Tarikh-eAhmadiyyat V21

Tarikh-eAhmadiyyat V21

تاریخ احمدیت (جلد 21)

1960 کے متفرق مگر اہم واقعات سے 1962 کے اختتام تک
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین کا آغاز حضرت مصلح موعود ؓ کی خصوصی تحریک اور روحانی توجہ کی بدولت جون 1953ء میں ہوا۔ اور اس کی پہلی جلد دسمبر 1958ء میں سامنے آئی۔ اس وسیع پراجیکٹ پر کام جاری و ساری ہے۔ مؤلفہ جلد ۱ تا ۲۱ : دوست محمد شاہد ۔ ایڈیشن 2007ء قادیان۔ مؤلفہ جلد ۲۲ تا ۲۸۔۔۔ نوٹ: اس ایڈیشن میں جلدنمبر 1 اور 2 کو ایک جلد (یعنی جلد نمبر 1) میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح جلد نمبر 3 نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 2 ہے ۔ اسی طرح نئے ایڈیشن میں باقی سب جلدوں کے نمبر پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ایک نمبر پیچھے ہے۔ اور چونکہ جلد نمبر 20 پرانے نمبر کے مطابق ہے، اس لیے  جلد نمبر 19 نہیں ہے۔


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد نمبر 21 1960ء کے متفرق مگر اہم واقعات سے 1962ء کے اختتام تک مؤلفہ دوست محمد شاہد

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ تاریخ احمدیت کی جلد نمبر ۲۱ سلسلہ احمدیہ کے ۱۹۶۰ء تا ۱۹۶۲ء کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے.یہ جلد بھی حضرت مولانا مولوی دوست محمد صاحب شاہد کی ہی مرتبہ ہے جو ان کی زندگی میں طبع نہیں ہو سکی تھی.اس عرصہ کے اہم واقعات میں گیمبیا اور آئیوری کوسٹ میں احمد یہ مشن کا قیام.نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کا اجراء.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی جنرل اسمبلی کی صدارت کے علاوہ متعدد جلیل القدر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام.حضرت صاحبزادمرزا شریف احمد صاحب.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اور سیٹھ عبداللہ الہ دین حیدر آباد دکن کی وفات شامل ہیں.۳۰_۴_۲۰۱۱

Page 3

صفح ۶۱ ۷۵ ۸۲ AL ۹۲ ۹۲ عنوان پہلا باب (فصل اول) ۱۹۶۰ء کے متفرق مگر اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود کی تقاریب مسرت نونہالان احمدیت کے اعزاز اور شاندار کامیابیاں فہرست مضامین تاریخ احمدیت جلد ۲۱ صفحه غانا لائبیریا سیرالیون نائیجیریا مشرقی افریقہ عنوان جماعت احمدیہ درباری شاعر ریاست پٹیالہ کی نظر میں ۵ کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ ) حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا دورہ مشرقی پاکستان حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب فاضل ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان ربوہ میں محترم صاحبزادہ مرزا و تیم احمد صاحب کا سفر جنوبی ھند حیدر آباد دکن میں سالانہ تبلیغی جلسے علامہ نیاز فتح پوری فضل عمر ڈسپنسری کراچی میں اہم شخصیات کو دینی لٹریچر کا تحفہ جموں میں کامیاب جلسہ ایک نایجیرین صحافی کے تاثرات تحریک احمدیت علامہ نیا فتچوری کی نظر میں فصل دوم بیرونی مشنوں کی سرگرمیاں انگلستان جرمن.ڈنمارک سکنڈے نیویا سوئٹزرلینڈ آسٹریا ہالینڈ مغربی افریقہ ۶ 2 Δ ۹ 1.۱۱ ۱۳ ۱۵ امریکہ آسٹریا ڈچ گی آنا انڈونیشیا برما مجاہدین احمدبیت کی روانگی اور آمد نئی مطبوعات حواشی دوسرا باب گیمبیا مشن کا قیام $1961 فصل اوّل جماعت احمد یہ سیرالیون کی سالانہ کانفرنس جمال عبد الناصر صدر جمہوریہ مصر کی خدمت میں مکتوب مشن کی داغ بیل کے لئے مرکزی مبلغ کی روانگی تبلیغی مساعی کا با ضابطہ آغاز ۲۰ حضرت مولانا غلام احمد بد و ملہوی صاحب کی گیمبیا میں آمد ۲۳ ۲۷ ۳۱ ۹۴ ۹۴ ۹۸ ۹۸ < < 1 ۱۰۲ ۱۰۴ ١٠٩ = HV Σ ١١٦ ١١٩

Page 4

عنوان دوسرے مجاہدین احمد یت گیمبیا حضرت خلیفہ ایسیح الثالث کا انقلاب آفریں دورہ نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم گیمبیا میں میڈیکل سنٹر صفحہ } ۱۲۲ ۱۲۴ عنوان قریشی محمد افضل صاحب کا اور ود اور سرگرمیاں لوکل معلمین کی تیاری صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا کامیاب دورہ مشن سے تعلیمی ادارے ۱۶۶ ۱۶۸ ۱۶۸ ۱۷۰ احمد یہ نصرت ہائی سکول بانجل کے ابتدائی کوائف ۱۲۶ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تشریف آوری (1970ء ) ۱۷۰ ۱۹۷۳ء تا ۱۹۸۲ء تک کے مرکزی مبلغین N ۱۲۷ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا گیمبیا میں خطاب ۱۲۸ چو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے روح پرور پیغامات سالانہ جلسوں پر رسالہ الاسلام" گیمبیا (اجراء 1979ء) جدید ہسپتال کا سنگ بنیاد ہائی سکول کی دس سالہ تقریبات نئے احمدیہ ہسپتال کی تعمیر خلافت رابعہ کے اوائل میں نمایاں سرگرمیاں وکیل اعلیٰ تحریک جدیدر بوہ گیمبیا میں جلسہ سالانہ برطانیہ اور چین کے مناظر حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کا پیغام مجلس شوری کے لئے تبلیغی مراکز مشہور جماعتیں تبلیغی اثرات لبنان میں اشاعت احمدیت ۱۲۸ ۱۳۳ } } ۱۳۳ ۱۳۳ ۱۳۴ ۱۳۴ ۱۳۹ ۱۳۹ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۱ مشن کی ترقی خلافت رابعہ کے دور میں پہلا جلسہ سالانہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع" کا اظہار خوشنودی فصل سوم سیرالیون کے جشن آزادی میں مرکزی نمائندہ کی شرکت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا دورہ یورپ ۱۷۵ IZA IZA ۱۸۰ 1^2 مخالف عناصر کا ایک نا روا پراپیگینڈا اور اس کا مسکت جواب ۱۸۸ انجمن اتحاد المسلمین کی ایک معروف شخصیت کی جیل میں بیعت تربیت اولاد سے متعلق زبر دست انتباه فصل چهارم تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کا قیام یورپ کے احمدی مبلغین کی کامیاب کانفرنس ۱۴۲ حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کا وصال ۱۹۰ ۱۹۲ ۱۹۴ ۲۰۵ ۲۱۶ اوصاف حمیدہ اولاد ۲۲۰ حضرت مصلح موعود کے دو خصوصی پیغامات بسلسلہ دعوت الی اللہ ۲۲۱ ۲۲۵ ۲۲۷ ۲۲۹ جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی پر عیسائی حلقوں کا اضطراب مولانا نیاز فتح پوری کی نظر میں حضرت مسیح موعود کی برگزیده شخصیت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجالس خدام الاحمد یہ راولپنڈی ۱۴۲ ۱۴۷ ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۵۷ ۱۶۱ ۱۶۳ حضرت مصلح موعود کا پیغام ماریشس کے احمدیوں کے نام حضرت مصلح موعود کا پیغام ”نظام الوصیت“ سے متعلق مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء نگران بورڈ کا قیام اور اس کے اہم فیصلہ جات فصل دوم احمد یہ مشن آئیوری کوسٹ کا قیام ابتدائی سرگرمیاں

Page 5

۲۹۷ ٣٠٢ ٣٠٢ ۳۰۹ ۳۱۳ ۳۱۴ ۳۱۵ ۳۱۶ ۳۱۶ ۳۱۷ ۳۱۷ ۳۲۱ ۳۲۳ ۳۲۵ ۳۲۸ ۳۲۹ ۳۳۰ عنوان عنوان ۲۳۰ جلیل القدر رفقاء مسیح موعود کا انتقال ابوالبشارت حضرت مولانا عبد الغفور صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا افتتاحی خطاب تیسرا باب بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ پاکستان حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا بصیرت افروز خطاب بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکز یہ پاکستان حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ذکر حبیب پر معرکہ آراء تقریر بر موقع جلسه سالانه ۱۹۶۱ء خیر پور ڈویژن کی مجالس انصار اللہ کے نام حضرت مصلح موعود کا پیغام جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۶۱ء حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام جلسہ سالانہ کی ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۴ ۲۳۴ تالیفات.اولاد حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ( سابق ہریش چندر ) عهد درویشی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے تاثرات شاندار علمی خدمات مقدس تقریب پر جامعہ احمد یہ ربوہ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب فصل پنجم ۲۳۵ ۲۳۸ تاریخی مضامین اولاد سید محمد فاضل شاہ صاحب ( پنجوڑیاں تحصیل کھاریاں ضلع گجرات) حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا انتقال ۲۴۰ سید محمد علی شاہ صاحب کا ٹھ گڑھی ہجرت پاکستان کے بعد خدمات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے تاثرات ۲۴۷ حضرت ڈاکٹر حافظ بدرالدین صاحب ایم بی بی ایس ۲۴۸ چوہدری خوشی محمد صاحب آف کریام مقیم را ہوالی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے تاثرات ۲۵۴ ضلع گوجرانوالہ اخلاق و شمائل حضرت مصلح موعودؓ سے والہانہ عشق مبارک اولاد فصل ششم جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۶۱ء ۲۵۷ حضرت چوہدری غلام محمد خاں صاحب گرداور قانونگو ۲۶۴ حضرت ملک عبد الغنی صاحب کنجاہ ضلع گجرات ۲۶۶ حضرت ماسٹر مامون خاں صاحب سابق ڈرل ماسٹر ہائی سکول قادیان حضرت مستری عبدالسبحان صاحب (لاہوری) درویش حضرت مولوی محمد علی صاحب راعی حضرت مصلح موعود کی املاء کردہ تقاریر حضرت مرزا بشیر احمد حضرت میاں محمد یوسف صاحب اپیل نویس صاحب کی زبان مبارک سے ایمان افروز افتتاحی تقریر کامتن متن اختتامی خطاب حواشی ۲۶۷ آف بگٹ گنج مردان (سرحد) ۲۶۷ حضرت چوہدری غلام محمد صاحب بی اے ۲۷۴ میاں چراغ دین صاحب مددگار کار کن مدرسه احمدیه ۲۸۸ ۳۳۲ ۳۳۲ ۳۳۷ چوہدری ودھاوے خاں صاحب متوطن شریف پوره امرتسر ۳۳۷

Page 6

عنوان حضرت منشی نور محمد صاحب آف قادیان حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب آف خود پور مانگا بزرگ خواتین کا وصال مختصر تعارف ضلع لاہور محتر مہ امتہ اللہ بیگم صاحب مختصر تعارف عنوان صفحہ ۳۳۸ مہتہ عبد الخالق صاحب کی سعودی عرب میں مخلصانہ خدمات ۳۵۸ ۳۳۹ ۳۴۱ ۳۴۱ انگلستان جرمنی سکنڈے نیویا بیرونی مشعوں کی تبلیغی سرگرمیاں سوئٹزرلینڈ و آسٹریا ہالینڈ سپین.امریکہ.غانا نائیجیریا ۳۶۰ ۳۶۰ }}} محترمہ سکینہ بی بی صاحبہ مختصر تعارف محتر مدامتہ الکریم صاحبہ مختصر تعارف محترمه حاکم بی بی صاحب مختصر تعارف بعض مخلصین احمدیت کا ذکر خیر محترم شیخ عبدالخالق صاحب نومسلم فاضل عیسائیت سیٹھ عبدالقادر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ لا بوان بور نیو میر محمد ابراہیم صاحب سابق پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ پسرور حواشی چوتھا باب 1961 ء کے متفرق مگر اہم واقعات ۳۴۲ ۳۴۲ ۳۴۵ سیرالیون لائبیریا ۳۴۶ مشرقی افریقہ شمالی بور نیو ۳۴۶ ماریشس ۳۴۷ انڈونیشیا نئی مطبوعات حواشی خاندان مسیح موعود میں اضافہ اور خوشی کی تقاریب پانچواں باب ولادت.نکاح نونہالان احمدیت کی نمایاں کامیابی اور شاندار اعزاز ہندوستانی جماعتوں کی طرف سے اہم شخصیات کی خدمت میں لٹریچر ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۳ جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں پر ایک مشہور سکھ کے تاثرات ۳۵۳ جنوبی ہند کی جماعتوں کا دورہ مرکزی وفد کا دورہ اڑیسہ و بہار انڈین باسکٹ بال ٹیم کی ربوہ میں آمد رنگ محل مشن ہائی سکول لاہور کے اساتذہ ربوہ میں ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۷ ۳۵۸ $1962 فصل اوّل حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب کا وصال قبول احمدیت اور انقلابی دور کا آغاز قابل رشک اخلاص اور مثالی شمائل عظیم الشان جماعتی خدمات تالیفات اور دیگر مطبوعات ہفتہ الوصیت مجلس مشاورت ربوہ 1962ء ۳۶۶ ۳۷۱ ۳۷۱ ۳۷۵ ۳۷۹ ۳۷۹ ۳۸۰ ۳۸۴ ۳۸۶ ? ? ? } ۴۰۵ ۴۰۸ ۴۰۹

Page 7

عنوان مرکز احمدیت ربوہ میں شعبہ رشتہ ناطہ کا قیام مباہلہ سورو ( اڑیسہ) دعائے مباہلہ کا رقت انگیز منظر احمدی مباہلین پر افضال ربانی عدوان احمدیت غضب الہی کی زد میں مولانا نیا ز صاحب فتحپوری کا حقیقت افروز بیان مشرقی پاکستان میں مرکزی وفد وفد کی کامیاب دینی سرگرمیاں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کاور و دکلکتہ اور پراثر خطاب احمد یہ بیت الذکر سر گودہا کی تعمیر اور انصاف پسند پریس صفحہ عنوان ۴۱۳ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا ۴۱۴ سفر ٹرینیڈاڈ وٹو بیگو ۴۱۴ بیت احمد یہ کلکتہ کی تعمیر ۴۱۶ سوئیٹزرلینڈ کے ایک ممتاز اخبار کا روح پرور تبصرہ ۴۱۸ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۴۲۴ صدر جنرل اسمبلی ۴۲۶ مولانا عبد الماجد دریا بادی کا زبر دست خراج تحسین ۴۲۷ پاکستان کی عزت افزائی نئے اراکین اور ان کی اہمیت ۴۳۰ غیر جانبداری پرزور عالمی عدالت کے فیصلوں کے احترام کی ضرورت ۴۳۰ پاکستان میں عیسائیت کی سرگرمیاں اور جماعت احمدیہ ۴۳۵ اقوام متحدہ کے پریس کو خراج تحسین حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام ضلع ملتان کے احمدی دوستوں کے نام عہدہ سنبھالنے کی تقریر ۴۳۶ مشکل ایجنڈا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے حج بدل ۴۳۸ امریکی پریس کارد عمل صفحہ ۴۶۶ ۴۷۲ ۴۷۴ ۴۷۷ ۴۸۵ ۴۸۶ ۴۸۷ ۴۸۸ ۴۸۹ ۴۹۲ ۴۹۵ ۴۹۹ ۵۰۰ ۵۱۱ ۵۱۳ ۵۱۷ ۵۱۸ ۵۲۰ جامعہ احمدیہ میں رو عیسائیت کی ٹریننگ کا خاص انتظام ۴۴۱ پاکستانی پریس کا اظہار مسرت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام تربیتی کلاس کے نام ۴۴۳ صدر پاکستان کا خراج تحسین ربوہ میں دارالاقامہ النصرت کا قیام حضرت امام جماعت احمدیہ کا برقی پیغام صدر پاکستان کے نام خدام الاحمدیہ کراچی کے نام دو اہم پیغامات ۴۴۴ ایجنڈا کے مراحل کی خوش اسلوبی سے تکمیل اسمبلی کی کارروائی کا کامیابی سے اختتام ۴۴۶ نمائندہ پاکستان ٹائمن“ کی خصوصی رپورٹ ۴۴۷ وسیع پیمانہ پر لٹریچر کی اشاعت حضرت چوہدری محمد حسین صاحب کا قیام انگلستان ۴۴۸ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا سالانہ اجتماع حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا با برکت سفر یورپ صدر مملکت پاکستان کا اہل ربوہ کی طرف سے پر جوش خیر مقدم مسیح الزمان کی صداقت کا چمکتا ہوا نشان ۴۵۱ سے آخری خطاب حضرت مصلح موعود کا پیغام خدام الاحمدیہ کے نام ۴۵۹ خدام الاحمدیہ کے ہال کا سنگ بنیاد ۴۶۱ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی جاپان میں احمد یہ اسلامک ریسرچ گروپ کا قیام ۴۶۱ بصیرت افروز تقریر سرگودہاڈ ویژن کے احمدی نوجوانوں کے لئے اہم پیغام ۴۶۴ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور حضرت مصلح موعود لجنہ بیدار

Page 8

کا ولولہ انگیز پیغام عنوان حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا پر معارف خطاب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ریکارڈ شدہ پیغام اجتماع انصار اللہ 1962 ء اور حضرت مصلح موعود کا ایمان افروز پیغام نصرت ہائر سیکنڈری سکول کی افتتاحی تقریب صفحه عنوان ۵۲۱ حضرت چوہدری غلام سرور صاحب نمبردار ۵۲۱ ۵۲۲ چک 1-2-55 اوکاڑہ حضرت مرزا مہتاب بیگ صاحب انچارج درزی خانه قادیان حضرت میاں جان محمد صاحب پوسٹ مین قادیان ۵۲۳ حضرت قاری غلام مجتبی صاحب چینی متوطن رسول پور ۵۲۶ ضلع گجرات صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کا تاریخی مکتوب ۵۲۷ حضرت سید فقیر محمد صاحب کا بلی (افغان) مرکز میں تاریخی میوزیم کمیٹی کا قیام ۵۲۸ حضرت خلیفہ عبدالرحیم صاحب جمونی کتاب مذہب کے نام پر خون کی اشاعت ۵۳۷ حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب آسنور شاندار تبصرے افریقہ میں جماعت احمدیہ کا تبلیغی جہاد اور امریکہ کے ایک مسیحی لیڈر جلسه سالانه قادیان پیغام حضرت مصلح موعود پیغام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب غیر مسلم صحافی کے تاثرات پاکستانی زائرین کا مقدس قافلہ جلسہ سالانہ ربوہ پیغام حضرت مصلح موعود افتتاحی.اختتامی دیگراہم کوائف ایک معزز غیر احمدی مبصر کی رپورٹ سنگ بنیا د دفتر وقف جدید سیمینار نظارت اصلاح و ارشاد 1962ء میں جلیل القدر رفقاء کا انتقال فصل دوم ۵۳۷ ضلع اسلام آباد کشمیر بعض دیگر مخلصین جماعت کا ذکر ۵۴۱ شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی ۵۴۳ محمد لطیف صاحب آف جاسکے چیمہ ۵۴۳ مولوی ممتاز احمد صاحب مربی سلسله ۵۴۵ ڈاکٹر محمد احمد صاحب آف عدن ۵۴۷ ۵۴۹ ۵۵۸ ۵۶۶ ۵۶۶ ۵۶۹ ۵۷۰ ملک عزیز احمد صاحب کنجاہی میاں عبدالرحیم صاحب فانی محترم عبد القادر صدیقی صاحب حیدر آباد دکن خلیفہ صلاح الدین احمد صاحب چوہدری عطا محمد صاحب ریٹائر ڈ تحصیلدار 1962ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود میں اضافہ اور خوشی کی تقاریب ولادت.نکاح احمدیوں کے نمایاں اعزازات اولین احمدی بھکشو مبلغ حضرت حکیم اللہ دتہ صاحب در گانوالی ضلع سیالکوٹ ۵۷۲ بھارت کی اہم شخصیتوں کی خدمت میں پیغام حق حضرت پیر محمد عبداللہ صاحب ہاشمی گولیکی گجرات ۵۷۹ اور لٹریچر کی پیشکش صفحہ ۵۷۹ ۵۸۲ ۵۸۴ ۵۸۴ ۵۸۵ ۵۸۷ ۵۹۱ ۵۹۳ ۵۹۸ ۵۹۹ ۵۹۹ ۵۹۹ ۵۹۹ ۶۰۰ ۶۰۱ ۶۰۲ ۶۰۳ ۶۰۳

Page 9

صفحه ۶۲۶ ۶۲۶ ۶۳۱ ۶۳۳ ۶۳۷ ۶۳۸ ۶۳۸ ۶۴۰ ۶۵۲ ۶۵۲ ۶۵۱ ۶۴۸ ۶۴۶ 후후 ㅎㅎㅎ ۶۵۳ ۶۵۴ عنوان جناب حمید نظامی کی المناک وفات جماعت احمدیہ کی خوبیوں پر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار پرتاپ سنگھ کا تبصرہ نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد جماعت احمدیہ کی مساعی صدق جدید لکھنو کی نظر میں آرو.علاقہ رانچی میں تبلیغ احمدیت مکرم مولوی بشیر احمد صاحب فاضل کا دورہ اڑیسہ محکمہ تعلیم کے افسران کی ربوہ میں آمد احمدی حجاج ڈیرہ غازیخاں کے مصیبت زدگان کے لئے جماعتی مدد صاحبزادہ مرز اوسیم احمد صاحب کا سفر حیدر آباد اسلامی اصول کی فلاسفی کے ملیالم ترجمہ پر مالا بار کے مشہور اخبار ”دن پر بھا“ کا تبصرہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے متعلق نوائے وقت کی رائے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی طرف سے طلبہ کو تعلیم الاسلام کالج میں بھجوانے کی تحریک دار الرحمت وسطی ربوہ کی بیت الذکر کا سنگ بنیاد پنجاب مہا بیر دل کانفرنس بٹالہ میں اور جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں فصل سوم صفحه ۶۰۷ امریکہ غانا 99 ۶۰۹ نائیجیریا ۶۱۱ ۶۱۱ سیرالیون لائبیریا ۶۱۲ مشرقی افریقہ ۶۱۲ ۶۱۴ ۶۱۵ ۶۱۵ ٹانگانیکا عنوان ایک روسی آفیسر تک پیغام حق یوگنڈا کینیا ۶۱۵ معزز افریقن مسلمانوں کا اعتراف ۶۱۶ ۶۱۷ ۶۱۸ ۶۱۸ ۶۱۹ جنوبی افریقہ شمالی بور نیو ماریشس سنگاپور انڈونیشیا مبلغین کی آمد ورفت نئی مطبوعات حواشی ۶۲۰ ۶۲۲ ۶۲۳ ۶۲۴ ۶۲۵ انگلستان جرمنی بالینڈ برٹش گی آنا کینیڈا

Page 10

تاریخ احمدیت 1 جلد 21 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود پہلا باب فصل اوّل 1960 ء مطابق 1339 ھش کے متفرق مگر اہم واقعات تاریخ احمدیت کی اکیسویں جلد کا آغا ز سید نا حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کے موعود اور مقدس خاندان کی پُر مسرت تقریبات 1960 ء سے ہو رہا ہے.ان تقریبات کی اہمیت اللہ جلشانہ عز وجل کی ان بشارات سے ظاہر ہے جو اس قادر وتوانا نے اپنے موعود سیخ کو دیں.آپ فرماتے ہیں:.خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا...تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.ازاں بعد حضرت اقدس نے 1899ء میں تحریر فرمایا." خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا..میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے یہ تفاول کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہاں کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.سال 1960 ء بھی ان الہی بشارتوں کا منادی بن کر طلوع ہوا.اس سال میں اس مقدس خاندان میں اضافہ بھی ہوا اور نکاح شادی کی تقریبات نے پوری جماعت کو خوشیوں سے ہمکنار بھی کیا.

Page 11

تاریخ احمدیت 2 جلد 21 خاندان حضرت مسیح موعود کی تقاریب مسرت : اس سال خاندان مسیح موعود کے بوستان میں کھلنے والے نئے پھول اور نکاح: ولادت: نکاح 1.سارہ امتہ الحفیظ صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب (3 فروری 1960ء) 2.امتہ النور صاحبہ بنت پیر معین الدین صاحب (24 مارچ 1960 ء) 3.ابراہیم احمد منیب صاحب ابن سید میر محمود احمد صاحب ناصر ( 17 مئی 1960ء) 4.امتہ الواسع ندرت صاحبہ بنت سید میر داؤ د احمد صاحب (13 گست 1960ء) 5.صاحبزادی شوکت جہاں صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ( 13 اگست 1960 ء ) 6.صاحبزادہ فرخ احمد صاحب ابن صاحبزادہ عباس احمد خان صاحب ( 16 اگست 1960 ء) 7.صاحبزادی در نشین صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب (11 نومبر 1960ء) 8- سید مشہود احمد صاحب ابن محترم سید میر مسعود احمد صاحب ( 3 دسمبر 1960ء) 9 مرزا نعمان احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا نسیم احمد صاحب (23 دسمبر 1960 ء ) 1.2 جنوری 1960ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے مرزا حنیف احمد صاحب کا نکاح ہمراہ سیدہ طاہرہ بیگم صاحبہ ( بنت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب) مبلغ ایک ہزار روپیہ حق مہر پر پڑھا اور 12 نومبر 1960 ء کو تقریب شادی عمل میں آئی.2.17 فروری 1960ء کو محترم سید کلیم اللہ شاہ صاحب کی شادی سعیدہ عصمت صاحبہ بنت میجر اسلم خان صاحب سے ہوئی.26-3 دسمبر 1960ء کو خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے صاحبزادہ مرز اخلیل احمد صاحب کا نکاح اسماء طاہرہ صاحبہ ( بنت مولوی عبدالباقی صاحب ایم اے جنرل مینیجر سندھ جننگ اینڈ پر لینگ فیکٹری کنری) کے ہمراہ گیارہ سو روپیہ حق مہر پر پڑھا اور حضرت مصلح موعود نے دعا کرائی.4.27 دسمبر 1960ء کو قصر خلافت میں خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس

Page 12

تاریخ احمدیت 3 جلد 21 نے صاحبزادہ مرزار فیق احمد صاحب کا نکاح سیدہ فریدہ صاحبہ ( بنت سید عبدالجلیل شاہ صاحب) سے گیارہ سور و پیہ حق مہر پر پڑھا.حضرت مصلح موعود نے دعا کرائی.نونہالان احمدیت کے اعزاز اور شاندار کامیابیاں : 1.نائیجیریا کے مخلص احمدی سر بیما بالا صاحب ملکی انتخابات میں کامیاب ہو گئے.2 تعلیم الاسلام کالج کے طارق باجوہ صاحب اور محمود جمالی صاحب یو نیورسٹی باسکٹ بال ٹیم کے لئے منتخب ہو گئے.3.آل پاکستان گورنمنٹ کالج سرگودہا کے انٹر کالجیٹ مباحثہ میں تعلیم الاسلام کالج یونین کے مقر رعبدالسمیع صاحب ابن مولانا ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب فاضل نے دوسرا انعام حاصل کیا.-4 امسال بھی تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی ٹیم کشتی رانی کے یونیورسٹی ٹورنا منٹ میں چیمپئین قرار پائی کالج مسلسل گیارہ سال تک یہ اعزاز حاصل کرتا رہا.5.گورنمنٹ کالج میرپور کے آل پاکستان انٹر کالجیٹ اُردو اور انگریزی مباحثوں میں تعلیم الاسلام کالج کے مقرر عبدالسمیع صاحب انگریزی مباحثہ میں اول اور اردو مباحثہ میں دوم رہے نیز محی الدین صاحب اکبر انگریزی مباحثہ میں سوم اور نعیم احمد صاحب نے اردو میں چوتھی پوزیشن حاصل کی.6.صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب نے پاکستان ریڈ کراس کے سیکرٹری جنرل صفدر علی خان صاحب کو ان کی سنہری خدمات کے صلہ میں ستارہ خدمت کا خطاب عطا فر مایا.7.چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ سیالکوٹ بارایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے.8.جامعہ نصرت ربوہ کی طالبہ مبشرہ مسلمی صاحبہ ( بنت اخوند ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب سندھی ) ثانوی تعلیمی بورڈ اُردو کے سالانہ مقابلہ مضمون نویسی میں اول رہیں اور یکصد روپیہ انعام کی حقدار پائیں.9 ارشد محمود احمد صاحب ( ابن قریشی محمد احق بسمل صاحب) سیکنڈ پروفیشنل بی ڈی ایس کے امتحان یو نیورسٹی میں اول اور سلیم الدین اختر صاحب ( ابن مکرم چوہدری علیم الدین صاحب آف چنیوٹ) دوم قرار پائے.10 - لطیف احمد خان صاحب ( ابن حضرت صوفی غلام محمد صاحب) طالب علم گورنمنٹ ہائی سکول پارہ چنار میٹرک میں 686 نمبر لے کر فرنٹیئر ریجن کے تمام مدارس میں اول رہے.11.پشاور کے احمدی جوان مبشر احمد صاحب میٹرک میں پشاور یونیورسٹی میں دوم اور مبارک احمد

Page 13

تاریخ احمدیت 4 جلد 21 صاحب نے چھٹی پوزیشن حاصل کی.12.چوہدری منور احمد صاحب ابن چوہدری ظفر علی صاحب بی اے (صدر جماعت احمدیہ گکھڑ منڈی) نے سیکنڈ پروفیشنل ایم بی بی ایس کے امتحان میں یونیورسٹی میں پانچویں اور ان کی بہن فہمیدہ صاحبہ نے ایم اے سوشیالوجی (SOCIALOGY) میں چوتھی پوزیشن حاصل کی.13 مكرم عرفان الحق صاحب (ابن محترم جناب ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب لاہور ) پنجاب یو نیورسٹی کے ایم اے اکنامکس کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول رہے.14 محترمہ طاہرہ نسرین صاحبہ بنت نثار احمد صاحب فاروقی بی ایس سی کے امتحان میں 500 میں سے 430 نمبر حاصل کر کے پشاور یونیورسٹی میں نہ صرف اوّل آئیں بلکہ نیاریکارڈ قائم کیا.15.چوہدری محمد سلطان اکبر صاحب ربوہ ایم اے عربی کے امتحان میں یو نیورسٹی میں سوئم ہے.16 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے طالب علم جناب حمید احمد خان صاحب ( ابن خان عبد الحمید خان صاحب آف ویرووال ) پری میڈیکل ایف اے کے امتحان میں بورڈ میں اول قرار پائے اور اعجاز الحق قریشی صاحب (ابن مکرم عزیز احمد قریشی صاحب ضلع مظفر گڑھ) نے آرٹس گروپ میں دوسری پوزیشن حاصل کی.17.ولی الرحمن صاحب ( ابن میجر ڈاکٹر محمد عبد الرحمان صاحب) پشاور یونیورسٹی سے ایف ایس سی نان میڈیکل کے امتحان میں 458 نمبر لے کر دوم رہے.18 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے ناصر احمد صاحب پروازی ( فرزند اکبر مولانا احمد خان نیم سابق مجاہد بر ما ناظر اصلاح وارشاد مقامی ربوہ ) ایم اے اُردو میں یو نیورسٹی میں دوم رہے.19.جامعہ کی والی بال کی ٹیم نے چیمپئن شپ جیت لی.20.ثانوی تعلیمی بورڈ سرگودہا کے تحت تعلیم الاسلام کالج ربوہ نے باسکٹ بال کی چیمپئن شد جیت لی.21 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے آل پاکستان کالجیٹ انگریزی مباحثہ میں ٹرافی جیت لی.22.جناب ملک برکت اللہ صاحب نے ایف ای ایل کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی اور گورنر پاکستان ملک امیر محمد خان صاحب نواب آف کالا باغ سے گولڈ میڈل حاصل کیا.

Page 14

تاریخ احمدیت 5 جلد 21 جماعت احمد یہ شاعر در بار ریاسٹ پٹیالہ کی نظر میں : ریاسٹ پٹیالہ کے درباری شاعر محمدنذیر احمد صاحب نے مدیر الفضل“ کے نام مکتوب لکھا کہ ”جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت قائم کی ہے جس کا کام محض تبلیغ اسلام ہے.علماً وعملاً تبلیغ اسلام.احمدی فرقہ نہیں بلکہ ایک جماعت کا نام ہے.جو مرزا صاحب کے بتائے ہوئے طریق پر چل کر دین کی روشنی دنیا کے مختلف اور دور دراز علاقوں میں پھیلا رہی ہے.یہ راستہ بہت صبر آزما اور بے حد کٹھن ہے.....مرزا صاحب کے بارے میں میرا اعتقاد یہ ہے کہ ایسی عظیم المرتبت شخصیت کا اپنے آپ کو محمد رسول اللہ کا غلام کہنا اور اپنی اس غلامی پر فخر کرنا اس کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے.محمد عربی کے اس عظیم الشان امتی نے بعض ایسی روشن دلیلیں دنیائے مذہب کے سامنے رکھدی ہیں کہ جن کی موجودگی میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے سورج اور چاند کی درخشانی اور تابانی دنیا کے مختلف آب و ہوا ر کھنے والے علاقوں میں شرک اور کفر کی ظلمت سے بھرے ہوئے دلوں کی تاریک فضاؤں کو منور کئے بغیر نہیں رہ سکتی.ایسے جوابی دلائل جو اس زمانہ کے معترضین (الاسلام ) کو ساکت کر سکیں.یقیناً احمدیوں کے سوا کسی دوسرے فرقہ یا جماعت کے پاس موجود نہیں احمدی لٹریچر بھی مفید ہے لہذا بہتر اور مناسب تر امر یہ ہوگا کہ دامے درمے نہ سہی کم از کم قدمے سخنے ہی احمدی مبلغین اسلام کی مدد کی جائے اور اس سلسلہ میں کسی مسجد ضرار کی بنیاد قائم نہ فرمائیں.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا دورہ مشرقی پاکستان: اوائل 1960ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم تعلیم وقف جدید نے جلسہ سالانہ مشرقی پاکستان میں شرکت فرمائی.علاوہ ازیں آپ نے 11 فروری کو احمد نگر کی مخلص جماعت کو اخلاق اور قربانی کا معیار بڑھانے کی مؤثر تلقین کی.اگلے روز آپ نے انگریزی دان طبقہ سے انگریزی میں خطاب فرمایا جسے بہت سراہا گیا.حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل ربوہ میں : حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان دارالامان 15 فروری

Page 15

تاریخ احمدیت 6 جلد 21 1960ء کو پہلی بار ربوہ تشریف لائے.ہزار ہا احمدی احباب نے آپ کا استقبال کیا جن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مسیح موعود کے اصحاب، ناظر صاحبان، وکلاء صاحبان اور صدران محلہ جات بھی شامل تھے.آپ کو تیرہ 13 سال کی جدائی کے بعد اپنے دوستوں اور عزیزوں کو ملنے کا موقع میسر آیا.دوران قیام آپ نے حضرت مصلح موعود سے شرف ملاقات حاصل کیا.اور 18 فروری کو مراجعت پذیر ہوئے.محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کا سفر جنوبی ہند : محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے 21 اپریل سے 25 جون 1960 ء تک جنوبی ہند کے علاقہ کا سفر کیا.جس کے دوران بمبئی میں آپ نے ایک تاجر قوم کے 40 سرکردہ اصحاب تک پیغام حق پہنچایا.نیز کنانور، کالی کٹ ، مدراس ، سکندر آباد، یاد گیر اور دھارواڑ کی مخلص احمدی جماعتوں کو تربیتی نصائح سے نوازا.حیدرآباد دکن میں سالانہ تبلیغی جلسے اپریل مئی 1960ء میں حیدرآباد کن مندرجہ ذیل احمدی جماعتوں میں سالانہ تبلیغی جلسے ہوئے جن میں نہ صرف غیر از جماعت معززین بلکہ ہند و حضرات نے بھی شرکت فرمائی.یادگیر: اس جلسہ میں شاہ آباد، حیدرآباد، تیما پور گلبرگہ، رائے چور اور سر چور کے احمدی احباب بھی شامل ہوئے.تیما پور ، ونکور ، رائے چور یہاں غیر از جماعت اصحاب کی تعداد احمد یوں سے زیادہ تھی.مکرم عبدالکریم صاحب مالک غفور یہ پریس رائے چور نے اس مبارک اجتماع کے جملہ اخراجات برداشت کئے.دیو درگ میں بھی غیر از جماعت اور غیر مسلم دوست شامل اجتماع ہوئے.حید رآباد میں غیر از جماعت احباب حکیم محمد الدین صاحب مبلغ حیدر آباد دکن کی تقریر ذکر حبیب‘ سے بہت متاثر ہوئے.ظہیر آباد جلسہ کے تمام اخراجات مکرم سیٹھ محمد اسماعیل صاحب چنتہ کنٹہ نے ادا کئے نیز تین موٹریں اور لاؤڈ سپیکر جلسہ کے لئے وقف رکھے.حیدرآباد کے 20 خدام بھی شامل جلسہ ہوئے.ان جلسوں سے مولا نا محمد سلیم صاحب مبلغ دہلی نے ایمان افروز اور مدلل خطاب فرمائے.آپ کے علاوہ مندرجہ ذیل احمدی شخصیات کی تقاریر بھی ہوئیں.سیٹھ عبدالحئی صاحب (امیر جماعت احمد یہ یاد گیر ) مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل یاد گیر، حکیم محمد الدین صاحب ( مبلغ حیدر آباد ) مولوی فیض احمد صاحب ( مبلغ یاد گیر ) مولوی مبارک

Page 16

تاریخ احمدیت 7 جلد 21 احمد صاحب تیما پوری، مکرم مولوی شریف احمد امینی صاحب ( مبلغ مدراس)، مکرم مولوی سمیع اللہ صاحب قیصر ( مبلغ بمبئی ، مکرم محمد کریم اللہ صاحب ( اڈیٹر آزاد نوجوان ) مکرم عبد اللطیف صاحب (ابن سیٹھ عبدالحئی صاحب امیر جماعت احمد یہ یاد گیر ) ان جلسوں کے نتیجہ میں یاد گیر اور تیما پور کے 2 افراد داخل سلسلہ ہوئے.ان جلسوں کے لئے ربوہ سے قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے درجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا : اس وقت میرا پیغام یہی ہے کہ بکوشیداے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا.احمد یہ جماعت دین حق کے احیاء کے لئے پیدا کی گئی ہے اس لئے یہ مقصد بھی نہیں بھلانا چاہیے اور ہر امر میں دین کو دنیا پر مقدم کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے فضل ورحمت کے سایہ میں رکھے.آمین علامہ نیاز فتحپوری فضل عمر ڈسپنسری کراچی میں: والسلام مرزا بشیر احمد 0 21 مئی 1960ء کا واقعہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے بلند پایہ ادیب و صحافی علامہ نیاز فتحپوری نے جماعت احمدیہ کراچی کی فضل عمر ڈسپنسری کا معائنہ کیا اور اپنے تاثرات درج ذیل الفاظ میں تحریر فرمائے: د فضل عمر ڈسپنسری دیکھنے کے بعد کسی کا صرف یہ کہہ دینا کہ اسے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی بڑا ناقص اعتراف ہے اس عظیم خدمت انسانی کا جو ڈسپنسری انجام دے رہی ہے.مارٹن روڈ اور گولی مار کے دونوں شفا خانے جنہیں خدام جماعت احمدیہ نے واقعتا اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا ہے جذ بہ خیر، جوش عمل اور جسم و روح کی بیداریوں کی ایسی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن سے غض بصر ممکن نہیں.ان شفا خانوں کا اصل مقصود خالصہ للہ انسانی در دو دکھ میں شریک ہونا ہے.اور اسی لئے دواؤں کے علاوہ یہاں تیمار دارا نہ غذا ئیں بھی مفت تقسیم کی جاتی ہیں اور دماغی صحت کے لئے دارالمطالعہ بھی قائم کر دیا گیا ہے.اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے اس دور بے عملی میں جماعت احمدیہ کا یہ اقدام نوع انسانی کی اتنی بڑی خدمت ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور جس جماعت کی تعمیر

Page 17

تاریخ احمدیت 8 جلد 21 اس بنیان مرصوص پر قائم ہو وہ کبھی فنانہیں ہوسکتی.اہم شخصیات کو دینی لٹریچر کا تحفہ: 766 11 دینی لٹریچر کی اشاعت کے سلسلہ میں برصغیر پاک و ہند کی مخلص جماعتوں نے اپنی مساعی کا سلسلہ اس سال بھی بدستور جاری رکھا.مثلاً ڈاکٹر سید اختر احمد صاحب اور مینوی صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی نے 14 را پریل 1960ء کو جواہر لعل نہرو ( وزیر اعظم ہند) اور شری بھونیشور پر شاد چیف جسٹس آف انڈیا کی خدمت میں قرآن کریم انگریزی اور اگلے روز چیف جسٹس پٹنہ ہائی کورٹ کو ٹچنگز آف اسلام کا تحفہ پیش کیا.جس پر تینوں اصحاب نے اظہار مسرت کیا.مولوی محمد اجمل صاحب شاہد مربی پشاور اور مولوی محمد ابراہیم صاحب سابق مجاہد یوگنڈا نے 22 رمئی 1960ء کو امریکن کونسل مسٹر کا رڈسن ڈی لنگ مقیم پشاور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا.ازاں بعد انگریزی قرآن مجید اور دیگر دینی لٹریچر کا تحفہ دیا جسے موصوف نے بخوشی قبول کیا.مئی 1960ء میں مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ بخشی غلام محمد صاحب نے جنوبی کشمیر کا دورہ کیا.جماعت احمد یہ شورت نے ان کا پر جوش استقبال کیا اور انہیں سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر پیش کیا.جسے آپ نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.سینٹو (CENTO) کی بین الاقوامی فوجی تنظیم شرق اوسط کے دفاع کے لئے 1955ء میں قائم ہوئی جس میں برطانیہ، ایران، پاکستان ، ترکی اور عراق شامل تھے.اور امریکہ معاون رکن تھا.اس وقت اس کا مرکز انقرہ تھا اور اسے ” بغداد پر اجیکٹ سے موسوم کیا گیا.1959ء میں عراق الگ ہو گیا تو اس کا نام سینٹو رکھا گیا.سینٹو کا ایک اقتصادی سیمینار اس سال 13 جون سے 17 جون 1960 ء تک مری میں منعقد ہوا.اُن دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد تھے آپ کی خصوصی ہدایت کے مطابق جماعت احمدیہ کے ایک خصوصی وفد نے سینٹو کے نمائندگان کو اسلامی لٹریچر کا ایک ایک سیٹ پیش کیا.یہ وفد مندرجہ ذیل احباب پر مشتمل تھا.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق مجاہد انگلستان ، مولوی دین محمد شاہد صاحب مربی سلسلہ راولپنڈی ، مولوی محمد اشرف ناصر صاحب مربی سلسلہ مری.آل انڈیا کانگرس کمیٹی کے صدرشری سنجید ار ریڈی نے صوبہ اڑیسہ کا دورہ کرتے ہوئے 6 نومبر 1960ء کو چودوار ( اڑیسہ ) میں ایک بھاری اجتماع سے خطاب کیا.صدارت کے فرائض ڈاکٹر ہری کرشن مہتاب وزیر اعلی اڑیسہ نے ادا کئے.اس موقعہ پر جناب مولوی غلام مھدی صاحب مبلغ اڑیسہ نے

Page 18

تاریخ احمدیت 9 جلد 21 ہر دو اصحاب کی خدمت میں دینی لٹریچر پیش کیا جس پر انہوں نے اظہار تشکر کیا.14.27 دسمبر 1960ء کو چیف جسٹس آف انڈیا ڈاکٹر بھونیشور پرشاد نے تارا پور کالج میں انعامات تقسیم کئے اس موقع پر جماعت احمدیہ خانپور ملکی کے ایک وفد نے انہیں قرآن کریم اور دیگر اسلامی لٹریچر کی پیشکش کی.مولوی عبدالرحمن صاحب فانی نے موصوف کی خدمت میں ایڈریس پیش کرتے ہوئے جماعت کا تعارف کرایا.اور موجود معززین میں بکثرت لٹریچر تقسیم کیا.جموں میں ایک کامیاب جلسہ: 15 مقبوضہ کشمیر کے بڑے شہر جموں کے مولانا آزاد پارک میں جماعت کا ایک جلسہ ہوا جس میں مولا نا شریف احمد صاحب امینی نے ایک تقریر کی.ایک دوست محمود احمد صاحب آف دھرم سال داخل سلسله ہوئے جلسہ کی کارروائی اخبار سندیش نے 11 جولائی 1960 ء کو حسب ذیل الفاظ میں شائع کی: 8 جولائی 1960 ء رات 9 بجے سے 1 بجے تک مولانا آزاد پارک جموں میں ایک مذہبی جلسہ زیر اہتمام جماعت احمد یہ منعقد ہوا جس میں مولانا شریف احمد صاحب امینی مبلغ اسلام آف مدراس نے اسلام اور امن عالم پر ایک مبسوط تقریر کی آپ نے موجودہ زمانہ کی سائنسی ترقی اور نئی نئی ایجادات کے غلط استعمال اور نیز سینما کلچرل اجتماعات کے بد تاثرات کا تفصیل سے ذکر کیا.آپ نے بتلایا کہ ایٹمی بموں سے دنیا کا اصل امن قائم نہیں ہوسکتا.البتہ دنیا کا امن ضرور برباد ہوسکتا ہے.جیسا کہ حال ہی کے تجربات ثابت کر رہے ہیں.آپ نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت خود زندہ رہو اور دوسروں کو زندہ رہنے دو.ہمدردی حسن اخلاق اور پر یم و محبت سے دنیا کا امن صحیح معنوں میں قائم ہو سکتا ہے.آگے چل کر آپ نے کہا کہ آجکل عقلی دلائل کا زمانہ ہے.لوگوں کو ہر مذہب کا غور سے مطالعہ کرنا چاہیے.اسلام نرمی محبت اور شفقت کے ساتھ دلائل پیش کرنے کا حکم دیتا ہے.اسلام کہتا ہے کہ ہر مذہب میں خوبیاں پائی جاتی ہیں.اور یہی وہ گھاٹ ہے جس پر ہم سب اکھٹے ہو کر ایک دوسرے کے قریب ہو سکتے ہیں.اسلام اس بات کی بھی دعوت دیتا ہے کہ تمام پچھلے واقعات کو بھول جاؤ کیونکہ تم پچھلے کے ذمہ دار نہیں ہو.آپ نے ہندو، سکھ اور مسلم اتحاد سے پریم و محبت کی بے شمار مثالیں پیش کیں.اور سنے والوں کو قائل کر دیا کہ دنیا کا امن واقعی ان اصولوں کے بغیر نہیں ہوسکتا.

Page 19

تاریخ احمدیت 10 جلد 21 اس لیکچر کو ہند و سکھ اور مسلم سنجیدہ معززین نے بے حد پسند کیا اور مولانا صاحب سے درخواست کی گئی کہ سرینگر سے واپسی پر ایک اور لیکچر مٹھا چوک میں دیں.ایک نائیجیرین صحافی کے تاثرات : 66 16 کراچی کی جماعت احمدیہ اور مجلس خدام الاحمدیہ نے نائیجیرین صحافی جناب اولہ باسی اجالہ کے اعزاز میں ایک پارٹی دی.مسٹرا حالہ نے اس موقع پر کھلا اعتراف کیا کہ احمدی مبلغین اسلام کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں.اس سلسلہ میں جناب ناصر اقبال صاحب انچارج شعبہ نشر واشاعت جماعت احمدیہ کراچی کے قلم سے الفضل 22 اکتوبر 1962 ، صفحہ 5 پر حسب ذیل رپورٹ شائع ہوئی: جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے نائیجیرین جرنلسٹ جناب اولہ باسی اجالہ کو ایک عصرانہ دیا گیا افتتاحی تقریر میں جناب با بو اللہ داد صاحب نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام تمام دنیا میں پھیل رہا ہے اور دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں اسلام کا پیغام پہنچانے کی سعادت جماعت کو حاصل نہ ہوئی ہو.مسٹر جالہ نے اپنی تقریر میں جماعت کا ریہ ادا کیا اور بتایا کہ ہمارے براعظم افریقہ میں ہزاروں پاکستانی اور ہندوستانی آباد ہیں.لیکن ان کے کردار اتنے بلند نہیں جتنے اعلیٰ کردار کے مالک جماعت احمدیہ کے مبلغین ہیں ان مخلص نوجوانوں کے بلند اخلاق اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے میرے ملک کے لوگ کافی متاثر ہیں.یہ لوگ اسلام کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں.یہی وجہ ہے کہ اسلام میں لوگ جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں آپ نے بتایا کہ آج ایٹمک دور میں دنیا کو مذہب کی بڑی ضرورت ہے کیونکہ مذہب کے بغیر دنیا کی بقاء ممکن نہیں.دنیا کو مذہب کا پیغام پہنچانے کا کام جماعت احمد یہ بڑے احسن طریق پر انجام دے رہی ہے.مجلس خدام الا احمد یہ کراچی کی طرف سے دی گئی ایک دعوت میں مسٹرا حالہ نے بتایا کہ افریقہ میں جہاں کہیں بھی جماعت قائم ہے وہاں سوشل ویلفیئر کے ادارے بھی ضرور ہیں.جماعت نے اپنے خرچ سے وہاں کالج سکول اور دواخانہ قائم کئے ہوئے ہیں.ہم افریقن جماعت احمدیہ کی خدمات کی تہہ دل سے قدر کرتے ہیں.مسٹر جالہ اپنی موٹر سائیکل پر تمام دنیا کا دورہ کر رہے ہیں.آج کل وہ اپنے حالات سفر پاکستان کے مشہور روزنامہ ڈان میں قسط وار تحریر کر رہے ہیں آپ نے کہا کہ

Page 20

تاریخ احمدیت 11 جلد 21 میں اپنے حالات ایک کتاب کی صورت میں شائع کروں گا.اس تقریب کی صدارت جناب شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے فرمائی.تحریک احمدیت علامہ نیا بنچو ری صاحب کی نظر میں : رفتی علامہ نیاز فتحپوری صاحب نے رسالہ نگار‘ اکتوبر 1960ء میں ایک غیر احمدی دوست جناب سید نصیر حسین صاحب سہارنپوری کے ایک خط کا جواب شائع کیا.خط اور علامہ کا جواب درج ذیل کیا جاتا ہے: خط : سید نصیر حسین سہارنپور : جواب: کچھ زمانہ سے آپ احمدی جماعت کی طرف داری میں اظہار خیال کر رہے ہیں اور اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان سے بہت متاثر ہیں لیکن شائد آپ کو معلوم نہیں کہ وہ غیر احمدی مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں.وہ اس حد تک متعصب ہیں کہ عام مسلمانوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات بھی ناجائز سمجھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.وہ اپنے سواسب کو کافر کہتے ہیں اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اب رہا میرزا غلام احمد صاحب کا دعوئی مہدویت و مسیحیت و نبوت.سو اس کی بابت میں مشورہ دوں گا کہ آپ جناب الیاس برنی کی کتاب فتنہ قادیانیت کا مطالعہ فرمائیے.اسکے پڑھنے سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مرزا صاحب کے دعوے کتنے لغو و باطل تھے.(1) اس میں شک نہیں میں احمدی جماعت سے کافی متاثر ہوں اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ اس وقت ان تمام جماعتوں میں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں صرف احمدی جماعت ہی ایک ایسی جماعت ہے جس نے صحیح معنی میں اسلام کی حقیقت کو سمجھا ہے.لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کیا ساری دنیا نے اسلام کو چند مخصوص عقائد میں محدود کر دیا ہے اور اس سے ہٹ کر کبھی یہ غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کے عروج کا تعلق صرف عقائد سے نہ تھا بلکہ اطوار وکردار اور حرکت و عمل سے تھا.محض یہ عقیدہ کہ اللہ ایک ہے اور رسول برحق اپنی جگہ بالکل بے معنی سی بات ہے اگر اس

Page 21

تاریخ احمدیت 12 سے ہماری اجتماعی زندگی متاثر نہیں ہوتی.اسی طرح مخصوص اوقات مخصوص انداز سے عبادت کر لینا بھی بے سود ہے.اگر وہ ہماری ہیئت اجتماعی پر اثر انداز نہیں ہوتا.تاریخ و عقل دونوں کا فیصلہ یہی ہے.پھر غور کیجئے کہ اس وقت احمدی جماعت کے علاوہ مسلمانوں کی وہ کونسی دوسری جماعت ایسی ہے جو زندگی کے صرف عملی پہلو کو اسلام سمجھتی ہو.اور محض عقائد کو مذہب کی بنیا د قرار نہ دیتی ہو.میں نے جب سے آنکھ کھولی مسلمانوں کو باہم دست وگریباں ہی دیکھا.سنی، شیعہ، اہل قرآن، اہل حدیث ، دیوبندی، غیر دیوبندی وہابی، بدعتی اور خدا جانے کتنے ٹکڑے مسلمانوں کے ہو گئے جن میں سے ہر ایک دوسرے کو کافر کہتا تھا.اور کوئی ایک شخص ایسانہ تھا جس کے مسلمان ہونے پر سب کو اتفاق ہو.ایک طرف خود مسلمانوں کے اندر اختلاف و تضاد کا یہ عالم تھا اور دوسری طرف آریائی و عیسوی جماعتوں کا حملہ اسلامی لٹریچر اورا کا بر اسلام پر کہ اسی زمانہ میں میرزاغلام احمد صاحب سامنے آئے اور انہوں نے تمام اختلافات سے بلند ہو کر دنیا کے سامنے اسلام کا وہ صحیح مفہوم پیش کیا جسے لوگوں نے بھلا دیا تھا یا غلط سمجھا تھا یہاں نہ بوبکر و علی کا جھگڑا تھا نہ رفع یدین و آمین بالجہر کا اختلاف، یہاں نہ عمل بالقرآن کی بحث تھی نہ استناد بالحدیث کی.اور صرف ایک نظریہ سامنے تھا اور وہ یہ کہ اسلام نام ہے صرف اسوۂ رسول کی پابندی کا.اور اس عملی زندگی کا.اُس ایثار و قربانی کا.اس محبت و رافت کا.اس اخوت و ہمدردی کا اور اس حرکت و عمل کا جو رسول اللہ کے کردار کی تنہا خصوصیت اور اسلام کی تنہا اساس و بنیا تھی.میرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی مدافعت کی اور اس وقت کی جب کوئی بڑے سے بڑا عالم دین بھی دشمنوں کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہ کر سکتا تھا انہوں نے سوئے ہوئے مسلمانوں کو جگایا اٹھایا اور چلایا یہاں تک کہ وہ چل پڑے اور ایسا چل پڑے کہ آج روئے زمین کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ان کے نشانات قدم سے خالی ہو.اور جہاں وہ اسلام کی صحیح تعلیم نہ پیش کر رہے ہوں.پھر ہو سکتا ہے کہ آپ ان حالات سے متاثر نہ ہوں لیکن میں تو یہ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں کہ یقیناً بہت بڑا انسان تھا وہ جس نے ایسے سخت وقت میں اسلام کی جانبازانہ مدافعت کی اور قرونِ اولیٰ کی اس تعلیم کو زندہ کیا جس کو دنیا بالکل فراموش کر چکی تھی.18 جلد 21

Page 22

تاریخ احمدیت 13 جلد 21 بیرونی مشنوں کی دینی سرگرمیاں : عمل رہے.انگلستان فصل دوم اس سال بھی جماعت احمدیہ کے تمام بیرونی مشن قلمی ولسانی و تربیتی جہاد میں شب وروز مصروف صدر پاکستان عزت مآب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مئی 1960ء میں دولت مشترکہ (THE COMMON WEALTH) کے وزراء اعظم کی کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن تشریف لے گئے.جناب مولود احمد صاحب دہلوی انچارج مشن انگلستان نے ایک خصوصی ملاقات میں آپ کی خدمت میں قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ ہدیہ پیش کیا.صدر پاکستان نے عیسائی ممالک میں جماعت احمدیہ کی اشاعت اسلام کا تذکرہ دلچسپی سے سنا اور انکو سراہا.سید نا حضرت مصلح موعود کے حکم پر محمد صدیق صاحب امرتسری مجاہد سیرالیون دوران سال ایک ماہ رخصت پر انگلستان تشریف لائے اور شہر برائٹن میں مقیم رہے اور پیغام حق پہنچانے کی توفیق پائی.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں: 1960 ء میں خاکسارا ایک ماہ کی رخصت پر...پاکستان آیا.سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا.حضور نے دوران گفتگو فرمایا کہ تم واپس جا کر انگلستان کے شہر برائٹن میں تبلیغ کا کام شروع کرو.اللہ تعالیٰ اس شہر میں احمدیت کے نئے راستے کھول دے گا.چنانچہ انگلستان پہنچنے پر خاکسار نے حضرت مصلح موعود کے اس ارشاد کی تعمیل میں برائین میں تبلیغ کا پروگرام بنایا برائٹن میں ایک نہایت خوبصورت شاہی محل ہے جس کی طرز تعمیر ہندوستانی طرز تعمیر کے مطابق ہے.اس محل کے خوبصورت اور منقش گنبد اور مینار دور سے نظر آتے ہیں اس محل کے ایک کمرہ کو ہم نے کرایہ پر حاصل کر لیا اور لوکل اخبارات میں اس بات کا اشتہار دیا کہ خاکسار ہفتہ کے روز اس کمرہ میں اسلام پر تقریر کرے گا.دستی اشتہارات پانچ ہزار کے قریب گھروں میں تقسیم کئے گئے.ہفتہ کے

Page 23

تاریخ احمدیت 14 روز مقررہ وقت پر لنڈن سے خاکسار کے ہمراہ آٹھ دس اور افراد مکرم مولوی عبدالکریم صاحب (سابق مجاہد افریقہ ) کی کار میں برائن پہنچے ہم نے کمرہ کو لیکچر کے لئے تیار کیا.اس جلسہ کی صدارت مکرم عبدالعزیز دین صاحب نے کرنی تھی.جو عرصہ 60 سال سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور نہایت مخلص اور سلسلہ کے فدائی بزرگ ہیں.تاہم جوں جوں لیکچر کا وقت قریب آتا گیا ہماری پریشانیوں میں اضافہ ہوتا رہا کیوں کہ لیکچر کے شروع ہونے سے پندرہ منٹ قبل ایک شخص بھی ہال میں نہ آیا.جب تقریر میں صرف دس منٹ رہ گئے تو خاکسار نے وہاں موجود احمدی احباب کو تحریک کی کہ چونکہ ہم اس شہر میں تبلیغ کا آغاز سید نا حضرت مصلح موعود کے خاص ارشاد کے ماتحت کر رہے ہیں.اور چونکہ حضور کو اس شہر میں تبلیغ کی طرف خاص توجہ ہے اس لئے آئیے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ غیب سے ہمارے لئے سامعین مہیا کر کے حضور کی خواہش کو پورا کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.ہم سب کمرہ کے ایک کو نہ میں اجتماعی دعا میں لگ گئے ہم نے غالباً پندرہ ہیں منٹ دعا کی ہوگی جب دعا ختم ہوئی اور ہم نے کمرہ کی طرف نگاہ کی تو ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے بھر گئے ہم نے ایک عظیم اعجاز دعا کی فوری قبولیت کا یہ دیکھا کہ کمرہ سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.خاکسار نے مکرم عبدالعزیز دین صاحب کی صدارت میں اسلام کی حقانیت پر تقریر کی.تقریر کے بعد سامعین کو سوال و جواب کی دعوت بھی دی گئی تقریر کی کامیابی کو دیکھ کر ایک پادری صاحب جو کمرہ میں موجود تھے بہت جزبز ہوئے اور تقریر کا اثر ختم کرنے کے لئے انہوں نے خاکسار کو دعوت مناظرہ دے دی جو خاکسار نے اسی وقت قبول کر لی پادری صاحب سے یہ طے ہوا کہ اگلے ہفتہ کے روز اسی کمرہ میں ان کا خاکسار سے اسلام اور عیسایمت پر مناظرہ ہوگا.لیکن دوسرے ہفتہ میں جب کمرہ کھچا کھیچ سامعین سے بھر ہوا تھا.پادری صاحب نہ آئے اور یوں عیسائی سامعین کے قلوب پر اسلام کی حقانیت کو ثبت کر گئے.خیر جب سوال و جواب کا سلسلہ ختم ہوا تو لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے.ایک خاتون جس کا نام IRENE CRENE تھا.بیٹھی رہیں جب سب لوگ جاچکے تو اس خاتون نے خاکسار کو کہا کہ وہ مسلمان ہونا چاہتی ہے.اس وقت جو خوشی ہم سب کو ہوئی وہ بیان سے باہر ہے.خاکسار نے اس خاتون سے دریافت کیا کہ وہ کیوں مسلمان ہونا چاہتی ہے.تو وہ کہنے لگی کہ وہ بچپن سے ہی عیسائیت سے متنفر تھیں.جلد 21

Page 24

تاریخ احمدیت 15 جلد 21 لیکن اللہ کی ہستی پر پورا یقین تھا.کہنے لگیں کہ میں نے عیسائیت سے بیزاری کے بعد بڑی تضرع سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں شروع کیں کہ مولیٰ کریم میری رہنمائی سچے دین کی طرف کر دے اس عرصہ میں بہائیوں، بدھوں اور ہندؤوں کے جلسوں میں بھی شامل ہوتی رہی لیکن کہیں بھی مجھے روشنی کی کوئی کرن نظر نہ آئی.اب کچھ عرصہ سے مجھ پر مایوسی مسلط ہوتی جارہی تھی اور قریب تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی ہستی سے بھی منکر ہو جاتی کہ آپ لوگوں کا اشتہار اخبار میں پڑھا اور نہ جانے کیوں میں اس یقین پر قائم ہوگئی کہ یہاں مجھے ضرور روشنی نظر آجائے گی.میں نے پچھلی رات بہت دعا کی تو میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ گوہر مقصود کل کی میٹنگ میں مل جائے گا.چنانچہ آج میں نے آپ کی تقریرسنی تو دل نے بے اختیار صداقت قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے اس پر رقت طاری ہوگی اور کہنے لگی کہ میں سمجھتی ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ میری ہدایت کے لئے کھینچ کر لایا ہے.خاکسار نے اس کا بیعت فارم اسی وقت حضور کی خدمت میں بھجوا یا حضور نے ان کا اسلامی نام سلیمہ کرین رکھا...اس کے بعد برائٹن میں حضور کی توجہ اور دعاؤں کی برکت سے دس بارہ افراد کی اچھی خاصی جماعت بن گئی.جو بعد میں کچھ تو ترکی جا کر اور کچھ ملک کے دوسرے حصوں میں منتشر ہو گئے لیکن انہوں نے اپنا رابطہ مشن سے قائم رکھا.فالحمد للہ تعالیٰ جرمنی.ڈنمارک: جرمنی مشن نے اس سال جرمنی کے علاوہ ڈنمارک میں بھی اپنی تبلیغی سرگرمیاں تیز تر کر دیں چنانچہ چوہدری عبد اللطیف صاحب انچارج جرمنی مشن تحریر فرماتے ہیں: مورخہ 27 جنوری کو مسجد میں ہماری تبلیغی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں خاکسار نے موجودہ زمانہ میں اشاعت اسلام کے موضوع پر تقریر کی.دوران تقریر جماعت احمدیہ کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مشنوں کے ذریعہ کامیاب تبلیغی مساعی پر روشنی ڈالی اور مستشرقین کی تقاریر اور مضامین کے حوالوں سے یہ امر ثابت کیا کہ اسلام آج دنیا بھر میں کامیاب ہے.اور بالخصوص افریقہ میں عیسائیت کے مقابل پر اسلام کی ترقی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.عیسائی مستشرقین کے یہ حوالے حاضرین کے لئے بہت دلچپسی کا

Page 25

تاریخ احمدیت 16 موجب ہوئے.تقریر کے بعد کافی دیر تک سوال وجواب کا سلسلہ جاری رہا.اور حاضرین کولٹریچر بھی مطالعہ کے لئے دیا گیا.مؤرخہ 24 فروری کو مسجد میں اسلام و بین الاقوامی تعلقات کے موضوع پر خاکسار نے تقریر کی.جس میں اس امر پر خاص طور پر زور دیا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کو واضح طور پر پیش کرتا ہے اسلام رواداری ، آزادی ضمیر اور اخوت کا علمبردار ہے.اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو تمام مذاہب کے پیشواؤں کی صداقت کو تسلیم کرتے ہوئے صلح کی بنیا درکھتا ہے ان سب امور کو قرآنی آیات کی روشنی میں حاضرین کے سامنے پیش کیا.اس کے معاہدات کی پابندی کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اسوہ حسنہ کو تفصیلاً پیش کیا.اور آخر میں اسلامی جنگوں کی وجو ہات کو قرآنی آیات کی روشنی میں پیش کیا.اور اس امر کو کھول کر بیان کیا کہ اسلام صلح اور امن کا مذہب ہے اور یورپین مصنفین اور مورخین کا یہ خیال کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا صریحاً غلط ہے.تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا.اور حاضرین کولٹر بیچر بھی دیا گیا.عید الفطر کی تقریب مورخہ 29 مارچ کو منائی گئی.اس دفعہ حاضرین کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے پچھلے سالوں کی نسبت نمایاں طور پر زیادہ تھی.نماز میں شامل ہونے والوں میں لوکل جرمن احمدیوں کے علاوہ پاکستان، ہندوستان، ترکی، مصر، شام، لبنان، یوگوسلاویہ اور البانیہ کے مسلمان بھی شامل ہوئے.متحدہ عرب جمہوریہ کے کونسل جنرل اور لبنان کے کونسل بھی مسجد میں نماز عید کے لئے آئے جرمن مشن کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیلی ویژن کے نمائندے بھی عید کی تقریب میں شامل ہوئے اور نماز عید اور خطبہ کی فلم لی.اسی طرح انہوں نے خاکسار کا برادرم ظفر اللہ کناک (جرمن مسلم ) کے ساتھ انٹر ویولیا.اور انہوں نے اس امر کی بھی خواہش کا اظہار کیا کہ مسجد کی چھت سے اذان دی جائے.چنانچہ برادرم مرز الطف الرحمن صاحب نے خوش الحانی سے اذان دی.جس کی فلم لی گئی اور جو ریکارڈ کی گئی.خطبہ عید میں خاکسار نے رمضان المبارک کے فضائل اور فوائد بیان گئے.اور اسلامی تعلیمات کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے اسلام کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کی دعوت دی.اور اس امر پر زور دیا کہ اسلام ہی دنیا کی بڑھتی ہوئی مشکلات جلد 21

Page 26

تاریخ احمدیت 17 جلد 21 کا کامیاب حل پیش کرتا ہے.نماز عید کے بعد حاضرین کی چائے اور کیک سے تواضع کی گئی.اور بعض احباب کو دوپہر کا کھانا بھی پیش کیا گیا.شام کو اسی روز ایک اہم پروگرام میں عید کی فلم ٹیلیویژن پر دکھائی گئی.جس میں نماز کے سب پہلو دکھائے گئے.نماز میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کوٹیلیویژن پر سن کر سب محظوظ ہوئے.اس طرح شمالی جرمنی کی فضا میں اذان کے ذریعہ توحید کا اعلان کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.یہ پروگرام کثرت سے لوگوں نے دیکھا اور اس طرح مشن کی شہرت میں بفضلہ تعالیٰ معتد بہ اضافہ ہوا.ترکی کے ایک مصنف اور جرنلسٹ ( علی رؤف آکان) نے ہمبرگ میں چند روز قیام کیا.اور خاکسار کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کی.ترکی واپس پہنچ کر وہاں کے ایک مشہور اخبار (YEN SABAH) میں مسجد اور خاکسار کی فوٹو کے ساتھ ایک لمبا مضمون شائع کیا جس میں اس نے ہماری تبلیغی مساعی کے ثمرات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا.میں نے یورپ کے مختلف اسلامی مراکز اور مساجد کی زیارت کی.لیکن جو ایمان افروز اثر ہمبرگ کی مسجد کو دیکھ کر میں نے قبول کیا.وہ قلب سے کبھی محو نہیں ہوسکتا.اس مسجد کے ذریعہ اسلام کی شوکت اور عظمت کو قائم کرنے کے لئے بے لوث قربانیاں کی جارہی ہیں.اور اس کامیاب تبلیغی مساعی کا سہرا جماعت احمدیہ کے سر پر ہے.جس کا مرکز پاکستان میں ہے.اور جس کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہیں.مسجد کے امام مسٹر عبد اللطیف کے دل میں اسلام کی محبت اور قربانی کے جذبہ کو محسوس کر کے مجھے بہت خوشی ہوئی اسلام کے بارہ میں لٹریچر کافی تعداد میں شائع کیا گیا ہے جس میں ایک جرمن نو مسلم ڈاکٹر ٹلٹاک کی دو کتابیں مفید اثر پیدا کر رہی ہیں.اس کے علاوہ UNITED PRESS ASSOCIATION کے ایک نمائندہ نے مسجد کے متعدد فوٹو لئے جو اسلامی ممالک میں اشاعت کے لئے بھجوائے گئے.اسی طرح ایک عراقی جرنلسٹ انٹرویو کے لئے آیا.اور اس نے بھی مسجد کے فوٹو لئے.خطبات جمعہ کا سلسلہ با قاعدگی سے جاری رہا جن میں اسلامی تعلیمات اور تربیتی امور نیز رمضان المبارک کے فضائل بیان کئے جاتے رہے.مؤرخہ 19 فروری کے خطبہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے موضوع پر وضاحت سے روشنی ڈالی.ان خطبات میں اسلامی

Page 27

تاریخ احمدیت 18 ممالک بالخصوص ترکی کے مسلمان بھی شامل ہوتے رہے.جرمن احمدی احباب سے عرصہ زیر رپورٹ میں تحریک جدید کے وعدہ جات حاصل کئے گئے.چنانچہ 14 احباب نے 270 روپے کے قریب چندہ دینے کے لئے وعدے کئے.خدا تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی توفیق دے آمین.عرصہ زیر رپورٹ میں بفضلہ تعالیٰ دونو جوان اور ایک خاتون جماعت میں شامل ہوئے.نو مبایعین کی تعلیم و تربیت کا کام برادرم مرز الطف الرحمن صاحب سرانجام دیتے رہے اور ان سب کو نماز، سیسرنا القرآن اور قرآن مجید کے ترجمہ کے اسباق دیتے رہے.نیز مشن کے کاموں کی سرانجام دہی میں خاکسار کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتے رہے.ملاقاتوں کا سلسلہ بفضلہ تعالیٰ بہت بڑھا رہا جر من احباب کے علاوہ اسلامی ممالک کے احباب کثرت سے مسجد دیکھنے آتے رہے.ان سے گفتگو کرنے اور لٹریچر دینے کے مواقع ملتے رہے.برادرم خالد و تلف صاحب مؤرخہ 24 مارچ کو پاکستان سے بذریعہ ہوائی جہاز ہیمبرگ پہنچے.ہوائی مستقر پر برادرم مرزا صاحب اور خاکسار نے ان کا استقبال کیا.برادرم موصوف تین دن کے قیام کے بعد فرینکفورٹ کچھ روز ٹھہر کر برلن اپنے والدین کے پاس چلے گئے اللہ تعالیٰ ان کے وجود کو دین اسلام کے لئے مفید بنائے آمین.مؤرخہ 26 مارچ کو برادرم مرز الطف الرحمن صاحب اور برادرم دتلف خالد صاحب کے ہمراہ متحدہ عرب جمہوریہ کے کونسل جنرل سے ملاقات کی.اور انہیں تبلیغ اسلام کے بارہ میں اپنی جماعت کی تبلیغی مساعی سے آگاہ کیا اور قرآن کے جرمن ترجمہ کے علاوہ اپنی مساجد کی فوٹو دکھائیں اور اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ ان کی خدمت میں پیش کیا.انہوں نے خاصی دلچسپی کا اظہار کیا.اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا.اور عید کی تقریب میں شمولیت کا وعدہ کیا.عرصہ زیر رپورٹ میں یسوع مسیح کی زندگی ، مشن اور موت کے بارہ میں ایک مفید کتاب.ایک احمدی جرمن جرنلسٹ دوست مسٹر الیس عبد اللہ نے نہایت محنت کے ساتھ لکھی.اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور قبر مسیح کے فوٹو بھی شائع کئے گئے جلد 21

Page 28

تاریخ احمدیت 19 ہیں.برادرم عبداللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی روشنی میں پر زور دلائل کے ساتھ اس امر کو ثابت کیا ہے.کہ یسوع مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے.بائیبل کے متعدد حوالوں اسی طرح یورپین سکالرز کی تحقیقات کے حوالوں کو پیش کر کے اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ حضرت مسیح اپنی طبعی موت سے فوت ہوئے.آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات کو مسیح کی صلیبی موت کے بطلان اور اسلام کی صداقت اور ނ غلبہ کے بارہ میں پیش کیا ہے.یہ کتاب بفضلہ تعالیٰ جرمن لٹریچر میں مفید اضافہ ہے.“ ڈنمارک میں برادرم عبد السلام صاحب میڈسن (MADSEN) اپنے فارغ اوقات میں تبلیغ کا کام محنت اور شوق سے سرانجام دیتے رہے یہ دوست خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے مخلص احمدی ہیں اور موصی بھی ہیں.عرصہ زیر رپورٹ میں انہوں نے اسلام کے متعلق تین تقاریر کیں.جن میں اسلام کی کامیاب نمائندگی کی.ان میں سے ایک تقریر ایک سکول میں ہوئی.دوسری نوجوانوں کی ایک مجلس (YOUTH CLUB) میں ہوئی ان دونوں تقریروں میں اسلامی تعلیمات کا عیسائیت سے موازنہ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے.مؤرخہ 7 مارچ کو سکنڈے نیویت عرب سوسائٹی کے زیر اہتمام اسلام اور انسانی زندگی کے موضوع پر تقریر کی.حاضرین کی تعداد معقول تھی اور تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.ایک عیسائی میٹنگ میں شامل ہو کر اسلام کی کامیاب نمائندگی کی.ایک عیسائی مذہبی رسالہ (KIRKENS FRIEND) نے اپنے جنوری کے ایشو میں ایک تفصیلی انٹرویو شائع کیا جس میں برادرم عبدالسلام صاحب نے اپنے اسلام قبول کرنے کی وجوہات پر روشنی ڈالی.آخر میں برادرم عبد السلام صاحب نے اس امر پر زور دیا کہ اسلام ہی صرف ایک زندہ مذہب ہے.اور موجودہ زمانہ میں بھی اس نے خدا تعالیٰ کی وحی اور الہام کے سلسلہ کو جاری ثابت کیا ہے.مؤرخہ 14 مارچ کو ریڈیو ڈنمارک پر شام کے آٹھ بجے برادرم موصوف کا ایک انٹرویو براڈ کاسٹ ہوا.جلد 21

Page 29

تاریخ احمدیت 20 عید الفطر کی تقریب ڈنمارک کی سرحد کے ایک شہر (MALMO) میں بھی منائی گی.عید کی نماز برادرم عبدالسلام صاحب میڈسن نے پڑھائی.نماز میں یوگوسلاویہ کے چار مسلمان بھی شامل ہوئے جو اس موقعہ پر بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے.یہ چاروں دوست پہلے سے زیر تبلیغ تھے.چنانچہ جب خاکسار نے اس شہر میں تقریر کی تھی تو یہ دوست اس میں شامل ہوئے تھے.اور ان سے تقریر کے بعد دیر تک تبلیغی گفتگو کرنے کا موقع ملا تھا.مؤرخہ 14 ستمبر کو ہم نے (HAMMANWE) کے مقام پر تبلیغی مجلس کا انعقاد کیا.یہ جگہ مغربی جرمنی میں بہت اہمیت کی حامل ہے.یہاں پر ہر سال ” بین الاقوامی صنعتی نمائش منعقد ہوتی ہے یہ اپنی قسم کی واحد اور ساری دنیا کی نمائندہ تسلیم کی جاتی ہیں.اس طرح یہ شہر جرمنی اور بین الااقوامی ماحول کا ایک دل کش امتزاج پیش کرتا ہے.یہاں پر اسلام کی تعلیمات کے بارہ میں نہایت شرح وبسط سے تقریر کی تو فیق ملی جس کے بعد سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ دیر تک جاری رہا.لٹریچر تقسیم کیا گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ تقریر نہایت مؤثر ثابت ہوئی.چنانچہ ہمبرگ یو نیورسٹی کی ایک طالبہ ( جو اس تقریب میں شامل تھی بعد میں ہماری مسجد میں آئی اور اس تقریر کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ اسی کے باعث اسے اسلام سے دلچسپی پیدا ہوئی اور مسجد دیکھنے آئی ہے.دوسری تقریر 27 ستمبر کو مشہور عالم ادارہ کی دعوت پر کی سیہ ادارہ طلباء کی ذہنی ترقی اور معلومات میں اضافہ کے سلسلہ میں قابل قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے.بین الاقوامی مسائل کے بارہ میں ملک گیر بلکہ بین الاقوامی شہرت رکھنے والے پروفیسروں مستشرقین اور دیگر اہل علم لوگوں کی تقاریر کروائی جاتی ہیں.اس ادارہ کی مجلس عاملہ نے اسلام اور پاکستان کے بارہ میں تقریر کرنے کے لئے خاکسار کو منتخب کیا اور 27 ستمبر کی تاریخ مقرر کی.چنانچہ خاکسار نے اس منتخب محفل میں تقریر کی جسے حاضرین نے نہایت دلچسپی سے سنا اور بعد ازاں سوالات کے ذریعہ مزید معلومات حاصل کرنی چاہیں.جس پر خاکسار نے ان کے سوالات کے جوابات دئے.طلباء نے خاص طور سے اسلام کے بارہ میں سوالات کئے اور اس موضوع پر اتنی دلچسپی کا اظہار کیا کہ مجلس عاملہ نے مجھے دوسری بار دعوت دینے کا فیصلہ کیا.بعد ازاں لٹریچر تقسیم کیا گیا اور طلباء کی دلچسپی اور میری تعظیم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب تک ایک ایک طالب علم ان کتب پر میرے دستخط نہ لے چکا اس جلد 21

Page 30

تاریخ احمدیت 21 وقت تک وہاں سے نہ ٹلا.تیسری تقریر کا اہتمام ہم نے 27 اکتوبر کو ہمبرگ میں کیا.عنوان ”اسلام میں عورت کا مقام تھا با وجود موسم حد درجہ خشک ہو جانے کے حاضری ہماری تو قعات سے بہت بڑھ کر تھی بلکہ ہماری نشستوں کا اہتمام حاضرین کی تعداد کے مقابل پر کم رہا.متواتر ایک گھنٹہ تک خاکسار نے اسلام میں عورت کا مقام کو قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں پیش کیا جسے حاضرین نے نہایت دلچسپی سے سنا.شادی تعد دازدواج ، طلاق ، ورثہ اور پردہ سے متعلق بڑی شرح وبسط سے اسلام کا نقطہ نظر پیش کیا.چنانچہ سوال و جواب کے وقفہ میں مردوں کے علاوہ عورتوں نے بھی ( جن کی تعداد کسی طرح بھی مرد حاضرین سے کم نہ تھی) ان مسائل کے بارہ میں سوال کئے.بعد ازاں لٹریچر تقسیم کیا گیا اور مسجد اور طریق عبادت کے متعلق دلچسپی رکھنے والوں کو برادرم منیر الدین م صاحب نے معلومات بہم پہنچائیں اور میٹنگ کے انتظامات کے لئے پورا پور از ور دیا.اس تقریر کے سننے والوں میں جہاں کئی ایک دیگر معزز اصحاب تشریف لائے ہوئے تھے.وہاں ہمبرگ کے ایک مشہور پادری بھی موجود تھے جنہوں نے اس موقعہ پر تو اپنا تعارف نہ کروایا لیکن بعد میں انہوں نے ایک خط اپنے جاننے والے مسلمان دوست کو لکھا.جس میں ذکر کیا کہ آپ ایک عرصہ سے اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ مسجد ہمبرگ کی مجالس میں شرکت کروں.تو آپ کی اطلاع کے لئے لکھ رہا ہوں کہ میں 27 اکتوبر کی مجلس میں حاضر تھا.اور میں محترم چوہدری عبداللطیف صاحب کی تقریر اور شخصیت سے اس درجہ متاثر ہوا ہوں کہ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ اس سے قبل کیوں نہ میں مسجد میں حاضر ہوا اور آئندہ وہاں پر باقاعدگی سے جانے کا ارادہ رکھتا ہوں.مجھے بحیثیت ایک پادری ہونے کے مذہبی حالات کی دقتوں کا اندازہ ہے.لیکن اس روز کی تقریر سے مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ایک دقیق مسئلہ کو بڑی خوبی سے بیان کیا گیا اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ میں نے ان کی تقریر سے بہت کچھ سیکھا ہے.“ ڈنمارک ڈنمارک کی ایک علمی مجلس نے خاکسار کو اسلام حقیقت میں“ کے موضوع پر تقریر کرنے کی دعوت دی.مورخہ 13اکتوبر کو ” کوپن ہیگن کے مقام پر اس تقریر کا اہتمام کیا گیا.ڈینیش جلد 21

