر اور محکمہ بحالیات کے ڈپٹی سیکرٹری سوتری پرشاد سے ملاقات کی اور انجمن کی طرف سے پانچ سالوں میں مطلوبہ رقم کی ادائیگی پر اظہار رضا مندی کیا.اور دہلی سے واپسی کے بعد استمبر ۱۹۶۳ء کو محترم عاجز صاحب اور چوہدری سعید احمد صاحب جالندھر تشریف لے گئے جہاں انہوں نے محکمہ کے ڈی آرایم او کے ساتھ با قاعدہ معاہدہ کی تکمیل کی اور پہلے سال کی قسط کی رقم قرض لے کر بذریعہ سٹیٹ بنک جالندھر جمع کرا دی اس طرح یہ معاملہ مستقل طور پر طے ہوا.

Page 97

تاریخ احمدیت.جلد 22 82 سال 1963ء حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا دورہ روس اخبار پاکستان ٹائمنز لا ہور ۲۷ جون ۱۹۶۳ ء نے یہ خبر شائع کی کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب صدر جنرل اسمبلی نے روس ، ڈنمارک، فن لینڈ، سوئٹزر لینڈ، پولینڈ اور چیکوسلواکیہ کا دورہ کرنے کے بعد بیان دیا کہ روس نے تعلیمی ترقی اور معیار زندگی کے میدانوں میں بہت ترقی کی.میں آج سے پچاس سال قبل ایک طالب علم کی حیثیت سے وہاں گیا تھا.اس عرصہ میں جس رفتار سے ترقی ہوئی ہے اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا.قیام روس کے دوران آپ نے روسی وزیر اعظم نکیتا خروشیف سے بھی ملاقات کی.150 138- صاحبزادہ مرز ا مبارک احمد صاحب مشرق بعید میں اس سال صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے پہلی بار مشرق بعید کا دورہ کیا.آپ ربوہ سے جولائی ۱۹۶۳ء کو صبح ساڑھے چھ بجے بذریعہ کا ر لا ہور روانہ ہوئے.اہل ربوہ کثیر تعداد میں احاطہ تحریک جدید میں جمع ہوئے.حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب نے اجتماعی دعا کرائی.مکرم کمال یوسف صاحب مبلغ سکنڈے نیو یا اس دورہ میں سیکرٹری کی حیثیت سے آپ کے 139 ہمرکاب تھے.۱۵ جولائی کی شام کو آپ بذریعہ ہوائی جہاز کراچی سے ہانگ کانگ پہنچے.اس دورہ میں آپ ہانگ کانگ، سنگاپور، انڈونیشیا اور بنکاک ( تھائی لینڈ ) تشریف لے گئے.احمد یہ مشنوں اور جماعتوں کا معائنہ کیا.کئی اجتماعات سے خطاب کیا.احمدی مبلغین کو توسیع تبلیغ اور احمدی دوستوں کو دینی وعلمی تربیت کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی اور جہاں ابھی تبلیغی مشن قائم نہیں ہوئے تھے وہاں نئے مشنوں کے قیام کا بالغ نظری سے جائزہ لیا.جماعت کے ساتھ براہ راست رابطہ اور تعلق پیدا کرنا بھی دورہ کا اہم مقصد تھا چنانچہ آپ فردا فردا ہر امیر وغریب سے ملے اُن کی باتیں سنیں اور اُن کے مسائل کا حل پیش کیا.ہانگ کانگ: (مشرقی چین ).(۱۵ تا ۱۹ جولائی) اس وقت تک یہاں کوئی مقامی باشندہ احمدی نہیں ہوا تھا.ڈاکٹر لطیف احمد خاں صاحب سلیم احمد صاحب ناصر باجوہ ، رحمت اللہ صاحب اور بعض دوسرے پاکستانی دوستوں پر مشتمل ایک نہایت مختصری جماعت موجود تھی جس کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب کا یہ دورہ بہت مفید ثابت ہوا.آپ نے تمام احباب کا اجلاس بلایا اور ڈاکٹر لطیف احمد صاحب کو

Page 98

تاریخ احمدیت.جلد 22 83 سال 1963ء پریذیڈنٹ نامزد کر کے باقاعدہ جماعتی تنظیم کی داغ بیل رکھی اور تبلیغ کو کامیاب ، موثر اور وسیع کرنے کے لئے اہم ہدایات دیں اور تبلیغی لائحہ عمل تجویز فرمایا.سنگاپور : (۱۹ تا ۲ جولائی ) یہاں مولانامحمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ سنگا پور، عبدالحمید صاحب سالکین اور دوسرے احمدی احباب نے آپ کا استقبال کیا.میرم سالکین صاحب اور مبلغ سنگا پور نے جماعت کی ترقی کے لئے بعض تجاویز پیش کیں جس پر دوبارہ تفصیلی بحث کو انڈونیشیا سے واپسی تک ملتوی کیا گیا.چنانچہ آپ نے اس غرض سے انڈو نیشیا کا دورہ مکمل کرنے کے بعد ۸ تا ۱۱ راگست تین روز قیام فرمایا ہے.۲۰ جولائی کی شب آپ کوالا لمپور میں قیام فرما رہے.اس جگہ مولانا محمد سعید صاحب انصاری بطور مبلغ انچارج متعین تھے اور انہی کی مساعی کے نتیجہ میں یہ نئی جماعت معرض وجود میں آئی تھی.۲۱ جولائی کی صبح کو آپ مشن ہاؤس تشریف لے گئے.مولا نا انصاری صاحب نے مقامی احباب کا تعارف اسمعیل بن کر سہ پریذیڈنٹ جماعت کی معیت میں کرایا جس کے بعد مشن ہاؤس کی مسجد میں آپ کی زیر صدارت اجلاس ہوا بعد ازاں اس ملک میں اسلام کی ترقی سے متعلق مقامی جماعت کی چھ تجاویز زیر غور آئیں.میاں صاحب نے مفید مشورے دیئے اور ضروری فیصلے کئے گئے.انڈونیشیا: (۲۲ جولائی تا راگست) انڈونیشیا میں ان دنوں سات پاکستانی اور دس انڈونیشین مبلغ اشاعت اسلام میں مصروف عمل تھے جن کے رئیس التبلیغ سید شاہ محمد صاحب تھے.جکارتہ کے ہوائی اڈہ پر تاسیک ملایا ، سنگا پرنا، گاروٹ ، بنڈونگ، سوکانومی ، بوگوڑ ، میئران، سورابایا ، پاڈانگ، لومت وغیرہ کی دور دراز جماعتوں کے نمائندگان نے صاحبزادہ صاحب کا پُر جوش استقبال کیا.۲۳ جولائی کو آپ کی انڈونیشیا کے وزیر اطلاعات ( جو نائب وزیر اعظم بھی تھے ) مسٹر ڈاکٹر حاجی ارسلان عبدالغنی سے ایک وفد کی صورت میں ملاقات ہوئی جس میں رئیس التبلیغ صاحب، جنرل سیکرٹری اور کمال یوسف صاحب شامل تھے.وہ افریقہ میں جماعت احمدیہ کی ترقی اور اس کے نتیجہ میں اسلامی غلبہ سے بہت متاثر ہوئے.اور کئی امور پر تبادلہ خیالات کیا.پریس نے وسیع پیمانے پر اس ملاقات کا ذکر کیا.۲۴ جولائی کو آپ نے بنڈ ونگ تشریف لے جاتے ہوئے رستہ میں ایک خانہ خدا کا افتتاح فرمایا.بنڈونگ میں آپ نے اجتماع خدام الاحمدیہ میں شرکت فرمائی اور زریں نصائح سے نوازا.نیز خدام میں انعامات تقسیم فرمائے.143

Page 99

تاریخ احمدیت.جلد 22 84 سال 1963ء ۲۶ ۲۷ جولائی کو بنڈونگ میں انڈونیشیا کی احمد یہ جماعتوں کی شاندار سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی.کانفرنس کا افتتاح بھی آپ نے فرمایا اور روح پرور اختتامی خطاب بھی کیا.اس کا نفرنس 146 144 145 میں مسٹر ارسلان عبدالغنی صاحب نائب وزیر اعظم و وزیر اطلاعات انڈونیشیا نے بھی شرکت کی اور اپنی تقریر کے دوران صاحبزادہ صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا.انقلابی دور میں قریب تھا کہ ہم اسلام کو بھول جاتے اس وقت صرف اور صرف جماعت احمدیہ کا لٹریچر ہماری اسلامیات کے احیاء اور تجدید کے لئے ہمارے کام آیا اور میں نے آپ کا ڈچ ترجمہ قرآن بھی پڑھا ہے.یہ تاریخی کا نفرنس بنڈونگ کے گلورا ہال میں منعقد ہوئی اور اس میں انتہائی گرانی اور سفر کی شدید صعوبتوں کے باوجود ۶۰ جماعتوں کے دو ہزار نمائندگان نے شرکت فرمائی.اس موقع پر ۵۲ احباب بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.۲۶ جولائی کی شام کو ایک پرشکوہ ہال میں آپ کے اعزاز میں استقبالیہ کا انتظام تھا.اس موقعہ پر آپ نے انگریزی میں ہمارے بیرونی مشنز (Our Foreign Missions) کے موضوع پر تقریر فرمائی.جو غیر احمدی حلقوں میں خاص طور پر بہت مقبول ہوئی.ریڈیو انڈونیشیا نے اس کو مفصل نشر کیا اور اخبارات نے نمایاں سرخیاں دے کر تقریر کے مضمون اور جماعت احمدیہ کی عیسائیت کے خلاف تبلیغی سرگرمیوں کو خوب سراہا.بنڈونگ کے مؤقر اخبار "Pikiran Rakjat" نے اپنی ۲۷ جولائی ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں لکھا:.مغربی یورپ اور افریقہ کو مسلمان بنانے کی دلیرانہ کوشش جماعت احمدیہ کے بیرونی مشنوں کے انچارج مرزا مبارک احمد صاحب نے احمدیہ کانگرس کے استقبالیہ میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ یورپ، مغربی دنیا میں تبلیغ اسلام کی مساعی کو ایک زبردست چیلنج سمجھتا ہے.جماعت احمدیہ کی عالمی شخصیت نے بتایا کہ لندن ، زیورچ، ہمبرگ، فرینکفورٹ اور ہیگ میں ہماری مساجد اور ناروے، سویڈن ڈنمارک کی فعال اسلامی جماعتیں اسلام کی ترقی کا نشان ہیں.ایک ہزار کے قریب امریکن اسلام قبول کر چکے ہیں اور افریقہ میں خصوصیت سے جماعت احمدیہ کی مساعی بار آور ثابت ہوئی ہیں اور اس میں سے بھی خصوصیت سے غانا میں ۱۲ اخبارات، ۴۶ سکول، ۳۴۳ مساجد جماعت احمدیہ کی مساعی کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئیں.روسی ترجمہ قرآن بھی اب جلد اشاعت پذیر ہوگا.66 148

Page 100

تاریخ احمدیت.جلد 22 85 سال 1963ء آپ بنڈونگ کی اہم جماعتی تقریبات میں قریباً ایک ہفتہ تک شبانہ روز مصروف رہے جس کے بعد یکم اگست کو اندرون ملک کی احمدی جماعتوں کے دورہ پر روانہ ہوئے.اسی روز آپ نے سنگا پر نا کی مسجد محمود کا افتتاح کیا.تا سیک ملایا میں خطبہ جمعہ دیا.شام کو ایک استقبالیہ میں شرکت کی.۳ راگست کو واپس بنڈ ونگ آئے.۴/ اگست کو بوقت عصر بوگور کی جماعت سے خطاب کیا.۵/اگست کو آپ جا کرتا پہنچے.جکارتہ میں ۶ را گست کو آپ نے ایک وفد کے ساتھ انڈونیشیا کے وزیر مذاہب سے تین گھنٹہ تک ملاقات کی.۷ اگست کو آپ نے خدام الاحمدیہ انڈونیشیا کے مرکزی عہدیداروں سے ملاقات کی اور ان کے اجلاس کو خطاب کیا ہے.عشاء کے بعد مسجد جکارتہ میں آپ کی خدمت میں الوداعی ایڈریس پیش کیا گیا.آپ نے فرمایا کہ جماعت نے جس رنگ میں حسن سلوک اور نیک جذبات کا اظہار کیا ہے میں اس کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا.مکرم کمال یوسف صاحب دورہ انڈونیشیا کی روئیداد میں رقمطراز ہیں:.150 کہ اس سفر کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل ۹۰ بیعتیں ہوئیں.سنگاپور ( ۸ تا ۱۰ راگست) انڈو نیشیا کا دورہ مکمل کرنے کے بعد آپ تین روز تک دوبارہ سنگا پور میں قیام فرما رہے.یہاں آپ کے اعزاز میں جماعت کی طرف سے استقبالیہ دیا گیا.جس میں غیراحمدی، ہندو، سکھ اور عیسائی انگریز بھی تھے.صاحبزادہ صاحب نے اس موقع پر ہمارے بیرونی مشن کے زیر عنوان انگریزی میں تقریر فرمائی جس کا ترجمہ مولانا محمد سعید صاحب انصاری نے کیا.دوران قیام مشن کے بقیہ مختلف مسائل زیر غور آئے اور مشورہ ہوا.مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ سنگا پور نے دورہ کی کامیابی کے لئے ہر ممکن جد و جہد فرمائی.بنکاک تھائی لینڈ (۱۲ اگست تا ۱۴ / اگست) سنگا پور سے آپ اار اگست کو ایک بجے شب بنکاک وارد ہوئے.آپ کی آمد کی اطلاع صرف قاضی حبیب الدین احمد صاحب ( آپ ان دنوں SEATO میں بطور لائبریرین کام کر رہے تھے ) کو تھی.تھائی لینڈ کے مسلمانوں کے پریذیڈنٹ اور شیخ الاسلام تھائی لینڈ کی صاحبزادی آپ کے استقبال کے لئے موجود تھی.بنکاک میں قاضی صاحب نے لنچ دیا جس میں سیٹو کے اعلیٰ افسران اور پاکستانی سفارت خانہ کے نمائندگان بھی شامل ہوئے اور

Page 101

تاریخ احمدیت.جلد 22 86 سال 1963ء مختلف موضوعات پر آپ سے تبادلہ خیالات کیا.۱۳ راگست کو شیخ الاسلام نے عصرانہ دیا.آپ نے انہیں بتایا کہ میں تھائی لینڈ میں یہ جائزہ لینا چاہتا ہوں کہ یہاں بدھوں میں تبلیغ اسلام کا راستہ کیسے کھل سکتا ہے.شیخ الاسلام آپ سے قرآن مجید کی بعض آیات کی تفسیر و ترجمہ دریافت کرتے رہے اور جواب سن کر بہت خوش ہوئے.اس وقت تھائی لینڈ کے مسلمانوں کے پریذیڈنٹ اور اسلامی سکول 152 کے ڈائریکٹر بھی موجود تھے.الغرض آپ کا یہ سفر ہر اعتبار سے بہت کامیاب رہا جس سے مشرق بعید کی احمدی جماعتوں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی.سفر میں ہر جگہ خصوصاً انڈونیشیا میں اخلاص و محبت کے والہانہ نظارے دیکھنے میں آئے.محترم کمال یوسف صاحب جا کرتا سے روانگی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.اس وقت جذبات کی عجیب کیفیت تھی.جماعت کے اخلاص اور صاحبزادہ صاحب کی ذات کے ساتھ محبت کو دیکھ کر اور یہ تصور کر کے کہ چند منٹ میں جہاز میاں صاحب کو دور لے جائے گا سب سے زیادہ خیال جو دل میں آتا تھا وہ یہ تھا کہ کاش حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جن کی مساعی اور دعاؤں کے نتیجہ میں اتنی عظیم الشان جماعت ملی.یہاں موجود ہوتے اور اپنی دعاؤں کا پھل خود دیکھتے.وہاں کے احباب اپنے محبوب کو دیکھتے.برادرم محمد نسب جب سماٹرا سے جاوا حضرت میاں صاحب کو ملنے کے لئے آئے تو آتے ہی حضرت صاحب کی صحت کا پوچھا پھر کہنے لگے کہ حضرت صاحب یہاں کبھی نہیں تشریف لائے.پھر کہنے لگے خدا کی اس میں کچھ حکمت ہوگی ان الفاظ کے بعد رونے کی وجہ سے ہچکیوں کی آواز آنے لگی.نوجوان اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود طبیعت پر بالکل قابو نہ رہا.بلک بلک کر بچوں کی طرح رونے لگے اور پھر جلد ہی اُٹھ کر باہر چلے گئے.جب کچھ طبیعت سنبھلی تو پھر اندر آگئے.یہ ذہنی کیفیت صرف نسب صاحب کی ہی نہیں تھی اکثر دوستوں کا یہی حال تھا.حضور کا نام آیا تو آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہیں تھے.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کم و بیش ایک ماہ کے تبلیغی سفر کے بعد ۱۴ / اگست کو بنکاک سے کراچی اور ۶ اراگست کو کراچی سے بذریعہ تیز گام لاہور پہنچے اور شام کو بذریعہ کار مرکز احمدیت ربوہ میں وارد ہوئے جہاں آپ کا پُر تپاک استقبال کیا گیا.

Page 102

تاریخ احمدیت.جلد 22 87 سال 1963ء انصار اللہ ضلع حیدر آباد کا اجتماع ، مسجد کا سنگ بنیاد اور استقبالیہ تقریب اگر چہ سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی لمصلح الموعود ان دنوں اپنی علالت اور ناسازی طبع کے باعث براہ راست جماعتی جلسوں سے خطاب نہیں فرماتے تھے لیکن آپ کی دعاؤں کے یہ حیرت انگیز اثرات دیکھنے میں آئے کہ نہ صرف جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی تعداد میں ہر سال غیر معمولی اضافہ ہوا بلکہ انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کی ذیلی تنظیموں کے اجتماعات سے پوری جماعت میں زبر دست حرکت پیدا کر ڈالی.یہ اجتماعات، دعاؤں اور ذکر الہی کے روح پرور اور دینی ماحول میں ہوتے اور جماعت میں ایک نہایت پاک اور روحانی تبدیلی کا موجب بنتے تھے.اس سال ۲۷ - ۲۸ جولائی ۱۹۶۳ء کو حیدر آباد (سندھ) میں انصار اللہ ضلع حیدرآباد کا اجتماع منعقد ہوا.جس میں خیر پور اور حیدر آباد ڈویژن کی پچاس سے زائد مجالس کے قریباً چھ صد انصار نے شمولیت فرمائی یہ اجتماع علمی، دینی، روحانی اور تربیتی اعتبار سے سندھ کے پہلے تمام اجتماعات سے سبقت لے گیا.اجتماع کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے بھی شرکت فرمائی اور بہت ایمان پرور اور بصیرت افروز خطابات سے نوازا.اجتماع کے موقع پر آپ نے ضلع حیدر آباد اور ضلع تھر پارکر میں آباد مسیحیوں اور ہندوؤں میں منظم تبلیغ کی طرف خصوصی توجہ دلائی اور اس ضمن میں ایک ٹھوس اور جامع سکیم احباب کے سامنے رکھی.اجتماع کے اختتام پذیر ہونے کے بعد آپ نے (۲۸ جولائی کو ) پانچ بجے سہ پہر مسجد حیدر آباد کا سنگ بنیا درکھا.ساڑھے پانچ بجے شام ڈاکٹر عبدالسلام خاں صاحب ایم بی بی ایس ، ڈی ایم آرای نے اپنی کوٹھی واقع لطیف آباد میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے اعزاز میں وسیع پیمانہ میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا.جس میں احباب جماعت کے علاوہ حیدر آباد کے ہر طبقہ کے معززین نے شرکت کی اور آپ سے ملاقات کر کے مختلف علمی موضوعات پر تبادلہ خیالات کیا.ایک نہایت مبارک تحریک دعا اور اس کی عظیم برکات سید نا حضرت مصلح موعود کی ذات مقدس سے مخلصین جماعت کو جو بے مثال اور والہانہ محبت وعقیدت

Page 103

تاریخ احمدیت.جلد 22 88 سال 1963ء تھی وہ خلافت ثانیہ کے آخری دور میں پورے نقطہ عروج تک پہنچ گئی تھی جبکہ عشاق احمدیت جلسوں اور خطبوں میں اپنے محبوب آقا کا چہرہ دیکھنے تک کو ترس گئے اور ان کی حسرتیں دل ہی دل میں بے قرار تمنائیں بن کے رہ گئیں.اُن دنوں پوری دنیا ئے احمدیت حضور کی شفایابی کے لئے سرتا پا سوز و گداز اور مجسم دعا بنی ہوئی تھی.ایسے دردانگیز ماحول میں (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ نے وسط ۱۹۶۳ء میں نہایت پر زور الفاظ میں یہ مبارک تحریک فرمائی کہ کم از کم تین ہزار احباب عہد کریں کہ وہ یکم اگست سے ۹ ستمبر ۱۹۶۳ء تک غلبہ اسلام اور حضور کی کامل و عاجل صحت یابی کی دعاؤں اور بالالتزام تہجد کے ساتھ تین سو مرتبہ درود شریف پڑھتے رہیں گے کیونکہ الہی بشارتوں کو جلد تر دیکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود بھیجنا بہت ضروری اور مفید ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے علاقائی امراء سے درخواست کی کہ وہ اس بابرکت تحریک میں شمولیت کے لئے اجتماعی اور انفرادی طور پر مخلصین کو تحریک فرما ئیں اور یکم اگست سے پہلے پہلے دفتر صدر صدر انجمن کو ان کے اسماء گرامی سے مطلع فرمائیں.اس مبارک تحریک کے جاری ہونے پر ابھی تیسرا ہفتہ بھی نہیں آیا تھا کہ جناب الہی کی طرف سے اس کی نسبت مبشر خوابوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے الفضل ۲۰ را گست ۱۹۶۳ء) میں تحریر فرمایا:.تہجد ، دعاؤں اور درود شریف کی جو تحریک ( یکم اگست تا ۹ ستمبر ۱۹۶۳ء) میں نے پچھلے دنوں کی تھی.اس تعلق میں بیسیوں دوستوں نے اپنی خوا میں بیان کی ہیں جس سے پتہ لگتا ہے کہ ہمارا رب جو قادر وتوانا ہے.ہماری اس ناچیز کوشش کو شرف قبولیت عطا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے.ایک دعا گو بزرگ دوست کو جنہوں نے اپنا نام بعض وجوہ کی بناء پر اس تحریک میں نہیں لکھوایا تھا.یکم اگست کی رات خواب میں کہا گیا.اٹھو اور غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کرو ایک اور دوست کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے.بَارَكَ اللَّهُ لَكُمْ فِي هَذِهِ المُجَاهَدَةِ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے اس مجاہدہ کو بہت سی برکتوں کا موجب بنائے.ایک اور دوست نے لکھا ہے کہ مبارک تحریک دعا میں میں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے شمولیت سے تردد کر رہا تھا لیکن دل میں جوش موجزن تھا.چنانچہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ مجھے کسی نے آواز دی بتاؤ تم کیا چاہتے ہو.ہم

Page 104

تاریخ احمدیت.جلد 22 89 سال 1963ء تم کو سب نظارے دکھائیں گے اور دیں گے.میں نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جوانی کی حالت میں صحت کاملہ کے ساتھ دکھائے جائیں.چنانچہ میں نے حضور کو کامل صحت کے ساتھ کام کرتے دیکھا.پھر آواز آئی کوئی اور خواہش ہے.خاکسار نے خواہش کا اظہار کیا کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت ہو جائے تو بہت اچھا ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کروائی گئی پھر آواز آئی کوئی اور خواہش ہے تو کہو خاکسار نے کہا کہ اگر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہو جائے تو بہت مشکور ہوں گا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی.میں دل میں بہت خوش ہوا اور خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کیا.پھر بعد میں خواب میں کہا گیا کہ دیکھو تم نے اس مبارک تحریک میں شامل ہونے کا ارادہ کیا تو خدا تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ وہ تم لوگوں کے ساتھ کس طرح شاندار سلوک کرے گا.اس کے علاوہ بھی دوستوں کو اس مجاہدہ کے بابرکت ہونے کے متعلق بہت سی خوا ہیں آئی ہیں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ان عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرمائے اور ہمارے گھروں کو اپنے نور، برکت، فضل اور رحمت سے بھر دے اور ہماری اولا دوں کو ان حسنات میں حصہ دار بنائے جو کسی شخص کو خدا تعالیٰ کی رحمت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے طفیل حاصل ہوسکتی ہیں.آمین جن دوستوں نے اس تحریک میں نام نہیں لکھوائے ان سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی ان ایام میں کثرت سے دعائیں کریں اور درود شریف پڑھیں اور حتی الوسع نماز تہجد پڑھنے کی کوشش کریں تا کہ وہ بھی ایک حد تک ان برکات میں حصہ دار بن سکیں.خاکسار مرزا ناصر احمد صدر - صدر انجمن احمدیه 158 اس مبارک تحریک پر خدا کے فضل سے برصغیر پاک و ہند کے قریباً آٹھ ہزار خلصین احمدیت نے با قاعدہ شمولیت اختیار فرمائی.(اخبار بدر ( قادیان) نے یکم اگست ۱۹۶۳ء کے پرچہ میں شامل ہونے والے درویشان قادیان اور دیگر بھارتی احمدیوں کی فہرست شائع کی تھی ) اور ان کے ذوق وشوق اور جوش و خروش کو دیکھ کر اُن کے ماحول میں بھی دین سے لگاؤ اور درود شریف کے ورد کا بہت چرچا ہوا اور ان کے بچوں نے بھی روحانی رنگ کے اس پر کیف چلہ کے ایام میں کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھا اور جب یہ چالیس روزہ مجاہدہ بظاہر اختتام پذیر ہوا تو لمبا عرصہ با قاعدگی سے نماز تہجد ادا کرنے

Page 105

تاریخ احمدیت.جلد 22 90 سال 1963ء اور ذکر الہی اور درود شریف میں انہماک کی وجہ سے ہزاروں قلوب میں ذکر وفکر اور روحانیت سے ایک طبعی لگاؤ، فطری وابستگی اور گہرا شغف پیدا ہو چکا تھا علاوہ ازیں بہتوں کو اللہ تعالیٰ نے متواتر مبشر خوا میں دکھا ئیں اور بعض ایسے احباب کو جو ابتداء میں اس روحانی قافلہ میں شریک نہیں تھے خوابوں کے ذریعہ اس امر کی تحریک ہوئی کہ وہ اس بابرکت اور نیک کام میں شامل ہوں.الغرض روحانیت کی ان فضاؤں میں یہ مجاہدہ پوری جماعت کے لئے خوشکن اثرات کا حامل ثابت ہوا.جناب شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم اے معتمد صدر صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے اس مبارک تحریک کی برکات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا:.پچھلے دنوں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے یہ تحریک فرمائی تھی کہ احباب جماعت میں سے کم از کم تین ہزار دوست یہ عہد کریں کہ متواتر ۴۰ دن تک اسلام کے غلبہ اور فتح اور حضرت خلیفۃ المسیح اطال اللہ بقاءہ کی صحت کاملہ عاجلہ کے لئے پُر سوز دعاؤں اور بالالتزام نماز تہجد کی ادائیگی کے علاوہ روزانہ کم از کم ۳۰۰ مرتبہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے رہیں گے.اس تحریک میں آٹھ ہزار کے قریب دوستوں نے باقاعدہ طور پر حصہ لیتے ہوئے اپنے نام بھجوائے اور ان کے علاوہ ہزاروں دوست ایسے بھی ہیں جو کسی مجبوری کی وجہ سے نام تو نہیں بھجوا سکے.مگر وہ ان دعاؤں میں شریک ضرور رہے.اور جماعت کے کمسن بچوں نے بھی اور نہیں تو کم از کم درود شریف کے ورد کے نیک کام میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی تعداد میں حصہ لیا.ان میں سے بعض نے تو ۳۰۰ پر اکتفا نہیں کی.اس سے بہت زیادہ تعداد میں درود شریف پڑھتے رہے.الحمد للہ علی ذالک.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ شدید عشق اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بدولت ہمیں نصیب ہوا.جن کی آمد کی ایک اہم غرض یہ تھی کہ وہ خدا کے فضل سے ایک ایسی روحانی جماعت پیدا کریں جو صحیح معنوں میں عاشق رسول ہو اور جس کا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت للہیت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے اندر ایک نیک تبدیلی پیدا کرے.ایک عظیم تبدیلی جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہو.اس کے لئے بے شمار فضلوں کی جاذب اور اس کی بے انتہاء برکتوں کی حامل مبارک تحریک دعا نے احباب جماعت کو اس نیک کام کی طرف متوجہ کر دیا اور اس میں یکسر منہمک کر دیا.اس طرح کہ وہ اکثر شب و روز دعاؤں میں مصروف رہے.اس بابرکت تحریک دعا میں شریک دوستوں کی اکثریت نے خدا کے فضل سے اپنے اندر ایک نیک تبدیلی محسوس کی اور خدا کی یاد میں

Page 106

تاریخ احمدیت.جلد 22 91 سال 1963ء محویت، ذکر الہی کے شغف ، درود شریف میں انہماک اور نوافل اور دعاؤں کے طفیل خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے دل دھل گئے غفلت اور سستی دور ہوگئی اور ان میں ایک نئی روح پیدا ہوگئی اور للہیت اور فدائیت کے جذبہ سے سرشار ہو کر خدا کے فضل سے انہوں نے خدمت دین کے لئے اپنے دل میں شدید نژپ محسوس کی.تحریک دعا کے دوران بہت سے دوستوں کی طرف سے صدر محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی خدمت میں خط موصول ہوئے جن میں انہوں نے اس تحریک کے بابرکت ہونے کی گواہی دی.اور اس امر کا اعتراف کیا کہ یہ تحریک ان کے لئے اور جماعت کے لئے خدا تعالیٰ کے بہت سے فضلوں کو کھینچنے کی باعث ہوئی.انہوں نے ذاتی طور پر اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کے نور کو جلوہ گر دیکھا.اور یہ محسوس کیا کہ وہ روحانی دوڑ میں روز بروز خدا تعالیٰ کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں.چنانچہ ایک صاحب نے اپنے خط میں لکھا:.آپ کی تحریک مبارک جاری کردہ ایک شیریں نہر روحانی جس میں سے گزرتے آج تیسواں روز ہوا بے شمار رحمتوں اور برکتوں سے پر ، مایوسیوں کو دور کرنے والی صبر اور شکر کی طاقت دینے والی، عموم و ہموم کے بادلوں سے با سلامت پارا تارنے والی ثابت ہوئی...درود شریف پڑھنے کا حکم بیعت فارم میں موجود ہے.اور ہر احمدی پر یہ فرض ہے.مگر میں بیعت کے بعد بھی صرف نماز میں درود پر اکتفا کرتا رہا.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے بے شمار فضلوں کا وارث بنائے.آپ نے ایسے وقت یہ تحریک فرمائی کہ نہ صرف حضور اقدس کی صحت اور اسلام کی ترقی ہی اس سے معلوم و مشہور ہوئی بلکہ اس کا یہ اثر ہوا کہ خود مجھے اس نورانی عالم میں لے گئی.جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی نوع بشر کو لانے کے لئے تشریف لائے تھے.میں سچ سچ عرض کرتا ہوں کہ مجھے اس کا ایک بھاری فائدہ یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کلام اللہ کا مرتبہ معلوم ہوا.عشق جس کا نام ہے اور معشوق جس کی شہرت ہے.اس کا آج تک پتہ ہی نہ تھا.میں اپنے تصورات کی بھول بھلیوں میں چکر کاٹ رہا تھا کہ اچانک یوں ہوا کہ خدا کے مامور کے فرزند کی ایک پاک مطہر تحریک سے قلب عشق کے راز سے یوں آشنا ہو گیا جیسے کسی اندھے کو روشنی کی کرن نظر آ جائے اور وہ پھڑک اٹھے.اس عرصہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق استاذی المعظم حضرت علامہ محدث سید میر محمد الحق صاحب سے ملاقات ہوئی.میں وہ نور اور اس کی چمک اس کی پُر محبت نظر چشم پرنم

Page 107

تاریخ احمدیت.جلد 22 92 سال 1963ء دل سوزان در فراق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا.مبارک ہو آپ کو صد مبارک یہ تحریک آپ کے لب مبارک سے ظاہر ہوئی.جزاکم اللہ احسن الجزاء.....ماہ رواں میرے لئے ایک بے حد تکلیف دہ شکل لے کر چڑھا تھا.جس کی برداشت کی طاقت مجھ میں نہ تھی ساتھ ہی آپ کی تحریک مبارک جاری ہو گئی.وہ غم اور کرب وقلق اور اضطراب جا تار ہا.الحمد للہ صاحب موصوف دل کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے خیالات اور جذبات کا اظہار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ٹوٹے پھوٹے فقرات کی تہہ میں جذبات کی شدت اور تلاطم کی کیفیت ملاحظہ فرمائیے گا جس کا نقشہ کھینچنے کے لئے ان کے پاس مناسب الفاظ نہیں ہیں.یہی کیفیت خدا کے فضل سے اس بابرکت تحریک میں شریک ہونے والے اکثر دوستوں کی ہے مگر زبان میں یارا نہیں کہ دلی جذبات کا پوری طرح اظہار کر سکے.اور قلم میں طاقت نہیں کہ نہاں در نہاں دلی احساسات کا نقشہ کھینچ سکے.عاشق صادق اپنا سینہ چاک کر کے اپنے رب کے حضور پیش کر دیتا ہے اور اس محبوب شغل میں اسے جو لذت آتی اور جولطف حاصل ہوتا ہے اسے وہی جانتا ہے.ویس.اللهم صل على محمد و علی ال محمد و بارک وسلم انک حمید مجید.160 66 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو ڈاکٹر آف لاز کی اعزازی ڈگری امریکہ کی ڈینور یونیورسٹی نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو بتاریخ ۶ ار اگست ۱۹۶۳ء ڈاکٹر آف لاز کی اعزازی ڈگری دی.نیز حسب ذیل الفاظ میں آپ کو خراج تحسین پیش کیا.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں جنرل اسمبلی کے صدر جس کی آپ نازک اور بحرانی مباحثات میں صابرانه مزاحمت، فکر انگیز ٹھہراؤ اور وسیع ہمت کے ساتھ قیادت کرتے ہیں.پارلیمانی اصلاح کے معمار...بین الاقوامی شہرت کے حج ، دانا اور روشن دماغ سیاستدان ! تقریباً نصف صدی سے انسانیت کے لئے آپ کی گرانقدر خدمات ناقابل فراموش ہیں.جس انداز سے آپ عدل وانصاف کی نشو ونما اور امن کے مقصد کے لئے سعی کر رہے ہیں اور جس جوش و خروش سے آپ عمدہ زندگی کے روحانی وسائل کی منادی کر رہے ہیں.اس سے روح انسانیت کو زندگی ملتی ہے وہ پھلتی اور پھولتی ہے اور نئے سرے سے اُمید دلاتی ہے کہ آزاد دماغ در حقیقت ایک خوشحال مستقبل کے لئے اس کی قیادت کریں گے.“

Page 108

تاریخ احمدیت.جلد 22 93 سال 1963ء ڈاکٹریٹ کی یہ دوسری اہم اعزازی ڈگری تھی جو ۱۹۶۳ء میں حضرت چوہدری صاحب کو عطا کی گئی.جون میں کولمبیا یو نیورسٹی نے آپ کو ڈا کٹر آف لاز کی ڈگری دی تھی.جناب عبد السلام میڈسن کا دورہ متحدہ عرب جمہوریہ 161 جمہوریہ ڈنمارک کے مشہور ڈینیش نواحمدی جناب عبد السلام صاحب میڈسن نے جولائی ۱۹۶۳ء میں متحدہ عرب جمہوریہ کا مطالعاتی دورہ کیا.اس سلسلہ میں النشرة الثـقــافيـة الجمهورية العربية المتحدة کے بلیٹن بابت ماہ اگست ۱۹۶۳ء میں درج ذیل خبر شائع ہوئی.جولائی ۱۹۶۳ء کو شیخ عبد السلام مداسین ( میڈسن ) شیخ المسلمین ڈنمارک اسکندر یہ پہنچ گئے.۱۵ طالبات اور ۵ طلباء بھی ان کے ہمراہ تھے جو اس سال ڈنمارک میں مشرف باسلام ہوئے انہوں نے متحدہ عرب جمہوریہ کا دورہ کیا.وزارت تعلیم نے اہم مقامات اور دینی و ثقافتی مراکز دیکھنے کا ایک جامع پروگرام مرتب کیا.فضل عمر پبلک لائبریری" کراچی کا افتتاح اور علامہ نیاز فتح پوری کا پُر اثر خطاب ۳۰ اگست ۱۹۶۳ء کو مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے زیر اہتمام فضل عمر پبلک لائبریری‘“ (مارٹن روڈ ) کی افتتاحی تقریب عمل میں آئی اس موقعہ پر علامہ نیاز فتح پوری نے ایک پر اثر خطاب کیا.آپ نے فرمایا:.احمدی تحریک کا ذکر تو میں عرصے سے سنتا چلا آ رہا تھا.لیکن خود اس پر غور وفکر کرنے کا موقع حال ہی میں ملا.اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر تعلیم اسلام کا مقصود واقعی بلند کردار ، حسنِ عمل اور طہارت نفس ہے (جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ) تو اس وقت غالبا احمدی جماعت ہی وہ جماعت ہے جس نے صحیح معنے میں اس مقصد عظیم کو سمجھا اور اسے اجتماعی حیثیت بخشی.تمام مذاہب عالم میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے ارتقاء انسانی کا یہ بلند نظریہ پیش کیا اور اس کو بروئے کارلانے کے لئے عقائد کو یکسر عمل میں تبدیل کر دیا.دنیا کے تمام مذاہب مخصوص تھے مخصوص اقوام کے لئے.لیکن اسلام کا خطاب تمام عالم انسانی سے تھا.معمورہ دنیا کی پوری ہیئت اجتماعی سے تھا اور اسی بناء پر اس نے اکمل ادیان عالم ہونے کا

Page 109

تاریخ احمدیت.جلد 22 94 سال 1963ء دعویٰ کیا.الغرض یہ تھا اصل مفہوم و مقصود اسلام کا جو افسوس ہے کہ عہد سعادت وعہد خلفاء راشدین کے بعد رفتہ رفتہ فراموش ہو گیا اور مسلمان بجائے اس کے کہ وہ دوسروں کو اصلاح و اجتماع کی دعوت دیتے خود افتراق و انتشار کا شکار ہو گئے اور مذہب نام رہ گیا صرف روایات کا.یہ حالت صدیوں تک جاری رہی یہاں تک کہ اسلام کو مرد بیمار سمجھ کر چاروں طرف سے اس پر حملے ہونے لگے اور اس کی کسمپرسی انتہاء کو پہنچ گئی.یہی وہ وقت تھا اور یہی وہ فضا تھی ہندوستان کی جب ایک مرد عمل سرزمین قادیان سے اٹھا اور اس نے تن تنہا تمام مخالف طوفانوں کا مردانہ وار مقابلہ کر کے دنیا پر ثابت کر دیا کہ خدا کا روشن کیا ہوا چراغ مدھم تو ہو سکتا ہے لیکن اسے بجھایا نہیں جاسکتا.لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (التوبة: ٣٣) اس وقت مجھے اس سے بحث نہیں کہ (حضرت) مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے آپ کو کس حیثیت سے پیش کیا یا یہ کہ اپنے آپ کو کیا سمجھا بلکہ صرف یہ کہ کیا کیا یا کیا کر دکھایا اور کیونکر ایسی مضبوط اور باعمل جماعت قائم کر سکے جس کی بے پناہ عملی قوت کا اعتراف ان کے مخالفین کو بھی ہے.وَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاء احمدی جماعت کے قیام کو زیادہ زمانہ نہیں گذرا تاہم اتنا زمانہ یقینا گزر چکا ہے کہ اگر یہ تحریک بے جان ہوتی اور اس کی بنیاد کمزور ہوتی تو دوسری جماعتوں کی طرح یہ بھی ختم ہو چکی ہوتی لیکن جس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تحریک ایک مختصر گاؤں سے شروع ہو کر نصف صدی کے اندر تمام دنیا کے تمام گوشوں تک پہنچ جاتی ہے تو ہم کو اس کی استقامت عزم کا اعتراف کرنا پڑتا ہے اور یہ استقامت کسی جماعت میں اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب اس کا بانی ومؤسس خود بڑا مخلص انسان ہو.کیست که کوشش فرہاد نشاں باز دهد مگر آن نقش که از تیشه به خار اماند جماعت احمدی کا دائرہ عمل جس حد تک وسیع ہو چکا ہے اس کی تفصیل کا موقع ہے نہ ضرورت لیکن اس وقت یہ ظاہر کر دینا غالباً نا مناسب نہ ہوگا کہ اس کا نصب العین صرف قرآن اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ تعلیمات اسلام، اخلاق اسلام اور غایت ظہور اسلام کی عملی مثالیں بھی قائم کرنا ہے.یعنی وہ صرف یہ کہہ کر خاموش نہیں ہو جاتے کہ اخلاق بلند کرو بلکہ اپنے کردار عمل سے بھی اس تعلیم کی برکات کا ثبوت دیتے ہیں اتنا صاف ، روشن اور واضح ثبوت جس سے غض بصر ممکن

Page 110

تاریخ احمدیت.جلد 22 95 سال 1963ء ہی نہیں چنانچہ اگر تحریک احمدیت کے آغاز سے اس وقت تک کی ان تمام خدمات کا جائزہ لیں جواس نے خالص اخلاقی نقطہ نظر سے مفاد عامہ کے لئے انجام دی ہیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں.انہوں نے مدارس قائم کئے.شفا خانے تعمیر کرائے ، انہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت طلبہ کے وظائف مقرر کئے.غرباء ومساکین کا مفت علاج کیا.یتامی کی کفالت کی.بیواؤں کے دکھ درد میں شریک ہوئے اور ان کی یہ گرانقدر خدمات وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہیں.اب سے شاید دو تین سال قبل کی بات ہے جیسا کہ فضل عمر ہسپتال (ڈسپنسری ) کراچی کی عمارت دیکھنے کا موقع مجھے ملا تھا اور یہ معلوم کر کے حیران رہ گیا جب مجھے بتایا گیا کہ یہ تعمیر محض یہاں کے احمدی نو جوانوں کے ہاتھوں وجود میں آئی ہے تو معا میرا ذہن قادیان کے اس مجاہد اعظم کی طرف منتقل ہوا جس کے فیضانِ تعلیم نے ایثار و قربانی اور سعی و عمل کا یہ جذبہ اپنے متبعین میں پیدا کیا.اور اس خیر جاریہ کی تشکیل کے لئے اتنے جاں نثار و فدائی پیدا کر دئیے.پھر میں یہاں سے چلا گیا لیکن اس کا اتنا گہرا اثر دل پر لے گیا کہ اس کے بعد جب کبھی کسی نے احمدی تحریک کا ذکر چھیڑا تو میں نے اس کی قوت عمل کے ثبوت میں ہمیشہ اپنے اس نئے تجربہ کو پیش کیا.علامہ نیاز فتچوری اس ولولہ انگیز تقریر کے بعد احباب جماعت کے ساتھ لائبریری میں تشریف لے گئے اور لائبریری کی ممبر شپ کا پہلا کارڈ پر کیا.آپ کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت کراچی اور قائد خدام الاحمدیہ کراچی اور دیگر احباب نے رکنیت قبول کی.اس طرح لائبریری کا حوصلہ افزاء ماحول میں آغاز ہوا.اس لائبریری میں اس وقت دو ہزار سے زائد کتب موجود تھیں جو مذہبی، ادبی، تاریخی ، معاشی اور فنی مضامین پر مشتمل تھیں.لائبریری کے ساتھ دارالمطالعہ بھی تھا جس میں سلسلہ کے اخبارات ورسائل کے علاوہ دیگر اخبارات اور ادبی رسائل بھی موجود تھے.قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا وصال (سوانح اور سیرت و شمائل ) اس سال کا نہایت درجہ روح فرسا اور انتہائی الم انگیز واقعہ، سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نامور اور صاحب قلم فرزند اور خدائی نشانات کے مظہر قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کی وفات حسرت آیات ہے جو ایک عظیم الشان علمی و قلمی جہاد کے نتیجہ میں واقع

Page 111

تاریخ احمدیت.جلد 22 96 سال 1963ء ہونے کے باعث اپنے اندر شہادت کا رنگ رکھتی ہے اور آپ کی رویاء و کشوف کے عین مطابق ظہور میں آنے کی وجہ سے خدا کی ہستی کا ایک نشان ہے.ام حضرت صاحبزادہ صاحب ایک برگزیدہ ہستی اور مقدس وجود تھے اور سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود کے حقیقی دست و بازو تھے.آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک منٹ دینِ حق کے لئے وقف تھا اور آپ عُسر ویسر، سفر و حضر اور صحت و علالت غرض کہ ہر صورت میں خدمت دین میں سرشار رہتے تھے.۱۹۵۳ء کے قیامت خیز ایام میں آپ پر دل کی بیماری کا شدید اور خطرناک حملہ ہوا اور اگر چہ آپ کئی ہفتے صاحب فراش رہنے کے بعد بظاہر صحت یاب ہو گئے مگر دل کی کیفیت پوری طرح بحال نہ ہوئی.اس کے علاوہ نقرس Gout) کی بہت پرانی تکلیف تھی جس کے بعد ۷.۸ سال سے ذیا بیطیس کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا تھا.دل کی تکلیف سے آپ کو کبھی کبھی تنفس کی تنگی یا دل کے درد کا دورہ ہو جاتا تھا جو دینی کاموں کے ہجوم اور جماعتی تفکرات کا رد عمل ہوتا تھا.مگر آپ برابر اپنے خدا سے کئے ہوئے عہد کو نبھائے چلے جارہے تھے اور دیوانہ وار سلسلہ کے کاموں میں سرگرم عمل رہتے تھے.آپ کی مرض الموت یعنی آخری بیماری کا آغاز جون ۱۹۶۳ء میں ہوا جبکہ ربوہ میں آپ نے نگران بورڈ کے ایک اجلاس کی صدارت فرمائی.طبیعت پہلے سے ناساز اور مضمحل تھی لیکن آپ نے حسب معمول دین کو مقدم کرنے کے لئے پاک جذبہ سے اجلاس میں شرکت فرمائی اور کمزوری طبع کے با وجود کئی گھنٹے تک اجلاس کو جاری رکھا اور بہت سے جمع شدہ امور کو نپٹانے میں اپنی پوری طاقت وقوت صرف کر دی مگر یہی محنت و کاوش بالآخر جان لیوا ثابت ہوئی.انتڑیوں اور معدے میں سوزش اور 165 گبھراہٹ کے آثار نمایاں ہو گئے.پراسٹیٹ بڑھ گئے اور کمزوری انتہا ء تک پہنچ گئی.جب یہ تکلیف شدت اختیار کر گئی تو آپ ڈاکٹری مشورہ کے مطابق ۲۸ جون ۱۹۶۳ء کو بغرض علاج ربوہ سے لاہور تشریف لائے.یکم جولائی کی شام کو ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے جو تین سرجنوں اور تین فزیشنوں ) کرنل ملک صاحب، کرنل عطاء اللہ صاحب، ڈاکٹر مسعود احمد صاحب سرجن میوہسپتال، کرنل محمود الحسن صاحب ملٹری ہسپتال، ڈاکٹر محمد اختر خاں صاحب فزیشن میوہسپتال، ڈاکٹر محمد رشید چودھری صاحب، ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب) پر مشتمل تھا.آپ کا طبی معائنہ کیا.معائنہ کے دوران آپ کو ڈھائی گھنٹے تک میز پر لیٹے رہنا پڑا جس سے آپ کو کوفت ہوئی.

Page 112

تاریخ احمدیت.جلد 22 97 سال 1963ء ڈاکٹروں نے متفقہ رائے دی کہ آپریشن کی کوئی فوری ضرورت نہیں.کچھ ادویہ دی گئیں اور فی الواقع علاج سے کچھ افاقہ بھی ہوا.لیکن آسمانی مشیت کچھ اور بتلا رہی تھی چنانچہ کئی ماہ سے آپ کو متعدد منذر خوا میں اپنی وفات کی نسبت آ رہی تھیں جن سے آپ کو قطعیت کی حد تک یقین ہو چکا تھا کہ واپسی کا وقت قریب ہے.خوابوں کا یہ سلسلہ لاہور میں بھی بدستور جاری رہا اور آپ نے اس کا واضح ذکر صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب، ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب اور دوسرے احباب سے بھی فرمایا.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا.اُن کی رائے تھی کہ تشویش کی کوئی بات نہیں آپ کی دونوں اصل بیماریاں کنٹرول میں ہیں اور شدید بے چینی اور بے خوابی کی تکالیف عارضی ہیں جو انشاء اللہ جلد دور ہو جائیں گی.آپ نے سُن کر فرمایا کہ ڈاکٹروں کی رائے پر نہ جانا“.اس کے بعد ڈاکٹری مشورہ پر آپ ۷ ا جولائی کو بذریعہ کا رگھوڑا گلی کے لئے روانہ ہو گئے.آپ کے ساتھ ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب اور آپ کے خادم خاص بشیر احمد بھی تھے.راستہ میں آپ نے چند گھنٹوں کے لئے جہلم ڈاک بنگلہ میں بھی قیام فرمایا.آپ سات بجے شام راولپنڈی پہنچے.مقامی جماعت کی طرف سے چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت احمدیہ نے آپ کا استقبال کیا.دوسرے روز ۱۸ جولائی کو آپ ساڑھے سات بجے گھوڑا گلی پہنچ گئے.یہاں پہلے دو تین روز آپ کی طبیعت پرسکون اور خاصی بہتر ہوگئی.ساملی سینی ٹورم کے ڈاکٹر اور سول سرجن مری آپ کو دیکھنے کے لئے پہنچ گئے اور باقاعدگی سے آپ کا معائنہ کرنے لگے اور آپ کی شفایابی کی قوی امید پیدا ہوگئی لیکن آپ نے پہلے کی طرح پھر منذر خواب دیکھی اور اس وجہ سے آپ مقررہ پروگرام سے پہلے ہی ۶ راگست کو واپس لاہور تشریف لے آئے جہاں علاج کا نیا دور شروع ہوا.ڈاکٹروں نے بیماری کا دوبارہ جائزہ لیا اورنئی دوائیں تجویز کیں.ڈاکٹر محمد یعقوب خاں روزانہ آپ کی خدمت میں با قاعدگی سے حاضر ہوتے رہے.ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ جب آپ کو بلڈ پریشر اور نبض وغیرہ دیکھنے کے بعد بتایا جاتا کہ نارمل ہیں تو فرماتے آپ کہتے ہیں نارمل اور ٹھیک ہے.مگر میں تو محسوس کرتا ہوں کہ اب میرے اندر کچھ باقی نہیں رہا.انہی دنوں آپ نے بہت تکرار سے یہ ذکر فرمایا کہ مجھے بہت منذر خوا میں آئی ہیں اور اب میری وفات کا وقت قریب ہے.پھر کئی دفعہ بتایا کہ ایک ہی طرح کی خواب ربوہ سے چلتے وقت اور گھوڑ اگلی اور لاہور میں آئی ہے ایک دفعہ فرمایا کہ اب میری عمر ۷۰ سال سے زائد ہو چکی ہے.میں موت سے نہیں ڈرتا.اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے.ڈاکٹر صاحب اور بعض

Page 113

تاریخ احمدیت.جلد 22 98 سال 1963ء دوسرے دوستوں نے کئی دفعہ عرض کیا کہ خوا میں تعبیر طلب ہوتی ہیں مگر ان باتوں کا آپ پر قطعا کوئی اثر نہ تھا اور آپ کو موت کے قریب ہونے کا یقین کامل تھا.۲۴ راگست کے قریب آپ نے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ” اب تو چل چلاؤ ہی ہے اس طرح ایک خط میں بالوضاحت یہ ذکر فرمایا کہ میری زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر جاری ہوا ہے کہ ؎ بھر گیا اب تو باغ پھولوں سے آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا المختصر آسمانی اشارات، القاء اور رؤیا کی بناء پر آپ کو جناب الہی کی طرف سے قطعی طور پر علم ہو چکا تھا کہ آپ کی واپسی کا وقت قریب آن پہنچا ہے جو کبھی ٹل نہیں سکے گا.حتی کہ ماہ جون کے آخر میں آپ نے ربوہ سے روانگی کے وقت اپنی تجہیز و تکفین کے لئے علیحدہ رقم گھر دے دی پھر لاہور سے مزید رقم ارسال فرمائی اور پیغام دیا کہ میری وفات پر دوست آئیں گے.ان دنوں گھر کے عام خرچ سے زیادہ اخراجات ہوں گے اس لئے یہ رقم بھجوا رہا ہوں ایک روز ایک خط بھی اپنے خادم خاص بشیر احمد صاحب سے لکھوا کر بھیجا جو ایک قسم کا الوداعی خط تھا.بعض قرائن سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ پر یہ انکشاف بھی ہو چکا تھا کہ آپ اکتوبر سے قبل اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں گے.چنانچہ ایک بیرون از پاکستان خط کے جواب میں آپ نے لکھوایا کہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ لوگ اکتوبر میں پاکستان آئیں گے لیکن اکتوبر میں تو میں یہاں نہیں ہوں گا.یہ ایک عجیب بات تھی کہ ایک طرف آپ اپنی وفات کی طرف بار بار اشارہ فرما رہے تھے اور احباب سے بھی اس کا ذکر کر رہے تھے مگر دوسری طرف سبھی ڈاکٹر مطمئن تھے اور انہیں اس قسم کا کوئی فوری خطرہ نظر نہ آتا تھا.وہ سمجھتے تھے کہ اصل خطرے والی بیماریاں کنٹرول میں ہیں اور شدید گھبراہٹ ور بے خوابی کی تکالیف محض عارضی ہیں بالکل اسی رائے کا اظہار اعصابی امراض کے ماہر (Neurophysician) ایک انگریز ڈاکٹر میلر (Miller) نے بھی کیا جو اتفاقاً اُن دنوں پاکستان سے گزرتے ہوئے آسٹریلیا جا رہے تھے.۲۸ اگست کو انہوں نے معائنہ کیا.دیگر معالجین نے بیماری کی پوری سرگزشت سنائی.خود آپ نے اپنی علالت کے تمام حالات ایک نوٹ کی شکل میں ترتیب وار لکھوائے ہوئے تھے جو ڈاکٹر صاحب نے توجہ سے پڑھے اور پھر دریافت کیا کہ آپ کی

Page 114

تاریخ احمدیت.جلد 22 99 سال 1963ء مصروفیات کیا ہیں؟ حضرت قمر الانبیاء نے فرمایا کہ میں زیادہ تر تصنیف اور لکھنے پڑھنے کا کام کرتا ہوں.انہوں نے پوچھا کہ آپ کی آخری تصنیف کونسی ہے؟ آپ نے فرمایا فیملی پلاننگ کے متعلق.انہوں نے مسکرا کر کہا کہ اس کے حق میں یا اس کے خلاف.تو آپ نے فرمایا کہ بعض حالات میں اس کے حق میں اور بعض حالات میں اس کے مخالف.انہوں نے تمام کو ائف معلوم کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد ڈاکٹروں کی موجودگی میں کہا کہ میری رائے میں جو دوائیں میں نے تجویز کی ہیں.ان کے استعمال سے دو ہفتہ میں خاصہ افاقہ ہو جائے گا اور وثوق سے کہا کہ چند ہفتوں میں بہتری کا آغاز ہو جائے گا اور امید ہے کہ دو تین ماہ کے اندر آپ اس بیماری (Neurosis) پر قابو پالیں گے اور اپنا کام معمول کے مطابق دوبارہ جاری کر سکیں گے.بہر حال اس انگریز ماہر ڈاکٹر کی رائے بھی آپ کے معالجین کے عین مطابق تھی کہ آپ کا اعصابی مرض کو تکلیف دہ ہے مگر خطر ناک نہیں ہے.موصوف نے جواد یہ تجویز کیں وہ لاہور سے دستیاب نہ ہو سکیں.اسی دن انگلستان سے بذریعہ کیبل گرام ان کے منگوانے کے لئے آرڈر بھیج دئے گئے.ڈاکٹر ملر آپ کو دیکھ کر ساتھ والے کمرہ میں آئے اور کہنے لگے He looks like a" "Biblical Prophet یعنی آپ انبیائے بائیبل کے مشابہ دکھائی دیتے ہیں.ڈاکٹر ملر کی ملاقات کے دوسرے ہی دن ۲۹ اگست کی شام کو آپ کا درجہ حرارت سو (۱۰۰) ہو گیا جو ۳۰ اگست کو ۱۰۷ تک پہنچ گیا اور آپ پر غنودگی طاری ہوگئی تاہم اس حالت میں بھی آپ کی زبان مبارک پر اکثر دعائیہ کلمات جاری رہے جن کا ایک آدھ لفظ ہی سمجھ میں آتا تھا جیسے رہنا یا ایک لفظ طیر دھیما سا سنائی دیا.ایک وقت میں تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ عربی میں کسی سے لمبی گفتگو فرمار ہے ہیں.یہ گویا دنیا سے عملی انقطاع اور عظمی سے رابطہ کی ابتدا تھی.یکم ستمبر کی صبح کو حضرت میاں صاحب کی طبیعت از حد ناساز ہوگئی.جس پر چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی ہدایت پر دارالذکر میں اجتماعی دعا ہوئی.امیر صاحب نے درد بھری آواز میں کہا.غافلو ! تم سے ایک نعمت چھینی جا رہی ہے.ان الفاظ سے دلوں کو زبردست دھکا لگا.چیخوں اور سکیوں کے ساتھ دعا شروع ہوئی.آنکھیں رورہی تھیں اور دل ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے.دعا ختم ہوئی.صدقہ کی رقوم اکٹھی کی گئیں اور احمدی افسردہ اور مضطرب دلوں کے ساتھ واپس اپنے گھروں کو چلے گئے.168

Page 115

تاریخ احمدیت.جلد 22 100 سال 1963ء 169 شام کو بخار کی شدت سے حضرت میاں صاحب پر غنودگی طاری تھی.ڈاکٹروں کی ایک پوری ٹیم صلاح و مشورہ میں مصروف ہو گئی.ملک منور احمد صاحب جاوید کا بیان ہے کہ انہیں دومرتبہ حضرت میاں صاحب کو دیکھنے کا موقعہ ملا.دیکھا کہ غنودگی کی حالت میں فرمارہے تھے اللہ تیرا شکر ہے.اللہ تیرا شکر ہے“.۲ ستمبر کا سارا دن اسی عالم میں گذرا اور بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی.شام کے وقت بہت سے احباب کوٹھی نمبر ۲۳ ریس کورس کے احاطہ میں نماز مغرب کے لئے جمع تھے.ہر شخص کرب و اضطراب میں ڈوبا ہوا تھا.کوٹھی کے لان میں مغرب کی اذان ختم ہوتے ہی عین اس وقت جبکہ نماز شروع ہو رہی تھی حضرت قمر الانبیاء کی طبیعت یکا یک متغیر ہو گئی، سانس رک گیا، دو ایک کوششیں مصنوعی تنفس کی کی گئیں مگر بے سود، جس بلاوے کا آپ کئی ماہ سے انتظار کر رہے تھے.وہ آن پہنچا اور آپ کی روح مقدس 4 بج کر ۴۸ منٹ پر قفس عنصری سے پرواز کر گئی.اور آپ چشم زدن میں اپنے آسمانی مولا کی آغوش رحمت میں پہنچ گئے.اس طرح نبیوں کا چاند جو ستر برس تک اس جہان کے افق پر ضیا پاشی کرتا رہا.یکا یک غروب ہو کر اگلی دنیا میں طلوع ہو گیا.انا للہ و انا اليه راجعون.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نماز کے معا بعد دوڑ کر اندر گئے.اپنے مقدس باپ اور مسیح محمدی کے لخت جگر کا بازو اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے بوسہ دیا آپ اسی کیفیت میں چند لمحوں تک دعائیں کرتے رہے.ازاں بعد (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور دیگر افراد خاندان مسیح موعود آپ کے کمرہ میں پہنچے.اس حادثہ کی اطلاع اسی وقت بذریعہ ٹیلی فون ربوہ میں دے دی گئی.اگلے دن ریڈیو پاکستان 171 170 اور اخبارات نے پورے ملک میں یہ خبر پہنچادی.لاہور میں وفات کی خبر آن واحد میں پھیل گئی اور لاہور کے ہر حصے اور علاقے سے غمزدہ اور سوگوار احمدی دیوانہ وار کوٹھی میں پہنچنے لگے.سارا صحن بھر گیا.سڑک پر ٹریفک کا کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا.اس موقعہ پر حضرت قمر الانبیاء کے صاحبزادگان اور دوسرے افراد خاندان مسیح موعود نے صبر وتحمل کا بے مثال نمونہ دکھلایا اور غم سے نڈھال ہونے کے باوجود آنے والوں کو تسلی دیتے رہے.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمایا ”ہمارا ازلی ابدی خدا بے عیب ہے.اس کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا ہم اس کی رضا پر راضی ہیں“.

Page 116

تاریخ احمدیت.جلد 22 101 سال 1963ء حضرت صاحبزادہ صاحب نے احباب کے جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے سب کو حضرت قمر الا نبیاء کے جسد اطہر کی زیارت کرائی.لاہور سے سوگوار قافلہ کی سُوئے ربوہ روانگی رات سوا دس بجے آپ کی نعش مبارک ایک قافلہ کے جلو میں ایمبولینس کار کے ذریعہ لاہور سے ربوہ کے لئے روانہ ہوئی.غمزدوں کا یہ قافلہ سات کاروں، دو بسوں اور دوایمبولینس پر مشتمل تھا.ایک بس جس میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ تھیں سب سے پہلے حرکت میں آئی.قافلے کے باقی حصے ایک ایک کر کے کوٹھی سے نکل کر گیارہ بجے شاہدرہ پہنچے سب سے آگے حضرت میاں صاحب والی ایمبولینس تھی جس میں سید حضرت اللہ پاشا صاحب اور محترم میجر (بعد ازاں برگیڈیئر) وقیع الزمان صاحب تھے اور سب سے آخر میں لاہور کے ایثار پیشہ احمدی جوانوں کی بس تھی جس میں شیخ ریاض محمود صاحب، اخوند فیاض احمد صاحب، ملک منور احمد صاحب جاوید اور دیگر خدام سوار تھے.یہ قافلہ ساری رات بارش ، ہوا کے طوفان اور کالے اور مہیب بادلوں میں چلتا رہا.رستہ میں دوکار میں خراب ہو گئیں.قافلہ تین بجے کے قریب چینوٹ سے آگے جو نہی چناب کے پل پر پہنچا پہلی گاڑی جس میں حضرت میاں صاحب ابدی نیند سو ر ہے تھے خراب ہو گئی جس کو ٹھیک کرنے میں دیر لگ گئی جس کے بعد بالآخر ساڑھے تین بجے شب کے قریب یہ قافلہ خدا کے مسیح کی مقدس امانت لے کر ربوہ کی حدود میں داخل ہوا.اس وقت اہل ربوہ ایک قیامت سے دو چار تھے اور گھر گھر سوگ کی گہری کیفیات سے دو چار تھا.چنانچہ جب آپ کا جسد خا کی ربوہ پہنچا تو ہزاروں احباب کی بے ساختہ چیچنیں نکل گئیں اور آنکھیں اشکبار ہو گئیں.ربوہ کے اڈہ سے البشری کوٹھی تک ہر طرف خلقت ہی خلقت نظر آتی تھی.غسل اور تجہیز و تکفین قافلہ پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ۳ ستمبر چار بجے صبح نعش مبارک کو غسل دیا گیا نسل خالد احمدیت محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح وارشاد، حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی اور محترم حکیم عبد اللطیف صاحب شاہد ( جنہیں گزشتہ سال حضرت میاں صاحب کی طرف سے حج بدل کا

Page 117

تاریخ احمدیت.جلد 22 102 سال 1963ء فریضہ ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا) نے دیا.نیز غسل دینے میں مکرم مولا نا محمد احمد صاحب جلیل اور مکرم سید مبارک احمد شاہ صاحب اور مکرم حمید احمد صاحب اختر ابن مکرم عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلوی نے بھی حصہ لیا.اور مذکورہ بالا ہر سہ اصحاب کا ہاتھ بٹایا.بعد ازاں تجہیز و تکفین عمل میں آئی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ کفن کا ایک حصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو اصحاب خاص حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب اور محترم خواجہ عبید اللہ صاحب نے ہاتھ سے سیا تھا.174 175 حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حادثہ کی اطلاع سید نا حضرت مصلح موعود چونکہ خود لمبے عرصہ سے صاحب فراش تھے اس لئے رات کو حضور کی خدمت میں عمد یہ خبر نہ پہنچائی گئی.حضورا نور صبح بیدار ہوئے تو حضرت میاں صاحب کے متعلق خود ہی دریافت فرمایا جس پر حضرت ام متین نے اس حادثہ کی اطلاع دی اور پھر الفضل کا تازہ پر چہ بھی سامنے کر دیا جس میں نہایت جلی حروف سے حضرت صاحبزادہ صاحب کی وفات کی مفصل خبر دی گئی تھی.حضور کو طبعی طور پر اس کا بے حدصدمہ اور قلق ہوا لیکن آپ نے رضا بالقضاء کی ایسی حیرت انگیز مثال قائم کی جو ہمیشہ مشعل راہ رہے گی پہلے دو روز تو آپ اس حادثہ کا ذکر کرنے سے بھی گریز کرتے رہے لیکن ضبط کی وجہ سے چہرہ پر سرخی آ جاتی تھی.اپنی صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ ( بیگم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب) سے فرمایا کہ میاں صاحب مجھ سے چھوٹے تھے ایک اور موقع پر حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی وفات کا ذکر کیا اور بچپن کے بعض واقعات بھی بیان فرمائے.پاکستان اور بیرون ملک سے ہزاروں مشتاقان دید کی آمد 176 حضرت میاں صاحب کی وفات کی خبر سن کر ۲ ستمبر کی شب کو ہی بیرون جات کے احباب ربوہ پہنچنے شروع ہو گئے.لیکن ستمبر کی صبح سے تو باہر سے آنے والے احباب کا ایک تانتا بندھ گیا.ہزاروں مشتاقان دید ملک کے طول و عرض سے اس برگزیدہ ہستی کی نماز جنازہ اور آخری دیدار کے لئے گاڑیوں اور بسوں سے پہنچ گئے.آنے والوں کی کثرت سے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی آمد کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ گیا.مسافروں سے لدی ہوئی لاریوں کی آمد کا سلسلہ ۳ ستمبر کی صبح سے شروع ہو کر شام تدفین کے وقت تک برابر جاری رہا.صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کی ہدایت پر طارق ٹرانسپورٹ کی تمام بسیں سارا دن لوگوں کور بوہ لانے میں مصروف رہیں.

Page 118

تاریخ احمدیت.جلد 22 103 سال 1963ء آخری زیارت کا شرف کوئٹہ کراچی اور بعض دوسرے شہروں سے تو لوگ ہوائی جہازوں کے ذریعہ لاہور یا لائل پور ہوتے ہوئے ربوہ پہنچے.مکرم مولا نا عبد الرحمن صاحب فاضل ، مکرم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی اور مکرم قریشی عطاء الرحمن صاحب اور بعض دیگر در ویش قادیان سے تشریف لائے نیز ایک خاص تعداد میں مستورات بھی بیر ونجات سے ربوہ آئیں جنہیں لجنہ اماءاللہ کے ہال میں ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا.احباب کی اس قدر کثیر تعداد کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا تھا کہ احباب کو حضرت میاں صاحب کے چہرہ مبارک کی زیارت کا موقع دینے کا انتظام اولین فرصت میں کیا جائے تا کہ سب احباب زیارت کا شرف حاصل کر سکیں چنانچہ مستورات کے لئے صبح دس بجے سے ۱۲ بجے تک اور مردوں کے لئے اڑھائی بجے سے ساڑھے چار بجے تک کا وقت مقرر کیا گیا لیکن یہ وقت ناکافی ثابت ہوا.مستورات نے ایک خاص نظام کے ماتحت دس بجے صبح سے ڈیڑھ بجے دوپہر تک زیارت کا شرف حاصل کیا پھر بھی بہت سی مستورات کو وقت کی قلت کے باعث اس شرف سے محروم رہنا پڑا.نماز ظہر کے بعد دو بجے سے مردوں کو زیارت کا موقع دیا گیا سب سے پہلے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ناظر و وکلاء صاحبان، امرائے اضلاع ربوہ کے صدران محلہ جات مجلس انصار اللہ مرکز یہ اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے عہد یداران نے باری باری زیارت کی.بعد ازاں جملہ احباب باری باری ایک قطار کی شکل میں حضرت میاں صاحب کے جنازہ کے پاس سے تیز رفتاری سے گزر کر زیارت کا شرف حاصل کرتے رہے.یہ سلسلہ ۲ بجے سے لے کر سوا پانچ بجے تک مسلسل جاری رہا اس عرصہ میں قریباً دس ہزار افراد چہرہ مبارک کی آخری زیارت سے مشرف ہوئے اس کے باوجود احباب کی ایک بہت بڑی تعدادا بھی باقی تھی چنانچہ مجبوراً اس سلسلہ کو بند کرنا پڑا.اس موقعہ پر محروم دیدار احباب کی بیتابی اور اضطراب کی حالت قابل دید تھی وہ ڈیوٹی پر مقر را فراد کی منتیں کرتے بے حال ہوئے جارہے تھے کہ کسی طرح انہیں اپنے جان و دل سے عزیز مربی محسن کے چہرہ مبارک کی آخری بار ایک جھلک نصیب ہو جائے.ادھر جن احباب کو آخری دیدار کا شرف حاصل ہوا ان کی حالت بھی کچھ کم غیر نہ تھی کون سی آنکھ تھی جو آنسو نہ بہا رہی تھی اور کون سا دل تھا جو غم کی پوٹ نہ بنا ہوا تھا بعض احباب کی تو طبیعت پر ہزار ضبط کے با وجود چنیں نکل گئیں.اس وقت بعض عمر رسیدہ اصحاب بچوں کی طرح روتے اور بلکتے ہوئے دیکھے 178

Page 119

تاریخ احمدیت.جلد 22 104 سال 1963ء جنازہ اٹھانے اور کندھا دینے کا منظر آخری زیارت کا سلسلہ مجبوراً بند کرنے کے بعد جنازہ حضرت میاں صاحب کی کوٹھی سے ساڑھے پانچ بجے شام اٹھایا گیا.کوٹھی کے احاطہ میں جنازہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد، صحابہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام ناظر و وکلاء صاحبان امراء اضلاع صدر صاحبان محلہ جات مجلس انصار اللہ مرکز یہ اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی مجالس عاملہ کے ارکان نے اپنے کندھوں پر اٹھایا.کوٹھی کے باہر سڑک کے ساتھ ساتھ بہشتی مقبرہ تک سڑک کے دونوں طرف احباب جماعت قطار میں باندھے کھڑے تھے.جنازہ جب کوٹھی سے باہر سڑک پر پہنچا تو تمام دیگر احباب کو کندھا دینے کی اجازت دی گئی.ہر چند کہ اس خیال سے کہ سب دوستوں کو کندھا دینے کا موقع مل سکے جنازہ کی چار پائی کے ساتھ دونوں طرف بہت لمبے لمبے بانس باندھ دیئے گئے تھے اور جنازہ کے اردگرد خدام کی ڈیوٹیاں مقرر کر دی گئی تھیں کہ وہ بسہولت کندھا دینے میں لوگوں کی مدد کر سکیں پھر بھی احباب کا ہجوم اس قد رتھا اور کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے وہ اس قدر بیتاب تھے کہ نظام پورے طور پر برقرار نہ رہ سکا.لوگ کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کی خاطر ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے اس طرح ہزار ہا غمناک مخلصین کے کندھوں پر جنازہ چھ بجے شام کے قریب بہشتی مقبرہ پہنچا.نماز جنازه بہشتی مقبرہ کے وسیع احاطہ میں (حضرت) مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدرانجمن احمدیہ نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں قریباً پندرہ ہزار احباب شریک ہوئے.بہت سے احباب نے جولا ریوں کے ذریعہ اسی وقت ربوہ پہنچے تھے اڈہ سے سیدھے بہشتی مقبرہ پہنچ کر نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی.نماز میں احباب پر رقت کا ایک ایسا عالم طاری تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا.بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں سفیدی سے قبلہ رخ خطوط لگا دی گئی تھیں.لیکن یہ انتظام ناکافی ثابت ہوا اور صفوں کی تعداد اندازہ سے کہیں زیادہ ہوگئی اور بعد میں آنے والے احباب نماز میں شریک ہونے کی خاطر احاطہ سے باہر ہی صفیں بناتے چلے گئے.تدفین اور اجتماعی دعا نماز جنازہ کے بعد نعش مبارک مزار حضرت اماں جاں کی چاردیواری کے اندر لے جائی گئی.چار دیواری کا احاطہ محدود ہونے کے باعث خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے علاوہ صحابہ

Page 120

تاریخ احمدیت.جلد 22 105 سال 1963ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام، ناظر و وکلاء صاحبان امرائے اضلاع صدر صاحبان محلہ جات اور انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کو ہی جنازہ کے ہمراہ چار دیواری کے اندر جانے کی اجازت دی گئی.باقی احباب چار دیواری سے باہر بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں کھڑے دعائیں کرتے اور درود شریف پڑھتے رہے.تابوت کو قبر کے اندر اتارنے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے صاحبزادگان محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب، محترم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرز امنیر احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب کے علاوہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، محترم صاحبزاده مرزا حفیظ احمد صاحب، محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور بعض دوسرے صاحبزادگان نے حصہ لیا.بعد ازاں چار دیواری کے اندر موجود احباب نے قبر کو مٹی دی اور قبر تیار ہونے پر (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے ایک پُر سوز اور رقت آمیز دعا کرائی.جس میں جملہ احباب شریک ہوئے.حضرت میاں صاحب کے جسد اطہر کو حضرت اماں جان نوراللہ مرقدھا کے قدموں کی جانب چار دیواری کے جنوبی قطعہ میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے پہلو میں دفن کیا گیا.اس طرح ہزار ہا محزون و غمناک قلوب، اشکبار آنکھوں اور سوز و گداز سے معمور دردمندانہ دعاؤں کے درمیان اُس مقدس و با برکت وجود کا جسد اطہر جو عظیم الشان خدائی نشانوں اور آسمانی بشارتوں کا مظہر ہونے کے باعث جماعت کے ایک ستون کی حیثیت رکھتا تھا اور ابتلاؤں کے اوقات میں احباب جماعت کے لئے ایک ڈھارس کا کام دیتا تھا اور قدم قدم پر کمال دانشمندی اور غیر معمولی فراست کی بدولت به تائید و توفیق الہی ان کی رہنمائی فرما تا تھا.سپردخاک کر دیا گیا.حضرت مصلح موعود کا تعزیتی مکتوب 179 حضرت قمر الانبیاء کے المناک حادثہ ارتحال پر حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں مخلصین جماعت کی طرف سے بکثرت تعزیتی تار اور خطوط موصول ہوئے جن کے جواب میں حضور نے حسب ذیل مکتوب تحریر فرمایا :-

Page 121

تاریخ احمدیت.جلد 22 "بسم الله الرحمن الرحيم مکرمی! 106 سال 1963ء نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات پر آپ نے جس گہری ہمدردی اور غم کے جذبات کا اظہار بذریعہ تار کیا ہے.میں اُس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے آپ کو اس کی بہترین جزاء عطا فرمائے اور دین و دنیا میں ہر قسم کی مکروہات سے بچا کر خیر و برکت سے متمتع کرے.عزیز مجھ سے چھوٹے تھے مگر اللہ کی مشیت کے ماتحت وہ پہلے اٹھالئے گئے.دل اُن کی وفات سے زخم خوردہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں ہر چیز پر مقدم ہے اور اُسی کے آستانہ پر جھکنے سے ہماری نجات ہے.اگر مومن اس قسم کے ابتلاؤں میں ثابت قدمی دکھائے اور خدا تعالیٰ کی رضا کی راہ پر پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے چلنے لگے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے.لیکن اگر وہ ست ہو جائے تو اپنے پہلے مقام کو بھی کھو بیٹھتا ہے.تو ا.پس ابتلاؤں کا آنا مومنوں کے لئے بڑے فکر کا موجب ہوتا ہے اور جماعت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ایسے ابتلاؤں کے وقت پہلے سے بھی زیادہ جوش اور ہمت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہو جائے اور اپنی آئندہ نسلوں کی درستی کی فکر کرے.ہم میں سے کون ہے جس نے ایک دن اپنے رب کے حضور حاضر نہیں ہونا پھر کیوں ہم اپنے فرض سے غافل رہیں.ہمیں ہمیشہ اپنے دلوں کو ٹو لتے رہنا چاہیئے اور اچھے قائم مقام اور اعلی درجہ کی نیک نسلیں چھوڑنے کی کوشش کرنی چاہئیے.اللہ تعالیٰ آپ کے اور آپ کے تمام اعزہ ومتعلقین کے ساتھ ہو.خاکسار مرزا محمود احمد 66 ۲۹ ستمبر ۱۹۶۳ء " حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی طرف سے شکریہ تعزیت کا پیغام الفضل ۲۳ اکتو بر ۱۹۶۳ء کے صفحہ اول پر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی طرف سے شکریہ تعزیت کا حسب ذیل پیغام شائع ہوا.

Page 122

تاریخ احمدیت.جلد 22 107 سال 1963ء مندرجہ ذیل پیام شکریہ تعزیت کا ہر احمدی بہن بھائی کے پاس جہاں جہاں اور جس کے پاس الفضل پہنچے ایک امانت ہے اور میری درخواست ہے کہ دیانتدارانہ فرض جان کر اپنے قریبی دوستوں ہمسایوں کو جن کو اخبار نہ ملتا ہو پہنچا ویں اور جمعہ یا جو بھی اجتماع ہو اس میں جناب امام یا صدر صاحب سنادیں تا جنہوں نے کمال ہمدردی اور محبت سے خطوط لکھے.تاریں دیں.ان کو میرا شکر یہ پہنچ جائے.جزاکم اللہ تعالیٰ.میں بوجہ علالت کے نہ خود لکھ سکتی ہوں نہ اس قدر خطوط کا بار کسی دفتر پر ڈال سکتی ہوں.جن پر پہلے ہی کاموں کا کافی بوجھ ہے.مبارکہ برادران و خواهران عزیز.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کی تاریں اور خطوط دلی ہمدردی کے درباره تعزیت حضرت منجھلے بھائی صاحب ملے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ سب بھی دل کی گہرائیوں سے بچے درد سے ہمارے برابر کے شریک غم ہیں مگر مومن کو جب بھی کوئی صدمہ کوئی نقصان جانی و مالی کسی قسم کا بھی پہنچے.تو اس کے لئے ہمارے مہربان مولیٰ کریم کا یہی ارشاد ہے کہ وہ یہی کہے انا لله و انا اليه راجعون.اس کے معنے کسی بھی وفات پر یہ کہہ کر صبر کرنے پر اور اتنا ہی سمجھ لینے پر کہ ہم بھی اللہ کے ہیں اور اس کے پاس ہم نے بھی جانا ہے.ختم نہیں ہوتے بلکہ یہ سوچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی جانب دوڑیں کہ یہ صدمہ یہ نقصان خواہ ہمارے گنا ہوں اور غفلتوں کا نتیجہ ہے یا تیری اے عالم الغیب، مالک یہی مصلحت تھی بہر حال ہر دھکا کھا کر ہر صدمہ اٹھا کر ہم مایوس نہیں ہوں گے.ہم تیری ہی طرف لوٹیں گے.ہم تیرا دامن اور بھی مضبوطی سے تھام لیں گے.ہم تجھے اور زیادہ چلا چلا کر عاجزی سے پکاریں گے کہ ہم پر اور کرم فرما.ایک نعمت واپس لی ہے تو اور اس سے بڑھ کر عطا فرمادے.آخر ہم تیرا در چھوڑ کر کہاں جائیں ہمارے گناہوں کو بخش ، ہماری پکار کوسن.ہم کسی حال میں تیری رحمت سے، تیری نظر کرم سے مایوس ہونے والے نہیں ہو سکتے کچھ بھی ہو ہم نے تو تیری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے.اردو کی ایک زنانہ مثال ہے.ماں بچے کو مارے بچہ ماں ہی ماں پکارے یہی حال مومن کے قلب کا ہونا چاہئیے.اگر مشیت ایزدی سے کوئی امر صدمہ پہنچانے والا وارد ہو جائے تو وہ مایوس ہو کر پیچھے نہ ہٹے.دعاؤں میں سست نہ ہو بلکہ ماں ہی ماں پکارنے والے بچہ کی طرح اللہ ہی اللہ پکارتا چلا جائے اور زیادہ انعام اور زیادہ رحمتیں اپنے مالک اپنے خالق، اپنے مجیب و قریب خدا سے طلب کرے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.والسلام - مبارکه

Page 123

تاریخ احمدیت.جلد 22 108 سال 1963ء (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا تعزیتی مکتوب اس موقعہ پر (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے تعزیتی تار، خطوط یاریزولیوشن بھجوانے والے حضرات کو جو تعزیتی مکتوب بھجوایا.اُس کا متن یہ ہے.جی فی اللہ ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات پر آپ کی طرف سے ہمدردی اور تعزیت کا تا را خط ریزولیوشن ملا.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے.حضرت میاں صاحب موصوف ایسے مقدس و مظہر اور بابرکت وجود کی رحلت ہمارے لئے انتہائی رنج والم کا باعث ہے.ورضينا برضاه ان الله و انا الیه راجعون مگر یہ ایک خدائی امتحان ہے.اور ایسے امتحان خدائی جماعتوں کو ہمیشہ ہی پیش آیا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو یہ امتحان ہمت و استقلال اور صبر وصلوۃ سے برداشت کی توفیق عطا فرمائے.ہمارے پاؤں میں ذرا بھی لغزش نہ آئے اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے آگے ہی آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں.حضرت میاں صاحب موصوف نے اپنی زندگی میں خلافت کے ساتھ وابستگی ، خدمت و فدائیت اور کمال درجہ اطاعت کا جو اعلی ترین نمونہ پیش فرمایا وہ ہمارے لئے مشعل راہ کا درجہ رکھتا ہے.اس اعلیٰ ترین نمونے کو اپنا کر اور اس پر کما حقہ عمل پیرا ہو کر ہی ہم اس خدائی امتحان میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور یہی وہ بہترین طریقہ ہے.جس کے ذریعے ہم حضرت میاں صاحب موصوف کے ساتھ اپنی محبت اور اخلاص و عقیدت کا اظہار کر کے آپ کی بلندی درجات اور اپنی فلاح ونجاح کا موجب بن سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت میاں صاحب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمادے.والسلام.خاکسار (مرزا ناصر احمد ) صدر صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوه

Page 124

تاریخ احمدیت.جلد 22 اخبار ”پیغام صلح لا ہور کا نوٹ 109 سال 1963ء اخبار ”پیغام صلح لاہور نے ۴ ستمبر ۱۹۶۳ء کے شمارہ میں حسب ذیل نوٹ سپر دا شاعت کیا.یہ خبر جماعت کے تمام حلقوں میں نہایت رنج و افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ثانی جناب مرزا بشیر احمد صاحب کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد ۲ ستمبر ۱۹۶۳ء کو میوہسپتال لاہور میں وفات پاگئے ( یہ غلط نہی ہے وفات گھر پر ہوئی تھی ).انا للہ وانا اليه راجعون، ان کا جنازہ ربوہ لے جایا گیا جہاں دوسرے دن سُپر دخاک کیا گیا.مرزا بشیر احمد صاحب (اختلاف عقائد سے قطع نظر ) بہت سی خوبیوں کے انسان تھے.وہ ایم.اے ہونے کے علاوہ علوم دینیہ سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور سیرت نبوی اور دیگر مسائل پر عمدہ کتابیں، انہوں نے تصنیف کی ہیں.اس کے علاوہ میاں محمود احمد صاحب خلیفہ ربوہ کی موجودہ بیماری میں جماعت کو سنبھالنے اور نظام جماعت کو برقرار رکھنے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا.چند سال پیشتر صدر انجمن احمدیہ کے اوپر ایک نگران بورڈ بنایا گیا تھا جس کے صدر میاں بشیر احمد صاحب مقرر کئے گئے.غرض جماعت ربوہ میں ان کی حیثیت ایک طرح نائب خلیفہ کی تھی ، اور اس جماعت کو ان کی وفات سے بہت بڑا نقصان پہنچا ہے ، جس کی تلافی بظاہر حالات ناممکن نظر آتی ہے.دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے.ہمیں اُن کے فرزند اور ان کی بیگم صاحبہ اور دیگر لواحقین سے دلی ہمدردی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے.احباب سے جنازہ غائبانہ کی درخواست ہے.“ تعزیت کا تار ( از طرف غیر مبایعین ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات کی خبر موصول ہونے پر سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی طرف سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ امسیح الثانی کے نام حسب ذیل تعزیتی تار بھیجا گیا.ممبران احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ثانی مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات پر جو ایک اعلیٰ درجہ کے مصنف اور مشہور سکالر تھے.اظہار تعزیت کرتے ہیں.دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی رُوح کو امن و اطمینان عطا فرمائے.اس تار کی نقول حضرت بیگم مرزا بشیر احمد صاحب کو (جو حضرت مولانا غلام حسن صاحب پشاوری کی صاحبزادی ہیں ) اور آپ کے فرزند مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو بھی بھیجی گئیں.

Page 125

تاریخ احمدیت.جلد 22 110 سال 1963ء اخبار ” بھیم پتریکا جالندھر کا نوٹ مسٹر ایل.آر.بالی صاحب ایڈیٹر اخبار بھیم پتریکا جالندھرنے ” جناب مرزا بشیر احمد صاحب“ کے زیر عنوان لکھا.احمدی جماعت کے ممتاز رہنما اور ٹھکرائی ہوئی خلق کے عظیم خدمت گزار مرزا بشیر احمد صاحب ایک لمبی علالت کے بعد چند دن ہوئے پاکستان میں رحلت فرما گئے.مرزا بشیر احمد صاحب علم وادب، بلند ترین انسانی قدروں کا مجسمہ تھے انہوں نے اپنی ساری زندگی بنی نوع انسان کی بہتری و بهبودی کے لئے صرف کی.اچھوت پکارے جانے والے کروڑوں دبے کچلوں کو سماجی غلامی سے نجات دلانے کے لئے جو قابل داد خدمت انہوں نے اپنے حیران کن طریقوں سے سرانجام دی.اس کے لئے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یاد کیا جاتا رہے گا.قادیان پنجاب کے ضلع گورداسپور کا وہ نامور قصبہ ہے جہاں احمدی تحریک پیدا ہوئی پھولی اور پھلی.ہندوستان کی تقسیم کے زہریلے اثرات سے مفلوج ہو چکے بہت سے ہندوستانیوں کو اب شاید اتنا بھی علم نہ ہوگا کہ جناب بشیر احمد صاحب کا وطن بھی پنجاب ہی تھا.وطن ہی نہیں پنجاب خاص طور پر قادیان ان کا دارالعلوم بھی تھا.احمدی تحریک کا جنم ستھان ہونے کے ناطے اُن کے لئے قادیان تیر تھستان بھی.مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات سے احمدیوں نے اپنا قمر الانبیاء ( نبیوں کا چاند ) کھو دیا.ہندوستان خاص طور پر پنجاب نے اپنا ایک بہادر سپوت کھو دیا.جو سچائی، نیکی اور بے خوفی کی مشعل اٹھائے ہر ظلم و استبداد کے خلاف سینہ تان کر لڑا کرتا تھا اور اچھوتوں نے اپنا ایک ایسا محسن کھو دیا.جو برسوں ان کی ترقی کی خاطر جد و جہد کرتا رہا.ادارہ بھیم پتر یکا مرزا صاحب کی اس بے وقت وفات پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور مرزا صاحب کے دیگر مداحوں کے غم میں شریک ہوتا ہے.سلسلہ کے جرائد ورسائل کے خصوصی نمبر حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدا نما شخصیت کے فضائل وشمائل اور عظیم خدمات کا ذکر خیر ہمیشہ جاری رکھنے کے لئے سلسلہ کے جرائد و رسائل مثلاً الفضل شماره ۲۹ / اکتوبر ۱۹۶۳ء ، مصباح ماه دسمبر ۱۹۶۳ء ، الفرقان اپریل، مئی ۱۹۶۴ء اور مسلم حیرلڈ لندن، نے خصوصی نمبر شائع کئے جو نہایت ایمان افروز معلومات پر مشتمل تھے.اس کے علاوہ مکرم شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگر مل )

Page 126

تاریخ احمدیت.جلد 22 111 سال 1963ء نے آپ کی حیات مقدسہ پر ایک مبسوط کتاب بعنوان ”حیات بشیر بھی تصنیف فرمائی ہے.وحی ربانی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ذکر مبارک حضرت صاحبزادہ صاحب کی علالت و وفات اور پریس کا ذکر کرنے کے بعد اب آپ کی عظیم شخصیت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے.سیدنا حضرت مصلح موعود کی ولادت کے قریباً تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے ۱۰ دسمبر ۱۸۹۲ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بذریعہ الہام یہ انکشاف فرمایا کہ عنقریب ایک عظیم الشان فرزند آپ کو عطا ہونے والا ہے جو قمر الا نبیاء ہوگا یعنی نبیوں کا چاند.الہام کے الفاظ یہ تھے.يَأْتِي قَمَرُ الانبياءِ وَ اَمْرُكَ يَتَأَتَى يَسُرُّ اللَّهُ وَجْهَكَ وَيُنِيرُ بُرْهَانَكَ.سَيُولَدُ لَكَ الْوَلَدُ وَيُدْنى مِنكَ الْفَضْلُ إِنَّ نُورِى قَرِيبٌ یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہو جائے گا.خدا تیرے منہ کو بشاش کرے گا اور تیرے برہان کو روشن کر دے گا اور تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا.اور میرانور نز دیک ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ الہام بغرض اتمام حجت کتاب آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۶۶ (مطبوعہ فروری۱۸۹۲ء) میں شائع کر دیا.اس وحی ربانی کے عین مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۲۰ /اپریل ۱۸۹۳ء مطابق ۲ شوال ۱۳۱۰ھ بروز جمعرات پیدا ہوئے جس پر حضور نے اشتہار دیا کہ.۲۰ را پریل ۱۸۹۳ء سے چار مہینے پہلے صفحہ ۲۲۶ آئینہ کمالات اسلام میں بقید تاریخ شائع ہو چکا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک اور بیٹے کا اس عاجز سے وعدہ کیا ہے جو عنقریب پیدا ہوگا.اس پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں.سَيُولَدُ لَكَ الْوَلَدُ وَيُدْنى مِنْكَ الْفَضْلُ إِنَّ نُورِى قَرِيبٌ یعنی عنقریب تیرے لڑکا پیدا ہوگا اور فضل تیرے نزدیک کیا جائے گا.یقیناً میر انور قریب ہے.سو آج ۲۰ را پریل ۱۸۹۳ء کو وہ پیشگوئی پوری ہوگئی.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کوخود اپنی زندگی کا اعتبار نہیں چہ جائیکہ یقینی اور قطعی طور پر یہ اشتہار دیوے کہ ضرور عنقریب اس کے گھر میں بیٹا پیدا ہوگا خاص کر ایسا شخص جو اس پیشگوئی کو اپنے صدق کی علامت ٹھہراتا ہے.اور تحدی کے طور پیش کرتا ہے.اب چاہئیے کہ شیخ محمد حسین اس بات کا بھی جواب دیں کہ یہ پیشگوئی کیوں پوری

Page 127

تاریخ احمدیت.جلد 22 112 سال 1963ء ہوئی.کیا یہ استدراج ہے یا نجوم یا الکل ہے اور کیا سبب ہے کہ خدا تعالیٰ بقول آپ کے ایک دجال کی ایسی پیشگوئیاں پوری کرتا جاتا ہے جن سے ان کی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے.183 184 نیز حضور علیہ السلام نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا اپنی کتاب ”تریاق القلوب میں تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے رقم فرمایا :.” میرا دوسرا لڑکا جس کا نام بشیر احمد ہے.اس کے پیدا ہونے کی پیشگوئی آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۲۶۶ میں کی گئی ہے اور اس کتاب کے صفحہ ۲۶۲ کی چوتھی سطر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی کی تاریخ دہم دسمبر ۱۸۹۲ء ہے اور پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں.يَأْتِي قَمَرُ الأنبياءِ وَ اَمُرُكَ يَتَأَتَى يَسُرُّ اللَّهُ وَجُهَكَ وَيُنِيرُ بُرْهَانَكَ سَيُوْلَدُ لَكَ الْوَلَدُ وَيُدْنى مِنْكَ الْفَضْلُ إِنَّ نُورِى قَرِيبٌ.یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام بن جائے گا.تیرے لئے ایک لڑکا پیدا کیا جائے گا اور فضل تجھ سے نزدیک کیا جائے گا.یعنی خدا کے فضل کا موجب ہو گا.اور نیز یہ کہ شکل و شباہت میں فضل احمد سے جو دوسری بیوی سے میرا لڑکا ہے مشابہت رکھے گا اور میرا نور قریب ہے.(شائد نور سے مراد پسر موعود ہو ) پھر جب یہ کتاب آئینہ کمالات اسلام ، جس میں یہ پیشگوئی تاریخ دہم دسمبر ۱۸۹۳ ء درج ہے اور جس کا دوسرا نام دافع الوساوس بھی ہے.فروری ۱۸۹۲ء میں شائع ہوگئی جیسا کہ اس کے ٹائیٹل پیج سے ظاہر ہے تو ۲۰ /اپریل ۱۸۹۳ء کو جیسا کہ اشتہار ۲۰ را پریل ۱۸۹۳ء سے ظاہر ہے.اس پیشگوئی کے مطابق وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا اور در حقیقت وہ لڑکا صورت کی رو سے فضل احمد سے مشابہ ہے جیسا کہ پیشگوئی میں صاف اشارہ کیا گیا.اور یہ لڑکا پیشگوئی کی تاریخ دسمبر ۱۸۹۲ء سے تخمیناً پانچ مہینے بعد پیدا ہوا.اور اس کے پیدا ہونے کی تاریخ میں اشتہار ۲۰ را پریل ۱۸۹۳ء کو چھپوایا گیا.جس کے عنوان پر یہ عبارت ہے منکرین کے ملزم کرنے کے لئے ایک اور پیشگوئی خاص محمد حسین بٹالوی کی توجہ کے لائق ہے.ازاں بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے ”حقیقۃ الوحی میں آپ کی ولادت کو خدائی نشان قرار

Page 128

تاریخ احمدیت.جلد 22 دیتے ہوئے تحریر فرمایا:.113 سال 1963ء پینتیسواں نشان یہ ہے کہ پہلالڑ کا محمود احمد پیدا ہونے کے بعد میرے گھر میں ایک اور لڑکا پیدا ہونے کی خدا نے مجھے بشارت دی.اور اس کا اشتہار بھی لوگوں میں شائع کیا گیا.چنانچہ دوسرا لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام بشیر احمد رکھا گیا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی ولادت کے بعد حضور علیہ السلام کو متعدد الہامات اور کشوف ورؤیا 186 آپ کی نسبت ہوئے جن سے آپ کی عظمت شان اور جلالت مرتبت کا بھی پتہ چلتا ہے.اوّل.فرمایا ”ایک دفعہ ہمارے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں بہت خراب ہو گئی تھیں پلکیں گر گئی تھیں اور پانی بہتا رہتا تھا.آخر ہم نے دعا کی تو الہام ہوا.بَرَّقَ طِفْلِی بَشِيرٌ یعنی میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہوگئیں.اس الہام کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دے دی اور آنکھیں بالکل تندرست ہو گئیں.اس سے پہلے کئی سال انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا تھا مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ حالت ابتر ہوتی جاتی تھی.دوم.فرمایا ”صبح کے وقت الہام ہوا.اول خواب میں دیکھا کہ گویا میں بڑی مسجد میں ہوں.بشیر احمد میرا لڑکا میرے پاس ہے.وہ مشرق اور کچھ شمال کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے اس طرف زلزلہ گیا ہے اور مجھے زلزلہ آنے سے پہلے الہام ہوا.اِنِّى مَعَ الرَّسُولِ اَقُومُ اور پھر الہام ہوا مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَی یعنی وہ ایسا امر ہوگا جس سے حق کھلے گا اور حق ظاہر ہوگا.187 سوم.”شب گزشتہ کو میں نے خواب میں دیکھا کہ اس قدر زنبور ہیں (جن سے مراد کمینہ دشمن ہیں ) کہ تمام سطح زمین ان سے پُر ہے اور ٹڈی دل سے زیادہ ان کی کثرت ہے.اس قدر ہیں کہ زمین کو قریبا ڈھانک دیا ہے اور تھوڑے ان میں سے پرواز بھی کر رہے ہیں جو نیش زنی کا ارادہ رکھتے ہیں مگر نامراد رہے اور میں اپنے لڑکوں شریف اور بشیر کو کہتا ہوں کہ قرآن شریف کی یہ آیت پڑھو اور بدن پر پھونک لو کچھ نقصان نہیں کریں گے اور وہ آیت یہ ہے.وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ (الشعراء : ١٣١ )

Page 129

تاریخ احمدیت.جلد 22 114 سال 1963ء چہارم.عالم کشف میں ایک اشتہار دکھایا گیا اس کے سر پر لکھا ہوا ہے.الْمُبَارَک پھر بطور وحی کے زبان پر جاری ہوا.بَرَكَةٌ زَائِدَةٌ عَلَى هَذَا الرَّجُلِ اس کے بعد ایک رویا ہوا کہ میں رات کو اٹھا ہوں.پہلے بشیر احمد، شریف احمد ملے.پھر میں آگے جاتا ہوں کہ پہرے والوں کو دیکھوں تو میں کہتا ہوں یا کوئی کہتا ہے کہ:.اس کے آگے فرشتے پہرہ دے رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.پنجم.ایک گھنٹہ ہوا ہو گا ہم نے دیکھا کہ والدہ محمود قرآن شریف آگے رکھے ہوئے پڑھتی ہیں جب یہ آیت پڑھی وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَيْكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيَّنَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًان (النساء : ۷۰) جب أو ليك پڑھا تو محمود سامنے آکھڑا ہوا.پھر دوبارہ اُولئک پڑھا تو بشیر آ کھڑا ہوا.پھر شریف آ گیا.پھر فرمایا 191 66 جو پہلے ہے وہ پہلے ہے.جلیل القدر انتظامی خدمات جیسا کہ حق تعالیٰ نے قبل از وقت خبر دی تھی.آپ مطلع عالم پر نبیوں کا چاند بن کر طلوع ہوئے اور اپنے نو رایمان ، نور علم اور نور فراست سے عمر بھر دوستوں کو منور کرتے رہے.آپ کا مقدس وجود نہایت با برکت وجود تھا.جماعت احمدیہ کے اہم ترین انتظامی امور آپ کے سپرد کئے گئے جن کو آپ نے حسن تدبر، معاملہ نہی ، جانفشانی کے ساتھ سرانجام دے کر بے شمار مثالی نمونے قائم کر دکھائے جو ہمیشہ مشعل راہ کا کام دیں گے.آپ کی مہتم بالشان خدمات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو (۱۹۱۱ء ) مجلس معتمدین کی ممبری ، (۱۹۱۴ء) مجلس معتمدین کی صدارت، الفضل کی ادارت (۱۹۱۵ء) تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ کے سٹاف میں شمولیت، مبلغین کلاس کی نگرانی (۱۹۱۶ء ) صادق لائبریری کی نگرانی (۱۹۱۷ء ) ریویو آف ریچز (اردو.انگریزی) کے قائمقام ایڈیٹر، بمبئی کے تبلیغی وفد میں شرکت، قادیان کی پہلی مرکزی لائبریری کے نگرانِ اعلیٰ ، وزیر ہند سے ملاقات، (۱۹۱۸ء) ریویو آف ریلیجنز کی ادارت اور پُر مغز مضامین کی اشاعت، کمیٹی منجمن احمد یہ برائے امداد جنگ“ کی ممبری ، تقرر

Page 130

تاریخ احمدیت.جلد 22 115 سال 1963ء بطور افسر تعلیم ، آپ کے زیر انتظام درزی خانہ اور مدرستہ الحفاظ کا اجراء (۱۹۱۹ء) نظارتوں کا قیام اور آپ کا تقرر بحیثیت ناظر امور عامہ (۱۹۲۲ء) قائمقام ناظر اعلیٰ اور ناظر اول کے فرائض کی بجا آوری، پرنس آف ویلز سے ممبر وفد کی حیثیت سے ملاقات (۱۹۲۳ء) افسر صیغه انسداد فتنہ ارتداد ملکانه صدر کمیٹی انتظامات احمد یہ ٹورنامنٹ ، نگران اعلی جلسہ سالانہ ۱۹۲۳ء، (۱۹۲۴ء) بہائی فتنہ کے لئے کمیشن میں بطور ممبر تقر ر سفر یورپ کے دوران امیر ہند حضرت مولانا شیر علی صاحب کی نیابت (۱۹۲۷ء) ناظر تعلیم و تربیت کا منصب، (۱۹۲۸ء) پہلی بار امیر مقامی مقرر ہوئے.(۱۹۳۱ء) صدرانجمن احمد یہ کے قواعد وضوابط کی تشکیل و ترتیب میں سرگرم اور نمایاں حصہ (۱۹۳۲ء) قائمقام ناظر تالیف و تصنیف کے فرائض کی انجام دہی، (۱۹۳۳ء) دوبارہ ناظر تعلیم و تربیت کے عہدہ پر ، احمد یہ یونیورسٹی کے قیام کی تجویز اور کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے مساعی جمیلہ ، قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ پر نظر ثانی کا آغاز ، حضرت مسیح موعود کے الہامات اور رویاء و کشوف کے مجموعہ کی تیاری میں کمیٹی کی رہنمائی اور اعانت، (۱۹۳۴ء) جائنٹ ناظر بیت المال اور قائمقام ناظر تالیف و تصنیف کے فرائض، امانت فنڈ کمیٹی میں شرکت (۱۹۳۶ء) قائمقام ناظر اعلیٰ کے فرائض ( ۱۹۳۷ء) نظارت تعلیم و تربیت کا چارج (۱۹۳۸ء) مقامی امیر اور قائمقام ناظر اعلیٰ (۱۹۳۹ء ) خلافت جوبلی کے جملہ انتظامات اور لوائے احمدیت کے ڈیزائن سے متعلق کمیٹیوں میں شرکت، ہجری سمسی کیلنڈر کی تیاری میں مصروفیت، (۱۹۴۰ء) انتظامات جلسہ سالانہ کے لئے پہلے رابطہ افسر، (۱۹۴۲ء) انگریزی ترجمۃ القرآن پر نظر ثانی کے لئے بورڈ کا قیام اور بحیثیت ممبر آپ کی شبانہ روز مساعی ، (۱۹۴۴ء) کالج کمیٹی“ اور ”مجلس مذہب و سائنس“ کی صدارت ، (۱۹۴۶ء ) الیکشن حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ کے دوران انتظامات کی کامیاب نگرانی ،عبوری حکومت میں قائد اعظم کی شمولیت کے لئے حضرت مصلح موعود کی معیت میں سفر دیلی ( ۱۹۴۷ء) ، ناظر اعلی کی حیثیت میں تقسیم ہند کے موقع پر مختلف اہم خدمات اور حضرت مصلح موعود کی ہجرت پاکستان (۳۱) را گست ۱۹۴۷ء) کے بعد قادیان اور ضلع گورداسپور کے لئے امیر کے فرائض کی بجا آوری.۲۲ ستمبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان میں تشریف آوری اور صیغہ حفاظت مرکز (بعد ازاں نظارت خدمت درویشاں یہ نام اپریل ۱۹۶۰ء میں تجویز ہوا) کے ناظر کی حیثیت سے نئی ذمہ داریوں کا آغاز (۱۹۴۸ء) دوماہ کے لئے ناظر اعلیٰ کے فرائض (۱۹۵۰ء ) حکومت پاکستان کے فائنینس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے زکوۃ کمیٹی کا تقرر اور جماعت احمدیہ کے ممتاز علماء کے دوش بدوش اس کے لئے مواد کی

Page 131

تاریخ احمدیت.جلد 22 116 سال 1963ء فراہمی (۱۹۵۳ء) پاکستان کے دستور اساسی سے متعلق بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی سفارشات پر جماعتی نقطہ نظر سے غور و فکر اور مفید مشورے، (۱۹۵۵ء) دوسرے سفر یورپ کے دوران حضرت مصلح موعود کے مقرر فرمودہ امیر مقامی (۱۹۶۰ء) مجلس عاملہ انصار اللہ کے رکن خصوصی (۱۹۶۱ء) مجلس افتاء کی ممبری مجلس مشاورت کی پہلی بار صدارت، صدر نگران بورڈ کی حیثیت سے جماعتی سرگرمیوں کی ابتداء، جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود کی املا فرمودہ اختتامی تقریر پڑھنے کی سعادت ، (۱۹۶۲ء) مجلس مشاورت کی دوسری بار صدارت مجلس افتاء کی اعزازی رکنیت، (۱۹۶۳ء) مجلس مشاورت کی تیسری بار صدارت نگران بورڈ کے طویل اجلاسوں کی صدارت اور جماعتی مسائل حل کرنے کے لئے آخری انتھک اور اعصاب شکن جد و جہد.حضرت قمر الانبیاء کی سرتا پا جہاد زندگی کا یہ نہایت مختصر سا خاکہ ہے جو مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر کے ۱۲ قسطوں پر مشتمل مضمون الفضل از ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۳ء تا ۲ مئی ۱۹۶۴ء کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے ( یہ مضمون مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ کی کتاب ”حیات بشیر کے پہلے باب کی زینت ہیں).اصل مضامین سے آپ کی حیات قدسیہ کی تفصیلات اور آپ کی بے پناہ مصروفیات کا کسی قدر اندازہ ہوتا ہے.آپ نے ایک دفعہ تحریر فرمایا:.”میرا ذاتی حال تو یہ ہے کہ میں نے بسا اوقات کئی کئی ماہ تک مثلاً الیکشن ( ۴۵ - ۱۹۴۴ء کا الیکشن جس کے دوران جماعت احمدیہ نے تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کی بھر پور مدد کی تھی ) میں یا ملکی تقسیم کے انقلاب وغیرہ میں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے کبھی اکیس گھنٹے اور کبھی بائیس گھنٹے اور کبھی تمیس گھنٹے اور کبھی پورے کے پورے چوبیس گھنٹے مسلسل خدمت کا موقع پایا ہے.(اور یہ محض خدا کا فضل تھا جس نے اُس کی توفیق دی اور کبھی بھی تکان یا کوفت کا احساس تک نہیں ہوا.سیرت و شمائل پر طائرانہ نظر 192 آپ کی خدا نما شخصیت خلافت کی اطاعت کے لحاظ سے نہایت ارفع واعلیٰ مقام پر فائز تھی اور حضرت مصلح موعود کی ذات مقدس کے بعد پوری جماعت کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز تھی اور آپ کی خوبو، صفات اور جمالی اخلاق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جیتی جاگتی تصویر تھے اور یہی وجہ تھی کہ خدا اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو ایک مثالی عشق تھا جو زندگی کے ہر شعبہ اور ہر مرحلہ پر حاوی تھا اور ہر موقعہ پر ایک صاف شفاف چشمہ کی طرح پھوٹ پڑتا تھا.آپ کی یہ وجدانی کیفیت فطری تھی جو

Page 132

تاریخ احمدیت.جلد 22 117 سال 1963ء بچپن سے آپ کو ودیعت کی گئی تھی خود فرماتے ہیں:.میں نہیں جانتا کہ اس کی وجہ کیا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے بچپن سے حدیث کے علم کے ساتھ ایک قسم کا فطری لگاؤ رہا ہے اور جب کبھی بھی میں کوئی حدیث پڑھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں گو یا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک ہو کر حضور کے مقدس کلام سے مشرف ہو رہا ہوں.میر اتخیل مجھے آج سے چودہ سو سال قبل مکہ مکرمہ کی مسجد حرام اور مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی اور حرمین شریفین کی گلیوں اور عرب کے صحرائی رستوں میں پہنچا کر رسول اکرم ﷺ کی روحانی صحبت اور معنوی رفاقت کا لطف عطا کر دیتا ہے.اور پھر میں کچھ وقت کے لئے دنیا سے کھویا جا کر اس فضا میں سانس لینے لگتا ہوں جس میں ہمارے محبوب آقا نے اپنی خدادا د نبوت کے تئیس مبارک سال گزارے.لیکن غالباً جس حدیث نے میرے دل اور دماغ پر سب سے زیادہ گہرا اور سب سے زیادہ وسیع اثر پیدا کیا.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایسے ارشاد سے تعلق رکھتی ہے جس میں فقہ اور علم کلام کا تو کوئی عنصر شامل نہیں.مگر میرے ذوق میں وہ اسلام اور روحانیت کی جان ہے روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ ایک غریب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.اس کے ماتھے پر عبادت اور ریاضت کا تو کوئی خاص نشان نہیں تھا مگر اس کے دل میں محبتِ رسول کی ایک چنگاری تھی جس نے اس کے سینہ میں ایک مقدس چراغ روشن کر رکھا تھا.اس نے اس کی دائمی تڑپ کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ 'یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا ”تم قیامت کا پوچھتے ہو کیا اس کے لئے تم نے کوئی تیاری بھی کی ہے اس نے دھڑکتے ہوئے دل اور کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے عرض کیا.”میرے آقا! نماز روزے کی تو کوئی خاص تیاری نہیں لیکن میرے دل میں خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت ہے.آپ نے اسے شفقت کی نظر سے دیکھا اور فرمایا.المرء مع من احب یعنی پھر تسلی رکھو کہ خدائے و دود کی خاطر محبت کرنے والے شخص کو اس کے محبوب سے جدا نہیں کرے گا.“ یہ حدیث میں نے بچپن کے زمانہ میں پڑھی تھی.لیکن آج تک جو میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں میرے آقا کے یہ مبارک الفاظ قطب ستارے کی طرح میری آنکھوں کے سامنے رہے ہیں.اور میں نے ہمیشہ یوں محسوس کیا کہ گویا میں نے ہی رسولِ خدا سے یہ سوال کیا تھا اور آپ نے مجھے ہی یہ جواب عطا فرمایا.اور اس کے بعد میں اس نکتہ کو کبھی نہیں بھولا کہ نماز اور روزہ اور حج اور زکوۃ سب برحق

Page 133

تاریخ احمدیت.جلد 22 118 سال 1963ء ہے.مگر دل کی روشنی اور روحانیت کی چمک خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.193 آپ صاحب کشف والہام اور مستجاب الدعوات تھے.آپ کے قول وفعل اور ہر حرکت وسکون میں اخلاق محمدی ہی کا جلوہ نظر آتا تھا.بچپن ہی سے دین کی خدمت کا زبردست جذ بہ رکھتے تھے.ہر کام میں اپنے مولا کی رضا کو مدنظر رکھتے تھے اور راضی برضا رہتے تھے.طبیعت پر درویشی ، خاکساری اور قناعت کا رنگ غالب تھا.اطاعت امام میں سب کے لئے نمونہ تھے.مرکز احمدیت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ، مبلغین احمدیت واقفین زندگی، سلسلہ کے مرکزی اداروں کے اساتذہ اور درویشان قادیان سے خصوصاً اور باقی سب جماعت سے عموماً بے انتہاء محبت والفت رکھتے تھے.احمدی نوجوانوں کی تربیت اور ترقی کے لئے کوشاں رہتے تھے.ماتحتوں کی دلجوئی اور قدر افزائی آپ کا نمایاں وصف تھا.عظیم حوصلہ اور زبردست قوت برداشت کے مالک تھے.بدعات کے خلاف گویا شمشیر برہنہ تھے.قومی اور ملی مفادات کو ہر چیز پر فوقیت دیتے تھے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنا آپ کا شعار تھا.سلسلہ کے اموال اور امانتوں کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے اور اس بارے میں غیر ذمہ داری کا ادنی سا مظاہرہ بھی آپ کے لئے ناقابل برداشت ہوتا تھا.لین دین اور دیگر معاملات میں بھی بہت باریک نظر محتاط اور نکتہ نواز تھے.خود بھی حساس تھے اور دوسروں کے جذبات واحساسات کی پاسداری کرتے تھے.اہم تاریخی عکسی تصاویر اور تبرکات کو محفوظ رکھنے کا خاص اہتمام فرماتے تھے.طبیعت میں بہت نفاست تھی.گھریلو زندگی بھی مثالی تھی.باغات لگانے کے بہت شائق تھے اور فن تعمیر سے خاص شغف تھا.آپ کا حلقہ احباب نہایت درجہ وسیع تھا.غیر از جماعت اصحاب بھی آپ کو خاص احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھےاوران سے ملاقات پر بہت خوش ہوتے تھے.آپ کا دامن شفقت سب بنی نوع انسان کے لئے پھیلا ہوا تھا.مصیبت زدوں کی امداد کو باعث سعادت سمجھتے تھے.آپ کا دروازہ کبھی کے لئے کھلا تھا اور آپ کی قیامگاہ ایک ایسا در بار عام تھا جہاں آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا.ہر مفوضہ کام غیر معمولی ذمہ داری اور گہرے غور وفکر کے ساتھ انجام دیتے تھے اور محنت شاقہ کے عادی تھے مگر سب تو کل خدا ہی پر تھا اس لئے دعاؤں سے کسی لحظہ غافل نہیں ہوئے ہوں گے بلکہ آپ کی کامیاب اور انقلاب انگیز زندگی کا ایک ایک سانس دعاؤں سے معمور رہا.

Page 134

تاریخ احمدیت.جلد 22 119 سال 1963ء قمر الانبیاء فنڈ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا وجود با جود جماعت کے لئے بے انتہا خیر و برکت کا موجب تھا.آپ کے نیک کاموں کو جاری رکھنے کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے قمر الانبیاء فنڈ“ کے نام سے خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں ایک مرکھولنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس جمع شدہ رقم کو حضور انور کی منظور فرمودہ کمیٹی کے ذریعہ خرچ کرنے کا اعلان کیا گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مخلصین سلسلہ نے اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق پائی.195 حضرت صاحبزادہ صاحب کی حیات مقدسہ پر پانچ بصیرت افروز مضامین حضرت صاحبزادہ صاحب کے سانحہ رحلت پر شعرائے احمدیت نے آپ کی یاد میں بکثرت نظمیں کہیں اور اہل قلم حضرات نے آپ کے فضائل و شمائل پر سیر حاصل روشنی ڈالی.اس سلسلہ میں پانچ بصیرت افروز مضامین بنیادی حیثیت کے حامل تھے جنہیں آپ کا کوئی سوانح نگار نظر انداز نہیں کر سکتا.ان مضامین میں دو حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے رقم فرمودہ تھے اور بقیہ تین حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب، (حضرت) مرزا طاہر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مظفراحمد صاحب(خلف اکبر حضرت قمر الانبیاء) کے قلم سے نکلے تھے.ان مضامین کے بعض اہم اور چیدہ چیدہ حصے بطور نمونہ ذیل میں سپر دقر طاس کئے جاتے ہیں.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے تاثرات ا.میرے منجھلے بھائی د تمہیں کہتا ہے مُردہ کون تم زندوں سے زندہ ہو تمہاری خوبیاں قائم تمہاری نیکیاں باقی وہ تو سال بھر سے کہہ رہے تھے کہ میں جا رہا ہوں مگر دل ہمارے بھلا کب مانتے تھے.اکثر میں نے کہا منجھلے بھائی ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فرماتے تھے خواب کا آ جانا بہتر نشانی ہے کہ دعا وصدقات سے بلائل جاتی ہے.ناگہانی مصیبت سے خدا محفوظ رکھے جس میں دعا کی توفیق بھی نہیں مل سکتی.بڑی معصومیت سے اچھا کہہ دیتے مگر پھر جب ملو وہی اشارے رخصت کے وہی ذکر.مگر وقت آچکا تھا تقدیر مبرم تھی چودھویں کا چاند اُبھر رہا تھا کہ ہمارے گھر کا چاند ” قمر الانبیاء

Page 135

تاریخ احمدیت.جلد 22 120 سال 1963ء 66 بعد غروب آفتاب اس دنیائے فانی سے غروب ہو کر اپنے بھیجنے والے اپنے مالک حقیقی کی آغوش رحمت میں طلوع ہو گیا اور ہم تکتے رہ گئے.انا للہ و انا اليه راجعون....اس میرے پیارے بھائی میری اماں جان کے بشری (ان کو حضرت اماں جان پیار سے بشری کہہ کر اکثر پکارتی تھیں) کی کامیاب زندگی خدمات دینی اور بڑے بھائی کے حقیقی معنوں میں قوت بازو بن کر رہے.تمام جماعت کے لئے مشعل راہ بننے ، دلوں کی تسکین ثابت ہونے اور اپنی شان آب و تاب سے دکھلا کر رخصت ہونے پر اس غم میں بھی بے اختیار دل کہتا ہے اور بے حد جذبہ شکر وامتنان سے کہتا ہے کہ الحمد للہ الحمد للہ میرے بھائی نے ناکام زندگی نہیں پائی جیسا ہونا چاہئے تھا جیسی مراد حضرت مسیح موعود کی تھی ویسی ہی حیات مفید و مبارک گزار کر انجام بخیر پایا.حضرت منجھلے بھائی کے جانے سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے اس کو ہر ایک پُر کرنے کی کوشش کرے جو بوجھ وہ اتار چکے تم اٹھاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا قدرت ثانی کا سلسلہ شروع ہوا مگر خلافت اولیٰ کے وقت سے ہی میرے بھائیوں نے اپنا فرضِ اولین جان کر خدمتِ دین کے لئے اپنے شب وروز وقف کر دئیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمام زمانہ کے لئے رحمت تھے کیونکہ آپ سچے عاشق خادم رحمۃ اللعالمین تھے.آپ تمام جماعت بلکہ تمام مخلوق کے لئے باپ اور ماں کی مشترکہ محبت رکھتے تھے.باپ کی طرح تربیت بھی تھی تختی اور نرمی بھی اور ماں کی طرح نرمی اور محبت.مامتا کی طرح کا پیار بھر اسلوک بھی.آپ کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ دونوں بھائیوں نے مل کر وہ کام بانٹ لیا.بڑے بھائی حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جماعت کے شفیق باپ بنے.مگر باپ آخراز راہ تربیت کڑی نظر بھی رکھتا ہے اور رعب قائم رہے اس لئے اس کو ذرا کبھی کبھی ریز روبھی رہنا پڑتا ہے مگر ماں بچے کی غلطیوں پر پردے بھی ڈالتی ہے.چھپ چھپ کر سمجھاتی ہے.باپ کی ناراضگی کا خوف دلاتی ہے.مارتی ہے تو فورا سینہ سے لگا کر پیار کرتی اور پیار سے کہتی ہے کہ دیکھو تمہارے بھلے کے لئے تو کہتی ہوں کہ اگر اتنا تمہارے دیکھیں تو کیا کہیں.غرض یہ ماں کا پیارسارے خاندان ساری جماعت کے لئے ایک قدرتی سمجھوتہ کے طور پر منجھلے بھائی صاحب کے سپر درہا اور ہمیشہ نبھایا خوب نبھایا.وہ نیک نیت ، خوش خلق اور منکسر المزاج تھے.خود بہت حساس مگر دوسرے کے احساسات کا بھی بہت خیال رکھنے والے.خدا اور اُس کے رسول کے عشق میں سرشار مگر ہر وقت ڈرنے والے، ہر وقت فکر تھا کہ گنہگار ہوں.غریب نواز ہمدرد غرض ایک خوبیوں کا مجموعہ تھا ایک نیکیوں کا گلدستہ تھا جس کو

Page 136

تاریخ احمدیت.جلد 22 121 سال 1963ء اب اس کے خالق نے اپنی جنت اعلیٰ کے لئے پسند کر لیا.۲.میرے منجھلے بھائی کی گھریلو زندگی 766 196 خدا تعالیٰ کے فضل و احسان سے میرے بھائیوں کا ظاہر تو تھا ہی بہترین مگر باطن بھی پاکیزہ رہا.میری نظر نے تمام تعلقات رشتہ اور محبت کو الگ رکھتے ہوئے جب بھی غور کیا ظاہر سے بھی بہتر ان کے دلوں کو پایا.کوئی نفاق نہیں ، کوئی ریا نہیں ، کوئی مکاری نہیں ، نہ کسی سے بغض وحسد، نہ دنیا کے معاملات کے لئے غصہ اور انتقام کا جذبہ، ہمیشہ صاف شفاف دل والے رہے، یہی نمونہ گھر یلو زندگی میں حضرت منجھلے بھائی صاحب کا بھی ہمیشہ دیکھا اور ہمیشہ رہا.وہ بھی بہت اچھے بھائی بہت اچھے بیٹے ، اچھے شوہر ، اچھے آقا ، اچھے عزیز ، اچھے ہمسایہ، اچھے دوست، اچھے رفیق تھے.اچھے صلاح کار، نیک مشورہ دینے والے اور ہر ایک کا بھلا چاہنے والے تھے.بچپن : مجھے بھی یاد نہیں کہ بہت چھوٹی عمر میں بھی کبھی کسی بھائی نے مجھے کڑوی نظر سے بھی دیکھا ہو یا لڑے جھگڑے ہوں.بڑے بھائی ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی) تو خیر بڑے تھے.ان کا پیار تو ہمیشہ مجھے سب سے بڑھ کر ملا مگر میرے منجھلے بھائی چھوٹے بھائی بھی اُس عمر سے اب تک ہمیشہ شفیق اور چاہنے والے ہمدردر ہے.میری ہوش میں پہلا نظارہ مجھلے بھائی کے بچپن کا جو مجھے بہت صاف یاد ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہیں باہر سے تشریف لائے تھے.گھر میں خوشی کی لہرسی دوڑ گئی.آپ آ کر بیٹھے میں پاس بیٹھ گئی اور سب معہ حضرت اماں جان بھی بیٹھے تھے کہ ایک فراخ سینہ چوڑے منہ والا ہنس مکھ لڑ کا سرخ چوگوشیہ مخملی ٹوپی پہنے بے حد خوشی کے اظہار کے لئے حضرت مسیح موعود کے سامنے کھڑا ہو کر اچھلنے کودنے لگا یہ میرے پیارے منجھلے بھائی تھے.حضرت اقدس مسکرا رہے ہیں دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ ” جاٹ ہے جاٹ“.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن میں تو کہہ کر مخاطب کرتے تھے.حضرت اماں جان روکتی تھی کہ اب تم ہو نہ کہا کرو تو حضرت مسیح موعودؓ فرماتے.تم روکو نہیں اس کے منہ سے مجھے ٹو 66899 66899 کہنا پیارا لگتا ہے.پھر ذرا بڑے ہوئے تو خود ہی تو کہنا تو چھوڑ دیا مگر ایسا حجاب رہا کہ تم آپ بھی نہ کہا.یونہی بات کر لیتے مگر تو کی جگہ کچھ نہ کہتے.طبیعت میں سنجیدگی اور حجاب بہت جلدی پیدا ہو گیا تھا.بہت

Page 137

تاریخ احمدیت.جلد 22 122 سال 1963ء کم بولتے اور کم ہی بے تکلف ہو کر سامنے آتے تھے.ویسے طبیعت میں لطیف مزاح بچپن سے اب تک تھا.ایسی بات کرتے چپکے سے کہ سب ہنس پڑتے اور خود وہی سادہ سا منہ بنائے ہوتے.حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ اول تو بچوں کو کبھی میں نے مارانہیں ویسے ہی کسی شوخی پر اگر دھمکایا بھی تو میر ابشری ایسی بات کرتا کہ مجھے ہنسی آ جاتی اور غصہ دکھانے کی نوبت بھی نہ آنے پاتی.ایک دفعہ شائد کپڑے بھگو لینے پر ہاتھ اٹھا کر دھمکی دی تو بہت گھبرا کر کہنے لگے.نہ اماں کہیں چوڑیاں نہ ٹوٹ جائیں.اور حضرت اماں جان نے مسکرا کر ہاتھ نیچے کر لیا.حضرت والدہ صاحبہ سے تعلق حضرت اماں جان سے محبت بھی بے حد کرتے تھے اور ادب و احترام بھی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور روز آکر بیٹھنے کے علاوہ مسجد میں جاتے آتے وقت بھی ضرور خیریت پوچھ کر اور باتیں کر کے جاتے.اپنے دل کا ہر درد کھ حضرت اماں جان سے بیان کرتے اور حضرت اماں جان کی دعا پیار ومحبت کی تسلی سے تسکین پاتے حضرت اماں جان کی ملازموں تک کو ادب سے پکارتے اور ان کا ہر طرح خیال رکھتے تھے.جب کسی بڑھیا پرانی بے تکلف خادمہ سے مذاق بھی کرتے تو بڑے ہی انکسار سے کہ سب ہنس دیتے اور وہ نادم سی ہو جاتی.ابتداء سے ہی جب آمدنی کم اور گزارا اپنا بھی مشکل تھا ضرور ہر ماہ چپکے سے کچھ رقم حضرت اماں جان کے ہاتھ میں ادب اور خاموشی سے دے دیتے.آپ کو کوئی حاجت نہ تھی مگر ان کی دلداری کے خیال سے واپس نہ کرتی تھیں.ہر وقت اماں جان کے آرام کا خیال رہتا اور خدمت کی تڑپ.اس معاملہ میں وہ بالکل بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلے اور ان سے کم نہ رہے.آپ کی آخری بیماری میں پروانہ وار پھرتے تھے.کسی وقت ان کے دل کو چین نہ تھا.برآمدے میں ہی ٹہلتے پھرتے اور وہیں رہتے.کئی بار آ کر دیکھتے ہاتھ پکڑتے.السلام علیکم کہتے اور چلے جاتے.ہر وقت بعض پردہ دار خدمت کرنے والوں کی وجہ سے کمرہ میں رہ نہ سکتے تھے ور نہ وہ تو پٹی نہ چھوڑتے.شادی ہوئی تو آج کل کی پود کو دیکھتے ہوئے بچہ ہی تھے مگر بہت سنجیدگی اور وقار سے وہ پہلے پہل کے دن بھی گزارے.کوئی نا پختگی یا بچپن کی علامت لڑائی جھگڑا کسی قسم کی کوئی بات میں نے نہیں دیکھی حالانکہ ہر وقت کا ساتھ تھا.صرف عزیزہ امتہ السلام کی پیدائش پر شرمائے.ان کو نہ کبھی گود میں لیا نہ بات کی، جب وہ بیاہی گئیں تو شرم ٹوٹی اور بولنے چالنے لگے.عزیزہ امتہ السلام کا بچپن تو حضرت

Page 138

تاریخ احمدیت.جلد 22 123 سال 1963ء اماں جان اور حضرت بڑے بھائی صاحب کی ہی گود میں گزرا.انہوں نے ہی سب لاڈ پیار کئے ناز اٹھائے.ان کی شادی کے وقت بھی سب اماں جان اور بڑے بھائی پر فیصلہ چھوڑا کہ آپ کو ہی اختیار ہے اور بعد میں دوسرے بچوں کے مواقع پر بھی یہی طرز عمل قائم رہا.اگر حضرت اماں جان نے کہہ دیا کہ فلاں لڑکی سے کر دو اپنے اس لڑکے کا.تو بلا چون و چرا منظور تھا.اسی طرح لڑکیوں کا معاملہ بھی.سب ان دونوں بزرگ ہستیوں پر ہمیشہ چھوڑا.منجھلی بھابی جان بیاہ کر آئیں تو نہ معاشرت نہ طور وطریق نه وضع لباس وغیرہ نہ زبان کچھ بھی مشترک نہ تھا اور آخر نادان کم عمر تھیں وہ بے چاری بھی.کئی باراگر وہ تعلقات بگاڑنے والے ہوتے تو بگڑ سکتے تھے مگر ایسی خوش اسلوبی سے نبھایا کہ ایسے نمونے ملتے مشکل سے ہی ہیں.ادھر سال ہا سال سے وہ بیمار بھی چلی آرہی ہیں.اتنے دراز عرصہ میں انسان اور اتنے کاموں والا جس کے کندھوں پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ہوں اور خود بیمار ہو اس سے غفلت بھی ہو سکتی ہے.کسی وقت بے دھیان بھی ہو سکتا ہے.مگر کبھی ان کی خدمت اور دیکھ بھال سے غافل نہ ہوئے.ذرا ذرا دیر کے بعد اس حال میں کہ اپنی ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں.طبیعت خراب ہے.ان کی خبر پوچھنے ان کے کمرے میں جارہے ہیں.ان کی خادمات کی خاطر میں ہو رہی ہیں کہ اس بے کس بیمار و لا چار کو چھوڑ کر نہ چل دیں.غرض بچپن کی حضرت مسیح موعود کے ہاتھوں کی لگائی خوب نبھائی.اولاد کے لئے بہترین شفیق باپ تھے.کسی بات پر سمجھاتے بھی تو نرمی سے اکثر شاید اس خیال سے کہ میں نرمی کروں گا کسی امر کی اصلاح مد نظر ہوتی تو دوسرے عزیز کو قریب سے کہتے کہ ذرا میرے فلاں بچہ کو تم اس معاملہ میں سمجھانا.مجھ سے بھی یہ خدمت لی ہے.غرض آپ کی گھریلو زندگی کا بھی ہر پہلو ایک نمونہ تھا.سوچ کر ایک ہلکی ہلکی بوندیں پڑنے کا سماں تصور میں آتا ہے کہ ٹھنڈی خوشگوار ہوا چل رہی ہے اور ابر رحمت سے قطرے گر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت ان پر تا ابد برستی رہے.آمین مبارک بزرگ ہستیوں کا ذکر خیر کرنا اور ان کے اخلاق و شمائل کو محفوظ رکھنا بے صبری اور جزع فزع میں ہرگز شامل نہیں.یہ تحریریں تو نو جوانوں کے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں.الفضل کے مضامین یا جو بعد میں بھی لکھا جائے آئندہ تاریخ احمدیت کا ایک اہم باب ہوں گے.ان بزرگ ہستیوں کی جدائی کا احساس تو صرف یہاں تک ہونا چاہیئے اور ضرور ہو گا کہ آج افسوس ہم ایک اور نعمت الہی سے محروم ہو گئے.اصل چیز جس کا خیال خصوصیت سے جوان طبقہ کو رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ان کی قربانیاں

Page 139

تاریخ احمدیت.جلد 22 124 سال 1963ء ان کے کام ان کے اخلاق دیکھیں اور پختہ عزم سے آگے بڑھیں عہد کریں کہ آئندہ ہم اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش میں لگے رہیں گے اور نیکیوں اور خدمت دین میں قدم آگے ہی آگے بڑھائیں گے.خدا تعالیٰ سب کا ناصر رہے اور اگر آج ایک چاند ایک بشیر ہم سے رخصت ہو کر اپنے مولیٰ کے حضور میں حاضر ہو گیا تو اس کے عوض ہمارا رب ہزاروں بشیر ہم کو عطا فرمائے.آمین ثم آمین.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے تاثرات پیکر ایثار ووفا (مبارکه) و محض اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اس کی ذرہ نوازی نے اس عاجز کے لئے صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب کی مشفقانہ رفاقت نصف صدی سے زیادہ عرصہ کے لئے میسر فرما دی اور اس تمام عرصے میں یہ عاجز متواتر اُس پاک اور صافی چشمہ فیض سے متمتع ہوتا رہا اور اُس بے نفس اور ہمہ تن متواضع ہستی کی طرف سے پیہم مور دالطاف و عنایات رہا...اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں الید العلیا سے نوازاتھا اور خاکسار کا مشاہدہ اور تجربہ سترہ سال کے سن سے لے کر ستر سال کی انتہاء تک یہی رہا کہ وہ ہاتھ ہر حالت میں بلند و بالا ہی رہا کبھی فضل الہی نے اسے نیچا نہ ہونے دیا.ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء.یہ تمام کیفیت کچھ خاکسار کے ساتھ ہی مخصوص نہ تھی.ان گنت احباب اس کے مور دو شاہد ہیں.سچ تو یہ ہے کہ خویش و درویش، اپنا اور پر ایا، جو بھی اس چشمے تک آیا بے سیراب ہوئے نہ لوٹا.اگر کبھی کمی رہی تو ظرف سائل میں نہ کہ فیضِ ساقی میں.حضرت صاحبزادہ صاحب کی پاکیزہ زندگی سن شعور سے لے کر دم واپسیں تک ہمارے لئے ایک نیک نمونہ اور مشعل راہ رہی.جب تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹریکولیشن کی سند حاصل کرنے کے بعد آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم جاری رکھنے کے لئے تشریف لائے تو خاکسار بھی گورنمنٹ کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا.اُن ایام میں بعض پہلوؤں سے سلسلے کی مخالفت اور جماعت کے ساتھ عناد بہت شدت کا رنگ لئے ہوئے تھے.لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب کا نیک کردار آپ کا حسن سلوک، اعلیٰ خُلق اور وقار وہ درجہ رکھتے تھے کہ نہ صرف طلباء بلکہ اساتذہ بھی آپ کے ساتھ تلطف کے ساتھ پیش آتے تھے اور آپ کا احترام کرتے تھے.پروفیسروں میں سے مسٹر جی اے وادن

Page 140

تاریخ احمدیت.جلد 22 125 سال 1963ء تو خاص طور پر آپ کے مداح تھے.کالج کے زمانے میں صاحبزادہ صاحب نہ صرف جماعت میں حاضری کی پابندی کرتے تھے اور مطالعہ میں توجہ سے مصروفیت رکھتے تھے بلکہ کالج کے دیگر جائز مشاغل میں بھی مناسب حصہ لیتے تھے خاکسار کو یاد پڑتا ہے کہ کھیل تفریح میں سے فٹ بال میں آپ شریک ہوا کرتے تھے.موجودہ صورت سے تو خاکسار واقف نہیں لیکن اُس زمانے میں کالج کے ابتدائی سالوں میں ہوسٹل میں رہنے والے طلباء کو سات دیگر طلباء کے ساتھ ایک کمرے میں رہنا تھا.صاحبزادہ صاحب بھی چونکہ ہوٹل میں قیام پذیر تھے اس لئے انہیں بھی یہی صورت در پیش تھی جس میں انہیں خلافِ معمول دقتوں اور پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑتا تھا.کھانے کا انتظام بھی ان دنوں ہوٹل میں کوئی ایسا تسلی بخش نہیں تھا.دو وقت سالن اور چپاتی پر گذران تھی لیکن صاحبزادہ صاحب نے اپنا وقت کالج اور ہوٹل میں نہایت بشاشت اور خندہ پیشانی سے گزارا.نہ ماتھے پر شکن آیا نہ زبان پر حرف شکایت.حضرت اماں جان اوسطاً ہر مہینے آپ کے لئے خشک میوہ ایک کنستر بھر کر ارسال فرما دیا کرتی تھیں لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے سب دوستوں کو اس میں شریک فرمالیا کرتے تھے.خاکسار کا اندازہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا حصہ اس تبرک میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے حصے سے کہیں بڑھ کر ہوا کرتا تھا.غرض کالج کے تمام زمانے میں اگر چہ صاحبزادہ صاحب کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہوالیکن آپ نے اپنے لئے کسی خصوصیت یا امتیاز کی نہ خواہش کی نہ اسے پسند فرمایا.قناعت، فروتنی حلم اور مسکنت کو شعار رکھا اور یہ صفات عمر بھر آپ کا امتیاز رہیں.خاکسار ۱۹۱۴ء کے آخر میں تعلیم سے فارغ ہو کر انگلستان سے واپس آیا اور انگلستان کے قیام کے عرصے میں صاحبزادہ صاحب کی رفاقت سے جو محرومی ہو گئی تھی وہ دُور ہوگئی البتہ کسی قدر بعد مکانی ضرور پیش آ گیا.کیونکہ خاکسار کی رہائش اول دو سال سیالکوٹ میں رہی اور آخر اگست ۱۹۱۶ء میں لاہور میں منتقل ہو گئی لیکن جب قادیان حاضر ہونے کا موقعہ میسر آتا تو خاکسار حضرت صاحبزادہ صاحب کا مہمان ہوتا.یہ صورت سالوں رہی لیکن ایک لفظ بھر بھی کبھی خاکسار نے اپنے تئیں آپ کے ہاں مہمان شمار نہیں کیا بلکہ ہر لحاظ سے آپ کے گھر کو بے تکلفی میں اپنا ہی گھر محسوس کیا اور آرام میں

Page 141

تاریخ احمدیت.جلد 22 126 سال 1963ء اسے اپنے گھر سے بہت بڑھ کر پایا اور یہی کیفیت اُن تمام احباب کی بھی ہوا کرتی تھی جو قادیان کے سفر اور قیام کے دوران میں خاکسار کے رفیق ہوا کرتے تھے..مرور زمانہ کے ساتھ صاحبزادہ صاحب کے علم و حلم آپ کے اوصاف حمیدہ اور صفات ستودہ میں جلد جلد اضافہ ہوتا گیا اور آپ کے علم اور سرگرمیوں کے میدان وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے.بہت جلد خاندان مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلے اور جماعت میں آپ کو ایک نمایاں اور ممتاز حیثیت حاصل ہوگئی جس کے نتیجے میں آپ کے تعلقات بھی بہت وسیع ہوتے گئے اور تمام جماعت ہی نہیں بلکہ بہت سا طبقہ غیر از جماعت احباب کا بھی آپ کے اخلاق حسنہ کا مورد ومعترف اور گرویدہ ہوتا گیا.ان تفاصیل کا بیان آپ کے سوانح نگار کے ذمے ہے خاکسار کو یقین ہے کہ محترم جناب شیخ عبدالقادر صاحب جنہوں نے اس مقدس فرض کو اپنے ذمے لینے کا اظہار کیا ہے بہت جلد اس سے کماحقہ عہدہ برآ ہو کر جماعت اور سلسلہ کو اپنا احسان مند بنائیں گے.خاکساراسی پر کفایت کرتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی ایک نہایت اہم خدمت کی طرف مختصر سا اشارہ کر دے.یوں تو صاحبزادہ صاحب کی تمام زندگی ہی بنی نوع انسان، اسلام اور سلسلے کی خدمت کے لئے وقف رہی اور گونا گوں رنگ میں آپ کو اس خدمت کے مواقع بفضل اللہ میسر آتے رہے جن سے آپ نے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت تندہی اور جانفشانی سے اسلام اور سلسلہ احمدیہ کے استحکام کے لئے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے جن کا تعلیمی، تربیتی اور اخلاقی فیض ہمیشہ جاری رہے گا اور یہی آپ کی حقیقی یادگار ہوگا.لیکن ان سب میں سے ممتاز اور اہم وہ خدمت اور وہ قربانی ہے جو آپ سے حضرت اصبح الموعود ( ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز و متعنا اللہ بطول حیاتہ ) کی بیماری کے عرصہ کے ہر لحظے نے طلب کی اور جسے آپ نے حد درجہ بے دریغی اور کمال بے نفسی سے پورا کیا اور سرانجام دیا.یہ عرصہ تمام جماعت کے لئے اور درجہ بدرجہ خدام مخلصین کے لئے لیکن سب سے کہیں بڑھ کر اور کئی گنا زیادہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے لئے صبر آزما اور دردناک طور پر طالب بے نفسی اور کیف راضی برضا رہا ہے.اس تمام عرصے میں جس طور پر آپ نے اپنا جسم اور اپنی روح ، اپنے قومی اور اپنی استعدادیں، اپنے وسائل اور اپنا وقت ، اپنی امنگیں اور اپنے ارادے، اپنی صحت اور اپنی زندگی مرضی مولیٰ کے سپر داور حوالے رکھیں وہ آپ ہی کا حصہ تھا اور کسی اور سے ممکن نہ ہوتا.198

Page 142

تاریخ احمدیت.جلد 22 127 سال 1963ء (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے تاثرات ۴." حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی یاد میں حضرت میاں صاحب کے اخلاق میں انبیاء کے اخلاق کی جھلک پائی جاتی تھی جس طرح چاند اپنی روشنی میں سورج کا مرہونِ منت ہوتا ہے اسی طرح آپ انبیاء کے نور سے حصہ پاتے تھے.آپ موحد تھے.آپ متوکل تھے.آپ متقی تھے.آپ جرات مند تھے.آپ بھی تھے اور غریبوں کے ہمدرد تھے.بے سہاروں کے مددگار تھے اور یتیموں اور بیواؤں کے سر پرست سخت ذہین اور ذکی الحس ، سخت فہیم اور ڈور میں نظر رکھنے والے، طبیعت بہت ہی متواضع اور متوازن تھی اور معاملات کے ایسے صاف تھے جیسے بارش کے بعد ڈھلا ہوا آسمان، آپ وجیہ اور باوقار تھے لیکن بجسم انکسار ، مسائل کی گنہ تک پہنچنے کے عادی تھے.آپ کی نگاہ تفاصیل اور جزئیات کے آخری کناروں تک سرایت کر جاتی تھی.صادق القول اور صادق الوعد تھے.عدل و انصاف پر قائم اور مظلوموں کی تائید میں کمر بستہ، نہایت غیور، حیادار، وفا کے پتلے ، قصور واروں کو معاف کرنے والے، عیب داروں کے عیب پوش، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، صاحب عقل و دانش اور صاحب دل ، خداداد فلسفہ اور منطق کے حامل، شاعر اور ادیب، صاحب تحریر اور صاحب تقریر، موقعہ شناس اور حلیم الطبع محتاط ، نگران ، ثابت القول، باریک بین ، متوکل ، مستغنی سادہ مزاج ، خوش خلق ، شیریں کلام ، بذلہ سنج ، نکتہ رس ، نکتہ نواز ، حاضر جواب، حاضر دماغ نظر شناس، عالم، عامل، عارف، عابد، زاہد غرضیکہ حسب ظرف و مرتبہ آپ نے ان تمام صفاتی رنگوں سے اپنی فطرت کو رنگین کر رکھا تھا جن میں انبیا علیہم السلام سرتا پا رنگین ہوا کرتے ہیں یہ وہی رنگ ہیں جن میں جب ایک مخصوص توازن پایا جاتا ہے تو خود بخو دنور کا ظہور ہوتا ہے اور یہ وہی نور ہے جس کا کمال حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانی ذات میں ہوا کیونکہ آ کی صفاتِ حسنہ میں ایک ایسا بے مثل امتزاج، ایک ایسا کامل توازن تھا جس کے وجود سے یہ صفات سراپا نور اللہ میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں.اسی کا دوسرا نام صبغتہ اللہ ہے اور یہی وہ رنگ ہے جس کے حصول تام سے بشر اور نور کا کوئی جدا گانہ وجود نہیں رہتا لیکن یہ ایک علیحدہ بحث ہے میں تو اس وقت اُس نبیوں کے چاند کا ذکر رہا تھا جس نے اپنی توفیق اور بساط کے مطابق انبیاء علیہم السلام کے نور سے حصہ پایا تھا اور جس طرح مادی چاند اپنی تابانی میں سورج سے کہیں کم ہونے کے باوجود اس کے نور کے

Page 143

تاریخ احمدیت.جلد 22 128 سال 1963ء ہر جز سے فیضیاب ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت میاں صاحب بھی اسی تمثیل کے مطابق صفاتِ نبوت سے زندگی بھر فیضیاب ہوتے رہے...آپ کی عادت تھی کہ آپ نصیحتیں اکثر احادیث کے بیان کے ساتھ یا بعض تائیدی واقعات اور قصے سنا کر کیا کرتے تھے اور پھر ہمیشہ ان کو دہراتے رہتے تھے تا کہ وہ مخاطب کے خوب ذہن نشین ہو جائیں.آپ سے ایک ایک حدیث اور ایک ایک واقعہ میں نے بیسیوں مرتبہ سنا ہے بعض آپ کی طبیعت سے ناواقف سننے والے بعض دفعہ آپ کو یہ یاد دلانے کی کوشش کرتے تھے کہ آپ یہ واقعہ ہمیں ایک مرتبہ پہلے بھی سنا چکے ہیں تو آپ ہاتھ کے قومی اشارہ کے ساتھ اسے روک کر جاری رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرز بیان میں ایسی لذت ودیعت کی ہوئی تھی کہ میں بغیر ذرہ بھر مبالغہ کے کہتا ہوں کہ اُس بسا اوقات سنے ہوئے واقعہ میں پھر ایک نیا لطف بھرا ہوتا تھا اور اس میں مخفی سبق دل میں از سر نو تازہ ہو جایا کرتا تھا.آپ حضرت خلیفہ اول کی سوانح حیات میں سے جو واقعات بار بار سُنایا کرتے تھے اُن میں سے ایک وہ چھر یوں والا واقعہ بھی تھا جس میں حضرت خلیفہ اول کی طالب علمی کے زمانہ میں ایک بزرگ نے آپ کو نصیحت کی تھی کہ جس طرح قصاب اپنی گند ہوتی ہوئی چھریوں کو وقتا فوقتا ایک دوسرے سے رگڑ تا رہتا ہے تا کہ ان کی کھوئی ہوئی آب واپس آ جائے ویسے ہی ہم صفات لوگوں کے ملتے رہنے سے گرد آلود صفات کی چمک دمک بحال ہوتی رہتی ہے.بارہا میں نے آپ کی زبان سے یہ واقعہ سنا ہے کبھی تو زور اس پہلو پر ہوتا تھا کہ ملتے رہنا یکطرفہ فائدہ کا موجب نہیں ہوتا بلکہ دونوں فریق ایک دوسرے سے استفادہ کرتے ہیں اور کبھی یہ فکر دامنگیر ہوتا تھا کہ کہیں اگلی نسلیں گزرتے ہوئے بزرگوں کی صحبت ترک کر کے اپنی طبیعت کو زنگ آلود نہ کر لیں.آپ کی شدید خواہش تھی کہ احمدیت کی نئی نسلیں اپنے بزرگوں سے بار بار کے استفادہ سے ایسی آبدار ہو جائیں کہ ان کے گذر جانے کے بعد خودان میں بھی ایک دوسرے کو چمکانے کی خاصیت پیدا ہو چکی ہو.آپ کی طرز کلام میں شوکت اور قوت پائی جاتی تھی.آپ کی بات کا انداز ایک ایسے نقاش کی طرح تھا جو کسی بساط پر مضبوط ہاتھوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ نقش جما رہا ہو.آپ جب کوئی پیغام بھجواتے تھے تو پیغامبر کو تین مرتبہ سُنا کر اُس سے اُسے دہرانے کا تقاضہ کرتے تھے اور ہمیشہ فرماتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا.آپ کی روز مرہ کی زندگی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باریک در بار یک پیروی

Page 144

تاریخ احمدیت.جلد 22 129 سال 1963ء کی برکت سے چاند ستاروں کی طرح درخشاں ہو چکی تھی.ہمسایوں کا خاص خیال اور ان سے شفقت کا سلوک، اعزہ واقارب کو تحائف بھجواتے رہنا اور ہر خوشی اور غمی کے موقعہ پر انہیں یاد رکھنا، بچوں سے غیر معمولی پیار اور ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے کا خیال، بیماروں کی عیادت اور حاجتمندوں کی حاجت روائی، کوئی ایک بات ہو تو کہوں ہر ہر بات کے ساتھ کئی کئی واقعات وابستہ ہیں.قادیان میں ہمارا گھر آپ کی ہمسائیگی میں تھا بلکہ دروازہ سے درواز ہ ملا ہوا تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ کو کوئی تحفہ آیا ہو یا گھر میں کوئی پسندیدہ چیز بنی ہو اور آپ نے اُس میں سے کچھ ہمارے ہاں نہ بھجوایا ہو ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا.کبھی ہمارے ہاں سے کوئی تحفہ جاتا تو برتن کبھی خالی واپس نہ بھیجتے گھر میں جو کچھ بھی تحفہ کے لائق پاتے کچھ نہ کچھ بھجوا دیتے بغیر تکلف کے.بغیر اس حجاب کے کہ وہ تحفہ آئے ہوئے تحفہ سے بظاہر کم تر ہے.مجھ سے ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی طریق تھا.بچوں سے محبت اور پیار کرتے تھے اور یہ ارشادتب بھی ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے پیار فرمایا کرتے تھے.آپ اس پیار میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ ہمیشہ اپنی الگ الماری میں بچوں کے لئے گولیاں، ٹافیاں،غبارے، مرمرہ، پھلیاں، آم پاپڑا اور سردیوں کے موسم میں چلغوزے اور دیگر خشک میوہ جات وغیرہ مقفل رکھتے تھے.الماری کیا تھی گویا ایک چھوٹے بچوں کی دلچسپی کی دکان تھی.البتہ اس دکان سے پیسوں کے نہیں بلکہ ہمیشہ محبت اور شفقت اور معصوم خوشیوں کے سودے ہوا کرتے تھے.بچے بڑی کثرت سے عموں صاحب کو سلام کرنے جاتے اور واپسی پر صرف سلامتی کی دعا ہی نہیں بلکہ اپنی اشتہاء کی دوا بھی لے کر لوٹتے تھے.خاندان کے بچے بھی کچھ کم نہ تھے غیر از خاندان بچوں کو بھی جب آپ کی اس شفقت کا علم ہوتا تو پُر امید نگاہوں سے جو کبھی مایوس نہیں لوٹیں.سلام کی سعادت حاصل کرنے کو حاضر ہونے لگتے.کبھی آپ تھکے نہیں نہ ماندہ ہوئے ہمیشہ مسکراتے ہوئے اور بعض اوقات اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں ان بچوں کی غیر معمولی عقیدت پر ایک آدھ فقرہ چست کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے الماری کھولتے اور کبھی خود ہی اُس بچہ کے لئے کوئی تحفہ پسند فرماتے کبھی پوچھتے کہ بتاؤ اس چیز میں سے کیا لو گے.عموماً بچے اس سوال سے سخت گھبراتے تھے اور علموں صاحب ان کی اس اُلجھن کو بھانپتے ہوئے دونوں چیزوں میں سے کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے.میں تو کچھ اس بناء پر کہ گھر قریب تھا اور کچھ آپ کی خاص شفقت کے زعم میں اور کچھ اس لئے

Page 145

تاریخ احمدیت.جلد 22 130 سال 1963ء بھی کہ مجھے اور بچوں سے کچھ زیادہ ہی بھوک لگا کرتی تھی اکثر دن میں کئی کئی مرتبہ جاتا اور کبھی آپ کو اپنے سلاموں سے تنگ آتے نہیں دیکھا اور یہ بھی ایک بلا مبالغہ حقیقت ہے کہ صرف یہی ایک وجہ میرے آنے جانے کی نہیں تھی.آپ کی مسلسل بے لوث محبت کی بنا پر مجھے آپ سے ایسا پیار ہو چکا تھا کہ بار بار آپ کے پاس آنے جانے کو بھی جی چاہتا تھا.جہاں تک کہ آپ کی عنایات کا تعلق ہے یہ تو ایک ایسا کنواں تھا کہ اگر پیاسے نہ آئیں تو خود پیاسوں کے پاس پہنچ جانے کا عادی تھا.ایک دفعہ ہم سب چھوٹے بھائیوں کو حضور ایدہ اللہ نے مولوی عبد الرحمن صاحب انور کی نگرانی میں ڈلہوزی بھجوایا.ان دنوں میں آم کا موسم ختم ہونے کو تھا اور آخری موسم کے آم فجری رہتے تھے.آپ نے میرے لئے بار یک خوبصورت رنگین کاغذوں میں لیٹے ہوئے فجری آموں کی ایک پیٹی بند کروائی (آپ جب بھی کسی کو کوئی تحفہ دیتے تھے نہایت سلیقے سے سجا کر دیا کرتے تھے ) پھر تا کید فرمائی کہ ان کو کھانے سے پہلے یہ احتیاط کر لینا کہ نہ تو یہ ذرہ بھر کچے ہوں نہ ایک اعشاریہ زیادہ پکے ہوں.کیونکہ فجری آموں کی یہ کمزوری ہے کہ ذرا بھی زیادہ پک جائیں یا ذرا کچے رہ جائیں تو مزہ بالکل بگڑ جاتا ہے.البتہ پورے پکے ہوئے آم بہت عمدہ اور لطیف ہوتے ہیں.آپ فرماتے تھے کہ فجری آم اپنا بہترین مزہ پہاڑ پر دیتا ہے.چنانچہ ان تاکیدوں کے ساتھ آپ نے وہ آموں کی بیٹی میرے ساتھ روانہ فرمائی.آپ کی عنایات محض بہت بچپن کی عمر تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ خاصی بڑی عمر کے اہلِ خاندان بھی اس پہلو سے آپ کی نظر میں بچے ہی تھے.اگر چہ آخری عمر میں ذمہ داریوں کے بے حد بوجھ اور تفکرات کے غیر معمولی طور پر بڑھ جانے سے بچوں کا خیال پہلے کی طرح نہیں رکھ سکتے تھے مگر پھر بھی جب کبھی کوئی موسمی پھل یا ہندوستان کے کیلے آئے ہوئے ہوں تو آپ کے کمرے میں نوعمر زائرین کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ جایا کرتی تھی لیکن باوجود شدید مصروفیت کے یہ پسند نہ فرماتے تھے کہ کسی کو صاف صاف نکل جانے کے لئے کہیں.مبادا اس کے جذبات کو ٹھیس لگے.چند ہی ماہ کی بات ہے قادیان سے کیلے آئے ہوئے تھے اک بڑی عمر کی بچی نے جا کر خاص طور پر سلام کیا.اُسی خلوص کے ساتھ آپ نے برجستہ فرمایا:.و علیکم السلام مگر کیلے ابھی کچے ہیں.حاضر جوابی اور نہایت ہی لطیف اور پاکیزہ مزاح آپ پر ختم تھے.اور یہ مزاح جس انو کھے رنگ میں آپ نصیحت کے لئے استعمال کرتے تھے.وہ رنگ آپ ہی کا حصہ تھا.قادیان کی بات ہے غالباً

Page 146

تاریخ احمدیت.جلد 22 131 سال 1963ء جلسہ کے دن تھے کئی نو جوان با ہر آپ کے مردانہ صحن میں مجلس کر رہے تھے اور چونکہ ان میں سے بعض سگریٹ بھی پیتے تھے اس لئے اس ڈر سے کہ حضرت میاں صاحب اوپر سے نہ آ جائیں اندر سے کنڈے لگا کر سگریٹ نوشی کرنے لگے.کچھ دیر کے بعد ہی آپ تشریف لے آئے دروازہ کھلوایا السلام علیکم کہا اور باہر تشریف لے گئے.مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد پھر واپس آئے اور کمرہ میں داخل ہو کر آدمی گنے.ایک دو تین چار پانچ چھ سات اور خاموشی سے سات الا ئچیاں جیب سے نکال کے میز پر رکھ کر باہر چلے گئے.آپ کے جانے کے بعد سب کمرے والے اس لطیف مذاق پر بے اختیار ہنس دیئے مگر اس ہنسی میں جو خفت تھی وہ شاید آج تک اُن کو نہ بھولی ہو.ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ نشہ کا تو کیا سوال ساری عمر مجھے کبھی کسی غیر منشی چیز کی بھی عادت نہیں پڑی حتی کہ جب میں سمجھتا ہوں کہ چائے کی بھی عادت سی ہو چلی ہے تو کچھ دیر کے لئے اسے ترک کر دیتا ہوں.آپ کے مزاح اور نصیحت کے امتزاج کے سلسلہ میں ایک بہت پرانی بات یاد آ گئی.ابا جان اور امی جب کبھی سفر پر جاتے تھے تو مجھے اور بھائی خلیل کو عموں صاحب کے ہاں چھوڑ جایا کرتے تھے.چنانچہ ہمیں بعض اوقات کئی کئی مہینے آپ کے ہاں ٹھہرنے اور آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقعہ ملتا تھا.ایک مرتبہ رمضان کا مہینہ تھا بچی جان بسبب بیماری روزہ رکھنے سے معذور تھیں مگر سحری کے وقت تہجد کی غرض سے اور کچھ کھانے پر خیال رکھنے کی خاطر با قاعدہ ساتھ اٹھا کرتی تھیں.ایک دفعہ ہم سحری کھا رہے تھے کہ کسی خادمہ کی غلطی پر بیچی جان نے ذرا اونچی آواز میں اسے سخت سست کہا.عموں صاحب ان سے تو کچھ نہ بولے مگر مجھے مخاطب کر کے فرمانے لگے تم جانتے ہونا کہ تمہاری چچی جان بیمار ہیں بیچاری روزے تو نہیں رکھ سکتیں البتہ ذکر الہی کے لئے اس وقت ضرور اٹھتی ہیں وہ دن اور رمضان کا آخری روزہ پھر بچی جان نے کبھی سحری کے وقت آواز بلند نہیں کی.مزاح کا یہ لطیف رنگ خود بخود بغیر کسی کوشش کے ایسابا موقعہ ابھرتا تھا کہ فضا کو رنگین بنادیتا تھا اور بعض اوقات تو اس میں ایسا بے ساختہ پن پایا جاتا تھا کہ ظہور کے وقت تک مزاح چُپ چاپ سنجیدگی کے پردوں میں چھپارہتا تھا اور کسی کو کانوں خبر نہ ہوتی تھی.لطیف پُر وقار مزاح اور نصیحت کی دلنشین آمیزش جس رنگ میں آپ کر سکتے تھے شاذ و نادر ہی کوئی کر سکتا ہوگا.اس کی بیسیوں سینکڑوں مثالیں موجود ہیں بلکہ شاید ہی آپ کی زندگی کا کوئی ایسا دن ڈوبا

Page 147

تاریخ احمدیت.جلد 22 132 سال 1963ء ہوگا جس میں آپ کی زبان سے کوئی ادبی شہ پارہ نہ نکلا ہومگر افسوس کہ نہ تو یہ سب باتیں محفوظ ہوسکی ہیں اور نہ ہی یہ موقعہ ہے کہ اس ذکر کو لمبا کیا جاسکے.میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ نصیحت صرف مزاح کی ملونی کے ساتھ ہی کیا کرتے تھے بلکہ آپ ایک قادر الکلام فصیح و بلیغ عالم تھے اور ہمیشہ اقتضائے حال کے مطابق کلام فرماتے تھے.جب سنجیدگی کی ضرورت محسوس کرتے تو سنجیدگی سے کام لیتے تھے اور جب جلال کا موقع ہوتا تھا تو جلال کا اظہار فرماتے.قادیان کا ذکر ہے کہ ایک مرتبہ گھر کے کسی فرد کا ذکر ہوا گرمیوں کی شام تھی بچی جان باہر صحن میں پلنگ پر بیٹھی تھیں اور عموں صاحب مجھے بازو سے پکڑے ہوئے ٹہل رہے تھے کسی کا ذکر ہورہا تھا جس نے حضرت عموں صاحب تک کسی کی کوئی بات غلط اور نا مناسب رنگ میں پہنچائی تھی جس سے ناحق آپ کے دل میں کچھ رنج پیدا ہو گیا.مگر چونکہ آپ ہمیشہ ایسے موقعہ پر متعلقہ شخص سے دریافت کر لیا کرتے تھے اس لئے تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ کو حقیقت حال معلوم ہو گئی چنانچہ اسی کے متعلق آپ مجھ سے افسوس کا اظہار فرما رہے تھے کہ بعض لوگ خواہ مخواہ فتنہ کا موجب بن جاتے ہیں.یہ سن کر حضرت چی جان نے کہا کہ میں تو آپ کو ہمیشہ کہتی ہوں کہ وہ شخص نا قابل اعتماد ہے مگر پھر بھی آپ اس سے تعلق رکھتے ہیں اس پر آپ نے وہیں قدم روک لئے اور ایک ایسی آواز میں جو غصہ والی اور اونچی تو نہیں تھی مگر اس میں بے پناہ قوت پائی جاتی تھی.فرمایا دیکھو مجھے ایسا مت کہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی کمزوریوں پر نگاہ رکھتا تو اس کا کسی بندہ سے تعلق نہ ہوتا وہ اپنے بندے کی کسی خوبی پر نظر رکھ کر اس سے تعلق رکھتا ہے پس وہ میری کیسی ہی بدخواہی کرے میں اس سے تعلق نہیں توڑوں گا.پھر دھیمی نرم آواز میں فرمانے لگے تم جانتی ہو کہ اُس میں بعض بہت بڑی خوبیاں بھی ہیں اور پھر ایک دو نمایاں خوبیوں کا ذکر فرمانے لگے.اپنے تمام واقفیت کے حلقہ پر نظر دوڑا کر میں پورے وثوق اور شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ اس زمانہ کے بہترین ناصحین میں سے تھے.آپ کی تحریری صلاحیتوں کے بارہ میں اس موقع پر کچھ نہیں کہنا چاہتا.آپ کی تصانیف سے ایک جہان واقف ہے اور محض یہ دہراتے رہنا کہ آپ بہت اچھا لکھنے والے تھے کوئی خاص قیمت نہیں رکھتا.سلطان القلم کے عظیم الشان وارث کے اس امتیازی ملکہ کے بارہ میں ضرورت ہے کہ آپ کی

Page 148

تاریخ احمدیت.جلد 22 133 سال 1963ء تمام تصانیف کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹھوس علمی مقالہ جات لکھے جائیں کیونکہ آپ کی تحریر کا سطحی حسن تو سب پر عیاں ہو جاتا ہے اس کی مخفی در مخفی خوبیوں کے ادراک اور اظہار کے لئے غوطہ خور محقق کی ضرورت ہے.میں یہ علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ آپ اپنے ہر لفظ کوعبارت میں اس طرح برمحل سجاتے تھے جیسے کوئی ماہر صراف زیورات میں جو ہر ٹکا رہا ہو.ہر پہلو سے جانچ کر آپ جس لفظ کو جہاں بٹھا دیتے تھے الا ماشاء اللہ کسی ادیب کی طاقت نہ تھی کہ تحریر کے ظاہر و باطن کو بگاڑے بغیر اسے اس مقام سے اٹھا سکے.ہلا سکے.آپ کی یہ احتیاط الفاظ کی پرکھ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ رحمت و شفقت کے بعد اگر کوئی رنگ آپ کی شخصیت پر غالب تھا تو وہ احتیاط ہی کا رنگ تھا.احتیاط اور پھر احتیاط اور پھر احتیاط اور پھر بھی آپ تسلی نہ پاتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میری طبیعت میں احتیاط کمزوری کی حد تک بڑھی ہوئی ہے.اور اس پہلو سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ میری بڑھی ہوئی احتیاط نے مجھ سے اقدام اور فیصلہ کی طاقت چھین لی ہے اس کے برعکس حضرت صاحب میں فوری فیصلہ کی طاقت اور بے دھڑک جرات مند اقدام کرنے کی صلاحیت موجود ہے میں تو یہ سوچتارہ جاتا ہوں کہ ایسا کرنا اچھا ہوگا یا بُرا اور حضرت صاحب اس عرصہ میں فیصلہ ہی نہیں بلکہ عمل کر کے دکھا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ ہی ان کے کام درست فرما دیتا ہے.پھر آپ کئی مرتبہ فرماتے کہ دیکھو ایک لیڈر کے لئے فوری فیصلے اور بے دھڑک اقدام کی طاقت کا ہونا ضروری ہے.پس یہ احتیاط کا رنگ اپنے غلبہ کی وجہ سے ایک پہلو سے کمزوری بن گیا تھا مگر آپ کی بہت سی دیگر صفات کو اس غالب رنگ نے چار چاند بھی لگارکھے تھے.آپ کے مشوروں میں اسی احتیاط نے ایک غیر معمولی وزن بھی پیدا کر دیا تھا خصوصا بے صبرے نو جوانوں کے لئے تو یہ مشورے ایک روشنی کے مینار کا کام دیتے تھے.نوجوانوں پر ہی کیا موقوف آپ تو جگ مشیر تھے.آپ کی محتاط طبیعت اور حدید نظر دور دور کے خطرات کو بھانپ لیا کرتی تھی.جماعتی مسائل میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی آپ کے مشوروں کو بہت وزن دیتے تھے اور انفرادی مسائل میں ہر کس و ناکس آپ کے مشوروں سے استفادہ کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا.نادار اور بے کس تو صرف علاج ہی نہیں پوچھتے تھے بلکہ دوا بھی مانگا کرتے تھے.پس یہ ایک ایسا جگ وکیل تھا جس کے

Page 149

تاریخ احمدیت.جلد 22 134 سال 1963ء لئے فیس لینے کا تو کیا سوال بار ہا مقدمہ کے اخراجات بھی پلہ سے دینے پڑتے تھے.ابھی چند دن کی بات ہے کہ ایک ملنے والی افسوس کے لئے آئی اور بڑی حسرت سے یہ کہا کہ تمہارے ہاں افسوس کے لئے آئی ہوں مگر حق یہ تھا کہ تم لوگ یعنی حضرت میاں صاحب کے خاندان کے افراد ہم بے کسوں سے افسوس کرتے.تمہارے تو گھر رستے بستے رہیں گے اور تمہیں دنیاوی سہاروں کی بھی کمی نہیں مگر ہم مشکل کے وقت کس سے دُکھڑے کیا کریں گے.کس سے مشورے مانگیں گے.اُس نے یہ کہا اور دلی درد سے اس کی آواز بھتر اگئی اور میں سوچنے لگا کہ ٹھیک ہی تو کہتی ہے آج ایک بیکسوں کا سہارا دردمند مشیر ہم میں باقی نہیں رہاوہ جس کے فیض کا دروازہ سب پر یکساں کھلا تھا وہ پیارا و جود وہ بہت ہی پیارا وجود جاتا رہا.اس وقت مجھے آپ کی موت ایک دفعہ پھر محسوس ہوئی.اس میں کچھ شک نہیں کہ ہر خلا کا بھیانک پن اس وجود کی عظمت اور چمک دمک سے براہ راست نسبت رکھتا ہے جس کے کھو جانے سے وہ خلا پیدا ہوا ہو.غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎ ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اُداس ہے بعض محبوبوں کے گذر جانے پر چمن اُداس ہو جاتے ہیں اور بعض کے گذرنے پر ویرانے.مگر خدا کے کچھ فقیر بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کشکول میں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کی خیرات ہوتی ہے.جب خدا کے یہ برگزیدہ گذرتے ہیں تو چمنستانوں کو بھی اداس چھوڑ جاتے ہیں اور ویرانوں کو بھی اور بیابانوں کے چہروں سے بھی وحشت برسنے لگتی ہے.خدا کے خوشحال اور مفلوک الحال بندے یہی تو ہیں جو اس دنیا کی زندگی میں چمنستانوں اور ویرانوں کے مناظر پیش کرتے ہیں.مصور کائنات نے تصویر کائنات کچھ اسی طرح پر کھینچ رکھی ہے کہ وہ منبع حُسن تو اپنی جگہ پر قائم اور غیر فانی ہے.مگر آنی جانی ہے ہر وہ صورت جو اس سے فیضیاب ہوتی ہے سب ایک ایک کر کے اٹھتے جاتے ہیں حتی کہ اُس حُسنِ تام کا وہ کامل مظہر بھی باقی نہیں رہا چودہ سو برس پہلے جس کا حسن ایسا چکا تھا کہ اس حسن کا فیض آج تک جاری و ساری ہے.حضرت میاں صاحب کے اندر بھی جتنی خوبیاں تھیں اُسی فیض رساں کے فیض سے تھیں.سنتِ رسول کی پیروی کا آپ کو اس قدر اہتمام تھا کہ بار یک در باریک پہلو بھی نظر انداز نہیں فرماتے تھے.کیا بلحاظ رحم اور کیا بلحاظ عدل اور کیا بلحاظ مساواتِ اسلامی ہر اس روش پر سے ہو کر

Page 150

تاریخ احمدیت.جلد 22 135 سال 1963ء گزرتے رہے جس پر سے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عشاق کا قافلہ گزرا تھا.اپنے خادموں پر ایسی شفقت تھی اور ان کے مقام کو ایسا اٹھاتے تھے کہ وہ برابر کرسیوں اور پلنگوں پر بیٹھتے تھے یہاں تک کہ گھر کے بعض افراد کبھی شکوے کے رنگ میں یہ کہہ دیتے تھے کہ میاں صاحب نے نرمی کر کر کے نوکروں کا دماغ خراب کر دیا ہے کوئی کہتا تھا کہ آپ کے نوکر بدتمیز ہو جاتے ہیں مگر حضرت میاں صاحب نے کبھی ان امور کی پرواہ نہیں کی اور کبھی اسوۂ رسول کی پیروی میں پشیمان نہیں ہوئے.ایک دفعہ مجھ سے فرمایا کہ کبھی کبھی یہ بھی ہونا چاہیے کہ نوکروں کو میز پر بٹھا کر مالک انہیں کھانا کھلائیں تاکہ نفس کے تکبر کا کیڑا ہلاک ہو جائے.تکبر سے شدید نفرت تھی اور طبیعت ایسی منکسر اور عاجز تھی کہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.نوکر تو خیر نوکر ہیں آپ کے خادم بشیر نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ قادیان کی ایک بوڑھی خاکرو بہ سلام کے لئے حاضر ہوئی اور زمین پر بیٹھنے لگی تو آپ نے فرمایا اٹھو کرسی پر بیٹھو.اور وہ عورت جسے گھر کے ایک خادم کے سامنے بھی کرسی پر بیٹھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی اور جس کی ساری عمر خاک میں لتھڑے ہوئے گزری اسے با اصرار آپ نے کرسی پر بٹھایا اور بشیر سے کہا کہ قادیان سے آئی ہے.پرانی خادمہ ہے.اس کے لئے چائے لاؤ لیکن اس نے یہ کہہ کر ابھی فلاں کے گھر سے چائے پی کر آئی ہوں معذرت پیش کر دی.پھر آپ بڑی ہمدردی سے کافی دیر تک اس کے حالات پوچھتے رہے.ذرہ نوازی کی ایسی مثالیں ہر زمانہ میں ہی کم ملتی ہیں مگر آج کی دنیا میں تو خصوصاً اخلاق کے یہ انمول مظاہرے عنقا ہوتے جاتے ہیں.......پس جب میں نے بشیر سے یہ واقعہ سُنا تو حضرت میاں صاحب کے لئے دل سے خود بخود ایک بے اختیار دعانکلی.ایک ایسی دعا جو ایک غیر ارادی حرکت کی طرح دل سے پھوٹتی ہے.اب ایسے ذرہ نواز ، ایسے منکسر المزاج وجود ہم میں کتنے رہ گئے ہیں جو ہیں خدا انہیں سلامت رکھے اور جو گذر گئے انہیں اپنی رحمتوں کے سائے تلے جگہ دے.آمین.اس عادت سے سخت چڑتے تھے کہ کوئی بزرگ اصرار کے ساتھ کوئی چیز دے اور اگلا انکار کرتا رہے کہ نہیں مجھے ضرورت نہیں.کبھی آپ کھانے کے لئے کسی بچہ کو پیار سے کچھ دیتے تھے اور وہ یہ کہہ دیتا تھا کہ نہیں میرا پیٹ بھرا ہوا ہے یا میں کھا کر آیا ہوں تو آپ سخت نا پسند فرماتے.آپ کہا کرتے تھے کہ مقصود صرف کھانا نہیں ہوا کرتا بلکہ محبت کی ایک پیشکش کو قبول کرنا اصل چیز ہے خصوصا جب کوئی بزرگ اظہار شفقت کے طور پر کوئی چیز دے تو برکت کے خیال سے اسے ضرور نعمت سمجھ کر قبول کرنا

Page 151

تاریخ احمدیت.جلد 22 136 سال 1963ء چاہئیے.آپ کو اس امر کا اتنا خیال رہتا تھا کہ اگر خواب میں بھی کوئی کسی بزرگ کی دی ہوئی چیز کا انکار کرتا تو آپ سخت تنگی محسوس کرتے.ایک مرتبہ قادیان میں آپ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو اپنی ایک خواب سنائی کہ میں دیکھتی ہوں کہ حضرت اماں جان کھانا کھا رہی ہیں اور میں اور امتہ الباسط (میری ہمشیرہ) کھیلتی ہوئی آپ کے پاس چلی جاتی ہیں.اماں جان ہمیں کچھ کھانے کے لئے دیتی ہیں تو میں معذرت کر دیتی ہوں کہ اماں جان میرا پیٹ بھرا ہوا ہے اور امتہ الباسط لے کر کھا لیتی ہے.بس ان کا یہ بیان کرنا تھا کہ حضرت عموں صاحب کا چہرہ غصہ سے تمتما اٹھا اور سخت تکلیف سے کہا کہ یہ تمہاری کیا عادت ہے کہ بزرگوں کا انکار کر دیتی ہو.اب دیکھو کہ تم ایک برکت سے محروم رہ گئیں اور بار بار یہی کہتے رہے.انہوں نے بہت احتجاج کیا کہ ابا جان میرا اس میں کیا قصور ہے.یہ تو خواب تھی اور خواب پر کس کو اختیار ہوتا ہے مگر آپ پھر بھی تأسف کا اظہار کرتے رہے اور فر مایا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ خواب ہے مگر خوا ہیں بھی تو عادت کے مطابق آتی ہیں.تمہیں عادت ہے کہ جب تمہیں کوئی بزرگ چیز دے تو تم تکلف کرتی ہو اسی لئے تمہیں خواب بھی ویسی ہی آئی ہے.اس چھوٹے سے واقعہ سے بھی آپ کی سیرت کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے.آپ کی فطری سعادت ، حضرت اماں جان کی محبت اور آپ کے تقدس اور عظمت کا احساس اور بزرگوں سے ہر خیر و برکت کے حصول کی تمنا یہ تینوں ایسی باتیں ہیں جو آپ کی شخصیت کا ایک لازمی جز تھیں.جہاں تک آسمانی برکتوں کا تعلق ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی بھوک نہ مٹنے والی تھی.بے شمار برکتوں کے وارث ہونے کے باوجوداور باوجود اس کے کہ آپ کا دامن برکتوں سے چوٹی تک بھرا ہوا تھا.آپ کی حصول برکت کی پیاس بجھنے میں نہ آتی تھی.توحید صافی کا ایک پاکیزہ سمندر آپ کے سینہ میں موجیں مارتا تھا.عیاذ باللہ ظاہری تبرکات وغیرہ کو آپ کا باعث برکت سمجھنا کسی تو ہم پرستی یا شرک کی بناء پر نہیں تھا.آپ موحد تھے.آپ کے اور شرک کے مابین بعد المشرقین تھا.آپ کی تو روح تو حید ہی کے پانی پر جیتی تھی.صدق اور توحید آپ کی روحانی کائنات کے دو غیر متزلزل ستون تھے.بہت ہی دعا گو اور دعاؤں کی تاکید کرنے والے تھے اور ذاتِ باری تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتے تھے.خودسب کے لئے دعا کرتے تھے اور سب سے دعا کے خواہاں تھے.صحابہ اور دیگر بزرگان سلسلہ کو تو خاص اہتمام سے دعا کے لئے لکھتے رہتے تھے.ہرا ہم کام سے پہلے استخارہ کرتے تھے اور دوستوں کو بھی اسی کی تلقین فرماتے تھے.صاحب کشف والہام تھے.ایک دفعہ مجھ سے ذکر فر مایا کہ عین بیداری

Page 152

تاریخ احمدیت.جلد 22 137 سال 1963ء کے عالم میں جبکہ دوسرا پاس نہ تھا غیب سے بالکل صاف آواز سُنائی دی.”السلام علیکم لیکن عام طور پر اپنے الہامات اور رؤیا کے بیان سے گریز فرماتے تھے.ایک طرف اطاعت کا یہ حال تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ہر حکم پر سمعنا واطعنا کی تصویر بنے رہتے تھے تو دوسری طرف صداقت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایسی جرات کے ساتھ جو صرف توحید پرستوں کو عطا ہوتی ہے اپنی سچی اور سیدھی رائے دینے سے قطعا نہیں ہچکچاتے تھے خواہ وہ حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ کی رائے اور مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو.محض حضور ایدہ اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اپنی دلی رائے کو بدلنا آپ کا شیوہ نہیں تھا.کئی مرتبہ آپ کو مسائل میں اختلاف ہوتا تھا کئی مرتبہ دوسرے امور میں فرماتے تھے کہ رائے کے اختلاف میں انسان بے اختیار ہے البتہ جب حضرت صاحب میری رائے کے خلاف فیصلہ فرما دیتے ہیں تو بے چون و چرا اس پر عمل کرتا ہوں.دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان بے کم و کاست اپنی صحیح رائے بیان کرے اور اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ جب صاحب امر اس کے خلاف فیصلہ کر دے تو پوری تسلیم و رضا کے ساتھ اس پر عمل کرے.یہی مذہب تھا جس پر آپ ہمیشہ عمل پیرا ر ہے.یہ بالکل برداشت نہیں تھا کہ کوئی احمدی سلسلہ سے کٹ کر الگ ہو جائے اس لئے ایسے لوگ جو کسی انتظامی سختی کی تلخی سے پیچھے ہٹ رہے ہوں یا کسی غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہوں آخر دم تک انہیں واپس لانے کی کوشش میں مصروف رہتے.کبھی احسان کر کے کبھی سمجھا بجھا کر کبھی شکایات کے جائز حصہ کو دور کر کے کبھی لمبے لمبے خطوط کے ذریعہ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی قو تیں بخشی تھیں وہ سب بروئے کار لے آتے کہ کسی طرح اس ڈوبتے ہوئے کو بچالوں.فرماتے تھے کہ حضرت صاحب کو اللہ تعالیٰ نے نگران کے مقام پر کھڑا کیا ہے اس لئے ان کو یہی زیبا ہے کہ باقی بھیڑوں کو بچانے کے لئے بیمار بھیٹروں کو الگ کر دیں اور نظام سلسلہ کی حفاظت کا کڑا انتظام کریں.باقی میں اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ اس تلخ فیصلہ کی نوبت ہی نہ آئے.آپ صرف سلسلہ سے دور ہوتے ہوئے افراد کو ہی بچانے کی کوشش نہیں فرماتے تھے بلکہ اخلاقی یا تعلیمی لحاظ سے ضائع ہوتے ہوئے نوجوانوں کے لئے بھی آپ کا ماں کی طرح محبت کرنے والا دل سخت بے قرار ہو جایا کرتا تھا.یقیناً سلسلہ کے بہت سے ایسے افراد ہیں جو محض آپ کی بے لوث شفقت ، بر وقت راہنمائی اور دردمندانہ دعاؤں کے نتیجہ میں ہلاکت سے بچ گئے.اگر وہ احسان

Page 153

تاریخ احمدیت.جلد 22 138 سال 1963ء فراموشی بھی کریں تو ان کی خوش حال زندگیاں ہمیشہ زبانِ حال سے آپ کو دعائیں دیتی رہیں گی.دعاؤں کی آپ کو کمی نہیں.نہ تھی نہ ہو گی.آپ کو تو اپنے عالم وجود میں آنے سے پہلے بھی ایک نبی کی نیم شمی دعائیں حاصل تھیں اور وجود کے بعد بھی اس دنیا کی زندگی میں ان دعاؤں کے ٹھنڈے سائے تلے آپ نے پرورش پائی اور اُس دنیا کی زندگی میں بھی وہ دعا ئیں ہمیشہ آپ کے شامل حال رہیں گی.دعاؤں کی آپ کو کمی نہیں کہ اصحاب کرام، بزرگانِ سلسلہ اور جملہ عاشقانِ مسیح موعود علیہ السلام کی پُر خلوص دعاؤں کے علاوہ ان یتیموں اور بیواؤں اور مسکینوں اور بے سہاروں کی دعائیں بھی آپ کو بہت میتر رہی ہیں جن کے دُکھ درد آپ نے اپنے سینے سے لگا رکھے تھے....خدا تعالیٰ نے غیر مبہم الفاظ میں آپ کو قرب وفات کی خبر دے دی تھی.بہت سی ایسی واضح رویا تھیں جن کا آپ ذکر تو کرتے تھے مگر تفصیل نہیں بتاتے تھے.اس کے علاوہ کئی بار یہ الہام ہو چکا تھا کہ و بلبل چلیں کہ وقت آیا کئی لوگوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ منذر رویا صدقہ و خیرات سے مل جاتے ہیں مگر آپ فرماتے کہ میں یہ جانتا ہوں مگر باوجود اس کے مجھے یقین ہے کہ میر اوقت آچکا ہے.آپ کو اپنی وفات کے قرب کا روز روشن کی طرح یقین تھا مگر افسوس کہ کسی اور کو یقین نہ آیا.بچوں تک کو یقین نہ آیا کہ اس صادق القول باپ کی یہ بات بھی پوری ہو کر رہے گی.۲۲ ستمبر کو میں مری سے واپسی پر لاہور پہنچا.اسی روز آپ کی صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ ڈھاکہ کے لئے روانہ ہوئی تھیں.اُن سے بار بار کہا کہ امتہ المجید اب تم مجھ سے پھر نہیں ملو گی.اور روتے ہوئے اُسے رخصت کیا.اس دن طبیعت اس خیال سے سخت اداس اور بے قرار رہی.پھر دوسرے روز برادرم مرزا انور احمد کے ساتھ آپ کی صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ نے ربوہ واپس جانا تھا میں بھی اسی کار میں ساتھ جا رہا تھا.جب وہ سلام کرنے کے لئے حاضر ہوئیں تو فرمایا کہ اچھا تم چلی جاؤ اب یہ آخری ملاقات ہے.آپ بہت ہی محبت کرنے والے اور رقیق القلب تھے.آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب جاری تھا.پھر باوجود سخت نقاہت کے لڑکھڑاتے ہوئے اٹھے اور باہر کار تک اپنی بچی کو چھوڑنے کے لئے آئے.آنکھیں اشک آلود تھیں اور ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہے تھے.مرزا انور احمد اس انتظار میں تھے کہ عموں صاحب اندر جائیں تو کار چلاؤں مگر میں جانتا تھا کہ جب تک کا رنہیں چلے گی واپس نہیں پھریں گے چنانچہ میں نے کہا کہ عموں صاحب کمزور ہیں اور مشکل سے کھڑے ہیں اس

Page 154

تاریخ احمدیت.جلد 22 139 سال 1963ء لئے اب اور انتظار نہ کرو.چنانچہ کار چل پڑی اور عموں صاحب روتے ہوئے واپس چلے گئے.جانے سے پہلے ہی مجھ سے وعدہ لے لیا تھا کہ پھر جلد آؤں گا.چنانچہ ۲۹ کو سیالکوٹ کے جلسہ پر جاتے ہوئے لاہور خدمت میں حاضر ہوا.اس روز تقریباً تمام دن اور اکثر رات اپنے پاس بٹھائے رکھا.نیند سے گھبراتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب میں سوؤں تو دیکھتے رہنا.یہ دن اور یہ رات غالباً آپ کی بیماری کے سب سے زیادہ بے چین دن رات تھے.جماعت کا سخت فکر دامنگیر تھا.حضور ایدہ اللہ کی بیماری کی تشویش بیقرار کر رہی تھی.ضرورتمندوں کا فکر تھا.مظلوموں کا فکر تھا.اُن شکایات کرنے والوں کا فکر تھا جو کسی جماعتی عہد یدار سے شاکی ہو کر دادرسی کے لئے آپ کی خدمت میں التجا کرتے تھے چنانچہ آخری بیماری میں ربوہ اپنے ملازم بشیر سے کہہ رکھا تھا کہ میری بیماری کی وجہ سے لوگ مجھ سے پہلے کی طرح مل نہیں سکتے.اب یہ تمہارا فرض ہوگا کہ ہر ضرورتمند کی ضرورت کی اطلاع مجھے پہنچایا کرو.کوئی حاجتمند ہو تو اس کی بھی مجھے اطلاع دو.کوئی شکایت کرنے والا ہو تو اُس کی بھی مجھے اطلاع دو.اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کرو اور جور فقے لانے والے ہیں ان کے رقعے مجھ تک پہنچاؤ.پھر فرمایا کہ اب میں خدا کے سامنے بری الذمہ ہو گیا ہوں اور اگر کوئی کوتاہی ہوئی تو تم جوابدہ ہو گے.آپ کی بے حد حساس طبیعت کے لئے نگران بورڈ کا بوجھ طاقت سے کہیں زیادہ تھا مگر یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس بوجھ کے نیچے پیسا جاؤں گا.آپ نے خدا کی خاطر اسے اٹھانے سے گریز نہیں کیا.مجھے تو اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ آپ کی شدید اعصابی بے چینی کی اصل ذمہ دار وہ بوجھل جماعتی ذمہ داریاں تھیں جو بہر حال آپ ہی کو اٹھانی تھیں.اس پر وفات کی قبل از وقت اطلاع اور فطری انکساری اور بڑھی ہوئی احتیاط کے نتیجہ میں یہ خوف کہ میں ان ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہیں کر سکا اب اپنے خدا کو کیا جواب دوں گا یہ سب امور تھے جنہوں نے آپ کو ایک شدید کرب میں مبتلا کر رکھا تھا اور آپ لا لِی وَلا عَلَی کا منظر پیش کر رہے تھے.اسی قسم کی ایک سخت گھبراہٹ کے موقعہ پر میری ایک بہن نے سوال کیا کہ آپ تو خدا کے برگزیدہ بندے ہیں آپ موت سے کیوں ڈرتے ہیں تو آپ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ مجھے موت کی کچھ بھی پرواہ نہیں پھر یہ کہتے ہوئے رو پڑے کہ دراصل مجھ میں اپنے خدا کو حساب دینے کی طاقت نہیں.پس یہی ایک تمنا ہے کہ وہ بے حساب بخش دے.بعض دوسرے موقعوں پر بھی آپ نے اپنی اس شدید خواہش کا اظہار ملنے والوں سے کیا کہ دعا کرو اللہ تعالیٰ مجھے بے حساب بخش دے.پس آؤ

Page 155

تاریخ احمدیت.جلد 22 140 سال 1963ء ہم سب اس دعا میں لگ جائیں کہ اے میرے غفور الرحیم خدا تو اپنے اس مخلص بندے کو بے حساب بخش دے.تجھے عجز پیارا ہے اور یہ تو ایسے عاجز تھے کہ زندگی بھر تیرے حضور خاک میں ملے رہے! اے آقا تو اپنے پیارے مسیح کے اس پاک لخت جگر کو بخش دے جسے اپنی تمام عمر کی نیکیوں کے باوجود تیرے حضور حساب دینے کی طاقت نہیں.رحم کی نظر فرما کہ تیرا یہ بندہ بے کسوں پر رحم کیا کرتا تھا.شفقت کی آنکھ سے دیکھ کہ اس کا دل ہر کس و ناکس کے لئے شفیق تھا.اے عیب پوشوں کے عیب پوش اس کی کمزوریوں کو اپنی ستاری سے ڈھانک لے.رحمت اور بخشش کی نظر فرما کہ تیرے سوا اور کوئی بخشتے والا نہیں.! " 199 صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے تاثرات ۵ حضرت ابا جان کی زندگی کے بعض نمایاں شمائل 66 میری طبیعت پر ابا جان کی زندگی کا جو سب سے گہرا اثر ہے وہ آپ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کی کیفیت ہے.آپ کا طریق تھا کہ گھر کی مجالس میں احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے حالات اکثر بیان فرماتے رہتے تھے.میرے اپنے تجربہ میں یہ ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا ہوگا.لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر سے آپ کی آنکھیں آبدیدہ نہ ہوئی ہوں بڑی محبت اور سوز سے یہ باتیں بیان فرماتے تھے اور پھران کی روشنی میں کوئی نصیحت کرتے تھے.اسی عشق کے جذبہ میں آپ نے اپنی مشہور تصنیف ” خاتم النبین “ کی تین جلدوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات قلم بند فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق روایات اپنی دوسری مشہور تصنیف ”سیرۃ المہدی“ میں جمع کیں جو تین جلدوں میں شائع ہو چکی ہے.یہ ہر دو تصانیف آپ نے محنت اور تحقیق کے علاوہ بڑی محبت سے لکھیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی بے حد محبت کرتے تھے اور حضور کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنا جسمانی رشتہ اپنے نئے روحانی رشتہ کے ہمیشہ تابع رکھا.دینی معاملات کا تو خیر سوال ہی کیا تھا دنیاوی امور میں بھی یہی کوشش فرماتے تھے کہ حضور کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو.حضور کی تکریم کے علاوہ کمال درجہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ پیش کرتے تھے.میں نے اس کی

Page 156

تاریخ احمدیت.جلد 22 141 سال 1963ء جھلکیاں بہت قریب سے گھریلو ماحول میں دیکھی ہیں.آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا رنگ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ نبض دل کے تابع ہو.عمر بھر اس تعلق کو کمال وفاداری سے نبھایا اور اس کیفیت میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہ ہونے دیا.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرے ایک بھائی پر حضور ناراض ہو گئے اور اس ناراضگی کا الفضل میں اعلان بھی فرمایا.اباجان نے مشورہ کے لئے ہم سب کو اکٹھا کیا.بچوں کے علاوہ جو احباب اس وقت موجود تھے.ان میں ہمارے چچا جان (حضرت مرزا شریف احمد صاحب) اور غالبا مکرمی درد صاحب بھی شامل تھے.میں نے پہلی مرتبہ روتے ہوئے ابا جان کو اس مجلس میں دیکھا.بڑا کرب اور قلق تھا اور فرماتے تھے کہ مجھے اپنی اولاد کی دنیوی حالت کی نہ خبر ہے نہ فکر.اور شائد میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ مجھے کبھی یہ بھی دلچسپی نہیں پیدا ہوئی کہ مظفر کی تنخواہ کیا ہے.اپنے ایک مکتوب میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے نام تحریر فرماتے ہیں ” میری آمدنی اس وقت صرف تنخواہ تک محدود ہے جو خرچ کے مقابل بہت کم ہے اور دوسری طرف بچوں کے ساتھ میں نے کبھی کسی طرح کا اشتراک رکھا نہیں بلکہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ کس بچہ کی کتنی آمد ہے اور کتنی نہیں ؟ لیکن بہر حال خدا کے فضل پر بھروسہ کر کے بیٹھے ہیں کہ وہ جلد کوئی رستہ کھول دے گا لیکن باوجود اس تکلیف کے خود حضور کی خدمت میں کوئی درخواست پیش نہ کی اور شاید اس جذبہ سے نہ کی کہ آپ کی طرف سے ایسی تحریر انتظامی اور جماعتی معاملات میں مداخلت تصور نہ ہو.البتہ میرے متعلقہ بھائی کو بار بار اور تاکیداً تلقین کرتے رہے کہ حضور سے معافی کی درخواست اور استدعا کرتے رہو اور اس معاملہ میں خود بھی دعا فرماتے رہے اور اپنے دوستوں اور بزرگوں کی خدمت میں بھی دعا کے لئے با قاعدہ لکھتے رہے.200 حضور کا سلوک بھی ابا جان سے بہت شفقت کا تھا اور ہمیشہ خاص خیال رکھتے تھے اور اہم معاملات میں مشورہ بھی لیتے تھے.ضروری تحریرات خصوصاً جو گورنمنٹ کو جانی ہوتی تھیں.ان کے مسودات ابا جان کو بھی دکھاتے تھے اور اس کے علاوہ اہم فیصلہ جات اور سکیم پر عملدرآمد کا کام اکثر ابا جان کے سپر د کرتے تھے اور اس بات پر مطمئن ہوتے تھے کہ یہ کام حسب منشاء اور خوش اسلوبی سے ہو جائے گا.حضرت اماں جان کا بھی ابا جان بہت احترام کرتے تھے اور ان کے وجود سے جو برکات وابستہ تھیں.ان سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ قادیان میں آپ کا معمول

Page 157

تاریخ احمدیت.جلد 22 142 سال 1963ء تھا کہ شام کا کھانا قریباً روزانہ حضرت اماں جان کے ساتھ کھاتے تھے.کھانا معاً مغرب کی نماز کے بعد کھایا جاتا تھا اور نماز سے فارغ ہو کر سیدھے اماں جان کے گھر جاتے تھے اور شام کا کھانا وہیں کھاتے تھے.برادرم مکرم مرزا ناصر احمد صاحب کے علاوہ جو ہمیشہ اماں جان کے ساتھ ہی رہے میں بھی شامل ہو جایا کرتا تھا اور بعض دفعہ اور عزیز بھی.کبھی کبھی ماموں جان ( حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب) بھی ہوتے تھے اور اس موقعہ پر ابا جان اور ماموں جان میں کسی نہ کسی دینی موضوع پر گفتگو شروع ہو جاتی.بعض مرتبہ حضرت اماں جان تنگ آ کر فرمایا کرتی تھیں.میاں اب بس کرو کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے.ایسے مواقع پر بعض مرتبہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی بھی مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے فارغ ہو کر راستہ میں گھر جاتے ہوئے ٹھہر جایا کرتے تھے.ایسے مواقع پر حضور بیٹھتے کم تھے بلکہ صحن یا کمرہ میں موسم کے مطابق جہاں کہیں کھانے کا انتظام ہو ٹہلتے رہتے تھے اور گفتگو فرماتے جاتے تھے.حضرت اماں جان کو بھی ابا جان سے بہت پیار تھا.میری نظروں کے سامنے اب بھی اماں جان ان سیڑھیوں کے اوپر جو ہمارے قادیان کے مکان کو حضرت صاحب اور حضرت اماں جان کے مکان سے ملاتی ہیں کھڑی دکھائی دیتی ہیں ہاتھ میں پلیٹ ہوتی جس میں کوئی کھانے کی چیز جو انہوں نے پکائی ہوتی تھی پکڑی ہوتی تھی اور ابا جان کو آواز دے کر بلاتی تھیں کہ میاں تمہارے لئے لائی ہوں، لے لو.ایسے وقت میں کبھی صرف ”میاں“ کہہ کر پکارتی تھیں.کبھی ”میاں بشیر“ اور کبھی صرف بشری.اسی محبت کے نام کی یاد میں ابا جان نے ربوہ کے مکان کا نام ”البشری رکھا اور اسے گھر کے دونوں طرف نمایاں کر کے کندہ کروایا.اپنی آخری بیماری کے ایام میں ابا جان والدہ کو جاتے ہوئے کہہ گئے تھے کہ میری وفات کے بعد میری الماری میں ایک چھوٹا سا اٹیچی کیس ہے.وہ مظفر کو کہنا خود کھولے چنانچہ جب میں نے اسے کھولا تو اس میں بعض اور ذاتی کاغذات کے علاوہ کچھ حضرت مسیح موعود کے دستی لکھے ہوئے خطوط اور چند لفافوں میں کچھ روپے پڑے تھے اور ہر ایک کے ساتھ مختصر سانوٹ تھا کہ یہ رقم حضرت اماں جان نے بطور عیدی کے ابا جان کو دی تھی اور آپ نے تبر کا اسے محفوظ رکھا ہوا تھا.عیدی کی بعض رقوم قادیان کی دی ہوئی تھیں اور ہندوستانی نوٹ میں تھیں.اس لئے ان کے لئے آپ نے اسٹیٹ بینک سے اجازت لے رکھی تھی اور وہ اجازت نامہ نوٹوں کے ساتھ غیر معمولی اہتمام کے ساتھ نتھی کر کے رکھا ہوا تھا.

Page 158

تاریخ احمدیت.جلد 22 143 سال 1963ء حضرت اماں جان کے ابا جان کے ساتھ اس تعلق کا حضرت صاحب کو بھی احساس تھا.جب قادیان سے یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ مقامی حکام کے ارادے اچھے نہیں اور وہ کسی نہ کسی بہانے ابا جان کو قید کرنا چاہتے ہیں تو حضرت صاحب نے اس وجہ سے اور پھر جماعتی کاموں کی خاطر ابا جان کو حکم دیا کہ پاکستان چلے آئیں.ابا جان بڑے مخدوش حالات میں قادیان سے روانہ ہوکر لاہور پہنچے.حضرت صاحب نے ابا جان کے لاہور بخیریت پہنچنے پر سجدہ شکر کیا اور پھر ننگے پاؤں شوق سے ابا جان کا ہاتھ پکڑ کر حضرت اماں جان کے پاس لے آئے اور فرمایا دلیں اماں جان! آپ کا بیٹا آ گیا ہے.صحابہ حضرت مسیح موعود سے بھی ابا جان کو بہت گہرا لگاؤ تھا اور ان کی بہت عزت اور احترام کرتے تھے.ان میں ہر طبقہ کے لوگ تھے اور ہر ایک کے ساتھ یکساں محبت اور مروّت سے پیش آتے تھے اور ان کا بہت خیال رکھتے تھے اور بعض کو دعاؤں کے لئے باقاعدہ لکھتے رہتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ یہ پاکیزہ گروہ اب آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے اور اب تو خال خال رہ گئے ہیں.ان سے ملتے رہنا چاہئیے اور ان کی برکات سے فائدہ اٹھانا چاہیئے اور نو جوانوں کو چاہیے کہ کوشش کریں کہ وہ اپنے اندر انہیں اصحاب کے خلوص ، فدائیت اور تعلق باللہ کا رنگ پیدا کریں.ایک اور چیز جو ابا جان میں نمایاں نظر آتی تھی وہ اسلام اور احمدیت کا مستقبل تھا.اکثر احادیث اور حضرت مسیح موعود کی تحریرات اور الہامات کی روشنی میں اس کا گھر کی مجالس میں اور دوسرے دوستوں میں ذکر فرماتے تھے اور اس یقین سے بیان فرماتے تھے کہ یہ احساس پیدا ہوتا تھا کہ گو یا کسی واقع شدہ بات کا ذکر فرمارہے ہیں.جماعت میں بہت سے اندرونی اور بیرونی فتنے اٹھے لیکن جہاں آپ ان سے چوکس ضرور ہوتے وہاں ان کی مکمل ناکامی اور اس کے بالمقابل جماعت کی ترقی کے یقین سے پر ہوتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایسے ہی کسی موقع پر مکرمی در دصاحب مرحوم نے مجھ سے بات کی.فرمانے لگے کہ ان معاملات میں جماعت کے بعض چیدہ چیدہ لوگ بھی گھبرا اٹھتے ہیں لیکن میاں صاحب کا یہ حال ہے کہ جیسے کوئی مضبوط چٹان کھڑی ہو اور اس پر پانی کی لہریں اٹھ کر پڑتی ہوں.لیکن وہ وہیں کی وہیں بغیر کسی تزلزل کے قائم و دائم کھڑی ہو.جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا کہ آپ کی طبیعت میں شفقت بہت تھی.لیکن باوجود ایسی نرم اور شفیق طبیعت رکھنے کے جہاں دین کا معاملہ آجائے وہاں دوستوں سے بھی سختی دکھانے میں اجتناب نہ کرتے.اپنے عمر بھر کے ایک دوست سے جن سے ہمیشہ بڑی شفقت سے پیش آتے ان سے ایک مرتبہ حضور کسی جماعتی معاملہ میں ناراض

Page 159

تاریخ احمدیت.جلد 22 144 سال 1963ء ہوئے.اس دوست نے ابا جان کو ایک ذریعہ سے پیغام بھجوایا کہ میں ملنے آنا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا حضرت صاحب اس سے ناراض ہیں آپ کہہ دیں کہ پہلے حضرت صاحب سے معافی لے، میں پھر ملوں گا یوں نہیں مل سکتا.ابا جان کی زندگی کا ایک اور نمایاں پہلو بنی نوع انسان کی ہمدردی تھا.میں نے آپ جیسا شفیق انسان اور کوئی نہیں دیکھا.ہر آن اسی کوشش میں رہتے تھے کہ کسی نہ کسی رنگ میں لوگوں کے کام آ سکیں آپ کا دروازہ ہر دردمند کے لئے کھلا رہتا تھا.لوگوں کی تکالیف اور ان کی پریشانیوں کے بیان کو بڑے تحمل سے سنتے تھے اور اپنی طاقت اور موقع کے مطابق امدادفرماتے تھے کسی کو اس کے بچوں کی تعلیم کے لئے مشورہ دے رہے ہیں.کسی کو ملازمت کے لئے کسی کو علاج معالجہ کے لئے کسی کو مقدمات کی پریشانی کے بارے میں کسی کو کاروبار اور تجارت میں کسی کو رشتہ کے بارے میں، ہر ضرورت مند آپ کے پاس آتا تھا اور آپ بڑے اطمینان سے اس کی بات سنتے تھے اور اسے صحیح مشورہ دیتے اور اس کی حتی المقدور امداد فرماتے تھے.غرباء کی طرف بالخصوص توجہ دیتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ ایسے مواقع کوشش سے ڈھونڈتے تھے کہ میں کسی طور سے لوگوں کے بوجھ ہلکے کرسکوں اور ان کی پریشانیوں میں ایک گھر کا فرد ہو کر شامل ہو سکوں.ہم بچوں کو ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے کہ انسان کو نافع الناس وجود بنا چاہئے.ایسی زندگی جو صرف اپنی ذات کے لئے ہو وہ کوئی زندگی نہیں.اپنی اس خصوصیت سے اپنے اوپر ہر تکلیف بخوشی قبول فرماتے تھے.تعزیت کے لئے جو احباب تشریف لائے ان میں سرگودھا کے ایک غیر از جماعت دوست بھی تھے وہ جس صاحب کے ساتھ آئے تھے انہوں نے بیان کیا کہ جب سے انہوں نے حضرت میاں صاحب کے وصال کی خبر سنی ہے.انہیں اس کا شدید صدمہ ہے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہیں.یہ دوست کہنے لگے کہ میں ایک مقدمہ میں ماخوذ تھا اور بغیر کسی تعارف یا واقفیت کے ربوہ حضرت میاں صاحب کے مکان پر چلا آیا اور اطلاع بھجوائی کہ میں ملنا چاہتا ہوں.خادم جواب لایا کہ میاں صاحب فرماتے ہیں میری طبیعت اچھی نہیں.پھر کسی وقت تشریف لائیں تو بہتر ہوگا.وہ کہنے لگے میں اپنی تکلیف میں تھا اس لئے میں نے اصرار کیا کہ میں نے ضرور ملنا ہے.اس کے تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ میاں صاحب مکان سے باہر بڑی تکلیف اور مشکل سے دیوار کے ساتھ قریباً دونوں ہاتھوں سے سہارا لئے آہستہ آہستہ چلے آ رہے ہیں.وہ دوست کہنے لگے میں بہت پشیمان ہوا کیونکہ مجھے اندازہ نہ تھا کہ آپ کو اس قدر

Page 160

تاریخ احمدیت.جلد 22 145 سال 1963ء تکلیف ہے آکر برآمدہ میں بیٹھ گئے اور میرے حالات بڑی توجہ سے سنے اور فرمایا میں آپ کے لئے ضرور دعا کروں گا اپنی ایسی بیماری کی حالت میں ایک غیر معروف شخص کی خاطر اس طرح باہر چلے آنا آپ کی ہمدردی بنی نوع انسان کے خاصہ کی ایک مثال ہے.میں نے بیسیوں مرتبہ یہی کیفیت دیکھی ہے.اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتے تھے تا لوگوں کو سکھ نصیب ہو.اور ان کے ہر قسم کے معاملات میں گہری دلچسپی لے کر ان سے پوری ہمدردی فرماتے تھے مشورہ بھی دیتے تھے اور جہاں ہو سکے امداد بھی فرماتے تھے.یہ سلسلہ صرف ملاقات تک محدود نہ تھا بلکہ اس سلسلہ میں بے شمار خطوط آتے تھے اور آپ ہر ایک کو بغیر تو قف جواب دیتے تھے.چنانچہ اس آخری بیماری میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور تعزیت کے خطوط میں ایک صاحب نے لکھا کہ میاں صاحب کا خط ان کی وفات کی خبر کے بعد انہیں ملا.دوستوں سے ہمدردی کرتے وقت بڑی شفقت اور نرمی سے اپنا ہاتھ دوسرے کے کندھے پر مخصوص انداز میں رکھتے تھے اور دلاسا دیتے تھے.اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں.جنہیں اس کا تجربہ ہوا ہو.آپ کی بے پایاں شفقت جہاں دوسروں کے لئے تھی.وہاں اپنے دوستوں کے لئے اور زیادہ ہوتی تھی اور اس نیک سلوک اور مروّت کا سلسلہ اپنے دوستوں کی اولادوں تک کے لئے قائم رکھتے تھے.ایک دوست نے مجھ سے بیان کیا کہ اپنی والدہ محترمہ (اہلیہ حکیم قطب الدین صاحب) کا جنازہ وہ ربوہ لے کر گئے.رات کے ساڑھے تین بجے کے قریب پہنچے.حضرت میاں صاحب کو اطلاع ملی.اسی طرح رات کو تشریف لے آئے اور تجہیز و تکفین تک میں شامل رہے اور ہر طرح ان کے غم میں شریک رہے اور ہمدردی فرماتے رہے.اسی طرح صوفی عبدالرحیم صاحب لدھیانوی نے بیان کیا کہ ان کی والدہ (میر عنایت علی شاہ صاحب کی اہلیہ) کا تابوت جب وہ تدفین کے لئے لائے تو ابا جان نے کمال ہمدردی سے ان کے غم میں شرکت کی اور فرمانے لگے کہ میر صاحب کو تو ہم اپنے گھر کا فرد سمجھتے ہیں.اسی طرح اپنے بچوں کے دوستوں سے بھی بہت شفقت کا سلوک رکھتے تھے اور ان کا خاص خیال کرتے تھے پچھلے ایام میں جب ہمارے دوست کرامت اللہ صاحب کراچی میں شدید بیمار ہوئے اور اپریشن کے لئے انگلستان گئے تو ابا جان ان کے لئے بہت دعا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی تاکید سے دعا کے لئے کہتے تھے.خود کرامت اللہ صاحب کو خط میں لکھا کہ ”میں تو آج کل آپ کے لئے مجسم دعا بن گیا ہوں پھر دوبارہ جب کرامت صاحب علاج کی غرض سے انگلستان تشریف لے گئے تو پھر ان کی بیماری کا شدید احساس تھا اور جہاں خود بھی دعا کرتے تھے وہاں دوستوں کو بھی تحریک کرتے

Page 161

تاریخ احمدیت.جلد 22 146 سال 1963ء تھے اور بالکل ایسے رنگ میں اور اضطراب سے کرتے تھے کہ جیسے کوئی اپنا بچہ بیمار ہو.ہم بہن بھائیوں سے بھی بہت شفقت کا سلوک فرماتے تھے.اولاد کا احترام کرتے تھے اور جب کبھی ہم باہر سے جلسہ وغیرہ اور دوسرے مواقع پر گھر جاتے تھے تو ہر ایک کے لئے بہت اہتمام فرماتے تھے خود تسلی کرتے تھے کہ سونے والے کمرہ میں بستر وغیرہ ہر چیز موجود ہے.غسل خانے میں پانی، صابن، تولیہ موجود ہے.یوں احساس ہوتا تھا کہ جیسے کسی برات کا اہتمام ہو رہا ہے اور ہمیں شرم آتی تھی لیکن خود ذ وقایہ اہتمام فرماتے تھے.ہم واپس جاتے تو کمرے میں آکر دیکھتے کہ کوئی چیز بھول کر چھوڑ تو نہیں گئے.اگر کچھ ہوتا تو اسے حفاظت سے رکھوا دیتے اور ہمیں اطلاع ضرور دیتے کہ فلاں چیز تم یہاں چھوڑ گئے ہو میں نے رکھوالی ہے پھر آؤ تو یاد سے لے لینا.مجھے فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کی تربیت کے معاملہ میں میرا وہی طریق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.میں انہیں نصیحت کرتا رہتا ہوں.لیکن دراصل سہارا خدا کی ذات ہے جس کے آگے جھک کر میں دعا گور ہتا ہوں کہ وہ تم لوگوں کو اپنی رضا کے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمادے اور دین کا خادم بناوے.ہمیں جب بھی نصیحت فرماتے تو اس میں اس بات کو محوظ رکھتے کہ سبکی کا پہلو نہ ہو.فرمایا کرتے تھے کہ اگر نصیحت ایسے رنگ میں کی جاوے کہ دوسرے کی خفت ہو تو وہ ٹھیک اثر پیدا نہیں کرتی بلکہ بعض دفعہ الٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے.مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب بھی میری کوئی حرکت پسند نہ آئی تو اس کے متعلق تفصیل سے خط لکھتے تھے اور بڑے مؤثر اور مدلل طور پر نصیحت فرماتے تھے.کسی خادمہ یا چھوٹے بچے کے ہاتھ خط اس ہدایت سے بھیجتے کہ پڑھ کر اسے واپس کر دو.اس طریق میں ایک پہلو تو یہی ہوتا تھا کہ دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ یا نصیحت کا اچھا اثر نہ پڑے گا اور دوسرے بعض مواقع پر شاید حجاب بھی مانع ہوتا ہو.ہم بہن بھائیوں کو دین کے کسی معاملہ میں دلچسپی لینے اور کام سے بہت خوش ہوتے تھے اور اپنی خوشی کا اظہار بھی فرماتے تھے اور یہی خواہش رکھتے تھے کہ دنیوی زندگی کا حصہ ایک ثانوی حیثیت سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرے.والدہ کی گذشتہ سات سالہ لمبی بیماری کے دوران میں جس میں بعض ایام میں بیماری کی شدت اور تکلیف بہت بڑھ جاتی تھی.آپ نے جس خوشی اور صبر و تحمل سے ان کی تیمارداری کی وہ آپ ہی کا

Page 162

تاریخ احمدیت.جلد 22 147 سال 1963ء حصہ تھا.باوجود اس کے کہ خود بیمار رہتے تھے لیکن پھر بھی دن اور رات میں متعدد مرتبہ والدہ کے کمرہ میں تشریف لاتے طبیعت پوچھتے اور بیٹھے دعائیں کرتے رہتے.میری آنکھوں کے سامنے سب نظارے اب بھی تازہ ہیں.بعض مرتبہ خود اتنی تکلیف میں ہوتے تھے کہ مشکل سے چل سکتے تھے لیکن اس حالت میں بھی کراہتے ہوئی یا دیوار کا سہارا لیتے ہوئے آتے اور کافی دیر پاس بیٹھ کر تسلی دیتے اور دعائیں کرتے رہتے.سچ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم بھائی بہن بھی والدہ کی خدمت کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ مزید کی بھی توفیق دے) اور گو ہم جوان تھے.لیکن یہ ساری حضرت ابا جان کی خدمت کا پاسنگ بھی نہ تھی اور میں تو کئی مرتبہ اس Contrast کا احساس کرتے ہوئے شرمندہ ہو جا تا تھا.میرے خیال میں آپ کی اپنی بیماری میں زیادہ حصہ حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی علالت اور والدہ کی بیماری کے گہرے اثر کا تھا.حضور کی بیماری سے بالخصوص بہت فکر مند رہتے اور اس کے جماعتی لحاظ سے بداثرات سے چوکس رہتے.خود بھی بہت دعائیں کرتے تھے اور اخبارات اور اپنی مجلس میں دوستوں کو بھی تحریک فرماتے رہتے تھے.اپنی آخری بیماری میں بھی جب ایک روز خبر آئی کہ حضور کی ران پر زخم کے آثار ہیں تو اس پر بہت پریشان تھے اور آبدیدہ ہو کر مجھے فرمایا.یہ بڑے فکر کی بات ہے.طبیعت کے لحاظ سے آپ بہت حساس تھے اور لوگوں کے جذبات کا خاص خیال رکھتے تھے اور خود بھی اس معاملہ میں کسی کی لغزش کو محسوس فرماتے تھے.طبیعت میں نفاست تھی اور باریک بینی، ہر چیز اپنی جگہ پر سلیقہ سے رکھتے تھے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی سے گھبراتے تھے.میری آنکھوں کے سامنے اب بھی وہ نظارہ آتا ہے کہ جب اپنی بیماری کی شدت کے آخری ایام میں اغلبا ۳۱ راگست کی بات ہے.میں پاس بیٹھا تھا.چار پائی پر لیٹے ہوئے تھراتا ہوا آپ کا ہاتھ اٹھا اور اسے سرہانے میز کی طرف بڑھایا.میں نے محسوس کیا کہ گھڑی جو میز پر پڑی تھی وہ کچھ تر چھی پڑی تھی اسے سیدھا کرنا چاہتے تھے.میں نے جلدی سے اسے سیدھا کر کے رکھ دیا.اُس کے کچھ وقفہ کے بعد پھر کانپتا ہوا ہاتھ میز کی طرف بڑھایا اور دو قلم جو تر چھے پڑے تھے انہیں بڑی احتیاط سے سیدھا کر کے رکھا اور پھر غنودگی کی سی کیفیت میں آنکھیں بند کر لیں.اس میلان طبیعت کے لحاظ سے ہر چیز کو تحریر میں لے آتے تھے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملہ کی ایک علیحدہ فائل

Page 163

تاریخ احمدیت.جلد 22 148 سال 1963ء کھول کر اس میں تمام متعلقہ کا غذات اہتمام سے رکھتے تھے.خط لکھتے وقت یا یادداشتی نوٹ نمبر وار لکھتے اور انہیں سرخ سیاہی سے نمایاں کر لیا کرتے تھے.ایک سے زائد کاغذ کو پن کے ساتھ نتھی کرتے.غرضیکہ نفاست اور باریک بینی کے اس میلان کا مظاہرہ ہر جگہ ہوتا تھا.انتظامی قابلیت خدا نے بہت دے رکھی تھی اور ہر انتظامی معاملہ میں بڑی تفصیل میں جاتے تھے اور اس کے کسی پہلو کو نظر انداز نہ ہونے دیتے تھے.فرمایا کرتے کہ موٹی موٹی باتیں تو ذہن میں آہی جاتی ہیں لیکن انتظامی نا کامی چھوٹی باتوں کی طرف سے غفلت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.طبیعت کے اس محتاط پہلو کا نتیجہ تھا کہ جہاں تحریر کو بڑی احتیاط سے دیکھتے اور درستی فرماتے وہاں زبانی ارشاد کو دوسرے سے دہر والیا کرتے تھے تاغلط فہمی کا کوئی امکان باقی نہ رہے.معاملہ کے بہت صاف تھے ہر چیز کا باقاعدہ حساب رکھتے اور اس معاملہ میں کسی قسم کی کوتاہی نہ خود کرتے اور نہ دوسرے کی طرف سے پسند فرماتے.قرض سے بہت بچتے تھے.خود تنگی برداشت کر لیتے لیکن قرض سے حتی الوسع گریز کرتے اور اگر کبھی ناگزیر ہو جائے تو اس کی ادائیگی میں کمال با قاعدگی سے کام لیتے.طبیعت کا یہ خاصہ صرف مالی لین دین تک محدود نہ تھا بلکہ ہر شعبہ میں نمایاں ہوتا.سیدھی بات کو پسند فرماتے اور پیچدار بات سے بیزاری کا اظہار فرمایا کرتے تھے.لباس بہت سادہ پہنتے تھے اور تنگ لباس کو برداشت نہ کرتے تھے.سفید قمیص اور شلوار، کھلا لمبا کوٹ اور پگڑی پہنتے تھے.کبھی کبھی خصوصاً غیر رسمی مواقع پر ٹوپی بھی پہن لیتے تھے.شروع میں دیسی جوتی پہنا کرتے تھے لیکن بعد میں گر گاہی طرز کا کھلا بغیر تسموں والا بوٹ.یہی سادگی رہائش میں پسند فرماتے تھے.اور نمائش کی چیزوں سے گھبراتے تھے.رہائش میں مشقت پسند فرماتے تھے.مجھے یاد ہے کہ جب شروع شروع Air Condition کا رواج بڑھا اور میں نے ایک خریدا تو میری طبیعت پر یہ بات گراں گزری کہ میں اپنے لئے کوئی ایسا آرام ڈھونڈوں جوابا جان کے استعمال میں نہ ہو.چنانچہ میں نے اس کیفیت کے مدنظر اور ربوہ کی شدید گرمی کا احساس کرتے ہوئے ایک Air Condition تحفہ بھیجا اور آدمی بھیج کر اسے آپ کے کمرے میں لگوا دیا.اسے استعمال فرماتے رہے لیکن ایک مرتبہ خراب ہو گیا تو خفگی سے فرمایا کہ مظفر نے خواہ نخواہ مجھے اس کی عادت ڈال دی ہے اور اس کے بند یا خراب ہونے سے اب مجھے تکلیف ہوتی ہے ورنہ میں اپنے لئے کسی ایسی سہولت کو مرغوب نہیں پاتا.

Page 164

تاریخ احمدیت.جلد 22 149 دد سال 1963ء طبیعت میں بلند پایہ مزاح بھی تھا اور بعض مرتبہ نصیحت کرتے وقت اس جوہر سے کام لیتے تھے.اپنے ایک پرانے رفیق ( مکرمی در د صاحب) کا ایک بچہ باہر سے ربوہ آیا اور بغیر ملاقات واپس چلا گیا تو اسے لکھا کہ میں نے سُنا ہے تم آئے تھے لیکن اغلبا تم نے اپنے بزرگوں سے تعلقات کو کافی سمجھا اور ملاقات کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا.علمی تحقیق کا ذوق رکھتے تھے اور نو جوانی کے زمانہ سے اسلام اور احمدیت کی خدمت میں اپنا قلم اٹھایا اور ۲ کے قریب قیمتی کتب اور رسائل کا روحانی خزانہ اپنے پیچھے چھوڑا.اس کے علاوہ الفضل میں با قاعدگی سے ہر موقع پر مضامین لکھتے رہے.طرز تحریر بہت دلکش اور سادہ تھا اور مشکل سے مشکل مضمون کو سادگی سے نبھانے والی اور بڑی صاف تحریر تھی جو اپنے خلوص کی وجہ سے دل میں اترتی جاتی تھی.اپنی کتب میں ”سیرۃ خاتم النبین “ اور ”سیرۃ المہدی“ کے علاوہ تبلیغ ہدایت کو بھی اس خیال سے پسند فرماتے تھے کہ یہ میری جوانی کے زمانہ کی یادگار ہے.جب آپ نے یہ مفید کتاب لکھی تو آپ کی عمر اس وقت ۲۹ سال تھی.مرکز احمدیت سے گہری وابستگی رکھتے تھے.شروع میں قادیان اور پھر اب ربوہ سے بھی یہ وابستگی قائم رہی.مرکز سے باہر جانا آپ کی طبیعت پر بہت گراں گزرتا تھا اور سوائے خلیفہ وقت کے حکم یا اشد طبی ضرورت کے باہر نہ جاتے تھے.قادیان سے عشق قائم رہا اور درویشان کی خدمت بڑے ذوق اور شوق سے کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کے الہامات اور تحریرات کی روشنی میں اس پختہ یقین پر قائم تھے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اپنے وقت پر مرکز احمدیت جماعت کو واپس دلائے گی اور کوئی دنیاوی تدبیر اس میں حائل نہ ہو سکے گی.فرمایا کرتے تھے کہ الہامات اور حضرت اقدس کی تحریرات میں وقت کا تعین نہیں بلکہ یہ اشارہ ہے کہ یہ واقعہ اچانک اور ایسے رنگ میں ہوگا کہ بظاہر ناممکن نظر آئے گا اور اس کی درمیانی کڑیاں نظر سے اوجھل رہیں گی.مرکز سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اپنی آخری بیماری کے ایام میں جب گھوڑا گلی طبی مشورہ کے تحت تشریف لے گئے تو ایک منذ رخواب کی بناء پر فرمایا کہ پروگرام سے پہلے واپس چلیں اور مجھے کہنے لگے کہ پرندہ اپنے گھونسلے میں ہی خوش رہتا ہے میں تو ربوہ جانا پسند کروں گا لیکن چونکہ وہاں بجلی کا انتظام ناقص ہے اور شاید طبی لحاظ سے بھی لاہور سے گزرنا مناسب ہو اس لئے لاہور جانا پڑتا ہے ایسی کیفیت کے تحت میرے چھوٹے بھائی مرزا منیر احمد کو تاکید فرمایا کہ دیکھو میرا جنازہ ربوہ بغیر کسی توقف کے

Page 165

تاریخ احمدیت.جلد 22 150 سال 1963ء لے جانا.چنانچہ اسی خواہش کے مد نظر ہم رات کو ہی لاہور سے چل پڑے اور رات کے ساڑھے تین بے ربوہ پہنچے.مضمون میرے اندازہ سے کچھ لمبا ہو گیا ہے لیکن میں ایک دو امور کا ذکر کر کے اسے ختم کرتا ہوں.ذاتی دعاؤں میں ابا جان دو باتوں کے لئے بہت دعا فرمایا کرتے تھے.اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے اور دوئم انجام بخیر ہو.اس آخری امر کے لئے بڑی تڑپ رکھتے تھے اور ہمیشہ اس پر زور دیا کرتے تھے.مجھے کئی بار فرمایا کہ ایک انسان ساری عمر نیکی کے کام کرتا ہے لیکن آخر میں کوئی ایسی بات کر بیٹھتا ہے جو خدا کی ناراضگی کا مورد ہو جاتی ہے اور جہنم کے گڑھے کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے.ایک دوسرا انسان ساری عمر بد اعمالی میں گزارتا ہے لیکن آخر میں ایسا کام کر جاتا ہے جو خدا کی خوشنودی کا باعث ہو جاتا ہے سو اصل چیز انجام بخیر ہے اور اس کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئیے.خود اپنے لئے اس کی ہمیشہ سے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اور کسی سے کہا کہ میں نے ایک مرتبہ بڑے اضطرار سے یہ دعا کی اور خدا سے درخواست کی کہ اس بارہ میں مجھے کوئی تسلی دے دے.اس دعا پر جو اغلباً قرآن شریف کی تلاوت کے دوران میں کر رہے تھے یکدم قرآن شریف کے سامنے دونوں ورق سفید ہو گئے اور دائیں ورق پر موٹے الفاظ میں صرف یہ دو لفظ لکھے نظر آئے.بغیر حساب.غرضیکہ تعلق باللہ، عشق رسول مسیح زمان سے گہری روحانی وابستگی ،خلیفہ وقت کی بے مثال اطاعت اور فرمانبرداری، خلق خدا سے بے پایاں شفقت، غرباء سے ہمدردی، مرکز سے گہرا لگاؤ اور اسلام اور احمدیت کے مستقبل پر کامل یقین آپ کی زندگی کے خصوصی پہلو تھے.اپنی ساری عمر اپنی تمام تر طاقت اس کوشش میں صرف کی کہ خدا کا نام بلند ہو اور اس کی مخلوق کی بھلائی ہو.عین جوانی میں وقف دین کا عہد باندھا اور آخری سانس تک اسے بڑے ذوق اور شوق سے نبھایا.احمد یت کی یہ مایہ ناز شخصیتیں زمانہ کے لحاظ سے ہمارے بہت قریب کھڑی ہیں اور ہم ان کی قدر و منزلت اور مقام کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے.لیکن اسلام اور احمدیت کا آنے والا مؤرخ ان کے خط و خال کو اجا گر کرے گا اور تاریخ کے اس دور سے نہیں گزر سکے گا جب تک وہ مسیح محمدی کے ان پروانوں کو خراج تحسین نہ ادا کرے.یہ خوش قسمت لوگ مسیح محمدی کی فوج کے صف اول کے سپاہی ہیں.جن کی زندگی کا مقصد ایک اور صرف ایک تھا کہ اسلام دوبارہ زندہ ہو اور دنیا کو ایک زندہ خدا اور ایک زندہ نبی ( محمد صلی اللہ

Page 166

تاریخ احمدیت.جلد 22 151 سال 1963ء علیہ وسلم ) کی پہچان ہو.ان بزرگوں نے اپنی تمام طاقتیں اور کوششیں اس مقصد کے حصول کے لئے بے دریغ خرچ کر دیں اور خدمت دین کا حق ادا کیا.اسلام اور احمدیت کے پودے کی اپنے خون اور قربانی سے آبیاری کی اور دنیا کی کوئی کشش اس کے راستہ میں حائل نہ ہونے دی.دین سے باہر کسی چیز میں کبھی دلچسپی لی تو فروعی اور وقتی طور پر اور زندگی اور ہر توجہ کا مرکزی نقطہ ہمیشہ خدمت دین رہا.اپنی تمام زندگی کا یہی Moto رہا کہ دین دنیا پر بہر حال مقدم رہے اور اپنے پر ہر موت اس لئے وارد کی تا اسلام زندہ ہو.20 تالیفات كالمة الفصل (۱۹۱۵ء) ، الحجة البالغة (جولائی ۱۹۱۷ء) ، اہل بمبئی کے نام حق کا پیغام (۱۹۱۷ء) ، تصدیق امیج والمهدی (دسمبر ۱۹۱۷ء) ، حضرت مسیح موعود کے متعلق چند اصولی باتیں (مئی ۱۹۱۸ء)، سیرت خاتم النبین حصہ اوّل (۱۹۲۰ ء ).(ڈاکٹر انور محمود خالد اپنی کتاب ”اردو نثر میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھتے ہیں ”سیرت خاتم النبین احمدی اہل قلم کی کتب سیرت میں سب سے اہم کتاب ہے کیونکہ ایک تو یہ ان کے قادیانی نقطہ نگاہ کی ترجمانی کرتی ہے اور دوسرے اس میں مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات دئے گئے ہیں.یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے.پہلی جلد ( طبع دوم ) ۱۹۲۵ء میں دوسری جلد ۱۹۳۱ء میں اور تیسری جلد ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی.جلد اوّل میں ابتداء سے ہجرت تک کے واقعات ہیں.دوسری جلد ہجرت سے ۵ ھ تک کے حالات پر مشتمل ہے اور تیسری جلد غزوہ بنی قریظہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تبلیغی خطوط ارسال کرنے تک کے احوال کا احاطہ کرتی ہے.مرزا بشیر احمد صاحب (ایم اے) کا طرز تحریر بڑا سلجھا ہوا ہے اور وہ اپنی بات منطقی انداز میں سمجھانے پر قادر ہیں.”سیرت خاتم النبین ، میں اُن کی ادبی سلیقہ مندی اور علمی توازن کا بھر پور مظاہرہ ہوا ہے.مصنف کے مخصوص قادیانی خیالات سے قطع نظر، یہ کتاب سیرت کی اچھی کتابوں میں شمار کی جاسکتی ہے تبلیغ ہدایت (دسمبر ۱۹۲۲ء) اردو.سندھی، سیرت المہدی حصہ اوّل (دسمبر ۱۹۲۳ء)، ہمارا خدا (۱۹۲۷ء)، سیرت المہدی حصہ دوم (دسمبر ۱۹۲۷ء)، سیرت خاتم انبین حصہ دوم (۱۹۳۱ء) کشمیر کے حالات (۱۹۳۱ء)، امتحان پاس کرنے کے گر (۱۹۳۴ء) ، گلدستہ عرفان اس مجموعہ کو شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی نے دسمبر ۱۹۶۳ء میں محمد احمد اکیڈیمی لاہور کی طرف سے کلام بشیر کے نام سے شائع کیا تھا جس میں صرف ایک نظم کا اضافہ تھا).منظوم کلام (اکتوبر۱۹۳۴ء)، 202

Page 167

تاریخ احمدیت.جلد 22 152 سال 1963ء Islam and Slavery (۱۹۳۵ء) سیرت خاتم النبین حصہ دوم سے ماخوذ ، ایک اور تازہ نشان (فروری ۱۹۳۷ء ) اردو، انگریزی، ہدایت نامہ تعلیم و تربیت (۱۹۳۸ء) ، سیرت المہدی حصہ سوم (اپریل ۱۹۳۹ء) ، سلسلہ احمدیہ (دسمبر ۱۹۳۹ء)، مسئلہ جنازہ کی حقیقت (۱۹۴۱ء) مجلس انصار اللہ کا قیام.ذمہ داری اپریل ۱۹۴۵ء)، اسلام اور غلاموں کی آزادی.Islam na uhuru wa watumwa سواحیلی (سیرت خاتم النبین حصہ دوم سے ماخوذ) (۱۹۴۶ء )، روحانیت کے دوز بر دست ستون (جون (۱۹۴۶ء ) اردو.انگریزی، پنجاب کی امکانی تقسیم (۱۹۴۷ء)، خالصہ ہوشیار باش ( مئی ۱۹۴۷ء)، مسلمانوں کا مطالبہ پاکستان اور اس کے مقابل پر تقسیم پنجاب کا سوال ( مئی ۱۹۴۷ء).قیام پاکستان کے بعد مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ (۱۹۴۷ء) اردو.انگریزی، دعوت الایمان ”ہماری تعلیم (نومبر ۱۹۴۸ء ) اردو.انگریزی - عربی.سندھی، استحکام پاکستان (اکتوبر ۱۹۴۸ء)، سیرت خاتم النبین جلد سوم مجد اول (۱۹۴۹ء)، خیر خواہان پاکستان کے نام دردمندانہ اپیل (فروری ۱۹۵۰ء)، چالیس جواہر پارے (نومبر ۱۹۵۰ء) اردو.انگریزی، اشتراکیت اور اسلام (۱۹۵۱ء) اردو.انگریزی.انڈونیشین ، اچھی مائیں (جنوری ۱۹۵۳ء)، ختم نبوت کی حقیقت (۳۰ را پریل ۱۹۵۳ء) اردو.انگریزی ، چندوں کے متعلق جماعت کی اہم ذمہ داری (مئی ۱۹۵۵ء)،.Two Pillars Of Spirituality (۱۹۵۶ء)، جماعتی تربیت اور اس کے اصول (۱۹۵۶ء ) اردو.انگریزی، روحانیت کے دوز بر دست ستون (۱۹۵۶ء) اردو.انگریزی ، قرآن کا اوّل و آخر (۱۹۵۷ء) اردو.انگریزی ، احمدیت کا مستقبل (اکتوبر ۱۹۵۷ء ) اردو.انگریزی، نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں (فروری ۱۹۵۸ء)، سیلاب کی تباہ کاریاں (اگست (۱۹۵۹ء) ، عید کی قربانیاں (اکتوبر ۱۹۵۹ء)، خاندانی منصوبہ بندی (نومبر ۱۹۵۹ء)، سیرت طیبہ (۱۹۶۰ء) اردو.عربی.انگریزی ، تربیتی مضامین (۱۹۶۰ء)،حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیماری اور ہمارا فرض (مئی ۱۹۶۰ء) ، ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ (جولائی ۱۹۶۰ء)، غالب کون ہوگا اشتراکیت یا اسلام (اگست ۱۹۶۰ء) ، دورخی وفاداری کا سوال (دسمبر ۱۹۶۰ء ) اردو.انگریزی ، در منثور (۱۹۶۱ء) اردو.انگریزی، اچھی تربیت کا ذریعہ.اولاد کی فکر کرو (۱۵/ اگست ۱۹۶۱ء) اردو.فرانسیسی ، در مکنون (۱۹۶۲ء) اردو.انگریزی، آئینہ جمال (۱۹۶۳ء) اردو.

Page 168

تاریخ احمدیت.جلد 22 153 سال 1963ء انگریزی، بے پردگی کے رجحان کے متعلق جماعتوں کو مزید انتباہ (مئی ۱۹۶۳ء) ،حقیقی اسلام (سلسلہ احمدیہ سے ماخوذ - نظارت دعوت و تبلیغ قادیان نے شائع کیا.سال اشاعت درج نہیں ) غیر مطبوعہ کتب سیرت المہدی (حصہ چہارم ) ، سیرت المہدی (حصہ پنجم ) ان دونوں کتابوں کے مسودے آپ نے جون ۱۹۵۸ء میں میر مسعود احمد صاحب خلف حضرت میر محمد اسحق صاحب کے سپرد فرما دیے تھے.203 اب اس جلد کی اشاعت کے وقت یہ دونوں حصے بھی شائع ہو چکے ہیں.) اس جگہ یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کا ہمیشہ یہ دستور رہا کہ اپنی کتب سے را ئلٹی وصول کرنا تو رہا ایک طرف آپ کو یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ اپنے لئے کوئی ذاتی نسخہ ناشر سے مفت حاصل کریں بلکہ آپ پہلے اس کی قیمت اپنی جیب سے عطا کرتے اور پھر اس کا مطالعہ فرماتے تھے.چنانچہ ایک بار فرمایا:.اپنی کتابوں کی اشاعت اور فروخت وغیرہ سے میرا کوئی مالی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ان کے نفع نقصان میں میرا کوئی حصہ ہوتا ہے میں ہمیشہ خالصہ ثواب اور خدمت دین کی خاطر کتاب لکھتا ہوں اور کتاب کی اشاعت یا اس کے مانی نفع نقصان کے پہلو سے میرا کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ اپنے لئے یا اپنے دوستوں کو تحفہ دینے کے لئے جو نسخے لیتا ہوں وہ بھی اپنے پاس سے قیمت دے کر خریدتا ہوں تا میرے ثواب میں کمی نہ آئے.جرائد ورسائل میں مضامین 204 الفضل میں آپ کے قلم سے جو مضامین شائع ہوئے ان کی مکمل فہرست مولا نا محمد یعقوب صاحب طاہر مولوی فاضل انچارج صیغہ زود نویسی ربوہ نے مرتب فرمائی جو حیات بشیر ( مؤلفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ ) کے صفحہ ۴۵۷ تا ۴۸۸ میں چھپ چکی ہے.الفضل کے علاوہ بدر ( قادیان) ریویو آف ریلیجنز ، الفرقان، خالد اور دیگر رسائل میں بھی آپ کی تحریرات سپرد اشاعت ہوئیں.آپ کے مضامین غیر معمولی ذوق و شوق توجہ اور دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے.اور قلوب و اذہان پر اس کے انقلابی اثرات مرتب ہوتے تھے.( آپ کے مضامین کا مجموعہ مضامین بشیر کے نام سے انصار اللہ پاکستان نے شائع کیا ہے )

Page 169

تاریخ احمدیت.جلد 22 154 سال 1963ء مکتوبات حضرت قمر الانبیاء کی نگارشات میں آپ کے مکتوبات کو بھی نہایت درجہ اہمیت حاصل ہے.آپ کے بعض اہم خطوط جناب ملک صلاح الدین صاحب نے ” مکتوبات اصحاب احمد جلد اوّل ( مطبوعہ محبوب المطابع الیکٹرک پریس جامع مسجد د بلی اگست ۱۹۵۲ء) ( صفحه ۸ تا ۹۲)، جلد دوم (مطبوعہ لاہور آرٹ پریس لاہور ) میں اور مکرم مولانا شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی نے ”سوانح حیات حضرت قمر الانبیاء مطبع نقوش پریس لاہور ۱۹۶۴، صفحہ ۲۴۴ تا ۲۸۵ میں شائع کر دئے ہیں.اسی طرح حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے نام آپ کے روح پرور خطوط الفضل ۲۹ اکتو بر ۱۹۶۳ء صفحہ ۱۱ ۱۳ میں اور جناب میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے نام آپ کے بعض خطوط الفضل ۲۶ اکتو بر۱۹۶۳ء صفحہ ۵ میں چھپ چکے ہیں.۱۹۲۵ء میں آپ نے ایک اہم مکتوب حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے نام لکھا تھا جسے حضرت سیدہ نے الفضل سالا نہ نمبر ۱۹۶۳ء میں محفوظ کر دیا.حضرت قمر الانبیاء نے بعض قیمتی مکتوب حکیم عبداللطیف صاحب شاہد گجراتی کو لکھے تھے جبکہ آپ نے انہیں ۱۹۶۲ء میں اپنی طرف سے حج بدل کے لئے بھجوایا تھا.یہ مکتوبات بھی الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۳ء میں شائع شدہ ہیں علاوہ ازیں آپ کے سوانح نگار مولانا شیخ عبد القادر صاحب ( سوداگر مل ) مربی سلسلہ احمدیہ نے آپ کے بہت سے مکتوبات حیات بشیر ( صفحه ۲۹۶ تا ۳۲۴) میں ہمیشہ کے لئے ریکارڈ کر دیئے ہیں.آپ کے متعدد خطوط ماہنامہ ”الفرقان قمر الانبیاء نمبر (اپریل مئی ۱۹۶۴ء) میں شائع شدہ ہیں.تاہم آپ کے بیش قیمت خطوط ومراسلات کا بیشتر حصہ ابھی تک نایاب اور غیر مطبوعہ شکل میں ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ انمول خزانہ اب کہاں کہاں موجود ہے اور کہاں تک زمانہ کی دست برد سے بچ سکا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی سوانح حیات پر مطبوعہ لٹریچر حضرت صاحبزادہ صاحب کے وصال کے معابعد آپ کی مندرجہ ذیل سوانح عمریاں شائع ہوئیں: (1) ”حیات بشیر (مرتبہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل ، کل صفحات ۵۰۴)، یہ کتاب سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں بیش بہا اضافہ ہے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی مستند مفصل اور جامع سوانح کی حیثیت سے ہمیشہ یادگار رہے گی اور کوئی سوانح نگار اور مورخ حضرت قمر الانبیاء کی سوانح حیات پر قلم اٹھاتے ہوئے اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا.کتاب کا دیباچہ حضرت چوہدری محمد

Page 170

تاریخ احمدیت.جلد 22 155 سال 1963ء ظفر اللہ خاں صاحب کا رقم فرمودہ ہے.اور اس کا پہلا اور نواں باب مولا نا محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی کی عرقریزی، جانکاہی اور محنت شاقہ کا نتیجہ ہے موخر الذکر باب میں ان تمام مضامین اور مختصر نوٹوں کی مکمل فہرست دی گئی ہے جو حضرت میاں صاحب کے قلم مبارک سے الفضل میں شائع ہوئے.شعرائے احمدیت مثلاً حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری، جناب ثاقب صاحب زیروی، جناب عبدالمنان صاحب ناہید، جناب میر اللہ بخش صاحب تسنیم ، جناب عبد السلام صاحب اختر ، جناب قیس مینائی صاحب، جناب مولانامحمد شفیع صاحب اشرف کی دلگداز اور رقت انگیز نظمیں بھی اس کتاب کی زینت ہیں.( تاریخ اشاعت اگست ۱۹۶۴ء).”حیات قمر الانبیاء ( مولفہ مولانا شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی)، یہ سوانح جو کتابی سائز کے ۲۸۸ صفحات پر مشتمل تھی.مختصر ہونے کے باوجود جامعیت کا پہلو لئے ہوئے تھی اور نہایت عمدہ، شگفتہ اور دلکش اسلوب میں مرتب کی گئی تھی.( تاریخ اشاعت ۲۰ ستمبر ۱۹۶۴ء) ۳.نبیوں کا چاند (مولفہ جناب فضل الرحمن نعیم صاحب) کل صفحات ۱۷۶ ، تاریخ اشاعت ۲۲ مارچ ۱۹۶۴، پیش لفظ مرزا عبد الحق صدر نگران بورڈ وا میر صوبائی کا مرہون منت ہے.اولاد : (۱) صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ ولادت ۷/ اگست ۱۹۰۷ء وفات ۲ جون ۱۹۸۰ء بیگم صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب) ، (۲) مرزا حمید احمد صاحب اوّل (متوفی ۱۹۱۰ء)، (۳) صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (سابق امیر صاحب جماعتہائے متحدہ امریکہ، سابق فنانس سیکرٹری وڈپٹی چیئر مین منصوبہ بندی کمیشن حکومت پاکستان ) ولادت ۲۸ مئی ۱۹۱۳ء، وفات ۲۳ جولائی ۲۰۰۲ء (۴) صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب ، ولادت ۳ جنوری ۱۹۱۵ء، وفات ۲۸ جنوری ۱۹۸۸ء (۵) صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبه ، ولادت ۱۶ / اگست ۱۹۱۶ء، وفات ۱۸ راگست ۱۹۸۶ء بیگم نواب محمد احمد خاں)، (۶) صاحبزادہ مرزا امنیر احمد صاحب.ولادت ۲۶ /اگست ۱۹۱۸ء، وفات یکم دسمبر ۱۹۹۹ء ( ۷ ) صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب اوّل ( متوفی ۱۹۲۱ء)، (۸) صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب ریٹائرڈ بریگیڈیئر، ولادت ۲۲ / اگست ۱۹۲۲ء وفات ۸ جون ۲۰۰۲ء (۹) صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ایم اے سابق پرنسپل سیکنڈری سکول گھانا مغربی افریقہ ولادت ۱۸ جولائی ۱۹۲۴ء (۱۰) صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ.ولادت ۱۵ جنوری ۱۹۲۶ء وفات ۲۰ جولائی

Page 171

تاریخ احمدیت.جلد 22 156 سال 1963ء ۱۹۹۸ء ( بیگم بریگیڈیئر وقیع الزمان صاحب) ، (۱۱) صاحبزادی امتہ اللطیف بیگم صاحبہ ولادت ۴ نومبر ۱۹۳۵ء ( بیگم سید محمد احمد صاحب ونگ کمانڈر ).205- حضرت مصلح موعود کا ولولہ انگیز اور زندگی بخش پیغام 206 مصلح موعود کی نسبت البہاما خبر دی گئی تھی کہ وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا.اس آسمانی بشارت کے مطابق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے حادثہ رحلت کے موقع پر حضرت مصلح موعود کی اولوا العزمی کا ایک حیرت انگیز نمونہ دیکھنے میں آیا.ایک ایسے وقت میں جبکہ مشرق و مغرب کی احمدی جماعتوں پر غم واندوہ کے بادل چھائے ہوئے تھے اور جماعتی صفوں میں زبر دست خلا پیدا ہو چکا تھا.حضور نے ۸ ستمبر ۱۹۶۳ء کو بستر علالت سے ایک ولولہ انگیز پیغام دیا جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زندگی کی ایک نئی برقی لہر دوڑا دی.حضور نے اس پر شوکت پیغام میں حضرت قمر الانبیاء کی وفات کا ذکر یا اشارہ کئے بغیر تمام احمدیوں کو ان کے بنیادی مقصد حیات یعنی اشاعت اسلام کی طرف بلایا اور حکم دیا کہ وہ اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے سر بکف ہو جائیں اور اپنی زندگیاں اس مقدس فریضہ کے لئے وقف کر دیں تا ساری دنیالا اله الا الله محمد رسول اللہ کی آسمانی آواز سے گونج اٹھے.حضور کے اس فرمان مبارک کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران جماعت! هُوَ النَّاصِرُ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میں نے آپ لوگوں کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت کے قیام کا حقیقی مقصد صرف یہی ہے کہ ہم اسلام کو ساری دنیا میں پھیلائیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا کے کونے کونے میں قائم کر دیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک

Page 172

تاریخ احمدیت.جلد 22 157 سال 1963ء جماعت نے اس بارہ میں اپنے فرض کو صحیح طور پر محسوس نہیں کیا.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں عیسائیت نے اسلام کے خلاف اپنے حملہ کو تیز کر دیا ہے اور وہ لوگ اس کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کر رہے ہیں لیکن مسلمان کہلانے والے جن کے نبی " کی زبان پر خدا تعالیٰ نے یہ الفاظ جاری کئے.یايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۹) اے لوگو میں تم سب کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران :) تم سب سے بہترین امت ہو جن کو تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے.تم نیکی کو دنیا میں پھیلاتے اور بدی سے لوگوں کو باز رکھتے ہو وہ سستی اور غفلت کا شکار ہورہے ہیں لیکن دوسروں کا کیا گلا اگر آپ لوگ ہی اپنے فرض کو صحیح رنگ میں ادا کرتے تو میں سمجھتا ہوں آج دنیا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے والے کہیں نظر نہ آتے بلکہ ساری دنیا پر اسلام کی حکومت ہوتی اور تمام دل نگین محمد سے منقش ہوتے اور بجائے گالیوں کے اس مقدس انسان پر درود اور سلام بھیجا جاتا.اب بھی وقت ہے کہ اپنی پچھلی سستی کا کفارہ ادا کرو.اپنی غفلتوں کو ترک کرو اور اُس دروازہ کی طرف دوڑو جس کے سوا تمہارے لئے کہیں پناہ نہیں اور ایک پختہ عہد اور نہ ٹوٹنے والا اقرار اس بات کا کرو کہ تم اپنے مال اور اپنی جانیں اور اپنی ہر ایک چیز اشاعت اسلام کے لئے قربان کرنے پر تیار رہو گے اور اس مقدس فرض کی ادائیگی کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دو گے.یہی وہ سچا اور حقیقی جواب ہے جو غیر مسلموں کے مقابلہ میں ہماری طرف سے دیا جاسکتا ہے.یہ امر یا د رکھو کہ ہماری عزت ہمارے اعلیٰ درجہ کے لباسوں اور بڑی بڑی جائیدادوں میں نہیں ہے یہ لباس تو چوڑھے اور چمار بھی پہن لیتے اور بڑی بڑی جائیدادیں پیدا کر لیتے ہیں.ہماری عزت اسی میں ہے کہ ہم اپنی زندگیاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق بنائیں اور رات دن آپ کے پیغام کی اشاعت کریں تا کہ ہماری شکلوں کو دیکھ کر ہی لوگ پکار اٹھیں کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 173

تاریخ احمدیت.جلد 22 158 سال 1963ء کے بیٹے ہیں اور ان کی موجودگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے.دشمن اس لئے حملہ کرتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ ابتر خیال کرتا ہے لیکن اگر اسے معلوم ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کروڑوں بیٹے دنیا میں موجود ہیں اور اگر اسے معلوم ہو کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ساری جان اور اپنے سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے تو پھر اس کی کیا طاقت ہے کہ وہ آپ پر حملہ کر سکے.پس تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کرو اور اسلام کی اشاعت پر زور دو تا کہ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتے ہیں وہ آپ پر درود اور سلام بھیجنے لگیں.مکہ کے لوگوں کی گالیاں آخر کس طرح دور ہوئیں.اسی طرح کہ وہ اسلام کو قبول کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دور د بھیجنے لگے.پس اب بھی یہی علاج ہے اور یہی وہ تدبیر ہے جس سے ہر شریف الطبع انسان اسلام کی خوبیوں کا قائل ہو جائے گا اور ہر شریر الطبع انسان مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر مرعوب ہو جائے گا.میں امید کرتا ہوں کہ تمام جماعتوں کے امراء اور سیکرٹریان اس تحریک کے پہنچتے ہی اپنے اپنے علاقہ کے احمدیوں کو پوری طرح اس میں حصہ لینے کی تلقین کریں گے اور صدرانجمن احمد یہ اس کی نگرانی اور انتظام کرے گی اور ان سے غیر مسلموں میں تبلیغ اسلام کرنے کے لئے اپنے اوقات وقف کرنے کا مطالبہ کریں گے.ہر احمدی کو سال میں کم از کم ایک ہفتہ غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے وقف کرنا چاہئیے.بے شک اس کے لئے انہیں ایک لمبی قربانی سے کام لینا پڑے گا لیکن یہی قربانیوں کی رات ہے جو ایک خالص خوشی کا دن اُن پر چڑھائے گی اور دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پھر زندگی کا سانس لینے لگ جائے گی کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی لئے آئے ہیں کہ وہ دنیا کو زندہ کریں اللہ تعالیٰ آسمان سے اُن کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال : ۲۵) اے مومنو اللہ اور اس کے で

Page 174

تاریخ احمدیت.جلد 22 159 سال 1963ء رسول کی آواز پر لبیک کہو جب کہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے بلاتا ہے.پس دنیا کی زندگی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو قبول کرنے میں ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم احیاء دین اور اشاعت اسلام کے کام کو اس زور سے اختیار کریں کہ دنیا کے کونہ کو نہ سے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کی آوازیں آنے لگیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو اس امر کی سچی توفیق عطا فرمائے اور قیامت تک اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اُونچا لہراتا رہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد ۸ ستمبر ۱۹۶۳ء مالا بار میں نصرت خداوندی کا عظیم نشان جماعت احمدیہ کی تاریخ تائید و نصرت کے آسمانی نشانوں سے بھری پڑی ہے.یہ نشان دنیا کے ہر براعظم اور ہر ملک میں ظاہر ہوئے ہیں.اس سال مالا بار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام إِنِّي مُعِيُنٌ مَنْ اَرَادَ إِعَانَتَكَ “ کا جس شاندار رنگ میں ظہور ہوا وہ عظیم نشان کی حیثیت رکھتا ہے.جس کی تفصیل مولوی محمد عمر صاحب فاضل مبلغ سلسلہ احمدیہ کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.مالا بار میں علاقہ بڑا گرا ( Badagara) اہل سنت والجماعۃ کا ایک مرکز ہے اور احمدیوں کے شدید معاندین کا ایک گڑھ ہے.خدا تعالیٰ نے یہاں بھی ایک چھوٹی سی جماعت مکرم ایم پی محی الدین صاحب اور ان کے اہل وعیال کے ذریعہ قائم فرمائی.اور ایک چھوٹی سی مسجد بھی بغرض مشن ہاؤس تعمیر ہوئی.اسی اثناء میں ۱۹۵۳ء کے اوائل میں مالا بار کے ایک مشہور غیر احمدی واعظ مولوی ای کے ابوبکر صاحب نے مقامی مسجد میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک زہر آلود تقریر کی جس کے آخر میں انہوں نے تمام مسلمانوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑ کانے اور ان کے خلاف جہاد کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ:.مجھے اس بات نے بے حد تکلیف پہنچائی ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کے درمیان ایک قادیانی کا فر و مرتد اپنے اہل وعیال سمیت ایک عرصہ سے رہ رہا ہے.یہ بات تمام مسلمانوں کے لئے عار اور ذلت کا باعث ہے.ایک مرتد اور کافر کے ارد گرد بسنے والے چالیس گھروں پر اس کی وجہ سے قہر نازل ہوتا ہے.اس لئے تم لوگوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئیے.اور تمہارا ایمان اب خطرہ میں ہے.اس لئے اب یہ تمہارا دینی فرض بن چکا ہے کہ تم اپنی تمام طاقتوں اور قوتوں کو جمع کر کے اس رنگ میں اس

Page 175

تاریخ احمدیت.جلد 22 160 سال 1963ء قادیانی مرتد کو اہل و عیال سمیت اس علاقہ سے جبراً نکال دو کہ حکومت کوئی مداخلت نہ کر سکے.اس کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر کے کلیہ اس سے بائیکاٹ کر دو.وغیرہ.“ اس زہر افشانی کا مسلمانوں پر بہت گہرا اثر ہوا اور پہلے سے زیادہ ان غریبوں کو اپنے ظلم وستم کا شکار بنانے لگے.ان کا صرف یہ مقصد تھا کہ کسی نہ کسی رنگ میں ان احمد یوں کو اس علاقہ سے نکال دیں.اور ان کی مسجد کو ویران کر دیں اور اس طرح اس علاقہ سے احمدیت کا نام ونشان مٹادیں.ان کو اپنی اس کوشش اور سازش میں ایک عارضی کامیابی اس رنگ میں حاصل ہوئی کہ مکرم محی الدین صاحب کی زوجہ ثانیہ جو کہ تا حال غیر احمدی تھی.ان سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی.اور دشمنوں کی صف میں جا کھڑی ہوئی.اس کے علاوہ ان کے خلاف مختلف قسم کے مقدمات دائر کئے گئے اور ذریعہ معاش کے تمام راستے بند کر دئے.بالآخر ان لوگوں کی درندگی اس رنگ میں ظاہر ہوئی کہ مورخه ۲۴ اکتو بر ۱۹۶۲ء کو مکرم محی الدین صاحب اور ان کے دولڑکوں اور دونوں بہوؤں کو اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو مقدمات میں ہار جانے کی وجہ سے گھر سے نکال دیا.اب ان کے لئے اس علاقہ میں سوائے خدا کے اور کوئی سہارا نہیں تھا.اوپر آسمان اور نیچے زمین چاروں طرف دشمن ہی دشمن جو ہر آن ان کی جان کے در پے تھے.!!! اور دوسری طرف مخالفین میں خوشی ، مسرت اور شادمانی کی لہر دوڑ گئی تھی.اور اپنے مقصد کی کامیابی کے نتیجہ میں ہر بچہ بوڑھا خوشی سے اچھلتا کودتا تھا.لیکن ان لوگوں کو کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر ان کی خوشی اور شادمانی کو ماتم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے.محی الدین صاحب نے اس مسجد کے گرد اپنے ڈیرے ڈال دیئے اور اپنی دونوں بہوؤں کو ان کے میکے بھیج دیا.اور سینہ سپر ہو کر مخالفت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے وہ دن بھی دکھایا کہ ان کے ایک لڑکے نے اسی مسجد کے قریب ایک خوبصورت اور خوشنما گھر تعمیر کیا.اور اس طرح خدا تعالیٰ نے انہیں پہلے سے زیادہ عزت اور وقار کے ساتھ اس گھر میں بودوباش اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائی.الحمدللہ اس طرح جن کمزور احمدیوں کو مخالفین نے محض قبول حق کے باعث ظلم وستم کا نشانہ بنایا.اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت سے انہیں نوازا اور اس طرح حق کے مخالفین اپنے بدا را دوں میں خائب و خاسر

Page 176

تاریخ احمدیت.جلد 22 161 رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی خوب فرمایا ہے:.سال 1963ء فَأُنْزِلَ مِنْ رَّبِّ السَّمَاءِ سَكِيْنَةٌ عَلَى صُحْبَتِي وَ اللَّهُ قَدْ كَانَ يَنْصُرُ یعنی جب میری جماعت ہر دنیوی سہارا سے مایوس اور ہر طرف سے ناامید ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس جماعت پر سکون اور طمانیت نازل فرماتا ہے.اور اپنی مدد ونصرت سے انہیں نوازتا ہے....الفرض اس نے تعمیر شدہ مکان کا افتتاح اور مکرم محی الدین صاحب کی ایک سوتیلی لڑکی کی شادی کی مشتر کہ تقریب ۲۹ ستمبر ۱۹۶۳ء کو عمل میں آئی.اس تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے کالیکٹ ، کنانور کو ڈالی اور بینگا ڈی سے کافی تعداد میں احمدی حضرات آئے ہوئے تھے.محترم مولوی بی عبد اللہ صاحب فاضل مبلغ انچارج کیرالہ اور مکرم مولوی محمد ابوالوفاء صاحب مبلغ کالیکٹ بھی مدعو تھے.یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ غیر احمدیوں نے ہمارا بالکل بائیکاٹ کر دیا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے غیر مسلموں کے قلوب کو ہمارے لئے مسخر کر دیا اور ہندوؤں نے ہر رنگ میں ہمارے ساتھ تعاون کیا 208- اور ہر قسم کی مدددی.مرکزی نمائندہ مشرقی افریقہ میں دوسرے ممالک کی طرح مشرقی افریقہ میں بھی مجاہدین تحریک جدید کی تبلیغی سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی تھیں اور وقت کا تقاضا تھا کہ کوئی مرکزی نمائندہ ان مشنوں کا جائزہ لے اور جماعتوں اور مبلغوں کے مشورہ سے ان کی ترقی اور وسعت کے لئے ضروری تجاویز بروئے کار لائی جائیں.اس ضرورت کے پیش نظر تحریک جدید کی طرف سے محترم حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال اوّل کو مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے بھجوایا گیا.آپ ۱۴ ستمبر ۱۹۶۳ء کو ربوہ سے مشرقی افریقہ تشریف لے گئے.۷ ستمبر کو بذریعہ ہوائی جہاز نیروبی پہنچے اور کینیا اور یوگنڈا کے دورے کے بعد ۵ /اکتوبر کو دار السلام کے ہوائی اڈے پر اترے جہاں مشنریز کا نفرنس اور فنانس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی اور مشن ہاؤس کا دورہ کر کے 9 اکتوبر کو واپس روانہ ہو گئے.200 مغربی پاکستان کی وزیرتعلیم ربوہ میں ۲۰ ستمبر ۱۹۶۳ء کو جامعہ نصرت ربوہ کا پہلا شاندار جلسہ تقسیم اسناد منعقد ہوا.اس میں وزیر تعلیم مغربی پاکستان محترمہ بیگم محمودہ سلیم صاحبہ نے شرکت کی اور جامعہ نصرت کے شاندار نتائج پر اظہار

Page 177

تاریخ احمدیت.جلد 22 162 سال 1963ء خوشنودی کرتے ہوئے کہا:.آپ کا ادارہ صوبے کے صف اول کے اداروں میں سے ایک ہے جو پسماندہ علاقوں کی ضروریات کو بڑی عمدگی سے پورا کر رہا ہے.یہ فرض ناشناسی ہوگی.اگر میں اس ادارہ کے کار پردازوں کو مبارک باد نہ دوں.انہوں نے تعلیمی مفادات کی بہت قابل فخر خدمت سرانجام دی ہے.(حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا سفر مشرقی پاکستان 210- سال ۱۹۶۳ء کا ایک یادگار اور نا قابل فراموش واقعہ (حضرت) مرزا ناصر احمد صاحب کا سفر مشرقی پاکستان ہے.جس کے دوران آپ نے ۲۱ ستمبر سے ۲/اکتوبر تک جماعتوں کا وسیع پیمانہ پر دورہ فرمایا.اس سفر میں آپ کے ہمراہ خالد احمدیت مولانا ابو العطاء صاحب، مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبليغ مشرقی افریقہ، جناب شیخ بشیر احمد صاحب سابق حج مغربی پاکستان ہائیکورٹ ، چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمد یہ پاکستان اور جناب محمد احمد صاحب انور حیدر آبادی بھی تشریف لے گئے.یہ مرکزی و فدا ۲ ستمبر کی شام کو ڈھاکہ کے فضائی مستقر پر اترا.مولوی محمد صاحب بی اے (وفات ٫۵اکتوبر ۱۹۸۷ء) امیر جماعت ہائے احمد یہ مشرقی پاکستان اور دوسرے عہد یداران جماعت نے اس کا پر تپاک خیر مقدم کیا اور حضرت صاحبزادہ اور آپ کے ہمسفر رفقاء کو بکثرت ہار پہنائے.اگلے روز مقامی پریس نے آپ کی آمد اور دورہ کے پروگرام پر مشتمل خبریں شائع کیں.۲۲ ستمبر کی صبح کو یہ وفد بذریعہ ہوائی جہاز چٹا گانگ پہنچا.ہوائی اڈے پر سینکڑوں احمدی موجود تھے جنہوں نے گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا.دار التبلیغ چٹا گانگ میں جماعت چٹا گانگ کی طرف سے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں استقبالیہ ایڈریس پیش کیا گیا.شام کو ایک جلسہ کا انعقاد عمل میں آیا.ان دونوں تقاریب سے آپ نے ایمان افروز خطاب فرمایا اور احباب کو دنیا میں اشاعت و غلبہ اسلام کے لئے بڑھ چڑھ کر قربانیاں کرنے کی پرزور تلقین فرمائی اور پوری مستعدی اور جذ بہ اور جوش کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی.۲۳ ستمبر کو حضرت صاحبزادہ صاحب دیگر ارکان وفد اور بعض مقامی احباب کے ساتھ کپتائی تشریف لے گئے واپسی پر چلتا رام کے مقام پر بدھوں کی ایک قدیم خانقاہ بھی دیکھی.شام کو جماعت چٹا گانگ کی طرف سے آپ کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں بعض مسلمان

Page 178

تاریخ احمدیت.جلد 22 163 سال 1963ء اور ہندو معززین اور سر بر آوردہ حضرات نے شرکت کی.اس موقع پر شیخ بشیر احمد صاحب نے ایک مختصر مگر بہت مؤثر تقریر میں حاضرین سے آپ کا تعارف کرایا.تقریر کا خلاصہ چٹا گانگ کے اخبارا لیسٹرن ایگزامینر (Eastern Examiner) میں شائع ہوا.۲۴ ستمبر کو دو پہر سے قبل حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس علاقہ میں احمدیت کے فروغ کا جائزہ لیا اور شام کو مسلم انسٹی ٹیوٹ ہال میں ایک عظیم الشان جلسہ سے فاضلانہ خطاب فرمایا.آپ کے علاوہ شیخ بشیر احمد صاحب اور مولانا ابوالعطاء صاحب نے بھی اسلام کے مختلف پہلوؤں پر نہایت مؤثر اور بصیرت افروز تقاریر فرمائیں.۲۵ ستمبر کی صبح کو آپ مع دیگر ارکان قافلہ چٹا گانگ سے واپس ڈھا کہ تشریف لائے اگلے روز آپ سٹیمر کے ذریعہ جیسور اور کھلنا ہوتے ہوئے جناب مولوی محمد صاحب، مولانا ابوالعطاء صاحب اور مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب کی معیت میں نرائن گنج پہنچے جہاں احباب نے والہانہ استقبال کیا.۲۷ ستمبر کی صبح کو آپ نے ڈھاکہ کی نئی آبادی میں صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کے مکان کا سنگ بنیاد رکھا پھر ڈھاکہ کے تعلیمی ادارے دیکھے.جس ادارہ میں بھی تشریف لے گئے.اس کے سربراہ نے آپ کا استقبال کیا.واپس آکر آپ نے نماز جمعہ پڑھائی اور خطبہ میں احمدی احباب کو روحانی ترقی میں نمایاں امتیاز حاصل کرنے اور اخوت و محبت کا بہت اعلیٰ نمونہ دکھانے کی تلقین فرمائی.جمعہ کے بعد جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان کا چوالیسواں تاریخی جلسہ سالانہ شروع ہوا جو ۲۹ ستمبر کی شام تک نہایت کامیابی سے جاری رہا اور ایمان و اخلاص اور دعا کے روح پرور ماحول میں اختتام پذیر ہوا.جلسہ میں پانچ ہزار کے قریب حاضرین تھے جن میں شہر کے بہت سے معززین بھی شامل تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب اور مرکزی وفد کی اہم علمی اور تربیتی موضوعات پر بصیرت افروز تقاریر ہوئیں.جو بہت انہماک اور دلچسپی سے سنی گئیں.جلسہ کے دوسرے مقررین کے نام یہ ہیں سید اعجاز احمد صاحب مربی سلسلہ، چوہدری احمد رفیق صاحب، شیخ محمود الحسن صاحب، محمد سلیم اللہ صاحب اور مولوی غلام صمدانی صاحب خادم پلیڈر.جلسہ ہی کے ایام میں انجمن احمد یہ مشرقی پاکستان کی طرف سے حضرت صاحبزادہ صاحب اور دیگر ممبران وفد کے اعزاز میں ۵ بجے شام استقبالیہ دیا گیا.یہ ایک بہت وسیع اور پُر رونق تقریب تھی جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس امیر الدین صاحب، محترم جسٹس باقر صاحب، ڈویژنل

Page 179

تاریخ احمدیت.جلد 22 164 سال 1963ء کمشنر جناب جی احمد صاحب، ڈاکٹر قاضی مظہر حسین صاحب، مولانا فضل الکریم صاحب ایڈووکیٹ اور دیگر متعدد شخصیات اور اعلیٰ افسران نے شرکت فرمائی.اس موقعہ پر بھی حاضرین کی درخواست پر حضرت صاحبزادہ صاحب اور ارکان وفد نے خطاب فرمایا اور بعض سوالوں کے جواب دیئے.۳۰ ستمبر کو حضرت صاحبزادہ صاحب مرکزی وفد کے ارکان اور مولوی محمد صاحب (امیر صوبائی) شمس الرحمن صاحب بیرسٹر ایٹ لاء ( صوبائی جنرل سیکرٹری ) ،محمد سلیمان صاحب (صوبائی سیکرٹری مال ) اور بعض دیگر احباب کی معیت میں بذریعہ ٹرین برہمن بڑ یہ تشریف لے گئے اور اسٹیشن سے ایک جلوس کی شکل میں جامع مسجد احمدیہ میں پہنچے جہاں آپ نے سب سے پہلے حضرت مولوی سید عبدالواحد صاحب کے مزار مبارک پر اجتماعی دعا کی.بعد ازاں مسجد میں جناب غلام صمدانی صاحب وکیل ، زعیم انصار اللہ نے جماعت احمدیہ برہمن بڑیہ کی طرف سے ایڈریس پیش کیا.یہ ایڈریس مطبوعہ تھا اور زمان پرنٹنگ ورکس ( Zaman Printing Works, 2/1 Kamartly Plane 1 - Dacca /۳۲ کمار تولی لین ڈھاکہ.اسے طبع کرایا گیا تھا.(اس کی ایک کاپی شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے.) (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے ایڈریس کے جواب میں ایک ایمان افروز تقریر کی اور احباب جماعت کو بہت قیمتی نصائح سے نوازا.پھر نماز عشاء کے بعد آپ نے ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی جس کا اہتمام مقامی جماعت نے آپ کے اعزاز میں کیا تھا.اس تقریب میں متعد د مسلمان معززین کے علاوہ بعض مقامی افسران نیز بعض ہندو اور عیسائی صاحبان بھی موجود تھے.جناب غلام صمدانی صاحب نے وفد کا تعارف کرایا بعد ازاں خاصی دیر تک سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا.تقریب کے اختتام پر احمدی پاڑہ ( محلہ ) میں تشریف لے آئے اور آدھ یا پون گھنٹہ کے مختصر قیام کے بعد ۳ بجے شب اسٹیشن کے لئے روانہ ہوئے اور بذریعہ ٹرین قریباً چار گھنٹے کے بعد ڈھا کہ پہنچے.اس رات برہمن بڑیہ کے تمام مخلص احمدی احباب جاگتے رہے اور کمال اخلاص و محبت سے آپ کو الوداع کیا.یکم اکتوبر کی شام کو آپ نرائن گنج تشریف لے گئے.مسجد احمد یہ میں تقریر فرمائی اور عہد یداران کو دارالتبلیغ کے لئے مزید زمین حاصل کرنے کے بارے میں ہدایات دیں اور پھر سب دوستوں کو

Page 180

تاریخ احمدیت.جلد 22 165 سال 1963ء شرف مصافحہ بخشا اور ساڑھے آٹھ بجے شب ڈھا کہ پہنچے جہاں محترم ایس ایم حسن صاحب نے آپ کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر ایک عشائیہ کا اہتمام کیا ہوا تھا.اس موقع پر خواجہ شہاب الدین صاحب، ایم اصغر صاحب چیف سیکرٹری حکومت مشرقی پاکستان محترم جی احمد صاحب کمشنر ڈھا کہ ڈویژن اور چوٹی کے تاجر صاحبان بھی تشریف لائے ہوئے تھے.عشائیہ میں مختلف موضوعات پر دلچسپ گفتگو ہوتی رہی.مشرقی پاکستان کے پریس نے وفد کی مصروفیات اور جماعت احمد یہ مشرقی پاکستان کے جلسہ سالانہ کے متعلق بہت نمایاں اور صحیح صحیح اور تفصیلی خبریں شائع کیں اور قابل تعریف حد تک فراخدلی اور دلچسپی کا ثبوت دیا.۲ اکتوبر کی شام کو روانگی کا پروگرام تھا.جماعت احمد یہ ڈھا کہ کے جملہ احباب نے ہوائی اڈا پر حضرت صاحبزادہ صاحب اور ارکان وفد ( شیخ بشیر احمد صاحب سابق حج مغربی پاکستان جو دوروز کے لئے چٹا گانگ ٹھہر گئے تھے چند روز بعد واپس تشریف لائے ) کو دلی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.حضرت صاحبزادہ صاحب بذریعہ طیارہ ڈھاکہ سے روانہ ہو کر اگلے روز ۳ /اکتوبرکولاہور پہنچے اور سوا چار بجے سہ پہر بذریعہ موٹر کار روانہ ہو کر سات بجے شب کے قریب ربوہ تشریف لے آئے.یہاں پہنچتے ہی آپ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی مصلح الموعود کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور دورہ مشرقی پاکستان کے کوائف عرض کئے.۴ اکتوبر کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں ایک جلسہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی زیر صدارت منعقد ہوا.جس میں ارکان وفد نے اس دس روزہ نہایت کامیاب دورہ کے نہایت ایمان افروز حالات بیان کئے اور وہاں کی احمدی جماعتوں کی للہیت ، صبر و استقلال، اشیار و قربانی، محبت و اخلاص اور جذ بہ خدمت و فدائیت کی بہت تعریف کی اور جملہ جماعتوں کے نظم وضبط اور ڈسپلن کو بہت سراہا.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے مؤثر صدارتی خطاب میں بتایا کہ اس دورہ کی تین اغراض تھیں.اول.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی خداداد قوت قدسیہ کی مدد سے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان جو بے نظیر رشتہ اخوت قائم فرمایا ہے.اسے دیکھا جائے اس سے حظ اٹھایا جائے.اور اس پر خدا تعالیٰ کا شکر بجالا کر اسے مضبوط سے مضبوط تر کرنے سے ملنے اور ملاقات کرنے

Page 181

تاریخ احمدیت.جلد 22 166 سال 1963ء کی تقریب پیدا ہوگئی.امسال جلسے پر گذشتہ سال کی نسبت دگنی تعداد میں احباب تشریف لائے تھے.ہم عینی شاہد ہیں اس امر کے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جماعت میں باہمی محبت و اخلاص اور رشتہ اخوت کے قیام کی جو خبر دی تھی وہ بڑی شان سے پوری ہوئی ہے.دوسری غرض یہ تھی کہ وہاں غیر از جماعت دوستوں سے مل کر غلط فہمیوں کا تدارک کریں اور انہیں بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عشق قرآن اور عشق رسول کا کیا بے پناہ جذبہ ہمارے دلوں میں پیدا کیا ہے اور کس طرح اس جذبہ کے زیر اثر ہمیں دنیا بھر میں اسلام کو غالب کرنے اور مختلف ملکوں اور قوموں کے افراد کو اپنی ہی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا والہ وشیدا بنانے کی توفیق مل رہی ہے.وہاں جو مختلف تقاریب اور جلسے بالخصوص جلسہ سالانہ کے مختلف اجلاس منعقد ہوئے ان میں افسران، پروفیسر، طلباء ڈاکٹر ز ، تاجر وصناع وغیرہ ہر طبقہ کے لوگ بڑی کثرت سے شریک ہوئے.تقاریر سے استفادہ کیا جائے اور سوال وجواب کے ذریعہ اپنے شکوک کو دور کرنے کی کوشش کی جائے.دوم.جہاں تک ممکن ہو سکے لوگوں کے سامنے حقیقی اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اصل غرض پیش کر کے غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے.سوم.مشرقی پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب غیر مسلم آباد ہیں.ان میں ہندو، بدھ مت والے اور عیسائی شامل ہیں.عیسائیوں کی تعداد گو تھوڑی ہے لیکن ان کی مشنری سرگرمیاں بہت تیزی اختیار کرتی جا رہی ہیں.سو اس دورہ کا اہم مقصد یہ تھا کہ دیگر مذاہب بالخصوص عیسائیت کی طرف سے وہاں اسلام کے خلاف جو سر گرمیاں جاری ہیں.اُن کا مطالعہ کر کے دفاع کی تیاری کی جائے پھر اس کے خلاف جوابی حملے کے لئے سکیم مرتب کی جائے.سویہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ یہ دورہ ان ہر سہ گونہ مقاصد کے اعتبار سے بہت کامیاب ثابت ہوا.جہاں تک دورے کی پہلی غرض کا تعلق ہے میں اور میرے رفقاء کو متعدد جماعتوں میں جا کر دوستوں سے ملنے کا موقعہ ملا اور پھر انجمن احمد یہ مشرقی پاکستان کے جلسہ سالانہ کے موقع پر دور دراز علاقوں تک کے احمدی احباب سے ملنے اور ملاقات کرنے کی تقریب پیدا ہوگئی.جلسہ سالانہ میں ہر طبقہ کے لوگ افسران، پروفیسر، طلباء، ڈاکٹرز، تاجر وصناع متوسط طبقہ کے لوگ اور کام پیشہ سب ہی

Page 182

تاریخ احمدیت.جلد 22 167 سال 1963ء بکثرت شریک ہو کر تقاریر سے مستفید ہوتے رہے اور سوال و جواب کے ذریعے اپنے شکوک رفع کراتے رہے.اس اعتبار سے بھی یہ دورہ بہت کامیاب ثابت ہوا.تیسری غرض یہ تھی کہ وہاں کی غیر مسلم آبادی تک پیغام اسلام پہنچانے کا انتظام کیا جائے بالخصوص عیسائیوں کی سرگرمیوں کا مقابلہ کیا جائے چنانچہ اس دورہ میں ہمیں بچشم خود وہاں کے حالات کا جائزہ لینے اور ایک حد تک سروے کا موقع ملا.چٹا گانگ کے علاقہ میں بدھ خانقاہوں میں گئے.اور ان کے مہنتوں سے ملاقات کی اور نیز عیسائی مرکز (Island of Peace) کو بھی دیکھا.اس سروے کے نتیجہ میں مجھے شدید احساس ہوا کہ ہمیں ان غیر مسلم اقوام میں تبلیغ کا ایک منصوبہ تیار کرنا چاہئیے اور پھر اسے عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھنی چاہئیے چنانچہ جلسہ سالانہ کی آخری تقریر میں اس منصوبہ کا میں نے اعلان کیا کہ ہر آئندہ دس سال کے اندر اندر کم از کم دو لاکھ غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام بنائیں گے اس کے لئے ہمیں اپنے وسائل کو مجتمع کر کے اس کے لئے بھر پور کوشش کرنا ہو گی مشرقی پاکستان کے احباب نے اس منصوبہ کا گرم جوشی سے استقبال کیا ہے.میں خدا تعالیٰ کے سلوک اور اس کے وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے امید رکھتا ہوں کہ اگر ہم پورے اخلاص اور جذبہ سے کام کریں تو دو لاکھ ہی نہیں دس پندرہ لاکھ غیر مسلم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو سکتے ہیں.اس کے لئے ہمیں اپنے اموال، اپنے اوقات ، اپنی جانیں وقف کرنا ہوں گی.پورے علاقے کا سروے کر کے وہاں کی ضروریات کا جائزہ لینا ہوگا اور پھر مختلف علاقوں میں مراکز قائم کر کے مبلغین بھجوانے ہوں گے.اس ضمن میں میری استدعا یہ ہے کہ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مشرقی پاکستان کے احباب کو اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.ان کے دل میں تبلیغ اسلام کی لگن تیز سے تیز تر ہوتی جائے.ان کی زبانوں میں اثر پیدا ہو وہ آرام سے نہ بیٹھیں اور چین سے نہ سوئیں جب تک کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر لاکھوں لاکھ غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام نہ بنالیں.مشرقی افریقہ میں احمدیوں کی جد وجہد مسٹر ایچ.جے.فشر کی نظر میں 211 مسٹر ایچ بے نشر (Mr.Humphrey J.Fisher) کو ۱۹۵۸ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرف سے مغربی افریقہ بھجوایا گیا.مسٹر فشر نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے احمدیت کا مضمون منتخب کیا وہ تین ماہ سے زائد عرصہ تک مغربی افریقہ میں ٹھہرے اور سرکاری اور غیر سرکاری

Page 183

تاریخ احمدیت.جلد 22 168 سال 1963ء اداروں سے ریسرچ میں امداد لی اور بالآخر اس سال ۱۹۶۳ء میں انہوں نے Ahmadiyyah کے نام سے اپنا مقالہ شائع کر دیا.اس کتاب کے آخر پر انہوں نے مشرقی افریقہ میں جماعت کی تبلیغی مساعی پر ایک خصوصی نوٹ دیا جس میں احمدیہ مشن مشرقی افریقہ کی بنیاد، ابتدائی مبلغ، بورا اور ٹانگانیکا کی مساجد کی تعمیر ،اخبارات کی اشاعت اور سواحیلی ترجمہ قرآن اور دوسرے اسلامی لٹریچر کی اشاعت پر مستشرقین کے مخصوص انداز اور لب ولہجہ میں روشنی ڈالی ہے.اس نوٹ کا ترجمہ درج ذیل ہے.مشرقی افریقہ میں احمدیت مشرقی افریقہ کے ساحل پر قدم رکھنے والے اولین مبلغ جو ممباسہ میں ۱۹۳۴ء کے دوران اترے (شیخ) مبارک احمد (صاحب) ہیں جو اب بھی مشرقی افریقہ کے صوبہ کے انچارج ہیں.آپ مشرقی افریقہ میں مقیم ایشیائی احمدیوں کی درخواست پر آئے جنہوں نے آپ کے اخراجات ادا کئے.سب سے پہلے ٹبورا میں ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا جہاں ۱۹۴۲ء میں خاص اہمیت کی حامل مسجد کی تعمیر شروع ہوئی جو ۱۹۴۴ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی.(احمدیہ مسجد مشرقی افریقہ کا انداز مغربی افریقہ کی (مسجد کی) نسبت زیادہ مشرقی ہے.جہاں صرف سالٹ پانڈ کی مسجد کے مینار ہیں ).ٹورا میں ایک پریس قائم کیا گیا لیکن اسے بند کرنا پڑا.مشن کی توسیع کے ساتھ کئی مبلغین مدد کے لئے آئے.ایک تو جنگ ( عظیم ثانی) کے دوران اور مزید کئی اس جنگ کے معا بعد.نیروبی ، ممباسہ، کسومو، دار السلام اور جہ میں مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور ساتویں مسجد کمپالا میں زیر تعمیر ہے جماعت کا مرکز ٹور سے نیروبی منتقل ہو چکا ہے.سکول مساجد کے قدم بہ قدم قائم نہ ہو سکے.ٹیو را میں سب سے پہلا سکول بند ہو گیا.البتہ جہ میں دوسر اسکول کھل گیا ہے.احمدیوں نے حکومت کو یہ تحریک کرنے کی جد و جہد کی ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے سکول قائم کرے.اس سلسلہ میں جماعت نے ٹرسٹی شپ کونسل سے ۱۹۵۶ء میں احتجاج کیا.(جماعتی تنظیم مغربی افریقہ کی نسبت زیادہ وحدانی طرز کی ہے (شیخ ) مبارک احمد صاحب سارے مشرقی افریقہ کے واحد امیر ہیں اور وہ ربوہ (مرکز ) کے سامنے براہ راست جوابدہ ہیں (یہی حیثیت ہر مشنری انچارج کی ہوتی ہے ).جماعت احمدیہ ، حکومت کے ہاں تینوں سابقہ برطانوی علاقوں ( کینیا، یوگنڈا ، ٹانگانیکا) میں خلافت کی فوقیت (خلافت کی برتری سلسلہ احمدیہ کے عالمی نظام کا لازمی جزو ہے) کے خصوصی تذکرہ کے ساتھ رجسٹرڈ شدہ ہے.شاید یہ

Page 184

تاریخ احمدیت.جلد 22 169 سال 1963ء امر نائیجیریا میں آئینی اختلاف کے پیش نظر ہو گو فی الحقیقت رجسٹریشن اس وقت عمل میں آئی جب حکومت نے ۱۹۵۳ء میں ماؤ ماؤ ایمر جنسی نافذ کرتے ہوئے ہر سوسائٹی کے لئے رجسٹریشن لازمی قرار دے دی.ربوہ کے ساتھ تعلق مشرقی افریقہ کے طلباء کے ذریعہ مستحکم ہوا جن میں سے آٹھ ۱۹۵۹ء میں ربوہ میں زیر تعلیم تھے.(شیخ ) مبارک احمد (صاحب) نے ۱۹۳۶ء میں سواحیلی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنا شروع کیا.قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھی گئی جو ( حضرت مرزا) محمود احمد صاحب کی تحریرات پر مبنی ہے جس میں عیسائیت سے متعلق روایتی مناظرانہ رنگ ہے ( دراصل صاحب مقالہ اس پر خفا ہیں کہ سواحیلی ترجمہ وتفسیر قرآن میں پادریوں کے وساوس و اعتراضات کا علمی و تحقیقی جواب کیوں دیا گیا).قرآن کریم کا یہ ترجمہ ۱۹۵۳ء میں دس ہزار کی تعداد میں طبع ہوا (ماہنامہ ) ریویو آف ریلیجنز نے مئی ۱۹۵۵ء میں لکھا کہ پہلا ایڈیشن قریب الاختتام ہے اور دوسرا جلد شائع ہو جائے گا جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ۱۹۵۹ء میں اس کے چار ہزار نسخے ابھی سٹاک میں موجود تھے ( مقالہ نویس اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے ).افریقن اور پاکستانی ممبران پر مشتمل کمیٹی نظر ثانی شدہ ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے.سواحیلی ترجمہ قرآن کے نسخے ہولا جیل اور دوسرے جیل خانوں میں بھجوائے گئے جہاں ماؤ ماؤ قیدی زیر حراست ہیں.لو گنڈا، کیکیو اور کا مبازبانوں میں قرآن کریم کے ترجمہ کا کام شروع ہو چکا ہے.( شیخ ) مبارک احمد صاحب نے اپنی آمد کے چند سال بعد ایک سواحیلی اخبار شائع کرنا شروع کیا جس کی ماہوار اشاعت آج بھی جاری ہے.۱۹۵۷ء میں (مرکز) ربوہ کی ہدایت کے مطابق آپ نے انگریزی اخبار ایسٹ افریقن ٹائمز کا اضافہ کیا جواب ہر دو ہفتہ بعد شائع ہوتا ہے.ایک اخبار یوگنڈا میں بھی شائع ہوتا ہے.ان سب اخبارات کو پاکستانی ( مبلغین ) ترتیب دیتے ہیں.اخبار ”ایسٹ افریقن ٹائمنز اپنے ہمعصر مغربی افریقہ کے اخبار ٹروتھ کی نسبت بہتر پر چہ ہے.اور زیادہ معقول حقیقی خبریں، مذہبی پراپیگنڈہ اور نزاعی امور بہتر طباعت کے ساتھ شائع کرتا ہے.(مشن کی طرف سے) چند ایک پمفلٹ بھی شائع ہوئے ہیں.مثلاً حکیم (فضل الرحمن صاحب کی تصانیف لائف آف محمد کا سواحیلی ترجمہ بیشتر پمفلٹ سواحیلی زبان میں ہیں جبکہ دوسری

Page 185

تاریخ احمدیت.جلد 22 170 سال 1963ء زبانوں میں بھی شائع شدہ ہیں.یہاں تحریر و تصنیف اور ترجمہ کا کام مغربی افریقہ کی نسبت زیادہ متحرک انداز میں جاری ہے.بعض مبلغین سواحیلمی سیکھ چکے ہیں اور چندا فریقن احمدی دینی امور میں پختہ کار ہو چکے ہیں تا کہ اشاعت کا کچھ کام اُن کے ہاتھوں میں منتقل کیا جاسکے.متعصب اور کٹر مخالفت شدید قسم کی معلوم ہوتی ہے.(شیخ ) مبارک احمد صاحب کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے ٹیو را کا سکول بند ہوا.جماعت احمدیہ کے سواحیلی ترجمہ قرآن پر کٹر لوگوں کی تنقید کے جواب میں سواحیلی زبان میں ایک پمفلٹ تحریر کیا گیا ہے.( آخری پیراگراف میں جماعتی مساعی اور سواحیلی ترجمہ قرآن کی وقعت و عظمت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا مقصد مغربی کلیسیا سے مجاہدین احمدیت کی یلغار کی ہیبت دور کرنے کے سوا کچھ نہیں).الشیخ محمود شلتوت کا بیان جماعت احمدیہ کی نسبت ممباسه ( مشرقی افریقہ) کے ڈائریکٹر آف اسلامک مشن اور ممباسہ کی مشہور درسگاہ ” تہذیب مسلم سکول کے پرنسپل جناب اے کے الشیخ العلوی صاحب اس سال قریباً سات ماہ تک مصر کی یو نیورسٹی الازھر میں قیام پذیر رہے.اس دوران آپ کی ازھر یو نیورسٹی کے ریکٹر شیخ الا زھر الاستاذ محمود شلتوت سے بھی ملاقات ہوئی انہوں نے بڑے جذبہ سے اور پر زور انداز میں فرمایا کہ احمدی ہمارے مسلمان بھائی ہیں وہ اسی کلمہ طیبہ پر ایمان و اعتقا در کھتے ہیں جن پر ہمارا اعتقاد و ایمان ہے.چنا نچہ الشیخ العلوی نے واپس پہنچ کر پر لیس کو حسب ذیل بیان دیا."I spent about 7 months at the Al Azhar University of Egypt, where I came in contact with many eminent Shaikhs possessed of great knowledge of Islamic faith.But the personality which impressed me most was that of Shaikh Mahmud al Shaltoot, Rector of the university.A highly gifted scholar of Islam and an authority on Muslim Jurisprudence, the Shaikh is a fearless exponent of his views and convictions.To a question I put to him as to what he

Page 186

سال 1963ء 171 تاریخ احمدیت.جلد 22 thought about Ahmadies, he very emphatically said, "They are our brothers in Islam.They adhere to the same KALIMA as we.Don't they?" On being asked how he looked upon the Ahmadiyya belief in the death of Chirst, the learned Rector observed that, he was in full agreement with it, Christ died like all the other prophets of God, adding that that was his conviction and he did not care whether it bent support to Ahmadiyya beliefs or anyone else." 66 ( ترجمہ ) میں نے قریباً سات ماہ مصر کی الازھر یونیورسٹی میں گزارے جہاں مجھے بہت سی ایسی مشہور اور اہم شخصیتوں سے ملنے کا موقعہ میسر آیا جو اسلامی علوم کے ماہر ہیں.مگر مجھے سب سے زیادہ متاثر علامہ الشیخ محمود شلتوت کی شخصیت نے کیا جو شیخ الازہر ہیں.موصوف نہایت بلند پایہ محقق ہیں اور اسلامی مسائل میں سند مانے جاتے ہیں وہ اپنے نظریات اور عقائد میں نہایت پختہ ہیں.میں نے جب اُن سے دریافت کیا کہ احمدیوں کے متعلق ان کا کیا خیال ہے تو انہوں نے پُر جوش لہجہ میں فرمایا کہ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں.کیا یہ واقعہ نہیں کہ وہ بھی وہی کلمہ پڑھتے ہیں جو ہم پڑھتے ہیں.“ پھر اس سوال پر کہ وہ احمدیوں کے عقیدہ وفات مسیح پر کیا رائے رکھتے ہیں.فاضل شیخ الا زہر نے فرمایا کہ انہیں اس عقیدہ سے پورا پورا اتفاق ہے یقیناً حضرت مسیح خدا کے دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرح وفات پاگئے ہیں.مزید فرمایا کہ میرا یہی پختہ اعتقاد ہے.مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس سے احمدیوں یا کسی اور کے عقیدہ کی تائید ہوتی ہے یا نہیں.اس اخباری بیان کے مطابق جناب شیخ العلوی نے زور دیا ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لئے سب مسلمان فرقوں کو باہم مل کر کام کرنا چاہئیے اور کسی قسم کی فرقہ داری کا رنگ اختیار نہ کرنا چاہیئے.جنوبی افریقہ کے ایک معززستی مسلمان کا حقیقت افروز اعتراف 212 جنوبی افریقہ کے مشہور شہر جو ہانس برگ کے ایک قدیم مسلمان خاندان کے معز ز فرد جناب ایس کے جمال کئی سالوں سے جماعت احمدیہ کے ترجمان ” ایسٹ افریقن ٹائمنز ( نیروبی ) کامطالعہ کرتے

Page 187

تاریخ احمدیت.جلد 22 172 سال 1963ء آ رہے تھے اور وہ جماعت احمدیہ کی ان مخلصانہ خدمات سے از حد متاثر تھے جو وہ افریقہ میں اشاعت اسلام اور تردید عیسائیت کے سلسلہ میں بجالا رہی تھیں وہ خود بھی علم دوست شخصیت تھے اور مشہور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے اور اگر چہ وہ اہل سنت و الجماعت خیال و عقیدہ رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ جرات بخشی کہ وہ افریقہ میں اشاعت اسلام کی جدو جہد سے متعلق اپنی مخلصانہ اور دیانتدارانہ رائے کا کھلے بندوں اور برملا اظہار کریں چنانچہ انہوں نے ۲۶ ستمبر ۱۹۶۳ء کو جنوبی افریقہ سے ایڈیٹر ایسٹ افریقن ٹائمنز“ کے نام حسب ذیل مراسلہ لکھا جو یکم اکتو بر ۱۹۶۳ء کے شمارہ میں چھپا :.ترجمہ: ”جناب من! اسلام اور عیسائیت کے سلسلہ میں جو قیمتی اور بلند پایہ مضامین اخبار ایسٹ افریقن ٹائمز میں شائع کئے جاتے ہیں.میں قدر دانی کے جذبات کے پیش نظر آپ کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں.میں ان مضامین کو پڑھ کر ہمیشہ حظ اٹھاتا ہوں بالخصوص وہ اداریے جو عیسائیت کے رد اور اسلام کی حمایت و دفاع میں آپ نے تحریر کئے.بے حد قابل قدر ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی مجال نہیں کہ احمدی حضرات کا اس میدان میں مقابلہ کر سکے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم سنی جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن حق دار کو اس کا حق دینا بھی ضروری اور لابدی ہے.میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ ایسے ادارے یا انجمنیں جو تبلیغ اسلام کے فریضہ کو غیر مسلموں میں بجالا رہی ہیں.احمدی حضرات کے تیار کردہ لٹریچر سے خوب فائدہ اٹھاتی ہیں.اور اس علم کلام کے زور سے اپنی تبلیغ کو غیر مسلموں میں مؤثر بناتے ہیں.احمدی حضرات نے بائیبل کا بہت گہرا مطالعہ کیا ہے.اور ہم سنی آپ حضرات کی محنت شاقہ اور جدوجہد کے نتیجہ میں جو علمی تحقیقات عیسائیت کے بارہ میں کی ہے.اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی انجمنوں یا اداروں نے آپ کا شکریہ ادا کرنے اور قدردانی کے جذبات کے اظہار میں بخل سے کام لیا ہے.لیکن میں ایسے ناشکرا پن کا مظاہرہ نہیں کر سکتا.اور چاہتا ہوں کہ آپ کا اور جماعت احمدیہ کا قدردانی کے جذبات کے ساتھ دلی خلوص سے بھر پور شکریہ کا اظہار کروں کہ آپ نے عیسائیت کی تردید کے لئے بائیبل کا گہرا اور تحقیقی مطالعہ کر کے زبر دست مواد عیسائیت کے ابطال کے لئے تیار کر دیا ہے بلکہ احمدی حضرات اپنی انتھک کوششوں سے اس مواد میں دن بدن اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں.ایسٹ افریقن احمد یہ مسلم مشن کا اخبار اس حقیقت کے ثبوت میں ایک روشن اور تابندہ نشان ہے.ہم خوب جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ

Page 188

تاریخ احمدیت.جلد 22 173 سال 1963ء یہ اخبار عیسائیت کے لئے ایک تکلیف دہ اور خاردار کانٹا ہے.مشرقی افریقہ اور مغربی افریقہ میں اشاعت اسلام کا زبردست کام خالصہ جماعت احمدیہ کی انتھک کوششوں اور مستقل جد و جہد کے نتیجہ میں انجام پارہا ہے کوئی سنی عالم اس عزت کا مستحق نظر نہیں آتا.مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کا پہلا مقامی اجتماع ۲۵ ۲۶ ۲۷ ستمبر ۱۹۶۳ء میں مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کا پہلا مقامی اجتماع منعقد ہوا.یہ اجتماع گول بازار ربوہ کے ملحقہ میدان میں ہوا.اس اجتماع کے موقع پر حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اور ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے خصوصی پیغام دیئے.یہ دونوں اہم پیغامات چوہدری عبدالعزیز صاحب واقف زندگی مہتم مقامی نے پڑھ کر سنائے.یہ پیغامات ذیل میں درج کئے جارہے ہیں.حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ کا خصوصی پیغام برادران عزیز! بسم الله الرحمن الرحيم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں بیمار ہوں مگر آپ کے مہتمم صاحب مکرم ( مقامی ) نے مجبور کر دیا.قریباً بند آنکھوں سے لکھ کر یہ چند سطور ارسال ہیں.ان کے خط سے تین روز پہلے میں نے خواب بلکہ نیم خوابی کی حالت میں نظارہ سا دیکھا کہ چند جوان میرے سامنے کھڑے ہیں اور میں ان کو کچھ نصائح کر رہی ہوں.اس کے بعد ان کو مخاطب کر کے مگر بلا اختیار یہ مصرعہ حضرت خلیفہ امسیح ثانی کا میری زبان پر جاری ہوا: عیب چینی نه کرو مفسد و نمام نه هو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ ہمیں سنایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ کو کسی شخص نے آن کر کہا کہ فلاں شخص آپ کو ایسا ایسا برا بھلا کہتا ہے.ان بزرگ نے سنکر فرمایا کہ اس نے مجھ پر تیر چلایا مگر وہ راہ میں گر پڑا.تم نے اس کو اٹھا کر لا کے میرے سینے میں چھو دیا.گویا دکھ دینے والے تم ہوئے.تو آپ لوگ بھی ان عیوب سے بچیں.نیک خیالات رکھیں اور نیکی پھیلائیں.اپنے گرتے ہوئے بھائیوں کے بازو اور سہارا بن جائیں.

Page 189

تاریخ احمدیت.جلد 22 174 سال 1963ء نیز آپ ہمیں حاسد محسود کی کہانی بھی سنایا کرتے اور فرماتے کہ خدامحسود بنائے حاسد نہ بنائے.حسد بہت برائیوں کی جڑ ہے.خدا اس مرض سے بچائے.اس کا مریض کھجلی کے مریض کی طرح اس کو قسم قسم سے ابھارتا اور اس آگ کو بجھنے نہیں دیتا.جو دراصل اسی کو جلا رہی ہوتی ہے.جب ضمیر اس کو نا دم کرنا چاہتا ہے.تو وہ عیب چینی سے ایک جھوٹی تسلی اپنے دل کو دیتا ہے اور بدگمانی کی راہ اختیار کر کے جوحسد کا ایندھن ثابت ہوتی ہے اس دوزخ کو بھڑکاتا ہے.حسد اس کی آنکھ پر ایسی پٹی باندھ دیتا ہے کہ وہ نہیں سوچتا کہ اپنا ہی برا کر رہا ہے، محسود کا کچھ نہیں بگڑ رہا.اللہ تعالیٰ آپ سب کو ان امراض سے محفوظ رکھے.اور اپنے بھائیوں کو بھی پیارا اور محبت سے نیک اخلاق سکھانے کی توفیق بخشے.آمین.دعا بڑی دولت ہے بہت بڑی نعمت ہے.جہاں اس سے اپنے مالک و خالق کی محبت بڑھتی ہے.وہاں مخلوق کے لئے بھی محبت و شفقت زیادہ ہوتی ہے.قلب کی صفائی کا مجرب نسخہ دعا ہے اس سے کام لیں.جب اپنے بھائیوں کے لئے دعا کریں گے.تو آپ محسوس کریں گے کہ ان کی محبت اور ان کی ہر قسم کی بہی خواہی کی خواہش سچے دل سے آپ کے نفوس میں ترقی پارہی ہے.ایک خاص نرمی اور پیارسب کے لئے دل میں پیدا ہوگا اور سختی کے بھی خواہی خیالات مٹ جائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.والسلام مبارکه (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا پیغام 216 آپ نے بھی اس اہم اجتماع کے لئے ایک مفصل پیغام دیا جس میں نو جوانانِ احمدیت کو نہایت بیش قیمت نصائح کیں.چنانچہ آپ نے فرمایا.مجھے یہ معلوم کر کے مسرت ہوئی کہ ربوہ کے خدام ۲۵ ، ۲۶ اور ۲۷ ستمبر کو اپنا ایک تربیتی اجتماع منعقد کر رہے ہیں.تربیت کی غرض سے ایسے اجتماعات خدا تعالیٰ کے فضل سے بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں اور ایسے اجتماع قوم کی زندگی کی علامت بھی ہوتے ہیں.اس اجتماع کے لئے مجھ سے بھی پیغام بھجوانے کی خواہش کی گئی ہے.چنانچہ اس خواہش کے احترام میں چند باتیں عرض کرتا ہوں.

Page 190

تاریخ احمدیت.جلد 22 175 سال 1963ء ربوہ کے خدام پر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے انہیں ایسی جگہ رہنے کی توفیق عطا فرمائی جہاں سے اس ضلالت و گمراہی کے دور میں سعادت مند روحیں ہدایت کی روشنی حاصل کر رہی ہیں اور اس مقدس بستی کی گوناگوں برکات و فیوض سے کرہ ارض پر بسنے والی نیک روحیں متمتع ہو رہی ہیں اور آج دنیا میں یہ ایک ایسی بستی ہے جہاں سے ایک منظم طریق پر اسلام کی اشاعت اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم کرنے کی انتھک کوشش کی جارہی ہے اگر چہ یہ سعادت آپ کے لئے باعث فخر ہے مگر اس میں بسنے کی وجہ سے چند فرائض اور ذمہ داریاں بھی آپ پر عائد ہوتی ہیں.آپ کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری تو یہ ہے کہ آپ یہاں اپنی زندگی اس طرح بسر کریں کہ آپ احمدیت کی چلتی پھرتی تصویر نظر آئیں اور آپ کا ہر فعل حقیقی اسلام کی تعلیم کے مطابق ہو.نیک نمونہ دکھا ئیں تا کہ دیکھنے والے نصیحت حاصل کریں.اور اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی خاطر بسر کریں کیونکہ جو خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ اپنی طرف آنے والے کی سعی اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا.یہ مکن ہے کہ زمیندار اپنا کھیت ضائع کرے.نوکر موقوف ہو کر نقصان پہنچا دے.امتحان دینے والا کامیاب نہ ہو مگر خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی نا کام نہیں ہوتا.اس کا سچا وعدہ ہے کہ وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: ٧٠) خدا تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جو یا ہوا وہ آخر منزل مقصود پر پہنچا.سو میں خدام الاحمدیہ سے کہتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی خاطر سعی کریں.دنیا کے لوگ مادی فائدہ کی خاطر کیا کچھ نہیں کرتے لیکن کامیابی پھر بھی یقینی نہیں ہوتی.مگر اللہ تعالیٰ کی طرف خلوص نیت سے رجوع کرنے والا کبھی تہی دست نہیں لوٹتا.اس خدائی دربار میں رسائی حاصل کرنے کے لئے آپ کو اعمال صالحہ کی ضرورت ہے اور اس کی توفیق پانے کے لئے دعا کی ضرورت ہو گی.آپ کو چاہئیے کہ رات کو اٹھیں اور دعائیں کریں.دل کو درست کریں، کمزوریوں کو چھوڑ دیں.اطاعت نظام کو بشاشت سے قبول کریں.اتحاد و اتفاق کا کامل نمونہ بنیں اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اپنے قول و فعل کو بنائیں.اس طرح جب اپنے نفس کی تربیت ہو جائے گی.تو تبلیغ کا کام

Page 191

تاریخ احمدیت.جلد 22 176 سال 1963ء آسان ہو جائے گا.تبلیغ ایک نہایت اہم فریضہ ہے جو بانی احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ہر احمدی پر فرض کیا گیا ہے.کفر و ضلالت کی گھٹاؤں کو دور کر کے اسلام کی سچی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنا ہر احمدی کا فرض اولین ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام پر آنے والے فتنوں کے دور کرنے کو اس زمانہ کی سب سے بڑی عبادت قرار دیا ہے چنانچہ حضور فرماتے ہیں:.ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس زمانہ کے درمیان جو فتنہ اسلام پر پڑا ہوا ہے، اس کے دور کرنے میں کچھ حصہ لے.بڑی عبادت یہی ہے کہ اس فتنہ کے دور کرنے میں ہر ایک مسلمان کچھ نہ کچھ حصہ لے.اس وقت جو بدیاں اور گستاخیاں پھیلی ہوئی ہیں، چاہیے کہ اپنی تقریر اور علم کے ذریعے سے اور ہر ایک قوت کے ساتھ جو اس کو دی گئی ہے.مخلصانہ کوشش کے ساتھ ان باتوں کو دنیا سے اٹھا دے.اگر اسی دنیا میں کسی کو آرام اور لذت مل گئی تو کیا فائدہ.اگر دنیا میں ہی درجہ پالیا تو کیا حاصل.عقبی کا ثواب لو، جس کی انتہا نہیں.ہر ایک مسلمان کو خدا تعالیٰ کی تو حید و تفرید کے لئے ایسا جوش ہونا چاہیے جیسا کہ خود اللہ کو اپنی توحید کا جوش ہے.غور کرو کہ دنیا میں اس طرح کا مظلوم کہاں ملے گا.جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.کوئی گند اور گالی اور دشنام نہیں جو آپ کی طرف نہ پھینکی گئی ہو.کیا یہ وقت ہے کہ مسلمان خاموش ہو کر بیٹھ ر ہیں ؟ اگر اس وقت کوئی شخص کھڑا نہیں ہوتا اور حق کی گواہی دے کر جھوٹے کے منہ کو بند نہیں کرتا اور جائز رکھتا ہے کہ کافر لوگ بے حیائی سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتہام لگاتے جائیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے جائیں.تو یاد رکھو کہ وہ بے شک بڑی باز پرس کے نیچے ہے.چاہیے کہ جو کچھ علم اور واقفیت تمہیں حاصل ہے، وہ اس راہ میں خرچ کرو اور لوگوں کو اس مصیبت سے بچاؤ.حدیث شریف سے ثابت ہے کہ اگر تم دجال کو نہ ماروتب بھی وہ مر ہی جائے گا.مثل مشہور ہے.ہر کمالے را ز والے.تیرھویں صدی سے یہ آفتیں شروع ہوئیں اور اب وقت قریب ہے کہ اُس کا خاتمہ ہو جائے ، اس لئے ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے پوری کوشش کرے.نور اور روشنی لوگوں کو دکھائے.218 اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ مجھے اور آپ کو حضور کی اس تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق

Page 192

تاریخ احمدیت.جلد 22 177 سال 1963ء دے تا احمدیت کی فتح کا دن قریب سے قریب تر آ جائے اور قیامت کے دن ہم سب اللہ تعالیٰ کے نزدیک سرخرو ہوں.امین یارب العلمین.والسلام بشیر ہال کا افتتاح خاکسار مرزا ناصر احمد ۹ استمبر ۱۹۶۳ء 20 220 تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کی عمارت میں اس سال ایک وسیع اور خوبصورت ہال کا اضافہ ہوا جس کا نام حضرت قمر الانبیاء کی یاد میں بشیر ہال" رکھا گیا.(حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے ۶ اکتو بر ۱۹۶۳ء کو اس ہال کا افتتاح کیا اور سکول کے ممبران، اسٹاف اور طلبہ کو تلقین فرمائی کہ وہ اپنے اندر وہ بلند پایہ اوصاف پیدا کریں جو حضرت میاں صاحب کا طرہ امتیاز تھے.اس تقریب میں صدر انجمن اور تحریک جدید کے ناظران، وکلاء صاحبان اور نگران بورڈ کے ارکان کے علاوہ ملک حبیب الرحمن صاحب (وفات ۲۰ ستمبر ۱۹۸۷ء) ڈپٹی ڈویژنل انسپکٹر آف سکولز اور چینوٹ اور لالیاں کے ہائی سکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان بھی تشریف لائے ہوئے تھے.تقریب کے اختتام پر طلباء میں شیرینی تقسیم کی گئی.تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد اور ہوٹل کی عمارت کا افتتاح اگست ۱۹۶۱ء سے صدر انجمن احمدیہ کی زیر نگرانی ضلع سیالکوٹ کی احمدی جماعتوں کے ایثار اور قربانی کے نتیجہ میں قصبہ گھٹیالیاں میں انٹر میڈیٹ کا لج جاری تھا.اس سال ۱۳ راکتو بر ۱۹۶۳ء کو کالج کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کے ہوٹل کی عمارت کا افتتاح عمل میں آیا.اس سلسلہ میں سید حسنات احمد صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کی صدارت میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں صدر صاحب کا لج کمیٹی بابو قاسم دین صاحب نے (حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا جس کے جواب میں آپ نے ایک ایمان افروز تقریر فرمائی اور صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے بیس ہزار کا چیک اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی طرف سے چھ ہزار کا چیک بطور عطیہ کالج کمیٹی کے صدر صاحب کو عطا فرمایا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریر کے بعد ڈ پٹی کمشنر سید حسنات احمد صاحب نے خطاب کیا اور

Page 193

تاریخ احمدیت.جلد 22 178 سال 1963ء اپنی تقریر میں اس امر پر بہت مسرت کا اظہار فرمایا کہ تعلیم الاسلام انٹرمیڈیٹ کالج کے قیام کے ذریعہ اس علاقہ میں علم کو فروغ دینے کے لئے جو عظیم الشان کام شروع کیا گیا ہے.اسے انتہائی توجہ، عزم اور محنت کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے.آپ اس امر پر خاص طور سے بہت متعجب ہوئے کہ کس طرح ایک سال کے قلیل عرصہ میں ہوٹل کی عمارت کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر بظاہر ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا ہے.221 آپ نے فرمایا مجھے توقع ہے کہ یہ ادارہ اس علاقہ میں بلا امتیاز مذہب وملت علم کو پھیلانے کا ایک اہم اور موثر ذریعہ ثابت ہوگا.جناب ڈپٹی کمشنر صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں اپنی جیب سے ایک صد روپیہ کی رقم کالج کو دینے کا اعلان کرتے ہوئے حاضرین مجلس کو بھی عطیہ جات دینے کی تحریک کی.جس پر مختصر سے وقت میں کئی ہزار روپے نقد اور وعدوں کی صورت میں جمع ہو گئے.تقاریر کے بعد ڈپٹی کمشنر صاحب نے کالج کے ہوٹل کی عمارت کا افتتاح فرمایا اور (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے دست مبارک سے کالج کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور اجتماعی دعا کرائی.اس علاقہ کا یہ ایک مثالی اجتماع تھا جس میں ضلع سیالکوٹ کی قریباً تمام احمدی جماعتوں کے نمائندگان، غیر از جماعت معززین، اعلیٰ حکام اور یونین کونسل کے چیئر مین کثرت کے ساتھ شامل ہوئے.علاوہ ازیں سلسلہ احمدیہ کی متعدد مرکزی شخصیات اور پنجاب کی احمدی جماعتوں کے امراء صاحبان کی تشریف آوری نے اس کی رونق کو دوبالا کر دیا.اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب کرام کو سیالکوٹ سے گھٹیالیاں لانے کے لئے ایک خاص لاری کا انتظام کیا گیا اور تین صد اصحاب کی خدمت میں عصرانہ پیش کیا گیا.222 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب دوبارہ عالمی عدالت کے بیج خدا کے فضل و کرم سے بطل احمدیت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو اب عالمی سطح پر جو مناصب اور اعزازات عطاء ہوئے ایشیاء کی مسلم تاریخ میں اُن کی کوئی نظیر نہیں مل سکی.اس سال ۲۱ اکتوبر۱۹۶۳ء کو اقوام متحدہ کی حفاظتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے آپ کو دوبارہ عالمی اسمبلی کا حج نو سال کیلئے منتخب کر لیا.قبل ازیں آپ ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۱ء تک اس معزز عدالت کے بج رہے تھے.223.

Page 194

تاریخ احمدیت.جلد 22 179 سال 1963ء یہ دوبارہ انتخاب ایک اعجازی نشان کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ ایشیائی اور افریقی ممالک کی آواز کے نتیجہ میں صورت حال نے یکا یک پلٹا کھایا اور سخت مقابلہ کے باوجود آپ کامیاب ہو گئے.جس کی ایمان افروز تفصیل آپ ہی کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.”عالمی عدالت کی رکنیت کیلئے میرا دوبارہ انتخاب“ اقوام متحدہ کے ۱۹۶۳ء کے سالانہ اجلاس میں عالمی عدالت کے لئے پانچ جوں کا انتخاب ہونا تھا کیونکہ فروری ۱۹۶۴ء میں صدر عدالت اور چار جوں کی میعاد ختم ہونے والی تھی.ریٹائر ہونے والوں میں صدر عدالت تو فرانس سے تھے اور ایک بج برطانیہ سے تھے چونکہ یہ دونوں ممالک مجلس امن کے مستقل رکن ہیں لہذا دو جوں کا انتخاب انہی دو ملکوں سے ہونا تھا.باقی تین ریٹائر ہونے والے حج لاطینی امریکن ملکوں سے تھے.عالمی عدالت کے قیام کے وقت اقوام متحدہ کے اراکین کی کل تعداد اکیا ون تھی جن میں سے ہیں لاطینی امریکن ممالک تھے.عالمی عدالت کے پندرہ ججوں کے انتخاب کے متعلق یہ مفاہمت تھی کہ پانچ تو مجلس امن کے مستقل اراکین ممالک یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ، فرانس ، روس اور چین سے منتخب ہوں گے اور دس باقی ممالک سے.چونکہ ابتداء میں باقی ممالک میں بیس لاطینی امریکن ممالک تھے لہذا باقی دس جوں میں سے چار جج لاطینی امریکن ممالک سے منتخب ہوتے.۱۹۶۳ء تک یہ نسبت قائم رہی.۱۹۶۳ ء تک اراکین اقوام متحدہ میں ایشیائی اور افریقی عصر نصف سے تجاوز کر چکا تھا لیکن عدالت کی رکنیت میں چینی حج کے علاوہ صرف ایک ایشیائی اور ایک افریقی جج تھا.جب ۱۹۶۳ء کے انتخاب کا وقت آیا تو ایشیائی اور افریقی ممالک کی طرف سے کہا گیا کہ اقوام متحدہ میں ان کی تعداد کو دیکھتے ہوئے انہیں عدالت کی رکنیت میں مزید حصہ ملنا چاہیئے اور تین لاطینی امریکن جوں کے ریٹائر ہونے پر ایک حج لاطینی امریکہ سے، ایک افریقن ممالک سے اور ایک ایشیائی ممالک سے منتخب ہونا چاہئیے.ایشیائی ممالک سے ایک تو مجھے نامزد کیا گیا اور دوسرے امیدوار جو نامزد ہوئے وہ لبنان سے تھے.ایشیائی سیٹ کے لئے مقابلہ میرے اور لبنانی امیدوار کے درمیان تھا.مقابلہ سخت تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے معجزانہ رنگ میں مجھے کامیابی عطا کی.الحمد لله 224

Page 195

تاریخ احمدیت.جلد 22 خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع اور 180 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا قیمتی مقالہ سال 1963ء اس سال خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع ۲۵ ، ۲۶، ۲۷ /اکتوبر ۱۹۶۳ء کو انعقاد پذیر ہوا جس میں ۲۱۲ مجالس کے ۲۵۰۴ خدام نے شرکت کی.یہ اجتماع ذکر الہی اور علمی و دینی مصروفیات کے پاکیزہ ماحول میں جاری رہا.تلقین عمل کے ایمان افروز پروگرام میں (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے ۲۶ اکتوبر کی شب کو ایک پر مغز اور قیمتی مقالہ پڑھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت مصلح موعود کی ان بیش قیمت اور زریں ہدایات پر مشتمل تھا جو دنیا بھر کے احمدی نو جوانوں کے لئے مستقل لائحہ عمل کی حیثیت رکھتی ہے.اپنے مقالہ کے آغاز میں آپ نے خدام کو اس بنیادی نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ وہ کوئی نیا پروگرام بنانے کے مجاز نہیں ان کی راہیں حضرت مصلح موعود خود متعین فرما چکے ہیں.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا:.حضرت (خلیفة امسیح) ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاص اغراض و مقاصد کے لئے جماعت میں مجلس خدام الاحمدیہ کا اجراء فرمایا تھا.اور خود اس مجلس کا لائحہ عمل تجویز فرما کر اس معین اور محدود دائرہ میں خدام کو آزادانہ جدو جہد کرنے کی ہدایت فرمائی تھی.اور خدام کے لئے ان راہوں کی نشاندہی خود کی تھی.جن پر انہیں چلنا تھا اور انہیں تاکید فرمائی تھی کہ کوئی نیا پروگرام بنانا تمہارے لئے جائز نہیں..225 پس آپ کا پروگرام وہی ہے جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ہے اور آپ کا فرض ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات ہر وقت سامنے رکھیں اور ان کی روشنی میں اور ان کے مطابق مقررہ دائرہ کے اندر رہتے ہوئے اپنے پروگرام بنا ئیں.حضور کی علالت کے دنوں میں آپ کی یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے.کیونکہ کوئی وفاشعار خادم کوئی با ادب اور فرمانبردار بچہ عارضی جدائی کے ایام میں جو بوجہ سفر یا بیماری ہو اپنے آقا اور روحانی باپ کے ارشادات کو نظر انداز نہیں کیا کرتا اور آج میں آپ بھائیوں کو جن کا صدر میں ایک لمبا عرصہ تک رہ چکا ہوں.آپ کی اسی بنیادی ذمہ داری کی طرف توجہ دلا نا اپنا اولین فرض سمجھتا ہوں ، تا ایسا نہ ہو کہ دنیا آپ کو اپنے آقا کا بے وفا خادم یا اپنے روحانی باپ کی ناخلف اولا د سمجھے.پس یاد رکھیں کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک فعال جماعت ایک فدائی

Page 196

تاریخ احمدیت.جلد 22 181 سال 1963ء جماعت، ایک ایثار اور قربانی کرنے والی جماعت دیکھنا چاہتے ہیں.جو یہ نہ سمجھتی ہو کہ زبان کے رس میں ہی ساری کامیابی ہے.کیونکہ اصل چیز باتیں کرنا نہیں بلکہ کام کرنا ہے.226 پس اپنے دلوں میں سے ہر قسم کی نمود کا خیال مٹا کر محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے اور فخر و مباہات کے خیالات سے پاک ہو کر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کرو اور دنیا کے لئے ایک نیک مثال قائم کرو اور آپ میں سے ہر ایک یہی خیال کرے کہ میں ہی احمدیت کا ستون ہوں.اگر میں ذرا بھی ہلا اور میرے قدم ڈگمگائے تو جماعتی نظام اور امام ہمام کے ارشادات کی چھت کو نقصان پہنچے گا.اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو کہ ایمان انسان کی جوانی کو بڑھاتا اور حوصلوں کو بلند کرتا ہے.پس مایوسی کے خیالات اپنے دل میں نہ آنے دو اور اپنے حوصلے کو بلند رکھو.اور یہ عزم اور ارادہ لے کر کھڑے ہو کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنا اور اندھیرے میں بھٹکتی ہوئی دنیا کو اس قادر و توانا کی معرفت سے مالا مال کرنا ہے.اسلام کا کامل نمونہ بن کر حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ.پھر تمہیں ذاتی نصرت بھی حاصل ہوگی اور طفیلی بھی.مقالہ کے آخر میں آپ نے نوجوانان احمدیت کو پورے زور کے ساتھ اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:.آپ کو ایک لحظہ کے لئے بھی یہ حقیقت نہیں بھلانی چاہئیے کہ آپ کا قیام اس لئے کیا گیا ہے کہ جماعت کو مضبوطی اور ترقی حاصل ہو.اگر آپ کے کسی کام یا حرکت کی وجہ سے جماعت میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہوتو آپ سے زیادہ کوئی شقی اور بد بخت نہ ہوگا ہمارے پیارے امام بڑے ہی درد کے ساتھ ہمیں نصیحت فرماتے ہیں:.خدام الاحمدیہ کو اور انصار اللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہئیے.اگر کسی حصہ میں شقاق پیدا ہوا تو خدا تعالیٰ کے سامنے تو وہ جوابدہ ہوں گے ہی.میرے سامنے بھی وہ جوابدہ ہوں گے.یا جو بھی امام ہو گا اس کے سامنے انہیں جواب دہ ہونا پڑے گا.کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل کرنے کے لئے مہیا کئے ہیں.اس لئے مہیا نہیں کئے کہ جو طاقت پہلے سے حاصل ہے اس کو بھی ضائع کر دیا جائے.227 66

Page 197

تاریخ احمدیت.جلد 22 نیز فرمایا:.182 سال 1963ء د میں اس بات کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ احمدی پہلے ہیں اور خدام الاحمدیہ بعد میں اور 228 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک احمدی کو جود یکھنا چاہتے ہیں ہمیں وہ احمدی بننا چاہیئے.اگر چہ ذیلی تنظیمیں الگ الگ بنائی گئی ہیں لیکن ان سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ وہ غلبہ اسلام کے لئے اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کریں اور ان سب کی مجموعی کاوش سے مردان حق مستقر کا یہ قافلہ جادہ سٹیم پر رواں دواں رہے اور کامیابیوں سے ہمکنار ہوتار ہے.سید نا حضرت مصلح موعود نے ۲۰ جولائی ۱۹۴۵ء کو خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا تھا:.خدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے اور انصار اللہ نمائندے ہیں تجربہ اور حکمت کے.اور جوش اور امنگ اور تجربہ اور حکمت کے بغیر کوئی قوم 229 کامیاب نہیں ہوسکتی.یہ ایک نہایت قیمتی اور پر معارف ہدایات اور ارشادات پر مبنی مقالہ تھا جس نے فرزندانِ احمدیت کو ان کی ذمہ داریوں اور دائرہ کار سے متعلق نہایت احسن انداز میں بہرہ ور کیا.حضرت مصلح موعود کا انصار اللہ مرکزیہ کے اجتماع پر بصیرت افروز پیغام اس سال انصار اللہ مرکزیہ کا نواں سالانہ اجتماع ۱ ۲ ۳ نومبر ۱۹۶۳ء کو نہایت کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا.اس منفرد اور مثالی اور روحانیت سے لبریز اجتماع میں ۲۲۸ مجالس کے ۱۱۹۴؎ ارکان، ۵۵۵ نمائندگان اور ۱۹۵۲ زائرین نے شرکت کی.پورا اجتماع اثر و جذب کے ڈوبے ہوئے ماحول میں ہوا.اس اجتماع میں پہلی بار مشرقی پاکستان کے نمائندگان بھی شامل ہوئے.اس اجتماع کو یہ خصوصی اعزاز حاصل ہوا کہ حضرت مصلح موعود نے علالت طبع کے باوجود اسے اپنے روح پرور اور بصیرت افروز پیغام سے نوازا جو حضور کی زیر ہدایت (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے پڑھ کر سنایا.پیغام کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے: برادران جماعت احمدیہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ لوگ جو اپنے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.میں آپ سب کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کے

Page 198

تاریخ احمدیت.جلد 22 183 سال 1963ء ایمان اور اخلاص میں برکت دے اور آپ کو اور آپ کی آئندہ نسلوں کو بھی خدمت دین کی ہمیشہ زیادہ سے زیادہ تو فیق عطا فرماتا رہے.انصار اللہ کی تنظیم در حقیقت اسی غرض کے لئے کی گئی ہے کہ آپ لوگ خدمت دین کا پاک اور بے لوث جذ بہ اپنے اندر زندہ رکھیں اور وہ امانت جسے آپ نے اپنے بچپن اور جوانی میں سنبھالا اور اُسے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھا.اس کی اب پہلے سے بھی زیادہ نگہداشت کریں اور اپنے بچوں اور نو جوانوں کو بھی اپنے قدم بقدم چلانے کی کوشش کریں.بے شک ان کی تنظیمیں الگ الگ ہیں لیکن اطفال الاحمدیہ آخر آپ کے ہی بچے ہیں اور خدام بھی کوئی علیحدہ وجود نہیں بلکہ آپ لوگوں کے ہی بیٹے اور بھائی ہیں.پس جس طرح ہر باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کرے.اسی طرح انصار اللہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی جماعت کے بچوں اور نو جوانوں کے حالات اور ان کے اخلاق کا جائزہ لیتے رہیں اور اگر خدانخواستہ ان میں کوئی کمزوری دیکھیں تو نرمی اور محبت کے ساتھ اس کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اپنی ظاہری جدو جہد کے ساتھ ساتھ دعاؤں سے بھی اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کو جذب کریں اور سب سے بڑھ کر اپنا نیک نمونہ ان کے سامنے پیش کریں تا کہ ان کی فطرت کا مخفی نور چمک اٹھے اور دین کے لئے قربانی اور فدائیت کا جذبہ ان میں ترقی کرے.اگر جماعت کے یہ تینوں طبقات اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھنے لگ جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری قومی زندگی ہمیشہ قائم رہ سکتی ہے.افراد بے شک زندہ نہیں رہ سکتے لیکن قوم اگر اپنے آپ کو روحانی موت سے محفوظ رکھنا چاہے تو وہ محفوظ رکھ سکتی ہے.پس کوشش کرو کہ خدا تمہیں دائمی روحانی حیات بخشے.کوشش کرو کہ تم اپنے پیچھے نیک اور پاک نسلیں چھوڑ کر جاؤ تا کہ جب تمہاری موت کا وقت آئے تو تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور تمہاری زبان اللہ تعالیٰ کی حمد کر رہی ہو.تمہیں یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ ہر زمانہ میں حالات کے بدلنے کے ساتھ خدمت دین کے تقاضے بھی بدل جایا کرتے ہیں.اس زمانہ میں عیسائیت کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ ہے جس کے استیصال کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 199

تاریخ احمدیت.جلد 22 184 سال 1963ء کو بھیجا اور کسر صلیب کا کام آپ کے سپر دفرمایا.پس اس زمانہ میں سب سے بڑی نیکی خدائے واحد کے نام کی بلندی اور کفر و شرک کی بیخ کنی کرنا ہے.جس کے لئے جماعت کو مالی اور جانی ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینے کی ضرورت ہے.میں نے اس امر کو دیکھتے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے دوستوں سے کہا تھا کہ پاکستان میں عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر شخص کو سال بھر میں کم از کم ایک ہفتہ وقف کرنا چاہیے.مجھے معلوم نہیں کہ جماعت نے عملی رنگ میں اس کا کیا جواب دیا اور صدر انجمن احمدیہ نے اس کی نگرانی کے لئے کیا کوشش کی لیکن اگر ابھی تک ہماری جماعت نے اس کی طرف پوری توجہ نہ کی ہو تو میں ایک دفعہ پھر آپ لوگوں کو اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.عیسائیت کا فتنہ کوئی معمولی فتنہ نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدم سے لے کر اب تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے اپنی امت کو دجال کے فتنہ سے نہ ڈرایا ہو.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اتنے بڑے فتنہ کے ہوتے ہوئے ہماری جماعت کس طرح آرام کی نیند سو سکتی ہے اور کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں میں وہ اپنے قیمتی وقت کو ضائع کر سکتی ہے.جب کسی کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے تو لوگ بیٹھ کر کہیں ہانکنے نہیں لگ جاتے بلکہ پاگلا نہ طور پر ادھر ادھر دوڑنے اور آگ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں.اگر یہی احساس ہماری جماعت کے اندر بھی موجود ہو تو کفر و شرک کی آگ جو اس وقت دنیا کو جلا کر خاکستر کر رہی ہے.اُس کو بجھانے کے لئے آپ لوگوں کے اندر کیوں بے تابی پیدا نہ ہو.پس میں آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ وقت کی نزاکت کو سمجھو اور اس جہاد کی طرف آؤ جس سے بڑا جہاد اس زمانہ میں اور کوئی نہیں آج ایک بہت بڑی روحانی جنگ دُنیا میں لڑی جا رہی ہے اور اسلام کے مقابلہ میں ایک بڑا بھاری فتنہ سر اٹھائے ہوئے ہے.ہماری تو راتوں کی نیند بھی اس فکر میں اڑ جانی چاہئیے اور ہمیں اپنے تمام پروگرام اس نقطہ کے اردگر دمرکوز کرنے چاہئیں.بے شک تزکیۂ نفس بھی ایک بڑی ضروری چیز ہے اور دعاؤں اور ذکر الہی سے کام لینا بھی ہر مومن کا فرض ہے مگر تبلیغ اسلام ایک نہایت وسیع اور عالمگیر نیکی ہے.جس میں حصہ لینے والا تزکیہ نفس اور دعاؤں اور ذکر الہی کی دولت سے بھی

Page 200

تاریخ احمدیت.جلد 22 185 سال 1963ء محروم نہیں رہے گا پس دجالی فتنہ کے مقابلہ کے لئے اجتماعی کوشش کرو.اپنے اموال کی ہمیشہ قربانی کرتے رہو اور اپنے اوقات کو اس غرض کے لئے وقف کرو تا کہ اسلام دُنیا میں غالب آئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا کے کونہ کونہ میں قائم ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے اور آپ کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور وقت کے تقاضوں کو صحیح رنگ میں شناخت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ لوگوں میں ایسا جذب روحانی اور اخلاص پیدا کرے کہ آپ لاکھوں لاکھ لوگوں کو احمدیت میں داخل کرانے کا موجب بن جائیں تا کہ قیامت کے دن ہم شرمندہ نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں اور خطاؤں کو معاف فرماتے ہوئے اپنی رحمت کی چادر میں ہمیں چھپالے اور اپنے دین کے نیچے اور جاں نثار خادموں میں شامل کرے.اے خدا تو ایسا ہی کر.والسلام مرز امحمود احمد 0 تحریک جدید کی عظیم الشان عالمی خدمات پر ایک ٹھوس اور موثر تقریر اس اجتماع انصار اللہ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے تحریک جدید کے کام کی وسعت پر ایک نہایت بصیرت افروز تقریر فرمائی.ذیل میں اس اہم تقریر کا ضروری حصہ سپر د قر طاس کیا جاتا ہے.نقشہ عالم پر اُن دنوں مجاہدین احمدیت کس وارفتگی اور جانفروشی کے ساتھ اسلام کو پھیلانے میں مصروف عالم تھے؟ اس کا اندازہ صاحبزادہ صاحب کے پیش کردہ اعداد و شمار اور حقائق سے بخوبی لگ سکتا ہے.آپ نے فرمایا:.تحریک جدید کے قیام پر انتیس سال کا عرصہ گذر چکا ہے اس عرصہ میں اسلام کی تبلیغ واشاعت اور استحکام سلسلہ کا جو کام اس تحریک کے ذریعہ ہوا اور جو وسعت اور برکت تحریک جدید کو حاصل ہوئی وہ میں اعداد و شمار کے ساتھ پیش کرتا ہوں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک یقینا ایک الہی تحریک ہے اور خدا تعالیٰ کے خاص منشاء سے جاری کی گئی ہے.

Page 201

تاریخ احمدیت.جلد 22 186 سال 1963ء تبلیغی مشن: اس وقت مندرجہ ذیل ممالک میں ہمارے مشن قائم ہیں انگلستان، سپین، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، جرمنی ، سکنڈے نیویا کے ممالک بھی سویڈن، ڈنمارک اور ناروے، شمالی امریکہ، برٹش گی آنا، نائیجیریا، غانا، سیرالیون، لائبیریا، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، ٹوگولینڈ، کینیا، یوگنڈا، ٹانگانیکا، ماریشس، جنوبی افریقہ، اسرائیل، لبنان، شام، عدن، سنگاپور، کوالا لمپور، بر ما سیلون، انڈونیشیا، بور نیو ، نجی.دنیا کی کل آبادی دوارب باسٹھ کروڑ ہے.اس وقت تک جن ممالک میں مشن کھولے جا سکے ہیں اُن کی آبادی باون کروڑ ہے گویا دنیا کی آبادی کے ۱/۵ حصہ میں اس وقت تک کام شروع ہو چکا ہے.ان ممالک میں مشنوں کی کل تعداد ۶۶ ہے.جن میں اِس وقت ۶۹ مرکزی مبلغ کام کر رہے ہیں اور ۸۳ لوکل مبلغ ہیں.کل مبلغین جو اس وقت میدانِ عمل میں ہیں ان کی تعداد ۱۵۲ ہے.بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں اس وقت کوئی مبلغ تو نہیں لیکن وہاں جماعتیں قائم ہیں اور مرکز کی براہ راست نگرانی اور ہدایات کے ماتحت تبلیغ و اشاعت اسلام کا کام کر رہی ہیں.ان میں فلپائن ، جاپان، ڈچ گی آنا اور مصر اور سائپرس شامل ہیں.میڈیکل مشنریز: گزشتہ دو تین سال میں میڈیکل مشنریز کی تحریک بھی جاری کی گئی ہے جو ابھی ابتدائی حالت میں ہے.اس وقت نائیجیریا اور سیرالیون میں تین میڈیکل مشنری کام کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کا بڑا نیک اثر پیدا ہو رہا ہے.افریقہ کے بعض اور ممالک میں بھی اس کو جاری کرنے کا ارادہ ہے.تعلیمی خدمات : روحانی اور جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ افریقہ کی پسماندہ اقوام میں تعلیمی خدمات کے لحاظ سے بھی تحریک جدید کے ذریعہ نمایاں اور قابلِ قدر کام کیا گیا ہے جس کا اعتراف وہاں کے ملکی راہنما اور سیاستدان متعدد مرتبہ کر چکے ہیں.اس ضمن میں بیسیوں ایسی تحریرات موجود ہیں جن میں غیر از جماعت مسلمان را ہنماؤں نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی تعلیمی خدمات قابل قدر اور شکریہ کی مستحق ہیں.اس ذریعہ سے بھی ہم نے ہزاروں مسلمان نو جوانوں کو عیسائیت کے دجل کا شکار ہونے سے بچایا ہے کیونکہ اس ذریعہ سے بھی عیسائیت افریقہ میں نفوذ حاصل کر رہی تھی.افریقہ میں اس وقت ۴۵ سکول جماعت کے زیرانتظام چلائے جارہے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں مزید سکول جاری کر دیئے جائیں گے.

Page 202

تاریخ احمدیت.جلد 22 187 سال 1963ء مساجد کی تعمیر : تبلیغ و تربیت کا ایک اور مؤثر ذریعہ مسجد کا قیام ہے.اس وقت تک غیر ممالک میں جماعت ہائے احمدیہ نے ۲۹۱ مساجد تعمیر کی ہیں جن میں سے بعض ہزاروں پونڈ کے خرچ سے بنائی گئی ہیں.انگلستان اور یورپ میں اس وقت چار مساجد تعمیر ہو چکی ہیں.ڈنمارک کے دار الحکومت کوپن ہیگن میں مسجد کے لئے زمین خریدی جا چکی ہے لیکن مسجد کی تعمیر اُس وقت تک ملتوی رکھنا ہوگی جب تک کہ مسجد زیورک کے اخراجات پورے نہیں ہو جاتے.ضمناً میں احباب کی خدمت میں یہ امر بھی عرض کر دیتا ہوں کہ زیورک کی مسجد پر چار لاکھ سے زائد روپیہ خرچ ہوا ہے پاکستانی جماعتوں کے ذمہ دولاکھ اسی ہزار رو پیدلگایا گیا تھا لیکن ابھی تک صرف ایک لاکھ روپے کی وصولی ہوئی ہے.اب جب تک یہ پہلا قرضہ بیاق نہیں ہو جا تا کسی اور مسجد کا بنانا مشکل ہوگا.قرآن مجید کے تراجم : لٹریچر کی اشاعت کے ضمن میں سب سے اول اور مقدم قرآن شریف کے مختلف زبانوں میں تراجم کا کام ہے.اس وقت تک انگریزی ، ڈچ، جرمنی اور سواحیلی میں قرآن شریف کے تراجم شائع ہو چکے ہیں.قرآن شریف انگریزی کی تفسیر مکمل ہو کر شائع ہو چکی ہے.فرانسیسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اس وقت پریس میں ہے روسی ، اٹیلین ،سپنیش اور ڈینش زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں.لیکن ابھی تک طبع نہیں کروائے جاسکے.ان زبانوں کے علاوہ افریقہ کی بعض لوکل زبانوں میں بھی قرآن مجید کے تراجم کروائے جارہے ہیں.قرآن کریم کے تراجم کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے دو انتخاب اس وقت تک شائع کروائے گئے ہیں.ایک تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا انتخاب کردہ مجموعہ احادیث ” چالیس جواہر پارے اور دوسرے ریاض احادیث النبی “.غیر ملکی زبانوں میں کتب سلسلہ کی اشاعت: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، خلفائے سلسلہ اور سلسلہ کے دیگر بزرگوں اور خادموں کی جو کتب مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر طبع ہو چکی ہیں ان کے نام یہ ہیں.(۱) اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی، عربی ، فرانسیسی ، چینی زبانوں میں)، (۲) الوصیت (انگریزی) ، (۳) ہماری تعلیم ،(انگریزی)، (۴) چشمه مسیحی (انگریزی)، (۵) مواہب الرحمن، (۲) مکتوب احمد (عربی) ، (۷) تحفہ بغداد (عربی)، (۸) التبلیغ (عربی)، (۹) مسیح ہندوستان میں (انگریزی)، (۱۰) احمدیت یعنی حقیقی اسلام (انگریزی)، (۱۱) دعوت الامیر

Page 203

تاریخ احمدیت.جلد 22 188 سال 1963ء (انگریزی)، (۱۲) حیات طیبہ (انگریزی) ، (۱۳) نظام نو (انگریزی وتر کی ) ، (۱۴) میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں (انگریزی اور فرانسیسی) ، (۱۵) محمد صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے نجات دہندہ (انگریزی) ، (۱۶) دنیا کا حسن (۱۷) احمدیت کیا ہے.(انگریزی)، (۱۸) اسلام کا اقتصادی نظام (انگریزی) (۱۹) اسلام اور دیگر مذاہب (عربی)، (۲۰) دیباچہ تفسیر القرآن (انگریزی، ترکی ) ، (۲۱) اشتراکیت اور جمہوریت (انگریزی)، (۲۲) سلسلہ احمدیہ (انگریزی) ، (۲۳) پیام احمدیت (فارسی ) ، (۲۴) سیرۃ طیبہ (انگریزی) ، (۲۵) احمدیت کا مستقبل (انگریزی)، (۲۶) روحانیت کے دوستون (انگریزی)، (۲۷) در منثور (انگریزی)، (۲۸) در مکنون (انگریزی)، (۲۹) اسلام اور کمیونزم (انگریزی)، (۳۰) خاتم النبین" کے معنی (انگریزی)، (۳۱) مسیح کشمیر میں (انگریزی، فرانسیسی)، (۳۲) بابی اور بہائی مذہب (انگریزی)، (۳۳) وجود باری تعالی (انگریزی) ، (۳۴) جماعت احمدیہ اور انگریز (عربی)، (۳۵) اسلام ترقی کی شاہراہ پر (انگریزی، فرانسیسی)، (۳۶) ہمارے بیرونی مشن (انگریزی)، (۳۷) اسلام اور غلامی (انگریزی)، (۳۸) اسلام افریقہ میں (انگریزی)، (۳۹) اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں (انگریزی)، (۴۰) نماز (فرانسیسی)، (۴۱) مقامات النساء (انگریزی)، (۴۲) حیات احمد (عربی)، (۴۳) تعبیر اسلام (انگریزی) -An Interpretation of Islam ان کتب کے علاوہ بعض دیگر کتب کے تراجم کروائے جاچکے ہیں جوذ رائع میسر آنے پر انشاء اللہ تعالی طبع کروا دئیے جائیں گے.ان میں چشمہ معرفت، آئینہ کمالات اسلام، کشتی نوح (فرانسیسی)، حقیقۃ الوحی ، نورالحق ، تقدیر الہی، سیر روحانی تفسیر سورۂ مریم تفسیر سورۂ کہف ، آئینہ جمال تبلیغ ہدایت، ختم نبوت کی حقیقت وغیرہ کتب شامل ہیں.کتب سلسلہ کے علاوہ مشنوں کی طرف سے جو جرائد اور اخبارات دنیا کی مختلف زبانوں میں نکالے جارہے ہیں اُن کی تعداد اس وقت ۲۲ ہے.نئے مشعوں کا قیام: چند سال ہوئے حضرت مصلح موعود نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ ہر سال ایک مشن ضرور کھولنا چاہئیے.حضور کی اس خواہش کے احترام میں گزشتہ دس سال کے عرصہ میں ہم نے کم و بیش پندرہ نئے مشن کھولے ہیں.گو ہمارے مالی وسائل اس کے متحمل نہ تھے لیکن خدا تعالیٰ پر تو کل کرتے ہوئے ہر سال ہم نے اپنا قدم آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے.

Page 204

تاریخ احمدیت.جلد 22 189 سال 1963ء مکرم عثمان غنی صاحب اور مکرم عبد الرحیم صاحب ( مشرقی پاکستان ) کی شہادت نومبر ۱۹۶۳ء میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شہر برہمن بڑیہ کے سالانہ جلسہ پر غیراحمد یوں نے حملہ کر دیا اور شدید پتھراؤ کیا جس کے نتیجہ میں بہت سے احمدی شدید زخمی ہو گئے.ان میں دو دوست مکرم عثمان غنی صاحب اور مکرم عبد الرحیم صاحب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راہ مولیٰ میں قربان ہو گئے.ان شہداء کے حالات بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ اسیح الرابع نے فرمایا :.۳ نومبر ۱۹۶۳ء کو احمدیہ جماعت برہمن بڑیہ کا سالانہ جلسہ بعد نماز مغرب لوک ناتھ ٹینک کے میدان میں مکرم سید سہیل صاحب سی ایس پی کی زیر صدارت شروع ہوا.سید سہیل احمد صاحب سی ایس پی آج کل اسلام آباد میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ اور ان کا سارا خاندان بہت مخلص ہے.وہ اس وقت ڈھا کہ میں حکومت کے ڈپٹی سیکرٹری بھی تھے اور خدام الاحمدیہ میں اسٹنٹ ریجنل قائد کے عہدہ پر فائز تھے.یعنی بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود بھی انہوں نے خدمات دینیہ سے سرمو انحراف نہیں کیا.بڑی جرات سے عہدے لیا کرتے تھے اور بڑی جرات سے اور عمدگی سے ان کو نبھاتے تھے.جلسہ شروع ہوئے دس پندرہ منٹ گزرے تھے کہ ملاؤں نے ہلہ بول دیا اور جلسہ گاہ پر شدید پتھراؤ کیا.مخالفین نے جلسہ گاہ کی تاریں کاٹ دیں جس سے سارے علاقے میں اندھیرا چھا گیا.لوگ ادھر ادھر بکھر گئے.محترم سید سہیل احمد صاحب اور بعض دوسرے احمدیوں نے کرسیاں سر پر رکھ کر اپنی حفاظت کی.مخالفین کے ہلہ بولنے کے بہت دیر بعد پولیس جب وقوعہ پر پہنچی تو وہ اس طوفانی بارش کے بعد نظر آئی جو خدا تعالیٰ نے اس موقع پر معجزانہ طور پر نازل فرمائی تھی اور جس سے خود دشمن ہی تتر بتر ہو چکا تھا.دشمن کے اس حملہ کے نتیجے میں بہت سے احمدی احباب زخمی ہوئے جنہیں رات کے وقت برہمن بڑا یہ ہسپتال میں داخل کروایا گیا.ان میں سے دو دوست مکرم عثمان غنی صاحب اور مکرم عبد الرحیم صاحب کی حالت بہت نازک تھی اور وہ شدید زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور اگلے روز ۴ نومبر ۱۹۶۳ کی صبح کو دونوں اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے اور شہادت کا رتبہ پایا.انا لله و انا اليه راجعون شهید عثمان غنی صاحب شاہ طور یہ ضلع مانک گنج کے رہنے والے تھے اور اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے.نہایت مخلص، خاموش طبع ، خدمت گزار اور نرم خوشخصیت کے حامل تھے احمدی ہونے کے

Page 205

تاریخ احمدیت.جلد 22 190 سال 1963ء بعد فوج میں بھرتی ہو کر کراچی چلے گئے تھے.ریٹائرمنٹ کے بعد موصوف سلسلہ کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے.شہادت کے وقت آپ کی عمر ۳۵ برس تھی اور آپ غیر شادی شدہ تھے.آپ کی تبلیغ سے آپ کے چھوٹے بھائی جناب ڈاکٹر اولا د حسین صاحب اور آپ کی ہمشیرہ احمدی ہوئیں.شہید عبدالرحیم صاحب برہمن بڑیہ ضلع تارواں گاؤں کے رہنے والے تھے.شہادت کے وقت 232 66 ان کے دو بچے اور تین بچیاں تھیں جو سب سلسلہ سے اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں.بڑے بیٹے مکرم مسلم صاحب سرکاری ملازم ہیں اور چھوٹے بیٹے مکرم رستم صاحب آج کل تحکیم میں مقیم ہیں.بھارت میں چار معرکۃ الآراء مناظرے اس سال کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں بھارت کے طول و عرض میں نہ صرف احمدیت کی تبلیغ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ( ناظر دعوت و تبلیغ) کی زیر نگرانی پورے جوش و خروش سے جاری رہی بلکہ چار معرکۃ الآراء مناظرے بھی ہوئے جن سے احمدیت کی دھاک بیٹھ گئی اور بھارتی احمد یوں کے حو صلے غیر معمولی طور پر بڑھ گئے.(۱) مناظره از وضلع رانچی (منعقده ۵ امئی ۱۹۶۳ء) موضوع وفات مسیح، احمدی مناظر جناب سید فضل عمر صاحب کنگی ، غیر احمدی مناظر جناب مولوی عبدالغفار صاحب مظفر نگری.(۲) مناظرہ کلکتہ ( منعقدہ ۷ جولائی ۱۹۶۳ء) موضوع ختم نبوت، احمدی مناظر مولا نا محمد سلیم صاحب مجاہد بلاد عربی، غیر احمدی مناظر مولوی محمد اسمعیل صاحب سونگھڑ وی دیو بندی.234 (۳) مناظرہ پونچھ ( منعقده ۲۹ ۳۰۰ ستمبر ۱۹۶۳ء) موضوع : نبوت و صداقت حضرت مسیح موعود، احمدی مناظر جناب مولا نا محمد سلیم صاحب،شیعہ مناظر سید احمد رضوی صاحب.(۴) مناظرہ یاد گیر علاقہ میسور ( تحریری) منعقده ۲۵،۲۴٬۲۳ نومبر ۱۹۶۳ء موضوع : وفات مسیح و ختم نبوت و صداقت حضرت مسیح موعود ، احمدی مناظر مولانا محمد سلیم صاحب، غیر احمدی مناظر مولوی عبدالواحد صاحب رحمانی.

Page 206

تاریخ احمدیت.جلد 22 191 سال 1963ء اس مناظرہ کے انتظام و انصرام و جملہ اخراجات یاد گیر کے مخلص بزرگ حضرت سیٹھ شیخ حسن کے خاندان نے برداشت کئے.ان دنوں سیٹھ عبدالحی صاحب جماعت یاد گیر کے امیر تھے.یہ تحریری مناظرہ ، مناظرہ یاد گیر کے نام سے چھپ چکا ہے.اس مناظرہ میں مولا نا محمد سلیم صاحب کے مندرجہ ذیل معاونین تھے.مولانا بی عبدالله فاضل مالا باری ، مولانا شریف احمد صاحب امینی ، مولانا بشیر احمد صاحب ، مولوی سمیع اللہ صاحب، مولوی حکیم محمد دین ،صاحب، مولوی محمد عمر صاحب، مولوی عبداللطیف صاحب ملکانه ، مولوی فیض احمد صاحب ( مقامی مبلغ)، چوہدری فیض احمد صاحب سیکرٹری بہشتی مقبره قادیان - 236- سید نا حضرت مصلح موعود کا تاریخ احمدیت سے متعلق اہم پیغام ۴ دسمبر ۱۹۶۳ء کوسیدنا حضرت مصلح موعود خلیفہ لمسیح الثانی نے برادران جماعت کے نام تاریخ احمدیت کے سلسلہ میں ایک نہایت اہم پیغام دیا جس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.یہ پیغام الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۶۳ء کے صفحہ اول پر جلی قلم سے سپر دا شاعت کیا گیا." بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم برادران! وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جیسا کہ احباب کو علم ہے مولوی دوست محمد صاحب شاہد میری ہدایت کے ماتحت تاریخ احمدیت لکھ رہے ہیں.الحمد للہ کہ خدا کے فضل سے انہوں نے اس کا چوتھا حصہ بھی مکمل کر لیا ہے.استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ امسیح الاوّل کے بلند مقام اور آپ کے عظیم الشان احسانات کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد آپ کے زمانہ کی تاریخ کی اشاعت میں پورے جوش و خروش سے حصہ لے اسے خود بھی پڑھے اور دوسروں کو بھی پڑھائے بلکہ میں تو یہ بھی تحریک کروں گا کہ جماعت کے وہ مخیر اور مخلص دوست جو سلسلہ کے کاموں میں

Page 207

تاریخ احمدیت.جلد 22 192 سال 1963ء ہمیشہ نمایاں حصہ لیتے رہے ہیں تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ اپنی طرف سے پاکستان اور ہندوستان کی تمام مشہور لائبریریوں میں رکھوا دیں تا اس صدقہ جاریہ کا ثواب انہیں قیامت تک ملتا رہے.اور وہ اور ان کی نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہوتی رہیں.آمین والسلام خاکسار مرزا محموداحمد (خلیفہ اسیح الثانی ) ۴/۱۲/۶۳ جماعت احمدیہ کراچی کا پہلا سالانہ تربیتی اجتماع قبل ازیں جماعت احمدیہ کراچی کے خدام، انصار اور لجنہ اماء اللہ کے الگ الگ اجتماعات ہوتے تھے.اس سال جماعت احمدیہ کراچی کا مشترکہ سالانہ اجتماع پہلی بار۲۴،۲۳ نومبر ۱۹۶۳ء کو احمدیہ ہال میں منعقد ہوا جس میں مولانا جلال الدین صاحب تمس ناظر اصلاح و ارشاد، مولانا ابوالعطاء صاحب، مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری اور (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید نے اہم دینی مسائل پر عالمانہ اور پُر مغز تقاریر فرما ئیں.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے پہلے روز اسلام اور موجودہ زمانے کے تقاضے“ کے موضوع پر دوسرے روز آخر میں ” جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں“ کے عنوان پر پر اثر خطاب فرمایا.موجودہ زمانے کے تقاضوں کے تعلق میں آپ نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے اقتصادی نظام اور بے پردگی کے رجحانات، اخلاق اور قومیت کا خصوصی ذکر کیا ، قرآن کریم اور اسلامی تعلیم کی روشنی میں موجودہ زمانے کے تقاضوں کے بارہ میں اظہار خیال فرمایا.آپ نے فرمایا کہ موجودہ زمانے کے سائنسی تقاضوں کو صرف اسلام ہی پورا کر سکتا ہے کیونکہ سائنسی تحقیقات عیسائیت کی تعلیم کے برعکس قرآنی تعلیم کی تائید کرتی ہے.( حضرت ) صاحبزادہ صاحب نے جماعتی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اسلام کی حالت آج وہی ہے جو ابتدائے اسلام میں جنگ حنین کے وقت تھی جبکہ خدا کا رسول اکیلا رہ گیا تھا اور صحابہ کو اپنی طرف بلا رہا تھا.خدا کا موعود خلیفہ آج ہمیں آواز دے رہا ہے کہ آؤ اور میرے ساتھ مل کر

Page 208

تاریخ احمدیت.جلد 22 193 سال 1963ء طاقت ور حملہ آوروں کو پسپا کرو.شرک جن مختلف رنگوں میں مسلمانوں میں جڑ پکڑ رہا ہے.آپ نے اُن کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کا خاص طور پر فرض ہے کہ ان رسومات کی اصلاح کرے اور تو حید کو اس کی اصلی شکل میں پیش کرے.آپ نے فرمایا ممبران جماعت کو عہد یداروں کے انتخاب میں تقویٰ، پر ہیز گاری اور دیانت داری کو مقدم رکھنا چاہئیے.خلافت سے وابستگی اور اس کے استحکام کے لئے پُر زور کوشش کریں ، صداقت مسیح موعود کو عملی نمونہ سے قائم کریں اور اپنی اولادوں کی بھی فکر کریں.بعد ازاں صدر جلسہ شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے مقررین اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مصلح موعود کی صحت کاملہ عاجلہ کے لئے دعا اور صدقہ کی تحریک کی.اجتماعی دعا پر جلسہ کامیابی سے اختتام پذیر ہوا.مسلسل بارش کے باوجود اجتماع میں بشمول مستورات قریباً تین ہزار حاضری تھی.متعدد غیر از جماعت دوستوں نے بھی شرکت فرمائی.جماعت کراچی کی طرف سے سب احباب کے دو پہر کے کھانے کا تسلی بخش انتظام تھا.237 حضرت سیدہ ام وسیم صاحبہ کا انتقال پر ملال قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے انتقال کے تین ماہ بعد ام وسیم حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ حرم حضرت مصلح موعود بھی ۵ دسمبر ۱۹۶۳ء کی رات اپنے خالق حقیقی سے جاملیں.اس طرح جماعت کو ایک اور قومی صدمہ اور ملی نقصان سے دو چار ہونا پڑا.آپ کی نماز جنازہ اگلے روز (حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں پڑھائی جس میں ربوہ اور پاکستان کے طول و عرض سے آنے والے قریباً چھ ہزار خلصین شریک ہوئے.آپ کا جسد خا کی حضرت اماں جان کے مزار مقدس کی چار دیواری میں سپرد خاک کیا گیا.حضرت سیدہ ام وسیم حضرت مسیح موعود کے صحابی حضرت سیٹھ ابو بکر یوسف صاحب آف جدہ کی بڑی صاحبزادی تھیں جو یکم فروری ۱۹۲۶ء کو حضرت مصلح موعود کے عقد میں آئیں.آپ کا 239 238 240 وجود ایک خدائی نشان کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ آپ اُن خوش نصیب خواتین مبارکہ میں سے تھیں جو اللہ تعالیٰ کے پاک وعدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک خاندان میں داخل

Page 209

تاریخ احمدیت.جلد 22 194 سال 1963ء ہوئیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا تھا:.تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.آپ نے عرب کے ایک متمول گھرانے میں پرورش پانے کے باوجود بہت سادہ طبیعت پائی تھی.آپ بہت تقوی شعار، مخلص اور منکسر المزاج خاتون تھیں بالخصوص غرباء کے ساتھ بہت محبت و شفقت کا سلوک روا رکھتی تھیں اور علالت طبع کے باوجود اکثر اوقات اُن کے گھروں میں خود تشریف لے جاتیں اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتی تھیں.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ تحریر فرماتی ہیں:.244.آپ بہت باقاعدگی سے لجنہ اماء اللہ کے اجلاسوں میں شرکت کرتیں.ماہانہ جلسوں اور درس کا انتظام ایک لمبے عرصہ تک آپ کے ذمہ رہا جسے آپ خوش اسلوبی سے ادا کرتی رہیں.جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی ہر سال مفوضہ خدمت بجالا تیں اور جو بھی کام سپر د کیا جا تا بشاشت قلب سے بجالا تیں.آپ کو تحریک جدید کی اولین مجاہدات میں شمولیت کی سعادت بھی حاصل تھی.آپ کے بطن سے دو فرزند پیدا ہوئے.(۱) محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ( ناظر دعوت و تبلیغ قادیان بعد ازاں ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان)، (۲) صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب واقف زندگی افسرامانت تحریک جدید) صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب کو کئی سال تک خصوصاً بیماری کے آخری ایام میں اپنی والدہ ماجدہ کی شب روز خدمت کی سعادت نصیب ہوئی مگر صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب جو ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء سے قادیان میں درویشانہ زندگی گزار رہے تھے اور اگر چہ اس عرصہ میں کئی بار پاکستان تشریف لائے.مگر حضرت سیدہ کی وفات کے وقت آپ قادیان میں تھے کہ سوا نو بجے شب آپ کو یہ اندوہناک اطلاع ملی اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا فوری انتظام ہوا کہ آپ اگلے دن ساڑھے بارہ بجے کے قریب ربوہ پہنچ گئے.اور نماز جنازہ اور تدفین کے انتظام میں شامل ہوئے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ میرے پاس پاسپورٹ بھی تھا اور ویزا بھی چنانچہ خاکسار

Page 210

تاریخ احمدیت.جلد 22 195 سال 1963ء ۲ دسمبر بروز جمعہ صبح پانچ بجے قادیان سے روانہ ہو کر قریباً ساڑھے بارہ بجے جمعہ سے تھوڑی دیر قبل ربوہ پہنچ گیا اور مجھے اپنی والدہ مرحومہ کی آخری زیارت اور ان کے جنازہ اور تدفین میں شمولیت کی توفیق مل گئی اور یہ سب عین میری والدہ مرحومہ کے بتلائے ہوئے کے مطابق ہوا.تفصیل اس کی یہ ہے کہ خاکسار جب ۱۷نومبر کو ان سے آخری بار ( جو زندگی میں بھی آخری بار کی ملاقات تھی ) مل کر قادیان واپس جانے لگا تو گلے لگا کر فرمانے لگیں کہ بیٹا ایسا معلوم ہوتا ہے زندگی میں پھر تمہیں نہ دیکھ سکوں گی.اسی طرح بعض ملنے والی مستورات سے بھی یہ فرمایا کہ وسیم تو مجھے آ کے دیکھ لے گا لیکن میں اسے نہ دیکھ سکوں گی.اس سانحہ کا ایک درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ میری بیوی اور میری تینوں بچیاں بوجہ پاسپورٹ و ویزا کے ختم ہو جانے میرے ساتھ ربوہ نہ آ سکیں اس سے قبل ہمارے عمو صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات پر وہ ربوہ پہنچ گئی تھیں اور خاکسار اپنے بہت ہی پیارے عمو صاحب کی آخری زیارت سے محروم رہا تھا.شیخ الا زھر السید محمود شلتوت کی وفات 245 166 اس سال جامعۃ الازھر (مصر کی قدیم اسلامی یونیورسٹی ) کے ریکٹر الاستاذ الاکبر السید محمود شلتوت ۱۳/۱۲ دسمبر ۱۹۶۳ ء کی درمیانی شب انتقال کر گئے.آپ ۱۸۹۳ء/ ۱۳۱۰ھ میں پیدا ہوئے تھے.آپ کا شمار عہد حاضر کے ممتاز اور عظیم علماء میں سے ہوتا تھا.اسلامی فقہ اور اسلامی قانون پر آپ کو بہت عبور حاصل تھا آپ نے چھبیس کتا بیں اپنی یادگار چھوڑیں جن میں سے مشہور یہ ہیں.التفسير.حكم الشريعة في استبدال النقد بالهدى القرآن والمرءة.القرآن و القتال، هذا هو الاسلام، عنصر الخلود في الاسلام الاسلام و التكافل الاجتماعي.فقه السنه.احاديث الصباح في المذياع فصول شرعية اجتماعية حكم الشريعة الاسلامية في تنظيم النسل.الدعوة الـمـحـمـديـه.فقه القرآن والسنّه.توجيهات الاسلام.الاسلام عقيدةً و شريعة.الاسلام و الوجود و الدولي.الفتاوى 26 استاذ محمود شلتوت اجتہاد کے دروازے کو بند نہیں سمجھتے تھے.انہوں نے دار التــقــريــب بيـن المذاهب الاسلامیہ “ نامی ادارہ کی تشکیل و تعمیر میں بھر پور کردار ادا کیا.اس ادارہ کا بنیادی مقصد

Page 211

تاریخ احمدیت.جلد 22 196 سال 1963ء مختلف اسلامی مذاہب کو ایک دوسرے کے نزدیک کر کے عملی اقدامات کرنا تھا.شیخ ملتوت اسی مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں کہ اس ادارے کے زیر انتظام منعقد ہونے والے اجتماعات میں مصری عوام اپنے ایرانی، لبنانی ، عراقی اور پاکستانی بھائیوں کے پہلو بہ پہلو بیٹھتے ہیں.حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی ، اما می اور زیدی مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے ایک ہی میز کے اردگرد جمع ہوتے ہیں اور سب نہایت مودبانہ عالمانہ اور پاکیزہ انداز کے ساتھ ایک دوسرے سے برادرانہ مودت ، تعاون ، محبت کا اظہار کرتے ہیں.آپ کی یہ خصوصیت دنیائے احمدیت میں ہمیشہ یادرکھی جائے گی کہ آپ نے علماء کی مخالفت کے باوجود ۱۹۴۲ء میں بڑی دلیری سے وفات مسیح کا فتویٰ دیا اور آخر دم تک اس پر پوری ایمانی قوت کے ساتھ ڈٹے رہے اور فرمایا میرا یہ دلی ایمان اور عقیدہ ہے اور میں " 249 اس بات کی قطعا پر وا نہیں کرتا کہ اس سے احمدیوں کو یا کسی اور کو ان کے معتقدات سے مددملتی ہے.وفات سے تین سال قبل ۳ نومبر ۱۹۶۰ء کو مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلا دعر بیہ نے قاہرہ میں آپ سے ملاقات کی.اس ملاقات کا انتظام اخبار الجمہوریہ کے ایڈیٹر کے ذریعہ ہوا تھا.شیخ صاحب نے دوران گفتگو عرض کی کہ آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا فتوی دے کر علمی کاوش اور انتہائی جرات کا ثبوت دیا ہے.اس پر آپ نے فرمایا.مِنَ الْوَاجِبِ لِلْعَالِمِ أَنْ يَكُونَ أَمِينَا فِي رِسَالَتِهِ “ یعنی عالم دین پر واجب ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں امین ہو.الاستاذ الاکبر اشیخ محمود شلتوت احمدیوں کو مسلمان سمجھتے تھے اور اس کا آپ کھلے بندوں اظہار کیا کرتے تھے چنانچہ ۲۴ جولائی ۱۹۶۲ء کا واقعہ ہے کہ انہوں نے ڈنمارک کے احمدی جناب عبدالسلام صاحب میڈسن سے تبادلہ خیالات کرتے ہوئے کہا کہ ان الاحـمـديـيـن ان يعتقدون بكون محمد صلى الله عليه وسلم خاتم النبيين كما اوضحتم فانهم مسلمون حقاً يعنى احمدی اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں تو وہ بلاشبہ مسلمان ہیں.بعد ازاں انہوں نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل ممباسہ کی ایک اسلامی درسگاہ کے پرنسپل الشیخ علوی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ احمدی ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ وہ بھی وہی کلمہ پڑھتے ہیں جو ہم پڑھتے ہیں.251 متحدہ عرب جمہوریہ کے صدر جمال عبدالناصر کا تار علامہ محمود شلتوت کی وفات پر محترم ناظر صاحب امور خارجہ صدرانجمن احمدیہ نے متحدہ عرب جمہوریہ

Page 212

تاریخ احمدیت.جلد 22 197 سال 1963ء کے صدر جناب جمال عبدالناصر کی خدمت میں ایک تار ارسال کیا.جس میں جماعت احمدیہ پاکستان کی طرف سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا گیا.اس کے جواب میں صدر موصوف نے ایک برقی پیغام کے ذریعہ جماعت احمدیہ پاکستان کا نہایت پر خلوص طور پر شکر یہ ادا کیا.برقی پیغام درج ذیل ہے.قاہرہ19دسمبر.حکومت متحدہ عرب جمہوریہ بخدمت ناظر صاحب امور خارجه احمدیہ....کمیونٹی.ربوہ (پاکستان) شیخ شلتوت مرحوم کی وفات پر آپ نے جماعت احمدیہ کی طرف سے جس مخلصانہ طریق پر تعزیت کا اظہار کیا ہے.میں اس پر آپ کا اور جملہ افراد جماعت کا نہایت پر خلوص طور پر شکر یہ ادا کرتا ہوں.اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے.جمال عبد الناصر حضرت مصلح موعود کا جلسہ سالانہ قادیان کے لئے روح پرور پیغام مرکز احمدیت قادیان میں جماعت احمدیہ کا بہتر واں سالانہ جلسہ ۱۸-۱۹.۲۰ دسمبر ۱۹۶۳ء کو اپنی شاندار روایات کے ساتھ منعقد ہوا.اس روحانی اجتماع میں ہندوستان کے سینکڑوں مخلصین احمدیت کے علاوہ پاکستان کے قریباً دو سوا حباب قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر قافلہ کی معیت میں وارد قادیان ہوئے اور جلسہ کی برکات سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل کی.علاوہ ازیں ۱۲۷ دوست انفرادی پاسپورٹ پر پاکستان اور دیگر ممالک سے شامل جلسہ ہوئے.احمدیوں کے علاوہ غیر احمدی حضرات اور غیر مسلم دوستوں نے بھی تمام معلومات افروز تقاریر پوری توجہ اور دلچسپی سے سنیں.حضرت مصلح موعود نے اس مقدس جلسہ کے لئے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا جو محترم قریشی محمود احمد صاحب نے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا.دو بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود درویشان قادیان! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

Page 213

تاریخ احمدیت.جلد 22 198 سال 1963ء تم لوگ قادیان جو احمدیت کا مرکز ہے اس میں بیٹھے ہو.تم خوش قسمت ہو.میں اس سے محروم ہوں.دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ تمہیں اسلام کی خدمت کی توفیق دے.آمین.مرزا محمود احمد غارت اسیح الثانی ۱۳ دسمبر ۱۹۶۳ء (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا وجد آفرین پیغام حضرت مصلح موعود نے حضرت قمر الانبیاء کے وصال کے بعد ناظر خدمت درویشاں کا عہدہ ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو عطا فرمایا تھا اس لئے (حضرت ) صاحبزادہ صاحب نے بھی ناظر خدمت درویشاں کی حیثیت سے اس جلسہ پر درج ذیل پیغام بھجوایا جو قریشی صاحب موصوف ہی نے پڑھ کر سنایا.دیار مسیح کے خوش بخت مکینو! اور دیار حبیب کی زیارت کی سعادت پانے والو! تم پر بہت بہت سلام ہوں اور بے شمار صلوۃ وسلام ہوں تمہارے مطاع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کی رُوح بنی نوع انسان کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے تڑپی اور بے قرار ہوئی اور آستانہ الوہیت پر جھکی اور گداز ہوئی.اور جن کی تضرعات نے عرش رب کریم کو ہلایا.اور خدائے ذوالمجد والعلیٰ نے جن کی تضرعات کو سنا اور تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت کے سامان آسمان سے پیدا کئے.اور جہاں قرآن کریم جیسی کامل اور مکمل اور ابدی ہدایت نازل فرمائی.وہاں ہمارے اس زمانے میں تکمیل اشاعت ہدایت کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو فنا فی الرسول کا مقام حاصل کرنے کی سعادت عطا کی.اور اس کی توفیق سے آپ کا حساس اور عاشق رسول دل اسلام اور بنی نوع انسان کی ہمدردی میں پگھلا اور گداز ہوا.اور خدائے رحمان کی رحمت جوش میں آئی.اس طرح خدا تعالیٰ کی بے پایاں رحمت نے آپ ہی کے ذریعہ تکمیل اشاعت ہدایت کی بنیاد رکھی اور زمین قادیان محترم“ بنائی گئی ہے.مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ظل کے طور پر ارضِ حرم ٹھہری جس کے الدار کا خدائے قادر و توانا خود محافظ بنا.اور اس مبارک بستی کو خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے اپنی پناہ میں لے لیا.اس بستی نے زندہ خدا کے زندہ نشان ہزاروں کی تعداد میں دیکھے اور اس میں بسنے والے جو صدق و صفا اور محبت و وفا سے اپنے ایمانوں پر ثابت قدم رہے.مہبط انوار الہی بنے اور دنیا کے لئے ایک نمونہ مثال ٹھہرے اور حجتہ اللہ علی الارض قرار پائے.اس پیاری بستی کے تم مکین ہو اور

Page 214

تاریخ احمدیت.جلد 22 199 سال 1963ء حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عاشق صادق کی تم پر بڑی ہی لطف و عنایات ہیں.پس اپنے دلوں کو شکر و امتنان کے جذبات سے ہمیشہ لبریز رکھو اور اپنے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفسوں پر ایک موت وارد کرو تا تم ایسے طور پر زندہ کئے جاؤ جس کے بعد کوئی فنانہیں اور اپنے مالوں اور اپنے وقتوں اور اپنی طاقتوں اور اپنی عزتوں اور اپنے جذبات کو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے وقف کر دو کہ اس کے بعد تمہیں کوئی گھانا اور نقصان نہیں.اور اُسی کے ہو جاؤ اور اُسی کے لئے ہو جاؤ تا آسمانی رحمتوں، برکتوں ، نصرتوں اور تائیدات کے دروازے تم پر کھولے جائیں اور ایک ابدی عزت تمہیں حاصل ہو اور اپنے رب کی نگاہ میں آسمان پر تم وقار پاؤ.جیسا کہ اس خدائے ذوالا قتدار کے وقار کو اس زمین پر قائم کرنے کے لئے تم نے اپنی زندگیوں کا ہر لمحہ وقف کر رکھا ہے.خدائی صفات کے مظہر بننے کی کوشش میں لگے رہو کہ اس نے انسان کو اپنی شکل پر پیدا کیا ہے.مگر بے وقوف اور بد بخت انسان تکبر و غرور ، شعوری خود پسندی، نخوت اور اسی طرح کے دیگر گناہوں یا غفلتوں اور کوتاہیوں سے اپنے چہرے کو داغدار کر لیتا ہے مگر تم ہر وقت چوکس اور بیدار ہوتا شیطان کسی بھی خفیہ سوراخ سے تمہارے دلوں، تمہارے خیالات یا تمہارے اعمال میں راہ نہ پاسکے.اور تمہارا وجود جیسا کہ خدا چاہتا ہے اور جیسا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا ہے.اور جیسا کہ مسیح موعود و مہدی معہود کی خواہش سے خدا نما آئینہ بن جائے.اور تم واقعی اور حقیقی طور پر خدائے تعالیٰ کی تمام صفات کے مظہر بن جاؤ.اور وہ تم سے راضی ہو اور تم اس سے.یہ بھی یا درکھو کہ ہمارا خدا تعالیٰ رب العالمین ہے.اس کی ربوبیت نے ہر نیک و بد اور مومن و کافر کو اپنی ربوبیت کی چادر میں لیا ہوا ہے.پس تمہاری ربوبیت سے بھی کوئی شخص باہر نہ رہے.اپنے ہمسایوں سے الفت و شفقت سے پیش آؤ.کیا ہندو اور کیا سکھ اور کیا دہر یہ اور کیا دوسرے مذاہب والے سب کے سب ہی تمہاری ہمدردی غمخواری اور خیر خواہی سے پورا پورا حصہ لیں.سب سے نیک سلوک کرو.ان کی دنیوی ترقیات کے لئے کوشش کرو اور ان سے اخلاق سے پیش آؤ.ان کے دکھوں میں برابر کے شریک ہو ان کی تکالیف دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرو.غرضیکہ ہر رنگ میں ان کے بچے خیر خواہ بن جاؤ اور اپنی راتوں کو متفرعانہ دعاؤں کے ساتھ اپنے رب سے ان کی دین اور دنیا کی بھلائی چاہو.تا تمہارا عمل زندہ گواہ ہو.اس بات کا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی طور پر اور حقیقی معنوں میں رحمۃ للعالمین ہیں.

Page 215

تاریخ احمدیت.جلد 22 200 سال 1963ء اسلام اور احمدیت خدا تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے ہر ملک میں پھیل چکے ہیں اور جس ملک میں بھی جو احمدی رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا اُن کو یہی حکم ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک کے وفادار رہیں اور اپنی اپنی حکومتوں کے قوانین کی پابندی جزء ایمان سمجھیں.اگر اسلام ہمیں یہ زریں ہدایت نہ دیتا تو دنیا میں فساد عظیم بپا ہو جاتا.اسلام تو ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :۴۲) کے وقت آیا اور اس کی نیک اور پاک تعلیم اور اصلاح و آشتی کے پیغام نے ہرقسم کے فتنہ فساد کی جڑیں اکھاڑ کر رکھ دیں اور دنیا کو امن ، سلامتی اور صلح اور آشتی کا ایک بے مثل ایک انمول اصول سکھایا اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس زریں اصول پر کار بندر ہیں.اور اپنے عمل سے اس پاک اصول کے حسن اور دلکشی کو دنیا پرا جا گر کریں.خدا تعالیٰ ہمارے اور آپ کے ساتھ ہو اور رحمتوں اور عنایات سے ہمیشہ سب کو نوازتا رہے اور ہمیں ہر دکھ اور درد سے بچائے اور ہر شریر کی شرارت سے ہمیں پناہ میں رکھے کہ وہی ہمارا ملجاء و مالوی ہے.وہی ہماری پناہ ہے وہی رب جو رحمن اور رحیم بھی ہے.اور ذوالجلال والا کرام بھی.آمین.یا رب العالمین.فقط خاکسار مرزا ناصر احمد.ناظر خدمت درویشاں ۱۵ دسمبر ۱۹۶۳ء قافلہ قادیان ۱۹۶۳ء 254 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ناظر خدمت درویشان کی طرف سے قادیان کے سالانہ جلسہ پر جانے والے احباب کے لئے ۶ دسمبر ۱۹۶۳ ء کی الفضل میں اعلان شائع کروایا گیا کہ قادیان کے لئے قافلہ انشاء اللہ تعالیٰ لاہور سے ۷ دسمبر ۱۹۶۳ء بذریعہ ریل روانہ ہو گا.اہل قافلہ کے قیام کا انتظام جو دھامل بلڈنگ متصل رتن باغ میں کیا گیا تھا.نیز امیر قافله قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ نمبر ۴ میکلوڈ روڈ لاہور کو مقرر کیا گیا.اور صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب جوائنٹ امیر مقرر کئے گئے.نوٹ: اس جلسہ سالانہ پر جانے والے احباب کی فہرست الفضل ۶ دسمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۴ - ۵ پر شائع شدہ ہے.جس کے مطابق دوسو (۲۰۰) احباب اس موقع پر قادیان گئے تھے.

Page 216

تاریخ احمدیت.جلد 22 جلسہ سالانہ ربوہ 201 سال 1963ء اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ کا بہترواں جلسہ سالانہ ۲۶ دسمبر کو شروع ہوکر ۲۸ دسمبر کی شام کو ہرلحاظ سے نہایت کامیابی سے اور غیر معمولی آسمانی تائید و برکات کے ساتھ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوگیا الحمدللہ.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ شمع احمدیت کے پروانے اس سال پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں جوق در جوق اپنے روحانی مرکز میں جمع ہوئے حتی کہ ان کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ پہنچ گئی.نہ صرف ملک کے کونے کونے سے بلکہ دنیا کے دور دراز ممالک سے بھی احباب نے دیوانہ وار اپنے اس مقدس روحانی اجتماع میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی.جلسہ سالانہ میں جو موجودہ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق نہایت بلند پایہ اہم دینی، علمی، اخلاقی اور تربیتی تقاریر پر مشتمل تھا، سلسلہ کے متعدد بزرگوں اور جید علماء نے حصہ لیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کم و بیش تمام تقاریر ہی بہت ایمان افروز نہایت ضروری اور ذہنوں اور روحوں کو جلا بخشنے والی تھیں.اس سال بھی ہر شب با قاعدگی کے ساتھ مسجد مبارک میں نماز تہجد باجماعت ادا کی گئی.شدت کی سردی کے باوجود دور ونزدیک کے احباب اتنی کثرت سے نماز تہجد میں شریک ہوتے رہے کہ مسجد مبارک اپنی وسعت کے باوجود نا کافی ثابت ہوتی رہی.یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا پوری بستی نے ہی نیند سے بیزار ہوکر مسجد کا رخ کرلیا ہے.گوحضور انور علالت طبع کے باعث پہلے کی طرح سب دوستوں سے ملاقاتیں نہیں فرما سکتے تھے تاہم جلسہ کے ایام میں قریباً روزانہ احمدی جماعتوں کے محدود افراد کو حضور انور کی خدمت میں حاضر ہونے اور حضور کی زیارت کرنے کا شرف حاصل ہوتا رہا.سید نا حضرت مصلح موعود نے علالت طبع کے باوجود اس مبارک اجتماع کے لئے دو انقلاب انگیز پیغامات دیئے جن سے شمع خلافت کے پروانوں کو زبر دست قوت عمل بخشی اور قافلہ احمدیت غیر متزلزل ایمان وعرفان کے پر چموں کو لہراتے ہوئے اپنی منزل مقصود کی طرف گامزن ہو گیا.

Page 217

تاریخ احمدیت.جلد 22 202 سال 1963ء حضرت مصلح موعود کا افتتاحی پیغام یہ افتتاحی پیغام ۲۶ دسمبر ۱۹۶۳ء کے افتتاح کے موقع پر حضور کے ارشاد کے ماتحت خالد احمدیت مولا نا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھ کر سنایا ) "بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر برادران جماعت ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ لوگوں کو اس سال پھر یہ توفیق عطا فرمائی کہ آپ اس کے مامور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دنیوی علائق اور زنجیروں کو توڑ کر اپنی روحانی اور علمی ترقی کے لئے مرکز سلسلہ میں تشریف لائے.یہ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ آپ نے اس کے مامور کو قبول کیا اور پھر اس کی طرف سے جو آواز اٹھی اسے آپ نے سنا اور اس پر عمل کیا.بے شک ہمارا یہ جلسہ دوسرے د نیوی جلسوں سے مشابہت رکھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے اُن سے ایک نمایاں امتیاز حاصل ہے.وہ لوگ محض دنیوی ترقی اور مفاد سے تعلق رکھنے والی سکیموں کے ما تحت اکٹھے ہوتے ہیں لیکن آپ لوگوں کا یہ اجتماع خالص روحانی ہے.جس سے کوئی دنیوی غرض وابستہ نہیں بلکہ آپ صرف اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کی باتیں سن کر اپنے ایمانوں کو تازہ کریں اور اس کے دین کی خدمت کا ایک نیا جذ بہ اپنے اندر پیدا کر کے واپس جائیں.پس آپ لوگوں کی مشابہت دنیادار لوگوں سے نہیں بلکہ آپ ان صحابہ کرام سے مشابہت رکھتے ہیں جو غزوہ حنین میں اپنی سواریوں کی گردنیں کاٹ کر خدا کے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع ہو گئے تھے.

Page 218

تاریخ احمدیت.جلد 22 203 سال 1963ء آپ لوگ جانتے ہیں کہ غزوہ حنین میں جب کفار کے تیر اندازوں نے اسلامی لشکر پر اپنے تیروں کی بوچھاڑ کی تو اس وقت مکہ کے نومسلم جو بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اگلی صفوں میں جا رہے تھے.وہ تیروں کی بوچھاڑ کی تاب نہ لا کر پیچھے کی طرف بھاگے اور ان کے بھاگنے کی وجہ سے صحابہ کی سواریاں بھی بدک گئیں اور وہ بھی پیچھے کی طرف دوڑنے لگیں.یہاں تک کہ میدان خالی ہو گیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنے چند صحابہ کے ساتھ کھڑے رہ گئے.اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس سے فرمایا کہ عباس تم زور سے آواز دو کہ ”اے وہ صحابہؓ جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی.اور اے وہ لو گو جو سورہ بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.“ صحابہؓ کہتے ہیں ہمارے کانوں میں یہ آواز آئی تو ہمیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے حشر کا دن ہے اور صور اسرافیل پھونکا جارہا ہے.اس وقت ہم میں سے جس کی سواری مرسکی اس نے موڑ لی اور جس کی سواری نے مڑنے سے انکار کیا اس نے تلوار سے اس کی گردن کاٹ دی اور خود دوڑتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گیا.اس زمانہ میں بھی اسلامی لشکر اعداء کے نرغہ میں گھرا ہوا ہے اور آج بھی کفر کا ہر سپاہی اسلام پر تیروں کی بوچھاڑ کر رہا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اظلال کے ذریعہ مسلمانوں کو آواز دے رہے ہیں کہ اے مومنو! تمہاری سواریاں کہاں جا رہی ہیں.آؤ اور میرے ارد گرد جمع ہو جاؤ.آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ آپ نے صحابہ کی طرح اپنے دنیوی علائق کی سواریوں کی گردنیں کاٹیں اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لئے اس کے مرکز میں جمع ہو گئے.پس میں آپ لوگوں کو اس قربانی کی توفیق ملنے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی آپ کو اس سلسلہ کی ترقی کے لئے ہر قسم کی قربانی کی توفیق دے.آپ کے عمل میں برکت ڈالے اور آپ کو نیکی اور تقویٰ کی صلاحیتوں سے ہمیشہ بہرہ ور ر کھے.

Page 219

تاریخ احمدیت.جلد 22 204 سال 1963ء مجھے ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر آنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاما یہ دعا سکھائی گئی تھی کہ اللّهُمَّ زِدْ فَزِدْ عَلَى نَهْجِ الصَّلَاحِ وَالْعِفَّةِ يعنى اے خدا آنے والے تو آئیں گے مگر تو انہیں توفیق عطا فرما کہ وہ نیکی اور اخلاص اور عفت کے راستوں پر چلتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں اور تیری رضا حاصل کریں.پس تقویٰ اور عفت کے راستوں پر قدم ماریں اور ان ایام کو دعاؤں اور ذکر الہی میں بسر کریں اور آپس میں اخوت اور محبت بڑھانے کی کوشش کریں کہ اسی میں خدا اور اُس کے رسول کی خوشنودی ہے اور اسی میں ہماری جماعت کی ترقی وابستہ ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو اس اجتماع کی برکات سے بہرہ ور فرمائے اور ابد الآباد تک اُس کی تائید اور نصرت آپ کے شامل حال رہے.آمین یارب العالمین.خاکسارمرزا محمود احمد حضرت مصلح موعود کا انتقامی پیغام "بسم الله الرحمن الرحيم خلیفہ اسیح الثانی ۲۵/۱۲/۶۳ 255 نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادران جماعت ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو اپنے خاص فضل سے یہاں تین دن دعاؤں اور ذکر الہی میں بسر کرنے اور خدا اور اس کے رسول کی باتیں سننے کی جو تو فیق عطا فرمائی ہے اس کا یہ احسان تقاضا کرتا ہے کہ اب آپ پہلے سے بھی زیادہ دعاؤں اور انابت الی اللہ پر زور دیں اور سلسلہ کی اشاعت اور اسلام کی ترقی کے لئے والہانہ جد و جہد

Page 220

تاریخ احمدیت.جلد 22 205 سال 1963ء سے کام لیں اور اس بارہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں.یہ امر یاد رکھیں کہ وہی شاخ سرسبز رہ سکتی ہے جس کا اپنے درخت کے ساتھ پیوند ہو.ورنہ اگر ایک تازہ شاخ کو درخت سے کاٹ کر پانی کے تالاب میں بھی ڈال دیا جائے تو وہ کبھی سرسبز نہیں رہ سکتی.پس مرکز کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار رکھو اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت پر بہت زور دو اور اپنی آئندہ نسل کی درستی کا فکر کرو.مجھے نظر آ رہا ہے کہ جماعت کو اپنی آئندہ نسل کی درستی کا خاص فکر نہیں اور یہ ایک نہایت ہی خطرناک بات ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ تحریک جدید کے دور اول میں تو بڑی کثرت کے ساتھ لوگوں نے حصہ لیا.مگر نئے دور میں شامل ہونے والوں کی تعداد ان کی نسبت کے لحاظ سے بہت کم ہے اور پھر جو لوگ وعدہ کرتے ہیں وہ وقت کے اندر اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ اشاعت اسلام کا کام کسی ایک نسل کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ قیامت تک اس نے جاری رہنا ہے.پس اپنے اندر صحیح معرفت پیدا کرو اور اپنی آئندہ نسلوں کو اسلام کا بہادر سپاہی بنانے کی کوشش کرو اور اس نکتہ کو کبھی مت بھولو کہ قربانی اپنا پھل تو ضرور لاتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر قربانی کا پھل قربانی کرنے والا ہی کھائے.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ساری قربانیوں کا پھل وہ خود ہی کھائے اس سے زیادہ نادان اور کوئی نہیں ہو سکتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک وادی غیر ذی زرع میں رکھا مگر اس کا پھل ایک مدت دراز کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ظاہر ہوا اور دنیا اس پھل کو دیکھ کر حیران رہ گئی پھر تم کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری قربانیوں کا بدلہ تمہیں آج ہی ملنا چاہئیے.اگر تمہاری نسل کسی وقت بھی تمہاری قربانیوں سے فائدہ اٹھالے تو حقیقتا تمہاری قربانیوں کا پھل تمہیں مل گیا.پس اپنے ذہنوں میں چلا اور اپنے فکر میں بلندی پیدا کرو اور قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ آگے کی طرف قدم بڑھاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو خدا تعالیٰ اپنی تائیدات سے تمہیں اس طرح نوازے گا کہ تم دنیا کے میدان میں ایک فٹ بال کی حیثیت نہیں رکھو گے بلکہ تم اس برگزیدہ انسان کا ظل بن جاؤ گے جس کے متعلق

Page 221

تاریخ احمدیت.جلد 22 206 سال 1963ء آسمانی نوشتوں میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ کونے کا پتھر ہو گا جس پر وہ گرے گا وہ بھی چکنا چور ہوگا اور جو اس پر آگر اوہ بھی چکنا چور ہوگا.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے مردوں اور ان کی عورتوں اور ان کے بچوں اور ان کے بوڑھوں کو اپنے فرائض کے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں اپنے فضل سے وہ طاقت بخشے جس سے وہ اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کر دیں.اے خدا تو ایسا ہی کر.آمین یارب العالمین خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ۲۸ دسمبر ۱۹۶۳ء جلسہ کے متعلق ایک معزز غیر احمدی کے مشاہدات 256 اس جلسہ سالانہ میں سرگودھا کے ایک غیر احمدی معزز دوست جناب محمد اکرم خاں صاحب کو بھی شرکت کا موقعہ ملا اور وہ یہاں قال اللہ اور قال الرسول کے روح پرور نغموں کو سن کر از حد متاثر ہوئے اور انہوں نے ایک مکتوب میں اپنے مشاہدات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ:.ایک تاثر.ایک حقیقت جناب مدیر لاہور ہدیہ تسلیمات ! میں آپ کی خدمت میں اپنا ایک مشاہدہ بھجوا رہا ہوں.امید ہے آپ اسے لاہور میں شائع کر کے اُن غلط فہمیوں کا ازالہ کر دیں گے جو ہمارے اپنی طرف سے مجبور ) علماء سوء اسلام کی ایک فدائی جماعت کے متعلق آئے دن پھیلاتے رہتے ہیں.جناب والا! بعض ” بگاڑ بھی ایسے ہوتے ہیں کہ اُن میں سے سنوار کے پہلو نکل آتے ہیں.ہماری بس سرگودھا سے آتی ہوئی احمد نگر کے برابر پہنچ کر کچھ ایسی بگڑی کہ ہم مایوس ہو کر پیدل ہی چنیوٹ کی سمت روانہ ہو گئے.اور پھر کوئی پون میل کی پیدل مسافت کے بعدر بوہ کے اڈے پر آ گئے.جہاں ان دنوں خوب گہما گہمی تھی.دل نے کہا.چلو آج ربوہ کی سیر اپنی آنکھوں سے بھی کر دیکھیں.لائکپور کا ایک مولوی تو منبر پر سوار ہو ہو کر اکثر اس جماعت کے متعلق عجیب و غریب فیلر چھوڑتا رہتا ہے.چنانچہ میں سیدھا وہاں سے جلسہ گاہ میں پہنچا.جہاں ستر پچھتر ہزار کے لگ بھگ افراد زمین پر پرالی پر بیٹھے اپنی جماعت کے علماء کی تقریریں سن رہے تھے.جب میں پہنچا.ایک سوئٹزرلینڈ کا گورا مسلمان، انگریزی میں حاضرین جلسہ کو خطاب کر رہا تھا.میں اُس کی تقریر کا جتنا حصہ سن پایا یہ تھا.

Page 222

تاریخ احمدیت.جلد 22 207 سال 1963ء (ترجمہ) ”میرے بھائیو! میں سوئٹزرلینڈ سے آیا ہوں.سوئٹزر لینڈ کی جماعت نے آپ کی خدمت میں السلام علیکم کے بعد دلی شکریہ کا نذرانہ بھی بھجوایا ہے کیوں کہ آپ سب نے بڑی محبت کے ساتھ سوئٹزر لینڈ کی مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا ہے.میں آج آپ لوگوں سے خطاب کرتا ہوا پھولا نہیں سما تا کہ آپ کی اسلام کی محبت کے طفیل ہمیں بھی اسلام جیسی نعمت غیر مترقبہ ملی.اور وہاں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے شیدائیوں کی ایسی ایک جماعت پیدا ہوئی.جو صبح سویرے اٹھتے اور رات کو بستروں میں گھتے وقت اب اپنے سینوں پر صلیب کا نشان بنانے کی بجائے لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتی ہے.“ سبحان اللہ اس مختصر سی تقریر میں کتنا اثر اور جذب تھا کہ ہر طرف سے نعروں کا غلغلہ بلند ہو گیا اور میرے اردگر داس تقریر کو سن کر کتنے ہی آپ ٹو ڈیٹ احباب کے گالوں پر محبت اور مسرت کے آنسو بہہ نکلے.اس خوشی میں کہ مولا کریم نے انہیں ایک اور ملک میں اللہ اور اس کے پیارے رسول کا نام پہنچانے کی توفیق دی.یہیں کرسیوں والے بلاک ہی میں مجھے میرے ایک لائکپوری پروفیسر مل گئے.انہوں نے رات کے کسی اجلاس کی کارروائی سنائی.جس میں چار درجن کے لگ بھگ بیرونی مشنریوں نے حاضرین کو خطاب کیا تھا.اپنی اپنی زبان میں اُن کی زبانیں مختلف تھیں.لہجے مختلف تھے.اُن کے رنگ اور چہروں کے نقوش بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے.لیکن جب وہ اپنی تقریروں کے دوران میں ہمارے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے تھے.یا قرآن کی کسی آیت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی کوئی حدیث تلاوت کرتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب ایک ہی درخت کے پھل ہیں.ایک ہی باپ کے بیٹے ہیں.جنہیں اس جماعت کے بانی نے اپنے آقا و مولا کے نام پر اُسی کے دین کی اشاعت کے لئے یکجا کر کے ”جامع المتفرقين “ کا خطاب حاصل کر لیا ہے.اس بے آب و گیاہ زمین کے بھی عجیب بھاگ جاگے ہیں.سرکاری کاغذات میں یہ صدیوں سے بنجر قدیم اور بے آب و گیاہ چلی آ رہی تھی.لیکن آج اس کے سینے پر ستر اسی ہزار مسلمان ٹھہرے ہوئے تھے جو اس کڑاکے کی سردی میں اس فکر زدہ زمین پر صرف اس لئے اپنے آرام و آسائش کو حج کر آئے تھے کہ خدائے قدوس کی توحید کے ترانے گائیں اور اس کی عظمت کے راگ الا ہیں.یہاں نہ کوئی ہوٹل ہے، نہ سینما، نہ تماشا گاہ ہے نہ کوئی ریس کورس ہے اور نہ کوئی تفریحی پارک

Page 223

تاریخ احمدیت.جلد 22 208 سال 1963ء لیکن اس کے باوجو د خدائے ذوالجلال نے اس مٹی کو ایسا نواز دیا ہے کہ بس ہر طرف سے لوگ کھینچے چلے آتے ہیں.جے ایس سعادت بزور بازو نیست ۲۸ دسمبر کا پہلا اجلاس ختم ہوا تو مجھے دو جرمنوں اور ایک انڈونیشی مسلمان سے ملاقات کا موقع ملا.انڈونیشی انگریزی آہستہ آہستہ بولتا تھا.مگر اسلام کے لئے سرتا پا محبت تھا.اُس کا کہنا تھا کہ اگر اس جماعت کا انڈونیشیا میں مرکز نہ ہوتا تو آزادی کی جدوجہد کے ایام میں شاید ہمارا سارا ملک ہی کمیونسٹ بن چکا ہوتا.مگر ان مبلغوں نے ہمیں اسلام صرف بتایا ہی نہیں اُس پر قائم رہنے میں بھی مدددی.افسوس کہ مجھے ایک شادی میں شرکت کی وجہ سے وہاں سے جلد لوٹنا پڑا.لہذا مجبوراً اٹھ کھڑا ہوا.اُس وقت اسٹیج سے کوئی احمدی شاعر اپنے اس شعر سے میرے دلی جذبات کی ترجمانی کر رہا تھا.یہ بزم ناز ہے کس جاں نثار دین احمد کی یہاں تو سرنگوں ہے کجکلاہوں کی رعونت بھی مگر میں سارا رستہ یہی سوچتا رہا.ہمارے ملا لوگ بھی خوب ہیں انہوں نے تکفیر سازی کواب با قاعدہ پیشہ ہی بنالیا ہے.یہ نہ خود کام کرتے ہیں نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں.اور دین کے نام پر ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہیں کہ بے دینی بھی ان کی مکاریوں سے پناہ مانگ اٹھتی ہے.کجا یہ کہ باہر یہ پھیلایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مقابل پر اپنا ایک نیا نبی گھڑ رکھا ہے.اور کجا یہ حقیقت کہ یہاں کا ذرہ ذرہ دل و جان سے آمنہ کے اُس رسول پر فدا ہے.سمجھ میں نہیں آتا.یہ محدود علم کے لوگ کب تک کیچڑ کی دیوار میں بن کر حق کی تلاش کرنے والوں کا راستہ روک کر کھڑے رہیں گے.اللہ ہر ایک کو یہ توفیق دے کہ وہ اجہلوں کی ہر قسم کی لعنت و ملامت سے بے نیاز ہو کر اس جماعت کی طرح اُس روشنی کو پھیلانے کی سعادت حاصل کرے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے وجو د باجود کی صورت میں ہمیں نصیب ہوئی.آمین.257

Page 224

تاریخ احمدیت.جلد 22 1 2 3 4 5 6 8 9 صدق جدیدا ۱ جنوری ۱۹۶۳ء الفضل ۷ ۱ جولائی ۱۹۶۴ ء صفحہ ۵ بدر ۱۰ را کتوبر ۱۹۶۳ء صفحه ۱۰ 209 حوالہ جات (صفحه ۱ تا ۲۰۸) ملوا کی جرنل بابت ۱۸ فروری ۱۹۶۳ء بحواله روزنامه افضل ۹ را کتوبر ۱۹۶۴ صفحه ۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲-۱۳ تفصیل " تاریخ احمدیت جلد ہشتم طبع اول صفحہ ۲۳۷ تا ۷ ۲۵ میں آ چکی ہے کتا بچہ مولوی منظور احمد چنیوٹی سے مطالبہ صفحریم ،۵ کتابچہ مذکور صفحه ۶ کتابچہ مذکور صفحه ۶ 10 کتابچہ مذکور صفحہ ۷ 11 کتابچہ مذکور صفحہ ۷.۸ 12 الفضل یکم مارچ ۱۹۶۳ء صفحہ ۱.۸ 13 الفضل ۶ / اپریل ۱۹۶۳ء صفحہ ۶ 14 ملفوظات جلد اول صفحه ۳۷۰.ایڈیشن ۲۰۰۳ء 15 الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۳ء صفحه ۶ 16 الوصیت طبع اوّل صفحہ ۸ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۹،۳۰۸ 17 الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۶۳ء صفحه ۳ The Pakistan Time April 5, 1963 18 19 الفضل ۸ مئی ۱۹۶۳ء صفحہ۵، الفضل ۲۷ اپریل ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 20 الفضل مئی ۱۹۶۳ء 21 الفضل ۸ مئی ۱۹۶۳ء صفحہ ۱.۸ 22 الفضل ، امئی ۱۹۶۳، صفحه ۳ 23 الفضل ۱۸ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۳-۴ سال 1963ء

Page 225

تاریخ احمدیت.جلد 22 24 الفضل ۱۵- ۱۸مئی ۱۹۶۳ء 25 الفضل ۱۸مئی ۱۹۶۳ء 26 الفضل امئی ۱۹۶۳ء 27 الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۳ ء صفحه ۳ 28 الفضل ۲۳ مئی ۱۹۶۳ء 29 الفضل ۷ امئی ۱۹۶۳ صفحه ا.متن قرارداد کا ترجمہ 30 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۶۳ ء صفحہ ۱.۱۲ 31 ترجمه - الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ا 32 ترجمه - افضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳، صفحه ۱۲ 33 ترجمہ.الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۳ء صفحها 34 الفضل ۲۴ مئی ۱۹۶۳ ، صفحه ۱۲ 35 الفضل ۲۳ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ا 36 ترجمہ الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۱-۱۲ 37 ترجمہ الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 38 الفضل مئی ۱۹۶۳ ء 39 الفضل ۱۸مئی ۱۹۶۳ء صفحه ا 40 الفضل ۲۴ مئی ۱۹۶۳ ، صفحه ۱ 41 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۶۳ ء صفحه ۱۲ 42 الفضل ۱۶مئی ۱۹۶۳ ء صفحه ا 43 الفضل ۱۶ مئی ۱۹۶۳ صفحه ا 44 الفضل ۲۶ مئی ۱۹۶۳ ء صفحه ۱۲ 45 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 46 الفضل ۳۰ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 47 الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 48 الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۱۲ 49 الفضل ۳۰ مئی ۱۹۶۳ صفحه یم 50 الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۱۲ 51 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 210 سال 1963ء

Page 226

تاریخ احمدیت.جلد 22 52 الفضل ۳۰ مئی ۱۹۶۳ ، صفحہ ۷ 53 الفضل ۲۴ مئی ۱۹۶۳ ء صفحه ۱۲ 54 الفضل ۲۳ مئی ۱۹۶۳ ء صفحه ۱۲ 55 الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 56 الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۳ ء صفحه ۳ 57 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳ ء صفحه ۸-۹ 58 الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۳ ء صفحه ۱۲ 59 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۶ 60 الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۳، صفحه ۵ 61 الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۳ 62 الفضل ۲۵ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۱۲ 63 الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۳ صفحهیم 64 الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۱۲ 65 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 66 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۶۳ء صفحہ ۷ 67 الفضل ۱۹ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 68 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳ ء صفحه ۸ 69 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۸ 70 الفضل ۷ امئی ۱۹۶۳ صفحه ۲ 71 الفضل ۷ امئی ۱۹۶۳ ، صفحہ ۲ 72 الفضل ۲۳ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 73 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 74 الفضل ۳۰ مئی ۱۹۶۳ صفحہ ۷ 75 الفضل ۳۰ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۸ 76 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳ ء صفحہ ۸ 77 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۸ 78 الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۳ صفحریه 79 الفضل یکم جون ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 211 سال 1963ء

Page 227

تاریخ احمدیت.جلد 22 80 الفضل یکم جون ۱۹۶۳، صفحه ۵ 81 الفضل ۱۹مئی ۱۹۶۳، صفحه ۱۲ 82 الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۳ ، صفحه ۱۲ 83 الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۳، صفحه ۱۲ 84 الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 85 الفضل یکم جون ۱۹۶۳ ء صفحه ۵ 86 الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۶۳ء صفحریم 87 الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 88 الفضل یکم جون ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 89 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳ ، صفحه ۱۲ 90 الفضل ۳۰ مئی ۱۹۶۳ صفریم 91 لاہور ۲۹ اپریل ۱۹۶۳ء 92 لا ہو ر ۴ امئی ۱۹۶۳ ء صفحه ۱۹ 93 212 ابوالعطاء جالندھری ے مئی ۱۹۶۳ء ضمیمہ الفرقان ربوہ مئی ۱۹۶۳ء.الف.ب 94 ہفت روزہ " پیغام قائد سرگودھا ۴ امئی ۱۹۶۳ء صفحه ا 95 ہفت روزہ " عقاب سرگودھا ۱۴مئی ۱۹۶۳، صفحه ۲ 96 بحواله الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۳ 97 المنبر لائل پور ۲۴/۱۷ مئی ۱۹۶۳، صفحه ۳ ۴ بحوالہ الفرقان ربوہ جون ۱۹۶۳ ، صفحہ ۷ 98 پندرہ روزہ طوفان ۲۳ مئی ۱۹۶۳ ء بحواله الفضل ۲۸ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۱۰ وو و تنظیم اہلحدیث لا ہو ر ۲۴ مئی ۱۹۶۳، بحواله الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۳، صفحریم 100 الفضل ۲۵ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱ 101 کتاب ” تجربات ہیں جو امانت حیات کی صفحہ ۲۰۶ تا ۲۰۹ 102 اخبار ” نوائے وقت لاہور اس مئی ۱۹۶۳ء 103 الفضل یکم جون ۱۹۶۳ صفحه ا 104 الفضل یکم جون ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 105 الفضل 9 جون ۱۹۶۳ صفحه ا 106 الفضل ۶ نومبر ۱۹۶۳ ، صفحه ۵ 107 الفضل ۲۷ جون ۱۹۶۳ صفحه ا سال 1963ء

Page 228

تاریخ احمدیت.جلد 22 108 الفضل ۳ / اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحه ا 213 109 الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۳ ء صفحه ۵ ، الفضل ۸جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۴ 110 الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۶۳ صفحه ۶ 111 ڈیلی اسٹنڈرڈ نیروبی بابت امئی ۱۹۶۳ ء بحواله الفضل ربوه ۲۲ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۱۲ 112 ممباسہ ٹائمنز مورخه ۲۱ جون ۱۹۶۲ء بحواله الفضل ۲۶ مئی ۱۹۶۳، صفحه ۱۲ 113 ترجمہ.رسالہ انصار اللہ ربوہ دسمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۴۲ ۴۳ 114 خالد جولائی ۱۹۶۳ ء صفحہ 9 115 الفضل ۱۴ فروری ۱۹۵۶، صفحه ۵ و ۵ فروری ۱۹۵۶، صفحه ۵ 116 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۳، صفحہ ۷ سال 1963ء 117 مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو اردو انسائیکلو پیڈیا صفحہ ۶۴۶ طبع سوم ناشر فیروز سنز لمیٹیڈ لاہور جنوری ۱۹۸۴ء، اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحه ۸۶۱ مطبع غلام علی نزد جامعہ اشرفیہ اچھرہ لا ہور اشاعت اول ۱۹۸۷ء 118 اخبار امروز لاہور ۵ مئی ۱۹۶۳، صفحه ۱، ۸ - اخبار پاکستان ٹائمنر لاہور ۵ مئی ۱۹۶۳ء صفحہ اہم 119 مابدولت صفحه ۱۷۰ تا ۱۷۲ 120 مابدولت صفحه ۱۸۴ تا ۱۸۹ 121 مابدولت صفحه ۲۱۲_۲۱۳ 122 مابدولت صفحه ۲۲۳ تا ۲۲۸ 123 الفضل امئی ۱۹۶۳ء صفحه ۵ - ترجمه از پنجابی 124 الفضل ربوه ۸ امتی ، ۲۱ مئی، ۲۹ مئی ۱۹۶۳ء 125 الفضل ۵ جون ۱۹۶۳ء صفحها 126 الفضل ۱۸ جون ۱۹۶۳ صفحه ۱-۸ 127 رساله خالد ر بوہ.اگست ۱۹۶۳ء صفحه ۴۳ ۴۴ 128 الفضل ۱۰ اکتوبر ۱۹۶۳، صفحه ۵ رپورٹ جناب مرزا عبدالحق صاحب سیکرٹری نگران بورڈ 129 الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۴۵ء 130 اخبار پاکستان ٹائمنز ۵ جون ۱۹۶۳، صفحه ۶ 131 الفضل ۷ جون ۱۹۶۳ ء صفحہ ۱.۸ 132 الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۶۳ء 133 غیر ملکی زبانوں میں کتب سلسلہ کی اشاعت کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو صاحبزادہ صاحب کی تقریر مطبوعہ الفضل۱۰نومبر ۱۹۶۳ء صفحریم

Page 229

تاریخ احمدیت.جلد 22 134 اخبار بدر قادیان ۱۳ جون ۱۹۶۳ صفحه ۱-۱۲ 135 اخبار بدر قادیان ۴ جولائی ۱۹۶۳ صفحه ۱۲ 214 سال 1963ء 136 اخبار بدر قادیان ۱۸ جولائی ۱۹۶۳، صفحه ۱۲ ، ۱۹ ستمبر ۱۹۶۳ ، صفحہ ۱۵.کتاب ” کچھ باتیں کچھ یادیں، صفحہ ۹۲ - ۹۶ مولفہ جناب شیخ عبدالحمید صاحب عاجز قادیان مطبوعہ چوپڑہ پرنٹنگ پریس باغ کریم بخش جالندھر ۱۹۸۵ء 137 اخبار بدر قادیان ۱۸ جولائی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ ، ۱۹ ستمبر ۱۹۶۳ ، صفحہ ۱۵.کتاب " کچھ باتیں کچھ یادیں، صفحہ ۹۲-۹۶ مولفہ جناب شیخ عبدالحمید صاحب عاجز قادیان مطبوعہ چوپڑہ پرنٹنگ پریس باغ کریم بخش جالندھر ۱۹۸۵ء 138 الفضل ۲۹ جون ۱۹۶۳ صفحه ا 139 الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۶۳ صفحہ۱ 140 الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۳ ، صفحه ۳ کالم ۱ 141 الفضل ۹ / اگست ۱۹۶۳ء صفه ۳ 142 الفضل ۱۴ اگست ۱۹۶۳ء صفحها 143 الفضل ۱۶ / اگست ۱۹۶۳ء صفحه ۳ 144 آپ کی افتتاحی تقریر کا خلاصہ الفضل ۲ نومبر ۱۹۶۳ء میں اور اختتامی خطاب کا ملخص الفضل ۹ نومبر ۱۹۶۳ء میں شائع شدہ ہے 145 الفضل ۹ نومبر ۱۹۶۳ ء صفحه ۳ 146 الفضل ۹ نومبر ۱۹۶۳، صفحه ۳ 147 الفضل ٨/ اگست ۱۹۶۳، صفحها 148 ترجمه الفضل ۹ نومبر ۱۹۶۳ صفحه ۳ 149 الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۶۳ء صفحه ۴-۵ 150 الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۳ ، صفحه ۳ 151 الفضل ۳ ستمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۳ 152 الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۳، صفحه ۳-۴ 153 الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۳ء صفحه ۳-۴ 154 الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۶۳ صفحه ۱-۸ 155 الفضل یکم اگست ۱۹۶۳، صفحه ۱-۸ 156 یہ تحریک ابتدائی طور پر نوے دن کے لئے جاری کی گئی پھر اسے صرف ایک ماہ کے لئے کر دیا گیا.بعد ازاں حضرت صاحبزادہ صاحب نے اعلان فرمایا کہ اسے یکم اگست سے 9 ستمبر تک ممتد کیا جاتا ہے.الفضل ۱۸ اگست ۱۹۶۳ صفحہ۱ 157 الفضل ربوه ۲۲، ۲۵ جون ۱۱۰ جولائی ۱۹۶۳ء

Page 230

تاریخ احمدیت.جلد 22 158 الفضل ۲۰ / اگست ۱۹۶۳ ء صفحه ا 159 رسالہ انصار اللہ ربوہ ستمبر ۱۹۶۳ ء صفحہ ۴۱ - ۴۲ 160 الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۶۱، صفحه ۳-۴ 215 161 ترجمه اخبار پاکستان ٹائمنز ۲۱ را گست ۱۹۶۳ء بحواله اخبار الفضل ۲۳ را گست ۱۹۶۳ صفحه ۸ 162 بحواله الفضل ۲۳ / اگست ۱۹۶۳ ، صفحه ۸ 163 الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۶۳ صفحه ۵-۸ 164 الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحه ۶ 165 الفضل ۲۹ جون ۱۹۶۳ صفحه ا 166 بحواله الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۳ صفحه ۳۲ 167 الفضل خاص نمبر ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۳ صفحه ۳۲ 168 افضل ۲۰ نومبر ۱۹۶۳ صفحه ۵ 169 الفضل ۲۲ستمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۳ 170 الفضل ۴ ستمبر و ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۳ء 171 الفضل ، ستمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۱.۲۰ نومبر ۱۹۶۳ء صفحه ۴۷۳ 172 الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۳ ۴ مضمون ملک منور احمد صاحب جاوید لاہور.نائب نا ظر ضیافت ربوہ 173 الفضل استمبر ۱۹۶۳، صفحه ۳ ۲۲ ستمبر ۱۹۶۳، صفحریم 174 الفضل ۵ ستمبر ۱۹۶۳ ، صفحہ ۱ 175 الفضل م ستمبر ۱۹۶۳ء 176 الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۶۳ ء صفحریم 177 الفضل التمبر ۱۹۶۳ ، صفحہ ۳.مضمون بشیر طاہر صاحب لاہور 178 الفضل ۵ ستمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۱.۸ 179 الفضل ۵ ستمبر ۱۹۶۳ ، صفحه ۸ 180 پیغام صلح لا ہورہ ستمبر ۱۹۶۳ء 181 بحوالہ اخبار بدر قادیان ۱۸ اکتوبر ۱۹۶۳ صفحه ۱۲ 182 بدر ۴ فروری ۱۹۶۵ء صفحہ اہم میں اس خصوصی اشاعت کا ذکر ملتا ہے 183 اشتہار ۲۰ / اپریل ۱۸۹۳ء مجموع اشتہارات جلد اول صفحه ۳۲۳ 184 دیکھو صفحه ۲۲۶ آئینہ کمالات اسلام 185 تریاق القلوب صفحه ۹۲ مطبوعه ۱/۲۸اکتوبر ۱۹۰۲ء.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۰ سال 1963ء

Page 231

تاریخ احمدیت.جلد 22 186 حقیقت الوحی صفحہ ۲۲۷ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۲۷ 187 نزول مسیح صفحه ۲۳۲ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۰۸ 216 سال 1963ء 188 تذکرہ صفحه ۶۰۴ طبع چہارم ۲۰۰۴ ۲۰ را پریل ۱۹۰۷ء 189 تذکرہ ایڈیشن ۲۰۰۴ ، صفحه ۵۶۶،۵۶۵ - (۲۱ /اگست ۱۹۰۶ء) 190 بدر ۲۷ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحها، الحکم ۳۰ را پریل ۱۹۰۵ء صفحه ا، تذکرہ ایڈیشن ۲۰۰۴ صفحه ۴۶۰ ( یکم مئی ۱۹۰۵ء) 191 تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحه ۱۳ از حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی.تذکرہ ایڈیشن ۲۰۰۴ صفحه ۶۷۹ 192 حضرت مصلح موعود کی خدمت میں مکتوب غیر مطبوعہ مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۵۰ء سے اقتباس.اصل مکتوب شعبہ تاریخ احمدیت کے ریکارڈ میں موجود ہے 193 عرض حال چالیس جواہر پارے مولفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ۱۳ نومبر ۱۹۵۰ء 194 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو حیات بشیر مرتبہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ 195 افضل یکم اپریل ۱۹۶۴ء 196 الفضل ا استمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۱.۳ 197 الفضل خاص نمبر ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۳ ، صفحہ ۷ - ۸ 198 رسالة الفرقان قمر الانبیاء نمبر اپریل ۱۹۶۴ء 199 ماہنامہ خالد، فروری ۱۹۶۴ء 200 مکتوب مورخه ۲۵ را گست ۱۹۴۸ء.غیر مطبوعه 201 الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۶۳ صفحه ۳ تا ۷ 202 اردو نثر میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۶۸۷ - ۶۸۸ - ناشر اقبال اکادمی پاکستان ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور طبع اول ۱۹۸۹ء 203 ملاحظہ ہو الفضل ۱۸ جون ۱۹۵۸ء.204 الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۵۲ء 205 حیات بشیر ، صفحہ ۴۲۱-۴۲۲ 206 سبز اشتہار مورخہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ ء صفحہ ۷ حاشیہ.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۵۲ 207 الفضل ربوہ ۱۰ ستمبر ۱۹۶۳ صفحه ۱-۸ 208 ہفت روزہ ” بدر قادیان ۳۱ را کتوبر ۱۹۶۳، صفحه ۸ 209 الفضل ۴ استمبر ۱۹۶۳ صفحہ۱ - الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۳، صفحہ ۳.الفضل ۱۹.۳۰ جنوری ۱۹۶۴ء 210 الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۶۳ صفحه ا 211 الفضل ربوه ۲۲ ستمبر تا ۶ را کتوبر ۱۹۶۳ء

Page 232

تاریخ احمدیت.جلد 22 212 ایسٹ افریقن ٹائمنز یکم ستمبر ۱۹۶۳ء 213 بحوالہ ”الفرقان‘ نومبر ۱۹۶۳ء صفحه ۴-۵ 214 الفضل ۱۲ / اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحه ۳ 217 215 مفصل رو داد اجتماع الفضل ۲۷ تا ۲۹ ستمبر ۱۹۶۳ء میں شائع شدہ ہے 216 الفضل یکم اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحه ۳ 217 ملفوظات جلد اوّل صفحه ۹۱ 218 ملفوظات جلد اوّل صفحه ۲۶۲،۲۶۱ 219 الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۶۳ ، صفحه ۵ 220 الفضل ۱/۸ اکتوبر ۱۹۶۳ ، صفحه ۱-۸ 221 عطیہ جات دینے والے مخیر اصحاب کی فہرست الفضل ۲۷ اکتو بر ۱۹۶۳ء کے صفحہ پر شائع شدہ ہے 222 الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۶۳ صفحه ۸۱ و ۲۷/اکتوبر ۱۹۶۳، صفحه ۵ 223 الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحها سال 1963ء 224 تحدیث نعمت صفحہ ۷۱۵.مؤلفہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب طبع دوم دسمبر ۱۹۸۲، مطبع پاکستان پرنٹنگ ورکس ریٹی گن روڈ لاہور 225 روزنامه الفضل قادیان ۱۰ / اپریل ۱۹۳۸ صفحه ۱۰ 226 الفضل ا ر اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۷ 227 الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۴۵ صفحه ۵ 228 یہ مقالہ ماہنامہ خالد ربوہ نومبر دسمبر ۱۹۶۳، صفحہ ۲۱.۲۶ میں چھپا ہے 229 الفضل قادیان ۳۰ جولائی ۱۹۴۵ء صفحه ۳ 230 الفضل ۳ نومبر ۱۹۶۳ ، صفحہ ۱.۸ 231 الفضل، نومبر ۱۹۶۳ء صفحریم 232 خطبه جمعه فرموده ۱۱ جون ۱۹۹۹ء بمقام مسجد الفه 233 اخبار بد ر قادیان مورخہ ۶ جون ، ۲۷ جون ۱۹۶۳ء 234 بدر۳ اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 235 بدر۱۴ نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ۵ تا ۸ 236 بدر ۲۸ نومبر ۱۹۶۳ء صفحه ۲ 237 الفضل ربوه ۵-۶ دسمبر ۱۹۶۳ء 238 الفضل ۷.۸ دسمبر ۱۹۶۳ء

Page 233

تاریخ احمدیت.جلد 22 218 سال 1963ء 239 وفات ۱۰ جنوری ۱۹۵۵، بهمر ۸۰ سال.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 240 الفضل ۹۵ فروری ۱۹۲۶ء صفحه ۱۳ 241 اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء 242 الفضل ۷ دسمبر ۱۹۶۳ ء صفحہ ۸ 243 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد سوم صفحہ ۱۹۴ مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ طبع اول ۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء 244 سیرت نصرت جہاں بیگم حصہ اول صفحہ ۴۳۷ مؤلفہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈ میٹر الحکم قادیان - تاریخ اشاعت یکم دسمبر ۱۹۴۳ء 245 الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۶۳ ء صفحیم 246 الاعلام - الجزء السابع صفحہ ۱۷۳- تالیف خیر الدین الزر کیلی - دار العلوم للملا بسين بيروت الطبعة السابعه ۱۹۸۶ء 247 امت واحده صفحه ۲۳ - ۲۷ ناشر ایزنی فرهنگی سفارت جمهوری اسلامی ایران اسلام آباد پاکستان - ۱۹۸۶ء.۱۳۹۴هش 248 تفصیل ” تاریخ احمدیت جلد نم صفحہ ۲۹۷ تا ۳۱۳ میں گذر چکی ہے.مفصل فتویٰ آپ کی کتاب الفتاویٰ میں بھی چھپ چکا ہے ناشر کتاب الادارة العامة الثقافته الاسلامیہ بالا زھر سن اشاعت جمادی الآخر ۱۳۷۹ھ مطابق دسمبر ۱۹۵۹ء 249 الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۳ 250 رسالة البشری ربوہ اکتوبر ۱۹۶۲ء صفحه ۱۸ 251 ایسٹ افریقن ٹائمنر یکم ستمبر ۱۹۶۳ء 252 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۶۳ صفحه ا 253 بدر قادیان ۲ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 254 بدر قادیان ۲ جنوری ۱۹۶۴ صفحه ۳ 255 الفضل یکم جنوری ۱۹۶۴ صفحه ۴۳ 256 الفضل ۲ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۸ 257 ہفت روزہ لاہور 4 جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۲

Page 234

تاریخ احمدیت.جلد 22 219 سال 1963ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال ۱۹۶۳ء میں کئی اکابر اور بزرگ صحابہ راہ گیر عالم بقا ہوئے.حضور کے پاک باز صحابہ میں سے کسی کا اس جہان سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جانا کوئی ایسا صدمہ نہیں جو بھلایا جاسکے.یہ نادر وجود ایک ایک کر کے رخصت ہورہے تھے اور جو باقی رہ گئے ان کی شمع حیات بھی چراغ سحری کی طرح ٹمٹمار ہی تھی اور تابعین پر سلسلہ کی خدمت کی ذمہ داریاں روز بروز بڑھتی جارہی تھیں.اس سال ۴ جنوری کی تاریخ گویا يوم الحزن تھی کیونکہ اس روز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے تین صحابہ کرام کا انتقال ہوا.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد ولادت : یکم ستمبر ۱۸۸۳ء بمطابق ۲۸ شوال ۱۳۰۰ھ - I بیعت تحریری: ۱۵ جنوری ۱۹۰۲ء.بیعت دستی دسمبر ۱۹۰۲ء 1 حضرت قاضی صاحب کی خود نوشت روایات مورخہ ۱۳ نومبر ۱۹۳۹ء کے مطابق آپ کی پیدائش ۱۷، ۱۸ شوال ۱۳۰۲ھ مطابق ۹ ۱۰ را گست ۱۸۸۵ء کو ہوتی مردان میں ہوئی.وفات : ۴ جنوری ۱۹۶۳ء 1 حضرت قاضی محمد یوسف صاحب سلسلہ احمدیہ کے نہایت پر جوش خادم اور صاحب کشف والہام اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے ( آپ کے قلمی نوٹس میں متعدد و یا وکشوف اور الہامات کا تذکرہ ملتا ہے.قلمی نوٹس شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہیں ).آپ مسلسل ساٹھ سال تک ایک جری پہلوان کی طرح خدمت دین میں پورے جذبہ ایمانی کے ساتھ مصروف جہاد رہے.آپ کا شجرہ نسب کئی واسطوں کے ساتھ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک جا پہنچتا ہے.آپ کے خاندان میں حضرت سلطان ابراہیم ادہم ، فرخ شاہ ، بادشاہ کابل اور حضرت شیخ مجددالف ثانی احمد سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے مشاہیر امت گذرے ہیں.آپ کے جد اعلیٰ قاضی محمد قابل ایران کے بادشاہ نادرشاہ کے عہد حکومت میں ہوتی (متصل مردان) میں آکر آباد ہوئے اور قاضی القضاۃ مقرر ہوئے.آپ کے پڑدادا حضرت قاضی میر عبدالصمد صاحب حضرت سید احمد بریلوی کے مرید اور معاون تھے.آپ کے والد ماجد کا نام قاضی محمد صدیق تھا.

Page 235

تاریخ احمدیت.جلد 22 220 سال 1963ء حضرت قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی.۹۶-۱۸۹۵ء میں بارہ سال کی عمر میں مشن ہائی سکول پشاور میں داخل ہوئے.۱۹۰۱ء میں اسلامیہ ہائی سکول پشاور میں داخلہ لیا.۱۵ جنوری ۱۹۰۲ء میں اپنے انگریزی کے استاد حضرت منشی خادم حسین صاحب بھیروی کی تحریک پر بیعت کا خط لکھا.آپ پہلی بار قادیان دارالامان ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ء کو تشریف لے گئے.جلسہ سالانہ میں شرکت کی اور حضرت اقدس علیہ السلام کے دست مبارک پر مسجد مبارک میں بیعت کا شرف حاصل کیا.یہی وہ بابرکت ایام تھے جبکہ حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب رئیس اعظم خوست اپنے شاگردوں سمیت قادیان میں موجود تھے اور مہمان خانہ میں آپ کے مقابل کے کمرے میں رونق افروز رہتے تھے.قادیان سے واپسی کے بعد آپ نے زور وشور سے احمدیت کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا.شاہی باغ میں اسلامیہ ہائی سکول، ہمشن ہائی سکول ، میونسپل بور ڈ ہائی سکول ،نیشنل ہائی سکول کے فٹبال گراؤنڈ قریب قریب تھے.اسلامیہ ہائی سکول کے طلباء کے ذریعہ باقی سکولوں کے طلباء کو بھی آپ کے احمدی ہونے کا علم ہو گیا اور پھر تمام شہر میں آپ کی شہرت ہوگئی اور شاہی باغ تبلیغ احمد بیت کا مرکز بن گیا جس کے نتیجہ میں میرزا شربت علی صاحب ان کے برادر بزرگ امیر خسرو اور مولانا محمد یعقوب خاں صاحب بی اے (ایڈیٹر لائٹ ) جیسے متدین وجود احمدی ہو گئے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانہ میں آپ متعدد بار قادیان تشریف لے گئے.جون جولائی ۱۹۰۴ء میں آپ کو پہلے قادیان اور پھر گورداسپور میں جانے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فیض حاصل کرنے کا زریں موقعہ ملا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اقتداء میں نماز قیام گورداسپور کے دوران ۲۱ جولائی ۱۹۰۴ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظہر وعصر کی نماز قصر اور جمع کر کے خود پڑھائیں.یہ ایک یاد گار اور تاریخی موقعہ تھا.اس مبارک نماز میں ہیں بزرگوں کو حضرت امام الزمان علیہ السلام کے پیچھے نماز ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.جن میں اول نمبر پر حضرت قاضی صاحب تھے.چنانچہ ایڈیٹر صاحب "بدر" حضرت بابو محمد افضل صاحب نے لکھا:.ایک بجے کا وقت تھا کہ حضرت امام الزمان علیہ السلام نے چند ایک موجود خدام کو ارشاد فرمایا

Page 236

تاریخ احمدیت.جلد 22 221 سال 1963ء کہ نماز پڑھ لی جاوے سب نے وضو کیا.نماز کے لئے چٹائیاں کچھیں.حاضرین منتظر تھے کہ حسب دستور سابقہ کسی حواری کو امامت کے لئے ارشاد فرماویں گے کہ اس اثناء میں خود حضرت امام الزمان علیہ السلام امامت کے لئے آگے بڑھے اور اقامت کہے جانے کے بعد آپ نے نماز ظہر اور عصر قصر اور جمع کر کے پڑھائیں حضور علیہ السلام کو امام اور خود کو مقتدی پا کر حاضرین کے دل باغ باغ تھے.ان مقتدیوں میں کئی ایسے اصحاب تھے جن کی ایک عرصہ سے آرزو تھی کہ کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز میں خودامام ہوں اور ہم مقتدی.اُن کی امید آج بر آئی اور مجھ پر بھی یہ راز کھلا کہ امام نماز کی جس قدر توجہ الی اللہ زیادہ ہوتی ہے.اسی قدر جذب قلوب بھی زیادہ ہوتا ہے.چونکہ خدا کے فضل سے اس مبارک نماز میں میں خود بھی شریک تھا.اس لئے دیکھا گیا کہ بے اختیار دلوں پر عاجزی اور فروتنی اور حقیقی بجز وانکسار غالب آتا جاتا تھا اور دل اللہ تعالیٰ کی طرف کھچا جاتا تھا اور اندر سے آواز آتی تھی کہ دعا مانگو.قلب رقیق ہو کر پانی کی طرح بہہ بہہ جاتا تھا اور اس پانی کو آنکھوں کے سوا اور کوئی راستہ نکلنے کو نہ ملتا تھا اور اس مبارک وقت کے ہاتھ آنے پر شکر یہ الہی میں دل کو ہرگز گوارا نہ تھا کہ سجدہ سے سر اٹھایا جاوے غرضیکہ عجیب کیفیت تھی اور ایک متقی امام کے پیچھے نماز ادا کرنے سے جو جو بخششیں اور رحمت از روئے حدیث شریف مقتدیوں کے شامل حال ہوتی ہیں ان کا ثبوت دست بدست مل رہا تھا چونکہ یہ ایک ایسا عجب وقت تھا جس کے میسر آنے کی عمر بھر میں بھی امید نہ تھی.اور محض فضل ایزدی سے ہمیں اور چند ایک دیگر احباب ملت کو میسر آ گیا اس لئے مناسب ہے کہ اس مبارک وقت کے موجودہ مقتدیوں کے نام قلمبند کر دیئے جائیں.جن کی خدا تعالیٰ نے اس طرح عزت افزائی فرمائی اور آئندہ نسلوں کے لئے یہ ایک یادگار رہ جائے.اُن اصحاب کی فہرست جنہوں نے حضرت امام الزمان علیہ السلام کے مقتدی بن کر نماز ادا کی.(۱) محمد یوسف صاحب طالب علم پشاور اسلامیہ سکول ہائی کلاس (۲) مولوی عبد العزیز صاحب منتظم ساکن گوہد پور سیالکوٹ (۳) محمد ابراہیم صاحب کلارک ساکن گوہد پورسیالکوٹ (۴) عطا محمد صاحب زمیندار سا کن گوہد پورسیالکوٹ (۵) خلیفہ نورالدین صاحب سٹیشنری شاپ جموں (۶) عبدالرحیم صاحب ولد خلیفہ نورالدین صاحب

Page 237

تاریخ احمدیت.جلد 22 222 (۷) بابو غلام غوث صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ (۸) غلام رسول صاحب باورچی امرتسر سال 1963ء (۹) عبدالعزیز صاحب ٹیلر ماسٹر میرٹھ (۱۰) عبدالعزیز صاحب مدرس ایمن آباد (۱۱) حافظ محمد حسین صاحب ڈنگوی (۱۲) میاں شہاب الدین صاحب لدھیانہ (۱۳) حیدرشاہ صاحب گرداور شورکوٹ ضلع جھنگ (۱۴) حسین صاحب.ساکن کھٹالہ (۱۵) میاں شادی خاں صاحب تاجر سیالکوٹ (۱۶) مولوی یار محمد صاحب مخلص قادیان (۱۷) مولوی عبداللہ صاحب (۱۸) نعمت خاں صاحب محکمہ پلیگ گورداسپور (۱۹) میاں خیر الدین صاحب ساکن سیکھواں ضلع گورداسپور (۲۰) محمد افضل خادم احمدی جماعت ایڈیٹر مینجر اخبار بدر اگلے سال ۳ستمبر ۱۹۰۴ء کو لاہور کے احاطہ داتا گنج بخش میں بمقام منڈ وہ میلا رام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشہور لیکچر ہوا.جو آپ نے بھی سنا.اور دوسرے دن ۴ ستمبر کو حضور علیہ السلام کے ساتھ دوبارہ گورداسپور گئے.اس دفعہ جماعت احمدیہ پشاور کے قریباً بیس افراد آپ کے ہمراہ تھے.وہاں ایک ہفتہ سے زائد قیام رہا.ازاں بعد مئی ۱۹۰۶ ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے رخصتانہ کے موقعہ پر قادیان گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں آپ کو آخری بار نومبر ۱۹۰۷ء میں وہاں پندرہ دن تک قادیان دارالامان کی برکات سے متمتع ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.۲۸مئی ۱۹۰۸ء کو آپ نے مسجد مبارک میں بعد از نماز ظہر حضرت مولانا نورالدین خلیفتہ المسح الاول کی بیعت کی پھر دسمبر ۱۹۰۸ء کے جلسہ سالانہ پر گئے.پھر قریباً ہر سال قادیان جاتے رہے.جلسہ سالانہ ۱۹۱۲ء کے موقعہ پر آپ نے اپنی پشتو کتب کا مجموعہ ” ابلاغ حق حضرت خلیفہ اول

Page 238

تاریخ احمدیت.جلد 22 223 سال 1963ء کی خدمت میں پیش کیا.حضور بہت خوش ہوئے.اور ۲۸ دسمبر ۱۹۱۲ ء کو آپ کو ایک خصوصی تحریر دی جس میں حضور نے رقم فرمایا:.انشاء اللہ بہت دعا کروں گا.ایک رؤیا ہے حضرت عمر فر ماتے ہیں ایران بر باد ہو گئی.اب گو مجھے تبتر ا کرتے ہیں مگر اس کی پرواہ نہیں.میں اب فوجیں تیار کرتا ہوں اللہ کرے تم بھی افسر فوج 66 ہو جاؤ.10 حضرت قاضی صاحب خلافت ثانیہ کے آغاز میں ہی ایک پُر جوش مبلغ اور قلمی مجاہد کی حیثیت سے صوبہ سرحد کے مطلع پر ابھر آئے تھے اور بہت جلد اپنی تقریروں اور تحریروں سے سرحد کی مذہبی فضا پر چھا گئے.خصوصاً لاہوری تحریک کے اثرات زائل کرنے میں آپ نے فی الحقیقت افسر فوج کا کردار ادا کیا.آپ ہی کی تحریک پر ۱۹۴۰ء میں حضرت مولانا غلام حسن خاں صاحب پشاوری نے حضرت مصلح موعود کی بیعت خلافت کی.صدر انجمن احمد یہ قادیان کی ایک ابتدائی سالانہ رپورٹ میں آپ کی شاندار علمی خدمات کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں ملتا ہے.منی الفین سلسلہ کے مقابل میں تحریر و تصنیف اور تبلیغ کے کام میں ہمارے مکرم و معظم جناب مولانا قاضی محمد یوسف صاحب احمدی جس طرح ہمیشہ سے ممتاز ہیں اسی طرح سالِ حال میں بھی انہوں نے کوئی موقع فروگذاشت نہیں کیا جس میں انہوں نے یہاں کے غیر مبائعین پر اتمام حجت نہ کیا ہو.احباب اخبارات سلسلہ میں ان کے خیالات کا مطالعہ اکثر کرتے ہی رہے ہوں گے.اس کے علاوہ انہوں نے ایک انعامی چیلنج لکھ کر انجمن ہذا کی طرف سے شائع کرایا جس پر کئی ماہ گزر گئے مگر مخالفین میں سے کسی کو مقابلہ پر آنے کی جرات نہ ہوئی.جناب قاضی صاحب موصوف اپنی ذاتی قابلیت کے لحاظ سے ہماری جماعت کے روح رواں ہیں اور اس لئے ہماری جماعت کے اندرونی نظام، استحکام اور روز افزوں ترقی و کامیابی کا سہرا انہی کے سر ہے.انجمن ہذا کی لائبریری ۱۹۱۴ء سے بدستور جاری ہے جس میں جناب قاضی محمد یوسف صاحب احمدی کی مساعی جمیلہ اور حسن انتظام سے علاوہ سلسلہ کی جملہ کتب کے بہت سی دیگر مفید اور نادر کتا ہیں بھی مہیا کی گئی ہیں.سال زیر پورٹ میں مبلغ ۳۵ روپے کی کتابیں لائبریری میں ایزاد کی گئیں.11 66

Page 239

تاریخ احمدیت.جلد 22 224 سال 1963ء اپریل ۱۹۳۵ء میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مدیر الحکم نے آپ کی روایات سپرد اشاعت کرتے ہوئے لکھا:." قاضی صاحب ایک زبر دست اہل قلم اور مشہور مصنف اور شاعر ہیں.صوبہ سرحد میں ان کی شخصیت تمام احمد یوں میں مسلمہ ہے.منکرین خلافت کے رڈ میں ان کی قوت علمی نے بڑا کام 166 کیا.13 و جون ۱۹۳۵ء کو پشاور بازار قصہ خوانی میں ایک احراری عبدالعزیز نے آپ پر پستول سے حملہ کیا مگر خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے آپ کی حفاظت فرمائی.اللہ تعالیٰ نے آپ کی بریت کے واسطے پستول میں گولی ٹیڑھی کر دی اور پستول چل نہ سکا اور آپ نہ صرف دشمن کے بھر پور وار سے معجزانہ طور پر بچ گئے بلکہ خدا نے اس کے توہین رسول کے الزام کو جھوٹا ثابت کیا اور اسے 9 سال قید کی سزا ہوئی.۱۹۳۹ء خلافت جوبلی کے موقع پر مردانہ سٹیج سے چودہ ایڈریس حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی 14 خدمت میں پیش کئے گئے ان میں چھٹے نمبر پر صوبہ سرحد کا ایڈریس پیش کیا گیا.جس کی سعادت حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کے حصہ میں آئی.اس ایڈریس کا ذکر حضرت مصلح موعود نے خاص طور پر نہایت درجہ خوشنودی کے رنگ میں درج ذیل الفاظ میں فرمایا :.مجھے بتایا گیا ہے کہ ہر ایک نمائندہ نے وعدہ کیا تھا کہ تین منٹ کے اندر اندر اپنا ایڈریس ختم کر دے گا.لیکن سوائے اس ایڈریس کے جو صوبہ سرحد کی جماعتوں کی طرف سے پیش کیا گیا اور کسی نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا.پھر وہ جس طرح پیش کیا گیا ہے اس میں حقیقی اسلامی سادگی کا نمونہ نظر آتا ہے.اور اس لئے میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور محض چھاپ لینے کو میں سادگی کے خلاف نہیں سمجھتا.باقی جو ایڈریس پیش کئے گئے ہیں ان میں سادگی کو ملحوظ نہیں رکھا گیا.حقیقی سادگی وہ ہوتی ہے جسے انسان ہر جگہ اور ہمیشہ نباہ سکے اور اس کی قدر دانی کے طور پر میں ان سے وعدہ کرتا ہوں کہ ان کا سارا ایڈریس پڑھوں گا.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کی دینی خدمات کا سلسلہ بہت طویل ہے.آپ نے ایک لمبے عرصہ تک پہلے قادیان اور پھر ربوہ میں مجلس مشاورت میں نمائندگی کے کامیاب فرائض ادا کئے اور بعض سب کمیٹیوں کے ممبر بھی مقرر ہوئے.آپ نے تیرھویں صدی کے مجد داور حضرت سید احمد بریلوی اور 16

Page 240

تاریخ احمدیت.جلد 22 225 سال 1963ء حضرت شاہ اسماعیل شہید کے مزار بالا کوٹ پر کتبے نصب کرائے.آپ کی وہ مساعی جمیلہ جو آپ نے بہت سے احباب کو ملازمتیں دلانے اور تعلیم دلوانے میں کیں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں.آپ ایک لمبا عرصہ تک امیر صوبہ سرحد کے منصب پر فائز رہے اور آخر دم تک اپنے فرائض کمال مستعدی، جوش عمل ، اور زبر دست ولولہ کے ساتھ ادا کرتے رہے.آپ کے زمانہ امارت میں صوبہ سرحد کی جماعت نے غیر معمولی ترقی کی.پشاور شہر، سول کوارٹرز پشاور، بگٹ گنج مردان ، ہوتی ، کو ہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خاں کیمل پور، ایبٹ آباد میں شاندار مساجد تعمیر ہوئیں.آپ نے مہتران چترال سرداران افغانستان اور انگریزی حکام تک بڑی جرات سے احمدیت کا پیغام پہنچایا اور کامیاب مباحثے کئے.اپریل ۱۹۴۸ء میں جب حضرت مصلح موعود نے قیام پاکستان کے بعد صوبہ سرحد کا کامیاب سفر فر مایا تو آپ کو حضور کی معیت کا شرف حاصل ہوا.آپ کے ذریعہ سے صوبہ سرحد کے چوٹی کے خاندانوں تک آواز پہنچی اور متعدد شرفاء اور معززین شامل احمدیت ہوئے.جن کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.فہرست مبایعین بزمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۱) بابو دلاور خان صاحب ولد محمد امیر خان صاحب سا کن اسماعیلیہ ضلع مردان (۲) خانزادہ امیر اللہ خان صاحب خلف خدا داد خان اسماعیلیہ ضلع مردان (۳) حضرت مولوی عطاء اللہ شہید ساکن اسماعیلیہ ۱۹۰۴ء (۴) بابومحمد عالمگیر خان صاحب اوورسیئر ساکن اسماعیلیہ ۱۹۰۵ء (۵) میرزا شربت علی خان صاحب خلف محمد عمر خان صاحب ساکن کو چہ بھوانی داس جہانگیر پورہ شہر پشاور ۱۹۰۴ء (۶) (۷) امیر خسر وصاحب اور حیدر علی خان صاحب پسران محمد عمر خان صاحب کو چہ بھوانی داس ۱۹۰۴ء (۸) الف دین صاحب متبنی عبدالکریم صاحب ٹھیکیدار منڈی بیری طالب علم اسلامیہ ہائی سکول پشاور (۹) خان زادہ محمد یوسف خان صاحب خلف خاوی خان صاحب ساکن زیده ضلع مردان طالبعلم اسلامیہ ہائی سکول پشاور ۱۹۰۴ء (۱۰) خان محمد ارشاد علی خان صاحب خلف خان محمد ابراہیم خان صاحب ساکن زید ضلع مردان مقیم ہری پور ۱۹۰۶ء

Page 241

تاریخ احمدیت.جلد 22 226 سال 1963ء (11) حضرت مولوی مظفر احمد صاحب حافظ قرآن ساکن کلانور مقیم مالا کنڈ ۱۹۰۴ء (۱۲) محترم خان بہادر سعد اللہ خان صاحب خٹک صوبیدار میجر سوات لیوی مالا کنڈ ساکن امیر و تحصیل نوشہرہ ضلع پشاور بذریعہ حضرت حافظ مولوی مظفر احمد صاحب بزمانہ حضرت خلیفة المسح الاول وحضرت خلیفة المسیح الثانی (۱) خان زاده گل محمد خان صاحب خلف شاہ محمد خان صاحب ساکن زیده بزمانہ طالب علمی مقیم پشاور حال ایڈووکیٹ صوابی ضلع مردان ۱۹۱۰ ء (۲) خان زاده علی بہادر خان صاحب (۳) خان زادہ عبدالعزیز خان صاحب (۴) خان زادہ عبدالقیوم خان صاحب پسران رسالدار میجر عبدالقادر خان صاحب ساکن زیده ضلع مردان ۱۹۱۰ء (۵) خان زادہ محمد دلاور خان صاحب خان بہادر خلف خان عبدالقادر خان صاحب رئیس ساکن جھنڈ اضلع مردان (۶) خان بہادر شیر خان صاحب خلف سمندر خان صاحب ساکن زیدہ طالبعلم مشن ہائی سکول پیشاور (۷) شیر افضل خان صاحب خلف عبدالقادر خان صاحب ساکن جھنڈا طالب علم مشن ہائی سکول پیشاور (۸) ملک فیض محمد خان صاحب خلف شاد محمد خان صاحب ساکن زیدہ ضلع مردان ۱۹۱۰ء (۹) ملک محمد ایوب خان صاحب نمبر دار شیخ محمدی ضلع پشاور۱۹۱۱ء (۱۰) عبدالرؤف خان صاحب پسر کلاں محمد ایوب خان صاحب شیخ محمدی ۱۹۱۱ء (۱۱) استاد صاحب گل صاحب ساکن شیخ محمدی (۱۲) احمد گل صاحب برادر استاد صاحب گل صاحب شیخ محمدی (۱۳) عبدالاحد صاحب پوسٹ مین شیخ محمدی (۱۴) فقیر محمد خلف محمد امیر صاحب مدرس مڈل سکول زیدہ طالب علم مشن ہائی سکول پشاور (۱۵) فیض احمد صاحب میناری ساکن محله خویشگی گھنٹہ گھر پیشاور (۱۶) محمد عمر خان صاحب افغان ساکن شیر شاہی سمت مشرقی افغانستان

Page 242

تاریخ احمدیت.جلد 22 227 سال 1963ء (۱۷) صاحبزادہ عبدالمطلب صاحب ساکن لنڈی اخون محمد ضلع پیشاور (۱۸) نورگل خان صاحب ساکن نوده ضلع مردان ملازم خان محمد اسلم خان صاحب بره خان خیل مردان ۱۹۱۲ء (۱۹) میاں شہاب الدین صاحب مشن کالج پشا ور خلف میاں شفیع الدین صاحب سرخ ڈھیری ضلع مردان ۱۹۱۲ء (۲۰) اخوندزادہ فضل خالق صاحب ساکن میاں عیسی صاحب شب قدر ضلع پشاور ۱۹۱۲ء (۲۱) قاضی عبد الخالق صاحب خلف قاضی نصیر الدین صاحب ہری پور ہزارہ مشن کالج پشاور ۱۹۱۲ء (۲۲) شیخ عبد الخالق صاحب نو مسلم کمیونڈ ر مشن ہسپتال پشاور حال مقیم ربوہ ۱۹۱۳ء (۲۳) سالومن صاحب کرسچن نو مسلم مشن کالج پشاور ۱۹۱۳ء (۲۴) صاحبزادہ محمد باشم خان صاحب مجد دی ساکن شیر شاہی افغانستان مقیم تراہی ضلع پشاور ۱۹۱۳ء (۲۵) محمد صفدر جان صاحب پٹواری خلف الرشید استاد محمد جہانگیر خان قاضی خیل ہوتی ۱۹۱۱ء (۲۶) قاضی محمد عمر صاحب خلف الرشید قاضی عبد الحق صاحب قاضی خیل ہوتی ضلع مردان پٹواری ۱۹۱۱ء (۲۷) قاضی محمد شفیق صاحب خلف قاضی محمد صدیق صاحب قاضی خیل ہوتی ایم اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ مردان ۱۹۱۲ء (۲۸) محمد یعقوب خان صاحب بابڑ سا کن پیر پیائی ضلع پشاور.بی اے.بی ٹی.دسمبر ۱۹۱۲ء ایڈیٹر اخبار لائٹ لاہور (۲۹) کرنل صاحبزادہ احمد خان صاحب خلف سید لطیف صاحب خلف حضرت سیدامیر صاحب ساکن کو ٹھا ضلع مردان ۱۹۱۲ء (۳۰) محمد شریف صاحب کہنہ دوز ساکن لنڈی اخون محمد پشاور ۱۹۱۳ء (۳۱) مولوی عبدالحی خان صاحب کلرک میونسپل بورڈ پشاور خلف مولوی عبدالرحیم صاحب پنشنر اے ای سی ساکن شاہی بالا پشاور ۱۹۱۲ء (۳۲) ملتان خان صاحب ساکن شاہی بالا مقیم اچینی پایان ۱۹۱۲ء (۳۳) محمد عجب خان صاحب خلف خواجہ محمد صاحب سا کن اسماعیلیہ کلرک دفتر کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری سرحد مقیم پیشاور (۳۴) با بونصر اللہ خان صاحب خلف مرزا نظیف اللہ خان صاحب ساکن طور و مردان ۱۹۱۲ء

Page 243

تاریخ احمدیت.جلد 22 228 سال 1963ء (۳۵) با بوگل بادشاہ صاحب ساکن پیر پیائی ضلع پشاور ۱۹۱۲ء پوسٹماسٹر پنشنر (۳۶) قاضی عبدالرؤف صاحب خلف قاضی نصر اللہ خان صاحب ساکن لنڈی ارباباں پیشاور ۱۹۱۴ء (۳۷) مولوی عبد القیوم صاحب سوا تھی ایڈووکیٹ مانسہرہ ۱۹۱۸ء (۳۸) قاضی مظہر الحق صاحب خلف مولوی منہاج الدین صاحب ساکن کوٹ نجیب اللہ پشاور ۱۹۱۸ء (۳۹) با بو غلام محمد صاحب صوفی ساکن ڈیرہ اسماعیل خان پشاور (۴۰) محمد رستم خان صاحب خلف صو بہ دار محمد دلاور خان ساکن جلوز ائی پیشاور (۴۱) حمد نجیم خان صاحب ساکن پنج پیر ضلع مردان (۴۲) محمد سرفراز خان صاحب خلف محمد شریف صاحب ساکن موچی پورہ شہر پشاور ۱۹۱۷ء (۴۳) منشی غلام محمد خان صاحب بلوچ محرر دفتر چیف کمشنر سرحد پشاور ساکن بستی سوری لنڈاں ضلع ڈیرہ غازی خان (۴۴) سکندر خان صاحب بلوچ برادر منشی غلام محمد خان صاحب (۴۵) مختار احمد صاحب ایم.اے (۴۶) افتخار احمد صاحب پسران حضرت حافظ مولوی مظفر احمد صاحب مرحوم پشاور (۴۷) میاں بہا در دین صاحب ساکن چمکنی ضلع پشاور سودا گر جفت چرم کو چہگل بادشاہ پیشاور (۴۸) میاں عبداللطیف صاحب شفق بی اے (۴۹) میاں عبدالرفیق صاحب (۵۰) میاں عبدالرشید صاحب (۵۱) میاں عبداللہ جان صاحب (۵۲) میاں عبد الحمید صاحب پسران میاں بہادر دین صاحب موصوف (۵۳) حضرت میرزا محمد رمضان علی خان صاحب خلف ملاں عبدالرزاق صاحب کو چه رسالدار پشاور (۵۴) مولوی غلام رسول صاحب ریڈر سیشن جج پشاور ساکن پنڈی لالہ ضلع گجرات مقیم پیشاور (۵۵) میرزا شربت علی خان ۱۹۳۶ء (۵۶) میاں احمد جان صاحب خیاط پسر محمد خلیل صاحب پشاور (۵۷) حضرت محمد اسماعیل صوفی کوچہ کاچ پڑاں پیشاور ۱۹۲۵ء

Page 244

تاریخ احمدیت.جلد 22 229 سال 1963ء (۵۸) بابو نصر اللہ خان صاحب طور و ۱۹۱۵ء (۵۹) خانزاده تاج محمد خان صاحب خلف خان خدا داد خان صاحب آف اسماعیلیه ضلع مردان (۶۰) خانزاده امیر زادہ خان صاحب صوبے دار (۶۱) خانزادہ عبدالرحمن خان صاحب (۶۲) خانزاده محمود احمد خان صاحب (۶۳) خانزاده عزیز احمد خان صاحب (۶۴) خانزادہ عبدالرحیم خان صاحب پسران امیر اللہ خان صاحب ساکن اسماعیلیہ ضلع مردان (۶۵) امیر محمد خان صاحب خلف شیر محمد خان صاحب بذریعہ عموش امیر احمد خان صاحب ساکن اسماعیلیہ ضلع مردان (۶۶) میاں اعراف اللہ صاحب کا کا خیل ساکن دھو بیاں ضلع مردان پینشنر پوسٹ ماسٹر۱۹۲۳ء (۶۷) میجر جنرل احیاء الدین صاحب خلف خان بہا درمیاں وسیع الدین صاحب سرخ ڈھیری مردان ۱۹۲۴ء (۶۸) محترمه قانتہ بیگم صاحبہ بذریعہ میجر جنرل احیاء الدین صاحب برادر (۶۹) والدہ صاحبہ میاں فضل ہادی صاحب سرخ ڈھیری بذریعہ پشتو کتب (۷۰) میاں فضل ہادی صاحب بی اے.بی ٹی کا کا خیل سرخ ڈھیری ضلع مردان (۷۱) محترم خان صاحب میاں فضل حق صاحب بی اے رئیس نرے ضلع مردان (۷۲) میاں فضل رحیم صاحب خلف صاحب شادمیاں کا کا خیل سرخ ڈھیری کلرک انہار (۷۳) خان بہادر میاں وسیع الدین صاحب خلف میاں برہان الدین صاحب ساکن ڈھیری مردان (۷۴) اخون زاده محمد شاہ صاحب خلف اخون زاده حضرت شاہ صاحب ساکن دو بیان ضلع مردان ۱۹۲۳ء (۷۵ ) محمد نوشاد خان صاحب خلف حضرت شاہ صاحب ساکن دو بیان ضلع مردان (۷۶) سمندر خان صاحب ساکن کیری ہزارہ ۱۹۱۷ء (۷۷) مولوی عبد الرحمن صاحب ساکن کیری بذریعہ سمندر خان صاحب کیری ہزارہ (۷۸) میر حبیب اللہ شاہ صاحب ساکن دایہ ضلع ہزار ۱۹۲۰۰ء

Page 245

تاریخ احمدیت.جلد 22 230 سال 1963ء (۷۹) پیراحمد زمان شاہ صاحب خلف میر حبیب اللہ شاہ صاحب دا توی ضلع ہزار ہ ۱۹۲۰ء (۸۰) کرامت اللہ خان صاحب خلف سعد اللہ خان صاحب بابڑ سا کن پیر پیائی ضلع پشاور (۸۱) ملک چراغ شاہ صاحب موضع اچینی پایان ضلع پشاور ۱۹۲۶ء (۸۲) محمد جمشید خان صاحب بی اے.ایل ایل بی ایڈووکیٹ ساکن اچینی پایان ضلع پشاور (۸۳) مقبول شاہ صاحب بی اے ساکن اچینی پایان پشاور (۸۴) اسرار حسین صاحب خلف ملک صندل خان صاحب نمبر دار چینی پایان پشاور (۸۵) میمون شاہ صاحب (۸۶) محمد اکبر شاہ صاحب پسران چراغ شاہ صاحب اچینی پایان پیشاور (۸۷) مهر دل خان صاحب ساکن اسپانڈ وضلع پشاور (۸۸) ملک کندل خان صاحب سفید ڈھیری بذریعہ مباحثات ۱۹۲۶ء (۸۹) فقیر محمد خان صاحب سفید ڈھیری (۹۰) فیض محمد خان صاحب ساکن سفید ڈھیری بذریعہ مباحثات ۱۹۲۶ء (۹۱) ملک عبدالقیوم خان صاحب خلف ملک ایوب خان صاحب ساکن شیخ محمدی پشاور (۹۲) رحمت اللہ خان صاحب حیسون موضع شیخان پانڈی ۱۹۱۰ء (۹۳) ڈاکٹر محمد رمضان صاحب ترک ساکن نملی ہزار ۱۹۲۸ء (۹۴) محمد صادق صاحب ترک (۹۵) محمد رفیق صاحب ترک برادر زادگان ڈاکٹرمحمد رمضان صاحب (۹۶) گل زمان خان ساکن ہوتی بذریعہ پشتو کتب (۹۷) عبدالکریم بابا صاحب اہل حدیث اچینی پایان (۹۸) ارباب محمد عجب خان صاحب بی اے.ساکن تہ کال بالا پشاور (۹۹) ملک وحیدالزمان صاحب خلف مولوی عبدالرحمن صاحب ساکن تیمور کہولہ ہزارہ (۱۰۰) ملک نوراحمد صاحب نمبر دار شیخ محمدی پشاور (۱۰۱) ملک عبدالغنی خان صاحب صدر جماعت شیخ محمدی پیشاور (۱۰۲) استاد صاحب گل صاحب شیخ محمدی پشاور

Page 246

تاریخ احمدیت.جلد 22 231 سال 1963ء (۱۰۳) صاحبزاده خلیل الرحمن صاحب بازید خیل پشاور (۱۰۴) صاحبزادہ سیف الرحمن خان صاحب بذریعہ خان بهادر محمد دلاور خان صاحب بازید خیل پیشاور (۱۰۵) میرزا یوسف علی خان صاحب (۱۰۶) میرزار جب علی خان صاحب پسران نوروز علی خان صاحب ساکن چڑدہ کو بان شہر پشاور (۱۰۷) میرزاند علی خان صاحب ساکن پیشاور (۱۰۸) خان صاحب شیخ خدا بخش صاحب پنشنز اے سی.پشاور (۱۰۹) مستری میاں محمد صاحب کی (۱۱۰) میجر عبدالحمید صاحب خلف راجہ سیدا کبر خان صاحب اور ان کے والد راجہ سیدا کبر خان صاحب پنشن محمر سیشن جج پشاور ساکن کہوٹہ ضلع جہلم (11) حضرت اللہ مہمند صاحب ساکن عمرے بانڈہ پشاور بذریعہ گل زمان خان صاحب ہوتی (۱۱۲) شاہ پور خان صاحب بذریعہ محمد صفدر جان صاحب غزنی خیل ہوتی 19 (۱۱۳) محمد الطاف خان صاحب باجوڑی کلرک محکمہ انہار بذریعہ گل زمان خان صاحب ہوتی.حضرت قاضی صاحب نے اردو، فارسی اور پشتو ( نظم و نثر ) میں عظیم الشان لٹریچر پیدا کیا.جس کی تفصیل حسب ذیل ہے.اردو کتب و رسائل (۱) النبوة في القرآن (۱۳۵۰ھ ) (۲) النبوۃ فی الوحی والالہام (۳۰ جنوری ۱۹۲۱ء) (۳) النبوة فی الا حادیث ( دسمبر ۱۹۲۰ء) (۴) چیلنج انعامی یکصد روپیه درباره نبوت (۵) در عدن نظم اردو (۶) کتاب الحیات ( یکم دسمبر ۱۹۳۷ء) (۷) مولوی محمد علی صاحب کا موجودہ مذہب خلاف احمد آخر زمان (اگست ۱۹۴۰ء) (۸) امتیاز (۹) احمد جری الله (۱۷/ اگست ۱۹۳۲ء) (۱۰) احمد مدعی نبوت (۱۳۵۲ھ ۱۹۳۳ء) (۱۱) احمد مدار نجات (۱۳۵۲ھ، ۱۹۳۳ء) (۱۲) اسمه احمد (۱۳۵۱ھ،۱۹۳۲ء) (۱۳) احمد علیہ السلام کے دعوی کی بنیاد (۱۳۵۲ھ) (۱۴) تذکرۃ الحسن (۱۳۵۲ھ ) (۱۵) ایک غلط فہمی کا ازالہ (۱۶) انا جیل کا یسوع اور قرآن کا عیسی (۱۳۵۳ ھ ،۱۹۳۴ء) (۱۷) صيانة الصالحين (۱۳۵۳ھ،۱۹۳۴ء) (۱۸) احمد کی پاکیزہ زندگی (۱۳۵۳ھ ۱۹۳۴۰ء) (۱۹) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات مقدسہ (۲۰) مجھے میرا مذہب کیوں پیارا ہے.(۱۹۳۴ء) (۲۱) وفات حضرت عیسی

Page 247

تاریخ احمدیت.جلد 22 232 سال 1963ء ناصری (۱۹۳۵ء) (۲۲) تنقید بر اشتہار یوم الدعاء (۲۳) آنے والا مسیح آ گیا (۲۴) دو درجن چیلنج (۲۵) سید نا حضرت محمد اور قیام امن (۲۶) عاقبہ المکذبین حصہ اول افغانستان ۱۹۳۶ء (۲۷) عاقبته المکذبین حصہ دوم ( قلمی ).(۲۸) یسوع اور آسمان (۲۹) یسوع اور صلیب (۳۰) کیا یسوع خدا تھا؟ (۳۱) کیا یسوع خدا کا بیٹا تھا؟ (۳۲) کیا یسوع نبی تھا؟ (۳۳) کیا یسوع بے گناہ تھا؟ (۳۴) عیسائیت کی اصلیت نمبر ۱.۱۳۵۱ھ (۳۵) عیسائیت کی اصلیت نمبر ۲ (۳۶) یسوع اور تثلیث (۳۷) خالق الطيور (۳۸) عالم الغیب (۳۹) محی الموتی (۴۰) کلمتہ اللہ (۴۱) روح الله (۴۲) عیسی در کشمیر (۴۳) عیسائیوں کے نام ایک خط (۴۴) روح القدس (۴۵) فتح مبین (۴۶) کھلا خط بنام مولوی ثناء اللہ (۴۷) ماسٹر نظام الدین کے نام پینج (۴۸) ماسٹر نظام الدین کے نام دوسرا چیلنج (۴۹) میر مدثر شاہ صاحب کے دو مذہب (۵۰) میر مدثر شاہ صاحب کا مذہب خلاف حضرت احمد علیہ السلام (۵۱) اشتہارات تردید غیر مبایعین درباره توہین رسول (۵۲) اشتہارات تردید مولوی کفایت حسین شیعه (۵۳) اشتہارات تردید انجمن اشاعت اسلام پشاور (۵۴) قاطع الانف الشیعۃ (۵۵) عقائد احمدیہ (۵۶) خواجہ کمال الدین صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب (۵۷) مختصر تاریخ احمدیت در سرحد قلمی (۵۸) شہدائے حق (۱۹۵۸ء) (۵۹) تاریخ احمد یہ سرحد (۲۰) احمد موعود.(۶۱) جماعت احمدیہ اور احرار.دیگر اردو کتب ( جو خلافت لائبریری ربوہ کی فہرست میں ہیں) (۱) مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر قرآن (۱۹۴۰ء) (۲) کفر توڑ ( دسمبر ۱۹۲۰ء) (۳) تردید کتاب کلمه فضل رحمانی (۴) رسالہ احمد (۵) تقریریں (جون ۱۹۱۴ء) (۶) جماعت احمدیہ اور احرار (۱۹۵۳ء) (۷) جواب حقائق قرآن (۸) چیلنج درباره انقطاع نبوت (۹)حقيقة المسيح مع حقيقة اليسوع و مطاع نبی (۱۰) حضرت احمد کا فرمان (۱۱) عرضداشت (۱۲) خلاصه عقیده احمدیہ (۱۳) تین چیلنج درباره شیعه (۱۴) عیسائیت قدیم بت پرستی کا چربہ (۱۵) سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (۱۹۳۵ء، ۱۹۳۶ء).فارسی کتب (۱) در عدن فارسی نظم (۱۹۱۹ء) (۲) احمد موعود (۱۳۵۱ هجری.۱۹۳۲ء) (۳) انسان کامل 221

Page 248

تاریخ احمدیت.جلد 22 233 سال 1963ء (۴) آیت خاتم النبین و تفسیر سلف صالحین (۱۳۵۴ هجری -.۱۹۳۵ء) (۵) وفات حضرت عیسی ناصری 23 (1) عقائد احمدیہ (۷) فضیلت سیدنا حضرت محمد مصطفے بر جمیع انبیاء (۸) خلاصہ عقائد احمد یہ فارسی منظوم تصانیف بزبان پشتو (۱) وفات مسیح ناصری (۲) آثار قیامت (۱۹۱ء) (۳) نزول مسیح (۱۹۱۲ء) (۴) عقائد احمد یہ (۱۹۱۲ء) (۵) خروج دابتہ الارض (۱۹۱۱ء) (۶) خروج الدجال (۱۹۱۲ء ) ( ۷ ) خروج یا جوج ماجوج (۱۹۱۲ء) (۸) تحفة النبوت (۱۹۱۲ء) (۹) ضمیمہ تحفۃ النبوت ابلاغ حق (۱۰) الاسلام (۱۹۱۲ء) (1) تبلیغ نمبرا پشتو نظم (۱۹۱۳ء) (۱۲) دلائل قرآنیہ بر وفات عیسی ناصری (۱۳) التبلیغ نمبر۳ دلائل وفات عیسی ناصری از سلف صالحین (۱۹۱۳ء) (۱۴) تردید دلائل حیات حضرت عیسی ناصری (۱۹۱۳ء) (۱۵) حقیقۃ المهدی (۱۹۱۳ء) (۱۶) تذکرة النبي من جانب رضاء الله (۱۷) تذکرۃ النبی منجانب خان بہادر محمد دلاور خان (۱۳۴۰ هجری) (۱۸) در عدن پشتو بطر زنظم (۱۹) حقیقۃ الیسوع (۲۰) حقیقت امسیح (۲۱) النبوة في القرآن (۱۳۵۰ هجری) (۲۲) الموعود فی القرآن (۲۳) تفسیر خاتم النبین وسلف صالحین (۱۳۵۴ هجری، ۱۹۳۵ء ) (۲۴) مطاع نبی (۲۵) مطالبات برھانیہ (۲۶) عذاب اور رسول (۲۷) التبليغ نمبرا (۲۸) پشتو دیوان احمدی (۲۹) آه! نادر شاہ (۳۰) احمدیت اور افغانستان (۳۱) احسن الحدیث (۳۲) پشتو ضرب الامثال (۳۳) قواعد پشتو (۳۴) افغانستان اور احمدیت (۳۵) پشتو کا قاعدہ (۳۶) در یہی کتاب (۳۷) دوئم کتاب (۳۸) ترجمه قرآن مجید بزبان پشتو ناشر نظارت اشاعت ربوه (۱۹۹۰ء) پمفلٹ (۱) کھلا خط بنام جناب مولوی محمد علی صاحب وکیل لاہور و پریذیڈنٹ انجمن اشاعت اسلام لاہور (۱۲ مئی ۱۹۳۴ء) (۲) مولوی محمد علی صاحب کے جماعت احمدیہ سے دوسوال اور ان کے جوابات ( ۳۰ جولائی ۱۹۴۰ء) (۳) ”بہتان عظیم مولوی محمد علی صاحب ایم اے کے رفقائے کار کا اخبار پیغام صلح ضلع لاہور ، اخبار زمیندار اور اخبار مدینہ بجنور میں جماعت احمدیہ کے خلاف ناپاک پراپیگنڈا ( ۳۰ اپریل ۱۹۳۵ء) (۴) مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے منسوخ ہونے کا سوال ( ۲۵ جولائی ۱۹۴۰ء ) (۵) مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقائے کار کا

Page 249

تاریخ احمدیت.جلد 22 234 سال 1963ء مذہب حضرت احمد مسیح موعود کی تحریرات اور خود ان کے اپنے سابقہ مذہب کے خلاف ہے ، (اگست ۱۹۴۰ء) (۶) چودھویں صدی کا مجد دکون ہے؟ جميع فرق اسلامیہ کے لئے بیس ہزار روپے کا انعامی چیلنج.یکم اکتو بر۱۹۵۲ء مر مطبوعه کتب و متفرق رسائل 25 (۱) وفاق المسیح مفصل (۲) مطیع نبی (۳) در منشور (۴) خطاب به بنی اسرائیل (۵) تذکره آل عمر (1) تاریخ بنی اسرائیل قلمی (۷) پشتو لغات (۸) تفسیر القرآن چارجلد (۹) عیسائیت قدیم یہودیت کا چربہ (۱۰) احمد کا کام (۱۱) الفرقان (۱۲) مظہر العجائب.اس بلند پایہ لٹریچر کے علاوہ حضرت قاضی صاحب کے قلم سے الحکم، بدر، ریویو آف ریلیجنز اردو، فاروق اور الفضل میں متعد د مضامین شائع ہوئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ”سیرت المہدی کی تین جلدوں میں آپ کی بیان فرمودہ کئی ایمان افروز روایات شامل فرمائی ہیں.سرحد میں سب سے پہلے آپ نے پشتو اور فارسی میں رسائل اور کتا بیں شائع کیں.۱۹۱۲ء میں قرآن کریم با ترجمه و تفسیر سنایا اور آسٹریلیا، برما، جزائر شرق الہند، ایران، افغانستان ، بلوچستان، بنگال، کشمیر، حیدر آباد دکن، آزاد قبائل میں آپ کی تصانیف بکثرت پہنچیں.افغانوں کا احمدیت سے متعلق سرمایہ علم عرصہ دراز تک آپ ہی کی کتب رہیں.قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپر د قلم فرمایا :.حضرت قاضی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی تھے اور عرصہ دراز تک جماعت ہائے احمد یہ صوبہ سرحد کے امیر رہے.اور ان کے ذریعہ کثیر التعدادلوگوں نے احمدیت کو قبول کیا.بہت مخلص اور سلسلہ احمدیہ کے فدائی بزرگ تھے اور کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.اور ان کی اولا د اور دیگر عزیزوں کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.حضرت قاضی صاحب کے شمائل و عادات مکرم و محترم کیپٹن محمد سعید صاحب دارالرحمت غربی ربوہ حضرت قاضی صاحب کے شمائل و اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.

Page 250

تاریخ احمدیت.جلد 22 235 سال 1963ء مجھے قاضی صاحب سے اپریل ۱۹۲۴ ء سے تعارف ہے جبکہ بوجہ ملازمت میں لاہور سے تبدیل ہو کر لنڈی کو تل اور پھر پشاور تعینات ہوا.قاضی صاحب مہمان نوازی اور سخاوت میں کمال درجہ کے انسان تھے.اپنے مہمانوں سے بے حد محبت کرتے اور مجھے بھی مہمانوں کے ہمراہ گھر پر لے جاتے.بہت خاطر تواضع کرتے.مہمانوں سے بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتے ان کی خیریت پوچھتے احمدیوں اور غیر احمدیوں کے حالات دریافت فرماتے.کسی صاحب کو کوئی حاجت ہوتی تو اس کے ساتھ جا کر پوری کوشش کر کے کام کرا دیتے.لوگوں کی مالی امداد بھی کرتے تھے.قاضی صاحب کی زبان اس قدر شیریں تھی کہ لوگ محبت سے ان کا کلام سنتے.حضرت مسیح موعود کے فدائی تھے.آپ کو حضرت احمد علیہ السلام یا احمد قادیانی کہہ کر پکارا کرتے تھے.آپ غیر احمدی اور مخالف علماء سے سخت سے سخت باتیں سن کر نہایت متانت اور مومنانہ انداز میں دلائل پیش کر کے ان کو چپ کرا دیتے تھے.آپ نے پشتو ، فارسی اور اردو میں متعدد تبلیغی رسائل اور کتابیں لکھیں.آپ کا منظوم کلام بھی موجود ہے.بالعموم عصر کی نماز کے بعد قرآن کریم کا درس دیتے تھے جس میں احمدی و غیر احمدی شامل ہوتے.درس ایسا پُر لطف ہوتا جسے چھوڑنے کو جی نہ چاہتا.مخالفین گلی سے گزرتے گالیاں دیتے.بیٹھے ہوئے لوگوں پر پتھر چلاتے مگر کیا مجال کہ درس میں ذرا بھر بھی رکاوٹ ہو.مغرب کی نماز کے بعد انجمن کے اردگرد رہنے والے اپنے اپنے گھروں سے روٹی لا کر مسجد میں مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھاتے.کھانا کھاتے جاتے اور قاضی صاحب پُر لطف کلام سناتے چلے جاتے.ہر آدمی سن کر دل میں مسرت محسوس کرتا.ہفتہ میں کم از کم ایک بار ضرور باہر تبلیغ کے لئے تشریف لے جاتے.مجھے ان کے ساتھ اسلامیہ کالج سفید ڈھیری ، پبی، مردان، نوشہرہ اور پشاور کے مضافات میں جانے کا موقع ملا ہے.خوانین کے مکان پر جاکر ان کے علماء اور گاؤں کے عوام کو بلا کر ایسی عمدہ باتیں کرتے کہ ان کے شبہات پل بھر میں دور کر دیتے.دلائل کی ایسی دیوار کھڑی کر دیتے کہ کوئی عالم اسے توڑ نہ سکتا.قاضی صاحب کے کلام کو لوگ بطور اتھارٹی تسلیم کرتے.غیر مبائع حضرات سے بھی ملتے ان سے تبادلہ خیالات کرتے ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے.انہیں اپنی مسجد میں لاتے اور خاطر و مدارات کرتے.قیدیوں اور دیگر محتاجوں کی بھی مدد کرتے اور ان کے گھر والوں کی حسب توفیق امداد فرماتے.گھر باہر، بازار میں چلتے پھرتے کسی کی موت پر ، گاڑی میں ، تانگہ پر غرض ہر حالت میں احمدیت کا پیغام دوسروں تک پہنچاتے.غرض ایک غیور اور جواں مرد، راست گو اور احمدیت کے فدائی بزرگ تھے.جنہوں نے ساری عمر تبلیغ اسلام میں.

Page 251

تاریخ احمدیت.جلد 22 236 سال 1963ء گزار دی.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے اور پسماندگان پر فضل عظیم نازل کرے.آمین یا رب العالمین.29 مکرم و محترم آدم خان صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ مردان تحریر کرتے ہیں:.قاضی محمد یوسف صاحب سے میرا تعلق ایسے وقت میں ہوا جب کہ وہ اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو چکے تھے.میں نے ان کو تبلیغ حق میں بڑا نڈر اور بے حد مخلص پایا.تقسیم پاکستان سے قبل پشاور کا واقعہ ہے کہ سمندر خاں نامی ایک بد بخت انسان نے قاضی صاحب کے خلاف افترا باندھا کہ انہوں نے نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے.اس افترا کو پیغام صلح میں شائع کر دیا گیا.باقی اخبارات نے بھی اس کی تشہیر کی.گو حضرت قاضی صاحب نے اس کی تردید میں بیانات شائع کئے لیکن ایک شخص نے قصہ خوانی بازار میں قاضی صاحب پر پستول سے حملہ کر دیا خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ کارتوس مس ہو گیا اور قاضی صاحب نے حملہ آور کو موقع پر ہی پکڑ لیا.معاملہ حکومت تک گیا اور وہ شخص قید ہوا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے قاضی صاحب کی بریت کردی.حضرت قاضی صاحب ہوتی میں رہتے تھے.لیکن ان کو ہر جگہ احمدی جماعتوں میں مساجد بنوانے کی دھن لگی رہتی تھی.ایبٹ آباد کی مسجد کی تعمیر میں ان ہی کی مساعی اور ہمت کا خاص دخل ہے.اکثر تبلیغی سفر کرتے رہتے تھے میں نے ان کے ساتھ ایک تبلیغی سفر کیا اور اس امر کا مشاہدہ کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہر جگہ ان کی تائید و نصرت کے لئے غیر معمولی انتظام کر دیتا تھا.مکرم چوہدری جمال احمد صاحب قادیانی واقف زندگی چیچہ وطنی حضرت قاضی صاحب کی سیرت کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں.جن خوش قسمت پھلوں نے شمع مسیح کے پروانے بن کر نجوم“ کا مقام پایا.تھوڑے ہی دن گزرے کہ ان میں سے ایک درخشندہ ستارہ اپنی منزل مراد کو پہنچا.یعنی حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پراونشل امیر جماعت احمد یہ سابق صوبہ سرحد وفات پا کر اپنے حقیقی مولی کے پاس جا پہنچے.مجھے آپ کو کچھ عرصہ تک قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا مگر اس مختصری رفاقت نے میرے قلب و نظر پر بہت گہرے نقوش اجاگر کئے.جہاں آپ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک قابل مصنف، قابل مبلغ، اعلیٰ درجہ کے منتظم، بہترین نگران اور امین تھے وہاں آپ کو اپنے پختہ ایمان اور بصیرت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام اور درجہ کے ساتھ گہرا رابطہ بھی تھا اور اس معاملہ میں آپ 30

Page 252

تاریخ احمدیت.جلد 22 237 سال 1963ء غیر معمولی طور پر غیور واقعہ ہوئے تھے.جن لوگوں نے خلافت ثانیہ کے آغاز پر حضور علیہ السلام کے مقام کو کم کرنے کی کوشش کی.وہ انہیں کسی رعایت کے مستحق نہیں سمجھتے تھے.اپنے حلقہ امارت میں اپنے تقوی، روحانیت علم ، وجاہت اور جوش تبلیغ کے سب ممتاز اور منفرد مقام رکھتے تھے.یہی وجہ تھی کہ آپ سالہا سال تک صوبائی امیر کی حیثیت سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے نائب کے طور پر اس علاقہ میں نمایاں رہے.آپ ایک باعمل ” مرد مجاہد تھے جن کی زندگی تربیت جماعت اور تبلیغ دین کے لئے وقف تھی.سابق صوبہ سرحد میں نصف صدی تک ایک نڈر ، بہادر اور راست گو مبلغ بن کر شہر شہر اور قریہ بہ قریہ پھر کر خدا کی آواز اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسيح‘ناتے رہے.یہاں تک کہ پشاور کے بازار میں آپ پر پستول سے قاتلانہ حملہ بھی ہوا اور معجزانہ طور پر آپ سلامت رہے بلکہ خود کود کر حملہ آور کو پکڑ لیا اور پولیس کے حوالے کر دیا.جب جماعتوں میں دورہ کرتے تو سب کے لئے دعا کرتے ہر شخص کے دکھ درد کو سنتے اور ہمدردی اور محبت کا اظہار کرتے.ہر جگہ احمدیہ مساجد کی تعمیر کی تلقین کرتے اور بار بار توجہ دلاتے.میں نے بالا کوٹ میں حضرت سید احمد شہید بریلوی کے مزار پر آپ کا لگوایا ہوا سنگ مرمر کا کتبہ دیکھا جس پر نیچے یہ حروف تھے.” قاضی محمد یوسف احمدی اپنے عرصہ ملازمت میں انگریز افسروں کو بھی اسلام کی تبلیغ کرتے رہے.عیسائیوں سے بھی مباحثات کرتے رہے.اپنی تقریر وتحریر میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا ذکر حضرت احمد کے الفاظ سے کیا کرتے تھے.بالعموم قال اللہ اور قال الرسول ہی گفتگو کا موضوع رہتا تھا.تکلفات سے بالا تھے.مرکز کا نمائندہ ہونے کے سبب میرے ساتھ غیر معمولی محبت رکھتے تھے.علاقہ کے مخصوص ماحول اور طبائع کے پیش نظر اپنے تجربہ کی بناء پر ہدایات سے نوازتے.تا زندگی میرے لئے دعا فرماتے رہے.مانسہرہ میں قیام کے دوران میری رہائش گاہ پر بھی تشریف لاتے رہے.۱۹۵۹ء میں جب حضرت اقدس مصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ موسم گرما گزارنے کے لئے ایبٹ آباد تشریف لائے تو حضور نے آپ کو یاد فرمایا.آپ باوجود علالت کے حاضر ہو کر شرف یاب ہوئے.ایک دفعہ پھر مانسہرہ تربیتی دورہ پر تشریف لائے تو کئی روز قیام فرمایا.ساتھ مربی سلسلہ مولانا چراغ الدین صاحب فاضل بھی تھے ان دنوں خصوصاً حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مقام پر تقاریر اور نجی گفتگو فرماتے رہے.ایک دن میری رہائش گاہ پر تشریف لائے تو میں نے اپنی ذاتی ڈائری آپ کے سامنے رکھ دی اس کے صفحہ نمبر ۱۰۳ پر اپنے ہاتھ سے یہ نوٹ لکھ دیا کہ:.

Page 253

تاریخ احمدیت.جلد 22 238 سال 1963ء اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو لمبی عمر ، صحت اور علم اور روحانیات میں ترقی دے اور اعمال صالحہ ( تبلیغ احمدیت) کی کامیاب توفیق عطا کرے اور احمد یہ مشن جہاں آپ ہوں مقبول ہوتا جائے اور آپ سے لوگ حق پاویں.والسلام.قاضی محمد یوسف احمدی، ہوتی ضلع مردان نزیل مانسہرہ ہزار ۳ راگست ۱۹۶۰ء اس نوٹ کے ایک ایک لفظ سے آپ کی اشاعت احمدیت کی تڑپ آشکارا ہوتی ہے.اور آپ کی زندگی کے جو مقاصد تھے.میرے لئے انہیں کے لئے دعا کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ان الفاظ کو قبولیت بخشے مختصر یہ کہ حضرت قاضی صاحب کو قریب سے دیکھنے والے کو اصحابی کالنجوم 66 کا مفہوم صحیح طور پر سمجھ میں آجا تا تھا.اولاد حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کے غیر مطبوعہ قلمی نوٹ (مورخہ ۲۷ دسمبر ۱۹۵۹ء) صفحہ ۱۵.۷ اسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دو شادیاں کیں.دونوں سے دس دس یعنی کل ۲۰ بچے پیدا ہوئے.پہلی بیوی سے قاضی محمد احمد صاحب، قاضی محمود احمد صاحب اور ایک دختر محترمہ آمنہ بیگم اور دوسری بیوی سے قاضی بشیر احمد صاحب، قاضی مسعود احمد صاحب، محترمہ بی بی عائشہ محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ محترمہ زبیدہ ناہید صاحبہ محترمہ قدسیہ نسرین صاحبہ وغیرہ کے نام درج فرمائے ہیں.حضرت خان عبدالمجید خان صاحب کپورتھلوی ولادت ۱۸۸۵ء بیعت : ۸ مارچ ۱۸۹۲ء وفات : ۴ جنوری ۱۹۶۳ء 36 آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق صادق حضرت منشی محمد خان صاحب کپور تھلوی کے صاحبزادہ تھے.اور اُن خوش قسمت اصحاب میں سے تھے جو سالانہ جلسہ قادیان ۱۸۹۲ء میں شامل ہوئے.عرصہ تک جماعت احمد یہ کپورتھلہ کے پریذیڈنٹ رہے.آپ سلسلہ احمدیہ کے سچے فدائی اور بہت عابد وزاہد اور دعا گو بزرگ تھے.قال اللہ اور قال الرسول پر عمل کرنے اور ہمیشہ عمل پیرا رہنے میں کوشاں رہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے متعدد مواقع پر آپ کو بشارات سے نوازا اور ایسے غیر معمولی طور پر آپ کو کا میاب فرمایا کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذاتی تعلق اور رابطہ کا شرف رکھتے تھے اور حضور کی خدمت میں دعائیہ خطوط با قاعدگی سے ارسال کرتے اور اسے ایک دینی اور روحانی فریضہ سمجھتے تھے.(حضرت اقدس علیہ السلام 37-

Page 254

تاریخ احمدیت.جلد 22 239 سال 1963ء کے نام آپ کے اخلاص و محبت سے لبریز بعض خطوط شعبہ تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں) آپ کا ایک اور نمایاں وصف یہ تھا کہ آپ پابندی اور تعہد کے ساتھ ہر نماز مسجد میں ادا کرتے اور یہی آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی غذا تھی.اور بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود اس میں فرق نہیں آنے دیا.سلسلہ کے بزرگوں اور مرکزی کارکنوں کی مہمان نوازی میں بے حد بشاشت اور سرور محسوس کرتے اور ذاتی توجہ سے اس کا اہتمام فرماتے.حضرت خاں صاحب لمبا عرصہ تک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے.آپ نے اپنے فرائض نہایت عمدگی سے ادا کئے اور ملازمت کا طویل عرصہ نیک نامی سے گذارا.آپ کی دیانت ، امانت اور عدل و انصاف کا کپورتھلہ میں عام چرچا تھا.ریٹائر ہونے کے بعد بھی لباس میں وضع داری کو قائم رکھا.موسم گرما میں اکثر کوٹ اور پگڑی وغیرہ زیب تن کر کے مسجد میں آتے خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدِ (الاعراف: ۳۲) کے ارشاد خداوندی پر عمل پیرا رہتے تھے.آپ کے اندر وقار اور سکینت کا یہ رنگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود کے مبارک طریق کی والہانہ اطاعت وفرمانبرداری سے پیدا ہوا تھا.۱۹۴۷ء کے قیامت خیز دور میں آپ کپورتھلہ سے ہجرت کر کے لاہور آ گئے.اور تا دم واپسیں ماڈل ٹاؤن سی بلاک میں قیام پذیر رہے.جہاں حضرت میاں محمد یوسف صاحب ( نائب امیر جماعت لاہور ) اور حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر جیسے بزرگ اصحاب بھی رہائش رکھتے تھے.قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپر قلم فرمایا :.خان عبدالمجید خاں صاحب موصوف نہ صرف خود ایک نہایت اور سادہ مزاج مخلص صحابی تھے بلکہ ان کے والد بزرگوار خان محمد خان صاحب مرحوم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین صحابیوں میں سے تھے اور اول درجہ کے مخلص اور فدائی بزرگ تھے جن کے وجود سے کسی زمانہ میں کپورتھلہ کی جماعت کو خاص زینت حاصل تھی.کپورتھلہ کی جماعت وہ ممتاز جماعت تھی جسے بڑا امتیاز حاصل تھا اور وہ ایسے افراد پر مشتمل تھی جو اپنے اخلاص اور فدائیت اور نیکی میں خاص شان رکھتی تھی.اس جماعت کے تین بزرگ تو خصوصیت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب اور اپنے اخلاص اور محبت میں غیر معمولی طور پر ممتاز تھے یعنی خان محمد خان صاحب ( والد خان عبدالمجید خاں صاحب مرحوم )

Page 255

تاریخ احمدیت.جلد 22 240 سال 1963ء اور منشی اروڑ ا صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب.اگر میں ان تین بزرگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گردگھومنے والے چاند اور ستارے کہوں تو ہر گز بے جانہ ہوگا.یہ وہی بزرگ جماعت ہے جن کے اخلاص کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا تھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ جس طرح یہ دوست دنیا میں میرے ساتھ رہے.اسی طرح آخرت میں بھی میرے ساتھ ہوں گے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اور ان کی اولادوں کو اپنے خاص فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۱۲ جنوری ۶۱۹۶۳ 39 اولاد: محترمہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ، خان عبدالحمید خاں صاحب، محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ - 1 40 آپ کی ایک نواسی مکرمہ قیصرہ بیگم صاحبہ (مرحومہ) مکرم صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود کی اہلیہ تھیں.حضرت صوفی محمد فضل الہی صاحب ولادت ۱۸۸۶ء بیعت : ۱۹۰۲ء وفات : ۴ / جنوری ۱۹۶۳ء 41 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت صوفی کرم الہی صاحب کے صاحبزادے اور حضرت مصلح موعود کے کلاس فیلو تھے.حضرت مولانا شیر علی صاحب، حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب، حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب جیسے بزرگ اور شفیق اساتذہ سے تلمذ کا شرف حاصل تھا.بسلسلہ ملازمت شملہ، میرٹھ اور آگرہ میں رہے اور ہر جگہ سلسلہ کی خدمت میں مصروف رہے.آگرہ میں کچھ عرصہ سیکرٹری تعلیم وتحریک جدید ر ہے.پھر سیکرٹری مال مقرر ہوئے.درس قرآن دینے کا شغف بھی تھا.چہرہ پرکشش اور پر نور تھا.تہجد گزار اور صاحب کشف و الہام تھے.غیر احمدی بلکہ ہندو تک آپ کی بزرگی کے قائل تھے.جب آپ کو آگرہ میں ایک مکان چھوڑنا پڑا تو محلہ والوں کو بہت فکر دامنگیر ہوا اور فیصلہ کیا کہ آپ کو اس محلہ سے جانے نہ دیا جائے اور پھر خود ہی ایک موزوں مکان کا بندو بست اسی محلہ میں کر دیا.حالانکہ آپ کا خاندان اس محلہ میں اکیلا احمدی تھا اور محلہ میں کئی لوگ احمدیت کے مخالف بھی تھے مگر سبھی آپ کی پارسائی اور تقوی شعاری کے معترف تھے.کئی لوگ پہلی ملاقات میں ہی آپ کے گرویدہ ہو جاتے اور کہہ اٹھتے کہ آپ بزرگ اور ولی اللہ ہیں.

Page 256

تاریخ احمدیت.جلد 22 241 سال 1963ء تھے.صفائی اور سادگی کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھے.خلوت کو جلوت پر مقدم رکھتے تھے اور بہت کم گو 42 اولاد شریف احمد صاحب ، عزیز احمد صاحب (لندن) حضرت مولوی فضل دین صاحب آف مانگٹ اونچا ولادت ۱۸۸۸ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات : ۲۷ جنوری ۱۹۶۳ء.ابتدائی تعلیم ڈی وی سکول حافظ آباد میں حاصل کی.بچپن سے ہی علم جغرافیہ سے بہت دلچپسی تھی.ابتداء میں آپ کے والد سجاول صاحب اور خود بھی احمدیت کے سخت مخالف تھے.والد صاحب نے تو آخری عمر میں سال ۱۹۳۹ء میں بیعت کی لیکن مولوی صاحب اپنے خسر محمد دین صاحب اور خالہ مریم بی بی صاحبہ کی تبلیغ سے ۱۹۰۴ء میں داخل احمدیت ہو گئے اور لمبا عرصہ تک حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سے اکتساب فیض کیا اور قرآن پڑھنے کی تو فیق ملی.آپ خلافت ثانیہ کے ابتدائی زمانہ میں کئی سال تک جماعتی مدرسہ مانگٹ اونچے کے مدرس رہے بعد ازاں دو تین سال تک انسپکٹر بیت المال کی حیثیت سے ضلع گوجرانوالہ، گجرات، شاہ پور، جھنگ، ملتان، منٹگمری ، جالندھر اور لدھیانہ کے اضلاع کا دورہ کیا اور درس کا سلسلہ بھی جاری رکھا.۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۳ء تک آپ شیخو پورہ میں درس و تدریس میں مصروف رہے.ازاں بعد آپ نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے یوپی کے مختلف شہروں میں درس قرآن دیتے رہے.مثلاً مین پوری، فرخ آباد، آگرہ ، سہارن پور، شاہجہان پور لکھنو، دہلی، کانپور، صالح نگر،ساندھن.یوپی میں آپ یکم اکتوبر ۱۹۳۴ء سے لے کر ۱۹ / جولائی ۱۹۴۷ء تک تبلیغی خدمات بجالاتے رہے.بعد ازاں آپ کو امیر جماعت حیدر آبا دسید بشارت احمد صاحب کی درخواست پر حیدر آباد دکن میں متعین کیا گیا.قیام حیدر آباد دکن کے دوران یاد گیر، اوٹ کور، چنتہ کنٹہ، تیما پور، حیدر آباد اور سکندر آباد کی مخلص جماعتوں میں تعلیم قرآن کا زبر دست ولولہ اور ذوق و شوق پیدا ہوا اور خصوصاً حضرت میر محمد سعید صاحب، حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب، حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب اور حضرت سید بشارت احمد صاحب کے مشہور احمدی خاندانوں کی بیگمات اور صاحبزادیاں آپ کے ذریعہ قرآن شریف کی آسمانی نعمت سے خوب فیضیاب ہوئیں.

Page 257

تاریخ احمدیت.جلد 22 242 سال 1963ء آپ وفات سے چند سال پہلے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے اور اپنے آبائی وطن مانگٹ اونچے میں وفات پائی اور اب بہشتی مقبرہ ربوہ کی خاک میں ابدی نیند سور ہے ہیں.اولاد: (مراد بی بی صاحبہ کے بطن سے ) (۱) جمال دین صاحب (۲) عرفان احمد صاحب (۳) بشارت احمد صاحب (۴) سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد اسماعیل اسلم صاحب واقف زندگی.آپ کے ایک پوتے رضوان احمد شاہد صاحب ابن عرفان احمد صاحب مبلغ آئیوری کوسٹ اور ایک نواسے طاہر احمد مبشر صاحب ابن مولوی محمد اسماعیل اسلم صاحب مربی سلسلہ ہیں ) حضرت منشی دیانت خان صاحب نادون ضلع کانگڑہ ولادت ۱۸۸۰ء بیعت و زیارت : ۱۸۹۶ ء وفات : ۳۱ جنوری ۱۹۶۳ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳ صحابہ کبار میں نادون ضلع کانگڑہ کے دو بزرگ حضرت منشی امانت خان صاحب (نمبر ۱۷۵) اور حضرت منشی شہامت خان صاحب ( نمبر ۲۷۹) تھے.حضرت منشی دیانت خان صاحب ان کے بھائی تھے.آپ اپنے خود نوشت حالات میں تحریر فرماتے ہیں.سال ۱۸۸۰ء کا ذکر ہے.قصبہ نادون میں ایک فقیر سائیں قلندر شاہ رہتا تھا.ایک دفعہ وہ پنجاب کی طرف سے سیر کر کے گیا تو میرے بھائی منشی شہامت خان صاحب کو کہا کہ خاں میاں امام مہدی پیدا ہو گئے ہیں مگر ابھی ظاہر نہیں ہوئے ہیں.مجاہدہ میں ہیں افسوس میں اُن کے دعوئی تک (دنیا) میں نہیں رہوں گا.میرے بھائی نے پوچھا وہ کہاں پر ہیں؟ تو اُس نے جواب دیا کہ بٹالہ کے پاس قادیں ایک بستی ہے اس جگہ پر ہیں.“ نیز فرماتے ہیں:.66 ’ سال ۱۸۹۶ء میں کمترین...قادیان پہنچا.ایک بزرگ سے جن کا نام میں نہیں جانتا (اس وقت میری عمر ۶ اسال کی تھی ) ذکر کیا کہ میں حضرت امام مہدی کی زیارت کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے حضور کے حضور پیش کر دیا.حضور نے پوچھا کہاں سے آئے ہو.جب میں نے نادون کا نام لیا تو حضور نے برادران کا حال پوچھا.جو پوچھتے تھے عرض کر دیتا تھا حضور نے فرمایا چند روز ابھی اس جگہ رہو کمترین نے کہا میری والدہ بہت ضعیف ہے.زیادہ دن ٹھہر نہیں سکتا.گھر سے اجازت لے کر نہیں آیا ہوں.اس واسطے جلدی چلا جانا ہے بیعت کر کے دوسرے روز واپس چلا گیا.افسوس حضور کی صحبت میں زیادہ دیر ٹھہرنے کا موقعہ نہ ملا.

Page 258

تاریخ احمدیت.جلد 22 243 سال 1963ء ( حضرت منشی صاحب نے اپنی روایات میں لکھا ہے کہ اُن کے بھائیوں نے ۱۸۸۹ء میں بیعت کی تھی ، یہ سہو معلوم ہوتا ہے.بیعت اولیٰ کی تاریخی فہرست میں جو مارچ ۱۸۸۹ء سے ۲۸ / اکتوبر ۱۸۹۲ء تک کے زمانہ پر مشتمل ہے.ان کا نام موجود نہیں ہے.) اولاد: رشید احمد خان صاحب باٹا پور لاہور ، چوہدری عزیز احمد خان صاحب (متوفی 4761907 آپ کے ایک پوتے مکرم ظہیر احمد خان صاحب مربی سلسلہ اس وقت انگلستان میں خدمات دینیہ بجالا رہے ہیں اور آپ کے ایک پڑپوتے مکرم احسان احمد خان صاحب ابن مکرم وسیم احمد خان صاحب ۲۸ مئی ۲۰۱۰ ء کے سانحہ لاہور میں شہید ہوئے.حضرت مولوی محمد عزیز الدین صاحب ولا دت ۲۲ / جون ۱۸۸۸ء.بیعت : ۱۹۰۱ء 49.وفات: ۳۱ / جنوری ۱۹۶۳ء 50.مکیریاں ضلع ہوشیار پور کے ایک جید عالم دین حضرت مولوی وزیر الدین صاحب تھے (۳۱۳ صحابہ کبار میں آپ کا نام نمبر ۱۴ پر درج ہے جو براہین احمدیہ کی اشاعت پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کا اشتیاق لئے پا پیادہ مکیریاں سے قادیان حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی لیکن حضور نے ارشاد فرمایا.میں مامور نہیں ہوں تا ہم آپ اس یقین سے لبریز رہے کہ آپ ہی امام مہدی ہیں اور پھر مع اہل و عیال حضور کی خدمت میں حاضری دینے اور دعاؤں کی درخواست کرنے لگے.آپ کی چھلڑ کیاں تھیں اور اب تک اولا دنرینہ سے محروم تھے حضرت اقدس کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا جس کا نام حضور علیہ السلام نے محمد عزیز الدین رکھا.اس خدائی شان کو دیکھ کر خاندان کے سب چھوٹے بڑے سجدات شکر بجالائے.یہ ۲۲ جون ۱۸۸۸ء کی بات ہے.حضرت مولوی محمد عزیز الدین صاحب نے اپنے والد مکرم کے زیر سایہ ور ٹینکر مڈل کا امتحان ، بعد میں میٹرک تک تعلیم قادیان دارالامان میں حاصل کی تھی.آپ کو حضرت مصلح موعود، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے ہم مکتب ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا.حصول تعلیم کے بعد ریلوے میں ملازم ہو گئے اور ہندوستان میں کئی مقامات پر اسٹیشن ماسٹر کے فرائض بجالاتے رہے اور ہر جگہ اپنے علم، اخلاق اور تقویٰ سے لوگوں کو گرویدہ اور فریفتہ بنایا.

Page 259

تاریخ احمدیت.جلد 22 244 سال 1963ء سلسلہ کے لٹریچر پر خاصا عبور تھا.اس لئے تبلیغی مسائل میں دوسروں پر احمدیت کی دھاک بٹھا دیتے.فارسی اور عربی میں بھی دسترس حاصل تھی.الفضل کے اہم مضامین ، خطبات امام اور مرکزی تحریکات غیر احمدی معززین کی مجالس میں سنانے کا اہتمام فرماتے.بعض تعلیم یافتہ غیر مسلموں نے آپ سے گور مکھی اور ہندی لٹریچر کا مطالعہ کیا اور انہیں مرکز اور سلسلہ احمدیہ سے گہرا لگاؤ پیدا ہو گیا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی و شیدائی تھے اور ہمیشہ خلافت کے دامن کے ساتھ والہانہ شان کے ساتھ وابستہ رہے.حضرت مصلح موعود کی ذات مقدس سے غیر معمولی عقیدت تھی چنانچہ ۳ / جون ۱۹۳۰ء کو جب لاہور کے اخبار ٹریبیون میں حضور کی جھوٹی خبر چھپی تو آپ ضبط نہ کر سکے اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور یہ کہتے ہوئے تو آپ کی بچکی بندھ گئی کہ خدایا ہم نے پوری طرح قرآن نہ سیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہو گیا.پھر ہم نے تیرے پہلے خلیفہ سے کچھ کلام پاک کی معرفت حاصل کی اور حضرت خلیفہ ثانی کے مبارک وجود نے پھر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پُر انوار زمانے کی بہار دکھانا شروع کی تھی.ابھی بہت تفسیر باقی ہے کروڑوں لوگ تو اس خزانے سے محروم اور ترستے ہوئے دنیا سے گزر چکے ہیں الغرض آپ ماہی بے آب کی طرح ایسے بے قرار ہوئے کہ آپ کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی اور جب تک اس غلط خبر کی تردید نہیں پہنچی آپ کو چین نہیں آیا.دینی مطالعہ آپ کی زندگی کے مستقل مشاغل میں شامل تھا اور آپ کی روحانی غذا کی حیثیت رکھتا تھا.ذوق مطالعہ کی تسکین کے لئے باقاعدہ بجٹ بناتے تنخواہ سے پس انداز کرتے رہتے اور جب مرکز جانے کا اتفاق ہوتا سلسلہ کا نیا لٹریچر ضر ور خرید کر لاتے.قلیل آمد میں بھی سلسلہ کے تمام اخبارات کے با قاعدہ خریدار تھے جوانی میں وصیت کی توفیق پائی اور جائیداد کے پانچویں حصہ کی وصیت کر کے اسے بہت اخلاص سے نبھایا.آپ کی وفات کے بعد خاندان کو علم ہوا کہ آپ کی وصیت پانچویں حصہ کی تھی لیکن پائی پائی اپنی زندگی میں بے باق کیا ہوا تھا.وصیت کے علاوہ تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں میں بھی حسب توفیق حصہ لیتے رہتے تھے.خاندان میں بہت ہر دلعزیز تھے.مزاج صوفیا نہ تھا.ضرورت سے زیادہ گفتگو نہ فرماتے.بزرگان سلسلہ اور واجب الاحترام ہستیوں کی از حد تعظیم کرتے اور ان کی خدمت میں عجز وانکسار سے حاضر ہوتے تھے.

Page 260

تاریخ احمدیت.جلد 22 245 سال 1963ء خوش نویسی انہیں اپنے والد مکرم کے ورھ میں ملی تھی.تحریر ایسی تھی جیسے موتی پروئے ہوئے ہوں.خط و کتابت میں بہت با قاعدہ تھے اور نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت بابرکت میں با قاعدہ خطوط لکھو.اُن کی نگاہ میں مبلغین احمدیت اور واقفین کی بہت قدرومنزلت تھی اور ان کی ملاقات سے قلبی اور روحانی لذت محسوس کرتے.تبلیغی واقعات بہت دلچسپی سے سنتے اور علمی نکات و معارف سے بہت محظوظ ہوتے تھے.جسمانی صحت وصفائی کا خاص خیال رکھتے تھے.لباس ہمیشہ صاف ستھرا سادہ اور اسلامی وضع کا زیب تن فرماتے.بلاناغہ سیر اور روزانہ غسل آپ کا معمول رہا.اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں آپ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور اپنے نمونہ سے انہیں بچے اور فدائی احمدی کی طرح لیل و نہار گزارنے کا خوگر بنایا.بریکاری سے آپ کو سخت نفرت تھی.ہمیشہ خدمت خلق میں مصروف رہتے.نقد امداد کے علاوہ ادو یہ بھی مفت دیتے تھے.غیر احمدی رشتہ داروں نے آپ کو فرشتہ سیرت کا خطاب دے رکھا تھا.متوکل بزرگ تھے.آپ نے بہت ہی سادگی سے اپنی عمر گذاری.تکلف سے کوسوں دور تھے.زبان پر کبھی حرف شکایت نہیں آنے دیا.نہ کبھی کسی خواہش کا اظہار فرمایا.خدا تعالیٰ کی جناب سے جو کچھ میسر آیا اس پر قانع اور خوش رہے.آپ اپنے کاموں میں بہت با قاعدہ تھے اور پابندی وقت کا خوب خیال رکھتے تھے.اپنے مسلمان اور غیر مسلم غرضیکہ ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے دوستوں کا بے حد احترام کرتے تھے.لین دین کے معاملات میں نہایت صاف تھے.حق سے زیادہ دینا آپ کو بہت پسند تھا.اسی لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو کبھی مقروض نہیں ہونے دیا اور نہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت محسوس کی.صاف گوئی میں اُن کا کوئی جواب نہ تھا.کبھی لگی لپٹی نہ رکھتے.ہر بات صاف صاف کہہ دیتے تھے.خدمت دین کو نعمت غیر مترقبہ سمجھتے تھے اور اس وجہ سے اپنے بیٹے مولوی حکیم محمد الدین صاحب مبلغ سلسلہ سے انہیں بہت محبت تھی.مولانا صاحب تقریباً ۲۳/۲۲ سال کی طویل مدت تک آپ سے ہزاروں میل دور بھارت میں رہے.(حتی کہ وفات کے وقت وہ آپ کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکے.) لیکن آپ نے کمال صبر سے یہ جدائی برداشت کی اور انہیں عمر بھر غم مفارقت کا احساس تک نہ ہونے دیا.مبادا خدمت دین میں کوئی کمزوری واقعہ ہو.باوجود شدید علالت اور ضعف کے ۱۹۶۲ء کے جلسہ سالانہ ربوہ میں شامل ہوئے اور ربوہ میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی.

Page 261

تاریخ احمدیت.جلد 22 246 سال 1963ء اولاد: (۱) محترمہ صالحہ فاطمہ صاحبہ مرحومه خوشدامن صاحبہ مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوه (۲) صلاح الدین صاحب مرحوم (۳) محمد علیم الدین صاحب (وفات ۳۰ را گست ۱۹۹۸ء ) بی اے، ایل ایل بی سابق اسسٹنٹ فنانشل ایڈوائز رفنانس ڈیپارٹمنٹ مرکزی حکومت پاکستان و امیر جماعت احمد یہ اسلام آباد (۴) مولوی حکیم محمد الدین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ.۲۰۱۱ء سے صدر، صدر انجمن احمد یہ قادیان (۵) عطاء اللہ صاحب مرحوم (۲) محترم رشید الدین صاحب زعیم اعلیٰ انصار اللہ کراچی ( وفات ۱۰ / فروری ۱۹۹۹ء) (۷) صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ جناب بشیر احمد صاحب کپور تھلوی حضرت منشی عبدالخالق صاحب کپور تھلوی ولادت ۱۸۸۵ء بیعت و زیارت : ۱۹۰۲ ء وفات : ۲۴ فروری ۱۹۶۳ء.آپ کے والد ماجد مولوی محمد حسین صاحب ( ساکن پریم چیت پور علاقہ ریاست کپورتھلہ ) 56 ۳۱۳ صحابہ کبار میں سے تھے جن کا نام حضرت اقدس علیہ السلام نے ۱۳۵ نمبر پر درج فرمایا ہے.خود لکھتے ہیں میں ۱۹۰۳ء ۱۹۰۴ء میں قادیان میں تعلیم پاتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے معجزات تابعدار نے اپنی آنکھوں دیکھے اور ایمان تازہ ہوتا رہا.“ نی تحریر فرماتے ہیں:.”خاکسار نے حضور علیہ السلام کے ساتھ اکثر بلکہ بہت کثرت سے نمازیں ادا کی ہیں.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور بعد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب اعظم خلیفہ اول امامت کرایا کرتے تھے اور حضور علیہ السلام امام کے داہنے طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے بعد نماز حضور علیہ السلام اکثر تشریف فرما مسجد میں ہی ہوتے تھے.مختلف مسائل اور مہمانوں کے سوالات کا جواب حضور فرمایا کرتے تھے جو ایمانی ترقی کا موجب ہوتا تھا.سیر میں بھی حضور علیہ السلام مسائل بیان فرمایا کرتے تھے.حضور علیہ السلام سیر میں تیز قدم جاتے تھے.حضرت مولوی عبداللطیف صاحب شہید کو جب حضور علیہ السلام کا بل کے لئے رخصت فرمانے لگے تو خاکسار ہمراہ گیا تھا.کئی دفعہ خاکسار نے حضور علیہ السلام کو چندہ دیا.کئی دفعہ اندر بھیج دیا جس پر حضور علیہ السلام نے اپنی قلم سے تحریر فرمایا ہوا تھا کہ رقم پہنچ گئی.جزاکم اللہ احسن الجزاء.افسوس ہے کہ وہ مبارک تحریر میں جو میرے

Page 262

تاریخ احمدیت.جلد 22 247 سال 1963ء 57 اور میری اولا د اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے موجب ازدیاد ایمان ہوتیں گم ہو گئیں.خاکسار نے حضور علیہ السلام کی صحبت میں ایمانی ترقی کی.محترم منشی صاحب نے شروع میں ریاست کپورتھلہ میں پٹواری کے طور پر ملازمت شروع کی.بعض دفعہ قائمقام گرداور اور قائم مقام نائب تحصیلدار بھی ہوئے.۱۹۲۲ء میں ملازمت ترک کر کے مستقل طور پر قادیان تشریف لے آئے اور عرصہ دراز تک حضرت سید میر محمد الحق صاحب کی زیر نگرانی نظارت ضیافت قادیان کے کارکن کی حیثیت سے لنگر خانہ میں خدمات بجالاتے رہے اور اس فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دیا.تحریک شدھی کے زمانہ میں آنریری مبلغ اسلام کے طور پر علاقہ ملکانہ میں کام کیا.آپ اس دور کے بہت ایمان افروز واقعات سنایا کرتے تھے.لنگر خانہ کے بعد آپ لمبے عرصہ تک بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ رہے.ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد شروع شروع میں ربوہ سے متصل احمد نگر میں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کا آغاز ہوا.ان دنوں اکثر اساتذہ اور کارکنان کا قیام احمد نگر میں تھا.حضرت منشی عبد الخالق صاحب بھی مستقل طور پر یہیں رہائش پذیر ہو گئے.آپ نماز با جماعت کے بہت پابند تھے.جب آپ مسجد میں دو ایک نمازوں میں نظر نہ آتے تو اندازہ ہوتا تھا کہ یا سفر پر گئے ہیں یا بیمار ہیں چنا نچہ ایسا ہی ہوتا.آپ کا وجود مسجد کی رونق تھا.حد درجہ ملنسار، خلیق، ہنس مکھ ، زندہ دل اور شگفتہ مزاج تھے.مہمان نوازی کا بہت جذبہ تھا.آپ کی یہ نمایاں خوبی تھی کہ ناراضگی کو دل میں جگہ نہیں دیتے تھے اور انہیں اپنے قصور وار کو معاف کرنے میں خوشی محسوس ہوتی تھی اور اگر یہ کہ دیا جاتا کہ قصور آپ کا ہے تو وہ خود معذرت کرنے میں ہمیشہ سبقت لے جاتے تھے.جماعتی تحریکات میں بالعموم اپنی طاقت سے بڑھ کر حصہ لیتے تھے.اپنے دوستوں کے نہایت مخلص دوست تھے اور تکلیف اٹھا کر بھی اُن کی امداد کرتے تھے.زندگی کے آخری سالوں میں آپ کو بہت تنگدستی در پیش تھی مگر آپ نے ہر حالت میں مومنانہ صبر اور حوصلہ کا نمونہ دکھایا.اخلاص کا یہ عالم تھا کہ پہلے آپ کی وصیت ۱/۱۰ کی تھی مگر آخری سالوں میں ۵ احصہ کی کر دی تھی.مرض الموت کے دوران ضعف بہت ہو گیا مگر چہرہ پر مسکراہٹ رہتی تھی.آپ نے اپنے پیچھے ایک بیوہ چار بیٹے اور چار بیٹیاں بطور یاد گار چھوڑیں.58

Page 263

تاریخ احمدیت.جلد 22 248 سال 1963ء آپ کے ایک داماد مکرم ماسٹر محمد شفیع اسلم صاحب امیر المجاہدین تھے.جنہوں نے اپنی تالیف ”میری کہانی میں بھی آپ کے حالات درج فرمائے ہیں.( حضرت منشی صاحب کے ایک نواسے مکرم الیاس احمد اسلم صاحب نے مسجد النور ماڈل ٹاؤن لاہور میں ۲۸ مئی ۲۰۱۰ ء کو شہادت کا عظیم مرتبہ پایا.) حضرت حکیم قریشی شیخ محمد صاحب ولادت: ۱۸۸۷ء 59 بیعت: ۱۹۰۰ء یا ۱۹۰۱ء ( زیارت اس سے قبل ) 60 وفات : ۱۴ مارچ ۱۹۶۳ء 1 ) حضرت قریشی صاحب آف دہرانوالہ داروغیاں ضلع گورداسپور حضرت مسیح موعود کی صداقت کے ایک عظیم الشان نشان کے گواہ تھے جس کی تفصیل میں آپ فرماتے ہیں:.موضع طالب پور پنڈوری میں میرا ایک رشتہ دار عبد القادر نامی تھا جو میرا استاد بھی تھا.میں جب کبھی وہاں جایا کرتا تھا تو اس کے ساتھ سلسلہ کے متعلق اور حضرت صاحب کے متعلق گفتگو ہوا کرتی تھی کیونکہ میں نے بیعت کر لی ہوئی تھی اور میں اُن دنوں قادیان میں رہا کرتا تھا اور حضرت خلیفہ اول کے مطب میں پڑھا کرتا تھا اور طریق علاج سیکھا کرتا تھا.ایک دفعہ میرا ایک اور رشتہ دار جس کا نام فضل احمد تھا وہ بھی غیر احمدی تھا موضع طالب پور میں گیا تو اس کے ہاتھ عبد القادر مذکور نے ایک اپنی لکھی ہوئی تحریر جو کچھ نثر اور کچھ نظم اور نہایت بخش اور گندی گالیوں سے بھری ہوئی تھی میرے پاس بھیجی اور زبانی پیغام بھیجا کہ اس کا جواب دیوئیں.میں نے وہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب کو دکھلائی اور انہوں نے حضور علیہ السلام کے حضور پہنچا دی.حضور نے دیکھ کر فرمایا جو متلاشی حق ہیں ان کے اعتراضات کا جواب تو ہماری کتابوں میں بارہا دیا گیا ہے مگر اس گندہ دہنی اور خواہشات کا کیا جواب ہوسکتا ہے اب خدا تعالیٰ ہی انصاف کرے گا.چنانچہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد وہ طاعون سے ہلاک ہو گیا.نہ وہ اکیلا بلکہ ایک اس کا داماد بھی تھوڑے دنوں بعد طاعون سے ہلاک ہو گیا.حضرت اقدس ان دنوں حقیقۃ الوحی لکھ رہے تھے جس میں آپ نے ایسے لوگوں کے واقعات لکھے ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح سے مباہلہ کیا چنانچہ میں نے ماسٹر عبدالرحمن صاحب کے ذریعہ حضرت صاحب کو اس کی اطلاع کی کہ حضور وہ شخص عبدالقادر نامی بھی معہ اپنے رشتہ داروں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا ہے تو حضور نے مجھ کو بلایا.میں اور میرا ایک

Page 264

تاریخ احمدیت.جلد 22 249 سال 1963ء ماموں زاد بھائی اس کا نام میاں شیخ محمد ہے جو قادیان کا رہنے والا اور پوسٹ مین ہے.(فہرست صحابہ قادیان میں آپ کا نام ۳۳۸ نمبر پر موجود ہے اور آپ کے کوائف حسب ذیل لکھے ہیں: شیخ محمد ولدیت میاں غلام قادر صاحب حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان پیدائشی احمدی ۱۹۰۳ء سن زیارت ۱۸۹۳ء.آپ کی خود نوشت روایات رجسٹر روایات جلد ۱۳ صفحہ ۳۹۴ ۴۰۰ میں درج ہیں.دونوں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور نے اس وقت مہندی لگائی ہوئی تھی اور پوستین جو زرد رنگ کی ہوتی تھی، پہنی ہوئی تھی اور آپ اس وقت نئے مہمانخانہ کے اوپر جس میں اب حضرت میاں بشیر احمد صاحب رہتے ہیں.(یہ بیان اا نومبر ۱۹۳۹ء کا ہے ) ٹہل رہے تھے.حضور نے اس کے متعلق دریافت فرمایا.میں نے عرض کی کہ حضور اُس نے خود ہی دعا کی تھی کہ یا الہی جلد تر انصاف کر جھوٹ کا دنیا سے مطلع صاف کر.سوخدا تعالیٰ نے اس کو جو جھوٹا تھا مٹا دیا اور طاعون سے تھوڑے ہی دنوں کے اندر ہلاک کر دیا بلکہ ایک اس کا داماد بھی جو اس کا تیمار دار تھا ہلاک ہوا.حضور نے دریافت فرمایا کہ اس کی کوئی اور تحریر اور مضمون بھی تمہارے پاس ہے تو ہم نے عرض کیا کہ حضور ہمارے پاس تو اور کوئی تحریر نہیں ہے شاید اس کے گھر سے کوئی اور مضمون مل جاوے مگر یہ جو تحریر ہے اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے.حضور نے فرمایا کہ ہم اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں لکھنا چاہتے ہیں تم وہاں جا کر دریافت کرو کہ کوئی اور مضمون بھی اس کا ہے یا نہیں ؟ تمہارا نام بھی کتاب میں درج ہو جائے گا اور بعض دفعہ ایسے امور بھی مغفرت کا موجب ہو جاتے ہیں.خیر پھر میں اور میرا ماموں زاد بھائی شیخ محمد دونوں ہی طالب پور میں گئے اور بہت جستجو کی کہ اس کی کتابیں دیکھیں مگر کوئی اور مضمون نہ ملا.حضور نے پھر اس کو ہی حقیقۃ الوحی میں درج فرما دیا.حضرت حکیم مولوی اللہ بخش خاں صاحب زیروی 63 66 ولادت: ۱۸۸۷ء بیعت : اپریل ۱۹۰۵ ء وفات : ۲۱ مارچ ۱۹۶۳ء زیرہ ضلع فیروز پور میں احمدیت کی داغ بیل عالم ربانی حضرت مولا نا مولوی علی محمد صاحب کے ہاتھوں پڑی.حضرت حکیم مولوی اللہ بخش صاحب آپ ہی کے شاگرد تھے جنہیں حضرت مولانا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے بارہ میں استخارہ کرنے کی تلقین فرمائی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت واضح رؤیا کے ذریعہ امام الزمان کی سچائی آپ پر آفتاب کی طرح نمایاں کر

Page 265

تاریخ احمدیت.جلد 22 250 سال 1963ء دی.بعد ازاں آپ زیرہ کے دو اور عشاق احمدیت حضرت منشی کا کو خاں صاحب اور حاجی محمد دین صاحب کمبوہ کی معیت میں ۵ اپریل ۱۹۰۵ء کو تخت گاہ مسیح زمان قادیان دارالامان روانہ ہوئے اور وہاں پہنچتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.حضرت اقدس نے مولانا علی محمد صاحب کے نام یہ پیغام دیا کہ مولوی صاحب سے کہیں کہ اب وہ غزنوی باغ کی بجائے احمدی باغ کی بلبل ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں زیرہ میں بہت جلد ایک مضبوط اور مخلص جماعت دے گا.حضرت مولانا علی محمد صاحب کو لمبی عمر نصیب نہ ہوئی لیکن آپ اپنے فیض تربیت اور روحانی توجہ سے اپنے شاگرد رشید ( حضرت حکیم صاحب) کے قلب و ذہن میں احمدیت کے ساتھ ایسا عشق اور والہیت بھر گئے کہ احمدیت ہی اُن کا اوڑھنا بچھونا بن کر رہ گئی.وو آپ کے فرزند جناب ثاقب زیر وی صاحب تحریر فرماتے ہیں :.دو مجھے یاد نہیں کہ زندگی میں اُن سے کسی شخص نے کسی موضوع پر کوئی بات کی ہو اور آپ نے تیسرے یا چوتھے فقرے ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت خلیفہ مسیح الاول یا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا ایمان افروز ذکر نہ چھیڑ دیا ہو...آپ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس مشن کی اشاعت و تبلیغ کی لگن زندگی کا مقصد وحید بن کر جاگزیں ہوگئی.حضرت ابا جان کا انداز تبلیغ آپ کے مزاج اور لباس کی طرح نہایت سادہ، پُرسوز اور درد آفریں ہوتا تھا.وہ ہر دوسرے تیسرے مہینے مختلف امراض کے لئے ادویہ کا ایک صندوقچھ بھر کر تبلیغی دورہ کے لئے نکل کھڑے ہوتے اور قریہ بہ قریہ، دیہہ بہ دیہہ پھر کر بیمار انسانیت کی خدمت بھی بجالاتے اور ساتھ کے ساتھ تشنہ روحانیت دنیا تک امام الزماں کے ظہور پُر نور کا مژدہ جانفزا بھی پہنچاتے.لوگوں کو قرآن کریم پڑھاتے.اس کا ترجمہ و تفسیر ذہن نشین کراتے.احادیث نبوگی کا درس دیتے اور یوں آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر دلوں میں دین کی چنگاری بھی سلگاتے چلے جاتے تبلیغ کے لئے آپ کا انتخاب بھی عام طور پر انوکھا، سادہ اور دوسروں سے مختلف ہوتا تھا.آپ تبلیغ کے لئے عام طور پر ایسی روحیں اور دل چنتے جن پر دوسروں کی نگاہ کم از کم پڑتی ہو اور جو دنیا والوں کی نگاہ میں بڑے کم مایہ اور معمولی ہوتے مگر احمدیت کی جلا پاتے ہی یہ ذرے ایسے آفتاب بنتے کہ دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ ہو جاتیں.اسی طرح کے دو ایک چکروں کے بعد نومبر کی پہلی یا دوسری تاریخ ہی کو گھر سے نکل کھڑے ہوتے.سال

Page 266

تاریخ احمدیت.جلد 22 251 سال 1963ء 6 کے اس آخری دورے میں زیر تبلیغ والوں کے روحانی استحکام کا جائزہ لیتے.ان کے ذہنوں کے اشکال و شبہات کھنگالتے ، انہیں دُور کرتے.جلسہ سالانہ کی برکات ذہن نشین کراتے اسلام کی اجتماعی شان و شوکت کا نظارہ کھینچتے اور یوں پھرتے پھراتے جب ہفتوں کی مسافت کے بعد دارالامان پہنچتے تو اُن کے ساتھ ہر سال پندرہ بیس تازہ واردان کا قافلہ ہوتا جن میں سے اگر آٹھ دس بیعت کر جاتے تو باقی آئندہ سالوں کے لئے پوری طرح تیار ہو جاتے اور ان کے دل احمدیت کے متعلق خوش ظنیوں سے بھر جاتے اور یوں ہر سال چراغ سے چراغ جلتا چلا جاتا.حضرت حکیم صاحب کی اسی تڑپ لگن بلکہ جنون کا انعام اور حاصل تھا کہ آپ کی کوشش سے ضلع فیروز پور میں قریباً گیارہ مخلص جماعتیں قائم ہو گئیں.اور زیرہ، فیروز پور اور قصور کے درجنوں دیہات میں آپ کے ہاتھوں احمدیت کا بیج بویا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے زیرہ شہر میں ساتھ گھرانوں پر مشتمل ایک مضبوط، مخلص ، فعال اور با اثر جماعت عطا فرمائی جس کی اپنی خوبصورت مسجد اور عید گاہ تھی اور قصبے کی میونسپلٹی کے تین مسلمان ممبروں میں سے دو ممبراکثر و بیشتر اسی جماعت میں سے ہوتے تھے.الغرض حضرت حکیم صاحب احمدیت کے بچے فدائی بہت دعا گو اور تبلیغ سے شغف رکھنے والے بزرگ احمدیت اور احمدیت کی چلتی پھرتی تصویر تھے.69 70 اولاد (۱) مکرم محمد اقبال صاحب مرحوم ( وفات ۴ دسمبر ۱۹۳۳ء) (۲) جناب محمد صدیق صاحب ( ثاقب زیروی) مدیر لاہور (۳) مکرم محمد بشیر صاحب (انسپکٹر کو آپریٹو سوسائٹیز ) (۴) محترمہ حفیظہ بیگم صاحبہ (اہلیہ چوہدری نیاز الدین احمد سلہری ) حضرت میاں اللہ دتہ صاحب تر گڑی ضلع گوجرانوالہ ولادت ۱۸۷۹ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۱/۵اپریل ۱۹۶۳ء آپ کا بیان ہے کہ ”جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مع حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید مقدمہ کرم الدین کے لئے جہلم تشریف لے جا رہے تھے اس موقعہ پر ریلوے اسٹیشن گوجرانوالہ پر گاڑی کے کمرہ میں شرف زیارت حاصل کیا اور بعد ازاں خط کے ذریعہ اسی سال میں 66 نے بیعت کر لی.“

Page 267

تاریخ احمدیت.جلد 22 252 سال 1963ء آپ کے والد جمال الدین صاحب سلسلہ کے سخت مخالف تھے آپ نے اُن کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں درخواست دعا کی.حضرت نے فرمایا تم دعاؤں میں لگے رہو اور ہم بھی دعائیں کریں گے.اللہ تعالیٰ دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا.اس کے بعد آپ کے والد سولہ سال برابر مخالفت پر ڈٹے رہے.آپ نے ایک دفعہ ان کو تحریک کی کہ آپ کم از کم قادیان کا جلسہ دیکھو کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں جواب دیا کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب تک حق اور جھوٹ نہ دیکھوں مجھے موت نہیں آئے گی.تمہارے کہنے پر ہرگز نہیں جاؤں گا.چنانچہ پھر وہ اپنی مرضی سے ہی جلسہ پر گئے اور جلسہ کے دوران ہی بیعت کر لی اور ایک سال زندہ رہ کر مارچ ۱۹۲۴ء میں فوت ہو گئے.73 حضرت سید مبارک علی شاہ صاحب باہری لدھیانوی ولادت : ۱۸۸۴ ء یا ۱۸۸۵ء بیعت دستی : ۱۹۰۵ء بیعت بذریعہ خط : ۱۹۰۳ء وفات : ۱۰ / اپریل ۱۹۶۳ء آپ کو سلسلہ احمدیہ کے فدائی بزرگ حضرت قاضی خواجہ علی صاحب لدھیانوی کے برادر نسبتی ہونے کا اعزاز حاصل تھا.طالب علمی کے زمانہ میں احمدیت کے شدید مخالف تھے اور مولویوں کے فتوؤں کے مطابق احمدیوں کے پاس بیٹھنا، ان کی بات سنا اور ان کی کتابیں پڑھنا گناہ سمجھتے تھے.اگر حضرت قاضی صاحب گھر تشریف لاتے تو وہ دوسرے دروازے سے نکل جاتے اور جب وہ گھر میں موجود رہتے آپ کھانا کھانے بھی نہیں آتے تھے مگر چونکہ فطرت میں سعادت تھی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُن کا رخ یکا یک احمدیت کی طرف کر دیا اور آپ ملاؤں کے فتاوی کو بالائے طاق رکھ کر احمدیہ مسجد میں نماز پڑھنے لگے.شاہ صاحب کے خود نوشت حالات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فوری تبدیلی ایک کتاب تذکرہ غوثیہ کے ایک مقام کو دیکھنے سے واقع ہوئی جہاں” لیتـــركــن الــقـلاص فلا يسعى عليها “ کی حدیث رقم تھی.اس روحانی انقلاب کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے پہلی تصنیف لطیف جو آپ کے مطالعہ میں آئی وہ تحفہ گولڑوی تھی.ازاں بعد آپ کو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی کتاب سلک مروارید پڑھنے کا موقعہ ملا.۱۹۰۵ء میں آپ قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر شرف بیعت حاصل کیا.شاہ صاحب کا بیان ہے کہ:.وو 76

Page 268

تاریخ احمدیت.جلد 22 253 سال 1963ء ۱۹۰۷ء میں میں کلکتہ پہنچا جہاں میرے اور دوست پہلے گئے ہوئے تھے.انہوں نے پہلی ملاقات میں مجھ سے یہ مطالبہ کیا کہ اب تم کلکتہ پہنچ گئے ہو.اگر تم اپنا انفلوئنس ( اثر ) قائم رکھنا چاہتے ہو تو ہیٹ کا استعمال کرو.میں نے جواب دیا کہ میں آزاد نہیں ہوں.جب تک اس کے متعلق دریافت نہ کرلوں استعمال نہیں کر سکتا.چنانچہ میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں تحریر کیا جس کا جواب حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے دیا کہ ہیٹ میں ایک قباحت تو یہ ہے کہ اُسے اجنبی دیکھنے والا شخص مسلمان نہیں سمجھتا اس لئے وہ اسلامی سلام سے محروم رہ جاتا ہے.دوسری یہ کہ اس سے سجدہ ادا نہیں ہوسکتا اس لئے شرعاً ممنوع ہے.الفاظ شاید اور ہوں مگر مفہوم یہی تھا جو میں نے سمجھا کیونکہ یہ خط اور دوسرے بہت سے خطوط گھر والوں کی بے احتیاطی سے ضائع ہو گئے اس لئے بجنسہ نقل نہیں کر سکتا.چونکہ مجھے حضرت اقدس علیہ السلام کی پاک صحبتوں میں زیادہ بیٹھنے کا موقعہ نہیں ملا.اگر ملا بھی تو بہت دُور جہاں کوئی بات سنائی نہیں دیتی تھی اس لئے میں حضور کی بیان کردہ کوئی بات عرض کرنے سے معذور ہوں.ذیل میں حضرت سید مبارک علی شاہ صاحب لدھیانوی مکینیکل انجینئر ز کے قلم سے ان کے خود نوشت حالات سپر دقر طاس کئے جاتے ہیں.اپنی یادداشت اور تحقیق کی روشنی میں ذیل کے کوائف قلمبند کرتا ہوں.میری پیدائش کی تاریخ کا صحیح علم نہیں.میری سب سے بڑی ہمشیرہ جو والدین کی سب سے بڑی اولا د تھی کی پیدائش اس قحط کے ایام میں ہوئی تھی جو کہ ۱۹۱۷ بکرمی میں پڑا تھا اس سے تین سال چھوٹی دوسری ہمشیرہ اور ان سے تین سال کے وقفہ سے میرے بھائی سردار علی شاہ ، کرم علی شاہ و برکت علی شاہ پیدا ہوئے اور اس سے چار سال بعد تیسری ہمشیرہ اور اس کے تین تین سال کے وقفہ سے دو ہمشیرگان اور خاکسار پیدا ہوا گویا میری پیدائش بڑی ہمشیرہ سے پچھپیں یا چھپیں سال بعد ہوئی.اس حساب سے میری پیدائش ۱۸۸۶ء بنتی ہے اور تاریخ ۱۴ ربیع الثانی تھی.یہ سب روایات والدہ محترمہ کی ہیں.جو میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بیان فرمائیں.نیز یہ بھی بتایا کہ میرے(خاکسار کے ) جدامجد سفیدوں سے معہ اپنے چھوٹے بھائی کے ایک غلام اور لونڈی کے ہمراہ سفر کرتے ہوئے خانپور پہنچے جو کہ پٹیالہ کی ریاست کا سرحدی گاؤں ہے.خانپور میں اس وقت راؤ خانا کی اولاد جو کہ مسلمان راجپوتوں کا ایک زبردست گھرانا تھا آباد تھی.ان راجپوتوں نے آنے والے نو واردوں کو اپنے پاس

Page 269

تاریخ احمدیت.جلد 22 254 سال 1963ء بچوں کی طرح رکھا.اس وقت دادا محترم کی عمر قریباً بارہ سال تھی صحیح نام تو معلوم نہیں ہو سکا مگر عام معروف نام میاں سادی تھا جو ہو سکتا ہے کہ سعد الدین ہو یا سعادت علی ہو یا کچھ اور.سفیدوں سے ہجرت کی وجہ جو والدہ مکرمہ نے بتائی وہ جنگ یا و با تھی جو بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ہمارے خاندان کے مورث اعلیٰ باہرہ ملک مصر سے وارد ہندوستان ہوئے تھے.اور انہوں نے دریائے جمنا کے دائیں کنارے ایک اونچے ٹیلے پر قیام کیا اور اپنا فرض منصبی ( تبلیغ ) ادا کرنے لگے.اور اس جگہ کا نام اپنے وطن مالوف کی نسبت سے باہری رکھا.اس کے بعد خاندان کے متعدد جوان شاہی افواج میں شامل ہو کر خدمات بجالانے لگے.چنانچہ ہمارے خاندان کے چند نو جوان اپنے ہی کمانڈر کے زیر کمان تھے.حکومت مغلیہ نے مبلغ اسلام کی حیثیت سے یا فوجی خدمات کے صلہ میں خاندان کے رکن اعلیٰ کو سولہ گاؤں کی جاگیر معافی عطا کی جس کا مرکز سفیدوں تھا.سلطنت مغلیہ کے ضعف کے پیش نظر سکھوں نے پنجاب میں اودھم مچانا شروع کیا اور ریاستیں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے.چنانچہ ہماری تمام جا گیر ریاست جنبہ کے حصہ میں آگئی.چونکہ جاگیر معافی تھی.ہمارے بزرگوں نے سرکاری لگان ادا کرنے سے سرکاری پٹہ کی بنا پر انکار کیا.اور اس پر آخری وقت تک اڑے رہے.یہاں تک کہ ریاست نے قتل عام کا ایسا مظاہرہ کیا کہ معصوم بچوں کو بھی تہ تیغ کر دیا.چنانچہ سفیدوں کا گنج شہیداں آج تک شہادت ادا کر رہا ہے.بہت سی خواتین نے اپنے معصوم بچوں کو کسی نہ کسی ذریعہ وہاں سے نکال دیا اور خود اپنی عزت کی حفاظت کرتی ہوئی کنوؤں میں ڈوب کر مر گئیں.انہیں میں ہمارے جد دیا امجد کی والدہ محترمہ بھی تھیں.اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرما دے کہ یہ غلطی عزت جیسی قیمتی متاع کی حفاظت میں سرزد ہوئی.میرے جد امجد کے گھر میں ہیں لڑکے اور کچھ لڑکیاں جو شاید دو یا تین تھیں پیدا ہوئیں.اور ایک ایک دن میں دو دولڑکوں کے جنازے گھر سے نکلے.صرف دولڑ کے یعنی میرے والد محترم اور چچا بچے ، میرے والد محترم کا اسم گرامی سید فتح الدین تھا اور چچا جان کا نام معروف میاں شیرا تھا جو غالباً شیر الدین یا شیر محمد یا شیر علی ہو گا.وہ عین جوانی کے عالم میں جبکہ میرے والد محترم کے گھر میں پانچ بچے پیدا ہو چکے تھے وہ کنوارے ہی فوت ہو گئے.میری عمر قریباً تین سال کی تھی جبکہ والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا.قریب چھ سال کی عمر میں یعنی ۱۸۹۱ء میں مجھے لودھیا نہ میری بڑی ہمشیرہ کے پاس پہنچا دیا گیا.جن کو میں پہلے بی بی کے نام سے اور پھر ان کے بچوں کی نقل کرتے ہوئے جن میں سے کوئی مجھ سے

Page 270

تاریخ احمدیت.جلد 22 255 سال 1963ء بڑا اور کوئی چھوٹا تھا.اماں نام سے پکارنے لگا.۱۸۹۱ء کی عید الفطر کے دوسرے دن جو غالباً ماہ مئی میں تھی مسجد میں جو کہ بعد میں احمدیہ مسجد کے نام سے موسوم ہوئی جس میں چند معززین نے مل کر جس میں میرے بہنوئی حضرت قاضی خواجہ علی صاحب بھی شامل تھے.ایک مکتب قائم کیا ہوا تھا جس کا نام انہوں نے مدرسہ احمد یہ رکھا تھا تعلیم شروع کی.قریباً دو یا تین سال کے بعد مجھے گورنمنٹ سکول میں داخل کرا دیا گیا.چونکہ میں نے مدرسہ احمدیہ میں قرآن کریم کے علاوہ اردو اور حساب وغیرہ بھی کافی کیا تھا.اس لئے ہیڈ ماسٹر صاحب نے خوشی سے مجھے تیسری جماعت میں داخل کر لیا.تیسری جماعت کے آخری امتحان میں نمایاں کامیابی پر سکول کی طرف سے خاکسار کو انعام دیا گیا.لیکن اسی سال میرا بھانجا جو میری ہی عمر کا تھا.پانچویں جماعت کے امتحان میں فیل ہو گیا.چونکہ گورنمنٹ اسکول کے امتحانات اکتوبر میں اور دوسرے سکولوں کے امتحان دسمبر میں ہوا کرتے تھے.اس لئے ہم دونوں کو گورنمنٹ سکول سے نکال کر اسلامیہ سکول میں داخل کر دیا گیا.جہاں چوتھی جماعت کے سالانہ امتحان میں خاکسار کو دینیات میں اول انعام حاصل ہوا.اور پانچویں جماعت میں وظیفہ، چھٹی ر جماعت میں انگریزی کے کورس میں چند اسباق کے بعد ایک نظم تھی."O Heavenly Father by whose hand thy people still are fed." جس کا ابتدائی حصہ یہ تھا.جس پر مجھے اعتراض پیدا ہوا کہ ہمیں انگریزی کے پردہ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی ہے.اور میں نے انگریزی کی تعلیم بالکل ترک کر دی.اور کسی کی نصیحت میرے لئے مؤثر ثابت نہ ہوئی.اساتذہ نے محبت اور سختی سے سمجھانے کی کوشش کی مگر بے سود آخر ۹۸ء کے اکتوبر میں تعلیم ترک کر کے تونسہ کا سفر اختیار کیا اور صعوبتیں برداشت کرتا ہوا تو نسہ ضلع ڈیرہ غازیخان پہنچا اور خواجہ اللہ بخش صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی مگر وہاں میری دینی تعلیم کا بندو بست نہ ہو سکنے کی وجہ سے ایک دوسرے بزرگ کے ہمراہ جنہوں نے تعلیم کا بندوبست کرنے کا وعدہ کیا روانہ ہوا، جنہوں نے لیہ پہنچ کر مجھے ایک مولوی صاحب کے سپر د کر دیا.جہاں پندرہ بیس دن قیام کر کے تعلیم کا کوئی بندو بست نہ پا کر واپس لوٹا اور محمود کوٹ ریلوے اسٹیشن پر ایک نانبائی کی دوکان پر کام کرنے لگا اور پھر اسی کے ساتھ شیر شاہ ریلوے اسٹیشن پر آیا.موسم گرما میں اسٹیشن پر پنکھا قلی کا کام اختیار کیا.اور اسی اثناء میں میرے ضمیر نے تعلیم کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ جو حصہ تعلیم مذہب کے خلاف نظر آئے.اسے ترک کر کے زبان سیکھ لینی

Page 271

تاریخ احمدیت.جلد 22 256 سال 1963ء چاہئیے.چنانچہ اکتو بر ۹۹ء کو واپس لدھیانہ پہنچا.اور سکول میں داخل ہو کر تعلیم شروع کی اور ساتویں کے امتحان میں کامیاب ہو گیا.دوسرے سال یعنی جنوری ۱۹۰۱ ء میں مڈل کے امتحان میں شامل ہوا.مگر تاریخ جغرافیہ میں فیل ہو گیا.کچھ فیل کا رنج اور کچھ گھر والوں کی طرف سے ملامت سے تعلیم کا خیال ترک کر کے ڈاکخانہ میں جیٹھی رسانی شروع کر دی.میں رڑ کی کالج میں مکینیکل تعلیم کے لئے داخل ہوا.اس وقت وہاں کوئی احمدی نہ تھا.میں جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کیا کرتا تھا.دوسرے سال ہماری کلاس میں ایک طالب علم مسمی محمد امین پسر بابو امام الدین اوورسیئر سکنہ بھیرہ داخلہ میں آ گیا.اور ایک طالب علم لو دھیانہ کا مسمی گل محمد بھی.وہ دونوں بیرک نمبرے میں رہتے تھے اور میں بیرک نمبر 1 میں.میں اکثر رات کو بیرک نمبرے میں گل محمد صاحب کے پاس جایا کرتا تھا.چند یوم کے بعد جبکہ مجھے محمد امین کی احمدیت کا علم ہوا.تو میں نے بجائے گل محمد کے پاس بیٹھنے کے محمد امین کے پاس بیٹھنا شروع کیا جو گل محمد کے لئے قدرے دکھ کا موجب ہوا چنانچہ گل محمد نے مذہبی گفتگو شروع کی اب میں نے روزانہ جانا شروع کیا.اور مسئلہ زیر بحث نبوت ہی تھا.جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے سورہ فاتحہ پیش کرائی.اسی پر کئی دن بلکہ کئی ہفتے گفتگو ہوتی رہی.آخر اللہ تعالیٰ نے گل محمد صاحب کو احمدیت کی صداقت کا قائل کر دیا.چنانچہ ۱۹۰۵ء ماہ جولائی میں ہم دونوں نے قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.محمد امین کی زبانی ایک اور طالب علم کا پتہ ملا جو کہ اوورسیئر کلاس کا طالب علم تھا اور دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور کا رہنے والا تھا.چنانچہ ۱۹۰۵ء کے شروع سے ہی ہم نے باجماعت نماز کا بندو بست کیا اور اتفاقاً انہوں نے مجھ کو ہی امام صلوۃ منتخب کیا.جمعہ کی نماز کے متعلق حضرت مولانا نورالدین صاحب کی خدمت میں لکھا گیا کہ نماز جمعہ کے لئے کم از کم کتنے آدمیوں کی موجودگی ضروری ہے.جواب ملا کہ ہر باجماعت نماز کے لئے کم از کم دو آدمیوں کا ہونا ضروری ہے.ایک امام اور ایک مقتدی.چنانچہ اس کے بعد نماز جمعہ بھی پڑھی جانے لگی.کالج کو رس ختم کرنے کے بعد اپرنٹس شپ یعنی عملی تعلیم کے لئے اٹک، کلکتہ اور بانکی پور وغیرہ مقامات میں رہا.صرف کلکتہ کے مقام پر بعض یوپی کے مسلمانوں نے مخالفت کی.۱۹۰۹ء میں تعلیمی کورس ختم ہوا.اس کے بعد ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا.جہاں بھی گیا.کسی نہ کسی رنگ میں مخالفت نے میرا ہمیشہ ساتھ دیا.غالباً اسی طریق سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمیشہ بیدار رکھا.الحمد للہ ۱۹۱۳ء میں جبکہ ملا کنڈ ٹنل میں کام کر رہا تھا.میرے ایک دور کے

Page 272

تاریخ احمدیت.جلد 22 257 سال 1963ء رشتہ دار اور قریبی دوست کے ذریعہ شرفہ خیل قبیلہ کی ایک خاتون سے جو بچپن ہی سے والدین کے سایہ سے محروم ہو چکی تھی.اس کے حقیقی بھائی کی تولیت میں میرا نکاح بتاریخ ۱۳ جون ۱۹۱۳ء کو ہو گیا.اکتوبر ۱۹۱۵ء میں پہلا بچہ حمد احمد پیدا ہوا.دسمبر ۱۹۱۷ء میں دوسرا بچہ نصیراحمد پیدا ہوا جو اماہ اور کچھ دن کا ہو کر اکتوبر ۱۹۱۸ء میں انفلوئنزا کے حملہ سے فوت ہو گیا.انفلوئنزا کا حملہ اس کی والدہ پر بھی ہوا اور بچہ کی وفات کے صدمہ سے انتہائی صورت اختیار کر گیا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالآخر صحت ہو گئی.اکتوبر ۱۹۱۹ء میں مبارکہ خاتون مرحومہ پیدا ہوئی اور جولائی ۱۹۲۱ء میں صفیہ خاتون اور یہ سب بچے لودھیانہ واٹر ورکس کے کوارٹروں میں پیدا ہوئے.دسمبر ۱۹۲۲ء میں اشرف علی پیدا ہوا.اکتوبر ۱۹۲۶ء میں منیر احمد اور جولائی ۱۹۲۹ء میں صادقہ عفت پیدا ہوئی اور ۱۹۳۷ء میں پانچواں لڑکا پیدا ہوا جو گیارہ دن کا ہو کر فوت ہو گیا اور یہ سب بچے لودھیانہ شہر میں پیدا ہوئے.فقط والسلام.مبارک احمدی بکٹ گنج، مردان ۳ را پریل ۱۹۵۴ء اولاد (۱) سید محمد احمد صاحب (۲) سید نصیر احمد صاحب ولادت ۱۹۱۵ء.وفات ۱۲ جنوری ۱۹۶۲ء) ولادت ۱۹۱۶ء.وفات ۱۹۱۸ء) (۳) سیده مبارکہ خاتون صاحبه ولادت ۱۹۱۹ء.وفات ۱۹۴۴ء) (۴) سیده صفیه خاتون صاحبه ولادت ۱۹۲۱ء.وفات ۱۹ مارچ ۱۹۸۱ء) (۵) سیداشرف علی صاحب (ولادت ۱۹۲۲ء) رہائش ناصر آبا در بوه (۶) سید منیر احمد صاحب باہری سابق مبلغ بر ما وناظم وقف جدید ( ولادت ۱۹۲۶ء.وفات : ۲۳ /اکتوبر ۲۰۱۲ء) (۷) سیدہ صادقہ خاتون (ولادت ۱۹۲۹ ء حال 10/3-G.اسلام آباد) (۸) ایک بیٹا جس کا نام بھی تجویز نہیں ہوا تھا.۱۹۳۷ء میں فوت ہوا بعمر سات دن حضرت خواجہ بھائی محمد عبد اللہ صاحب ولد خواجہ گلاب صاحب ولادت : ۱۸۸۶ء.بیعت : ۱۹۰۴ء.وفات : ۶ جون ۱۹۶۳ء بعمر ۷۷ سال 9 آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم محمد علی صاحب احمدی آف لاہور لکھتے ہیں :.آپ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک مخلص فرد تھے.تہجد گزار دعا گو تھے.خاندان سیدنا حضرت مسیح

Page 273

تاریخ احمدیت.جلد 22 258 سال 1963ء موعود علیہ السلام کے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ساتھ والہانہ محبت تھی.غرباء پروری کے دلدادہ تھے مجھے غالباً ۴۵ - ۱۹۴۴ء میں اپنے لڑکے حفیظ احمد کی تعلیم کے لئے قادیان دارالامان میں رہائش رکھنے کی ضرورت پیش آئی.میں بوجہ تنگی کے نہ تو ہوسٹل کا خرچ برداشت کر سکتا تھا.نہ ہی کسی ہوٹل کا خرچ اٹھا سکتا تھا.میں نے برسبیل تذکرہ آپ سے ذکر کیا کہ میں اپنے لڑکے کو قادیان میں تعلیم دلوانا چاہتا ہوں مگر میں خرچ برداشت نہیں کر سکتا.اگر آپ مہربانی فرما ئیں تو آپ کو ہفتہ عشرہ کے بعد فیض اللہ چک سے آنا دال وغیرہ دے جایا کروں گا.آپ اس کا اپنے گھر میں انتظام کر دیں.آپ نے نہایت ہی شفقت سے فرمایا کہ اگر آٹا دال لانا ہے تو پھر کسی اور جگہ انتظام کرلیں.میرے دستر خوان پر تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چوبیس افراد کھانا کھاتے ہیں.اگر آپ کا لڑکا بھی کھانا کھالیا کرے گا تو میرے خرچ میں کونسی زیادتی ہو جائے گی.پھر فرمانے لگے آپ اگر فیس بھی ادا نہ کر سکیں تو وہ بھی میں ادا کر دیا کروں گا.آپ کی بڑی بہو میرے بچے کے ساتھ اپنے بچوں جیسی محبت کرتی تھیں اور ہر لحاظ سے بچے کے ساتھ دلداری کرتی تھیں.میرا لڑکا ۱۹۴۷ء تک قادیان میں ان کے گھر رہ کر تعلیم حاصل کرتا رہا.میرا لڑکا بیان کرتا ہے ایک دن بھی ایسا نہیں آیا کہ مجھے محترمہ آپا جان نے کبھی ناراضگی کا اظہار فرمایا ہو یا مجھے کبھی بچوں سے الگ رکھا ہو.جو چیز اپنے بچوں میں تقسیم کرتیں اس میں مجھے برابر شریک کرتیں.۱۹۴۷ء میں فسادات ہوئے تو میرا لڑکا حفیظ احمد چند روز پہلے فیض اللہ چک چلا گیا.بچے کے جانے کے بعد فیض اللہ چک میں فساد شروع ہو گیا.بھائی جان اور آپ کا خاندان بہت پریشان رہا کہ بچے کو فیض اللہ چک کیوں بھیج دیا.ہم لوگ فیض اللہ چک سے قادیان اس حالت میں آئے کہ نہ تو ہمارے پاس کپڑے تھے نہ نقدی تھی آپ نے نہایت ہی شفقت سے میرے اہل وعیال کو کپڑے بھی دیئے بستر بھی دئے اور نقد بھی مدد کی.ایک اور واقعہ غالباً ۱۹۴۶ ء کا ہے کہ ایک نومسلم ہندو گھرانے کا آپ کی دکان میں رہا کرتا تھا.ایک دن آپ کا لڑکا عبدالغفور نومسلم سے کسی بات پر جھگڑ پڑا.لڑکے کی زبان سے کوئی سخت لفظ نکل پڑا.جس پر محترم بھائی جی نے اپنے لڑکے کو ڈانٹ کر دکان سے نکال دیا اور اس نو مسلم سے بہت ہمدردی اور دلجوئی کی اور فرمانے لگے اس بیچارے نے مذہب چھوڑا ، بہن بھائی چھوڑے، ہمارے پاس آیا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے ساتھ ہمدردی کریں.سبحان اللہ.

Page 274

تاریخ احمدیت.جلد 22 259 سال 1963ء سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں کس قدر خلوص محبت اور ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا تھا.۱۹۴۷ء میں جب آپ ہجرت کر کے پاکستان آئے تو آپ پر ایک وقت تنگی کا بھی آیا فرمانے لگے کہ رمضان شریف آیا اور حال یہ تھا کہ پیسہ روپیہ سب خرچ ہو چکا تھا.بعض اوقات باسی روٹی کھا کر روزہ رکھا.اور صرف پانی پر ہی افطار کیا.مگر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ صبر شکر سے دن گزارے.کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا یا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے رہے.کہ اے میرے آقا تو محض اپنے فضل وکرم سے میری سب مشکلات دور فرما اور میرے لئے غیب سے رزق عطا فرما...اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل کیا.اور آپ نے وہی مہمان نوازی اور غرباء پروری شروع کر دی.آپ کے پوتے رشید احمد کی دکان اڈہ بس ربوہ میں تھی.آپ کی خواہش پر لڑ کے آپ کو دکان پر لے جاتے آپ وہاں پر یہی خواہش کرتے تھے کہ مجھے قادیان لے چلو اور یہ خواہش شدت سے ان کے دل میں آخر دم تک کروٹیں لیتی رہی.آپ نے اپنا ایک لڑکا ( خواجہ عبدالستار ) حفاظت مرکز قادیان کے لئے وقف کر دیا تھا جو ابھی تک قادیان دار الامان میں درویش ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اپنی حفاظت میں رکھے اور ان کی قربانی کو قبول فرمائے.آمین ایک مرتبہ بھائی جی نے مجھ سے ذکر کیا کہ عبدالستار اس وقت تک قادیان میں درویش ہی رہے گا جب تک کہ قادیان دار الامان ہمیں مل نہیں جاتا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی ساری اولاد مخلص احمدی ہے.آپ کے بڑے لڑکے خواجہ عبد الحمید صاحب مرکز میں کارکن ہیں.حضرت آغا سلطان احمد صاحب لدھیانوی ولادت انداز ا۱۸۸۵ء.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے البتہ بیعت کے سن کا تعین نہیں ہو سکا.وفات: بعمر ۷۸سال ۱۶ جون ۱۹۶۳ء 80 آپ کے والد آغا عبدالوھاب خاں صاحب لدھیانوی شہزادگان سادات کے معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے.ان کو بیعت سے قبل خواب میں حضرت مسیح موعود کی شبیہ مبارک اور قادیان کا نقشہ اور مسجد اقصیٰ کا نظارہ دکھایا گیا.انہوں نے صبح اپنے گھر میں یہ خواب سنایا تو تمام افراد بہت متاثر ہوئے اور پھر یکا یک خدا کا ایسا فضل ہوا کہ تیسرے روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام اچانک لدھیانہ تشریف لے آئے تو آغا سلطان احمد صاحب نے اپنے والد بزرگوار اور اپنے بھائیوں کے ساتھ حضور کی بیعت کا شرف حاصل کیا.یہ واقعہ حضرت اقدس کے دعوی کے ابتدائی سالوں کا ہے.