Page 31

تاریخ احمدیت 22 زبان میں ترجمہ کے فرائض ہمارے مخلص احمدی دوست مسٹر عبدالسلام صاحب میڈسن نے ادا کئے.میں نے اسلامی رواداری، آزادی ضمیر ، توحید باری تعالی، تمام انبیاء پر ایمان، اور اسلام کا اقتصادی، سیاسی اور سوشل نظام پر روشنی ڈالی.تقریر کے بعد سوالات کے جوابات دیئے گئے.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ تقریب بہت کامیاب رہی.الحمد للہ.ڈنمارک میں دوسری تقریر مؤرخہ 15اکتوبر کو NYKALING کے اہم شہر میں کی.اس تقریر میں نماز، روزہ، حج، زکوة کی فلاسفی بیان کی جسے لوگوں نے بہت دلچسپی سے سنا.یہاں بھی مترجم برادرم عبد السلام میڈسن تھے.سوالات کے جوابات دیئے گئے اور لٹریچر تقسیم کیا گیا.میرے دورہ ڈنمارک کی اطلاع ملنے پر یہاں ایک مشہور اخبار HOLBAEK-AMSTIDENDE کے ایڈیٹر مع اپنے فوٹوگرافر کے انٹرویو لینے تشریف لائے.چنانچہ 15 اکتوبر کی صبح میری دو بڑی تصویروں سمیت یہ انٹرویو بہت نمایاں طور پر شائع ہوا.اس میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا ذکر خاص طور پر تفصیلاً کیا گیا کہ کس طرح یہ جماعت اپنے مبلغین کے ذریعہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہی ہے.اور قرآن کریم کے تراجم لٹریچر کی اشاعت اور مساجد کی تعمیر میں ہمہ تن مشغول ہے.مضمون نگار نے جماعت کے قیام کی تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور دعاوی اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی زیر قیادت جماعت کی حیرت انگیز کامیابی اور تبلیغ اسلام میں انہماک کو خاص طور سے بیان کیا.ڈنمارک میں ہماری طرف سے ترجمہ قرآن کریم کا جو کام جاری ہے.اس کا بھی تفصیلاً ذکر کیا.اس مضمون کا مندرجہ ذیل پیرا شائد پورے مضمون کے انداز بیان کا کسی قدراندازہ کرا سکے.مسٹر عبد اللطیف کو HOJBY کے چھوٹے سے قصبہ میں سیر کرتے ہوئے دیکھ کر ہم یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ ان خیالات میں مستغرق ہیں کہ وہ دن کب آئے گا.جب ڈنمارک میں مساجد کی تعمیر کے ساتھ اسلامی توحید کا نعرہ سارے ملک میں گونج اُٹھے گا.“ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ دورہ نہایت کامیاب رہا.اب نومبر میں دوبارہ دورہ کا پروگرام ہے.ڈنمارک میں خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک آنریری مبلغ عطا فرمایا ہے.یہ مبلغ ہمارے نہایت جلد 21

Page 32

تاریخ احمدیت 23 جلد 21 مخلص نو مسلم بھائی مسٹر عبدالسلام میڈسن ہیں.جنہیں خدا تعالیٰ نے تبلیغ اسلام کا خاص جوش بخشا ہے.اپنے فارغ اوقات میں وہ نہایت تندہی سے تبلیغ حق میں مصروف رہتے ہیں.قرآن کریم کا ڈینش زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت بھی انہیں کو نصیب ہو رہی ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے تقاریر وذاتی ملاقاتوں کے ذریعہ بھی وہ خدمت اسلام بجالا رہے ہیں.آپ کو یہاں کے UNITERIEN CHURCH نے تقریر کی دعوت دی.اس کا موضوع یہ تجویز ہوا کہ ”میں نے اسلام کو کیوں قبول کیا“.یہ لوگ حضرت مسیح کو نہ تو خدا تسلیم کرتے ہیں اور نہ کفارہ پر ایمان رکھتے ہیں.برادرم میڈسن نے انہیں بتایا کہ تثلیث کفارہ اور ابنیت مسیح کے عقائد نے انہیں عیسائیت سے متنفر کیا اور اسلام کی دکش تعلیمات کا اقرار ہر سلیم فطرت کرنے پر مجبور ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تقریر بہت توجہ سے سنی گئی اور کئی ایک غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موجب بنی.سکنڈے نیویا: 20 جناب مولوی کمال یوسف صاحب بانی سکنڈے نیویا مشن کے قلم سے ایک مطبوعہ رپورٹ اگست 1960 ء درج ذیل کی جاتی ہے جس سے مشن کی سالانہ دینی خدمات کی ایک جھلک نمایاں ہو جاتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں : جماعت احمد یہ سکنڈے نیویا کی پہلی سالانہ کانفرنس 5, 6, 7 اگست سٹاک ہائم میں منعقد ہوئی.کانفرنس کے انتظامات مکمل کرنے میں برادرم سیف الاسلام صاحب محمود نے سب سے زیادہ ہاتھ بٹایا اور بڑے اخلاص کے ساتھ کانفرنس کو کامیاب بنایا.5 اگست کو کانفرنس کا آغاز نماز جمعہ کے ساتھ کیا گیا.جس میں سویڈن، ناروے، ڈنمارک کے احمدی نمائندوں کے علاوہ عرب جمہوریہ اور سٹاک ہالم کے بعض غیر احمدی اصحاب بھی شامل ہوئے.بہت سے عیسائی زائرین نے بھی کارروائی سنی.اس موقعہ کی فلم بھی اتاری گئی.5 اگست کی شام کو وسیع پیمانہ پر ایک عام اجلاس کیا گیا.اس میں برادر محمد عبد السلام صاحب میڈسن نے احمدیت برادرم سیف الاسلام صاحب محمود ارکسن نے حضرت مسیح کا مقام قرآن مجید کی رو سے اور خاکسار نے تعلیم الاسلام کے مواضع پر.ڈینیش ،سویڈش اور نارویجن میں تقاریر کیں.کثرت سے عیسائی شامل ہوئے.پاکستان اور عرب جمہوریہ کے

Page 33

تاریخ احمدیت 24 سفارت خانہ سے بھی احباب اجلاس میں شریک ہوئے.سعودی عرب کے متعلق ایک رنگین فلم بھی جو کرم حافظ قدرت اللہ صاحب امام مسجد ہیگ کے تعاون سے حاصل کی گئی تھی دکھائی گئی.اس موقعہ پرلٹر پچر وسیع پیمانہ پر تقسیم کیا گیا.6 اگست کو نمائندگان کے اعزاز میں لنچ دیا گیا.اس میں ڈاکٹر بشیر احمد صاحب اور عرب جمہوریہ کے اول اور دوم سیکرٹری بھی شامل ہوئے.اس کے بعد ایک تفریحی بس ٹو ر کیا گیا.7 اگست کو نماز ظہر اور تلاوت قرآن مجید کے بعد کانفرنس شروع کی گئی.سب سے پہلے سکنڈے نیوین نمائندوں نے اپنی تبلیغی مساعی کی رپورٹ پیش کی.جس کا ملخص یہ ہے 80 تقاریر 8 مباحثات 3 ریڈیو اور 2 ٹیلی ویژن انٹرویو 150 مضامین اخبارات میں شائع ہوئے.ماہنامہ کا باقاعدہ اجراء.عیدین اور جمعہ کا التزام اوسلو، سٹاک ہالم، کوپن ہیگن اور مالمو میں کیا جاتا رہا.11 پمفلٹ شائع کئے گئے.1964ء میں مکرم وكيل التبشير صاحب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے سکنڈے نیویا کا دورہ کیا.مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب نے پانچ مرتبہ ڈنمارک کا دورہ کیا.دومرتبہ سٹاک ہالم اور ایک مرتبہ اوسلو مسجد کی زمین کی خرید کے لئے تشریف لائے.ہر دفعہ ان کی تقاریر کا انتظام کیا گیا.ڈنمارک کی براہ راست نگرانی انہیں سے تعلق رکھتی ہے.ترجمہ قرآن مجید ڈینش سورۃ فاتحہ سے سورۃ المائدہ تک اور آخری دو پارے برادر عبدالسلام صاحب میڈسن نے کیا اور اس کے نوٹ بھی تیار کئے گئے.کشتی نوح کا ایک حصہ اور سوال و جواب مرتبہ فہیم احمد صاحب سیفی کا نارویجین ترجمه برادرم نوراحمد صاحب بوستاد نے تیار کیا.ایکٹو اسلام کی ادارت برادرم عبد السلام صاحب محمود ارکسن کرتے رہے.تمام لائبریریوں میں لٹریچر تقسیم کیا گیا.مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب جو کوپن ہیگن میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں نے جماعت احمدیہ کراچی کے شعبہ خدمت خلق کی مساعی کا ذکر کیا.اور برادرم محمود نعیم الاسلام صاحب ایمسٹرڈم نے احمد یہ مشن ہالینڈ کی مساعی جمیلہ کا مفصل ذکر کیا.اس کے بعد نماز عصر ادا کی....اور قرآن مجید کی تلاوت کے بعد دوسرا اجلاس شروع کیا گیا.اس اجلاس میں مندرجہ پانچ امور پر خصوصیت سے غور کیا گیا.( 1 ) موجودہ ماہوار چندہ کو بڑھانے کی تجاویز سوچی گئیں (2) تربیت و تعلیم کے سلسلہ میں ایک لیٹر کورس جاری کرنے کی تجاویز پر جلد 21

Page 34

تاریخ احمدیت 25 غور کیا گیا (3) یہ فیصلہ کیا گیا (بشرط منظوری مرکز ) کہ آئندہ سالانہ کانفرنس مارچ 30 اپریل 1، 2، 3 (1961) کوپن ہیگن ہو (4) ڈینیش ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت کے وسائل پر غور کیا گیا (5) ماہنامہ ایکٹو اسلام کی مزید آمد کے ذرائع سوچے گئے.مغرب کی نماز کے وقت اجلاس ختم ہوا.اختتام پر سب نے خلافت احمدیہ سے وفاداری کا عہد کیا اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں درخواست دعا کی غرض سے تار دیا گیا.کانفرنس کے سلسلہ میں برادرم عبدالواحد صاحب روسن نے بہت تعاون کیا.مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب اور مکرم عبدالحکیم صاحب اکمل ہیگ نے خاص پیغام کا نفرنس کے لئے بھجوایا.اسی طرح کوپن ہیگن سے برادرم اور نگ بیچی عبدالقادر صاحب نے پیغام ارسال کیا.فجز اھم اللہ احسن الجزاء.خاکسار اور برادرم عبدالواحد صاحب اور برادرم محمد عبدالسلام میڈسن ایک مسلمان ترک جو سٹاک ہالم میں بہت صاحب رسوخ ہیں کے ہاں گئے.وہاں اور بھی ترک موجود تھے ان سے احمدیت کے متعلق دو گھنٹے تبادلہ خیالات کیا.نماز جمعہ کے لئے یہی دوست اپنے قالین مستعار دیتے ہیں.ایک عیسائی عراقی دوست سے دو گھنٹہ الوہیت مسیح پر تبادلہ خیالات ہوا.ترکی سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کے گھر گیا اور ان سے دوگھنٹہ جماعت سٹاک ہالم کے تعاون کے سلسلہ میں گفتگو ہوئی.پاکستان اور تر کی سفارت خانوں میں ملاقات کے لئے گیا.برادرم کلیم ہونس صاحب نے ایکٹو اسلام کے لئے 200 کراؤن بطور عطیہ کے دیئے.فجز اھم اللہ احسن الجزاء.سٹاک ہالم سے روانہ ہو کر خاکسار ڈنمارک میں مذاہب کانفرنس میں شمولیت کے لئے گیا.یہ کانفرنس 11 اگست سے لے کر 13 اگست تک رہی جس میں عیسائیت کی نمائندگی (1) ڈینٹس رٹیٹ چرچ (2) ہندومت کی نمائندگی ایک جوگی پروفیسر (3) مارٹن سکول کی ایک پادری نے (4) اور اسلام کی نمائندگی برادرم محمد عبد السلام صاحب میڈسن اور خاکسار نے کی.11 اگست کی شام کو صدر مجلس نے اسلام کے موضوع پر تقریر کی.اسلام اور احمدیت کے متعلق لائف میگزین کی تیار کردہ رنگین فلم دکھائی گئی.اس کے بعد عام بحث کا آغاز ہوا.12 اگست کو نماز جمعہ کا نفرنس ہال میں ادا کی گئی.کانفرنس میں شامل ہونے والے تمام طلبہ معلمین اس موقعہ پر موجود تھے.خطبہ جمعہ کو سنا اور نماز کو دیکھا.جلد 21

Page 35

تاریخ احمدیت 26 شام کو خاکسار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی پر تقریر کی.تقریر کے بعد بحث جاری ہوگئی.13 اگست کو راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی صورت میں تقریبا دس گھنٹے مندرجہ ذیل چار امور پر تبادلہ خیالات تقاریر اور بحث ہوئی ( 1 ) گناہ و تقدیر (2) رواداری (3) دعا (4) زُہد.زہد کے سلسلہ میں برادرم میڈسن صاحب کی تقریر پر موضوع ”صوم“ کو بہت پسند کیا گیا.دعا کے سلسلہ میں سورۃ فاتحہ جب پیش کی گئی تو صدر جو خود POSTER ہیں نے اپنے ساتھ کے پادریوں سے کہا اگر ہم اپنی دعا کی بجائے سورۃ فاتحہ کو چرچ میں اختیار کر لیں تو یہ ہماری دعا سے بہت بہتر ہے.ان چاروں موضوعوں پر سب نمائندوں نے تقاریر اور سامعین سے بحث پر حصہ لیا.گناہ تقریر اور رواداری کی اسلامی تعلیم کا عوام اور پادریوں پر بہت اچھا اثر ہوا.اجلاس کے اختتام پر صدر نے کہا کہ میں تو اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو خدا کا نبی سمجھتا ہوں.اس کانفرنس میں جو دُور دُور سے لوگ جمع ہوئے تھے.ان سب میں لٹریچر تقسیم کیا گیا.آئندہ سال کا نفرنس میں شرکت کے لئے خاکسار کو مدعو کیا گیا.کانفرنس کے بعد خاکسار نے برادرم محمد عبد السلام کے گھر چند دن قیام کیا.مالمو میں برادرم عمر عثمان صاحب کے گھر تمام احمد یوں کو جمع کیا.نماز ظہر وعصر پڑھی اور ان کے بچے کا نام رکھا اور اذان دی.دوسرے دن دوبارہ مالمو میں احمدیوں کا اجلاس کیا جس کا انتظام بہن رضیہ اور برادرم مدحت ابراہیم صاحب نے کیا.واپسی پر ڈاکٹر بشیر احمد صاحب کے مکان پر تمام ڈینٹس احمدیوں کا اجلاس کیا نماز ظہر و عصر و ہیں پڑھیں.برادرم رقیم احمد برگن کے گھر گیا.مسزا حسان اللہ عائشہ ڈینٹس کے گھر گیا.انہوں نے مکرم شیخ ناصر احمد صاحب کا رسالہ ” حضرت مسیح قرآن میں“ کا ڈینٹس ترجمہ کیا ہے.ہماری عیدالاضحی انہی کے گھر ہوئی تھی جس کی انہوں نے فلم بھی تیار کی ہے.برادرم آرن ٹو فٹ کے گھر گیا انہوں نے اپنے مکان کا ایک حصہ جماعت کے اجلاسوں کے لئے وقف کیا ہوا ہے.قرآن مجید کے پہلے پارہ کی طباعت کے سلسلہ میں پرنٹنگ پریس کے مینجر سے مل کر بعض معاملات طے کئے.رات کا قیام خاکسار اور ڈاکٹر بشیر احمد صاحب نے برادرم مدحت ابراہیم صاحب کے گھر کیا یہ بہت مخلص فیملی ہے.جلد 21

Page 36

تاریخ احمدیت سوئٹزرلینڈ، آسٹریا: 27 جلد 21 شیخ ناصر احمد صاحب بی.اے انچارج سوئٹزرلینڈ مشن کی اپریل تا ستمبر 1960 ء کی مطبوعہ رپورٹوں میں سے مشن کی سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا پر محیط دینی سرگرمیوں پر خوب روشنی پڑتی ہے ذیل میں ان پر اثر رپورٹوں کے ضروری حصے درج کئے جاتے ہیں.زیورک کے ایک حصہ میں صلیب از رق“ کے ایک گروہ کے سامنے مورخہ 18اپریل کو اسلام پر تقریر کرنے کا موقعہ ملا.تقریر کے بعد اسلام اور عیسائیت کے مضمون پر دیر تک سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.جس کے دوران وفات مسیح اور الوہیت و ابنیت میسج کے موضوعات پر بحث ہوئی.سامعین میں ” میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں“ کا رسالہ تقسیم کیا گیا.مورخہ 12 اپریل کو شہر بازل میں ایک تبلیغی اجلاس کے دوران ”اسلام اور اسلام کا نبی کے موضوع پر خاکسار نے ایک مفصل تقریر کی ، جو اسی منٹ تک جاری رہی.اس کے بعد حاضرین کے سوالات کے جواب دیئے گئے اور انہیں لٹریچر پیش کیا گیا.مؤرخہ 12 اپریل کو شہر ونٹر تھور میں وائی.ایم سی اے والوں نے ”اسلام اور عیسائیت“ کے موضوع پر تقریر کا اہتمام کیا.تقریر کے بعد دیر تک سوال وجواب کا سلسلہ جاری رہا.آسٹریا کے دورہ کے سلسلہ میں مورخہ 9 جون کو انز بروک کی یونیورسٹی میں خاکسار نے اسلام کی روحانی دنیا کے موضوع پر ایک مفصل لیکچر دیا.اس لیکچر کے بعد سامعین کومزید معلومات حاصل کرنے کی دعوت دی گئی.چنانچہ رہائش گاہ پر ایک گروپ سامعین کا آیا.اور دیر تک گفتگو ہوتی رہی.تقریر کے بعد مسلمان ممالک کے بہت سے طلباء بھی موجود تھے.جنہوں نے ہماری مساعی کو بہت تحسین و قدر کی نگاہ سے دیکھا تقریر سے پہلے بھی انفرادی گفتگو ہوتی رہی.اس لیکچر کا اعلان لوکل اخبارات میں شائع ہوا.نیز ریڈیو پر بھی متعدد بار اس کا اعلان نشر کیا گیا.خاکسار اس موقعہ پر ایک پروفیسر ڈاکٹر LEONHARD FRANCE سے بھی ملا.اور یونیورسٹی میں مزید لیکچروں کے مواقع پر گفتگو ہوئی.چنانچہ دسمبر میں وہاں دو لیکچروں کا انتظام ہو گیا ہے.علاوہ ازیں آسٹریا کے دوسرے شہروں میں بھی لیکچروں

Page 37

تاریخ احمدیت 28 کے انتظام کے لئے خط و کتابت ہو رہی ہے.جون کے مہینہ میں وی آنا گیا.اور وہاں مقامی احمدی افراد سے متعدد انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں کر کے تبلیغی کام کو وسیع کرنے کی ایک سکیم پر غور کیا گیا.انشاء اللہ العزیزیہ سکیم تیار کر کے اس پر عمل شروع کر دیا جائے گا.وی آنا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہو چکی ہے.اپریل میں ایک خاندان نے بیعت کی.جون میں ایک اور خاتون نے.اس خاتون کے خاوند ڈاکٹر خالد رسیڈلر چند سال سے احمدیت قبول کر چکے ہیں.مورخہ 14 جون کو خاکسار آسٹریا کے فیڈرل صدر Dr.ADALT SCHARB سے اُن کے ایوانِ خاص میں ملاقات کے لئے گیا اس موقعہ پر اُن کی خدمت میں قرآن مجید کا ایک نسخہ پیش کیا گیا.گفتگو کے دوران صدر محترم نے خود ہی اس امر کا اعتراف کیا کہ مسلمانوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں عیسائی حکومتوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ رواداری کا نمونہ دکھایا ہے اس سے ایک روز قبل خاکسار نے وی آنا کے صدر بلد یہ AERK FRANZ JONAS کو بھی ایک نسخہ قرآن مجید کا بطور تحفہ پیش کیا.وی آنا کے ایک اخبار میں ایک نوٹ شائع کرایا گیا.تا اسلام سے دلچسپی رکھنے والے حضرات خاکسار سے مل کر مزید معلومات حاصل کریں.ایک روز ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ گفتگو کرنے اور لٹریچر تقسیم کرنے کا موقع ملا.وی آنا میں ہی خاکسار ایک لیکچروں کے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائر یکٹر سے ملا اور اسلام پر تقاریر کا انتظام کروایا.آسٹریا کے دورہ کی خبر یونائیٹڈ پریس آسٹرین پریس ایجنسی ، رائٹر اور وی آنا کے اخبارات کو دی گئی.رسالہ اسلام کے تین پرچے تیار کر کے کل 830 کی تعداد میں لوگوں کو بھجوائے گئے.ان پر چوں میں حسب ذیل مضامین درج کئے گئے.اسلام میں نماز کی حقیقت، ادعیتہ القرآن سوانح حیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخ کلیسا، یورپین مشنز مجلس مشاورت وزیر اعظم اسرائیل اور پرانا عہد نامہ.حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کا ذکر، اسلام یا عیسائیت، خدا تعالیٰ کارساز ہے،اسلام اور تقدیر، ریویو کتب فرانس اور الجزائر مسجد زیورک، قارئین کے خطوط، احادیث وغیرہ.جلد 21

Page 38

تاریخ احمدیت 29 مشتمل عرصہ زیر رپورٹ میں ایک رسالہ نماز تیار کیا گیا.یہ چھوٹی تقطیع کے 48 صفحات پر.رسالہ نماز کی ادائیگی کا طریق سمجھنے کے لئے بہت مفید اور کارآمد ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اہم کام پر بہت محنت صرف کرنے کی توفیق حاصل ہوئی.رسالہ کے نسخے سوئٹزرلینڈ کے علاوہ آسٹریا اور جرمنی بھی بھجوائے گئے.نئے مسلمانوں کے لئے نماز کا عربی متن آسانی سے حفظ کرنے کے لئے ایک ریکارڈ بھی تیار کرایا گیا ہے.جس سے لوگ آسانی سے نماز سیکھ رہے ہیں.فالحمد للہ.جلد 21 متعدد افراد کے مطالبہ پر مختلف شہروں میں لٹریچر بھجوایا گیا جمہوریہ متحدہ عربیہ کے لئے عربی کا لٹریچر مہیا کیا گیا.دعوت و تبلیغ قادیان کے مطالبہ پر لٹریچر کا سیٹ ارسال کیا گیا.علاوہ ازیں آسٹریا اور جرمنی میں بھی لٹریچر بھجوایا.ایک سہ ماہی رسالہ کو کچھ کتب بغرض ریو یو بھجوائیں سوئس اخبارات کو رسالہ نماز بھجوایا...مختلف ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد اپریل میں بلڈنگ پرمٹ کی درخواست حکام کو دی گئی تعمیر کے پروگرام میں یہ مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے پہلے ایک اعلان گزٹ میں شائع ہوتا ہے.تا اعتراض کرنے والے اپنے اعتراض کورٹ میں پیش کریں.اس کے بعد ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ میں فائلیں جاتی اور بار یک نکتہ چینی اور جرح قدح ہوتی ہے جس پر کئی ہفتے لگ جاتے ہیں.استثنائی حالات میں معاملہ بالائی حکومت کے پاس بھی جاتا ہے.خاکسار نے ہر مرحلہ پر اپنی درخواست کا جائزہ لیا اور قدم قدم پر افسران سے ملا.آرکیٹکٹوں کا رپوریشن کے محکمہ جائداد والوں تعمیر کے محکمہ کے افسران.غرض ہر قسم کے ذمہ دار اراکین کے ساتھ قدم قدم پر تعلق قائم رکھا معاہدہ کی رُو سے مسجد کی تعمیر کا کام دسمبر تک ایک خاص مرحلہ پر پہنچ جانا چاہئے.احباب کرام خاص طور پر دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں جلد از جلد کام کو شروع کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ایک مرحلہ پر چرچ والوں نے بھی مداخلت کی.اور حکومت کو لکھا کہ ان لوگوں کو مسجد نہ بنانے دی جائے کیونکہ اسی جگہ ایک چرچ بھی ہے.حکومت نے چرچ کی اس درخواست کو رد کر دیا ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ بالخصوص اعلیٰ حکام سے مفید رنگ میں ملنے کی توفیق ملی.اور چرچ کی مخالفت بے شمر رہی.مؤرخہ 5 جون کو عید الاضحیہ منائی گئی.جس میں مختلف شہروں کے احمدی افراد کے

Page 39

تاریخ احمدیت 30 علاوہ دوسرے غیر ممالک کے مسلمان احباب بھی شامل ہوئے.حاضرین کی تواضع کھانے سے کی گئی.ٹامس لک والوں کا تعلقات عامہ کا افسر ملنے آیا.مسجد کے ضمن میں اس نے اپنی فرم کی فرمائش کی.تا سفر کرنے والے افراد ان کی خدمات حاصل کریں.ایک روز عراق کے انڈسٹریل بنک کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل ملنے آئے.ان سے احمدیت پر گفتگو ہوئی.اور عربی لٹریچر انہیں دیا گیا.ہماری مساعی کا علم حاصل کر کے بہت خوش ہوئے.مؤرخہ 27 جون کو زیورک میں ایک سوسائٹی بنام نئی دنیا کے زیر اہتمام ایک تقریب تھی جس میں خاکسار بھی شامل ہوا ایک مصری صاحب نے اسلام پر لیکچر دیا.اور بعد میں عام بحث شروع ہوگئی.حاضرین میں سے بعض نے خواہش کی کہ خاکسار سوالات کے جواب دے.چنانچہ قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک خاکسار نے سوالات کے جواب دیئے.اور اس طرح مجلس میں خاص سرگرمی اور رونق ہوگئی.مقامی اراکین جماعت کے تین اجلاس زیورک میں اور تین اجلاس وی آنا میں بلائے گئے رسالہ ریویو آج ریلیچز کے کل نوے پرچے مختلف افراد کو بھجوائے گئے.اور خریداری کی تحریک کی جاتی رہی.خدا تعالیٰ کے فضل سے سات افراد نے بیعت کی ( اس تعداد میں تین بچے بھی شامل ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ وی آنا میں اسلام میں داخل ہوئے.) خاکسار نے ملک کے ایک مشہور سیاستدان HERR GOULIED SUTT WCELER سے ملاقات کر کے انہیں قرآن مجید کا ایک نسخہ بطور تحفہ پیش کیا.ایک مجلس میں فیڈرل گورنمنٹ کے فنانس منسٹر سے ملاقات کرنے کا موقعہ ملا.جن کے ساتھ خاکسار کی پہلے سے واقفیت تھی.ایک روز انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کا نمائندہ ملاقات کے لئے آیا.عرصہ زیر پورٹ میں مختلف اخبارات میں ہمارے متعلق مضامین اور نوٹ شائع ہوئے سیرت النبی کے جلسہ کی رپورٹ زیورک کے تین روزانہ اخبارات میں شائع ہوئی.علاوہ ازیں دوسرے شہروں کے اخبارات میں بھی اس جلسہ کا ذکر آیا.ملک کے سب سے بڑے اخبار نے ہماری تیار کی ہوئی رپورٹ من وعن شائع کر دی.خاکسار تین اخبارات کے جلد 21

Page 40

تاریخ احمدیت 31 جلد 21 نمائندوں کو فردا فرد املا.علاوہ ازیں دو اخبارات کے نمائندے انٹرویو کے لئے آئے.ایک اور انٹرویو خاکسار نے ایک انسٹی ٹیوٹ کے نمائندے کو دیا.جو رفاہ عام کے کاموں کے بارے میں معلومات جمع کرتی ہے.مختلف افراد کو ان کے مطالبہ پر لٹریچر ارسال کیا گیا.آسٹریا میں دو قیدیوں کو اسلام - دلچسپی ہوگئی.انہیں خطوط ولٹریچر کے ذریعہ مزید تبلیغ کی گئی.ایک صاحب نے ہسپانوی زبان میں لٹریچر طلب کیا جو مہیا کیا گیا.ایک کمپنی کے ڈائر یکٹر کو اس کی خواہش پر قرآن کریم کا نسخہ پڑھنے کے لئے دیا.مؤرخہ 6 اگست کو زیورک میں مشن آمد ثانی کے نوجوانوں کی یورپین کانگرس کے موقعہ پر ہم نے ایک دعوت نامہ تیار کر کے لوگوں میں تقسیم کیا.اس غرض کے لئے چار مقامی اراکین جماعت نے اپنی خدمات پیش کیں.ریویو آف ریلیجنز کے پرچے لوگوں کو بھجوائے گئے.خریدار بنانے کی کوششوں میں بفضلہ تعالیٰ کامیابی ہوئی.دور سالہ جات تیار کئے جارہے ہیں.جن کا عنوان ہے " آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بائیل میں اور تاریخ اور قرآن علاوہ ازیں ایک رسالہ ”نبی اسلام بھی تیار کیا جا رہا ہے.ایک اخبار میں جماعت احمدیہ کی افریقہ و یورپ میں کامیابیوں کا اعتراف شائع ہوا.آسٹریا کے دورہ کے سلسلہ میں لیکچروں کی تیاری کا کام کیا گیا.مورخہ 4 ستمبر کو میلادالنبی کی مناسبت سے ایک پبلک جلسہ کا انعقاد کیا گیا.پہلے قرآن کریم کی تلاوت کا ریکارڈ سنایا گیا.اس کے بعد ایک ایرانی دوست نے اختصار کے ساتھ اسلام پر تقریر کی.بعد میں خاکسار نے قریباً ایک گھنٹہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک پر تقریر کی.اور یورپین مصنفین کی تحریرات کے حوالے دیئے.آخر میں احادیث کا ایک ملخص سنایا گیا.حاضرین کی تواضع کا انتظام تھا.یہ جلسہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب رہا.بہت سے اخبارات میں بھی اس جلسہ کا ذکر آیا.یہ ملک بھی مجاہدین احمدیت کی دینی جدوجہد کا فعال مرکز بنارہا احمد یہ مشن کے انچارج حافظ قدرت اللہ تھے اور آپ کے نائب جناب عبد الحکیم صاحب اکمل جن کی سالانہ رپورٹوں کا خلاصہ انہی کے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں.

Page 41

تاریخ احمدیت 32 جلد 21 امسال جنوری کے شروع میں ایک اور اہم تنظیم کا علم ہوا.جبکہ امریکن چرچ سوسائٹی کی طرف سے اسلام کے متعلق معلومات بہم پہنچانے کی درخواست موصول ہوئی.یہ تنظیم بین الاقوامی بنیادوں پر قائم ہوئی ہے.وہ غیر ملکی لوگ جو ہالینڈ میں مختلف قسم کے کاموں پر متمکن ہیں.اس مجلس کے ممبر ہیں.جیسے سفارت خانوں کے افسران فنی مرا کز ، ماہرین اور تجارتی کمپنیوں میں کام کرنے والے حضرات وغیرہ.اس مجلس کی طرف سے اسلام کے متعلق معلومات کے لئے درخواست متحدہ جمہوریہ عرب کے سفارت خانہ کی وساطت سے ہم تک پہنچی.چنانچہ مذکورہ ایمبیسی کے سیکرٹری صاحب سے مل کر پروگرام مرتب کیا گیا.نیز مناسب خیال کیا گیا کہ ایسے معززین کا مشن کی طرف سے خیر مقدم کیا جائے.اور ان کے اعزاز میں دعوت کی جائے.چنانچہ اس ضمن میں مذکورہ بالا تاریخ کو ایک کامیاب تقریب منعقد ہوئی.جس میں متعدد ممالک امریکہ، افریقہ، آسٹریلیا، انگلستان، ہالینڈ، کیم ، جرمنی ، سوئٹزر لینڈ ، سکنڈے نیویا اور مڈل ایسٹ کے چالیس افراد نے شمولیت کی.حاضرین کرام میں دیگر بڑے تجارتی اور فنی ماہرین کے علاوہ مغربی جرمنی کی ایمبیسی اور متحدہ جمہوریہ عرب کے سفارت خانہ کے سیکرٹری صاحبان بھی موجود تھے.پروگرام کے مطابق برادرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے انگریزی زبان میں ایک گھنٹہ تک تقریر فرمائی.اور اسلام اور احمدیت کے متعلق حاضرین کو معلومات بہم پہنچا ئیں.آپ نے اپنی تقریر کے دوران تاریخ اسلام پر نظر ڈالتے ہوئے تعلیمات قرآنیہ کو بیان فرمایا.نیز اختصار کے ساتھ اسلام اور مابہ الامتیاز مواقع کا ذکر کیا.اور جماعت کی تبلیغی مساعی کے بارہ میں معلومات بہم پہنچائیں.آپ نے اس میں بین الاقوامی تنظیم کے سامنے اسلام کی بین الاقوامی برادری کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ جو مختلف ممالک اور مختلف قومیتوں اور نسلوں سے تعلق رکھتے ہوئے ایک تنظیم میں شامل ہیں.اس بات سے خوب اندازہ کر سکتے ہیں کہ بین الاقوامی اور بین مملکتی بنیادوں پر بھائی چارہ اور برادری قائم کرنے سے کس قدر سکون قلب حاصل ہوتا ہے.اور امن وصلح اور آشتی کی بنیاد پڑتی ہے.آپ نے مزید کہا کہ آپ لوگوں کی تنظیم کی یہ شکل مدت مدید کے انسانی تجربہ اور عرصہ بعید کے فکر و عمل کا نتیجہ ہے اگر لوگ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کی آواز پر کان دھرتے اور لبیک کہتے تو آج سے چودہ سوسال قبل ہی اس معراج انسانی کو پالیتے مگر افسوس کہ لوگوں نے دین فطرت کی اس تعلیم پر توجہ نہ دی.اور اس نعمت عظمی کے ہمہ گیر فوائد سے محروم رہے.مورخہ 27 جنوری 1960 - احمد یہ مشن ہالینڈ نے ایک جلسہ کا وسیع پیمانہ پر اہتمام کیا اور بہت سے لوگوں کو بلا کر جماعت کی تبلیغی مساعی سے آگاہ کیا.نیز ان احباب کا شکریہ ادا کرنے کا موقع پیدا کیا گیا

Page 42

تاریخ احمدیت 33 جلد 21 جو اپنے علم وفضل اور دیگر ذرائع سے مشن کے کام میں ممد و معاون ثابت ہوئے.اس جلسہ میں متعدد علم دوست حضرات اور اسلام میں دلچسپی رکھنے والے احباب کو مدعو کیا گیا.چنانچہ اہل ہالینڈ نے خاص دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کثرت کے ساتھ شمولیت کی.ہیگ شہر سے پروفیسر، ڈاکٹر ، وکلاء و دیگر قریباً ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوئے.اس کے علاوہ ہالینڈ کے دوسرے متعدد شہروں سے بھی کثیر تعداد نے شرکت کی.چنانچہ ایمسٹرڈم ، اور ڈم، زند فورٹ ، اسد ورپ، نورد و یک، ہاردر و یک، الکمار، لائیڈن، واسنار، ڈیلفٹ، فلارد نگن، ڈنڈ واڈر وغیرہ سے متعددا حباب تشریف لائے.ہالینڈ کے صوبہ فریس لینڈ جو کہ ہیگ سے بہت دور ہے اور بذریعہ گاڑی کئی گھنٹوں کا راستہ ہے چند دوست ہمارے اس جلسہ میں شمولیت کی غرض سے تشریف لائے.مقامی احباب کے علاوہ بہت سے غیر ملکی معزز مہمانوں نے بھی شامل ہوکر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی.چنانچہ پاکستان، افریقہ، متحدہ جمہوریہ عرب، انڈونیشیا، سرینام اور آسٹریا کے دوست بھی موجود تھے.جس سے اسلامی اخوت اور برادری کی فوقیت ظاہر ہوئی.جلسہ کی اطلاع دیگر دوستوں کو بھجوانے کے علاوہ ہالینڈ کے اخبارات کو بھی بھجوائی.چنانچہ جلسہ کے دن متعد دنمائندگان پر لیس حاضر تھے.جلسہ کا آغاز مکرم انچارج صاحب مشن برادرم حافظ قدرت اللہ صاحب کی تقریر سے ہوا.آپ نے جملہ حاضرین کرام کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان پر اس موقع کی اہمیت کو واضح فرمایا.آپ نے کہا آج کا دن جماعت احمدیہ کی تبلیغی تاریخ میں ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس عرصہ میں جماعت کو بفضلہ تعالٰی اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی توفیق ملی ہے.آپ نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اسلام ہی وہ یگانہ مذہب ہے جو اپنی سنہری تعلیمات کے ذریعہ اس کرہ ارضی پر ایک ایسی برادری اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جس میں مختلف ملکوں اور نسلوں کو اکٹھا کیا جاسکے اور جس میں سفید وسیاہ ہر دو صحیح معنوں میں زندگی کی بیش بہا نعمتوں سے متمتع ہوسکیں.نیز جس سے مشرق و مغرب میں ایک دوسرے کو سمجھنے کی حقیقی صلاحیت پیدا ہو سکتی ہے.آپ نے فرمایا یہی وہ عظیم الشان مقصد ہے جسے مدنظر رکھ کر جماعت احمد یہ اپنی کم مائیگی وبے سروسامانی کے باوجود تن تنہا کوشاں و مصروف ہے.آپ نے حاضریں کو یقین دلایا کہ اس نظریاتی دور میں آخر کار اسلام ہی کی فتح ہوگی اور اس کی تعلیمات کا بول بالا ہوگا.آپ نے ان تعارفی کلمات کے بعد اس جلسہ کی صدارت کے لئے ایک ڈچ نومسلم مسٹر

Page 43

تاریخ احمدیت 34 جلد 21 فنڈ تر (MR T.M.FUNDTER) کا نام تجویز کیا.سب سے پہلے تلاوت قرآن پاک ہوئی جس کی خاکسار کو توفیق ملی.بعد ازاں صاحب صدر نے تلاوت شده و دیگر منتخب شدہ آیات قرآنیہ کا ترجمہ پڑھ کر سنایا.اور بیان کردہ مضامین کی طرف توجہ دلائی.اس کے بعد سب سے قبل ہمارے ڈچ نو مسلم مسٹر عبدالرحمن صاحب (MAR.STEENHAUWER) نے وہ مضمون پڑھ کر سنایا جو مکرم جناب حافظ صاحب نے اس موقع کے لئے خاص طور پر تیار کر کے ایک خوشنما ٹائیٹل پیج کے ساتھ جس پر منارة امسیح اور مسجد اقصیٰ کی تصویر بھی ہے طبع کرایا ہوا تھا.اس کا ترجمہ انشاء اللہ کسی وقت ہدیہ ناظرین کیا جائے گا.آپ کے بعد ہمارے علم دوست فلاسفر ڈاکٹر دی سنگ (DN DEJONG) جو اگر چہ غیر مسلم ہیں مگر اسلام کو منصفانہ نظر سے دیکھتے ہیں نے تقریر فرمائی.آپ نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ جماعت احمدیہ کے مبلغین نہ صرف اسلام ہی سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں بلکہ عیسائیت اور بائیبل کی تعلیمات کا بھی خوب مطالعہ کئے ہوئے ہیں.آپ نے کہا کہ میرے نزدیک اسلام کی رواداری کے ثبوت میں یہی ایک دلیل کافی ہے.کیونکہ جب تک دوسرے کے خیالات کا از خود مطالعہ نہ کیا جائے کسی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچا جا سکتا.آپ نے کہا کہ محض تعصب کی وجہ سے دوسرے مذاہب کا از خود مطالعہ نہ کرنا رواداری کے سراسر منافی ہے.آپ نے تقریر جاری رکھتے ہوئے اسلام کے متعلق اس غلط خیال کی پر زورتر دید فرمائی کہ اسلام کو بزور شمشیر پھیلا ہوا کہا جاتا ہے.اس کے ثبوت میں آپ نے قرآن مجید کی ان متعدد آیات کو پیش فرمایا کہ جن میں صاف طور پر بیان ہے کہ دین کے بارہ میں کوئی جبر و اکراہ نہیں اور یہ کہ ہر شخص کو اپنے عقائد کے اظہار کی پوری آزادی ہے.نیز آپ نے ان آیات کے اعلیٰ ادبی معیار سے بھی حاضرین کو محظوظ فرمایا.واضح رہے کہ ڈاکٹر موصوف اس کمیٹی کے ممبران میں سے ایک ہیں جس کے ذریعہ قرآن کریم کا ڈچ ترجمہ تیار کیا گیا تھا.آپ کی تقریر کے بعد ہمارے ایک دوسرے غیر مسلم دوست مصنف (M.V HOVACK) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.کچھ عرصہ ہوا آپ نے قرآن مجید پر بھی ایک کتاب لکھی تھی.جس میں آپ نے لکھا تھا کہ یہ ایسی کتاب ہے کہ جو اپنی دلکش اور مفید تعلیمات کی وجہ سے اس قابل تھی کہ ہر جگہ شہرت پاتی.مگر مغربی دنیا میں تعصب کی وجہ سے یہ کتاب گمنامی میں ہی رہی اور اس سے کما حقہ استفادہ کی کوشش نہ کی گئی.آپ نے اپنی تقریر میں کہا اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ آج تیرہ سوسال

Page 44

تاریخ احمدیت 35 جلد 21 کے بعد جس نہج پر اسلام کا دفاع احمد یہ مسلم مشن کے ذریعہ کیا جارہا ہے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا.آپ نے مزید کہا کہ میرے نزدیک مشرق و مغرب کی یہ نظریاتی جد و جہد ایک بہت بڑے انصاف پسند اور امن پسند ماحول کو پیدا کرنے پر منتج ہوگی.آپ نے مزید بتلایا کہ اسلام نے اپنے مختلف ادوار میں جو اثرات مغربی دنیا پر چھوڑے وہ یورپ کے لئے ایک چینج کی حیثیت رکھتے تھے.آپ کے بعد مسٹر فنڈ تر (Mr.T.M.FUNDTER) نے اپنے اخلاص بھرے خیالات کا اظہار کیا اور حاضرین کو بڑے ہمدردانہ طریق پر بتلایا کہ اسلام ایک اخلاقی قوت ہے جو نظریاتی اختلافات کے معرکوں میں تیر و تفنگ کی بجائے اپنی روحانی طاقت کو استعمال کرتی ہے.اور دلائل عقلیہ ونقلیہ کے ساتھ لوگوں کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کر لیتی ہے.آپ نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ یہ طاقت مادی ہتھیاروں سے کہیں بڑھ کر کامیاب اور کارگر ہے.آپ نے مزید کہا کہ جماعت احمدیہ نے جو حقیقی اسلام پیش کرنے والی جماعت ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد تبلیغ کا ایک وسیع پروگرام مرتب کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس کے مبلغین یورپ کے تمام اہم مقامات پر پھیل گئے.یہ دور جماعت کی تبلیغی جد و جہد میں عظیم الشان وسعت پیدا کرنے کا باعث ہوا.یہاں تک کہ آج دنیا کے قریباً اکثر اہم مقامات پر جماعت احمدیہ کے مبلغین موجود ہیں اور تبلیغی مراکز قائم ہیں.مساجد اور مدارس وغیرہ بھی تعمیر ہیں جن کے ذریعہ ہزار ہا نفوس کی خدمت کا کام سرانجام پارہا ہے.جلسہ کی کارروائی ہالینڈ کے مختلف اخبارات میں جلی عنوانات کے ساتھ شائع ہوئی.20 جنوری 1960ء کو بفضلہ تعالی تبلیغ اسلام کا ایک اور عمدہ اور زریں موقعہ میسر آیا.ہالینڈ کے مرکزی شہر اوترخت (UTRECHT) کے آزاد خیال عیسائی مکتب فکر کے لوگوں کی طرف سے ایک مذاہب کانفرنس منعقد کی گئی.اس موقعہ پر دنیا کے مشہور مذاہب ہندو دھرم ، بدھ مت، اسلام اور یہودیت پر علی الترتیب تقاریر کا وسیع پیمانہ پر انتظام ہوا.ہر تقریر ایک ہفتہ کے وقفہ کے ساتھ تھی منتظمین جلسہ کی طرف سے کانفرنس کا اعلان بڑے بڑے پوسٹروں کے ذریعہ کیا گیا جو سارے شہر میں اہم مقامات پر چسپاں کئے گئے نیز ہر تقریر کے موقعہ پر ایک نیا پوسٹر لگایا جاتا رہا.سب سے پہلے اشتہار میں کانفرنس کے مجموعی پروگرام کا ذکر تھا.مگر پہلی تقریر ہو چکنے پر باقی تین لیکچروں کے عنوانات اور لیکچرار حضرات کے اسماء گرامی شائع کئے گئے.اسی طرح دوسری تقریر کے اختتام پر ایک تیسرا اشتہار دیا گیا تھا.جو باقی دو تقاریر کی کارروائی پر مشتمل تھا.اس طور پر خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام اور مسجد ہالینڈ کا ذکر تین بار بڑے بڑے

Page 45

تاریخ احمدیت 36 جلد 21 پوسٹروں کے ذریعہ عوام کے سامنے آتا رہا.اس مذاہب کانفرنس کے لئے منتظمین کی طرف سے اسلام پر تقریر کے لئے امام مسجد ہالینڈ برادرم مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب کو کانفرنس کے انعقاد سے چند ماہ قبل درخواست موصول ہوئی جس پر ابتدائی امور طے کرنے کے بعد تاریخ مقرر ہوئی.مذکورہ بالا تاریخ کی شام کو مکرم انچارج صاحب مشن اور خاکسار بذریعہ ریل اوترخت روانہ ہوئے یہ سفر کوئی ایک گھنٹہ کا تھا اوترخت شہر ہالینڈ کا قدیم ترین شہر ہے جہاں ایک بڑی یونیورسٹی بھی ہے.اٹھارویں صدی میں اس شہر میں ایک بہت بڑا ڈچ متشرق (Mr.H.RELANDUS) گزرا ہے.جس کی کوشش کے نتیجہ میں ہالینڈ میں اسلام پر مطالعہ کرنے کی بنیاد پڑی.ریلوے اسٹیشن سے اتر کر ہم جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے جب ہم پہنچے تو سامنے ایک بہت بڑے اور قدیمی یادگاری چرچ کی عظیم الشان عمارت کھڑی تھی یہ گر جا سارے شہر میں سب سے بڑا اور پرانا تھا لوگوں سے ملنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ عمارت ان نوادرات میں سے ایک ہے جو اس شہر میں سیاحوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں.ڈیوڑھی سے گزرکر وسیع ہال میں پہنچے یہ عمارت واقعی یورپ کے معماروں کے فن تعمیر کا عمدہ نمونہ تھی ہمیں اسٹیج کے قریب ہی ایک کمرہ میں بٹھایا گیا.شام کے قریب آٹھ بجے جلسہ کا آغاز ہوا.ہال لوگوں سے تقریبا پر تھا.صدر صاحب جلسہ نے مکرم امام صاحب مسجد ہالینڈ کا تعارف کرایا اور تقریر شروع ہوئی.مکرم جناب حافظ صاحب نے تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مختصر طور پر تاریخ اسلام پر روشنی ڈالی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک و مطہر وجود کو بنی نوع انسان کے لئے بطور نمونہ پیش فرمایا آپ نے کہا کہ اگر تاریخ مذاہب پر نظر ڈالیں تو آج کسی ایسے نبی کا پتہ نہیں چلتا کہ جس کی زندگی کے حالات اور اس کی لائی ہوئی تعلیمات پر یقینی طور پر تفصیلاً روشنی پڑ سکے.اس بات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود باجود ہی واحد و یگانہ ہے.آپ کی زندگی کے جملہ کوائف خدا تعالیٰ کی خاص مشیت کے تحت پوری طرح محفوظ ہیں.اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کا ایک ایک ورق ہر طرح محفوظ ہے.بعد ازاں آپ نے اسلام اور عیسائیت کے مابین امتیازی امور کی نشاندہی کرتے ہوئے ورثہ کے گناہ، الوہیت مسیح، اور تثلیث مسیح کی صلیبی موت سے نجات اور بائیبل و قرآن کریم میں الہامی کتاب ہونے کے لحاظ سے فرق وغیرہ موضوعات پر نمایاں طور پر خیالات کا اظہار کیا.آپ نے امن عالم میں اسلام کا حصہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتلایا کہ قیام امن

Page 46

تاریخ احمدیت 37 جلد 21 کے لئے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ناگزیر ہے.کیونکہ امن عالم ایک عالمگیر مسئلہ ہے.جو مشرق ومغرب اور سیاہ وسفید کو اکٹھا کئے بغیر حل ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے.اسلام نے آج سے 1400 سال پہلے سے ایک ایسا تصور پیش کیا کہ جس کے نتیجہ میں اس کرہ ارضی کے جملہ بنی نوع انسان عالمگیر بنیا دوں پراکٹھے ہو سکتے ہیں.ان کے درمیان ایک ایسا بھائی چارہ قائم ہوتا ہے.جو کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھتا.اور ایسا بھائی چارہ کسی اور قوت و طاقت کے ذریعہ حاصل نہیں ہوسکتا.پس اسلامی تعلیم امن عالم کے لئے اس لحاظ سے مؤثر ترین ہتھیار ہے.کیونکہ اس کی گرفت اجسام کی بجائے لوگوں کے قلوب پر ہوتی ہے.جس کے نتیجہ میں اخلاص ، دیانت داری اور کام کی سچی روح پیدا ہوتی ہے.جو کسی بھی کام کی تکمیل کے لئے بنیادی چیزیں ہیں.آپ نے کہا موجودہ دور میں امن عالم کے مسئلہ کو بین مملکتی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش اسلامی تعلیم کی برتری اور فوقیت کی بین دلیل ہے.اور اس امر پر شاہد ناطق ہے.ایک گھنٹہ تقریر کے بعد چند منٹ کا وقفہ تھا.چنانچہ خاکسار نے صدر صاحب مجلس کی اجازت سے لوگوں کو لٹریچر پیش کیا.جو بفضلہ تعالیٰ کئی افراد نے فراخدلی سے خرید کیا.علاوہ ازیں کئی نئے احباب سے گفتگو کا موقعہ ملا.جس سے معلوم ہوا کہ تقریروں کا اثر خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے رنگ میں ظاہر ہوا ہے.وقفہ کے بعد سوالات کی اجازت دی گئی جملہ سوالات لکھ کر بھجوانے کی درخواست کی گئی.چنانچہ متعدد سوالات کئے گئے.جن کے جوابات مکرم جناب حافظ صاحب نے نہایت مناسب رنگ میں دیئے.جس پر مزید ایک گھنٹہ وقت صرف ہوا.چرچ کی طرف سے اس جلسہ کی تمام تر کارروائی کو ٹیپ ریکارڈ کے ذریعہ محفوظ کرنے کا اہتمام بھی تھا.ماہ فروری میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشن ہاؤس میں پانچ جلسے منعقد ہوئے.3 فروری کی شام کو جماعت کا ہفتہ وار جلسہ مکرم جناب انچارج صاحب مشن کی نگرانی میں منعقد ہوا جو خاص طور پر ممبران جماعت کی تعلیم وتربیت کے پروگرام پر مشتمل تھا اس اجلاس میں اسلام غیر متقین کی نظروں میں“ کے عنوان کے تحت وہ مضمون پڑھ کر سنایا گیا.جو انگلستان کے مشہور ومعروف فلاسفر (THOMAS CARLYLE) کی اس کتاب میں سے انتخاب کیا گیا تھا جس میں اس نے اسلام کی صداقت پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان پر دیانتدارانہ اور محققانہ روشنی ڈالی ہے.مضمون کے اختتام پر تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رہا اور مختلف اسلامی مسائل زیر بحث آئے.10 فروری کو شام کے آٹھ بجے مشن ہاؤس کے میٹنگ روم میں وسیع پیمانہ پر ایک جلسہ کا انتظام کیا

Page 47

تاریخ احمدیت 38 جلد 21 گیا.اس دن ہمارے ایک علم دوست فلاسفر ڈاکٹر دی بینگ کا یوم پیدائش تھا آپ چونکہ علمی حلقہ میں کافی اثر رکھتے ہیں اس لئے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیم یافتہ اور معزز حضرات کو مدعو کیا گیا.اس موقع پر مکرم جناب انچارج صاحب مشن نے جناب ڈاکٹر صاحب موصوف کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے آپ کی اسلام کے متعلق دیانتدارانہ رائے اور محققانہ وسیع النظری کا اعتراف کیا اور آپ کی ان علمی خدمات کو بہت سراہا کہ جن کے ذریعہ اہل ہالینڈ کو اسلامی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھنے میں مددملی.اس تقریب پر ڈاکٹر صاحب موصوف نے بھی اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا جس میں آپ نے مشن کی طرف سے پیدا کردہ تقریب پر شکریہ ادا کرنے کے بعد لوگوں کو اسلام کی تعلیمات کے انفرادی مطالعہ کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی جلسہ میں اخباری نمائندگان اور پریس فوٹو گرافر بھی موجود تھے.چنانچہ جملہ کارروائی کی خبر پریس میں شائع ہوئی ایک مؤقر روز نامہ نے نمایاں جگہ پر ایک تصویر بھی دی.مؤرخہ 11 فروری کو ہیگ شہر کے ایک مقامی ہائی سکول کے ایک گروپ کی طرف سے درخواست موصول ہوئی کہ وہ مسجد دیکھنا چاہتے ہیں نیز اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں چنانچہ پروگرام کے مطابق مذکورہ بالا تاریخ کو ہیں افراد پر مشتمل یہ وفد ایک نگر ان کی معیت میں مسجد میں پہنچا.اس موقع پر مکرم برادرم حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج مشن نے پون گھنٹہ تک اسلامی تعلیمات کو ان کے سامنے بیان فرمایا.جس کے بعد سوالات کا موقع دیا گیا.اسلام میں عورت کا مقام اور خدا کی بادشاہت سے کیا مراد ہے که موضوعات خاص طور پر زیر بحث رہے طلبہ کو مسجد دکھلانے کے علاوہ لٹریچر بھی پیش کیا گیا.مؤرخہ 17 فروری کو مشن ہاؤس کے ہال میں ایک مجلس علمی کا انعقاد ہوا جس میں ممبرات نے حصہ لیا اسلام اور احمدیت کے اہم مسائل پر گفتگو کے علاوہ کیتھولک تنظیم اور ان کے طریق کار ورسم و رواج پر دیر تک بحث ہوتی رہی.24 فروری کو مشن ہاؤس میں ایک جلسہ کا اہتمام کیا گیا.جس میں رمضان المبارک کے متعلق تقاریر ہوئیں.متعد داخباری نمائندگان بھی موجود تھے.اس موقعہ پر مکرم انچارج صاحب مشن کی نگرانی میں جماعت کے تین ممبران نے تقاریر کیں.سب سے قبل ہمارے نو مسلم ڈچ عبدالرحمان (A.R STEENHOUWER) نے رمضان المبارک کی آمد کا ذکر کرتے ہوئے روزہ کی غرض وغایت پر روشنی ڈالی اور حاضرین کو بتلایا کہ اس سے مراد صرف یہ نہیں کہ بھوک پیاس برداشت کی جائے.بلکہ ماہ صیام مسلمانوں کے لئے بہت سی برکات حاصل کرنے کے مواقع بہم پہنچاتا ہے.جیسے خدا تعالیٰ کی کچی فرمانبرداری ، نفسانی خواہشات پر مکمل قابو، حصول قرب الہی اور ان

Page 48

تاریخ احمدیت 39 جلد 21 مفلس بھائیوں کی مشکلات کا احساس جنہیں کبھی پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا.لہذا ماہ رمضان شریف صرف انفرادی پاکیزگی کا باعث ہوتا ہے بلکہ ہماری اجتماعی زندگی پر ایک نہایت خوشگوار اثر ڈالتا ہے.اس تقریر کے بعد ولی اللہ یانسن (W.U.JANSEN) نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ پر روشنی ڈالی اور لوگوں کو بتلایا کہ اعتکاف کا کیا مطلب ہے.آپ نے کہا پورے دس دن تک مسجد میں محض رضائے الہی کی خاطر بند ہو کر رہ جانا ہمارے قلوب میں ایک بہت بڑے تغیر اور انقلاب کا باعث ہوتا ہے اور معتکف کا یہ سارا وقت عبادت و تلاوت اور محاسبہ نفس میں گزرتا ہے.تیسری تقریر ہمارے نو مسلم بھائی عبدالرشید (J.M.FUNDTER) نے کی تھی.آپ نے کہا کہ رمضان کا مبارک مہینہ ہمیں واضح طور پر بتاتا ہے کہ محنت مشقت اور جد و جہد میں ہی ہماری کامیابی کاراز مضمر ہے.آپ نے اس خیال کی پرزور تردید کی کہ اسلام ہمیں تقدیر کا سبق دے کر ایک عضو معطل کی طرح کر دیتا ہے کارروائی کی مفصل رپورٹ لوکل اخبارات میں شائع ہوئی.بیرونی مجالس میں تقاریر 2 فروری کو (JONGE KERK) تنظیم کی طرف سے ایک درخواست موصول ہوئی جونو جوانوں کی ایک مذہبی سوسائٹی ہے.چنانچہ واختگن کے مقام پر ایک مفید لیکچر ہوا.یہ جگہ ہیگ شہر سے کافی دور واقع ہے مکرم جناب حافظ قدرت اللہ صاحب نے ایک گھنٹہ تک تقریر فرماتے ہوئے لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ فرمایا.وقفہ کے بعد سوالات اور مبادلہ خیالات کا بھی موقع تھا چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ سلسلہ جاری رہا.دور کے سفر کی وجہ سے اور لوگوں کی دلچسپی کے پیش نظر مکرم حافظ صاحب کو رات وہیں بسر کرنا پڑی.12 فروری کو موضع (DEBILT) میں وہاں کے اچھے تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک عیسائی سوسائٹی نے اسلام پر لیکچر کے لئے مدعو کیا.یہ جگہ بھی ہیگ سے کافی فاصلہ پر ہے اس موقع پر دیگر حضرات کے علاوہ پادری صاحبان بھی موجود تھے.مکرم جناب حافظ صاحب نے چرچ سے ملحقہ میٹنگ روم میں ایک گھنٹہ تک اپنے خیالات کا اظہار کیا جو لوگوں کے لئے کافی دلچسپی اور معلومات کا باعث ہوا.تقریر کے اختتام پر تبادلہ خیالات ہوا.مؤرخہ 12 فروری کو لو تھر گروپ کی طرف سے ایک تقریر کروائی گئی جس میں مکرم جناب حافظ صاحب نے ایک گھنٹہ تک تقریر کی جس کے بعد تبادلہ خیالات کا کھلا موقع تھا ہماری طرف سے ہمارے ڈچ نومسلم مسٹر عبدالرشید (MR.FUNDTER) نے بحث میں حصہ لیا.یہ سلسلہ گفتگوقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا اور کافی رات گئے مجلس برخاست ہوئی.اور

Page 49

تاریخ احمدیت 40 جلد 21 18 فروری کو مقام (Waganintgen) یو نیورسٹی طلبہ کے درمیان ایک لیکچر ہوا.14 اپریل کو مسجد ہالینڈ میں ایک کامیاب مباحثہ ہوا ان دنوں تمام عالم عیسائیت میں مسیح علیہ السلام کے دوبارہ جی اٹھنے کا تہوار منایا جارہا تھا لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت ہالینڈ نے بھی ایک بڑے پبلک جلسہ کا اہتمام کیا اور پرانے خیالات کے تعلیم یافتہ عیسائیوں کی چرچ سوسائٹی کے ایک پادری صاحب کو بحث کے لئے مدعو کیا.جلسہ کی کارروائی شام کے آٹھ بجے مکرم جناب حافظ صاحب انچارج مشن کی نگرانی میں شروع ہوئی جلسہ گاہ لوگوں سے پر تھی سب سے پہلے پادری صاحب موصوف کو تقریر کا موقع دیا گیا انہوں نے اپنے عقیدہ کے مطابق ایک گھنٹہ تک مسیح ناصری علیہ السلام کی صلیبی موت اور ان کے دوبارہ جی اٹھنے اور آسمان پر صعود کر جانے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا.ہماری طرف سے ہمارے ڈچ نو مسلم مسٹر عبدالرشید فنڈ تر نے آدھ گھنٹہ تک اسی موضوع پر اسلامی نقطہ نگاہ پیش کرتے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ ہمارے نزدیک مسیح علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی تھے صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ بے ہوشی کے عالم میں اتار لئے گئے اور بعد کے علاج سے اچھے ہو کر کسی دوسرے ملک کو ہجرت کر گئے جو تحقیقات کی روشنی میں کشمیر کا علاقہ ہے.لہذا ہمارے نزدیک دوبارہ جی اٹھنے اور آسمان پر صعود کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آپ کی تقریر کے بعد ہمارے علم دوست فلاسفر ڈاکٹر دی ینگ نے اپنے خیالات سے حاضرین کو مستفید فرمایا.آپ نے اسلامی نقطۂ نگاہ کی تائید کرتے ہوئے بہت سے پرانے یونانی اور رومی زبانوں کے حوالجات دیئے.آپ کی تقریر کے اختتام پر سلسلہ سوالات شروع ہوا اکثر سوالات کا رخ پادری صاحب موصوف کی طرف ہی رہا.اسلام کے متعلق سوالات کے جوابات مکرم جناب حافظ صاحب نے دیئے.جلسہ رات کے گیارہ بجے برخاست ہوا.جملہ کارروائی کی رپورٹ مختلف اخبارات نے شائع کی.4 مئی کو ساری دنیا میں جنگ عظیم ثانی میں کام آنے والوں کی یاد میں دو منٹ تک خاموشی کی رسم ادا کی گئی اور جلسے منعقد ہوئے اس موقع پر مشن ہاؤس میں بھی ایک پبلک جلسہ منعقد ہوا.کارروائی کا آغاز شام کے آٹھ بجے جناب حافظ صاحب انچارج مشن کی نگرانی میں ہوا.مکرم حافظ صاحب نے...قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ کارروائی کا آغاز کیا.ہمارے ایک ڈچ ممبر نے جد و جہد آزادی اور اسلامی نظریہ کے عنوان پر حاضرین کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بتایا کہ

Page 50

تاریخ احمدیت 41 جلد 21 مذہبی تعلیمات کے لحاظ سے اگر غور سے دیکھا جائے تو اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کو اپنا دفاع کرنے کی اجازت دیتا ہے آپ نے مزید کہا کہ جنگ عظیم میں آزادی کے لئے جد و جہد میں کام کرنے والوں کے لئے ہمارے دلوں میں بہت ہی قدر کے جذبات ہیں کیونکہ ان کی جانی قربانی کے نتیجہ میں ہمارے لئے زندہ رہنا ممکن ہوا.اس عرصہ میں یونیورسٹی سٹوڈنٹس سکولوں کے طلبہ اور دیگر سوسائٹیوں اور انجمنوں کے متعدد وفودمشن ہاؤس میں اسلام اور احمدیت کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے آتے رہے.1 - 4 مارچ 1960 ء کو ایک سکول کے طلبہ کا ایک وفد مشن ہاؤس پہنچا.محترم جناب حافظ صاحب نے ایک گھنٹہ تک تعلیمات اسلامیہ پر لیکچر دیتے ہوئے تبلیغ اسلام کے بارہ میں جماعت کی مساعی پر روشنی ڈالی اور جملہ سوالات کے جوابات دیئے.کارروائی کے اختتام پر طلبہ کی کافی وغیرہ سے تواضع کی گئی.2.14 مارچ کو ایمسٹرڈم یونیورسٹی کے طلبہ کا ایک وفد مشن ہاؤس آیا.مکرم حافظ صاحب نے ان کے سامنے اسلام کی مختصر تاریخ اور تعلیمات کو اختصار کے ساتھ بیان فرماتے ہوئے اس انقلاب کو واضح فرمایا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات بابرکات کے ساتھ دنیا میں ظاہر ہوا اور جو آپ کی قائم کردہ روحانی جماعت کے ذریعے نمایاں ہورہا ہے لیکچر کے اختتام پر سوالات کے جواب دیئے گئے اور طلبہ میں لٹریچر تقسیم کیا گیا.3.25 اپریل کو لائیڈن یونیورسٹی کے طلبہ کا ایک گروپ بیت الذکر پہنچا.مکرم انچارج صاحب نے ان کے سامنے قرآنی تعلیمات کی برتری پر ایک گھنٹہ تک تقریر فرمائی اور قرآن مجید کی اعجازی شان کو بیان کرتے ہوئے اس کے اور بائیل کے درمیان الہامی کتاب ہونے کے فرق کو واضح فرمایا تقریر کے بعد دیر تک بحث ہوئی اور سلسلہ سوالات جاری رہا.متعدد بار دوسری سوسائٹیوں میں اسلام اور احمدیت پر تقاریر کرنے کے مواقع میسر آئے.تفصیل درج ذیل ہے.1.یکم مارچ کو ڈیلفٹ (DELFT) شہر میں جو کہ ہیگ سے کچھ فاصلہ پر ہے فری میسنز (FREE MASONS) سوسائٹی میں تقریر ہوئی یہ ایک عالمی تنظیم ہے.جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اصحاب اور بڑے بڑے تاجر پیشہ حضرات شامل ہیں جناب حافظ صاحب موصوف کو ان کی طرف سے اسلام پر لیکچر کے لئے دعوت موصول ہوئی.تاریخ مقررہ پر مکرم انچارج صاحب کے علاوہ ہمارے ایک ڈچ ممبر نے بھی اس جلسہ میں شرکت کی.مکرم حافظ صاحب نے ایک گھنٹہ تک اسلام کے موضوع پر لیکچر دیا.جس کے

Page 51

تاریخ احمدیت 42 جلد 21 بعد سلسلہ سوالات شروع ہوا.جو دیر تک جاری رہا.اس تبادلہ خیالات کے دوران ہمارے ڈچ نومسلم نے بھی بحث میں حصہ لیا.2 - 29 مارچ کو ایمسٹرڈم یو نیورسٹی کے طلبہ کے درمیان ایمسٹر ڈم شہر میں ایک لیکچر ہوا.مکرم جناب حافظ صاحب اور خاکسار تاریخ مقررہ پر ہیگ سے ایمسٹرڈم پہنچے طلبہ کافی تعداد میں ایسے بھی تھے جو د مینیات کے آخری سال میں تعلیم پارہے تھے.اور کالج سے فراغت کے بعد چہ چوں میں کام کرنے والے تھے مکرم برادرم حافظ صاحب نے ان کے سامنے ایک گھنٹہ تک اسلام اور عیسائیت کے موضوع پر تفصیل سے خیالات کا اظہار کیا.تقریر کے بعد سوالات ہوئے دینیات کے طالب علم کافی سنجیدگی سے علمی سوالات پوچھتے رہے جن کا ہماری طرف سے تسلی بخش جواب دیا گیا.آخر میں انہیں اسلامی لٹریچر بھی پیش کیا گیا.193اپریل کو ہیگ شہر میں لیبر ریفارم انسٹی ٹیوٹ میں اسلام پر تقریر کا موقع ملا.جناب انچارج صاحب نے ایک گھنٹہ تک حاضرین سے خطاب کیا.وقفہ کے بعد سوالات دریافت کرنے کا موقع تھا چنانچہ دیر تک بحث جاری رہی اور مناسب رنگ میں جوابات دیئے جاتے رہے آخر میں حاضرین کولٹر بیچر پیش کیا گیا.4 مئی میں ہیگ شہر کے طالب علموں کی ایک مناظرہ کر نیوالی تنظیم HAGUE) (STUDENT DEBATING CULB کے زیر انتظام اسلام پر ایک لیکچر ہوا.مکرم جناب حافظ صاحب انچارج مشن اور خاکسار وقت مقررہ پر ہیگ کے نواحی علاقہ (RIJSWIJK) پہنچے.جلسہ کا انتظام ایک بڑے بنگلہ میں تھا.عین وقت پر تقریر شروع ہوئی.مکرم انچارج صاحب نے ایک گھنٹہ تک تقریر کرتے ہوئے اسلام اور عیسائیت میں بنیادی فرق کو واضح فرمایا.نیز بائیل کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت تھی اس کا تفصیلی ذکر کیا.وقفہ کے بعد طلبہ کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے جملہ سوالات کا ایک گھنٹہ تک تفصیلی جواب دیا گیا اور جملہ مطلوبہ معلومات بہم پہنچائی گئیں.آخر میں طلبہ کو کتب بھی پیش کی گئیں.18-5 مئی کو ہیگ شہر میں اسلام پر ایک اور کامیاب لیکچر ہوا جبکہ ہالینڈ کے سکاؤٹوں کے بڑے افسران اور گروپ لیڈروں نے اسلام کے متعلق معلومات دریافت کیں.چنانچہ مذکورہ تاریخ کو برادرم حافظ صاحب نے ان کے ایک جلسہ میں ایک گھنٹہ تک تقریر کی اور سوالات کے جوابات دیئے.سکاؤٹ افسران کی طرف سے اسلام میں دلچسپی کے اظہار کے پیش نظر لٹریچر بھی پیش کیا گیا.

Page 52

تاریخ احمدیت 43 جلد 21 6.27 مئی کو مرکزی ہالینڈ کے ZIJST نامی ایک شہر میں ایک سہ روزہ کانفرنس کا انعقاد ہوا.جس کے آخری دن محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقابہ نے ” موجودہ زمانہ میں مذہب کا حصہ“ کے موضوع پر ایک عظیم الشان لیکچر دیا آپ نے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا جس مقصد کی خاطر یہ تنظیم (OPEN FIELD CONFERENCE) قائم کی گئی ہے وہ بہت ہی اہم اور ضروری ہے اور ہمیں چاہئے کہ اس کی طرف پوری توجہ کریں.آج دنیا بہت سی مشکلات سے دو چار ہوتے ہوئے بھی مذہب سے بے اعتنائی برت رہی ہے.جو ایک بہت ہی خطرناک امر ہے.لیکن بالآخر دنیا مجبور ہوگی کہ مذہب کے آستانہ پر جھک جائے.آپ نے متعدد قرآنی آیات کے ذریعہ حاضرین کو مذہب کی ضرورت اور غرض وغایت کی طرف توجہ دلائی.اور اسلام کے پیش کردہ بین الاقوامی اتحاد کے نظریہ کو پیش فرمایا جو موجودہ دور میں بین امملکتی بنیادوں پر امن کے قیام کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے.29-7 مئی کو ہالینڈ کے مرکزی حصہ کے شہر SOEST میں ایک دوسری سہ روزہ کانفرنس میں مکرم جناب حافظ صاحب انچارج مشن ہالینڈ کا لیکچر ہوا.یہ کا نفرنس ہالینڈ کی یوتھ ہاسٹل تنظیم کے زیر انتظام ہو رہی تھی.جس کا مقصد الجزائر کے پناہ گزینوں کی امداد کے لئے نو جوانوں کو تیار کرنا تھا.چنانچہ اس موقعہ پر ملک کے اطراف وجوانب سے نوجوان اکٹھے ہوئے.مکرم انچارج صاحب کے ہمراہ خاکسار اور ہمارے ایک ڈچ دوست مع اپنی اہلیہ کے بذریعہ کار جائے مقام پر پہنچے.مکرم جناب حافظ صاحب نے ایک گھنٹہ تک اسلامی معاشرہ اور قرآنی تعلیمات کے موضوع پر تقریر فرمائی.وقفہ کے بعد سوالات کا موقع دیا گیا.جملہ سوالوں کا جواب دیا گیا.نیز نو جوانوں کولٹر پچر پیش کرتے ہوئے مزید معلومات کے لئے مشن ہاؤس آنے کی دعوت دی گئی.یہاں کی ایک اعلیٰ سوسائٹی کا ایک خاص اجلاس 4 مارچ 1960ء کو ہیگ میں منعقد ہوا اس انجمن کے صدر ہالینڈ کے ایک مشہور مستشرق ڈاکٹر دریوس ہیں.ان کی طرف سے اس موقع پر شرکت کے لئے ہمیں بھی دعوت نامہ موصول ہوا.چنانچہ ہماری طرف سے مکرم جناب انچارج صاحب نے شرکت کی اور بہت سے نئے لوگوں سے متعارف ہوئے.اسی تنظیم کی طرف سے انہی دنوں عرب ممالک کی مصنوعات کی نمائش کا بھی انتظام کیا گیا تھا.جس میں مشن ہاؤس سے بھی دو عدد اشیاء سیکرٹری صاحب تنظیم کی درخواست پر عارضی طور پر رکھنے کے لئے دی گئیں.جس سے نہ صرف یہ کہ تعلقات میں ہی اضافہ ہوا بلکہ مسجد کا نام بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے

Page 53

تاریخ احمدیت 44 جلد 21 آیا جو کہ ان اشیاء پر تحریر تھا.2.مؤرخہ 23 مارچ 1960ء کو پاکستان ڈے کے موقع پر پاکستانی سفارتخانہ کی طرف سے منعقدہ شاندار تقریب میں بھی شامل ہونے کا موقع ملا.جہاں بہت سے دیگر معززین سے متعارف ہونے کے علاوہ یو نیورسٹیوں کے طلباء اور دیگر سوسائٹیوں کے منتظمین اور نمائندگان پریس سے ملاقات ہوئی.یکم اپریل 1960 ء کو کیتھولک ڈیبیٹنگ کلب کے زیر انتظام نیدرلینڈا یشیو افریقین سه روزه کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں قریباً چا رصد اشخاص نے شرکت کی.مذکورہ تنظیم کی طرف سے ہمیں بھی دعوت نامہ موصول ہوا چنانچہ خاکسار کو شامل ہونے کا موقع ملا.خاکسار نے جملہ منتظمین کا نفرنس اور مقررین سے ملنے کے علاوہ بہت سے دیگر افراد سے مل کر انفرادی تعارف حاصل کیا اور اسلام اور مشن ہاؤس کے متعلق معلومات بہم پہنچائیں.نیز متحدہ جمہوریہ عرب کے سفیر اور ایک کیتھولک پادری صاحب سے بھی ملاقات کی پادری صاحب موصوف سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی جس میں انہوں نے جماعت کے بارہ میں معلومات اور اسلام کے متعلق چند سوالات دریافت کئے.بعض یونیورسٹی کے طلباء کو جنہوں نے اسلام میں دلچسپی ظاہر کی تھی مشن ہاؤس سے لٹریچر بھجوایا ان میں سے بعض نے عید الاضحی میں شرکت کی.12 اپریل 1960ء کو ورلڈ کانگریس آف فیتھس کا اجلاس ایمسٹرڈم میں منعقد ہواجس میں شرکت کے لئے مکرم حافظ صاحب نے خاکسار کو روانہ فرمایا.خاکسار نے جلسہ میں شامل ہوکر لیکچر ار صاحب سے ملاقات کی جنہوں نے انڈونیشیا کے جزیرہ بالی BALI کے لوگوں کے طریق تعلیم اور سبق اموز حکایات اور رسم ورواج پر تقریر کی.تقریر میں انہوں نے اس تہذیب و تمدن کو ہندوؤں کی طرف منسوب کیا.جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہاں صرف ہندو ہی رہتے ہیں.چنانچہ تقریر کے بعد خاکسار نے جزیرہ بالی کے مسلمانوں کی حالت اور ان کے طریق تعلیم اور طرز رہائش پر چند سوالات کئے.جس سے اسلام کے متعلق بھی کافی ذکر ہوا.نیز جماعت کے انڈونیشین مشنوں کے متعلق بھی خاکسار نے لیکچرار صاحب کو معلومات بہم پہنچائیں اور مسجد ہالینڈ کا بھی ذکر کیا.29-7 مارچ کو ZIJST کی سہ روزہ کانفرنس میں شرکت کرنے کا موقع ملا.منتظمین کی طرف سے با قاعدہ دعوت نامہ بھجوایا گیا.جناب حافظ صاحب افتتاح کے موقع پر بھی شریک ہوئے.آخری دن کے پروگرام میں مکرم انچارج صاحب کے ہمراہ خاکسار کو بھی شمولیت کا موقع ملا.جملہ احباب کو مطلع کیا گیا کہ مشن ہاؤس میں ہر روز شام کو نماز باجماعت کے بعد قرآن کریم کے ایک پارہ کا درس ہوا کرے گا چنانچہ بفضلہ تعالیٰ پورا ماہ یہ سلسلہ جاری رہا.اور مکرم جناب انچارج صاحب

Page 54

تاریخ احمدیت 45 جلد 21 مشن اور خاکسار کو با قاعدہ طور پر درس دینے کی توفیق ملی.ہر شام کو ادا ئیگی نماز کے بعد درس کا یہ نظارہ عجیب لطف دیتا.جملہ احباب جماعت اپنا اپنا قرآن کریم تھامے ہوئے بیت الذکر کے فرش پر بیٹھے ہوتے اور بیان کردہ مطالب کو غور سے سنتے قرآن پاک کی اعجازی شان سے لطف اندوز ہوتے.احباب جماعت کے علاوہ متعدد مرتبہ غیر مسلم حضرات بھی شریک ہوتے رہے جن کو سوالات کی بھی اجازت دی جاتی رہی رمضان المبارک کی ستائیسویں تاریخ کو چار احباب جماعت نے رات بیت الذکر میں ہی بسر کی اور تلاوت قرآن کریم دعا اور نوافل میں وقت گزارا.ایک صاحب اعتکاف بیٹھے جنہیں سب سہولتیں مہیا کی گئیں.عید کا دن ہمارے لئے بہت ہی مصروف دن تھا احباب کی کثرت کے باعث ہر طرف گہما گہمی تھی.لوگ وقت مقررہ سے کافی پہلے آنا شروع ہو گئے تھے.نماز کے شروع ہونے تک بیت الذکر، میٹنگ روم اور انٹرنس ہال لوگوں سے بھر چکے تھے.یہی وجہ تھی کہ ان دونوں عیدوں کے موقعہ پر لاؤڈ سپیکر بھی استعمال کرنا پڑا.بیت الذکر کے کمرہ میں نمازیوں کے لئے مزید گنجائش نہ پاکر وسع مكانك بار بار زبان پر جاری ہو جاتا تھا.حاضرین میں علاوہ دیگر غیر مسلم حاضرین کے ہالینڈ کے ایوان بالا کے ایک رکن.عالمی عدالت انصاف کے ایک حج ، پاکستان ، انڈونیشیا، متحدہ جمہوریہ عرب اور ترکی وغیرہ مسلم سفارتخانوں کے متعدد افسران موجود تھے.نیز متعدد مسلمان ممالک، پاکستان، بھارت، افغانستان،ایران ،انڈونیشیا، مصر، شام، سوڈان اور یورپین ملکوں وغیرہ کے طلبہ وغیرہ بھی بھاری تعداد میں شامل ہوئے.غیر مسلم حضرات کے لئے بیٹھنے کا الگ طور پر بھی انتظام موجود تھا.جہاں وہ بذریعہ لاؤڈ سپیکر آسانی کے ساتھ خطبہ عید سن سکتے تھے.ڈچ اصحاب میں سے کئی ہالینڈ کے مختلف دور دراز کے شہروں سے موٹروں اور موٹر سائیکلوں پر شمولیت کے لئے آئے.ملاقاتوں کا سلسلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وسیع رہا.جرمن احباب کے علاوہ اسلامی ممالک کے کئی دوست بیت الذکر میں تشریف لائے.ان میں سے خاص طور پر قابل ذکر مکہ مکرمہ کے مشہور اخبار الندوہ کے چیف ایڈیٹر صاحب محمد جمال اور ایک دوسرے اخبار کے ڈپٹی چیف ایڈیٹر حامد حسین صاحب ہیں جو تشریف لائے.ان کے ہمراہ ہمبرگ کے ایک اخبار کا نمائندہ بھی تھا.جس نے دوسرے روز اس ملاقات کا تذکرہ اور ہمارے فوٹو شائع کئے.اسی طرح اسرائیل کے دو اخبار نویس آئے ان میں سے ایک صاحب مسلمان ہیں ان کا نام رشید حسین ہے اور آپ تل ابیب کے اخبار ”الفجر“ کے ادبی ایڈیٹر ہیں اور دوسرے

Page 55

تاریخ احمدیت 46 جلد 21 صاحب اطالعہ متصور عیسائی تھے.انہیں عربی اور انگریزی لٹریچر مطالعہ کے لئے دیا گیا.برادرم مرز الطف الرحمن صاحب نائب امام بیت الذکر ہمبرگ نے ایک جرمن ٹریکٹ جو اسلام کی حقیقت کے زیر عنوان چھاپا گیا تھا تین ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا.اسی طرح عرصہ زیر رپورٹ میں مشن کے تمام کاموں میں پوری طرح مددفرماتے رہے اسی دوران آپ کا تبادلہ ہوا اور آپ 17 اکتوبر کولیگوس کے لئے روانہ ہوئے.ہمارے جرمن نو مسلم بھائی ناصر نکولسکی پاکستان اور بھارت کے ایک لمبے دورہ کے بعد واپس تشریف لائے.آپ کے گزشتہ جلسہ سالانہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، بزرگان سلسلہ اور دیگر اہم تقاریب کی سلائیڈ ز قادیان کے مقامات مقدسہ کی سلائیڈز اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی جلسہ سالانہ کی تقریر کے ریکارڈ نے خاص طور پر ہمارے ایمان کو تازہ کیا.مشن ہاؤس میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا جس میں ہالینڈ کے ممبر پارلیمنٹ (Dr.IN HET YELD) نے حاضرین سے مندرجہ بالا عنوان پر خطاب کیا.آپ نے اپنی تقریر کے دوران اس بات پر زور دیا کہ انسانوں کی رہنمائی کے لئے انسانی کانشنس کافی ہے.خدا تعالٰی کی رہنمائی اور الہامی روشنی بے معنے چیز ہے.جس کا کوئی وجود نہیں.مکرم جناب حافظ صاحب نے چند سوالات کے ذریعہ حاضرین پر واضح کیا کہ صرف انسانی عقل غلطی کرتا ہدایت انسانی کے لئے کافی نہیں ہوسکتی.کیونکہ تجربہ بتلاتا ہے کہ انسان کا علم کامل نہیں وہ غلطی پر غلہ ہے.اسے تو پوری طرح اپنی حقیقت کا بھی علم نہیں.چہ جائیکہ وہ اپنی عقل اور سمجھ پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے انجام اور مقصد کو پانے کے متعلق صحیح رہنمائی کر سکے پھر اگر انسان کی اپنی عقل ہی صحت کا معیار ہے تو ایک انسان اگر بعض اوقات دیانتداری سے ایک کام کو درست سمجھتے ہوئے سرانجام دیتا ہے.مگر انجام کار وہ غلطی ثابت ہوتی ہے تو اس پر گرفت کا کسی اور قانون کوحق نہیں اس صورت میں اس شخص کی غلطی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی.اور امن کس طرح بحال رہے گا وغیرہ وغیرہ.عرصہ زیر رپورٹ میں ہماری ہفتہ وار مجالس بھی با قاعدگی کے ساتھ منعقد ہوئیں.جن میں ممبران کے علاوہ متعدد بار دیگر اصحاب نے بھی شرکت کی.اور سوالات کے ذریعہ اسلام کے متعلق معلومات حاصل کی.ان مجالس میں خاص طور پر احمدی دوستوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا گیا.اور انہیں قرآن مجید ناظرہ، نماز و آذان وغیرہ اور دیگر مسائل کی طرف توجہ دلائی جاتی رہی اور مشن کے پروگراموں سے متعلقہ امور میں مشورہ ہوتا رہا.