Page 275

تاریخ احمدیت.جلد 22 260 سال 1963ء سلسلہ بیعت میں شامل ہونے کے بعد آپ نے عہد کیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا جسے انہوں نے عمر بھر خوب نبھایا.اوائل عمر میں خوشنویسی کا کام کرتے تھے آپ عرصہ تک قادیان میں اخبار بدر ، الفضل اور سلسلہ کے رسائل اور مختلف لٹریچر قلیل تنخواہ پر لکھتے رہے.۱۹۴۴ء کے جلسہ مصلح موعود لدھیانہ کے دوران انہوں نے مہمانوں کے قیام و طعام میں نمایاں حصہ لیا.آپ جماعت احمد یہ لدھیانہ کے امیر بھی رہے اور دار البیعت کے قریب احمدیہ مسجد کی تعمیر بھی کرائی.آپ کے دل میں احمدیت کا ایک سچا عشق اور جوش موجزن تھا.ساری عمر نیکی ، تقویٰ، صبر و استقامت ، بردباری، درویشی اور سادگی میں بسر ہوئی.مزاج صوفیا نہ تھا.خلوت کے بے حد دلدادہ تھے.دل کے سخی تھے اور ہر ایک سے ہمدردی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے.پاکستان بن جانے کے بعد ہجرت کر کے لاہور تشریف لے آئے اور یہیں بیرون بھاٹی دروازہ میں انتقال ہوا.آپ حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی کے برادر نسبتی تھے.حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحب ولادت : ۲۰ دسمبر ۱۸۸۲ ء بیعت : ۱۹۰۳ ء وفات : ۲۵ جون ۱۹۶۳ء 82 آپ دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے اور میڈیکل سکول امرتسر میں تعلیم کے دوران مسیح وقت پر ایمان لائے.ڈاکٹری کے آخری سال میں جبکہ آپ کی تبلیغی سرگرمیاں زوروں پر تھیں اور قادیان سے تعلق بہت پختہ ہو چکا تھا سکول کے عملہ نے آپ کو احمدیت سے منحرف کرنے کے لئے سخت دباؤ ڈالاحتی کہ سکول کے پرنسپل اور پروفیسروں نے آپ کو بلا کر کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ تم کلاس میں ہوشیار ہو اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم تمہیں اس سال کامیاب نہیں ہونے دیں گے.اس پر آپ نے ایک مفصل مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تحریر کیا اور دعا کی درخواست کی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو غالباً سنایا یا پڑھنے کے لئے پیش کیا.بعد ملاحظہ حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا.بشیر احمد ! ظفر حسن کو لکھ دو کہ دنیا کی کوئی طاقت اُن کو فیل نہیں کر سکتی.جونہی ارشاد ڈاکٹر صاحب کو پہنچا.انہوں نے فوراً اپنے پروفیسروں اور خصوصاً پرنسپل کو بتا دیا کہ آپ تو اس ناچیز کو فیل کرنے کے منصوبے تیار کر رہے ہیں لیکن حضرت مسیح زمان بشارت دے رہے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت مجھے فیل نہیں کر سکتی.سکول کے سٹاف نے یہ بات سن کر

Page 276

تاریخ احمدیت.جلد 22 261 سال 1963ء پہلے سے زیادہ مخالفانہ رویہ اختیار کر لیا.بایں ہمہ خدا کے مقدس مسیح کے مبارک ہونٹوں سے نکلے ہوئے الفاظ معجزانہ شان کے ساتھ پورے ہوئے اور آپ نہ صرف کامیاب ہو گئے بلکہ آپ کی تقرری کا خط (Appointment Letter) بھی ساتھ ہی پہنچ گیا.فالحمد للہ.ابتداء میں آپ کے والد ملک نظام الدین صاحب نے احمدیت قبول نہیں کی تھی گو مخالفت میں بھی حصہ نہیں لیا تھا.آپ نہایت نرمی سے اُن کی خدمت میں احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہا کرتے تھے.اسی دوران عوام میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ مرزا صاحب پلاؤ، زردہ، قورمہ وغیرہ کھاتے ہیں حالانکہ نبی اور رسول کی ایسی خوراک نہیں ہوتی.یہ سن کر آپ کے والد صاحب نے ارادہ کر لیا کہ خود قادیان جائیں گے اور اپنی آنکھوں سے جا کر حضرت مرزا صاحب کی خوراک دیکھیں گے.چنانچہ اس غرض کے لئے قادیان پہنچے اور دوسرے چند مہمانوں کے ساتھ مسجد مبارک میں ہی ٹھہرے.جب نماز مغرب کے بعد مہمانوں کے لئے کھانا آیا تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ تو یہ ارادہ کر کے گئے تھے کہ وہ حضرت مرزا صاحب کے ساتھ کھانا کھائیں گے یا کم از کم یہ معلوم کریں گے کہ وہ کیا کھانا کھاتے ہیں.خدا کی قدرت ! تھوڑی دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مسجد مبارک میں تشریف لے آئے اور آپ کا کھانا بھی وہاں آ گیا.مہمانوں کا جو کھانا آیا وہ گوشت اور روٹی تھی اور آپ کے لئے روٹی اور مونگ کی دال.یہ دیکھ کر آپ پر لوگوں کے اعتراض کی حقیقت کھل گئی.آپ قادیان سے بہت اچھا اثر لے کر واپس آئے اور بعد میں جلد ہی بیعت کر لی اور ہجرت کر کے قادیان چلے گئے اور اگست ۱۹۳۰ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے.حضرت ڈاکٹر ملک ظفر حسن صاحب دوران ملازمت ہمیشہ ماتحتوں سے حسن سلوک اور مروت سے پیش آتے طبیعت بہت سادہ تھی اور ہر قسم کے تکلفات سے بیگانہ تھے.اسلامی شعار کے سختی سے پابند تھے اور ملٹری میں ملازم ہونے کے باوجود شروع سے ہی داڑھی رکھتے تھے.دوران ملا زمت بلکہ اخیر عمر تک علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اور تبلیغی جنون کا یہ عالم تھا کہ ہر ملنے والے غیر احمدی دوست سے فوراً گفتگو کا رخ تبلیغ کی طرف موڑ دیتے تھے.آپ جب ملٹری ہسپتال فیروز پور میں متعین تھے جمعہ کی نماز با قاعدگی کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر پڑھاتے تھے جس میں ملٹری کے احمدی ملازمین دورو نزدیک سے آپ کے ہاں تشریف لاتے.عصر کی نماز کے بعد آپ درس قرآن بھی دیا کرتے تھے.

Page 277

تاریخ احمدیت.جلد 22 262 سال 1963ء ملازمت کے دوران ہی آپ نے قادیان میں اپنا مکان بنوالیا اور پینشن کے بعد ہجرت کر کے قادیان آگئے اور اپنی خدمات آنریری طور پر نور ہسپتال میں پیش کر دیں.اس کے ساتھ ہی آپ ڈسٹرکٹ سولجر بورڈ کے ممبر بن گئے اور اپنے اثر و رسوخ سے جماعت کے متعدد افراد اور بیوگان کے وظائف و پنشن مقرر کروائیں.آپ نے تقسیم ملک تک یہ ذمہ داری نہایت ایمانداری سے نبھائی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا بیان ہے کہ:.86 دو تقسیم ملک سے قبل جب آپ قادیان میں پنشن لے کر آئے تو نہایت محبت سے غرباء کا علاج 87 166 کرتے تھے اور ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے.بہت مرنجان مرنج بزرگ تھے.مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی اے واقف زندگی نے آپ کی وفات پر لکھا:.محترم ڈاکٹر صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.آپ نہایت خلیق اور ملنسار تھے.ہمدرد اور سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والے وجود تھے.خاکسار کو سن ۴۵ ۱۹۴۴ء میں سلسلہ کے بعض کاموں کے سلسلہ میں محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کے ساتھ نشست و برخاست کا موقعہ ملا.باوجوداس کے کہ آپ فوجی ملازمت سے سبکدوش ہو کر آئے تھے.آپ میں تکبر و نخوت یا نا جائز تفاخر و تکلف کا شائبہ تک نہ تھا.آپ کی ہر حرکت سے مومنانہ انکسار اور خدمت گذاری کا جذ بہ نمایاں ہوتا تھا.سلسلہ حقہ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دلی عقیدت اور اخلاص رکھتے تھے.باوجود پیرانہ سالی اور ضعف جسمانی کے آپ سلسلہ کی خدمت کے لئے ہر وقت مستعد رہتے تھے اور ایسی خدمات بجالاتے ہوئے آپ میں انشراح صدر کی کیفیت پائی جاتی تھی چنانچہ کسی جماعتی کام کے لئے جب بھی آپ کو دفتر میں بلایا گیا.آپ آنریری خدمت بجالانے کے لئے فوراً پہنچ جاتے اور ایسے مواقع حاصل ہونے پر خوشی محسوس کرتے.آپ ۱۵ مارچ ۱۹۲۹ء کو ۱/۱۰ کی وصیت کر کے نظام الوصیت سے وابستہ ہوئے اور کچھ عرصہ اس میں اضافہ کر کے ۱/۶ کی وصیت کر دی اور اسے اخیر وقت تک کمال جوانمردی سے نبھایا.چندوں میں باقاعدگی آپ کا خاص معمول تھا.سلسلہ کی ہر تحریک میں حصہ لیتے اور پھر پورے اہتمام سے اس کا حساب رکھتے تھے.الغرض سلسلہ کے فدائی اور تبلیغ اور مالی قربانی میں قابل قدرنمونہ تھے.آپ نے اپنے پیچھے ۱۱۵ بچے پوتے پوتیاں نواسے اور نواسیاں یادگار چھوڑیں.اولاد (۱) محترمہ اقبال بیگم صاحبہ (۲) ملک مظفر احمد صاحب مرحوم ( ملک منور احمد صاحب

Page 278

تاریخ احمدیت.جلد 22 263 سال 1963ء جاوید سابق قائد خدام الاحمدیہ ضلع لاہور حال نائب ناظر ضیافت ربوہ اور ملک محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ آپ ہی کے صاحبزادے ہیں ) (۳) محترمه مبارکه بیگم صاحبه مرحومه (۴) محترمه رشیدہ بیگم صاحبه (۵) محترمه فرخنده بیگم صاحبہ مرحومه (۶) ملک حبیب حسن صاحب مرحوم (۷) محترمہ سعادت بیگم صاحبه مرحومه (۸) محترمه عزیز بیگم صاحبه (۹) محترمہ مریم بیگم صاحبہ - حضرت سید ولایت شاہ صاحب انسپکٹر وصایا ولادت: ۱۸۹۲ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۱۶ جولائی ۱۹۶۳ء.90.شاہ مسکین ضلع شیخوپورہ میں ایک مختصر سی بستی ہے جہاں سادات کا ایک قدیم خاندان آباد چلا آ رہا ہے.اس خاندان کے مورث اعلیٰ حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب بخارا سے ہندوستان میں آئے تھے.یہ معلوم نہیں کہ سلطان محمود غزنوی کے ساتھ یا اس سے پہلے فروکش ہوئے پھر دہلی چلے گئے رستہ میں اسی خاندان کے ایک بزرگ کا مزار ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے شیر کے ساتھ مقابلہ کر کے اُسے مار دیا تھا.پھر یہیں اس بزرگ نے وفات پائی.حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب دہلی سےشہنشاہ جہانگیر کے زمانہ میں لا ہور تشریف لائے.شاہ وقت نے ان کے گزارہ کے لئے لاہور میں کچھ زمین دی یہ خاندان بعد ازاں شاہ مسکین میں آباد ہوا.جہاں خاندان کے بزرگوں کے مزار پر ہر سال ایک بھاری میلہ ہوا کرتا تھا.جس میں ہر قسم کی مشرکانہ رسوم اور بدعات داخل ہو گئی تھیں اور مروجہ عرسوں کی طرح قوالی کا بازار گرم ہوتا.حضرت سید ولایت شاہ صاحب اپنے بزرگوں کے سجادہ نشین تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے بھائیوں کو احمدیت کی نعمت سے نوازا اور وہ دل و جان سے حضرت مسیح موعود کے عاشق صادق بن گئے تاہم ۱۹۱۷ ء تک انہوں نے بدستور یہ میلہ جاری رکھا ازاں بعد آپ کو یہ فکر لاحق ہوا کہ ہم قبول احمدیت کے باوجود میلے کئے جارہے ہیں.آخر ہمارے ماننے کا کیا فائدہ ہوا.چنانچہ آپ نے ۱۹۱۸ء سے میلہ کی تاریخوں میں تبلیغی جلسہ شروع کر دیا اور سب سے پہلے حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کو قادیان دارالامان سے منگوا کر تقریر کروائی اور پھر عمر بھر ہر سال با قاعدہ جلسے کراتے رہے.حضرت حافظ صاحب کی تقریر کا کرانا تھا کہ اردگردد یہات میں ایک زبر دست جوش پیدا ہو گیا اور آپ کی شدید مخالفت شروع ہو گئی علاقہ کے ایک بااثر عالم نے مکمل بائیکاٹ کا فتویٰ دیا.اس کے اثر سے سب دکانداروں نے سودا سلف دینا بند کر دیا.آپ کسی گاؤں میں جاتے تو بچے پیچھے لگ

Page 279

تاریخ احمدیت.جلد 22 264 سال 1963ء جاتے اور خوب تالیاں بجاتے مسجد میں داخل ہوتے تو دھکے دے کر باہر نکال دیئے جاتے اور مسجد کا فرش پانی سے دھویا جاتا غرضیکہ آپ کا ہر طرح بائیکاٹ ہوا اور ایذا رسانی کی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی.آپ نے اس دور ابتلا میں ہر تکلیف کو محض اللہ کی خوشنودی کے لئے بڑی خوشی سے برداشت کیا اور اس صبر آزما زمانہ کو بڑی ہمت اور دعاؤں سے گزارا.آپ حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں بار بار دعاؤں کے لئے خط لکھتے رہے.آخر اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور حضور کی دعاؤں کی برکت سے آپ کو ہر میدان میں نمایاں کامیابی ہوئی.جلسوں کا سلسلہ جاری ہونے کے بعد تقریباً بیس سال تک بستی شاہ مسکین مناظروں کی آماجگاہ بنی رہی.سلسلہ کے بزرگ اور چوٹی کے علماء اور مقررین نے یہاں آکر پیغام حق پہنچایا اور احمدیت کی آواز علاقہ کے کونے کونے میں گونجنے لگی.ان جلسوں اور مناظروں کے اخراجات حضرت شاہ صاحب خود برداشت کرتے تھے اور تبلیغ حق کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.آپ کی نیکی کا اثر شاہ مسکین کے ماحول میں بہت تھا اور یہی وجہ ہے کہ بعض سرکاری مقدمات اور گھریلو جھگڑوں میں آپ سے ثالثی کے فرائض انجام دینے کی درخواست کی جاتی اور آپ عدل وانصاف سے فیصلہ صادر کرتے تھے.ابتداء میں آپ اور آپ کے مخلص بھائی اپنا چندہ پانچ چھ میل کے فاصلہ پر واقع جماعت احمدیہ بھینی میں ادا کیا کرتے تھے.لیکن ۱۹۲۳ء میں شاہ مسکین میں مستقل جماعت قائم ہوگئی جس کا سیکرٹری آپ کو مقرر کیا گیا.آپ نے یہ خدمت کمال جانفشانی سے ادا کی.۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا آغاز ہوا تو آپ اپنے بھائیوں سمیت اس کے مالی جہاد میں شامل ہو گئے.۱۹۳۹ء میں آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک ماہ تبلیغ کے لئے وقف کیا اور مرکز کے ماتحت ضلع گورداسپور میں خوش اسلوبی سے مجوزہ فرائض انجام دئے اور مرکز سے سند خوشنودی حاصل کی.۱۹۴۲ء میں حضور نے وقف کی خصوصی تحریک کی جس پر آپ نے اپنے اکلوتے بیٹے سیدا مین شاہ صاحب کو حضور کی خدمت میں پیش کیا.سید امین شاہ صاحب جو نیکی اور تقویٰ میں اپنے باپ کے وارث تھے.ساری عمر نہایت اخلاص و ایثار کے ساتھ معلّم اور دیہاتی مبلغ کے فرائض انجام دیتے رہے اور امئی ۱۹۶۸ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے.تقسیم ہند ۱۹۴۷ء کے موقعہ پر آپ نے اپنے گاؤں کے ایک غیر مسلم مرد اور تین غیر مسلم مستورات کو اپنے ہاں پناہ دی ، ہر طرح اُن کی حفاظت کی اُن کا بہت سا سامان واپس دلایا ان کی

Page 280

تاریخ احمدیت.جلد 22 265 سال 1963ء خوراک کا انتظام کیا اور چھ ماہ تک اپنے پاس رکھا.اس کے بعد ان کے لواحقین ہندوستان سے ٹرک لے کر آ گئے تو اُن کے سپرد کر کے نہایت عزت و احترام سے روانہ کیا.حضرت مصلح موعود نے ہجرت کے بعد رتن باغ میں قیام کے دوران ارشاد فرمایا کہ پاکستان کی مقامی جماعتیں اپنے مہاجر بھائیوں کو بطور امدا د ساتھ لے جائیں.اس ارشاد پر آپ نے نہایت والہانہ طور پر لبیک کہا اور لاہور سے چھوٹے بڑے قریب ۱۱۴ احمدیوں کو گھر لائے اور بڑی ہمدردی سے اُن کے قیام و طعام کا انتظام فرمایا.بعض ان میں سے جلد ہی اپنا بندو بست کر کے چلے گئے.ان جانے والوں کو اپنی گرہ سے کرایہ دے کر روانہ کیا.بعض احباب ۷، ۸ ماہ تک مقیم رہے جن کا مستقل انتظام د کر کے انہیں رخصت کیا اور بعض کو زمین دلا دی اور اس طرح کئی خاندانوں کو از سر نو آباد کر دیا.۴۹.۱۹۴۸ء میں آپ انسپکٹر وصایا مقرر کئے گئے.حضرت مولوی عطا محمد صاحب سابق ہیڈ کلرک دفتر بہشتی مقبرہ قادیان و ربوہ تحریر فرماتے ہیں کہ تقسیم ملک کے بعد ۱۹۴۹ء میں یہ دفتر بہشتی مقبرہ لاہور میں بطور انسپکٹر کے کام کرنے لگے.اپنے کام میں نہایت محنتی اور دیانت دار تھے.اور ان کی نیکی اور تقویٰ کا اثر تھا کہ جس علاقہ میں یہ دورہ پر جاتے کامیاب رہتے اور کافی وصایا بھیجتے رہتے تھے.بڑے اچھے اخلاق کے مالک تھے.دعاؤں کے بڑے عادی تھے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور یقین و ایمان رکھتے ہوئے دعائیں کرتے رہتے تھے.اللہ تعالیٰ اُن کی دعاؤں کو سنتا تھا.شاہ صاحب مرحوم انسپکٹر وصایا کی آسامی سے ساٹھ سالہ عمر ہونے پر ریٹائر ہو گئے تھے لیکن اُن کے حسن کارکردگی کی وجہ سے صدر انجمن احمدیہ نے دوبارہ ان کو اسی آسامی پر لگالیا تھا.حضرت شاہ صاحب اس خدمت کے سلسلہ میں شاہ مسکین سے ربوہ جانے کے لئے ایک قریبی اڈہ سے بس پر سوار ہوئے.جڑانوالہ سے ۱۳ میل دور بس بے قابو ہوگئی.ڈرائیورا سے سنبھال نہ سکا اور وہ ایک درخت سے ٹکرا گئی.آپ شدید زخمی ہو کر بے ہوشی کی حالت میں کچھ فاصلے پر جا گرے اس وقت زخموں سے خون بہہ رہا تھا اور کپڑے خون سے سرخ ہو چکے تھے.آپ کو پہلے نزدیک کے ایک سرکاری ہسپتال میں داخل کرایا گیا پھر لاہور میوہسپتال میں لے جایا گیا.ڈاکٹر صاحب نے داخل کرنے کے لئے نام لکھنا شروع کیا.ابھی نام درج ہو رہا تھا کہ آپ نے پانی مانگا دو گھونٹ پانی پیا تھا کہ واپسی کا پیغام آ گیا اور آپ اپنے پیارے اور حقیقی رفیق اعلیٰ کے حضور پہنچ گئے اور یوں مجاہدانہ زندگی بسر کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور زندہ جاوید ہو گئے.

Page 281

تاریخ احمدیت.جلد 22 266 سال 1963ء حضرت شیخ عبدالشکور صاحب آف حافظ آباد ولادت: انداز ۱۸۸۵۴ء بیعت :۱۹۰۲ ء وفات: ۱۹ جولائی ۱۹۶۳ء بعمر ۷۸ سال مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے اور سلسلہ کے کاموں میں آخر عمر تک بڑھ چڑھ کر قربانی کرتے رہے.96 حضرت عنایت بیگم صاحبہ بیوه مرز امحمد علی صاحب ولادت ۱۸۸۰ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۲۸ جولائی ۱۹۶۳ء.آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود سے قرابت داری کا شرف حاصل تھا اور آپ کے والد مرزا غلام قادر صاحب آف لنگر وال ضلع گورداسپور کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے شوہر مرزا محمد علی صاحب ۱۹۰۳ء میں وفات پاگئے اور آپ عین جوانی میں بیوہ رہ گئیں.خاندان کی مالی حالت اس وقت اچھی نہ تھی مگر اس کے باوجود آپ نے صبر اور استقلال اور تقویٰ اور عفت کے ساتھ اپنی بیوگی کا ساٹھ سالہ دور گزارا جو احمدی مستورات کے لئے ایک شاندار مثال ہے.آپ نے اپنے دونوں یتیم بیٹوں (مرزا نذیر علی صاحب.مرزا ضمیر علی صاحب) کی ہرممکن عمدہ تربیت کی اور انہیں مروجہ تعلیم دلائی.مرحومہ نہایت ہی اعلیٰ اخلاق کی مالک تھیں اور اپنے سینہ میں ایک نڈر اور فیاض دل رکھتی تھیں.صوم وصلوٰۃ اور پردہ کا پابند ہونے کے علاوہ ایمانی جرات کا ایک نمونہ تھیں.آپ کے تعلقات حضرت تائی صاحبہ ( حرمت بی بی ) اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب ( برادر اکبر حضرت مسیح موعود ) سے بھی تھے.انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک بیعت نہیں کی تھی اس لئے مرحومہ جب کبھی اُن سے ملتیں وہ ان کے احمدی ہونے پر بہت جزبز ہوا کرتی تھیں.مرحومہ ان کی زجر و توبیخ کو تو گوارا کر لیتی تھیں مگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شان مبارک کے خلاف کوئی بات سُننا آپ کے لئے نا قابل برداشت تھا.حضرت تائی صاحبہ نے ۱۹۱۶ء میں بیعت کر لی.تو آپ کو بے حد خوشی ہوئی کہ الحمد للہ حضرت مسیح موعود کا الہام ” تائی آئی.ا نہایت شان سے پورا ہوا ہے.مرحومہ کو جھوٹ اور غیبت سے قطعی نفرت تھی.آپ اپنے ہمسایوں کی ہمدرد اور غمگسار تھیں اور محلہ کی تمام احمدی، غیر احمدی اور غیر مسلم مستورات پر مرحومہ کا خدا داد رعب تھا.100 99 98

Page 282

تاریخ احمدیت.جلد 22 267 سال 1963ء حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب پنشنر ۱۱ ولادت ۲۱ جولائی ۱۸۹۶ ء بیعت : ۱۹۰۵ ء وفات : ۱۴ را گست ۱۹۶۳ء آپ ماچھیواڑہ ضلع لدھیانہ میں حضرت حکیم محمد عبد اللہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو ایک نامور حکیم تھے.(ماچھیواڑہ کے اولین احمدی جناب فرزند حسین صاحب ولد علی نواز صاحب تھے جن کا نام رجسٹر بیعت اولیٰ میں نمبر ۴۶ پر موجود ہے ) آپ نے ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی.مشن ہائی سکول لدھیانہ میں میٹرک تک پڑھے اور ڈاکٹری نمایاں امتیاز کے ساتھ ویٹرنری کالج لاہور سے پاس کی.بہت دعا گو بزرگ تھے دوسری یا تیسری جماعت میں تھے کہ نماز با قاعدگی سے پڑھنی شروع کی اور پھر کوئی ناغہ نہیں ہوتا تھا اور بالآخر نماز عصر پڑھتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جاملے.ابھی مڈل کے طالب علم ہی تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق صادق تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک مجالس سے فیض حاصل کرنے اور حضرت خلیفہ اول کے درس قرآن و حدیث سے استفادہ کرنے کے قیمتی مواقع آپ کو میسر آئے.قرآن مجید کی تلاوت اور اسلامی تعلیم پر کار بند ہونا آپ کی زندگی کالائحہ عمل تھا.اپنے تمام بچوں کو خود قرآن مجید با ترجمہ سکھلایا.ان کی تربیت واصلاح کے لئے کوشاں رہتے اور نمازوں کی پابندی کی سخت تاکید کرتے تھے.سلسلہ احمدیہ اور نظام خلافت سے غیر متزلزل تعلق اور وابستگی تھی.تبلیغی اور تربیتی کاموں میں پورے جوش و خروش سے حصہ لیتے.تبلیغ کا انداز انتہائی موثر اور دلنشین تھا.جہاں بھی رہے شہر و دیہات کے نیک خصلت لوگوں کے نام اخبار الفضل جاری کرواتے رہے.انہیں تفسیر کبیر اور دیگر کتب خرید کر دیتے تھے.یہ بات آہستہ آہستہ سعید روحوں کی سلسلہ احمدیہ سے وابستگی کا ذریعہ بن جاتی تھی.اخلاق اور قلب و نظر کی طرح دستر خوان بھی وسیع تھا.مہمان کے آنے پر بڑی خوشی کا اظہار کرتے.جب تک ملازمین کو کھانا نہ دے دیتے.خود نہ کھاتے تھے.ہر طبقہ و خیال کے لوگ یکساں طور پر آپ کے گرویدہ تھے اور آپ کے وجود کو اسلام واحمدیت کا کامل نمونہ سمجھتے تھے.سلسلہ کی ہر تحریک میں نہ صرف خود حصہ لیا بلکہ اپنے بچوں اور دیگر عزیز واقارب کو بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کی.خاندان حضرت مسیح موعود سے بے حد انس تھا.خلافت کے شیدائی تھے.

Page 283

تاریخ احمدیت.جلد 22 268 سال 1963ء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور دوسرے بزرگوں سے ذاتی مراسم تھے.آپ انتہائی مخیر تھے.ایک باشمر وسایہ دار درخت کی مانند اپنے سارے افراد خاندان حتی کہ معمولی شناسائی رکھنے والے احباب کے لئے بھی سکون اور تسلی کا ذریعہ تھے.ہر ایک کے دکھ میں برابر کے شریک تھے اور ہر کسی کے غم میں تڑپ تڑپ کر بے قرار دعائیں کرتے تھے اور اس وقت تک اُن کے لئے بالالتزام دعاؤں میں منہمک رہتے جب تک اُن کا غم دور نہ ہو جاتا.ہر روز صبح و شام گردونواح کے مریضوں کی عیادت فرماتے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے تھے.حافظہ غضب کا تھا زندگی کی تمام اہم باتیں اتنی تفصیل سے یاد تھیں کہ حیرانی ہوتی تھی.حواس خمسہ تیز تھے.اوزان وغیرہ کا اندازہ تقریباً سو فیصدی درست ہوتا.قادیان میں جلسہ سالانہ کے لئے لکڑی کی شہتیر یاں ہر سال کرایہ پر لی جاتی تھیں.انہوں نے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر لکڑی کی کچھ گھیلیاں ہر سال خرید لی جائیں تو آہستہ آہستہ سارا سٹاک اپنا ہو جائے گا اور یوں سالانہ کرایہ کی بچت ہو جائے گی اور پھر چند سال میں ہی قیمت پوری ہو جائے گی.حضور نے یہ تجویز بے حد پسند فرمائی اور گیلیاں خریدنے کا ارشاد فرمایا: حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے فرمایا:.جولوگ اُن سے واقف نہیں ان کے نزدیک فرد واحد فوت ہوا ہے لیکن یہ جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ اس ایک شخص کے وفات پا جانے سے در حقیقت ہزار انسان فوت ہو گئے ہیں کہ وہ جملہ اوصاف حمیدہ کے مالک تھے.102 محترمہ سیدہ منیرہ ظہور صاحبہ کا بیان ہے:.”میرے سر حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب ۲۱ جولائی ۱۸۹۶ء کو ماچھیواڑ ضلع لدھیانہ میں جناب حکیم محمد عبد اللہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو ماچھیواڑہ کے ایک نامور حکیم اور اپنے علاقہ کے اولین احمدی تھے.ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی اور میٹرک مشن ہائی سکول لدھیانہ سے کیا.نہایت ذہین اور محنتی تھے.ہر جماعت میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتے رہے.وظیفہ بھی لیتے رہے.قرآن مجید با ترجمہ با قاعدگی سے پڑھتے تھے.چھوٹی عمر سے ہی مبشر خوا ہیں دیکھتے تھے.نماز کے سختی

Page 284

تاریخ احمدیت.جلد 22 269 سال 1963ء سے پابند تھے اور کہا کرتے تھے کہ میرا جو بچہ با قاعدہ نماز نہ پڑھے گا میں اس کے گھر نہیں جاؤں گا.آپ وٹرنری ڈاکٹر تھے لیکن مایوس مریض بھی دُور دُور سے علاج کے لئے آتے اور شفایاب ہو کر جاتے تھے.ریٹائرڈ ہونے کے بعد ۵/۴ دارالرحمت غربی ربوہ میں ہی قیام پذیر تھے اور یہیں ۱۴ اگست ۱۹۶۳ء کو ۵ بجے شام وفات پائی.آپ موصی تھے بہشتی مقبرہ میں خاص قطعہ صحابہ بانی سلسلہ احمدیہ میں مدفون ہوئے.آپ کی اولاد میں ۴ بیٹے اور ۴ بیٹیاں ہیں.سب کو اچھی تعلیم دلائی اور احمد بیت کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دی.بچوں کو بچپن سے ہی چندہ دینے کی تحریک کرتے تھے.حلقہ احباب نہایت وسیع تھا حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہان پوری، حضرت مولانا غلام رسول را جیکی صاحب جیسے اعلیٰ پایہ کے بزرگان دین سے گہرے مراسم تھے.قدرت ثانیہ کے مظہر اول کی درس و تدریس کی مجلسوں میں بھی شمولیت رہی.آپ نے ۵ نومبر ۱۹۰۵ء میں بمقام لدھیانہ ۹ سال کی عمر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ہاتھ پر بیعت کی.گو کہ پیدائشی احمدی تھے.مریضوں، ناداروں ، بیواؤں اور یتیموں کا بہت خیال رکھتے تھے.اور حتی الوسع مدد بھی کرتے تھے.لیکن ریاء کا پہلو کبھی نمایاں نہ ہوتا تھا.صبح سویرے محلے میں نماز کے لئے جگانے کے لئے اور اکثر مریضوں کے گھروں میں عیادت کے لئے تشریف لے جاتے.آپ کے ہاتھ میں شفا بہت تھی.حافظہ بڑے غضب کا تھا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے بہت سے اشعار زبانی یاد تھے.بڑے باخدا تھے.جلسہ سالانہ کے موقع پر تمام عزیز واقارب کو اپنے ہاں آنے اور ٹھہرنے کی دعوت دیتے اور ان کی آمد اور اپنے ہاں ٹھہرانے میں خوشی محسوس کرتے.اسی طرح رمضان شریف کا خاص اہتمام کرتے.با قاعدہ برگزار تھے.خاندان حضرت بانی سلسلہ سے خاص انس تھا حضرت فضل عمر سے خاص محبت تھی.سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے کہ یہ انعام محض اس کے فضل و احسان سے حاصل ہوا ہے نظام جماعت سے وابستگی کی تلقین فرماتے تھے.نہایت دعا گواور متوکل تھے.احمدیت کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.اپنے پرایوں سے بڑی محبت اور ہمدردی سے پیش آتے تھے.108 اولاد بیٹے : مکرم سید محمد منظور صاحب مرحوم، مکرم سید ظہور احمد شاہ صاحب مرحوم، مکرم سید مسعود احمد شاہ صاحب مرحوم، مکرم سید مقبول احمد شاہ صاحب مرحوم.تہجد 166

Page 285

تاریخ احمدیت.جلد 22 270 سال 1963ء بیٹیاں مکرمه سیده محموده پروین صاحبه زوجہ مکرم سید بشیر احمد شاہ صاحب، مکرمه سیده مسعوده پروین صاحبه زوجہ مکرم سید عبید اللہ شاہ صاحب، مکرمہ سیدہ نسیم اختر صاحبہ حال کینیڈا اہلیہ مکرم مبارک احمد خاں لودھی صاحب، مکرمه سیده شمیم اختر صاحبه حال ربوه زوجہ مکرم سیدا در لیس احمد شاہ صاحب - حضرت مہتاب بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ولادت: ۱۸۸۳ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۱۸ ستمبر ۱۹۶۳ء 105 104.آپ حضرت مسیح موعود کے صحابی حضرت بابا جیون بٹ صاحب آف امرتسر کی صاحبزادی 106 تھیں.(آپ پشمینہ بانی کا کام کرتے تھے رہائش قلعہ بھنگیاں امرتسر میں تھی.بیعت ۱۸۹۴ء وفات ۱۸ستمبر ۱۹۳۰ء.آپ موصی نہیں تھے مگر حضرت مصلح موعود کی اجازت خاص سے بہشتی مقبرہ 107 قادیان میں دفن کئے گئے (0) حضور علیہ السلام کی تحریک اور منظوری سے آپ کا عقد حضرت مولانا سرور شاہ صاحب سے ہوا.نکاح حکیم الامت حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی نے حضور کی موجودگی میں پڑھا اور خود ہی دوصد روپیہ مہر مقرر کیا.حضرت اقدس علیہ السلام بھی دعا میں شریک ہوئے.رخصتانہ کے موقعہ پر حضرت بابا جی نے کہلا بھیجا کہ ہم سب کچھ دیں گے مولوی سرور شاہ صاحب کچھ بھی ساتھ نہ لائیں.ادھر مولوی صاحب کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا.حضرت حکیم فضل الدین صاحب نے فرمایا کہ یہ معلوم ہونے پر کہ آپ رخصتانہ کے لئے امرتسر جا رہے ہیں دس روپے دیئے اور حضرت مولانا نورالدین صاحب نے فرمایا کہ برات میں کسی کو ساتھ نہ لے جائیں آج تیرہ دوست مجھ سے مل کر امرتسر گئے ہیں اور میں نے انہیں کہا ہے کہ وہ امرتسر اسٹیشن پر ٹھہریں اور آپ کی برات میں شامل ہوں چنانچہ یہ لوگ اسٹیشن پر موجود تھے اُن کے ہمراہ مولوی صاحب ڈاکٹر عباد اللہ صاحب امرتسری کے مکان پر پہنچے جہاں چند اور دوست بھی شامل ہوئے اور یہ برات حضرت بابا جی کے پاس پہنچی.رخصتانہ کی تقریب ہوئی اور حضرت مولوی صاحب محترمہ مہتاب بیگم صاحبہ کو بیاہ کر قادیان لائے اور ازدواجی زندگی کا مبارک دور شروع ہوا.108 ایک دفعہ ان کے دانت میں شدید درد تھی.دواؤں سے فائدہ نہ ہوا.حضرت اماں جان نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی حضور نے دارا مسیح میں بلوا کر ان کی موجودگی میں دو نوافل ادا کئے.انہیں یوں محسوس ہوا کہ اس دانت کے نیچے سے قدرے دھویں والا شعلہ نکل کر آسمان کی طرف جا رہا

Page 286

تاریخ احمدیت.جلد 22 271 سال 1963ء ہے.چنانچہ تھوڑی دیر میں آرام آگیا.اور بھی بہت سی قبولیت دعا کی شہادتیں آپ سے مروی ہیں.حضرت مہتاب بیگم صاحبہ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر مرزا نصیر احمد صاحب مرحوم پسر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو ایک ماہ دودھ پلانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی.آپ خدا کے فضل سے موصیبہ تھیں.جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسجد برلن کی تحریک فرمائی تو آپ نے ۳۰ روپے چندہ ادا کیا.آپ حضرت سید سرور شاہ صاحب کے آرام کا بہت خیال رکھتیں.جب گھر میں ہوتے تو کبھی ادھر ادھر نہ جاتیں نہ ان کے مطالعہ میں بچوں کو جانے دیتیں.گھر کے اکثر اخراجات کا حسن تدبر سے انتظام کرتیں اور گھر کے نظم وضبط کی کڑی نگرانی رکھتیں.آپ کے نواسے لکھتے ہیں کہ گھر کے متعلق ہر کام سلیقے سے کرتیں گھر کے افراد کے علاوہ دو چار کشمیری طلباء بچے بچیاں اور ملازموں کی دیکھ بھال بڑے ذوق اور ڈھنگ سے کرتیں.سلسلہ کے لڑ پچر کے علاوہ حضرت قاضی اکمل صاحب کے گھر آنے والے تمام رسائل کا مطالعہ کرتیں.آخری عمر تک باپردہ گھر سے جاتیں.بے حد دعا گو اور ملنسار خاتون تھیں.حضرت سید سرور شاہ صاحب کی اہلیہ اول سے بیٹی فاطمہ بیگم تھیں.ان کی شادی کے وقت بڑی فراخ دلی سے ان کا جہیز تیار کیا.ان کی اپنی حقیقی بیٹیوں کی طرح پرورش کی.109- اولاد: حضرت مہتاب بیگم صاحبہ کے بطن سے حسب ذیل اولا د ہوئی.(۱) سید ناصر احمد شاہ صاحب مرحوم (۲) سید مبارک احمد صاحب سرور (۳) سیده ناصرہ بیگم صاحبه حضرت میاں عبد الکریم صاحب آف فتح پور ضلع گجرات ولادت ۱۸۸۰ء یا ۱۸۸۱ء بیعت : ۱۸۹۶ء وفات : ۲۵ ستمبر ۱۹۶۳ء روز نامه الفضل ربوه مورخه ۲۱ جون ۲۰۱۲ صفحه ۵، ۶ پر آپ کے حالات و واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کا ملخص ذیل میں پیش کیا جارہا ہے.حضرت میاں عبدالکریم صاحب ابن علی احمد صاحب ۱۸۸۰ء میں فتح پور ضلع گجرات میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی.آپ کے ہمسائے میں ایک بزرگ شخص حضرت سید محمداحمد شاہ صاحب رہا کرتے تھے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا سن کر قادیان تشریف لے گئے.وہاں جا کر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.واپس گاؤں آکر آپ نے حضرت صاحب کی تعلیمات کا پرچار کرنا شروع کر دیا.جس کے نتیجے میں حضرت میاں

Page 287

تاریخ احمدیت.جلد 22 272 سال 1963ء عبدالکریم صاحب نے بھی اپنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا.آپ نے دستی بیعت ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر جہلم کے دوران کی.قبول احمدیت کے دوران آپ پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے.کھیتوں کو تباہ کیا.آپ کی صاحبزادی کی قبر کو اکھیڑ کر لاش کو باہر پھینک دیا گیا.لیکن آپ نے کبھی بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا.آپ نماز تہجد کے عادی تھے.اور شاید ہی زندگی میں کبھی نماز تہجد ادا نہ کر سکے ہوں.دیہاتی ماحول میں جب زمین دارا اپنے مال مویشی اپنی زمینوں اور ڈیروں پر لے کر جاتے ہیں تو اکثر اوقات جانور آتے جاتے ہوئے راستہ میں قریب ملحقہ کھیتوں میں گھس کر لوگوں کی فصلوں کا نقصان کر دیتے ہیں.میاں صاحب اتنے محتاط تھے کہ جب اپنے جانور باہر زمینوں پر لے کر جایا کرتے تھے تو اس وقت اپنے سب چھوٹے بڑے جانوروں کے مونہہ باندھ لیا کرتے تھے تا کہ آپ کے جانور کسی کے کھیت میں مونہہ نہ ماریں اور کسی کا نقصان نہ ہو.اس لئے لوگ آپ کی ایمانداری کی مثال دیا کرتے تھے.حضرت سید محمود احمد شاہ صاحب کی زندگی میں ان کے ہاں روایتی طور پر تعلیم القرآن کا سلسلہ فیض جاری تھا.ان کی وفات کے بعد یہ درس مکرم میاں صاحب کے ہاں منتقل ہو گیا اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تعلیم القرآن کا مبارک سلسلہ تقریباً ایک صدی تک حضرت میاں صاحب اور پھر ان کی وفات کے بعد ان کی بہو محترمہ عنایت بیگم صاحبہ ( گاؤں کے خورد و کلاں آپ کو احترام سے بہن جی کہتے تھے ) کی نگرانی میں چلتا رہا.گاؤں کے بیشتر بچے اور بچیوں نے بلا تفریق مذہب و عقائد قرآن پاک اور بنیادی دینی تعلیم اسی درس میں حاصل کی.بلا مبالغہ ہزاروں لوگوں نے بالواسطہ یا بلا واسطہ اس مکتب علم و عرفان سے اکتساب کیا.ساری عمر جب تک آپ کی صحت نے اجازت دی، اپنی جماعت میں امامت کے فرائض ادا کرتے رہے.آپ نے عرصہ دراز تک جماعت احمدیہ فتح پور ( اس دور میں سات آٹھ قریبی دیہاتوں کے احمدی بھائیوں کی ایک ہی جماعت ہوتی تھی) سیکرٹری مال کے طور پر خدمت کی سعادت حاصل کی.چونکہ آپ کا شغل کاشت کاری تھا.اس لئے کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا جانور سواری اور بار برداری کے لئے گھر پر رہتا تھا.اس لئے آپ اپنی سواری پر ہر قریبی گاؤں میں جا کر احمدی بہن بھائیوں سے چندہ جنس کی صورت میں لے کر آتے تھے.

Page 288

تاریخ احمدیت.جلد 22 273 سال 1963ء حضرت مرز اعطاء اللہ صاحب آف لاہور ولادت ۲۱ / اپریل ۱۸۸۸ ء بیعت: قریباً ۱۹۰۱ء وفات: ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۳ء پنجابی کے مشہور شاعر حضرت بابا مرزا ہدایت اللہ صاحب کے صاحبزادے تھے والد کی وفات کے بعد بعض شر پسند عناصر نے آپ کے مکان کے ساتھ متصل مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کی.پانچ سال تک مقدمہ چلتا رہا.دشمن نے آپ کے بڑے بھائی مرزا قدرت اللہ صاحب کے قتل کی سازش بھی کی مگر نا کام رہا.اس طویل مقدمے کا زیادہ تر مالی بوجھ آپ نے ہی اٹھایا.عدالت نے فیصلہ کیا کہ ہر فریق نماز پڑھنے کا حق دار ہے.اس پر احمدی محض اللہ مسجد سے ہمیشہ کے لئے دستبردار ہو گئے.بڑے صائب الرائے اور ہمدرد انسان تھے عزیز واقارب کی خبر گیری کا خاص اہتمام فرماتے تھے.محکمہ تعلیم میں جہاں آپ نے ۳۵ سال سے بھی زیادہ عرصہ ملازمت کی.آپ کو مسلمانوں کی خدمت بجا لانے کے بہت سے مواقع میسر آئے.اولاد مرزا عزیز احمد صاحب، صالحہ منہاس صاحبہ، ناصرہ بیگم صاحبه، رشید بیگم صاحبہ، مرزا خلیل احمد صاحب، مرزا ناصر احمد صاحب، مرز اسعید اللہ بیگ صاحب - 10 حضرت مرزا حاکم بیگ صاحب موجد تریاق چشم گجرات ولادت ۱۸۷۳ء (اندازاً) بیعت : ۱۸۹۸ء وفات : ۱۱ نومبر ۱۹۶۳ء آپ کا اصل وطن جلال پور جٹاں ضلع گجرات تھا اور آپ اس قصبہ کی جماعت احمدیہ کے روح رواں تھے.احباب جماعت آپ ہی کے گھر میں جمعہ ادا کرتے تھے.چندہ خودا کٹھا کرتے اور جلسہ سالانہ پر جانے کے لئے دوستوں کو شوق دلاتے تھے.آپ شروع سے ہی بے دھڑک اور نڈر راحمدی تھے اور سلسلہ احمدیہ کا پیغام پہنچانے میں دیوانہ وار مصروف رہتے تھے اور غیر احمدی دوستوں کے علاوہ ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں سے اکثر تبادلہ خیالات جاری رکھتے تھے.جلال پور جٹاں میں آپ نے ایک تبلیغی جلسہ بھی کرایا جس میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ، حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی اور حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ کے لیکچر ہوئے اور احمدیت کی نمایاں فتح اور دُور دُور تک شہرت ہوئی.مطالعہ کتب کا فطری ذوق و شوق رکھتے تھے جو نئی کتاب مرکز سے شائع ہوتی منگوا لیتے.سلسلہ

Page 289

تاریخ احمدیت.جلد 22 274 سال 1963ء کے ابتدائی اخبارات الحکم اور بدر کے خریدار تھے.۱۹۲۰ء میں آپ نے گجرات شہر کے محلہ گڑھی شاہدولہ صاحب میں مستقل رہائش اختیار کر لی.۱۹۳۴ء میں اہلحدیث عالم حافظ عنایت اللہ صاحب وزیر آبادی نے گجرات کے اخبار سنیاسی (مورخه ۱۵ فروری ۱۹۳۴ء) میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے نام ایک کھلی چٹھی شائع کی جس میں لفظ توفی کی نسبت حضرت مسیح موعود کے چیلنج کے سلسلہ میں آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ہزار روپیہ مسلمہ منصفین کے پاس جمع کرانے کا مطالبہ کیا.حضرت مرزا حاکم بیگ صاحب نے اس کھلی چٹھی کے جواب میں ایک حقیقت افروز اشتہار شائع کیا جس میں اعلان کیا کہ:.112 ”جناب نواب صاحب خاں بہادر چوہدری افضل علی صاحب آنریری مجسٹریٹ درجہ اوّل گجرات یا حکیم محمد حسین صاحب ایم اے پرنسپل گورنمنٹ کالج گجرات یا رائے بہادر لالہ کدار ناتھ صاحب رئیس اعظم گجرات یا ڈاکٹر شیخ عبدالرشید صاحب جو کہ حافظ صاحب کے مقتدی ہیں یا حاجی شیخ عبدالعزیز صاحب اہلحدیث جو آپ کے محسن بھی ہیں ان میں سے جن پر حافظ صاحب کو اعتماد ہوان کے پاس میں ایک ہزار روپیہ نقد جمع کرادوں گا بشرطیکہ حافظ صاحب پہلے صاف طور پر اس امر کا اعلان کریں کہ وہ حسب مطالبہ مندرجہ ازالہ اوہام صفحہ ۹۱۸.۹۱۹ توفی کے معنی قبض روح اور وفات کے علاوہ قبض روح مع الجسم زندہ اٹھا لینا دکھا ئیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی امر کے ساتھ اس انعامی اشتہار کو مشروط کیا ہے.“ آپ نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ :.”ہماری رائے میں اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے کم از کم پانچ پرچے ہونے چاہئیں پہلے پرچہ میں حافظ صاحب کو اُن تمام مثالوں کا ذکر کر دینا ضروری ہوگا جن کے معنی اُن کے زعم میں جسم اور روح کو بہ ہیئت کذائی زندہ ہی اٹھا لینا ہوں اور آخری پرچہ میں کسی اور نئی مثال یا دلیل کے پیش کرنے کی اجازت نہ ہوگی اور مثالیں قرآن کریم سے یاکسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اشعار وقصائد نظم ونشر قدیم وجدید عرب سے پیش کرنی ہوں گی اور ہماری طرف سے اجازت ہوگی کہ حافظ صاحب جتنے دیگر مولویوں سے مدد لینا چاہیں لے لیں اور چونکہ یہ چیلنج انعامی ہے اس لئے ہمیں منصف کی شرط بھی منظور ہے اور اس کا فیصلہ بھی ہمیں مسلم ہوگا.لیکن تفصیلی شرائط متعلقہ تقرر منصف اور تحریر پر چہ جات وغیرہ حافظ صاحب کی طرف سے مطلوبہ اعلان شائع ہو جانے کے بعد طے کی جائیں گی.امید ہے کہ

Page 290

تاریخ احمدیت.جلد 22 275 سال 1963ء حافظ صاحب کو ہمارے اس جائز مطالبہ کے پورا کرنے میں کوئی عذر نہیں ہوگا.“ یہ اشتہار اخبار الفضل نے بھی اپنی ۲۵ مارچ ۱۹۳۴ء کی اشاعت میں مکمل طور پر چھاپ دیا.حافظ عنایت اللہ صاحب نے اشتہار کا جواب یہ دیا کہ مجھے بانی سلسلہ احمدیہ کی جائیداد کی فروخت سے یہ روپیہ ملنا چاہئیے.میں مرزا حاکم بیگ صاحب کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا.اس پر آپ نے لکھا کہ اس سلسلہ میں حافظ صاحب کی ایک چٹھی مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور کے نام اخبار سنیاسی مورخه ۵ جولائی ۱۹۳۴ء کو شائع ہوئی ہے حالانکہ انہیں خوب معلوم ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کے پاس حضرت مسیح موعود کی کوئی جائیداد نہیں.جب آپ کو ایک ہزار روپیہ صرف حضرت اقدس کی جائیداد ہی سے لینا تھا تو پھر مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کرنے کا کیا فائدہ تھا.پس یہ محض حیلہ تراشی اور بہانہ سازی ہے جو میرے طریق فیصلہ سے بچنے کے لئے کی گئی ہے پھر مرزا صاحب نے گجرات کی مسلم پبلک سے اپیل کی کہ وہ حافظ صاحب سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتی کہ وہ عظیم الشان حقیقت جس سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ایڈووکیٹ اہلحدیث نا آشنا ر ہے جو مولوی میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی پر آشکارا نہ ہوئی اور جو مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو نہ سوجھی وہ حافظ صاحب اپنے سینہ میں تھی نہ رکھیں.اب حافظ صاحب نے پینترا بدل کر یہ جت کھڑی کی کہ ایک ہزار کے علاوہ پانچ ہزار روپیہ مزید مجھے دلایا جائے کیونکہ مؤلف عسل مصفی“ کے بیان کے مطابق مولوی نورالدین خلیفہ اول نے ثبوت پیش کرنے والے کو اپنی جیب خاص سے پانچ ہزار روپیہ دینے کا وعدہ بھی فرمایا تھا.اس پر مرزا صاحب نے بذریعہ اشتہار اعلان فرمایا کہ میں پورے چھ ہزار روپے حافظ صاحب کی نذر کرنے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہ توفی کے معنی جبکہ خدا فاعل اور انسان مفعول ہو تو وہ بجر قبض روح کے کوئی اور معنی بتا دیں.یہ ایک تحریری اقرار نامہ ہے جسے حافظ عنایت اللہ صاحب بذریعہ نالش مجھ سے لے سکتے ہیں نیز یہ کہ کر اتمام حجت کر دی کہ کیا مسلمانوں پر اب بھی واضح نہیں ہوا کہ مخالف علماء اب اس مسئلہ میں ایسے عاجز آچکے ہیں کہ پورے تینتالیس سال بعد اس چیلنج کو قبول کر کے ایک ہزار روپیہ طلب کرتے ہیں اور جب پیش کیا جاتا ہے تو مقابلہ کی تاب نہ لاکر حیلوں بہانوں سے راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں.آپ نے اپنے اشتہار میں مزید لکھا کہ :.مولوی صاحب اگر آپ کو واقعی احمدیوں سے مقابلہ کرنے کا شوق ہے تو تبلیغ دین کے معاملہ میں مقابلہ کریں.آپ یورپ میں ایک مشن کھولیں پھر ایک دو سال کے بعد اپنا کام ثالثوں کے سامنے

Page 291

تاریخ احمدیت.جلد 22 276 سال 1963ء رکھ دیں.احمدی اپنے منتخب حصہ میں کام کریں گے.ثالثوں کو فیصلہ کرتے ہوئے بھی لطف آئے گا اور آپ کو فیصلہ سنتے ہوئے بھی سرور ملے گا.اس مقابلہ سے اسلام کی قوت اور شوکت بڑھے گی اور آپ کی مقابلہ کی عادت کو بھی تسکین ہوگی.کام کے لئے مقابلہ کرو محض نام کے لئے مت کرو.مسلمانوں کی قوم آپ کی بہت ہی احسان مند ہوگی اگر آپ ایسے مقابلہ کی طرح ڈالیں.توفی کی لفظی بحثیں بہت ہو چکی ہیں وفات مسیح کا عقیدہ اب حقیقت ثانیہ ہو چکا ہے.اب سرسبز نہیں ہو سکتا.عیسائیوں کے ہاں اب اس عقیدہ پر تمسخر کیا جا رہا ہے.آپ خواہ مخواہ حیات مسیح کو ثابت کر کے مسیح کی الوہیت دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں.اگر الوہیت مسیح ہی کی اشاعت منظور ہے تو اس کے لئے مسلم پلیٹ فارم یا مسلم پرلیں بجائے کرسچین پلیٹ فارم اور کرسچین پریس زیادہ موزوں ہوگا ، اس اشتہار نے علاقہ بھر میں احمدیت کی دھاک بٹھادی.جلسہ سالانہ پر ایک دفعہ فراہمی اجناس کی تحریک ہوئی تو آپ نے نمک مرچ کا خرچ اپنے ذمہ طے کیا.آپ تحریک جدید کے انیس سالہ دور اول کے مجاہدوں میں سے تھے آپ کا نام ”پانچ ہزاری مجاہدین کے صفحہ ۷۶ اپر درج ہے.بڑے صائب الرائے تھے.ہمدردی خلائق ان کا خاص وصف تھا.بیماروں کی تیمار داری اور مہمان نوازی کا خیال رکھتے تھے.خود اپنی آنکھوں میں گروں کی مرض میں مبتلا ر ہے اور قریباً گیارہ مرتبہ بڑے بڑے ڈاکٹروں اور یورپین سول سرجنوں سے آپریشن بھی کرائے.اس دوران جملہ موثر ادویات یونانی و انگریزی جو اُن کے تجربہ میں مفید ثابت ہوئیں ان کا ایک مرکب سفوف تریاق چشم ایجاد کیا جو ۱۹۲۰ء سے آخری عمر تک کم منافع اور ایک ہی قیمت پر دیتے رہے جس کے پیچھے محض خدمت خلق کا جذ بہ کار فرما تھا.آپ کو حکمت کے ساتھ شروع سے ہی خاص دلچسپی اور لگاؤ تھا.اکثر کشتہ جات بہت محنت اور جانفشانی سے تیار کرتے تھے.دوسرے حکماء سے تبادلہ خیالات کر کے اپنے تجربات کا ذکر کرتے اور ان کو اپنے طریق علاج کے قائل کر دیتے جس سے وہ آپ کی محنت شاقہ اور خالص ادویات کی فراہمی کی جستجو کے مداح ہو جاتے.آپ کی گفتگو میں معقولیت اور منطقی پہلو نمایاں رہتا تھا، وکلاء، ڈاکٹر اور علمی ذوق رکھنے والے علمی طبقہ سے آپ کے خصوصی روابط و مراسم تھے.کسی بڑے سے بڑے مخالف سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے ہمیشہ بے دھڑک اور نڈر ہو کر خدا کا

Page 292

تاریخ احمدیت.جلد 22 277 سال 1963ء پیغام پہنچاتے.خدمت خلق کا فریضہ فطری اور دلی جوش سے ادا کرتے اور بعض اوقات بڑے فخر سے یہ اظہار فرماتے کہ میں نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا ، نہ کسی کے رعب میں آیا ہوں.مرکز سلسلہ سے گہری وابستگی رکھتے تھے.ایک موقعہ پر ایک امیدوار اسمبلی نے امداد حاصل کرنا چاہی تو آپ نے فرمایا کہ جب تک مجھے مرکز سے ہدایت نہ آئے مجھے معذور سمجھا جائے چنانچہ وہ صاحب سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حضور قادیان حاضر ہوئے اور وہاں سے آپ کے نام تار بھجوایا.جس کے پہنچتے ہی آپ نے اپنے حلقہ اثر سے خاص دوڑ دھوپ کر کے امیدوار کی خواہش سے بڑھ کر ووٹ دلوائے.آخری عمر میں آپ گجرات سے منتقل ہو کر اپنے بیٹے مرزا محمد شریف بیگ صاحب سپرنٹنڈنٹ جیل ریٹائرڈ کے ہاں حویلی منصف چینوٹ میں فروکش ہو گئے تھے اور یہیں انتقال کیا.آپ کی وفات پر احمدی اور غیر احمدی حلقوں کی طرف سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور کثرت سے تعزیتی خطوط موصول ہوئے.حضرت شیخ غلام جیلانی صاحب ولادت: قریباً ۱۸۸۹ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۱۳ نومبر ۱۹۶۳ء نیک صالح اور سلسلہ کے فدائی بزرگ تھے اپنے پیچھے چار بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑیں.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ولادت : اگست ستمبر ۱۸۷۸ء (بمطابق وصیت فارم ).آپ کی تالیف حیات قدسی جلد اصفحہ ۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت بھادوں کے مہینہ میں ہوئی.عیسوی کیلنڈر کی رُو سے یہ اگست، 115 ستمبر کے ایام تھے.بیعت تحریری: ستمبر یا اکتوبر ۱۸۹۷ء زیارت : ۱۸۹۹ء وفات ۱۵ دسمبر ۱۹۶۳ء.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ممتاز صحابی، سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جید و متبحر عالم ، صاحب رؤیا و کشوف اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے.آپ موضع را جیکی ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی پیدائش سے قبل خواب میں دیکھا تھا کہ گھر میں ایک چراغ روشن ہے جس کی روشنی سے سارا گھر جگمگا اٹھا ہے.آپ نے ۱۸۹۷ء میں بذریعہ خط بیعت کی اور اس کے دو سال بعد ۱۸۹۹ء میں قادیان حاضر ہو کر دستی بیعت کا شرف

Page 293

تاریخ احمدیت.جلد 22 278 سال 1963ء حاصل کیا.بیعت کے بعد علی الخصوص آپ کے علم و عرفان اور تعلق باللہ میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی برکت بخشی.اور آپ کو روحانی نعماء سے اس قدر حصہ وافر عطا کیا کہ آپ آسمان روحانیت کا ایک درخشنده ستاره بن کر نصف صدی سے زائد عرصے تک بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لانے کا وسیلہ بنے رہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم و عرفان کے ساتھ ساتھ الہام اور رویا وکشوف کی نعمت سے نہایت درجہ حصہ عطا فرمایا تھا اور خدمت سلسلہ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت غیر معمولی رنگ میں عطا فرمائی تھی.یوں تو آپ سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کے بعد شروع ہی سے تبلیغ حق میں بے انتہا سرگرم واقع ہوئے تھے اور آپ کی زندگی ہمہ وقت میدان تبلیغ میں ہی بسر ہو رہی تھی.لیکن سلسلہ عالیہ احمد یہ کے باقاعدہ مبلغ کے طور پر آپ نے خلافت اولی کے زمانے میں کام شروع کیا.اور پھر قریباً نصف صدی تک ایسے ایسے عظیم الشان تبلیغی کارنامے سرانجام دیئے کہ جو رہتی دنیا تک یاد گار رہیں گے.آپ نے اپنے تبلیغی تجارب اور زندگی میں پیش آنے والے غیر معمولی واقعات کو اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ”حیات قدسی میں محفوظ فرما دیا ہے.آپ نے اپنی زندگی میں آریوں عیسائیوں اور غیر از جماعت علماء سے صدہا نہایت درجہ کامیاب مناظرے کئے.ہزاروں کی تعداد میں معرکۃ الآراء لیکچر دیئے.اردو اور عربی میں نہایت اہم علمی موضوعات پر بے شمار قیمتی مضامین رقم فرمائے جو سلسلہ کے جرائد و رسائل اور اخبارات میں شائع ہوئے.آپ کی عربی دانی نہ صرف جماعت میں بلکہ جماعت سے باہر بھی غیر از جماعت اہل علم حضرات کے نزدیک مسلم تھی.آپ کے عربی قصائد منقوطہ و غیر منقوطہ نے آپ کی عربی دانی اور علم لدنی کا سب سے لوہا منوالیا تھا.آپ کے آقا سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جن کے فیض صحبت سے آپ نے بہت کچھ پایا اور آپ کے علم و عرفان کو جلاء نصیب ہوئی.۸ نومبر ۱۹۴۰ کو خطبہ جمعہ میں آپ کے علم وفضل اور تجر علمی کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو حسب ذیل سند قبولیت عطا فرمائی کہ میں سمجھتا ہوں کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی مگر بعد میں جیسے یک دم کسی کو پستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان کو قبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ

Page 294

تاریخ احمدیت.جلد 22 279 سال 1963ء صوفی مزاج لوگوں میں ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ ، دلوں پر اثر کر نیوالی اور شبہات اور وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے.“ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فروری ۱۹۵۷ میں آپ کو صد را مجمن احمد یہ پاکستان کا مستقل ممبر مقرر فر مایا چنانچہ اس وقت سے آپ صدر انجمن احمدیہ کے ممبر چلے آرہے تھے علاوہ ازیں آپ افتاء کمیٹی کے بھی رکن تھے.مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۶۳ کو اچانک سینہ میں درد محسوس ہوا اور اس کے چند منٹ بعد آپ مولائے حقیقی سے جاملے.118 آپ اگر چہ ایک مستجاب الدعوات بزرگ تھے اور بکثرت اللہ تعالیٰ آپ کی دعائیں سنتا اور جواب دیتا تھا.لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ آسمانی برکات ملنے کا حقیقی ذریعہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ امام کی گہری اطاعت اور ادب و احترام ہی سے وابستہ ہے.اس بات کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو سمجھانے کے لئے ایک موقع پر آپ کو فرمایا :.اگرتو چاہتا ہے کہ تیرا قرضہ جلد اتر جائے.تو خلیفہ المسیح کی دعاؤں کو بھی شامل کرلئے.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مجاہد مصر و ایڈیٹر اخبار الحکم نے آپ کی ایمان افروز روایات سپرد اشاعت کرتے ہوئے یہ نوٹ لکھا:.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سلسلہ کے نامور علماء میں سے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں نوجوانی کے عالم میں آئے.خدمت دین کے بہت مواقع آپ کو ملے اور اب تک تبلیغ سلسلہ میں ایک گرمجوش سپاہی کی طرح میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں.میں نے ۱۹۱۹ء میں آپ کے ساتھ ایک لمبا تبلیغی سفر کیا.حضرت مولوی صاحب ان دنوں اعصابی درد میں مبتلا تھے اور سخت تکلیف اٹھا رہے تھے.مگر تکلیف کی سخت سے سخت گھڑیوں میں بھی وہ تبلیغ سے نہ رکتے تھے یہ شغف اور والہانہ جوش ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے ملا.الغرض حضرت مولوی صاحب کا مقام مجاہدین سلسلہ میں ایک بلند مقام ہے.20 حضرت مولانا صاحب برصغیر پاک و ہند کے مشہور سورج بنسی خاندان کے چشم و چراغ تھے گوت وڑائچ تھی.آپ کا شجرہ نسب آپ ہی کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے ”غلام رسول بن کرم دین 66 صاحب ولد پیر بخش صاحب ولد حاجی احمد صاحب ولد محمد صاحب ولد عبدالغفور صاحب ولد حضرت

Page 295

تاریخ احمدیت.جلد 22 280 سال 1963ء میاں نور محمد صاحب ولد خلیفہ عبدالرحیم صاحب ولد حضرت شیخ حاجی ولد سارنگ ولد بیگ ولد لکڑ ولد راجہ ولد مگهو ولد کنور ہری ولد مہا راجہ جیتو ولد راجہ دیر ولد ماہی ولد دیور ولد پانڈ و ولد مو لا ولد سدھ ولد بگا ولد وڈ اولد وڑائچ ولد متہ ولد تھلپال ولد نار و ولد شاہ ولد کانش ولد ہر بند ولد سورج بنسی.مہا راجہ جیتو کی سمادھ اب تک ریاست جنیند میں موجود ہے.حضرت مولانا صاحب اپنے خاندانی حالات اور بیعت سے قبل اور بعد کے چند واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.میں ان کتابوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف سے مجھے ملی تھیں انہی کو زیر مطالعہ رکھتا.مولا نا امام الدین صاحب نے بھی اس طرف خاص طور پر توجہ فرمائی.اور حضرت اقدس کی کتب کو اچھی طرح سے بغور مطالعہ فرمایا.تو آپ کے خیالات تکذیب سے تصدیق کی طرف پلٹا کھا گئے.اور پھر ہر دن آپ پر تصدیق کے خیالات میں ترقی دینے والا ہی ہوا.اور پھر تصدیق کے لئے آپ کے یقینی مراتب میں اس سے بھی ترقی ہوئی.چنانچہ ۱۸۹۸ء تک مولوی صاحب بالکل مصدق ہو گئے.اور ۱۸۹۹ء کو مولوی صاحب موصوف بمع خاکسار را قم بغرض بیعت قادیان روانہ ہوئے.اور دستی بیعت ہم دونوں نے جمعرات کی شام کو حضرت مسیح پاک کے ہاتھ پر کی.حضور اقدس نے بعد بیعت فرمایا که درود شریف اور استغفار کثرت سے پڑھنا چاہئیے.اور نیز فرمایا کہ نماز میں مادری زبان یعنی پنجابی میں بھی دعا کر لی جائے یعنی مسنونا نہ دعاؤں کے علاوہ.اس پر مولانا امام الدین صاحب نے عرض کیا کہ پنجابی میں نماز کے اندر دعا کرنے سے نماز ٹوٹ تو نہ جائے گی.ایسے سوال کو بیعت کرنے کے بعد کرنا مجھے اس وقت سخت ہی نا گوار محسوس ہوا.دل میں خیال آیا کہ جب اب بیعت ہو چکی ہے تو اب جیسے حضور فرماتے ہیں اس کے متعلق سوال کرنے کی کونسی گنجائش باقی رہ گئی.حضرت نے فوراً جواب دیا کہ نماز ٹوٹی ہوئی تو آگے ہی ہے.ہم نے تو ٹوٹی ہوئی کو جوڑنے کے لئے تدبیر بتائی ہے.جب ہم واپس ہوئے تو مولوی صاحب تو امرتسر اپنی ہمشیرہ کی ملاقات کے لئے ٹھہر گئے اور میں سیدھا لا ہور آ کر نیلا گنبد لاہور میں مدرسہ رحیمیہ میں داخل ہو گیا.اس وقت میری عمر ۱۹ سال کی ہوگی.رحیمیہ مدرسہ میں صرف ایک طالب علم حکیم عبدالعزیز پسروری میرا ہم عقیدہ تھا.لیکن ابھی تک غیر احمدیوں کے پیچھے نماز اور جنازہ کی ممانعت نہیں ہوئی تھی.اور نہ ہی اس وقت تک جماعت کے لئے امتیازی نام تجویز فرمایا گیا تھا.بلکہ احمدی نام بعد میں مردم شماری کی تقریب کے موقع پر تجویز ہوا

Page 296

تاریخ احمدیت.جلد 22 281 سال 1963ء تھا.ہم عرصہ تک غیر احمدیوں کے پیچھے ہی نمازیں ادا کرتے رہے.پھر ۶ ماہ تک میں مدرسہ رحیمیہ میں تصوّف کا شغل رکھتے ہوئے کسی قدر عربی کی تعلیم حاصل کرتا رہا.بوجہ کثرت شغل تصوف مدرسہ کے لڑکوں اور استادوں میں مجھے صوفی کے نام سے شہرت دی گئی.اور مکالمہ مخاطبہ کے وقت عند التذکرہ مجھے صوفی کے نام سے ہی ذکر کیا جاتا.جب تعطیلات کے موقع پر میں واپس وطن کو آیا.تو میں احمدیت کی نعمت کے اظہار کے لئے ایک جوش سے بھرا ہوا تھا.اب میں نے ہر طرف دعوت وتبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا.جہاں مجلس دیکھتا وہاں پہنچ کر السلام علیکم کے بعد اہل مجلس کو مبارک باد عرض کرتا.وہ پوچھتے کہ کیسی مبارک باد ہے.میں عرض کرتا.حضرت مسیح موعود اور امام مہدی علیہ السلام ظاہر ہو گئے ہیں.وہ پوچھتے کہاں اور کس طرح.اس کے بعد تبلیغ شروع کر دیتا.بعض ہنسی میں بات ٹال دیتے.بعض انکار کر دیتے.بعض مخالفت کرتے.بعض کہتے کہ بھائی صاحبان ان کی بات تو سن لو.الغرض ایک عرصہ تک جو۲ سال کا ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات تک آنریری طور پر خدا نے مجھے تبلیغ کی توفیق عطا فرمائی.اور اس عرصہ میں کئی دفعہ مجھے آنحضرت کی زیارت نصیب ہوئی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت تو اگر ہر روز نہ ہوتی تو ہر ہفتہ میں تو ضرور ہی نصیب ہوتی.کئی بار مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خواب میں مل کر کھانا کھاتے دیکھتا.جب شروع شروع میں میں نے اپنے وطن میں تبلیغ شروع کی تو عوام میں ایک شور برپا ہو گیا.اور علماء علاقہ سخت برہم اور شدید مخالفت اور جوش غضب سے بھر کر میرے اثرات کو دور کرنے کے لئے کمر بستہ ہو گئے.چنانچہ علماء نے میرے خلاف اپنا پرانا اور مجرب حربہ استعمال کرنا مفید سمجھا.اور جابجا خفیہ طور پر مختلف دیہات میں آدمی بھیج کر سب علماء علاقہ کو ہمارے گاؤں موضع را جیکی میں جمع ہونے کے لئے دعوت دی گئی.چنانچہ بہت سے علماء بمع اپنے چیلے چانٹوں کے ہمارے گاؤں کی مسجد میں جمع ہو گئے.اور مجھے بلایا گیا.جب میں علماء کی مجلس میں جن کا لیڈر مولوی شیخ احمد ساکن دھر یکیں تحصیل پھالیہ ضلع گجرات تھے پہنچا اور میں نے عرض کیا کہ مولوی صاحبان فرمائیے کیا ارشاد ہے.جس کیلئے مجھے بلایا گیا.تو مولوی شیخ احمد بولے کہ آپ نے مرزا کو مہدی اور مسیح مانا ہے اور اس سے آپ کا فر ہو گئے ہیں.ہم اس لئے آئے ہیں.اور آپ کو بلایا ہے.کہ آپ اس کفر سے توبہ کریں.آپ کے آباء اجداد اولیاء اور صاحب کرامت بزرگ ہوئے ہیں آپ ایسے خاندان سے ہو کر جن کی مستورات بھی ولی اور صاحب کرامت تھیں.اور ہم نے سنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو وضو سے دودھ پلایا کرتی تھیں اور آپ کے

Page 297

تاریخ احمدیت.جلد 22 282 سال 1963ء بزرگ اس طرح سے گویا بچپن سے ہی ولی ہوتے تھے.آپ ایسے خاندان اور بزرگوں کو بدنام نہ کریں.اور اس کفریہ عقیدہ سے باز آجائیں.میں نے عرض کیا کہ میں نے حضرت مرزا صاحب کو مرزا صاحب کی حیثیت سے تو نہیں مانا.بلکہ اس لئے مانا ہے کہ خدا نے انہیں مسیح موعود اور مہدی معہود کی حیثیت میں اپنی طرف سے مبعوث فرمایا ہے اور میں آپ کی صداقت کو قرآنِ کریم اور حدیث کے پیش کردہ معیاروں کی رُو سے ثابت کرتا ہوں.کہ حضرت مرزا صاحب اپنے دعاوی میں منجانب اللہ اور بالکل صادق ہیں.مولوی صاحبان نے اس پر شور ڈالا اور اونچی اونچی آواز سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمیں آپ کے دلائل اور تقریر سننے کی ضرورت نہیں صرف تو بہ کرنے کی ضرورت ہے.آپ تو بہ کریں اور کفر سے باز آجائیں.اس سے زیادہ کوئی بات آپ کے منہ سے ہم سننا نہیں چاہتے.میں نے عرض کیا کہ پھر یہ تو سکھا شاہی ہے.کہ دلائل کے سوا آپ اپنی طرف سے ایسی کارروائی کرنا چاہتے ہیں جو نہ شرعاً جائز ہے نہ قانونا نہ عقلاً نہ نقلا.بعض مولوی صاحبان نے مجھے جوش غضب سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دو حرفی بات کرو.کفر سے باز آنا ہے یا نہیں.میں نے کہا.خدا اور رسول اور اسلامی تعلیم کے رُو سے تو میں نے حضرت مرزا صاحب کو مان کر ایمان حاصل کیا ہے.اب میں اس ایمان سے کیسے تو بہ کروں.اور جس کفر سے آپ تو بہ کرانا چاہتے ہیں.وہ خدا، رسول اور اسلامی تعلیم کا کفر تو نہیں البتہ آپ جیسے علماء کا کفر ہے.سو آپ کے کفر سے تو میں نے حضرت مرزا صاحب کے ہاتھ پر جا کر تو بہ کی ہے اب اس تو بہ کے بعد میں اور کس قسم کی تو بہ کروں.اس پر علماء اور بھی برافروختہ ہوئے.اور مولوی شیخ احمد کھڑے ہو گئے.سینکڑوں آدمیوں کا مجمع تھا.جس کے سامنے انہوں نے میرے متعلق فتویٰ کفر کا اعلان کر دیا.کہ یہ شخص مرزائے قادیانی کومسیح و مہدی مان کر کافر ہو چکا ہے.اس لئے اس کے ساتھ ملنا جلنا اس کے پاس بیٹھنا اور اس سے سلام کلام اور اس کے ساتھ کھانا پینا شریعت کے رُو سے قطعاً حرام ہے.ہر ایک مسلمان مرد اور عورت اس سے بکلی پر ہیز کرے.اس پر میرے چچا زاد بھائی حافظ غلام حسین صاحب نے میری حمایت میں جوش کے ساتھ انہیں اور ان کے حامیوں کو جو انہیں لے کر آئے تھے سخت لفظوں سے مخاطب کیا.کہ تمہارے اس فتوئی کفر کی کیا حقیقت ہے.تم نے محض شرارت سے اعلان کیا ہے.افسوس تم پر اور تمہارے اس اعلان پر.علماء کا یہ اعلان جو میرے متعلق فتویٰ کفر کا کیا گیا.کیا تھا.گویا خدا کی طرف سے آسمانی فیوض کی کھڑکیاں کھلنے کا ایک پیش خیمہ تھا.مجھے علماء کے اس اعلان کی وجہ سے جو غم اور حزن ہوا وہ صرف اس

Page 298

تاریخ احمدیت.جلد 22 283 سال 1963ء بات کے لئے ہوا کہ اب تبلیغ کے کام میں اس اعلان سے رکاوٹ پیدا ہوگی.اور میری بات کو سننے سے ان لوگوں کو جنہوں نے اعلان سنا نفرت ہو جائے گی.تو اس صورت میں پیغام حق پہنچانے کے متعلق جو سخت دقت پیش آئے گی اس کے ازالہ کی کیا تدبیر ہو سکے گی.جب لوگ جمع علماء کے چلے گئے.تو میں ایک کوٹھڑی میں داخل ہو کر دروازہ بند کر کے سجدہ میں گر گیا.اور دعا کرنے لگ گیا.اشکبار آنکھوں کے ساتھ رقت سے بھری ہوئی چیخوں کی آواز میرے سینے کے اندر سے نکلتی تھی.رات کو جب میں سویا تو میرے سامنے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کاغذ پیش کیا گیا.جس پر لکھا ہوا تھا:.”مولوی غلام رسول جوان صالح کراماتی اس الہامی کلام کے نزول فرما ہونے تک کوئی بھی مجھے مولوی کے لقب سے مخاطب نہیں کرتا تھا اس لئے کہ مولویانہ سند کے علوم کی منزل سے میں ابھی بہت دور سمجھا جاتا تھا.اس لئے کوئی مجھے میاں صاحب کہہ دیتا کوئی صوفی صاحب.مولوی غلام رسول صاحب ساکن انگہ کے والد بزرگوار حکیم مولوی فضل الہی صاحب جو ہمارے خاندان کی بزرگی کی وجہ سے میرا بھی بہت ادب کرتے.اکثر میرے متعلق میاں صاحب کا لفظ ہی استعمال کرتے.اور دوسرے لوگ بھی عام طور پر میاں صاحب ہی کہتے.اس الہامی بشارت کے بعد میں نے اس الہامی بشارت کو بہت سے لوگوں سے بیان کر کے کہہ دیا تھا کہ اب میں آسمان پر مولوی قرار پاچکا ہوں اور آسمانی مولویت کے خطاب سے مجھے سرفراز فرمایا گیا ہے.اب میں نے مولوی ہو جانا ہے.بعض افراد اس بشارت کو سن کر بطور مذاق یہ بھی کہہ دیتے کہ مولوی بننے والا علم تو آپ نے پڑھا نہیں.پھر مولوی کس طرح بنیں گے.لیکن اس کے بعد ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ اس الہامی بشارت نے اپنی صداقت کا جلوہ کس شان سے ظاہر فرمایا.کہ مولوی کے سوا اب کوئی میرا نام لیتا نہیں.مولا نا امام الدین صاحب اور میں نے جب دونوں نے بیعت کی.مہمان خانہ میں ہم اترے.اس وقت شیخ محمد اسمعیل صاحب سرساوی بیعت کرنے والوں کے نام لکھا کرتے تھے.ہم دونوں سے بھی انہوں نے دریافت فرمایا کہ آپ صاحبان کا نام و پتہ جو کچھ ہو مجھے لکھا دیں.میں نے اپنے گاؤں کا نام راجیکی بتایا.نام لکھا نا حسن تفاول کے لحاظ سے ایسا مبارک ثابت ہوا کہ میرے گاؤں کا نام اب میرے نام کا جزو بن گیا.یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مجھے اکثر مولوی راجیکی کے نام سے ہی ذکر فرماتے.اس الہامی بشارت کے بعد اور اس بشارت کے بعد جو درخت پر چڑھنے اور سارا قرآن

Page 299

تاریخ احمدیت.جلد 22 284 سال 1963ء پڑھنے اور اس بڑی کتاب کے پڑھائے جانے کے بعد جو مشرق مغرب تک پھیلی ہوئی اور آسمان کی بلندی تک اونچی تھی ایک طرف خدا تعالیٰ نے میرا سینہ علوم لدنیہ اور معارف دینیہ اور اسرار مخفیہ اور حقائق قرآنیہ اور عجائبات حکمیہ کیلئے کھول دیا.اور دوسری طرف میرے لئے ظاہری کتب کے مطالعہ کیلئے اس قدر توفیق بخشی کہ قریباً دس ہزار لغات عربی زبان کی مجھے یاد ہو گی.اور حضرت اقدس مسیح موعود کی تمام کتب اور خصوصاً عربی کتب کو میں نے اس استغراق اور محویت کے ساتھ پڑھا کہ میرے دل اور دماغ میں و فقش ہوتی چلی گئیں اور حضرت مسیح موعود کے کلام سے میرے اندر ایک ایسا اثر اور ملکہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ گویا میں عربی زبان میں اگر کچھ لکھنا چاہوں تو میں اس پر قادر ہوں گا.اس کے بعد میں نے بعض مخالف علماء کو عربی میں خطوط لکھے.اور مقابلہ کیلئے بلایا.کہ میرے ساتھ عربی زبان میں مقابلہ کریں.یا عربی میں قرآن کریم کے کسی مقام کی آمنے سامنے بیٹھ کر تفسیر لکھیں.لیکن پنجاب اور ہندوستان کے علماء میں سے کوئی بھی مقابلہ نہ کر سکا.نہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نہ ہی مولوی ابراہیم سیالکوٹی نہ ہی دیوبندی علماء نہ ہی کلکتہ اور بہار اور در بینگا کے علماء جنہوں نے مونگھیر کے عربی تحریری مناظرہ میں میرے عربی پر چہ لکھنے اور ہزار ہا مخلوق کے سامنے لکھنے اور پڑھنے کے بعد اپنے عجز کی وجہ سے پیٹھ دکھاتے ہوئے میدان مقابلہ سے بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا.حالانکہ ڈیڑھ سو کے قریب اطراف ہند سے اس مناظرہ کیلئے علماء جمع تھے.اس مناظرہ سے پہلے میں نے کشفا دیکھا کہ میرا ہاتھ ید بیضا کی شکل پر بالکل سفید اور نورانی ہے اور چمکتا ہے اور پھر جب میں مناظرہ کیلئے کھڑا ہوا تو روح القدس آسمان سے مجھ پر نازل کی گئی.جس نے مجھے اپنے پورے تصرف کے اندر کر لیا.اور میرے قلم کا جنبش عربی زبان میں پرچہ لکھنے کے وقت اور میری زبان عربی پر چہ سنانے کے وقت روح القدس کے تصرف کے نیچے حرکت کرتی تھی.اور میں ایک آلہ کی طرح درمیان میں صرف ایک پردہ کے طور پر نظر آتا تھا.اور یہ اعجازی اور علمی برکت کا نشان میرے پیارے مسیح محمدی کا نشان صداقت اور جلوہ حقیقت ظاہر ہوا.جس پر اسی وقت ساحرانِ موسی کی طرح کئی نو جوانوں نے جو آٹھ کی تعداد سے کم نہ تھے اسی میدان مناظرہ میں اپنی بیعت اور احمدیت کا اعلان کرنا چاہا.جنہیں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب امیر وفد نے فرمایا کہ مکان پر آکر بیعت کر لینا چنانچہ بیعت سے وہ احمدی ہو گئے.اور میں جو اتنا خوش الحان نہیں پر چہ سنانے کے وقت ایسی مؤثر اور خوش الحانی سے پرچہ پڑھا که مباحثہ مونگھیر کی رپورٹ مرتب کرنے والے صاحب نے لحن داؤدی سے اسے تعبیر فرمایا.اس

Page 300

تاریخ احمدیت.جلد 22 285 سال 1963ء مناظرہ میں کئی ہزار تک حاضری کی تعداد تھی.اور پانچ صدر تھے.دو احمدی دو غیر احمدی اور پانچواں ہندو.جو ایک بہت بڑار یکیں اور معزز ہندو تھا.غیر احمدی علماء جیسے مولوی مرتضی در بھنگی و غیرہ بار بارشور مچاتے اور کہتے کہ یہ پرچہ پڑھنے سے لوگوں پر اپنا اثر ڈالتا ہے.اس طرح سے ہم پر چہ نہیں پڑھنے دیں گے.یہ پرچہ پڑھے تو فرفر پڑھے اور جلد جلد ختم کرنے کی کوشش کرے.جس پر سب سے بڑے صدر صاحب جو ہندو تھے.انہوں نے ان مجسم بد تہذیب علماء کو اپنی ناشائستہ حرکات سے روکا.لیکن وہ بار بار اٹھتے اور شور مچاتے.آخر صدر صاحب نے فرمایا کہ تمہیں اس پر چہ کے سننے کی نہ تاب سماعت ہے نہ ہی قوت برداشت.آخر علماء بجز نما شکست اور ذلت آلود ہزیمت کے ساتھ اس میدان مناظرہ سے اس مصرعہ کی مجسم تصویر ہو کر باہر نکلے کہ ع بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچہ سے ہم نکلے ! میں اپنے علماء سلسلہ کی طرح کتابوں کے ٹرنک ساتھ رکھنے کی عادت نہیں رکھتا صرف ایک قرآن ساتھ رکھتا ہوں.اور زیادہ تر دعاؤں سے کام لیتا ہوں.اگر دعا کی مجھے توفیق مل جائے تو میں سمجھ لیتا ہوں کہ میں کامیاب ہو جاؤں گا.دعا کی توفیق نہ مل سکے تو سمجھ لیتا ہوں کہ کوئی ابتلاء مقدر ہے.پھر استغفار پر زور دیتا ہوں.پھر علاوہ تبلیغ کے علمی مباحثات و دینی مناظرات کے لئے ہزاروں دفعہ مجھے موقعہ ملا.اور بعض دفعہ ان مناظرات کی وجہ سے کثرت سے لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا.ا یکدفعہ مولوی ابراہیم سیالکوٹی سے موضع مانگٹ اونچے میں جو علاقہ حافظ آباد میں ہے میرا دودن مناظرہ ہوا.جس پر پچاس آدمیوں نے بیعت کی جن کے نام اخبار بدر میں شائع ہوئے.اسی طرح چک لوہٹ ضلع لدھیانہ میں بحث ہوئی جس پر ۸۰ سے بھی کچھ اوپر لوگوں نے بیعت کی.اسی طرح ایک دفعہ دہلی سے علماء غیر احمدی جو ماچھی واڑ ضلع لدھیانہ میں مناظرہ کیلئے بلائے گئے.ان سے میرا مناظرہ ہوا اور ٫۳۵افراد نے بیعت کی.اسی طرح کئی مواقع پر لوگوں نے حق کو قبول کیا اور غیر احمدی علماء کو میں نے نہ کہ ظاہری علوم کی قوت سے بلکہ روحانی علوم کی طاقت سے پچھاڑا.اور آنحضرت کے لشکر کی حیثیت سے حضرت مسیح موعود کے روحانی علوم اور آپ کے عطا کردہ دلائل قاطعہ کی باطل کش برچھیوں سے باطل کو مجروح کیا.ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے جہلم میں ایک مجمع عظیم میں مجھے اکتسابی علوم سے بے بہرہ ہونے پر طعن کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے علم کا حال ہمیں معلوم ہے آپ نے پڑھا ہی کیا ہے.صرف پرائمری تک آپ کی تعلیم ہے آپ مرزا صاحب کے رنگروٹ ہیں.اور میں مولوی فاضل

Page 301

تاریخ احمدیت.جلد 22 286 سال 1963ء مفسر قرآن اور اسلام کا جرنیل ہوں.یہی بات ایک دفعہ ریاست کپورتھلہ میں ایک مجمع کے اندر کہی تھی.میں نے مولوی ثناء اللہ سے کہا کہ آپ مولوی فاضل اور مفسر قرآن ہیں عربی میں اور اردو میں آپ نے تفسیر قرآن بھی لکھی ہے اور اسلام کے جرنیل ہونے کا بھی دعویٰ ہے اور میری نسبت آپ نے تسلیم کیا ہے کہ میں حضرت مرزا صاحب کا رنگروٹ ہوں.اس جگہ اس مجمع عظیم کے سامنے آپ حضرت مرزا صاحب کے دعاوی کی تکذیب کر رہے ہیں کہ آپ کی صداقت کا کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا.اب اسی مجمع عظیم کے سامنے اور اسی وقت میں تازہ نشان حضرت اقدس کی صداقت کا پیش کرتا ہوں جس کا آپ انکار نہ کر سکیں گے اور ساتھ ہی اس نشانِ صداقت کو اس مجمع کے حاضرین بھی دیکھ لیں گے اور وہ نشان یہ ہے کہ اسی وقت اور اسی مجمع کے سامنے کا غذ اور قلم دوات اور قرآن کریم غیر مترجم میرے مقابلہ میں لے کر بیٹھ جائیں اور قرآن کریم کے جس مقام سے آپ پسند کریں عربی میں تغیر لکھیں.اگر اس وقت آپ عربی زبان میں تفسیر لکھنے سے عاجز اور قاصر ثابت ہوں اور تفسیر نہ لکھ سکیں اور میرے جیسا اُمی جو آپ کے بیان کردہ الفاظ کے مطابق صرف پرائمری پاس شدہ رنگروٹ ہے وہ فصیح عربی میں تفسیر لکھے اور حقائق و معارف سے مملوتفسیر لکھنے میں ان سب حاضرین کی آنکھوں کے سامنے کامیاب ہو جائے تو کیا یہ تازہ نشان حضرت مسیح موعودؓ کی صداقت کا ظاہر نہ ہوگا.پس اگر ہمت ہے اور کسی قسم کی علمی لیاقت پر ناز ہے تو اس وقت علمی اعجاز پیش کرنے کیلئے بہترین موقعہ ہے اٹھو اور حضرت مسیح موعود کی صداقت کا تازہ نشان دیکھو اور اسی وقت اور اسی مجمع کے سامنے دیکھو.مگر یاد رکھو کہ اس وقت میرے مقابلہ میں آپ کا قلم ٹوٹ جائے گا اور آپ کی دوات پھوٹ جائے گی.اور آپ کا کاغذ پھٹ جائے گا.اور آپ کا ہا تھ کٹ جائے گا یعنی آپ کو طاقت نہیں ہوگی کہ میرے مقابلہ میں عربی تفسیر کچھ بھی لکھ سکیں.چنانچہ اس وقت میری اس تحدی کو تمام مجمع کے حاضرین سن کر دنگ رہ گئے اور حاضرین کا خیال تھا کہ مولوی ثناء اللہ امرتسری اس تحدی کا جواب تفسیر نویسی کیلئے ابھی تیار ہوکر دے گا اور ضرور دے گا.لیکن لوگوں کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے اس مجمع عظیم جو ہزاروں کی تعداد میں تھا.اس کے سامنے دیکھا کہ ثناء اللہ میں مقابلہ کی حس نہیں وہ ایک مردہ کی طرح بحالت سکوت صرف لاشئہ بے جان محسوس ہو رہا ہے.اور مولوی فاضل کہلانے والا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک امی کے اعجازی علم کے سامنے بے جان اور ایک عربی تفسیر قرآن لکھنے کا مدعی اپنے دعوی تفسیر نویسی کو مسیح پاک کے روحانی شاگرد کے سامنے جو بظاہر سارے قرآن کی عبارت بھی کسی

Page 302

تاریخ احمدیت.جلد 22 287 سال 1963ء سے پڑھنے کا موقع حاصل کرنے والا نہ ہو سکا باطل ثابت کر رہا ہے.اور ایک جرنیل اسلام ہونے کا دعویدار مسیح محمدی کے ایک رنگروٹ کے سامنے ذلت آلود ندامت اور شکست کے ساتھ پسپا ہو گیا.میں نے للکار کر اس وقت کہا کہ کیا مولوی ثناء اللہ امرتسری کا یہ بجز اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا قوت اعجاز کی روح سے بھرا ہواز بر دست نشان نہیں تو پھر اور کیا ہے.احمدیت کی اس فتح اور مولوی ثناء اللہ کی اس تازہ شکست سے حاضرین پر بہت ہی اچھا اثر پڑا.اور بعض فوجی سپاہی جو وہاں آئے ہوئے تھے بعد میں مجھے بلا کر انہوں نے کچھ مسائل سمجھے اور احمدیوں کی علمی طاقت اور دلائل کی بہت تعریف کی اور بعض نے بیعت کرنے کا بھی وعدہ کیا.فالحمد للہ علی ذالک.وسط ۱۸۹۹ء میں آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک منظوم مکتوب لکھا جس کے جواب میں حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب نے حسب ذیل عربی مکتوب لکھا:.”بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لـوليه والصلواة والسلام على رسوله و نبيّه و آله، اما بعد فسلام علیک ورحمة الله و بركاته يا اخى قد تشرف مكتوبك المنظوم لدى المولانا المسيح الموعود ايده الله فَسر مطالعته الجناب المذكور غاية السرور و اثنی علیک بما اودعت من وُدّك و اخلاصك.فيالقوم لمعرفة امام زمانهم و شَدُّوا علی الایمان به بالنواجذ فهم قوم رضى الله عنهم ورضوا عنه وسوف يجعلهم الله فوق الذين اصروا على الانكار وَ جَهدوا بآياته وَسَلّم منا على اخنا المولوى امام الدین عبدالکریم سے جولائی ۱۸۹۹ء.( ترجمہ ) سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور درود و سلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر ہو.اس کے بعد آپ پر سلام اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں.اے میرے بھائی آپ کا منظوم خط سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچا.حضور اس کے مطالعہ سے بہت خوش ہوئے اور آپ کی محبت اور اخلاص کی وجہ سے آپ کی تعریف فرمائی.اے وہ قوم جس کو امام الزماں کی شناخت اور ایمان کی مضبوطی کی توفیق ملی.یہی وہ لوگ ہیں جن سے خدا راضی ہوا اور وہ خدا سے راضی ہو گئے.اللہ تعالیٰ عنقریب ان کو ان لوگوں پر غالب کر دے گا جنہوں نے انکار پر اصرار کیا اور خدا تعالیٰ کے نشانوں سے منہ موڑا.ہماری طرف سے ہمارے بھائی مولوی امام الدین صاحب کو السلام علیکم پہنچا دیں.عبدالکریم سے جولائی ۱۸۹۹ء‘“

Page 303

تاریخ احمدیت.جلد 22 288 سال 1963ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے حضرت پیر سراج الحق صاحب کے قلم سے لکھا ہوا حسب ذیل مکتوب آپ کو موضع را جیکی میں یکم جنوری ۱۹۰۰ء کو موصول ہوا."بسم الله الرحمن الرحيم.نحمده و نصلی علی رسوله الكريم السلام علیکم.حضرت امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کا مکتوب عربی جس کی سطر سطر اور جملہ جملہ شوق و ذوق سے بھرا ہوا وجد دلانے والا تھا ملا حظہ فرمایا.ارشاد فر مایا کہ گاہ گاہ اور بکثرت یہاں آنا چاہیئے.خدا تعالیٰ ارحم الراحمین ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا 66 والسلام.از قادیان - کتبہ سراج الحق یکم جنوری ۱۹۰۰ء.“ اس کے بعد ۱۲ فروری ۱۹۰۰ء کو حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کا رقم فرمودہ درج ذیل مراسلہ پہنچا:."بسم الله الرحمن الرحيم جناب مولوی صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا منظوم خط کارڈ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں.پہنچا.حضرت نے پڑھا.خدا تعالیٰ آپ کے اخلاص و موڈت میں ترقی دے.مولوی صاحب ! اصل بات یہ ہے کہ یہاں بیٹھنے کے بغیر علم صحیح اور عقیدہ صحیحہ ہاتھ نہیں آسکتے.حضرت کی سیرۃ پر میر ارسالہ الحکم کی خبروں میں شائع ہوا ہے.امید ہے آپ نے پڑھ لیا ہوگا.والسلام 766 عبدالکریم از قادیان ۱۲ فروری ۱۹۰۰ ء ) حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کی یہ تحریک بہت مؤثر اور کارگر ثابت ہوئی اور آپ کو حضرت اقدس کی خدمت میں رہنے کے کئی قیمتی مواقع میسر آئے اور حضرت امام الزمان سے براہ راست فیضیاب ہونے کی بار بار سعادت نصیب ہوئی.چنانچہ آپ ۱۹۰۲ء کے سالانہ جلسہ میں شامل تھے اور خوش قسمتی سے مہمان خانہ کے جس کمرہ میں آپ ٹھہرے ہوئے تھے اس میں حضرت شہزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کا بل فروکش تھے ازاں بعد آپ کو مشہور سفر جہلم ( جنوری ۱۹۰۳ء) میں حضرت اقدس اور شہید مرحوم کی معیت کا شرف حاصل ہوا

Page 304

تاریخ احمدیت.جلد 22 289 سال 1963ء 126- ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود نے اپنے دست مبارک سے منارة امسیح کا سنگ بنیاد رکھا اور ایک لمبی دعا کرائی جس میں آپ بھی شامل تھے.۱/۲۷ کتوبر ۱۹۰۴ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے.اور یکم نومبر کو حضوڑ کا مشہور لیکچر ہوا.حضرت مولانا صاحب اس جلسے میں شریک تھے.ایک روز قبل ۳۱ اکتوبر کو بوقت دو پہر کھانے سے قبل ایک پر معارف لیکچر ہوا.جسے سن کر حضرت مولانا نورالدین (خلیفہ اول) بہت خوش ہوئے اور فرمایا:.میں تو سمجھا تھا کہ نورالدین دنیا میں ایک ہی ہے مگر اب معلوم ہوا ہے کہ 128 ہمارے مرزا نے تو کئی نورالدین پیدا کر دیئے ہیں.اُس وقت مجلس میں چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ماموں چودھری عبداللہ خان صاحب ساکن دانہ زید کا اور شیخ نبی بخش صاحب ساکن ڈیرہ بابا نانک بھی موجود تھے.۴ را پریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کانگڑہ کے بعد سید نا حضرت مسیح موعود جن دنوں باغ میں قیام فرما تھے ( ان ہی ایام میں ایک روز تقریباً صبح کے نو دس بجے ایک عربی قصیدہ جس کے تین سو ساٹھ اشعار تھے آپ نے حضور علیہ السلام کی بارگاہ عالی میں پڑھ کر سنایا مولا ناراجیکی صاحب حضور علیہ السلام کے قدموں میں حاضر تھے بلکہ اس زمانہ میں آپ کو چھ ماہ سے زائد عرصہ قادیان میں گزارنے کا شرف حاصل ہوا.حضرت حکیم الامت نورالدین جو عرصہ سے آپ کو طب پڑھنے کی ترغیب دے رہے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ آپ ذہین آدمی ہیں اس لئے میں آپ کو جلد ہی طب کا علم پڑھا دوں گا.خود ہی طبی لٹریچر آپ کے لئے مہیا فرمایا اور اپنے پاس بٹھا کر طب کا سبق دینا شروع کیا پہلے طب احسانی پھر میزان الطب پڑھائی اور طب کے نظریات اور عملی حصہ سے اور ضروری قواعد وضوابط سے آپ کو آگاہ فرمایا.حضرت حکیم الامت کی شاگردی میں آنے کے بعد آپ کی کایا پلٹ گئی اور طب کا بے حد شوق پیدا ہوا.اور نہ صرف علم طب بلکہ تفسیر، حدیث ، فقہ اور تصوف کے علوم کی ہزار ہا کتا بیں مطالعہ کیں.حضرت مولانا صاحب کا بیان ہے:.ایک دن حضرت مولانا ( نور الدین) صاحب مہمان خانہ میں تشریف لائے اور ایک طب کی کتاب میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا اب تو میں آپ کو پڑھا کر ہی چھوڑوں گا.میں نے جب حضور کی

Page 305

تاریخ احمدیت.جلد 22 290 سال 1963ء یہ شفقت دیکھی تو پڑھنے پر مجبور ہو گیا اور حضور سے طب کی بعض کتابیں بالا سباق پڑھتا رہا.اس کے بعد آپ کی توجہ سے مجھے اس علم کا اتنا شوق پیدا ہوا کہ میں نے بعض نسخے راہ چلتے مسافروں سے بھی پوچھے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھایا ہے اور پھر آج تک جو جو مجربات میں نے ہندوستان کے تبلیغی سفروں کے ذریعے اکٹھے کئے ہیں ان کو اگر یکجا کیا جائے تو مجھے امید ہے کہ ان سے سینکڑوں صفحات کی کتاب مرتب ہو سکتی ہے اور ان میں سے اکثر نسخے ایسے صدری مجربات سے ہیں جو بعض خاندانوں میں پشتہا پشت سے مخفی چلے آئے ہیں اور عام لوگ ان سے واقف نہیں ہیں.علاوہ ازیں تشخیص و علاج کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے کئی ایسے مریضوں کے بارہ میں کامیابی عطا فرمائی ہے جو ہندوستان کے بعض مشہور اطباء سے مایوس ہو چکے تھے.الحمد للہ علی ذالک حضرت مولا نا تحریر فرماتے ہیں:.132 جن دنوں حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام باغ میں تشریف فرماتھے میں ایک دن حضور کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور اپنے کرتہ کے بٹن کھول کر عرض کیا کہ حضور میرے سینہ پر پھونک ماریں اور دست مبارک بھی پھیریں.چنانچہ حضور اقدس علیہ السلام نے اس غلام حقیر کی اس خواہش کو شرف قبولیت بخشا اور میرے سینہ پر پھونک مارا اور اپنا دست مبارک بھی پھیرا.الحمد لله على ذالک ۳۰ ستمبر ۱۹۰۵ء کو قبل دو پہر ایک مجلس میں تشریف فرما تھے جس میں آپ کو حضور علیہ السلام کی خدمت اقدس میں اپنا ایک فصیح و بلیغ اور بے نقطہ قصیدہ سنانے کا اعزاز نصیب ہوا.اسی سال کا واقعہ ہے کہ آپ مہمان خانہ قادیان میں قیام فرما تھے ایک روز حضرت عبدالمجید خان صاحب کپورتھلوی نے آپ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ ان کے ساتھ کپورتھلہ تشریف لے چلیں.آپ نے معذرت کی کہ حضور اقدس علیہ السلام کی اجازت کے بغیر میں باہر نہیں جاسکتا.اس پر انہوں نے حضور کی خدمت میں درخواست لکھی حضور علیہ السلام نے جواباً فرمایا ”ہاں اگر وہ جانا چاہیں تو میری طرف سے اجازت ہے، چنانچہ آپ بخوشی کپورتھلہ تشریف لے گئے اور تقریباً چھ ماہ تک قرآن مجید کا درس دیا.قیام کپورتھلہ کے دوران آپ نے حضرت خان عبدالمجید خاں صاحب کی تحریک پر ایک پنجابی سہ حرفی تحریر فرمائی.جس کے ہر ایک بند میں ان کی خواہش کے مطابق آپ کا نام بھی آتا تھا یہ سہ حرفی غیر مطبوعہ ہے البتہ حضرت مولانا نے حیات قدسی صفحہ ۴۳ پر اس کے چند اشعار اپنی یادداشت کی بنا پر درج کر دیے ہیں جن سے اس نظم کی علمی شان کا اندازہ ہوتا ہے.

Page 306

تاریخ احمدیت.جلد 22 291 سال 1963ء 133 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آخری سفر لاہور کے دوران احمد یہ بلڈنگکس میں رونق افروز تھے حضرت مولانا صاحب کو ان مبارک ایام میں بھی بارگاہ اقدس میں حاضر ہونے اور حضور کی ایمان افروز مجالس سے استفادہ کی سعادت نصیب ہوئی.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اپنے وطن را جیکی آگئے جہاں سے حضرت خلیفہ اول نے بذریعہ خط آپ کو قادیان بلا لیا اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پانچویں سے لیکر دسویں تک قرآن کریم اور عربی کتب نصاب کی تعلیم پر مقرر فرمایا اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دسویں جماعت میں اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے.۳۱ جنوری ۱۹۰۹ء کو حضرت خلیفہ اول نے نمائندگان جماعت کے سامنے خلافت سے متعلق پر جلال تقریر فرمائی اور خواجہ کمال الدین اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ سے دوبارہ بیعت لی.آپ اس مجلس میں موجود تھے.اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد اسی سال آپ حضرت خلیفہ اول کی طرف سے لاہور میں درس و تدریس اور تعلیم و تبلیغ کی غرض سے مقرر کئے گئے.جہاں آپ کو چار پانچ سال تک احمد یہ بلڈ ٹیکس میں درس قرآن دینے کا موقعہ ملا.آپ نے سالہا سال تک حضرت میاں عبدالعزیز مغل صاحب کے مکان مبارک منزل پر بھی قرآن مجید کا درس دیا.ان دنوں خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب آپ سے قرآن کریم ، احادیث اور بعض اور دینی کتب پڑھا کرتے تھے.خواجہ صاحب نے حضرت امام ابن قیم کی کتاب زاد المعاد اور نحو کا رسالہ ضریری آپ سے پڑھا.حضرت قریشی حکیم محمد حسین صاحب ( موجد مفرح عنبری ) اور میاں شمس الدین صاحب تاجر چرم آپ کے خاص شاگردوں میں سے تھے.ابھی آپ لاہور میں نئے نئے پہنچے تھے کہ پادری غلام مسیح نے ایک بڑا پوسٹر شائع کیا جس میں مسلمانوں کو فضیلت مسیح پر مباحثہ کا چیلنج کیا اور لکھا کہ وہ قرآن کریم کے ذریعہ حضرت مسیح کی فضیلت تمام انبیاء پر ثابت کریں.لیکچر کا انتظام نیلا گنبد کے پاس ایک بڑے ہال میں کیا گیا.عیسائیوں کے اعلانات اور اشتہارات کی وجہ سے مسلمان بھی اپنے علماء کو لے کر پہنچے اور ہال باوجود کافی وسیع ہونے کے بھر گیا.حضرت مولانا صاحب احمدی احباب کی معیت میں سٹیج کے قریب ہی تشریف فرما ہوئے.جلسہ کی صدارت لاہور کے بڑے بشپ نے کی.بہت سے انگریز پادری

Page 307

تاریخ احمدیت.جلد 22 292 سال 1963ء کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے.صدر جلسہ نے اشتہار ہاتھ میں لے کر اعلان کیا کہ پادری غلام مسیح کے لیکچر کا عنوان فضیلت مسیح بر ہمہ انبیاء از روئے قرآن ہے.جو صاحب اس مضمون پر کچھ کہنا چاہیں انہیں دس دس منٹ کا وقت ملے گا وہ اپنے نام ابھی پیش کر دیں تا لیکچر کے اختتام پر باری باری ان کو موقعہ دیا جا سکے.پادری غلام مسیح کا لیکچر ختم ہوا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی، مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ، مولوی محمد ابراہیم وکیل لاہوری اور بعض دوسرے علماء جنہوں نے نام لکھوائے تھے باری باری کھڑے ہوئے لیکن ان علماء نے پادری صاحب کے مطالبہ کے مطابق اپنے جوابات قرآن کریم ینے کی بجائے تو رات اور انجیل کی عبارات پڑھ پڑھ کر اپنا وقت ختم کر دیا.پادری صاحب نے بار بار مسلمانوں اور ان کے علماء کی اس کمزوری کو واضح کر کے شرم دلائی کہ اگر یہ فضائل جو میں نے مسیح کے متعلق قرآن سے پیش کئے ہیں قرآن کی رُو سے کسی اور نبی میں بھی پائے جاتے تو علماء ان کو ضرور پیش کرتے.لیکن ان کا ایسانہ کرنا جملہ انبیاء پر مسیح کی فضیلت ثابت کرتا ہے.اسی اثناء میں آخر میں صدر صاحب نے آپ کا نام پکارا.آپ حیران تھے کہ میں نے تو اپنا نام پیش نہیں کیا پھر کس نے لکھا دیا.حضرت ملک خدا بخش صاحب نے (جو قریب ہی بیٹھے تھے ) بتایا کہ میں نے آپ کا نام لکھ کر بھجوا دیا تھا.آپ جب سٹیج پر کھڑے ہوئے تو لوگوں نے آپ کی صوفیانہ وضع اور سادہ لباس دیکھ کر جبہ پوش علماء کے مقابلہ پر آپ کو بہت ہی حقیر خیال کیا اور سمجھا کہ اس آخری تقریر سے اسلام کی اور بھی رسوائی ہوگی اور بہت سے مسلمان مرتد ہو جائیں گے.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے زبر دست جوابات نے پانسہ ہی پلٹ دیا اور پورا ہال مسلمانوں کے نعروں سے گونج اٹھا اور پادری غلام مسیح کو آپ کے مقابل پر بولنے اور دم مارنے کی جرات نہ ہوئی.جب آپ ہال سے باہر تشریف لائے تو پچاس ساٹھ جو شیلے مسلمانوں نے آپ کو حلقے میں لے لیا اور بعض نے جوش مسرت سے اوپر اٹھالیا اور تسلیم کیا کہ آپ کے جوابات سے اسلام کی خوب نصرت ہوئی ہے.رپورٹ صدر انجمن احمد یہ قادیان ۱۰.۱۹۰۹ء صفحہ اسے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا قیام اگر چہ لاہور میں تھا اور خلیفہ وقت کی طرف سے آپ یہیں متعین تھے مگر آپ کو مختلف مقامات پر بغرض تبلیغ جانا پڑتا تھا.مثلاً منصوری، میرٹھ ، حافظ آباد، شکر گڑھ، سرگودھا، ضلع امرتسر و فیروز پور.آپ زیرہ (ضلع فیروز پور ) بھی تشریف لے گئے تھے جہاں آپ نے حنفی علماء کو عربی مکتوب کے ذریعہ عربی میں مناظرہ 136

Page 308

تاریخ احمدیت.جلد 22 293 سال 1963ء کرنے یا تفسیر قرآن لکھنے کا چیلنج دیا مگر علماء مرد میدان کیا بنتے وہ تو آپ کا عربی خط پڑھنے سے بھی قاصر رہے.اس موقعہ پر بارہ افراد نے قبول احمدیت کیا.حضرت مولانا صاحب تحریر فرماتے ہیں:.۱۹۰۹ء میں خاکسار ایک وفد کی صورت میں میرٹھ شہر میں نو چندی کے میلے کی تقریب پر بغرض تبلیغ گیا.وہاں پر میں نے بہت ہی مبشر رؤیا دیکھی.میں نے دیکھا کہ میں اپنے آپ کو سترھویں صدی ہجری میں موجود پاتا ہوں اس میں تمام دنیا مجھے کف دست ( ہاتھ کی ہتھیلی ) کی طرح سامنے نظر آتی ہے.اس وقت تمام روئے زمین پر مجھے احمدی بادشاہ اور حکومتیں دکھائی دیتی ہیں“.138- 1911ء میں آپ نے جنوبی ہند کا کامیاب تبلیغی دورہ کیا.حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بنگلور شہر سے ایک درخواست پہنچی کہ وہاں جماعت اسلامیہ کی طرف سے ایک جلسے کا انتظام کیا گیا ہے اور بلاد ہند کے مختلف علاقوں سے علماء کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے.آپ بھی مرکز سے علماء بھجوائیں.چنانچہ حضرت صاحب کے ارشاد پر آپ مع خواجہ کمال الدین صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب اور لال شاہ صاحب برق پشاوری بنگلور تشریف لے گئے.اس موقعہ پر بنگلور میں مختلف اطرافین سے مشہور علماء جمع تھے جن میں مولانا سید سلیمان صاحب ندوی مؤلف سیرۃ نبوی ، مولانا شوکت علی اور بعض عرب علماء بھی تھے.جلسہ بنگلور میں آپ کی معرکہ آرا تقریر سورہ کوثر کی تفسیر پر ہوئی.تقریر کے بعد مولانا سید سلیمان ندوی صاحب نے خواجہ کمال الدین صاحب سے دریافت فرمایا کہ یہ صاحب جنہوں نے ابھی تقریر کی ہے کون ہیں؟ ان کی بیان کردہ تفسیر نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے.میں نے آج تک ۱۰۰ کے قریب تفاسیر سورۃ کوثر کی پڑھی ہیں اور مفسرین نے جو عجیب و غریب حقائق و معارف اس سورۃ کے بیان کئے ہیں ان پر آگاہی حاصل کی ہے مگر جو کچھ انہوں نے آج بیان کیا ہے یہ بالکل نیا اور اچھوتا ہے اور ان کی تقریر سے مجھے جدید معلومات کا ذخیرہ ملا ہے.خواجہ صاحب نے ان کو بتایا کہ یہ میرے استاد ہیں اور انہوں نے اس وقت اختصار کے ساتھ بیان کی ہے ورنہ اس کے متعلق وہ لاہور میں بہت زیادہ تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں.بنگلور سے روانہ ہو کر یہ تبلیغی وفد بمبئی پہنچا اور نواب سید رضوی صاحب کی وسیع وعریض بلڈنگ میں فروکش ہوا.دوسرے ارکان وفد سیر و تفریح کے لئے باہر چلے جاتے تو آپ ایک علیحدہ کمرہ میں ذکر واذکار کرتے یا نفل پڑھتے یا فریضہ تبلیغ ادا کرتے.گاہے گاہے آپ خواجہ صاحب کے ساتھ جلسوں 139

Page 309

تاریخ احمدیت.جلد 22 294 سال 1963ء میں شمولیت اور تبلیغی ملاقاتوں کے لئے تشریف لے جاتے.بمبئی میں آپ کا سرگرم بہائی مشنری محمد ہاشم سے تبلیغی تبادلہ خیالات بھی ہوا.محمد ہاشم صاحب لاجواب ہو گئے.بمبئی سے روانہ ہو کر یہ وفد مدراس میں وارد ہوا اور حضرت سیٹھ حاجی عبد الرحمن اللہ رکھا صاحب کے ہاں قیام کیا.0 اگلے سال آپ پہلے ایک جلسہ میں شمولیت کے لئے آگرہ تشریف لے گئے.بعد ازاں مونگھیر (بہار) میں شاندار مباحثہ کیا.شرائط مناظرہ کے مطابق آپ نے عربی میں پر چہ لکھا جب آپ اسے سنانے کے لئے اٹھے تو آپ نے محسوس کیا کہ کوئی چیز آسمان سے اتری ہے اور آپ کے وجود اور قومی اور حواس پر مسلط ہو گئی ہے جو دراصل روح القدس کی روحانی تجلی کا نزول تھا.آپ کی آواز نہ بلند تھی اور نہ آپ خوش الحان تھے لیکن اس وقت حضرت مسیح موعود کی برکت اور خلیفہ اول کی دعا اور توجہ سے آپ کی آواز اس قدر بلند ہو گئی کہ پندرہ ہزار کے مجمع میں آسانی سے سنائی دینے لگی.اور لحن داؤدی کا اعجازی نشان بھی آپ کو عطا کیا گیا.جب آپ نے غیر احمدی علماء کی توقعات کے عین خلاف عربی پر چہ سنانا شروع کیا تو علماء معاندین مثلاً مولوی عبد الوہاب صاحب پروفیسر عربی کلکتہ کالج اور مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوئی حیران و ششدر رہ گئے اور کسی کو آپ کے مقابل جوابی عربی پر چہ لکھنے کی جرأت نہ ہوسکی.اور سوائے شور وغل سے آپ کی تقریر میں رخنہ ڈالنے کے اور کچھ نہ کر سکے.جس پر صدر جلسہ نے سخت نوٹس لیا اور نہایت رنجیدہ ہو کر اعلان کیا کہ اگر یہ علماء ان بے جا حرکات سے باز نہ آئے تو مناظرہ ختم کر دیں گے اور اپنی صدارت سے مستعفی ہو جائیں گے.لیکن جب شرم دلانے کے با وجود ان لوگوں نے فتنہ انگیزی جاری رکھی تو انہوں نے جلسہ کو برخاست کر دیا.اس پر مولوی محمد ابراہیم صاحب جو مخالف علماء کے پیچھے تھے ایک کرسی پر چڑھ کر نعرے بلند کرنے لگے.ابھی نعرہ کے پورے الفاظ ان کی زبان سے نہ نکلے تھے کہ مولوی صاحب کی کرسی الٹ پڑی اور وہ بری طرح سے زمین پر گرے.ان کی ٹانگیں اوپر تھیں اور سر نیچے اور پگڑی کہیں دور گری ہوئی تھی.اور اس پر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جن لوگوں کے سامنے انہوں نے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ قادیانی علماء عربی بالکل نہیں جانتے.انہوں نے غصے کی حالت میں ان کو گھیر لیا اور مگوں اور لاتوں سے اُن کی وہ درگت بنائی کہ الامان والحفیظ !! ابھی مناظرہ اختتام کو نہیں پہنچا تھا کہ مجمع میں سے آٹھ گریجویٹ اور اچھے تعلیم یافتہ نو جوان حضرت مولانا کی طرف بڑھے اور بتایا کہ ان پر صداقت احمدیت منکشف ہو چکی ہے اور وہ اپنے احمدی ہونے کا اعلان کرنا چاہتے ہیں چنانچہ مناظرہ کے بعد وہ قیام گاہ پر مشترف احمدیت ہوئے.اور ان کی

Page 310

تاریخ احمدیت.جلد 22 295 سال 1963ء درخواستہائے بیعت سید نا حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بھجوادی گئی.الغرض اللہ تعالیٰ نے مونگھیر 141- میں سلسلہ احمدیہ کو فتح عظیم بخشی.اسی سال آپ نے علماء سلسلہ کے ایک وفد کے ساتھ بنگال کا طویل سفر کیا.کلکتہ میں محکمہ پولیس کے ایک افسر سے تصوف کے متعلق گفتگو فرمائی اور احمدیت کے علم کلام کی روشنی میں تصوّف کے بعض نکات بیان فرمائے.وہ آپ کی باتیں سن کر بہت محظوظ ہوئے اور کہنے لگے میں نے ایسی عارفانہ باتیں پہلے کبھی نہیں سنیں.بر ضمن بڑ یہ میں بڑے پیمانے پر ایک جلسے کا انتظام کیا گیا تھا.اس جلسہ سے سب ممبران وفد نے خطاب فرمایا.حضرت مولانا راجیکی صاحب نے تقریر کے علاوہ بنگالی عالم مولوی واعظ الدین صاحب کے اعتراضوں کے نہایت مدلل اور مسکت جوابات دیئے اور ان کو موقعہ دیا کہ اگر وہ ان جوابات پر قرآن وحدیث کی رُو سے جرح کرنا چاہیں تو بخوشی کر سکتے ہیں لیکن ان کو جرات نہ ہوئی.یہ وفد تقریباً سترہ دن تک بنگال کے مختلف مقامات کا دورہ کر کے تبلیغ حق کا فریضہ ادا کرتا رہا.اس سفر کے نتیجہ میں آپ نا موافق آب و ہوا اور کثرت کار کی وجہ سے شدید بیمار ہو گئے اور عرصہ تک حضرت خلیفہ اول کے زیر علاج رہے.142 خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں آپ کو بے شمار تربیتی وتبلیغی خدمات کے مواقع میسر آئے.حضرت مولانا صاحب ۱۹۱۴ ء کے اوائل کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.ا بھی خاکساراپنے سسرال کے گاؤں میں ہی تھا اور بیماری اور نقاہت بھی باقی تھی کہ مجھے سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ارشاد ہوا کہ آپ فورا لا ہور پہنچ کر جماعت کو سنبھالیں.مولوی محمد علی صاحب اپنے خیالات فاسدہ اور زہریلے اثرات سے جماعت کو نقصان پہنچارہے ہیں.چنانچہ خاکسارفور الا ہور پہنچ گیا اور آتے ہی جمعہ کے دن احمد یہ بلڈنگس کی مسجد میں جہاں ہم سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الاول کے عہد سعادت میں ہمیشہ نمازیں پڑھا کرتے تھے جمعہ کے لئے جانے کے واسطے تیاری کرنے لگا.جب غیر مبائعین کے سرکردہ لوگوں کو معلوم ہوا کہ میں جمعہ پڑھانے کے لئے احمد یہ بلڈنکس آرہا ہوں تو ڈاکٹرمحمد حسین شاہ صاحب نے مجھے نوٹس کے ذریعہ اطلاع دی کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ جمعہ پڑھانے کے لئے احمد یہ بلڈنگکس آرہے ہیں.میں آپ کو مطلع کرتا ہوں کہ احمد یہ بلڈنکس میں کوئی مسجد نہیں یہ ہمارا ذاتی مکان ہے اس میں اگر آپ آئے تو

Page 311

تاریخ احمدیت.جلد 22 296 سال 1963ء مولوی محمد علی صاحب جو خطبہ جمعہ و نماز پڑھائیں گے ان کے پیچھے آپ نماز پڑھ سکتے ہیں.آپ کو خطبہ پڑھنے یا نماز پڑھانے کی اجازت نہ ہوگی اگر آپ کے اصرار کی صورت میں اور کوئی فساد ہوا تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہوگی.میں نے ڈاکٹر صاحب کے رقعہ کے جواب میں لکھا کہ سید نا حضرت خلیفہ مسیح الاول نے مجھے جماعت لا ہور کا امام اور خطیب مقر فرمایا ہوا ہے اور مولوی محمد علی صاحب کو جو خلافت کے منکر اور باغی ہیں میرے مقابل پر کون امام مقرر کرنے والا ہے ؟ میں چونکہ حضرت خلیفتہ اسیح کا مقرر کردہ ہوں، اس لئے مجھے روکنے کا آپ کو اختیار نہیں.اس جواب کے بھجوانے کے بعد میں مبائع احباب کے ساتھ خود احمد یہ بلڈنکس چلا گیا.جب ہم وہاں پہنچے تو ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے اپنی درشت کلامی اور وحشت کا بہت برا نمونہ دکھایا اور کہا کہ یہاں کوئی مسجد نہیں.یہ مکان جہاں نماز پڑھی جاتی ہے میری ہمشیرہ کا تعمیر کردہ ہے اور ہماری اپنی جائیداد ہے یہاں پر کسی غیر کا دخل نہیں.اور ہم اپنے مکان پر کسی کو نماز نہیں پڑھنے دیں گے.جب ڈاکٹر صاحب نے مسجد کے مسجد ہونے سے ہی انکار کر دیا اور اس کو اپنا ذاتی ملکیتی مکان قرار دیا تو مبائع احباب نے بعد مشورہ یہی مناسب سمجھا کہ وہ احباب جو دامن خلافت سے وابستہ ہیں مبارک منزل احاطہ میاں حضرت چراغ دین صاحب میں نماز جمعہ ادا کریں.چنانچہ اس دن سے مبائعین نے اپنی نماز مبارک منزل میں پڑھنی شروع کر دی اور اہل پیغام کی وہ مسجد جس کو انہوں نے ذاتی مکان قرار دیا تھا ایسی منحوس ثابت ہوئی کہ خلافت ثانیہ کے باغیوں، سلسلہ کے مرتدوں اور منافقوں کی پناہ گاہ بنی.۷ جون ۱۹۱۵ء کو بعد از نماز عصر مسجد اقصیٰ میں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نکاح کی مقدس تقریب تھی.حضرت مصلح موعود نے فیصلہ فرمایا کہ اعلان نکاح مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کریں گے اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو لاہور بھیجا کہ اپنے ساتھ قادیان لے آئیں.چنانچہ آپ قادیان پہنچے اور حضرت مصلح موعود، حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور دوسرے بزرگان سلسلہ کی موجودگی میں آپ نے خطبہ نکاح پڑھا جو الفضل مورخہ ۱۷ جون ۱۹۱۵ء میں شائع ہوا.۲ را پریل ۱۹۱۹ء کوسیدنا حضرت مصلح موعود کا یہ ارشاد آپ کو لاہور میں ملا کہ مالا بار جانے کے لئے تیار ہو کر قادیان آجائیں.چنانچہ آپ قادیان حاضر ہو گئے.دوسرے دن حضور نے ضروری

Page 312

تاریخ احمدیت.جلد 22 297 سال 1963ء ہدایات دیں اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کو رفیق سفر مقر فرمایا نیز ہدایت فرمائی کہ ہفتہ عشرہ کے لئے کانپور میں قیام کریں وہاں آجکل مختلف مذاہب کے جلسے ہورہے ہیں.جب آپ کا نپور پہنچے تو معلوم ہوا کہ اہل حدیث وسیع پیمانہ پر ایک کانفرنس کر رہے ہیں جس میں شمولیت کے لئے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی آچکے ہیں.اشتہار میں مولوی ثناء اللہ صاحب کا مضمون ”اسلام اور قادیان“ لکھا ہوا تھا یہ تقریر کا نفرنس کے آخری دن میں رکھی گئی تھی.اس کے مقابل پنڈت کا لچرن فاضل سنسکرت و عربی کی طرف سے تمام احناف، اہل حدیث اور اہل تشیع کو مناظرہ کا کھلا چیلنج دیا گیا.اہل حدیث نے اپنی کا نفرنس میں مصروفیت کا عذر کرتے ہوئے چیلنج قبول کرنے سے انکار کر دیا.اس پر آریہ سماج نے اشتہار شائع کیا جس کا عنوان تھا آریہ سماج کی عظیم الشان فتح اور اہل اسلام کا کھلا فرار اور شکست حضرت مولانا راجیکی صاحب نے اشتہار کا علم ہوتے ہی پنڈت کالچرن کو رقعہ لکھا کہ اہل اسلام کی طرف سے مناظرہ کے لئے خاکسار تیار ہے.آپ مناظرہ کی جگہ اور وقت سے اطلاع دیں چنانچہ 9 بجے وقت مقرر ہوا.آریہ سماج نے اپنے لئے تو عظیم الشان سٹیج تیار کی لیکن مسلمانوں کے لئے صرف ایک چھوٹی سی میز اور ایک کرسی رکھ دی.چونکہ شہر میں اس مناظرہ کی اچھی طرح سے منادی ہو چکی تھی اس لئے لوگ دوسرے جلسوں اور تقریبوں کو چھوڑ کر جوق در جوق میدان مناظرہ میں آنے لگے اور ہزاروں کا اجتماع ہو گیا.پنڈت کا لچرن نے مناظرہ میں آپ پر قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي (بنی اسرائیل: ۸۲) سے متعلق اعتراضات کئے اور اپنی عربی دانی پر بہت ناز کیا اور اپنے دوعربی رسائل جن میں سے ایک کا نام تحقیق الادیان تھا حضرت مولانا صاحب کی طرف بھیجے.حضرت مولانا صاحب نے اول تو پنڈت صاحب کی عربی دانی پر اظہار مسرت کیا اور بتایا میں بھی عربی ، فارسی اور اردو کا شاعر ہوں اگر پنڈت صاحب چاہیں تو اسی وقت عربی نثر یا نظم میں مناظرہ کر سکتے ہیں.پھر ان کو توجہ دلائی کہ از روئے وید اگر روح کی ماہیت بیان کر دی جاتی تو وید کے حقائق و معارف ظاہر ہو جاتے اور قرآنی جواب کا نقص بھی واضح ہو جاتا.اس کے بعد آپ نے اس آیت کی ایسی روح پرور اور ایمان افروز تفسیر فرمائی کہ پنڈت جی کے اعتراضات کی دھجیاں بکھر گئیں اور وہ بالکل ساکت وصامت ہو کے رہ گئے.ابھی مناظرہ کا وقت کسی قدر باقی تھا کہ صدر جلسہ نے جو آریہ تھے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ پنڈت صاحب نہ تو ویدوں سے

Page 313

تاریخ احمدیت.جلد 22 298 سال 1963ء کچھ پیش کر سکے ہیں اور نہ قرآنی تعلیم پر کوئی معقول اعتراض کر سکے ہیں اپنی گھڑی نکالی اور کہا اگر چہ وقت ابھی باقی ہے لیکن چونکہ مجھے ایک ضروری کام ہے اور جس قدر بحث ہو چکی ہے اسی کو کافی سمجھتا ہوں.حضرت مولانا صاحب نے فرمایا کہ آپ اپنی صدارت کے فرائض بقیہ وقت تک بھی سرانجام دیں ورنہ کسی اور کو اپنی جگہ مقرر کر دیں لیکن صدر صاحب جو آریہ سماج کی کھلی شکست اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے رضا مند نہ ہوئے اور اٹھ کر چل دئے.مسلمانوں کو ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ پنڈت کا لچرن صاحب کے سوالوں کا ایسا شاندار اور مسکت جواب ایک احمدی عالم کی طرف سے دیا جائے گا.مناظرہ کے اختتام پر مسلمان پبلک کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا.بعض غیر احمدی علماء نے بھی آیت زیر بحث کی تفسیر سن کر کمال مسرت کا اظہار کیا.جب آپ آریہ سماج کے پنڈال سے اپنے احباب کے ساتھ باہر تشریف لائے تو اسی آیت کے متعلق ایک لاٹ پادری صاحب سے آپ کی گفتگو ہوئی.خدائے ذوالعجائب کے یہ عجیب تصرفات ہیں کہ جس وقت پادری صاحب نے یہ آیت پڑھی تو اسی وقت ایک عجیب نور معرفت آپ کے قلب پر نازل ہوا اور ایک نئی حقیقت آپ پر منکشف ہوئی.پادری صاحب نے دریافت کیا کہ يَسْئَلُونَ میں کن لوگوں کا ذکر ہے اور روح سے کیا مراد ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ قرآن کریم چونکہ ہر زمانہ کے لوگوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس وقت روح کے متعلق سوال کرنے والے پادری صاحبان ہی ہو سکتے ہیں.پادری صاحب فرمانے لگے کہ پھر يَسْئَلُونَگ میں ک خطاب کا پایا جاتا ہے یہ کون ہو گا.آپ نے فرمایا کہ نزول قرآن کے وقت تو خدا کا رسول تھا اور اب خدا کے رسول کی نمائندگی کرنے والا کوئی غلام رسول ہی ہو سکتا ہے.پادری صاحب کہنے لگے کہ آپ غلام رسول ہیں آپ نے فرمایا کہ اگر چہ معناً بھی یہ خاکسار غلام رسول ہے لیکن حسن اتفاق سے میرا نام بھی غلام رسول ہے.پادری صاحب فرمانے لگے روح سے مراد آپ کے نزدیک کون سی روح ہے آپ نے روح القدس کی تائید سے یہ جواب دیا کہ وہی روح جسے انجیل یوحنا میں روح حق سے موسوم کیا گیا ہے چنانچہ آیت ۱۶-۱۷ باب ۱۴ میں مرقوم ہے اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا.کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی.پھر باب ۱۶ ( آیت ۷ سے ۱۳ تک ) یہ الفاظ ہیں :.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ

Page 314

تاریخ احمدیت.جلد 22 299 سال 1963ء مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا.اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا.گناہ کے بارے میں اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے.راستبازی کے بارے میں اس لئے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.عدالت کے بارے میں اس لئے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے.مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا وہ میرا جلال ظاہر کرے گا“.حضرت مولانا نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اس پیشگوئی کو شرح وبسط سے بیان فرمایا تو پادری صاحب لا جواب ہو کر کہنے لگے آپ قادیانی تو نہیں !.آپ نے بتایا کہ خدا کے فضل سے میں احمدی ہوں.کئی مسلمان جو قبل ازیں آریوں کے مناظرہ میں بھی موجود تھے کہنے لگے آپ نے قرآن کریم کہاں سے پڑھا ہے.آپ نے فرمایا کہ فی زمانہ قرآنی علوم کا سر چشمہ حضرت مسیح قادیانی علیہ السلام ہیں اور یہ علوم و فیوض مرکز احمدیت قادیان سے حاصل ہوتے ہیں.۱۰ را پریل ۱۹۱۹ ء کو آپ کا مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ کے اشتہار پر فیصلہ کن مباحثہ ہوا.چونکہ آپ کے پاس اخبار اہلحدیث کے اصل پر چہ جات اور مرقع قادیانی وغیرہ موجود تھے اس لئے مولوی ثناء اللہ صاحب کو انکار کی جرات نہ ہوسکی.جب آپ سٹیج سے اترے تو چالیس کے قریب حنفی مسلمان جو اہلحدیثوں کے سخت خلاف تھے آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے اور پنڈال سے باہر نکال کر اظہار خوشنودی کے طور پر سب احمدیوں کو دودھ پلایا.اہلحدیث کا نفرنس کے اختتام کے بعد آپ نے مسلمانوں کے ایک لاکھ کے اجتماع میں شرکت کی.جس میں مختلف مسلمان زعماء نے خلافت ترکی کی امداد کے لئے چندہ کی تحریک کی تحریک کرنے والے علماء میں سے مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی بھی تھے.جنہوں نے آپ کو دیکھتے ہی بلند آواز سے کہا کہ کیا آپ بھی خلافت ترکی کے قائل ہیں.آپ نے نہایت پر شوکت آواز میں جواب دیا کہ خلافت اسلامیہ حلقہ کا کون مسلمان قائل نہیں.آپ اہلحدیث ہیں اور میں احمدی ہوں.آپ کے نزدیک تو خلافت راشدہ کے تمہیں سالہ دور کے بعد حکومت کا دور شروع ہو گیا اور جولوگ خلافت ترکی کے قائل ہیں وہ بھی اس کو خلافت علی منہاج النبوۃ نہیں سمجھتے نہ فرقہ اہل حدیث کے مسلمان جن میں

Page 315

تاریخ احمدیت.جلد 22 300 سال 1963ء سے مولوی ابراہیم صاحب بھی ہیں اور نہ حنفی مسلمان اور نہ اہل تشیع.ہاں سب سے بڑھ کر خلافت علی منہاج نبوۃ کے قائل تو ہم احمدی ہیں جن کا سلسلہ آج بھی خلافت حقہ پر قائم ہے.اس جواب سے تمام مجمع پر خاموشی کا عالم طاری ہو گیا بعض لیڈروں نے مولوی صاحب سے کہا کا کہ آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت نہ تھی ہمارا سارا کیا کرایا بر باد کر دیا.بعض نے کہا ایسا جواب اتنے بڑے مجمع میں اس جرات کے ساتھ دینا صرف احمدیوں کا کام ہے.یہ لوگ ننگی تلوار میں ہیں حق کے اظہار سے نہیں ڈرتے.بعض نے کہا کہ دنیا میں ترقی کرنے والی قو میں ایسی ہی ہوتی ہیں.کانپور میں ہفتہ عشرہ قیام کرنے کے بعد آپ بمبئی پہنچے اور وہاں سے بذریعہ جہاز بندرگاہ منگلور کی طرف روانہ ہوئے.جب ساحل مالا بار دو ایک میل کے فاصلہ پر رہ گیا تو آپ دوسرے مسافروں کے ساتھ ایک کشتی پر سوار ہوئے تو اچانک سمندر میں طوفان آگیا اور کشتی ڈگمگانے لگی.ملاح اس ہولناک منظر سے خوفزدہ ہو کر زور زور سے یا پیر بخاری یا پیر عبدالقادر جیلانی یا پیر خضر کی صدائیں بلند کرنے لگے.دیکھتے ہی دیکھتے کشتی میں پانی بھرنا شروع ہو گیا اور سب سواریوں کو موت سر پر منڈلاتی ہوئی نظر آنے لگی.ملاحوں کی مشرکانہ صدائیں آپ کے لئے نا قابل برداشت تھیں.آپ جوش کے عالم میں کھڑے ہو گئے اور ملاحوں سے کہا ایسے مشرکانہ کلمات سے تو بہ کر وصرف اللہ تعالیٰ کی جناب سے استمد اد کرو.یہ سمندر تو میرے قادر و مقتدر خدا کا ایک ادنیٰ خادم ہے جو اس کے دستِ تصرف کے ماتحت مد وجزر دکھاتا ہے پس اگر وہ چاہے تو یہ جوش تموج اسی وقت ختم ہو سکتا ہے.آپ نے منہ سے یہ کلمات نکالے ہی تھے کہ سمندر کا خوفناک طوفان یکا یک تھم گیا اور کشتی معمول کے مطابق چلنے لگی.حضرت مولانا راجیکی صاحب فرماتے ہیں:.” خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں کہ طوفانی لہروں کی شدت کے وقت مجھے اس قدر روحانی طاقت محسوس ہوتی تھی کہ مجھے یقین تھا کہ اگر ملاح اپنے مشرکانہ کلمات سے باز نہ آئے اور اس وجہ سے کشتی ڈوب گئی تو میں اور عزیز عرفانی صاحب سطح آب پر چل کر بفضلہ تعالیٰ سلامتی سے کنارے پر پہنچ جائیں گے.کیونکہ ہم مرکز کی ہدایت کے ماتحت تبلیغ حق کے لئے جارہے تھے“.سرزمین مالا بار میں آپ کا ورود بہت مبارک ثابت ہوا.مالا باری احمدیوں کو مبائعین اور غیر مبائعین کے عقائد کے متعلق تفصیلی واقفیت ہوئی.پینگا ڈی میں آپ نے ایک مسجد کی بنیاد بھی رکھی.پینگا ڈی کے علاوہ آپ کنانور میں تشریف لے گئے جہاں آپ نے درس قرآن کا سلسلہ جاری

Page 316

تاریخ احمدیت.جلد 22 301 سال 1963ء کیا جس میں بعض غیر احمدی معززین بھی باقاعدہ شامل ہوتے تھے.کنانور کے ایک نہایت مخلص احمدی دوست عبدالغفار کنجی صاحب جو اردو بھی جانتے تھے آپ کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دیتے رہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ان تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں دونوں شہروں میں پچاس کے قریب افراد سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.دوران قیام آپ نے چانگام سے آنے والے مخالف علماء کوتحریری اور تقریری مقابلہ کا بھی چیلنج کیا مگر وہ مقابلے پر نہ آئے اور جلد ہی کسی اور جگہ چلے گئے.اسی دوران آپ شدید طور پر بیمار ہو گئے.پہلے بخار ہوا.پھر ایک دنبل نمودار ہوا جو بڑھتے بڑھتے شلغم کے برابر ہو گیا اس شدید علالت میں بھی آپ نے درس و تبلیغ کے کام میں ناغہ کرنا گوارہ نہ کیا.آپ کو بار بار آرام کرنے کا مشورہ دیا گیا مگر آپ یہی فرماتے رہے کہ معلوم نہیں ابھی اور کتنی زندگی باقی ہے یہ آخری لمحات تو اس مقدس فریضہ کی ادائیگی میں گزار لیا جائے.یہ بخار اور دنیل دونوں مجھے پیغام اجل کے لئے ہوشیار کر رہے ہیں.ایسی صورت میں تغافل شعاری اچھی نہیں“.ایک ماہر ڈاکٹر نے آپ کا آپریشن کیا اور یہ رائے دی کہ یہ مریض بچتا نظر نہیں آتا.خود آپ نے بھی یہی سمجھا کہ میری موت غریب الوطنی میں مقدر ہو چکی ہے.آپ نے وصیت فرمائی کہ اگر میری وفات اسی سرزمین میں واقع ہو جائے تو مجھے کسی ٹیلہ کے پاس دفن کر کے میری لوح مزار پر صرف یہی شعر لکھ دینا ع نباشد شرط عشق است دوست ره بردن در طلب مردن یعنی اگر محبوب تک پہنچا ممکن نہیں تو اس کی تلاش میں مرجانا عاشق کے لئے بہتر ہے.اس وصیت کے بعد آپ کو بذریعہ رویا بشارت دی گئی کہ آپ اس بیماری سے شفایاب ہو جائیں گے.حضرت مصلح موعود کا پیغام موصول ہوا کہ مدراس میں ایک امریکن ڈاکٹر اس مرض کے علاج کا ماہر ہے بہتر ہے کہ علاج وہاں کرایا جائے.چنانچہ آپ احباب مالا بار سے رخصت ہو کر خشکی کے راستہ مدراس پہنچے.امریکن ڈاکٹر نے کہا کہ علاج اس شرط پر کیا جائے گا کہ مریض کے پاس کوئی تیمار دار نہ رہے.مگر حضرت مصلح موعود نے اس کی اجازت نہ دی اور ارشاد فرمایا پانی پت آکر حضرت میر محمد اسمعیل صاحب سے علاج کروایا جائے.چنانچہ آپ بمبئی سے ہوتے ہوئے پانی پت پہنچے جہاں

Page 317

تاریخ احمدیت.جلد 22 302 سال 1963ء حضور کا پیغام پہنچا کہ آپ قادیان آجائیں چنانچہ آپ قادیان دارالامان پہنچے اور حضرت مسیح موعود کے مہمان خانے میں قیام فرما ہوئے.اور آپ کے لئے پہلی ضیافت حضرت اماں جان نے کی اور کھانا تیار کر کے مہمان خانے میں بھجوا دیا.خدا کی قدرت ہر لقمہ آپ کے لئے برکت کا باعث بنتا گیا.اور آپ کو محسوس ہونے لگا کہ آپ کی طبیعت پر اچھا اثر پڑ رہا ہے.دو تین روز بعد آپ حضرت مصلح موعود کے حکم سے لاہور آ گئے.یہاں آپ کے اہل وعیال تھے.لاہور آ کر ایک رؤیا کی بنا پر آپ نے درس قرآن کا سلسلہ شروع فرما دیا.جس کے نتیجہ میں آپ کو اس تکلیف سے جلد شفا حاصل ہوگئی.جن دنوں شدھی کی تحریک زوروں پر تھی حضرت مصلح موعود نے مسلمانوں کو تحریک فرمائی کہ اپنے تجارتی کاروبار کو وسیع کر کے اور اپنی دوکانیں کھول کر اپنی مفلسی دور کریں.اس غرض کے لئے حضور نے ایک تنظیم کے ماتحت مبلغین کو مختلف علاقوں میں بھجوایا.اسی سلسلہ میں حضرت مولوی صاحب کو جھنگ شہر میں متعین کیا گیا.جھنگ میں ان دنوں میاں شمس دین صاحب شہر کے زیادہ بااثر معزز اور شریف طبع رئیس میونسپل کمشنر تھے.حضرت مولانا ان کی رہائش گاہ پر پہنچے اور حضرت مصلح موعود کی سکیم سے آگاہ کیا.انہوں نے کہا کہ مقاصد تو اچھے ہیں لیکن کسی قادیانی کے لئے یہاں بیٹھنا تو در کنار کھڑا ہونے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی.ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ میاں صاحب کو گھر سے اطلاع ملی کہ ان کی لڑکی جس کو آٹھواں مہینہ عمل کا ہے بوجہ تے قریب مرگ ہے.پیغامبر کی اس اطلاع پر آپ نے باہر نکلتے ہوئے السلام علیکم کہا اور پنجابی میں یہ بھی کہا اچھا نسیں وسدے بھلے اسیں چلدے بھلے.ابھی آپ نے دو ایک قدم ہی باہر اٹھائے تھے کہ میاں صاحب نے کہا آپ ذرا ٹھہر جائیں اور اس مرض کے لئے کوئی نسخہ بتا جائیں.آپ نے نسخہ بتایا جس سے مریضہ کی قے پانی پیتے ہی رک گئی اور طبیعت فورا سنبھل گئی.یہ کرشمہ قدرت دیکھ کر انہوں نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ میرے ہاں ٹھہریں.میں روزانہ شہر میں منادی کرا کے مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کا انتظام کروں گا.چنانچہ وہ حسب وعدہ روزانہ جلسے کا انتظام کرتے اور خود اپنی صدارت میں ان کی تقریر کرواتے.ان کے اثر رسوخ اور وقار کی وجہ سے لوگ جوق در جوق جلسہ میں آتے اور آپ کی تقریر کو سنتے یہاں تک کہ شہری مسلمانوں میں اپنی اقتصادی حالت سنوارنے کے لئے خوب بیداری پیدا ہوگئی.۸۰ کے قریب مسلمانوں کی نئی دوکانیں شہر میں کھل گئیں اور جود کا نہیں اور کاروبار پہلے موجود تھا زیادہ بارونق ہو گیا.

Page 318

تاریخ احمدیت.جلد 22 303 سال 1963ء یہ غیر معمولی کامیابی دیکھ کر تمام ہندو تلملا اٹھے اور سرکاری افسران کو تار دئے کہ قادیانی مولوی کو اس کارروائی سے روکا جائے.۸ ستمبر ۱۹۲۶ء سے ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۶ء تک آپ نے ایک وفد کے ساتھ سیالکوٹ اور جموں کا کامیاب تبلیغی و تربیتی دورہ کیا اسی سال آپ چھ ماہ تک کراچی میں پیغام حق پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے.اس سلسلہ میں دو عربوں سے آپ کی گفتگو بھی ہوئی.۱۹۳۱-۳۲ ء میں آپ کا تبلیغی ہیڈ کوارٹر سیالکوٹ تھا اور آپ کے حلقہ تبلیغ میں سیالکوٹ، گوجرانوالہ گجرات اور شیخو پورہ کے اضلاع شامل تھے.148 ۱۹۳۲ء میں آپ نے دہلی میں ایک غیر منقوط قصیدہ شائع کیا.اس قصیدہ کے ساتھ ایک دوسرا قصیدہ اور سیکرٹری صاحب انجمن احمد یہ دہلی کا ٹریکٹ دعوت الی الحق بھی شائع ہوا.یہ ٹریکٹ ۲۸ صفحات پر مشتمل تھا جس میں ا اصفحات کا حضرت مولوی صاحب کا رقم فرمودہ ایک مضمون تھا اور صفحات میں اس کا اردو میں خلاصہ درج کیا گیا تھا.اس ٹریکٹ میں سیکرٹری صاحب نے علماء دہلی پر اتمام حجت کرتے ہوئے تحریر فرمایا.”ہم نے مناسب سمجھا کہ اپنے مخالف علمائے کرام کو احقاق حق کا موقعہ دیں.جس کے لئے ایک ٹریکٹ میں جو عر بی نظم و نثر میں ہدیہ ناظرین ہے علمائے کرام کو مخاطب کیا گیا ہے.کہ اگر حقیقی معنوں میں وہی اسلام کے علمبردار ہیں تو بفحوائے آیت کریم لَا يَمَسُّه إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: ۸۰) ہمارے علماء حضرت علامہ مولوی غلام رسول صاحب فاضل را جیکی کے پہلو بہ پہلو بیٹھ کر زبان عربی میں تفسیر نویسی میں مقابلہ کریں.اور شرط یہ ہوگی کہ صرف قرآن کریم غیر مترجم اور کا غذ سفید دستہ اور قلم دوات پاس رکھ کر تفسیر لکھی جائے اور اس کے سوا کوئی کتاب پاس رکھنے کی اجازت نہ ہو.تا کہ دنیا دیکھ لے کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف کس پر کھلتے ہیں اور کس کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہے اور ہم محض اللہ تعالیٰ کے خاص فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے قرآن کریم کے کسی رکوع کے انتخاب کا حق بھی ان مخالف علماء کو دیتے ہیں.اب سنجیدہ لوگوں اور ان حضرات سے جو خشیتہ اللہ رکھتے ہیں اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مخالف علماء کو اس چیلنج کے قبول کرنے پر آمادہ کریں.اور اگر وہ اب بھی آمادہ نہ ہوں تو گواہ رہیں کہ آج ہم دہلی پر اتمام محبت کر چکے.علمائے دہلی اس چیلنج پر دم بخودرہ گئے اور کوئی جواب نہ دیا.۱۹۳۳ء میں آپ مرکزی ہدایت کے تحت بغرض تبلیغ لکھنو تشریف لے گئے جہاں تبلیغی جلسوں 149-

Page 319

تاریخ احمدیت.جلد 22 304 سال 1963ء میں تقاریر کے علاوہ آپ نے با قاعدہ درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا جس میں احمدی اور غیر احمدی بڑے ذوق و شوق سے شامل ہوتے تھے.دوران قیام آپ کی مشہور عیسائی مشنری عورت مسز روت سے کامیاب گفتگو ہوئی.یہ مشہور پادری مسٹر ایم این ہوز کی بیٹی تھیں.دوران گفتگو اس نے اپنی اعانت کے لئے کئی عیسائی مشنری بلائے ہوئے تھے.حاضرین کی کل تعداد میں پینتیس کے قریب تھی.حضرت مولانا راجیکی صاحب نے ایسے موثر انداز میں تبادلہ خیالات فرمایا کہ مسز روت آبدیدہ ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ آج یہ پہلا دن ہے کہ میرے دل میں حضرت محمد صاحب کے تقدس اور پاکیزگی کے متعلق ایک گہرا اثر پیدا ہوا ہے اور میں آئندہ آنحضرت کے متعلق کوئی کلمہ تحقیر یا استخفاف کا استعمال نہ کروں گی.مسز روت نے مناظرانہ رنگ میں کوئی اعتراض پیش نہ کیا اور نہ اسلام پر کوئی نکتہ چینی کی.ایک گھنٹہ تک یہ مجلس قائم رہی اور وہ مختلف مسائل کے بارے میں محبت وعقیدت سے استفسار کرتی رہیں.آپ کے قادیان واپس آنے کے بعد بھی روت صاحبہ ایک عرصہ تک خط و کتابت کرتی رہیں.یہ روحانی تبدیلی ایک غیر معمولی بات تھی کیونکہ یہ خاتون قبل ازیں اسلام اور آنحضرت کی معاند تھیں اور لکھنو میں علمائے اسلام کو متواتر چیلنج دے رہی تھیں لیکن کوئی غیر احمدی عالم اس کا چیلنج قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا.150 ۷ ا پریل ۱۹۳۴ء کو حضرت مصلح موعود نے مسجد الفضل لائل پور (فیصل آباد ) کا افتتاح فرمایا.اس موقعہ پر ایک تبلیغی جلسہ بھی منعقد ہوا.جس میں اور مقررین کے علاوہ حضرت مولانا کی تقریر حدیث نزول مسیح پر ہوئی.جس پر حاضرین نے بہت مسرت کا اظہار فرمایا اور غیر احمدی معززین پر بھی اس کا بہت اچھا اثر ہوا.آپ فرماتے ہیں:.میں نے جو کچھ بیان کیا تھا یہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے معارف کی خوشہ چینی اور آپ کے فیضان علم میں سے ایک قطرہ تھا.فالحمد للہ علی ذالک.۱۹۳۵ء میں آپ مرکزی ہدایت کے ماتحت گیارہ ماہ تک حیدر آباد دکن میں مقیم رہے.آپ کا قیام سلسلہ کے ایک مخلص بزرگ نواب اکبر یار جنگ صاحب بہا در حج ہائیکورٹ حیدر آباد دکن کے ہاں تھا.ایک دن انہوں نے ریاست کے وزراء، امراء اور رؤساء کی پُر تکلف ضیافت کی.مندوبین میں مہاراجہ سرکرشن پرشاد، وزیر اعظم حیدر آبا داور شاہی طبیب جناب مقصود علی صاحب بھی شامل تھے.اس

Page 320

تاریخ احمدیت.جلد 22 305 سال 1963ء 153 تقریب پر آپ کی شاہی طبیب اور وزیر اعظم سے بعض قرآنی آیات کے متعلق گفتگو ہوئی جو نہایت درجہ ایمان افروز تھی.کوئٹہ ( بلوچستان) کے مشہور زلزلہ (۳۱ مئی ۱۹۳۵ء) کے بعد آپ کو تبلیغی اغراض کے ماتحت کوئٹہ بھجوایا گیا.جہاں آپ کچھ عرصے تک اسلام کی منادی میں سرگرم عمل رہے.اہلحدیث عالم مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی کے ساتھ آپ کے بار ہا مناظرے ہوئے جس میں ان کولا جواب ہونا پڑا.ستمبر ۱۹۳۸ء میں جبکہ حضرت مولانا صاحب سیالکوٹ میں مقیم تھے.موصوف نے محلہ اراضی یعقوب کے ایک جلسہ میں آپ کو مقابلہ کا چیلنج دیا اور کہا کہ مرزا صاحب اور مرزائی قرآن کی عبارت صحیح نہیں پڑھ سکتے.ان کے اس ادعا کے باطل ثابت کرنے کے لئے آپ نے نعم الرقیم فی جواب دعوۃ ابراہیم کے عنوان سے ایک ٹریکٹ شائع کیا جس میں بیاسی اشعار کا قصیدہ بھی شامل کیا اور لکھا کہ:.وو یہ عربی قصیدہ ان کے اس قول اور دعوت مناظرہ کا جواب ہے.اگر میرے اس قصیدہ کے جواب میں مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کا قلم ٹوٹ جائے ، ان کی دوات پھوٹ جائے اور ان کا کاغذ پھٹ جائے یعنی ہر طرح سے عربی قصیدہ کا جواب لکھنے سے عاجز ثابت ہوں تو ہم اور تو کچھ نہیں کہتے صرف اتنا بہ ادب عرض کرتے ہیں کہ وہ آئندہ احمدی افراد کے متعلق اور نیز ہمارے سید ومولی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق غلط بیانی کرنے اور لاف زنی سے پر ہیز کیا کریں کہ انسانی شرافت اور وقار اسی میں ہے.یہ ٹریکٹ سیکرٹری احمد یہ ینگ فوک ایسوسی ایشن نے شائع کیا جو بعد میں اخبار ” فاروق ( قادیان) میں بھی چھپ گیا.مولوی محمد ابراہیم صاحب پر اس قصیدہ کا ایسا رعب چھایا کہ وہ اس کے جواب میں ایک شعر نہ لکھ سکے اور پبلک میں سلسلہ احمدیہ کی حقانیت اور علمی قوت کا خوب چرچا ہوا.۱۹۴۱ء میں آپ مع مولوی محمد الدین صاحب مبلغ البانیہ تبلیغ کی غرض سے علاقہ کشمیر میں تشریف لے گئے.اور بہت سے تبلیغی جلسوں میں شمولیت اور تربیتی اور اصلاحی امور کی سرانجام دہی کا موقعہ ملا.155 اس دور کا ایک خاص واقعہ یہ ہے کہ کشمیری پنڈتوں نے سرینگر میں سری کرشن جی مہاراج کے متعلق ایک جلسہ کیا.اور دوسرے مذاہب کے علماء کو بھی تقریر کی دعوت دی.مسلمانوں کی طرف سے

Page 321

تاریخ احمدیت.جلد 22 306 156 سال 1963ء صرف آپ کی تقریر تھی جوسب سے پہلے رکھی گئی.جب آپ اپنی نشست گاہ سے اٹھ کر سٹیج کی طرف بڑھے تو آپ کے سادہ لباس کو دیکھ کر منتظمین اور حاضرین جلسہ بہت مشوش ہوئے.لیکن جب آپ نے کرشن جی کی سوانح حیات کے ظاہری مگر قابلِ اعتراض حصہ کی حقیقت علم و معرفت کے رنگ میں نمایاں کر کے ان کی پیغا مبرا نہ شان اور عظمت نمایاں کی تو حاضرین نے جوش محبت و عقیدت میں بار بار چیئر ز دیئے اور مسرت کا اظہار کیا.اور وہ لوگ جو آپ کو سادہ وضع اور لباس دیکھ کر سخت متفکر تھے آپ کی کامیاب تقریر سے ورطہ حیرت میں پڑ گئے.۱۹۴۲ء میں حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر ایک اہم کام کی سرانجام دہی کے لئے آپ مہاشہ محمد عمر صاحب، مولانا محمد سلیم صاحب اور گیانی عباد اللہ صاحب کیرنگ (اڑیسہ ) کے ساتھ تشریف لے گئے.آپ امیر وفد تھے.اس سفر میں اڑیسہ کے احمدیوں کو آپ سے بے حد عقیدت ہوگئی.بیسیوں خدام ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے.صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ بابت ۱۹۴۳-۱۹۴۲، صفحہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مئی ۱۹۴۲ تا اگست ۱۹۴۲ء میں یوپی، بنگال، بہار اور اڑیسہ کے مندرجہ ذیل مقامات کا خصوصی دورہ کیا.کلکتہ، کھڑک پور، ٹاٹانگر ، بھاگلپور، سونگھڑ ، رائے پور، بھدرک، کٹک، خوردہ ، پوری ، کیرنگ.۱۹۴۳ء میں آپ آپ محرقہ سے سخت بیمار ہوئے یہاں تک کہ ایک دن آپ کی وفات کی افواہ بھی قادیان میں پھیل گئی.حضرت میر محمد اسحاق صاحب سیدنا حضرت مصلح موعود کے حضور ڈلہوزی پہنچے اور آپ کے لئے درخواست دعا کی.حضور نے فرمایا ہم سب مولوی صاحب کی صحت کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.چنانچہ آپ رو بصحت ہونے لگے.حضور ڈلہوزی سے قادیان تشریف لائے تو ایک قیمتی چونه صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب کے ہاتھ آپ کو بھجوایا.جس کو آپ نے زیب تن کیا اور اس کی برکت سے اپنی صحت میں نمایاں ترقی محسوس کی.بیماری کے بعد حضرت مصلح موعود نے ۱۰ستمبر کو حسب ذیل خط آپ کے نام ارسال فرمایا.د مگر می مولوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط مورخہ ۷ ماہ تبوک ۱۳۲۲ ہش ملا.اس عمر میں اس بیماری سے شفا واقعی فضل الہی کا ایک نمونہ ہے.اللہ تعالیٰ اس نئی زندگی کو پہلی سے بھی زیادہ مبارک کرے.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد.

Page 322

تاریخ احمدیت.جلد 22 307 سال 1963ء ۱۹۴۴ء میں حضرت مصلح موعود نے ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود کی چلہ کشی کے کمرہ میں جن خوش نصیب ۳۴ ا حباب کے ساتھ اجتماعی دعا کرائی ان میں آپ بھی شامل تھے.10 ۱۹۴۵ء میں جناب نواب عادل خان صاحب رئیس شہر کی درخواست پر حضرت مصلح موعود نے آپ کو سہارنپور بھجوایا.یہاں آپ کے علماء سے کئی معر کے ہوئے.ایک عالم جناب ہلالی صاحب نے آپ کو مناظرے کا چیلنج دیا.آپ نے بذریعہ اشتہار عربی اور اردو دونوں طرح کے تحریری اور تقریری مناظرہ کرنے کا اعلان عام کر دیا مگر ہلالی صاحب نے چپ سادھ لی اور مرد میدان بن کر مقابل پر آنے کی جرات نہ کر سکے.10 مارچ ۱۹۴۶ء میں آپ دار التبلیغ پشاور میں متعین کئے گئے.۱۹۴۹ء میں آپ ملازمت سے سبکدوش ہو گئے بایں ہمہ آپ نے تبلیغ و تربیت، درس قرآن اور تبلیغی و علمی خطوط و مضامین کا سلسلہ زور شور سے جاری رکھا.قیام پشاور کے دوران آپ نے ۱۲ ،۱۳ جولائی ۱۹۴۶ء کی درمیانی شب کو رویا دیکھا.جس پر آپ نے "المقالات القدسیہ فی الافاضات الاحمدیہ کے عنوان سے اپنی زندگی کے ایمان افروز واقعات اور تجربات و مشاہدات ضخیم جلدوں میں مرتب فرمائے.جو آپ کی پوری زندگی کے گویا نچوڑ تھے.یہ غیر مطبوعہ علمی خزانہ خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے.اور کتاب حیات قدسی کے پانچ مطبوعہ حصے ان کا نہایت مختصر خلاصہ ہیں.161 فروری ۱۹۵۷ء.سید نا حضرت مصلح موعود نے آپ کو باوجود پیرانہ سالی اور ضعف کے صدر انجمن 162 احمدیہ پاکستان کا ممبر نامزد فرمایا.خلاصہ یہ کہ مولا نا صاحب کی پوری زندگی علمی و دینی خدمات سے لبریز تھی.آپ کی مساعی سے ہزاروں لوگ احمدی ہوئے.آپ کے شاگردوں کا سلسلہ بہت وسیع ہے.خلافت ثانیہ کے بہت سے علماء کو آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا.جن دنوں آپ لاہور میں قیام رکھتے تھے حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے آپ سے فوز الکبیر، حجۃ اللہ البالغہ اور تفسیر بیضاوی پڑھی.آپ کی قبولیت دعا اور قبل از وقت آسمانی بشارات پر مشتمل واقعات سے آپ کی خودنویس سوانح بھری پڑی ہے.حضرت چوہدری محمد حسین صاحب ( والد ماجد ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نوبل انعام یافتہ ) تحریر فرماتے ہیں:.

Page 323

تاریخ احمدیت.جلد 22 308 سال 1963ء ۲۹.۱۹۲۸ء میں ایک دفعہ جھنگ میں دورہ پر تشریف لے گئے اور غریب خانہ پر قیام فرمایا.عزیز عبد السلام سلمہ اس وقت ننھا بچہ تھا بھاگ دوڑ لیتا تھا لیکن بولتا نہ تھا اس کی والدہ نے مولوی صاحب سے درخواست کی کہ یہ بچہ بولتا نہیں تو آپ نے نہایت محبت سے اسے بلایا لیکن وہ نہ بولا پھر کوشش کی لیکن ناکامی رہی.آخر آپ نے دعا کی اور فرمایا’ ایسا بولے گا کہ دنیا سنے گی“.۱۹۶۲ء میں ریڈیو پر ایٹم برائے امن پر پروفیسر عبدالسلام لندن نے برجستہ تقریر کی جو دنیا بھر میں سنی گئی اور سائنس دانوں نے اسے سراہا.بعض متبرک خطوط حضرت مولا نا راجیکی صاحب تحریر فرماتے ہیں:.حضرت اقدس میح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفہ مسیح الاول اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کے متبرک خطوط میں سے کئی ایک غیر معمولی حوادث کی نذر ہو گئے.جو میرے پاس محفوظ ہیں ان میں سے چند ایک ذیل میں درج کرتا ہوں:.(1) خط املا حضرت خدینہ امسیح الاول جو حضرت نے مجھے حد یہ بلڈنگکس لاہور کے پتہ پر ارسال فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.میں آپ پر بالکل خوش ہوں.والسلام پتہ : بخدمت شریف مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نورالدین ۴ ستمبر ۱۹۱۲ء احمد یہ بلڈنگس.ڈاک خانہ نولکھا.لاہور نوٹ: یہ خط حضور نے مجھے اس وقت تحریر فرمایا جب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب میرے خلاف حضرت کے حضور شکایت لے کر گئے کہ میں اپنے خطبات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ کے اظہار میں غلو کرتا ہوں.حضرت خلیفہ اول نے ان کو یہ جواب دیا کہ جو درجہ حضرت صاحب کا مولوی را جیکی سمجھتے ہیں میں ان سے زیادہ سمجھتا ہوں اور میرے خط کے جواب میں یہ مندرجہ بالا ) مکتوب بطور خوشنودی کے رقم فرمایا.

Page 324

تاریخ احمدیت.جلد 22 309 (۲) سال 1963ء خط حضرت خلیفہ امسیح الاول جوحضور نے مجھے لاہور احاطہ میاں چراغ دین صاحب کے پتہ پر ارسال فرمایا.میں اس وقت بیمار تھا.اور حضور کی خدمت میں قادیان جانے کی اجازت کے واسطے عرض کیا تھا:.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کو اختیار ہے چاہیں تو بے شک تشریف لائیں.یہاں آپ کا گھر ہے اور ہم آپ کے دوست ہیں.والسلام نورالدین ۲۶ مئی ۱۹۱۲ء پستہ : بخدمت شریف مولوی غلام رسول صاحب را جیکی احاطہ میاں چراغ دین صاحب.شہر لاہور (۳) مندرجہ ذیل خط سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے نام ستمبر ۱۹۱۳ء میں پیر کوٹ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ کے پتہ پر جہاں میرے سسرال ہیں موصول ہوا.اس وقت میں بیمار تھا.اس بیماری کا ذکر دوسرے مقام پر آچکا ہے ) مگر می مولوی صاحب.السلام علیکم و رحمۃ اللہ آپ کا کارڈ ملا.میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں.اور ایک عرصہ سے برابر کر رہا ہوں.قریباً بلا ناغہ.اور اللہ تعالیٰ سے بہت کچھ امید رکھتا ہوں.لاہوری فتنه بیدار ہورہا ہے اور آگے سے بہت زیادہ سختی سے.گویا کوشش کی جاتی ہے کہ اس کام کو ملیا میٹ کر دیا جائے جو حضرت صاحب نے شروع کیا تھا.آہ.آہ.آہ.اللہ تعالیٰ ہی رحم کرے اور فضل کرے.اب کے جماعت کا کثیر حصہ ان کے ساتھ ہے.میری نسبت طرح طرح کی افواہیں مشہور کی جاتی ہیں.کہتے ہیں سلسلہ کا سب سے بڑا دشمن ہے کم سے کم انی مَعَكَ وَ مَعَ أَهْلِكَ کا الہام ہی یا در رکھتے.پیغام صلح نے الفضل پر اعتراض بھی شروع کر دیئے ہیں.خلیفہ اسیح کے حکم سے ان

Page 325

تاریخ احمدیت.جلد 22 310 سال 1963ء سے جواب بھی مانگا ہے.مداہنت اور ملمع سازی کو کام میں لایا جاتا ہے.خدا تعالیٰ رحم کرے.میں ایک کمزور انسان ہوں.اس قدر فساد کا روکنا میرے اختیار سے باہر ہے.خدا کا ہی فضل ہو تو فتنہ دور ہو.یہ وقت ہے کہ جماعت کے مخلص دعاؤں سے کام لیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے طالب ہوں.شاید الفضل کا اس طرح اچانک نکلنا ہی ان حکمتوں پر مبنی تھا.میاں عبدالرحمن صاحب کو بھی میری طرف سے السلام علیکم اور جزاکم اللہ پہنچادیں (میاں عبد الرحمن صاحب سے مراد میرے برادر نسبتی ہیں).والسلام خاکسار مرزا محمود احمد (لد) عریضه ازطرف خاکسار و جواب سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز سید نا حضرت اقدس صلوات اللہ علیکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.خیریت مطلوب.خاکسار ضلع جالندھر اور ضلع ہوشیار پور سے فارغ ہو کر مکرمنا حضرت ناظر صاحب کے حکم سے آج رات یعنی ۳ را پریل کی شام کو واپس دارالامان پہنچا.مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ حضور میرے گھر میں تشریف لائے ہیں.اور میں نے چار روپے نذر محبت اور نذر عقیدت سے پیش کئے ہیں.آج تنخواہ ملی تھی.میرے دل میں خیال آیا کہ روپے پیش کرنا تو خواب کا وہ حصہ ہے.جو میرے اختیار میں ہے، وہ تو پورا کرلوں باقی حصہ اللہ تعالیٰ کے تصرف اور قبضہ میں یا حضور کے ارادہ اور منشاء عنایت اور توجہ اور شفقت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور میرے اختیار سے باہر ہے.سو یہ حقیر رقم مبلغ چار روپے حضور کی خدمت میں ارسال ہے.گر قبول افتد ز ہے عز وشرف.(خاکسار غلام رسول را جیکی )۴/۴/۳۳ حضور کا جواب جو آپ نے اسی عریضہ کے اوپر قائم مبارک سے تحریر فرمایا:.دد مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جزاكم الله احسن الجزاء - اللہ تعالیٰ اس کے روحانی پہلو کو بھی پورا کرے.اور چاروں اطراف عالم میں آپ کے ذریعہ سے احمدیت کا اعلیٰ اور مصفے بیج بویا جائے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد

Page 326

تاریخ احمدیت.جلد 22 311 (۵) سال 1963ء حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا مندرجہ ذیل ارشاد مجھے جھنگ مگھیانہ میں معرفت با ابومحمد اسماعیل صاحب سٹیشن ماسٹر موصول ہوا.از دفتر ڈاک قادیان د مگر می مولوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مورخہ ۸/۷/۲۷.آپ کا خط حضرت اقدس کی خدمت بابرکت میں پہنچا.حضور نے خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا کہ ”ہم آپ کے کام سے خوش ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی زبان میں تاثیر اور کام میں برکت دے“.(یوسف علی پرائیویٹ سیکرٹری )‘“ (Y) خاکسار نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میری وفات ہوئی ہے اور سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے میرا جنازہ پڑھا ہے.میں نے اس بارہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت بابرکت میں عریضہ لکھا.جس کے جواب میں حضور کا مندرجہ ذیل ارشاد موصول ہوا:.ڈلہوزی ۵/۹/۳۲ مکرمی حضرت مولوی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کی چٹھی مورخ ۳۲/ ۲۲/۸ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ملاحظہ میں آئی.حضور نے دعا فرمائی.اللہ تعالیٰ خوابوں کو مبارک کرے.روپیل گیا ہے.جزاکم اللہ.وفات تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون پہلے پا جائے.لیکن آپ میری زندگی میں فوت ہوں تو انشاء اللہ ضرور خود جنازہ پڑھوں گا کہ آپ صحابی ، سلسلہ کے مبلغ اور مخلص خادم سلسلہ ہیں“.والسلام خاکسار قمر الدین برائے پرائیویٹ سیکرٹری 166 حضرت مولانا صاحب کی علم ومعرفت میں ڈھلی ہوئی تقریریں نہ صرف جماعت میں بلکہ دوسرے مذہبی حلقوں میں بھی بہت پسند کی جاتی تھیں.آپ کی ہر تقریر تصوف میں ڈوبی ہوتی تھی اور جادو کا سا اثر رکھتی تھی.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.

Page 327

تاریخ احمدیت.جلد 22 312 سال 1963ء میں سمجھتا ہوں کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا ہے وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی.مگر بعد میں جیسے یکدم کسی کو پستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان کو مقبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کردی کہ صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ ، دلوں پر اثر کرنے والی اور شبہات و وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے.گزشتہ دنوں میں شملہ گیا تو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیلی یہاں آئے اور انہوں نے ایک جلسہ میں تقریر کی جو رات کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی.تقریر کے بعد ایک ہندو ان کی منتیں کر کے انہیں اپنے گھر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمارے گھر چلیں آپ کی وجہ سے ہمارے گھر میں برکت نازل ہوگی“.167 جناب سردار دھر مانت سنگھ صاحب پر نسپل سکھ مشنری کالج امرتسر نے بیان کیا کہ: ”میں قادیان میں جلسہ سالانہ میں شریک ہوا.جب حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نے اور میرے ساتھیوں نے آپ کی نہایت سادہ وضع قطع اور لباس کو دیکھ کر میچ سے باہر جانا چاہا.لیکن جب ہم اٹھ کر باہر جارہے تھے تو آپ کی تقریر کے ابتدائی فقرات ہمارے کانوں میں پڑے جو اس قدر پر تاثیر اور جاذب توجہ تھے کہ ہم رک گئے.اور آپ کی تقریر سننے کے لئے بیٹھ گئے.اور آپ نے جو حقائق و معارف اپنی تقریر میں بیان فرمائے اس سے ہمیں بہت ہی لطف آیا.چنانچہ تقریر کے بعد ہم آپ کے گھر پر بھی آپ سے عارفانہ نکات سنتے رہے.اور ہمیں محسوس ہوا کہ آپ کے نہایت سادہ لباس کے اندر معرفت الہی اور نور و برکت کا مجسمہ پنہاں ہے پھر تو جب بھی ہم قادیان آتے تو حقائق و معارف سننے کے لئے اکثر آپ کے پاس حاضر ہوتے“.جلسہ سالانہ پر تقاریر آپ کو جلسہ سالانہ کے مقدس سٹیج سے لمبا عرصہ خطاب کرنے کی توفیق ملی.آپ کی ہر تقریر اپنے اندر خصوصی اہمیت رکھتی تھی اور نہایت ضروری اور اہم موضوع پر مشتمل ہوتی تھی جیسا کہ مندرجہ ذیل تفصیل سے عیاں ہے.

Page 328

تاریخ احمدیت.جلد 22 313 سال 1963ء تبلیغ حق (۱۹۱۲ء) ، اصحاب الفیل (۱۹۱۵ء ) ( پنجابی تقریر)، تقریر (۱۹۱۲ء) ، غیر مبائعین کے بعض اعتراضوں کے جوابات (۱۹۱۷ء) ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسلمانوں پر احسانات (۱۹۱۸ء)، پیشگوئی اور اس کی حقیقت (۱۹۱۹ء)، غیر مبائعین کے اختلافات (۱۹۲۰ء)، نبوت پر مولوی محمد علی مونگھیری کے اعتراضات کے جوابات (۱۹۲۱ء)، تقریر (۱۹۲۲ء) ، حضرت مسیح موعودؓ کی بعض پیشگوئیاں سیدنامحمود کی نسبت (۱۹۲۴ء)، صداقت مسیح موعود (۱۹۲۶ء)، صداقت مسیح موعود (۱۹۲۷ء ) ، حضرت مسیح موعود اور غیر مبائعین (۱۹۲۸ء)، ختم نبوت (۱۹۲۹ء)، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس نئے رنگ میں پیش کیا ( ۱۹۳۰ء)، توحید کے متعلق اسلامی نقطہ نظر بمقابلہ دیگر مذاہب (۱۹۳۱ء)، فلسفه احکامِ شریعت (۱۹۳۲ء)، مسئلہ خلافت کے سلسلہ میں اختلافات کا ظہور اور اس کے انسداد کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الاول اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی مساعی جمیلہ (۱۹۳۳ء) حضرت مسیح موعود کا علم کلام (۱۹۳۴ء)، صداقت حضرت مسیح موعود (۱۹۳۵ء)، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئیاں جو حضرت مسیح موعود کی آمد سے پوری ہوئیں (۱۹۳۶ء)، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم (۱۹۳۷ء)، فلسفہ مسائل حج (۱۹۳۸ء)، حضرت مسیح موعود کے کارنامے (۱۹۳۹ء)، اجرائے نبوت کے فوائد اور انقطاع نبوت کے نقصانات (۱۹۴۰ء)، آیت خاتم النبین کی تشریح (۱۹۴۱ء)، فلسفہ قربانی ( ذبیحہ ) (۱۹۴۲ء)، فلسفه احکام نماز (۱۹۴۴ء) تعلق باللہ (۱۹۵۶ء).مطبوعات (پنجابی): جام وحدت.( سی حرفی).تصدیق المسیح.جھوک مہدی والی (اگست ۱۹۰۳ء) اس مقبول عام نظم کے بیسیوں ایڈیشن چھپ چکے ہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سنائی گئی جبکہ حضور مقدمہ کے دوران گورداسپور میں قیام پذیر تھے.حضرت خلیفہ اول اور حضرت مصلح موعود نے بھی اسے بہت پسند فرمایا.گلدستہ احمدی.سہاگ نامہ احمدی.کامن احمدی ، یہ نظم حضرت مولوی صاحب نے سفر جہلم (جنوری ۱۹۰۳ء) کے دوران لکھی اور اس کے بعد قادیان حاضر ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سنائی.اسوقت مجلس میں حضرت مولانا نور الدین صاحب اور حضرت مولانا عبد الکریم صاحب جیسے اکابر سلسلہ بھی موجود تھے.حضرت منشی محمد افضل 173

Page 329

تاریخ احمدیت.جلد 22 314 سال 1963ء 175 174 صاحب ایڈیٹر بدر نے اسے پہلی بار رسالہ کی صورت میں شائع کیا.گلدستہ رسالت.ڈھولا احمدی.قادیانی لعل نصیحت نامه بطرزسہاگ.ایہ پاک زمانہ آیا.تحفۃ المشتا قین.(اردو): رسالہ ”اب یا رب ( سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الاول نے اسے بہت پسند فرمایا اور اظہار خوشنودی کے طور پر انعام سے بھی نوازا اور اس کے بہت سے نسخے مشہور اور نامی گرامی عیسائیوں اور پادریوں کو بھجوائے.اظہار حقیقت (مطبوعہ امرتسر ).مباحثہ احمدیان و غیر احمدیان امرتسر.توحید باری تعالیٰ.کشف الحقائق بجواب حقائق القرآن - تاویل المتشابہات.نبوت مسیح موعود.مباحثہ لاہور (۲۶ تا ۲۸ جون ۱۹۲۱ء) التنقيد و الخبر الصحيح عن قبر المسیح (اپریل ۱۹۲۲ء).رقیمۃ المواسات.احمدیت کی فاتحانہ عظمت و جلالت.حیات قدسی حصہ اول جنوری ۱۹۵۱ء، دوم ستمبر ۱۹۵۱ء ،سوم جنوری ۱۹۵۴ء، چہارم ستمبر ۱۹۵۵ء، پنجم مئی ۱۹۵۷ء.چشمہ توحید (افاضات حضرت مولانا را جیکی صاحب) ۱۹۷۳ء.فیضان نبوت (افاضات حضرت مولا ناراجیکی صاحب) ۱۹۷۸ء.(عربی): بے نقط قصیده (۱۹۰۵ء).کلمۃ الفضل ( مترجم اردو) غیر مطبوعہ: (اردو).المقالات القدسیہ فی الافاضات الاحمدیہ ( ۹ مجلدات) کتاب ”تذکرہ شعرائے پنجاب میں حضرت راجیکی صاحب کا ذکر جناب خواجہ عبدالرشید صاحب نے اپنی کتاب ”تذکرہ شعرائے پنجاب میں ۲۸۸ نمبر پر حضرت مولانا صاحب کی نسبت درج ذیل نوٹ سپرد قلم کیا ہے.(۲۸۸) مولانا غلام رسول گجراتی مولانا غلام رسول پسر میان کرم دین در دهی بنام راجیکی از نواحی شهر گجرات در سال ۱۸۷۷ میلادی متولد گردید و فارسی از میان محمد دین کشمیری آموخت و سکندر نامه و آثار نثری ابوالفضل را هم در خدمت استاد خود یاد گرفت سپس بحضور مولانا امام دین رسیده مثنوی مولانا روم را یاد گرفت تصانیف متعددی دارد که عبارتند از: حيات قدسی، اظهار حقیقت توحید باری تعالی ، تنقيد الحقايق وغيره اشعار خوبی را بزبان فارسی میسرود و دارای ذوقی بسیار لطیف و

Page 330

تاریخ احمدیت.جلد 22 315 سال 1963ء عالی بود دیوانش هنوز بچاپ نرسیده است اما اشعاری چند در زیر نقل میگردد که در مدح یکی از دوستان عزیز خود سروده است: میر صاحب محمد اسماعيل آنکه می بود همچو ابن خلیل وصف او در بیان نمی گنجد گر بیانش کنیم بالتفصيل فطرتش فطرت همه ابرار قدسیان را شده دلش منزل ذات او متصف بوصف جميل عارفان را برسم او تبتیل منزل قدس بود منزل او بر زبانش حقایق از تنزیل 1 اولاد: اقبال احمد صاحب را جیکی (وفات ۲۴ فروری ۱۹۸۹ء) صفیہ بیگم صاحبہ (وفات ۱۴ نومبر ۱۹۸۲ء) مصلح الدین احمد صاحب را جیکی ( وفات ۲۶ فروری ۱۹۵۹ء) زینب قدسیہ صاحبہ (وفات ۲۵ جولائی ۱۹۸۲ء) 179 مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی اے ناظر امور عامه قادیان (وفات ۱۷نومبر ۱۹۶۳ء) مولوی مبشر احمد صاحب را جیکی (وفات ۳ فروری ۱۹۸۷ء) عزیز احمد صاحب را جیکی (وفات ۳ را پریل ۱۹۸۰ء) حضرت الحاج شیخ منظور علی صاحب لدھیانوی ولادت: ۱۸۸۷ء.بیعت : ۱۸۹۸ء وفات: ۲۷ دسمبر ۱۹۶۳ء.آپ نے ۱۸۹۸ء میں لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کی توفیق پائی.بہت مخلص فدائی اور دعا گو بزرگ تھے.۲۸ دسمبر کو آپ کی نماز جنازہ مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب نے دعا کروائی.اولاد : (صاحبزادگان) ڈاکٹر عبداللطیف صاحب عدن.عزیز احمد شیخ صاحب کراچی.ڈاکٹر شمیم احمد شیخ صاحب لندن.ڈاکٹر اختر احمدر بوہ.مشتاق احمد شیخ صاحب ربوہ.اس کے علاوہ تین بیٹیاں ہیں.10 180-

Page 331

تاریخ احمدیت.جلد 22 316 سال 1963ء ۱۹۶۳ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت ۱۹۶۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد صحابہ کرام کے علاوہ بہت سے مخلصین جماعت بھی وفات پاگئے.جن میں سلسلہ اور خلافت سے فدائیا نہ تعلق رکھنے والی خواتین بھی تھیں جیسا کہ ذیل کی تفصیلات سے معلوم ہوگا.مسٹر مبارک احمد فرائی سوئٹزرلینڈ کے سب سے پہلے احمدی تھے.باقاعدگی سے چندہ ادا کرتے تھے تبلیغ کا بہت شوق تھا.حضرت مصلح موعود جب دوبارہ یورپ تشریف لے گئے تو آپ کو متعدد بار حضور کی معیت کا شرف حاصل ہوا.۱۵ جنوری ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.181 حضرت سیدہ عائشہ بیگم صاحبہ ( والدہ ماجدہ حضرت سیدہ ام وسیم صاحبہ ) ولادت ا۱۸۷ء وفات : ۲۴ مارچ ۱۹۶۳ء 182 آپ حضرت سیٹھا ابوبکر یوسف صاحب آف جدہ کی اہلیہ تھیں، حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خوش دامن تھیں اور مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب کی نانی صاحبہ تھیں.اسی طرح مکرم شیخ بشیر احمد صاحب سابق جج لاہور ہائیکورٹ آپ کے داماد تھے اور مکرم کمال یوسف صاحب سابق مجاہد سکینڈے نیویا ممالک آپ کے پوتے ہیں.محترمہ محمد الہی بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی مرحومہ اس وقت احمدی ہو ئیں جبکہ ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی.جس کی وجہ سے ان کو اپنے والد کی نہایت درجہ بختی کا شکار ہونا پڑا.جو احمدیت کے اشد مخالف تھے.قرآن کریم کا بہت سا حصہ یاد ا.تھا ادب زبان محاورات اور ضرب الامثال میں ان کی واقفیت حیرت انگیز تھی.۲۹ جنوری ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.183 پیر زمان شاہ صاحب مانسہرہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں :.پیر زمان شاہ صاحب مخلص احمدی تھے.

Page 332

تاریخ احمدیت.جلد 22 317 سال 1963ء سکول کے زمانے میں میرے شاگرد بھی رہے تھے اور سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا کے بڑے بھائی تھے.“ 184 حضرت مصلح موعود ۱۹۵۶ء میں جب ایبٹ آباد تشریف لے گئے تو آپ کے مکان میں فروکش ہوئے ضلع مانسہرہ کے امیر تھے.۵ اپریل ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.نواب سید عبد المومن صاحب رضوی حیدر آبادی آپ کے والد بزرگوار حضرت نواب مولوی سید محمد صاحب رضوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳ صحابہ کبار میں شامل تھے جن کی نظام حیدر آباد (دکن) کی پھوپھی زاد بہن سے شادی ہوئی تھی.مرحوم اشاعت احمدیت میں خاص شغف رکھتے تھے.۲۸ مئی ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.محترمه عنایت بیگم صاحبہ بنت مرزا احمد بیگ اہلیہ مرزا ارشد بیگ قادیان 186 مرحومه محترمه محمدی بیگم صاحبہ (اہلیہ مرزا سلطان محمد صاحب) کی چھوٹی بہن تھی.۳۰ مئی ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.ان کا جنازہ حکیم عبد اللطیف صاحب شاہد گوالمنڈی لاہور نے پڑھایا اور میانی صاحب کے قبرستان میں تدفین ہوئی.187 میاں نیم حسین صاحب ابن سر فضل حسین صاحب آپ ایک نہایت درجہ مخلص اور فدائی احمدی تھے.مختلف ممالک میں سفیر پاکستان کے طور پر اپنے ملک کی نہایت قابلِ قدر خدمات بجالاتے رہے.سفارتی مصروفیات کے باوجود آپ کا دینی شغف اور اخلاص و قربانی کا جذبہ قابلِ رشک تھا آپ نے حج کا شرف بھی حاصل کیا اور حرمین شریفین کی دومرتبہ زیارت کی ۴ جون ۱۹۶۳ء کو بیروت میں وفات پائی.الاستاذ احمد حلمی 188 مصر کے ابتدائی احمدیوں سے تھے.۱۹۳۸ء میں قادیان کی زیارت کی اور مرکز احمدیت کی برکات سے مالا مال ہو کر اپنے وطن لوٹے.جولائی ۱۹۶۳ء میں وفات پائی.189

Page 333

تاریخ احمدیت.جلد 22 محترمه عمده بیگم صاحبه وفات: آغاز جولائی ۱۹۶۳ء 318 سال 1963ء محترمہ عمدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلا الیه نوے سال کی عمر میں لاہور میں وفات پاگئیں.آپ حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کی والدہ محترمہ تھیں.آپ اپنے بیٹے مکرم کرنل ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین احمد صاحب کے پاس لاہور میں مقیم تھیں.آپ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی پہلی بیوی تھیں.آپ کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے دو بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا تھا.مرزا عبدالغنی صاحب مکرم مرزا عبدالغنی صاحب ۱۸۹۰ء میں لاہور میں پیدا ہوئے.آپ مکرم مرزا فرزند علی صاحب متولی مسجد وزیر خان لاہور کے صاحبزادے تھے.آپ کا لونیکل سروس میں بھرتی ہوئے.ہندوستان میں ابتدائی ٹریننگ کے بعد نیروبی ( کینیا) میں فارینسک ڈیپارٹمنٹ میں آپ کا تقرر ہوا.آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے.کئی زبانوں میں مثلاً فارسی، عربی، اردو اور انگریزی میں مہارت رکھتے تھے.دوران ملا زمت برٹش سول سروس میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے.کرکٹ کے اچھے کھلاڑی تھے.اکثر مواقع پر نیروبی الیون کی نمائندگی کی.۱۹۳۱ء میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے ذریعہ احمدیت قبول کی.احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے آپ کے خاندان والوں نے آپ سے قطع تعلق کر لیا اور جائیداد سے بھی محروم کر دیا.۱۹۳۳ء میں آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ قادیان آگئے اور محلہ دارالبرکات میں ایک عالی شان مکان تعمیر کرایا.(۲۰ جنوری ۱۹۳۵ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس مکان کا سنگ بنیا درکھا تھا.01 آپ محاسب خزانہ صدرانجمن احمد یہ ر ہے.۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے وقت حضرت خلیلی امسیح الثانی کی ہدایت پر انجمن کا خزانہ قادیان سے ربوہ لیکر آئے.اور لاہور آ کر جماعت کے اکاؤنٹ میں ی خزانہ جو تقریباً تین لاکھ روپے تھا جمع کرا دیا.۱۹۵۱ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اجازت سے نیروبی کینیا چلے گئے.جہاں آپ کے دو بیٹے رہتے تھے.وہیں جولائی ۱۹۶۳ ء میں آپ کی وفات ہوئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹے اور تین

Page 334

تاریخ احمدیت.جلد 22 319 سال 1963ء بیٹیاں عطا کیں.آپ کی اہلیہ حفیظ بیگم صاحبہ ۱۹۸۳ء میں فوت ہوئیں.مولا نا محمد شہزادہ خان صاحب افغان 192 ۲ ستمبر ۱۹۱۰ء کوحضرت خلیفہ المسیح الاول کے دست مبارک پر بیعت کی.قبول احمدیت سے لے کر آخر وقت تک سلسلہ احمدیہ کی دینی و علمی خدمات بجالاتے رہے.صاحب کشوف ورؤیا تھے.صوبہ سرحد اور سرگودھا میں مبلغ و مربی رہے.اور عرصہ تک مدرسہ احمدیہ اور جامعہ نصرت میں پڑھاتے رہے.نظام سلسلہ کی پابندی اور اطاعت میں اپنی مثال آپ تھے.۱۱ را گست ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.میاں عبدالرحیم صاحب بنوں 193 سلسلہ احمدیہ سے پہلے خورم گوجر متصل ٹیکسلا میں امام مسجد تھے اور سلسلہ کے کٹر مخالف تھے.لیکن قبول احمدیت کے بعد اتنے مخلص ثابت ہوئے کہ امامت خیر باد کہہ دی اور اپنی آبائی اراضی جو سو کنال سے بھی زیادہ تھی کسی کے ہاں رہن رکھ کر قادیان میں سکونت اختیار کر لی.ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد آپ بھی پاکستان آگئے اور راولپنڈی میں مقیم ہو گئے.مربی سلسلہ مولوی اسد اللہ کشمیری صاحب مرحوم آپ کے داماد تھے.۷ا راگست ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.194- مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب کے فرزند اور مبلغ امریکہ مولوی عبدالقادر صاحب ضیغم کے برادر اکبر تھے.پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مولوی فاضل میں اول پوزیشن حاصل کی.ابتدا میں کچھ عرصہ تبلیغی میدان میں کام کیا پھر تعلیمی خدمات کے لئے پوری عمر وقف کر دی اور مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ اور جامعہ نصرت میں پروفیسر رہے.نہایت مخلص، درویش طبع اور فرض شناس وجود تھے.۲۴ را گست ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.195 السيد عبدالرحمن قزق بن الحاج محمد قزق نہایت مخلص اور پُر جوش داعی الی اللہ تھے خدمت دین کے لئے آپ نے پوری عمر مالی جہاد کیا.جماعتی اجتماعات آپ کی رہائش گاہ میں ہوا کرتے تھے.حیفا سے شام ہجرت کر کے آگئے تھے مگر اپنے

Page 335

تاریخ احمدیت.جلد 22 320 سال 1963ء خرچ پر بڑے ذوق و شوق سے بغرض تبلیغ فلسطینی بستیوں میں تشریف لے جاتے.۲ ستمبر ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.100 مولوی غلام نبی صاحب آپ بہاولپور میں وقف جدید کے آنریری مبلغ تھے.۶ ستمبر ۱۹۶۳ء کو بغرض تبلیغ سائیکل پر سمہ سٹہ جارہے تھے کہ بس کے حادثہ میں شہید ہو گئے.197 رائے خان محمد بھٹی صاحب آپ ایک مخلص اور سرگرم احمدی تھے.آپ پیر مولوی منور دین صاحب آف چک منگلا کی جماعت میں ایک ایسے شخص تھے جنہیں بہت پہلے بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا.احمدی ہونے کے بعد تبلیغ میں ہمہ تن مصروف ہو گئے اور اس عہد کو بخوبی ادا کرتے رہے.آپ کی تبلیغ سے گردو نواح میں کئی جماعتیں قائم ہو گئیں.آپ کو جماعت احمدیہ کوٹ سلطان ضلع جھنگ کی بطور صدر جماعت خدمات بجالانے کی توفیق ملی.مورخه ۱٫۵ اکتوبر ۱۹۶۳ء کو بوقت شام قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہو گئے.اولاد: رائے عبد الحفیظ خاں صاحب 100 خواجہ محمد شفیع صاحب پلیڈر چکوال ۱۹۳۰ء میں خواجہ ظہور الدین صاحب بٹ وکیل گوجر خان کی تبلیغ سے احمدی ہوئے.آپ ان دنوں اجنالہ ضلع امرتسر کے گورنمنٹ ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے.خدارسیدہ اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے.ایک جرم کی سزا زیادہ تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا اس کی سزا بہت تھوڑی ہوگی چنانچہ مجسٹریٹ صاحب نے اتنی ہی سزادی جتنی آپ کو قبل از وقت بتائی گئی تھی.خواجہ صاحب فوراً عدالت میں ہی سجدہ میں پڑ گئے اور مجسٹریٹ کے دریافت کرنے پر بتایا خدا تعالیٰ کی بات پوری ہوئی.اس لئے سجدہ شکر کیا.سبحان اللہ کیسے کیسے خدا والے احمدیت نے پیدا کئے.۱۷ اکتوبر۱۹۶۳ء کو وفات پائی.مولوی برکات احمد صاحب را جیکی 199- حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے صاحبزادہ تھے.۱۹۴۴ء میں خدمت دین کے لئے

Page 336

تاریخ احمدیت.جلد 22 321 سال 1963ء اپنی زندگی وقف کی.۱۹۴۴ء سے ۱۹۴۷ء ( تقسیم برصغیر تک ) بطور نائب ناظر امور عامه خدمات سرانجام دیں.اس کے بعد آپ کو درویشان قادیان کے مقدس زمرہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا.۱۹۵۲ء میں ہفت روزہ بدر کے دوبارہ اجراء پر پہلے ایڈیٹر مقرر ہوئے.سلسلہ کے سچے انتھک اور جانثار خادم تھے.علاوہ ازیں ناظر امور عامہ و خارجہ کے اہم منصب پر کمال خوبی اور حسن عمل سے سرفراز رہے.قادیان کے غیر مسلم معززین ان کے بلند اخلاق، ملنساری ، معاملہ نہی اور مہمان نوازی کے خصوصی اوصاف کے باعث ان سے بہت مانوس تھے.درویشان قادیان کے لئے بھی آپ کا وجود بڑے سہارے کا موجب تھا.۱۷ نومبر ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.جناب ملک راج صاحب سابق صدر منڈل کانگریس قادیان نے ان کی وفات حسرت آیات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: ”مولوی صاحب کی وفات صدرانجمن احمدیہ کے لئے یقیناً بہت بڑا حادثہ ہے لیکن ان کے سینکڑوں ہندو سکھ دوستوں کے لئے ان کی وفات کمر توڑ صدمہ سے کم نہیں.مولوی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت کا بہت بڑار فیق اٹھ گیا.اور شہر کے ہندو سکھ عوام کا عظیم دوست چلا گیا.آپ کی اولا د میں مکرم امتیاز احمد را جیکی صاحب مقیم امریکہ ہیں.مولوی برکت علی صاحب لائق آپ گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ میں ٹیچر تھے تقسیم ہند سے قبل شہر لدھیانہ میں آپ کا بہت اثر و رسوخ تھا.تقسیم کے بعد جڑانوالہ میں آگئے.جہاں آپ امیر جماعت کے طور پر خدمت سلسلہ بجالاتے رہے.آپ خوش بیان مقرر تھے.شعر و شاعری سے بھی خاص شغف تھا.چہرہ نورانی تھا.اپنوں اور بیگانوں میں یکساں طور پر مقبول تھے.۲۵ دسمبر ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.لیفٹیننٹ ڈاکٹر عبدالکریم صاحب آف چک ۹۶ صریح ضلع لائل پور 201 میاں مولا بخش صاحب آف گجر وال ضلع لدھیانہ کے صاحبزادے تھے.۱۸۸۹ء میں آپ کی پیدائش ہوئی.ڈاکٹر عبدالکریم صاحب کا بیان ہے کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ میں دیکھا تھا.گو آپ کی عمر اس وقت چھوٹی تھی اور کسی قسم کی دینی تعلیم آپ نے حاصل نہ کی تھی لیکن حضور کا چہرہ دیکھ کر ہی آپ کے اندر تبدیلی ہونی شروع ہوگئی تھی اور آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل سے ہی مرید ہو گئے.گو آپ نے بیعت ۱۹۱۳ء میں دوران ملازمت افریقہ میں کی (بمطابق

Page 337

تاریخ احمدیت.جلد 22 322 سال 1963ء ریکارڈ نظارت بہشتی مقبرہ ربوہ) تقسیم ملک کے بعد ضلع لائل پور (فیصل آباد ) میں آباد ہوئے.۲۷ دسمبر ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.202 203 کرنل ملک سلطان محمد خان صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع کیمل پور آپ اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے.طبیعت میں اپنے خاندان کی تمام خوبیاں موجود تھیں.احترام قانون ، سخاوت، سچائی، جرات، وفاداری و حیاداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.پیغام حق پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.بات ہمیشہ ٹھوس اور مدلل کرتے تھے.رعب و جلال اور ایسی وجاہت تھی کہ کسی کو ان کی موجودگی میں غلط بات کہنے کی جرات نہ ہوتی تھی.انکسار کا یہ عالم تھا کہ جلسہ سالانہ میں باوجود بیماری کے زمین پر بیٹھتے تھے اور امیر ضلع ہونے کے باوجود شیح کے ٹکٹ واپس کر دیتے.۲۸ دسمبر ۱۹۶۳ء کو وفات پائی.(آپ کی وصیت نہ تھی لیکن حضرت مصلح موعود کی خاص الخاص اجازت سے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کیا گیا.آپ کے بارے میں مزید آپ کے صاحبزادے محترم سلطان رشید خان صاحب امیر ضلع اٹک (سابق کیمل پور ) رقمطراز ہیں:.آپ کا سن پیدائش ۱۹۰۰ ء ہے.ضلع اٹک کے ایک با اثر خاندان کے فرد تھے.چنانچہ آپ کے ایک پھوپھی زاد بھائی سردار سرمحمد نواز خانصاحب آف کوٹ فتح خان پاکستان کے فرانس میں پہلے سفیر اور نوابزادہ لیاقت علی خان مرحوم کی کابینہ میں وزیر دفاع رہے.دوسری پھوپھی کے بیٹے ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر رہے.ایک کر چین مشنری کالج میں پڑھنے کے دوران عیسائیوں کے زیر تبلیغ تھے کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے مستفید ہونے کا موقع ملا.چنانچہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جلد ۱۹۲۴ء میں بیعت کر لی.فوج میں ملازمت کی اور کرنل کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے.آپ کو حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے داماد ہونے کا شرف حاصل تھا.خلافت سے وابستگی میں ایک والہانہ رنگ تھا.سیدنا حضرت مصلح موعود بعض اوقات انتہائی اہم کام آپ کے سپرد فرماتے.چنانچہ سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے اس کا ذکر خیر ان کے بیٹے کے خطبہ نکاح کے دوران کیا.ضلع اٹک میں پہلی دفعہ ۱۹۵۰ء میں ضلعی نظام جاری ہوا تو آپ یہاں کے پہلے امیر ضلع منتخب ہوئے.اور وفات تک جو ۲۸ دسمبر ۱۹۶۳ء کو جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر ہوئی امیر ضلع اٹک رہے..204- 66

Page 338

تاریخ احمدیت.جلد 22 323 سال 1963ء آپ کے ایک پوتے محترم محمد سلطان خان صاحب کو حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے داماد ہونے کا بھی شرف حاصل ہے.مکرم ملک سلطان رشید خان صاحب نے ایک اور خط میں لکھا ہے کہ جب حکومت نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ ضبط کر لی تو ابا جان کو اس بات کا بہت دکھ ہوا.آپ نے امیر محمد خان صاحب گورنر پنجاب کو ردعمل میں ناراضگی کا خط لکھا تھا اور ان سے ملنے کی کوشش کی.لیکن گورنر صاحب نے آپ سے ملنے سے احتراز کیا اور اپنی جگہ اپنے عزیز ملک نواب دین کو ملاقات کی ہدایت کی.محترم ملک صاحب نے اس ملاقات میں اپنے جذبات کا زبانی اور تحریری رنگ میں بھی اظہار کیا.

Page 339

تاریخ احمدیت.جلد 22 1 3 4 5 6 8 9 10 324 تاریخ احمد یہ سرحد صفحه ۸۷ الحکم ۲۸ فروری ۱۹۰۲ء صفحه ۶ اکالم ۳ رجسٹر روایات جلدے صفحہ ۱۹۳ الفضل ۸ جنوری ۱۹۶۳ء صفحه ا قلمی نوٹ حضرت قاضی صاحب صفحه م تاریخ احمد یہ سرحد صفحه ۸۷-۹۱ حوالہ جات (صفحه ۲۱۹ تا ۳۲۳) بدر ۲۴ جولائی ۱۹۰۴، صفحہ ۶ کالم نمبر ۱ - ۲، زیر عنوان " مبارک نماز تاریخ احمد به سر حد صفر ۹۳ قلمی نوٹ صفحیم تاریخ احمد یہ سرحد صفحه ۹۴ سال 1963ء 11 رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ قادیان ۱۹۲۰-۱۹۱۹ء صفحہ ۷۹ 12 رپورٹ سالانہ صدرانجمن حد یہ قادیان ۱۹۲۰ء.۱۹۱۹، صفحہ ۷۸ 13 اخبار الحکم ۲۱ راپریل ۱۹۳۵ء صفحه ۵ 14 تاریخ احمد یہ سرحد صفحہ ۹۷ 15 یہ ایڈریس روئیداد جلسہ خلافت جو بلی کے صفحہ ۲۶ پر شائع شدہ ہے.ناشر بک ڈپو تالیف واشاعت قادیان 16 روئیداد جلسه خلافت جو بلی صفحہ ۱.مرتبہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد سیکرٹری خلافت جو بلی آپ کی ایک قلمی نوٹ بک میں لکھا ہے ” یکم جنوری ۱۹۱۵ ء لغایت ۳۱ دسمبر ۱۹۵۹ ء سرحد میں امیر جماعت پشاور اور امیر الامراء اضلاع سرحد اور پشاور ڈویژن کا ڈویژنل امیر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مقر فر مایا.صفحریم 18 اخبار الحکم ۳ جولائی ۱۹۰۳ء 19 تاریخ احمد یه سرحد - صفحه ۱۰۴ تا ۱۱۲ 20 تاریخ احمد یه سرحد - صفحه ۱۱۵، ۱۱۶، از حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ۱۹۵۹ء 21 رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد نمبرے صفحہ ۲۰۲ 22 تاریخ احمد یہ سرحد - صفحه ۱۱۴ ۱۱۵

Page 340

تاریخ احمدیت.جلد 22 23 بحوالہ رسالہ النبوۃ فی الوحی والالہام صفحه ۸۴ 24 تاریخ احمد یہ سرحد - صفحه ۱۱۳ ۱۱۴۰ 25 تاریخ احمد یہ سرحد - صفحه ۱۱۵ فارسی 26 رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد نمبرے صفحہ ۲۰۲ 27 روایات غیر مطبوعہ جلد نمبرے صفحہ ۱۹۹ 28 الفضل ۸جنوری ۱۹۶۳ء صفحه ۱ ا 29 روزنامه الفضل ربوہ مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 30 روزنامه الفضل ربوه مورخه ۱۳ فروری ۱۹۶۳ء صفحه ۶ 31 روزنامه الفضل ربوه مورخه ۲۶ مارچ ۱۹۶۳ ، صفحه ۵ 32 تاریخ احمد یہ سرحد - صفحه ۱۰۰ 33 ریکار ڈ دفتر وصیت ربوہ 34 رجسٹر بیعت اولی 35 الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۶۳ء صفحه ا 36 آئینہ کمالات اسلام، ضمیمه صفحه ۱۳ نمبر ۲۳۰ 37 الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۶۳ء صفحه ا 38 39 325 سال 1963ء الفضل ۱۵ جون ۱۹۶۳ صفحه ۵ مضمون مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی اے قادیان.لاہور.تاریخ احمدیت صفحه ۱۳۸ مؤلفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ روز نامه الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۶۳ ، صفحه ۳ 40 لاہور.تاریخ احمدیت ، صفحہ ۱۳۸ 41 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 42 الفضل ربوه ۲۳ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۶ مضمون عزیز احمد صاحب لندن 43 لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۲۹۰ 44 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ ایضاً الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۶۳ء صفحہ ۸ کالم ا.نوٹ از مولوی محمد اسماعیل صاحب اسلم واقف زندگی ربوہ 45 سوانح حیات حضرت مولوی فضل الدین صاحب مولفہ سیٹھ علی محمد اے الہ دین صاحب ایم اے ایڈنبرا الہ دین بلڈنگ سکندر آباد مطبوعہ تاج پریس چھتہ بازار حیدر آباد - فروری ۱۹۵۰ء 46 رجسٹر روایات جلد ۶ صفحہ ۱۹۶.۱۹۷ 47 الفضل ۱۷ فروری ۱۹۶۳ء صفحہ ۶

Page 341

تاریخ احمدیت.جلد 22 48 الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۳ ، صفحہ ۵ 49 ریکارڈ بہشتی مقبرور بوه 50 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 51 ضمیمه انجام آنقم صفحه ام 326 سال 1963ء 52 تلخیص مضمون مولانا حکیم محمد الدین صاحب مبلغ انچارج میسور اسٹیٹ انڈیا مطبوعہ الفضل ۲ تا ۶ جولائی ۱۹۶۳ء بعنوان والد محترم مولوی محمد عزیز الدین صاحب مرحوم کا ذکر خیر 53 ریکار ڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 54 ریکارڈ بہشتی مقبر در بوہ 55 خود نوشت روایات رجسٹر روایات جلد ۶ صفحه ۵۹ غیر مطبوعہ.فہرست صحابہ قادیان منقولہ تاریخ احمدیت جلد هشتم طبع اول ضمیمه صفحه ۳۷ نمبر ۳۵ 56 ضمیمہ انجام آنقم صفحہ ۴۲ کالم ۳ 57 58 رجسٹر روایات جلد ۶ صفحه ۶۲ الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۶۳ء صفحه ۵ مضمون خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب الفضل ۲ مارچ ۱۹۶۳ ء صفر یه مضمون نور احمد صاحب عابد صدر جماعت احمد یہ احمد نگر 59 ریکارڈ بہشتی مقبرور بوه 60 رجسٹر روایات جلدا اصفحه ۳۴۰ 61 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 2 فہرست صحابہ قادیان مشموله تاریخ احمدیت جلد ہشتم طبع اول ضمیمه صفحه ۵ 63 رجسٹر روایات جلدا اصفحہ ۳۴۳-۳۴۶ 64 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 65 ریکار ڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 66 الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۶۳ء صفحها 67 الفضل ۱۲ را پریل ۱۹۶۳ء صفحہ ۵ ، لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۳۹۸ ۴۰۰ 68 الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۶۳ء صفحه ۸ 69 الفضل ۱۲ را پریل ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 70 الفضل ۱۲ را پریل ۱۹۶۳ء صفحریه 71 لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۴۰۳ 72 ریکارڈ بہشتی مقبرہ

Page 342

تاریخ احمدیت.جلد 22 73 رجسٹر روایات جلد ۳ صفحه ۶۱-۶۲ 74 الحكم ۱۴/۲۱ را کتوبر ۱۹۳۸ صفحه ۱۱-۱۲ 75 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 327 سال 1963ء 76 یہ کتاب حضرت سید غوث علی شاہ قلند ر قا دری وفات ۲۵ فروری ۱۸۸۱ء کے ملفوظات پر مشتمل ہے اور مولانا گل حسن شاہ قادری کی تالیف ہے.حیرت کی بات ہے کہ کتاب کے تیسرے ایڈیشن میں جو خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے اور ۱۹۱۸ء میں جی اینڈ سنز برقی پریس دہلی سے طبع ہوا.یہ حدیث موجود نہیں ہے.لہذا اگر شاہ صاحب کی یادداشت میں کوئی سہو نہیں تو اس ایڈیشن میں یقینا تحریف کی گئی ہے اور حدیث مذکور خارج کر دی گئی ہے.تا ہم صحیح مسلم کتاب الایمان نزول عیسیٰ میں یہ حدیث موجود ہے.77 الحکم ۱۴/۲۱ اکتوبر ۱۹۳۸، صفحه ۱۲ 78 فہرست مرتبہ مکرم سید منیر احمد صاحب باہری 79 ریکار ڈ بہشتی مقبرہ 80 الفضل ربوه - ۲۰ را کتوبر ۱۹۶۳ء صفحریم 81 الفضل ۲ / اگست ۱۹۶۳ ء صفحه ۵ 82 الفضل ۲ اگست ۱۹۶۳ء صفحه ۵ مضمون حکیم محمد عیسی صاحب چغتائی دہلی دروازہ لاہور 83 الفضل ۱۷ اگست ۱۹۶۳، صفحه ۵ 4 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 85 الفضل ۲۸ جون ۱۹۶۳ء صفحه ۸ 86 الفضل ۱۷ - ۱۸/ اگست ۱۹۶۳ء.مضمون ملک مظفر احمد صاحب مرحوم 87 الفرقان جولائی ۱۹۶۳ء صفحہ ۲۱ 88 الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۶۳، صفحه ۵ 89 الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۶۳ صفحه ۵ 90 فہرست مرتبہ ملک منور احمد صاحب جاوید نائب نا ظر ضیافت ربوہ 91 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۶۳ء صفحہ ۸ 2 روایت حضرت سید سردار شاه صاحب از لاہور.تاریخ احمدیت صفحہ ۲۷۸ مولفہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ ملاحظہ ہو کتاب ” تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین، صفحہ ۲۶۴ ۲۶۶ مرتبہ حضرت چوہدری برکت علی صاحب 93 مطبوعہ نصرت پریس ربوه جون ۱۹۵۹ء 94 الفضل ۶ راگست ۱۹۶۳، صفحه ۵ 95 مضمون سیدامین شاہ صاحب معلم اصلاح و ارشاد ابن حضرت سید ولایت شاہ صاحب مطبوعه الفضل ۴.۵/اکتوبر ۱۹۶۳ء

Page 343

تاریخ احمدیت.جلد 22 96 الفضل یکم اگست ۱۹۶۳ء صفحه ۶ 328 97 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل ۳ اگست ۱۹۶۳ء صفحه ۶ 98 الفضل ۴ مارچ ۱۹۱۶ء 99 البشری صفحه ۱۱۳ حاشیہ مرتبہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی.تذکرہ طبع چہارم صفحہ ۶۶۵ 100 حالات تحریر کردہ قریش محمد عبد اللہ صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ ربوہ.الفضل ۷/اگست ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 101 ریکارڈ بہشتی مقبرور بوه الفضل ۱۶ اگست ۱۹۶۳ صفحه ۵ 102 الفضل ۲۳ ۲۴ اگست ۱۹۶۳ء مضمون سید ظہور احمد شاہ صاحب ربوہ 103 الفضل 9 مارچ ۱۹۸۹ء صفحہ ۷ سال 1963ء 104 ی تفصیل محترم سیده فری ظہیر صابہ اہلیہ کم ظہیر احد باب صاحب مربی سلسلہ کی مرسلہ ہے آپ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی پوتی اور مکرم سید ظہور احمد شاہ صاحب کی صاحبزادی ہیں.105 ریکارڈ بہشتی مقبره ر بوه الفضل ۲۰ ۲۱ستمبر ۱۹۶۳ صفحه ا 106 حیات احمد جلد چہارم صفحه ۴۵۵ مؤلفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی 107 غیر مطبوعه یادداشت از حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب 108 اصحاب احمد جلد پنجم.سیرت سرور حصہ اوّل صفحہ ۷۳.۷۶.مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے طبع اول اپریل ۱۹۵۸ء 109 ملخص ” حضرت محمد سرور شاہ صاحب از برکت ناصر صاحبه صفحه ۵ تا ۱۵ 110 لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۴ ۲۸ تا ۲۸۷ مؤلفہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب اشاعت فروری ۱۹۶۶ء.اخبار الفضل ۶ نومبر ۱۹۶۳ صفحه ۶ 111 الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۶۳ ، صفحه ۵ 112 ازاله او بام طبع اوّل صفحه ۹۱۸-۹۱۹ 113 الفضل ۲۸ ، ۳۰ جوان ۱۹۶۴ء 114 الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 115 تقویم عمری از حضرت میاں معراجدین صاحب عمر.معراج منزل نولکھا بازار لاہور ستمبر ۱۹۰۶ ء.116 حیات قدسی جلد اصفحہ ۱۹.117 حیات قدی جلد ۲ صفحه ۶ 118 الفضل ۱۷ دسمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ا.119 حیات قدی جلد اول صفحہ ۲۶۸.جدید ایڈیشن - نظارت اشاعت ربوہ 120 الحکم ۱۴ فروری ۱۹۳۶ ، صفحه ۳ 121 المقالات القدسيه في الافاضات الاحمدیہ.جلد اقلمی.غیر مطبوعہ

Page 344

تاریخ احمدیت.جلد 22 329 سال 1963ء 122 جیسا کہ حضرت مولانا امام الدین صاحب نے ۱۹۳۴ء اور ۱۹۳۵ء کے الحکم میں شائع شدہ بیان میں ذکر کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور تصدیق نے جو مولوی غلام رسول را جیکی کو بار بار ہوئی میرے یقین کواور بھی پختہ کیا.123 بشارات رحمانیه مرتبه عبد الرحمن مبشر صفحه ۴۸ تا ۵۶ 124 حیات قدی حصہ دوم صفحه ۹۴ - ۹۶ 125 حیات قدسی جلد چہارم صفحه ۳۱-۳۲.حیات قدسی جلد پنجم صفحه ۴۶ - ۴۷ 126 حیات قدی جلد سوم صفحہ ۲۸ 127 حیات قدسی حصہ دوم صفحه ۳۱ تا ۳۳ 128 حیات قدسی حصہ دوم ص ۲۲-۲۳ 129 حیات قدسی جلد سوم صفحه ۳۹ تا ۴۱ 130 حیات قدسی جلد دوم صفحه ۸۲ 131 حیات قدسی جلد دوم صفحه ۱۴ 132 اخبار الحکم ۷انومبر ۱۹۰۵ء 133 حیات قدسی جلد سوم صفحہ ۷ 134 حیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۱۱۳ 135 حیات قدی جلد سوم صفحه ۴ ۵ - ۱۰۴۵۵ 136 حیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۳۹ تا ۴۶ 137 حیات قدمی حصہ چہارم صفحه ۶۰-۶۱ 138 حیات قدسی جلد سوم صفحہ ۱۱۱ 139 حیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۴۶ - ۴۷ 140 حیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۴۶-۵۵ 141 حیات قدسی جلد سوم صفحه ۴۹ تا ۵۳ 142 حیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۵ ۵ تا ۵۸ 143 حیات قدسی جلد سوم صفحه ۱۰۵-۱۰۶ 144 حیات قدی حصہ چہارم صفحہ ۱۱۹ 145 حیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۶۹ تا ۹۸ 146 حیات قدسی جلد سوم صفحه ۲۱-۲۴ 147 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ صفحه ۴۹-۵۰ 148 رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یه ۳۲-۱۹۳۱ صفحه ۱۲ مطبوعہ قادیان

Page 345

تاریخ احمدیت.جلد 22 149 اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۲۵-۲۶ 150 حیات قدی حصہ پنجم صفحه ۵۹-۶۲ 151 حیات قدسی حصہ پنجم صفحہ ۱۲۸ 152 حیات قدی حصہ پنجم صفحه ۱۷ تا ۲۳ 153 حیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۲۱ 154 حیات قدی حصہ پنجم صفحه ۶۶-۷۰ 155 حیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۱۸۲-۱۸۳ 156 حیات قدی حصہ پنجم صفحه ۴۱ تا ۴۴ 157 حیات قدی حصہ پنجم صفحه ۱۶۹-۱۷۰ 158 حیات قدی حصہ چہارم صفحه ۲۷-۲۸ 159 حیات قدی حصہ پنجم صفحه ۵۳ 160 حیات قدی حصہ چہارم صفحه ۱۰۱ تا ۱۰۳ 161 حیات قدی جلد سوم صفحه ۵-۶ 162 حیات قدسی حصہ پنجم صفحه ۱۳۲ 163 حیات قدمی حصہ چہارم صفحه ۱۴۸ 164 حیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۱۵ 165 الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۶۴ صفحه ۵ 330 سال 1963ء 166 تلخیص از کتاب بشارات رحمانی صفحه ۱۲۸-۱۳۴ از مولانا عبد الرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل.مطبوعہ قادیان دسمبر ۱۹۳۹ء 167 الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۴۰ء صفحه ۵ 168 اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۳۱-۳۲ 169 بدر ۹ جنوری ۱۹۱۳ ء صفحه ۶ 170 الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۱۶ء 171 الفضل یکم جنوری ۱۹۲۳ء 172 اخبار الفضل جنوری ۱۹۱۶ء تا شروع ۱۹۵۷ء 173 حیات قدسی حصہ دوم صفحه ۹۳ 174 حیات قدی حصہ پنجم صفحه ۴۷ - ۴۸ 175 حیات قدسی جلد چہارم صفحه ۹۹ 176 تذکرہ شعرائے پنجاب صفحہ ۲۸۸ تا شر اقبال اکادمی کراچی اکتوبر ۱۹۶۷ء

Page 346

تاریخ احمدیت.جلد 22 177 ریکار ڈ دفتر وصیت 178 ریکار ڈ دفتر وصیت 179 ریکارڈ دفتر وصیت 180 الفضل ۳ جنوری ۱۹۶۴ صفحه یم 181 الفضل 9 مارچ ۱۹۶۳ صفحه ا 182 الفضل ۲۶ ، ۲۷ مارچ ۱۹۶۳، صفحه ۱ 183 الفضل یکم فروری ۱۹۶۳ صفحه ۸ 184 الفضل ۹ را پریل ۱۹۶۳ صفحه ا 185 الفضل ۱۶ سراپریل ۱۹۶۳ء صفحہ ۶ 186 افضل ۱۴ جوان ۱۹۶۳ صفحه ۵ 187 الفضل ۱۶ جون ۱۹۶۳ء صفحہ ۶ 188 الفضل 9 جون ۱۹۶۳ ، صفحه ۱ تا ۸ 189 الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۶۳ء صفحریم 331 190 الفضل ے جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ا 191 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۵ء صفحه ۱ 192 غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ 193 الفضل ۲۵ راگست ۱۹۶۳ء، ۲۱،۱۷ مئی ۱۹۶۴ء 194 الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۶ 195 الفضل ۲۷-۲۹ / اگست ۱۹۶۳ء ۲۷ ستمبر ۱۹۶۳ء.۸ مئی ۱۹۶۴ء 196 رساله البشر کی ربوہ جلد ۶ نمبر ۲ ۳۰ صفر ۴ ۳ تا ۳۸ 197 الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 198 الفضل ۶ دسمبر ۱۹۶۳، صفحہ 4 199 الفضل ۱۴ نومبر ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 200 اخبار بدر قادیان ۲۱ نومبر ۱۹۶۳، صفحه ۵،۱ - الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۶۳ ، صفحه ۱، ۸ 201 الفضل ۸جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۵ 202 الفضل ربوه ۵ فروری ۱۹۶۴ صفحه ۶ 203 الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۶۴ صفحهیم 204 خط بنام انچارج شعبه تاریخ احمدیت محرره ۲۰ دسمبر ۲۰۱۰ء از کوٹ فتح خان ضلع اٹک 205 خط بنام انچارج شعبہ تاریخ احمدیت محرره مورخه ۲۳ جون ۲۰۱۱ء سال 1963ء

Page 347

تاریخ احمدیت.جلد 22 332 سال 1963ء ۱۹۶۳ء کے متفرق اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی تقاریب ولادت شادی (۱) امتہ الحمید حمیر اصاحبہ بنت صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب ( ولادت ۵ جنوری ۱۹۶۳ء) (۲) پیر محی الدین طاہر صاحب ابن مکرم پیر معین الدین صاحب ( ولادت ۱۹ را پریل ۱۹۶۳ء) (۳) سیدا نیس احمد صاحب ابن محترم سید سید احمد ناصر صاحب (ولادت ۹ جون ۱۹۶۳ء) صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود کی شادی ۲ مارچ ۱۹۶۳ء کو قیصرہ بیگم صاحبہ بنت میاں سعید علی خان صاحب سے ہوئی اور یکم دسمبر ۱۹۶۳ء کو صاحبزادہ مرزا مجیب احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی شادی صاحبزادی امتہ الحلیم صاحبہ بنت (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ساتھ عمل میں آئی.احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں اور اعزازات اس سال نو نہالانِ احمدیت نے اپنی ترقی کی رفتار تیز تر کر دی اور امتحانات، مباحثات، تقریری مقابلہ اور کھیل کے میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر کے ملک میں اپنی علمی برتری منوالی.امتحانات تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے طالب علم چوہدری فضل الرحمن صاحب ابن چوہدری غلام غوث صاحب سیکرٹری ٹاؤن کمیٹی ربوہ بی ایس سی آنرز اور ریاضی میں، پیر وحید احمد صاحب ابن پیر صلاح الدین صاحب ایم اے کے امتحان جیالوجی میں، ملک عزیز احمد صاحب ابن جناب عبدالکریم صاحب نوشہرہ ککے زئیاں لاہور کے فرسٹ ایئر آرکیٹیکچرل فائنل امتحان میں، طاہر احمد صاحب ملک ابن مکرم ملک حبیب احمد صاحب آف نوشہرہ ککے زئیاں انجینئر نگ کے فرسٹ ایئر کے امتحان میں ،

Page 348

تاریخ احمدیت.جلد 22 333 سال 1963ء چوہدری محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ ایم اے دینیات میں اور محمد شریف خاں صاحب ابن ڈاکٹر حبیب اللہ خاں صاحب گکھڑ منڈی گوجرانوالہ ایم ایس سی زوالوجی کے امتحان میں یو نیورسٹی بھر میں اول رہے.مربی سلسله گیانی مرزا واحد حسین صاحب کے صاحبزادے مرزا محی الدین صاحب بی ایس سی باٹنی کے امتحان میں نہ صرف ملک بھر میں اول آئے بلکہ ۱۰۲۷ نمبر حاصل کر کے یونیورسٹی کا سابقہ ریکارڈ توڑ دیا.عبدالمنان خان صاحب ابن عبد المالک خان صاحب لاہور نے جاپان کی ٹوکیو یو نیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے ایم ایس سی میکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری تمام ایشیائی طلباء کے مقابل میں نمایاں امتیاز سے حاصل کی.فیروزه فائزہ صاحبہ بنت جنید ہاشمی صاحب ربوہ نے ثانوی تعلیمی بورڈ کے ایف اے کے آرٹس گروپ کے امتحان میں نصرت انٹر میڈیٹ کا لج ربوہ میں ۷۰۵ نمبر لے کر طالبات میں اول پوزیشن 10 حاصل کی.محتر مہ رشیدہ احمد الدین صاحبہ اولڈ سٹوڈنٹ نصرت انڈسٹریل سکول ربوہ نے انڈسٹریل ٹریننگ فاروومن کے امتحان میں ۷۰۰ میں سے ۵۷ نمبر لیکر تمام طالبات میں اول پوزیشن حاصل کی.امتحانات میں دوم پوزیشن حاصل کرنے والے احمدی طلباء وطالبات کے نام یہ ہیں:.(۱) امتہ الباسط صاحبہ بنت عبدالحمید صاحب راولپنڈی (میٹرک کے امتحان میں راولپنڈی ڈویژن میں ) (۲) کریم اللہ صاحب زیر وی ابن صوفی خدا بخش صاحب زیر وی ربوہ ایم ایس سی کے فائنل امتحان میں کراچی یونیورسٹی سے.(۳) چوہدری ناصر الدین محمود صاحب ربوہ ایم اے دینیات (۴) بشارت الرحمن صاحب ربوہ ایم اے دینیات (۵) ڈاکٹر محمد جاوید احمد اقبال صاحب ابن مکرم پیرمحمد اقبال اسٹیشن ماسٹر بہاولپور ایم بی بی ایس کے امتحان میں کراچی یونیورسٹی سے.

Page 349

تاریخ احمدیت.جلد 22 334 سال 1963ء (۶) نصرت جہاں بیگم صاحبہ بنت صفدر علی خان صاحب ستاره خدمت سیکرٹری جنرل پاکستان ریڈ کر اس ایم اے ریاضی کے فائنل امتحان میں کراچی یونیورسٹی سے.14- جامعہ احمدیہ کے ایک طالبعلم مولوی مبارک احمد صاحب جمیل پنجاب یونیورسٹی کے فاضل عربی کے امتحان میں سوم رہے 5 تقریری مقابلے: جھنگ صدر میں ضلع جھنگ کے ۲۵ سکولوں کا سالانہ تقریری مقابلہ ہوا.تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ٹیم ضلع بھر میں اول رہی اور صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب ابن ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے دوم پوزیشن حاصل کی.مباحثے: 16 آل پاکستان انٹر کالجیٹ انگریزی مباحثہ ( منعقدہ ملتان) میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے طالبعلم نور محمد چانڈیہ اول اور سید مشہود احمد صاحب دوم قرار پائے.انہی طلباء نے گورنمنٹ کالج جو ہر آباد کے بین الکلیاتی انگریزی مباحثہ میں ٹرافی جیتی.17 کھیلیں: تعلیم الاسلام کالج نے آل پاکستان زرعی یونیورسٹی باسکٹ بال ٹورنا منٹ میں نیز بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے فٹ بال اور باسکٹ بال، ہاکی اور والی بال کے مقابلوں میں چمپئن شپ جیتی.جامعہ نصرت ربوہ کی والی بال ٹیم نے بورڈ کے زونل میچ ملتان میں چمپیئن شپ کا اعزاز حاصل کیا.تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنا منٹ میں اور ڈسٹرکٹ ہائی سکول ٹورنامنٹ جھنگ میں چمپئین قرار پایا اور ہاکی میں ضلع بھر میں اول رہا.19 20

Page 350

تاریخ احمدیت.جلد 22 335 سال 1963ء سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نادر و نایاب نظم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یہ نظم اخبار منثور محمدی بنگلور ۱۵ ربیع الثانی ۱۲۹۵ هجری ۹ مئی ۱۸۷۸ء میں پہلی دفعہ شائع ہوئی.جس کا عنوان تھا.نیاز نامہ متعلقہ جواب الجواب عزیز و دوستو بھائیو سنو بات بھلا تم خود کہو انصاف سے صاف خدا بخشے تمہیں عالی خیالات کہ ایشر کی یہی لائق ہیں اوصاف ہمیں کچھ کیں نہیں تم سے پیارو کہ کر سکتا نہیں اک جاں کو پیدا نہ کیس کی بات ہے تم خود بیچارو نہ اک ذرہ ہوا اوس سے ہویدا اگر کھینچے کوئی کہنے کی تلوار نه ان بن چل سکے اس کی خدائی تو اس سے کب ملے کچھڑا ہوا یار نہ ان دن کر سکے زور آزمائی غرض پندو نصیحت ہے نہ کچھ اور نظر سے اس کے ہوں مجوب و مکتوم خدا کے واسطے تم خود کرو غور نہ ہو تعداد تک بھی اس کو معلوم کہ گر ایشر نہیں رکھتا یہ طاقت معاذ اللہ یہ سب باطل گماں ہے کہ اک جاں بھی کرے پیدا بقدرت وہ خود ایشر نہیں جو ناتواں ہے تو پھر اوس پر خدائی کا گمان کیا اگر بھولے رہے اس سے کوئی جاں وگر قدرت پھر وہ ناتوان کیا ہے تو پھر ہو جائے اوس کا ملک ویراں ہے کہاں کرتی ہے عقل اس کو گوارا پیارو یہ روا ہرگز نہیں ہے کہ پن قدرت ہوا یہ جگت سارا خدا وہ ہے جو رب العالمیں وگر تم خالق اس کو مانتے ہو ایسی بات مونہہ سے مت نکالو تو پھر اب ناتوان کیوں جانتے ہو خطا کرتے ہو ہوش اپنے سنبھالو

Page 351

تاریخ احمدیت.جلد 22 336 سال 1963ء اگر ہر ذرہ اس میں خود عیاں ہو جب اس نے ان کی گنتی بھی نہ جانی تو ہر ذرے کا وہ مالک کہاں ہو کہاں من من کا ہو انتر گیانی اگر خالق نہیں روحوں کی وہ ذات اگر آگے کو پیدائش ہے سب بند تو پھر کاہے کی ہے قادر وہ ہیہات تو پھر سوچو ذرا ہو کر خردمند خدا پر عجز و نقصاں کب روا ہے کہ جس دم پا گئی مکتی ہر اک جان ہے دین یہی پھر کفر کیا ہے تو پھر کیا رہ گیا ایشر کا سامان اگر اگر اس بن بھی ہو سکتے ہیں اشیا کہاں سے لائے گا وہ دوسری روح تو پھر اوس ذات کی حاجت رہی کیا که تا قدرت کا ہو پھر باب مفتوح اگر سب شے نہیں اوس نے بنائی غرض جب سب نے اس مکتی کو پایا تو بس پھر ہو چکی اس سے خدائی تو ایشر کی ہوئی سب ختم مایا اگر اوس میں بنانے کا نہیں زور تناسخ اڑ گیا آئی قیامت تو پھر اتنا خدائی کا ہے کیوں شور کرو کچھ فکر اب حضرت سلامت وہ ناکامل خدا ہو گا کہاں کہ عاجز ہو بنانے جسم وجاں ہے عزیز و کچھ نہیں اس بات میں جاں ہے تو دکھلاؤ بمیداں اگر کچھ ذرا سوچو کہ وہ کیسا خدا ہے بہت ہم نے بھی اس میں زور مارا کو جانچا ہے سارا کہ جس سے جگت روحوں کا جدا ہے خیالستان سدا رہتا ہے ان روحوں کا محتاج مگر ملتی نہیں کوئی بھی برھان انہیں سب کے سہارے پر کرے راج بھلا سچ کس طرح ہو جائے بہتان جسے حاجت رہے غیروں کی دن رات نہ ہوگا کوئی ایسا مت زمین پر بھلا اس کو خدا کہنا ہے کیا بات کہ یہ باتیں کہیں جاں آفرین پر

Page 352

تاریخ احمدیت.جلد 22 337 سال 1963ء دعا کرتے رہو ہر دم پیارو اگر اس محل کو طالب لگائے ہدایت کے لئے حق کو پکارو تو اک دن ہو رہے پر تھا نہ جائے جی دعا کرنا عجب نعمت ہے پیارے ہمارا کام تھا وعظ و منادی دعا سے آ لگے کشتی کنارے سو ہم سب کر چکے واللہ ہادی ضائع الراقم مرزا غلام احمد رئیس قادیان - الثامن من الشهر المبارك المحرم باركه الله لجميع المومنين ۱۲۹۵ هجری المقدس علی صاحبہ الصلوۃ والسلام.(اس اخبار کی ایک کاپی شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے) قادیان کی میونسپل کمیٹی میں احمدی ممبران چوہدری بدرالدین صاحب عامل درویش بھٹہ قادیان کا بیان ہے کہ:.۱۹۴۷ء سے قبل جب ۱۹۴۵ء میں قادیان میں میونسپل کمیٹی بنی تو اس وقت واقعی یہی حال تھا کہ قادیان میں احمدیہ جماعت کی غالب اکثریت تھی اور احمدی ممبران جو جماعت نامزد کرتی تھی وہ بلا مقابلہ ہو جاتے تھے.اور غیر مسلم ممبر بھی کسی وارڈ میں اتنی تعداد میں نہیں تھے کہ مقابلہ کی صورت پیدا ہوتی ان میں سے بھی ان افراد کے مشورے سے جن کے کاغذات داخل کرائے گئے وہ بلا مقابلہ چن لئے گئے.ایک ممبر ہندو بھائیوں میں سے اور ایک ممبر سکھ بھائیوں میں سے تجویز ہوا تھا.اور جماعت کی تائید سے چن لیا گیا تھا.احمدی ممبران میں مکرم و محترم حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ ممبر بنے تھے.۱۹۵۵ء میں آزادی کے بعد پہلی بار میونسپل کمیٹی کے انتخابات ہوئے اس وقت ہمارے اپنے ووٹ صرف ساڑھے چار سو تھے.یادر ہے کہ ہر میونسپل حلقہ بارہ سو سے لے کر ڈیڑھ ہزار ووٹوں پر مشتمل ہوتا ہے.ہماری کسی بھی وارڈ میں اکثریت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا مزید یہ کہ ہمارے ووٹ تین وارڈوں میں بٹ گئے ہوئے تھے.سب سے زیادہ جس وارڈ میں تھے اس میں اپنے ووٹوں کی تعداد تین صد کے قریب تھی.بہت سخت مقابلہ تھا.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اس مقابلہ میں حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ کامیاب ہوئے آپ کے مقابل پر حکیم پریتم سنگھ بھائیہ برادر اکبرحکیم سوہن سنگھ تھے.انہیں شکست ہوئی.

Page 353

تاریخ احمدیت.جلد 22 338 سال 1963ء دوسری مرتبہ انتخابات ۱۹۶۰ء میں ہونا تھے مگر بعض وجوہ کی بنا پر ملتوی ہوکر ۱۹۶۳ء کے شروع میں ہوئے اس وقت بھی تکونہ مقابلہ تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مولوی صاحب ہی کامیاب ہوئے.پھر ۱۹۶۹ء ماہ جون میں انتخابات ہوئے تو اس موقعہ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کو انتخابات لڑنے کی اجازت نہیں ملی اور جماعت کی طرف سے خاکسار کا نام اول نمبر پر اور ممتاز احمد صاحب ہاشمی کا نمبر دو کنڈیڈیٹ کے طور پر داخل کرایا گیا.( حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ کی وفات جنوری ۱۹۷۷ ء میں ہوئی اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ آپ تاحیات ممبر رہے ) میرے مقابلہ پر بھی اور سکھ بھائی کھڑے تھے.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے میں کامیاب ہوا اور پھر مسلسل اگلے دو انتخابات میں کامیاب ہوتا رہا بلکہ ۱۹۷۷ء میں جو انتخابات ہوئے اس میں مکرم سردار تربت راجندر سنگھ باجوہ میرے مقابل پر کھڑے تھے.اس طرح ۱۹۶۹ء سے لے کر فروری ۱۹۹۲ء تک مسلسل ۲۲ سال تک خاکسارایم سی رہا.۱۹۹۲ء میں مکرم چوہدری منصور احمد صاحب چیمہ ایم سی ہوئے.اور پانچ سال چند ماہ ایم سی رہے.ازاں بعد انتخابات میں مکرم مولوی سعادت احمد صاحب جاوید ممبر ہوئے جن ایام میں خاکسار ممبر تھا، ریتی چھلہ میں بن رہی دکانات کو گرانے اور میونسپل کمیٹی میں معاملہ پیش کر کے اسے شاملات قرار دے کر میونسپل کمیٹی کی ملکیت بنانے کی کوشش کی گئی اور اس فیصلہ کو باوجودا قلیت رائے کے پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعہ پاس کر کے رجسٹر فیصلہ جات کو ہی ایک شخص چھین کر بھاگ گیا.جس پر اکثریتی پارٹی نے خاکسار کو صدر چن کر نئے رجسٹر پر کی گئی کارروائی کی مذمت کی اور ریتی چھلہ کو جماعت کی جائز ملکیت قرار دیا اور اس کی نقول ڈی سی گورداسپور چنڈی گڑھ متعلقہ منسٹری کو بھجوائی گئی.آخر فیصلہ جماعت کے حق میں ہوا ملک کی آزادی کے بعد پہلا موقعہ آیا کہ ہمارے وارڈ کا کینڈیڈیٹ بلا مقابلہ جیتا.اور ایک مزید نمبر اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے کامیاب ہوا.الحمد للہ علی ذالک قادیان کا ایک وفد جنوبی ہند میں 22 اس سال ایک مرکزی وفد نے جو حسب ذیل ممبران پر مشتمل تھا یکم مارچ سے ۱۰ر اپریل ۱۹۶۳ء تک جنوبی ہند کا تبلیغی و انتظامی دورہ کیا.مولانا شریف احمد امینی صاحب، مولوی سمیع اللہ

Page 354

تاریخ احمدیت.جلد 22 339 سال 1963ء صاحب ، سیٹھ محمد معین الدین صاحب، مولوی مبارک علی صاحب، حکیم محمد الدین صاحب، مولوی محمد عمر صاحب.وفد نے حیدر آباد، ظہیر آباد، مراد نگر ، کرنول ، شاد نگر ، اوٹ کوٹ ، دیودرگ ، رائے چور، باڑھ واڑ ، ابلی ، شیمو گا، بھدرا والی اور مدراس کے جلسوں سے خطاب کیا.جلسوں میں غیر از جماعت اور غیر مسلم معززین بھی بکثرت شامل ہوئے.حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے احمدی احباب اس سال مندرجہ ذیل خوش نصیب احمدی احباب نے فریضہ حج (حج کی تاریخیں ۳-۴ - ۵ مئی ۱۹۶۳ء مطابق ۸-۹ - ۰ از والحج ۱۳۸۲ھ ) بجالانے کا شرف حاصل کیا.پاکستان ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب لاہور مع والدہ صاحبہ و بیگم صاحبہ.عبدالرؤف خاں صاحب ( بھائی ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب) اللہ دتہ صاحب عربی رومال مرچنٹ کراچی مع اہلیہ صاحبہ، شیخ حمید اللہ صاحب پسر شیخ محمد عبد اللہ صاحب قادیان کلاتھ مرچنٹ لائل پور (فیصل آباد)، مختار احمد صاحب لائل پور (فیصل آباد)، چوہدری بشیر احمد صاحب ریڈیو آفیسر سفینہ حجاج ، ملک ولی داد صاحب احمد آباد جنوبی ضلع سرگودھا، عبدالکریم صاحب ڈار، بیوہ جناب شیخ محمد حسین صاحب چنیوٹ بھارت: چوہدری مبارک علی صاحب درویش قادیان دارالامان ( آپ والدہ صاحبہ شیخ محمد صدیق صاحب بانی آف کلکتہ کی طرف سے حج بدل کے لئے گئے تھے ).دبئی کویت: شیخ محمد یعقوب صاحب عبدالسلام صاحب اعوان مشرقی افریقہ مولوی نورالحق صاحب انور مبلغ مقیم نیروبی فانا مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم مبلغ غانا جماعت احمد یہ آزاد کشمیر کا پہلا سالانہ جلسہ مکرم قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل مربی سلسلہ حد یہ تحریر فرماتے ہیں:.مئی ۱۹۶۳ء میں ضروری تیاریوں کے بعد جماعت ہائے احمد یہ آزاد کشمیر کا پہلا سالانہ جلسہ - بڑی دھوم دھام سے کوٹلی میں دو دن تک جاری رہا.اس سے قبل چونکہ یہاں کوئی عام جلسہ جماعت احمدیہ کا نہیں ہوا تھا اس لئے بعض متعصب مولویوں اور کھڑ پینچوں نے اس جلسہ کی بڑی مخالفت

Page 355

تاریخ احمدیت.جلد 22 340 سال 1963ء کی اور تھانہ میں جا جا کر کہا کہ ہم جماعت احمدیہ کا جلسہ نہیں ہونے دیں گے.حالانکہ جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلمہ فریقین کے موضوع پر مشتہر کیا گیا تھا.تھانہ والوں نے مخالفین کو اول تو نرمی سے سمجھایا کہ ہر فرقہ کو مذہبی آزادی حاصل ہے اس لئے احمدیوں کو سیرت النبی جیسے مذہبی جلسے سے نہیں روکا جاسکتا.لوگوں نے تھانہ والوں کی بات نہ مانی بلکہ بڑا جوش دکھلا کر کہا کہ اگر احمدیوں کا جلسہ ہوا تو خون ہو جائیں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہو گا جس کی ذمہ داری پولیس پر ہوگی.تھا نہ والوں نے یہ سمجھ کر کہ فساد ہوگا اور حفاظتی تدابیر قلیل پولیس ہونے کی وجہ سے مشکل ہیں منتظمین جلسہ کو بلا کر کہا کہ کیا آپ ان حالات میں جلسہ ملتوی نہیں کر سکتے.منتظمین جلسہ نے جواب دیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع نے ہمیں جلسہ کرنے کی اجازت دے دی ہے.مسلمہ فریقین عنوان یعنی سیرت النبی پر تقاریر ہوں گی.ہماری طرف سے کوئی فساد یا اشتعال انگیزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.نیز جلسہ جماعت احمدیہ کی اپنی زمین پر مسجد احمدیہ کے صحن سے متصل میدان میں ہوگا.اور جس طرح سنیوں اور شیعوں کو مذہبی جلسے کرنے کا حق ہے ہمیں بھی حق ہے اس لئے ہم تو جلسہ ملتوی نہیں کر سکتے اگر آپ اس کے باوجود جلسہ کرنے سے روک دیں گے تو پھر سُنیوں اور شیعوں کے جلسوں کو بھی روکنا ہوگا.رہی حفاظت جو پولیس کا فرض ہے اگر آپ نہیں کر سکتے تو ہم خود اپنی حفاظت کریں گے.اس دوران مرکز سے محترم قاضی محمد نذیر صاحب حال ناظر اشاعت لٹریچر و تصنیف ربوہ ، مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد، مکرم شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مبلغ بلا دعر بیہ اور خاکسار راقم الحروف بھی اس جلسہ میں شرکت کی غرض سے کوٹلی پہنچے.جلسہ کی کامیابی کے لئے دعا ئیں جاری تھیں.جمعہ کی نماز کے بعد جلسہ پروگرام کے مطابق شروع ہونے والا تھا مگر تھانہ والے اور لوگ روک بن کر کھڑے نظر آ رہے تھے.جمعہ سے قبل خاکسار نے ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ ہم جلسہ گاہ کی طرف جارہے ہیں کہ ہمارے امیر قافله محترم قاضی محمد نذیر صاحب چلتے چلتے سڑک پر سجدہ میں گر گئے ہیں.میں نے یہ کشف قاضی صاحب کو سُنایا.انہوں نے فرمایا کہ خدا کے آگے سجدہ میں گر جانا قبولیت دعا اور کامیابی سے تعبیر ہوتا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اللہ تعالیٰ نے مخالف حالات میں کامیابی کے سامان کر دیئے.تھانہ والوں نے غیر متوقع حالات میں عین نماز جمعہ سے قبل جماعت کو جلسہ کرنے کی منظوری دے دی اور کہا آپ جلسہ کرلیں ہم نے حفاظتی تدابیرمکمل کرلی ہیں.یہ خبرسن کر جماعت نے پروگرام کے مطابق ۲۴مئی ۱۹۶۳ء

Page 356

تاریخ احمدیت.جلد 22 341 سال 1963ء کو بعد نماز جمعہ جلسہ عام کی کارروائی شروع کر دی.جلسہ گاہ اور سٹی کو رنگا رنگ جھنڈیوں اور قطعات سے سجایا گیا تھا.علماء کرام نے سیرت النبی کے مختلف عنوانات پر دو دن تک مسلسل چارا جلاسوں میں ایمان افروز اور ولولہ انگیز تقاریر کیں.لوگوں کے مختلف سوالات کے جوابات دیئے گئے.اتحاد بین المسلمین کی اہمیت بھی واضح کی گئی.مستورات کے علاوہ حاضرین کی کافی تعداد تھی.درہ شیر خان، میر پور، آرام باڑی، چر ناڑی، دلیا جٹاں وغیرہ دیہات سے بھی لوگ جلسہ سننے کے لئے آئے تھے.غیر احمدیوں نے بھی بڑی دلچسپی سے تقاریر کوسنا اور پہلی دفعہ احمدی علماء کی پر مغز ، روح پرور اور با ہمی صلح وامن کی تقاریر اور سوالات کے جوابات سُن کر انہیں بڑا اطمینان ہوا اور جو کچھ انہوں نے مولویوں سے جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارے میں سُنا تھا.وہ سراسر غلط نکلا.اور اُن کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہو گئیں اور علاقہ میں توقع سے بڑھ کر اثر ہوا.دولیاہ جٹاں میں جلسہ کوٹلی کے عظیم الشان جلسہ کے بعد ۲۷ مئی ۱۹۶۳ء کو دولیاہ جٹاں علاقہ راجدھانی میں زیر صدارت راجہ کفایت علی صاحب (غیر از جماعت) ممبر یونین کونسل جلسہ منعقد ہوا.اس جلسہ میں مکرم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب اور خاکسار ( مراد قریشی اسد اللہ صاحب) نے سیرت النبی اور صداقت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر تقاریر کیں.ایک غیر از جماعت دوست نے ظہور مہدی کے بارے میں سوالات کئے.اُن کے جوابات بھی جلسہ میں دیئے گئے.جس سے عام غلط فہمیاں دُور ہوئیں.رات کو بعد نماز عشاء تربیتی اجلاس ہوا.جو مردوں کے علاوہ احمدی مستورات کے لئے بھی ازدیاد ایمان کا باعث بنا.راجدھانی سے دولیاہ جٹاں کو ۵/ ۶ میل پیدل راستہ دشوار گزار پہاڑیوں اور چٹانوں سے ہو کر جاتا ہے.ہم نے آنے جانے کا سفر کچھ گھوڑوں پر اور کچھ پیدل طے کیا.اس جگہ علاقہ را جوری کے احمدی مہاجر خاندان آکر آباد ہوئے ہیں.انہوں نے اپنی مسجد بھی تعمیر کر لی ہے.“ کراچی میں پرائمری سکول کا اجراء اس سال جماعت احمدیہ کراچی کے زیرا نتظام دوسکول تعلیم الاسلام پرائمری اور تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول کے نام سے عزیز آباد میں جاری ہوئے.پہلے تعلیمی سال سے ہی ان سکولوں کے نتائج

Page 357

تاریخ احمدیت.جلد 22 342 سال 1963ء کا معیار بہت عمدہ تھا.خصوصاً آٹھویں جماعت کا جس کا امتحان کراچی بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن نے لیا اور نتیجہ سو فیصدی رہا.پرائمری سکول کو تیسرے سال محکمہ تعلیم نے منظور کر لیا مگر سیکنڈری سکول کو منظور (Recognise) کرانے کی مساعی کامیاب نہ ہو سکی.اس لئے اُس کو مجبور ابند کر دینا پڑا.احمد یہ حلقہ قادیان کے معاملہ میں مفاہمت یکم ستمبر ۱۹۶۳ء کوصدرا انجمن احمد یہ بھارت کے نمائندہ کی حیثیت سے محترم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز ناظر بیت المال اور محترم ملک صلاح الدین صاحب دہلی تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ۴ ستمبر کو جنرل شاہنواز خاں (مرکزی وزیر ) اور سوتری پرشاد (ڈپٹی سیکرٹری محکمہ بحالیات) سے ملاقات کی.انہوں نے انجمن کی طرف سے پانچ سالوں میں احمد یہ امر یا قادیان کی مقررہ قیمت ۲ لاکھ چوبیس ہزار سات سو روپیہ کی ادائیگی پر رضامندی کا اظہار کیا.اور یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے طے ہو گیا.دہلی سے واپسی پر ۰ استمبر کو محترم عاجز صاحب اور چوہدری سعید احمد صاحب نے جالندھر میں محکمہ بحالیات کے آرایم او کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کی تکمیل کی اور پہلے سال کی قسط کی رقم مبلغ چوالیس ہزارنوسو چالیس روپے بذریعہ سٹیٹ بنک جالندھر جمع کرادی.ربوہ میں ایک مشترکہ تربیتی اجلاس مجلس انصار اللہ ربوہ ، احمد نگر اور چنیوٹ کا ایک مشترکہ اجلاس ۱۹ ستمبر ۱۹۶۳ء کو دفتر انصار الله مرکز یہ کے احاطہ میں منعقد ہوا.اس اجلاس سے مولوی قمر الدین صاحب زعیم اعلیٰ ربوہ، مولانا ابوالعطاء صاحب قائد تربیت اور صاحب صدر مولانا جلال الدین صاحب شمس نے بالترتیب مندرجہ ذیل موضوعات پر خطاب فرمایا.انصار اللہ کے فرائض، نماز با جماعت کی بنیادی اہمیت، قرآن مجید کا علم حاصل کرنے کی بے انداز افادیت.جماعت احمدیہ کراچی کا پہلا جلسہ سالانہ قیام پاکستان کے بعد جماعت احمدیہ کراچی کا پہلا جلسہ سالانہ ۲۳ نومبر ۱۹۶۳ء کواحد یہ ہال میں منعقد ہوا.مرکز سے مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب ناظر اصلاح و ارشاد، مکرم مولا نا ابوالعطاء

Page 358

تاریخ احمدیت.جلد 22 343 سال 1963ء جالندھری صاحب، مکرم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید اس جلسہ میں شامل ہوئے.چاروں بزرگان سلسلہ نے مختلف موضوعات پر تقاریر کیں.جلسہ کی مجموعی حاضری گیارہ سوتھی.29 باب الابواب (ربوہ) میں مسجد کا سنگ بنیاد مورخدا دسمبر ۱۹۶۳ء کو (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے محلہ باب الابواب ربوہ میں تعمیر ہونے والی مسجد کا سنگ بنیا درکھا.آپ نے سب سے پہلے وہ اینٹ بنیاد میں رکھی جس پر حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے دعا فرمائی تھی.پھر آپ نے اپنی طرف سے ایک اینٹ رکھی.ازاں بعد محترم محمد بوٹا خاں صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام محترم صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمد یه مرکز یہ محترم سید میر داؤ داحمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ مکرم چوہدری عبد الرحمن صاحب بی.اے بی ٹی ، کرم چوہدری علی اکبر صاحب زعیم مجلس انصار اللہ باب الابواب اور مکرم کیپٹن ملک محمد عبداللہ خاں صاحب نے بنیاد میں اینٹیں رکھیں.ازاں بعد حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے اجتماعی دعا کرائی.وزیر اعظم ملا یا کی خدمت میں لٹریچر 30 ملایا کے وزیر اعظم جناب تنکو عبدالرحمان صاحب کو کراچی آنے پر مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت کراچی نے ایک خط بزبان انگریزی طبع کروا کر پیش کیا.جس میں وزیر اعظم صاحب کو خوش آمدید کہتے ہوئے سلسلہ کا تعارف عمدہ رنگ میں پیش کیا گیا.ہائی کمشنر نانا کا استقبال ایم.ایم.اے ایگریمن ہائی کمشنر غانا کی کراچی تشریف آوری پر مرکز کی ہدایت پر جماعت احمدیہ کراچی نے خوش آمدید کہا اور ان کے اعزاز میں دعوت عصرانہ دی.دیگر متفرق واقعات مورخه ۱۱ تا ۱۳ جنوری ۱۹۶۳ کو ربوہ میں مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے تحت تیسرا آل پاکستان فضل عمر بیڈ منٹن ٹورنامنٹ منعقد ہوا.مورخہ ۱۷ تا ۱۹ جنوری ۱۹۶۳ کو ربوہ میں تعلیم الاسلام کالج کے تحت پانچویں آل پاکستان

Page 359

تاریخ احمدیت.جلد 22 344 سال 1963ء باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوا.اختتامی تقریب میں مکرم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے صدر سنٹرل امیچور باسکٹ بال ایسوسی ایشن کی حیثیت سے کامیاب کھلاڑیوں میں انعامات اور سندات تقسیم فرمائیں.34.جماعت احمدیہ لاہور کے تحت مورخہ ۳ مارچ ۱۹۶۳ء کو وائی ایم سی اے ہال میں وسیع پیمانے پر ایک جلسہ منعقد ہوا.جس میں مشرقی اور مغربی افریقہ کے علاوہ ماریشس کے بعض احمدی طلباء اور علماء سلسلہ نے جماعت احمدیہ کی عظیم الشان تبلیغی مساعی پر تقاریر کیں..تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں تقسیم اسناد کی تقریب مورخہ ۱۰ جون ۱۹۶۳ کو منعقد ہوئی.تقسیم اسناد کے بعد مہمان خصوصی معروف ادیب محترم مولانا صلاح الدین احمد صاحب نے طلباء سے پُر مغز خطاب فرمایا.مورخ ۲۲ جون ۱۹۶۳ کو سوئٹزر لینڈ میں پہلی احمد یہ مسجد مسجد محمود کا حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے افتتاح فرمایا.تقریب میں ممبران پارلیمنٹ ، زیورک ٹاؤن کے پریذیڈنٹ ، میونسپل کونسلرز، ڈاکٹرز ، طلباء، یورپ کے نومسلموں اور مسلم اور غیر مسلم افراد نے کثرت سے شرکت کی.37 صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی دختر صاحبزادی طلعت صاحبہ ۲۴، ۲۵ جون کی درمیانی شب لاہور میں انتقال کر گئیں.مورخہ ۲۵ جون کی شام آپ کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا.38

Page 360

تاریخ احمدیت.جلد 22 345 سال 1963ء آئیوری کوسٹ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی اس سال قریشی محمد افضل صاحب اور قریشی مقبول احمد صاحب کی تبلیغی کوششوں سے مالی اور آئیوری کوسٹ میں چالیس افراد نے قبول احمدیت کیا اور ملک میں تین جماعتیں قائم ہوئیں.دونوں مبلغین نے مسلمانوں کی نئی نسل کو اسلامی تعلیم سے آگاہ رکھنے اور غیروں کے بداثرات سے بچانے کے لئے ہر ممکن مساعی جاری رکھیں.اور اس غرض کے لئے مختلف مدارس کے مسلم طلباء سے خصوصی رابطہ قائم رکھا.افریقہ مشرقی و مغربی افریقہ جو ہانس برگ (جنوبی افریقہ ) کے ایک دانشور نے اپنے خط میں جو نیروبی کے انگریزی اخبار ایسٹ افریقن ٹائمنر ( یکم اکتوبر ۱۹۶۳ء) میں شائع ہوا.جماعت احمدیہ کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا.The spread of Islam in East Africa and West Africa is solely due to the unwearying efforts of the Ahmadies no suny Alam can claim this honour.مشرقی اور مغربی افریقہ میں اشاعت اسلام خالصہ جماعت احمدیہ کی مسلسل جدو جہد کا نتیجہ ہے اور کوئی سنی عالم اس اعزاز کا دعوی نہیں کر سکتا.40 جنوبی افریقہ مقامی احمد یوں میں سے جناب ہاشم صاحب بالخصوص دعوت الی اللہ میں سرگرم رہے.چنانچہ انہوں نے عیسائیت کے موضوع پر ایک پادری سے کامیاب تبادلہ خیالات کیا.آپ لنگٹن میں بھی حق و صداقت پھیلانے میں مصروف رہے.ایک اور احمدی مسٹر ابراہیم نے سیرت النبی کے ایک جلسے سے

Page 361

تاریخ احمدیت.جلد 22 346 سال 1963ء خطاب کیا.مقامی رسالوں العصر اور ”البشری کی کا پیاں سینکڑوں کی تعدا میں تقسیم کی گئیں.۹ را فراد داخل سلسلہ ہوئے.امریکہ اس سال مشن کے انچارج صوفی عبدالغفور صاحب تھے جن کے زیر نگرانی سید جواد علی صاحب، چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی اور میجر عبدالحمید صاحب جیسے انتھک مبلغ سرگرم عمل رہے.سید جواد علی صاحب نے واشنگٹن میں شادی کی دو تقاریب میں ساٹھ غیر مسلموں کے علاوہ شام، مصر اور لیبیا کے بعض طلباء تک پیغام احمدیت پہنچایا اور لٹریچر بھی دیا.چالیس افراد کو تبلیغی خطوط لکھے.واشنگٹن کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں اشتہارات تقسیم کئے.بذریعہ ٹیلیفون متعدد افرادکودینی معلومات بہم پہنچائیں.انگٹن شہر کے ایک میتھوڈسٹ چرچ میں تقریر کی اور سوالات کے جواب دیئے.قاضی محمد برکت اللہ صاحب (ایک مخلص پاکستانی احمدی ) کی تبلیغ سے ریاست انڈیانا کی ایک یونیورسٹی کے چالیس طلباء متاثر ہوئے جن کو آپ نے لٹریچر بھجوایا.ریاست ورجینیا (Virginia) کے شہر کنگسٹن کے ایک چرچ کا ایک وفد مشن ہاؤس آیا.جسے آپ نے دینی معلومات بہم پہنچانے کے علاوہ دینی لٹریچر بھی پیش کیا.اسی ریاست کے ایک اور شہر میں آپ کی دو تقاریر میتھوڈیسٹ چرچ میں ہوئیں.آپ کے حلقہ میں ایک بار حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی تشریف لے گئے اور خطاب فرمایا.چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی نے ملک میں چھ ہزار سے زائد اشتہارات تقسیم کئے.مختلف چرچوں میں تقاریر کیں اور لٹریچر دیا.تین مقامی اخباروں نے آپ کے انٹرویو شائع کئے.آپ نے پٹس برگ کے پبلک ہائی سکول سے خطاب کیا.نیز یہاں کے بورڈ آف ایجوکیشن کے اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اور یو نیورسٹی کے غیر ملکی طلباء کے نگران تک پیغام حق پہنچایا.ڈیٹرائٹ کی مقامی عدالت کے جج سے تبلیغی گفتگو کی.میجر عبدالحمید صاحب نے ایک پر جوش تبلیغی گروپ تیار کیا جس نے اسلام اور احمدیت پر قطعہ جات اٹھائے ہوئے ڈیٹن کے مختلف حلقوں میں اشتہارات تقسیم کئے.اس دلچسپ پروگرام نے غیر مسلموں میں اسلام کی طرف توجہ پیدا کر دی.آپ نے پہلی بار ڈیٹن شہر کوتبلیغی نقطہ نگاہ سے کئی حلقوں مشتمل

Page 362

تاریخ احمدیت.جلد 22 347 سال 1963ء میں تقسیم کیا.اور ممبران جماعت کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ اپنے حلقے میں تبلیغی مہم جاری کریں.ڈیٹن کے ایک مقامی چرچ میں ایک پادری صاحب کی تقریر کے بعد آپ نے اُن کے سوالوں کے جواب دیئے.صوفی عبدالغفور صاحب نے اس سال شکاگو، نیویارک ، فلاڈلفیا، پٹس برگ ، واشنگٹن اور ینگس ٹاؤن کا تبلیغی دورہ کیا.آپ کا ایک بیان ریڈیو سے نشر ہوا.مشنوں کی سالانہ کانفرنسیں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں.جماعت احمدیہ امریکہ کی سالانہ کا نفرنس اس سال ۳۱،۳۰ را گست و یکم تمبر ۱۹۶۳ء کوکلیولینڈ میں منعقد ہوئی.جس میں درج ذیل سولہ جماعتوں کے دوسو نمائندے شامل ہوئے.واشنگٹن ، بالٹی مور، پٹس برگ ، فلاڈلفیا، نیویارک، باسٹن، ینگس ٹاؤن، کیونگٹن، ولیمسک ، ولیمز یے، ڈیٹرائٹ، شکاگو، ملوو کی ، انڈیانا پولیس ، سینٹ لوئیس، ڈیٹین.جلسہ کا افتتاح صوفی عبدالغفور صاحب نے فرمایا.مقررین میں امریکہ کے مبلغین کے علاوہ سید عبد الرحمن صاحب، ابوالکلام صاحب پٹس برگ، سردار حمید احمد صاحب کینیڈا، خلیل محمود صاحب باسٹن، احمد حیات صاحب پٹس برگ، احمد ریاض صاحب پٹس برگ پریذیڈنٹ خدام الاحمدیہ امریکہ، منیر احمد صاحب سینٹ لوئیس، محمد صادق صاحب نیویارک، احمد شہید صاحب پٹس برگ اور بشیر افضل صاحب نیو یارک شامل تھے.اس موقعہ پر خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کے اجلا سات بھی ہوئے.انگلستان مشن کی تاریخ میں اس سال کے دو واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اوّل جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق نائب امام مسجد فضل لندن کی تجویز پر برائٹن میں ایک ذیلی مشن کا قیام عمل میں آیا.جہاں ایک بڑا کمرہ مستقل طور پر کرائے پر مل گیا.۷ ستمبر ۱۹۶۳ء کو برائٹن میں پہلا اجلاس منعقد ہوا.جس میں ایک پادری صاحب، ایک ہندو دوست نیز ورلڈ کانگرس آف فیتھ کی ایک سرگرم ممبر اور وائی ایم سی اے کی یوتھ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری صاحب نے بھی شرکت کی.اس موقعہ پر جناب بشیر احمد خاں صاحب رفیق نے اسلام پر تقریر کی اور سوالوں کے جواب دیئے.اختتام پر لٹریچر تقسیم کیا گیا.

Page 363

تاریخ احمدیت.جلد 22 348 سال 1963ء 44 دوم.انگلستان کے احمدی احباب کی اکثریت چونکہ پاکستانی دوستوں پر مشتمل ہے اس لئے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اردو میں ایک پندرہ روزہ اخبار احمد یہ جاری کیا جائے.اس تجویز کے محرک در اصل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تھے اور آپ کے ارشاد کی تعمیل میں جناب بشیر احمد صاحب رفیق نے یہ اُردو اخبار سائیکلو سٹائل پر چھاپنا شروع کیا.یہ رسالہ (مراد اخبار احمدیہ ) اب تک جاری ہے اور اس کی افادیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے.مشن کی طرف سے یوم مصلح موعود اور یوم مسیح موعود کی تقریب پر مسجد فضل لندن میں جلسے ہوئے.علاوہ ازیں ساؤتھ ہال میں ہر ماہ اجتماعات منعقد ہوتے رہے.مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق اور عبدالعزیز دین صاحب روٹری کلب اور دوسری سوسائیٹیوں کے زیر اہتمام پیغام حق پہنچانے میں سرگرم عمل رہے.چوہدری رحمت خاں صاحب امام مسجد فضل لندن ویکفیلڈ جیل میں بغرض تبلیغ تشریف لے گئے اور جیل کے ڈپٹی گورنر اور میجر جنرل کولٹر پچر دیا.برما اس سال جماعت احمدیہ برما نے رسالہ ” جمعیت العلماء برما اور ہم “ اور فتویٰ مصریہ کا برمی ترجمہ شائع کیا.دونوں رسائل بہت مقبول ہوئے.ماہ جولائی میں ایک جماعتی وفد نے برما میں مقیم سفیر ہند سے ملاقات کی اور دینی لٹریچر پیش کیا جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.جماعت احمد یہ برما کا جلسہ سالانه ۲۹ دسمبر ۱۹۶۳ء کو منعقد ہوا جس میں احمدیوں کے علاوہ دیگر مسلمان، بدھسٹ ، ہندو اور عیسائی بکثرت شامل ہوئے.خواجہ بشیر احمد صاحب امیر جماعت محمود موسکوصاحب، ورسا اسماعیل صاحب اور عبد القادر صاحب نے تقاریر کیں.اس موقعہ پر مہمانوں کی خدمت میں لٹریچر بھی پیش کیا گیا.احمدی خواتین کا الگ اجلاس ہوا.بور نیو(شمالی) مشن کے نئے مبلغ بشارت احمد نسیم امروہی کے اعزاز میں جماعت نے جسلٹن ہوٹل میں ایک استقبالیہ دیا جس میں انڈونیشیا کے قونصل اور وائس قونصل بھی مدعو تھے.جنہیں قرآن کریم انگریزی تحفہ دیا گیا.قونصل نے جماعت احمدیہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا انڈونیشیا میں بھی کافی عرصہ سے جماعت احمدیہ کے مبلغین کام کر رہے ہیں.اور نہایت اچھے رنگ میں اسلام کی خدمت و تبلیغ کا

Page 364

تاریخ احمدیت.جلد 22 349 سال 1963ء مقدس فریضہ ادا کر رہے ہیں.جناب امروہی صاحب نے لنکونن ،تنوم، چناتن ، مکاری، کنا روت را مایا منچلگ کا تبلیغی دورہ کیا.آپ نے ہر ایسیلینسی جناب دا تو ہارون ، سابق صدر شمالی بورنیو، آنریبل دا توائے ، ڈونلٹ اسٹیفن ،سردار کپور سنگھ چیئر مین لیجسلیٹو کونسل مشرقی پنجاب ( کامن ویلتھ پارلیمنٹری ایسوسی ایشن کوالا لمپور میں نمائندہ بھارت) مسٹرایم جے کمانڈے بونگے منسٹر آف ورک (نمائندہ سیرالیون) جناب ادریس صاحب ( نمائندہ زنجبار ) کولٹر پچر پیش کیا.مرزا محمد ادریس صاحب نے تو ارن میں ایک آسٹریلین پادری سے تبلیغی گفتگو کی.مری کے باشندوں اور افریقن ایشیائی جرنلسٹوں کے وفد کولٹر پچر دیا.تنزانیہ ( ٹانگانیکا) جماعت ٹانگانیکا کے ایک ممتاز رکن شیخ امری عبیدی صاحب ۱۲ مارچ ۱۹۶۳ء کووزیر انصاف کے منصب پر فائز ہوئے.اس طرح ۱۹۶۳ ء کا آغاز مشن کے لئے ایک نہایت مبارک اعزاز اور واقعہ سے ہوا.جناب عبیدی صاحب نے ۱۴ مارچ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا.جس کی خبر پریس میں چھپی اور ریڈیو سے نشر ہوئی.۲۹ ۳۰ جون ۱۹۶۳ء کو جماعت احمدیہ ٹانگانیکا کا جلسہ سالانہ ٹبورا میں انعقاد پذیر ہوا.مولا نا محمد منور صاحب مشنری انچارج نے افتتاح کیا.آپ کے علاوہ معلم سعیدی صاحب ، معلم شعبان سیف صاحب، معلم عثمان کا مبالا یا صاحب، معلم عبد و عمران صاحب، جناب مولوی جمیل الرحمن صاحب رفیق اور مولوی رشید احمد صاحب سرور کی تقاریر ہوئیں.جلسہ میں احمدی مخلصین کے علاوہ مجسٹریٹ علاقہ ، وائس چیر مین ٹاؤن کونسل ممبر آف پارلیمنٹ اور دیگر معززین شامل ہوئے.جلسہ سالانہ کے بعد معلمین و مبلغین وفود کی شکل میں مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور کئی سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بنے.چنانچہ مولوی جمیل الرحمن صاحب رفیق نے شیخ ابو طالب اور معلم شعبان سیف کی معیت میں ڈوڈومہ، اروشہ، ما چاہے، اسانگی اور ثبورا کا دورہ کیا اور نجی ملاقاتوں اور اشاعت لٹریچر سے احمدیت کی وسیع پیمانہ پر منادی کی.اروشہ میں آپ نے مسلم شیوخ کی ایک اہم میٹنگ کی صدارت فرمائی.یہ میٹنگ عیسائیت کے خلاف محاذ قائم کرنے کے لئے ہوئی تھی.اور اس میں ایک غیر از جماعت دوست نے یہ تجویز پیش کی کہ ہمارے شیوخ کو جمعہ کے دن خطبہ میں لوگوں کو تحریک کرنی چاہیے کہ احمدیوں کا لٹریچر خرید کر خود بھی پڑھیں اور عیسائیوں تک پہنچا ئیں.ٹورا میں

Page 365

تاریخ احمدیت.جلد 22 350 سال 1963ء آپ نے جیل کے ساٹھ قیدیوں میں ایک تقریر کی اور اُن کے سوالوں کے جواب دیئے.دوسرا وفد مولانا منور صاحب اور چوہدری عنایت اللہ صاحب پر مشتمل تھا جس نے موائزہ ، بکوبا، کبا روکا، کٹورو، کاما چوما، اور چبیرا کے غیر از جماعت دوستوں تک حق پہنچایا.اور نشان زدہ مقامات پر تعلیمی اداروں سے بھی خطاب کیا نیز امر یا کمشنر سے تبادلہ خیالات بھی کیا.ٹانگا، بکوبا، ارنگا، کمنڈی ، موشی اور سونگیا میں افریقن معلمین تندہی سے مصروف تبلیغ رہے.اور متعد د عیسائیوں سے گفتگو کی اور سینکڑوں پمفلٹ تقسیم کئے.ایک محتاط اندازے کے مطابق ٹانگا نیکا میں اس سال کم از کم ۶۴ را فراد داخل احمد بیت ہوئے.ٹو گولینڈ جناب قاضی مبارک احمد صاحب سابق انچارج احمد یہ مشن ٹوگولینڈ مغربی افریقہ تحریر فرماتے ہیں:.ٹو گوجغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے براعظم افریقہ کے مغربی حصہ میں خلیج بنین (Benin) کے کنارے پر واقع ہے.یہ ملک شمالاً جنوبا قریباً چار سو میل لمبا ہے مگر چوڑائی کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ اکانوے میل اور کم از کم اکتیس میل کے فاصلے پر مشتمل ہے.ٹوگو کی مغربی حدود غانا، مشرقی ڈاہومی ، شمالی اپر وولٹا اور جنوبی بحراوقیانوس میں خلیج چنین سے ملتی ہیں.اس کا کل رقبہ قریباً ۲۰۴۰۰ مربع میل ہے.یہاں کی حکومتی زبان فریج ہے.سیاسی لحاظ سے ٹو کو مختلف ادوار سے گزرا ہے.۵ جولائی ۱۸۸۴ء سے ۱۹۱۴ ء تک جرمنوں کے قبضہ میں رہا.پہلی جنگ عظیم سے ٹوگو کی سیاسی حالت بھی متاثر ہوئی اور اس طرح ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۶ء تک فرانکو برٹش مشتر کہ کمان کے ماتحت آگیا.۱۹۱۹ء میں عہد نامہ دار سیلز کے ذریعہ ٹو گوانگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان تقسیم کر دیا گیا.اس طرح ٹو گو کا مشرقی حصہ فرانسیسیوں کے ہاتھ لگا.جواب ٹو گو کہلاتا ہے اور مغربی حصہ جو اس وقت غانا سے ملحق ہے.انگریزوں کے ہاتھ آیا.دوسری جنگ عظیم تک ٹوگو کے دونوں حصے مجلس اقوام League of Nations کے قانون Mandate کے مطابق انگریزوں اور فرانسیسیوں کے زیر انتظام ہیں.۱۹۴۶ء میں یہ انتظام یو این کو منتقل ہوا جس نے ٹوگو کا انتظام فرانس کے سپر د کر دیا.۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۸ء تک کا بارہ سال کا عرصہ ٹوگو کی سیاسی زندگی میں کافی نشیب وفراز کا حامل ہے.۱۹۵۸ء کے عام انتخابات کے ذریعہ جب ملکی افراد برسر اقتدار ہوئے تو قومی حکومت کا قیام عمل میں آیا.۹ را پریل ۱۹۶۱ ء کو عام استصواب کے ذریعہ ٹوگو کے باشندوں نے

Page 366

تاریخ احمدیت.جلد 22 351 سال 1963ء ایک دستور پاس کیا جس کے تحت صدارتی طرز کی حکومت قائم ہوئی جس کے پہلے صدر مسٹر سلوانس المپیو (Sylvanus Olympio) تھے.اس وقت سے ٹو گو ایک آزاد مملکت قرار پایا.تیرہ جنوری ۱۹۶۳ء کو فوج نے پہلی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور صدر کوقتل کر دیا.اس وقت سے ۵ مئی ۱۹۶۳ء تک ایک عبوری حکومت کام کرتی رہی.۵ مئی ۱۹۶۳ء کے عام انتخابات کے ذریعہ با قاعدہ حکومت قائم ہوئی.جس کے موجودہ صدر نکولس گرونٹر کی ہیں.ٹوگو کی آبادی قریباً پندرہ لاکھ افراد پر مشتمل ہے.یہاں دار الحکومت لومے (Lome) ہے جو سمندری بندرگاہ بھی ہے اور ہوائی بھی.لومے کی آبادی اسی ہزار کے قریب ہے.ٹو گو میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان ہیں دولاکھ عیسائی اور باقی باشندے یا تو لا مذہب ہیں اور یا بت پرست اور توہمات میں گرفتار ، جادو اور ٹونے ٹوٹکے کے دلدادہ.ویسے تو عیسائیوں میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ان چیزوں کے قائل اور اکثر کسی غیر مرئی فوق العادت طاقت کے خواہشمند ہیں جو انہیں ہر قسم کی آفات و مصائب سے محفوظ رکھتے ہوئے بغیر کسی محنت یا مشقت کے بام عروج تک پہنچاوے.اسی وجہ سے ان میں تو ہم پرستی بہت ہے اور ہو بھی کیوں نہ جب ان کو ان کا اپنا مذہب کسی قسم کی تسکین اور اطمینان عطا نہیں کر سکتا تو پھر وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہ ماریں تو کیا کریں.اکثر مسلمان علماء کے پاس آتے ہیں تا کہ تعویذ گنڈا حاصل کر سکیں.مسلمان مالکی مذہب کے پیرو ہیں.اکثر شمالی علاقوں میں رہتے ہیں.علمی لحاظ سے پسماندہ ہیں.اکثر حکومتی عہدے عیسائیوں کے قبضہ میں ہیں.ٹو گو میں احمدیہ مشن کا افتتاح ۲ دسمبر ۱۹۶۰ء میں ہوا.جب مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب کو جرمنی سے منتقل کر کے ٹو گو میں مشن کھولنے کے لئے بھجوایا گیا تو مرزا صاحب ۲ دسمبر ۱۹۶۰ء کو ٹو گو میں وارد ہوئے.مگر افسوس کہ بعض ناگزیر حالات کی وجہ سے ان کو زیادہ دیر کام کرنے کا موقعہ نہ مل سکا.اور بیجوری حالات وه ۲۳ جون ۱۹۶۱ء کو ٹو گو سے غانا منتقل کر دیئے گئے.اس کے بعد کافی تگ و دو اور جدو جہد کے بعد ٹو گو گورنمنٹ نے خاکسار کوٹو گو میں مشن کھولنے اور دو سال تک قیام کرنے کی اجازت دی جو یکم جنوری ۱۹۶۲ء سے شروع ہو کر ۳۱ دسمبر ۱۹۶۳ء کو ختم ہوتی ہے.نقل مکانی اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر اصل کام مارچ ۱۹۶۲ء کے وسط سے شروع ہو سکا اور اس وقت سے اب تک خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے خاکسار فریضہ تبلیغ پر مصروف ہے.جس کی مختصر سی رپورٹ ذیل میں پیش ہے.

Page 367

تاریخ احمدیت.جلد 22 352 سال 1963ء ٹو گو کی زبان فرانسیسی ہے اور خاکسار جب ٹو گو میں داخل ہوا تو فرانسیسی کے چند الفاظ ہی سے واقف تھا.اس لئے سب سے قبل ٹو گو میں ان افراد کی طرف توجہ مبذول کی گئی جو انگریزی سے واقف ہوں اور ساتھ ہی فرانسیسی زبان سیکھنے کے لئے بھی انتہائی جد و جہد کی چونکہ انگریزی دان طبقہ بہت ہی کم بلکہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.اس لئے زبان کی مشکل مساعی میں بہت حد تک روک ثابت ہوئی اپنی ٹوٹی پھوٹی فرانسیسی زبان سے یہاں کے اعلیٰ حکام اور تعلیم یافتہ طبقہ تک پہنچنا نہ تو مناسب ہی ہے اور نہ ممکن ہی ہے.لیکن اس کے باوجود جن اعلیٰ حکام سے مل سکا ان میں یہاں کے صدر مسٹر اولمپیو ، یہاں کی سابقہ حکومت کے وزیر زراعت مسٹر مورد کرا موکو.وزیر تعلیم کے پرسنل اسسٹنٹ، وزیر امور داخلہ اور ان کے پرسنل اسٹنٹ، وزیر نشریات و اطلاعات کے پرسنل اسسٹنٹ ، قومی اسمبلی کے صدر اور نائب صدر، یہاں کی پولیس کے افسر اعلیٰ شامل ہیں.ان سب کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا گیا.اور انہیں فرنچ اور انگریزی لٹریچر پیش کیا گیا.جو انہوں نے بخوشی قبول کیا اور مطالعہ کا وعدہ کیا.ٹو گو میں متعینہ برطانوی سفیر سے متعدد مرتبہ ملاقات کی اور ان سے احمدیت کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.گنی اور مالی کے سفراء سے ملاقات کی.اور انہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا.انہیں فرنچ میں اسلامی کتب بطور تحفہ پیش کی گئیں.متحدہ عرب جمہوریہ کے سفیر اور ان کے نائب سے ملا اور ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی ، اتحاد اسلامی اور متعدد دیگر مسائل پر گفتگو ہوتی رہی.انہیں بھی احمد یہ لٹریچر پیش کیا گیا.خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کردہ عربی کتب انہیں تحفہ پیش کیں.جن کا وہ مطالعہ کر رہے ہیں خدا تعالیٰ انہیں قبول حق کی توفیق عطا فرمائے.آمین موجودہ حکومت چونکہ ابھی نئی نئی قائم ہوئی ہے اس لئے ابھی تک جن افراد سے ملاقات ہو سکی ان میں صدارتی امور کے وزیر، وزیر تجارت وصنعت ، جمہور یہ ٹوگو کے بین الاقوامی مالی امور کے نائب گورنر ، وزیر اطلاعات و نشریات کے پرسنل اسٹنٹ، ادارہ نشریات و اطلاعات کے انچارج، قومی اسمبلی کے نائب صدر اور بعض دوسرے حکام شامل ہیں.ادارہ یو این کے جو ماہرین گورنمنٹ ٹو گو کی امداد کے لئے یہاں بھیجے گئے ہیں.ان میں سے مختلف افرادکو ملا.جن میں امریکن، فرانسیسی ، لبنانی، ہندوستانی، انگریز اور ویت نام کے دوست شامل ہیں.ان تک پیغام حق پہنچانے کا موقعہ ملا.ایسے ہی امریکن انفارمیشن سروسز کے ڈائر یکٹر سے ملا

Page 368

تاریخ احمدیت.جلد 22 353 سال 1963ء انہیں بھی احمد یہ لٹریچر پیش کیا گیا.جو وہ مطالعہ کر رہے ہیں.ان کے علاوہ جن افراد سے ملاقات کی اس میں ہر طبقہ اور ہر مکتب فکر کے افراد شامل ہیں مثلاً یہاں کے گورنمنٹ پریس کے جنرل مینیجر، اساتذہ ، طلبہ، امریکہ، جرمنی وغیرہ سے آئے ہوئے حکومت ٹو گو کے ایڈوائز رز ملٹری آفیسرز وغیرہ کبھی تک پیغام حق پہنچانے کا موقع ملتا رہا.فالحمد للہ.برطانوی سفارتخانہ کی لائبریری میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی انگریزی اور فرانسیسی کتب کا ایک سیٹ جو مختلف قسم کے پچیس نسخہ جات پر مشتمل تھا اور جن میں قرآن کریم بمع انگریزی ترجمہ کی دو کا پیاں شامل تھیں پیش کیا گیا جو برطانوی سفیر نے بڑی خوشی سے قبول کیا.اس وقت تک کئی ایک احباب ان کتب سے استفادہ کر کے مزید استفسار کے لئے مشن ہاؤس میں آچکے ہیں اور اس طرح انہیں تبلیغ کا موقع ملتا رہا.اس کے علاوہ یہاں کی قومی لائبریری کے لائبریرین انچارج کو انتیس کتب کا ایک سیٹ جن میں قرآن کریم جمع ترجمہ انگریزی سلسلہ کی انگریزی مطبوعات فرینچ لٹریچر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی کتب شامل تھیں پیش کیا گیا.جن سے عوام فائدہ اٹھارہے ہیں.دو پمفلٹ ” قبر مسیح کشمیر میں جو فرانسیسی زبان میں تھے اور اسلام کی برکات جو یہاں کی لوکل زبان ایوے میں تھا نیز ماریشس سے آمدہ لڑ پچرا کا برین تک پہنچایا گیا.طلبہ اور اساتذہ میں بھی تقسیم کیا گیا.جن افراد تک یہ لٹریچر پہنچایا گیا ان کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے.ہاؤ سا مسلم کمیونٹی لومے کی طرف سے ایک جلسہ کا انعقاد عمل میں لایا گیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و محامد کے موضوع پر خطاب کرنے کا موقع ملا.خدا تعالیٰ کے فضل سے خطاب بڑا کامیاب رہا.حاضرین کی کثیر تعداد پانچ سو سے زائد تھی اور لیکچر کا ترجمہ یہاں کی دوزبانوں ہاؤسا اور ایوے میں کیا گیا.ہاؤ سا میں ترجمانی کے فرائض یہاں کے ایک بڑے پر اثر معلم نے ادا کئے.میں ( مراد قاضی مبارک احمد صاحب) جب ٹو گو میں داخل ہوا تھا تو حیران تھا کہ اے خدائے عز وجل میں ایک ایسے ملک میں قدم رکھ رہا ہوں جہاں کی نہ میں زبان ہی سے واقف ہوں اور نہ ہی امراء سے اور پھر یہ کہ یہاں ایک فرد بھی تو ایسا نہیں جو جماعت سے منسلک ہونے کا داعی ہو.بہر حال ایسی ہی گومگو کی حالت میں مجھے یہاں پہلی عید آئی.یہ عید عید الاضحیہ تھی جو ۱۹۶۲ء کے ابتداء میں مجھے یہاں پڑھنے کا موقعہ ملا.نہایت پریشان و مضطرب تھا ، حیران تھا اکیلا ہوں نہ کوئی ساتھی ہے نہ کوئی دوست طبعا اس پریشانی نے ایک ایسی حالت پیدا کر دی کہ عید کی نماز کے وقت میں اکیلا ہی بے ساختہ انہی

Page 369

تاریخ احمدیت.جلد 22 354 سال 1963ء خیالات میں مستغرق خدا تعالیٰ کے حضور گرا اور نہایت آہ وزاری سے دعا کرنے کی توفیق ملی کہ اے مولا کریم تو بے سہاروں کا سہارا ہے.تو تنہا و بے یار و مددگاروں کا ساتھی ہے.تو ہی حامی و حافظ دین متین ہے تیری مدد سے ناکامی کامیابی میں اور تنہائی جماعت میں بدل جاتی ہے تو خود ہی اپنے فضل سے مجھے کامیابی عطا فرما.میرے ساتھ خود ہی اپنے کرم سے ایک جماعت کر دے.الحمد للہ خدا تعالیٰ نے اپنے اس عاجز اور حقیر بندے کی زاری کو سُنا اور جہاں میری پہلی عید یعنی عید الاضحیہ تنہائی میں کئی وہاں میری دوسری عید یعنی عید الفطر میں خدا تعالیٰ نے مجھے ایک جماعت بخش دی اور اس طرح میرے اس غم اور افسردگی کو خوشی اور مسرت میں بدل دیا.فسبحان الله رب العزة.خدا تعالیٰ کے فضل سے ٹو گو میں اس وقت تک باقاعدہ طور پر جماعت میں شامل ہونے والوں کی تعداد بائیس تک پہنچ چکی ہے جس میں سے نصف کے قریب لوگ ہیں جو عیسائیت کو خیر باد کہ کر اسلام کی آغوش میں پناہ لے چکے ہیں.انہوں نے تثلیث کو الوداع کہہ کر تو حید کو اپنا لیا ہے جو عیسائیوں کے پیش کردہ مسیح کی غلامی سے نکل کر نبی امی فداہ نفسی و روحی و ابی و امی صلی الله علیه وسلم کی غلامی کا جو اپنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں الحمد للہ ایک اور امر جو خاص خدا تعالیٰ کے فضل و برکات میں سے ہے وہ یہ ہے کہ یہ وہ پہلا ملک ہے جس میں خدا تعالیٰ نے ایسے افراد میں سے ایک کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی ہے جو پہلے بھی کسی حکومت میں وزارت کا قلمدان سنبھالے ہو اور احمدیت کی قبولیت کے بعد بھی وزارت میں منتخب ہوئے ہوں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں کی ایک سیاسی پارٹی کے سابقہ لیڈر گذشتہ سے پیوستہ حکومت کے وزیر داخلہ پوسٹ اینڈ ٹیلی کمیونیکیشنز اور موجودہ حکومت کے صدارتی امور کے وزیر مسٹر مما فینسی کو قبول احمدیت کی توفیق ملی ہے.ایسے ہی موجودہ صدر مملکت کے چھوٹے بھائی پہلے سے ہی احمدیت کی سلک میں منسلک ہو چکے ہیں.“ (اخبار الفضل نے اپنی ۲۵ مئی ۱۹۶۳ء کی اشاعت کے صفحہ پر مسٹر مما فینسی سے متعلق تعارفی نوٹ زیب اشاعت کیا جس کے مطابق : مسٹرما فینسی ٹو گولینڈ کی سابق حکومت میں وزیرامور داخلہ و پوسٹ اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کے ممتاز عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں اور آج کل عبوری صدارتی کا بینہ کے رکن بھی ہیں.انہوں نے خود بھی ایک خط ارسال کیا ہے جس میں اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے انہیں قبول حق کی توفیق عطا فرمائی ہے.) 49

Page 370

تاریخ احمدیت.جلد 22 355 سال 1963ء ۱۹۶۴ء میں ٹوگو لینڈ مشن نہایت برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کرنے لگا اور ملک کے اونچے طبقہ اور با اثر حلقوں تک تحریک احمدیت کی آواز پہنچنی شروع ہوگئی اور جناب قاضی مبارک احمد صاحب نے نہ صرف صدر مملکت بلکہ دوسری سر بر آوردہ شخصیات اور غیر ملکی سفراء سے بذریعہ ملاقات نہایت اثر انگیز رنگ میں حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا اور سلسلہ کا لٹریچر بھی پیش کیا.اس سال مشن ہاؤس خاص طور پر زائرین کا خصوصی مرکز بنا رہا.یہی نہیں ریڈیو سے احمدیت کی آواز ملک کے کونے کونے تک پہنچنے لگی اور ساتھ ہی نو مبائعین کی آمد میں بھی خوشگوار اضافہ ہوا.اس اجمال کی تفصیل جناب قاضی مبارک احمد صاحب کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے:.عرصہ زیر رپورٹ میں اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو تو فیق عطاء فرمائی کہ ملک کی مقتدر شخصیتوں تک پیغام اسلام پہنچا کر ان کی خدمت میں اسلامی لٹریچر پیش کر سکے.اس میں ٹوگو کی حکومت کے صدر مسٹر نکولس گرونشز کی، یہاں کے وزیر تجارت وصنعت ، مسٹرا گیمبیا، وزیر اطلاعات و نشریات اور پریس مسٹر ھولو من اتائی شامل ہیں.ان کے علاوہ صدر حکومت کے چیف آف پروٹوکول، وزیر اطلاعات کے کیبنٹ کے ڈائریکٹر اور نائب ڈائریکٹر امریکہ، فرانس اور جرمنی کے سفراء ، یو این او کی طرف سے حکومت ٹوگو کے زرعی مشیر اور متعدد دیگر وزراء شامل ہیں.صدر حکومت کو کتب پیش کرتے ہوئے خاکسار نے ان کے سامنے اس امر کو پیش کیا کہ آج دنیا میں ذرائع رسل وسائل اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ دنیا کے ایک ملک کی مشکلات سے دوسرے ملک کی بے نیازی ممکن نہیں اور مشکلات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ انسانیت باوجود انتہائی مادی ترقی کے ان سے ترساں و خائف ہے.اس لحاظ سے آج ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان مشکلات سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہم ایک ایسا لائحہ عمل تلاش کریں جو ہماری راہ نمائی کر سکے.ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ یہ ہدایت اور راہنمائی صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ہی حاصل کی جاسکتی ہے.اور ان مشکلات ، مصائب اور خوف و خطر کا حل صرف اور صرف قرآنی ہدایت اور اسلامی قانون اور لائحہ عمل ہی پیش کرتا ہے اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ ان کتب کا جو میں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں بغور مطالعہ فرمائیں اور موازنہ کے بعد حق اور سچائی کو قبول کر کے خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے ایک نہایت ہی مبارک اور مفید وجود ثابت ہوں.اس پر صدر محترم نے فرمایا آپ جانتے ہیں کہ عیسائیت ہماری رگوں میں سرایت کر چکی ہے.اس کے نقوش کو یک قلم پر دہ ذہن سے محو کر نا مشکل ہی نہیں بالکل

Page 371

تاریخ احمدیت.جلد 22 356 سال 1963ء ناممکن ہے.تاہم میں ان کتب کا گہری نظر سے مطالعہ کروں گا اور ان سے جو مفید مطالب حاصل ہوں گے.ان پر ضرور عمل پیرا ہونے کی کوشش کروں گا.وزیر تجارت و صنعت کو کتب پیش کرتے وقت ان کے سامنے قرآنی تعلیمات اور عیسائی تعلیمات کا مختصر سا موازنہ پیش کیا.خاص طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب پر وفات سے نجات، ان کا سفر کشمیر اور سرینگر میں ان کی وفات اور ان کی وہاں قبر کے موجود ہونے کے متعلق سن کر بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے مجھے اس امر کا یقین نہیں آتا کہ ایسا ممکن ہے.میں نے ان کے سامنے بائیبل اور اناجیل کے جب چند حوالہ جات پیش کئے تو بہت حیران ہوئے اور مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میرے پاس اس مضمون پر کوئی مفصل کتاب ہے.جس پر ایک دوسری ملاقات میں میں نے انہیں محترم مولانا شمس صاحب کی کتاب ” حضرت مسیح کہاں فوت ہوئے (انگریزی ) پیش کی بہت خوش ہوئے اور وہ اس کا بغائر نظر مطالعہ کر رہے ہیں.علاوہ ازیں ان سے ملکی حالات پر بھی گفتگو ہوتی رہی.وزیر اطلاعات و نشریات اور پریس کو بھی لٹریچر پیش کیا گیا.جس پر انہوں نے مطالعہ کا وعدہ کیا.اور بعد میں ایک دو ملاقاتوں میں انہوں نے بتایا کہ وہ کتب کا مطالعہ کر رہے ہیں.اس عرصہ میں شیخ میر محمد صاحب سفیر پاکستان برائے ٹو گو اپنے سیکرٹری عبدالرؤف کے ساتھ لولے تشریف لائے.ان سے متعدد مرتبہ ملا اور پاکستان کے مفاد کے متعلق ان سے مختلف امور پر گفتگو ہوتی رہی.ایسے ہی گورنمنٹ کے اخبار ٹو گو پریس کے ایڈیٹر سے ان کی ملاقات کا بندوبست کیا اور ان کی ترجمانی کا فریضہ بھی انجام دیا بہت خوش ہوئے.پرنس صدر الدین آغا خاں صاحب اپنے افریقہ کے آفیشل دورہ کے دوران ٹو گو تشریف لائے ان سے ملاقات کی اور انہیں جماعتی لٹریچر اور ایک خط بھی پیش کیا.جس میں ان سے لٹریچر کے مطالعہ کی درخواست کی.ایسے ہی مسلمانوں کے اتحاد کے سلسلہ میں اپنے اثر و نفوذ کو استعمال کرنے کے متعلق گزارش کی.اس کے جواب میں ان کا جو خط آیا.اس کا ترجمہ ہدیہ قارئین کر رہا ہوں.پرنس صدرالدین آغا خان صاحب کا خط چا تو دے بیلر یو.جنیوا سوئٹزرلینڈ محترم قاضی صاحب آپ کے پیش کردہ خط اور دلچسپ کتب کے لئے بہت ممنون ہوں.لومے میں تقلیل عرصہ قیام

Page 372

تاریخ احمدیت.جلد 22 357 سال 1963ء کے دوران میں آپ سے ملاقات اور آپ کے کام کی تفصیل سن کر جو آپ وہاں سرانجام دے رہے ہیں انتہائی مسرت ہوئی.میں آپ کی آئندہ کوششوں میں بخت کی یاوری اور کامیابی کے لئے دعا گو ہوں.اور صمیم قلب سے دعا کرتا ہوں کہ آپ افریقہ میں اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی انتہائی جد و جہد جاری رکھیں گے.بہترین خواہشات اور دلی تسلیمات کے ساتھ.پرنس صدرالدین آغا خاں“ انفرادی طور پر ڈیڑھ صد سے زیادہ افراد سے مل کر اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق پائی.ان میں سے خاص قابل ذکر مسٹر انٹو ان سے آچی نائب صدر حکومت ٹوگو ،مسٹر کو ایوی جان وزیر قانون، مسٹر فرمان ایالووزیر زراعت، مسٹر پیڈو وزیر امور خارجه، قومی اسمبلی کے صدر، مسٹر بارتھیلی می لامبونی، نائب صدر الحاج شفیع ، نائب صدر کی کیبنٹ کے ڈائریکٹر ، وزارت تعلیم کے سیکرٹری، یو این او کے مستقل نمائندہ ، یو این او کے ریڈیو اور پودوں کی حفاظت کے دو ماہرین، حکومت کے دوفرانسیسی مشیر، ایک جرمن ڈاکٹر، تین افریقن ڈاکٹرز ، امریکی سفیر، امریکن اطلاعات کے شعبہ کے ڈائر یکٹر اور ان کے نائب، برطانوی سفیر اور سفارت خانہ کے فرسٹ سیکرٹری اور متعدد دیگر افراد شامل ہیں.ان سے اسلام اور احمدیت کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.اور ان کو اسلامی تعلیمات کی خوبیوں سے آگاہ کرنے کا موقعہ ملا.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں کو اسلامی نور سے حصہ پانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین چھ مختلف سرکاری تقریبات میں شامل ہوا.جن میں بعض حکومت ٹوگو کی طرف سے منعقد کی گئی تھیں اور بعض برطانوی سفیر اور یو این او کی طرف سے.ان تقاریب میں شامل ہو کر مختلف افراد سے تعلقات پیدا کئے گئے.اور کئی ایک احباب تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا موقعہ ملا.ان کو لٹریچر مہیا کیا گیا.زبانی طور پر ان سے اسلام کی دیگر مذاہب پر برتری کے متعلق گفتگو کی گئی.فالحمد للہ ریڈ یوٹو گو پر ایک دفعہ تقریر کرنے کا موقعہ میسر آیا.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرۃ طیبہ پر روشنی ڈالی.مشن میں اکثر مختلف طبقات کے دوست تشریف لاتے رہے جن کے سامنے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیمات پیش کی گئیں.اس ضمن میں خاص طور پر قابل ذکر سابقہ حکومت کے ٹوگو کے وزیر زراعت ، موجودہ صدر حکومت کے چیف آف پروٹوکول ، وزارت اطلاعات کے ڈائریکٹر جنرل ، ان کے نائب، قومی اسمبلی کے نائب صدر، حکومت ٹوگو کے فرانسیسی مالی مشیر، فینانس اور پلانگ کے نائب گورنر

Page 373

تاریخ احمدیت.جلد 22 358 سال 1963ء اور متعدد دوسرے افراد شامل ہیں.آج کل افریقہ میں چونکہ سوشلزم کی طرف بہت توجہ پائی جاتی ہے اس لئے ان سب کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلام ہی آج وہ زندہ مذہب ہے جو انسانیت کو گمراہی ، ضلالت اور بے راہ روی کی مہیب اور اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر جادہ مستقیم پر ڈال سکتا ہے.زائرین مشن کو ان کے میلان طبع کے مطابق لٹریچر بھی پیش کیا جا رہا ہے.خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور صراط مستقیم سے نوازے آمین.احباب جماعت کو روزانہ قاعدہ میسرنا القرآن کے اسباق دیتا رہا جو احباب قرآن کریم کی تلاوت کے قابل ہو چکے ہیں.ان کو قرآن کریم کی تلاوت میں مدد دیتا رہا.اور ان کی تصحیح کرتا رہا.جماعتی تربیت کے سلسلہ میں مختلف اوقات میں مختلف امور پر جماعت کی خصوصی توجہ مبذول کرتا رہا.اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو احمدیت پر صیح طور پر عمل کرنے کی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے حقیقی اثمار سے صحیح طور پر بہرہ ور اور متمتع ہونے کی توفیق بخشے.آمین اس دوران میں تمام جمعہ ہائے مبارکہ کے خطبات دیئے گئے جن میں احباب جماعت کی توجہ تربیتی امور کی طرف خاص طور پر مبذول کروائی گئی.عرصہ زیر رپورٹ میں قریباً ڈیڑھ ہزار میل کا سفر کرنے کی توفیق ملی اور اس طرح مختلف سرکردہ شخصیات چیفس اور ان کے عملہ کے افراد، بعض سرکردہ مسلمان، جن میں ڈایا نگو کے دو معلم اور سو کوڑے کے چیف خاص طور پر قابل ذکر ہیں کو ملنے کا موقعہ ملا اور ان تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق پائی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولا کریم اپنا فضل فرمائے اور لوگوں کے قلوب کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف مائل فرمادے.الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے گیارہ حق کی پیاسی روحوں کو حقیقی اسلام کے چشمہ سے سیراب ہونے کی توفیق عطا فرمائی.ان میں خاص طور پر قابل ذکر مسٹر نمورد کرا موتو ہیں.جو ٹو گو کی سابقہ حکومت میں وزیر زراعت کے عہدہ جلیلہ پر رہ چکے ہیں.قریباً ۲ سال ہوئے کہ وہ کرسی وزارت پر متمکن تھے کہ ان سے ملاقات کی.ان کولٹریچر پیش کیا اور وقتافوقتا ان سے ملتا رہا.اور اس طرح ان پر احمدیت کی سچائی واضح کرنے کی کوشش کرتا رہا وہ بھی کتب اور لٹریچر کا مطالعہ کرتے رہے اور کافی عرصہ کی تبلیغ کے بعد آخر خدا تعالیٰ نے ان کے سینے کو حق کے لئے کھول دیا اور انہیں احمدیت میں شامل ہونے کی سعادت ملی.50

Page 374

تاریخ احمدیت.جلد 22 359 سال 1963ء جرمنی 66 فرینکفرٹ کے سب سے بڑے تعلیمی ادارہ کے ماہنامہ اور ترجمان "Dia Kurue" نے جنوری ۱۹۶۳ء کے پرچہ میں جناب مسعود احمد صاحب جہلمی کا انٹرویو شائع کیا جس میں ایڈیٹر نے جرمنی مشن کے بارہ میں لکھا ”یہ مشن انہی مشنوں کی ایک کڑی ہے جنہیں براعظم افریقہ میں افریقن باشندوں کو مسلمان بنانے میں عیسائی مشنوں کے مقابلہ میں دس گنا زیادہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے.جناب جہلمی صاحب نے فرانکفرٹ میں مقیم ترکی جنرل قونصل کو انگریزی ترجمہ قرآن اور پاکستانی قونصل کو جرمن ترجمہ قرآن پیش کیا.نیز ایران، ترکی، عرب کے بعض باشندوں کو سلسلہ احمدیہ سے متعارف کرایا.آپ نے سیکنڈری سکول "Hessen Kaleg" کی سوسائٹی آف ہارمونک لائف میں اسلام کی نمائندگی کی اور ایک مبسوط مقالہ پیش کیا.چوہدری عبداللطیف صاحب انچارج جرمنی مشن نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو دیا.مسجد فضل عمر ہمبرگ میں آنے والے غیر مسلموں تک حق کی آواز پہنچائی اور لٹریچر تقسیم کیا.فرینکفرٹ کی گوئٹے یونیورسٹی کے اور نشیل سیمینار میں اسلام کا ماضی، حال، مستقبل کے عنوان پر زبر دست لیکچر دیا اور سوالوں کے جواب دیئے.چین 52 جناب مولوی کرم الہی صاحب ظفر مجاہد سپین نے سپین کے وزیر اطلاعات، وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ ہسپانوی صوبوں کے تمام سول گورنروں کو اسلامی اصول کی فلاسفی“ اور اسلام کا اقتصادی نظام تحفہ بھجوائی.۲۳ مارچ ۱۹۶۳ ء کو پاکستانی سفارت خانہ نے اپنا قومی دن منایا.اس موقعہ پر آپ نے جن شخصیات تک پیغام حق پہنچایا.ان میں صدر مملکت جنرل فرانکو کے امور عامہ کے چیف،وزارت خارجہ کے جنرل سیکرٹری مشہور ڈاکٹر سر جن سلمان ، میڈرڈ یونیورسٹی کے چانسلر، برطانوی ملٹری اتاشی ، یونان، شام، مراکش، الجیریا، تیونس، مصر، لبنان ، سعودی عرب اور لیبیا کے سفراء اور امریکہ ،ترکی ، بھارت اور جرمنی کے نمائندے شامل تھے.

Page 375

تاریخ احمدیت.جلد 22 سنگاپور 360 سال 1963ء مبلغ سنگا پور الحاج مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری کو پیر سائیکلو پیڈیا کے دوسرے ایڈیشن کا مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا.یہ کتاب ہر ٹفورڈ شائر انگلینڈ میں چھپی تھی.اور باوجود ٹھوس معلومات سے پُر ہونے کے اس میں تاریخ اسلام سے متعلق غلط بیانیوں سے کام لیا گیا تھا.مولانامحمد صدیق صاحب صداقت کا خون ہوتا دیکھ کر برداشت نہ کر سکے.آپ نے اس کے ایڈیٹر کے نام مفصل مکتوب لکھا جس میں حقائق کی روشنی میں ان غلط بیانیوں کی زبر دست تردید کی گئی ہے.سیرالیون 54 جدید لٹریچر، نے تعلیمی اداروں کا آغاز اور تبلیغی جد وجہد تینوں اعتبار سے یہ سال سیرالیون مشن کے لئے خاص اہمیت کا حامل ثابت ہوا.جدید لٹریچر: مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کے زیر انتظام نہ صرف مینڈے زبان میں نماز کا ترجمہ دو ہزار کی تعداد میں شائع ہوا بلکہ قرآن کریم کے پہلے پارہ کا ترجمہ بھی منظر عام پر آ گیا چنانچہ فری ٹاؤن کے اخبار ڈیلی میل نے اپنے ۲ مئی ۱۹۶۳ء کے پرچہ میں حسب ذیل خبر سپر داشاعت کی.جماعت احمد یہ سیرالیون کے امیر جناب بی اے بشیر نے انکشاف کیا ہے کہ مینڈے زبان میں قرآن مجید کے پہلے پارہ کا ترجمہ مکمل ہو کر شائع ہو گیا ہے.یہ ترجمہ ڈارو کے مسٹر وی.وی کالون Mr.V.V.Kallon of Daru نے کیا ہے.سیرالیون کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں کی ایک اہم زبان مینڈے میں قرآن مجید کا ترجمہ ہو رہا ہے.پہلے پارہ میں جو طبع ہو کر منظر عام پر آیا ہے عربی متن کے ساتھ ساتھ مینڈے زبان میں اُس کا ترجمہ درج ہے.جناب بی اے بشیر نے بتایا کہ مناسب وقت کے اندراندر پورے قرآن مجید کا ترجمہ شائع کرنے کی تجویز ہے.یادر ہے جماعت احمدیہ اب تک جرمن ، انگریزی ، فرانسیسی ، ولندیزی، سواحیلی اور ڈینش زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع کر چکی ہے.اسی طرح بعض افریقی زبانوں مثلاً یوروبا اور لوگنڈی وغیرہ میں بھی اس کی طرف سے قرآن مجید کے تراجم شائع ہو چکے ہیں.55

Page 376

تاریخ احمدیت.جلد 22 361 سال 1963ء سیرالیون کے تعلیم یافتہ طبقے کس درجہ جماعت احمدیہ کے بلند پایہ لٹریچر سے متاثر ہورہے تھے.اس کا اندازہ ملک کی ایک اہم عیسائی شخصیت مسٹر او با برائٹ (MR OBBA BRIGHT) کے تاثرات سے بخوبی لگ سکتا ہے.انہوں نے اپنی نشریاتی تقریر میں فرمایا ” میں نے گذشتہ ہفتہ اپنے مقالہ میں چند شخصیتوں کا ذکر کیا تھا.ان میں سے مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمد یہ بھی ہیں.اس عظیم اسلامی مصنف کے لٹریچر نے جو اسلام کے مختلف پہلوؤں پر مشتمل ہے مجھے گہرے طور پر متاثر کیا ہے.میں نے یہ عزم کر لیا ہے کہ انہوں نے اسلامی تعلیم کو جس رنگ میں پیش کیا ہے.آپ بھی میرے ساتھ نہ صرف اس کے مطالعہ میں شریک ہوں بلکہ لطف اندوز ہوں.“ (ترجمہ) اس سال سیرالیون کے احمدی مبلغین کی طرف سے جن اہم شخصیات کو دینی لٹریچر تحفہ دیا گیا.ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.آنریبل ایم ایس مصطفیٰ نائب وزیر اعظم.وزیر مواصلات.میئر آف فری ٹاؤن.ڈپٹی ڈائریکٹر آف آڈٹ ڈیپارٹمنٹ سیرالیون کے پہلے گورنر سر ہنری جو سا یا لائٹ فٹ بوسٹن ( SIR HENRY JOSIAH LIGHT FOOT BOSTON).موصوف مغربی صوبہ کے دورہ پر آئے تو احمد یہ سکول بواجے بو میں بھی تشریف لائے.اس موقعہ پر حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب نے انہیں نیز دووزراء سیکرٹری اور دیگر اعلیٰ افسروں کولٹر پچر پیش کیا.یہ خبر ریڈیو نے بھی نشر کی.نے تعلیمی ادارے: اس سال تین نئے پرائمری سکولوں کا افتتاح عمل میں آیا.جس پر چیفس نے جماعت کی تعلیمی خدمات کو بہت سراہا.احمد یہ سیکنڈری سکول کا افتتاح سیرالیون کے وزیر تعلیم نے کیا اور جماعت کی تبلیغی اور تعلیمی خدمات کی تعریف کی.اس تقریب میں محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران علمی اداروں کے سر براہ اور شہر کے بااثر افراد کثیر تعداد میں شامل ہوئے.تبلیغی سرگرمیاں: مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے بو، بواجے، بالا مہ، کینما، مکالی ، پیلے، کمارا بائی اور لونگ سر کا تبلیغی دورہ کیا.مشن ہاؤس مرجع خلائق بنا رہا.آنے والوں میں وزیر تعلیم، میئر آف فری ٹاؤن.امریکن پیس کورٹ کا عملہ اور کالج کے طلباء بھی تھے.جن سے مولوی بشارت احمد بشیر صاحب نے تبادلہ

Page 377

تاریخ احمدیت.جلد 22 362 سال 1963ء خیالات کیا اور لٹریچر بھی پیش کیا.آپ دو مرتبہ کبالا، مکہور کا.پہلے، بواور لیسٹر کی جماعتوں میں تشریف لے گئے.آپ نے عید میلادالنبی اور سیرت کے اجتماعات سے خطاب کیا.آپ کی چار تقاریر ریڈیو سے نشر ہوئیں.مولوی اقبال احمد صاحب غضنفر نے انفرادی اور اجتماعی طور پر سینکڑوں افراد تک پیغام حق پہنچایا اور وسیع پیمانے پر لڑ پر تقسیم کیا.مکہور کا کا بھی تبلیغی دورہ کیا اور پبلک جلسوں سے خطاب کیا.مقامی اماموں کی تربیت کے لئے ایک کلاس جاری کر کے تین گھنٹے روزانہ لیکچر دیا.جس میں متعدد غیر احمدی احباب بھی شامل ہوتے رہے.ملک غلام نبی صاحب نے سری کولیا اور چیف ڈم کونڈم بایا میں صداقت اسلام پر لیکچر دیئے.حافظ بشیر الدین صاحب عبید اللہ نے نو سو میل کا طویل سفر کر کے پندرہ مختلف مقامات میں پبلک جلسے کئے اور کونے کونے تک احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچایا.آپ کی تقاریر کے بعد سوال و جواب کی مجالس کا سلسلہ گھنٹوں جاری رہا.اس دورے میں آپ کے ہمراہ جرمن نو مسلم مسٹر ولیم ناصر بھی تھے.جنہوں نے متعدد پبلک جلسوں سے خطاب کیا.جس سے لوگ بہت متاثر ہوئے.جماعت احمدیہ سیرالیون کی سالانہ کا نفرنس ۲۳٬۲۲٬۲۱ دسمبر ۱۹۶۳ء کو منعقد ہوئی جس میں کثیر تعداد میں احباب جماعت کے علاوہ سیرالیون کے وزیر تعلیم ، وزیر سماجی امور اور فری ٹاؤن کے میئر نے بھی شرکت کی.اور جماعت احمدیہ کی خدمات کو خراج تحسین ادا کیا.کانفرنس کی پوری کارروائی ریڈیو سیرالیون سے نشر ہوئی.غانا اس سال ۳-۴-۵ جنوری ۱۹۶۳ء کو جماعت احمدیہ غانا کی سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی.افتتاح مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم نے کیا.دوسرے معززین کے نام یہ ہیں.سید محمد ہاشم صاحب بخاری ، مرزا لطف الرحمن صاحب ،صاحبزادہ مرزا مجید احمد پر نسپل احمد یہ سیکنڈری سکول کماسی ، مولوی عبدالوہاب بن آدم صاحب، مولا نا عبدالمالک خان صاحب ، معلم بیٹی صاحب ،مسٹر حکیم براؤن، محمد آرتھر صاحب صدر جماعت احمدیہ غانا، مسٹر عثمان بن آدم ،مسٹر عبداللہ عینین صاحب، الحاج جے ٹی آدم صاحب، الحاج حسن عطاء صاحب، جناب پروفیسر سعود احمد خان صاحب دہلوی، ہمسٹر اسمعیل.بی.کے اڈو،مسٹر عبدالواحد عزیز ہمسٹر ناصر نکولسکی.

Page 378

تاریخ احمدیت.جلد 22 363 سال 1963ء حاضرین کی تعداد پانچ ہزار سے زائد تھی.جن میں بہت سے غیر احمدی معززین بھی تھے اس موقعہ پر مخلصین جماعت نے ۲۶۵۵ پونڈ ز چندہ دیا ملکی پریس نے جلسہ کی خبر نمایاں طور پر شائع کی.اس مرکزی کانفرنس کے علاوہ اشانٹی ریجن کی سالانہ کانفرنس ۲۱ تا ۲۵ نومبر کو آکر قرم میں ہوئی جس میں علاقے کے چیف اور دیگر ا کا بر شامل ہوئے اور سوا دو سو پونڈ ز چندہ ہوا.اس کانفرنس کی کامیابی میں مولانا عبد المالک خان صاحب کی جدو جہد کا بھاری عمل دخل تھا.مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب کی زیر نگرانی دو مقامات پر نئے سکول جاری کئے گئے.آپ نے احمد یہ سیکنڈری سکول کماسی میں لیکچر دیا.فرنچ سفارت خانہ کے ایک سیکرٹری کو جماعتی لٹریچر بھی دیا نیز بعض جماعتوں کے دورہ پر بھی تشریف لے گئے.مولانا عبد المالک خان صاحب نے اڑھائی ہزار میل کا سفر کیا اور آکرہ ، سالٹ پانڈ ، کیپ کوسٹ ، دوی ، ابرو، کو تو گو، انکوکو، اموکوری، ممیانگ، ابواسی، ٹیچیمان اور پرامو کی جماعتوں کا دورہ کیا.آپ کی کوشش سے شانٹی کے ماحول میں دونئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.آپ کے زیرانتظام ہر اتوار کو کماسی مارکیٹ کے قریب پبلک جلسے منعقد ہوتے رہے.آپ کا ایک پادری سے کامیاب مباحثہ ہوا.مولوی عبدالحمید صاحب مبلغ اکرہ نے مولانا عبدالمالک خان صاحب کی معیت میں غانا کے وزیر خارجہ کو دینی لٹریچر پیش کیا.آپ غانا کی سب سے بڑی بندرگاہ ٹیما (Tema) بھی تشریف لے گئے.جہاں متعد دا حباب نے جو آپ کے زیر تبلیغ تھے بیعت کر لی اور ایک نئی جماعت معرض وجود میں آئی.آپ نے فرانسیسی سفارت خانہ کے ایک سیکرٹری کو دینی لٹریچر پیش کیا.اکرہ کی تھیوسوفیکل سوسائٹی میں لیکچر دیا اور محکمہ براڈ کاسٹنگ کے بعض افسران اور ایک پادری صاحب سے اسلامی تعلیم پر تبادلہ خیالات کیا.مولوی عبدالوہاب بن آدم عیسائیوں، بت پرستوں اور غیر از جماعت مسلمانوں تک پیغام حق پہنچانے میں مصروف عمل رہے.ٹومالی ریجن کے اساتذہ کے سامنے لیکچرز دیئے.غانا کالج، گورنمنٹ سیکنڈری سکول اور ٹریننگ کالج میں اسلام کے متعلق متعدد تقاریر کیں اور سوالوں کے جواب دیئے.تیجانی فرقہ کے معلم الحاج ثانی اول کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب دیں.ایک تیجانی عالم کے ساتھ آپ کا مباحثہ بھی ہوا جو تین دن تک جاری رہا.

Page 379

تاریخ احمدیت.جلد 22 کینیا 364 سال 1963ء نیروبی کے اخبار ڈیلی سٹنڈرڈ امئی ۱۹۶۳ ء نے کینیا اور دوسرے احمدی مشنوں کی کامیاب تبلیغی مساعی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا:.امریکن بائبل سوسائٹی نے اعتراف کیا ہے کہ افریقہ کے بہت سے علاقوں میں عیسائی مشنری جس رفتار سے مشرکوں کو عیسائی بناتے ہیں مسلم مشنری اس سے دگنی تعداد میں انہیں اسلام کے حلقہ بگوش بنا لیتے ہیں.سوسائٹی کے ۱۴۷ ویں سالانہ اجلاس سے معا قبل ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جنوب کی طرف اسلام کی کامیاب یلغار افریقہ میں سوسائٹی (امریکن بائبل سوسائٹی) کے کام کو اور زیادہ مشکل بنارہی ہے.بہت سے علاقوں میں کم سے کم اندازے کے مطابق مسلم مشنری افریقہ کے مشرکوں کو اس رفتار سے اسلام کا حلقہ بگوش بنا رہے ہیں کہ ہر اس ایک مشرک کے بالمقابل جسے عیسائیت اپنی طرف کھینچتی ہے وہ دومشرکوں کو اسلام کی آغوش میں کھینچ لیتے ہیں.58 کینیڈا ( مختصر تاریخ ۱۹۶۳ء تا ۱۹۸۹ء) اس سال کا نہایت اہم واقعہ کینیڈا میں ابتدائی طور پر جماعت کا با قاعدہ قیام تھا.بعد ازاں یہ سلسلہ پھیلتا اور پھولتا گیا اور اب تو دنیائے احمدیت میں یہاں کی جماعت کو ایک نمایاں مقام حاصل ہو چکا ہے.مکرم حسن محمد خان عارف صاحب ۱۹۶۳ء سے ۱۹۸۹ ء تک کی مختصر تاریخ احمدیت کینیڈا کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.مرکز احمدیت قادیان اور ربوہ سے ہزاروں میل دور اس عظیم ملک کینیڈا میں آکر مستقل رہائش رکھنے والے سب سے پہلے احمدی جناب شیخ کرم دین صاحب ہیں جو ۱۹۱۹ء میں نواسکوشیا Nova Scotia تشریف لائے اور اب تک وہاں مقیم ہیں.آپ کی پیدائش ۱۲ راگست ۱۸۹۹ء ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک حیات ہیں.ایک اور دوست حبیب اللہ صاحب جو مکرم محمد شریف خالد صاحب نائب امیر مغربی جرمنی کے والد ماجد تھے ۱۹۲۲ء تک اپنے کاروبار کے سلسلہ میں مقیم رہے لیکن آپ نے بیعت واپس ہندوستان جا کر ۱۹۲۲ء میں کی.ابتدائی آنے والے احمدیوں میں چند دوست یہ ہیں:.صوفی عزیز احمد صاحب آٹوا، سید طاہر احمد صاحب بخاری ٹورانٹو ، قاضی مظہر الحق صاحب

Page 380

تاریخ احمدیت.جلد 22 365 سال 1963ء آٹوا، ملک غلام ربانی صاحب مرحوم ٹورانٹو ، سید داؤد احمد مانٹریال، چوہدری عبداللطیف صاحب آٹوا، اصغر حسین صاحب ٹورانٹو ، ڈاکٹر خلیفہ عبدالمومن صاحب، محمد برکات الہی جنجوعہ ، ڈاکٹر ساجد حسین مرحوم.محترم جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ، وکیل التبشیر ۱۹۶۱ء میں امریکہ کے دورہ کے بعد کینیڈا بھی تشریف لائے تاکہ یہاں مشن کے قیام کا جائزہ لے سکیں.مانٹریال وہ پہلا شہر ہے جہاں چند احمدی احباب نے مل کر مختصر سی جماعت قائم کی اور نمازوں کا اہتمام کیا اور یوں ۱۹۶۳ء میں با قاعدہ تنظیم عمل میں آئی.جناب ڈاکٹر خلیفہ عبدالمومن صاحب صدر مقرر ہوئے.دوسری تنظیم شہر ٹورانٹو میں ۱۹۶۶ء میں ہوئی اور جناب میاں عطاء اللہ صاحب مرحوم ( سابق ایڈووکیٹ وامیر جماعت احمد یہ راولپنڈی) صدر مقرر ہوئے اور انہی کے مکان پر جماعت کے اجلاس اور نماز با جماعت شروع ہوئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۵ دسمبر ۱۹۶۶ء کو جماعت حکومت کے پاس رجسٹر ڈ ہوگئی اور اس کے پہلے ڈائریکٹر میاں عطاء اللہ صاحب مرحوم سید طاہر احمد صاحب بخاری، سردار حمید احمد صاحب اور اصغر حسین خان صاحب تھے.۱۹۶۷ء میں سید طاہر احمد بخاری، مکرم غلام ربانی صاحب مرحوم اور خلیفہ عبدالعزیز صاحب بیرسٹر ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور اسی سال سید طاہر احمد صاحب بخاری صدر بنائے گئے.اکتوبر ۱۹۶۷ء میں ملک کے دیگر شہروں میں جماعتوں کا قیام عمل میں آیا اور وسعت شروع ہوگئی جس کے نتیجہ میں سید طاہر احمد صاحب بخاری نیشنل پریذیڈنٹ اور چوہدری خلیل احمد صاحب صدر ٹورانٹو نامزد ہوئے.۱۹۶۹ء میں خلیفہ عبدالعزیز صاحب نیشنل پریذیڈنٹ کینیڈا اور صاحبزادہ طاہر لطیف صاحب صدر ٹورانٹو اور مبارک احمد خاں صاحب مرحوم جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے.۱۹۷۱ء میں مبارک احمد خاں صدر جماعت ٹورانٹو منتخب ہوئے.انتظامی لحاظ سے جماعت کینیڈا خود مختار نہ تھی اور مرکزی طور پر جماعت امریکہ کے ماتحت تھی.جولائی ۱۹۷۴ء میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید کینیڈا تشریف لائے اور اپنی نگرانی میں نیشنل پریذیڈنٹ کا انتخاب کروایا جس میں خلیفہ عبدالعزیز بیرسٹر نیشنل پریذیڈنٹ منتخب ہوئے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۳ تک جماعت ٹورانٹو کی میٹنگز اور دیگر تقاریب YMCA کالج سٹریٹ ٹورانٹو میں منعقد ہوتی رہیں.جناب سید منصور احمد صاحب بشیر ابن سید اقبال حسین صاحب بی.ایس.سی.مولوی فاضل

Page 381

تاریخ احمدیت.جلد 22 366 سال 1963ء کینیڈا کے پہلے مبلغ ہیں جو مرکزی طور پر بطور مبلغ انچار ج ۲۲ / مارچ ۱۹۷۷ء کو یہاں ٹورانٹو تشریف لائے اور Thorncliff Park drive#313, Toronto 36 پر ایک اپارٹمنٹ کرایہ پر لیکر کام کا آغاز کیا.سید منصور احمد ایک خاموش اور ان تھک کام کرنے والے علم دوست اور انتہائی سادہ مبلغ تھے.بلند پایہ علمی ذوق رکھتے تھے.آپ نے فورا ہی سارے کینیڈا کے ان شہروں کا دورہ کیا جہاں احمدی احباب موجود تھے.جماعتوں کی تنظیم کے انتخابات کروائے اور احمدی احباب کو با قاعدہ تنظیم میں منسلک کرنے کی بھر پور کوشش کی.اس کام کے لئے انہوں نے دن رات محنت کی جہاں جہاں وہ خود پہنچ سکے جا کر اس کام کو مکمل کیا اور ہر جماعت سے با قاعدہ رابطہ اور تعلق رکھا اور مرکزی تحریکات پہنچاتے رہے.چندوں کا نظام با قاعدہ کیا اور پوری کوشش کے ساتھ انفرادی خاندانوں اور دیگر افراد کے ساتھ تعلقات قائم کئے.تبلیغی اور تربیتی مہم کو تیز تر کرنے کے لئے آپ نے ہی سب سے پہلے جلسہ سالانہ کی بنیاد ڈالی جو ۲۴/ ۲۵ دسمبر ۱۹۷۷ء کوٹورانٹو میں منعقد ہوا.مغربی کینیڈا میں کیلگری کے مقام پر پہلا احمد یہ مشن ہاؤس خریدا گیا اور بعد میں اسی سال مغربی کینیڈا کے شہر سے کاٹون میں بھی ایک مکان خریدا گیا جو بعد میں مشن ہاؤس کے طور پر استعمال ہوا.آپ نے ہی اپنے قیام کے دوران ایک علمی رسالہ Light جاری کیا تا کہ اس کے ذریعہ تبلیغ میں مددلی جاسکے.اس میں تبلیغی، تربیتی اور دیگر علمی مضامین شائع ہوتے تھے.یہ رسالہ اُن کے جانے کے بعد جاری نہ رہ سکا.آپ نے ۱۹۸۰ء کے آخر تک کینیڈا میں کام کیا اور واپس پاکستان تشریف لے گئے.آپ کے قیام کے دوران قبرستان یارک میں احمدی وفات یافتگان کی تدفین کے لئے ہیں قبروں کا ایک قطعہ خریدا گیا جس میں بعد میں ایک اور قطعہ کا اضافہ ہوا.اس میں پہلی تدفین مولانا ارجمند خاں صاحب کی ہوئی جو جامعہ احمدیہ کے فاضل پروفیسر تھے.سید منصور احمد صاحب بشیر کے بعد دوسرے مبلغ منیر الدین صاحب شمس تھے جو ۱۲ نومبر ۱۹۸۰ء کو کینیڈا تشریف لائے اور آپ جماعت احمدیہ کے مشہور عالم اور نامور مبلغ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مبلغ فلسطین، شام اور انگلستان کے فرزند ارجمند ہیں.آپ کے زمانہ میں ٹورانٹو میں مرکزی جماعت کا ایک مشن ہاؤس (Wilson Av.Downsview (Ont 1306 پر ایک لاکھ تینتیس ہزار ڈالر کے صرف کثیر سے خریدا گیا.اس سے قبل ۱۹۷۶ء میں مشن ہاؤس کی تعمیر کے لئے سات ایکٹر کا رقبہ موجود تھا جسے فروخت کر کے یہ مکان خریدا گیا.ٹورانٹو کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی

Page 382

تاریخ احمدیت.جلد 22 367 سال 1963ء توسیع کا سلسلہ جاری رہا.مانٹریال میں ایک لاکھ ڈالر کی مالیت سے ایک بلڈنگ جنوری ۱۹۸۲ء میں خرید کی گئی جس کا نام النصرت تجویز ہوا.البرٹا میں ایڈمنٹن کے مقام پر ایک اپارٹمنٹ کرایہ پر حاصل کر کے مشن ہاؤس قائم کیا گیا.وینکوور.B.C میں برینی کے مقام پر اکتو بر۱۹۸۲ء میں ایک مکان ۶۰۰۰ ۷ ڈالر میں خریدا گیا جس کا نام بیت الد عار کھا گیا.مکرم شمس صاحب کے قیام کے دوران مندرجہ ذیل مبلغین بھی اس ملک میں تشریف لائے.ا.مولاناسعید احمد صاحب اظہر.جون ۱۹۸۲ء میں کیلگری کے لئے یہاں پہنچے.۲.مولانا علی حید ر صاحب اپل.جون ۱۹۸۳ء میں تشریف لائے اور کیلگری اور وینکوور میں کام کیا اور ۳ دسمبر ۱۹۸۶ء کو واپس پاکستان تشریف لے گئے.کرنل (ریٹائرڈ) محمد سعید صاحب نے بعد از ریٹائر منٹ وقف کی سکیم میں اپنا نام پیش کیا اور اپریل ۱۹۸۳ء میں آپ کو وقف میں لے لیا گیا اور وینکوور میں متعین کیا گیا.بعد میں کچھ عرصہ کیلگری میں بھی کام کیا اور پھر مرکزی مشن ٹورانٹو تبدیل ہو گئے جہاں آپ بطور سیکرٹری اب تک کام کر رہے ہیں.آپ ایک ان تھک مخلص اور علم دوست مبلغ ہیں.آپ کا مسکرا تا ہوا چہرہ سب کے لئے جاذب نظر ہوتا ہے تبلیغ اسلام کے لئے بے پناہ جوش رکھتے ہیں.آپ کی سابقہ زندگی سلسلہ کے ساتھ انتہائی اخلاص اور محبت کے ساتھ گزری اور ریٹائرمنٹ کے بعد اب سلسلہ کے ساتھ انتظامی طور پر منسلک ہو گئے اور اس وقت ٹورانٹو میں خدمات دینیہ میں مصروف ہیں.مولا نا شمس صاحب کی کارگزاریوں کے سلسلہ میں قابل ذکر امور.T.V کے ساتھ رابطہ ہے جبکہ اس پر جماعتی پروگرام دکھانے شروع ہوئے.آپ ہی کے زمانہ میں پریس کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے.سکولوں میں لیکچرز کا آغاز ہوا.برانٹ فورڈ میں پیشوایان مذاہب کے جلسے شروع ہوئے.مکرم شمس صاحب ۱۶ جون ۱۹۸۵ء کو لندن تشریف لے گئے اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے بطور ایڈیشنل وکیل التصنیف خدمات بجالا رہے ہیں.ہمارے تیسرے مبلغ جناب مولانا نسیم مہدی ہیں جو مئی ۱۹۸۵ء میں یہاں تشریف لائے اور مکرم شمس صاحب سے چارج لیا آپ کے والد سلسلہ کے مشہور مبلغ مولانا احمد خاں صاحب نسیم ہیں جو برما کے پہلے مبلغ تھے اور مرکز سلسلہ کے گردونواح میں تبلیغ کے ماہر سمجھے جاتے تھے.آپ نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے ہمراہ لمبا عرصہ کام کیا اور بعد میں خود اس محکمہ کے انچارج مقرر ہوئے.آپ

Page 383

تاریخ احمدیت.جلد 22 368 سال 1963ء سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمۃ اللہ تعالیٰ کے نہایت معتمد اور دست راست تھے.حضور نے آپ کے سپرد بڑی بڑی ذمہ داریاں بھی فرما ئیں تقسیم ہند کے وقت آپ کو حفاظت مرکز کے سلسلہ میں حکومت ہند نے گرفتار کیا.سخت اذیتیں دیں اور عملی طور پر تذلیل کی بھی کوشش کی اور یوں آپ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے قربانی کرنے والوں کی صف اول میں شامل ہو گئے.W پر جو عمارت بطور مشن ہاؤس خرید کی گئی تھی جماعتی ضروریات کے لئے تیزی سے ہورہی سے ناکافی ثابت ہو رہی تھی.نماز جمعہ کے لئے احباب و خواتین کے لئے اس کے کمرے کم رہ جاتے تھے.لوگوں کے لئے پارکنگ کی مشکلات بڑھ رہی تھیں.اس وجہ سے ایک عرصہ سے یہ غور کیا جارہا تھا کہ کوئی ایسی جگہ یا مکان خریدا جائے جہاں وسیع مشن ہاؤس اور مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ ہو اور آئندہ کی بڑھتی ہوئی احمدی آبادی کی ضروریات کو پورا کیا جائے اس غرض کے لئے ایک مسجد کمیٹی زیر ہدایت حضرت خلیفہ اسیج قائم کی گئی جس نے مولانا سیم مہدی صاحب کی زیر نگرانی تندہی سے کام کرنا شروع کیا.مہدی صاحب اور کمیٹی کے ممبران کی ان تھک کوششوں سے ۱۳ دسمبر ۱۹۸۵ء کو ایک نہایت موزوں قطعہ بہت اچھے علاقہ میں سوا پانچ لاکھ ڈالر کے زر کثیر سے خرید لیا گیا اس کا رقبہ ۱۲۵ یکٹر ہے.اس میں ایک تین منزلہ عمارت ہے جو بائیس کمروں پر مشتمل ہے جس میں دو بڑے ہال ہیں.ڈیڑھ در جن غسل خانے اور ڈبل گیراج ہے.اس بڑی عمارت کے قریب ہی دو بیڈ روم کا فریم ہاؤس اور ایک بڑا گودام ہے.یہ قطعہ زمیں کینیڈا کی مشہور تفریح گاہ کینیڈ ونڈر لینڈ سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر ہائی وے ۴۰۰ ر اور جین سٹریٹ کے درمیان واقع ہے.اس مشن ہاؤس کا نام حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے از راہ شفقت بيت الاسلام رکھا.الحمد للہ اس کا ایڈریس مندرجہ ذیل ہے.Jane street Maple (Ont) LA ISI 10610 چونکہ جماعتی ضروریات تیزی سے بڑھ رہی تھیں اس لئے مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کے پروگرام کے سلسلہ میں تیزی سے کام شروع ہوا اور یہ جماعت کینیڈا کی خوش بختی تھی کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ ۱۸ ستمبر ۱۹۸۶ء میں بنفس نفیس کینیڈا تشریف لائے اور اس ملک میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کا سنگِ بنیا دا اپنے دست مبارک سے رکھا.تعمیر مسجد اور سنگ بنیاد کے سلسلہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض معاندین کو جب اس عظیم منصوبہ کا علم ہوا تو انہوں نے اس اللہ کے گھر کی تعمیر کو رکوانے کے سلسلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور

Page 384

تاریخ احمدیت.جلد 22 369 - سال 1963ء پراپیگنڈے کی وسیع مہم شروع کر دی گئی.Maple Township جہاں یہ مسجد تعمیر ہوگی کے اہالیان کو یہ باور کرانیکی کوشش کی گئی کہ یہ مسجد نہیں دہشت گردی کا اڈا بنایا جارہا ہے جہاں سے فتنہ و فساد پھیلایا جائے گا.علاقہ کا امن تباہ کیا جائیگا.لوگوں کی لاعلمی کی وجہ سے وہ اس منصوبہ کے بارہ میں پریشان ہوئے اور علاقہ کے کمیونٹی ہال میں جلسہ کیا تا کہ اس بارہ میں احتجاج کیا جائے اور اس کی تعمیر کورکوایا جائے.مولا نانسیم مہدی صاحب کو جب اس کا علم ہوا تو وہ خود اپنے رفقاء کار کے ساتھ اس میں شامل ہوئے اور نہایت قابلیت اور دانشمندی سے اس شرارت کا پول کھولا اور اہالیان کو وضاحت سے بتایا کہ جماعت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ میں ایک بھی دہشت گردی کا واقعہ رونما نہیں ہوا.ہم لوگ امن کے علمبردار ہیں ہمارا اصول ہی یہ ہے کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں“.پاکستان جہاں جماعت کا عالمگیر مرکز ہے وہاں صرف یہی ایک جماعت ہے جس کے خلاف دہشت گردی ، لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے.بے گناہ احمدی بے قصور گرفتار کئے جاتے ہیں اور بغیر مقدمات کے جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں.دسیوں احمدی قتل کئے جاچکے ہیں اور کسی ایک قاتل کا بھی سراغ نہیں لگایا گیا اور نہ سزادی گئی.احمدی طلبا کو کالجوں میں داخلہ ملنے میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں.سرکاری ملازمین کی ترقیات روک دی گئی ہیں مساجد سے اذان بند کر دی گئی ہے.احمدی اخبارات اور رسائل کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے.لاؤڈ سپیکر پر کوئی احمدی تقریر نہیں کر سکتا.ہر قسم کا جلسہ اور اجتماع ختم کر دیا گیا ہے.یہاں تک کہ ہم لوگ مسلمان ہیں لیکن اگر کوئی احمدی اپنے آپ کو مسلمان ہونے کا اعلان کر دے تو اُسے تین سال قید با مشقت کی سزا بھگتنی پڑتی ہے.ہمارے مسلمان ہونے کا یہاں سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہم اس شہر میں ڈھائی ملین ڈالر کی لاگت سے اسلامی مسجد تعمیر کر رہے ہیں.اس کے علاوہ دسیوں بیسیوں احمدی ہیں جو مختلف قسم کے فرضی جرائم میں گرفتار کر کے پابند سلاسل کئے جاچکے ہیں.صدر پاکستان احمدیوں کو کینسر قرار دے چکے ہیں کہ وہ عنقریب اس کی جڑیں پاکستان سے اکھیڑ دینگے.لیکن یہ مسجد جو بنائی جارہی ہے یہ اللہ کا گھر ہے اس میں ہر مذہب وملت کا شخص جو خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہے بڑی خوشی سے آسکے گا اور عبادت بجالانے کا مجاز ہوگا اور اگر ہم نے غلط الزام لگائے ہیں تو ہمارے مخالفین کھڑے ہوں اور انہیں ثابت کریں کہ یہ غلط ہیں لیکن یہ عجیب بات تھی کہ مخالفین کا وکیل تو موجود تھا لیکن بذات خود ایک بھی مخالف اس محفل میں موجود نہ تھایا اگر

Page 385

تاریخ احمدیت.جلد 22 370 سال 1963ء موجود تھا تو کھل کر سامنے نہیں آیا اہالیان علاقہ کو جب حالات کا علم ہوا تو وہ حیران رہ گئے اور جماعت کی مظلومیت پر ہمدردی اور تعمیر مسجد پر خوشی کا اظہار کیا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اب ہمارے T.V اور اخبارات سے تعلقات وسیع تر ہوتے جارہے ہیں.صوبائی اور مرکزی حکومت کی پارلیمنوں کے ممبران اور وزراء سے درست مراسم ہیں.وزراء کو احمدیوں کے مسائل اور ان کی مشکلات سے آگاہ کیا جا رہا ہے.اخبارات سے تعلقات روز بروز بڑھ رہے ہیں.جن کی وجہ سے وہ لوگ ہماری خبروں کو اپنے کالموں میں جگہ دیتے ہیں.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الرابع نے جماعت کو دعوت الی اللہ کے لئے تیار ہونے کی تحریک فرمائی اور دنیا بھر کے احمدیوں کو بیدار کیا ہے پیغام حق کے پہنچانے میں ہر احمدی کو ہمہ تن مصروف کر نیکی کوشش کی جارہی ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کینیڈا میں یہ رفتار ترقی پذیر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسی کی وجہ سے جماعت کے احباب قربانیوں کے میدان میں آگے ہی آگے قدم بڑھا رہے ہیں.بیرون پاکستان تبلیغی نظام کے لئے تحریک جدید جاری کی گئی تھی اور اس میں جماعت کا بیشتر حصہ شامل ہوتا تھا کینیڈا میں بھی احباب اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.اس میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے.گزشتہ چار سالوں میں وعدہ کنندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وہ قابل ذکر ہے.سال تعداد و عده کنندگان وعدہ کی رقم ۲۵ ،۴۱۴ ۲۰۵ ۸۴/۸۵ ۴۷ ،۳۳۹ ۴۰۱ ۸۵/۸۶ ۶۰۷۳۹ ۶۴۴ ۸۶/۸۷ ۷۲،۱۹۸ ۱۱۵۹ ۸۷/۸۸ ٹورانٹو کا شہر پہلے سے بہت زیادہ وسعت اختیار کر گیا ہے اور کثرت سے نئے احمدی احباب گزشتہ دو سالوں میں آکر آباد ہوئے ہیں.اس لئے جماعتی تنظیم کے سلسلہ میں کافی مشکلات پیش آ رہی تھیں اس کے پیش نظر ٹورانٹو اور نواحی علاقوں کی تنظیم نو کی گئی اور ٹورانٹو کی ایک جماعت کی جگہ چھ نئی جماعتیں قائم کی گئیں تا کہ سب جگہ کے لوگ آزادی سے کام کریں اور اپنی کوششوں کو تیز تر کریں.صد سالہ جو بلی فنڈ کے وعدہ جات اور ادائیگیوں میں نمایاں فرق پڑا ہے فروری ۱۹۸۷ ء تک کے کل وعدہ جات - ۲۷۵۹۷۳ ڈالر تھے اور گزشتہ چودہ پندرہ سالوں میں وصولی صرف ۸۱۹۷۵ ڈالر

Page 386

تاریخ احمدیت.جلد 22 371 سال 1963ء تھی.لیکن صرف ایک سال ۱۹۸۷ء میں ۶۷۲۴۲ ڈالر کے نئے وعدہ جات ہوئے اور ایک سال میں ۱۲۲۶۷۹ ڈالر کی ادائیگی کی توفیق ملی.جماعت کینیڈا کی اس قربانی کا ذکر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱ مارچ ۱۹۸۸ء میں بھی فرمایا.الحمد للہ ۱۹۸۸ء کے آغاز میں سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح نے نماز جمعہ با قاعدگی سے ادا کرنے کی تحریک فرمائی جس پر یہاں کے لوگوں نے بہت اچھا نمونہ دکھایا.صرف ٹورانٹو اور گردونواح کی جماعتوں سے یکصد پچاس (۱۵۰) احباب مستقل طور پر نماز جمعہ کے لئے حاضر ہوئے تھے لیکن ۳ ماہ کے اندر اندر یہ تعداد بڑھ کر ۲۵۸ ہو گئی اور اب تک نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے آٹھ مراکز قائم کئے جاچکے ہیں اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر تبلیغی اشتہار دئے جاتے ہیں.مختلف اوقات میں امیر ومشنری انچارج کینیڈا کے انٹرویو نشر کئے جاتے ہیں اور سلسلہ کی کتب کے بارہ میں بھی اعلانات کئے جاتے ہیں جن کا نمایاں فائدہ ہوا ہے.ٹورانٹو چونکہ بین الاقوامی شہر ہے اور شمالی امریکہ کے بڑے شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے اور یہاں کی جماعت نمایاں حیثیت حاصل کر چکی ہے اس لئے دیگر ملکوں سے یا مرکز سے جماعت کی نمایاں شخصیات یہاں تشریف لاتی ہیں تو احباب جماعت کے لئے خوشی کا باعث ہوتا ہے.یہ کینیڈا کی خوش بختی ہے کہ جماعت کے دو مقدس خلفاء نے اس ملک میں قدم رنجہ فرمایا اور برکت بخشی.یہ کوئی معمولی سی بات نہیں.بیسیوں ملک ہیں جہاں کے احمدیوں کو یہ نعمت اور سعادت نصیب نہیں ہوئی اور وہ اس نعمت کو ترستے ہیں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ پہلی بار یہاں ۸ اگست ۱۹۷۶ء کو تشریف لائے.آپ کی تشریف آوری پر پریس اور ٹی وی پر خبر نشر ہوئی.آپ نے پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اس دورہ میں حضور نے مشن ہاؤس قائم کرنے کا ارشاد فرمایا نیز مبلغ بھی بھیجوانے کا وعدہ فرمایا.آپ کے اعزاز میں جو عشائیہ دیا گیا اُس میں احباب جماعت کے علاوہ مرکزی اور صوبائی ممبران پارلیمنٹ، میونسپل کونسلرز نمائندگان پریس، ڈاکٹر ز اور وکلاء صاحبان نے شرکت فرمائی.دورانِ قیام حضور نے سارے ملک کے نمائندگان ٹورانٹو بلوائے اور اجلاس کی صدارت فرمائی اور جماعتی مسائل کے حل اور ترقی کے منصوبہ پر غور و خوض کیا اور ہدایات فرمائیں.حضور دوباره ۴ ستمبر ۱۹۸۰ء کو ہمارے ملک میں تشریف لائے اور ٹورانٹو میں چار یوم قیام فرمایا.اس کے بعد تین روز کیلئے کیلگری تشریف لے گئے.قیام کے دوران پر یس کا نفرنس سے خطاب فرمایا.

Page 387

تاریخ احمدیت.جلد 22 372.سال 1963ء خلافت ثالثہ کے بعد خلافت رابعہ کا دور شروع ہوا تو یہ بھی کینیڈا کی خوش بختی تھی کہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے بھی ہماری درخواست کو شرف قبولیت عطا فر مایا اور ۱۸ستمبر ۱۹۸۶ء کوکینیڈ اتشریف لائے اور ۲۵ ستمبر ۱۹۸۶ء تک ( ٹورانٹو شہر میں ) قیام فرمایا.یہاں تشریف لانے کا سب سے بڑا مقصد ٹورانٹو میں جماعت کی مرکزی مسجد کا سنگ بنیا درکھنا تھا جس کی کسی قدر تفصیل پیچھے گزر چکی ہے.۲۰ ستمبر ۱۹۸۶ء ہفتہ کا دن تاریخ احمدیت کینیڈا میں وہ سنگ میل تھا جبکہ سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے مسجد احمدیہ مرکز یہ کینیڈا کا سنگ بنیاد Maple Town ( نواحِ ٹورانٹو ) میں نصب فرمایا.اس سے قبل آپ نے اعلان فرمایا کہ جماعت احمد یہ جہاں بھی مسجد بنائے گی وہ قرآن کریم کے بیان فرمودہ مقاصد کے لئے بنائے گی.یہ مقاصد وہی ہیں جن کے لئے دنیا میں سب سے پہلا اللہ کا گھر تعمیر کیا گیا اور یہاں بھی خدا کا گھر انہی مقاصد کے لئے تعمیر کیا جائے گا.اس بابرکت تقریب کا آغاز صبح ساڑھے گیارہ بجے تلاوت قرآن مجید سے ہوا.مکرم نیم مهدی صاحب نے سپاسنامہ پیش کیا.مسی ساگا کی میئر اور صوبہ اونٹاریو کی وزیر شہریت کی نمائندہ نے حضور کا خیر مقدم کیا اور خوش آمدید کہا.جس کے بعد حضور نے خطاب فرمایا اور اسلام میں مسجد کی اہمیت اور ان کی افادیت بیان فرمائی اور فرمایا کہ اس مسجد کی انفرادی اور تاریخی اہمیت بھی ہے.خدا کے گھر کی تعمیر کی غرض و غایت سے یہاں کے لوگ ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں اور اللہ کا گھر یہاں کیا تغیر لائے گا.حضور نے ان شکوک کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ زمانہ میں تو عبادت گاہیں سیاست کا اڈہ بن گئی ہیں.فتنہ وفساد کا گھر ہیں اور دہشت گردی کا مرکز ہیں لیکن ہم نے جہاں کہیں بھی خدا کا گھر بنایا ہے اور آئندہ بنائیں گے وہ نفرت پھیلانے ، دہشت اور تشدد پیدا کرنے کے لئے ہر گز نہیں ہوگا.بلکہ محبت اور امن اور صلح کا مرکز ہوگا اور جو ایڈریس پڑھے گئے ہیں وہ رسی نہیں بلکہ معناً اپنے الفاظ کی گہرائیوں کو ادا کر رہے تھے اور دونوں میئر صاحبان کو یقین دلایا کہ ہم ان کے خوبصورت شہروں میں بھی اللہ کا گھر بنائیں گے.یہ تو آغاز ہے آخیر نہیں.اس کے بعد خلیفہ عبدالعزیز صاحب نیشنل پریذیڈنٹ نے حضور اور تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.اس کے بعد حضور نے سنگ بنیاد رکھا جو بیت مبارک قادیان کی ایک اینٹ تھی.حضور کے بعد حضرت بیگم صاحبہ نیز جماعت کینیڈا کے نمائندگان اور بیرونی معززین نے اینٹ رکھنے کا شرف حاصل کیا جن کی تعداد ےس تھی.

Page 388

تاریخ احمدیت.جلد 22 373 سال 1963ء ٹورانٹو میں قیام کے دوران حضور نے کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے نمائندگان کی شوریٰ بھی کروائی اور اس میں جو نصائح اور ہدایات فرمائیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں یہاں پر اپنی نئی پود کو سنبھالنے کے لئے شدید محنت کی ضرورت ہے.دوسرے تبلیغ کی طرف خاص توجہ کی جائے.نو جوان نسل کے لئے لٹریچر تیار کیا جائے جو ان کے تقاضوں کے مطابق ہو.سٹوری بکس لکھی جائیں اور انہیں کثرت سے پھیلایا جائے.T.V کے بداثرات کے بارہ میں حضور نے کھل کر بتایا کہ کس قدر تباہ کن ہے اور اس سے بچنے کے کیا طریق ہیں.دعاؤں پر خاص توجہ کی نصیحت فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ بچوں کو اس کی اہمیت خصوصیت سے بتائی جائے کہ دعا سے کس طرح مشکلات حل ہوتی ہیں اور ان سے نجات ملتی ہے.تبلیغ کے سلسلہ میں فرمایا کہ اس کے لئے جنون پیدا کریں.بچوں کو بتائیں کہ تبلیغ کیسے کرنی ہے.اس کے بعد شوری کے ممبران نے اپنی اپنی تجاویز پیش کیں مثلاً بچوں کے لئے دینی کا رسپانڈنس کورس شروع کئے جائیں.قرآن کلاسز شروع کی جائیں.لائبریریاں قائم کی جائیں.ہر قسم کی دینی معلوماتی کتب مہیا کی جائیں.خدام الاحمدیہ کی کتب کا ترجمہ کیا جائے تبلیغی Tapes تیار کی جائیں بچوں کو تقریر کی مشق کرائی جائے..T.V پروگرام پیش کئے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے لئے اخبارات میں جگہ خرید کی جائے.پاکستانی نوجوان ، امریکن اور کینیڈین احمدی اردو سیکھیں.ہر احمدی گھرانہ میں روحانی خزائن کا سیٹ ہونا چاہئے.19 ستمبر کو جمعہ تھا جو حضور نے ٹورانٹو میں پڑھایا.۲۰ ستمبر کے دن سنگ بنیا در کھے جانے کے بعد جماعت کینیڈا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے اور امریکہ سے آئے ہوئے احباب وخواتین سے انفرادی ملاقات فرمائی.اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چارصد سے زائد فیملیز نے ملاقات کی سعادت حاصل کی.۲۵ ستمبر کو حضور مانٹریال تشریف لے گئے.۲۶ ستمبر کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور ایک مجلس استقبالیہ میں شرکت فرمائی.نیز حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے.احباب کو ملاقات کا شرف بھی بخشا.۲۷ ستمبر کو حضور نے احباب جماعت کے ساتھ مل کر کھانا کھایا جس میں شہر کے میئر بھی شریک ہوئے.۲۸ ستمبر کو ایڈمنٹن کے لئے روانگی ہوئی.راستہ میں تین گھنٹے کے لئے سکاٹون ٹھہرے اور دو Interviews ریکارڈ کروائے اور احباب جماعت کے ساتھ کھانا کھایا.رات کے گیارہ بجے ایڈمنٹن پہنچے صبح کو ایک گھنٹہ کا انٹرویو دیا.دوپہر کا کھانا یہاں کے مقامی انڈین باشندگان کے ہمراہ کھایا.شب

Page 389

تاریخ احمدیت.جلد 22 374 سال 1963ء گیارہ بجے سے بارہ بجے تک CITY پر حضور کا Live Talk Show ہوا..T.V کے ناظرین حضور سے سوال کرتے تھے جس کا حضور اُسی وقت جواب دیتے تھے.پروگرام بہت دلچسپ اور مفید ثابت ہوا.۳۰ ستمبر کو حضور نے انسانیت کا مستقبل“ کے موضوع پر تقریر فرمائی جس میں کثیر تعداد میں غیر مسلم بھی شریک ہوئے.تقریر کے بعد بہت سے دلچسپ سوالات ہوئے.یکم اکتوبر کو حضور کیلگری تشریف لے گئے.یہاں حضور کو Skyline Hotel میں استقبالیہ دیا گیا جس میں بڑے بڑے تاجر، ممبرانِ پارلیمنٹ اور شہر کے نمائندگان شریک تھے.حکومت کے نمائندے نے حضور کو البرٹا کا جھنڈا بطور تحفہ پیش کیا.حضور کے مختصر خطاب کے بعد سوال و جواب کی دلچسپ محفل ہوئی.حضور دو دن کے لئے کیلگری سے باہر سیر کے لئے تشریف لے گئے.۴ را کتوبر کو حضور وینکوور تشریف لائے اور ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی جس میں شہر کے میئر نے حضور کو خوش آمدید کہا.جس کے بعد حضور نے تقریر فرمائی.اس کے بعد پریس کا نفرنس سے خطاب فرمایا شام کے کھانے کے بعد احباب جماعت کے درمیان تشریف فرما ہوئے اور سوالات کے جواب دیئے.۵/اکتوبر کو ملاقاتیں فرمائیں اور مجلس عرفان میں احباب کے سوالات کے جوابات دیئے.دوران قیام Vancouver Sun کی نمائندہ کو انٹرویو دیا اور.T.V پر ایک انٹرویو میں شمولیت فرمائی.۶ اکتوبر کو آپ بذریعہ بحری جہاز شہر وکٹوریہ تشریف لے گئے.واپسی پر جہاز کے کپتان غیر معمولی اخلاص سے پیش آئے.لندن روانگی سے قبل حضور بین الاقوامی نمائش 86-Expo میں کچھ وقت سیر کے لئے تشریف لے گئے اور اسی دن ۶ اکتوبر لندن انگلینڈ واپسی ہوئی.کینیڈا میں حضور کی تشریف آوری کا تیرہ اخباروں نے مختلف تاریخوں میں ذکر کیا.اگلے سال یعنی ۱۹۸۷ء میں حضور نے امریکہ کا دورہ کرنے کا ارادہ فرمایا.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا نسیم مہدی صاحب امیر جماعت احمد یہ کینیڈا نے حضور سے درخواست کی کہ ہمارے ملک کو بھی برکت بخشیں جو حضور نے از راہ کرم منظور فرمائی اور ۲۹ستمبر ۱۹۸۷ء کوٹورانٹو تشریف لائے.اسی شام نماز مغرب و عشاء کے بعد مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے جو رات کے ساڑھے دس بجے تک جاری رہی.اگلے دن نیشنل مجلس عاملہ کینیڈا کی صدارت فرمائی.ٹورانٹو کے مشہور اخبار The Toronto Star اور نمائندہ C.B.C کو انٹرویو دیا.وسطی امریکہ کے ملک Belize جو

Page 390

تاریخ احمدیت.جلد 22 375 سال 1963ء سابقہ British Honduras تھا کے اسلامک سنٹر کے ایک نمائندہ اسماعیل شہباز آئے ہوئے تھے انہیں شرف ملاقات بخشا.شام کو پانچ بجے سے سات بجے تک مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے اور بعد ازاں امریکہ تشریف لے گئے.اس پروگرام میں مغربی کینیڈا کی تین جماعتوں کیلگری، ایڈمنٹن اور سکاٹون کے افراد بھی شامل تھے.اس کے لئے حضور دورہ امریکہ کے بعد ان شہروں کے دورہ کے لئے 4 نومبر ۱۹۸۷ء کو کیلگری پہنچے.خطبہ جمعہ کیلگری میں ارشاد فرمایا اور اُسی شام ایڈمنٹن تشریف لائے.ے نومبر کو مذکورہ بالا تینوں جماعتوں کی مجلس عاملہ کے خصوصی اجلاس کی صدارت فرمائی.اس مجلس عاملہ میں سب سے اہم سوال جو حضور نے اُٹھائے وہ تبلیغ کی کمی، طریق تبلیغ ، رفتار ترقی اور داعیان الی اللہ کی تعداد کے متعلق تھے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضور کے دل میں تڑپ ہے ایک بے پناہ سیلاب ہے کہ کس طرح پیغام حق پہنچایا جائے اور کیوں احباب جماعت اس کی طرف کماحقہ توجہ نہیں دے رہے.اس کے بعد مجلس عرفان میں تشریف فرما ہوئے.ایک مقامی اخبار ایڈ منٹن جرنل کو انٹرویو دیا اور اگلے روز نیو یارک تشریف لے گئے.اب ہم مختصراً قارئین کی خدمت میں جماعت احمدیہ کینیڈا کے بعض دیگر کوائف برائے ریکارڈ پیش کرتے ہیں تا آئندہ کے لئے محفوظ ہو جائیں.کینیڈا کے نیشنل پریذیڈنٹ صاحبان (۱) مکرم سید طاہر احمد صاحب بخاری از اکتوبر ۱۹۶۷ء تا ۱۹۶۹ء (۲) مکرم خلیفہ عبدالعزیز صاحب از اکتوبر ۱۹۶۹ء تا جولائی ۱۹۸۱ء (۳) مکرم میجر شمیم احمد صاحب مرحوم از جولائی ۱۹۸۱ء تا اکتوبر ۱۹۸۲ء (۴) مکرم خلیفہ عبدالعزیز صاحب اکتوبر ۱۹۸۲ء میں مقرر ہوئے.کینیڈا میں مساجد ومشن ہاؤسز اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے مندرجہ ذیل چھ مقامات پر جماعت احمدیہ کے مشن ہاؤسز موجود ہیں : (1) ٹورانٹو (۲) کیلگری (۳) ایڈمنٹن (۴) وینکوور (۵) سکاٹون (۶) مانٹریال یہ مشن ہاؤسز بطور مساجد کے استعمال ہو رہے ہیں لیکن ایسی عمارت جو صرف اس مقصد کے لئے

Page 391

تاریخ احمدیت.جلد 22 376 سال 1963ء تعمیر ہوئی ہو تا حال کوئی نہیں البتہ ٹورانٹو میں مرکزی مسجد کا منصوبہ تیزی سے زیر تکمیل ہے.پلان کی تیاری، حکومت کے اداروں سے منظوریاں، بلڈرز اور آرکیٹیکٹ کا انتخاب وغیرہ سب مکمل ہیں اور دوسری صدی کے پہلے سال میں یہ منصوبہ انشاء اللہ تعالیٰ مکمل ہو جائیگا.گویا کینیڈا میں اسلام کی فتح مندانہ مارچ کا آغا ز خدا کے گھر کی تکمیل سے ہو رہا ہے.کینیڈا میں جماعت ہائے احمدیہ وینکوور (بی سی ) سکاٹون ایڈمنٹن کیلگری ریجائنا ونی پیگ سڈ بری ونڈسر لندن سینٹ کیتھرائن برانٹ فورڈ بریمپٹن ہملٹن کنگسٹن وان مسی ساگا ٹورانٹو سنٹرل مار کھم آٹوا مانٹریال سکار برو ان مقامات کے علاوہ قریباً ایک درجن دیگر مقامات پر احمدی گھرانے آباد ہیں.لیکن جماعت نہیں ہے.مبلغین جو کینیڈا میں کام کر چکے ہیں (۱) مکرم سید منصور احمد بشیر صاحب بی ایس سی ( ۲۲ مارچ ۱۹۷۷ء تا ۳ دسمبر ۱۹۸۰ء) (۲) مکرم منیر الدین شمس صاحب (۱۲نومبر ۱۹۸۰ء تا ۱۶ جون ۱۹۸۵ء) (۳) مکرم سعید احمد اظہر صاحب: جون ۱۹۸۲ء میں تشریف لائے اور مختصر عرصہ قیام کے بعد واپس تشریف لے گئے.(۴) مکرم علی حیدر صاحب اپل : جون ۱۹۸۳ء تا جولائی ۱۹۸۵ء کیلگری میں کام کیا اور نومبر ۱۹۸۶ء تک وینکوور میں.اور ۳ دسمبر ۱۹۸۶ء کو پاکستان چلے گئے.(۵) مکرم محمد سعید صاحب ( لیفٹینٹ کرنل ریٹائرڈ): وقف بعد از ریٹائر منٹ کی سکیم میں پیش کیا اور اپریل ۱۹۸۳ء میں آپ کو وینکوور بطور مبلغ تعینات کیا گیا جہاں آپ نے اکتو بر ۱۹۸۳ء سے اگست

Page 392

تاریخ احمدیت.جلد 22 377 سال 1963ء ۱۹۸۵ء تک کام کیا.اس کے بعد اگست ۱۹۸۵ء سے فروری ۱۹۸۶ء تک کیلگری میں کام کیا اور مارچ ۱۹۸۶ ء سے مرکزی مشن ٹورانٹو میں بطور سیکرٹری خدمات سرانجام دے رہے ہیں.(1) مکرم جناب نسیم مہدی صاحب: آپ ۱۹۸۵ء میں بطور امیر و مبلغ انچارج کینیڈا تشریف لائے اور تاحال اسی ملک میں خدمات بجالا رہے ہیں.آپ کی سرکردگی میں مشن دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے.آپ ہی کے زمانہ میں ۱/۲۵ یکڑ کا وسیع رقبہ مرکزی مشن ہاوسز اور مسجد کے لئے خرید کیا گیا اور تعمیر مسجد کے انتظامات مکمل کئے گئے.(۷) مکرم جناب مبارک احمد صاحب نذیر: آپ ۳۱ اگست ۱۹۸۸ء کو تشریف لائے اور کیلگری میں بطور مبلغ ویسٹرن کینیڈ اخدمات سرانجام دے رہے ہیں.(۸) مکرم جناب عبد الحفیظ صاحب کھوکھر : آپ ۱۹۸۸ء میں تشریف لائے اور ٹورانٹو میں کچھ عرصہ کام کیا.اب وینکوور میں کام کر رہے ہیں.بیرون ملک وقف عارضی اب ہم ان مہمات کا ذکر کرتے ہیں جو عارضی واقفین نے مرکز کے حکم کے تحت بعض دیگر ممالک میں سر انجام دیں.(۱) مکرم ڈاکٹر سید وسیم احمد صاحب (ایڈمنٹن ): ڈاکٹر صاحب حضور کی اجازت سے ۶ ماہ کے لئے جنوبی امریکہ کے ملک بولیویا میں گئے.آپ جون ۱۹۸۷ء کو وہاں کے شہر LA PAZ پہنچے.باوجود مختصر قیام کے آپ نے وہاں پر ہزاروں لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچایا.حکومت کے افسران سے رابطہ قائم کیا ملک کے نائب صدر کو مل کر قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا اور دین اسلام کو اس ملک میں بطور Good Faith منظور کروایا.آپ نے ملک کے طول و عرض میں سفر کر کے آئندہ منصوبہ بندی کے لئے نہایت مفیدر پورٹس بھجوائیں اور حضور نے ان پر نہایت خوشنودی کا اظہار فرمایا.(۲) مکرم مسعود احمد خان ( ہملٹن ) تبلیغ کی لگن دل میں رکھنے والے دوست جن کا اپنی ملازمت کے بعد قریباً سارا وقت تبلیغ اسلام میں گزرتا ہے ایک ماہ کے لئے وسطی امریکہ کے ملک Belize گئے.اس سے قبل نیم مہدی صاحب اور چوہدری الیاس صاحب آف کیلگری نے اس ملک کا دورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ اس ملک کے مسلمانوں میں تبلیغ کے لئے واقفِ عارضی کو بھجوایا جائے اور اس غرض کے لئے مسعود احمد خان صاحب ا جولائی ۱۹۸۷ء کو یہاں پہنچے اورا ار اگست تک یہاں مقیم

Page 393

تاریخ احمدیت.جلد 22 378 سال 1963ء ہے.مسلمانوں میں یہاں مؤثر تبلیغ کی اور احمدیت کا پیغام پہنچایا اور وہاں کے جنرل سیکرٹری اسمعیل شہباز صاحب تحقیق حق کے لئے ٹورانٹو تشریف لائے اور حضور سے بھی ملاقات کی.(۳) مکرم حمید اللہ شاہ صاحب آپ ایک ماہ کے لئے وسطی امریکہ کے ملک جمیکا تشریف لے گئے اور وہاں بہت سے لوگوں کو لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ کی.یونیورسٹی اور لائبریریوں میں لٹریچر رکھوایا.ان پر بعض ڈاکوؤں نے حملہ بھی کیا اور نقدی اور قیمتی کیمرہ لیکر فرار ہو گئے لیکن آپ اپنا وقف پورا کر کے واپس تشریف لائے.(۴) مکرم ڈاکٹر سید شہاب احمد صاحب: آپ ۶ ماہ کے لئے وسطی امریکہ کے ملک پانامہ تشریف لے گئے.لیکن ان کے جانے کے معا بعد ملک کے سیاسی حالات خراب ہو گئے اور عرصہ وقف تکمیل نہ کر سکے اور تین ماہ بعد واپس آنا پڑا.لیکن مختصر عرصہ قیام میں بھی آپ نے سینکڑوں افراد تک پیغام حق پہنچایا.حال ہی میں مکرم حمید اللہ شاہ صاحب ایک ماہ ارجنٹائن گزار کر آئے ہیں.ایک ماہ کے وقف عارضی کے دوران آپ نے سینکڑوں افراد تک پیغام حق پہنچایا.لائبریریوں میں قرآن کریم اور لٹریچر رکھوایا.ایک تاریخی کام جو آپ نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ ارجنٹائن کے شہر USHUAIA جو Southren most شہر کہلاتا ہے یعنی اس کے جنوب میں زمین پر اورکوئی شہر نہیں وہاں پہنچ کر وہاں کی لائبریری میں قرآن مجید رکھوایا.یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مکرم حمید اللہ شاہ صاحب وہ خوش قسمت دوست ہیں جنہیں قطب شمالی پر قرآن کریم پہنچانے کی سعادت نصیب ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اس رنگ میں بھی پورا ہوا.اس کے بعد کی تاریخ انشاء اللہ اگلی جلدوں میں بیان ہوگی.گیمبیا 59 مشن کے انچارج جناب مولوی محمد شریف صاحب سابق مجاہد بلاد عر بیہ نے باتھرسٹ، سرکنڈا، جونگ، بینڈ وم، بار برونوٹ، بھے کو ان لاء، منسا کونکو، جنوئے ،سوما، فرافینی ، ساپویوری، بیری کنڈا، جارج ٹاؤن، با کاؤ اور سیر کنڈا میں پُر زور انداز میں احمدیت کی آواز بلند کی.آپ کے کئی لیکچر باتھرسٹ اور سینڈونگ کے ٹریننگ کالج سنٹر میں ہوئے.ایک لیکچر محمڈن سکول باتھرسٹ میں بھی ہوا.لوکل مبلغ

Page 394

تاریخ احمدیت.جلد 22 379 سال 1963ء احمد گائے (GAUE) تین ماہ کے لئے میکارتھی آئی لینڈ ڈویژن میں سرگرم عمل رہے.مشن کی طرف سے چار ہزار کی تعداد میں شرائط بیعت انگریزی طبع کروایا گیا.گیمبیا میں اس سال اڑھائی سونفوس کے قریب داخل احمدیت ہوئے.جن میں اڑتالیس افراد بالغ تھے.جارج ٹاؤن اور با کاؤ میں اس سال نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.لائبیریا 60 منرویا کے نواح میں چھ گاؤں کے افراد کا ایک اجتماع ہوا.جس سے مولوی مبارک احمد ساقی صاحب نے خطاب کیا اور سوالوں کے جوابات دیئے.آپ نے ڈوڈ وٹاؤن میں وہاں کے چیف سے ایسی موثر گفتگو کی کہ اُس نے احمدیت قبول کرنے کا اعلان کر دیا.ہر جمعہ کوریڈویو پر آپ کی تقریر نشر ہوتی رہی.61 نائیجیریا رئیس التبلیغ مغربی افریقہ نیم سیفی صاحب کی متعدد تقریریں ریڈیو سے نشر ہوئیں اور خطبہ جمعہ بھی براڈ کاسٹ ہوتا رہا.چوہدری رشید الدین صاحب مبلغ مشرقی نائیجیریا نے ایک غیر احمدی عالم سے کامیاب مناظرہ کیا نیز سرکاری دفاتر اور سکولوں میں دیگر معززین میں مسلمان قبائل کی دعوت پر سیرت النبی ﷺ پر موثر پیرا یہ میں لیکچر دینے کی توفیق ملی.جرمن احمدی مسٹر ناصر نکولسکی مغربی افریقہ کا دورہ کرتے ہوئے نائیجیریا بھی تشریف لائے اور ہر جگہ ڈٹ کر احمدیت کی تبلیغ کی.کالجوں میں ان کے لیکچر بہت مؤثر ثابت ہوئے جہاں حاضرین کی تعداد سات آٹھ سو تک پہنچ جاتی تھی.آپ کی ایک تقریر ریڈیو سے نشر ہوئی.نائیجیرین مشن کی طرف سے اس سال دو پمفلٹ چار چار ہزار کی تعداد میں پورے ملک میں تقسیم کئے گئے علاوہ ازیں نائیجیریا کے متعدد احباب اور لائیبر یر یوں کولٹریچر مہیا کرنے کے علاوہ مراکش یو نیورسٹی، ہندوستان اور جنوبی افریقہ میں کثیر تعداد میں دینی کتب بھیجی گئیں.جماعت احمدیہ نائیجیریا کی سالانہ کانفرنس ۲۶، ۲۷ دسمبر ۱۹۶۳ء کو منعقد ہوئی کانفرنس کا افتتاح مولانا نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ نے کیا آپ کے علاوہ حسب ذیل مخلصین جماعت احمد یہ کے لیکچر ہوئے.(۱) ایس اوبکر S.O.Bakar پریزیڈینٹ جنرل جماعت احمد یہ نائیجیریا.(۲) جناب اے بی ڈارمولا A.B.Darmola (۳) مسٹر ڈی اولوکوڈا نانا D.Olokodanana سیکریٹری مال

Page 395

تاریخ احمدیت.جلد 22 (۴) ایم.اے سنی M.A.Sanni 380 (۵) چوہدری عبد المجید بھٹی صاحب پر نسپل مسلم ٹیچر ٹریننگ کالج لیگوس (1) جناب خلیل محمود صاحب (۷) جناب ڈاکٹر سید محمد یوسف شاہ صاحب (۸) انچارج احمد یہ ڈسپنسری لیگوس (۹) وائی اے صافی Y.A.Safi (۱۰) مسٹر اے آراے اتول A.R.A.Otule (11) مسٹراے کے مصطفی A.K.Mustafa کانفرنس کے دوران شوریٰ کا اجلاس بھی ہوا.ہالینڈ 62 سال 1963ء اس سال مشن کے انچارج حافظ قدرت اللہ صاحب کی تبلیغی سرگرمیاں ہیگ ، ڈلفٹ، روٹر ڈم، ماسٹر نٹ ، ایمسٹرڈم، اور ہارلم کے عوام و خواص تک وسیع سے وسیع تر ہو گئیں.چنانچہ آپ نے گڈ فرائیڈے چرچ تک پیغام اسلام پہنچایا.ریڈیو سے آپ کی ایک تقریر نشر ہوئی.وزارت خارجہ پاکستان کے سیکرٹری کو لٹریچر دیا.انڈونیشین ایمبیسی کی ایک تقریب میں وزیر اعظم ہالینڈ کو احمد یہ مشن سے متعارف کیا.ڈلفٹ کے کالج اور یونیورسٹی سے خطاب کیا.روٹرڈم کے چرچ میں اسلام کے بارے میں تقریر کی.جرمن سرحد کے قریب ماسٹر نٹ میں ایک کیتھولک گروپ سے جو تین سو افراد پر مشتمل تھا.اسلام پر تبادلہ خیالات کیا.ایمسٹرڈم میں ینگ مین ایسوسی ایشن کی تین روزہ کانفرنس میں تقریر کی.نیز اس کے ٹریننگ کالج کے تئیں طلباء کو اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا.ہارلم کے ایک سوشل سنٹر میں نو جوانوں کے ایک گروپ سے خطاب کیا.یوگنڈا اس سال خصوصیت سے نیا لٹریچر شائع کیا گیا.جس کی تفصیل یہ ہے (۱) حضرت مصلح موعود کی ایک کتاب کا ترجمہ لانگی زبان میں

Page 396

تاریخ احمدیت.جلد 22 381 سال 1963ء (۲)’WAKE UP CHRISTIONS“ پمفلٹ مرتبہ صوفی محمد الحق صاحب (۳) یوگنڈا کی اہم زبان HUGANDA میں دو پمفلٹ چار چار ہزار کی تعداد میں.(۴) نماز کی کتاب LUGANDA زبان میں موخر الذکر خاصی مقبول ہوئی.اس کی اشاعت کی خبر یوگنڈا ریڈیو نے نشر کی.نیز اخبار یوگنڈا اوگس میں بھی اس کا چرچا ہوا.صوفی محمد الحق صاحب، مولوی عبدالکریم صاحب شرما (امیر جماعت) مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح نے ملک کے ہر طبقہ تک پیغام حق پہنچانے کا ہرممکن ذریعہ اختیار کیا.مشن کی طرف سے جن اصحاب کولٹریچر دیا گیا ان میں سے بعض یہ ہیں.بمبئی کے ایک ہندو شوسلزسٹ.گلوشہر کے ایگزیکٹو انجینئر.مکریرے کالج کے پروفیسر.آل افریقہ چرچ کا نفرنس کے نمائندے چیف منسٹر وزیرتعلیم.جنرل سیکرٹری یوگنڈا کانگرس ہمبر کینیا ،لیجسلیٹو کانگرس، گورنمنٹ اور میونسپل دفاتر کے افسران اور کلرک.اس سال جنجہ کے مضافات میں تین نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور ایک سو پچیس سے زیادہ افراد داخل سلسلہ ہوئے.جماعت احمد یہ یوگنڈا کا جلسہ سالانہ ۱۴ جولائی ۱۹۶۳ء کو ”چا جو بیرو“ میں منعقد ہوا.افتتاح مولوی عبدالکریم صاحب شرما نے کیا.آپ کے علاوہ درج ذیل افراد نے خطاب کیا.(۱) مکرم میں بن جمعہ صاحب معلم.(۲) مسٹر ز کر یا ممبر یوگنڈا پارلیمنٹ (۳) مکرم صوفی محمد الحق صاحب (۴) مکرم حکیم محمد ابراہیم صاحب مبلغ یوگنڈا (۵) مولانا محمد منور صاحب کھانے پکانے کا سارا انتظام احمدی خواتین نے کیا.جلسہ کو کامیاب بنانے میں مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل مبلغ مسا کا کی کوششیں بالخصوص قابل قدر تھیں.64

Page 397

تاریخ احمدیت.جلد 22 382 سال 1963ء مبلغین احمدیت کی آمد وروانگی اس سال حسب ذیل مجاہدین فریضہ تبلیغ کامیابی سے بجالانے کے بعد واپس مرکز احمدیت میں پہنچے.(۱) مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم (۱۸مئی از غانا ) (۲) الحاج مرز الطف الرحمن صاحب (۱۸مئی از غانا ) (۳) سمیع اللہ صاحب سیال (۴) مرزا محمد ادریس صاحب (۵) حاجی فیض الحق خان صاحب (1) قریشی فیروز محی الدین صاحب ( ۷ ) چوہدری غلام ین صاحب (۸) مولوی منیر الدین احمد صاحب ( یکم جولائی از سیرالیون ) (۸) جولائی از بورنیو ) 68 69 (۱۰ جولائی از نائیجیریا ) (۸/اگست از مغربی افریقہ ) (۳ ستمبر از امریکہ) (۱۰ را کتوبر از مشرقی افریقہ) (۲۸ /اکتوبر از نائیجیریا) 73 (۹) مولوی بشیر احمد شمس صاحب (۱۰) مولوی نصیر احمد خان صاحب (۱۰ دسمبر از لبنان) (۱۱) قریشی مقبول احمد صاحب (۱۴؍ دسمبر از آئیوری کوسٹ ) (۱۲) حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب (۱۳) میر غلام احمد نسیم صاحب (۲۱ دسمبر از سیرالیون ) (۲۱ دسمبر از سیرالیون ) 76 اس سال جو مبلغین احمدیت بغرض اعلائے کلمتہ اللہ بیرون پاکستان تشریف لے گئے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:.(۱) سید جواد علی صاحب (۲۳ جنوری برائے امریکہ ) (۲) چوہدری عبد اللطیف صاحب (۲۵ جنوری برائے جرمنی ) (۳) مولوی بشارت احمد نسیم امروہی (۲۰ فروری برائے بور نیو ) 0 (۴) مولوی مقبول احمد صاحب ذیح (۵) مولوی ابوطالب صاحب افریقی (۶ امارچ برائے تتنزانیہ ) ۶ امارچ برائے تنزانیہ )

Page 398

تاریخ احمدیت.جلد 22 (1) محمود عبداللہ صاحب شبوطی (۷) محی الدین شاہ صاحب 383 ۶ امارچ برائے عدن ) (۲۷ مارچ برائے انڈونیشیا) (۸) چوہدری عبدالرحمن خان صاحب بنگالی (۶ را پریل برائے امریکہ ) (۹) میجر عبدالحمید صاحب (۱۰) قریشی محمد افضل صاحب (۱۱) مولوی عبدالحمید صاحب (۲ مئی برائے امریکہ ) 0 86 85 سال 1963ء ۲۶ مئی برائے آئیوری کوسٹ ) ( ۳۰ مئی برائے غانا ) (۱۲) صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب 1 جولائی برائے افریقہ ) (۱۳) سید داؤ د احمد صاحب انور (۱۴) مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم (۱۵) ملک لطیف خالد صاحب 89 (۱۳ جولائی برائے غانا ) 90 (۳ را گست برائے خانا ) (۱۲ را گست برائے سیرالیون) اگر چہ با قاعدہ مبلغ نہیں تھے مگر ایک عرصہ تک جماعت کی خدمت کی.

Page 399

تاریخ احمدیت.جلد 22 384 نئی مطبوعات اس سال کی نئی مطبوعات میں سر فہرست انگریزی تفسیر القرآن سال 1963ء (THE HOLY QURAN (WITH ENGLISH TRANSLATION AND COMMENTARY) VOL:III (PTS.26.30) EDT, GHULAM FARID MALIK) کی آخری اور تیسری جلد کی اشاعت ہے جو مجلس مشاورت کے موقعہ پر منظر عام پر آئی.چنانچہ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ممبرانِ شوری کو پہلے اجلاس کی کارروائی کے شروع میں یہ خوشخبری سنائی کہ قرآن مجید کی انگریزی تفسیر جو آج سے اکیس ۲۱ سال پہلے شروع ہوئی تھی اور جس کے ابتدائی حصہ میں مجھے بھی کچھ خدمت کا موقعہ ملا ہے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب بھی اس کام کو کرتے رہے ہیں.درد صاحب مرحوم بھی یہ کام کرتے رہے ہیں گو زیادہ کام ملک غلام فرید صاحب کے ذمہ رہا ہے اور اب تو کلیۂ اُن کے ذمہ ہے.اس تفسیر کا آخری حصہ جو باقی تھا اب مکمل ہو کر آ گیا ہے اور اس طرح خدا کے فضل سے یہ کام تکمیل کو پہنچ گیا ہے.پندرہ روپیہ اس کی قیمت رکھی گئی ہے.یہ بڑی خوبصورت چھپی ہوئی ہے اور کاغذ بھی عمدہ ہے.جو دوست اسکی توفیق رکھیں وہ اس کو خریدیں اور غیر احمد یوں تک پہنچائیں اور اپنے احمدی دوستوں میں بھی اس کی اشاعت کریں انشاء اللہ برکت کا موجب ہوگی“.اس اہم تالیف کے علاوہ ۱۹۶۳ء میں درج ذیل اہم کتابیں شائع کی گئیں.93 ا.ہمارا آقا ( تالیف محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی ) (حضرت) مرزا طاہر احمد صاحب نے اس کتاب پر حسب ذیل تبصرہ رقم فرمایا:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر حال ہی میں محمد احمد اکیڈمی لاہور کی طرف سے ایک بالکل جدید طرز کی کتاب بعنوان ”ہمارا آقا‘ شائع ہوئی ہے.اس کتاب کے مصنف محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کسی تعارف کے محتاج نہیں پاکستان کے ادبی حلقوں میں آپ کا نام ایک معروف اور بلند مقام بنا چکا ہے.

Page 400

تاریخ احمدیت.جلد 22 385 سال 1963ء آپ کی یہ کاوش بہت ہی پیاری اور نہایت قابل تحسین ہے.زبان سلیس اور پاکیزہ ، طرز بیان اچھوتا، زندگی کی ایک ایک منزل کو علیحدہ علیحدہ چھوٹے چھوٹے ابواب میں نکھار کر پیش کیا ہے.تحقیق گہری ہے اور ہر بات ثقہ، ایک عالم کے لئے بھی اس کا مطالعہ مفید ہے اور جاہل کے لئے بھی.بڑوں کے لئے بھی اور چھوٹوں کے لئے بھی.افسوس کہ ابھی تک اس کتاب کا صرف پہلا حصہ شائع ہوسکا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن سے لے کر دعوی نبوت تک حاوی ہے.کتاب ختم کرنے کے بعد ایک پہلو سے تشنگی بجھتی ہے تو ایک پہلو سے اور بھی بھڑک اٹھتی ہے.دل مزید تقاضا کرتا ہے.خصوصا بچوں کی تربیت اور ان کے دلوں میں اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت پیدا کرنے کے لئے یہ کتاب نہایت ہی مفید ثابت ہوسکتی ہے.کیونکہ اس کا ایک ایک لفظ عشق رسول میں گندھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ محترم شیخ صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور جلد از جلد اس نیک کام کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.۲.ہماری تعلیم مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ( از کشتی نوح) کا پشتو ترجمہ کی پہلی مرتبہ 95 اشاعت ہوئی.تحریری مناظره ما بین مولانا ابوالعطاء و پادری عبدالحق صاحب چندی گڑھ، انڈیا ۴- راه ایمان - انگریزی ترجمہ ۵- آئینہ جمال تقریر جلسه سالانه ۱۹۶۲ء ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) -۶.حیات نور (مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ ) اس کتاب کا پیش لفظ حضرت وو صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا جو درج ذیل کیا جاتا ہے:.شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ لاہور اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ”حیات طیبہ ( سيرة حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کی وجہ سے جماعت میں کافی متعارف ہو چکے ہیں اور شہرت پا چکے ہیں.اب انہوں نے خدا تعالیٰ کی توفیق سے حضرت حاجی الحرمین مولوی حکیم نور الد ین صاحب خلیفہ اول کی سیرۃ لکھنی شروع کی ہے اور مجھ سے اس کا پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی ہے.

Page 401

تاریخ احمدیت.جلد 22 386 سال 1963ء حضرت خلیفہ اول اپنے علم و فضل اور تقویٰ و طہارت اور توکل علی اللہ اور اطاعت امام میں ایسا مقام رکھتے تھے جو بعض لحاظ سے عدیم المثال تھا.آپ کی تعریف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر کافی ہے ہے چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس مردمومن کے متعلق یہ شاندار توصیفی الفاظ استعمال کئے ہیں کہ مولوی نورالدین صاحب اس طرح میری پیروی کرتے ہیں جس طرح انسان کی نبض اس کے دل کی حرکت کے پیچھے چلتی ہے.حقیقتا مولوی صاحب کا مقام اطاعت اور مقام توکل بہت ہی بلند تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعوے سے قبل یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ مجھے کوئی ایسا مددگار عطا فرمائے جو میرا دست و بازو ہو کر کام کر سکے.چنانچہ جب حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کیا.تو انہیں دیکھتے ہی حضور کے دل سے یہ صدا نکلی کہ هذا دعائي یعنی یہ مردمومن میری دعاؤں کی قبولیت کا نتیجہ ہے.حضرت خلیفہ اول کی ارفع شان اور علم کی گہرائی اور خدا داد بصیرت اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی ابھی بچہ ہی تھے کہ حضرت خلیفہ اول نے ان کے متعلق وثوق کے ساتھ فرمایا کہ یہی ہونے والا مصلح موعود ہے.میں نے شیخ عبد القادر صاحب کی اس کتاب کو کہیں کہیں سے دیکھا ہے مگر میں امید کرتا ہوں کہ خدا کے فضل سے یہ کتاب بھی قریبا قریبا اسی شان کی کتاب ہوگی جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح میں لکھی ہے.مجھے یقین ہے کہ دوست اس مفید کتاب کی اشاعت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں گے تاکہ حضرت خلیفہ اول کے انوار قدسیہ سے زیادہ سے زیادہ برکت حاصل کر سکیں.خاکسار مرزا بشیر احمد ، ربوه ے.اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم سیرت حضرت مولوی سید محمد سرورشاه ( ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)

Page 402

تاریخ احمدیت.جلد 22 387 سال 1963ء (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدرصد را انجمن احمدیہ کا تبصرہ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کبار کے حالات زندگی جمع کرکے شائع کرنے کے سلسلہ میں مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کی مساعی نہایت قابلِ قدر ہے.اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو بار آور کرے اور انہیں ان کے لئے اپنے پاس سے اجر عظیم دے.آمین.حال ہی میں مکرم ملک صاحب نے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے حالات قلمبند کر کے شائع کئے ہیں.حضرت مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بلند پایہ قدیم صحابہ میں سے ایک جلیل القدر صحابی ہیں جو مشن کالج پشاور کی پروفیسری کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے عنفوانِ شباب ہی میں عیسائیت کے خلاف علمی جہاد کی غرض سے قادیان آگئے.انہوں نے اپنے تئیں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا اور تن من دھن اس پر نثار کر دیا.یہ کہنا مبنی بر حقیقت ہے کہ حضرت مولوی صاحب احمدیت کی مدافعت اور خلافت کی حفاظت کے لئے سینہ سپر رہے.اور آپ کی ساری عمر خدمت دین میں گذری.آپ کے علو مرتبت کا اس امر سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں ۳۲ سال کی عمر میں ہی قادیان میں امام الصلوق اور خطیب مقر فر ما دیا تھا اور حضور علیہ السلام نے کئی بار آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی اور حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے کئی بار قادیان سے باہر تشریف لے جاتے وقت انہیں قائمقام امیر مقرر فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرام ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہی کی طرح ہمیشہ دین کی خدمت پر کمر بستہ رہنے کا تہیہ کرلے اور یہ بھی ممکن ہے جبکہ ہمیں ان کے تفصیلی حالات کا علم ہو اور ہم یہ جانتے ہوں کہ کس طرح انہوں نے ہر آن اپنے تئیں خدمت دین کے لئے وقف رکھا اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کیں.پس میں احمدی احباب سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم خرید فرما دیں اور نہ صرف خوداس کا مطالعہ کریں بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی اس کی تلقین فرماویں.خاکسار کی رائے میں یہ کتاب ہر احمدی گھرانے میں موجود ہونی چاہیے.66 98 تابعین اصحاب احمد جلد سوم.سیرت حضرت ام طاہر ( ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ) ۹.جماعت احمدیہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ( خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس)

Page 403

تاریخ احمدیت.جلد 22 ۱۰.موجودہ عیسائیت کا تعارف 388 سال 1963ء خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب) تحریف بائیبل اور مسیحی علماء حصہ اول (ملک فضل حسین صاحب احمدی مهاجر ) ۱۲.نظام بیت المال میاں عبد الحق صاحب رامہ ناظر بیت المال) ۱۳.حکومت وقت اور احمدی (مولوی خورشید احمد صاحب پر بھا کر )

Page 404

تاریخ احمدیت.جلد 22 389 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 الفضل ۸جنوری ۱۹۶۳ء صفحه ا الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۶۳ء ایک مبارک نسل کی ماں ، صفحہ ۱۲۰ الفضل ۵ مارچ ۱۹۶۳ صفحه ا الفضل ۳ دسمبر ۱۹۶۳ صفحه ا حوالہ جات (صفحه ۳۳۲ تا ۳۸۸) الفضل ۱۲ فروری ۱۱ جولائی ، ۲۱ اگست ،۲۸ /اگست ،۲۴،۱۵ ستمبر ۱۹۶۳ء الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۶۳ صفحه ا الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۶۳ء الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۶۳ ء صفحہ ۱ الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحیم الفضل ۱۸ جون ۱۹۶۳ صفحه ۶ 12 الفضل یکم ستمبر ۱۹۶۳ء صفحه ا 13 الفضل ۴ استمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۷ 14 الفضل ۱۸ستمبر ۱۹۶۳ صفحه ا 15 الفضل ۳۰ راگست ۱۹۶۳ء صفحه ا 16 17 الفضل هم جنوری ۱۹۶۴ صفحه ا الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۶۳ء صفحه ۸ 18 الفضل ۱۰ جنوری و ۲۶/اکتوبر ۲، ۶، ۲۶ نومبر ۱۹۶۳ء 19 الفضل کے نومبر ۱۹۶۳ ، صفحریم 20 الفضل ۲۲ جنوری، ۲۷ نومبر ۱۹۶۳ء 21 بحواله الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۶۳ ، صفحه ۳ ۴۰ 22 ہفت روزہ بدر قادیان سیرت النبی نمبر ۱۳/۶ مئی ۲۰۰۳ ء صفحه ۱۳ 23 اخبار بدر قادیان ۲۱ مارچ ، ۱۱، ۱۸، ۲۵ اپریل ۲ مئی ۱۹۶۳ء سال 1963ء

Page 405

تاریخ احمدیت.جلد 22 390 سال 1963ء 24 الفضل ۵ را پریل ۱۹۶۳، صفحه ۱ 25 تاریخ احمدیت جموں و کشمیر صفحه ۱۴۵-۱۴۶ مرتبہ قریشی محمد اسد اللہ صاحب مربی سلسلہ احمدیہ اشاعت فروری ۱۹۷۳ء 26 سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ بابت ۶۴ ۱۹۶۳، صفحہ ۷۶.۷۷، بابت ۶۶.۱۹۶۵،صفہ ۸۲.ناشر ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان وو 27 کچھ باتیں کچھ یادیں، صفحہ ۹۶-۹۷ - مؤلفہ شیخ عبدالحمید صاحب عاجز مطبوعہ چوپڑہ پرنٹنگ پریس جالندھر نومبر ۱۹۸۵ء 28 الفضل ربوه ۲۱ ستمبر ۱۹۶۳، صفحه ۸ 29 کراچی تاریخ احمدیت حصہ اوّل صفحه ۳۸۱ تا ۳۸۵ 30 الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۶۳ صفحه ۸ 31 رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۶۳-۱۹۶۲، صفحه ۵۳ رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یه ۶۳-۱۹۶۲ء صفحہ۵۹ 33 34 32 الفضل ربوه ۱۳ ،۱۵ جنوری ۱۹۶۳ الفضل ربوه ۲۲،۱۸ جنوری ۱۹۶۳ 35 الفضل ربوہ کے مارچ ۱۹۶۳ صفحه ا 36 الفضل ربوها جون ۱۹۶۳ صفحہ نمبر ۱، ۸، الفضل ربوه ۱۲ جون ۱۹۶۳ صفحه نمبر ۴ ، ۵ 37 الفضل ربوه ۲۵ جون ۱۹۶۳ صفحه ا 38 الفضل ربوه ۲۶، ۲۷ جون ۱۹۶۳ صفحه ۱ 39 الفضل ۳ مئی.جولائی.۱۸ راگست ۲۱ نومبر ۱۹۶۳ء 40 الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۳ 41 الفضل ۱۱ر اپریل ۳ نومبر ۱۹۶۳ء 42 الفضل ۱۷ / اگست ۲۶ / اکتوبر ۱۲۰ دسمبر ۱۹۶۳ء اور ۲۵ فروری ۱۹۶۴ء 43 الفضل ۲۹ ستمبر و یکم اکتوبر ۱۹۶۳، ۲۹ جنوری ۱۹۶۵ء 44 الفضل یکم اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحریم 45 الفضل یکم اکتوبر ۱۹۶۳ ء صفحریم 46 الفضل ۲ فروری ۱۱ را پریل ۱۹۶۴ء 47 الفضل ۱۳ جون ۱۹۶۳، صفحه ۳ ۴۰، ۲۷ فروری ۱۹۶۴ صفحه ۵ 48 الفضل ۲۱ مارچ ۲۶،۲۴، ۲۷ ستمبر ۱۹۹۳ء 49 الفضل ۶ جولائی ۱۹۶۳ء صفحه ۳ یم

Page 406

تاریخ احمدیت.جلد 22 50 الفضل ۲۹ / اگست ۱۹۶۴ء صفحه ۴۳ 391 51 الفضل ۲۵ را پریل، ۳۰،۲۸ را گست ۱۳ نومبر ۱۹۶۳ء 52 الفضل ۶ را پریل ۱۹۶۳ء صفحه ۵ 53 الفضل ۲ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۳ 54 الفضل ۷ جولائی ۱۹۶۳ء صفحه ۳ ۴ ترجمہ مکتوب 55 الفضل ۲۳ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ۱۲ 56 الفضل ۱۳ ۱۴ / اپریل ۲۳ مئی ۳ جولائی.۲۰ستمبر ۱۹۶۳ء اور ے جنوری ۱۹۶۴ء 57 روز نامہ الفضل ۷۶ فروری ۱۹۶۳ء،۷،۵راپریل ۱۹۶۴ء 58 الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۳ صفحه ۱ - ۱۲ 59 احمدیہ گزٹ کینیڈا مارچ، اپریل ۱۹۸۹ صفحه ۳ ۸ تا ۹۰ مضمون مکرم حسن محمد خان صاحب الفضل ۲۹ جون.۳۰،۲۹،۲۸ نومبر ۱۹۶۳ء.۲۸،۲۶ مارچ ۱۹۶۴ء 60 61 الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۳ ۴ الفضل ۲ ، ۷، ۱۸ اگست و ۷ ارا کتوبر ۱۹۶۳ء 63 الفضل ۲۸ مئی ، ۱۰،۸دسمبر ۱۹۶۳ء 64 الفضل ۳۱،۲۹،۲۲،۱۰ / اگست ۴، ۵ ستمبر ۱۹۶۳ء.۲۹ جنوری ۱۹۶۴ء 65 الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۳ء صفحه ا 66 الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۳ء 67 الفضل ۳ جولائی ۱۹۶۳ء 68 الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۶۳ء 69 ریکارڈ وکالت تبشیر 70 الفضل ۱۰ را گست ۱۹۶۳ء 71 ریکارڈ وکالت تبشیر 72 الفضل ۱۰/اکتوبر ۱۹۶۳ء 73 الفضل یکم نومبر ۱۹۶۳ء 74 ریکارڈ وکالت تبشیر الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۶۳ء 75 الفضل ۱۸دسمبر ۱۹۶۳ء 76 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۶۳ء 77 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۶۳ء سال 1963ء

Page 407

تاریخ احمدیت.جلد 22 78 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۳ء 79 الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۶۳ء 80 الفضل ۲۳ فروری ۱۹۶۳ء 81 الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۶۳ء 82 83 الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۶۳ء ریکارڈ وکالت تبشیر 84 الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۶۳ء 85 الفضل ۹ر اپریل ۱۹۶۳ء 86 87 ریکارڈ وکالت تبشیر الفضل ۲۸ مئی ۱۹۶۳ء 392 88 ریکارڈ وکالت تبشیر 89 الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۶۳ء 90 الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۶۳ء 91 الفضل ۱۴ اگست ۱۹۶۳ء 92 رپورٹ سالانہ صدرانجمن ربو ۶۴۰ ۱۹۶۳، صفحہ ۷۹ 93 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۳ صفحه۱۱،۱۰ 94 الفضل ۱/۲۷ اکتوبر ۱۹۶۳، صفحه ۲ 95 الفضل ربوہ ۷ جون ۱۹۶۳ صفحه ۶ 96 الفضل ربوه ، ۲۰ ر ا پریل ۱۹۶۳ صفحه ۴ 97 الفضل ربوه ۲۸ اپریل ۱۹۶۳ صفحه ۲ 98 الفضل الدسمبر ۱۹۶۳ء صفه ۳ سال 1963ء

Page 408

سال 1964ء 393 تاریخ احمدیت.جلد 22 صلح تا فتح ۱۳۴۳ بهش / جنوری تا دسمبر ۱۹۶۴ء خلافت ثانیہ کے فتح وظفر سے معمور پچاس سال.پُر مسرت نقاریب ،تجدید عہد ۱۹۶۴ء کی یہ خصوصیت ہمیشہ یادگار رہے گی کہ اس سال خلافت ثانیہ کے فتح و ظفر سے معمور پچاس سال پایہ تکمیل کو پہنچے.جو خدائی نصرتوں اور برکتوں کے بے شمار واقعات سے لبریز تھے.حضرت مصلح موعود جب مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو بیرونی دنیا میں جماعت احمدیہ کا کوئی با قاعده مشن قائم نہیں تھا (اگر چہ حضرت چوہدری فتح محمد سیال بطور مبلغ خلافت اولیٰ میں انگلستان جاچکے تھے ).لیکن حضور نے پچاس سال کے اندر اندر دنیا کے تمام اہم ممالک میں تبلیغی مشنوں کا حیرت انگیز جال بچھا دیا.چنانچہ ۱۹۶۴ء میں حضور کے جانثار شاگرد جن ممالک میں مصروف عمل تھے ان کے نام یہ ہیں:.نمبر شمار نام ملک تعدا د مرکزی مبلغین کرام تعداد مقامی مبلغین کرام ✓ ☑ ☑ ☑ ☑ ☑ ☑ 1 برطانیہ سپین سوئٹزرلینڈ ہالینڈ جرمنی سکینڈے نیویا ا شمالی امریکہ برٹش گی آنا انڈونیشیا سنگاپور بور نیو 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11

Page 409

سال 1964ء ۱۷ ۱۹ 2 ☑ ا ☑ ا ا 1 ☑ ۱۵ ا ☑ ☑ ☑ ۵ ☑ 394 نائیجیریا غانا سیرالیون لائبیریا گیمبیا آئیوری کوسٹ ٹرینیڈاڈ ٹو گولینڈ كينيا تاریخ احمدیت.جلد 22 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 یوگنڈا 22 تنزانیہ ( ٹانگانیکا.زنجبار ) 23 24 25 26 27 28 222222222 جنوبی افریقہ ماریشس فلسطین شام عدن تعمیر مساجد فنجی ☑ مسجد دینی معاشرہ کی اہم ترین علامت ہے اور اشاعت دین کا مؤثر ذریعہ ہے.حضرت مصلح موعود کی توجہ سے ۱۹۶۴ء تک مندرجہ ذیل بیرونی ممالک میں ۳۴۳ مساجد تعمیر ہوئیں جو بہت ہی جلد اشاعت توحید کے اہم مراکز بن گئیں.انگلستان (۱).جرمنی (۲).ہالینڈ (۱).سوئٹزرلینڈ (۱).امریکہ (۳).انڈونیشیا (۶۰).ملایا (۲).برما (۱).بورنیو (۳).ماریشس (۶) - مشرقی افریقہ (۲۰).سیرالیون (۴۰).نائیجیریا (۴۰).گھانا (۱۶۱).

Page 410

تاریخ احمدیت.جلد 22 395 سال 1964ء علاوہ ازیں ڈنمارک کے دارالسلطنت کوپن ہیگن میں خدا کے گھر کے لئے موزوں مقام پر ایک پلاٹ بھی اسی مبارک دور میں خریدا گیا.تعلیمی ادارہ جات خلافت ثانیہ کے دور میں مسلمان افریقن طلباء کو عیسائیت کے اثرات سے بچانے کے لئے افریقہ کے مختلف مقامات پر ۵۹ سکول جاری کئے گئے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے.ملک ٹرینیڈاڈ نائیجیریا (مغربی افریقہ ) غانا ( مغربی افریقہ) کینیا ( مشرقی افریقہ) ماریشس انڈونیشیا تعداد تعلیمی ادارہ جات 11 ملک برٹش گی آنا فلسطین سیرالیون یوگنڈا جزائر فجی تعداد تعلیمی ادارہ جات ان تعلیمی اداروں کی بدولت مسلمان طلبہ اپنے عقائد پر چٹان کی طرح قائم ہو گئے جس کا واضح ثبوت وہ احساس تشکر ہے جوان افریقی مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جو ان اداروں سے فیضیاب ہو کر نکلنے والوں کی عظیم الشان قومی خدمات پر انگشت بدنداں ہیں.سیرالیون کے وزیر معدنیات (بعد ازاں نائب وزیر اعظم ) آنریبل مصطفیٰ سنوسی نے ایک مرتبہ جماعت کے تعلیمی اداروں کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا تھا:.یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے ہمیں اسلامی روشنی کے ساتھ نیند سے بیدار کیا ہے.گذشتہ بیس سال سے نامساعد حالات کے باوجود یہ اصحاب ملک کی روحانی اور تعلیمی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں ہیں.اس لحاظ سے وہ اور بھی زیادہ خراج تحسین کے مستحق ہیں کیونکہ ان کا مقصد صرف مسلمانوں کی خدمت ہی نہیں بلکہ وہ مذہب اور عقیدہ سے بالا تر ہو کر ساری انسانیت کی خدمت پر کمر بستہ ہیں.سینکڑوں طلبہ جنہوں نے ان کے اداروں سے اکتساب علم کیا ہے اب اچھے شہری بن چکے ہیں.ان میں اکثر زندگی کے تقریبا تمام شعبہ جات میں سرگرم عمل ہیں.اسی طرح سیرالیون کے وزیر آبادی آنریبل کا نڈے بورے نے ایک مرتبہ کہا:.

Page 411

تاریخ احمدیت.جلد 22 396 سال 1964ء میں یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سیرالیون میں اگر کوئی اسلامی تنظیم مصروف عمل ہے تو وہ صرف جماعت احمد یہ ہے اور اس کے مبلغین ہیں.اور میری یہ بڑی نا انصافی ہوگی اگر میں اس امر کا اقرار نہ کروں کہ اگر احمدی مبلغین اس ملک میں نہ آئے ہوتے اور انہوں نے اسلام پر عیسائیت کے جارحانہ حملوں کی مدافعت نہ کی ہوتی تو اس وقت اس ملک میں اسلام کے نام کے سوا اور کچھ باقی نہ رہتا اور کوئی شریف آدمی اس نام کے ساتھ منسوب ہونا گوارا نہ کرتا“.اسی طرح گھانا کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر الحاج یعقوب تالی تلون نے فرمایا:.احمد یہ تحریک کی سرگرمیوں کا میں ایک چشم دید گواہ ہوں اور میں بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ ان ممالک میں اس جماعت کی خدمات کی وجہ سے اسلام کو نمایاں فتح حاصل ہوئی ہے“.اخبارات ورسائل عہدِ حاضر میں پریس کو جو عالمی حیثیت حاصل ہے اسے کوئی بھی فعال تبلیغی تنظیم نظر انداز نہیں کر سکتی.۱۹۶۴ء میں جماعت احمدیہ کے مندرجہ ذیل اخبارات و رسائل اسلام کا نور پھیلانے میں مصروف تھے.نمبر شمار نام Der Islam Active Islam The Truth The African Crescent زبان مقام اشاعت جرمن زیورچ سویڈش ٹاک بالم انگریزی نائیجیریا سیرالیون The Muslim Sunrise Ahmadiyyat ۶ The Message واشنگٹن ٹرینڈاؤ انگریزی وسنهالی کولمبو سینا ر اسلام انڈونیشین جکارتہ ۹ البشرى العصر عربی حيفا انگریزی کیپ ٹاؤن احمد یہ گزٹ جرمن زیورچ

Page 412

تاریخ احمدیت.جلد 22 397 سال 1964ء ۱۲ الاسلام البشرى مسلم ہیرلڈ ۱۳ ۱۴ Le Message ۱۵ Islam ۱۶ ۱۷ عربی عدن انگریزی.اردو.تامل.برمی بر ما انگریزی انگلستان فرنچ ماریشس ڈچ دی ہیگ گائیڈ مینیس انگریزی فینٹی غانا تراجم قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس وقت متعدد زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ تیار کر کے شائع کیا جا چکا ہے.بعض زبانوں میں تراجم کے مسودات تیار کر لئے گئے ہیں اور عنقریب ان کی اشاعت بھی ہو جائے گی.اب تک قرآن مجید کا انگریزی، ڈچ، جرمن اور سواحیلی زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے.ہسپانوی، پرتگالی، اطالوی، روسی، فرانسیسی ، انڈو نیشی ، ملائی، گورمکھی ، کامبہ ، کویو اور لود زبانوں میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے.مگر ابھی تک منصہ شہود پر نہیں آیا.فرانسیسی ترجمہ قرآن مجید کی آخری نظر ثانی شروع ہے جس کے بعد وہ پریس میں چلا جائے گا.ڈینیش زبان میں ہیں پاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے.اور سات پارے شائع بھی ہو چکے ہیں.سیرالیون کی زبان ” مینڈی میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے اور اب پارہ پارہ کر کے شائع ہونا شروع ہوا ہے.یورو بالوگنڈا اور فینٹی زبانوں میں ترجمہ کا کام تیزی سے جاری ہے.ترجمہ اور مختصر تفسیری نوٹوں کے علاوہ انگریزی زبان میں قرآن مجید کی تفسیر کی اشاعت بھی ہو رہی ہے.مطبوع تفسیر القرآن انگریزی تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے.تفسیر القرآن انگریزی کی تیسری اور آخری جلد گذشتہ سال شائع ہو چکی ہے.اب اس کا خلاصہ پیش کرنے کی جدو جہد جاری ہے.اس سلسلہ میں ” دیباچہ تفسیر القرآن انگریزی جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تصنیف ہے، خاص اہمیت کی حامل ہے.قرآن مجید کے تراجم تغییر اور یہ دیباچہ خاص طور پر مغربی مستشرقین اور اہل علم سے خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں.پروفیسر ایچ.اے.آرگب انگریزی ترجمہ قرآن کے متعلق لکھتے ہیں.یه ترجمه قرآن مجید کو انگریزی زبان کا جامہ پہنانے کی سابقہ کوشش کے مقابلہ میں زیادہ قابل تحسین ہے“

Page 413

تاریخ احمدیت.جلد 22 رچرڈ بیل نے لکھا:.398 سال 1964ء یقیناً قرآنی تعلیمات کو جامعیت کے ساتھ پیش کرنے کا انداز جدت کا حامل اور ہر طرح تحسین کے قابل ہے.اگر انجمن اقوام متحدہ اس کے بیان کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہو سکے تو یقینا کسی حد تک وہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر سکتی ہے“ اسی طرح ڈچ ترجمہ قرآن مجید کے متعلق ریفارمڈ چرچ کا مشہور ہفتہ وار اخبار "MENKLABE ALBLASCER WAAD" لکھتا ہے:.اس وقت ہمارے سامنے مسلمانوں کی کتاب مقدس قرآن پڑی ہے جو عربی اور ڈچ میں چھپی ہے.ترجمہ نہایت ہی سلیس ہے.جو شخص مسلمانوں کے مذہب یا دیگر مذاہب سے دلچسپی رکھتا ہو اس کے لئے یہ اول نمبر کا ماخذ ہے.“ "INDE WAAGSCHED" اس کے دیباچہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ۵ مارچ ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں لکھتا ہے:.اس کے دیباچہ میں جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا لکھا ہوا ہے، قرآن کریم کی عالمگیر حیثیت کو بائیبل اور ویدوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے.اس دیباچہ کے مطابق عہد قدیم کی پیشگوئیاں مسیح سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ ان کا تعلق اسلام کے نبی پاک سے بتلایا جاتا ہے.جو شخص مسلمانوں کی کتاب سے واقفیت حاصل کرنا چاہے وہ اب ڈچ زبان میں کرسکتا ہے.“ اس کے علاوہ بیرونی مشنوں اور مرکزی دفتر کی طرف سے زر کثیر کے طرف سے مناسب لٹریچر تیار کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے.اس کی ایک جھلک پیش ہے:.تراجم کتب حدیث:.مقامات النساء فی احادیث سید الانبیاء، چالیس جواہر پارے، ریاض احادیث النبی وغیرہ کتب احادیث کے انتخابات کے انگریزی تراجم شائع کئے جاچکے ہیں.ترجمہ فتاوی احمدیہ: فتاوی احمدیہ کا انتخاب نائیجیریا مشن نے بزبان انگریزی شائع کیا ہے.

Page 414

تاریخ احمدیت.جلد 22 تراجم کتب تاریخ و سیرت: 399 ، دو سال 1964ء لائف آف محمدم ، لائف آف احمد سیرۃ طیبہ آئینہ جمال“ ”ڈر منشور کے عربی وانگریزی تراجم شائع ہوئے.تراجم کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کے تراجم کی اشاعت کی طرف بھی توجہ کی گئی ہے اور تراجم کا کام جاری ہے.من الرحمن ( تالیف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ) کا انگریزی ترجمہ شائع کیا جا چکا ہے.نیز حضور کی کتب اسلامی اصول کی فلاسفی الوصیت“ ضرورۃ الامام.مسیح ہندوستان میں.ایک غلطی کا ازالہ کشتی نوح سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب وغیرہ کے بیرونی زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں.دیگر اساسی لٹریچر :.ان کے علاوہ بعض کتب کے تراجم کے مسودات تیار ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی متعدد تصانیف مثلاً احمدیت یعنی حقیقی.دیباچہ تفسیر القرآن (انگریزی) نظام نو.اسلام کا اقتصادی نظام.دعوت الا میر وغیرہ کے تراجم شائع ہو چکے ہیں.اس کے علاوہ مختلف مشنوں کی طرف سے کسر صلیب کے لئے علماء اور مبلغین کے قلم سے نکلا ہوا بے شمارلٹریچر پھیل چکا ہے اور پھیل رہا ہے! اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس کے ذریعہ اسلام کا اثر ونفوذ بڑھ رہا ہے.اس لٹریچر کے طفیل اب مسلمان اپنے عقائد پر چٹان کی طرح ڈٹ کر باطل کے وساوس کا سد باب کر رہے ہیں.نائیجیریا کے وزیر اعظم الحاج ابوبکر نے ایک موقع پر فرمایا:.مجھے جب بھی عیسائیوں سے بحث کے دوران کوئی بات پیش کرنی ہوتی ہے تو ہمیشہ احمد یہ لٹریچر میری رہنمائی کرتا ہے.میں اس کے علاوہ کسی اور مذہبی لٹریچر پر اس قدر را عتماد نہیں کرتا جتنا کہ احمدیہ جماعت کے لٹریچر پر کرتا ہوں.سید نا حضرت مصلح موعود کی خلافت کے پچاس سال کے اندر مشرق و مغرب میں ایسا عظیم الشان انقلاب رونما ہوا اور اس طرح ہوا کا رخ بدل گیا کہ اپنے اور بیگانے ورطہ حیرت میں پڑ گئے اور اسے نوع انسانی کی روحانی تاریخ کا ایک عجیب و غریب واقعہ اور زبر دست نشان قرار دینے پر مجبور ہو گئے.

Page 415

سال 1964ء تاریخ احمدیت.جلد 22.400 چنا نچہ سوئٹزر لینڈ کے مشہور روزنامہ BERNER TAGBLATT نے اپنی ااجون ۱۹۶۱ء کی اشاعت میں حضرت مصلح موعود کے ذریعہ عالمگیر مہم کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:.اس دوران میں یہ جماعت دنیا کے اور بہت سے حصوں میں پھیل گئی ہے.جہاں تک یورپ کا تعلق ہے.لنڈن ، ہمبرگ، فرانکفورٹ ، میڈرڈ، زیورک اور سٹاک ہلم میں اب اس جماعت کے با قاعدہ تبلیغی مشن قائم ہیں.امریکہ کے شہروں میں سے واشنگٹن ، لاس انجیلس ، نیو یارک ، پٹسبرگ اور شکاگو میں بھی اس کی شاخیں موجود ہیں.اس سے آگے گریناڈا، ٹرینی ڈاڈ اور ڈچ گی آنا میں بھی یہ لوگ مصروف کار ہیں.افریقی ممالک میں سے سیرالیون، گھانا، نائیجیریا، لائبیریا اور مشرقی افریقہ میں بھی ان کی خاصی جمعیت ہے.مشرق وسطی اور ایشیا میں سے مسقط ، دمشق، بیروت، ماریشس، برطانوی شمالی بور نیو کولمبو، رنگون ، سنگا پور اور انڈونیشیا میں ان کے تبلیغی مشن کام کر رہے ہیں.دوسری عالمگیر جنگ سے قبل ہی قرآن کا دنیا کی سات مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا.چنانچہ اب تک ڈچ ، جرمن اور انگریزی میں پورے قرآن مجید کے تراجم عربی متن کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں.اسی طرح عنقریب روسی ترجمہ بھی منظر عام پر آنے والا ہے.اس جماعت کا نصب العین بہت بلند ہے یعنی یہ کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام بنی نوع انسان کو ایک ہی مذہب کا پابند بنا کر انہیں باہم متحد کر دیا جائے.وہ مذہب احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہے.اس کے ذریعہ یہ لوگ پوری انسانیت کو اسلامی اخوت کے رشتے میں منسلک کر کے دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن قائم کرنا چاہتے ہیں.انہیں توقع ہے کہ بالآخر تمام بنی نوع انسان اسلام کی آغوش میں آکر مسلمان ہو جائیں گے.یہ جماعت خود اور اس کا اپنے مولد و مسکن سے نکل کر پوری دنیا میں اس قدر مضبوطی سے پھیل جانا نوع انسان کی روحانی تاریخ کے عجیب و غریب واقعات میں سے ایک عجیب و غریب واقعہ اور نشان ہے.اگلے سال سوئٹزر لینڈ کے ایک اور مشہور عیسائی اخبار SCHWEIZER EVANGELIST نے ۷ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو لکھا:.جرمنی میں تعمیر شدہ اور زیر تعمیر مساجد کی کل تعداد سات ہے.لنڈن ، دی ہیگ اور ہلنسکی میں بھی مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورک میں بھی ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے.ان مساجد میں سے اکثر مساجد گزشتہ تین سال کے عرصہ میں ہی تعمیر ہوئی ہیں

Page 416

تاریخ احمدیت.جلد 22 401 سال 1964ء یا انہیں تعمیر کرنے کی تجویز منصہ شہود پر آئی ہے.یہ مساجد اس امر کی آئینہ دار ہیں کہ یورپ میں اسلامی مشنوں ( تبلیغ کے مراکز) کا ایک جال پھیلایا جا رہا ہے.ان مشنوں کے قائم کرنے والے مسلمانوں کے صف اول کے دو بڑے گروہوں یعنی شیعہ اور سنی فرقوں سے تعلق نہیں رکھتے.ان کا تعلق مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت سے ہے جنہیں بالعموم بدعتی سمجھا جاتا ہے.اس جماعت کا نام جماعت احمد یہ ہے.یورپ کی اکثر مساجد اس جماعت نے ہی تعمیر کی ہیں.یہ جماعت آج سے ستر سال قبل برصغیر پاک و ہند میں معرض وجود میں آئی تھی.اس جماعت کے افراد کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے.اس کا دعوی ہے کہ وہ حقیقی اسلام کی علمبردار ہے.اپنے اس دعوی کی رُو سے یہ نوع انسان کی فلاح اور دنیا میں امن کے قیام کے لئے کوشاں ہے.احمد یہ تحریک اول و آخر ایک مشنری تحریک ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ہر خاندان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے میں سے کم از کم ایک فرد کو پیش کرے جو تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف رکھے.یہ عقل کو اپیل کرنے کی بنیاد پر اپنے مشن بالعموم اسلامی ممالک میں نہیں بلکہ افریقی ممالک میں اور ان میں سے بھی زیادہ تر مغربی افریقہ میں اور پھر یورپ اور امریکہ میں قائم کر رہے ہیں.ان کے یورپی مراکز زیورک ، لنڈن اور کوپن ہیگن میں قائم ہیں.ان میں سے زیورک کا مرکز وسطی یورپ اور اٹلی کے علاقہ کو کنٹرول کرتا ہے.لنڈن کے مرکز کا رابطہ سارے مغربی یورپ سے ہے اور کوپن ہیگن کے مرکز کے دائرہ عمل میں شمالی یورپ کا تمام علاقہ شامل ہے.یورپ کے عیسائی ممالک میں اسلام کے یہ نمائندے بدھ مت والوں کے خلاف (اور) عیسائیت کا مقابلہ کرنے میں بہت پیش پیش ہیں.جرمن زبان میں ان کی مطبوعات شائع ہوئی ہیں.ان میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام میں زمانہ حال کے جدید مسائل کا پوراحل موجود ہے اور اسلام ہی انسانی ضرورتوں کے مناسب حال وہ اکیلا مذہب ہے جو وسعت فکر، تعمیر وترقی اور آزاد خیالی کا علمبردار ہے.پُر مسرت، ایمان افروز اور ولولہ انگیز تقاریب ان آسمانی نصرتوں، فضلوں اور برکتوں کے جلو میں ۱۴ / مارچ ۱۹۶۴ء کا مبارک دن طلوع ہوا اور ساتھ ہی ربوہ، قادیان نیز دنیا بھر کی احمدی جماعتوں میں خلافت ثانیہ پر پچاس سال پورے ہونے پر پر مسرت تقاریب کا آغاز ہو گیا.

Page 417

تاریخ احمدیت.جلد 22 ربوه 402 اخبارالفضل ۱۷ / مارچ ۱۹۶۴ء رقمطراز ہے:.سال 1964ء اظہار تشکر کے طور پر اہل ربوہ نے ۱۴ مارچ ۱۹۶۴ ء کا مبارک دن اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ و متضرعانہ دعاؤں میں گزارا.مساجد میں نمازوں کے دوران انہوں نے خاص توجہ اور التزام سے ں اور دعائیں مانگیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے پیارے بندے محمود سید نا حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور حضور کا نہایت مقدس و با برکت سایہ ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھے اور تمام جماعت ہی نہیں تمام جہان کو ان عظیم الشان برکات سے جو حضور کے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں اور جنہیں ہم پچاس سال سے مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں متمتع فرماتا چلا جائے حتی کہ اسلام دنیا میں پورے طور پر غالب آ کر روئے زمین کے تمام انسانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لا جمع کرے.آمین اللهم آمین احباب نے اس روز اپنے طور پر دنیا میں غلبہ اسلام کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے اور نظام خلافت کے ساتھ دلی وابستگی کے ساتھ ساتھ اس کی مضبوطی اور استحکام کے لئے نسلاً بعد نسل جد و جہد کرتے چلے جانے کے عہد کی تجدید بھی کی.اور خدا تعالیٰ سے اس امر کے لئے بھی دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے فضل و رحم سے انہیں اپنے اس عہد کو پورے عزم و ہمت کے ساتھ نبھاتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اللهم آمین آمین ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی اس تحریک میں کہ اُس روز پچاس سال پورے ہونے پر پچاس جانور بطور صدقہ ذبح کئے جائیں احباب جماعت نے از خود والہانہ انداز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہت بڑی رقم جمع ہوگئی.چنانچہ اس روز لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کے زیر اہتمام پچاس بکرے بطور صدقہ ذبح کر کے ان کا گوشت مستحقین میں تقسیم کیا گیا.نیز لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شام کو میٹھے چاولوں کی دیگیں پکا کر غرباء کو کھانا بھی کھلایا.مزید برآں ربوہ کے بعض محلہ جات میں احباب نے مل کر اور علی الخصوص گول بازار کے دوکانداروں نے متعدد دیگوں میں میٹھے چاول پکوا کر شکرانہ اور اظہار مسرت کے طور پر انہیں بچوں میں تقسیم کروایا.شام کو مسجد مبارک، دفاتر صدر انجمن احمدیه، دفاتر تحریک جدید اور بعض ادارہ جات کی عمارتوں پر

Page 418

تاریخ احمدیت.جلد 22 403 سال 1964ء بجلی کے رنگ برنگے قمقموں سے چراغاں کیا گیا.نیز بازاروں میں دکانوں پر اور محلہ جات میں احباب نے اپنے طور پر گھروں پر کہیں بجلی کے قمقے اور کہیں موم بتیاں روشن کر کے چراغاں کا اہتمام کیا.چراغاں کے باعث گول بازار اور سڑکوں پر نماز عشاء کے بعد تک خاصی چہل پہل اور رونق رہی.۲۰ مارچ ۱۹۶۴ء کو جمعہ تھا.اس روز ربوہ میں مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح وارشاد نے اپنے خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا:.درهم امارچ ۱۹۶۴ء کو ہمارے موجودہ امام حضرت سید نا بشیر الدین محمود احمد مصلح موعود عافاه الله الودود کی خلافت پر پچاس سال گزر چکے ہیں.یہ امر یقیناً ہمارے لئے موجب مسرت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قائم کی ہوئی جماعت کو گذشتہ پچھتر سال میں اپنوں اور بیگانوں کی شدید مخالفت کے باوجود بے نظیر ترقی بخشی.حوادث کی آندھیاں چلیں، مخالفتوں کے طوفان اٹھے، قسما قسم کے امتحان آئے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ہر ابتلا اور ہر امتحان میں پوری اتری اور ہمارے موجودہ پیارے امام کے عہد خلافت میں جماعت اکناف عالم میں پھیل گئی اور تبلیغ اسلام کا عالمگیر نظام جاری کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ:.ا بھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس عقیدے کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا“.آج پہلی صدی میں سے پچھتر سال گزر چکے ہیں اور اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے مردوں اور عورتوں کو اسلام کی اشاعت کے لئے خاص جوش عطا کیا اور ان کی حقیر قربانیوں کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے لئے ایسے اعلیٰ اور شاندار نتائج نکالے کہ جماعت کے اشد مخالفوں کو بھی یہ اقرار کرنا پڑا کہ:.یہ ایک تناور درخت ہو چلا ہے اس کی شاخیں ایک طرف چین میں اور دوسری طرف یورپ میں پھیلتی نظر آتی ہیں.اور مفکر احرار چوہدری افضل حق کو لکھنا پڑا:.آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا....مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے

Page 419

تاریخ احمدیت.جلد 22 404 سال 1964ء مضطرب ہو کر اٹھا اور ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے آگے بڑھا مرزا غلام احمد...اپنی جماعت میں وہ تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے.اور ڈاکٹر محمد اقبال کو بھی یہ اقرار کرنا پڑا کہ:.پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں.( ڈاکٹر اقبال کی انگریزی تقریر کے اصل الفاظ یہ ہیں:."In the Punjab the essentially Muslim type of character has found a powerful expression in the so-called Qadiani sect."8 افسوس که مکتبه عالیہ اردو بازار لاہور نے ڈاکٹر اقبال کے مقالہ کے اردو ترجمہ ” ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر سے اس عبارت کا ترجمہ ہی حذف کر دیا ہے.یہ ترجمہ مولانا ظفر علی خان صاحب کے قلم سے نکلا ہوا ہے.) اور ان کی قربانیوں کو صحابہ کی قربانیوں سے تشبیہ دی گئی.ہمیں عہد کرنا چاہیئے.پس اللہ تعالیٰ کے ان احسانات اور انعامات کا جو اس نے محض اپنے فضل سے ہماری جماعت پر کئے.آج جبکہ پہلی صدی میں سے چھتر سال اور ہمارے پیارے امام کے دور خلافت کے نہایت شاندار فتوحات اور برکات سے پُر پچاس سال گزر رہے ہیں ہمیں شکریہ کے طور پر اپنے مولا کے حضور یہ عہد کرنا چاہیئے کہ ہم ان امتیازی صفات کو جو مذکورہ آیت میں ایمانداروں کی بیان ہوئی ہیں اپنے وجودوں میں کامل رنگ میں ظاہر کریں گے اور پہلے سے بہت بڑھ چڑھ کر دین اسلام کی اشاعت کے لئے قربانیاں کریں گے اور آپس میں محبت و اخوت اور شفقت و ہمدردی کا وہ نمونہ دکھا ئیں گے جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم اور جماعت میں نہ پائی جاتی ہو اور ہمارے وجود آیت بَعْضُهُم اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ (الانفال : (۷۳) کی عملی تفسیر ہوں گے.مالی قربانی کے لحاظ سے اس خوشی کے موقعہ پر ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے پیارے امام کی خواہش کو کہ ہمارا بجٹ کم از کم چھپیس لاکھ روپے ( مراد صدرانجمن احمدیہ کا بجٹ ) ہونا چاہیئے اس سال پورا کریں گے اور اس کے لئے مناسب تدابیر اختیار کریں گے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.

Page 420

تاریخ احمدیت.جلد 22 وو 405 سال 1964ء سب سے بڑی ہمدردی خلق انہیں راہ حق کی طرف ہدایت کرنا اور انہیں خدا تعالیٰ سے روشناس کرانا ہے“ ہمیں چاہیئے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص کم از کم ایک شخص کو اس سال راہ ہدایت پر لائے اور خدا تعالیٰ سے روشناس کرائے“.ربوہ کے پریس نے اس موقعہ پر غیر معمولی فرض شناسی اور ولولہ ذوق وشوق کا ثبوت دیا.چنانچہ الفضل نے سب سے پہلے ۱۵ مارچ ۱۹۶۴ء کی اشاعت میں جناب مسعود احمد صاحب دہلوی نائب ایڈیٹر افضل کا ایک پُر جوش مضمون شائع کیا.بعد ازاں دو ادارتی نوٹوں کے علاوہ درج ذیل اہل قلم اصحاب کے مضامین اس موقعہ پر سپر داشاعت کئے :.(۱) پروفیسر بشارت الرحمن صاحب ایم اے ( ۲۰ مارچ ۱۹۶۴ء) (۲) شیخ خورشید احمد صاحب (۲۱ مارچ ۱۹۶۴ء) (۳) مولانا دوست محمد شاہد صاحب (۲۶،۲۲ مارچ ۱۹۶۴ء) (۴) پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب (۶ ار ا پریل ۱۹۶۴ ء ) (۵) مولوی عبد المنان صاحب شاہد مربی سلسله (۲۱ / اپریل ۱۹۶۴ء) اس موقعہ پر سب سے بڑھ کر اس امر کی ضرورت تھی کہ نو جوانانِ احمدیت کو حضرت مصلح موعود کی عظیم شخصیت ، بلند مقام اور عہد خلافت ثانیہ کے زریں کارناموں سے شرح وبسط کے ساتھ روشناس کرایا جائے.اس اہم ترین ملتی تقاضا کی تکمیل مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ترجمان رسالہ ”خالد نے پوری شان کے ساتھ کی.چنانچہ اس نے اس تقریب پر دو سو بیس صفحات پر مشتمل ” خلافت ثانیہ نمبر شائع کیا.جو نہایت بلند پایہ مضامین، پر معارف منظومات اور دیدہ زیب تصاویر سے مزین تھا.رسالہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے مندرجہ ذیل فہرست مندرجات پر ایک نظر ڈالنا ہی کافی ہوگا.یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اُن دنوں رسالہ کے مدیر جناب رفیق احمد صاحب ثاقب اور نائب مدیر جناب لطف الرحمن صاحب محمود تھے.عرض حال پیغامات خصوصی (اداریہ ) رفیق احمد صاحب ثاقب حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب صفحم ۵

Page 421

تاریخ احمدیت.جلد 22 خلافت حقہ 406 سال 1964ء محترم صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب σ حضرت خلیفہ مسیح اثانی کے بلند مقام ومرتبہ کے متعلق آسمانی بشارات محترم صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب پیشگوئی مصلح موعود قبولیت دعا کا بے نظیر نشان محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے اپنے موعود خلیفہ ہونے کے پرشکوہ اعلانات حضرت الموعودحضرت حضر المصلح الموعود حضرت خلیق امسح الاول کی نظر میں محترم مولانا ابوالعطاء صاحب عہد خلافت ثانیہ کے بعض زریں کارنامے (ادارہ) رفیق احمد صاحب ثاقب خلافت ثانیہ کے دوران اشاعت اسلام زمین کے کناروں تک محترم مولانا نورالدین صاحب منیر حضرت خلیفہ آسیح الثانی کار رفیع الشان علی مقام محترم لطف الرحمن صاحب محمود حضرت خلیفہ اسی الثانی کا اک قیمتی مکتب (عکس ) دوست محمد صاحب شاہد حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا جماعت کے نام ایک ضروری پیغام سیرت محمود عقیدتمندوں کے رنگارنگ مضامین ا.ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات || حضرت حاجی محمد فاضل صاحب ۲۲ ۲۹ ۳۴ ۳۷ ام ۷۲ ۸۲ ۱۰۳ ۱۰۹ ۱۱۳ ۱۱۴ ۱۲۱ ۱۲۷ ۱۲۹ ۱۳۴ ۱۳۸ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۷ ۱۴۸ ۱۵۰ ۱۵۱ محترم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ ۲.مقام قرب الہی ۳ حلیم وصابر ،صاف وشفاف دل ۴.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی سیرت کے بعض پہلو محترم جناب مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ ۵.ایک دسر بیند رفیق کے تاثرات حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب.دیار غیر کے احمدیوں کی حضور سے محبت و عقیدت محترم مولا نانسیم سیفی صاحب ے.نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں گفته او گفتہ اللہ بود ۹.خوشی کی چند گھڑیاں ۱۰.ایک غیر ملکی طالب علم کے تاثرات ا صحتمند کھیلوں سے حضور کی دلچسپی ۱۲.ہارتی ہوئی ٹیم جیت گئی ۱۳.حضرت (خلیفہ امسیح ) اور خاکسار محترم میاں غلام محمد صاحب اختر محترم میجر ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب محترم پروفیسر بشارت الرحمن صاحب محترم محمد عثمان کو چنگ شی صاحب آف چین محترم چوہدری علی محمد صاحب بی اے.بی ٹی محترم عبدالرحمن صاحب شاکر محترم ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم

Page 422

تاریخ احمدیت.جلد 22 ۱۴.میرا محبوب آقا 407 سال 1964ء محترم مولانا عبدالرحمن صاحب انور ۱۵۴ حصہ نظم : عمدہ عمدہ نظموں کا حسین مجموعہ ۱۵۷ شرکاء محفل :.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل محترم نعمت اللہ خان صاحب گو ہر مرحوم ، محترم چوہدری علی محمد صاحب سرور، محترم آفتاب احمد صاحب بہل محترم میاں غلام محمد صاحب اختر محترم میر اللہ بخش صاحب تسنیم محترم رشید قیصرانی صاحب، محترم فیض عالم خان صاحب چنگوی، محترم محمد شفیع صاحب اسلم محترم محمد ابراہیم صاحب شادہ محترم عبدالحمید خان صاحب شوق، محترم حکیم محمد صدیق صاحب، محترم راجہ نذیر احمد صاحب ظفر 122 ۱۵.۱۹۱۴ء سے۱۹۲۴ء تک کے اہم واقعات کا سن وار تذکرہ نائب مدیر.لطف الرحمن صاحب محمود اور ان کے علاوہ متعدد دیدہ زیب تصاویر ، اہم اقتباسات بھی اس تاریخی شمارے میں شامل ہیں.قادیان احمدیت کے ابدی مرکز قادیان دارالامان میں اس مبارک تقریب پر ۱۵ مارچ ۱۹۶۴ء کو مسجد اقصیٰ میں ایک ایمان افروز اور کامیاب جلسہ منعقد ہوا.جس میں مصلح موعود کے نشان آسمانی پر روح پرور تقاریر کی گئیں اور پچاس سالہ دور خلافت کے سنہری کارناموں کا تذکرہ کیا گیا.فاضل مقررین کے نام یہ ہیں:.مولوی محمد صادق صاحب ناقد.مولوی اشرف علی صاحب.مولوی منظور احمد صاحب.انصار احمد صاحب متعلم جامعہ احمدیہ.عبد الماجد صاحب بی اے.مولوی خورشید احمد صاحب پر بھا کر.مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری ایڈیٹر اخبار بدر.ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مؤلف اصحاب احمد.آخر میں صاحب صدر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ امیر جماعت احمد یہ قادیان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور حضرت مصلح موعود کے احکام پر عمل کرنے اور ان کے اسوۂ حسنہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی تلقین فرمائی.اخبار بدر نے فتح و ظفر کے پچاس سال“ کے زیر عنوان مفصل ادار یہ سپر قلم کیا جو۱۲، ۱۹و۲۶ مارچ کی تین قسطوں میں شائع ہوا.مشرق و مغرب سے دلی مبارک باد کے پیغامات اور خطوط خلافت ثانیہ کے پچاس سالہ مبارک دور میں جماعت احمد یہ دنیا کے نقشے میں بین الاقوامی

Page 423

تاریخ احمدیت.جلد 22 408 سال 1964ء حیثیت سے ابھر چکی تھی اس لئے اس مبارک تقریب پر مشرق و مغرب سے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بکثرت دلی مبارک باد کے دعائیہ پیغامات بذریعہ تار و خطوط پہنچے.جن میں حضور کی صحت کاملہ عاجلہ اور درازی عمر کی دردمندانہ دعاؤں کے علاوہ احباب جماعت نے اس عہد کی تجدید کی کہ وہ حضور کی آسمانی قیادت میں غلبہ احمدیت کی خاطر آئندہ بھی بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کریں گے.اور حضور کے قدم بقدم و شانہ بشانہ ترقیات کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے.انڈونیشیا 11 احباب جماعت احمد یہ انڈونیشیا کی نمائندگی میں مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے جکارتہ سے حضور کی خدمت میں تار دیا کہ:.ہم پھر عہد کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اس کی مضبوطی اور استحکام کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور خلافت حقہ کے ہمیشہ وفادار ر ہیں گئے.تار کے بعد آپ نے حسب ذیل مکتوب بھی دربار خلافت میں لکھا:.12 ”میرے پیارے محسن آقا ! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضور کو مسند خلافت پر بیٹھے ہوئے ۱۴ / مارچ ۱۹۶۴ء کو پورے پچاس سال ہو چکے ہیں.اس عرصہ میں حضور کی راہنمائی میں تبلیغ احمدیت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکی ہے.دنیا کی مختلف مشہور زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوچکے ہیں.عیسائیت کے مراکز میں خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لئے متعدد مساجد مشہور شہروں میں تعمیر ہو چکی ہیں.اس پچاس سال کے عرصہ میں جماعت کی ترقی اظہر من الشمس ہے.اللہ تعالیٰ کی نصرت حضور کے ساتھ قدم قدم پر رہی ہے.سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم.اس عرصہ میں متعدد فتنے اندرونی و بیرونی اٹھے.مخالفین ہر بار امید لگائے رہے کہ اب جماعت احمد یہ نیست و نابود ہو گئی لیکن حضور پُر نور کی راہنمائی میں اللہ تعالیٰ نے ہر بار بڑی شان و شوکت سے ان تمام فتنوں کو مٹا کر خلافت حقہ اور حضور پر نور کی صداقت پر گواہی دی.اور مخالفین و حاسدوں کی صفوں میں ماتم بچھ گیا اور مومنوں کے ایمان مضبوط ہوئے.وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنَّا ( النور : ۵۶) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تمام سیاہ بادل و گھٹائیں دور کر کے مومنوں کے اخلاص و ایمان کو اور بھی بڑھایا.ہر فتنہ نے کھاد کا کام دیا اور جماعت میں خلافت

Page 424

تاریخ احمدیت.جلد 22 409 سال 1964ء سے وابستگی اور اطاعت و فرمانبرداری کی روح کو خوب مضبوط کیا اور حاسد حسد کی آگ میں جلتے رہے.قادیان دارالامان سے ہجرت عارضی پر بظاہر جماعت کا شیرازہ بکھر گیا تھا.حضور پرنور کی اولوالعزمی اور حکیمانہ رہنمائی نے جماعت کو پھر ایک مضبوط مرکز پر جمع کر دیا اور حضور نے اپنے مسیحائی نفس سے معجزانہ رنگ میں جماعت کو پہلے سے کہیں بڑھ کر مضبوط کر دیا.اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اور تائید حضور کے ساتھ ہر موقع پر رہی اور مخالف و موافق سب نے یہ نظارے دیکھے اور خدا تعالیٰ نے سب کو اس پر گواہ ٹھہرایا.میرے پیارے محسن آقا! اللہ تعالیٰ کی ہزار ہزار رحمتیں و فضل حضور کے شامل حال ہوں.حضور کے بے شمار احسان تمام جماعت پر ہیں.تمام جماعت ان احسانات کا بدلہ کسی رنگ میں بھی قطعاً ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی.انڈونیشیا میں تبلیغ احمدیت محض حضور پر نور کی توجہ مبارک اور احسان کا نتیجہ ہے.آج اس ملک میں ہزار ہا فرزندانِ احمدیت موجود ہیں جو اسلام اور احمدیت کی خاطر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.حضور پُر نور نے اپنے مسیحائی نفس اور روح الحق کی برکت سے تمام روحانی بیماریوں کو صاف کر کے ہم سب کو باخدا انسان بنادیا ہے جس کی وجہ سے آج ہم سب حضور پر نور کے ادنیٰ خادم اسلام اور احمدیت کی خاطر ہر قربانی کرنے کے لئے انشاء اللہ تیار ہیں.اسی طرح مکرم ہدایت اللہ صاحب بنگوی نے بھی جکارتہ سے پیغام بھیجا :.د میں اور میرے خاندان کے جملہ افراد حضور کے نہایت بابرکت دورِ خلافت کے پچاس سال گزرنے کے بعد کا ونواں سال شروع ہونے کی بابرکت و پُر مسرت تقریب پر صمیم قلب سے مبارک باد عرض کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ اپنے فضل سے حضور کا مقدس و بابرکت سایہ ہمارے سروں پر تا دیر سلامت رکھے.كينيا مکرم مولوی نورالحق انور صاحب مبلغ انچارج کینیا نے احباب جماعت کینیا کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا:.آج مؤرخہ ۱۴ مارچ کو حضور کی موعودہ خلافت کے نہایت درجہ مقدس و بابرکت دور کے پچاس سال پورے ہو کر ا کا ونویں سال کے شروع ہونے پر جماعت احمدیہ کینیا ( مشرقی افریقہ ) اللہ تعالیٰ

Page 425

تاریخ احمدیت.جلد 22 410 سال 1964ء کے حضور اپنے دلی جذبات تشکر اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں دلی مبارک بادعرض کرتی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضور کا مقدس و بابرکت سایہ تا دیر جماعت کے سر پر سلامت رکھے.آمین اسی طرح مکرم اقبال شاہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ نیروبی نے بھی الگ تار بھیجا:.جماعت احمد یہ نیروبی حضور پر نور کو اپنی کامل و فاداری اور اطاعت گزاری کا یقین دلاتی ہے اور اپنے اس عہد کی تجدید کرتی ہے کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کی مضبوطی و استحکام کے لئے نسلاً بعد نسل جد و جہد کرتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ العزیز سید احمد ناصر صاحب نیروبی (ابن حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل ) نے اپنی اور اپنی بیگم صاحبہ کی طرف سے مبارکباد کا تار بھیجا کہ :.ہم خدمت اسلام اور نظام خلافت کی حفاظت کے لئے عہد کی تجدید کرتے ہیں نیز درخواست کرتے ہیں کہ حضور ہمارے لئے دعا فرمائیں.ماریشس مکرم مولوی فضل الہی صاحب بشیر مبلغ ماریشس نے مبارکباد کا درج ذیل پیغام بھیجا:.حضور کی موعودہ خلافت پر پچاس سال پورے ہو کر ا کا ونویں سال شروع ہونے کی بابرکت و پُر مسرت تقریب پر جماعت احمد یہ ماریشس صمیم قلب سے مبارک باد عرض کرتی ہے.تنزانیہ 16 مکرم مولوی محمد منور صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ ٹا نگانیگا ( تنزانیہ ) نے اپنے مکتوب میں تحریر کیا:.اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کی وجہ سے جو حضور پر نور جیسے آسمانی ، نورانی و جاودانی وجود کے طفیل ہمیں میسر آئے ہیں ہماری گردنیں جھکی ہوئی ہیں.ہمارے دل حمد الہی اور عشق رسول سے معمور ہیں اور ہماری دلی آرزو اور قلبی تمنا ہے کہ حضور ہمارے اس خراج تحسین و آفرین کو قبول فرما ئیں.ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور کا مطیع و فرمانبردار چاکر بنائے اور ہمارے دلوں کو خلافت کے نظام سے سے مستقل طور پر باندھ دے اور ہمیں ایسا ایمان عطا فرمائے جو اپنی مضبوطی و استواری میں اپنی مثال آپ ہوا اور ہمیں اور ہماری نسلوں اور ہماری ساری جماعتوں کو قیامت تک ایسے اعمال کی توفیق

Page 426

تاریخ احمدیت.جلد 22 411 سال 1964ء بخشے جن سے خلافت کا برکات سے پر نظام ہمیشہ ہمیش کے لئے مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا جائے.اس سال جنوری میں خاکسار نے سواحیلی زبان میں متعدد مضامین پیشگوئی مصلح موعود اور نظام خلافت کے بارے میں لکھے تھے.یہ مضامین ہمارے ماہانہ سواحیلی اخبار MAPENZI YA" "MUNGU ( ترجمہ محبت الہی میں فروری اور مارچ کے پرچوں میں شائع ہوئے ہیں.فروری کے شروع میں خاکسار نے تمام ایشین اور افریقن جماعتوں کو ہدایات بھجوائی تھیں کہ ہر جگہ ۲۰ فروری کو اور بعد میں مارچ تک جلسے کئے جائیں.جن میں یہ مضامین پڑھ کر سنانے کے علاوہ دوسری تقاریر بھی کی جائیں اور خدا تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتوں کے حصول پر شکر ادا کیا جائے اور اجتماعی دعائیں کی جائیں.اور غیر احمدی اور عیسائی احباب کو بھی ان جلسوں میں شمولیت کی دعوت دی جائے تا کہ انہیں بھی عظیم الہی پیشگوئیوں اور آسمانی نوروں سے اطلاع ہو اور جماعت کے مضبوط نظام خلافت کی برکات سے انہیں آگاہی حاصل ہو.جماعتوں کی طرف سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ جلسے نہایت کامیابی سے کئے گئے ہیں اور غیر احمدی معززین نے بھی ان میں شمولیت کر کے جماعت احمدیہ کے بارہ میں بڑے عمدہ خیالات کا اظہار کیا ہے اور سنی مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھول کر اس واحد اسلامی تبلیغی جماعت کا ساتھ دیں جو درحقیقت لشکر اسلام ہے اور جہاد میں مصروف ہے.پیارے آقا! ہمارے افریقن بھائیوں کے دل میں ایک بار پھر حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے اور حضور کو اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھنے اور حضور کے بابرکت ہاتھوں کو بوسہ دینے اور حضور کی دعائیں لینے کی بے پناہ تڑپ پیدا ہوگئی ہے.یہاں دار السلام کی جماعت کے جلسہ میں جب خاکسار نے یہ بیان کیا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا وجود اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا ہی وجود ہے اور حضور نے رویا میں انا المسيح الموعود کہہ کر اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے تو افریقن احباب پر رقت طاری ہوگئی اور بعد میں بعض نے کہا کہ ہمیں جلدی ربوہ بھجوانے کا انتظام کریں تا ہم حضور کی زیارت سے مشرف ہو سکیں“.مکرم ڈاکٹر محمد ظفر صاحب ٹانگانیکا ( تنزانیہ ) نے مکتوب تحریر کیا کہ:.مؤرخہ ۱۴/ مارچ بروز ہفتہ آپ کے عہد خلافت پر پچاس برس پورے ہوئے ہیں.جس کی وجہ سے جماعت کے ہر مردو زن جوان بوڑھے اور بچے میں خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے.خدا تعالیٰ نے کس

Page 427

تاریخ احمدیت.جلد 22 412 سال 1964ء رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں آپ کے وجود مبارک کے ذریعہ پوری کیں ان پیشگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے آج عالم دیکھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ آپ کو صحت و سلامتی والی عمرِ خضر عطا فرمائے.اس باغ کو پھلتے پھولتے اور پروان چڑھتے دیکھیں اور احمدیت آپ کی قیادت میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے.آمین اس مبارک موقعہ پر اس غلام کی طرف سے بہت بہت مبارک باد عرض ہے.اے میرے مالک محسن خدا! اے پروردگار دو عالم ہمارے آقا کو صحت و سلامتی عطا فرما.تا پھر آپ ہم سب میں جلوہ افروز ہو کر اپنی پند و نصائح سے ہمیں نواز ہیں.اللہ تعالیٰ جلد ہمیں وہ دن دکھائے.آمین سیرالیون مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر امیر جماعتہائے احمد یہ سیرالیون نے برقی تار کے ذریعہ مبارکباد کا پیغام بھجوایا جس میں سیرالیون کے جملہ احمدی احباب کی طرف سے حضور اقدس کی خدمت میں صمیم قلب سے مبارک باد پیش کی گئی.نیز اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کی ولادت سے بھی قبل سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضور کے متعلق جو عظیم الشان بشارت دی تھی گزشتہ پچھتر سال کے عرصہ میں ہم نے اپنی آنکھوں سے اس کا لفظ لفظ پورا ہوتے دیکھا ہے.جملہ احمدی احباب نے اسلام کی سربلندی کی خاطر بڑھ چڑھ کر قربانیاں کرتے چلے جانے اور ہمیشہ نظام خلافت سے وابستہ رہنے کے عہد کی بھی تجدید کی.سنگاپور 19.مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے تحریر کیا:.اس مہینہ میں اب نشاۃ ثانیہ یا قدرت ثانیہ کے مبارک دور پر پچاس سال پورے ہو گئے.اور اکاونواں سال شروع ہو چکا ہے.حضور اقدس اس پُر مسرت اور بابرکت موقعہ پر جماعت احمدیہ سنگاپور کے سب احباب اور اپنے اس حقیر غلام و خادم سلسلہ محمد صدیق کی طرف سے ہدیہ تبریک اور دلی مبارکباد قبول فرمائیں.ہم سب حضور پُر نور کے خدام روز و شب اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور دعائیں اور التجائیں کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضور کو جلد از جلد صحت کاملہ عطا فرمائے اور کام کرنے والی عمر دراز سے نوازے اور حضور اقدس کا بابرکت سایہ تا دیر جماعت کے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جماعت کو حضور کے ساتھ

Page 428

تاریخ احمدیت.جلد 22 413 سال 1964ء وابستہ برکتوں اور رحمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور قدر کرنے کی توفیق ملے اور حضور کی مبارک زندگی میں جلد از جلد اسلام کو غلبہ عطا فرمائے اور دنیا کا ہر خطہ اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوروں سے جگمگا اٹھے.بور نیو مکرم سیکرٹری صاحب احمد یہ مشن لا بوان (بورنیو ) نے تار بھیجا:.حضور پرنور کی قیادت میں حضور کے دور خلافت کے کامیابیوں سے بھر پور پچاس سال میں اسلام کو جو عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئی ہیں اور دنیا میں غلبہ اسلام کی راہ ہموار ہوئی ہے وہ ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہر کس و ناکس کے سامنے ہے.ہم حضور کے دور خلافت کے پچاس درخشاں سال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور حضور کی خدمت میں دلی مبارک باد عرض کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ حضور کو صحت و عافیت کے ساتھ عمر دراز عطا فرمائے.آمین ملائیشیا جماعت احمد یہ سبا ملیشیا کی طرف سے درج ذیل مکتوب موصول ہوا:.آج حسن و احسان میں نظیر خلافت راشدہ احمدیہ کے پچاس سالہ سنہری دور کی تعمیل پراے منعم ومنان تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری حمد کے ترانے گاتے ہیں اوراے موعود امام کے موعود فرزند دلبند گرامی ارجمند اس کامیابی پر تیرے غلام، تجھ سے برکت پانے والی اقوام سبا ملیشیا تجھے مبارکباد عرض کرتے ہیں اور خدائے سمیع و مجیب کے حضور دعا کرتے ہیں کہ اے شافی کامل اس وجود پاک کو جلد شفائے کامل و عاجل سے نواز.اس کے سایہ کو ہم پر لمبا کر.اسے فعال زندگی سے نواز اور ہم کمزوروں سے چشم پوشی کا معاملہ کرتے ہوئے نظام خلافت احمدیہ سے وابستہ رکھ اور اسی پر ہمارا انجام بخیر کر.آمین پاکستان کے طول وعرض سے برقی پیغامات اور خطوط پاکستان کے خوش نصیب احمدی چونکہ حضرت مصلح موعود کے مبارک وجود سے براہ راست برکت حاصل کر رہے تھے اس لئے ان کے دل و دماغ میں اس تاریخی تقریب نے خوشی و انبساط کی غیر معمولی لہر دوڑا دی.چنانچہ پاکستان کی بہت سی جماعتوں تنظیموں اور احباب نے برقی پیغاموں یا خطوط کی صورت میں عقیدت و مسرت کا اظہار کیا مثلاً :.

Page 429

تاریخ احمدیت.جلد 22 414 سال 1964ء (۱) جماعت احمد یہ ضلع لاہور ( برقی پیغام چوہدری اسد اللہ خان صاحب بارایٹ لاء امیر ضلع لاہور ) (۲) قائد علاقائی مجالس خدام الاحمدیہ لاہور ڈویژن (۳) شیخ ریاض محمود صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ لاہور (۴) ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب لاہور ( تار) (۵) جماعت احمد یہ واہ کینٹ ( تار بشیر احمد صاحب چغتائی پریذیڈنٹ واہ کینٹ) (1) مجالس انصار اللہ لاہور ( مکتوب خواجہ محمد شریف صاحب زعیم اعلیٰ انصار اللہ لاہور ) (۷) مجلس انصاراللہ حافظ آباد ( مکتوب محمد صدیق صاحب زعیم انصار اللہ جماعت احمد یہ حافظ آباد) (۸) جماعت احمد یہ جو ہر آباد ( مکتوب ملک گل شیر صاحب پریذیڈنٹ) (۹) جماعت احمد یہ شورکوٹ ( مکتوب محمود احمد صاحب سیکرٹری جماعت احمد یہ شورکوٹ ) (۱۰) لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ ( ریزولیوشن ممبرات لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ) (۱۱) لجنہ اماءاللہ ربوہ ( ریزولیوشن ممبرات لجنہ اماءاللہ ربوہ ) (۱۲) ملک سعید احمد صاحب کراچی (تار) (۱۳) جماعت احمدیہ بھیرہ (مکتوب فضل الرحمن صاحب سیکرٹری جماعت احمد یہ بھیرہ) (۱۴) فتح محمد صاحب شر ما ،لطیف احمد صاحب منصور احمد صاحب کراچی (تار) (۱۵) مجلس خدام الاحمدیہ بدین ( مکتوب ملک عبدالرحمن صاحب احمدی) (۱۶) جماعت احمد یہ چک ۳۷ جنوبی ضلع سرگودھا ( مکتوب پریذیڈنٹ جماعت ) (۱۷) لجنہ اماءاللہ قصور ( مکتوب شاہجہان بیگم صدر لجنه ) (۱۸) لجنہ اماءاللہ لا ہور ( مکتوب سیکرٹری لجنہ ) (۱۹) جماعت احمد یہ حافظ آباد ( مکتوب حکیم محمد لطیف صاحب امیر جماعت احمد یہ حافظ آباد ) (۲۰) جماعت احمد یہ بشیر آباد ( مکتوب فضل احمد صاحب) (۲۱) لجنہ اماءاللہ حیدرآباد ( ممبرات لجنه ) (۲۲) جماعت کلاس والا ضلع سیالکوٹ ( مکتوب صوفی خدا بخش صاحب عبد انسپکٹر وقف جدید ) (۲۳) منظور احمد صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور.

Page 430

تاریخ احمدیت.جلد 22 415 سال 1964ء مجالس خدام الاحمدیہ کا تجدید عہد مجالس خدام الاحمدیہ نے اس موقع پر جہاں خوشی اور مسرت کا اظہار کیا وہاں انہوں نے از سرنو اس عہد کی بھی تجدید کی جو حضرت مصلح موعود نے قیام و استحکام خلافت کے تعلق میں کئی سال قبل نو جوانانِ احمدیت سے لیا تھا.مارچ ۱۹۶۴ء کے آخر تک جن جن مجالس کی طرف سے یہ تجدید عہد موصول ہوا ، ان کو صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب نے ایک مختصر سی عرضداشت اور درخواست دعا کے ساتھ حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں بھجوا دیا.حضور نے اس عریضہ پر مندرجہ ذیل الفاظ میں اظہار خوشنودی فرمایا: جزاهم الله احسن الجزا.اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو پورا کرنے کی توفیق دے.24 بیرونی مشموں میں عظیم الشان جلسے اس تقریب سعید پر بیرونی مشنوں میں حضرت مصلح موعود سے اظہار عقیدت اور حضور انور کے کا رہائے نمایاں اور فضائل و شمائل کے تذکرہ اور حضور کی صحت اور درازی عمر کی دعاؤں کے لئے عظیم الشان جلسے منعقد ہوئے.ان جلسوں نے احباب جماعت کو روح عمل سے سرشار کیا اور ان میں زبر دست جوش اور ولولہ پیدا کر دیا اور یہ حقیقت پوری دنیا پر آشکار ہوگئی کہ مصلح موعود سے متعلق پیشگوئی کی ہرشق اور ہر علامت ہر اعتبار سے پوری شان و شوکت اور آب و تاب سے پوری ہو چکی ہے.ذیل میں نمونہ چند جلسوں کا ذکر کیا جاتا ہے:.لنڈن (۱۴ مارچ) جلسہ مشن ہاؤس میں منعقد ہوا جس سے چوہدری عبدالرحمن صاحب آف مشرقی افریقہ عبدالعزیز صاحب اور جناب بشیر احمد صاحب رفیق نائب امام مسجد فضل نے خطاب فرمایا.جلسہ کے بعد ایک نہایت رقت آمیز لمبی اجتماعی دعا حضور کی صحت و شفا کے لئے کی گئی.کوئی آنکھ نہ تھی جو اشکبار اور پرنم نہ ہو.

Page 431

تاریخ احمدیت.جلد 22 416 سال 1964ء روز بل ماریشس (۱۴ مارچ) اس موقعہ پر مسجد دار السلام میں شاندار چراغاں کیا گیا، سفید، سبز، سرخ، زرد، سنہری اور نیلے قمقموں کی روشنی عجیب سماں پیدا کر رہی تھی اور اوپر لوائے احمدیت لہرا رہا تھا.نماز عشاء کے بعد مولوی فضل الہی صاحب بشیر مبلغ ماریشس نے اثر انگیز تقریر فرمائی آپ کے بعد بعض دوسرے مخلصین جماعت نے اپنے اپنے رنگ میں محبت والفت سے لبریز جذبات و خیالات کا اظہار کیا.اور اجتماعی دعا کے بعد بچوں میں مٹھائی تقسیم کی گئی.رسالہ LE MESSAGE کا خاص نمبر شائع ہوا جس میں پیشگوئی مصلح موعود پر قیمتی مضامین کے علاوہ تصاویر بھی تھیں.یہ نمبر بہت پسند کیا گیا اور ۴ مارچ کی رات کو ہاتھوں ہاتھ بک گیا.لجنہ اماءاللہ ماریشس نے حضرت مصلح موعود کے حضور عملی رنگ میں مبارک باد پیش کرنے کی غرض 26 سے آٹھ صد روپیہ کے قریب رقم جمع کی.لیگوس نائیجیریا (۱۵ مارچ) جلسہ آنریبل مالم میر بجاپارلیمنٹ کی زیر صدارت ہوا جوا ایک پولیٹیکل پارٹی کے وائس پریذیڈنٹ اور جماعت کے مخلص رکن تھے.جلسہ میں بالترتیب مولوی نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ، چوہدری رشید الدین صاحب اور لیگوس کی احمد یہ جماعت کے امام مسٹر آئی.ڈی اولوکو ڈانا (MR.I.D.OLOKODANA) کی تقریریں ہوئیں.امام جماعت لیگوس نے حضرت مصلح موعود کی دعاؤں کی قبولیت پر تقریر فرمائی اور اپنی زندگی کا ایک ایسا روح پرور واقعہ سنایا کہ سارا ہال نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا.سارے جلسہ کے دوران احباب جماعت نے بار بارنعرہ تکبیر، اسلام زندہ باد، احمد بیت زندہ باد اور خلیفہ المسیح زندہ باد کے پُر جوش نعرے لگائے.ہال کے اندر جماعت احمدیہ کے لٹریچر کی نمائش کا انتظام تھا جس میں تمام احباب نے خاص دلچسپی کا اظہار کیا.نائیجیریا کے پہلے مسلم جریدہ "THE TRUTH" (لیگوس) نے ۰ار اپریل ۱۹۶۴ء کی اشاعت کے صفحہ اول پر جلی الفاظ سے یہ نوٹ سپر داشاعت کیا :.

Page 432

تاریخ احمدیت.جلد 22 417 سال 1964ء FIFTY YEARS OF KHILAFAT The Khilafat of Hazrat Mirza Bashirud Deen Mahmud Ahmad has now, with the grace of God, entered the fifty-first year.He was elected Khalifa by popular vote of the members of the Ahmadiyya Movement on March 14, 1914.Before he became Khalifa, Hazrat Maulvi Nuruddeen, the Khalifatul Masih I, had prophetically hinted that Hazrat Mirza Bashiruddeen Mahmud Ahmad will become Khalifa at a comparatively younger age and will live fairly long so that the period of his Khilafat will be a long one.Eldest of the daughters of the Promised Messiah, peace be on him, Sayyida Mubaraka Begum, relates that once the Promised Messiah said that he sometimes feels that he should tell his followers that Mahmud will become Khalifa, but then he does not do so, because he believes that the will of God will, itself, show its manifestation at the appropriate time.The entire staff of the Truth offers hearty congratulations to Hazrat Khalifatul Masih II on this auspicious occasion and all of us wish him good health and long life to continue the good work that he has carried on for the past fifty years.We also pledge our hearty submission and humble cooperation in every aspect of his work.ترجمه خلافت کے پچاس سال حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی خلافت اب بفضل خدا کا ونویں سال میں داخل ہو گئی ہے.

Page 433

تاریخ احمدیت.جلد 22 418 سال 1964ء آپ مورخہ ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو احمد یہ جماعت کے اراکین کی کثرت رائے سے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ کے خلیفہ مقرر ہونے سے قبل، حضرت مولوی نور الدین خلیفہ امسیح الاوّل نے اشارةُ پیشگوئی کر دی تھی کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نسبتا کم عمر میں خلیفہ مقرر ہوں گے اور لمبی عمر پائیں گے.غرضیکہ آپ کا دورِ خلافت دراز ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی بیٹی (حضرت) سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ بعض اوقات آپ سوچتے کہ اپنے متبعین کو بتادیں کہ محمود خلیفہ مقرر ہوں گے مگر پھر آپ نے ایسا نہیں کیا.کیونکہ آپ علیہ السلام کو یقین تھا کہ منشائے الہی خود مناسب وقت پر اپنی تجلی ظاہر کرے گا.دی ٹروتھ کا سارا عملہ اس عظیم الشان موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت اقدس میں دلی مبارکباد پیش کرتا ہیں اور ہم سب آپ کی صحت کا ملہ اور درازی عمر کے لئے دعا گو ہیں تا کہ آپ وہ کا رہائے عظیمہ جاری رکھ سکیں جو آپ گذشتہ پچاس سالوں سے بجالا رہے ہیں.نیز ہم آپ کے کاموں کے ہر شعبہ میں دل و جان سے عاجزانہ اطاعت اور اتحاد و عمل کا عہد کرتے ہیں.ممباسه، کینیا (۱۵ مارچ) جلسہ کی صدارت کے فرائض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے سرانجام دیئے.ایک تقریر سواحیلی میں اور چار انگریزی میں ہوئیں.مصلح موعود سے متعلق الہامی پیشگوئی کے الفاظ کا انگریزی میں ترجمہ سنایا گیا.ممباسہ ٹائمنز نے حضرت مصلح موعود کا فوٹو جلسہ کے انعقاد اور وقت کی خبر کے ساتھ شائع کیا جو 28 صوفی محمد الحق صاحب مبلغ سلسلہ کی کوشش کا نتیجہ تھا.کمپالہ، یوگنڈا ( ۲۸ مارچ) جلسہ کی کارروائی ۵ بجے شام سے ۸ بجے شب تک جاری رہی جس میں ایثار بٹ صاحب، لطیف احمد صاحب بھٹی، رفیق احمد صاحب بھٹی، ڈاکٹر لعل الدین صاحب، چوہدری چراغ دین صاحب اور شعبان کرونڈے صاحب نے موثر پیرایہ میں خطاب فرمایا.اس موقع پر ایک امریکن نوجوان مسٹر میک ٹوش اور ایک معزز سکھ دوست جناب سردار کشن سنگھ صاحب پرنسپل کمرشل کالج نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا.

Page 434

تاریخ احمدیت.جلد 22 419 سال 1964ء مسٹر میک ٹوش نے کہا ” ہمیں امید ہے کہ جماعت احمد یہ دنیا کی روحانی رہنمائی کے لئے صف اول میں شمار کی جائے گی“.سردار کشن سنگھ صاحب نے بتایا کہ میں ہوشیار پور کا رہنے والا ہوں اور اسی جگہ حضرت مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ نے ایک روشن اور زندہ نشان دیا.انہوں نے کہا کہ ہوشیار پور میں حضرت مرزا صاحب نے چلہ کیا اور ان دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو نہایت اولوالعزم اور نہایت خوبیوں والا لڑکا دیا جو کہ اب جماعت کا امام ہے اور اس کی قیادت میں جماعت اکناف عالم میں ترقی کر رہی ہے اور میں اس شاندار ترقی پر جماعت کو مبارکباد دیتا ہوں.اس خوشی کے موقع پر بیگم ڈاکٹر لعل الدین صاحب نے بچوں میں مٹھائی تقسیم کی.پاکستان کے مشہور عالم سائنسدان محترم پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام کی ایک جدید سائنسی تحقیق 29 ذرات میں درجہ بندی کے ایک نئے نظریہ کی تشکیل پر برطانیہ کے سائنسی حلقوں کی طرف سے اظہار تحسین لنڈن ۲۳ فروری.مادہ میں عناصر کے ابتدائی ذرات کی درجہ بندی کے ایک یکسر نئے نظریہ کی تشکیل سے متعلق پاکستان کے نو عمر سائنسدان ڈاکٹر سلام کی تحقیق پر برطانیہ کے سائنسی حلقوں نے علی الاعلان انہیں خراج تحسین و آفرین پیش کیا ہے.برطانیہ کے صف اول کے سائنسی تبصرہ نگار ٹام میرگر لیسن (Tom Mergerison) کے نزدیک ڈاکٹر سلام نے جو نیا نظریہ قائم کر دکھایا ہے وہ دنیائے سائنس کے بلند ترین کا رہائے نمایاں میں سے ایک ہے.یہ کامیابی برطانیہ اور امپریل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لئے جس میں ڈاکٹر سلام نظریاتی فزکس کے پروفیسر ہیں ایک فتح عظیم کی حیثیت رکھتی ہے.اگر دیکھا جائے تو اس فتح پر فخر کا اصل استحقاق امریکہ کی ہوائی فوج کو پہنچتا ہے جو ڈاکٹر سلام کو اس تحقیق کے لئے ۸ ہزار پونڈ سالانہ کی گرانٹ دیتی ہے.سائنسی اور صنعتی تحقیق کے برطانوی محکمے نے تو ان کے تحقیقی کام میں مالی معاونت سے انکار ہی کر دیا تھا.ڈاکٹر سلام نے یہ کارنامہ اپنے ساتھی ڈاکٹر جے.سی وارڈ اور اپنے شاگرد ڈاکٹر نیمان (Dr Naman) کی مدد سے انجام دیا ہے.امریکہ میں ڈاکٹر سلام کے کارنامہ کا پہلا اعتراف آج سے تین روز قبل ہوا جبکہ نیو یارک ٹائمنر

Page 435

تاریخ احمدیت.جلد 22 420 سال 1964ء نے یہ اطلاع شائع کی کہ ڈاکٹر سیمن (Dr Celliman) کی سرکردگی میں بروک ہیون لیبارٹری (Brookhaven Laboratory) نے مادہ میں اومیگا مائنس Omega Minus ذرہ دریافت کیا ہے.اس اطلاع میں یہ بھی تسلیم کیا گیا تھا کہ یہ دریافت ڈاکٹر سلام کی نمایاں تحقیق کے نتیجہ میں کی گئی ہے.پہلے پہل اس نظریہ کی طرف ۱۹۵۹ء میں ایک جاپانی ماہر طبیعات مسٹر چنو کی (Mr Chnuki) نے اشارہ کیا تھا جب ایک ریاضی پر مبنی طریق کار ( جسے یو نیٹری ٹرانسفر میشن کہتے ہیں) کی مدد سے ایک ذرہ کو پھاڑا گیا تو انہوں نے جو کچھ ظہور میں آیا اسے دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کے ایک انوکھے طریق کی نشاندہی کی.اس وقت بجز ڈاکٹر سلام کے کسی نے بھی اس طرف توجہ نہ کی.آپ نے محسوس کیا کہ اس سے غیر معمولی طور پر ایک بہت بلند خیال کی نشاندہی ہوتی ہے چنانچہ آپ نے ڈاکٹر وارڈ کے ساتھ مل کر اس پر کام شروع کر دیا.اُس وقت ڈاکٹر وارڈ برطانیہ کے اٹامک وین ریسرچ اسٹیبلشمنٹ میں نظریاتی طبیعات کے سربراہ تھے.اب وہ نقل مکانی کر کے امریکہ جابسے ہیں.گزشتہ شب جب اخبار ہذا ( پاکستان ٹائمنز ) کے نامہ نگار نے ڈاکٹر سلام سے ملاقات کی تو اس نے آپ کو اپنے اس کا رنامہ پر بجا طور پر نازاں پایا.آپ نے فرمایا جہاں تک میرا تعلق ہے ایٹمی طبیعات کے اس شعبہ کا یہ آخری باب ہے.ڈاکٹر سلام کل نیو یارک روانہ ہور ہے ہیں جہاں آپ سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق اقوام متحدہ کی مشاورتی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں شرکت کریں گے.وفات مسیح علیہ السلام کا ببانگ دہل اقرار 30 اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی فتح مبین " حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اکتو بر ۱۹۰۳ء میں یہ پُر قوت وشوکت پیشگوئی فرمائی کہ:.دنیا د رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے

Page 436

تاریخ احمدیت.جلد 22 421 سال 1964ء 31 نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.اس مہتم بالشان پیشگوئی کا ظہور اس سال بھی ہوا جبکہ رابطہ عالم اسلامی ( مسلم ورلڈ لیگ مکہ ) کے زیر اہتمام چھپنے والے انگریزی ترجمہ و تفسیر القرآن میں وفات مسیح کا واشگاف لفظوں میں اعلان کیا گیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ رابطہ عالم اسلامی کے زیر انتظام اس سال THE MESSAGE" OF THE QURAN کے نام سے انگریزی ترجمہ و تفسیر کی پہلی جلد منصہ شہود پر آئی جو مشہور مسلمان جرمن مفکر ڈاکٹر محمد اسد نے سپرد قلم کی تھی.( ڈاکٹر صاحب نے پاکستان میں دستورسازی کے ابتدائی مراحل میں اسلامی دستور کے موضوع پر مضامین کا ایک سلسلہ تحریر کیا تھا جو پاکستان میں قسط وار شائع ہوا تھا.ایک کتاب بعنوانِ اسلام میں حکومت کے اصول، بھی لکھی ہے.وہ طنجہ (مراکش) میں سفارتی فرائض انجام دے رہے ہیں.انہیں جولائی ۱۹۸۳ء میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں انصاری کمیشن کا اعزازی رکن بنایا تھا.اس تفسیر میں بالکل واضح لفظوں میں حضرت مسیح ناصری کی وفات کے نظریہ کو قرآنی حقائق کی روشنی میں تسلیم کیا گیا تھا جو بلاشبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی زبردست فتح تھی.جیسا کہ اس انگریزی ترجمہ وتفسیر کے درج ذیل چار اقتباسات سے واضح ہے.پہلا اقتباس (انگریزی ترجمه سوره مائده آیت ۱۱۶، ۱۱۷)

Page 437

تاریخ احمدیت.جلد 22 422 سال 1964ء Ch.V.116-117."And Lo! God will say [on the Judgement Day]: O Jesus, son of Mary! Didst thou say unto men, "worship me and my mother as deities besides God"? "[Jesus] will answer: Limitless art Thou in Thy glory! It is not conceivable that I should have said what I had no right to [say]! Had I said this, Thou wouldst indeed have known it! Thou knowest all that is within myself, whereas I know not what is in Thy self.Verily it is Thou alone who fully knowest all the things that are beyond the reach of human perception." "Nothing did I tell them beyond what Thou didst bid me [to say]: "Worship God, [who is] my Sustainer as well as well as your Sustainer"; and I bore witness to what they did as long as I dwelt amongst them; but since Thou hast caused me to die, Thou alone has bear their keeper: for Thou are witness unto everything." اردو تر جمہ:- " اور دیکھو جب خدا ( فیصلہ کے دن) کہے گا.اے عیسی ابن مریم کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا:.”خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو؟“ عیسی علیہ السلام) جواب دیں گے.خدایا تیری ذات پاک ہے.مجھے جس بات (کے کہنے ) کا حق نہ تھا میں کیسے کہ دیتا؟ میں نے اگر یہ کہا ہوتا تو تجھے ضرور اس کا علم ہوتا.میرے دل کی باتیں تجھ پر بخوبی روشن ہیں جبکہ مجھے اس کا علم نہیں جو تیرے جی میں ہے.بے شک صرف تو ہی غیب کا پورا علم رکھنے والا ہے.“ ددمیں نے ان سے ہرگز کچھ نہیں کہا مگر وہی جس کا تو نے مجھے ( کہنے کے لئے ) حکم دیا کہ:.”خدا کی عبادت کرو ( جو کہ ) میرا رب اور تمہارا رب ہے اور میں ان کے اعمال پر گواہ تھا.جب

Page 438

تاریخ احمدیت.جلد 22 423 سال 1964ء تک میں ان میں رہا.لیکن جب سے تو نے مجھے وفات دی ہے تو صرف تو ہی ان پر نگہبان رہا.اور تو ہر چیز پر گواہ ہے.گیا ہے) ان آیات میں فلما توفیتنی کا ترجمہ صاف طور پر ” جب سے تو نے مجھے وفات دی ہے کیا دوسرا اقتباس (انگریزی ترجمہ سوره نساء ۱۵۸،۱۵۷) "(157-158) And their boast, "Behold, we have slain the Christ Jesus, son of Mary, [who claimed to be] God's apostle!" However, they did not slay him, and neither did they crucify him, but it only seemed to them [as if it had been] so; and verily those who hold conflictng views about this matter are indeed confused, having no [real] knowledge thereof, and following mere conjecture.For, of a certainty, they did not slay him: (158) God exalted him unto Himself - and God is indeed Almighty, Wise." 33 (اردو تر جمه ) اور ان کی یہ لن ترانی کہ دیکھو ہم نے مسیح ابن مریم ( جو اپنے آپ کو کہتا تھا ) خدا کا نبی اسے قتل کر دیا.(حالانکہ ) انہوں نے نہ تو اسے قتل کیا اور نہ ہی اسے صلیب پر مارا بلکہ ان کو بظاہر یہی نظر آیا کہ ایسا ہو گیا) اور بے شک وہ لوگ جو اس بارے میں متصادم نظریات رکھتے ہیں وہی الجھن میں پڑے ہوئے ہیں.انہیں اس کے متعلق کوئی (حقیقی) علم نہیں صرف گمان کے پیچھے چلتے ہیں.اور یقیناً انہوں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے اپنی طرف اس کا رفع کیا اور بے شک خدا بڑا ز بر دست اور پوری حکمتوں والا ہے“.صفحہ ۱۷۷ تیسرا اقتباس (انگریزی تفسیر سوره نساء ۱۵۸،۱۵۷) Thus, the Quran categorically denies the story of the crucifixion of Jesus.There exist, among Muslims, many fanciful legends telling us that at the last moment God substituted for

Page 439

سال 1964ء 424 تاریخ احمدیت.جلد 22 Jesus a person closely resembling him (according to some accounts, that person was Judas), who was subsequently crucified in his place.However, none of these legends finds the slightest support in the Quran or authentic Traditions, and the stories produced in this connection by the classical commentators of the Quran must be summarily rejected.They represent no more than the confused attempts at "harmonizing" the Quranic statement that Jesus was not crucified with the graphic description, in the Gospels, of his crucifixion.The story of the crucifixion as such has been succinctly explained in the Quranic phrase wa-lakin shubbiha lahum, which I render as "but it only appeared to them as if it had been so" -implying that in the course of time, long after the time of Jesus, a legend had somehow grown up (possibly under the then-powerful influence of Mithrai beliefs) to the effect that he had died on the cross in order to atone for the "original sin" with which mankind is allegedly burdened; and this legend became so firmly established among the latter-day followers of Jesus that even his enemies, the Jews, began to believe it - albeit in a derogatory sense (for crucifixion was, in those times, a heinous form of death penalty reserved for the lowest of criminals).This, to my mind, is the only satisfactory explanation of the phrase wa-lakin shubbiha lahum, the more so as the expression shubbiha li is idiomatically synonymous with khuyyila li, "[a thing] became a fancied image to me!", i.e., "in my mind" -in other words, "[it] seemed to me" (see Qamus, art.khayala, as well as Lane II, 833, and IV, 1500)

Page 440

تاریخ احمدیت.جلد 22 (ترجمہ اردو ) 425 سال 1964ء پس قرآن کریم عیسی کے صلیب دئیے جانے کے قصے کو قطعی طور پر رڈ کرتا ہے.ہاں اس بارے میں مسلمانوں میں بہت سی بے بنیاد روایات پائی جاتی ہیں.جن میں مذکور ہے کہ عین آخری وقت خدا نے عیسی کے بدلے اس سے انتہائی مشابہت رکھنے والے ایک دوسرے شخص کو بھیج دیا ( بعض تفاصیل کے مطابق یہ شخص یہو دا تھا.جسے بالآخر عیسی کی جگہ صلیب دے دی گئی.تاہم ان میں سے کسی روایت کا قرآن کریم اور مستند احادیث میں ذرہ بھر بھی ثبوت نہیں ملتا اور اس سلسلہ قرآن کے کلاسیکی مفسرین نے جو قصے بیان کئے ہیں.وہ ہر طرح سے رڈ کر دینے کے لائق ہیں.ایک طرف عیسی کو صلیب دیے جانے کا جو تفصیلی نقشہ اناجیل میں کھینچا گیا ہے اور دوسری طرف قرآن کا یہ بیان کہ مسیح کو صلیب پر نہیں مارا گیا.در حقیقت یہ قصے ان دو بیانات کو ” ہم آہنگ کرنے کی ابتر اور پریشان کوششوں کے علاوہ اور کسی امر کی طرف رہنمائی نہیں کرتے.صلیب دئیے جانے کی اس حکایت کو قرآن کریم کے مختصر اور جامع جملہ وَلكِنْ شُبّه لَهُمْ میں کس خوبی سے بیان کر دیا گیا ہے جس کا ترجمہ میں نے یوں کیا ہے:.بلکہ ان کو بظاہر یہی نظر آیا کہ ایسا ہو گیا ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ مرور زمانہ سے مسیح کے زمانہ کے بہت عرصہ بعد کسی نہ کسی طرح یہ داستان تشکیل پاگئی ( عین ممکن ہے کہ یہ اس وقت کے متھرائی عقائد کے غالب اثر کا نتیجہ ہو ) کہ وہ اس طبعی گناہ کے کفارہ کے طور پر صلیب دیے گئے.جس کے متعلق یہ ادعاء ہے کہ اس بوجھ تلے انسانیت دبی ہوئی ہے.یہ روایت عیسی کے بعد میں آنے والے پیروؤں میں اتنی شدت سے رچ گئی کہ یہودی بھی جو حضرت عیسی کے دشمن تھے اسے تسلیم کرنے لگے.گو تحقیر آمیز انداز ہی میں سہی اس زمانہ میں صلیب کی موت ایک نفرت انگیز سزائے موت تھی جو سب سے نچلے درجے کے مجرموں کے لئے مقر تھی میرے نزدیک قرآنی الفاظ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ کی طرف یہی ایک توضیح قابل قبول ہے.اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ شبہ لی کا محاورہ خیـل لـى کے مترادف ہے ( یہ شے) میرے لئے ایک خیالی تصویر بن گئی" یعنی ” میرے ذہن میں دوسرے لفظوں میں ( یہ ) مجھے ایسا لگا.چوتھا اقتباس (انگریزی تفسیر سوره آل عمران آیت ۵۵) Cf.3:55, where God say to Jesus, "Verily, I shall cause thee

Page 441

تاریخ احمدیت.جلد 22 426 سال 1964ء to die, and shall exalt thee unto Me." The verb rafa'ahu (lit., "he raised him" or "elevated") has always wherever the act of rafa, (elevating) of a human being is attributed to God the meaning of "honouring" or "exalting".Nowhere in the Quran is there any warrant for the popular belief of many Muslims that God has "taken up" Jesus bodily to heaven; the expression that "God exalted him unto Himself" in the above verse denotes the elevation of Jesus to the realm of God's special grace -a blessing in which all prophets partake as is evident from 19:57, where the verb rafa'nahu ("we exalted him") is used with regard to the Prophet Idris.(See also Muhammad 'Abduh in Manar III, 316 f.and VI, 20 f.) The "nay" (bal) at the beginning of the sentence is meant to stress the contrast between the belief of the Jews that they put Jesus to a shameful death on the cross and the fact of God's having "exalted him unto Himself".35 اردو تر جمہ:.جہاں خدا عیسی سے خطاب کرتا ہے.بے شک میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں.اس میں فعل رَفَعَهُ ( لغوی طور پر.اس نے اسے اٹھا لیا یا اس کا درجہ بلند کیا).جہاں کہیں انسان کے رفع (بلندی درجات) کو خدا کی طرف منسوب کیا جائے.تو اس سے ہمیشہ (عزت) بخش یا بلندی درجات مراد ہوتی ہے.اکثر مسلمانوں کے اس عام عقیدہ کی کہ خدا نے عیسی علیہ السلام کو بجسد عصری آسمان پر اٹھا لیا قرآن کریم میں کسی جگہ بھی کوئی سند نہیں ملتی.آیت بالا کا یہ بیان کہ خدا نے اپنی طرف اس کا رفع کیا اس بات کی علامت ہے کہ عیسی علیہ السلام خدا کے فضل خصوصی کے دائرہ میں شامل کئے گئے ہیں.یعنی اس رحمت الہی میں جس میں سب انبیاء شریک ہیں.جیسا کہ سورۃ ۱۹ آیت ۵۷ سے ظاہر ہے.(وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا.ناقل ) جس میں فعل رفعنه (ہم نے اس کا مرتبہ بلند کیا ) حضرت اور لیس علیہ السلام کے لئے استعمال ہوا ہے.

Page 442

تاریخ احمدیت.جلد 22 427 سال 1964ء نیز ملاحظہ ہو.محمد عبدہ کی تفسیر المنار جلد سوم نمبر ۳۱۶ حاشیہ اور جلد چہارم نمبر ۲۰ حاشیہ میں ) اس جملہ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ - ناقل) کے شروع میں بلکہ (بل) کا لفظ یہودیوں کے اس عقیدہ کے مقابلہ میں کہ انہوں نے عیسی علیہ السلام کو ایک شرمناک صلیبی موت دی.اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے لایا گیا ہے کہ خدا نے اسے اپنا قرب عطا کیا“.(صفحہ ۱۷۷ ۱۷۸) الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پر تین صدیاں نہیں صرف باسٹھ سال ہی گذرے تھے کہ مرکز اسلام مکہ معظمہ سے یہ اعلان کیا گیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.مسیح کے رفع جسمانی کا قرآن اور مستند احادیث سے قطعاً کوئی ثبوت نہیں ملتا اور اس سلسلہ میں قدیم مفسرین کے بیانات رڈ کر دینے کے لائق ہیں.محمد خالد اقبال ایم اے مقیم و و کنگ انگلستان سب سے پہلے اہل قلم تھے جنہوں نے اس نئے دو انگریزی ترجمۃ القرآن کی اس خصوصیت سے نقاب اٹھایا اور لاہور کے اخبار ”پیغام صلح (۲۱ را پریل ۱۹۶۵ء) میں اس پر ایک مقالہ شائع کیا ازاں بعد شیخ نور احمد صاحب منیر مجاہد بلاد عر بیہ نے اخبار الفضل ( ۸ مئی ۱۹۶۵ء) میں اس مقالہ کے ضروری حصے سپر داشاعت کئے اس طرح پوری دنیائے احمدیت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی فتح مبین کا علم ہوا.ڈاکٹر محمد اسد جنہوں نے ۱۹۶۴ء میں صرف پہلی ۹ سورتوں کا ترجمہ شائع کیا تھا نے خدمت قرآن کا سلسلہ جاری رکھا اور ۱۹۸۰ء میں لندن میں مکمل انگریزی ترجمہ قرآن شائع کر دیا اور اس میں وفات مسیح سے متعلق اپنے ترجمہ اور تفسیر کو لفظ الفظاً قائم رکھا یہ کمل ترجمہ دو ہزار صفحات پر مشتمل تھا.جس کی اشاعت کی سعادت حسب ذیل ادارہ کو حاصل ہوئی:.Distributors: E.J.Brill - London, Publishers and booksellers 41, Museum Street, London WC1A 1LX تبرکات کی حفاظت کا شرعی جواز اور انتظام تاریخی میوزیم کی تجویز کا ذکر قبل ازیں آچکا ہے.اس تسلسل میں نگران بورڈ نے اس سکیم کے مطابق تبرکات کی حفاظت کے شرعی پہلو کی وضاحت کے لئے یہ معاملہ بغرض مشورہ مجلس افتاء میں بھجوایا.مجلس نے ۱۴ مارچ ۱۹۶۴ء کو اس غرض کے لئے مندرجہ ذیل سب کمیٹی مقرر کی :-

Page 443

تاریخ احمدیت.جلد 22 428 سال 1964ء صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب.سید میر داؤد احمد صاحب (پرنسپل جامعہ احمدیہ ).صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم.اے (پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ).ملک سیف الرحمن صاحب (مفتی سلسلہ احمدیہ ).مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ( سابق انچارج احمد یہ مشن غانا ).سب کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے.تمام متعلقہ حوالہ جات اور دلائل پر غور کرنے کے بعد سب کمیٹی نے متفقہ طور پر حسب ذیل رپورٹ پیش کی:.شعائر اللہ اور دوسرے تبرکات کی حفاظت کا انتظام کرنا تاریخی اور علمی صداقت کے لحاظ سے نہ صرف جائز ہے بلکہ بعض حالات میں ہمارے لئے ضروری بھی ہے.حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَحَمَلْنَهُ عَلَى ذَاتِ الْوَاجِ وَدُسُرٍ تَجْرِى بِأَعْيُنِنَا جَزَاء لِمَنْ كَانَ كُفِرَ وَلَقَدْ تَرَكْنَهَا ايَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذْرِ (القمر: ۴ تا ۱۷) یعنی ہم نے اس ( نوح ) کو ایک تختوں اور کیلوں والی کشتی پر اٹھالیا.وہ ہماری آنکھوں کے سامنے (یعنی ہماری نگرانی میں) چلتی تھی.یہ اس شخص کی جزا تھی جس کا انکار کیا گیا تھا.اور ہم نے اس کو ایک نشان کے طور پر ( پچھلی اقوام ) کے لئے چھوڑا.پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے.اسی طرح بنی اسرائیل کے ذکر میں فرمایا: وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ايَةَ مُلْكِةَ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِيْنَةٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ أَلُ مُوسى وَال هَرُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَكَةُ إِنَّ فِي َذلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (البقرة : ۲۴۹) یعنی ان کے نبی نے ان سے کہا اس کی حکومت کی دلیل یہ بھی ہے کہ تمہیں ایک تابوت ملے گا.جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین ہوگی اور ان چیزوں کا بقیہ ہوگا جو موسیٰ کے متعلقین اور ہارون کے متعلقین نے اپنے پیچھے چھوڑیں.فرشتے اُسے اٹھائے ہوئے ہو نگے.اگر تم مؤمن ہو تو اس بات میں تمہارے لئے یقیناً ایک بڑا نشان ہے.پس جہاں تک شعائر اللہ اور تبرکات کی حفاظت کے جواز کا تعلق ہے وہ ان آیات سے ظاہر ہے.لیکن اس سلسلہ میں یہ احتیاط اشد ضروری ہے کہ حفاظت کا طریق ایسا ہونا چاہئے جو منجر الی الشرک نہ ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حُنَفَاءَ لِلهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ تُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِى بِهِ الرَّيْحُ فِي

Page 444

تاریخ احمدیت.جلد 22 429 سال 1964ء مَكَانٍ سَحِيْقٍ ذَلِكَ وَ مَنْ يُعَظِّمْ شَعَابِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ لَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج : ۳۲ تا ۳۴) یعنی تم خدا کا شریک کسی کو نہ بناؤ اور جو اللہ کا شریک کسی کو بناتا ہے وہ آسمان سے گر جاتا ہے.اور پرندے اس کو اُچک کر لے جاتے ہیں.اور ہوا اس کو کسی دوسری جگہ پھینک دیتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ نشانیوں کی عزت کرے گا تو اُس کے اس فعل کو دلوں کا تقویٰ قرار دیا جائے گا.یادرکھو کہ ان قربانیوں سے ایک مدت تک تم کو نفع حاصل کرنا جائز ہے پھر خدا کے پرانے گھر تک ان کو پہنچانا ضروری ہے.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ شعائر اللہ کی عظمت کے احساس اور اسے قائم رکھنے میں شرک کی ملونی نہیں ہونی چاہیئے.بلکہ اس کی بنیاد دلوں کے تقویٰ پر ہونی چاہیئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ فرمان بھی اس نوعیت کی احتیاط کی ضرورت کو واضح کر رہا ہے جو حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی ایک روایت میں بیان ہوا ہے.چنانچہ حضرت منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضور خدا کے واسطے میرا ایک سوال ہے.فرمایا کہو کیا ہے.عرض کیا کہ حضور یہ (سرخی کے نشان والا ) گر تہ تبر کا مجھے دے دیں.فرمایا نہیں یہ تو ہم نہیں دیتے.میں نے عرض کیا کہ حضور نے ابھی تو فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات صحابہؓ نے رکھے.اس پر فرمایا کہ یہ گر تہ میں اس واسطے نہیں دیتا کہ میرے اور تیرے مرنے کے بعد اس سے شرک پھیلے گا.اس کی پوجا کریں گے.اس کو لوگ زیارت بنالیں گے.باقی رہی تبرکات کی تاریخی حیثیت اور ان کے اصلی ہونے کے ثبوت کو مہیا کرنا تو یہ طریق بھی درست اور مناسب ہے اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی شرعی روک نہیں بلکہ اسلام پسند کرتا ہے کہ علمی صداقتوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے.36- خاکسار :.بشارت الرحمن ، نذیر احمد مبشر ، مرزا رفیع احمد سید داؤ د احمد ، ملک سیف الرحمن“.چنانچہ ان سفارشات کے مطابق مرکز سلسلہ ربوہ میں حفاظت تبرکات کے لئے ایک کمیٹی قائم ہوئی تھی.یہ کمیٹی ایک عرصہ قائم رہی مگر اس سلسلہ میں کوئی عملی پیش رفت ریکارڈ سے ظاہر نہیں پھر آہستہ آہستہ یہ کمیٹی غیر مؤثر ہوگئی.جماعتی ریکارڈ کے مطابق نومبر ۲۰۰۳ء میں حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز ت

Page 445

تاریخ احمدیت.جلد 22 430 سال 1964ء کی منظوری سے ایک کمیٹی قائم ہوئی.جس کے ممبران یہ تھے.مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ممبر، مکرم سید عبدالحئی شاہ صاحب ممبر، مکرم سید طاہر احمد صاحب صد ر اور مکرم میرسید محمود احمد صاحب نائب نا ظر تعلیم سیکرٹری کمیٹی.دسمبر ۲۰۰۳ء میں حضور انور نے محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کو کمیٹی کا صدر مقرر فرما دیا اور اسی طرح جنوری ۲۰۰۹ء سے مکرم مشہود احمد صاحب نائب نا ظر تعلیم اس کے سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں.اس کمیٹی کے ذریعہ بیسیوں تبرکات کا ریکارڈ محفوظ کیا جا چکا ہے اور مسلسل اعلانات کے ذریعہ احباب جماعت کو اس بات کی طرف توجہ بھی دلائی جارہی ہے کہ وہ اپنے پاس موجود تبرکات اس کمیٹی کے پاس ریکارڈ بھی کروا دیں تاکہ ان کا استناد قائم رہے.مجلس مشاورت ۱۹۶۴ جماعت احمدیہ کی پینتالیسویں ۴۵ مجلس مشاورت ۲،۲۱،۲۰ مارچ ۱۹۶۴ء کوتعلیم الاسلام کالج ربوہ کے وسیع و عریض ہال میں منعقد ہوئی.اس مشاورت میں ۳۰۷ جماعتوں کے۵۹۲ نمائندگان شامل ہوئے.صدارت کے فرائض حضرت مصلح موعود کے خصوصی ارشاد کے مطابق حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع لائکپور (فیصل آباد ) نے سرانجام دیئے.رائے شماری اور شوری کی دیگر دوسری کا رروائی میں اعانت کے لئے جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعتہائے سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور صاحب صدر کے ہمراہ سٹیج پر تشریف فرما ہوئے.حضرت شیخ صاحب نے اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا:.حضرت صاحب بوجہ بیماری تشریف نہیں لا سکے.گزشتہ سال حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ہم میں تھے اور ہمیں ان کی راہنمائی ، ان کی دعائیں اور ان کا تجربہ حاصل تھا.یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی حکمت کے ماتحت اس مجلس مشاورت میں ہمیں حاصل نہیں ہیں.اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے.جس قدر بھی نمائندگان ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اس ذمہ داری کو جو آج ہم پر عائد ہوئی ہے پورے طور پر سمجھتے ہیں اور اپنے ذہن نشین رکھیں گے.خواہ سب کمیٹیوں کے لئے نام تجویز کرنے ہوں یا سب کمیٹیوں میں معاملات پر غور کرنا ہو

Page 446

تاریخ احمدیت.جلد 22 431 سال 1964ء یا بعد میں کسی امر میں بحث و تمحیص کرنا یا رائے دینا ہو.یہ تمام مراحل ایسے ہیں جن میں ہمیں اس بات کو خاص طور پر مدنظر رکھنا پڑے گا کہ ہماری ذمہ داری پہلے سے زیادہ ہے.ہمارا ماحول پہلے سے قدرے مختلف ہے.ہم نے ۴۵ سال میں یہ سبق پڑھا ہوا ہے.پس ہمیں ثابت کرنا چاہئے کہ وہ سبق جو ہمیں حضرت صاحب پڑھاتے رہے ہیں بھولا نہیں.اس لئے اس مجلس کی جو کارروائی ہو وہ سہولت ، اطمینان تحمل اور وقار سے عمل میں آنی چاہیئے.میں امید کرتا ہوں کہ تمام نمائندے اس بات میں پورے طور پر تعاون کریں گے اور جس قدر ہمارے ادارے ہیں ان کے کارکن بھی اس بات کو ذہن نشین رکھیں گے.یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس قدر بھی صحابہ ہوئے ہیں اور ان کے اندر ہم نے حضرت صاحب کی صحبت کے نتیجہ میں جو وصف پایا ہے اس کا ماحصل اور اس کا لب لباب ایک ہی امر تھا کہ وہ بچے وفادار تھے اور مشکل حالات میں ہی وفاداری کا امتحان لیا جایا کرتا ہے.ان مختصر الفاظ کے ساتھ میں اس مجلس کی کارروائی کو شروع کرنا چاہتا ہوں یہ امید اور یقین رکھتے ہوئے کہ میرے یہ الفاظ جو میرے دل کی آواز ہیں آپ کے دلوں تک پہنچ چکے ہیں.مجلس شوری نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت مصلح موعود کی دعاؤں کی برکت سے نہایت گہری نظر اور تفصیلی رنگ میں جملہ امور پر غور و فکر کیا.اور تفصیلی بحث کے بعد نہایت اہم سفارشات اور تجاویز پیش کیں جنہیں حضرت مصلح موعود نے مکمل طور پر منظور فرمالیا..ذیل میں مشاورت کی چار ضروری سفارشات کا تذکرہ کیا جاتا ہے.B9 (۱) مرکز اور جماعتوں کی طرف سے ملازمتوں اور تجارتوں سے فارغ شدہ دوستوں کو تحریک کی جائے کہ وہ قرآن کریم حفظ کریں.معلمین اور مربیان و دیگر کارکنان کو بھی تحریک کی جائے کہ وہ قرآن کریم حفظ کریں.سب کمیٹی مزید سفارش کرتی ہے کہ جو معلمین و مربیان و دیگر کارکنان اس تحریک پر عمل کرتے ہوئے قرآن مجید حفظ کر لیں.انہیں دیگر اسی قسم کے ملازمین پر فوقیت دی جائے.مرکز میں ایک حافظ کلاس جاری ہے لیکن اس میں طلباء کی کمی ہے.بیرونی جماعتوں کو اپیل کی جائے کہ وہ اپنے بچے اس جماعت میں داخل کریں.لیکن چونکہ بعض والدین چھوٹے بچوں کو اپنے سے جدا کرنے میں رضامند نہیں ہوتے.اس لئے دس بڑی جماعتوں مثلاً کراچی، ڈھاکہ، لاہور، راولپنڈی، پشاور ، سیالکوٹ وغیرہ کو اگر وہ کم از کم آٹھ بچے داخل کر کے حفاظ کے لئے اپنے ہاں ایک

Page 447

تاریخ احمدیت.جلد 22 432 سال 1964ء کلاس کھولیں تو سب کمیٹی صدر انجمن سے یہ سفارش کرتی ہے کہ وہ معلم حافظ صاحب کی تنخواہ کا ۵۰ فیصدی اس جماعت کو بطور امداد دے.اس وقت ربوہ کی حافظ کلاس میں صرف صبح کے وقت تعلیم دی جاتی ہے اور وہ سب چھٹیاں بھی دی جاتی ہیں جو کہ عام سکولوں کے لئے مقرر ہیں.جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ طلباء اتنی جلدی قرآن کریم حفظ نہیں کرتے جتنی جلدی کہ انہیں کرنا چاہیئے.لہذا سب کمیٹی یہ تجویز کرتی ہے کہ حافظ کلاس میں دونوں وقت تعلیم دی جائے اور سوائے جمعہ یا عیدین کے دوسری تعطیلات نہ دی جائیں اور اگر یہ محسوس ہو کہ ایک معلم اتنا کام نہیں کرا سکتا تو دوسرے حافظ معلم کی خدمات حاصل کی جاویں.نیز سب کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ چونکہ حافظ بچوں کو کافی دماغی کام کرنا پڑتا ہے اس لئے علاوہ مناسب غذا کے انہیں دودھ بھی دیا جائے“.(۲) ربوہ کی جامع مسجد نقشہ کے مطابق تعمیر کرائی جائے اور اس کے لئے بجٹ ۶۵-۱۹۶۴ء میں ایک لاکھ روپیہ مشروط بآمد رکھا جائے.علاوہ ازیں صدر انجمن احمدیہ مسجد مبارک کی توسیع پر فوری طور پر غور کرے تا وہ نئی ضروریات کے لئے ملتفی ہو سکے.41 (۳) نگران بورڈ قائم رہنا چاہیئے.ممبران بورڈ کی کل تعداد دس ہوگی.جس میں سے ایک ممبر مشرقی پاکستان کا صوبائی امیر ہوگا.تین ممبران صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ، صدر صاحب تحریک جدید ، صدر صاحب وقف جدید ہوں.اور چھ ممبران ان کے علاوہ ہوں گے.نگران بورڈ کے ممبران کا انتخاب امراء اضلاع و علاقائی امراء پاکستان کریں گے.کراچی کے امیر ضلع کے امیر شمار ہوں گے.یہ ممبر امراء سے بھی چنے جاسکتے ہیں اور باہر سے بھی.ممبران تین سال کے لئے چنے جائیں گے.بعد کے انتخابات میں ان کا چناؤ ممنوع نہ ہوگا.فرائض نگران بورڈ) صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید، وقف جدید کے کاموں کی نگرانی کرنا.جماعت کی ترقی کی تجاویز کرنا.صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید اور وقف جدید میں رابطہ قائم کرنا.۱۰ ے کی اکثریت سے جو امر فیصلہ کیا جائے وہ متعلقہ ادارہ کے لئے قابل پابندی ہو گا.صدر نگران بورڈ تین سال کے لئے منتخب کیا جائے.صدر کا انتخاب ممبران نگران بورڈ اپنے میں سے کریں گے.ہر سہ ادارہ جات کے صدر بطور صدر نگران بور ڈ نہیں ہو سکیں گے.صدر کا انتخاب محض اکثریت سے ہوگا.مناسب بجٹ کا انتظام صدرانجمن احمد یہ کرے گی.اس سفارش کے مطابق حضرت مصلح موعود کی منظوری سے ایک اور نگران بورڈ کی تشکیل عمل میں

Page 448

تاریخ احمدیت.جلد 22 433 سال 1964ء 43 آئی جس کے صدر مرزا عبد الحق صاحب مقرر ہوئے.(۴) حضور کے ارشاد فرموده ۲۱ جولائی ۱۹۴۴ء (الفضل ۴ راگست ۱۹۴۴ء) کی روشنی میں لاہور ، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، چٹا گانگ اور راج شاہی میں مرکز قائم کئے جائیں جن کے قیام کی ذمہ داری مرکز سلسلہ پر ہو.ان مراکز میں مساجد، لائبریریاں، مہمان خانے اور مربی سلسلہ کی قیام گاہ بھی ہو.مجلس شوری سفارش کرتی ہے کہ نگران بورڈ اس پر غور کرے اور جو مناسب سمجھے فیصلہ کرے.یہ مجلس مشاورت خلافت ثانیہ اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی حقانیت کا ایک چمکتا ہوا نشان تھی وجہ یہ کہ حضرت مصلح موعود نے مارچ ۱۹۱۴ء میں جب خلافت کی باگ ڈور سنبھالی صدرانجمن احمدیہ کا خزانہ خالی تھا اور صرف چند آنوں کے پیسے باقی تھے لیکن پچاس سال بعد ۱۹۶۴ء کی مجلس مشاورت میں جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکزی اداروں کا جو سالانہ بجٹ حضرت مصلح موعود نے منظور فرمایا وہ تریسٹھ لاکھ چھ ہزار چونتیس روپے کی خطیر رقم پر مشتمل تھا ( مرکز احمدیت قادیان کا بجٹ اس کے علاوہ تھا ).جس کی تفصیل یہ ہے:.بجٹ صدر انجمن احمد یہ پاکستان :۲۸٬۸۷،۲۶۴ بجٹ تحریک جدید : بجٹ وقف جدید : ۳۲،۴۸،۷۷۰ 461.*.*** اس مجلس مشاورت کے آخر میں صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے حضرت مصلح موعود کی صحت کی طبی رپورٹ پیش فرمائی اور خاص طور پر بتایا کہ میرے یقینی علم کے مطابق حضور جو پیغامات جماعت کے نام بھجواتے ہیں وہ حضور ہی املاء کرواتے ہیں اسی طرح سلسلہ کے تمام ضروری امور حضور کی خدمت اقدس میں پیش کئے جاتے ہیں حضور بنفس نفیس ان پر مناسب ارشادفرماتے اور فیصلہ صادر فرماتے ہیں.حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے اختتامی خطاب میں فرمایا کہ:.یہ مشاورت اب اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے.مجھے دوران کارروائی یہ بات سختی سے محسوس ہوتی رہی ہے کہ میں دوستوں پر وقت کی کمی کی وجہ سے پابندی لگارہا ہوں ایسے دوستوں پر جو میرے مخدوم ہیں اور میں اپنے دل کو ٹو لتا تھا تو میں ندامت محسوس کرتا تھا.آپ نے جو ایجنڈا مجھے دیا ہے اس کے لحاظ سے یہ کاروائی 11 بجے ختم ہونی چاہئے تھی.اور اس وقت ہم پونے دو بجے پر پہنچ گئے ہیں.اس سے

Page 449

تاریخ احمدیت.جلد 22 434 سال 1964ء آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ جو آپ کی مشکل ہے وہ میری بھی مشکل ہے.اور اگر میں بعض دوستوں کو محدود نہ کرتا تو یہ ایجنڈا ختم نہیں ہو سکتا تھا.یہ میری معذوری سمجھیں یا میری مجبوری.بہر حال اگر کسی دوست نے محسوس کیا ہو کہ میں نے بے جا پابندی لگائی ہے تو میری معذرت کو قبول فرماویں.ہم نے جلسہ کے اوقات جو پہلے ہوا کرتے تھے ان میں بھی کمی کر دی ہے.بہر حال یہ معاملہ اب نہیں کہ میں اس پر کوئی اظہار رائے کر سکوں جو منتظمین ہیں وہ غور کر لیں تا کہ آئندہ وقت کی قلت مانع نہ ہو.بلکہ ضروری امور پورے طور پر زیر غور آجائیں.اس کے بعد میں اس لحاظ سے کہ وَ ذَكَّرُ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذريت: ۵۶) یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب شوری قائم ہوئی تو اس کا منشا جو حضرت صاحب نے مقرر کیا.اللہ تعالیٰ اور قرآن شریف کی تعلیم کے مطابق وہ یہی تھا کہ شوریٰ کی غرض صرف مشورہ کا حصول ہے.دینی امور میں ترقی اور بہتری کیلئے خواہ ترقی اور بہتری بیرونی جماعتوں کے متعلق ہو خواہ ترقی مرکز کے متعلق ہو اس سے زیادہ نہیں.اور وہ مشورہ خلیفہ وقت کی منظوری کے ساتھ نافذ ہوتا ہے دنیوی پارلیمنٹوں کی طرح نہ تو اس میں کوئی پارٹی بازی ہے اور نہ ہی رائے دینے والوں کو یہ اصرار ہوتا ہے کہ میری رائے کیوں نہیں مانی گئی.اور لازمی طور پر مانی جانی چاہیئے.یہ ہمارا قطعا مقصد نہیں ہے.ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے سینوں کو ٹولیں کہ ہم کیا کر کے آئے ہیں اور مرکز نے کیا کیا ہے.بالفاظ دیگر ربوہ میں ایک حوض ہے مرکز کا.اس حوض میں آپ سب پانی پہنچاتے ہیں.آپ نے دیکھنا یہی نہیں کہ حوض نے کیا کام کیا.بلکہ آپ نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ حوض میں آپ نے کتنا پانی پہنچایا ہے.اور اگر مرکز کے اندر کوئی کمی ہے اور اگر کسی بات کو آپ محسوس کرتے ہیں کہ فلاں کام نہیں ہوا.تو اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ آپ نے وہاں پانی نہیں پہنچایا اور جو شخص بھی نکتہ چینی کرے اسے مدنظر رکھنا چاہیئے کہ دنیا میں سب سے آسان چیز نکتہ چینی ہے اور مشکل چیز نکتہ آفرینی ہے ھے دوسرے کی آنکھ میں گر تیر ہے دیکھ تیری آنکھ میں شہتیر ہے اس بات کو کبھی نہ بھلا ئیں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہمارے مشورے سلسلہ کی ترقی اور اپنی حالت کا جائزہ لینے کے لئے ہیں.ہم اس شوری میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اسی نیت سے ہم اس شوری سے علیحدہ ہوئے ہیں کہ ہم نے اپنی ضروریات اور ہمارے تجربہ میں جو نقائص آئے ہیں وہ پیش کر دیئے ہیں.آگے ہم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں کہ جو کمی ہے وہ اسے دور کرے اور ہمارے

Page 450

تاریخ احمدیت.جلد 22 435 سال 1964ء کارکنوں کو توفیق دے کہ وہ پہلے سے زیادہ آگے اپنا قدم بڑھا ئیں.ہم ان کے ساتھ ہیں.اور ہمارا تعاون پورے طور پر ان کے شامل حال ہو.ہم نکتہ چینی کرنے نہیں آئے تھے بلکہ آپ کو آگے بڑھانے کے لئے اور اپنی امداد کا یقین دلانے کے لئے آئے تھے.تیسرا امر جو بہت ہی قابل توجہ ہے اور ہر ایک احمدی کے لئے جو یہاں موجود ہے بلکہ جو یہاں نہیں ہے بلکہ دنیا کے کسی گوشہ میں موجود ہے اس کے لئے بھی قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے سانچے پر اس کے موعود خلیفہ نے اور مصلح موعود نے بنایا ہے کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اگر اس کے چلانے کے لئے خلیفہ ایک ایسے شخص کو جو سب کا خادم ہے.ان سب کے لئے صدر مقرر کر دے جو اس کے مخدوم ہیں تو وہ مخدوم اپنے خادم کے ساتھ تعاون کر سکتے اور کام کر سکتے ہیں.اس شوری سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ میں جو ایک ادنی ترین خادم ہوں اگر صدر بنایا گیا ہوں.ان لوگوں کا جو تمام کے تمام میرے مخدوم ہیں جن میں ایسے بھی میرے مخدوم ہیں جن پر میرے دل و جان قربان ہیں تو یہ صرف نظام کی خوبی اور تاخیر ہے نہ کہ کسی اور کی.اس وقت حضرت صاحب بیمار ہیں.اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کے ماتحت شائد اس لئے کہ لِتَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (یونس : (۱۵) میں نے پرسوں مشاورت کا آغاز کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ہماری ذمہ داری حضرت صاحب کی بیماری کی وجہ سے بہت بڑھ گئی ہے.بہت بڑھ گئی ہے.اگر ہم اس بات کو پورے طور پر ٹولیں تو معلوم ہوگا کہ میں سونا نہیں چاہیئے بلکہ دن رات جماعت کا کام کرنا چاہیئے اور کوئی بات جو حضرت صاحب کے منصب، جماعت کی تنظیم اور جماعت کے نظام کے خلاف ہو نہ زبان پر لانی چاہیئے اور نہ کسی کی زبان پر آنے دینی چاہیئے.ہماری تمام سرخروئی اور ہماری تمام کامیابی گزشتہ پچاس سال میں خلافت ثانیہ کے زمانہ میں یا اس سے پیشتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اور حضرت خلیفتہ اسیح الاول کے زمانہ میں جس قدر بھی ہوئی ہے وہ ایک امام کے ماتحت اور ایک خلیفہ کو واجب التعمیل یقین کرتے ہوئے ہوئی ہے.ورنہ اگر یہ بات نہ ہو اور اس کے خلاف کوئی نظام ہو تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ آندھیاں جو چلیں، وہ طوفان جو بر پا ہوئے ، وہ بھٹیاں جن میں ہم ڈالے گئے ان میں ہمارا نام و نشان تک نہ رہ جاتا.اللہ تعالیٰ اس خلافت کی برکت سے ہمیں منزل بہ منزل اس طرح محفوظ کرتا چلا آیا ہے کہ کوئی چیز نہیں جو ہمارے سد راہ ہوئی ہو.اور گزشتہ ۷۵ سال میں سے جن میں سے خلافت ثانیہ کے پچاس سال ہیں کوئی دن

Page 451

تاریخ احمدیت.جلد 22 436 سال 1964ء ایسا نہیں آیا جس میں جماعت کا قدم آگے نہ بڑھا ہو.اور کوئی دن ایسا نہیں چڑھا جبکہ ہم پر نکتہ چینیاں نہ کی گئی ہوں.ان تمام چیزوں کے باوجود ہم بڑھتے چلے گئے ہیں.اور انشاء اللہ بڑھتے چلے جائیں گے.گزشتہ ۷۵ سال میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں اور اللہ تعالیٰ کے وعدے اپنی آنکھوں سے پورے ہوتے دیکھے اور جو آئندہ وعدے ہیں ہم اپنی چشم بصیرت سے اس وقت بھی دیکھ رہے ہیں.اور ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہماری ظاہری آنکھوں کے سامنے وہ نقشے کامیابیوں کے لائے جن کے اس نے ہم سے وعدے کر رکھے ہیں.اس کے بعد میں دعا کرنا چاہتا ہوں اور آپ دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آپ جب یہاں سے واپس جائیں تو اس فرض کو اپنے کندھوں پر لے کر جائیں کہ ہم نے یہاں پر بہت کچھ باتیں کیں سنیں اور کہیں.لیکن ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ تمام جماعتوں کی تنظیم کو زیادہ مضبوط کریں اور بیدار کریں.اور چست کریں.ہمیں حالات ایسے پیش آگئے ہیں کہ ہمیں اپنی ہمتیں زیادہ بلند کرنی پڑیں گی.سلسلہ کے کاموں کے لئے ہمیں زیادہ وقت دینا پڑے گا.اور نکتہ چینی کو ہم بالکل چھوڑ دیں گے.وقت ہوتا ہے ہر ایک چیز کا ؎ ہرسخن وقتے و ہر نکتہ مقامی دارد یہ وقت نکتہ چینیوں کا نہیں ہے.یہ وقت ہے کف لسان کا، آگے بڑھنے کا عمل دکھانے کا، ہمت باندھنے کا نکتہ چینیوں کا وقت اور ہوتا ہے.یہ کام کرنے کا وقت ہے.تنظیم کرنے کا وقت ہے اور مرکز کے نظام کو زیادہ مضبوطی سے چلانے اور اس کی زیادہ تعظیم وتکریم کا وقت ہے.اس بات کو مد نظر رکھیں.میں جو عرض کر رہا ہوں بطور صدر مشاورت کے نہیں بلکہ ہمیشہ میں نے انہی خطوط پر سوچا ہے اور میرے ہمیشہ سے یہ خیالات ہیں.دیکھئے میں اس بات کا ذکر کرنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ حضرت صاحب بیمار ہوئے اور آپ کے صاحبزادگان کو اللہ تعالیٰ نے بیدار کیا.اور خدا تعالیٰ کی تحریک سے اور اس کے القا سے انہوں نے جماعتی کاموں کو سنبھالا، سینہ سپر ہو کر سنبھالا.نکتہ چینیوں اور کئی جلی با توں کے ساتھ ایسے حالات میں سنبھالا جبکہ ہم سب کا روحانی باپ اور ان کا جسمانی باپ بھی اور روحانی باپ بھی بیمار ہوا ہے.ایسے حالات میں ان کا حق تھا کہ آپ کی تیمار داری کے سوا اور کسی بات کو نہ سوچتے لیکن جس غرض کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسدِ مبارک کے پاس کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کے رو بر وعہد کیا تھا اس عہد کو آگے

Page 452

تاریخ احمدیت.جلد 22 437 سال 1964ء چلانے کی آپ کی اولاد کو بھی توفیق ملی.کوئی مانے یا نہ مانے.کوئی دیکھے یا نہ دیکھے.لیکن واقعہ یہ ہے کہ صاحبزادگان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی توفیق دی جماعت کی خدمت کرنے کی کہ ہم سب نمائندگان اور بیرونی جماعتیں ان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ان کاموں کو ہاتھ میں لیا.اور ان کا بدل کوئی اور نہیں تھا.اور جن کو وہی کر سکتے تھے.یہ بات محض خیالی نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا ئیں کیں ایسے درددل کے ساتھ کہ ان سے بڑھ کر الفاظ میسر نہیں ہو سکتے ؎ زبان چلتی نہیں شرم و حیا ہے تری قدرت کے آگے روک کیا ہے وہ دے سب انکو جو مجھ کو دیا ہے ہوں میری طرح دیں کے منادی یہ دعائیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیں.اگر دیکھنے والی آنکھ ہو اور سمجھنے والا دل ہو تو اس کے نظارے ہم دیکھتے ہیں.اس لئے میں دعا کرتا ہوں ،سب سے پہلے یہ دعا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے امام کو اپنی بے انتہا قدرتوں سے شفا کامل عطافرمادے؎ اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے اے رب الوریٰ دوسرے میں صاحبزادگان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہمتوں کو بلند سے بلند تر کرے.وہ ہمارے اولوالعزم آقا کے اولوالعزم صاحبزادے ہیں.ہمارے مخدوم ہیں.وہ آگے بڑھیں ہم ان کے پیچھے چلنے والے ہوں.اور وہ بالکل مطمئن ہو کر کام کریں.ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہمتوں کو بلند کرے.اور ان کی مرادوں کو بار آور کرے.پھر میں دعا کرتا ہوں مرکز کے کارکنوں کے لئے جو اسباب کی کمی کے باوجود ایسے مشکل حالات میں جن کا صحیح اندازہ ہمیں نہیں.جو کرتا ہے وہ بھرتا ہے اور وہی جانتا ہے.بہرحال نہایت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور فرمائے.نیک اسباب مہیا فرمائے.اور انہیں نظام سلسلہ کو مضبوط سے مضبوط تر اور کامیاب سے کامیاب تر بنانے کی توفیق دے.اس کے بعد میں ان مبلغین کے لئے دعا کرتا ہوں جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو پورا کر رہے ہیں کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤ نگا“

Page 453

تاریخ احمدیت.جلد 22 438 سال 1964ء یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے جب دنیا کے کنارے تو کیا قادیان کے کناروں میں بھی کوئی جاننے والا نہیں تھا.ہمارے مبلغین نشان ہیں اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے.وہ بھی نہایت مشکل حالات میں بڑی بڑی قربانیاں کر کے سلسلہ کے کام کو قربانیاں کر کے سر انجام دے رہے ہیں.ایسی قربانیاں کہ بعض وقت جب مجھے معلوم ہوا ہے تو جسم پر لرزہ طاری ہو گیا ہے کہ اتنی قربانی بھی ہوسکتی ہے.ہماری جماعت کا قاعدہ نہیں ہے کہ ہم کسی کی تعریف کریں اور نام بنام کسی کی قربانی کو پیش کریں.لیکن یہ یقین کریں کہ ہماری جماعت کے جو مبلغین ہیں یا واقفین ہیں وہ بڑی قربانی کرنے والے ہیں.اور ایسے حالات میں قربانی کرنے والے ہیں کہ ان کا تصور بھی انسان کو بہت فکر میں ڈال دیتا ہے.پھر اس کے بعد جماعت کے تمام امراء اور وہ تمام کارکن جو مختلف موقعوں پر اپنے اوقات اور اپنے آرام کو قربان کر کے سلسلہ کی خدمت کر رہے ہیں.ان کے لئے دعا ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں کامیاب کرے.ان کی ہمتوں کو بلند کرے.اور اس کے بعد تمام احمد یہ جماعت کے لئے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان میں اتحاد اور تنظیم پیدا کرے اور ان سب کو یکجان کرے.ان سب کو خلافت کے ساتھ ایک جان کر کے وابستہ رکھے.اور دنیا پر یہ بات واضح رہے کہ جماعت احمد یہ خواہ وہ لاکھوں ہیں یا کروڑوں ہیں ایک امام کے ماتحت ایک آواز پر چلنے والے ہیں.جہاں کر دیا گرم.گرما گئے وہ جہاں کر دیا نرم نرما گئے وہ پھر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے تمام جماعت احمدیہ کو ایسے اعمال بجالانے کی توفیق دے.اور ہماری کمزوریوں پر ایسی ستاری فرمادے کہ جب ہم اس کے روبرو حاضر ہوں تو سرخرو ہو کر حاضر ہوں اور وُجُوهٌ يَوْمَبِذٍ نَاضِرَةٌ إِلى رَبَّهَا نَاظِرَةٌ (القيامة: ۲۴،۲۳) کے مصداق ہوں، کوئی بدنامی کا ٹیکہ ہمارے چہروں پر نہ ہو.خدا تعالیٰ ہم سے خوش ہو اور وہ ہماری عاجزانہ کوششوں کو قبول فرمائے.ان دعاؤں کے ساتھ اس مجلس کو جو کہ بہت ہی غیر معمولی حالات میں منعقد ہوئی ہے میں بڑھانا چاہتا ہوں.اس کے بعد صدر محترم نے ایک پُر سوز اجتماعی دعا کرائی.اور اس طرح جماعت احمدیہ کی ۴۵ ویں مجلس مشاورت دو بجے بعد دو پہر خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیابی اور خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک.48

Page 454

تاریخ احمدیت.جلد 22 439 سال 1964ء برٹش گی آنا میں ایک یورپی باشندہ کا قبول اسلام برٹش گی آنا سے مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ وقتا فوقتا بیعتیں بھجواتے رہتے ہیں.تازہ ڈاک میں جو بیعتیں انہوں نے بھجوائی ہیں ان میں ایک یورپین کی بیعت بھی ہے.برٹش گی آنا سے یہ پہلی بیعت ہے جو کسی یورپین نے کی ہے.نواحمدی کا پہلا نام Mr.Davey ہے اور آپ آئر لینڈ کے باشندہ ہیں.جلسہ تقسیم اسناد تعلیم الاسلام کالج ربوہ 49 ۱۹ اپریل ۱۹۶۴ء کو جلسہ تقسیم اسناد (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے (آکسن) پرنسپل کی صدارت میں منعقد ہوا.مہمان خصوصی حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری اپنی علالت کے باعث تشریف نہیں لا سکے تھے.آپ کی قائمقامی مولانا جلال الدین صاحب شمس نے فرمائی.چنانچہ آپ محترم پرنسپل صاحب کے ساتھ اسٹیج پر تشریف فرما ہوئے.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جو کالج کے طالب علم حافظ محمد سلیم صاحب نے کی.ازاں بعد محترم پروفیسر میاں عطاء الرحمان صاحب نے علی الترتیب بی ایس سی آنرز اور بی اے آنرز نیز بی ایس سی اور بی اے کے فارغ التحصیل طلباء پیش کئے.جنہیں محترم پرنسپل صاحب نے باری باری اسناد عطافرمائیں.اسناد تقسیم فرمانے کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل نے کالج کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ خطبہ اسناد حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ارشادفرما رہے ہیں آپ نے فرمایا کہ اگر چہ حضرت حافظ صاحب مدظلہ علالت طبع کے باعث به نفس نفیس یہاں تشریف فرما نہیں تا ہم ہماری گذارش پر آپ نے جو خطبہ ارسال فرمایا ہے اسے محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس پڑھ کر سنائیں گے.آپ نے حضرت حافظ صاحب کی ذات گرامی کا تعارف کرانے کے بعد کالج کی سالانہ روداد پیش کرنے سے قبل حکومت اور ارباب حل و عقد کی توجہ بعض ضروری امور کی طرف مبذول کرائی.آپ نے اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا تعلیمی بحران ابھی ختم نہیں ہوا کر تعلیمی کمیشن کی مجوزہ اصلاحات معرض تنفیذ میں آتے ہی بعض پر اسرار حوادث کا شکار ہو گئیں.یہی

Page 455

تاریخ احمدیت.جلد 22 440 سال 1964ء نہیں بلکہ ان اصلاحات کی تدفین کے بعد بعض تخریب پسند سیاست دانوں کے ہاتھوں ایک اور گہرا زخم جو نظام تعلیم اور تعلیمی ارتقاء کو پہنچا ہے وہ ناسور کی طرح عرصہ تک رستا ر ہے گا.آپ نے طلبہ کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے آلہ کار بنانے کی بعض سیاست دانوں کی کوششوں کو قابل مذمت ٹھہراتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ ہماری آئندہ نسل کا یہ ایک بنیادی حق ہے کہ اسے تعلیمی اور علمی نشو ونما کے لئے کھلی صاف اور سیاسی تپ دق سے پاک فضا مہیا کی جائے تاس کی قو تیں منتشر نہ ہوں اور تعلیمی انہاک میں کمی نہ آئے اور وہ صحیح معنوں میں زندگی کے جدید تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل ہوسکیں.آپ نے اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس کے فضل سے ہمیشہ کی طرح تعلیم الاسلام کالج اس ذہنی تکذ راور سیاسی بے راہ روی سے ہر طرح محفوظ رہا.آپ نے ملک کے طلباء کی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ملک کے تمام طلباء فطرۃ شریف، مؤذب اور ملک و قوم کے لئے غیرت رکھنے والے ہیں.بشر طیکہ صحیح اور مناسب رنگ میں انہیں اپنے فرائض کا احساس دلایا جائے.اس ضمن میں آپ نے تعلیم الاسلام کالج کی نمایاں خصوصیات اور اس میں طلبہ کی صحیح خطوط پر تعلیم وتربیت کے خصوصی انتظامات اور ان کے خوشکن نتائج پر روشنی ڈالی.آپ نے بتایا کہ ہماری اس درس گاہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلیم و تربیت کے فرائض عبادت کے رنگ میں سرانجام دیئے جاتے ہیں جہاں رنگ اور مذہب، افلاس اور امارت، اپنے اور بیگانے کی تفریق نہیں، جہاں طلبہ کو مقدس قومی امانت سمجھا جاتا ہے، جہاں ماحول خالص اسلامی اور اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی ، جہاں منتہائے مقصود خدمت ہے نہ کہ جلب منفعت، جہاں غریبی عیب نہیں اور امارت خوبی نہیں.آپ نے اس امر پر زور دیا کہ اپنے مثالی ادارے کی کماحقہ حوصلہ افزائی ضروری ہے.جس کے ذرہ ذرہ پر اس کے فدائی اساتذہ اور طلبہ نے خونِ دل سے محنت اور اخلاص کی داستانیں لکھی ہیں.آپ نے بتایا یہاں اساتذہ ستی شہرت کی خاطر اپنے فرائض کے تلخ پہلوؤں سے اغماض نہیں برتے اور نہ ہی طلبہ سٹرائیک کی قسم کے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ذرائع استعمال کرتے ہیں.آپ نے مطالبہ کیا کہ ہماری روز افزوں ضروریات کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ حکومت ہماری سالانہ گرانٹ / ۱۸۰۰۰ روپے سے بڑھا کر کم از کم ایک لاکھ کر دے اور بلڈنگ میں بھی معقول اضافہ - کیا جائے تا کہ ہم اپنے توسیع کے پروگرام کو جلد عملی جامہ پہنا سکیں.بعد ازاں آپ نے کالج کے شاندار نتائج علمی وادبی اور دیگر تعمیری سرگرمیوں نیز کھیلوں کے میدان میں کالج کی شاندار کامیابیوں پر

Page 456

تاریخ احمدیت.جلد 22 441 سال 1964ء اختصار سے روشنی ڈالی.اور آخر میں طلبہ کو نصیحت فرمائی کہ وہ اس نقطہ نگاہ سے دنیا میں علم حاصل کرتے چلے جائیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کریں یعنی اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں ڈھالیں کہ ان میں خدا تعالیٰ کی صفات جلوہ گر نظر آنے لگیں.آپ نے واضح فرمایا کہ یہی وہ طریق ہے جس کی مدد سے وہ تخلیق عالمین کے مقصد کو پورا کرنے والے بن سکتے ہیں.کالج کی سالانہ روداد پیش ہونے کے بعد محترم پرنسپل صاحب کی درخواست پر مولانا جلال الدین صاحب شمس نے وہ خطبہ اسناد پڑھ کر سنایا جو حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے لکھوا کر ارسال فرمایا تھا.حضرت حافظ صاحب نے اپنے اس خطبہ میں تعلیم الاسلام کالج کے فارغ التحصیل طلباء کو ان کا مقام اور منصب یاد دلاتے ہوئے فرمایا:." آپ صرف گریجویٹ ہی نہیں بلکہ بفضلہ تعالی تعلیم الاسلام کالج کے گریجویٹ ہیں.آپ پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ آپ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے آپ دنیا فتح کریں اور انشاء اللہ فتح کریں گے لیکن دنیا کی خاطر نہیں.چاند کیا نظام سماوی کی سیر کر آئیں لیکن اپنی خاطر نہیں اپنی عظمت ظاہر کرنے کے لئے نہیں، بلکہ اپنے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ عزاسمہ وجل شانہ کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے پھر اپنے ہادی پاک صاحب لولاک احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے آپ علم و حکمت سیکھیں لیکن تقویٰ و طہارت کے حصول و قیام کی کوشش کے ساتھ.آپ ہر حال میں اسلام کے جیتے جاگتے چلتے پھرتے نمونے نظر آئیں.آپ کا ہر قول وفعل، آپ کے تمام حرکات و سکنات، آپ کی دوستیاں اور آپ کی مجلسیں، آپ کے کھیل اور آپ کے مقابلے، آپ کی کارگزاریاں اور آپ کی کامیابیاں اسلام کی خاطر اور اسلام کی روح کے مطابق ہوں.آپ کا کام ساری دنیا کو اسلام کی آغوش میں لے آنا ہے آپ کا کام اکناف عالم میں سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا پرچم لہرانا ہے.اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے ذرائع پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا:.اپنے کالج کا شعار علم و عمل ہمیشہ یاد رکھیں.سب سے بڑھ کر اس استاد ازل سے اپنا رشتہ مضبوطی کے ساتھ استوار کرنے کی کوشش کریں جس کے بغیر تمام کامیابیاں بیچ اور بے مغز ہیں.قرآن کریم کو اپنا لائحہ عمل بنائیں اور اس کے ہر حکم پر سر تسلیم جھکا ئیں اور اس کی لائی ہوئی تعلیم پر قائم ہو جائیں.عشق

Page 457

تاریخ احمدیت.جلد 22 442 سال 1964ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی روح کی غذا بنا ئیں یہاں تک کہ آپ کے ہر قول وفعل سے انوار عشق رسول ظاہر ہو جائیں.آپ دوسروں کو اسلام کی عظمت ہرگز نہیں منوا سکتے تا وقتیکہ اس کی عظمت خود آپ کے دل میں راسخ نہ ہو چکی ہو.اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے بڑی فتوحات مقدر کی ہیں اگر آپ اپنے فرائض کو ادا کرتے رہے تو آپ کا خالق آپ سے راضی ہو جائے گا اور آپ کو زندہ جاوید بنادے گا.اور آپ کا نام رہتی دنیا تک عزت و احترام سے لیا جائے گا.آپ آج اپنے دلوں میں یہ عہد کر لیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو امانت ہمارے سپرد فرمائی ہے اس کے ادا کرنے کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کریں گے.حضرت حافظ صاحب مدظلہ کے خطبہ اسناد کے بعد جلسہ تقسیم اسناد کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی.بعد محترم پرنسپل صاحب کی درخواست پر محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے تعلیم اور کھیل کے میدانوں میں نمایاں امتیاز حاصل کرنے والے طلبہ میں انعامات تقسیم فرمائے.تقسیم انعامات کے بعد تقسیم اسناد و تقسیم انعامات کی ہر دو تقاریب کامیابی اور خیر وخوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئیں.دفتر انجمن احمد یہ وقف جدید کا افتتاح 50 اسی روز ۱۹ار اپریل کوم بجے سہ پہر دفتر انجمن احمد یہ وقف جدید کی نوتعمیر شدہ عمارت کی افتتاحی تقریب عمل میں آئی.جس میں صحابہ کرام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ،نگران بورڈ کے ممبران، صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے ناظر و وکلاء صاحبان اور ممبران انجمن وقف جدید کے علاوہ اہل ربوہ کے ہر شعبہ کے نمائندہ اصحاب نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی.شریک ہونے والوں میں صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے کارکنان کے علاوہ صنعت و تجارت تعلیم اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے احباب خاصی تعداد میں تشریف لائے ہوئے تھے.اس بابرکت تقریب میں شرکت کے لئے مہمان ساڑھے تین بجے سہ پہر سے ہی آنے شروع ہو گئے تھے.انجمن وقف جدید کے صدر محترم جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ اور (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم وقف جدید نے تشریف لانے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہہ کر فرداً فرداً ان کا استقبال کیا.چار بجے سہ پہر تک جب سب مہمان نئے دفتر کے احاطہ میں جمع ہو گئے تو محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ صدر نگران بورڈ نے عمارت کے صدر دروازہ کے سامنے

Page 458

تاریخ احمدیت.جلد 22 443 سال 1964ء کھڑے ہو کر اجتماعی دعا کرائی جس میں جملہ حاضرین شریک ہوئے جو نہی احباب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے دو بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے زیر لب دعائیں کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے صدر دروازہ کا تالا کھول کر عمارت کا افتتاح فرمایا.اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ نئی عمارت کا افتتاح عمل میں آنے کے بعد حضرت مرزا عبدالحق صاحب کی اقتداء میں جملہ مہمان عمارت میں داخل ہوئے.محترم صدر صاحب انجمن وقف جدید اور محترم ناظم صاحب انجمن وقف جدید نے مہمانوں کو عمارت کے مختلف ونگ اور ان کے کمرے دکھائے اور ان میں مختلف شعبہ جات کی ترتیب و تعیین پر روشنی ڈالی.عمارت کا ڈیزائن نقشہ اور ضرورت کے مطابق شعبہ وار کمروں کی ترتیب کے معائنہ سے فارغ ہونے کے بعد محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب نے محترم ناظم صاحب وقف جدید کے کمرہ میں میز کے سامنے تشریف فرما ہو کر اپنے قلم سے امراء صاحبان اضلاع اور دیگر احباب جماعت کے نام وقف جدید کے لئے چندہ فراہم کرنے کی ایک اپیل رقم فرمائی اور اس طرح عمارت کے افتتاح کے ساتھ ساتھ با قاعدہ دفتری کام کا بھی آغاز فرمایا.ازاں بعد جملہ مہمانوں کی مٹھائی وغیرہ سے تواضع کی گئی جس کے اختتام پر محترم مرزا صاحب نے اجتماعی دعا کرائی اور یہ بابرکت تقریب جس کا آغاز اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا سے ہوا تھا اسی کے حضور عاجزانہ دعا پر اختتام پذیر ہوئی.دفتر وقف جدید کی یہ نئی شاندار عمارت گول بازار کے عقب میں دفتر خدام الاحمدیہ سے ملحق پلاٹ میں تعمیر کی گئی.محترم صدر صاحب انجمن وقف جدید کے دفتر اور کمیٹی روم کے علاوہ عمارت کے دو ونگ ہیں ایک ونگ شعبہ مال کے لئے اور دوسرا شعبہ ارشاد کے لئے مخصوص ہے.ہر ونگ وسیع و عریض تین تین کمروں پر مشتمل ہے علاوہ ازیں عمارت کے دونوں سروں پر زیر سقف دو چھتی کی طرز پر دو بالائی کمرے بھی ہیں ان میں سے ایک کمرہ تو لٹریچر کے سٹور کے طور پر اور دوسرا کمرہ آفس ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لئے مخصوص کر دیا گیا.علاوہ ازیں ایک گیسٹ روم بھی تعمیر کیا گیا تا مہمانوں کو ٹھہرانے میں سہولت رہے.لیٹرین اور غسل خانے اس کے علاوہ ہیں.عمارت کی بنیا دیں اتنی مضبوط اور پختہ رکھی گئیں کہ بعد میں حسب ضرورت بالائی منزل تعمیر کر کے عمارت میں توسیع کی جا سکے.اصل عمارت سے ملحق اس کے پہلو میں بعض اور کمرے بھی تعمیر کئے گئے جن میں معلمین کی

Page 459

تاریخ احمدیت.جلد 22 444 سال 1964ء ٹریننگ کے لئے کلاسز منعقد ہو سکیں اور زیر تربیت معلمین وقف جدید رہائش بھی رکھ سکیں.فی الحال اس مختصر سکول اور ہوسٹل میں دس معلمین کی ٹرینینگ اور رہائش کا انتظام ہے بعد ازاں اس اسکول میں ایونگ کلاسز جاری کرنے کا بھی ارادہ تھا جن میں معلمین کو صنعت کاری کی تعلیم دی جائے گی.سب گنجائش معلمین کے علاوہ دوسرے لوگ بھی ان کلاسز سے استفادہ کر سکیں گے.ہر چند کہ انجمن وقف جدید کا دفتر اس نئی عمارت میں منتقل ہو چکا تا ہم کام ابھی زیر تکمیل تھا اس پر ابتداء ۷۵ ہزار روپے خرچ ہو چکے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مزید روپیہ صرف کرنا ہوگا.اس کے باوجود چند ہ تعمیر دفتر کی مد میں احباب کی طرف سے تا حال صرف ۳۹٬۸۱۷ روپے ہی وصول ہوئے ہیں باقی روپیہ قرض لے کر عمارت پر لگایا گیا.اس ضرورت کے پیش نظر محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب صدر نگران بورڈ نے نئی عمارت میں دفتری کام کا آغاز حسب ذیل تحریر سپرد قلم کرنے سے فرمایا:.آج مورخہ ۱۹/ اپریل ۱۹۶۴ء بفضلہ تعالیٰ دفتر وقف جدید کا افتتاح کیا گیا ہے.یہ دفتر بہت سی مشکلات میں سے گذرتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے.چند ماہ پیشتر اس دفتر کے باہر امرائے اضلاع و بعض دیگر احباب کا اجلاس بلایا گیا تھا اس وقت صرف دیوار میں ہی بنی ہوئی تھیں اور چھتوں کے لئے کوئی انتظام نہ تھا اتنے تھوڑے سے عرصے میں ساری بلڈنگ کی چھتیں ڈال لینا وقف جدید کے ذمہ دار کارکنان کی ہمت ہے.ابھی اس عمارت کی بہت سی تکمیل باقی ہے اور وقف جدید کے اصل کام کے لئے عملہ کی توسیع کی اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے.اس لئے تمام امرائے اضلاع اور دیگر احباب کی خدمت میں گذارش ہے کہ وہ اس طرف توجہ فرما کر وقف جدید کے لئے چندہ کی فراہمی میں کماحقہ کوشش فرماویں تا کہ اس کی ضروریات پوری ہو سکیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت مختصر سی زندگی دی ہے.خوش قسمت ہے وہ انسان جس کی زندگی خدمت دین میں خرچ ہو.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو اس کی توفیق دے.والسلام خاکسار مرزا عبد الحق ۱۱۹/۴/۱۴ 51 66 ایبٹ آباد میں جلسہ یوم والدین ۱۹ / اپریل ۱۹۶۴ ء ہی کو مجلس خدام الاحمدیہ ایبٹ آباد کے زیرا ہتمام جلسہ یوم والدین منعقد ہوا.جلسہ سے بدر عالم صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ ایبٹ آباد اور جناب شیخ خورشید احمد صاحب (اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ) مرکزی نمائندہ نے خطاب کیا.اس موقع پر ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا

Page 460

تاریخ احمدیت.جلد 22 445 سال 1964ء ناصر احمد صاحب نے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا جو کرم محمد اعظم صاحب جدون نے پڑھ کر سنایا:.احباب کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے یہ معلوم کر کے مسرت ہوئی کہ خدام الاحمدیہ ایبٹ آباد کے عہد یداران نے کوشش کر کے یوم والدین “ منانے کا اہتمام کیا ہے.اطفال اور خدام الاحمدیہ کی تربیت کے لئے والدین کو ان کی ذمہ داریوں سے روشناس کرانا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے.قوموں کی ترقی کا راز ان کی نئی پود میں روحانی، اخلاقی اور عمل کی قوتوں کو اجاگر کرنے میں ہے.خصوصاً ہم لوگوں کو جو احمدیت سے وابستہ ہیں اس فرض کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر توجہ دینی ہوگی.مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں اس موقعہ پر آپ لوگوں کے نام ایک پیغام بھجواؤں سو میرا پیغام اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ میں اپنے بھائیوں سے درد بھرے دل سے یہ گذارش کروں کہ وہ اپنے نونہالوں کو کچھ ایسے رنگ میں رنگین کرنے کی مساعی بروئے کارلائیں اور ایسے رنگ میں ان کی تربیت کی طرف توجہ دیں کہ ہماری یہ نئی پوداحمدیت کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے.ہمارے بڑوں نے احمدیت کے بوجھ کو جس رنگ میں اٹھایا اور اس کی گونا گوں ذمہ داریوں سے جس طرح وہ عہدہ برآ ہوئے اس کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں.جہاں سلسلہ نے مالی قربانیوں کا تقاضا کیا.وہاں شیدائیانِ احمدیت نے نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ (ال عمران : ۵۳) کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنا مال عزیز پیش کر دیا اور جب جان کی قربانی کا لمحہ آیا تو انہوں نے بخوشی اور برضاء ورغبت اپنی جان جان آفرین کے سپر دکر دی.المختصر انہوں نے اپنی جان اور مال سے احمدیت کے درخت کو سینچا اور اس کی نشو ونما کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا.اس کے بعد ہم کمزوروں اور عاجزوں کی باری آئی اور ہم میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق احمدیت کے غلبہ کے لئے کمر بستہ ہیں.ہمارے بعد احمدیت کا بوجھ ان کے کندھوں پر لا دا جائے گا.جن کو ہم آج اطفال یا خدام کے نام سے موسوم کرتے ہیں.اندازہ لگائیے اگر خدانخواستہ ہم نے ان کی تربیت کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دی تو کیا وہ اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے تیار ہوں گے.احمدیت نے تو اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور بشارات کے مطابق ترقی کرنی ہے.یہ ہر احمدی کا ایمان ہے.مگر ہمیں تو تب ہی خوشی ہوگی جبکہ احمدیت کی ترقی میں ہمارا ہی حصہ ہو تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنیں.

Page 461

تاریخ احمدیت.جلد 22 446 سال 1964ء ہمارے بچے جو پیدائشی احمدی ہیں وہ خاص طور پر ہماری توجہ اور تربیت کے مستحق ہیں.قرآن کریم ، احادیث نبویہ، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام، کتب حضرت خلیفہ المسیح الاول و کتب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور علمائے سلسلہ کی کتب کا مطالعہ.مرکز میں بار بار آمد.خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کے مقرر کردہ پروگراموں پر برضاء ورغبت عمل کرنے کی تلقین اور جماعت سے کامل فرمانبرداری کی نصیحت یقیناً آپ کے بچوں کے لئے اکسیر ثابت ہو گی.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی اس عظیم ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطا فرما دے.آمین یا رب العالمین آپ کا بھائی خاکسار مرزا ناصراحمد - صدر - صد را مجمن احمد یہ پاکستان ربوہ ) سکھ یا تریوں کے لئے پیغام محبت 52 اپریل ۱۹۶۴ء کے آغاز میں حسب معمول مختلف ممالک سے چار ہزار کے قریب سکھ پاکستان آئے.اور انہوں نے حسن ابدال کے گوردوارہ پنجہ صاحب میں بیساکھی کا پورب منایا.اس موقع پر صیغه نشر و اشاعت ربوہ کی طرف سے پریم سنہا کے نام پر ایک گورکھی ٹریکٹ تقسیم کیا گیا جو گیانی عباداللہ صاحب (سکالرسکھ لٹریچر ) کا تحریر فرمودہ تھا.ٹریکٹ کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.پیارے بھائیو! آپ ہمارے ملک پاکستان میں بساکھی کا پورب منانے کے لئے آئے ہیں.ہم آپ سب کو مبارکباد دیتے ہیں اور خوش آمدید کہتے ہیں.بھائیو.آج تمام دنیا میں ایک کہرام مچا ہوا ہے.کہیں نسلی جھگڑے چل رہے ہیں اور کہیں اور فساد بچ رہے ہیں.بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے.اگر مذہبی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کا اصل سبب لوگوں کا خدا تعالیٰ سے دور ہو جانا ہے.اسی بات کے پیش نظر گور بانی میں یہ کہا ہے کہ :.پرمیشر تے بھلیاں دیا پن سمجھے روگ بے سکھ ہو کے رام تے لگن جنم وجوگ 53 یعنی خدا تعالیٰ سے دوری اختیار کرنے سے انسان مختلف قسم کے مصائب کا شکار ہو جاتا ہے.اسلام اور سکھ مذہب دونوں خدا تعالیٰ کے ماننے والے دھرم ہیں.ان دونوں میں اس بارہ میں

Page 462

تاریخ احمدیت.جلد 22 447 سال 1964ء پوری پوری یگانگت پائی جاتی ہے.اسلام نے جس خدا تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلایا ہے اسی کو سکھ مذہب میں اپنایا گیا ہے.ہم اس اتحاد کو آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں.اسلام نے جس اللہ تعالیٰ کا پتہ لوگوں کو دیا ہے وہ سورہ اخلاص میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ:.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ (یعنی یہ اعلان کر دو کہ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے ) گوربانی میں مذکور ہے کہ:.کہہ نانک گور کھوئے بھرم ایکو الله پار برهم 54 اللهُ الصَّمَدُ ( یعنی.وہ بے تاج ہے اور کبھی اس کے محتاج ہیں ) جس کو گور بانی میں یوں ادا کیا گیا ہے.شاہاں سر ساچا شاه بے محتاج پورا پادشاه 55 لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (وہ بیٹے ، بیٹیوں اور ماں باپ وغیرہ سے پاک ہے.نہ اسے کسی نے جنا ہے اور نہ اس نے کسی کو جنا ہے ) گوربانی کا یہ پیغام ہے کہ:.نہ تیس مات پتاست بندھپ نہ تش کام نہ ناری اکل نرنجن اپر پر میر سگی جوت تمہاری وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ (اس جیسا کوئی بھی اور نہیں) گور بانی میں اس کی شہادت یوں دی گئی ہے کہ :.ندھ جیوڈ ہور شریک ہووے تاں آکھیئے ندھ جیوڈ تو ہے ہوئی الغرض اس سے سکھ مذہب اور گورمت کی سدھانتک سانجھ واضح ہے.ہم یہ جانتے ہیں کہ تمام دنیا کے سب جھگڑوں کا واحد علاج ایک ہی ہے.اور وہ یہی ہے کہ لوگ اپنے رب العزت سے صلح کر لیں.جتنے بھی نبی، رسول اور اوتار وغیرہ مقدس لوگ وقتاً فوقتاً دنیا میں ظاہر ہوتے رہے ہیں انہوں

Page 463

تاریخ احمدیت.جلد 22 448 سال 1964ء نے لوگوں کو یہی محبت بھرا پیغام دیا ہے کہ تمام مخلوق کا خالق اور مالک خدائے واحد ہی ہے.اسی کا دامن پکڑنے سے انسان فلاح حاصل کر سکتا ہے.آخر میں ہم آپ سے یہی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس فساد کے زمانہ میں ہم سب کے کام آنیوالی بات یہی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے نام پر جمع ہو جائیں.اس بارہ میں گوربانی میں یہ مرقوم ہے کہ :.ہوئے اکثر ملہو میرے بھائی دبدھا دور کر ہولولائے ہر نامے کے ہو وہو جوڑی گورمکھ بیسو صفا و چھائے اور ہمارے قرآن شریف کا ارشاد ہے:.قُل يَا هَلَ الْكِتَب تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا الله ( آل عمران : ۶۵) ہماری جماعت احمدیہ جس کا مرکز آپ کے ملک میں قادیان ضلع گورداسپور میں ہے اور پاکستان میں ربوہ ضلع جھنگ میں ہے آج تمام دنیا میں یہی پیغام محبت دے رہی ہے کہ لوگوں کا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ اپنے رب العزت سے صلح کر لیں اور اس کی مخلوق کی خیر خواہی اپنا نصب العین بنالیں.اس ٹریکٹ کا مکمل گورمکھی متن ہندوستان کے مندرجہ ذیل تین اخبارات نے شائع کیا.(۱).روزنامہ نواں ہندوستان دہلی (۲۲ را پریل ۱۹۶۴ء) (۲).روزنامہ اجیت جالندھر (۲۴ را پریل ۱۹۶۴ء) (۳).ہفت روزہ فتح دہلی (۲۴ را پریل ۱۹۶۴ء) مسئلہ کشمیر اور جماعت احمدیہ کی مساعی 57- اپریل ۱۹۶۴ء کا واقعہ ہے کہ خواجہ شہاب الدین صاحب کے زیر قیادت ایک پاکستانی وفد مسئلہ کشمیر میں انڈونیشیا حکومت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے گیا.وفد کے چار ممبروں میں سردار محمد ابراہیم صاحب اور سندھ اسمبلی کے ایک ممبر اور بیروت میں رہائش رکھنے والے ایک پاکستانی بھی تھے جو نیوز ایجنسی کے نامہ نگار اور مقرر تھے.سپیکر اسمبلی آرد جی کرتا وی نانا صاحب نے وفد کی ملاقات سے صاف انکار کر دیا مگر مکرم سید شاہ محمد صاحب مبلغ سلسلہ کی کوشش سے نہ صرف سپیکر صاحب نے انہیں ناشتہ کی دعوت پر بلایا اور ملاقات کی بلکہ اعلان کیا کہ انڈونیشیا کی پبلک کشمیر کے مسئلہ میں پاکستان کی سو فیصدی حمایت کرتی ہے.علاوہ ازیں شاہ صاحب نے اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے کام لے کر ایک

Page 464

سال 1964ء 449 تاریخ احمدیت.جلد 22 پبلک جلسے کا اہتمام فرمایا جس میں انڈونیشیا کے بڑے بڑے لیڈر، پروفیسر اور سیاسی پارٹیوں کے رہنما موجود تھے.خواجہ شہاب الدین صاحب نے تقریر کی اور شاہ صاحب نے اس کا ترجمہ کیا.جس کے بعد نهضتہ العلماء پارٹی کے نائب صدر نے پاکستان اور کشمیر کی تاریخ پر خوب گہری روشنی ڈالی.سید شاہ محمد صاحب نے نھضۃ العلماء پارٹی کی طرف سے وفد کے اعزاز میں ایک پُر تکلف استقبالیہ بھی دیا.انڈونیشیا پریس میں یہ سب خبریں شائع ہوئیں.جکارتہ میں پاکستانی سفارتخانہ شاہ صاحب کی اس عظیم خدمت جلیلہ پر بہت ممنون احسان ہوا.اور اس کے اعتراف کے طور پر شاہ صاحب کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا.(Seal) EMBASSY OF PAKISTAN DJAKARTA 2nd May, 1964 My dear Shah Sahib, I take this opportunity to convey to you my sincere thanks and appreciation for the help which you so readily gave us in connection with the public programme of the Non-Official Delegation.I have no hesitation in saying that, without your help, it would have been extremely difficult to achieve so notable a public success for the Delegation.Regards Yours sincerely, Sd/-xxxxx Syed Shah Mohammad Esq., Djalan Balik Papan 1/10, Djakarta.(Ahsan-ul Huque)

Page 465

تاریخ احمدیت.جلد 22 ترجمه ” (مہر) ایمبیسی آف پاکستان جکارتہ ۲ مئی ۱۹۶۴ء میرے پیارے شاہ صاحب 450 سال 1964ء میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کی معاونت کا پُر خلوص شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو آپ نے ایک غیر سرکاری وفد کے عوامی پروگرام کے حوالے سے کی.مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ آپ کی معاونت کے بغیر وفد کے لئے ایسی غیر معمولی کامیابی ناممکن تھی.نیک تمنائیں آپ کا مخلص احسان الحق“ (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا ایک پیغا یکم مئی ۱۹۶۴ء سے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے نئے مالی سال کا آغاز ہوا.اس موقع پر ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدرانجمن احمدیہ پاکستان نے احباب جماعت کے نام حسب ذیل پیغام دیا:." آج یکم مئی ہے اور آج سے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا نیا مالی سال شروع ہو رہا ہے.احباب کو چاہیئے کہ وہ نیا سال نئے عزم کے ساتھ شروع کریں.یعنی اپنے اس عزم کی تجدید کے ساتھ نئے سال میں قدم رکھیں کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کو نہ صرف نبھائیں گے بلکہ اپنا عہد نبھانے کے معیار کو بلند سے بلند تر کرتے چلے جائیں گے.دیگر قربانیوں کے ساتھ ساتھ مالی قربانی کے میدان میں بھی ان کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا.اور اس طرح وہ ثابت کر دکھا ئیں گے کہ ہماری نمازیں اور ہماری قربانیاں حتی کہ ہمارا مرنا اور ہمارا جینا سب خدا ہی کے لئے ہے.میں احباب جماعت کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آج دنیا میں خدا تعالیٰ کے قرب کا میدان خالی ہے اور اس نے اپنا مسیج بھیج کر اور ہمیں اس کی آواز پر لبیک کہنے کی توفیق عطا فرما کر دعوت دی ہے کہ ہم آگے آئیں اور اس میدان کو خالی نہ رہنے دیں.پس اے برادرانِ جماعت آگے بڑھو.اپنی قربانیوں

Page 466

تاریخ احمدیت.جلد 22 451 سال 1964ء کے معیار کو بڑھاؤ اور اس حد تک بڑھاؤ کہ ہمارا خدا ہم سے راضی ہو جائے اور ہمیں اپنی جناب میں قبول فرمالے.آمین خاکسار :.مرزا ناصر احمد یکم مئی ۱۹۶۴ ء ر بوه جلسہ تقسیم اسناد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ 59 مئی ۱۹۶۴ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد و انعامات بشیر ہال میں منعقد ہوا.اس خصوصی تقریب میں طلباء و ممبران اسٹاف کے علاوہ نگران بورڈ کے بعض ممبران صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے وکلاء و ناظر صاحبان نیز محکمہ تعلیم کے متعدد ضلعی اور ڈویژنل افسران اور لالیاں، چنیوٹ، چک جھمرہ کے کئی ہائی سکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان نے بھی شرکت کی.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدرصد را انجمن احمدیہ، جناب مرزا عبدالحق صاحب صدر نگران بورڈ اور کمانڈر عبداللطیف صاحب زرعی یونیورسٹی لائکپور بھی تشریف لائے ہوئے تھے.صدارت کے فرائض جناب خواجہ محمد عبد اللہ صاحب.ڈبلیو.پی.ای.ایس ڈویژنل انسپکٹر آف سکولز سرگودھا نے ادا فرمائے.سب سے پہلے میاں محمد ابراہیم صاحب جھونی ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول نے سالانہ رپورٹ پڑھ کر سنائی.بعد ازاں خواجہ محمد عبداللہ صاحب نے تعلیم اور کھیل کے میدان میں امتیاز حاصل کرنے والے طلباء کو انعامات تقسیم کئے بعد ازاں صدارتی خطاب فرمایا.آپ نے اپنے خطاب کے آغاز میں اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں قرآن مجید پڑھانے کا مستقل طور پر خاطر خواہ انتظام موجود ہے.آپ نے فرمایا: ” مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ کے سکول کے طلباء میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید باترجمہ پڑھنا سیکھ لیتے ہیں.یہ ایسی کامیابی ہے کہ آپ سب اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں.میں اس خدمت کی انجام دہی پر انجمن کے اراکین اور ہیڈ ماسٹر صاحب اور ان کے سٹاف کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور انہیں مبارکباد دیتا ہوں.محکمہ تعلیم کی طرف سے تمام سکولوں کو مڈل تک پورا قرآن مجید ناظرہ پڑھانے کی مستقل ہدایت عرصہ سے جاری ہو چکی ہے.لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثر مدارس میں اساتذہ کی کمی یا اس بارہ میں خود اساتذہ کی اپنی کم علمی کے باعث ابھی تک اس ہدایت پر خاطر خواہ عمل نہیں ہوسکا ہے.ان حالات میں آپ کے سکول کی یہ کامیابی کہ طلباء کو پورا قرآن مجید با ترجمہ پڑھا دیا جاتا ہے بہت خوشکن ہے.“

Page 467

تاریخ احمدیت.جلد 22 452 سال 1964ء 66 آپ نے میٹرک کے امتحان میں نہایت درجہ شاندار نتائج پر محترم ہیڈ ماسٹر صاحب اور ممبران اسٹاف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: ” سکول کے نتائج بھی میرے لئے خاص طور پر بہت مسرت کا باعث ہوئے ہیں.امتحان میں شامل ہونے والے طلباء کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود نتائج بہت اچھے ہیں.پھر نہ صرف یہ کہ پر سٹیج اچھی ہے بلکہ کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے نتیجہ بہت اچھا ہے.مزید برآں یہ امر اور بھی زیادہ خوشکن ہے کہ بیک وقت تیرہ چودہ طلباء بورڈ کے وظائف حاصل کرتے ہیں ایسے شاندار نتائج دکھانے پر بھی میں ہیڈ ماسٹر صاحب اور دیگر اساتذہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں.“ آخر میں آپ نے طلباء کو بیش قیمت نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا کسی نئی مملکت کا معرض وجود میں لانا بہت ہی اہم کارنامہ ہوتا ہے لیکن مملکت کے معرض وجود میں آجانے کے بعد اسے مضبوط و مستحکم بنانا اور شاہراہ ترقی پر گامزن کرنا اور بھی زیادہ مشکل اور کٹھن کام ہے.اس کے لئے تمام افراد ملک کو مل کر بہت محنت اور قربانی سے کام لینا ہوتا ہے اب جبکہ ہمیں صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں جیسے مدبر کی رہنمائی حاصل ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے دست و بازو بنیں.یہ جبھی ہوسکتا ہے کہ آپ لوگ بھی جو ابھی بچے ہیں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ، اپنے کردار اور کیریکٹر کو مضبوط بنائیں اور اپنے اندر یکجہتی پیدا کریں.بچے قوم کی طاقت اور قوت ہوتے ہیں.کیونکہ ملک کا مستقبل انہی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے.پس یاد رکھیں آپ نے آگے چل کر بہت اہم ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ہے.اس کے لئے آپ ابھی سے اپنے کیریکٹر اور کردار کو مضبوط بنائیں اور اپنے اندر انتھک محنت کی عادت پیدا کریں.جب تک آپ اس عمر میں ہی اپنے کیریکٹر اور کردار کو مضبوط نہیں بنائیں گے اور اپنے اندر محنت کی عادت پیدا نہیں کریں گے اس وقت تک آپ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے قابل نہیں ہوسکیں گے.بالآخر آپ نے حکومت کی طرف سے ملنے والی امدادی رقوم کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرمایا انشاء اللہ آئندہ بھی اس ادارہ کی ضروریات کو پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے گا اور امداد بہم پہنچانے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جائے گا.جب بھی ادارہ کو امداد کی ضرورت ہوگی اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی.صاحب صدر کے ارشادات کے بعد سکول کے چند طلباء نے خوش الحانی سے قومی ترانہ پڑھا جسے

Page 468

تاریخ احمدیت.جلد 22 453 سال 1964ء جملہ حاضرین نے احتراماً کھڑے ہو کر سنا.اس کے بعد صاحب صدر کی اجازت سے مکرم اسٹاف سیکرٹری صاحب نے جلسہ تقسیم انعامات کے اختتام کا اعلان کیا.سکول کی ورکشاپ کا سنگ بنیاد جلسہ تقسیم انعامات کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد (حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمد یہ پاکستان اور محترم خواجہ محمد عبداللہ صاحب ڈویژنل انسپکٹر آف سکولز سرگودھا نے سکول کے ورکشاپ کی نئی تعمیر ہو نیوالی عمارت کا سنگ بنیا د رکھا.پہلے علی الترتیب محترم خواجہ محمد عبد اللہ صاحب اور ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے بنیاد میں ایک ایک اینٹ رکھی.ازاں بعد محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس، مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر ، مکرم کمانڈر عبداللطیف صاحب، مکرم ملک حبیب الرحمن صاحب ڈپٹی ڈویژنل انسپکٹر آف سکولز سرگودھا اور مکرم محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول نے بنیاد میں اینٹیں رکھیں.آخر میں (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اجتماعی دعا کرائی جس میں جملہ حاضرین شریک ہوئے.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی اجتماعات کے لئے راولپنڈی و پیشاور آمد (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکز یہ مجالس انصار اللہ ضلع راولپنڈی و پیشاور کے اجتماعات کے لئے مؤرخہ ۸ مئی ۱۹۶۴ء بروز جمعہ دن گیارہ بجے راولپنڈی پہنچے.آپ کے ہمراہ محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب اور مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب تھے.نماز جمعہ آپ نے پڑھائی اور خطبہ جمعہ کے طور پر الفضل سے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا فرمودہ خطبہ سنایا اور دوستوں کو خدمت دین کے لئے اپنی تمام تر تو جہات وقف کرنے پر زور دیتے ہوئے مقام خلافت اور اسکی برکات پر روشنی ڈالی نیز دوستوں کو خلافت سے دلی وابستگی کی تلقین فرمائی.بعد نماز جمعہ تین بجے مجلس انصار اللہ راولپنڈی کے اجتماع کی باقاعدہ کاروائی شروع ہوئی.افتتاحی اجلاس کی صدارت ، اجتماعی دعا نیز افتتاحی تقریر آپ نے ہی فرمائی.افتتاحی تقریر میں آپ نے نہایت

Page 469

تاریخ احمدیت.جلد 22 454 سال 1964ء مؤثر انداز میں انصار اللہ کو خصوصاً اور احباب جماعت کو عموماً ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آپ کے بعد محترم مولانا جلال الدین شمس نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے موضوع پر تقریر کی.اسی روز شام ساڑھے پانچ بجے آپ نے مسجد نور کی پہلی منزل میں احمد یہ لائبریری کا سنگِ مرمر کا کتبہ نصب فرمانے کے بعد اجتماعی دعا کروائی.شام چھ بجے مقامی جماعت نے آپ کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر استقبالیہ کا انتظام کیا ہوا تھا.بعد نماز مغرب محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے فضیلت اسلام“ کے موضوع پر تقریر فرمائی.رات نو بجے مقامی جماعت کی طرف سے کھانے کا پروگرام تھا.اس موقعہ پر (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اجتماعی دعا کروائی..راولپنڈی سے مؤرخہ ۹ مئی ۱۹۶۴ء بروز ہفتہ صبح ساڑھے سات بجے (حضرت ) صاحبزادہ صاحب اپنے صحابہ کرام اور چوہدری احمد جان صاحب امیر ضلع راولپنڈی کے ہمراہ مجلس انصار اللہ ضلع پشاور کے اجتماع کے لیے پشاور روانہ ہوئے.جب آپ ٹیکسلا پہنچے تو مکرم بشیر احمد صاحب چغتائی صدر مقامی جماعت، حافظ مراد بخش صحابی، کمانڈ رسلیم احمد صاحب نے آپ کا استقبال کیا.وہاں سے آپ واہ کینٹ میں اس جگہ تشریف لائے جو مسجد کے لئے حاصل کی گئی تھی.دوستوں سے مصافحہ کے بعد آپ نے جماعت کو نصائح سے نوازا اور مسجد بنانے سے متعلق ضروری تجاویز دیں.پھر لمبی پر سوز دعا کروائی.قریباً پون گھنٹہ ٹھہرنے کے بعد پشاور تشریف لے گئے جہاں آپ نے پشاور ڈویژن کے اجتماع میں شرکت فرمائی، انعامات تقسیم فرمائے اور اپنے خطاب سے نوازا.اس سے اگلے دن پشاور سے قریباے میل دور ایک موضع شیخ محمدی میں آپ کی آمد ہوئی.مقامی احباب نے دیہات سے باہر نکل کر آپ کا استقبال کیا.جو نہی آپ جائے قیام کے قریب پہنچے تو مقامی دستور کے مطابق وہاں احباب نے ہوائی فائر بکثرت کئے اور اس طرح آپ کے قدم تہنیت پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کیا.محترم صاحبزادہ صاحب نے تمام احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور مکرم عبدالقیوم خانصاحب کے ہاں تشریف لے گئے جہاں پر ایک مختصر تقریب کا انتظام کیا گیا تھا.ساڑھے گیارہ بجے تلاوت و نظم سے جلسے کا آغاز مکرم شمس الدین خانصاحب امیر جماعت کی صدارت میں ہوا.اور سب سے پہلے جناب عبد الغنی خانصاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ شیخ محمدی نے پشتو میں اور

Page 470

تاریخ احمدیت.جلد 22 455 سال 1964ء محمد شفیع صاحب قائد مجلس نے اردو میں سپاسنامہ پیش کیا جس میں آپ کی آمد کو نہایت ہی مبارک اور تاریخی قرار دیا گیا.اور کہا کہ یہ دن واقعی طور پر ان کے لئے عید کا دن ہے کیونکہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے فرزند ارجمند ان کے گاؤں میں تشریف لائے ہیں.سپاسنامہ میں اس علاقہ میں احمدیت کی بتدریج ترقی کا بھی ذکر کیا گیا تھا اور جماعتی ضروریات کے لحاظ سے پختہ مسجد کی تعمیر کے عزم کا بھی ذکر تھا.اس کے بعد مولانا ابو العطاء صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس نے حاضرین سے خطاب فرمایا اور جماعت کے قیام کے حقیقی مقصد کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ درحقیقت اس زمانہ میں اسلام کے تنزل واد بار کی گھڑیوں میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اس غرض کے لئے تھی کہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کی بنیا د رکھی جائے.چنانچہ یہ جماعت اس روحانی جنگ میں مصروف ہے اور قرآنی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس کا غلبہ مقدر ہے.دونوں علماء کرام نے جماعت کو اس مقصد کی پیروی اور کوشش کی طرف متوجہ کیا.ان تقاریر کا پشتو میں ترجمہ مولانا چراغ الدین صاحب نے کیا.اس کے بعد (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے مختصر وقت میں سپاسنامہ کے جواب میں فرمایا کہ آپ نے بڑی محبت سے مجھے اور میرے ساتھیوں کو یہاں آنے کی دعوت دی اور آپ کی محبت اور مسرت کو ہم نے نہ صرف زبان اور چہرے کے اتار سے پہچانا بلکہ آپ کے دل کی دھڑکنوں کے جذبات کا بھی احساس ہم نے کیا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے اور میرے ساتھیوں کے دل میں بھی ویسے ہی محبت کے جذبات ہیں اور میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے ہمیں محبت کی اس زنجیر میں منسلک کر دیا ہے.اس کے بعد آپ نے دنیوی اور روحانی استادوں کے فرق کو واضح کیا اور فرمایا کہ دنیوی استادوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے بلکہ اکثر حالات میں اسے مستحسن سمجھا جاتا ہے چنانچہ خود امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد اور امام یوسف نے کئی مسائل میں ان سے اختلاف کیا ہے لیکن روحانی استاد سے کسی صورت میں اختلاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ اپنی عقل و فکر سے بات نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کے الہام سے بات کرتے ہیں.اس صورت میں اگر ہم ان سے اختلاف کریں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی عالم الغیب ہستی سے اختلاف کرتے ہیں.اس زمانہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود

Page 471

تاریخ احمدیت.جلد 22 456 سال 1964ء علیہ السلام کا بھی یہی دعوی تھا کہ وہ خدا تعالیٰ سے علم پا کر سکھاتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے آپ کو حکم و عدل مقرر فرمایا ہے یعنی جو فیصلہ آپ فرما ئیں گے اس کا ماننا تمام ماننے والوں پر ضروری ہوگا.چنانچہ حضور خود فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ نے مجھے حکم عدل ٹھہرایا ہے اور تم نے مان لیا ہے.پھر نشانہ اعتراض بنانا ضعیف ایمان کا نشان ہے.حکم مان کر تمام زبانیں بند ہو جانی چاہئیں.اب تم خود سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے جو میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حکم عدل مانا ہے.تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو.وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہوگا.لیکن اگر تم نے بچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے 60 سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو.اس حوالہ کی روشنی میں یہ امر واضح ہے کہ جن لوگوں نے حضور کو نہیں مانا وہ اگر آپ سے اختلاف رکھتے ہیں تو ان کو یہ حق حاصل ہے لیکن جن لوگوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حکم عدل مان لیا ہے وہ اگر آپ کے فیصلہ سے انحراف کرتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے خاص طور پر غیر مبائعین سے اپیل کی کہ اگر وہ صدق دل سے حضور کو حکم و عدل مان لیں تو تمام اختلافات خود بخود ختم ہو جاتے ہیں.آخر میں آپ نے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ حضور علیہ السلام کی آمد کی اصل غرض یہ تھی کہ آپ ایک ایسی جماعت پیدا کریں جو اخوت و محبت کے اعلیٰ مقام پر ہو.جو رنگ، نسل اور قوم کی حدود سے بالا ہے.چنانچہ ہم اس محبت کے جذبہ کی وجہ سے یہاں آئے ہیں تا کہ آپ کو یہ بتایا جائے کہ ہماری محبت اور تعلق اس لئے ہے کہ ہمیں ایسے دوستوں اور جانثاروں کی ضرورت ہے جو اسلام کو اکناف عالم میں پھیلائیں کیونکہ اس زمانہ میں اسلام ایک زبر دست حملہ کی زد میں ہے.اسلام کے خلاف اس قدر کتب لکھی گئی ہیں کہ ان کو اگر اکٹھا کیا جائے تو ایک بہت بڑا پہاڑ بن سکتا ہے اور کئی لاکھ مسلمان جو سید اور پٹھان کہلاتے تھے حلقہ بگوش عیسائیت ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے سیدنا حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ کی قائم کردہ جماعت اس مقصد کو

Page 472

تاریخ احمدیت.جلد 22 457 سال 1964ء لے کر تمام دنیا میں پھیل گئی ہے تا کہ اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کو پھر دنیا میں قائم کریں.غرض ہماری جماعت اس روحانی جہاد میں مصروف ہے.اس لئے تمام مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس مقصد کی کامیابی کے لئے ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں اور ہماری مددکر ہیں.آپ نے فرمایا افریقہ میں لاکھوں افراد عیسائیت اور بت پرستی کو ترک کر کے حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں.امریکہ کے نو مسلموں کی مالی قربانی ہم سب سے بڑھ چکی ہے.گویا عیسائی والدین کے بچے اب اسلام کے لئے قربانیاں کر رہے ہیں.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے جو اسلام کی ترقی کے وعدے حضرت مسیح موعود سے کئے ہیں وہ ضرور پورے ہوں گے اور تمام ادیان باطلہ مٹ جائیں گے اور اسلام ہی تمام دنیا پر غالب آئے گا.اس لئے وہ خوش قسمت ہے جو اس جہاد میں شامل ہو کر خدائی انعامات کا وارث بنتا ہے.آخر میں آپ نے دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ ہمیں خدائی تقدیر سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس تقریر کا پشتو ترجمہ مولانا چراغ الدین صاحب نے ساتھ ساتھ کیا.دعا پر یہ اجلاس برخاست ہوا.اس کے بعد تمام حاضرین کو دو پہر کا کھانا جماعت شیخ محمدی کی طرف سے پیش کیا گیا اور اس سے فراغت کے بعد دو بجے دوپہر پشاور واپسی ہوئی.جہاں سے آپ سوزگی ( چارسدہ) مکرم غلام سرور خانصاحب کے فارم میں تشریف لے گئے.وہاں مختصر قیام کے بعد نوشہرہ مکرم ڈاکٹر عبدالقیوم خانصاحب کے بنگلہ پر تمام جماعت سے ملاقات کی اور چائے نوش فرمائی.چھ بجے کے قریب آپ وہاں سے عازم ربوہ ہو گئے.وقف جدید کی وقف زندگی کے لئے بھر پورا پیل 61 (حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید کے قلم سے الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۴ء میں مخلصین جماعت کے نام حسب ذیل اپیل شائع ہوئی:.وقف جدید انجمن احمد یہ ربوہ کا کام دن بدن وسیع تر ہوتا چلا جارہا ہے اور نئے واقفین زندگی کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے.پس تمام مخلصین جماعت سے اور خصوصاً سندھی اور پشتو جاننے والے اور پنجابی نو جوانوں سے گزارش ہے کہ وہ خدمت دین کے لئے آگے قدم بڑھائیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اپنی زندگیاں اس نیک مقصد کے لئے وقف کریں.