Page 56

تاریخ احمدیت 47 جلد 21 آخری مجلس میں ہمارے ایک آزاد خیال عیسائی دوست مسٹر ختن ہلانے اپنے دورہ مراکش میں لی ہوئی بعض اسلامی عمارات مساجد اور تہذیب و تمدن پر مشتمل رنگین سلائڈ ز دکھلائیں.اس خاص موقعہ پر جماعت کے علاوہ دیگر غیر مسلم اصحاب کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی.، 23 نومبر کی شام کومحترمہ بیگم صاحبہ جناب حافظ صاحب انچارج مشن ہالینڈ کی زیر نگرانی ہالینڈ مشن میں مستورات کا ایک اجتماع عمل میں آیا.جس میں ممبر مستورات کے علاوہ بہت سی غیر از جماعت خواتین کو بھی شریک ہونے کا موقعہ دیا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے عورتوں کی ایک خاصی تعداد نے شریک ہوکر اسلام اور جماعت کی مساعی کے متعلق تعارف حاصل کیا احباب جماعت سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نمایاں کامیابی عطا فرمائے اور باقاعدگی کے ساتھ ایسے اجتماعات کو جاری رکھنے کی توفیق بخشے.عرصه مذکورہ سہ ماہی میں ہمارے ڈچ احمدی بھائی مسٹر عبدالرحمن سٹین ہاور امریکہ تشریف لے گئے ان کو الوداع کہتے ہوئے مشن میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا.جس میں احباب جماعت کی طرف سے خاکسار نے ایڈریس پیش کیا.آپ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں حتی الوسع تبلیغی مساعی کو جاری رکھنے اور دیگر احباب کے لئے اچھا نمونہ پیش کرنے کی پوری پوری کوشش کروں گا.اس جلسہ کی رپورٹ دواخبار نے شائع کی.اسلام اور احمدیت پر معلومات کے لئے اس عرصہ میں یونیورسٹی سٹوڈنٹس ،سکولوں کے طلباء اور دیگر سوسائٹیوں اور انجمنوں کے متعد دو فود مشن ہاؤس میں آئے.(1) لائیڈن یونیورسٹی کے چند طلباء کا ایک وفدمشن ہاؤس میں آیا.اور ایک گھنٹہ تک اسلام اور احمدیت کے متعلق معلومات حاصل کیں.خاکسار نے مختصر تقریر کے بعد سوالات کے جوابات دیئے.(2) موضع (DEVENTER) جو ہیگ سے کافی فاصلہ پر واقع ہے سے ایک تنظیم کے سر کردہ ممبران کا ایک وفد بیت الذکر آیا جنہیں خاکسار نے مطلوبہ معلومات بہم پہنچائیں.(3) 14 اکتوبر ہیگ کے ایک ہائی سکول کے 40 طلباء کا ایک گروپ مشن ہاؤس آیا جن کے سامنے خاکسار کو آدھ گھنٹہ تک تقریر کا موقعہ ملا.اور بعد میں سوالات کے جوابات دیئے.(4) 28 نومبر کو ہیگ کی ایک چرچ سوسائٹی کے ہیں ممبران نے مشن ہاؤس آکر اسلام اور احمدیت کے متعلق استفسارات کئے.خاکسار نے ایک مختصر تقریر میں معلومات پیش کرتے ہوئے ان کے جملہ سوالات کا جواب دیا.بعد میں لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.بفضلہ تعالیٰ اس عرصہ میں متعدد سوسائٹیوں اور انجمنوں میں تقاریر کے مواقع پیدا ہوئے تفصیل

Page 57

تاریخ احمدیت درج ذیل ہے.48 جلد 21 پبلک یونیورسٹی ہیگ میں لیکچر 18 اور 25 اکتوبر کومکرم جناب حافظ صاحب امام بیت الذکر ہالینڈ کو دو مرتبہ کامیاب لیکچر دینے کا موقعہ ملا.جبکہ پبلک یونیورسٹی ہیگ کی طرف سے آپ کو اسلام پر لیکچر کی درخواست موصول ہوئی.ان لیکچروں کے موقع پر منتظمین یونیورسٹی کی طرف سے قریباً ساڑھے چار روپے کا ٹکٹ لگایا گیا تھا.لیکن اس کے باوجود دونوں لیکچروں میں جو ایک ہفتہ کے وقفہ کے ساتھ عمل میں آئے خاصی تعداد میں شرکت کر کے اسلام سے اپنی دلچسپی کا ثبوت دیا.اس طبقہ میں چونکہ اعلی علمی لوگ شامل ہوتے ہیں لہذا اس طور پر اسلام کی آواز ملک کے اس حصہ تک پہنچی جوتعلیمی و تدریسی لحاظ سے ملک پر اثر انداز ہوتا ہے تقاریر کے اختتام پر ہالینڈ مشن کی تبلیغی مساعی سے متعلقہ رنگین سلائنڈ ز بھی دکھلائی گئیں.27 اکتوبر کو ایمسٹرڈم کے قریب (HEEMSTEDE) شہر کے سب سے بڑے قریباً تین صد سالہ پرانے مگر خوبصورت جولیا نہ چرچ کی عمارت میں مکرم جناب حافظ صاحب امام مسجد ہالینڈ کا اسلام پر لیکچر ہوا.چرچ کے منتظمین جو آزاد خیال عیسائی ہیں کی طرف سے مختلف مذاہب کے نمائندگان کو بلا کر مختلف تاریخوں پر ایک کانفرنس کا انتظام کیا گیا تھا.چنانچہ بدھ مت، ہندوازم، یہودیت، کیتھولک مکاتب فکر کے نمائندگان نے اس پروگرام میں شرکت کی.مذکورہ بالا تاریخ صرف اسلام کے لئے وقف تھی کہ اپنے مذہب پر جملہ معلومات اپنی مقدس کتاب سے ہی پیش کرنا ضروری تھیں.چنانچہ مکرم حافظ صاحب نے جملہ تعلیمات قرآن پاک سے پیش فرما ئیں.پنجگانہ نماز کے موضوع پر بولتے ہوئے مکرم حافظ صاحب نے حاضرین کو بتلایا کہ مسلمان نماز کے اوقات لوگوں کو کس طرح بلاتے ہیں.لہذا چرچ کی عمارت کا بلند ہال جس میں لاؤڈ سپیکر بھی فٹ تھا تلاوت قرآن کریم اور اذان کی بلند آواز سے گونج اٹھا.اس موقعہ پر قریباً تین صد سے زائد اصحاب نے شرکت کی.15 نومبر کی شام کو ہیگ کی ایک چرچ سوسائٹی کی طرف سے اسلام اور احمد بیت کے موضوع پر ایک تقریر کروائی گئی.مکرم حافظ صاحب موصوف نے ایک گھنٹہ تک تعلیمات اسلامیہ کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی.تقریر کے بعد وقفہ سوالات تھا چنانچہ حاضرین نے اپنے پادری صاحب کی موجودگی میں دیر تک تبادلہ خیالات کیا.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں مختلف دیگر مجالس کے جلسوں اور کانفرنسوں میں شرکت کے متعدد مواقع میسر آئے.مذکورہ تنظیم کی طرف سے ان کے خاص اجلاسوں میں شمولیت کے لئے دعوت نامہ موصول

Page 58

تاریخ احمدیت 49 جلد 21 ہوا.جبکہ ایک امریکن لیکچرار مسئلہ فلسطین اور عرب دنیا کے بارہ میں تقریر کر رہا تھا.اس موقع پر مکرم حافظ صاحب اور خاکسار نے شرکت کی.تقریر کے بعد مسلم مہاجرین فلسطین کی ایک فلم بھی دکھائی گئی.جس میں ان کی حالت قابل رحم دکھائی دیتی تھی.یکم اکتوبر کو ہالینڈ کی ایک مشہور تنظیم بر درہڈ ایسوسی ایشن کے زیر انتظام ایک دوروزہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں متعدد مقامی سوسائٹیوں نے شرکت کی.احمد یہ مسلم مشن ہالینڈ کی طرف سے خاکسار کو شامل ہونے کا موقع ملا.جہاں مختلف تنظیموں کے سرکردہ حضرات سے ملاقات کی.اور مجلس کے اراکین سے تعارف حاصل کیا.اس موقع پر مجالس کو اپنا لٹریچر رکھنے کی بھی اجازت تھی.خاکسار نے جماعت کے ایک ممبر مسٹر ہاؤ برختس عمر کے تعاون سے لٹریچر بھی رکھا جسے بعض لوگوں نے خریدا.نیومشن ہاؤس کی تبلیغی مساعی پر مشتمل ایک پمفلٹ بھی لوگوں میں تقسیم کیا.24 نومبر کی شام کو مذکورہ بالا ایسوسی ایشن کا ایک خاص اجلاس ہوا.جس میں میں مختلف مجالس کے نمائندگان کو مدعو کیا گیا تھا.چنانچہ مکرم امام مسجد صاحب ہالینڈ کو دعوت نامہ موصول ہوا.آپ نے اس اجلاس میں شریک ہو کر ہالینڈ کی مختلف انجمنوں کے سرکردہ منتظمین سے تعارف حاصل کیا اور انہیں مشن سے متعارف کرایا.اس کے نتیجہ میں سوسائٹی کی طرف سے ان کے آئندہ سال کے لئے لیکچروں کے پروگرام میں مکرم حافظ صاحب کو اسلام پر تقریر کے لئے درخواست کی گئی جو آپ نے بخوشی منظور کر لی.19 نومبر کو ایک اعلیٰ طبقہ کی فعال تنظیم (OPEN FIELD MEETING)کے ایک سرگرم منتظم اور صوفی منش انسان مسٹر قیصر وفات پاگئے.آپ کے چونکہ احمدیہ مشن کے ساتھ دیرینہ اور مخلصانہ تعلقات تھے.اس لئے منتظمین کی طرف سے مکرم حافظ صاحب کو بھی اس افسوسناک واقعہ کی اطلاع دی گئی.حافظ صاحب موصوف تعزیت کے لئے موضع (BAAREN) تشریف لے گئے.اس موقع پر ایک بیرن ( اونچی ڈچ فیملی) سے بھی ملاقات ہوئی.جنہوں نے آپ کو اپنے چند دوستوں کے ساتھ چائے پر مدعو کیا.یہ صاحب کسی زمانہ میں ہالینڈ کی ملکہ جولیانہ کے پرائیوٹ سیکرٹری کے طور پر کام کر چکے ہیں.ان کے ہاں آئے ہوئے ڈاکٹروں اور پروفیسروں سے ملاقات کر کے ان کومشن سے متعارف کرایا.مکرم امام صاحب بیت الذکر ہالینڈ اور جماعت کے ایک ممبر کوحکومت نائیجیریا کی طرف سے ان کے یوم آزادی کی تقریبات میں شمولیت کی دعوت ملی.چنانچہ مکرم حافظ صاحب معہ اہلیہ صاحبہ شرکت کے لئے بذریعہ ہوائی جہاز مغربی افریقہ تشریف لے گئے.گزشتہ سال نائیجیریا کے مغربی حصہ کے ایک لوکل وزیر بیت الذکر میں تشریف لائے تو جماعت

Page 59

تاریخ احمدیت 50 جلد 21 کی تبلیغی مساعی سے خاصے متاثر ہوئے آپ کا دل اسلام کی محبت کے جذ بہ سے سرشار تھا یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنے ملک کے اس پر از مسرت موقع پر ہالینڈ مشن کو خاص طور پر یاد رکھا.جماعت ہالینڈ میں مسز ناصرہ زمرمان کو شمولیت کا موقع ملا.مکرم امام صاحب دو ہفتہ کے قریب گورنمنٹ نائیجیریا کے مہمان رہے اس عرصہ میں آپ کو اس ملک میں متعدد مواقع اسلام اور احمدیت کی خدمت کے میسر آئے.ایک پریس کانفرنس ہوئی.جس میں مکرم حافظ صاحب نے پریس کے نمائندگان کو خطاب کیا.یہ کانفرنس برادرم مکرم مولوی فیروز محی الدین صاحب مبلغ مغربی افریقہ کی کوششوں کا نتیجہ تھی.محکمہ براڈ کاسٹ والوں کو ایک انٹر ویود یا جو نشر ہوا.ہماری ڈچ احمدی بہن مسز ناصرہ زمرمان جو اس موقع پر مدعو تھیں کو وہاں کے ٹیلی و بیژن پر اسلام واحمدیت کا پیغام پہنچانے کا موقع ملا.نائیجیریا کے شہر ابادان میں وزیر اعلیٰ کی طرف سے آزادی کے موقعہ پر ایک بہت بڑے رسپشن کا اہتمام کیا گیا.جس میں بفضلہ تعالی مکرم حافظ صاحب امام بیت الذکر ہالینڈ کو اظہار خیالات کا موقع دیا گیا.آپ نے اس اجتماع میں جماعت احمدیہ کو متعارف کراتے ہوئے نائیجیریا میں احمد یہ مشن کی مساعی اور خدمات کا ذکر کیا.یہ اجتماع اپنے اندر ایک خاص رنگ رکھتا تھا.جس میں ویسٹرن ریجن نائیجیریا کے ممتاز اصحاب شریک تھے.اس اجتماع میں وزیر اعلیٰ کے سوا صرف چند ایک احباب کو ہی اظہار خیال کا موقع ملا تھا.مشن ہاؤس لیگوس کی طرف سے اس موقعہ پر مکرم جناب حافظ صاحب اور محترمہ ناصرہ زمرمان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی.جو مکرم برادرم جناب سیفی صاحب رئیس التبلیغ کی زیر نگرانی سرانجام پائی.اس تقریب میں جماعت لیگوس کی طرف سے آمدہ مہمانوں کو پر از اخلاص ایڈریس پیش کیا گیا.اور تصاویر لی گئیں.اسی اجتماع میں جماعت لیگوس نے مکرم جناب شاہ نواز کو بھی خوش آمدید کہا.جو انہی دنوں تبلیغ کے سلسلہ میں مغربی افریقہ تشریف لائے ہوئے تھے.نائیجیریا سے واپسی پر وہاں کے لوکل وزیر صاحب نے بطور اعزاز اپنے ملک کا ایک لباس اور وہاں کی صنعت کا ایک نمونہ تحفۂ مکرم حافظ صاحب کی خدمت میں پیش کیا.نائیجیریا سے واپس ہوتے ہوئے آپ کو چند روز لنڈن مشن میں قیام کرنے کا موقعہ ملا جہاں مسجد فضل لنڈن میں نماز جمعہ پڑھانے کی توفیق آپ کو ملی.آپ کے اس قیام کے دوران برادر مکرم بشیر احمد صاحب رفیق مبلغ لنڈن نے پر اخلاص مہمان نوازی کی نیز مکرم جناب امام صاحب اور دیگر بہت سے احباب جماعت نے مختلف رنگوں میں اپنے محبت بھرے برادرانہ جذبات کا اظہار کیا ،اشاعت تالیف واشاعت

Page 60

تاریخ احمدیت 51 جلد 21 جماعت کے ممبران کی تعلیم و تربیت ، نماز جمعہ میں با قاعدگی گفتگو اور ملاقاتوں، ترسیل لٹریچر وخط کتابت وغیرہ میں خاص مصروفیت رہی.جماعت اور غیر از جماعت کو مقامی حالات کے مطابق مسائل اسلامیہ اور تاریخی و علمی مضامین سے روشناس کرانے کے لئے مختلف مضامین کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا.چنانچہ الاسلام اور ہالینڈ میں اسلام کے عنوان سے مضامین شائع ہوئے.ISLAM IN THE NETHER LANDS کے نام سے آٹھ صفحات پر مشتمل ہمارا دوسرا پمفلٹ شائع ہوا جس میں کتب حدیث اور ان کے امام اور جمع حدیث پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے یہ پملفٹ ایک ہزار کی تعداد میں چھپوا کر تیار کیا گیا.اسی عرصہ میں ہمارے رسالہ الاسلام" کا ماہ نومبر کا شمارا نکلا جس میں چند آیات قرآن مجید کا ڈچ ترجمہ.32 احادیث نبویہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر معارف کلام کا ایک ایمان افروز اقتباس، جماعت میں داخل ہونے کے شرائط اور مشن کے پبلک جلسوں کے اعلانات وغیرہ سائیکلوسٹائل کر کے شائع کئے گئے اور متعدد کا پیاں مختلف زیر تبلیغ اصحاب کو ارسال کی گئیں.امام صاحب کی نگرانی میں فریج لٹریچر کی تیاری کا کام شروع ہے.قرآن کریم کے فرانسیسی ترجمہ کی نقل ثانی ہو رہی ہے دیباچہ قرآن کریم کا فریج زبان میں ترجمہ ہو رہا ہے.اور اسلامی اصول کی فلاسفی کا فرانسیسی ترجمه نظر ثانی مکمل ہونے کے بعد پریس میں زیر طبع ہے اور پروف ریڈنگ ہو رہی ہے.احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کی غرض سے جہاں تقاریر، خطبات جمعہ ہمجالس علمیہ اور مضامین کی اشاعت کے ذریعہ توجہ کی جاتی رہی وہاں خاکسار انفرادی طور پر قرآن پاک ، نماز ، عربی اور دیگر مسائل کے اسباق دیتا رہا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کے بہتر نتائج ظاہر فرمائے.نماز جمعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے باقاعدگی سے ادا کی جاتی رہی جس میں بعض اوقات احباب جماعت کے علاوہ دیگر حضرات بھی شریک ہوتے رہے.اکثر اوقات مکرم امام صاحب ہی نماز پڑھاتے رہے.آپ نے خطبات میں مختلف تربیتی اور تعلیمی امور کے متعلق خیالات کا اظہار کیا قرآن کریم کی آیات کی تشریح بیان فرماتے ہوئے حاضرین کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا.نیز سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر معارف کلام کے بھی مختلف اقتباسات پیش فرمائے.مکرم امام صاحب کی عدم موجودگی میں محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب موصوف نے بھی چند بار ایمان افروز خطبات سے حاضرین کو نوازا.آپ نے موجودہ زمانہ میں سائنسی ترقیات اور قرآن کریم کی تعلیمات کے موضوع پر روشنی ڈالی.

Page 61

تاریخ احمدیت 52 جلد 21 بعض مواقع پر بتوفیق ایز دی خاکسار کو بھی نماز جمعہ پڑھانے کے مواقع ملے.جن میں اسلام اور احمدیت کے مختلف پہلوؤں پر خیالات کا اظہار کیا گیا.فالحمد للہ اس عرصہ میں مکرم جناب امام صاحب کو پبلک یونیورسٹی ہیگ کے ڈائریکٹر صاحب، پاکستان، متحدہ جمہور یہ عرب لڑکی اور ایرانی سفارت خانوں کے افسران سے ملاقات اور گفتگو کے مواقع ملے.نیز آپ نے ایران کے نئے آمدہ سفیر صاحب سے سفارت خانہ کبری ایران میں جا کر ملاقات کی اور انہیں مسجد ہالینڈ کی مساعی برائے اشاعت اسلام سے متعارف کرایا اور سابق سفیر ایران جناب معتمدی صاحب کے مخلصانہ تعلقات سے آگاہ کیا اس موقع پر خاکسار بھی ہمراہ تھا.سفیر موصوف بڑی خوش خلقی سے پیش آئے اور دیر تک گفتگو کرتے ہوئے جماعت کی تبلیغی مساعی کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی فرماتے رہے.مشن کی طرف سے مکرم امام صاحب نے ان کی خدمت میں کتاب لائف آف محمد بطور تحفہ پیش کی.جسے انہوں نے بڑی خوشی سے قبول فرمایا.مشن کے ماہانہ رسالہ الاسلام کے سلسلہ میں نیز فرانسیسی ترجمہ قرآن کریم و دیگر لٹریچر کی تیاری کے بارہ میں مکرم حافظ صاحب کو پہلی بار منتظمین پریس سے ملنا پڑا.خاکسار نے اس سلسلہ میں معلومات کے لئے مختلف مطبع خانہ میں جا کر کارکنان سے ملاقات کی.ایک کٹر قسم کے عیسائی مکتب فکر کے یہوواہ وٹنس کے دو واعظین سے مکرم امام صاحب کی دو دفعہ گفتگو ہوئی.خاکسار نے بھی ایک بار ان سے تبادلہ خیالات کیا.دونوں واعظین اللہ تعالیٰ کے فضل.احمدیت کے مسکت استدلال کا کوئی جواب نہ دے سکے.اور بڑے پادری صاحب سے مشورہ کر کے جوابات دینے کا وعدہ کر کے تشریف لے گئے.مشن کے پبلک جلسوں اور دیگر تبلیغی مساعی کے اعلانات ور پورٹوں کی اشاعت کے سلسلہ میں خاکسار نے متعدد بار اخباری مراکز میں جا کر منتظمین حضرات سے انفرادی طور پر ملاقاتیں کیں جو نتیجہ خیز ثابت ہوئیں.ایک کیتھولک پادری صاحب خاص طور پر مسجد میں تشریف لائے اور اسلام اور احمدیت کے متعلق مختلف سوالات کرتے رہے.خاکسار ان سے گفتگو کرتا رہا اور جملہ سوالات کا جواب دیتے ہوئے مطلوبہ معلومات مہیا کیں.مذہبی گفتگو کے دوران خاکسار کے دریافت کرنے پر کہ آپ تثلیث اور الوہیت کے مسئلہ کو دوسرے لوگوں کے سامنے کن دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں؟ آپ نے کہا کہ ہمارے عقیدے

Page 62

تاریخ احمدیت 53 جلد 21 کے مطابق ایمانیات میں دیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں.یہ صرف ایمان اور یقین کا مسئلہ ہے.اور ایک پوشیدہ راز ہے.اس عرصہ میں خاکسار کو احباب جماعت و دیگر زیر تبلیغ حضرات کے گھروں پر جا کر بھی ملاقات کرنے کا موقع ملا.جہاں مختلف اسلامی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی.اور احمدیت کے مخصوص عقائد پر سوالات کا جواب دیا.ایک ڈچ ممبر نے چار عرب مسلمانوں اور ایک غیر مسلم ڈچ کو اپنے ہاں مدعو کر کے خاکسار کو بلا یا.چنانچہ اس موقع پر اسلامی پرده ، تعد دازدواج ، اسلام میں فوٹو کا مسئلہ وغیرہ موضوعات پر بحث ہوتی رہی.23- جرمنی ، ڈنمارک ان ممالک میں تبلیغ اسلام سے متعلق اخبار الفضل (19-21 مارچ 1961 ء ) نے وکالت تبشیر کے توسط سے حسب ذیل رپورٹ سپر داشاعت کی: خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے عرصہ زیر رپورٹ میں مشن ہائے جرمنی و ڈنمارک حسب سابق تبلیغ اسلام میں مصروف رہے.تبلیغی جلسوں اشاعت و تقسیم لٹریچر ذاتی ملاقاتوں اور قرآن کریم کی ڈیمنش ترجمہ کی تیاری و اشاعت کا کام خوش اسلوبی سے جاری رہا.نو مسلم جرمنوں کی تعلیم عربی تدریس قرآن کریم نیز مسائل دینی سے واقفیت پیدا کرنے کے سلسلہ میں خاص طور سے کوشش کی جاتی رہی.بعض ملکی و غیر ملکی قابل قدر شخصیتوں سے ملاقات کر کے جماعت احمدیہ کی تبلیغ اسلام کے متعلق سرگرمیوں سے متعارف کرایا گیا.اس سلسلہ کی سب سے اہم شخصیت صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں ہیں.جرمنی وڈنمارک کے اخبارات و رسائل میں اس دوران جماعت احمدیہ کی خدمت اسلام کے بارہ میں نہایت عمدہ تبصرہ جات شائع ہوئے.جن میں سے قابل ذکر مغربی جرمنی کی حکومت کے خاص بلٹین میں جماعت احمدیہ کے جرمنی میں تبلیغی کام کی تفصیلی رپورٹ ہے.جسے حکومت سوڈان کے سرکاری اخبار نے بھی من و عن شائع کیا.ان سرگرمیوں کی کسی قدر تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے مشن کی تقاریب ایک اہم مقام حاصل کرتی جارہی ہیں.جس کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ ہمارے مشن کی تقاریر کے موقعہ پر اس قدر لوگ جمع ہو جاتے ہیں کہ لیکچر روم کی وسعت ناکافی ثابت ہوتی ہے.حاضرین تقاریر کو

Page 63

تاریخ احمدیت 54 پورے انہماک واطمینان سے سنتے ہیں اور سوالات کے ذریعہ اسلام کے بارہ میں اپنی غلط معلومات کی تصحیح کے خواستگار ہوتے ہیں.اور یہ سلسلہ اس قدر لمبا چلتا ہے کہ بعض اوقات رات ڈھلنے لگتی ہے.نومبر کی اہم تقریر زدن برگ کے بین الاقوامی ادارہ محنت کی دعوت پر محترم چوہدری عبداللطیف صاحب نے ان کے بین الاقوامی اجلاس میں کی.اس کا موضوع پاکستان اور اسلام تھا.آپ نے پاکستان اور اسلام کے باہمی تعلق کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی پیدائش کا سبب ہی اسلام ہے اور اس نظریہ کا نقطۂ مرکزی اسلامی اخوت و برادری ہے.جس کی خاطر ہندوستان کو تقسیم کیا گیا.تا مسلمان اپنی اکثریت کے صوبوں کی ایک حکومت قائم کر کے اسلام کی تبلیغ و ترویج میں پورے قوت واخلاص سے منہمک ہو جائیں چنانچہ ہماری جماعت کا مرکز اسی اسلامی مملکت میں ہے.اور ہم دنیا بھر کو اسلام کا شیر میں جام پلانے کے عزم سے نکلے ہیں.سوالات کے وقفہ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے بتایا کہ موجودہ حکومت اپنے فرائض کو پوری طرح سمجھتی ہے.اس حکومت نے ملک بھر میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے.اور اگر اسی عزم وقوت سے کام جاری رہا.تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ حکومتوں کی ہمسری کرے گا اس موقعہ پر اسلام کے بارہ میں لٹریچر تقسیم کیا گیا.حاضرین نے تقریر کو بے حد پسند کیا اور محترم چوہدری صاحب سے اس موقعہ کی یادگار قائم رکھنے کے لئے ان کتابوں پر دستخط بھی لئے.نومبر کی دوسری تقریر برادرم ناصر نکولسکی صاحب کی تھی.آپ جرمن نو مسلم ہیں اور حال ہی میں پاکستان و ہندوستان کے دورہ سے لوٹے ہیں.آپ ربوہ اور قادیان بھی تشریف لے گئے تھے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیارت سے مشرف ہوئے.آپ نے جلسہ سالانہ 1959 ء میں شرکت کی اور اپنے ہمراہ کئی ایک نہایت قیمتی سلائڈز لائے ہیں.اپنے دورہ کے حالات بیان کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے مراکز ربوہ اور قادیان کے روحانی ماحول کی بے حد تعریف کی اور بتایا کہ کس طرح ان دونوں مقدس شہروں کے باسی شب و روز خدمت اسلام میں مصروف ہیں یہ لوگ اپنی زندگیوں کو اسلامی رنگ میں رنگین کرنے کے بعد دنیا بھر کو یہ روحانی مائدہ پیش کرنے نکل کھڑے جلد 21

Page 64

تاریخ احمدیت 55 ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کی تصاویر دکھاتے ہوئے آپ نے بتایا کہ یہ لوگ موجودہ وقت میں اسلام کے احیاء کا پیغام لے کر اٹھے ہیں اور خدائی نصرت نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا ہے.اور آج دنیا کے کونے کونے میں سعید روحیں حلقہ بگوش اسلام ہورہی ہیں.چنانچہ آپ نے جلسہ سالانہ کے روح پرور مناظر پیش کئے.اور اس جم غفیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ نصف صدی قبل ایک گمنام شخص نے اعلان کیا کہ میرے خدا نے مجھے کہا ہے کہ لوگ دور دراز کا سفر کر کے راستوں کو پامال کرتے ہوئے تیرے دیار پر حاضر ہوں گے.اس وقت اس کے ساتھ چند آدمیوں کی جماعت بھی نہ تھی.اور آج ہزاروں ہزار شیدائی اس جلسہ میں شرکت کے لئے حاضر ہوتے ہیں.جو بجائے خود مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کی دلیل ہے.اس موقعہ پر حاضرین کی تعداد غیر معمولی تھی اور انہوں نے پاکستان و ہندوستان کے علاوہ اسلام اور احمدیت کے بارہ میں بھی سوالات کئے جن کے شافی جوابات فاضل مقرر نے دیئے.تیسری تقریر جنوری 1961 ء میں محترم چوہدری عبد اللطیف صاحب نے اسلام اور بین الاقوامی تعلقات کے موضوع پر مسجد ہمبرگ میں کی.آپ نے اسلام کی ہمہ گیری کو پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام صرف افراد کا ذاتی مذہب ہی نہیں بلکہ وہ قوموں اور حکومتوں کے لئے بھی ایک لائحہ عمل پیش کرتا ہے.جس کے تحت افراد کے حکومت سے اور حکومت کے افراد سے تعلقات کے علاوہ حکومتوں کے حکومتوں سے تعلقات کے بارے میں بھی ایسے زریں اصول وضع کئے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں دنیا ایک دائمی امن کا مسکن بن سکتی ہے.جس کے لئے آج دنیا بھر کے لیڈر تگ و دو کر رہے ہیں.لیکن جب تک وہ ان اصولوں کو پوری طرح اپنا نہیں لیتے.اس وقت تک دنیا پر جنگ کا منحوس سایہ منڈلاتا رہے گا.سوالات کے وقفہ میں آپ نے نہایت شرح وبسط سے اس اعتراض کا جواب دیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.آپ نے مشہور مستشرقین کے حوالوں سے بتایا کہ یہ بودا الزام دش اسلام کے ذہنوں کی پیداوار ہے جس کی تائید تاریخ سے نہیں ہوتی.البتہ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کو تلوار کے زور سے مٹانے کی منظم کوشش عیسائیوں کی طرف سے کی گئی ہے جلد 21

Page 65

تاریخ احمدیت 56 جیسا کہ سپین میں ہوا تو چنداں غلط نہ ہو گا.حاضرین نے پوری کارروائی کو دلچسپی سے سنا.اور اسلام پر کئے گئے اعتراضات کا جواب پا کر اطمینان کا اظہار کیا.محترم چوہدری صاحب کی صاحبزادی عزیزہ امتہ المجید نے دو دفعہ اپنے سکول کی طالبات کی مجلس میں اسلام اور پاکستان کے بارہ میں تقریریں کیں.جس کے باعث طالبات میں اسلام سے ایک گونا دلچسپی پیدا ہوگئی اور انہوں نے سوالات کے ذریعہ مزید معلومات حاصل کیں.ان تقاریر کا خلاصہ ٹائپ کر کے طالبات میں تقسیم بھی کر دیا گیا خدا تعالیٰ کے فضل سے ان تقاریر کا بہت اچھا اثر ہوا.سفر ڈنمارک قرآن کریم کے ڈینش ترجمہ کا پہلا پارہ نومبر میں شائع کیا گیا.اس موقعہ پر ایک ریسپشن کی گئی.جس میں اسلامی ممالک کے سفیر، نمائندگان پرلیس اور دیگر کئی ایک کوپن ہیگن کے مقامی معززین شریک ہوئے.محترم چوہدری عبداللطیف صاحب خاص طور سے اس تقریب میں شمولیت کے لئے ڈنمارک تشریف لے گئے.اس موقع پر جناب عبد السلام صاحب میڈسن جو کہ ڈینش احمدی اور قرآن کریم کے مترجم ہیں نے چوہدری صاحب کا تعارف کروایا اور بتایا کہ آپ جرمنی اور ڈنمارک کے رئیس التبلیغ ہیں اور گزشتہ گیارہ سال سے جرمنی میں تبلیغ اسلام کا فریضہ بجالار ہے ہیں.چنانچہ قرآن کریم کے ڈینش ترجمہ کی اشاعت اور اسے عوام میں متعارف کروانے کے لئے آج کی محفل منعقد کی گئی ہے.اور آپ مہمان خصوصی کی حیثیت سے شامل ہوئے ہیں.محترم چوہدری صاحب نے اپنی تقریر میں قرآن کریم کے نزول، جمع و ترتیب اور حفاظت کے پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آج صرف یہی ایک الہامی کتاب ایسی ہے جس کے بارہ میں پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ آج تک ردو بدل سے محفوظ ہے.اور خدائی وعدہ ہے کہ قیامت تک انسانی دست برد سے مامون رہے گی.لیکن صرف یہی ایک پہلو ایسا نہیں جو قرآن کریم کو امتیاز دیتا ہے بلکہ قرآنی تعلیمات جوزندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہیں دینی تکمیل کے باعث اور تمام زبانوں اور تمام ملکوں میں قابل عمل ہونے کی وجہ سے شریعت اسلامی کا طرہ امتیاز ہیں.پس ہم نے مناسب سمجھا کہ ڈینش زبان کے بولنے والوں کو اس نعمت عظمیٰ متعارف کروائیں تا وہ بھی قرآن کریم کی پیشگوئیوں پر اطلاع پائیں اور بچشم خود انہیں پورا جلد 21

Page 66

تاریخ احمدیت 57 ہوتا دیکھیں.آپ نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ جماعت احمد یہ دنیا کی کئی ایک زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر چکی ہے.صرف یورپ ہی کو لیا جائے تو یہ ترجمہ چوتھے نمبر پر آتا ہے.اس سے قبل ہم انگریزی، ڈچ اور جرمن زبانوں میں تراجم شائع کر چکے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے توقع رکھتے ہیں کہ دنیا کی ہر زبان میں اس مقدس اور پیاری کتاب کا ترجمہ کر کے ہر ایک انسان کے لئے آسمانی مائدہ کا سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا آسان کر دیں گے.انشاءاللہ.حاضرین مجلس نے جماعت احمدیہ کی اس عظیم خدمت کو بے حد سراہا اور اخبارات نے خاص طور پر اس بارہ میں مضامین شائع کئے جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے یہ ترجمہ ہمارے نو مسلم بھائی عبدالسلام صاحب میڈسن کر رہے ہیں.اور ان کی نگرانی برادرم کمال یوسف صاحب مبلغ سکنڈے نیویا فرما رہے ہیں.خدا تعالیٰ انہیں اس خدمت کا اجر عطا فرمائے.آمین.اب تک اس ترجمہ کے دو پارے شائع کئے جاچکے ہیں.فی الحال ترجمہ پاروں کی صورت میں علیحدہ علیحدہ شائع کیا جا رہا ہے.تکمیل پر انہیں یکجا کر کے کتابی صورت دی جائے گی.کوپن ہیگن کی مجلس آلیز بر در ہڈ (جو اخوت انسانی پیدا کرنے والی ایک عالمی مجلس ہے ) کی دعوت پر مؤرخہ 7 نومبر کو اسلام حقیقت میں“ کے موضوع پر محترم چوہدری صاحب نے تقریر کی آپ نے اسلامی اصول کی تشریح کی اور ان کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے خاص طور پر اسلامی اخوت کے اصول پر زور دیا اور بتایا کہ اسلام میں رنگ ونسل اور قوم وملت کا کوئی جھگڑا نہیں.بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے انسان ہیں جنہوں نے یہ آواز بلند کی لا فضل لعربی علی انجمی اور ایسے وقت میں یہ اعلان کیا جبکہ عرب غیر قوموں کو اپنے برابر سمجھنا تو الگ رہا حیوان ناطق تک قرار دینا پسند نہ کرتے تھے اور آپ کی قوت قدسیہ نے عرب کی سرزمین میں ایک ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ قرآنی ارشادات إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمُ.انسانوں کی قدر و منزلت پر کھنے کے لئے کسوٹی قرار پایا.رنگ ونسل کا امتیاز اس حد تک ان کے دلوں سے اُٹھ گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا عظیم المرتبت انسان حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو امیر نا کہتا ہے اور تعظیم کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.اس پر حکمت تعلیم کے باعث آج تک مسلمان اپنے ہمسروں سے بڑھ کر تو اضع اور وسیع الحوصلہ تسلیم کئے جاتے ہیں.جو شخص اسلام کی غلامی کا جوا اپنی گردن پر دھرتا ہے وہ خواہ امیر ہے یا جلد 21

Page 67

تاریخ احمدیت 58 غریب، خواہ سفید ہے یا سیاہ، یورپین ہے یا افریقن سب کے ساتھ ایک سطح پر آجاتا ہے.سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور جو چیز انہیں عظمت دیتی ہے وہ تقویٰ اللہ ہے نہ کہ رنگ ونسل یا ملک اور قوم.تقریر کے بعد حاضرین کو سوالات کا موقع دیا گیا.محترم چوہدری صاحب کی تقریر سے حاضرین اس درجہ متاثر ہوئے کہ مجلس کے صدر نے اپنی مجلس کا خاص نشان ( پیج ) اسی وقت چوہدری صاحب کی اچکن پر لگایا اور اعلان کیا کہ آج کی تقریر نے ہمیں اسلام کے بہت قریب کر دیا ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فاضل مقرر کو اس کامیاب تقریر پر اپنی مجلس کی طرف سے ایک تمغہ بطور یادگار پیش کیا جائے انہوں نے بتایا کہ آج تک ان کی مجلس نے صرف تین ایسے تم نے عظیم مقرروں کو پیش کئے ہیں.اور یہ چوتھا امتیازی تمغہ ہے جو آج کے فاضل مقر ر کو پیش کیا جائے گا.ہمارے ڈینش احمدی بھائی عبدالسلام صاحب بڑے اخلاص سے کام کرنے والے نوجوان ہیں اور قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مختلف سوسائٹیوں میں تقاریر کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچانے میں مصروف رہے.محترم صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں مورخہ 20 جنوری 1961ء کو ہمبرگ تشریف لائے.آپ کا استقبال یہاں پر مقیم پاکستانیوں نے کیا.امام صاحب مسجد ہمبرگ نے صدر موصوف کو پھولوں کا خاص طور سے تیار شدہ ہار پہنایا اور تمام پاکستانیوں کی طرف سے ہمبرگ میں آپ کو خوش آمدید کہا.اخبارات نے مشرقی انداز کے اس استقبال کو بہت سراہا اور ہار پہنانے کی تصاویر شائع کر کے لکھا کہ امام مسجد ہمبرگ نے اپنے صدر کو پھولوں کا ہار پہنا کر مشرقی روایات کو زندہ کر دیا ہے.اور لکھا کہ جرمنی بھر میں اس سے زیادہ پر جوش اور مؤثر استقبال اور کسی جگہ نہیں ہوا.دوسری بار محترم صدر مملکت سے ملاقات کے لئے امام صاحب اور خاکسار اٹلانٹک ہوٹل میں حاضر ہو گئے صدر موصوف نے بڑے اطمینان سے جماعت احمدیہ کی اسلامی تبلیغی سرگرمیوں کی تفاصیل سنیں.اسی موقعہ پر خاکسار کو صدر محمد ایوب خاں کے ذاتی معالج بر یگیڈئر محمد سرور سے بھی ملاقات کا موقع ملا.جس میں خاکسار نے انہیں جرمنی میں جماعت احمدیہ کی طرف سے تعمیر کی گئی جلد 21

Page 68

تاریخ احمدیت 59 مساجد، جرمن ترجمه قرآن کریم اور دیگر تبلیغی مساعی سے مطلع کیا.حکومت جرمنی کے سرکاری بلٹین میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی اور مساجد کی تعمیر کے بارہ میں ایک مفصل مضمون جمع فوٹو مسجد ہمبرگ شائع ہوا.یہی مضمون سوڈان کے سرکاری اخبار ڈیلی وڈان نے من و عن نقل کیا.اسی طرح روز نامہ ” نوائے وقت لاہور نے اپنی خصوصی اشاعت میں مضمون کا خلاصہ شائع کیا.اس مضمون کی سرکاری پر چوں میں اشاعت اس گہرے اثر کی ضامن ہے جو جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان ممالک میں پیدا ہو چکا ہے اس کے علاوہ اسلام کے بارہ میں ایک مضمون یہاں کے ایک مقامی سکول کے رسالہ کے ایڈیٹر نے خاکسار سے انٹرویو لینے کے بعد شائع کیا.عرصہ زیر رپورٹ میں ملاقاتوں کا سلسلہ وسیع رہا.مسجد میں تشریف لانے والوں کو اسلام کے بارہ میں مفصل معلومات بہم پہنچائی جاتی رہیں.اس کے علاوہ جناب امام صاحب نے کرسچین اکاڈمی ( جو عیسائی مشنری تیار کرنے کا ادارہ ہے) کے سربراہ سے ملاقات کی اور اسلام اور عیسائیت کے بارہ میں تبادلہ خیالات کیا.اسی طرح مشہور مستشرق پروفیسر شپولر کی دعوت پر محترم امام صاحب انہیں ملنے گئے.کئی ایک اہم امور پر تبادلہ خیال کرنے کے علاوہ پروفیسر شپولر کی درخواست پر آپ نے اسلامک سٹڈیز کے ریسرچ سکالرز کو مسجد میں آنے کی دعوت دی اور اسلام کے بارہ میں تفصیلی معلومات بہم پہنچانے کا وعدہ کیا.اس دوران مرا کو کی ایک اہم شخصیت جناب حسن عبد القا در معرب کچھ دنوں کے لئے ہمبرگ آئے آپ جب تک یہاں مقیم رہے باقاعدگی سے نماز جمعہ کے لئے تشریف لاتے رہے.جرمنی بھر سے لٹریچر کے لئے درخواستیں موصول ہوتی رہیں.جنہیں فوری طور پر مطلوبہ لٹریچر مہیا کیا جا تا رہا.مشن کی طرف سے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و وفات کے مسئلہ پرنئی تحقیق کی روشنی میں ایک کتاب شائع کی گئی جسے ہمارے جرمن احمدی مکرم الیس عبد اللہ جرنلسٹ نے محترم چوہدری عبد اللطیف صاحب کی مدد سے لکھا ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ کتاب بہت مقبول ہورہی ہے.تمام قابل ذکر اخباروں کو کتاب تبصرہ کے لئے بھجوائی گئی ہے.جلد 21

Page 69

تاریخ احمدیت 60 ہمارے جرمن بھائی خالد و تلف برلن میں بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں.انہیں بھاری مقدار میں لٹریچر مہیا کیا جاتارہا جسے وہ دلچسپی رکھنے والوں میں تقسیم کرتے رہے.مغربی افریقہ اس سال مغربی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے مجاہدین کی سرگرمیوں سے متاثر ہوکر ایک یورپین دانشور سیسل نارتھ کاٹ نے ایک مقالہ سپرد قلم کیا جو ” پاکستان ٹائمنز نے اپنی 11 دسمبر 1960ء کی اشاعت میں دیا ذیل میں اس کے ابتدائی حصہ کا اردو تر جمہ دیا جاتا ہے.مغربی افریقہ میں اسلام کی پیش قدمی“ مغربی افریقہ کے ممالک کی آزادی نے ساحلی علاقوں میں اسلام کے حق میں ترقی کی ایک رو پیدا کر دی ہے.اسلام افریقن لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے.کیونکہ افریقہ میں یہ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ گویا یہ افریقہ کی کالی اقوام کا ہی مذہب ہے.عیسائیت کے برخلاف اسلام انسانی کمزوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر نئے آنے والے کو بسہولت اپنے اندر سمو لیتا ہے.کیونکہ اسلام کی سادہ تعلیم کے پیش نظر اس کو رسمی قباحتوں سے دو چار نہیں ہونا پڑتا.اس ضمن میں سیرالیون اور مغربی نائیجیر یا دو اہم علاقے ہیں سیرالیون بھی اگلے اپریل میں آزاد ملکوں کی برادری میں شامل ہو جائے گا.مغربی نائیجیر یا وہ علاقہ ہے.جہاں عیسائیت کا ماضی نہایت شاندار روایات کا حامل رہا ہے.لیکن اب انہی دو علاقوں میں اسلام کونمایاں ترقی حاصل ہورہی ہے.اور معلوم ہوتا ہے کہ سیرالیون تو احمدی مسلمانوں کی منتخب سرزمین ہے جہاں وہ پاکستان سے آئے ہوئے منظم مشنوں کے ماتحت نہایت مضبوط حیثیت میں سرگرم عمل ہیں.احمد یہ جماعت اس مقصد کو لے کر کھڑی ہوئی ہے کہ اسلام کو عیسائیت کے مقابلہ میں موجودہ دنیا کی راہ نمائی کے لئے پیش کرے.اور یہ عیسائیت کے لئے ایک چیلنج ہے.اور اب تو انہوں نے سیرالیون میں با قاعدہ ڈاکٹری مشن کھولنے کا بھی عزم کر لیا ہے.اور وہاں احمد یہ سکولوں کی تعداد بھی بتدریج بڑھ رہی ہے.باوثوق ذرائع سے آمدہ اطلاعات کے مطابق مغربی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں اسلام عیسائیت کے مقابلہ میں دس گنا زیادہ ترقی کر رہا ہے.نائیجیریا کا وسیع شمالی علاقہ اسلام کا گڑھ بن چکا ہے جو باوجود عیسائی مشنوں کی سالہا سال کی کوششوں کے مذہبی اعتبار سے جلد 21

Page 70

تاریخ احمدیت 61 جلد 21 غانا نا قابل تسخیر اسلامی ملک ثابت ہوا ہے.بلکہ خود جنوب کے جنگلاتی علاقہ میں جہاں عیسائی مشنز نہایت مضبوط ہیں وفود بھیج کر اسلامی اثر ورسوخ بڑھا رہا ہے.اوراب نائیجیریا کے آزاد ہو جانے پر ان دونوں بڑے مذاہب کے ایسے تصادم کا امکان ہے.جواب تک کہیں اور رونما نہیں ہوا ہے.کیونکہ یہاں اسلام اور عیسائیت نہایت جوش وخروش کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کمر بستہ ہیں تا کہ ان قبائل کو اپنے زیر اثر لائیں.جو کسی مذہب سے وابستہ نہیں بلکہ تو ہماتی شرک میں مبتلا ہیں.اس مقابلہ کے نتیجہ پر ہی افریقہ کے مستقبل کا انحصار ہے.24 اس سال احمد یہ مشن غانا نے مولانا نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ انچارج اور دوسرے مجاہد بین احمدیت کی سربراہی میں تبلیغی تعلیمی تربیتی اور انتظامی غرض کہ ہر اعتبار سے خوب ترقی کی جس کا خلاصہ مولانا صاحب کے الفاظ میں سپر دقر طاس کیا جاتا ہے.تحریر فرماتے ہیں.پہلی رپورٹ : اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ مشن غانا کے مبلغین کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں جنوری سے مارچ تک 2 9 اشخاص نے اسلام قبول کیا.خاکسار نے عرصہ زیررپورٹ میں 16 مقامات کا دورہ کیا متعد دلیکچر دیئے ایک صدلوگوں تک بذریعہ پرائیویٹ ملاقات پیغام حق پہنچایا.123 میل سفر طے کیا بمقام بیڈوم جہاں احمد یہ جماعت خاصی تعداد میں پائی جاتی ہے.وہاں لوکل کونسل کی طرف سے ایک سکول قائم ہے اس سکول کی عمارت بنانے میں ممبران جماعت احمدیہ نے بھی گاؤں کے دوسرے غیر مسلم لوگوں کی طرح مدد دی.اس سکول کی مینجری رومن کیتھولک مشن کے ہاتھوں میں ہے.حسب معاہدہ اس سکول میں ایک احمدی رکھنا ضروری تھا تا کہ دینیات کی گھنٹیوں میں مسلم طلباء کو وہ دینیات پڑھا سکے.کئی سالوں تک اس سکول میں ہر وقت ایک احمدی ٹیچر مقرر کیا جاتا رہا ہے.لیکن امسال رومن کیتھولک مشن نے احمدی ٹیچر کو سکول میں رکھنے سے انکار کر دیا.اس پر میں نے علاقہ کے ایجو کیشن آفیسر کو لکھا نیز جماعت نے بھی لوکل کونسل پر زور دیا.جس کے نتیجہ میں بجائے ایک ٹیچر کے دو احمدی ٹیچروں کے تقرر کا فیصلہ ہوا.19 جنوری کو عزیزم

Page 71

تاریخ احمدیت 62 عبدالوہاب صاحب ( جور بوہ میں تعلیم حاصل کر کے حال ہی میں اپنے وطن روانہ ہوئے ہیں) کی والدہ ایک گاؤں میں فوت ہوگئیں.ان کا وہاں نماز جنازہ جاکر پڑھا.اور بعد ازاں ایک پبلک لیکچر دیا.مؤرخہ 25 جنوری کو آکرے ڈائر یکٹر آف دور نیکولر بیر و کوترجمتہ القرآن فینٹی کے سلسلہ میں جا کر ملا.انہوں نے کہا کہ فینٹی میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے پر وہ پندرہ سو پونڈ وصول کریں گے.اشاعت کا خرچ اس کے علاوہ ہوگا.4 ہزار نسخوں پر قریبا ساڑھے تین ہزار پاؤنڈ خرچ کا اندازہ ہے.ڈائر یکٹر سے مزید خط و کتابت جاری ہے.انگلش ترجمۃ القرآن کی ایک کاپی ان کے پاس ہے.جو ان کے زیر مطالعہ ہے.مؤرخہ 27 جنوری کو Mass ایجو کیشن آفیسر آئے.اور انہوں نے تاریخ احمدیت پر مجھ سے بہت سے نوٹ لئے.مؤرخہ 3 فروری کو گورنر جنرل صاحب غانالا رڈلسٹول سالٹ پانڈ تشریف لائے ان سے ملاقات ہوئی.کافی دیر تک میرے ساتھ احمدیت کے متعلق گفتگو کرتے رہے.گفتگو کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ مجھے آپ سے احمدیت کے متعلق معلومات حاصل کر کے بہت خوشی ہوئی ہے.مؤرخہ 4 فروری کیپ کوسٹ ہائی کورٹ میں اسحاق مرحوم آف افرانسی کی وصیت کے سلسلہ میں جج کی عدالت میں پیش ہوا.مؤرخہ 20 فروری کو تعلیمی امور کے سلسلہ میں ایک طویل خط ڈائریکٹر سیکرٹری غانا ایجوکیشنل ٹرسٹ کو لکھا.اور اس کی نقول پریذیڈنٹ نا نا ایجوکیشنل ٹرسٹ، وزیر اعظم نا نا اور دوسرے وزراء حکومت کو ارسال کیں.21 فروری کو بمقام DIMPISS ایک بڑی میٹنگ منعقد ہوئی.جس میں احباب جماعت کثرت سے تشریف لائے.اس میں خاکسار اور مولوی عبداللطیف صاحب نے جماعت کو مخاطب کیا.مؤرخہ 26 فروری اور 4 مارچ کو فرانسیسی سوڈان کے بعض لوگ سالٹ پانڈ مشن ہاؤس میں آئے.انہیں سلسلہ کی تعلیم سے آگاہ کیا گیا.اور انہیں عربی اور فرانسیسی میں کافی لٹریچر فرنچ سوڈان میں تقسیم کرنے کے لئے دیا.مؤرخہ 23 مارچ کو ہائی کمشنر صاحب پاکستان نے پاکستان ڈے کے موقعہ پر آکرے مدعو کیا.وہاں بہت سے معززین اور اہم شخصیات یورپین، مصری، شامی ، افریقن ، ہندوستانی اور پاکستانیوں سے ملنے کا موقعہ ملا.30 مارچ کو برادرم قریشی فیروز محی الدین صاحب پاکستان سے تشریف لائے.ان کے جلد 21

Page 72

تاریخ احمدیت 63 استقبال کے لئے آکرا ائیر پورٹ پر گیا.مؤرخہ 11 مارچ کو گوموا آسن سٹیسٹ کونسل کے اڑھائی صد کے قریب پیرامونٹ اور دوسرے چیفس معہ اپنے درباریوں کے سٹیٹ کونسل کی میٹنگ میں شامل ہوئے.خاکسار نے اس موقعہ پر شراب اور ملکی طریقہ تجہیز وتکفین اور رسومات کی خرابیوں پر قریبا ڈیڑھ گھنٹہ تک تقریر کی.خاکسار جامعہ احمد یہ مدارس کی جنرل مینیجری کے فرائض بھی بجالاتا رہا.درس القرآن با قاعدہ جاری رہا.جملہ خط و کتابت آمده از وزارت تعلیم و دیگر محکمہ جات حکومت، لوکل کونسلز ، اساتذہ سکول، احباب جماعت اور مبلغین کے جوابات دیئے جاتے رہے.نیز مشن کے جملہ کاموں کی نگرانی کی.مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم انچارج انشائی سیکشن تحریر کرتے ہیں.ماہ جنوری میں علاقہ اشانٹی کے نئے ریجنل کمشنر صاحب کے تقرر کے موقعہ پر جماعت کی طرف سے ایک وفد کمشنر صاحب کو جا کر ملا اور خوش آمدید کا ایک ایڈریس معہ ہد یہ انگریزی ترجمۃ القرآن ان کی خدمت میں پیش کیا.ایڈریس میں مولوی صاحب نے جماعت احمدیہ کے عقائد کا ذکر کیا اور جو تعلیمی اور مذہبی خدمات جماعت احمدیہ غانا نے کی ہیں ان سے روشناس کرایا.ریجنل کمشنر صاحب نے ایڈریس کا جواب دیتے ہوئے جماعت کی خدمات کو سراہا.اور اسلام سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کے مطالعہ کا وعدہ کیا.ایڈریس اور جواب ایڈریس ریڈیو نانا کے نمائندگان نے ٹیپ ریکارڈ کیا.اور اس تقریب کی خبر انگریزی زبان کے علاوہ ملک کی پانچ لوکل زبانوں میں نشر ہوئی.ڈیلی گریفک نے موقعہ کا فوٹو بھی دیا.شمالی غاناWA کے ضلع GORSISI میں جماعت احمدیہ نے ایک پختہ مسجد بنائی.اس مسجد کے افتتاح کے موقعہ پر مولوی صاحب وہاں تشریف لے گئے.وہاں جماعت WA نے تین دن تک ایک جلسہ منعقد کیا جس میں WA ضلع کی جماعتوں کے علاوہ فرانسیسی علاقہ کی تین جماعتوں کے نمائندگان بھی شریک ہوئے.اس جلسہ میں دوسرے مسلمان بھائیوں کے علاوہ علاقہ کے مشرکین اور WA کا پیرامونٹ چیف بھی اپنے اکابر کے ساتھ شریک ہوا.اس جلسہ میں مولوی صاحب کے علاوہ الحاج معلم صالح اور اساتذہ عربی سکول WA نے تقاریر کیں.ماہ فروری میں یوم مصلح موعود کی تقریب کے سلسلہ میں مسجد احمد یہ کماسی میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا.جس میں کثیر التعداد ا حباب و خواتین شامل جلد 21

Page 73

تاریخ احمدیت 64 ہوئے.مصلح موعود کی پیشگوئی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے تفصیلاً واضح کیا کہ کن حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ پیشگوئی کی.اور کس طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وجود باجود میں من وعن یہ پیشگوئی پوری ہوئی.کلیم صاحب کی تقریر کے بعد چوہدری نذیر احمد صاحب ایم ایس سی ٹیچر احمدیہ سیکنڈری سکول نے تقریر کی.عرصہ زیر رپورٹ میں ایک لوکل مبلغ ابراہیم بن محمد ما نومزید دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ گئے.احباب جماعت نے بخوشی ان کے کرایہ کا بندو بست کیا.اور جب وہ آٹھ فروری کو پاکستان کے لئے روانہ ہوئے تو کماسی ائیر پورٹ پر سینکڑوں احباب وخواتین نے دعاؤں سے اپنے مجاہد بھائی کو الوادع کہا اور ہر ایک نے خواہش ظاہر کی کہ ان کا السلام علیکم حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تک پہنچایا جائے.ملک خلیل احمد صاحب اختر سابق انچارج اشانٹی نے سیکنڈری سکول میں ایک جلسہ کا انتظام کیا تھا.لیکن ان کی موجودگی میں بعض وجوہ کی بناء پر یہ جلسہ نہ ہو سکا.اس سال ماہ جنوری میں یورپین ریجنل ریذیڈنٹ ٹیوٹر اشانٹی ریجن نے وہی جلسہ ہمارے سیکنڈری سکول کماسی میں کیا.اس جلسہ میں طلباء سکول اور اساتذہ کے علاوہ مولوی کلیم صاحب کی دعوت پر اشانٹی کے رومن کیتھولک بشپ رجسٹرار کماسی کالج آف ٹیکنالوجی پرنسپل ٹیچر ٹریننگ کالج اور بعض دیگر نا مورافراد تشریف لائے.ریجنل ریذیڈنٹ ٹیوٹر نے فاضلانہ تقریر کرتے ہوئے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح اسلام مسلمان تاجروں کے ذریعہ شمالی افریقہ سے مغربی افریقہ پہنچا.ماہ فروری میں انگریزی مڈل کے امتحان کے نتائج نکلے ہمارے اکرافو مڈل سکول کا نتیجہ سو فیصد ہی نکلا اور تمام کے تمام امیدوار کامیاب ہوئے کامیاب ہونے والے طلباء میں سے دو نے امتیازی حیثیت حاصل کی اور ایسے ہی ہمارے سالٹ پانڈ مڈل سکول کا نتیجہ 94 فیصدی رہا اس میں بھی دو طالب علم امتیازی نمبر لے کر پاس ہوئے جن میں سے ایک خاکسار کا بچہ نصیر احمد تھا.امسال ہمارے سیکنڈری سکول کا نتیجہ بھی اچھا رہا ہے.فالحمد للہ علی ذالک آکرا مشن ہاؤس تکمیل کی آخری منزل پر پہنچ چکا ہے اب دروازوں اور کھڑکیوں پر جلد 21

Page 74

تاریخ احمدیت 65 روغن کیا جا رہا ہے.ڈاکٹر بلی گراہم جن دنوں غانا میں آئے اس وقت برادرم فضل الہی صاحب انوری بی ایس سی آکرا جا کر اپنے پاکستان جانے کی تیاری کر رہے تھے جب ڈاکٹر مذکور نے اپنے لیکچروں کا سلسلہ آکرا میں شروع کیا تو انہوں نے فوراً دوٹریکٹ مشتمل بر تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کئی ہزار کی تعداد میں چھپوا کر آکرا کے تین نو جوانوں کو اپنے ہمراہ لے کر اس پنڈال کے قریب تقسیم کئے جہاں بلی گراہم لیکچر دیا کرتا تھا.کئی ہزارلوگوں نے یہ ٹریکٹ پڑھے.دوسری رپورٹ خاکسار نے عرصہ زیر رپورٹ میں تبلیغی اورتعلیمی وتربیتی اغراض کے پیش نظر ہیں شہروں اور دیہات کا دورہ کیا اور 2016 میل سفر طے کیا.قریباً 120 اشخاص سے ملاقات کی جن میں آگرے میموریل سیکنڈری سکول کیپ کوسٹ کے ہیڈ ماسٹر.اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر پاکستانی ہائی کمشنر، ریجنل کمشنر اشانٹی، اسٹنٹ بشپ زائن مشن.سیکرٹری ریجنل کمشنر جنوب مغربی غانا، ڈائر یکٹر بیور والسنہ غانا، پروفیسر این.کیو.کنگ انچارج شعبہ دینیات یو نیورسٹی کالج غانا، ڈائریکٹر جیل خانہ جات غانا، اٹارنی جنرل غانا، لینڈ کمشنر، سالیسیٹر جنرل غانا جیسی نامور شخصیتیں شامل ہیں.مؤرخہ 8 اپریل کو جنوبی غانا کے چیف روؤسا کی میٹنگ منعقد ہوئی.جس میں دینی تعلیم کے حصول کے لئے ربوہ کو ایک طالب علم عبدالرحیم نامی روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس طالبعلم کے اخراجات کرایہ مسٹر محمد آرتھر چیف ایگزیکٹو آفیسر غانا نے ادا کرنے کا وعدہ کیا اور یکصد پونڈ کی رقم نقد پیش کر دی.بقیہ رقم کے وصول ہونے پر یہ افریقن طالبعلم ربوہ کے لئے روانہ کر دیا جائے گا.مؤرخہ 8 مئی کو ایک نہایت جوشیلے اور پرانے احمدی محمد آف آکوا مکرم کی وفات پران کے گاؤں میں جا کر نماز جنازہ ادا کی.اس موقعہ پر ملک کے رسم ورواج کے مطابق احمدی، عیسائی اور مشرکین کے اجتماع میں جو ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا.ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کی.مؤرخہ 20 مئی کو سویڈ ر و قصبہ میں ایک پختہ مسجد کی بنیاد رکھنے کے لئے گیا.اس تقریب میں علاقہ کے بعض چیفس اور دوسرے اشخاص بھی شامل تھے.یہاں پر ایک گھنٹہ تک تقریر کی.جلد 21

Page 75

تاریخ احمدیت 66 مورخہ 29 مئی کو یہودا کے عیسائی مبلغین کے ساتھ چار گھنٹے تک تبادلہ خیالات ہوا.مؤرخہ 5 جون کو بمقام اکرافو نماز عید پڑھانے گیا جہاں ایک ہزار احباب شریک ہوئے.مؤرخہ 17 جون کو سیکرٹری ریجنل کمشنر کو زمین کے کاغذات کے سلسلہ میں کیپ کوسٹ جا کر ملا.مؤرخہ 30 جون کو لفٹینٹ جنرل کے ایم شیخ صاحب وزیر زراعت و خوراک پاکستان جو غانا کے یوم جمہوریہ کی تقریب پر آئے تھے کو ملا.ہائی کمشنر پاکستان نے ان کے اعزاز میں دی گئی دعوت میں ہمیں بھی مدعو کیا چنانچہ اس تقریب کے موقعہ پر دیگر معززین کے علاوہ وزیر اعظم سیرالیون سفیر لبنان ، سفیر چیکوسلا و یکیه،نمائندہ لائبیریا ،نمائندہ برطانیہ، ہائی کمشنر سیلون، نمائندہ نیوزی لینڈ ، وزیر محنت ملایا سے ملاقات ہوئی.ان امور کے علاوہ روزانہ قرآن مجید کا درس دیتا رہا.انتظامی امور کے سلسلہ میں جس میں مجھے پیشتر وقت صرف کرنا پڑتا ہے.امیر اور جنرل میجر کی حیثیت سے مختلف فرائض سرانجام دیئے.خطوط آمده از وزارت تعلیم ، ڈائریکٹران ایجوکیشن ،لوکل کونسلوں، دیگر محکمہ جات حکومت.گورنمنٹ ٹیچرز ٹرینگ کالجوں، پاکستانی وافریقن مبلغین،اساتذہ سکولز اور دیگر احباب جماعت کی طرف سے موصول شدہ ڈاک کے جوابات دیئے گئے.عرصہ زیر رپورٹ میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے 105 افراد داخل سلسلہ عالیہ احمدیہ ہوئے.فالحمد للہ علی ذالک ہمارے سیکنڈری سکول کے ہیڈ ماسٹر مکرمی صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب اور دوسرے پاکستانی اساتذہ مکرم نذیر احمد صاحب ایم ایس سی اور مکرم منیر احمد صاحب رشید.سکول کے فرائض کے علاوہ مختلف اوقات میں مختلف احباب سے ملے اور اسلام کے متعلق ان کی غلط فہمیوں کو دور کیا اور تعلیم یافتہ طبقہ کے بعض افراد کو اپنے خرچ پر اسلامی لٹریچر بھی پیش کیا.ہمارے اکرافو سکول کے ہیڈ ماسٹر عبدالرحمان صاحب ہیفر ڈ کوحکومت غانا نے buy مجسٹریٹ مقرر کر دیا ہے وہ آسن گوموالوکل کونسل میں اب مجسٹریٹ ہیں.اشانٹی علاقہ میں مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم کام کرتے ہیں.ان کی ارسال کردہ رپورٹ درج ذیل کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عرصہ زیر رپورٹ میں تبلیغی و تربیتی مساعی میں متعد یہ اضافہ ہوا اور خصوصیت سے مختلف کالجوں میں تقاریر کا موقع ملا.جلد 21

Page 76

تاریخ احمدیت 67 اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی تورات وانجیل کی پیشگوئیوں پر مشتمل جیسی سائز کا چالیس صفحات کا کتابچہ مرتب کر کے شائع کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.کتا بچہ کے آخر میں اسلام کی اکیس امتیازی خصوصیات کا بھی ذکر کیا گیا.کتا بچہ چھ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.کتا بچہ کے پروف ریڈنگ کے کام میں مکرمی منیر احمد صاحب رشید ایم اے نے امداد کی فجزاہ اللہ احسن الجزاء (1) اس کتابچہ کو PREMPEH کالج کماسی کے ستر اسی انٹرمیڈیٹ کے طلبہ اور یورپین سٹاف میں تقسیم کیا علاوہ ازیں اس کالج کے سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ میں شامل ہونے والے پچاس عیسائی طلبہ میں تقسیم کرایا گیا.(2) گورنمنٹ سیکنڈری سکول کے طلبہ ہمارے احمد یہ سیکنڈری سکول کی ٹیم سے فٹ بال اور ٹینس ٹیبل کھیلنے کے لئے آئے ان کو اور ان کے دواساتذہ کو ایک پمفلٹ پیش کیا گیا.(3) گورنمنٹ سیکنڈری سکول کے انٹر میڈیٹ کے عیسائی طلبہ میں لٹریچر تقسیم کیا.اس سکول کی لائبریری کے لئے ڈاکٹر ویگلیری کی کتاب ”اسلام پر ایک نظر پیغام احمدیت لیکچر حضرت اقدس ایدہ اللہ اور اسلام مصنفہ مولا نائٹس صاحب کا سیٹ پیش کیا گیا.(4)TAMALL کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے ملازمین میں، الYE قصبہ کے شماریات کے محکمہ کے ملازمین ، احمد یہ سکنڈری سکول کے عیسائی اساتذہ کے علاوہ انفرادی طور پر مختلف تعلیم یافتہ احباب میں لٹریچر تقسیم کیا CAPECOSAT ، سالٹ پانڈ اور کرا میں تقسیم کے لئے ارسال کیا گیا.مکرم محترم رئیس التبلیغ کے ارشاد پر یکصد کا پیاں نائیجیر یا ارسال کی گئیں.(5) احمد یہ سیکنڈری سکول کے ایک عیسائی استاد اور ایک ہندوگریجوایٹ کو ان کی خواہش پر اشانی پانیر میں شائع ہونے والے تعدد ازدواج“ کا آرٹیکل مطالعہ کے لئے دیا.عرصہ زیر رپورٹ میں WESLEY کالج کماسی کے(جو ٹیچرٹرینگ کالج ٹیفکیٹ A‘ کے لئے ہے) دو تین سو طلبہ اور طالبات میں دو تقاریر کرنے کا موقع ملا ایک تقریر کی صدارت کے فرائض پرنسپل کالج نے سرانجام دیئے جو ” بعث بعد الموت“ کے متعلق اسلامی نظریہ پرتھی.تقریر میں عذاب جہنم کے منقطع ہونے اور جنت و دوزخ کی سزا جزاء کی اصلیت بھی بیان کی گئی تھی.جلد 21

Page 77

تاریخ احمدیت 68 دوسری تقریر اس کالج میں ”اسلام اور کمیونزم“ کے موضوع پر تھی اس میں تمہیدی طور پر اسلام کی امتیازی خصوصیات رواداری مساوات اور تمام انبیاء پر ایمان کے بعد اسلام کے اقتصادی نظام کے برتر ہونے کے ساتھ کمیونزم کے نقائص کو اچھی طرح واضح کیا گیا.ہر دو تقاریر کے بعد طلبہ نے اسلام کا نظریہ نجات، کفارہ مسیح اور الوہیت مسیح ، نیز زکوۃ ، وراثت اور سود کی ممانعت کے بنیادی اقتصادی اصولوں کے متعلق بھی مختلف سوالات کئے جن کے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تسلی بخش جواب دیئے گئے.”اسلام اور کمیونزم کی تقریر طلبہ کی خواہش پر خاکسار سائیکلو سٹائل کر کے لے گیا تھا.جو تمام طلبہ اور طالبات میں تقریر سے پہلے تقسیم کر دی گئی تھی.تیسری تقریر PREMPEH کالج کماسی کے ستر اسی انٹرمیڈیٹ کے عیسائی طلبہ میں مسیح قرآن میں“ کے موضوع پر کی جس میں مسیح کی صلیبی موت کے متعلق قرآنی نظریہ قرآنی آیات سے پیش کرنے کے بعد اس کی تصدیق بائیل سے تفصیلی حوالہ جات سے کی.اس تقریر کی بھی سائیکلو سٹائل کا پیاں تمام طلبہ اور یورپین سٹاف کے بعض ممبران میں تقریر سے پہلے تقسیم کر دی تھیں.اس موقع پر صدارت کے فرائض انگریز پادری پرنسپل کالج نے سرانجام دیئے.تقریر کے بعد اس سوال کے بنیادی اعتقادات کی وجہ سے سوالات وجوابات کا سلسلہ جاری رہا.تیسری رپورٹ چوتھی تقریر گورنمنٹ سیکنڈری سکول کے مسلم طلبہ وطالبات میں ہوئی.اس تقریر کا انتظام انٹرمیڈیٹ کے زیر تبلیغ غیر احمدی طالب علم نے کیا تھا.اس طرح پچاس ساٹھ طلبہ میں اسلام کی اصل تصویر جو سلسلہ عالیہ احمدیہ پیش کرتا ہے.بیان کرنے کی توفیق ملی.تقریر کے بعد حسب معمول سوالات و جوابات کا سلسلہ غیر معمولی طور پر ایک گھنٹہ جاری رہا.پانچویں چھٹی اور ساتویں تقریر احمد یہ سیکنڈری سکول کی تین کلاسوں میں علیحدہ علیحدہ ہوئی.ان تقاریر میں تثلیث ، الوہیت مسیح مسیح کے صلیب پر فوت نہ ہونے کے اسلامی نظریہ کو بائیبل کے حوالہ جات سے ثابت کیا گیا.طلبہ میں تمہیں مسلمان طلبہ تھے.ڈیڑھ سو سے زیادہ عیسائی طلبہ تھے.تقاریر کے بعد سوالات کے جوابات دیئے گئے اور مسیح کی آمد ثانی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود باجود میں پورا ہونا ایک کلاس میں بیان کیا.جلد 21

Page 78

تاریخ احمدیت 69 جماعت احمد یہ کماسی کے ممبران کو غانا میں یہ امتیازی حیثیت ہے کہ اس کے ممبران کماسی مارکیٹ کے علاقہ میں ہر اتوار کو پبلک تبلیغی جلسے کرتے ہیں.اور اس طرح سینکڑوں غیر مسلموں اور غیر از جماعت احباب کو پیغام حق پہنچاتے ہیں ان تبلیغی جلسوں کی وجہ سے تقریباً ہر ہفتہ کم و بیش ممبران کی تعداد بڑھ رہی ہے اور کافی احباب سلسلہ میں دلچسپی رکھنے کے ساتھ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں عموماً داخل ہوتے رہتے ہیں اس نیک کام کی ابتداء جماعت احمدیہ کے ایک سابق مبلغ ملک احسان اللہ صاحب آف لاہوری کے ذریعہ ہوئی تھی.اللہ تعالی ملک صاحب موصوف کو جزاء خیر عطا فرمائے.آمین.کماسی کے ہفتہ وار تبلیغی جلسوں کے علاوہ عرصہ زیر پورٹ میں انشانٹی کے پانچ مقامات پر تبلیغی جلسے کئے گئے جن میں مشرکین، عیسائی اور غیر احمدی احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی.خاکسار کی تقاریر کے علاوہ افریقن احمدی احباب نے بھی تقاریر کیں.پہلے تین مقامات کے جلسوں میں مکرم قریشی فیروز محی الدین صاحب بی اے نے بھی تقاریر کیں.تقاریر کے بعد سوالات کے جوابات دیئے جاتے رہے.DOMIABRA جماعت کے رئیس جن کے ذریعہ ASHANTI AKIM کے علاقہ میں کافی جماعتیں قائم ہوئی تھیں.مقامی ممبران سے بعض اختلافات کی وجہ سے عرصہ دوسال سے جماعت سے کچھ علیحدہ تھے خاکساران سے ملا اور انکو سمجھایا گیا چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وہ پھر جماعت میں داخل ہو گئے.فالحمد للہ علی ذالک DOMIABRA کے بائیل مشن سکول کے ہیڈ ماسٹر سے مل کر طلبہ اور سٹاف میں اسلام کیا ہے“ کے موضوع پر تقریر کی.دوران تقریر اسلامی نظریہ نجات بیان کرتے ہوئے کفارہ کی بھی ضمنی طور پر تردید کی.تقریر کے بعد بعض ممبران سٹاف نے سوالات کئے جن کے جوابات دیئے گئے.غانا میں یوم جمہوریہ کی تقریب پر جب جنرل کے ایم شیخ صاحب وزیر داخلہ حکومت پاکستان غانا آئے تو ACCRA میں پاکستانی ہائی کمشنر نے ان کے اعزاز میں پارٹی دی.اس موقع پر وزیر داخلہ سے متعارف ہونے کے بعد ہم نے ان کو غانا میں جماعت کی تبلیغی اور تعلیمی خدمات اسلامی مختصر آبتا ئیں دوران گفتگو ہم نے ان سے اسلامی لٹریچر کے پاکستان سے منگوانے کے متعلق اپنی مشکلات کا ذکر کیا.چنانچہ وزیر صاحب موصوف نے جلد 21

Page 79

تاریخ احمدیت 70 اس سلسلہ میں ہر ممکن امداد کا وعدہ فرمایا.(2) دوسری تقریب کماسی میں مسلمانوں کے ایک عریبک سکول کے افتتاح کی تھی.خاکسار اس میں مدعو تھا یہاں زونگو کے چھ سات اکابرین کو تحریک کی گئی کہ وہ پرائمری اور مڈل سکولوں میں عربی بطور کورس مقرر کرنے کی حکومت سے درخواست کریں تا عربی پڑھنے کے ساتھ ساتھ طلبہ روزگار کے حصول کے لئے سکول کی تعلیم بھی حاصل کریں.جلسہ میں صاحب صدر کی خواہش پر خاکسار نے عربی میں تقریر کی جس کا ساتھ ساتھ ہوسہ اور اشانٹی زبان میں ترجمہ ہوتا گیا.خاکسار نے ہزار ڈیڑھ ہزار کے مجمع میں طلب علم کے متعلق احادیث سے ارشادات نبوی پیش کرتے ہوئے بڑوں اور چھوٹوں کو حصول تعلیم کی طرف توجہ دلائی اور صرف عربی پر اکتفا کرنے کی بجائے دنیاوی تعلیم جوحکومت کے دفاتر وغیرہ میں ملازمت کے لئے ضروری ہے اس کے حصول کی طرف بھی توجہ دلائی.(3) تیسری تقریب عید الاضحیہ کی تھی جو خاکسار کی زیر نگرانی علاقے میں پندرہ مقامات پر ادا کی گئی اور کماسی میں سینکڑوں احباب جماعت اور دیگر احباب عید کی نماز میں شامل ہوئے.اور صاحب استطاعت احباب نے قربانیاں بھی کافی تعداد میں کیں.(4) ایک روڈ کے افتتاح کی تقریب میں شریک ہوا اور وزیرتعلیم ، پارلیمینٹری سیکرٹری، پیراماؤنٹ چیفس اور چیفس سے ملاقات کی.عرصہ زیر رپورٹ میں ستر اسی افراد سے ملاقات اور گفتگو کی ان میں کالجوں کے پرنسپل،سکولوں کے ہیڈ ماسٹر واساتذہ، بنک کے مینجر ، وزراء، سفراء، ہائی کمشنرز ، ڈاکٹر ز اور انجینئرز کے علاوہ مختلف تجارتی اور دیگر سرکاری ملازمین اور سکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات بھی شامل ہیں.ان میں سے متعدد افراد سے ایک سے زائد بار بھی ملنے کا موقعہ ملا اور بعض مشن ہاؤس بھی تشریف لائے.آنریری مبلغ معلم عیسی خاکسار نے جماعت کو تبلیغ کے لئے ایام وقف کرنے کی تحریک کی تھی چنانچہ معلم عیسی نے تقریب دو ماہ اشانٹی کے ارتمیں مقامات کا دورہ کیا اور ایک تبلیغی اجلاس منعقد کر کے ان مقامات میں تقریر کے ذریعہ تقریبا دس ہزار افراد تک پیغام حق پہنچایا.کماسی کے ہفتہ وار اجلاس میں بھی یہ دوست عمو ماً حصہ لیتے ہیں.جلد 21

Page 80

تاریخ احمدیت چوتھی رپورٹ 71 عرصہ زیر رپورٹ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے 174 اشخاص نے اسلام قبول کیا.مؤرخہ یکم جولائی کو جمہور یہ غانا کے جشن کے موقعہ پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے محترم لفٹنٹ جنرل کے ایم شیخ صاحب وزیر زراعت و خوراک مملکت پاکستان تشریف لائے.ان کے قیام کا بندوبست ایمبسیڈر ہوٹل آکرا میں تھا.جہاں مؤرخہ 30 جون کو پہلے ہی ان سے ملاقات ہو چکی تھی.وقت مقررہ پر خاکسار یکم جولائی کو مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم ، مولوی فیروز محی الدین صاحب مسٹر محمد آرتھر چیف ایگزیکٹو آفیسر ہاؤسنگ کارپوریشن غانا اور مسٹر ممتاز بیگ سیکرٹری تعلیم و تربیت کے ہمراہ صبح سات بجے ایمبسیڈر ہوٹل میں پہنچ گیا.جب لفٹنٹ جنرل کے ایم شیخ صاحب اپنے کمرہ سے باہر تشریف لائے تو ہم نے ان سے ملاقات کی.ملاقات کے بعد خاکسار نے انہیں انگریزی ترجمۃ القرآن، لائف آف محمد اور دوسرا اسلامی انگریزی لٹریچر پیش کیا.جو انہوں نے نہایت خوشی سے شکریہ کے ساتھ قبول فرمایا.اسی ہوٹل میں کرشنا مین وزیر دفاع حکومت ہند اور دوسری حکومتوں کے نمائندے بھی قیام پذیر تھے جن میں سے بعض کے ساتھ ہم نے اپنا تعارف کرایا.مورخہ 22 جولائی کو بمقام اراچر ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں خاکسار نے دو گھنٹہ تک تقریر کی.29 جولائی کو بمقام ESSIAM ایک میٹنگ منعقد ہوئی.جس میں احباب بکثرت تشریف لائے.اس موقعہ پر بھی ایک لیکچر دیا.26 جولائی کو ایک وصیت کے سلسلہ میں ہائیکورٹ میں پیش ہوا.5 اگست کو ایک اجلاس موضع اسی کماری ہوا.وہاں ڈیڑھ گھنٹہ تک تقریر کی.12 اگست کو ایک اور میٹنگ بمقام آبرہ میں کی گئی.اس میں بھی خاکسار نے لیکچر دیا.17 اگست کو خاکسار احمد یہ سیکنڈری سکول کماسی کے بورڈ کے ممبروں سمیت وزیر تعلیم حکومت غانا کو آ کر ا ملنے کے لئے گیا.وزیر موصوف مشغول تھے.اس لئے پہلے چیف ایجو کیشن آفیسر، پرنسپل سیکرٹری سے دو گھنٹے تک گفتگو ہوتی رہی.بعدازاں وزیر تعلیم کے ساتھ بھی کچھ عرصہ تک سیکنڈری سکول اور دوسرے تعلیمی مسائل پر گفتگو ہوئی.ان مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ لوکل کونسلرز سکولز اور عیسائی مشنز سکولز میں جو مسلمان طلباء تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں انہیں دینیات کے پیریڈ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی ہے اس لئے اسے روکا جائے اور ایسے ہی لوکل کونسلز سکول میں جلد 21

Page 81

تاریخ احمدیت 72 جہاں مسلمان طلباء کی تعداد خاصی ہو وہاں مسلمان اساتذہ مقرر کئے جائیں تا کہ دینیات کے وقت میں یہ اساتذہ مسلمان بچوں کو اسلامی تعلیم سے روشناس کرائیں اور قرآن مجید پڑھا ئیں.اسی تاریخ کو برادرم مسٹر عبدالواہاب بن آدم جو پاکستان سے آکرا پہنچے تھے سالٹ پانڈ میرے ہمراہ آئے.کیونکہ انہوں نے جلد ہی اپنے وطن اشانٹی جانا تھا اور وقت اتنا تنگ تھا کہ احباب کا جمع کرنا مشکل تھا.اس لئے بجائے ٹی پارٹی کرنے کے مجلس عاملہ کے ممبروں نے انہیں کچھ نقدی بطور ہدیہ دے دی.18 اگست کو ٹیونس کے رہنے والے ایک معز ز عرب تشریف لائے ان کے ساتھ مشن ہاؤس میں دیر تک عربی میں گفتگو ہوتی رہی.انہیں عربی میں احمدیت کے متعلق کافی لٹریچر دیا گیا.26 اگست اگونہ سرکٹ میں OBADOM کے مقام پر ایک میٹنگ میں پبلک تقریر کی جو دو گھنٹہ تک جاری رہی.ایک روز پبلک اجلاس مؤرخہ 2 ستمبر کو منگوائسی گاؤں میں کیا گیا.مجمع اچھا خاصہ تھا وہاں بھی ڈیڑھ گھنٹہ تک بولنے کا موقعہ ملا 19 ستمبر کو غانا ایجوکیشن ٹرسٹ کی طرف سے پانڈ گرلز سیکنڈری سکول میں ایک میٹنگ میں شمولیت کے لئے گیا بہت سے معزز افریقن اور یورپین سے ملنے کا موقعہ ملا.اس تقریب پر حکومت غانا کے بعض وزراء بھی آئے.مورخہ 12 ستمبر کو مسٹر محمد آرتھر چیف ایگزیکٹو آفیسر نے اپنے نئے مکان کے افتتاح کے لئے خاکسار کو بلایا.حاضرین میں سے کئی لوگ عیسائی اور مشرک بھی تھے موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے وہاں لیکچر دیا.سہ ماہی زیر پورٹ میں خاکسار نے 13 گاؤں کا دورہ کیا.708 میل سفر طے کیا.اور نوے اشخاص کے ساتھ ملاقات کی.مندرجہ بالا کاموں کے علاوہ جملہ امور انتظامیہ سرانجام دیئے قرآن مجید کا درس جاری رہا.جملہ مدارس احمدیہ کی جنرل مینجری کے فرائض ادا کئے روازنہ خطوط آمدہ از وزارت تعلیم، ریجنل اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران لوکل کونسلز ، دیگر محکمہ جات حکومت،اساتذہ سکولز ،احباب جماعت اور مبلغین کے جوابات دیئے گئے.مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم مبلغ اشانی تحریر کرتے ہیں انہوں نے قریشی محی الدین کے ساتھ ان مندوبین میں سے چیدہ چیدہ کو جو غانا جمہوریہ کے جشن پر آئے ہوئے تھے ملکر اسلامی کتب کے سیٹ پیش کئے ان میں سے وزیر سیرالیون وزیر اعظم کیمرون اقوام متحدہ میں سیلون کے مستقل نمائندے مفتی لبنان لائبیریا کی پارلیمنٹ کے ایک معزز رکن خاص طور پر قابل ذکر ہیں.علاوہ ازیں تربیتی دورہ کے ایام جلد 21