Page 473

تاریخ احمدیت.جلد22 458 سال 1964ء (حضرت )صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی احمدی بچوں کیلئے قیمتی نصائح اس سال میٹرک میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کا نتیجہ بہت شاندار رہا.نتیجہ کی اوسط نوے فیصد رہی.جبکہ بورڈ میں کامیاب امیدواروں کا مجموعی تناسب ۱۰ ۵۰۰ فیصد تھا.تعلیم الاسلام ہائی سکول کی طرف سے ننانوے طلباء شریک امتحان ہوئے جن میں سے اکتالیس فرسٹ ڈویژن میں اور پینتالیس سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوئے.۱۲ جون ۱۹۶۴ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تقریب تشکر منائی گئی.(حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اس موقعہ پر احمدی بچوں کو نہایت قیمتی نصائح سے نوازا.چنانچہ آپ نے فرمایا:.احمدی طالبعلموں کا ایک بڑا امتیاز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کے لئے ایک نصب العین مقرر کیا ہے اور اس کے لئے ایک پروگرام بنایا ہے.وہ نصب العین اور وہ پروگرام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں دیا ہے.اس کے دو حصے ہیں.اس نصب العین کا پہلا حصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ الہاماً یہ دعا سکھائی ہے کہ رَبِّ أَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ کہ اے خدا ہم پر حقائق الاشیاء منکشف فرما.یہ دعا ریسرچ اور تحقیق و توفیق کے ایک زبر دست پروگرام پر مشتمل ہے.جب انسان کوئی دعا کرتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اس کے لئے کوشش بھی کرے.پس احمدی طالبعلموں کا ایک مطمح نظر یہ ہے کہ وہ انتھک محنت اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے ریسرچ کرتے اور حقائق الاشیاء معلوم کرتے چلے جائیں.خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ نصب العین کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ جو احمدی بچے بھی ریسرچ اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے حقائق الاشیاء معلوم کرنے کی کوشش کریں گے انہیں علم و معرفت میں ایسی ترقی نصیب ہوگی اور ان کے ذہنوں میں ایسی جلاء اور روشنی پیدا ہوگی کہ وہ اپنے نشانوں اور اپنے دلائل کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.یعنی وہ نہ صرف علوم جدیدہ کے حملوں سے اسلام کو بچائیں گے اور اس کا دفاع کریں گے بلکہ وہ خود علوم جدیدہ پر حملہ آور ہو کر ان کی غلطیاں اور ان کی پھیلائی ہوئی گمراہیوں کو دنیا پر ظاہر کر دکھائیں گے.یہاں تک کہ خدا سے برگشتہ دنیا اسلام میں داخل ہو کر خدائے واحد کے آستانہ پر آ جھکے گی.پس یہ دو مقاصدان کے سامنے رکھے ہیں.اس نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ دعا کریں گے اور کوشش میں کسر

Page 474

تاریخ احمدیت.جلد 22 459 سال 1964ء نہ اٹھارکھیں گے تو خدا تعالیٰ انہیں ضرور کامیابی عطا کرے گا اور ان کی کوشش میں کوئی کمی رہ جائے گی تو اسے خود پورا کر دے گا.64 درس قرآن کا مبارک سلسلہ جون ۱۹۶۴ء سے (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے مسجد مبارک میں درس قرآن مجید کا ایک مبارک سلسلہ شروع فرمایا.آپ ہرا تو ار اور بدھ کو نماز مغرب سے قبل نصف گھنٹہ تک درس دیا کرتے تھے اور قرآنی علوم و معارف بیان فرماتے تھے.کتاب ایک غلطی کا ازالہ کی ضبطی اور اشاعت 65 ۲۳ جون ۱۹۶۴ء کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ حکومت مغربی پاکستان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف لطیف ” ایک غلطی کا ازالہ ضبط کر لی ہے ( یہ ضبطی ۱۷ جون ۱۹۶۴ء کو بذریعہ نوٹیفکیشن عمل میں آئی.اس افسوسناک خبر کے منظر عام پر آتے ہی دنیا بھر کی احمد یہ جماعتوں میں بے چینی اور اضطراب کی زبر دست لہر دوڑ گئی.چنانچہ فورا ہی الفضل نے ایک خصوصی نوٹ کے ذریعہ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت یہ حکم فوری طور پر واپس لے لے.نیز لکھا کہ یہ ایسی تحریر ہے جو احمدیوں کی ایمانیات سے تعلق رکھتی ہے.احمدیوں کا ایمان ہے کہ کتابچہ کا حرف حرف مقدس ہے اور ان کے ایمان کا جزو ہے.اس لحاظ سے اس کی ضبطی کو ہم حکومت کی طرف سے براہ راست مداخلت فی الدین تصور کرتے ہیں اور یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان میں احمدیوں کو آزادی ضمیر کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے جو دستور پاکستان کے بنیادی اصولوں میں سے اہم ترین اصول ہے.ہمیں تادم تحریر ان تفصیلات کا کوئی علم نہیں ہے جن کی بناء پر اس رسالہ کو ضبط کر نا مناسب سمجھا گیا ہے تاہم کوئی بھی وجوہات ہوں خود یہ امر کہ ایک رسالہ جو ۱۹۰۱ء سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے اس کو آج تقریباً پون صدی کے بعد یک دم ضبط کر لینا ایک ایسا واقعہ ہے جو قطعاً کوئی مناسب عذر نہیں رکھتا.پھر یہ جماعت احمدیہ کے افراد کے لئے ایک ایسا صدمہ ہے جس کو وہ قطعا برداشت نہیں کر سکتے اور ہم یقین کرتے ہیں کہ حکومت نے رسالہ کو ضبط کر کے نہ صرف ہمارے دستوری حقوق کو ضرب پہنچائی ہے بلکہ اپنی کمزوری اور بے احتیاطی کا بھی اظہار کیا

Page 475

تاریخ احمدیت.جلد 22 460 سال 1964ء ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ایک وفادار اور جان شار طبقہ کے دینی حقوق کی نہ صرف حفاظت نہیں کر سکتی بلکہ خودان کو ایسی آزمائش میں ڈال رہی ہے جس کو وہ قطعا پسند نہیں کرتے“.اس نوٹ کی اشاعت کے ساتھ ہی جماعتوں اور احباب کی طرف سے احتجاجی خطوط اور قراردادیں موصول ہونا شروع ہو گئیں.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدرصد رانجمن احمدیہ پاکستان کی زیر ہدایت حکومت کے ساتھ خط و کتابت کے بعد مورخہ یکم جولائی ۱۹۶۴ء کو جماعت کے ایک وفد نے خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی قیادت میں جناب ہوم سیکرٹری صاحب حکومت مغربی پاکستان سے ملاقات کی.اس وفد میں مولانا شمس صاحب کے علاوہ صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ اور چوہدری فتح محمد صاحب آف ہر یکے ٹرانسپورٹ شامل تھے.اس ملاقات کے بعد ضبطی کے حکم کے خلاف ایک عرضداشت حکومت مغربی پاکستان کی خدمت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا.چنانچہ علماء سلسلہ نے جماعت کے چیدہ وکلاء کے مشورہ سے چودہ صفحات پر مشتمل ایک عرضداشت مرتب کی اس عرضداشت کی ایک مصدقہ نقل شعبہ تاریخ احمدیت کے ریکارڈ میں موجود ہے جو مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مجاہد بلاد افریقیہ و عربیہ کا عطیہ ہے.( جس کے ساتھ ۵۹ صفحات پر پھیلے ہوئے ضمیمے بھی منسلک کئے گئے.اس تاریخی عرضداشت کا مکمل متن سپر دقر طاس کیا جاتا ہے.بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم عرضداشت بخدمت جناب گورنر صاحب مغربی پاکستان جناب عالی ! مندرجہ ذیل امور نہایت ادب سے پیش خدمت ہیں :.ا.حکومت مغربی پاکستان کی طرف سے بذریعہ نوٹیفکیشن مورخہ ۶۴-۶-۱۷ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد کا رسالہ ایک غلطی کا ازالہ تصنیف شدہ ۵ نومبر ۱۹۰۱ء ضبط کیا گیا ہے.۲.رسالہ ایک غلطی کا ازالہ پہلی مرتبہ ۵ نومبر ۱۹۰۱ء کو شائع ہوا.اس ۶۳ سال کے لمبے عرصہ میں یہ کبھی ضبطی کے لائق نہیں سمجھا گیا نہ کبھی کسی کو اس پر اعتراض پیدا ہوا.۳.یہ رسالہ جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے لکھا گیا ہے نہ کسی اور کو.جو کچھ اس رسالہ میں بیان

Page 476

تاریخ احمدیت.جلد 22 461 سال 1964ء کیا گیا ہے وہ جماعت احمدیہ کا جز و ایمان ہے اور دنیا میں کسی کو حق نہیں کہ وہ ان کو اس ایمان اور اس کے اظہار سے روک سکے ورنہ یہ مداخلت فی الدین ہوگی جو دستور پاکستان کے خلاف ہے.اور جسے جماعت احمدیہ کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کر سکتی.نہ ہی کسی مذہبی جماعت کے لئے اس قسم کی مداخلت قابل برداشت ہو سکتی ہے.۴.جماعت احمد یہ ایک خالص مذہبی جماعت ہے جس کا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں.جماعت احمدیہ حکومت پاکستان کی دل سے وفادار ہے اور ہر رنگ میں ملک کی ترقی چاہتی ہے.حکومت پاکستان کا یہ ہرگز مقصد نہیں ہو سکتا کہ ایسی جماعت کے دلوں کو ٹھیس پہنچے اور وہ یہ محسوس کریں کہ ان کو زبردستی اور جبر سے اپنے عقائد سیکھنے یا ان کے اظہار سے روکا جاتا ہے.۵- گذشتہ ۶۳ سالوں میں یہ کتاب متحدہ ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں کئی دفعہ چھپ کر اشاعت پذیر ہوئی اور کسی حکومت وقت نے یہ نہیں سمجھا کہ اس کتاب سے مختلف فرقوں کے درمیان منافرت پھیلنی ممکن ہے اور نہ حال ہی میں کوئی ایسی وجہ پیدا ہوئی جو اس کتاب کی ضبطی کا باعث ہو سکتی..علاوہ ازیں یہ ظاہر ہے کہ مغربی پاکستان میں تو یہ کتاب ضبط شدہ تصور ہو گی لیکن دنیا کے دوسرے حصوں میں یہ کتاب بدستور اشاعت پذیر رہے گی اور اس کا یہ اثر پیدا ہونا لازمی ہے کہ باقی دنیا میں جو مذہبی آزادی احمدیوں کو حاصل ہے مغربی پاکستان میں جو جماعت احمدیہ کا مرکز ہے اسے آزادی حاصل نہیں ہے.یہ ایک ایسا غور طلب امر ہے جس کے متعلق زیادہ عرض کرنا ضروری نہیں.اسی طرح دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی یہ اثر پیدا ہونا لازم ہے کہ مغربی پاکستان میں مذہبی آزادی پر بے جا پابندیاں عائد ہیں یہاں تک کہ جو کتاب گذشتہ ۶۳ سال میں اشاعت پذیر ہو رہی ہے اب اسے ضبط کر لیا گیا ہے.دور و نزدیک ایسا اثر پیدا ہونے دینا حکومت کی دانشمندی اور حکمت اور دوراندیشی اور نیک نامی کے منافی ہوگا اور ہم بطور ایک وفادار رعایا دل سے آرزومند ہیں کہ پاکستان کے متعلق یہ اثر کہیں بھی پیدا نہ ہونے پائے اور ہم دل سے اس بات کی دعا کرتے ہیں کہ پاکستان کی نیک نامی دنیا بھر میں روز افزوں ترقی کرے.ے.ایک اثر اس ضبطی کا لازمی طور پر بہت ہی افسوسناک ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کے مخالف اور دشمن عناصر حکومت کے اس اقدام سے از سر نو ابھرنے شروع ہو گئے ہیں اور گو وہ بظاہر حکومت کو اس اقدام پر مبارکباد دے رہے ہیں لیکن دل میں اس بات سے خوش ہیں کہ انہیں شورش پیدا

Page 477

تاریخ احمدیت.جلد 22 462 سال 1964ء کرنے کا ایک نیا حیلہ ہاتھ آیا ہے.ظاہر ہے کہ ۱۹۴۸ء میں بعض شر پسند عناصر نے ایک بہانہ بنا کر جماعت احمدیہ کے خلاف شورش شروع کی یہ بگولہ بڑھتے بڑھتے ۱۹۵۳ء کی آندھی پر منتج ہوا.موجودہ حکومت نے بڑی حکمت عملی سے ان مخالف پاکستان عناصر کود با دیا تھا اور یہ امر ملک کے امن واطمینان کیلئے بڑا مفید اور ممد ثابت ہوا تھا.لیکن کتاب مذکور کی ضبطی گویا ۱۹۴۸ء والے ابتدائی حالات پیدا کرنے کا موجب ہوسکتی ہے اور یہ امر حکومت کی خاص توجہ کے قابل ہے.یہ تخریبی عناصر اس ضبطی کو ایک نظیر بنا کر یقیناً آگے بڑھنا چاہیں گے اور روز بروز جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے متعلق شورش اور ہنگامے پیدا کرنے سے گریز نہیں کریں گے اور بات کسی جگہ رکنی محال ہوگی اور معلوم نہیں کہ اس ابتداء کی انتہا کہاں پر ہوگی..علاوہ بریں صرف جماعت احمدیہ کا ہی سوال نہیں بلکہ مسلمانوں کے مختلف فرقے مثلاستنی ، اہل تشیع ، دیوبندی، بریلوی، اہل قرآن وغیرہ ایک دوسرے کے بنیادی اور پرانے لٹریچر کو آئے دن ضبط کرانے کی طرح ڈالیں گے اور ایک ایسا دور و تسلسل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جو کہیں جا کر ختم نہ ہوگا.بطور ایک وفادار جماعت کے ہم اپنا فرض جانتے ہیں کہ ان ناگوار نتائج سے حکومت وقت کو بر وقت آگاہ کر دیں اور یہ نتائج ایسے دور رس ہو سکتے ہیں جو دانا حکام کی نظر سے اوجھل نہیں ہونے چاہئیں.۹.کتاب زیر نظر تو ایک مذہبی عقیدہ کی وضاحت کرنے والی ہے اور کوئی منافرت گذشتہ ۶۳ سال میں اس سے پھیلنی ثابت نہیں.لیکن اس کتاب کی ضبطی بجائے خود ایک منافرت اور شورش کو دعوت دے رہی ہے اور مزعومہ علاج بجائے خود ایک مرض کی حیثیت رکھتا ہے.۱۰.یہ بھی ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف ایسا لٹریچر موجود ہے جس میں احمدیوں کو واجب القتل تک قرار دیا گیا ہے اور ان پر ظلم وستم کرنا جائز قرار دیا گیا ہے.یہ منافرت انگیز لٹریچر تو بدستور شائع اور قائم ہے لیکن احمدیوں کے عقیدہ پر مبنی ایک کتاب کو ضبط کیا گیا ہے یہ تقابل نہایت ہی اندوہناک ہے اور کسی ناقد بصیر سے یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا.ا.اس ضبطی سے متعصب ملاؤں کو ایک بہانہ مل گیا ہے جس سے وہ پورا فائدہ اٹھائیں گے اور شہروں اور دیہات میں دور و نزدیک شورش پیدا کریں گے.یہ امر ہم اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر پیش کر رہے ہیں نہ کہ محض تصور اور خیال کی رُو سے.

Page 478

تاریخ احمدیت.جلد 22 463 سال 1964ء ۱۲.ہم یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے مبلغ دنیا کے ہر حصہ میں پاکستان کی نیک نامی اور خیر خواہی پھیلانے کا موجب ہیں.بیرون پاکستان دنیا کی نظر میں پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں سے منتظم اور وسیع طریق پر ایک جماعت کے ذریعہ تبلیغ اسلام ہورہی ہے.یہ اثر پاکستان کے حق میں دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے اور اس ضبطی کے حکم سے نہ صرف دنیا کے مختلف حصوں میں موجود احمدیوں کے اندر ایک اضطراب پیدا ہوگا بلکہ دوسرے لوگ بھی برا اثر لیں گے کہ مذہبی آزادی جو پاکستان کے آئین میں دی گئی ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے.یہ اثرات اور نتائج پیش پا افتادہ اور یقینی ہیں.۱۳.کسی شخص یا جماعت کے مذہبی عقائد اصولاً اور قانون وہی ہوتے ہیں جو وہ شخص خود بیان کرے نہ کہ وہ جو مخالفین کی طرف سے اس جماعت یا شخص کی طرف منسوب کئے جائیں.ہماری جماعت کے عقائد وہی ہیں جو بانی جماعت احمدیہ نے قرآن وحدیث کی رُو سے ہم پر واجب کئے ہیں اور ان عقائد کا اصل اصول اور نقطہ مرکزی بانی جماعت احمدیہ کے ان نعتیہ اشعار سے ظاہر ہے.مامسلمانیم از فضل خدا مصطفی مارا امام و پیشوا یک قدم دوری ازان عالی جناب نزد ما کفر است و خسران و تباب پس اس عقیدہ کی روشنی میں ضبط شدہ کتاب کے مضامین کی تعبیر ہونی چاہیئے نہ کہ اس کے برعکس.جماعت احمدیہ کے عقائد کی ایک فہرست شامل عرضداشت ہذا ہے.ملاحظہ ہوفہرست الف جس سے ظاہر ہوگا کہ ہمارے مخالفین نے ہمارے عقائد کے متعلق جو پروپیگنڈا آج تک کیا ہے وہ سراسر بے بنیا د اور تہمت اور الزام ہے.۱۴ کسی حکومت کی حقیقی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ اس کی رعایا کے کسی قلیل التعداد فرقہ یا جماعت پر کوئی جبر اور تشدد نہ کر سکے اور اس کے معاشرتی تمدنی اور مذہبی حقوق ایسے ہی محفوظ ہوں جیسا کہ دوسروں کے.بلکہ تھوڑی تعداد والے فرقہ یا جماعت کے حقوق کی حفاظت زیادہ احتیاط کی مستحق ہوتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کی ضبطی میں یہ اصول نادانستہ نظر انداز ہو گیا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ متعصب اور غالی عناصر جو ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں اس نظیر سے یہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اٹھائیں گے کہ اسلامی فرقے ایک دوسرے کے پرانے شائع شدہ لٹریچر کو بھی ضبط کرانے کی دوڑ دھوپ کریں اور ملک میں فتنہ کی آگ بھڑ کانے کی کوشش کریں گے.

Page 479

تاریخ احمدیت.جلد 22 464 سال 1964ء ۱۵.اس حکم ضبطی میں وہ عبارتیں نہیں دی گئیں جو حکومت کے نزدیک محل اعتراض ہیں بلکہ 9 مختلف صفحات کا حوالہ دیا گیا ہے ان صفحات کے مطالعہ سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ شاید مندرجہ ذیل باتیں محل اعتراض سمجھی گئی ہونگی:.اول: حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے فنافی الرسول ہو کر ختمی اور بروزی رنگ میں خدا کے حکم سے محمد واحمد ہونے کا دعویٰ کیا ہے.دوم : صفحہا اپر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کے متعلق ایک کشف بیان کیا ہے.۱۲.مذکورہ بالاشق اول میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعولی محض اس رنگ میں ہے جیسا کہ کسی کا عکس شیشہ میں پڑتا ہو اور وہ اس میں خلّی طور پر نظر آتا ہو لیکن اصل اصل ہی ہے اور عکس عکس ہی رہے گا.چنانچہ آپ اس رسالہ میں فرماتے ہیں : ” اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو (صفحہ ۲ ).اس حقیقت کو مذکورہ رسالہ میں واضح طور پر اور کھول کر بیان کیا گیا ہے.۱۷.امت محمدیہ میں بہت سے بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے درجہ کے مطابق فیض نبوی پا کر اپنے متعلق خلی رنگ میں ”محمد“ اور ”احمد“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں مثلاً حضرت سید عبدالقادر نے فرمایا:.و اني كنت فانيا في رسولِ الله صلى الله عليه وسلم و لم اكن في ذالك الوقت فلاناً و انما كنتُ محمدًا و الا لما صح لى قول ما قلت الا على وجه الحكاية عنه صلى الله عليه وسلم و كذا وقَعَ لى مَرّةً أخرى في قوله صلى الله عليه وسلم: "أنا سيد ولد آدم ولا فخر.67 ترجمہ:.اس کا اردو تر جمہ الکا ویہ علی الغاویہ مصنفہ مولوی محمد عالم آسی مطبوعہ آفتاب برقی پریس اگست ۱۹۲۰ء میں یوں دیا گیا ہے: ”حضرت عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار مجھے ایسا محو کر دیا کہ میں کہہ رہا تھا کہ لَو كَانَ مُوسى حيا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتَّبَاعِي “ (اگر موسیٰ و عیسی زندہ رہتے تو انہیں میری اتباع کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ) تو مجھے معلوم ہوا کہ میں فنافی الرسول ہوں پھر ایک دفعہ محو ہوا تو میں کہہ رہا تھا کہ أَنَا سَيِّدُ وُلدِ آدَمَ وَلا فَخُر “ ( میں سید ولد آدم ہوں اور مجھے کوئی فخر نہیں ) جس سے معلوم ہو گیا کہ میں اُس وقت محمد بن گیا تھا اور نہ ایسے الفاظ مجھ سے بطور دعوی دائر نہ ہوتے 68

Page 480

تاریخ احمدیت.جلد 22 465 سال 1964ء علاوہ ازیں حضرت بایزید بسطامی.حضرت شیخ احمد سرہندی مجد دالف ثانی.حضرت معین الدین چشتی اجمیری.مشہور صوفی حضرت فضیل بن عیاض.حضرت مولانا نیاز رحمۃ اللہ یھم.ان کے مفصل حوالہ جات بطور فہرست ب لف ہذا ہیں.۱۸.پھر قرآن مجید، حدیث نبویہ اور بزرگوں کی تصریحات کے مطابق امت میں مسلّم ہے کہ مسیح موعود اور مہدی معہود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں محمد اور احمد کا نام پائے گا اور قلی طور پر نبی کہلائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی سے فنافی الرسول 69 ہو کر اُسے احمد اور محمد کے نام سے پکارا جائے گا.اس سلسلہ میں ہم نے حضرت امام شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی.جناب نواب صدیق حسن خانصاحب آف بھوپال.شیعوں کے مجتہد علامہ باقر مجلسی.حضرت خواجہ غلام فرید صاحب وغیرھم بزرگوں کے حوالہ جات درج کر دیئے ہیں.ا بحار الانوار میں لکھا ہے سمّى الله المهدى المنصور كما سمّى احمد ومحمد و محمود كما سمّى عيسى المسيح 0 ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے مہدی کا نام منصور رکھا ہے جس طرح اس کا نام محمد احمد او محمود رکھا گیا نیز اسے عیسی مسیح کہا گیا.پھر یہ حقیقت امت میں اس قدر مشہور ہے کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار میں مرد مومن کے لئے ان ناموں کا پانا اور صاحب لولاک ہونا لازمی قرار دیا ہے ایسے حوالہ جات فہرست ج میں ملاحظہ فرمائے جائیں.۱۹.جہاں تک بروز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے متقدمین اس عقیدہ کے حامل رہے ہیں جیسا کہ ضمیمہ د کے حوالہ جات سے عیاں ہے.اس لئے جہاں تک اس دعویٰ کا تعلق ہے اسلامی نقطہ نگاہ سے یہ محل اعتراض نہیں.شکایت کنندگان کے نزدیک وجہ شکایت صرف اس حد تک ہے کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے یہ دعویٰ کیوں کر دیا؟ جماعت احمدیہ کے عقیدہ کی رُو سے بانی جماعت احمد یہ وہی مسیح اور مہدی ہیں جن کا انتظار امت محمدیہ کرتی چلی آئی اور کتاب زیر اعتراض میں بانی جماعت احمدیہ نے اپنا منصب اور مقام بیان فرمایا ہے.ہمارا مذہب ہے کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام اپنے تمام دعاوی میں صادق ہیں اور ہم ان دعاوی پر ایمان لانا ضروری سمجھتے ہیں.اسی لئے یہ بات واضح ہے کہ کتاب مذکور کی ضبطی جماعت

Page 481

تاریخ احمدیت.جلد 22 466 سال 1964ء احمدیہ کے ایمان و عقائد پر ایک جبر اور دست اندازی ہے.جو سراسر آئین و قانون کے خلاف ہے.چونکہ حضرت مرزا صاحب (علیہ السلام) کے دعاوی پر ایمان لانا ہر احمدی کا فرض ہے اور ہم دل سے ان پر ایمان رکھتے ہیں.پس اس کے اظہار میں اگر کوئی رکاوٹ ڈالی جائے تو مداخلت فی الدین ہوگی.۲۰.مسئلہ ختم نبوت کی وضاحت کے لئے نہایت اختصار کے ساتھ ہم نے آئمہ اور بزرگوں کے متعد د حوالہ جات فہرست میں شامل کر دیئے ہیں.اہل سنت والجماعت کے مشہور امام ملا علی قاری آیت خاتم النبیین کی شرح میں فرماتے ہیں:.لو عاش ابراهيم وصار نبيا و كذا لوصار عُمر نبيًا لكانا من اتباعه عليه السلام کعیسی و خضر و الياس 71 ترجمہ: اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اسی طرح حضرت عمر نبی ہو جاتے تو وہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں میں سے ہوتے جیسا کہ عیسی ، خضر اور الیاس کا حال ہے.پھر اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جو ذہنوں میں پیدا ہوسکتا تھا کہ کیا ان کا نبی ہو جانا آیت خاتم النبین کے خلاف نہ ہوتا آپ فرماتے ہیں.فــلا يـنـاقـض قـولـه تعالى خاتم النبيين اذ المعنى انه لا ياتي نبي بعده ينسخ ملته ولم يكن من امته 72 ترجمہ:.کہ ان کا نبی ہو جانا اس لئے خدا کے قول خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا کہ خاتم النبین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی امت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت سے نہ ہو.۲۱.اولیاء امت اور صلحاء پر بسا اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں قرآن مجید کی وہ آیات بھی الہاما نازل ہوئی ہیں جو قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نازل ہوئی تھیں لیکن وہ کبھی قابل اعتراض نہیں سمجھی گئیں.ہم نے فہرست د میں صلحاء امت کے ایسے چند الہامات کے حوالہ جات آپ کے ملاحظہ کیلئے درج کئے ہیں مثلاً شمالی پاکستان کے مشہور بزرگ سلطان الاولیاء بُرہان الاتقیاء شمس الولایۃ حجتہ الاسلام حضرت سیدا میرا اتمان زئی نقشبندی المعروف حضرت پیر کوٹھہ شریف رحمۃ اللہ علیہ پر مندرجہ ذیل آیات قرآنی بطور الہام نازل ہوئیں.

Page 482

تاریخ احمدیت.جلد 22 467 يَأَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللهَ وَلَا تُطِعِ الْكُفِرِيْنَ (الاحزاب: ۲) سال 1964ء ٢ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : ۲۲) ۲۲.کشف مندرجہ رسالہ ایک غلطی کا ازالہ کے متعلق ہم عرض کرتے ہیں کہ کشف اور رویا قرآن کریم کی تعلیم کی رُو سے تعبیر طلب ہوتے ہیں اور یہ ایک وسیع علم ہے جو قرآن شریف نے ہمیں دیا ہے.کشوف اور رؤیا کے مناظر کو ظاہر پر محمول کرنا سراسر نا جائز ہے.یہ ایک متفقہ اسلامی مسئلہ ہے.معلوم ہوتا ہے کہ حکم ضبطی میں اس مسئلہ کو زیر غور نہیں رکھا گیا.۲۳.ہم نے کشف اور رؤیا کے سلسلے میں آیت و حدیث کے علاوہ بزرگان دین مثلاً امام اعظم ابوحنیفہ ، حضرت غوث الاعظم سید عبد القادر جیلانی ، حضرت شبلی، حضرت سید احمد بریلوی مسجد دصدی سینز دہم نیز جناب مولانا فضل رحمن صاحب وغیرہ جیسے مسلم بزرگوں اور علماء کے بعض کشوف اور علمی حوالہ جات بھی درج کئے ہیں.بعض کشوف میں سیدۃ النساء حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنھا کو دیکھا گیا ہے مثلاً حضرت سید احمد بریلوی کے حالات میں لکھا ہے کہ:.ایک دن حضرت علی کرم اللہ وجہ اور سیدۃ النساء فاطمتہ الزہرا کو سید صاحب نے خواب میں دیکھا.اسی رات کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے آپ کو نہلایا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے ایک لباس اپنے ہاتھ سے آپ کو پہنایا.مفصل حوالہ جات اس عرضداشت میں بطور فہرست زشامل ہیں.کیا یہ کتا بیں بھی قابل ضبطی ہیں؟ ۲۴.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے زیر نظر رسالہ میں اس کشف کو مجمل طور پر ذکر فرمایا ہے.براہین احمدیہ میں ۱۸۸۴ء میں پہلی مرتبہ یہ کشف درج ہوا ہے جس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا ذکر بطور مادر مہربان فرمایا ہے.ستر الخلافہ نامی کتاب میں بھی اس طرح مذکور ہے ہم نے حوالہ جات فہرست میں شامل کر دیئے ہیں.۲۵.ہم نے یہ گذارشات اس نیت سے پیش کی ہیں کہ مندرجہ بالا نتائج اور عواقب پر نظر ڈالی جاۓ.ایک وفادار پاکستانی جماعت ہونے کے لحاظ سے ہمارا یہ فرض ہے کہ مذکورہ بالا نقاط نظر کی طرف نہایت ادب و احترام سے ارباب حل و عقد کی توجہ مبذول کرائیں تا کہ پاکستان میں مذہبی آزادی اور رواداری کا دور دورہ ہو اور پاکستان کی نیک نامی دنیا میں روز افزوں ترقی کرے.پس ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ بانی جماعت احمدیہ کی زیر نظر کتاب پر سے پابندی اٹھائی

Page 483

تاریخ احمدیت.جلد 22 468 سال 1964ء جائے کیونکہ ہر احمدی کے نزدیک خواہ وہ دنیا کے کسی حصہ میں رہتا ہو یہ کتاب مقدس ہے اور ہر احمدی کیلئے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اور گذشتہ ۶۳ سال سے دنیا میں اشاعت پذیر رہی ہے.ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس جگہ آپ کے ملاحظہ کے لئے ہائی کورٹ لاہور کے مسٹر جسٹس کولڈ سٹریم کے ایک فیصلہ کے مندرجہ ذیل الفاظ بھی نقل کر دیں جو انہوں نے مقدمہ سٹیٹ بنام عطاء اللہ شاہ بخاری ۱۹۳۶ء میں لکھے ہیں.لکھتے ہیں:."On the other hand, what the Mirza Sahib said and did thirty, forty or fifty years ago could not possibly afford any provocation for promoting enmity between the Ahrars and the Qadianis in 1933, and the evidence on which the learned Session Judge has based his remark is therefore not relevant matter." 74 ترجمہ:.علاوہ ازیں جو کچھ مرزا صاحب نے تھیں، چالیس یا پچاس سال قبل کہا اور کیا وہ احرار اور قادیانیوں کے درمیان ۱۹۳۳ء میں عداوت یا منافرت بڑھانے کا محرک یا موجب نہیں ہو سکتا.اس لئے وہ شہادت ( یعنی مرزا صاحب کے الفاظ) جس پر بناء رکھ کر فاضل سیشن جج نے ریمارک کئے ہیں وہ غیر متعلق ہے ( یعنی ان پر انے الفاظ پر بنیادرکھ کر یہ نتیجہ سیشن حج کو نہیں نکالنا چاہیئے تھا “ جناب عالی! ہم یقین رکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا وجوہات کی روشنی میں آپ اس معاملہ کو وسعت نظر سے زیر غور لا کر دنیا بھر کے احمدیوں کو شکریہ کا موقع عطا فرمائیں گے.ہم ہیں خاکساران اراکین وفد منجانب صدر انجمن احمدیہ پاکستان.ربوہ مرزا عبدالحق ایڈووکیٹ سرگودھا.شیخ بشیر احمد سابق حج ہائی کورٹ لاہور.مولانا ابوالعطا ء ایڈیٹر رسالہ الفرقان.مرزار فیع احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ.مرزا طاہر احمد ناظم وقف جدید.شیخ مبارک احمد نائب ناظر اصلاح وارشاد صوفی عبدالغفور سابق مبلغ امریکہ.مرزا الطف الرحمن سابق مبلغ جرمنی.نواب آف کالا باغ سے جماعتی وفد کی ملاقات ۲۸ جولائی ۱۹۶۴ء کو جماعت کے ایک نمائندہ وفد نے جناب مرزا عبدالحق صاحب کی سرکردگی میں جناب ملک امیر محمد خاں گورنر مغربی پاکستان سے ملاقات کر کے یہ عرضداشت ان کی خدمت میں

Page 484

تاریخ احمدیت.جلد 22 469 سال 1964ء پیش کی.اس وفد میں جس کی منظوری سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے عطا فرمائی تھی مرزا عبدالحق صاحب کے علاوہ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ سابق حج مغربی پاکستان ہائی کورٹ لاہور، صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ، (حضرت) مرزا طاہر احمد صاحب ناظم وقف جدید، خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب سابق مجاہد بلا دعر بیہ ،مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق مربی انچارج دعوت الی اللہ مشرقی افریقہ، چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ شیخوپورہ، جناب ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی امیر جماعت احمد یہ حیدر آباد، صوفی عبدالغفور صاحب سابق مبلغ امریکہ، مرز ا لطف الرحمن صاحب سابق مبلغ جر منی شامل تھے.اسی روز جناب گورنر صاحب موصوف نے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے وفد کو بھی ملاقات کے لئے وقت دیا ہوا تھا.چنانچہ جماعت احمدیہ پاکستان اور احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے دونوں وفود کی گورنر صاحب سے ایک ساتھ ملاقات ہوئی.ملاقات کے آغاز میں جماعت احمدیہ پاکستان کے وفد کے لیڈر مرزا عبدالحق صاحب نے تفصیل کے ساتھ اس امر پر روشنی ڈالی کہ جماعت احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کا مامور مانتی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اسلام کو کل ادیان پر غالب کرنے اور اسلام کو دنیا میں سر بلند کرنے کے لئے مبعوث فرمایا ہے.جماعت احمدیہ کے نزدیک آپ کا کلام اور آپ کی تصنیف فرمودہ کتب ایک مقدس بنیادی لٹریچر کی حیثیت رکھتی ہیں.اس مقدس بنیادی لٹریچر کے کسی حصہ کی ضبطی کا مطلب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد کو حصول ہدایت کے ایک اہم اور بنیادی ذریعہ سے محروم کر دیا جائے.آپ نے بڑی تفصیل کے ساتھ واضح فرمایا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے جو کچھ بھی تحریر فرمایا ہے اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے خالص اسلام کے مفاد میں تحریر فرمایا ہے.اس سے کسی کی دل آزاری یا اسلامی مفاد کو ضعف پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مرزا عبدالحق صاحب کی اس تفصیلی گفتگو کے علاوہ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے قانونی نقطۂ نگاہ سے اس امر پر روشنی ڈالی کہ کسی بھی فرقے کی بنیادی کتب کو ضبط کرنا آئین پاکستان مروجہ قوانین اور انصاف کے منافی ہے اور یہ کہ اس قسم کے اقدامات سے مذہبی آزادی کسی صورت بھی برقرار نہیں رہ سکتی.وفد کی معروضات سننے کے بعد گورنر صاحب موصوف نے فرمایا کہ حکومت کو کشف والے حصہ کے سوا کتاب کے کسی اور حصہ پر اعتراض نہیں ہے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ کتاب مذکور کے حاشیہ صفحہ 11 میں

Page 485

تاریخ احمدیت.جلد 22 470 سال 1964ء درج شدہ کشف کی دو سطریں جو بعض طبائع پر گراں گزرتی ہیں حذف کر دی جائیں.احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے وفد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رقم فرمودہ ان فقروں کو نعوذ باللہ لغزش قلم (SLIP OF PEN) اور سہو کتابت کا نتیجہ قرار دے کر انہیں حذف کرنے پر آمادگی ظاہر کی.اس پر جماعت احمدیہ کے وفد نے یک زبان ہو کر لغزش قلم اور سہو کتابت کی پر زور تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اس عبارت میں اختصار کے ساتھ اپنے ایک کشف کی طرف اشارہ فرمایا ہے.اس قسم کے کشف دوسرے بزرگوں اور ائمہ کرام کو بھی ہوئے ہیں اور ان کی کتابوں میں چھپے ہوئے موجود ہیں.کشف تعبیر طلب ہوتے ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اس کشف کو اپنی کتاب براہین احمدیہ میں تفصیل سے درج فرمایا ہے اور وہاں مادر مہربان کے الفاظ لکھ کر خود اس کی تشریح فرما دی ہے.دیگر بزرگان اسلام کے اسی قسم کے کشوف اور خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تشریح کی موجودگی میں کتاب مذکور میں درج شدہ فقرے قطعاً قابل اعتراض نہیں ہیں.جماعت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تحریر کے کسی ایک لفظ یا شعشہ کو بھی بدلنے کی مجاز نہیں.اس موقعہ پر شیخ بشیر احمد صاحب نے بھی بعض قانونی نکات پیش کر کے فقرات حذف کرنے کی مخالفت کی.اس مرحلہ پر انجمن اشاعت اسلام لاہور کے وفد کے ایک ممبر نے براہین احمدیہ میں سے کشف کے اصل الفاظ پڑھ کر سنائے.بعد ازاں یہ تجویز پیش ہوئی کہ کتاب ایک غلطی کا ازالہ میں درج شدہ کشف علی حالہ برقرار رہے اور اس کے نیچے حاشیہ میں نشان دے کر براہین احمدیہ میں درج شدہ پورے کشف کی عبارت پبلشر کی طرف سے اس نوٹ کے ساتھ شائع کر دی جائے کہ براہین احمدیہ کا حوالہ درج ذیل ہے.بالآخر گورنر صاحب موصوف نے اس تجویز کو قبول کر لیا اور جماعت احمدیہ کے وفد نے بھی اس کے ساتھ اتفاق میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا کیونکہ اس سے کتاب کا متن علی حالہ قائم رہا.اور نہ اس میں کسی فقرے یا لفظ کی تبدیلی یا تحریف عمل میں آئی.اس گفتگو کے بعد ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے کھڑے ہو کر گورنر صاحب موصوف کا شکر یہ ادا کیا اور اعادہ کے رنگ میں کہا کہ اس گفتگو کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ایک غلطی کا ازالہ میں کشف کی درج شدہ عبارت من و عن رہے البتہ اس پر یا کا نشان دے کر حاشیہ میں مرتب یا پبلشر کی طرف سے اس نوٹ کے ساتھ کہ اس کشف کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں بایں الفاظ رقم فرمایا ہے براہین احمدیہ کی اصل عبارت درج کر دی جائے

Page 486

تاریخ احمدیت.جلد 22 471 سال 1964ء تو حکومت کو اس کتاب کی اشاعت پر کوئی اعتراض نہ ہو گا.چنانچہ حکومت کی طرف سے گفتگو کے اس نتیجہ کو درست تسلیم کیا گیا.اس کے بعد حکومت نے اپنے فیصلے کی باضابطہ تصدیق کر دی.حکومت کے اس فیصلے کے بعد پوری دنیائے احمدیت نے اطمینان کا سانس لیا اور مرکز احمدیت کی طرف سے اس کتاب کی وسیع پیمانے پر اشاعت کا انتظام کیا گیا.جس کے نتیجے میں احباب جماعت خصوصاً احمدیت کی نئی نسل کو اس کا بغور مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا اور اس کے حقائق و معارف سے آگاہی کی توفیق ملی.ایک معاند احمدیت کا بیان ہے کہ : ”مرزائیوں کے وہ ( ملک امیر محمد خاں گورنر مغربی پاکستان.ناقل ) سخت مخالف تھے...قاضی احسان احمد صاحب نے ایک ملاقات میں کتاب ”ایک غلطی کا ازالہ دکھائی اور اس کے مندرجات پڑھ کر سنائے تو امیر محمد خاں آبدیدہ ہو گئے.انہوں نے فوراً اس کتاب کو خلاف قانون قرار دے دیا.قاضی صاحب نے انہیں مبارکباد کا تار بھیجا.مرزائیوں نے اس پابندی کے خلاف زور شور سے آواز بلند کی اور ایوب خاں تک رسائی کی جس نے بالآخر کتاب پر سے پابندی ہٹا دی ( اصل واقعہ اوپر بیان ہو چکا ہے).امیر محمد خاں کو سخت صدمہ ہوا.مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا مفتی محمود صاحب ان سے ملے اور پابندی اٹھانے پر افسوس کا اظہار کیا.امیر محمد خاں نے کہا کہ مفتی صاحب مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ مرزائیت کتنی بڑی طاقت اختیار کر گئی ہے.اس کتاب پر پابندی کے بعد جب اندرون و بیرون ممالک سے مجھ پر اور صدر مملکت پر دباؤ پڑنا شروع ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ مرزائیت کتنی بڑی طاقت ہے“.نواب کالا باغ ملک امیر محمد خاں ( ۱۹۱۰ ء - ۱۹۶۷ء) کا شمار ملک کے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا.جون ۱۹۶۰ء میں وہ مغربی پاکستان کے گورنر بنے.ستمبر ۱۹۶۶ء میں مستعفی ہو گئے اور اگلے سال ۲۶ نومبر ۱۹۶۷ء کو اپنے بیٹے ملک اسد اللہ خاں کے ہاتھوں قتل ہو گئے ) فضل عمر مرکزی تعلیم القرآن کلاس کا آغاز سال ۱۹۶۴ء کا نصف آخر انوار قرآنی کی ضیا پاشیوں کے اعتبار سے ہمیشہ یادرکھا جائے گا کیونکہ اس کے آغاز میں فضل عمر مرکزی تعلیم القرآن کلاس کا مرکز سلسلہ عالیہ احمدیہ میں اجرا ہوا.جس کا پس منظر یہ ہے کہ بعض دوستوں کی طرف سے نگران بورڈ میں یہ تجویز بھجوائی گئی کہ موسم گرما کی تعطیلات میں

Page 487

تاریخ احمدیت.جلد 22 472 سال 1964ء ایک تعلیم القرآن کلاس جاری کی جائے تا جماعت میں قرآنی علوم کا بکثرت رواج ہو اور قرآنی علوم کی تشنگی محسوس کرنے والی روحوں کی تسکین کا موجب ہو.اس کے ساتھ ساتھ حدیث کی تعلیم اور لیکچروں کا سلسلہ بھی جاری کیا جائے.اس پر مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح وارشا در بوہ نے ۲۳ جون ۱۹۶۴ء کے الفضل میں یہ اعلان فرمایا کہ نظارت اصلاح وارشاد نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ امسال یکم جولائی سے ۳۱ جولائی تک تعلیم القرآن کلاس جاری رہے گی.نیز اعلان فرمایا:.اس کلاس میں شامل ہونے والے احباب گریجویٹ یا اس کے برابر تعلیمی معیار کے ہوں اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہوں.قرآن کریم کی تعلیمات میں خاص واقفیت حاصل کر کے اپنی اپنی جگہوں پر واپس جا کر درس قرآن کریم دینے کی ان میں اہلیت پیدا ہو جائے.سلسلہ کے عالم اور جید علماء کی خدمت میں درخواست کی جارہی ہے کہ وہ اس کلاس میں شامل ہونے والوں میں ایک ماہ تک قرآن کریم کے دس پاروں کا اور حدیث شریف کا درس دیں اور ضروری نوٹس وغیرہ لکھوائیں.امید ہے کہ اس کلاس میں صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب، محترم مولانا ابوالعطاء صاحب اور محترم سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ اور مکرم مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب اور بعض دیگر علماء پڑھانے میں حصہ لیں گے.انشاء اللہ.جو دوست اس کلاس میں شامل ہونا چاہتے ہوں.اس اعلان کے پڑھتے ہی فوری طور پر اپنے نام، پتہ تعلیمی قابلیت و اہلیت کے متعلق ضروری معلومات پر مشتمل اپنی درخواست جماعت کے امیر کی معرفت بھجوا دیں تا شامل ہونے والوں کی تعداد کے مطابق ضروری انتظامات کئے جاسکیں اور تفصیلی ہدایات انہیں بھجوائی جاسکیں.سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اور سینئر کلاسز کے طلباء کو خصوصی طور پر رخصتوں میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیئے.نوٹ.یہ کلاس اس صورت میں جاری کی جاسکے گی جبکہ کلاس کے لئے کم از کم پچاس طلباء ہوں“.بیتہ، افتتاح اس اعلان کے ایک ہفتہ بعد یکم جولائی ۱۹۶۴ء کو اس مرکزی کلاس کا افتتاح خالد احمدیت مولانا ابوالعطا ءصاحب نے صبح سات بج کر دس منٹ پر اجتماعی دعا سے فرمایا.مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب نائب ناظر اصلاح وارشاد نے کلاس میں شرکت کرنے والے احباب سے خطاب کرتے ہوئے واضح

Page 488

تاریخ احمدیت.جلد 22 473 سال 1964ء فرمایا کہ قرآن مجید کی بے مثال و لا زوال تعلیم حاصل کرنا، اس پر عمل پیرا ہونا اور اسے دنیا میں پھیلانا جماعت احمدیہ کا اولین مقصد ہے.چنانچہ یہ کلاس اسی غرض کے ماتحت قائم کی گئی ہے کہ دوست زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہو کر قرآنی علوم سیکھیں.ان پر عمل پیرا ہوں اور پھر دوسروں کو بھی ان سے بہرہ ور کریں.افتتاح کے وقت باون احباب تشریف فرما تھے جس کے بعد آہستہ آہستہ اور بھی متعدد احباب شامل کلاس ہو گئے یہاں تک کہ ربوہ اور بیرون جات کے طلباء کلاس کی تعدادے تک پہنچ گئی.جس میں طالبات شامل نہ تھیں.یہ کلاس ایک ماہ تک صبح سات سے گیارہ بجے تک جاری رہی.پروگرام حسب ذیل تھا:.بجے صبح تا ۷:۴۵ درس قرآن مجید پہلے تین پارے (مولانا ابوالعطاء صاحب) ۷:۴۵ تا ۸:۳۰ درس حدیث ( سید میر داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ) ۸:۳۰ تا ۹:۱۵ درس قرآن پاره چارتاسات (صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب) ۹:۱۵ تا ۹:۴۵ وقفہ ۹:۴۵ تا ۱۰:۳۰ درس قرآن پارہ آٹھ تا دس ( مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب) ۱۰:۳۰ تا ۱۱:۰۰ قرآن کریم کی عظمت و اہمیت کے متعلق فاضل مقررین کے لیکچر.اس پروگرام کے مطابق مولانا ابوالعطاء صاحب، صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب اور مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب نے کلاس میں ایک ماہ کے دوران پہلے آٹھ پارے پڑھائے اور سید میر داؤد احمد صاحب نے ریاض الصالحین اور بخاری شریف کے ایک حصہ کا درس دیا.علوم قرآن اور علوم حدیث پر جن علمائے کرام نے لیکچر دیئے ان میں مکرم مولا نا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل، مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ، مکرم مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر، مکرم مولوی خورشید احمد صاحب شاد، مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد، مکرم مولوی اسد اللہ صاحب کا شمیری، مکرم شیخ نور احمد صاحب منیر اور مکرم مولوی قمر الدین صاحب شامل تھے.کلاس کے آخر میں بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کی اہمیت پر سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ کی ایک پُر معارف تقریر کا ریکارڈ سنایا گیا.۳۱ جولائی کو کلاس کے اختتام پر حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی نے اجتماعی دعا کرائی اور یہ با برکت کلاس مسلسل ایک ماہ تک جاری رہنے کے بعد کامیابی اور خیر وخوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.

Page 489

تاریخ احمدیت.جلد 22 474 سال 1964ء اسی روز شام کو چھ بجے دفتر صدرانجمن احمد یہ میں نظارت اصلاح وارشاد نے ایک الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا.جس میں کلاس کے اساتذہ کرام اور جملہ طلباء کے علاوہ بعض ناظر و وکلاء صاحبان اور ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بھی شرکت فرمائی.پارٹی کے بعد اختتامی تقریب کا آغاز حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کی صدارت میں تلاوت قرآن مجید سے ہوا جو کلاس کے ایک طالب علم عنایت اللہ صاحب منگلا (ایم.اے سٹوڈنٹ ) نے کی.چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال تحریک جدید نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم جمال وحسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.تلاوت و نظم کے بعد مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب قائمقام ناظر اصلاح وارشاد نے ربوہ میں منعقد ہونے والی اس پہلی مرکزی کلاس کے کوائف پر مشتمل مختصر رپورٹ پیش کی.آپ نے کلاس کی غرض و غایت، اس کے انتظامات اور اس کے نصاب، طلباء کی تعداد اور مختلف مضامین کے اساتذہ کرام کا ذکر کرنے کے بعد اساتذہ کرام اور ان علماء کا شکر یہ ادا کیا جنہوں نے مختلف موضوعات پر لیکچر دیئے.آپ نے محترم افسر صاحب لنگر خانہ کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے باہر سے آنے والے طلباء کی رہائش وغیرہ کا انتظام کیا اور مہمان نوازی کے فرائض انجام دیئے.آخر میں آپ نے (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ کا بھی خاص طور پر شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ آپ نے اس کلاس کے انعقاد میں گہری دلچسپی لی.اور نہایت مفید مشوروں اور ہدایات سے نوازا.اور کلاس کے انتظامات کے متعلق دریافت فرماتے رہے.آپ نے یہ بتانے کے بعد کہ پہلی کلاس کا انعقاد ابتدائی تجربہ کی حیثیت رکھتا ہے یقین دلایا کہ آئندہ اس کلاس کو وسیع پیمانے پر زیادہ بہتر انتظامات کے ساتھ منعقد کیا جائے گا.آپ کے بعد طلباء کلاس کی طرف سے جناب عطاء المجیب صاحب راشد (ایم.اے سٹوڈنٹ) حال مربی انچارج احمد یہ مشن انگلستان) نے نظارت اصلاح وارشاد، اساتذہ کرام اور علماء سلسلہ کا شکریہ ادا کیا اور دعا کی درخواست کی کہ جو کچھ انہوں نے کلاس میں سیکھا ہے وہ ایک پیج ثابت ہو جو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے بعد انہیں قرآنی علوم سے عملاً فائدہ اٹھانے کے قابل بنانے کا موجب بنے.

Page 490

تاریخ احمدیت.جلد 22 475 سال 1964ء (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا خطاب ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ قادیان کی طرح ربوہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے تعلیم القرآن کلاس جاری کرنے کی توفیق بخشی اور پہلی کلاس بفضل اللہ تعالیٰ کامیابی اور خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.آپ نے فرمایا کہ آئندہ یہ کلاس وسیع پیمانے پر منعقد ہونی چاہیئے.اس میں پورے اہتمام سے علاقہ وار نمائندگی ہونی چاہئے پھر ہر پیشہ اور ہر حرفت کے لوگ اس میں شامل ہونے چاہئیں.اسے اس طور پر منظم کیا جائے کہ یہ صحیح معنوں میں جماعت احمدیہ کی ایک نمائندہ کلاس ہوتا اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچے اور پھر وہ قرآنی علوم کو اپنی اپنی جماعتوں میں پھیلانے اور دوسرے احباب کو ان سے فیضیاب کرنے کا ذریعہ نہیں.بعدہ آپ نے کلاس میں شامل ہو کر قرآنی علوم سے بہرہ ور ہونے والے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اس طرف توجہ دلائی کہ انہوں نے جو کچھ سیکھا ہے اس سے اپنی عملی زندگی میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.آپ نے فرمایا قرآن کریم کو دو طریق پر سیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے ایک طریق تو یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کے معانی سیکھ کر پھر قرآن کریم کو پڑھا جائے اور اس کے ظاہری معانی سے آگاہی حاصل کی جائے.اس میں شک نہیں کہ قرآن مجید کو اس طرح سمجھ کر پڑھنا بھی ضروری ہے لیکن قرآنی علوم کو سمجھنے اور ان پر عبور حاصل کر کے ان سے صحیح رنگ میں استفادہ کرنے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے.کیونکہ اس طرح سے تو غیر مسلم بھی قرآن کو پڑھ سکتے ہیں اور بعض نے پڑھا بھی ہے.اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا.بلکہ بعض تو قرآن پڑھنے کے باوجود زندگی بھر اسلام کی مخالفت ہی کرتے رہے اور بغض وعناد میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے.اگر قرآن کو صرف اس طرح ہی پڑھنا کافی ہو تو پھر ایک مومن اور غیر مسلم کے مطالعہ قرآن میں فرق ہی کیا رہا.در اصل قرآن کو پڑھنے اور اس سے استفادہ کرنے کا ایک دوسرا طریق یہ بھی ہے.خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ٨٠) یعنی قرآن کریم کی حقیقت کو وہی لوگ پاتے ہیں جو مطہر ہوتے ہیں.پس اصل چیز تقویٰ اور قرب الہی کے حصول کی تڑپ ہے جب دل کی اس کیفیت کے ساتھ قرآن کو پڑھا اور اس سے استفادہ کیا جائے

Page 491

تاریخ احمدیت.جلد 22 476 سال 1964ء تو علوم و معارف اور وہ اسرار جو روحانی ترقی کے ضامن ہیں انسان پر کھلنے لگتے ہیں.یہی وہ اصل ہے جو قرآن مجید سے استفادہ کرتے وقت مومن اور معاند میں امتیاز کرنے والی ہے اگر یہ بات نہ ہو تو پھر دونوں کے طریق استفادہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا.یہ امر یا درکھنا چاہیئے اور اس کو ہمیشہ مد نظر رکھنا ضروری اور بہت ضروری ہے کہ دل کی اس کیفیت کے ساتھ قرآن مجید سے استفادہ کیا جائے کہ اس میں تقویٰ اللہ اور قرب الہی کے حصول کی تڑپ ہو.اگر ہم دل کی اس کیفیت کے ساتھ قرآنی علوم کے طالب ہوتے ہیں اور اس سے استفادہ کو اپنا شعار بناتے ہیں تو یقیناً ہم بابرکت ہیں اس لئے کہ اس کے نتیجے میں ہم اپنے آپ کو اس قابل بناتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں روحانی ترقیات سے نواز کر اپنے قرب کی راہیں ہم پر کھول دے، یقیناً اس کے نتیجے میں ہم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے روحانی ترقیات حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ قرآن مجید وہ کامل ہدایت ہے جو ان علوم سے ہمیں بہرہ ور کرتی ہے جنہیں عقل اور فہم و فراست کے بل پر انسان حاصل نہیں کر سکتا اور وہ ہیں روحانی علوم یعنی وہ علوم جن کا.روح کے ساتھ تعلق ہے.آپ نے فرمایا دنیا میں ایک تو وہ علوم ہیں جنہیں ہم اپنی محدود عقل کی مدد سے ایک حد تک حاصل کر سکتے ہیں اور یہ وہ علوم ہیں جن کا تعلق قوانین قدرت سے ہے.ان میں دنیا کے تمام مادی علوم شامل ہیں.لیکن روح کا علم ایک ایسا علم ہے جسے ہم عقل کے ذریعہ حاصل نہیں کر سکتے.اس کا حصول وحی الہی پر موقوف ہے.اس مرحلہ پر حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے وَ يَسْلُوْنَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيْلًا بنی اسرائیل: ۸۶) کی تفسیر کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ روح کا علم اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہیں دیا.انسان اپنی عقل کے ذریعہ سے اس علم کو حاصل نہیں کر سکتا.یہ علم قرآن مجید کا لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعۃ :۸۰) کی اصل کے ماتحت مطالعہ کرنے اور روحانی ترقیات حاصل کرنے کے بعد وحی الہی کے ذریعہ ہی حاصل کیا جاسکتا ہے.انسانی جسم کی زندگی بہر حال محدود ہے لیکن روح کی زندگی غیر محدود ہے.وہ انسان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی.اور ابد الآباد تک جاری رہے گی.قرآن مجید وہ کامل ہدایت ہے جو ہمیں اُس روح کا جس نے ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنا ہے علم حاصل کرنے کی راہ بتاتی ہے لیکن شرط یہی ہے کہ ہم لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ۸۰) کی اصل کے ماتحت اس کامل ہدایت سے فائدہ اٹھا ئیں اور اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ خدا ہمیں خود اپنی

Page 492

تاریخ احمدیت.جلد 22 477 سال 1964ء جناب سے روح کا علم عطا کر دے.اس علم کو حاصل کرنا بدرجہ اولیٰ ضروری ہے کیونکہ اس کا فائدہ مادی علوم کی طرح اس دنیا میں ہی ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ یہ مرنے کے بعد ابد الآباد تک چلتا چلا جائے گا.پس ہمیں قرآن کا اس طور پر مطالعہ کرنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ خود ہم پر روحانی علوم کے دروازے کھولتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ، جن کی حیات طیبہ قرآن کی جیتی جاگتی تصویر تھی ، قرآن مجید سے صحیح طور پر استفادہ کرنے اور اسے اپنا دستور العمل بنانے کی توفیق عطا فرمائے تا روحانی علوم کے دروازے ہم پر کھلیں اور ہم نہ صرف اس جہان میں بلکہ اگلے جہان میں بھی ابدالآباد تک روحانی ترقیات سے بہرہ ور ہوتے چلے جائیں.اس پر معارف خطاب کے بعد آپ نے اجتماعی دعا کرائی اور یہ بابرکت تقریب اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا پر اختتام پذیر ہوئی.لنگر خانہ کی طرف سے دعوت کا اہتمام اُسی روز ( مورخہ ۳۰ جولائی کو نماز عشاء کے بعد جملہ طلباء کولنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے دی گئی ایک خصوصی دعوت میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا.اس دعوت کا اہتمام محترم صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب افسر لنگر خانہ نے کیا.اس میں طلبہ کے علاوہ اساتذہ کرام، علماء سلسلہ اور بعض دیگر احباب نے بھی شرکت کی.دعوت کے اختتام پر مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب قائمقام ناظر اصلاح وارشاد نے دعا کرائی.یہ مبارک کلاس ۱۹۸۳ ء تک مسلسل ۱۸ سال جاری رہی اور قرآنی علوم کی ایک روح پرور درسگاہ ثابت ہوئی اور جماعت کے ہر حلقے میں قرآنی انوار کی وسیع پیمانے پر اشاعت کا موجب بنی.تاہم ۱۹۷۴ء میں جماعت کے خلاف ملک گیر ہنگاموں اور ۱۹۸۱ء میں آشوب چشم کی وباء کی وجہ سے کلاس ملتوی کرنا پڑی.جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے پہلی تعلیم القرآن کلاس میں پہلے روز صرف ۷۲ طلباء شامل ہوئے مگر اس کے بعد خدا کے فضل و کرم سے اس میں ہر سال برابر اضافہ ہوتا رہا.یہاں تک کہ ۱۹۸۳ء کی آخری کلاس میں طلباء اور طالبات کی تعداد تین ہزار چھہتر تک پہنچ گئی.کلاس میں شامل ہونے والے خوش نصیب طلباء اور طالبات کی تعداد کا گوشوارہ مستند اعداد و شمار کی روشنی میں سپر دقر طاس کیا جاتا ہے.80

Page 493

تاریخ احمدیت.جلد 22 478 تعداد طالبات سال 1964ء کل تعداد ۷۲ 4 ۱۵۰ ۳۴ ۱۰۵ ۴۰ ۴۸۴ ۱۹۲ ۲۹۲ ۴۷۳ ۲۵۱ ۲۲۲ ۲۹۱ ۱۶۴ ۱۲۷ ۴۳۱ ۲۸۶ ۱۴۵ ۶۸۳ ۳۸۸ ۲۹۵ ۴۸۱ ۳۵۹ ۱۲۲ ۴۶۷ ۲۸۵ ۱۸۲ سن تعداد طلباء ١٩٦٤ء ۷۲ ۱۹۶۵ء 117 호수 ١٩٦٦ء ۱۹۶۷ء ١٩٦٨ء ١٩٦٩ء ۱۹۷۰ء ۱۹۷۱ء ۱۹۷۲ء ١٩٧٣ء ۱۹۷۴ء ۱۹۷۵ء ۱۹۷۶ء ۱۹۷۷ء ۱۹۷۸ء ۱۹۷۹ء ۱۹۸۰ء ١٩٨١ء ۱۹۸۲ء ١٩٨٣ء ۸۲۵ ۱۲۸۳ ملکی حالات کی وجہ سے کلاس منعقد نہیں ہوئی ) ۱۰۸۴ ۶۱۶ ۴۶۸ ۱۰۷۸ ۶۵۴ ۴۲۴ ۵۸۷ ۵۲۴ ۱۳۵۵ ۸۳۰ ۵۲۵ ۱۵۰۸ ۸۷۳ ۶۳۵ ۱۸۹۷ ۹۱۸ ۹۷۹ آشوب چشم کی وباء کے باعث کلاس ملتوی کر دی گئی ) فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کا احیائے نو ۱۲۷۴ ۱۷۹۳ ۲۰۹۹ 81 ۱۹۸۴ء سے ۲۰۰۳ ء تک نامساعد جماعتی حالات کی وجہ سے کلاس منعقد نہ ہو سکی.پھر ۲۰۰۴ء

Page 494

تاریخ احمدیت.جلد 22 479 سال 1964ء میں اس کلاس کا از سر نو احیاء ہوا اور یہ کلاس ۲۰۰۸ء تک منعقد ہوتی رہی.جس میں حاضری کا گوشوارہ درج ذیل ہے.من تعداد طلباء تعداد طالبات ۲۰۰۴ء ۲۲۰ ۲۰۰۵ء ۱۱۷ ۲۰۰۷ء ۲۰۰۸ء کل تعداد ۶۳۶ ۴۱۶ ۳۵۷ ۲۴۰ ۴۰۰ ۲۱۰ ١٩٠ ۴۳۸ ۲۰۷ ۲۳۱ ۵۰۱ ۲۴۲ ۲۵۹ ۲۰۰۹ء سے دوبارہ ملکی حالات خصوصاً امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے اس کلاس کا انعقاد زیر التواء ہے.اس مبارک کلاس کی بہت سی علمی برکات رونما ہوئیں.ابتداء اس کے نصاب میں قرآن مجید اور حدیث نبوی شامل تھیں.مگر بعد ازاں اس میں علم کلام ، عربی اسباق اور تاریخ اسلام واحمدیت کا بھی اضافہ کر دیا گیا.نیز احادیث نبویہ اور عربی اسباق کے کورس پر مشتمل رسائل شائع کئے گئے.اس سلسلے میں دائمی افادیت کی حامل ایک عظیم الشان برکت اس کلاس کی بدولت یہ حاصل ہوئی کہ ۱۹۶۷ء سے ۱۹۸۲ء تک سلسلہ احمدیہ کے جید اور ممتاز علماء نے جو معلومات افروز لیکچر دئیے ان کے ضروری نوٹ چھپوا کر طلباء اور طالبات میں تقسیم کر کے ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیئے گئے.فضل عم تعلیم القرآن کلاس کا لٹریچر فضل عمر تعلیم القرآن کلاس ربوہ کی بدولت سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں نہایت مفید اضافہ ہوا.مطبوعات کی تفصیل درج ذیل ہے:.اول:.(1) منتخب احادیث کے مجموعے (چہل احادیث مرتبہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب ) (۲) نهج الطالبین (۱۶۵ احادیث کا انتخاب ) مرتبہ مولوی عبدالباسط صاحب شاہد سابق مبلغ تنزانیہ (برائے کلاس ۱۹۷۳ء) (۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سونتخب احادیث مرتبہ مولوی محمد انیس الرحمن صاحب شاہد بنگالی مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ ( برائے کلاس ۱۹۷۵ء) (۴) ایک سوا حادیث نبویہ کا منتخب مجموعہ مرتبہ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ( براۓ کلاس ۱۹۷۶ء) (۵) پچاس منتخب

Page 495

تاریخ احمدیت.جلد 22 480 سال 1964ء احادیث نبویہ کا مجموعہ (برائے کلاس ۱۹۷۷ء) (1) ساٹھ منتخب احادیث نبویہ کا مجموعہ مرتبہ شیخ مبارک احمد صاحب ایڈیشنل ناظر صاحب اصلاح و ارشاد ( تعلیم القرآن ) ( برائے کلاس ۱۹۷۸ء) (۷) احادیث نبویہ مع ترجمہ نصاب حدیث برائے کلاس ۱۹۷۹ء ) (۸) احادیث نبویہ مع ترجمہ (نصاب حدیث معیار سوم برائے کلاس ۱۹۸۰ء) دوم :.(۱) عربی اسباق (برائے کلاس ۱۹۷۷ ء ، ۱۹۷۹ ء، ۱۹۸۰ء) (۲) اردو عربی بول چال (۱۹۷۱ء) (۳) مختصر مسائل نماز (۱۹۷۲ء) ایک امریکن احمدی خاتون کا دلچسپ مکتوب امریکن سفید فام خاندان کی ایک معزز تعلیم یافتہ خاتون امریکہ کی کٹکی سٹیٹ کے قصبہ ولر ڈ WILLARD میں ۱۹۴۹ء کے قریب داخل احمدیت ہوئیں.جن کا اسلامی نام ہاجرہ شکور رکھا گیا.اس نہایت ہی مخلص خاتون نے ۱۰ جولائی ۱۹۶۴ء کو جناب میجر عبدالحمید صاحب مبلغ ڈیٹن کو حسب ذیل مکتوب لکھا:.د ۱۹۶۴ء ڈیر برادر حمید السلام علیکم آپ کے خط کا جواب دینے میں تاخیر ہوگئی معافی کی خواستگار ہوں.میں نے ہمشیرہ لطیفہ کریم کو اپنی مصروفیت کی وجوہات بیان کر دی تھیں.امید ہے اس نے ان وجوہات کا آپ سے ذکر کیا ہو گا.آپ دریافت فرماتے ہیں کہ میرے والدین مجھے مذہبی اختلاف کی وجہ سے تنگ تو نہیں کیا کرتے تھے.جواباً عرض ہے کہ پہلے تنگ کیا کرتے تھے مگر اب نہیں.چار پانچ سال کا عرصہ ہوا.میرا بھائی مجھے ملنے کے لئے آیا تھا.ایک مرتبہ اس نے میری سخت تو ہین کی.خدا کا کرنا یہ ہوا کہ امریکہ کی فوج نے اسے کوریا میں چوزن کے مقام پر بھیج دیا وہاں ابھی تھوڑا ہی عرصہ رہا ہو گا کہ وہ بیمار ہو گیا.اور اسے فوری طور پر ہوائی جہاز کے ذریعہ واشنگٹن واپس بھیج دیا گیا.یہاں پہنچتے ہی اسے والٹر ریڈ ہسپتال میں داخل کیا گیا.ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق وہ بری طرح فاتر العقل ہو گیا تھا.اس کی اس اچانک بیماری کی وجہ معلوم نہ ہو سکی.اس کے ساتھیوں نے بتلایا کہ وہ ایک روز صبح دیوانوں کی طرح حرکت کرنے لگا.وہاں کے ڈاکٹر بھی کچھ وجہ معلوم نہ کر سکے.لہذا اسے ہوائی جہاز پر سوار کر کے واپس بھیج دیا گیا.

Page 496

تاریخ احمدیت.جلد 22 481 سال 1964ء اس کی بیوی اور بڑی بہن اسے دیکھنے کے لئے گئیں.لیکن اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ شادی شدہ ہے.کئی ہفتوں تک وہ اس ہسپتال میں زیر علاج رہا.پھر معجزانہ طور پر وہ شفایاب ہو گیا.اس کی ہوشمندی اسی طرح اچانک عود کر آئی جس طرح کہ اچانک مفقود ہو گئی تھی.اس واقعہ کے بعد میرے والدین محتاط ہو گئے اور میرے مذہب کے بارے میں احتیاط سے بات کرنے لگے ہیں.مجھے یقین ہے کہ ان کو احساس ہو چکا ہے کہ یہ مصیبت ان پر کیوں برپا ہوئی اگر چہ وہ بظا ہر تسلیم نہیں کرتے.مجھے یقین ہے کہ میرے بھائی کو بھی یہ احساس ہو چکا ہے کیونکہ اب وہ میرے مذہب کے بارہ میں کچھ نہیں کہتا.اسے معلوم ہو چکا ہے کہ اس کی ہوشمندی کچھ عرصہ کے لئے ختم ہوگئی تھی.میں نے اس کے لئے کوئی بددعا نہیں کی تھی.یہ خدائی نشان تنبیہہ کے طور پر خود بخود ظاہر ہوا.کیونکہ جب وہ چوزن جانے لگا تو مجھ سے ناراض تھا.اس واقعہ سے میرا خیال ایک اسرائیلی بادشاہ کی طرف منتقل ہو گیا جو اپنی رعایا کو برا بھلا کہا کرتا تھا.وہ فاتر العقل ہو گیا تھا.سات سال تک بیمار رہا.میرے خیال میں تاریخ میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس کی قوت فہم اچانک اسی طرح عود کر آئی تھی جس طرح کہ اچانک مفقود ہو گئی تھی.اسے اس کا احساس ہوا تو اس کے ازالہ کی کوشش کرنے لگا.اس طریق سے میرے بھائی کو بھی یقیناً معلوم ہو گیا ہے کہ اسے یہ تکلیف کیوں پہنچی ہے.جب مجھے اس کی بیماری کی خبر پہلے پہل پہنچی تو معا میرا خیال اس واقعہ کی طرف گیا.میں اپنے والدین سے کہتی ہوں کہ اگر خدانخواستہ میں مسلمان نہ بھی ہوتی تو اس دین کے خلاف کوئی بات نہ کرتی.میں نے خدائی عذاب کو اتنا جلدی نازل ہوتے تو کبھی نہیں دیکھا تھا.چنانچہ اب جب بھی میرے والدین کوئی بات کرتے ہیں تو میں سمجھتی ہوں کہ میرا فرض ہے کہ میں انہیں یاد دلاؤں کہ وہ غیر مؤدبانہ حرکت کر کے کوئی اور مصیبت مول نہ لے لیں.میں آپ کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہوں کہ آپ میرے لئے یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ مجھے زیادہ قربانیوں کی توفیق بخشے.کافی عرصہ سے میں دین کی معمولی سی خدمت بجا لاتی رہی ہوں.اس پر بھی میں شکر گزار ہوں.مجھے یقین ہے کہ اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اگر خدا کو منظور ہوا تو کچھ اور خدمت بھی بجا لاؤں گی.اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو چیزیں آہستہ آہستہ حرکت کرتی ہیں وہ زیادہ یقینی ہوتی ہیں.

Page 497

تاریخ احمدیت.جلد 22 482 سال 1964ء آپ فرماتے ہیں کہ ہمشیرہ لطیفہ کریم اکثر میری تعریف کرتی رہتی ہیں.میں اس سے از حد محبت کرتی ہوں اور اس کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں.وہ میری زندگی کے تاریک ایام میں روشنی کے بلند مینار کا کام دیتی رہی ہے.میں اس کے احسانات کا بدلہ ادا نہیں کر سکتی.میں آپ کی خدمت میں انشاء اللہ پھر خط تحریر کروں گی.والسلام ہاجرہ باؤنڈری کمیشن میں جماعت احمد سیکاکردار 66 83 پاکستان ٹائمنر لاہور کی ۲۲ ۲۳ ۲۴ جون ۱۹۶۴ء کی اشاعتوں میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب محمد منیر صاحب کا ایک مضمون Days to Remember (یادگار ایام) کے زیر عنوان تین اقساط میں شائع ہوا تھا.جس میں آپ نے باؤنڈری کمیشن اور اس کی کارگزاری سے متعلق بعض واقعات پر روشنی ڈالی تھی.اس میں بعض باتیں جن کا تعلق جماعت احمدیہ سے تھا، تصحیح اور وضاحت طلب تھیں مثلاً اس میں بیان کیا گیا تھا کہ محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب مسلم لیگ اور جماعت احمد یہ دونوں کی طرف سے باؤنڈری کمیشن میں پیش ہوئے تھے جو درست نہیں کیونکہ چوہدری صاحب موصوف صرف اور صرف مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہوئے تھے.پھر اس میں صاحب مضمون نے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ یہ کبھی نہ سمجھ سکے کہ احمدیوں نے علیحدہ محضر نامہ پیش کرنا کیوں ضروری خیال کیا.اس مضمون کی اشاعت کے بعد اول الذکر بات کی تصحیح اور دوسری بات کی وضاحت کے طور پر مورخہ ۸ جولائی ۱۹۶۴ء کے پاکستان ٹائمز میں محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور محترم شیخ بشیر احمد صاحب کے خطوط شائع ہوئے ہیں.چونکہ اس مضمون (جس کا ترجمہ بعد ازاں نوائے وقت میں بھی شائع ہوا) سے غلط نبی پیدا ہونے کا امکان تھا.اس لئے ان ہر دوا ہم وضاحتی خطوط کا اردوترجمہ الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۶۴ء نے شائع کر دیا جو یہ ہے.محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا مکتوب جناب عالی! میں نے ابھی ابھی اپنے محترم دوست سابق چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر محمدمنیر ( جو ۱۹۴۷ء

Page 498

تاریخ احمدیت.جلد 22 483 سال 1964ء کے باؤنڈری کمیشن کے رکن تھے ) کا وہ نہایت ہی قیمتی مضمون بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھا ہے جو پاکستان ٹائمنر کی ۲۲-۲۳ اور ۲۳ جون کی اشاعتوں میں تین اقساط میں شائع ہوا ہے.مضمون کے پہلے صفحہ کے تیسرے کالم میں ایک بات ایسی ہے جو پورے طور پر درست نہیں ہے اور چونکہ اس میں میرا بھی ذکر آتا ہے اس لئے میں یہ تصیح اس درخواست کے ساتھ بھیج رہا ہوں کہ آپ براہ مہربانی اسے اس طور پر شائع کرنے کا اہتمام فرما ئیں کہ متعلقہ نکتہ کے بارہ میں اگر آپ کے قارئین کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو تو وہ اس سے دور ہو جائے.اگر مجھے مسٹر محمد منیر کے صحیح ایڈریس کا علم ہوتا تو میں احترام کے ساتھ براہ راست ان کی خدمت میں بھی یہ تصیح ارسال کرتا.ان وکلاء کے نام درج کرتے ہوئے جو مختلف مفادات کی نمائندگی کی غرض سے باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے میرے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ میں مسلم لیگ اور احمدیوں کی طرف سے پیش ہوا تھا.حقیقت یہ ہے کہ مجھے صرف مسلم لیگ کی طرف سے ہدایات دی گئی تھیں.اور میں مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہوا تھا.نہ تو احمدیوں نے بطور وکیل میری خدمات حاصل کیں اور نہ ان کی طرف سے مجھے ہدایات دی گئیں، نہ میں ان کی طرف سے پیش ہوا اور نہ میں نے ان کی نمائندگی کی.باؤنڈری کمیشن کے سامنے احمدیوں کی نمائندگی شیخ بشیر احمد صاحب ( جو گزشتہ دنوں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں ) نے کی تھی.مضمون کی تیسری قسط کے آخری سے پہلے کالم میں صاحب مضمون نے بیان کیا ہے کہ وہ یہ کبھی نہیں سمجھ سکے کہ احمدیوں نے علیحدہ محضر کیوں پیش کیا.یہ شیخ بشیر احمد یا جماعت احمدیہ کے کسی اور با اختیار نمائندے کا کام ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرے تاہم میں از اول تا آخر یہی سمجھتا رہا ہوں کہ احمدیوں نے علیحدہ محضر مسلم لیگ کی درخواست اور اس کے مشورہ کے ساتھ پیش کیا تھا.انہوں نے مسلم لیگ کے کیس کی پوری پوری تائید کی تھی اور اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی تھی کہ اُس وقت غیر مسلموں کی طرف سے یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ چونکہ بعض مسلمان احمد یوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے اس لئے مسلمان اس دعوے میں بچے نہیں ہیں کہ ضلع گورداسپور میں وہ اکثریت میں ہیں کیونکہ اس صورت میں کہ احمدیوں کو مسلمانوں میں شمار نہ کیا جائے ضلع میں مسلمان اکثریت میں نہیں رہتے.تاہم جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے بارہ میں ایک ایسا شخص ہی صفائی پیش کر سکتا ہے جسے احمدیوں کی طرف سے حقائق پیش کرنے کا اختیار دیا گیا ہو.اتنا عرصہ

Page 499

تاریخ احمدیت.جلد 22 484 سال 1964ء گزرنے کے بعد اور اس حال میں کہ میں یورپ میں بیٹھ کر یہ سطور سپر د قلم کر رہا ہوں میرے لئے معاملہ کے اس پہلو سے متعلق اصل صورت حال کو جامعیت کے ساتھ ذہن میں لانا مشکل ہے محترم شیخ بشیر احمد صاحب کا خط ”جناب عالی ! محمد ظفر اللہ خاں انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس.دی ہیگ 66 مسٹر منیر کے معلومات افزا مضمون میں جماعت احمدیہ کا بھی ذکر آتا ہے.یہ ذکر جس رنگ میں کیا گیا ہے وہ اس بات کا مقتضی ہے کہ جوا با تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کر دیا جائے.باؤنڈری کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ کی نمائندگی کا اعزاز میرے حصہ میں آیا تھا.مجھے یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ میں یہ پڑھ کر سخت پریشان ہوا کہ مسٹر منیر کو اس بات کا علم نہیں کہ جماعت احمدیہ نے اپنا کیس الگ کیوں پیش کیا تھا.اگر وہ اپنا مضمون برائے اشاعت اخبار میں بھیجنے سے پہلے مجھ سے استفسار کر لیتے تو غلطی کے امکان کو بآسانی دور کیا جاسکتا تھا.حکومت برطانیہ نے باؤنڈری کمیشن کے روبرو پیش ہونے کے لئے صرف تین فریق تسلیم کئے تھے.یعنی کانگرس ، مسلم لیگ اور سکھ.احمدیوں کا ان میں کوئی ذکر نہ تھا.سکھوں کی طرف سے پیش کردہ میمورنڈم میں یہ استدلال پیش کیا گیا تھا کہ چونکہ گورو گوبند سنگھ کی جائے پیدائش ( گوبند پور ) گورداسپور میں واقع ہے اس لئے اس خاص امر کا لحاظ رکھنے سے مسلمانوں کی ۴ فیصد کی اکثریت کوئی اہمیت نہیں رکھتی.جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے مسٹر ریڈ کلف کے دائرہ کار میں یہ بات شامل تھی کہ وہ مسلم اکثریت کے علاقوں کو غیر مسلموں کے علاقوں سے الگ کر کے ان کی حد بندی کر دیں.اس کام کی انجام دہی میں انہیں یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ دیگر عوامل کو بھی ملحوظ رکھیں.سکھوں کی طرف سے یہ دلیل اس بنیاد پر ہی پیش کی گئی تھی.چنانچہ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ صورت حال کا یہ ایک پہلو ہی اپنی ذات میں اتنا اہم ہے کہ محض اس بناء پر ہی ضلع گورداسپور کو پاکستان کی بجائے انڈین یونین میں شامل کرنا ضروری ہے اس دعویٰ کو بے اثر کرنے کی غرض سے اس کے بالمقابل ایک اور دعویٰ پیش کرنے کے لئے مسلم لیگ نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت احمدیہ کو علیحدہ ایک محضر پیش کرنا چاہیئے اور اس بات پر بھی آمادگی ظاہر کی کہ وہ اپنے حصہ کے مقررہ وقت میں سے ۴۵ منٹ فارغ کر دے گی تاکہ میں باؤنڈری کمیشن سے خطاب کر سکوں.

Page 500

تاریخ احمدیت.جلد 22 485 سال 1964ء چوہدری محمد ظفر اللہ خاں مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہوئے تھے انہوں نے جماعت احمدیہ کے خصوصی دعوے کے بارہ میں ایک لفظ بھی نہیں کہا.سرکاری ریکارڈ دیکھ کر یہ امر معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے پیش کردہ تحریری محضر میں ایک خاص نکتہ یہ پیش کیا گیا تھا کہ قادیان ایک فعال بین الاقوامی اسلامی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کی جارہی ہے.مزید برآں جماعت احمدیہ کے بانی کا مزار قادیان میں ہے اس لئے قادیان دنیا بھر کے احمدیوں کے لئے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے.چنانچہ پوری شدت کے ساتھ اس امر پر زور دیا گیا کہ گورداسپور کا ضلع نہ صرف ۴ ۱۶ کی مسلم اکثریت کی بناء پر ہی نہیں بلکہ اس بناء پر بھی لازمی طور پر پاکستان میں شامل کیا جائے.جب میں نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے کیس پیش کیا تو جسٹس تیجا سنگھ نے مجھ سے ایک سوال پوچھا.جس کا میں نے جواب دیا یہ امر مفید ہو گا کہ میں وہ سوال اور اس کا جواب یہاں دہرا دوں.مسٹر جسٹس تیجا سنگھ: مسٹر بشیر احمد دیگر مسلمانوں کے تعلق میں آپ کی جماعت کی کیا پوزیشن ہے؟ شیخ بشیر احمد : مائی لارڈز! ہم اول بھی مسلمان ہیں اور آخر بھی مسلمان ہیں.اور ہم اسلام ہی کا ایک حصہ ہیں.ظاہر ہے کہ یہ سوال اس غرض سے کیا گیا تھا کہ مجھ سے جواباًا ایسی بات کہلوائی جائے جو مسلم لیگ کے مفاد کے خلاف ہو اور جس میں باہمی اختلافات پر زور دیا گیا ہو.اس سے انہیں یہ دلیل ہاتھ آجاتی کہ اگر مذہبی جذبات کی روشنی میں بھی جائزہ لیا جائے تو گورداسپور میں آبادی کی اکثریت مسلم لیگ کے حق میں نہیں ہے کیونکہ احمدی گورداسپور میں بہت معقول تعداد میں تھے.بحث میں مسٹر جسٹس تیجا سنگھ نے یہ کہہ کر کہ پنجاب میں تو مسلمانوں کے اور بھی بہت سے مزارات اور خانقا ہیں وغیرہ ہیں جگہ کے تقدس کی بنیاد پر پیش ہونے والے دعوے کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی.سرکاری ریکارڈ سے میرے اس بیان کی تصدیق ہو سکتی ہے کہ میں نے کمیشن کے سامنے اس بات کو بڑی شد و مد کے ساتھ پیش کیا کہ قادیان اور دوسرے مقدس مقامات میں فرق ہے کیونکہ قادیان وہ واحد مرکز ہے جہاں سے منظم بنیادوں پر تمام جہان میں اسلام کی تبلیغ کی جارہی ہے.بحث کے دوران میں نے یہ بھی دلیل پیش کی کہ اگر قادیان کو انڈین یونین میں شامل کیا گیا تو وہاں سے ہونے والی تبلیغی جد و جہد کو شدید نقصان پہنچے گا.

Page 501

تاریخ احمدیت.جلد 22 486 سال 1964ء میں یہ وضاحت کسی قدر تاخیر سے بھیج رہا ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ریکارڈ کی ان نقول کو جو میرے پاس تھیں دینا چاہتا تھا لیکن پتہ یہ چلا کہ ایک دوست یہ نقول لے گئے تھے اور پھر انہوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ انہیں واپس بھی کریں.تاہم میں نے اتنی احتیاط کی ہے کہ نوٹس کا خواجہ عبدالرحیم بیرسٹر ایٹ لاء کے ساتھ مل کر مقابلہ کر لیا ہے.ان کی یادداشت بھی میری یادداشت کی تصدیق کرتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر منیر کے بیان سے عوام کے ذہنوں میں اگر کوئی غلط فہمی پیدا ہوئی ہوگی تو وہ میری اس تحریر سے دور ہو جائے گی.شیخ بشیر احمد.لاہور ہالینڈ میں یورپ کے احمدی مبلغین کی سالانہ کا نفرنس اس سال کا نہایت اہم واقعہ مبلغین یورپ کی نویں سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہے جو ( بیت) مبارک ہیگ میں ۱۸،۱۷، ۱۹ جولائی ۱۹۶۴ء کو ہوئی جس کی تفصیل حافظ قدرت اللہ صاحب مجاہد ہالینڈ کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے:.انگلستان، جرمنی، سوئٹزر لینڈ ، سپین، سکینڈے نیویا اور ہالینڈ.ہالینڈ میں یہ کانفرنس تیسری دفعہ ہو رہی ہے.پہلی دفعہ یہاں ۱۹۵۰ء میں منعقد ہوئی.اور دوسری دفعہ ۱۹۵۸ء میں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس دفعہ بھی یہ کا نفرنس بخیر و خوبی انجام پائی.فالحمد للہ علی ذالک کا نفرنس کے لئے جملہ مبلغین کرام جمعرات کو ہی ہیگ پہنچ چکے تھے.جن کی تفصیل یہ ہے:.خان بشیر احمد رفیق صاحب (انگلستان)، چوہدری عبد اللطیف صاحب (جرمنی)، چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ (سیکرٹری یورپین مشنز ) سوئٹزر لینڈ، چوہدری کرم الہی صاحب (سپین)، سید میر مسعود احمد صاحب اور برادرم عبد السلام میڈسن ( سکینڈے نیویا ).ہالینڈ کی طرف سے خاکسار ( حافظ قدرت اللہ ) شامل ہوا.ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے سویڈن کے نمائندے برادرم محمود الرحمن ارکسن صاحب بامر مجبوری اس کانفرنس کے لئے تشریف نہ لا سکے.محترم موصوف اور برادرم عبد السلام میڈسن دونوں یورپ میں آنریری مبلغ ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑے اخلاص اور قربانی کے ساتھ سکینڈے نیویا میں تبلیغ کے فرائض انجام دے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور اخلاص میں مزید ترقیات عطا فرمائے.آمین

Page 502

تاریخ احمدیت.جلد 22 487 سال 1964ء کا نفرنس کا پہلا دن جمعہ کا تھا.ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہم اس موقعہ پر مکرم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج عالمی عدالت کے نہایت ہی بصیرت افروز خطبہ سے محظوظ ہوئے.آپ نے سورہ محمد کی آخری آیات کی روشنی میں خلوص اور محبت سے بھرے ہوئے جذبات کے ساتھ جملہ مبلغین بلکہ تمام افراد کو احسن اور دلکش انداز میں ان کے فرائض اور ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آپ نے نہایت درد بھرے الفاظ میں فرمایا کہ اگر ہم نے اس وقت اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح محسوس نہ کیا اور اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں نہ ڈھالا جیسا کہ وقت کا تقاضا ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہم ان برکات سے بالکل محروم کر دئیے جائیں جو خدا تعالیٰ ہمیں دینا چاہتا ہے.خطبہ جمعہ کی نصائح کے علاوہ آپ نے نماز جمعہ کے بعد اور پھر کانفرنس کے آخر پر بھی جملہ مبلغین کو اپنے قیمتی خیالات اور زریں معلومات سے متمتع فرمایا.اور موجودہ زمانہ کے حالات اور تقاضوں کو صحیح طور پر لوظ رکھنے کی طرف توجہ دلائی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء کا نفرنس کا اصل مقصود تو یہ تھا کہ اپنی گزشتہ مساعی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے.اور یورپ کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق آئندہ کے لئے وسیع پروگرام مرتب کیا جائے اور مناسب تجاویز عمل میں لائی جائیں.چنانچہ اس غرض کے لئے ہمارے متعدد اجلاس منعقد ہوئے جن میں پوری تفصیل سے ان حالات کا جائزہ لیا گیا.کانفرنس کے یہ اجلاس مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سیکرٹری یورپین مشنز کی زیر صدارت عمل میں آئے.ان اجلاسوں میں جملہ نمائندگان نے اپنے مشن کی مصروفیات اور کارگزاریوں کو پیش کیا.نمائندگان کا اس رنگ میں مل کر بیٹھنا اور تبادلہ خیالات کرنا یقیناً بہت فائدہ کا موجب ہے.جس سے ہر مشن کو اپنا آئندہ کا پروگرام مرتب کرنے میں بہت مددملتی ہے.کانفرنس کے آخر پر جملہ نمائندگان کا نفرنس نے محبت اور عقیدت کے گہرے جذبات کے ساتھ اپنے پیارے اور محبوب امام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ۵۰ سالہ ان تھک خدمات دینیہ کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین ادا کرتے ہوئے آپ کی صحت اور درازی عمر کے لئے اجتماعی دعا کی.حقیقت یہی ہے کہ آپ نے جس عظیم الشان رنگ میں اسلام اور احمدیت کی خدمت کی ہے اس کی نظیر کسی جگہ کم ہی ملے گی.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی بے انتہا برکات اور افضال سے نوازے.آمین علاوہ ازیں جملہ نمائندگان نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کی ذات گرامی سے گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے آپ کی وفات کو ایک عظیم قومی نقصان قرار دیا.اور غم سے

Page 503

تاریخ احمدیت.جلد 22 488 سال 1964ء بھر پور جذبات کے ساتھ آپ کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی.“ پبلک جلسہ اور پریس کانفرنس د گو اس کانفرنس کا براہ راست مقصد پبلک جلسہ اور پریس کانفرنس کا انعقاد نہیں تھا.تا ہم ایسے موقعہ پر ایسی پریس کانفرنس مشن کو ترقی دینے کا موجب ہوتی ہے.چنانچہ اس دفعہ بھی اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی.پر یس کا نفرنس کے لئے ایک عرصہ سے تیاری شروع تھی.ملک کے پریس کو اور محکمہ براڈ کاسٹ کو کافی وقت پہلے اس کانفرنس کی اطلاع دی جا چکی تھی.اور اس غرض کے لئے پریس نیوز کے طور پر ایک سہ ورقہ مضمون ان کی خدمت میں بھیجا جا چکا تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ پریس کانفرنس کامیاب رہی.اس کے لئے نماز جمعہ کے بعد اڑھائی بجے کا وقت مقرر تھا.مگر بعض نمائندگان نماز جمعہ سے پہلے ہی تشریف لے آئے.باقی نمائندگان جمعہ کے بعد خاصی تعداد میں جمع ہو گئے.جن میں محکمہ براڈ کاسٹ کے نمائندگان بھی شامل تھے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس کا نفرنس کے نتیجہ میں وسیع طور پر ملک بھر میں اسلام اور احمدیت کا چرچا ہوا.میرے مختصر سے تعارفی کلمات کے بعد مکرم جناب باجوہ صاحب نے نمائندگان پریس سے تفصیلاً خطاب کیا.جس میں آپ نے مشنز کی تبلیغی مساعی کو بیان کرتے ہوئے اسلام کے متعلق یورپ میں پیدا شدہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کا خاص طور پر تذکرہ فرمایا.آپ کے اس خطاب کے بعد نمائندگان پریس میں سے بعض نے استفسارات بھی کئے جن کے جوابات دیئے.اور مستنفسرہ امور کی پورے طور پر وضاحت کر دی گئی.اس موقعہ پر ڈچ ریڈیو کے نمائندے بھی موجود تھے.یہ امر از حد خوشی کا موجب ہے کہ ڈچ ریڈیو نے پانچ مرتبہ کا نفرنس کی خبر کو نشر کیا بلکہ ڈچ ریڈیو نے ایک خاص پروگرام اس کا نفرنس کے ضمن میں عربی ممالک کے لئے نشر کیا.“ پبلک جلسه پبلک جلسہ کے ضمن میں بھی انتظامات کافی وقت پہلے شروع کر دیئے گئے تھے.جس کی صدارت کے فرائض صوفی منش مستشرق ڈاکٹر فرائی تاج Freitag نے بڑی خوشی سے قبول کئے.اس جلسہ کے لئے ہفتہ کی شام کا وقت مقررتھا.مگر اتفاق ایسا ہوا کہ جب جلسہ کا وقت ہونے لگا تو موسم

Page 504

تاریخ احمدیت.جلد 22 489 سال 1964ء انتہائی خراب ہو گیا اور اتنے زور سے بارش شروع ہو گئی کہ ہم نے خیال کیا کہ جلسہ شاید نہ ہو سکے.بجلی کی چمک ، بادلوں کی گرج اور اس کے ساتھ ہوا کا زور.مگر آفرین ہے ان آنے والوں پر جو ایک ایک کر کے آتے گئے.اور میٹنگ ہال میں ایک رونق سی نظر آنے لگی.صدر جلسہ کے فون آرہے تھے کہ وہ آنے کے لئے کوشاں ہیں جو نہی انہیں کوئی سواری مل گئی تو وہ آجائیں گے.مگر اس خیال سے کہ جلسہ کو دیر نہ ہو جائے جلسہ شروع کروا دیا گیا.جلسہ کی ابتداء برادرم مکرم سید میر مسعود احمد صاحب فاضل کی تلاوت سے ہوئی.جس کے بعد خاکسار نے مختصراً چند ایک تعارفی کلمات کہے اور پھر تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا.اس جلسہ میں ایک خاص تقریر ہمارے بھائی عبدالسلام صاحب میڈسن کی تھی جس میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے چرچ کو خیر باد کیوں کہا.اور اس کے بعد پھر اسلام کے دامن سے کیوں وابستہ ہو گئے.آپ کی تقریر کو احباب نے توجہ سے سنا.برادرم میڈسن ایک پادری کے لڑکے ہیں اور خدا کے فضل سے اچھی قابلیت کے مالک ہیں.عیسائیت کے علاوہ آپ نے اسلامی لٹریچر کا بھی گہرے اور وسیع طور پر مطالعہ کیا.ان کے والد کی طبعی خواہش تھی کہ یہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پادری بنیں مگر انہیں اپنی تسکین کا سامان اسلام کے دامن سے وابستگی میں نظر آیا.آپ کی تقریر کے علاوہ اس موقعہ پر برادرم چوہدری عبد اللطیف صاحب، برادرم چوہدری کرم الہی صاحب ظفر اور برادرم بشیر احمد صاحب رفیق نے بھی تقاریر کیں.جو بڑی دلچسپی کے ساتھ سنی گئیں.آخر پر ہماری ڈچ بہن ناصرہ زمرمان نے تصوف کے رنگ میں رنگین بعض اسلامی احکامات سے حاضرین کو محظوظ کیا.یہ جلسہ سوا آٹھ بجے شروع ہوا تھا 9 بجے کے قریب ہمارے صدر جلسہ بھی تشریف لے آئے چنانچہ کاروائی کا بقیہ حصہ ان کی صدارت میں عمل میں آیا.صدر صاحب موصوف اسلام کے بارے میں بڑی محبت اور عقیدت کے جذبات رکھتے ہیں اور جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کے بھی بہت معترف ہیں.چنانچہ انہوں نے دوران جلسہ میں متعدد مواقع پر اپنے محبت بھرے خیالات کا اظہار کیا.اور بڑی جرات کے ساتھ جماعت کی اسلامی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء

Page 505

تاریخ احمدیت.جلد 22 490 سال 1964ء کانفرنس کی رپورٹ تشنہ تکمیل رہے گی اگر میں اس موقعہ پر ان بھائیوں اور بہنوں کا شکر یہ ادانہ کروں جنہوں نے اخلاص کے جذبات کے ساتھ اس موقعہ پر تعاون کیا اور اسلامی اخوت کا ثبوت دیا.مربیان کرام کا قیام گو متفرق جگہ پر تھا مگر ان کے کھانے کا اہتمام مسجد میں ہی تھا جو میری اہلیہ کے سپر د تھا.کام خاصہ تھا مگر جماعت کے احباب اور خواتین کے تعاون سے یہ مراحل بفضل تعالیٰ بخوبی انجام پاگئے.فجزاهم الله احسن الجزاء اس کانفرنس میں مندرجہ ذیل قرار داد میں اتفاق رائے سے پاس کی گئیں :..ہم نمائندگان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی پورا ہوتے دیکھنے کی توفیق عطا فرمائی جو کہ حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کی ذات میں پوری ہوئی.جس کی ایک شق یہ ہے کہ :.وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا ہمیں اس بات کا فخر ہے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے میں ہمارا بھی ایک حد تک حصہ ہے.اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ افسوس ہے کہ حضور نے جو بیج بویا تھا اب جبکہ وہ ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے اور بے شمار لوگ اس کے سائے تلے جمع ہو رہے ہیں حضورا اپنی بیماری کی وجہ سے صاحب فراش ہیں.ہم دست بدعا ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضور پُر نور کو جلد صحت کاملہ مرحمت فرمادے اور لمبے عرصہ تک خدمت اسلام کی توفیق دے.آمین اس موقعہ پر ہم اپنے یورپ میں رہنے والے بھائی بہنوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت، عافیت کیلئے زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں.ہم سب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے ساتھ وابستگی کا اظہار کرتے ہیں.اور اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ حضور اقدس کے مقرر کردہ صدرانجمن اور تحریک جدید کے عہدیداروں پر ہمیں پورا پورا اعتماد ہے اور ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو صحیح جذبے کے ساتھ خدمت دین کی توفیق بخشے اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم وقف کی صحیح روح کو برقرار رکھتے ہوئے کام کرتے چلے جائیں اور جلد یورپ میں اسلام کے غلبہ کے دن دیکھ لیں..ہم نمائندگان حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے انا لله و انا الیه راجعون کہتے ہیں.آپ قمر الانبیاء تھے.آپ کے وجود کی ٹھنڈی

Page 506

تاریخ احمدیت.جلد 22 491 سال 1964ء شعاعیں زخمی دلوں کے لئے تسکین کا موجب تھیں.آپ کی تصانیف ایک بے بہا خزانہ ہیں جو کہ رہتی دنیا تک لوگوں کی ہدایت کا موجب ہوں گی.آپ کی تقاریر رول کریم صلی اللہ علیہ سلم اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت سے پر تھیں.صدرانجمن احمدیہ کا ممبر ہونے کی حیثیت سے آپ کی خدمات جلیل القدر ہیں اور آخری عمر میں صدر نگران بورڈ کی حیثیت سے آپ کا کام بھی قابل صد تحسین ہے.الغرض آپ تمام احمدیوں کی دعاؤں کا حق رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمتوں اور فضلوں کی بارش برسائے اور آپ کے درجات بلند فرمائے.آمین اللہ تعالیٰ آپ کی بیگم صاحبہ کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے اور ان کو جلد لمبی بیماری سے صحت بخشے.اور ان کی روحانی و جسمانی اولاد کا بھی حامی و ناصر ہو.آمین پیارے امام کی شفایابی کیلئے صدقہ کی تحریک 86 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے ۲۱ جولائی ۱۹۶۴ء کو حضرت مصلح موعود کی شفایابی کے لئے ایک پُر زور تحریک صدقہ فرمائی جو حسب ذیل الفاظ میں الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۶۴ء کے صفحہ اول پر اشاعت پذیر ہوئی:.گذشتہ سال انصار نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفایابی کے لئے سلسل چالیس دن تک صدقہ جاری رکھنے کی تحریک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت بدستور کمزور چلی آرہی ہے.اس لئے میں پھر انصار سے پُر زورا پیل کرتا ہوں کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کامل و عاجل شفایابی کی پر زور دعاؤں کے ساتھ ایک بار پھر چالیس روز تک صدقہ جاری رکھنے کی اس تحریک میں حصہ لیں تا اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے اور ہم عاجزوں پر رحم فرماتے ہوئے وہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو جلد کامل شفا عطا فرمائے.آمین صدقہ کی رقوم دفتر انصار اللہ مرکز یہ میں بھجوا دی جائیں.رسالہ منڈ ونیگر و میڈرڈ میں احمدیت کا ذکر خاکسار مرزا ناصر احمد صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ میڈرڈ کے کیتھولک اخبار منڈونیگرو (MUNDONEGRO) نے اپنی جولائی اگست ۱۹۶۴ء

Page 507

تاریخ احمدیت.جلد 22 492 سال 1964ء کی اشاعت میں احمد کے مبلغین (LOS MISIONEROS DE (AHMAD) کے زیر عنوان ایک تنقیدی مقاله زیب قرطاس کیا.جو مسٹر ہنڈی او ہارا (HANDY O'HARA) نے سپرد قلم کیا تھا.مقالہ کے ابتدا میں زبر دست تشویش و اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے بتایا گیا کہ جماعت احمد یہ ایک اسلامی فرقہ ہے جو افریقہ اور یورپ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے.مقالہ کے آخر پر لکھا کہ:.”میرے خیال میں قارئین اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ جائیں گے کہ احمدی لوگ افریقہ میں پورے جوش و خروش اور سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں اور ہمیں اس کی پوری فکر کرنی چاہیئے کہ احمدی جدید طریق پر پروپیگنڈا سے جو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کی نقل ہے عیسائیت کے خلاف برا اثر پھیلا رہے ہیں.غیر از جماعت میں ہمارے مذہب کے ساتھ تمسخر، مذاق اور تعصب کی فضا قائم کر رہے ہیں.اسی طرح احمدیت ہمارے مشنریوں کے لئے سخت مصیبت اور سخت مشکل کا باعث بن چکی ہے.افریقہ میں عیسائیت کی اشاعت میں علاوہ دیگر مشکلات کے احمدیت ہمارے لئے مصیبت کا رنگ رکھتی ہے.“ جماعت احمدیہ حیدر آباد کی قابل قدر مساعی جون ، جولائی ۱۹۶۴ء میں حیدر آباد ڈویژن کے علاقہ میں شدید قسم کے طوفان باد و باراں سے بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا.اس موقع پر جماعت احمدیہ کی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے ”الفضل“ رقمطراز ہے:.پچھلے دنوں حیدرآباد ڈویژن کے مختلف اضلاع میں باد و باراں کا ہولناک طوفان آیا تھا اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے.حکومت کی طرف سے مصیبت زدگان کی امداد کا کام وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے.جماعت احمدیہ حیدر آباد نے ریلیف کے کام میں ہاتھ بٹانے کے لئے فوری طور پر حکومت کو دس ڈاکٹروں اور پچاس رضا کاروں کی خدمات پیش کیں.چنانچہ ریڈ کرایس سوسائٹی کے ساتھ مل کر جماعت کے ان ڈاکٹروں اور والنٹیروں کو ریلیف کا کام سرانجام دینے کا موقع دیا گیا ہے اور وہ بفضل اللہ تعالیٰ بہت محنت اور جانفشانی سے یہ خدمت سرانجام دینے میں مصروف ہیں.جماعت کی طرف سے پیش کردہ ان والنٹیروں میں خدام اور انصار دونوں شریک ہیں.انہوں نے اب تک بدین، ٹنڈو بھا گو، ماتلی، ڈگری ، بڑھا، کمبرانی اور کڈن کے علاقوں میں پانی میں گھرے

Page 508

تاریخ احمدیت.جلد 22 493 سال 1964ء ہوئے طوفان زدہ لوگوں کو اناج کپڑے اور دیگر اشیاء تقسیم کی ہیں.اور ان میں ادویہ تقسیم کرنے کے علاوہ تقریباً چھ صدا فراد کو ٹیکے لگائے ہیں.خدمت خلق کا یہ کام تا حال جاری ہے اور جماعت کے خدام وانصار بڑی ہمت اور رضا کا رنہ جذبے کے ساتھ خدمات بجالا رہے ہیں.حکومت کے متعلقہ افسران نے ان کے کام کو سراہا ہے نیز اخبارات نے بھی ان کی ان خدمات کا تذکرہ کیا ہے.چنانچہ روزنامہ جنگ کراچی نے اپنی ۵ جولائی ۱۹۶۴ء کی اشاعت میں حسب ذیل خبر شائع کی ہے:.جماعت احمدیہ کی جانب سے بارش زدوں کی امداد حیدر آباد ۳ جولائی (نمائندہ جنگ) جماعت احمدیہ نے دس ڈاکٹروں اور پچاس کارکنوں پر مشتمل ایک طبی وفد حیدر آباد اور تھر پار کر کے بارش زدہ علاقے کے دورہ پر روانہ کیا ہے.یہ گروپ مختلف 66 جگہوں پر طبی امداد بہم پہنچا رہا ہے“.اسی طرح انڈس ٹائمن نے بھی اپنی ۸ جولائی کی اشاعت میں رضا کاران انجمن احمدیہ کے زیر عنوان ریلیف کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ حیدر آباد کی مساعی جمیلہ کا تذکرہ کیا ہے.مکرم مولوی غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسله مقیم حیدر آباد اور مکرم عبد الغفار صاحب زعیم مجلس انصار اللہ حیدر آباد نے احباب جماعت سے درخواست کی ہے کہ وہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرے اور ہمارے دوستوں کو بیش از پیش خدمات کی توفیق عطا فرمائے.آمین دنیا کا عظیم سائنسدان.پروفیسر عبدالسلام 87 دنیا کے عظیم سائنسدان پروفیسر عبد السلام صاحب کے متعلق اے.بی.راجپوت کا مندرجہ ذیل مقالہ روزنامہ مشرق لاہور۲ اگست ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا:.لندن کے مغربی علاقے میں پٹنی نام کے محلہ میں پروفیسر عبدالسلام کا گھر ہے.ایک دن سہ پہر کو جب چاروں طرف خوب دھوپ پھیلی ہوئی تھی.میں ان سے ملنے گیا تو وہ ایک ایرانی قالین پر بیٹھے کام کر رہے تھے.ان کے چاروں طرف کا غذات بکھرے پڑے تھے.مجھے دیکھتے ہی اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور بڑی گرمجوشی سے مجھ سے بغلگیر ہوئے.انہوں نے بالکل سادہ سے کپڑے پہن رکھے تھے.جس سے ان کی طبعی سادگی کا احساس ہوتا تھا.وہ اپنی کا پیاں اور کاغذ وغیرہ ایک طرف

Page 509

تاریخ احمدیت.جلد 22 494 سال 1964ء کرنے لگے.تو میں نے ان پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی.ان پر ایسے آڑے ترچھے خطوط اور ایسی علامات لکھی تھیں جن کا تعلق فزکس کے بہت پیچیدہ اصولوں سے ہی ہوسکتا ہے.میرا خیال تھا کہ وہ عالموں کی طرح خاصے دماغ والے آدمی ہوں گے اور مجھ سے بہت تکلف سے پیش آئیں گے.کیونکہ ایک عظیم المرتبت سائنسدان کی حیثیت سے ان کی شہرت چار دانگ عالم میں پہنچ چکی ہے.لیکن پروفیسر سلام ایسے آدمی نہیں نکلے.وہ بڑے خلیق ، ملنسار، فراخدل تھے اور بڑی دلچسپی سے میرے سوال سن کر ان کے جواب دیتے جاتے تھے.میری طرح وہ بھی راجپوت ہیں.ان کا تعلق پنجاب کے بھٹی قبیلہ سے ہے.جو جھنگ میں آباد ہے.یہیں وہ ۱۹۲۶ء میں پیدا ہوئے اور یہیں سے وہ ۱۹۴۰ء میں میٹرک کے امتحان میں بیٹھے تھے.اور پنجاب بھر میں وہ تمام طلباء میں اول آئے.مجھ سے کہنے لگے کہ ” مجھے اب بھی وہ دن یاد ہے جب نتیجہ ہمارے چھوٹے سے قصبہ میں پہنچا تھا.اور نائی کا شاگرد جو پیشے میں چند روز ہوئے داخل ہوا تھا، اپنا ہاتھ میرے سر پر صاف کر کے اپنا ہنر چمکانے کی مشق کر رہا تھا.اس نے میری صورت بالکل بدھ بیراگیوں کی سی بنا دی تھی.مجھے اپنی اس ہیئت کذائی پر ایسی شرم آئی کہ میں نے اپنے سر پر ایک سفید رومال باندھ لیا اور سر جھکائے میں مئی کی گرم دوپہر میں بازار سے ہوتا ہوا گھر کی طرف چل دیا.بازار کے دونوں طرف لوگ کھڑے تھے.انہوں نے مجھے دیکھا.خوشی سے مبارکباد دینے لگے.ہندو دوکاندار خاص طور سے مجھے مبارکباد کہہ رہے تھے.ان سب کو فخر تھا کہ ان کے قصبہ کے لڑکے نے اتنا بڑا اعزاز حاصل کیا ہے.جھنگ کے لئے یہ بہت بڑی بات تھی کہ پنجاب بھر کے چالیس ہزار طالب علموں میں اس کا لڑکا اول آئے.اس کامیابی سے عبد السلام کے لئے یونیورسٹی کی تعلیم کے دروازے کھل گئے.اگلے دو برس تک وہ اپنے قصبے میں رہے اور انٹر وہیں سے کیا.اس امتحان میں بھی وہ صوبے بھر میں اول آئے.اس کے بعد وہ لاہور چلے گئے اور پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی.جس میں وہ پھر اول آئے تھے.۱۹۴۶ء میں انہوں نے ایم اے ریاضیات کیا اور تمام طلباء میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے.اس اعزاز کے انعام کے طور پر حکومت پنجاب نے انہیں ایک خاص وظیفہ دیا.جس کی مدد سے وہ اس سال انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہو گئے.انہوں نے ۱۹۴۸ء میں ریاضی میں آنرز کیا.اس کے بعد انہوں نے فزکس کا تین سال کا کورس

Page 510

تاریخ احمدیت.جلد 22 495 سال 1964ء ایک سال میں مکمل کر کے ۱۹۴۹ء میں فزکس اور ریاضی کا دوہرا امتحان پاس کیا.جس میں وہ اول آئے.کیمبرج میں ایک سال ریسرچ میں مصروف رہنے کے بعد ۱۹۵۱ء میں انہیں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بیرنسٹن کے مقام پر اعلیٰ تعلیم کے ادارے میں مطالعہ کے لئے وظیفہ ملا.جہاں انہوں نے کچھ عرصہ پروفیسر اوپن ہیر کے ساتھ کام کیا.اس سال وہ اپنے کالج سینٹ جان کیمبرج کے فیلو منتخب ہو گئے.اگلے برس وہ پاکستان واپس آگئے اور یہاں پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کے پروفیسر اور صدر شعبہ مقرر ہوئے.۱۹۵۴ء میں وہ دوبارہ کیمبرج واپس گئے اور ریاضی کے لیکچرر کی حیثیت سے کام شروع کیا اور ۱۹۵۶ء تک اس عہدے پر کام کرتے رہے اور اس دوران میں وہ ۱۹۵۵ء اور ۱۹۵۸ء میں ایٹم برائے امن کی اقوام متحدہ کی کانفرنس کے سیکرٹری مقرر کئے گئے.جنوری ۱۹۵۷ء میں جب وہ اس برس کے تھے تو کیمبرج چھوڑ کر امپیریل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لنڈن چلے آئے اور اب بھی اسی ادارے سے منسلک ہیں.اس کالج میں ان کے ذمہ تدریس کا جو کام ہے اس کا زیادہ تر تعلق پوسٹ گریجویٹ ریسرچ سے ہے.آجکل ان کی زیر نگرانی ۲۵ طلباء ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی تیاری کر رہے ہیں جن میں سے آدھے بیرونی ملکوں کے ہیں اور ان میں سے آدھے پاکستانی ہیں.پروفیسر سلام کے کام کی اہمیت کا احساس بین الاقوامی سطح پر ۱۹۵۷ء میں ہوا جب انہیں کیمبرج یونیورسٹی نے ہاپکنز پرائز عطا کیا.یہ انعام گذشتہ تین برس کے دوران فزکس میں ” سب سے نمایاں انکشاف کے صلہ میں دیا گیا تھا.اس تحقیق کے ذریعے وہ فزکس میں ایک ابتدائی جو ہر نیوٹونیو کے خالق کہلائے.اگلے سال کیمبرج یونیورسٹی نے انہیں ایڈمز پرائز دیا اور ۱۹۵۹ء میں صدر پاکستان نے انہیں تمغہ حسن خدمت اور ستارہ پاکستان کا اعزاز دیا.وہ رائل سوسائٹی کے فیلو بھی مقرر ہوئے اس طرح وہ پہلے مسلمان اور پہلے پاکستانی تھے جنہیں یہ اعزاز ملا.اپنے انتخاب کے وقت وہ سوسائٹی کے سب سے کم عمر فیلو تھے.برٹش فزیکل سوسائٹی نے ۱۹۶۰ء میں ایک تمغہ جاری کیا جو گزشتہ دس برس کے دوران سب سے اہم انکشاف پر دیا جانا تھا.پروفیسر عبد السلام سب سے پہلے سائنسدان تھے جنہیں یہ تمغہ ان کی پیر بیٹی تھیوری پر دیا گیا.

Page 511

تاریخ احمدیت.جلد 22 496 سال 1964ء ان کا تازہ ترین کارنامہ ”ذرات کے تناسب کے نظریہ کے نام سے مشہور ہے جس کی بنا پر منفی اومیگا ذرات کا انکشاف ممکن ہوا ہے اور اس نظریہ کی توثیق ریاستہائے متحدہ امریکہ کی بروکلین نیشنل لیبارٹریز میں کئے جانیوالے تجربات سے بھی ہو گئی ہے.یہ کارنامہ جس سے فزکس کی حدود کو وسعت ملی ہے اس نوعیت کا ہے جیسے نیوٹن، آئن سٹائن، ڈیراک اور ہیز نبرگ WERNER KARL) (HEISENBERG کے کارنامے ہیں.فزکس کے بین الاقوامی میدان میں ان کے کارنامے ابھی جاری ہیں.لیکن پاکستان میں بھی انہوں نے خاصا کام کیا ہے.۱۹۶۱ء میں پاکستان کی خلائی کمیٹی کا قیام انہیں کی کاوش کا نتیجہ ہے.آجکل وہ اقوام متحدہ کے تحت تھیوریٹیکل فزکس کا ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو کوئی بھی ترقی پذیر ملک اقوام متحدہ کی مدد سے ایسا انسٹی ٹیوٹ قائم کر سکتا ہے.پروفیسر سلام اس انسٹی ٹیوٹ کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ہیں.اور پاکستان نے پیشکش کر دی ہے کہ یہ ادارہ اس ملک میں قائم کر دیا جائے.پروفیسر عبدالسلام اپنے ایک اور کام پر بجاطور پر فخر کر سکتے ہیں.یہ پاکستان میں ایٹمی توانائی کے کمیشن کا قیام ہے.اس کمیشن نے اب تک ۴۰۰ ماہرین کو تربیت دی ہے.ڈاکٹر عبدالسلام نے کمیشن کے چیئر مین کے ساتھ مل کر بڑی محنت سے اس کے لئے کام کیا ہے اور وہ اس کے ممبر بھی ہیں.ان کے ذمہ یہ کام ہے کہ کمیشن کی پالیسیاں مرتب کریں اس کی سرگرمیوں کے لئے پروگرام بنائیں اور اسلام آباد میں ایٹمی توانائی کا ری ایکٹر قائم کرنے کے سلسلے میں مشورے دیں.ان کا خیال ہے کہ عنقریب اسلام آباد میں پہلی ٹیکنیکل یو نیورسٹی قائم ہو سکتی ہے.ان تمام گونا گوں سرگرمیوں کے علاوہ ۱۹۶۱ء سے صدر پاکستان کے اعلیٰ سائنسی مشیر کی حیثیت سے بھی کام کر رہے ہیں.وہ اقوام متحدہ کے ایک نو قائم شدہ ادارے ایڈوائزری کمیشن برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے رکن بھی ہیں.اعلیٰ اختیارات کا یہ ادارہ اقوام متحدہ کی تنظیموں مثلاً یونیسکو، عالمی ادارۂ صحت اور عالمی موسمیاتی تنظیم کے سائنسی کا موں کی نگرانی کرتا ہے.ان کے ڈرائنگ روم میں بہت سی ایرانی تصاویر یجی ہیں اور بہت حسین خطوں میں آیات قرآنی کے طغرے لٹکے ہیں.ان کی لائبریری میں سائنسی اور ٹیکنیکل کتابوں کے علاوہ اسلامی تاریخ، دینیات اور احادیث نبوی پر اردو اور انگریزی میں کتابوں کا بہت نفیس انتخاب موجود ہے.

Page 512

تاریخ احمدیت.جلد 22 497 سال 1964ء وہ فجر کے وقت اٹھتے ہیں.اپنا تمام کام صبح ہی ختم کر لیتے ہیں اور رات کو نو بجے سو جاتے ہیں.اپنے کام کے سوا اور انہیں کسی چیز سے خاص دلچسپی نہیں ہے ، نہ ہی وہ کوئی کھیل کھیلتے ہیں.البتہ تلاوت کلام پاک سے وہ اپنی روح کو سکون اور قلب کو اطمینان پہنچاتے رہتے ہیں.اپنے اکثر سائنسی مقالوں میں وہ کلام پاک کے حوالے دیتے رہتے ہیں.مثلاً مئی ۱۹۵۷ء میں امپیریل کالج میں ابتدائی ذرات کے بارے میں ایک لیکچر دیتے ہوئے انہوں نے قرآن مجید سے اپنے موضوع کے مطابق حال ایک حوالہ دیا.دیکھو رحمت عالم کی تخلیق کی ہوئی اس دنیا میں تمہیں کوئی ایک چیز بھی نامکمل نظر نہیں آتی.تم اپنی نظریں چاروں طرف گھماؤ.کیا تمہیں کوئی خامی نظر آئی.تم اسی طرح اپنی نگاہیں پھیرتے رہو.گھماتے رہو اور ہر بار تمہاری نگاہ خیرہ ہو کر تھک کر واپس آجائے گی“ پروفیسر سلام کی خانگی زندگی بڑی پُر مسرت اور بہت بھر پور ہے.ان کی بیوی پاکستانی ہیں.جن سے تین لڑکیاں اور چار برس کا ایک لڑکا ہے.166 روس کی سائنس کا نفرنس میں ڈاکٹر عبدالسلام کو خراج تحسین اگست ۱۹۶۴ء کے دوسرے ہفتہ میں روس کے دارالحکومت ماسکو سے ۷۰ میل دور DABVA کے مقام پر وسیع پیمانہ پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی.جس میں دنیا کے نامور سائنسدان شریک ہوئے.یہ مقام دنیا میں ایٹمی طاقت کا تیسرا بڑا مرکز شمار ہوتا ہے.اس کانفرنس میں سیکرٹری کے فرائض پاکستان کے مشہور عالم سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام نے انجام دیئے.نیز اا راگست کو سہ پہر کے وقت ایک اہم سائنسی موضوع پر خطاب فرمایا جس پر کانفرنس میں شریک نامور سائنسدانوں نے آپ کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا.ایک جرمن سائنسدان نے تو نجی گفتگو میں یہاں تک کہا کہ یہ تقریر اس پایہ کی ہے کہ اس پر ڈاکٹر سلام کو نوبل پرائز مل سکتا ہے.اخبار الجمعیۃ کا جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا بر ملا اقرار اخبار الجمعی دہلی نے اپنے ۲۳ / اگست ۱۹۶۴ء کے شمارہ میں ” بے عمل لوگوں کا کردار کے زیر عنوان ایک فکر انگیز اداریہ شائع کیا.اس اداریہ کا ضروری اقتباس ذیل میں ریکارڈ کیا جاتا ہے:.پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزارت ماحولیات کے پارلمنٹری سیکرٹری نے بتایا کہ ۱۹۵۹ء سے

Page 513

تاریخ احمدیت.جلد 22 498 سال 1964ء اب تک احمدی مشنوں کو ان کی بیرونی ممالک میں تبلیغی سرگرمیوں کے لئے حکومت پاکستان نے بارہ لاکھ گیارہ ہزار روپے کا زرمبادلہ دیا ہے.اس پر وقفہ سوالات کے دوران ایک ممبر نے اعتراض کیا کہ ایک ایسی جماعت کو جس کے یہ عقائد ہیں زر مبادلہ کیوں دیا گیا؟ اس کے جواب میں پارلیمینٹری سیکرٹری نے کہا کہ حکومت کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتی.اس کی پالیسی یہ ہے کہ جو بھی مذہبی ادارہ درخواست کرے حکومت اس کے لئے زر مبادلہ منظور کر لے.حکومت نے جس جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں کے لئے زر مبادلہ منظور کیا ہے.اس نے گویا ہر سال تین لاکھ روپے کی منظوری حاصل کی.جس ممبر نے قومی اسمبلی میں یہ کہا کہ حکومت ایسی جماعت کے لئے زرمبادلہ کیوں منظور کرتی ہے اسے شرم آنی چاہیئے کہ ایسی مذہبی جماعت تو غیر ممالک میں تبلیغی سرگرمیوں کے لئے سالانہ تین لاکھ روپے کا زر مبادلہ حاصل کرے مگر اس جماعت کی جو حریف طاقتیں ہیں وہ اپنی تبلیغی سرگرمیوں کے لئے زرمبادلہ کی پھوٹی کوڑی بھی وصول نہ کر سکیں.بجائے اس کے کہ وہ اپنی جماعتوں کی اس کو تا ہی پر نادم ہوتے کہ کوئی فرد تبلیغی مقاصد کے لئے باہر نہیں جاتا.وہ اُس جماعت کا زر مبادلہ بند کرانا چاہتے ہیں جس سے ان کو بنیادی اختلاف ہے.خود کا یہ حال ہے کہ نہ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کا درک رکھتے ہیں.اور نہ غیر ممالک میں جا کر اپنی سرگرمیوں سے باطل جماعتوں کا مقابلہ کرتے ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ جو جماعت غیر ممالک میں تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہے اس کی ٹانگ پکڑ کر کھینچ لیں اور باہر کی دنیا میں نہ خود کام کریں اور نہ دوسروں کو کام کرنے دیں.یہ حضرات صرف فتوؤں سے کام نکالنا چاہتے ہیں حالانکہ دنیا کام کو دیکھتی ہے خالی فتوؤں کو نہیں دیکھتی.اگر پاکستان کے علماء نے صرف باتوں اور فتوؤں سے دوسروں کی ریڑھ مارنی چاہی تو وہ منہ کی کھائیں گے اور میدان عمل میں وہی لوگ بازی لے جاسکیں گے جن کی ترقی کو دیکھ کر ہم جلے بھنے جارہے ہیں.یہ سطور ہم نے اس لئے لکھی ہیں کہ علماء کو غیرت آئے اور وہ باہر کی دنیا میں دوسروں سے زیادہ کام کر کے دکھائیں اور باطل جماعتوں کو اپنے کام اور اپنی خدمات سے زک دینے کی کوشش کریں.90 جماعت احمد یہ برطانیہ کے پہلے جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء کی روئیداد جماعت انگلستان کا پہلا دو روزہ جلسہ سالانہ مورخہ ۳۰،۲۹ /اگست ۱۹۶۴ء (بروز ہفتہ و اتوار ) مسجد فضل لنڈن کے احاطہ میں منعقد ہوا.خشک اور خوشگوار موسم کے پیش نظر جلسہ کے لئے شامیانے

Page 514

تاریخ احمدیت.جلد 22 499 سال 1964ء نصب کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی.البتہ جلسہ گاہ کے اندر قناتیں نصب کر دی گئیں.افتتاحی اجلاس جلسہ کی کارروائی کا آغاز مورخہ ۲۹ اگست ۱۹۶۴ء بروز ہفتہ دن ساڑھے گیارہ بجے عمل میں آیا.افتتاحی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم کے ساتھ ہوا جو مسعود احمد چوہدری صاحب نے کی.تلاوت کے بعد مکرم ثاقب زیروی صاحب کی نظم کی ریکارڈنگ سنائی گئی.اس کے بعد مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب امام مسجد فضل لنڈن نے افتتاحی تقریر کی.اس افتتاحی اجلاس کی صدارت مکرم شیخ محمود الحسن صاحب سی ایس پی نے کی.افتتاحی تقریر کے بعد مکرم عبدالرحمن صاحب چوہدری نے بیرون ممالک سے آئے ہوئے پیغامات پڑھ کر سنائے.ان پیغامات میں جماعت احمدیہ انگلستان کے پہلے جلسہ سالانہ کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مبارکباد پیش کی گئی اور اس کی کامیابی کے لئے دعائیں کی گئی تھیں.مکرم وکیل التبشیر ربوہ کے پیغام کے علاوہ جماعت ہائے احمد یہ نائیجیریا، غانا، سیرالیون، سنگا پور، کینیا، یوگنڈا، ٹانگانیکا، ہالینڈ، جرمنی، امریکہ اور انڈونیشیا سے آئے ہوئے پیغامات اور تار پڑھ کر سنائے گئے.پیغامات کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی تقریر فرمودہ جلسہ سالانہ ۱۹۶۱ء کی ریکارڈنگ سنائی گئی.اس تقریر کے بعد مکرم فضل الرحیم صاحب نے پروفیسر نصیر احمد خان صاحب کی دو نظمیں خوش الحانی سے پڑھیں.جس کے بعد ” خلافت“ کے موضوع پر مکرم پروفیسر نصیر احمد خان صاحب نے تقریر کی.مکرم خواجہ عبدالرشید صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام پیش کیا جس کے بعد مکرم شیخ محمود الحسن صاحب نے اپنا صدارتی خطاب کیا.پہلے اجلاس کی کارروائی دو بجے دو پہر اختتام پذیر ہوئی.دوسرا اجلاس دوسرے اجلاس کی کارروائی بعد نماز ظہر و عصر مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی زیر صدارت شروع ہوئی.تلاوت و نظم کے بعد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج عالمی عدالت انصاف نے خطاب فرمایا.آپ نے ممبران جماعت انگلستان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی کہ اس معاشرے میں حقیقی دینی نمونہ پیش کریں.

Page 515

تاریخ احمدیت.جلد 22 500 سال 1964ء مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے صدارتی خطاب اور دعا کے بعد یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا.رات کے کھانے اور نماز مغرب وعشاء کے بعد سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تقریر فرموده ۱۹۵۴ء بر موقع جلسہ سالانہ کی ریکارڈنگ کے بعض حصے احباب جماعت کو سنائے گئے.یوں محبت ومحویت کے جذبہ سے لبریز یہ پروگرام رات دس بجے تک جاری رہا.پہلے دن جلسہ سالانہ کی حاضری ۷۵ رہی جس میں ایک بڑی تعدا د انگریز مہمانوں کی تھی.دوسرادن، اختتامی اجلاس پہلے جلسہ سالانہ برطانیہ کا تیسرا اور اختتامی سیشن مورخه ۳۰ اگست ۱۹۶۴ء کو دو پہر کے کھانے اور نماز ظہر وعصر کی باجماعت ادا ئیگی کے بعد شروع ہوا.نماز میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی اقتداء میں ادا کی گئیں.اس اجلاس کی صدارت مکرم عبدالعزیز دین صاحب نے کی.کرسیوں کی اگلی نشستیں مقامی باشندوں کے لئے مخصوص تھیں.احباب جماعت کے علاوہ روٹری کلبوں کے متعدد ممبران اور دیگر معزز حضرات بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے.اس اجلاس میں جلسہ گاہ مکمل طور پر بھر گیا تھا.تلاوت اور مختصر صدارتی خطاب کے بعد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے صداقت دین اور صداقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر انگریزی زبان میں مبسوط تقریر فرمائی جس کو شرکاء نے توجہ اور انہماک سے سماعت کیا.آپ کی تقریر کے بعد جماعت انگلستان کا پہلا جلسہ سالانہ اپنے اختتام کو پہنچا.اختتامی اجلاس میں حاضری ۲۰۰ تک پہنچ گئی تھی.مہمانوں کی آمد اور ان کی رہائش وطعام جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت کے لئے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ ۲۸ راگست ۱۹۶۴ء بروز جمعۃ المبارک سے شروع ہو گیا تھا.احباب جماعت اس جلسہ میں شمولیت کے لئے برطانیہ کے دور دراز مقامات سے تشریف لائے.سکاٹ لینڈ ، شمالی انگلستان اور بریڈ فورڈ سے کثیر تعداد میں مہمان تشریف لائے.ساؤتھ آل سے ایک پوری کوچ کرایہ پر حاصل کر کے احباب لنڈن تشریف لائے.مہمانوں کے قیام وطعام کا انتظام جماعت لندن کے سپر د تھا.بیرونی مہمانوں کی رہائش کا انتظام لندن میں آباد احمدی گھرانوں میں کیا گیا.لوگوں نے اپنے گھروں کے کمرے مہمانوں کے لئے مخصوص کر دیئے تھے.اس موقعہ پر مسجد فضل لندن میں لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اجراء ہوا اور احباب کے کھانے کا

Page 516

تاریخ احمدیت.جلد 22 501 سال 1964ء انتظام مسجد فضل میں کر دیا گیا تھا.خواتین اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ جلسہ گاہ تیار کی گئی اور مہمانوں کے بیٹھنے کے لئے کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا.پریس میں ذکر جلسہ سالانہ کے آغاز سے پہلے ۲۲ اگست کو امام مسجد فضل لندن نے ایک پریس کانفرنس کی اور اخباری نمائندوں کو جلسہ سالانہ کی غرض و غایت اور انتظامات کے حوالے سے معلومات دیں اس کو بعض 91 اخبارات نے شائع کیا.بعض لوکل اخبارات نے اس جلسہ کی کارروائی پرمبنی رپورٹس شائع کیں.اس جلسہ میں خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے خطاب فرمایا اور حضرت مصلح موعود اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تقاریر کی ریکارڈنگ بھی سنائی گئی.۱۹۸۴ء کی ہجرت کے بعد سے اب تک برطانیہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس جلسہ سالانہ کو خلیفہ وقت کی شمولیت کی وجہ سے جماعت کے مرکزی جلسہ سالانہ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اب اس جلسہ میں ہزاروں لوگ شامل ہوتے ہیں جب کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ لاکھوں کروڑوں لوگ استفادہ کرتے ہیں جلسہ سالانہ کا باشمر شجر اپنی شاخیں اکناف عالم تک پھیلا چکا ہے اور اس کی برکات سے کروڑوں سعید روحیں مستفیض ہورہی ہیں.مسجد محمود واہ کینٹ جماعت احمد یہ واہ کینٹ کا قیام ۱۹۵۴ء میں ہوا.پہلے صدر چوہدری جلال الدین قمر صاحب منتخب ہوئے.۱۹۵۸ء میں مارشل لاء لگا تو مخالفین جماعت کی جھوٹی رپورٹ پر اس وقت کے قائد خدام الاحمدیہ مشتاق احمد صاحب کے خلاف مارشل لاء میں مقدمہ چلا اور انہیں سزا ہوگئی.اور ساتھ ہی مقامی جماعت کے عہدے داروں پر کڑی نظر رکھی جانے لگی.نتیجتا واہ کینٹ سے جماعت کا مرکز ختم کر دیا گیا اور ایک سال تک نماز جمعہ ٹیکسلا میں ایک دوست کے مکان پر ہوتی رہی.حالات بہتر ہوئے تو دوبارہ واہ کینٹ میں مرکز قائم کیا گیا.نماز جمعہ کے لئے جناب ظہور احمد صاحب کا مکان 37/10EV مقرر ہوا.جو مسجد کے لئے زمین کے حصول تک رہا.قبل ازیں کچھ عرصہ کے لئے محترم بشیر احمد صاحب چغتائی صدر جماعت کے مکان پر بھی نماز جمعہ ادا کی جاتی رہی.تعداد جماعت میں اضافہ کے پیش نظر

Page 517

تاریخ احمدیت.جلد 22 502 سال 1964ء یہ ضروری ہو گیا کہ جماعت کی مسجد تعمیر ہو.چنانچہ P.O.F انتظامیہ کی طرف رجوع کیا گیا.کنٹونمنٹ آفیسر صاحب نے نماز پڑھنے کے لئے تقریباً چھ کنال زمین الاٹ کر دی.اور پلاٹ کی نشاندہی بھی کر دی.جلد ہی قبلہ کی صحیح سمت کا تعین کیا گیا اور احباب جماعت نے وقار عمل سے اس قطعہ زمین کو پلیٹ فارم کی شکل دے دی.اس سلسلہ میں بشیر احمد صاحب چغتائی (مرحوم ) ، چوہدری جلال الدین صاحب قمر، خواجہ نجم الدین صاحب مرحوم شیخ احمد علی صاحب اور جناب کمانڈ رسلیم احمد صاحب کی مساعی ہمیشہ یادگار رہیں گی.پلیٹ فارم تیار ہو چکا.تو سب سے اول پانی کا کنکشن لے کر پائپ لائن بچھائی گئی.پھر صحن کی نشاندہی کر کے بنیادوں کی کھدائی کی گئی.اور یہ سارا کام مخلصین جماعت نے وقار عمل کے ذریعہ کیا.۳۱ / اگست ۱۹۶۴ء کو (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ نے اپنے دست مبارک سے موجودہ صحن کے شمال مشرقی کو نہ میں سنگ بنیا د نصب فرمایا.اور دعائیں کرتے ہوئے فرمایا کہ ”خدا کرے یہاں سے نور کا ایک فوارہ پھوٹے اور آسمان سے بھی ایک نور نازل ہوا اور یہ دونوں نور مل جائیں“.عجیب اتفاق ہے کہ کچھ عرصہ بعد (غالبا ۱۹۶۵ء) میں حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری واہ کینٹ تشریف لائے اور احباب جماعت کے ساتھ ایک لمبی دعا کی اور فرمایا.جب میں دعا کر رہا تھا تو حالت کشف میں میں نے دیکھا کہ نور کا ایک ستون ہے جو اس جگہ سے اٹھ کر آسمان سے جا ملا ہے.لطف کی بات ہے کہ حضرت مولوی صاحب عین اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں حضرت صاحبزادہ صاحب تشریف فرما تھے.بنیادرکھے جانے کے بعد بنیادوں کی پتھر سے چنائی کی گئی.زمین چونکہ غیر ہموار تھی اور غربی جانب کافی گہری تھی لہذا وقار عمل سے بنیاد میں پُر کرنے کا کام مکمل کیا گیا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے بحیثیت صدر صدرانجمن احمد یہ پلاٹ کی چار دیواری کے لئے.۴۰۰۰ روپے کا مبارک عطیہ دیا.چنانچہ کرنل مبارک احمد صاحب کے تعاون سے نہایت سستے ریٹ پر چار دیواری کا کام مکمل ہوا.۱۶ جون ۱۹۶۵ء کو بشیر احمد صاحب چغتائی صدر جماعت کی طرف سے ایگزیکٹو آفیسر واہ کینٹ کو درخواست دی گئی کہ اس پلاٹ پر ہمیں با قاعدہ مسجد بنانے کی اجازت دی جائے.ایگزیکٹو آفیسر صاحب نے یہ درخواست ملٹری اسٹیٹ آفیسر ہزارہ سرکل ایبٹ آباد کو No Objection سرٹیفکیٹ کے لئے ارسال کر دی وہاں سے یہ ڈپٹی ڈائریکٹر ملٹری لینڈ ز اینڈ کنٹونمنٹ پشاور ریجن

Page 518

تاریخ احمدیت.جلد 22 503 سال 1964ء پشاور کو بھیجی گئی.اور پھر منسٹری آف ڈیفنس گورنمنٹ آف پاکستان راولپنڈی کو ارسال ہوئی.بالآخر سیکشن آفیسر منسٹری آف ڈیفنس نے ۶ ستمبر ۱۹۶۷ء کو مجوزہ پلاٹ بحق صدر انجمن احمد یہ پاکستان لیز کرنے کی منظوری دے دی.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی ہدایت پر جناب عبد الغنی رشدی صاحب آف راولپنڈی نے بہت محنت اور اخلاص سے نقشہ بنایا جسے لے کر رفیع الدین بٹ صاحب اور ظہور احمد صاحب جنرل سیکرٹری وسیکرٹری مسجد کمیٹی واہ کینٹ نے خدمت اقدس میں حاضری دی.حضور نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور مسجد کا نام ”مسجد محمود تجویز فرمایا.اور یہ نام نقشے پر بھی تحریر فرما دیا.اور نیچے اپنے مبارک دستخط بھی فرما دیئے.یہ ے دسمبر ۱۹۶۹ء کا واقعہ ہے.نقشہ کی منظوری کے بعد تعمیر عمارت کا کام زور وشور سے شروع کر دیا گیا.چھت ڈالنے کا مرحلہ در پیش ہوا.تو پاکستان کے ایک مقامی انجینئر نے بہت بڑی RAMP کا نہ صرف سامان دیا بلکہ اپنے ٹرک میں لاد کر لائے اور اپنے آدمیوں سے لگوا بھی دی.نیز لوہے کے پائپ دیئے.اسی طرح ایک ٹھیکیدار اسلم صاحب نے دور مکسر مشینیں دیں.حالانکہ یہ دونوں حضرات غیر از جماعت تھے لیکن انہوں نے یہ سب کام بلا معاوضہ کیا.ٹھیکیدار مشتاق صاحب نے دوٹیں بھی لگا دیں.۲۴ جون ۱۹۷۳ء کا دن چھت ڈالنے کے لئے تجویز ہوا.ٹھیکیدار نے ۹۳ مزدوروں کا انتظام کیا تھا.جن میں ۲۶ مزدور اور کاریگری اس کے با قاعدہ تھے راولپنڈی سے ۶۹ اور ٹیکسلا سے ۳۶ خدام تشریف لائے.ایک سو کے قریب مقامی دوست تھے.ساڑھے دس بجے کے قریب کام شروع ہوا.ساڑھے تین بجے ۶۷ مزدور کام چھوڑ کر علیحدہ ہو گئے اور ٹھیکیدار سے جھگڑا شروع کر دیا.انہیں مزدوری دیکر رخصت کر دیا گیا.اب ٹھیکیدار کے پاس صرف ۲۶ مزدور اور راج تھے.اس وقت تک بمشکل کام کا تیسرا حصہ ہوا تھا چنانچہ احباب جماعت میدان میں اترے.ٹھیکیدار کے مزدور مکسر مشینوں پر لگا دیئے گئے چھت پر کنکریٹ ڈالنے کا سارا کام احمدی دوستوں نے سنبھال لیا جو اس قدر تیزی سے ہوا کہ دیکھنے والے حیران و ششدر رہ گئے.ٹھیکیدار کے نزدیک ایک دن میں اتنی بڑی چھت ڈالنا نا ممکن تھا جسے مخلصین جماعت نے ممکن کر دکھایا.چنانچہ شام 7:40 بجے آخری تنگاری ڈالی گئی اور احباب دعا کر کے گھروں کو روانہ ہوئے.۱۹۷۳ء سے ۱۹۷۶ تک کوئی خاص کام نہیں ہوا.لیکن ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۴ء تک عمارتی منصوبہ کا اکثر و بیشتر حصہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا جس میں مربی سلسلہ کے لئے کوارٹر کی تعمیر بھی شامل تھی.مسجد کے تعمیراتی حصوں میں مارچ ۱۹۸۵ء تک قریباً ساڑھے تین

Page 519

تاریخ احمدیت.جلد 22 504 سال 1964ء لاکھ روپے خرچ ہوئے.جن میں سے - ۴۹۰۰۰ ( انچاس ہزار روپے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے بطور امداد عطا فرمائے.باقی احباب جماعت کی کوششوں کا ثمر تھا.اور وہ بھی مقامی احباب کی.بیرونی جماعتوں سے بھی عطیہ جات وصول ہوئے مگر مقامی احباب کے مقابلہ میں بہت کم.اس ضمن میں مقامی لجنہ کی مالی قربانی نا قابل فراموش ہے.مارچ ۱۹۸۵ء تک سات مخلص خواتین نے قیمتی زیورات خدا کے گھر کی تعمیر کے لئے پیش کر دئیے.اس عرصہ میں مذکورہ اخراجات کے علاوہ مربی ہاؤس پر قریباً ۶۵۰۰۰ پینسٹھ ہزار روپیہ خرچ ہوا.جن میں سے مبلغ ساٹھ ہزار روپے مرکز نے عطا فرمائے.احمد یہ ہوٹل لاہور کا دوبارہ اجراء مجلس مشاورت ۱۹۶۴ء کے فیصلہ کے مطابق یکم ستمبر ۱۹۶۴ء کو احمد یہ ہوٹل لاہور کا دوبارہ 94 اجراء B2/34 گلبرگ میں ہوا.اور اس دور کے پہلے سپرنٹنڈنٹ چوہدری محمد اعظم صاحب بی ایس سی.ایم.ای.ڈی مقرر ہوئے.یکم نومبر ۱۹۶۴ء کو ہوٹل کا چارج جناب چوہدری رحمت خان صاحب نے لیا.ابتدا ہوٹل کے لئے ایک ہزار روپیہ ماہوار کرایہ پر ایک کوٹھی لی گئی جو سات چھوٹے اور ایک بڑے کمرے پر مشتمل تھی اور اس میں تقریباً ۲۵ طلباء کی گنجائش تھی.ماہ دسمبر ۱۹۶۴ء میں طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو گیا.اور بڑے کمرے کی پارٹیشن کرائی گئی.یکم فروری ۱۹۶۵ء کو مالک مکان نے کوٹھی خالی کرنے کا نوٹس دیا.جس پر ہوٹل ۲۸ فروری کو راجہ سٹریٹ ۱۳ کینال پارک میں منتقل ہو گیا.یہ ہوٹل اپنی قدیم روایات کے احیاء کا موجب بنا.نماز با جماعت بالالتزام ہونے لگی.نماز فجر کے بعد درس القرآن اور نماز عشاء کے بعد ملفوظات کا درس جاری ہوا.سلسلہ کے لٹریچر پر مشتمل ایک لائبریری کا قیام بھی عمل میں آیا.نیز لا ہور میں احمد یہ ہوشل خدام الاحمدیہ کی تنظیم ایک علیحدہ زعامت کی حیثیت سے مصروف عمل ہو گئی.مئی ۱۹۶۶ ء کے بعد ہوٹل کوٹھی حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ 108C ماڈل ٹاؤن میں قائم ہوا.اس ابتدائی دور میں ہوٹل میں مشرقی افریقہ کے دو بورڈران بھی شریک ہوئے اور اس کے ماحول میں تربیت پائی.۶۷-۱۹۶۶ ء کے دوران نماز مغرب کے بعد ترجمہ قرآن مجید سکھانے کا انتظام کیا گیا.اور تمام بورڈران بلا استثناء تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں کی باقاعدہ ادا ئیگی

Page 520

تاریخ احمدیت.جلد 22 505 سال 1964ء کرنے لگے.اور ہوٹل کا ماحول تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نہایت خوشگوار منظر پیش کرنے لگا.جس میں چوہدری رحمت خان صاحب سپرنٹنڈنٹ کی ذاتی کوشش اور نمونے کا بھاری دخل تھا.ربوہ میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ابتدائی انتظامات 95 ستمبر ۱۹۶۴ء کے مبارک مہینہ کا آغاز لا ہور میں احمد یہ ہوٹل کے اجراء اور ربوہ میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ابتدائی انتظامات سے ہوا اور یہ دنیا بھر کے احمدیوں کے لئے ایک عظیم خوشخبری تھی.خدا کے اس گھر کی تعمیر شروع کرنے کے لئے میاں محمد صدیق صاحب بانی کلکتہ نے ایک لاکھ روپیہ کا گرانقدر عطیہ دیا.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ اتنی خطیر رقم کسی فرد واحد کی طرف سے مسجد بنانے کے لئے امام وقت کے حضور پیش کی گئی ہو.اس ضمن میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب قائمقام ناظر اصلاح وارشاد ربوہ نے الفضل (۴ ستمبر ۱۹۶۴ء) کے صفحہ اول پر حسب ذیل اطلاع عام شائع فرمائی:.مجلس شوری ۱۹۶۴ء کی ایک شق منظور فرماتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ربوہ میں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی اور اس ضمن میں فیصلہ فرمایا تھا کہ اس غرض کے لئے ایک لاکھ روپیہ مشروط با آمد گنجائش رکھی جائے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری کے بعد نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے الفضل میں جامع مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی اپیل شائع کی گئی اور کئی احباب نے حسب استطاعت اس مد میں رقوم بھی بھجوانی شروع کیں لیکن اللہ تعالیٰ نے تائید و نصرت کے اُن وعدوں کے مطابق جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمائے تھے یکا یک ایسے سامان فرما دیے کہ جس سے جامع مسجد کی تعمیر کے لئے مطلوبہ رقم کی فراہمی کا مسئلہ تسلی بخش طور پر حل ہو گیا.اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مخلص اور مخیر دوست کے دل میں یہ تحریک کی کہ جامع مسجد کی تعمیر کا تمام خرج خود برداشت کریں.چنانچہ انہوں نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں درخواست کی کہ جامع مسجد کی تعمیر کیلئے ان کی طرف سے ایک لاکھ روپیہ قبول فرمایا جائے.اور انہیں اجازت عطا فرمائی جائے کہ اس سے زائد جور تم خرچ ہوا سے بھی وہ خود پیش کریں.احباب کے لئے یہ اطلاع باعث مسرت ہوگی کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اُس خوش نصیب

Page 521

تاریخ احمدیت.جلد 22 506 سال 1964ء دوست کی یہ درخواست منظور فرما لی ہے اور خاص اجازت مرحمت فرما دی ہے کہ وہ سال رواں کے بجٹ میں ایک لاکھ روپیہ کی منظور شدہ رقم اکیلے ہی ادا کریں.چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری کے بعد ر بوہ میں جامع مسجد کی تعمیر کے ابتدائی انتظامات شروع ہو گئے ہیں.صدرانجمن احمدیہ نے ضروری امور کی انجام دہی کے لئے ایک کمیٹی بنادی ہے جو مکرم ناظر صاحب اصلاح وارشاد، مکرم ناظر صاحب بیت المال آمد اور مکرم ناظر صاحب امور عامہ کے علاوہ محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب پر مشتمل ہے.کمیٹی کے دو اجلاس منعقد ہو چکے ہیں.جن میں تعمیری انتظامات سے متعلق بعض اہم فیصلے کئے گئے ہیں اور بحمد اللہ کام کا آغاز ہو گیا ہے.ان اجلاسوں میں محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر امور عامہ، محترم میاں عبدالحق صاحب رامہ ناظر بیت المال اور خاکسار شرکت کرتے رہے ہیں.احباب جماعت جہاں جامع مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں جملہ انتظامات کی خاطر خواہ تکمیل کے لئے دعا فرما ئیں وہاں اس مخلص اور مخیر دوست کو بھی اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی یہ خدمت قبول فرمائے.انہیں دینی و دنیوی نعمتوں سے مالا مال کرے اور ان کے اخلاص اور اموال میں اور زیادہ برکت ڈالے اور انہیں ہمیشہ ہی خدمات دینیہ کی بیش از پیش تو فیق سے نوازتا چلا جائے.یہ بھی دعا کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ آئندہ بھی اور زیادہ شان کے ساتھ پورا ہوتا چلا جائے کہ:.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت ڈالوں گا“.تا یہ دنیا حضور کے خالص اور دلی محبوں سے ہی آباد نظر آئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈ اعظمت وشان اور جاہ وجلال کے ساتھ پورے کرہ ارض پر لہرانے لگے.آمین اللهم آمـ آمین 96 حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا اہم پیغام مورخه ۶ دسمبر ۱۹۶۴ء کو مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کے زیر اہتمام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی سیرت پر ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا حسب ذیل قیمتی پیغام پڑھ کر سنایا گیا:.

Page 522

تاریخ احمدیت.جلد 22 برادران عزیز السلام علیکم 507 سال 1964ء آج اس پیاری اور مکرم ہستی کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے ایک سال سے اوپر ہو گیا.مگر اب تک ان کی یاد دل میں تازہ ہے.ہر وقت وہ صورت آنکھوں میں پھرتی ہے.بعض اوقات تصور ایسی صورت اختیار کرتا ہے گویا وہ کہیں نہیں گئے.قریب ہی ہیں ابھی ملنا ہو جائے گا.اس یاد میں آپ سب دلی محبت اور قدر شناسی کے جذبہ کے ساتھ شریک ہیں مگر یہ شرکت جبھی مفید ہوسکتی ہے اگر آپ ایسی ہستیوں کی زندگی اور عمل سے سبق سیکھیں اور اس کو اپنا لیں.آپ میں سے اکثر ابھی بچے ہی کہلانے کے مستحق سمجھے جاتے ہونگے.اور اپنے کو خود بھی لڑکپن کی حدود میں سمجھتے ہونگے.مگر میں بتاؤں آپ کو کہ جن کی یاد میں یہ جلسہ منعقد کیا گیا ہے.وہ آپ سے کم عمر میں یعنی محض ۱۳ سال کی عمر میں بچپن کی حدوں کو پھلانگ کر سنجیدہ بن چکے تھے.شادی ہو چکی تھی مگر ایسی شادی نہیں کہ محض ہنسی کھیل اور بچگانہ خوشی کا مظاہرہ ہو.میری آنکھوں میں وہ نقشہ ہے گویا آج دیکھ رہی ہوں کہ نئی بیا ہی دلہن پلنگ پر بیٹھی ہے اور آپ میز پر برابر کتابوں کا ڈھیر سامنے رکھے پڑھ رہے ہیں.سر جھکا ہے استغراق کی کیفیت ہے گویا محض اپنے کام سے تعلق ہے.کام سے فارغ ہو کر باہر پھر نے بھی جاتے اپنی مخصوص طرز سے ہم لوگوں سے ہنسی مذاق کی بات بھی کرتے.مگر اب بالکل ایک پورے مرد ذمہ دار کے انداز ان کے ہو گئے تھے اور شادی نے کسی فرض سے ان کو غافل نہ کیا تھا.طبیعت میں احساس ذمہ داری بہت زیادہ تھا.فرائض کی ادائیگی کا بہت خیال رہتا.یہی وجہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت بڑے بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی ہر بوجھ کو اٹھانے کے لئے اپنے کمزور کاندھے آگے کر دیئے.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ قابل بھائی بڑا بھائی جب ہر بار کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھ آیا خواہ وہ بار پہنی ہوں ، روحانی ہوں یا جسمانی تو چلو ہم ذرا آرام ہی کر لیں.نہیں انہوں نے بھی اپنا فرض سمجھا اور یہی محسوس کیا کہ یہ گاڑی اب ہم سب نے ہی چلانی ہے.دل میں ایک طیش ( مراد جوش ) تھی ، تڑپ تھی کہ اب حضرت مسیح موعود کے مشن کی تکمیل اور آپ کے منشاء کو جو منشائے الہی ہے پورا کرنے میں جان لڑا دینا ہم سب کا کام ہے.چونکہ جائیداد وغیرہ پر بھی نظر ڈالنا دور اندیشی کے لحاظ سے اب ضروری ہو گیا تھا.حضرت بڑے بھائی صاحب نے اس طرف بھی توجہ دی تو یہ ساتھ مددگار و مشیر

Page 523

تاریخ احمدیت.جلد 22 508 سال 1964ء رہے.بعد میں چونکہ حضرت بڑے بھائی صاحب اتنا وقت دے نہ سکتے تھے پورا کام ہی آپ کے سپرد کر دیا گیا.حضرت اماں جان کے ہر چھوٹے موٹے کام کی خبر گیری وغیرہ غرض دینی و دنیاوی ہر قسم کے بوجھ اٹھا لینا اپنا فرض جانا اور کبھی آرام کا خیال نہیں کیا.اطاعت خلافت میں وہ اپنی نظیر آپ ہی رہے.حضرت بڑے بھائی صاحب نہایت درجہ شفقت فرماتے رہے ہمیشہ.مگر یہ ہمیشہ سر جھکائے تابعدار خادم کی طرح ہی بنے رہے.بادب با نصیب ، وہی ادب و اطاعت عملی و زبانی، ہر طرح سامنے بھی اور پس پشت بھی.غرض ان میں بہت ہی خوبیاں تھیں اور ایسی شخصیت تھی جس کی یاد میں بھی ایک زندگی ہے اور آج تک خاص قرب محسوس ہوتا ہے.اس ایک صفت احساس ذمہ داری کی جانب میں اس وقت آپ لوگوں کو خاص توجہ دلانا چاہتی ہوں کہ آپ میں سے بھی ہر ایک یہ جان لے اور ایسا ہی سمجھنے کا عزم کر لے کہ بیعت اور احمدیت کے حلقہ میں آجانے کے بعد اطاعت خلافت کا محض فرضی جوا اٹھا کر آپ ہرگز فارغ نہیں ہو سکتے.اس جوئے کو اگر آپ نے اٹھایا ہے تو اٹھانے کی طرح اٹھائیے اور سمجھ لیجئے کہ بس آج سے احکام خلافت سے وابستہ رہتے ہوئے تنظیم کامل کے ساتھ ہر ایک فرد سمجھے کہ یہ بوجھ گویا میں نے ہی اٹھانا ہے دوسروں کا منہ مت دیکھئے.ارد گر دمت تا کئے.کام کرنے والوں میں جو آپ سے پیش پیش ہیں نقائص مت ڈھونڈئیے.خود اپنی گٹھڑی اٹھا کر آگے بڑھیئے.اتنا درد دین کے لئے آپ کے قلوب میں پیدا ہو جائے کہ یہ سارا غم دین اور دکھ گویا آپ کا ہی حصہ ہے اور سمجھیں کہ ؎ سارے جہاں کا درد ہمارے جلد میں ہے اب آئندہ اس بھاری ذمہ داری کو اٹھا لینے والے آپ لوگ ہی ہیں.آئندہ آپ نے ہی اس کام کو نبھانا ہے.جس کام کیلئے آپ کے بزرگ اپنی زندگی اسی کوشش میں صرف کر کے ادائے فرض کر گئے یا بقیہ جو ہیں، خدا تعالیٰ ان کی زندگیوں میں برکت بخشے، کر رہے ہیں.اب آپ ان کے دست و بازو صحیح معنوں میں صفائی قلب و نیک نیتی کے ساتھ بغیر کسی فخر یا ظاہری وقار کے حصول کی آرزو کے بنیں اور یا در ہے اور پھر یادر ہے کہ یہ ٹرینگ کے دن ہیں.یہ پہاڑ جو دن بدن بوجھل ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ آپ نے ہی اٹھانا ہے.پس قدم بڑھا ئیں نئے حوصلوں کے ساتھ نئے مبارک وصافی دلوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی نصرت آپ سب کے اور آپ کے بعد آنے والی نسلوں در نسلوں کے ساتھ رہے.آمین.فقط مبارکہ 97

Page 524

تاریخ احمدیت.جلد 22 509 سال 1964ء لنگر خانہ ربوہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد ۶ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو بوقت شام ربوہ میں لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نئی عمارت کا سنگِ بنیا در رکھنے کی تقریب عمل میں آئی.نصرت گرلز پرائمری سکول کی عمارت جو ۱۹۶۲ء میں تیار ہوئی تھی لنگر خانہ کیلئے مخصوص کی گئی تھی کیونکہ لڑکیوں کا پرائمری سکول نصرت گرلز ہائی سکول کی توسیع شدہ عمارت میں منتقل ہو چکا تھا.پرائمری سکول کی عمارت کے سات کمروں کو رہائشی کمروں میں منتقل کرنے کے علاوہ اس میں کھانے کا ایک وسیع کمرہ ، باورچی خانہ اور سٹورز وغیرہ تعمیر کرنے کی تجویز زیر غور تھی.۵ بجے شام ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اس نئے حصے کا سنگِ بنیا د رکھا.پہلے آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے بنیاد میں وہ اینٹ رکھی جس پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دعا کی تھی.بعد ازاں آپ نے ایک اور اینٹ رکھی.آپ کے بعد صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب، محترم جناب ڈپٹی محمد شریف صاحب ریٹائر ڈالی.اے سی محترم حافظ عبدالسمیع صاحب اور محترم صوفی غلام محمد صاحب ناظر بیت المال خرچ نے بنیاد میں اینٹیں رکھیں.اس موقعہ پر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ جن احباب کو بنیاد میں اینٹیں رکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ان میں خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل، میاں عبدالحق صاحب رامہ ناظر بیت المال آمد ، چوہدری علی اکبر صاحب قائمقام ناظر تعلیم ، مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری، حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال ثانی، چوہدری غلام مرتضی صاحب وکیل القانون ، چوہدری فضل احمد صاحب نائب ناظر تعلیم ،مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نائب وکیل التبشیر ، مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اول، مولوی ظہور حسین صاحب، ملک سیف الرحمن صاحب، مکرم مولا بخش صاحب، میجر عارف زمان صاحب، مولوی عبد الرحمن صاحب انور، سید محمود احمد صاحب ناصر اور صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب افسر لنگر خانہ شامل تھے.آخر میں حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب نے اجتماعی دعا کرائی.98 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی ایک تقریر ۹ را کتوبر ۱۹۶۴ء کو سٹوڈنٹس یونین تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کا ایک خصوصی اجلاس بیرونی ممالک سے واپس تشریف لانے والے مجاہدین احمدیت کو خوش آمدید کہنے کی غرض سے منعقد کیا گیا.

Page 525

تاریخ احمدیت.جلد 22 510 سال 1964ء جس میں سکول کے طلباء ،ممبران اسٹاف اور ڈیڑھ درجن کے قریب مبلغین کے علاوہ ضلع جھنگ کے ان سب ہیڈ ماسٹر صاحبان نے بھی شرکت فرمائی جو ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن ڈسٹرکٹ جھنگ کے اجلاس میں شمولت کی غرض سے ربوہ تشریف لائے ہوئے تھے.یہ اجلاس صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر کی صدارت میں ہوا.سٹوڈنٹس یونین کے صدر سید انور احمد صاحب باہری نے مولانا نور محمد صاحب نسیم سیفی سابق انچارج مربی دعوت الی اللہ مغربی افریقہ اور ان کی وساطت سے افریقہ ، شرق اوسط، جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور امریکہ کے مربیان احمدیت کی خدمت میں استقبالیہ ایڈریس پیش کیا اور ان کی عظیم الشان خدمات پر مبارکباد پیش کی.مولانا سیفی صاحب نے جوابی تقریر سے قبل جملہ مبلغین کا تعارف کروایا.بعد ازاں آپ نے اور مولانا محمد منور صاحب نے افریقہ میں رونما ہونے والے انقلاب پر روشنی ڈالی.تقاریر کے بعد سوالات کا موقعہ دیا گیا جن کے تفصیلی جواب مبلغین نے دیئے.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے اپنی مختصر مگر نہایت مؤثر صدارتی تقریر میں بتایا کہ:.افریقہ کی طرح یورپ میں بھی اسلام کی ترقی کے امکانات کچھ کم روشن نہیں ہیں.یہ تاثر کہ یورپ میں اسلام نہیں پھیل سکتا جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں غلط ثابت ہو چکا ہے.تبلیغ کی ابتدا مذہب تبدیل کرنے والوں کی کثرت تعداد سے نہیں بلکہ تبدیلی خیالات سے ہوتی ہے.چنانچہ وہاں لوگوں کے خیالات بدلنے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں نمایاں کامیابی عطا فرمائی ہے.صلیبی جنگوں کے بعد سے یورپ میں اسلام کے خلاف اس قدرزہریلا پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا تھا کہ وہاں کوئی اسلام کا نام سنے کا روادار نہ تھا.لیکن اب جبکہ وہاں متعدد ممالک میں جماعت احمدیہ کے تبلیغی مشنوں کے ذریعہ اسلام کے متعلق پادریوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا بڑی حد تک ازالہ ہو چکا ہے وہ پہلی سی بھیا نک صورتحال اب وہاں دیکھنے میں نہیں آتی.اس کا بین ثبوت وہاں کے مستشرقین کی وہ کتابیں ہیں جو فی زمانہ اسلام پر لکھی جارہی ہیں.آج سے ۵۰ سال پہلے کی کتابوں اور ان کتابوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اگر دونوں کا مقابلہ کر کے دیکھا جائے تو فرق خود بخو دواضح ہو جاتا ہے.اب ان کا رویہ بہت ہمدردانہ اور مخلصانہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں بھی اسلام میں عوام کی دلچسپی دن بدن بڑھ رہی ہے اور وہ ذہنی طور پر اسلام کے قریب آرہے ہیں.چنانچہ بہتوں نے صداقت کا قائل ہو کر اسلام قبول کرنا شروع کر دیا ہے.پھر جو یورپی باشندے مسلمان ہوئے ہیں وہ محض نام کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ

Page 526

تاریخ احمدیت.جلد 22 511 سال 1964ء سوچ سمجھ کر انہوں نے اسلام قبول کیا ہے اور وہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں اور پھر اشاعت اسلام کا جذبہ بھی ان میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے.یہ صورتحال اس امر کی آئینہ دار ہے کہ یورپ میں بھی اسلام غالب 99 آکر رہے گا.صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا دورہ آزاد کشمیر آپ نے ۱۹۶۴ء میں نائب صدر خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے میر پور، کوٹلی ، آرام باڑی، بھا بھڑہ اور گوئی کی مجالس کا تربیتی دورہ کیا.میر پور میں قاضی محمد برکت اللہ حال امریکہ جو کالج کے پرنسپل ہونے کے علاوہ قائد خدام الاحمدیہ بھی تھے نے بعض معززین شہر کو بھی دعوت دی جنہیں (حضرت) صاحبزادہ صاحب موصوف نے خطاب کیا.آرام باڑی میں آپ نے مسجد احمد یہ آرام باڑی کا سنگ بنیا درکھا.مولوی امام الدین صاحب صدر جماعت احمد یہ بھا بھڑہ کا بیان ہے کہ میں نے انہی دنوں میں رویا میں دیکھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی اس جگہ آکر تقریر کر رہے ہیں جس جگہ مسجد احمد یہ آرام باڑی کا سنگِ بنیا د رکھا گیا.یہ خواب آپ کے فرزند صاحبزادہ صاحب موصوف کے مسجد احمدیہ کا سنگ بنیا درکھنے اور تقریر کرنے سے پوری ہو گئی ہے.یہاں سے آپ نے بھا بھڑا جا کر وقف جدید کے تحت چلنے والے مدرسہ کا معائنہ کیا اور پھر پیدل پہاڑی راستہ سے گوئی پہنچے اور وہاں کی مجالس خدام الاحمدیہ اور احباب جماعت کو تربیتی ہدایات سے نوازا.جہاں سے آپ واپس چلے آئے.یہ دوره مجالس اور احباب کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث بنا.100 ربوہ میں پہلی اردو کا نفرنس ربوہ اپنی ملک گیر علمی سرگرمیوں کے باعث نہایت تیزی سے مدینۃ العلم کی حیثیت اختیار کرتا جار ہا تھا.اس تعلق میں ۱۸ اکتو بر۱۹۶۴ء کا دن ہمیشہ یادگار رہے گا جبکہ تعلیم الاسلام کالج کے زیر انتظام پہلی کل پاکستان اردو کا نفرنس منعقد ہوئی.اس تاریخی کا نفرنس میں ملک کے قریباً پچیس نامورادباء و شعراء نے شرکت کی.اور چیدہ اہل قلم شخصیات نے مختلف موضوعات پر فاضلانہ مقالے پڑھے.علاوہ ازیں ملک کے مختلف کالجوں کی طرف سے پچیس کے قریب مندوبین بھی شریک ہوئے.یہ کانفرنس ہر اعتبار سے کامیاب رہی.

Page 527

تاریخ احمدیت.جلد 22 512 سال 1964ء کانفرنس کا آغاز صبح ٹھیک ساڑھے نو بجے ڈاکٹر وزیر آغا کی صدارت میں ہوا.کالج کے طالب علم محمود سلطان صاحب نے نہایت خوش الحانی سے تلاوت کلام پاک کی ان کے بعد محترم پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد صدر شعبہ اردو تعلیم الاسلام کالج نے محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس استقبالیہ کی طرف سے خطبہ استقبالیہ پڑھا اور تمام مند و بین کو خوش آمدید کہتے ہوئے یہ بات بھی واضح کی کہ ہمارا اردو کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ہے کیونکہ ہمارے امام ومطاع سید نا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی بیشتر کتب اردو میں ہیں.ان کے بعد معتمد مجلس استقبالیہ نے مکرم اختر حسین صاحب صدر انجمن ترقی اردو پاکستان اور مکرم ڈاکٹر اشتیاق حسین صاحب قریشی رئیس الجامعہ جامعہ کراچی کے پیغامات پڑھ کر سنائے.جو انہوں نے اس کانفرنس کے نام ارسال فرمائے تھے.ان پیغامات کے علاوہ سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس پیغام کے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے جو حضور نے ۱۹۴۸ء میں دانش گاہ پنجاب میں منعقد ہونے والی کا نفرنس کے نام ارسال فرمایا تھا.ازاں بعد مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا مضمون ” رسائل اردو زبان کی کیا خدمت کر سکتے ہیں ؟ پڑھ کر سنایا.یہ مضمون حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ادبی دنیا کے لئے تحریر فرمایا تھا جب علامہ تاجور اس کے مدیر اور سر عبدالقادر اس کے نگران تھے.یہ مضمون ایک امتیازی حیثیت کا حامل تھا.خاص طور سے مضمون کے آخری حصہ نے جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلالی انداز میں اردو کے غالب ہونے اور بادشاہوں کی زبان بن جانے کی پیشگوئی فرمائی تھی ( یہ سہو ہے زبان اردو کی بابت پیشگوئی حضرت خواجہ میر در درحمہ اللہ نے فرمائی تھی جو اس موقعہ پر میخانہ درد کے حوالہ سے پڑھی گئی).سامعین پر وجد کی سی کیفیت طاری کر دی.حضور کے مضمون کے بعد محترم صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز نے تراجم کے مسائل کے موضوع پر تقریر فرمائی اور پھر صاحب صدر نے خطبہ افتتاحیہ فرماتے ہوئے تعلیم الاسلام کالج میں اردو کا نفرنس منعقد کرنے پر کالج کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ آپ لوگوں نے اردو کی جو خدمت کی ہے وہ دوسروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی اور دوسرے بھی اس مبارک اقدام کی تقلید کریں گے.صاحب صدر نے اردو نظم کی علامتوں کا المیہ" کے عنوان پر اپنا مقالہ بھی پیش کیا.مقالہ کے بعد مکرم محسن احسان صاحب، استاد ادبیات انگریزی دانش گاہ پشاور، مکرم فارغ بخاری صاحب ( پشاور ) محترم پروفیسر غلام جیلانی صاحب اصغر سرگودھا اور مکرم نسیم سیفی صاحب نے اپنا کلام پیش کیا.دوسری

Page 528

تاریخ احمدیت.جلد 22 513 سال 1964ء نشست محترم پروفیسر سید وقار عظیم صاحب شعبه اردو دانش گاہ پنجاب کی زیر صدارت ٹھیک ۱۲ بجے شروع ہوئی.اس نشست میں محترم شیخ ممتاز حسین صاحب صدر شعبہ اردو دانش گاه زراعت لائل پور، محترم خضر تمیمی صاحب ایڈووکیٹ لاہور اور مکرم سہیل بخاری صاحب سرگودھا نے بالترتیب اردو میں سائنسی تدریس، اردو میں قانونی تدریس اور اردو میں دخیل الفاظ کا مسئلہ کے موضوعات پر اپنے اپنے مقالے پڑھے.صاحب صدر نے اردو بحیثیت تدریسی زبان کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.تعلیم الاسلام ہائی سکول نے کانفرنس میں شریک ہونے والے مندوبین کے اعزاز میں عصرانہ کا اہتمام کیا.اس عصرانہ کے دوران سکول کے مختلف طلباء نے اردو زبان کے بارہ میں ایک دلچسپ مجلس مذاکرہ بھی منعقد کی اس پر محترم پروفیسر سید وقار عظیم صاحب اور محترم پروفیسر ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے طلباء کو خراج تحسین پیش کیا.تیسری نشست بعد دو پہر چار بجگر پینتیس منٹ پر شروع ہوئی.ڈاکٹر وحید قریشی صاحب صدر مقرر ہوئے.اس نشست میں جامعہ احمدیہ کے تین غیر ملکی طلباء یوسف عثمان صاحب (افریقہ ) عبدالقاہر صاحب ( ترکستان) اور عبدالرؤف صاحب (جزیرہ نجی ) نے ” ہمیں اردو سے کیوں محبت ہے“ کے موضوعات پر مضمون پڑھے.اور حاضرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا.مہمانوں کے لئے یہ عجیب بات تھی کہ غیر ملکی باشندے ایسی شستہ اردو بول رہے ہیں اور جب تینوں طلبہ نے احمدیت کی برکات کا ذکر کیا تو حاضرین جھوم جھوم گئے.ان کے بعد مکرم مولا نانسیم سیفی صاحب نے غیر ممالک میں احمدی اردو کی کیا خدمات انجام دے رہے ہیں" کے موضوع پر مقالہ پڑھا.ازاں بعد محترم پروفیسر سید سجاد باقر رضوی شعبہ اردو، دانش گاہ پنجاب نے ادب اور زندگی کا رشتہ کے موضوع پر بڑا پیارا مقالہ پڑھا اور موضوع سے خوب خوب انصاف کیا.محترم ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے صدارتی خطاب کی جگہ اپنا مقالہ اردو بحیثیت قومی زبان ارشاد فرمایا.ان کے بعد سید سجاد باقر رضوی صاحب نے اپنی دو غزلیں پیش کیں.معتمد مجلس استقبالیہ نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح کالج کی پہلی کل پاکستان اردو کا نفرنس نہایت درجہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس استقبالیہ ہمہ وقت اس کانفرنس میں موجود رہے اور منتظمین کو اپنی رہنمائی سے نوازتے اور مقالہ خواں حضرات کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے.101

Page 529

تاریخ احمدیت.جلد 22 514 سال 1964ء جناب اختر حسین صاحب صدر انجمن ترقی اردو نے اپنے پیغام میں کہا کہ :.مجھے یہ جان کر بے انتہا مسرت ہوئی ہے کہ آپ ربوہ میں گل پاکستان اردو کا نفرنس منعقد کر رہے ہیں اس قسم کے اجتماعات زبان وادب کے حق میں بڑے مفید ثابت ہوتے ہیں، ان میں اہل فکر کو یکجا ہو کر عالمی مسائل پر غور وفکر کرنے کا موقع ملتا ہے اور زبان وادب کی ترویج کے نئے نئے راستے سامنے آتے ہیں.اردو کو اس وقت جو مسائل در پیش ہیں وہ گونا گوں نوعیت کے ہیں.ہماری ایک قدیم کمزوری یہ ہے کہ ہم ہر معاملے کا جو حل بھی تلاش کرتے ہیں اس میں حکومت سے چند مطالبات ضرور شامل کئے جاتے ہیں اور گاہے گا ہے انہیں دہرایا جاتا ہے.لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سلسلہ میں کچھ ہمارے بھی فرائض ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیئے مثلاً ہم یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ حکومت کی فلاں کارروائی اردو میں نہیں ہوئی لیکن یہ کبھی نہیں سوچتے کہ خود ہم نے اردو کو کس حد تک اپنایا ہے اور اسے کس انداز سے اپنی ذات کا ایک جزو بنایا ہے.اردو کے سلسلہ میں ہم دوسروں کا محاسبہ تو کر لیتے ہیں لیکن کبھی کبھی اپنا محاسبہ بھی کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں.اس طرح حقوق و فرائض کے معاملہ میں ایک خوشگوار توازن پیدا ہو جائے گا.آج ہمارا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اردو کو پاکستان کی دوسری علاقائی زبانوں سے زیادہ سے زیادہ قریب کس طرح لایا جائے.میری خواہش ہے کہ اس کا نفرنس میں جو اہل علم شریک ہورہے ہیں وہ اس مسئلہ پر پوری طرح سوچ بچار کریں کیونکہ ہماری قومی ترقی کے لئے اردو اور علاقائی زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا بہت ضروری ہے جو لوگ اردو اور علاقائی زبانوں کو ایک دوسرے کا حریف سمجھتے ہیں وہ نہ اردو کے خیر خواہ ہیں نہ علاقائی زبانوں کے.ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اردو اپنے مزاج و منہاج اور رسم الخط کے اعتبار سے مغربی پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں سے مکمل مماثلت رکھتی ہے.اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مماثلت کو مزید بڑھایا جائے.مجھے توقع ہے کہ آپ اس سلسلہ میں ضرور کوئی عملی اقدام کریں گے.میں آپ کی کانفرنس کی کامیابی کے لئے دست بدعا ہوں.“ اختر حسین صدر انجمن ترقی اردو 102

Page 530

تاریخ احمدیت.جلد 22 515 سال 1964ء جناب اشتیاق حسین صاحب قریشی وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی کراچی کا بلیغ پیغام درج ذیل الفاظ میں تھا.مکرمی، زاد عنایتکم اردو کا نفرنس میں شرکت کی دعوت کا شکریہ.میں مشاغل کی کثرت کے باعث شرکت سے معذور ہوں.امید ہے کہ آپ معاف فرمائیں گے.میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ مغربی پاکستان میں اپنی قومی زبان کی طرف سے بیداری بڑھتی جاتی ہے.آپ کی کانفرنس بھی اسی بیداری کی ایک علامت ہے.یہ ظاہر ہے کہ اگر ہم نے جلد از جلد اپنی زبان کو اولیت نہ دی اور اسے تعلیم تحریر اور تقریر کاذریعہ نہ بنایا تو نہ ہم کسی قسم کی علمی یا ثقافتی ترقی کر سکتے ہیں اور نہ دنیا کی سرفراز اقوام میں شمار ہو سکتے ہیں.ترقی تو در کنار ہمارا احساس کمتری اور گہرا ہوتا جائے گا اور ہم نہ اپنی ثقافت کو بچاسکیں گے نہ اپنی دینی روایات کو برقرار رکھ سکیں گے.میری دلی تمنا ہے کہ آپ کی کانفرنس کامیاب ہو اور اردو کی مشعل کو کسی قدر اور بلند کر سکے.مخلص اشتیاق حسین قریشی 103 پروفیسر ناصر احمد پروازی اردو کا نفرنس کی مجلس استقبالیہ کے معتمد تھے.انہوں نے اپنے جملہ فرائض نہایت درجہ سرفروشی اور سرگرمی سے ادا کئے.اور (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کی رہنمائی کے مطابق کانفرنس کو کامیاب بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.اور پھر کا نفرنس میں پڑھے گئے مقالات یکم نومبر ۱۹۶۴ء کو ذکر اردو کے نام سے شائع کر کے اس علمی خزانہ کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا.ذیلی تنظیموں کے سالانہ مرکزی اجتماعات جماعت احمدیہ کی مرکزی ذیلی تنظیمیں حسب سابق اس سال بھی اپنی دینی تربیتی علمی اور روحانی سرگرمیوں میں سرگرم رہیں.اور ان کے سالانہ مرکزی اجتماعات ۱۹۶۴ء میں بھی سال کی آخری سہ ماہی میں منعقد ہوئے.سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ افتتاحی اجلاس میں مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر مہتم اطفال الاحمدیہ مرکزیہ نے سالانہ رپورٹ

Page 531

تاریخ احمدیت.جلد 22 516 سال 1964ء پیش کی اور بتایا کہ اس سال ۳۴۲ مجالس نے خصوصی بیداری کا ثبوت دیا اور ستارہ ، ہلال، قمر اور بدر کے مرکزی امتحانات میں شامل ہونے والے اطفال کی تعداد ۵۱۲۹ ہوگئی ہے.رپورٹ کے بعد ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے اطفال سے خطاب فرمایا آپ نے انہیں باور کرایا کہ وہ صرف بچے ہی نہیں بلکہ احمدی بچے ہیں جن کے روحانی باپ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فلمیت میں ان کے روحانی باپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اس لئے انہیں اپنے آپ کو ایسا بنانا چاہیئے جیسا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں بنے کی تلقین فرمائی ہے اور وہ یہی ہے کہ وہ بچے دیندار اور دین کے خدمت گزار بن کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں.کیونکہ ایک مومن کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ اس کا خدا اس سے خوش ہو جائے.خدا جس سے خوش ہو جاتا ہے اسے وہ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی ، جہاں کی زندگی کبھی ختم نہ ہوگی ، اپنی بے شمار نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں سے نوازتا ہے اور اسے ایسی راحت، ایسی خوشی اور ایسا آرام پہنچاتا ہے کہ کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.آپ نے انہیں اپنا وقت نہ ضائع کرتے ہوئے دین سیکھنے ، دین پر عمل کرنے اور دین کے خدمت گزار اور فدائی بنے کی تلقین فرمائی.آپ نے تاریخ اسلام کے متعدد دلچسپ اور ایمان افروز واقعات سنا کر بتایا کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چھوٹے چھوٹے مسلمان بچوں نے خدمت دین کا جذبہ اپنے اندر پیدا کر کے عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے.آپ نے انہیں بتایا کہ وہ بھی خدمت دین کا جذ بہ اپنے اندر پیدا کر کے بڑے بڑے عظیم الشان کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ انہیں بھی خدا نے عظیم الشان کارنامے سرانجام دینے کے لئے ہی پیدا کیا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ انہیں احمدی والدین کے گھر پیدانہ کرتا.10 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے علاوہ اسی روز ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نائب صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے سچائی کے موضوع پر اور آخری دن صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی نے ”وقف زندگی پر تقریر فرمائی.اختتامی اجلاس میں صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے ناظم اطفال سیالکوٹ مبشر احمد صاحب پال کو علم انعامی اطفال الاحمدیہ عطا فرمایا.

Page 532

تاریخ احمدیت.جلد 22 517 سال 1964ء سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ اس سال پاکستان کی دوسو سے زیادہ مجالس کے ۲۸۱۷ دو ہزار آٹھ سوسترہ خدام نے شرکت کی.آخری اجلاس میں تقریباً ایک ہزار زائرین اور اسی قدر اطفال بھی شامل ہوئے.اجتماع کی دلچسپی اور افادیت کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ مقام اجتماع میں چارٹوں کی نمائش کا انتظام کیا گیا تھا جس میں گرافوں پر اعداد و شمار ظاہر کر کے مجلس کے کام کی رفتار واضح کی گئی تھی.نمائش کے دوسرے حصے میں سرکہ سکوائش اور لکڑی کی چھوٹی چھوٹی اشیاء بطور نمونہ رکھی گئی تھیں جو خدام نے اپنے ہاتھ سے تیار کی تھیں.اختتامی اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ ضلع وار قیادتوں میں حسن کارکردگی کے اعتبار سے امسال ضلع لائلپور اور لاہور کی قیادتیں اول اور ضلع سرگودھا کی قیادت دوم آئی ہیں.اس موقع پر (حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے ان کے قائدین اور نمائندگان کو سندات تقسیم فرمائیں.اطفال الاحمدیہ کی مجالس میں سے سیالکوٹ کی مجلس کو اول قرار دیا گیا.اس مجلس کے قائد اور ناظم اطفال کو صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے علم انعامی عطا فرمایا.تلقین عمل کے پروگرام میں (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی پُر اثر تقریرتھی.آپ نے ایک حدیث نبوی بیان فرما کر واضح کیا کہ خدا کے ہاں صرف بے غرض اور اعلیٰ نمونہ ہی قابل قبول ہے اور جو لوگ بے جا فخر و مباہات ( شیخی)، غیبت کبر و عجب ، مخلوق خدا میں تفرقہ ، ریا اور غیر اللہ کے خیالات کو عظمت دینے کے طریق اختیار کرتے ہیں ان کے اعمال قیامت کے روز ان کے منہ پر مارے جائیں گے.کامیابی کا طریق صرف یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کی جائے اور لوگوں کے باہمی تعلقات محبت واخوت کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے.اجتماع میں علمی اور مذہبی سوالات کے جوابات کا از حد مفید پروگرام نہایت درجہ دلچسپ تھا.سوالات کے جوابات مرزار فیع احمد صاحب،(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، محترم سید داؤ د احمد صاحب، محترم سید میر محمود احمد صاحب اور مولا نا دوست محمد صاحب شاہد نے دیئے.قواعد کے مطابق آئندہ دو سال کے لئے صدر مجلس کا انتخاب بھی ہوا.حضرت مصلح موعود کی زیر ہدایت ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اجتماع کے دوسرے روز پنڈال میں تشریف لائے اور نئے صدر کا انتخاب آپ کی نگرانی میں ہوا.سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے تین نام حضور کی خدمت میں بغرض منظوری بھجوائے گئے.اگلے روز حضرت صاحبزادہ صاحب

Page 533

تاریخ احمدیت.جلد 22 518 سال 1964ء نے مقام اجتماع میں تشریف لا کر اعلان فرمایا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ دو سال کے لئے محترم مرزار فیع احمد صاحب کو مجلس خدام الاحمدیہ کا صدر نامز دفرمایا ہے.سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله 106 حسب روایات لجنہ کا اجتماع بھی انہی تواریخ میں اپنی مخصوص روایات اور خالص دینی ماحول میں منعقد ہوا.اس اجتماع میں ملک کے طول و عرض سے قریباً پچاس مقامات سے لجنہ و ناصرات کی قریباً ساڑھے چارسو ممبرات نے شرکت کی.اس مرتبہ ناصرات کا اجتماع پہلی مرتبہ الگ نصرت گرلز ہائی سکول میں منعقد ہوا.حضرت سیدہ اُم متین صاحبہ نے افتتاحی اور اختتامی خطاب فرمایا.اجتماع کا نہایت ہی اہم حصہ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا ذکر حبیب کے موضوع پر نہایت ایمان افروز مضمون تھا جو سیدہ ام متین صاحبہ نے پڑھ کر سنایا اور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق رسول عربی کے روح پرور واقعات پر نہایت عمدگی کے ساتھ روشنی ڈالی گئی تھی.اجتماع کے موقعہ پر -/۶۷۵۳۲ روپے کا سالانہ بجٹ متفقہ طور پر منظور کیا گیا.اجتماع میں صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب نے قرآن مجید کا، مولانا جلال الدین صاحب شمس نے کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور سید میر محمود احمد صاحب ناصر نے درس حدیث دیا.سالانہ اجتماع انصار الله انصار اللہ کے اس دسویں سالانہ اجتماع کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہوا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی المصلح الموعود نے اسے حسب ذیل بصیرت افروز پیغام سے نوازا:.تمہارا نام انصار اللہ ہے.تم نے اپنے اس نام کی عزت کا خیال ہمیشہ رکھنا ہے.خدا تعالیٰ تمہیں حقیقی معنوں میں انصار اللہ بنائے“.مولا نا جلال الدین صاحب شمس نے حضور کے پیغام سے اس اجتماع کا افتتاح کیا.اس سال اجتماع میں دو سو چون مجالس کے ۴۸۴ نمائندگان ، ۱۰۲۵ را ارکان اور ۱۹۳۱ زائرین نے شرکت کی.اجتماع میں گذشتہ سال کی طرح مشرقی پاکستان کے نمائندگان بھی شامل اجتماع ہوئے.دوران اجتماع صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے حضرت مصلح موعود کی علالت کے متعلق تفصیلی رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں علاج اور رفتار صحت کے ذکر کے علاوہ حضور کی کامل و عاجل شفایابی کے لئے دعا کی پُر زور تحریک فرمائی.جس کے بعد مرزا عبدالحق صاحب نے پُر سوز اجتماعی دعا کروائی.

Page 534

تاریخ احمدیت.جلد 22 519 سال 1964ء اجتماع کا اختتامی اجلاس جو مورخه ۱۵ نومبر کو صبح ۹ بجے شروع ہو کر مسلسل پونے دو بجے تک جاری رہا اثر و جذب کے لحاظ سے ایک خاص شان کا حامل تھا.اس میں درس قرآن کریم کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم وادراک سے بالا مقام ، حضرت خلیفتہ امسیح الاول اور خلافت ثانیہ کا ظہور، پیشگوئی مصلح موعود، حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے کارنامے بلحاظ امام جماعت، بلحاظ اشاعت دین، بلحاظ افاضه فیوض روحانی ، بلحاظ افاضه علوم روحانی و خلافت ثانیہ کے موجودہ دور میں ہماری ذمہ داریاں وغیرہ موضوعات پر سلسلہ وار ایسی پُر اثر تقاریر ہوئیں کہ روحانی کیف و سرور لحظه بلحظہ بڑھتا ہی چلا گیا تا آنکه محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ کے اختتامی خطاب نے اس روحانی کیف وسرور کو نقطہ عروج پر پہنچا دیا.آپ نے ذات باری تعالیٰ کا عرفان عطا کرنے اور روحانی علوم سے مالا مال فرمانے سے متعلق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احسانات اور کارناموں کو ایسے دل نشین انداز میں بیان فرمایا کہ احباب جھوم اٹھے.مجلس خدام الاحمدیہ کی طرح مجلس انصار اللہ کے نئے صدر کا انتخاب بھی عمل میں آیا.یہ انتخاب ۱۳ نومبر کی شب کو مجلس شوری کے اجلاس میں شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ کی نگرانی میں ہوا.مختلف مجالس کی طرف سے عہدہ صدارت کے لئے (حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے نام موصول ہوئے تھے.آراء شماری کے مطابق (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے حق میں ۲۳۶ ووٹ آئے.حضرت مصلح موعود نے کثرت رائے کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ہی اگلے دو سالوں کے لئے انصار اللہ کا صدر مقرر فرمایا.جس کا اعلان شیخ محمد حنیف صاحب نے اجتماع کے اجلاس چہارم میں کیا.100 108 مجلس خدام الاحمدیہ کے چھبیس سالہ دور پر ایک نظر حضرت مصلح موعود کے بے شمار احسانات میں سے ایک عظیم احسان احمدی نوجوانوں کی تنظیم ہے.جس کے ابتدائی چھبیس سالہ دور پر ایک نظر ڈالنا ہی کافی ہے.(حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے اپنے ہیں سالہ تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ایک روح پرور مضمون لکھا.جس میں اس حقیقت پر نہایت وجد آفریں انداز میں روشنی ڈالی.یہ مضمون رسالہ

Page 535

تاریخ احمدیت.جلد 22 520 سال 1964ء خالد نومبر ۱۹۶۴ء کے صفحہ ۲۷ تا ۳۳ پر شائع ہوا.اس اہم مضمون کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے:.ایک قوم کا راہنما اس قوم کا حسن بھی ہو سکتا ہے اور قوم کو ہلاک کرنے والا بھی.جہاں حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں اپنی قوم کو ہلاکت کے سیلاب سے بچا کر کامیابی کے گھاٹ پر اتارتے ہوئے نظر آتے ہیں و ہیں ہمیں فرعون کی یہ تصویر بھی دکھائی دی ہے کہ فَأَوْرَدَ هُمُ النَّارَ (هور:۹۹) وہ اپنی قوم کو جہنم کی طرف لے گیا.پس راہنما کی حیثیت بڑی اہم اور غیر معمولی ذمہ داری کی حامل ہوتی ہے اور خوش بخت ہوتا ہے وہ راہنما جو اپنی قوم کا حسن ہو اور خوش نصیب ہوتی ہے وہ قوم بھی جسے ایک محسن را ہنما عطا ہو.کیونکہ اس کے احسانات کا دائرہ ایک عام محسن کے احسانات کی طرح محدود نہیں ہوتا بلکہ بنی نوع انسان کا ایک وسیع حصہ اس سے فیضیاب ہوتا ہے.میں آج اپنے جس راہنما کے ایک احسان کا تذکرہ کرنے لگا ہوں اس کی تو پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کر رکھا تھا کہ وہ قوم کا ایک محسن راہنما ہوگا اور اپنے حسن و احسان میں امام آخر الزمان کی نظیر ہوگا.یہی نہیں کہ صرف اس کی اپنی قوم ہی اس کے احسانات سے فیضیاب ہوگی بلکہ وہ فیض بہت سی قوموں کے لئے عام ہو گا.قومیں اس سے برکت پائیں گی اور وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.حضرت المصلح الموعود ایدہ الودود کے حسن و احسان کا ذکر لمبے تذکروں اور عمر بھر کی محفلوں کو چاہتا ہے.آپ کے احسانات میں سے بعض تو انفرادی نوعیت کے ہیں اور آپ کے زمانہ خلافت کے اب تک کے پچاس سالوں میں لاکھوں کی جماعت میں جابجا بکھرے پڑے ہیں.پھر وہ جماعت کے دائرہ تک ہی محدود نہیں بلکہ غیر از جماعت افراد میں سے بھی سینکڑوں ہزاروں نے مختلف وقتوں میں، مختلف صورتوں میں ان کے میٹھے پھل چکھے بلکہ خوب سیر حکمی کے ساتھ ان سے لطف اندوز ہوئے لیکن ان احسانات کا تذکرہ نہ تو میرا مقصود ہے نہ ہی میں بعض مصالح کے پیش نظر ان کا ذکر مناسب سمجھتا ہوں.میں نے اپنے اس مضمون کے لئے جس نوعیت کے احسانات میں سے صرف ایک کو چنا ہے وہ قومی احسانات ہیں یعنی ایسے احسانات جن کے دائرے میں کم و بیش ایک قوم کے تمام افرادسما سکتے ہیں جو ایسی بارش کی طرح ہوتے ہیں کہ جن وسیع علاقوں پر برستے ہیں شاداب اور بنجر زمینوں کی تمیز نہیں کرتے چٹانیں بھی ان سے ویسا ہی حصہ پاتی ہیں جیسے زرخیز زمین، ریگستانوں پر بھی ویسا ہی برستے ہیں جیسے بوستانوں پر.

Page 536

تاریخ احمدیت.جلد 22 521 سال 1964ء پھر یہ احسانات بھی آگے دو قسموں میں منقسم کئے جاسکتے ہیں.کچھ ایسے جن کو وسعت مکانی تو حاصل ہو لیکن وسعت زمانی سے محروم ہوں اور ان کا عرصہ فیض عارضی اور وقتی ہو.جیسے ہمیں کئی قسم کی وقتی مگر شدید مشکلات اور خوفناک بلاؤں میں سے مختلف وقتوں میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کامیابی کے ساتھ نکال کر لے جاتے رہے.ایسے تمام احسانات کو بہت ہی عظیم الشان نوعیت کے ہیں اور اس لائق ہیں کہ ہمیشہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں.لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ ان کا عرصہ فیض رسانی عارضی تھا.ان کے مقابل پر بعض قومی احسانات وسعت مکانی بھی اپنے اندر رکھتے ہیں اور وسعت زمانی بھی.میرے نزدیک احسانات کی جملہ اقسام میں سے یہ قسم سب سے زیادہ حسین ، قابلِ ستائش اور لائق شکریہ ہے.صاحب شریعت انبیاء کے سوا بہت کم دوسرے راہنماؤں کو خواہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی یہ توفیق ملتی ہے کہ اس قسم کے مستقل اور وسیع نوعیت کے احسانات سے جو گویا ایک وسیع اور عظیم الشان صدقہ جاریہ کا رنگ رکھتے ہوں اپنی قوم کو نواز ہیں.اس پہلو سے دنیا کا محسن اعظم حسن و احسان میں لاثانی، جس کے پاسنگ کو بھی کوئی دوسرا نہیں پہنچتا، بلاشبہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بالا صفات ہے کہ اپنے احسان میں عرب و عجم اور گورے کالے کی تمیز نہ رکھی اور دنیا کی ہر قوم کا محسن بن کر آئے اور زمانے کی انتہاء تک آپ کے احسانات کا سلسلہ ممتد ہوا.یہ محض آپ ہی کی قوت قدسیہ کا فیض ہے کہ آپ کے غلام زادوں کو بھی آپ کی پیروی میں آپ کے اس عظیم الشان حسن و احسان میں سے کچھ حصہ ملا اور ان کا دائرہ فیض بھی وسیع ہوا اور ان کا عرصہ فیض مختلف زمانوں تک ممتد ہوا.حضرت مصلح موعود کے اس نوعیت کے احسانات میں سے آج میں مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کا ذکر کرتا ہوں اور یہ احسان اتنا عظیم الشان اور ایسا دور اثر ہے کہ اس کی عظمت کا صحیح اندازہ شاید بعد کے آنے والے مؤرخین ہی صحیح لگا سکیں گے ہماری نظریں اپنے قرب کی وجہ سے ابھی اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی اہل نہیں.قوموں کی اخلاقی ترقی اور تنزل کے اتار چڑھاؤ کے خطوط کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ اخلاقی گراوٹ ہمیشہ نوجوان نسلوں کے ذریعہ شروع ہوتی ہے گویا ہر دوسری نسل زینے کے اگلے قدم کی حیثیت رکھتی ہے اور بالعموم قوموں کا اخلاقی سفر اپنی ہر اگلی نسل کی اخلاقی گراوٹ کے ذریعہ ایک زینہ اترتے ہوئے شخص کے مشابہ ہوتا ہے.قرآن حکیم نے اسی خطرے سے مسلمانوں کو مختلف رنگ

Page 537

تاریخ احمدیت.جلد 22 522 سال 1964ء میں خبر دار فرمایا لیکن افسوس کہ انہوں نے خطرے کی ان جھنڈیوں کی کچھ بھی پرواہ نہ کی اور اس بر وقت تنبیہہ سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس خطرے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيَّا (مریم: (۲۰) کہ تو میں اس طرح تنزل اختیار کرتی ہیں کہ جب نیک نسلیں گزرنے لگتی ہیں تو اپنے پیچھے نو جوانوں کی ایسی نسلیں چھوڑ جاتی ہیں جو عبادت الہی سے غافل ہو جاتے ہیں اور ہوا و ہوس سے آنکھ چھولی کھلنے لگتے ہیں.پس اس نی نسل کی حفاظت کی غرض سے بلکہ ہر آئندہ نسل کو ٹھوکروں سے بچانے اور استحکام بخشنے کی خاطر ۳۱ جنوری ۱۹۳۸ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد ڈالی.یہ اس زمانے کی بات ہے جب جماعت مصری فتنے سے نبرد آزما تھی.چنانچہ سب سے پہلے مجلس خدام الاحمدیہ کے سپرد جو کام کیا گیا وہ اس فتنے کا مقابلہ تھا لیکن یہ تو ایک وقتی اور معمولی بات تھی.خدام الاحمدیہ کے قیام کی اصل غرض و غایت اس سے بہت زیادہ وسیع ، اہم تر اور شاندار تھی.اپنی ابتدائی صورت میں مجلس خدام الاحمدیہ صرف دس نو جوانوں پر مشتمل تھی لیکن بہت جلد اس کا پھیلاؤ بڑھ گیا اور بالآخر تمام احمدی نوجوانوں کی اس میں شمولیت لازمی قرار پائی.قیام کے پانچ روز بعد یعنی ۴ فروری ۱۹۳۸ء کو اس مجلس کا با قاعدہ نام مجلس خدام الاحمد یہ رکھا گیا.ابتداء میں مطمح نظر تحصیل علم کے بعد قلمی جہاد کرنا تھا.چنانچہ یہ چند نو جوان قرآن و حدیث، تاریخ و فقہ اور دیگر اسلامی علوم سے ٹھوس استفادہ کرنے کے بعد اہم دینی مسائل پر مضامین لکھنے کی مشق کرتے اور ان میں سے بعض اخبارات میں بھی شائع کرواتے.ان مضامین سے متعلق حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے خودا اپنی اس قیمتی رائے کا اظہار فرمایا کہ:.وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے مضمونوں سے دوسرے نمبر پر نہیں ہیں“ ان دنوں مجلس خدام الاحمدیہ کی مثال ایک عظیم الشان دریا کے منبع کی طرح تھی جو ایک چھوٹے سے پہاڑی چشمے کی صورت میں پھوٹتا ہے اور اس کے دہانے پر کھڑے ہو کر کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہی پانی بڑھ کر عظیم الشان دریا بن جائے گا جس سے نہریں نکالی جائیں گی اور پیاسی زمینیں سیراب کی جائیں گی.چنانچہ بعینہ اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ کا چشمہ بھی پھوٹا.اس چشمہ کے مقدر میں ایک نافع الناس دریا بننا تھا جس کا دھارا دن بدن نئے مقاصد کی شمولیت کے ساتھ موٹا ہوتا چلا گیا اور کاموں کا

Page 538

تاریخ احمدیت.جلد 22 523 سال 1964ء پھیلا ؤ دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا.تربیت کے نئے نئے پروگرام مرتب ہونے لگے اور اس ذہن سے، جس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ سخت ذہین و فہیم ہوگا ، آبپاشی کی نئی نئی سکیمیں پھوٹنے لگیں.وقار عمل کے ذریعے خدام الاحمدیہ سے توقع کی گئی کہ وہ جھوٹی عزتوں کو مٹا کر ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہی میں عزت اور فخر محسوس کریں.معذوروں، مسکینوں اور بیوگان وغیرہ کی خبر گیری کی تلقین کے ساتھ شعبہ خدمت خلق وجود میں آیا اور اپنی ذات میں یہی ایک وسیع لائحہ عمل کی صورت اختیار کر گیا.نماز باجماعت کے قیام کی جد و جہد بھی خدام الاحمدیہ کے سپرد کی گئی اور یہ کام بھی اپنی اہمیت کے لحاظ سے خدام الاحمدیہ کے لائحہ عمل میں ایک نمایاں حیثیت اختیار کر گیا اور صرف اسی حد تک نہیں رہا بلکہ دیگر تربیتی امور کی شمولیت کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک اہم اور بنیادی شعبہ بن گیا جسے ”شعبہ تربیت“ کہا جاتا ہے.انسداد آوارہ گردی کی طرف بھی خاص توجہ کی گئی.لغویات سے روکنے کا کام بھی سپرد ہوا.غرضیکہ گزرتے ہوئے وقت کے پہلو بہ پہلو مجلس خدام الاحمدیہ جوں جوں اپنا یہ تاریخی سفر طے کرتی چلی گئی آسمانی پانی سے بھر پور نے ندی نالے اس میں آ آکر ملتے رہے.کہیں تربیتی پروگرام کے نالے نے اس کے حجم میں اضافہ کیا اور کہیں خدمت خلق کا نالہ اس میں آکر شامل ہوا.تبلیغ کا بھی ایک علیحدہ پروگرام مجلس کے سپرد کیا گیا اور شعبہ تبلیغ کی الگ بناڈالی گئی.چنانچہ ۱۹۳۹ء کے اواخر تک یہ مجلس صرف پروگرام کے لحاظ سے ہی وسیع تر نہیں ہوئی بلکہ اپنی رکنیت کے لحاظ سے بھی اس کے دائرے نے چند افراد سے پھیل کر ساری جماعت کے نو جوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب ہر وہ فردِ جماعت جو پندرہ سال کی عمر سے چالیس سال کی عمر تک ہو بحیثیت ایک احمدی نوجوان لازماً اس کا ممبر شمار ہونے لگا.اس وقت تک حضور کے مختلف ارا شادت کی روشنی میں مجلس خدام الاحمدیہ نے اپنے لئے جو لائحہ عمل تجویز کیا وہ خلاصہ مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل تھا:.ا.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نوجوانوں کی تنظیم.۲.ان میں قومی روح پھونکنا اور جذبہ ایثار پیدا کرنا.اسلامی تعلیم کی تکمیل و ترویج واشاعت تحصیل علم کا شوق اور اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا.۴.ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنا، ماحول کو صاف ستھرا رکھنا اور محنت اور ہاتھ سے کام کرنے کی عادت کا وقار پیدا کرنا.۵- طبیعت میں استقلال پیدا کرنا.

Page 539

تاریخ احمدیت.جلد 22 524 سال 1964ء.ذہانت کو تربیت کے ذریعے تیز کرنا.ے.ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کا خاص خیال رکھنا اور اس کے لئے معتین پروگرام بنا کر اس پر عمل درآمد کرنا.۸.اسلامی اخلاق میں خود رنگین ہونا اور دوسروں کو رنگین کرنا تا کہ سچائی، دیانت، امانت، وفا، پاکیزگی اور دیگر اخلاق حسنہ جو دنیا سے اٹھتے جا رہے ہیں پھر سے عملی صورت میں قائم اور راسخ کئے جائیں اور ایک ایسے نمونے کی اسلامی نو جوان سوسائٹی کی بنیاد پڑے جو ان اخلاق حسنہ کی حفاظت کا عہد کرے اور عملاً اس عہد کو نبھا کر دکھائے اور آئندہ نوجوان نسلوں تک اس امانت کو سینہ بہ سینہ منتقل کرتی چلی جائے.۹.قوم کے بچوں کی اس رنگ میں تربیت کرنا کہ جب وہ خدام کی عمر تک پہنچیں تو نمونے کے تربیت یافتہ اسلامی سپاہی بن چکے ہوں.۱۰.دین کی خدمت کا نوجوانوں میں جوش پیدا کرنا اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی روح کو توانائی بخشنا.۱۱.حقوق اللہ کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی کا جذبہ پیدا کرنا اور خدمت خلق کی ایک کو دلوں میں لگانا.اسلام اور احمدیت کے مسائل پر غور و فکر کی عادت ڈالنا اور بہتری کے لئے تجاویز سوچ کر ہر مفید بات کو عملی جامہ پہناناوغیرہ وغیرہ.حضور نے جس عظیم اور مستقل مقصد کو پیش نظر رکھ کر اس مجلس کو قائم فرمایا تھا وہ حضور کے ان الفاظ سے ظاہر ہے:.میری غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسل دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے.آج وہ ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولاد کے دلوں میں دفن ہے اور پرسوں ان کی اولاد کے دلوں میں.یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے، ہمارے دلوں کے ساتھ سمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کر لے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو.اگر ایک یا دو نسل تک یہ تعلیم محدود ہی تو کبھی ایسا پختہ رنگ نہ دے گی جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے.110

Page 540

تاریخ احمدیت.جلد 22 525 سال 1964ء پھر حضور فرماتے ہیں:.میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلے پر کیا کیا حملہ کیا جائے گا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا.ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اس کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہیں اور در حقیقت یہ روحانی ٹرینینگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے اس فوج کی جس فوج نے احمدیت کے دشمنوں کے مقابلہ میں جنگ کرنی ہے، جس نے احمدیت کے جھنڈے کو فتح اور کامیابی کے ساتھ دشمن کے مقام پر گاڑنا ہے.بے شک وہ لوگ جو ان باتوں سے واقف نہیں ہیں وہ میری باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ آج نوجوانوں کی ٹریننگ اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹرینگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے.لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کچھ نہیں ہوا مگر جب قوم تربیت پا کر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے.درحقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اُٹھنے پر اُٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے ، دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے“.پس کیا کسی راہنما کا اپنی قوم پر یہ احسان کم ہے کہ وہ اس کے موجودہ نو جوانوں کی تربیت ہی کا نہیں بلکہ نسلاً بعد نسل نوجوانوں کی ہر آنیوالی پور کی تربیت کا بھی ایک ایسا شاندار اور باقی رہنے والا انتظام کرے کہ وہ خام مال کی طرح اس کے قائم کردہ تربیت کے ایک عظیم الشان کارخانہ میں داخل ہوں اور جب دوسرے کنارے سے تیار ہو کر نکلیں تو ایک اعلیٰ درجہ کی صیقل شدہ مکمل گل کی صورت اختیار کر چکے ہوں جو نظام اسلامی کا ایک زندہ خلاصہ ہو.111 میں فجلس خدام الاحمدیہ کے رکن کی حیثیت سے اپنے ہیں سالہ تجربہ کی بناء پر یہ کہ سکتا ہوں کہ اگر احمدی نوجوان مجلس خدام الاحمدیہ کے عظیم الشان کارخانے میں سے وسیع پیمانے پر طوعاً و کرہانہ گزارے جاتے تو آج احمدیت کے مسائل سینکڑوں گنا زیادہ بھیا نک صورت اختیار کر چکے ہوتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تربیت یافتہ صحابہ کے گزر جانے کے بعد ہماری مثال ایک ایسے ملک کی سی ہوتی جس کی فوج ابتدا چیدہ چیدہ نامور مشاق ماہر فن سپاہیوں پر مشتمل ہو لیکن رفتہ رفتہ وہ سارے سپاہی ملک کے نام کی خاطر اپنا اپنا وقت پورا کر کے قربان ہو جا ئیں اور اُس وقت یہ تکلیف دہ بھیا نک صورتِ حال واضح ہو کہ ان کی جگہ لینے کے لئے سپاہیوں کی کوئی دوسری فوج تیار نہیں.نہ ہی

Page 541

تاریخ احمدیت.جلد 22 526 سال 1964ء کوئی ایسی تربیت گاہ موجود ہے جہاں سے ڈھل ڈھل کر نئے سپاہی پرانے گزرنے والوں کی جگہ لینے کے لئے آگے جاتے رہیں.مجلس خدام الاحمدیہ نے نئی نسلوں کی تیاری کے سلسلے میں بعینہ فوجی تربیت گاہوں کا سا کام کیا ہے اور احمدیت کے بقا اور قیام کے سلسلہ میں اس تحریک کی قیمت کا اندازہ کرنا ہر نظر کے بس کی بات نہیں.اس کے لئے ایک جوہری کی آنکھ کی ضرورت ہے اور ایک ماہر فن کی بصارت درکار ہے.میں مشاہدہ کی بناء پر نہایت بصیرت سے یہ گواہی دیتا ہوں کہ مصلح موعود کے دوسرے تمام احسانات سے اگر وقتی طور پر آنکھیں بند بھی کر لی جائیں تو صرف مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام ہی آپ کو سچا اور برحق مصلح موعود ثابت کرنے کے لئے کافی ہے.کتنی بگڑی ہوئی زندگیاں اس نظام کے ذریعے سنور گئیں اور سنورتی چلی جارہی ہیں، کتنے ہی اسلام سے دور ہوتے ہوئے قدموں کو اس کی سلاسل نے تھام لیا، کتنے ہی غیر ذمہ دار کندھوں پر ذمہ داری کے بوجھ لادے اور غلامانہ ان کو اسلام کی خدمت کے لئے مسخر کر لیا.مجھ سے ایک مرتبہ ایک بڑی مجلس کے قائد نے بیان کیا کہ اگر مجلس خدام الاحمدیہ کی تحریک نہ ہوتی تو میں شاید اسلام سے ہی نہیں خدا سے بھی برگشتہ ہو چکا ہوتا.انہوں نے میرے سامنے جو اپنی زندگی کے حالات بیان کئے ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی کالج کی تعلیم کے زمانہ میں کلیۂ مذہب سے متنفر ہو چکے تھے اور احمدیت سے عملاً لا تعلق ہو گئے تھے لیکن ان کے احتجاجات کے باوجود مجلس خدام الاحمدیہ کے کارندوں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور آخر رفتہ رفتہ دین کی محبت کا ایسا شعلہ ان کے سینے میں بھڑ کا دیا اور خدمتِ اسلام کی ایسی کو لگا دی کہ اب خدام الاحمدیہ انہیں چھوڑ بھی دے تو وہ اسے نہیں چھوڑ سکتے.یہ تو صرف نمونہ کی ایک مثال ہے لیکن فی الحقیقت ایسی مثالیں ایک یا دو یا سینکڑوں ہی نہیں بلکہ ہزار ہا سے بڑھ کر ہوں گی کہ دین سے دور ہٹتے ہوئے نو جوانوں کو مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیم کی برکت سے اپنا رخ موڑ کر دین کی طرف والہانہ قدموں کے ساتھ بڑھنے کی توفیق ملی.اور اس حقیقت کا تو ہر خادم زندہ گواہ ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کے طفیل اسے کتنی ہی نیکیوں کے اختیار کرنے کی توفیق ہوئی اور کتنی ہی بدیوں سے بچنے کے بروقت انتباہ پہنچے.اگر دیانتداری سے ہر خادم اپنے اعمال کا ایک سرسری سا جائزہ بھی لے تو یقیناً یہ حقیقت اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہے گی (خواہ اس کا واضح احساس اس سے پہلے اسے ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ) کہ اس کے بہت سے نیک اعمال، اس کے دینی علم کی پونجی کا ایک معتد بہ حصہ، اس کی قوت عمل، اس کے اخلاق حسنہ، اس کا انکسار، اس کی بدیوں سے نفرت، اس کے خدمت خلق کے جذبات، اس کی اطاعت کی روح،

Page 542

تاریخ احمدیت.جلد 22 527 سال 1964ء اس کا نظام کا احترام، اس کی عادات واطوار کی باقاعدگی اور مستقل مزاجی ، اس کی تحریر اور اس کی تقریر بلکہ اس کا اٹھنا بیٹھنا، جاگنا اور سونا یعنی زندگی کے تمام انواع کے افعال اور تصورات مجلس خدام الاحمدیہ کے ممنونِ احسان اور مرہونِ منت ہیں.کوئی شعبۂ حیات ایسا نہیں جس کی خوبیوں کو جلا بخشنے میں مجلس خدام الاحمدیہ کا نہ تھکنے والا ہاتھ کارفرما نظر نہ آتا ہو.کوئی بدیاں ایسی نہیں جنہیں مٹا ڈالنے کے لئے اس ہاتھ نے ان تھک جدوجہد نہ کی ہو غرضیکہ ہماری زندگیاں سر تا پا اسی مجلس کے سانچوں میں ڈھلی ہوئی ہیں.یہ درست ہے کہ خام مال اپنی خام کاری کے سبب بعض اوقات ہر سانچے میں ڈھل نہیں سکتا اور نقاش کے ہر نقش کو اپنی ہستی پر جمانے کا اہل نہیں ہوتا مگر جس حد تک بھی ہم میں سے کوئی صیقل ہو سکا اور جس قدر بھی حسین نقوش ہماری صورتوں کو زینت بخش سکے ہیں وہ تمام تر نہ سہی مگر ان میں سے بعض بلکہ بہت سی صورتوں میں اکثر مجلس خدام الاحمدیہ کے احسان کی گواہی دے رہے ہیں اور اس محسن را ہنما کے حسن و احسان کے گیت گا رہے ہیں جس کی پیدائش سے بھی پہلے امام وقت کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی تھی کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام 112- سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنی علالت کے باوجود دفتر اول تحریک جدید کے اکتیسویں اور دفتر دوم کے اکیسویں سال کے لئے حسب ذیل پیغام ارشاد فرمایا.جس نے مخلصین جماعت میں قربانیوں کا ایک جوش اور ولولہ پیدا کر دیا:.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم برادران وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ تحریک جدید کا نیا سال شروع ہو رہا ہے.دوست قربانی کریں اور پچھلے سال سے

Page 543

تاریخ احمدیت.جلد 22 528 سال 1964ء آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کی مدد کرے.آمین والسلام خاکسار : دستخظ (مرزامحموداحمد خلیفه اسمی الثانی 113 خدام الاحمدیہ کے نام سید نا حضرت خلیلہ اسیح الثانی کا تازہ پیغام مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے قادیان کی یاد میں جلسوں کے انعقاد کا آغاز کیا تھا.اس موقع پر خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی درخواست پر حضور انور نے از راہ شفقت خدام الاحمدیہ کو ایک بصیرت افروز پیغام سے نوازا ہے.حضور کے پیغام کا مکمل متن ذیل میں ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو النَّاصِر مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ مجلس خدام الاحمدیہ احمدیت کے دائمی مرکز قادیان کی یاد میں جلسوں کا انعقاد کر رہی ہے.میں اس موقعہ پر خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ اخلاص سے کام کرو اللہ تعالیٰ تمہارے اخلاص کو برکت دے گا.اسلامی مشاورتی کونسل کے رکن مولانا ابوالہاشم صاحب کا تعلیم الاسلام کالج کے طلبہ سے خطاب خاکسار:.مرز امحمود احمد 14 آج ربوہ سے علمی افکار و نظریات کی شعاعیں نکل کر تمام دنیا میں پھیل رہی ہیں پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا ابوالہاشم صاحب نے جو اسلامک اکیڈمی ڈھاکہ کے ڈائر یکٹر بھی ہیں نے اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ ربوہ سے جو پہلے ایک بنجر قطعہ زمین تھا آج علمی افکار و نظریات کی شعاعیں نکل کر تمام دنیا میں پھیل رہی ہیں.آپ نے دعائیہ رنگ میں اس آرزو کا بھی اظہار کیا کہ جس طرح جماعت احمدیہ کے افراد نے ایک بنجر زمین کو آباد کر کے اسے زندگی سے ہمکنار کر دکھایا ہے اسی طرح وہ روحانی لحاظ سے دنیا کے بنجر دماغوں کو دینی و علمی آسودگی.ނ

Page 544

تاریخ احمدیت.جلد 22 529 سال 1964ء ہمکنار کرنے میں کامیاب ثابت ہوں.آپ مجلس ارشاد تعلیم الاسلام کالج کی دعوت پر مجلس کے ایک خصوصی اجلاس میں کالج کے طلبہ اور ممبران سٹاف سے ”میرے نزدیک اسلام کا مفہوم کیا ہے“ کے موضوع پر خطاب فرمارہے تھے.اس اجلاس میں صدارت کے فرائض مجلس کے سٹوڈنٹ پریذیڈنٹ عطاء المجیب صاحب راشد نے ادا کئے.آپ ۱۳۰ نومبر کولاہور سے ربوہ تشریف لائے تھے.زندگی کے پر مسرت لمحات مولا نا ابوالہاشم صاحب نے انگریزی میں اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے لیکچر کی دعوت پر مجلس ارشاد کا شکریہ ادا کیا اور پھر فرمایا جو لحات میں نے ربوہ میں گزارے ہیں انہیں میں اپنی زندگی کے نہایت ہی پُر مسرت لمحات میں شمار کرتا ہوں.میں آپ لوگوں کی حیران کن جماعتی زندگی سے بہت متاثر ہوا ہوں.یہ جگہ پہلے ایک بنجر زمین تھی جس میں روئیدگی اور زندگی کے کوئی آثار نہ تھے.آپ نے اسے آباد کر کے زندگی سے ہمکنار کیا.اب یہ خوش باش لوگوں کا مسکن ہے.جو فکر و عمل کے جذبہ سے مالا مال ہیں.اور اب یہاں سے دینی اور علمی افکار و نظریات کی شعاعیں پھوٹ کر تمام دنیا میں پھیل رہی ہیں.میری دعا ہے کہ جس طرح آپ لوگوں نے بنجر زمین کو علمی لحاظ سے ایک خوش حال زمین میں بدل دیا ہے اسی طرح آپ دنیا کے بنجر دماغوں کو علمی آسودگی سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ثابت ہوں.آخر میں صاحب صدر نے مولانا ابوالہاشم صاحب کا مجلس ارشاد کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اس امر پر روشنی ڈالی کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اسلام کو جو دین فطرت ہے از سرنو زندہ کرنے اور اسے بنی نوع انسان کی زندگیوں کا دستور العمل بنا کر دنیا بھر میں غالب کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.چنانچہ آپ کے عظیم الشان تجدیدی کارناموں کے نتیجے میں آپ کی قائم کردہ جماعت کے ذریعہ اسلام دنیا میں غالب آتا جا رہا ہے...115 شمالی نائیجیریا ( مغربی افریقہ ) میں مسلم کورٹ کا قیام اس سال کا ایک اہم واقعہ شمالی نائیجیریا میں مسلم کورٹ آف اپیل کا قیام ہے جو احمد یہ مشن نائیجیریا کی مساعی کا نتیجہ تھا.اس امر کی تفصیل مولانا نور محمد صاحب نسیم سیفی سابق انچارج مربی مغربی افریقہ کے قلم سے درج کی جاتی ہے:.

Page 545

تاریخ احمدیت.جلد 22 530 سال 1964ء مغربی افریقہ کے تمام ایسے ممالک جہاں احمد یہ جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اس بات کا کھلم کھلا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر احمد یہ جماعت نے اس طرف توجہ نہ کی ہوتی تو وہاں کی مسلمان آبادی کے لئے تعلیم کا کوئی انتظام نہ ہوتا اور مسلمانوں کا ایک کثیر حصہ عیسائیت کی آغوش میں چلا جاتا.چنانچہ احمد یہ جماعت کی اس امر کی طرف توجہ سے قبل مسلمان عیسائی سکولوں کے ذریعہ دھڑا دھڑ عیسائی ہو رہے تھے.مغربی نائیجیریا کے ایک معزز مسلمان نے حال ہی میں کہا ہے کہ :.مغربی افریقہ میں اسلامی تعلیم اور ثقافت کو عظیم خطرہ درپیش تھا.اگر احمدیہ تحریک آڑے نہ آتی تو اس خطے میں اسلام مٹ گیا ہوتا.احمد یہ مشن نے بینظیر قربانیوں اور انتھک کوششوں سے اسلام کو پھر زندہ کر دکھایا ہے.مغربی افریقہ میں سب سے پہلا اسلامی سکول نائیجیریا میں احمد یہ جماعت نے ۱۹۲۲ء میں کھولا اس کے بعد نہ صرف مغربی افریقہ کے دوسرے ممالک میں اسلامی سکول کھولے گئے بلکہ نائیجیریا میں کئی اور اسلامی سوسائیٹیاں معرض وجود میں آگئیں.اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے سینکڑوں کی تعداد میں سکول کامیابی سے چل رہے ہیں اور نہ صرف یہ کہ اب مسلمان عیسائی سکولوں کے ذریعہ عیسائی نہیں ہورہے بلکہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی دیکھ کر جس کی ابتدا کا سہرا احمدیت کے سر ہے متعدد عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں.شمالی نائیجیریا میں جہاں مسلمانوں کی بہت بھاری اکثریت ہے ایک عدالتی اصلاح کی ضرورت تھی.اور وہ یہ کہ وہاں دو قسم کی عدالتیں ہیں.ایک شرعی اور دوسری برطانوی قانون کے ماتحت.اکثر یوں ہوتا تھا کہ شرعی عدالت میں مقدمہ کا فیصلہ ہوتا تو اپیل برطانوی قانون والی عدالت میں جاتی اور فیصلہ شرعی عدالت کے فیصلہ کے الٹ ہو جاتا.اس بات کا مسلمانوں پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا.چنانچہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق دی.خاکسار نے نائیجیریا کے ایک روز نامہ ڈیلی سروس (DAILY SERVICE) مورخہ ۲۶/۲/۴۹ میں ایک مراسلہ شائع کروایا جس کا عنوان تھا "WHICH IS WHICH" اور متن یہ تھا:.میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ شمالی نائیجیریا میں کونسا قانون رائج ہے.اسلامی قانون یا برطانوی قانون؟ اگر یہ دونوں پہلو بہ پہلو چل رہے ہیں یعنی اگر بعض مقدمات جو کسی خاص نوعیت کے ہوں برطانوی قانون والی عدالت میں فیصلہ ہوتے ہیں اور بعض کسی اور نوعیت کے اسلامی قانون

Page 546

تاریخ احمدیت.جلد 22 531 سال 1964ء والی عدالت میں.تو یہ بات برداشت کی جاسکتی ہے.اگر فی الحال تمام کے تمام مقدمات برطانوی قانون کی عدالت ہی میں لے جائے جائیں تو پھر بھی میرے خیال میں یہ بات محل اعتراض نہیں اگر چہ بعض لوگ اس بات کو پسند نہ کریں گے.لیکن اب جو کچھ دیکھنے میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ برطانوی قانون کو اسلامی قانون پر حاوی کر دیا جاتا ہے.اور وہ بھی اس طرح کہ اس میں اسلامی قانون کی بہتک کا پہلو پایا جا تا ہے.اب وہاں ( یعنی شمالی نائیجیریا میں ) کیا کچھ ہو رہا ہے؟ ایک مقدمہ اسلامی قانون کی عدالت میں فیصلہ پاتا ہے اس کی اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی جاتی ہے جہاں فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر چہ اسلامی عدالت کا فیصلہ (سزا) اسلامی قانون کے مطابق تو درست ہے لیکن جہاں تک برطانوی تعزیرات کا سوال ہے اس ملزم کو کسی اور الزام کے ماتحت مجرم قرار دیا جائے گا اور اس کی سزا کم ہو گی.اور اس طرح اسلامی قانون کی عدالت کا فیصلہ منسوخ کر دیا جاتا ہے.جہاں تک ہم اعلیٰ عدالتوں کے قیام کے مقاصد کو سمجھتے ہیں ہمارا خیال ہے کہ ان کا کام یہ فیصلہ دینا ہے کہ کیا ماتحت عدالت نے قانون کو صحیح طور پر استعمال کیا ہے یا نہیں.اعلیٰ عدالت میں قانون وہی ہوتا ہے جو ماتحت عدالت میں.گویا کہ اعلیٰ عدالت ایسے جوں پر مشتمل نہیں ہوتی جنہوں نے مقدمہ کا فیصلہ کسی اور ہی قانون کی رو سے کرنا ہو.اس لئے میں تو یہ بات سمجھ ہی نہیں سکتا کہ سپریم کورٹ اسلامی قانون کی عدالتوں میں فیصلہ پانے والے مقدمات کے لئے اپیل کی عدالت کس طرح متصور ہوسکتی ہے.اسلامی قانون کی عدالتوں میں فیصلہ پانے والے مقدمات کی اپیلیں ایسی عدالتوں میں پیش ہونی چاہئیں جو اسلامی قانون ہی کے مطابق فیصلہ کرنے والی ہوں اور جن کے جج صاحبان ماتحت عدالتوں کے جوں سے زیادہ قابل ہوں اور اس طرح یہ حج مقدمہ کو اسی قانون کے ماتحت پر کھیں جس کے ماتحت پہلے فیصلہ کیا گیا ہو.اگر بعض خاص قسم کے مقدمات کے متعلق حکومت یہ چاہے کہ وہ برطانوی قانون ہی کے ماتحت فیصلہ پائیں تو ایسے مقدمات کو اسلامی قانون والی عدالتوں میں ہرگز پیش نہ کیا جائے.مقدمہ کے آغاز ہی سے ان کو برطانوی قانون والی عدالتوں میں رکھا جائے.لیکن ہم یہ بات سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ ایک مقدمہ کو پہلے اسلامی قانون والی عدالت میں پیش کیا جائے اور پھر اپیل کے لئے اسی مقدمہ کو دوسری قسم کی عدالت میں لے جایا جائے.کیا یہ بات اسلامی قانون سے مذاق کے مترادف نہیں ہے؟“

Page 547

تاریخ احمدیت.جلد 22 532 سال 1964ء می محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ خاکسار کے اس خط کی وجہ سے شمالی نائیجیریا کے مسلمانوں میں اس بات کا احساس پیدا ہو گیا کہ عدالتی کارروائی میں یہ ایک اہم تبدیلی ہے جو ضرور کروانی چاہیئے.چنانچہ اسی سال (۱۹۴۹ء) کے دسمبر میں شمالی نائیجیریا کی اسمبلی میں یہ سوال پیش ہوا.جس نے یہ قرارداد پیش کی کہ شمالی نائیجیریا کے لئے ایک مسلم کورٹ آف اپیل کا قیام عمل میں لایا جائے اس عدالت کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو ویسٹ افریقن کورٹ آف اپیل کو حاصل ہیں.قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ مجسٹر یٹی عدالتیں، سپریم کورٹ اور ویسٹ افریقن کورٹ آف اپیل کو آئندہ اسلامی قانون والی عدالتوں کے فیصلہ پر اپیل کے سلسلہ میں کوئی حق نہ ہونا چاہیئے.لیکن اس قرار داد کے نتیجہ میں صرف ایک کمیشن بٹھا دیا گیا جس کا کام یہ تھا کہ اس کے تمام پہلوؤں پر غور کر کے رپورٹ پیش کرے.بہر حال یہ امر خاکسار کے لئے از حد خوشی کا باعث تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری تجویز کو قبولیت بخشی اور اس سوال کو اسمبلی میں اٹھوا دیا.اس کے بعد مارچ ۱۹۵۶ء میں شمالی نائیجیریا کی اسمبلی میں پھر یہ معاملہ پیش ہوا.ڈیلی ٹائمنز نے (۵۶-۳-۱۲) اس خبر کو یوں شائع کیا:.شمالی علاقہ کیلئے مسلم اپیل کورٹ کا مطالبہ ہفتہ کے روز شمالی نائیجیریا کے ہاؤس آف اسمبلی نے ایک ایسے بل پر بحث کی جس کا مقصد اسلامی قانون والی عدالتوں کے فیصلوں کے لئے ہائیکورٹ آف اپیل کا قیام ہے.بورنو (BORNU) کے نائب حاکم (وزیر) نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اسلامی قانون کو صحیح معنوں میں رائج کیا جا سکے گا.انہوں نے مزید کہا کہ انہیں وہ وقت خود یاد ہے جبکہ چند سال ہوئے ایک برطانوی قانون والی عدالت کے ایک حج کے ہمراہ دو اسلامی قانون والے حج بھی فیصلہ کے لئے بیٹھے تھے اور اس ایک جج نے اسلامی قانون کے سلسلہ میں ان دو (مسلمان ) جوں کی بات رڈ کر دی تھی اور مقدمہ کے فیصلہ کے لئے برطانوی قانون کو ترجیح دی تھی.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے شمالی نائیجیریا میں اسلامی قانون کی عدالت عالیہ بھی قائم ہو چکی ہے.اور یہ بات خاکسار کے لئے خاص طور پر خوشی کا باعث ہے.کیونکہ آج سے کئی سال پہلے سب پہلے خاکسار ہی نے اس ضرورت کی طرف نائیجیریا کے مسلمانوں کو توجہ دلائی تھی" 116-

Page 548

تاریخ احمدیت.جلد 22 533 سال 1964ء بمبئی میں بین الاقوامی کیتھولک کانفرنس اور جماعت احمدیہ کی شاندار تبلیغی مساعی بھارت کے شہر بمبئی میں ۲۸ نومبر سے ۶ دسمبر ۱۹۶۴ء تک کیتھولک عیسائیوں کی ۳۸ ویں یڈ کریسٹک کانفرنس منعقد ہوئی جس کے انتظامات میں متعدد یورپین حکومتوں نے بھر پور حصہ لیا.اس بین الاقوامی کانفرنس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ عیسائیت کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ پوپ (پال ششم) بنفس نفیس اس نوع کی کانفرنس میں شریک ہوئے اور مختلف مواقع پر پبلک سے خطاب کیا.علاوہ ازیں بیرونی ممالک سے متعدد کارڈینل، ہزار ہامند و بین اور ہندوستان کے طول و عرض سے بھی کثیر تعداد میں عیسائیوں نے شمولیت کی.حاضرین کی تعداد ڈیڑھ دولاکھ ہو گی.یہ پُرشکوہ کا نفرنس بمبئی کی مشہور OVAL GROUND میں ہوئی جس میں ایک لاکھ سے زیادہ آدمیوں کی گنجائش تھی.گراؤنڈ کے وسط میں ساٹھ فٹ لمبا پنڈال بنایا گیا جسے دیکھ کر شاہی درباروں کی شان و شوکت یاد آتی تھی.اوپر تین ستون نصب تھے.ستونوں کے درمیان حضرت مسیح کی صلیبی حالت کی قد آدم تصویر آویزاں تھی.دائیں طرف ٹیلی ویژن کے لئے ایک بڑا کمرہ بنایا گیا تھا.اگلے حصہ میں ایک ہزار کینڈل پاور کے چالیس ہیڈ لائٹ روشن رہتے تھے.پنڈال سے ۱۸ میل دور سانتا کروز ہوائی اڈہ پر ہوائی جہاز ٹیلی ویژن کے آلات سے لیس کھڑے تھے.کیمرہ کی مدد سے کا نفرنس کی تمام ضروری کارروائیوں کا فوٹو ہوائی جہازوں کی طرف منتقل کیا جاتا تھا اور پھر ویٹیکن سٹی اٹلی اور یورپ کے دوسرے ممالک میں ٹیلی کاسٹ کیا جاتا تھا.اس مرکزی پنڈال کے بائیں جانب اتنا ہی رفیع وعریض ایک اور پنڈال بنایا گیا جو غیر ملکی بشپ ، آرچ بشپ اور کارڈینل کے لئے مخصوص تھا.پوری گراؤنڈ میں حکومت ہالینڈ نے روشنی کا ایک دلکش انتظام کیا تھا جو جدید ٹیکنالوجی کا بہترین نمونہ اور اپنی نظیر آپ تھا.پوپ ہندوستان کی فضائی کمپنی ائیر انڈیا کے بوئنگ سے سانتا کروز کے ہوائی اڈہ پر ۲ دسمبر کو پہنچے.حکومت ہند ، حکومت مہاراشٹر اور بمبئی کے پادریوں نے ان کا پُر جوش اور فقید المثال استقبال کیا.پوپ نے ویٹیکن سٹی میں پرواز سے چند گھنٹے قبل یہ افسوسناک بیان دیا کہ ہندوستان کے باشندے گمراہ اور فریب خوردہ ہیں مگر ہمیں اُن کے ساتھ رواداری سے پیش آنا چاہیئے.اس تحقیر آمیز بیان کی وجہ سے کسی مذہبی جماعت نے ان کی ملاقات کے لئے کوئی جوش و خروش نہیں دکھلایا بلکہ منتظمین کانفرنس نے ملک کی مذہبی جماعتوں کو اپنے مذہبی راہنما سے ملاقات کا وقت ہی نہیں دیا.

Page 549

تاریخ احمدیت.جلد 22 534 سال 1964ء جماعت احمد یہ بھارت کی طرف سے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ نے ایک سپاسنامہ نہایت دیدہ زیب رنگ میں طبع کرایا پھر اس کی گیارہ ہزار کا پیاں دوسرے اعلی کا غذ پر بھی طبع کرائیں.یہ سپاسنامہ انگریزی میں تھا جس کا اردو تر جمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.ترجمہ: ایڈریس ہز ہولی نس پوپ پال ششم بر موقعہ آل ورلڈ یوکریسٹک کا نفرنس بمبئی منعقدہ نومبر دسمبر ۱۹۶۴ء خدا تعالیٰ کے نام کے ساتھ جو بے حد کرم کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے.بخدمت ہر ہولی نس پوپ پال ششم خدا کرے کہ یہ ایڈریس آپ کے لئے خوشی کا موجب ہو.جماعتہائے احمد یہ ہندوستان کے تمام افراد کی نمائندگی کرتے ہوئے بحیثیت ناظر دعوت و تبلیغ صدر انجمن احمد یہ قادیان آپ کی ہندوستان آمد پر پُر خلوص خیر مقدم کرتا ہوں.آپ چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے خادم ہونے کے دعویدار ہیں.اور دنیا کے لکھوکھا عیسائیوں کے تسلیم شدہ راہنما ہیں.اس لئے ہمارے دل میں بھی آپ کے لئے عزت و احترام ہے.کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام ہمارے عقیدے اور ایمان کے مطابق خدا تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے.اسلام کی صحیح تعلیم کی رُو سے تمام مذہبی راہنماؤں کی عزت کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں.اور اسلامی اخوت اور رواداری کے اصول کو اپناتے ہوئے ہم ایسے لوگوں سے ہرگز متفق نہیں جنہوں نے نامناسب رنگ میں مخالفت کرتے ہوئے اس عالمی مسیحی کا نفرنس کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی.کیونکہ ایسا طریق ہمیشہ باہمی رواداری کے منافی اور نقصان دہ ثابت ہوتا ہے.اسلامی نقطۂ نظر سے ہمارے نزدیک ہر مذہب وملت کے افراد کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور اپنے طریق کے مطابق عبادت کرنے کا برابری کا حق حاصل ہے.اسلام کی تاریخ میں حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عملی نمونہ ہمارے سامنے یہ ہے کہ ایک مرتبہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ میں آیا.تو حضور علیہ السلام نے کمال فراخدلی سے مدینہ کی مسجد میں انہیں اپنے طریق کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی.پس ہم بھی آپ کی کانفرنس کے لئے نیک خواہشات رکھتے ہیں اور ہماری تمنا ہے کہ شمولیت اختیار کرنے والے عیسائیوں کے لئے یہ کانفرنس فائدہ کا موجب ہو.

Page 550

تاریخ احمدیت.جلد 22 535 سال 1964ء آپ کی تشریف آوری کے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر میں مذہب کے متعلق بالعموم اور مسیحیت اور اسلام کے بارہ میں بالخصوص اپنے نظریات کا اظہار آپ کی خدمت میں نہ کروں تو میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہونے میں کوتاہی کی ہے.ہماری اس کوشش کے پس پردہ صرف یہ مقصد کار فرما ہے کہ باہمی تفہیم کے ذریعہ عقائد و نظریات کے ان اختلافات کو دور کیا جائے جو آجکل ہمارے اور مسیحی دوستوں کے درمیان پائے جاتے ہیں.مجھے یقین ہے کہ ہم جن پر خلوص جذبات سے یہ چیز پیش کر رہے ہیں.اسی خلوص نیت سے آپ بھی اس پر غور فرمائیں گے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ ہمارے اس نظریہ سے مکمل اتفاق کریں گے کہ تمام مذاہب کا نقطہ مرکز یہ اور حقیقی مقصود ومحور اللہ تعالیٰ کا وجود ہے.اور کسی مذہب کا ماننے والا بھی مذہب کے اس بنیادی نظریہ سے اختلاف نہیں کر سکتا.اگر مذہب میں انسانی فلاح مضمر ہے تو اس فلاح کا منبع و مصدر خدا تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیئے جو ایک زندہ حقیقت ہے.پھر اگر کوئی مذہب بنی نوع انسان کو ترقیات عطا نہیں کرتا اور اس کے لئے کسی ابدی فلاح کو پیش نہیں کرتا تو اس کا بنی نوع انسان کی راہنمائی کا دعویٰ عبث ہے کیونکہ وہ اپنے اولین مقصد میں ہی کامیاب نہیں سمجھا جا سکتا.اگر خدا ایک زندہ خدا ہے تو اس کو اپنا منارہ نور ( LIGHT HOUSE) ان طالبانِ حق کے لئے ہمیشہ منور اور روشن رکھنا چاہیئے جو اس کی روشنی میں راہ حق کے متلاشی ہیں.یہ الفاظ دیگر ہمارا ایمان تب ہی کامل ہو سکتا ہے جبکہ اس کی زندگی کے ثبوت میں تازہ بتازہ نشان مشاہدہ میں آئیں.اس کو اپنے ان منتخب بندوں سے وقتاً فوقتاً کلام کرنا چاہیئے جو اُس کی راہ میں کوشاں ہیں.اور اس کے نام کو بلند کر رہے ہیں.اگر وہ مکالمہ اور مخاطبہ سے اپنی موجودگی کا ثبوت نہیں دیتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ بنی نوع انسان بجائے ہدایت کے راستہ پر گامزن ہونے کے تاریکی میں بھٹکتے رہیں گے.اگر ہم ایک ایسی عمارت یا مینار کو دیکھیں جس میں کوئی دروازہ یا کھڑ کی نہ ہوتو لا محالہ ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اس میں کوئی زندہ انسان نہیں بستا.اور پھر جب بارہا آواز میں اور دستک دیتے ہوئے ہم کسی متنفس کو مخاطب کرتے ہیں اور ہماری یہ کوشش سعی لاحاصل ثابت ہوتی ہے تو ہمیں اس امر کا یقین ہو جاتا ہے کہ اس مینار میں کوئی موجود نہیں یا اب بقید حیات نہیں.اور یہ جگہ ویران ہے.خدا تعالیٰ صدیوں تک خاموش نہیں رہ سکتا.اور یہ بھی ممکنات میں سے نہیں کہ وہ ماضی میں تو موجود تھا

Page 551

تاریخ احمدیت.جلد 22 536 سال 1964ء لیکن اس دور میں موجود نہیں.زندہ خدا دنیا کے لئے ہمیشہ زندہ ہے اور اس کی ہستی ہر قسم کے نقائص اور زمان و مکان کی قیود سے بالا تر ہے.اس کی صفات جاودانی اور اس کی قدرتیں دائمی ہیں.وہ اپنے ا پرستاروں کی تفرعات کو سنتا ہے اور اُن سے ہر زمانہ میں کلام کرتا ہے.انبیاء اسی غرض کے لئے مبعوث ہوتے رہے.تا کہ وہ دنیا میں روحانیت کو جاری کریں.بھولی بھکی مخلوق کو خدا کے آستانہ پر جمع کریں.اور خالق و مخلوق کا روحانی رشتہ قائم کریں.یہ وہ انعام ہے جس کا وعدہ اسلام اپنے پیروؤں سے کرتا ہے اور یہی وہ انعام ہے جس کا وعدہ یسوع مسیح نے اپنے سچے پیروؤں سے کیا تھا.وہ خدا جسے اسلام پیش کرتا ہے زندہ خدا ہے اور یہی وہ خدا ہے جو عہد ماضی میں انبیاء سے کلام کرتا رہا اور جو اپنے منتخب بندوں سے کلام کرتا ہے.جو اس کی آواز کو سنتے ہیں اور الہامات و مکاشفات کی برکات سے مستفیض ہوتے ہیں.اس صورت میں ہر عقلمند شخص یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ موجودہ زمانہ کا کلیسا حضرت مسیح علیہ السلام کی صحیح نمائندگی نہیں کر رہا اور میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ اگر مسیح اس دنیا میں ہوتے تو وہ ہرگز یہ باور نہ کرتے کہ اس دور کے عیسائی ان کے حقیقی پیرو ہیں.کیونکہ وہ ان عقائد و اعمال سے منحرف اور برگشتہ ہو چکے ہیں جس کی تعلیم انہیں ابتداء میں دی گئی تھی.آج سے تقریباً چودہ سوسال قبل اسلام نے اسی انحراف و برگشتگی کو قرآن کریم کے ذریعہ دنیا پر منکشف کیا اور بتایا کہ مسیح تو دنیا ایک انسان اور خدا کے نبی تھے اور انہوں نے دنیا میں ایک انسان کی مانند ہی زندگی بسر کی اور وفات پائی.انہوں نے دنیا کو تو حید کی تعلیم دی.اور یہ کبھی نہیں کہا کہ ان کی یا ان کی بزرگ والدہ کی پرستش کی جائے.بلکہ انہوں نے یہ تعلیم دی کہ گناہوں کی بخشش تو بہ واستغفار اور عبادات اور اعمال صالحہ سے ہی ممکن ہے.ہم برائے موازنہ یہ قبول کرنے کیلئے تیار ہیں کہ موجودہ دور کے مسلمانوں کی حالت عیسائیوں سے زیادہ بہتر نہیں ہے.اور حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنا حقیقی پیرو قبول نہیں کر سکتے.لیکن یہ موازنہ تو اسی جگہ ختم ہو جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ایک امتیازی نکتہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کی اس بدحالی اور بے کسی کے دور میں اسلام میں ایک عجیب وغریب انقلاب رونما ہوا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک شخص خدا تعالیٰ کی جانب سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مامور کیا گیا جس نے دنیا کو دکھایا کہ آج بھی خدا تعالیٰ اسلام کے پیروؤں میں سے ایسی ہستیاں منتخب کرتا ہے جن کے ساتھ وہ بذریعہ الہام کلام کرتا ہے.یہ وجود

Page 552

تاریخ احمدیت.جلد 22 537 سال 1964ء حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود تھا.جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا.آپ نے حضرت مسیح ناصری علیہ الصلوۃ والسلام کی خُو بو میں مبعوث ہو کر مسیحیوں کے غلط عقائد کی اصلاح فرمائی.اور مسلمانوں کو راہ حق بتلائی.آپ نے تمام بنی نوع انسان کو حق و صداقت کے راستہ پر چلنے کے لئے دعوت دی.آپ کی بعثت کی غرض و غایت تمام سابقہ انبیاء بشمول عیسی ، موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کی اغراض کی تکمیل و تجدید تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام میں تحریک احمدیت کا قیام آج سے تقریباً ۷۵ سال قبل فرمایا تھا اور اس وقت آپ کے روحانی جانشین حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی کی قیادت میں تمام دنیا میں مختلف مقامات پر اسلامی مرکز قائم ہو چکے ہیں اور دنیا کو وسیع پیمانہ پر اسلام سے روشناس کرایا جارہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کو بتایا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ الصلوۃ والسلام ان تمام امور سے نفرت کرتے تھے جو مسیحیوں نے ان کی ذات سے غلط طور پر منسوب کئے ہیں.یعنی یہ تعلیم کہ وہ ما فوق البشر یا کسی رنگ میں خدائی صفات کے مظہر تھے.یا یہ کہ انہوں نے عقیدہ تثلیث، نجات ، فرزندیت یا صلیبی موت کی مروجہ تعلیم دی یہ تمام باتیں دراصل بعد میں ان کی طرف منسوب کی گئی ہیں.اس بات کا بیان کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفی طور پر حضرت مسیح ناصری سے ملاقات کی اور کشف میں آپ کی تعلیم کے متعلق دریافت فرمایا.تو حضرت مسیح ناصری نے زمین کی طرف اشارہ کیا.جس سے آپ کا مفہوم یہ تھا کہ وہ دیگر انسانوں کی طرح ایک کمزور انسان تھے.اور ان تمام غلط عقائد سے اپنے آپ کو بری قرار دیتے ہیں.جو آپ کی وفات کے بعد آپ کے ماننے والوں نے آپ کی طرف منسوب کئے.دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا آج کا کلیسا اس قابل ہے کہ وہ مذہب کے اس صحیح روحانی فیض کو جاری کر سکے.اور کیا کلیسا کا کوئی پیروکار آج اس بات کا دعویدار ہوسکتا ہے کہ وہ خدا کے تازہ الہام و کلام سے مشرف ہے.اگر کلیسا مذہب کے اس بنیادی انعام سے مستفیض نہیں کراتا.یا خالق ومخلوق کے رشتہ کی اس معیاری کسوٹی پر پورا نہیں اتر تا جو کہ مذہب کی اصل غرض و غایت ہے تو انجام کا رامیدوار نگاہیں کلیسا سے ہٹ کر کسی ایسی حقیقت کی متلاشی ہونگی جو اس روحانی انعام کی وارث ہیں.

Page 553

تاریخ احمدیت.جلد 22 538 سال 1964ء اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہمکلام ہوا.اور آپ کی برکت سے آپ کے متبعین سے بھی ہم کلام ہوا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام عیسائیوں کو بھی حضرت مسیح ناصری علیہ الصلوۃ والسلام کی صحیح تعلیم کی طرف بلایا.جو کہ بالآخر اسلام کی عالمگیر سچائی کی طرف ہی نشاندہی کرتی ہے.اسلام اپنے اندر تمام مذاہب کی سچائیاں رکھتا ہے اور تمام انبیاء کی تعلیمات کا حامل ہے.مختصر یہ کہ یہ وہ حقیقت ہے جس کے متعلق خود حضرت مسیح ناصری نے فرمایا تھا کہ ابھی وہ تمام حقیقتیں بیان نہیں کر رہے بلکہ ان کے بعد اپنے وقت پر جب انسانی شعور پختہ ہو گا تو مکمل احکامات کا اجرا ہو گا.وہ آواز جو آج جماعت احمدیہ کی جانب سے بلند ہورہی ہے اس پر کان دھر نا عقلمندی اور خداشناسی ہے.کیونکہ دراصل وہ خدا کی آواز ہے.اور وہ دن دور نہیں جبکہ تمام دنیا اس آواز کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائے گی.ہر دن جو گذر رہا ہے وہ اس آواز کی طاقت اور صداقت اور اس کی وسعت میں اضافہ کرتا چلا جارہا ہے.ہم خدا تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس بات کی قوت عطا کرے کہ ہم مذہب کے صحیح مقصد کو محسوس کر سکیں اور تمام بنی نوع انسان اپنے خالق حقیقی سے دوبارہ قریب لائے جاسکیں.اور تشنہ روحیں الہامات کے آسمانی پانی سے مکمل طور پر سیراب ہو سکیں.اسلام مذہب کے اس حقیقی مقصد کو پانے کا دعویدار ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اس بات کا عملی ثبوت دیا ہے کہ ہمارا خدا اب بھی زندہ موجود ہے اور اب بھی اسی طرح اپنے برگزیدہ بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے جس طرح گذشتہ زمانوں میں اپنے بندوں کے ساتھ ہمکلام ہوا کرتا تھا.بائیبل میں بھی یہ مرقوم ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.آج دنیا جن مشکلات سے دو چار ہے اور مستقبل میں تباہی کے جو آثار نمودار ہور ہے ہیں ان سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ مخلوق اپنے خالق حقیقی کی طرف متوجہ ہو کر صرف اسی کے سامنے سر بسجو د ہو.خدا تعالیٰ کی بخشش کو اور اس کے فضلوں کو جذب کرنے کا ذریعہ یہی ہے کہ ہم سچے دل کے ساتھ اسلام کے زندہ خدا کو اس کی تمام صفات میں ازلی و ابدی یقین کرتے ہوئے اس سے بخشش طلب کریں کیونکہ وہ رحیم وکریم خدا ہے اور ہر وہ شخص جو بچی تو بہ اور پُر خلوص دعاؤں کے ساتھ اس کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے.یہ مختصر ایڈریس ختم کرنے سے پیشتر ہم اس موقعہ سے فائدہ

Page 554

تاریخ احمدیت.جلد 22 539 سال 1964ء 117 اٹھاتے ہوئے اس امید اور یقین کے ساتھ آپ کی خدمت میں کچھ احمد یہ لٹریچر پیش کرتے ہیں کہ اگر آپ بخوشی اسکے مطالعہ کیلئے وقت نکالیں گے تو آپ یہ محسوس کریں گے کہ اسلام کا وہ سچا پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس زمانہ میں دنیا کو دیا گیاوہ موجودہ زمانہ کی تمام بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے کیونکہ وہ تمام بنی نوع انسان کو ایک عالمی سطح پر مخاطب کرتا ہے اور توحید باری تعالیٰ، عالمی مساوات اور زندگی کی تمام قدروں میں بیجہتی افعال و کردار کا درس دیتا ہے.تمام تعریف خدا کے لئے ہے جو ہم سب کا آتا ہے.نیک خواہشات کے ساتھ آپ کا مخلص.مرزا و تیم احمد خیال تھا کہ جب کیتھولک دنیا کے دینی پیشوا سے ملاقات ہوگی تو آپ (صاحبزادہ صاحب) یہ سپاسنامه خود پیش فرمائیں گے.اس ملاقات کے لئے مولوی سمیع اللہ صاحب مبلغ جماعت احمدیہ بمبئی نے سرتوڑ کوشش کی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا.منتظمین کی سرد مہری کے باوجود جماعت احمدیہ نے جس ذوق و شوق اور ولولہ انگیز طریق سے اس موقعہ پر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا فریضہ انجام دیاوہ بھارت کی مذہبی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے جس کی ایمان افروز تفصیلات جناب مولوی سمیع اللہ صاحب کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں:.” جماعت احمدیہ نے جب یہ دیکھا کہ پاپائے اعظم سے ملاقات کا وقت نہیں دیا گیا.بلکہ وہ جگہیں جہاں جہاں ٹھہرائے گئے ہیں وہاں جانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی تو اس جماعت نے پیغام اسلام پہنچانے کا اب دوسرا بندو بست کیا.ہم نے اپنے خدام کی چن چن کر ایسی گذرگاہوں پر ڈیوٹی لگائی جہاں سے ملکی و غیر ملکی مہمان بکثرت گزرتے تھے.جومند و بین بحری جہازوں میں مقیم تھے ان کے لئے بندرگاہ کے ان گیٹوں پر ڈیوٹی لگائی گئی جو ان کے آنے جانے کا راستہ تھا.اسی طرح بڑے بڑے ہوٹلوں کے فٹ پاتھ پر خدام متعین کر دیئے گئے.اکثر چر چوں اور ہوٹلوں کے سامنے بھی خدام موجود ہوتے تھے.پھر ” اول میدان کے چاروں طرف جہاں بے شمار خلقت جمع ہوتی تھی وہاں بھی اپنے خدام ہر وقت موجود رہتے تھے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاید ہی کوئی ملکی یا غیر ملکی مندوب ہو گا جس کے ہاتھ میں جماعت کا لٹریچر نہ پہنچا ہو.لوگ کثرت سے خود مانگ مانگ کر لیتے تھے.اور دو دو چار چار آدمی مل جل کر پڑھتے تھے.جس دن سپاسنامے کی عام اشاعت ہوئی اس دن پادریوں کا ذوق وشوق قابل دید تھا.ہر پادری نے

Page 555

تاریخ احمدیت.جلد 22 540 سال 1964ء کوشش کی کہ سپاسنامے کی ایک کاپی اس کے ہاتھ آ جائے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چرچ کے حلقے میں یہ بات خوب مشہور ہو گئی.اخبارات نے نمایاں طور پر خبر چھاپنی شروع کر دی.یہ صورت حال دیکھ کر بہت سے عیسائی فکرمند ہو گئے مگر پولیس کی طرف سے ہم کو اتنی آزادی تھی کہ جلسہ گاہ کو چھوڑ کر اس کے فٹ پاتھ پر بھی ہمارے خدام کتابیں دے رہے تھے.چنانچہ بشپ، آرچ بشپ اور کارڈینل کے عہدوں پر جو لوگ فائز تھے اور مخصوص نشستوں پر بیٹھتے تھے انہیں یہیں ان کتابوں کے سیٹ پیش کیے گئے ان میں سے اکثر نے شکریہ کے ساتھ یہ کتابیں قبول کیں.محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ نے اس بین الاقوامی اجتماع کو جو ایشیا میں اپنی نوعیت کا پہلا اجتماع تھا.پیغام اسلام پہنچانے کے لئے جس اولوالعزمی اور حوصلہ مندی سے کام کیا اس پر آپ ہزار ہزار تحسین و ستائش کے مستحق ہیں.سپاسنامے کا ذکر تو پہلے آچکا ہے اس کے علاوہ آپ نے ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں ہدیہ اور تحفہ کے طور پر دینے کے لئے بھیجیں.جن میں عام اسلامی عقائد و تعلیمات کے علاوہ وفات مسیح کے موضوع پر بھی پچاس ہزار سے زائد کتب تھیں.اس نا قابل فراموش کارنامہ کے انجام دینے میں جناب سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی آف کلکتہ اور محترم جناب میاں محمد عمر ومحترم محمد بشیر صاحبان سہگل آف کلکتہ کے فراخدلانہ مالی عطایا کے علاوہ جنوبی ہند کی بعض جماعتوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ خوب تعاون کیا.چنانچہ جماعت احمد یہ حیدر آبا دوسکندرآباد نے وفات مسیح پر ایک پمفلٹ Latest Findings About Jesus ( مسیح کے متعلق نئے انکشافات ) نہایت دیدہ زیب کا غذ و طباعت کے ساتھ میں ہزار سے زیادہ تعداد میں چھپوائے.جن میں سے ساڑھے سترہ ہزار اس اجتماع کے لئے بھیجے گئے.دوسرا پمفلٹ جماعت احمدیہ کنانور نے Present To Pope کے نام سے پانچ ہزار کی تعداد میں طبع کرایا.ان دونوں کتابوں کا مضمون ایک ہی تھا.ان میں جناب مسیح کے تینوں دور زندگی کے تین فوٹو بھی ہیں یعنی جوانی، ادھیڑ اور بڑھاپے کے.جو انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا نے شائع کئے ہیں.اور بھی بعض جدید معلومات ہیں.اس کے علاوہ نظارت دعوت و تبلیغ قادیان نے اس موضوع پر مندرجہ ذیل کتب ہزاروں کی تعداد میں بھیجیر صحیح ہندوستان میں (انگریزی) مسیح نے کہاں وفات پائی (انگریزی).قبری (انگریزی)

Page 556

تاریخ احمدیت.جلد 22 541 سال 1964ء ان چھوٹی چھوٹی کتابوں کے علاوہ بڑی کتابیں بھی انگریزی زبان میں جیسے قرآن شریف، لائف آف محمد، ٹیچنگ آف اسلام، احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہزاروں کی تعداد میں بھیجی گئیں.تری چری کیرالہ کے ایک دوست نے بھی ایک اشتہار پانچ ہزار کی تعداد میں بھیجے.اور ”ربوہ“ سے بھی بعض قیمتی کتب اس اجتماع کے لئے آئیں.نظارت تبلیغ قادیان نے اس تبلیغی مہم کی ذمہ داری میرے سپرد کی تھی.میں نے یہاں کے حالات دیکھ کر محسوس کیا کہ جماعت احمدیہ بمبئی تنہا اتنے وسیع پیمانے پر ان کتابوں کی مناسب رنگ میں اشاعت نہیں کر سکتی.اس لئے جنوبی ہند کی بعض جماعتوں کو اپنی مدد کے لئے بلایا.حیدر آباد اور یاد گیر جو قریب کی جماعتیں ہیں ان کے امراء کو تحریک کی کہ وہ ان نادر دنوں کے لئے اپنے خدام بھی بمبئی بھیجیں اور گاڑیاں بھی.نظارت دعوت وتبلیغ قادیان نے بھی تحریک کی.بدر میں بھی اعلان کیا گیا.الحمد للہ کہ ان جماعتوں نے اس تحریک پر لبیک کہی.اور حیدرآباد و یاد گیر سے ۴۰ خدام مکرم سیٹھ محمد معین الدین صاحب امیر جماعت حیدر آباد و سکندر آباد کی سرکردگی میں دو جیپ گاڑیوں کے ساتھ بمبئی پہنچ گئے.مدراس سے مکرم محمد کریم اللہ صاحب ایڈیٹر آزاد نوجوان بھی آگئے.ان احباب کے علاوہ مکرم حکیم محمد الدین صاحب مبلغ انچارج میسور اسٹیٹ، مکرم مولوی محمد عمر صاحب مبلغ انچارج آندھراپردیش اور مکرم مولوی فیض احمد صاحب مبلغ یاد گیر بھی آگئے.اس سے پیشتر کہ ۲۸ نومبر کی تاریخ آتی اور میں تبلیغی جد و جہد کے آغاز کا اعلان کرتا.پولیس کے آفیسروں کو اس سکیم کی اطلاع دی.انہیں دار التبلیغ بلایا.وہ آئے.کتا بیں دیکھیں اور ایک ایک سیٹ اپنے ساتھ لے گئے.پھر میں خود مسٹر مجید اللہ پولیس کمشنر سے ملا اور ان کو بھی اس تجویز سے مطلع کیا.۲۸ نومبر کو میں نے اپنی تبلیغی جدو جہد کا آغاز کر دیا.احباب جماعت تھیلیوں میں کتابیں لے لے کے جلسہ گاہ کی طرف چلے.میں نے اس وقت ان تمام مجاہدوں کو تاکید کر دی کہ پولیس کے احکام کی فور انتعمیل کریں اگر کوئی شخص کتاب لینے سے انکار کرے تو برا نہ منائیں.اور اگر کوئی کتاب کے ساتھ بدسلوکی کرے تو اس کا بھی شکریہ ادا کریں.اگر کوئی کتاب پھاڑ کر پھینک دے تو حتی الامکان وہ ٹکڑے اٹھا لیں.اور کتا بیں تعلیم یافتہ اشخاص کو ادب و احترام سے پیش کریں.خدا کا فضل ہے کہ ہمارے جوانوں نے ان ہدایات کا ہمیشہ خیال رکھا.اسی لئے وہ اخیر تک نہایت کامیابی سے لٹریچر کی تقسیم کرتے رہے.