Page 82

تاریخ احمدیت 73 میں دو تعلیم یافتہ پیرامونٹ چیفس کو جن میں سے ایک امریکہ کا تعلیم یافتہ ہے اسلامی کتب پیش کیں.ایک ایجوکیشن آفیسر اور ایک عالم کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا لیکچر پیغام احمدیت کی کاپیاں پیش کیں ایک جرمن پروفیسر نے جو یہاں ملازم ہے.جرمن ترجمۃ القرآن اور ایک اور عیسائی نے انگریزی ترجمہ القرآن مطالعہ کے لئے لیا.اخبار TRUTH کی کاپیاں بعض پیرامونٹ چیفس ریجنل اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر گورنمنٹ سیکنڈری سکول ٹیمالی اور احمد یہ سیکنڈری کے طلباء کو بھیجی گئیں.اشانٹی لائبریری میں جو اسلامی کتب ملک خلیل احمد صاحب اور کلیم صاحب نے پیش کی تھیں.لائبریری کے ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ لوگ وہ کتب پڑھتے ہیں.کلیم صاحب نے میلا دالنبی کے موقعہ کو اشانٹی پانیئر اور اشانٹی ٹائمنر اخبار میں سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا ایک طویل مضمون شائع کروایا.نیز غانا ٹائمنز اور اشانٹی پانیئر میں ان کا ایک خط شائع ہوا.جس میں اخلاق کے متعلق اسلامی تعلیم پیش کی گئی تھی میلاد النبی کے موقع پر کماسی انٹر نیشنل کلب میں زیر صدارت شاہ اشانٹی ایک جلسہ منعقد ہوا.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں اور تعلیم پر مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم، مولوی عبدالوہاب بن آدم صاحب ایک ہندو دوست صدر انڈین مرچنٹ ایسوسی ایشن کماسی مسٹروکٹر بابو اور ایک اور عیسائی پادری رابرٹ پرنسپل اشانٹی کا لیجیبیٹ کماسی نے تقاریر کیں.یہ تقریب ایک انٹرنیشنل اجتماع تھا.جس میں جرمن، ڈچ ،شامی، لبنانی، ہندوستانی، پاکستانی اور افریقن احباب شریک ہوئے.رومن کیتھولک فرقہ کے ڈچ بشپ مقیم کماسی اور پروٹسٹنٹ اعلی تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں نے بھی اس میں حصہ لیا.تقریب کے اختتام پر حاضرین کی ماکولات اور مشروبات سے تواضع کی گئی.جب 19 اگست کو بذریعہ ہوئی جہاز آکر اسے کماسی عبد الوہاب صاحب پہنچے تو مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم کی معیت میں جماعت کماسی کے احباب خاصی تعداد میں ان کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ پر موجود تھے.انہوں نے اللہ اکبر.اسلام زندہ باد....احمد بیت زندہ باد اور مولوی عبدالوہاب مبلغ اسلام زندہ باد کے نعروں سے عبدالوہاب صاحب کا استقبال کیا ان کے اعزاز میں احمد یہ مشن کماسی نے ایک استقبالیہ دعوت دی جس کا انتظام احمدیہ سیکنڈری سکول کماسی کے پارک میں کیا گیا.جس میں پیرامونٹ چیف رومن کیتھولک جلد 21

Page 83

تاریخ احمدیت 74 بشپ کماسی، کماسی میونسپل کونسل کے کونسلز ، ٹاؤن کلیرک اور دیگر معززین نے شرکت کی.اس موقعہ پر کلیم صاحب نے اخلاقیات اور مساوات پر اسلامی تعلیم کے زرین اصول بیان کئے جماعت کے سیکرٹری مسٹر عبدالواحد عزیز نے ایڈریس پیش کیا.جس کے جواب میں عبدالوہاب صاحب نے تقریر کی.اس پارٹی کے انتظام میں مکرم منیر احمد رشید صاحب ایم اے، کرم محمد اکرم صاحب ایم اے اور چوہدری مشتاق احمد صاحب ایم اے نے کافی مدد دی.نماز جمعہ میں احباب جماعت کماسی کے علاوہ اردگرد کے دیہات کے احمدی بھی تشریف لائے.چنانچہ نماز جمعہ کے بعد عبدالوہاب صاحب نے مرکز ربوہ کے حالات بیان کئے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت بیان کرتے ہوئے حدیث نبوی متزوج ویولد لہ کو پیش کر کے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی شان و مرتبہ کو بیان کیا اور خلافت کے دامن سے وابستگی کی تلقین کی.عبدالوہاب صاحب کی والدہ مرحومہ Adansistate اشانٹی ریجن کی رہنے والی تھیں.اس نسبت سے اس علاقہ کے احمدیوں نے بمقام Asokwa ایک استقبالیہ پارٹی ان کے اعزاز میں دی گئی جس میں احمدی ممبران کے علاوہ علاقہ کے عیسائی اور مشرکین کثیر تعداد میں شامل ہوئے اس تقریب میں مولوی عبد الوہاب صاحب نے صداقت اسلام بیان کرتے ہوئے اسلام کی دعوت دی اور احمدی احباب کو خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے اور اسلام کے پھیلانے کی تاکید کی.مولوی کلیم صاحب نے اس موقعہ پر تردید کفارہ وتر دید الوہیت مسیح پر لیکچر دیا.مکرم عبدالوہاب صاحب کو ان کی مرحومہ والدہ نے 1952 ء میں مولوی بشارت احمد صاحب بشیر سابق مبلغ غانا کے ساتھ پاکستان ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا تھا اب آٹھ سال دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ واپس غانا تشریف لائے ہیں.مذکورہ بالا تقاریب کے علاوہ مولوی کلیم صاحب نے تین دیگر مقامات پر تبلیغی جلسے کئے نیز کماسی مارکیٹ میں ہفتہ وار جلسے با قاعدہ ہوئے عرصہ زیر رپورٹ میں مولوی کلیم صاحب نے ستر افراد سے ملاقات کی.اور پیغام حق پہنچایا.اسی عرصہ میں انہوں نے اٹھارہ جماعتوں کا تربیتی دورہ کیا.پانچ چھ جماعتوں کے دورہ میں عبدالوہاب صاحب بھی ان کے ساتھ رہے اس تربیتی دورہ میں احباب کو اسلامی مسائل سکھائے گئے اور تربیتی امور کی طرف توجہ دلائی گئی.کماسی کے دوران قیام میں قرآن مجید، بخاری شریف فتاویٰ حضرت جلد 21

Page 84

تاریخ احمدیت 75 جلد 21 لائبیریا: مسیح موعود علیہ السلام کا درس دیا گیا.ایوننگ کلاس با قاعدہ جاری رہی.جس میں ترجمہ قرآن مجید، قرآن مجید، یسرنا القرآن اور بعض عربی کتب احباب کو پڑھائی گئیں جماعت کی ترقی واصلاح اور دیگر ضروری امور کے متعلق اجلاس کئے گئے تنازعات کا فیصلہ کیا گیا.عبدالوہاب صاحب کو بیرونگ اہا فوریجن میں بمقام نیچی مان لگایا گیا ہے وہاں وہ تبلیغی و تربیتی امور سرانجام دے رہے ہیں جماعتی تنظیم کا اچھا کام کر رہے ہیں بوقت صبح درس دیتے ہیں ان کے ذریعہ ایک پیرا مونٹ چیف مسلمان ہوا ہے احباب جماعت کئی میل سفر کر کے فجر کی نماز میں حاضر ہوتے ہیں تاکہ وہ درس سے فائدہ حاصل کر سکیں.مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ انچارج لائبیریا مشن کی تحریر فرمودہ 1960ء کی بعض ماہوار ر پورٹوں کی تلخیص.گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ڈیگ ہیمر شولڈ افریقن ممالک کا آفیشل دورہ کرتے ہوئے سب سے پہلے لائبیریا تشریف لائے.یہاں انہوں نے تین دن قیام کر کے یہاں کے سیاسی ، ثقافتی اور عام ملکی حالات کا مطالعہ کیا.اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے احمد یہ مشن لائبیریا کی طرف سے خاکسار نے سیکرٹری جنرل صاحب کی خدمت میں قرآن کریم انگریزی کی ایک کاپی ، اسلامی اصول کی فلاسفی.لائف آف محمد.ہمارے بیرونی مشن.اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام.دستی طور پر بمع ایک ٹائپ شدہ ایڈریس پیش کیا انہوں نے بخوشی قبول کرتے ہوئے ہمارا شکر یہ ادا کیا اور ان کا مطالعہ کرنے کا وعدہ کیا.افریقہ کے لمبے دورے کے بعد نیو یارک واپس پہنچ کر سیکرٹری جنرل صاحب کے پرنسپل سیکرٹری صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل جواب موصول ہوا.اقوام متحدہ ایگزیکٹو آفس آف دی سیکرٹری جنرل 6 فروری 1960ء محترم الحاج صدیق صاحب.مجھے یونائیٹڈ نیشنز کے سیکرٹری جنرل صاحب کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ میں آپ کی چٹھیوں مورخہ 23 دسمبر اور 8 جنوری 1960 ء کا شکر یہ ادا کروں نیز آپ کی اس مہربانی پر بھی ان کی طرف سے شکریہ ادا کروں جو کہ آپ نے قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کا ایک نسخہ اور دیگر مفید اسلامی لٹریچر ارسال کر کے سیکرٹری جنرل

Page 85

تاریخ احمدیت 76 جلد 21 9966 صاحب پر کی ہے ، سیکرٹری جنرل آپ کے ان تحائف اور نیک جذبات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.“ آپ کا خیراندیش ڈبلیویجسٹر پرنسپل سیکرٹری ماہ اپریل اور مئی میں کئی ایک غیر ملکی وفود اور نمائندے لائبیریا آئے اور تقریبا سب سے حسب موقعہ رابطہ پیدا کر کے انہیں احمدیہ مشن اور جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں سے آشنا کرایا گیا بعض کو سلسلہ کا اسلامی لٹریچر انگریزی اور عربی میں پیش کرنے کے علاوہ تحریراً بھی تفصیل سے اسلام کی تعلیم واصول کے ضروری حصوں کی فلاسفی ان پر واضح کی گئی اور دعوت دی گئی.ماہ مئی کے آخر میں فیڈ ریشن آف نائیجیریا کے چیف جسٹس سر د ٹیمولا ایک ہفتہ کے لئے سرکاری طور پر یہاں تشریف لائے.انہیں ایک خاص میمورنڈم کے ذریعہ جماعت احمد یہ لائبیریا کی طرف سے خوش آمدید کہا گیا.اور مختصراً اسلام کی تعلیم اور خصوصاً بعض قانونی نظریات ان پر واضح کئے نیز انہیں دعوت دی گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعاوی اور قرآن کریم کی پیش کردہ تعلیم پر سنجیدگی سے غور کریں اور اسلام قبول کر کے سعادت دارین حاصل کریں.میمورنڈم کے ساتھ انہیں اسلامی اصول کی فلاسفی ، لائف آف محمد اور دیگر اہم احمد یہ لٹریچر کے علاوہ اسلامک لاء پر ایک اہم کتاب آؤٹ لائن آف مسلم لاء اور اسلام میں انصاف کا تصور“ (از چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب) بھی تحفہ پیش کی گئیں جو کہ انہوں نے خوشی اور شکریہ کے جذبات کے ساتھ قبول کرتے ہوئے مطالعہ کرنے کا وعدہ کیا.حال ہی میں مصر کی ایک مشہور سوسائٹی جمعیۃ الاتحاد بین المذاہب کے جنرل سیکرٹری مسٹر بھجات قندیل اپنی سوسائٹی کی طرف سے افریقن ممالک کا دورہ کرتے ہوئے لائبیریا آئے.ان سے جمہوریت عربیہ متحدہ کے سفارت خانہ کے ذریعہ میری ملاقات ہوئی اور خاکسار نے انہیں احمد یہ مشن میں آنے کی دعوت دی.سفارت خانہ کے نائب سفیر مسٹر انور فرید ہمارے اور ہماری تبلیغی کارروائیوں کے بڑے مداح ہیں چنانچہ آپ نے ڈاکٹر بلی گراہم مسیحی مناد کے نام میری تبلیغی چٹھی کی بہت سی کا پیاں مجھ سے حاصل کر کے مزوریا کے مختلف با اثر عیسائیوں اور سفارت خانوں کے کارکنوں کو اپنی طرف سے پیش کی تھیں انہوں نے مسٹر بھجات صاحب سے میرا تعارف کرا کے خود ہی انہیں جماعت احمدیہ کی یورپ و افریقہ اور امریکہ میں تبلیغی سرگرمیوں سے مختصراً آگاہ کیا.

Page 86

تاریخ احمدیت 77 جلد 21 دوسرے روز شام کو مسٹر بھجات ہمارے مشن میں تشریف لائے اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ٹھہرے رہے.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ سے روشناس کرایا گیا.نیز دنیا کے تمام اہم احمد یہ مسلم مشنوں کا بھی یکے بعد دیگرے تعارف کرایا اور ساتھ ساتھ دنیا میں جماعت احمدیہ کی طرف سے قائم کردہ مساجد سکول کالج اور مشن سنٹر ز کی تصاویر بھی دکھا ئیں اور اپنے اکثر احمد یہ انگریزی اور عربی اخبارات اور رسالوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف تحفہ بغداد اور استفتاء وغیرہ کی ایک ایک کاپی بھی انہیں تحفہ پیش کی وہ یورپ اور امریکہ میں ہماری نئی مساجد کی تصاویر دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے اور جماعت احمدیہ کے ممبران اور خصوصاً مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ دینے والوں کو بہت دعائیں دیں اور ہماری ہر مسجد اور مشن کی ابتداء اور بنیاد وغیرہ کے متعلق جملہ معلومات تحریراً نوٹ کرتے رہے.اس کے بعد خاکسار نے ان کے استفسار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی اور ایک احمدی اور غیر احمدی میں مابہ الامتیاز پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ احمدیت حقیقی اسلام کے سوا اور کوئی نئی چیز دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتی اور اس کا مقصد قرآنی آیت کریمہ یا ایها الذین امنوا بالله ورسوله الخ کے مطابق مسلمان عوام کو حقیقی اور سچے مومن بنانے اور تمام دنیا کے دیگر مذاہب کے لوگوں کو بذریعہ تبلیغ دین اسلام میں داخل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور مسلمانوں کے تمام فرقوں کے نزدیک یہی امام آخرالزمان کی بعثت کی غرض وغایت ہے.جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت پورا کرنے میں دن رات ہمہ تن مشغول ہے.مسٹر بھجات صاحب نے آخر پر فرمایا کہ آپ کی باتیں واقعی نہایت قابل غور ہیں جنہوں نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے اور بطور مسلمان ہم شرمندہ ہیں کہ ہم اسلام کی بذریعہ تبلیغ اشاعت اور اس کی تقویت کا فریضہ جو ہم پر عائد ہوتا ہے ادا نہیں کر رہے.لیکن ہمیں خوشی ہے کہ آپ کی جماعت کے افراد دنیا کے باقی مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ کے طور پر یہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں نیز آپ نے کہا کہ میرے اپنے والد از ہر شریف کے خاص مشائخ میں سے ہیں اور میں خود بھی از ہر شریف کا تعلیم یافتہ ہوں اور ہمیں واقعی افسوس ہے کہ مصر کے اس اہم اور مقدس اسلامی ادارے کو با قاعدہ غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کرنے اور دش اسلام کے تبشیر ی حملوں کا مقابلہ کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوئی.میرا ارادہ ہے کہ میں اپنی واپسی پر ان شاء اللہ جامعہ از ہر کے سرکردہ مشائخ کی توجہ اس طرف مبذول کراؤں.مشن سے رخصت ہونے سے پہلے آپ نے مشن کی وزیٹر ز بک میں مندرجہ ذیل ریمارکس دیئے كم كان سردری آن ارى دعاة الاسلام الاحمد يين في غرب افريقيا وفقكم الله تعالى

Page 87

تاریخ احمدیت 78 جلد 21 لا راهذه الرسالة المباركة بهجات قنديل سيكرترى العام جمعیۃ الاتحاد بین المذاہب کہ مغربی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے مبلغین کی سرگرمیاں دیکھ کر مجھے از حد خوشی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام کا مبارک پیغام پہنچاتے رہنے کی توفیق عطا کرے.بھیجات قندیل سیکرٹری جمعیتہ الاتحاد بین المذاہب نمبر 5 شارع جامعة....القاهره حال واردمنر و و یا 10 مئی 1960ء-20 سیرالیون: امسال مشن کی دینی سرگرمیوں میں جماعت احمد یہ سیرالیون کا کامیاب سالانہ جلسہ اور ریڈیو سیرالیون پر اسلام کے متعلق دلچسپ مکالمہ اور چار نئے سکولوں کا آغا ز قابل ذکر ہیں.جلسه سالانه قریشی محمد افضل صاحب مبلغ سیرالیون نے بذریعہ تار مرکز احمدیت میں اطلاع دی کہ سیرالیون 5 جنوری.جماعت احمد یہ سیرالیون ( مغربی افریقہ ) کا سالانہ جلسہ تین روز تک جاری رہنے کے بعد نہایت کامیابی اور خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا.تین دن میں 18 جلاس منعقد ہوئے.جن میں ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی جماعت ہائے احمدیہ کے پانچ سو سے بھی زائد نمائندوں نے شرکت کی.افتتاحی اجلاس میں لائبیریا سے آمدہ پیغامات کے علاوہ محترم جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا.چارا جلاسوں میں علی الترتیب صوبائی محکمہ تعلیم کے سیکرٹری، پیرامونٹ چیف گامانگا، چیف واندی کلن اور وزیرخزانہ جناب مصطفیٰ نے صدارت کے فرائض سر انجام دیئے.وزیر موصوف نے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے فرمایا جماعت احمد یہ جسے دنیا میں مسلمانوں کے واحد منظم مذہبی ادارے کی حیثیت حاصل ہے مسلمانوں کی تمام مشکلات کا حل پیش کرتی ہے.وزیر موصوف سے احمد یہ سیکنڈری سکول کے لئے پوری پوری تائید وحمایت کا یقین دلایا.جلسہ سالانہ کے پانچویں اجلاس میں عربی میں تقاریر ہوئیں.جس کی صدارت مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب ایم.اے نے کی.اس موقعہ پر جماعت احمد یہ سیرالیون کی مجلس شوری کے بھی تین اجلاس منعقد ہوئے.جن میں صدارت کے فرائض مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے ہی ادا کئے.اس موقعہ پر 3 ممبران پر مشتمل ایک انتظامیہ کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی.مقامی مبلغین کی تعلیم وتربیت، عربی کالج اور سیکنڈری سکول کے قیام سے متعلق مسائل پر غور وفکر کے بعد مناسب فیصلے کئے گئے.

Page 88

تاریخ احمدیت ریڈیو پر مکالمہ 79 جلد 21 جناب مبارک احمد صاحب ساقی مبلغ سیرالیون کے قلم سے مکالمہ کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.سیرالیون میں اسلام کی روز افزوں ترقی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دنوں وہاں ریڈیو کے ذمہ دار افسران نے خاص اسلام پر ایک دلچسپ مکالمہ نشر کرنے کا انتظام کیا جس میں مسلمانوں کے نمائندوں کے علاوہ بعض معروف عیسائیوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی.اس مکالمے کے لئے حسب ذیل موضوع مقر ر کیا گیا: سیرالیون میں حصول آزادی کے بعد اسلام ملک کی معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی ترقی کے سلسلہ میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے.“ اس مکالمے میں اسلام کی نمائندگی جماعت احمدیہ کے میڈیکل مشنری مکرم ڈاکٹر شاہنواز خان صاحب اور شیخ ڈرامی صاحب لیبر آفیسر نے کی.نیز عیسائیوں کی طرف سے فور بے کالج فری ٹاؤن کے چیپن ریورنڈ پیری سائر.اور اسی کالج کے وائس پرنسپل ڈاکٹر پورٹر نے مکالمے میں حصہ لیا اور صدارات کے فرائض مسٹر کو لیئر بارایٹ لاء نے ادا فرمائے.مکالمے کا خلاصہ درج ذیل ہے:.صاحب صدر : سب سے پہلے صاحب صدر نے افتتاحی تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا ) زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ہم اس ملک میں صرف اور صرف عیسائی مشنریوں کا ہی نام سنا کرتے تھے اور مذہبی لحاظ سے صرف انہی کی آواز ہمارے کانوں میں پڑا کرتی تھی.لیکن اب حالات میں ایک تبدیلی آچکی ہے.جماعت احمدیہ کی طرف سے ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغ اسلام کے متعدد مشنوں کا قیام عمل میں آچکا ہے یہ لوگ نہ صرف مذہبی اور تعلیمی لحاظ سے سیرالیون کے باشندوں کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ اب انہوں نے ہسپتال قائم کر کے معاشرتی فلاح کے اس میدان میں بھی خدمت بجالانے کا فیصلہ کیا ہے.اس وقت ہمارے درمیان جماعت احمدیہ کے میڈیکل مشتری ڈاکٹر شاہنواز خان بیٹھے ہیں آپ آج کے مکالمے کا آغاز کریں گے.ڈاکٹر شاہنواز : زیر غور موضوع کے سلسلہ میں میں سب سے پہلے یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام ان معنوں میں ہی ایک مذہب نہیں ہے کہ یہ لوگوں کو بعض مخصوص عقائد قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے بلکہ یہ بنی نوع انسان کے سامنے ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی پوری پوری رہنمائی کرتا ہے جس کی مدد سے وہ ایک کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں.مجھے یقین ہے کہ حصول آزادی کے بعد جب سیرالیون کے لوگ آزادانہ طور پر اسلامی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر غور کرنا شروع کریں گے تو

Page 89

تاریخ احمدیت 80 جلد 21 انہیں پتہ چلے گا کہ صرف یہی ایک مذہب ہے جو ہر میدان میں ان کی صحیح رہنمائی کرنے کے قابل ہے.در اصل ابتداءً وه الناس علی دین ملوکھم کے مطابق عیسائیت کی طرف مائل ہوتے چلے گئے تھے اور پھر عیسائی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے بھی بہت سے نوجوانوں کو عیسائیت قبول کرنی پڑی.لیکن جب یہ نوجوان حصول آزادی کے بعد آزاد فضا میں قرآن مجید اور دیگر اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ یہ دوبارہ مسلمان ہو جائیں گے.ریورنڈ سائر (عیسائی): یہ درست نہیں کہ کسی شخص کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے یہ تو عیسائی مشنریوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے ملک کے ہر حصے میں پہنچ کر عیسائیت کا پیغام لوگوں تک پہنچایا اور ساتھ کے ساتھ تعلیم کے معاملے میں ان کی مدد کی.شیخ ڈرامی: بہر حال اسلام نے یہاں کے لوگوں کی کچھ کم خدمت سرانجام نہیں دی ہے.سب سے اول یہ کہ اس نے ایک عام فہم افریقی پر ایک بڑا احسان یہ کیا کہ اسے جن و بھوت کی پرستش سے نجات دلائی ورنہ یہاں جن بھوتوں کو خوش کرنے کے لئے بعض اوقات انسانی جان کی قربانی بھی دی جاتی تھی.جب ابتداء میں عرب مسلمان افریقہ میں آئے تو انہوں نے سب سے پہلے یہاں کے لوگوں کو اس کی مضرت سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ اسلام ان باتوں سے منع کرتا ہے.دوسرے یہ کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں میں با ہم ایسی اخوت اور مودت پیدا کی ہے کہ اس کی مثال دنیا کے اور کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی.ریورنڈ سائر (عیسائی): قرآن نے جن بھوتوں اور اُن کی تاثیروں سے لوگوں کو منع نہیں کیا جبھی تو سیرالیون میں آج تک ایسے مسلمان الفے اور معلم (افریقی ملاں ) موجود ہیں جو تعویذ گنڈے اور ٹونے ٹوٹکے سے کام لیتے ہیں.شیخ ڈرامی: الفے اور معلم تو قرآن مجید سناتے ہیں اور اگر اس طرح کسی شخص کو اپنی مصیبت سے نجات مل جاتی ہے تو یہ کلام اللہ یعنی قرآن مجید کا معجزہ ہے.ڈاکٹر پورٹر (عیسائی): اسلام کے بعض مسائل ایسے ہیں جو قومی ترقی کی راہ میں روک ہیں مثلاً رمضان کے روزے.چونکہ روزہ رکھ کر محنت اور مشقت کا کام نہیں کیا جا سکتا اس لئے اسلام کے اس حکم پر عمل پیرا ہونے سے ملک بالخصوص صنعتی لحاظ سے ترقی نہیں کر سکتا.یہی وجہ ہے تو نس کے صدر بور قیبہ نے حکماً روزہ رکھنے کی ممانعت کر دی ہے.دوسرے یہ عمل بھی قابل غور ہے کہ اسلام میں عورت کو حقیر سمجھا جاتا ہے.تیسرے اس میں ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت ہے.ڈاکٹر شاہنواز : اسلام نے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص جسمانی لحاظ سے بھی بہت کمزور ہو اور

Page 90

تاریخ احمدیت 81 جلد 21 اس بناء پر روزہ اس کے ذریعہ معاش میں حائل ثابت ہوتا ہے تو وہ روزہ نہ رکھے.رہے وہ لوگ جو طاقت رکھنے کے باوجو دروزہ کی حالت میں کام کاج نہیں کرتے تو وہ بہانہ ساز ہیں اور کسی رعایت کے مستحق نہیں.عرب مسلمان تو روزہ رکھ کر جنگوں تک میں شریک ہوا کرتے تھے.ایسی صورت میں روزہ کو ملکی ترقی میں حارج قرار دینا بالکل غلط ہے.دوسرے واضح رہے اسلام نے تعد دازدواج کی اجازت خاص مصالح کی بناء پر دی ہے.مثال کے طور پر جنگ کی وجہ سے اگر عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے جیسا کہ ہو جایا کرتی ہے تو تعد داز دوج کا اصول ہی معاشرے کو صحت مند بنیادوں پر استوار رکھ سکتا ہے.شیخ ڈرامی: اسلام عورت کو مرد کے مساوی حقوق دیتا ہے البتہ عورت چونکہ طبعا اور فطرۃ کمز ور واقع ہوئی ہے اس لئے اسلام نے مرد کو عورت کا محافظ قرار دیا ہے.ڈاکٹر پورٹر: اسلام نے مرد کو حق دیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو بیوی کو طلاق دیدے اس کے برعکس عورت کو ایسے حقوق حاصل نہیں ہیں.ڈاکٹر شاہنواز : عورت کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ نباہ نہ ہونے کی صورت میں خاوند سے چھٹکارا حاصل کر لے.اسے اسلامی اصطلاح میں خلع کہا جاتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بڑوں کے مشورے کے ساتھ اور عدالت کے ذریعے ایسا کرے کیونکہ اس میں مرد کی نسبت فیصلہ کی قوت کم ہوتی ہے.ریورنڈ سائر (عیسائی): اسلام میں غلامی کو جائز قرار دیا گیا ہے ہم لوگوں کے لئے ایسا مذہب ہرگز قابل قبول نہیں.ہمیں خدا خدا کر کے غلامی سے نجات ملی اب ایسے مذہب میں دوبارہ جانا جو غلامی کو روا رکھتا ہے کیسے ممکن ہے.ڈاکٹر شاہنواز : یہ درست نہیں ہے.اسلام تو وہ مذہب ہے کہ جس نے خود غلامی کو ختم کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلا کام ہی یہ کیا کہ زید کو جو غلام تھے آزاد کر دیا اور پھر ان کے ساتھ حسن سلوک کی وہ مثال قائم کر دکھائی کہ انہوں نے اپنے والدین کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہنے کو خود ترجیح دی.اس صورت میں یہ کہنا کہ اسلام غلامی کی اجازت دیتا ہے کیسے درست ہو سکتا ہے.اس کے بعد صاحب صدر نے مکالمہ میں حصہ لینے والوں سے پوچھا کہ کیا ان کی رائے میں بہتر نہ ہو گا کہ سیرالیون کے تمام سکولوں میں بچوں کو عیسائیت کے علاوہ اسلام کے متعلق بھی معلومات بہم پہنچائی جائیں تا وہ دونوں مذاہب کی تعلیموں کا موازنہ کرسکیں.اس سے تمام حاضرین نے اتفاق کیا اور اس بات کی تائید کی کہ چونکہ سیرالیون میں عیسائی اور مسلمان دونوں آباد ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان دونوں مذاہب کے ماننے والے باہم محبت و مودت سے رہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رواداری برتیں اور آپس میں

Page 91

تاریخ احمدیت 82 جلد 21 آزاد نہ تبادلۂ خیالات کریں تا سب کو مذہبی آزادی حاصل رہے اور حق کو پر کھنے کا راستہ کھلا رہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ریڈیو پر نشر کردہ یہ مکالمہ اسلام کے متعلق غلط فہمیاں دور کرنے اور اسلام میں لوگوں کی دلچسپی بڑھانے کا موجب ہوا.نئے سکولوں کا قیام مغربی افریقہ میں جماعت احمدیہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ سب سے پہلے اس نے مسلمانوں کی تعلیم کے لئے وہاں سکول قائم کرنے کا انتظام کیا.سکولوں کے کھولنے کا آغاز آج سے قریباً چالیس سال قبل ہوا تھا جب کہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر نے نائیجیریا کے شہر لیکس میں مسلمان بچوں کی تعلیم کے لئے پہلا سکول قائم کیا تھا اس کے بعد وہاں مزید مدارس کا قیام عمل میں آیا.اسی طرح گھانا میں جماعت احمد یہ اس وقت گیارہ سکول چلا رہی ہے جن میں سے ایک کماسی کا سیکنڈری سکول بھی ہے.سیرالیون پر ٹیکٹوریٹ کے علاقے میں بھی مسلمان بچوں کی تعلیم کے لئے جماعت احمدیہ نے ہی سکول کھولے ہیں اور اب وہاں مسلمانوں کا پہلا سیکنڈری سکول بھی کھولنے کا فخر اس جماعت کو ہی حاصل ہے.یہ سکول ستمبر 1960ء میں کھولا گیا تھا جس کے پرنسپل مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب ایم.اے، بی.ٹی ہیں.وہاں کی مرکزی حکومت کے وزیر خزانہ نے اپنے بچے کو بھی اس سکول میں داخل کرایا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ کے قائم کر دہ سکولوں میں عام تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے امسال سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی طرف سے چار مختلف مقامات پر نئے پرائمری سکول کھولے گئے ہیں.ان مقامات کے نام یہ ہیں.( 1 ) باجے بو (2) لنسر (3) ملائی سوکو (4) میل نمبر 47 ( یہ ایک جگہ کا نام ہے).اس وقت تک سیرالیون میں احمد یہ مشن کی طرف سے گیارہ سکول قائم کئے جاچکے ہیں اور ابھی بہت سے علاقوں کے مسلمان باشندوں کی طرف سے درخواستیں آرہی ہیں کہ ان کے علاقوں میں بھی سکول کھولے جائیں.نائیجیریا: انچارج مشن مولوی نورمحمد نسیم سیفی تھے اور خصوصی نائبین مولوی مبارک احمد صاحب ساقی ، حافظ محمد اسحاق صاحب اور مولوی محمد بشیر صاحب شاد.الفضل میں وکالت تبشیر ربوہ کی طرف سے اس سال کے صرف پہلے ماہ کی رپورٹیں ہمیں ملتی ہیں جن کا ملخص یہ ہے.رپورٹ مولوی مبارک احمد صاحب ساقی

Page 92

تاریخ احمدیت 83 جلد 21 ماہ جنوری 1960ء کے شروع میں وزیر اعظم برطانیہ مسٹر ہیرلڈ میکملن اور ان کی اہلیہ لیڈی ڈور تھی ایک ہفتہ کے دورہ پر نائیجیریا آئے اس عرصہ میں دیگر مصروفیات کے علاوہ انہوں نے یہاں کے ہاؤس آف پارلیمنٹ کو خطاب کیا.اور ایک پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں کو ملے.دونوں مواقع پر مکرم نسیم سیفی صاحب نے شرکت کی.مسٹر میملن کو جماعت کے مردوں کی طرف سے اور لیڈی ڈورتھی کو لجنہ اماءاللہ کی طرف سے اسلامی لٹریچر پیش کیا گیا.کتب کے ہمراہ حسب ذیل نوٹ پیش کیا گیا.” نہایت ادب و احترام اور اس جذبہ محبت سے جو ہمارے دلوں میں آپ کی عظیم الشان شخصیت کے لئے موجود ہے.خاکسار جماعت احمدیہ نائیجیریا کی طرف سے آپ کی خدمت میں حسب ذیل کتب پیش کرتا ہے.امید ہے آپ ان کے مطالعہ کی کوشش فرمائیں گے (1) اسلامی اصول کی فلاسفی (2) لائف آف محمد (3) ہمارے بیرونی مشن.تفصیلات میں پڑے بغیر خاکسار معروض ہے کہ (۱) احمد یہ مشن نائیجیر یا اس بین الاقوامی احمد یہ جماعت کی ایک شاخ ہے.جس کی ابتداء حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے ذریعہ ہندوستان میں 1889 ء میں ہوئی.(ب) اس بین الاقوامی جماعت کے دنیا بھر میں تبلیغی مشن موجود ہیں.لنڈن میں ہماری مسجد اور مشن ہاؤس 63 میلر وز روڈالیں.ڈبلیو 18 پر واقع ہیں.(ج) احمد یہ جماعت ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی ہے.جن کا ذکر مسیح علیہ السلام نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسیح کی بعث ثانیہ کے بارہ میں کیا ہے.ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود کے ذریعہ مسیح کے ظہور ثانی کی پیشگوئی پوری ہوئی ہے.(د) نائیجیریا میں ہمارے مشن کی ابتداء 1914 ء میں ہوئی.اور اس وقت سے لے کر آج تک ہم نے سکول کھولے ہیں.اسلامی لٹریچر شائع کیا ہے.اور ایک ہفتہ وار اخبار دی ٹروتھ بھی جاری ہے.خاکسار آپ کو اور آپ کی اہلیہ لیڈی ڈورتھی کو نائیجیریا آنے پر دلی خوش آمدید کہتا ہے.والسلام.خاکسار این ایم نسیم سیفی.رئیس التبلیغ ویسٹ افریقہ اس کے جواب میں مسٹر سیکملن کے سیکرٹری کی طرف سے حسب ذیل خط موصول ہوا.

Page 93

تاریخ احمدیت 84 جلد 21 وزیر اعظم کی طرف سے مجھے ارشاد ہوا ہے کہ میں آپ کے 12 جنوری 1960 ء والے خط کا بہت بہت شکریہ ادا کروں.جس میں آپ نے انہیں اور ان کی اہلیہ لیڈی ڈور تھی کو خوش آمدید کہا ہے.وہ آپ کی طرف سے پیش کردہ تین کتب کے بہت ہی شکر گزار ہیں.“ لجنہ اماءاللہ نائیجیریا کی طرف سے لیڈی ڈور تھی کو اسلامی اصول کی فلاسفی کا ایک نسخہ بطور ہدیہ پیش کیا گیا.اور لکھا گیا: لجنہ اماءاللہ نائیجیریا کی طرف سے خاکسارہ آپ کی نائیجیریا میں آمد پر دلی خوش آمدید کہتی ہے.اور نہایت ادب و احترام کے اسلامی اصول کی فلاسفی کا ایک نسخہ پیش کرتی ہے.یہ کتاب جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے لکھی ہے.مجھے امید ہے کہ آپ اسے بہت مفید پائیں گی.ایک دفعہ پھر خوش آمدید کہتے ہوئے دعا گو ہوں کہ آپ کا قیام نایجیریا میں بہت بابرکت ہو.خاکسار سکینہ سیفی.پریذیڈنٹ لجنہ اماءاللہ.وزیر اعظم کے سیکرٹری کی طرف اس کے جواب میں حسب ذیل خط موصول ہوا.لیڈی ڈورتھی میکملن نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ کے خط مورخہ 12 جنوری 1960ء کے جواب میں ان کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کروں.لیڈی ڈور تھی آپ کی طرف سے پیش کردہ کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی پر بہت ہی شکر گزار ہیں.“ ڈاکٹر بلی گراہم کی آمد ماہ جنوری 1960ء میں دنیا کے مشہور عیسائی منادڈاکٹر بلی گراہم آف امریکہ کے مغربی افریقہ آنے کی خبر نائیجیریا کے اخبارات میں شائع ہوئی.ڈاکٹر گراہم بہت بلا کے مقرر ہیں اور ہمیشہ عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ جب 1904ء میں انہوں نے انگلینڈ کا دورہ کیا تو ان کے لیکچروں کی مقبولیت کا یہ حال تھا کہ لنڈن بھر میں کوئی ایسا ہال نہ تھا جو ان کے سامعین کے لئے کافی ہو.لوگ گھنٹوں بھر ہال سے باہر کھڑے سردی میں ان کی تقریر سنتے رہتے تھے.ان کا مرتب کردہ پروگرام ” فیصلہ کا وقت دنیا کے تین سو ریڈیو اسٹیشنوں سے براڈ کاسٹ کیا جاتا ہے.جب ڈاکٹر گراہم کی نائیجیریا میں آمد کا ذکر اخبارات میں آیا تو مکرم نسیم سیفی صاحب نے نائیجیریا ہائی کونسل کو جو ڈاکٹر گراہم کی تقاریر کا انتظام کر رہی ہے لکھا کہ اگر ممکن ہوتو اس موقعہ پر نائیجیریا کے مسلمان لیڈروں سے ڈاکٹر گراہم کی ملاقات کرائی جائے مزید برآں اگر مسلمان مشنریوں اور ڈاکٹر گراہم کے

Page 94

تاریخ احمدیت 85 جلد 21 درمیان تبادلہ خیالات کا کوئی موقعہ پیدا کیا جائے تو نائیجیریا کی پبلک کے لئے یہ بہت مفید ثابت ہوگا.عیسائی کونسل نے یہ خط کمیٹی کے حوالہ کر دیا جو ڈاکٹر گراہم کی تقاریر کا انتظام کر رہی تھی.لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا.چنانچہ یاد دہانی کرائی گئی جس کے جواب میں کہا گیا کہ چونکہ ڈاکٹر گراہم بہت مشغول آدمی ہیں اور مزید برآں ڈاکٹروں نے انہیں ہدایت کی ہوئی ہے کہ وہ زیادہ کام نہ کریں.اس لئے آپ کی تجویز کردہ میٹنگ کا کوئی انتظام نہیں کیا جاسکتا.اس موقعہ پر ہم نے یہ انتظام کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لٹریچر پبلک میں تقسیم کیا جائے.رپورٹ حافظ محمد اسحاق صاحب بی اے.حافظ صاحب تحریر فرماتے ہیں.نائیجیریا ریڈیو نے مرکزی احمدیہ مسجد سے ایک خطبہ جمعہ اور دور افتاد سا معین تک پہنچانے کی غرض سے فیچر پروگرام کے ماتحت نشر کیا.مغربی افریقہ کے علاقہ گامبیا میں تبلیغ کی غرض سے حال ہی میں ایک مقامی احمدی دوست کو بھجوایا گیا تھا.چنانچہ وہاں تبلیغی مساعی میں کامیابی کی خوشکن خبریں آرہی ہیں.اور بہت سے نئے دوست بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں.برطانوی وزیر اعظم ہیرلڈ میکملن اپنے دورہ افریقہ کے سلسلہ میں نائیجیریا آئے وزیر اعظم صاحب کو احمد یہ مشن کی طرف سے اسلامی مطبوعات تحفہ پیش کی گئی ہیں.اسی طرح ان کی بیگم صاحب کو لجنہ اماءاللہ نائیجیریا کی طرف سے کتب بھجوائی گئیں.جس کے جواب میں انہوں نے مشن کو شکریہ کے خطوط لکھے.جناب مولانا نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ نے ابادان میں صوبائی وزارت تعلیم کے زیر اہتمام عربی اساتذہ کے امتحان کے سلسلہ میں ایک میٹنگ میں شمولیت کی.آپ نے یونیورسٹی کالج ابادان میں مسلم سٹوڈنٹس سوسائٹی کے ایک اجلاس میں طلباء سے خطاب کیا.اسلام اور احمدیت کے متعلق طلباء کے متعدد سوالات کے جوابات دیئے.ایک احمدی دوست Hon Yerim a Bella یہاں کی وفاقی مجلس قانون ساز کے ممبر ہیں ان کے استقبال میں مشن کی طرف سے ایک اجلاس منعقد کیا گیا.نائیجیر یا ریڈیو پر نیچر پروگرام Islamic Point of View (اسلامی نقطہ نظر ) کے ماتحت جناب مولا نانیم سیفی صاحب کی طرف سے سامعین کے سوالات کے جوابات کا سلسلہ جاری رہا.مسلم فیسٹول کمیٹی اور مسلم ٹیچر ٹرینگ کالج کی کمیٹی میٹنگز میں شامل ہوئے.اسی طرح Iwayd مقام کا دورہ کیا ہے.جہاں ہمارے سکول کی بلڈنگ تیار ہورہی ہے.ڈیلی سروس میں آپ کے ہفتہ وار مضامین ہر جمعہ کو شائع ہوتے رہے.

Page 95

تاریخ احمدیت 86 جلد 21 اسی طرح اخبار دی ٹروتھ ہر جمعہ کے روز شائع ہوتا رہا.ابادان کے مقامی اخبارات نایجیرین ٹریبیون اور Defender میں مسلمانوں کے لئے ہفتہ واری فیچر کالم کے ماتحت خاکسار کے حسب ذیل مضامین شائع ہوئے (1) اسلام کا روشن مستقبل (2) صحرائے اعظم فرانس کے ایٹمی تجربات اور دعاؤں کی اہمیت (3) یہود کا ماضی اور مستقبل.چار مقامات کا دورہ کیا گیا.رپورٹ مولوی محمد بشیر صاحب شاد ( مبلغ انچارج شمالی نائیجیریا) ماہ جنوری 1960ء میں خاکسار زاویہ میں مقیم رہا.یہاں کے ایک کمرشل کالج کے طلباء کی دعوت پر کالج میں تقریر کرنے کے لئے گیا.خاکسار نے اپنی تقریر میں طلباء کو اسلام کے بنیادی احکام نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ کی فلاسفی سے آگاہ کیا.اور بتایا کہ یہ امور جہاں ہماری روحانی ترقیات کا باعث ہیں.وہاں مسلمانوں میں باہم اتحاد تنظیم، اخوت ومحبت، ہمدردی خلق اور غریب پروری کا جذبہ پیدا کرنے کا موجب بھی ہیں.طلباء کو جماعت سے متعارف کرایا نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد، آپ کے دعوئی اور جماعت کی عظیم الشان اسلامی خدمات سے آگاہ کیا.تقریر کے بعد سوالات کا موقعہ دیا گیا جس پر طلباء نے جماعت احمدیہ کی تنظیم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ اور دیگر امور کے متعلق دلچسپ سوالات دریافت کئے جن کے جوابات دیئے گئے.بعد ازاں طلباء میں اخبار ” ٹروتھے اور دیگر لٹریچر تقسیم کیا گیا.اس موقعہ پر کالج کے چھپیں طلباء خدا تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر کے داخل سلسلہ عالیہ احمد یہ ہوئے الحمد للہ.اس کالج میں اب احمد یہ مسلم ایسوسی ایشن کے قیام کے سلسلہ میں کوشش کی جارہی ہے امید ہے عنقریب ہی اس ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا جاسکے گا.انشاء اللہ.زاویہ کے ایک سیکنڈری سکول میں بھی طلباء کی ایک سوسائٹی کی دعوت پر وہاں گیا اور اسلام زندہ مذہب ہے کے موضوع پر تقریر کی.اس سکول کے دو طالب علم بعد ازاں مشن ہاؤس میں آئے اور بیعت کر کے داخلِ سلسلہ احمدیہ ہوئے الحمد للہ.میڈیکل سکول کا ایک طالب علم مشن ہاؤس میں آتا رہا اور مختلف سوالات دریافت کرتا رہا اسے تبلیغ کی گئی اور جماعت کے متعلق مسائل سے آگاہ کیا اس طالب علم کو بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے عرصہ زیر پورٹ

Page 96

تاریخ احمدیت 87 جلد 21 میں قبول احمدیت کا شرف حاصل ہوا.عریبک کلاس مكرم رئيس التبلیغ صاحب کے ارشاد پر زاویہ میں بالغ افراد کے لئے ایک شبیہ عریبک کلاس جاری کی گئی جس میں احمدی اور غیر احمدی احباب شریک ہوتے رہے اس کلاس میں عربی کے اسباق کے علاوہ مختلف اسلامی مسائل کی وضاحت کی جاتی ہے اور احباب کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا جاتا ہے.تین نو جوان خدا تعالیٰ کے فضل سے اس ماہ بیعت کر کے داخل سلسلہ ہوئے نائیجیرین کالج آف آرٹ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلباء کی یونین کا سیکرٹری جو عیسائی ہے مشن ہاؤس میں آتا رہا عیسائیت کے بارہ میں اس کے دریافت کردہ سوالات کا جواب دیا جاتا رہا نیز اسے اسلامی تعلیمات اور ان کی خوبیوں سے آگاہ کیا اس طالب علم نے اب قبولیت اسلام پر آمادگی کا اظہار کیا ہے.اس وقت تک نماز کا ایک حصہ یاد کر چکا ہے اور بعض کتب کا مطالعہ کر رہا ہے.امید ہے انشاء اللہ عنقریب مشرف باسلام ہوگا.انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریشن کے طلباء کی سوسائٹی کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری سے مل کر وہاں تقریر کے سلسلہ میں انتظامات کئے جار ہے ہیں انسٹی ٹیوٹ میں لوگ حکومت کے مختلف محکمہ جات سے ٹرینگ کے لئے آتے ہیں.ان طلباء میں اخبار ٹروتھ بھی تقسیم کیا گیا.فروخت لٹریچر عرصہ زیر رپورٹ میں بارہ پونڈ کا لٹریچر فروخت کیا گیا.اس ماہ کے دوران تین روز کے لئے کا نوگیا جہاں بچوں کی ایک شبیہ کلاس جاری کی گئی جس میں بچوں کو اسلامی اخلاق سکھانے کا انتظام کیا گیا ہے.جماعت کے دوستوں کو تحریک کی کہ وہ اپنے بچے اس کلاس میں بھجوائیں.ایک مقامی دوست کو اس کلاس کا انچارج مقرر کیا اور اسے کلاس کا ابتدائی کو رس نوٹ کر وایا.کانو میں نئی مسجد کی تعمیر کا فیصلہ امسال کا نو میں نئی مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس سلسلہ میں مختلف دوستوں سے مل کر انہیں مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں کہا گیا.اور وعدہ جات کی طرف توجہ دلائی.مشرقی افریقہ: 30 یمیشن مولانا شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ کی ولولہ انگیز قیادت میں اس سال بھی مصروف جہاد رہا جس کا پاکستان کے پریس نے بر ملا اظہار کیا.چنانچہ روزنامہ ” نوائے وقت لاہور کے

Page 97

تاریخ احمدیت 88 خصوصی نامہ نگار حفیظ ملک صاحب مقیم امریکہ نے لکھا: اس میں شک نہیں کہ مغربی ممالک میں اور بالخصوص امریکہ میں مذہب اور حکومت کو الگ الگ کر دیا گیا ہے.لیکن جب مذہب سے حکومت کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہوتا ہے تو مغربی سیاست دان اور پادری اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے سے گریز بھی نہیں کرتے.یہ کوئی معیوب بات بھی نہیں اس لئے کہ آخر ایسی صورت حال سے کون فائدہ نہیں اُٹھائے گا.لیکن اس میں قباحت صرف اتنی ہے کہ حکومت اور مذہب کے اتصال کو بظاہر ایک معیوب بات تصور کیا جاتا ہے اور زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ جہاں تک ہو سکے مذہب کو حکومت سے الگ ہی رکھا جائے.اس نظریاتی بحث کا تعلق بین الاقوامی سیاست سے تو خیر عظ بہت ہی گہرا ہے.اس کی مثال افریقہ کا براعظم ہے.اب جبکہ افریقی براع آزاد ہورہا ہے تو مغربی ممالک کو یہ دشواری پیش آرہی ہے کہ کس طرح حبشیوں کے ساتھ رومانی یا نظریاتی رابطہ قائم رکھا جائے.یہ مسئلہ غور طلب ہے اور اس کا حل آسان بھی نہیں اس لئے کہ عیسائیت بد قسمتی سے سفید فام مغربی قوموں کا مذہب بن کر رہ گئی ہے اور سفید فام کا جو رویہ حبشیوں اور دیگر غیر سفید اقوام کے ساتھ رہا ہے یا اب ہو رہا ہے اس کی مثال جنوبی افریقہ کے وحشیانہ اقدام سے ملتی ہے امریکی وزیر بھی اس مسئلہ سے آگاہ ہیں.اگر چہ افریقہ میں امریکہ کی کوئی نو آبادی نہیں لیکن خود امریکہ کا ریکارڈ بھی حبشیوں کے سلوک کے متعلق کچھ اچھا نہیں ہے.اگر چہ اب یہاں یہ دن رات کوشش کی جارہی ہے کہ امریکی حبشیوں کو پورا پورا شہری بنایا جائے.افریقہ کے آزاد ہونے پر افریقی عوام ایک انتہائی مشکل نفسیاتی مصیبت میں پھنس رہے ہیں افریقہ کے اکثر حصوں میں اب بھی انسان دھات اور پتھر کے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور جو زیادہ ترقی کر چکے ہیں.ایک شدید جذباتی ایمانی اور روحانی بحران میں مبتلا ہیں.افریقہ کے عوام میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کوئی پیغمبر نازل نہیں ہوا.اب تک افریقہ ایام جہالت کا بہترین نمونہ ہے.سوال یہ ہے کہ افریقہ میں عوام کامذہب کیا ہوگا.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ امریکی پادری اس پر بڑی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں.حال ہی میں امریکہ کے مشہور و معروف پادری بلی گراہم نے افریقہ کا دورہ کیا.گزشتہ ہفتے انہوں نے صدر آئزن ہاور سے وائٹ ہاؤس میں 40 منٹ کے لئے جلد 21

Page 98

تاریخ احمدیت 89 تبادلہ خیالات کیا اور صدر آئزن ہاور کو یہ مشورہ دیا کہ نائیجیریا کا دورہ کریں کیوں کہ اکتوبر میں نائیجیر یا انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے.پادری بلی گراہم نے رپورٹروں کو ملاقات کے بعد بتایا کہ امریکہ کے لئے لازم ہے کہ وہ افریقہ کے عوام کے نیشنلزم کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کرے.صدر آئزن ہاور کے رد عمل پر بحث کرتے ہوئے بلی گراہم نے کہا کہ صدر آئزن ہاور نے نائیجیریا کے دورے کے مسئلہ پر غور کرنے کا وعدہ کیا ہے.اس خیر سگالی کے دورہ سے امریکہ کو جو فائدہ پہنچے گا وہ محتاج بیان نہیں.لیکن پادری بلی گراہم کو جو غم ہے وہ کسی اور مسئلہ سے ہے.انہوں نے رپورٹروں کو بتایا کہ مسلمان مشنری افریقہ میں جب سات حبشیوں کو مسلمان بناتے ہیں تو عیسائی مشنری کہیں مشکل سے تین حبشیوں کو عیسائی بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں.اسلام کی ترقی کو روکنے کے لئے بلی گراہم ایک مشنری پروگرام وضع کر رہے ہیں.ان کا خیال یہ ہے کہ امریکی حبشیوں کو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے مشنوں میں بھرتی کرنا چاہئے جو اپنے افریقی بھائی بندوں کو آسانی سے عیسائی بنا سکیں گے.اس کے علاوہ بلی گراہم نے کہا کہ وہ ان مشنریوں کو اپنے مشن میں بھرتی کریں گے جو علم نسلیات اور جناب رسالت ماب کی تعلیمات سے آگاہ ہوں گے تاکہ وہ اسلام کی کمزوریوں کو افریقی عوام پر واضح کرسکیں.اب سوال یہ ہے کہ افریقہ میں تہذیب اور علم و ہنر اور مذہب پھیلانے کی ذمہ داری کس حد تک پاکستانیون پر عائد ہوتی ہے جہاں تک ہمارے عرب بھائیوں کا تعلق ہے وہ تو عرب نیشنلزم کے سوابات نہیں کرتے اسلام ان کے لئے ثانوی اہمیت رکھتا ہے.بھارت کے پاس کوئی ایسا مذہب نہیں جس کی تبلیغ کی جا سکے.لیکن اس کے باوجود بھارت افریقہ میں ثقافتی تبلیغ کر رہا ہے.ہر سال افریقہ سے طلباء کی ایک خاص تعداد بھارتی یو نیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آتی ہے.صرف مشرقی افریقہ کو لے لیجئے اب تک 350 افریقی طلباء بھارتی یو نیورسیٹیوں میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں جن میں سے 200 طلبہ واپس جاچکے ہیں نیروبی کے ایسٹ افریقن ٹائمنز ( جو احمد یہ جماعت کا اخبار ہے) کے بیان کے مطابق 1959ء میں بھارت نے 8 وظیفے یوگنڈا کے حبشی طلبہ کو دیئے 10 کینیا کے طلبہ کو 4 ٹانگانیکا کے طلبہ کو اور ایک انجلا کے طالب علم کو دیئے گئے.بھارت میں انڈین کلچرل کونسل ان طلبہ کو تمام سہولتیں مہیا کرتی ہے جہاں تک افریقی ممالک کا تعلق ہے افسوس ہے جلد 21

Page 99

تاریخ احمدیت 90 کہ ان کے متعلق مکمل فہرست حاصل نہ ہو سکی لیکن اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس سال سینکڑوں طلبہ افریقہ سے بھارت میں تعلیم کی غرض سے آتے ہیں.یہی جوان طلبہ کل ان افریقی ممالک کے لیڈر ہوں گے.اور ان کے توسط سے بھارت کو جو سیاسی فائدہ پہنچے گا.اس کا آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے.افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی مذہبی جماعت بطور مشنری کام کر رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے.مشرقی افریقہ میں مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد ہے جس میں ایسٹ افریقن ٹائمنر کے بیان کے مطابق 10,000 افریقی لوگ احمدی ہیں پرتگیزی مشرقی افریقہ میں تقریباً دس لاکھ افریقی مسلمان ہو چکے ہیں جن میں سے غالب اکثریت احمدیوں کی ہے.کینیا کے سرحدی صوبوں میں اسلام کو فروغ ہو رہا ہے اور یہاں بھی غالب اکثریت احمدیوں کی ہے.نیروبی میں تو خیر احمدیوں نے ایک بہت بڑا مذہبی تبلیغی مرکز قائم کر رکھا ہے جو روزانہ انگریزی اخبار بھی شائع کرتا ہے.اور اس کے علاوہ تعلیم کے لئے اس سینٹر نے کالج وغیرہ بھی قائم کر رکھے ہیں.ہمیں احمدیت سے شدید اختلافات ہیں اور ہم عقیدہ ختم نبوت کے مسئلہ میں احمدیوں بالخصوص قادیانی فرقہ کے تصورات کو بالکل باطل اور گمراہ سمجھتے ہیں.اور سواداعظم کی طرح ان تصورات سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرتے ہیں.لیکن اس کے باوجود ہمیں ان کی مساعی کی داد دینی پڑتی ہے.بلی گراہم جب اپنے حالیہ دورہ میں گئے تو اسلام کی طرف سے اگر کسی جماعت نے انہیں مباحثہ کی دعوت دی تو وہ جماعت احمدیہ تھی.کینیا ، یوگنڈا اور ٹا نگانیکا میں اس وقت 2,500,000 مسلمان آباد ہیں.لیکن ان کی تعلیمی حالت بہت ہی کمزور ہے.عیسائی مشنری سکولوں اور کالجوں کے ذریعہ سے طلبہ کو عیسائیت کی طرف راغب کر رہے ہیں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جماعت احمدیہ کے سوا پاکستان میں اور کوئی مذہبی جماعت موجود نہیں جو افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کے کام کو انجام دے سکے پاکستان میں جماعت اسلامی بہت ہی بااثر جماعت ہے.مولانا مودودی کے سیاسی خیالات سے ہمیں بہت زیادہ اختلافات ہیں لیکن ہمیں اس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ اگر وہ افریقہ میں مشنری کام کا بیڑہ اٹھائیں تو اس سے صرف اسلام کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے علاوہ انسانیت کی خدمت بھی ہوگی حقیقت یہ ہے کہ آج تک جلد 21

Page 100

تاریخ احمدیت 91 جلد 21 غیرممالک میں جتنا بھی اسلامی مشنری کا کام ہوا ہے.وہ علماء نے اپنی ذاتی حیثیت میں ادا کیا ہے.اب ضرورت ہے کہ تبلیغی کام کو منظم کیا جائے اگر جماعت اسلامی سیاسی خواہشوں اور دفاتر کے خواب سے علیحدہ ہو کر افریقہ میں اسلامی تہذیب و تمدن پھیلانے کی کوشش کرے.تو ہمیں توقع ہے کہ فروغ اسلام میں رکاوٹ ڈالنے سے متعلق بلی گراہم کے تمام ارادے نا کام ہو کر رہ جائیں گے.اس لئے کہ جماعت اسلامی میں جو علماء ممبر کی حیثیت سے شامل ہیں.وہ صحیح معنوں میں اسلام کے عالم ہیں.اور ان کے توسط سے جو اسلام پھیلے گا.وہ افریقی لوگوں کو روحانیت کے سرچشموں سے فیضیاب کرے گا دراصل یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس پر حکومت پاکستان کو تبلیغی کام کرنے والی جماعتوں کی اعانت کرنی چاہئے.کیا ہم مولانا مودودی سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ افریقہ میں تبلیغی کام کا بیڑا اٹھائیں گے؟ ہماری رائے میں تو ان سے بہتر انسان پاکستان میں اس کام کے لئے موجود نہیں.1960ء میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کی ولولہ انگیز قیادت میں درج ذیل مجاہدین کلمہ حق کے جہاد میں مصروف رہے.حافظ محمد سلیمان صاحب، مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر، مولوی عبدالکریم صاحب شرما، چوہدری عنایت اللہ صاحب.ان سب حضرات نے تقسیم اشتہارات ، دوروں ،طلبہ میں لیکچرز اور نجی ملاقاتوں کے ذریعہ سال بھر تبلیغ اسلام کا فریضہ نہایت احسن رنگ میں انجام دیا.مولوی محمد اسماعیل صاحب تانگانیکا جبیل کے قیدیوں کو ہرا تو اردو تین گھنٹے تک تبلیغ کرتے رہے.مولوی عبد الکریم صاحب شرما نے انگریز انڈین کمشنر تک بذریعہ ملاقات پیغام حق پہنچایا.ان مرکزی مبلغین کے علاوہ افریقن معلمین شیخ خالد صاحب اور رشیدی صاحب نیز شیخ صالح محمد صاحب اور حاجی محمد حسین صاحب کھوکھر ، چوہدری عبد الغنی صاحب اور ظہور دین صاحب کا پُر جوش تعاون بھی مشن کو حاصل رہا.جماعت احمد یہ مشرقی افریقہ کی سالانہ کا نفرنس اس سال 25 ، 26 دسمبر 1960 ء کو اپنی روایات کے مطابق کامیابی کے ساتھ انعقاد پذیر ہوئی جس میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے بتایا کہ کیکو یوزبان کے بعد اب مشرقی افریقہ کی دو اور زبانوں یعنی کیکامبا اور لو میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نیز مشن کی طرف سے 7 لاکھ 72 ہزار صفحات پر مشتمل اسلامی لٹریچر شائع کیا گیا جو خدا کے فضل سے بڑی سرعت سے فروخت ہو رہا ہے.

Page 101

تاریخ احمدیت 92 جلد 21 کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ ): سنڈے ٹربیون“ کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ نے 19 جون 1960ء کی اشاعت میں افریقہ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا.امریکہ: مسلمانوں کے ایک فرقے یعنی جماعت احمدیہ کی شاخ کیپ ٹاؤن میں بھی قائم ہوگئی ہے اس کے وجود کا مقصد تمام جنوبی افریقہ سے صلیب کے نام ونشان کو مٹادینا ہے.اس تحریک کا ہیڈ کواٹر پاکستان میں ہے اگر چہ احمدیوں نے آج کل افریقہ میں اپنی تبلیغی مساعی کو بالخصوص صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع ممالک اور علاقوں پر مرکوز کر رکھا ہے تاہم دنیا بھر میں ان کے بہت سے تبلیغی مشن قائم ہیں....بانی سلسلہ احمدیہ نے 1908ء میں وفات پائی اس وقت کے بعد سے اب تک یہ تحریک براعظم افریقہ میں بڑی مضبوطی سے اپنے پاؤں جما چکی ہے.آج صرف گھانا میں ہی 150 مسجدوں کی تعمیر اور 13 سکولوں کا قیام عمل میں آچکا ہے احمدی مبلغین وسطی اور مشرقی افریقہ کے تمام علاقوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے میں مصروف ہیں ریورنڈ اے، آرمیمپسن نے جنہیں چرچ میں اسلام پر سند مانا جاتا ہے.اسی ہفتہ کیپ ٹاؤن میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ احمدی مسلمان ایک جدید فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اس فرقے کی کوشش یہ ہے کہ فی زمانہ اسلام کو اس طور سے پیش کیا جائے کہ زندگی کے جدید انداز کے باوجود یہ لوگوں کے لئے قابل قبول بن سکے.اس کوشش کا مقصد اسلام کو اہل یورپ کے لئے قابل قبول بنانا ہے.مسٹر جیمسن نے مزید کہا (انجیل کے پیش کردہ مترجم ) یسوع کی مخالفت میں احمدی بہت پیش پیش ہیں غالباً ایک حد تک یہ ردعمل ہے.خود عیسائیوں کے اس غیر فراخدلانہ رویہ کا جو وہ ماضی میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بارے میں اختیار کرتے رہے ہیں.66 جماعت ہائے احمد یہ امریکہ کی تیرھویں سالانہ کانفرنس 3-4 ستمبر 1960ء کو نیویارک میں منعقد ہوئی.اس روحانی اجتماع میں دور دراز کی امریکی ریاستون اور پاکستانی احمدیوں کے علاوہ افریقہ کے 2 احباب اور کینیڈا کے ایک نمائندے نے بھی شمولیت اختیار کی.

Page 102

تاریخ احمدیت 93 جلد 21 کانفرنس سے درج ذیل احباب نے خطاب کیا.(1) جناب امین اللہ خان صاحب سالک (2) مکرم رشید احمد صاحب امریکن (3) مکرم بشیر الدین صاحب اسامه (4) مکرم حاجی ملک بشیر احمد صاحب (5) مکرم عابد حنیف صاحب (6) مولوی عبدالقادر صاحب ضیغم (7) ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر (8) مکرم خلیل محمود صاحب ( 9) مکرم احمد شہید صاحب (10) مکرم چوہدری غلام بیبین صاحب.کانفرنس کے دوران شوری اور ذیلی تنظیموں کے اجلاس بھی ہوئے.34 ریاست انڈیانا کے دارالحکومت انڈیانا پیلس میں جماعت احمدیہ کے مبلغ مکرم امین اللہ خان صاحب سالک کا انٹرویو 11-12 نومبر 1960ء کی درمیانی شب ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا.جس سے جماعت احمدیہ کا تعارف کرایا گیا تھا.اس انٹرویوکو انڈیانا پیلس ٹائمنز نے مشن ہاؤس کے قیام کی خبر دیتے ہوئے شائع کیا.مکرم امین اللہ خان صاحب سالک نے دسمبر 1960ء کے آخر میں اوہائیو کے دارالحکومت کولمبس کا دورہ کیا.وہاں کے 2 ٹیلی ویژن اسٹیشنوں نے اُن کے انٹرویو نشر کئے اور اخبارات نے اُن کی آمد پر اسلام کے متعلق نمایاں خبریں شائع کیں.چنانچہ ایک اخبار نے لکھا.اسلام کے پیروؤں کا کہنا ہے کہ افریقہ کی نئی قوموں میں جہاں عیسائیت اور اسلام دونوں افریقیوں کو اپنے اپنے مذہب کا حلقہ بگوش بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اسلام کے حق میں تحریک زور پکڑ رہی ہے دریں اثناء خود ہمارے اپنے گھر (امریکہ ) میں لوگ محمد کے مذہب میں بہت زیادہ دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں.اس امر کی ایک اور نشاندہی یہاں پیر کے روز ہوئی.جماعت احمدیہ نے جو اسلام کا ہی ایک فرقہ ہے اپنے ہیڈ کوارٹر ربوہ پاکستان سے مختلف علاقوں اور مقامات میں اپنے مبلغ بھیج کر اپنے اثر و نفوذ کو ساری دنیا کے گرد وسیع کر دیا ہے.اور ان مقامات میں کولمبس کا شہر بھی شامل ہے.امین اللہ خان نے جو مبلغ اسلام کی حیثیت سے حال ہی میں یہاں پہنچے ہیں ایک ملاقات میں کہا کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے.انہوں نے بتایا کہ وہ اسلام میں دلچسپی رکھنے والے بعض لوگوں کی درخواست پر ہی اس شہر میں آئے ہیں.یادر ہے اُن کی آمد کا مقصد تبلیغی مشن قائم کرنا ، اسلام کے متعلق غلط فہمیاں دور کرنا اور اسلام کو اُس کی حقیقی اور اصل شکل میں پیش کرنا ہے.یہ کیا مذہب ہے جس نے یہ

Page 103

تاریخ احمدیت 94 جلد 21 ایک ایسی دنیا میں جس میں عیسائی 835564512 کی تعداد میں آباد ہیں 426698 افراد کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے اور جو افریقہ میں 86178853 لوگوں کے دل جیتنے میں کامیاب رہا ہے.جب کہ عیسائیت وہاں صرف 32053483 افراد کو ہی اپنا حلقہ بگوش بنا سکی ہے؟ اس میں ایسی کیا کشش ہے؟ مبلغ اسلام نے اس کا یہ جواب دیا کہ اسلام ہی وہ حقیقی مذہب ہے جو تمام قوموں اور نسلوں کے لئے آیا ہے.یہ خدا کی مرضی اور اس کے احکام کے آگے جھکنے اور سر تسلیم خم کرنے اور اس طرح امن اور سلامتی سے ہمکنار کرنے کی تعلیم دیتا ہے.“ مسلمان تمام معروف اور غیر معروف نبیوں کی بیان کردہ ابدی صداقتوں پر ایمان رکھتے ہیں ، وہ مسیح کو بھی خدا کا ایک برگزیدہ نبی مانتے ہیں.ان کے احکام کی کتاب قرآن ہے.یہ اُن تمام صداقتوں پر مشتمل ہے جو محمد پر بذریعہ وحی نازل ہوئیں اور جنہیں ساتھ آسٹریا: کے ساتھ محفوظ کیا جاتا.80 اخبارا الفضل 18 جون 1960 ء نے صفحہ اول پر حسب ذیل خبر تین شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی.وی آنا (بذریعہ تار) مبلغ سوئٹزرلینڈ مکرم شیخ ناصر احمد صاحب جو آج کل آسٹریا کے تبلیغی دورہ پر زیورچ سے وی آنا گئے ہوئے ہیں بذریعہ تارا اطلاع دیتے ہیں کہ مؤرخہ 14 جون 1960 ء کو آپ نے آسٹریا کے صدر ڈاکٹر اڈولف خیرف Dr.Adolf Scharf سے ملاقات کی.اور ان کی خدمت میں جرمن ترجمہ القرآن کا ایک نسخہ بطور تحفہ پیش کیا.جسے انہوں نے بخوشی قبول کرتے ہوئے سوئٹزر لینڈ کے احمد یہ مشن اور جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا.اس سے ایک روز قبل یعنی 13 جون 1960 ء کو آپ کی وی آنا کارپوریشن کے مئیر ہرفرانز جوناس (Herr Franz Jonas) سے ملاقات ہوئی اور انہیں بھی جرمن ترجمۃ القرآن کا ایک نسخہ تحفہ کے طور پر پیش کیا.علاوہ ازیں وہاں کی یونیورسٹی میں اسلام پر آپ کا ایک لیکچر ہوا.جو بفضلم تعالیٰ بہت کامیاب رہا.اس تبلیغی دورے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک آسٹرین باشندے نے اسلام قبول کیا.فالحمد للہ علی ذالک.ڈچ گی آنا : ماہ فروری 1960ء میں شیخ رشید احمد صاحب کو ریڈیو پر دوبارہ تقریر کرنے کا موقع ملا.

Page 104

تاریخ احمدیت 95 جلد 21 مارچ 1960ء کے پہلے ہفتہ میں امریکہ کے صدر آئزن ہاور ڈچ گی آنا تشریف لائے.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے اُن کی خدمت میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا تحفہ پیش کیا.اس کا ذکر اخبارات نے کیا اور صدر امریکہ نے شکریہ کا خط بھی لکھا.اسی طرح شیخ صاحب نے یوم مسیح موعود (23 مارچ) کی تقریب پر بذریعہ ریڈیو 25 منٹ تک خطاب کیا.انڈونیشیا: جماعت احمد یہ انڈونیشیا کی سالانہ کانفرنس 22, 23, 24 جولائی 1960 ء کو تاریخی اہمیت کے حامل شہر بانڈ ونگ میں منعقد ہوئی.اس کانفرنس کی تیاری کے سلسلہ میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.کیونکہ ملک میں گرانی غیر معمولی طور پر بڑھ گئی.اور کانفرنس میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہورہا تھا اس وجہ سے کانفرنس کے مہمانوں کی خوراک و رہائش کے اخراجات پہلے سے کئی گنا بڑھ گئے لیکن کا نفرنس فنڈ کی آمد میں اس نسبت سے اضافہ نہ ہوا.اس صورت حال کے پیش نظر شروع سال سے ہی اخراجات میں کمی کرنے کے لئے دوسرے ذرائع پر غور اور عمل درآمد کیا گیا چنانچہ بانڈ ونگ میں کانفرنس سے کئی ماہ قبل ورکنگ کمیٹی مقرر کی گئی.اس سلسلہ میں بعض جماعتوں نے قابل تعریف نمونہ پیش کیا مثلا انڈونیشیا کے دارالحکومت جا کرتہ کی لجنہ اماءاللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر گھر میں ہر دفعہ چاول پکاتے وقت ایک مٹھی بھر چاول علیحدہ کر کے رکھے جائیں اس طرح جو چاول جمع ہوں وہ مہمانوں کے لئے استعمال کئے جائیں.بانڈ ونگ کی جماعت کے بعض دوستوں نے اس غرض سے قربانی کے جانور پالے تا کہ کانفرنس کے موقعہ پر انہیں مہمانوں کی ضیافت کے لئے استعمال کیا جا سکے.ایک باغ میں سبزی لگائی گئی اور پھر جماعت کے نام پر ایک تالاب میں مچھلیاں خاص طور پر کانفرنس کے لئے پالی گئیں.حضرت مصلح موعود نے سالانہ کا نفرنس کے لئے درج ذیل پیغام ارسال فرمایا.در تبلیغ پر زور دیں بہت مدت سے وہاں تبلیغ جاری ہے اور اس وقت تک سارا ملک احمدی ہو جانا چاہئے تھا آپ کا علاقہ اسلام کے پھیلنے کے لئے بہت مفید ہے آپ کو تبلیغ کی طرف بہت توجہ کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنا فرض ادا کرنے کی توفیق دے اور آپ کی زبان میں اثر پیدا کرے.آمین حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے بھی اس موقعہ کے لئے ایک پیغام ارسال فرمایا جس

Page 105

تاریخ احمدیت 96 جلد 21 میں آپ نے پانچ امور کی طرف توجہ دلائی.(اول) اپنی زندگیوں کو احمدیت کی تعلیم کے مطابق ڈھالیں ( دوئم ) اشاعت احمدیت کے لئے زیادہ سے زیادہ مالی قربانی سے کام لیں.( سوئم ) اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ آپ کی زندگیاں احمدیت کے لئے وقف ہیں.(چهارم) مستورات میں احمدیت کی تعلیم پھیلائیں اور انہیں تلقین کریں کہ وہ احمدیت کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانی کے لئے تیار رہیں.(پنجم) اپنی آئندہ نسل کی ایسے رنگ میں تربیت کریں کہ وہ بھی احمدیت کے خادم اور مجاہدین بن جائیں تا کہ یہ سلسلہ آپ ہی پر ختم نہ ہو جائے بلکہ نسلاً بعد نسل قیامت تک اپنی مقدس روایات کے ذریعہ چلتا چلا جائے.محترم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے کانفرنس کے ابتداء میں مندرجہ بالا پیغامات پڑھ کرسنائے.اس دوران احباب پر رقت کی کیفیت طاری تھی.ان پیغامات کے بعد جناب رئیس التبلیغ صاحب نے افتتاحی خطاب فرمایا جس میں اس امر کا اظہار کیا کہ خواہ ہمارے راستہ میں لاکھوں روکاوٹیں ہوں احمدیت ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوگی.یہ خدا کی ایک اہل تقدیر ہے جسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی.آپ نے احباب جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اس ہستی کونمونہ بنائیں جسے خدا نے کامل نمونہ قرار دیا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات.رئیس التبلیغ کے علاوہ درج ذیل احباب نے اس کانفرنس سے خطاب فرمایا.(1) جناب حسن احیا بر مادی صاحب (2) مکرم محمد ایوب صاحب (3) مکرم میاں عبدالحی صاحب (4) مکرم بیچی پونتو صاحب (5) مکرم مولوی امام الدین صاحب (6) مکرم مولوی محمد زهدی صاحب (7) مکرم مولوی عبدالواحد صاحب (8) مکرم ملک عزیز احمد صاحب (9) مکرم مولوی ابوبکر ایوب صاحب (10) جناب راؤن ہدایت صاحب.کانفرنس میں 1400 سے زائد افراد شامل ہوئے.کانفرنس کے انعقاد سے قبل 17 سے 22 جولائی تک خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہوا اور 22 جولائی کو لجنہ اماءاللہ ، خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کے اجلاس ہوئے.کانفرنس کے تبلیغی جلسہ میں معز ز طبقہ کے غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوئے.اور کانفرنس کے دوران شوریٰ کا اجلاس بھی ہوا.سالانہ کانفرنس کے دوران مکرم جناب عبدالرحیم صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ انڈونیشیا

Page 106

تاریخ احمدیت 97 جلد 21 نے جماعت کی سالانہ رپورٹ پیش کی جس میں مالی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ.انڈونیشیا کی جماعتوں میں باقاعدہ چندہ ادا کرنے کی طرف دن بدن توجہ بڑھ رہی ہے اور جماعت کی آمد میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے.اسی طرح تحریک جدید کے وعدوں میں بھی اس سال بہت اضافہ ہوا.کئی ایک جماعتوں نے سابقہ وعدوں سے کئی گناہ زیادہ وعدہ لکھ دیا.ملک میں انتہائی گرانی کے باوجود جماعت کے اخلاص میں کمی نہیں آئی.انڈونیشیا میں اس وقت سینکڑوں احباب موصی ہیں بعض 1/10 اور بعض 1/9 کی شرح سے چندہ ادا کر رہے ہیں لیکن علاوہ واجبی چندوں اور تحریک جدید کے بعض دوسری طوعی تحریکوں میں بھی احباب حصہ لیتے رہتے ہیں.“ جلسہ سالانہ فنڈ ز کی طرف جماعتوں کی توجہ نہیں تھی.حضرت مصلح موعود نے 1955 ء میں جناب راڈن ہدایت صاحب کو ارشاد فرمایا تھا کہ جماعت کو اپنی مالی حالت مستحکم کرنی چاہئے.انہوں نے حضور کی ہدایت سے جماعت کو مطلع کیا جس کے بعد مالی امور پر غور کرنے کے لئے سب کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں آئی.حضور کے اس ارشاد کی روشنی میں جماعت احمد یہ انڈونیشیا کے عہد یداران اعلیٰ اور مبلغین کی ایک مشترکہ میٹنگ ہوئی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام جماعتوں میں سلسلہ کے مخیر احباب کو جلسہ سالانہ فنڈ میں چندہ خاص دینے کے لئے تحریک کی جائے.66 احباب جماعت نے اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے قابل تعریف نمونہ دکھایا صرف جا کرتا کی جماعت سے مکرم جناب سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ کی کوشش و تحریک سے تقریباً تمیں ہزار روپیہ کی خطیر رقم مخلصین جماعت نے تھوڑے ہی عرصہ میں جمع کر دی.باڈانگ کی جماعت سے مکرم مولوی ابوبکر ایوب صاحب نے تقریباً چھ سات ہزار روپیہ کی رقم اس مد میں بھجوائی.اسی طرح بعض دیگر مقامات سے بھی مثلاً سمارنگ ( وسطی جاوا ) اور تا سکملا یا سے بھی مناسب امدا د ملی.ایک دوست نے مکرم سید شاہ محمد صاحب کو ان کی بیماری کے پیش نظر علاج وغیرہ کے لئے تین ہزار روپے پیش کئے یہ رقم آپ نے ساری کی ساری جلسہ سالانہ کے چندہ میں جمع کرا دی.بعض احباب نے دس ہزار روپیہ تک کی خطیر رقم چندہ خاص میں دی.علاوہ از میں مختلف ضروریات کے لئے احباب جماعت نے جلسہ کو کامیاب بنانے کے لئے کئی شعبوں میں بے نظیر خدمات انجام دیں.اگر چہ لکی حالات کے پیش نظر پبلک تبلیغی جلسے کرنے بہت مشکل تھے پھر بھی جماعتیں دوران سال متفرق اوقات میں تبلیغی جلسے منعقد کرتی رہیں.ان تبلیغی کوششوں میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی برکت ڈالی اور

Page 107

تاریخ احمدیت 98 جلد 21 جولائی 1955 ء سے جون 1960 ء تک انڈونیشیا میں 495 افراد داخل سلسلہ ہوئے.اور تین نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.وسطی جاوا کے ایک گاؤں میں تبلیغی جلسہ میں دو دفعہ ایک ایک ہزار دوست شامل ہوتے رہے.دوران سال یہاں 170 افراد نے بیعت کی.ان افراد تک پیغام حق پہنچانے میں ایک لوکل مبلغ مکرم احمد رشدی صاحب نے اہم کردار ادا کیا.برما امسال داناسگرا کی دیہاتی جماعت نے ایک خانہ خدا کی تعمیر کی.38 مولوی منیر احمد عارف صاحب انچارج مشن نے جماعت کے مخلصین کے ذریعہ ملک کی کئی شخصیات تک بذریعہ لٹریچر پیغام حق پہنچایا نیز سائیکلوسٹائل پمفلٹ بھی بکثرت تقسیم کئے.جماعت احمدیہ برما کا سالانہ جلسہ سال کے اوائل ہی میں 24 جنوری 1960ء کو منعقد ہوا جس سے انچارج مشن کے علاوہ جناب خواجہ شبیر احمد صاحب، عبدالجبار صاحب، پی ای وی اسماعیل صاحب اور مانکو صاحب نے تقایر کیں.جلسہ میں غیر از جماعت دوست بھی شامل ہوئے یہ سال بر مامشن کی تاریخ میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس میں ملک کے دارالسلطنت رنگون میں مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر مکمل ہوئی.اس سلسلہ میں جماعت احمد یہ رنگون نے عموماً اور جناب پی ای ورساء ابراہیم صاحب مرحوم اور ان کے صاحبزادے جناب عبدالغنی صاحب نے خصوصاً قربانی وایثار کا اعلیٰ نمونہ دکھلایا اور پندرہ سور و پسیہ کی کثیر رقم پیش کی.مجاہدین احمدیت کی روانگی اور آمد: 39 اس سال جو مبلغین اسلام دیار غیر میں اعلاء کلمہ حق کے لئے تشریف لے گئے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :- (1) امین اللہ خاں صاحب سالک (4) فروری برائے امریکہ ) (2) مسٹر د تلف خالد صاحب (13 مارچ برائے جرمنی ) (3) قریشی فیروز محی الدین صاحب (24 مارچ برائے غانا ) (4) خان بشیر احمد صاحب رفیق (3 اپریل برائے انگلستان ) (5) جناب صالح الشیمی صاحب ( 5 اپریل برائے انڈونیشیا) (6) شیخ نور احمد صاحب منیر (12 مئی برائے نائیجیریا) (7) عبدالوہاب بن آدم صاحب (18 جون برائے غانا )

Page 108

تاریخ احمدیت 99 جلد 21 (8) مولوی منیر الدین احمد صاحب ( 23 جون مشرقی افریقہ) (9) محمد عبد اللہ شبوطی صاحب ( 11 اگست برائے عدن) ( 10 ) ڈاکٹر شاہ نواز صاحب (21 ستمبر برائے سیرالیون) (11) مولوی مبارک احمد ساقی صاحب (16اکتوبر برائے لائبیریا) (12) شیخ عبدالواحد صاحب (16 اکتوبر برائے نجی آئی لینڈ ) ( 13 ) مولوی بشیر احمد شمس صاحب (18اکتوبر برائے نائیجیریا) (14) چوہدری رحمت خان صاحب (22 اکتوبر برائے انگلستان) (15) سمیع اللہ سیال صاحب (24 اکتوبر برائے سیرالیون ) (16) منصور احمد صاحب انڈونیشین (3 نومبر برائے انڈونیشیا) (17) مولوی غلام احمد صاحب نسیم ( 19 نومبر برائے سیرالیون ) (18) قریشی مقبول احمد صاحب (22 نومبر برائے نائیجیریا) - 0 حسب ذیل مبلغین اس سال فریضہ تبلیغ کی بجا آوری کے بعد واپس پاکستان تشریف لائے.(1) مولوی فضل الہی صاحب انوری ( 10 فروری از غانا ) (2) عنایت اللہ صاحب خلیل ( 12 فروری از مشرقی افریقہ ) (3) حکیم محمدابراہیم صاحب (12 فروری از مشرقی افریقہ ) (4) ابراہیم محمد مینو صاحب (13 فروری از غانا) (5) سید احمد شاہ صاحب (27 فروری ) (6) بشیر احمد خان صاحب رفیق ( 9 مارچ از انگلستان) (7) مولوی مبارک احمد ساقی صاحب (18 مارچ از سیرالیون ) (8) مولوی صالح محمد صاحب (2 جولائی از مغربی افریقہ ) (9) سید جواد علی صاحب (28 جولائی از امریکہ ) (10) مولوی محمد منور صاحب ( 6 اگست از مشرقی افریقہ) (11) شیخ نور احمد منیر صاحب (5 ستمبر از نائیجیریا) (12) مولوی منیر احمد عارف صاحب (12) نومبر از برما) (13) مولوی امام الدین صاحب (22 دسمبر از انڈونیشیا)

Page 109

تاریخ احمدیت 100 جلد 21 (14) مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری (26 دسمبر از لائبیریا ).نئی مطبوعات 1960ء میں احمدیہ لٹریچر میں درج ذیل نئی مطبوعات کا اضافہ ہوا: (1) سیرت طیبہ ( قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) (2) حضرت مسیح پاک کی دعائیں پیش لفظ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ) (3) در عدن ( عارفانہ کلام حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ ) (4) حیات آخرت (حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب) (5) مغرب کے افق پر (صاحبزادہ مرز ا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ) (6) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ( خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) (7) سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب) (8) احمدیہ تحریک پر تبصرہ ( حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ) (9) ضرورت نبوت کا ثبوت ( حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ) (10) پیشگوئی مرزا احمد بیگ اور اس کے متعلقات کی وضاحت ( حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ) (11) اصحاب کہف کے صحیفے ( شیخ عبدالقادر صاحب ریسرچ سکالر) (12) صحائف قمران ( شیخ عبدالقادر صاحب ریسرچ سکالر ) (13) حضرت مسیح کشمیر میں (مورخ کشمیر محمد اسد اللہ صاحب قریشی فاضل دیوبند ) (14) بشارات آسمانی به حق مامور ربانی ( مورخ کشمیر محمد اسد اللہ صاحب قریشی فاضل دیوبند ) (15) اسلامی معاشرہ (پروفیسر مولانا غلام باری صاحب سیف) ( 16 ) ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اوّل (الشركة الاسلامیہ ) ( 17 ) اصحاب احمد جلد ہفتم ( ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان ) ( 18 ) اصحاب احمد جلد ہشتم ( ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان )

Page 110

تاریخ احمدیت 101 جلد 21 ( 19 ) شان رسول عربی (مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوئی رکن شعبه ز و دنویسی ربوہ ) (20) پاکستان کے گوردوارے ( گیانی عباداللہ صاحب ریسرچ سکالر سکھ مذہب) (21) گورو گرنتھ صاحب اور اسلام ( ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور ) (22) حضرت سرور کائنات اور عبادت میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی) (23) الاسراء والمعراج (مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ نا شر سیٹھ معین الدین صاحب صدر جماعت چنته کنتہ ، آندھرا، بھارت) (24) بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام اور اس کے نتائج (مولانا نذیر احمد صاحب مبشر سابق انچارج مشن غانا ) (25) فضل عمر هجری شمسی دائمی تقویم ضمیمه مجمع البحرین ( جمعدار فضل الدین صاحب کمبوه حمزه ) (26) راه ایمان ( مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ) قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس پر تبصرہ لکھا کہ.کلمہ طیبہ اور ارکان اسلام اور نماز روزہ کے مسائل سے شروع کر کے اس رسالے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختصر سے حالات اور خلافت کا بابرکت نظام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ضروری تعلیم اور اخلاق فاضلہ اور سلسلہ احمدیہ کی ہدایات اور مرکزی نظام جماعت وغیرہ کے متعلق مفید معلومات ایسے رنگ میں جمع کر دیئے گئے جو چھوٹی عمر کی بچیوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے.در حقیقت اس رسالہ نے جماعت کی ایک حقیقی ضرورت کو پورا کیا ہے.66

Page 111

تاریخ احمدیت حواشی: 102 جلد 21 1.اشتہار 20 فروری 1886ء مطبوعہ ریاض ہند پر لیس امرتسر.2 تریاق القلوب صفحہ 65 طبع اوّل تالیف 1899 ء بحوالہ روحانی خزائن جلد 15 صفحه 275 ناشر نظارت اشاعت ربوده پا کنه 3 الفضل 4 فروری، 27 / مارچ ، 19 رمئی، 10 ، 16 ، 23 اگست 1960 ، 13 جنوری 1961 ء.کتاب ایک مبارک نسل کی ماں“ صفحہ 121 والفضل 6 دسمبر 1960ء،13 جنوری 1961 ء.4 الفضل 5 جنوری 1960 ء ، 15 نومبر ، 23 فروری، 31 دسمبر 1960ء.5 الفضل 5 جنوری، 10، 11، 24 فروری، 3 مارچ، 5 ، 7 ، اپریل، 11، 26 رمئی، 20، 28، 30 جولائی، 7، 14، 19 اگست، 20 ستمبر، 6، 19 نومبر ، 13 دسمبر 1960ء، 31 /جنوری 1961 ء.6 الفضل 17 جنوری 1960 ء صفحہ 5.7 الفضل 12 فروری صفحہ 1، 6/ مارچ 1960 ء صفحہ 6.8 الفضل 17 فروری صفحه 1، 18،8 فروری صفحه 1 ،8، 20 رفروری 1960 ءصفحہ 1 ،8.9 - بدر 5 رمئی، 16 جون ، 30 / جون ، 7 / جولائی ، 14 جولائی 1960 ء.10 - اخبار بد قادیان دار الامان 12 تا 19 ، 26 مئی 1960 ء.11 - الفضل 7 اگست 1960 ، صفحہ 1 - 12.بدر 19 رمئی 1960 ء ،الفضل 31 مئی 1960 ءصفحہ 6.13 - بدر 16 / جون 1960 ء صفحہ 12.-1 الفضل 8 جولائی 1960 ، صفحہ 5 ، بدر 24 نومبر 1960 ، صفحہ 5.-14 15 - بدر 26 جنوری 1961 ، صفحہ 1.16.بحوالہ اخبار بدر قادیان 28 جولائی 1960 ، صفحہ 7.17.روزنامہ الفضل ربوہ 22 راکتو بر 1960 ءصفحہ 5 کالم 3.18.بحوالہ الفضل 21 جون 1966 ، صفحہ 3.19 - الفضل 13 مئی 1960 ء.20_الفضل 28 رجون ،2 ردسمبر 1960 ء.21 - الفضل 23 ستمبر 1960 ، صفحہ 4.22 - الفضل 18 جون ، 25 راگست ، یکم نومبر 1960ء.23 - الفضل 17 / مارچ، 7، 8 اپریل، 18 جون ، 12 ، 14 جولائی 1960 ء.الفضل 10، 11 جنوری 1961 ء.24 _ الفضل 23 دسمبر 1960 ، صفحہ 3.25 الفضل 30 جون ، 18،17 ستمبر، 3 / دسمبر 1960 ء.26 - الفضل 17 جولائی 1960 ، صفحہ 4.27 الفضل 8 جنوری 1960 ، صفحہ 1.28 - رسالہ انصار اللہ ربوہ جنوری 1961 ، صفحہ 41 تا 45.29_الفضل 20 فروری 1960 ، صفحہ 4.30 الفضل 24 جون 1960 ، صفحہ 4،3.31 ” نوائے وقت“ لاہور 12 اپریل 1960 ء.بحوالہ ”الفرقان“ ربوہ مئی 1960ء صفحہ 2 تا 5.

Page 112

تاریخ احمدیت 103 جلد 21 32 الفضل 21 ، 23 جولائی ، 6 اگست، 8 - 10 نومبر ، 7 / دسمبر 1960 ء.الفضل 14 جنوری، 4 / مارچ ، 22 جون 1961 ء.33 الفضل 16 اگست 1960 ءصفحہ 4.-33 34 الفضل 23 دسمبر 1960 ، صفحہ 5.35 الفضل 6 دسمبر 1960 ء صفحہ 5.36.کولمبس سیٹزن جرنل 20 دسمبر 1960ء، بحوالہ انصار اللہ فروری 1961 ء صفحہ 44،43.37 الفضل 19 جولائی 1960 ، صفحہ 5 38.الفضل 28 ستمبر 1960 ، صفحہ 3 ، 4 الفضل 29 ،30 ستمبر 1960 ، صفحہ 5.39 الفضل 10 / مارچ ، 8 جولائی 1960 ء.40 - افضل 6 فروری ، 18 ، 27 / مارچ ، 5 ، 6 / اپریل، 14 مئی، 18 جون ، 24 / جولائی، 23 ستمبر، 9، 25 اکتوبر 1960 ء ایضار یکارڈ وکالت تبشیر ربوہ.41.الفضل 13 ، 16 فروری، 30 / جولائی ، 10 راگست 1960 - 3 جنوری 1961ء.ایضا ریکارڈ وکالت تبشیر.42 الفضل 6 دسمبر 1960ء

Page 113

تاریخ احمدیت 104 جلد 21 دوسرا باب خلافت ثانیہ کا سنتالیسواں سال از آغاز 1961 ء تا جلسہ سالانہ 1961ء) فصل اول جماعت احمدیہ سیرالیون کی سالانہ کانفرنس یہ سال جماعت احمدیہ کی عالمی تبلیغی مساعی اور اس کے وسیع اثرات کے اعتبار سے بہت اہمیت رکھتا ہے.اس سال کا آغاز جماعت احمدیہ سیرالیون (مغربی افریقہ) کی بارہویں کامیاب کانفرنس سے ہوتا ہے جو شہر بو میں 3-4-5 فروری 1961 ء کو منعقد ہوئی.جس میں سیرالیون کے طول و عرض سے آئے ہوئے احمدی احباب کے علاوہ ملک کی بعض سر بر آوردہ ہستیوں اور نامور قومی لیڈروں نے بھی شرکت کی.سیرالیون کے وز یر اعظم سر ملٹن مارگائی نے ایک پیغام ارسال کر کے سالانہ جلسہ کے انعقاد پر جماعت احمدیہ کو مبارک باد پیش کی.پیغام کے متن کا ترجمہ درج ذیل ہے: میں آج کے دن 3 فروری 61 ء ) بو میں آپ لوگوں کی سالانہ کا نفرنس کے افتتاح کے موقع پر آپ لوگوں کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں.یہ امر میرے لئے بہت باعث مسرت ہے کہ آپ کا مشن اہلِ سیرالیون کی روحانی، تعلیمی اور ثقافتی ترقی میں روز افزوں دلچسپی لے رہا ہے.میں پُر خلوص مبارک باد پیش کرتے ہوئے آپ لوگوں کی کانفرنس کی کامیابی اور اس میں زیر غور امور کی باحسن وجوہ تکمیل کا دل سے خواہاں ہوں.“ علاوہ ازیں سیرالیون کے نائب وزیر اعظم و وزیر خزانہ آنریبل ایم ایس، مصطفی ، وزیر تعمیرات آنریبل کا نڈے بورے فری ٹاؤن کے میئر ایلڈر مین اے.ایف.رحمن، پیراماؤنٹ چیف بیمبا الرڈ آف بو سیرالیون مسلم کانگرس کے سیکرٹری جنرل الحاج جبریل سیسے صوبائی محکمہ تعلیم کے سیکرٹری مسٹر ایم.ایچ.ڈی الغالی اور سیرالیون مسلم برادر ہوڈ کے صدر مسٹر سوری ابراہیم کا نو شامل تھے.آنریبل ایم.ایس مصطفی نائب وزیر اعظم سیرالیون نے اپنی تقریر میں فرمایا:.”جماعت احمدیہ کی سالانہ کا نفرنس میں شرکت میرے لئے جس خوشی اور مسرت کا باعث

Page 114

تاریخ احمدیت 105 جلد 21 ہوا کرتی ہے دنیا کی کوئی اور چیز اسکا مقابلہ نہیں کر سکتی.اس زمانہ میں مسلمان 73 فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن ان میں صرف فرقہ احمدیہ ہی ہے جو تمام دنیا میں تبلیغی مشن قائم کر کے منظم طور پر تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کر رہا ہے.میرے نزدیک اس ملک کے ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اخلاقی اور مالی لحاظ سے احمد یہ مشن کی پوری پوری تائید وحمایت کرے.“ آنریبل کا نڈے بورے وزیر تعمیرات سیرالیون نے اپنی تقریر میں اس زمانہ کے مصلح اور امام حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے دعوی ماموریت پر ایمان لانے کی اہمیت پر زور دیا.آپ نے سلسلہ احمدیہ کے نڈر اور بے باک مجاہد اسلام الحاج نذیر احمد صاحب علی مرحوم کی تبلیغی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.جب انہوں نے فری ٹاؤن میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا تو ان کی بہت مخالفت کی گئی تھی.لیکن اب حالات بدل چکے ہیں، اب قریباً تمام مسلمان لیڈر جماعت احمدیہ کے خیر خواہ ہیں اور اسکی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.آخر میں وزیر موصوف نے سامعین سے احمد یہ مشن کی دلی اخلاص کے ساتھ تائید وحمایت کرنے اور اس کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے کی اپیل کی.الحاج جبریل سیسے سیکرٹری جنرل سیرالیون مسلم کا انگرس نے اپنی تقریر میں فرمایا: برادرانِ اسلام اس امر کا اعتراف نہ کرنا انصاف کے منافی ہوگا کہ اس قسم کی کانفرنسوں کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ عقائد کے ایسے اختلافات جنہیں بالعموم صحیح علم نہ رکھنے والے مذہبی دیوانے ہوا دینے کے عادی ہوتے ہیں طے ہو جائیں گے بلکہ مختلف اسلامی جماعتیں بھی ان کا نفرنسوں کی بدولت اتحاد کے ایک مضبوط اسلامی رشتہ میں منسلک ہو جائیں گی اور یہ رشتہ اتحاد سیرالیون کے طول و عرض میں احمدیہ مشن کی تبلیغی مساعی کی ایک ہمیشہ قائم رہنے والی یادگار کا کام دے گا.“ ایلڈرمین اے.ایف.رحمن میئر آف فری ٹاؤن نے اپنے قیمتی خطاب میں فرمایا: " آج کی تقریب میں شرکت میرے لئے انتہائی مسرت کا باعث ہے.اور میں اس امر پر اور بھی زیادہ خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ اس موقع پر آپ لوگوں سے خطاب کرنے کا اعزاز بھی میرے حصہ میں آیا ہے.سیرالیون کا ملک اور اس ملک کے باشندے اپنی قدامت پسندی اور راسخ الاعتقادی کے لئے بہت مشہور ہیں.ہر قدیم چیز سے ہماری وابستگی بہت پختہ ہوتی ہے.اسی لئے ہرنئی چیز کے بارے میں ہم بیگانگی پرمبنی بہت محتاط رویہ اختیار کرنے کے عادی ہیں.جہاں تک ہر نئی چیز کے بارے میں محتاط روش اختیار کرنے کا تعلق

Page 115

تاریخ احمدیت 106 ہے مذہب کا دائرہ بھی اس سے مستی نہیں.چنانچہ ہم سیرالیونی مسلمان ہمیشہ اس بات کے عادی چلے آ رہے ہیں کہ اگر قدیم صداقتوں کو جدید شکل میں پیش کیا جائے تو ہم انہیں آسانی اور خوشی کے ساتھ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے.ہم بسا اوقات اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرتوں کانٹے نئے رنگ میں اظہار کرتا رہتا ہے تاکہ دنیا گمراہ نہ ہونے پائے.یہی کچھ اس وقت بھی ہوا جب 1921 ء میں جماعت احمدیہ کا ایک مبلغ یکہ و تنہا یہاں ہمارے درمیان آیا.لوگوں نے اسے کھلے دل سے یکدم قبول نہیں کیا.وہ اپنی رواجی بیگانگی اور علیحدگی کی روش پر قائم رہتے ہوئے بہت محتاط رنگ میں اس کے ساتھ پیش آئے.1921 ء کا وہ ابتدائی دور اسی طرح گزر گیا.اس کے بعد حالات رفتہ رفتہ بدلتے اور پلٹا کھاتے رہے.حتی کہ آج جماعت احمدیہ کی رفاہی سرگرمیوں کے ثمرات ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.ان رفاہی سرگرمیوں کا سلسلہ صوبہ جات اور فری ٹاؤن میں ہر جگہ اور ہر سمت پھیلا ہوا ہے.سچ بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے اسلام کے مفہوم اور اسکی غرض وغایت کو ایک نئے رنگ میں ہم پر آشکار کیا ہے.اس نے عملاً ثابت کر دکھایا ہے کہ ایک سچے مسلمان کے لئے جہاں عربی زبان اور عربی علوم پر دسترس حاصل کرنا ضروری ہے وہاں اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ زمانہ موجودہ کے جدید تقاضوں اور زندگی کی نئی ضرورتوں کو نظر انداز نہ کرے بلکہ انہیں پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے نئے دور اور اس کے نئے ماحول میں اپنے لئے ایک باعزت اور قابلِ فخر مقام پیدا کرے.اس میں شک نہیں کہ قرآن مجید اور اس کی اصل روح کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام مسلمان عربی زبان اور عربی لٹریچر پر عبور حاصل کریں.اس طرح ہی ہم اپنے اسلاف کے اصل ورثہ سے فیضیاب و بہرہ اندوز ہو سکتے ہیں اور دوسرے ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کے جذبات واحساسات اور ان کی تو قعات اور امنگوں میں ہمیں برابر کی شرکت حاصل ہوسکتی ہے اور بالخصوص دنیائے عرب کے ساتھ تعلق و وابستگی اور ہم آہنگی اختیار کرنا ہمارے لئے آسان ہو سکتا ہے.بایں ہمہ یہ امر ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے علوم جدیدہ سے بہرہ ور ہونا بھی ضروری ہے.اگر ہم زمانہ موجودہ کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور زمانہ جدید جلد 21

Page 116

تاریخ احمدیت 107 کی ایک مہذب اور ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے اقوام عالم میں باعزت مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم زندگی کے جدید اسلوب اور طریق سے بھی آگاہ ہوں.قدیم وجدید کا یہ امتزاج ہمیں بحیثیت قوم کے اپنے ملک کی ترقی میں اور بحیثیت مجموعی کل دنیا کی خوشحالی میں ایک نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل بنادے گا.جماعت احمدیہ کے بارہ میں ہم میں سے ہر ایک کے ذاتی خیالات خواہ کچھ بھی ہوں بایں ہمہ اس میں کلام نہیں کہ ہم سب کو پورے خلوص اور احترام کے ساتھ جماعت احمدیہ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے اس ملک میں ہم مسلمانوں کو وہ راہ بتائی ہے جو صحیح معنوں میں ترقی کی شاہراہ ہے.اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں آباد دوسری قوموں کے ساتھ ہماری مساویانہ حیثیت تسلیم کی جائے اور ہم ان کے ہم پلہ و ہم مرتبہ شمار ہوں تو ہمارے لئے از بس ضروری ہے کہ ہم ترقی کی اس شاہراہ پر گامزن ہوں جس کی نشاندہی جماعت احمدیہ نے کی ہے.کیا یہ ایک زندہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر چہ سیرالیون میں اسلام ابتداء ہی سے دوسرے مذاہب کے دوش بدوش چلا آ رہا ہے تاہم یہ جماعت احمدیہ کے لئے مقدر تھا کہ وہ نہ صرف عربی کی تعلیم کے لئے بلکہ دوسرے علوم کی تدریس و ترویج کے لئے بھی ملک بھر میں اسلامی مدارس قائم کرے.ملک میں جہاں اور جس طرف مرضی چلے جاؤ خواہ دریائے سکارسینز (SCARSIES) اور دریائے سیوا (SEWA) کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے شہروں میں یا فری ٹاؤن اور ملک کے دوسرے حصوں میں تم ہر طرف اور ہر جگہ ایسے معیاری پرائمری سکول اور مدارس دیکھو گے جو براہِ راست جماعت احمدیہ کی مساعی اور دوڑ دھوپ کے نتیجے میں قائم ہوئے ہیں.یہ سکول حسن کارکردگی میں کسی لحاظ سے بھی ان سکولوں سے کم تر درجے کے نہیں ہیں جنہیں ملک میں مضبوط بنیادوں پر قائم اور با قاعدہ امداد یافتہ ادارے چلا رہے ہیں.پھر جماعت احمدیہ کے خصوصی امتیاز میں یہ امر اور بھی زیادہ اور دیر پا اضافے کا موجب ہے کہ انہوں نے اب اپنی ان تعلیمی مساعی کو اس حد تک وسیع کر لیا ہے کہ سیرالیون میں ایک ایسے واحد سیکنڈری سکول کا قیام بھی ممکن ہو گیا ہے جو براه راست مسلمانوں کے اپنے زیر انتظام ہو.اگر اس بارے میں پہلے کوئی گنجلک موجود تھی کہ مسلمانوں کو کس قسم کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے تو جماعت احمدیہ نے اس گنجلک کو دور کر دیا ہے.ان لوگوں نے تسلی بخش طور پر ثابت جلد 21

Page 117

تاریخ احمدیت 108 کر دکھایا ہے کہ ایک انسان جتنا اچھا تعلیم یافتہ ہوگا اتنا ہی اچھا وہ مسلمان بن سکتا ہے.چونکہ احمدی مبلغین اعلی قسم کی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوتے ہیں اس لئے وہ زیادہ بہتر طریق پر اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ مغربی تعلیم اسلام کی دشمن نہیں ہے.ان کا نظریہ یہ ہے کہ اس تعلیم سے اس رنگ میں فائدہ اٹھانا چاہئے کہ یہ ہمارے لئے اپنے مذہب کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہو اور ساتھ ہی ہمیں ایسے اوصاف سے متصف کر دے کہ ہم مساویانہ بنیاد پر دوسروں کے ہم پلہ مقام اپنے لئے پیدا کر سکیں.بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے.یہ مقولہ بہت بڑی صداقت پر مبنی ہے.یہ حقیقت کہ احمدیوں نے اپنا پر لیس بھی قائم کر لیا ہے اور وہ مقامی طور پر یہاں کی سرکاری زبان انگریزی اور اسی طرح عربی میں اخبارات شائع کر سکتے ہیں.ان کی دور بینی پر گواہ ہے اور وہ دور بنی یہ ہے کہ یہ لوگ ( قلم کی طاقت سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ) اس ملک میں اسلام کے مشن کو مستحکم بنانے اور اس کے حلقہ اثر کو وسیع کرنے کے لئے پرامن ذرائع سے اثر و نفوذ حاصل کرنے کے طریقوں پر عمل پیرا ہیں.ہم سب کو اس امر پر بھی جماعت احمد یہ سیرالیون کو مبارک باد دینی چاہئے کہ اس نے اس ملک میں مسلمانوں کے مفاد کی خاطر اور اہلِ سیرالیون کی عمومی خدمت کے پیش نظر ایک ممتاز مسلمان ڈاکٹر کو یہاں بلوایا ہے اور اس کی طبی خدمت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے.میں نے اس وقت جماعت احمدیہ کے بہت سے کارنامے گنوائے ہیں جو اس نے یہاں ہمارے درمیان سرانجام دئے ہیں.سوال یہ ہے کہ ان سب کارناموں کا ہم سب کیا اثر قبول کرتے ہیں اور ہماری طرف سے کیا رد عمل ظاہر ہوتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا ہم میں سے ہر ایک کو جواب دینے کی کوشش کرنی چاہئے.میں اس سوال کو آپ کے سامنے پیش کر کے رخصت ہوتا ہوں.مجھے یقین ہے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ احمدیوں نے یہاں ہمارے لوگوں کے درمیان جو بیداری پیدا کی ہے اس کے واضح اور نمایاں آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے.“ یہ امر قابل ذکر ہے کہ میئر آف فری ٹاؤن ایلڈرمین اے.ایف.رحمن نے اپنی اس تقریر میں جماعت احمدیہ کی طرف سے قائم ہونے والے جس پہلے سیکنڈری سکول کے اجراء کا جلد 21

Page 118

تاریخ احمدیت 109 جلد 21 ذکر کیا، اس سکول کا سنگِ بنیاد جماعت احمدیہ سیرالیون کے بارھویں جلسہ سالانہ کے دوران ہی سیرالیون کے نائب وزیر اعظم آنریبل ایم.ایس.مصطفیٰ نے ایک خاص تقریب کے موقع پر اپنے ہاتھ سے نصب کیا.علاوہ ازیں اسی موقع پر بو میں پہلی احمد یہ مسلم ڈسپنسری کا افتتاح بھی عمل میں آیا.فالحمد لله على ذالك جمال عبدالناصر صدرجمہوریہ مصر کی خدمت میں مکتوب: جناب سید میر داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ نے صدر جمہور یہ مصرسید جمال عبدالناصر کی خدمت میں اس سال کے شروع میں ایک اہم مکتوب ارسال کیا جس میں انہوں نے قضیہ فلسطین کی اہمیت اور اس کے فوری حل کی طرف پُر زور الفاظ میں توجہ دلائی.اس مراسلہ کا عربی متن انہی دنوں جامعہ احمدیہ کے ترجمان البشری“ کے شمارہ رمضان 1380ھ مطابق مارچ 1961 ء صفحہ 39-40 میں بھی شائع کر دیا گیا تھا.جو درج ذیل کیا جاتا ہے: سيادة الرئيس کتاب الى الرئيس جمال عبد الناصر السلام علکیم و رحمة الله و بركاته و بعد ، فاني أتشرف بأن الفت أنظار سيادتكم الى ما حصل بدمشق الاقليم الشمالي) من مصادرة مركز الجماعة الاسلامية الاحمدية و حرمان اعضائها من مزاولة الحرية الدينية والفكرية التي يقدر دستور الجمهورية العربية المتحدة كما يحترمها سائر دساتير العالم.ان هذا الاجراء الشاذ قد أحدث هزه شديدة في عموم اعضاء الجماعة الاحمدية المنتشرة في اقطار العالم كافة هذه الجماعة هي دينية تؤمن بجميع المبادئ الاسلامية السامية القويمة ايمانا راسخا ، و لا تدخر و سعا في الدفاع عن حياض الاسلام و المسلمين في مختلف بقاع الأرض و ان لها مراكز تبشيرية قوية فى معظم اصقاع العالم و خاصة في امريكا و انجلترا و المانيا و هولندا و سويسرا والمانيا الغربية و اسبانيا و افريقا

Page 119

تاریخ احمدیت 110 الغربية و الشرقية ، كما ان هذه الجماعة نشرت مجموعة قيمة من الكتب العلمية للذود عن كرامة الاسلام و نبیه محمد صلی الله علیه و سلم ، و اضف الى ذالك انها نشرت تفاسير القرآن و تراجمه با لانجليزية و المانية و الهولندية و السواحلية و قامت بهذا العمل الجليل المنقطع النظير خير قيام ان اتهام هذه الجماعة با لخروج عن الاسلام و وصمها بـالـنبـو عن جادة الحق على غاية من السطيحة و التعسف ، و خاصة في هذه الفترة الدقيقة من تاريخ العالم التي تهيب بتكتل المسلمين و توحید كلمتهم في جميع البلاد.و قد لا يخفى على سيادتكم ان الجماعة الاحمديه ليست بمعزل عن القضايا العربية الكبرى ، بل هى منذ نشاتها قامت بدور مرموق في جمع شمل المسلمين و قد نبهتهم الى الاخطار التي تحدق بهم من كل صوب و تهدد مصالحتهم في كل بلد ، و اليكم ما فعلت الجماعة الاحمدية في اخطر قضية عربية الا وهي قضية فلسطين التي تحتل الدرجة الاولى بقلب كل عربی مسلم بل هى الطعنة الغادرة فى صميم الاسلام التي تحز في قلوب اربعمائة مليون مسلم عند ما دبرت هذه المؤامرة اللعينة بأيدى الاستعمار و الصهيونية العالمية عندئذ كتب حضرة امام الجماعة الاحمدية الحالي الحاج الميرزا بشير الدين محمود احمد نشرة سماها الكفر ملة واحدة، فضح فيها هذه الخطة الشيطانية و كشف اللثام عن وجه الحقائق و قال ان قوى الشر قد تألبت على الاسلام من كل حدب ، و تجمعت رغم خلافاتها السياسية للقضاء على وحدة الاسلام قضاء نهائيا ، فعلى المسلمين أن يدركوا خطر هذا الهجوم العام من قبل الاعداء فليقوموا آحادا و جماعات للذب عن جبهة الاسلام ، و كذلك لم يتح لحضرته فرصة تهدث فيها عن القضايا الاسلامية الا و وضع قضية فلسطين في المكان الاول و دوما أبدى مخاوفه عن نوايا الصهيونية العالمية للسيطرة على سائر جلد 21

Page 120

111 تاریخ احمدیت البلاد العربية الاسلامية بما فيها من شعائر الاسلام المقدسة و اخيرا و ليس آخرا صرح حضرته فى احد الاجتماعات السنوية للجماعة : ان احتلال اليهود لفلسطين لهو حادث مؤقت و ان الأوضاع الراهنة لتنقلب رأسا على عقب و سیاتی علی فلسطین زمان ، ان كل حجر من احـجـارهـا سـيـنـادي المؤمن باعلى صوته ان ورائی کافر فا قتله و ان الايام التي سترث فيها الامة السلامية ارض فلسطين جد قريبة “ فان لنرجو سيادتكم ان تتناولوا هذه القضية بأسلوب حكيم يتفق و ما يقتضى الدستور من المحافظة على الحرية الدينية و الفكرية لجميع طوائف الشعب العربي.دمتم ذخرا للعروبة و الاسلام و السلام عليكم المخلص گیمبیا مشن کا قیام داؤد احمد السيد “ جلد 21 گیمبیا (GAMBIA) افریقہ کی سب سے چھوٹی مملکت ہے.اسے پندرھویں صدی میں پرتگالی جہاز رانوں نے دریافت کیا.1588 میں یہ علاقہ انگریزوں نے پرتگالیوں سے خرید لیا.1888ء میں یہ ملک برطانیہ کی کالونی بن گیا.18 فروری 1965ء کو اسے آزادی ملی.24 اپریل 1970 ء کو گیمبیا دولت مشترکہ کے ماتحت رہتے ہوئے جمہوریہ بنا.اسی روز ملک میں آئین نافذ ہوا اور داؤدا کے جوارا ( SIR DAWDA K JAWARA) ملک کے پہلے صدر بنے.1982ء کو سینی گیمبیا فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا.22 جولائی 1944 ء کو لیفٹیننٹ سکی جامی (LT.YAHYA JAMMEH) نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگادی جو 15 اگست کو اٹھا لی گئی جس کے معا بعد نئے آئین کے سلسلہ میں ریفرنڈم ہوا جسمیں قریباً 70 فیصد ووٹوں سے آئین منظور کر لیا گیا اور جناب سکی جامی صاحب دوبارہ صدر مملکت ہو گئے.اس ملک میں 84 فیصد آبادی مسلمان ہے.شامیوں اور لبنانیوں کی ایک خاصی تعداد کے علاوہ یورپین بھی آباد ہیں.سرکاری زبان انگریزی ہے میڈ نگا فولا ولف اور جولامشہور ملکی قبائل ہیں.ملک میں صرف ایک شہر باتھرسٹ ہے جسے اب بانجل کہا جاتا ہے.گیمبیا میں تحریک احمدیت کا بیج بظاہر ایک نہایت معمولی واقعہ سے بویا گیا.جسکی تفصیل یہ ہے کہ

Page 121

تاریخ احمدیت 112 جلد 21 باتھرسٹ کی ایک سترہ اٹھارہ سالہ لڑکی جو گیمبیا حکومت کے انعامی وظیفہ پر سیرالیون ٹیچرز ٹریننگ کالج میں ٹریننگ کے لئے گئی.اس نے فری ٹاؤن میں سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب کی شائع کردہ کتاب ( THE MUSLIM PRAYER) حاصل کی اور اپنے ایک عزیز رشتہ دار کو باتھرسٹ میں بطور تحفہ کرسمس بھیجی.اس عزیز کے ایک دوست لیمن ولی انجاۓ (L'AMIN W.N'JIE) تھے.وہ ایک دن اس عزیز سے ملنے گئے.اتفاقاً انکی نظر اس کتاب پر پڑی اور وہ اس کی اجازت سے دو تین دن کے لئے اسے گھر لے آئے.معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نماز پر احمد یہ مشن کی مہر لگی ہوئی تھی یا اسکا پتہ لکھا ہوا تھا اس لئے انہوں نے نائیجیریا مشن کو اسلامی لٹریچر بھجوانے کی بذریعہ خط درخواست کی.اس پر مولانا نسیم سیفی صاحب انچارج نائیجیریا مشن کی طرف سے اسے کچھ کتابیں (جن میں قرآن شریف کا پارہ اول مع انگریزی ترجمہ وتفسیر شائع کرده صدر انجمن احمد یہ قادیان بھی تھا) بذریعہ ڈاک موصول ہوئیں.لیمن ولی انجائے کے دل و دماغ پر ایسا فوری اثر ہوا اور وہ داخلِ احمدیت ہو گئے.اور ساتھ ہی یہ زبر دست تڑپ پیدا ہوئی کہ ان کے ملک میں بھی احمد یہ مشن کھولا جائے.چنانچہ انہوں نے مولا ناسیم سیفی صاحب کو اس بارے لکھا نیز استدعا کی کہ وہ خود بھی یہاں تشریف لائیں.مولانا سیفی صاحب نے گیمبیا آنے کی اجازت چاہی مگر انہیں ویزا نہ دیا گیا.اسکے علاوہ سیرالیون سے بھی بعض مبلغین احمدیت نے اجازت نامے طلب کئے مگر حکومت کی طرف سے جواب نفی میں ملا.ان مخالف حالات کے باوجود مسٹر لیمن ولی انجائے کے عزم واستقلال میں کوئی فرق نہیں آیا.انہوں نے اپنے حلقہ احباب میں زور و شور سے تبلیغ شروع کر دی اور 5 نوجوانوں یعنی غوث مصطفی کیفا (KEITA) ، ابراهیم آلیور علی مختار با عمر ولی جوف اور علی ابراھیم حصے کو اپنا ہم خیال بنالیا اور حکومت گیمبیا کو درخواست دی کہ یہاں احمد یہ مشن قائم کرنے کی اجازت دی جائے.اُدھر مولا نانسیم سیفی صاحب نے بھی حکومت گیمبیا کولکھا کہ جماعت احمد یہ اپنے ایک پاکستانی مبلغ مبارک احمد صاحب ساقی کو بھجوانا چاہتی ہے.انکے ویزے کی منظوری دی جائے.یہ فروری 1953ء کی بات ہے.مگر انہیں بھی حکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا.دراصل گیمبیا میں دو مسلمان پارٹیاں ہیں 'مسلم کانگریس اور جماعت المؤمنین.جماعت المؤمنین مبلغ آنے کے حق میں تھی اور مسلم کانگریس مخالف.مسٹر یمن ولی انجائے کی درخواست گورنر صاحب گیمبیا کے سول سیکرٹری نے باتھر سٹ کالونی کے چیف امام صاحب کو بھیج دی کہ وہ اس بارے میں اپنی رائے دیں.چیف امام صاحب نے کونسل کے ممبران سے مشورہ کر کے جواب دیا کہ احمد یہ مشن کا قیام گیمبیا میں مناسب نہیں کیونکہ احمدی نہ مالکی ہیں نہ شافعی نہ حنبلی.اس پر حکومت نے صاف جواب دے دیا کہ چونکہ چیف امام صاحب اور ان کی کونسل احمد یہ مشن کے قیام کے حق میں نہیں اس لئے اجازت نہیں دی جاسکتی.

Page 122

تاریخ احمدیت 113 جلد 21 لیکن یہ حکومت کی محض بہانہ جوئی تھی.اس پالیسی کا اصل پس منظر یہ تھا کہ عیسائی مشنریوں نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ یہ درخواست مسترد کر دے جیسا کہ پروفیسرمحمود بریلوی اپنی کتاب ”اسلام ان افریقہ میں لکھتے ہیں: "In addition to the orthodox Maliki (Sunni) Muslims, there is another small group in West Africa, who call themselves Muslim- the followers of the Ahmadiyyah (Qadiani)movement, a missonary organisation with its headquarters (previously in Qadian, India,) but now at Rabwah, Pakistan, which penetrated West Africa in the late 1920s.This movement is rapidly growing, gaining its converts from Christianity and paganism, the rate of growth being demonstrated in Ghana, where in 1948 the figure of its adherents was 22,572, and to-day they may be about 50,000-This well organised missionary movement, possessing zealous and selfless wokers, offers to its African converts good educational facilities up to the secondary school level.The Ahmadis claim, stimulated by their rapid success, similar growth of their followers throughout West Africa, with the exception of Gambia, where the defeated and horrified Christian missionaries forced the British government to reject the application of an Ahmadi missionary for an entry permit on the officially-stated ridiculous grounds that, there were already enough different religions in Gambia.9 (ترجمه) قدامت پسند مالکی (سنی) مسلمانوں کے علاوہ مغربی افریقہ میں ایک اور چھوٹا

Page 123

تاریخ احمدیت 114 جلد 21 سافرقہ بھی ہے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں یعنی احمدیت کے پیروکار.یہ ایک تبلیغی تنظیم ہے جس کا موجودہ مرکز پاکستان میں ربوہ اور بھارت میں قادیان ہے.احمدیوں نے مغربی افریقہ میں 1920 ء کی دہائی میں نفوذ کیا.یہ تحریک برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے.جس میں عیسائیت اور پرانے مذاہب کے لوگ داخل ہو رہے ہیں.احمدیوں کی ترقی کی رفتار کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گھانا کے اندر ان کی تعداد 22,572 تھی جو پچاس ہزار تک پہنچ چکی ہے.یہ ایک منظم تبلیغی تحریک ہے جس کے پاس نہایت فعال اور بے لوث قربانی کرنے والے کارکن موجود ہیں.جماعت اپنے افریقی نو مسلمانوں کو سیکنڈری سکول تک عمدہ تعلیمی سہولیات مہیا کرتی ہے.اس تیز رفتار کامیابی کی بناء پر احمدیوں کو مغربی افریقہ کے دیگر ممالک میں بھی ایسی ہی ترقیات حاصل ہوئی ہیں سوائے گیمبیا کے جہاں کے شکست خوردہ اور خوفزدہ عیسائی مبلغین نے برطانوی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ احمدی مبلغ کو ہرگز داخلے کی اجازت نہ دے اور سرکاری طور پر اس انکار کی نہایت مضحکہ خیز وجہ یہ بیان کی گئی کہ گیمبیا میں پہلے ہی کافی مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں.“ اب یہ بتانا مقصود ہے کہ گیمبیا حکومت کی مخالفت کے باوجود مولا ناسیم سیفی صاحب نے چیف ایمیگریشن آفیسر باتھرسٹ سے خط و کتابت مسلسل جاری رکھی.نیز 15 اگست 1955ء کو گیمبیا کے ڈھائی سو معززین کی طرف سے گورنر گیمبیا کو اپنے دستخطوں سے عرضداشت پیش کی کہ احمدی مبلغ کو داخلہ کی اجازت دی جائے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی.جناب نسیم سیفی صاحب نے یہ تفصیل ایک خط کی صورت میں اخبار ویسٹ افریقہ (WEST AFRICA) مورخہ 28 جنوری 1956 ، صفحہ 4-8 میں شائع کر دی تاکسی طرح گیمبیا کے سرکاری حلقوں میں کوئی حرکت پیدا ہو جائے.10 اس ضمن میں آپ نے دو مزید مفید اور مؤثر قدم اٹھائے.ایک تو اس معاملہ میں برطانوی پارلیمنٹ کے بعض ممبروں سے رابطہ کی صورت پیدا کی ، دوسرے گیمبیا کی جماعتی تنظیم و تربیت اور پاکستانی مبلغ کی راہ ہموار کرنے کے لئے پہلے نائجیریا کے ایک مخلص احمدی دوست مسٹر حمزہ سینالو صاحب کو پھر غانا مشن کی طرف سے جناب جبرئیل سعید صاحب جیسے مشنری بھی گیمبیا بھیجے گئے.چنانچہ جناب مولوی مبارک 11 احمد صاحب ساقی سابق مبلغ نائجیریا کا تحریری بیان ہے: ایک خط امام مسجد لنڈن کو لکھا گیا کہ وہ برطانیہ میں ہاؤس آف پارلیمنٹ میں یہ سوال

Page 124

تاریخ احمدیت 115 جلد 21 اٹھائیں کہ ہمیں اجازت کیوں نہیں دی جا رہی.انہی دنوں انگلینڈ میں پارلیمنٹ کا ایک وفد نائیجیریا آیا جن میں لیبر پارٹی کے ایک ممتاز رکن MR.FENNER BROCK WAY بھی تھے جو بعد میں LORD BROCK WAY بنا دے گئے.ہم لوگوں نے ان سے نائجیریا میں ملاقات کی اور یہ معاملہ ان تک پہنچایا.انہوں نے کہا کہ برطانیہ واپس پہنچ کر وہ کالونیکل سیکرٹری سے پتہ کروائیں گے.لارڈ برا کوے نے اپنے طور پر گیمبیا سے حالات کا پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ وہاں کا پڑھا لکھا طبقہ اس بات کا شدید خواہشمند ہے کہ جماعت احمدیہ کا مشن وہاں کھولا جائے.کیونکہ مغربی افریقہ کی دیگر نو ابادیات میں جماعت احمد یہ مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے بہت کام کر رہی ہے.اجازت ملنے سے قبل مکرم نسیم احمد سیفی صاحب نے مرکز کی اجازت سے یہ اہتمام کیا کہ جتنی دیر ہمیں پاکستانی مبلغ کے داخلہ کی اجازت نہیں ملتی ہم کسی افریقن احمدی دوست کو بطور مبلغ وہاں بھجوا دیں.گیمبیا میں اسوقت جماعت قائم ہو چکی تھی اور انہیں تربیت اور تبلیغ کے لئے ایسے شخص کی ضرورت تھی جو احباب جماعت میں تنظیم کے علاوہ پاکستانی مبلغ کے آنے کے لئے راہ ہموار کرے.چنانچہ احباب کے صلاح ومشورہ کے ساتھ نائجیر یا جماعت کے ایک مخلص سمجھ دار اور جماعتی لٹریچر سے واقف کار دوست مسٹر حمزہ سینالو صاحب کو گیمبیا بھجوایا گیا.انہوں نے وہاں پر چھ ماہ تک کام کیا.تبلیغ وتربیت کا سلسلہ جاری رکھا.وہ اپنی کار کردگی کی رپورٹ مولانا سیم سیفی کو بھجواتے رہے.اس کے بعد غا نامشن کی طرف سے وہاں کے دیرینہ تجربہ کار مبلغ جناب جبرئیل سعید صاحب کو گیمبیا بھیجا گیا....انہیں وہاں تبلیغ کی ممانعت نہ تھی بالخصوص اس لئے بھی کہ جماعت المؤمنین نے مکرم سیفی صاحب کو وہاں کے مقتدر احباب کے دستخطوں کے ساتھ ایک اپیل بھجوائی تھی جس میں درخواست کی گئی تھی کہ انہیں پاکستانی مبلغ بھجوایا جائے.مسٹر حمزہ اور جناب جبرئیل سعید صاحب نے نہایت اخلاص اور تندہی سے ملک کا دورہ کیا.ان کی رپورٹ کے مطابق 1960 ء تک اس ملک میں احمدیوں کی تعداد 800 تک پہنچ چکی تھی.13 اس دوران گیمبیا کے مخلص احمدیوں نے غوث مصطفیٰ کیفا صاحب کو اپنا صدر منتخب کر لیا اور ایک

Page 125

تاریخ احمدیت 116 جلد 21 ایگزیکٹو کمیٹی بنا کر اپنا نام احمد یہ موومنٹ گیمبیا برانچ رکھ لیا اور گورنر صاحب کی خدمت میں ایک اور محضر نامہ بھیجا جس پر باتھرسٹ کے سینکڑوں احباب کے دستخط تھے.خلاصہ اس کا یہ تھا کہ برطانوی حکومت مذہبی آزادی کی علمبردار ہے.اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے پادریوں کو گیمبیا میں پوری آزادی حاصل ہومگر چیف امام صاحب اور ان کے چند متعلقین کی بناء پر احمد یہ مشن کے قیام کی اجازت نہ دی جائے اور مذہبی آزادی کا بنیادی حق پامال کیا جائے.براہ کرم اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی فرما ئیں.انہوں نے گیمبیا کے تعلیم یافتہ طبقے کی طرف سے گیمبیا پریس سے بھی رابطہ قائم کر لیا.چنانچہ ملکی اخبارات نے مطالبہ کے حق میں مؤثر آواز بلند کی.نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر گورنر گیمبیا ہز ایکسی لینسی سرایڈورڈ ہنری ونڈ لی کے سی ایم جی H.E.SIR EDWARD HENRY WINDLY KC.M.G) نے احمد یہ مشن کھولنے کی اجازت مرحمت فرمائی.جسکی اطلاع 7 دسمبر 1960ء کو جماعت احمد یہ گیمبیا کے پریذیڈنٹ صاحب کو موصول ہوئی.14 مشن کی داغ بیل کے لئے مرکزی مبلغ کی روانگی مرکز احمدیت نے منظوری کی اطلاع ملتے ہی مستقل مشن کے قیام کے لئے چوہدری محمد شریف صاحب فاضل مجاہد بلا دعر بیہ کو نامزد فر مایا اور آپ 12 فروری 1961ء کور بوہ سے عازم گیمبیا ہو گئے اور لبنان، شام، اٹلی، نائجیریا اور غانا میں قیام فرمانے کے بعد 10 مارچ 1961 ء کو باتھرسٹ پہنچے.ہوائی اڈہ پر احمدی اور غیر احمدی معززین نے آپ کا پُر جوش استقبال کیا اور کلمہ توحید لا اله الا الله محمد رسول اللہ کا سرمدی نغمہ پڑھتے ہوئے ایک جلوس کی صورت میں داخل شہر ہوئے اور ساتھ ہی پبلک میں ایساذ وق و شوق پیدا ہو گیا کہ آپ سے ملاقات کا ایک عام سلسلہ جاری ہو گیا.محترم چوہدری صاحب نے ابتداء ہی میں ہز ایکسی لینسی گورنر صاحب گیمبیا سے ملاقات کی اور ان کی خدمت میں قرآن کریم کے ترجمہ انگریزی اور احمدیت حقیقی اسلام کا مقدس تحفہ پیش کیا نیز احمدیہ مشن کی اجازت پر بھی حد یہ تشکر ادا کیا.تبلیغی مساعی کا با ضابطہ آغاز 15 2 اپریل کا وہ تاریخی دن ہے جبکہ آپ نے لنکاسٹر سٹریٹ میں مکان نمبر 75 کرایہ پر لے کر اشاعت احمدیت کی منتظم جدوجہد کا آغاز فرمایا.5 اپریل مشن ہاؤس میں قرآن کلاس جاری کر دی گئی جسمیں ابتدا 20-25 احباب شامل ہوئے.اس یادگار اولین کلاس میں سر فاریمان (FARIMANG) محمد

Page 126

تاریخ احمدیت 117 جلد 21 سنگھاٹے بھی تھے.آپکا تعلق گیمبیا کے میڈ نگو قبیلے سے تھا اور ملک کے مشہور لیڈروں میں سے تھے.10 25 مئی 1961ء کو عیدالاضحیہ کی شاندار اور پر مسرت تقریب ہوئی جسمیں پانچو مخلصین تشریف لائے.آپ نے انگریزی میں ایک نہایت مؤثر خطبہ دیا جس کا وولف زبان میں ترجمہ جناب علی مختار با صاحب نے کیا.خطبہ سے سب حاضرین بہت محظوظ ہوئے اور احمدی اور غیر احمدی احباب نے متفقہ طور پر اس رائے کا اظہار کیا کہ ہم نے آج تک عید الاضحیہ کی حقیقت کو نہیں سمجھا تھا اور نہ ایسی باتیں ہمارے کسی امام نے بتائیں.اصل اسلام یہی ہے جسے احمدیت پیش کرتی ہے.اس خطبہ سے احمدیت کا خوب چرچا ہوا.اور اگلے روز ہی گیمبیا کے سب سے بڑے مسلمہ عالم دین اور جسٹس الحاج داؤ دانچی بھی حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے.چند روز بعد علامہ ابراھیم قادر نے بھی بیعت کر لی.آپ ان حضرات علماء میں سے ایک تھے جنہوں نے چیف امام صاحب باتھرسٹ کے ساتھ اس عرضداشت پر دستخط کئے تھے کہ گیمبیا میں احمد یہ مشن کے قیام کی اجازت نہ دی جائے.اس مشن ہاؤس میں زائرین پہلے سے زیادہ تعداد میں آنے لگے.اور وہ تبلیغ کا وسیع مرکز بن گیا.خود محمد شریف صاحب نے مقامی احمدیوں کے تعاون سے نامور اور با اثر افراد تک پیغام حق پہنچانے کی کوششیں تیز تر کر دیں.جون کے پہلے ہفتہ میں آپکی قیادت میں جماعت احمدیہ کے ایک نمائندہ وفد نے جس میں غوث مصطفی کنینا صاحب ( پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ گیمبیا)، علی با صاحب ، آش مالک انڈوئی صاحب اور عمر جوف صاحب بھی شامل تھے قصبہ گنجور کے چیف جنڈ والطور سے تبلیغی ملاقات کی.یہ وفد ایک امام المامی کی مسجد میں بھی گیا جہاں چوہدری صاحب نے عربی میں خطاب فرمایا.70 اگست 1961 ء کو آپ نے پکٹن سٹریٹ ہاتھرسٹ میں کرایہ کی دکان میں احمد یہ بک ڈپو کا افتتاح کیا جسے بعد میں احمد یہ مشن ہاؤس میں تبدیل کر دیا گیا.بک ڈپو کے ذریعہ تبلیغ احمدیت میں مزید وسعت پیدا ہوئی.اگست کے دوسرے ہفتہ میں گیمبیا مشن کی طرف سے ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ جاری کیا گیا.پہلاٹریکٹ ایک ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا.ٹریکٹ کا عنوان تھا: "YOUR IMAM HAS COME" اسکے بعد مندرجہ ذیل تین ٹریکٹ شائع کئے گئے : "LISTEN TO THE WARNER" “AN UNCHANGEABLE LAW OF GOD" 21- “DISCOVERY OF BAHAISM" ان ٹریکٹوں کے علاوہ احمدیہ مشن نائجیریا کے احمدی اخبار ”THE TRUTH“ کے

Page 127

تاریخ احمدیت 118 جلد 21 1220 پر چے بھی نیز ریویو آف ریلیجن اور مسلم ہیرلڈ کے پرچے بھی.مبشر احمدیت کی شبانہ روز کوششوں کے نتیجہ میں 31 دسمبر 1961 ء تک 64 بالغ اور خوش نصیب نفوس داخل احمدیت ہوئے.مشن کا دوسرا سال اگلے سال 1962ء میں آپ نے زائرین کو پیغام حق پہنچانے کے علاوہ ملک کی باثر شخصیات کو دینی لٹریچر پیش کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی.اس سال دو لوکل مبلغ احمد گائی (GAYE) اور الشیخ ابراهیم عبدالقادر جکینی بھی میدان عمل میں آگئے.احمد گائی صاحب کے ذریعہ اگلے سال کی آخری سہ ماہی میں جارج ٹاؤن کی نئی جماعت قائم ہوئی اور اشیخ ابراھیم کی کوشش سے باکاؤ (BAKAU) میں جماعت کو نمایاں ترقی ہوئی.21 اکتوبر 1962ء تک چوہدری محمد شریف صاحب کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے والے خوش نصیبوں کی تعداد 100 تک پہنچ گئی جس میں ہر طبقہ اور ہر قبیلہ کے لوگ اور کونسلر اور معزز افسران حکومت بھی شامل تھے.اور جماعت ملک کی چاروں ڈویژنوں کے تیرہ مقامات پر قائم ہو گئی.اس سال محمد ن سکول اور گیمبیا ینڈ وم ٹیچر ٹرینگ کالج میں پہلی بار آپ کے لیکچر ہوئے.و مشن کا تیسرا سال جنوری 1963ء میں آپ نے پبلک لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا.کیم جون 1963 ء کو آپ نے جسوانگ میں تعلیم الاسلام کلاس کھولی جس میں چالیس طلبہ رجسٹر ہوئے.یہ کلاس ایک سال تک جاری رہی.1963ء میں جو نفوس احمدیت میں شامل ہوئے ان میں فاریمان محمد سنگھاٹے بھی تھے جنہیں جماعت احمد یہ گیمبیا نے اس سال اپنا وائس پریذیڈنٹ اور اگلے سال پریذیڈنٹ منتخب کر لیا.0 1964ء میں گیمبیا ریڈیو ٹیشن قائم ہوا جس نے پہلی بار جماعت احمد یہ گیمبیا کی عید الفطر اور عید الاضحیہ کی نمازیں نشر کیں.اس طرح جماعت احمدیہ کی آواز ملک کے کونے کونے تک پہنچنے لگی.مبشر احمدیت چوہدری محمد شریف صاحب تین سال سے زائد عرصہ تک کامیاب تبلیغی فرائض بجالانے کے بعد 5 جون 1964 ء کو باتھرسٹ سے واپس روانہ ہوئے اور 9 جولائی 1964 ء کور بوہ تشریف لے آئے.

Page 128

تاریخ احمدیت 119 جلد 21 حضرت مولانا غلام احمد بدوملہی صاحب کی آمد ابھی آپ گیمبیا میں ہی تھے کہ مرکز کی طرف سے مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی کو بطور انچارج مشن بھجوایا گیا.مولانا صاحب موصوف 29 اپریل 1964ء کو باتھر سٹ پہنچے.اور تقسیم لٹریچر زائرین سے ملاقات لیکچرز اور تبلیغی دوروں سے احمدیت کو پھیلانے میں منہمک ہو گئے.18 فروری 1965 ء کو جشن آزادی منایا گیا.اس تقریب میں جن مذہبی لیڈروں کو دعا کرنے کے لئے مدعو کیا گیا ان میں آپ بھی شامل تھے.آپ نے مائک پر بلند آواز سے سورۂ فاتحہ کی تلاوت کی پھر اس کا انگریزی ترجمہ سنایا اور پھر دعا کی.جشن کی پوری کارروائی ریڈیو پر نشر ہوئی.مئی 1964 ء سے اپریل 1965 ءتک 82 افراد نے قبول حق کیا.مئی 1965 ء کے آخری عشرہ میں مرکز کی طرف سے مشن کے کام اور ملک میں سیکنڈری سکول جاری کرنے کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے سید میر مسعود احمد صاحب گیمبیا بھجوائے گئے.آپ نے ملک کے قائم مقام وزیر اعظم اور وزیر لوکل گورنمنٹ سے بھی ملاقات کی جنہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جماعت جلد جلد ترقی کرے تاکہ مسلمانوں کی پسماندگی دور ہو اور وہ بھی اپنے اہل وطن کے شانہ بشانہ قوم وملک کی خدمت کر سکیں.ایک نشان.ایک یادگار واقعہ 36 35 حضرت مولانا بدوملہی صاحب کے دور کا اہم ترین واقعہ یہ ہے کہ فروری 1965 ء میں گیمبیا کو مکمل آزادی حاصل ہوئی اور دسمبر 1965ء میں ملکہ انگلستان نے الحاج ایف ایم سنگھاٹے ( پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ گیمبیا) کو گیمبیا کے ایکٹنگ گورنر جنرل ہونے کا اعلان کیا.الحاج سنگھائے صاحب نے 9 فروری 1966 ء کو اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا.ایکٹنگ گورنر جنرل ہونے پر آپ کو تحریک ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوخوشخبری دی ہے کہ 'بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ میں گے لہذا مجھے بھی حضور کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈنی چاہئے.اس پر انہوں نے حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور مجھے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس کپڑوں میں سے کوئی کپڑا بطور تبرک عطا فرمائیں تا میں اس سے برکت حاصل کر سکوں.حضور نے یہ درخواست منظور فرمائی اور 14 جون 1966ء کو چوہدری محمد شریف صاحب کو یاد فرمایا اور انہیں اپنے دست مبارک سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک تبرکات میں سے ایک کپڑا عنایت فرمایا جو سفید رنگ کا باریک اور ملائم کپڑا تھا اور چھوٹے سے رومال کے سائز کا تھا.حضور نے اسے سبز سائن کے ایک لفافے میں رکھا تھا جس

Page 129

تاریخ احمدیت 120 جلد 21 کا سائز اندازاً 2.1/2 × 3.1/2 انچ تھا.یہ لفافہ تین طرف سے سلا ہوا تھا.اوپر سے کھلا اور سچ بٹن سے بند کیا ہوا تھا.حضور نے اس مقدس کپڑے پر اپنے قلم مبارک سے دستخط فرمائے اور اس کے نیچے حضور کے ارشاد کے مطابق خلیفہ اسیح الثالث کی مہر لگا دی گئی اور 14.6.1966 کی تاریخ بھی لکھ دی گئی.چوہدری محمد شریف صاحب نے یہ مقدس کپڑا رجسٹر ڈ لفافے میں مولوی عبد الرحمن انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ امسیح ، مولانا جلال الدین شمس ناظر اصلاح وارشاد اور بعض دوسرے موجود ا حباب کے سامنے ان سب کو دکھلا کر بند کر دیا اور لاکھ کی مہریں اس پر لگا دیں گئیں.15 جون 1966ء کو حضور کی خدمت میں اسے پیش کیا گیا.حضور انور نے بعد ملاحظہ اسے بذریعہ ہوائی ڈاک ارسال کر دینے کی منظوری عطا فرمائی اور یہ مقدس تحفہ سپر د ڈاک کر دیا گیا جو 5 جولائی 1966ء کو ہز ایکسیلنسی الحاج سنگھاٹے صاحب کو بحفاظت پہنچا اور الی انہوں نے اسی روز اس کی وصولی کی اطلاع حضور کی خدمت میں بذریعہ تار ارسال کی اور حضور کی اس شفقت و نوازش پر تہہ دل سے حضور کا شکر یہ ادا کیا.علاوہ بریں 5 جولائی کو ہی شام کے وقت بی بی سی لنڈن سے حکومت برطانیہ کی طرف سے یہ اعلان نشر ہوا کہ ملکہ برطانیہ نے الحاج ایف ایم سنگھائے ایکٹنگ گورنر جنرل گیمبیا کو آج کی تاریخ سے گیمبیا کا گورنر جنرل مقرر کر دیا ہے.الغرض الحاج ایف ایم سنگھائے وہ پہلے خوش نصیب سر براہ مملکت ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقدس کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کا عظیم الشان اعزاز نصیب ہوا.حضرت مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی ڈھائی سال تک خدمات دینیہ بجالاتے رہے.آپ کے عرصہ قیام میں دوسو سے زائد نفوس نے بیعت کی اور سالکینی ، فرافینی اور سیرا گھنڈ میں مساجد تعمیر ہوئیں.آپ نے بھی تعلیم القرآن، درس القرآن اور مجالس سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھا.27 دسمبر 1966ء کو آپ واپس پاکستان تشریف لائے.دوسرے مجاہدین احمد بیت گیمبیا چوہدری محمد شریف صاحب کو گیمبیا مشن کا چارج سنبھالنے کے لئے دوبارہ بھجوایا گیا.آپ 3 فروری 1967ء کور بوہ سے روانہ ہو کر 14 فروری 1967ء کو باتھرسٹ پہنچے اور تقریباً ساڑھے تین سال تک تبلیغی خدمات بجالانے کے بعد 8 ستمبر 1970 ء کور بوہ واپس تشریف لائے.آپ کے زمانہ قیام میں مندرجہ ذیل مبلغین بھی مرکز سے بھجوائے گئے جس سے تبلیغی کام کا دائرہ خاصا وسیع ہو گیا: مولوی دا ؤ د احمد صاحب حنیف روانگی از ربوہ 27 مارچ 1966 ء.واپسی ربوہ 21 دسمبر 1969 ء)

Page 130

تاریخ احمدیت 121 جلد 21 مولوی اقبال احمد غضنفر صاحب شاہد روانگی از سیرا از سیرالیون 26 مئی 1969 ء.واپسی ربوہ 30 مئی 1971ء) مرزا محمد اقبال صاحب شاہد ( روانگی از ربوہ 14 اکتوبر 1969 ء.واپسی ربوہ 10 فروری 1974ء) چوہدری محمد شریف صاحب نے ستمبر 1967ء میں پبلک لیکچروں کا آغاز فرمایا اور اس کی ابتداء باتھرسٹ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے لیکچر لنڈن ”امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ“ سے کی.اس لیکچر کا حاضرین پر نہایت اعلیٰ اثر ہوا اور انہوں نے تسلیم کیا کہ مغرور یور چین اقوام کو اس لب ولہجہ میں وہی شخص خطاب کر سکتا ہے جو خود موید من اللہ ہو.حضور کا یہ معرکہ آرا لیکچر تمام عمائدین گیمبیا اور تمام ارکان وارباب حکومت کو پہنچا دیا گیا اور ملک کے دوسرے طبقوں میں بھی اس کی خوب اشاعت کی گئی.گورنر جنرل نے یہ لیکچر خاص طور پر پسند کیا.فروری 1968 ء میں حکومت گیمبیا نے احمد یہ میڈیکل مشن کے قیام کی منظوری دے دی اور 10 جون 1968 ء کو ڈاکٹر سعید احمد صاحب ایم.بی.بی.ایس ، ڈی.پی.ایچ گیمبیا کے پہلے میڈیکل مشنری کی حیثیت سے باتھرسٹ میں تشریف لائے اور کا دور (KAUR) مقام میں میڈیکل سنٹر قائم کر کے طبی خدمات کا آغاز کر دیا.اسی مہینہ میں مرکزی احمد یہ مشن کے لئے باتھرسٹ کے وسط میں ایک قطعہ زمین اور خرید لیا گیا.چوہدری محمد شریف صاحب 1961 ء سے احمد یہ سکول کے قیام کے لئے جد و جہد فرما رہے تھے مگر اس میں کامیابی سات سال بعد ہوئی.چنانچہ جولائی 1968 ء میں حکومت نے اس غرض کے لئے باتھرسٹ کے قریب سترہ ایکٹر زمین کی منظوری دے دی اور اس سے ملحق مزید چونتیس ایکڑ زمین بھی اسکی توسیع کے لئے مخصوص کر دی.1968ء میں 191افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.انکے بیوی بچے اس تعداد کے علاوہ تھے.احمد یہ میڈیکل سنٹر خدا کے فضل سے بہت جلد مرجع خلائق بن گیا اور اسے ایسی شہرت ہوئی کہ قصبہ فرافینی کے باشندوں کی درخواست پر اس علاقہ میں 3 جنوری 1969ء کو اسکی ایک شاخ قائم کر دی گئی.ہز ایکسیلنسی گورنر جنرل گیمبیا الحاج سنگھاٹے صاحب نے جنوری کے آخر میں اسے ملا حظہ کیا اور از حد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ نے اس ملک اور اس علاقہ کی حقیقی ضرورت کو پورا کیا ہے.یہ ریمارکس گیمبیا نیوز بلیٹن میں چھپے اور ریڈیو پر نشر ہوئے.

Page 131

تاریخ احمدیت 122 جلد 21 یکم فروری 1969ء کی شام کو چوہدری محمد شریف صاحب گیمبیا کے مخلص احمدی اور فنانشل سیکرٹری علی با صاحب ( کنٹرولر آف کسٹمز ) اور ایک نہایت پارسا اور نیک احمدی دوست مامور سمیع با جان کے ساتھ سلسلہ کا ایک ضروری کام کر کے باتھرسٹ کی طرف آرہے تھے کہ کارٹرک سے ٹکرا گئی اور تینوں بزرگ سخت زخمی ہوئے.ہسپتال میں انہیں فوری طبی امداد پہنچائی گئی مگر مامور سمیع با جان دو گھنٹے بعد رحلت فرما گئے علی با صاحب ( جنگی کار تھی ) ایک ہفتہ تک زیر علاج رہ کر ڈسچارج ہوئے مگر چوہدری محمد شریف صاحب پندرہ دن ہسپتال میں رہے اور یکم مارچ 1969ء کو دوبارہ تبلیغی فرائض بجالانے لگے.اس دوران حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور جماعت کے دیگر بزرگوں اور دوستوں نے بہت دعائیں کیں اور خطوط و تار بھجوائے.گورنر جنرل گیمبیا پہلے تین روز با قاعدہ روزانہ عیادت کے لئے تشریف لاتے رہے.مولوی داود احمد صاحب حنیف ایک ماہ تک آپ کے پاس رہے اور نہ صرف تیمار داری کا فریضہ سنبھالا بلکہ آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع اور فوری ڈاک کے جواب کا انتظام بھی کیا.1969ء کی پہلی سہ ماہی میں سینیگال میں 45 اور گیمبیا میں 49 ا حباب سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.یکم جولائی 1969 ء سے گیمبیا کے اپر رور ڈویژن (U.R.D) میں احمدیہ مشن کی ایک با قاعدہ برانچ قائم ہوگئی.اس روز مولوی اقبال احمد صاحب شاہد اور شیخ ابراهیم عبد القادر جکنی صاحب بصہ پہنچے اور 2 جولائی کو ایک عمدہ مکان کرایہ پر لے کر تبلیغ واشاعت کا کام شروع کر دیا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا انقلاب آفریں دورہ 1970 ء کا سال گیمبیا مشن میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا کیونکہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے دورہ مغربی افریقہ کے دوران اپنے قدم مبارک سے اس سر زمین کو بھی برکت بخشی.حضور یکم مئی 1970ء کو شام پانچ بج کر 6 منٹ پر باتھرسٹ کے فضائی مستقر پر پہنچے جہاں آپ کا نہایت پُر جوش اور والہانہ استقبال کیا گیا.فضائی مستقر سے حضور اٹھارہ کاروں کے قافلہ میں سرسنگھاٹے صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے اور دوسرے روز گیمبیا اٹلانٹک ہوٹل میں قیام فرما ہوئے.اگلے روز حضور نے صدر مملکت سر داؤد جوارا سے ملاقات فرمائی اور گیمبیا میں جماعت کے آئندہ پروگراموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم انشاء اللہ خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر یہاں کے عوام کی بے لوث خدمت کریں گے.پھر فرمایا کہ میں آپ کے لئے ایک عظیم تحفہ لایا ہوں اور وہ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس

Page 132

تاریخ احمدیت 123 جلد 21 کے ہے.اسپر صدر مملکت نے کھڑے ہو کر یہ آسمانی تحفہ وصول کیا.حضور نے فرمایا کہ یہ اس نئی تالیف کا پہلا نسخہ ہے جو سارے مغربی افریقہ میں کسی کو دیا گیا ہے.اسی روز شام کو سابق گورنر جنرل گیمبیا الحاج ایف ایم سنگھاٹے نے حضور کے اعزاز میں اٹلانٹک ہوٹل میں وسیع پیمانہ پر ایک دعوت استقبالیہ کا اہتمام کیا جس میں سربراہ جمہور یہ گیمبیا وزیر تعمیر ومواصلات، وزیر تعلیم ، ہاوسا قبیلے کے امام، کیتھولک مشن کے سربراہ ، باتھرسٹ کے میئر، برطانوی ہائی کمشنر ، امریکن سفیر ، سفیر نائجیریا، لبنان کے کونسل ، پولیس افسران و دیگر متعدد سر بر آوردہ افراد اور معززین شہر نے شرکت کی.حضور کا ہر مہمان سے تعارف کرایا گیا.حضور نے سب شخصیات سے ان کے مناسب حال گفتگو فرمائی.صدر مملکت سے خاصی دیر تک گفتگو جاری رہی.عشائیہ کے بعد حضور نے عہدیداران جماعت کا اجلاس بلایا جس میں حضور نے دریافت فرمایا کہ اس ملک کی کیسے خدمت کی جاسکتی ہے؟ عرض کیا گیا یہاں مسلمان بچوں کے لئے کوئی سکول نہیں اور اسکی اشد ضرورت ہے.حضور نے فرمایا اگر ہم سات سال میں پانچ سکول کھولیں تو ایک دن یونیورسٹی بنانی پڑے گی.نیا میڈیکل سنٹر کھولنے کے لئے حضور نے ڈاکٹر سعید احمد صاحب سے منصوبہ تیار کرنے کا ارشاد فرمایا.اگلے دن 3 مئی کو صبح ساڑھے دس بجے حضور نے گیمبیا گورنمنٹ سیکنڈری سکول میں احمدی احباب اور بہنوں سے ایک نہایت روح پرور اور ولولہ انگیز خطاب فرمایا.جسکا ترجمہ ساتھ ساتھ وولف اور میڈ نگازبانوں میں کیا گیا.خطاب کے بعد حضور نے دعا کی اور سب احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور بچوں کو سینے سے لگا کر پیا رکیا.احمدی مستورات سے حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے ملاقات فرمائی.حضور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اسلام کی فتح کی پو پھوٹ چکی ہے.تمام انسانوں کے دل محمد رسول اللہ اللہ کے لئے جیتے جائیں گے.شام کو حضور نے باتھرسٹ کے نواح میں بنو کا کنڈا کے مقام پر پہلے مسجد اور پھر نصرت ہائی سکول کا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا اور اجتماعی دعا کروائی.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے بھی بنیادی اینٹیں رکھیں.نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم 46 گیمبیا میں حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ مغربی افریقہ کے ملکوں میں خرچ کر دینا چاہئے.یہی وہ زندہ جاوید آسمانی تحریک ہے جو آگے چل کر نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے نام سے موسوم ہوئی.جسکے ماتحت گیمبیا میں ہی نہیں بلکہ نایجیریا، غانا اور سیرالیون میں بھی سکولوں اور میڈیکل سنٹروں کا جال بچھا دیا گیا.5 مئی 1970 ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی گیمبیا سے روانگی کا پروگرام تھا.پونے گیارہ بجے حضور متعلقر پر تشریف لائے اور گیمبیا کا نہایت کامیاب دورہ مکمل

Page 133

تاریخ احمدیت 124 جلد 21 فرمانے کے بعد مبلغین اور دوسرے مخلص احمدیوں کی دعاؤں کے درمیان عازم سیرالیون ہو گئے.چوہدری محمد شریف صاحب حضور کے اس تاریخی دورہ کے بعد چند ماہ باتھرسٹ میں سرگرم عمل رہے اور پھر 19 اگست 1970 ء کوروانہ ہوکر 8 ستمبر 1970ء کور بوہ پہنچے.10 چوہدری صاحب تیسری بار 13 اپریل 1971 ء کو عازم گیمبیا ہوئے اور 27 اپریل کو 50 باتھرسٹ پہنچے.چھ ماہ بعد مرکز سے مولوی داؤ د احمد صاحب حنیف بھی دوبارہ بھجوائے دیئے گئے.تاریخ روانگی 28 نومبر 1971 ء.واپسی 28 مارچ 1976 ء ) جناب مرزا محمد اقبال شاہد صاحب پہلے سے ہی میدان جہاد میں موجود تھے.ان مبشرین احمدیت کی متحدہ کوششوں سے احمدیت کی نشر و اشاعت میں وسعت پیدا ہوئی اور اثر ونفوذ کا تیزی سے اضافہ ہونے لگا.گیمبیا میں میڈیکل سنٹر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے خدا تعالیٰ کی تحریک کے مطابق گیمبیا میں میڈیکل سنٹر اور سکول کھولنے کا جو تاریخی فیصلہ فرمایا تھا 1971ء میں اس کو نہایت شاندار رنگ میں پورا فرما دیا.چنانچہ حضور نے اسی سال نصرت جہاں سکیم کے تحت پانچ ایثار پیشہ اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار احمدی ڈاکٹر گیمبیا بھجوادئے.جنہوں نے باتھرسٹ (بانجل ) ، بھتے ، انجوارہ اور قاعور میں پانچ مزید میڈیکل سنٹر کھول دئے.بعد ازاں اور احمدی ڈاکٹر بھی گیمبیا تشریف لے گئے.بعض اب تک شاندار طبی خدمات بجالا رہے ہیں جیسا کر تفصیل ذیل سے ظاہر ہے: احمد یہ میڈیکل سنٹر (ٹی.بی ) باتھرسٹ ( گیمبیا) 1.ڈاکٹر انوار احمد صاحب 2.میجر ڈاکٹر محمد خان صاحب 3.ڈاکٹر منوراحمد صاحب 4.ڈاکٹر لئیق احمد انصاری صاحب یکم مئی 1971 ء تا5 مئی 1975 ء) اپریل 1794 تا 7 جولائی 1977 ء ) ستمبر 1975 تا 1980ء) (19) (19971979 5.ڈاکٹر عمر الدین صاحب سدھو (7 جنوری 1980 ء تا 1982ء)

Page 134

تاریخ احمدیت 125 احمد یہ میڈیکل سنٹر ( ڈینٹل کلینک ) باتھرسٹ 1.ڈاکٹر احتشام الحق صاحب یکم نومبر 1971 ء تا یکم اگست 1972 ء) 2.ڈاکٹر محمد اجمل صاحب 3.ڈاکٹر محمد شفیق صاحب یکم اگست 1972 ء تا جولائی 1974 ء) جولائی 1974 ء تا اگست 1975 ء) 4.ڈاکٹر داؤ داحمد طاہر صاحب ( یکم اگست 1975 ء تا 22 دسمبر 1983 ء ) 5.ڈاکٹر منور احمد ولد سراج الدین صاحب آف ملتان (20 دسمبر 1975 ء تا 7 مئی 1977ء) دوباره 30 جنوری 2000 ء تا مئی 2007ء) 6.ڈاکٹر فرید احمد صاحب (22 دسمبر 1983 ءتا ؟ ) جلد 21 احمد یہ میڈیکل سنٹر بھی 1.ڈاکٹر کیپٹن طاہر احمد صاحب یکم اگست 1971 ء تامئی 1976 ء) 2.ڈاکٹر ضیاء الحسن صاحب بریگیڈئر ریٹائر ڈ ( 14 جنوری 1980 ء تا فروری 1983 ء) 3.ڈاکٹرنصیرالدین صاحب ( یکم ستمبر 1982 ء تا 16 ستمبر 1985 ء) 4.ڈاکٹر لئیق احمد فرخ صاحب (19 اپریل 1984 ء تا جولائی 1993ء) احمد یہ میڈیکل سنٹر ا نجواره 1.ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب 2.ڈاکٹر محمد اشرف صاحب ( 4 اگست 1971 ء تا اگست 1984 ء) 3.ڈاکٹر منور احمد صاحب ولد غلام رسول صاحب ٹنڈوالہ یا رسندھ یکم تمبر 1971 ء تا 14 ستمبر 1972 ء ) (2) فروری 1986 ء تا 15 جولائی 1991ء) دوباره آمد بانجل 16 جولائی 1991 تا 1998 ء ) احمد یہ میڈیکل سنٹر قاعور 1.ڈاکٹر سعید احمد صاحب 2.ڈاکٹر محمد اشرف صاحب (19801968) ( 26 اگست 1980 ء تا 13 اگست 1985 ء)

Page 135

تاریخ احمدیت 126 جلد 21 3.ڈاکٹر نعیم اللہ شاہد صاحب (30 اگست 1985 ء تا جون 1988ء) ان ہسپتالوں میں غریب مریضوں کا علاج مفت ہوتا ہے اور جولوگ ادا ئیگی کر سکتے ہیں ان سے بھی دوسرے ڈاکٹروں کی نسبت بہت کم چارج کیا جاتا ہے اور اخراجات کے علاوہ بقیہ رقم بھی انہی میڈیکل سنٹروں یا سکولوں میں خرچ کی جاتی ہے.مکرم ڈاکٹر لئیق احمد انصاری صاحب کی رپورٹ کے مطابق جولائی 1983 ء سے جون 1984 ء تک 7414 مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں سے 292 کا مفت علاج ہوا.52 احمد یہ نصرت ہائی سکول کے ابتدائی کوائف احمد یہ نصرت ہائی سکول جس کی عمارت کا سنگ بنیاد سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثاث رحمہ اللہ علیہ نے 3 مئی 1970 کو اپنے دست مبارک سے رکھا 1971 ء کے آخر میں مکمل ہو گیا اور حضور نے چوہدری نسیم احمد صاحب ایم ایس سی کو اس کا پرنسپل مقررفرمایا.آپ کے بعد متعدد پیکر اخلاص و فدائیت احمدی اسا تذہ بھجوائے گئے جن کے اسماء یہ ہیں: احمد یہ نصرت ہائی سکول با نجل 1 - چوہدری نسیم احمد صاحب ایم ایس سی (پہلے پرنسپل ) (6.اکتوبر 1971 ء تا جولائی 1976 ء) 2.اہلیہ چوہدری نسیم احمد صاحب محتر مہ ناصرہ بیگم صاحبہ ایم ایس سی (6.اکتوبر 1971 ء تا جولائی 1976 ء) 3.انیس احمد عقیل صاحب ایم اے (اکتوبر 1973 ء تا اپریل 1982 ء ) -4- محمد احمد صاحب انور حیدر آبادی (1976 1973) 5.نصرت عقیل صاحبہ ایم اے اہلیہ انیس احمد عقیل صاحب (1973 ء تا 1982ء) 6.محمد محمود ا قبال صاحب اکتوبر 1974 ء تا جولائی 1997 ء) 7.منیر احمد بسراء صاحب ایم اے (اکتوبر 1974 تا 1990 اندازاً) 8.مرزا عبد الحق صاحب 9.سید عبدالمؤمن صاحب 10.منیر احمد منیب صاحب اکتوبر 1976 ء تا جون 1988 ء ) (اکتوبر 1978 ء تا اگست 1986 ء ) (فروری 1979 ء تا فروری 1984ء)

Page 136

تاریخ احمدیت 11.عبدالرشید منگلا صاحب 127 نومبر 1979 ء تا اگست 1985 ء ) 12 - بشارت الرحمن زیر وی صاحب (اکتوبر 1983 ء تا جولائی 1987ء) 1973 ء سے 1982 ء تک کے مرکزی مبلغین جلد 21 اس مرتبہ چوہدری محمد شریف صاحب قریباً دو سال تک جہاد تبلیغ میں مصروف عمل رہے.ازاں بعد 18 جولائی 1973ء کو گیمبیا سے واپس روانہ ہوئے اور 9 اگست 1973 ء کور بوہ تشریف لائے.آپ کے بعد مرکز احمدیت سے مندرجہ ذیل مجاہدین اس سرزمین میں پہنچے اور کمال اخلاص و استقلال سے انچارج مشن اور نیشنل امیر کے فرائض بجالانے کی سعادت پائی.حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب.( روانگی از ربوہ 30 جولائی 1973 ء.روانگی از گیمبیا برائے انگلستان 28 مارچ 1975 ء.واپسی 7 دسمبر 1975ء) مولوی داؤ د احمد حنیف صاحب.آپ نے حافظ بشیر الدین صاحب سے چند ہفتوں کے لئے چارج سنبھالا پھر دوبارہ شروع 1978 ء سے امیر ومشنری انچارج مقرر ہوئے اور اگست 1982 ء تک اس عہدے پر فائز رہے.سه بار روانگی از ربوه 2 فروری 1977 ء.واپسی 14 اکتوبر 1982ء) مولوی عبد الشکور صاحب.آپ نے مولوی داؤ د احمد صاحب حنیف سے چارج لیا.روانگی از ربوہ 31 مارچ 1975 ء وا پسی 16 فروری 1978 ء ) اس دوران میں مندرجہ ذیل مبلغین بھی مرکز کی طرف سے بھجوائے گئے جنہوں نے امیر ومشنری انچارج کی زیر ہدایت گیمبیا کے طول و عرض میں احمدیت کا پیغام پہنچانے اور احمدی جماعتوں کو مضبوط اور منظم کرنے میں قابل قدر خدمات انجام دیں.1 مکرم ملک محمد اکرم صاحب.(روانگی 6 نومبر 1973.واپسی 31 مارچ 1977 ء) 2 - مکرم میر عبدالمجید صاحب.( روانگی 24 فروری 1975 ء) واپس پہنچے.فروری 1976 ء میں سیرالیون مشن میں منتقل ہوئے اور 30 اگست 1981 ء کو مرکز میں 3 - مکرم محمد امین چیمہ صاحب ( روانگی از سیرالیون فروری 1976 ء.واپسی ربوہ 25 جولائی 1977 ء ) بضے اور جارج ٹاؤن کے انچارج رہے.