Page 557

تاریخ احمدیت.جلد 22 542 سال 1964ء ہمارے پاس جو کتا بیں تھیں ان کے دو حصے کر دیئے گئے.اول عام عقائد وتعلیمات کی کتب اور دوم وہ کتابیں جن کا عنوان وفات مسیح ہے.پہلے دن تجربہ کے طور پر عام عقائد وتعلیمات کی کتابیں تقسیم کی گئیں.اور چار دنوں تک یہی کتا میں تقسیم ہوتی رہیں.اس اثناء میں عیسائیوں اور بعض دوسرے اشخاص کی طرف سے پولیس پر دباؤ ڈالا گیا کہ ہماری یہ جد و جہد ممنوع قرار دی جائے.مگر پولیس کی طرف سے ہم لوگوں کو تقسیم کتب کی اخیر تک مکمل آزادی رہی.۲۹ نومبر کو انڈین ایکسپریس میں ہمارے خدام کی تبلیغی جد و جہد اور ایک پمفلٹ اسلام امت کی پکار“ (انگریزی) کے تقسیم کئے جانے کی اس کے رپورٹر نے مؤثر الفاظ میں خبر دی.۳۰ /نومبر کو میں نے اخبارات کے ایڈیٹروں کو ان کتابوں کے ایک ایک سیٹ بھیجے جو ان دنوں تقسیم کی جا رہی تھیں.یکم دسمبر کو ان میں سے چھ اخباروں نے نہایت نمایاں طور پر یہ خبر شائع کی.چار دنوں میں ساٹھ ہزار سے زیادہ تحفہ دے چکے تھے اور شہر کے گوشہ گوشہ میں اس تبلیغی جد و جہد کی دھوم مچ گئی تھی.عوام کے علاوہ پولیس کے آفیسر بار بار دار التبلیغ آکر حالات دریافت کرتے اور تازہ معلومات لے جاتے تھے.۲ دسمبر کو شام ۵ بجے پاپائے اعظم آنے والے تھے.سارا شہر امڈ کر ہوائی اڈے کی طرف چلا گیا تھا.اور یہ اتفاق دیکھئے کہ اس دن ہم بھی وہ کتا بیں شائع کرنے والے تھے جن کا عنوان ہی وفات مسیح ہے.اس دن دس خدام کی ڈیوٹی ہوائی اڈے پر لگائی گئی تھی.یہ جیپ میں لٹریچر بھر کے بعد زوال اپنی ڈیوٹی پر چل پڑے.چار خدام کی ڈیوٹی اہم اور باندرہ میں تھی جہاں عیسائیوں کی معتد بہ تعداد رہتی ہے.آج پہلا دن تھا کہ ایک نا خوشگوار واقعہ پیش آیا.ہمارے جو خدام ما ہم اور باندرہ میں متعین تھے ان کے ساتھ عیسائیوں نے زیادتی کی.دو چار گھونسے اور مکے بھی چلائے.ہمارے یہ خدام تو فتنے کی اس جگہ سے ہٹ گئے.لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس جگہ ہمارے جوانوں کی دوسری پارٹی آئی.یہ وہی پارٹی تھی جو ہوائی اڈے پر متعین تھی.یہ حالات سے بے خبر تھے.ان میں سے بھی ایک شخص نے جب وہ کتا بیں تقسیم کیں تو یہ دیکھ کر عیسائیوں کے ایک گروہ نے ان خدام پر حملہ کر دیا.اس پارٹی میں میرے دونوں لڑکے بھی تھے.یہ حملہ ہوتے ہی اکثر دوست تو تھوڑی بہت مار کھاتے ہوئے مجبوراً جیپ سے نکل کر چلے گئے.مگر حیدر آباد کا ایک نوجوان مکرم یوسف حسین ابن احمد حسین صاحب نائب امیر جماعت حیدرآباد جیپ میں رہ گئے.ان شر پسند عناصر نے انہیں خوب زدوکوب کیا.حتی کہ وہ

Page 558

تاریخ احمدیت.جلد 22 543 سال 1964ء نڈھال ہو کر گر پڑے.منہ اور ناک سے خون بہنے لگا پھر وہ جیپ میں گھس گئے اور اسے کافی نقصان پہنچایا.یہ حالت دیکھ کر بعض دوست ما ہم پولیس اسٹیشن گئے اور پولیس کی مدد لے کر آئے.میں اس وقت اول میدان میں پوپ کا استقبال کر رہا تھا مجھ کو اس واقعہ کی اطلاع رات کے 9 بجے بمبئی سنٹرل کے پاس ہوئی.میں اسی وقت ایک غیر احمدی دوست سیٹھ عبداللطیف صاحب کو لے کر جائے واقعہ کی طرف چل پڑا.سیٹھ محمد معین الدین صاحب، ایڈیٹر صاحب آزاد نو جوان اور دوسرے احباب بھی ٹیکسیوں میں چلے.تاہم پولیس اسٹیشن پہنچا تو جیپ وہاں کھڑی تھی اور ایک کانسٹیبل اس کی مرمت کر رہا تھا.سارے دوست خیریت سے تھے.سب کو دار التبلیغ لے آیا.میرے نزدیک اس واقعہ کی کوئی اہمیت نہ تھی.راہ خدا میں ایسے صدمے سہنے ہی پڑتے ہیں مگر یہاں بات وہی ہوئی کہ عدو شر برانگیزد که خیرما در آن باشد صبح کو مرہٹی زبان کے سب سے کثیر الاشاعت روزنامہ ” مراٹھا نے اور اردو اخبار ” قیادت نے بہت نمایاں طور پر یہ خبر شائع کر کے عیسائیوں کے رویے کی مذمت کی.اس کے بعد فری پریس بلیٹن اور دوسرے چھ روز ناموں میں اس واقعہ کی پوری تفصیل شائع ہوگئی.بعض اخبار فروشوں نے تو یہ نعرہ لگا کر سنسنی پھیلا دی کہ عیسائیوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا‘ ان اخباروں میں ہمارے عقیدہ وفات مسیح کا ذکر بھی آ گیا.اس واقعہ کے بعد پولیس ہوشیار ہو گئی.چرچوں کے پاس پہرے بٹھا دیئے گئے لیکن ہماری تبلیغی آزادی میں کوئی خلل نہیں ڈالا گیا.چنانچہ ۲ دسمبر کو ہمارے یہ زخم خوردہ جواں زیادہ ہمت، استقلال اور مستعدی سے میدان جہاد میں آئے.آج تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ ہر شخص سے کتابیں پڑھوا کے دم لیں گے.اس دن میں خود شروع سے اخیر تک ان خدام کے ساتھ رہا اور حالات کا مطالعہ کرتا رہا.66 دسمبر کو قبر مسیح (انگریزی) کی تحفہ لوگوں کو دے دینے کی باری تھی.مگر آج یوکریسٹک کانگریس کی رونق ختم ہو گئی تھی.حاضرین کی تعداد بھی بہت کم تھی.اس لئے آج نسبتا ایسے اشخاص کم کم ملے جنہیں کتا بیں دی جاسکیں.پھر بھی اس دن چار ہزار سے زیادہ آدمیوں کو پیغام احمدیت پہنچا دیا گیا.آج ہی جماعت احمدیہ کی تبلیغی جد و جہد ختم ہونے والی تھی.۵ دسمبر کے لئے احباب کی واپسی کے لئے مختلف ٹرینوں میں سیٹیں ریزرو تھیں.لیکن افسوس کہ ٹھیک اس وقت جب ہمارے خدام اپنی

Page 559

تاریخ احمدیت.جلد 22 544 سال 1964ء کامیابی پر خوشی منارہے تھے.یاد گیر کے ایک مخلص اور قابل رشک نو جوان سیٹھ محمد عبداللطیف صاحب ابن سیٹھ محمد عبدالحی صاحب مرحوم آف یاد گیر کی وفات کی خبر آ گئی.تمام دوستوں کو سخت صدمہ ہوا.جو مرحوم کے قریبی رشتہ دار تھے.انہیں تو اسی وقت یاد گیر جانے کی اجازت دے دی گئی.یہ تبلیغی جد و جہد جو ۲۸ نومبر کو شروع کی گئی تھی.نہایت خیر و خوبی سے ۴ دسمبر کو پایہ تکمیل تک پہنچ گئی.اس کارخیر میں چند غیر از جماعت دوستوں نے بھی میرے ساتھ بہت تعاون کیا.خدا انہیں جزائے خیر دے.یہ چند دن جیسی خوشی اور چہل پہل کے تھے خدا ہمیشہ ایسے دن دکھائے.صبح سویرے سے دوستوں کا کتابوں پر مہریں لگانا.کتابوں کا شمار کرنا.ڈیوٹی تقسیم کرنا اور پھر ڈیوٹی پر جانا.کتنا دلچسپ مشغلہ تھا.پھر میں نے یہ محسوس کیا کہ ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں کتا بیں دے دینا تو چنداں دشوار نہیں لیکن چیدہ چیدہ افراد کو ڈھونڈنا ، ان کو کتابیں دینا اور ان کے سوالات کا جواب دینا بہت دشوار کام ہے.اس کے لئے ہمت اور استقلال کے علاوہ وقت بھی چاہئے اور یہ خدا کا فضل ہے.ہمارے خدام انتھک کوشش اور برق رفتاری سے معلوم کرتے رہے اگر خدا انہیں یہ حوصلہ نہ دیتا تو اتنے وسیع پیمانہ پر لاکھوں آدمیوں کو یہ مذہبی تحفہ نہیں دیا جا سکتا تھا.ہم کو کانفرنس کے منتظمین سے جو شکایت ہے اس کے خلاف بعض اخبارات میں میرے خطوط شائع ہو چکے ہیں.ہم اس تحریر کے ذریعہ پھر اس کے رویہ پر اظہار افسوس کرتے ہیں.ہمیں نہ بک اسٹال دیا گیا.نہ ایڈیٹر آزاد نوجوان کو پریس انٹرویو کی اجازت دی گئی.نہ پوپ سے جماعت احمدیہ کی ملاقات کا بندو بست کیا گیا.ہم اخبار والوں کے مشکور ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ ہر وقت تعاون کیا.اور ہمارے خدام کی حوصلہ افزائی کرتے رہے.محکمہ پولیس نے شروع سے اخیر تک ہمارے خدام کو جس آزادی سے لٹریچر تقسیم کرنے کی اجازت دی.ہم اس پر اس کے مشکور ہیں اور اس عادلانہ ومنصفانہ سلوک پر ہم اس کو مبارکباد دیتے ہیں.ہماری تبلیغی جد و جہد کا ایک دور ختم ہو گیا.اب اس کے خوشگوار نتائج کا انتظار ہے.اس مہم کے بعد کیا اخبارات اور کیا عوام سبھوں کا احمدیہ مسلم مشن بمبئی کی طرف رجوع ہو گیا ہے.روزانہ نئے نئے لوگ ملاقات کے لئے آرہے ہیں.ذوق و شوق سے کتابیں لے جا رہے ہیں.ابھی مسیحی مبلغین کے

Page 560

تاریخ احمدیت.جلد 22 545 سال 1964ء بہت بڑے ادارے Salvation Army کے کمشنر کا آدمی آیا.وہ ہر کتاب کے چھ چھ نسخے لے گیا ہے.یہ ادارہ وفات مسیح سے متعلق تمام کتابوں کی ایک ایک سیٹ اپنے بڑے اداروں کو بھیج رہا ہے جن میں لنڈن کی Salvation Army بھی ہے.اس ادارے کو میں نے قرآن شریف انگریزی کا بھی ہدیہ دیا.اور بہت سے خطوط موصول ہورہے ہیں جنہیں ہم ڈاک کے ذریعہ کتا بیں بھیج رہے ہیں اور مقام مسرت یہ ہے کہ اس مسئلہ سے زیادہ دلچسپی عیسائی حضرات لے رہے ہیں.اب ہماری کوشش یہ ہے کہ ان دنوں جو کتا بہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کی گئیں.اخبارات میں ان پر ریویو آئے.خدا اس مقصد میں بھی کامیاب کرے.آمین ابھی تک جن اخبارات و رسائل میں اس تبلیغی جد و جہد کا شاندار الفاظ میں ذکر آچکا ہے ان کے نام یہ ہیں:.ا.۲.۳.._^ و.ا.-11 ۱۲.انڈین ایکسپریس انگریزی روز نامه ۲۹/۱۱/۱۴ - ۴/۱۲/۱۴ اردو ٹائمز اردو روزنامه ۳۰/۱۱/۲۴ ہندوستان اردو روزنامه ۱/۱۲/۶۴ اجمل اردو روزنامه ۱/۱۲/۶۴ آشکار اردو روزنامه ۱/۱۲/۲۴ آج اردو روزنامه ۱/۱۲/۶۴ مراٹھا مرہٹی روزنامه ۴/۱۲/۶۴ قیادت اردو روزنامه ۴/۱۲/۶۴ فری پریس بلیٹن انگریزی روزنامه ۱۲/۱۲/۶۴ انقلاب اردو روزنامه ۵/۱۲/۶۴ اردو ٹائمز اردو روزنامه ۵/۱۲/۶۴ آشکار اردو روزنامه ۵/۱۲/۶۴ ۱۳.اجمل اردو روزنامه ۵/۱۲/۶۴ ۱۴.مراٹھا مرہٹی روزنامه ۶/۱۲/۶۴ ۱۵- بمبئی سما چار گجراتی روزنامه ۶/۱۲/۶۴ ۱۶ نقش کو کن اردو ماہنامہ بابت دسمبر ۱۹۶۴ء

Page 561

تاریخ احمدیت.جلد 22 546 سال 1964ء ان تمام اخباروں کے نمایاں تراشے نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کے نام بر وقت بھیجتارہا ہوں.اخباروں میں ان خبروں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے.نیز مولوی سمیع اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:.766 118 پاپائے اعظم جب ۲ دسمبر کو بمبئی تشریف لائے تو میں نے صاحبزادہ حضرت مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ قادیان اور تمام احمدی جماعتوں کی طرف سے ان کی خدمت میں محبت کا ایک تحفہ پیش کیا تھا جس میں مندرجہ ذیل کتب تھیں :.(۱) قرآن شریف انگریزی.(۲) لائف آف محمد انگریزی.(۳) ٹیچنگ آف اسلام انگریزی.(۴) احمدیت یعنی حقیقی اسلام انگریزی - (۵) مسیح ہندوستان میں انگریزی.(۶) مسیح کہاں فوت ہوئے انگریزی.(۷) قبر مسیح انگریزی.(۸) جناب مسیح کے متعلق نئے انکشافات.(۹) قبول اسلام کی دعوت کا سپاسنامہ.ویٹی کن سٹی روم کا جواب پاپائے اعظم نے اپنے مرکز ویٹی کن سٹی پہنچ کر اپنے سیکرٹریٹ آف اسٹیٹ کو ہدایت کی کہ ان کی طرف سے ان کتابوں کو بھیجنے والے کا شکریہ ادا کیا جائے اور دعا کی جائے کہ ان کو خدا کی رحمت و خوشنودی حاصل ہو.چنانچہ ویٹی کن سٹی روم سے میرے نام دعا اور شکریہ کے دو خطوط بھیجے گئے ایک ۱۵ دسمبر کو دوسراے دسمبر کو.ان خطوط کا ترجمہ یہ ہے:.’ہر ہولی نس کا سیکرٹریٹ آف اسٹیٹ مقدس باپ کی قیمتی ہدایت کی تعمیل کرتے ہوئے اس بات کی اطلاع دینے میں خوشی محسوس کر رہا ہے کہ جب ہر ہولی نس پوپ پال ششم بمبئی تشریف لائے تھے تو اس مبارک موقع پر آپ کی طرف سے ان کی خدمت میں جو ایک کتاب کا تحفہ پیش کیا گیا جس کا نام صحیح اسلام (THE TRUE ISLAM) ہے.میرا خیال ہے کہ سیکرٹریٹ آف اسٹیٹ نے اختصار کی رعایت کرتے ہوئے صرف ایک کتاب کا ذکر کیا ہے.ورنہ میری طرف سے تو پاپائے اعظم کی خدمت میں ان تمام کتابوں کے سیٹ بھیجے گئے تھے جس کا اوپر ذکر کیا گیا.) کتاب کا یہ تحفہ ہر ہولی نس کو موصول ہوا.آپ کی طرف سے اس موقع پر ہز ہولی نس کا جس تپاک اور گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اس پر مقدس باپ پوپ پال ششم اس کتاب کے بھیجنے والے ، ان کے شرکاء کار اور حاضرین کو دعا دیتے ہیں کہ ان کو آسمانی رحمت و خوشنودی حاصل ہو.

Page 562

تاریخ احمدیت.جلد 22 547 سال 1964ء ہم ممبران جماعت احمد یہ بھی صدق دل سے آمین کہتے ہیں اور یہی دعا ہم لوگ بھی پاپائے اعظم اور ان کے تمام عقیدتمندوں کے لئے کرتے ہیں بجے ایس دعا از ما و از جمله جهان آمین باد کاش پاپائے اعظم ان کتابوں کا مطالعہ فرمائیں جو ان کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں.یہی وہ کتابیں ہیں جن کے ذریعہ انسان آسمانی رحمت و خوشنودی کا مستحق قرار پاتا ہے.آخر میں یہ بتلانا نہایت ضروری ہے کہ ان تمام تبلیغی مساعی اور جد و جہد میں صاحبزادہ مرزا اوسیم احمد صاحب کی راہنمائی اور مخلصانہ تعاون شامل حال رہا.اُن دنوں صدر انجمن احمد یہ قادیان کی مالی حالت مخدوش تھی اور نظارت دعوت و تبلیغ میں اشاعت لٹریچر کے بجٹ میں محدود سی رقم تھی.اس لئے آپ نے صدر انجمن احمدیہ سے پانچ ہزار روپیہ بطور قرض حاصل کیا اور فوری طور پر اس کا نفرنس کے حسب حال لٹریچر کی طباعت و اشاعت شروع کر دی گئی اور جولٹریچر طبع ہو کر تیار ہوتا رہا ساتھ کے ساتھ بمبئی بھجوایا جاتا رہا.اس لٹریچر کی اشاعت کے لئے سلسلہ کے ممتاز مخیر بزرگ میاں محمد صدیق صاحب بانی نے بغیر کسی تحریک کے از خود تین ہزار روپیہ ارسال فرمایا.بعد میں نظارت دعوت وتبلیغ کی طرف سے بدر میں اعلان شائع ہوا تو کلکتہ کی مخلص جماعت کے دو مخلص ممبران جناب میاں محمد عمر صاحب سہگل اور میاں محمد بشیر صاحب سہگل نے بھی دو ہزار کا عطیہ دیا.لٹریچر کی بر وقت اشاعت کے لئے نظارت کے جملہ کا رکنان خصوصاً چوہدری عبدالقدیر صاحب واقف زندگی کی شبانہ روز کوششوں کا بھاری دخل ہے.نظارت کی طرف سے مولوی سمیع اللہ صاحب مبلغ بمبئی کی اعانت کے لئے بعض اور مبلغین کو بھی بھجوایا گیا اور حیدرآباد، سکندر آباد اور یاد گیر کی مخلص اور ایثار پیشہ جماعتوں نے اپنےوالنٹیر بمبئی بھجوائے جنہوں نے کمال فدائیت اور فرض شناسی سے اپنے فرائض کی بجا آوری کی.دفاتر تحریک جدید کے احاطہ میں باغیچہ اطفال کا افتتاح 120 ۴ دسمبر ۱۹۶۴ء کو جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے دفاتر تحریک جدید میں ایک خوشنما باغیچہ اطفال (چلڈرن پارک) کا افتتاح فرمایا.اس پُرمسرت افتتاحی تقریب میں بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے والے مبلغین اور تحریک جدید کے جملہ دیگر

Page 563

تاریخ احمدیت.جلد 22 548 سال 1964ء کارکنان کے دوصد کے قریب نو عمر بچوں نے شرکت کی.یہ باغیچہ جس کا رقبہ قریباً بائیس ہزار مربع فٹ ہے تحریک جدید نے اس غرض سے بنایا ہے کہ اس میں شام کے وقت کارکنان کے نو عمر بچے سر پرستوں کی نگرانی میں سیر و تفریح کر سکیں اور اپنی عمر کے لحاظ سے مختلف قسم کے پر مسرت کھیلوں میں حصہ لے کر اس وقت کو ہنسی خوشی گزار سکیں.اسے گھاس اور پھولوں کی خوشنما کیاریوں کے علاوہ پینگیں بڑھانے والے جھولوں ، اوپر نیچے ہونیوالے چوبی تختوں اور بلندی سے نیچے کی طرف تیزی کے ساتھ پھسلنے کے لئے لکڑی کے بنے ہوئے چکنے راستوں سے آراستہ کیا گیا ہے.پھر اس امر کا بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں علیحدہ علیحدہ ان سب کھیلوں میں حصہ لے سکیں.یہ باغیچہ ان جملہ انتظامات کے ساتھ چھ سات ہزار روپے کے مصرف سے بن کر تیار ہوا ہے جس میں زمین کی قیمت شامل نہیں ہے.چار بجے شام جب محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب باغیچہ کے افتتاح کے لئے تشریف لائے تو خوش پوش نو عمر بچوں اور بچیوں نے جو باغیچہ کے وسط میں دو علیحدہ علیحدہ قطاروں میں کھڑے ہوئے تھے بلند آواز سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ اور اھلا و سهلا و مرحبا کہہ کر آپ کا استقبال کیا.آپ نے ہر بچہ کے پاس جا کر اس سے مصافحہ کیا اور سر پر ہاتھ پھیر کر پیار کیا.مکرم حسن محمد خاں صاحب عارف نائب وکیل التبشیر اور مکرم چوہدری عبدالعزیز صاحب مہتمم مقامی ساتھ کے ساتھ ہر بچہ کا تعارف کراتے جاتے تھے.اس موقع پر بعض بچیوں نے چھوٹے چھوٹے خوشنما گلدستے آپ کی خدمت میں پیش کئے جنہیں آپ نے بڑی مسرت کے ساتھ قبول فرمایا.ازاں بعد جملہ بچوں اور بچیوں نے علیحدہ علیحدہ قرینے سے آراستہ کی ہوئی میزوں کے گرد کھڑے ہو کر دودھ پینے کے علاوہ لڈوؤں سے منہ میٹھا کیا.بعدہ افتتاحی تقریب تلاوت قرآن مجید سے شروع ہوئی جو عزیز محمد ادریس ابن مکرم مولوی محمد اسحاق صاحب صوفی مبلغ مشرقی افریقہ نے کی.درشین میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک نظم عزیز محمد داؤد ابن مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر سابق مبلغ ماریشس نے خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.تلاوت اور نظم کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے بچوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ کھیل کا میدان جہاں بچوں کیلئے تفریح اور ورزش کا سامان مہیا کرتا ہے وہاں بہت سے اخلاقی سبق بھی دیتا ہے.مثال کے طور پر ایک ضروری اور اہم سبق یہ ہے کہ بچے باہم

Page 564

تاریخ احمدیت.جلد 22 549 سال 1964ء مل جل کر محبت، ہمدردی، تعاون اور مساوات کے جذبہ کے ماتحت اپنا وقت گزاریں.آپ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ وہ کھیل کود کے ان سامانوں سے اس طرح مل جل کر فائدہ اٹھائیں کہ باری باری سب بچے ان سے فائدہ اٹھا سکیں.ان نصائح کے بعد آپ نے پینگ بڑھانیوالے جھولوں کا تالا کھول کر باغیچہ کا افتتاح فرمایا.اس کے ساتھ ہی بچوں اور بچیوں نے اپنے علیحدہ علیحدہ جھولوں پر باری باری جھولنا اور اُچھلنا کودنا شروع کر دیا.انتہائی ذوق و شوق اور خوشی ومسرت کے عالم میں بچوں کی یہ اچھل کود مغرب کی اذان تک جاری رہی.بچوں کی ان کھیلوں اور اچھل کود سے کچھ دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد محترم صاحبزادہ صاحب موصوف کارکنان تحریک جدید کے رہائشی کوارٹروں کے معائنہ کیلئے تشریف لے گئے.آپ نے عمومی جائزہ کے علاوہ بعض کوارٹروں کے اندر جاکر ان کی حالت کا تفصیلی طور پر معائنہ فرمایا.اور کوارٹروں کی مرمت وغیرہ کے سلسلہ میں مکرم چوہدری غلام بین صاحب نائب وکیل الدیوان کو ضروری ہدایات دیں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا جامعہ احمدیہ سے خطاب ۱ دسمبر ۱۹۶۴ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے جامعہ احمدیہ کی الجمعیۃ العلمیۃ کے زیرا انتظام ” مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کی راہ میں ہماری مشکلات“ کے عنوان کے تحت ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا.صدارت کے فرائض الجمعیۃ العلمیۃ کے نائب رئیس لئیق احمد صاحب طاہر نے ادا کئے.جمعیت کے خصوصی اجلاس میں جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کرام اور طلباء کے علاوہ ربوہ کے دیگر احباب بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے.حضرت چوہدری صاحب نے جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اپنے انتہائی محدود وسائل کے پیش نظر ہم نے اب تک جو کوششیں کی ہیں ان پر لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے کی مثل صادق آتی ہے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہے کہ اس نے ہماری حقیر کوششوں میں برکت ڈال کر ان کے خوش کن نتائج ظاہر فرمائے ہیں.تاہم ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم مغربی ممالک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لے کر پہلے اصل مرض کی تشخیص کریں اور پھر علاج کی مقدور بھر کوشش عمل میں لائیں.

Page 565

تاریخ احمدیت.جلد 22 550 سال 1964ء اہل مغرب کا مطالبہ تبلیغ اسلام کے نقطہ نگاہ سے مغربی ممالک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے آپ نے توجہ دلائی کہ آج وہاں ہمارا مقابلہ عیسائیت سے نہیں بلکہ لامذہبیت سے ہے.رومن کیتھولک فرقہ کو چھوڑ کر باقی تمام عیسائی فرقوں کی قدیم مذہبی حیثیت میں اب بہت کچھ تبدیلی آچکی ہے.عیسائی عقائد کو اب وہاں جزو ایمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ محض ثقافتی ورثہ کی حیثیت سے برائے نام تسلیم کیا جاتا ہے.فی الاصل اب وہاں عیسائیت کی بجائے لامذہبیت کو فروغ حاصل ہو چکا ہے.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اب وہاں صرف اسلام ہی نہیں بلکہ فی الاصل مذہب کی حمایت کا بار بھی ہم پر ہی ہے.ان حالات میں اہل مغرب کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ ان میں کیا چیز نہیں ہے جو مذہب ان میں پیدا کر سکتا ہے.وہ اس کا علمی جواب ہی نہیں بلکہ عملی جواب چاہتے ہیں.پھر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی وہاں اس قدر سرعت کے ساتھ ہوئی ہے اور ان علوم سے استفادہ کرنے میں اخلاقی اور روحانی اقدار سے پہلو بچا کر وہ اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ اب انہیں اخلاق اور روحانیت کی طرف واپس آنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی.ادھر نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی اور اس سے یک طرفہ استفادہ کے نتیجہ میں نوع انسان کی مکمل تباہی کا خدشہ بڑھتا چلا جارہا ہے.ان کی یہ وہ مشکلات ہیں جن کا خاطر خواہ صل وہ چاہتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں لیکن کوئی علمی حل ان کی تسلی نہیں کر سکتا تا وقتیکہ اس کا عملی نمونہ ان کے سامنے نہ آجائے.وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کسی اور تبلیغ کی ضرورت نہیں ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کے پیش کردہ اصول ارفع و اعلیٰ ہیں اور ان میں یہ اہلیت موجود ہے کہ یہ ہمارے دکھوں کا مداوا کر سکیں.لیکن ہمیں ان کا عملی نمونہ پیش کر کے دکھا دو.روحانیت سے ماورا وہ یہ مشاہدہ بھی کرنا چاہتے ہیں کہ اس کا روز مرہ زندگی پر کیا اثر ہوگا.وہ محض بحث کی خاطر یہ نہیں کہتے بلکہ دلی تڑپ کے ساتھ کہتے ہیں اور فی الواقعہ اسلامی تعلیم اور اصولوں کا وہ ایسا عملی نمونہ دیکھنے کے متمنی ہیں کہ جسے دیکھ کر دل یہ اطمینان پکڑ جائیں کہ اسلام ان کی مشکلات دور کرسکتا ہے.اسلام کی عملی تجربہ گاہ مغربی ممالک کی اس صورتحال کے ضمن میں احباب کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے محترم چوہدری صاحب موصوف نے فرمایا کہ آج اسلامی تعلیم کا ایسا دلوں کو مسخر کرنے والا نمونہ

Page 566

تاریخ احمدیت.جلد 22 551 سال 1964ء دکھانا ہماری ذمہ داری ہے کیونکہ ہم اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کا مشن لے کر کھڑے ہوئے ہیں.ہمارے لئے اس نمونہ کے پیش کرنے کا امکان صرف ربوہ میں ہی ہے کیونکہ سب سے زیادہ تعداد میں ایک مقام پر ہم ربوہ میں ہی ہیں.ہمیں چاہیئے کہ ہم یہاں اپنے آپ کو اسلام کی ایک عملی تجربہ گاہ (لیبارٹری) بنالیں جہاں دنیا اسلامی اصولوں اور تعلیمات کے عملی تجربہ کو مشاہدہ کر سکے.اگر ہم یہ بات پیدا کر لیں تو ہم مغرب کی لامذہبیت کا بھی مقابلہ کر سکتے ہیں اور فی زمانہ اہل مغرب کو جو مشکلات درپیش ہیں انہیں بھی حل کر دکھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں.موجودہ وقت کی یہ وہ اہم ضرورت ہے جسے پورا کر کے اسلام کو مغرب میں غالب کیا جا سکتا ہے.تبلیغ اسلام کے ضمن میں بعض بنیادی ضرورتیں مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کی راہ میں مشکلات اور ان کا حل پیش کرنے کے علاوہ محترم چوہدری صاحب موصوف نے تبلیغ اسلام کے ضمن میں بعض بنیادی ضرورتوں کی طرف بھی توجہ دلائی.اس تعلق میں آپ نے غیر ملکی زبانوں پر عبور حاصل کرنے اور مختلف اقوام کی تاریخ کے ان عناصر کا مطالعہ کرنے پر خاص زور دیا جو قومی ذہن کے ارتقاء اور قومی کردار کی تشکیل پر اثر انداز ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا اس کے بغیر کوئی مبلغ غیر اقوام میں اس طور پر تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا کہ وہ اقوام اپنائیت کے احساس کے ماتحت اس کی بات سن سکیں اور اس میں دلچسپی لینے پر مجبور ہوں.پھر آپ نے تبلیغ کے مختلف شعبوں میں علیحدہ علیحدہ ماہر تیار کرنے کے سلسلہ میں Specialization کے اصول سے فائدہ اٹھانے اور مبلغین میں زندگی کے مختلف ادوار کے لحاظ سے درجہ بدرجہ نئی روح پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی اور آخر میں علی الخصوص اس امر پر بہت زور دیا کہ بچوں کی تعلیم میں بھی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پوری طرح نبھانا از حد ضروری ہے.بچوں کی تعلیم کے ضمن میں آپ نے اس امر پر تشویش کا اظہار فرمایا کہ مرکز سے باہر بچوں کو خالص دنیوی نقطۂ نگاہ سے تعلیم دینے کا رجحان بہت بڑھ رہا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ متمول گھرانوں کے قابل اور ذہین بچے جامعہ احمدیہ میں داخل نہیں ہوتے.وہ دنیوی علوم کی تحصیل کے لئے ہی وقف رہتے ہیں اور جامعہ کے حصہ میں بالعموم وہی بچے آتے ہیں جو اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے یا پھر جو حالات کی مجبوری کے باعث دنیوی علوم حاصل نہیں کر سکتے.آپ نے توجہ دلائی کہ یہ امر بھی تبلیغ اسلام کی راہ میں روک ثابت ہو رہا ہے.آپ نے فرمایا آج دنیا جن مشکلات میں مبتلا ہے اور جن کے

Page 567

تاریخ احمدیت.جلد 22 552 سال 1964ء حل کے لئے وہ حیران و پریشان ہے ان کا تقاضہ یہ ہے کہ اعلیٰ صلاحیتوں کے بچے دین کی خدمت کے لئے آگے آئیں محض دنیوی علوم سیکھنے کی بجائے وہ جامعہ میں داخل ہو کر دینی علوم سے بھی اپنے آپ کو مزین کریں اور پھر مبشرین اسلام کی حیثیت سے مغربی اقوام کو حق و صداقت کا وہ راستہ دکھا ئیں جس پر گامزن ہو کر ہی وہ اپنی موجودہ مشکلات کو حل کرنے پر قادر ہو سکتے ہیں.تبشیر کا کام اس صورت میں بطریق احسن انجام پائے گا کہ چوٹی کے آدمی آگے آئیں جو خود دین سیکھیں اور پھر دنیا کو دین سکھا کر اس کی مشکلات کو حل کریں.122 خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کے آخری سالانہ جلسے اب ہم واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کے آخری جلسہ سالانہ قادیان در بوہ تک آپہنچے ہیں.جلسه سالانه قادیان شمع احمدیت کے دو ہزار پروانوں کے اس روح پرور اجتماع میں بھارتی احمد یوں کے علاوہ دوسو پاکستانی زائرین بھی شامل ہوئے.جو ۲۰،۱۹،۱۸ دسمبر ۱۹۶۴ء کو منعقد ہوا.سید نا حضرت مصلح موعود نے اس جلسہ سالانہ کے لئے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا جو امیر قافلہ چوہدری اسد اللہ خاں صاحب نے پڑھ کر سنایا:.اللہ تعالیٰ آپ سب کا قادیان میں جمع ہونا مبارک کرے.میرا پیغام آپ کے لئے یہی ہے کہ اپنے نمونے سے دنیا کو احمدیت کی طرف کھینچیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.حسب معمول افتتاحی اجلاس کی صدارت کے فرائض الحاج حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان نے انجام دیئے اور لوائے احمدیت لہرایا.خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کے اس آخری جلسہ سالانہ کی مقدس تقریب میں حسب ذیل تقاریر ہوئیں:.ا.افتتاحی خطاب (حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل ) ۲ موعودا قوام عالم (مولوی بشیر احمد صاحب دہلوی).حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں (مولوی محمد کریم الدین صاحب شاہد مبلغ سرینگر )

Page 568

تاریخ احمدیت.جلد 22 553 سال 1964ء - بمبئی میں عیسائی کا نفرنس اور جماعت احمدیہ کی مساعی ( مولوی سمیع اللہ صاحب مبلغ بمبئی) ۵.قبول احمدیت کے حالات (مسٹر محمد آرتھر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ غانا ) ۶.غانا میں احمدیت (الحاج حسن عطاء صاحب غانا ) ے.حالات قبول احمدیت (مسٹر شمس الحق جانسن کلکتہ ) موخر الذکر تین تقاریر کا اردو تر جمہ مولانا نور محمد صاحب نسیم سیفی نے کیا) احمدیت کا مستقبل (ڈاکٹر سید اختر احمد صاحب اور مینوی) ۹.بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام ( مولانا نور محمد صاحب نیم سیفی) ۱۰.خطبہ صدارت (حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) ا.ہند و مسلم اتحاد (مولوی سمیع اللہ صاحب مبلغ بمبئی) ۱۲.شمائل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری) ۱۳.اسلام کا اقتصادی نظام اور کمیونزم ( مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعه احمد یہ ربوہ ) ۱۴.جماعت احمدیہ کا قیام اور اس کی خصوصیات (مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ کلکته ) ۱۵ اختتامی تقریر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل) احمدی خواتین کا جلسہ سالانہ الگ زنانہ جلسہ گاہ میں ہوا جہاں تمام تقریری پروگرام بذریعہ لاؤڈ سپیکر سنائے جانے کا انتظام تھا.علاوہ ازیں ۱۹ دسمبر کو خواتین کا ایک خصوصی اجلاس بھی ہوا جس میں صاحبزادی سیدہ امتہ القدوس بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ قادیان، امتة اللطیف صاحبہ، جمیلہ سلطانہ صاحبہ، صاحبزادی عصمت صاحبہ، صاحبزادی امتہ النور صاحبہ، اختر بیگم صاحبہ بنگلور، صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ ( بنت حضرت مصلح موعود ) ، بشری بیگم صاحبہ ربوہ ، بلقیس بیگم صاحبہ مدراس، حلیمه بشری صاحبہ بقاپوری، محمودہ بیگم صاحبہ، عائشہ بیگم صاحبہ، معراج سلطانہ صاحبہ اور نعیمہ بشری صاحبہ بقا پوری کی تقاریر ہوئیں.جلسہ کے دوران ۲۰،۱۹،۱۸ دسمبر کو تین شبینہ اجلاس بھی مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوئے.۱۸ دسمبر کے شبینہ اجلاس میں مولوی عبدالحق صاحب مبلغ بہار، مولوی شریف احمد صاحب امینی نے تقریر کی.19 دسمبر کو مولانا ابوالعطاء صاحب، شیخ بشیر احمد صاحب حج ہائیکورٹ لاہور نے خطاب فرمایا.۲۰ دسمبر کو مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی، صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب، سید فضل احمد

Page 569

تاریخ احمدیت.جلد 22 554 سال 1964ء ما حب ایس پی بہار اور مولانابی عبداللہ صاحب مبلغ کیرالہ نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.جلسہ میں دنیا کی مختلف چھتیں زبانوں میں تقاریر جلسہ سالانہ قادیان۱۹۶۴ء کے موقعہ پر ۲۱ دسمبر بعد نماز فجر مسجد مبارک میں ایک نہایت دلچسپ اور ایمان افروز پروگرام پر مشتمل اجلاس منعقد ہوا.اس ایمان افروز اجلاس کی صدارت کے فرائض مولا نانسیم سیفی صاحب مبلغ مغربی افریقہ نے سرانجام دیئے.مقررین حضرات میں سے اکثر وہ احباب تھے جو جماعت احمدیہ کی طرف سے آج دنیا کے مختلف ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں.اور کچھ وہ احباب بھی تھے جو افریقہ جیسے دور افتادہ براعظم سے سفر کر کے محض قادیان کی زیارت کرنے کیلئے تشریف لائے تھے اور مسیح محمدی کے الہام وَيَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کے زندہ گواہ تھے.اس پروگرام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معرکة الآراء تصنیف ” تذكرة الشهادتين سے ذیل کا اقتباس منتخب کیا گیا تھا جو بجائے خود ایک پیشگوئی پر مشتمل ہے.جس پر مندرجہ ذیل پروگرام کے مطابق مقررین حضرات نے تقاریر کیں.یعنی اپنی اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کیا.وہ اقتباس یہ ہے:.”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا.اور محبت اور برہان کے رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرا در کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.آج ہم اس روحانی کیف و کم کا اندازہ نہ لگا سکیں گے جو اُس وقت اس مجلس پر طاری تھا جب دنیا کی مختلف زبانوں میں اس روح پرور اقتباس کا ترجمہ سنایا جا رہا تھا.بلکہ یوں سمجھئے کہ دنیا کے مختلف ممالک تسلیم و اعتراف کر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ بالا پیشگوئی پوری ہوئی کہ:.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا“.الحمد للہ 124

Page 570

تاریخ احمدیت.جلد 22 555 سال 1964ء پروگرام کے مطابق تلاوت قرآن کریم عبدالکریم ملکانه صاحب نے کی اور پھر مندرجہ ذیل تقریریں ہوئیں:.نمبر شمار ۱۴ اسمائے مقررین نام زبان جس میں ترجمہ کیا مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری سابق مبلغ بلا د عربیہ اردو مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب مکرم قریشی عبدالماجد صاحب بی اے بی ایڈ عربی فارسی مکرم محمد کریم اللہ صاحب نوجوان.ایڈیٹر ” آزاد نوجوان مدراس انگریزی مکرم احمد شمشیر صاحب آف ماریشس || مکرم محمد صدیق صاحب فانی ناظر ڈی سی آفس پونچھ مکرم کمال یوسف صاحب مبلّغ سکینڈے نیویا مکرم صدیق امیر علی صاحب آف مالا بار مکرم مولوی بشیر احمد صاحب فاضل مبلغ دہلی مکرم گیانی بشیر احمد ناصر بی اے.قادیان فرنچ فرنچ کر یولی بھدرواہی ڈینش ملیالم سنسکرت گورمکھی مکرم با بو غلام رسول صاحب نائب امیر جماعتہائے احمد یہ کشمیر کشمیری با مکرم مولوی مسعود احمد صاحب جہلمی مبلغ جرمنی مکرم رفیق احمد صاحب گلچیں متعلم مدرسہ احمدیہ قادیان ۱۵ مکرم مولوی محمد ابوالوفاء صاحب مبلغ کالیکٹ کیرالہ ۱۶ مکرم عبد الحلیم صاحب متعلم مدرسہ احمدیہ قادیان ۱۷ مکرم سید کمال یوسف صاحب مبلغ سکینڈے نیویا ۱۸ مکرم سید کمال یوسف صاحب مبلغ سکینڈے نیویا ۱۹ مکرم انصار احمد صاحب تنویر متعلم جامعہ احمدیہ قادیان مکرم نوابزادہ محمد امین خاں صاحب مکرم محمد علی صاحب آف بنگال جرمن سندھی متامل اڑیسہ سویڈش نارویجن ہندی پشتو بنگالی

Page 571

تاریخ احمدیت.جلد 22 556 مکرم سید شاہ محمد صاحب مبلغ انڈونیشیا مکرم الحاج مولوی عزیز الرحمن صاحب منگلا مکرم چودھری عنایت اللہ صاحب خلیل مبلغ یوگنڈا مکرم محمد معین الدین صاحب آف محبوب نگر مکرم عبد الباسط صاحب متعلم جامعہ احمدیہ قادیان ۲۷ مکرم الحاج حسن عطاء صاحب آف مغربی افریقہ // ۲۸ ۲۹ مکرم محمد آرتھر آف غانا.افریقہ مکرم پر و فیسر احمد یوشیده صاحب آف جاپان ۳۰ // ۳۱ مکرم رشیدی صاحب آف افریقہ ۳۳ مکرم محمد جعفر صاحب یادگیری مکرم سید محمد شاہ صاحب مبلغ انڈونیشیا ۳۵ مکرم عبد الماجد صاحب بی اے بی ایڈ ۳۶ مکرم عبدالرحیم صاحب انڈونیشین جانگلی لوگنڈا تليكو گوجری ہاؤسا چوئی جاپانی روسی سواحیلی کنٹری جاوی چینی ترکی اجلاس کے اختتام پر مقبرہ بہشتی میں تمام مقررین کا گروپ فوٹو بھی لیا گیا.125 سال 1964ء جلسہ سالانہ ربوہ قادیان میں دو ہزار قدوسیوں کے جلسہ سالانہ کے چند روز بعد ۲۶، ۲۸،۲۷ دسمبر کو ربوہ کی مقدس سرزمین میں احمدیت کے ایک لاکھ سے زائد فدائیوں کا فقید المثال اجتماع ہوا جس میں پاکستان کے کونے کونے ہی سے نہیں یورپ، افریقہ اور شرق اوسط سے آئے ہوئے مخلصین جماعت نے بھی شرکت فرمائی.بیرونی ممالک سے تشریف لانے والے بعض اصحاب کے نام یہ ہیں:.رشیدی مصبح صاحب ( ٹانگانیکا) ، محمد آرتھر صاحب (جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ غانا)، الحاج احسن عطاء صاحب ( جماعت احمدیہ انشانٹی کے علاقائی پریذیڈنٹ ) محمد حنیف ابراہیم صاحب

Page 572

تاریخ احمدیت.جلد 22 557 سال 1964ء ( جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ کیپ ٹاؤن)، مسٹر رفیق چانن صاحب (سوئٹزر لینڈ )، مس جمیلہ کوپ مین صاحبہ (جرمنی) مسٹر علی حسن کاسٹرز (جرمنی) مسٹر جانسن (انگلستان) ہمسٹر چوانگ شاہ صاحب (چین).ان غیر ملکی معزز مہمانوں کے علاوہ بیرونی ممالک میں مقیم جن احمدی پاکستانیوں کو اس تاریخی جلسہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ان کے نام یہ ہیں :.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج عالمی عدالت (ہالینڈ) منور احمد صاحب نمی پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گلاسکو) ، عبدالمنان دین صاحب مع اہلیہ محترمہ، عبدالعزیز دین صاحب و اہلیہ محترمہ، جمعدار کرم دین صاحب (لندن)، سیٹھ عبدالستار صاحب، چوہدری رحمت خاں صاحب، ملک محمد عثمان صاحب، سید بشیر احمد شاہ صاحب، ناصرہ ندیم صاحبہ پریذیڈنٹ لجنہ اماءاللہ نیروبی، منیرہ ندیم صاحبہ، منصور احمد صاحب ندیم، فاروق احمد صاحب ندیم ، اقبال بیگم صاحبہ، مسٹر بشیر احمد صاحب برمی مع اہل وعیال ( کینیا)، بشیر حبیب صاحب، ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ڈار، حبیبہ بیگم صاحبہ (ٹانگانیکا)، میاں محمد حسین صاحب ( یوگنڈا)، ڈاکٹر عبداللطیف صاحب وڈاکٹر محمد خان صاحب (لندن)، مظفر حسن صاحب، جمعدار غلام رسول صاحب، عزیز احمد صاحب، محمد افضل صاحب مع اہلیہ محترمہ عبدالرحیم صاحب ( کویت) - 2 اس اعتبار سے یہ جلسہ سالانہ دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں کا ایک نمائندہ اجتماع تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور خلافت ثانیہ کی حقانیت کا منہ بولتا نشان تھا.سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا افتتا حی پیغام 126 جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۶۴ء کے افتتاحی اجلاس میں اجتماعی دعا سے قبل محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے سیدنا حضرت خلیفتہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مندرجہ ذیل بصیرت افروز پیغام جو حضور کی ایک پُر معارف تقریر کے اقتباس پر مشتمل تھا پڑھ کر سنایا:.برادران جماعت! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہماری موجودہ مثال کمزور پرندوں کی سی ہے جو دریا کے کسی خشک حصہ میں ستانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور شکاری جو اُن کی تاک میں لگا ہوا ہوتا ہے ان پر فائر کر دیتا ہے اور وہ پرندے وہاں سے اڑ کر ایک دوسری جگہ پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں.ہم بھی آرام اور اطمینان سے دنیا کی چالا کیوں اور ہوشیاریوں اور فریبوں سے بالکل غافل ہو کر اپنے آرام گاہ میں اطمینان اور آرام سے بیٹھے تھے اور

Page 573

تاریخ احمدیت.جلد 22 558 سال 1964ء ارادے کر رہے تھے کہ ہم میں سے کوئی اڑ کر امریکہ جائے گا کوئی انگلستان جائے گا.کوئی جاپان جائے گا اور اسلام کی اشاعت ان جگہوں میں کرے گا لیکن چالاک شکاری اس تاک میں تھا کہ وہ ان غافل اور سادہ لوح پرندوں پر فائر کرے.چنانچہ اس نے فائز کیا اور چاہا کہ وہ ہمیں منتشر کر دے مگر ہماری جماعت جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں پرندہ ہی قرار دیا گیا ہے اپنے اندر ایک اجتماعی روح رکھتی تھی.وہ مرغابیوں کی طرح اٹھی تھوڑی دیر کے لئے ادھر ادھراڑی مگر پھر جمع ہوئی اور ربوہ میں آکر بیٹھ گئی.بے شک ابھی یہ ایک بیج ہے جو دکھائی دے رہا ہے مگر یہ بیج بڑی برکت کی نشانی ہے بڑی رحمت کی نشانی ہے اور آئندہ کے لئے بڑی امیدیں دلانے والی چیز ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ یہ چیز اچھی بھی ہے بہتر بھی ہے بلکہ ہمارے لئے فخر کا موجب بھی ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ہماری پیدا کردہ نہیں بلکہ ہمارے خدا ہی کی پیدا کردہ ہے اور ہم اس خوبی میں جو ہمارے اندر لوگوں کو نظر آتی ہے اپنے خدا ہی کا ہاتھ دیکھتے ہیں.اس لئے ہم اسی کے حضور میں ادب کے ساتھ اپنا سر جھکاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں.اے مہربان آقا! جس نے ہم کو انتشار کے بعد پھر جمع کیا جس نے پریشانی کے بعد ہمیں پھر امن کا راستہ دکھایا اور جس نے آئندہ کے لئے ہمیں بہت سی امیدیں دلائیں.اگر تیرے علم میں ہمارے لئے کوئی اور ابتلاء بھی مقدر ہیں تو ہم تجھ سے امید کرتے ہیں کہ تو پھر بھی ہم کو پراگندہ نہیں ہونے دے گا بلکہ اپنے خاص فضل اور مہربانی سے ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ہماری خطاؤں کو معاف کرتے ہوئے پھر ہم کو اکٹھا کر دے گا.پھر ہم کو جمع ہونے کی توفیق عطا فرما دے گا.اور اس وقت تک ہمارے ارادوں کو متزلزل نہیں ہونے دے گا جب تک کہ ہم اسلام کو تمام دنیا میں قائم نہ کر دیں.ہمیں یہ امیدیں تیرے فضل نے دلائی ہیں اور ہماری امنگیں تیری رحمت کا ہی نتیجہ ہیں.پس اے آقا! ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تو ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کر کے ہم میں وہ قومی روح پیدا فرما جو دنیا کی فتح کے لئے ضروری ہے اور ہم میں وہ لیگا نگت اور اتحاد پیدا فرما جو دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے اور ہمارے لئے ایسے سامان پیدا فرما کہ ہم دنیا میں ہر مشکل اور مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہا کریں.اور ہمیشہ ایک جھنڈے کے تلے جمع رہا کریں.تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو ہم دنیا میں پھیلا سکیں اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو اس دنیا کے چپہ

Page 574

تاریخ احمدیت.جلد 22 559 سال 1964ء چپہ پر قائم کر سکیں اور وہ محسن ترین وجود جو آج مظلوم ترین وجود بنا ہوا ہے اس کی شان اور عظمت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرسکیں.ایمان کہلاتا تو ہمارا ایمان ہے لیکن حقیقتاً خدا تعالیٰ کے پیدا کئے بغیر پیدا بھی نہیں ہوسکتا.اس لئے آؤ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مہربانی کر کے ہم لوگوں کو جو درحقیقت اس کے فضلوں کے مستحق نہیں سخت کمزور ہیں اور اعمال میں سست اور غافل ہیں اپنا فضل نازل کر کے وہ ایمان بخشے وہ غیرت بخشے کہ ہمارے دلوں کی آگ سلگتی چلی جائے ، بھڑکتی چلی جائے یہاں تک کہ ہم پورے عزم اور ارادہ کے ساتھ دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑے ہو جائیں اور اس وقت تک آرام کا سانس نہ لیں جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کی عظمت کو پھر دنیا میں قائم نہ کر دیں اور وہ ظلم اور بے انصافی جو ہمارے آقا سے ہوتی چلی آرہی ہے اس کا بدلہ نہ لے لیں.مگر وہ بدلہ نہیں جو سروں کو تلوار سے کاٹتا ہے بلکہ وہ بدلہ جو دلوں کو محبت سے بھرتا ہے تاکہ دنیا میں خدا تعالیٰ کا نام پھر روشن ہو اور اللہ تعالیٰ کا جلال ایک دفعہ پھر ظاہر ہو جائے.پس دعا کرو دل کے ساتھ ، خشیت کے ساتھ ، امیدوں کے ساتھ اور اپنے عجز کے اظہار اور کمزوری کے اعتراف کے ساتھ کیونکہ سچی دعا وہی ہوتی ہے جو ایک طرف اپنی کمزوری اور عجز کا اعتراف رکھتی ہے تو دوسری طرف خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے اس میں مایوسی نہیں ہوتی.والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اس للہی اور مقدس اجتماع کے فاضل مقررین کے اسماء گرامی درج ذیل کئے جاتے ہیں:.۲۶ دسمبر.( اجلاس اول) ا.مولانا ابوالعطاء صاحب ( عنوان سیرت حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم) ۲.سوئس نومسلم مسٹر رفیق چانن ( حالات قبول اسلام ) ۳.مسٹر محمد آرتھر صاحب (غانا میں جماعت احمدیہ ) 2 اجلاس دوم) ۴.مرزا عبدالحق صاحب امیر علاقائی ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیسی جماعت پیدا کرنا چاہتے تھے ) ۵ - مولوی سمیع اللہ صاحب مبلغ بمبئی (وفات مسیح ناصری علیہ السلام).مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری ( نجات.عیسائیت اور اسلام کی رُو سے ) 128

Page 575

تاریخ احمدیت.جلد 22 ۲۷ دسمبر.(اجلاس اول) 560 ے.حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری (ذکر حبیب) ۸.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (امریکہ میں تبلیغ اسلام ) سال 1964ء ۹.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ( موجودہ زمانہ کے مذہبی رحجانات اور اسلام ) ۱۰.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ( مصلح موعود سے متعلق پیشگوئی ) ۱۱.حسن عطاء صاحب علاقائی پریذیڈنٹ غانا ( غانا کے احمدی) اجلاس دوم) ۱۲ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نائب ناظر اصلاح وارشاد( عقائد احمدیت پر اعتراضات کے جوابات) ۱۳.پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے ( کینٹب) صدر شعبہ فلاسفی پنجاب یونیورسٹی لاہور منکرین باری تعالیٰ اور ان کے اعتراضات کے جوابات ) ۲۸ دسمبر.( اجلاس اول) ۱۴.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب (ذکر حبیب) ۱۵.مولوی محمد صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ مشرقی پاکستان (سرزمین مشرقی پاکستان میں احمدیت کی صداقت کے نشانات) ۱۶.(حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے پر نسل تعلیم الاسلام کالج (اسلام کا اقتصادی نظام ) ۱۷.محمد حنیف ابراہیم صاحب کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ میں احمدیت) ۱۸.رشیدی صبح ٹانگانیکا ( مشرقی افریقہ میں احمدیت کی ترقی ) اجلاس دوم) ۱۹.مولانا جلال الدین صاحب شمس ( صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) ا.۲۰ ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (صدارتی خطاب ) سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا پُر معارف اختیامی پیغام 129 جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس میں اجتماعی دعا سے قبل محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس

Page 576

تاریخ احمدیت.جلد 22 561 سال 1964ء نے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کا مندرجہ ذیل بصیرت افروز پیغام پڑھ کرسنایا.حضور کا یہ پیغام بھی حضور کی ایک تقریر کے اقتباس پر مشتمل تھا:.آپ لوگ جلسے پر آئے تقریریں سنیں اور جلسہ ختم ہو گیا.اس جگہ آنے اور تقریریں سننے کا آخر کوئی فائدہ ہونا چاہیئے ورنہ آ کر خالی ہاتھ چلے جانا تو اپنے اوقات اور اموال کو ضائع کرنا ہے.پس جلسہ سالانہ سے فائدہ اٹھاؤ اور کوشش کرو کہ تم طیر بن جاؤ اور ہد ہد والے کمال تم میں آجائیں.اگر سلیمان کی امت میں سے ایک شخص جس کا نام ہد ہد تھا اتنے کمال اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے کہ توحید کے باریک اسرار کا اُسے علم ہو جاتا ہے، سیاست سے وہ واقف ہوتا ہے،سلیمان شام میں ہوتے ہیں اور وہ یمن کی خبر انہیں پہنچا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں جو شرک نظر آتا ہے اُس کو دور کرنا چاہیئے حالانکہ سلیمان صرف ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ قوم جسے خدا نے یہ کہا ہے کہ جاؤ اور ساری دنیا میں میرا پیغام پہنچاؤ اس کے افراد کے اندرا گر مذہب کا درد نہ ہو تو یہ کتنی شرم کی بات ہوگی.غالباً اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو شرمانے کیلئے یہ قصہ بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مقابلہ میں تو سلیمان کی امت ایسی ہی ہے جیسے باز کے مقابلہ میں ہد ہد.پس جب ہد ہد یہ کمال دکھا سکتا ہے تو بازوں کو اپنے اندر جو کمالات پیدا کرنے چاہئیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہو سکتے.پس اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو! اپنے اندر جوش ، اخلاص اور ہمت پیدا کرو تم آسمان کی طرف اُڑ و کیونکہ تمہارا خدا اوپر ہے.تم نیچے مت دیکھو اور معمولی معمولی باتوں کے پیچھے مت پڑو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں طائر بنانا چاہتا ہے تم اپنی نگاہیں ہمیشہ اونچی رکھو کیونکہ تم مسلمان ہو اور مسلمان کے برابر اور کوئی نہیں ہوتا.پس جب اپنے گھروں میں جاؤ تو اس ارادے اور نیت کے ساتھ جاؤ کہ آئندہ ہم..طائر بنیں گے جو ہواؤں میں اڑتے پھرتے ہیں اور اپنے خدا کی آواز کو سننے کی کوشش کریں گے.اس کے بعد دوست دعا کریں اپنے لئے بھی ، اپنے رشتہ داروں کے لئے بھی جو احمدی ہیں کہ انہیں روحانی ترقی نصیب ہو اور جو غیر احمدی ہیں ان کے لئے بھی کہ انہیں ہدایت حاصل ہو.اسی طرح اپنے شہر والوں کے لئے ، اپنے ہمسائیوں کے لئے اور اپنے ملک والوں کے لئے دعائیں کرو اور خصوصیت سے جماعت کے لئے یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں سچا تقوی، پرہیز گاری اور تقدس پیدا کرے کیونکہ بغیر اس کے کہ ہم اسلام کا عملی نمونہ ہوں ہماری زندگیاں کسی کام کی نہیں.پس

Page 577

تاریخ احمدیت.جلد 22 562 سال 1964ء دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایسی محبت پیدا کر دے جس کے مقابلہ میں اور تمام محبتیں سرد ہو جائیں اور ہمیں ہر جگہ وہی نظر آئے.اگر ہم بیویوں سے محبت کریں تو خدا کے لئے ، اگر ہم ماں باپ سے محبت کریں تو خدا کے لئے ، اگر ہم اپنی جانوں سے محبت کریں تو خدا کے لئے اور اگر ہم مال سے محبت کریں تو خدا کے لئے.پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت دے اور اگر ماسوی اللہ کی محبت ہمارے دلوں میں ہو تو محض اُس کی وجہ سے ہو.مستقل نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کاموں کی توفیق دے، ہمارے خیالات میں وسعت دے.ہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور ہماری قربانیوں کو زیادہ کرے.اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلام کی اشاعت کے لئے رات اور دن کام کرتے چلے جائیں مگر ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا.پھر وہ ہمیں اپنے فضل سے اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی زندگیاں اس کے دین کے لئے وقف کر دیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر عیب سے بچائے.ہمیں قرآن کا علم دے اُس کے پڑھنے کی توفیق بخشے اور اس کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت عطا فرمائے اور اپنے کلام کی ایسی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے کہ اس کا کلام ہماری روح کی غذا بن جائے.ہمارے آگے بھی نور ہو ہمارے پیچھے بھی نور ہو.ہمارے اندر بھی نور ہو اور ہمارے باہر بھی نور ہو یہاں تک کہ ہم مکمل نور بن جائیں.اللہ تعالیٰ تمام تاریکیوں اور ظلمتوں سے ہمیں محفوظ رکھے.اور ہمیں اپنی پناہ میں لے لے.وہ ہر قسم کے دشمنوں سے ہمیں بچائے.اپنے فضلوں کے دروازے ہم پر کھول دے اور ہمارے قلوب کو اتنا پاک اور مصفی کر دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل ان پر پڑنے لگے.پھر دعا کروان مبلغوں کے لئے جو باہر گئے ہوئے ہیں.دعا کرو کہ خدا ان کی ان کوششوں میں جو وہ سلسلہ کی حفاظت اور ترقی کے لئے کر رہے ہیں برکت ڈالے اور ان کے تھوڑے کام کو بھی بہت بنا دے.ان کی زبانوں میں تاثیر ڈالے، ان کے قلوب میں درد پیدا کرے، ان کے دماغوں میں خدا کی محبت کی کیفیات موجزن ہوں اور ان کی زندگیاں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول ہو جائیں.پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی پاک بنائے.جو ہم میں نقص ہیں وہ اُن میں نہ جائیں مگر ہم میں جو خو بیاں ہیں وہ اُن کے وارث ہوں.“ ( آمین ) سیدہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا بصیرت افروز خطاب احمدی خواتین کے جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء کے موقع پر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے

Page 578

تاریخ احمدیت.جلد 22 563 سال 1964ء خواتین سے جو بصیرت افروز خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے:.”اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرّحمن الرّحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم و علی عبده المسيح الموعود رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ انْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران:۹) ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ سب کو جلسہ سالانہ کی شرکت مبارک ہو.برکات مرکز سے حصہ وافر لے کر اور ایمان و عرفان میں ترقی کے ساتھ خیر سے جائیں اور خیر ہی رہے.مہمانوں اور میز بانوں سب کا خدا تعالیٰ اپنے کرم خاص سے حافظ و ناصر رہے.یہ دعا جو میں نے پڑھی ہے اس کے ساتھ ایک خاص یا دوابستہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد تیسری شب تھی کہ صبح کے قریب میں نے خواب دیکھا کہ آپ صحن میں ایک تخت پر کھڑے ہیں اور وہ تخت لرز رہا ہے.آپ بڑی پُر شوکت آواز میں فرماتے ہیں کہ میری جماعت سے کہدو کہ یہ دعا ( مندرجہ بالا ) بہت کثرت سے پڑھیں.میری آنکھ کھلی تو میرے سرہانے ایک لڑکی بیٹھی تھی غالباً نماز کے لئے جگانے کو.میں نے اس کو یہ خواب سنایا.ایک وقت ایسا آیا چند سال بعد کہ بہت شدید ابتلاء اس کو پیش آیا مگر اس نے قابل نمونہ ثابت قدمی دکھلائی.اولا د جو اس کو بہت پیاری تھی چھینی گئی ، گھر سے بے گھر ہوئی ( کیونکہ شوہر عیسائی ہو گیا تھا اور اس کو بھی ادھر کھینچنا چاہتا تھا ) لیکن اس نے دین کو دنیا پر مقدم رکھا.اس کے الفاظ میرا خواب سنتے ہی یہ تھے کہ میں آج سے یہ دعا ہر گز نہیں چھوڑوں گی.پھر اُٹھ کر حضرت خلیفہ اول کو پہلے میں نے یہ خواب سنایا.آپ نے فرمایا : ” میں تو آج سے ہی ضرور خصوصیت سے اس دعا پر زور دوں گا اور درس میں لوگوں سے بھی کہوں گا“.میں نے کچھ تعلیم نہیں پائی.ساڑھے دس سال کی عمر میں با قاعدہ گھر یلو تعلیم کا جوسلسلہ تھاوہ ختم ہو گیا تھا.چونکہ میرے استاد مکرم پیر منظور محمد صاحب مرحوم کی اہلیہ محترمہ مرحومہ کوئی.بی ہوگئی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پڑھنے کے لئے ادھر جانے کو روک دیا تھا کیونکہ اس طرح زیادہ

Page 579

تاریخ احمدیت.جلد 22 564 سال 1964ء وقت وہاں گزرتا تھا.ویسے وہ ہمارے گھر میں ہی تھے کسی کسی وقت چلی بھی جاتی تھی.تین چار روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود مجھے فارسی (گلستان ) کا سبق پڑھایا.پھر اپنی کم فرصتی کی وجہ سے فرمایا ناغہ ہوگا مولوی صاحب سے کہو یہ بھی وہی پڑھا دیا کریں.قرآن شریف کا ترجمہ تو حضرت خلیفہ اول پہلے ہی پڑھاتے تھے.یہ سلسلہ بھی پھر جلد شادی ہو جانے کی وجہ سے ختم ہوا بجز حسب توفیق درس قرآن میں شامل ہونے کے.غرض اپنی علمی حیثیت کو جانتے ہوئے مجھے ہمیشہ حجاب ہی رہا کہ میں کیا لکھ سکتی اور کیا کہہ سکتی ہوں.مگر تھوڑا عرصہ ہوا مجھے ایک سید زادی لڑکی کا جس نے میرے پاس پرورش پائی تھی خواب یاد آیا اور میں نے ارادہ کر لیا کہ اب اس عمر میں سہی جو بھی اور جتنا بھی ہو سکے حسب توفیق کسی موقع پر کہہ ہی دیا کروں شاید یہی مقبول بارگاہ الہی ہو جائے.مالیر کوٹلہ میں ۱۹۳۴ء یا ۳۵ء کا ذکر ہے اس لڑکی نے صبح اٹھ کر مجھے خواب سنایا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں بڑی مسجد (مسجد اقصی قادیان) میں دیکھا.آپ وہاں کھڑے ہیں اور آپ دونوں بہن بھائی ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور مجھے ) کو کہتے ہیں کہ مسجد میں صفائی کرو.اس کو بہت تعجب تھا کہ اور لوگوں کو نہیں کہا آپ دونوں کو صفائی کا فرمارہے تھے.مسجد خواب میں جماعت ہوتی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ اس خواب کا مطلب یہی یا یہ بھی ہے کہ ہر مرد اور عورت جماعت کی (مع اپنے نفوس کے روحانی و ایمانی ترقی میں کوشاں رہے خوابوں کے مطلب ظاہر کے علاوہ اکثر بہت وسعت رکھتے ہیں.اس خواب کے یاد آجانے پر میں نے جھجھک کو دور کر کے برائے نام سہی قلم اٹھانے کی نیت کر لی.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.اب میں اصل مضمون کی طرف آتی ہوں.چند الفاظ ہی آپ کے گوش گذار کرنے ہیں.خدا سے دعا ہے کہ وہ ان کو مؤثر بنا دے.میں جب اپنی سب کی آمین کا یہ الہامی مصرعہ پڑھتی یا سنتی ہوں کہ اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے تو سناٹا آجاتا ہے دل لرز اٹھتا ہے.خدا تعالیٰ ہم سب کو اس قابل بنائے کہ یہ جڑ رہ جائے اور ہم اس کے افضال کے جاذب بنے رہیں.ایمان اور تقوی لازم و ملزوم ہیں کامل ایمان ہو گا تو تقویٰ ضرور حاصل ہوگا گویا تقویٰ ایک تمغہ ہے جو ظاہراً جس کے لگا نظر آئیگا سمجھا جائے گا کہ مومن ہے اور متقی کا ایمان بھی دن بدن ترقی کرے گا.ایمان کے درجات کے ساتھ ساتھ تقویٰ کا درجہ بھی بڑھتا جاتا ہے جس درجہ کا ہمارے قلب میں ایمان ہو گا اسی درجہ کا تقویٰ ہمارے اعمال میں ظاہر میں چمکتا دکھائی دے گا جس کا کامل ایمان ہو گا

Page 580

تاریخ احمدیت.جلد 22 565 سال 1964ء وہ کامل متقی ہو گا.تقویٰ کے عام فہم سیدھے سادے معنی یہی ہیں کہ بیچ بیچ کر اور خوف خدا سے ڈر ڈر کر چلنا اور قلب کی صفائی.ہر وہ امر جس کی نسبت شبہ بھی ہو کہ یہ خلاف رضائے الہی ہوسکتا ہے یا مخلوق خدا کیلئے دکھ اور شر پھیلانے کا موجب ہو سکتا ہے اس سے دور ر ہیں.ہم آپ سب کیلئے یہ الہی نازل شدہ مصرعہ ایک بڑی تنبیہ ہے.ہم کو تقویٰ اور ایمان میں اتنی ترقی کرنی چاہیئے کہ دنیا کی نظروں میں ممتاز ہو جائیں اور ہمارا مولا کریم ہم سے راضی ہو جائے.ہماری زبان بے لگام نہ چلے.ہمارے دل گند سے پاک ہوں ، ہم اخلاق رذیلہ سے دور ہوں اور اخلاق فاضلہ کا نور ہماری پیشانیوں پر واضح طور پر چمکتا نظر آ جائے.ہم میں سے ہر ایک تمام عالم کے لئے ایک نمونہ اور مشعلِ راہ بن جائے.ہمیں چاہیئے اور دل و جان سے ہماری کوشش شب و روز یہی ہو کہ تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم بڑھاتے چلیں اور بڑھ کر پھر پیچھے نہ ہٹیں.ہماری جماعت تقویٰ کا ایک اعلیٰ نمونہ بن جائے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے در ہمارے لئے نیز ہماری اولادوں اور نسلوں کے لئے زیادہ ہی زیادہ کھلتے چلے جائیں.مگر چونکہ انسان کمزور ہے، محض کوشش سے وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالی کی نصرت شاملِ حال نہ ہو.اس کے لئے اس راہ پر چلنے کو جو ایک عصا خدائے کریم نے ہمارے ہاتھوں میں دیا ہے اس کا سہارا لے کر ہی یہ راہ دشوار گذار آسانی سے طے ہو سکتی ہے.وہ عصا ہے’ دعا‘.دعا جو ذات باری کی رحمت پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اس کی محبت میں کھوئے جا کر کی جاتی ہے وہ ایسا ہی عصا بن جاتی ہے گویا خدا تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ میں اپنے بندہ ناچیز کا ہاتھ تھام کر ہر گھائی پار کرا دینے کا ارادہ فرمالیا ہے.دعا رحمت ہے، سب سے بڑی نعمت ہے ، خدا اور بندے کے درمیان ایک وسیلہ ہے جو محبت کو بڑھاتا ہے ایمان کو جلا بخشتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا پیارا رب، ہمارا مالک، ہمارا خالق ہمارے قریب آ گیا ہے اور یہ سایہ اس کی رحمت کا اگر ہمارے سر پر ہے تو پھر دنیا کی کوئی بلا ہمیں ڈرا نہیں سکتی.پس دعا سے اس کی نصرت ڈھونڈیں، تقویٰ اختیار کریں.ہر وقت ڈرتے رہیں کہ خدا نہ کرے قدم کسی منزل پر پھسل نہ جائیں.کامل ایمان اور تقویٰ اگر ہمیں حاصل ہو جائے تو ہم سچے مسلمان و احمدی کہلا سکتے ہیں ورنہ ہم کیا ہیں ہم کچھ بھی نہیں“.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے قلوب میں ہر دم ایمان ترقی پکڑتا جائے اور ہم سب کے سینوں پر تقویٰ کا تمغہ چمکتا نظر آئے.ہمارے چہرے اخلاص و محبت کے نور سے منور ہوں.ہم اپنے مولا کی

Page 581

تاریخ احمدیت.جلد 22 566 سال 1964ء رضا پر چلنے والے بنیں.اس کے لئے ہی ہماری زندگی ہو اور اسی کے لئے ہماری موت ہو.ہماری حیات مبارک اور انجام بخیر ہو.آمین.مبارکہ احمدی خواتین کے جلسہ سالانہ کی دوسری مقررات حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے علاوہ اس جلسہ پر مندرجہ ذیل مقررات نے تقریریں کیں:.ا.صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ (اسلام کی فوقیت دوسرے مذاہب پر ) ۲- امتہ المالک صاحبہ راولپنڈی (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ۳ امتة الرشيد فضل الہی صاحبہ ( دعا اور اس کی اہمیت) ۴.حمامۃ البشری صاحبہ (احمدیت دنیا کے کناروں تک ) ۵ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب (کسر صلیب) میں جمیلہ کوپ من جرمنی ( جرمنی میں اسلام کا مستقبل) ۷.حضرت سیدہ ام متین صاحبہ ( تعمیر مسجد ڈنمارک کے لئے تحریک) - بشری صدیقہ صاحبہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق اپنے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے) ۹.صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ (اسلامی معاشرہ) ۱۰.مودودہ طلعت صاحبہ بی اے (اسلام اور مذہبی رواداری) ۱۱.رضیہ در دصاحبہ ( اسلام ہی زندہ مذہب ہے) ۱۲.امۃ المجید صاحبہ (سادہ زندگی) ۱۳.امۃ القیوم صاحبہ جھنگ صدر صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام احمدی خواتین کی مالی قربانی کا شاندار مظاہرہ 132 ۲۷ دسمبر کے اجلاس اول میں حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے ڈنمارک میں خدا کا ایک گھر تعمیر کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ” آج ہم حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مبارک خلافت کے پچاس سال پورے ہونے پر بہت خوش ہیں اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہیں.اگر ہم اپنی اس خوشی اور شکر کا اظہار اس طرح سے کریں اپنے چندوں سے یورپ کے کسی ملک میں ایک مسجد تعمیر کر واد میں تو خدا تعالیٰ کے مزید انعاموں کی حقدار ہونگی.اس تحریک پر خواتین احمدیت نے والہانہ رنگ میں لبیک

Page 582

تاریخ احمدیت.جلد 22 567 سال 1964ء کہا.مستورات کا جذبہ ایثار، جوشِ مسابقت اور روح قربانی قابل دید تھی.چنانچہ تقریر کے اختتام پر ہی ایک لاکھ کے وعدے ہو گئے اور آٹھ ہزار روپیہ نقد جمع ہو گیا.مجلس خدام الاحمد ی ربوہ کو علم انعامی کا اعزاز جلسہ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ء سے ہر سال حسن کارکردگی کی بناء پر اول آنے والی مجلس کو علم انعامی دیا جاتا رہا ہے.اس سال مجلس مقامی خدام الاحمد یہ ربوہ اول اور مجلس کراچی دوم آئی.دیہاتی مجالس میں اول پوزیشن مجلس خدام الاحمدیہ لاٹھیا نوالہ ضلع لائل پور نے حاصل کی اور مجلس خدام الاحمدیہ تر گڑی ضلع گوجرانوالہ دوم قرار پائی.۲۷ دسمبر ۱۹۶۴ء کے اجلاس دوم کے آغاز میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے چوہدری عبدالعزیز صاحب مہتم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کو اپنے دست مبارک سے علم انعامی عطا فر مایا.اس وقت ربوہ کی مقامی مجلس عاملہ کے ارکان موجود تھے.مہتمم مقامی نے اپنے ہاتھ میں علم انعامی لیا.تمام جلسہ گاہ بارک اللہ لکم اور پھر اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد کے پُر جوش نعروں سے گونج اٹھی.قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا جبکہ ربوہ کی مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کو حکم انعامی حاصل کرنے کا امتیاز حاصل ہوا.قبل ازیں ربوہ کی مقامی مجلس دوم پوزیشن حاصل کر چکی تھی.لیکن پاکستان بھر کی مجالس خدام الاحمدیہ میں اولیت کا فخر ا سے ۱۹۶۴ء میں ہی حاصل ہوا.18 جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء کے متعلق معزز غیر احمدی دوستوں کے تاثرات خلافت ثانیہ کے خدا نما اور پُر انوار دور کے آخری جلسہ سالانہ میں بہت سے غیر از جماعت معززین نے شرکت فرمائی اور از حد متاثر ہوئے.اس ضمن میں دو غیر احمدی معزز دوستوں کے قیمتی تاثرات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں.اول.جناب زیڈ کے لطیف ایم.اے.ایل.ایل.بی.لاہور نے مدیر الفضل کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا:.مکر می جناب ایڈیٹر صاحب روز نامہ الفضل ربوہ السلام علیکم.میں آپ کا ایک غیر احمدی بھائی ہوں.جذبات نے مجھے جماعت احمدیہ کے بارہ میں چند سطریں لکھنے پر مجبور کیا ہے.میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ انہیں اپنے روز نامہ الفضل میں شائع کر کے شکریہ کا موقع دیں گے.

Page 583

تاریخ احمدیت.جلد 22 568 سال 1964ء میں نہیں جانتا کہ عبارت کیسے لکھی جاتی ہے.یہ صرف میرے جذبات ہیں جو ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں آپ پڑھ رہے ہیں.گوئیں جماعت احمدیہ سے منسلک نہیں ہوں لیکن میرے دل میں جماعت احمدیہ کی بے حد تعظیم اور قدر ہے.میرا یہاں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ جماعت احمد یہ ایک خدائی جماعت ہے.اس چیز کا مشاہدہ مجھے حال ہی میں جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ پر ہوا.جو کہ ہر سال ماہ دسمبر کی ۲۶، ۲۷ اور ۲۸ تاریخ کور بوہ میں منعقد ہوتا ہے.شروع شروع میں مجھے جماعت احمدیہ کے عقائد سے شدید اختلاف تھا اور یہ اس وجہ سے تھا کہ میں نے سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا تھا بلکہ احمد یہ جماعت کے مخالف علماء کی باتیں سن رکھی تھیں.تقریباً چھ ماہ کا واقعہ ہے کہ لاہور کے ایک احمدی طالب علم سے میری ملاقات ہوئی.موصوف آج کل لاء کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.انہوں نے مجھے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی چند کتب اور کلام محمود جوان کے بڑے صاحبزادے اور خلیفہ وقت کی منظوم تصنیف ہے پڑھنے کے لئے عنایت فرمائیں.میں نے سرسری طور پر ان کتب کا مطالعہ کیا.جب میں نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی کتاب کشتی نوح پڑھنی شروع کی تو ایک ایک لفظ نے مجھے چوکنا کر دیا.عبارت میں ایسا تسلسل اور ربط پایا جاتا ہے کہ پڑھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے.مفہوم دماغ پر نقش اور لفظ تیر کی طرح جسم میں گڑتے جاتے ہیں.آنکھیں خیرہ اور دل پسیج جاتا ہے.اس کتاب کو پڑھ کر مخالف علماء کی بتائی ہوئی تمام باتیں میرے ذہن سے نکل گئیں.جب کلام محمود پڑھا تو اور میری آنکھیں کھلیں.ان دو کتب کے مطالعہ سے جماعت احمدیہ کے عقائد کا ایک جامع خاکہ میرے ذہن میں بیٹھ گیا.پھر میرا مشغلہ یہ رہا کہ فرصت کے اوقات میں مختلف احمدی دوستوں سے استفادہ کرتا رہا.اور مزید کتب پڑھنے کا موقع ملا.اب کی بار جب میں خود جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ دیکھنے کی غرض سے ربوہ گیا تو وہاں کے ماحول اور لوگوں کے اخلاق نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ربوہ میں ایسا انتظام دیکھا جو کہ شاید دنیا کی کسی حکومت کے بس کا روگ نہیں ہے.ہزاروں انسانوں کے کھانے کا بندوبست، بچوں کی گمشدگی اور ملنے کے اعلانات ، سامعین جلسہ کی مکمل خاموشی ، نو جوانوں کی تربیت اور دیگر تمام انتظامات.یہ چند ایسی چیزیں ہیں جو کہ مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہیں کہ ہر خاص و عام کو مطلع کروں کہ مجھے اُس خدائے رحیم و کریم کی قسم ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے

Page 584

تاریخ احمدیت.جلد 22 569 سال 1964ء کہ جماعت احمد یہ ایک خدائی اور الہی جماعت ہے.اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب ایک سچے اور برگزیدہ بزرگ تھے اور ان کے ماننے والے فرشتے معلوم ہوتے ہیں.جلسہ کے دوران مجھے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ جماعت احمدیہ کے افراد میں اتنا با ہمی انس اور اتحاد ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تمام افراد جماعت احمدیہ نے ایک ہی ماں کے بطن سے جنم لیا ہے.وہاں ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی بھائی سے بڑھ کر محبت دیکھی گئی.زمین نعروں سے تھراتی اور آسمان گونج اٹھتا تھا.خدا کے یہ نیک بندے فرشتوں کا ایک گروہ دکھائی دیتے تھے.اور یہی وجہ تھی کہ خدا خود وہاں اترا ہوا معلوم ہوتا تھا.سادگی اور علم ان کی گھٹی میں ایسا ہی ہے جیسا کہ اسلام سے قبل عربوں کی گھٹی میں شراب ہوتا تھا.جلسہ کے دوران نماز اور اوقات کی پابندی کا خاص خیال رکھا گیا.مقررین جادو بیان اور شمع نور تھے.وہ شیروں کی طرح گر جتے اور بادلوں کی طرح چھائے جاتے تھے.جماعت احمدیہ کے افراد میں اسلام اور عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ولولہ دیکھا جو شاید ہی مسلمانوں کے کسی اور فرقہ میں پایا جاتا ہو.جو سعادت، بزرگی علم اور عشق جماعت احمد یہ میں پایا جاتا ہے وہ شاید ہی کسی دوسرے اسلامی گروہ کو میسر ہو.ربوہ جماعت احمدیہ کے لئے دل اور محور کی حیثیت رکھتا ہے.یہ ان کا ایک مقدس مقام ہے جو مدینہ منورہ سے حدود اربعہ میں کئی طرح ملتا جلتا ہے.وہاں سینما اور دیگر تفریحی چیزیں ہرگز نہیں.مساجد میں مسجد مبارک اور بازاروں میں گول بازار قابل ذکر ہیں.ربوہ کوئی صنعتی ، تجارتی یا کاروباری شہر نہیں.یہ جماعت احمدیہ کا مرکز اور ایک دینی شہر ہے.سر کو ڈھانپ کر چلنا ان کا شیوہ ہے.جلسہ سالانہ میں نہ صرف پاکستان سے ہی بلکہ تمام کرہ ارض سے احمدیوں نے شرکت کی.غانا کے ایک بلال بھی تشریف لائے تھے جنہوں نے انگلش میں تقریر کی.انہوں نے غانا میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی پر اعداد و شمار کے ذریعہ مختصری تقریر کی تھی.اب میں پاکستان اور جماعت احمدیہ کی ایک قابل ترین شخصیت کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.وہ ہیں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب جو آجکل عالمی عدالت انصاف کے حج ہیں.یہ صاحب مذہب کے اتنے پکے ہیں کہ شاید ہی دنیا کے ایسے بڑے عہدے پر فائز کوئی اور شخص ہو.دنیا کے چپہ چپہ پراڑ نے والا یہ پرندہ اسلام کا پر چار کرنے سے کبھی نہیں رکا.یہاں تک کہ جنرل اسمبلی کے صدر کا

Page 585

تاریخ احمدیت.جلد 22 570 سال 1964ء عہدہ سنبھالتے ہوئے بھی اس کی زبان سے قرآن کی آیات سنی گئیں.سبحان اللہ.اسلام سے عشق ہو تو ایسا.کیا یہ منصور سے کہیں پیچھے ہے؟ مذہب کی پابندی نے اسے اتنا دلیر بنا دیا ہے کہ وہ کبھی نہیں ڈرا.اُسے عہدے اور شہرت کا کبھی لالچ نہیں ہوا.وہ بڑے بڑے عہدوں کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اسلام کی تبلیغ بھی کرتا رہا.یورپین ممالک میں زندگی کا بیشتر حصہ گزارنے پر بھی وہ وہاں کے ماحول سے کبھی متاثر نہیں ہوا.وہ وہاں بھی با قاعدگی سے اسلامی ارکان کا پابند رہا اور انشاء اللہ تعالیٰ رہے گا.عیسائی دنیا میں وہ اسلام کا ایک جیتا جاگتا اور سچا نمونہ ہے.اس شخص نے دین اور دنیا دونوں میں بڑھ چڑھ کر ترقی کی ہے.جہاں دین اور دنیا کا مسئلہ آیا وہاں اس نے دین کو دنیا پر مقدم کر دکھایا.پچھلے دنوں لاہور میں اس کی تقریروں کے دوران بڑے بڑے قابل لوگوں نے اپنے آپ کو اس کے سامنے بے بس اور بچہ دیکھا.آخر میں میں یہ کہوں گا کہ مذہبی تعصب ہمیں ایسی ہستیوں کو فراموش نہیں کرا سکتا.خدا سے دعا ہے کہ وہ مخالفوں کو جماعت احمدیہ کی روح کو سمجھنے کی توفیق دے.آمین ثم آمین میں جماعت احمدیہ کے بزرگوں سے درخواست دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے لئے دعا کریں کہ میں جلد از جلد جماعت احمدیہ سے وابستہ ہو جاؤں.میرے اس راہ میں ابھی چند رکاوٹیں ہیں جو میرے بس کا روگ نہیں.صرف خدا تعالیٰ ہی ان رکاوٹوں کو دور کر سکتا ہے.خاکسار زیڈ کے لطیف.ایم.اے.ایل.ایل.بی.لاہور دوم.جناب نبی بخش ناصر صاحب بھابڑہ ضلع سرگودہا نے ایک مراسلے میں اپنے دلی اور قلبی جذبات کا درج ذیل الفاظ میں اظہار فرمایا:.احمدیوں کا جلسہ سالانہ دیکھنے کی آرزو کئی سال سے تھی.مگر اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں چند بے معنی اور بے بنیاد وساوس مانع رہے.امسال اپنے احمدی دوستوں کی محبت اور پُر خلوص دعوت نے اس روحانی اجتماع میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا.میں ۲۶/۱۲/۶۴ کو رات کے نو بجے اپنے دوست مکرم احمد علی صاحب جو آجکل تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں مدرس ہیں کے ہاں پہنچا.دوسرے دن صبح کا کھانا کھا کر اپنے ایک اور دوست کی رفاقت میں جلسہ گاہ روانہ ہوا.جلسہ گاہ ایک کھلے میدان میں تھا.جس کے چاروں طرف خوبصورت شامیانے نصب تھے.حاضرین جلسہ پر جو

Page 586

تاریخ احمدیت.جلد 22 571 سال 1964ء ایک نظر ڈالی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روئے زمین کی تمام خلقت یہاں جمع ہے اور آنے والوں کا ابھی تانتا بندھا تھا.صاحب صدر کے حکم پر ایک بزرگ نے سورۃ بقرہ کی چند آخری آیتیں نہایت خشوع سے تلاوت کیں.بالخصوص وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقرۃ: ۲۸۷).پر اس کی تکرار دلوں میں اتر گئی.اس کے بعد غالباً ذکر حبیب کا موضوع تھا جسے ایک سن رسیدہ بزرگ نے بیان فرمایا.اسے سن کر سامعین نے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند کیں.مگر افسوس که وقت ختم ہو جانے کے باعث ان کو بیٹھ جانا پڑا.مگر سامعین کی خواہش یہی نظر آتی تھی کہ ذکرِ حبیب کی تقریر جاری رہے.میں غیر از جماعت ہوتے ہوئے بھی اس سے نہایت محظوظ ہوا.مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے خدا کی رحمت برس رہی ہے.اس کے بعد جماعت احمدیہ کے مبلغین نے جو غیر ممالک میں اسلام پھیلانے میں کوشاں ہیں مختلف موضوعات پر تقریریں کیں.واللہ ان کی کوششیں اور ان کا ایثار دیکھ کر زمانہ سلف کی یاد آ جاتی تھی کہ یہ لوگ دین محمدی کی اشاعت میں کس قدر کوشاں ہیں اور ان کو کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.بعد ازاں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنے تاثرات اور مشاہدات بیان فرمائے.سچ پوچھئے تو مجھے ان کی زندگی پر رشک آنے لگا کہ مملکت پاکستان کا یہ مایہ ناز فرزند اسلام کی اشاعت میں کس قدر سرگرم عمل ہے.آخر میں غانا سے آئے ہوئے دو افراد نے قرآن کریم کی چند آیتیں پڑھ کر ثابت کر دیا کہ جماعت احمدیہ کے کارکن دنیا کے کناروں تک اسلام پھیلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں.جلسہ برخاست ہونے کے بعد مجھے مرزا ناصر احمد صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جو ہزاروں عقیدتمندوں کے ہجوم میں نہایت خلوص سے ہر آنے والے سے ملاقات فرمارہے تھے.جب میں رخصت ہو کر بس میں بیٹھا تو میرا ذہن ان تمام شبہات سے پاک تھا جو لوگوں سے احمدیت کے متعلق سن رکھے تھے.جماعت احمدیہ کے ان کارکنوں کو خراج تحسین پیش نہ کرنا نا انصافی ہوگی جنہوں نے اس عظیم اجتماع کے لئے ہرممکن سہولتیں بہم پہنچائی تھیں.واقعی یہ جماعت تنظیم میں اپنی مثال آپ ہے.شاید یہ شعر انہی کے لئے کہا گیا ہے.ہم سے کچھ آبلہ پا تھک کے جہاں رک جائیں وہ بیاباں بھی گلستان میں بدل جاتا ہے فقط والسلام.نبی بخش ناصر بھا بڑا ضلع سرگودہا.66 136

Page 587

تاریخ احمدیت.جلد 22 572 سال 1964ء رپورٹ نظامت جلسہ سالانہ بابت ۱۹۶۴ء مکرم سید داؤ د احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ نے جور پورٹ مرتب فرمائی اس میں تحریر کیا کہ:.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید و نصرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ (۱۹۶۴ء) مورخہ ۲۶.۲۷ - ۲۸ دسمبر کو نہایت خیر و خوبی کے ساتھ منعقد ہوا.مہمانوں کی رہائش اور ان کے کھانے و دیگر ضروریات کے انتظامات ۲۳ دسمبر کی شام سے شروع ہو کر ۳۱ دسمبر کی شام تک نظامت جلسہ سالانہ کے سپر در ہے.اس سال بھی حسب سابق تین لنگر جاری ہوئے.لنگر دارالصدر نے ۲۳ دسمبر کی شام سے ۳۱ دسمبر کی شام تک مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا.لنگر دارالرحمت اور لنگر دارالعلوم ہر دو ۲۴ دسمبر کی شام سے ۲۹؍ دسمبر کی صبح تک جاری رہے.اس سال ۲۸ دسمبر کی شام کو تینوں لنگروں سے مجموعی طور پر ۶۰۶۸۵ را فراد کو کھانا پیش کیا گیا.جب که گذشته سال اسی تاریخ کو پر چی خوراک کے مطابق مہمانوں کی تعداد ۴۰۹۵ ۵ تھی گویا اس سال ۶۵۹۰ مہمانوں کی زیادتی پر چی خوراک کے مطابق ہوئی.جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کی تعداد کا یہ ریکارڈ ہے.اس سے قبل کسی جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مہمانوں کی یہ تعداد نہیں ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک.جلسہ سالانہ کے انتظامات کو مہمانوں کی سہولت کے پیش نظر مختلف نظامتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے.مثلاً نظامت صفائی، نظامت سٹور، نظامت طبی امداد، نظامت مکانات، نظامت معلومات، نظامت اجراء پر چی خوراک، نظامت تصدیق پر چی خوراک، نظامت مہمان نوازی، انتظام گوشت، انتظام تعمیر، انتظام لکڑی ، کوئلہ، انتظام پر ہیزی، انتظام استقبال والوداع، انتظام روشنی ، انتظام آب رسانی ، انتظام صفائی ، انتظام نگرانی و حاضری سامعین، انتظام کسیر وغیرہ وغیرہ.یہ سب شعبے اور نظامتیں جلسہ سالانہ کے کئی ماہ قبل اپنے اپنے شعبہ سے متعلق امور کو سرانجام دینا شروع کر دیتی ہیں اور جب ربوہ میں مہمانوں کی آمد شروع ہوتی ہے اس وقت تمام کارکنان اور جملہ شعبہ جات ان کی خدمت کے لئے مستعد اور تیار کھڑے ہوتے ہیں.اس سال نظامتوں سے متعلق بعض چیدہ چیدہ امور ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.نظامت مهمان نوازی: نظامت مہمان نوازی کے ماتحت اس دفعہ مہمانوں کو میز کرسی پر بٹھلا کر کھانا کھلانے کا تجربہ تعلیم الاسلام کالج ہال میں کیا گیا جہاں بیک وقت پانچ صد کے قریب مہمانوں

Page 588

تاریخ احمدیت.جلد 22 573 سال 1964ء کے لئے میز کرسی پر بیٹھا کر کھانا کھلانے کا انتظام تھا.یہ انتظام صرف تعلیم الاسلام کالج اور ہوسٹل فضل عمر کے مہمانوں کے لئے بطور تجربہ کیا گیا.انتظامی لحاظ سے یہ تجر بہ بہت کامیاب رہا.شہری جماعتوں نے اس کو پسند کیا.البتہ دیہاتی جماعتوں کا تاثر اس کے خلاف تھا.وہ چونکہ میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانے کے عادی نہیں ہوتے اس لئے ان کی طرف سے تکلیف کا اظہار کیا گیا.لیکن اس کے نتیجہ میں فرودگا ہوں میں صفائی رہی.اس سے قبل پانی اور سالن کے گرنے سے بستروں اور کپڑوں پر جو گند ہو جاتا تھا اس سے بچاؤ رہا.اسی نظامت کے ماتحت ایک دوسرا تجربہ اس سال یہ کیا گیا کہ جو احباب سپیشل گاڑیوں پر ربوہ سے واپس گھروں کو جاتے ہیں ان کے لئے اسٹیشن پر گاڑی میں کھانا بطور زادراہ دیا گیا.اس سے مہمانوں کو بہت آرام اور سہولت رہی.مستورات اور بچوں کو اس سے قبل راستہ میں جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس سے وہ سب بچے رہے.انشاء اللہ آئندہ سالوں میں اس کو مستقل شکل دے دی جائے گی اور گاڑی میں کھانا تقسیم کرنے کا انتظام زیادہ بہتر شکل میں ہوگا.نظامت مہمان نوازی کے ماتحت اس سال کا رڈ سسٹم جاری کیا گیا.ہر فرودگاہ میں رہائش رکھنے والے مہمانوں کو شناختی کارڈ دیئے گئے.اس سے مہمانوں کی تعداد بھی معین ہوتی رہی.نیز انتظامی امور میں سہولت کا باعث ہوا.اس سے چوری کی وارداتیں بھی کنٹرول میں آگئیں.نظامت اجراء پر چی خوراک: اس سال نظامت اجراء پر چی خوراک میں بھی نئے تجارب کئے گئے.ان میں سے ایک تجربہ یہ کیا گیا کہ اس سال لنگر دار الرحمت سے متعلق تمام محلہ جات میں تصدیق پرچی کے کارڈ تو صدر صاحبان سے حاصل کئے جاتے رہے لیکن اجراء پرچی کا انتظام تمام محلوں کے لئے لنگر سے متصل مقام پر ناظم صاحب اجراء پر چی خوراک کے ماتحت رہا.اس سے پرچی حاصل پر کرنے والوں کو بہت سہولت رہی.اور پر چی حاصل کرتے ہی لنگر سے ان کو کھانا مل جاتا رہا.اندازہ کیا گیا ہے کہ پرچی جاری کرنے کی رفتار ۵۰ پرچی فی منٹ رہی.انشاء اللہ آئندہ سال اس انتظام کو تمام لنگروں پر پھیلا یا جاوے گا.انتظامات لنگر جلسہ سالانہ لنگر دار العلوم ابھی تک با قاعدہ لنگر کی شکل میں تعمیر نہ ہو سکا تھا.اس سال اس لنگر کو پختہ تعمیر کر کے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا.تنوروں پر ٹین کی چادروں کی مستقل چھت، گوشت اور آلو کی دھلائی کے لئے سیمنٹ کے ٹینک، آئے گندھائی کیلئے مناسب انتظام، سیمنٹ سے

Page 589

تاریخ احمدیت.جلد 22 574 سال 1964ء بنے ہوئے لگن اور بڑی بڑی پراتیں ، یہ سب انتظامات اس سال لنگر دارالعلوم میں کئے گئے.مکرم مرزا طاہر احمد صاحب جو اس لنگر کے ناظم تھے انہوں نے معلمین وقف جدید کی مدد سے بہت جانفشانی سے کام کیا.جس کے نتیجہ میں اس لنگر سے مہمانوں کو کھانے کے حصول میں کوئی دقت پیدا نہ ہوئی.لنگر دارالصدر میں پانی کے انتظام کے لئے گذشتہ سال موٹر لگائی گئی تھی.اس سال لنگر دار الرحمت میں اس تجربہ کو وسعت دی گئی.جس کی وجہ سے انتظام پکوائی اور دھلائی آلو، گوشت وغیرہ امور میں بہت سہولت رہی.امید ہے آئندہ سال لنگر نمبرس میں بھی موٹر کے ذریعہ پانی حاصل کر کے مزید سہولت پیدا کی جاسکے گی.انتظام گوشت : اس سال خدا کے فضل سے انتظام گوشت نہایت عمدہ رہا.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مہمانوں کے لئے ایسا عمدہ گوشت سالن کبھی مہیا نہیں کیا گیا جیسا کہ اس سال ہوا.فالحمدللہ.امید ہے آئندہ سال اس سے بھی زیادہ بہتر انتظام ہوگا.انتظام صفائی: انتظام صفائی ابھی بہت توجہ اور اصلاح کا متقاضی ہے.اس سال رفع حاجت کے لئے سیمنٹ اور لوہے سے ملیں تو بنوائی گئی تھیں لیکن بیوت الخلاء کے قرب میں پانی کے فقدان کی وجہ سے صفائی کا انتظام تسلی بخش نہیں ہو سکا.نیز اس امر کی ضرورت نہایت شدت سے محسوس ہوئی کہ صفوں سے پردہ کی بجائے اینٹوں کی دیواریں کھڑی کی جاویں.اس کا مستقل حل یہی ہوسکتا ہے کہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے ادارے.نیز انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی مجالس اور مجلس وقف جدید سب اپنی اپنی جگہ مستقل بیوت الخلاء تعمیر کروائیں تا جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو تکلیف نہ ہو.فی الحال آئندہ سال کے لئے یہی دکھائی دیتا ہے کہ تعلیمی اداروں کی عمارتوں میں ہی مہمانوں کا قیام حسب حالت موجودہ ہوا کرے گا.اس لئے صدر انجمن احمدیہ کو چاہیئے کہ تعلیمی اداروں کو اس بارہ میں ہدایت کرے کہ وہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی رہائش کے نقطہ نظر سے عمارتوں میں بیت الخلاء اور پینے کے پانی کے ذخیرہ کا انتظام کریں.میرے خیال میں اس میں خرچ زیادہ نہیں ہو گا لیکن مہمانوں کو بہت سہولت ہو جاوے گی اور منتظمین کو بھی زیادہ دقت نہ ہوگی.انتظام کسیر: اس سال انتظام کسیر کے لئے علیحدہ نظامت مقرر کی گئی جس کے نتائج بہت خوش کن رہے.گذشتہ سالوں میں جتنی کسیر اکٹھی کی جاتی رہی اس سے دگنی کسیر اس دفعہ حاصل کی گئی اور

Page 590

تاریخ احمدیت.جلد 22 575 سال 1964ء علیحدہ انتظام کی وجہ سے اخراجات میں بھی مقابلہ کی رہی.نیز گذشتہ سالوں کی نسبت سستی قیمت پر کسیر دستیاب ہوئی.بعض دوستوں نے بہت عمدہ تعاون کا مظاہرہ کیا.صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، میاں عبدالمجید صاحب اور مستری شہاب الدین صاحب نے اپنی زمینوں کی کسیر بلا قیمت جلسہ سالانہ کے لئے دی.فجزاهم الله احسن الجزاء نظامت معلومات و فوری امداد: اس سال کے نئے تجارب میں سے ایک نہایت کامیاب تجربہ نظامت معلومات وفوری امداد کا قیام ہے.اس نظامت کے ماتحت بیسیوں گمشدہ بچوں کو نہایت قلیل وقت میں ان کے عزیزوں تک پہنچایا گیا اور جلسہ سالانہ کے ہنگامی کاموں اور ضروریات کے موقعہ پر فوری امداد کی ضرورت پیش آنے پر اس محکمہ نے نہایت مستعدی سے کام کیا.مکرم محمد ارشد صاحب ایم.ایس.سی لیکچرار تعلیم الاسلام کالج اس کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں.آب رسانی: ہر سال مہمانوں کو پینے کے پانی کے لئے بہت تکلیف اٹھانی پڑتی تھی.قیام گاہوں میں گھڑے رکھوائے جاتے تھے لیکن وہ ایک ہی دن میں یا تو ٹوٹ جاتے تھے یا گم ہو جاتے تھے یا چند ایک مہمان انہیں اٹھا کر اپنے کمروں میں بند کر لیتے تھے.اس طرح گھڑے چھوٹے سائز کے ہونے کی وجہ سے فوراً خالی ہو جاتے تھے.ماشکی اور سکھے بے کار بیٹھے رہتے تھے.اس سال نیا تجربہ کیا گیا کہ لوہے کے بڑے بڑے ڈرم تیار کروائے گئے جن میں دوٹوٹیاں لگی ہیں اور ایک ڈرم میں پچاس گھڑوں کا پانی جمع ہو جاتا ہے.اس سے مہمانوں کو بھی آرام رہا اور ماشکی بھی خالی نہیں رہے.اس سال ۲۰ ڈرم لئے گئے تھے.آئندہ سال انشاء اللہ یہ تعداد کم از کم پچاس تک پہنچا دی جائے گی.امید ہے کہ آئندہ سال پینے کے پانی کی تکلیف بکلی دور ہو جائے گی.انتظام استقبال: ہر سال اسٹیشن پر استقبال کا انتظام تو بہت عمدہ ہوتا تھا لیکن لاریوں کے اڈہ پر مناسب انتظام نہ تھا.اس سال اس حصہ کو بھی مضبوط کیا گیا اور ایک مستقل نائب ناظم استقبال کا تقرر کر کے لاریوں کے اڈہ پر استقبال والوداع کے انتظام کو مضبوط کیا گیا.اس کی وجہ سے لاریوں سے آنے والے مہمانوں کو بہت آرام اور سہولت رہی.عمومی رپورٹ: جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کی تعداد میں متوقع اندازہ سے بہت بڑھ کر اضافہ ہو جانے کے نتیجہ میں نیز اجناس کے نرخ بڑھ جانے کی وجہ سے اخراجات جلسہ سالانہ میں بہت زیادتی ہو گئی.لیکن الحمد للہ صدرانجمن احمدیہ نے منظور شدہ بجٹ میں اضافہ کر کے ہمارے

Page 591

تاریخ احمدیت.جلد 22 576 سال 1964ء لئے ہر قدم پر سہولت کا سامان بہم پہنچایا.ہمیں عین ایام جلسہ میں اجناس کی مزید خرید کرنی پڑی جس کی وجہ سے کوفت تو بے شک ہوئی لیکن مہمانوں کو کسی مرحلہ پر ذرہ بھر بھی تکلیف نہیں ہوئی.می محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس سال نان بائیوں اور پیڑا بنانے والیوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی اور باوجود مہمانوں کی زیادتی کے کوئی شخص بھی بھوکا نہیں رہا.نہ ہی روٹی میں کمی کرنی پڑی بلکہ صبح و شام روٹی بچی ہی نہیں.خدا کے فضل سے لنگر کے کام کی ایفیشنسی گذشتہ سالوں کے مقابلہ میں بہت بہتر رہی.روٹی پکانے کے سلسلہ میں لوہ پر کھانا پکانے کا تجربہ بھی کیا گیا جو کامیاب رہا.اگر کبھی ہنگامی صورت حالات پیدا ہو تو ان سے کام لیا جا سکتا ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی ہوئی ہے.کسی کی کوشش کا اس میں دخل نہیں.دفاتر جلسہ سالانہ : دفتروں کے لئے جگہ کی قلت کے پیش نظر اس سال اس زمین پر جو جلسہ سالانہ کے مستقل دفاتر کے لئے مخصوص ہے خیمہ جات لگا کر دفاتر بنائے گئے.تمام شعبہ جات کے افسران کے دفتر ایک جگہ ہونے کی وجہ سے انتظامات میں بہت سہولت رہی.اور مہمانوں کی تکالیف کو بہت قلیل وقت میں دور کیا جاتارہا.ارادہ ہے کہ آئندہ سال اس جگہ کو چاردیواری سے بند کر کے دفاتر کی تعمیر اور لنگر خانہ پر ہیزی کی تعمیر شروع کر دی جائے.137

Page 592

تاریخ احمدیت.جلد 22 1 3 4 5 6 7 577 خالد ر بوه دسمبر ۱۹۶۴ ء صفحہ ۷۷.۷۸ خالد دسمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۷۸-۸۰ حوالہ جات (صفحه 393 تا 576) 1961 ,11 BERNER TAGBLATT June بحوالہ الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۶۴صفحها بحواله الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۶۴ ، صفحها الفضل ۷ امارچ ۱۹۶۴ ، صفحہ ۱، ۸ زمیندار۹ /اکتوبر۱۹۳۲ء سال 1964ء فتن ارتداداور پولیٹیکل قلابازیاں صفحہ ۴۶.مصنف چوہدری افضل حق مطبع کو اپر یوٹیم پریس وطن بلڈنگز لا ہور THE MUSLIM COMMUNITY A SOCIOLOGICAL STUDY 8 9 الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۶۴ء صفحه ۵ 10 اخبار بدر قادیان ۱۹ مارچ ۱۹۶۴ صفحه ۱، ۸.رپورٹ مرتبہ گیانی بشیر احمد صاحب ناصر بی.اے 11 الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۶۴ ء صفحه ا 12 13 14 15 16 17 18 الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۶۴ صفحه ا الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۶۴ء صفحه ۵ الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۶۴ء صفحه ا الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۶۴ صفحها الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۶۴ صفحه ۸ الفضل مورخه ۱۹ مارچ ۱۹۶۴ء صفحه ۵ الفضل ۳ ر ا پریل ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 19 الفضل ۲ اپریل ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 20 الفضل ۲ / اپریل ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 21 الفضل ۳ اپریل ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 22 الفضل ۳ اپریل ۱۹۶۴ صفحه ۳ 23 الفضل ۱۹ مارچ و ۳ ۱۰،۴۰، ۱۹ را پریل ۱۹۶۴ء 24 رساله خالد مئی ۱۹۶۴ء صفحه ۲۰،۱۹ 25 الفضل و رابر یل ۱۹۶۴ صفحه ۳

Page 593

تاریخ احمدیت.جلد 22 578 سال 1964ء 26 الفضل ۱۷ ر ا پریل ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 27 الفضل ۲۳ / اپریل ۱۹۶۴، صفحه ۵ 28 الفضل ۴ جون ۱۹۶۴ء صفحریم 29 الفضل ۲۷ جوان ۱۹۶۴، صفحہ ۶ 30 پاکستان ٹائمز ۲۴ فروری ۱۹۶۴ء بحوالہ انفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۶۴ صفحه۱-۸ 31 تذکرۃ الشہادتین طبع اول صفحه ۶۵.بحوالہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۷ 32 از اردو جامع انسائیکلو پیڈیا صفحه ۱۴۲۳۲، مدیر اعلیٰ مولانا حامد علی خان ڈائریکٹر ڈینیس سی سمتھ جونیئر ، ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز چوک انار کلی لاہور مارچ ۷ ۱۹۸ ء (The Message of the Quran.Page 177) 33 34 ملاحظہ ہو قاموس مضمون خیل.نیز لغات لین جز دوم صفحہ ۸۳۳ اور جز چہارم صفحه ۱۵۰۰ The Message of the Quran.PP.177-80 35 36 سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحه ۷۵ 37 غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ 38 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴ء سر ورق صفحه ۲ 39 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴ صفحه ۲ ۳۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴ء صفحہ ۴۸ - ۴۹ 40 41 42 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴ء صفحہ۴۹.الفضل ۱۲ مئی ۱۹۶۴ء صفحه ۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴ء صفحه ۸۲-۸۳ 43 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴ء سر ورق صفحه ۲ 44 الفضل ۱۲ مئی ۱۹۶۴ء صفحه ۳-۴ 45 اخبار پیغام صلح لاہور ۱۶ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۳ 46 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴ ، صفحہ ۹۸ الفضل ۱۲ مئی ۱۹۶۴، صفحه ۴ 47 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴ء صفحہ ۱۳۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴ء صفحه ۱۳۹ تا ۱۴۵ 48 49 وکالت تبشیر الفضل ۲ را برمل ۱۹۶۴ء صفحها 50 الفضل ۲۱ را پریل ۱۹۶۴ صفحه ۱ - ۸ 51 روز نامه الفضل ربوه ۲۳ اپریل ۱۹۶۴ء 52 53 الفضل سے مئی ۱۹۶۴ء صفحہ ۵ ماجد محله ۵ صفحه ۱۳۵

Page 594

تاریخ احمدیت.جلد 22 54 55 56 رام کلی محله ۵ صفحه ۸۹۷ را م کلی محله ۵ صفحه ۸۹۳ سوڑھ محلہ اصفحہ ۵۹۷ 57 الفضل ۲۳ مئی ۱۹۶۴، صفحه ۵ 579 سال 1964ء 58 59 60 61 62 63 64 الفضل ۲۳ مئی ۱۹۶۴ء صفحه ۵ الفضل ۲ مئی ۱۹۶۴ء صفحه ا ملفوظات جلد دوم صفحه ۵۲٬۵۱.ایڈیشن ۲۰۰۳ء الفضل ۳۱،۲۲،۱۳ مئی ۱۹۶۴ء الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۴ صفحه ۱ - ۸ تذکرہ صفحه ۶۱۳ ایڈیشن ۲۰۰۴ء الفضل ۱۳ جون ۱۹۶۴ء صفحہ ۸ 65 الفضل ۲۰ جون ۱۹۶۴ء صفحه ا 66 الفضل ۲۸ جون ۱۹۶۴ء صفحه ا 50 66 67 68 السيف الربانی مصنفہ الشیخ سید محمد کی بن سید مصطفی مطبوعہ مطبع دت پر شاد بمبئی صفحہ ۱۰۰ بحوالہ تطہیر الاولیاء مولفه سید مدقر شاہ گیلانی پشاوری انجمن احمد یہ اشاعت اسلام لا ہور مطبوعہ مارچ ۱۹۷۴ء الكاویه صفحه ۴۹ 69 صحیح مسلم باب خروج الدجال 70 71 72 73 74 بحارالانوار جلد نمبر ۱۳ صفحہ ۷ موضوعات کبیر صفحه ۱۰۰ موضوعات کبیر صفحه ۱۰۰ سلک اسیر فی نظم الدرر صفحه ۱۵۲ از صفی اللہ صاحب مطبع فاروقی دیلی ۱۳۰۵ صبح The All India Reporter 1936- page 440 Lahore 75 الفضل ۱۶ را گست ۱۹۶۴، صفحه ۱، ۸ 76 تذکرہ مجاہدین ختم نبوت صفحه ۳۷-۳۸ مؤلفہ اللہ وسایا ملتان ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت مانتان طبع اول یکم اگست ۱۹۹۰ء 77 الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 78 الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۳ء 79 الفضل یکم اگست ۱۹۶۴ء 80 الفضل ۲ اگست ۱۹۸۳ ، صفحه ۱ 81 ریکار ڈ ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد تعلیم القرآن.مرتبہ مولوی محمد اسماعیل منیر ثانی صاحب

Page 595

تاریخ احمدیت.جلد 22 580 82 رپورٹ مرسلہ ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد تعلیم القرآن و وقف عارضی 83 الفضل ۴ را گست ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 84 پاکستان ٹائمنر لاہور ۸ جولائی ۱۹۶۴ ، صفحہ ۶ الفضل ۱۰جولائی ۱۹۶۴، صفحہ ۱.۸ 85 الفضل ۲۵ / اگست ۱۹۶۴ء صفحه ۳-۴ 86 الفضل ۲۲ را گست ۱۹۶۴ ، صفحه ۵ 87 الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۶۴ صفحه ۸ 88 روزنامہ مشرق لاہور ۲/ اگست ۱۹۶۴ء بحواله الفضل ۵ اگست ۱۹۶۴ء صفحہ ۵ بشکریہ بی.آئی.ایس 89 الفضل ۶ استمبر ۱۹۶۴ ء صفحه ا 90 اخبار الجمیعه د بلی ۲۳ اگست ۱۹۶۴ء بحواله الفضل، استمبر ۱۹۶۴ صفحه ا 91 الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۶۴ صفحه ۸ 92 الفضل ۳۰ ستمبر ۲۰۰۲ صفحه ۶۰۴ 93 94 غیر مطبوعہ مسودہ جناب ظہور احمد صاحب جنرل سیکرٹری و سیکرٹری مسجد کمیٹی واہ کینٹ.مؤرخہ مارچ ۱۹۸۵ء الفضل ۵ ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 95 رپورٹ ہائے سالانہ صدر انجمن احمد ی از یکم مئی ۱۹۶۴ تا ۳۰ اپریل ۱۹۶۷ء 96 ا الفضل ۴ ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ا 97 الفضل الاستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 98 الفضل ۱۰ راکتو بر ۱۹۶۴ صفحه ا وو الفضل ۱۰ را کتوبر ۱۹۶۴ صفحه ۸ 99 100 تاریخ احمدیت کشمیر مرتبہ محمد اسد اللہ قریشی صفحه ۲۶۹ 101 الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۴ ، صفحہ ۷ 102 الفضل ۳۰ / اکتوبر ۱۹۶۴ء صفحه ۸ 103 ذکر اردو صفحہ ۷، ۸ مطبوعہ نصرت آرٹ پر لیس ربوہ نومبر ۱۹۶۴ء 104 الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۴ ، صفحه ۸ 105 الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ۵ 106 الفضل ۲۵ /اکتوبر ۳ نومبر ۵۷ نومبر ۱۹۶۴ء 107 الفضل ۳۰ را کتوبر ۱۹۶۴ء صفحه ۵ 108 الفضل ۱۵نومبر ، ۱۷ نومبر ۱۹۶۴ء 109 الفضل ۱۵ نومبر ۱۷نومبر ۱۹۶۴ء سال 1964ء

Page 596

تاریخ احمدیت.جلد 22 110 الفضل ۱۷ فروری ۱۹۳۹ء 111 الفضل سے اپریل ۱۹۳۹ء 112 ماہنامہ خالد نومبر ۱۹۶۴ ، صفحہ ۲۷ تا ۳۳ 113 الفضل ۴ نومبر ۱۹۶۴ صفحه ا 114 الفضل ۷ انومبر ۱۹۶۴ء صفحه ا 115 الفضل ۳ دسمبر ۱۹۶۴ صفحه ۸ 581 سال 1964ء 116 الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ۵ 117 اخبار بد ر ۸ رابریل ۱۹۶۵ صفحه او ۸ 118 بدر قادیان ۱۷ ۲۴ دسمبر ۱۹۶۴، صفحه ۱۱ تا ۱۳ صفحہ ۱۸.مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: الفرقان جنوری ۱۹۶۵، صفحہ ۲۸ تا ۳۵ 119 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۵ صفحه ۶ کالم ۱ 120 الفضل ۱۷ دسمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۳ ۴ 121 الفضل ۶ دسمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۵ 122 الفضل ۷ دسمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۸ 123 تذکرہ صفحہ ۳۹ ایڈیشن چهارم 124 تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۶۶.ایڈیشن ۲۰۰۸ 125 اخبار بد ر قادیان ۱۴ جنوری ۱۹۶۵ء 126 الفضل ۲ جنوری ۱۹۶۵ء صفحه ۲ 127 الفضل ۳ جنوری ۱۹۶۵، صفحه ۸،۵ 128 الفضل ۵ جنوری ۱۹۶۵ء صفحه ۵ 129 الفضل ۷ ۸ ۹ ۱۲،۱۰ ۱۴۰ جنوری ۱۹۶۵، صفحه ۴-۵ 130 فضائل القرآن، صفحه ۴۴۰ تا ۴۴- تقریر سید نا خلیفه مسیح الثانی ۲۸ دسمبر ۱۹۳۶ ء - الفضل ۲ جنوری ۱۹۶۵ صفریم 131 الفضل ۸ جنوری ۱۹۶۵ ء صفحه ۲ 132 الفضل ۲۱،۱۹،۱۷ جنوری ۱۹۶۵ء 133 الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۶۵، صفحه ۵ 134 الفضل ۸جنوری ۱۹۶۵ء صفحه ۵ 135 الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۶۵ صفحه ۵ 136 الفضل مئی ۱۹۶۵، صفحه ۶ 137 رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ پاکستان بابت سال ۶۵-۱۹۶۴ صفحه ۱۳۱ تا ۱۳۵

Page 597

تاریخ احمدیت.جلد 22 582 سال 1964ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال اس سال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعد دصحابہ کرام انتقال کر گئے.جس کے نتیجہ میں خدا کے مقدس مسیح کی زیارت کرنے والے اور فیض صحبت اٹھانے والے بزرگان کا مقدس گروہ پہلے سے بھی بہت کم رہ گیا.حضرت حامد حسین خان صاحب مراد آبادی ولادت: ۱۸۷۹ء بیعت: اکتوبر یا نومبر ۱۹۰۵ء.وفات: یکم جنوری ۱۹۶۴ء حضرت خان صاحب قبول احمدیت کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.میں ۱۹۰۵ء میں علیگڑھ کالج سے آکر میرٹھ میں ملا زم ہوا تھا.میری ملازمت کے کچھ عرصہ بعد مکرمی خانصا حب ذوالفقار علی خان صاحب به سبیل تبادلہ بعہدہ انسپکٹر آبکاری میرٹھ میں تشریف لے آئے.آپ چونکہ احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود کی بیعت کر چکے تھے.لہذا آپ کے گھر پر دینی ذکر و اذکار ہونے لگا.اور شیخ عبدالرشید صاحب زمیندار ساکن محلہ رنگ ساز صدر بازار میرٹھ کیمپ اور مولوی عبدالرحیم صاحب وغیرہ خان صاحب موصوف کے گھر پر آنے جانے لگے.خان صاحب موصوف سے چونکہ مجھے بوجہ علی گڑھ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے محبت تھی اس لئے میری نشست و برخاست بھی خان صاحب کے گھر پر ہونے لگی.چنانچہ میں نے کتابیں دیکھنے کا شوق ظاہر کیا تو حضرت اقدس مسیح موعود کی چھوٹی چھوٹی تصانیف خان صاحب نے مجھ کو دیں جو میں نے (غالبا میں نے برکات الدعا اول پڑھی تھی ) پڑھیں.اس کے بعد عسل مصفی مجھ کو دی گئی.وہ میں نے دیکھنا شروع کی ہی تھی کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی خان صاحب کے یہاں تشریف لائے اور میرٹھ میں مناظرہ کی طرح پڑ گئی.اس وقت صرف ایک ہی مسئلہ زیر بحث تھا اور وہ وفات مسیح کا مسئلہ تھا.مناظرہ وغیرہ تو میرٹھ کے شریر اور فسادی لوگوں کے باعث نہ ہوالیکن مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کی تقریر ضرور میں نے وفات مسیح کے متعلق سنی.میرٹھ کی پبلک سے جو جھگڑا مناظرہ کے متعلق ہوا اس کے حالات ایک رسالہ کی صورت میں شائع کئے گئے.اس میں میرا نام بھی ہے.(غالبا وہ دارالامان کی لائبریری میں ہوگا.اگر دارالامان کی لائبریری میں نہ ہو تو شیخ عبدالرشید صاحب زمیندار ساکن محله

Page 598

تاریخ احمدیت.جلد 22 583 سال 1964ء رنگساز صدر بازار کیمپ میرٹھ کے پاس ہو گا ).اس کے بعد ہم کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے کا اشتیاق ہو گیا اور میں نے خان صاحب موصوف سے عرض کیا کہ اگر حضرت اقدس میر ٹھ کے قرب و جوار میں تشریف لاویں تو آپ مجھ کو ضرور اطلاع دیں.ایسے عظیم الشان شخص کو نہ دیکھنا بڑی بدنصیبی ہے.اس وقت بیعت کرنے کا مجھ کو خیال بھی نہ تھا.اس کے بعد ۱۹۰۴ء میں زلزلہ عظیمہ آیا جس کے متعلق یہ کہا گیا کہ یہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق آیا ہے.اس کے بعد ایک دن خان صاحب موصوف نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود دہلی تشریف لا رہے ہیں.کیا آپ زیارت کیلئے چلیں گے.میں نے آمادگی ظاہر کر دی.حضرت اقدس جب دہلی تشریف لائے تو خان صاحب موصوف نے مجھ سے چلنے کیلئے ارشاد فرمایا.چنانچہ میں ان کے ہمراہ دہلی روانہ ہو گیا.دہلی میں حضرت اقدس کا قیام الف خان والی حویلی میں ج محلہ چتلی قبر میں واقع ہے تھا.میں اور خان صاحب موصوف بذریعہ ریل دہلی پہنچے.اس وقت غالباً ۱۲ یا ایک بجے کا وقت تھا.حضرت اقدس مسیح موعود مکان کے اوپر کے حصہ میں تشریف رکھتے تھے اور نیچے اور دوست ٹھہرے ہوئے تھے.مکان میں داخل ہوتے ہوئے میری نظر مولوی محمد احسن صاحب پر پڑی.چونکہ ان سے میرا تعارف میرٹھ کے قیام کے وقت ہو چکا تھا میں ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا.تھوڑی دیر میں غالبا خان صاحب نے جو اس برآمدہ میں بیٹھے تھے جس کے اوپر کے حصہ میں حضرت اقدس کا قیام تھا.مجھ کو اپنے پاس بلا لیا.میں ایک چار پائی پر پائینتی کی طرف بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا.جہاں میں بیٹھا تھا اس کے قریب ہی زینہ تھا جس کے ذریعہ حضرت اقدس اوپر تشریف لے جاتے تھے.اس طرف میری پشت تھی.تھوڑی دیر بعد حضرت اقدس کو ٹھے پر سے نیچے تشریف لائے.میری چونکہ سیڑھیوں کی طرف پشت تھی میں نے حضرت اقدس کو اوپر سے نیچے تشریف لاتے ہوئے نہیں دیکھا.حضور آہستگی سے اتر آئے اور میرے برابر پلنگ کی پائینتی پر بیٹھ گئے.( نوٹ : یہ واقعہ حضور کی سادگی اور بے تکلفی پر دلالت کرتا ہے.) جب حضور بیٹھ گئے تو کسی نے مجھے کو بتلایا کہ حضرت صاحب تشریف لے آئے.اس وقت میں گھبرا کر وہاں سے اٹھنا چاہتا تھا کہ حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا کہ یہاں ہی بیٹھے رہیں.یہ یاد نہیں کہ حضور نے مجھ کو بازو سے پکڑ کر بٹھا دیا یا صرف زبان سے ارشاد فرمایا.حضرت صاحب کے تشریف لانے کے بعد تمام دوستوں کو جو مکان کے مختلف حصوں میں قیام پذیر تھے اطلاع ہوگئی اور مکان میں ایک ہلچل مچ گئی.اس قدر یاد ہے کہ غالباً خان صاحب نے حضور کی خدمت میں

Page 599

تاریخ احمدیت.جلد 22 584 سال 1964ء عرض کیا کہ یہ میرٹھ سے آئے ہیں.اتنے میں خواجہ صاحب آئے ان کے ہمراہ اور کوئی صاحب بھی تھے.میں نہ خواجہ صاحب سے واقف تھا نہ کسی اور دوست سے واقف تھا.حضرت اقدس نے خواجہ صاحب سے مولوی نذیر احمد صاحب کے متعلق کچھ سوال کیا جو مجھ کو یاد نہیں.نہ یہ یاد ہے کہ خواجہ صاحب نے کیا جواب دیا.بہر حال خواجہ صاحب دن بھر کے حالات سناتے رہے.تھوڑی دیر کے بعد کسی نے اذان و ہیں دیدی.چبوترہ پر فرش بچھا دیا گیا اور نماز ظہر وعصر پڑھی گئی.میں نے بھی نماز جماعت سے پڑھی.صحیح یاد نہیں کس نے نماز پڑھائی.نماز سے فارغ ہو کر حضور نے بیعت کے متعلق ارشاد فرمایا.اس پر کسی نے زور سے کہا کہ جو دوست بیعت کرنا چاہتے ہوں وہ آگے آجائیں.چنانچہ بہت سے دوست آگے ہوئے اور میں سب سے پیچھے رہ گیا.حضور نے بیعت شروع کرنے سے قبل ارشاد فرمایا کہ جو دوست مجھ تک نہیں پہنچ سکتے وہ بیعت کرنے والوں کی کمر پر ہاتھ رکھ کر جو میں کہوں وہ الفاظ دہراتے جائیں.میں اس وقت بھی خاموش الگ سب سے پیچھے بیٹھا رہا اور ہاتھ بیعت کرنے والوں کی کمر پر نہیں رکھا.جب حضرت صاحب نے بیعت شروع کی تو میرا ہاتھ بغیر میرے ارادے کے آگے بڑھا اور جو صاحب میرے آگے بیٹھے ہوئے بیعت کے الفاظ دہرا رہے تھے ان کی کمر پر پہنچ گیا.مجھ کو خوب یاد ہے کہ میرا ہاتھ میرے ارادے سے آگے نہیں بڑھا بلکہ خود بخود آگے بڑھ گیا اور پھر میں نے بھی الفاظ بیعت دوہرا نے شروع کر دئیے.جب حضرت اقدس نے رَبِّ إِنِّي ظَلَمُتُ نَفسِی کی دعا کا ارشاد فرمایا.سب نے اس کو دہرایا.میں نے بھی دہرایا.لیکن جب حضرت صاحب نے اس کے معنے اردو میں فرمانا شروع کئے اور بیعت کنندوں کو دہرانے کا ارشاد فرمایا.میں نے جس وقت وہ الفاظ دہرائے تو اپنے گناہوں کو یاد کر کے سخت رقت طاری ہوگئی.یہاں تک کہ اس قدر زور سے میں شیخ کر رونے لگا کہ سب لوگ حیران ہو گئے اور میں روتے روتے بے ہوش ہو گیا.مجھ کو خبر ہی نہیں رہی کہ کیا ہو رہا ہے؟ جب دیر ہوگئی تو حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ پانی لاؤ.وہ لایا گیا اور حضور نے اس پر کچھ پڑھ کر میرے اوپر چھڑ کا.یہ مجھ کو خان صاحب سے معلوم ہو اور نہ مجھ کو کچھ خبر ہی نہ رہی تھی.ہاں! اس قدر یاد ہے کہ حالت بے ہوشی میں میں نے دیکھا کہ مختلف رنگوں کے نور کے ستون آسمان سے زمین تک ہیں.اس کے بعد مجھ کو کسی دوست نے زمین سے اٹھایا.میں بیٹھ گیا مگر میرے آنسو نہ تھمتے تھے.اس قدر حالت متغیر ہوگئی تھی کہ میرٹھ میں آکر بھی بار بار روتا تھا.پھر خان صاحب موصوف نے میرے نام بدر ور یو یو جاری کرا دیا.بدر میں حضرت اقدس علیہ السلام کی وحی

Page 600

تاریخ احمدیت.جلد 22 585 سال 1964ء مقدس شائع ہوتی تھی.اس سے بہت محبت ہو گئی اور ہر وقت یہ جی چاہتا تھا کہ تازہ وحی سب سے پہلے مجھ کو معلوم ہو جائے.پھر جلسہ پر دارالامان جانے لگا اور برابر جاتا رہا.حضرت اقدس کو دعاؤں کے لئے خط لکھتا رہا.ایک خط کا جواب حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے دیا تھا وہ میرے پاس اب تک موجود تھا لیکن جب میرٹھ سے پنشن کے بعد ہجرت دارالامان کو کی تو کہیں کا غذات میں مخلوط ہو گیا یا ضائع ہو گیا.آپ پینشن پانے کے بعد میرٹھ سے ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے اور ایک عرصہ تک نائب ناظر دعوۃ و تبلیغ کے فرائض سرانجام دیتے رہے.تقسیم ملک کے بعد قادیان سے لاہور آئے.پھر دادو ( سندھ) میں سکونت پذیر ہوئے.یہاں سے نقل مکانی کر کے کراچی میں مستقل رہائش اختیار کر لی اور یہیں وفات پائی.آپ خاندان میں ”میاں بھائی کے پیارے نام سے مشہور تھے.حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے آپ کی وفات پر لکھا: ”میاں بھائی عرصہ دراز تک کلکٹر ضلع میرٹھ کے پیش کار رہے اور اپنی دیانت، حسنِ کارکردگی اور خلق اللہ کی ہمدردی کی وجہ سے بڑے نیک نام کثیر احباب اور مرجع خاص و عام تھے.خوش پوش.خوش قدر اعلیٰ درجہ کے مہمان نواز.نماز تہجد کے ہمیشہ پورے پابند.حلیم الطبع.منکسر المزاج.گفتگو میں نرمی اور متانت.زبان پاکیزہ اور سلیس.خداوند رائے و خداوند سخن خوب و شرم آدائے نرم چہرہ سرخ و سفید اور بہت دلکش.آپ سے ملنے والا آپ کی نیکی اور شرافت سے ضرور متاثر ہوتا.شکار کے شائق اور بندوق چلانے میں ماہر.اس وجہ سے عمر کے آخری تین سالوں کے علاوہ آپ کی جسمانی صحت بہت عمدہ رہی.آپ سلسلہ حقہ کے وفادار اور جانثار خادم رہے اور تمام حالات میں جو سلسلہ پر گزرے ثابت قدم اور مستقل.CT.......مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ....(الاحزاب :۲۴) مرحوم کی اولا د واصفا د اور باقیات صالحات اٹھتر افراد پر مشتمل ہے جو مختلف خاندان اور کنبے ہیں لیکن مرحوم کی نیکی اور محبت کی وجہ سے بفضل خدا یہ تمام کنبے آپس میں اتحاد و اتفاق کی نعمت سے بہرہ ور ہیں.آپ حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کپور تھلوی کے خسر تھے.

Page 601

تاریخ احمدیت.جلد 22 586 حضرت میاں محمد الدین صاحب آف مانگٹ اونچا بیعت : ۱۸۹۸ء.وفات ۲ جنوری ۱۹۶۴ء بعمر ۱۰۶ سال سال 1964ء حضرت میاں محمد الدین صاحب نے ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا.دعوت الی اللہ کا انتہائی جنون تھا اور مالی قربانیوں میں حتی المقدور حصہ لیتے رہے.مکرم مولانا سلطان احمد صاحب پیر کوئی آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تبلیغ کا بہت شوق تھا.خواہ کوئی ماتمی مجلس ہو یا شادی کی.بڑوں کی مجلس ہو یا چھوٹی عمر والوں کی.آپ تبلیغ کی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتے تھے اور کامیاب طور پر پیغام حق پہنچاتے تھے.بڑے نڈر مبلغ تھے.آپ ناخواندہ تھے لیکن دین کے سیکھنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے.کوئی عالم یا اپنے سے زیادہ دین کا علم رکھنے والا مل جائے.اسے مختلف مسائل دینیہ سکھانے کی کوشش کرتے...حضرت میاں محمد دین صاحب کے منجھلے بیٹے میاں فضل احمد صاحب مرحوم جو میرے بہنوئی تھے.جب ۱۹۴۷ء میں وفات پاگئے تو ان کے بچے بہت چھوٹی عمر کے تھے.جنکی آپ نے بڑھاپے کی عمر میں محنت کر کے پرورش کی اور تعلیم دلائی.ہمیشہ ان کے سر پر دست شفقت رکھا.بچوں کے جوان ہو جانے کے بعد بھی آپ ان کے ساتھ رہے اور انہوں نے بھی آپ کی بہت خدمت کی..۱۹۶۳ء میں جب آپ اپنے پوتے عزیزم عنایت اللہ صاحب کے پاس کریم نگر (سندھ) میں مقیم تھے.آپ نے وصیت کرنے پر اصرار کیا.لیکن آپ اپنی زندگی میں اپنی زرعی جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کر چکے تھے.عزیزم عنایت اللہ صاحب بہت حیران تھے کہ ان کی خواہش کو کس طرح پورا کرے.میں بھی ان دنوں سندھ میں تھا.مجھ سے ذکر کیا تو میں نے کہا کہ آپ ایک رقم ان کے لئے مخصوص کر دیں اور اسی پر آپ کی وصیت کرا دیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.کمزور تھے سفر نہیں کر سکتے تھے.اتفاقاً آپ کا منجھلا ہوتا عزیز عبدالرشید مرحوم جلسہ سالانہ پر آنے کے لئے تیار ہوا تو آپ بھی اس کے ساتھ جلسہ سالانہ پر آگئے.جلسہ سالانہ کے بعد اپنے بیٹے میاں نور احمد صاحب کے پاس مانگٹ اونچے گئے.اور ۲ جنوری ۱۹۶۴ء کو وفات پا گئے.جنازہ ربوہ لایا گیا.اور وصیت ابھی منظور نہیں ہوئی تھی.متعلقہ کارکن نے ممبران کے گھروں پر جا کر ان سے دستخط کرائے اور آپ بہشتی مقبرہ میں قطعہ صحابہ میں دفن ہوئے.وفات کے وقت آپ کی عمر ۱۰۶ سال تھی.

Page 602

تاریخ احمدیت.جلد 22 587 سال 1964ء اولاد بیٹے مکرم غلام احمد صاحب ، مکرم فضل احمد صاحب، مکرم نوراحمد صاحب بیٹیاں مکرمہ مراد بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت مولوی فضل الدین صاحبہ (صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) مکرمہ رحمت بی بی صاحبہ، مکر مہ محمد بی بی صاحبہ آپ کی نسل میں سے کئی ایک واقف زندگی ہیں.آپ کے ایک پوتے مکرم سلطان احمد شاہد صاحب مربی سلسلہ نظارت اشاعت اور ایک نواسے مکرم نصیر احمد صاحب پیر کوئی مربی سلسلہ ہیں.حضرت چوہدری خدا بخش صاحب ہانڈ و گجر ضلع لاہور ولادت: ۵/اکتوبر ۱۸۸۳ ء - بیعت: ۱۹۰۵ ء وفات: ۶ جنوری ۱۹۶۴ء حضرت چوہدری صاحب حضرت مولوی غلام حسین صاحب (جناب عبدالحمید صاحب شوق کے نانا کے شاگر درشید تھے اور انہی کے ذریعے احمدیت کی نعمت نصیب ہوئی.حضرت مولوی غلام حسین صاحب کتاب کشتی نوح کی اشاعت کے بعد آپ کو ساتھ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے.چوہدری صاحب کا بیان ہے کہ شام کا وقت تھا ہم دونوں مسجد مبارک میں اگلی صف میں بیٹھے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام شمالی دروازہ سے اچانک برآمد ہوئے.لمبا قد ، نورانی صورت ، چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا.جوں ہی ہماری نظر حضور پر پڑی ہم نے جان لیا یہی حضرت مرزا صاحب ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی عبد الکریم صاحب کی اقتدا میں نماز ادا کی.نماز کے بعد حضور نے فرمایا کوئی صاحب قرآن مجید سنائے.اس پر حضرت مولوی غلام حسین صاحب نے نہایت خوش الحانی سے کھڑے ہو کر قرآن کریم پڑھا.حضرت اقدس بہت خوش ہوئے.ہم دونوں استاد شاگر د مہمان خانہ میں رہے اور پھر واپس گاؤں آکر مزید تحقیق کے لئے البدر“ اور ”الحکم اخبار جاری کروائے.ایک سال کے مطالعہ کے بعد مجھے حضرت مولوی صاحب نے بیعت کے لئے قادیان روانہ کیا.حضرت صاحب باغ میں فروکش تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب تشریف لائے.آتے ہی بڑی گرجدار اور پر شوکت آواز میں نماز ظہر کی اذان کہی اور اگلی صف میں بیٹھ گئے.اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تشریف لے آئے.نماز ادا ہوئی تو حضرت صاحب نے فرمایا کوئی بیعت کرنے والا ہے؟‘.میرے ساتھ دو اور شخص بھی کھڑے ہو گئے.ہم تینوں نے بیعت کی اور پیچھے ہٹ کر مؤدبانہ بیٹھ گئے.گاؤں پہنچا تو حضرت مولوی صاحب سے ملا.آپ بھی بیعت کا سن کر بہت خوش ہوئے.اسی سال مولوی صاحب بھی گاؤں کے چند

Page 603

تاریخ احمدیت.جلد 22 588 سال 1964ء آدمیوں کو ساتھ لے کر قادیان پہنچے اور حضرت صاحب کی بیعت کرنے کے بعد واپس گاؤں آئے.اب ہماری مخالفت شروع ہو گئی.ہمارا مقاطعہ ہو گیا اور ہمارے بائیکاٹ کی تحریک زور پکڑ گئی.اس پر ہم محبوب عالم صاحب مالک راجپوت سائیکل ورکس سے ملے.انہوں نے فرمایا صبر کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی حکم ہے.اس پر ہم گاؤں واپس آ کر نمازوں اور دعاؤں میں مشغول ہو گئے.کیونکہ ہماری بیعت کے بعد گاؤں کے لوگوں نے ہماری بے وجہ مخالفت کی.اس لئے ان کی آپس میں سخت لڑائی ہوئی اور وہ باہمی عداوت کے بعد تتر بتر ہو گئے.ہمارے لئے تو یہ بھی خدا کا ایک نشان تھا.میں گاؤں میں اکیلا تھا.حضرت مولوی غلام حسین صاحب اپنے وطن واپس جاچکے تھے.میں لاہور حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور ان دنوں لا ہور تشریف لائے ہوئے تھے.میں نے عرض کیا حضور گاؤں میں اکیلا احمدی ہوں.حضور نے مسکرا کر فرمایا مومن کبھی اکیلا نہیں ہوتا.آپ جا کر تبلیغ کریں.میں نے حضور کے اس ارشاد پر عمل کیا.اس وقت ( یعنی ۱۹۶۴ء میں.ناقل ) جماعت ہانڈو کے کل افراد کی تعداد ایک سو بیس کے قریب ہے.حضرت چوہدری صاحب جماعت احمدیہ ہانڈو گجر کے صدر بھی تھے.حضرت چوہدری صاحب بلند اخلاق، زاہد، زنده دل، مہمان نواز اور صابر و شاکر اور تہجد گزار بزرگ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر خیر پر اکثر رقت طاری ہو جاتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود کی محبت ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی.علاقہ بھر کے دوست و دشمن ان کی تہ دل سے عزت کرتے تھے اور اپنے گاؤں کے لوگ انہیں دولہا کہا کرتے تھے.پیغام حق پہنچانے میں ہمیشہ کوشاں رہتے.اپنے علاقہ میں روشنی اور صداقت کا مینار تھے.آپ کا اسم گرامی مینارة اسبح قادیان پر زیر نمبر ۱۸۸ نصب ہے.اولاد: اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات صاحبزادوں اور دو صاحبزادیوں سے نوازا.بیٹے : مکرم چوہدری عصمت علی صاحب، مکرم چوہدری صفدر علی صاحب ، مکرم چوہدری اختر علی صاحب والد مکرم چوہدری فیاض احمد صاحب صدر جماعت احمد یہ ہانڈ و گجر، مکرم چوہدری مظفر احمد صاحب ، مکرم چوہدری منور احمد صاحب، مکرم چوہدری ناصر احمد صاحب، مکرم چوہدری مبشر احمد صاحب بیٹیاں محترمہ ذکیہ سلطانہ صاحبہ زوجہ چوہدری محمد یعقوب صاحب ہانڈ و گجر محترمہ ثریا ناصر صاحبہ زوجہ چوہدری ناصر احمد صاحب حال مقیم کینیڈا

Page 604

تاریخ احمدیت.جلد 22 589 سال 1964ء حضرت سید محمدی بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمد اشرف صاحب مرحوم ولادت: قریباً ۱۸۷۹ء.بیعت: (سن کی تعیین نہیں ہو سکی) وفات : ۶ فروری ۱۹۶۴ء.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیہ تھیں.آپ بڑی خوبیوں کی مالک تھیں.بہت نیک، دین سے محبت کرنے والی، ہمدرد اور خدا ترس تھیں.مہمان نوازی آپ کا خاص وصف تھا.پردے کی سختی سے پابند تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے گہری عقیدت و محبت تھی ان کے لئے ہمیشہ التزام سے دعائیں کرتی تھیں.جلسہ کے موقعہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے گھر میں قیام پذیر ہوتی تھیں.مرحومہ اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدی ہوئیں جبکہ اس وقت ان کے خاوند بھی احمدی نہ تھے.قبول احمدیت کے بعد بہت تکلیفیں اٹھا ئیں مگر اُف تک نہیں کیا.چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں.نماز تہجد اور اشراق با قاعدہ پڑھتی تھیں.محلے کے بچوں اور اپنے نوکروں کو بڑے ذوق و شوق سے قرآن کریم پڑھایا کرتی تھیں.حضرت خان امیر اللہ خان اسماعیلیہ ضلع مردان ولادت: ۱۸۷۹ء بیعت : ۱۹۰۳ء.وفات: ۹فروری ۱۹۶۴ء 3 صاحب کشف و الہام، عابد و زاہد بزرگ تھے.سلسلہ کے لئے بے پناہ غیرت رکھتے تھے.احمدیت کی خاطر ہر مخالف کا مردانہ وار مقابلہ کیا.خلیق اور مہمان نواز تھے اور باوجود گاؤں کے خان ہونے کے نہایت سادہ اور منکسر المزاج تھے.اسماعیلیہ میں انہی کے وجود سے احمد بیت قائم ہوئی مگر وہ خود حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری کی تبلیغ سے احمدی ہوئے.حضرت قاضی سید حبیب اللہ شاہ صاحب آف شاہدرہ (لاہور) ولادت: ۱۸۷۱ء.بیعت : ۱۹۰۰ء.وفات: ۴ مارچ ۱۹۶۴ء بعمر ۹۳ سال - 10 آپ مستجاب الدعوات و صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھے.آپ کی تبلیغ سے کئی جماعتیں قائم ہوئیں.آپ کی روایات الحکم ۱۴ اکتو بر ۱۹۳۶ء میں شائع شدہ ہیں اور بہت ہی ایمان افروز ہیں.ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت و محبت کا آغاز ۱۸۹۶ء کے جلسہ اعظم مذاہب لا ہور کی روداد سے ہوا جو روزانہ انہیں ملتی اور وہ اسے پڑھتے تھے.

Page 605

تاریخ احمدیت.جلد 22 590 سال 1964ء چھاؤنی کے بہت سے کلرک اور دوسرے لوگ جلسہ سننے کے بعد بتاتے تھے کہ اسلام کی عزت حضرت مرزا صاحب نے رکھ لی ہے.اس پر آپ کا حسن ظن بڑھ گیا اور حضور کی کتابیں وغیرہ دیکھنی شروع کیں.آخر دعا کی.جس پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے تین خواب دکھلائے اور حضرت اقدس کی سچائی آپ پر کھل گئی اور آپ نے بیعت کا خط لکھ دیا.قبول احمدیت پر آپ کے رشتہ داروں میں ایک شور اٹھا.انہوں نے آپ کا بائیکاٹ کر دیا اور آپ کا ٹرنک باہر پھینک کر گھر سے نکال دیا.آپ اسی وقت ایک احمدی دوست محمد حسین صاحب کے پاس گئے.جو اسی وقت آئے اور آپ کا سامان وغیرہ اٹھا کر لے گئے.یہ دوست میڈیکل ڈپو میں تھے اور انہی کے ذریعے آپ داخل احمدیت ہوئے.آپ ایک دکان کرایہ پر لے کر رہنے لگے.جب آپ پہلی دفعہ قادیان تشریف لے گئے تو حضرت اقدس بڑی شفقت و محبت سے پیش آئے اور دریافت فرمایا قاضی صاحب آپ کتنی رخصت لے کر آئے ہیں.آپ نے عرض کیا.بڑی مشکل سے تین دن کی رخصت ملی ہے.ایک دن آنے کا ، ایک دن جانے کا اور آج حضور کی خدمت میں رہنے کا.آپ فرمانے لگے آمدن بارادت رفتن با جازت کے مقولے پر تو عمل کیا ہوتا.آپ فرماتے ہیں:.’ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہلم کو کرم دین کے مقدمہ کے لئے تشریف لے جا رہے تھے.میں ان دنوں میاں میر چھاؤنی میں ملازم تھا.مجھے جب پتہ لگا کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام فلاں ٹرین سے تشریف لا رہے ہیں تو ہم اسٹیشن پر جا پہنچے.گاڑی آئی.حضرت اقدس جس ڈبہ میں سوار تھے ہم بھی چند لوگ اس ڈبہ میں بیٹھ گئے اور حضور سے ملاقات کی.مفتی محمد صادق صاحب نے میرا تعارف کرایا.حضرت اقدس نے فرمایا میں قاضی صاحب کو جانتا ہوں.یہ ہمارے پرانے دوست ہیں.اور حضور نے جو مجھ سے پہلا سوال کیا وہ یہ تھا کہ اب آپ کے رشتہ داروں کا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا حضور اب تو ان کی مخالفت انتہا کو پہنچ گئی ہے.فرمانے لگے آپ گھبرائیں نہیں.ایک زمانہ آنے والا ہے کہ یہ سب لوگ آپ کے قدموں میں گریں گے.پھر مجھے از راہ شفقت اپنے پاس ہی بٹھا لیا اور ہم سب ساتھ ہی لاہور پہنچ گئے.میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر تمام آنیوالے دوست فروکش ہوئے اور میں بھی وہاں ہی حضور کے پاس رہا.رات کو میں نے مفتی صاحب سے عرض کیا کہ میرا بستر حضرت صاحب کے بالکل

Page 606

تاریخ احمدیت.جلد 22 591 سال 1964ء قریب کیا جائے تاکہ میں حضرت صاحب کو نفل پڑھتے ہوئے دیکھوں.انہوں نے حضرت صاحب کی چارپائی کے ساتھ میرا بستر بھی کروا دیا.دو بجے رات کے قریب میں اٹھا اور باہر وضو کر نے چلا گیا.وضو کر کے جب میں واپس آیا تو آگے میرے بستر پر حضور علیہ السلام نفل پڑھ رہے تھے مگر مجھے یہ معلوم نہ ہوا کہ یہ حضور علیہ السلام ہی ہیں.میں نے ایک دوست سے ذکر کیا کہ دیکھو میری جگہ پر کوئی اور دوست آکر کھڑے ہو گئے ہیں اور میں نے بڑی مشکل سے یہ جگہ لی تھی.تھوڑی سی دیر ہوئی تھی کہ حضرت صاحب نے مجھے فرمایا.آئیے آپ اپنی جگہ پر بیٹھ جائے.پھر مجھے معلوم ہوا کہ یہ حضرت اقدس علیہ السلام ہیں.میں نے معذرت کی مگر حضور علیہ السلام نے مجھے پکڑ کر اس جگہ پر کھڑا کر دیا.جب نفل پڑھ چکے تو مفتی صاحب نے پھر عرض کیا کہ حضور یہ قاضی حبیب اللہ صاحب ہیں.حضور نے فرمایا کہ میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں.ان کو کتاب مواہب الرحمن نکال کر دو.وہ کتاب انہی دنوں شائع ہوئی تھی.فرمانے لگے.قاضی صاحب اس کو آپ نے ضرور پڑھنا ہے.اس میں چند پیشگوئیاں نئی ہیں.میں نے کہا بہت اچھا حضور.وہ کتاب مواہب الرحمن میرے پاس اب تک موجود ہے.11 اولاد: سیدہ ہاجرہ بیگم صاحبہ سیدہ نصرت بیگم صاحبہ.سیدہ سائرہ بیگم صاحبہ.سیدہ فہمیدہ بیگم صاحبہ.سید منصور احمد شاہ صاحب.سیدہ اقبال بیگم صاحبہ ( والدہ مکرم سید مبشر احمد ایاز صاحب مربی سلسلہ ).سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ - 12 حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ولادت: اکتوبر ۱۸۷۳ء.زیارت : ۱۸۹۱ء.بیعت: مارچ ۱۹۰۵ء.وفات : ۷ امارچ ۱۹۶۴ء.حضرت مولا نا محمد ابراہیم صاحب کا خاندان فضیلت علم سے ہمیشہ مرقع رہا ہے.جس میں کئی نامور علماء پیدا ہوئے.آپ کے مورث اعلیٰ حافظ سعد اللہ صاحب اور نگ زیب عالمگیر کے درباری تھے.ان کے بیٹے مولوی محمد سعید جالب کھو کھر جنہوں نے ۱۱۵۶ھ بمطابق ۱۷۴۳ء میں اپنے ننھیال موضع بقا پر ضلع گوجرانوالہ میں رہائش اختیار کر لی تھی، فقیہ عصر تھے.انہوں نے ایک ہزار فقہی مسائل پر مشتمل ایک کتاب ہزاری کے نام سے تالیف کی تھی.ان کے فرزند مولوی شیر محمد بھی مشہور عالم اور زمیندار تھے.

Page 607

تاریخ احمدیت.جلد 22 592 سال 1964ء حضرت مولانا ابراہیم صاحب کی پیدائش چک چٹھہ تحصیل حافظ آباد میں ہوئی.آپ نے تیسری جماعت تک سرکاری مدرسہ میں تعلیم حاصل کی.۱۸۸۴ء میں نیلا گنبد لا ہور مدرسہ رحیمیہ میں داخل ہوئے.۹۰-۱۸۸۹ء میں دو سال تک حضرت مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی کے زیر تعلیم رہے.۱۸۹۱ء میں آپ پہلی بار حضرت مسیح موعود کی زیارت سے مشرف ہوئے.حضرت مولوی عبدالقادر صاحب نے آپ کو آٹھ آنے دے کر محلہ اقبال گنج لدھیانہ میں کتاب فتح اسلام لانے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا.عصر کی نماز آپ نے حضرت اقدس کے پیچھے پڑھی.۱۸۹۱ء سے لیکر ۱۸۹۳ ء تک مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں تعلیم مکمل کی.اور ۱۸۹۳ء میں ہی آپ مدرسہ عربی شہر مندرا ریاست کچھ بھوج میں اول مدرس عربی متعین ہوئے.۱۸۹۴ء میں یہیں آپ نے کسوف و خسوف کا آسمانی نشان دیکھا اور آپ کی توجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف ہوگئی اور گاہے گا ہے قادیان جانے لگے.جہاں آپ اپنے پرانے دوستوں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب (عرفانی)، حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت قاضی امیر حسین صاحب سے ملتے اور ہر بار قادیان آنے کے ساتھ آپ سلسلہ احمدیہ کے قریب تر ہوتے جاتے تھے.اور جماعت کے ساتھ آپ کا تعلق روز بروز پختہ ہوتا جارہا تھا.۱۹۰۳ء میں جب آپ قادیان پہنچے تو آپ کے ایک سوال کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے آیت وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ (البقرة: ۱۵۶) کی ایسی ایمان افروز تفسیر بیان فرمائی کہ آپ نے پختہ ارادہ کر لیا کہ دوبارہ قادیان آؤں گا تو ضرور بیعت کے لئے تیار ہو کر آؤں گا.۱۹۰۴ء میں آپ نے مسئلہ نبوت کے متعلق پوری تحقیقات کر کے اپنی تسلی کر لی اور ۱۹۰۵ء کے شروع میں آپ بیعت کے لئے مصمم ارادہ کر کے قادیان جا پہنچے.حضرت اقدس کو آپ کے متعلق اطلاع کی گئی.حضرت اقدس کی طبع مبارک ان دنوں ناساز تھی.حضور چار پائی پر تشریف فرما تھے وہاں کوئی خالی کرسی یا موڑھا وغیرہ نہیں تھا آپ نیچے بیٹھنے کے لئے جھکے ہی تھے کہ حضور نے ارشاد فرمایا آپ میرے پاس چار پائی پر بیٹھ جائیں.آپ جھجکتے ہوئے پاؤں نیچے لٹکا کر بیٹھ گئے مگر حضور نے کمال مہربانی سے ارشاد فرمایا.مولوی صاحب میری طرح چار پائی پر پاؤں رکھ کر بیٹھ جائیں.چنانچہ آپ تعمیل حکم میں بیٹھ گئے اور عرض کیا کہ حضور نے تین چار روز یہاں قیام کرنے کا ارشاد فرمایا تھا آج چوتھا دن ہے حضور میری بیعت لے لیں.حضور نے ہاتھ بڑھایا اور بیعت لے لی.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جو وہاں تشریف فرما تھے اس نظارہ سے بہت ہی متاثر ہوئے اور -

Page 608

تاریخ احمدیت.جلد 22 593 سال 1964ء فرمانے لگے مولوی صاحب اس طرح کی بیعت کرنا آپ کو مبارک ہو.بیعت کے بعد آپ اپنے ننھیال قصبہ مرالی والا ( ضلع گوجرانوالہ ) میں واپس آگئے اور مسجد میں قبول احمدیت کا اعلان عام کر دیا جس پر قصبہ میں شور پڑ گیا اور آپ کی زبر دست مخالفت شروع ہوگئی.اہلحدیث مولویوں نے آپ کا بائیکاٹ کر دیا اور عوام کا لانعام اعلانیہ گالی گلوچ پر اتر آئے.آپ رات کو بڑی دیر تک نماز تہجد پڑھتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے رویا صالحہ کا سلسلہ جاری ہو گیا اور آپ کی روحانی تسلی کے لئے نئے سے نئے سامان ہونے لگے.آپ نے مصمم ارادہ کر لیا کہ لوگ خواہ مجھے کتنی تکلیف پہنچائیں.میں تبلیغ کرنا نہیں چھوڑوں گا.احمدیت اختیار کرنے کے بعد آپ ایمان وعرفان میں جلد جلد ترقی کر رہے تھے اور آپ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عشق و محبت بڑھتی جارہی تھی اور آپ دیوانہ وار تبلیغ میں مصروف ہو چکے تھے کہ اس دوران آپ کے ماموں نے جو آپ کے خسر بھی تھے غضبناک ہو کر آپ کو ڈانٹا اور دھمکی دی کہ یہاں سے خود بخود نکل جاؤ ور نہ میں تھانہ کے ذریعہ تم کو یہاں سے نکلوا دوں گا.چنانچہ آپ مرالی والا کو چھوڑ کر اپنے آبائی گاؤں بقا پور میں تشریف لے آئے.بقاپور میں آپ کا بائیکاٹ تو نہ ہوا کیونکہ آپ وہاں کے زمیندار تھے البتہ عوام اور مولویوں کی مخالفت شدید صورت اختیار کر گئی.لوگوں کی مخالفت کے علاوہ بڑے بھائی کے سوا آپ کا پورا خاندان مخالف ہو گیا.لیکن اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ایک ماہ کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ بھی احمدی ہو گئیں.اور سوائے آپ کے والد صاحب کے آپ کا گھرانہ خاموش ہو گیا.لیکن آپ نے زور وشور سے تبلیغ جاری رکھی.آخر ایک سال کے اندر آپ کے والد صاحب اور چھوٹے بھائی اور دونوں بھاوجوں نے بیعت کر لی.بڑے بھائی بھی حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں داخل احمدیت ہو گئے.۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ ء تک بقا پور میں مالی اور بدنی ابتلاؤں میں گزرے.کئی کئی دن فاقہ کشی کرنا پڑی لیکن آپ کے جوش تبلیغ میں چنداں فرق نہ آیا.۱۹۰۹ء سے ۱۹۱۴ء تک آپ سرگودھا کے چک نمبر ۹۸ ۹۹ میں قیام فرمار ہے اور ہر طرف گویا احمدیت کی دھوم مچادی.آپ کی تبلیغ سے کئی جماعتیں قائم ہوئیں.اکتوبر ۱۹۱۴ ء میں حضرت مصلح موعود نے بذریعہ ڈاک حکم دیا کہ آپ قادیان آ جائیں.آپ حضور کی خدمت میں پہنچے تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ ترقی اسلام کے منتظم اعلیٰ مولوی شیر علی صاحب ہیں ان سے مل کر اپنے گزارے کے متعلق بھی بات چیت کر لیں.آپ نے عرض کیا کہ ”جب مارچ ۱۹۰۵ء

Page 609

تاریخ احمدیت.جلد 22 594 سال 1964ء میں بوقت بیعت حضرت مسیح موعود نے میرے عرض کرنے پر مجھے ارشاد فرمایا تھا کہ مولوی صاحبہ لوگوں سے کہہ دینا کہ میں نے حق کو پالیا ہے اور دعا کرنے کے بعدان کو تبلیغ کرنا اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے گا.پھر جب آپ نے دوسرے مہینے (خلافت ثانیہ کا دوسرا مہینہ مراد ہے.ناقل ) اپریل میں مبلغین کی تحریک کی تھی تو اس وقت بھی حافظ روشن علی صاحب اور بابا حسن محمد صاحب اور شیخ غلام احمد صاحب واعظ کے ساتھ میں نے بھی زندگی وقف کی ہوئی ہے تو جس طرح دس سال سے گزارے کا اپنا انتظام کر کے سلسلہ کے ماتحت تبلیغ کر رہا ہوں ایسا ہی گزارے کا انتظام میں اب بھی اپنا کرلوں گا“.حضور نے فرمایا پہلے تو آپ انجمن کے چوبیس گھنٹہ ماتحتی میں کام نہیں کرتے تھے اب آپ کو یہ گزارہ لینا جائز ہے.حضور نے اس بارے میں خوب روشنی ڈالی.جس سے آپ کی تسلی ہوگئی کہ اگر چہ آپ وقف زندگی ہیں تاہم اب صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت رہ کر گزارہ لینے کی شرعاً اجازت ہے (اس طرح آپ صدرانجمن احمدیہ کے حلقہ ملا زمت میں آئے اور ۱۹۳۸ء میں پنشن یاب ہوئے.) حضور کی ہدایت پر آپ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے پاس آئے.انہوں نے پوچھا آپ کا گزارہ کتنے میں ہو جائے گا.آپ نے بتایا کوئی دس بارہ روپیہ میں.حضرت مولوی شیر علی صاحب نے پندرہ روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر کر دی.حضرت اقدس کو اطلاع ہوئی تو فرمایا یہ تھوڑا ہے جس پر حضرت مولوی صاحب نے بائیس روپے مقرر کر دی.چوہدری افضل حق ( مفکر احرار ) کی تربیت حضرت مولا نا بقا پوری فرماتے ہیں کہ انجمن کی ملازمت میں آنے کے بعد ۱۹۱۵ء میں آپ کی پہلی تقرری راولپنڈی میں کی گئی.ان دنوں چوہدری افضل حق صاحب ( مفکر احرار ) کے بڑے بھائی چوہدری عبدالحق صاحب بطور انسپکٹر پولیس متعین تھے جنہوں نے حضرت سید محمد اشرف صاحب سے ذکر کیا کہ افضل حق بی.اے تو پاس کر آیا ہے لیکن دہریت سرایت کر گئی ہے نہ خدا کو مانتا ہے نہ اسلام سے کوئی دلچسپی ہے.شاہ صاحب نے ان سے کہا ہمارے مولوی صاحب یہاں موجود ہیں ان سے قرآن شریف کا ترجمہ افضل حق کو پڑھائیں تا کہ دینی علوم سے بھی واقفیت ہو جائے.اس پر انہوں نے چوہدری افضل حق کو آپ کے پاس بھیجا.آپ نے تقریباً اڑھائی ماہ تک انہیں ترجمہ قرآن سکھلایا.اس کے بعد چوہدری عبدالحق صاحب کی تبدیلی لا ہور ہوگئی.اس لئے ان کو بھی لاہور جانا

Page 610

تاریخ احمدیت.جلد 22 595 سال 1964ء پڑا.لیکن اس عرصہ میں انہوں نے اتنا پڑھ لیا کہ جس سے ان کے دل میں قرآن شریف اور اسلام کی عظمت گھر کر گئی اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ بھی انہیں حسن ظنی پیدا ہوگئی.لیکن ان پر چونکہ سیاست غالب تھی اس لئے وہ کانگریس میں قدم رکھنے کے بعد سیاست اور دیگر وجوہ کی بناء پر سلسلہ کے مخالف ہو گئے تاہم بقول حضرت سید محمد اشرف صاحب لاہور میں متعدد ملاقاتوں میں اس امر کا اعتراف تو وہ کھلم کھلا کرتے رہے کہ مجھے تو مولوی بقا پوری صاحب نے مسلمان بنایا ہے وگرنہ میں اسلام کیا خدا کو بھی نہ مانتا تھا.خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں میں آپ کو حضرت حافظ روشن علی صاحب، حضرت میر محمد الحق صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب جیسے بزرگان سلسلہ کے ساتھ سرگودھا، ہوشیار پور وغیرہ مقامات پر مباحثوں کے سلسلے میں مرکز سے بھجوایا گیا.آپ نے ہر جگہ ایسے مدلل اور مسکت جوابات دیئے کہ سننے والے عش عش کر اٹھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب ان مباحثات کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری میں بفضلہ یہ خوبی ہے کہ ان کی تقریر مدلل ہونے کے ساتھ ساتھ عام فہم اور فریق ثانی کے دلوں کو کھینچنے کی تاثیر رکھتی ہے اور فریق ثانی کے مباحث خواہ کیسی ہی اشتعال انگیزی کریں مولوی صاحب کبھی غصہ میں نہیں آتے تھے.۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے جبکہ آپ امرتسر میں اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی لا ہور میں اور حضرت حافظ غلام رسول صاحب جہلم میں مقرر تھے.آپ کو مرکز سے خط ملا کہ سید والہ ضلع لائلپور حال ضلع ننکانہ ) میں فلاں تاریخ کو جلسہ ہے آپ تینوں کیلئے جماعت نے درخواست کی ہے کہ اس میں شرکت فرما ئیں.دوسرے دو عالم بھی پہنچ جائیں گے.جلسہ تین دن تھا اور ساتھ مناظرہ بھی.آپ کو جڑانوالہ سے تانگہ نہ ملا اس لئے آپ ایک دن تاخیر سے پہنچے.معلوم ہوا کہ دوسرے بزرگ کسی معذوری کے باعث تشریف نہیں لا سکے.احباب جماعت بہت مشوش تھے لیکن آپ نے فرمایا تسلی رکھیں اور صداقت اسلام پر مؤثر تقریر شروع کر دی.غیر احمدی، آریہ اور عیسائی اصحاب حیرت زدہ رہ گئے کہ یہ مولوی صاحب خوب ہیں سترہ میل ٹانگے پر سفر کر کے بغیر کھائے پیئے گرمی کے موسم میں آتے ہی تقریر میں مشغول ہو گئے.بڑے باہمت شخص ہیں.پہلے دن مباحثہ اور سوال و جواب کے لئے آریہ اٹھے.دوسرے دن مسئلہ وفات مسیح اور امکان نبوت پر تقریریں اور سوال و جواب ہوئے.تیسرے

Page 611

تاریخ احمدیت.جلد 22 596 سال 1964ء دن صداقتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر غیر احمدیوں سے مناظرہ ہوا.خدا کی قدرت تینوں دن آٹھ آٹھ گھنٹہ بولنے کے باوجود آپ کے گلے میں کوئی نقص نہیں ہوا.احباب جماعت نے کہا کہ ہمیں تو شرم آتی ہے کہ اس قدر کوفت کے بعد آپ سے کچھ عرض کریں لیکن احمدی مستورات کا اصرار ہے کہ ان میں بھی مولوی صاحب کی تقریر ہو.آپ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تو میری خوب مہمان نوازی کی ہے اس لئے ان کا حق زیادہ ہے.چنانچہ آپ نے مغرب کی نماز کے بعد عورتوں میں بھی تقریر فرمائی.حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۲ء کے موقعہ پر مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور آپ کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.و تبلیغ کو باقاعدہ کرنے کے لئے اس سال میں نے تبلیغ کے حلقے مقرر کئے تھے.بیشک ہر جگہ اور ہر ضلع میں ہم فی الحال آدمی مقرر نہیں کر سکتے تھے.مگر پھر بھی جتنے آدمی اس کام کے لئے فارغ ہو سکتے تھے اور جن کو مقامی طور پر کام نہ تھا ان کو مقرر کیا گیا.یعنی دو مبلغ اس کام کے لئے مقرر کئے گئے.ایک مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور دوسرے مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری.آئندہ سال امید ہے کہ مبلغین کی جماعت سے جو نئے آدمی نکلیں گے ان کو مقرر کیا جائے گا اور اس سلسلہ تبلیغ کو اور وسیع کر دیا جائے گا.میرا ارادہ ہے اگر یہ ارادہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہو کہ جس طرح کمشنریاں ہوتی ہیں اسی طرح تبلیغ کے حلقے مقرر کر دیں اور انتظام یہ ہو کہ ان حلقوں میں جو آدمی مقرر کئے جائیں وہ اس علاقہ کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر تبلیغ کا کام کریں.اور جب زیادہ آدمی مل جائیں تو پھر ان علاقوں کو ضلعوں میں اور پھر تحصیلوں میں تقسیم کر کے ان میں مبلغ لگا دیئے جائیں اور اس طرح تبلیغ کا ایسا جال پھیلا دیا جائے کہ کوئی جگہ ایسی نہ ہو جہاں ہمارے آدمی نہ پہنچ سکیں.تبلیغ کے متعلق جو یہ نیا انتظام مقرر کیا گیا ہے.اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جن علاقوں میں یہ مبلغ مقرر کئے گئے ہیں ان میں بیداری پیدا ہوگئی ہے اور وہاں کے لوگ تبلیغ میں حصہ لینے لگ گئے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کئی لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اور ایک ایسی جماعت بھی پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ داخل سلسلہ ہونے کی تیاری کر رہی ہے.

Page 612

تاریخ احمدیت.جلد 22 597 سال 1964ء میں خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسے بے نفسی سے کام کرنے والے آدمی دیئے ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کے اخلاص میں اور ترقی دے اور اور ایسے ہی آدمی دے.اس کے ساتھ ہی میں آپ لوگوں سے بھی چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اُن کو اور کام کرنے کی توفیق دے.دیکھو گجرات یا گوجرانوالہ کے علاقہ میں جو مبلغ گیا اُسی کا یہ فرض نہ تھا کہ تبلیغ کرتا.بلکہ ہمارا بھی یہ فرض تھا کہ ہم بھی تبلیغ کے لئے جاتے.اس لئے احسان فراموشی ہوگی اگر ہم ان مبلغوں کی قدر نہ کریں.اور ان کے لئے دعا نہ کریں کہ خدا تعالیٰ اُن کی تبلیغ کے اعلیٰ ثمرات پیدا کرے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگ ہمیں کثرت سے دے اور اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کے مخلص اور بے نفس انسان اس مقصد کے لئے پیدا ہوں“.اپریل ۱۹۲۳ء سے ۱۹۲۸ء تک آپ نے حضرت مصلح موعود کے حکم سے امیر التبلیغ سندھ کے فرائض سرانجام دیئے.حضور نے آپ کو بیعت لینے کی بھی اجازت بخشی تھی.اس چھ سالہ دور میں آپ نے پوری مجاہدانہ شان اور فقیرانہ جلال و تمکنت کے ساتھ سندھ کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک احمدیت کی آواز بلند کی.اور ہر جگہ گفتگوؤں، جلسوں اور مناظروں کے ذریعہ احمدیت کا سکہ بٹھا دیا.کئی نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور بہت سی سعید روحیں آپ کے ہاتھ پر داخل احمدیت ہو ئیں حتی کہ غیر احمدیوں کے اشد مخالف مگر تعلیم یافتہ اور ذی اثر طبقوں میں بھی سلسلہ احمدیہ کا وقار بلند ہو گیا.حضرت مولانا صاحب نے امیر التبلیغ سندھ کی حیثیت سے جو شاندار اور نا قابل فراموش خدمات انجام دیں ان کا کسی قدر اندازه مندرجہ ذیل چار ر پورٹس سے بخوبی ہو سکتا ہے.پہلی رپورٹ: حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے ناظر دعوت و تبلیغ قادیان نے ۱۹۲۸ء کی مجلس مشاورت میں یہ رپورٹ پیش فرمائی کہ :.احباب کرام کو معلوم ہوگا کہ علاقہ سندھ میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے ایک رؤیا کی بناء پر ۱۹۲۳ء میں مشن قائم کیا اور مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کو اس علاقہ کے لئے امیر تبلیغ مقرر کیا تھا.زبان اور علاقہ کے حالات سے ناواقفیت جو ایک مبلغ کے لئے مشکلات کا موجب ہو سکتے ہیں وہی مولوی صاحب کے لئے اولاست راہ ہوئیں کیونکہ لوگ عام طور پر سندھی بولتے اور سمجھتے ہیں.اور مولوی صاحب اس زبان سے ناواقف تھے لیکن رفتہ رفتہ چند ماہ میں چند کتابیں سندھی کی پڑھ کر تقریر

Page 613

تاریخ احمدیت.جلد 22 598 سال 1964ء کے قابل ہو گئے.۱۹۲۴ء میں ان کو دو معاون دیئے گئے اور اب صرف ایک ہی معاون ان کے ساتھ ہے.اس علاقہ میں بھی ملکانہ کی طرح آریہ لوگ بعض قوموں میں اپنا کام کہیں کہیں کر رہے تھے لیکن مبلغین سندھ نے ایسی تمام جگہوں کا دورہ کر کے اس آنے والے سیلاب کو روک دیا.سال زیر رپورٹ میں مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اپنی اور اپنے بچوں کی طویل علالت کی وجہ سے دوماہ کی رخصت پر اپنے علاقہ سے غیر حاضر رہے ہیں.اس کے بعد ان کی قابلہ اور لائقہ بیٹی فوت ہوگئی اور اس وجہ سے ان کو قریباً بیس یوم پھر قادیان میں آکر رہنا پڑا.اِن ناخوشگوار حالات میں بھی انہوں نے اپنے فرائض منصبی کو نہایت خوش اسلوبی اور جانفشانی سے ادا کیا ہے.ان کا مرکز روہڑی میں ہے.لیکن تمام سال وہ دورہ پر رہے ہیں.سال زیر رپورٹ میں ان کو دو دفعہ جماعت احمد یہ کراچی کی اصلاح و تربیت کے لئے جانا پڑا.علاقہ کی تمام جماعتوں کا بار بار دورہ کیا.چھ نئی انجمنیں قائم کیں.۷۵ کس مولوی صاحب کے ہاتھ پر داخل سلسلہ ہوئے.دونوں مبلغین نے ۲۲۸ مقامات کا دورہ کیا.آٹھ جلسے اور مناظرے ہوئے جن میں سے تین جگہوں سے غیر احمدیوں نے اپنے خرچ پر بلایا.علاقہ کی عام حالت : علاقہ سندھ میں سلسلہ کے متعلق پہلے بہت نفرت اور تعصب تھا جو رفتہ رفتہ کم ہوا.اب لوگ سلسلہ اور مبلغین سلسلہ اور خدمات سلسلہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.چنانچہ گذشتہ فروری میں مولوی صاحب کی تحریک پر غیر احمدیوں کی ایک انجمن تبلیغ الاسلام سکھر نے ہمارے دو مبلغوں کو اپنے جلسہ میں اپنے خرچ پر مرکز سے بلایا.اس میں ظفر علی خان صاحب مدیر ”زمیندار“ بھی بحیثیت صدر ولیکچرار مدعو تھے.مگر انہوں نے ہمارے خلاف اپنی تقریر کے دوران میں کچھ کہنا چاہا تو پریذیڈنٹ جلسہ نے ان کو اتنا روکا کہ انہیں اپنی تقریر چھوڑ کر بھاگنا پڑا.علاقہ کے اخبارات بھی سلسلہ کے مداح ہیں حالانکہ پہلے سخت مخالفت تھی.ہر طبقہ کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ مولوی صاحب کا رسوخ ہے.غرض حالات حاضرہ و ماضیہ کے توازن سے کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ حالات انشاء اللہ بہت ہی امید افزا ہیں اور سعید روحیں بہت جلد داخل سلسلہ ہوں گی“.دوسری رپورٹ: حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب نے الفضل ۳۱ راگست ۱۹۲۸ء صفحہ 9 پر لکھا:.ان اوصاف حمیدہ کے علاوہ جن کا ایک مبلغ اسلام میں پایا جانا لازمی ہے ان کا ان چار صفات سے متصف ہونا بھی ضروری ہے.دیانت وامانت، تقویٰ اور خشیۃ اللہ.مرکزی احکامات کی اطاعت اور افسران سے تعاون و وفاداری.علاقہ میں رسوخ.اور مجھے خوشی ہے کہ ان چاروں صفات سے 14

Page 614

تاریخ احمدیت.جلد 22 599 سال 1964ء مولوی صاحب موصوف متصف ہیں.مولوی صاحب اپریل ۱۹۲۳ء سے علاقہ سندھ میں کام کر رہے ہیں اور اس وقت سے اب تک انہوں نے اپنے مفوضہ کام کو نہایت دیانتداری سے نبھایا ہے اور کوئی ایسی بات پیدا نہیں ہونے دی جس سے ان پر کسی قسم کی شکایت پیدا ہونے کا احتمال بھی ہوا ہو.علاقہ سندھ کی تبلیغ ان کے سپرد کی گئی تھی اور انہوں نے اس مقدس کام کو اس جانفشانی اور دیانتداری کے ساتھ نبھایا ہے کہ مجھے بہت ہی کم اور شاذ و نادر کے طور پر انہیں ہدایات دینا پڑی ہیں.اکثر انہوں نے علاقہ کی جماعتوں اور احمدی افراد کا خود ہی خیال رکھا ہے.اور وقتاً فوقتاً ہر ایک جماعت میں جلد از جلد پہنچ کر ان کی تربیت اور تبلیغ اپنا فرض سمجھا ہے اور اس علاقہ سے کبھی کوئی شکایت اس رنگ میں دفتر میں نہیں پہنچی کہ مولوی صاحب فلاں فلاں جماعت کی طرف تو بار بار گئے ہیں اور ہماری طرف نہیں آئے.بلکہ باری باری سب کا حق ادا کیا.اور میں سمجھتا ہوں کہ دیانت اور امانت کا جو بوجھ ان کے کندھوں پر رکھ کر انہیں بھیجا گیا تھا اس کو انہوں نے ہمت واستقلال سے اٹھائے رکھا ہے.بعض چھوٹے چھوٹے واقعات متقی انسان کا پتہ دیئے بغیر نہیں رہتے.چند ماہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے مجھے لکھا کہ کوئٹہ کے دوست خواہش کرتے ہیں کہ میں چند دن کے لئے ان کے پاس جاؤں اور چونکہ کوئٹہ میرے حلقہ سے باہر ہے اس لئے اجازت طلب کرتا ہوں.میں نے بعض وجوہ سے اجازت نہ دی.کسی دوست نے ان کو یہاں سے لکھ دیا کہ اگر آپ وہاں جانا چاہتے ہیں تو کوئٹہ والوں کو لکھیں کہ وہ دفتر میں درخواست بھیجیں.اس کا جواب مولوی صاحب نے اس دوست کو جیسا کہ اس نے خود ہی بیان کیا یہ دیا کہ مجھے کوئی نفسانی خواہش تو وہاں کھینچ نہیں رہی کہ میں اتنی مصیبت میں پڑوں.خدا کا کام کرنا ہے جہاں وہ چاہے اپنی رضا کے ماتحت لے لے.کوئٹہ والوں کو میں نے یہی لکھ دیا ہے کہ مرکز کی طرف سے اجازت نہیں.اس سے زیادہ یہ لکھنا کہ تم خود وہاں درخواست کرو میں نے تقویٰ کے خلاف سمجھا ہے.کیونکہ اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مجھے خود وہاں جانے کی آرزو ہے.یہ چھوٹا سا واقعہ ہے مگر خشیة اللہ کے علاوہ مرکزی احکامات کی اطاعت بھی ظاہر کرتا ہے.مرکزی دفتر کے احکامات کی اطاعت اور اس سے تعاون اور وفاداری کا اظہار بھی انہوں نے جس عملی رنگ میں کیا ہے وہ میرے لئے کم خوش کن نہیں ہے.دفتر کا کوئی حکم ان کے نام ایسا نہیں پہنچا جس کی انہوں نے اطاعت نہ کی ہو.علاقہ سے باہر اپنی نقل و حرکت بجز صریح اجازت کے ہر گز نہیں کی حتی کہ اپنی لائق اور قابل بیٹی کی مرض الموت میں وہ کراچی میں تھے.بعض پرائیویٹ خطوط ان کو

Page 615

تاریخ احمدیت.جلد 22 600 سال 1964ء متواتر لکھے گئے اور لڑکی کی حالت سے روزانہ اطلاع دی جاتی رہی.لیکن چونکہ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ان کو قادیان سے واپس گئے ہوا تھا اس لئے انہوں نے واپسی کے لئے درخواست کرنے میں حجاب ہی محسوس کیا اور آخر جب لڑکی کی نازک حالت دیکھ کر میری اجازت سے انہیں تار دیا گیا تو پھر بھی کراچی شہر سے اپنے مرکز روہڑی میں آکر تبلیغ کے متعلق مناسب ہدایات دے کر اور ایک رات وہاں ٹھہر کر اس وقت قادیان پہنچے جبکہ مرحومہ کا جنازہ گھر سے لے جایا جا چکا تھا اور صرف ان کا انتظار ہورہا تھا.تعاون و وفاداری کی یہ روح ہے کہ چند دن ہوئے کہ بوجہ علالت و بغرض علاج انہوں نے چند یوم کے لئے واپس آنے کی اجازت طلب کی.آمد و رفت کے اخراجات اور مالی مشکلات کی وجہ سے ان کو لکھا گیا کہ آپ ایثار کریں اور اس وقت رخصت نہ لیں.وہاں ہی ٹھہر کر علاج کرائیں.اس پر انہوں نے نہایت ہی خوشی سے اپنی رخصت کی درخواست واپس لے لی.ایک مبلغ کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں اس وقت تک بہت سی دشواریاں پیش آنے کا اندیشہ ہے جب تک کہ خاص و عام میں اس کا رسوخ نہ ہو.مولوی صاحب کا رسوخ نہ صرف احمدیوں تک ہی محدود رہا بلکہ وہ عامتہ الناس کے علاوہ غیر احمدیوں کے تعلیم یافتہ اور ذی اثر طبقہ میں بھی وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے رہے ہیں.چنانچہ وہ غیر احمدی احباب اور اسلامیہ انجمنیں جو پہلے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ساتھ شدید اختلاف رکھتی اور بات سننا گوارا نہ کرتی تھیں مولوی صاحب کے حسن سلوک اور حسنِ اخلاق اور رسوخ کی وجہ سے اب سلسلہ کی مداح ہیں اور نہ صرف مداح ہیں بلکہ ہمارے مبلغوں کو خود اخراجات دے کر بلاتی ہیں (حال ہی میں ایک اسلامیہ انجمن نے اپنے جلسہ میں مولوی صاحب کو اپنا صدر تجویز کیا) نظر بریں حالات میں خوش ہوں کہ مولوی صاحب نے اپنے فرائض کو نہایت دیانتداری، جانفشانی اور عزم و استقلال سے سرانجام دیا ہے اور علاقہ سندھ میں وہ ایک کامیاب مبلغ ثابت ہوئے ہیں.15 تیسری رپورٹ: جناب میر مرید احمد خاں صاحب ( ناپر فیملی جاگیر دار واڑ اوا ہن ) و حضرت ماسٹر محمد پریل صاحب ( ہیڈ ماسٹر شہر کمال ڈیرہ سندھ.حضرت مسیح موعود کے صحابی خاص اور مولوی بشارت احمد صاحب بشیر مبلغ افریقہ کے والد ماجد نے اگست ۱۹۲۸ء میں سندھ سے حسب ذیل مراسلہ ارسال کیا:.ا.ہمارے مربی ومحسن مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری امیر التبلیغ سندھ بیماری کی وجہ سے

Page 616

تاریخ احمدیت.جلد 22 601 سال 1964ء واپس دارالامان بلائے گئے ہیں.اور یہ صدمہ گو ہمارے سندھی احباب کے لئے کچھ کم نہیں کہ جس شخص نے ہمارے علاقہ میں آکر متعصب علماء کے قبضہ سے مسلمانانِ سندھ کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ بہت سی سعید روحوں کو جو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں عقائد حقہ اور اعمال صالحہ کا بفضلہ تعالیٰ پابند کرا دیا.ایسے وجود کا ہم سے جدا ہونا جانکاہ صدمہ ہے مگر ہمیں یہ بھی خوشی ہے کہ ہمارا یہ اول مبلغ سندھ مظفر و منصور جا رہا ہے.۲.جب مولا نا بقا پوری صاحب اول اول ۱۹۲۳ء میں سندھ تشریف لائے تو اس وقت سندھ کے لوگوں کی حالت ملکانہ قوم کی طرح تھی.سنجوگی قوم پر جو لاکھ کے قریب سندھ میں ہے آریہ قوم نے ارتداد کا جال پھیلا دیا تھا مگر اس خیر خواہ اسلام نے آتے ہی یہ کیا کہ اگر بڑے بڑے متمول آریہ موٹروں پر چڑھ کر شان و شوکت کے ساتھ اس قوم کے نیچوں پر اثر ڈالتے تھے تو یہ مبشر فقیری لباس میں ہی پیدل جاتا.آپ اس وقت سندھی زبان سے نا آشنا ہونے کے باوجو دسندھیوں کو کسی نہ کسی طرح اپنی بات سمجھا لیتے اور ان سے سندھی کتاب پڑھتے اور زبان بھی سیکھتے.آخر تیسرے ماہ بخوبی سندھی زبان میں تقریر شروع کر دی.غرض اگر ایک جتھہ آریہ قوم کا ایک دن حافظ قرآن گوکل چند نجوگی کے گاؤں کو قائل کر آیا کہ ہم تمہیں شدھ کرنے آئیں گے تو دوسرے دن مولا نا بقا پوری صاحب جا کر سارا انا بانا تو ڑ آتے.آخر دسمبر ۱۹۲۳ء کو اس جنگ میں سنجوگی قوم سے آریہ قوم کو مایوسی ہوئی اور بفضلہ تعالیٰ ارتداد کی آگ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا اور توجہ سے اور مولا نا بقا پوری کی جد و جہد اور رات کے آنسوؤں سے سرد ہوئی.۳.مولا نا بقا پوری صاحب کو دوسرے سال ۱۹۲۴ء میں علماء وفقراء اور امراء تینوں سے مقابلہ کرنا پڑا.مباحثات شروع ہو گئے.مولانا صاحب تنہا ہوتے اور مقابل پر غیر احمدی علماء بعض اوقات در جن تک ہوتے مگر ہمیشہ بفضلہ تعالیٰ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی دعاؤں کی برکت سے آپ کو غلبہ حاصل ہوتا.جس سے جماعت احمدیہ میں لوگ داخل ہونے لگے.مباحثات کا بھی عجیب طرز تھا جتنا بھی کوئی وقت لیتا آپ دیتے اور جو سوال ہوتا چاہے کیسا ہی غیر متعلق ہوتا ہمیشہ تحقیقی جواب دیتے اور کوشش فرماتے کہ لوگ حقیقت سمجھ لیں خواہ کس قدر ہی کوئی کمینہ حملہ کرتا آپ تشمل سے کام لیتے.۴.صوبہ سندھ کے مسلمان بھی اہل ہنود کی اتباع میں پنجابیوں سے بہت عداوت رکھتے ہیں.سندھی میں مثل ہے ”سپ ٹار پنجابی مار یعنی سانپ کو چھوڑ و پنجابی کو مارو.ایسی حالت میں مولوی

Page 617

تاریخ احمدیت.جلد 22 602 سال 1964ء صاحب کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہوا.آریہ لوگ دشمن ہو گئے اور مسلمانوں کے علماء وفقراء بھی دشمن ہو گئے.اور وطنی نفرت اس کے علاوہ تھی.اس لئے ہر ایک جائز و ناجائز حرکت سے حائل تبلیغ سلسلہ حقہ ہوئے بعض جگہوں پر تو کلہاڑیوں کو تیز کر کے قتل پر بھی آمادہ ہوئے اور گالی گلوچ کا تو بازار قریباً ہر جگہ گرم رہتا.مگر مولوی صاحب نے نہ کبھی گالیوں کا جواب دیا اور نہ رنج کیا.بلکہ رات کو بوقت سحری ان کے حق میں دعائیں کرتے.آپ نے بعض اہل قلم احباب کو سندھی میں ٹریکٹ لکھنے کی اور بعض ذی ثروت احباب کو اپنے خرچ پر سندھی طالب علموں کو دارالامان بھیجنے کی ترغیب دی.جس پر بعض نے ٹریکٹ سندھی زبان میں لکھ کر شائع کئے اور بعض سندھی طالب علم دار الامان بھیجے گئے.۱۹۲۵۵ء میں عسر کی حالت دور ہوئی کیونکہ سندھ میں بعض جگہ جماعتیں قائم ہوئیں اور لوگ باتیں سننے لگے.علماء پر خاص طور سے رعب پڑا بلکہ مولوی بقا پوری کا نام لے کر کہتے کہ ہم ان سے مقابلہ نہیں کرتے.اس سے بھی سعید روحیں متوجہ ہوئیں اور احمدیت کو قبول کیا.۶.سندھ میں پیدل سفر کرنا نہایت ہی حقارت سے دیکھا جاتا ہے.مثل مشہور ہے ”پنڈے کھاں وات گتے جی چگو“.یعنی پیدل سفر سے کتے کے منہ میں پڑنا اچھا ہے.مگر مولا نا بقا پوری کی سادگی، محنت و جانفشانی کا یہ حال تھا کہ پیدل سفر کرتے ہوئے کتابوں کی گٹھڑی اٹھائے مخالف مولویوں کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں لیکن آپ کی متانت علمی لیاقت و شیر میں زبانی سے علماء اس قدر متاثر ہوتے کہ بعد مباحثہ آپ سے مخالفت چھوڑ دیتے اور آپ کا عملی نمونہ اور سجدہ میں گریہ وزاری دیکھ کر غیر احمدی آپ کو ولی اللہ سمجھتے اور جماعت احمدیہ کے لوگ تو آپ کو اپنا باپ ہی سمجھتے.بچوں کو بھی آپ کے آنے سے خوشی ہوتی اور جہاں جاتے ضرور بچوں کو کچھ نہ کچھ نقدی دیتے.ے.آپ باوجود فقیری لباس میں ہونے کے کلمہ حق کیلئے اس قدر شجاع اور غیور تھے کہ بڑے بڑے رؤسا کو بھی ان کی مجلس میں جا کر صاف صاف بات سناتے.چنانچہ نواب صاحب خیر پور سندھ کے حقیقی بھائی علی محمد صاحب کو ان کی مجلس میں جا کر تبلیغ کی اور وہ اس قدر معتقد ہو گئے کہ ہمیشہ آپ کی جرات اور لیاقت کی تعریف کرتے رہے.ایسا ہی ایک خان بہادر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں اپنی مجلس میں ناشائستہ الفاظ کہے تو آپ نے بے دھڑک ایسی اعلیٰ طرز سے اس کا مقابلہ کیا کہ اس کے دوستوں نے اس کو معافی مانگنے پر مجبور کیا.چنانچہ اس نے معافی مانگی.اسی طرح جو بھی آپ سے ایک دفعہ ہمکلام ہوتا وہ آپ کا مداح بن جاتا.حتی کہ بعض مباحثہ کرنے والے غیر احمدی اقرار

Page 618

تاریخ احمدیت.جلد 22 603 سال 1964ء کرتے کہ مولا نا بقا پوری حق پر ہیں اور صرف یہی جماعت قادیان والی دین کا کام کر رہی ہے.پھر اس قدر بے نفسی آپ میں تھی کہ کئی ایسے مباحثات کامیابی کے ساتھ ہوئے جن میں کئی احمدی ہوئے اور پھر کئی قسم کی تکالیف بھی آپ کو پہنچیں.مگر ان باتوں کی اشاعت کو آپ نے کبھی پسند نہ کیا.بعض اوقات بیعت لیتے وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے..۱۹۲۷ء میں آپ نے جماعت احمد یہ سندھ میں سیاست (اثر ورسوخ ) قائم کرنے کے لئے بعض سرکاری ملازموں پر (جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو برے الفاظ سے یاد کرتے تھے ) مقدمات کرنے کی اجازت دی.اور دوران مقدمہ ان کے معافی طلب کرنے پر معافی دیدی.معافی دینے پر نہ صرف دوسرے لوگ مرعوب ہوئے بلکہ وہ بھی معتقد ہو گئے کیونکہ ان کو صحیح باتیں سننے کا موقعہ مل گیا.اس لئے ۱۹۲۷ء و ۱۹۲۸ء میں بھی مولانا بقا پوری صاحب کو گذشتہ سالوں کی طرح لوگوں کی طرف سے کوئی تکلیف نہ پہنچی.البتہ ان سالوں میں وجع الاعصاب سے بیمار ہوئے اور پھر دردسر، تپ اور غشی کا بھی کبھی کبھی دورہ ہو جاتا رہا.اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کی لائق بیٹی مبارکہ مرحومہ کی وفات کا صدمہ ہے جس نے آپ کو کمزور کر دیا مگر آپ بدستور تبلیغ کرتے رہے.چنانچہ اس سال ۱۹۲۸ء میں بھی قریباً ۵۰ اشخاص داخل سلسلہ ہوئے.اللهم زدفرد.غرض یہ اول مبلغ سندھ جو۱۹۲۳ء میں سندھ تشریف لائے تو اس وقت سندھی احمدیوں کی صرف ایک انجمن صوبہ ڈیرہ کی تھی.جس کے صرف دو چار گھر ممبر تھے.اب بفضلہ تعالیٰ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعا کی برکت سے اتنی انجمنیں ہیں جن میں مندرجہ ذیل جگہوں : کمال ڈیرہ، صوبہ ڈیرہ ، سکھر، روہڑی، جامانی، واڑ اور ہن، پل، انور، گمبٹ ، کبر، بصیرو، مہیرا کنڈیاره، نانوری، تنیسه ، شکار پور، لاڑکانہ، پٹیارو، حسن، بابوری، باڑہ، وڑا، کوٹری ، حیدر آباد، میر پور، گوٹھ بوٹہ، دیال گڑھ، بڑھا کوٹ ، چک ،۴۹، چک ۳۰، چک ۱۰۵، جھگیاں، چک ۱۱۰، چک ۲۴، نوابشاہ، سکرنڈ ، ڈونر، لغاری، مراد علی چانڈیہ، لاڑائی چانڈیہ، نتھو کیریہ، پڈعیدن، دادو دون، رضل میمن وغیرہ میں احمدی جماعتیں اور افراد پائے جاتے ہیں جو سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں.علاوہ اس کے اکثر غیر احمدی اب قریباً سلسلہ کے مصدق و ثنا خواں پائے جاتے ہیں“.چوتھی رپورٹ : خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری تحریر فرماتے ہیں:.مجھے حضرت مولوی صاحب سے اپنی ابتدائی زندگی سے واقفیت ہے.حضرت مولوی صاحب

Page 619

تاریخ احمدیت.جلد 22 604 سال 1964ء کے میرے والد صاحب مرحوم حضرت میاں امام الدین صاحب کے ساتھ نہایت مشفقانہ تعلقات تھے.اس لئے جب میں قادیان تعلیم کے لئے آیا اور اس وقت میری عمر گیارہ بارہ سال کی تھی.تو اس دوران میں کئی دفعہ جناب مولوی صاحب نے از راہ شفقت میری حوصلہ افزائی فرمائی.مکرم مولانا بقا پوری صاحب نے پنجاب کے گوشہ گوشہ میں احمدیت کی تبلیغ کی ہے اور ایک لمبے عرصہ تک آپ صوبہ سندھ میں انچارج مبلغ رہے ہیں.اسی لئے آپ نے سندھی زبان بھی سیکھی ہے.آپ بفضلہ تعالیٰ سندھی میں عمدہ تقریر فرماتے ہیں.میرے تبلیغی زمانہ کے اوائل یعنی ۲۸-۱۹۲۷ء کی بات ہے کہ میں اور اخویم مکرم مولوی قمر الدین صاحب فاضل سندھ کے دورہ پر بھیجے گئے.چونکہ حضرت مولوی بقا پوری صاحب انچارج تبلیغ صوبه سندھ تھے اس لئے یہ دورہ ہم نے ان کی معیت میں کیا.سکھر سے لے کر زیریں اور بالائی سندھ میں جس جگہ ہمیں جانے کا اتفاق ہوا میں نے ہر جگہ محسوس کیا کہ احمدیوں میں خصوصاً اور غیر احمدیوں میں عموماً مولا نا بقا پوری صاحب کے لئے نہایت محبت و احترام کے جذبات موجود تھے اور ہر جگہ لوگ ان کی نیکی اور تقویٰ کے قائل تھے.تبلیغ کے لئے جس ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور جس طرح کے ہمدردانہ تعلقات کا ہونا ضروری ہے.میں نے مشاہدہ کیا تھا کہ وہ ماحول اور وہ تعلقات جناب مولوی صاحب نے پیدا کر رکھے تھے.شہروں اور دیہات میں ہر جگہ یہ امر نظر آ رہا تھا کہ مولوی بقا پوری صاحب نے اپنے فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا فرمایا ہے.میں اس جگہ اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس دورہ میں مولوی صاحب موصوف نے ہمارے ساتھ بھی نہایت مشفقانہ سلوک کیا تھا.جزاہ اللہ خیراً.سکھر میں غیر احمدیوں کی مجلس نے ہماری تقاریر کا انتظام کیا تھا اور تین دن تک یہ جلسے نہایت دھوم دھام سے ہوتے رہے اور ہزاروں لوگ راتوں کو بیٹھ کر تقریریں سنتے رہے اور یہ سب کچھ مولانا بقا پوری صاحب کے حسن تدبر کا نتیجہ تھا.سندھ کے دیہات میں جب ہم جاتے تھے تو اس موقعہ پر ہر جگہ جلسہ کا انتظام کیا جاتا.ان جلسوں میں ہم اگر چہ اردو میں تقریر کرتے تھے جسے بالعموم سمجھا جاتا تھا مگر حضرت مولوی صاحب سندھی میں تقریریں کرتے تھے.اور تمام حاضرین ان کی عام فہم تقریروں سے بہت متاثر ہوتے تھے.بہر حال سفر سندھ کے نیک اثرات کا نقشہ آج بھی میرے سامنے ہے اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ

Page 620

تاریخ احمدیت.جلد 22 605 سال 1964ء اللہ تعالیٰ حضرت مولوی بقا پوری صاحب کو ان کے نیک کاموں کی نیک جز اعطا فرمائے“.حضرت مولانا صاحب نے سندھ سے واپسی کے بعد عرصہ تک قادیان کے واعظ مقامی کے فرائض نہایت کامیابی سے انجام دئے.ازاں بعد دو سال متفرق کلاسوں میں معلم اول کی خدمات بجالاتے رہے.اس دوران آپ نے نظارت دعوت و تبلیغ کے زیر ہدایت ملک کے مختلف جلسوں میں بھی شرکت فرمائی اور اپنے ایثار و اخلاص سے سلسلہ کے نو جوان مبلغین کے لئے ایک دائی نمونہ قائم کر دکھایا.چنانچہ مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ اسی تحریر فرماتے ہیں:.جب یہ خاکسار ۱۹۳۰ء میں مبلغین کلاس سے فارغ ہوا تو نظارت دعوۃ و تبلیغ نے ابتدائی تجربہ اور ٹرینگ کے لئے جن بزرگوں کو تجویز فرمایا ان میں سے خصوصیت سے قابل ذکر مکرم محترم مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کا وجود ہے.مجھے ان کے فیض صحبت سے بہت ہی مفید معلومات اور تجارب حاصل ہوئے.انہوں نے ہمدردانہ سلوک سے مجھے بہت ہی متاثر کیا.فجزاهم الله احسن الجزاء.مجھے محترم مولانا کے ہمراہ ۱۹۳۰ء میں بٹھنڈا ، کوٹ کپورا، موگا، زیرہ، فیروز پور، قصور، جوڑا اور کھر پڑ کی جماعتوں کے دورہ کا موقعہ ملا.اس دورہ میں کئی مقامات پر مولوی صاحب کو اپنے سامان سمیت پیدل پانچ چھ میل تک کا سفر بھی کرنا پڑا.احباب جماعت مولوی صاحب کی بے تکلف اور جفا کش طبیعت سے بہت متاثر ہوتے تھے اور ان کی پند و نصائح کو پوری توجہ سے سنتے تھے.چونکہ مولوی صاحب کی آواز بہت بلند تھی اس لئے رات کے وقت گاؤں میں چھت پر وعظ کو تمام گاؤں کے لوگ اطمینان سے اپنے گھروں میں بیٹھے بھی سن سکتے تھے.اور غیر احمدی علماء کا یہ پروپیگنڈا کہ احمدی علماء کے مواعظ کو نہ سنیں دھرا کا دھرا رہ جاتا تھا.پھر دوبارہ مولوی صاحب کے ہمراہ سامانہ، پٹیالہ اور سنور کے دورہ کا موقعہ ملا.اسی طرح تیسری بار ۱/۸ کتوبر ۱۹۳۲ء کو بھی مولوی صاحب کے ہمراہ واربرٹن، جڑانوالہ، سید والہ کا دورہ کیا.اس دورہ میں گیانی واحد حسین صاحب بھی ہمراہ تھے.مکرم مولوی صاحب کو مستورات میں تبلیغ کرنے کا خاص ملکہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا.کیونکہ عموماً دیہات میں اس طبقہ کے حقوق محفوظ نہیں ہوتے.ان کی اس حکمت عملی کی وجہ سے کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اشد مخالفین لوگ بھی اپنی مستورات کے مولوی صاحب کے وعظ سے متاثر ہونے کی وجہ سے شرارتوں سے باز رہتے تھے.

Page 621

تاریخ احمدیت.جلد 22 606 سال 1964ء غرضیکہ جس قدر عرصہ بھی مکرم مولوی صاحب کے ہمراہ خاکسار کو ملا وہ نہایت ہی مفید ثابت ہوا.اور آئندہ تبلیغ میں ان کا طریق کار اور نصائح مشعل راہ ہیں.چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ پاکستان کا چشم دید واقعہ ہے کہ:.د میں نظارت تعلیم و تربیت میں کام کیا کرتا تھا.حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری واعظ مقامی تھے اور بڑی محنت ، اخلاص اور اپنے اعلیٰ نمونہ سے اس خدمت کو سرانجام دیتے تھے.انسپکٹر تعلیم کا یہ کام تھا کہ وہ تربیت سے متعلق خط و کتابت کا جواب دیا کرے.ایک دفعہ وہ باہر چلے گئے تو یہ خدمت بھی حضرت مولانا بقا پوری کے سپرد ہوئی.انہوں نے دفتر میں آتے ہی قابل جواب خط و کتابت دیکھی.اس میں سے ایک خط مبلغ مغربی افریقہ حکیم فضل الرحمن صاحب کا نکالا.اور مجھے بتایا کہ یہ خط اڑھائی ماہ سے آیا ہوا ہے.ایک استفتاء ہے جس کا اثر ساری جماعت پر پڑتا ہے.عید کی تقریب پر اس کی ضرورت پیش آئے گی کیونکہ اس موقعہ پر وہاں ایک ایسی رسم عمل میں آتی ہے جسے محترم حکیم صاحب خلاف شریعت خیال کرتے ہیں اور مرکز سے رہنمائی چاہتے ہیں.عید میں صرف چند دن باقی تھے.میں نے حساب کر کے مولانا صاحب کو بتایا کہ اگر جواب اس ڈاک میں چلا جائے تو بر وقت مل سکتا ہے ورنہ نہیں.ڈاک جانے میں صرف دو گھنٹے باقی تھے اور ابھی مفتی سلسلہ سے مشورہ لینا تھا.حضرت مولانا صاحب نے فرمایا کہ اگر ان کو بروقت جواب نہ دیا گیا اور کوئی کام اب خلاف شریعت ہوا تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہوگی اور ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے.مولا نا فوراً چھی لے کر اٹھے اور آدھ پون گھنٹہ کے بعد خوشی خوشی واپس آگئے اور فرمایا میں مفتی صاحب سے فتویٰ لے آیا ہوں.مفتی صاحب (حضرت مولانا محمد سرور شاہ صاحب) کو میں نے ڈھونڈ نکالا.جس جگہ ملے اسی جگہ بیٹھ کر ہم نے یہ کام مکمل کر لیا.چنانچہ وہ فتویٰ افریقہ کے لئے بر وقت پوسٹ کر دیا گیا اور وہاں بھی بروقت پہنچ گیا اور اسی کے مطابق عمل ہوا.جس کے نتیجہ میں ایک ایسا کام جو خلاف شریعت تھا اسے سالہا سال سے کہلانے والے مسلمان کر رہے تھے اس کا خاتمہ ہوا.اگر مولا نا بقا پوری صاحب اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کرتے تو یقینا یہ وقت گزر جاتا.گو بظاہر یہ واقعہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہولیکن ان لوگوں کی دیانت اور ذمہ داری کے احساس کے علاوہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں اسلام کا کس قدر درد ہے.اور وہ کس طرح اپنے دلوں میں یہ تڑپ بھی رکھتے ہیں کہ کوئی کام ان کے

Page 622

تاریخ احمدیت.جلد 22 607 سال 1964ء آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اور حضور کے عمل کے خلاف نہ ہو.اللھم صل علی محمد و آل محمد سید نا حضرت مصلح موعود نے مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کے موقعہ پر فرمایا:.پرانے مبلغ مثلاً مولوی غلام رسول صاحب وزیر آبادی، مولوی غلام رسول صاحب را جیکی، مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری انہوں نے ایسے وقتوں میں کام کیا ہے جبکہ ان کی کوئی مدد نہ کی جاتی تھی اور اس کام کی وجہ سے ان کی کوئی آمد نہ تھی.اس طرح انہوں نے قربانی کا عملی ثبوت پیش کر کے بتادیا کہ وہ دین کی خدمت بغیر کسی معاوضہ کے کر سکتے ہیں ایسے لوگوں کو اگر ان کی آخری عمر میں گزارے دیئے جائیں تو اس سے اُن کی خدمات حقیر نہیں ہو جاتیں بلکہ گزارے کو ان کے مقابلے میں حقیر سمجھا جاتا ہے کیونکہ جس قدر ان کی امداد کرنی چاہیئے اتنی ہم نہیں کر رہے.حضرت مولانا صاحب کی زندگی کا آخری علمی کارنامہ ”حیات بقاپوری‘ کی تالیف ہے جو پانچ جلدوں میں چھپی اور جماعت میں بہت مقبول ہوئی.علاوہ ازیں اس کتاب میں مندرج آپ کے بعض رؤیا و کشوف انگریزی زبان میں بھی شائع کئے گئے.19 حضرت مصلح موعود نے ۲۷ دسمبر ۱۹۵۴ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر دورانِ سال شائع ہونے والے نئے لٹریچر کی اشاعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حیات بقا پوری کا بھی ذکر کیا اور فرمایا:.دوسری کتاب حیات بقا پوری ہے اس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض فتاویٰ بھی جمع کئے ہیں نہ معلوم وہ ہیں جن میں وہ بھی اس وقت بیٹھے ہوئے تھے یا اُن کو پسند تھے کہ انہوں نے لکھ لئے لیکن اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض خیالات اور آپ کے افکار بعض مسائل کے متعلق نہایت اعلیٰ درجہ کے لکھے گئے ہیں بلکہ ایک حوالہ تو ایسا ہے جس کی ہم کو تلاش رہی اور پہلے ہم کو نہیں ملا.اس میں ہمیں مل گیا.یہ بھی اچھی دلچسپ کتاب ہے.20 اولاد مبارکہ صاحبہ.امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ زوجہ سید عباس علی شاہ صاحب عمر کوٹ ضلع ڈیرہ غازی خاں.محمد اسماعیل صاحب بقا پوری.ڈاکٹر میجر محمد الحق صاحب بقا پوری.مبارکہ ثانیہ صاحبہ زوجہ محمد اشرف خاں سوری صاحب آف لاہور.مبارک احمد صاحب بقا پوری.

Page 623

تاریخ احمدیت.جلد 22 608 سال 1964ء حضرت عزیز و فاطمہ صاحبہ زوجہ حضرت منشی عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی ولادت : ۱۸۸۴ء.بیعت: ۱۹۰۵ ء.وفات : ۲۳ مارچ ۱۹۶۴ء 2 مرحومہ کو اپنی زندگی میں اپنے دونو جوان بچوں اور دو بچیوں کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا.مگر آپ نے کمال صبر کا نمونہ دکھایا.پاکستان بننے کے بعد قادیان سے ہجرت کر کے پشاور تشریف لے آئیں.اس وقت پشاور میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم نہ تھی.آپ نے وہاں اس تنظیم کو قائم کیا.لجنہ کی صدارت بھی آپ کے سپرد ہوئی جسے آپ نے احسن طور پر نبھایا.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک احمدی دوست نے آپ کے داماد مولا بخش صاحب کا ز ریڈیو پشاور صدر سے ذکر کیا کہ آپ کی خوشدامن ہمارے گھر آکر لجنہ کا چندہ مانگتی ہیں.مرحومہ سے اس واقعہ کا ذکر ہوا فرمانے لگیں.میں تو سلسلہ کی خدمت کرتی ہوں اور احمدی بہنوں کے لئے ثواب کا موقعہ بہم پہنچاتی ہوں.شہر سے ٹانگہ پر دوروپے اپنی جیب سے دے کر آتی ہوں.اور ان سے ایک چونی چندہ رکنیت وصول کرتی ہوں.صرف اس وجہ سے کہ ان کو ثواب ملے اور احمدی مستورات کی تنظیم قائم رہے.اللہ تعالیٰ نے میرے جیسے بیمار وجود کو ہمت ہی اس وجہ سے دی ہے.میں اس نیکی کے کام کو نہیں چھوڑ سکتی.غرضیکہ دین کی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جو آخر دم تک ان میں قائم رہا.22 حضرت سکینہ بیگم صاحبہ زوجہ حضرت شیخ احمد علی صاحب ولادت: ۱۸۸۵ء بیعت : ۱۹۰۳ ء وفات : ۲۱ را پریل ۱۹۶۴ء سکینہ بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت شیخ احمد علی صاحب دھرم کوٹ بگہ کی اہلیہ تھیں اور خود بھی صحابیہ ہونے کا شرف حاصل تھا..حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ دھرم کوٹ بگہ تشریف لے گئے.اس موقع پر مرحومہ نے اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کر کے حضور علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تھا.آپ پابند صوم وصلوۃ اور صاحب رؤیا و کشوف تھیں اور اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازتا تھا.حضرت سید محمدحسین شاہ صاحب آف راہوں ضلع جالندھر ولادت : ۷/اگست ۱۸۸۳ء.بیعت : ستمبر ۱۹۰۵ء.وفات:۲۴ را پریل ۱۹۶۴ء.

Page 624

تاریخ احمدیت.جلد 22 609 سال 1964ء ابتدائی تعلیم راہوں اور لدھیانہ میں حاصل کی.۱۸۹۸ء میں مالیر کوٹلہ سے انگریزی مڈل پاس کیا.اپنے ماموں زاد بھائی ڈاکٹر غلام دستگیر صاحب، برادر نسبتی قاضی شاہ دین صاحب اور حضرت حاجی رحمت اللہ صاحب کی تبلیغ و تحریک سے احمدیت قبول کی اور بیعت کا کارڈ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور لکھ دیا.قادیان سے جواب آیا تمہاری بیعت منظور ہے نمازوں میں استقلال پیدا کرو، درود شریف اور استغفار میں لگے رہو اور تہجد پڑھنے کا بھی شغل رکھو.تھوڑے عرصہ کے بعد آپ ملازمت کے سلسلہ میں لا ہورمتعین ہوئے اور حد یہ بلڈنکس کے پاس ایک مکان کرایہ پر لے کر دو سال تک وہاں مقیم رہے.ان دنوں حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی احمد یہ بلڈنگس میں مغرب سے عشاء تک درس قرآن دیا کرتے تھے.جس میں آپ با قاعدگی سے شامل ہوتے رہے.اسی طرح حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب (احمدیت کے قدیم پنجابی شاعر ) سے بھی ملاقات ہوتی رہی.ان کی سہ حرفی کے بہت سے شعر آپ کو زبانی یاد تھے.آپ کی والہانہ تبلیغ سے نہ صرف آپ کے تینوں بھائی احمدی ہوئے بلکہ سارا خاندان احمدیت کے نور سے منور ہو گیا.علاوہ ازیں ضلع لدھیانہ کے کم و بیش سات خاندانوں کو بھی احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت شاہ صاحب ۱۹۳۸ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد ہجرت کر کے قادیان چلے گئے.حضرت مصلح موعود نے آپ کو اپنا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا مختار عام بنالیا.بعد ازاں سیکرٹری امانت تحریک جدید کا فریضہ بھی آپ کے سپر د کر دیا گیا.آپ ۱۹۴۸ء تک ان عہدوں پر فائز رہے.آپ بڑے التزام سے نماز تہجد ادا کرنے کے عادی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ احمدیہ کا دیگر لٹریچر پڑھنا آپ کا دلپسند مشغلہ تھا.اولاد.رقیہ بیگم صاحبہ (اہلیہ سید محبوب احمد ہاشمی صاحب) ۲.صفیہ بیگم صاحبہ (اہلیہ سید محمدمنیر ہاشمی صاحب) حنیفہ بیگم صاحبہ (اہلیہ سید منظور حسین شاہ صاحب) رابعہ بیگم صاحبہ (اہلیہ محد عبد اللہ صاحب) ۵ کیپٹن ڈاکٹرسید محمد جی احمدی (جناب سید یوسف سہیل شوق صاحب ان کے بیٹے تھے ) - سلیمہ بیگم صاحبہ (اہلیہ صوبیدار محمد حسین صاحب)

Page 625

تاریخ احمدیت.جلد 22 610 سال 1964ء حضرت شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگر و آف گوجرانوالہ ولادت : ۱۸۷۹ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : یکم مئی ۱۹۶۴ء.حضرت شیخ صاحب اپنی خود نوشت روایات میں تحریر فرماتے ہیں:.’ایک بات مجھے یاد ہے اور وہ یہ کہ میں نے بہت سی خوا میں دیکھی تھیں.بیعت کرنے سے پیشتر.بیعت کرنے کے بعد میں نے تعبیر دریافت کرنے کے لئے حضور کی خدمت میں وہ خوا ہیں لکھیں.حضور کی طرف سے یہ جواب آیا کہ ”ہمارے ماننے سے یہ تمام خوا ہیں پوری ہوگئی ہیں“ جس جگہ آجکل اخبار الوطن (لاہور) کی بلڈنگ ہے.وہاں ایک احاطہ تھا جس میں احمدی اکٹھے ہو گئے.وہاں حضرت اقدس نے ایک لیکچر دیا تھا.وہاں احمدیوں نے حضور کی خدمت میں نذرانے پیش کئے.حضرت اقدس نے ایک بند گلے والی واسکٹ پہنی ہوئی تھی.جس کے جیب بڑے بڑے تھے.مجھے یاد ہے کہ وہ جیب روپوں سے بھر گئے تھے.ایک جیب کو خواجہ کمال الدین صاحب نے درست بھی کیا کہ روپے گر نہ جائیں.وہاں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ایک دودھ کا گلاس بھی پیش کیا گیا تھا.حضرت اقدس نے صرف ایک گھونٹ پیا تھا.باقی ہم لوگ پی گئے.۱۹۰۴ء میں حضرت اقدس ٹیچر کے لئے لاہور تشریف لائے تھے.اس وقت میں لاہور میں ملازم تھا.مجھے یاد ہے کہ لاہور کی جماعت نے ایک ہزار روپیہ خرچ کیلئے جمع کیا تھا اور یہ بھی پاس کیا تھا که لوکل آدمی جو خدمت کا کام کریں وہ کھانا گھر سے کھا کر آیا کریں تا کہ بوجھ نہ پڑے.آپ بیعت کرنے کے بعد ملازمت یا کاروبار کے سلسلہ میں جہاں جہاں قیام فرما رہے احمدیت کی خوب تبلیغ کی.گوجرانوالہ میں مرحوم کی برادری سخت مخالف تھی.مگر آپ نہایت حکمت کے ساتھ انہیں پیغام حق پہنچاتے رہے.آپ کلمہ حق کہنے میں بہت دلیر تھے.۵۴-۱۹۵۳ء کی بات ہے کہ آپ گوجرانوالہ میں شیخ دین محمد صاحب سابق گورنر سندھ کے ساتھ چائے پی رہے تھے.آپ نے انہیں تحریک کی کہ وہ ایک بارر بوہ چلیں.شیخ دین محمد صاحب نے جوابا کہا.جب تک امام جماعت احمد یہ ربوہ مجھے ربوہ آنے کی دعوت نہ دیں میں کیسے جا سکتا ہوں.آپ نے اسی دن حضرت مصلح موعود کے حضور لکھا کہ شیخ دین محمد صاحب یہ کہتے ہیں.حضور نے تحریر فرمایا اگر شیخ دین محمد صاحب ربوہ آجا ئیں تو مجھے خوشی ہوگی.اس پر آپ شیخ دین محمد صاحب کو ہمراہ لے کر بذریعہ موٹر بوہ پہنچے.حضرت

Page 626

تاریخ احمدیت.جلد 22 611 سال 1964ء خلیفہ اسیح الثانی نے تین چار گھنٹے تک شرف ملاقات بخشا.کھانا بھی وہیں کھایا گیا.جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور (حضرت) مرزا ناصر احمد صاحب بھی شامل تھے.شیخ دین محمد صاحب پر اس ملاقات کا خاص اثر ہوا اور انہوں نے بعد میں کئی مرتبہ حضرت مصلح موعود کے اخلاق اور وسعت معلومات کی تعریف کی.اولاد: حضرت شیخ خواجہ محمد شریف صاحب ( پیدائش ۱۸۹۴ء) - شیخ محد لطیف صاحب.شیخ محمد حنیف احمد صاحب 20 مکرم شیخ طاہر احمد نصیر صاحب سیکرٹری تالیف واشاعت کراچی آپ کے پوتے ہیں.حضرت مہراں بی بی صاحبہ زوجہ حضرت میاں عبدالرحیم صاحب پوہلہ ولادت : ۱۸۸۴ء.بیعت : ۱۹۰۳ ء.وفات :۲ جون ۱۹۶۴ءB0 آپ اپنے شوہر محترم میاں عبدالرحیم صاحب مرحوم المعروف میاں پوہلہ کے ہمراہ بیعت کر کے داخل سلسلہ احمد یہ ہوئی تھیں.۱۹۰۳ء سے ۱۹۲۸ ء تک جلسہ سالانہ پر آنے والی مستورات کے لئے کھانا وغیرہ کے جماعتی انتظام میں پورے اخلاص اور خندہ پیشانی سے حصہ لیتی رہیں.بہت نیک اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ساتھ مخلصانہ تعلق رکھنے والی خاتون تھیں.طبیعت بہت صلح جو تھی برادری اور مستورات کے تنازعات کو نہایت خوش اسلوبی سے سلجھا دیا کرتی تھیں.حضرت حاکم بی بی صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر مرز اعبدالکریم صاحب ولادت : ۱۸۸۶ء.بیعت : ۱۹۰۴ء.وفات : ۷ جون ۱۹۶۴ء 2 حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب مصنف چٹھی مسیح کی بڑی بہو تھیں.نہایت دیندار، متقی ،صابر و 33 شاکر خاتون تھیں.نو بجے شب اپنی پوتی کو نماز کا سبق دے رہی تھیں کہ آخری بلاوا آ گیا.آپ کے صاحبزادے مکرم ڈاکٹر مرزا عبدالقیوم صاحب، مکرم ڈاکٹر مرزا عبد الرؤف صاحب اور داماد مکرم احتجاج علی زبیری صاحب آپ کی میت لیکر اگلے روز کیمبل پور سے ربوہ آئے.جہاں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے آپ کی نمازہ جنازہ پڑھائی.تدفین مقبرہ بہشتی میں صحابہ کے قطعہ میں ہوئی.قبر پر دعا ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے کرائی.آپ نے چار بیٹے ، دو بیٹیاں اور کثیر تعداد میں پوتے ، پوتیاں ، نواسے نواسیاں وغیرہ یاد گار چھوڑی ہیں.

Page 627

تاریخ احمدیت.جلد 22 612 حضرت چوہدری غلام محمد صاحب گوندل چک ۹۹ شمالی سرگودھا سال 1964ء ولادت: تقریباً ۱۸۷۰ء.بیعت : ۱۹۰۶ ء.وفات: ۸ جون ۱۹۶۴ء بمقام قادیان.آپ نے اپنی ساری زندگی نہایت پارسائی اور نیکی میں گزاری.اپنے گاؤں بلکہ علاقہ بھر میں سب اپنے اور بیگانے آپ کی بزرگی اور راست گوئی اور ایمانداری کے معترف تھے.آپ کی نیکی کا خاص اثر تھا.نمازوں کو خاص طور پر سنوار کر ادا کرنے والے دعا گو بزرگ تھے.مولانا شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ تقسیم ملک سے قبل بحیثیت مبلغ را کپور ( حال فیصل آباد) میں مقیم تھے اور ضلع لائکپور کے علاوہ سرگودھا، شیخو پورہ اور جھنگ کے اضلاع بھی آپ کے حلقہ تبلیغ میں شامل تھے.اس زمانے میں حضرت چوہدری صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی غلام رسول صاحب بسرا آپ کے ساتھ پیدل تبلیغ کے لئے دور دراز علاقوں میں جایا کرتے تھے.بعض اوقات ان سفروں میں دو دو تین تین دن بھی لگ جاتے.مگر یہ بزرگ گھبراتے نہیں تھے بلکہ اس خدمت میں نہایت درجہ خوشی محسوس کیا کرتے تھے.مولانا شیخ عبدالقادر صاحب کا بیان ہے کہ چوہدری صاحب کے چھوٹے بھائی چوہدری غلام رسول صاحب میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں آپ سے ایک مشورہ کرنے آیا ہوں.اس علاقہ میں جو زمینیں ہم کو گورنمنٹ کی طرف سے ملی تھیں.وہ قانون کے مطابق باپ کی وفات کے بعد بڑے بھائی کے نام منتقل ہوئی ہیں.ہماری زمین بھی میرے بڑے بھائی غلام محمد صاحب کے نام منتقل ہوئی ہے حالانکہ حق میرا بھی برابر کا ہے آپ مشورہ دیں.میں نے کہا حضور کی خدمت میں قادیان لکھ دیں.حضرت مصلح موعود کی طرف سے ضلع سرگودھا کی جماعت کے امیر کوچک ۹۹ شمالی میں جا کر تحقیق کرنے اور پھر اپنی رپورٹ بھجوانے کا ارشاد ہوا.امیر ضلع نے رپورٹ کی کہ جب سارے چک والوں نے اپنے چھوٹے بھائیوں کو جواب دے دیا ہے تو چوہدری غلام محمد صاحب اپنے چھوٹے بھائی کو جواب دینے میں حق پر ہیں.گورنمنٹ کے نزدیک چھوٹا بھائی جائداد کا وارث نہیں ہوسکتا.حضور نے اس رپورٹ پر تحریر فرمایا ” آپ کا فیصلہ شریعت کے خلاف ہے زمین کا حق نہ صرف بھائی کو بلکہ بہنوں کو بھی پہنچتا ہے.مرکز سے اس ارشاد مبارک کے موصول ہونے پر حضرت چوہدری غلام محمد صاحب خوشی سے اچھلنے لگے کہ اب حضرت صاحب کا فیصلہ آگیا ہے.میں نہ صرف بھائی کو بلکہ بہنوں کو بھی زمین سے حصہ دوں گا.چنانچہ آپ سب سے پہلے اپنی بہنوں کے پاس گئے مگر انہوں نے کہا ہمیں ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہوا ہے.اس کے بعد اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ اپنا

Page 628

تاریخ احمدیت.جلد 22 613 سال 1964ء حصہ لے لے.انہوں نے کہا مجھے چونکہ علم تھا کہ مجھے جواب مل جائے گا اس لئے پندرہ ایکڑ زمین میں خرید چکا ہوں.آپ دس ایکڑ زمین اور دے دیں تا میری زمین ایک مربع ہو جائے.چنانچہ حضرت چوہدری صاحب نے فوراً دس ایکڑ زمین دے دی اور گاؤں والوں کے سامنے ایک ایسا عمدہ نمونہ پیش کیا کہ وہ دنگ رہ گئے.بلکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس عمدہ مثال کو دیکھ کر دو تین افراد نے بیعت بھی کر لی تھی اور چک مذکور میں مشہور ہو گیا کہ احمدیوں کا خلیفہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتا ہے کسی کی رعایت نہیں کرتا اور احمدی بھی خوشی سے اپنے خلیفہ کا فیصلہ مانتے ہیں.اللهم صل علی محمد و آل محمد آپ کی شدید خواہش تھی کہ اپنی زندگی کے آخری ایام اپنے درویش بیٹے چوہدری محمود احمد مبشر کے پاس گزاریں.چنانچہ پاسپورٹ اور ویزا حاصل کر لینے کے بعد مبشر صاحب آپ کو مئی کو قادیان لے آئے.مبشر صاحب ان دنوں کو ٹھی دارالسلام قادیان میں رہائش پذیر تھے.اسی مقام پر آپ نے وفات پائی.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے درویشان قادیان کی بھاری تعدا د سمیت نماز جنازہ پڑھائی اور آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں سپردخاک کئے گئے.آپ کی نسل سے افتخار احمد گوندل صاحب مبلغ سلسلہ اور ان کے بیٹے فواد احمد گوندل صاحب مربی سلسلہ ہیں.حضرت میاں غلام قادر صاحب ساکن تھصہ غلام نبی 35 ولادت: ۱۸۷۹ء.زیارت : ۸۹-۱۸۸۸ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات: ۲۸ جون ۱۹۶۴ء.آپ نے ۳۰ ستمبر ۱۹۳۹ء کو بیان فرمایا کہ:.”ہمارے گاؤں کے لوگ بہت مخالف تھے خاص کر میرے چا اور دیگر رشتہ دار.ایک روز انہوں نے حضرت صاحب کا ذکر گستاخانہ رنگ میں شروع کر دیا.مجھے بہت تکلیف ہوئی اور برداشت نہ کر سکا.انہوں نے کہا کہ عبداللہ آتھم پیشگوئی کے مطابق مرے گا نہیں.اگر مر گیا تو مرزا اسے جادو کے ساتھ مارے گا.میں صبح اٹھ کر حضور کی زیارت کے لئے قادیان آ گیا.حضور کی عادت تھی کہ مجھے دیکھتے ہی فرمایا کرتے تھے کہ گاؤں کا کیا حال ہے.اس روز بھی پوچھا.میں نے عرض کیا حضور بہت برا حال ہے اور بتایا کہ وہ حضور کو جادو گر کہتے ہیں.اس پر حضور نے خاصی دیر تک تقریر فرمائی اور مجھے بھی فرمایا کہ ان سے کہو کہ میرے مقابل پر جادو لے آئیں.ان کے آنے اور رہنے کا خرچ بھی میں برداشت کروں گا.فرمایا یہودیوں میں جادوگر بہت ہیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ میرا خیال تھا کہ تھہ غلام نبی

Page 629

تاریخ احمدیت.جلد 22 614 سال 1964ء 766 والے مجھ پر پہلے ایمان لائیں گے کیونکہ وہ وہابی ہیں اور مجھ سے بہت نزدیک ہیں.آپ کا طریق یہ تھا کہ آپ کو جو نہی وقت ملتا یا مخالفین کی طرف سے زیادہ تنگ کیا جاتا ، آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو جاتے.آپ فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس بہشت کا نمونہ تھی.ہر قسم کا غم ، تکالیف یا گھبراہٹ حضور کی مجلس میں جا کر کافور ہو جاتی.اور دل یوں اطمینان سے بھر جاتا جیسے انسان جنت میں پہنچ گیا ہے.آپ کو حضرت مسیح موعود" کا اردو منظوم کلام قریباً سارے کا سارا یاد تھا.آپ نے عرصہ تک لنگر خانہ حضرت مسیح موعود کی خدمت عاشقانہ رنگ میں کی.نہ رات دیکھی نہ دن ، نہ سردی نہ گرمی اور نہ بارش نہ دھوپ.جس طرح بن پڑا کمال اخلاص اور رضا کارانہ جذبہ کے ساتھ خدمات بجالاتے رہے اور دیانت، امانت ، فرض شناسی اور وفاشعاری کا ایک عمدہ نمونہ دکھایا.حضرت میر محمد الحق صاحب ناظر ضیافت آپ کے کام پر بہت ہی خوش تھے.آپ کے وجود میں اللہ تعالیٰ نے صبر وتحمل، استقامت کی صفات ودیعت کی تھیں.آپ کو و استقلال تھے اور بہت ہنس مکھ.حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ امیر قادیان کے برادر اکبر بابو محمد عبد اللہ صاحب ایک روز حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت میاں صاحب نے فرمایا میاں غلام قادر صاحب کی پگڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرز پر ہوتی ہے.آپ کو قرآن کریم حفظ کرنے کا بڑا شوق تھا.انداز اپندرہ پاروں سے بھی کچھ زیادہ حفظ تھا.آخری عمر تک قرآن کریم حفظ کرتے رہے.رات کو سوتے وقت اپنی چارپائی کے قریب قرآن کریم اور لیمپ رکھا کرتے تھے.جب کوئی آیت یا لفظ دیکھنا ہوتا تو لیمپ کی روشنی میں دیکھ لیتے.جو نہی نماز کا وقت شروع ہوتا سب کچھ چھوڑ کر نماز کی تیاری میں لگ جاتے.نماز با جماعت کا بہت اہتمام فرماتے.نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ شرائط کا بہت ہی خیال رکھتے.تہجد بھی بلاناغہ پڑھتے تھے.ایک سال سے اکثر کہتے تھے کہ میری وفات اب قریب ہے.خصوصا وفات سے چند روز قبل تو ہر ایک سے یہی کہتے تھے کہ میں اب چند دنوں کا مہمان ہوں.۲۳ جون ۱۹۶۴ء کو مولوی غلام احمد صاحب فرخ مربی حیدرآباد کو خط لکھا.آپ کی اور میری خط و کتابت چند روز ہے.میں کمزور اور بوڑھا ہوں اور چراغ سحری.وفات سے تین دن پہلے وصیت کے کاغذات بہشتی مقبرہ میں لے گئے اور اپنا حساب صاف کرا کر جب گھر پہنچے.فرمانے لگے.میں تمہارے پاس تین دن کا مہمان ہوں.چنانچہ تین دن کے بعد آپ کی روح اپنے مولی حقیقی کے پاس پہنچ گئی.اولاد: (۱) مولانا غلام حسین صاحب ایاز مبلغ سنگا پور.(۲) مولانا غلام احمد صاحب فرخ 38

Page 630

تاریخ احمدیت.جلد 22 615 سال 1964ء مربی سلسله و انچارج نجی مشن.(۳) ملک فضل حسین صاحب.(۴) ملک سلطان احمد صاحب.(۵) ملک محمد حسن خاں صاحب.(۲) محترمہ حبیب بیگم صاحبہ اہلیہ ملک فضل کریم صاحب.(۷) محترمہ مبار که بیگم صاحبہ اہلیہ ملک طفیل احمد صاحب.(۸) محتر مہ امۃ الرشید صاحبہ اہلیہ ملک عنایت اللہ صاحب.حضرت گل حسن صاحب ساکن دانہ مانسہرہ ولادت: قریباً ۱۸۶۴ء.بیعت : ۱۹۰۴ ء - وفات :۱۳ جولائی ۱۹۶۴ء بعمر ۱۰۰ سال.آپ حضرت مولوی محمد جی صاحب (مؤلف تسہیل العربیہ واستاذ مدرسہ احمدیہ ) کے بڑے بھائی تھے.احمدیت کے عاشق صادق تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد زندگی کے آخری سال تک جلسہ سالانہ پر حاضر ہوتے رہے.نڈر، فیاض ، مہمان نواز اور ہر ایک کے مونس و غمخوار تھے.سخت محنتی اور قول کے بہت پکے تھے.گاؤں کا جو بھی فردفوت ہوتا اپنا کام چھوڑ کر اس کی قبر تیار کرواتے اور اہل میت کی غم خواری کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے تھے.آپ نے اپنے آبائی گاؤں داتا کے شمالی جانب ایک نیا محلہ آباد کیا جس سے بے گھر لوگوں کو آرام ملا.اور اسی میں مڈل سکول قائم کیا گیا.لوگوں نے اس محلہ کا نام موڑھا گل حسن رکھا.گاؤں کے غیر احمدی معززین نے آپ کے انتقال پر محسوس کیا کہ وہ ایک مونس و غمخوار سے محروم ہو گئے.اولاد (۱) مولوی احمد حسن صاحب سابق رجسٹرار پشاور یونیورسٹی.(۲) ڈاکٹرمحمد سعید احمد صاحب مرحوم سابق انچارج ہسپتال قصبہ تنگی.(۳) سید حسن مرحوم.(۴) زرینہ بیگم صاحبہ.39 حضرت رحیمہ بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر کرم الہی صاحب آف امرتسر ولادت : ۱۸۸۹ء.پیدائشی احمدی.وفات : ۱۵ جولائی ۱۹۶۴ء.آپ لجنہ اماءاللہ لا ہور کی قدیم اور سرگرم کارکنات میں سے تھیں.آپ نے لاہور کی احمدی خواتین کو موثر بنانے میں قابل قدر خدمات سرانجام دیں.بچوں کی تربیت کا خاص ملکہ آپ کو حاصل تھا.چنانچہ 40 تربیت اولاد کا فریضہ آپ نے بہت ہی خوش اسلوبی سے ادا کیا.آپ کے والد صاحب نے ۱۸۹۷ء کے شروع میں بیعت کی تھی.مرحومہ صوم وصلوٰۃ کی پابند

Page 631

تاریخ احمدیت.جلد 22 616 سال 1964ء اور نہایت دعا گو خاتون تھیں.علم دوست تھیں.اردو، فارسی ، عربی روانی سے پڑھتیں اور پڑھا لیتی تھیں.بلکہ سادہ انگریزی بھی پڑھ لیتی تھیں.اردو، فارسی اور عربی کے لا تعدا د شعر اور ضرب الامثال زبانی یاد تھیں.مہمانوں کی خاطر مدارت بہت شوق سے کرتیں.بیوگی کا ۳۴ سالہ لمبا عرصہ نہایت صبر و تحمل اور محنت و جاں فشانی سے گزارا.آپ نہایت خلیق اور ملنسار تھیں.عزیز واقارب میں عزت و احترام کا مقام رکھتی تھیں.لاہور میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کا انتظام خود کرتیں.جو ان دنوں برکت علی محمدن ہال بیرون موچی دروازہ لاہور ہوا کرتے تھے.جن میں ہندو، سکھ اور عیسائی عورتیں حصہ لیتیں اور تقریریں کرتیں.جلسہ کی صدارت کے لئے آپ تحریک پاکستان کی مشہور عورتوں کو مدعوکر تیں.ایک جلسہ میں صدارت لیڈی سرعبد القادر کر رہی تھیں آپ کی بیٹی محترمہ عفت نصیر صاحبہ نے در مشین کی نظم وہ پیشوا ہمارا پڑھی جس پر لیڈی سرعبد القادر نے خوش ہو کر پانچ روپے انعام دیا.آپ نے بیٹی کو یہ رقم چندہ میں دینے کی تحریک کی جس پر آپ کی بیٹی نے فورا عمل کیا.نظام سلسلہ سے آپ کو گہرا لگاؤ تھا.آپ بہت زندہ دل تھیں اور طبیعت میں مزاح بھی تھا.حضرت حسین بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری برکت علی صاحب مرحوم اراضی یعقوب سیالکوٹ ولادت : ۱۸۹۲ء.بیعت : اکتوبر یا نومبر ۱۹۰۴ء.وفات : ۱۵ جولائی ۱۹۶۴ء خوشدامن ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمد یہ.صوم وصلوۃ ، تہجد اور اشراق کی پابند اور دعاؤں میں خاص شغف رکھنے والی بزرگ خاتون تھیں.حضرت ڈاکٹر اعظم علی صاحب آف گجرات 41 ولادت: ۱۸۹۱ء.بیعت : ۰۴-۱۹۰۳ء.وفات : ۱۶ را گست ۱۹۶۴ء چوہدری بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر ضلع گجرات تحریر فرماتے ہیں:.44 حضرت مصلح موعود نے ڈاکٹر صاحب کو ۱۹۳۴ء میں ضلع امرتسر میں امیر التبلیغ مقرر فرمایا تو ڈاکٹر صاحب نے ملازمت سے لمبی رخصت لے کر ضلع امرتسر میں منظم تبلیغی مہم کو جانفشانی سے چلایا اور کا رہائے نمایاں کر کے حضرت اقدس کی خوشنودی حاصل کی.دوران ملا زمت جہاں کہیں بھی رہے احمدیت کی بے لوث خدمت کرتے رہے اور ہمیشہ خدمت خلق کو اپنا شعار بنایا اور اپنوں اور بیگانوں کے دل موہ لئے.

Page 632

تاریخ احمدیت.جلد 22 617 سال 1964ء قبلہ ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۵۳ء میں ریٹائر ہو کر گجرات میں پریکٹس شروع کی اور چند ماہ کے اندر اندر ان کا دواخانہ مرجع خلائق بن گیا.اور جب ان کی مالی حالت بھی بدرجہا بہتر ہوگئی تو انہوں نے پہلے سے بھی بڑھ کر مالی جہاد میں حصہ لینا شروع کر دیا اور ہر تحریک میں سبقت لے گئے.نہ صرف غریب احمدیوں کی مدد کی بلکہ عام خلق اللہ کی بھی حتی المقدور امداد کرتے رہے.اور غریبوں اور محتاجوں کے لئے ان کے وسائل وقف رہے.اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں میں شفار کھی تھی.اور ان کا مسکن گجرات کے ہر طبقہ کے لئے باعث رحمت و عافیت تھا.نہایت ہی کم گو متواضع اور خدا یاد بزرگ تھے.دعاؤں میں بڑا شغف رکھتے تھے.صاحب رؤیا و کشف تھے.منکسر المزاج، طبیعت کے نرم اور دل کے حلیم تھے.ان کا حلقہ احباب نہایت وسیع تھا اور بڑے اثر ورسوخ کے مالک تھے.ملک عبدالرحمن ) خادم صاحب مرحوم و مغفور کی لمبی اور آخری بیماری میں قائمقام امیر شہر وضلع کے فرائض کما حقہ ادا کرتے رہے.اور خاکسار کے زمانہ امارت میں بھی انہوں نے کئی نہایت اہم شعبے سنبھال رکھے تھے اور خاکسار کے دست راست تھے.وفات سے دو تین ہفتہ قبل جب وہ ابھی تندرست تھے تو انہوں نے سفر آخرت کی تیاری شروع کر دی تھی.سب سے پہلے اپنی وصیت کے مطابق حصہ جائداد ادا کیا.بحیثیت امین جماعت گجرات اپنے حسابات چیک کروائے.اپنی تجہیز و تکفین کے متعلق مفصل ہدایات دیں اور حتی الامکان کوئی معاملہ بھی ادھورا نہ چھوڑا.حضرت بابا اللہ بخش صاحب در ولیش قادیان 45 ولادت : ۱۸۸۲ء.بیعت: ۱۹۰۵ء.وفات : ۳۱ جولائی ۱۹۶۴ء.اصل وطن ہر چووال ( متصل قادیان).آپ کے والد کا نام مکرم محکم دین صاحب تھا.عین جوانی کے ایام میں سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کی ڈیوڑھی میں دربانی کا شرف حاصل ہوا.اس کے بعد حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے ملازموں میں شامل ہو گئے.نیز حضرت مصلح موعود کے دربان کے طور پر بھی خدمت بجالاتے رہے.نہایت شریف النفس ، متوکل ، سادہ طبع ، کم گو اور عابد وزاہد بزرگ تھے.تقسیم ملک کے بعد آپ نے اپنے بڑھاپے کی زندگی کے ۷ سال نہایت خاموشی اور صبر وسکون سے قادیان کی مقدس بستی میں گزارے.آپ نصف شب کے بعد کبھی نہ سوتے تھے اور آدھی رات

Page 633

تاریخ احمدیت.جلد 22 618 سال 1964ء 46 ہوتے ہی وضو کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجو د ہو جاتے اور نوافل اور دعاؤں میں مشغول رہتے.آپ بیمار ہوئے تو آپ کی بڑی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے سے ملاقات ہو جائے جواحد نگر نز در بوہ میں رہائش پذیر تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کی یہ تمنا پوری کر دی.آپ کے اکلوتے بیٹے میاں علم الدین صاحب آخری وقت میں پاسپورٹ لے کر قادیان پہنچ گئے اور ۲۶ روز تک اپنے بوڑھے باپ کی خدمت کی سعادت حاصل کی.حضرت امیر بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی ولا دت: ۱۸۶۹ء.بیعت : ۱۸۹۳ء.وفات : ۱۹ اگست ۱۹۶۴ء به والدہ مولانا قمر الدین صاحب سیکھوانی ( خدام الاحمدیہ کے پہلے صدر ).آپ کو ۳۱۳ ( فہرست ضمیمہ انجام آتھم نمبر (۳) اصحاب کبار میں شمولیت کا شرف حاصل تھا.نماز تہجد کی پابند، دعا گو اور خاندان مسیح موعود سے گہری عقیدت رکھنے والی بزرگ خاتون تھیں.فطرتاً منکسر المزاج اور مہمان نواز تھیں اور طبیعت میں انکسار اور سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.انتہا درجہ کی مہمان نواز تھیں.کوئی بھی گھر آجاتا جب تک کھانا نہ کھلا دیتیں جانے نہ دیتیں.کوئی بھی کھانے والی چیز اگر انہیں دی جاتی تو ساری کی ساری بچوں میں تقسیم کر دیتیں خود بہت ہی کم کھاتی تھیں.ایک دفعہ حضرت اماں جان بمع محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب جو اس وقت ابھی بچے ہی تھے سکھوانی تشریف لے گئیں.ان کی آمد بالکل غیر متوقع تھی.فرمایا کرتی تھیں کہ حضرت اماں جان جب ہمارے گھر تشریف لائیں تو اس وقت میں کھانا پکانے میں مصروف تھی.آپ اندر تشریف لا کر چار پائی پر بیٹھ گئیں.خیریت دریافت فرمائی.میں ان کے لئے کھانا تیار کرنے کا انتظام کرنے لگی تو آپ نے اصرار کیا کہ آج میں وہی کھاؤں گی جو آپ نے پکایا ہوا ہے اور بڑے اصرار کے بعد مجھے اس پر راضی کر لیا.اس دن ہم نے موٹھ کی کھچڑی پکائی ہوئی تھی.جس میں گھی کی جگہ تلوں کا تیل استعمال کیا ہوا تھا.چنانچہ آپ نے وہی کچھچڑی کھائی اور بڑی پسند فرمائی.مرحومہ نہایت خشوع و خضوع اور سوز و گداز سے نمازیں پڑھا کرتیں.فرمایا کرتی تھیں کہ ابتدا میں مجھے نمازوں میں کوئی لطف نہ آتا اور نماز کے دوران مختلف خیالات ذہن میں آجاتے.میں نے خدا کے حضور بڑی دعا کی.ایک دن میں سجدے میں دعا کر رہی تھی کہ میں نے اپنی کمر پر دباؤ محسوس کیا.مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی نہایت ملائم اور ریشم کی مانند نرم ہاتھ سے مجھ پر دباؤ ڈال رہا ہے.

Page 634

تاریخ احمدیت.جلد 22 619 سال 1964ء ساتھ ہی یہ آواز آئی نمازیں سنوار سنوار کر پڑھا کرو اس کے بعد نماز میں جب بھی میرا خیال کسی اور طرف جاتا تو میں وہیں نماز چھوڑ دیتی اور دعا کرنے کے بعد نئے سرے سے نماز شروع کرتی.اس طرح ایک ایک نماز کو کئی کئی بار شروع کرنا پڑتا.لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ کے بعد مجھے نمازوں میں حقیقی لطف آنے لگا اور نمازیں میری روحانی غذا بن گئیں.49 محترمہ عصمت راجہ صاحبہ کراچی ( نواسی مولانا قمر الدین صاحب فاضل ) رقمطراز ہیں:.ماں جی یعنی میری والدہ کی دادی کا نام امیر بی بی تھا.آپ حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی کی اہلیہ اور حضرت مولانا قمر الدین صاحب (اول صدر خدام الاحمدیہ ) کی والدہ تھیں.آپ کی ولادت ۱۸۶۹ء کی ہے جبکہ سن بیعت ۱۸۹۳ ء ہے.اس زمانے میں جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کا استنازور نہیں تھا آپ اپنے تایا سے پڑھتی تھیں.ذہانت کی وجہ سے جب انہیں کہیں کام سے جانا ہوتا تو وہ ان کو مانیٹر بناتے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت اماں جان سے شادی ہوئی اس وقت یہ چھوٹی تھیں اور بتاتی تھیں کہ ہم نے سنا کہ مرزا صاحب دلہن لے کر آئے ہیں تو سب سہیلیوں نے کہا کہ چلو ہم بھی چل کر دیکھتے ہیں.وہاں حضرت اماں جان ایک چارپائی پر بیٹھی تھیں.ماں جی اپنے چہرے کو ہاتھ پر رکھے ان کو غور سے دیکھ رہی تھیں جس پر حضرت اماں جان نے فرمایا ” کیا تم میری سہیلی بنو گی ؟“ آپ نے اس بات پر بہت خوش ہو ئیں اور تمام عمر اس بات کا فخر رہا کہ حضرت اماں جان نے مجھے سہیلی کہہ کر مخاطب کیا تھا.آپ نے شادی کے بعد بیعت کی.آپ بے حد صفائی پسند تھیں.گھر کو (جو کچا تھا) ہمیشہ صاف ستھرا رکھتی تھیں.ایک دفعہ حضرت اماں جان صبح کے وقت چند خادماؤں اور بچوں کے ساتھ سیکھواں تشریف لائیں.ماں جی حسب عادت اور حسب دستور صفائی کے بعد کھانا پکا رہی تھیں.حضرت اماں جان کی خدمت میں بھی وہ غریبانہ کھانا (جو موٹھ کی کھچڑی اور اچار پر مشتمل تھا) پیش کیا جو ان کو بے حد پسند آیا اور فرمایا کہ مجھے تمہاری صفائی ستھرائی کی عادت بے حد پسند ہے.ماں جی کے کافی عرصہ تک اولا د ہو کر فوت ہو جاتی تھی.حضرت مسیح موعود کے ارشاد پر پتری فولاد استعمال کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے کی دعاؤں کے طفیل ان کو تین بچے عطا کئے جن میں سے لڑکا (مولانا قمر الدین صاحب) اور ایک لڑکی ( آمنہ بیگم صاحبہ والدہ راجہ فاضل احمد صاحب و راجہ ناصر احمد صاحب)

Page 635

تاریخ احمدیت.جلد 22 620 سال 1964ء تو ۹۰ سال سے زائد عم پا کر خدا کے حضور حاضر ہوئے جبکہ ایک بیٹی (عائشہ بیگم صاحب ) شادی کے ۰۸ اسال کے بعد فوت ہو گئیں.سیکھواں میں ماں جی اپنی دو جٹھانیوں کے ساتھ رہتی تھیں.صحن ایک تھا اور آپ میں اتنا اتفاق تھا کہ جب ان کی جٹھانیوں کے مہمان آتے تو پہلے ان کا کمرہ تھا اس لئے ان کی خاطر تواضع کر کے پھر متعلقہ گھر بھجواتی تھیں اور چونکہ آپ پڑھی لکھی تھیں اس لئے سیکھواں میں عورتوں کو جمعہ اور عیدین کی نمازیں پڑھاتی تھیں.ان کے بیٹے مولانا قمر الدین صاحب قادیان سے پڑھے پھر واقف زندگی ہونے کی وجہ سے شادی کے بعد قادیان میں ہی سکونت اختیار کی.تب کچھ عرصہ کے بعد ماں جی بھی قادیان آ کر رہنے لگیں.نہایت نیک اور ہمدرد طبیعت پائی تھی.ہر وقت دعاؤں اور نمازوں کی طرف دھیان رہتا تھا پھر حضرت مسیح موعود کی نظمیں پڑھتی تھیں جس کی وجہ سے پوتیوں اور پوتوں کو بھی یاد ہو گئیں.۱۹۳۹ء میں میری نانی جان وفات پاگئیں.اس وقت یہ چار بہن بھائی چھوٹے تھے.ایک بھائی تو پونے دو سال کے تھے.تب ماں جی نے جس طریقے سے ان کی پرورش کی وہ قابل تحسین ہے.بڑی عمر میں چھوٹے بچے کی وجہ سے ساری ساری رات بھی جاگنا پڑتا تھا.پھر بڑی پوتیاں تھیں ان کو زندگی گزارنے کے متعلق چھوٹے چھوٹے مگر اہم امور بتاتی تھیں اور ہر طرح سے ان چار بچوں کی نیک تربیت پر زور تھا.پھر ان بچوں کو خدا تعالیٰ نے دوسری والدہ عطا کیں جو اسم بامسمی تھیں بہت اچھا وقت گزرا اور انہوں نے ہر طرح سے خیال رکھا لیکن ماں جی کی اہمیت اپنی جگہ کیونکہ ان کا سایہ اپنے بچوں سے اپنے پوتوں پوتیوں تک پھیل گیا تھا جس میں صرف پیار، دعائیں اور سکون تھا.قادیان اور پھر ربوہ آ کر بھی ماں جی کا حضرت اماں جان کے ساتھ تعلق قائم رہا.ایک دفعہ حضرت اماں جان نے فرمایا تم مجھے ویسی ہی موٹھ کی کھچڑی بنا کر کھلاؤ جیسی تم بناتی تھیں.میری والدہ بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ وہ میرے بڑے بھائی ( شاہد راجہ جو اس وقت بہت چھوٹے تھے ) کو لے کر ماں جی کے ساتھ حضرت اماں جان سے ملاقات کے لئے گئیں تو انہوں نے فرمایا ” تم میری سہیلی ہو یا د ہے ہم کھد و کھیلا کرتے تھے.شفقتیں اور محبتیں تو ماں جی کا سرمایہ تھیں اور وہ اس سرمائے کو نہایت فراخی سے دوسروں میں تقسیم کرتی تھیں.ماں جی بھی ہر وقت دین اور اس کی تعلیمات کی باتیں کرتی تھیں مگر بہت اچھے انداز میں کہ دوسرا شخص خود بخودان کی باتوں میں دلچسپی لیتا تھا.

Page 636

تاریخ احمدیت.جلد 22 621 سال 1964ء ایک دفعہ وہ میری والدہ ( بیگم راجہ ناصر احمد صاحب) کے پاس کچھ عرصہ قیام کے لئے آئیں تو کام کرنے والی ایک لڑکی (جو مذ ہباً عیسائی تھی) کو نماز سکھانی شروع کر دی اور وہ بھی نہایت جذ بے سے نماز سیکھنے لگی جس کی وجہ آپ کی محبت اور طریقہ تھا جس سے وہ لڑ کی بھی متاثر ہوئی.آخری عمر میں نظر بہت کمزور ہو چکی تھی لیکن آوازسن کر پہچان لیتی تھیں.تو بہ اور استغفار کا ورد کرنا اور کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے اتنی عمر دی ہے تا کہ میں خلیفہ اسیح اور خاندان مسیح موعود کے لئے دعائیں کر سکوں.آخر یہ دعاؤں اور محبتوں سے گندھا وجو د اگست ۱۹۶۴ء میں ۹۵ سال کی عمر میں خدا کے حضور حاضر ہو گیا.آپ کی وصیت نمبر ۴۱۵ اور حصہ وصیت ۱/۵ تھا.آپ کی ساری زندگی درویشانہ گزاری مگر ایک وقار کے ساتھ بنا کسی طمع اور خواہش کے.اپنے اور پرائے ہر ایک کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے سلوک نے انہیں سب میں ممتاز کر دیا تھا.یقیناً اپنی محترم عادات اور نیکیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پیاروں کے ساتھ اپنے قرب میں جگہ دی ہوگی اور ان خوبیوں کی وجہ سے وہ اپنی اولاد در اولاد کے دلوں میں زندہ ہیں.حضرت غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ حضرت شیخ حسین بخش صاحب ولادت: ۱۸۷۸ء.بیعت :۱۹۰۳ء.وفات: ۲۶ را گست ۱۹۶۴ء عبادت گزار اور دین کے لئے در د دل رکھنے والی خاتون تھیں.خیرات وصدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں.اور غرباء کا خاص طور پر بہت خیال رکھتی تھیں.ہیں.52 حضرت اله بی بی صاحبہ زوجہ حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب حلالپوری ولادت: ۱۸۸۸ء.بیعت: مارچ ۱۹۰۸ء.وفات :۱۳ ستمبر ۱۹۶۴ء آپ کا شمار بھی سلسلہ کی ان بزرگ خواتین میں ہوتا ہے جو تہجد گزار، بکثرت دعائیں کرنے والی 54 تھیں.آپ کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے پانچ بیٹوں مکرم مولانا محمد احمد جلیل صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ، ناظم دار القضاء ومفتی سلسلہ مکرم مولوی عبد الکریم صاحب، مکرم عبدالمنان صاحب، مکرم عبدالقادر صاحب ،مکرم عبداللطیف صاحب اور ایک بیٹی محترمہ حفصہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم قریشی محمود الحسن صاحب آف سرگودھا( جو کہ مکرم مجید احمد قریشی صاحب ریٹائر ڈ سپرنٹنڈنٹ جیل کی والدہ ہیں ) سے نوازا.