Page 137

تاریخ احمدیت 128 جلد 21 4 - رفیق احمد صاحب جاوید ( روانگی از ربا کی از ربوہ 26 جون 1977 ء.واپسی 19 ستمبر 1981ء) حلقہ جارج ٹاؤن 5 نصیر احمد شاد چیمہ صاحب ( روانگی 22 فروری 1979 ء.واپسی 3 جون 1980 ء ) ان مرکزی مبلغین کے ذکر کے بعد جو وسط آخر 1973 ء سے اگست 1982 ء تک مصروف جہاد رہے اس نو سالہ دور کے بعض ضروری واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا خطاب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب گیمبیا میں بھی رونق افروز ہوئے اور آپ نے 7 ستمبر 1973ء کو گیمبیا ہائی سکول کے ہال میں اسلام اور عدل“ کے موضوع پر پُر اثر خطاب فرمایا.وزرائے مملکت ، اعلیٰ افسران ، چیف جسٹس ، علماء غرض کہ ہر طبقہ و حلقہ کے معززین کثیر تعداد میں شامل تھے.دوران تقریر حاضرین پر محویت کا عالم طاری تھا.تقریر کے بعد گیمبیا کے ایک بہت بڑے عالم الحاج عبد اللہ جوب نے آپ کی عالمی خدمات کو خراج تحسین ادا کیا اور کہا کہ مسلمانان عالم میں آپ ایک بے مثال شخصیت ہیں اور دنیائے اسلام کو آپ پر ناز ہے اور ہمیشہ آپ حق کے علمبر دار ہے ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے روح پرور پیغامات حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے روح پرور پیغامات زیب قرطاس کئے جاتے ہیں جو حضور نے جماعت احمد یہ گیمبیا کے نام ان کے پہلے آٹھ جلسوں کے لئے ارسال فرمائے اور جنہوں نے مخلصین جماعت میں زندگی کی نئی روح بھر دی اور جماعت کا قافلہ اس ملک میں بھی ترقی کی منازل طے کرنے لگا.پہلا جلسہ سالانہ پہلا جلسہ مولوی داؤد احمد صاحب حنیف کے عہد امارت میں 28 تا 30 مارچ 1975ء میں انعقاد پذیر ہوا جس کی خبر بار بار ریڈیو پر نشر ہوئی.خبر میں سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کے ایمان افروز پیغام کا خلاصہ بھی دوہرایا گیا جس سے سارا ملک گونج اٹھا.دوسرا جلسہ سالانہ 16 - 17 اپریل 1976ء کو بنجول میں ہوا.اس کے اختتامی خطاب کی صدارت وزیر خزانہ آنریبل الحاج گار با جاھمپا صاحب (JAHUMPA) نے کی جبکہ اختتامی اجلاس مولانا نسیم سیفی صاحب

Page 138

تاریخ احمدیت 129 جلد 21 ( نائب وکیل التبشیر ) کی صدارت میں ہوا.گیمبیا اور سینیگال کے احمدی احباب کے علاوہ ملک کی متعدد سر بر آوردہ شخصیتوں نے بھی شرکت کی.وزیر خزانہ نے جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمات کا کھلے بندوں اعتراف کرتے ہوئے انہیں ازحد سراہا.تیسرا جلسه سالانه 22 مئی 1977ء کو منعقد ہوا.کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کے فرائض مرکزی حکومت کے وزیر آنریبل محمد و گاوی صاحب نے انجام دئے اور اپنی تقریر میں جماعت احمدیہ کی طبی اور تعلیمی خدمات کی بہت تعریف کی.ریڈیو پر بھی کانفرنس کی روداد نشر ہوئی.چوتھا جلسہ سالانہ 58 24، 25، 26 مارچ 1978ء کو انعقاد پذیر ہوا.ملک کے وزیر صحت آنریبل سی جیلو نے افتتاحی اجلاس میں صدارت کے فرائض انجام دئے اور جماعت احمدیہ کی گیمبیا میں تعلیمی اور طبی خدمات کو سراہا.اس تقریب کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا جو مکرم مولوی دا و داحمد صاحب حنیف نے پڑھ کر سنایا جسکی ریڈیو اور اخبارات کے ذریعہ وسیع پیمانہ پر اشاعت ہوئی.پیغام کا متن حسب ذیل تھا: "بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم پیارے بھائیو اور بہنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ مارچ کے آخری ہفتہ میں آپ اپنا جلسہ سالانہ منعقد کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرے اور اس اجتماع کو آپ سب کے لئے با برکت بنائے.آمین میرے عزیز و! بے چینی اور بے اطمینانی دنیا میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے.علم کے میدان میں غیر معمولی کامیابیوں کے باوجود انسان ذہنی سکون سے محروم ہے.مغرب تہذیب کا دعویدار ہے جبکہ حقیقی تہذیب نا پید ہے.ہر ایک مساوات کا نعرہ تو لگاتا ہے مگر اس پر عمل کوئی نہیں کرتا.حیات انسانی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس میں رنگ ونسل کا تفرقہ روا نہ ہو.

Page 139

تاریخ احمدیت 130 جلد 21 بڑی بڑی اقوام ہر ممکن طریق سے تیسری دنیا کی اقوام کے استحصال میں مصروف ہیں.الغرض یہ کہ دنیا حضرت محمد کے پیغام کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ایک بحران کا شکار ہے.ہر قسم کے ذرائع ابلاغ کے باوجود دنیا کا اکثر حصہ اس پیغام سے بے بہرہ ہے.یا جن تک یہ صدا پہنچی بھی ہے انہوں نے اسے حقیقی توجہ کے لائق نہیں سمجھا.ان حالات میں آپ پر لازم ہے کہ اسلام کو اکناف عالم میں پہنچانے کے لئے اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کارلائیں..تاہم آپ کی پہلی ذمہ داری آپکی قوم کے متعلق ہے.آپکو کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تم مہدی علیہ السلام کی جماعت ہو لہذا آپ پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.قرآنی پیشگوئیوں اور حضرت محمدیہ کے واضح ارشادات کے مطابق جملہ مذاہب پر اسلام کی آخری فتح امام مہدی اور اسکی جماعت کے ذریعہ مقدر ہے.خدا تعالیٰ کا مہدی علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ انکے بعد تا قیامت یہ کام ان کے خلفاء کے ذریعہ جاری رہے گا اس لئے حقیقی برکات خلافت سے ہی وابستگی سے ہیں.پس خلافت سے حقیقی و فاداری قائم رکھو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو.قرآن سیکھو اور اپنے افکار و اعمال میں اسے رہنما بناؤ.اپنے اندر حقیقی تبدیلی پیدا کر واور دنیا کو الہی نور سے شناسا کرو اور اپنی خواہشات کو رضائے الہی کے لئے قربان کرو.خدا تعالیٰ کی تجلی صرف اسی صورت میں دنیا دیکھے گی.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کا حافظ و ناصر ہو.والسلام مرزا ناصر احمد خلیفة اصبح الثالث پانچواں جلسہ سالانہ یہ جلسہ بھی اپنی سابقہ روایات کے مطابق 13 14 15 اپریل 1979ء کو نصرت ہائی سکول.6 بانجل کے وسیع احاطہ میں منعقد ہوا جس میں احباب جماعت کے علاوہ ملک کی اہم شخصیات کثیر تعداد میں شامل ہوئیں.اس جلسہ کے لئے بھی حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے ایک اہم پیغام ارسال فرمایا تھا جو ایل ایف جوارا جنرل سیکرٹری نے پڑھ کر سنایا.پیغام کا ترجمہ درج ذیل ہے: عزیز بھائیو اور بہنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ 13، 14، 15 اپریل کو اپنا پانچواں جلسہ

Page 140

تاریخ احمدیت 131 سالانہ منعقد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو با برکت اور کامیاب کرے.اس موقع پر میں اس بات کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد حقیقی اسلام کا احیاء نو ہے.اسلام کا دیگر ادیان پر غلبہ مقدر ہو چکا ہے.اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور نہ ہی اسے کوئی روک سکتا ہے.دنیا میں ہمشرق و مغرب میں ہر جگہ اس کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی اگلی صدی اسلام کے غلبہ کی صدی ہو گی.تمام قومیں اور ہر رنگ ونسل کے لوگ کثرت سے اس میں داخل ہوں گے.پیشتر اس کے ہماری قربانیاں اور کوششیں جہاں تک انسانی طاقت میں ہے اپنی انتہاء تک پہنچ جانی چاہئیں.سب سے پہلے ہر احمدی مرد اور عورت کو 1.قرآن کریم ناظرہ اور اس کا ترجمہ آنا چاہئے 2.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ اپنی عمر اور تعلیم کے مطابق کرنا چاہئے.لہذا اس مقصد کے لئے با قاعدہ کلاسیں لگیں یا دوسرے ایسے طریق اختیار کریں جن سے یہ مقصد پورا ہو سکے.ہم اسلام کی خوبیاں دوسروں پر ظاہر نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم خود ان سے آگاہ نہ ہوں.یہ نہایت اہم معاملہ ہے جس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے.دوسرے ہمیں اپنے معاملات اس طور پر انجام دینے چاہئیں کہ ہمارے اعمال اور کاموں میں اسلام کی حقیقی تصویر ظاہر ہو.آج دنیا ایسے معاشرے کو دیکھنے کی متمنی ہے جہاں اسلام کے اصول پر عمل ہورہا ہو.ایسی مثال پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے.ہر احمدی کو نظام کا پابند اور انسانی ہمدردی اور معاملات میں صاف روی کا مجسمہ ہونا چاہئے.اُسے اپنے ذرائع کے مطابق کمزور و ناتواں کا ہمدرد و مددگار ہونا چاہئے.اسے مسلسل اختلافات کو دور کرنے ، امن کے قیام اور معاشرے کے مختلف طبقات میں یگانگت کے لئے کوشاں رہنا چاہئے.خدا ہمیں اس معیار پر جو قرآن مجید نے مومنوں کے لئے مقرر کیا ہے پورا اترنے کی قوت و طاقت اور جذبہ عطا فرمائے.آمین.چھٹا جلسہ سالانہ خلیفة امسیح 61 جلد 21 6،5،4 اپریل 1980ء کو بانجل نصرت ہائی سکول کے میدان میں ہوا جس میں گیمبیا اور سینیگال کے 500 نمائندگان نے شرکت کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسلام کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں

Page 141

تاریخ احمدیت 132 جلد 21 کریں گے.دوران جلسہ 18 افراد نے احمدیت قبول کی.ریڈیو.ٹی وی اور اخبارات نے وسیع پیمانے پر خبریں دیں.حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے اس جلسہ کے لئے حسب ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا جومولوی داؤ د احمد صاحب حنیف نے پڑھ کر سنایا: مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ گیمبیا جماعت اپنا چھٹا جلسہ سالانہ 4 تا 6 اپریل 80ء منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ اور اس میں شریک ہونے والوں کو اپنی برکات سے نوازے.اس موقع پر میں آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف کرانا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعتی زندگی کی دوسری صدی شروع ہونے میں صرف نو سال باقی ہیں جیسا کہ میں نے متعدد بار آپکو بتایا ہے کہ ہماری زندگی کی دوسری صدی اسلام کے غلبہ کی صدی ہے.ان نو سالوں میں ہمیں اپنے آپ کو اس طور پر تیار کرنا ہے کہ ہم آنے والی صدی کا شایان شان استقبال کر سکیں.خدا تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہوا اور آپ کو اپنا سب کچھ اپنی راہ میں قربان کرنے کی جرات عطا فرمائے.مجھے آپ بہت محبوب ہیں اور میں آپ کے لئے مسلسل دعائیں کرتا ہوں.(خلیفه امسیح الثالث ) ساتواں جلسہ سالانہ 63 17 ، 18 ، 19 اپریل 1981ء کو منعقد ہوا.سینیگال سے بھی بھاری تعداد نے شرکت کی.اس موقع پر پہلی بار اشاعت اسلام پر بنی تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا، وزیر خائر و آب و ہوا محمد احمد وجلوح نے پہلے اجلاس کی صدارت کی اور گیمبیا کا قومی پرچم لہرایا.مولوی داؤ داحمد صاحب حنیف نے احمدیہ پر چم لہرایا.حضرت خلیفة أصبح الثالث نے حسب ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا جو لامن جوا را صاحب جنرل سیکرٹری نے پڑھ کر سنایا.جماعت ہائے احمد یہ گیمبیا کے ساتویں جلسہ سالانہ کے انعقاد پر آپ سب کو دلی مبارک باد دیتا ہوں.وقت کا تقاضا ہے کہ آپ پندرھویں صدی ہجری میں غلبہ اسلام کے لئے اپنی کوششوں کو تیز تر کر دیں اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنا کر اسلام اور انسانیت کی خدمت کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں.خدا تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.آمین مرزا ناصر احمد

Page 142

تاریخ احمدیت آٹھواں جلسہ سالانہ 133 جلد 21 10،9 ،11 اپریل 1982ء کو ہوا.اس جلسہ کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" نے جو روح پرور پیغام دیا اس میں احباب جماعت پر زور دیا کہ وہ اپنی زندگیاں قرآنی تعلیمات کے مطابق بسر کریں کیونکہ دنیا بھر میں اسلام کا غلبہ قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہی ہوگا.رسالہ الاسلام 1979ء میں رسالہ ”الاسلام“ جاری ہوا اس رسالہ کے لئے حضرت خلیفہ المسح الثالث اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد نے خصوصی پیغامات بھجوائے.جدید ہسپتال کا سنگ بنیاد 3اکتوبر 1980ء کو قائمقام صدر عزت مآب جناب احسن موسیٰ قمر صاحب نے تالنڈ نگ کنجا نگ (TALIDING KUNJANG) میں نے ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا اور وہ اینٹ نصب کی جس پر حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے دورہ مغرب 1980ء میں اکرا (غانا) میں دعا کی تھی اور جسے مولوی دا ؤ د احمد حنیف اپنے ساتھ گیمبیا لے آئے تھے.1980ء میں گیمبیا اور سینیگال میں تبلیغی اور تربیتی کام زور وشور سے جاری رہا جس سے جماعت کے اثر و رسوخ میں غیر معمولی اضافہ ہوا.مولوی صاحب موصوف نے پورے ملک کا دورہ کیا ، 3 ہزار کی تعداد میں پمفلٹ شائع کئے ، انچاس بیعتیں ہوئیں.ہائی سکول کی دس سالہ تقریبات مئی 1979ء میں نصرت ہائی سکول کی دس سالہ تقریب منعقد ہوئی جس میں مہمانِ خصوصی صدر گیمبیا سر داؤ دا جوارا صاحب تھے.آپ نے سکول کی کارکردگی کی بہت تعریف کی اور فرمایا اس سکول نے بہت کم عرصہ میں جو معیار حاصل کیا ہے وہ اس جیسے کسی بھی ادارے کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے.آپ نے مسجد ناصر کا بھی افتتاح فرمایا اور مولوی داؤد احمد حنیف صاحب نے دعا کرائی.اس تقریب میں سرکاری اور عوامی طبقوں کی ممتاز شخصیات موجود تھیں.پریس اور ریڈیو نے اس تقریب کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی.69

Page 143

تاریخ احمدیت نئے احمد یہ ہسپتال کی تعمیر 134 جلد 21 SIR) صدر گیمبیا 1982ء کے شروع میں تالنڈ نگ کنجا نگ کے مقام پر نئے احمد یہ ہسپتال کی تعمیر کا پہلا مرحلہ پایہ تعمیل کو پہنچا جس کا افتتاح ہز ایکسی لینسی داؤد جوارا (SIR DAWDDA JAWARA نے 23 مارچ 1982 ء کو کیا.مکرم داؤد احمد صاحب حنیف نے بتایا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خواہش ہے کہ بنجول سینٹر کوٹی بی ڈینٹل سرجری اور آنکھوں کے پیش ہسپتال کی حیثیت حاصل ہو اور آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے پہلے مرحلے کا افتتاح کر رہے ہیں جو کہ ڈینٹل سرجری اور میڈیکل اور ٹی بی ڈیپارٹمنٹ پر مشتمل ہے.انہوں نے بتایا کہ ہسپتال کے دوسرے مرحلے میں بھی کافی کام ہو چکا ہے جو جدید آلات سے مزین اپریشن ٹھیٹر اور 20 بستروں کے وارڈ پر مشتمل ہوگا.بعد ازاں اسے مزید وسعت دے کر اسے 60 بستر کا ہسپتال اور آنکھوں کا سپیشل سینٹر بنا دیا جائے گا.اس سارے منصوبہ میں ڈاکٹروں اور دیگر کارکنوں کے لئے رہائش گاہوں کا انتظام بھی شامل ہے.اس پورے پلان کے کنٹریکٹر گیمبیا کے مخلص احمدی جناب آنسو مانه جارا صاحب تھے.جنہوں نے اپنی جملہ خدمات بلا معاوضہ سرانجام دیں.صدر جمہوریہ گیمبیا نے اپنی تقریر میں پہلے جماعت احمد یہ گیمبیا کے تاریخی آغاز کے پس منظر کا ذکر فرمایا اور پھر جماعت کی ملکی خدمات کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے بھر پور شکر یہ ادا کیا.صدر گیمبیا نے سارے کمپلیکس کا دورہ کیا.ان کے ساتھ سفراء اور اعلیٰ نمائندے بھی تھے.خلافت رابعہ کے اوائل میں نمایاں سرگرمیاں 2 ماہ بعد خلافت رابعہ کا مبارک دور شروع ہوا تو مشن کی تعلیمی وتبلیغی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا.31 جولائی 1982ء کو بصے کے مقام پر ناصر احمد یہ مسلم ہائی سکول کا سنگِ بنیاد جناب ایس سلیمان جیک کمشنر کے ہاتھوں رکھا گیا.انہوں نے گیمبیا کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں جماعت کے نا قابلِ فراموش کردار کی تعریف کی.اس موقع پر اعلیٰ سرکاری افسران ، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر اہم 74 شخصیات نے شرکت کی.مولوی داؤ د احمد حنیف صاحب اس تقریب کے جلد بعد پاکستان آگئے اور مولانافضل الہی صاحب انوری امیر اور مشنری انچارج کی حیثیت سے 11 اگست 1980ء کور بوہ سے روانہ ہوئے اور 23 اگست کو گیمبیا پہنچے.اسی روز جارج ٹاؤن کی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا جس میں آپ نے بھی شرکت فرمائی.اس کے بعد ملک کے مختلف مقامات کا دورہ کیا اور اجتماعی طور پر نہایت پُر جوش انداز میں پیغام حق پہنچانے لگے.آپکی

Page 144

تاریخ احمدیت 135 جلد 21 ایک رپورٹ پر سیدنا حضرت خلیفہ اُمسیح الرابع نے 9 دسمبر 1982ء کو آ پکی رپورٹوں پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا: الحمد للہ آپکی رپورٹیں رفتہ رفتہ بھر پور ہوتی جارہی ہیں اور ما شاء اللہ آپ کام پر کاٹھی ڈال چکے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو سبک رفتاری کے ساتھ خدمت دین میں آگے بڑھنے کی توفیق 75 آپ قریباً چھ ماہ تک دعوت الی اللہ کے فرائض بجا لانے کے بعد 21 مارچ 1983 ء کو بمبیا سے نائیجیریا کی طرف منتقل ہو گئے.آپ پہلے مرکزی مبلغ ہیں جنہیں خلافت رابعہ کے دور میں گیمبیا میں بھجوایا گیا.آپکے بعد مولوی داؤد احمد صاحب حنیف چوتھی بار گیمبیا تشریف لے گئے.آپ 13 اپریل 1983 ء کور بوہ سے عازم گیمبیا ہوئے اور اب تک امیر اور مشنری انچارج کی حیثیت سے نہایت خوش اسلوبی اور تندہی سے دینی خدمات بجالا رہے ہیں.آپکے ساتھ مندرجہ ذیل مرکزی مبلغین بھی دعوت الی اللہ میں مصروف ہیں: 1 - مولوی منور احمد صاحب خورشید ( روانگی از ربوہ 16 مئی 1983 ء ) 2.مولوی عمر علی صاحب طاہر روانگی از ربوہ 21 جون 1983 ء ) مولوی محمد سلیمان احمد صاحب گیمبیا آمد 19 اکتوبر 1984ء) 4.مولوی حفیظ احمد صاحب ان مرکزی مبلغین کے علاوہ مندرجہ ذیل لوکل مبلغین بھی سرگرم عمل ہیں : 1 - مکرم شباباہ صاحب 2 - مکرم محمد سینا گو صاحب 3.اسماعیل طراوے صاحب اس مشن کے ذمہ ارد گرد کے ممالک یعنی مالی، گنی بساؤ اور موریطانیہ میں احمدیت کا قیام بھی ہے اور احمدی مبلغین ، ڈاکٹر ، اساتذہ اور دوسرے مخلص احمدی اندرون ملک تبلیغ کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور اس کے لئے مختلف تبلیغی سکیمیں جاری ہیں اور نئی بیعتوں کی صورت میں اس کے شیریں پھل بھی خدا کے فضل سے حاصل ہو رہے ہیں.چنانچور پورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ تمبر 1983ء میں خدام الاحمدیہ کے ماتحت یوم اتبلیغ منایا گیا

Page 145

تاریخ احمدیت 136 جلد 21 اور پونے آٹھ سوفولڈ تقسیم کئے گئے.18اکتوبر 1983ء کو احمد یہ ہسپتال بانجل میں مجلس سوال و جواب منعقد کی گئی جس میں مولوی داؤد احمد صاحب حنیف نے غیر احمدی معززین کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دئے.اکتوبر ، نومبر 1983ء میں ڈاکٹر لئیق احمد صاحب انصاری اور تبلیغی وفد کے دیگر ارکان دور دراز علاقوں میں پہنچے اور دس گاؤں میں گھر گھر لٹریچر پہنچایا.13 نومبر 1983 ء کو دس افراد پر مشتمل 2 تبلیغی ٹیموں نے سات گاؤں میں پیغام احمدیت پہنچایا.20 نومبر 1983ء کو 21 افراد پر مشتمل 4 تبلیغی ٹیموں نے چھ دیہات کا تبلیغی دورہ کیا اور مکرم داؤ د احمد صاحب حنیف کی تبلیغ سے سینچو (SINCHU) گاؤں کے جملہ افراد جن میں 54 بالغ اور 23 بچے شامل تھے شامل احمدیت ہو گئے.1983 ء کے آخر میں ایک لوکل مبلغ کی رپورٹ کے مطابق موریطانیہ میں 71 دوست سلسلہ احمد یہ میں داخل ہوئے.1984 ء کے پہلے ہفتہ میں میکارتھی آئی لینڈ ڈویژن کے علاقہ میں مولوی منور احمد خورشید صاحب کے ذریعہ سارے جبل اور سارے بکری کے دونوں گاؤں مکمل طور پر احمدی ہو گئے اور ایک گاؤں ٹمانوب کی اکثر آبادی نے احمدیت قبول کر لی.اسی ماہ ٹیم نمبر 3 نے 5 دفعہ مدینہ، کیمبو جے ، بیر کاما اور فراٹو تک پیغام حق پہنچایا.ٹیم نمبر 4 نے بھی تین بار اس تبلیغی جہاد میں حصہ لیا.ٹیم نمبر 2 نے بھی لاٹری ، کنڈا ، پائپ لائن اور لنڈن کارنر کے گنجان آباد علاقوں میں بکثرت لٹریچر تقسیم کیا.سالکینی مقام پر لجنہ کے وفد کے ذریعہ 14 خواتین نے بیعت کی.حضرت خلیفۃ ابیح الرابع نے مولوی حفیظ احمد صاحب شاہد کی رپورٹ 18 مئی 1985 ء پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا: جو گاؤں جماعتوں کے قیام کے لئے معین کئے گئے ہیں وہاں ما شاء اللہ بہت توجہ سے کام کر رہے ہیں.اسی طرح مبلغین اگر عہد کر لیں اور مسلسل قربانی کریں تو اللہ تعالیٰ پھل عطا کرتا ہے..78 گیمبیا مشن نے عربی ، انگریزی اور مقامی زبانوں میں مختلف تبلیغی کیسٹ تیار کئے جن کے ذریعے تبلیغ میں بہت آسانی پیدا ہوگئی ہے اور مبلغین اور دوسرے داعیان الی اللہ اس سے خوب فائدہ اٹھا ر ہے ہیں.اکتوبر 1983ء میں دعوت الی اللہ سکیم کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغی وفود بھجوائے گئے.ایک وفد مکرم ایل ایس جوارا صاحب، ڈاکٹر لئیق احمد صاحب انصاری ، ڈاکٹر نصیر الدین صاحب، ڈاکٹر ڈیکو کسانا اور مسٹر باڈا طراوے پر مشتمل تھا جس نے ڈاوین (DAWIAN) اور کنگنانا

Page 146

تاریخ احمدیت 137 جلد 21 (KANGNATA) میں پیغام حق پہنچایا اورلٹریچر تقسیم کیا بعد از ان یہ وفد کین پینیڈا (KENPENDA) گیا اور وہاں کے چیف سے ملاقات کی.وفد کے لیڈر مسٹر جوارا صاحب نے چیف کے گھر میں موجود تمام احباب کے سامنے مسیح کی آمد اور احمدیت کے مخصوص عقائد پر تقریر کی اور سوالات کے جوابات دئے.اس دوران وفد کے باقی چار ممبر گاؤں کے لوگوں میں لٹریچر تقسیم کرتے رہے.ان تینوں گاؤں کے لوگوں نے وفد کو دوبارہ آنے کی دعوت دی.70 127اکتوبر 1983ء کو بصے میں ناصر احمد یہ ہائی سکول کا افتتاح عمل میں آیا.پہلے پرنسپل مکرم چوہدری سعید احمد صاحب چٹھہ مقرر ہوئے.نومبر 1985ء میں ماریشس سے مکرم نذیر احمد صاحب بگھیلوایم ایس سی بھی پہنچ گئے اور فزکس کا مضمون پڑھانا شروع کر دیا.ان سے قبل اکتوبر 1985ء میں مولوی منور احمد صاحب خورشید اسلامیات اور قرآن پاک کی کلاسز با قاعدہ لینے لگے.0 25 دسمبر 1983ء کو سالکینی کے مقام پر خدام الاحم یہ گیمبیا کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے 75 نمائندے شامل ہوئے.یہ اجتماع بہت کامیاب رہا.اس موقع پر 24 دسمبر کی شب کو ایک تبلیغی جلسہ بھی منعقد کیا گیا.اجتماع کے بعد لجنہ کی تنظیم کو مضبوط کرنے کے لئے صدر لجنہ گیمبیا سر نسیم احمد صاحب اور مسٹر داؤ د احمد صاحب نے دس مقامات کا دورہ کیا جس کے دوران 6 مستورات احمدی ہوئیں.اکتوبر 1984 ء میں مولوی منور احمد خورشید صاحب کی کوشش سے ناصر احمد یہ سکول بصے کے 76 طلبہ نے ایک سال میں قرآن کریم ناظرہ مکمل کر لیا.ان طلبہ کی تقریب آمین 27 اکتوبر 1984 ء کو منعقد ہوئی.کہا جاتا ہے کہ گیمبیا میں غالباً پہلا موقع تھا کہ ایک سال کے عرصہ میں اتنی تعداد میں طلبہ نے قرآن مجید ناظرہ پڑھ لیا ہو.اس وجہ سے علاقہ میں اسکی خاصی شہرت ہوئی.1984 ء کا آخر گیمبیا کے لئے بہت خوش کن ثابت ہوا کیونکہ اس سال نصرت ہائی سکول با نجول اپنے نتیجہ کے اعتبار سے ملک بھر کے باقی تمام سکولوں کے مقابلہ میں مجموعی طور پر اول رہا.اس نو عمر ادارہ کی اپنی چودہ سالہ تاریخ میں یہ رفعت اپنی مثال آپ تھی.مضامین کے لحاظ سے طلبہ نے اقتصادیات ، شماریات، ریاضی اور دینیات میں گریڈ اول حاصل کئے.دینیات میں حسب سابق اکثر طلبہ امتیازی درجہ میں پاس ہوئے جبکہ ریاضی ، شماریات اور تاریخ میں پچاس ساٹھ فیصد طلبہ نے امتیازی نمبر حاصل کئے.مجموعی طور پر 55 فی صد طلبہ معیاری نمبر حاصل کر کے سکول سرٹیفکیٹ کے مستحق ہوئے.بقیہ سب طلبہ بھی جی سی ای پاس قرار دئے گئے.ان قابل فخر طلبہ میں سے ایک احمدی طالب علم لامن لی صاحب ( جو احمدی طلبہ کی تنظیم کے صدر بھی تھے ) نہایت اعلیٰ کامیابی کے ساتھ ملک بھر کے طلباء میں اول آئے.

Page 147

تاریخ احمدیت 138 جلد 21 دینی تعلیمات کے بارہ میں اس ادارہ کو یہ فخر بھی حاصل ہوا کہ یہاں کے مروجہ مفید اور حوصلہ افزا طریق تدریس کے نتیجے میں وزارت تعلیم نے سارے ملک کے لئے علم بائبل کے مقابل پر قرآنی تعلیم کو لازمی قرار دیا.ملکی ضروریات کے پیش نظر اقتصادیات اور شماریات کے مضامین کے اجراء کا سہرا بھی اس ادارہ کے سر ہے.ان مضامین کے اجراء سے نہ صرف ایک ملکی خلاء کو پر کیا گیا بلکہ ادارہ کے فارغ التحصیل طلباء کے لئے یہ مضامین اعلی ملکی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں مد و معاون ثابت ہوئے.ان ایام میں مکرم محمد محمود اقبال صاحب قائمقام پرنسپل تھے اور سٹاف میں پاکستانی ، غانین ، سیرالیون ، برطانوی ، امریکن اور کیمبین اسا تذہ شامل تھے.6،5، 7 اپریل 1985 ء کو گیمبیا کی جماعت کا دسواں سالانہ جلسہ نصرت ہائی سکول پانجل میں منعقد ہوا، جلسہ سے قبل ریڈیو گیمبیا سے پریس ریلیز نشر ہوتا رہا.جلسہ کے اختتام پر گیمبیاریڈیو نے تفصیلی خبر شائع کی.جلسہ گاہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر مبنی بینرز، قطعات اور رنگین جھنڈیوں سے نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا.500 افراد جلسہ میں شامل ہوئے.مستورات کے لئے الگ پردہ کا انتظام تھا.جلسہ کے افتتاح سے قبل احمدیت اور گیمبیا کا پرچم لہرایا گیا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر خصوصی پیغام ارسال فرمایا.مولوی منور احمد صاحب خورشید صاحب قائمقام امیر ومشنری انچارج نے افتتاحی و اختتامی خطاب کیا.اس مبارک اجتماع کے دوسرے مقرریں کے نام یہ ہیں : الحاج ابراهیم جبینی صاحب مولوی حفیظ احمد صاحب شاہد امام عرفانگ کر ا موطراوے حسن کے چام استاذ حامد مبائی مولوی استاد اسماعیل طراوے استادا بوبکر صاحب طورے مولوی عمر علی صاحب طاہر افسر جلسه سالانہ گیمبیا کے فرائض الحاج ایل ایس جوار جنرل سیکرٹری نے سرانجام دئے.83-

Page 148

تاریخ احمدیت 139 جلد 21 وکیل اعلیٰ گیمبیا میں محترم جناب چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ دورہ افریقہ کے دوران 17 جولائی 1985ء کو گیمبیا تشریف لائے.ریڈیو گیمبیا نے آپ کی آمد سے قبل تین زبانوں میں خبر دی جو تین بارنشر ہوئی.آپ نے اگلے روز نائب صدر مملکت آنریبل B.B.DASBOE سے ساڑھے گیارہ بجے سے تقریباً 12 بجے تک ملاقات کی.دوران ملاقات نائب صدر موصوف نے جماعت کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ جماعت کے نتیجہ میں دوسرے مسلمانوں میں حوصلہ پیدا ہوا ہے.اس ملاقات میں آپکے ساتھ مکرم داؤ داحمد صاحب حنیف انچارج مشن اور جماعت کے نیشنل پریذیڈنٹ اور فنانشل سیکرٹری بھی تھے.اس دن آپ نے وزیر صحت سے بھی ملاقات کی.یہ ملاقات بھی نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی.آپ کی آمد پر ایک استقبالیہ تقریب بھی منعقد کی گئی جس میں سیرالیون کے سفراء ، لوکل میڈیکل کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر اور بعض دیگر غیر از جماعت معززین نے بھی شرکت کی.محترم وکیل اعلیٰ صاحب نے اندرون ملک تمام جماعتوں ، میڈیکل سنٹرز اور احمد یہ سکولوں کا معائنہ فرمایا.تبلیغی اور تربیتی خطابات فرمائے.جماعتی عاملہ، ڈاکٹروں ، ٹیچروں اور مبلغین کی میٹنگوں میں ہدایات دیں.مشن کے حسابات ، رجسٹرز اور فائلیں دیکھیں.تربیتی اور تبلیغی کیسٹس کی لائبریری ، نمونہ کی لائبریری اور لٹریچر وغیرہ کا معائنہ کیا.جماعتوں کے دورہ میں مولوی داؤ د احمد حنیف صاحب ہمراہ تھے.یہ دور 0 25 جولائی کو اختتام پذیر ہوا.احباب جماعت نے ایئر پورٹ سے آپ کو دعاؤں سے رخصت کیا.جلسہ سالانہ برطانیہ اور سپین کے مناظر اپریل مئی 1985ء میں احمد ہم مشن کی طرف سے جلسہ سالانہ برطانیہ اور بیت البشارت اسپیکین کی وڈیو کیسٹ دکھائی گئیں نیز حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات اور جلسہ سالانہ برطانیہ کی لیسٹس کا مقامی زبان میں ترجمہ کر کے جماعتوں کو بھجوایا گیا.ان ایام میں داعیان الی اللہ نے نہات سرگرمی سے بانجل، سالکینی بالا با شیلے کو فرافینی سیماٹا یا ڈونگورا فیل سمانابانا نایاب اور کوٹا میں پیغام حق پہنچایا.ایک داعی الی اللہ نے سینی گال کے تین گاؤں کو دعوت حق دی اور لٹریچر دیا.مرکزی اور مقامی مبلغین بھی اعلیٰ شخصیات سے ملاقاتوں، فولڈرز کیسٹس اور تقاریر کے ذریعہ اشاعت احمدیت میں مصروف رہے اور تعلیم القرآن کلاسز کے ذریعہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو میسر نا القرآن نماز اور دینی معلومات کا سبق دیتے رہے.مئی کے وسط اول میں چار افراد کو قبول احمدیت کی توفیق ملی.

Page 149

تاریخ احمدیت 140 جلد 21 1985ء میں بصے کے ناصر احمد یہ ہائی سکول کے 90 طلبہ نے قرآن پاک ناظرہ مکمل کر لیا.اس سلسلہ میں 2 نومبر 1985 ء کو آمین کی شاندار تقریب ہوئی.اکثر غیر از جماعت دوستوں نے مولوی منور احمد صاحب خورشید کو مبارکباد دی اور اس جماعتی خدمت کو سراہا.ایک دوست اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو تاکید کی کہ فوراً جماعت میں داخل ہو جاؤ.چنانچہ اس نوجوان نے بذریعہ خط بیعت کر لی.آمین کی تقریب میں تین سومہمانوں نے شرکت کی جن میں دیہات کے نمبردار، ائمہ اور مختلف شعبوں کے سر براہ اور علاقہ کے تین چیف بھی شامل تھے.گیمبیا کے ریڈیو سے 2 بار اس تقریب کی تفصیلی خبر نشر ہوئی.86.تعلیم وتربیت کلاسز اگست و تمبر 1985 ء میں مندرجہ ذیل مقامات پر تعلیم و تربیت کی کلاسیں جاری کی گئیں.بانجل.لاٹری کنڈا.فرافینی.ڈوٹا بولو.جارج ٹاؤن.مضر.سالکینی.حضرت خلیفہ اسی کا پیغام مجلس شوری کے لئے جماعت احمد یہ گیمبیا کی مجلس شوریٰ کا 1985ء میں انعقاد ہوا.حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے حسب ذیل بصیرت افروز پیغام ارسال فرمایا: پیارے عزیزم داؤ د احمد صاحب حنیف السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے خط سے معلوم ہوا کہ جماعت احمد یہ گیمبیا سالانہ مجلس شوریٰ منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس مشاورت کو بہت برکتوں سے نوازے اور جماعت احمد یہ گیمبیا کے لئے ترقیات کا ایک سنگِ میل ثابت فرمائے.اللہ تعالیٰ جماعت مؤمنین کی ایک نمایاں شان یہ بھی فرماتا ہے کہ جب وہ اپنا کوئی اجتماعی پروگرام مرتب کرتے ہیں تو دعا کے ساتھ اور آپس میں مشورہ کے ساتھ مرتب کرتے ہیں اور جب مومنوں کی جماعت مشورہ کرتی ہے تو اس کے فیصلوں کو اللہ تعالیٰ برکتوں سے معمور کر دیتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے يد الله فوق الجماعة.پس یہ مجلس وہ مجلس ہے جس پر خدا تعالیٰ کی برکتوں اور نصر توں کا ہاتھ ہے اس لئے کہ جماعت کی ترقی ، اس کی عظمت اور اس کے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے آپ پروگرام مرتب کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں.اللہ کرے کہ اس کے دین کی سر بلندی کے لئے آپکا مشورہ ، آپکی رائے اور آپ کی ہر سوچ دعاؤں

Page 150

تاریخ احمدیت 141 جلد 21 کے سانچے میں ڈھل کر خدا تعالیٰ کے حضور قبولیت کا شرف پائے اور جماعت احمد یہ گیمبیا ہر لمحہ تعداد میں بھی اور اپنے اخلاقی ، روحانی اور تربیتی معیار میں بھی ترقی کرتی چلی جائے اور یہ ترقی ضر ہیں کھاتی ہوئی اپنی انتہائی منازل طے کرنے لگے.آمین.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپکی ہر معاملہ میں مددفرمائے.والسلام خاکسار تبلیغی مراکز مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے گیمبیا کے مندرجہ ذیل مقامات پر تبلیغی مراکز قائم ہو چکے ہیں : بانجل (بہا تھرسٹ)، بعضے ، فارافینی ، جارج ٹاؤن ،سالکینی پہلے تین مقامات پر مشن ہاؤس بھی تعمیر ہو چکے ہیں.گیمبیا میں احد ہم مساجد مندرجہ ذیل جگہوں میں بن چکی ہیں : جارج ٹاؤن ، سالکینی ، سابا، فیرافینی ، بصے ، چونگین، سیر اکھنڈا، بنونکا کنڈا مشہور جماعتیں گیمبیا کی مشہور جماعتوں کے نام یہ ہیں: 1 - بنجول (BANJUL) 2.لاٹری کنڈا (LATRI KUNDI) کنٹے گنڈا (KINTEH KUNDA) 4.سابا (SABA) 5.سالکینی (SALIKINE) 6.چانگن (CHONGEN) 7.ڈوٹا بولو (DUTABULU) 8 فیرافینی (FARAFENNI) و سینا چو (SINEHU) 10 - مصر (MISRA) 11.سارے جبل (SAREH JIBEL) 12.سارے بکری (SAREH BAKARI) 13.بے (BASSE) 14 - جارج ٹاؤن (GEORGE TOWN) 15 - لیمن (LAMIN )

Page 151

تاریخ احمدیت تبلیغی اثرات 142 جلد 21 گیمبیا مشن کے تبلیغی اثرات وسیع ہیں اور اس کے ذریعے سینیگال، موریطانیہ، مالی، گنی بساؤ ، اور گنی کوناکری تک جماعت احمدیہ کی آواز پہنچائی جارہی ہے.سینیگال کے دارالسلطنت ڈاکار (DAKAR) نیز کاولک ،لٹ مینگے اور کو ٹال وغیرہ سات مقامات پر احمدی موجود ہیں جن کی تعداد وسط 1985 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 270 تک پہنچ چکی تھی.89 لبنان میں اشاعت احمدیت اس سال مرکز احمدیت ربوہ کی طرف سے لبنان میں پیغام حق پہنچانے کے لئے مولوی نصیر احمد خان صاحب مولوی فاضل ( ابن محمد اسمعیل خان صاحب) کو بھجوایا گیا.آپ ربوہ سے 9 مارچ 1961 ء کو روانہ ہوئے اور نہایت کامیابی سے اپنے فرائض کی بجا آوری کے بعد 10 دسمبر 1963 ء کو واپس ربوہ تشریف لائے.ذیل میں آپ ہی کے قلم سے آپ کی سہ سالہ سرگرمیوں کی ایک جامع رپورٹ پیش کی جاتی ہے.لبنان میں مضطرب ملکی ومذہبی مخالفت کی وجہ سے ہمارے مبلغین کو با قاعدہ بطور مبلغ قیام و کام کی اجازت نہیں.مسیحی اور غیر احمدی مسلمان حلقوں کی طرف سے ہماری مخالفت و سازشیں کی جاتی ہیں.چنانچہ مجھے وہاں کی جماعت سے معلوم ہوا کہ وہاں مجھ سے پہلے دو مرتبہ ہمارے سلسلہ کے دو مخلص ترین دوستوں اور استاذ منیر اکھنی صاحب ( جو کہ سلسلہ کے مبلغ ہیں اور دراصل شام کے باشندے ہیں ) اور السید محمد در جنانی کے خلاف ان حلقوں کی طرف سے سخت اشتعال انگیزی کر کے ان کے قتل کی سازش کی گئی.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے انکی حفاظت فرمائی اور دشمنوں کی سازش کو ناکام و نامراد کر دیا.الاستاد منیر الحصنی صاحب کو تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح محفوظ کر لیا کہ وہ اس رات اپنے مکان پر سونے کے لئے ہی نہ گئے.اور دشمن انتظار کرتے کرتے خائب و خاسر رہے.اور السید محمد در جنانی کو اس طرح بچا لیا کہ دشمن کے عین ہاتھا پائی کے وقت ایک نیک دل بزرگ و عالم ادھر آ نکلے اور انہوں نے بیچ میں پڑ کر حملہ آوروں کو منتشر کر دیا.فا الحمد لله و هو خير الحافظين

Page 152

تاریخ احمدیت 143 اسی طرح ایک مرتبہ میرے عرصہ قیام میں بھی ہمارے ایک مخلص دوست السید فائز الشھابی کے مکان کی تلاشی لی گئی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتب کو دفتر میں جمع کروا دیا گیا.اور میری واپسی کے دو ماہ بعد مجھے بذریعہ خط خبر ملی کہ ہمارے دو دوستوں السید فائز الشھابی اور محمد در جنانی کے گھروں کی دوبارہ تلاشی لی گئی اور بعض بالکل جھوٹے الزاموں کی بنا پر انہیں کچھ وقت کے لئے زیر حراست بھی رکھا گیا.مگر بعد میں جلد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحیح ثبوتوں کی عدم موجودگی پر انہیں بری کر دیا گیا.الحمد للہ علی ذالک.لیکن ان مشکلات اور مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی دن بدن وہاں ترقی ہورہی ہے.اور سمجھدار مخلص اور متقی لوگوں میں احمدیت کا پیغام گھر کر رہا ہے.اور جن لوگوں تک پیغام جدو جہد کے ساتھ پہنچایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ عرصہ کے بعد احمدیت کے حلقہ بگوش ہو جاتے ہیں.ایک آسمانی تائید یہ شاملِ حال رہی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعا و استخارہ کے ذریعہ زیر تبلیغ لوگوں کو انکی دعاؤں کا فوری جواب مل جاتا رہا اور حق ان پر ظاہر ہو جاتا رہا.میرے عرصہ قیام میں کئی دوستوں کو اس سے فائدہ پہنچا جن میں سے دو بیان کرتا ہوں.السید طعمہ رسلان کو اللہ تعالیٰ نے خواب میں بتایا کہ ملک بلا تاج و ملک تاج بلا ملک جس پر خاکسار نے انکو تعبیر بتائی کہ اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے بتایا ہے کہ دنیا میں کئی بادشاہ اور سلطنتوں کے مالک ایسے ہیں جو بظاہر تو تاج رکھتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں تاج نہیں.اور وہ لوگ ایمان کے تاج سے محروم ہیں.اور آخرت میں ان کے لئے کوئی بادشاہت اور تاج خدا تعالیٰ کے نزدیک نہیں ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے تجھے اس امام مھدی پر ایمان لانے کی وجہ سے ایمان کا عظیم الشان تاج عطا فرمایا ہے.اور اگر چہ تیرے پاس دنیاوی تاج تو نہیں مگر حقیقت میں تو ایمانی تاج کی بدولت روحانی بادشاہت کا مالک ہے.اور خدا تعالیٰ کے نزدیک تیرے لئے بادشاہت موجود ہے.چنانچہ اس دوست کو یہ تعبیر خوب سمجھ آگئی اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس نے حق کو قبول کر کے شرف بیعت حاصل کرلیا.الحمد للہ ایک زیر تبلیغ دوست الشیخ جمیل الحلاق کو بھی خاکسار نے استخارہ کرنے کو کہا.جس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر نہایت ہی صاف الفاظ میں انکی حالت کے مطابق حق کو ظاہر کر دیا.اور اس کے قبول کرنے کا طریق بھی سمجھا دیا.اسکو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ حج کر رہے ہیں اور جب جلد 21

Page 153

تاریخ احمدیت 144.وہ حجر اسود کے طواف کرنے اور اس کو بوسہ دینے کے لئے جانا چاہتے ہیں تو انکو ایک سپاہی روک کر کہتا ہے کہ انت ممنوع ان بحج الا باذن الملک.خاکسار نے ان کو تعبیر بتائی کہ آپ امام مھدی علیہ السلام پر ایمان لانا اور انکی بیعت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ امام زمان ہی دراصل وہ مبارک وجود ہوتا ہے جس کا لوگ طواف کرتے اور اس کو بوسہ دیتے ہیں.مگر آپ کو یہ سعادت صرف خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی نصیب ہوسکتی ہے.اور آپ کے لئے سخت ڈرنے کا مقام ہے کہ اگر آپ نے ستی کی تو بد نصیب رہنے کا مقام ہے.مگر رستہ موجود ہے.لیکن اجازت کی ضرورت ہے.اس لئے آپ کو بادشاہ ارض و سما جو کہ حقیقی بادشاہ ہے اس کے حضور دعاؤں پر بڑا زور دینا چاہئے تا کہ جرات پیدا ہو.اور اس کا فضل واجازت نازل ہو.الغرض اس خواب میں اللہ تعالیٰ نے سائل کو صحیح اور مکمل جواب عطا فرما دیا اور اس پر حجت تمام کر دی.وہ دوست زیرتبلیغ تھے.دعا ہے مولا کریم انکو حق کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ہمیں شریر لوگوں کے شر سے محفوظ رکھا اور جب کبھی کسی نے شرارت کرنی چاہی تو اسکا کچھ نہ بنا.چنانچہ ایک موقع پر پہاڑ بحمدون میں ایک مشہور شیخ محمد المناصفی نے خاکسار کے خلاف وہاں کی مسجد میں چند لوگوں کو میرے خلاف کرنا چاہا تو اس موقع پر خاکسار نے ان لوگوں کے سامنے احمدیت کے عقائد کی تشریح کی جو ان لوگوں کو سمجھ میں آگئی اور نیز خاکسار نے ان شیخ صاحب کے جھوٹے الزاموں کی بھی تردید کر کے دکھائی جس پر وہ لوگ خود اس شیخ کے خیالات کی تردید کرنے لگے اور اس پر ہنسنے لگے.اس کے علاوہ لبنان کے چوٹی کے ایک عالم وادیب الشیخ عبد اللہ الصلایلی کے ساتھ کئی مرتبہ تبادلہ خیالات ہوا.اس عالم کو حکومت کی طرف سے ہزار ہالرات کا انعام واکرام اس کی ادبی و علمی خدمات پر مل چکا ہے.یہ شیخ صاحب بھی وفات مسیح کے قائل ہوئے اور انہوں نے کئی بار اس بات کا اظہار و اعتراف کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.نیز انہوں نے جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ اس جماعت نے اس زمانہ میں اسلام کی لاج رکھ لی ہے.انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وفات مسیح کے متعلق با قاعدہ مدلل تحریر لکھ کر مجھے دیں گے.جلد 21

Page 154

تاریخ احمدیت 145 اس کے علاوہ لبنان کے چوٹی کے مسیحی فلاسفر وادیب میخائیل نعیمہ کو بھی اسلام واحمدیت کا پیغام پہنچایا گیا.اور مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کی بشارت دی.وہ دلائل سن کر بہت متاثر ہوئے.ان کو ام الالسنہ کے دعوی کو بیان کیا جس کو سن کر وہ سخت متعجب و حیران ہوئے اور اس بارہ میں خاص غور وفکر کرنے کا وعدہ کیا.( انکو بھی حکومت کی طرف سے ہزاروں لیرات کا انعام واکرام مل چکا ہے) مفتی اعظم فلسطین محمد امین احسینی جو کہ مدت سے بیروت میں مقیم ہیں سے بھی متعدد بار گفتگو کا موقع ملا.ایک بار جبکہ وہ اپنے سیکرٹری احمد الخطیب اور بعض دیگر ملاقاتیوں کے ہمراہ خاکسار کے ساتھ تبادلہ خیالات کر رہے تھے تو انہوں نے بھی وفات مسیح کا اقرار کیا اور از خود آیت کریمہ فلما تو فیتنی کو پیش کر کے اس سے مسیح علیہ السلام کی موت پر استدلال کیا.نیز وہ ہمیشہ جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کو سراہتے ہیں.ان سے خاکسار کے اچھے دوستانہ تعلقات تھے جس کی بنا پر انہوں نے ہمارے احمدی فلسطینی دوستوں کو سینکڑوں لیرات کی اعانت و مدد فرمائی.اور اب بھی میری درخواست پر کرتے رہتے ہیں.اس عرصہ میں ہزاروں لوگوں تک مسلسل طور پر اسلام واحمدیت کے پیغام کو پہنچایا گیا اور مسیحی احباب کو قرآن کریم کے نسخہ جات و دیگر اسلامی لٹریچر پہنچایا گیا.اور متعدد پادری صاحبان سے بھی بحث و تمحیص ہوتی رہی اور بالآخر وہ لوگ لا جواب ہی ہوتے رہے.اور حاضرین ان پر ہنستے رہے.یہ عرصہ جماعت احمدیہ کی جماعتی تربیت و تعلیم و تنظیم کا خاص عرصہ تھا.اس عرصہ میں خاکسار نے جماعت کو ان پہلوؤں کے لحاظ سے نیز چندوں میں حصہ لینے کے لحاظ سے خاص طور پر تعلیم و تربیت دی.اور نمازوں کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا رہا.چنانچہ مشن ہاؤس میں (جو کرایہ کا مکان تھا) با قاعدہ نماز جمعہ ہوتی تھی.اور بعد میں سلسلہ گفتگو و مسائل ہوتے تھے.اور ہر اتوار کو علمی و تربیتی میٹنگ ہوتی تھی.جس میں متعدد زیر تبلیغ دوست بھی شامل ہوتے تھے.اسکے علاوہ ہر عید کی نماز و پارٹی بڑے ذوق وشوق سے منائی جاتی تھی.اور مسیح موعود علیہ السلام کا گھر یعنی مشن ہاؤس اس موقع پر پُر رونق و آباد ہو جاتا تھا.یہ عرصہ تبلیغ احمدیت کے لحاظ سے بھی ایک نہایت مشغول و کامیاب عرصہ تھا.چنانچہ اس عرصہ میں ظہور مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام پر خاص طور پر زور دیا گیا.اور ہزاروں جلد 21

Page 155

تاریخ احمدیت 146 لوگوں تک اس کی بشارت دی گئی.اور خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ جن لوگوں کو مسلسل اور با قاعدہ طور پر تبلیغ کی جاتی رہی وہ بالآخر احمدی ہو گئے.چنانچہ اس قلیل عرصہ میں سولہ عدد بالغ افراد نے احمدیت کی نعمت سے حصہ پایا اور شرف بیعت حاصل کیا.اور اگر ان کے تمام اہل خانہ اور بچوں کو شامل سمجھا جائے تو ان کی تعداد قریبا ستر استی بنتی ہے.الحمد للہ ان تو احمدیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے استاد، پروفیسر ، با قاعدہ شیخ و خطیب اور تاجر پیشہ صاحبان شامل ہیں.لبنان میں جماعت کافی ہے مگر وہاں با قاعدہ مشن ہاؤس اور مستقل مبلغ کی ضرورت ہے.لوگوں کا احمدیت کی طرف با وجود مخالفت کے میلان دن بدن ترقی کر رہا ہے.تمام مشکلات کے باوجود وہاں جگہ پیدا کی جاسکتی ہے.اور مشکلوں کو زیر کیا جاسکتا ہے.اس لئے جماعت کی تنظیم و تربیت کے پیش نظر وہاں پر مستقل مشن کی اشد ضرورت ہے.ایک خاص خدمت کا جو موقع ملا.وہ اپنے وطن عزیز پاکستان کی خدمت تھی.چنانچہ اس بارہ میں خاکسار نے پاکستان کو متعارف کرانے اور اسکی کشمیر کی مشکل کی وضاحت کرانے میں کافی کام کیا.اور لبنان کی یو نیورسٹی میں اردو زبان و بنگالی زبان کی تعلیم و تدریس کی سکیم پیش کر کے اس کی منظوری لی گئی.چنانچہ اب وہاں پر ان زبانوں کی تعلیم شروع ہو جائے گی.دونوں حکومتیں متفق ہو چکی ہیں.لبنان میں ابھی تک ہمارا کوئی مشن ہاؤس ومسجد تعمیر نہیں ہوئی.ہمارا لٹریچر بھی وہاں مقبول ہے.اور اگر زیادہ توجہ دی جائے تو لبنان میں احمد بیت زیادہ مضبوط ہو جائے گی اور بے حد مفید ہوگی.کیونکہ اس کا اثر تمام بلاد عر بیہ و تمام دنیا پر پڑتا ہے.بہر حال اب لبنان میں مذہبی تعصب و مخالفت کا وہ رنگ نہیں جو آغا ز احمدیت میں تھا.اب زمین کافی صاف و تیار ہو چکی ہے.کچھ حکومتی پابندیاں و مشکلات ہیں جن کو حل کرنا چاہئے اور اب وقت کا تقاضا ہے کہ اس زمین پر زیادہ کام کیا جائے.وہاں کی جماعت میں سے السید محمد در جنانی و صبحی قزق حسین قزق اور ان کے برادران و فائز الشهابی وطعمه رسلان و شیخ عبدالرحمن سلیم محمود شبو ڈاکٹر مصطفیٰ خالدی ، صالح الحمودی و شیخ عبد اللطيف الحداد محمود وظل الله و غیر م اور ان کے خاندان عمدہ تعاون وا خلاص کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں.ہماری جماعتیں بیروت ، طرابلس ، بر جا صور ، صیدا و غیره جلد 21

Page 156

تاریخ احمدیت 147 شہروں میں ہیں.سب ملا کر لبنان کی جماعت کی کل تعداد قریباً تین صدا فراد ہے.تقریبات کی فوٹوز جن میں افراد جماعت شامل ہیں وہ دفتر وکالت التبشیر میں با قاعدہ بھجوائی جاتی رہی ہیں.ایک خاص بات یہ ہے کہ لبنان میں پاکستان کے سفیر مکرم میاں نسیم احمد صاحب مرحوم تھے.جو ایک نہایت ہی مخلص و متقی احمدی تھے.آپ نے اس عرصہ میں جماعت احمدیہ لبنان کے ساتھ نہایت ہی مخلصانہ تعلق رکھا اور اپنے اسوۂ حسنہ سے اسلام و احمدیت و پاکستان کی نمایاں و قابل تعریف خدمت کی.آپ ہر جمعہ کی نماز میں اور عیدین کی نماز میں با قاعدہ مشن میں تشریف لاتے تھے.اور آپ نے اسلام واحمدیت کی خدمت کے لئے نمایاں طور پر مالی مدد فرمائی.جماعت کی مسجد کے لئے ایک عمدہ قالین پیش کیا اور مسجد سوئٹزر لینڈ میں بھی دل کھول کر چندہ دیا.اللہ تعالیٰ آپکو اجر عظیم عطا فرمائے.آمین ثم آمین.اسی طرح مکرم میاں صاحب کی اہلیہ صاحبہ نے بھی مالی مدد فرمائی.حضرت مصلح موعود کا پیغام 90 ماریشس کے احمدیوں کے نام جلد 21 سید نا حضرت مصلح موعود نے اس سال عید الفطر کی تقریب پر جماعت احمدیہ ماریشس کو حسب ذیل پیغام سے نوازا برادران ماریشس السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عید کا دن خوشی کا دن ہوتا ہے اور مسلمانوں کی خوشی اسی میں ہے کہ اسلام ترقی کرے اور محمد رسول اللہ اللہ کا نام دنیا کے کناروں تک پھیلے.اس لئے میرا پیغام یہی ہے کہ اسلام اور احمدیت کے پھیلانے کی کوشش کرو تا کہ تمہیں حقیقی خوشی نصیب ہو اور عید کا دن یونہی نہ گزر جائے بلکہ حقیقی خوشی کے ساتھ گزرے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی مدد کرے اور اس خوشی کے حاصل کرنے کا صحیح طریقہ آپ لوگوں کو سکھائے.ماریشس کا احمدیت سے بہت پرانا تعلق ہے اس ملک میں سب سے پہلے حافظ صوفی غلام محمد صاحب تبلیغ کے لئے گئے تھے اور ان کے بعد اور کئی دوسرے مبلغ جاتے رہے.پس آپ لوگ کوشش کریں کہ آپ پر حقیقی عید کا دن آئے اور آپ اسلام اور

Page 157

تاریخ احمدیت 148 جلد 21 احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پھیلا دیں.حضرت مصلح موعود کا پیغام نظام الوصیت“ سے متعلق خاکسار مرز امحموداحمد خلیفہ اسیح الثانی 91 مارچ 1961ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود نے امراء، پریذیڈنٹوں اور مربیان سلسلہ کو پُر زور تحریک فرمائی کہ وہ غیر موصی احباب کو وصیت کرنے اور موصی احباب کو اپنی قربانیوں میں اور بھی اضافہ کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہیں.فرمایا: ’اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم برادران جماعت.نحمده و نصلی علی رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت وصیت کا نظام جاری فرمایا تھا اور جماعت کے دوستوں کو ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اشاعتِ اسلام کے لئے اپنے اور مالوں جائدادوں کو اس کی راہ میں پیش کریں تا کہ انہیں مرنے کے بعد جنتی زندگی حاصل ہو.اس تحریک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک ہزاروں لوگ حصہ لے چکے ہیں مگر ابھی ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی پائی جاتی ہے جنہوں نے وصیت نہیں کی اور یہ ایک افسوس ناک امر ہے.میں اس پیغام کے ذریعے تمام جماعتوں کے امراء اور پریذیڈنٹوں اور مربیان سلسلہ کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ غیر موصی احباب کو وصیت کرنے اور موصی احباب کو اپنی قربانیوں میں اور بھی اضافہ کرنے کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہیں.اگر وصیت کرنے والا کم از کم ایک نے شخص سے ہی وصیت کرانے میں کامیاب ہو جائے تو ہمارے بجٹ میں ہزاروں لاکھوں روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے اور اگر امراء اور جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سلسلہ کے مربی بھی اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں تو چند دنوں میں ہی سلسلہ کی مالی حالت میں غیر معمولی ترقی ہو سکتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جو دوست ابھی موصی نہیں وہ وصیت کرنے اور موصی احباب دوسروں سے زیادہ

Page 158

تاریخ احمدیت 149 جلد 21 وصیتیں کروانے کی خاص طور پر کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنے فرائض کے سمجھنے اور اس نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق بخشے جو اعلائے کلمہ اسلام کے لئے جاری کیا گیا ہے.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد 25/3/61 اس پیغام پر پاکستان کی احمدی جماعتوں میں 31 مارچ سے ہفتہ الوصیت“ منایا گیا اور اخبار الفضل نے علماء سلسلہ کے متعدد مضامین نظام الوصیت کی اہمیت و افادیت پر شائع کئے.جس سے مخلصین جماعت میں نئی لہر اٹھی اور نئی وصیتیں کرنے اور پہلی وصیتوں کے معیار میں قربانی کے اضافہ کے جدید رجحانات پیدا ہوئے.مجلس مشاورت 1961ء اس سال مجلس مشاورت کا انعقاد -24 - 25 - 26 مارچ 1961ء کو تعلیم الاسلام کالج کے وسیع حال میں ہوا.457 نمائندگان نے شرکت کی.حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر صدارت کے فرائض قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے انجام دئے.حضور نے اس موقعہ پر حسب ذیل روح پرور پیغام عطا فرمایا جو حضرت میاں صاحب نے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا: اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم برادران نحمده و نصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں جوان تھا جب میں نے مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی اور اب میں بیمار اور کمزور ہوں جس کی وجہ سے نہ تو میں مجلس مشاورت میں زیادہ دیر بیٹھ سکتا ہوں اور نہ ہی اس کی کارروائی میں اس طرح حصہ لے سکتا ہوں جس طرح پہلے لیا کرتا تھا.بلکہ اس مجلس مشاورت میں شرکت سے ہی معذور ہوں.لیکن اس لئے کہ میں دعا کے ساتھ مجلس مشاورت کا افتتاح کردوں.

Page 159

تاریخ احمدیت 150 با وجود بیماری اور کمزوری کے عزیزم مرزا بشیر احمد کے ہاتھ یہ مختصر سا افتتاحی پیغام بھجوا رہا ہوں.اور دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مشورے وہی بابرکت ہوتے ہیں جو صحت نیت اور اخلاص کے ساتھ جماعتی مفاد کی غرض سے دئے جائیں.اور جن میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور جماعتی بہبود کو مد نظر رکھا گیا ہو.اگر آپ لوگ اپنے مشوروں میں اس روح کو قائم رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے کاموں میں ہمیشہ برکت رکھے گا اور آپ کے مشوروں کے اچھے نتائج پیدا کرے گا.لیکن اگر آپ لوگوں نے بھی کسی وقت یہ دیکھنا شروع کر دیا کہ زید یا بکر کی کیا رائے ہے اور یہ نہ دیکھا کہ سلسلہ کا مفاد کس امر میں ہے تو آپ کے کاموں میں برکت نہیں رہے گی.اور آپ کے مشورے محض رسمی بن کر رہ جائیں گے.اور خدائی نصرت کو کھو بیٹھیں گے.پس آپ لوگوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہے.آپ لوگ جب مشورہ دینے کے لئے جمع ہوتے ہیں تو درحقیقت آپ ایک ایسے راستے پر قدم مارتے ہیں جو تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز اور بال سے بھی زیادہ باریک ہے.بس آپ لوگ بڑی احتیاط اور غور و فکر کے ساتھ مشورہ دیں.اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے رہیں کہ وہ حق آپ کی زبان پر جاری کرے.اور آپ کو ایسے فیصلوں پر پہنچنے کی توفیق بخشے جو سلسلہ کے لئے مفید اور اس کی دینی اور روحانی اور تنظیمی اور مالی حالت کو بہتر بنانے والے ہوں.مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ متواتر کئی سال سے میں جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اسے اپنی آمد کا بجٹ پچیس لاکھ تک پہنچانا چاہئے.ابھی تک ہماری جماعت نے اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی ، حالانکہ ہمارے سپرد جو عظیم کام کیا گیا ہے.اس کے لحاظ سے 25 لاکھ ہی نہیں، بلکہ 25 کروڑ کا بجٹ بھی ہماری تبلیغی ضروریات کے لئے کافی نہیں ہو سکتا.کیونکہ ہم نے ساری دنیا کو احمدیت اور اسلام کے لئے فتح کرنا ہے اور ساری دنیا میں صلى الله محمد رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچانا اور اسے خدائے واحد کے جھنڈے کے نیچے لانا ہے.لیکن بہر حال جماعت کی موجودہ تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی آمد کا بجٹ کم از کم چھپیں لاکھ تک پہنچانے کی جلد تر کوشش کرنی چاہئے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہمارے بجٹ کی کمی میں بڑا دخل ان نادہندوں کا ہے جو سلسلہ میں شامل ہونے کے باوجود اخلاص کی کمی کی وجہ سے مالی قربانیوں میں حصہ نہیں لیتے.اسی جلد 21

Page 160

تاریخ احمدیت 151 جلد 21 طرح وہ لوگ جو مقررہ شرح کے مطابق چندہ نہیں دیتے.یا بقالوں کی ادائیگی میں سستی سے کام لیتے ہیں.ان کی غفلت بھی سلسلہ کے لئے نقصان کا موجب ہو رہی ہے.پس میں تمام امراء اور سیکرٹریان جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں روحانی اور تربیتی اصلاح کیساتھ ساتھ نادہندوں اور شرح سے کم چندہ دینے والوں کے بارہ میں اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے.تاکہ ان میں بھی قربانی کا جذبہ پیدا ہو.اور وہ بھی اپنے دوسرے بھائیوں کے دوش بدوش اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے ثواب میں شریک ہو سکیں.ان مختصر کلمات کے ساتھ میں بیالیسویں مجلس مشاورت کا افتتاح کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے کاموں میں برکت ڈالے اور ہمیں اخلاص اور تندہی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے اور صحیح فیصلوں تک پہنچنے کی توفیق بخشے.الھم آمین.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی 1 20/3/6 66 مجلس شوری کے چارا جلاس ہوئے جن میں سب کمیٹیوں کی سفارشات کی روشنی میں جماعت کے تربیتی اور تنظیمی امور سے متعلق متعدد اہم سفارشات حضور کی خدمت اقدس میں پیش کی گئیں جو حضور نے منظور فرمالیں.ان سفارشات میں سے ایک اہم اور دور رس نتائج کی حامل سفارش نگران بورڈ کے قیام سے متعلق تھی.پس منظر اس کا یہ تھا کہ اس سال مشاورت کے ایجنڈا کی تیسری تجویز ی تھی کہ: جس طرح قادیان میں دفاتر صدر انجمن احمدیہ کے کاموں کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیشن مقرر تھا اسی طرح اب بھی ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جائے جو صدر انجمن احمدیہ تحریک جدید اور وقف جدید کے کام اور دفاتر کا معائنہ کرے اور شکایات پر غور کرے.“ اس تجویز کے متعلق سب کمیٹی نے یہ مشورہ پیش کیا کہ : سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی منظوری سے ایک ایسا بورڈ مقر رہو جو صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید اور وقف جدید کے کاموں کی نگرانی کرے اور جماعتوں سے تجاویز حاصل کرے تا کہ ہر سہ ادارہ جات مذکورہ کا کام بیش از پیش ترقی پذیر ہو.اس بورڈ کے سات ممبران ہوں یعنی صدر انجمن احمدیہ تحریک جدید اور وقف جدید کے صدر صاحبان اور تین ممبر جماعتہائے احمدیہ کی طرف سے نمائندہ ہوں اور حضور سے عرض کیا جائے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا جائے اور صدر

Page 161

تاریخ احمدیت 152 جلد 21 93 ،، صاحب موصوف ہی جماعتوں سے تین نمائندے خود منتخب فرما لیں.اس بورڈ کا یہ بھی فرض ہو کہ وہ صدر انجمن احمدیہ اور مجلس تحریک جدید اور مجلس وقف جدید میں رابطہ قائم رکھے.رائے شماری پر سوائے ایک نمائندہ کے باقی تمام نمائندگان نے سب کمیٹی کی سفارش کے حق میں ووٹ دئے اور سیدنا حضرت مصلح موعود نے بھی اسے منظور فرمالیا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نگران بورڈ کے صدر مقرر ہو گئے اور آپ نے امراء کے مشورہ سے محترم مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ علاقائی امیر سرگودھا جناب شیخ بشیر احمد صاحب حج ہائیکورٹ ٹمپل روڈلاہور مکرم چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت شیخو پورہ کو بورڈ میں بطور جماعتی نمائندوں کو شامل فرمایا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ نے مشاورت کے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: 94- میں احباب کو تحریک جدید انجمن احمد یہ اور صدر انجمن احمد یہ کے دونوں بجٹوں کے خلاصوں کی طرف توجہ دلا تا ہوں.ان سے بہت سی چیزیں نمایاں ہوتی ہیں.ان میں سے ایک کا ذکر میں اس وقت کروں گا اور وہ یہ ہے کہ تحریک جدید انجمن احمد یہ اور صدرانجمن احمدیہ کو پاکستان کی جماعتوں کے چندوں سے جو آمد ہوتی ہے وہ 27,63,418 روپے سالانہ ہے.اس کے مقابل میں بیرونی ممالک کے احمدیوں کا چندہ 14,18,480 روپے سالانہ ہے.بظاہر پاکستانی چندہ بیرونی چندہ کی نسبت دو گنا ہے لیکن ہم اس طور پر بجٹ پر غور کریں کہ ہم اس بجٹ میں سے کس قدر بیرونی مشنوں پر خرچ کر رہے ہیں.تو تصویر بالکل بدل جاتی ہے.اس وقت صرف 75,000 روپے سالانہ کی رقم پاکستان سے بیرونی مشنوں کو جا رہی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فارن ایکسچینج (FOREIGN EXCHANGE) نہیں ملتا.لیکن کبھی کبھی مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں گورنمنٹ سپیشل اجازت دے دیتی ہے.اگر ہم روپوں کی زبان میں بجٹ کا جائزہ لیں تو باہر خرچ ہونے والی رقم میں بیرونی جماعتوں کا چندہ پاکستانی جماعتوں کے چندہ کی نسبت پندرہ سولہ گنے زیادہ ہے.یہ چیز جب بھی ہمارے سامنے آتی ہے ہمیں شرمندگی کا احساس ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہم اردو اور پنجابی بولنے والوں میں پیدا کیا ہے اور اس وجہ سے پاکستان کی جماعت پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عاید ہوتی ہے.قرآن کریم میں اس نکتہ کو بیان کیا گیا ہے کہ اے عربو! تمہیں

Page 162

تاریخ احمدیت 153 یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کر یم میت کو تم میں پیدا کیا اور اس طرح تم پر اپنے فضل و کرم کی بارش کی.اور اس کی وجہ سے تم لوگوں پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو تمہیں بہر حال بطیب خاطر ادا کرنی ہوں گی اور مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نکتہ کو سمجھ بھی لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو ہم میں پیدا کر کے ہمارا غیر معمولی اعزاز فرمایا ہے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب اسلام کو دشمن نے تلوار سے مٹانا چاہا اور اسلام کو دفاعی جنگ لڑنا پڑی تو مسلمانوں نے عراق.شام.فلسطین.ایران.مصر.مغرب اقصیٰ سپین.سلی.سندھ اور پھر کابل سے اوپر کے علاقوں میں نہایت اعلیٰ قربانی کا مظاہرہ کیا.وہ اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر اسلام کی خاطر دشمن سے سینہ سپر ہوئے.اکثر اسکی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے.لیکن اپنی زندگی میں انہوں نے اسلام کے جھنڈے کو ہمیشہ سر بلند رکھا.اور جہاں جہاں اور جس علاقہ میں بھی اسلام کا سورج طلوع ہوا.وہ اسی تالاب سے ہوا.جو مسلمان صحابہ کے خون اور آنسوؤں سے پیدا ہوا تھا.یہ ساری باتیں نتیجہ تھیں اس احساس کا جو ان لوگوں میں پیدا ہوا.انہوں نے قربانیاں پیش کیں اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت انہیں حاصل ہوئی.غرض اوائل زمانہ کے مسلمان اس نکتہ کو سمجھ گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہمارے اندر مبعوث ہوا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ احسان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو عملی نمونہ بنا ئیں اور پھر وہ نمونہ ہمارے بعد بھی قائم رہے.اب بھی اللہ تعالیٰ کا ایک مرسل ہمارے اندر پیدا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے ہم پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ہمیں ہر گز نہیں بھلانی چاہئے.ہمیں تحریک جدید کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانا چاہئے تا دنیا کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تعلق حق و صداقت کے ایک مینار سے ہے اور مینار جتنا بلند ہو اتنی ہی اس کی روشنی پھیلتی ہے.اگر ایک مینار دس گز بلند ہو تو اس کی روشنی چند فرلانگ تک پھیلے گی اور اگر وہ چند سو گز کا ہے تو چند میلوں تک کے علاقہ کو روشن کرے گا.ہما را قادیان کا مینارہ اسیح جو ہم نے ظاہری طور پر پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے تعمیر کیا تھا وہ صرف چند میل کے علاقے کو روشن کرتا تھا لیکن یہ مینار جس سے ہمارا تعلق ہے یہ بلند تر ہے.اس سے بلند اور کوئی مینار نہیں.یہ وہ مینار ہے جس کے اوپر روحانیت کے قمقمے روشن ہیں اور انہوں نے اپنے ارد گرد کے تمام علاقہ کو جلد 21

Page 163

تاریخ احمدیت 154 روشن تر کر دیا ہے.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مینار جتنا بلند ہو گا اتنی ہی اسکی بنیاد گہری اور وسیع ہوگی.اگر ہم نے کوئی چھوٹا مینار بنانا ہوتا اسے چھوٹی بنیاد پر بنایا جائے گا اور اگر ہم نے کوئی بلند تر مینار بنانا ہو تو اس کی بنیاد بھی زیادہ مضبوط اور گہری کھڑی کرنی پڑے گی.ورنہ نقصان کا خطرہ ہے.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس نور کو پھیلانے کے لئے جو اس زمانہ میں روشنی دینے کے لئے دنیا میں پیدا ہوا ہے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں.اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں اور روحانیت کے اس مینار کو اپنی جسمانی اور مالی قربانی کی بنیاد پر کھڑا کریں.اور اسے اتنا بلند لے جائیں کہ اس کی روشنی ساری دنیا میں پھیل سکے.آپ پچہتر ہزار کی رقم دیکھیں اور پھر ایسی تجاویز سوچیں جس کے نتیجے میں تحریک جدید کی بنیادوں کو اتنا مضبوط کر دیا جائے کہ وہ دن قریب آجائیں کہ یہ مینار بلند تر ہو جائے اور اس کی روشنی ساری دنیا میں پھیل جائے اور اس کے سوا سارے دئے بجھ جائیں صرف وہی روشنی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلائی ہے باقی رہے.یہ کام ہم کس طرح کر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا طریق بیان فرماتے ہیں.میں دو ہی باتیں لے کر آیا ہوں.ایک تو حید قائم کرنے کے لئے دوسرے اخوت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے لئے.اگر ہم تو حید اور اخوت و بھائی چارہ کو مضبوط کر لیں تو دوسرے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں.میں یہاں حضور کا ایک ارشاد پیش کرنا چاہتا ہوں.حضور فرماتے ہیں: جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود واحد رکھو.ورنہ ہو انکل جائے گی.نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لئے ہے کہ باہم اتحاد رکھو.برقی طاقت کی طرح ایک دوسرے کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی.اگر اختلاف ہو.اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے.رسول اللہ اللہ نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو.اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو.کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے اگر انسان کی دعا جلد 21

Page 164

تاریخ احمدیت 155 منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہوتی ہے.میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو.میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی تو حید کو اختیار کرو دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی.كنتم اعداء فألف بين قلوبكم یا درکھو تألیف ایک اعجاز ہے.یاد رکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے.وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.وہ مصیبت اور بلا میں ہے اسکا انجام اچھا نہیں.میں ایک کتاب بنانے والا ہوں اس میں ایسے تمام لوگ الگ کر دئے جائیں گے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے.چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے.مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ کسی بازی گر نے دس گز چھلانگ ماری ہے دوسرا اس پر بحث کرنے بیٹھتا ہے اور اس طرح کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے.یاد رکھو.بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے.اور کیا وہ علامت پوری نہ ہوگی.وہ ضرور ہوگی تم کیوں صبر نہیں کرتے.جیسے طبی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے مرض دفع نہیں ہوتا.میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیدا ہوگی.باہمی عداوت کا سبب کیا ہے.بخل ہے.رعونت ہے.خود پسندی ہے.اور جذبات ہیں.میں نے بتلایا ہے کہ میں عنقریب ایک کتاب لکھوں گا اور ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے.اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے.جو ایسے ہیں وہ یا درکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھا ئیں.میں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا.ایسا شخص جو میری جماعت میں ہوکر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے.اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے.خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کیساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اس کو سر سبز نہیں کرسکتا.بلکہ وہ شاخ دوسرے کو بھی لے بیٹھتی ہے.پس ڈرو.میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا.چونکہ یہ سب باتیں میں کتاب میں مفصل لکھوں گا اس لئے اب میں چند عربی فقرے کہہ کر فرض ادا کرتا ہوں.( الحکم مؤرخہ 17 اپریل 1900 صفحہ 8-9) جلد 21

Page 165

تاریخ احمدیت 156 جلد 21 غرض ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس مینار کو مضبوط کرنے کے لئے تو حید کو اپنے اندر قائم کریں.توحید سے ساری برائیاں کٹ جاتی ہیں.اور شرک سے ساری برائیاں جنم لیتی ہیں.آپ تو حید کے اس درخت کو اپنی موت کے پانی سے سینچیں.تایہ ثمر دار درخت بن جائے.اس تقریر پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمایا: عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب نے بڑی عمدہ اور شستہ تقریر کی ہے اور وہ سب دوستوں کی توجہ کی متقاضی ہے.95 66 کارروائی کے اختتام پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اظہار خوشنودی فرمایا کہ اکثر تقریر میں نہایت سلجھی ہوئی اور مفید تجاویز پر مشتمل تھیں اور یہی ہماری اس مشاورت کی شان ہے.“ ازاں بعد آپ نے حاضرین کو نہایت محبت بھرے انداز میں یہ نصیحت فرمائی کہ : ” میرے اکثر مضامین تربیت کے گرد ہی چکر کھاتے ہیں.میں یہ کہوں گا کہ جب تک تربیت نہ ہو تبلیغ بھی بریکار ہو کر رہ جاتی ہے.اس طرح تربیت کا پہلو ایک لحاظ سے تبلیغ پر بھی غالب ہے.اگر ہم ساری دنیا کو احمدی بنالیں لیکن احمدیوں کا نمونہ اچھا نہ ہو تو وہ احمدی ہمارے لئے بیکار ہیں.لیکن اگر وہ نسبتاً تھوڑے ہوں لیکن ان میں ہر ایک روشنی کا مینار ہو اور اس تعلیم پر کار بند ہو جو اسلام اور احمدیت نے ہمیں سکھائی ہے تو تھوڑے بھی قرآن کریم کی اس آیت کے ماتحت آ جاتے ہیں کم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة الخ.اس لئے تربیت کا پہلو بہت مقدم ہے اس کی طرف جماعت کو توجہ دینی چاہئے اندرون ملک میں مبلغ بھی وہی اچھا ہے جو اچھا مربی ہے اور اب تو مبلغ کا نام بھی مربی رکھ دیا گیا ہے.اور بیرون ملک کام کرنے والا مبلغ بھی وہی اچھا ہے جو اچھا مربی ہو اس کا اپنا نمونہ اچھا ہے 96 66 اور اس کا قول و فعل اچھا ہے.اس نصیحت کے بعد حضرت میاں صاحب نے حضرت مسیح موعود کی کتاب کشتی نوح کے صفحہ 17 تا 20 پر مشتمل ایک ایمان افروز اقتباس پڑھ کر حاضرین سمیت دعا کرائی.اس طرح شوری کی بابرکت کارروائی اختتام پذیر ہوئی.97

Page 166

تاریخ احمدیت 157 نگران بورڈ کا قیام اور اس کے اہم فیصلہ جات جلد 21 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل 8 اپریل 1961 ء میں اعلان فرمایا کہ نگران بورڈ میں شامل نمائندگان مجھے اپنے مشورے سے مطلع فرما ئیں.اسی طرح صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ اور صدر صاحب مجلس تحریک جدید اور صدر صاحب مجلس وقف جدید بھی مجھے اپنا مشورہ بھجوا دیں.اسی طرح ان تینوں اداروں سے متعلق کسی کے ذہن میں کوئی اصلاحی تجویز ہو یا کوئی نقص نظر آتا ہو اس کے متعلق بھی آپ کو تحریری اطلاع کی جائے.نگران بورڈ کا پہلا اجلاس 23 اپریل 1961 ء کو تحریک جدید ربوہ کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا جس میں طریق کار کے متعلق اصولی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر کسی جماعت یا کسی دوست کو صد را انجمن احمدیہ یا مجلس تحریک جدید یا مجلس وقف جدید کے متعلق کوئی اعتراض یا نقص نظر آوے تو سب سے پہلے اسے متعلقہ صیغہ کے ناظر یا وکیل یا افسر کے نام بھجوائیں اور اگر یہ معاملہ تسلی بخش طور پر طے نہ ہو تو اس کے بعد نگران بورڈ کو توجہ دلائی جائے تا کہ بلا وجہ طول عمل نہ ہو.اس ابتدائی اجلاس کے بعد 1961ء میں نگران بورڈ کے متعددا جلاس ہوئے.نگران بورڈ نے جو 98 نہایت مفید اصلاحی فیصلے کئے ان میں سے بعض اہم فیصلوں کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے: 1 - مرکز سلسلہ اور بیرون میں جہاں تک ممکن ہو درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جائے.خصوصاً درس قرآن مجید اور احادیث رسول اللہ اللہ اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلسلہ ضرور حتی الوسع ہر مسجد میں جاری کیا جانا چاہئے.2.جو مبلغین تحریک جدید رخصت پر بیرون ممالک سے مرکز میں واپس آتے ہیں اگر رخصت گزارنے کے بعد وہ پاسپورٹ اور ویزا وغیرہ کے حصول کے انتظار میں فارغ ہوں اور تحریک جدید میں ان کے لئے کوئی کام نہ ہو تو صیغہ اصلاح وارشاد صدر انجمن احمد یہ یا صیغہ وقف جدید کی طرف سے عارضی طور پر منتقل کر کے ان سے مفید کام لیا جائے.اس عرصہ میں وہ تنخواہ بدستور تحریک جدید سے لیں گے مگر سفر خرچ وغیرہ وہ صیغہ ادا کرے گا جس کی طرف وہ عارضی طور پر منتقل ہوں گے.(فیصلہ اجلاس مؤرخہ 28 مئی 1961 ء) 3- نظارت اصلاح وارشاد کو توجہ دلائی جائے کہ اسلامی تعلیم کے خلاف بے پردگی کا رجحان بڑھ رہا ہے.بار بار پردے کے مسائل کو الفضل و دیگر اخبارات و رسائل وغیرہ کے ذریعہ تکرار کے ساتھ واضح کر کے اصلاح کرائی جائے.نظارت امور عامہ کو لکھا جائے کہ اگر کسی احمدی خاتون کے متعلق یہ ثابت ہو کہ وہ

Page 167

تاریخ احمدیت 158 جلد 21 اسلامی تعلیم کے مطابق پردہ نہیں کرتی تو انہیں سمجھانے اور ہوشیار کرنے کے بعد ان کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے.ایسا ہی اگر معلوم ہو کہ احمدی والد یا احمدی خاوند اپنی بچیوں اور بیوی کو پردہ نہیں کراتا یا اس معاملہ میں اصلاحی قدم نہیں اٹھاتا تو ایک دفعہ ہوشیار کرنے کے بعد اس کے متعلق بھی مناسب کارروائی کی جائے.(ایضاً) -4- صدرانجمن احمدیہ کو تاکیدی توجہ دلائی جائے کہ بنگال کی جماعت میں مزید مربی مقرر ہوں نیز سال میں کم از کم ایک دفعہ دو علماء کا وفد بنگال بھیجا جائے جو ایک وقت میں ایک مہینہ تک بنگال کی مختلف جماعتوں کا دورہ کر کے بیداری پیدا کرے.(ایضاً) 5- اگر خدانخواستہ کسی جگہ دو احمدی فریقوں میں جھگڑا ہو تو امیر کو اس صورت میں بالکل غیر جانبدار رہنا چاہئے.وہ کسی فریق کی طرف داری نہ کرے بلکہ حالات کا جائزہ لے کر مناسب صورت میں اصلاح کی کوشش کرے.(فیصلہ اجلاس 2 جولا ئی 1961ء) 6.صدرانجمن احمد یہ اور مجلس تحریک جدید کے صیغہ جات کا گاہے بگا ہے حسابی آڈٹ کے علاوہ کار کردگی کے لحاظ سے بھی معائنہ ہوتا رہنا چاہئے.جو صدر صاحب صدر انجمن احمد یہ اور ناظر صاحب اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ کے صیغوں کے متعلق اور وکیل اعلیٰ تحریک جدید کے صیغوں کے متعلق کیا کریں اور حتی الوسع کوشش کی جائے کہ کم از کم تین ماہ میں ایک بار ہر صیغہ کا معائنہ ہو جائے.(ایضاً) 7.لاہور کے مختلف کالجوں میں اسوقت بھاری تعداد طلباء کی موجود رہتی ہے.جو بعض صورتوں میں مختلف کالجوں کے ہوسٹلوں میں اور بعض صورتوں میں پرائیویٹ گھروں میں رہائش رکھتے ہیں.اور انہیں وہ اخلاقی اور دینی ماحول میسر نہیں آتا جو نو جوانی کی عمر میں احمدی نوجوانوں کے لئے بہت ضروری ہے.اس لئے صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ کو لکھا جائے کہ وہ اس معاملہ میں ابتدائی سروے کرا کے اور خرچ اور انتظامی پہلوؤں پر غور کر کے اگر ممکن ہو تو لاہور میں احمد یہ ہوٹل کے اجراء کے لئے آئندہ مجلس مشاورت میں یہ معاملہ پیش کریں.8.ربوہ کے مقیم لوگوں کے لئے عموماً اور مہمانوں کے لئے خصوصا بیت المبارک ربوہ میں عصر کی نماز کے بعد روزانہ (باستثناء جمعہ کے ) قرآن مجید کے ایک رکوع کا با قاعدہ درس ہونا چاہئے.اس کے لئے فی الحال مولوی جلال الدین صاحب شمس کو مقرر کیا جائے اور ان کی غیر موجودگی میں کوئی اور مناسب عالم یہ درس دیا کریں تا کہ قرآن کا درس بغیر ناغہ کے جاری رہے اور یہ درس ربوہ کی زندگی کا ایک اہم اور دلکش پہلو بن جائے.(ایضاً)

Page 168

تاریخ احمدیت 159 101 جلد 21 9.نگران بورڈ کو یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ گوجرانوالہ میں جو چار ضلعوں کے خدام کا تربیتی کورس کا اجتماع 100 گذشتہ دنوں میں ہوا ہے وہ خدا کے فضل سے بہت کامیاب رہا تھا اور اس کی وجہ سے نو جوانوں میں نئی زندگی کی لہر اور کام کا نیا جذبہ پیدا ہوا.نگران بورڈ تجویز کرتا ہے کہ اس قسم کے اجتماعات مختلف مراکز میں ضرور وقفہ وقفہ کے ساتھ ہوتے رہیں.تا کہ جماعت کی بیداری اور نو جوانوں کی تربیت کا موجب ہوں.اسی طرح سے جو اجتماع عہدیداران ضلع شیخو پورہ کا ہوا وہ بھی خدا کے فضل سے کامیاب اور مفید اور نتیجہ خیز رہا اسی طرح کراچی ، راولپنڈی اور پشاور اور دیگر مقامات کے اجتماعات بھی ایک عرصہ سے خدا کے فضل سے بہت کامیاب نتائج پیدا کر رہے ہیں.بورڈ کی طرف سے جماعت میں تحریک کی جائے کہ خدام اور انصار اللہ اور عہدیداران جماعت کے اجتماعات مناسب موقعہ پر وقتاً فوقتاً منعقد کئے جائیں تا کہ وہ نو جوانوں اور انصار اللہ اور عہدیداران جماعت کی تربیت اور بیداری کا موجب ہوں اور نیکی اور خدمت اور اتحاد جماعت کے جذبے کو ترقی دیں.(فیصلہ اجلاس یکم اکتوبر 1961ء) 10.کچھ عرصہ سے پاکستان میں مسیحی مشنریوں کی مساعی کا زور ہو رہا ہے اور جیسا کہ بعض اخباروں کی رپورٹوں سے ظاہر ہے نا واقف مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنی جہالت اور اسلامی تعلیم کی ناواقفیت کی وجہ سے عیسائیت کی آغوش میں جا رہا ہے اس تحریک کو دو وجہ سے تقویت حاصل ہوئی ہے ایک امریکن ایڈ کی وجہ سے جس کے نتیجے میں گویا ملک میں امریکن مشنریوں کا سیلاب آ رہا ہے دوسرے اس وجہ سے کہ ملک میں حکومت کے سکولوں کی بہت کمی ہے اور مسلمان بچے اور بچیاں مجبور عیسائی سکولوں میں داخلہ لینے کارستہ تلاش کرتے ہیں اور پھر خاموش طور پر کچی عمر میں عیسائیت کے خیالات اور تمدن سے متاثر ہو جاتے ہیں لیکن اس وقت تک حکومت نے اس خطرے کے سدباب کے لئے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا.صدرانجمن احمدیہ کو چاہئے کہ اول تو اسلام کی تبلیغ اور مسیحیت کے مقابلہ کے لئے مؤثر اقدامات اختیار کرے دوسرے صدر صاحب صدر انجمن احمد یہ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب کو اس خطرے کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں.(ایضاً) 11.ان دنوں پھر مخالفین کی طرف سے ختم نبوت والی تحریک کو مختلف رنگوں میں جاری کر کے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لہذا کوئی کمیٹی مقرر کر کے مواد جمع کرالیا جائے تا کہ وقت پر جواب تیار ہو سکے اور حکومت کو بھی اس امکانی فتنہ کی طرف توجہ دلائی جا سکے.یہ خدمت مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری اور شیخ خورشید احمد صاحب اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل“ کے سپرد ہوئی.12.مری کا پہاڑی مقام بہت اہمیت حاصل کر گیا ہے اور مسیحی مشنری بھی وہاں زیادہ توجہ دے

Page 169

تاریخ احمدیت 160 جلد 21 رہے ہیں اس لئے وہاں ایک مضبوط تبلیغی سنٹر قائم کیا جائے اور مبلغ ایسا مقرر کیا جائے جو نیک اور مخلص اور زبان میں اثر رکھنے والا ہو اور علم دوست ہو اور مسیحیت کے عقائد سے بھی واقف ہو اور اسے ایک مختصری لائبریری بھی مہیا کر کے دی جائے اور اس خاص مبلغ کے علاوہ سلسلہ کے بعض دوسرے علماء بھی گرمیوں کے موسم میں گاہے گا ہے مری بھجوائے جاتے رہیں.نیز بہتر یہ ہوگا کہ مری میں کوئی مناسب مقام یا جگہ خرید کر مستقل تبلیغی سینٹر قائم کر لیا جائے.(ایضاً) 13.جس اصلاحی جماعتی سزا کے متعلق حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی طرف سے کوئی میعاد مقرر نہ کی جائے اس کے متعلق لازم چھ ماہ کا عرصہ گذرنے پر حالات کا جائزہ لے کر جیسی بھی صورت ہو حضور کی خدمت میں رپورٹ ہونی چاہئے.(فیصلہ اجلاس 3 دسمبر 1961ء) 4.تبرکات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے حسب ذیل کمیٹی کا قیام عمل میں آیا: 1.ڈاکٹر کرنل عطاء اللہ صاحب (برصغیر کے مشہور کوہ پیما ) 2 - حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کپورتھلوی ایڈوکیٹ امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد 3.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدرصد را نجمن احمد یہ پاکستان و پرنسپل تعلیم الاسلام کالج 4.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تحریک جدیدر بوه حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب 2 ستمبر 1963ء کو انتقال کر گئے.آپ کے بعد مکرم مرزا عبد اشتق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ ضلع سرگودھا و امیر صوبائی پنجاب نگران مقرر کئے گئے.8 نومبر 1965ء کو خلافت ثالثہ کا آغاز ہوا تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے حکم پر یہ ضمنی ادارہ مستقل طور پرختم کر دیا گیا.......

Page 170

تاریخ احمدیت 161 جلد 21 احمد یہ مشن آئیوری کوسٹ کا قیام فصل دوم جدید تحقیق کے مطابق ابتدائی ہجری صدیوں میں ہی یہاں اسلام کا پیغام پہنچ گیا تھا اور جیسا کہ سید قاسم محمود صاحب مورخ پاکستان نے اپنی کتاب ”اسلامی دنیا میں لکھا ہے: مالی میں ٹمبکٹو سے نائیجیریا میں سو کو تو ، تک مسلمان تاجروں کے قافلے جاتے تھے.راہ میں آئیوری کوسٹ کا شہر بونتو کو ایک اہم پڑاؤ کی حیثیت رکھتا تھا.تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی میں آئیوری کوسٹ کا شمالی علاقہ مالی کی اسلامی سلطنت کا حصہ تھا.اٹھارویں صدی میں یہ گئی میں فو تا جانوں کے بادشاہ ابراہیم سمبیگو کی سلطنت کا حصہ تھا.اٹھارویں صدی میں پرتگیزی جہاز راں اور تاجر گنی کے ساحلی علاقوں پر حریصانہ نظروں کے ساتھ منڈلانے لگے تھے.ان کی دیکھا دیکھی فرانسیسیوں کی آمد شروع ہوئی.چونکہ قبائل کے ساتھ عام طور پر ہاتھی دانت کی تجارت ہوتی تھی ، اس لئے اس علاقے کو ہاتھی دانت کا ساحل ( آئیوری کوسٹ ) کہا جانے لگا.اٹھارویں صدی میں گئی اور شانتی قبائل مشرق سے اٹھ کر آئیوری کوسٹ کے جنوبی علاقوں میں آکر آباد ہو گئے اور انہوں نے اپنی اپنی سلطنتیں قائم کیں.تاجروں کے ساتھ ساتھ عیسائی پادری مبلغ بھی پہنچ گئے جو لا مذہب قبائل کو عیسائیت کی طرف راغب کرنے لگے.اس تحریک میں انہیں خاصی کامیابی ہوئی.1842ء میں فرانس نے شاہ گنی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت ساحلی علاقے گرینڈ باسم کو فرانسیسی انتداب میں شامل کر لیا گیا.آئیوری کوسٹ کا شمالی علاقہ ماؤسی حکومت کا حصہ تھا ، جس کا ایک حکمران انیسویں صدی کے وسط میں عیسائیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا.اس کا اسلامی نام ابوبکر رکھا گیا.1883ء میں فرانس نے آئیوری کوسٹ کو اپنے زیر انتداب لے لیا.دسمبر 1958ء میں فرانس کے زیر اثر اسے خود مختار جمہوریہ کی حیثیت حاصل ہو گئی.17 اگست 1960 ء کو اسے مکمل آزادی مل گئی اور 20 ستمبر کو اقوام متحدہ کا رکن بنا.مسلمان آئیوری کوسٹ کی کل آبادی کا چوتھائی حصہ ہیں جو سب کے سب مالکی مسلک رکھتے ہیں.مسلمان زیادہ تر شمالی اضلاع میں آباد ہیں.پورٹ بوبیت اور ساحلی شہر مارکوری

Page 171

تاریخ احمدیت 162 جلد 21 میں مسلمان اکثریت میں ہیں.دارالحکومت آبی جان میں کئی محلے اور بستیاں مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں.ملک میں بے شمار مساجد ہیں جن کو دینی مدرسے کی بھی حیثیت حاصل ہے.سب سے زیادہ تعلیم یافتہ عیسائی ہیں جن کی آبادی بمشکل دس فی صد ہے.پورا سرمایہ اور ملک کا نظم ونسق انہی کے ہاتھ میں ہے.صدر مملکت عیسائی ہے.تمہیں وزیروں کی کابینہ میں تئیس چومیں عیسائی ہوتے ہیں اور باقی مسلمان.فوج، عدلیہ اور انتظامیہ میں مسلم نمائندگی کا تناسب ملکی آبادی کے مقابلے میں بہت کم ہے.103 احمد یہ مشن آئیوری کوسٹ کے بانی قریشی مقبول احمد صاحب تھے جو 22 نومبر 1960 ء کور بوہ سے روانہ ہوکر 27 نومبر کو لیگوس ( نائیجیریا) پہنچے جہاں ایک عرصہ سے ایثار پیشہ احمدی مجاہد مغربی اور مشرقی افریقہ کے دوسرے مبشرین احمدیت کی طرح بے جگری سے اشاعت اسلام کے قرآنی جہاد میں سرگرم عمل تھے.سیدنا حضرت مصلح موعود نے ایک بار خطبہ جمعہ کے دوران اسلام کے ان خوش نصیب فرزندوں کی نسبت اس رائے کا اظہار فرمایا: ”میرے نزدیک اس زمانہ میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کے مشابہ قربانی وہ مبلغ کر رہے ہیں جو مشرقی اور مغربی افریقہ میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.وہ غیر آباد ملک ہیں جن میں کوئی شخص خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام نہیں جانتا تھا لیکن ان لوگوں نے وہاں پہنچ کر انہیں خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام بتایا....ہمارے یہ مبلغ ایسے ممالک میں کام کر رہے ہیں جہاں جنگل ہی جنگل ہیں، شروع شروع میں جب ہمارے مبلغ وہاں گئے تو بعض دفعہ انہیں وہاں درختوں کی جڑیں کھانی پڑتی تھیں اور وہ نہایت تنگی سے گزارہ کرتے تھے.جس کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہو جاتی تھی.گواب ہمارے آدمیوں کے میل ملاپ کی وجہ سے ان لوگوں میں کچھ نہ کچھ تہذیب آگئی ہے.ان ممالک کو سفید آدمیوں کی قبر کہا جاتا ہے، کیونکہ وہاں کھانے پینے کی چیزیں نہیں ملتیں ، جب سفید آدمی وہاں جاتے ہیں تو وہ مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور پیچس وغیرہ بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں.غرض اس زمانے میں حضرت اسمعیل علیہ السلام سے زیادہ سے زیادہ مشابہت ہمارے مبلغوں کو حاصل ہے.جو اس وقت مشرقی اور مغربی افریقہ میں کام کر رہے ہیں.کیونکہ وہ ملک اس وقت بھی جنگل ہیں اور دنیا میں کوئی اور ملک جنگل نہیں

Page 172

تاریخ احمدیت 163 جلد 21 ، امریکہ بھی آباد ہے، یورپ بھی آباد ہے اور مڈل ایسٹ بھی آباد ہو چکا ہے لیکن افریقہ کے اکثر علاقے اب بھی غیر آباد ہیں.ان میں تبلیغ کرنے والوں کو بڑے لمبے لمبے سفر کرنے پڑتے ہیں اور بڑی جانکا ہی کے بعد لوگوں تک اسلام پہنچانا پڑتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ ملک ہمارے لئے رکھے تھے تا کہ ہمارے نوجوان ان میں کام کر کے حضرت اسمعیل علیہ السلام سے مشابہت حاصل کریں.پس خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے نوجوان افریقہ کے جنگلات میں بھی کام کر رہے ہیں.66 104 اس زمانہ میں فرانسیسی سفارت خانہ آئیوری کوسٹ کے سیاسی و ملکی مفادات کا نگران تھا.قریشی صاحب نے ویزا کے حصول کی درخواست دی مگر تین ماہ تک کوئی جواب نہ ملا جس پر آپ مرکزی ہدایت کے مطابق غانا تشریف لے گئے تا وہاں سے اجازت نامہ کی کوشش کریں.فرانسیسی سفارت خانہ کی ہدایت پر آپ 3 مارچ 1961ء کو آبی جان پہنچے.متعلقہ افسر نے بتایا کہ ویزارڈ ہو چکا ہے اور یہ کہ 24 گھنٹے کے اندر ملک کو چھوڑ دیا جائے.اتفاقاً حکومت کے محکمہ اقتصادیات کے کونسلر ہوائی اڈہ پر اپنے نجی کام کے لئے موجود تھے.جن سے تعارف ہوا اور انہیں کی کار میں شہر میں قدم رکھا اور ہوٹل میں قیام کیا.کونسلر صاحب نے مشورہ دیا کہ وزیر داخلہ پیرس میں ہے اس لئے غانا واپس جا کر اور دوبارہ درخواست دے کر کوشش کی جائے.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور خدا کی غیر معمولی تائید اور غیبی نصرت سے ویزامل گیا.10 قریشی صاحب درمیانی عرصہ میں نائجیریا، غانا اور سینیگال میں مصروف تبلیغ رہے.آخر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سب رو کیں دور ہو گئیں اور آپ 22 جولائی 1961 ء کو آبی جان پہنچ گئے.ابتدائی سرگرمیاں 105- مکانات کی سخت قلت کے باعث آپ پہلے تین ماہ ایک ہوٹل میں رہے.بعد ازاں آدجامے(ADJAME) محلہ میں ایک مکان مل گیا.اسے مرکز بنا کر آپ نے اہل محلہ اور شہر کے دوسرے محلوں میں انفرادی تبلیغ شروع کر دی اور مزید معلومات کے لئے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی.اس طریق سے لوگوں میں دلچسپی پیدا ہوگئی اور وہ مشن ہاؤس میں آنے لگے.آپ نے بعض زائرین کو حضرت مسیح موعود کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی کا فرانسیسی ترجمہ دیا.مسیح الزماں کی اس اثر انگیز کتاب نے ان کے قلوب و اذہان پر ایسا گہرا اثر ڈالا کہ وہ احمدی ہو گئے اور یوں احمدیت کا بیج اس ملک میں بویا گیا.یہی کتاب آپ نے وزیر داخلہ مسٹر کوفی کا جو ( MR.COFFI CADEOU) اور محکمہ جنگلات کے انچارج لا ما کمارا کو بھی

Page 173

تاریخ احمدیت 164 جلد 21 دی.جو عربی دان طبقہ تھا اسے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی لٹریچر پڑھنے کے لئے دیا.ایسے اصحاب جن سے آپ کا تعارف ابی جان میں ہوا لیکن ان کی رہائش اندرون ملک تھی ان سے بھی آپ نے خط و کتابت کے ذریعہ رابطہ پیدا کر لیا اور پیغام حق پہنچایا.1 196 ء میں آپ ملکی پریس سے روابط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے.آپ کا پہلا مضمون روز نامه ابی جان ماتین (ABIJAN MATIN) میں 20اکتوبر 1961ء کو شائع ہوا جس میں آپ نے ثابت کیا کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو سائنس کے مطابق ہے اور قرآن مجید کی کوئی بات سائنس کے خلاف نہیں.اس مضمون سے پبلک کو پہلی بار احمدیت اور احمد یہ مشن کا تعارف ہوا.جلد ہی آپکی کوششوں کے ثمرات ظاہر ہونے شروع ہو گئے.چنانچہ اسی دوران پانچ نفوس حلقہ بگوشِ احمد بیت ہوئے.مضمون کی اشاعت پر جہاں زائرین کی آمد میں یکا یک اضافہ ہو گیا وہاں پڑوسی ممالک میں بھی ہلچل مچ گئی.سعید روحیں آپ کے پاس کچھی چلی آنے لگیں.آپکو افریقی ممالک کے علاوہ لبنانی دوستوں کو بھی تبلیغ کا موقعہ ملا.اب آپ نے ابی جان کے ماحول میں تبلیغی سرگرمیاں شروع کر دیں اور قصبہ انیا (ANYAMA) میں تشریف لے گئے اور شہر کے رئیس امام اور دوسرے معززین کو احمدیت سے روشناس کرایا.یہاں آپ تین دفعہ گئے اور پہلی بار ایک پبلک جلسہ سے بھی خطاب کیا جس میں آپ نے اسلام کی برتری پر روشنی ڈالی جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے.28 نومبر 1961 ءکو روزنامہ ” آبی جان ماتین نے جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کی نسبت ایک مضمون شائع کیا نیز ماہانہ اخبار جرنل (LE JOURNAL) کی اشاعت میں آپ کا انٹرویو چھپا.دوسری سہ ماہی میں تیرہ مزید افراد کو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی اور آئیوری کوسٹ میں ایک مخلص جماعت قائم ہوگئی.جس کی تربیت و اصلاح کی طرف آپ نے خصوصی توجہ دینی شروع کر دی.آپ نے انہیں مالی قربانیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی تربیتی اور تبلیغی پہلوؤں کی طرف مزید متوجہ کرنے کے لئے اجلاسوں کا سلسلہ جاری کیا اور جو قرآن مجید پڑھنا نہیں جانتے تھے انہیں پڑھانا شروع کر دیا.قریشی صاحب کو علم ہوا کہ اٹلی کی ایک کمپنی مقدس آقا حضرت رسول کریم ہے کے بارے میں کوئی فلم پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.آپ نے آئیوری کوسٹ میں مقیم سفیر اٹلی کو توجہ دلائی تو موصوف نے جواب دیا کہ اگر کوئی کمپنی ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو ہماری حکومت اسے ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں

Page 174

تاریخ احمدیت 165 جلد 21 دے گی.بعد ازاں آپ نے سفیر موصوف سے ملاقات کر کے انہیں دینی لٹریچر پیش کیا.15 مئی 1962ء کو عید الاضحیہ کی تقریب تھی وہاں کے امام عموماً فقط عربی زبان کے خطبہ پر اکتفا کرتے ہیں مگر آپ نے مشن ہاؤس میں فرانسیسی زبان میں خطبہ دیا جس میں عید کا فلسفہ اور حکمت بیان فرمائی.اگلے دن اخبار ” آبی جان ما تین نے اسکی رپورٹ شائع کی.یہی رپورٹ اس دن ریڈیو پر بھی نشر کی گئی.مسلمانوں نے اس پر اظہار تعجب کیا کہ خطبہ فرانسیسی زبان میں دیا گیا ہے.عیسائی زائرین نے کہا کہ انہیں اس خطبہ میں پہلی دفعہ علم ہوا ہے کہ عید کیوں منائی جاتی ہے ؟ ور نہ عموماً مسلمان اس موقعہ پر ناچ گانے کے ذریعہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں.تیسری سہ ماہی میں گیارہ نفوس داخل احمدیت ہوئے.100 ستمبر 1962ء میں مالی (MALI) کے ایک ممتاز عالم دین الحاج محمد الغزالی الجابی احمدی ہو گئے.10 اور بہت جلد لوکل مبلغ کے فرائض بجالانے لگے.وہاں کے مدارس میں عیسائی پادری اتوار کو جا کر پڑھاتے اور عبادت کراتے ہیں مگر مسلمان طلبہ کی دینی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا.جس پر آپ نے 1963 ء کے شروع میں حکومت کی اجازت سے مسلم طلبہ کی دینی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینی شروع کر دی آپ مقامی ٹیکنیکل کالج کے مسلم طلبہ میں ہفتہ میں کسی ایک دن لیکچر دے یتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے نیز عربی کے اسباق بھی پڑھاتے تھے.تھورا عرصہ بعد ابی جان کے مدارس کے طلبہ کی مسلم ایسوسی ایشن قائم ہوئی تو آپ اپنے مشوروں 112 سے ان کی راہنمائی کرنے لگے.ابی جان کے مسلم طلبہ کی ترقی و بہبود کے علاوہ آپ دابو ( DABOU) اور بنگرول (BINGERVILLE) کے سکولوں میں بھی گئے اور وہاں بھی یہ سلسلہ شروع ہو گیا.اس طرح سال کے اختتام تک احمد یہ مشن کے زیر انتظام ملک کے تین شہروں میں پانچ ہفتہ وار اسلامی کلاسز قائم ہوگئیں : 1 ٹیکنیکل کالج آبی جان.2.نارمل سیکنڈری سکول دابوDABOU.3 ایگریکلچر کا لج با بودا بو.4-5.دو سیکنڈری سکول بنگرول احمد یہ مشن کی ان مساعی اور خدمات کو مسلم طلبہ نے خوب سراہا اور اس سے بھر پور استفادہ کیا جس سے اشاعت اسلام کی توسیع میں نئی حرکت پیدا ہوگئی.فروری سے اپریل 1963 ء تک مالی اور آئیوری کوسٹ کے 24 خوش نصیب حلقہ بگوش احمد بیت ہوئے.جن میں سینیگال کے عالم مسرعبداللہ المکتی بالخصوص قابل ذکر تھے.10 مئی سے جولائی 1963 ء تک 124 احباب مزید شامل احمدیت ہوئے.اس جماعتی

Page 175

تاریخ احمدیت 166 جلد 21 ترقی میں مقامی مبلغ الحاج محمد الغزالی صاحب کی کوششوں کا بھی بھاری عمل دخل تھا.قریشی محمد افضل صاحب کا ورود 24 اگست 1963ء کو مرکز احمدیت سے مشن کے دوسرے مبلغ قریشی محمد افضل صاحب ابی جان میں تشریف لائے.آپ 26 مئی 1963ء کور بوہ سے روانہ ہوئے اور 31 مئی کو لیگوس پہنچے اور چند ماہ قیام کے بعد اس ملک میں وارد ہوئے.اور قریشی مقبول احمد صاحب کی تبلیغی، تعلیمی اور تربیتی مساعی میں آپ کا ہاتھ بٹانے لگے.مسلم طلبہ کی رہنمائی کے لئے مدارس میں گئے اور آبی جان اور اس سے باہر BINGERVILL اور DABU وغیرہ کا تبلیغی دورہ کیا.قریشی مقبول احمد صاحب ابتداء زیر تبلیغ احباب کو مرکز کا مطبوعہ لٹریچر دیتے تھے لیکن اس سال آپ نے مقامی طور پر چا راشتہارات بھی طبع کرائے جو ہستی باری تعالی، رمضان عید الفطر اور جمع قرآن“ سے متعلق تھے.یہ اشتہارات 28 ستمبر 1963ء کو بکثرت تقسیم کئے گئے جبکہ اندرون ملک سے لاکھوں افراد آبی جان میں آئے ہوئے تھے.17 نومبر 1963 ء کے تیسرے ہفتہ میں احمدیہ مشن کی طرف سے جولا اور فرنچ زبان میں قرآن کریم کے پہلے پارہ کا ترجمہ ڈپلیکیٹر مشین پر طبع ہو کر شائع ہوا جو قریشی مقبول احمد صاحب کی کوششوں کا رہین منت تھا.فریچ ترجمہ پر سکول کے دو فرنچ ٹیچروں نے نظر ثانی کی اور جولا زبان کا ترجمہ ابی جان کے مسٹر محمد کو نزے نے کیا.اگست تا اکتوبر 1963ء کے درمیانی عرصہ میں سولہ افراد نے احمدیت قبول کی.119- قریشی مقبول احمد صاحب دو سال چار ماہ تک تبلیغی فرائض بجا لاتے رہے اور قریشی محمد افضل صاحب کو چارج دے کر 20 نومبر 1963ء کو عازم مرکز ہوئے اور 14 دسمبر 1963ء کور بوہ پہنچے 20.آپ نے 24 مئی 2007ء کو انتقال کیا.وسیع دورے، اشاعت لٹریچر اور شخصیات سے ملاقات قریشی محمد افضل صاحب نے مسلم طلباء کی کلاسز میںلیکچرز احمد یہ عربی سکول کی تعلیم خطبات اور انفرادی و اجتماعی تبلیغ کے ذریعہ احمدیہ مشن کو مزید مستحکم بنانے کی طرف خصوصی توجہ دی.آپ کی مساعی سے جون 1964 ء تک آئیوری کوسٹ کے احمدیوں کی تعداد 99 تک جا پہنچی اور مارچ 1965 ء تک اس کے ملحقہ تین ممالک یعنی بنجر پر دولٹا اور مالی میں بھی مختلف جماعتوں کا قیام عمل میں آگیا.121

Page 176

تاریخ احمدیت 167 جلد 21 مکرم قریشی صاحب نے ابتداء میں آبی جان کے قرب و جوار میں بکثرت دورے کرنے کے بعد شروع جنوری 1964 ء میں ملک کے دوسرے بڑے شہر بوکا (BOAKE) میں تشریف لے گئے اور انفرادی تبلیغ کرنے کے علاوہ جامع مسجد میں بھی کامیاب لیکچر دیا جس سے معززین شہر بہت متاثر ہوئے.فروری کے آخری ہفتہ میں دوسرا تبلیغی دورہ آپ نے آئیوری کوسٹ کے ملحقہ ملک اپر وولٹا کے صدر مقام وا گا دوگا کا کیا.یہ ملک آبی جان سے 800 میل کے فاصلے پر ہے.دورہ کا مقصد یہ تھا کہ اس ملک میں اسلام کی ترقی کا جائزہ لیا جائے اور جہانتک ممکن ہو بذریعہ خط و کتابت ولٹریچر اور مقامی احمدیوں کو بھیجوا کر تبلیغ کی جائے.122 اپر وولٹا کی مسلم آبادی کی مشہور شخصیت السید مولائی حسن کی تھی جنہیں آپ نے پیغام حق پہنچایا.مسلمانوں کی تنظیم اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر الحاج عثمان کو سلسلہ کا فرینچ لٹریچر پیش کیا اور دو گھنٹے تک تفصیلی گفتگو کی.دوران قیام آپ نے انفرادی طور پر بھی تبلیغ کی اور بازار مارکیٹ کی ہراہم 123- جگہوں پر لٹریچر تقسیم کیا.2 29 فروری سے 6 مارچ 1964 ء تک آپ نے دابو (DABOU) شہر کا تبلیغی دورہ کیا.اس کے بعد آپ نے انیاما (INYAMA) قصبہ تک پیغام احمدیت پہنچایا.15 اگست تا 21 اگست 1964ء آپ ابی جان سے متصل آبادی کماسی (KOUMASI) میں بغرض تبلیغ تشریف لے گئے.اوائل ستمبر میں آپ نے ابو بوگار (ABOBOGARE) کا دورہ کیا اور نو جوانوں میں فرنچ لٹریچر تقسیم کیا.آبی جان میں جہاں آپ کا مرکز تھا آپ سرکاری دفاتر بیرونی وفود اور سیمیناروں سے میسر آنے والے تبلیغی مواقع سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے رہے.64-1963ء میں آپ نے جن شخصیات کو سلسلہ کا لٹریچر دیا ان میں آئیوری کوسٹ کے وائس پریذیڈنٹ محمد کولی بالی سفیر مراکش، سفیر نا یجیر یا خاص طور پر قابل ذکر ہیں.علاوہ ازیں ایرانی اور ٹرکش وفود کو بھی سلسلہ کی کتب دیں.1965ء میں آپ نے تبلیغ میں وسعت پیدا کرنے کے لئے مقامی احمدیوں کے تبلیغی وفود بھجوائے ، ان وفود میں مسٹر عبد اللہ کی بالی (صدر جماعت ) عبد الحمید صاحب اور دوسرے احمدی شامل ہوتے تھے.وفود نے کماسی انیاما گا گنوآ ، گرانڈ باسام تر شدل وغیرہ میں نہایت جانفشانی سے فریضہ تبلیغ ادا کیا اور عیسائیوں سے مباحثے کئے بلکہ جون 1965ء میں صدر جماعت آبی جان اور عبد الحمید صاحب کا ایک غیر احمدی عالم سے بھی کامیاب مناظرہ ہوا جس کا اثر پبلک پر بہت اچھا رہا.ان کامیابیوں سے رفتہ رفتہ مقامی

Page 177

تاریخ احمدیت 168 جلد 21 احمدیوں کے حو صلے بھی بلند ہوتے گئے اور وہ تبلیغ کے میدان میں پہلے سے زیادہ دلچسپی لینے لگے.قریشی صاحب نے جولائی.اگست 1965ء میں دو تبلیغی جلسے منعقد کئے جن میں احمدی وغیر احمدی اصحاب بکثرت شامل ہوئے.نومبر.دسمبر 1965ء اور مئی 1966ء میں آپ نے دو اہم ٹریکٹ شائع کئے جن کی ملک کے دیگر حلقوں کے علاوہ مسلم طلباء میں خصوصی اشاعت کی گئی.120 1966ء میں مرکز کی مدد سے ابی جان میں ایک قطعہ اراضی خریدا گیا جس پر مسجد اور مشن ہاؤس تعمیر ہوا.اس سلسلہ میں بہت سا کام وقار عمل کی صورت میں احمدی طلبہ نے کیا.لوکل معلمین کی تیاری مغربی افریقہ میں علماء اپنے ساتھ مستقل بنیادوں پر طالب علم رکھتے ہیں.اس طریق کے مطابق قریشی محمد افضل صاحب نے ابتداء سے ہی تبلیغ اسلام میں کام آنے والے نوجوان ساتھ رکھے.جن کی رہائش اور مکان مرکز کے ذمہ ہوتا تھا.بفضلہ تعالیٰ یہ سب طلباء بہت ہی ذہین اور وفادار ثابت ہوئے.مکرم قریشی صاحب نے انہیں لفظاً لفظاً تفسیر القرآن اور صحیحین کی کتابیں بخاری و مسلم پڑھائیں.اور ساتھ کے ساتھ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب بھی پڑھائیں.اور ان طلباء کو فریج پڑھنے اور بولنے کا اہل بنایا.قریشی صاحب کے ان طلباء میں سے جلدی چار طلباء جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخل ہو گئے اور شہادة الاجانب مکمل کر کے واپس جا کر میدان تبلیغ میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا کامیاب دورہ وسط 1966ء میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے سارے مغربی افریقہ کے احمدیہ مراکز کا تفصیلی دورہ فرمایا.آپ کے ہمراہ مکرم میر مسعود احمد صاحب اور مکرم مولا نا بشارت احمد صاحب بشیر تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب کے دورہ کا اعلان لوکل فرانسیسی زبان میں شائع ہوا.جس کے ساتھ جماعت کی خدمات اسلامیہ کی تفصیل تھی.مکرم قریشی صاحب انچارج ٹیلی وژن اور ریڈیو والوں سے ملے.ٹیلی وژن والوں نے بمع جملہ ساز و سامان حضرت صاحبزادہ صاحب کا انٹرویو ائر پورٹ پر لیا جو اسی شب دکھایا.حضرت میاں صاحب کی آمد کے پیش نظر جملہ احمدی احباب سینکڑوں کی تعداد میں ائر پورٹ پر موجود تھے.جس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ کیا یہ سب احمدی ہیں.مکرم قریشی صاحب نے تمام احباب کا تعارف کروایا.حضرت میاں صاحب کا قیام دو دن رہا.ان دنوں جماعت کا مرکز

Page 178

تاریخ احمدیت 169 جلد 21 ہنوز کرایہ کے مکان میں تھا.جہاں دو دن متواتر حضرت میاں صاحب نے احباب جماعت کو تفصیلی خطاب سے مشرف کیا.مشن کی کامیابی دیکھ کر حضرت میاں صاحب نے وعدہ کیا کہ مرکز جاتے ہی وہ یہاں جماعت کے اپنے مرکز کے لئے رقم بھجوائیں گے.جو بھجوائی گئی جس سے ایک مناسب جگہ پر ایک قطعہ زمین بمع چند کمروں کے خریدا گیا.یہاں ایک عارضی بیت الذکر فی الفور تعمیر کی گئی.اور مشن کی ترقی بفضل الہی نمایاں طور پر مستقل بنیادوں پر شروع ہو گئی.بعد میں اسی پلاٹ سے ملحقہ پلاٹ بھی خریدا گیا.اور احباب جماعت کی مالی قربانیوں سے ایک پلاٹ پر دو منزلہ عمارت تعمیر کی گئی.جس میں پہلی منزل پر احمد یہ پبلک سکول کے لئے آٹھ کمرے تعمیر کئے گئے.جس کے اوپر 80×40 کی مسقف بیت الذکر تعمیر ہوئی.دوسرے پلاٹ پر احمد یہ کلینک کی دومنزلہ عمارت تعمیر کی گئی.جہاں اب ماریشس والے مکرم ڈاکٹر نظام بدھن صاحب نے احمد یہ کلینک کھولا ہے.جو بفضلہ تعالیٰ سرعت سے کامیابی کی منازل طے کر رہا ہے.انہیں دونوں پلاٹوں پر مبلغین، معلمین اور نرسوں کے لئے رہائشی کمرے بھی ہیں.فالحمد لله اولاً وآخراً.اس وقت جماعت احمدیہ کا یہ دارالتبلیغ نہ صرف آئیوری کوسٹ بلکہ ملحقہ فرانسیسی مقبوضات اپر وولٹا، نائیجر، مالی، سینیگال، موریتانیہ اور گنی میں فرنچ زبان میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت اور تبلیغ اسلام کے فرائض بجالا رہا ہے.ہمارے ایک احمدی طالب علم احمد ٹورے نے ملک مالی کے دو تبلیغی دورے کئے ہیں.ان کے ہاتھ بہت سارا اسلامی لٹریچر عربی اور فرنچ زبان میں بھیجوایا گیا.اسی طرح مکرم عبد اللہ کی بالی صدر جماعت احمد یہ آبی جان نے ملک مالی.اپر ولٹا اور لائبیریا کا تبلیغی دورہ کیا.ایک اور طالب علم داؤد نے لائبیریا اور سیرالیون اور گنی کا تبلیغی دورہ کیا.الغرض ہر ممکن طریق سے اسلام کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے.اور افریقن احباب جماعت جانی اور مالی قربانیوں میں تن من دھن لگائے ہوئے ہیں.قریشی محمد افضل صاحب آئیوری کوسٹ میں تین سال سے زائد عرصہ تک مصروف جہادر ہنے کے بعد 11 نومبر 1966ء کو واپس تشریف لائے اور دوبارہ 28 مارچ 1968 ء کور بوہ سے روانہ ہوکر 24 اپریل 1967ء کوآئیوری کوسٹ پہنچ گئے.ازاں بعد احمد شمشیر سوکیہ صاحب 18 جولائی 1967ء کو ماریشس سے آئیوری کوسٹ بھیجے گئے.محترم قریشی صاحب نے اس مرتبہ کم و بیش ساڑھے چار سال تک انچارج مشن کے فرائض نہایت کامیابی سے ادا کئے اور مرکزی اور مقامی مبلغین اور مقامی احمدیوں کے تعاون سے احمدیت کی آواز کو ملک کے کونہ کونہ تک پہنچا دیا.وسیع دورے کئے، تبلیغ کے مختلف ذرائع اختیار کئے اور نئے پمفلٹ شائع کر کے

Page 179

تاریخ احمدیت 170 جلد 21 انہیں ملک بھر میں پھیلا دیا.جس کے نتیجہ میں کئی روحیں احمدیت میں شامل ہو ئیر مشن کے تعلیمی ادارے مشن نے یہاں تک ترقی حاصل کر لی کہ اس کے زیر انتظام ایک عربک سکول ایک فرنچ عربک سکول اور ایک مشنری ٹریننگ سینٹر کھل گئے.جس کا تقریباً سارا خرچ مشن خود برداشت کرتا تھا اسی طرح دو لوکل مبلغین کی تنخواہ بھی اسی کے بجٹ سے ادا ہوتی تھی.120 الغرض تعلیم الاسلام ہائی سکول، مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے نقش قدم پر یہ تینوں تعلیمی ادارے جاری ہوگئے.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی تشریف آوری 27 اپریل 1970ء کا دن آئیوری کوسٹ مشن کی تاریخ میں ہمیشہ زریں الفاظ میں لکھا جائے گا کیونکہ اس دن سید نا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث بمع حضرت سیدہ بیگم صاحبہ اپنے دورہ مغربی افریقہ کے دوران بذریعہ ہوائی جہاز آبی جان رونق افروز ہوئے.اس مبارک سفر میں حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ سلیم ناصر صاحب، ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب، مولوی عبد الکریم صاحب اور چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے بھی حضور کے ہمراہ تھے.قریشی محمد افضل صاحب اور دیگر مخلصین جماعت نے حضور کو ہوائی مستقر پر والہانہ استقبال کیا.حضور نے پریس کے نمائندہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے یہاں آنے کی اصل غرض تو روحانی ہے اور خدائے واحد کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے.ثانوی غرض یہ ہے کہ جماعت کے دوستوں سے ملاقات کریں نیز یہ معلوم کریں کہ اس ملک کی کیا خدمت کر سکتے ہیں.آپ لوگ اپنی روحانی اور اخلاقی اور جسمانی صلاحیتوں کا پورا اور صحیح استعمال کریں تو ممکن ہے کہ آپ ساری دنیا کے معلم بن جائیں.ایسے صحیح استعمال کی توفیق صرف دعا ہی سے ملتی ہے اس لئے اصل توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہئے.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث اور افراد قافلہ کا قیام HOTEL IVIOR INTER CONTINENTAL میں تھا.جہاں بہت سے معززین اور احباب جماعت زیارت کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے مثلاً مسٹر محمد عبد اللہ صاحب کولی بالی ( پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ابی جان ) ، ابوبکر سلہ صاحب ( آنریری مبلغ ) ،مسٹر سوکولے، الحاج ابوبکر چیف آف تغراء الحاج طورے چیف آف جولا ،مسٹر عبداللہ چیر و ( جنرل سیکرٹری جماعت ).

Page 180

تاریخ احمدیت 171 جلد 21 حضور نے نماز مغرب مسجد احمدیہ میں ادا فرمائی.نماز کے بعد ایک مختصر مگر پر معارف خطاب فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ قرآن کریم کتاب مبین بھی ہے اور کتاب مکنون بھی.کتاب مکنون کے راز وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر محمد رسول اللہ یہ کے فرزندوں پر کھولے جاتے ہیں اور اس طرح کتاب مکنون کے وہ حصے کتاب مبین بن جاتے ہیں.قرآن کریم ہر زمانہ کی ضرورت کو پورا کرتا ہے.اس زمانہ کے مسائل کو حل کرنے کے لئے محمد رسول الله الا اللہ کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ قرآنی معارف سکھائے گئے جن کی زمانہ کو ضرورت تھی.اسلام پر موجودہ فلسفے اور سائنس کی طرف سے جتنے اعتراضات بھی کئے گئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سارے اعتراضات کے شافی جوابات دے کر دُور فرما دیئے ہیں.حضور نے تمام معترضین کو چیلنج کیا.کسی ایک کو بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے چیلنج کو قبول کرنے کی توفیق نہ ملی.اس دعوے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعوے میں بچے ہیں.اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے نور سے باہر اندھیرا ہے اس لئے ہمیں بہت کثرت سے درود شریف پڑھنا چاہئے.اللهم صلى على محمد و على آل محمد و بارك و سلّم انك حمید مجید.اس تقریر کاترجمہ مکرم قریشی محمد افضل صاحب مشنری انچارج نے فرانسیسی میں اور مسٹرمحمد مصطفی نے جولا زبان میں کیا.اگلے روز 28 اپریل کو گیارہ بجے صبح حضور کی ملک کے قائم مقام صدر سے ملاقات مقرر تھی لیکن ان کو ائر پورٹ پر ایک سر براہ مملکت کے انتظار میں اس لئے رک جانا پڑا کہ ان کا جہاز لیٹ ہو گیا تھا.ان کا معذرت کا فون آیا کہ تین گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں اور نہیں کہہ سکتا کہ جہاز کب آئے.انہوں نے اپنے نائب سے کہا کہ حضور سے ان کی جگہ ملاقات فرمائیں اور اگر حضور اپنے پروگرام میں سے وقت نکال سکیں تو کل کسی وقت ملاقات ہو جائے.حضور نے ارشاد فرمایا کل ایک اور مہمان ڈاکٹر بوسیا گھانا سے آ رہے ہیں آپ مصروف ہوں گے اور ہم کل جا رہے ہیں اس لئے وقت نہیں ہوگا.حضور نے اپنی طرف سے قائم مقام صدر صاحب کو پاکستانی دستکاری کے نمونہ کے طور پر ایک نقر کی رکابی CASKET تحفتا دی اور فرمایا کہ یہ پاکستان اور آئیوری کوسٹ کے اچھے تعلقات کی علامت ہے.حضور گورنمنٹ ہاؤس سے واپس اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور محترم قریشی محمد افضل صاحب کی معیت میں جماعت کے مقامی عہدیداران اور مبلغین کو ملاقات کا شرف بخشا.حضور نے دریافت فرمایا کہ کتنے دوست عربی جانتے ہیں؟ پھر حضور نے عبد الحمید صاحب اور محمد ادریس صاحب کو حضرت مسیح موعود

Page 181

تاریخ احمدیت 172 جلد 21 علیہ السلام کی ایک کتاب میں سے عربی عبارت پڑھنے کے لئے دی اور پوچھا کہ کیا آپ اسے سمجھتے ہیں.انہوں نے عرض کیا کہ حضور کافی حد تک سمجھتے ہیں.حضور نے فرمایا آپ کے چہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کسی چیز سے مرعوب ہوں.انہوں نے بتایا کہ روایتی طور پر ہمیں بزرگوں کے احترام کا یہ طریق سکھایا جاتا ہے.حضور نے فرمایا پھر درست ہے.حضور نے اپر وولٹا کے احمدیوں کے بارہ میں دریافت فرمایا کہ کتنے ہیں.عرض کیا گیا کہ پچاس کے قریب بالغ مرد احمدی ہیں اگر عورتوں اور بچوں کو شامل کر لیا جائے تو ڈیڑھ سو سے زیادہ ہو جاتے ہیں.حضور نے پوچھا کہ آپ کو کس قسم کی امداد کی ضرورت ہے؟ عرض کیا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے خلیفہ ثالث کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے.ہم میں اس قدر توفیق نہ تھی کہ پاکستان جا کر زیارت کر سکتے.جس کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے بے حد شکر گزار ہیں اور ہم یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ ہمارا سکول مسجد میں قائم ہے.جگہ کم ہونے کی وجہ سے زیادہ طلبہ داخل ہو سکتے.اگر کوئی مناسب عمارت خرید دی جائے تو ہم اسے کامیابی سے چلا سکتے ہیں.حضور نے مکان خریدنے کا انداز اخرچ دریافت فرمایا تو بتایا کہ تین ہزار پونڈ میں موزوں مکان مل سکتا ہے.اس کے بعد حضور نے اساتذہ کے سلسلے میں بھی دریافت فرمایا کہ ماریشس سے بھجوائے جا سکتے ہیں.حضور نے مغرب اور عشاء کی نمازیں مسجد احمد یہ میں ادا کیں اس کے بعد حضور نے جماعت سے ایک اثر انگیز خطاب فرمایا جس کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.اس تقریر کا ترجمہ بھی قریشی محمد افضل صاحب پہلے فرانسیسی میں کرتے اور پھر ایک مقامی دوست اسے جو لا زبان میں ترجمہ کرتے تھے.حضور نے فرمایا: ’نائیجیریا، گھانا، سیرالیون میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بہت بڑھ گئی ہے.گھانا میں 1960ء کی مردم شماری کے مطابق بالغ احمدی آبادی ایک لاکھ پینتیس ہزار تھی.سیرالیون میں بھی آبادی کی نسبت سے ماشاء اللہ جماعت کافی زیادہ ہے.یہاں آئیوری کوسٹ (IVORY COAST) میں مشرکین بہت زیادہ ہیں.اسلام کے پہلے ب مشرکین عرب ہی تھے اس لئے آنحضرت ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مشرکین کو پہلے پیغام پہنچانا چاہئے.نبی اکرم ﷺ نے اپنی قوت قدسیہ اور افاضۂ روحانی کے نتیجے میں سارے مشرکین عرب کو اسلام کی طرف کھینچ لیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں عرب کے جزیرہ نما میں ایک عظیم انقلاب رونما ہو گیا.ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف

Page 182

تاریخ احمدیت 173 جلد 21 سے نبی اکرم ﷺ کو ابدی حیات دی گئی ہے.اپنی روحانی تاثیر کے لحاظ سے حضور آج بھی اسی طرح زندہ ہیں جس طرح چودہ سو سال پہلے.اگر ہم آپ کے اسوہ پر عمل کریں اور اسلام کی حسین تعلیم مشرکوں تک پہنچائیں اور دعا کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ جس طرح اسلام کی تعلیم نے مشرکین مکہ کے دل میں گھر کیا تھا یہاں کے مشرکین ( PAGANS) بھی مسلمان نہ ہو جا ئیں.ہماری نسل پر خصوصاً اُن احمدیوں پر جو یہاں رہتے ہیں فرض ہے کہ اسلام کا پیغام مشرکین اور بد مذہب لوگوں تک پہنچائیں.مرکز کی طرف سے قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ مع تفصیلی نوٹوں کے ربوہ میں تیار ہو کر جلد پہنچ جائے گا اور جس طرح یہاں کی جماعت نے مشورہ دیا ہے چھوٹے چھوٹے رسالے بھی فرانسیسی میں تیار کر کے بھجوائے جائیں گے.جس وقت یہ لٹریچر یہاں پہنچ جائے اس کو آگے پہنچانا اس جماعت کا کام ہے.ہم پاکستان میں بیٹھ کر اتنی دور سے یہ کام نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور جلال اور نبی اکرم ﷺ کی عزت اور وقار کے قیام کے لئے آپ کو بھیجا گیا ہے، آپ ضرور کامیاب ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم اللہ کے اس عظیم روحانی فرزند سے جو وعدہ کیا ہے اس کے پورا ہونے کے آثار ہمیں نظر آنے لگ گئے ہیں.اگلے ہمیں چھپیں سال اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور کامیابی کے لئے بڑے اہم ہیں.مشرکوں عبد مذھبوں، مخالفوں نے حضور کی آواز کو جو ایک تنہا آواز تھی دبانے کے لئے ساری طاقت ایک جگہ جمع کر دی.ان کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں.اسلام کا حسین چہرہ ساری دنیا میں اب ہمیں نظر آرہا ہے.ہر نیا دن جو احمدیت پر طلوع ہوتا ہے احمدیت کو پہلے دن کی نسبت زیادہ طاقتور پاتا ہے.اشتراکیت نے دعوی کیا تھا کہ وہ دنیا سے اسلام کو مٹادیں گے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کو (کشفی ) نظارہ دکھایا کہ روس میں کثرت سے اسلام پھیل جائے گا.ساری دنیا میں جہاں لوگ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے تھے اور دہریہ بن گئے تھے احمدیت انہیں کھینچ کھینچ کر واپس لا رہی ہے.آپ دعا اور تد بیر سے اللہ تعالیٰ کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور اس کی برکتوں کے وارث بنیں.حضور کے قیام آئیوری کوسٹ کی آخری اہم تقریب وہ دعوت تھی جو خود حضور نے 29 اپریل کی صبح کو بوقت دس بجے احمد یہ عربک سکول میں پڑھنے والے بچوں کو دی.ان کی استانی بھی ساتھ تھی اور احباب

Page 183

تاریخ احمدیت 174 جلد 21 بھی.بچوں نے اهلا و سهلا و مرحبا اور یا امیرالمؤمنین کے الفاظ بیک آواز بار بار دھرائے اور پھر طلع البدر علینا کے اشعار پڑھے اور سورہ فاتحہ اور قرآن مجید کی آخری تین سورتیں خوش الحانی سے پڑھیں.حضور نے ان کے ساتھ کئی فوٹو کھنچوائے اور قریشی محمد افضل صاحب سے ارشاد فرمایا کہ بچوں کے کھیلنے کے لئے ٹیبل ٹینس کی ایک میز رکھیں.بارہ بجے حضور معہ قافلہ ائر پورٹ روانہ ہوئے.مخلصین جماعت حسب سابق حضرت مهدی موعود علیہ السلام کے تیسرے نائب اور خلیفہ کو الوداع کہنے کے لئے حاضر تھے.حضور نے سب کو مصافحہ کا شرف بخشا.جہاز ٹھیک ڈیڑھ بجے لائبیریا کے لئے روانہ ہو گیا.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے اس یادگار سفر کے بعد قریشی محمد افضل صاحب قریباً ڈھائی سال تک اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف رہے.بعد ازاں احمد شمشیر سوکیہ صاحب کو مشن کا چارج دے کر 130 14 نومبر 1972 ء کور بوہ تشریف لے آئے.آپ کے بعد پانچ سال تک مشن نے کیا اہم خدمات سرانجام دیں ؟ اس بارہ میں مرکز سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ مارچ 1974ء میں حضرت خلیفتہ اُسیح الثالث کی خدمت میں 9 ا حباب کے بیعت فارم بغرض منظوری بھجوائے گئے اور ستمبر 1976ء میں رمضان کے بارہ میں دو ہزار ٹریکٹ شائع کئے گئے نیز ایک پمفلٹ ایک ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا.احمد شمشیر سوکیہ صاحب 21 ستمبر 1977ء کور بوہ میں آئے.قریشی محمد افضل صاحب مشن کا چارج سنبھالنے کے لئے تیسری بار 6 اگست 1977ء کو مرکز سے بھجوائے گئے.آپ کو چار ماہ کی تگ و دو کے بعد 20 ستمبر 1999ء کو رہائشی ویز املا جو ایک سال کے لئے تھا.16 مئی 1978 ء کو آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ آئیوری کوسٹ میں اس وقت چار لوکل معلمین اور یہ عاجز تبلیغ اسلام میں مصروف کار ہیں.معلمین مکتب میں بچوں کو نماز اور قاعدہ میسر نا القرآن و قرآن کریم پڑھاتے ہیں.بڑے بچے حدیث کی کتاب بھی پڑھتے ہیں.معلمین روزانہ شہر کے مختلف حصوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت بھی کرتے ہیں.مرکز سے 28 نومبر 1979ء کو احمد شمشیر سوکیہ صاحب دوبارہ آئیوری کوسٹ وارد ہوئے اور تبلیغ و تربیت کے فرائض انجام دینے لگے.ان کی بعض ہفتہ وار رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ درس قرآن، تقسیم لٹریچر اور مختلف افراد سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ آپ ہر ہفتہ قرآن مجید کا لفظی ترجمہ بھی کرتے اور اسکی فوٹو کاپیاں احباب جماعت میں تقسیم کرتے تھے.بعض سعید روحیں آپ کے ذریعہ بھی داخل احمدیت ہوئیں.آپ 1981 ء کو واپس آئے.

Page 184

تاریخ احمدیت 175 جلد 21 جون 1980ء میں دس ہزار ڈالر کی لاگت سے فرنچ عربک سکول کی عمارت میں احمدیہ مسجد کی تعمیر مکمل ہوگئی.اس مسجد کی تعمیر چھ ماہ سے جاری تھی.131 مشن کی ترقی خلافت رابعہ کے دور میں مرکز سے 121اکتوبر 1981ء کو مولوی عبدالرشید صاحب رازی مشن کا چارج سنبھالنے کے لئے تشریف لے گئے.اور 27 اکتوبر کو ابی جان پہنچے جس کے بعد قریشی محمد افضل صاحب 19 دسمبر 1981 ء کو ربوہ آگئے.خلافت رابعہ کے آغاز میں 28 جون 1982ء کو مولوی مظفر احمد منصور صاحب عازم آئیوری کوسٹ ہوئے اور ابی جان میں 6 جولائی 1982 ء کو پہنچ گئے.اب ملک میں اشاعت احمدیت کی مہم دوبارہ تیز ہوگئی اور جماعت کی قربانی اور اخلاص کا معیار بھی بڑھنے لگا..چنانچہ ایک محتاط اندازے کے مطابق مئی 1984 ء تک جماعت کی تعداد پانچ سو تک پہنچ گئے.دوسری طرف ایسی بیداری پیدا ہوئی کہ مشن کا 83-1982ء کا بجٹ پچاس لاکھ اسی ہزار فرانک تھا مگر وصولی چھپن لاکھ چوالیس ہزار نو سو چھبیس فرانک ہوئی.84-1983 ء کا بجٹ گزشتہ سال کی وصولی سے بھی زیادہ بنایا گیا مگر آمد اس سے بھی زیادہ ہوئی یعنی 62لاکھ نو سو چودہ فرانک.یہانتک کہ 85-1984ء میں مشن کے جملہ چندوں کی وصولی اکہتر لاکھ چورانوے ہزار دوسوستاسی فرانک تک جا پہنچی.الغرض خلافت رابعہ کے مبارک دور سے اس مشن کی نشاۃ ثانیہ ہوئی اور جماعت آئیوری کوسٹ کا قدم ہر لحاظ سے آگے ہی آگے بڑھنے لگا.اب اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ ہو : آمد مقامی سکہ (فرانک ) آئیوری کوسٹ سال بجٹ 50,80,000 1982-83 56,77,000 1983-84 65,20,000 1984-85 وصولی 56,44,926 62,00,914 71,94,287 2 ستمبر 1982ء کو ابی جان میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم ہوئی.12 اکتوبر 1982ء کو جماعت کے ایک مخلص دوست مسٹر سوی جابی صاحب نے آئیوری کوسٹ

Page 185

تاریخ احمدیت 176 جلد 21 کے صدرمملکت کو دیباچہ قرآن ( فرنچ) کی دوکا پیاں اور دیگر اسلامی لٹریچر پیش کیا.1982ء کے آخر میں ابی جان کے مختلف احمدی گھروں میں مجالس مذاکرہ جاری کی گئیں جن میں غیر از جماعت احباب کثرت سے شامل ہوئے اور ایسی پاکیزہ مجالس کے مزید انعقاد کا مطالبہ کیا اور جماعت کی دینی مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا.آئیوری کوسٹ کے شمالی شہر مان MAN میں 12 تا 15 فروری 1983 ء ایک ملک گیر ثقافتی میلہ منعقد ہوا جس میں مولوی مظفر احمد صاحب منصور نے احمد یہ لٹریچر کا سٹال لگایا جسے ہزاروں افراد نے دلچسپی سے دیکھا اور میئر اور ملک کی مسلم شخصیتوں نے احمد یہ مشن کی کوششوں کو سراہا.مارچ 1983 ء میں آئیوری کوسٹ کی "المجلس الاعلى للشئون الاسلامية “ کے صدر مسٹر موسیٰ کو مارا صاحب نے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کے اعتراف میں احمدی مبلغین اور معلمین کو مجلس کی اعزازی رکنیت سے نوازا.انہوں نے کہا کہ احمدیوں سے بڑھ کر اور کون اسلام کی خدمت کر رہا ہے نیز کہا کہ تمام کلمہ گو مسلمان ہیں.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں جب یہ خوش کن رپورٹ پہنچی تو حضور نے تحریر فرمایا: الحمد للہ اس نیک سیرت انسان سے رابطہ مضبوط کیا جائے اور ھل جزاء الاحسان الا الاحسان پر عمل ہو.“ اپریل 1983ء میں مشن کی طرف سے تین ہزار فولڈر پندرہ ہزار کی تعداد میں شائع کئے گئے.مئی 1983 ء سے مولوی مظفر احمد صاحب منصور نے ابی جان کی سنٹرل جیل میں پیغام حق پہنچانا شروع کیا.آپ ہر اتوار کو وہاں تقریر کرتے سوالوں کے جواب دیتے اور لٹریچر تقسیم کرتے تھے.اس طریق سے کئی سعید روحیں حق کو قبول کرنے لگیں.اکتوبر 1983ء میں باسم (BASSAM) قصبہ میں احمد یہ جماعت کا قیام عمل میں آیا.یہاں مولوی عبد الرشید صاحب رازی پہلی بار دسمبر 1981ء کے آخری ہفتہ میں معلم ادریس صاحب کی معیت میں تشریف لے گئے تھے.1983 ء ڈیڑھ سونفوس نے بیعت کی جن میں سے پچاس غیر مسلم تھے.دسمبر میں تین طالب علم دینی تعلیم کے حصول کے لئے آئیوری کوسٹ سے ربوہ پہنچے.یہ تینوں طالب علم ابی جان سے لیبیا اور دمشق سے ہوتے ہوئے ربوہ پہنچے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئیوری کوسٹ کا مشن ہیں سال کے بعد 84-1983ء میں مالی لحاظ سے

Page 186

تاریخ احمدیت 177 جلد 21 خود کفیل ہو گیا.22 نومبر 1984ء کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابی جان ( آئیوری کوسٹ ) میں پہلا احمد یہ ہسپتال تین سال کی مسلسل تنگ ودو کے بعد کھل گیا.یونیورسٹی آف ابی جان کی مسلم تنظیم کے لئے دیا چہ قرآن مجید اور فرینچ زبان میں حضرت مسیح موعود کی کتب قریباً بیس عدد ایک خاص تقریب میں پیش کی گئیں.1984 ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے احمدیوں کے خلاف آرڈینینس پر ابی جان میں مقیم بہت سے سفیروں اور ان کے سیکرٹریوں سے ملاقاتیں کی گئیں.مسلم اور غیر مسلم سفراء کرام نے بڑی ہمدردی سے ہمارے موقف کو سنا اور مناسب مدد کرنے کا اظہار کیا.ہوا.دیباچہ 1985ء میں 485 زائرین مشن ہاؤس میں آئے.چودہ لاکھ سولہ ہزار فرانک کا لٹریچر فروخت چه تفسیر القرآن کے پچیس نسخے صدر مملکت، وزراء حج صاحبان کالجوں کے پرنسپل اور دوسرے معززین اور مسلم سٹوڈنٹ یونین کو پیش کئے گئے.مبلغین احمدیت نے دس قصبوں اور تین بڑے شہروں کا تبلیغی دورہ کیا.عقیقہ کی ہمیں تقریبوں میں ہزاروں افراد کو اسلام کی سادہ اور حسین تعلیم سے روشناس کرایا گیا.جماعت کی ذیلی تنظیموں کے 140 اجلاس ہوئے.اس سال پہلی بار جماعت آئیوری کوسٹ کا نمائندہ جلسہ سالانہ ربوہ میں شامل ہوا.جنوری 1985 ء سے مارچ 1986 ء تک 65 سعید روحوں نے قبول حق کیا نیز حضرت خلیفہ المسیح الرابع کا خطبہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور احمدیت کی خصوصیات ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.ایک پمفلٹ ”احمدیت کیا ہے پانچ ہزار کی تعداد میں اشاعت پذیر ہوا.اپریل 1985 ء میں سنٹرل جیل ابی جان میں سیرت النبی کا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا.سامعین کی تعداد ڈھائی ہزار کے لگ بھگ تھی.جلسہ سے مولوی عبد الرشید صاحب رازی امیر آئیوری کوسٹ اور مولوی مظفر احمد صاحب منصور نے خطاب کیا.اعلیٰ حکام نے اس جلسہ کے انعقاد پر بڑی خوشی کا اظہار کیا.180 25 جولائی 1985ء کو چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید دورہ افریقہ کے دوران بانجل سے ابی جان آئے.احباب نے ان کا پُر تپاک استقبال کیا.آپ نے خطبہ جمعہ میں احباب کو مالی قربانی کی تلقین کی، اجلاس عام میں بچوں اور بوڑھوں کی تربیت پر زور دیا اور مجلس عاملہ کی میٹنگ میں عہدیداران جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور مبلغین اور معلمین کو دعوت الی اللہ کے بارے میں ہدایات دیں.آپ نے وزیر انصاف اور وزیر اطلاعات کو ان کے سیکرٹریوں کے ذریعہ دیباچہ

Page 187

تاریخ احمدیت قرآن کا تحفہ دیا.17 پہلا جلسہ سالانہ 178 جولائی اگست 1985ء میں پچاس افراد نے بیعت کی.جلد 21 29-28 ستمبر 1985ء کو آئیوری کوسٹ کے احمدیوں کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں 20 شہروں کے مندوبین نے شرکت کی.حاضرین کی تعداد تین سو سے زائد تھی.جناب مولوی عبد الرشید صاحب رازی ساڑھے چار سال تک تبلیغی جہاد میں سرگرم عمل 180 رہنے کے بعد اپریل 1986ء کو مولوی مظفر احمد صاحب منصور کو چارج دے کر واپس مرکز احمدیت میں تشریف لے آئے.حضرت خلیفہ اسی کا اظہار خوشنودی درج ذیل مکتوب سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے 8 اپریل 1986 ء کو لنڈن سے مولوی عبدالرشید صاحب رازی کی ایک رپورٹ پر ارسال فرمایا: وو " بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر عزیزم مکرم عبدالرشید صاحب رازی مبلغ انچارج آئیوری کوسٹ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپکی رپورٹ کارگزاری فروری 86 موصول ہوئی.جزاکم اللہ تعالی.رپورٹ کے متعلق ہدایت ہے یہ کہ پندرہ روزہ ہونی چاہئے نہ کہ ماہانہ.اس ھدایت کی پابندی کے ساتھ رپورٹ بھیجوایا کریں.الحمد للہ کہ ماہ فروری میں جو کہ تبلیغ “ کا مہینہ ہے 65 سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں.الحمد لله.اللهم زد وبارك و ثبت اقدامهم.اللہ انہیں ثبات قدم عطا فرمائے اور سبھی کو پُر جوش داعی الی اللہ بنا دے.اللہ کرے کہ سبھی مہینے تبلیغ کے مہینے ہی بن جائیں.کثرت سے سعید روحیں احمدیت میں

Page 188

تاریخ احمدیت 179 داخل ہوں.دعا اور حکمت کے ساتھ بھر پور جدو جہد کریں.تبلیغ کے لئے نئے نئے راستے تلاش کریں.جو قلیل وقت میں آپ کو بلند و بالا چوٹیوں تک پہنچادیں.ایسی نئی راہوں پر قدم رکھیں کہ چند ساعتوں میں ہی سارے ملک میں تبلیغی جال بچھ جائے.لٹریچر اور ٹیسٹس کے پروگرام کو مزید منظم کریں.اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے اور انہیں ثمر بار فرمائے.آمین والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خلیفة اح الرابع جلد 21

Page 189

تاریخ احمدیت 180 جلد 21 فصل سوم سیرالیون کی جشن آزادی میں مرکزی نمائندہ کی شرکت مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری امیر و انچارج احمد یہ مشن سیرالیون مشن تحریر فرماتے ہیں: مغربی افریقہ کی برطانوی نو آبادیات میں آزادی حاصل کرنے کے لحاظ سے سیرالیون کا تیسرا نمبر تھا.1957ء میں غانا جو پہلے گولڈ کوسٹ کہلاتا تھا آزاد ہوا.1960 ء میں افریقہ کے سب سے بڑے ملک نائیجیریا کو آزادی حاصل ہوئی.پھر اپریل 1961 ء میں 160 سال برطانوی تاج کے ماتحت رہنے کے بعد سیرالیون کو آزاد ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.26 اور 27 اپریل کی درمیانی شب کو ملک نے آزاد ہونا تھا.ٹھیک بارہ بجے رات یونین جیک کی جگہ قومی جھنڈا لہرایا جانا تھا.اس تقریب کیلئے سپورٹس اسٹیڈیم کو خوب آراستہ کیا گیا.اور اس کے ارد گرد کامن ویلتھ ممالک کے جھنڈے لہرا رہے تھے.تقریب کا آغاز برطانوی ترانے سے ہوا.اس کے بعد مذہبی نمائندگان ( مسلمان اور عیسائی) نے باری باری جھنڈے کے سامنے کھڑے ہو کر نئی مملکت کے لئے جو چند منٹ بعد معرض وجود میں آنے والی تھی دعا کی ابھی تک یونین جیک لہرارہا تھا گورنر جنرل اور وزیراعظم سر ملٹن ما گائی اس کے سامنے جا کر کھڑے ہوئے گورنر جنرل نے یونین جیک کو سلامی دی اس کے بعد عین بارہ بجے چند لحات کے لئے تمام روشنیاں گل کر دی گئیں جب یکدم پھر روشنی ہوئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ یونین جیک کی جگہ سبز سفید اور نیلی دھاریوں والا قومی جھنڈا فضا میں لہرا رہا تھا.وزیر اعظم نے اسے سلامی دی پھر 21 توپوں کی سلامی دی گئی اور تمام حاضرین نے جو ملک کے ہر حصہ سے وہاں جمع تھے ملٹری سمیت قومی ترانہ گایا.کاروں اور گاڑیوں نے ہارن بجائے اور آزادی کے نعرے بلند کئے گئے.فضا میں آتش بازی چھوڑی گئی سارا فری ٹاؤن (FREE TOWN) شہر بجلی کے قمقموں اور جھنڈیوں سے آراستہ کیا گیا تھا.یہ نظارہ نہایت ہی دلکش اور قابل دید تھا.اور ہر غیر ملکی نمائندہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا.ایک قوم جس نے 160 سال تک اس ملک پر بڑی شان وشوکت کے ساتھ حکومت کی تھی اب وہ اپنے ہاتھوں اپنی صف لپیٹ رہی تھی.اس غرض کے لئے برطانیہ کے خاص

Page 190

تاریخ احمدیت 181 نمائندہ کی حیثیت سے ڈیوک آف کینٹ بھجوائے گئے تھے اور ملک اس کے اصلی حقداروں کے حوالے کیا جا رہا تھا.اس طرح 27 اپریل 1961ء کی صبح اہل سیرالیون کیلئے آزادی، شادمانی اور مسرتوں کا سامان لئے ہوئے طلوع ہوئی.اس ملک میں احمدیت کا پیغام تو 1921ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کے ذریعہ پہنچ چکا تھا مگر مستقل مشن 1937ء میں محترم مولانا نذیر احمد صاحب علی کے ذریعہ قائم ہوا اس کے بعد متعد د مربیان مرکز کی طرف سے وہاں بھجوائے گئے جنہوں نے دین حق کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اس ملک کی تعلیم و تربیت، اس کے باشندوں کی فلاح و بہبود اور ان کے معاشرتی معاملات کی اصلاح میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.پھر ڈاکٹر ز اور اساتذہ بھی مرکز سے وہاں پہنچ گئے.جنہوں نے تعلیمی اور طبی خدمات کا ملک کے طول و عرض میں ایک جال پھیلا دیا.1 196 ء تک جماعت احمدیہ کے ذریعہ ملک کے مختلف حصوں میں 12 انگریزی اور عربی سکول جاری ہو چکے تھے جن میں ہزاروں طالب علم تعلیم حاصل کر رہے تھے اور فراغت کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی میں مفید وجود ثابت ہورہے تھے.ایک ڈاکٹر بھی طبی خدمات کے لئے پہنچ چکے تھے..اس کے بعد سکولز اور ہسپتالوں میں متواتر اضافہ ہوتا رہا اور اب کیفیت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ملک کے طول و عرض میں ایک سو بیس (120) سے زائد سکولز مشن کی زیر نگرانی جاری ہو چکے ہیں اور چار ہسپتال لوگوں کی طبی خدمات سرانجام دے رہے ہیں.یوم آزادی کے جشن کے موقع پر حکومت سیرالیون کی طرف سے 75 ممالک کے نمائندگان کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی.نائجیریا کے وزیر اعظم ابو بکر تفاو ابلیوا اور لائبیریا کے پریذیڈنٹ مسٹر ڈبلیو وی ایس ٹب مین وزیر اعظم سیرالیون کے خاص مہمانوں کی حیثیت سے شریک ہوئے.حکومت پاکستان کی طرف سے میجر جنرل رضا فرانس میں پاکستان کے سفیر اور مسٹر محمود احمد ہائی کمشنر پاکستان مقیم غا نا شریک ہوئے.اس موقع پر حکومت سیرالیون نے مذہبی جماعتوں اور مشنوں کے نمائندگان کو بھی مدعو کرنے کا فیصلہ کیا.چنانچہ جب یہ معاملہ وہاں کی پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو حکومت کے نائب وزیر اعظم آنریبل مصطفیٰ سنوسی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمارے ملک میں جلد 21

Page 191

تاریخ احمدیت 182 عیسائی مشنوں کے علاوہ احمد یہ مشن کے مربیان دین حق کی اشاعت کے علاوہ ہماری تعلیمی، طبی اور سوشل خدمات میں ہمہ تن مصروف ہیں لہذا ان کی گراں قدر خدمات اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ سیرالیون کے جشن آزادی کے موقع پر ان کے بھی ایک نمائندہ کو شرکت کی دعوت دی جائے اور حکومت سیرالیون اس کے آمد ورفت کے اخراجات برداشت کرے.چنانچہ یہ تجویز پارلیمنٹ میں منظور ہو گئی اور احمد یہ مشن کو اس فیصلہ سے آگاہ کر دیا گیا.جس کے نتیجہ میں مرکز سے محترم شیخ بشیر احمد صاحب حج ہائیکورٹ آف پاکستان خصوصی طور پر جشن آزادی سیرالیون میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے.آنریبل مصطفیٰ سنوسی ہمارے نمائندہ کی شرکت کے لئے اتنی دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے کہ ایک موقع پر محض نام کی غلط فہمی کی بناء پر وہ ہمارے پاس فری ٹاؤن مشن ہاؤس میں آئے مگر میں اس وقت وہاں نہیں تھا لہذاوہ پیغام چھوڑ گئے کہ جب میں آؤں تو فوری طور پر انہیں آفس میں آکر ملوں.چنانچہ جب خاکسار وہاں گیا تو وہ بہت منتظر نظر آ رہے تھے مجھے کہنے لگے پاکستان سے بذریعہ ہائی کمشنر برطانیہ اطلاع ملی ہے کہ جماعت احمدیہ کے ایک دوست شیخ بشیر احمد صاحب بطور نمائندہ تشریف لا رہے ہیں کیا یہ آپ ہی کے نمائندہ ہیں؟ اس وقت تک مجھے بھی مرکز کی طرف سے محترم شیخ بشیر احمد صاحب کے نام کی اطلاع مل چکی تھی.میں نے کہا فکر نہ کریں محترم شیخ بشیر احمد صاحب جماعت احمدیہ کے ہی نمائندہ ہیں جس سے ان کو تسلی ہو گئی اور اگلے روز وہاں کے اخبار ڈیلی میں شائع ہو گیا کہ احمدیہ مشن کے نمائندہ کے طور پر جسٹس شیخ بشیر احمد صاحب جشن آزادی میں شرکت کے لئے تشریف لا رہے ہیں.محترم شیخ بشیر احمد صاحب 22 اپریل 1961 ء کو فری ٹاؤن پہنچے.ایئر پورٹ پر خاکسار محترم شیخ نصیر الدین احمد صاحب جو اس وقت امیر اور مشنری انچارج تھے اور بو سے جو مشن کا ہیڈ کوارٹر تھا تشریف لائے.اور جماعت کے بعض سرکردہ احباب استقبال کے لئے موجود تھے.حکومت کی طرف سے بھی آپ کے استقبال کا انتظام تھا.چنانچہ ہمیں دیکھتے ہی حکومت کے ایک آفیسر ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ایک نئی گاڑی بمع ڈرائیور آپ کے نمائندہ کے لئے موجود ہے اور جشن آزادی کے ایام میں یہ گاڑی بمع ڈرائیوران کی تحویل میں رہے گی تا کہ وہ تقریبات کے علاوہ جہاں چاہیں جاسکیں چنانچہ شیخ صاحب جلد 21

Page 192

تاریخ احمدیت 183 اس گاڑی میں گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس میں تشریف لے گئے خاکسار بھی ساتھ تھا باقی دوست بھی وہاں ملنے گئے.شیخ صاحب نے اس وقت سیاہ اچکن ، شلوار اور ٹوپی پہن رکھی تھی.کہنے لگے میرے پاس سوٹ بھی ہیں اب آپ لوگ بتا ئیں مجھے یہاں کیا لباس پہننا چاہئے جس سے مشن کا وقار اور تشخص قائم رہے.ہم نے کہا اس موقع پر تو بہتر یہی ہے کہ اچکن شلوار اور ٹوپی پہنیں کیونکہ یہی لباس احمدی مربیان استعمال کرتے ہیں.چنانچہ آپ جتنا عرصہ وہاں رہے اسی لباس میں ہر تقریب میں شریک ہوئے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ آپ پاکستانی لباس میں ہر جگہ نمایاں نظر آئے.گیسٹ ہاؤس پہنچ کر آنریبل مصطفیٰ سنوی صاحب نائب وزیر اعظم کو آپ کی آمد کی اطلاع کی گئی اور ملاقات کے لئے وقت پوچھا گیا مگر آپ اتنے خوش ہوئے کہ کہنے لگے انہیں میرے پاس نہ لائیں بلکہ میں خود ان کی ملاقات کے لئے وہاں آؤں گا.چنانچہ آر تشریف لائے اور تقریبا ایک گھنٹہ تک نہایت خوشگوار ماحول میں مختلف امور پر محترم شیخ صاحب سے گفتگو کرتے رہے اور بے حد متاثر ہو کر گئے.محترم شیخ صاحب کے ساتھ جماعت احمدیہ کے مربیان کو بھی حکومت کی طرف سے آزادی کی تقریبات میں شرکت کی دعوت تھی.لہذا خاکسار اور محترم شیخ نصیر الدین احمد صاحب ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوتے بعض تقریبات میں مکرم سمیع اللہ سیال صاحب اور مکرم غلام احمد صاحب نسیم کو بھی شریک ہونے کا موقع ملا.ہر تقریب میں اچکن ، شلوار اور ٹوپی میں ملبوس ہمارا گروپ نمایاں نظر آتا جس سے پاکستان کے تشخص کا تصور بھی ابھرتا.ایک تقریب میں جو وزیر اعظم صاحب کی طرف سے گورنمنٹ لاج میں منعقد کی گئی تھی ( حضرت مرزا ناصر احمد صاحب قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر جب 1970 ء میں سیرالیون کے دورہ پر تشریف لے گئے تو آپ کا قیام بھی اسی لاج میں تھا ) اس تقریب میں ہم ایک جگہ کھڑے تھے اور آنریبل نائب وزیر اعظم مصطفی سنوسی پریذیڈنٹ لائبیریا مسٹر ٹب مین کا لوگوں سے تعارف کرا رہے تھے اچانک ان کی نظر ہم پر پڑی تو سب کو چھوڑ کر وہ سیدھے ہماری طرف آئے اور محرم شیخ بشیر احمد صاحب اور ہمارا تعارف کرایا اور احمد یہ مشن کی خدمات کا بھی تذکرہ کیا.اس موقع پر محترم شیخ صاحب کی ملاقات بہت سے اور نمائندگان کے علاوہ روسی جلد 21

Page 193

تاریخ احمدیت 184 نمائندہ سے بھی ہوئی.محترم شیخ صاحب نے کمیونزم اور دین حق کے اصولوں پر اس سے اس رنگ میں گفتگو کی کہ وہ بہت ہی متاثر ہوا.محترم شیخ صاحب کی گفتگو میں ایک ایسی چاشنی اور جذب تھا اور طرز تکلم ایسا موثر تھا کہ سامع اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا.ہمارے ایک افریقن ٹیچر کہنے لگے میں تو جب شیخ صاحب گفتگو کرتے ہیں ہمیشہ آپ کی آنکھوں کی حرکات کی طرف دیکھتارہتا ہوں اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں.سارے واقعات کو یہاں بیان کرنا تو مشکل ہے مختصر یہ کہ محترم شیخ صاحب کی آمد نے احمد یہ مشن کے وقار کو بہت بلند کیا آپ نے گورنر جنرل ، وزیر اعظم ، میئر آف فری ٹاؤن، جنرل سیکرٹری مسلم کا نگریس ، وزراء حکومت مختلف ممالک کے سفراء، پیرامونٹ چیفس سے ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی.سیرالیون کے چیف جسٹس MR.JUSTICE STA KAKOKE) نے محترم شیخ صاحب کے اعزاز میں ایک خصوصی پارٹی کا انتظام کیا جس میں ملک کے حجز ، وکلاء اور معززین بھی مدعو تھے اور محترم شیخ صاحب کو ان سے تعارف اور گفتگو کا موقع ملا.یو نیورسٹی کالج آف سیرالیون نے ایک تقریب منعقد کی اس میں بھی محترم شیخ صاحب نے شرکت کی.ریڈیو سیرالیون پر آپ کا ایک خصوصی پیغام نشر کیا گیا.جماعت احمدیہ کے لئے تو یہ ایک نہایت خوشی کا موقع تھا کہ مرکز سے ایک خصوصی نمائندہ کو مدعو کر کے حکومت نے انہیں ایک خاص اعزاز بخشا تھا.اور جماعت فری ٹاؤن نے محترم شیخ صاحب کے اعزاز میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی جس میں ملک کی سرکردہ شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا اور محترم شیخ صاحب کو ان سے گفتگو کرنے اور تبادلہ خیالات کا موقع ملا.سیرالیون میں چونکہ زیادہ تر جماعتیں جنوبی اور شرقی صوبہ میں تھیں جن کا مرکزی شہر ہو تھا جو اس وقت تک جماعت احمدیہ کا بھی ہیڈ کوارٹر تھا لہذا 30 اپریل کو محترم شیخ صاحب بوتشریف لے گئے جہاں ملک کی مختلف جماعتوں سے احباب جماعت جمع تھے.محترم شیخ صاحب کو ان سے ملاقات کرنے کے بعد خطاب کا موقع ملا وہاں آپ حضرت مولانا نذیر احمد صاحب علی کی قبر پر بھی تشریف لے گئے اور دعا کی.جماعت کی طرف سے وہاں برٹش کونسل کے ہال میں آپ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ جلد 21

Page 194

تاریخ احمدیت 185 تقریب منعقد کی گئی جس کے جملہ انتظام مکرم سمیع اللہ سیال اور مکرم غلام احمد صاحب نسیم نے کئے تھے.اس تقریب میں شہر بو کے معززین سکولز کے اساتذہ، وکلاء وغیرہ مدعو تھے.مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے محترم شیخ صاحب کا تعارف کرایا پھر محترم شیخ صاحب نے حاضرین سے خطاب کیا اور اس ملک کی آزادی کے بارہ میں اپنے تاثرات کا ذکر کیا جس سے حاضرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.آپ کے بعد بوشہر کے سینئر مجسٹریٹ مسٹر بانجا تیجان سی نے حاضرین سے خطاب کیا ( یہ بعد میں سیرالیون کے قائمقام گورنر جنرل کے عہدہ پر فائز ہوئے اور 1970ء میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب جماعت احمدیہ کے تیسرے امام کے اعزاز میں آپ نے گورنر ہاؤس میں سٹیٹ ڈنر پیش کیا تھا.) آپ نے کہا قابل جج نے جس رنگ میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے یہ ان کا ہی حصہ ہے آپ کا انداز نہایت اچھوتا اور دلکش تھا اور آپ کی باتوں پر اگر ہم عمل کر سکیں تو ہماری حالت بدل سکتی ہے اور ہم جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں.بو میں آپ نے احمد یہ سیکنڈری سکول کے طلباء کے علاوہ گورنمنٹ سیکنڈری سکول کے طلباء و اساتذہ سے بھی خطاب کیا اور نہایت احسن پیرایہ میں پاکستان کے قیام اور اس کی ترقی یافتہ حالت ان پر واضح کی پھر ملک کی آزادی کے ضمن میں طلباء کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی بعد میں طلباء و اساتذہ نے پاکستان کے بارہ میں بعض سوالات کئے جن کے آپ نے تسلی بخش طریق پر جوابات دئے.فری ٹاؤن سے واپسی پر آپ نے احمد یہ سیکنڈری سکول فری ٹاؤن کے اساتذہ وطلباء سے خطاب کیا.محترم شیخ صاحب سیرالیون میں جماعتی ترقی ، اور ملک کے عوام و خواص اور حکومت میں جماعت کی عزت اور وقار سے بھی بہت متاثر ہوئے.اور فری ٹاؤن مشن ہاؤس میں مربیان کے ساتھ باتوں باتوں میں کہنے لگے اومنڈیو ہم نے تو تمھیں وہاں پاکستان میں کبھی کوئی اہمیت نہیں دی تھی مگر یہاں آکر معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ جماعت کے لئے کیا کام کر رہے ہیں اور آپ کی مساعی میں خدا تعالیٰ نے کس قدر برکتیں ڈالتے ہوئے جماعت احمدیہ کو عزت اور وقار عطا کیا ہے.محترم شیخ بشیر احمد صاحب نے اس موقع پر دو تین بار جب او منڈی لفظ دہرایا تو مکرم شیخ جلد 21

Page 195

تاریخ احمدیت 186 نصیر الدین احمد صاحب کو یہ لفظ کچھ برامحسوس ہوا اور آپ نے شیخ صاحب سے کچھ ناراضگی کے رنگ میں اس کا اظہار کر دیا اس پر محترم شیخ بشیر احمد صاحب کچھ جذباتی ہو گئے اور آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہنے لگے محترم مجھے علم نہیں تھا کہ یہ لفظ آپ کو برا محسوس ہوگا.میرا تو یہ تکیہ کلام ہے اور میں محبت کے انداز میں بول رہا تھا ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ لوگ صرف میرے بیٹوں سے اچھے نہیں بلکہ مجھ سے بھی اچھے ہیں کیونکہ آپ جو کام کر رہے ہیں وہ میں بھی نہیں کر پایا.بہر حال اس کے بعد مجلس پھر خوشگوار ماحول میں جاری رہی.4 مئی کو محترم شیخ صاحب واپس پاکستان کے لئے روانہ ہوئے.مربیان اور احباب جماعت نے آپ کو دلی دعاؤں کے ساتھ ایئر پورٹ پر الوداع کیا.سیرالیون کے جشن آزادی کے موقع پر بعض اور ایسے واقعات ہوئے جن سے جماعت احمدیہ کی اہمیت اور حکومت اور لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت و وقار کی عکاسی ہوتی ہے.مورخہ 7 مئی کو سیرالیون کی نئی کانسٹی ٹیوشن، قومی جھنڈے اور قومی ترانے کے لئے دعا کرانے کی غرض سے حکومت کی درخواست پر فری ٹاؤن میں اجتماع منعقد ہوا جس میں وزیر اعظم سر ملٹن ما گائی بمع کا بینہ شامل ہوئے.پروگرام کے مطابق پہلے نائب وزیر اعظم مصطفیٰ سنوسی نے وزیر اعظم صاحب کا تعارف کرایا پھر بعض اور علماء نے تقاریر کیں اور نئی کانسٹی ٹیوشن کے بابرکت ہونے کے لئے خاکسار سے درخواست کی گئی چنانچہ خاکسار نے سٹیج پر حاضر ہو کر کانسٹی ٹیوشن کو ہاتھ میں لیا اور اس کے بابرکت ہونے اور ملک کے لئے امن و آشتی کا ذریعہ ثابت ہونے کے لئے دعا کرائی.پھر ایک اور قابل ذکر امر یہ ہوا کہ یوم آزادی کے موقع پر ملکہ برطانیہ کی طرف سے وزیر اعظم کی ہدایت پر ملک کی جن اہم شخصیتوں کو ان کی ملکی خدمات کے صلہ میں تمغہ آزادی دیا گیا ان میں خاکسار کا نام بھی شامل تھا جو دراصل جماعت احمدیہ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر پیش کیا گیا.جو وہ ملک کی ترقی ، فلاح و بہبود اور اس کی تعلیمی اور طبی میدان میں سرانجام دے رہی تھی.چنانچہ گورنر جنرل نے یہ تحفہ آزادی پیش کرتے ہوئے جو خط خاکسار کو لکھا اس میں ذکر کیا کہ ”میں سیرالیون کا تحفہ آزادی آپ کو پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں یہ آپ کی جلد 21

Page 196

تاریخ احمدیت 187 جلد 21 گراں قدر خدمات کے اعتراف کے طور پر ہے جو آپ نے ہماری آزادی کے حصول کے لئے دیں ہیں.140 صاحبزادہ مرز امبارک احمد صاحب کا دورہ یورپ اس سال صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر نے یورپ اور امریکہ کا بھی کامیاب دورہ کیا.آپ 31 مئی کو کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوئے اور قریباً پانچ ماہ بعد 142 141 27 اکتوبر کو واپس کراچی پہنچے.آپ اس سفر میں انگلستان، امریکہ سپین، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، سویڈن اور ڈنمارک تشریف لے گئے اور تبلیغی مساعی کو زیادہ منظم اور نتیجہ خیز بنانے میں شاندار خدمات انجام دیں.صاحبزادہ صاحب کی کامیاب مراجعت پر تحریک جدید کی طرف سے 20 نومبر 1961 ء کو وسیع پیمانے پر ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی جس کی صدارت کے فرائض حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ادا فرمائے.اس موقعہ پر صاحبزادہ صاحب نے ان ممالک خصوصاً سکینڈے نیوین ممالک میں اشاعت احمدیت کی بعض نہایت ایمان افروز تفصیلات بیان فرمائیں اور بتایا کہ ناروے اور ڈنمارک میں نہایت مخلص جماعتیں قائم ہیں جوا خلاص و قربانی تنظیم، دینی احکام کی پابندی اور خدمت دین کی تڑپ کے اعتبار سے نئی قائم ہونے والی جماعتوں کے لئے قابل رشک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں.آپ نے ناروے کے طاہر احمد اور ڈنمارک کے عبدالسلام میڈسن کے اخلاص دینی جوش اور جذبہ ایثار و قربانی کا خاص طور پر ذکر کیا.نیز بتایا کہ کس طرح میڈسن صاحب نے ڈینش زبان میں ترجمہ قرآن کرنے کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے.آپ نے وہاں کے مبلغ انچارج کمال یوسف صاحب کے اخلاص، نیکی اور جذبہ خدمت کی بہت تعریف کی اور فرمایا یہ صرف اور صرف ان کی ذاتی نیکی کا ثمرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہاں ایسی مخلص اور فدائی جماعت عطا فرمائی ہے.صاحبزادہ صاحب نے دوران تقریر اس پریس کانفرنس کی خوشکن تفصیلات پر روشنی ڈالی جس سے آپ نے سویڈن میں خطاب فرمایا تھا اور جس کی رپورٹ سکنڈے نیوین ممالک کے ایک سو کے قریب اخبارات میں شائع ہوئی اور دین حق کا خوب زور و شور سے چرچا ہوا اور اخباروں میں ایک طویل بحث کا سلسلہ چل نکلا.اس طرح کوپن ہیگن میں خانہ خدا کی تعمیر کے فیصلہ پر وہاں کے اخبارات میں جلی عنوانوں کے ساتھ خبروں کی اشاعت ہوئی.حتی کہ ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھا کہ ڈنمارک کے نومسلموں کے لئے مسجد خودحکومت ڈنمارک کے لوگوں اور حکومت کو تعمیر کرا دینی چاہئے.