Page 637

تاریخ احمدیت.جلد 22 622 سال 1964ء حضرت شیخ فضل قادر صاحب ولد حضرت شیخ نوراحمد صاحب ولادت : ۱۸۹۴ء.بیعت: پیدائشی احمدی.وفات : ۷ استمبر ۱۹۶۴ء.حضرت شیخ فضل قادر صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیمی مخلص صحابی حضرت شیخ نور احمد صاحب ( مختار عام حضرت مصلح موعود ) کے فرزند اکبر تھے.پیدائشی احمدی اور قادیان سے ملحق موضع کھارا کے قدیمی باشندہ ہونے کے باعث اوائل عمر میں ہی آپ کو بھی حضور علیہ السلام کی زیارت کا اکثر موقعہ ملتا رہا.آپ کا نام بھی حضور علیہ السلام کا تجویز کردہ تھا.آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں بطور کارکن سالہا سال خدمات بجالانے کے بعد وہاں سے ریٹائر ہوئے.جس کے بعد آپ کو کئی سال تک سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر رہ کر خدمات بجالانے کا موقعہ ملا.اس طرح آپ کو اپنے والد بزرگوار کی طرح حضور کے خدام خاص میں شمولیت کا شرف حاصل رہا.اولاد (۱) شیخ نورالحق صاحب کا رکن.ایم.این سنڈیکٹ ربوہ (۲) شیخ شمس الحق صاحب.56 (۳) صادقہ بیگم صاحبہ (اہلیہ ملک بشیر الحق صاحب لاہور صدر ) (۴) حامدہ بیگم صاحبہ (اہلیہ کلیم الدین صاحب امینی.ہڈرزفیلڈ یارک شائر انگلینڈ ) حضرت بابا نواب دین صاحب عرف میاں کا لو ولادت : ۱۸۶۲ء.بیعت : ۱۹۰۵ء.وفات : ۶ اکتوبر ۱۹۶۴ء 7 آپ قادیان سے متصل گاؤں منگل کے رہنے والے تھے.آپ کو ابتدائی زمانہ سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر خدمات بجالانے کا موقعہ ملتا رہا.آپ کو حضرت اماں جان کی ڈولی اٹھانے کی غیر معمولی سعادت بھی نصیب ہوئی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک موقع پر کوئی اور سواری دستیاب نہ ہونے کے باعث اس زمانہ میں دیہات کے مروجہ طریق کے مطابق پالکی میں تشریف فرما ہو کر سفر کرنا پڑا تو محترم بابا نواب دین صاحب کو بعض دیگر احباب کے ساتھ حضور علیہ السلام کی پالکی کو اپنے کندھے پر اٹھانے کا خصوصی شرف حاصل ہوا.۱۹۶۲ء میں سیرالیون کے ایک ممتاز لیڈر جناب ابوبکر ملبے کمارا جو نہایت مخلص احمدی ہیں بنکاک سے اپنے وطن واپس جاتے ہوئے ربوہ تشریف لائے تو اس وقت ان کی ملاقات بابا صاحب مرحوم سے کرائی

Page 638

تاریخ احمدیت.جلد 22 623 سال 1964ء گئی.یہ معلوم کر کے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پالکی اپنے کندھے پر اٹھانے کا خصوصی شرف حاصل ہے.جناب مگسے کمارا آپ کے قدموں میں بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ آپ کے گھٹنوں پر رکھ کر درخواست کی کہ آپ ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر انہیں برکت دیں.چنانچہ آپ نے بڑی شفقت کے ساتھ ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور انہیں دعا دی.آپ کی کوئی اولاد نہ تھی.حضرت منشی شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب ( سابق کشن لال) 58 ولادت : ۸۸-۱۸۸۷ء.بیعت : ۱۹۰۴ء.وفات: ۲۵ /اکتوبر ۱۹۶۴ء.آپ ان معروف اصحاب میں سے آخری فرد تھے جنہیں حضور علیہ السلام کے زمانہ میں اپنا آبائی مذہب ترک کر کے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.آپ کے خود نوشت حالات زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو احمدیت کی نعمت ایک احمدی بزرگ حضرت منشی عبدالوہاب صاحب محر ر چونگی خانہ قصبہ بنور (ریاست پٹیالہ) کی تبلیغ سے نصیب ہوئی.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.ملازمت کے دوران مجھ کو اکثر ان کے پاس بیٹھنے کا اتفاق ہوتا تھا.تبلیغ کا ان کو بہت شوق تھا.مجھ کو بھی وہ تبلیغ کیا کرتے تھے.ان کا طریق تبلیغ یہ تھا کہ وہ ہندومذہب کا ایک نقص ظاہر کر کے اس کے مقابلے میں اسلام کی خوبیاں بیان کرتے تھے.مثلاً جب وہ بت پرستی کی مذمت کرتے تھے تو ساتھ ہی تو حید کی خوبیاں بیان کرتے تھے اور دلائل سے موازنہ کرتے تھے.میں اپنی سمجھ کے مطابق بحث مباحثہ کرتا تھا.لیکن ابتدا سے میری طبیعت میں یہ بات تھی کہ جو بات مجھ کو درست معلوم ہوتی تھی اس پر میں خاموش ہو جا تا تھا.جب ہماری اس گفتگو کا چر چاچونگی خانہ میں ہوا اور منشی صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو ان کو مزید شوق ہوا کہ مجھ سے وہ مذہبی امور پر باتیں کریں.چنانچہ ان سے اکثر مذہبی گفتگو ہوتی.وہ بہت پیار اور محبت سے مجھ سے گفتگو کرتے.ان کی صحبت سے رفتہ رفتہ مجھ پر ہندومذ ہب کے نقائص اور اسلام کی خوبیاں ظاہر ہوتی گئیں.اور خدا تعالیٰ کی توحید اور عظمت کا اثر میرے دل پر ہونے لگا.انہوں نے مجھے بتایا کہ خدا تعالیٰ ایک زندہ ہستی ہے جو اس کو پکارتا ہے وہ اس کی سنتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے.پھر منشی صاحب نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتابیں دینا شروع کر دیں.اخبار بدر اور الحکم ان کے پاس آیا کرتے تھے.ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تازہ بتازہ الہام بھی درج

Page 639

تاریخ احمدیت.جلد 22 624 سال 1964ء ہوتے تھے وہ اکثر میں پڑھا کرتا تھا.انہی دنوں مجھے بعض مقاصد در پیش تھے.میں نے سوچا کہ مسلمان کہتے ہیں کہ خدا سنتا ہے اور دعائیں قبول کرتا ہے چلو آزما کر دیکھیں کہ کیا واقعی اسلام کے طریق پر دعا کرنے سے خدا سنتا ہے.میں نے منشی صاحب سے کہا کہ مجھے نماز سکھائیں.میں آپ کے طریق پر اپنے بعض مقاصد کے لئے دعا کرنا چاہتا ہوں.میں نے مقاصد تو ان کو نہیں بتائے تھے البتہ نماز ان سے سیکھنا شروع کر دی.گومیری زبان پر عربی عبارت نہ چڑھتی تھی تاہم اچھی بری میں نے سیکھ ہی لی.اور ترجمہ بھی سیکھا اور چھپ کر اپنے طور پر نماز پڑھنا شروع کر دی.میرے گھر والوں، دفتر کے ملازموں حتی کہ منشی عبد الوہاب صاحب کو بھی اس بات کا علم نہ تھا کہ میں نے نماز پڑھنی شروع کر دی ہے صرف فقیرمحمد سپاہی کو جو میرے ساتھ چونگی پر کام کرتا تھا میں نے اپنا ہمراز بنایا ہوا تھا.نماز کے لئے میں نے دو جگہیں مخصوص کر رکھی تھیں.دن کی نماز میں اپنی چونگی کے ایک کمرہ میں جو کہ ذرا علیحد ہ تھا اور لوگوں کی آمد و رفت وہاں نہ ہوتی تھی.کواڑ بند کر کے پڑھتا تھا.اور فقیر محمد کوتا کید کر رکھی تھی کہ اگر کوئی ہندو ادھر آئے تو مجھے اطلاع کر دینا.فقیر محمد خود نماز نہ پڑھتا تھا مگر یہ دیکھ کر کہ ایک ہند و نماز پڑھتا ہے اسے شرم آئی اور وہ بھی نماز پڑھنے لگ گیا اور بعد میں احمدی بھی ہو گیا تھا.رات کو نمازوں کے لئے میں نے گھر میں ایک جگہ مخصوص کر رکھی تھی.ہمارا مکان پرانی وضع کا تھا.سب کمروں کے پیچھے ایک اندھیر کوٹھڑی ہوتی تھی اس کے ایک کو نہ میں کواڑ بند کر کے نماز پڑھا کرتا تھا“.حضرت منشی صاحب اپنے پہلے سفر قادیان اور واقعہ بیعت پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید بیان 59 فرماتے ہیں:.ددمنشی عبدالوہاب صاحب قادیان آنے لگے تو انہوں نے مجھ سے بھی ذکر کیا.میرے دل میں پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شوق پیدا ہو چکا تھا میں بھی ان کے ساتھ قادیان آنے کے لئے تیار ہو گیا.چنانچہ میں نے چند روز کی رخصت لی اور ہم حضور کی زیارت کے لئے چل پڑے.یہ غالبا ماہ جون یا جولائی ۱۹۰۴ء کا ذکر ہے.جمعہ کے روز قریباً گیارہ بجے ہم قادیان پہنچے ان دنوں دو جگہ جمعہ ہوتا تھا مسجد مبارک میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے جمعہ پڑھایا اور مسجد اقصیٰ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب نے.ہم نے جمعہ مسجد مبارک میں پڑھا.میں کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا.مجھے کو بتایا گیا تھا کہ یہاں سے حضرت اقدس تشریف لائیں گے.مسجد چھوٹی سی تھی.ایک صف میں بمشکل چھ یا سات آدمی سما سکتے تھے.جب کھڑکی کے رستہ سے حضرت اقدس تشریف لائے.میں

Page 640

تاریخ احمدیت.جلد 22 625 سال 1964ء نے حضور سے مصافحہ کیا اور کپڑوں کو چھوا.کپڑوں سے مجھے خوشبو آتی تھی غالباً حضور نے عطر لگایا ہوا تھا.حضور کی زیارت سے میرے قلب پر خاص اثر پڑا.آپ کو دیکھ میں بے تاب ہو گیا اور اسلام کی طرف میری کشش زیادہ ہو گئی.جب میں گھر سے چلا تھا تو میری نیت اسلام قبول کرنے کی نہ تھی.صرف حضور کی زیارت مقصود تھی.اس شوق میں میں نے یہ سفر اختیار کیا تھا.قادیان میں آ کر منشی صاحب نے مجھے اسلام قبول کرنے کی تحریک نہیں کی بلکہ ان کا مشورہ یہی تھا کہ میں ابھی بیعت نہ کروں.غالبا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ابھی نو عمر تھا.اور بعض احباب کا خیال تھا کہ اگر یہ بات نکل گئی کہ حضور نے ایک نو عمر لڑکے کو مسلمان بنالیا ہے تو ہندو کوئی فتنہ کھڑا کر دیں گے.اور حضور کو تکلیف ہوگی.لیکن حضور کو دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا.مغرب کی نماز کے بعد جب بیعت ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو توفیق دے دی اور میں خود بخود بیعت کے لئے آگے بڑھ آیا.اس وقت قریباً آٹھ آدمیوں نے بیعت کی.میری اس جرات کو دیکھ کرمنشی صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھ کو سینے سے لگالیا.مگر اس وقت انہوں نے فتنہ کے خیال سے مجھ کو یہ ظاہر کرنے نہ دیا کہ میں ہندوؤں سے مسلمان ہوا ہوں.اس وقت بیعت کے بعد نام لکھے جاتے تھے میں نے اپنا نام رحیم بخش لکھوا دیا.بعد میں حضرت خلیفہ اسیح الاول کے زمانہ میں رحیم بخش کی بجائے عبدالرحیم نام رکھا گیا.سات روز ہم قادیان میں رہے اکثر نمازیں مسجد مبارک میں پڑھا کرتے تھے.مغرب کی نماز کے بعد حضور شاه نشین پر رونق افروز ہوتے اور کسی مقدمہ کے متعلق گفتگو ہوتی.غالباً کرم دین والا مقدمہ تھا.سات روز ٹھہر کر ہم وطن واپس آگئے.آتی دفعہ میں نے حضرت صاحب کی چند کتب خریدیں.سرمہ چشم آریہ، جنگ مقدس، رپورٹ جلسہ مہوتسو ( مذاہب عالم ) وغیرہ جن کا مطالعہ بعد میں میرے لئے مفید ہوا.حضرت منشی صاحب کی ہجرت قادیان کا واقعہ بھی بہت ایمان افروز ہے جو آپ ہی کے قلم سے درج کیا جاتا ہے:.ایک دن مجھ کو خیال آیا کہ تم مسلمان تو ہو گئے ہو لیکن اسلام کی تعلیم تو حاصل نہیں کی.میرے دل میں تحریک ہوئی کہ میں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھوں.مگر قصبہ بنوڑ میں ایسا ہونا ممکن نہ تھا.میں نے دعا شروع کر دی ہوئی تھی.آخر خدا تعالیٰ نے میرے لئے یہ سامان بھی پیدا کر دیا کہ رسالہ تھی الاذہان میرے نام آیا کرتا تھا.حضرت میاں محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی اس کے ایڈیٹر تھے.ایک دفعہ

Page 641

تاریخ احمدیت.جلد 22 626 سال 1964ء میں نے اس میں اشتہار دیکھا کہ رسالہ تخمیذ الاذہان کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو حساب کتاب رکھ سکتا ہو اور کسی قدر مضمون وغیرہ لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو.میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ میں درخواست کروں.شاید مجھ کو قادیان میں رہنے کا موقع مل جائے.میں نے لکھا کہ میں نومسلم ہوں اسلام کے متعلق زیادہ واقفیت نہیں رکھتا.اس لئے مضمون و غیرہ تو نہیں لکھ سکتا البتہ حساب کتاب کا کام کرسکوں گا.میں اس وقت ریاست میں ملازم ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ میں اسلام کی تعلیم سیکھوں.اگر آپ مجھ کو مفید مطلب سمجھیں تو میں قادیان آنے کو تیار ہوں.درخواست دینے کے بعد مجھے ایک رویا بھی ہو چکا تھا کہ میں قادیان میں ہوں اور ایک کمرہ میں بیٹھا ہوں وہاں اور بھی لوگ ہیں حضرت صاحبزادہ صاحب نے مجھے بلایا اور ایک کتب خانہ کی الماریوں کی چابیوں کا گچھا میرے سپرد فرمایا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب میں بلانے پر قادیان پہنچا تو تشحید الا ذہان کی لائبریری میں دو ہزار کے قریب کتب تھیں.اس کی چابیوں کا گچھا میرے سپرد کیا گیا.حالانکہ اس سے قبل میں نے تشحیذ الا ذہان کی لائبریری بھی نہ دیکھی تھی.حضرت صاحب نے لکھا بتاؤ کس قدر گزارہ پر تم یہاں آ سکتے ہو.میں نے کہا قادیان کے حالات سے مجھے واقفیت نہیں کہ کس قدر رقم میں وہاں میرا گزارہ ہو جائے گا.بہر حال میں دس روپے ماہوار تک تنخواہ پر آجاؤں گا.میری والدہ چونکہ ہندو ہیں اور حین حیات ہیں.پانچ روپے ماہوار میں ان کو بھیج دیا کروں گا اور پانچ روپے میں خود گزارہ کرلوں گا.اور لکھا کہ اگر اس سے کم میں وہاں میرا گزارہ ممکن ہوا تو میں اس سے بھی کم لینے کے لئے تیار ہوں.حضرت صاحب نے تحریر فرمایا آجاؤ.چنانچہ میں نے اپنی ملازمت سے چھ ماہ کی رخصت بلا تنخواہ لی اور ۲۶ دسمبر ۱۹۱۰ء کو قادیان روانہ ہو گیا.بعد میں قادیان سے ہی اپنا استعفی لکھ کر بھیج دیا.اس وقت سے تقسیم ملک تک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قادیان میں رہنے کی توفیق دی.حضرت منشی صاحب کو ایک لمبے عرصہ تک صدر انجمن احمدیہ کی مختلف نظارتوں میں اور پھر دفتر انصار اللہ مرکزیہ میں خدمات بجالانے کا موقعہ ملا.اس تمام عرصہ میں آپ نے نہایت اخلاص و محبت سے کام کیا اور نہایت سادگی اور بے نفسی کے ساتھ متوکلانہ زندگی گزاری.60- اولاد ا.مکرم مولوی عبدالکریم صاحب شرما مربی سلسلہ مقیم لندن، انگلستان.ولادت ۱۹۱۸ء مکرم میجر ریٹائر ڈ عبدالحمید صاحب شرما ( مرحوم ).ولادت ۱۹۲۱ء وفات اپریل ۲۰۰۳ء

Page 642

تاریخ احمدیت.جلد 22 627 سال 1964ء مکرم شیخ عبدالرشید صاحب شرما.ولادت جون ۱۹۲۴ء آپ کے دو بیٹے مکرم مبارک احمد شر ما صاحب اور مکرم مظفراحمد شر ما صاحب شہید ہوئے آپ کے ایک پوتے مکرم سہیل مبارک احمد شر ما صاحب مربی سلسلہ (حال صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ) ہیں.۴ مکرم عبد اللطیف صاحب شرما.ولادت اگست ۱۹۲۵ء مکرمہ امتہ الکریم صاحبہ (مرحومہ) ولادت مارچ ۱۹۲۸ء.وفات جولائی ۱۹۴۸ء - مكرم عبدالحفیظ صاحب شرما ( مرحوم ).ولادت جون ۱۹۳۰ء.وفات فروری ۱۹۸۱ء مکرمہ امتہ الحمید صاحبہ (مرحومہ).ولادت مئی ۱۹۳۳ء.وفات ۱۹۵۲ء مکرمه امۃ الرشید صاحبه عرف نصیرہ.ولادت فروری ۱۹۳۵ء مکرمہ امنة اللطیف صاحبہ.ولادت فروری ۱۹۳۸ء حضرت قریشی محمد اسمعیل صاحب معتبر ولادت :۱۸۹۲ء.بیعت : ۹ ر ا پریل ۱۹۰۶ ء.وفات: ۱۰نومبر ۱۹۶۴ء بعمر ۷۲سال.برادر اصغر حضرت ماسٹر محمد علی صاحب اظہر.اصل وطن ملسیاں ضلع جالندھر.آپ نے ابتدائی تعلیم تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے حاصل کی.آپ کے ایک ہم جماعت بتاتے ہیں کہ ایک روز بارش کے باعث ہم سب طلباء چھٹی چاہتے تھے.حضرت پیر منظور محمد صاحب ہمارے استاد تھے.ہم نے ان کی گھنٹی میں پیر صاحب سے کہا دوسرے اساتذہ نے چھٹی دے دی ہے آپ بھی دے دیں.حضرت پیر صاحب نے قریشی صاحب سے دریافت فرمایا.انہوں نے کہا دوسرے اساتذہ نے کوئی چھٹی نہیں دی.اس پر پیر صاحب نے فرمایا یہ معتبر ہے.اسی وقت سے آپ معتبر کے نام سے مشہور ہو گئے.حضرت قریشی صاحب نے ایف ایس سی پاس کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کر لی.اس دوران آپ مختلف مقامات پر سیکرٹری مال، پریذیڈنٹ یا امیر جماعت کی حیثیت سے خدمات سلسلہ بجالاتے رہے.۱۹۴۱ء میں آپ کی تبدیلی کوئٹہ میں ہوئی.فیض الحق خان صاحب اس وقت امیر جماعت تھے.انہوں نے زیر تعمیر مسجد کی تعمیر کا حساب آپ کے سپرد کر دیا.جسے آپ نے نہایت جانفشانی سے نبھایا.جب خدا کا گھر تعمیر ہو چکا تو آپ محکمہ کی طرف سے دوسری جگہ منتقل کر دیئے گئے.آپ پنشنر واقفین میں پہلے وقف زندگی ہیں جنہیں حضرت مصلح موعود نے خدمت پرت متعین

Page 643

تاریخ احمدیت.جلد 22 628 سال 1964ء فرمایا.۱۹۴۸ء میں آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا.میری سروس ختم ہونے والی ہے مانگنے پر توسیع مل جائے گی لیکن میں نے وقف کیا ہوا ہے لہذا مجھے جو ارشا د فرما ئیں اس پر عمل کروں گا.حضور نے جواب ارسال فرما یا ضرورت تو ہے آپ چھوڑ کر چلے آئیں.اس پر آپ حاضر خدمت ہو گئے.حضور نے آپ کو آڈیٹر تحریک جدید کے اہم عہدے پر متعین فرمایا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ سے پوچھا.آپ کے سپرد کیا کام کیا گیا ہے تو آپ نے جواب دیا حضرت مصلح موعود نے آڈیٹر تحریک جدید بنا دیا.حضرت میاں صاحب نے فرمایا پھر تو آپ واقعی معتبر بن گئے.نام بھی معتبر اور کام بھی معتبر.آپ نے آٹھ سال تک نہایت محنت اور تندہی سے یہ خدمت سرانجام دی.اکثر آدھی رات تک کام کرتے رہتے تھے.۱۹۵۸ء کے جلسہ سالانہ پر آپ زیارت قادیان کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے وہاں کے دفتر کے حسابات چیک کرنے کا ارشاد فرمایا.کام زیادہ تھا اور عرصہ قیام تھوڑا.اس لئے دن رات ایک کر کے کام ختم کیا.جب واپس لاہور پہنچے تو محنت شاقہ کے باعث آپ پر فالج کا خفیف سا حملہ ہوا.لیکن ہفتہ عشرہ کے بعد خدا تعالیٰ نے آپ کو پھر صحت عطا فرما دی.جس کے بعد آپ آخر وقت تک دفتر وقف جدید اور ادارۃ المصنفین کے آڈیٹر کے عہدہ پر کام کرتے رہے.للہیت اور فدائیت کا قابل رشک جذ بہ آپ میں پایا جاتا تھا.مالی جہاد میں آپ نے ہمیشہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر حصہ لیا.ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ مالی پریشانیوں سے دو چار ہوئے لیکن پھر بھی اپنے پیارے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مالی قربانیوں میں قدم کو آگے ہی بڑھاتے رہے.وصیت کا ۱/۸ حصہ تنخواہ گھر لانے سے پہلے ادا کر کے آتے تھے.چندہ تحریک جدید کے حساب سے سابقون میں شامل تھے.سلسلہ کی خدمت میں بہت راحت محسوس کرتے.ایک مرتبہ سرکاری ملازمت میں ترقی کا موقعہ پیدا ہوا جس میں دوسری جگہ تبدیل ہو کر جانا لازمی تھا مگر آپ نے انکار کر دیا.کیونکہ اس جگہ سلسلہ کی اہم خدمات آپ کے سپر د تھیں.اولاد ۱.قریشی مقبول احمد صاحب (سابق مبلغ آئیوری کوسٹ و انگلستان) ۲.قریشی محمود احمد صاحب لاہور ۴.صفیہ خاتون صاحبہ (مرحومہ) 62 ۳ قریشی مسعود احمد صاحب ۵.امۃ القیوم صاحبه -۶ - امة الحفیظ صاحبہ ۷.منظور النساء صاحبہ.شجاع الدین احمد صاحب

Page 644

تاریخ احمدیت.جلد 22 629 سال 1964ء حضرت غلام فاطمہ صاحبہ زوجہ حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب بیعت : ۱۹۰۰ء.وفات: ۲ دسمبر ۱۹۶۴ء حضرت غلام فاطمہ صاحبہ اور آپ کے خاوند حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے.آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خواتین مبارکہ سے دلی لگاؤ اور تعلق تھا.آپ ان صحابیات میں شامل تھیں جنہوں نے لوائے احمدیت کے لئے سوت کا تا تھا.64 65 مرحومہ بہت متقی پرہیز گار، تہجد گزار.مہمان نواز اور غرباء کے ساتھ حسن سلوک کرنے والی خاتون تھیں.مکرم سردار رحمت اللہ صاحب نے اپنی والدہ محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے تحریر کیا کہ آپ ۱۹۰۳ء میں شادی کے بعد جہلم سے قادیان آئیں اور ایک لمبا عرصہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے گول کمرہ میں رہائش پذیر رہیں.جہاں پر انہیں حضرت اماں جان اور حضور علیہ السلام کی خدمت کا بھی کافی موقع ملا.۱۹۰۵ء میں زلزلہ کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مع خاندان اور اپنے خدام کے ساتھ باغ میں قیام فرمایا تو والد صاحب اور والدہ صاحبہ بھی حضور علیہ السلام کے ساتھ تھیں.حضور علیہ السلام نے بچہ کی متوقع پیدائش کے وقت والد صاحب اور والدہ صاحبہ کو شہر والے گھر میں رہائش کا ارشاد فرمایا جہاں ہمارے بڑے بھائی ڈاکٹر احسان علی صاحب کی پیدائش ہوئی.حضور علیہ السلام نے خود ہی احسان علی نام تجویز فرمایا.نیز فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بھی نام ہے.غلام فاطمہ صاحبہ کو حضرت اماں جان سے خاص انس اور محبت تھی اور حضرت اماں جان بھی ان پر شفقت فرماتیں اور انہیں پاس بٹھاتی تھیں.آپ حضرت ام ناصر صاحبہ کی اس وقت کے رواج کے مطابق ڈوپٹہ بدل بہن بنی ہوئی تھیں اور ہمیشہ حضرت ام ناصر صاحبہ انہیں بہن جی کہ کر مخاطب کرتی تھیں اس وجہ سے خاندان کے دوسرے افراد بھی آپ کو بہن جی ہی کہا کرتے تھے.حضرت مولوی عبدالحق صاحب بد و ملہوی ولادت: ۱۸۷۵ء.بیعت و زیارت : ۱۸۹۳ء.وفات:ے دسمبر ۱۹۶۴ء بعمر نوے سال.بدوملہی کا قصبہ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی مسلمانوں، سناتن دھرمیوں ، جینیوں، آریہ

Page 645

تاریخ احمدیت.جلد 22 630 سال 1964ء سماجیوں اور عیسائیوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے.بدوملہی میں مسلمانوں کے مشہور فرقوں مثلاً بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث، نیچیری، خارجی، چکڑالوی، اثنا عشری اور تفضیلی شیعہ بھی آباد تھے اور مباحثات کا بازارخوب گرم رہتا تھا.حضرت مولوی عبدالحق صاحب اسی مردم خیز خطہ میں پیدا ہوئے.جماعت احمد یہ بدوملہی (ضلع سیالکوٹ) کے تین بزرگ السابقون الاولون میں شمار ہوئے ہیں.اول چوہدری سرفراز خان صاحب نمبر دار.دوم حضرت قطب الدین صاحب حکیم.سوم حضرت مولوی عبدالحق صاحب.آپ کو چوہدری سرفراز خان صاحب، چوہدری اللہ دتہ صاحب نمبر دار خانا والی اور مولوی فضل کریم صاحب قلعہ صوبہ سنگھ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت و محبت پیدا ہوئی اور حضرت مولوی نور الدین صاحب بھیروی پہلے علامہ دوراں اور عاشق قرآن کے احمدی ہو جانے سے حضور علیہ السلام کی صداقت کا پختہ یقین ہو گیا.جس کے بعد آپ نے اور آپ کے منجھلے بھائی مولوی غلام رسول صاحب نے قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.قادیان سے واپسی پر آپ کے والد اور بڑے بھائی مولوی محمد علی صاحب اور حکیم محمد بخش صاحب داخل احمدیت ہو گئے اور جمعہ کی نمازیں حکیم صاحب کی مسجد میں ہونے لگیں جہاں حضرت مولانا نورالدین صاحب شاہی طبیب جموں نے بھی نماز ظہر وعصر جمع کی تھی.۱۹۲۰ء کے بعد حضرت مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے خرچ پر ایک وسیع مسجد تعمیر کرائی.جس میں بیک وقت چھ سات سو افراد نماز ادا کر سکتے ہیں.حضرت مولوی صاحب عرصہ تک سیکرٹری مال و تبلیغ رہے اور آپ کے ذریعہ بہت سی سعید روحوں نے احمدیت قبول کی.اس کے بعد آپ کو اور آپ کے دوسرے بھائیوں کو اغیار بھی عزت و احترام سے دیکھتے تھے بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ جس کام میں آپ ہوں گے اس میں ضرور برکت ہوگی.بدوملہی آریہ سماج کے پریذیڈنٹ لالہ نرائن داس صاحب صراف ۱۹۰۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے قادیان گئے تھے.ان کی طبیعت پر اسلام کی صداقت کا اثر یہ تھا کہ لالہ جی جب فوت ہونے لگے اور چار پائی سے اتار کر انہیں زمین پر لٹا دیا گیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے خواہش کی کہ جاؤ عبد الحق کو بلا لاؤ.کچھ گیان دھیان کی باتیں سن لوں.چنانچہ آپ ان کے پاس گئے اور توحید معرفت الہی اور خدا تعالیٰ کے مجیب الدعوات ہونے کا تذکرہ ہوتا رہا.آپ کے واپس آنے کے بعد جلد ہی لالہ جی فوت ہو گئے.آپ کو ایک بار بھٹے کے کاروبار کے سلسلہ میں اچانک چند ہزار روپے

Page 646

تاریخ احمدیت.جلد 22 631 سال 1964ء کی ضرورت پڑی تو ایک دکاندار نے اپنی صندوچی آپ کی جھولی میں الٹ دی اور کہا گھر جا کر گن لینا اور مجھے بتا دینا.چنانچہ آپ نے گھر آکر روپے پیسے گن لئے اور رقعہ لکھ دیا کہ اتنی رقم تھی.وسط ۷-۱۹۰۶ء کا واقعہ ہے کہ لالہ نرائن داس مذکور سے آپ نے اور آپ کے بھائی نے بہت ہی اصیل اور بے ضرر گائے خریدی.چند روز بعد چوہدری سرفراز خان صاحب نے قادیان سے بدوملہی پہنچ کر بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک گائے کی ضرورت بیان فرمائی ہے دونوں بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ گائے حضور کی خدمت میں بھیج دی جائے.چنانچہ چھ سات روز تک اس کی خوراک اور پانی کا خاص خیال رکھا گیا اور روزانہ نہلایا بھی جاتا رہا.ساتویں دن اسے میاں الہ دین صاحب حجام احمدی کے ذریعہ قادیان روانہ کر دیا گیا.میاں الہ دین اسے دیہات کے راستے تھوڑی تھوڑی منازل طے کرتے ہوئے قادیان لایا اور آپ کے بھائی براہ راست اجنالہ سے امرتسر بٹالہ ہوتے ہوئے قادیان حاضر ہوئے اور گائے حضور اقدس کی خدمت میں پیش کر دی.حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا ” آپ لوگوں نے صحابہ کا سا نمونہ دکھایا ہے.حضرت مولوی صاحب بہت مہمان نواز، خلیق ، صداقت شعار، وفا شعار اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے.طبیعت میں مزاح بھی تھا مگر مناظروں میں استہزاء کو سخت ناپسند کرتے تھے.۱۹۲۶ء میں بدوملہی سے مغرب ایک گاؤں سوہاوا میں مناظرہ ہوا.مناظر آپ کے لخت جگر مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی تھے.مناظرہ کی کامیابی پر مخالفوں نے بھی آپ کو مبارکباد دی.تاہم آپ ترکی بہ ترکی جواب پر سخت ناراض ہوتے اور یہی فرماتے کہ عارضی فائدہ کو حاصل کرتے ہو اور مستقل فائدہ کو چھوڑتے ہو.کوئلہ کے ہول سیل امرتسر کے ٹھیکیدار ہندوؤں سے ہزاروں روپیہ کی گاڑی منگواتے اور رقم بر وقت ادا کر دیتے.ایسا بھی ہوا کہ بروقت ادائیگی نہ کر سکنے کے باعث ہندو اس روپیہ میں سود کا اضافہ کر دیتے مگر آپ صاف کہہ دیا کرتے میں احمدی ہوں سود ہر گز نہیں دوں گا.نہ سود پر رقم لی ہے اور نہ دوں گا.ہاں بیو پار میں ایسا ہو ہی جاتا ہے پس اپنا اصل زر لے لو.چنانچہ وہ لوگ پرانے تعلقات کی وجہ سے سود چھوڑ دیتے.گھر میں گھوڑی ہر وقت موجود رہتی تھی لیکن آپ پیدل سفر کو زیادہ پسند کرتے تھے.فرماتے گھوڑی پر میں تھک جاتا ہوں.بدن دکھنے لگ جاتا ہے.پیدل سفر میں ہیں میل سے آپ نہ تھکتے تھے.بدوملہی سے گوجرانوالہ سفر پیدل تو پاکستان بننے کے بعد بھی کئی مرتبہ کیا.۱۹۱۶ء سے ۱۹۴۳ء تک

Page 647

تاریخ احمدیت.جلد 22 632 سال 1964ء اکثر دفعہ آپ کو بھٹہ کے کاروبار میں اردگرد کے احباب سے عارضی طور پر کچھ دنوں کے لئے کوئی رقم لینے کے لئے جانا پڑتا یا اپنی بچی ہوئی اینٹوں کی رقوم حاصل کرنے کے لئے جانا پڑتا تو آپ کا معمول یہ ہوتا کہ گاؤں سے باہر نکلتے ہی دعا شروع کر دیتے اور ہر قسم کی بہتری کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی ضرورت کی خاطر بھی دعا کرتے جاتے.بعض اوقات نا واقف مرد، جوان لڑکے، عورتیں راستہ میں آپ کو روتا دیکھ کر حیران ہوتے.بعض پوچھ بھی لیتے ”بابا کیوں روتا ہے؟ تو فرما دیتے اللہ کے آگے روتا ہوں.اللہ سے کچھ مانگتا ہوں.کوئی اور بات نہیں ہے.68 گویا بے دست در کار دل بایار کی چلتی پھرتی تصویر تھے.اولاد (۱).فاطمہ بی بی صاحبہ (۲) مولانا غلام احمد صاحب بد و ملهوی مرحوم ( مبلغ گیمبیا) (۳) مولوی غلام مصطفی صاحب (مرحوم) (۴) سکینه بی بی صاحبہ (مرحومہ) (۵) عبد القدیر صاحب ( مرحوم ) (۶) عبدالرشید صاحب (مرحوم) حضرت محمد مسعود خان صاحب مندرانی 69 ولادت :۱۸۸۹ء.بیعت تحریری: ۱۹۰۳ ء.بیعت دستی : ۱۹۰۷ء.وفات : ۸ دسمبر ۱۹۶۴ء آپ جماعت احمدیہ بستی مندرانی تحصیل تونسہ ضلع ڈیرہ غازیخان کے ان بزرگوں میں سے تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت و زیارت کا شرف حاصل تھا.آپ نے ابتدائی تعلیم حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی ( والد ماجد مولوی ظفر محمد صاحب ظفر ) سے حاصل کی.۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ بستی مندرانی کے ایک قدیم احمدی بزرگ حضرت مولوی محمد شاہ صاحب پندره سولہ سال پنجاب کے مختلف علاقوں میں تعلیم پانے کے بعد جب اپنے وطن واپس آئے تو محمد مسعود خان صاحب اور ان کے والد نور محمد خان صاحب مع اپنی قوم کے احمدی ہو گئے.محمد مسعود خان صاحب پہلی بار دسمبر ۱۹۰۷ء میں حضرت مولوی محمد شاہ صاحب کی معیت میں قادیان پہنچے.ظہر کا وقت تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں جلوہ افروز تھے اور حضور کا نورانی چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا پہلی نظر پڑنے پر آپ کو معلوم ہو گیا کہ یہی مسیح موعود ہیں.تحریری بیعت تو آپ کر ہی چکے تھے اس موقعہ پر آپ کو مہدی وقت کے دست مبارک پر بھی بیعت کا شرف حاصل ہو گیا.فرمایا کرتے تھے قادیان شریف میں میرا معمول تھا کہ جس وقت حضرت اقدس تشریف لاتے.حضور کے کلمات طیبات سننے کے لئے دوڑ پڑتا.حضرت خلیفہ اول کے عہد مبارک میں تین چار مرتبہ

Page 648

تاریخ احمدیت.جلد 22 633 سال 1964ء قادیان تشریف لے گئے اور مدت تک احمد دین صاحب کپور تھلوی کے ہاں قیام کیا.۱۹۱۴ء میں آپ جماعت احمد یہ مندرانی کے سیکرٹری مال تھے.خلافت ثانیہ کے قیام پر آپ نے اپنے استاد فتح محمد خان صاحب اور جماعت سے مشورہ کیا.پھر تمام دوستوں کو اکٹھا کر کے حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت اقدس میں بیعت کا خط لکھ دیا اور دسمبر ۱۹۱۴ء کے جلسہ پر پندرہ افراد کے ساتھ حضرت خلیفہ ثانی کے دستِ مبارک پر بیعت کی.پھر جلسہ ۱۹۳۲ء پر قادیان گئے اور جنوری ۱۹۳۳ء سے ۱۴ اپریل ۱۹۳۴ء تک حضرت اماں جان کے دروازے پر دربان رہے.ازاں بعد جنوری ۱۹۳۷ء سے دسمبر ۱۹۳۸ء تک حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ کی کوٹھی پر دربانی کا موقعہ ملا.آخری بار جلسہ سالانہ ۱۹۴۰ء پر قادیان تشریف لے گئے.دعاؤں میں بڑا شغف رکھتے تھے.صاحب رویا تھے.۱۹۵۶ء سے پہلے اکثر خود امامت کراتے رہے.آپ نے اپنے پیچھے تین لڑکے اور ایک لڑکی بطور یادگار چھوڑے.اولاد: اقبال احمد خان صاحب ( متوفی ۱۹۹۰ ء ) - عبدالحی خان صاحب جمیل احمد خان صاحب - 1 حضرت مولوی محمد عثمان صاحب امیر جماعت احمدیہ ڈیرہ غازی خان ولادت: قریباً ۱۸۸۳ء بیعت تحریری: ۱۹۰۱ء.بیعت دستی: دسمبر ۱۹۰۴ء وفات: ۱۵ دسمبر ۱۹۶۴ء- 74 70 حضرت مولوی محمد عثمان صاحب کی ذات یا قومیت جثت تصمیم تھی.اور اسی کا اندارج آپ کے ملا زمت کے کاغذات میں ہے.آپ تو نسہ کے ایک معزز علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے.آپ کے والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا خاندان تمیم انصاری کی اولاد سے تعلق رکھتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور مدینہ کے رہنے والے تھے.نامعلوم کس زمانہ سے آپ کے بزرگ مدینہ سے اس برصغیر میں آئے مگر قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بغرض تبلیغ اسلام یا شوق جہاد کے سبب اپنے وطن سے ہندوستان کی طرف آئے ہوں گے.آپ کو احمدیت کا پیغام پہلی بار جولائی ۱۹۰۱ء میں پہنچا جبکہ آپ کی تقرری ڈیرہ غازی خان کی برانچ پرائمری سکول نمبر ۲ میں ہوئی اور آپ اپنے بعض ہم وطن و ہم پیشہ اصحاب کے ساتھ رہنے لگے.یہ دوست اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور اب تک کسی نے بیعت نہیں کی تھی ان میں سے بعض کے نام یہ تھے.مولوی عبدالرحمن ورنیکلر ٹیچر ساکن جھنگ تحصیل تونسہ شریف.مولوی امام بخش صاحب کھوکھر ورنیکلر ٹیچر ساکن تونسہ شریف خاص.ان کے علاوہ اخوند محمد

Page 649

تاریخ احمدیت.جلد 22 634 سال 1964ء افضل صاحب ( والد پروفیسر اخوند عبد القادر صاحب ایم.اے) بھی اکثر ان کے ہاں آیا کرتے تھے.یہ سب دوست مطالعہ کرتے کرتے اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمیں بیعت کر لینی چاہیئے.چنانچہ آپ نے بھی ان کے ساتھ ۲۰ اگست ۱۹۰۱ء کو بیعت کا خط لکھ دیا.مئی ۱۹۰۲ء سے اپریل ۱۹۰۳ء تک آپ نارمل پڑھنے کی غرض سے ملتان میں مقیم رہے.آپ اپنی کلاس میں واحد احمدی تھے جو جمعہ کی نماز ملتان کے قریباً تمیں چالیس احمدیوں کے ساتھ محمد بخش صاحب چھاپ گر کی دکان پر ادا کیا کرتے تھے جو ولی محمد خان والی مسجد کے مشرق کی طرف بازار کے کنارے پر واقع تھی.اس وقت سارے پنجاب میں پانچ نارمل سکول تھے جن میں تین سو کے قریب لڑکے تعلیم پانے کی غرض سے لئے جاتے تھے.آپ نے سالانہ امتحان میں اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کی اور کل پنجاب میں ساتویں نمبر پر رہے.امتحان سے فراغت کے بعد آپ اپریل ۱۹۰۴ء تک ڈیرہ غازی خان میں تعلیمی فرائض سرانجام دیتے رہے.مئی ۱۹۰۴ء میں آپ نے ٹریننگ کالج لاہور میں داخلہ لیا.اس سال چار اور احمدی بھی کالج میں داخل ہوئے.جن میں مولوی صدر الدین صاحب بھی تھے.(سابق امیر غیر مبائعین مراد ہیں) آپ اور دوسرے احمدی بورڈنگ ہاؤس کے احاطہ میں باجماعت نماز پڑھا کرتے تھے.جمعہ کی نماز ضلع کی کچہری میں اور کبھی گئی بازار کی مسجد میں حضرت مولوی غلام حسین صاحب کے پیچھے ادا کرتے تھے.جہاں انہیں قادیان سے آنے والے بزرگوں کی زیارت بھی ہو جایا کرتی تھی.آپ پہلی بار دسمبر ۱۹۰۴ء کے جلسہ سالانہ پر قادیان دارالامان تشریف لے گئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت اور بیعت سے مشرف ہوئے.فرماتے ہیں خدا کا شکر ادا کیا کہ خدا نے مجھے اس وجود مسعود کے دیکھنے کی توفیق بخشی جس کے دیدار کی تمنا میں اربوں ارب لوگ اس دنیا سے بصد حسرت و یاس چل بسے.چہرہ نورانی جس کے دیکھنے سے طبیعت سیر نہیں ہوتی تھی جی یہی چاہتا تھا کہ حضور ہماری آنکھوں کے سامنے ہوں اور ہم ان کے دیدار اور نور سے فیض یاب ہوتے رہیں.آپ کے دیکھنے سے دل کو ایک تسلی اور روحانیت حاصل ہوتی تھی.اونچی ناک، کشادہ پیشانی ، گندمی رنگ ، سر کے بال کانوں تک، داڑھی میں سرخ مہندی لگی ہوئی.آنکھیں شرم و حیا کے سبب نیچے کئے ہوئے.کسی کی طرف نظر پھاڑ پھاڑ کرنہ دیکھتے تھے کلام میں ابتدا نہ کرتے تھے.ہاں جب کوئی تازہ الہام یا وحی بتلانا مقصود ہوتا تو عرفانی صاحب یا مفتی صاحب کو مخاطب کر کے لکھوا دیتے اور دوسرے

Page 650

تاریخ احمدیت.جلد 22 635 سال 1964ء لوگ بھی سن لیتے تھے.جب کوئی سائل سوال کرتا تو آپ اس کا جواب باصواب دیتے.جب کوئی دوست بات کرنی شروع کرے اور بات لمبی ہو جاتی تو آپ بند نہ کرتے اور اظہار ناراضگی نہ فرماتے.کوئی نظم وغیرہ سناتا تو آپ سنتے رہتے.میرا قیام جلسہ میں صرف پانچ چھ روز رہا پھر لاہور واپس آ گیا.اس وقت کی مسجد مبارک میں صرف چار پانچ صفیں مشکل سے بنتی تھیں اور ہر ایک صف میں بھی پانچ سے زائد آدمی نہ آسکتے تھے لیکن شوق کے سبب لوگ اس قد را کٹھے ہو جاتے کئی سطریں پاس پاس بن جاتی تھیں اور ہر صف میں آدمی زیادہ ہو جاتے.اس صورت میں ہم ایک دوسرے کی پیٹھ پر سجدہ کر لیا کرتے تھے.۱۹۰۶ ء میں گرمیوں کی دوماہ کی رخصتیں ہوئیں تو آپ دوبارہ قادیان گئے.حضرت اقدس کے ساتھ نمازیں پڑھیں.خدا کی تازہ بتازہ وحی سنتے رہے.حضرت اقدس علیہ السلام کی مجلس میں قریب وکر بیٹھنے اور حضور کی زبان مبارک سے کلمات طیبات سنے کا موقعہ ملتا رہا.اسی طرح حضرت خلیفۃ امسیح الاول کے مطب میں جا کر مولوی حافظ روشن علی صاحب، سید نامحمود المصلح الموعود اور میر محمد الحق صاحب کو حدیث پڑھتے دیکھا.حضرت مولوی صاحب کا بیان ہے.غالبا ۱۹۰۵ء کے جلسہ میں حضور نے اپنی وصیت سنائی تھی.اس میں میں موجود تھا.نا معلوم یہ مسودہ وہی تھا جو خود حضور نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا یا اس کی کاپی تھی جو کا تب نے املاء کی تھی یا کتاب مطبوعہ تھی مگر واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سنایا تھا وہ پہلے کتابی صورت میں طبع ہو کر شائع نہ ہوا تھا.یہ وصیت حضور نے اس جگہ سنائی جو قادیان میں محاسب کے دفتر کے شمالی جانب گلی پر واقع ہے جہاں ہجرت سے پہلے مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالی رہا کرتے تھے دوست احباب مقامی اور بیرونی اسی مکان کے چھتے ہوئے حصہ میں بیٹھے تھے یکا یک اوپر سے حضور سیڑھیوں کے ذریعے اترے اور قدرے توقف کے بعد آپ نے الوصیت سنانی شروع کی.الہامات وفات کے متعلق سنائے.قَرُبَ اَجَلُكَ الْمُقَدِّرُ ( مقدر اجل قريب پہنچی الرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ کوچ کا وقت - کوچ کا وقت.اب تھوڑے دن رہ گئے.اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.یہ ہو گا وہ ہو گا.اس کے بعد تمہارا حادثہ ہوگا.میرے بعد تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا ضروری ہے پر وہ نہ آئے گی جب تک میں نہ جاؤں وہ قدرت ( مراد خلافت) تمہارے لئے دائگئی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.جیسے رسول اللہ کے بعد ابو بکر کے ذریعے مسلمانوں کو تباہی سے بچالیا.ایسے ہی یہاں بھی ہو گا.غرض اس قسم کے دلوں کو ہلا دینے والے 75

Page 651

تاریخ احمدیت.جلد 22 636 سال 1964ء الفاظ سنائے جو الوصیت میں درج ہیں.ان کی وجہ سے ہم سننے والوں کی جو حالت تھی وہ تحریر میں نہیں آ سکتی کیونکہ اس وقت کا نقشہ زبان بیان کرنے سے قاصر ہے اور قلم تحریر سے عاجز ہے.گریہ و بکا، آہ و زاری ، دردانگیز اور دلوں کو ہلا دینے والی چیخیں ہی چینیں سنائی دیتی تھیں اور دلوں میں یہ الفاظ تھے کہ یا خدا کیا یہ وجود جو کہ ہمیں اپنی جانوں اور اولادوں، مالوں اور ہر ایک عزیز سے زیادہ عزیز ہے جس کی خاطر ہم اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں کیا جلد ہی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گا.کیا ہماری قسمت میں یہ لکھا تھا ؎ حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد یعنی ہم نے اس خوشنما پھول کا چہرہ اچھی طرح اور خوشبو اچھی طرح نہ دیکھی اور نہ سونگھی اور یہ ہم سے اوجھل ہو جائے گا یعنی ہمارے لئے اس پھول کی بہار دیکھنے کا زمانہ ختم ہو گیا.ہچکیاں تھیں جو مسلسل بندھی ہوئی تھیں.غم کا دریا تھا جو امنڈتا چلا آرہا تھا اور دل غم کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا.کوئی متنفس ایسا نہ تھا جس کا دل گریاں اور بریاں نہ ہو.دل میں آرزوئیں اور تمنا ئیں تھیں کہ یا الہی ہماری عمروں میں کمی کر کے اس وجود کو عمر جاوداں عطا کر دے.مگر خدائی نوشتوں کو کوئی انسانی طاقت نہیں مٹاسکتی غرض اس آہ و بکا کے عالم میں یہ مضمون حضور نے ختم کیا“.۲۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء جبکہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا تابوت بہشتی مقبرہ میں منتقل کیا گیا.آپ اس تاریخی موقعہ پر موجود تھے.حضرت مولوی صاحب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حادثہ ارتحال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.ایک دن ۲۶ یا ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو قادیان سے مولوی محمد علی صاحب کا تار مولوی عزیز بخش ( مولوی محمد علی صاحب کے بڑے بھائی جو ان دنوں جماعت ڈیرہ غازی خان کے سیکرٹری و پریذیڈنٹ تھے ) کے نام آیا کہ آپ ۲۶ مئی کو لاہور میں وفات پاگئے ہیں.دل میں رنج، درد، دکھ کی وہ کیفیت تھی جو بیان سے باہر ہے.اور جو حالت الوصیت سنتے وقت ہوئی تھی اپنی شدت میں اس سے کئی گنا زیادہ تھی.اگر میں الوصیت کے وقت خدائی الہامات کو نہ سن چکا ہوتا اور ان الہامی وعدوں کو جو آپ کی وفات کے بعد خلافت کے ذریعے پورے ہونے تھے نہ پڑھ چکا ہوتا تو نہ معلوم ان غلبہ کے وعدوں کو

Page 652

تاریخ احمدیت.جلد 22 637 سال 1964ء جوا بھی پورے ہونے باقی تھے ذہن میں لا کر کچھ دیر کے لئے شاید ایک انسان تذبذب میں پڑ جاتا.مگر خدا نے محض اپنے فضل سے ہمیں ہر قسم کے ابتلا سے بچالیا.الہام جنازہ کفن میں لپیٹ کر لائے.ڈرو مت مومنو وغیرہ وغیرہ الہامات سے ہمارے ایمانوں کو تقویت پہنچی.اور ان الہاموں سے خدا کی قدرت اور مسیح موعود کا خدا سے علم غیب کی خبروں پر اطلاع پانا اور اسی طرح وقوع میں آنا جب ذہن میں آتا تو بجائے اس کے کہ ہمارے ایمان میں کمی ہو آپ کی صداقت پر اور یقین پختہ ہونے کا سبب بن گئے.کسی نے سچ کہا ہے.ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است غرض یہ صدمہ ہمارے لئے بظاہر جانکاہ تھا.لیکن یہ ہمارے لئے کسی ابتلا کا باعث نہ بنا“.حضرت مولوی صاحب ۱۰ / اکتوبر ۱۹۰۶ ء کو گورنمنٹ سکول ڈیرہ غازی خان کے سٹاف میں شامل ہوئے.اور قریباً چونتیس سال تک تدریسی خدمات بجالانے کے بعد اسی سکول سے یکم مارچ ۱۹۴۱ء کو ریٹائر ہو کر پنشن پائی.اور پھر اسی سال بقیہ زندگی دیار حبیب میں گزارنے کے لئے ہجرت کر کے قادیان آگئے.آپ کا معمول تھا کہ آپ مسجد مبارک میں وقت سے بہت پہلے پہنچ جاتے اور پہلی صف میں محراب کے شمالی طرف دائیں جانب بیٹھنے کی کوشش کرتے.ان بزرگوں میں سے جو اس زمانے میں آپ سے خاص طور پر واقف ہو گئے تھے حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی اور بابا محمد حسن صاحب تھے.ان دنوں حضرت مصلح موعود مسجد مبارک میں قرآن کریم کا درس دیتے تھے آپ کو اس کے سننے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.یکم اکتوبر ۱۹۲۵ء سے حضرت مولوی صاحب کو جماعت ڈیرہ غازی خان کے سیکرٹری مال کا عہدہ سپرد کیا گیا.۱۹۳۶ء میں آپ نے مختصر تاریخ جماعت احمد یہ ضلع ڈیرہ غازی خان مرتب فرمائی جو اخبار الفضل قادیان مورخہ ۶ ار اگست ۱۹۳۴ء میں شائع ہوئی.اسی زمانہ میں خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق دی کہ آپ نے قادیان سے ضلع ڈیرہ غازی خان کے مشہور گدی نشینوں اور دیگر معززین کو مفصل تبلیغی خطوط لکھے.جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں :.(۱) خواجہ سدید الدین صاحب گدی نشین تونسوی (۲) خواجہ نظام الدین صاحب تو نسوی گدی نشین خواجہ محمود

Page 653

تاریخ احمدیت.جلد 22 638 سال 1964ء (۳) خواجہ غلام زکریا صاحب و صاحبزادہ میاں موسیٰ صاحب گدی نشین تو نسوی (۴) سردار غلام محمد صاحب تمن دار شادن لنڈ وغیرہ تحریک پاکستان کے دوران آپ نے جماعت احمدیہ کی ہدایت پر مسلم لیگ کی پُر جوش حمایت کی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.یہاں (ڈیرہ غازی خان.ناقل ) مسلم لیگ کے امیدوار عطا محمد بزدار جو معمولی حیثیت کا وکیل تھا کا مقابلہ قیصرانی تمندار کے ایک آدمی سے جس کا نام امیر محمد خان ہے جو دنیاوی لالچ میں آکر خواجہ نظام الدین تو نسوی کی انگیخت پر احمدیت سے خارج ہو چکا تھا جو ذی اثر تھا نظام الدین کا بھی اثر تھا اور خضر حیات کی حکومت اس کی پشت پر تھی مگر وہ نا کام ہوا.اس میں لوگوں نے خضر حیات اور خواجہ نظام الدین کی بڑی بے عزتی کی.میں نے اس معاملہ میں سلسلہ کی ہدایات کا احترام کرتے ہوئے اچھا حصہ لیا.راتوں کو اٹھ اٹھ کر دیہات میں گیا اور لوگوں کو مسلم لیگ کی حمایت پر آمادہ کیا.چند ایک غیر احمدی دوست بھی ہمراہ ہوتے تھے.الیکشن کے وقت میں پرچی کے کام پر تھا پھر جب تو نسہ میں ووٹ ہوئے تو میں بھی یہاں سے گیا اور وہاں بھی تقسیم پر چی ووٹر ان کا کام کیا.خدا کے فضل سے لیگ کو نمایاں کامیابی ہوئی“.تقسیم ہند ۱۹۴۷ء کے دوران قادیان سے ہجرت کر کے ڈیرہ غازی خان میں قیام پذیر ہوئے اور سلسلہ کی خدمت میں رضا کارانہ طور پر مصروف ہو گئے.کچھ عرصہ تک نہایت اخلاص اور سرگرمی سے سیکرٹری مال کی حیثیت سے مالی جہاد کرتے رہے.ازاں بعد مئی ۱۹۵۹ء سے امیر ضلع منتخب ہوئے اور تادم واپسی اسی منصب پر فائز رہے.آپ کا دور امارت ایک سنہری دور تھا جس میں جماعت احمدیہ ضلع نے ترقی کی اور خصوصاً شہر ڈیرہ غازی خان کا جماعتی چندہ بجٹ کے مقابل سو فیصد بڑھ گیا.جماعتوں کا علمی ، اخلاقی اور دینی معیار بلند ہوا.محبت والفت کی فضا قائم ہوئی.ڈیرہ غازی خان شہر کی مسجد کی عمارت ، احمد یہ لائبریری کے انتظامات میں نئی اور شاندار تبدیلیاں عمل میں آئیں.ضلع کے سالانہ جلسوں کی اہمیت کے پیش نظر وسیع شامیانے بنوائے گئے.ایک عمدہ لاؤڈ سپیکر نصب کیا گیا.نیز مسجد سے ملحق پرانی دکانیں گرا کرنٹی دکانیں بنوائی گئیں.جن سے جماعت کی آمد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا.

Page 654

تاریخ احمدیت.جلد 22 اخلاق و شمائل 639 سال 1964ء جناب ملک عزیز احمد صاحب بی.اے.ایل.ایل.بی وکیل و سابق امیر جماعت احمد یہ ڈیرہ غازی خان تحریر فرماتے ہیں:.حضرت مولوی محمد عثمان صاحب ضلع ڈیرہ غازی خان کی احمدی جماعتوں کے ایک درخشندہ ستارے تھے...آپ ابھی ہمیں بائیس سال کے تھے کہ اپنی فطرتی سعادت اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی ماموریت کے خلاف ہر طرف ایک طوفانِ مخالفت بر پا تھا اور نو احمدی احباب پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہو رہی تھی مگر آپ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی.یہ ۱۹۰۲ء (سہو ہے ۱۹۰۱ء چاہیئے ) کے قریب کا زمانہ تھا جبکہ پرانے ڈیرہ غازی خان میں جماعت احمدیہ کی بنیاد پڑ چکی تھی اس وقت جماعت مقامی کے سر براہ مکرم مولوی عزیز بخش صاحب تھے جو ڈ پٹی کمشنر صاحب کے دفتر میں کلیدی عہدہ پر فائز تھے.۱۹۱۰-۱۱ء میں موجودہ ڈیرہ غازی خان کی بنیاد پڑی اور احباب کی کوششوں سے شہر کے عین وسط میں حکومت نے ایک کنال اراضی کا سفید قطعہ برائے تعمیر مسجد جماعت کو دے دیا.اپریل ۱۹۱۴ء میں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول وفات پاگئے جس پر اختلاف سلسلہ زیادہ نمایاں ہو گیا.مولوی عزیز بخش صاحب جو مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت غیر مبائعین لاہور کے بڑے بھائی تھے وہ مقامی جماعت کے افراد کو قادیان سے الگ کر کے مولوی محمد علی صاحب کی طرف لانا چاہتے تھے مگر احباب جماعت نے ان کی ان باتوں کو کوئی اہمیت نہ دی.اس موقعہ پر مولوی محمد عثمان صاحب نے نہایت جرأت مندانہ قدم اٹھایا اور غیر مبہم الفاظ میں حضرت مصلح موعود کی خلافت سے وابستگی کا اعلان کر دیا.اس طرح جماعت ایک بہت بڑے فتنہ سے بچ نکلی.قرآن مجید سے عشق قرآن کریم سے آپ کو بے حد محبت تھی.زندگی کے آخری سالوں تک صرف ماہ رمضان میں پانچ چھ دفعہ قرآن شریف ختم کرتے تھے اور سارا سال تو بس ان کا محبوب کلام ہی یہی ہوتا تھا.آپ نے اپنے صاحبزادہ حافظ محمد عمر صاحب کو اپنی نگرانی میں قرآن مجید حفظ کرایا.مولوی صاحب کے اس کارِ خیر سے جماعت کو ایک اچھا حافظ قرآن مل گیا.

Page 655

تاریخ احمدیت.جلد 22 640 سال 1964ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دل و جان سے فدا تھے اور حضور کی تعلیم کی عملی تصویر تھے.لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ آیا.غیر احمدیوں میں رشتہ دینے میں سہولت ہی سہولت تھی اور مقامی احمد یوں میں مناسب رشتہ موجود نہ تھا.آپ نے اپنے علاقہ کی روایات کو قربان کرتے ہوئے اور اپنے جذبات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے رشتہ ڈیرہ غازی خان سے باہر قادیان میں دیدیا اور اس طرح مسیح موعود کی تعلیم کی پوری پوری پیروی کی.اللہ تعالیٰ نے ان رشتوں میں فوق العادت طور پر برکت ڈالی.اطاعت امام غالباً ۱۹۲۶ء میں رسوائے عالم کتاب ”رنگیلا رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شائع ہوئی.ایک مسلمان نے اس کتاب کے ناشر کو قتل کر دیا.قاتل کو پھانسی کی سزا ہوگئی.اس کے بعد ایک اور کتاب آریوں کی طرف سے آنحضرت کے خلاف شائع ہوئی.اس پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ملک بھر کی جماعتوں کو احتجاجی جلسے کرنے کی ہدایات صادر فرما ئیں.مخالفت سخت تھی.ملک کی سیاست پر ہندو اور عیسائی چھائے ہوئے تھے.ملک کی اقتصادیات پر بھی ہندوؤں کا قبضہ تھا مگر حضرت مولوی صاحب نے ڈیڑھ ماہ کی دن رات کی انتقک کوششوں سے جلسہ کی اجازت حاصل کر لی.اس جلسہ میں تمام اسلامی فرقوں نے شرکت کی.حضرت خلیفتہ المسیح کی ہدایات مسلمان عوام کے سامنے رکھی گئیں اور انہیں کہا گیا کہ وہ معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں اور روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی اپنی دکانیں کھولیں اور اقتصادی آزادی حاصل کرلیں.مسلمانوں نے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ کے ان جذبات کی قدر کی.انہوں نے قراردادیں پاس کر کے حکومت کو بھجوائیں نیز ہندوؤں سے اقتصادی آزادی حاصل کرنے کے لئے عام استعمال کی چیزوں کی اپنی دکانیں کھولنے لگے.اس مشکل ترین تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مولوی صاحب کو اپنی ملازمت بھی خطرہ میں ڈالنی پڑی لیکن آپ نے اطاعت امام کے لئے ہر چیز قربان کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا.اوصاف حمیده مولوی صاحب منکسر المزاج اور سادہ دل تھے.زندگی بہت سادہ تھی.آپ کا دل ہر وقت مسجد

Page 656

تاریخ احمدیت.جلد 22 641 سال 1964ء میں اٹکا رہتا تھا.مسجد کے باہر ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہتے تھے.نمازوں میں باقاعدگی سے آتے.آخری عمر میں بھی باوجود کمزوری اور خرابی صحت کے اور باوجود مسجد سے دور ہونے کے با قاعدگی سے مسجد آتے تھے.توسیع مسجد کا مسئلہ در پیش تھا.آپ نے اپنا ایک مکان بیچ ڈالا.اس طرح آپ نے اپنے لئے تنگی پیدا کر کے مسجد کے لئے وسعت کا انتظام کیا.ایک لائبریری، ایک مہمان خانہ اور تین دکانیں بنوائیں.جس سے مسجد کی افادیت میں اضافہ ہوا اور اسے اپنی دکانوں سے.۹۰ روپے ماہوار کی آمدنی ہونے لگی.قومی کاموں سے دلچپسی ابھی دکانیں اور مہمان خانہ زیر تعمیر تھے کہ حضرت مولوی صاحب سخت بیمار ہو گئے.آپ کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا.اکثر بے ہوش رہتے تھے لیکن جب بھی کبھی ہوش میں آتے تو عیادت کے لئے آنے والوں سے جو سب سے پہلا سوال کرتے وہ یہ ہوتا کہ دکانوں اور مہمان خانے کا کیا حال ہے.اللہ اللہ.آپ چاہتے تھے کہ آپ کی زندگی ہی میں دکانیں، مہمان خانہ، لائبریری اور مربی کے لئے رہائش گاہ مکمل ہو جائے.کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیفات سے از حد محبت تھی.آپ کی جملہ کتب پر مکمل عبور حاصل تھا.علاوہ ازیں کئی حوالے زبانی یاد تھے.حضور کا منظوم کلام تو آپ کی روح کی غذا تھا.رات کو بھی جب سوتے تو درنشین تکیہ کے نیچے رکھ کر سوتے تھے.جس وقت بھی آنکھ کھلتی اسے پڑھتے اور لطف اندوز ہوتے تھے.مرکز سلسلہ سے عشق قادیان کی محبت آپ کے جسم میں خون کی طرح دوڑتی رہتی تھی.۱۹۴۴ء ( حضرت مولوی صاحب کے بیان کے مطابق آپ کی ہجرت ۱۹۴۱ء میں ہوئی) میں مستقل طور پر وطن چھوڑ کر دیا مسیح میں جا ڈیرہ ڈال مگر تقسیم کے بعد واپس آنا پڑا.پھر ربوہ میں جب جلسہ سالانہ آتا تو دو ہفتہ پہلے تشریف لے جاتے اور ایک ہفتہ بعد تک ٹھہرے رہتے.

Page 657

تاریخ احمدیت.جلد 22 642 سال 1964ء اولاد: یہ فہرست حضرت مولوی صاحب کے داماد جناب قریشی عبدالغنی صاحب نے مرتب کی ہے آپ لکھتے ہیں: ”مولوی صاحب کے چار بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں جن میں سے دو بیٹے اور بیٹیاں وفات پاچکے ہیں.پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کی کل تعداد ۵۵ ہے جن میں سے ۴۹ بفضل خدا حیات ہیں.اسی طرح پڑ پوتوں، پڑپوتیوں، پڑنواسوں، پڑنواسیوں کی تعداد ماشاء اللہ ڈیڑھ صد سے زائد ہے.آپ نے اپنے سب بچوں کی شادیاں اپنی زندگی میں ہی کر دی تھیں“.ا.امۃ الرحمن صاحبہ مرحومہ اہلیہ آغا محمد بخش مرحوم 79 محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ کی وفات کے بعد ان کی چھوٹی بہن محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ مکرم آغا محمد بخش صاحب کے عقد میں آئیں.) ۲- محمد صدیق صاحب ۳.حافظ محمد عمر صاحب -۴- امتہ الکریم صاحبہ (اہلیہ قریشی فضل حق صاحب مرحوم گولبازار ر بوه) ۵- امة الحفیظ صاحبہ (اہلیہ قریشی عبدالغنی صاحب گولبازار بوه) - امتہ الحمید بیگم صاحبہ (اہلیہ آغا محمد بخش صاحب مرحوم ) ۷.سعیدہ بشری بیگم صاحبہ (اہلیہ مکرم بہار خان صاحب مرحوم) - محمد حسن مرحوم ( زمانہ شیر خوارگی میں وفات پائی ) - محمد زبیر مرحوم ( زمانہ شیر خوارگی میں وفات پائی ) ۱۰.خیر النساء صاحبہ ( زمانہ شیر خوارگی میں وفات پائی) حضرت مولوی عمر دین صاحب شادی وال ضلع گجرات ولادت : ۱۸۷۹ء.بیعت : ۱۹۰۳ء.وفات : ۲۰ دسمبر ۱۹۶۴ء آپ اپنی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰۳ء میں کرم الدین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لے گئے تو میں اپنے استاذی المکرم حضرت مولوی نجم الدین صاحب کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے گیا.جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہرے ہوئے تھے تو مکان کے دروازے پر دربان کھڑا تھا اس

Page 658

تاریخ احمدیت.جلد 22 643 سال 1964ء سے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات کی اجازت چاہی.اس نے ہم سے ہمارے نام ، گاؤں ضلع وغیرہ دریافت کر کے لکھ لیا اور پھر ہم کو اندر آنے کی اجازت ہوئی.ہم نے اندر داخل ہو کر حضور سے مصافحہ کیا.حضور نے ہم دونوں کو اپنی چارپائی پر ہی بٹھا لیا.اور یوں جہلم جا کر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی اور بیعت سے مشرف ہوئے.حضرت مولوی صاحب جماعت احمد یہ شادیوال کے امیر رہے.اور اس دوران نماز فجر کے بعد روزانہ قرآن کریم کا پنجابی زبان میں درس دیتے رہے.آپ قرآن وحدیث اور صرف ونحو کے بہت بڑے عالم تھے.نہایت ہی متقی ، پارسا اور تہجد گزار بزرگ تھے سلسلہ کے ساتھ ایک والہانہ عشق تھا.فرمایا کرتے تھے جب سے میں احمدی ہوا ہر جلسہ سالانہ پر شامل ہوا ہوں.اولاد ا.محمد شفیع صاحب امیر جماعت احمد یہ شادیوال.۲.عبدالغنی مکرم عبد الغنی صاحب ۳ مکرم عبد الرحمن صاحب ۳.80- دو بیٹیاں: ا محترمہ امۃ اللطیف صاحبه ۲- محترمہ امۃ الشریف صاحبه

Page 659

تاریخ احمدیت.جلد 22 644 ۱۹۶۴ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت سال 1964ء اب سلسلہ احمدیہ کے ان تمام خدام اور مخلصین جماعت کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے جو ۱۹۶۴ء میں داغ مفارقت دے گئے.یہ وہ خوش نصیب تھے جنہیں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اور خلفائے کرام سے براہ راست فیضیاب ہونے کی سعادت ملی اور خود ان کے وجود سے ایک عالم منور ہوا اور ہو رہا ہے.چوہدری اللہ دین صاحب آف ادرحمہ ضلع سرگودھا وفات: ۳ جنوری ۱۹۶۴ء جناب ماسٹر ضیاء الدین صاحب ارشد صدرمحلہ دارالبرکات ربوہ تحریر فرماتے ہیں:.مرحوم حضرت مولوی شیر علی صاحب جیسے فرشتہ سیرت انسان کے ذریعہ احمدیت کے نور سے منور ہوئے.آپ اپنی مقامی جماعت کے ممتاز اور مخلص فرد تھے.جماعتی امور اور احباب جماعت کی بہت سی خدمات محض اللہ سر انجام دیتے رہتے تھے.آپ کو کاغذات محکمہ مال میں کافی عبور حاصل تھا.احباب جماعت اور دیگر تمام لوگ آپ سے استفادہ کرتے.لگان میں کسی قسم کی کوئی غلطی کا امکان ان کی موجودگی میں نہ ہوتا.جہاں کہیں دو احمدی بھائیوں میں کوئی غلط نہی یا کشیدگی پاتے تو آپ کا وجود اس ناچاقی کو برداشت نہ کر سکتا اور فی الفور دو بھائیوں میں صلح کرانے میں کامیاب ہو جاتے.اپنی بیماری میں اپنے اکلوتے بیٹے چوہدری اللہ بخش صادق صاحب ( سابق ناظم وقف جدید و صدر عمومی لوکل انجمن احمد یہ ربوہ) کو گاؤں میں بلایا.ایام جلسہ سالانہ قریب تھے باوجودا اپنی تکلیف اور شدت مرض الموت کے اپنے لڑکے اور دیگر افراد خانہ کو شمولیت جلسہ سالانہ کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اصرار سے بھجوا کر سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ساتھ محبت و اخلاص کا آخری ثبوت دے دیا.آپ کی وفات ۳ جنوری ۱۹۶۴ء کو ہوئی.میجر جنرل نذیر احمد صاحب آف دوالمیال وفات: ۲۰ جنوری ۱۹۶۴ء آپ دوالمیال ضلع چکوال کے ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہوئے.تعلیم سے فارغ ہونے کے

Page 660

تاریخ احمدیت.جلد 22 645 سال 1964ء بعد فوج میں ملازم ہو گئے.آپ کو فوج میں ڈائر یکٹ وائسرائے کمیشن دے دیا گیا.۱۹۲۸ء میں آپ نے یو کے سے کنگ کمیشن حاصل کیا.دوسری جنگ عظیم میں آپ نے اٹلی کے محاذ پر خدمات سرانجام دیں.جس کے صلہ میں آپ کو MED تمغہ ملا.۱۹۴۷ء میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو آپ اس وقت بریگیڈیئر کے عہدہ پر فائز تھے.جنوری ۱۹۴۸ء میں آپ کو میجر جنرل بنادیا گیا.پشاور کینٹ میں G.O.C رہے.کچھ عرصہ کشمیر کے محاذ پر بھی رہے.۱۹۵۳ء میں فوج سے ریٹائر ہوئے.۱۹۶۱ ء تا ۱۹۶۴ء لا ہور کا رپوریشن میں چیئر مین ( میئر ) کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں اور ۲۰ جنوری ۱۹۶۴ء کو دل کا دورہ پڑنے سے آپ انتقال کر گئے.۲۱ جنوری ۱۹۶۴ء کو آپ کا جسد خاکی ربوہ لایا گیا.جہاں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور قبر تیار ہونے پر دعا کرائی.دوران ملازمت آپ نے اہل لاہور کی فلاح و بہبود کا خوب کام کیا.اچھے سلوک سے ماتحت ملازمین آپ کے گرویدہ ہو گئے.آپ نے دو شادیاں کیں.پہلی شادی دوالمیال میں اپنے خاندان میں محترمہ بی صاحبہ سے ہوئی.دوسری شادی محترمه اقبال بیگم صاحبه دختر چوہدری شمشاد علی صاحب سے ہوئی جو کہ حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی نسبتی ہمشیرہ تھیں.آپ کی وفات ۲۰ جنوری ۱۹۶۴ء کو ہوئی.اولاد: دولڑ کے اور دولڑ کیاں.ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف موگا وفات: ۲۸ جنوری ۱۹۶۴ء آپ جماعت احمدیہ کے مشہور آنریری مبلغ اور انتھک مجاہد تھے ابتدا آپ تحریک خلافت کے پُر زور پیچرار تھے.جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کے بعد آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مناظرے میں خوب نام پیدا کیا.فی البدیہ تقریر کرنے کا آپ کو خاص ملکہ تھا.تقریر میں ایسی روانی ہوتی تھی کہ سامعین محو حیرت ہو جاتے اور اسے سن کر عش عش کر اٹھتے تھے.آپ کے پاس ہر مذہب وملت خصوصاً عیسائیوں کے متعلق کتابوں کا نادر و نایاب ذخیرہ موجود تھا.حتی کہ بعض پادری صاحبان انہیں دیکھ کر

Page 661

تاریخ احمدیت.جلد 22 646 سال 1964ء بے اختیار کہ اٹھتے کہ آج ہم نے ڈاکٹر صاحب کے طفیل ان کتابوں کی زیارت کی ورنہ ہم تو ان سے بالکل بے خبر تھے.مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی ولادت: ۱۸۹۵ء.بیعت : ۱۹۱۷ء.وفات : ۶ مارچ ۱۹۶۴ء مجاہد امریکہ صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی کے برادر اکبر تھے.مسلسل ۳۵ سال تک تبلیغ کے میدان میں شاندار خدمات سرانجام دیں.تحریک شدھی کے مقابلہ میں پیش ہوتے رہے.صدہا کامیاب مناظرے کئے اور لیکچر دیئے.کلکتہ میں ایک مذاہب عالم کا نفرنس میں شریک ہو کر یادگارلیکچر دیا اور اس موقع پر اہم غیر مسلم افراد تک جماعتی لٹریچر پہنچانے کی بھی توفیق ملی.مثلاً ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور، مسز سروجنی نائیڈو، ڈاکٹر بھنڈارکر ، ڈاکٹر شاشتری، مہاراجہ پردوان وغیرہ.آپ نے متعدد کتابیں بنگالی زبان میں تصنیف فرما ئیں.جن میں حدیث المہدی، بہت مقبول ہوئی.جناب مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی آپ ہی کے صاحبزادے ہیں.ڈاکٹر لعل محمد صاحب لکھنوی (ڈھاکہ) ولادت :۱۸۸۱ء بیعت : ۱۹۱۳ء وفات: ۲ مئی ۱۹۶۴ء آپ کی صاحبزادی محترمہ شاکرہ بیگم صاحبہ کے قلم سے آپ کے تفصیلی سوانح ذیل میں سپرد قرطاس کئے جاتے ہیں:.” میرے والد صو بیدار ڈاکٹر لعل محمد صاحب غالباً ۱۸۸۱ء میں لکھنو کے قریبی قصبہ سبیحہ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب کا نام منصب علی تھا اور آپ کا اصلی نام ولایت علی تھا.مگر چونکہ آپ کی پیدائش کے بعد آپ کی والدہ صاحبہ جلد وفات پا گئیں اس لئے بطور تفاؤل اس علاقہ کے کسی نیک اور معمر بزرگ کے نام پر آپ کا نام لعل محمد رکھ دیا گیا.دوسری والدہ سے آپ کے ایک بھائی اور دو بہنیں تھیں...۱۹۱۳ء میں جب آپ جھانسی چھاؤنی میں تھے.آپ نے احمدیت قبول کی اور قادیان جا کر حضرت مولانا نورالدین صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر خدا تعالیٰ نے ایسی استقامت عطا کی کہ ابتلاؤں اور مصیبتوں میں ذرا نہ ڈگمگائے ، نہ کوئی کلمہ شکایت زبان پر لائے بلکہ قدم آگے ہی آگے بڑھاتے گئے.

Page 662

تاریخ احمدیت.جلد 22 647 سال 1964ء لو ۱۹۱۴ ء میں آپ جنگ عظیم اوّل میں فوج کے ساتھ مختلف محاذوں پر گئے....جنگ ختم ہونے کے بعد واپس آکر قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی دستی بیعت کی.۱۹۳۹ء میں قادیان ہجرت کرنے تک لکھنو میں رہے.آپ کو خدا تعالیٰ نے پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے عطا کئے.پلوٹھی کا بیٹا اور ایک بیٹی عین عنفوان شباب میں داغ مفارقت دے گئے.ایک بچی کم سنی میں فوت ہوئی اور دو بیٹیاں جوانی کی عمر میں ان کی زندگی میں انتقال کر گئیں.والد صاحب نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور لکھنو میں دواخانہ کھول لیا جس میں ایک کمرہ دعوت الی اللہ کے لئے وقف تھا اس میں دینی کتب کی لائبریری تھی.دروازہ پر بڑا سا بورڈ لگا تھا.آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے ۱۹۳۹ء میں ہجرت کر کے مستقل تقسیم ملک تک قادیان ہی میں رہے.کچھ عرصہ نور ہسپتال میں اعزازی طور پر خدمت انجام دی اور فسادات میں خواتین بورڈنگ ہاؤس میں مقیم ہو گئیں تو ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کی ڈیوٹی دیتے رہے.اجازت ملنے پر آخری قافلہ میں براستہ لاہور بہاولپور چلے گئے.ہماری والدہ صاحبہ مئی ۱۹۴۶ء میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.والد صاحب ۱۹۶۴ء میں اپنے بیٹے مکرم محمود الحسن صاحب کے پاس ڈھا کہ گئے اور دوروز نمونیہ سے بیمار رہ کر مئی ۱۹۶۴ء میں وفات پائی.( ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ کے مطابق آپ کی وفات ۲ مئی ۱۹۶۴ء کو بعمر ۸۲ سال ہوئی.ناقل ) ہوئی.بذریعہ ہوائی جہاز آپ کا بیٹا آپ کی نعش کو ربوہ لے کر آیا اور یہاں بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین 87 766 ملک عمر علی صاحب کھوکھر رئیس ملتان بیعت: ۱۹۳۵ ء وفات: ۱۰مئی ۱۹۶۴ء ملک صاحب مرحوم ملتان کے بہت متمول زمیندار اور رئیس خاندان سے تعلق رکھتے تھے.۱۹۳۵ء میں عین جوانی کے عالم میں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.خدمت سلسلہ کا خاص جذبہ رکھنے والے بہت پُر جوش اور فدائی احمدی تھے.آپ کو حضرت سید میر محمد الحق صاحب کی دامادی کا شرف حاصل تھا.۱۹۵۰ء میں کچھ عرصہ تک تحریک جدید میں بطور وکیل التبشیر خدمات سرانجام دیں.کئی سال تک امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع ملتان کے عہدے پر فائز رہے.۱۹۶۴ء کی مجلس مشاورت کے بعد

Page 663

تاریخ احمدیت.جلد 22 648 سال 1964ء نگران بورڈ کی رکنیت کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہوا.آپ ایک بلند پایہ علمی شخصیت تھے اور آپ کی ذاتی اور وسیع لائبریری قدیم وجدید علوم کا خزینہ تھی جو آپ کی وفات کے بعد خلافت لائبریری اور لائبریری جامعہ احمد یہ ربوہ میں منتقل کر دی گئی.آپ کی وفات ۱۰ رمئی ۱۹۶۴ء کو ہوئی.اور ا امئی کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.اولاد: آپ کی حرم اول محترمہ ممتاز الہی صاحبہ سے مندرجہ ذیل اولا د ہوئی: مکرمہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ زوجہ مکرم قاضی منصور احمد صاحب آپ کی حرم ثانی محترمہ سیدہ سیدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب سے مندرجہ ذیل اولا د ہوئی: مکرم ملک فاروق احمد کھوکھر صاحب ، مکرم ملک زبیر احمد کھوکھر صاحب ،مکرم ملک خالد احمد زفر کھوکھر صاحب ( واقف زندگی) محتر مہ امتہ المنعم صاحبہ محترمہ امتہ السلام صاحبہ زوجہ میاں رفیق احمد گوندل صاحب محتر مہ امتہ المومن صاحبه زوجہ نواب مودود احمد خان صاحب امیر ضلع کراچی ، محتر مہ امۃ الشکور صاحبہ آپ کی حرم ثالث محتر مہ مریم بیگم صاحبہ سے مندرجہ ذیل اولا د ہوئی: مکرم طارق علی کھوکھر صاحب، محترمہ طاہرہ صاحبہ زوجہ مکرم فاروق احمد خاں صاحب ڈاکٹر سردار علی صاحب ایم بی بی ایس ولادت : ۱۹۰۰ء.بیعت: پیدائشی احمدی وفات : ۵ جون ۱۹۶۴ء آپ حضرت شیخ عبدالغنی صاحب مرحوم آف بٹالہ بانگر کے سب سے بڑے فرزند تھے.ریٹائرڈ ہونے سے قبل آپ گلگت میں میڈیکل آفیسر تھے.۱۹۵۶ء میں پینشن یاب ہونے کے بعد آپ نے ربوہ میں سکونت اختیار کی اور پھر وفات تک یہیں مقیم رہے.نہایت شریف النفس ، بہت نیک مخلص اور فدائی احمدی تھے.خدمت خلق کا جذ بہ آپ میں بدرجہ اتم پایا جاتا تھا.اولاد (۱) ڈاکٹر بشارت احمد صاحب (۲) شیخ ظفر احمد صاحب 90 (۳) رشید احمد صاحب ( پی.آئی.ڈی.سی.میں انجینئر ) (۴) محمود احمد صاحب (۵) شیخ خلیل احمد صاحب (1) شیخ سعید احمد صاحب

Page 664

تاریخ احمدیت.جلد 22 649 سال 1964ء حاجی میاں تاج محمود صاحب آف چنیوٹ وفات یکم جولائی ۱۹۶۴ء حاجی میاں تاج محمود صاحب آف چنیوٹ محترم سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی کلکتہ کے حقیقی چچا تھے.مکرم حاجی تاج محمود صاحب موصوف اور ان کے بھائی میاں حاجی سلطان محمود صاحب (والد ماجد سیٹھ محمد صدیق صاحب) دونوں کلکتہ میں مل کر کاروبار کرتے تھے اور مذہب اہل حدیث اور دیندار تھے اور دوکان پر اکثر دینی گفتگو جاری رہتی تھی.۱۹۰۲ء میں میاں تاج محمود صاحب کی توجہ احمدیت کی طرف مائل ہونی شروع ہوئی.تو ان کے بھائی میاں سلطان محمود صاحب نے مخالفت کی اور مولوی ثناء اللہ امرتسری کا اخبار اہل حدیث اور رسالہ ” مرقع قادیانی دکان پر منگوانا شروع کر دیا.مگر احمدیت کے موثر دلائل کی وجہ سے حاجی تاج محمود صاحب نے با قاعدہ احمدیت قبول کر لی.اس پر حاجی صاحب موصوف پر برادری کی طرف سے بہت دباؤ ڈالا گیا اور مولوی عبد الجبار غزنوی کے ذریعہ بھی حاجی صاحب موصوف کو احمدیت سے منحرف کرنے کی سعی کی گئی.مولوی عبد الجبار کو حاجی صاحب موصوف نے کہا کہ میں نے تو خدا اور رسول کے فرمان کی بناء پر حضرت مرزا صاحب کی بیعت کی ہے.اگر نہ مانوں تو کل خدا کو کیا جواب دوں گا؟ مولوی عبدالجبار غزنوی نے خانہ خدا میں کھڑے ہو کر مکرم حاجی تاج محمود صاحب سے کہا کہ اس کا میں ذمہ لیتا ہوں تم وہاں یہی عرض کرنا کہ عبدالجبار نے مجھے منع کیا تھا.اس پر حاجی صاحب موصوف نے نہایت سادگی سے کہہ دیا کہ اچھا پھر میں احمدیت سے علیحدہ ہوتا ہوں.اس پر مشہور ہو گیا کہ حاجی صاحب نے توبہ کر لی ہے.پر میاں حاجی تاج محمود صاحب کے بھائی میاں سلطان محمود صاحب ۱۹۰۹ء میں فوت ہو گئے.مکرم حاجی صاحب کے دل میں احمدیت کی چنگاری سلگتی رہی.ایک احمدی بزرگ مکرم شیخ میاں محمد حسین صاحب نے میاں حاجی تاج محمود صاحب کو آیت لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى کی موجودگی اور مولوی عبدالجبار کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی.حاجی میاں تاج محمود صاحب نے ترجمہ 91 قرآن پڑھا ہوا تھا اس لئے یہ بات ان پر اثر کر گئی اور وہ دوبارہ ۱۹۱۱ء میں احمدیت میں داخل ہو گئے.اس پر ان کی برادری میں پھر شور برپا ہوا اور انہیں احمدیت سے متنفر کرنے کی مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی

Page 665

تاریخ احمدیت.جلد 22 650 سال 1964ء اور مولوی ثناء اللہ کے ذریعہ کوشش کی گئی مگر بے سود رہی.بلکہ محترم حاجی میاں تاج محمود صاحب کا سگا بھتیجا ( سیٹھ محمد صدیق بانی کلکتہ ) احمدیت کی آغوش میں آگیا.محترم حاجی صاحب موصی تھے.۱۹۲۹ء میں جائیداد کا حصہ مبلغ ۱۲۰۰ روپے ادا کر دیا.نہایت اخلاص کے ساتھ قادیان جایا کرتے تھے.گھر میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت سلام کہنے کو رواج دیا.چنیوٹ کی مسجد کے روح رواں تھے.مسجد میں بیٹھ کر تلاوت قرآن کریم کرتے صفائی کرتے اور نہایت شوق کے ساتھ خوش الحانی سے دعوت نما ز دیتے تھے.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے.جسے ان کی اولاد نے زندہ رکھا ہوا ہے.آپ کے دو بیٹے مکرم شیخ محمد یعقوب صاحب درویش قادیان اور مکرم میاں محمد اسماعیل صاحب تھے جو آپ کی زندگی میں ہی وفات پاگئے.اور دونوں بیٹیاں بھی ان کی زندگی میں ہی انتقال کر گئیں.92 چوہدری عبدالواحد صاحب سابق ایڈیٹر اصلاح سرینگر ولادت: ۱۵ را پریل ۱۹۰۳ء.وفات: ۸ جولائی ۱۹۶۴ء.۱۹۲۷ء میں جے.وی کا امتحان پاس کر کے مدرسہ احمدیہ کے سٹاف میں شامل ہوئے اور کئی سال تک انگریزی، حساب، سائنس اور اردو پڑھانے کے فرائض سرانجام دیتے رہے.علاوہ ازیں بورڈنگ کی ٹیوٹری اور سکاؤٹنگ کا کام بھی آپ کے سپر د رہا.اپریل ۱۹۳۶ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو اخبار ” اصلاح سرینگر کی ایڈیٹری کے لئے منتخب فرمایا.آپ کی ادارت میں اخبار اصلاح “ نے مسلمانان کشمیر میں زبر دست روح عمل پیدا کر دی.مؤرخ کشمیر محمد دین صاحب فوق نے اپنی کتاب تاریخ اقوام کشمیر جلد دوم صفحہ ۲۸۵ میں ایک نڈر اور متوازن صحافی کی حیثیت سے آپ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور ادارہ اخبار اصلاح کا گروپ فوٹو بھی شامل کتاب کیا.اس زمانے میں آپ نے نہ صرف ریاست کشمیر بلکہ گرہس بلتستان تک کے علاقوں کا پیدل سفر کیا جس کی وجہ سے آپ کو مرد آہن کہا جاتا تھا.قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام کشمیر کے دوران آپ کی شہرت سنی تو آپ کو خاص طور پر شرف ملاقات بخشا اور یہ معلوم کر کے کہ آپ احمدی ہیں اور امام جماعت احمدیہ کی ہدایات کے مطابق کشمیری عوام کی بہبود کے لئے یہ سفر کئے ہیں آپ کو بہت خوشی ہوئی.آپ مسلسل پانچ سال تک کشمیر پریس کانفرنس کے صدر رہے.حالانکہ آپ ہندو مفاد کے خلاف لکھتے تھے اور انہیں برا بھی معلوم ہوتا تھا.۱۹۴۴ء میں جب کشمیر میں جماعت احمدیہ کی صوبائی تنظیم قائم ہوئی تو آپ امیر

Page 666

تاریخ احمدیت.جلد 22 651 سال 1964ء 93 جماعتہائے احمدیہ کشمیر منتخب ہوئے اور چار سال تک امارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے.قیام پاکستان کے بعد آپ آزاد کشمیر حکومت کے پبلسٹی آفیسر مقرر کئے گئے.سردار محمد ابراہیم خان صاحب صدر آزاد جموں و کشمیر اور خواجہ غلام دین صاحب وانی ہوم منسٹر نے آپ کی ملتی خدمات کو سراہا.آپ ۴۸.۱۹۴۷ء میں روز نامہ الفضل قادیان و لاہور کے مینیجر بھی رہے.تقسیم ہند کے بعد 8MB خوشاب میں آگئے.آپ موصی تھے لیکن آپ کی تدفین خوشاب میں ہی ہوئی.آپ کے بھتیجے مکرم منیر احمد فرخ صاحب امیر ضلع اسلام آباد ہیں.محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا رحمت علی صاحب 94 ولادت : ۱۹۰۱ء.بیعت : پیدائشی احمدی.وفات: ۲۱ جولائی ۱۹۶۴ء.آپ خاندان حضرت مسیح پاک میں خالہ عائشہ کے نام سے معروف تھیں.مولانا رحمت علی صاحب سابق مبلغ انڈونیشیا کی بیوی ، حضرت بابا محمد حسن صاحب واعظ ( جن کو اللہ تعالیٰ نے سب سے اول وصیت کرنے کی سعادت بخشی اور جن کا وصیت نمبرا تھا) کی بہو اور حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی (جن کا شمار ۳۱۳ اصحاب میں ہے) کی صاحبزادی اور حضرت مولوی محمد الدین صاحب سابق مبلغ لندن وامریکہ و ناظر تعلیم کی نسبتی بہن تھیں.مرحومہ کے خاوند اپنی زندگی کے قریباً نصف سے زیادہ عرصہ تک اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے اپنے گھر سے باہر خدمت دین بجالاتے رہے.اس لمبے عرصہ کے دوران میں مرحومہ نے نہایت صبر، استقلال اور عفت شعاری سے اپنی زندگی بسر کی.اور ہر وقت خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو محو رکھا.اکثر بچوں اور عورتوں کو قرآن کریم پڑھانا، لجنہ اماءاللہ کے زیر نگرانی بہنوں سے چندوں کی وصولی اور دوسرے نیک کاموں میں مصروف رہنا ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی.خدمت گزاری کا پہلو بے حد نمایاں تھا جس کے ذریعے مخلوق خدا کی ہمدردی میں اکثر منہمک رہتی تھیں.دوسرے ناداروں کی خفیہ مدد کے لئے تیار.دعا ئیں کرنے میں خاص شغف تھا.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم نے ۱۹۴۲ء میں اپنی مشہور کتاب ” مرکز احمدیت قادیان میں احمدی خواتین کی قربانیاں“ کے زیر عنوان صفحہ ۳۹۸ پر آپ کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:.”جناب مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا ، سوماٹرا کی اہلیہ ہیں اور منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ایک پرانے صحابی کی بیٹی ہیں اور بابا محمد حسن صاحب واعظ ایک پرانے صحابی کی بہو ہیں.مولوی 95

Page 667

تاریخ احمدیت.جلد 22 652 سال 1964ء صاحب کی زندگی کا بہت بڑا حصہ جاوا، سوماٹر اوغیرہ میں تبلیغ میں گزرا ہے اور اب جنگ کی وجہ سے چونکہ ڈاک وغیرہ کا کوئی سلسلہ نہیں رہا اور یہ جزائر جاپانیوں کے قبضہ میں چلے گئے ہیں وہ عدم پتہ ہیں.ان کو نہ کوئی خرچ بھیجا جا سکتا ہے اور نہ کوئی ان کی خبر آسکتی ہے.بہن عائشہ صاحبہ نے جوانی کی عمر کا بہترین حصہ نہایت پاکبازی کے ساتھ گزارا ہے اور اپنے خاوند کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے ہمیشہ بہادری اور وفاداری کے ساتھ بھیجا.اس کے سوا بھی بہن صاحبہ سلسلہ کے کاموں میں بڑی دلچسپی لیتی ہیں.چندوں کا جمع کرنا اور سلسلہ کی تحریکوں میں حصہ لینا ان کا خاص خاصہ ہے.سیٹھ عبدالحئی صاحب یادگیری ولادت: ۱۹۰۰ ء وفات: ۲/اگست ۱۹۶۴ء آپ تقریباً ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے.الحاج حضرت سیٹھ حسن صاحب کے فرزند اکبر تھے.مرحوم اپنی پوری زندگی میں اپنے مخلص ترین باپ کے نقوش قدم پر گامزن رہے اور جانشینی کا حق ادا کر دیا.اور یہی رنگ اپنی اولاد میں منتقل کر دیا.جناب سیٹھ صاحب زندگی بھر جماعت احمد یہ یاد گیر کے امیر رہے.جو جنوبی ہند کی بڑی جماعتوں میں شمار ہوتی ہے.آپ کی قیادت میں جماعت یاد گیر نے ہر اعتبار سے ترقی کی اور آپ نے مسلسل توجہ، کوشش و نگرانی سے جماعت یاد گیر کا دینی ماحول قابل رشک بنا دیا.آپ نے یاد گیر اور قریبی غریب جماعتوں میں مرکزی نمونہ کے مطابق سالانہ جلسوں کے انعقاد کا سلسلہ کمال استقلال سے جاری رکھا.آپ نہایت عمدہ لیکچرار تھے آپ کا خطاب بہت مؤثر ، عام فہم اور دلنشین ہوتا تھا.آپ کو صدرانجمن احمد یہ قادیان کے ممبر ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.سیٹھ صاحب مرحوم اپنی نیکیوں ،تقویٰ اور مشفقانہ مہمان نوازی کے باعث نہ صرف اپنے خاندان اور جماعت بلکہ اغیار میں بھی مقبول اور ہر دلعزیز وجود تھے.خضر سلطانہ صاحبہ اہلیہ بابومحمد یونس صاحب دہلوی بیعت: دسمبر ۱۹۲۸ء تاریخ وفات : ۲۲ جولائی ۱۹۶۴ء آپ ایک نہایت مخلص احمدی خاتون تھیں جنہوں نے ربوہ میں واقع اپنا مکان وقف کر دیا اور اس کے ایک حصہ کو مسجد کے لئے مخصوص کر دیا.آپ کی وفات کے بعد اس حصے پر مسجد بنائی گئی جو مسجد خضر سلطانہ کے نام سے معروف ہے اور ربوہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے واقع ہے.آپ کے اخلاص و

Page 668

تاریخ احمدیت.جلد 22 653 سال 1964ء وفا کا ذکر کرتے ہوئے محترمہ ظفر جہاں بھٹی صاحبہ آف کراچی بیان کرتی ہیں کہ :.عاجزه نومبر ۱۹۴۸ء میں کراچی آئی اور تھیو سافیکل ہال بندر روڈ کے قریب ہی ایک مکان میں رہائش پذیر ہوئی.دو تین روز بعد خضر سلطانہ جو چوتھی منزل پر مقیم تھیں ملنے آئیں اور اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ محمد یونس صاحب (وفات یافتہ ) کی اہلیہ ہیں جو محترم با بونذیر احمد صاحب ( وفات یافتہ ) امیر جماعت احمد یہ دہلی کے برادر نسبتی تھے اور وہ ۱۹۴۷ء کے فسادات میں غالبا اللہ کی راہ میں جان دے گئے.غالبا یوں کہ کسی کام سے باہر گئے تھے اور واپس نہ آئے باوجو د تلاش کے کچھ پتہ نہ لگ سکا تو قیاس کر لیا گیا ہے کہ شہید ہو گئے.وہ خود چند ماہ پیشتر اپنی والدہ اور بھائیوں کے ہمراہ پاکستان آگئی تھیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کی اکیلی احمدی خاتون ہیں.جبکہ ان کی والدہ اور بھائی حد درجہ مخالف ہیں.شوہر بھی احمدی تھے مگر ان کی وفات کے بعد وہ تنہا رہ گئی تھیں.فطری طور پر مجھ سے مل کر انہیں بہت مسرت ہوئی.میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت سادہ اور حلیم ہیں.انہوں نے میرے بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کی پیشکش کی جو میں نے فوراً قبول کر لی.پھر جتنا عرصہ میں وہاں رہی وہ یہ خدمت بخوشی انجام دیتی رہیں.چھ ماہ بعد میں نے رہائش گاہ تبدیل کر لی مگر ہماری محبتیں اور اپنائیت قائم رہی اور باوجود کمزوری صحت کے مجھ سے ملنے ہر تیسرے چوتھے ماہ پابندی سے آتی رہیں.اور اپنے میاں کی قبولیت احمدیت کا واقعہ سناتے ہوئے بہت جذباتی ہو جاتیں انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے گھر میں چونکہ ہم دونوں کے علاوہ کوئی احمدیت سے واقف نہ تھا اس لئے ہم نے اپنے جانماز تر کر دئے اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتابیں دو دو تین تین لالٹین جلا کر پڑھا کرتے.یہاں تک کہ ہم نے حق کو پالیا اور دسمبر ۱۹۲۸ء میں با قاعدہ بیعت کر لی.آپ اپنے حال میں بے حد قانع اور مطمئن تھیں اور خدا کے سوا کسی پر انحصار کی قائل نہ تھیں.دعوت الی اللہ کا بے حد شوق تھا.اللہ تعالیٰ نے اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا مگر کبھی شکوہ زبان پر نہ لائیں.نہایت دعا گو تھیں میری درخواست پر میرے لئے اولا دنرینہ کے لئے دعا کی اور خواب کی بناء پر دو بیٹوں کی خوشخبری دی خدا تعالیٰ نے مجھے جڑواں بیٹوں سے نوازا.۱۹۵۳ء میں آپ کے بھائیوں نے کاروبار میں لگانے کے لئے آپ کا زیور گروی رکھ کر روپیہ حاصل کیا انہوں نے زیور تو دے دیا مگر ہمہ وقت یہ احساس رہتا کہ زیور کسی دینی مصرف میں خرچ ہوتا.۱۹۶۲ء میں بہت منت سماجت سے زیور وا پس ملا تو بہت دعا کرتیں کہ اس کا بہترین مصرف نکل آئے.خدا تعالیٰ نے ان کی رہنمائی کی اور خیال آیا کہ دارالرحمت

Page 669

تاریخ احمدیت.جلد 22 654 سال 1964ء وسطی ربوہ میں حضرت فضل عمر ( اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ سے راضی رہے ) کے عطا کردہ پلاٹ پر جو مکان بنوایا ہے اس کے ایک حصہ میں خدا کا گھر بنوا دوں اور مکان کے کرایہ سے مسجد کا خرچ نکلتا رہے.وفات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنا مکان وقف کرنے اور اس کے ایک حصہ میں مسجد بنوانے کی خواہش ظاہر کی.صدر انجمن احمدیہ نے اسے منظور کر لیا.پہلے ایک کچا کمرہ بنوایا گیا.جب اسے پختہ کرنے کا موقعہ آیا تو آپ کی خواہش کا علم ہونے پر حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ نے ۱۹۶۹ء میں حضرت امام جماعت الثالث کے ارشاد پر اس کی بنیاد رکھی.یہ چھوٹی سی سادہ مگر پُر وقار مسجد ریلوے اسٹیشن کے بالکل قریب ہر آنے جانے والے کو یہ یاد دلاتی ہے کہ ایک فنا فی اللہ خاتون اپنے زیورات کا استعمال اس طرح بھی کر سکتی ہے کہ زمین پر خدا کا گھر تعمیر کروا کے ثواب دارین حاصل کرے.لجنہ کراچی کو آپ کی خدمات لمبے عرصے تک حاصل رہیں.حلقہ سعید منزل (جس میں اس وقت رام سوامی کا علاقہ بھی شامل تھا) کی منتخب صدر تھیں.وفات تک جماعتی کاموں کی انجام دہی احسن طریق پر کرتی رہیں.۲۲ جولائی ۱۹۶۴ء کو وفات پائی آپ کے بھائیوں نے کراچی میں دفن کرنے پر اصرار کیا مگر محترم مولوی عبدالمجید صاحب اور محترم مولانا عبدالمالک خاں صاحب نے بڑی حکمت سے معاملات کو سلجھایا اور تکفین و تدفین کا کام سرانجام دیا.آپ موصیبہ تھیں ربوہ کی سرزمین پر آخری آرام گاہ نصیب ہوئی.97- میر عبدالقادر صاحب امیر جماعت احمدیہ تهران (ایران) وفات: ۲۲ اگست ۱۹۶۴ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت ملک غلام حیدر تلونڈی را ہوالی ضلع گوجرانوالہ کے فرزند تھے.۱۹۴۵ء میں زندگی وقف کرنے کے بعد قریباً پندرہ سال دینی خدمات بجالاتے رہے.اسی دوران کچھ عرصہ جماعت احمدیہ کراچی کے ترجمان صلح میں ایڈیٹر کے فرائض بھی سرانجام دیئے.بعد ازاں تہران کے انگریزی روز نامہ اطلاعات میں بحیثیت مترجم ملازمت اختیار کی.آپ کو فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کی خاص مہارت حاصل تھی.آپ تہران میں پانچ سال قیام فرمار ہے اور پریذیڈنٹ کی حیثیت سے نہایت درجہ سرگرمی اور اخلاص سے خدمات بجالاتے رہے.

Page 670

تاریخ احمدیت.جلد 22 655 سال 1964ء آپ کی اہلیہ محترمہ سلیمہ میر صاحبہ سابق صدر لجنہ اماءاللہ کراچی کے غیر مطبوعہ مکتوب (بحضور حضرت خلیفہ امسیح الرابع مورخہ جولائی ۱۹۹۹ء) میں میر عبدالقادر صاحب کی اولاد کی حسب ذیل تفصیل دی گئی ہے.صدیقہ صاحبہ.رشیدہ صاحبہ (بریڈ فورڈ ) - طیبہ صاحبہ.مریم صاحبہ (مانچسٹر) مبشرہ صاحبہ.نعیمہ صاحبہ (امریکہ).بشری افتخار صاحبہ ( کراچی ).ڈاکٹر رضوان قادر صاحب (امریکہ).امة اللطیف صاحبہ بیگم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ولادت : ۱۹۰۲ء وفات: شب ۱۷/ ۶ استمبر ۱۹۶۴ء حضرت مرزا محمد شفیع صاحب دہلوی سابق محاسب صدر انجمن احمد یہ قادیان کی سب سے بڑی صاحبزادی ،سید نا حضرت مصلح موعود کی خوشدامن اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ( ام متین ) کی والدہ ماجدہ تھیں.جو ۱۹۰۲ء میں بمقام دہلی پیدا ہوئیں.حضرت اماں جان کی تحریک پر ۱۹۱۷ء میں حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کے عقد میں آئیں.جبکہ آپ پانی پت کے سول ہسپتال میں اسسٹنٹ سرجن تھے.جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی نے آپ کی مفصل سوانح عمری سپر و قلم فرمائی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں :.حضرت استاذی المحترم ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب سے راقم الحروف کا تعلق ۱۹۱۰ء سے لے کر جبکہ وہ پانی پت میں اسٹنٹ سرجن ہو کر آئے.آخر وقت تک جبکہ ۱۸ جولائی ۱۹۴۷ء کو ان کا قادیان میں وصال ہوا نہایت گہرا رہا ہے.غالباً کسی شخص نے ان کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا ہوگا جیسا اس خاکسار نے دیکھا ہے.میں چشم دید گواہی کے طور پر کہتا ہوں کہ حضرت ممانی جان امتۃ اللطیف بیگم صاحبہ ) نے حضرت میر صاحب کے ہاں اپنی خوش اخلاقی ، عالی ظرفی ، پاک باطنی، ہمدردی، خلوص ، محبت ، مستعدی ، لیاقت اور خوش سلیقگی کی بدولت ان کے گھر کونمونہ بہشت بنا دیا “.نیز تحریر فرماتے ہیں:.” جب وہ بیاہی ہوئی ۱۹۱۷ ء میں پانی پت میں آئیں اور انہوں نے اپنے مقدس شوہر حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کا محبت اور الفت کا تعلق میرے ساتھ دیکھا تو خود بھی مجھ سے بے انتہا شفقت کے ساتھ پیش آنے لگیں.یہ شفقت و رحمت حضرت میر صاحب کے انتقال (۱۹۴۷ء) کے بعد ختم نہیں ہوگئی بلکہ اس تعلق کو انہوں نے نہایت وفاداری کے ساتھ اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک نبھایا.اور وضع داری اور اعلیٰ اخلاق کا ایک ایسا درجہ کا نمونہ دکھایا کہ اس کی مثالیں اور نظیر میں آج کل کے زمانہ

Page 671

تاریخ احمدیت.جلد 22 656 سال 1964ء میں عنقا ہیں.کچھ میرے ہی ساتھ خاص نہیں.ان کے دل میں ہمدردی، انسانیت، رحم دلی ، خدا ترسی، مہمان نوازی اور خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ جب حضرت میر محمد اسمعیل صاحب پانی پت کے شفا خانہ میں اسٹنٹ سرجن تھے تو ایک غریب اور نادار عورت سخت بیمار ہوکر شفا خانہ میں داخل ہوئی.جس کی گود میں تین ماہ کا بچہ تھا اور اس کے باپ کا انتقال ہو چکا تھا.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب نے اس عورت کے علاج معالجہ میں ہر چند کوشش کی مگر عورت جانبر نہ ہوسکی.اور مرگئی.معصوم بچے کو گود میں اٹھا کر حضرت میر صاحب گھر میں لائے اور حضرت ممانی جان سے فرمایا کہ اس یتیم اور بے کس اور لاچار بچے کی پرورش کی پوری ذمہ داری اگر تم اٹھا سکو تو اسے رکھ لو.غیر کے بچے کو اور پھر ایک یتیم بیکس غریب اور لاوارث بچے کو پالنا اور پرورش کرنا بہت ہی مشکل کام ہے مگر حضرت ممانی جان کا حساس اور دردمند دل فوراً تڑپ اٹھا اور انہوں نے بغیر ایک لمحہ تو قف کے فوراً اٹھ کر حضرت میر صاحب کی گود میں سے بچے کو لے لیا اور فرمایا ہاں بڑی خوشی کے ساتھ محض خدا کی خوشنودی کے لئے اس بچے کی پرورش کروں گی اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق دے.حضرت ممانی جان نے جو کچھ زبان سے کہا تھا اپنے عمل سے اس سے زیادہ کر کے دکھا دیا.اپنے بچوں کی طرح اس کی پرورش کی اور اسے نہایت ناز و نعمت سے پالا.اپنے بچوں میں اور اس میں کوئی فرق نہ رکھا.بڑا ہوا تو اسے پڑھنے بٹھا دیا.اس کے متعلق ان کے بڑے بڑے ارادے تھے فرمایا کرتی تھیں کہ یہ لکھ پڑھ کر فارغ ہو جائے گا تو کسی اچھی جگہ اس کی شادی کروں گی اور اس کے لئے قادیان میں ایک الگ مکان بنوا دوں گی.حضرت ممانی جان نے سارا گھر اس کے ہاتھ میں دے رکھا تھا.اور وہ جس طرح چاہتا تھا کرتا تھا.مگر افسوس ہے کہ اتنی محبت اور اتنے اعلیٰ سلوک کے باوجود کریم ( بچہ کا نام ) حضرت ممانی جان کے پاس نہ رہا اور ایک روز میز پر ایک رقعہ لکھ کر گھر سے نکل گیا.کچھ دن بعد پتہ لگا کہ وہ فلاں شہر میں دیا سلائیاں بازار میں بیچ کر اپنا گزارہ کر رہا ہے حضرت ممانی جان نے ہر چند ا سے بلانے کی کوشش کی مگر وہ نہ آیا.لیکن اس کے باوجود مستقل طور پر قادیان آجانے کے بعد بھی حضرت ممانی جان کی یہ توقع رہی کہ شاید کریم واپس آجائے....حضرت میر صاحب کے پانی پت سے جانے کے بعد جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا رہا.میں اکثر مقامات پر ان کے پاس جا کر کئی کئی دن رہتا رہا.ہر جگہ حضرت ممانی جان مجھ سے بے حد خاطر مدارت

Page 672

تاریخ احمدیت.جلد 22 657 سال 1964ء کے ساتھ پیش آئیں.ایک مرتبہ حضرت میر صاحب رہتک میں سول سرجن تھے تو میں ان کے پاس گیا.مگر نہ اس سے پہلے میں کبھی رہتک گیا تھا اور نہ میں نے اپنے آنے کی اطلاع حضرت میر صاحب کو دی تھی خیر اسٹیشن رہتک پر اتر کر میں نے ایک ٹانگہ والے سے کہا کہ ” مجھے سول سرجن کی کوٹھی پر لے چل رات کا وقت تھا کوئی دس بجے ہوں گے خیر ٹانگے والا کوٹھی پر لے آیا.اور میں نے اسے پیسے دے کر رخصت کر دیا.کوٹھی کے باہر کا دروازہ بند تھا.میں نے چوکیدار کو آواز دی.وہ سو گیا تھا.آنکھیں ملتا ہوا آیا.اور پوچھنے لگا کہ تم کون ہو اور کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا دروازہ کا قفل کھول.پوچھنے لگا تم کس کے پاس آئے ہو؟ میں نے کہا سول سرجن کے پاس‘.چوکیدار نے کہا ”سول سرجن تو رخصت پر قادیان گئے ہوئے ہیں.میں نے کہا بیگم صاحبہ تو ہوں گی.کہنے لگا مگر وہ تو سو گئی ہیں.میں یہ سن کر بڑا پریشان ہوا اور سوچنے لگا کہ اس اجنبی شہر میں رات کہاں گزاروں اور کہاں جاؤں.اور کوئی چارہ کار نہ دیکھ کر میں نے چوکیدار سے کہا کہ جا کر بیگم صاحبہ کو جگا اور ان سے کہہ کہ محمد اسمعیل پانی پت سے آیا ہے.چوکیدار نے جا کر حضرت ممانی جان کو جگایا.حضرت ممانی جان فوراً اٹھ بیٹھیں.اور چوکیدار سے فرمایا ” پہلے جلدی سے ان کو کمرہ میں بٹھا اور فور اواپس آ.پھر آپ نے چوکیدار کے ہاتھ پانی کا لوٹا، صابن اور تولیہ بھیجا کہ میں ہاتھ منہ دھو کر تازہ دم ہو جاؤں.اور اس کے بعد چوکیدار نے میرے لئے بستر بھی لا کر پلنگ پر بچھا دیا.مجھے یہ دیکھ کر بے انتہا حیرت ہوئی.اتنے میں میں نے اطمینان سے وضو کیا.تولیے سے ہاتھ منہ پونچھا اور نماز عشاء کے لئے کھڑا ہونا ہی تھا کہ حضرت ممانی جان نے میرے لئے چوکیدار کے ہاتھ کھانا بھیج دیا.انڈے تلے ہوئے تھے اور گرم گرم روٹیاں تھیں.آج تک میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اتنی تھوڑی دیر میں حضرت ممانی جان نے یہ کھانا کس طرح تیار کر کے بھیج دیا.رات میں بڑے آرام سے سویا.صبح سویرے میرے لئے نہایت پر تکلف ناشتہ آ گیا اور ممانی جان نے کہلا بھیجا کہ میر صاحب ایک ہفتہ بعد واپس آئیں گے آپ یہیں ٹھہریں.جب وہ آجائیں تو پھر ان سے مل کر جائے گا.مگر حضرت میر صاحب کی غیر موجودگی میں وہاں میں ایک ہفتہ ٹھہر کر کیا کرتا.اسی دن حضرت ممانی جان سے معذرت کر کے واپس چلا آیا.افسوس ایسی شفقت اور ایسی مہمان داری کے نمونے اب کہاں ملتے ہیں.نہ معلوم حضرت ممانی جان کتنی بھلائیاں اور خوبیاں اپنے ساتھ لے گئیں.

Page 673

تاریخ احمدیت.جلد 22 658 سال 1964ء شیخ محمد اسماعیل صاحب آخر میں لکھتے ہیں کہ :.جو قلق اور رنج مجھے حضرت ممانی جان جیسی فرشتہ سیرت خاتون کی رحلت کا ہے اس کا زخم کبھی مندمل نہیں ہوگا.ہمیشہ ان کے احسانوں، ان کی عنایتوں اور ان کی شفقتوں کو یاد کروں گا اور خون کے 66 آنسو روؤں گا.“ مولا نا محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زودنویسی ولادت : ۲۷ جنوری ۱۹۰۸ء وفات: ۵/اکتوبر ۱۹۶۴ء آپ کی ولادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک کے آخری سال ۲۷ /جنوری ۱۹۰۸ء کو اپنے ننھیال موضع گڑھی کالا ضلع سرگودھا میں ہوئی.اخبار بدر نے ۷ارفروری ۱۹۰۸ء کی اشاعت میں لکھا:.برادر فخر الدین صاحب ساکن میانی حال ملازم چھاؤنی لاہور کے ہاں خدا تعالیٰ نے فرزند نرینہ عطا فرمایا ہے جس کا نام برادر موصوف نے بشارت اللہ کے مطابق محمد یعقوب رکھا ہے.اللہ تعالیٰ مولود مسعود کو نیک بناوے اور لمبی عمر صحت و عافیت کے ساتھ عطا کرے“.مولانا صاحب سلسلہ کے ان خوش نصیب اور نامور خدام میں سے تھے جنہیں خلافت ثانیہ میں ایک طویل عرصے تک سلسلہ کی بیش بہا خدمات کی توفیق ملی.آپ نے ۱۹۲۹ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.۱۹۳۰ء میں آپ روز نامہ الفضل کے اسٹنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے.اس حیثیت میں آپ نے مسلسل پندرہ سال تک کام کیا.اس عرصہ میں آپ کے قلم سے اخبار الفضل میں بہت سے بلند پایہ علمی مضامین شائع ہوئے.۱۹۳۱ء سے آپ نے سید نا حضرت مصلح موعود کے خطبات اور تقاریر کو قلمبند کرنا شروع کر دیا.اور ۱۹۶۴ء تک چونتیس سال کے طویل عرصہ میں آپ نے حضور کے ہزاروں پُر معارف خطبات، تقاریر مجلس عرفان کے ملفوظات ، قرآن مجید کے درس تفسیر کبیر کے نوٹس اور مجلس مشاورت کی رپورٹیں قلمبند کر کے آنے والی نسلوں کے لئے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا.جو ایک نا قابل فراموش کارنامہ ہے.آپ عہد حاضر کے منفرد اور بے مثال زود نو لیس تھے جنہوں نے زود نویسی کے فن کو نقطہ معراج تک پہنچا دیا.۱۹۴۵ء میں زود نویسی کا مستقل شعبہ قائم ہوا تو حضور نے آپ ہی کو اس شعبہ کا انچارج مقرر فرمایا.آپ کو اس فن میں اس قدر حیرت انگیز مہارت حاصل تھی کہ حضور نے آپ کے کام کو سراہتے اور سند قبولیت سے نوازتے ہوئے فرمایا:.

Page 674

تاریخ احمدیت.جلد 22 659 سال 1964ء حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر صرف مولوی محمد یعقوب صاحب ہی اس وقت کام کر رہے ہیں.جن کو خدا تعالیٰ نے قدرتی طور پر زود نویسی کا ملکہ عطا کیا ہوا ہے اور جو اکثر خطبات اور ڈائریاں وغیرہ نہایت صحیح لکھتے ہیں.ان کے لکھے ہوئے مضمون کے متعلق میرا ذہن یہ تو تسلیم کر سکتا تھا کہ کسی بات کے بیان کرنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے مگر میرا ذہن یہ تسلیم نہیں کر سکتا تھا کہ انہوں نے کسی بات کو غلط طور پر تحریر کیا 100-4 قبل ازیں حضور نے فرمایا:.” خطبہ لکھنا کوئی معمولی کام نہیں.بلکہ اس شخص پر جو خطبہ لکھ رہا ہو بہت بڑا بوجھ ہوتا ہے.گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ خطبہ ہوتا ہے.اور جب اتنا لمبا خطبہ پڑھا جاتا ہے تو اس شخص کی حالت بہت ہی قابل رحم ہوتی ہے جو اس وقت خطبہ لکھ رہا ہوتا ہے.وجہ یہ کہ بولنے میں انسان کافی تیز ہوتا ہے مگر لکھنے میں اتنی تیزی نہیں ہوسکتی.پھر مزید دقت یہ ہے کہ اردو کا کوئی شارٹ ہینڈ نہیں.اس وجہ سے خطبہ نویس کو لفظاً لفظاً خطبہ لکھنا پڑتا ہے.اور اس پر اس کی اس قدر محنت اور طاقت خرچ ہوتی ہے کہ خطبہ لکھنے کے بعد بجائے اس کے کہ لوگ اس پر اعتراض کریں وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ لوگ اس کی انگلیاں دبائیں.پھر اس کے بعد وہ خطبہ ۲۴ گھنٹہ کی اور محنت چاہتا ہے کیونکہ وہ خطبہ جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں دیا جاتا ہے چوبیس گھنٹوں کی محنت کے بعد صاف ہوتا ہے.اس کے بعد وہ میرے پاس درستی کے لئے آتا ہے اور میں اس پر دو گھنٹے سے لے کر چھ گھنٹے تک وقت صرف کرتا ہوں.اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس غریب کا کیا حال ہوتا ہو گا.جو تقریر خطبہ کے ساتھ ساتھ الفاظ لکھتا چلا جاتا ہے.اور پھر بعد میں ایک خاصی محنت کر کے اسے صاف کرتا ہے.بعض دفعہ ساٹھ ساٹھ صفحوں کا خطبہ بھی ہوتا ہے اور یہ تمام خطبہ وہ پنسل کے ساتھ جلدی جلدی لکھتا ہے.اب ایک طرف پنسل کا لکھا ہوا ہوتا ہے.دوسری طرف جلدی میں لکھا ہوا ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی جگہ اپنے لکھے ہوئے الفاظ اس سے پڑھے نہیں جاتے.اور اسے سوچنا پڑتا ہے کہ یہ کیا لفظ ہے.پھر مضمون کے تسلسل اور ربط کے لحاظ سے جو لفظ زیادہ صحیح معلوم ہو وہ اسے لکھنا پڑتا ہے.میرے

Page 675

تاریخ احمدیت.جلد 22 660 سال 1964ء پاس جو خطوط آتے ہیں ان پر ہمیشہ میں قلم سے جواب لکھ دیا کرتا ہوں.مگر میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ میرے قلم سے لکھے ہوئے الفاظ دفتر والوں سے نہیں پڑھے جاتے.اور وہ میرے پاس آکر پوچھتے ہیں کہ یہ آپ نے کیا لکھا ہے.اس وقت عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ اپنا لکھا ہوا مجھ سے بھی نہیں پڑھا جاتا.حالانکہ میں نے وہ اس قدر جلدی میں نہیں لکھا ہوتا.مگر خطبہ تو شروع سے آخر تک پنسل سے لکھا جاتا ہے.پس اس کے پڑھنے اور صاف کر کے لکھنے میں انہیں بہت بڑی محنت کرنی پڑتی ہے.اتنی بڑی محنت کے بعد جب خطبہ نمبر شائع ہوتا ہے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس میں الفضل والوں کا کیا کام ہے.کچھ بھی نہیں.اور اس طرح خیال کر لیا جاتا ہے کہ جس دن انہوں نے خطبہ شائع کیا ہے اس دن وہ بالکل نکھے اور فارغ رہے ہیں.حالانکہ خطبے کا دن خطبہ لکھنے والے کارکن کا سب سے زیادہ محنت کا دن ہوتا ہے.فن زود نویسی کے علاوہ حوالہ جات تلاش کرنے کا آپ کو زبر دست ملکہ حاصل تھا.جس کا پہلی بارانکشاف اس وقت ہوا جب آپ حضرت مصلح موعود کے خطبات قلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اشاعت کے موقعہ پر اسی مضمون کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی اہم تحریر بھی خطبہ نمبر کے پہلے صفحے پر زیب قرطاس کر دیتے تھے.جسے پڑھ کر قارئین عش عش کر اٹھتے تھے.حضرت مصلح موعود نے آپ کی اس عظیم الشان خدمت پر درج ذیل الفاظ میں اظہارِ خوشنودی فرمایا:.66 الفضل کے پہلے صفحہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات دیئے جاتے ہیں.اب بادی النظر میں ایک ایسا شخص جس نے حوالجات نکالنے میں کبھی محنت سے کام نہیں لیا.خیال کر لیتا ہے کہ یہ کونسی بڑی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی کتاب یا الحکم یا بدر کا کوئی فائل اٹھایا اور اس میں سے ایک عبارت نقل کردی.حالانکہ اس میں بہت بڑی محنت اور جد وجہد سے کام لیا جاتا ہے.بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ جس مضمون کا خطبہ ہوتا ہے عین وہی مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر سے نکال کر خطبہ نمبر کے پہلے صفحہ پر رکھ دیا جاتا ہے.اور یہ اتنا قیمتی کام ہے کہ میں اسے خطبہ سے بھی زیادہ اہم سمجھا کرتا ہوں.اور بعض دفعہ جب میں دیکھتا

Page 676

تاریخ احمدیت.جلد 22 661 سال 1964ء ہوں کہ خطبہ کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات نکالے گئے ہیں تو میں بے اختیار کہہ اٹھتا ہوں کہ جس رنگ میں یہ حوالہ نکالا گیا ہے میں تو اسے خدا کا فضل سمجھتا ہوں.خطبہ میں آج پڑھتا ہوں مگر خطبہ کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر جو سالہا سال پہلے کی ہوتی ہے نکال کر سامنے پیش کر دی جاتی ہے.اور یہ ایسا کام ہے جو بہت ہی قابل تعریف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سو کے قریب کتابیں ہیں.پھر الحکم اور بدر کے بیسیوں فائل ہیں.ان تمام مجموعہ کتب میں سے خطبہ کے مضمون کے عین مطابق حوالہ نکال لینا ایک ایسی خوبی ہے جس کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم ہے.مجھے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت سے علوم عطا فرمائے ہیں.اور کئی قسم کے فنون میں میں ملکہ رکھتا ہوں.مگر بعض دفعہ اور مجالس میں بھی میں اس کا اظہار کر چکا ہوں کہ جس رنگ میں یہ شخص حوالے نکالتا ہے یہ ایک ایسا کمال ہے کہ اس پر مجھے رشک آتا ہے.مگر معترض صاحب نے سمجھا کہ شاید یہ کام آپ ہی آپ ہو جاتا ہے.حالانکہ حوالہ جات نکالنے اور پھر مضمون کے مطابق حوالہ جات نکالنے میں بہت بڑی محنت صرف ہوتی ہے.یہی دیکھو قرآن کریم کی کئی کا پیاں چھپی ہوئی موجود ہیں مگر بعض دفعہ ایک ایک آیت نکالنے کے لئے دو دو گھنٹے لگ جاتے ہیں.جلسہ سالانہ پر میں زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے تقریر کرتا ہوں مگر وہ تقریر ایک لمبی تحقیق کا نتیجہ ہوتی ہے.اس دفعہ مجھے نوٹ لکھنے کے لئے فرصت نہیں ملتی تھی.میں نے اس کا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے ذکر کیا تو وہ ہنس کر کہنے لگے.میں نے تو دیکھا ہے.جب حضور کو فرصت نہ ملے اس وقت خدا تعالیٰ کی خاص تائید ہوتی ہے.چنانچہ واقعہ میں ایسا ہوا کہ جب میں نوٹ لکھنے بیٹھا جس کے لئے بہت سے حوالوں کی ضرورت تھی.تو وہ حیرت انگیز طور پر جلد جلد نکلتے گئے.بعض دفعہ میں کتاب کھولتا تو اس کا وہی صفحہ نکل آتا جس کی مجھے ضرورت ہوتی.حتی کہ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ بعض حوالہ جات کی ضرورت پیش آتی مگر میرا ذہن ادھر نہ جاتا تھا.کہ وہ حوالہ جات کس کتاب میں سے ملیں گے.ارادہ تھا کہ بعض اور دوستوں کو بلا کر حوالہ جات کی تلاش کا کام سپر د کروں.کہ اتفاقاً

Page 677

تاریخ احمدیت.جلد 22 662 سال 1964ء کسی اور کتاب کی تلاش کے لئے میں نے کتابوں کی ایک الماری کھولی.اس میں چند کتابیں بے ترتیب طور پر گری ہوئی تھیں.انہیں ٹھیک کرنے کے لئے اٹھایا تو ان میں سے ایک کتاب مل گئی.جس کے لائبریری میں ہونے کا بھی مجھے علم نہ تھا.اسے کھول کر دیکھا تو اس میں اکثر وہ حوالے موجود تھے جن کی مجھے ضرورت تھی.غرض اس طرح حوالوں کا ملنا ایک الہی تصرف ہوتا ہے.ورنہ تھوڑی دیر میں ایسے حوالے نہیں نکل سکتے.بلکہ ان کے لئے گھنٹوں کی محنت درکار ہوتی ہے.معترض صاحب اس بات پر غور کر لیں کہ مجالس شوری کی رپورٹوں کا حجم کوئی زیادہ نہیں ہے.مگر اس کے حوالے زیادہ تر انہیں اور ان کے بھائی صاحب کو ہی یاد ہیں.باقی لوگوں کو یاد نہیں.اس سے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ حوالہ جات کا علم کتنا ضروری ہوتا ہے اور کس قدر کم لوگوں کو ہوتا ہے.پھر اگر کسی کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی تحریرات سے نہایت مفید اور با موقعہ حوالہ جات کا انتخاب کرنے میں مہارت رکھتا ہے تو اس کی محنت کو معمولی قرار دینا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے.آپ ایک بلند پایہ ادیب، محقق اور مؤلف بھی تھے اور چشمہ عرفان بجواب تحریک قادیان“ اور «طبی نسخہ جات جیسی معرکۃ الآراء کتابیں آپ ہی کے قلم سے نکلی ہوئی ہیں.علاوہ ازیں آپ نے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بسمل اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مفصل اور مبسوط سوانح حیات بھی رقم فرمائے جو بالترتیب اخبار الحکم اور اخبار الفضل کی متعدد قسطوں میں اشاعت پذیر ہوئے.مولا نا عبد القادر صاحب مربی سلسلہ نے اپنی کتاب ”حیات بشیر کے پہلے باب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے جو حالات درج کئے ہیں وہ آپ ہی کے تحریر فرمودہ ہیں.جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی نے آپ کے اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا:.102 در تعجب ہوتا ہے کہ مختلف اخباروں، کتابوں، رسالوں، رپورٹوں اور پمفلٹوں سے بھر پور ایک ایسا مکمل مضمون مولوی صاحب مرحوم نے اتنے قلیل عرصہ میں کس طرح لکھ لیا.سوائے اس کے کہ یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کی ذات میں مختلف حوالوں کو کم سے کم مدت میں فراہم کرنے کی حیرت انگیز قوت رکھی تھی اور کسی امر پر اس کو محمول نہیں کر سکتے“.آپ کی وفات ۱٫۵ کتوبر ۱۹۶۴ء کو ہوئی.

Page 678

تاریخ احمدیت.جلد 22 663 سال 1964ء حضرت مصلح موعود نے آپ کی شاندار خدمات کے پیش نظر منظوری عطا فرمائی کہ آب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قطعہ خاص میں دفن کئے جائیں.چنانچہ حسب ارشاد مبارک آپ بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں سپردخاک کئے گئے.مکرم محمد داؤ د طاہر صاحب سابق انکم ٹیکس آفیسر جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں آپ ہی کے فرزند ہیں.شیخ عمری عبیدی وزیرتعمیرات و ثقافت ملی تانگانیکا ( تنزانیہ مشرقی افریقہ) 103 ولادت : ۱۹۲۴ء بیعت : ۱۹۳۹ء وفات ۹ / اکتوبر ۱۹۶۴ء.مجاہد احمدیت شیخ عمری عبیدی صاحب براعظم افریقہ کے چمکتے ہوئے ستارے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا مجسم نشان اور مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ مشرقی افریقہ کے مایہ ناز شاگرد تھے.آپ ۱۹۲۴ء میں پیدا ہوئے.جنوری ۱۹۳۰ء میں سکول میں داخلہ لیا.۴۰-۱۹۳۹ء میں کشتی نوح کے ترجمہ سواحیلی سے متاثر ہو کر احمدیت قبول کی.جس کے بعد آپ کی زندگی میں زبر دست علمی و عملی انقلاب برپا ہو گیا.۱۹۴۱ء میں آپ محکمہ ڈاک و تار میں ملازم ہوئے.لیکن دو سال بعد مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب کی پر زور تحریک پر استعفیٰ دے کر اپنی زندگی احمدیت کے لئے وقف کر دی.اور یکم اکتوبر ۱۹۴۳ء سے احمدی مبلغ کے فرائض بجالانے لگے.نومبر ۱۹۴۳ء سے ترجمہ قرآن سواحیلی اور دوسرے علمی کاموں میں جناب شیخ صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کیا.۱۹۴۶ء میں کسومو میں بغرض تبلیغ بھجوائے گئے.۱۹۵۳ء میں سواحیلی ترجمہ کی اشاعت کے جلد بعد آپ مرکز احمدیت ربوہ میں تشریف لائے اور ۳۱ دسمبر ۱۹۵۵ء کو جامعہ احمد یہ ربوہ کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہوئے اور ۲۴ را پریل ۱۹۵۶ء کو واپس عازم وطن ہوئے.جہاں آپ دار السلام مشن کے انچارج کی حیثیت سے نہایت زور وشور سے اشاعت دین میں منہمک ہو گئے.مشنری ٹرینگ کالج کی بنیاد رکھی اور جماعتی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنے قوم و وطن کی بھر پور تر جمانی اور خدمت میں پُر جوش حصہ لینے لگے.اور پورے ملک میں ان کا نام گونجنے لگا.آپ پہلے افریقن تھے جو دارالسلام کے لارڈ میئر کے عہدہ پر فائز کئے گئے.آپ کی پارلیمینٹری تقاریر نے ملک بھر کے دانشوروں کو آپ کا گرویدہ بنا دیا.اگست ۱۹۶۱ء میں آپ کو افریقن باشندوں کے مفاد کے تحفظ کے لئے انگلستان بھجوایا گیا.۲۳ فروری ۱۹۶۲ء کو آس ٹانگانیکا کے وزیر انصاف کے عہدہ پر فائز ہوئے.۳ مارچ ۱۹۶۳ء کو آپ وزیر تعمیرات و ثقافت ملتی

Page 679

تاریخ احمدیت.جلد 22 664 سال 1964ء مقرر کئے گئے.جماعت احمدیہ اور افریقن ممالک نے آپ جیسی عظیم شخصیت سے بڑی بڑی تو قعات وابستہ کر رکھی تھیں مگر خدا کی تقدیر کچھ اور ہی فیصلہ کر چکی تھی.اس عہدہ پر آپ کو فائز ہوئے ابھی ڈیڑھ سال کا مختصر عرصہ ہی ہوا تھا کہ آپ کو آسمانی بلاوا آ گیا اور احمدیت کا یہ بطل جلیل چالیس سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گیا.آپ کی وفات سے پورے ملک میں صف ماتم بچھ گئی.آپ کی نعش پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دی گئی.جنازہ کے جلوس میں صدر جمہوریہ ٹا نگانیکا، کینیا اور یوگنڈا کے وزرائے اعظم اور دیگر اعلیٰ حکام شامل ہوئے اور ملک بھر میں جھنڈے سرنگوں کر دیئے گئے.اولاد: رضیہ.بکری عبیدی ( واقف زندگی ہیں اور بطور مربی کام کر رہے ہیں ).امی (بیٹی).سہیل.عامر.عادل - شفیع.آپ کی اندوہناک وفات پران نگانیکا اور زنجبار کے صدر ہز ایکسیلینسی مسٹر جولیس نیر میرے نے دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:.It was with very deep personal sadness that I have to announce that Sheikh Amri Abedi died in Germany last night, October 9.This is a personal loss to those many of us who were his friends over a long period.It is also a great loss to our nation.Sheikh Amri Abedi's service, first to TANU, then to the city of Dar-es-Salaam and to the Government, have made a great contribution to our progress.In addition to this his great work in promoting and developing our national language, Swahili, will carry forward his memory throughout our history.His great abilities and his dedication have been placed unstintingly at the service of the people of this country.We can ill afford this gap in our midst." 104 ترجمہ: ”میں نہایت ہی گہرے رنج اور دلی تأسف اور افسردگی میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ شیخ عمری عبیدی صاحب گذشتہ رات مورخہ 9 اکتو بر جرمنی میں وفات پاگئے ہیں.ہم میں سے ان بہت سے لوگوں

Page 680

تاریخ احمدیت.جلد 22 665 سال 1964ء کے لئے جن کے ایک لمبے عرصہ سے ان کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے ان کی وفات ایک ذاتی نقصان عظیم کی حیثیت رکھتی ہے مزید برآں ان کی وفات ہماری قوم کے لئے بھی ایک خطر ناک نقصان ہے.شیخ عمری عبیدی کی خدمات کا جو ابتدا میں ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین کے لئے ، اور دار السلام کے شہر کے لئے بحیثیت میئر آپ نے انجام دیں اور بعد ازاں حکومت کے لئے تھیں ہماری ترقی میں ان کا بہت بڑا دخل تھا.علاوہ ازیں شیخ عمری عبیدی نے ہماری قومی وملکی زبان سواحیلی کی ترقی اور وسعت اور بہتری کے لئے جو عظیم الشان کام کیا ہے وہ اتنا قیمتی ہے کہ ہماری تاریخ میں ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کی یاد کو تازہ رکھے گا.ان کی عظیم قابلیت اور ان کی خدمات بلا پس و پیش اس ملک کے لوگوں کے لئے ہمیشہ وقف رہیں.ہم اپنے درمیان اس خلاء کو برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتے“.مشرقی افریقہ پریس کا خراج تحسین (۱) ٹانگانیکا نیوز ریویو (TANGANYEKA NEWS REVIEW) نے اپنی نومبر ۱۹۶۴ء کی اشاعت میں لکھا:.The Death of Sheikh Abedi is a Great Loss to the Nation The death of Sheikh Amri Abedi, who was Minister for Community Development and National Culture, which occurred in Germany in October is a great loss to the Nation.Announcing this, the President of the United Republic of Tanganyika and Zanzibar, Mwalimu, Julius K.Nyerere said: "It is very deep personal sadness that I have to announce that Sheikh Amri Abedi died in Germany on October 9.This is a personal loss to those many of us who were his friends over a long period.It is also a great loss to our nation.Mwalimu Nyerere continued to say, "Sheikh Amri Abedi's service first to Tanu, then to the city of Dar es Salaam and to the

Page 681

سال 1964ء 666 تاریخ احمدیت.جلد 22 Government, have made a great contribution to our progress.In addition to his great work in promoting and developing our national language, Swahili will carry forward his memory throughout our history.The late Minister went to Bonn two months ago for medical treatment of a suspected nervous disorder.He was very weak and hardly able to speak or eat when he went there.After long treatment during which doctors had tried to find the reason for his illness, he steadily recovered.Three days before his death his condition deteriorated and he was unable to speak.He had to communicate with his doctors by writing.Sheikh Abedi was born in 1924 at Ujiji Kigoma Region and was educated at Tabora Secondary School.He later joined the Postal Training School in Dar es Salaam in 1941 and was then engaged in missionary training.In 1950 he was provincial secretary of the Tanganyika African Association, the forerunner of Tanu.He studied at Rabwah College, West Pakistan, from 1954 to 1956 and took a degree in Theology, Arabic and Urdu.He was first elected to the National Assembly in 1959 as Member for Kigoma.He was the first African Mayor of Dar es Salaam holding this position for two years until he became Regional Commissioner for the then Western Region.In 1960 and 1961 he represented Tanu at the All African

Page 682

سال 1964ء 667 تاریخ احمدیت.جلد 22 Peoples Conferences in Tunisia and Cairo.He toured the United States in 1961 in his capacity as Mayor of Dar es Salaam.In 1963 he was appointed Minister of Justice, a post he held until the formation of the United Republic when he became Minister for Community Development and National Culture, in the Union Cabinet.Sheikh Amri's body was flown back to Dar es Salaam for burial on October 15.Many people of all ranks and all races had gathered at the airport to await the body.After the plane had arrived the coffin was accorded to Sheikh Abedi's home in Dar es Salaam.The funeral which was escorted full military honours took place on the next day October 16, at Temeke Cemetery in Dar es Salaam.President Nyerere headed more than 15,000 mourners at the funeral and among those who paid their last respects were the Prime Minister of Kenya, Mr.Jomo Kenyatta, the Prime Minister of Uganda, Mr.Milton Obote, First Vice-President of the United Republic, Sheikh Abedi Karume, Second Vice-President Kawawa, members of the Cabinet and the Zanzibar Revolutionary officials and friends.In the afternoon Government offices and shops were closed and flags were flown at half-mast.Sheikh Abedi leaves a widow with six children.MAY GOD REST HIM IN PEACE.

Page 683

تاریخ احمدیت.جلد 22 668 سال 1964ء (ترجمه) شیخ عبیدی کی وفات عظیم قومی نقصان ہے کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور نیشنل کلچر کے وزیر شیخ عمری عبیدی کی وفات جو جرمنی میں واقعہ ہوئی ،ایک عظیم قومی نقصان ہے.اسی نقصانِ عظیم کا اعلان کرتے ہوئے جمہوریہ متحدہ ٹانگانیکا اور زنجبار کے صدر موالیمو جولیس.کے.ٹیر میرے نے اس بارہ میں کہا گہرے ذاتی رنج و غم کے ساتھ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ شیخ عمری عبیدی ۱۷۹ اکتوبر کو جرمنی میں وفات پاگئے.یہ ان سب کا ذاتی نقصان ہے جو عرصہ دراز سے مرحوم کے دوست تھے.یہ ہمارا قومی نقصان ہے.“ موالیمو جیولیس نیر یرے نے مزید کہا ” شیخ عمری عبیدی کی نانو (TANU تنزانیہ کی حکمران پارٹی ، پھر دار السلام شہر اور حکومت کیلئے خدمات ہماری قومی ترقی کیلئے ایک عظیم سرمایہ ثابت ہوئی ہیں.مزید برآں مرحوم کے ذریعہ ہماری قومی زبان سواحیلی کی ترویج و ترقی کی بناء پر سواحیلی زبان آپ کی یاد کو ہماری قومی تاریخ میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھے گی.دو ماه قبل مرحوم وزیر اعصابی تکلیف کے علاج کی غرض سے بون (مغربی جرمنی ) گئے.روانگی کے وقت آپ اس حد تک کمزور تھے کہ بڑی مشکل سے ہی بول سکتے یا کھانا کھا سکتے تھے.لمبے علاج کے بعد آپ کسی قدر رو بصحت ہوئے جس کے دوران ڈاکٹروں نے آپ کی علالت کی وجہ معلوم کرنے کی بیحد کوشش کی.وفات سے تین روز قبل آپ کی حالت نازک ہوگئی یہاں تک کہ آپ بول بھی نہیں سکتے تھے.چنانچہ آپ لکھ کر ڈاکٹروں سے مخاطب ہوتے.شیخ عبیدی ۱۹۲۴ء میں کیسگا ماریجن کے مقام اُجیجی میں پیدا ہوئے اور آپ نے ٹیبو را ہائی سکول میں تعلیم حاصل کی.بعد ازاں آپ پوٹل ٹریننگ سکول دارالسلام میں ۱۹۴۱ء میں داخل ہو گئے اور ساتھ ہی تبلیغی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے.۱۹۵۰ء میں آپ ٹا نگانیکا افریقن ایسوسی ایشن کے صدر تھے جو ٹانو (TANU) کی پیشر تھی.آپ نے ربوہ کالج (جامعتہ المبشرین.ربوہ ) میں ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۶ء تک حصول تعلیم کے بعد دینیات، عربی اور اردو میں ڈگری حاصل کی.

Page 684

تاریخ احمدیت.جلد 22 669 سال 1964ء سب سے پہلے آپ کی گاما کے نمائندہ کی حیثیت سے ۱۹۵۹ء میں نیشنل اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے.آپ دار السلام کے پہلے افریقن میئر تھے جو دو برس تک اسی عہدہ پر متمکن رہے یہاں تک کہ آپ اُس وقت کے مغربی ریجن کے علاقائی کمشنر مقرر ہو گئے.۱۹۶۰ء اور ۱۹۶۱ ء میں آپ نے تیونس اور قاہرہ میں منعقد ہونے والی افریقن کا نفرنسوں میں ٹانو (TANU) کی نمائندگی کی.دار اسلام کے میئر کی حیثیت سے آپ نے ۱۹۶۱ء میں امریکہ کا دورہ کیا.۱۹۶۳ء میں آپ کا تقرر بطور وزیر انصاف ہوا.آپ اس عہدہ پر ( ٹا نگانیکا اور زنجبار کی ) ری پبلک یونین کے قیام تک فائز رہے اور پھر آپ کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور نیشنل کلچر کی یونین وزارت میں وزیر مقرر ہوئے.شیخ عمری عبیدی کی نعش دار السلام میں ۱۵ اکتوبر کو تدفین کی غرض سے بذریعہ ہوائی جہاز لائی گئی.ہر طبقہ اور ہر نسل کے بیشمار افراد ہوائی اڈہ پر غش کے انتظار میں جمع ہو گئے تھے.ہوائی جہاز کی آمد پر نعش پورے اعزاز واکرام کے ساتھ شیخ عبیدی کے گھر دار السلام لے جائی گئی.اگلے روز یعنی ۱۶ / اکتوبر کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ جنازہ ٹھیکے نامی قبرستان میں ہوا.صدر نیر میرے نے پندرہ ہزار سے زائد غمزدگان کی جنازہ کے موقعہ پر قیادت کی اور آخری اعزاز پیش کر نیوالوں میں کینیا کے وزیر اعظم جو مو کنیا ٹا، یوگنڈا کے وزیر اعظم ملٹن ابوٹے اور یونائیٹڈ ری پبلک ( آف تنزانیہ ) کے اول نائب صدر شیخ عبید کرد مے، دوسرے نائب صدر کواوا، کابینہ کے ارکان ، زنجبار کی انقلابی کونسل کے ممبران ، سفرائے کرام، افسران حکومت اور دوست و احباب شامل تھے.بعد دو پہر سرکاری دفاتر اور کاروباری ادارے بندر ہے اور قومی جھنڈ ا سرنگوں کر دیا گیا.شیخ عبیدی کے پسماندگان میں ایک بیوہ اور چھ بچے شامل ہیں.خدا آپ کی روح کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے.☆ مشہور ہفت روزہ "SUNDAY NEWS" (دارالسلام) نے اپنی ارا کتوبر ۱۹۶۴ء کی اشاعت میں لکھا کہ:.شیخ عمری عبیدی وزیر ثقافت و تعمیر نو کی وفات کا اعلان گذشتہ روز گورنمنٹ ہاؤس میں کیا گیا.شیخ عمری صاحب جو چالیس سال کی عمر کے تھے جمعہ کے روز جرمنی کے ایک ہسپتال میں وفات پاگئے.اس موقعہ پر مسٹر نیر میرے سر براہ مملکت نے اپنے بیان میں گہرے رنج و افسوس کا اظہار کرتے

Page 685

تاریخ احمدیت.جلد 22 670 سال 1964ء ہوئے کہا ہے کہ میں نہایت ہی گہرے رنج اور دلی تأسف اور افسردگی میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ شیخ عمری عبیدی صاحب گذشته رات مورخه ۹ راکتو بر جرمنی میں وفات پاگئے ہیں.ہم میں سے ان بہت سے لوگوں کے لئے جن کے ایک لمبے عرصہ سے ان کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے ان کی وفات ایک ذاتی نقصان عظیم کی حیثیت رکھتی ہے مزید برآں ان کی وفات ہماری قوم کے لئے بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے.شیخ عمری عبیدی کی خدمات کا جو ابتدا میں ٹا نگانیکا افریقن نیشنل یونین کے لئے ، اور دار السلام کے شہر کے لئے بحیثیت میئر آپ نے انجام دیں اور بعد ازاں حکومت کے لئے تھیں ہماری ترقی میں ان کا بہت بڑا دخل تھا.علاوہ ازیں شیخ عمری عبیدی نے ہماری قومی وملکی زبان سواحیلی کی ترقی اور وسعت اور بہتری کے لئے جو عظیم الشان کام کیا ہے وہ اتنا قیمتی ہے کہ ہماری تاریخ میں ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کی یاد کو تازہ رکھے گا.ان کی عظیم قابلیت اور ان کی خدمات بلا پس و پیش اس ملک کے لوگوں کے لئے ہمیشہ وقف رہیں.ہم اپنے درمیان اس خلاء کو برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتے“.سر براہ مملکت کے اس ابتدائی اعلان کے ساتھ اخبار مذکور نے یہ بھی شائع کیا کہ مغربی جرمنی کے شہر BONN (بون ) میں حکومت ٹانگانیکا و زنجبار کے سفیر نے کہا ہے کہ وزیر موصوف دو ماہ ہوئے بون میں بغرض علاج آئے تھے اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کے اعصابی نظام میں خرابی ہے.مسٹر عبیدی جب بون پہنچے تو بہت ہی کمزور تھے ان کے لئے بولنا اور کھانا پینا دشوار تھا.لمبے علاج معالجہ کے بعد اور ڈاکٹروں کی محنت اور جدوجہد سے بیماری کی تشخیص ہوگئی تھی اور کچھ افاقہ بھی ہو گیا تھا.لیکن وفات سے تین دن پہلے ان کی حالت دگرگوں ہو گئی اور بولنا ناممکن ہو گیا.اپنی بیماری اور تکلیف کا اظہار ڈاکٹروں سے لکھ کر کرتے“.آخر میں اخبار مذکور نے شیخ عمری عبیدی صاحب مرحوم کی زندگی کے مختصر کوائف درج کرتے ہوئے لکھا کہ شیخ کلوٹا عمری عبیدی صاحب ۱۹۲۴ء میں اجیجی میں پیدا ہوئے جو لگو ما(Kigoma) کے ضلع میں ایک مشہور ومعروف افریقن آبادی کا بڑا قصبہ ہے.ٹیورا (TABORA) کے گورنمنٹ سکول میں تعلیم حاصل کی.بعد ازاں وہ پوسٹل ٹریننگ سکول دار السلام میں ۱۹۴۱ء میں داخل ہوئے.اور پھر مشنری ٹرینگ اور دینی تعلیم و تربیت کے حصول میں مشغول رہے.۱۹۵۰ء میں ٹا نگانیکا افریقن ایسوسی ایشن کے پراونشل سیکرٹری تھے.یہ ایسوسی ایشن دراصل ٹا نگانی کا افریقن نیشنل یونین کی ابتدائی

Page 686

تاریخ احمدیت.جلد 22 671 سال 1964ء ☆ 105 صورت تھی.انہوں نے مغربی پاکستان میں ربوہ کے کالج جامعتہ المبشرین میں ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۶ء تک تعلیم حاصل کی اور الہیات، عربی اور اردو زبان کی ڈگری حاصل کی.۱۹۵۹ء میں وہ نیشنل اسمبلی کے لئے لگو ما کے حلقہ سے منتخب ہوئے.آپ دار السلام کے سب سے پہلے افریقن میئر تھے.اس منصب پر دو سال تک بڑی کامیابی و کامرانی کے ساتھ فائز رہے.حتی کہ مغربی صوبہ کے کمشنر مقرر کئے گئے.۱۹۶۰-۱۹۶۱ء میں ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین کی طرف سے آل افریقن پیپلز کا نفرنس تیونس اور پھر قاہرہ میں نمائندگی کی.دار السلام کا میئر ہونے کی حیثیت سے امریکہ کا دورہ کیا.اور اس دورہ سے فارغ ہو کر برٹش گورنمنٹ کی دعوت پر انگلینڈ کا دورہ کیا.۱۹۶۳ء میں آپ وزیر انصاف مقرر کئے گئے.اور جب زنجبار اور ٹانگانیکا کا باہمی الحاق ہوا تو آپ کے سپر د وزارت ثقافت و تعمیر نو کا قلمدان کیا گیا.آپ کے پسماندگان میں چھ بچے اور ایک بیوہ ہے.روز نامہ ٹانگانیکا سٹینڈرڈ ( دار السلام) نے مورخہ ۱۶ را کتوبر ۱۹۶۴ء کی اشاعت میں شیخ عمری عبیدی صاحب کی نعش کو ایک خاص طیارہ کے ذریعہ جرمنی سے لانے اور تدفین وغیرہ کے پروگرام کے متعلق حسب ذیل نوٹ شائع کیا:." مرحوم شیخ عمری عبیدی وزیر قومی ثقافت و تعمیر نو جو گذشتہ جمعہ کی شام کو جرمنی میں وفات پاگئے تھے ان کی نعش ایک خاص طیارہ میں کل دار السلام پہنچائی گئی.سینکڑوں لوگ اور حکومت کے سرکردہ اصحاب ہوائی اڈہ پر موجود تھے ان میں حکومت ٹانگا نیکا کے نائب صدر مسٹر رشیدی کواوا، جملہ وزراء کا بینہ اور شیخ مرحوم کے اقرباء اور احباب، مغربی جرمنی کے سفیر، دارالسلام شہر کے میئر ، مذہبی رہنما اور شیوخ وعلماء اور مختلف تنظیموں اور سوسائٹیوں کے نمائندے اور دیگر سرکاری عہدے دار بھی ہوائی اڈہ پر موجود تھے.جونہی ہوائی جہاز پہنچا شیخ عمری عبیدی کی نعش جو ایک سیاہ رنگ کے ملبوس تابوت میں تھی اور جس پر ملکی جھنڈے کی علامات تھیں کو جہاز سے اتار کر ان کے گھر پہنچایا گیا.کہ اسی اخبار نے کے اراکتو بر ۱۹۶۴ء کو تدفین کی مکمل رپورٹ شائع کی اور قوم شیخ عمری عبیدی کے غم میں سوگوار ہے (NATION MOURNS SHEIKH ABEDI) کے زیر ☆ عنوان لکھا:.66 پریذیڈنٹ نیریرے کی سرکردگی میں شیخ عمری عبیدی وزیر ثقافت و تعمیر نو کے جنازہ میں (جو گذشتہ جمعہ کے روز وفات پاگئے تھے ) پندرہ ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی.تدفین کے موقع پر

Page 687

تاریخ احمدیت.جلد 22 672 سال 1964ء غم وحزن اور تعزیت کے جذبات پیش کرنے والوں میں کینیا کے وزیر اعظم مسٹر جو مو کینیاٹا، یوگنڈا کے وزیر اعظم مسٹر ملٹن ابوئے، جمہوریہ ٹا نگانیکا و زنجبار کے نائب صدر اول مسٹر عبید کرومے، نائب صدر دوم مسٹر رشیدی کو اوا، حکومت کے وزراء، زنجبار انقلابی کونسل کے اراکین ، سفراء ، سرکاری عہد یدار اور متعدد احباب ورفقاء شامل تھے.تدفین پورے فوجی اعزاز کے ساتھ کل بعد از دو پہر TEMEKE کے قبرستان میں عمل میں آئی.ٹانگانیکا کے بینڈ نے تعزیت کی دُھنیں بجائیں حتی کہ یہ قافلہ جب قبر تک پہنچ گیا تو تیرہ توپوں کی سلامی دی گئی.ہزار ہا آدمی جو قبرستان کی ملحقہ سڑک پر قطار در قطار کھڑے تھے اب وہ قبرستان میں داخل ہوئے.اس موقع پر شیخ عنایت اللہ صاحب ( انچارج احمد یہ مشن ٹانگانیکا) نے نماز جنازہ پڑھائی.جب تابوت کو قبر میں اتارا جار ہا تھا تو تعزیت اور غم و اندوہ کی لئے میں فوجی بگل بجائے گئے.ازاں بعد پریذیڈنٹ نیریرے نے سب سے پہلے پھول چڑھائے.ان کے بعد مسٹر کرومے نائب صدر زنجبار، مسٹر جومو کینیاٹا وزیر اعظم کینیا، مسٹر بوٹے وزیر اعظم یوگنڈا اور مسٹر رشیدی کو اوا نائب صدر دوم نے پھول چڑھائے.پھر مختلف ملکوں کے سفراء کی طرف سے ان کے نمائندوں نے اور فیڈرل ریپبلک جرمنی کے سفیر، دار السلام کے میئر اور زنجبار و ٹا نگانیکا کی فوجوں کے بریگیڈیر اور وزارت ثقافت و تعمیر نو کے پارلیمنٹری سیکرٹری اور محترمہ بی بی ٹی ٹی محمد اور دوسرے معززین نے پھول چڑھائے.100 اسی طرح نیروبی کے روزنامہ نیشن (NATION) نے اس موقع پر پانچ کالمی فوٹو شائع کیا ہے پھر تدفین کے پروگرام کی تفصیلات شائع کیں.مبلغین اور دیگر ممتاز احمدیوں کے تاثرات ا.مولانا شیخ مبارک احمد صاحب رئيس التبلیغ مشرقی افریقہ :- عزیز مکرم شیخ عمری عبیدی صاحب مرحوم و مغفور کی وفات کا سانحہ المناک ہے.ان کے احمدیت و اسلام سے اخلاص اور اسلام کی ترقی اور بہتری کے لئے مساعی اور ملک وقوم کی بے لوث خدمت کا ریکارڈ ایسا شاندار ہے کہ ان کی جدائی کا ہر ایک کو بہت شدید احساس ہوا ہے.خاکسار کو شروع سے ان کے با قاعدہ مبلغ بننے تک ان کی دینی تربیت کا موقعہ ملا.انہوں نے بڑے بڑے قابل احترام سرکاری و قومی مناصب پر فائز ہونے کے بعد سے لے کر وفات کے آخری لمحات تک محبت و

Page 688

تاریخ احمدیت.جلد 22 673 سال 1964ء اخلاص کے ساتھ جو گہراتعلق وفاداری کے ساتھ قائم رکھا اس کے باعث خاکسار کو اپنے اس عزیز کی جدائی کا طبعی غم ہے.در حقیقت اس جوانی کے عالم میں ان کی پر ہیز گاری، دینداری، نیکی ،قوم و ملک کے ساتھ اخلاص و فدائیت اور بے لوث خدمت کا جذبہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیروی و متابعت اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ساتھ وابستگی کا شاندار ثمرہ ہے اور احمدیت سے تعلق کی برکت کا زندہ اور جاودانی ثبوت ہے“.107 108- ۲.مولوی محمد منور صاحب سابق انچارج مبلغ ٹا نگانیکا:.(0) ”میں نے سولہ سال کا عرصہ مشرقی افریقہ میں گزارا ہے اور میں اس امر کا عینی شاہد ہوں کہ ہمارے اس عزیز بھائی کو احمدیت سے بے حد شغف تھا اس کی سر بلندی کے لئے وہ مقدور بھر سعی کرتے تھے اور اسی حقیقی اسلام کو وہ ملک وقوم اور اقارب و اولاد میں قائم کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے تھے.ہندوستانی اور پاکستانی احمدیوں کو وہ اتنا ہی عزیز سمجھتے جتنا افریقن احمدیوں کو.(ب) " شروع سے لے کر آخر تک ایک جانباز مجاہد اور بے لوث مبلغ تھے میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا اور میرا تاثر یہ ہے کہ ان کا ایمان زر خالص کی طرح کندن تھا اور ایک کامیاب مبلغ کے لئے جتنی صفات کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب کی سب ان میں اعلیٰ درجہ تک پہنچی ہوئی تھیں“.اس کے بعد جناب مولوی محمد منور صاحب نے مندرجہ ذیل دس صفات کا بالترتیب تذکرہ فرمایا جو شیخ عمری عبیدی صاحب میں نمایاں طور پر موجود تھیں.غیرت، علم دوستی ، محنت، عبادت، قربانی، حب الوطنی، مہمان نوازی، جذ به محبت و اصلاح، مبلغین کا ادب، مرکز کا ادب.109 ۳.قاضی عبد السلام صاحب بھٹی ایڈیٹر ایسٹ افریقن ٹائمنر (نیروبی):.غالبا ۱۹۴۴ء کی بات ہے میرے ہاں کسومو ( کینیا ) کے شہر میں کچھ عرصہ کے لئے قیام پذیر ہوئے وہاں ایک عرب قصاب بڑا امیر کبیر تاجر ہوا کرتا تھا.مخالفت کے جوش میں ایک دن اس نے ہمارے محترم عمری صاحب مرحوم و مغفور کو سر بازار تھپڑ مار دیا کہ تم وہ شخص ہو جو فلاں جگہ تبلیغ کرتے پھرتے تھے.خدا کی شان ہے یہ بیچارہ عرب پہلے بینائی سے محروم ہو گیا اور کاروبار تباہ ہوا اور اب اس کا کوئی نام بھی لینے والا نہیں.اس کے مقابلہ میں عمری صاحب کو اللہ تعالی نے ٹانگانیکا حکومت کے وزارت کے عہدے تک پہنچایا اور خدمات دین اور اعلیٰ درجہ کی نیکیوں کی توفیق عطا کر کے زندہ جاوید بنا دیا ہے انہوں نے اپنی ساری عمر ہی دین کی خاطر لگا دی اور اس لحاظ سے گو یا شہادت کا درجہ پایا ہے.

Page 689

تاریخ احمدیت.جلد 22 674 سال 1964ء باوجود اس کے کہ دنیا میں وہ ایک معزز عہدے پر فائز ہو چکے تھے.ان کی طبیعت میں وہی پہلی سی سادگی اور انکساری موجود تھی ہر ایک سے بڑی محبت سے ملتے.دار السلام سے اپنے سرکاری فرائض پر ممالک غیر کی طرف جاتے ہوئے نیروبی سے گذرتے اور چند گھنٹے کا قیام بھی ہوتا تب بھی ضرور ہی مسجد اور مشن ہاؤس میں تشریف لاتے اور آتے ہی پہلے مسجد میں نوافل ادا کرتے ، دوستوں سے ملتے اور بڑے خوش ہوتے.نماز پابندی وقت سے ادا کرتے نمازوں میں رونا ان کا شیوہ تھا.دعا ان کی غذا تھی.اللہ تعالیٰ کے مقرب تھے.سچی خوا میں ان کو آتی تھیں.دراصل وہ ایک ولی اللہ تھے جو افسوس کہ چھوٹی عمر میں ہی اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.۴.چوہدری افتخار احمد صاحب ایاز انسپکٹرسکولز ٹا نگانیکا:- پریس رپورٹ میں آپ کے فوت ہونے کی وجہ "Suspected Food Poisoning" بتائی گئی ہے یعنی کھانے میں زہر دے دیا گیا.اس وجہ سے ان کی وفات کا خاص دکھ ہے ان کی نیکی، دیانت اور وفا شعاری کی وجہ سے نیز ان کے احمدی مبلغ ہونے کی وجہ سے ان کے کئی دشمن بھی تھے خاص طور پر کیتھولک عیسائی.بہر حال انہوں نے اپنی زندگی اپنے دین اور اپنے ملک کی خدمت میں قربان کر دی اور اللہ تعالیٰ ان کو اس قربانی کا ضرور اجر عطا فرمائے گا.انشاء اللہ.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کی نظر میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ:.احباب اخبار میں یہ افسوسناک خبر ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ہمارے نہایت مخلص افریقن بھائی محترم شیخ عمری عبیدی صاحب ۹ اکتوبر کو جرمنی میں وفات پاگئے ہیں.مرحوم ابھی ٹورا سکول میں طالب علم ہی تھے کہ ان کی واقفیت ہمارے مبلغ شیخ مبارک احمد صاحب سے ہوئی جو حسب معمول دینیات پڑھانے کے لئے اس سکول میں جایا کرتے تھے.چونکہ طبیعت میں سعادت تھی اس لئے جلد ہی انہیں جماعت احمدیہ سے لگاؤ پیدا ہو گیا.اور اس کے بعد سے اس تعلق میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوتا چلا گیا.یہاں تک کہ مرحوم مولائے حقیقی سے جاملے.محترم شیخ عمری عبیدی صاحب نے تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ تک ڈاکخانہ میں ملازمت کی مگر سلسلہ کی ضروریات اور اپنے طبعی جوش کے مدنظر اس ملازمت سے مستعفی ہو کر دینی خدمات کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی.اور نہایت تنگی کے ایام میں بھی بڑی خندہ پیشانی اور مستعدی سے جماعتی

Page 690

تاریخ احمدیت.جلد 22 675 سال 1964ء کاموں میں مصروف رہے.مرحوم صوم وصلوٰۃ کے سخت پابند تھے.حتی الوسع نماز تہجد میں بھی ناغہ نہ ہونے دیتے تھے.کثرت سے سچی خوا ہیں انہیں آتی تھیں.جن سے انہیں روحانی تسکین بھی ہوتی اور اپنے دنیوی کاموں میں بھی راہنمائی حاصل ہوتی.ہمارے ٹانگانیکا کے افریقن احمدی احباب میں سے وہ اولین موصوں میں سے تھے اور ساری زندگی بڑے تقویٰ اور پارسائی میں گزاری.اپنا چندہ وصیت پوری با قاعدگی سے ادا کرتے رہے.اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اجازت سے ٹانگانیکا کے دارالحکومت دار السلام میں احمدیہ قبرستان میں جو قطعہ موصی احباب کے لئے مخصوص کیا گیا ہے اس میں دفن ہونے والے یہ پہلے موصی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور انہیں اپنے خاص فضلوں کا مورد بناتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قرب عطا فرمائے.اور ان کے اہل وعیال کا متولی و متکفل ہو.آمین مرحوم کی زندگی کے کئی پہلو ہیں اور سارے ہی ایسے رنگ میں ایک نمایاں خصوصیت کے حامل ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند ذہنی اور دماغی قابلیتیں بخشی تھیں.اور ان تمام صلاحیتوں کو انہوں نے مقدور بھر دینِ اسلام کی ترقی اور غلبہ کے لئے استعمال کیا.مرحوم سواحیلی اور انگریزی میں پُر جوش اور مؤثر تقاریر کر سکتے تھے.اور اپنے مافی الضمیر کو بڑے عمدہ اور مدلل پیرا یہ میں پیش کر سکتے تھے یہاں تک کہ ان سے زیادہ علم اور پوزیشن کا آدمی بھی ان کی گفتگو سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا.سواحیلی زبان کے بلند پایہ شاعر تھے.اور اس فن کے اصول وقواعد کے بارہ میں انہوں نے ایک ایسی کتاب لکھی جو ماہرین فن سے بھی خراج تحسین حاصل کر چکی ہے.ان کے سواحیلی اشعار کا مجموعہ بھی چھپ چکا ہے.جواد بی لطافتوں کے ساتھ ساتھ دینی چاشنی بھی اپنے اندر رکھتا ہے.ہمارے مشرقی افریقہ کے مشن نے بہت سالٹر پچر سواحیلی زبان میں تیار کیا ہے.ان تمام تراجم اور تالیفات میں ان کا نمایاں حصہ ہے بالخصوص سواحیلی ترجمۃ القرآن کی تیاری میں انہوں نے بڑی عرق ریزی سے کام کیا.اور دوسرے مبلغین کے دوش بدوش اس تر جمہ کی تصحیح اور نظر ثانی میں قابل قدر خدمات انجام دیں.یہ ترجمہ ۱۹۵۳ء میں دس ہزار کی تعداد میں شائع ہو کر افریقہ کے وسیع حصہ میں مقبول ہو چکا ہے.اس ترجمہ کی طباعت کے جلد بعد محترم شیخ عمری عبیدی صاحب ربوہ تشریف لائے اور تقریباًدو

Page 691

تاریخ احمدیت.جلد 22 676 سال 1964ء سال تک مذہبی تعلیم حاصل کر کے شہادت الا جانب کی ڈگری حاصل کی.یہاں بھی انہوں نے بڑی کاوش سے عربی اور اردو کا علم حاصل کیا.اور سلسلہ کے بزرگان کی صحبت سے پورا پورا استفادہ کیا.بالخصوص سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ صحبت سے مستفیض ہونے کا بہت اہتمام کرتے رہے.اور اس قیام ربوہ کو اپنی باقی زندگی میں ہمیشہ محبت اور درد سے یاد کرتے رہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو بھی ان سے خاص محبت تھی.اور ایک دفعہ ان کی تقریرین کر خوشنودی کا اظہار برسر مجلس کرتے ہوئے فرمایا کہ عمری صاحب نے تمام لوگوں کے اس تاثر کو دور کر دیا ہے کہ افریقن عقل و فہم میں کسی سے پیچھے ہیں.مرحوم خط و کتابت کے ذریعہ ہمیشہ حضور کی خدمت میں اپنے حالات مشورہ اور دعا کے لئے پیش کرتے رہتے.اسی طرح بزرگ صحابہ سے جن میں سے اکثر فوت ہو چکے ہیں بڑا قرب کا تعلق رکھتے تھے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے ”حیات قدسی میں اپنی قبولیت دعا کا ایک واقعہ بھی درج فرمایا ہے جس کا تعلق محترم عمری صاحب سے تھا.تبلیغ کے میدان میں مرحوم کی خدمات قابلِ رشک ہیں.آپ خدا تعالیٰ کے دین کیلئے بڑی غیرت رکھتے تھے اور سلسلہ کے مخالفین اور معاندین بالخصوص پادری صاحبان کے لئے وہ تیغ بر ہنہ کی مانند تھے.آپ نے اسلام اور احمدیت کے دفاع اور عیسائیت کے خلاف مضامین سینکڑوں کی تعداد میں سواحیلی اور انگریزی میں لکھے جو بڑی کڑی تنقید کے حامل ہونے کے باوجود نہایت معقول اور مدلل ہوتے اور شوق سے پڑھے جاتے تھے.مقامی پریس میں کوئی بھی اسلام کے خلاف بات چھپتی تو جب تک اس کا جواب نہ لکھ لیتے چین نہ لیتے تھے.ملکی اخبارات میں ان کے اس قسم کے اکثر خطوط چھپتے رہے اور بعض دفعہ کئی کئی خطوط ایک ہی مضمون پر شائع کرا کے مد مقابل کو لا جواب کر دیتے تھے.ان کی تحریر و تقریر یکساں زور دار اور مؤثر ہوتی تھی.ربوہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب واپس اپنے ملک میں پہنچے تو سیاسی تحریک آزادی زوروں پر تھی.قانون کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے بھی اس میں مناسب حصہ لیا.اور اس میدان میں بھی ان کا درجہ کسی سے کم نہ تھا.بڑے سے بڑے افریقن سیاسی راہنما ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے کی قدر کرتے تھے.۱۹۶۰ء میں مرکز کی اجازت سے انہوں نے ملکی خدمت میں اس رنگ میں بھی حصہ لیا کہ وہ

Page 692

تاریخ احمدیت.جلد 22 677 سال 1964ء دار السلام کے پہلے افریقن میئر منتخب ہوئے اس عہدے پر پہلے صرف یوروپین اور ایشین ہی فائز ہوا کرتے تھے اور افریقنوں کو اس کا اہل ہی نہیں سمجھا جاتا تھا.مگر مرحوم نے نہایت قابلیت اور ذمہ داری سے اسے نبھا یا حتی کہ دوسرے سال جب میئر کا انتخاب ہوا تو وہ پھر بلا مقابلہ میئر منتخب ہو گئے.اسی طرح تیسرے سال پھر اس اعزاز کے لئے آپ کو چنا گیا اور آپ ہی کے وقت میں دار السلام کو سٹی کا اعزاز دیا گیا.۱۹۶۳ء کے شروع میں ہی آپ کو ٹا نگانیکا کے مغربی صوبہ کا ریجنل کمشنر مقرر کر دیا گیا.جس کی وجہ سے آپ کو میٹر کے عہدہ سے استعفی دینا پڑا.سیاسی میدان میں آپ نے اپنی خداداد قابلیت کے شاندار جو ہر دکھائے اور ریجنل کمشنر کی حیثیت سے بھی دیانت، امانت اور قابلیت کا قابل تقلید نمونہ چھوڑا.اس فرض شناسی کی وجہ سے جلد ہی ٹانگانیکا کے صدر نے انہیں اپنی کیبنٹ میں لے لیا.اگر چہ وہ اس سے پہلے بھی ٹانگانیکا کی پارلیمنٹ کے ممبر تھے مگر اب وزارت انصاف کا قلمدان بھی ان کے سپرد کر دیا گیا.اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہوتے ہی انہوں نے ملکی قانون کا سواحیلی زبان میں ترجمہ شروع کر وا دیا.اور بعض بنیادی اصلاحات جاری کیں.۱۹۶۴ء کے شروع میں جب زنجبار کا علاقہ ٹانگانیکا سے ملا دیا گیا تو انہیں تعمیر قومی و ثقافت ملیہ کی وزارت سونپی گئی.اس عہدہ پر فائز ہونے کے بعد آپ کی صحت خراب رہنے لگی.اور قریباً دو ماہ مغربی جرمنی کے شہربان میں زیر علاج رہنے کے بعد دو ہیں انتقال فرما گئے.مرحوم اعلی ملکی طبقہ میں بڑے احترام سے دیکھے جاتے تھے.خود صدر مملکت ٹانگانیکا کے آپ دست راست اور قابل اعتما در فیق کار تھے.آپ کی نیکی اور خدا ترسی کے سب عوام و خواص معترف تھے.مجلس وزراء اور پارلیمنٹ میں آپ کی تقاریر بعض دفعہ سب کے سب اراکین اور حاضرین کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور کر دیتی تھیں.ایک دفعہ جبکہ ملکی اور غیر ملکی باشندگان کے حقوق کا سوال پارلیمنٹ میں زیر بحث تھا.ممبران کی اکثریت غیر ملکیوں کو ملکی لوگوں کے برابر حقوق دینے کی مخالف تھی.صدر ٹا نگانیکا اس صورتحال سے بہت پریشان تھے.انہوں نے پوری کوشش کی کہ ممبران کو معقولیت سے سمجھا کر انہیں اپنا ہم خیال بنا لیں.لیکن کامیابی نہ ہوئی.حتی کہ صدر نے مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دی مگر بے سود.اس اختلاف رائے کی حالت میں مجلس ملتوی ہوگئی.پچھلے پہر جب دوبارہ اس مسئلہ کے بارہ میں اظہار خیال کا موقعہ دیا گیا.تو شیخ عمری عبیدی صاحب نے ایک گھنٹہ تک نہایت معقولیت اور جوش سے صدر مملکت کے خیال کی تائید کی.اور مخالف خیال رکھنے والوں کے تمام دلائل کو تو ڑ کر رکھ دیا.آخر جب رائے لی گئی

Page 693

تاریخ احمدیت.جلد 22 678 سال 1964ء تو تمام ممبران نے متفقہ طور پر ملکی اور غیر ملکی لوگوں کو برابر حقوق دینے کا فیصلہ کیا.اس معرکۃ الآراء تقریر کو سن کر تمام غیر ملکی از حد ممنون اور مطمئن ہوئے اور بعض نے کہا یہ جماعت احمدیہ کی تربیت کا اثر ہے ورنہ ہمارے حقوق اس ملک میں محفوظ نہیں تھے.10 دیگر بزرگان سلسلہ کی حقیقت افروز آراء اس المناک جماعتی سانحہ پر پوری دنیائے احمد بیت میں بہت گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا.حضرت سیدہ ام امتہ المتین صاحبہ نے فرمایا ”عمری صاحب کی وفات سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا کوئی فرد انتقال کر گیا ہو.مولا نا ابو العطاء صاحب مدیر ” الفرقان“ نے آپ کا ذکر خاص کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.عزیزم شیخ عمری عبیدی سلسلہ احمدیہ کے ایک درخشندہ گوہر تھے.۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۶ء تک وہ جامعة المبشرين ربوہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے.ان دنوں میں جامعتہ المبشرين ربوہ کا پرنسپل تھا اور جامعة المبشرین علیحدہ ادارہ تھا.شیخ عمری عبیدی ایک نہایت دیندار، قابل، زیرک اور مخلص نو جوان تھے.بہت محنتی اور اساتذہ سے خاص تعلق رکھنے والے تھے.انہوں نے جامعتہ المبشرین میں بہت نیک اثر چھوڑ ا تھا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ایک بار جامعہ احمد یہ ربوہ میں تشریف لائے.تو آپ سے مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ نے سوال کیا.غیر ممالک میں آپ کو کس احمدی نے متاثر کیا.تو آپ نے فرمایا عمری عبیدی صاحب نے.حضرت چوہدری صاحب نے ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء کو سالانہ کا نفرنس افریقن سٹوڈنٹس یونین کے اجلاس منعقدہ جمخانہ لاہور میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران فرمایا:.’افریقہ کے قابل افراد میں ایک فرد وہ بھی تھا جو اس وقت ہم میں موجود نہیں.وہ ایک مہلک نامعلوم مرض میں مبتلا رہنے کے بعد پچھلے دنوں جرمنی میں وفات پا گئے.آپ تنزانیہ حکومت کے وزیر تھے اور نہایت قابل شخص تھے.میں آپ کو اس وقت سے جانتا ہوں جبکہ آپ اعلی دینی تعلیم کے حصول کے لئے ربوہ تشریف لائے تھے.اور آٹھ نو سال کے بعد مجھے اس حالت میں ملے کہ میں اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کا صدر تھا اور آپ تنزانیہ حکومت کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے.جب میں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے افریقہ کا دورہ کیا تو تنزانیہ جانے کا بھی موقعہ ملا.عمری

Page 694

تاریخ احمدیت.جلد 22 679 سال 1964ء صاحب کو میرے پروگرام کے متعلق پتہ لگا تو مجھے لکھا کہ آپ میرے ملک تشریف لا رہے ہیں.اس لئے آپ دار السلام میں ٹھہرنے کا پروگرام مختصر کریں اور ٹبو را تشریف لائیں.عمری صاحب نے ان دنوں مغربی صوبہ کے کمشنر کو ایک ضروری اجلاس کے لئے بلایا ہوا تھا.اور عمری صاحب بھی وہیں موجود تھے.اور آپ کی خواہش کے مطابق شورا نہ جا سکا.تاہم میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا اور ان کی طالبعلمی کی حالت کو دیکھ کر اور بعد کی حالت کا موازنہ کیا تو میں نے محسوس کیا کہ عمری صاحب افریقہ کے لئے ایک قیمتی وجود ہیں.اور آپ سے ملنے والوں کو اس بات کا علم تھا کہ آپ افریقہ کے چمکدار اور پر امیدستاروں میں سے ہیں.سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثالث کا آپ کے بارے میں اظہار خوشنودی سید نا حضرت خلیفتہ المسح الثالث نے ۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء کوفرمایا.غیر ممالک میں ہماری جماعتیں بڑی ہی مخلص ہیں ان کے ممبران صرف نام کے احمدی یا مسلم ہی نہیں بلکہ وہ توحید باری پر پختگی سے قائم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی محبت میں سرشار ہیں.ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہوتا ہے.بہت سے ایسے ہیں جنہیں بچی خوا میں آتی ہیں اور ہر رنگ میں وہ روحانی نعمتوں سے مالا مال ہیں.حضور کے وصال پر ان احباب کی طرف سے جو خطوط مجھے موصول ہوئے ہیں ان سے ان کے اخلاص کا علم ہوتا ہے.ان خدا رسیدہ لوگوں میں سے ایک کا خواب میں بطور نمونہ سناتا ہوں تا وہ دوستوں کے از دیا دایمان کا موجب ہو.وہ خدا رسیدہ اور دین اسلام کا شیدائی ایک حبشی تھا.جس کا رنگ سیاہ اور ہونٹ لٹکے ہوئے تھے.دنیا کی مہذب قو میں اسے حقارت سے دیکھتی تھیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل خدا تعالیٰ کی نظر کرم اس پر پڑی اور وہ اس سے ہمکلام ہوا.یہ ہیں ہمارے دوست عمری عبیدی اور ان کا انتخاب میں نے اس لئے بھی کیا ہے کہ وہ کچھ عرصہ ہوا جوانی کی عمر میں فوت ہو گئے ہیں.یہ دوست احمدیت کے شیدائی اور فدائی تھے.ربوہ میں بھی کچھ عرصہ رہ کر گئے تھے.وہ خواب بین انسان تھے انہیں بڑی واضح

Page 695

تاریخ احمدیت.جلد 22 680 سال 1964ء اور کچی خوا ہیں خدا تعالیٰ نے دکھائیں ایک دفعہ انہوں نے سنایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مسٹر جولیس نیریرے (MR.JULIUS NYERERE) کرسی پر بیٹھے ہیں مجھے دیکھ کر وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کرسی پر مجھے بٹھا دیا.کچھ عرصہ تک وہ اس خواب کی کوئی اور تعبیر سمجھتے رہے لیکن یہ خواب اس طرح پوری ہوئی کہ آزادی کے بعد لیجسلیٹو کونسل بنی.اس کے افریقن ممبران کی ایک سوسائٹی تھی اور جولیس نیر میرے جو ٹا نگانیکا افریقن نیشنل یونین کے پریذیڈنٹ ہونے کے باعث لیجسلیٹو کونسل کی افریقن پارٹی کے لیڈر تھے، اس سوسائٹی کے صدر تھے.دوسرے سال جب اس سوسائٹی کا انتخاب ہوا تو مسٹر جولیس نیر میرے کو دوبارہ صدر چن لیا گیا.سوسائٹی کے اس اجلاس میں مسٹر جولیس نیر میرے موجود نہیں تھے.انہیں اطلاع بھجوائی گئی.چنانچہ وہ آئے.انہوں نے شیخ عمری عبیدی کو جو اس وقت لیجسلیٹو کونسل کے ممبر بن چکے تھے بازو سے پکڑا اور کرسی پر بٹھادیا اور کہا یہ آپ کے چیئر مین ہیں.گویا خواب میں جو کچھ انہوں نے دیکھا تھا خدا تعالیٰ نے اسے لفظ بلفظ پورا کر دیا.اور یہ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا نتیجہ تھا جسے دیکھ کر دوسرے لوگ اسلام کے گرویدہ ہورہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف مائل ہورہے ہیں خالی دلائل کے ساتھ یہ اخلاص پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے قوت قدسیہ کی ضرورت ہے.محترم میاں شیر محمد صاحب ریٹائرڈ چیف انسپکٹر پولیس ملایا وفات: ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۴ء 114 میاں شیر محمد صاحب اپنے والدین کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی احمدی ہو گئے تھے لیکن عمر چھوٹی ہونے کی وجہ سے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے.جوانی میں آپ ملایا چلے گئے اور وہیں مستقل رہائش اختیار کر لی.آپ کا بڑا بیٹا مبارک احمد بھی ملایا میں پولیس سپرنٹنڈنٹ ہے.میاں شیر محمد صاحب نے ملایا میں پولیس میں ملازمت کی اور چیف انسپکٹر پولیس کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے.جنگ عظیم دوم سے قبل قادیان آئے تھے.ان کے اہل وعیال بھی ساتھ تھے.انہوں نے خواجہ محمد امین صاحب کے ہاں ایک شادی کی تقریب میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے ملاقات کی جس میں حضور بھی تشریف لے گئے تھے.آپ کے بھائی نور محمد صاحب اوورسیئر پنشنز امیر جماعت

Page 696

تاریخ احمدیت.جلد 22 681 سال 1964ء احمدیہ علی پورگھلوان نے میاں شیر محمد صاحب کی بیٹی کے لئے حضور سے درخواست دعا کی اور میاں شیر محمد صاحب کا تعارف بھی کرایا.حضور از راہ شفقت میاں شیر محمد صاحب کے گھر تشریف لے گئے اور بچی کو جو ٹائیفائیڈ سے بیمار تھی دیکھا اور دعا بھی کی اور فرمایا ” گھبراؤ نہیں.اللہ تعالیٰ جلد از جلد شفا عطا فرمائے گا.دیگر تمام ادویات بند کر دو.ہم خود روزانہ دوا بھیجا کریں گے.بس وہی دوا دی جائے.“ اللہ تعالیٰ نے حضور کی دوا اور دعا ہے بچی کو صحت و شفاء عطا فرمائی.مرحوم میاں شیر محمد صاحب جب بھی قادیان آتے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے ضرور ملاقات کرتے.جب ملایا پر جاپانیوں کا قبضہ ہو گیا تو آپ کے بیٹے مبارک احمد صاحب کو حضرت مولانا غلام حسین ایاز اور دیگر احد یوں کی خدمت کا خوب موقع ملا جو جاپانیوں کی قید میں چلے گئے تھے.چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ ایڈووکیٹ ممبر نگران بورڈ وفات: شب ۲۲/۲۱ دسمبر ۱۹۶۴ء 115.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت چوہدری سردار خان صاحب آف بھا گووال ضلع سیالکوٹ کے فرزند تھے.قریباً پندرہ سال تک جماعت احمد یہ سیالکوٹ کے نائب امیر رہے.حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے ان کی وفات پر حسب ذیل نوٹ لکھا :.وو سیالکوٹ کے مردم خیز خطہ میں بڑے بڑے مخلص وفادار اور سلسلہ احمدیہ کے سچے خادم خدا تعالیٰ کے نیک بندے پیدا ہوئے اور اپنے اپنے وقت میں انہوں نے جماعت کی گرانقدر خدمات سرانجام دیں.اسی سلسلہ کی ایک کڑی مرحوم چوہدری نذیر احمد باجوہ تھے.(0) بڑے ذہین وفطین وکیل تھے.خاکسار نے بعض مشہور جوں کو مرحوم کی قابلیت کا معترف پایا.قانون کی باریکیوں پر ایک بسیط نظر رکھتے تھے محنت اور کثرت مطالعہ آپ کا خاص امتیاز تھا.(ب) جماعت کے کاموں میں پیش پیش رہتے تھے.ہماری جماعت کو بہت سے قانونی مراحل اور مشکلات کا سامنا آئے دن ہوتا رہا ہے اور جماعت کے وکلاء مشورہ کے لئے اکٹھے ہوتے رہے ہیں مرحوم کی شمولیت ان مشوروں میں ضروری سمجھی جاتی تھی.اور مرحوم ہر مصروفیت کو چھوڑ کر لمبا سفر اختیار کر کے ربوہ یا لاہور پہنچ جایا کرتے تھے اسی طرح نگران بورڈ کے اجلاسوں میں بھی بُعدِ مسافت کے باوجود پابندی سے شامل ہوتے تھے.صیغہ دیوانی کے نامور اور ممتاز وکیل تھے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اس صیغہ میں کام کرنے والے وکیل کی مصروفیات کس قدر کثیر ہوتی ہیں لیکن مرحوم تمام

Page 697

تاریخ احمدیت.جلد 22 682 سال 1964ء جکڑ بندوں کو تو ڑ کر سلسلہ کے کام کو مقدم ٹھہراتے اور پابندی سے مشوروں میں شامل ہوتے.(ه) ضلع سیالکوٹ کے نائب امیر تھے جماعت کے فدائی، طبیعت میں سوز و گداز اور دردمند دل.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات پر مرحوم کوزارزار بے اختیار روتے خاکسار نے دیکھا.( د ) ۱۹۱۹ء کی بات ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے خاکسار ( شیخ محمد احمد مظہر.ناقل ) کو فرمایا کہ آئندہ زمانہ میں جماعت کو وکلاء کی بڑی ضرورت پیش آئے گی.بعد کے واقعات نے حضور کی اس فراست اور پیش بینی کی تصدیق کی.اور جماعت کے بہت سے وکلاء کو اللہ تعالیٰ نے خدمت سلسلہ کی توفیق عطا فرمائی.اور ہر خدمت کرنے والا اپنے اپنے مقام پر پھولا پھلا اور کامیاب ہوا.نذیر احمد صاحب مرحوم بھی ایسے ہی خادمان سلسلہ میں سے تھے اور یہ امر کہ آپ فن وکالت میں ممتاز اور ماہر تھے اور نیز یہ امر کہ اپنی قابلیت کو سلسلہ کی خدمت میں لگائے رکھتے تھے اور ہر مصروفیت کو چھوڑ کر خدمت کے لئے حاضر موجود ہوتے تھے.ہمارے نوجوان وکلاء کے لئے ایک نمونہ ہے تا کہ وہ خدمت سلسلہ کو ہر چیز پر مقدم رکھیں“.116-

Page 698

تاریخ احمدیت.جلد 22 دیگر مخلصین سلسلہ کی وفات 683 سال 1964ء علاوہ ازیں احمدیت کے مندرجہ ذیل فدائی و شیدائی بھی اسی سال وفات پاگئے.(۱) چوہدری منظور حسین صاحب ساکن چہورے اامغلیاں سابق امیر جماعت احمد یہ سانگلہ ہل 117 ضلع شیخوپورہ.(وفات: جنوری ۱۹۶۴ء) (۲) شیخ محمد شریف صاحب ابن حضرت شیخ کریم بخش صاحب آف کوئٹہ مینیجنگ ڈائر یکٹر پرنس ٹرانسپورٹ کمپنی لا ہور.( وفات : ۲۹ جنوری ۱۹۶۴ء) (۳) حافظ محمد افضل صاحب خوش نویس آرٹ کیلیگرافسٹ منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ.حکومت پاکستان کی اولین کرنسی پر اردو کتابت کے قلمکار اور قائد اعظم سے انعام یافتہ.( وفات : ۱۰فروری ۱۹۶۴ء) (۴) عبدالمجید خان صاحب پسر محمد ظہور خان صاحب پٹیالوی.(وفات: ۲۶/ ۲۵ فروری ۱۹۶۴ء بمقام لندن) جماعت احمد یہ مڈل سیکس کے سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور پھر سیکرٹری مال کے اہم عہدے آپ کے سپرد ہوئے.جن کو تادم آخر نہایت اخلاص اور قربانی سے نبھایا.(۵) چوہدری محمد نقی صاحب بیرسٹر فرزند حضرت نواب محمد دین صاحب.(وفات: ۱۰/۱۹ مارچ ١٩٦٤ء) 120 چوٹی کے وکیلوں میں شمار ہوتے تھے.غیر از جماعت احباب بھی آپ کی لیاقت اور اخلاق کے معترف تھے.21 (1) پیر خلیل احمد صاحب نائب آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ پاکستان.(وفات: ۲۰ مارچ ۱۹۶۴ء) حضرت پیر افتخار احمد صاحب کے صاحبزادے اور حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کے پوتے تھے.صدر انجمن احمد یہ کے قدیم کا رکن تھے.122 (۷) شیخ محمد یوسف صاحب آف گجرات (وفات: یکم اپریل ۱۹۶۴ء) ایک لمبا عرصہ ٹبورا ( تنزانیہ)، کمپالہ ( یوگنڈا) اور ٹانگانیکا میں دینی خدمات بجالاتے رہے.

Page 699

تاریخ احمدیت.جلد 22 684 سال 1964ء دار السلام اور ٹو را انجمن اسلامیہ کی بنیاد آپ نے ہی ڈالی تھی.اپنوں اور بیگانوں میں یکساں مقبول تھے.سواحیلی لٹریچر کی اشاعت اور مشرقی افریقہ کی مساجد کی تعمیر میں ان کی مالی قربانیاں فراموش نہیں کی جاسکتیں.123 (۸) دفعدارمحمد عبداللہ صاحب گجراتی در رویش قادیان ( وفات ۳۰ را پریل ۱۹۶۴ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب کرم دین بھیں کے مقدمہ کے سلسلہ میں ۱۹۰۴ء میں جہلم تشریف لے گئے تھے اس وقت آپ کھاریاں سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور آپ کی عمر ۶ سال تھی.حضور کی آمد کی خبر پا کر آپ بھی حضور کی زیارت کے لئے گئے.اور حضور کو دیکھ لینے سے احمدیت کے بارہ میں جتنے اعتراضات و شبہات باقی تھے سب رفع ہو گئے.لیکن بعض شر پسند عناصر کے دباؤ کی وجہ سے اس وقت بیعت نہ کر سکے.جس کا آپ کو تمام عمر افسوس رہا.آپ نے حضرت خلیفہ اول کے عہد خلافت میں بیعت کی.آپ کے والد محترم حضرت محمد ابراہیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.۲۷ سالہ فوجی خدمت کے دوران سات میڈل اور بیسیوں اعزاز حاصل کئے.تحریک شدھی کے خلاف حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی سرکردگی میں دو ماہ تبلیغی جہاد کیا.زمانہ درویشی میں سیکرٹری مال اور مرکزی لائبریری کے انچارج کی حیثیت سے بڑی محنت اور تندہی سے مصروف عمل رہے.125 124 (۹) خلیفہ علیم الدین صاحب ( وفات : ۱۶ار اپریل ۱۹۶۴ء ) حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے فرزند اکبر اور انگلستان کے پہلے واقف زندگی بشیر احمد صاحب آرچرڈ کے خسر تھے.(۱۰) او.کے.سید علی صاحب آف سیلون (وفات: ۱۹ جون ۱۹۶۴ء) سید علی صاحب نے جوانی میں قادیان جا کر دینی تعلیم حاصل کی.بعد تعلیم کچھ عرصہ فوج میں بھی ملازمت کی اور کچھ عرصہ وقف تجارت میں خدمات بجالائے.کولمبو مشن میں آپ چندہ جات کی وصولی میں سیکرٹری ہال کی بہت مدد کرتے تھے.جماعت کے مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیں.حضرت خلیفہ ایسے کی ہر تحریک پر لبیک کہنے میں صف اول میں شامل تھے اور تحریک جدید اور وقف جدید میں با قاعدگی سے شامل ہوتے.بچوں کو قرآن کریم ، دینیات، اردو خاص دلچسپی و محنت

Page 700

تاریخ احمدیت.جلد 22 سے پڑھاتے تھے.12 685 سال 1964ء (۱۱) سید زمان شاہ صاحب پہلی جنرل پریذیڈنٹ ربوہ (وفات: ۲۶ /اگست ۱۹۶۴ء) کئی سال تک امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع جہلم کے منصب پر فائز رہے.قریباً چھ سال تک ایم این سنڈیکیٹ ربوہ میں کام کیا.اسی دوران کچھ عرصہ ربوہ کے جنرل پریذیڈنٹ کے فرائض بجالاتے رہے.128 (۱۲) امریکن نواحمدی ولی کریم صاحب سابق آرتھر جے فرٹیز آف ڈیٹن (ARTHUR.J.FRITTS) (وفات : ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۴ء) ڈیٹن کی احمدیہ مسجد کی تعمیر کے لئے آپ نے اپنا قطعہ زمین جماعت احمدیہ کو پیش کر دیا اور چونکہ خود معمار تھے اس لئے اس کی تعمیر میں بھی حصہ لیا.نیز ایک ہزار ڈالر نقد دے دیئے.علاوہ ازیں اپنادو منزلہ مکان مع سامان کے جماعت کو ھبہ کر گئے.مسجد کے لئے پچاس نئی کرسیاں اور ایک بہت بڑا قالین خرید کر خانہ خدا میں رکھوا دیا.آپ کی نیکی ، تقوی ، سخاوت اور احمدیت کے لئے محبت اور جانثاری اور دیگر اخلاق فاضلہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ کا کام دیں گے.اور آپ کا نام اور آپ کے کار ہائے نمایاں ہمیشہ زندہ رہیں گے.(۱۳) کیپٹن عطاء اللہ ظہور احمد صاحب آف دوالمیال (وفات: ۱۰نومبر ۱۹۶۴ء) آپ ہی وہ خوش نصیب تھے جنہیں مورخہ ۳۱ / اگست ۱۹۴۷ء بذریعہ کار حضرت مصلح موعود کو قادیان سے پاکستان لانے کی عظیم سعادت حاصل ہوئی.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ایک خطبہ جمعہ میں اس مثالی خدمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:." جس طرح میرے قادیان سے نکلنے کا کام کیپٹن عطاء اللہ صاحب کے ہاتھ سے سرانجام پانا تھا اسی طرح ایک نئے مرکز کا قیام ایک دوسرے آدمی کے سپر د تھا جو پیچھے آیا اور کئی لوگوں سے آگے بڑھ گیا میری مراد نواب محمد دین صاحب مرحوم سے 66 ہے.130 آپ مکرم صو بیدار فتح محمد خاں صاحب آف دوالمیال کے صاحبزادے اور مکرم میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے بھائی تھے.پارٹیشن سے پہلے برٹش آرمی میں بھرتی ہوئے اور ترقی کر کے کیپٹن کے عہدہ تک پہنچے.راولپنڈی سے سروس کا آغاز کیا.دورانِ قیام را ولپنڈی مختلف جماعتی عہدوں پر کام

Page 701

تاریخ احمدیت.جلد 22 686 سال 1964ء کرتے رہے.حلقہ لالکڑتی (راولپنڈی) کے صدر بھی رہے.آپ نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے.جماعتی کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.آپ کو موصی ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی.اولاد : آپ نے تین شادیاں کیں.زوجہ اول محترمہ بھاگ بھری صاحبہ سے ایک بیٹا مکرم ناصر احمد صاحب اور دو بیٹیاں محترمہ حبیب بیگم صاحبہ اور محترمہ نسیم بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں.زوجه دوم محترمہ فضل نور صاحبہ سے ایک بیٹی محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ تھیں اور زوجہ سوم محترمہ مقبول خانم صاحبہ سے کوئی اولاد نہ تھی.(۱۴) قریشی افضال احمد صاحب بھاگلپوری (وفات: ۱۰ نومبر ۱۹۶۴ء) خلافت ثانیہ کے آغاز میں بیعت کی.۱۹۲۴ء سے ملکانہ کے علاقہ میں بطور مبلغ تبلیغی جہاد میں سرگرم عمل رہے اور نہ صرف اپنی ذات کی قربانی دی بلکہ اپنی اولاد کے مستقبل کو بھی قربان کر دیا.وجہ یہ کہ میدان جہاد میں ہونے کے باعث آپ اپنے کسی بچہ کو اعلیٰ دینی ودنیوی تعلیم نہ دلوا سکے.اسی دور کا یہ نادر اور یادگار واقعہ ہے کہ آپ کی قیادت میں بارہ احمدی ملکانوں پر مشتمل ایک وفد پا پیادہ ساندہن سے قادیان کے لئے روانہ ہوا جو ٹھیک جلسہ سالانہ ۱۹۳۳ء کے موقعہ پر بخیر وخوبی قادیان پہنچا.یہ قافلہ خاص کیفیت رکھتا تھا.اہل قافلہ کے پاس ایک بڑا کپڑا دو بانسوں سے بندھا ہوا تھا جس پر یہ عبارتیں جلی حروف سے رقم تھیں احمدیت زندہ باد.اسلام زندہ باد.مرزا غلام احمد کی ہے.ہماری فتح ہمارا غلبہ.میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.یہ نظارہ دیکھا کثر لوگ دریافت کرتے کہ کدھر جارہے ہیں اس پر سالار قافلہ شیریں زبان اور مؤثر الفاظ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کا تعارف کرواتے.آپ نے کئی سال تک بہار میں بھی فریضہ تبلیغ ادا کیا.(۱۵) منشی احمد دین صاحب سیکرٹری مال وصدر جماعت احمد یہ کرالی ضلع گجرات 132 (وفات:۱۲ نومبر ۱۹۶۴ء) بیعت کرنے پر آپ کو شدید تکالیف دی گئیں مگر آپ کے پائے ثبات میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی.حاضر جوابی میں آپ کو کمال حاصل تھا اور مرکزی تحریکات پر لبیک کہنا آپ کا 133 شعار.صاحب الہام و کشوف بزرگ تھے.(۱۶) پاسوری با بنگو را صاحب لوکل مبلغ سیرالیون (وفات: نومبر ۱۹۶۴ء) پاسوری بانگو را (Pasuri Ba Bangura) صاحب سیرالیون کے ابتدائی مخلص احمدیوں

Page 702

تاریخ احمدیت.جلد 22 687 سال 1964ء میں سے تھے.آپ نے محترم الحاج مولانا نذیر احمد علی صاحب کے زمانہ میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی.آپ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے.صرف قرآن کریم کا علم رکھتے تھے.آپ کے اندر دعوت الی اللہ کا قابل رشک جوش تھا.آپ نے ابتداء میں بہت قلیل معاوضے پر لوکل معلم کے طور پر خدمت شروع کی.سیرالیون کے طول و عرض میں پہنچ کر پیغام حق کی دعوت دی.آپ سیرالیون کے مختلف قبائل کی زبانیں جانتے تھے اس لئے آسانی کے ساتھ پیغام حق پہنچاتے تھے.محترم مولانا محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری سابق مربی سلسلہ سیرالیون نے مرحوم بنگو را صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھا کہ ”خاکسار جب ۵۳ء میں پہلی بار سیرالیون گیا تو آپ اکثر میرے ساتھ دوروں پر جاتے اور ترجمانی کے فرائض ادا کرتے.عموماً ہر گاؤں میں شام کے وقت پبلک اجلاس ہوتا جس میں آپ ترجمانی کے علاوہ خود بھی تقریر کرتے اور پھر رات کے پچھلے حصہ میں اٹھ کھڑے ہوتے اور گاؤں میں چکر لگاتے اور لوگوں کو مہدی علیہ السلام کے ظہور کی خبر دیتے اور دعوت حق ان تک پہنچاتے.مجھے ان کے چند فقرات جو انہوں نے اپنی ایک تقریر میں بیان کئے ابھی تک نہیں بھولتے.لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا :.دیکھو میں احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہوں.میرے اندر احمدیت نے ایک نہایت ہی نمایاں تغیر کیا ہے.احمدیت قبول کرنے سے قبل میں ہر قسم کی برائیوں کا مرتکب ہوتا تھا.اور لوگوں کے ساتھ مقدمات میں عدالتوں میں بھی جانا پڑتا تھا جس سے روپیہ بھی ضائع ہوتا تھا اور عزت بھی برباد ہوتی تھی.مگر اب خدا تعالیٰ نے احمدیت کو قبول کرنے کی وجہ سے مجھ پر اتنا احسان کیا ہے کہ میں 134 66 ان تمام برائیوں کو ترک کر چکا ہوں اور نہایت ہی چین اور سکون کی زندگی بسر کر رہا ہوں.(۱۷) سیٹھ محمد عبد اللطیف صاحب یادگیری ( وفات ۲ / دسمبر ۱۹۶۴ء) فرزند اکبر محترم سیٹھ عبدالحئی صاحب یاد گیری.آپ اپنے دادا حضرت شیخ حسن اور اپنے والد سیٹھ عبدالحئی صاحب کی تمام دینی اور خاندانی روایات کے علمبر دار تھے اور ان کو پوری شان سے برقرار رکھنے 135 میں عمر بھر کوشاں رہے.(۱۸) چوہدری غلام احمد صاحب ایڈووکیٹ پاکپتن ( وفات ۱۵ر دسمبر ۱۹۶۴ء) اگر چه ۱۹۰۴ء کے بعد متعدد بار قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک مجالس میں

Page 703

تاریخ احمدیت.جلد 22 688 سال 1964ء شریک ہوتے رہے لیکن بیعت ۱۹۰۸ء میں حضرت خلیفہ اول کے دست مبارک پر کی.۱۹۱۳ء سے امیر جماعت اور بعد ازاں انصار اللہ کے ناظم ضلع کے فرائض سرانجام دیتے رہے.بہت دعا گواور عبادت گزار بزرگ تھے.(۱۹) چوہدری عبدالرحمن صاحب B.A.B.T سیکنڈ ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ڈسٹرکٹ بورڈ کی سروس اور ہیڈ ماسٹری چھوڑ کر ۱۹۴۴ء میں حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر قادیان آگئے اور اپنی ساری زندگی تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ترقی کے لئے وقف کر دی.آپ فن تعلیم کے بے مثال ماہر تھے اور امتحان کے لئے طلباء کو تیار کرنا ان پر ختم تھا.سلسلہ سے مخلصانہ تعلق اور جماعتی وقومی روایات کو زندہ و تابندہ رکھنے کا خیال ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتا تھا.تاریخ ، انگلش اور خصوصاً ریاضی کے مضمون میں ملک گیر شہرت حاصل تھی.اور شاندار کتب تالیف کیں.جن میں مدینہ ریاضی“ آپ کا شاہکار ہے.چند سالوں سے آپ مڈل اور میٹرک کے گیس پیپر بھی شائع کرنے لگے جو پاکستان میں بہت مشہور ہوئے.مولوی محمد صدیق صاحب منگلی مجاہد سرینام آپ ہی کے داماد ہیں.137

Page 704

تاریخ احمدیت.جلد 22 1 2 3 4 5 6 7 8 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الفضل ۵ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ا رجسٹر روایات جلد ۳ صفحه ۶۳ تا ۶۷ الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۶۴ صفحه ۵ 689 حوالہ جات (صفحہ 582تا688) سال 1964ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے کرام پیر کوٹ ثانی ضلع حافظ آباد مؤلفہ مولانا سلطان احمد پیر کوئی صفحہ ۷۸ تا ۸۱ الفضل ۹ فروری ۱۹۶۴، صفحه ۵، ۸ و الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۶ - احمد یہ جنتری قادیان ۱۹۳۷ ، صفحہ ۳۹.مرتبہ میاں محمد یا مین صاحب الفضل ۹ جون ۱۹۶۴ء صفحه ۵ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 9 الفضل ۲۰ فروری ۱۹۶۴ء صفحہ ۶.و تاریخ احمد یہ سرحد صفحه ۱۰۳.مرتبہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر سرحد مطبوعہ منظور عام پریس پشاور ۱۹۶۹ء 10 لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۴ ۲۵ مؤلفه شیخ مولانا عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل.الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۶۴ء صفحه ۳ 11 الحکم قادیان ۱۴ را کتوبر ۱۹۳۶ء صفریم 12 لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۲۵۶ طبع اول 13 لیکچر نجات صفحه ۳-۴ 14 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ صفحه۱۹۵-۱۹۹ 15 الفضل قادیان ۳۱ را گست ۱۹۲۸ء صفحه ۹ 16 17 18 الفضل ۳۱ راگست ۱۹۲۸ ء صفحه ۹-۱۰ حیات بقا پوری حصہ دوم صفحه ۱۲۴ حیات بقاپوری حصہ سوم صفحه ۱۶۵ - ۱۶۸ 19 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۶ 20 الفضل ۲۵ /اکتوبر ۱۹۵۵، صفحه ۳ 21 ریکارڈ بہشتی مقبرہ

Page 705

تاریخ احمدیت.جلد 22 22 الفضل سے اپریل ۱۹۶۴ء صفحہ ۶ 690 23 بیعت : ۱۹۰۳ ء وفات یافتگان ۱۹۰۵ء تا ۲۰۰۷ صفحه ۳۷۰- نظارت بہشتی مقبره ربوه 24 الفضل ربوه ۲۳ را بر مل ۱۹۶۴، صفحه ۸ اپریل 25 ریکارڈ بہشتی مقبره ر بوه والفرقان ۱۹۶۵ صفحه ۲۴٬۲۳ 26 رساله الفرقان اگست ۱۹۶۵ صفحه ۲۳ ۲۴ - الفضل ۲۸ را پریل ۱۹۶۴ء صفحه ۸،۱ 27 28 رجسٹر روایات جلده صفحه ۱۰۶، ۱۰۷ رجسٹر روایات جلد اصفحہ ۱۰۷،۱۰۶.الفضل ۴ امئی ۱۹۶۴ء 29 لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۱۳۹ تا ۱۴۵ 30 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 31 الفضل ۶ جون ۱۹۶۴ء صفحه ۸ 32 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 33 الفضل ۱۳ جون ۱۹۶۴ء صفحہ ۶ 34 الفضل ۱۳ جون ۱۹۶۴ء صفحه ۶ 35 اخبار بد را ا جون ۱۹۶۴، صفحہ ۲.الفضل ۱۷ جون ۱۹۶۴، صفحہ ۸ 36 ریکارڈ بہشتی مقبرہ و رجسٹر روایات جلدا اصفحه ۶۴ 37 رجسٹر روایات نمبر ۱ صفحه ۲۶۵،۲۶۴ 38 الفضل ۱۱،۱۰ ۱۳۰ جون ۱۹۶۵ء مضمون مولانا غلام احمد صاحب فرخ 39 الفضل ۴ را گست ۱۹۶۴، صفحه ۶ و غیر مطبوعہ مکتوب مولوی احمد حسن صاحب.۲۰ جولائی ۱۹۹۰ء 40 الفضل ۷ اجولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۸ 41 ماخوذ از کتاب "کرم الهی مؤلفہ ڈاکٹر منور احمد صفحه ۲۴۲ تا ۲۴۴ 42 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 43 الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۶۴، صفحہ ۸ 44 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 45 الفضل ۲۸ اگست ۱۹۶۴ صفحه ۵ 46 بدر در ویشان قادیان نمبر دسمبر ۲۰۱ صفحه ۱۰۲ سال 1964ء 47 بدر ۶ را گست ۱۹۶۴ء صفحه.کتاب ”وہ پھول جو مرجھا گئے، صفحہ ۵۱ تا۵۳- از چوہدری فیض احمد گجراتی در ولیش ناظر بیت المال قادیان فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان دسمبر ۱۹۷۶ء بدر در ویشان قادیان دسمبر ۱۲۰۱۱ صفحه۱۰۲ 48 ریکارڈ بہشتی مقبرہ

Page 706

سال 1964ء تاریخ احمدیت.جلد 22 49 الفضل ۱۱ را کتوبر ۱۹۶۴ء صفحه ۵ 50 الفضل ۵ جولائی ۲۰۰۲ ، صفحہ ۵ 51 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 52 الفضل ۳ ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۶ 53 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 54 الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۶۴، صفحه ۸،۱ 55 ریکارڈ بہشتی مقبره 56 الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۸ 57 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 58 الفضل ۸۸ اکتوبر ۱۹۶۴ء وانصار الله اپریل ۱۹۶۲ء 59 الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۴ء صفریم 60 الفضل ۳ نومبر ۱۹۶۴ء صفحریم 61 الفضل ۳۰ اکتوبر ۱۹۶۴ صفحه ۸ 691 62 الحکم ۷ / اپریل ۱۹۴۱ء صفحہ ۴.الفضل ۱۳، ۲۹ نومبر ۱۹۶۴ء 63 ریکار ڈ وفات یافتگان بہشتی مقبر ۱۹۰۵۰ تا ۲۰۰۷ صفحه ۱۳۱ 64 تاریخ نجنہ اماءاللہ جلد اول صفحہ ۴۹.مولفہ حضرت مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 65 الفضل ربوه ۵ دسمبر ۱۹۶۴ صفحه ۸ 66 الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۶۴، صفحه ۵ 67 ریکارڈ بہشتی مقبرور بوه 68 الفضل الدسمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۴ و الفضل ۲-۴-۶.۷.۹ مئی ۱۹۶۵ء مضمون مولانا غلام احمد بد وماهوی مبلغ گیمبیا 69 فہرست مرسلہ رشید احمد صاحب بدوملہوی.رشید بوٹ ہاؤس گولبازار ربوہ 70 الفضل ۱۴ جنوری و ۵ راگست ۱۹۶۵ء 71 خود نوشت سوانح عمری قلمی غیر مطبوعہ محتر رو مارچ ۱۹۵۸ء.72 الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۶.73 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 74 الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۶۵ء صفحه ۵ 75 رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۰۱، ایڈیشن ۲۰۰۸ 76 تذکرہ صفحہ ۶۳۹ ، ایڈیشن چہارم.الہامات ۹ مئی ۱۹۰۸

Page 707

تاریخ احمدیت.جلد 22 692 سال 1964ء 77 خود نوشت سوانح عمری حضرت مولوی محمد عثمان صاحب صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی سالانہ رپورٹیں از یکم مئی ۱۹۵۹ء تا ۳۰ راپریل ۱۹۶۴ء 78 الفضل یکم جولائی ۱۹۶۵ء صفریم 79 تحریر ۲۸ جون ۱۹۹۰ء 80 الفضل ۹ فروری ۱۹۶۵، صفحه ۵ 81 82 روز نامه الفضل ربوه ۱۴جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۷ الفضل ربوه ۲۳ جنوری ۲ فروری ۱۹۶۴ء ضلع چکوال تاریخ احمدیت مؤلفه ریاض احمد ملک صفحه ۵۰۶ تا ۵۰۹ 83 الفضل ۳۰،۱۵ فروری ۱۹۶۴ء 84 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 85 الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۳۷ء 86 الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۶۴ ء صفحه ۸ 87 الفضل ۲ دسمبر ۱۹۸۹، صفحه ۶،۵ 88 الفضل ۱۲ ۱۳۰، ۱۵ مئی و ۲، ۱۸ جون وا ا نومبر ۱۹۶۴ء.بدرم جون ۱۹۶۴ء 89 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 90 91 الفضل ۷ جون ۱۹۶۴ ء صفحہ ۸ ریکار ڈ دفتر وصیت ربوہ 2 ملخص از الفضل ربوه ۱۸ ستمبر ۱۹۶۴، صفحه ۴، ۵ حالات تحریر کردہ محترم سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی کلکتہ 93 الفضل ا۱، ۱۸، ۲۶ جولائی ۱۹۶۴ء و ۵ استمبر ۱۹۶۴ء 94 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 95 الفضل ۲۵ جولائی ۶ راگست ۱۳ راگست ۱/۲۳ اکتوبر ۱۹۶۴ء 96 اخبار بد رقادیان ۱۳۷۶ راگست ۱۰،۲ستمبر ۱۵/اکتوبر ۱۹۶۴ء 97 الحر اب کراچی بحوالہ افضل ۹ / اپریل ۱۹۹۱ء صفحہ ۷ 98 الفضل ۳۰ راگست ۱۹۶۴ ، صفحه ۱ - ۸ ۱.۸ 99 الفضل ۱۸ ۱۹ستمبر ۲۶،۲۴، ۲۷، ۲۸ نومبر ۱۹۶۴ء 100 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء صفحہ ۸۷ 101 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ صفحه ۱۰۴، ۱۰۵ 102 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء صفحه ۱۰۵ تا ۱۰۷ 103 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : الفضل ۷ ۱۳ /اکتوبر و ۶ نومبر ۱۹۶۴ء.الفضل ۲۷ فروری، ۲۸، ۲۹ راگست، ۲، ۱۱ستمبر ۱۹۶۵ء.بدر یکم اپریل ۱۹۶۵ ، صفحہ ۷

Page 708

تاریخ احمدیت.جلد 22 693 104 "SUNDAY NEWS")اار اکتوبر ۱۹۶۴ء 105 بحوالہ الفرقان نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ۲۰-۲۱ سال 1964ء 106 بحوالہ الفرقان نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ۲۰ تا ۲۲ 107 رساله الفرقان نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ۱۷-۱۸ 108 الفرقان نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ۲۴ 109 الفضل ۱۵نومبر ۱۹۶۴ء 110 الفرقان نومبر ۱۹۶۴ ء صفحه ۳۸ 111 الفرقان نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ۳۹ 112 الفضل ۲۷ ا کتوبر ۱۹۶۴ صفح ۴۳ 113 افریقہ کے مسلمانوں کے کارنامے.مقالہ یوسف عثمان کامبولا یا الفضل ۱۳، ۲۷ اکتوبر و ۱۵، ۱۷نومبر و ۱۵ دسمبر ۱۹۶۴ء.رسالہ الفرقان نومبر ۱۹۲۳ء.مقالہ بکری عبیدی (The Life History of Sh.Kaluta Amri Abedi) 114 مسودات حضرت خلیفہ مسیح الثالث صفحہ ۵۹ تا ۶۱.ایضا الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۶۶ صفی ۱۲ فضل عمر نمبر 115 الفضل ربوه ۲۱ جون ۱۹۶۴، صفحه ۶ 116 الفضل ۶ جنوری ۱۹۶۵ء 117 الفضل ۱۹، ۲۹ جنوری ۱۹۶۴ء 118 الفضل ۳۱ جنوری، یکم فروری ، ۵، ۱۸ فروری ۱۴ جولائی ، ۱۹ ستمبر ۱۹۶۵ء 119 الفضل ۷ امارچ ۱۹۶۴ء 120 الفضل ۳، ۸ مارچ و۱۱ ۳۰/اپریل و یکم مئی ۱۹۶۴ء 121 الفضل (۱۳:۱۱ مارچ ۱۹۶۴ء.کتاب " آپ بیتی باجوہ صفحہ ۱۳۷ تا ۱۳۹ مؤلفہ چوہدری غلام اللہ باجوہ اشاعت اگست ۱۹۸۷ء 122 الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۶۴ء صفحه ۸ 123 الفضل ۵ مئی ۱۹۶۴ ، صفحه ۵ 124 الفضل ۹ / اکتوبر ۱۹۶۴ صفحه ۵ 125 اخبار بدر ۹ را پریل ۱۹۶۴ء صفحہ ۷.اخبار الفضل ۱/۱۲اپریل و ۹ / اکتوبر ۱۹۶۴ء.کتاب ” وہ پھول جو مرجھا گئے، حصہ اوّل صفر ۴ ۶ تا ۶۷.مؤلفہ چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی مطبع فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان اشاعت دسمبر ۱۹۷۶ء 126 الفضل ۱۸، ۱۹ اپریل ۱۹۶۴ء 127 الفضل ربوہ ۲ جولائی ۱۹۶۴ صفحه ۵ 128 الفضل ۲۸، ۲۹ / اگست ۱۹۶۴ء.الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۶۵ء

Page 709

تاریخ احمدیت.جلد 22 129 الفضل ۱۴ نومبر ۱۹۶۴، صفحه ۵ 694 130 الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۹ء صفحه ۶ - الفضل ۴ فروری ۱۹۶۵ء صفحریم 131 شخص از ضلع چکوال تاریخ احمدیت صفحه ۴۳۷ تا ۴۴۳ 132 الفضل ۱۲ نومبر ، ۱۰،۸ دسمبر ۱۹۶۴ء 133 الفضل 9 جنوری ۱۹۶۵ء 134 الفضل ربوه ۱۰ نومبر ۱۹۶۴ ء صفحه یم 135 بدر قادیان ۱۰ دسمبر ۱۹۶۴ ء وے جنوری ۱۹۶۵ء والفضل ۲۷ جنوری ۱۹۶۵ء 136 الفضل 19 دسمبر ۱۹۶۴ء،۱۹،۱۵جنوری ۱۹۶۵ء 137 الفضل ۱۴ جنوری و ۴ افروری ۱۹۶۵ء سال 1964ء

Page 710

تاریخ احمدیت.جلد 22 695 سال 1964ء ۱۹۶۴ء کے متفرق اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی تقاریب ولادت (۱) مینا مبارکه صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب (۸/ جنوری ۱۹۶۴ء) (۲) سیدہ امتہ العزیز صاحبہ بنت سید داؤ د مظفر شاہ صاحب (۲۸ جنوری ۱۹۶۴ء) (۳) مرزا کلیم احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب (۲۴ / مارچ ۱۹۶۴ء) (۴) امتہ النصیر صاحبہ بنت کرنل و قیع الزمان صاحب (۳۱ / مارچ ۱۹۶۴ء) (۵) سید محمد احمد صاحب ابن سید محمود احمد ناصر صاحب (۱۱ارمئی ۱۹۶۴ء) (۶) علی باسل احمد خان صاحب ابن نوابزادہ شاہد احمد خان صاحب (۲۲ جون ۱۹۶۴ء) (۷) امۃ الوحید صاحبہ بنت مرزا انور احمد صاحب (۵/ جولائی ۱۹۶۴ء) (۸) سیدہ سلطانہ صبیحہ صاحبہ بنت سید سید احمد ناصر صاحب (۲۵ را کتوبر ۱۹۶۴ء) 10 (۹) امتہ المجیب نعماء صاحبہ بنت مرزا مجیب احمد صاحب (۲۳ نومبر ۱۹۶۴ء) (۱۰) سید ناصر احمد خضر پاشا صاحب ابن مکرم سید حضرت اللہ پاشا صاحب (۲۷ نومبر ۱۹۶۴ء) نکاح اور شادی جنوری ۱۹۶۴ کو صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود کی شادی اسماء طاہرہ صاحبہ بنت مولوی عبدالباقی صاحب ایم.اے کنری سے ہوئی.۲۸ دسمبر ۱۹۶۴ء کو صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ابن (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی امتہ الحسیب صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا امنیر احمد صاحب سے اور صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ابن حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کا نکاح محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ بنت محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب سے ہوا.۳۰ دسمبر ۱۹۶۴ء کو مرزا نعیم احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود کی شادی محترمہ صاحبزادی سیدہ امتہ المومن صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب سے عمل میں آئی.

Page 711

تاریخ احمدیت.جلد 22 696 سال 1964ء احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں اور اعزازات اس سال احمدی نوجوانوں کی کامیابیوں کا سلسلہ نہ صرف پاکستان میں نمایاں شان کے ساتھ جاری رہا بلکہ سیرالیون اور غا نا جیسے اہم افریقی ممالک تک ممتد ہو گیا.امتحانات (۱) جناب عطاء المجیب صاحب راشد ( خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب کے صاحبزادے) بی.اے عربی کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول رہے.اور پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے انعامی وظیفہ اور دو طلائی تمغوں کے مستحق قرار پائے.(۲) ناصر احمد محمود صاحب (ابن میاں محمد الحق صاحب سنوری لاہور ) نے ڈینٹل سرجری کے 13 فرسٹ پروفیشنل امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی.(۳) جامعہ نصرت ربوہ کی طالبہ قانتہ شاہدہ صاحبہ بی اے بنت قاضی محمد رشید صاحب یونیورسٹی بھر کی لڑکیوں میں اول رہیں.(۴) مرزا محی الدین صاحب (ابن مربی سلسلہ گیانی واحد حسین صاحب ) ایم.اے باٹنی کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں اول رہے.(۵) امتہ المالک فرخ صاحبہ ( بنت جناب پیر صلاح الدین صاحب ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ ) ایم اے فارسی میں یو نیورسٹی بھر میں اول رہیں.16 (1) یو نیورسٹیوں میں ۱۹۶۴ ء کے امتحانات میں دوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء وطالبات کے نام یہ ہیں.عنایت اللہ صاحب منگل (ایم اے اکنامکس میں ) 18 عبدالمجید صاحب چیمہ (ابن عبد الرحیم صاحب چیمہ ربوہ ، ایم ایس سی زوالوجی میں ) رشید احمد اختر (ایم.ایس سی کے امتحان میں ) 0 20 19 کمال الدین حبیب احمد صاحب (ابن مولوی روشن الدین احمد صاحب مجاہد مسقط ومشرقی افریقہ ) ( بی.ایس سی آنرز زوالوجی میں )

Page 712

تاریخ احمدیت.جلد 22 کھیلیں 697 سال 1964ء (پاکستان) تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے اس سال کھیل کے میدان میں تین اعزاز حاصل کئے.چنانچہ باسکٹ بال ٹورنامنٹ کی کالج سیکشن میں چمپیئن شپ جیتی.اس کی ٹیم کشتی رانی کے مقابلوں میں یونیورسٹی بھر نیز بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور کے کشتی رانی کے مقابلہ میں 22 چمپیئن قرار پائی.جامعہ نصرت ربوہ نے والی بال کے انٹر زونل مقابلوں میں بورڈ کی نیز یونیورسٹی کی والی بال کی چمپیئن شپ جیت لی.تعلیم الاسلام ہائی سکول کی کرکٹ ٹیم ضلعی مقابلوں میں امسال بھی چمپیئن قرار پائی.(غانا) احمد یہ سیکنڈری سکول کماسی نے ملک کے تمام سکولوں اور کالجوں کو فٹبال ٹورنامنٹ میں 24 شکست دے کر نیشنل چمپیئن شپ کا اعزاز حاصل کیا.( سیرالیون) سیرالیون کے احمد یہ سیکنڈری سکول نے صوبائی ٹورنامنٹ میں چمپیئن شپ جیسہ لی.ٹورنا منٹ میں صوبے کی ہیں ٹیمیں شامل ہوئی تھیں.سہ ماہی مجلہ الجامعہ“ کا اجراء سید میر داؤ د احمد صاحب کی نگرانی میں جامعہ احمد یہ ربوہ کی طرف سے ایک رسالہ مجلہ الجامعہ“ کا اجراء ہوا.جس کے مدیر جامعہ احمدیہ کے استاد ملک سیف الرحمن صاحب مقرر ہوئے.نائبین میں محمد شفیق قیصر، محمد یوسف سلیم لئیق احمد طاہر اور محمود احمد شامل تھے.رسالے کے اجراء کا مقصد علمی، ادبی ، تاریخی اور سائنسی علوم کی اشاعت تھا.سید میر داؤ داحمد صاحب نے اس رسالے کے اجرا کے موقع پر بیان فرمایا:.کوئی تعلیمی ادارہ اپنے مقصد کو پورانہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے اساتذہ اور طلباء دونوں تحقیق و مطالعہ کا کام نہ کرتے ہوں.خدا کے فضل سے جامعہ احمد یہ اس لحاظ سے حقیقی تعلیمی ادارہ کہلانے کا مستحق ہے.اس مجلہ میں نہایت اعلی درجہ کے علمی وتحقیقی مضامین شائع ہوتے رہے.یہ سہ ماہی رسالہ ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۳ ء تک چھپتا رہا.

Page 713

تاریخ احمدیت.جلد 22 698 سال 1964ء افغان وفد قادیان میں ۱۸ر جنوری کو افغانستان سے نوارکان پر مشتمل ایک سرکاری وفد مشرقی پنجاب کے کو آپریٹو سسٹم کے مطالعہ کے لئے لدھیانہ، جالندھر اور چندی گڑھ سے ہوتا ہوا قادیان پہنچا.وفد کے لیڈر جناب عبدالکریم صاحب اسٹنٹ ڈائریکٹر نیشنل ٹریننگ رورل ڈویلپمنٹ نے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سے ملاقات کی اور اس بات پر اظہار مسرت کیا کہ انہیں ایک ایسے مقام کو دیکھنے کا موقعہ ملا ہے جہاں مسلمان آباد ہیں.ممبران وفد کو جماعتی معلومات بہم پہنچانے کے علاوہ لٹریچر بھی پیش کیا گیا.پاکستان کے سابق وزیر خارجہ کی ربوہ میں آمد ۱۹ جنوری ۱۹۶۴ء کو مغربی پاکستان ہائیکورٹ لاہور کے سابق چیف جسٹس اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ جناب منظور قادر صاحب ربوہ تشریف لائے.آپ مرکز احمدیت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور تعلیم الاسلام کالج کی بزم اردو سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا’ آج میں نے آپ کے دفاتر دیکھے ہیں نیز بیرونی ممالک میں آپ کے تبلیغی مشنوں اور ان کی مساعی کے بارہ میں بہت سی معلومات حاصل کی ہیں.میں اس بات سے بہت متاثر ہوا ہوں کہ آپ بیرونی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں.29 کلکتہ میں مسجد کا افتتاح کلکتہ میں اس سال ایک شاندار مسجد کی تعمیر پائیہ تکمیل کو پہنچی اور ۱۴فروری ۱۹۶۴ء کو مولوی بشیر احمد صاحب دہلوی امیر جماعت کلکتہ نے افتتاح کیا.خدا کے اس گھر کے سب تعمیری اخراجات کلکتہ کے مخلص احمدیوں نے برداشت کئے.جناب سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی کلکتہ خدا کے اس گھر کی تعمیر اور اس کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے قبل جو احمدی احباب کلکتہ میں موجود تھے وہ مکرم خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم کی دکان میں نمازیں پڑھا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح اول کے عہد خلافت میں گواحباب کی تعداد میں ترقی ہوئی.کالج سٹریٹ میں شیخ محمد امین ، فضل کریم و حاجی

Page 714

تاریخ احمدیت.جلد 22 699 سال 1964ء محکم الدین صاحبان مرحوم کپڑے کے سلیپرز کا کاروبار کرتے تھے.ان تینوں حقیقی بھائیوں نے بھی جماعت کی بہت مخلصانہ خدمت کی.جزاھم اللہ احسن الجزاء.مگر با قاعدہ نظام کی صورت پیدا نہ ہو سکی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مبارک عہد کے اوائل میں غالباً ۱۹۱۸ء میں مکرم چودھری نواب علی صاحب نے واٹرلوسٹریٹ میں جماعت احمدیہ کی تنظیم قائم کی.مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب کشمیری نے تبلیغ اور تربیت کے سلسلہ میں نمایاں کام کیا.اور قرآن مجید کے درس اور با قاعدہ جلسوں کا انتظام کیا.اُن ایام میں جن خوش قسمت لوگوں کو سلسلہ عالیہ میں داخل ہونے کی توفیق حاصل ہوئی اُن میں مکرم مولوی لطف الرحمن صاحب، مکرم حکیم ابوطاہر محمود احمد صاحب، ڈاکٹر امید علی صاحب اور میاں محمد صدیق صاحب تاجر بھی شامل تھے.ان بزرگوں نے اپنے اپنے رنگ میں سلسلہ کی بہت خدمت کی.اللہ تعالیٰ ان سب کو غریق رحمت کرے اور نیک جزاء عطا فرمائے.شہر میں سلسلہ کی اپنی کوئی مسجد نہ ہونے کی وجہ سے ان ایام میں نمازیں ادا کرنے اور تبلیغی جلسے منعقد کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں انتظام کیا جاتا تھا.۱۹۴۴ء میں اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا پر عموماً اور جماعت احمدیہ پر خصوصا گراں بہا انعام نازل فرمایا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو مصلح موعود کی روحانی خلعت سے نوازا.حضور پرنور نے لاہور، لدھیانہ، ہوشیار پور اور قادیان میں اس نعمت عظمیٰ کا اعلان فرمایا اور اسی سلسلہ میں حضور نے دہلی کا سفر بھی اختیار کیا.اس وقت جماعت کلکتہ کے بعض احباب کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ حضور سے درخواست کی جائے کہ کلکتہ کو بھی اپنے مبارک قدوم سے نواز ہیں.اس ضمن میں یہ تجویز کی گئی کہ حضور کو اس لمبے سفر پر آمادہ کرنے کے لئے کلکتہ میں احمدیہ مسجد کی تعمیر کا پروگرام بنایا جائے.اور حضور اس مقدس عمارت کا اپنے مبارک ہاتھوں سے افتتاح فرمائیں.اس تجویز کی تمام مقامی احباب نے بدل و جان تائید کی اور صاحبزادہ حضرت میرزا ظفر احمد سلمہ کی صدارت میں جماعت کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا.تا کہ مجوزہ مسجد کے لئے موزوں مقام پر زمین خریدنے کے لئے چندہ جمع کیا جائے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس تحریک کو ایسی برکت عطا فرمائی کہ اُس اجلاس میں مقامی احباب نے تقریباً ساٹھ ہزار روپیہ کے وعدے لکھوائے.بعد ازاں مزید دوستوں نے بھی حصہ لیا اور تقریباً اسی ہزار روپیدا کٹھا ہو گیا.فالحمد للہ رب العلمین

Page 715

تاریخ احمدیت.جلد 22 700 سال 1964ء زمین کے لئے مختلف علاقوں میں پلاٹ دیکھے گئے اور ایک جگہ بہ اتفاق رائے پسند کی گئی.شہر کے جنوب مشرقی علاقہ پارک سرکس میں ایک غیر احمدی کی وسیع جائیداد تھی.جسے وہ پلاٹ بنا کر فروخت کر رہے تھے.اس میں ایک پلاٹ کا سودا کیا گیا.اور بیعانہ وغیرہ دے دیا گیا لیکن جب اس نام نہاد مسلمان کو معلوم ہوا کہ اس پلاٹ پر احمد یہ مسجد تعمیر کی جائے گی تو اس نے رجسٹری کر دینے سے انکار کر دیا.اس کا یہ انکار بیعانہ والے تحریری معاہدہ کے سراسر خلاف تھا اور قانونی طور پر اسے رجسٹری کر دینے پر مجبور کیا جاسکتا تھا مگر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ایسا کرنا پسند نہ فرمایا.اور فرمایا کہ مساجد تو امن اور سلامتی کا مقام ہوتی ہیں.ہم ایسی زمین پر مسجد تعمیر کرنا نہیں چاہتے جس کی ابتداء ہی جھگڑے سے ہو.اس لئے وہ خرید منسوخ کر دی گئی اور ایسا کرنے کے نتیجہ میں مقامی جماعت کو تقریباً چار ہزار روپے کا نقصان اٹھانا پڑا.خدا تعالٰی کے بھی کیسے عجیب کام ہیں کہ اس کے فضل سے انہی ایام میں اور اُسی علاقہ میں سابقہ پلاٹ سے بدرجہا بہتر زمین بڑے راستہ پر جماعت کو حاصل ہوگئی.جسے ۱۹۴۷ء میں صدر انجمن احمد یہ قادیان کے نام پر رجسٹری کرالیا گیا.الحمد للہ یہ زمین پیمائش میں قریباً ۱۳ کٹھا ایک کنال اور ۱۲ مرلہ) ہے اور تقریباً اسی ہزار روپیہ میں خریدی گئی ہے.یہ وہ زمانہ تھا جب سارے ملک میں انقلاب بر پا تھا.اور جس کے نتیجہ میں صوبہ بنگال کی تقسیم عمل میں آگئی اور اکثر احباب کلکتہ سے منتقل ہو گئے.اس لئے اس زمین پر مسجد کی تعمیر کا معاملہ التواء میں پڑ گیا.اور تقریبا بارہ برس کوئی کارروائی نہ کی جاسکی.۶۱ - ۱۹۶۰ء میں الحاج منشی شمس الدین صاحب کی امارت کے عہد میں کلکتہ کارپوریشن میں مسجد کے لئے نقشہ داخل کر کے عمارت کی منظوری حاصل کی گئی.مقامی احباب نے تعمیر کے اخراجات کے لئے شرح صدر سے سرمایہ فراہم کیا.۱۹۶۲ ء کے ستمبر میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے فرزند ارجمند صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سلمہ اللہ قادیان سے بمع جناب ناظر صاحب بیت المال یہاں تشریف لے آئے اور ۶ استمبر ۱۹۶۲ء کو مقامی احباب کے اجتماع میں دعاؤں کے ساتھ مسجد کا سنگِ بنیا درکھا.اور چند بکرے صدقہ کئے گئے.الحمد للہ.بعد ازاں جناب مولوی بشیر احمد صاحب فاضل امیر جماعت کلکته کی نگرانی میں عمارت کا کام شروع ہوا.اور یہ نہایت ہی خوبصورت عمارت فروری ۱۹۶۴ء کے پہلے ہفتہ میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور ۴ فروری کو جمعتہ الوداع کے مبارک دن میں مولوی صاحب موصوف نے اس کا افتتاح کیا.فالحمد لله رب العلمین

Page 716

تاریخ احمدیت.جلد 22 701 سال 1964ء یہ مسجد مذکورۃ الصدر زمین کے قریباً تیسرے حصہ میں بنائی گئی ہے.دو تہائی زمین کو سلسلہ عالیہ کی دیگر تبلیغی ضروریات کے لئے ریز رو رکھا گیا ہے.مسجد کی عمارت ایک وسیع ہال (۳۴×۲۳ فٹ ) ایک برآمدہ (۳۲×۱۳افٹ ) اور مستورات کے لئے دو کمروں پر مشتمل ہے.جس پر تقریباً ساٹھ ہزار روپیہ خرچ ہوا ہے.علاوہ ازیں پختہ اور خوبصورت فرش کی لاگت ایک خاتون نے برداشت کی ہے.بجلی کی وائرنگ وغیرہ ٹیوب لائٹ اور ۱۶ عدد پنکھوں کے اخراجات مقامی جماعت کے تین برادران حقیقی نے ادا کئے ہیں.لاؤڈ سپیکر ایک سیٹھ صاحب نے عطا فرمایا ہے اور ساری مسجد کے لئے بہت ہی خوبصورت دریاں ایک اور سیٹھ صاحب نے مہیا فرمائی ہیں.جزاھم اللہ احسن الجزاء.مسجد کی عمارت کے مشرقی جانب سلسلہ عالیہ کے مبلغ کے قیام اور جماعت کی دیگر ضروریات کے لئے ایک علیحدہ مکان تعمیر کیا گیا ہے جس پر تقریباً اٹھارہ ہزار روپیہ خرچ ہوا ہے.جس میں سے تقریباً آٹھ ہزار روپیہ صدر انجمن احمد یہ قادیان نے عنایت فرمایا ہے.اور دس ہزار روپیہ ایک مقامی دوست نے برداشت کیا ہے.30 برطانیہ کی نواحمدی خاتون علیمہ صاحبہ کی ربوہ آمد محترمہ علیمہ صاحبہ جنہوں نے ۱۹۵۸ء میں احمدیت قبول کی تھی ۳ مارچ ۱۹۶۴ء کی شام زیارت مرکز کے لئے ربوہ تشریف لا ئیں.آپ محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہمراہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ، لجنہ اماءاللہ ربوہ اور ماہنامہ مصباح کے دفاتر، امتہ الحئی لائبریری ،نصرت انڈسٹریل سکول، جامعہ نصرت نیز فضل عمر فاؤنڈیشن بھی گئیں.انہوں نے یہ تمام ادارہ جات دیکھ کر دلی مسرت کا اظہار کیا.۶ مارچ صبح کو آپ ربوہ سے قادیان جانے کے لئے لا ہور تشریف لے گئیں.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی تحریر فرمودہ ایک نہایت اہم روایت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ایک نہایت اہم روایت الفضل میں شائع ہوئی جس سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خلافت کے متعلق ایک اہم گواہی ملتی ہے.آپ تحریر فرماتی ہیں:.احتیاط کا پہلو مد نظر رکھنا سمجھیں یا میری کمزوری بوجہ حالات جانیں.بہر حال یہ روایت جو میں تحریر کر رہی ہوں کبھی اب آکر ایک آدھ بار کسی عزیز کو سنانے کے علاوہ میری زبان پر نہیں آسکی.چند

Page 717

تاریخ احمدیت.جلد 22 702 سال 1964ء سال ہوئے ایک کاپی میں نوٹ کر لی تھی کہ زندگی کا اعتبار نہیں میرے ساتھ ہی نہ رخصت ہو جائے.اول ایام میں حضرت مسیح موعود کی حیات میں اور پھر حضرت خلیفہ اول کی حیات میں تو زبان سے یہ بات نکل ہی نہ سکتی تھی.دل ہی گوارا نہ کر سکتا تھا.پھر حالات بگڑے جو سب پر روشن ہیں کہ یونہی الزام لگتے تھے.حضرت اماں جان پر اور خود حضرت سیدنا خلیفہ اسیح الثانی پر کہ خلافت کے خواہاں میں غرض کیا کیا اتہام نہیں تراشے گئے.کیسی کیسی بدگمانیوں کے نتیجہ میں زبان و قلم کے تیر اس قطعی بے گناہ وجود پر نہیں چلائے گئے انہی وجوہ سے میں نہ تو لکھ سکی یہ بات.اور نہ ہی زبان پر لاسکی.اب ایسی عمر ہے کہ کسی وقت کا پتہ نہیں کہ کب بلا وا آ جائے تو آج خلافتِ ثانیہ کے ۵۰ سال کے بعد یہ امانت آپ کے سامنے حاضر کرتی ہوں.جب انجمن کا قیام ہو رہا تھا ان دنوں کا ذکر ہے کہ باہر کوئی میٹنگ انجمن کے ارکان کے انتخاب کی یا مقر رشدہ لوگوں کی قوانین وغیرہ کے متعلق ہو رہی تھی.کیونکہ انجمن بن رہی تھی یا بن چکی تھی یہ مجھے علم نہیں نہ ٹھیک یاد ہے ) حضرت سید نا بڑے بھائی صاحب باہر سے آکر آپ کو رپورٹ کرتے اور باتیں بتا کر جاتے تھے.آپ حضرت اماں جان والے صحن میں ٹہل رہے تھے.جب حضرت سیدنا بھائی صاحب آخری بار کچھ باتیں کر کے باہر چلے گئے تو آپ دارالبرکات کے صحن کی جانب آئے اور وہاں سے حجرہ میں جانے کے دروازہ کی جانب اترنے والی سیڑھی کے پاس آکر کھڑے ہو گئے.حضرت اماں جان پہلے سے وہاں کھڑی تھیں.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے ساتھ ساتھ چلی آئی تھی اور پیچھے کھڑی ہوگئی.آپ کی پیٹھ کی جانب بالکل قریب اس وقت آپ نے جیسے سیدھے کھڑے تھے اسی طرح بغیر گردن موڑے کلام کیا.مگر بظاہر حضرت اماں جان سے ہی مخاطب معلوم ہوتے تھے فرمایا:.کبھی تو ہمارا دل چاہتا ہے کہ محمود کی خلافت کی بابت ان لوگوں کو بتا دیں.پھر میں سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اپنے وقت پر خود ہی ظاہر ہو جائے گا“.اسی ترتیب سے پہلے فقرہ میں ”ہمارا کہا دوسرے میں میں فرمایا اور غیر محسوس سے وقفہ سے یہ دوسرا فقرہ ادا فر مایا.مجھے قسم ہے اپنے مالک و خالق ازلی و ابدی خدا کی جس کے حضور میں نے بھی اور سب نے حاضر ہونا ہے اور وہی میرا شاہد ہے میرا حاضر و ناظر خدا جس کے پاس اب میرے جانے کا وقت قریب ہے کہ یہ سچ اور بالکل حق ہے کہ ان الفاظ میں ذرا فرق نہیں.مجھے ایک ایک لفظ ٹھیک

Page 718

تاریخ احمدیت.جلد 22 703 سال 1964ء یا در ہا اور ایسا کچھ خدا تعالیٰ کے تصرف سے میرے دماغ پر نقش ہوا اور دل پر لکھا گیا کہ میں بھول نہیں سکی.اس وقت بھی وہاں آپ کا کھڑا ہونا پیش نظر ہے.آپ کی آواز اسی طرح کانوں میں آ رہی ہے.اس طرح گویا میری چشم تصور آپ کو دیکھ رہی ہے.جیسے آج کی بلکہ ابھی کی بات ہو.پہلے یہ بھی مجھے خیال رہتا تھا کہ میں آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے جو چلی آئی تو شائد آپ کو علم نہ ہو کہ میں سن رہی ہوں مگر ممکن ہے اور بہت ممکن ہے کہ آپ نے میری آہٹ پالی ہو.میری چاپ سن لی ہو.کیونکہ اکثر آپ کے ساتھ ساتھ چل پڑا کرتی تھی.اور یوں بھی میں قریباً آپ کی پشت مبارک کے ساتھ ہی تو لگی گھڑی تھی.آپ کی آواز یہ الفاظ یہ دونوں مندرجہ بالا فقرے بولتے ہوئے سرسری نہ تھی بلکہ بڑے ٹھہراؤ سے بڑے وقار و سنجیدگی سے آپ نے یہ بات کی.اور خصوصاً دوسرا فقرہ جب آپ نے بولا تو معلوم ہوتا تھا بہت دور کہیں دیکھ کر ایک عجیب سے رنگ میں یہ الفاظ آپ کے منہ سے نکل رہے ہیں.اس طرح آپ نے یہ فقرے ادا کئے جیسے اپنے آپ سے کوئی بات کر رہا ہو مگر ویسے میں یہی سمجھ رہی تھی کہ حضرت اماں جان سے آپ مخاطب ہیں.اس بات کی بناء پر مجھے ہمیشہ سے یقین رہا اور ہے کہ خلافت محمود کے متعلق آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم ہو چکا تھا.والسلام مبارکہ سیرالیون کے ڈپٹی پرائم منسٹر کا استقبال 32 مارچ ۱۹۶۴ء میں سیرالیون کے ڈپٹی پرائم منسٹر جناب مصطفیٰ صاحب مختصر دورہ پر پاکستان تشریف لائے.جماعت احمدیہ کراچی کے مقامی عہدیداروں نے ہوائی اڈہ پر ان کا استقبال کیا.اور ان کی خدمت میں تحفہ بھی پیش کیا.نیز واپسی پر ان کو الوداع بھی کیا.نائیجیریا کے پریس نمائندگان کی پاکستان آمد 33 اپریل ۱۹۶۴ء میں نایجیریا کے پریس نمائندگان کی کراچی آمد کے موقع پر جماعت احمدیہ کراچی کی جانب سے قرآن کریم انگریزی، اسلامی اصول کی فلاسفی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے انگریزی تراجم تمام نمائندگان کو پیش کئے.34 سنگ بنیاد مسجد غازی اندرون شیخو پوره مورخہ ۷ جون ۱۹۶۴ء کو موضع غازی اندرون ضلع شیخوپورہ میں احمدیہ مسجد کا سنگ بنیا د رکھا گیا

Page 719

تاریخ احمدیت.جلد 22 704 سال 1964ء تقریب میں آنبہ وکالیہ، بلہ کے ، شیخوپورہ ، وزیرہ ورکاں اور لاٹھیا نوالہ ضلع لائل پور کے احباب جماعت کی بہت بڑی تعداد بھی شامل ہوئی.اسی طرح غیر از جماعت بھی کثیر تعداد میں اس سنگ بنیاد کی تقریب میں شامل ہوئے.پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کا نیا اعزاز آپ نظری طبیعات کے بین الاقوامی ادارہ کے صدر منتخب کر لئے گئے.ممتاز ماہر طبیعات اور صدر پاکستان کے سائنسی مشیر اعلیٰ پر وفیسر عبدالسلام نظری طبیعات کے بین الاقوامی ادارہ (ٹریسٹ.اٹلی ) کے صدر منتخب ہوئے ہیں.بعد میں یہ ادارہ دنیا میں اقوام متحدہ کی پہلی یو نیورسٹی کا درجہ حاصل کر لے گا.سر دست اس ادارے کو پانچ لاکھ ڈالر سالانہ کی گرانٹ ملی ہے.اس ادارہ میں مختلف ملکوں کے سائنسدانوں کو طبیعات میں اعلیٰ تربیت دینے کا اہتمام ہو گا.پروفیسر عبد السلام کی خدمات اس ادارے نے ایک سال کے لئے مستعار لی ہیں.موصوف اس وقت امپریل کالج لندن میں نظری طبیعات کے پروفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں.ڈاکٹر رالسلام پہلے ایشیائی اور دولت مشترکہ کے کسی ملک کے پہلے اور واحد سائنسدان ہیں جنہیں برطانیہ کی کسی یو نیورسٹی میں سائنسی فیکلٹی کا صدر مقرر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا.پروفیسر رادھا کرشنن (صدر ہند ) کو ایک زمانہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں یہ اعزاز حاصل ہوا تھا لیکن وہ ہندوستانی فلسفے کے شعبہ کے صدر تھے نظری طبیعات کے بین الاقوامی ادارے کی صدارت کے لئے ان کا انتخاب بھی ان کے سائنسی علم کے اعتراف کا درجہ رکھتا ہے.36 حج بیت اللہ سے مشرف ہونے والے احمدی امسال ۱۹۶۴ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ تعداد میں انتالیس احمدی احباب و خواتین (پاک و ہند ) کو فریضہ حج بیت اللہ سے مشرف ہونے کی سعادت و برکت عطاء ہوئی.یہ وہ احباب ہیں جن کے ساتھ آپس میں حج کے موقع پر رابطہ ممکن ہو سکا.ا.مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل از قادیان ۲ مکرم مرزا عبداللطیف صاحب در ولیش قادیان مکرم میاں خدا بخش صاحب در ویش قادیان ۴ مکرم سیٹھ معین الدین صاحب از حیدر آباد دکن مکرمہ اہلیہ صاحبہ مکرم سیٹھ معین الدین صاحب ۶ مکرمہ والدہ صاحبہ مکرم سیٹھ معین الد

Page 720

تاریخ احمدیت.جلد 22 705 سال 1964ء مکرم عبدالحمید عارف صاحب از لاہور مکرمہ اہلیہ صاحبہ مکرم عبدالحمید عارف صاحب ۹ مکرمہ بیگم بی بی صاحبه از گوجرانواله ۱۰.مکرمہ عائشہ بی بی صاحبہ از کراچی ۱۱.مکرم عبدالغفار صاحب از یاد گیر ۱۲ مکرمہ اہلیہ صاحبہ مکرم عبد الغفار صاحب ۱۴ مکرم حکیم عبداللطیف صاحب شاہد از لاہور ۱۳ مکرم محمد محسن صاحب از یاد گیر ۱۵- مكرم السید منیر الحصنی صاحب از دمشق ۱۶ مکرمہ اہلیہ صاحبہ مکرم السید منیر احصنی صاحب ۱۷.مکرم السید محمد عبد اللہ صاحب شبوطی از عدن ۱۸ مکرمہ اہلیہ صاحبہ مکرم السید محمد عبد اللہ صاحب شبوطی ۱۹ مکرمہ والدہ صاحبہ مکرم السید محمد عبد اللہ صاحب ۲۰ مکرم السید محمد المارک صاحب از عدن ۲۱ مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب از ربوه ۲۲ مکرم شیخ عبدالرحمن صاحب از راولپنڈی ۲۳.مکر مہ اہلیہ صاحبہ مکرم شیخ عبدالرحمن صاحب ۲۴.مکرم ڈاکٹر محمد منیر صاحب قاضی از لاہور ۲۵.مکرمہ اہلیہ صاحبہ مکرم ڈاکٹر محمد منیر صاحب قاضی ۲۶ مکرم محمد یعقوب صاحب جودھامل بلڈنگ لاہور ۲۷ مکرم محمد رمضان صاحب از پتوکی مکرمہ اہلیہ صاحبہ مکرم محمد رمضان صاحب ۲۹.مکرم ڈاکٹر رشید صاحب یوسفی از سابق پنجاب ۳۰ مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب ریڈیو آفیسر سفینہ حجاج ۳۱.مکرم جمعدار غلام رسول صاحب از کویت ۳۲ مکرم عبدالغفور صاحب از کویت ۳۳ مکرمہ والدہ صاحبہ عبدالغفور صاحب از کویت ۳۴ مکرم نذیر احمد صاحب از کویت ۳۵ مکرمہ اہلیہ صاحبہ مکرم نذیر احمد صاحب ۳۶ مکرمه دختر صاحب مکرم نذیر احمد صاحب ۳۷ مکرم پسر صاحب مکرم نذیر احمد صاحب ۳۸.مکرم چوہدری برکت علی صاحب از عدن ۳۹ مکرم عبدالرؤف صاحب از لاہور بھارت کی معزز شخصیات کو دینی لٹریچر کا تحفہ 37 جماعت احمد یہ بھارت نے حسب روایات اس سال بھی دعوت حق کے لئے ہر ممکن ذرائع بروئے کار لانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.اس سلسلہ میں احمدی وفود نے ملک کی تین اہم ترین شخصیات یعنی ہنزہائی نس مہاراجہ آف میسور گورنر مدراس، شری کامراج صدر آل انڈیا کانگریس کمیٹی اور گورنر مشرقی پنجاب جناب حافظ محمد ابراہیم صاحب کو خاص اہتمام سے انگریزی، ہندی، گورمکھی اور اردو کا لٹریچر پیش کیا.مؤخر الذکر شخصیات کو جن وفود نے لٹریچر پیش کیا ان کے امیر حضرت

Page 721

تاریخ احمدیت.جلد 22 706 سال 1964ء مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ تھے.گورنر مشرقی پنجاب نے فرمایا.”اسلام کا بنیادی کام تو یہی ہے جو 138 آپ کر رہے ہیں“.جماعت احمدیہ غیروں کی نظر میں ا.روزنامہ پاکستان ٹائمنز ۱۴ اگست ۱۹۶۴ء میں اخبار کے مشرق وسطی کے نمائندہ خصوصی جناب فرید.ایس جعفری نے ایک مضمون میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا ان الفاظ میں اعتراف کیا:.احمدی مبلغین کو عام طور پر قابلِ تعجب حد تک اس ملک میں مقبولیت حاصل ہے یہاں تک کہ صدر مملکت مسٹرنگر و ما سے بھی ان کے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ احمدی مبلغین مملکت نانا کی نئی پود کو نہ ہی اور عام دنیوی علوم کی تعلیم دینے کے ذریعہ حقیقی انسانی خدمات بجالا رہے ہیں اور وہ وہاں کے لوگوں میں کسی قسم کی باہمی تفریق، کشیدگی اور تلخی پیدا نہیں کرتے حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگوں میں باہمی اتحاد و تعاون کیلئے مصروف عمل ہیں.مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چونکہ احمدی مبلغین کا تبلیغ و تعارف کا طریقہ عیسائی منادوں کی نسبت زیادہ بہتر ہے اس وجہ سے ان کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ملک بھر میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے.مشہوراہل حدیث عالم مولوی محی الدین احمد صاحب کے بیٹے ڈاکٹر معین الدین احمد قریشی (بعد ازاں یہ پاکستان کے نگران وزیر اعظم بھی رہے) نے مشرقی افریقہ کے دورے سے واپسی پر جماعت کی تبلیغی کوششوں کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:.جہاں بھی میں گیا میں نے مرزائی مبلغین کو سر گرم عمل پایا.قریب وہ تمام لوگ تیز مناظر، مذہبی تنازعات کے سلسلے میں وسیع المعلومات، کتب مقدسہ کے حوالہ جات سے واقف اور تبلیغی نشیب وفراز سے آگاہ نظر آئے.ساتھ ہی شرمندگی سے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ کسی نام نہاد اسلامی جماعت کا کوئی نمائندہ وہاں بھولے سے بھی نظر نہیں آتا.39.افریقہ میں جماعت احمدیہ کی مساعی ”ماہنامہ سیارہ لاہور کی نظر میں ماہنامہ سیارہ لاہوراکتو بر ۱۹۶۴ء کے شمارہ میں جماعت اسلامی پاکستان کے ایک رہنما جناب نعیم صدیقی صاحب نے افریقن ممالک میں تبلیغی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مساعی کا حسب ذیل الفاظ میں اعتراف کیا:.

Page 722

تاریخ احمدیت.جلد 22 707 سال 1964ء افریقہ میں اسلام پھیلانے کے لئے کچھ کام مصر سے ہو رہا ہے مگر وہ بہت کم ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ آس پاس کے عرب ممالک اور ایشیا کے مسلم ممالک مل جل کر اس مہم میں سرگرمی سے حصہ لیں خصوصاً پاکستان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.پاکستان کی طرف سے اب تک جو تبلیغی کام ہورہا ہے وہ یا تو انفرادی قسم کا ہے یا کمزور اداروں کی طرف سے چند مبلغین نہایت محدود کام کر رہے ہیں.البتہ احمدیوں کا کام منظم بھی ہے اور زیادہ وسیع بھی.چنانچہ ایک رپورٹ کے مطابق مشرقی افریقہ کی ۱۵ فیصد مسلم آبادی میں دس ہزار احمدی ہیں اور پرتگیزی مشرقی افریقہ کے دس لاکھ مسلمانوں میں خاصی بڑی تعداد احمدیوں کی بیان کی جاتی ہے.کینیا کے بعض علاقوں میں بھی احمدی مبلغ کام کرتے ہیں نیروبی میں ان کا بڑا تبلیغی مرکز اور کالج ہے اور انگریزی اخبار نکل رہا ہے“.مغربی بنگال کے ایک جید عالم کا قبول احمدیت 40 کلکتہ کے نواح میں بڑیلہ کی عربی درسگاہ بہت مشہور ہے اس درسگاہ کے ناظم مولا نا عبدالحنان صاحب عبقری فاضل دیو بند تھے آپ کا شمار مغربی بنگال کے صف اول کے علماء میں ہوتا تھا اور اس خطہ میں بہت سے علماء کو آپ کا شاگرد ہونے کا شرف حاصل تھا.مولا نا کو عیسائیوں سے مباحثات کے دوران کا سر صلیب حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا بلند پایہ لٹریچر مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا.اور وہ حضور کے گرویدہ ہو گئے.ستمبر ۱۹۶۴ء کے آخر میں آپ سے مولانا محمد سلیم صاحب فاضل کی ملاقات ہوئی.مولانا نے واضح لفظوں میں بیان فرمایا کہ میں بیس سال کی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد واقعی مسیح موعود و مہدی مسعود ہیں.مولا نا عبدالحنان صاحب نے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کا باقاعدہ اعلان ۲۱ را کتوبر ۱۹۶۴ء کو ایک جلسہ عام میں کیا جو مسجد کلکتہ میں منعقد ہوا.اس موقعہ پر آپ کے دو صاحبزادگان نے بھی قبول احمدیت کا اعلان کیا.خدمت خلق کا ایک واقعہ اور تنظیم السادات و مومنین کا نفرنس کی قرار داد تشکر ۲۴ دسمبر ۱۹۶۴ کو چنیوٹ سے ۶ میل دور ایک نہایت دردناک حادثہ ہوا.جس میں سرگودھا کے مشہور وکیل سید غضنفر علی شاہ صاحب بخاری اور ان کی ایک دختر جو حادثہ میں شدید زخمی ہو گئے تھے.شاہ صاحب اور ان کی صاحبزادی فضل عمر ہسپتال لائے گئے.اور ہسپتال کے عملہ نے محض اللہ تعالیٰ کی

Page 723

تاریخ احمدیت.جلد 22 708 سال 1964ء 42 توفیق سے ہر ممکن کوشش طبی امداد کے لئے کی.شاہ صاحب کی حالت بہت نازک تھی اور پہلے دس روز وہ موت وحیات کی کشمکش میں رہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا.اور ان کو آہستہ آہستہ صحت ہونی شروع ہوئی.چنانچہ سواتین ماہ فضل عمر ہسپتال میں قیام کرنے کے بعد شاہ صاحب اور ان کی بچی اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفایاب ہو کر واپس سرگودھا تشریف لے گئے.اس سلسلہ میں ہسپتال کی کارکردگی کا سرگودھا کے تمام معززین اور وکلاء صاحبان پر نہایت گہرا اثر ہوا.حتی کہ سرگودھا کے اشد ترین مخالف اخباروں نے بھی ہسپتال کے کام کو بہت قابل تعریف ٹھہرایا.جماعت احمدیہ کے اس حسنِ سلوک پر شیعانِ سرگودھا کا ایک جلسہ عام مورخہ ۲۹ جنوری ۱۹۶۵ء بعد نماز جمعہ بمقام کربلا منزل سرگودها زیر صدارت سید رحمت علی شاہ بخاری صدر تنظیم السادات و مومنین کا نفرنس سرگودھا منعقد ہوا.جس میں مندرجہ ذیل ریز ولیوشن پاس ہوا: دو تنظیم السادات و مومنین کا نفرنس سرگودھا کا یہ جلسہ عام جماعت احمد یہ ربوہ و خصوصیت سے جناب ڈاکٹر میاں منور احمد صاحب انچارج فضل عمر ہسپتال ربوہ اور ان کے سٹاف نے جو سید غضنفر علی بخاری ایڈووکیٹ نائب صدر آل پاکستان شیعہ کانفرنس بالقابہ اور ان کی صاحبزادی کے علاج معالجہ اور دیکھ بھال کے سلسلہ میں جس ہمدردی اور اخلاق و رواداری کا مظاہرہ کیا ہے صمیم قلب سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہے.“ سید نذرعباس ترندی سیکرٹری نشر و اشاعت تنظیم السادات ومومنین کا نفرنس سرگودھا.

Page 724

تاریخ احمدیت.جلد 22 709 سال 1964ء آئیوری کوسٹ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی قریشی محمد افضل صاحب انچارج مشن جنوری ۱۹۶۴ء کے شروع میں بوک (BOAKE) میں تشریف لے گئے جہاں آپ نے شہر کے کمانڈر کولٹر پچر پیش کیا اور جامع مسجد میں تقریر کر کے مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پہنچائی آپ کو آئیوری کوسٹ سے متصل ملک اپروولٹا کے صدر مقام وا گود وگو میں بھی جانے کا اتفاق ہوا.اور آپ کی تبلیغی کوششوں سے ۲۲ نفوس داخل احمدیت ہوئے.جنوری تا مارچ ۱۹۶۴ء) امریکہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۱۹۶۴ء کے آغاز میں تین روز تک واشنگٹن میں قیام فرما رہے.جس کے دوران آپ نے ایک اہم اجلاس سے دو گھنٹے تک خطاب فرمایا جس سے احمدی و غیر احمدی بلکہ غیر مسلم غرضیکہ ہر طبقہ کے لوگ بہت محظوظ ہوئے.حلقہ واشنگٹن کے انچارج مکرم سید جواد علی صاحب نے اس سال اشاعت لٹریچر اور نجی ملاقاتوں کے ذریعہ پیغام حق پہنچانے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھی.نیز امریکہ کی احمدی جماعتوں کے دورے کئے.شاہ صاحب نے مندرجہ ذیل یونیورسٹیوں اور مقتدر اداروں میں تبلیغی لٹریچر بھجوایا.نارتھ کا رولینا یونیورسٹی.امریکن یونیورسٹی.جارج واشنگٹن یونیورسٹی.انڈیانا یونیورسٹی.جارج ٹاؤن یونیورسٹی.ونڈر بالسٹ یونیورسٹی.یونیورسٹی میامی فلوریڈا.کانگریس لائبریری.واشنگٹن لائبریری.سفارتخانہ جمیکا، گنی، کولمبیا.سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ.افریقن ڈیپارٹمنٹ.الیگزینڈریا ہائی سکول.فلاڈلفیا ہائی سکول.آپ نے ملک کے جن اہم علمی حلقوں تک بذریعہ گفتگو و تقریر پیغام احمدیت پہنچایا ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.UTAH کی سٹیٹ یونیورسٹی.واشنگٹن یونیورسٹی کے طلباء.میسونک ٹمپل (MASONIC TEMPLE).امریکن یونیورسٹی.جارج واشنگٹن یونیورسٹی.انڈیانا یونیورسٹی.جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے طلباء اور پروفیسرز.چرچ سلور سپرنگ.مشرقی افریقہ کے بعض

Page 725

تاریخ احمدیت.جلد 22 710 سال 1964ء سرکاری آفیسر ز مثلاً ممباسہ شہر کے میئر.نائب وزیر تعلیم کینیا.نائب صدر نیانزا ریجن.نیروبی سٹی کونسل کے قونصلر.شاہ صاحب نے ان افسران کو جماعت سے تعارف کرایا.طلباء امریکن یو نیورسٹی.جارج واشنگٹن یو نیورسٹی.ناظم کرسچن مسلم کواپریٹو سوسائٹی.آپ نے اس سال جن احمدی جماعتوں کا دورہ کیا ان کے نام یہ ہیں:.بالٹی مور.فلاڈلفیا.نیو یارک.باسٹن.واٹر بری کلیولینڈ.چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی انچارج پٹس برگ نے سڑکوں، سٹوروں اور بسوں میں بکثرت اشتہارات تقسیم کئے.بعض ترک اور شامی ڈاکٹروں، ورلڈ میتھوڈسٹ کانفرنس کے بھارتی عیسائی مندوبوں سے تبادلہ خیالات کیا.مشن ہاؤس میں آپ نے ایک تبلیغی لیکچر دیا جس سے لیبیا کے ایک سرکاری افسر بہت متاثر ہوئے.پاکستان ایمبیسی اور بہا تھال چرچ میتھوڈسٹ چرچ سے متعلق بعض احباب کولٹر پچر دیا.آپ نے ڈیٹن ، ینگس ٹاؤن کا دورہ کیا.میجر عبدالحمید صاحب انچارج حلقہ ڈیٹن نے بھی شہر میں سینکڑوں اشتہارات تقسیم کئے.عید کے موقع پر غیر مسلم معززین کو مدعو کر کے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا.یہوواہ وٹنس کے مبلغوں،سنسنائی کے ایک پادری صاحب اور ایک ایرانی جنرل کو احمدیت سے روشناس کرایا اور دینی لٹریچر پیش کیا.میجر عبدالحمید صاحب نے کئی پادریوں کو تبلیغی خطوط لکھے.ڈیٹن کے ایک چرچ میں بائبل سٹوڈنٹس کے سامنے ایک لیکچر دیا اورسوالوں کے جوابات دیئے.جماعت احمد یہ امریکہ کا سالانہ جلسہ کلیولینڈ میں ہوا.جلسہ میں واشنگٹن، بالٹی مور، فلاڈلفیا، نیو یارک، ولمنٹک ، پٹس برگ، بینکس ٹاؤن، ڈیٹرائٹ، شکاگو، ملوا کی، سینٹ لوئیس اور کینیڈا کی جماعتوں کے دوسو نمائندگان نے شرکت کی.مجاہدین احمدیت اور ممبران جماعت نے اسلام اور عیسائیت کے مختلف موضوعات پر تقاریر فرمائیں.دوران جلسہ لجنہ اماءاللہ ، خدام الاحمدیہ اور انصار الله کی ذیلی تنظیموں کے اجلاسوں کے علاوہ مشاورتی بورڈ کا اجلاس بھی ہوا.انگلستان ۲ مارچ ۱۹۶۴ء کو جماعت احمدیہ انگلستان کی طرف سے سیرالیون کے وزیر صحت الحاج کا نڈے بورے کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی جس میں انہوں نے اپنی تقریر میں جماعت احمدیہ کی عظیم الشان خدمات کو سراہا.

Page 726

تاریخ احمدیت.جلد 22 711 سال 1964ء اس سال آکسفورڈ اور برمنگھم میں نئی جماعتیں قائم ہوئیں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے آکسفورڈ کی جماعت سے خطاب فرمایا.مولانا بشیر احمد خان صاحب رفیق نے نو گھم نیوسن ایسوسی ایشن اور روٹری کلب آف ٹیڈنگٹن (TEDDINGTON) اور ینگ لبرل ایسوسی ایشن سے مؤثر خطابات کئے.علاوہ ازیں آپ نے ڈارٹ فورڈ کے پیرس چرچ کے متعد دارکان کو پیغام حق پہنچایا اور وانسٹس ورتھ بورڈ نیوز کے نیوز ایڈیٹر کو جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا اور دینی لٹریچر پیش کیا.اسی طرح پال مرس (PALMERS) گرل سکول کی طالبات کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کیا اور لٹریچر بھی دیا.ماہنامہ البصیرت بریڈ فورڈ اپریل ۱۹۶۴ء صفحہ ۳۳ پر لکھا ہے:.۱۹۶۴ء و ۱۹۶۵ء میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اُس وقت کے امام مسجد لندن بشیر احمد رفیق خان صاحب کے ہمراہ بریڈ فورڈ تشریف لائے اور مور لے سٹریٹ میں میر فیملی کی ایک دکان پر دعا فرمائی.آپ نے ہڈرزفیلڈ، پریسٹن اور بلیک برن تشریف لے جا کر وہاں نئی جماعتیں قائم کیں.بیگم صاحبہ چوہدری منصور صاحب نے بیگم صاحبہ عبید اللہ میر صاحب کے تعاون سے لجنہ قائم کی.جماعت برمنگھم کی ابتدائی تاریخ مکرم مطیع اللہ درد صاحب ابن محترم ملک برکت اللہ درد صاحب ( بھائی حضرت عبد الرحیم درد صاحب) برمنگھم میں جماعت کے قیام کی ابتدائی تاریخ بیان کی ہے جس کے مطابق برمنگھم میں جماعت احمدیہ کا قیام نومبر ۱۹۶۴ میں ملک نوراحمد صاحب ساکن ۳۴ سیکنڈایونیو، سیلی پارک بی ۲۹ کے گھر عمل میں آیا.مسجد فضل لندن کے امام اور مشنری انچارج احباب کی تنظیم سازی کے لئے برمنگھم تشریف لائے.اور محمد عبدالرشید صاحب اور مطیع اللہ دردصاحب کو بالترتیب صدر اور سیکرٹری مال نامزد فرمایا.برمنگھم میں اور اس کے آس پاس بعض اور بھی احمدی احباب قیام پذیر تھے.ان سے رابطہ کیا گیا اور انہیں جماعت کے قیام کی اطلاع دی گئی.اس کی خبر روز نامہ الفضل اور بدر قادیان میں چھپی.۶۶ - ۱۹۶۵ء کے دوران محمد ادریس چغتائی صاحب ساکن ۱۹۸ار السٹر روڈ جنوبی برمنگھم کے مکان پر جماعتی اجلاسات منعقد کئے گئے.آپ کو جماعت کا جنرل سیکرٹری مقر رکیا گیا تھا.اور جناب عبدالواسع عدم چغتائی صاحب کو فوٹو گرافر مقرر کیا گیا.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے

Page 727

تاریخ احمدیت.جلد 22 712 سال 1964ء ایک ماہانہ میٹنگ میں شمولیت فرمائی اور نہایت شفقت کے ساتھ چغتائی برادران کے آباء واجداد حضرت میاں چراغ دین صاحب اور حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی آف لاہور کے خلافت ثانیہ کے آغاز کے حالات بیان فرمائے.۶۷.۱۹۶۶ء میں بہت سے دیگر احمدی احباب رہائش کے لئے برمنگھم تشریف لائے.محترم رشید احمد صاحب سیرالیون سے اور چوہدری عبد الحفیظ صاحب نے یہاں سکونت اختیار کی.چند احمدی گھرانے ہیمنگٹن سپا، کومنٹری، والسال اور دیگر اردگرد کے علاقہ جات میں آباد تھے.ان سب کا تعلق جماعت احمد یہ برمنگھم سے تھا.ملک نثار احمد صاحب ،سید ظہور احمد شاہ صاحب، ملک محمد یعقوب صاحب، جناب عبدالہادی مہتہ صاحب، محمد افضل سیٹھی صاحب، شیخ مسعود احمد صاحب ،مبشر احمد خاں صاحب، ملک فضل الہی صاحب، ملک عبدالرحمن صاحب اور ملک محمد احمد صاحب پہلے ہی یہاں آچکے تھے.فضل الہی صاحب مرحوم کے اہل خانہ نے ہیلی ساون میں ایک گھر خریدا.ان کی بیوہ جناب بشیر احمد حیات صاحب آف لندن کی بہن تھی.ان کے بیٹے جماعتی کاموں میں گہری دلچسپی لیتے تھے.ڈینٹل سرجن جناب ظفر محمود صاحب سولی ہل میں پریکٹس کیا کرتے تھے.انہوں نے لیڈی بائرن لین ، کانول میں ایک کشادہ گھر بنالیا.ایک دفعہ جماعت کا ایک ماہانہ اجلاس اس میں کیا گیا.مکرم چوہدری عبدالغفور صاحب اور ان کے بھائی جناب محمد رفیق صاحب لیـمـنـگٹن سپائیں دعوت الی اللہ کی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتے تھے.جناب عبدالغنی صاحب زرگر اور ان کے بیٹے منور احمد صاحب، مبشر احمد صاحب اور مظفر احمد صاحب ساکن والسال تبلیغی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.جناب منور احمد صاحب بعد میں ماہنامہ ”الخاتم “ شائع کرتے رہے.حضرت مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تحریک جدید، میر مسعود احمد صاحب اور امام بشیر احمد رفیق صاحب کے ساتھ جون ۱۹۶۵ء کو ایک دن کے لئے یہاں تشریف لائے اور اپنے بین الاقوامی سفر کے ایک حصہ کے طور پر وہاں جماعتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا.جناب محمد عبدالرشید صاحب ایک بہترین شخصیت تھے.شفیق ، دیانت دار اور ایک مشہور سماجی کارکن تھے جو پاکستان قونصلیٹ کے طور پر ملازم تھے.ان کے پاس ایک چھوٹی گاڑی تھی جو جماعتی مقاصد کے لئے استعمال ہوتی تھی.ان کو صدر جماعت مقرر کیا گیا.

Page 728

تاریخ احمدیت.جلد 22 713 سال 1964ء ۱۹۶۷ء کے اوائل میں انہوں نے برمنگھم کو خیر باد کہہ کر شمالی لندن میں سکونت اختیار کر لی.آپ شمالی لندن جماعت کے صدر اور کئی سال تک احمدیہ ایسوسی ایشن یو کے کے فعال رکن رہے.جب مکرم محمد عبدالرشید صاحب نے لندن کے لئے برمنگھم کو چھوڑا تو امام صاحب اور مشنری انچارج یو کے نے سیکرٹری صاحب مال کو قائمقام صدر نامزد کر دیا.ایشیائی اور افریقی مہاجرین کی آمد سے برمنگھم جماعت کی تعداد بڑھنے لگی.مکرم محمد اقبال ڈار صاحب اور ان کے بھائی مکرم اکرام ڈار صاحب تنزانیہ سے تشریف لائے.۱۹۶۴ء میں جب ٹانگانیکا اور زنجبار کو ملا دیا گیا تو اس نئے مشرقی افریقی ملک کا نام تجویز کرنے کے لئے مکرم ڈاکٹر محمد اقبال ڈار صاحب ایک بین الاقوامی مقابلہ میں شامل ہوئے.مقابلے میں ۸۸ مختلف ممالک کے افراد شامل تھے.مکرم ڈاکٹر محمد اقبال ڈار صاحب کی کامیاب کاوش ” تنزانیہ" نے انہیں ایک سرٹیفکیٹ ، ایک قومی میڈل اور نقد انعام کا حقدار بنادیا.مکرم قاری محمد یسین خان صاحب کے بیٹے محمد الیاس خاں صاحب جو ایک زیر تربیت نوجوان وکیل تھے.پریکٹس کے لئے یہاں آئے.ان کے والد صاحب نے مطیع اللہ درد صاحب کو الیاس کی خصوصی سر پرستی اور انہیں جماعت کا ایک فعال رکن بننے کی ترغیب دلانے کی درخواست کی.وہ بعد میں ۱۹۷۰ء میں جنرل سیکرٹری بن گئے.چند سال بعد ان کو جماعت احمد یہ برمنگھم کا صدر منتخب کر لیا گیا.جماعتی قواعد وضوابط کے مطابق پہلا باقاعدہ انتخاب ۳ دسمبر ۱۹۶۷ء کو ہوا.امام صاحب اور مشنری انچارج صاحب لندن نے درج ذیل افراد کو منتخب فرمایا.صدر جناب مطیع اللہ در دصاحب.جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری مال چوہدری عبدالحفیظ صاحب سیکرٹری تعلیم جناب راشد صاحب در دصاحب کا گھر ۵۰ براڈوے برمنگھم ، بی ۲۰-۳ رای اسے احمد یہ...جماعت کا سنٹر مقرر کیا گیا.گھر کا سامنے کا کمرہ جماعتی سرگرمیوں اور شوری کے لئے مخصوص کر لیا گیا.متفرق احمدی گھرانوں میں متعدد ماہانہ اجلاس باری باری منعقد کئے گئے.ان حالات میں صاف نظر آنے لگا کہ بڑھتی ہوئی ضروریات کے لئے جماعت کو ماہانہ اجلاس کے لئے نسبتاً ایک بڑی جگہ درکار ہے.

Page 729

تاریخ احمدیت.جلد 22 714 سال 1964ء چنانچہ نیوٹاؤن کمیونٹی لوزیلز میں ایک بڑا کمرہ کرایہ پر لیا جا تا.اس مقصد کے لئے ہر ماہ چند گھنٹوں کے لئے ایک علیحدہ کمرہ مستورات کے اجلاس کے لئے بھی کرایہ پر لیا جا تا.مکرم رشید احمد صاحب بچوں کے لئے تعلیمی کلاسز کا انتظام کیا کرتے تھے.مکرم عبدالرشید ارشاد ریحان صاحب سیکرٹری صاحب تعلیم کی مددکیا کرتے تھے.۱۹۶۷ میں حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے عطیات جمع کرنے کے لئے برمنگھم کا دورہ کیا.بہت سے احباب نے اس سکیم میں طوعی طور پر فیاضانہ حصہ لیا.۱۹۶۸ء میں مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب برمنگھم میں رہنے اور کام کرنے کے لئے آئے.آپ اوٹن روڈ آسٹن میں اپنی پریکٹس شروع کرنے سے پہلے چار ماہ تک مکرم چوہدری عبدالحفیظ صاحب کے گھر ۵۰ وارن روڈ پر قیام پذیر رہے.مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ایک پر جوش داعی الی اللہ تھے.اور بہت سے ویسٹ انڈین لوگوں کے قبول احمدیت کا ذریعہ بنے.کمپیوٹر پروگرامر مکرم شکیل احمد صاحب نے کئی سال سیکرٹری تحریک جدید کے طور پر کام کیا.۱۹۶۹ء میں آپ بہتر مقاصد کے لئے لندن چلے گئے.نماز جمعہ احمدیہ مرکز اور مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کے کلینک پر ادا کی جاتی تھی.۱۹۷۰ء میں ڈاکٹر سید فاروق احمد صاحب مانور ہسپتال والسال میں کام کرتے تھے.ایک دن انہوں نے ایک اور ڈاکٹر محمد زکریا طاہر صاحب کو تبلیغ شروع کر دی.مکرم ڈاکٹر محمد زکریا طاہر صاحب ایک پاکستانی احمدی تھے.لیکن مکرم ڈاکٹر سید فاروق احمد صاحب کو اس بات کا علم نہیں تھا.کیونکہ وہ کچھ عرصہ ہی پہلے بہار، بھارت سے وہاں تشریف لائے تھے.تھوڑی دیر سننے کے بعد ڈاکٹر طاہر صاحب مسکرائے اور کچھ کہے بغیر باہر چلے گئے.ڈاکٹر سید فاروق صاحب نے مطیع اللہ دردصاحب کو فون کیا اور اپنی پر جوش تبلیغ کے متعلق بتایا.جیسے ہی انہوں نے ڈاکٹر زکریا طاہر صاحب کا نام لیا تو یہ سن کر بہت حیران ہوئے کہ ڈاکٹر ایم زیڈ طاہر صاحب تو پہلے ہی احمدی ہیں.ڈاکٹر فاروق صاحب نے ڈاکٹر طاہر صاحب سے معذرت کی اور بعد میں دونوں پریکٹس میں پارٹنر بن گئے.۲۰ را گست ۱۹۷۰ء کو مشہور شاعر جناب ثاقب زیروی صاحب، چوہدری محمد ادریس نصر اللہ

Page 730

تاریخ احمدیت.جلد 22 715 سال 1964ء صاحب، چوہدری ہدایت اللہ بنگوی صاحب اور امام بشیر احمد رفیق صاحب کے ساتھ احمد یہ مرکز برمنگھم تشریف لائے.مطیع اللہ درد صاحب ان کو بی بی سی ٹی وی کے سٹوڈیو لے گئے.وہاں بی بی سی ایشین پروگرام کے نگران جناب سلیم شاہد صاحب نے ان کی چند نظمیں ریکارڈ کیں.برما ۱۹۷۱ء میں مطیع اللہ درد صاحب نے چند انگریز احباب کو احمدی کرنے کی بھی توفیق پائی.48 جماعت احمد یہ برما کا سالانہ جلسه ۲۷ دسمبر۱۹۶۴ء کومنعقد ہوا جس میں ورسا محمد اسمعیل صاحب، / محمود موں کو صاحب جنرل سیکرٹری، عبد القادر صاحب آف مانڈے، خواجہ بشیر احمد صاحب اور رفیق احمد صاحب نے تقاریر کیں.تنزانیہ 49 ۱۳ ستمبر ۱۹۶۴ء کوٹبو را ریجن کی جماعتوں کا دوسرا سالانہ جلسہ منعقد ہوا.جس میں ریجن کی احمدی جماعتوں کے علاوہ دارالسلام، ٹانگا، موشی ، اروشہ ، ڈوڈومہ اور بکو یا کے نمائندہ احمدیوں نے بھی شرکت کی.جلسہ کا افتتاح مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب نے کیا اور جملہ انتظامات مبلغ ظہو رامکرم رشید احمد صاحب سرور نے کئے.ٹانگانیکا کے ہفت روزہ انگریزی اخبار نے جلسہ کی رپورٹ شائع کی.۲۶ دسمبر ۱۹۶۴ء کو دارالسلام میں ایک مذاہب کا نفرنس ہوئی جس میں اسلام کی نمائندگی کا شرف مکرم جمیل الرحمن صاحب رفیق کو حاصل ہوا.ٹانگانیکا کے رومن کیتھولک اخبار نے اپنے اداریے میں اسلام اور جماعت احمدیہ پر نکتہ چینی کی جس کے جواب میں دارالسلام مشن کی طرف سے ایک اشتہار دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.جرمنی 50 مشن کے انچارج مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب کی سالانہ تبلیغی سرگرمیوں کی درج ذیل خصوصی مساعی قابل ذکر ہیں.۲۴ جون کو آپ نے ہمبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سپوٹر کی دعوت پر یونیورسٹی میں اور پروفیسر صاحب کو انگریزی و جر منی لٹریچر پیش کیا.

Page 731

تاریخ احمدیت.جلد 22 716 سال 1964ء ۲۵ ستمبر کو پاکستانی سفیر جناب عبدالرحمن صاحب کو جماعت احمدیہ سے متعلق معلومات دیں.اور جرمن ترجمہ قرآن تحفہ پیش کیا.۳۱ راکتو بر کو آپ نے فرینک فورٹ کی ایک علمی مجلس سے خطاب فرمایا جو بہت سی غلط فہمیوں کے 51 ازالہ کا موجب بنا.۱۶ نومبر و ابلنگن میں تعلیم بالغان کی سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک نہایت دلچسپ لیکچر دیا.۱۸ نومبر کو جرمن فوج کے ۷۰ سپاہی اپنے پادری صاحب کے ہمراہ مشن ہاؤس آئے.جنہیں چوہدری صاحب نے اسلامی تعلیمات سے متعارف کیا.جس سے انہوں نے گہرا اثر لیا اور تسلیم کیا کہ اسلام کی حقیقی تصویر اب ہمارے سامنے آئی ہے چوہدری صاحب نے سپاہیوں کے سوالوں کے جوابات دیئے اور انہیں لٹریچر پیش کیا.سنگا پور وملائیشیا مشن کے انچارج مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے قلمی ولسانی جہاد زور وشور سے جاری رکھا.آپ نے جن اہم شخصیات کو انگریزی لٹریچر پیش کیا ان کے نام یہ ہیں بلیجیم کے بادشاہ باؤ ڈوئن (BAU DOUIN)، سلّم کے فرمانروا پالڈین تھانڈپ نامکیال PALDEN) (THONDUP NAMGYAL، کمبوڈیا کے ہیڈ آف دی سٹیٹ ہز ہائی نس سہانوک (SIHANOUK)، تنکو عبدالرحمن وزیر اعظم ملائیشیا، مسٹر لی کورنیو وزیراعظم سنگاپور، یوسف بن الحق گورنر سنگاپور، سلطان برونئی، سلطان اعظم ملایا اور سنگا پور کے سب وزراء، سنگا پور کے بنکوں، کمپنیوں اور سرکاری دفاتر کے افسران، سنگاپور کے ستر غیر مسلم ڈاکٹر ، علاوہ ازیں آپ نے سنگا پور کی سب پبلک لائبریریوں، چھ کالجوں، سیکنڈری سکول کی لائبریری، امریکی قونصل کی لائبریری نیز جزیرہ پینا نگ کی لائبریری میں اسلامی کتب کا سیٹ رکھوایا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کی بھی خوب اشاعت کی چنانچہ آپ نے شریعت کورٹ مذہبی ادارہ کے صدر، نائب صدر، تمام شرعی قاضیوں ، جوں، اسلم ایڈوائزری کے عربی دان ممبروں اور ریاست جوہر کے مفتی دا تو عبدالجلیل صاحب اور عربی دان ملائی علماء اور سنگا پور کے مخصوص عربوں کو حضرت اقدس کی عربی کتب دیں.نیز فلسطین کے مشہور مفتی اعظم الحاج امین الحسینی کی خدمت میں عربی کتب کا سیٹ پیش کیا.ملایا کی PIMP پان ملاین اسلامک پارٹی کے لیڈر ڈاکٹر

Page 732

تاریخ احمدیت.جلد 22 717 سال 1964ء بہاؤ الدین صاحب مشن ہاؤس تشریف لائے تو آپ نے ان سے تبادلہ خیالات کیا اور انہیں لٹریچر پیش کیا.فروری ۱۹۶۴ء کے آخر میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے کوالا لمپور تشریف لے گئے.حضرت چوہدری صاحب نے مشن ہاؤس میں نماز جمعہ پڑھائی.جس میں سیرالیون کے نائب وزیر اعظم مصطفے سنوسی بھی شامل ہوئے.نماز جمعہ کے بعد جماعت احمدیہ کی طرف سے جناب مصطفے سنوسی صاحب کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا گیا.آپ نے جواب ایڈریس میں جماعت احمدیہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے فرمایا:.جماعت احمدیہ کے مبلغین نے بروقت افریقہ پہنچ کر افریقن مسلمانوں کو نہ صرف جگایا اور ہوشیار کر دیا بلکہ انہیں عیسائیت کے مضبوط ہتھکنڈوں اور گمراہ کن جال سے بچانے کا اہم اور قابل قدر کردار ادا کیا ہے اس لئے ہم مسلمان لیڈر باوجود با قاعدہ طور پر احمدیت میں شامل نہ ہونے کے جماعت احمدیہ کے شکر گزار ہیں اور ان کی مساعی کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.سیرالیون مولوی بشارت احمد صاحب بشیر انچارج سیرالیون مشن کی مساعی سے سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعہ احمدیت کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہوا.چنانچہ ریڈیو پر آپ کی تقریر اور ٹی وی سے آپ کا انٹرویو نشر ہوا.آپ نے وزراء، سفراء اور دیگر معززین کو لٹریچر پیش کیا.فری ٹاؤن سے چھ میل دور لسنر کی جماعت میں چھ مرتبہ تشریف لے گئے.آپ نے مشن ہاؤس میں میئر آف فری ٹاؤن، آنریبل کا نڈے بورے نائب وزیر اعظم و وزیر مواصلات، وزیر تعلیم ، عبدالعزیز صاحب خیراتی سفیر متحده عرب جمہوریہ سے مختلف مسائل پر گفتگو کی.صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب نے ایک امریکن وفد سے خطاب کیا.ملک غلام نبی صاحب ( انچارج بواجے مشن ) اور اقبال احمد صاحب (انچارج روکو پُرمشن ) نے چالیس مقامات کا نہایت کامیاب تربیتی و تبلیغی دورہ کیا.جس کے نتیجہ میں چودہ افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.ملک غلام نبی صاحب نے اپنے حلقے کے متعدد مقامات کا بھی تبلیغی دورہ کیا اور پبلک لیکچر دیئے.

Page 733

تاریخ احمدیت.جلد 22 718 سال 1964ء انگلستان کی ایک فلم یونٹ کو جماعت احمدیہ سے آگاہ کرنے کے علاوہ لٹریچر بھی دیا.آپ احمدی چیف وی.وی کالون کے علاقہ میں تشریف لے گئے اور اس کے جملہ چیفس اور ان کے عملے تک پیغام حق پہنچایا.آپ کے ذریعہ اس سال بائیماں میں ایک نئی جماعت معرض وجود میں آئی.اقبال احمد صاحب نے تعلیمی کلاس جاری کی جس سے غیر احمدی احباب نے بھی استفادہ کیا.آپ کے رکن اور روسینو میں پبلک لیکچر ہوئے.مولوی عبدالشکور صاحب اور سید محمد ہاشم صاحب بخاری نے دو ہفتہ تک جماعتوں کا تبلیغی دورہ کیا.عبدالشکور صاحب نے اپنے حلقہ میں بھی دو ہفتہ کے قریب دورہ کیا.امیگریشن آفس کے دو افسران اور عیسائی سکول کے اساتذہ اور طلباء کو بذریعہ لٹریچر متعارف کرایا.سید محمد ہاشم صاحب 53 نے لائبیریا کے نائب صدر مسٹر ٹالبورڈ اور سیرالیون کے نامزد وزیراعظم کو کتابوں کا تحفہ پیش کیا.جلسه سالانه سیرالیون جماعت احمدیہ سیرالیون کی سولہویں سالانہ کانفرنس ۱۲،۱۱ ۳۰ار دسمبر ۱۹۶۴ء کو ” بو میں منعقد ہوئی.جلسہ کے مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام بو کی جماعت نے خوش اسلوبی سے انجام دیا.جلسہ میں احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت احباب کثیر تعداد میں شامل ہوئے.ملک کی درج ذیل بااثر شخصیات نے بھی جلسہ میں شمولیت اختیار کی.(۱) آنریبل مصطفی سنوسی سابق ڈپٹی پرائم منسٹر سیرالیون.(۲) پیرامونٹ چیف جناب کے گا منگا چیئر مین پروڈیوس مارکیٹنگ بورڈ سیرالیون.(۳) پیرامونٹ چیف بوٹا ؤن جناب ابو بمبا.(۴) پیرا مونٹ چیف آف وار و جناب وی وی کالون (نواحمدی) (۵) پیرا مونٹ چیف آف باندا جما جناب الحاج ابراہیم سووا.جلسہ میں جماعت احمد یہ گیمبیا کے مقامی مبلغ مکرم ابراہیم عبدالقادر صاحب بھی بطور نمائندہ شامل ہوئے.جلسے کا افتتاح مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر امیر و مشنری انچارج نے کیا.علاوہ از میں جلسے سے درج ذیل احباب نے خطاب کیا.(۱) مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب پرنسپل احمد یہ سکول ہو.(۲) مکرم ابراہیم صاحب کمارا.(۳) الحاج محمد گو با صاحب.(۴) مکرم ابراہیم باہ صاحب ( مقامی مبلغ ).(۵) مکرم محمد ہادی مونس صاحب.(۶) مکرم عبد اللہ صاحب (غیر از جماعت) انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ”اگر احمدیہ جماعت اس ملک میں نہ آتی تو اسلام اس ملک سے اٹھ جاتا“.(۷) مکرم موسیٰ سیلوی صاحب ( مقامی مبلغ ).(۸) مکرم مولوی عبدالشکور صاحب.(۹) پیرامونٹ چیف جناب وی وی کالوں.

Page 734

تاریخ احمدیت.جلد 22 719 سال 1964ء (۱۰) مکرم سید محمد ہاشم صاحب بخاری.(۱۱) مکرم مصطفیٰ سنوسی صاحب سابق ڈپٹی پرائم منسٹر نے اپنی تقریر میں احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا احمدیت کے ذریعہ ہی درحقیقت یہاں پر اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئی ہیں.حضرت مولانا نیر صاحب جیسے اسلام کے نڈر سپاہیوں نے عیسائیت کو شکست فاش دی.میں اس حقیقت کے برملا اظہار سے نہیں رک سکتا کہ پاکستانی احمدی مبلغین نے باوجود تکالیف اور مصائب کے اسلام کی خاطر عظیم الشان قربانیاں کی ہیں.ہمارے یہ پاکستانی بھائی ہندوستانی تاجروں کی طرح کسی تجارت اور دولت کی غرض سے نہیں آئے.انہوں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور دیگر دینی لٹریچر مہیا کر کے ہمیں حقیقی اسلام سے روشناس کرایا ہے.(۱۲) ایف اے رحمان نے تقریر کرتے ہوئے کہا ” جماعت احمدیہ نے ان نامساعد حالات میں جو نمایاں اور عظیم الشان ترقی کی ہے اس پر یہ جماعت جس قدر بھی فخر کرے بجا ہے“.(۱۳) پیرامونٹ چیف ابو بمبانے اپنے خطاب میں احمدیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ” ان کی دینی خدمات کا اعتراف کرنے پر ہم سب مجبور ہیں.بے شک پیدائشی طور پر ہم مسلمان تھے لیکن عملاً ہم تاریکی اور ظلمت کا شکار تھے.احمدیوں نے یہاں آکر ہمارے راستہ کو منور کیا“.(۱۴) سیرالیون کی جماعت کے سیکرٹری جنرل مسٹر بونگے نے سالانہ مساعی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ باوجود عظیم مشکلات کے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو فری ٹاؤن جیسے شہر میں نہایت موزوں اور مناسب جگہ پر ملک کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ایک عظیم الشان عمارت میں سیکنڈری سکول کے اجراء کی توفیق عطا فرمائی.(۱۵) حاجی رو جر ز صدر جماعت احمدیہ ہو نے احباب کو مالی قربانی کی اپیل کی جس کے نتیجہ میں احباب نے یکصد پونڈ سے زائد رقم پیش کی.جلسہ کے دوران مجلس شوری کا انعقاد بھی ہوا.متعدد غیر از جماعت احباب جلسہ سے متاثر ہوکر احمدیت میں شامل ہوئے.غانا اس سال جماعت احمد یہ غانا کا جلسہ سالانه ۲ تا ۴ جنوری ۱۹۶۴ء کو سالٹ پانڈ میں منعقد ہوا.جلسہ میں تقریباً ۴ ہزار افراد شامل ہوئے.مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم امیر جماعتہائے احمد یہ غانا نے جلسے کا افتتاح فرمایا.آپ کے علاوہ درج ذیل مبلغین ومخلصین نے تقاریر کیں.سید داؤ د احمد صاحب انور، عبد اللہ بوائٹنگ گھانا یونیورسٹی اکرا ( آپ کی تقریر کا ایک حصہ ریڈ یو غانا سے بھی نشر ہوا )

Page 735

تاریخ احمدیت.جلد 22 720 سال 1964ء مولوی عبدالحمید صاحب، مولوی عبد الواحد صاحب عزیز سیکرٹری احمد یہ مشن کماسی ، سید محمد ہاشم صاحب بخاری، احمد بن عبداللہ صاحب جبرئیل سعید صاحب (مقامی مبلغ ) ، ابراہیم جیسی صاحب گھانا یونیورسٹی ، مولوی عبدالمالک خان صاحب ریجنل مبلغ اشانٹی، اسمعیل آڈ وصاحب گھانا یونیورسٹی ،مولوی عبدالوہاب صاحب الحسن بن صالح صاحب گھانا یونیورسٹی اکرا، عثمان بن آدم صاحب، جبرائیل آدم صاحب، یعقوب بن عیسی صاحب، سلیمان الحسن صاحب، الحاج آدم صاحب، مکرم صادق جانسن صاحب، الحاج الحسن عطاء صاحب ریجنل چیئر مین اشانٹی ریجن اور مکرم سعود احمد خان صاحب دہلوی ایم.اے.قائم کیا.جلسہ سالانہ میں مخلصین احمدیت نے ۲۹۱۶ پونڈ ز چندہ پیش کر کے مالی جہاد کا ایک مثالی نمونہ 55 اس مرکزی جلسہ کے علاوہ ایسم (ESIAM) میں سنٹرل ریجن کی ٹیچپان میں برونگ اہا فوریجن کی اور ا گو گو میں اشانٹی کی جماعتوں کی کانفرنسوں کا انعقاد ہوا.ایسم (ESIAM) کانفرنس کے موقعہ پر ۲۲۵ پونڈ اور ٹیچان کا نفرنس کے دوران ۳۳۷ پونڈ اشاعت دین کے لئے جمع ہوئے.یہ سال غا نامشن کی علمی و دینی ترقی کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں سات نئے احمد یہ سکولوں کا قیام عمل میں آیا.نیز سنٹرل ریجن میں گومیا او ہیم (GOMIA EVHIAM) کے مقام پر ایک نئے مسجد کا افتتاح ہوا.جو مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم نے کیا.اس موقعہ پر ریجن کی تمام احمدی جماعتوں کے علاوہ سینکڑوں غیر مسلم جن میں علاقہ کے چیفس اور ڈسٹرکٹ کمشنر بھی شامل ہوئے.خدا کا یہ گھر ۳۰۵۳ پونڈ کی لاگت سے پایہ تکمیل کو پہنچا.کروکری میں نئی جماعت قائم ہوئی.جہاں کے باشندوں کو احمدیت سے دلچپسی کا موجب احمد یہ سکینڈری سکول کی ٹیم کی شاندار کامیابی بنی.دونئی جماعتیں برونگ اہا فو کے ریجن میں قائم ہوئیں.وولٹا ریجن میں با قاعدہ مشن کھلا.سالٹ پانڈ میں غانا کی جماعتوں کی کانفرنس منعقد ہوئی.اس سال مولانا عبدالمالک خان صاحب کے تربیت یافتہ چودہ نئے افریقی مبلغین تیار ہوئے.جنہیں مختلف علاقوں میں متعین کر دیا گیا.مبلغین احمدیت کے ساتھ ساتھ مسٹر محمد آرتھر صاحب پریذیڈنٹ اور مسٹر ممتاز بیگ صاحب جنرل سیکرٹری انتظامی خدمات بجالاتے رہے.اس سال وزیر اعظم سنگا پور کی قیادت میں ملائیشیا کا ایک وفد غانا آیا.جماعت احمدیہ کا ایک وفد

Page 736

تاریخ احمدیت.جلد 22 721 سال 1964ء جو مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم، مسٹر آرتھر صاحب، ممتاز بیگ، مولوی عبدالحمید صاحب، محمد الحق صاحب اور محمد علی صاحب پر مشتمل تھا.سٹیٹ ہاؤس میں ملائیشیا کے ارکان سے ملا اور ایڈریس کے علاوہ دینی لٹریچر پیش کیا.مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم نے اکرا، کماسی ، انگو آسی اور منگو آسی، ابو آسی، هیچمان ، ایسار چر، ایسیم ، بیڈم، اگو گو اور مینڈی کی جماعتوں کا دورہ کیا.آپ کی مندرجہ ذیل علمی اداروں میں تقاریر ہوئیں.یو نیورسٹی کالج کیپ کوسٹ.ٹیچرز ٹریننگ کالج (JUABEN).اشانی آبوری ٹیچرز ٹریننگ کالج.ایچی موٹا (ACHIMOTA) ہائر سیکنڈری سکول.پرویزے گرلز سیکنڈری ہائی سکول.کیپ کوسٹ.انگریزی سکول.یونیورسل کالج کیپ کوسٹ.ایمر جنسی ٹیچرز ٹریننگ سنٹر سالٹ پانڈ.ایگرے میموریل فرائن سیکنڈری سکول کیپ کوسٹ.آپ کے زیر انتظام اس سال فینٹی زبان میں دور سائل اشاعت پذیر ہوئے.(۱) محمد صلی اللہ علیہ وسلم بائبل میں چھ ہزار تعداد ).(۲) میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں“ ( از حضرت مصلح موعود ) پانچ ہزار تعداد ).مولوی عبدالوہاب بن آدم صاحب مبلغ ٹیچان برونگ اہا فوریجن نے اس سال ۱۹ مقامات کا دورہ کیا.اور تبلیغی جلسوں کے ذریعہ سے پیغام حق پہنچایا.آپ نے ڈسٹرکٹ کمشنر، ریجنل کمشنر، پیرا ماؤنٹ چیف ٹیچپان اور سیکنڈری سکول کے ہیڈ ماسٹر اور دیگر بہت سے اصحاب کو دعوت حق پہنچائی.آپ کے زیر انتظام کمیونٹی سنٹر میں ایک کامیاب جلسه پیشوایان مذاہب پر ہوا.جس میں ٹیچمان سٹیسٹ کے عیسائی پیراماؤنٹ چیف نے کہا.جماعت احمدیہ نے احسن رنگ میں تمام انبیاء کی صداقت نمایاں کر کے اور مختلف مذاہب کے در میان اتحاد اور رواداری پیدا کر کے دنیا میں امن کی مضبوط بنیاد ڈالنے کی کوشش کی ہے.ٹمالے (شمالی ریجن ) کے انچارج مولوی داؤ داحمد صاحب انور نے وا، بوسگا، اکرا، سالٹ پانڈ، بیکوائے، ڈنکوا، مروا، بیت لحم، بیبانی، کو جو کرم، اوالسو، نفرامانیو، امسانی نومبو، بورو، ٹیکرم، پرامسو، پیمانای ، اگو گو.آپ نے سیکنڈری سکول اور غانا کالج میں متعدد تقاریر کیں.انشانٹی.وائس چانسلر کوامی نکر و ما.ریجنل ایجوکیشن آفیسر اور بعض دوسری شخصیات کو لٹریچر پیش کیا.یہووائٹنس کے تین پادریوں سے حادثہ صلیب اور کفارہ کے موضوع پر مباحثہ ہوا جس کا سامعین نے

Page 737

تاریخ احمدیت.جلد 22 722 سال 1964ء گہرا اثر لیا.آپ نے ٹمالے شہر کے مختلف حصوں میں ہفتہ وار تبلیغی جلسوں کا با قاعدہ اہتمام کیا.یہ جلسے بعض اوقات بارہ بجے شب تک جاری رہتے.آپ کے ذریعہ جیل خانہ تک احمدیت کا پیغام پہنچنا شروع ہوا.اکرا ( مشرقی ریجن ) کے انچارج مولوی عبدالحمید صاحب مشرقی ریجن کی جماعتوں کے دورے پر دو مرتبہ تشریف لے گئے.مشن ہاؤس میں کثیر التعداد افراد حق کی جستجو کے لئے آئے.جنہیں آپ نے مؤثر رنگ میں احمدیت کا پیغام پہنچایا.جن اصحاب کو آپ نے لٹریچر دیا ان میں ٹیما کے ڈپٹی کمشنر خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آپ کی غیر احمدی علماء اور پادریوں کے گھروں میں تبلیغی گفتگو ہوئی.مولوی نصیر احمد خان صاحب ۹ دسمبر ۱۹۶۴ء کو غانا پہنچے اور انشانٹی ریجن کا چارج لیا.جس کے بعد آپ نے پانچ جماعتوں میں تبلیغی جلسے منعقد کئے.کینیا اس سال مشن کی طرف سے کشتی نوح کے سواحیلی ترجمہ کا تیسرا ایڈیشن ۵ ہزار کی تعداد میں اور کتاب ”اسلام میں بیاہ اور شادی ۲ ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی.ممباسہ میں تہذیب الاسلام سکول کے ڈائر یکٹر اور ممتاز عالم شیخ شریف علوی نے مولوی نورالحق صاحب انور سے ملاقات کے دوران فرمایا کہ:.ایک طرف تو یہ مسلمان لوگ ہیں جو مختلف قسم کے مشرکانہ عقاید و خیالات اور مشرکانہ افعال و اعمال کے باوجود مسلمان سمجھے جاتے ہیں اور دوسری طرف احمدی ہیں جو دن رات اسلام کی خاطر قربانیوں میں مصروف نماز روزہ کے پابند، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سچا ایمان اور ان کی عزت کی خاطر کچی غیرت رکھنے والے اور دین کی خاطر اپنے نفس و مال کو خرچ کرنے والے ہیں.وہ باوجودان قابل قدر خدمات کے کا فرو دائرہ اسلام سے خارج کہے جاتے ہیں.شیخ علوی نے بتایا کہ انہوں نے مکہ اور مدینہ کے دورے کے دوران شیوخ حرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ” آپ لوگ بے شک خدام حرمین ہونے کے باعث لائق صد عزت ہیں لیکن جہاں تک دین اسلام کی خاطر عملی جدو جہد کا تعلق ہے آپ لوگ احمدیوں کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے.انہوں نے تبلیغ اسلام کے لئے ہزاروں روپے خرچ کر کے قرآن کریم کے افریقن زبانوں میں تراجم اور لوکل زبانوں میں نہایت قیمتی اسلامی لٹریچر شائع کیا ہے.ان کے مبلغین دن رات افریقہ کے صحراؤں اور جنگلوں میں مصروف تبلیغ ہیں.

Page 738

تاریخ احمدیت.جلد 22 723 سال 1964ء صوفی محمد الحق صاحب انچارج حلقہ ممباسہ نے عوامی ، مذہبی اور سرکاری حلقوں تک حق کی آواز پہنچانے کے لئے ہرممکن مساعی کیں.مثلاً ا.مہاسہ ٹائمز میں اسلام کے بارے میں مسلسل کا لم سپر قلم کئے.۲.ریجنل آفیسر مسلم شیوخ ، صدر مسلم ایسوسی ایشن، ڈائریکٹر براڈ کاسٹنگ اسٹیشن اور ملک کے ممتاز عالم دین شیخ بیٹی سے تبادلہ خیالات کیا.۳.مندرجہ ذیل شخصیات کو لٹریچر پیش کیا.سرکولیشن مینجر ممباسہ ٹائمنر، لوکل پریس کے مالک ضلع کے افسر تعلیم ، ممباسہ کے میئر ، اسمبلی کے صدر اور حزب اختلاف کے لیڈر، ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ٹیکنیکل سکول کوالی.انچارج کینیا مشن مولوی نور الحق صاحب انور کی زیر نگرانی نیروبی کے احمدی نوجوان ہر اتوار کو وفود کی صورت میں نیروبی کے مختلف حصوں میں جاتے اور بکثرت لٹریچر تقسیم کرتے رہے.آپ نے نامداری سکھوں کے ایک جلسہ نیز آغا خاں ہائی سکول میں اسلام پر لیکچر دیئے.قاضی نعیم الدین صاحب ( مبلغ مشرقی افریقہ) نے کسموں، وہیگا VAHIGA اور رابور کے سکولوں کے اساتذہ وطلبہ کے علاوہ وزیر داخلہ کے سیکرٹری کو بھی لٹریچر دیا.مولوی روشن دین صاحب کے ہاتھوں کو الے (KWALE) میں نیا مشن کھلا اس غرض کے لئے آپ ۲۹ جولائی ۱۹۶۴ء کو مباسہ سے کوالے پہنچے.گیمبیا 57 چوہدری محمد شریف صاحب انچارج احمد یہ مشن گیمبیا نے حکومت گیمبیا کے وزراء، سنیگال کے پریذیڈنٹ اور سینڈوم ٹیچر ٹریننگ کالج کے پروفیسر شعبہ دینیات کو دینی لٹریچر پیش کیا.تین بار ملک کا تبلیغی دورہ کیا.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈیڑھ صد نفوس کو قبول حق کی سعادت نصیب ہوئی.(جنوری تا اپریل ۱۹۶۴ء) لائبیریا 58 مولوی مبارک احمد صاحب ساقی انچارج مشن مسلمانان لائبیریا کی نئی نسل کو عیسائیت کے اثرات سے محفوظ رکھنے اور ان کی دینی ماحول میں تربیت و اصلاح کے لئے ہر دم کوشاں رہتے تھے اس

Page 739

تاریخ احمدیت.جلد 22 724 سال 1964ء سلسلے میں امسال آپ کی تحریک پر مسلم نو جوانوں نے مسلم بوائز ایسوسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی.جس کے چیئر مین آپ مقرر ہوئے.اس تنظیم کا اجلاس ہر اتوار کو منعقد ہوتا.جس میں آپ اسلامی تعلیمات کے مختلف پہلوؤں پر لیکچر دیتے اور سوالات کے جوابات دیتے.اجلاسوں میں مسلمان اور عیسائی یکساں دلچسپی لیتے تھے.ایک مرتبہ یہووا وٹنس تحریک کے منادوں سے آپ کا مباحثہ ہوا.لائبیریا ریڈیو پر اس مباحثہ اور اجلاسوں کی خبریں نشر ہوئیں.عیدالاضحیہ کے موقعہ پر آپ کا ایک انٹرویو بھی نشر کیا گیا.آپ نے اس سال بندرگاہ منروویا کے علاوہ سمال والا کو.بگ واکو.پگ دے اور آرتھنگٹن جیسے دیہات میں احمدیت کی تبلیغ و اشاعت کی طرف خاص توجہ دی.اور پبلک جلسوں سے احمدیت کا پیغام پہنچایا.لائبیریا یونیورسٹی کے طلباء سے آپ نے خاص طور پر رابطہ قائم کیا.جن شخصیات کو آپ نے لٹریچر دیا ان میں صدر لائبیریا اور ایک فوجی جنرل اور ملائیشیا پارلیمنٹ کے ممبران خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اس سال نمبا (NIMBA) میں احمدیت کا اثر ونفوذ بڑھا اور کسی (KISSY) قبیلہ کے کئی نوجوان احمدیت کے نور سے منور ہوئے.نائیجیریا مولا نانسیم سیفی صاحب انچارج نائیجیریا مشن نے اس سال متعدد بار ریڈیو اور ٹیلیویژن سے خطاب کیا.تین پمفلٹ شائع کئے.مشہور برطانوی پروفیسر اے.جے ٹائن بی ( A.J.TOYN BEE) سے احمدیت کے متعلق تبادلہ خیال کیا.آپ کی مسلم سٹوڈنٹس سوسائٹی کے جلسوں میں تقاریر ہوئیں.چوہدری منیر احمد صاحب عارف نے اس سال دو دفعہ مغربی نائیجریا کی جماعتوں کا دورہ کیا.پہلا دورہ ۲۱ فروری سے شروع ہو کر اپریل کے آغاز تک جاری رہا.جس میں آپ اپنی (EPE)، اومو (OMU)، اووپن (IOOPN) اور موجوڈا (MOJODA) وغیرہ مقامات میں تشریف لے گئے.اور پبلک لیکچروں اور تقسیم لٹریچر کے ذریعہ ہر جگہ حق وصداقت کی ایسی موثر رنگ میں ترجمانی کی کہ کئی افرا د احمدیت سے وابستہ ہو گئے.آپ کا دوسرا دورہ ماہ جون سے ماہ اگست تک ممتد تھا.جس کے دوران آپ نے دو ہزار میل سفر کیا.اور اکارے (IKRA)، ادونی (IDONI)، اونڈ واور اڈوکیٹی (OADOEKITI) وغیرہ مقامات پر کئی کئی دن قیام کر کے پبلک لیکچروں اور تقسیم لٹریچر کے ذریعہ گویا احمدیت کی دھوم مچادی.آپ کا دو دن تک ایک پادری سے مباحثہ ہوا جس میں مسلم اور

Page 740

تاریخ احمدیت.جلد 22 725 سال 1964ء غیر مسلم بکثرت شامل ہوئے.مغربی نائیجیریا کے علاوہ آپ وسطی نائیجیریا بھی پہنچے اور ٹیچر ٹرینگ کالج، انصار الدین کالج اور ایوچی (AEUCHI) کے ہائی سکول میں لیکچر دیا.۳ مئی ۱۹۶۴ء کو الحاج شیخ نصیر الدین احمد صاحب نائیجیریا مشن کا چارج سنبھالنے کے لئے 60 لیگوس پہنچے اور مولانا سیم سیفی صاحب انہیں چارج دے کر ۲ / جولائی ۱۹۶۴ء کو واپس مرکز احمدیت تشریف لے آئے.مولانا سیم سیفی صاحب کی ڈائری نائیجیریا مشن کے واقعات کے ضمن میں جناب مولانا نسیم سیفی صاحب کی انگریزی ڈائری ۱۹۶۴ء کا اردو لخص بھی درج ذیل کیا جاتا ہے جس سے آپ کی بعض دیگر اہم تبلیغی سرگرمیوں پر بھی روشنی پڑتی ہے.(۲۲ جنوری ۱۹۶۴ء) مولوی منیر احمد عارف صاحب کی آمد - (۲۶ جنوری) میٹنگ خدام الاحمدیہ جلسہ امیگریشن سنٹر.(۲۹ جنوری) ٹیلی ویژن پروگرام.(۷فروری) جاپان مشن کو کتا ہیں ارسال کی گئیں.( ۲۳ فروری) عمری عبیدی صاحب کی آمد نائیجیریا کے احمدی اخبار دی ٹرتھ“ نے ۲۸ فروری ۱۹۶۴ء کی اشاعت میں آپ کی نسبت ایک تعارفی نوٹ سپر داشاعت کیا ).(۲۸ فروری) عمری عبیدی صاحب نے جمعہ پڑھایا.(۲۹ فروری ) آرنلڈ ٹائن بی کا لیکچر سنا.ایک سوال بھی کیا.شام کو دعوت.ملاقات.(۶ اپریل کو ) MIDDLE BELT HERALD کیلئے کالم لکھا.61 (۱۲ را پریل ) خلافت جوبلی کا جلسہ.(۱/۲۲اپریل) ڈاکٹر شاہ صاحب نے خاکسار کے نام وظیفہ دینے کے لئے مشن کو بارہ پونڈ ادا کئے.(۲۶/اپریل ) GEORSE PRASSURE کا لیکچر.(۳ مئی ) شیخ نصیر الدین کی آمد.( ۴ مئی) وزیر اعظم ابی ابوبکر سے ملاقات ، قرآن کریم کی تفسیر پیش کی.اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر خبر.( مئی) میلکم ایکس کی مشن ہاؤس آمد.(۱۸مئی ) سعودی عرب کا وزیر سوال و جواب کے بعد مل کر گیا.(۳۰ مئی) نیوز ویل کے لئے انٹرویو.(۳۱ مئی ) اسلامک کلب میں جماعت کی طرف سے الوداعی پارٹی.( یکم جون ) محمد علی کلے (عالمی باکسر ) کو قرآن کریم کا تحفہ.( ۷ جون ) لیگوس سے کانو.برائے پاکستان.(۱۹ جون) کراچی.(۲ جولائی) کور بوہ واپسی.

Page 741

تاریخ احمدیت.جلد 22 ہالینڈ 726 سال 1964ء ۴ فروری ۱۹۶۴ء کو ہالینڈ کے ٹیلی ویژن پر اسلام کا پروگرام عوام کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بنا رہا.پروگرام میں حافظ قدرت اللہ صاحب امام مسجد ہالینڈ کی تقریر ارکان اسلام کی تشریح پر ہوئی.اور محتر مہ ناصرہ زمرمان اور جناب محمود نعیم الاسلام کے انٹرویو نشر ہوئے.حافظ صاحب موصوف نے ہارلم اور لیڈن کے سوشل سنٹر ، ہیگ کیتھولک ایسوسی ایشن، ایمسٹرڈیم کے چرچ اینڈ ورلڈ کانفرنس تھیوسافیکل سوسائٹی ، ریفارمڈ چرچ، فری مین ایسوسی ایشن جیسی اہم سوسائٹیوں سے خطابات کئے.علاوہ ازیں جرمن بارڈر کے قریب لنچ کی دعوت پر آپ نے تقریر کی اور سوالوں کے جوابات دیئے.مبلغین یورپ کی نویں سالانہ کا نفرنس ۱۷ تا ۱۹ جولائی ۱۹۶۴ء کو مسجد مبارک ہیگ میں منعقد ہوئی.جس میں یورپ کے مشنوں کی نمائندگی حسب ذیل مجاہدین احمد بیت نے کی.خان بشیر احمد خان صاحب رفیق (انگلستان)، چوہدری عبداللطیف صاحب (جرمنی)، چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ (سوئٹزرلینڈ)، چوہدری کرم الہی صاحب ظفر (سپین)، سید میر مسعود احمد صاحب و عبدالسلام صاحب میڈسن (سکینڈے نیویا )، حافظ قدرت اللہ صاحب (ہالینڈ) کانفرنس کے پہلے دن حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب نے نماز جمعہ پڑھائی اور سورۃ محمد کی آخری آیات کی روشنی میں جملہ مبلغین اور احباب جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی آپ نے خطبہ کے بعد بھی جملہ مبلغین کو زریں نصائح سے نوازا.کانفرنس کے متعدد اجلاس مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سیکرٹری یورپین مشنز کی زیر صدارت عمل میں آئے جن میں جملہ نمائندگان نے اپنے اپنے مشنوں کی کارگزاری پیش کی.سالانہ کا نفرنس کے پہلے دن ایک پریس کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں وسیع پیمانے پر احمدیت کا چرچا ہوا.پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے جماعتی مشنوں کی تبلیغی مساعی کا ذکر کیا.بعد ازاں آپ نے نمائندگان پریس کے سوالوں کے جوابات دیئے.کانفرنس میں ڈچ ریڈیو کے نمائندے بھی موجود تھے جس کی وجہ سے ڈچ ریڈ یو نے ۵ مرتبہ کا نفرنس کی خبر کو نشر کیا اور ایک خاص پروگرام کا نفرنس کے ضمن میں عرب ممالک کیلئے نشر کیا.

Page 742

تاریخ احمدیت.جلد 22 727 سال 1964ء ۱۸ جولائی کو ایک پبلک جلسہ کا انتظام بھی کیا گیا جس میں مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب، مکرم چوہدری کرم الہی صاحب ظفر ، مکرم بشیر احمد صاحب رفیق ، مکرم عبدالسلام صاحب میڈسن ، مکرمہ ناصرہ زمرمان صاحبہ کی تقاریر ہوئیں.پبلک جلسہ میں صدارت کے فرائض ایک مستشرق ڈاکٹر فرائی تاج (FREITAG) نے ادا کئے.انہوں نے جلسہ میں متعدد مواقع پر بڑی جرات سے جماعت کی اسلامی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا.یوگنڈا 62 یہ سال لٹریچر کی اشاعت کے اعتبار سے مشن کی تاریخ میں ہمیشہ یاد گار رہے گا جس کی تفصیل یہ ہے.(۱) نماز (یو گنڈ ا زبان میں ) (۲) غلط فہمیوں کے ازالہ سے متعلق ایک اشتہار (۳) ٹریکٹ خاتم النبین کے معنی.(۴) پمفلٹ ابطال الوہیت مسیح (۵) رسالہ روزے کے مسائل (۶) سیرت النبی مؤلفہ حضرت مصلح موعود (لوه LUO زبان) (۷) ایک انگریزی پمفلٹ (شائع کردہ مولوی عبدالکریم صاحب شرما ) (۸) رسالہ ہماری تعلیم (لوگنڈ ا زبان ) حکیم محمد ابراہیم صاحب نے کمپالہ میں جن اصحاب کو جماعتی لٹریچر دیا ان میں سنگا پور کے وزیراعظم اور ان کے وفد کے ممبران نیز سویڈن ،سوڈان اور مصر کے سفارتخانوں کا سٹاف خاص طور پر قابل ذکر ہے.عائلی قوانین کی چھان بین کے لئے چھ ممبران پر مشتمل کمیشن کے چیئر مین کو جومنسٹر آف ورکس بھی چھ تھے قرآن کریم کا عظیم تحفہ پیش فرمایا.ماہ نومبر ۱۹۶۴ء میں جنــجہ کی وائی.ایم سی اے کے زیر اہتمام موازنہ مذاہب پر جنجہ ٹاؤن ہال میں تین ہفتوں تک لیکچر ہوئے.ہر مذہب کے نمائندہ نے اپنا مضمون قبل از وقت لکھ کر بھیجوا دیا.جسے اس کی تقریر سے قبل تقسیم کر دیا گیا.اسلام کی نمائندگی مولوی عبدالکریم صاحب شرمانے کی.اور لیکچر لکھنے کے علاوہ نہایت مؤثر رنگ میں پبلک کے سوالوں کے جواب دیئے.جسے بہت پسند کیا گیا.ان کے لیکچر سے متاثر ہو کر بہت سے لوگوں نے جماعت کا لٹریچر حاصل کیا.مکرم مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح انچارج لیر امشن نے اس سال درج ذیل مقامات کا تبلیغی سفر کیا.سروٹی، مبالے، ٹرورو، گلو ، پکواچ، اروا اور پارالاج.دوران سفر انہوں نے وزیر داخلہ مسٹر

Page 743

تاریخ احمدیت.جلد 22 728 سال 1964ء فائیلکس اونا ما FILEXONAMA، گلو کے ڈسٹرکٹ کمشنر، لیرا کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ٹاؤن کلرک کولٹر پچر دیا.ایک زراعتی سکول اور او یو باسکول میں لیکچر دیا.چرچ آف یوگنڈا اور کیتھولک مشن کے مراکز میں اچولی اور لانگو کے دوسو اساتذہ ریفریشر کورس کے لئے آئے ہوئے تھے آپ نے ان میں پمفلٹ تقسیم کئے اور تبادلہ خیالات کیا نیز پروٹسٹنٹ اور کیتھولک پادریوں کو دعوتِ اسلام دی.مرزا محمد ادریس صاحب انچارج مشن ” مسا کا“ نے تبلیغ اور لٹریچر کے ذریعہ ٹیکنیکل سکول مسا کا اور کمپالا کالج کے ہوسٹل ہیڈ ماسٹر آغا خاں سکول، مسا کا کے چیف اور ایک یمنی عرب تک پیغام احمدیت پہنچایا.چچبیرہ کی جماعت احمدیہ نے اس سال مسجد تعمیر کی.حکومت نے عائلی قوانین پر نظر ثانی اور ترامیم کے لئے چھ ممبروں پر مشتمل ایک کمیشن مقرر کیا تھا جس نے سوالنامہ جاری کیا.جس کے جواب میں جنجہ مشن کے انچارج مولوی عبدالکریم صاحب شرمانے کمیشن کے سامنے ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں اسلامی نقطہ نگاہ سے عائلی قوانین کی وضاحت کی گئی تھی.آ..آپ نے ڈیڑھ گھنٹہ تک ممبران کمیشن کے سوالوں کے جوابات دیئے.

Page 744

تاریخ احمدیت.جلد 22 729 سال 1964ء مبلغین احمدیت کی آمد وروانگی ۱۹۶۴ء میں درج ذیل مبلغین اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے بیرون ملک تشریف لے گئے.(۱) چوہدری منیر احمد صاحب عارف.۱۷ جنوری (برائے نائیجیریا) 65 64 (۲) مرزا محمد اور لیس صاحب.۱۲ مارچ (برائے یوگنڈا) (۳) الحاج شیخ نصیر الدین احمد صاحب ایم اے.۱٫۵ پریل (برائے نائیجیریا ) (۴) مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی.۲۹ / ا پریل (برائے گیمبیا) 68 (۵) مولوی روشن الدین احمد صاحب ۳ امئی (برائے کینیا ) (۶) مولوی فضل الہی صاحب انوری.جون (برائے ہمبرگ جرمنی ) (۷) مولوی نظام الدین صاحب مہمان.اجون (برائے سیرالیون ) (۸) مولوی عبدالشکور صاحب.اجون (برائے سیرالیون ) (۹) عبدالحکیم صاحب اکمل.۶ اکتوبر ( برائے ہالینڈ ) (۱۰) مولوی محمد بشیر صاحب شاد.۲۹ اکتوبر (برائے نائیجیریا) (۱۱) مولوی نصیر احمد خان صاحب ۳ دسمبر ( برائے غانا ) 74 73 اس سال درج ذیل مبلغین کرام واپس مرکز تشریف لائے.(۱) صوفی عبدالغفور صاحب.۲۵ فروری ( از امریکہ ) (۲) مولوی محمد سعید صاحب انصاری -۲۲ مارچ ( از ملایا ) (۳) چوہدری رحمت خان صاحب ۱۳ را پریل ( از انگلستان ) (۴) مسعود احمد صاحب جہلمی ۲۳ مئی (از جرمنی) 79 80 (۵) مولانا نور محمد صاحب نسیم سیفی ۲ جولائی ( از نائیجیریا) (۶) چوہدری محمد شریف صاحب.9 جولائی ( از گیمبیا) (۷) مولا نا عبدالمالک خان صاحب ۲۲ جولائی (از غانا ) 69 66

Page 745

تاریخ احمدیت.جلد 22 730 (۸) چوہدری عنایت اللہ صاحب خلیل.۷ اگست ( از مشرقی افریقہ ) (۹) حکیم محمد ابراہیم صاحب.۷ اگست (از مشرقی افریقہ ) (۱۰) ملک غلام نبی صاحب ۲۹ ستمبر (از سیرالیون) (۱۱) اقبال احمد صاحب غضنفر - ۲۹ ستمبر (از سیرالیون) 84 (۱۲) چوہدری رشید الدین صاحب ۲۹ نومبر (از نائیجیریا ) (۱۳) قاضی مبارک احمد صاحب ۴ دسمبر (از ٹو گولینڈ) (۱۴) مولوی نور الحق صاحب انور ے دسمبر (از کینیا ) 87 88 83 86 سال 1964ء

Page 746

تاریخ احمدیت.جلد 22 نئی مطبوعات: 731 سال 1964ء ۱۹۶۴ء میں حسب ذیل رسائل اور کتا بیں شائع ہوئیں جن سے سلسلہ کے لٹریچر میں مفید اور گرانقدر اضافہ ہوا.(۱) وفات مسیح میں حیات اسلام ہے.(۲) جماعت احمدیہ سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ) // // (۳) تفہیمات ربانیہ دوسرا ایڈیشن ( مولانا ابوالعطاءصاحب) (۴) اہالیان چکوال سے خدا اور اسکے رسول کے نام پر درمندانہ اپیل ( مولانا جلال الدین شمس صاحب) (۵) امام مہدی کا ظہور مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری ) (۶) تحقیق عارفانه <// (۷) جماعت اسلامی کا ماضی اور حال (مولا نا دوست محمد صاحب شاہد ) (۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم الشان کام ( مولانا شیخ مبارک احمد صاحب) (۹) اسلامی معاشرہ مولوی غلام باری صاحب سیف) (۱۰) قبول احمدیت کی داستان الحاج مولوی عزیز الرحمن صاحب منگلا ) (۱۱) گورونانک جی کا گورو گیانی عباداللہ صاحب) (۱۲) زندہ خدا پر ایمان اور اس کے اثرات (صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب) شیخ محمد احمد صاحب مظہر ) (۱۳) برقع (۱۴) سابق مفتی مصر کے نام نہاد فتوی کی حیثیت ( شیخ نور احمد صاحب منیر ) (۱۵) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے) (۱۲) مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم ( مکتوبات حضرت قمرالانبیاء مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے) (۱۷) حیات بشیر (۱۸) تجلی قدرت مولانا شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل ) ( حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری )

Page 747

تاریخ احمدیت.جلد 22 (۱۹) حیات قمر الانبیاء 732 شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی ) سال 1964ء (۲۰) ایمان کی باتیں < // // // (۲۱) نبیوں کا چاند ( فضل الرحمن صاحب نعیم ) (۲۲) ذکر اردو ( ناشر تعلیم الاسلام کالج ربوہ ) (۲۳) مقام محمود (مسعود احمد خان صاحب دہلوی) (۲۴) کامیابی کی راہیں (حصہ اول تا چهارم ) ( مرتبہ مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ) (۲۵) انوار ہدایت (۲۶) مناظرہ یاد گیر مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر ) ( نظارت دعوة وتبلیغ قادیان) (صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ) TWO ADDRESSES(۲۷) /// Ahmadiyyat In The Far East (۲۸) Favours Of The Beneficent(۲۹) ( The Preaching of Islam (۳۰) // The Propagation of Islam (۳۱) انگریزی تراجم اسلامی اصول کی فلاسفی منن الرحمن (کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام) فرانسیسی تراجم ایک غلطی کا ازالہ الوصیت نجم الہدیٰ، پیغام صلح، تجلیات الہیہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

Page 748

تاریخ احمدیت.جلد 22 1 2 3 4 5 6 7 8 9 733 حوالہ جات (732-695) الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۶۴ ء و ایک مبارک نسل کی ماں مرتبہ سید سجاد احمد صفحہ ۱۳۰ الفضل ۲۶مارچ ۱۹۶۴ء دو ایک مبارک نسل کی ماں صفحہ ۱۲۷ الفضل ۳ اپریل ۱۹۶۴ء الفضل ۴ امتی ۱۹۶۴ ء و ا یک مبارک نسل کی ماں صفحہ ۱۲۹ الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۴ ء وا یک مبارک نسل کی ماں صفحہ ۱۲۴ الفضل ے جولائی ۱۹۶۴ء ایک مبارک نسل کی ماں صفحہ ۱۲۰ ایک مبارک نسل کی ماں صفحہ ۱۲۵ الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ا 10 الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۶۴ صفحه ا 11 الفضل ۲ جنوری ۱۹۶۵ صفحیم 12 الفضل ۲ جنوری ۱۹۶۵ء صفحریم 13 الفضل ۱۵ فروری ۱۹۶۴ صفحه او ۸ / اپریل ۱۹۶۴، صفحها 14 الفضل ۳ جولائی ۱۹۶۴ صفحه ۸ 15 الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۸ 16 الفضل ۱ نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ا 17 الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۸ 18 الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۶۴ صفحه ۸ 19 الفضل ۴ نومبر ۱۹۶۴ ء صفحه ۸ 20 الفضل ۸ نومبر ۱۹۶۴ ء صفحه ۶ 21 الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۶۴ صفحه ۶ 22 الفضل ۱۴ جنوری ۱۰ مارچ ۱۰ دسمبر ۱۹۶۴ء 23 الفضل ۳۱ را کتوبر ۴ نومبر ۱۹۶۴ء سال 1964ء

Page 749

تاریخ احمدیت.جلد 22 24 الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۸ 25 الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۶۴ ، صفحہ 1 26 الفضل یکم دسمبر ۱۹۶۴ء 27 الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۶۴ ء صفحه م 28 بدر ۲۳ جنوری ۱۹۶۴ ، صفحه ۱ 29 الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۱، ۸ 30 بدر ۶ مئی ۱۹۶۵ ، صفحہ ۱ - ۱۰ 31 الفضل امارچ ۱۹۶۴ء 32 الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۶۴ صفحه ۳ 33 الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۶۴ صفحه ۸ 34 رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۶۴-۱۹۶۳ء 35 الفضل ربوه - ۲۵ جون ۱۹۶۴ صفحه ۶ 36 الفضل ربوہ ۵ جولائی ۱۹۶۴ صفحه ۸ 37 الفضل ربوده ۴ امتی ۱۹۶۴ء 38 بدرے استمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۱ ۱۲.بدر ۱۹ نومبر ۱۹۶۴ صفحه ۱ 39 المنبر لا کپور حال فیصل آبا دا استمبر ۱۹۶۴ء 40 بحواله الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۶۴ء صفحریم 41 بدر ۵ نومبر ۱۹۶۴ صفحه ۹۱ 734 42 رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یه ۶۵-۱۹۶۴ صفحه ۱۰۰ 43 الفضل سے فروری ۱۹۶۵ء 44 الفضل ۳۰ ر ا پریل ۱۹۶۴ صفحه ۳ ۴۰ سال 1964ء 45 الفضل ۲۳ مئی ۱۹۶۴ ، صفحه ۳ ۴ - الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۴ ، صفحه ۳ الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۶۴، صفحه ۴۳.الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۴۳.الفضل ۱۱ دسمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۴،۳.الفضل ۲،۵ مارچ ۱۹۶۵ء صفحه ۴،۳ 46 الفضل ۵ مارچ ۱۹۶۴ء صفحها الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۴ An Ahmadiyya Muslim By Matiullah Dard p: 27-30 47 48 49 الفضل ۲۶ فروری ۱۹۶۵، صفحه یم 50 الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۶۵ صفحه ۳ هم

Page 750

تاریخ احمدیت.جلد 22 51 الفضل سے فروری ۱۹۶۴ء صفحه ۴۰۳ 735 52 الفضل ۲۷ جون ۱۹۶۴ء و ۷ را گست ۱۹۶۴ صفحه ۳ ۴۰ و ۸/ اگست ۱۹۶۴ صفحه ۴۰۳، ۸ 53 الفضل مئی ، یکم ستمبر ، انومبر ۱۹۶۴ء 54 الفضل ۹ فروری ۱۹۶۵ء صفحه ۳-۴ 55 الفضل ۲۲ فروری ۱۹۶۴ء صفحه ۴ تا ۶.والفضل ۱۰ جون ۱۹۶۴ء صفحریم 56 الفضل ۱۰، ۱۱ جون ۱۹۶۴ ء ۲۴۰، ۲۵ /اکتوبر ۱۹۶۴ء و ۲۷، ۲۸ فروری ۱۹۶۵ء 57 الفضل ۴۰۳ ، ۵ جون ۱۳ نومبر ۱۹۶۴ء ۲۱ مارچ ۱۹۶۵، صفحه ۳ 58 الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۴ء صفحه ۴۳ 59 الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۶۴، صفحه ۳ ۴ ۴ ستمبر ۱۹۶۴، صفحه ۴۰۳ 60 الفضل ۲۶، ۲۸ اپریل و ۳۰ مئی و ۱۸ نومبر ۱۹۶۴ء 61 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۶.۲۸ / اپریل ۱۹۶۴ء 62 الفضل ۲۵ را گست ۱۹۶۴ صفحه ۳-۴۰ 63 الفضل ۲۸ جون ۱۹۶۴ء صفحه ۳ ۴ و الفضل ۱۸ فروری ۱۹۶۵ صفحه ۴ ، ۵ 64 الفضل ۳۰ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۸ 65 الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۶۴ ء و ۱۶ار اپریل ۱۹۶۴ء 66 ریکارڈ وکالت تبشیر 67 الفضل ۱۵ مئی ۱۹۶۴ صفحه ا 68 الفضل ۶ امئی و ۳ جون ۱۹۶۴ صفحه 69 الفضل ۹، ۲۷ جون ۱۹۶۴ء صفحہ ، ۷ 70 الفضل ۲۰ جوان ۱۹۶۴ء صفحها، والفضل ۱ نومبر ۱۹۶۴ء 71 الفضل ۲۰ جون ۱۹۶۴ صفحها ، والفضل ۱ نومبر ۱۹۶۴ء 72 الفضل ۸/اکتوبر ۱۹۶۴ ء صفحها 73 الفضل یکم نومبر ۱۹۶۴ ء صفحه ا 74 الفضل ۱۵دسمبر ۱۹۶۴ء صفحه ا 75 ریکارڈ وکالت تبشیر 76 الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۶۴ء صفحه ۱ 77 الفضل ۱۵ را پریل ۱۹۶۴ ، صفحه ا 78 الفضل ۲۶ مئی ۱۹۶۴ء صفحه ا سال 1964ء

Page 751

تاریخ احمدیت.جلد 22 79 الفضل ۴ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ 80 الفضل ا جولائی ۱۹۶۴ صفحہ 81 الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۶۴ ، صفحہ ۱ 82 افضل ۹ راگست ۱۹۶۴ء 83 الفضل 9 اگست ۱۹۶۴ء صفحها 84 الفضل یکم اکتوبر ۱۹۶۴ء صفحها 85 الفضل یکم اکتوبر ۱۹۶۴ء صفحه ا 86 الفضل یکم دسمبر ۱۹۶۴ ء صفحه ا 87 الفضل ۶ دسمبر ۱۹۶۴ ء صفحه ا 88 الفضل 9 دسمبر ۱۹۶۴ء صفحه ا 736 سال 1964ء

Page 752

اشاریہ (مرتبه: فراست احمد راشد ) اسماء....مقامات کتابیات 1 39 56

Page 753

اشاریہ اسماء 1 اسماء تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 آ الف آدم علیہ السلام آدم ، الحاج ابوالعطاء جالندھری ، مولانا احمد بخش قریشی (ایڈیٹر عقاب) ،۳۲۶ ،۲۶۲،۲۱۲،۱۹۲ ،۱۳ ،۱۶۲ ۴۶۴ ۷۲۰ آرتھر جے فریٹر ( ولی کریم) ۶۸۵ آرد جی کرتا وی نانا آرنلڈ ٹائن بی آفتاب احمد بسهل ۴۴۸ ۷۲۵ ۴۰۷ ،۵۹ ۳۴۲، ۳۸۵، ۳۸۸، ۴۵۳،۴۰۶، احمد بشیر ( آراے پی پی) ۴۵۴ ، ۴۵۵، ۴۶۹،۴۶۸، ۴۷۲، احمد بن عبد الله ۵۵۵،۵۵۳،۵۰۹،۴۷۹،۴۷۳، | احمد بیگ، مرزا ۶۰۳،۵۵۹، ۶۷۸ ، ۶۹۶ ، ۷۳۱ احمد توفیق ۳۴۷ ۵۳ ۵۷ الا ۷۲۰ ۳۱۷ ۷۳ ۲۲۸ ۴۵۴ ،۹۷ ۶۹۰،۶۱۵ ۳۱۷ ۳۴۷ ۳۲ احمد جان خیاط ، میاں احمد جان، چوہدری احمد حسن، مولوی احمد حلمی ، الاستاذ احمد حیات.پٹس برگ احمد خان ( ایم پی اے) ۱۵۹ ۶۲۳۶۲۲ ۳۱۶،۱۹۳ ۶۳۵ ٣٣ ابوالکلام.پٹس برگ ابوبکرای کے مولوی ابوبکر مگسے کما را ابوبکر یوسف ،سیٹھ ابوبکر ابوبکر ( ایڈووکیٹ ) ۶۱۹ ۴۹۶ آمنه بیگم آئن سٹائن آئی ڈی اولوکوڈانا (I.D.Olokodana) ابراہیم باه ابرا ہیم جیسی ابراہیم سووا، الحاج ابراہیم عبد القادر ۴۱۶ ابو بمبا.پیرامونٹ چیف بوٹا ؤن احمد خان، کرنل صاحبزاده ۲۲۷ ZIA ۷۲۰ ابوحنیفہ، امام ZIA ۷۱۸ ZIA ۴۶۷ ،۴۵۵ احمد دین کپور تھلوی احمد دین منشی ابی ابوبکر.وزیر اعظم نائیجیریا ۷۲۵،۳۹۹ ۲۴۳ ۴۷۱ احسان احمد خان ابراہیم ( ابن آنحضرت ع) احسان احمد ، قاضی احمد رضوی ، سید احمد ریاض.پٹس برگ احمد زمان شاہ، پیر ۶۳۳ ۶۸۶ 190 ۳۴۷ ۲۳۰ احسان الحق ۴۵۰ | احمد سرہندی.مجددالف ثانی احسان الہی جنجوعہ ، چوہدری ۳۲ احسان علی ، ڈاکٹر ۶۲۹ ۴۶۵،۲۱۹ ۵۷۰ ۵۵۶ | احمد علی احسن عطاء ۴۶۶ ۵۳۷ ،۲۰۵ ZIA ۲۹۱ ابراہیم علیہ السلام ابراہیم کما را ابن قیم ، امام

Page 754

اشماریہ.اسماء 2 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 احمد علی پلیڈر، میاں ۳۲ اسد اللہ خان، چوہدری ۵۵۲،۴۱۴ اعجاز احمد مولوی ، سید ۷۴، ۱۶۳ احمد علی شیخ ، حضرت ۶۰۸ اسد اللہ خاں ، ملک احمد علی ، شیخ احمد علی ، میاں احمد گل ۴۷۱ اعجاز الحق ، ڈاکٹر ۵۰۲ اسد اللہ کا شمیری ۳۱۹ ، ۳۳۹، اعجاز حسین خواجہ (ایڈووکیٹ ) ۴۰ ۵۸۰،۴۷۳،۳۹۰،۳۴۱ ۲۲۶ اسرار حسین ( ۲۳۰ اعراف اللہ ، میاں احیاء الدین، میجر جنرل اسلم اعوان ایڈووکیٹ ) ۳۳ ۲۲۹ اختر احمد اور بینوی، ڈاکٹر سید ۵۵۳ اسلم باجوہ (ایڈووکیٹ) اختر احمد ، ڈاکٹر اختر بیگم اختر حسین ۳۱۵ ۵۵۳ ۵۱۴ ،۵۱۲ ۵۸۸ ۳۳ اعظم علی ، ڈاکٹر ۴۱۴ ۳۲ ۲۲۹ ۶۱۶ اعظم، چوہدری (ایڈووکیٹ) ۳۳ اسلم پال، خواجہ (ایڈووکیٹ ) ۳۳ افتخار احمد ایاز، چوہدری اسلم ٹھیکیدار ۵۰۳ افتخار احمد، پیر ۶۷۴ ۶۸۳ اسماعیل آڈو.گھانا ۷۲۰،۳۶۲ افتخار احمد، پیر (ایڈووکیٹ) ۳۲ ۲۲۸ اسماعیل شہباز اسماعیل شہید ، شاه اسماعیل علیہ السلام اسمعیل بن کرسه ۳۷۸،۳۷۵ ۲۲۵ ۲۰۵ ۸۳ افتخار احمد.پیشاور افتخار احمد گوندل افضال احمد قریشی ۶۱۳ ۶۸۶ اسمعیل، میاں (ایڈووکیٹ) ۳۳ افضل حق ، چوہدری ( مفکر احرار ) اسماء طاہرہ ۶۹۵ اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر ۵۱۵ افضل علی ، چوہدری ۵۹۴،۵۷۷ ،۴۰۳ ۲۷۴ اشرف علی ، مولوی اقبال احمد خان مندرانی ۶۳۳ ۴۰۷ اقبال احمد را جیکی ۲۵۷ ۴۲۶ ۲۷۰ ۳۴۹ ۲۳۰ ۳۶۶ اختر علی، چوہدری ادریس علیہ السلام ادریس احمد شاہ، سید ادریس، زنجبار ارباب محمد عجب خان ارجمند خان، مولانا ارسلان عبدالغنی ، ڈاکٹر حاجی ۸۴،۸۳ اشرف علی ،سید ارشاد اللہ رکن قومی اسمبلی حافظ اصغر حسین آزاد سو جانپوری ۳۴ آباد) ۳۲ اصغر حسین خان.ٹورانٹو ۳۶۵ ارشد بیگ، مرزا قادیان ۳۱۷ اصغر سودائی ارشد علی ، شیخ ( ایڈووکیٹ ) اروڑا خاں منشی ۳۳ | اظہر احمد ، صاحبزادہ مرزا ۲۴۰ ۳۱۵ اقبال احمد غضنفر مولوی.سیرالیون ۷۳۰۷۱۸،۷۱۷ ،۳۶۲ ۲۶۲ ۳۷ اقبال بیگم.لاہور ۳۳۲،۲۴۰،۱۶ اقبال بیگم ( دختر چوہدری شمشاد علی )

Page 755

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 3 اشاریہ اسماء اقبال بیگم ، سیدہ.والدہ سید مبشر احمد اله بی بی زوجہ محمد اسماعیل حلالپوری امری عبیدی، شیخ ( عمری عبیدی ) ایاز ۵۹۱ ۶۲۱ ۶۶۳۳۴۹ تا ۷۲۵،۶۸۰ اقبال بیگم.کینیا ۵۵۷ | الہ دین ،میاں ۶۳۱ امیر اتمان زئی نقشبندی ، سید اقبال حسین بخاری ،سید (ایڈووکیٹ ) الیاس احمد السلم ۲۴۸ (المعروف پیر کوٹھہ شریف) ۴۶۶ ۳۳ الیاس علیہ السلام ۴۶۶ | امیر احمد خان.اسماعیلیہ اقبال حسین کرمانی ۳۴ الیاس ، چوہدری کیلگری ۳۷۷ امیر الدین جسٹس اقبال حسین ،سید ۳۶۵ امام الدین ،مولانا اقبال شاہ.نیروبی اکبر خان، راجہ سید ۴۱۰ ۲۲۹ ۱۶۳ امیر اللہ خان ۵۸۹،۲۲۹،۲۲۵ ۲۸۳٬۲۸۰، ۳۱۴،۲۸۷، ۳۲۹ امیر بی بی اہلیہ میاں خیر الدین سیکھوانی ۲۳۱ امام الدین، میاں ۶۰۴ اکبر یار جنگ، نواب بہادر ۳۰۴ امام الدین، مولوی ۵۱۱ امیرحسین، قاضی ۶۱۹،۶۱۸ ۵۹۲ ۳۹ اکرام ڈار ۱۳ امام الدین، بابو ۲۵۶ امیر خان.چنیوٹ اگیمبیا، مسٹر ۳۵۵ امام بخش کھوکھر ، مولوی ۶۳۳ | امیر خسرو الحسن بن صالح الطاف حسین شاہ ،سید.چنیوٹ الف دين اللہ بخش تسنیم، میر ۷۲۰ امان اللہ باجوہ، چوہدری ایڈووکیٹ) امیر زادہ خان ۴۰ ۳۳ | امیر محمد خان - مردان امانت خان منشی ۲۴۲ | امیر محمد خان ۲۲۵ ۲۲۹ ۲۲۹ ۶۳۸ ۲۲۵ اماں جان حضرت سیدہ نصرت امیر محمد خاں.گورنر مغربی پاکستان ۴۷۱،۴۶۸،۳۲۳،۳۲۲،۵۵ ۲۲۷ ۱۵۵، ۴۰۷ جہاں بیگم ) ۱۰۵، ۱۱۴، ۱۲۰، ۱۲۱، اللہ بخش خان زیروی ، حکیم مولوی ۱۲۲ ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۳۶، ۱۴۲،۱۴۱، امیر ، سید ۲۴۹ ۱۴۳، ۱۹۳، ۲۱۸، ۲۷۰، ۳۰۲، امین امینی ۵۰۸، ۶۱۸، ۶۱۹، ۶۲۰، ۶۲۲ ، امین شاہ سید اللہ بخش صادق، چوہدری ۶۴۴ اللہ بخش ، بابا اللہ دتہ ، چوہدری اللہ دین ، چوہدری ۶۱۷ ۶۳۰ 217 ۳۲۷،۲۶۴ ۶۳۳،۶۲۹، ۷۰۳،۷۰۲،۶۵۵ ام طاہر ،سیدہ (حرم حضرت مصلح امتیاز احمد را جیکی ۳۲۱ موعود ) ۳۸۷ ۶۴۴ امتیاز علی خان ( ایڈووکیٹ ) ۳۳ امتہ الباسط بنت عبدالحمید.راولپنڈی عبدالحمید.راولپنڈی ۵۷۹ امجد حسین شیرازی اللہ وسایا.ملتان ۳۴ ۳۳۳

Page 756

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 4 اشاریہ اسماء امة الباسط ، صاحبزادی ۱۳۶ امتہ السلام زوجہ ملک میاں رفیق امتہ المجید بیگم، صاحبزادی امة الحفیظ اہلیہ قریشی عبدالغنی ۶۴۲ احمد گوندل ۶۴۸ امتہ الحفیظ بنت قریشی محمد اسمعیل معتبر امتہ السلام ، صاحبزادی ۱۲۲، ۱۵۵ امتہ المجید ۶۲۸ امته الشریف.شادیوال ۶۴۳ امتة الحفیظ بیگم زوجہ سید عباس علی شاہ امتہ العزیز ،سیده ۶۰۷ امة القدوس ، صاحبزادی ۶۹۵ ۱۵۵ ،۱۳۸ ۵۶۶ امتة المنعم بنت ملک عمرعلی کھوکھر امتہ المومن بنت ملک عمر علی کھوکھر امته الحفیظ بیگم ،سیدہ نواب ۵۰۴ ،۲۹۶ امة الحفیظ زوجہ قاضی منصور احمد امة الحلیم، صاحبزادی ۶۴۸ ۳۳۲ امتہ الحمید بنت عبدالرحیم شرما ۶۲۷ امتہ الحمید بیگم ، صاحبزادی ۱۵۵،۱۳۸ امتہ الحمید حمیرا، صاحبزادی ۳۳۲ امتہ الحمید زوجه آغا محمد بخش ۶۴۲ امة الرحمان امۃ الرشید اہلیہ ملک عنایت اللہ ۶۴۲ ۶۱۵ ۶۹۵،۵۶۶،۵۵۳ ۱۰۲ امۃ القیوم ، صاحبزادی امۃ القیوم.جھنگ امة القيوم ۵۶۶ ۶۲۸ امتہ الکریم اہلیہ قریشی فضل حق ۶۴۲ امتہ الکریم بنت عبد الرحیم شرما ۶۲۷ امة اللطيف امۃ اللطیف اہلیہ میر محمد اسماعیل ۵۵۳ امته اللطیف بیگم، صاحبزادی ۱۵۶ امتة اللطیف بنت عبدالرحیم شرما امة الرشيد (عرف نصیره) بنت امتة اللطیف.شادیوال عبدالرحیم شرما امتة الرشيد فضل الہی امۃ الرشید، صاحبزادی ۶۲۷ ۵۶۶ امتہ اللہ بیگم امة المالک.راولپنڈی امت المومن ، صاحبزادی امت النور، صاحبزادی امۃ الوحید، صاحبزادی انٹوان مے آچی انس احمد ، صاحبزادہ مرزا انصار احمد ۶۴۸ ۶۹۵ ۵۵۳ ۶۹۵ ۳۵۷ ۶۹۵،۵۵۳ ۵۵۵،۴۰۷ انوار علی، چوہدری (ایڈووکیٹ ) انوراحمد باہری، سید انور احمد، صاحبزادہ مرزا ۳۳ ۵۱۰ ۶۲۷ ۶۹۵،۵۰۹،۴۷۷ ،۱۳۸ ،۱۶ ۴۶۹ ۶۴۳ انور حسین، چوہدری ۲۴۰ انور علی (ایڈووکیٹ ) ۵۶۶ | انور محمود، ڈاکٹر ۲۹۶ انیس احمد عباسی (ایڈیٹر ) امة المالک فرخ ۵۶۶،۵۵۳ امتہ المجیب نعماء، صاحبزادی ۶۹۵ ۳۳ ۱۵۱ ۸۱،۶۷

Page 757

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 انیس احمد ،سید 5 ۳۳۲ ایم اے سنی (M.A Sanni) او با برائٹ Obba Bright ۳۶۱ ایم پی محی الدین اولاد حسین، ڈاکٹر ۱۹۰ ایم جے کما نڈے بونگے ایثاریٹ ۴۱۸ ایچ اے آرگب، پروفیسر ۳۹۷ ایم زیڈ طاہر ایچ بے فشر.Humphrey J) ایم عبداللہ، چوہدری ۳۸۰ بار تحصیلی می لامبونی ۱۵۹ باقر مجلسی، علامه باقر ،جسٹس اشاریہ اسماء ۳۵۷ ۱۶۳ ۷۱۹،۳۴۹ باوڈوئن (Bau Douin) ۷۱۴ 217 (Fisher الیس اوبکر ایس ایم حسن ۱۹۷ ایم فلو کی گر (M Fluchiger) ۳۳ بایزید بسطامی بخاری ، پیر ۲۷ ۱۶۵ ایم یسین ( ایڈووکیٹ ) ۳۳ ایس ایم لطیف، ڈاکٹر.مردان ۴۰ ایوب خان ، ملک.پشاور ایس کے جمال ۲۳۰ ایف اے رحمان 19 اے آراے ا تول ایل آرہالی (ایڈیٹر بھیم پتریکا ) MA (A.R.A.Otule) ۱۱۰ اے بی ڈار مولا ایم اصغر (چیف سیکرٹری حکومت (A.B.Darmola) پاکستان) ۱۶۵ اے جے ٹائن بی ایم ایس مصطفی ۳۰۰ بخت اقبال (ایڈووکیٹ ) ۳۳ بدرالدین عامل، چوہدری ۳۳۷ براؤن، مسٹر حکیم برکات احمد را جیکی ، مولوی ۳۶۲ ۳۲۵،۳۲۰،۳۱۵،۲۶۲،۱۰۳ برکت اللہ درد، ملک برکت اللہ (ایڈووکیٹ ) برکت علی شاہ برکت علی لائق ۳۳ ۲۵۳ ۳۲۱ ۷۲۴ برکت علی ، چوہدری ۶۱۶،۳۲۷ | A.To Be) برکت علی ، چوہدری.عدن ۷۰۵ ایم ایم احمد (صاحبزادہ مرزا مظفر احمد) اے رشید (ایڈووکیٹ) ۹۷، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۲، ۱۰۵، ۱۰۹، اے کے الشیخ العلوی ایم این هوز ۱۵۵،۱۴۰،۱۱۹ ۳۰۴ اے کے گراہم ٣٣ برکت ناصر ۳۲۸ برہان الدین، میاں.مردان ۲۲۹ بشارت احمد ۲۴۲ ۶۰ بشارت احمد بشیر، مولوی ۳۶۰ ایم اے خان ( ایڈووکیٹ) ۳۳ اے کے مصطفیٰ ۷۱۸ ،۷۱۷ ،۶۰۰ ،۴۱۲ ،۳۶۱ ۳۸۰

Page 758

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 بشارت احمد نسیم امروہی بشیر احمد حیات 6 ۳۸۲٬۳۴۸ | بشیر احمد خان رفیق بشارت احمد سید بشارت احمد ، ڈاکٹر ۷۱۲ اشاریہ.اسماء بشیر احمد ، شیخ ( حج ہائی کورٹ لاہور ) ۴۶۸ ،۳۱۶ ،۱۶۵ ،۱۶۳ ،۱۶۲ ۳۴۷ ،۴۸۴ ،۴۸۳ ،۴۸۲ ، ۴۷۰ ، ۴۶۹ ،۴۹۹ ،۴۸۹ ،۴۸۶ ،۴۱۵ ،۳۴۸ ۲۴۱ ۵۵۳،۴۸۶،۴۸۵ ۷۲ ،۷۲۶ ،۷۱۵ ، ۷۱۲ ،۷۱ ۶۴۸ بشارت الرحمن ایم اے، پروفیسر بشیر احمد خاں، ڈاکٹر ۳۸ بشیر احمد، چوہدری.سیالکوٹ ۳۹ بشیر احمد، چوہدری.کھاریاں ۳۹ ۵۵۵،۵۵۳،۵۵۲، ۷۰۰،۶۹۸ بشیر احمد ، قاضی ۲۳۸ ۴۰۵، ۴۰۶، ۴۲۸، ۴۲۹ بشیر احمد دہلوی بشری افتخار.کراچی بشری بیگم.ربوہ ۵۵۳ بشیر احمد ڈار، ڈاکٹر.ٹانگانیکا بشیر احمد ، مولانا ۱۹۱ بشری صدیقہ ۵۶۶ ۵۶۶،۵۵۷ بشیر افضل.نیو یارک بشیر احمد آرچرڈ ۴۳۹، ۶۸۴ بشیر احمد شاہ، سید ۲۷۰ بشیر الحق ، ملک ۳۴۷ ۶۲۲ بشیر احمد ایم.اے، صاحبزادہ مرزا بشیر احمد شاہ، سید.کینیا ۵۵۷ بشیر الدین عبید اللہ ، حافظ ۳۸۲ ۳۸۲،۳۶۲،۳۶۱ ۷، ۱۳۷۸، ۱۵، ۲۵، ۲۷، ۶۲،۵۸ ، بشیر احمد شمس، مولوی ۷۴، ۹۵ ، ۱۰۵ ، ۱۰۶ تا ۱۱۹ ، ۱۲۳ ، بشیر احمد ناصر ، گیانی ۵۷۷،۵۵۵ بشیر بلوچر (Bashir Blucher) ۱۲۴، ۱۵۱، ۱۵۶، ۱۹۳،۱۸۷، ۱۹۵، بشیر احمد ۱۳۹،۱۳۵،۹۸،۹۷ ۲۹ ۵۵۷ ۲۳۴،۲۲۲،۲۱۶، ۲۳۹، ۲۴۰ ۲۴۳، بشیر احمد ، قریشی ( ایڈووکیٹ ) ۳۳ بشیر حبیب ۲۴۶ بشیر حسین ،حوالدار پنشنر ۲۴۹، ۲۶۰، ۲۶۸، ۲۶۹، ۲۹۱، بشیر احمد ، کپورتھلوی بلقیس بیگم ۳۱۶، ۳۸۴،۳۴۸، ۳۸۵، ۳۸۶، بشیر، چوہدری (ایڈووکیٹ) ۳۳ بہادر دین ،میاں ۴۳۰ ، ۴۶۰ ، ۴۸۷ ، ۴۹۰ ، ۴۹۹ ، بشیر احمد ، خواجہ.برما ۷۱۵،۳۴۸ ۵۰۱ ، ۵۰۶، ۵۸۹، ۶۰۹ ، ۶۱۱ ، بشیر احمد ایڈووکیٹ ، چوہدری ۶۱۶ ۶۱۴، ۶۲۸، ۶۳۵، ۶۶۲، ۶۸۲ بشیر احمد (رکن ڈسٹرکٹ کونسل بشیر احمد برمی ۵۵۷ | شیخو پوره) ۳۸ بهار خان بھاگ بھری بھنڈارکر ، ڈاکٹر بی ایچ راوز بشیر احمد، چوہدری (ریڈیو آفیسر بی بی ٹی ٹی محمد بشیر احمد چغتائی ۴،۴۱۴ ۴۵، ۵۰۲٬۵۰۱ | سفینه حجاج) ۷۰۵،۳۳۹ بی بی عائشہ ۳۶ ۵۵۳ ۲۲۸ ۶۴۲ ۶۸۶ ۶۴۶ ۴۳ ۶۷۲ ۲۳۸

Page 759

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 بی عبداللہ ، مولوی ۵۵۴ | پانڈو 7 بیگم السید محمدعبد اللہ شبوطی ۷۰۵ پریتم سنگھ بھائیہ، حکیم بیگم السيد منير الحصنی بیگم بی بی.گوجرانوالہ ۷۰۵ ۷۰۵ پردوان ، مہا راجہ پیر بخش بیگم چوہدری منصور من پیئرز جے ہس ( Mr.Pierre بیگم حکیم قطب الدین اشاریہ.اسماء ۲۸۰ ثناء اللہ امرتسری ، مولوی ۳۳۷ ۲۸۴ تا ۶۵۰،۶۴۹،۲۹۹ ۶۴۶ ج ۲۷۹ جانسن ،مسٹر ۵۵۷ جبرائیل آدم ۷۲۰ ۱۴۵ (J.Huss بیگم ڈاکٹر محمد عمر 13 بیگم راجہ ناصر احمد ۶۲۱ تاج محمد خان بیگم سیٹھ معین الدین ۷۰۴ بیگم شیخ عبدالرحمن ۲۲۹ تاج محمود، حاجی میاں ۶۵۰،۶۴۹ جبرئیل سعید ۷۲۰ جلال الدین بلا نوی ، مرزا منشی 1 جلال الدین شمس ، مولانا بیگم عبدالحمید عارف بیگم عبدالغفار.یاد گیر ۷۰۵ ۷۰۵ ۷۰۵ بیگم عبید اللہ میر بیگم قاضی ڈاکٹر محمد منیر بیگم لعل الدین ، ڈاکٹر بیگم محمد رمضان.پتوکی بیگم میر عنایت علی شاہ ۷۰۵ ۴۱۹ ۷۰۵ ۱۴۵ بیگم نذیر احمد ۷۰۵ پال ششم، پوپ ۵۴۶،۵۳۴،۵۳۳ (PALDEN THONDUP NAMGYAL) پالڈین تھا نڈپ نامگیال ثاقب زیروی (محمد صدیق) ۴۲، ۷۱۴ ،۴۹۹ ،۲۵۱ ، ۲۵۰،۱۵۵ ، ۴۶ جمیل الرحمن رفیق ۳۴۹، ۷۱۵ تاجدار دہلوی (ایڈیٹر سلطان سرگودھا) ۵۳ تاجور نجیب آبادی، علامه ۵۱۲ ،۳۴۲ ،۳۱۵ ،۲۰۲ ، ۱۹۲ ،۱۰۱ ،۵۹ ،۴۳۹،۴۰۶،۴۰۳،۳۸۷ ،۳۶۶ ،۴۵۵ ،۴۵۴ ،۴۵۳ ،۴۴۲ ،۴۴۱ ،۵۶۰،۵۵۷ ، ۵۱۸ ،۴۷۲،۴۶۰ تمیم انصاری ۶۳۳ ۷۳۱،۶۴۵،۶۱۱ تنکو عبدالرحمن ۷۱۶،۳۴۳ تنویر، سیده ۶۰ تھاپال ۲۸۰ جلال الدین تیجا سنگھ، جسٹس ۴۸۵ جلال الدین قمر مولانا ۵۰۲٬۵۰۱ جمال احمد قادیانی، چوہدری ۲۳۶ جمال الدین.تر گڑی ۷۴ ۲۵۲ ٹھا کر داس ۴۳ | جمال دین.مانگٹ اونچا ۲۴۲ جمال عبد الناصر جمیل احمد خان ۶۳۳ ۱۶ ثانی اول ، الحاج ۳۶۳ جمیلہ سلطانہ ۵۵۳

Page 760

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 جمیلہ کوپ من.جرمنی 8 حاکم بیگ، مرزا ۲۷۳ تا ۲۷۵ حسن عطاء الحاج ۵۶۶،۵۵۷ حاکم دین ، خواجہ ۳۶ اشاریہ اسماء ۷۲۰،۵۶۰۰۵۵۶،۵۵۳،۳۶۲ جواد علی ، سید ۳۸۲،۳۴۶، ۷۰۹ حامد اسلم (ایڈووکیٹ) ۳۳ | حسن محمد خان عارف جواہر لال نہرو، پنڈت ۷۹ ۸۰ حامد حسین خان، مراد آبادی ۵۸۲ جوشوا فضل دین ( مسیحی لیڈر ) حامد رضا (وکیل) ۱۷ حسن محمد ، بابا ۵۴۸،۳۹۱،۳۶۴ ۶۵۱،۵۹۴ ۵۳ حامد علی خان ، مولانا ۵۷۸ | حسن سیٹھ.یاد گیر ۶۵۲،۱۹۱ جولیس نیر میرے ۶۸۰۰۶۶۸ حامدہ بیگم اہلیہ کلیم الدین امینی ۶۲۲ حسن، سید ۶۱۵ جو مو کنیاٹا ۶۶۷، ۶۶۹ ۶۷۲ حبیب احمد ، ملک ککے زئی ۳۳۲ حسن شیخ ۲۶۳ | حبیب الدین احمد ، قاضی ۸۵ حسنات احمد جہانگیر ،شہنشاہ جے اے وادن ۱۲۴ حبیب الرحمن ، ملک ۴۵۳،۱۷۷ حسیب بیگم اہلیہ ملک فضل کریم | جے ٹی آدم، الحاج ۳۶۲ حبیب اللہ خان، پروفیسر ۴۰۵ جیتو ، مہا راجہ جیون بٹ ، بابا چ چراغ الدین ،مولانا ۲۸۰ | حبیب اللہ خاں، ڈاکٹر ۳۳۳ حسین بخش، شیخ ۶۸۷ 122 ۶۱۵ ۶۲۱ ۲۷۰ حبیب اللہ شاہ دا توی، میر حسین بی بی اہلیہ چوہدری برکت علی ۴۵۷، ۴۵۵،۲۳۷ ۲۳۰،۲۲۹ حبیب اللہ شاہ، قاضی سید حسین.ساکن کھٹالہ ۵۹۱،۵۸۹ حشمت اللہ خان، ڈاکٹر ۶۱۶ ۲۲۲ چراغ دین ، چوہدری.یوگنڈا ۴۱۸ حبیب اللہ کینیڈا چراغ دین ،میاں.لاہور حبیب بیگم ۳۶۴ ۵۶۰،۴۰۶ ۶۸۶ | حضرت اللہ پاشا ،سید ۱۰۱، ۶۹۵ ۲۹۶، ۷۱۲،۵۹۰،۳۰۹ | حبیب حسن ، ملک ۲۶۳ حضرت اللہ مہمند چراغ شاہ، ملک ۲۳۰ حبیبہ بیگم چووانگ شاہ.چین ۵۵۷ حرمت بی بی ( تائی صاحبہ ) ۵۵۷ حفصہ بیگم.سرگودھا ۲۶۶ حسام الدین، میاں مردان ۴۰ حفیظ احمد چوہدری (ایڈووکیٹ) حاکم بی بی اہلیہ ڈاکٹر مرزا عبدالکریم حسن ثانی ( شاہ مراکش ) حفیظ احمد ، صاحبزادہ مرزا ۲۳۱ ۶۲۱ ۳۳ ۱۰۵ ་་ ۲۰،۱۹،۱۸ حفیظ احمد ۲۵۸

Page 761

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 حفیظ بیگم ۳۱۹ خاوی خان حفیظہ بیگم 9 اشاریہ اسماء ۲۲۵ خورشید احمد پر بھاکر، مولوی ۲۵۱ خدا بخش درویش، میاں ۷۰۴ حلیمه بشری بیگم بقا پوری ۵۵۳ خدا بخش زیروی ، صوفی خورشید احمد شاد، مولوی حمامة البشرى ۵۶۶ ۴۱۴،۳۳۳ خورشید احمد ، شیخ ۴۰۷ ،۳۸۸ ۴۷۳ ۴۴۴ ،۴۰۵ حمید احمد اختر ابن عبد الرحیم مالیر کوٹلوی خدا بخش، ملک ۲۹۲ خورشید عالم چیمہ، چوہدری ۱۰۲ خدا بخش ، چوہدری ۵۸۷ | (ایڈووکیٹ) ۱۵۵ خدا بخش ، شیخ ۲۳۱ , ۳۳ حمید احمد اوّل ، مرزا حمید احمد ، صاحبزادہ مرزا ۱۰۵، ۱۵۵ خداداد خان.مردان ۲۲۹ داتو ائے حمید احمد ، سردار ۳۴۷، ۳۶۵ خداداد خان (رکن قومی اسمبلی ) ۳۲ دا تو عبدالجلیل حمید اللہ پلیڈر، چوہدری حمید اللہ ، شیخ ۳۳ خضر تمیمی ۵۱۳ | داتو ہارون ۳۴۹ 217 ۳۴۹ ۳۳۹ خضر حیات ۶۳۸ | داؤد احمد ، سید میر حمید اللہ ، شاہ خضر سلطانہ ۶۵۳،۶۵۲ حمیدہ بیگم ۲۴۰ خضر علیہ السلام ۴۶۶،۳۰۰ داؤد احمد انور، سید ۵۷۲،۳۴۳،۲۷ ۳۸۳ حمیس بن جمعہ ۳۸۱ خلیل احمد ، چوہدری ۳۶۵ داؤ د احمد مانٹریال ،سید ۳۶۵ حنیف احمد ، صاحبزادہ مرزا خلیل احمد ، شیخ ۶۴۸ | داؤد مظفر شاہ، سید ۷۱۸ ،۷۱۷ ،۶۹۵،۳۸۳ حنیفہ بیگم اہلیہ سید منظور حسین شاہ ۲۲۲ خلیل احمد ، مرزا.ابن مرزا عطاء اللہ دل خان خلیل احمد، پیر خلیل احمد ، صاحبزادہ مرزا ۲۷۳ دلاور خان ، بابو ۶۸۳ دوست محمد شاہد ، مولانا ۶۹۵ ۲۳۰ ۲۲۵ ،۴۰۶ ،۴۰۵ ، ۳۴۱ ، ۳۴۰ ، ۱۹۱ حیدرشاه حیدر علی خان خ خادم حسین بھیروی ،منشی ۲۲۵ ۲۲۰ خالد احمد زفر کھوکھر، ملک ۶۴۸ خان محمد بھٹی ، رائے ۳۲۰ ۶۹۵،۳۰۶،۱۳۱ ۷۳۱،۵۱۷،۵۱۲،۴۷۳ ۳۱۲ خلیل الرحمن ، صاحبزاده ۲۳۱ دھر مانت سنگھ ،سردار ۳۴۷ دیانت خان ،منشی خلیل محمود.باسٹن خلیل محمود.نائیجیریا ۳۸۰ دیور ۲۴۲ ۲۸۰

Page 762

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 ڈ 10 اشماریہ.اسماء رحمت علی شاہ بخاری، سید ۷۰۸ رشیدہ بیگم بنت ڈاکٹر ظفر حسن ڈونلٹ اسٹیفن ۳۴۹ رحمت علی ، مولانا ڈیراک ڈینس سی سمتھ جو نیر ز ۵۷۸ ۶۵۱ رحیمہ بیگم بنت ڈاکٹر کرم الہی ۶۱۵ رشیدی.افریقہ رسم ۱۹۰ رشیدی کو ا وا رشید احمد ابن ڈاکٹر سردار علی ۶۴۸ رشیدی صبح ذاکر حسین ،ڈاکٹر ۸۰ رشید احمد اختر ۶۹۶ رضوان قادر، ڈاکٹر ذوالفقار علی خان ۵۸۲ رشید احمد بدوملهوی ۶۹۱ | رضوی، نواب سید ظفرحسن ۲۶۳ ۶۷۲،۶۷۱ ۵۶۰۰۵۵۶ ۲۹۳ رشید احمد خان ۲۲۳ رضیه بنت شیخ امری عبیدی ۶۶۴ رابعہ بیگم اہلیہ محمد عبدالله ۶۰۹ رشید احمد سرور ۳۴۹، ۷۱۵ رضیہ بیگم ۲۳۸ را بندر ناتھ ٹیگور ، ڈاکٹر ۶۴۶ راج ، ملک ۳۲۱ رشید احمد ، صاحبزادہ مرزا رشید احمد رضیه درد ۵۶۶ ۲۵۹ رفیع احمد، صاحبزادہ مرزا رادھا کرشنن، ڈاکٹر ۷۰۴۸۰ رشید احمد - سیرالیون ۷۱۲ ۷۱۴ راشد رجب علی خان ، میرزا رچرڈ بیل رحمت اللہ خان حیسون ۷۱۳ ۲۳۱ رشیدالدین.کراچی رشیدالدین، چوہدری ،۴۱۵ ،۴۰۶ ،۳۴۳ ،۳۳۲ ،۱۶ ،۴۷۲،۴۶۹ ،۴۶۸ ،۴۲۹ ،۴۲۸ ۲۴۶ ۷۳۱،۵۱۸،۵۱۷، ۴۷۳ ۵۰۳ ۳۹۸ ۲۳۰ رحمت اللہ ، سردار (ربوہ) ۶۲۹ رحمت الله شیخ ۱۹۳٬۹۵ ،۳۴۳ رحمت اللہ ، حاجی رحمت اللہ ، ماسٹر.حیدرآباد ۵۹ رحمت اللہ رحمت بی بی رحمت خان، چوہدری ۸۲ ۵۸۷ ۷۲۹،۵۵۷ ،۵۰۵ ،۵۰۴ ،۳۴۸ ۷۳۰،۴۱۶،۳۷۹ رفیع الدین بٹ رشیدالدین، ڈاکٹر خلیفہ رفیع الدین، میاں (ایڈووکیٹ) ۶۸۴،۳۱۸ رشید بیگم بنت مرزا عطاء اللہ ۲۷۳ رفیق احمد بھٹی رشید قیصرانی ۴۰۷ رفیق احمد ثاقب رشید یوسفی ، ڈاکٹر ۷۰۵ رفیق احمد همچیں رشید ( حضرت حکیم ) ۲۵۰ رفیق احمد گوندل، میاں رشیده احمد الدین ۳۳۳ رفیق احمد رشیده بنت میر عبدالقادر ۶۵۵ رفیق چانن ۳۳ ۴۱۸ ۴۰۶ ،۴۰۵ ۵۵۵ ۶۴۸ ۷۱۵ ۵۵۹،۵۵۷

Page 763

۳۶۵ اشاریہ.اسماء سرفراز خاں، ملک (ایم پی اے) ۲۵۴ سروجنی نائیڈو ہمسر ۳۲ ۶۴۶ ۲۸۰ سعادت احمد جاوید، مولوی ۳۳۸ 11 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 رقیه بیگم اہلیہ سید محبوب احمد ہاشمی رے خان ۶۰۹ ۳۶ ساجد حسین ،ڈاکٹر سادی، میاں روت روجرز ، حاجی ۳۰۴ | سارنگ واء سائرہ بیگم، سیده روشن الدین احمد سپولر، ڈاکٹر روشن دین ، مولوی ۷۲۳ ۵۹۱ سجاد احمد ، سید ۷۱۵ ۷۳۳ سجاد باقر رضوی ،سید ۵۱۳ سعادت بیگم سعادت علی سعد الدین سعد اللہ خان سعد اللہ خان خٹک ۲۶۳ ۲۵۴ ۲۵۴ ۲۳۰ ۲۲۶ سجاول ۲۴۱ سدید الدین خواجه سراج الحق نعمانی، پیر سعد اللہ ، حافظ سعود احمد خان دہلوی، پروفیسر ۵۹۱ ۷۲۰،۳۶۲ ۳۲۸،۲۸۸،۲۱۶ سعید احمد اظہر سراج الدین عیسائی سعید احمد ، چوہدری سردار خان سردار شاہ،سید سردار علی شاہ ۵۱،۴۶،۴۳،۲۸ ۶۸۱ ۳۲۷ ۲۵۳ سعید احمد ، شیخ سعید احمد ، ملک ۳۴۲،۸۱ ۶۴۸ ۴۱۴ سعید الحق ۷۴ سعید اللہ بیگ، مرزا ۲۷۳ سردار علی ، ڈاکٹر ۶۴۸ سعید علی خان ، میاں ۳۳۲ سرفراز احمد (ایڈووکیٹ) ۳۳ سعیده بشری بیگم ۶۴۲ سرفراز احمد ، خواجہ ( ایڈووکیٹ) سعیده ۶۹ ۳۳ سعیدی، معلم ۳۴۹ ۳۳ روشن علی، حافظ ۶۳۵،۵۹۵،۵۹۴ ۳۱۴ ۶۹۲ ۴۱۴ ،۱۰۱ ۴۸۴ ۶۱ ۴۳ ۲۴۰ ۲۳۸ ۶۴۸ ۶۱۵ ۳۸۱ ۳۱۶ ۶۸۵ روم ، مولانا ریاض احمد ملک ریاض محمود، شیخ ریڈ کلف، مسٹر ریورنڈ جے ٹی واٹسن ریورنڈ مسکن ز ز بیده بیگم زبیدہ ناہید زبیراحمد کھوکھر ، ملک زرینہ بیگم زکریا ،مسٹر زمان شاہ، پیر.مانسہرہ زمان شاه، سید زیڈ کے لطیف ۵۷۰،۵۶۷ سرفراز خان نمبر دار، چوہدری سکندر بیگ، مرزا (ایڈووکیٹ ) ۶۳۱،۶۳۰ ۳۱۵ زینب قدسیه

Page 764

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 12 اشاریہ.اسماء سکندر خان بلوچ ۲۲۸ سلیمان خان ، جمعدار ۳۹ سید احمد بریلوی سکندر خاں ، مہر.ایڈووکیٹ ۳۲ سلیمان علی ۵۶۱ ۴۶۷ ،۲۳۷ ،۲۲۴ ،۲۱۹ ۶۳۲ سلیمان ندوی ، مولانا سید ۲۹۳ سید احمد ناصر ، سید ۶۰۸ سلیمان، ملک (ایڈووکیٹ) ۳۳ ۲۱۹ سلیمہ بیگم اہلیہ صوبیدار محمد حسین سکینہ بی بی سکینہ بیگم سلطان ابراہیم ادہم سلطان احمد پیر کوئی ۶۸۹،۵۸۶ سلطان احمد شاہد ۵۸۷ سلیمہ بیگم سلطان احمد ، ملک سلطان احمد لدھیانوی، آغا ۲۵۹ سلطان رشید خان ، ملک سلطان علی باجوہ، چوہدری.سرگودھا سمیع اللہ سیال سلیمہ میر ۶۱۵ سمندر خان.زیدہ سمندر خاں.پشاور ۳۲۳،۳۲۲ سمندر خان.کیری ہزارہ ۳۹ ۶۰۹ ۲۴۲ ۶۹۵،۴۱۰،۳۳۲ ۶۴۸ سیده بیگم، سیده سیف الاسلام محمو دار کسن سیف الرحمن خان سیف الرحمن ، ملک ۲۸ ۲۳۱ ۶۹۷ ، ۵۰۹ ،۴۷۳ ،۴۲۹ ،۴۲۸ ۲۲۶ ۲۳۶ ۲۲۹ ۳۸۲ سیف اللہ خان تارڑ ( ایم پی اے) ش ۳۲ ۲۲۲ سلطان علی ، چوہدری.کھاریاں سلطان محمد خان ، ملک ۳۹ ۳۲۲ سلطان محمود، حاجی میاں سلطان محمود غزنوی سلطانہ صبیحہ، سیده ۶۴۹ ۲۶۳ ۶۹۵ سلوانس المپیو ۳۵۱ سلیم احمد کمانڈر ۵۰۲،۴۵۴ سلیم احمد ناصر باجوہ ۸۲ سلیم شاہد سلیمان الحسن ۷۱۵ ۷۲۰ سمیع اللہ ، مولوی ،۳۳۸ ،۱۹۱ سونری پرشاد ۵۵۹،۵۵۳،۵۴۷،۵۴۶،۵۳۹ ۳۴۲،۸۱ سورج بنسی ۲۸۰ شادی خان ، میاں شاشتری،ڈاکٹر شاکرہ بیگم شاہ پورخان شاہ دین، قاضی ۶۴۶ ۶۴۶ ۲۳۱ سوہن سنگھ ، حکیم ۳۳۷ شاہ، ڈاکٹر ۷۲۵ سہانوک (Sihanouk) شاہ محمد خان ۲۲۶ سهیل این امری عبیدی ۶۶۴ سہیل احمد ، سید شاہ محمد سلیمان ، سر ( چیف جسٹس اله آباد ہائی کورٹ ) ۶۶ ۱۸۹ شاہ محمد ، سید ( مبلغ انڈونیشیا) ۸۳، سهیل بخاری سهیل مبارک احمد شر ما ۵۱۳ ۵۵۶ ،۴۴۹ ،۴۴۸ ،۴۰۸ ،۳۱۷ شاہ نواز خان، جنرل ۳۴۲،۸۱ ۶۲۷

Page 765

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 شاہ نواز خان ،ڈاکٹر 13 اشماریہ.اسماء ۴۰۶ شفیع الدین ، میاں ۲۲۷ شہاب الدین ، میاں.مردان شاہجہان بیگم (صدر لجنه قصور ) شفیع ، الحاج ۴۱۴ شکیل احمد ۳۵۷ ۱۴ شہاب الدین ، میاں.لدھیانہ شاہد احمد خان ۶۹۵ شمس الدین تاجر چرم ، میاں ۲۹۱ شاہد راجہ ۶۲۰ شمس الحق جانسن شبلی نعمانی ، مولانا ۴۹۷ شمس الحق ، شیخ شبیر احمد، چوہدری شجاع الدین احمد ۵۰۹،۴۷۴،۴۵۳ ۶۲۸ ۵۵۳ شهامت خان منشی ۶۲۲ شیخ حاجی سشمس الدین خان ، بابو شیخ محمد، قریشی ۴۵۴۵۹ شیر افضل خان شمس الدین، الحاج منشی ۷۰۰ شیر خان ، خان بہادر شربت علی خان، میرزا شمس الرحمن ۲۲۰، ۲۲۵، ۲۲۸ شمشاد علی ، چوہدری ۱۹۴ شیر علی ، مولانا ۲۲۷ ۲۲۲ ۲۴۲ ۲۸۰ ۲۴۹ ،۲۴۸ ۲۲۶ ۲۲۶ ۱۱۵ ۶۴۴ ،۵۹۴ ،۵۹۳ ،۳۸۴ ،۲۴۰ ۲۲۹ ۶۴۵ شریف احمد امینی ، مولانا شمیم احمد شیخ، ڈاکٹر ۳۱۵ شیر محمد خان ۱۹۱، ۵۵۳،۳۳۸ شمیم احمد ، میجر ۳۷۵ شیر محمد ، مولوی شریف احمد.سیالکوٹ ۳۹ شمیم اختر ، سیده ۲۷۰ شیر محمد ، میاں شریف احمد ولد صوفی محمد فضل الہی شورش کا شمیری ، آغا ۵۶ شیرا، میاں ۲۴۱ | شوکت تھانوی ( محمد عمر ) شریف احمد ، صاحبزادہ مرزا ۱۰۲، ۱۱۴،۱۰۵، ۱۴۱، ۳۴۴،۲۹۱، شوکت علی ، مولانا ۷۰،۶۹،۶۶،۶۴ صاحبدین ڈھینگرہ ، شیخ ۲۹۳ صادق جانسن ۶۰۹ شہاب احمد ، ڈاکٹر سید ۳۷۸ صادق علی ، بابو شریف علوی، شیخ ۷۲۲ شہاب الدین، خواجہ ۳۴۹ صادقہ بیگم اہلیہ بشیر الحق ۵۹۱ ۶۸۱،۶۸۰ ۲۵۴ ۶۱۰ ۷۲۰ ۳۸ ۶۲۲ ۱۹۵، ۴۴۸، ۴۴۹ صادقہ بیگم بنت خان عبدالمجید خان ۲۴۰ ۲۵۷ شعبان سیف شعبان کر ونڈے ۴۱۸ شہاب الدین، مستری مردان شفیع ابن شیخ امری عبیدی ۶۶۴ ۵۷۵ صادقہ خاتون ، سیده

Page 766

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 14 اشاریہ.اسماء صادقہ عفت صالحه فاطمه ۲۴۶ الدین صالحہ منہاس ۲۵۷ صلاح الدین ابن مولوی محمد عزیز (۴۶۹، ۴۷۰، ۵۰۶، ۵۱۱، ۵۱۶، ۲۷۳ صلاح الدین احمد، چوہدری ۳۲ طاہر احمد ، ملک ۳۳۲ ۶۱۱ ،۵۷۴ ،۵۶۰ ،۵۱۹ ،۵۱۷ ۲۴۶ صدیق امیر علی ۵۵۵ صلاح الدین احمد ، مولانا طاہر لطیف، صاحبزادہ ۳۶۵ صدرالدین آغا خان، پرنس ۳۵۶ (مدیر ادبی دنیا ۳۴۴،۶۴ طاہرہ بنت ملک عمر علی کھوکھر ۶۴۸ صدرالدین، مولوی صلاح الدین ایم اے، ملک ۶۳۴ طلعت، صاحبزادی ۳۴۴ صدر حسین رئیس ،سید.چنیوٹ ۴۰ ،۳۴۲،۳۳۲،۳۲۸،۱۵۴،۸۱ ۷۳۱،۴۰۷ ،۳۸۷،۳۸۶ ۷۴ طیبہ بنت میر عبدالقادر ظ ظفر احمد کپورتھلوی منشی ۲۴۰ ۶۹۶ ظفر احمد، شیخ ۶۴۸ ظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا ظفر جہاں بھٹی ۶۹۹،۳۴۴ ،۱۶۳ ۶۵۳ ظفر حسن ، ملک ۲۶۱،۲۶۰ ظفر علی خان مولانا ( ایڈیٹر زمیندار) ۵۹۸،۴۰۴ ظفر محمد ظفر ، مولانا ۶۳۲ ظفر محمود ۷۱۲ ۶۴۶ ظل الرحمن بنگالی ۲۳۰ ۲۶۶ ۴۰ ۳۶ ۷۳ ۶۴۴ ۶۴۸ صلاح الدین ایوبی صدیق حسن خان نواب ۴۶۵ صلاح الدین ، پیر صدیقہ بنت میر عبدالقادر ۶۵۵ صندل خان ، ملک صغیر احمد پلیڈر، سردار ۳۲ ض صغیر احمد چنیوٹ ۳۳ ضمیر علی ، مرزا صفدر علی خان ۳۳۴ صفدر علی، چوہدری صفی اللہ ۵۸۸ ۵۷۹ صفیہ بیگم اہلیہ بشیر احمد کپورتھلوی ۲۴۶ صفیہ بیگم اہلیہ سید محمد منیر ہاشمی ۶۰۹ ضیاء الحق ایم اے (سکھر ) ضیاء الحق، چک 38 جنوبی ضیاء الحق.مشرقی پاکستان ضیاءالدین ارشد، ماسٹر طارق علی کھوکھر b صفیہ بیگم بنت مولانا غلام رسول طاہر احمد بخاری ،سید را جیکی ۳۱۵ ظہور احمد شاہ، سید.ربوہ ۳۷۵،۳۶۵،۳۶۴ صفیه خاتون بنت قریشی محمد اسماعیل ۳۲۸،۲۶۹ طاہر احمد ، ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا معتبر صفیه خاتون ، سیده ۶۲۸ ،۱۹۲،۱۲۷ ، ۱۱۹ ،۱۰۵ ، ۴۶ ،۱۶ ،۱۵ ۲۵۷ ،۴۶۸ ،۴۵۷ ، ۴۴۲،۳۸۴،۳۴۳ ظہور احمد، چوہدری ۶۱۶،۶۰۶،۴۵۳،۱۶۲

Page 767

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 ظہور احمد 15 ۵۸۰،۵۰۳،۵۰۱ | عباداللہ امرتسری ، ڈاکٹر ۲۷۰ عبدالحق، چوہدری اشاریہ.اسماء ۵۹۴ ظہور الدین بٹ ،خواجہ ۳۲۰ عباداللہ، گیانی ۳۰۶ ۷۳۱ عبدالحق، شیخ.سیالکوٹ ظہور الہی ، چوہدری ( ایڈووکیٹ ) عباس علی شاہ ،سید ۶۰۷ عبدالحق ، مولوی.بہار ۳۳ عباس رضی اللہ عنہ ۲۰۳ عبد الحق، قاضی ظہور حسین ، مولوی ۵۰۹ عبد الاحد ظہور رضوی، سید (ایڈووکیٹ) عبد الباسط شاہد،مولوی ٣٣ عبد الباسط ۲۲۶ ۵۵۶ ۶۹۵ عبد الحکیم اکمل.مجاہد ہالینڈ ۳۲ ۵۵۳ ۲۲۷ ۷۲۹ عبد الحلیم عبد الحلیم، چوہدری ۵۵۵ ۳۸ عبدالحمید خان شوق ۴۰۷، ۵۸۷ ظہور احمد شاہ ، سید.برمنگھم ۷۱۲ عبدالباقی ظہیر احمد بابر عبدالجبار غزنوی، مولوی ۳۲۸ عبد الحفیظ خان، رائے ظہیر احمد خان ۲۴۳ ع عبدالحفیظ شرما عبد الحفیظ کھوکھر عادل ابن شیخ امری عبیدی ۶۶۴ عادل خان ، نواب عارف زمان ، میجر ۳۰۷ عامر بن شیخ امری عبیدی ۶۶۴ عائشہ بی بی.کراچی عائشہ بیگم اہلیہ مولانا رحمت علی عبد الحفیظ ، چوہدری ۶۴۹ ۳۲۰ ۶۲۷ ۳۷۷ ۷۱۴۷۱۳،۷۱۲ عبدالحفیظ، چوہدری ( ایڈووکیٹ ) ۷۰۵ عبدالحق ایڈووکیٹ ، مرزا ۳۳ ،۴۳۰ ،۴۰۶ ،۲۱۳ ،۱۵۵ ،۱۳ ،۴۵۱ ،۴۴۴ ،۴۴۳ ،۴۴۲ ،۴۳۳ ۶۵۲،۶۵۱ عائشہ بیگم بنت میاں خیر الدین ۵۵۹،۵۱۸،۴۶۹،۴۶۸ عبدالحمید سالکین عبدالحمید شرما عبدالحمید عاجز، شیخ ۸۳ ۶۲۶ ۳۹۰،۳۴۲،۲۱۴،۸۱ عبدالحمید عارف عبدالحمید میجر ( مبلغ ڈیٹن) ۷۰۵ ۷۱۰ ، ۴۸۰ ،۳۸۳ ،۳۴۶ ،۲۳۱ عبدالحمید، میاں عبدالحمید،مولوی ۲۲۸ ۷۲۲،۷۲۱،۷۲۰،۳۸۳،۳۶۳ عبدالحمید، خاں عبدالحمید، خواجہ ۶۲۰ | عبد الحق بد وملهوی، مولوی ۲۴۰ ۲۵۹ عائشہ بیگم، سیده ( والدہ سیدہ ام وسیم) ۶۳۰،۶۲۹ عبدالحمید راولپنڈی ۳۱۶ عبدالحق رامہ، میاں عبد الحنان عبقری عائشہ بیگم ۵۵۳ ۵۰۹،۵۰۶،۳۸۸،۶۳ | عبد الحئی خان ٣٣٣ ۷۰۷ ۶۳۳

Page 768

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 16 اشاریہ اسماء عبدالحئی خان ، مولوی ۲۲۷ عبدالحئی شاہ ،سید عبد الحئی یادگیری ،سیٹھ ۴۳۰ عبدالرحمن، خاں( ۳۸ جنوبی ) عبدالرحمن.میاں ۳۶ عبدالرحیم چیمہ عبد الرحمن خان، خانزاده ۲۲۹ عبدالرحیم خان | ۶۵۲،۵۴۴،۱۹۱، ۶۸۷ عبد الرحمن خادم، ملک ۶۱۷ عبدالرحیم درد، مولانا ۳۱۰ ۶۹۶ ۲۲۹ عبدالخالق کپورتھلوی ،منشی عبدالرحمان ، ڈاکٹر عبدالرحمن، راولپنڈی ۲۴۷ ۲۴۶ عبدالرحیم شرما ہمنشی شیخ عبدالخالق، قاضی عبدالخالق، شیخ عبدالرحمن سلانوالی ۲۲۷ عبدالرحمن (سفير) ۲۲۷ عبدالرحمن احمدی، ملک عبدالرحمن شاکر ،۱۴۱ ۷۱۱ ،۳۸۴ ،۳۲۴ ،۱۴۹ ،۱۴۳ ۶۴۵ ۷۰۵ ۶۲۵،۶۲۳ ۳۹ 217 ۱۹۰،۱۸۹ ۴۰۶ عبدالرحیم شہید.مشرقی پاکستان ۴۱۴ عبد الرحمن صدیقی، ڈاکٹر عبد الرحمن ابن مولوی عمر دین عبدالرحیم قادیانی ، بھائی ۴۶۹،۵۹ ۶۳۷،۲۴۰ ۶۴۳ عبدالرحمن فاضل ، مولانا.قادیان عبدالرحیم کشمیری، مولوی ۶۹۹ عبدالرحمن اللہ رکھا، سیٹھ ۲۹۴ عبدالرحمن ،سید.امریکہ ۳۴۷ عبدالرحمن انور ،مولانا ۶۰۵،۵۰۹،۴۰۷ ،۱۳۰ ۳۲۱،۱۰۳۷۹، ۳۳۷، ۳۳۸، ۴۰۷، عبدالرحیم لدھیانوی ، صوفی ۱۴۵ ۷۰۶،۷۰۴۰۶۱۴،۵۵۳،۵۵۲ عبدالرحیم مالیر کوٹلوی عبدالرحمن قادیانی ، بھائی ۲۹۶ عبدالرحیم نیر، مولانا | عبد الرحمن قزق ، السید.ابن الحاج عبدالرحیم ،خلیفہ عبدالرحمن، برمنگھم ۷۱۲ محمد قزق عبدالرحمن بنگالی ، چوہدری عبدالرحمن ، کہولہ ہزارہ ۷۱۰،۳۸۳۳۴۶ عبدالرحمن ، کھاریاں عبدالرحمن بی اے بی ٹی ، چوہدری عبدالرحمن، کیری ہزارہ ۳۴۳، ۶۸۸ عبدالرحمن - ماسٹر ۳۱۹ عبدالرحیم ، میاں.بنوں ۲۳۰ ۳۹ ۱۰۲ ۷۱۹ ۲۸۰ ۳۱۹ عبدالرحیم ( ترکی زبان کے مقرر ) ۵۵۶ ۲۲۹ عبدالرحیم ، خواجہ.بیرسٹر ایٹ لاء ۲۴۸ عبدالرحمن ، جھنگ ۶۳۳ عبدالرحمن مبشر ۷۳۲۳۳۰،۳۲۹ عبدالرحیم ، سردار ( ایڈووکیٹ ) ۴۸۶ عبدالرحمن،حاجی عبد الرحمن خان.سرگودھا ۵۹ عبدالرحمن ، مشرقی افریقہ ۳۳ ۳۶ ۴۹۹،۴۱۵ عبد الرحیم ، مولوی.پشاور ۲۲۷

Page 769

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 17 عبدالرحیم ،مولوی ۵۸۲ | عبدالرؤف.لاہور اشاریہ.اسماء ۷۰۵ عبدالعزیز ٹیلر ماسٹر.میرٹھ ۲۲۲ عبدالرحیم ،میاں.المعروف میاں عبدالرؤف، مرزا ڈاکٹر ۶۱۱ عبد العزیز خان پوہلہ عبدالرحیم.کویت عبدالرحیم عبدالرزاق، ملاں عبدالرشید ارشا در یجان ۶۱۱ | عبدالستار شاہ، ڈاکٹرسید ۵۵۷ عبدالرشید اشک (ایڈیٹر شعلہ ) ۲۲۱ عبدالستار ، خواجہ ۲۲۸ ドラマ ۵۳ عبدالعزیز خیراتی ۳۲۸،۲۶۸،۲۶۷ | عبدالعزیز دین (ڈین) ۲۵۹ 212 ۵۵۷،۵۰۰،۴۱۵،۳۴۸ عبد الستار، سیٹھ ۵۵۷ عبدالعزیز ڈوگر ، چوہدری عبد السلام اختر ۱۵۵ عبد السلام اعوان ۳۳۹ عبدالعزیز بشمس ۵۶۷،۵۴۸،۱۷۳ ۳۶ عبد السلام بھٹی ، قاضی ۶۷۳ عبد العزیز مدرس.ایمن آباد ۲۲۲ عبدالرشید، مانگٹ اونچا عبدالرشید شرما، شیخ ۵۸۶ عبدالسلام خان، ڈاکٹر ۸۷ عبدالعزیز مغل، میاں ۲۹۱ ۶۲۷ عبدالرشید، ڈاکٹر شیخ عبدالسلام خان ، ملک ۴۰ عبد العزیز، خلیفه عبدالرشید، شیخ.میرٹھ عبدالرشید ، خواجہ عبدالرشید ابن مولوی عبدالحق ۲۷۴ ۵۸۲ ۷۲۷ ۷۲۶ ،۴۸۹ ،۴۸۶ ،۱۹۶ ۴۹۹،۳۱۴ عبد السلام میڈسن.ڈنمارک ۹۳، ۳۷۵،۳۷۲،۳۶۵ عبد السلام ، حافظ عبدالعزیز، شیخ حاجی ۱۶۱، ۵۰۹ عبد العزیز ، چوہدری ۲۷۴ بد و ملهوی عبدالسلام، ڈاکٹر پروفیسر ۵۶۷،۵۴۸،۱۷۳ ۶۳۲ عبدالرشید، چوہدری.لاہور ۴۰ ۳۰۷، ۳۰۸، ۴۹۳،۴۱۹ تا ۴۹۷، عبدالعزیز او جلوی منشی ۶۵۱ عبدالرشید، میاں سرحد ۲۲۸ ۷۰۴٬۵۰۰،۴۹۹ عبدالعزیز پسروری، حکیم ۲۸۰ عبدالسمیع کپور تھلوی منشی ۶۰۸ | عبدالعزیز (احراری) عبدالرفیق ، میاں.سرحد ۲۲۸ عبدالرؤف خان.شیخ محمدی ۲۲۶ ۲۲۶ عبدالسمیع، حافظ عبدالرؤف خاں ۵۰۹ عبدالعزیز ، مولوی.سیالکوٹ ۳۳۹ عبدالشکور، شیخ.حافظ آباد ۲۶۶ عبد الرؤف ، قاضی.پشاور ۲۲۸ عبدالشکور ، مولوی عبد الرؤف ۲۲۴ ۲۲۱ ۷۲۹،۷۱۸ عبدالغفار مظفرنگری، مولوی ۱۹۰ ۳۵۶ | عبدالصمد، قاضی میر ۲۱۹ عبدالغفار.حیدر آباد عبدالرؤف.نبی ۵۱۳ عبد العزیز ٹیلر ماسٹر سرگودھا ۳۶ عبدالغفار - یادگیر ۴۹۳ ۷۰۵

Page 770

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 18 اشاریہ اسماء ۲۲۸ عبد الغفورا بن خواجہ بھائی محمد عبد اللہ عبد القادر خان ، جھنڈ ا طالب علم عبد القیوم سوا تھی ، مولوی |.۲۲۶ عبدالقیوم ، ڈاکٹر نوشہرہ ۴۵۷ عبدالغفار کنجی عبد الغفور، چوہدری عبدالغفور، صوفی عبدالغفور کویت ۲۵۸ ۷۱۲ ۷۲۹،۴۶۹،۴۶۸ ،۳۴۷ ،۳۴۶ ۷۰۵ ۲۷۹ عبدالغفور عبد القادر خان.زیدہ ضلع مردان عبدالقیوم، مرزا ۶۱۱ ۲۲۶ عبدالکریم بابا.اچینی پایاں ۲۳۰ عبد القادر خان.جھنڈا ضلع مردان عبدالکریم ٹھیکیدار ۲۲۶ عبدالکریم ڈار عبد القادر ضیغم ، مولوی ۳۱۹ عبد الکریم ڈنکر عبدالقادر لدھیانوی، مولوی ۵۹۲ عبدالکریم سیالکوٹی ، مولانا عبد القادر ، سر عبد الغنی خان، ملک.شیخ محمدی ۵۱۲ ۲۲۵ ۳۳۹ ۲۹ ،۲۸۸ ،۲۸۷ ،۲۴۶ عبد القادر ، شیخ ( سابق سوداگرمل ) ۳۱۳، ۶۲۴،۵۹۲،۵۸۷، ۶۳۶ ۱۱۰، ۱۱۶، ۱۵۴،۱۵۳،۱۲۶، ۲۱۶، عبدالکریم شرما، مولوی ۴۵۴،۲۳۰ ۵۰۳ ،۳۸۶،۳۸۵،۳۲۸ ،۳۲۷،۳۲۵ ۷۱۲ عبد الغنی رشدی عبد الغنی زرگر ۷۳۱،۶۸۹،۶۶۲۶۱۲ | عبدالکریم ملکانه ۷۲۸،۷۲۷ ،۶۲۶،۳۸۱ ۵۵۵ عبدالغنی ، مرزا ۳۱۸ عبد القادر.برما ۳۴۸، ۷۱۵ عبد الكريم ولد مولانا محمد اسماعیل عبد الغنی، شیخ ۶۴۸ عبد القادر طالب پور پنڈوری حلالپوری ۶۲۱ عبد الغنی، قریشی ۶۴۲ ۲۴۸ عبدالکریم ، ملک.سیالکوٹ ۳۶ عبدالغنی.سرگودھا ۳۹ عبد القادر، میر ۶۵۵،۶۵۴ عبدالکریم.نوشہرہ ککے زئیاں ۳۳۲ عبدالغنی.شادیوال ۶۴۳ عبدالقدیر نیاز ، صوفی ۵۱۲ عبدالکریم ، ڈاکٹر لیفٹنٹ عبدالغنی.گدیاں ۳۹ عبد القدیر (ابن مولوی عبدالحق بد واهوی عبد الکریم ، مرزا ۳۲۱ ۶۱۱ عبد القادر ابن مولانا محمد اسماعیل ۶۳۲ عبدالکریم ، میاں گجرات حلالپوری ۶۲۱ عبد القدیر، چوہدری ۵۴۷ ۶۳۴ عبد القیوم خان - زیده عبد القادر ایم اے ۲۲۶ عبدالکریم.افغان عبدالقادر جیلانی، سید غوث الاعظم عبد القیوم خان، ملک شیخ محمدی عبداللطیف ابن مولانا محمد اسماعیل ۴۶۷، ۴۶۴،۳۰۰ ۲۳۰ ۴۵۴ | حلالپوری ۶۲۱ ۲۷۲،۲۷۱ ۶۹۸

Page 771

اشاریہ.اسماء 19 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 عبداللطیف آٹوا، چوہدری ۳۶۵ عبد الماجد ، قریشی عبد الواحد رحمانی ۵۵۶،۵۵۵،۴۰۷ | عبدالواحد عزیز ۷۰۵،۳۱۷،۱۵۴،۱۰۱ | عبدالمالک خان (مربی سلسلہ ) عبدالواحد ، چوہدری عبداللطیف شاہد، حکیم عبد اللطیف شرما عبد اللطیف شفق، میاں ۶۲۷ ۲۲۸ ۷۲۰،۶۵۴،۵۵۵،۳۶۳،۳۶۲، عبدالواحد ، سید ۷۲۹ عبدالواسع عدم چغتائی ١٩٠ ۷۲۰،۳۶۲ ۱۶۴ عبد اللطیف ملکانہ ، مولوی ۱۹۱ عبد المالک خان.لاہور ۳۳۳ عبدالوحید ایڈووکیٹ ، خواجہ ۳۳ عبد اللطیف، ڈاکٹر عدن ۳۱۵ عبدالمجید ، بھٹی عبد اللطیف ، سیٹھ ۵۴۴٬۵۴۳ عبدالمجید چیمہ ۳۸۰ عبدالوہاب بن آدم ، مولوی ۶۹۶ ۷۲۱،۷۲۰،۳۶۳۳۶۲ عبداللطیف، صاحبزادہ سید عبدالمجید خان کپورتھلوی، خان عبدالوہاب خان لدھیانوی، آغا ۲۸۸،۲۵۱،۲۴۶،۲۲۰ ۲۹۰،۲۳۹،۲۳۸ ۲۵۹ عبد اللطیف لندن ۵۵۷ | عبدالمجید خان.پٹیالوی ۶۸۳ | عبد الوہاب منشی.بنور ۶۲۳، ۶۲۴ عبداللطیف، مرزا.درویش قادیان | عبدالمجید ، حاجی عبد اللطیف، چوہدری عبدالوہاب ، مولوی کلکته ۲۹۴ ۷۰۴ عبدالمجید ، مولوی.کراچی عبدالہادی مہتہ ۶۵۴۵۹ عبدو عمران - معلم ۳۸۲،۳۵۹، ۴۸۶، ۴۸۹، ۷۱۵، عبد المجید ، میاں ۵۷۵ عبید اللہ بسمل، مولانا ۷۲۷،۷۲۶ | عبدالمطلب.پشاور ۲۲۷ عبید اللہ ، خواجہ عبد اللطیف، کمانڈر ۴۵۱ ۴۵۳ عبد المنان ابن مولانا محمد اسماعیل عبید اللہ ، سید شاہ عبداللہ آنتم ۶۱۳ حلالپوری عبد الله بواشنگ ۷۱۹ عبدالمنان خان ۶۲۱ ۳۳۳ ۷۱۲ ۳۴۹ ۶۶۲ ۱۰۲ ۲۷۰ ۶۷۲،۶۶۹ عبید کرومی، شیخ عثمان بن آدم.گھانا ۷۲۰،۳۶۲ ۱۸۹ ۳۴۹ ۲۴۲ ۳۳ ۲۲۹ عبداللہ خان، چوہدری ۲۸۹ عبدالمنان ڈین ۵۵۷ عثمان غنی بنگالی عبد اللہ سنوری ، مولوی ۴۲۹ عبد المنان شاہد (مربی سلسلہ ) ۴۰۵ عثمان کا مبالا یا.معلم عبداللہ حسین ۳۶۲ | عبدالمنان ناہید عرفان احمد عبداللہ.سیرالیون ۷۱۸ عبد المومن رضوی، سید ۳۱۷ عرفان الحق ایڈووکیٹ عبد الماجد دریابادی ا عبدالمومن، ڈاکٹر خلیفہ ۳۶۵ | عزیز احمد خان

Page 772

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 20 20 عزیز احمد خان، چوہدری ۲۴۳ | عصمت ،صاحبزادی ۵۵۳ علی بهادر خان عزیز احمد را جیکی ۳۱۵ عطا محمد بزدار اشاریہ.اسماء ۲۲۶ ۵۵۷ ۶۳۸ علی حسن کا سٹمر عزیز احمد آٹوا، صوفی ۳۶۴ | عطا محمد ، مولوی ۲۶۵ علی حیدرایل ۲۲۱ علی رضی اللہ تعالیٰ عزیز احمد، چوہدری ( حیدرآباد) عطا محمد.سیالکوٹ ۵۹ عطاء الرحمن طالب ، مولوی ۳۱۹ علی قاری ، ملا ۴۶۷،۳۴ عزیز احمد ، ملک ۳۳۲ عطاء الرحمن ، قریشی.قادیان ۱۰۳ علی لدھیانوی، قاضی خواجه عزیز احمد، شیخ ۳۱۵ عطاء الرحمن ، میاں عطاءالرحمن ۴۳۹ عزیز احمد، صاحبزادہ مرزا عطاء اللہ ابن عزیز الدین ۲۴۶ علی محمد اے الہ دین ۶۹۵،۲۴۳ | عطاء اللہ شاہ بخاری عزیز احمد.لندن ۳۲۵،۲۴۱ | عطاء اللہ ظہور عزیز احمد ، مرزا.ابن مرزا عطاء اللہ عطاء اللہ کلیم، مولوی ۲۷۳ ۴۶۶ ۲۵۵ ،۲۵۲ ۳۲۵ علی محمد بی اے بی ٹی ، چوہدری ۴۰۶ ۶۸۵ علی محمد سرور، چوہدری علی محمد.خیر پور سندھ علی محمد ،مولانا ،۳۶۳،۳۶۲،۳۳۹ ۳۸۲، ۳۸۳، ۷۱۹، ۷۲۰، ۷۲۱ علی نواز عزیز احمد.ڈیرہ غازی خان ۶۳۹ ۴۰۷ ۶۰۲ ۲۵۰،۲۴۹ ۲۶۷ عزیز احمد ۵۵۷ | عطاء اللہ ، کرنل ۹۶ علیم الدین،خلیفہ ۶۸۴ عزیز الرحمن منگلا ،مولوی عطاء اللہ ، میاں ۳۶۵ | عمرا در لیں.کوئٹہ ۵۹ ۷۳۱،۵۵۶،۱۱ عطاء اللہ.شہید ۲۲۵ عمر دراز خان ( ایڈیٹر پیغام قائد ) عزیز بخش ، مولوی ۶۳۶ عطاء اللہ ، مرزا ۲۷۳ عزیز بیگم ۲۶۳ عطاء المجیب راشد عمر علی کھوکھر ، ملک ۵۳ ۶۴۷ عزیز عرفانی ۶۹۶،۵۲۹،۴۷۴ عمر فاروق رضی اللہ عنہ عزیزہ بیگم ، سیدہ (ام وسیم ) ۱۹۳ علم الدین ، میاں عزیزه فاطمه زوجه منشی عبد السمیع علی احسن ایڈووکیٹ ۴۶۶،۲۲۳،۲۱۹ ۶۱۸ ٣٣ عمری عبیدی، شیخ ( امری عبیدی ) کپورتھلوی عصمت راجہ ۶۰۸ علی احمد، گجرات ۲۷۱ ۶۶۳،۳۴۹ تا ۷۲۵ علی اکبر ، چوہدری ۳۴۳، ۵۰۹ | عنایت اللہ خلیل ۷۳۰،۵۵۶،۳۸۱ ۱۹ ۵۸۸ | علی باسل احمد خان عصمت علی ، چوہدری ۶۹۵ عنایت اللہ منگلا

Page 773

اشاریہ اسماء 21 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 عنایت اللہ ، شیخ ۶۷۲ غضنفر شاه بخاری ۷۰۸،۷۰۷ غلام احمد ، صاحبزادہ مرزا عنایت اللہ ، چوہدری عنایت اللہ، ملک ۷۱۵ غلام احمد اونچا مانگٹ ۵۸۷ ۶۱۵ غلام احمد بد و ماهوی ، مولانا غلام احمد.چٹا گانگ عنایت اللہ.اونچے مانگٹ ۵۸۶ ۷۲۹،۶۹۱،۶۳۲،۶۳۱ غلام اللہ باجوہ عنایت الله وزیر آبادی ۲۷۴، ۲۷۵ غلام احمد خان، نواب عنایت بیگم اہلیہ مرزا ارشد بیگ غلام احمد فرخ ( مربی سلسلہ ) عنایت بیگم ۳۱۷ ۸۱ غلام باری سیف ۶۹۵،۴۳۰ ۷۳ ۶۹۳ ۷۳۱،۶۷۸،۵۵۳ ۲۷، ۴۹۳،۵۹ ۶۱۴۰ ، ۶۹۰ غلام جیلانی اصغر ۲۷۲ غلام احمد قادیانی ، مرزا مسیح موعود و غلام جیلانی ، شیخ عنایت بیگم اہلیہ مرزا محمد علی ۲۶۶ مہدی معہود ۲۰ ۲۱ ۲۲، ۲۵ ، غلام حسن خان پشاوری ، مولانا عنایت علی شاہ ، میر ، ۱۱۴ ،۹۴ ،۹۰،۸۹ ،۵۸ ، ۴۶ ،۲۷ ۱۴۵ عیسی علیہ السلام ( مسیح ابن مریم) ۱۲۰، ۱۲۱ ، ۱۲۳ ، ۱۴۰، ۱۴۲، ۱۴۶، غلام حسین ایاز ۱۶۵، ۱۶۶، ۲۲۰، ۲۳۶، ۲۴۰، غلام حسین شاہ، سید ۵۱۲ ۲۷۷ ٢٢٣،١٠٩ ۶۸۱،۶۱۴ ۴۰ غلام حسین ، مولوی گمٹی بازار لاہور ۲۵۹، ۲۷۹، ۲۸۵ ، ۲۸۶ ، ۲۸۷ ، | غلام ،۴۲۱ ،۴۲۰ ، ۴۱۱ ،۴۰۴ ،۴۰۲،۳۰۸ ،۷۷ ،۵۲،۵۰ ، ۴۵ ، ۴۴ ،۴۳ ،۶ ،۲۳۱ ،۱۹۶ ،۱۹۰ ، ۱۸۸ ،۱۸۷ ،۲۷۶ ،۲۶۰ ،۲۳۴ ،۲۳۳ ،۲۳۲ ،۳۵۶ ،۳۵۳،۳۱۴ ،۳۰۴ ،۲۹۲ ،۴۲۲ ،۴۲۱ ،۴۲۰ ، ۴۰۳ ،۳۹۸ ،۴۶۴ ،۴۲۷ ،۴۲۶،۴۲۵ ،۴۲۳ ۶۳۴،۵۸۸،۵۸۷ ۲۸۲ ۴۲۷، ۴۳۶ ، ۴۶۴،۴۵۸، ۴۶۹ ، غلام حسین ، حافظ ۴۷۰ ، ۵۰۷، ۵۱۸، ۵۱۹، ۵۳۷ ، غلام حسین.چک 38 جنوبی ۳۶ ۵۶۸،۵۶۴،۵۶۳،۵۳۹،۵۳۸، غلام حیدر بھروانہ ( ممبر قومی اسمبلی) ،۶۲۹ ،۶۱۴،۶۰۷ ،۵۸۷ ، ۵۶۹ ۵۳۴ ،۵۳۳ ،۴۶۶ ،۴۶۵ ۵۴۲،۵۴۰،۵۳۸،۵۳۷،۵۳۶، ۶۳۶، ۶۳۷، ۶۶۰،۶۴۲،۶۳۹، غلام حیدر، ملک ۳۱ ۶۵۴ ۶۰۹ ۶۵۱ ۳۶۵ ۱۷ ۶۸۷ ،۶۸۴،۶۷۶ ،۶۶۲ ،۶۶۱۰۵۵۹ ۵۴۶ ،۵۴۵ ۵۴۳ غلام دستگیر ، ڈاکٹر ۷۳۱،۷۲۷،۵۹۵،۵۸۲ غلام احمد نسیم ، میر ۳۸۲ غلام دین وانی غ غلام احمد واعظ ۵۹۴۲۷۳ غلام ربانی، ملک غالب (اسد اللہ ) ۶۷ غلام احمد ( ایڈووکیٹ ) ۶۸۷ غلام ربانی ، مولوی

Page 774

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 22 اشاریہ.اسماء غلام رسول ابن کرم دین غلام غوث ہزاروی ۵۷، ۴۷۱ غلام مرتضی ، چوہدری ۳۱۴،۲۷۹ غلام غوث ، بابو غلام رسول باور چی ۲۲۲ غلام غوث ، چوہدری غلام رسول بسراء غلام رسول را جیکی ،مولانا ۶۱۲ ۲۲۲ غلام مرتضی (ایڈووکیٹ ) ۳۳۲ غلام مصطفی غلام فاطمہ اہلیہ شیخ حسین بخش ۶۲۱ غلام نبی ، خواجه ۵۰۹ ۳۲ ۶۳۲ ۶۹۸ ۱۵۴ غلام فاطمه ابلیه فیض علی صابر ۶۲۹ غلام نبی ، ملک ۷۱۷،۳۶۲ ۷۳۰ ۲۴۱، ۲۶۸، ۲۷۳،۲۶۹، ۲۷۷ تا غلام فرید ، ملک ۲۷۹، ۲۸۳، ۲۹۶، ۲۹۸، ۳۰۳، غلام فرید، خواجه ۳۸۴،۱۶ ۴۶۵ غلام نبی ،مولوی ۳۲۰ غلام یاسین، چوہدری ۳۸۲، ۵۴۹ ۳۰۸ تا ۳۱۲، ۳۲۰،۳۱۴، ۳۲۹، غلام قادر ، مرزا لنگروال غوث علی شاہ قلندر ۵۹۵، ۵۹۶ ، ۶۰۷، ۶۰۹ ، ۶۷۶ | غلام قادر، چوہدری (ایڈووکیٹ ) غلام رسول وزیر آبادی ، حافظ ۲۷۳۲۶۳، ۶۰۷ غلام قادر، ساکن تھہ غلام نبی غلام رسول (ایڈووکیٹ (الف)) ۳۳ غلام قادر ، مرزا ۳۳ ۶۱۴ ،۶۱۳ ۲۶۶ ۲۴۹ ۳۳ غلام قادر، میاں غلام رسول (ب) غلام رسول، با بو ۵۵۵ غلام محمد اختر ، میاں غلام رسول، جمعدار ۷۰۵،۵۵۷ ۵۹۵ غلام محمد خان بلوچ ۴۵۳،۴۰۷ ، ۴۰۶ ۲۲۸ فارغ بخاری فاروق احمد خان نواب فاروق احمد کھوکھر ، ملک فاروق احمد ندیم فاروق احمد ،سید فاضل احمد ، راجہ فاطمه بی بی ۳۲۷ ۵۱۲ ۶۴۸ ۵۵۷ ۷۱۴ ۶۱۹ ۶۳۲ ۶۱۲ غلام محمد وتسن (رکن قومی اسمبلی ) غلام رسول، جہلم غلام رسول.پنڈی لالہ ۲۲۸ غلام محمد گوندل غلام رسول، چوہدری غلام رسول ،مولوی.بدوملہی ۶۳۰ غلام زکریا ۶۳۸ غلام محمد ، سردار غلام سرور خان ۶۱۲ ۳۲ فاطمہ بیگم فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنھا ۶۳۸ فائیلکس او ناما اوناما ۴۵۷ غلام محمد ، صوفی مجاہد ماریشس ۵۰۹ (Filex Onama) غلام سرور خاں ، قریشی ۴۰ غلام محمد ، بابو غلام صمدانی خادم ۱۶۴،۱۶۳ ۲۲۸ فتح الدین ،سید غلام محمد بخشی.کشمیر ۸۰ فتح محمد خاں ،صوبیدار ۲۷۱ ۴۶۷ ،۴۶۴ ۷۲۸ ۲۵۴ ۶۸۵

Page 775

۶۳۳ ۳۲۲ تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 فتح محمد خاں، مندرانی فتح محمد سیال، چوہدری ۶۸۴،۵۹۸،۵۹۷،۳۹۳،۳۶۷ فتح محمد شر ما فتح محمد ، چوہدری فتح محمد ، حافظ فرانکو ۴۱۴ ۶۳۲ ۳۵۹ فرائی تاج، ڈاکٹر (Freitag) فرخ شاه فرخنده بیگم فرزند حسین فرزند علی ، مرزا فرمان ایالو فریحہ ظہیر ،سیده ۷۲۷ ،۴۸۸ ۲۱۹ ۲۶۳ ۲۶۷ ۳۱۸ ۳۵۷ ۳۲۸ فرید احمد ، صاحبزادہ مرزا ۳۳۴ فرید الیس جعفری فضل احمد 23 فضل احمد، چوہدری ( نائب ناظر تعلیم ) فضل خالق اشاریہ اسماء ۲۲۷ فضل احمد ،سید ۵۰۹ ۵۵۳ فضل دین،مولوی.مانگٹ اونچا فضل احمد ، مرزا ۱۱۲ فضل رحمن فضل احمد.چٹا گانگ ۷۴ | فضل رحیم ، میاں.سرخ ڈھیری فضل الدین حکیم ۵۸۷،۳۲۵،۲۷۰ فضل الرحمن محمود - شیخو پوره ۴۰ فضل عمر ، سید ۲۴۱ ۲۲۹ 190 فضل قادر شیخ ولد شیخ نوراحمد ۶۲۲ فضل الرحمن نعیم ۷۳۲۱۵۵ فضل کریم ، ملک فضل الرحمن، چوہدری ۳۳۲ | فضل کریم ،مولوی فضل الرحمٰن.بھیرہ ۴۱۴ فضل کریم.کلکتہ فضل الرحمن ، حکیم ۱۶۹، ۶۰۶ فضل نور فضل الرحیم.لندن ۴۹۹ | فضل ہادی.میاں ۱۶۴ فضیل بن عیاض فضل الكريم فضل الہی انوری ، مولوی ۷۲۹ فقیر محمد خان فضل الهی بشیر، مولوی ۴۱۰، ۴۱۶ فقیر محمد.پشاور فضل الهی حکیم ۲۸۳ | فقیر محمد.سپاہی ۷۰۶ فضل الہی ، ملک ۲۴۸ فضل حسین ،سر ۷۱۲ ۳۱۷ ۶۱۵ ۶۳۰ ۶۹۸ ۶۸۶ ۲۲۹ ܬܪ ۲۳۰ ۲۲۶ ۶۲۴ فہمیدہ بیگم بنت قاضی سید حبیب اللہ شاه فضل احمد ، اونچامانگٹ فضل حسین، ملک تھہ غلام نبی فیاض احمد ، چوہدری ۵۹۱ ۵۸۸ 1+1 ۳۸۲ ۳۳۳ ۶۹۳،۶۹۰ ۵۸۷،۵۸۶ ۶۱۵ فیاض احمد فضل احمد باجوہ، چوہدری ۱۷ فضل حسین احمدی مهاجر فضل احمد بٹالوی، شیخ ۴۷۳،۱۰۱ فضل حق خان، میاں ۲۲۹ فیروزه فائزه فضل احمد.بشیر آباد ۴۱۴ فضل حق ، قریشی ۳۸۸ فیروز محی الدین ، قریشی ۶۴۲ فیض احمد گجراتی

Page 776

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 فیض احمد میناری ۲۲۶ فیض احمد ، چوہدری.قادیان ۱۹۱ قیصرہ بیگم 24 ۳۳۲۲۴۰ کریم بخش، شیخ کشن سنگھ ،سردار فیض احمد ، مولوی ۵۴۱،۱۹۱ | کاکاخیل، میاں ۲۲۹ کفایت علی ، راجہ اشاریہ.اسماء ۶۸۳ ۴۱۹ ،۴۱۸ ۳۴۱ فیض الحق خان ، حاجی ۳۸۲ کا کوخاں منشی ۲۵۰ کلیم احمد ، صاحبزادہ مرزا ۶۹۵ فیض الحق خان ،امیر جماعت کوئٹہ کامراج ، شری فیض عالم خان چنگوی ۷۰۵ کلیم الدین امینی ۶۲۷ کانڈے بورے ( وزیر آبادی سیرالیون) کمال الدین حبیب احمد ۴۰۷ فیض علی صابر ۶۲۹،۲۳۹ | کانش ۷۱۷،۷۱۰،۳۹۵ کمال الدین، خواجہ ۲۸۰ ۶۲۲ ۶۹۶ ۶۱۰،۲۹۳،۲۹۱،۲۳۲ فیض محمد خان ، ملک ۲۲۶ کپور سنگھ، سردار ۳۴۹ کمال یوسف سید فیض محمد خان.سفید ڈھیری ۲۳۰ کدار ناتھ ، لالہ قانتہ بیگم ق ۲۷۴ ۵۵۵،۳۱۶،۸۶،۸۵ ،۸۳٬۸۲ ۲۳۰ کرامت اللہ خان.پیر پیائی ۲۳۰ کندل خان ، ملک ۲۲۹ کرامت اللہ.کراچی ۱۴۵ | کنور هری قانتہ شاہدہ ۶۰ ،۶۹۶ کرشن پرشاد ۳۰۴ کو ایوی جان قدرت اللہ سنوری ، مولوی کرم الہی ظفر مبلغ سپین کوامی نکروما ۷۳۱،۷۱۴،۵۶۰،۵۰۲،۳۱۵ ۲۸۰ ۳۵۷ (Kuwame Nakruman) | ۲۷ ۷۲۶ ،۴۸۹ ،۴۸۶ ، ۳۵۹ قدرت اللہ ، حافظ.مجاہد ہالینڈ کرم الہی ، صوفی ۲۴۰،۲۰۱ ۴۸۶، ۷۲۶ کرم دین جمعدار ۵۵۷ کوثر نیازی، مولوی قدر داد، چوہدری.کھاریاں ۳۹ کرم دین ، میاں.والد مولانا غلام کولڈ سٹریم، جسٹس قدسیہ بیگم قدسیه نسرین ۶۸۶ رسول را جیکی ۲۳۸ کرم دین ، شیخ قطب الدین ۱۴۵، ۶۳۰ کرم دین تھیں ، مولوی قمرالدین ،مولوی ۳۴۲،۳۱۱ ۶۲۰ ،۶۱۹ ،۶۱۸ ،۶۰۴ ،۴۷۳ قیس مینائی ۳۱۴،۲۷۹ كيين مل ۳۶۴ کے گامنگا ۶۸۴،۶۲۵،۵۹۰،۲۵۱ ۲۵۳ کرم علی شاہ ۱۵۵ کریم اللہ زیروی ۳۳۳ گارس پیراشر ۷۲۱،۷۰۶ ۵۶ ۴۶۸ ۴۳ ZIA (Georse Prassure) ۷۲۵

Page 777

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 گرے سن کرک ، ڈاکٹر لکڑ 25 لطیف خالد ملک ۳۸۳ | مبارک احمد سرور، سید Grayson Kar) ۷۵ لطیف ، سید ۲۲۷ مبارک احمد شر ما شهید ۲۸۰ لطیفه کریم ۴۸۲،۴۸۰ مبارک احمد فرائی گل بادشاه ، بابو ۲۲۸ لعل الدین ، ڈاکٹر ۴۱۸، ۴۱۹ مبارک احمد نذیر | گل حسن گل حسن ، مولانا ۶۱۵ لعل محمد ، ڈاکٹر لئیق احمد طاہر ۳۲۷ گل زمان خان ہوتی ۲۳۰ ۲۳۱ لی کورنیو گل شیر ، ملک ۴۱۴ ۲۳۰ ۶۴۶ | مبارک احمد، قاضی ۶۹۷،۵۴۹ اشاریہ - اسماء ۲۷۱ ۶۲۷ ۳۱۶ ۳۷۷ ۷۳۰،۳۵۵،۳۵۳،۳۵۰ ۷۱۶ مبارک احمد ، کرنل ۵۰۲ لیاقت علی خان ۳۲۲ ) مبارک احمد، ملک (مدیر البشری ) ۵۹ ۲۵۷ مبارک احمدی.مردان مبارک احمد ، مولانا شیخ ۶۶ ۴۱۶ ۱۷۰ ،۱۶۹ ،۱۶۸ ،۱۶۳ ،۱۶۲ ۲۸۰ ، ۴۷ ۴ ،۴۷۲،۴۶۹ ،۴۶۸ ، ۴۶۰ ،۶۶۳،۵۶۰،۵۰۵ ،۴۸۰ ، ۴۷۷ ۷۳۱،۷۱۴،۶۷۴ مبارک احمد ملایا ۶۸۱،۶۸۰.مبارک احمد شاہ،سید لیاقت علی ، سید ۲۲۶ ۲۲۶ گل صاحب گل صاحب.شیخ محمدی گل محمد خان گل محمد ، لدھیانہ ۲۵۶ مالم میر بجا پارلیمنٹ گنڈا سنگھ، پروفیسر ۷۰ ماہی مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا ،۱۸۵،۸۶،۸۴،۸۲،۷۷ ،۱۶ ،۱۴ ۳۲ ،۵۱۶ ،۵۱۰،۵۰۹ ،۳۶۵ ،۳۳۲ ۲۹۳ ،۵۶۰،۵۵۳،۵۴۸ ،۵۴۷ ،۵۱۹ ۷۴ ۷۳۲۷۱۲،۶۷۴ ل لال خاں.پلیڈر لال شاہ برق لطف الحق لطف الرحمن محمود ۴۰۵، ۴۰۶ ، ۴۰۷ لطف الرحمن ، مرزا ( مبلغ جرمنی ) مبارک احمد بقا پوری ۴۶۹ ،۴۶۸ ،۳۸۲ ،۳۶۲ ،۳۵۱ ۶۰۷ مبارک علی چیمہ مبارک احمد جمیل،مولوی مبارک علی ، چوہدری لطف الرحمن ، مولوی ۱۹۹ مبارک احمد خاں لطیف احمد بھٹی لطیف احمد خاں ،ڈاکٹر لطیف احمد ۴۱۸ مبارک احمد خاں لودھی ۳۳۴ ۲۷۰ مبارک علی شاہ باہری ،سید ۸۲ مبارک احمد ساقی ، مولوی مبارک علی ، لدھیانوی ۴۱۴ ۷۲۳۳۷۹ مبارک علی، چوہدری ۳۷ ۳۳۹ ۲۵۲ تا ۲۵۷ ۲۵۳ ۳۳۹

Page 778

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 26 اشاریہ اسماء مبارکہ بیگم اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد ۵۶۶ مجیب الرحمن ایڈووکیٹ | مبار کہ بیگم اہلیہ ملک طفیل احمد ۶۱۵ مجید احمد قریشی مبار که بیگم، سیده نواب مجید احمد ، صاحبزادہ مرزا ،۱۷۳،۱۵۵،۱۵۴،۱۱۹ ، ۱۰۷ ، ۱۰۶ ۶۴۶ | محمد ابراہیم ۶۲۱ محمد ابراہیم ، ایم پی اے محمد ابراہیم، حافظ ۶۸۴ ۳۲ ۷۰۵ ۳۶۲،۱۵۵،۱۶ محمد ابراہیم ، حکیم ۳۸۱، ۷۳۰،۷۲۷ ۲۰۶، ۴۰۷، ۴۱۸، ۵۰۶، ۵۱۸، مجید اللہ (پولیس کمشنر ) ۷۰۱،۶۱۷،۵۶۶۰۵۶۲ | مجید نظامی ۵۴۱ محمد ابوالوفاء، مولوی ۵۵۵،۱۶۱ مبارکه بیگم ۲۶۳ محبوب احمد ہاشمی ، سید ۵۷ محمد اجمل ، حکیم ۶۰۹ محمد احسن امروہی ، سید اے مبارکہ ثانیہ ۶۰۷ محبوب عالم خالد ایم اے، شیخ ۵۸۳،۵۸۲ مبارکہ خاتون ۲۵۷ ۵۱۲۹۰،۲۰ محمد احمد ابن میر محمود احمد ناصر ۶۹۵ مبار که دختر محمد ابراہیم بقا پوری محبوب عالم راجپوت سائیکل ورکس محمد احمد انور.حیدر آبادی مبشر احمد زرگر ۶۰۷ ،۶۰۳ ۵۸۸ محمد احمد جلیل ، مولانا ۷۱۲ محسن احسان ۵۱۲ محمد احمد خان ، نواب مبشر احمد اول، صاحبزادہ مرزا محکم الدین ، حاجی ۶۹۹ | محمد احمد شاہ ،سید ۱۵۵ محمد ابراہیم بقاپوری ،مولوی محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ، شیخ ۵۹۱ ۵۹۱ تا ۶۰۷ محمد ابراہیم جمونی ۴۵۱،۱۵۴ ۴۵۳ ۱۶۲ ۶۲۱،۱۰۲ ۱۵۵ ۲۷۱ ،۴۴۲ ،۴۳۳ ،۴۳۰ ،۱۶ ،۱۵ ۷۳۱،۶۸۲،۶۸۱،۵۸۵ ۱۲ محمد ابراہیم خان ، سردار ۴۴۸ ۶۵۱ | محمد احمد ، سید.ابن مبارک علی شاہ مبشر احمد ایاز، سید مبشر احمد پال مبشر احمد خاں مبشر احمد را جیکی ۳۱۵ محمد ابراہیم خان مبشر احمد، چوہدری مبشر احمد، صاحبزادہ مرزا ( بریگیڈئیر ) مجیب احمد، صاحبزادہ مرزا ۵۸۸ ۱۵۵ ،۱۰۵ ۲۲۵ ۲۵۷ محمد ابراہیم سیالکوٹی، مولانامیر محمد احمد ،سید.ابن میر محمود احمد ناصر ۲۹۴ ،۲۸۵ ،۲۸۴ ،۲۷۵ ،۹۹ ۶۹۵ ۶۴۹،۳۰۵،۳۰۰،۲۹۷ | محمد احمد ، سید.ونگ کمانڈر ۱۵۶ ۶۵۵ محمد ابراہیم شاد ۴۰۷ محمد احمد، شیخ (ایڈووکیٹ) محمد ابراہیم کلارک ۲۲۱ محمد احمد ، قاضی ۳۳ ۲۳۸ ۶۹۵،۳۳۲ محمد ابراہیم وکیل لاہوری ۲۹۲ | محمد احمد ، ملک ۷۱۲

Page 779

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 محمد احمد کوئٹہ 27 ۵۹ محمد اسلم، پروفیسر قاضی ۵۶۰ محمد اشرف، چوہدری محمد اختر خاں ، ڈاکٹر ۹۶ محمد اسلم رانا ۳۷ محمد اشرف، مرزا محمد ادریس چغتائی 11 محمد اسماعیل اسلم ۲۴۲، ۳۲۵ محمد اعظم جدون محمد اسماعیل پانی پتی، شیخ محمد اعظم ، چوہدری محمد اور لیس ، مرزا محمد ادریس ۳۸۲،۳۴۹، ۷۲۹،۷۲۸ ۱۵۱، ۱۵۴، ۱۵۵، ۳۱۶، ۳۸۴، محمد افضل ۵۴۸ ۷۳۲،۶۶۲،۶۵۷ ،۶۵۶،۶۵۵ محمد افضل خادم محمد ارشاد علی خان | ، ۲۲۵ محمد اسماعیل سرساوی، شیخ ۲۸۳ محمد افضل سیٹھی ۵۷۵ محمد اسماعیل سونگھڑ وی ۱۹۰ محمد افضل ، بابو محمد ارشد محمد ارشد، چوہدری (ایڈووکیٹ) محمد اسماعیل، شیخ ۶۵۸ محمد افضل ، حافظ محمد اسحاق سنوری ، میاں محمد اسحاق صوفی ،مولوی محمد الحق ، ڈاکٹر میجر ۳۳ محمد اسماعیل معتبر ، قریشی ۶۲۷ محمد افضل ، قریشی ۹۶ محمد اسماعیل منیر ثانی ، مولوی ۵۷۹ محمد افضل.کویت اشاریہ اسماء ۳۹ ۴۴۵ ۵۰۴ ۷۳ ۲۲۲ ۷۱۲ ۲۲۰ ۶۸۳ ۷۰۹،۳۸۳،۳۴۵ ۵۵۷ ۷۳۲٬۵۴۸،۵۱۵ محمد افضل والد پروفیسر عبد القادر محمد اسماعیل منیر ، مولانا ۶۰۷ محمد اسماعیل ، بابو ۷۲۳،۶۴۸،۵۴۸ ،۴۱۸ ۳۱۱ ۶۳۴ محمد الحق ، سید میر ۳۰۶ ، ۴۷۹ ، محمد اسماعیل ، ڈاکٹر سید میر محمد اقبال ابن حکیم مولوی اللہ بخش ۶۴۸ ،۶۴۷ ،۶۳۵ ، ۶۱۴ ،۵۹۵ محمد اسحق (غانا) محمد اسد ، ڈاکٹر محمد اسد اللہ قریشی ۶۵۶ ،۶۵۵ ،۴۱۰ ،۳۰۱ ،۱۴۲ ۷۲۱ محمد اسماعیل، مولوی ( چٹھی مسیح) محمد اقبال ڈار ۴۲۷ ،۴۲۱ محمد اسماعیل صوفی ۶۱۱ محمد اقبال، ڈاکٹر علامہ ۲۲۸ ۵۸۰،۳۹۰،۳۳۹ | محمد اسماعیل، میاں ۶۵۰ محمد اقبال، پیر محمد اسلم ، چوہدری ( ایڈووکیٹ محمد اسمعیل بقا پوری ) ۶۰۷ محمد اکبر شاہ ۳۳ محمد اسمعیل حلالپوری ۶۲۱ محمد اکرم خاں محمد اسلم خاں، چوہدری ۳۲ محمد اشرف خاں سوری ۶۰۷ محمد الدین حکیم محمد اسلم خان ، مردان ۲۷ محمد اشرف ، سید ۵۹۵،۵۹۴،۵۸۹ ۲۵۱ ۷۱۳ ۴۶۵،۴۰۴،۶۶ ۳۳۳ ۲۳۰ ۵۴۱،۳۳۹،۳۲۶،۲۴۶،۲۴۵

Page 780

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 28 اشاریہ.اسماء محمد الدین مبلغ البانیہ ۳۰۵ محمد بخش ایڈووکیٹ، ہمیر گوجرانوالہ محمد حسین بھنڈاری (ایم پی اے) محمد الدین ،مولوی محمد الدین ، میاں محمد الطاف خان محمد الممارک، السید ۶۵۱ ۵۸۶ ۲۳۱ ۴۶۰ ۳۲ ۲۲۲ محمد بخش، آغا ۶۴۲ محمد حسین ڈنگوی ، حافظ محمد بخش، حکیم ۶۳۰ محمد حسین شاہ ، ڈاکٹر ۶۳۴ ۳۰۸،۲۹۶،۲۹۵،۲۹۱ ۳۶۵ محمد حسین شاہ سید ۷۰۵ محمد بخش.چھاپ گر محمد الہی بیگم اہلیہ شیخ محمداسماعیل پانی محمد برکات الہی جنجوعہ ۳۱۶ محمد برکت اللہ ، قاضی ۳۴۶ ، ۵۱۱ محمد حسین حکیم.مرہم عیسی ۶۰۸ پتی محمد الیاس خاں محمد امیر خان محمد امیر ( پشاور ) ۷۱۳ ۲۵۵ ۲۲۶ محمد امین خاں، نواب زاده ۵۵۵ محمد امین مرزا محمد امین ، شیخ محمد امین ، خواجہ محمد امین محمد انیس الرحمن شاہد ۴۰ ۶۹۸ ۶۸۰ ۲۵۶ ۴۷۹ محمد بشیر سہگل، میاں ۵۴۷،۵۴۰ ۷۱۲،۲۶۰ محمد بشیر شاد، مولوی ۷۲۹ محمد حسین ، قریشی حکیم ( موجد مفرح محمد بشیر، چوہدری ۳۸ عنبری) ۲۹۱ محمد بشیر ۲۵۱ محمد حسین ، شیخ.چنیوٹ ۳۳۹ محمد پریل، ماسٹر ۶۰۰ محمد حسین ، میاں ۷۲۱ محمد جاوید ا قبال، ڈاکٹر ۳۳۳ محمد حسین محمد جعفر یادگیری ۵۵۶ محمد حسین، چوہدری ۵۹۰ ٣٠٣ محمد جمشید خان ۲۳۰ محمد حسین ، صوبیدار محمد جہانگیر خان ۲۲۷ محمد حسین.یوگنڈا محمد جی، کیپٹن ڈاکٹرسید ۶۰۹ محمد حسین.کپورتھلہ محمد ایوب خان ، ملک.شیخ محمدی محمد جی ، مولوی ۲۲۶ محمد حسن ۶۱۵ محمد حفیظ بقاپوری ۲۴۶ ۴۰۷ ۶۴۲ محمد حفیظ ، چوہدری.ایڈووکیٹ ۳۲ محمد ایوب خاں ، فیلڈ مارشل.صدر محمد حسن خاں، ملک ۶۱۵ محمد حنیف ابراہیم ۴۵۲،۷۱،۶۴ ،۲۷ ۵۶۰۰۵۵۶ پاکستان محمد آرتھر.پریذیڈنٹ جماعت غانا محمد حسین ایم اے، حکیم ۲۷۴ محمد حنیف ، شیخ امیر جماعت کوئٹہ محمد حسن ، بابا ۶۵۱،۶۳۷ | محمد حنیف قمر علوی، قریشی اتام ۳۶۲، ۵۵۳، ۵۵۶، ۵۵۹، | محمد حسین بٹالوی ، مولوی ۵۱۹ ۷۲۱،۷۲۰ ۱۱۱ ۱۱۲، ۲۹۲٬۲۷۵ | محمد حنیف، شیخ ۶۱۱

Page 781

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 29 29 محمد خالد ا قبال ایم اے ۴۲۷ محمد رضوی ،سید نواب ۲۹۳، ۳۱۷ محمد سلیم ، حافظ ۵۹ | محمد سلیمان محمد خان کپورتھلوی ۲۳۹ محمد رفیع، صوفی محمد خان ، چوہدری ۳۹ محمد رفیق ترک محمد خان، شاہ ۲۲۶ | محمد رفیق ۷۱۲ محمد شاہ، سید اشاریہ اسماء ۴۳۹ ۱۶۴ ۲۳۰ محمد سلیم ، حاجی (ایڈووکیٹ) ۳۳ محمد خان منشی محمد خورشید ( تحصیل کونسل چنیوٹ) محمد زبیر، ڈاکٹر ۳۸ محمد زبیر محمد خان ،ڈاکٹر ۵۵۷ محمد رمضان علی خان ، میرزا ۲۲۸ محمد شاہ ، مولوی محمد خلیل.پشاور ۲۲۸ | محمد رمضان ۷۰۵ محمد شاہ اخون زاده ۲۳۸ | محمد رمضان،ڈاکٹر ۲۳۰ | محمد شریف بیگ، مرزا ۵۵۶ ۶۳۲ ۲۲۹ ۲۷۷ ۳۶۴ ۶۴۲ محمد شریف خان (ایڈووکیٹ ) ۳۳ ۶۹ محمد شریف خالد محمد در جنانی ۲۹ محمد زکریا طاہر ، ڈاکٹر ۱۴ محمد شریف خاں محمد داؤد ۵۴۸ | محمد سرفراز خان ۲۲۸ | محمد شریف ، خواجہ ۳۳۳ ۴۱۴ محمد داؤد طاہر ۶۶۳ محمد سرور شاہ ، سید ۲۷۰،۲۴۰، ۲۷۱، محمد شریف، چوہدری ۷۲۹،۷۲۳ محمد دلاور خان ۶۰۶ ،۵۹۲،۳۸۷ ،۳۲۸ ،۲۸۴ ۲۳۱،۲۲۶ محمد شریف ، شیخ خواجه ۶۱۱ محمد دین فوق ۶۵۰،۳۱۴ | محمد سعید احمد ، ڈاکٹر ۶۱۵ | محمد شریف ، مولوی محمد دین، حاجی ۲۵۰ | محمد سعید انصاری ، مولوی محمد شریف.پشاور محمد دین، میاں ۵۸۶ ۷۲۹٬۸۵،۸۳ | محمد شریف، شیخ محمد دین ، مولوی حکیم ۱۹۱ محمد سعید جالب کھوکھر ۵۹۱ | محمد شریف ،ڈپٹی محمد دین، نواب ۶۸۵،۶۸۳ محمد سعید، میر حیدر آبادی ۲۴۱ ۲۴۱ | محمد سعید، کرنل محمد دین محمد شفیع اسلم، ماسٹر محمد ذاکر قریشی (رکن قومی اسمبلی محمد سعید ، کیپٹن ۲۳۴ محمد شفیع اشرف ۳۱ محمد سلطان خان ۳۲۳ محمد شفیع ، خواجه محمد رستم خان ۲۲۸ محمد سلیم اللہ ۱۶۳ محمد شفیع ، مرزا محمد رشید ، ڈاکٹر چوہدری ۹۶ محمد سلیم فاضل ، مولوی محمد رشید، قاضی ۶۹۶ محمد شفیع.پشاور ۳۰۶،۱۹۱،۱۹۰، ۷۰۷ محمد شفیع.شادیوال ۳۷۸ ۲۲۸،۲۲۷ ۶۸۳ ۴۰۷ ، ۴۰۶،۲۴۸ ۱۵۵ ۳۲۰ ۴۵۵ ۶۴۳

Page 782

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 محمد شفیع ۳۹ محمد صدیق 30 30 محمد شفیق سہگل ، ڈاکٹر ۷۳ محمد صدیق.حافظ آباد اشاریہ - اسماء ۶۴۲ محمد عبد الله ، قاضی ۵۰۹،۱۰۲٬۸۲ ۴۱۴ محمد عبد اللہ ، ملک محمد شفیق ، قاضی ۲۲۷) محمد صفدر جان ، پٹواری ۲۲۷ ، ۲۳۱ محمد عبد الله، خواجہ.سرگودھا محمد شهزاده خان ۳۱۹ محمد ضیاء الحق، جنرل محمد صادق ناقد ، مولوی ۴۰۷ محمد طلحہ ایڈووکیٹ ۴۲۱ محمد عبداللہ شیخ.لائلپور محمد ظفر اللہ خان سر چوہدری محمد عبد الله ۳۴۳ ۴۵۳،۴۵۱ ۵۹۵،۵۹۰،۲۵۳،۲۴۰ | ۴،۱ تا ۷، ۱۸ تا ۲۰ ، ۶۶، ۷۰، ۷۵، ۴۰۱ تا ۷، ۱۸ تا ۲۰ ، ۶۶، ۷۰، ۷۵، محمد عبد اللطیف، سیٹھ یاد گیری محمد صادق، مولانا مفتی محمد صادق.نیویارک محمد صادق.ترک محمد صدیق امرتسری ، مولانا ۱۷۷ ،۱۵۵ ،۱۲۴ ، ۱۱۹ ،۹۲،۸۲ ۳۴۷ ۲۳۰ ۷۱۶،۴۱۲،۳۶۰،۸۵،۸۳ ۳۳۹ ۶۰۹ ۶۸۷،۵۴۴ ۱۷۸، ۲۱۷، ۲۸۹، ۳۰۷، ۳۴۴، محمد عبدالحی ،سیٹھ یاد گیری ،۴۸۵ ، ۴۸۴ ،۴۸۲ ،۴۰۵ ،۳۴ ۶۵۲،۵۴۴ ۷ ۴۸، ۴۹۹ ، ۵۰۰، ۵۰۱، ۵۴۹، محمد عبداللہ گجراتی.درویش قادیان محمد صدیق بانی ،۵۴۰ ،۵۰۵ ،۳۳۹ ۶۹۸ ،۶۹۲ ،۶۵۰ ،۶۴۹ ،۵۴۷ محمد صدیق خاں محمد صدیق خانی محمد صدیق منگلی ،۵۷۱،۵۶۹،۵۶۷ ،۵۶۰،۵۵۷ ۶۴۵ ، ۶۶۱، ۶۷۸، ۷۰۹، ۷۱۱، محمد عبد اللہ شبوطی ۳۶ محمد ظفر ، ڈاکٹر ۶۸۸ ۷۲۶،۷۱۷ محمد عبد اللہ ، بابو ۴۱۱ محمد عثمان خان کونسلر ۶۸۴ ۷۰۵،۳۸۳ ۶۱۴ محمد ظہور الدین اکمل ، قاضی محمد عثمان، چوچنگ شی.آف چین محمد صدیق ( ثاقب زیروی) ۴۲، محمد ظہور خان ۴۰۷ ،۲۷۱،۶۵ ۶۸۳ محمد عثمان ، ملک ۴۶ ، ۲۵۰،۱۵۵، ۲۵۱، ۴۹۹، ۷۱۴ | محمد ظہور لالی ، میاں ۳۲ محمد عثمان مولوی محمد صدیق، حکیم ۴۰۷ محمد عالمگیر خان ، بابو ۲۲۵ ۴۰ ۴۰۶ ۵۵۷ ۶۹،۶۸،۶۷ ،۶۶۰۶۵ محمد صدیق، قاضی ۲۱۹، ۲۷ محمد عبد الرشید ۷۱۲،۷۱۱ ۷۱۳ محمد عثمان مولوی.ڈی آئی خان محمد صدیق میاں ۶۹۹ محمد عبد اللہ قریشی محمد صدیق، چوہدری ۳۲۸ محمد عبداللہ ، حکیم ۲۶۸،۲۶۷ | محمد عجب خان ۶۹۲۶۳۹،۶۳۳ ۲۲۷ ۳۳۳،۲۴۶،۲۲ محمد عبد اللہ ، خواجہ ۲۵۷ محمد عزیز الدین ، مولوی ۲۴۳، ۳۲۶

Page 783

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 31 اشاریہ.اسماء محمد عظیم، خواجہ (ایڈووکیٹ) ۳۳ محمد عمر، ڈاکٹر ۶۴، ۶۹ محمد ممتاز خان ، چوہدری.پلیڈ ر ۳۲ محمد علی احمدی محمد علی اظہر ۲۵۷ | محمد عمر ، حافظ ۶۴۲،۶۳۹ | محمد منظور، سید ۶۲۷ محمد عمر ، قاضی ۲۲۷ | محمد منور ، مولوی ۲۶۹ محمد علی آف بنگال ۵۵۵ | محمد عمر ، مولوی محمد علی جناح، قائد اعظم محمد علی خان ، نواب ۵۴۱،۳۳۹،۱۹۱،۱۵۹ ۶۸۳،۶۵۰ | محمد عمر ، مولوی مہاشہ محمد عیسی ، حکیم ۲۹۶، ۶۱۷ ،۶۳۳ | محمد عالم آسی محمد علی شاہ ( ہوم سیکرٹری ) ۵۷ محمد غوث سیٹھ محمد علی کلے ۷۲۵ محمد فاضل ، حاجی محمد علی مونتگھیری ۳۱۳ محمد کریم الدین ۶۷۳،۵۱۰،۴۱۰،۳۸۱،۳۴۹ محمد منیر ہاشمی ۳۰۶ محمد منیر ، جسٹس ۳۲۷ محمد منیر، ڈاکٹر قاضی ۴۶۴ محمد مهدی خان وکیل محمد نبی جان، حکیم ۲۴۱ ۴۰۶ محمد نجیم خان ۶۰۹ ۴۸۳،۴۸۲ ۷۰۵ ۳۳ اے ۲۲۸ ۵۵۲ محمد نذیر لائلپوری ، قاضی ۳۴۰،۱۹۲، محمد علی ورک ۳۹ محمد کریم الله محمد علی ، مرزا ۲۶۶ محمد گوبا ، الحاج محمد علی ، چوہدری (ایڈووکیٹ ) ۳۳ محمد لطیف حکیم محمد علی ،مولوی ( بھائی مولوی عبدالحق محمد لطیف، شیخ بد و ماهوی ) محمد علی ، مولوی.لاہوری ۵۵۵،۵۴۱،۸۱ ۷۳۱،۵۵۹،۵۰۹ ،۴۷۳،۳۴۳ ۷۱۸ محمد نسب ۴۱۴ محمد نقی ۶۱۱ محمد نواز خان ، سردار ۶۳۰ محمد مالک، چوہدری (ایڈووکیٹ) محمد نواز.گوجرانوالہ ۲۳۱ تا ۲۳۳، ۲۷۵، ۲۹۱، ۲۹۵ ، محمد مزمل اللہ خان ۳۳ محمد نوشاد خان محمد ہادی مونس ۶۶ ۸۶ ۶۸۳ ۳۲۲ ۴۰ ۲۲۹ ZIA ۲۴۶ محمد معین الدین ، سیٹھ ۶۳۶،۲۹۶، ۶۳۹ محمد مسعود خان مندرانی محمد علیم الدین محمد عمر خان.پشاور محمد عمر خان افغان ۲۲۵ ۲۲۶ ۶۳۲ محمد ہاشم بخاری ۷۲۰ ، ۷۱۹ ،۷۱۸،۳۶۲ ۳۳۹، ۵۴۱، ۵۴۳ محمد ہاشم خان، صاحبزاده محمد معین الدین محبوب نگر ۶۵۶ محمد ہاشم محمد عمر سہگل ، میاں ۵۴۷،۵۴۰ محمد مکی ، سید بن سید مصطفی ۵۷۹ محمد یعقوب خان ۲۲۷ ۲۹۴ محمد عمر شوکت تھانوی ۶۴، ۶۹ محمد مکی ، میاں ۲۳۱ (ایڈیٹر اخبار لائٹ ) ۲۲۷

Page 784

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 32 اشاریہ اسماء محمود احمد ، نائب مدیر مجلہ الجامعہ محمد یعقوب خاں ،ڈاکٹر محمد یوسف.سٹینو گرافر ۹۶، ۹۷، ۳۳۹ محمد یونس، بابو محمد یعقوب طاہر، مولانا ۱۵۳،۱۱۶، محمد یسین خان، قاری ۶۵۳۶۵۲ ۷۱۳ محمود الحسن، جنرل ۱۵۵، ۲۲۰، ۴۷۳، ۶۵۸، ۶۵۹ محمد ، مولوی (امیر جماعت احمدیہ محمودالحسن ، شیخ محمد یعقوب ، شیخ.دبئی محمد یعقوب شیخ.درویش قادیان ۳۳۹ مشرقی پاکستان) ۱۶۴،۱۶۳،۱۶۲۷۳ محمدی بیگم، سیده ۵۸۹ محمد یعقوب.جودھامل بلڈنگ محمد یعقوب، ملک محمد یعقوب.ہانڈ و گجر ۷۰۵ ۷۱۲ ۵۸۸ محمدی بیگم محمود احمد خان، خانزاده محمود احمد عرفانی ۳۱۷ ۲۲۹ ۶۵۱،۲۹۷،۲۷۹ ،۲۱۸ ۶۹۷ ۹۶ ۶۴۷ ،۴۹۹،۱۶۳،۷۴ محمود الحسن ، قریشی محمود الرحمن ارکسن ( سویڈن) محمود اللہ شاہ سید محمود سلطان محمود شلتوت، الشیخ ۶۲۱ ۴۸۶ ۳۱۸ ۵۱۲ محمد یوسف ایڈووکیٹ ، سید ۳۲ محمد یوسف پشاوری، قاضی محمود احمد قریشی ایڈووکیٹ ۲۳۶ ،۲۲۴ ۲۲۳ ،۲۲۱ ،۲۱۹ ۶۸۹ ،۵۸۹ ،۳۲۴ ،۲۳۸ ،۲۳۷ محمد یوسف سلیم محمد یوسف شاہ ،سید محمد یوسف، شیخ.گجرات ۶۹۷ محمود احمد شاه محمود احمد مبشر محمود احمد ناصر، میر ۲۰۰،۱۹۷ ۲۷۲ ۶۱۳ ،۴۳۰ ۱۹۷ ، ۱۹۶ ،۱۹۵ ،۱۷۱ ۱۷۰ ۳۴۸ ۷۱۵ ۷۲۶ محمود موسکو محمود موں کو.برما محمود نعیم الاسلام محمودہ بیگم،سیده (ام ناصر ) ۶۲۹،۵۵۳،۳۱۸ محمود احمد ، قاضی ۳۸۰ ۶۹۵ ،۵۱۸ ،۵۱۷ ،۵۰۹ ،۴۷۳ ۶۸۳ ۲۳۸ محمودہ بیگم محمود احمد ، ملک محموده پروین ،سیده ۲۶۳ محمود مولوی مفتی محمد یوسف ،میاں.لاہور ۲۳۹ محمد یوسف خان ۲۲۵ ۱۶۱ ۲۷۰ محمد یوسف، ماسٹر (ایڈووکیٹ) محمود احمد ، قریشی ۲۸ محی الدین ایم پی ۱۵۹ ۱۶۰ ۱۶۱ ۳۳ محمود احمد.شورکوٹ ۴۱۴ محی الدین شاه محمد یوسف، چوہدری ( ایڈووکیٹ) محمود احمد، حکیم ابو طاہر ۶۹۹ محی الدین طاہر، پیر ۶۴۸ | محی الدین ، مرزا ۳۳ محمود احمد ، شیخ ۳۸۳ ۳۳۲ ۶۹۶،۳۳۳

Page 785

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 33 محی الدین احمد ، مولوی ۷۰۶ مریم صدیقہ ، سیده (ام متین) مختار احمد ایم اے ۲۲۸ ۶۹۱،۶۵۵،۲۱۸،۱۹۴۱۰۲ مریم علیها السلام مختار احمد شاہجہانپوری، سید حافظ ،۴۳۹ ،۴۰۵ ،۲۶۹ ،۲۶۸ ،۱۵۵ مختار احمد.سرگودھا مختار احمد.لائلپور مدثر شاہ، میر مراد بخش، حافظ مراد بی بی مراد علی چانڈیہ مراد علی ، چوہدری مرار جی ڈیسائی ، شری مرتضی در بھنگی مرید احمد خان ، میر ۴۴۱ ۳۹ ۳۳۹ ۲۳۲ ۴۵۴ ۵۸۷ ،۲۴۲ ۶۰۳ ۴۰ ΔΙ ۲۸۵ ۶۰۰ مصطفیٰ سنوسی مصلح الدین احمد را جیکی اشاریہ اسماء ۷۱۹ ،۷۱۸،۷۱۷ ،۳۹۵ ۳۱۵ ۷۴ ۶ ، ۴۲۱ | مصلح الدین سعدی مریم.مانچسٹر ۶۵۵ مصلح الدین.چٹا گانگ ۷۲ مسعود احمد جہلمی ۳۵۹، ۷۲۹،۵۵۵ مطہر حسین.قاضی ڈاکٹر مسعود احمد خان دہلوی مطیع الرحمن ،صوفی ۲۷، ۷۳۲٬۴۰۵ مطیع اللہ درد مسعود احمد خان ( ہملٹن) ۳۷۷ مطیع اللہ (ایڈووکیٹ ) مسعود احمد شاہ ، سید ۲۶۹ مظفر احمد ، ملک مسعود احمد ، ڈاکٹر ۹۶ مظفر احمد ، چوہدری مسعود احمد، چوہدری ۴۹۹ مظفر احمد شر ما شهید مسعود احمد ، سید میر ۱۶۴ ۶۴۶ ۱۱ تا ۷۱۵ ۳۳ ۳۲۷ ،۲۶۲ ۵۸۸ ۶۲۷ مظفر احمد، حافظ مولوی ۲۲۸،۲۲۶ ۱۵۳، ۴۸۶، ۴۸۹، ۷۱۲، ۷۲۶ مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا مسعود احمد ، شیخ مسعوداحمد، قاضی ڈاکٹر ۹۷ تا ۱۰۹ ۷۱۲ ۱۵۵ ،۱۴۸ ،۱۴۲ ،۱۴۱ ۱۴۰ ۱۱۹ ۲۳۸ ۷۱۲ ۵۵۷ ۵۷ مرید حسن شاہ سید ( ممبر قومی اسمبلی) مسعود احمد قریشی ۶۲۸ مظفر احمد.والسال مریم بی بی مریم بیگم اہلیہ ملک عمر علی ۳۲ مسعوده پروین ، سیده ۲۷۰ | مظفر حسن ۲۴۱ مشتاق احمد باجوہ ۶۴۸ مظفر خاں ، نواب ۴۸۶ ،۷۲۶،۴۸۷ | مظہر الحق ، قاضی ۵۰۱ معراج الدین عمر ، میاں مشتاق احمد ، شیخ ۳۱۵ معراج سلطانه بیگم مریم بیگم (سیده ام طاہر حرم حضرت مشتاق احمد مصلح موعود ) ۳۸۷ ۳۶۴،۲۲۸ ۳۲۸ ۵۵۳ 2+Y ۲۶۳ مشتاق ٹھیکیدار ۵۰۳ معین الدین احمد ، قریشی ڈاکٹر مشتاق، خواجہ (ایڈووکیٹ) ۳۳ مریم بیگم مریم حنا

Page 786

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 34 معین الدین چشتی اجمیری ۴۶۵ منصور احمد چیمہ، چوہدری ۳۳۸ | منور احمد جاوید، ملک معین الدین ، پیر ۳۳۲ منصور احمد ندیم مقبول احمد ذبیح ، مولوی منصور احمد ،سید ۳۸۲،۳۸۱، ۷۲۷ | منصور احمد مقبول احمد شاہ ، سید ۲۶۹ | منصور احمد ، صاحبزادہ مرزا ۵۵۷ اشاریہ.اسماء ۳۲۷،۲۶۲،۲۱۵،۱۰۱ ، ۱۰۰ ۶۹۰ ۵۵۷ ۵۹۱ | منور احمد، ڈاکٹر ۴۱۴ منور احمد نمی منور احمد، ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مقبول احمد قریشی مقبول خانم مقبول شاہ.اچینی پایاں ۶۲۸ ،۳۸۲،۳۴۵ ۶۸۶ ۲۳۰ ملتان خان.پیشاور ۲۲۷ ملٹن ابوٹے ۶۷۲۶۶۹ ،۵۱۶،۵۰۶،۴۳۳،۱۰۵،۱۰۰،۱۶،۱۴ اے، ۱۰۵، ۵۰۶، ۵۷۵، ۶۹۵ ممتاز الہی ۷۰۸،۵۱۹،۵۱۸،۵۱۷ منصور احمد ، قاضی ۶۴۸ ۶۴۸ منور احمد، چوہدری منصور، چوہدری منور دین ، پیر مولوی ۵۸۸ ۳۲۰ منظور احمد چنیوٹی ،مولوی منہاج الدین ، مولوی ۲۲۸ منیر احمد باہری ۳۲۷ ،۲۵۷ ۸ تا ۲۰۹،۱۲ مر (انگریز ڈاکٹر ) (Miller) ٩٩،٩٨ ۳۵۴ ۷۲۱،۷۲۰ ۵۱۳ ۳۳۸ مما فینسی.ٹوگو لینڈ ممتاز بیگ ممتاز حسین ، شیخ ممتاز احمد ہاشمی ممتاز حسین ، ملک (ایڈووکیٹ) ۳۳ منظور احمد ، مولوی منظور احمد.لاہور ۴۰۷ ۴۱۴ منظور حسین چک چهور.شیخو پوره ۶۸۳ منظور حسین (ایم پی اے) ۳۲ منظور حسین ، سید منظور علی ، شیخ لدھیانوی ۳۱۵ منیر احمد عارف، چوہدری منیر احمد فرخ ۷۲۹ ،۷۲۵ ، ۷۲۴ منیر احمد ، صاحبزادہ مرزا ۶۵۱ ۶۹۵،۴۶۰،۱۵۵ ، ۱۴۹ ، ۱۰۵ ، ۱۰۲ منیر احمد.سینٹ لوئیس منير الحصنى السيد منیر الدین احمد ، مولوی ۳۴۷ ۷۰۵ ۳۸۲ منصب علی خان ، رائے (ایم پی اے) منظور قادر (سابق وزیر خارجہ ) ، منیر الدین شمس ۳۲ منصب علی ۶۴۶ منظور محمد ، پیر منصور احمد بشیر ، سید منظور النساء ۶۹۸ ۶۲۷،۵۶۳ ۶۲۸ منیرہ ظہور ، سیدہ منیرہ ندیم مود و د احمد خان ، نواب ۳۷۶،۳۶۶،۳۶۵ | منور احمد ابن عبد الغنی ۷۱۲ | مودوده طلعت ۲۶۸ ۵۵۷ ۶۴۸ ۵۶۶ ،۶۰

Page 787

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 موسی سیوی ۷۱۸ نارو موسیٰ علیہ السلام ۵۳۷ ،۵۲۰ ،۴۶۴ ،۴۲۸ ،۲۸۴ 35 ۲۸۰ | ناصر احمد ، مرزا اشاریہ.اسماء ۲۷۳ ناصر احمد ابن کیپٹن عطاء اللہ ظہور احمد ناصر الدین محمود چوہدری ۳۳۳ ۶۸۶ ناصر علی شاہ ، سید سردار موسیٰ ، میاں ( گدی نشین تونسہ ناصر احمد باجوہ (ایڈووکیٹ) ۳۳ ناصر نکولسکی ۴۰ ۳۷۹،۳۹۲ ۶۳۸ ناصر احمد چیمہ (ایڈووکیٹ ) ۳۳ ناصرہ بیگم بنت سید حبیب اللہ شاہ مولا بخش کاز ۶۰۸ ناصر احمد شاہ، سید مولا بخش ، ماسٹر ۳۱۹ ناصر احمد محمود ۲۷۱ ۵۹۱ ۶۹۶ ناصرہ بیگم بنت مرزا عطاء اللہ ۲۷۳ مولا بخش ۵۰۹ | ناصر احمد، راجہ ۶۱۹ ناصرہ بیگم ، سیدہ.بیگم،سیدہ.مولا بخش.لدھیانہ ۳۲۱ ناصر احمد ، صاحبزادہ مرزا ( خلیفة بنت سید محمد سرور شاہ مہتاب بیگم ۲۷۱،۲۷۰ المسیح الثالث ) ۲۷۱ ناصرہ زمرمان ۴۸۹، ۷۲۶، ۷۲۷ مهر چند کھنہ (وزیر بحالیات) ۱۳، ۱۶، ۲۰، ۲۲ ، ۲۳، ۵۸، ۵۹ ، | ناصره ندیم ۸۱،۸۰۷۹ ۷۴ ، ۷۵، ۸۷ تا ۱۰۴،۱۰۰، ۱۰۵، نانک ، بابا مہراں بی بی زوجہ میاں عبدالرحیم پوہلہ ۱۴۲،۱۰۸، ۱۶۲ تا ۱۶۷ ،۱۷۳ ۱۷۴ ، نبی بخش ناصر ۱۷۷، ۱۷۸، ۱۸۰، ۱۸۲، ۱۹۳، نبی بخش، شیخ ۶۱۱ میتھی سن، ڈاکٹر ( Methi Sun) ۱۹۸ ، ۲۰۰، ۳۳۲، ۳۳۴، ۳۴۳، نثار احمد بھٹی.پلیڈر ۳۴۴، ۴۰۲،۳۸۷، ۴۳۹ ، ۴۴۵، نثار احمد ، ملک ۴۴۷ ۵۷۱،۵۷۰ ۲۸۹ ۳۲ ۷۱۲ میر درد، خواجه میر محمد ، شیخ میک ٹوش میلکم ایکس میمون شاه مینا مبارکہ ۱۴ ،۴۵۵ ، ۴۵۴ ،۴۵۳ ،۴۵۱ ،۴۵۰ ۵۱۲ ، ۴۷۵ ، ۴۷۴ ،۴۶۰ ، ۴۵۹ ،۴۵۸ ۳۵۶ ۴۱۹ ،۴۱۸ ۷۲۵ ۲۳۰ نجم الدین، خواجہ نجم الدین ، مولوی ۴۹۱، ۵۰۲، ۵۰۹، ۵۱۲، ۵۱۳، نذر احمد تارڑ.حافظ آباد ۵۱۵، ۵۱۶، ۵۱۷، ۵۱۹، ۵۶۰ ، نذر عباس ، سید ۶۱۱،۵۷۱، ۶۹۵،۶۱۸ | نذر علی خان، میرزا ۶۹۵ ناصر احمد، چوہدری ۵۸۸ | نذیر احمد باجوہ ناصر احمد پروازی، پروفیسر ۵۱۵ نذیر احمد باجوہ، چوہدری نادرشاه ۲۱۹ ناصر احمد خضر پاشا، سید ۶۹۵ نذیر احمد شیخ.مردان ۵۰۲ ۶۴۲ ۳۸ ۷۰۸ ۲۳۱ ۳۳ ۶۸۱ ۴۰

Page 788

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 36 نذیر احمد ظفر، راجہ ۴۰۷ نصر اللہ خان، چوہدری ۳۹ نظام الدین ، ملک نذیر احمد علی ، مولانا نذیر احمد مبشر ، مولانا نذیر احمد ، بابو نذیر احمد.کویت نصرت بیگم ، سیدہ بنت قاضی سید نظام الدین حبیب اللہ شاہ ۵۹۱ نظیف اللہ خان ، مرزا ۴۲۹،۴۲۸، ۵۰۹ نصرت جہاں بنت صفدر علی ۳۳۴ نعمت اللہ خان گوہر ۶۵۳ نصرت جہاں ، حضرت سیدہ اماں نعمت خاں ۷۰۵ جان) ۱۱۴،۱۰۵، ۱۲۰، ۱۲۱، نعیم احمد ، صاحبزادہ مرزا اشاریہ.اسماء ۲۶۱ ۷۳ ۲۲۷ ۴۰۷ ۲۲۲ ،۱۴۲،۱۴۱ ،۱۳۶ ،۱۲۵ ،۱۲۳ ۱۲۲ ۳۰۲ ،۲۷۰ ،۲۱۸ ،۱۹۳ ،۱۴۳ ،۶۲۲ ،۶۲۰ ،۶۱۹ ،۶۱۸ ۵۰۸ ۷۰۳،۷۰۲،۶۵۵ ،۶۳۳،۶۲۹ ۲۶۶ نذیر احمد، ڈاکٹر نذیر احمد ، مولوی.دہلوی ۵۸۴ نذیر احمد ، میجر جنرل ۶۸۵،۶۴۴ نذیر علی ، مرزا ۶۹۵،۳۱۶،۱۹۴۱۶ نعیم الدین ، قاضی ۷۲۳ ، نعیم، چوہدری (ایڈووکیٹ ) ۳۳ نعیم صدیقی ۵۸۷ نعیمه بشری بقایوری 2+Y ۵۵۳ نرائن داس، لاله ۶۳۰ ، ۶۳۱ نصیر احمد پیرکوئی نسیم اختر ، سیدہ کینیڈا ۲۷۰ نصیر احمد خان ، پروفیسر ۴۹۹ نعیمہ بنت میر عبدالقادر نسیم انہونوی ۶۷ نصیر احمد خان، مولوی نکروما، مسٹر (صدر خانا) ۷۰۶ نیم بیگم ۶۸۶ ۷۲۹،۷۲۲٬۳۸۲ | نکولس گرونتر ۳۵۵،۳۵۱ نسیم حسین ،میاں.ابن سر فضل حسین نصیر احمد خاں نکیتا خروشیف ( روسی وزیر اعظم ) ۳۱۷ نصیر احمد ، صاحبزادہ مرزا ۲۷۱ ۸۲ نیم سیفی ( نور محمد ) ۳۷۹، ۴۰۶، نصیر احمد ابن سید مبارک علی شاه نمورد کرا موتو (کرا موکو) ۴۱۶، ۵۱۰، ۵۱۲، ۵۱۳، ۵۲۹، | باهری ۷۲۹ ،۷۲۵ ، ۷۲۴،۵۵۴،۵۵۳ نسیم مهدی ۳۶۷ نصیر الدین احمد ، شیخ ۲۵۷ نواب دین، ملک ۳۵۸،۳۵۲ ۳۲۳ ۷۲۹،۷۲۵،۷۰۵ نواب دین، بابا ( عرف میاں کالو) ۳۶۸، ۳۷۴،۳۷۲،۳۶۹، ۳۷۷ نصیر الدین، قاضی نصر اللہ خان ، بابو ۲۲۹،۲۲۷ | نظام الدین مهمان ۲۲۷ ۷۲۹ نواب علی ، چوہدری نصر اللہ خان، ڈاکٹر.سرگودھا ۳۹ نظام الدین ، خواجه ۶۳۷، ۶۳۸ نوح علیہ السلام نصر اللہ خان ، قاضی ۲۲۸ نظام الدین ، ماسٹر ۲۳۲ نور احمد عابد ۶۲۲ ۶۹۹ ۴۲۸ ۳۲۶

Page 789

اشاریہ.اسماء ۷۱۵ ،۳۴۸ ۵۱۲ ۲۴۳ ۲۲۹ ۲۴۳ 37 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 نور احمد منیر ، شیخ ۲۷، نور محمد چانڈیہ ۱۹۶، ۳۴۰، ۴۲۷، ۴۷۳، ۷۳۱ | نور محمد خان ۳۳۴ درسا محمد اسماعیل ۶۳۲ وزیر آغا ، ڈاکٹر نوراحمد ( جنرل سیکرٹری بیکار دٹا کاری) نور محمد نسیم سیفی) ۴۰۶،۳۷۹ ، وزیر الدین ، مولوی نوراحمد ، ملک ۲۸ ۲۳۰ ۴۱۶، ۵۱۰، ۵۱۲، ۵۱۳، ۵۲۹، وسیع الدین ، میاں ۷۲۴،۵۵۴،۵۵۳، ۷۲۵، ۷۲۹ وسیم احمد خان نور احمد ، میاں ۵۸۷،۵۸۶ نور محمد (بھائی میاں شیر محمد ) ۶۸۱ وسیم احمد ، صاحبزادہ مرزا ،۵۳۴ ،۳۱۶ ،۱۹۴ ، ۱۹۰ ،۸۱ ،۱۶ ۲۸۰ ،۶۱۳،۵۴۷ ،۵۴۶،۵۴۰،۵۳۹ ۲۳۱ ۷۰۰،۶۹۸ ،۶۹۵ ۲۵۱ ۳۷۷ وسیم احمد، ڈاکٹر سید ۹۵،۹۳ نور محمد ، میاں نوروز علی خان نیاز الدین احمد سلہری نیاز فتح پوری ، علامہ ۶۲۲ نور احمد ، شیخ نوراحمد ، ملک.برمنگھم نورالحق انور، مولوی ۷۳۰۷۲۲،۴۰۹ ،۳۳۹ نورالحق، مولانا ابوالمنیر نور الحق، شیخ نورالدین منیر ۴۷۳،۴۰۶ ۶۲۲ ۴۰۶ نیاز ، مولانا نیوٹن و نور الدین، حضرت حکیم مولانا.واحد حسین گیانی ،مرزا خلیفہ المسیح الاول ،۲۷۰ ،۲۵۶ ۲۴۶ ، ۲۲۲ ۱۹۱ ۴۶۵ ۴۹۶ ۶۹۶،۶۰۵،۳۳۳ ۳۳ وقار عظیم، پروفیسرسید ۵۱۳ وقیع الزمان میجر، کرنل ( برگیڈیئر ) ولایت شاہ ، سید ۶۹۵،۱۵۶،۱۰۱ ۲۶۳ تا ۳۲۷،۲۶۵ ولایت علی ( ڈاکٹر لعل محمد ) ۶۴۶ ولی اللہ ، شاہ - محدث دہلوی ۴۶۵ وارث علی (ایڈووکیٹ ) ۲۹۵ | ولی داد، ملک ۲۷۵، ۲۸۳، ۲۸۹، ۲۹۱، ۲۹۳، واعظ الدین ۳۳۹ ۲۹۴، ۲۹۵، ۳۰۸، ۳۰۹، ۳۱۳ ، وائی اے صافی A.Safi) ولی کریم ( آرتھر جے فرٹیز ) ۶۸۵ ،۴۱۸ ،۴۰۶ ،۳۸۶ ،۳۸۵ ،۳۱۹ ۶۲۴،۵۶۴،۵۶۳،۴۳۵، ۶۲۵ ، وحید احمد ، پیر ۶۳۰ ، ۶۳۵، ۶۳۹ ، ۶۴۶، ۶۸۸ | وحید الزمان، ملک نورالدین ،خلیفہ نورگل خان ۲۲۱ ۲۲۷ ۳۸۰ | ولی محمد خان ۳۳۲ ولی محمد ، ملک.پلیڈر ۲۳۰ ولیم ناصر ۶۳۴ ۳۲ ۳۶۲ وحید قریشی، ڈاکٹر ۵۱۳ | وی وی کالون(Kallon.۷.۷) وڈا ۲۸۰ ZIA

Page 790

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 ہاجرہ بیگم، سیده ۵۹۱ 38 یعقوب تالی تلون الحاج ( گھانا) ہاجرہ شکور ( نواحمدی) امریکن یعقوب علی عرفانی ، شیخ ۴۸۰ تا ۴۸۲ ۳۹۶ ۵۹۲،۳۲۸،۲۵۲،۲۲۴ اشاریہ.اسماء ۱۹ یوتھانٹ (Thant ) یوسف بن اسحق.گورنر سنگا پور ۷۱۶ یوسف حسین ابن احمد حسین ۵۴۲ یوسف خان ایڈووکیٹ) ۳۳ ۶۰۹ ۳۱ یوسف سهیل شوق ، سید یوسف سیلا (Yusuf Sylla) ۷۱۵ ،۴۰۹ ۶۰۹ ۲۸۰ ۳۰۷ ΔΙ ہدایت اللہ بنگوی ہدایت اللہ ، بابا ہر بند ہلالی ہمایوں کبیر ہنڈی او ہارا mar (Handy O'Hara) یوسف عثمان کا مبولا یا ۶۹۳٬۵۱۳ ہنری جوسا یا لائٹفٹ بوسٹن یوسف علی ۳۱۱ ۲۳۱ ۴۵۵ یوسف علی خان، میرزا یوسف ، امام (Henry Josiah Light Foot Boston) ہولو من اتائی ۳۵۵ ہیز نبرگ (Heisen Berg) ۴۹۶ ۲۲۲ ۷۲۳ ۷۲۰ ی یار محمد یمی شیخ یعقوب بن عیسی یعقوب بیگ، مرزا ۴۱۸،۳۰۸،۲۹۳،۲۹۱

Page 791

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 آ الف آٹوا آرام باڑی ۳۷۶ ،۳۶۵ ،۳۶۴ ۵۱۱،۳۴۱ تھنگٹن ۷۲۴ آزاد کشمیر ۵۱۱،۳۳۹،۳،۲،۱ آسٹریلیا 39 اچولی مقامات ۷۲۸ اشانی اچھرہ لاہور ۲۱۳،۳۷ اچینی پایان احمد نگر ۲۲۷، ۲۳۰ افریقہ ،۳۹ ،۱۲ ۶۱۸ ،۳۴۲ ،۳۲۶ ،۲۴۷ ،۲۰۶ ۹۸ احمدی پاڑہ آسٹن ۷۱۴ اور حمہ آکر قرم ۳۶۳ ادونی آکره اڈو کیٹی ۳۶۳ آکسفورڈ ۷۰۴،۱۶۷، ۷۱۱ ارجنٹائن آگرو ۲۹۴۲۴۱،۲۴۰ لنگٹن آنبه ۷۰۴ ارنگا آئیوری کوسٹ ارو ضلع رانچی ۳۱، ۱۸۶، ۲۴۲ ،۳۴۵، ۳۸۲، اروشه ۳۸۳، ۳۹۴، ۶۲۸، ۷۰۹ اڑیسہ ابرو ۳۶۳ اسانگی اشاریہ.مقامات ۷۲۲،۷۲۱ ،۷۲۰،۵۵۶،۳۶۳ ،۸۴،۸۳،۶۱،۶۰،۱۶ ۳۲۱ ،۱۸۸ ،۱۸۷ ،۱۸۶ ،۱۷۲ ،۳۵۹،۳۵۸،۳۵۷ ،۳۵۶،۳۴۵ ،۴۵۷ ،۳۹۵،۳۸۳،۳۸۱،۳۶۴ ۱۶۴ ،۶۰۰ ،۵۵۶ ،۵۱۳ ،۵۱۰ ، ۴۹۲ ۶۴۴ ،۶۷۹،۶۷۸،۶۷۵،۶۶۳،۶۰۶ ۷۲۴ ۷۲۲،۷۱ ،۷۰ ،۷۰۶ ،۶۹۳ ۷۲۴ الكاء افریقہ (جنوبی ) ۳۷۸ ۵۶۰ ، ۳۹۴ ،۳۴۵ ،۱۸۶ ،۱۷۲ ۳۴۶ افریقہ (مشرقی) ۳۵۰ ،۱۷۰،۱۶۹ ،۱۶۸ ،۱۶۷ ، ۱۹۲،۱۶۱ ١٩٠ ،۳۹۴،۳۸۲،۳۴۵ ،۳۳۹ ،۱۷۳ ۷۱۵ ،۳۴۹ ،۵۰۴ ،۴۶۹ ،۴۱۵ ،۴۱۰ ، ۴۰۰ ۳۰۶،۹،۳،۲ ،۶۷۲،۶۶۵،۶۶۳،۵۶۰،۵۴۸ ۳۴۹ ،۶۹۶ ،۶۸۴ ،۶۷۵ ،۶۷۳ ۲۳۰ ۷۳۰ ،۷۲۳،۷۰۹ ،۷۰ ،۷۰ ۷۲۱،۳۶۳ اسپانڈ وضلع پشاور ابواسی (ابواسی) اپر وولٹا ( شمالی ) ۳۵۰ ، ۷۰۹، ۷۲۰ اسرائیل اٹک ( کیمبل پور، کیمل پور ) ۶۱۱،۳۳۱،۳۲۲،۲۵۶،۲۲۵ ،۴،۲ اٹلی اجنالہ اسکندریہ اسلام آباد ۲۰۱ ،۷۰۴۶۴۵،۵۳۳ اسماعیلیہ ضلع مردان ۶۳۱،۳۲۰ ۱۸۶ | افریقہ (مغربی) ،۱۷۰،۱۶۹،۱۶۸ ،۱۶۷ ، ۱۵۵ ،۳۱ ۹۳ ،۳۷۹،۳۵۰،۳۴۵ ،۳۴۴ ،۱۷۳ ۶۵۱،۴۹۶،۱۸۹ ،۵۲۹ ،۵۱۰ ، ۴۱۶ ،۴۰۱ ،۳۸۲ ۶۰۶،۵۵۶،۵۵۴،۵۳۰ ۵۸۹،۲۲۹،۲۲۷ ،۲۲۵

Page 792

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 ۲۲۶،۲۲۵،۷۱،۲ ، امیرد افغانستان 40 ۲۲۶ اونچا ججا ۵۷۸ اونڈو ۲۲۷، ۲۳۲، ۲۳۳، ۲۳۴، ۶۹۸ انار کلی (لاہور) اشاریہ.مقامات ۳۹ ۷۲۴ ۳۱ ،۲۳۶،۲۲۵ ،۴،۲ ۷۲۴ انڈونیشیا اوہائیو (امریکہ) ۷۲۱،۷۲۰ ۸۲، ۸۴،۸۳، ۸۵، ۸۶، ۱۸۶ ، | ایبٹ آباد ۵۰۲،۴۴۵ ، ۴۴۴ ۳۱۷ ،۲۳۷ ،۳۹۳ ،۳۸۳،۳۴۸ ،۳۱۷ ،۲۰۸ ۳۰۵ ۳۷۴،۳۶۷ ۳۵۹ ۳۹۴، ۳۹۵، ۴۰۰ ، ۴۰۸، ۴۰۹ ، | اپنی ۴۴۸، ۴۴۹، ۴۹۹، ۶۵۱،۵۵۶ | ایڈمنٹن ۷۲۴ That' ۲۲۲،۶۵،۲۵، | انڈیانا ۳۷۷ ،۳۷۶ ،۳۷۵ ،۳۷۳ ۷۰۹،۳۴۷ ، ۳۴۶ اکارے البانية البرٹا الجيريا امرتسر ۳۱۴،۳۱۲،۲۹۲،۲۸۰،۲۷۰،۲۶۰، انکو کو ۳۲۰، ۵۹۵، ۶۱۵، ۶۱۶، ۶۳۱ انگلستان (برطانیہ، انگلینڈ) امریکہ ۱۹، ۲۵، ۳۴،۳۱، ۵۱، ،۳۲۱ ،۳۱۹ ،۱۷۹ ، ۱۵۵ ،۹۲،۷۷ ۳۶۳ ایڈنبرا ایران ۳۲۵ ،۲۱۹ ،۲۱۸ ۶۵۴ ،۴۹۳ ،۳۵۹ ،۲۳۴ ،۲۲۳ ، ۱۴۵ ، ۱۲۵ ،۹۹ ،۶۴،۶۱،۵۲،۵۰ ۱۷۹، ۱۸۶، ۱۸۷، ۲۴۳، ۳۴۷، ایسار پر ۳۴۶، ۳۵۹،۳۵۵،۳۵۳،۳۴۷، ۳۹۳،۳۷۴،۳۶۶،۳۶۰،۳۴۸، ایسم ۳۸۲،۳۷۵،۳۷۴،۳۷۳،۳۶۵، ۳۹۴، ۳۹۷، ۴۱۹ ، ۴۲۰ ، ۴۲۷ ، ایشیا ۷۲۱ ۷۲۰ ۷۰۷ ،۵۴۰ ، ۴۰۰ ،۱۷۸ ،۲۰ ۵۱۰ ۷۲۶،۳۸۰ ۲۲۲،۳۲ ۷۲۵ ۳۳۹ ۶۰۳ ۳۷۸ ۶۰۳ ایشیا (جنوب مشرقی) ایمسٹرڈیم ولد من ولد ماله لد ٨٧ ولد ٧ له له له ،۴۱۹ ،۴۰۱ ،۴۰۰ ،۳۹۴ ،۳۸۳ ،۵۵۷ ،۵۰۱ ،۵۰۰ ، ۴۹۹ ،۴۹۸ ،۴۸۰،۴۶۹ ،۴۶۸ ، ۴۵۷ ، ۴۲۰ ،۶۶۳ ،۶۲۸،۶۲۶،۶۲۲ ،۵۵۸ ،۵۱۱ ،۵۱۰ ،۴۹۹ ،۴۹۶ ،۴۹۵ ،۶۵۵،۶۵۱،۶۴۶ ،۵۶۰،۵۵۸ ۷۲۹،۷۱۰ ،۷۰۹ ،۶۷۱ ، ۶۶۹ ۶۷۱، ۶۸۴ ، ۷۰۱، ۷۰۴، ۷۱۰، ایمن آباد ۱۷۹، ۳۷۷ انگو آسی امریکہ (جنوبی) امریکہ (شمالی) ۳۹۳،۳۷۱،۱۸۶ اوٹ کوٹ ۷۲۹،۷۲۶،۷۱۸ | ایوچی ۷۲۱ ۳۳۹ امریکہ (وسطی) ۳۷۸،۳۷۷ اودھ ۶۴ با بوری امسانی نومبو ۷۲۱ اومو ۷۲۴ باتھرسٹ ا موکوری ۳۶۳ اونٹاریو ۳۷۲ باده

Page 793

باڑھ واڑ بازار قصہ خوانی بازید خیل پشاور باسٹن تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 بار برونوٹ ۳۷۸ برٹش گیانا ۳۳۹ 41 بریمپٹن ۴۳۹،۳۹۵،۳۹۳،۱۸۶ | برینی ( British بشیر آباد ۲۲۴ برٹش ہنڈیورس (Honduras ۲۳۱ ۳۷۵ | بصیر و ۱، ۴۳، ۶۴،۵۳، بقاپور ۷۱۰،۳۴۷ بر صغیر اشاریہ مقامات ۴۱۴ ۶۰۳ با کاؤ ۳۷۹،۳۷۸ ۸۹، ۲۷۹، ۳۲۱، ۴۰۱، ۶۳۳ بکٹ گنج مردان بالاکوٹ بالامه بالٹی میور باندا جما باندره ۴،۲، ۲۲۵، ۲۳۷ برطانیہ (انگلستان، انگلینڈ) بکوبا ۶۴،۶۱،۵۲،۵۰، ۹۹ ، ۱۲۵ ، ۱۴۵، بگ واکو ۱۷۹، ۱۶، ۱۸۷، ۲۴۳، ۳۴۷، بلوچستان ۳۹۳،۳۷۴،۳۶۶،۳۶۰،۳۴۸، بلیک برن ۷۲۴ ۳۰۵ ،۲۳۴ ۳۹۴، ۳۹۷، ۴۱۹ ، ۴۲۰ ، ۴۲۷ ، بمبئی ۲۹۴،۲۹۳،۱۱۴،۸۰،۶۴، ۵۹۳۵۹۱ ۲۵۷ ،۲۲۵ ۳۵۰ بانکی پور بائیماں باہرہ مصر بٹالہ بٹالہ بانگر ۳۶۱ ۷۱۰،۳۴۷ ZIA ۵۴۲ ،۵۳۴،۵۳۳ ،۳۸۱ ،۳۰۱ ،۳۰۰، ،۴۹۵ ،۴۹۴،۴۸۶ ،۴۸۴ ،۴۷۴ ۲۵۶ ، ۵۴۵ ،۵۴۴،۵۴۳،۵۴۱ ،۵۳۹ ،۵۵۷ ،۵۰۱ ،۵۰۰ ، ۴۹۹ ،۴۹۸ ZIA ۵۷۹،۵۵۹،۵۵۳،۵۴۷ ،۵۴۶ ،۶۶۳ ،۶۲۸،۶۲۶،۶۲۲ ،۵۵۸ ۲۵۴ ۶۷۱، ۶۸۴ ، ۷۰۱، ۷۰۴، ۷۱۰، بنڈونگ (انڈونیشیا) ۶۳۱،۲۴۲،۱۱۵ ۸۵،۸۴،۸۳ ۷۲۹،۷۲۶،۷۱۸ ۶۴۸ بٹھنڈا ۶۰۵ برلن ۲۷۱ | بنکاک ( تھائی لینڈ ) بجنور ۲۳۳ برما ،۲۵۷ ،۲۳۴،۱۸۶،۳۱ بخارا ۲۶۳ بد و ملی ۷۲۹،۶۳۱،۶۳۰،۶۲۹ ۴۹۲ ،۴۱۴ ۶۰۳ ۳۴۸، ۳۹۴،۳۶۷ ، ۳۹۷، ۷۱۵ | بنگال پر ۱۱ تا ۷۱۵ ۸۶،۸۵،۸۲ ،۲۳۴،۳،۲،۱ ۷۰۷،۷۰۰،۵۵۵،۳۰۶ ،۲۹۵ ۷۲۱،۷۲۰ | بنگلور بر ونگ اہا فو ۵۵۳،۳۳۵،۲۹۳ برہمن بڑیہ ۱۹۰،۱۸۹،۱۶۴،۷۳ بنور (ریاست پٹیالہ ) بدین بڑھا کوٹ برانٹ فورڈ بریڈ فورڈ برانکن ۳۴۷ بریلی ۷۱۱،۶۵۵،۵۰۰ ۶۶ بنوں ۶۲۵،۶۲۳ ۳۱۹

Page 794

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 بواج بورنو ( ویسٹ افریقہ ) بورو بورنیو (انڈونیشیا) 42 ،۳۶۴،۳۵۹ ،۳۴۹ ،۳۴۲،۳۳۹ پاکپتن ۳۷۹، ۳۸۵، ۵۳۳،۴۶۱،۴۴۸، پاکستان اشاریہ مقامات ۶۸۷ ، ۲۱ ، ۲۰ ،۱۸ ،۱۴،۱۱،۱۰ ، ۷ ، ۴ ، ۲،۱ ۳۶۲۳۶۱ 212.771 ،۶۳۳ ،۵۴۵ ۵۳۹ ،۵۳۴ ۵۳۲ ۷۱۴،۷۰۵ ۷۲۱ بھاگلپور ۳۱، ۱۸۶، ۳۴۸، ۳۴۹، ۳۸۲، بھاگووال ،۳۹۴ ،۳۹۳ بوسگا بوک ۴۰۰، ۴۱۳ بھدراوالی ۷۲۱ بھدرک 2+9 بھلوال ، ۳۰ ،۲۹ ،۲۸ ،۲۷ ، ۲۶ ، ۲۵ ،۲۳ ،۴۰،۳۸ ،۳۷ ،۳۶،۳۵ ،۳۴،۳۱ ۳۰۶ ۵۰ ، ۴۹ ،۴۸ ،۴۷ ، ۴۵ ، ۴۲ ،۴۱ ۶۸۱ ۱۳،۱۲ ،۲۱،۲،۱ ۳۳۹ پاکستان (مشرقی) پاکستان (مغربی) ،۳۵ ،۳۲ ،۳۱ ،۲۹ ، ۲۸ ،۲۶ ،۲۲ ۳۹ ۵۰،۴۷ ،۴۶ ،۴۵ ، ۴۲ ،۴۱ ،۳۷ ۶۵۷،۶۵۶،۶۵۵،۳۰۱ ۸۳، ۸۵ بھوپال بوگور ( بوگور ) بولیویا بون (مغربی جرمنی) ۶۷۰،۶۶۸ بھیرہ ۴۱۴ ،۲۵۶ بھینی ۲۶۴ پانامہ پانی پت ،۲۹۴ ،۲۸۴،۲ بہار ۷۱۴،۶۸۶ ،۵۵۴،۵۵۳،۳۰۶ بیانی ۷۲۱ بیت لحم ۷۲۱ پی بھائی دروازہ بھارت (انڈیا، ہندوستان) بہاولپور ۶۴۷ ،۴۳۰ ،۳۳۳،۳۲۰،۱۷ ،۱۶ نسٹن بیروت بھا بڑا ضلع سرگودھا ۵۷۱،۵۷۰ ۵۱۱ بیری کنڈا بھا بھڑا ( آزاد کشمیر ) ۲۶۰ بیڈم ۷۲۱ پتوکی ۴۹۵ پٹس برگ ۴۴۸ ، ۴۰۰،۳۱۷ ،۲۱۸ ۳۷۸ پینی بیگوائے ۷۲۱ پٹیارو ۱۹۰ پٹیالہ بلیز (Belize) ۳۷۴، ۳۷۷ پڈعیدن ،۷۱ ،۷۰ ،۶۴،۲۵ ،۲۲،۴،۳ ،۲ ،۱ ،۱۹۲،۱۹۰ ،۱۳۰ ،۱۱۰ ،۹۴،۸۰ ،۷۹ پرامو ۸۳ پریسٹن ۲۳۵ ۷۰۵ ۷۱۰،۴۰۰ ،۳۴۷ ،۳۴۶ ۴۹۳ ۶۰۳ ۶۲۳،۶۰۵،۲۵۳ ۶۰۳ ۳۶۳ ۱۹۷، ۲۴۳، ۲۴۵، ۲۵۴، ۲۶۳، پاڈانگ ۷۰۰ پریم چیت پور ۲۶۵، ۲۸۴، ۲۹۰، ۳۱۸، ۳۲۶، پارک سرکس ۲۴۶

Page 795

۷۷، ۷۱۱ تیما پور اشاریہ.مقامات ۲۴۱ ۲۳۰ ۶۷۱،۶۶۹،۳۵۹ ۳۰۶ ۷۱۵،۳۵۰ 43 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 پشاور ۲۲۰،۴،۲ ۲۲۱ ۲۲۲ ، پیرس ،۲۲۸ ،۲۲۷ ،۲۲۶ ۲۲۵ ۲۲۴ پیلے ۳۶۲،۳۶۱ تیمور کہولہ ہزارہ ۲۳۰، ۲۳۱، ۲۳۲، ۲۳۵، ۲۳۶، پیماناسی ۲۳۷، ۳۲۴،۳۰۷، ۳۸۷، ۴۳۱، پینانگ (جزیره) ۴،۴۵۳،۴۳۳ ۴۵ ، ۵۰۲،۴۵۷، پینگا ڈی ۷۲۱ تیونس 417 ۳۰۰،۱۶۱ ٹاٹانگر ۶۸۹ ،۶۴۵ ،۶۰۸ ،۵۱۲ ،۵۰۳ ٹانگا ۱۹۰ ٹانگانیکا ۳۱، ۱۶۸، ۱۸۶، ۳۴۹ ،۴۶۰ ،۴۱۱ ،۴۱۰ ،۳۹۴ ،۳۵۰ ۸۵،۸۳ ۷۲۷ تا رواں ۷۲۴ تا سیک ملایا پکواچ پگ وے ،۶۶۳۵۶۰،۵۵۷ ،۵۵۶ ،۴۹۹ ۲۲۷ ،۶۷۰،۶۶۹،۶۶۸،۶۶۵،۶۶۴ ۵۱۳ ،۶۷۵،۶۷۴،۶۷۳۶۷۲۶۷۱ ۵۵۶،۳۵۹،۲۹۹ پنج پیر ضلع مردان ۲۲۸ تراہی ضلع پیشاور پنجاب ترکستان ۱، ۶۵،۶۴،۱۶،۸، ۱۷۸،۱۱۰،۶۷، ترکی ۷۱۵ ،۷۱۳،۶۸۳،۶۸۰،۶۷۷ ۵۶۷ ،۲۵۱ تر گڑی ،۶۶۸،۳۴۹،۱۷۰،۱۹۸ تنزانیه ۳۴۹، ۴۱۰،۳۹۴،۳۸۲ ، | ٹورا ،۴۰۴ ،۳۲۳ ،۲۸۴ ،۲۵۴ ،۲۴۲ ،۵۱۳ ،۵۱۲ ،۴۹۴ ،۴۸۵ ،۴۳۰ ۷۱۵،۶۸۳،۶۷۹ ،۶۷۴،۶۷۰ ،۶۶۹ ،۶۶۸ ،۶۶۳ ،۴۷۹ ،۴۱۱ 717 ٹرورو ۷۱۵ ،۷۱۳،۶۸۳،۶۷۹ ،۶۷۸ ۷۰۵،۶۳۴،۶۳۲،۶۰۴ پنجاب (مشرقی) ۷۰۶ ،۷۰۵ ،۶۹۸،۳۴۹ ،۷۰ پنجا گڑھ الله تنوم پنڈی لالہ ضلع گجرات ۲۲۸ توارن پوری پولینڈ پیر پیائی ضلع پشاور پیر کوٹ ۳۴۹ ٹریسٹ ۶۰۳ ٹرینیڈاڈ تنیس ۳۴۹ | ٹمالے (ٹو مالی) ۶۵۴ | ٹوپی ۳۰۶۰۱ تونسه ۶۳۸،۶۳۳،۶۳۲،۲۵۵ ۸۲ تهران ۷۰۴ ۴۰۰،۳۹۵ ،۳۹۴ ۷۲۲۷۲۱،۳۶۳ ۲۳۰ ٹورانٹو ۱۹۰، ۵۵۵ | تهکال بالا پشاور تھائی لینڈ ۲۲۷، ۲۳۰،۲۲۸ تھر پارکر ۳۰۹،۴۰ تصہ غلام نبی ۸۶،۸۵،۸۲ ۴۹۳ ،۸۷ ۴،۲ ،۳۶۷ ،۳۶۶ ،۳۶۵ ،۳۶۴ ۳۷۰، ۳۷۳،۳۷۲،۳۷۱ تا ۳۷۸ ۶۱۳ ٹوکیو ۳۳۳

Page 796

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 ٹوگو ٹو گولینڈ) ۳۵۰،۱۸۶ تا ۷۳۰،۳۹۴،۳۵۸ 44 ۶۶۴،۵۶۶،۵۵۷،۵۵۵،۴۹۹ ، | جھنگ ،۶۷۱،۶۷۰،۶۶۹ ،۶۶۸ ،۶۶۷ اشاریہ مقامات ،۱۲،۹ ،۸ ۳۰۸ ،۳۰۲ ،۲۴۱ ،۲۲۲،۴۰ ،۳۸ ٹھٹھی خدایار هیچیمان ۷۲۱،۷۲۰،۳۶۳ ،۴۹۴ ،۴۴۸ ،۳۳۴ ،۳۲۰ ،۳۱۱ ،۶۷۸ ،۶۷۷ ،۹۷۴ ،۶۷۲ ۴۰ ۶۳۳ ،۶۱۲ ،۵۶۶ ،۵۱۰ ،۴۹۵ ۷۲۹،۷۲۶،۷۱۵ ٹیڈنگٹن 11 جڑانوالہ ٹیکرم ٹیکسلا ۵۰۳،۵۰۱،۴۵۴۳۱۹ ٹیما ۷۲۲،۳۶۳ ج جایان ۷۲۵،۵۵۸ ،۵۵۶،۳۳۳،۱۸۶ جزائر شرق الہند جلال پور جٹاں ۲۷۳ | جیند (ریاست) جلوزائی ( پشاور ) ۲۲۸ چ جموں ۳۶ ،۳۹۰،۳۰۳،۲۲۱، ۶۳۰ چک جھمره جمیکا ۷۰۹،۳۷۸ چک و پنیار ۳۷۹،۳۷۸ | جنبه جارج ٹاؤن جا کرنہ ( جکارتہ، جا کرتا ) ۲۵۴ چک چٹھہ جنوئے ۳۷۸ چک منگلا ۶۰۵ ،۵۹۵ ،۳۲۱ ،۲۶۵ ،۳۲ ۷۲۱ ۲۳۴ جھگیاں جنیوا جیسور ۶۰۳ ۳۵۶ ۱۶۳ ۲۸۰ ۴۵۱ ۶۳ ۵۹۲،۴۰ ۳۲۰ ،۴۰۸ ،۳۹۶ ،۸۶ ۸۵ ۸۳ جالندھر جوڑا ۴۵۰،۴۴۹،۴۰۹ | جونگ ۳۴۲ ،۳۱۰ ،۲۴۱ ، ۲۱۴ ، ۱۱۰ ،۸۱ ۶۹۸ ،۶۲۷ ،۶۰۸ ،۴۴۸ ،۳۹۰ ۶۰۵ | چک 117 مغلیاں چھور ۶۸۳ ۳۷۸ | چک 24 ۱۷۱، ۳۴۵ | چک 30 جو ہانس برگ ۶۰۳ ۶۰۳ ۴۱۴۳۳۴ چک 37 جنوبی سرگودھا ۴۱۴،۳۹ جوہر آباد ۳۶،۳۵ جامانی جاوا جرمنی ۶۰۳ جو ہر (ریاست) ۱۶ چک 38 ۲۲۵ | چک 49 جہانگیر پورہ ۶۰۳ چک 96 صریح فیصل آباد ۳۲۱ ۸۶، ۶۵۲،۶۵۱ جہلم ۴۰ ، ۹۷، ۲۷۲،۲۵۱،۲۳۱، ،۵۹۵ ،۵۹۰،۳۱۳ ،۲۸۸ ،۲۸۵ ،۳۵۳ ،۳۵۱،۱۸۷ ،۱۸۶ ،۲۹ چک 98 شمالی ۶۲۹، ۶۴۲، ۶۴۳، ۶۸۴ ، ۶۸۵ | چک 99 شمالی ۳۵۵، ۳۹۳،۳۸۲،۳۶۴،۳۵۹، جھانسی ۶۴۶ | چک 105 ٢٢٦ | چک 110 ۳۹۴، ۴۰۰، ۴۶۸، ۴۶۹، ۴۸۶ ، جھنڈا ضلع مردان ۵۹۳ ۶۱۲،۵۹۳ ۶۰۳ ۶۰۳

Page 797

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 45 اشاریہ.مقامات چک 1 13 چاٹگام چا جو بیرو چارسده چیرا چترال چنلی قبر چنتا رام چٹا گانگ ۳۹ چیچہ وطنی ۷۱ ۳۰۱ چیکوسلواکیہ ۳۸۱ چین ۴۵۷ ،۴،۲ ۳۵۰ ۲۲۵ ۵۸۳ حافظ آباد ۲۳۶ ۸۲ دانه زید کا ۴۰۶،۴۰۳،۱۷۹ دانہ ضلع ہزارہ داد و دون داد وسندھ ۳۲، ۳۸، ۴۰، ۲۴۱، ۲۶۶، ۲۸۵ ، دار البرکات (ربوه) ۲۹۲، ۳۰۹، ۴۱۴، ۶۸۹،۵۹۲ | دار البرکات ( قادیان) ۱۶۲ حسن ابدال ،۷۳ ۷۲ ۴۳۳ ،۱۶۷ ،۱۶۵ ،۱۶۳ ،۱۶۲ چر ناڑی حیدرآباد (پاکستان) ۴۴۶،۲ ،۴۶۹ ،۴۱۴،۸۷ ،۶۳،۶۰،۵۹ ۳۴۱ چڑدہ کو بان ضلع پشاور ۲۳۱ حیدر آباد دکن دار الرحمت غربی (ربوہ) ۲۸۹ ۶۱۵،۲۲۹ ۶۰۳ ۵۸۵ ۶۴۴ ۷۰۲،۳۱۸ ۵۷۴،۵۷۳،۵۷۲،۲۶۹،۲۳۴ ۶۱۴۴۹۳،۴۹۲ دار الرحمت وسطی (ربوه) ۶۵۳ دار السلام ( ٹانگا نیکا) ۳۱، ۱۶۱ چمکنی ضلع پشاور ،۶۶۸ ،۶۶۵ ، ۶۶۳ ،۴۱۱ ،۱۶۸ ،۶۷۴،۶۷۲،۶۷۱ ، ۶۷۰ ،۶۶۹ ۷۱۵،۶۸۳،۶۷۹،۶۷۷ ،۶۷۵ ۳۱۷ ،۳۰۴ ،۲۴۱ ،۲۳۴ ۸۱ چکوال ۷۳۱ ،۶۹۴ ،۶۹۲ ،۶۴۴ ،۳۲۰ ،۵۴۲،۵۴۱ ،۵۴۰ ،۳۳۹ ،۳۲۵ ۷۰۴،۶۰۳،۵۴۷ ۲۲۸ چناتن ۳۴۹ حيفا ۳۱۹، ۳۹۶ دار الصدر غربی (ربوه) جنتہ کنٹہ ۲۴۱ خ ۵۷۴،۵۷۲ چندی گڑھ ۳۸۵، ۶۹۸ | خانا والی ۶۳۰ دبئی چنیوٹ خانپور ۲۵۳ در بهنگا ۳۳۹ ۲۸۴ ۸، ۱۱، ۳۸ ۳۹ ۴۰، ۳۳۹، خورده ۳۰۶ دره شیر خان ۳۴۱ ۷۰۷ ،۶۵۰ ،۶۴۹ ،۴۵۱ ،۳۴۲ خورم گجر ( گوجر ) ۳۱۹ دولیاہ جٹاں ۳۴۱ چوزن چوہڑ کا نہ حال فاروق آباد ۴۸۱،۴۸۰ | خوست ۲۲۰ دمشق ۷۰۵،۴۰۰ خویشگی پشاور ۲۲۶ دوالمیال ۶۴۴، ۶۴۵، ۶۸۵ ۳۸، ۳۹ خیر پور ۶۰۲،۸۷،۵۹ دوی ۳۶۳

Page 798

اشاریہ.مقامات ۳۴۱ ۳۴۱ راجدھانی 46 ،۹۳ ،۸۴،۸۲،۱۴ ۲۵، ڈنمارک ۱۸۶، ۱۸۷، ۱۹۶، ۳۹۵، ۵۶۶ | راجوری ۳۷۹ راجیکی ،۲۹۱،۲۸۸ ،۲۸۳ ،۲۸۱ ،۲۷ ۷۱۵،۳۴۹ ۶۵۴ ۶۰۳ رام سوامی ،۳،۲ ۷۳، راولپنڈی ڈوڈوٹاؤن ڈوڈومہ ڈونر ڈھا کہ تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 دہلی ،۲۶۳ ،۲۴۱ ،۱۵۴ ،۱۱۵ ،۸۱ ،۷۱ ،۴۴۸ ،۳۴۲ ،۳۲۷،۳۰۳ ،۲۸۵ ۰۵۷۹ ،۵۵۵ ،۵۵۳ ،۴۹۷ ۶۹۹ ،۶۵۵،۶۵۳،۵۸۳،۵۸۰ ۳۲۷ دہلی دروازه دھرم کوٹ رندها و اضلع گورداسپور ،۳۶۵ ،۳۳۳ ،۳۱۹ ،۹۷ ،۴ ،۱۶۵ ،۱۶۴،۱۶۳،۱۶۲،۱۳۸ ،۷۴ ۲۶۰،۲۵۶ ،۵۰۳،۴۵۴ ،۴۵۳ ،۴۳۳ ،۴۳۱ ۶۴۷ ،۶۴۶ ،۵۲۸ ،۴۳۱ ،۱۸۹ ۲۸۱ ۶۸۶،۶۸۵ ،۶۴۶ ،۵۹۴،۵۶۶ ۷۰۵ ۳۳۹ ۶۵۴ ۶۰۹،۶۰۸ ۲۶۵ ،۲۰۰ ۴۰ ۱۸ ،۱۷ ،۱۶ ۶۰۳ ZIA ۴۰۰ ۳۸۰ رائے پور رائے چور را ہوالی ، تلونڈی را ہوں ( ضلع جالندھر ) رتن باغ رجوعه رحیم یارخان رضل میمن (سندھ) رکن ( سیرالیون) رنگون روٹرڈم روس ۶، ۷، ۸۲، ۱۷۹، ۴۹۷ ZIA روسینو ۲۲۹،۲۲۷ ۶۱۰ ۲۴۸ دھر یکیں تحصیل پھالیہ ڈھیری مردان دھو بیاں ( دوبیان ) ضلع مردان ڈھینگرہ ڈ ہر یوالہ داروغیاں ڈیٹرائٹ ڈیٹن ۷۱۰ ،۳۴۷ ،۳۴۶ ۲۲۹ ۳۵ ۶۰۳ ۱۲ ۷۱۰،۶۸۵،۴۸۰،۳۴۷ ، ۳۴۶ ۳۳۹ دھیرو کے چک 433 دیال گڑھ دیناج پور دیودرگ ڈارٹ فورڈ ڈا ہومی (مشرقی) ڈایا نگو ڈیرہ اسماعیل خاں ڈیرہ بابا نا تک ڈیرہ غازیخان ۲۲۸ ،۲۲۵ ڈچ گی آنا ڈسکہ ۳۵۰ ۳۵۸ ۴۰۰،۱۸۶ ۶۴۰ ،۶۳۹ ،۶۳۸ ،۶۳۷ ،۶۳۶ ۳۹ ۲۸۹ ،۲۲۸،۶۰ ،۶۳۴،۶۳۳،۶۳۲،۶۰۷ ،۲۵۵ ڈلفٹ ۳۸۰ ڈلہوزی ۳۱۱،۳۰۶،۱۳۰،۶۵ رابور ۷۲۳ ڈنکوا ۷۲۱ راج شاہی ۴۳۳

Page 799

اشاریہ.مقامات 47 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 ۷۱۷ سبا ملیشیا ۱۳ سری نگر روہڑی ۶۰۳،۶۰۰،۵۹۸ سیچه ۶۵۰،۵۵۲ ،۳۵۶ ،۳۰۵ ،۸۰ ۶۴۶ رہتک ۶۵۷ سپین ۳۱، سرینام ۶۸۸ ریتی چھلہ ۳۳۸ ۱۸۶، ۳۵۹، ۳۹۳، ۴۸۶، ۷۲۶ سکاٹون ریجاننا ۳۷۶ سٹاک ہالم ( سٹاک ہائم ) ز ۴۰۰،۳۹۶،۲۸ | سعودی عرب زنجبار سچا سودا ۳۸ سفیدوں ۳۷۶،۳۷۵،۳۷۳،۳۶۶ ۷۲۵ ،۳۵۹ ۲۵۴،۲۵۳ ،۶۶۹،۶۶۸،۶۶۴،۳۹۴ سڈ بری سکاٹ لینڈ ۶۰۳ سکار برو سکندر آباد ۵۴۷ ،۵۴۱ ،۵۴۰ ،۳۲۵ ،۲۴۱ ۱۸۶،۸۲ سکنڈے نیویا ۶۰۴،۶۰۳،۵۹۸ ، ۴۰ ۳۹ ۸۶ ۷۲۴ ۳۲۰ سلانوالی سماٹرا سمال والا کو (لائبیریا) سندھ ، ۵۸۵ ،۴۴۸ ،۸۷ ،۶۰ ۵۸۶، ۵۹۷ تا ۶۰۵، ۶۱۰ سنگا پرنا سنگاپور ۸۵ ،۸۳ ،۱۸۶،۸۵،۸۳٬۸۲،۴۲،۴۱ ، ۳۱ ،۵۹ ۶۷۰ ، ۶۷۲،۶۷۱، ۷۱۳،۶۷۷ سرحد (خیبر پختوانخواہ) ،۲۲۸،۲۲۷ ،۲۲۵ ،۲۲۴ ۲۲۳۲۱۹ ۲۲۶،۲۲۵ ۳۲۴ ،۳۱۹ ،۲۳۷ ،۲۳۶،۲۳۴ زیده ضلع مردان زیرہ (ضلع فیروز پور ) زیورچ ( زیورک) ۲۹۲،۲۵۱،۲۵۰،۲۴۹، ۶۰۵ سرخ ڈھیری ضلع مردان ،۸۴ ۱۸۷، ۳۴۴، ۳۹۶ ، ۴۰۰، ۴۰۱ سفید ڈھیری س ساپویوری سالٹ پانڈ سرکنڈا ۳۷۸ سرگودھا ۲۲۹،۲۲۷ ۲۳۵ ،۲۳۰ ۳۷۸ ،۳۶،۳۵،۳۳۳۲ ،۱۴۴ ،۶۳ ،۵۳ ،۴۸ ،۴۷ ،۳۹ ،۴۱۴ ،۳۳۹،۳۱۹ ،۲۹۲،۲۱۲،۲۰۶ ۷۲۱ ،۷۲۰ ،۷۱۹ ،۳۶۳ ،۱۶۸ ،۵۱۳ ،۵۱۲ ،۴۶۸ ،۴۵۳ ،۴۵۱ سامانه ساندھن ۲۴۱ ،۵۹۵،۵۹۳،۵۷۱،۵۷۰،۵۱۷ سانگلہ ہل سائپرس ،۶۱۲ ۶۸۳،۳۸ ۱۸۶ ܬܬܪ، ۷۰۸ ،۷۰۷ سروٹی ۷۲۷ ساؤتھ آل ۵۰۰ سری کولیا ۳۶۲ ، ۴۹۹ ،۴۱۲ ،۴۰۰ ،۳۹۳ ،۳۶۰

Page 800

۷۲۷ سیٹو (بینکاک) 48 ۸۵ شاہی بالا پیشاور اشاریہ مقامات ۱۸۶، ۳۴۹ ، شرق اوسط ۶۰۵ سیرالیون ۲۲۷ ۵۵۶،۵۱۰ ۶۰۳ ۷۱۰،۴۰۰،۳۴۷ ۲۹۲ ۳۱۲،۲۴۰،۶۵ شکار پور شکا گو شکر گڑھ شملہ شورکوٹ ضلع جھنگ شیخ محمدی ضلع پیشاور لد الد ۴۵۷، ۴۵ ۴،۲۳۰،۲۲۶ ۲۳۰ شیخان پانڈی شیخوپوره ،۳۲ ،۳۰۳،۲۶۳،۲۴۱ ،۴۰ ،۳۹ ،۳۸ ،۳۸۳،۳۸۲،۳۶۲،۳۶۱،۳۶۰ ۲۲۶ ،۴۰۰،۳۹۷ ،۳۹۶ ،۳۹۵ ،۳۹۴ ۴۵۷ ،۶۸۷ ،۶۸۶ ، ۶۲۲ ،۴۹۹ ،۴۱۲ ۹ VAA ،۷۱۲ ،۷۱۰ ،۷۰۳ ،۶۹۷ ،۶۹۶ ۸۳ ۷۳۰ ،۷۲۹ ،۷۱۹ ،۷۱۸ ،۷۱۷ ۳۵۸ ۶۲۰،۶۱۹ ،۲۲۲ 217 ۶۸۴،۱۸۶،۳۱ ۷۱۰،۳۴۷ ۷۲۳ ۷۰۴ ،۷۰۳ ،۶۸۳ ،۶۱۲ ،۴۶۹ ۲۵۵ شیر شاہ ۲۲۷،۲۲۶ ۳۳۹ ۲۴۱ ۲۲۶ ۶۰۳ ۳۳۹ شیر شاہی شیمو گا ( شیموگہ) ۶۴۳۶۴۲ ۳۶۶،۳۴۶ ۲۴۱ صالح نگر صوابی ضلع مردان ۱۸۹ تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 ،۷۲۰ ،۶۱۴ سنور سوات سورخشکی سورو سوری لنڈاں ہستی سوکانومی سوکوڈے سولی بل سوما سونگھڑ سونگیا سوئٹزرلینڈ ۳۱۶،۲۰۶،۱۸۶،۲۷، سیکھواں سیلون ۳۷۸ سینٹ کیتھرائن سینٹ لوئیس ۳۵۰ سینیگال ش شاد نگر شادی وال شام شاہ پور ۳،۲ شاه طوریه صوبہ ڈیرہ شاه مسکین ضلع شیخو پوره b-b ۲۴۹ ،۲۴۸ ۴۲۱ ۲۲۹،۲۲۷ ۲۶۵،۲۶۴۲۶۳ شاہجہان پور شاہدرہ ۲۴۱ طالب پور پنڈور ۱۰۱، ۵۸۹ طنجه ۲۲۰ طور ومردان ۷۲۶ ،۴۸۶ ،۴۰۰ ،۳۹۴ ،۳۴۴ ۶۳۱ سوہا وا سویڈن ۷۲۷ ،۴۸۶ ،۱۸۶ ،۸۴ ،۲۸ ۵۹۲،۳۰۷ ،۲۴۱ سہارن پور ولد له ولد له امله سی پی سیالکوٹ ، ۱۳۹ ،۱۲۵ ،۳۹ ۳۸ ۳۷ ۳۶ ،۲۸۹ ،۲۲۲ ،۲۲۱ ،۱۷۸ ۱۷۷ ،۵۱۶ ،۴۳۱ ،۴۱۴ ،۳۰۵ ،۳۰۳ ۵۱۷، ۶۱۶، ۶۳۰ ، ۶۸۱، ۶۸۲ شاہی باغ

Page 801

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 عدن ع ۳۳۹ 49 ۲۷۲،۲۷۱ قلعہ صوبہ سنگھ فتح پور ضلع گجرات نجی ۶۱۵،۵۱۳،۳۹۵،۳۹۴،۱۸۶ ،۳۱ ۷۰۵ ،۳۹۷ ،۳۹۴،۳۸۳ ،۱۸۶ عرب ( بلاد عربیه) فرافینی ۳۷۸ کابل فرانس ،۱۷۹، ۳۲۲، ۳۵۰، ۳۵۵ کاکس بازار ۴۰۰ کالا باغ فرانکفورٹ ۵۹، ۷۱، ۹۳، ۱۱۷، ۱۹۴، ۱۹۶، فرخ آباد ۱۹۷، ۲۹۳، ۳۵۲، ۳۵۹، ۷۰۷، فری ٹاؤن ۷۲۸ ۷۲۶ ،۷۲۵ ،۷۱۷ ۲۴۱ ۶۱ ، ۳۶۰، کالیکٹ ۳۶۲،۳۶۱، ۷۱۹،۷۱۷ کاما چوما اشاریہ.مقامات ۶۳۰،۳۹ ۲۸۸ ،۲۴۶ ،۲۱۹ ۴۷۱،۴۶۸،۳۲۲،۵۵ ۵۵۵،۱۶۱ ۳۵۰ ۳۰۰ ،۲۹۷ ،۲۴۱ ۷۱۲ ۷۱۰،۷۰۹،۳۴۷ | کانپور ۳۰ فلاڈلفیا عرب (جنوبی) عزیز آباد ۳۴۱ فلپائن علی گڑھ ۵۸۲ | فلسطین عمرے بانڈہ ضلع پشاور ۲۳۱ غ ۱۸۶ | کانول ۷۱۶،۳۹۵،۳۹۴،۳۶۶ ۸۲ ۲۶۱،۲۵۱،۲۴۹ ۶۰۵،۲۹۲ فن لینڈ غانا ( گھانا ) ۸۴، ۱۵۵، ۱۸۶، فیروز پور فیصل آباد ( لائکپور ) ،۴۵۱،۴۳۰،۳۲۲،۳۰۴،۲۰۶،۱۵ ۷۳۴ ،۶۱۲ ۵۹۵ ۵۱۷ ق قاضی خیل ہوتی قاہرہ ۲۲۷ ۶۷۱،۶۶۹ ،۱۹۷ ، ۱۹۶ ،۳۶۲،۳۵۱ ،۳۵۰،۳۴۳ ،۳۳۹ ،۳۹۵،۳۹۴،۳۸۳،۳۸۲،۳۶۳ ، ۴۹۹ ،۴۲۸ ،۴۰۰ ،۳۹۷ ،۳۹۶ ،۵۶۹،۵۶۰،۵۵۹،۵۵۶،۵۵۳ ،۷۱۹ ،۷۰۶ ،۶۹۷ ،۶۹۶ ، ۵۷۱ ۷۳۰ ،۷۲۹ ،۷۲۲ ،۷ ۲۱ ،۷۲۰ ۲۳۱ غزنی خیل ہوتی ف کبار و کا کبالا کپتائی کپورتھلہ کٹک ۳۵۰ ۳۶۲ ۱۶۲ ۲۴۷ ،۲۴۶،۲۳۹ ،۲۳۸ کٹورو کچھ بھوج ۳۵۰ ۵۹۲ کراچی ۴، ۸۲،۶۳،۵۹، ۸۶، ، ۱۹۲ ،۱۹۰ ،۱۴۵ ،۱۰۳ ،۹۵ ،۹۳ ،۳۳۰ ،۳۱۵ ،۳۰۳ ،۲۴۶ ،۱۹۳ ،۳۴۲،۳۴۱،۳۳۹ ،۳۳۴،۳۳۳ فارس ۱۶ ،۴۳۲ ،۴۳۱ ،۴۱۴ ،۳۹۰ ،۳۴۳ ۶۰۵ ،۴۱۴ ،۲۵۱ ،۵۸۵،۵۶۷ ،۵۱۵ ،۵۱۲،۴۹۳ ۲۷۰ قصور قلعہ بھنگیاں امرتسر

Page 802

کمبوڈیا کمپالہ ( کمپالا ) 50 ۱۶.کوٹھا ضلع مردان کو جو کرم ۷۲۸ ،۷۲۷ ،۶۸۳،۴۱۸ ،۳۱ ۳۵۰ کمنڈی کو چہ بھوانی داس اشاریہ مقامات ۲۲۷ ۷۲۱ ۲۲۵ ۲۲۸ کوچہ کا چ پڑاں ضلع پشاور کوچه گل بادشاہ پیشاور ۲۲۸ کو ڈالی ۱۶۱ کوریا ۴۸۰ کولمبو کولمبیا ۶۸۴،۴۰۰،۳۹۶ ۷۰۹٬۹۳،۷۵ کو نڈم بایا ۳۶۲ کوئٹہ ۳۰۵،۱۰۳،۵۹،۴۰،۴، ۳۴۹ تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 ،۶۱۹ ،۶۱۱ ، ۶۰۰ ،۵۹۹ ،۵۹۸ ،۶۹۲،۶۵۵ ،۶۵۴،۶۵۳،۶۴۸ ۷۲۵،۷۰۵،۷۰۳ کرنول ۳۳۹ کروکری ۷۲۰ کناروت را مایا کسموں کسومو ۷۲۳ کنانور ۶۷۳ ،۶۶۳ ،۱۶۸ کنیکی کشمیر ۸۰۶۴، ۱۸۸،۱۵۱، کنڈور کنری ۵۴۰،۳۰۱ ،۳۰۰،۱۶۱ ۴۸۰ ۳،۲،۱ ۶۹۵ ۳۷۶،۳۴۶ ۷۱۷،۳۴۹،۱۸۶،۸۳ ۶۸۳،۶۲۷ ،۵۹۹ ،۵۱۹ ،۴۳۳ ۷۲۳ ۲۲۵ ،۲ ۷۰۵،۵۵۷،۳۳۹ ۷۱۲ ۲۳۱ ۶۲۲ ۶۸۴،۳۹ ۲۲۲ ۳۰۶ ۱۶۳ کوہاٹ کویت کو یزی کہوٹہ کھارا کھاریاں کھٹالہ کھڑک پور کھلنا کیپ ٹاؤن ۵۶۰،۵۵۷،۳۹۶،۶۱ ۴۰۱،۳۹۵،۱۸۷، ۴۰ ۳۶۳ ۳۲۰ کنگسٹن ،۳۹۰ ،۳۵۶ ،۳۵۳،۳۰۵،۲۳۴ ،۶۴۵ ،۵۵۵ ،۴۴۹ ،۴۴۸ ۶۵۱،۶۵۰ کوالالمپور تگرالی ۶۸۶ کلاسواله ۴۱۴ کوالے کلانور کلکتہ ۲۲۶ ،۶۴،۱۵ کوپن ہیگن ،۲۹۴ ،۲۸۴ ،۲۵۶ ،۲۵۳ ،۱۹۰ کو تو گو ۲۹۵، ۳۰۶، ۳۳۹، ۵۰۵، ۵۴۰ ، کوٹ سلطان ضلع جھنگ ،۶۵۰،۶۴۹،۶۴۶،۵۵۳،۵۴۷ ۷۰ ،۷۰۰ ،۶۹۹ ،۶۹۸ ،۶۹۲ کوٹ فتح خان ضلع اٹک ۳۱، ۷۱۰،۳۴۷ کوٹ کپورا ۳۳۱،۳۲۲ ۲۲۸ ۶۰۳ ۳۶۱ کوٹ نجیب اللہ پشاور کوٹری کلیولینڈ کمارا بائی کماسی ۳۶۲، ۳۶۳، ۶۹۷، ۷۲۱،۷۲۰ کوٹلی آزاد کشمیر ۵۱۱،۳۴۱،۳۴۰،۳۳۹ ۶۰۳۶۰۰ کمال ڈیرہ

Page 803

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 کیپ کوسٹ ۷۲۱،۳۶۳ کیراله ۵۵۵٬۵۵۴،۵۴۱،۱۶۱ کیرنگ اڑیسہ کیری ہزارہ کیگاما کیلگری 51 اشاریہ.مقامات ،۳۳۸ ،۳۱۳ ،۲۶۶۲۶۴،۲۶۰ ،۵۹۷ ،۳۱۴ ،۳۰۳ ،۲۸۱ ،۲۷ ۴۸۵ ،۴۸۴ ،۴۸۳ ،۴۴۸ ۶۸۶ ،۶۸۳ ،۶۴۲ ،۶۱۷ ،۶۱۶ ۳۲۱ گومیا او هیم ۳۰۶ گجروال لدھیانہ ۲۲۹ گدیاں ۶۶۹،۶۶۸ | گریس بلتستان ۳۶۶، ۳۶۷، گریناڈا ۳۷۴،۳۷۱، ۳۷۵، ۳۷۶، ۳۷۷ گڑھی حبیب اللہ ۴۹۴ ، ۴۹۵ گڑھی شاہدولہ کیمبرج ۵۰۴ گڑھی کالا کینال پارک لاہور كينما کینیا ۳۹ گوئی ۴۰۰ لدله ۲۷۴ ۶۵۸ ۳۶۱ گکھڑ منڈی گوجرانوالہ ۳۳۳ ،۱۸۶،۱۶۸ ،۱۶۱۶ گلبرگ (لاہور) ۳۶۴،۳۱۸، ۳۸۱، ۳۹۴، ۳۹۵، گلگت ،۵۵۷ ،۴۹۹ ،۴۱۸ ،۴۱۰ ، ۴۰۹ Whh'bhh'17h477.72 کینیڈا گلو ۵۰۴ ۶۴۸ VA7 ۳۹ ۶۰۳ ۷۰۹،۳۵۲ ۴۸۴ گلوٹیاں ۷۱۰، ۷۲۲، ۷۲۳، ۷۲۹، ۷۳۰ گمبٹ ۳۶۴ ،۳۴۷ ،۲۷۰ ،۳۱ ،۱۴ گئی گوبند پور ۳۶۵، ۳۶۶، ۳۶۸، ۳۷۰، گوٹھ بوٹہ ۶۰۳ ،۴۰ ،۳۸ ،۳۲ ۳۰۹ ،۳۰۳ ،۲۶۳ ،۲۵۱ ،۲۴۱ ۳۷۴،۳۷۳،۳۷۲،۳۷۱، ۳۷۵، گوجرانواله گوہد پورسیالکوٹ لا بوان لیاں لاپاز (La Paz) لاٹھیا نوالہ لاڑائی چانڈیہ لاڑکانہ لاس انجیلیز (انجیلس) لاطینی امریکہ لا لکڑرقی لالیاں لانگو لائبیریا ۷۲۰ ۵۱۱ ۲۲۱ 771V71 لد الله 77 ۷۰۴،۵۶۷ ۶۰۳ ۶۰۳،۲۰ لده.۱۷۹ ۶۸۶ ۴۵۱،۱۷۷ VA7 ،۳۷۹ ،۱۸۶ ۷۲۴ ،۷۲۳ ،۷۱۸ ،۴۰۰ ،۳۹۴ ،۴۰،۳۷ ،۱۳،۸ ،۴،۲ لاہور ،۶۴،۶۳،۵۵،۵۲،۴۹ ،۴۶ ،۴۲ ،۹۷ ،۹۶ ،۸۶،۸۲،۷۱،۶۶،۶۵ ،۱۲۴،۱۰۹ ،۱۰۳، ۱۰۱ ، ۱۰۰ ، ۹۹ ،۹۸ ۷۱۰ ،۵۸۸ ،۳۹۱ ،۳۷۷ ،۳۷۶ ،۵۹۳،۵۹۱،۵۶۷ ،۴۶۰،۳۳۳ ۳۴۷ ۷۰۵ ،۶۵۴ ،۶۳۱ ، ۶۱۰ ،۵۹۷ ۲۲۸، گورداسپور کیونگٹن گجرات ، ۲۵۶ ،۲۴۸ ،۲۲۲،۲۲۰ ،۱۱۵ ، ۱۱۰ ،۲۷۵ ،۲۷۴ ،۲۷۳ ،۲۷۱ ،۲۴۱

Page 804

اشاریہ مقامات ۲۸۳ الد ۸۳ ۳۵۱ ۳۶۱ ۲۸۵ ۷۲۶ ۷۲۸ ،۷۲۷ ۳۶۲ لو زیلز لومت لوم لونگ سر لو ہٹ ضلع لدھیانہ لیڈن لیرا لیسٹر لیگوس لیمنگٹن سپا لیمور ۷۲۵ ،۴۱۶ ،۳۸۰ ۷۱۲ ۶۱ ۲۵۵ الدها ما چامے ماچھیواڑہ ضلع لدھیانہ ۲۶۸،۲۶۷ ماڈل ٹاؤن (لاہور) 52 ۳۸۲،۳۵۹،۱۸۶،۱۷۹،۲۹ تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 ۱۲۵، ۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۳ ، ۱۵۰،۱۴۹، | لبنان ،۲۱۲،۲۰۶ ،۲۰۰ ، ۱۶۵ ،۱۵۴ ،۱۵۱ ۲۱۳، ۲۱۵، ۲۱۶، ۲۱۷، ۲۲۲،۲۱۸ ، لدھیانہ ،۲۶۰ ،۲۵۹ ،۲۵۶،۲۴۱ ،۲۲۲ ،۲۳۹ ،۲۳۵ ،۲۳۳۲۲۷ ۲۲۳ ،۳۱۵ ،۲۸۵ ،۲۶۹ ،۲۶۸ ،۲۶۷ ۲۵۱ ،۲۴۹ ،۲۴۸ ۲۴۴ ،۲۴۳ ۶۹۹ ،۶۹۸ ،۶۰۹ ،۵۹۲ ،۳۲۱ ، ۲۶۷ ، ۲۶۵ ،۲۶۳ ۲۶۰ ،۲۵۷ 717 AL ۶۰۳ لسر لطیف آباد ،۲۹۲ ،۲۹۱ ،۲۸۰ ، ۲۷۵ ،۲۷۳ ،۳۰۷ ،۳۰۲،۲۹۶ ،۲۹۵ ،۲۹۳ ۳۰۸، ۳۰۹، ۳۱۴، ۳۱۷، ۳۱۸، لغاری ،۳۴۴،۳۳۹،۳۳۳،۳۳۲،۳۲۷ لکھنو ۶۴۷،۶۴۶،۳۰۴،۳۰۳،۶۸ ولد امها ولد ولد الد ولده له له له ۴۳۳، ۴۸۲،۴۷۰،۴۶۹،۴۶۸ ، لندن (لندن) و ۲۴۱ ،۲۱۷ ،۱۱۰ ،۸۴ ،۷۷ ۷۰ ، ۵۰۵ ،۵۰۴ ،۴۹۴ ،۴۹۳ ،۴۸۶ ،۵۶۰،۵۵۳،۵۲۹ ،۵۱۷ ،۵۱۳ ،۵۷۷ ،۵۷۰ ،۵۶۸ ،۵۶۷ ،۳۴۸ ،۳۴۷ ،۳۲۵ ،۳۱۵ ،۳۰۸ ، ۴۰۱ ،۴۰۰ ،۳۷۶ ،۳۷۴ ،۳۶۷ ،۴۹۵ ،۴۹۳ ،۴۲۷ ،۴۱۹ ،۴۱۵ ،۵۸۵ ،۵۸۰ ،۵۷۹ ،۵۷ ،۵۴۵ ،۵۰۱ ،۵۰۰ ، ۴۹۹ ،۴۹۸ ،۵۹۲،۵۹۰،۵۸۹،۵۸۸،۵۸۷ ۵۰۴۴۱۴ ، ۲۴۸ ،۲۳۹ ،۷۰۴،۶۸۳،۶۵۱ ، ۶۲۶،۵۵۷ ،۶۱۰ ،۶۰۹ ،۶۰۷ ، ۵۹۵ ،۵۹۴ ۹۳ ،۱۸۶،۳۱ ،۳۹۷ ،۳۹۵،۳۹۴،۳۵۳،۳۴۴ ۵۵۵ ،۵۴۸ ،۴۱۶ ،۴۱۰ ،۴۰۰ لنڈی ارباباں پیشاور مارٹن روڈ ۲۲۸ مار کھم ( کینیڈا) مارکھم ۲۲۷ ماریشس ۷۱۴ ،۷۱۳۷۱۲ ،۷۱۱ ،۶۳۴ ،۶۲۸ ،۶۲۲ ،۶۱۶، ۶۱۵ ،۶۴۷ ،۶۴۵ ،۶۳۹،۶۳۶،۶۳۵ ۲۳۵ ۳۴۹ ۶۵۱، ۶۵۸، ۶۸۳،۶۸۱،۶۷۸ ، لنڈی اخون محمد ۶۹۶، ۶۹۷، ۶۹۸، ۶۹۹ ، ۷۰۱، لنڈی کوتل ۷۱۲،۷۰۶،۷۰۵ | لنکونن لد76 ماسکو ۲۶۶ ۶۵۸ لنگر وال ضلع گورداسپور لاہور چھاؤنی

Page 805

53 ۵۹۳ | ملایا ۳۰۱،۳۰۰،۲۹۶،۱۵۹ | مرالی والا گوجرانوالہ ۲۲۶ ۳۵۲،۳۴۵ ۶۳۳،۶۰۹،۵۶۴ ،۳۶۵،۳۱ تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 مالا بار مالا کنڈ مالی مالیر کوٹلہ مانٹریال ۳۷۶ ،۳۷۵ ،۳۷۳ ،۳۶۷ مردان اشاریہ.مقامات ،۳۴۳ ۷۲۹ ،۷۱۶ ،۶۸۱ ، ۶۸۰ ،۳۹۴ ،۲۱۹ ،۴۰،۴،۲ ۲۲۵ ۲۲۶ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۲۹ | ملتان ۵۱ ۶۴۷ ،۶۳۴ ،۵۷۹ ،۳۳۴ ،۲۴۱ ۵۸۹ ،۲۵۷ ،۲۳۸ ،۲۳۶ ،۲۳۵ ۶۲۷ ،۲ مانچسٹر مانڈے مانسہرہ ۷۱۵ ۲۲۸ ،۴،۲ ۶۱۵ ،۳۱۷ ،۳۱۶ ،۲۳۸ ،۲۳۷ مانگ (مانک) گنج ۱۸۹ مانگٹ اونچا ۵۸۶،۲۸۵،۲۴۲،۲۴۱ میالے محبوب نگر محمود کوٹ مدراس ۲۵۵ ۳۰۱ ،۲۹۴ ،۸۱ ۳۴۶، ۷۰۷ ۷۲۷، ۷۳۱ مندرانی مروا مری ۷۲۱ | ملسیاں ۱۳۸،۴،۲ ملکانه مسا کا ۶۸۶ ،۵۹۸ ،۲۴۷ ،۱۹۱ ،۱۱۵ ۷۲۸ ،۳۸۱ مسقط مسن باڈہ ۴۰۰، ۹۹۶ ملوا کی ۲۰ ممباسه مسی ساگا مشرق بعید ۸۶ ممیانگ مشرق وسطی ۷۰۶،۴۰۰ مصر ۷۲۷ ۳۱۷ ،۲۷۹ ،۲۵۴ ،۱۸۶ ،۱۷ ۵۵۶ ۳۴۹ ۵۹۲ ۶۳۳،۶۳۲ ۷۱۰ ،۲۰۹ ،۱۷۰ ،۱۶۸ ۷۲۳،۷۲۲،۷۱۰،۴۱۸ ،۲۱۳، ۱۹۶ ۳۶۳ منٹگمری (ساہیوال) منچلگ ۲۴۱ مندرا مظفر آباد ۴،۲ منڈ وہ میلا رام ۲۲۲ ۳۳۹، ۷۰۵،۵۵۵،۵۵۳،۵۴۱ | مظفر گڑھ مدینہ ۱۹۸، ۵۳۴، ۵۶۹، ۶۳۳، ۷۲۲ | مکالی ۶۹۶ منڈی ڈھاباں سنگھ ۳۹ ۱۱۷، مکاری (بورنیو ) ۳۴۹ منروویا ۷۲۴ ۳۶۱ ،۱۵۸ ،۱۱۷ نسا کونکو منصوری ۳۷۸ ۲۹۲ ۷۲۱ ۳۵۰ ۷۲۴ مدل سیکس مراد علی چانڈیہ ۶۸۳ مکه ۷۲۲ ،۴۲۷ ،۴۲۱ ،۲۰۳ ،۱۹۸ ۶۰۳ مراد نگر مراکش Morocco ۴۲۱،۳۷۹،۳۵۹ ،۲۰،۱۹،۱۸ ۷۲۴ ،۷۲۱ ،۷۲۰ ،۷۱۶ ،۴۱۳ ۳۳۹ مکیریاں ضلع ہوشیار پور ۲۴۳ ملائیشیا منگلور منگواس موائزه موجودا

Page 806

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 54 اشاریہ مقامات موچی پورہ پشاور ۲۲۸ نائیجیریا موڑھا گل حسن موشی موگا مونگھیر مہاراشٹر ۷۲۳،۷۱۰ ،۷۰۷ ،۶۷۴،۶۷۳ ۱۶۹، ۱۸۶ ، ۳۷۹ ، ۳۸۲، ۳۹۴ ، نیلا گنبد (لاہور) ۵۹۲،۲۹۱،۲۸۰ ۳۹۵، ۳۹۶، ۳۹۸، ۳۹۹، ۴۰۰ ، نیویارک ،۵۳۱ ،۵۳۰ ،۵۲۹ ،۴۹۹ ،۴۱۶ ۷۳۰ ،۷۲۹ ،۷۲۴ ،۷۰۳،۵۳۲ ۶۱۵ ۷۱۵،۳۵۰ ۶۴۵،۶۰۵ ۲۹۵،۲۹۴ ،۲۸۴ ۵۳۳ ۳۴۷ ۷۱۰ ،۴۲۰ ،۴۱۹ ،۴۰۰ ،۳۷۵ ۶۰۳ واٹر بری ۵۳۴ واربرٹن و 21+ مہیرا کنڈیاره میانی نتھو کیر یہ ۶۰۳ نجران ۶۵۸ نرائن گنج میڈرڈ ۳۱، ۴۹۱،۴۰۰،۳۵۹ نفر مانیو میرپور ( آزاد کشمیر ) نمبا ۵۱۱،۳۴۱،۳،۲۰۱ نملی ہزار میر پور خاص ۶۰۳،۳۲ ننکانه میرٹھ ،۲۹۲ ،۲۴۰ ،۲۲۲ منگل ۱۶۴،۱۶۳ وارو ۷۲۱ واڑ اوا ہن ۷۱۸ ۶۰۳ ،۳۴۷ ،۳۴۶ شنگٹن ۷۲۴ ۷۱۰ ،۷۰۹ ،۴۸۰ ،۴۰۰ ،۳۹۶ ۲۳۰ 2.9 ۵۹۵ واگو دوگو ۷۱۴ ،۷۱۲ ۶۲۲ والسال میسور ۵۸۴،۵۸۳،۵۸۲،۲۹۳، ۵۸۵ | نواب شاہ ۱۹۰، ۷۰۵،۵۴۱،۳۲۶ نواسکوشیا میکار تھی آئی لینڈ ۳۷۹ تو ۶۰۳،۵۹،۲۰ ۳۶۴ وان وائیلنكن 217 11 واہ کینٹ ،۴۱۴ مین پوری ۲۴۱ نوده ضلع مردان مینڈی ۷۲۱ نوشہرہ ۴۵۷،۲۳۵،۲۲۶،۴،۲ ورجینیا ۵۸۰ ،۵۰۳ ،۵۰۲ ،۵۰۱ ،۴۵۴ ۲۲۷ ۳۴۶ میتران ۸۳ نوشہرہ ککے زئیاں ۳۳۲ وسطی یورپ ۴۰۱ نیا بستی ۱۲ وکٹوریہ نا دون ضلع کانگڑہ ۲۴۲ نیا نزا نارووال ۳۳،۳۲ نیروبی ۷۱۰ ولرڈ ۳۱، ۱۶۱، ولمنشک ۳۷۴،۴۲ ۴۸۰ ناروے نانوری ۱۸۶،۸۴ ۶۰۳ ۱۶۸، ۱۷۱، ۲۱۳، ۳۱۸، ۳۳۹، ولیمز یے ۳۴۷ ۳۶۴،۳۴۵، ۴۱۰ ، ۶۷۲،۵۵۷، ونڈسر

Page 807

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 55 اشاریہ.مقامات و و کنگ وولٹا ۷۲۰،۷۰۹،۳۵۰ | ہوشیار پور ،۴۱۸ ،۳۹۵ ،۳۹۴ ،۳۸۱ ،۳۸۰ ۲۳۸ ،۲۳۶ ،۲۳۱ ۲۳۰ ۲۲۷ ۴۲۷ ،۶۶۹ ،۶۶۴،۵۵۷ ،۵۵۶ ،۴۹۹ وله الدالله و ہیگا ویت نام ۳۵۲ بیگ ۷۲۹ ،۷۲۸ ،۷۲۷ ،۶۸۳،۶۷۲ ۶۹۹ ،۵۹۵ ،۴۱۹ ،۳۱۰ ۳۰۷ ۷۲۳ ۳۵۹ ۳۸۰،۸۴، یونان ویٹی کن سٹی ۷۲۶ ،۴۸۶ ،۴۸۴ ،۴۰۰ ،۳۹۷ ۵۴۶،۵۳۳ ویلز ۱۱۵ میلی ساون 217 وینکوور BC That' ی یاد گیر علاقہ میسور ،۵۴۴ ،۵۴۱ ، ۲۴۱ ،۱۹۱ ،۱۹۰ ۷۳۲ ،۷۰۵ ،۶۵۲ ،۵۴۷ ۶۲۲ ۵۶۱ ۳۷۸ یارک شائر انگلینڈ یمن مینڈوم مینکس ٹاؤن یویی یورپ ۷۱۰،۳۴۷ ۳۰۶،۲۴۱،۳،۲ ، ۱۱۵ ،۸۴،۷۵ ،۵۱ ،۳۴۴ ،۳۱۶ ،۲۷۵ ،۱۸۷ ، ۱۱۶ ۳۷۷ ،۳۷۶ ،۳۷۵ ،۳۷۴ ۷۲۶،۳۸۰ 0 ہارلم (ہالینڈ) ہالینڈ ،۴۸۶ ،۳۹۴ ،۳۹۳،۳۸۰ ،۱۸۶ ۷۲۹،۷۲۶،۵۵۷ ،۵۳۳،۴۹۹ ۵۸۸،۵۸۷ ۸۲ ۷۱۱،۶۲۲ ۳۶۰ ۶۱۷ ،۴۸۶ ،۴۸۴ ،۴۰۳ ،۴۰۱ ،۴۰۰ ہانڈ وگجر ہانگ کانگ ہڈرز فیلڈ ہر ٹفورڈ شائر ہر چو وال ہری پور ہزارہ ۴،۲، ۲۲۵، ۲۲۷ ہلنسکی ہمبرگ (ہمورگ) ، ۵۱۰ ،۴۹۲ ،۴۹۰ ، ۴۸۸ ،۴۸۷ ۷۲۶،۵۶۶،۵۵۶،۵۳۳،۵۱۱ 2.9 V7 یوٹھا (Utah) پوشویا (Ushuaia) ۴۰۰ ،۱۸۶،۱۶۹،۱۶۸،۱۶۱ یوگنڈا ۷۲۹،۷۱۵،۴۰۰،۳۵۹ ،۸۴ ،۲۹ 1777 ،۲۲۵ ،۲۱۹ ہملٹن ہوتی مردان

Page 808

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 56 کتابیات اشاریہ.کتابیات ﷺ احمد کے دعوی کی بنیاد ۲۳۱ اردو نثر میں سیرت رسول می آ.الف آپ بیتی باجوہ ۶۹۳ | احمد مدعی نبوت ۲۳۱ آثار قیامت ۲۳۲ ازالہ اوہام ۲۳۱ استحکام پاکستان ۲۳۳ | احمد موعود آج، روزنامه (اردو) ۵۴۵ | احمد جری اللہ آزاد نوجوان ، ہفت روزہ.مدراس احمدیت کا مستقبل ۱۸۸،۱۵۲ | اسلام افریقہ میں ۵۴۳٬۵۴۱ ۵۴۴ احمدیت کی فاتحانہ عظمت و جلالت اسلام اور دیگر مذاہب آشکار، روزنامه آئینہ جمال ۵۴۵ ۳۹۹،۳۸۵،۱۸۸،۱۵۲ آئینہ کمالات اسلام ۳۲۵،۲۱۵،۱۸۸،۱۱۲،۱۱۱،۷۷ آه ! نادرشاه آیت خاتم النبین کی تشریح اب یا رب ابلاغ حق ۲۳۳ ۳۱۳ ۳۱۴ ۲۲۲ ۲۱۶،۱۵۱ ۳۲۸ ،۲۷۴ ۱۵۲ ۱۸۸ ۱۸۸ ۱۴ اسلام اور غلاموں کی آزادی ۱۵۲ ۱۸۸ | اسلام اور غلامی احمدیت کیا ہے احمدیت یعنی حقیقی..احمدیہ جنتری احمدیہ گزٹ.زیورچ احمدیہ گزٹ.کینیڈا اخبار الجمعیۃ.دیلی اخبارالجمہوریہ.قاہرہ ۵۴۱،۱۸۷ اسلام اور کمیونزم ۶۸۹ ۳۹۶ ۳۹۱ ۵۸۰ ١٩٦ اسلام ترقی کی شاہراہ پر اسلام کا اقتصادی نظام ۱۸۸ ۱۸۸ ۱۸۸ ۳۹۹،۳۵۹،۱۸۸ اسلام میں بیاہ اور شادی ( ناشر کینیا مشن) ۷۲۲ اسلامی اصول کی فلاسفی ۷۷، ادبی دنیا اجمل ، روزنامه بمبئی ۵۴۵،۸۰ ۵۱۲،۶۴ اجیت، روزنامه - جالندھر ۴۴۸ | اردو انسائیکلو پیڈیا (ناشر فیروز سنز لمیٹڈ) ۱۵۲ ۱۵۲ اردو ٹائمنر، روزنامه ۲۱۳ ۵۴۵ اردو جامع انسائیکلو پیڈیا ( غلام علی ۷۳۲،۷۰۳،۳۹۹ ،۳۵۹ ،۱۸۷ ۷۳۱،۵۶۶ اسلامی معاشرہ اسمائے الہی ۴۳ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں اچھی تربیت کا ذریعہ اچھی مائیں احسان، اخبار احمد کا کام ۲۳۴ اینڈ سنز) ۵۷۸،۲۱۳ اشتراکیت اور اسلام احمد کی پاکیزہ زندگی ۲۳۱ اردو عربی بول چال ۳۸۰ اشتراکیت اور جمہوریت ۱۸۸ ۱۵۲ ۱۸۸

Page 809

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 اشتہارات ( تردید انجمن اشاعت الحکم.قادیان اسلام پیشاور ) اشتہارات ( تردید غیر مبائعین ) 57 اشاریہ کتابیات النبوۃ فی الوحی والالهام ۳۲۵،۲۳۱ ۲۱۶، ۲۱۸، ۲۲۴، ۲۳۴، ۲۷۴ ، الوصیت ۱۵، ۱۸۷،۷۷، ۲۰۹، ۲۳۲ ۳۲۸ ،۳۲۷ ،۳۲۴ ،۲۸۸ ،۲۷۹ ،۶۵۱،۶۲۳،۵۸۹ ،۵۸۷ ،۳۲۹ ۲۳۲ ۷۳۲،۶۹۱ ، ۶۳۶ ،۶۳۵ ،۳۹۹ الوصیت (انگریزی) ۱۸۷ ۷۳۱ ۲۱۸ ۱۵۱ ۲۳۱ ۲۱۳ اشتہارات ( تردید مولوی کفایت ۶۶۰ ۶۶۱، ۶۶۲، ۶۹۱۷۶۸۹ امام مہدی کا ظہور ۲۳۲ الخاتم ، ماہنامہ ۷۱۲ امت واحده العصر ( ۳۹۶،۳۴۶ کیپ ٹاؤن (۳۴۶، ۳۹۶ امتحان پاس کرنے کے گر ۱۵۴ حسین شیعه) اصحاب احمد جلداول اصحاب احمد جلد پنجم ۳۲۸، ۳۸۶ اصحاب احمد جلد ہشتم اصلاح، اخبار.سری نگر الفرقان ( قاضی محمد یوسف) الفرقان، ماہنامہ.ربوہ امتیاز ۲۳۴ امروز، روزنامه انا جیل کا یسوع اور قرآن کا عیسی ، ۲۱۶ ،۲۱۲ ،۱۵۴ ،۱۵۳ ،۱۱۰ ، ۴۶ ،۶۷۸ ،۵۸۱،۴۶۸ ،۳۲۷ ،۲۱۷ ۲۳۱ ۶۱۸ ۲۹۸،۲۹۲،۲۶ اطلاعات، روزنامه تهران ۶۵۴ اظہار حقیقت ۳۱۴ انجام آتھم انجیل الاسلام (پشتو) ۲۳۳ الکاویہ علی الغاويه ۵۷۹،۴۶۴ انڈین ایکسپریس، روزنامه الاسلام (عربی.عدن) ۳۹۷ المحراب.جماعت احمدیہ کراچی الاعلام ۲۱۸ ۶۹۲ انسان کامل البشرى (برما) ۳۹۷ البشرى (حيفا) ۵۴۵،۵۴۲ ۲۳۲ ۵۴۰ ۴۳ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا المسيحيت والا سلام المصلح، پندرہ روزہ.کراچی ۲۵۴ انصاراللہ، ماہنامہ.ربوہ ٣٩٦ لمصل البشرى (جنوبی افریقہ) ۳۴۶ البشرى (ربوہ) ۳۳۱،۳۲۸ المقالات القدسيه في الافاضات الاحمدیہ ۳۱۴،۳۰۷، ۳۲۸ انقلاب، اخبار ۶۹۱،۲۱۵،۲۱۳ ۵۴۵ البصیرت، ماہنامہ.بریڈ فورڈ ۷۱۱ المنبر.لائلپور ۷۳۴،۲۱۲۵۰ انگریزی تفسیر القرآن التبليغ التقيد والخبر الصحيح عن قب المسيح الحجة البالغة قبر ۱۸۷ الموعود في القرآن ۲۳۳ ۳۹۷،۳۸۴ ۷۳۲ ۲۳۱ انوار ہدایت ۳۱۴ النبوة في الاحاديث ۱۵۱ النبوة في القرآن ۲۳۱ اولاد کی فکر کرو ۱۵۲

Page 810

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 58 اشاریہ.کتابیات اہالیان چکوال سے خدا اور اس کے بحث ما بین توحید و تثلیث ۴۳ تاریخ احمدیت جلد ہشتم رسول کے نام پر دردمندانہ اپیل بدر درویشان قادیان نمبر اہل حدیث، اخبار ۶۹۰ ۳۲۶،۲۰۹ ۷۳۱ براہین احمدیہ ۲۴۳، ۴۷۰،۴۶۷ تاریخ احمدیت جلد نهم ۷۳۱ | تاریخ احمدیت ضلع چکوال ۶۴۹ برقع اہل بمبئی کے نام حق کا پیغام ۱۵۱ بشارات رحمانیہ ایڈمنٹن جرنل ۳۷۵ بمبئی سما چار، روزنامه ایسٹ ایفریقن ٹائمنز.کینیا بھیم پتریکا ، اخبار ۳۳۰،۳۲۹ ۵۴۵ 11.۲۱۸ ۶۹۴۶۹۲ تاریخ جماعت احمد یہ ضلع ڈیرہ غازی خان مختصر ۶۳۷ ۱۹۹، ۱۷۱، ۱۷۲، ۲۱۷، ۲۱۸، ۳۴۵، بے پردگی کے رجحان کے متعلق تاریخ احمدیت ضلع کراچی ۳۹۰ ۶۷۳ جماعتوں کو مزید انتباه کومزید ۱۵۲ بے نقط قصیده ۴۷۹ | پاکستان ٹائمنر.لاہور ایک اور تازہ نشان ایک سواحادیث نبویہ کا منتخب مجموعہ ایک غلط فہمی کا ازالہ ایک غلطی کا ازالہ ۲۳۱ ۱۵۳ ۳۱۴،۲۹۰ ،۴۸۲،۴۲۰،۲۱۵،۲۱۳٬۸۲،۱۸ ۷۰۶،۵۸۰،۵۷۸،۴۸۳ تاریخ احمدیت ضلع لاہور ۳۲۵ ۶۹۰،۶۸۹،۳۲۸،۳۲۷ ،۳۲۶ تاریخ احمدیت جموں و کشمیر تاریخ احمد یہ سرحد ۵۸۰،۳۹۰ ۳۲۵،۳۲۴،۲۳۲ ۷۷، ۳۹۹، ۴۵۹، ۴۶۰ ، ۴۶۷ ، پریم سنها ۷۳۲،۴۷۱،۴۷۰ پشتو دیوان احمدی ایک مبارک نسل کی ماں پشتو کا قاعدہ ایمان کی باتیں ۷۳،۳۸۹ پشتو لغات ۷۳۲ پیغام قائد سرگودھا ایہہ پاک زمانہ آیا ۳۱۴ پیغام صلح (کتاب) ۴۴۶ ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۴ ۵۳،۴۷ ۷۳۲ پیغام صلح، پندرہ روزہ.لاہور ۱۰۹، تاریخ اقوام کشمیر تاریخ بنی اسرائیل قلمی تاویل المتشابہات تبلیغ ہدایت ۲۳۴ ۳۱۴ ۱۸۸ ،۱۵۱ ،۱۴۹ تجربات ہیں جو امانت حیات کی ۲۱۲ ۷۳۱ ۷۳۲،۷۷ ۲۱۷ بابی اور بہائی مذہب بائیل ۵۷۸ ،۴۲۷ ،۲۳۶ ،۲۳۳ ،۲۱۵ ۱۸۸ ۳۵،۲۸،۶ تجلی قدرت تجلیات الهیه ۴۶۵، ۵۷۹ تابعین اصحاب احمد جلد سوم ۳۸۷ تحدیث نعمت بحار الانوار |

Page 811

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 تحریف بائیبل اور مسیحی علماء ۳۸۸ تریاق القلوب 59 تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین تسہیل العربیہ ۲۷۶، ۳۲۷ تفخیذ الاذہان ، ماہنامہ تحفہ بغداد تحفہ گولر و یه IAL ۲۵۲ تصدیق امسیح والمهدی ۲۱۵،۱۱۲ ۶۱۵ | جام وحدت ج اشاریہ.کتابیات ۳۱۳ ۲۳۲ جماعت احمد یہ اور احرار ۶۲۶،۶۲۵ جماعت احمدیہ اور انگریز ۱۸۸ ۱۵۱ جماعت احمدیہ سے متعلق غلط فہمیوں | تحفة النوت ۲۳۳ تصدیق ایج.جھوک مهدی والی کا ازالہ (از مولانا ابوالعطاء) تحفة المشتاقين تحقیق عارفانه ۳۱۴ ۷۳۱ تذکره ۵۸۱،۵۷۹،۳۲۸،۲۱۶، ۶۹۱ ۲۳۴ تطهیر الاولیاء تعبیر اسلام تعمیر ، اخبار راولپنڈی تفسیر القرآن (انگریزی) ۳۱۳ ۷۳۱ ۵۷۹ جماعت احمدیہ کے متعلق غلط فہمیوں ۱۸۸ | کا ازالہ (از مولانا جلال الدین شمس) ۳۸۷ جماعت اسلامی کا ماضی اور حال تذکرہ آل عمر تذکرہ شعرائے پنجاب تذکره خوشیه ۳۹۷،۳۸۴ | ۷۳۱ ۳۳۰۳۱۴ تفسیر القرآن ( غیر مطبوعه ( ۲۳۴ جماعتی تربیت اور اس کے اصول ۲۵۲ تذکرہ مجاہدین ختم نبوت ۵۷۹ تذكرة الحسن ۲۳۱ تفہیمات ربانیہ تقدیر الهی تقریریں ۷۳۱ ۱۵۲ ۱۸۸ جمیعت العلماء برما اور ہم ۳۴۸ ۲۳۲ مسیح کے متعلق نئے انکشافات تذکرۃ الشہادتین ۵۷۸،۵۵۴، تقویم عمری ۵۸۱ تنظیم اہلحدیث.لاہور (Latest findings about ۳۲۸ ۵۴۶،۵۴۰ Jesus) | ۵۲ ۶۲۵ تذكرة المهدى ۲۱۶ تنقید بر اشتہار یوم الدعاء ۲۳۲ جنگ مقدس تذكرة النبي من جانب رضاء الله توحید باری تعالیٰ ۳۱۴ جنگ اخبار ۴۹۳،۶۴ تین چیلنج درباره شیعه ۲۳۳ تذکرۃ النبی منجانب خان بہادر محمد دلاور خان ۲۳۲ جواب حقائق قرآن چ ۲۳۳ ٹریبیون، اخبار.لاہور ۲۴۴ چالیس جواہر پارے تردید کتاب کلمه فضل رحمانی ۲۳۲ ٹیچنگ آف اسلام ۵۴۶،۵۴۱ ۲۳۲ ۳۹۸،۲۱۶،۱۸۷،۱۵۲

Page 812

اشاریہ.کتابیات ۲۳۲ تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 چٹھی مسیح چشمه توحید 60 رفقائے کرام پیر کوٹ ثانی ضلع ۳۱۴ حافظ آباد ۶۸۹ خالق الطيور خ چشمه عرفان بجواب تحریک قادیان حضرت مسیح موعود کے متعلق چند خاتم النبیین کے معنی چشمه مسیحی چشمه معرفت ۶۶۲ اصولی باتیں ۷۷ حق ، اخبار ۱۵۱ | (انگریزی) ۶۷۶۴ خالد ، ماہنامہ.ربوہ LL حقیقت چندوں کے متعلق جماعت کی اہم حقیقی اسلام ذمہ داری چہل احادیث ۱۸۸ ،۴۰۵ ،۲۱۷ ۲۱۶ ،۲۱۳ ،۱۵۳ 72 ۵۸۱،۵۷۷،۵۲۰ ۱۵۳ ۱۵۲ ۱۵۲ حقیقت اسح مع حقیقۃ الیسوع و مطاع خاندانی منصوبہ بندی ۴۷۹ | نبی ۲۳۲ ختم نبوت کی حقیقت ۱۸۸،۱۵۲ چیلنج انعامی یکصد روپیه درباره نبوت حقیقۃ الوحی ۱۸۸،۱۱۲،۷۷، | خروج الدجال ۲۱۶، ۲۴۸ ، ۲۴۹ خروج دابتہ الارض ۲۳۱ چیلنج درباره انقطاع نبوت ۲۳۲ حکومت وقت اور احمدی....۳۸۸ | خروج یا جوج ماجوج こ حیات احمد (اردو) ۳۲۸ خطاب به بنی اسرائیل ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۴ حجۃ اللہ البالغۃ ۳۰۷ حیات احمد ( عربی ترجمه ) ۱۸۸ | خلاصه عقیده احمدیہ (اردو) ۲۳۲ حدیث المهدی حضرت احمد کا فرمان ۶۴۶ حیات بشیر ۲۳۲ ۱۱۱، ۱۱۶، خلاصه عقائد احمدیہ (فارسی) ۲۳۳ ۱۵۳، ۱۵۴، ۲۱۶، ۲۶۲، ۷۳۱ خواجہ کمال الدین کے پانچ سوالوں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیماری اور حیات بقا پوری ہمارا فرض ۱۵۲ حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات مقدسہ حیات قمر الانبیاء ۲۳۱ حیات طیبہ حضرت محمد علی ۴۳ حیات قدسی ۶۸۹،۶۰۷ کا جواب ۲۳۲ خیر خواہان پاکستان کے نام در دمندانہ ۷۳۲٬۱۵۵،۱۵۴ | اپیل ۱۸۸ دافع الوساوس , ۱۵۲ ۱۱۲ ۲۳۴ ۱۸۸ ۲۳۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم ۲۷۷، ۲۷۸، ۲۹۰، ۳۰۷ ، ۳۱۴، در منشور الشان کام ۷۳۱ ۳۲۸، ۳۲۹، ۳۳۰، ۶۷۶ در منثور (انگریزی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حیات نور ۳۸۵ در عدن (اردو)

Page 813

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 61 اشاریہ.کتابیات در عدن (پشتو) ۲۳۳ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ رپورٹ مجلس مشاورت 1945 ء در عدن (فارسی) ۲۳۲ بابت سال 20-1919 ۳۲۴ در مکنون دعوت الامیر ۱۸۸،۱۵۲ ۳۹۹ ،۱۸۷ ۶۹۲ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ رپورٹ مجلس مشاورت 1963ء بابت سال 32-1931ء ۳۲۹ ۳۹۲،۲۰۹ دعوت الایمان ”ہماری تعلیم ۱۵۲ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ رپورٹ مجلس مشاورت 1964 ء دعوت الی الحق ٣٠٣ دلائل قرآنیه بروفات عیسی ناصری دنیا کا محسن د و در جن چیلنج دورخی وفاداری کا سوال دیباچہ تفسیر القرآن ڈھولا احمدی ۲۳۳ ۱۸۸ ۲۳۲ ۱۵۲ ۳۹۹،۳۹۷ ،۱۸۸ ط ۳۱۴ ڈیلی اسٹینڈرڈ.نیروبی ۳۶۴،۲۱۳ بابت سال 43-1942ء ۳۰۶ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ رجسٹر روایات جلد 03 رجسٹر روایات جلد 06 بابت سال 64-1963ء ۷۳۴،۳۹۲،۳۹۰ رجسٹر روایات جلد 07 رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ بابت سال 65-1964ء ۷۳۴،۵۸۱ رجسٹر روایات جلد 10 رجسٹر روایات جلد 11 رپورٹ ہائے سالانہ صدر انجمن احمد یہ یکم مئی 1964ء تا 30 اپریل ۵۷۸ ۶۸۹ ۳۲۶،۳۲۵ ۳۲۵،۳۲۴ ۶۹۰ ۲۴۹ ۲۳۲ رجسٹر روایات جلد 13 $ 1967 ۵۸۰ رسالہ احمد ڈیلی ٹائمنر ذکر اردو رپورٹ مجلس مشاورت 1927 ء ۵۳۲ رسول اللہ کی ایک سو منتخب احادیث ۳۲۹ ز ۷۳۲،۵۸۰،۵۱۵ ریورٹ مجلس مشاورت 1928 ء رقيمة المواسات ۶۸۹،۵۹۷ | رنگیلا رسول رپوٹ جلسہ مہوتسو ( مذاہب عالم ) رپورٹ مجلس مشاورت 1936ء روح الله ۶۲۵ ۶۸۹ | روح القدس رپورٹ صدرانجمن احمد یہ رپورٹ مجلس مشاورت 1938 ء | روحانیت کے دوز بر دست ستون ۳۱۴ ۶۴۰ ۲۳۲ ۲۳۲ قادیان 10 - 1909 ۲۹۲ ۶۹۲ ۱۵۲

Page 814

اشاریہ.کتابیات 62 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 روزے کے مسائل ۷۲۷ سلطان، اخبار.سرگودھا روشنی ، ہفت روزہ سرینگر روئیداد جلسه خلافت جو بلی رہبر.بہاولپور ریاض احادیث النبی ریویو آف ریلیجنز ۸۰ ۳۲۴ ۵۳ ش سلک اسیر فی نظم الدرر (صفی اللہ ) شعله، اخبار.سرگودھا ۵۷۹ | شہدائے حق ۱۷ ۳۹۸،۱۸۷ ۵۸۴،۲۳۴،۱۶۹،۱۵۳،۱۱۴،۷۶ زمیندار ز ۵۹۸ ،۵۷۷ ،۲۳۳ زنده خدا پر ایمان اور اس کے اثرات ۷۳۱ سلک مروارید سواحیلی ترجمۃ القرآن سودیشی ریل ۲۵۲ ص ۵۳ ۲۳۲ ۵۷۹،۳۲۷ ۱۶۸، ۶۷۵،۱۷۰،۱۶۹ | صدق جدید ، ہفت روزه ۶۴ سہاگ نامه احمدی ۳۱۳ | صيانة الصالحين سیارہ ڈائجسٹ، ماہنامہ لاہور ۷۰۶ ض ضرورة الامام سید نا حضرت محمد اور قیام امن ضمیمہ انجام آتھم ۲۳۲ ۲۳۲ ۲۰۹،۱ ۲۳۱ ۳۹۹ ۶۱۸ ،۳۲۶ ضمیمہ تحفة النبوۃ ابلاغ حق ۲۳۳ ۶۶۲ ۲۱۲ ،۵۱ ۶۷ ۲۳۲ ۲۳۳ ۲۳۲ س سابق مفتی مصر کے نام نہاد فتوی کی ساٹھ منتخب احادیث نبویہ کا مجموعہ 2M ۴۸۰ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ،۲۱ ،۳۸ ،۳۷ ،۳۶،۳۵،۳۴،۲۶،۲۲ سیدنا حضرت محمد الله سیر روحانی سیرت النبی سیرت خاتم النبین ۱۸۸ ۷۲۷ ۱۵۲ ۱۵۱ سیرت طیبہ ( صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ) ۳۹۹،۱۵۲ طبی نسخہ جات طوفان، اخبار طوفان فسم b と عاقبة المكذبين سیرت نصرت جہاں بیگم ۲۱۸ سيرة المهدی ۱۵۲،۱۵۱ ۵۷۸،۲۳۴،۱۵۳ عذاب اور رسول عرضداشت ۴۶ تا ۵۸، ۷۷ ۳۲۳،۸۰، ۳۹۹ سرپنچ ، اخبار ۶۴ سیرت سرور ۳۲۸ | عقاب ، ہفت روزہ.سرگودھا ۱۵۲ ۶۲۵ سیلاب کی تباہ کاریاں سرمه چشم آرید سلسلہ احمدیہ ۱۵۲ ۱۵۳ سینارا سلام ، انڈونیشیا ۳۹۶ عقائد احمدیہ ۲۱۲،۵۳،۴۸ ۲۳۳،۲۳۲

Page 815

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 63 اشاریہ.کتابیات عید کی قربانیاں ۱۵۲ فیضان نبوت عیسائیت قدیم بت پرستی کا چربہ قادیانی لعل عیسایت قدیم یہودیت کا چربہ ۲۳۴ قاطع الانف الشیعہ ۲۳۲ ۳۱۴ قرآن کریم ترجمه سواحیلی ۳۹۷،۳۶۰ ۳۱۴ قرآن کریم ترجمه فرانسیسی ۲۳۲ عیسائیت کی اصلیت ۲۳۲ قاعده سیسرنا القرآن ۳۵۸ قرآن کریم ترجمہ فینٹی عیسائیوں کے نام ایک خط ۲۳۲ | قاموس ۵۷۸ ۳۹۷،۳۶۰ ۳۹۷ قرآن کریم ترجمه ککامیه ۳۹۷ غ غالب کون ہوگا اشتراکیت یا اسلام تبریح ۵۴۶،۵۴۳،۵۴۰ قرآن کریم ترجمه گویو ۳۹۷ قبول احمدیت کی داستان ۷۳۱ قرآن کریم ترجمه گور لکھی ۳۹۷ ف ۱۵۲ قبول اسلام کی دعوت کا سپاسنامہ قرآن کریم ترجمہ اور ۵۴۶ قرآن مجید ترجمہ لو گنڈا ۳۹۷ ۳۶۰ ۳۹۷ فاروق قادیان ۲۳۴، ۳۰۵ قرآن کریم ترجمه امیلین ۱۸۷ قرآن کریم ترجمه ملائی فتاوی احمدیہ (انگریزی) قرآن کریم ترجمه اطالوی ۳۹۷ قرآن کریم ترجمہ مینڈے ۳۶۰ ۳۹۸ قرآن کریم ترجمه انگریزی قرآن کریم ترجمه ولندیزی فتح مبین فتح اسلام فتح، ہفت روزہ.دہلی ۲۳۲ ۳۴۸، ۷۱۹،۷۰۳،۳۹۷ قرآن کریم ترجمہ ہسپانوی ۳۹۷ ۵۹۲ قرآن کریم ترجمہ انڈونیشین قرآن کریم ترجمه یوروبا ۴۴۸ ۳۹۷ فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں قرآن کریم ترجمہ پرتگالی ۳۹۷ قیادت، اخبار ۵۷۷ قرآن کریم ترجمہ ڈچ ۳۹۷ ۳۴۸ قرآن کریم ترجمہ ڈینیش کا من احمدی فتوی مصریه (بر مامشن) ۳۴۸ فری پریس بلیٹن ، روز نامہ ۳۹۷،۳۶۰ ۵۴۵،۵۴۳ ۳۱۳ ۳۶۰،۱۸۷، ۳۹۷ کامیابی کی راہیں (چارحصص) ۷۳۲ ۵۴۵،۵۴۳ فضائل القرآن ۵۸۱ فضیلت حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ بر جمیع انبیاء ۲۳۳ قرآن کریم ترجمه روسی ۳۹۷ کتاب الحیات ۲۳۱ قرآن کریم ترجمه جرمن کچھ باتیں کچھ یادیں اور ریگ رواں ۳۹۷،۳۶۰ ۳۹۰،۲۱۴ قرآن کریم ترجمه سپینش ۱۸۷ کراچی تاریخ احمدیت ۳۹۰

Page 816

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 64 کرزن گزٹ.دہلی کشتی نوح کشتی نوح (پشتو) ۵۸۷،۵۶۸،۳۹۹،۷۷ لائف آف محمد ۳۸۵ کشتی نوح ( سواحیلی ) ۷۲۲۶۶۳ لائف.امریکہ کشتی نوح ( فرانسیسی) كشف الحقائق بجواب حقائق القرآن ۲۵ اشاریہ.کتابیات محمد اور عورتوں کے نجات دہندہ لائف آف احمد ۳۹۹ ۱۸۸ مختصر مسائل نماز ۴۸۰ ۵۴۶،۵۴۱،۳۹۹،۱۶۹ مدینه ریاضی ۶۸۸ ۳۴ مراٹھا ، مرہٹی روزنامه ۵۴۵،۵۴۳ ۱۸۸ لاہور، ہفت روزہ لاہور ۴۲ ۴۶ ، مرقع قادیانی رساله ۲۹۹ ۲۱۲،۲۰۶،۵۵، ۲۵۱،۲۱۸ | مرکز احمدیت قادیان میں احمدی لغات لین ۳۱۴ لیکچرنجات ۵۷۸ ۶۸۹ ۱۵۱ خواتین کی قربانیاں مسلم ہیرلڈ.انگلستان ۶۵۱ ۳۹۷ مسلمانوں کا مطالبہ پاکستان اور اس کے مقابل پر تقسیم پنجاب کا سوال ۱۵۲ کشمیر کے حالات کفر توڑ کلام محمود كلمة الفصل ۲۳۲ ۵۶۸ ۱۵۱ مابدولت ماسٹر نظام الدین کے نام چیلنج ۲۱۳۶۴ ۲۳۲ ماسٹر نظام الدین کے نام دوسرا چیلنج ۲۳۲ کھلا خط بنام مولوی ثناء اللہ ۲۳۲ مسئلہ جنازہ کی حقیقت ۱۵۲ مباحثه احمدیان و غیر احمدیان امرتسر مسیح کشمیر میں ۱۸۸ مباحثہ لاہور ۳۱۴ ۳۱۴ مسیح کہاں فوت ہوئے (انگریزی) ۵۴۶،۳۵۶ مجلس انصار اللہ کا قیام.ذمہ داری مسیح نے کہاں وفات پائی (انگریزی) ۱۵۲ ۵۴۰ مجلة الجامعة ۶۹۷،۷۷ مجموعہ اشتہارات ۲۱۶،۲۱۵ مجھے میرامذہب کیوں پیارا ہے سیح ہندوستان میں مشرق ، روزنامہ.لاہور ۵۴۶،۵۴۰،۳۹۹،۱۸۷،۷۷ ۲۳۱ ۵۸۰،۴۹۳ مصباح، ماہنامہ ۲۳۲ ۲۳۲ ۲۳۲ ۲۳۲ ۳۹۷ ۳۱۳ ۳۱۴ ۱۵۱ محمدی بائبل میں فیٹی زبان) ۷۲۱ ۷۳۱ کیا یسوع بے گناہ تھا کیا یسوع خدا تھا کیا یسوع خدا کا بیٹا تھا کیا یسوع نبی تھا گائیڈ مینس.غانا گلدسته احمدی گلدسته رسالت گلدسته عرفان گورونانک جی کا گورو

Page 817

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 مضامین بشیر مطاع نبی 65 ۱۵۳ مولوی منظور احمد چنیوٹی سے مطالبہ نیرنگ خیال.لاہور ۲۳۳ ۲۰۹ نیویارک ٹائمنر و ۲۳۲ وجود باری تعالیٰ مطالبات بر ہانیہ ۲۳۳ میر مدثر شاہ صاحب کا مذہب خلاف مطیع نی ۲۳۴ حضرت احمد اشاریہ.کتابیات مظالم قادیان کا خونی روز نامچہ ۱۵۲ میر مدثر شاہ صاحب کے دو مذہب ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ مظهر العجائب مقام محمود ۲۳۴ ۲۳۲ وفاة اسح ( مفصل) ۷۳۲ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ۱۸۸ وفات حضرت عیسی ناصری مقامات النساء فی حدیث سید الانبیاء مقامات النساء ۳۹۸ ۱۸۸ ۶۶،۶۴ ۴۱۹ ۱۸۸ ۱۵۲ ۲۳۴ ۲۳۳،۲۳۱ نبوت مسیح موعود ۳۱۴ وفات مسیح میں حیات اسلام ہے نبیوں کا چاند مکتوبات اصحاب احمد جلد اول، دوم | نجم الہدی ۷۳۱ ،۱۵۴ نزول ایج ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر ۴۰۴ نزول اسیح (پشتو) ۷۳۲،۱۵۵ ۷۳۲ ۷۳۱ وکیل، روز نامه اخبار امرتسر ۲۵ ۲۱۶ وہ پھول جو مرجھا گئے ۶۹۳،۶۹۰ ۲۳۳ ملفوظات (۲۰۹، ۵۰۴،۲۱۷، ۵۷۹ نصیحت نامه بطرز سہاگ ۳۱۴ ہزاری ملوا کی جرنل روزنامه امریکہ ۲۰۹ نظام بیت المال ۳۸۸ ہمارا آقا ممباسه ٹائمنر ۲۱۳، ۷۲۳،۴۱۸ نظام نو مناظرہ یاد گیر ۷۳۲،۱۹۱،۱۹۰ نقش کو کن ، ماہنامہ متن الرحمن مواہب الرحمن ۷۳۲،۳۹۹ ۵۹۱،۱۸۷ ۵۹۱ ۳۸۴ ۳۹۹ ہماری تعلیم (انگریزی) ۱۸۷ ۵۴۵ ہماری تعلیم (پشتو) ۳۸۵ نواں ہندوستان، روزنامہ.دہلی | ہماری تعلیم (لوگنڈا زبان) ۷۲۷ موجودہ عیسائیت کا تعارف ۳۸۸ نوائے وقت، روزنامه موضوعات کبیر ۵۷۹ مولوی محمد علی صاحب کا موجودہ مذہب نور الحق خلاف احمد آخر زمان ۲۳۱ نہج الطالبين ۴۴۸ ہمارے بیرونی مشن ۱۸۸٬۸۴ ۴۸۲،۲۱۲،۲ ۱۸۸ ہمدم اخبار متحدہ ہندوستان ۶۴ ہندوستان ، روز نامہ.بمبئی ی ۵۴۵،۸۰ مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر قرآن ۲۳۲ یسوع اور آسمان نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں ۱۵۲ | یسوع اور تثلیث ۲۳۲ ۲۳۲

Page 818

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 22 یسوع اور صلیب ۳۹۶ ۲۳۲ 99 66 Inde waagsched 9A Active Islam | ۳۹۷ (ڈچ.ہیگ) Islam ۵۷۹ اشاریہ.کتابیات The All India reporter The Holy Quran with English Translation Islam and Slavery | (Swedish) ( ٹرینیڈاڈ ) Ahmadiyyat | ۱۵۲ and Commentry ۳۸۴ The life History of Sh.Kaluta Amri Abedi ۳۹۶ Islam na uhuru wa watumwa ۱۵۲ Ahmadiyyat in the Far East ۷۳۲ ۶۹۳ Islam: Its Meaning An Ahmadiyya ۳۹۶ کولمبو The Message for Modern Man Muslim ۷۳۴ The Message of the Le Message ۴۱۶،۳۹۷ An interpretation of Quran ۵۷۸،۴۲۱ Menklabe Alblascer Islam ۱۸۸ The Muslim Sunrise Waad ۳۹۸ واشنگٹر Berner Tagblatt ۳۹۶ Mundo negro ۴۰۰ ، ۵۷۷ روز نامہ.سوئٹرز لینڈ The Preaching Of (میڈرڈ) ۴۹۱ Beneficient ۷۳۲ Islam ۷۳۲ Pikiran Rakjat The Propagation Of Daily Mail اخبار.بنڈ ونگ ۸۴ Islam ۷۳۲ فری ٹاؤن ۳۶۰،۶۱ Schweizer Evangelist نائیجیریا The Truth Daily Service ۴۰۰ نائیجیریا (Der Islam (German | دار السلام )SundayNews ۵۳۰ Two Pillars Of ۶۹۳۶۶۹ Spirituality ۱۵۲ The Toronto Star Tanganyeka News ۳۷۴ چٹا گانگ | ۶۶۵ The True Islam The African Crecent Two Adresses سیرالیون ۷۳۲ ۳۹۶ زیورچ ۳۹۶ Eastern Examiner ۱۶۳ Favours of the انگلستان Globe ۶۴

Page 818