Page 197

تاریخ احمدیت 188 جلد 21 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے صدارتی ارشادات میں یورپ میں مخلص اور فدائی جماعتوں کے قیام پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے مشرق بعید اور افریقہ کے دوروں کی اہمیت پر بھی زور دیا تا کہ وہاں کے حالات کا بھی جائزہ لے کر وہاں بھی تبلیغی مساعی کو زیادہ وسیع اور مؤثر اور نتیجہ خیز بنایا جاسکے.چنانچہ آپ نے فرمایا: مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلا دورہ کامیاب رہا ہے اور اس کے خاطر خواہ نتائج نکلے ہیں.اب میں مجلس تحریک جدید کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امر کو مد نظر رکھے کہ مرزا مبارک احمد صاحب ایک دورہ سیلون ملاما برما اور انڈونیشیا کی طرف کریں اور ایک دورہ افریقہ کے ممالک کا کریں تا کہ وہ تمام دنیا کے صحیح حالات سے واقف ہو کر اور صحیح معلومات کے نچوڑ کو کام میں لا کر....خدا کی رتھ کو آگے سے آگے چلا سکیں.مخالف عناصر کا ایک ناروا پراپیگنڈا اور اس کا مسکت جواب کچھ عرصہ سے بعض مخالف عناصر یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ حکومت پاکستان جماعت احمدیہ کے جماعتی محاصل اور جماعتی جائیداد کو وقف ایکٹ کے تحت اپنے قبضہ میں لے لے اور جس طرح وہ مزاروں، خانقاہوں اور مسجدوں وغیرہ کی وقف جائیدادوں کو اپنی تحویل میں لے کر انتظام کر رہی ہے، جماعت کی جائیداد اور محاصل کا بھی انتظام کرے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل (22) جون 1961ء) میں اس کا نہایت مدلل و مفصل جواب دیا کہ اول تو بعض وکیلوں اور قانون دانوں کا خیال ہے کہ جماعت احمدیہ کی جائیدادیں اور محاصل وقف کی اغراض کے مطابق قانونی طور پر وقف قرار نہیں دئے جا سکتے اور اگر بالفرض ان کا وقف ایکٹ کی ذیل میں آنا تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی حکومت جائز طور پر ان کو اپنی تحویل میں نہیں لے سکتی کیونکہ جماعت احمدیہ کے محاصل کا طریق اور ان کی جائیدادوں کا معیار اور حسابی نگرانی کا طور طریقہ اور پڑتال کا اصول اور اخراجات کا تنوع ( یعنی بے شمار شاخوں میں منقسم ہونا ) اور انتظام کی عالمگیر وسعت اور جماعت کے مخصوص نظریات ایسے ہیں کہ کسی صورت میں بھی اور عقل و دانش کے کسی معیار کے مطابق بھی انہیں ملک کے اندر کی مسجدوں اور مزاروں اور خانقاہوں اور یتیم خانوں وغیرہ کی جائدادوں اور محاصل اور اخراجات کی نوعیت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا.مثلاً (الف) جہاں مزاروں اور خانقاہوں اور مسجدوں اور یتیم خانوں وغیرہ کی آمد کسی منظم طریق پر نہیں ہوتی وہاں جماعت احمدیہ کی آمد جو مقررہ چندوں یا جماعتی جائدادوں کی صورت میں ہوتی ہے وہ مختلف

Page 198

تاریخ احمدیت 189 جلد 21 شہروں اور قصبات اور دیہات کے مرکزی یا مقامی عہدیداروں کے ذریعہ با قاعدہ جمع ہو کر مرکز میں آتی اور باضابطہ ریکارڈ کی جاتی ہے.(ب) ربوہ کی انجمن ایک با قاعدہ رجسٹر ڈ باڈی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ ہر رجسٹر ڈ باڈی حکومت کی عمومی نگرانی اور اصولی پڑتال کے نیچے ہوتی ہے.( ج ) جماعت احمدیہ کی انجمن کے کام کو چلانے کے لئے بہت سے علیحدہ علیحدہ دفاتر مقرر ہیں جو علیحدہ علیحدہ افسروں کے ماتحت منظم طریق پر کام کرتے ہیں اور ہر دفتر میں کلرکوں اور ماتحت افسروں کا با قاعدہ عملہ مقرر ہوتا ہے اور جملہ افسروں کے اوپر ایک بالا افسر نگران ہے جو مختلف دفتروں اور صیغوں کے کام کی نگرانی کرتا ہے.( د ) جماعت احمدیہ کی انجمن کا بجٹ مقامی جماعتوں کی رپورٹوں کے بعد کافی غور وخوض کے ساتھ انجمن کے مطبوعہ فارموں پر انجمن کے اجلاس میں با قاعدہ تجویز کیا جاتا ہے.(ھ) پھر اس بجٹ کو تمام مقامی جماعتوں کے منتخب شدہ نمائندے مرکز میں جمع ہو کر جماعت کی مجلس مشاورت کے موقعہ پر پورے غور و خوض اور بحث اور جرح قدح کے بعد پاس کرتے ہیں.( و ) انجمن کا ایک باقاعدہ آڈیٹر مقرر ہے جو مالی اور حسابی لحاظ سے انجمن کے مختلف صیغوں اور دفاتر کا معائنہ کرتا رہتا ہے اور اس معائنہ کی رپورٹ بالا افسر کو دی جاتی ہے اور حسب ضرورت جواب طلبی بھی کی جاتی ہے اور اس کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے.(ز) انجمن کے اپنے آڈیٹر کے علاوہ انجمن کے حساب کتاب اور آمد وخرچ کی پڑتال سرکاری سند یافتہ رجسٹر ڈ آڈیٹروں کے ذریعہ بھی کروائی جاتی ہے اور ان کے معائنہ کی رپورٹ انجمن کے ھیڈ آفس میں محفوظ رکھی جاتی ہے.پھر انجمن کا خرچ کسی ایک کام اور ایک غرض و غایت تک محدود نہیں بلکہ تعلیم، تبلیغ ، تربیت، خانہ خدا کی تعمیر تراجم قرآن اور اشاعت لٹریچر اور اخباروں اور رسالوں اور کتب کی تصنیف و اشاعت اور امدا دغر با اور دیگر رفاہ کے کثیر التعداد کاموں پر خرچ ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انجمن کا یہ بے شمار شاخوں والا کام صرف پاکستان کے اندر محدود نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر آزاد ملکوں میں نہایت وسیع طور پر پھیلا ہوا ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں جماعت کے مخلص کارکن دن رات تبلیغ و تربیت اور تعلیم اور اشاعت لٹریچر کے مقدس فرائض سر انجام دے رہے ہیں.علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر فرقہ اپنے اپنے مخصوص نظریات رکھتا ہے جن سے وہ دیانتداری کے ساتھ قائم ہے اور تبلیغ و تربیت کے میدان میں ان نظریات کو جو عملی اہمیت حاصل

Page 199

تاریخ احمدیت 190 جلد 21 ہے اسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا سکتا.جماعت احمد یہ بھی مخصوص نظریات کی حامل جماعت ہے پس اس کے وسیع اور بے شمار شاخیں رکھنے والے کام کو پاکستانی حکومت کا کوئی مقامی ادارہ کس طرح اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے اور اسے کس طرح چلا سکتا ہے؟ اور اس قسم کے وسیع اور متنوع اور عالمگیر اور منظم اور مخصوص نوعیت کے کام کے مقابل پر مزاروں اور خانقاہوں اور یتیم خانوں یا بعض مقامی تعلیمی اداروں کی بھلا کیا نسبت ہے؟ 145 انجمن اتحاد المسلمین کی ایک معروف شخصیت کی جیل میں بیعت حیدر آباد دکن کی مشہور تنظیم اتحاد المسلمین کی ایک معروف شخصیت سید جعفر حسین صاحب بی اے ایل ایل بی 26 ستمبر 1960ء سے سکندر آباد جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے.اس دوران انہوں نے حضرت مصلح موعود کی پُر معارف تفسیر کبیر کا مطالعہ کیا اور متاثر ہو کر اس سال مارچ 1961ء میں حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے.10 ازاں بعد اسیروں کے رستگار حضرت مصلح موعود کی دعا سے 29 جون 1 196 ء کو رہا ہوئے.رہائی کے بعد آپ کو شدید مخالفت سے دو چار ہونا پڑا.چنانچہ سید جعفر حسین صاحب نے مولانا عبد الماجد صاحب در یا بادی مدیر صدق جدید “ کے نام ایک مکتوب میں لکھا: جیل کی تنہائیوں میں قرآن کریم کی تلاوت نے میرے اندر ایک انقلاب عظیم پیدا کر دیا اور میں یہ عزم کر کے نکلا تھا کہ زندگی کا آئندہ ہر قدم میں خدا کی خوشنودی کے لئے اٹھاؤں گا.میری رہائی کے بعد اخبار کے بعض نمائندوں نے انٹر ویولیا اور میرا جو بیان اخبارات میں شائع ہوا اس سے حیدرآباد کے تمام حلقوں میں شاید ناراضگی پیدا ہوگئی.اتحادالمسلمین کے وہ مسلمان جو کبھی مجھے گلے لگاتے تھے میں راستے سے گزرتا تو مجھے گالیاں دیتے آوازیں کستے.....میری نسبت افواہیں پھیلائی گئیں کہ بیعت کرنے کے معاوضہ میں میں نے کثیر رقم دی.میں نے انفرادی طور پر بہت سے سمجھدار دوستوں سے کہا کہ مجھے قرآن وحدیث سے سمجھاؤ کہ میں نے کیا غلطی کی ہے تو ایک صاحب نے ایک مشہور شاہراہ پر آخ تھو کہہ کر میری طرف تھوک دیا.قرآن کریم نے مجھے شدید صبر و ضبط کی تعلیم دی تھی.میں نے بازو کی دکان سے پان کا بیڑہ لیا اور ان کی خدمت میں پیش کر کے کہا کہ تھوکنے سے قرآن وحدیث سمجھ میں آ سکتا ہے تو پان کھا کر مجھ پر تھوکوتا کہ جلدی سمجھ میں آئے.

Page 200

تاریخ احمدیت 191 شاد نگر کے مسلمان جن کے دکھ درد میں میں خود راست شامل تھا میرے شدید مخالف ہو گئے.تمام دیہات کے مسلمان مستقر شاد نگر پر ایک مسجد میں جمع ہوئے اور بائیکاٹ کا ایک ریزولوشن پاس ہوا.ایک جلسہ کے دوران میں میری تقریر ہونے لگی.کوتوالی میں درخواست پیش کی گئی کہ نقض امن کا شدید اندیشہ ہے.حتی.....کہ کو توالی کو ایک ڈویژن فورس برقرار انتظام کے لئے جلسہ گاہ میں مقرر کرنی پڑی.ایک اور مسجد میں مجھ پر اور میری جماعت پر حملہ ہوتے ہوتے رہ گیا.اور ایک مرشد اور بعض مقامی مسلمان جو وعدہ کر کے لے گئے تھے کہ ایک پُر امن فضا میں جلسہ ہوگا ہنگامہ پر آمادہ ہو گئے.شاد نگر میں بسا اوقات جب میں باہر نکلتا تو مسلم دوستوں کا ہجوم کا ہجوم میرے ساتھ رہتا تھا لیکن جب رہائی کے بعد میں نے ایک دن اور رات شادنگر میں بسر کی تو میں یکا و تنہا تھا اور صبح ہونے سے پہلے میں نے شاد نگر چھوڑ دیا.بعض ان میں سمجھدار دوست بھی تھے.ایک دوست نے مجھے پروفیسر الیاس برنی صاحب کی ضخیم کتاب دی جو قادیانی مذہب کے نام سے شائع ہوئی ہے.اور ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے.میں نے بڑے غور....کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کیا.اصل میں برنی صاحب نے اب تک بانی جماعت اور جماعت احمدیہ پر جو اعتراضات ہوئے ہیں ان پر اپنا ایک عنوان لگا کر اس کتاب کو شائع کیا ہے.خود کہیں کہیں ایک ایک دو دو سطر میں طنزیہ انداز میں لکھ دی ہیں.پوری کتاب پڑھنے اور اصل سے مقابلہ کرنے کے بعد برنی صاحب کی نسبت جو سابق میں میرے پروفیسر بھی رہ چکے ہیں میری یہ رائے ہے کہ ان کی حیثیت ایک ایسے حج کی ہے جو عرضی دعوی کو دیکھے بغیر محض جواب دعویٰ کو پڑھ کر مدعی کا مقدمہ خارج کر دے.دوست احباب نے بہت سے مرشدوں مولویوں اور خطیبوں سے بھی ملایا.حیدر آباد دکن کی تاریخی مسجد کے ایک بڑے خطیب مجھے سمجھانے کی بجائے بانی جماعت کی شان میں گندی باتیں اور گندے اشعار سنانے لگے.بعض مولویوں کے مکان پر ہم پٹتے پیٹتے بچے ، رشتہ داروں کا حال یہ ہے کہ مرتبہ اور پوزیشن میں کئی درجوں کا فرق ہونے کے باوجود سب کے سب توہین آمیز سلوک پر اتر آئے ہیں.میری اور میرے ان خاندان کے اراکین کا مکمل بائیکاٹ ہے جو بیعت کر چکے ہیں.ہماری دعوتیں بھی بند ہیں.فحش کلامی غیبت عیب جوئی وغیرہ وغیرہ میں ساری تفصیلات آپ سے کیا عرض کروں.اس صفت کے مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ رحم کرے جلد 21

Page 201

تاریخ احمدیت 192 جلد 21 کیا اب بھی کسی عیسی کو نہ بھیجتا.میں نے جیل سے رہا ہونے کے بعد بانی جماعت کے تمام حالات زندگی اور ان کی تمام تحریرات جو ایک بڑا دفتر ہے بہت ہی غور سے دیکھا.مجھے تو کہیں بھی وحشت نہیں ہوئی بلکہ بعض مقامات پر تو میرے آنسو بہہ گئے کہ یہ سطور خدا کے ایک مامور ہی سے لکھے جاسکتے ہیں.مزید برآں جلسہ سالانہ قادیان سے جو تاثر میں لے کر آیا ہوں وہ میں فراموش نہیں کر سکتا.آپ نے بدھوں، آریہ سماجیوں، مجوسیوں، یہودیوں، گاندھی جی ٹیگور سر رادھا کشن ، اپنی بسنٹ کا ذکر فرمایا ہے کہ ان میں بھی بعض جزوی صداقتیں ہیں، خدا کے نبی تو ہر قوم میں آئے ہیں یہ لوگ ان جزوی صداقتوں کے ساتھ ایک کامل اور مرکزی صداقت یعنی رسول خدام اللہ پر کیوں ایمان نہیں لاتے.قوموں کا خون جو راہ خدا میں نہیں بہتا وہ منجمد ہو جاتی ہیں.رہائی کے بعد خلیفہ صاحب کی خدمت میں میں نے لکھا کہ مجھے کسی ایسے مقام پر تبلیغ کے لئے دنیا کے کسی بھی حصہ میں متعین فرما دیں جہاں تبلیغ کی پاداش میں سولی دی جاتی ہو یا سنگسار کیا جاتا ہو.حضور نے فرمایا تمہاری سر دست ہندوستان میں ضرورت ہے.یہیں رہو.بہر حال میں نے اپنی جان و مال راہ خدا میں اپنے خلیفہ کے سپر د کر دی ہے وہ جس طرح چاہیں کام میں لائیں.اس حالت میں میں مر بھی جاؤں تو اللہ تعالیٰ مجھے میری نیت کا ثواب دے گا.ایک جماعت جو تو حید خدا تعالیٰ کی قائل اور محمد رسول اللہ ہی کی عاشق، شب و روز نمازوں اور دعاؤں، شب بیداریوں اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلتے ہوئے غلبہ اسلام کے لئے خدا کے رو بروسر بسجود اور رسول خدام کے تبلیغی مشنوں کی طرح قرآن کریم کو لے کر دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ جماعت کا فر و مرتد کیسے ہوگئی.سید جعفر حسین بی اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ تربیت اولاد سے متعلق زبر دست انتباه چبوترہ سید علی شاہ علی بندہ حیدر آباد 15 اگست 1961ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جماعت احمدیہ کوز بر دست انتباہ کیا : ہم خدا کے مامور اور مرسل کے زمانہ سے دن بدن اور لحظہ لحظہ دور ہوتے جارہے ہیں اور وقت کے قرب کی زبر دست مقناطیسی طاقت سے ہر آن محروم ہورہے ہیں.یہ وہ بھاری نقصان ہے جو آنحضرت اللہ کے زمانہ کے بعد بھی مسلمانوں کو بھگتنا پڑا.چنانچہ اسلام کی

Page 202

تاریخ احمدیت 193 جلد 21 ابتدائی تاریخ کا آخری نقشہ آپ کے سامنے ہے جسے اس جگہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں اور اب تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کا زمانہ بھی جلد جلد ختم ہورہا ہے اور یہ روحانی روشنی پہنچانے والے اور تاریکی میں راستہ دکھانے والے چاند ستارے بڑی سرعت کے ساتھ افق قریب میں غروب ہوتے جارہے ہیں.دوستو اور عزیز و کیا آپ لوگوں نے کبھی اس نقصان کا جائزہ لیا اور اس کے تدارک اور تلافی کی تدبیر سوچی.اگر نہیں سوچی تو آخر کب سوچیں گے؟ کیا اس وقت سوچیں گے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے روحانی چہرہ کو دیکھنے والے اور آپ کی پاک صحبت سے مستفیض ہونے والے اور آپ کے مبارک کلام کے سننے والے لوگ سب کے سب اپنی اپنی قبروں میں جاسوئیں گے.“؟؟ اس حقیقت کو واضح کرنے کے بعد آپ نے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد مبارک کی نہایت لطیف تشریح فرمائی کہ: رجعنا من الجهاد الاصغرالى الجهادالاکبر“ یعنی اب ہم چھوٹے جہاد ( مراد تلوار کے جہاد) سے فارغ ہو کر بڑے جہاد ( مراد اخلاقی اور روحانی تربیت کے جہاد) کی طرف لوٹ رہے ہیں.آخر میں آپ نے احباب جماعت کو احمدی نوجوانوں کی تربیت و اصلاح کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا:- آجکل ہماری بڑی پرابلم جماعت کے نوجوانوں اور خصوصاً نسلی احمدیوں کی تربیت ہے تا کہ انہیں زمانہ کی شرر بار ہواؤں سے بچا کر اور مادیت کے زہریلے اثرات سے محفوظ رکھ کر اسلام اور احمدیت کی روح پر قائم رکھا جا سکے.....یہ کام کس طرح سرانجام دیا جائے اس کے لئے کسی لمبی چوڑی تلقین کی ضرورت نہیں.قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اس معاملہ میں زریں ہدایات سے بھری پڑی ہیں.اصل چیز جس کی ضرورت ہے وہ احساس اور توجہ ہے.اگر جماعت میں نوجوانوں کی تربیت کا احساس پیدا ہو جائے اور وہ اس سوال کی عظیم الشان اہمیت کو سمجھ لے تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے قرب کی وجہ سے نیز خلافت جیسی الہی نعمت کے موجود ہونے کے نتیجہ میں ہمارے اندر ایمان و اخلاص کی زبر دست چنگاریاں موجود ہیں.پس ذراسی ہوا دینے سے وہ بھڑک اُٹھنے کے لئے تیار ہے.ولو لم تمسسه نار.

Page 203

تاریخ احمدیت 194 پس دوستو اور عزیز و ا خدا کے لئے اس طرف توجہ دو اور اپنی اولادوں کے مستقبل کی فکر کرو اور جماعت کے قدم کو نیچے کی طرف جانے سے بچاؤ اور ان کے اندر اسلام اور احمدیت کی ایسی شمع روشن کر دو جس سے ہر اگلی نسل کی شمع خود بخود روشن ہوتی چلی جائے اور قرآن کریم کے اس زبر دست انذار کو ہمیشہ یادرکھو کہ قُـوا انـفـسـكـم و اهليكم نارا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس ڈرا دینے والے شعر کو کبھی بھی نہ بھولو کہ ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کا قیام جلد 21 بطل احمدیت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ننھیال دا تا زید کا سے متصل ایک قدیم احمدی بستی گھٹیالیاں ہے جہاں حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے ایک مخلص جماعت قائم ہے.یہ خطہ کئی مقتدر بزرگ اصحاب کا مولد ومسکن ہے.یہاں عرصہ سے تعلیم الاسلام ہائی سکول جاری تھا مگر علاقہ میں دور دور تک کالج کا نام ونشان نہیں تھا.حتی کہ ڈسکہ پسر ور اور بدوملہی جیسے قدیم ومشہور قصبے بھی اس سے محروم تھے.حضرت مصلح موعود جیسے اولو العزم خلیفہ کے عہد مبارک میں نا مساعد حالات کے باوجود جماعت احمدیہ نے اس سال 19 اگست 1961ء کو انٹر میڈیٹ کالج قائم کر دکھایا جس میں سلسلہ کے بعض مخیر بزرگ خصوصاً جماعت احمد یہ سیالکوٹ کے اخلاص و ایثار اور قربانی کا بھاری عمل دخل تھا.ذیل میں کالج کے ابتدائی کوائف اس درسگاہ کے اولین پرنسپل صاحب جناب عبد السلام صاحب اختر ایم اے (ابن حضرت ماسٹر علی محمد صاحب بی اے بی ٹی.رفیق خاص مسیح موعود ) کے قلم سے سپر دقر طاس کئے جاتے ہیں.کوائف آپ کی پہلی رپورٹ سے ماخوذ ہیں جو رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ پاکستان ( یکم مئی 1960ء.30 اپریل 1961ء) کے صفحہ 87-88 میں شائع ہوئی.د تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کا آغاز مؤرخہ 19 اگست 61ء کو ہوا جبکہ خاکسار صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ON DEPUTATION یہاں مقرر ہوا.اس بابرکت ادارے کی اصل تحریک تو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی طرف سے ہوئی تھی جبکہ آپ 1959 ء میں یہاں تشریف لائے تھے.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی طرف سے الفضل میں دو دفعہ

Page 204

تاریخ احمدیت 195 تحریکات شائع ہوئیں جن سے علاقہ کے احباب پر نہایت عمدہ اثر ہوا اور تمام خور دو کلاں نے نہایت گرمجوشی اور انہماک کے ساتھ اس ادارے کو کامیاب بنانے میں خاکسار کے ساتھ مکمل تعاون فرمایا.اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ادارہ اپنے آغاز کی منزلوں کو بخوبی طے کر چکا ہے.اور بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن کی طرف سے منظور ہو چکا ہے.سٹاف: خاکسار کے ساتھ مولوی محمد عثمان صاحب ایم.اے مؤرخہ یکم ستمبر 61ء کو یہاں حاضر ہوئے تھے.چنانچہ ابتداء میں ہم دونوں نے کلاسوں کا انتظام سنبھالا.لیکن ستمبر میں جب انسپکشن ٹیم جو بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کی طرف سے منظور کی گئی تھی یہاں آئی.توان کی ہدایات کے مطابق مزید لیکچرار بھی مقرر کئے گئے.اب سٹاف کی فہرست حسب ذیل ہے: 1 - عبدالسلام اختر ایم.اے پرنسپل 2.مولوی محمد عثمان صاحب ایم.اے صدیقی لیکچرا عربی اور اسلامیات 3.چوہدری محمد نواز خان صاحب ایم.اے لیکچرار فارسی اور تاریخ 4.سید ارشاد حسین صاحب ایم.اے ، بی.ٹی لیکچر اراردو 5.جناب ماسٹر مجید احمد صاحب بی.اے بی ٹی سائنس اور ڈرائنگ 6.رفیق احمد صاحب کلرک (ایف.اے) تاحال (1) لیکچرار انگریزی ، (2) ڈی.پی.آئی اور (3) لائبریرین کی آسامیاں خالی ہیں.ان کو پُر کرنے کی جلد از جلد کوشش کی جارہی ہے.احباب دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری ناچیز مساعی میں برکت ڈالے اور ہماری مشکلات ختم کر دے.بیچ پوچھیں تو یہ ادارہ حضرت مصلح موعو د ایدہ اللہ الودود کے متعلق اس الہام کا زندہ ثبوت ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا.جس بے سروسامانی کی حالت میں اس کا آغاز ہوا اس کی ایک دنیا شاہد ہے.مگر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی مسلسل توجہ نے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی اور کام کرنے والوں کے دلوں میں ایسا جذبہ پیدا کیا کہ انہوں نے کچے رستوں کی پرواہ نہ کی اور نہ ہی بارش اور دھوپ کی.چنانچہ بورڈ آف ایجو کیشن کی طرف سے جب اس کی منظوری ہوئی تو بہت سے لوگ حیران رہ گئے.کیونکہ ڈسکہ.پسرور اور بدوملہی جیسے قصبات میں جہاں آبادی اور انتظامات کئی جلد 21

Page 205

تاریخ احمدیت 196 گنا زیادہ تھے اس وقت کوئی کالج منظور نہ ہوا تھا.ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء تعداد طلباء: چونکہ یہ کالج ہائر سیکنڈری سکول کی صورت میں منظور ہوا ہے اس لئے اس میں گیارہویں اور بارہویں کلاسوں کے ساتھ نویں اور دسویں کلاسیں بھی شامل ہیں.محکمہ تعلیم نے حکومت کے ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق ان چاروں کلاسوں کا ایک بلاک بنایا ہے اور اسے ہائر سیکنڈی کا نام دیا ہے.اس وقت کلاسوار طلباء کی تعداد حسب ذیل ہے: (1) (3) IX کلاس 54 (2) X کلاس 55 ا کلاس 22 اس نئے داخلے کے وقت انشاء اللہ العزیز X کلاس بھی شروع ہو جائے گی.اور چاروں کلاسوں میں نیا داخلہ لیا جائے گا.و ما توفیقی الا بالله العظيم ہوسٹل چند ماہ قبل ہوٹل کا کوئی انتظام نہ تھا.مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوٹل کی عمارت کا نقشہ اور اسٹیمیٹ تیار کیا گیا ہے اور امید ہے کہ مارچ اپریل 62ء میں جب اشتمال اراضی کا کام مکمل ہو جائے گا تو ہوسٹل اور سٹاف کواٹرز کا کام شروع ہو سکے گا.فی الحال 35/40 طلباء کے ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا ہے.اس وقت بھی بعض طلباء کے ذوقِ علم کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتے ہیں اور یہیں کالج کے ایک کمرہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں.انتظامیہ میٹی کے دس ارکان ہیں جو بحیثیت ایک آرگنائیزیشن.رجسٹرار صاحب آف کو اپر میٹو سوسائٹی کی طرف سے منظور شدہ ہیں.ان کے صدر محترم با بو قاسم دین صاحب امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ ہیں.محترم بابو صاحب باوجود پیرانہ سالی کے کالج کے معاملات میں بے حد دلچسپی لیتے ہیں.اور نقشہ جات تیار کرنے، نیز متعد دامور کی تکمیل کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.اس مقام پر یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ محترم جناب چوہدری شاہنواز صاحب نے کالج کی امداد کے لئے مبلغ دس ہزار روپیہ اور مکرم چوہدری محمد علی صاحب رئیس باندھی ( سندھ) نے کالج کے کمرہ جات کی تعمیر کے لئے مبلغ چھ ہزار روپیہ کا وعدہ اور ادائیگی فرمائی.اللہ تعالیٰ ان دوستوں کو خدمت سلسلہ کی مزید توفیق عطا فرمائے اور ان کا حافظ و ناصر ہو.والسلام جلد 21

Page 206

تاریخ احمدیت 197 جلد 21 کالج کی انتظامیہ کمیٹی کے معز زممبران کے نام یہ ہیں:.1.حضرت با بو قاسم دین صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع سیالکوٹ ( مینیجر ) 2.چوہدری غلام حیدر صاحب بی اے بی ٹی سابق مدرس مدرسہ احمدیہ قادیان (سیکرٹری) 3 چوہدری بشیر احمد صاحب آف دا تا زید کا 4.چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب قلعہ کالر والا 5.حاجی فیض احمد صاحب خادم گھٹیالیاں چوہدری فیض احمد صاحب پوہلہ مہاراں 7.چوہدری خدا بخش صاحب خانانوالی میانوالی 8.چوہدری رشید احمد صاحب گھٹیالیاں 9.ماسٹر محمد شریف صاحب خانانوالی میانوالی 19 بعد ازاں 1967 ء تک مندرجہ ذیل احباب کالج کے سٹاف میں شامل ہوئے اور گرانقدر تعلیمی خدمات کی توفیق پائی.1- ایم نورالحسن صاحب بی اے ڈی پی ای ( فزیکل ایجوکیشن ) 2.پروفیسر محمد منور صاحب ایم اے لیکچرار (اردو) 3.سید افتخار حسین صاحب ڈی پی ای ( فزیکل انسٹریکٹر ) 4.ماسٹر زرتشت منیر خان صاحب بی اے (سوکس) 5.شیخ عبدالقادر صاحب بی اے لائبریرین کوالیفائڈ ڈپلومہ ہولڈران لائبریری سائنس ) 6.قاضی محمد بشیر صاحب ایم.اے (اردو) 7 - منظور احمد صاحب شاکر ایم.اے.بی.ٹی ( تاریخ اور فارسی ) 8.محمد اشرف صاحب ایم اے ( سوکس اینڈ اکنامکس ( 150 9.چوہدری منصور احمد صاحب ایم اے انگلش (لیکچرار ) 10.اعجاز احمد صاحب سلمیانہ ایم اے انگلش ( لیکچرار ) 11 - محمد عبد الحلیم صاحب مولوی فاضل (عربی لیکچرار )

Page 207

تاریخ احمدیت 198 جلد 21 12.داؤداحمد صاحب ایم اے پولیٹیکل سائنس ( لیکچرار ) 13 - عبد الکریم صاحب ایم اے انگلش ( لیکچرار ) 14.سید نثار احمد صاحب ایم اے تاریخ ، فارسی (لیکچرار ) محترم عبد السلام صاحب 1965ء تک پرنسپل کے فرائض بجا لاتے رہے.آپ کے بعد بالترتیب حسب ذیل اصحاب اس منصب پر فائز ہوئے: مولوی محمد عثمان صاحب صدیقی ( تا 1968 ء ) ، جناب احمد حسن صاحب سابق رجسٹرار پشاور یونیورسٹی ( تا 1969 ء ) مرزا بشیر احمد صاحب ( تا 70-1969 ء) قاضی بشیر احمد صاحب 1972 ءتک - 151 اکتوبر 1963ء میں کالج کے ہوسٹل کا افتتاح ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ سید حسنات احمد صاحب نے کیا اور کالج کی عمارت کا سنگِ بنیا د حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے دست مبارک سے رکھا اور اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ کالج قائم ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ اس پسماندہ علاقہ میں تعلیم اور اسلام کی اشاعت کا مرکز بنے.اس تقریب پر صدر انجمن احمد یہ ربوہ کی طرف سے مبلغ ہیں ہزار روپے کا چیک حضرت بابو قاسم دین صاحب مینیجر کالج کو مرحمت فرمایا.اگلے سال کا لج کی اصل عمارت کے آٹھ کمرے پایہ تکمیل تک پہنچ گئے جس کے افتتاح کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب دوبارہ تشریف لائے اور عظیم الشان جلسہ سے خطاب فرمایا.اس موقع پر ضلع سیالکوٹ کے اہم مقامات سے کثیر تعداد میں احباب جمع تھے.نیز ضلع کے سرکاری افسر بھی بڑی تعداد میں موجود تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے کالج کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ادارہ جو خالص رفاہ عامہ کے جذبہ کے تحت کھولا گیا ہے عوام اور غریب طلباء کی ایسی خدمت سرانجام دے رہا ہے جس کو صرف دل محسوس کرتے ہیں.دوران تقریر آپ نے کالج کی ترقی کے لئے مبلغ ہیں ہزار روپے کی خطیر رقم کے عطیہ کا بھی اعلان فرمایا.جوصدرانجمن احمدیہ کی طرف سے کالج کی انتظامیہ کو تعمیر کی غرض سے دی گئی تھی.خدا کے فضل و کرم سے کالج کے محنتی اور مستعد سٹاف کی بدولت یہ نئی درسگاہ قدم بقدم بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے لگی.کالج کی پہلی کلاس کا نتیجہ قریباً 99 فیصدی رہا.عمدہ کتابوں پر مشتمل لائبریری قائم ہوئی.سٹوڈنٹ یونین بھی سرگرم عمل ہو گئی.تمام جماعتی اور تعلیمی اجتماعات یہیں ہونے لگے.مقامی جماعت کے اجتماعات میں کالج کا سٹاف نمایاں حصہ لیتا رہا.اساتذہ اپنے تدریسی فرائض کے علاوہ علاقہ کے متعدد دیہات میں گھوم پھر کر متعدد جلسوں سے خطاب کرنے لگے جس سے اس حلقہ میں زندگی اور

Page 208

تاریخ احمدیت 199 جلد 21 بیداری کی نئی لہر دوڑ گئی.یکم نومبر 1963 ء سے کالج کوانٹرمیڈیٹ کالج کا درجہ دے دیا گیا.فروری 1964ء میں پہلی بار کالج کے زیر اہتمام ایک آل پاکستان مباحثہ منعقد ہوا جس میں ضلع سیالکوٹ، ضلع سرگودھا، ضلع جھنگ اور لاہور سے قریب نو کالجوں نے حصہ لیا.یہ مباحثہ بہت کامیاب رہا جس سے گھٹیالیاں کے دیہاتی طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے بڑی دلچسپی سے سیالکوٹ، سرگودھا مری لاہور اور بدوملہی کے کالجوں کی تقاریب میں تقریری حصہ لیا اور متعد د انعامات حاصل کئے.یکم نومبر 1963 ء سے نویں دسویں کلاسیں جو کالج سے ملحق تھیں دوبارہ ہائی سکول گھٹیالیاں میں 153- شامل کر دی گئیں.16 کالج کی سالانہ رپورٹ ( یکم مئی 1965 ء تا 30 اپریل 1966 ء) سے پتہ چلتا ہے کہ یہ درسگاہ دور افتادہ دیہاتی ماحول میں واقع ہونے کے باوجود علم و تبلیغ کا مرکز بنی رہی.دورانِ سال سینکڑوں زائرین یہاں آئے اور انہوں نے طلبہ کے درمیان رہ کر یہاں کے ماحول کو بے حد پسند کیا اور طلباء اور سٹاف کے تعلیمی شغف ذوق و شوق اور انہماک کو بہت پسندیدگی کی نظر سے دیکھا.گذشتہ سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوٹل اور دو سٹاف کواٹرز کی عمارات مکمل ہو چکی تھیں.دوران سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے کالج کی عمارت کے آٹھ کمرے جو فی کمرہ 18 ×22 کے سائز کے ہیں مکمل ہو گئے.یہ خوبصورت عمارت قلعہ صو با سنگھ سے بدوملہی جانے والی سڑک کے کنارے واقع ہے.اور تمام آنے جانے والوں کے لئے انتہائی کشش کا موجب ہے.عمارت کی تکمیل کی نگرانی کے فرائض چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ قلعہ صو با سنگھ نے ادا کئے.ان کے علاوہ حاجی خدا بخش صاحب ساکن خانا میانوالی نے زمین کے ٹھیکہ جات اور دیگر متعلقہ امور کے تصفیہ میں ہاتھ بٹایا.صرف کالج کی تعمیر میں اب تک تقریباً 70 ہزار روپے کے قریب خرچ ہو چکے ہیں.ستمبر 1965ء میں پاک و ہند جنگ شروع ہوئی.جس کی وجہ سے ضلع سیالکوٹ کے تمام تعلیمی ادارے فوراً بند کر دئے گئے.مگر طلباء نے اس عرصہ میں تعلیمی خدمات کا ایک بے لوث ریکارڈ قائم کیا.آنیوالے مہاجرین کی خوراک اور بستروں کا انتظام اور فوجی سپاہیوں کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے علاوہ کالج یونین سے تقریباً-/1600 روپے کی نقد رقم حکومت کو پیش کی گئی.جس کا ذکر ریڈیو پاکستان سے نمایاں طور پر کیا گیا.ان امور کے علاوہ سڑکوں کی درستگی اور پبلک لیکچروں کا انتظام بھی کیا گیا جسمیں لوگوں کی تعلیم و تربیت کو ملحوظ رکھ کر مختلف علمی اور سوشل تجاویز کو عملی جامہ پہنایا گیا.کالج میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کبڈی.باسکٹ بال.والی بال اور بیڈ منٹن کا خصوصی انتظام رہا.

Page 209

تاریخ احمدیت 200 جلد 21 اکثر اوقات مقامی سکولوں اور کالجوں سے کبڈی کے میچ ہوتے رہتے ہیں.خصوصاً اسلامیہ کالج بدوملہی اور نارووال سے ہمارے کبڈی کے مقابلے ہوئے اور پھر اتھلیٹک یعنی لمبی چھلانگ اور ہائی جمپ کے کھلاڑی بورڈ آف ایجوکیشن کے مقابلوں میں لاہور بھی بھیجے گئے جن میں بین الجامعی مقابلوں میں کھلاڑیوں کی پوزیشن تیسری اور چوتھی رہی.والی بال اور باسکٹ بال کے میچ مقامی طور پر ہوتے رہے.اب کالج کی آخری مطبوعہ رپورٹ (67-1966 ) کا ایک اہم اقتباس دیا جاتا ہے.اصل رپورٹ جناب مولوی محمد عثمان صاحب صدیقی پر نسپل تعلیم الاسلام کا لج گھٹیالیاں کے قلم سے تھی.مختلف اوقات میں مختلف کھیل طلباء کو کھیلائے گئے.ہاکی تو قریباً روزانہ ہی ہوتی رہی.باسکٹ بال کی عمدہ پختہ گراؤنڈ طلباء کے لئے بہت دلچسپی اور دلکشی کا موجب رہی.کبڈی کے میچز ہوتے رہے جن میں اکثر میچوں میں کالج کی ٹیم غالب رہی.والی بال کھلانے کا پورا انتظام موجود ہے.اور پسند کے طلباء اس کھیل میں حصہ لیتے رہے.والی بال کے بھی چند میچز ہوئے اور باہر کی ٹیموں نے کالج کے میدان میں آکر رونق بخشی.نارنگ ہائی سکول کی طرف سے والی بال کھیلنے کی دعوت پر کالج کی ٹیم نارنگ گئی اور میچ کھیلا.جس میں کالج کی ٹیم فاتح رہی.سالانہ کھیلیں پورے اہتمام سے کرائی گئیں.اول اور دوم آنے والے طلباء کو CUPS اور کتب.استعمال کی دیگر اشیاء بطور انعام دی گئیں.کھیلوں کے اختتام پر تقسیم انعامات کا جلسہ ہوا جس میں انتظامیہ کے بعض ممبران بھی شامل ہوئے.غرضیکہ اس میدان میں بھی کالج نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں تا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کے جسمانی قوی بھی چست و صحتمندر ہیں.لائبریری.اخبارات اور رسائل: ممبران سٹاف اور طلباء نے لائبریری سے بھر پور استفادہ کیا.ریڈنگ روم میں فارغ اوقات میں طلباء بیٹھ کر مختلف اخبارات و رسائل مطالعہ کرتے رہے.امروز.پاکستان ٹائمنز.الفضل.لاہور تحریک جدید - انصار الله تو با قاعدہ کالج نے جاری کرائے ہوئے ہیں.یہ رسائل ریڈنگ روم میں رکھے جاتے ہیں جن کو طلباء پڑھ کر فائدہ اٹھاتے ہیں.علاوہ ازیں بعض دیگر تنظیموں کی طرف سے بھی نئے چھپنے والے رسائل کالج میں آئے.سال گذشتہ میں لائبریری کے لئے کتب کا نیا سٹاک خریدا گیا.اور معقول رقم لائبریری پر خرچ کی گئی.لاہور سے ایشیا فاؤنڈیشن والوں سے مل کر کتب کی ایک کھیپ بطور عطیہ

Page 210

تاریخ احمدیت 201 حاصل کی.چنانچہ اپنی پسند کی ہوئی 33 عدد خوبصورت مجلد چھوٹی بڑی کتب حاصل کر کے داخل لائبریری کی گئیں.کتب حاصل کرنے والے طلباء -/5 روپے بطور سیکیورٹی جمع کراتے ہیں.لائبریری کا انتظام بہت کامیاب رہا.....سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی مبارک تحریک تعلیم القرآن کا پروگرام دورانِ سال پورا عرصہ جاری رہا.دونوں کلاسوں کو قرآن مجید سادہ اور درجہ بدرجہ ترجمہ کے ساتھ اور مختصر تشریح کے ساتھ پڑھایا جاتا رہا.یہ کام ”یسر نا القرآن“ قاعدہ سے شروع کیا گیا.اس غرض کے لئے 30 عدد قاعدے خریدے گئے.اور تعلیم القرآن کے یہ قاعدے طلباء میں تقسیم کر دئے جاتے اور بعد میں واپس لے لئے جاتے.تعلیم القرآن میں خود خاکسار کے علاوہ قریباً دیگر سارے پروفیسر اپنی باری پر حصہ لیتے رہے.اس طرح اس بابرکت پر عمل کرنے کی توفیق کما حقہ کالج کوملتی رہی اور طلباء میں اب قرآن مجید کی طرف توجہ کرنے اور پڑھنے کی رغبت میں کافی اضافہ ہو چکا ہوا ہے.علمی وادبی سرگرمیاں: اس سے مراد طلباء میں وقتاً فوقتاً تقاریر کرنے اور اخلاقی نصائح اور وعظ وغیرہ کرنا ہے.اخلاقی اور تربیتی امور تو انفرادی طور پر سارے لیکچر ا ر اپنے اپنے وقت پر کلاسوں میں کرتے رہے.لیکن اجتماعی طور پر کلاسوں کے سامنے مختلف موضوعوں پر لیکچروں اور تقاریر کا سلسلہ اور انتظام بھی قائم رہا.جن میں طلبہ بھی مختلف عنوانوں پر عموما لکھی ہوئی تقاریر پڑھ کر سناتے اور اساتذہ کے علاوہ کسی موجود الوقت مہمان یا مربی سلسلہ وغیرہ سے بھی تقریر کروائی جاتی.جن میں عموماً اخلاقی.تربیتی اور اصلاحی امور اور تعلیمی ترقی کے ذرائع اور اصول ہی بیان کئے جاتے.ایف.اے کا نتیجہ : سال گذشتہ میں ایف.اے کے نتائج میں کالج ہذا نے بفضلہ تعالی نمایاں پوزیشن حاصل کی.نتیجہ 62 فیصد سے اوپر رہا اور اس وقت تک ضلع سیالکوٹ کے کسی کالج کا نتیجہ ہمارے علم میں ایسا شاندار نہیں رہا.معلوم ہوا ہے کہ بورڈ اور سیکنڈری ایجوکیشن نے دو مضمونوں میں فیل ہونے والے طلباء کو بھی کمپارٹمنٹ دے دی ہے.اس لحاظ سے ہمارے تین طلباء کمپارٹمنٹ میں آئے اور 17 میں سے نا کام ہونے والے صرف 3 رہ گئے.کامیاب طلباء جلد 21

Page 211

تاریخ احمدیت 202 میں سے چھ نے نہایت عمدہ سیکنڈ ڈویژن حاصل کی...مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ورحم سے سال 67-66ء میں کالج نے ہر لحاظ سے نمایاں ترقی جلد 21 کی.اور علاقہ بھر میں ایک نمایاں مقام پیدا کیا.جس کا ذکر بعض احباب کی زبانی وقتاً فوقتاً سننے میں آتا رہا.158 کالج نہایت تیز رفتاری کے ساتھ شاہراہ ترقی پر گامزن تھا کہ 12 جنوری 1972ء کو بھٹوحکومت نے نجی کالجوں کے قومیانے کے احکام صادر کر دئے.جس پر یہ کالج بھی سرکاری تحویل میں لے لیا گیا اور اس کے انتظام کے لئے مندرجہ ذیل دور کنی کمیٹی تشکیل کی گئی جس کا نام گورننگ باڈی رکھا گیا.1.چوہدری بشیر احمد صاحب دا تازید کا 2.حاجی فیض احمد صاحب گھٹیالیاں

Page 212

تاریخ احمدیت 203 جلد 21 فصل چهارم یورپ کے احمدی مبلغین کی کامیاب کانفرنس 156 یورپ میں اشاعت دین کی مہم کو تیز تر اور وسیع تر کرنے کا ایک نہایت مؤثر اور مبارک ذریعہ جماعت احمدیہ کے یورپین مشنز کی سالانہ کانفرنس تھی جو چھ سال سے با قاعدگی کے ساتھ منعقد ہو رہی تھی.اس سلسلہ کی ساتویں 1 اہم کانفرنس 15 - 16 - 17 ستمبر کو ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ہوئی جس میں یورپ کے احمدی مشنوں کے تمام مبلغین شامل ہوئے.کانفرنس کی تیاریاں ماہ اگست میں ہی شروع کر دی گئی تھیں.مکرم چو ہدی عبد اللطیف صاحب ( مبلغ جرمنی) اور مکرم شیخ ناصر احمد صاحب ( مبلغ سوئٹزر لینڈ) سے تمام نمائندگان نے رابطہ قائم کر کے تاریخیں اور ایجنڈا تیار کر لیا ، کوپن ہیگن کی مقامی جماعت نے پریس میں باقاعدہ خبروں کا سلسلہ شروع کیا.سویڈن کی جماعت نے دوستوں تک دعوت نامے ارسال کئے اور مالمو کی جماعت نے کانفرنس ہال کی آرائش کا انتظام کیا.ڈائریکٹر ابو بکر ARINTOFT نے اپنا خوبصورت مکان نمائندگان کے لئے پیش کیا.کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی پریس نے کانفرنس سے متعلق خبریں اور مضامین لکھنے شروع کر دئے اور ملک کے سب سے بڑے عیسائی اخبار نے اپنے ایڈیٹوریل میں عیسائیوں کو اس عظیم خطرہ“ سے متنبہ کرتے ہوئے تلقین کی کہ وہ مسلمانوں سے بچ کر رہیں اور ان کا شکار نہ ہوں.یورپ کے اکناف واطراف سے تمام نمائندگان 14 ستمبر کو اس مبارک اجتماع میں شرکت کے لئے تشریف لے آئے تھے.15 ستمبر کی صبح تمام احباب کا نفرنس کا بیج لگائے ہوئے کانفرنس ہال میں پہنچے.10 بجے صبح پر یس کا نفرنس کا آغاز ہوا.تمام بڑے بڑے اخبارات کے جرنلسٹ اور نیوز ایجنسیوں کے نمائندگان موجود تھے.پریس فوٹو گرافرز بھی کثرت سے آئے ہوئے تھے.چونکہ چرچ ٹیلی وژن کا نفرنس کے خلاف زبردست احتجاج کر چکا تھا اس لئے ٹیلی ویژن والے نہ آسکے.عیسائیوں کے سب سے بڑے اخبار کا ایڈیٹر بھی موجود تھا.مہمانوں کے اعزاز میں مشن نے کافی پارٹی کا اہتمام کیا ہوا تھا.ہال میں یورپ مشنز کی کتب کی نمائش لگی ہوئی تھی.اجتماعی دعا کے ساتھ پریس کانفرنس شروع ہوئی.سب سے پہلے ڈائر یکٹر ابو بکر نے نمائندگان کا تعارف کرایا.پھر مکرم شیخ ناصر احمد صاحب نے سیکرٹری یورپ مشنز کی حیثیت سے ایک بیان پڑھ کر سنایا جس میں جماعت احمدیہ کی تاریخ اور یورپ میں تبلیغی مساعی اور اسلام کے یورپ میں روشن مستقبل پر روشنی ڈالی

Page 213

تاریخ احمدیت 204 جلد 21 اور پریس نمائندگان کو سوال کرنے کی دعوت دی.نمائندگان نے بہت سے سوال کر کے اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا.ہر نمائندہ کو سوالات کے جوابات کا موقع ملا.سکنڈے نیویا میں ترجمہ قرآن، خانہ خدا کی تعمیر اور نئے احمدیوں کی ترقی کو پریس نے بہت سراہا.سوالات سلجھے ہوئے تھے اور جوابات برجستہ.تقریباً 150 اخبارات نے پریس کی رپورٹ مع تصاویر شائع کی.پریس کانفرنس کے بعد عبد السلام صاحب میڈسن نے سورۃ البینہ پر خطبہ جمعہ دیا اور نماز کی امامت حافظ قدرت اللہ صاحب ( مبلغ ہالینڈ ) نے فرمائی.جمعہ میں مبلغین کے علاوہ سویڈن، جرمن، ڈچ ڈینش اور عرب مسلمانوں کے علاوہ ایران کی ایمبیسی کے فرسٹ اور سیکنڈ سیکرٹری بھی شامل ہوئے.پریس نے جمعہ کا فوٹو اور ر پورٹ بھی شائع کی.جمعہ کی نماز اور کھانے کے بعد مبلغین کی مشاورت کا آغاز ہوا.سب سے پہلے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا.اس کے بعد انڈونیشیا کے وزیر مذہب کا تار پڑھ کر سنایا گیا جسمیں انہوں نے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کر کے کانفرنس کی مبارک باد پیش کی تھی.اس موقعہ پر تمام مبلغین یورپ نے گذشتہ دو سال کی تبلیغی اشاعتی تربیتی اور مالی رپورٹ کا جائزہ لیا.نیز گزشتہ کانفرنس کے ریزولیوشنز کی تعمیل کا جائزہ لیا.کل چار مشاورتی اجلاس ہوئے جس پر دس گھنٹے ایجنڈا پر تفصیلی بحث کی گئی اور تبلیغ کو نہایت مؤثر بنانے اور تیز تر کرنے کے ذرائع پر مفصل تبادلہ خیالات کیا گیا.مقامی مشکلات حل کرنے کی تجاویز پیش کی گئیں.تربیت اور تعلیم کے مسائل پر بحث ہوئی اور تبلیغ واشاعت کے پروگرام تجویز کئے گئے.کانفرنس کے موقعہ پر ایک اور اجلاس کا انتظام بھی کیا گیا جس میں پاکستان، مصر، سویڈن، ڈنمارک جرمنی اور ہالینڈ کے احمدی اور غیر احمدی احباب شامل ہوئے.یہ اہم اجلاس آٹھ گھنٹے جاری رہا جسمیں تربیتی کیمپ کا انتظام بچوں کی تعلیم وتربیت کے ذرائع اور باہمی تعاون جیسے اہم مسائل زیر غور آئے.کانفرنس کے پروگرام کا ایک اہم حصہ پبلک جلسوں کا انعقاد تھا جس کے مطابق 15 ستمبر کی شام کو کوپن ہیگن میں پہلا جلسہ عام ہوا جس سے محمد عبد السلام صاحب میڈسن مفسر و مترجم قرآن، ڈائر یکٹرسیف الاسلام ارکسن صاحب مدیر یکٹو اسلام اور شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئٹزرلینڈ نے بالترتیب سیرت نبوی، حضرت مسیح کا سفر کشمیر اور تعلیم الاسلام کے موضوعات پر خطاب فرمایا.حاضرین میں کوپن ہیگن یونیورسٹی کی ایک پروفیسر خاتون جنہوں نے مسلمان عورتوں اور پردہ کے حق میں کئی کتابیں لکھی تھیں اور ZULU آئی لینڈ کے ولی عہد شہزادہ کمال الدین ( نومسلم ) بھی تھے.اگلے روز 16 ستمبر کی شام کو ایسی نور میں دوسرا پبلک جلسہ ہوا.پہلی تقریرہ میڈسن صاحب نے سیرت نبوی پر کی ، دوسری تقریر شیخ ناصر احمد صاحب نے وفات مسیح پر کی جو بہت مؤثر ثابت ہوئی ، تیسری

Page 214

تاریخ احمدیت 205 جلد 21 تقریر چوہدری عبد اللطیف صاحب مبلغ جرمنی نے اسلام اور امن“ کے موضوع پر کی جسمیں آپ نے سب سے پہلے مشہور مستشرقین کے متعدد حوالوں کی روشنی میں اسلام کے بزور شمشیر پھیلنے کی تردید کی.بعد میں اسلام کی محبت و آشتی پر مشتمل تعلیم کو نہایت کامیابی سے بیان کیا.صلى الله کانفرنس کے اختتام سے قبل لارڈ میئر کے نمائندہ EXEL PETERSEN نے تمام مبلغین کی خدمت میں استقبالیہ دیا.انہوں نے سب کو خوش آمدید کہہ کر ایڈریس پیش کیا اور شہر کی مختصر تاریخ بیان کی نیز ایک خوبصورت کتا بچہ جس میں شہر کی تاریخ اور تصاویر تھیں بطور تحفہ سب کو دیا.چوہدری رحمت خان صاحب انچارج انگلستان مشن نے سب مبلغین کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ فی الحقیقت دنیا کے تمام دکھوں کا مداوا اور پیچیدگیوں کا علاج اسی تعلیم میں ہے جومحمد رسول اللہ ﷺ نے پیش فرمائی ہے.ریفرشمنٹ کے بعد چوہدری صاحب موصوف نے مختصرسی تقریر کی اور اجتماعی دعا پر یہ با برکت کانفرنس ختم ہوئی.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کا وصال آپ حضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خان صاحب کے لخت جگر تھے.یکم جنوری 1896ء کو حضرت مہر النساء بیگم صاحبہ ( بنت مکرم بہاول خان صاحب) کے بطن سے مالیر کوٹلہ میں پیدا ہوئے.1901ء میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ ہجرت کر کے قادیان آگئے جہاں قریباً ساڑھے چھ سال تک آپ کو حضرت مسیح موعود کے قرب میں قیام کرنے اور حضور سے فیضیاب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.مگر یہ ایام اس رئیس اور نواب خاندان کے لئے ایک عظیم مجاہدہ اور قربانی کے ایام تھے کیونکہ اس زمانہ میں قادیان ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں قیام و طعام کی شدید مشکلات تھیں حتی کہ روز مرہ کی ضروریات زندگی بھی پورے طور پر مہیا نہ ہوتی تھیں.مہمانوں کے لئے آٹا دھار یوال سے لایا جاتا تھا جو قادیان سے چھ میل پر ہے.حضرت محمد عبداللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ شروع شروع میں جب والد صاحب قادیان آئے ہیں تو مہمانوں کی اور خاص کر تربیت یافتہ خادمات کی از حد دقت تھی.مالیر کوٹلہ سے یہاں آنا کوئی پسند نہیں کرتا تھا.قادیان میں اجڈ لوگ ہمیں پسند نہ تھے....والد صاحب جب یہاں آئے تو آپ کو قریباً ایک دس بارہ فٹ مربعہ کمرہ اور کوٹھری شاید 8x8 مربعہ فٹ ملی.( یعنی حضرت سیدہ ام متین والا حصہ دار مسیح کا) غسل خانہ اور ٹی بھی جو آرام کا موجب ہو سکے بعد میں بنوانی پڑی ورنہ پہلے انتظام بہت معمولی تھا.یہ اس رئیس اور ان کی بیگم کی قادیان میں جائے رہائش تھی جو

Page 215

تاریخ احمدیت 206 جلد 21 کہ ایک بڑے محل کو مالیر کوٹلہ میں چھوڑ کر آئے تھے.“ 159 آپ کے برادر اکبر حضرت میاں عبدالرحمن خاں صاحب فرماتے ہیں: اس مکان کی تنگی کی یہ حالت تھی کہ ایک کوٹھری میں جس میں صرف ایک پلنگ کی گنجائش تھی حضرت والد صاحب اور خالہ جان رہتے تھے اور ہم تین بہن بھائی ساتھ کے کچے کمرے میں رہتے تھے.دوسرا کچا کمرہ حضرت والد صاحب کا دفتر تھا.جب بارش ہوتی تو ان کے گرنے کا خطرہ ہوتا اس لئے حضرت والد صاحب ہمیں دار ایچ میں اپنے پاس بلا لیتے اور ساتھ کے کمرہ میں ہم فرش پر سوتے اور موسم سرما میں تو موسم بھر ہم چاروں بہن بھائی کو وہاں فرش پر سونا پڑتا کیونکہ سب کے لئے چار پائیاں کمرہ میں نہ سما سکتی تھیں....قادیان میں ضروریات دستیاب نہ ہوتی تھیں حتی کہ جلانے کے لئے ایندھن بھی حضرت والد صاحب مالیر کوٹلہ سے منگواتے تھے.ہری کین لیمپ کے سوا روشنی کا انتظام نہ تھا.تین چار سال اسی راہبانہ حالت میں گذر کی.حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب اور انکے چھوٹے بھائی میاں عبد الرحیم صاحب نے قرآن مجید ناظرہ حضرت پیر منظور محمد صاحب ( موجد قاعدہ میسر نا القرآن ) سے پڑھا.21 دسمبر 1903 ء کو بروز عید الفطر بعد نماز مغرب ختم قرآن شریف کی تقریب ہوئی جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے بھی شرکت فرمائی اور حاضرین کے ساتھ اجتماعی دعا کی چنانچہ اخبار الحکم 17.24 دسمبر 1903ء میں ہے کہ :- عالی جناب خانصاحب نواب محمد علی خان صاحب ڈائر یکٹر تعلیم الاسلام کالج کے صاحبزادگان کے ختم قرآن شریف کی تقریب پر 21 دسمبر 1903ء عید کے روز بعد نماز مغرب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت عالی میں بغرض دعا پیش کیا گیا ہے جس کو عام اصطلاح میں آمین کی تقریب کہتے ہیں.حضرت اقدس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کل حاضرین نے آپ کے ساتھ مل کر دعا کی.“ 66 اور اخبار البدر‘ نے لکھا:.شام کے وقت بعد ادائیگی نماز مغرب حضرت اقدس نے جلسہ فرمایا.تھوڑی دیر کے بعد جناب نواب محمد علی خان صاحب کے صاحبزادہ زریں لباس سے ملبس حضور کی خدمت میں نیاز مندانہ طریق پر حاضر ہوئے.آپ نے ان کو اپنے پاس جگہ دی.ان کو اس ہیئت

Page 216

تاریخ احمدیت 207 جلد 21 میں دیکھ کر خدا کے برگزیدہ نے بڑی سادگی سے جناب نواب صاحب سے دریافت فرمایا کہ ان کی کیا رسم ادا ہونی ہے؟ نواب صاحب نے جواب دیا کہ آمین ہے.اس اثناء میں ایک سر و پا تھال آیا اور وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے رو برو دھرا گیا.چند لمحہ کے بعد پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اب آگے کیا ہونا ہے؟ عرض کی گئی کہ اسے دستِ مبارک لگا دیا جائے اور دعا فرمائی جائے چنانچہ حضور نے ایسا ہی کیا اور پھر فوراً تشریف لے گئے.آپکے والد ماجد نے اپنے صاحبزادگان کی تربیت کا مثالی انتظام فرمایا.قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانے کے لئے حضرت حافظ روشن علی صاحب جیسے جید عالم کی خدمات حاصل کیں اور جغرافیہ اور حساب وغیرہ مضامین پڑھانے اور عمومی نگرانی کے لئے حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب کو ٹیوٹر رکھا جو شہر کے مکان میں صاحبزادوں کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے.1911ء میں حضرت میاں عبد اللہ خان صاحب نے اپنے دوسرے دو بھائیوں یعنی عبدالرحمن صاحب اور میاں عبد الرحیم صاحب خالد کے ساتھ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخلہ لیا.حضرت میاں عبداللہ خان صاحب اور میاں عبدالرحمن صاحب ساتویں جماعت میں داخل ہوئے.اس زمانہ میں حضرت مولوی محمد دین صاحب، حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزاروی، حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب، حضرت ماسٹر عبدالرحمن مہر سنگھ صاحب، حضرت صوفی غلام محمد صاحب ( مجاہد ماریشس)، حضرت چوہدری غلام محمد صاحب اور حضرت قاضی عبد الحق صاحب سکول کے اساتذہ تھے.صوفی محمد ابراہیم صاحب کا بیان ہے کہ 161 ”میاں صاحب کا طلباء سے میل جول بڑھا تو آپ کی خوبیاں نمایاں ہوئیں.آپ کو فٹ بال کا کھیل پسند تھا.ان دنوں مدرسہ کی روایات بہت شاندار تھیں.اور ڈویژن بھر میں ہمارے مدرسہ کی کھیلوں کا سکہ مانا جاتا تھا.کھلاڑیوں کو چاق و چوبند رکھنے کے لئے یونیفارم کی تجویز ہوئی جو نیلی نکر اور سفید قمیض پر مشتمل تھی.اس پر حضرت نواب صاحب کو اعتراض ہوا کہ نگر مناسب لباس نہیں کیونکہ اسلام نے مرد کے جسم کا جو حصہ ستر ٹھہرایا ہے وہ نکر سے پوری طرح ڈھانپا نہیں جا سکتا.چنانچہ میاں صاحب نے اپنے خرچ پر اپنے لئے ایسی نکر تیار کروائی جو گھٹنوں سے نیچے تک پہنچتی تھی.اس فکر کو پہن کر آپ کھیل کے میدان میں آتے.گو اس طرح آپ کا لباس کچھ زیادہ چست معلوم نہ ہوتا مگر آپ کو اس کی پرواہ نہ ہوتی.بظاہر یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے مگر اس سے پتہ چلتا ہے کہ طالب علمی کے زمانہ میں ہی آپ کو شریعت کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا کس قدر خیال رہتا تھا.162

Page 217

تاریخ احمدیت 208 جلد 21 سکول کے تعلیمی دور میں حضرت میاں صاحب موصوف کو حضرت خلیفہ مسیح الاول کے اس خصوصی درس میں شرکت کا زریں موقعہ بھی میسر آیا جو حضرت حکیم الامت اپنے صاحبزادہ میاں عبدالحئی صاحب کو نماز مغرب کے بعد اپنے کچے مکان کے صحن میں دیا کرتے تھے.اس یادگار درس میں شمولیت آپ کے ہم مکتب حضرت ملک غلام فرید صاحب کی کوشش کا نتیجہ تھی.جس کی تفصیل ملک صاحب کے قلم سے درج ذیل ہے.فرماتے ہیں: 163 حضرت خلیفتہ اسیح الاول کی تحریک پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے اپنے تینوں بیٹوں یعنی میاں عبد الرحمن خان صاحب مرحوم و مغفور.حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب اور میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد کو 1911ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل کروا دیا.میاں محمد عبد اللہ خانصاحب اور میاں عبدالرحیم خانصاحب ساتویں جماعت میں داخل ہوئے.جس میں ان دنوں میں پڑھتا تھا.ان دنوں حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی معاشرت کی یہ کیفیت تھی کہ یہ تینوں بھائی اپنی کوٹھی دار السلام سے جو قصبہ قادیان سے باہر تھی سکول میں جو ان دنوں قصبہ میں تھا نہایت خوبصورت اور قیمتی گھوڑیوں پر سوار ہو کر آیا کرتے تھے.اور ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ان کا ذاتی خادم بھی ہوا کرتا تھا.سکول میں داخل ہونے کے چند دن بعد حضرت نواب صاحب نے اس وقت کے سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب جناب صدر الدین صاحب سے فرمایا کہ میرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے چند قابل اعتماد اور شریف طلباء کو میری کوٹھی پر بھجوا دیا کریں.ان لڑکوں میں میرا انتخاب بھی ہوا.اور اسی دن سے اس عاجز کے ساتھ میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کا تعلق قائم ہوا.جسے اس شہزادے نے کمال وفا داری سے پورے پچاس سال تک نباہا.ان دنوں مجھے سیدنا حضرت خلیفہ ایچ اول کے قرآن کریم کے درس میں شامل ہونے کا بہت شوق تھا.حضرت خلیفتہ اسیح اول قرآن کریم کے پبلک درس کے علاوہ جو حضور مسجد اقصیٰ میں نماز عصر کے بعد قادیان کی ساری جماعت کو دیا کرتے تھے.ایک درس اپنے کچے مکان کے صحن میں نماز مغرب کے بعد بھی دیا کرتے تھے.میں اس درس میں بھی شامل ہوا کرتا تھا.میں نے ایک دن حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب اور میاں عبد الرحیم خان صاحب خالد کو بھی درس میں شامل ہونے کی تحریک کی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب جو شام کے بعد بچوں کو گھر سے نکلنے کی اجازت دینے کا خیال بھی نہ کر سکتے تھے مجھے

Page 218

تاریخ احمدیت 209 پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے ان دونوں صاحبزادوں کو اس شام کے درس میں شامل ہونے کی اجازت دے دی.اس وقت قادیان کی زندگی نہایت غریبانہ زندگی تھی.اور درس کی اس مجلس کے لئے نہایت معمولی ایک آدھ لیمپ ہوا کرتا تھا.درس میں حاضری کی دوسری شام کو ہی میاں محمد عبد اللہ خانصاحب اپنی کوٹھی سے گیس کا ایک لیمپ لے آئے.حضرت خلیفہ امیج اول نے جب گیس کی وہ سفید اور خوشنما روشنی دیکھی تو حضور نہایت خوش ہوئے اور بار بار فرماتے کہ آج تو ہمارا دل باغ باغ ہو گیا ہے اور نواب صاحب کے ان دونوں صاحبزادوں کو بہت دعائیں دیں.انہی دنوں درس کی مجلس میں ایک عجیب وغریب واقعہ ہوا.حضرت خلیفہ امسیح اول حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی صاحب کے تعلق باللہ کے کچھ واقعات سنا رہے تھے.ان واقعات میں حضور نے یہ ذکر بھی فرمایا کہ ایک دن مجلس میں بیٹھے بیٹھے شاہ عبد الرحیم صاحب کو یہ الہام ہوا کہ تم حاضرین مجلس کے لئے دعا کرو.تو یہ سب لوگ جنت میں جائیں گے.یہ بات بیان کر کے خدا کے پاک مسیح کے صدیق نے فرمایا کہ خدا نے اس وقت مجھے بھی فرمایا ہے کہ تم اپنی اس مجلس کے حاضرین کے لئے دعا کرو تو یہ سب بھی جنت میں جائیں گے.اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی.اس شام کی اس مجلس کی کیفیت کا کچھ وہی لوگ اندازہ کر سکتے ہیں جو اس مجلس میں حاضر تھے.اس مجلس میں حضرت میاں محمد عبد اللہ خانصاحب بھی شامل تھے.اور صوفی محمد ابراہیم صاحب بھی 66 164 ان دنوں میاں صاحب مرحوم و مغفور قرآن کریم کے درسوں میں شامل ہونے کے علاوہ نہات با قاعدگی سے پانچ وقت نماز کے لئے مسجد نور میں حاضر ہوتے تھے.اور تہجد کی نماز بھی پڑھتے تھے.یہ ان کے بچپن کے زمانہ کے واقعات ہیں.جلد 21 1915ء میں حضرت میاں عبداللہ خان صاحب نے میٹرک پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا مگر کالج کے ہوٹل کا ماحول اپنے دینی مزاج کے موافق نہ پا کر اپنے چچا نواب سر ذوالفقار علی خاں صاحب کی کوٹھی ” زرافشاں ( واقع کوئنیز روڈ ) میں قیام فرما ہوئے.ان دنوں متعد داحمدی طلباء لاہور کے مختلف کالجوں مثلاً گورنمنٹ کالج ، اسلامیہ کالج ، میڈیکل کالج ، کمرشل کالج اور میڈیکل سکول میں تعلیم پا رہے تھے اور ان کے یکجار بنے کا کوئی انتظام نہیں تھا.آپ کے داخلہ کالج کے بعد قادیان میں یہ تحریک زور سے شروع ہوئی کہ لاہور میں ایک احمد یہ

Page 219

تاریخ احمدیت 210 جلد 21 ہوٹل ہونا چاہئے جہاں احمدی طلبہ اکھٹے رہ کر دینی ماحول میں تربیت پاسکیں.آپ نے بھی اس تحریک کو کامیاب بنانے میں انتہائی جدو جہد کی.آپ کی مساعی بار آور ہوئیں اور 1915ء کے آخر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے خاص حکم سے احمد یہ ہوٹل معرض وجود میں آ گیا جس کا نام شروع میں احمد یہ بورڈنگ ہاؤس تھا.یہ ہوٹل پہلے اسلامیہ کالج کے پاس ایک مکان میں جاری کیا گیا تھا لیکن چونکہ اس مکان میں طلبہ کو چند وقتیں تھیں اس لئے حضرت نواب محمد علی خان صاحب خود لاہور تشریف لے گئے اور اسے ملاحظہ کرنے کے بعد ممبران انجمن احمد یہ لاہور کو رائے دی کہ وہ کوئی اور موزوں جگہ تلاش کریں جس کے بعد اسے گوالمنڈی میں واقع ایک موزوں عمارت میں منتقل کر دیا گیا.167- احمد یہ ہوٹل کے پہلے سپر نٹنڈنٹ بابو عبد الحمید صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ مقرر ہوئے اور اسمیں روزانہ درس اور نماز با جماعت کا سلسلہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی مبلغ لا ہور کے ذریعہ جاری ہوا اور اس طرح لاہور میں بھی قادیان کے ماحول کی جھلک نظر آنے لگی.جو نہی ہاسٹل قائم ہوا حضرت میاں عبد اللہ خاں صاحب ہوسٹل میں کوٹھی کو چھوڑ کر دوسرے احمدی طلبہ کے ساتھ رہنے لگے.اس ابتدائی دور میں آپ کے سمیت کل پندرہ طلباء ہوسٹل میں مقیم تھے جن میں ملک غلام فرید صاحب (اسلامیہ کالج) ، صوفی محمد ابراہیم صاحب (ایف سی کالج ) ، مولوی محمد اسحق صاحب کمرشل کالج ) اور عبد العزیز خان صاحب آف سر وعہ (اسلامیہ کالج) خاص طور پر قابل ذکر ہیں.صوفی محمد ابراہیم صاحب کا بیان ہے کہ: آپ تہجد اور باقاعدہ نمازوں کے پابند تھے.غرباء کی امداد اور دوستوں کی خاطر مدارت کرنا آپ کا شیوہ تھا.آپکی وجاہت اور نیکی کا اثر سب ملنے والوں پر تھا.احمدی طلباء نے کالجوں میں تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری کر رکھا تھا اور ان کے زیر اثر طلباء اکثر احمد یہ ہوٹل میں آتے رہتے تھے.میاں صاحب ان سے بھی محبت سے ملتے اور یہ ملاقاتی نہایت اچھا اثر لے کر جاتے.کم و بیش آپ دو سال لاہور میں رہے.مگر صحت کچھ اچھی نہ رہتی تھی اس لئے امتحان پاس کئے بغیر قادیان واپس آگئے.7 جون 1915ء کو آپ نے اپنی زندگی کے ایک نئے اور نہایت اہم دور میں قدم رکھا جبکہ آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کا شرف حاصل ہوا.اور حضور کی صاحبزادی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح آپ سے ہوا اور تقریب شادی 22 فروری 1917 ء کو عمل میں آئی.اس مبارک تعلق کو آپ نے زندگی کی آخری سانس تک اپنے لئے سعادت عظمی سمجھا اور آپ کا دل ہمیشہ جذبات 170

Page 220

تاریخ احمدیت 211 جلد 21 تشکر اور امتنان سے لبریز رہا.فرماتے تھے کہ میں اپنی زوجہ محترمہ کو آية من آيات اللہ سمجھتا ہوں اور حضور کی صاحبزادی میرے گھر میں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ مجھے افضال و برکات سے نوازتا ہے.میں نے حتی الامکان ان کی کسی خواہش کو کبھی بھی رد نہیں کیا.میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر سکتا.ایک بار اپنے ماموں زاد بھائی میجر شبیر احمد خاں صاحب سے فرمایا: ” میں نے اپنا وجود درمیان سے بالکل ہی مٹا دیا ہے اور بیگم صاحبہ جو کہ حضرت مسیح موعود کی صاحبزادی ہیں ان کی وجہ سے جو کچھ میرا تھا وہ اب مٹ چکا ہے.سب کچھ حضرت مسیح موعود کی برکت کا ظہور ہے.سبحان اللہ " حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفتہ امسیح الرابع ) تحریر فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود کی دامادی کی سعادت کو اپنے لئے ایسا عزت و اکرام کا موجب سمجھتے تھے جیسے ذرۂ خاک کو آسمان پر کرسی نشینی مل گئی ہو.اسی بنا پر حضرت پھوپی جان کے ساتھ نہایت ہی ادب و احترام کا سلوک کرتے تھے.گو تجارتی اور زمینداری سے متعلق امور میں خود مختار تھے اور اپنی مرضی پر عمل پیرا ہوتے مگر خانگی اور معاشرتی امور میں حضرت پھوپی جان کی خواہشات کا بہت زیادہ پاس ہوتا.اپنی بچیوں کی شادیاں حضرت مسیح موعود کی اولا د میں کرنے کی خواہش تو ازن کی حد سے بڑھی ہوئی دکھائی دیتی تھی.اور اس بڑھے ہوئے عشق کی غمازی کرتی تھی جو اس کے پس پردہ کارفرما تھا.آخری بچی کے سوا باقی سب کے متعلق یہ خواہش تو زندگی میں ہی پوری ہوگئی.اس کے متعلق بھی بڑی حسرت کے ساتھ یہی خواہش تھی.174 66 66 آپ کے مشیر قانونی محترم شیخ نور احمد صاحب ایڈووکیٹ کا بیان ہے کہ ایک کیس کے سلسلہ میں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے صاف طور پر فرما دیا تھا کہ ”خواہ میرے کسی عزیز ترین عزیز کا لاکھوں روپیہ کا نقصان ہو جائے مگر میں کسی امر کے متعلق کوئی ایسا بیان دینے کو تیار نہیں کہ جس میں ذرہ بھی شک داشتباہ کا امکان پایا جائے.کچھ دنوں بعد شیخ صاحب نے میاں صاحب سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا:- آپ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو اور ان کے روحانی مقام کو نہیں جانتے.....جب سے میری وابستگی اس مقدس وجود کے ساتھ ہوئی ہے میں نے کبھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا کہ وہ میری WIFE ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی اور شعائر اللہ میں سے ہیں.میں تو محسوس کرتا ہوں کہ کما حقہ ان کی قدر نہیں کر سکا.اللہ تعالیٰ

Page 221

تاریخ احمدیت 212 جلد 21 مجھے توفیق دے کہ میں ان کا تا زندگی کامل طور پر احترام کرتا رہوں.175 اپریل 1919 ء سے اکتوبر 1923 ء تک مسلسل یا غیر مسلسل صورت میں) آپ پہلے ناظر تالیف واشاعت اور پھر نائب ناظر اشاعت کے فرائض بجالاتے رہے.چنانچہ اخبار الحکم 21/28اپریل 1919ء صفحہ 2 میں زیر عنوان ”دار الامان کا ہفتہ لکھا ہے: خاں صاحب محمد عبد اللہ خان صاحب ناظر تالیف واشاعت‘ صیغہ کے بہترین نظام (کو) اور زیادہ مفید اور کارآمد بنانے میں بہت منہمک ہیں.“ 1922ء میں پہلی مجلس مشاورت منعقد ہوئی جس میں آپ نے بھی بطور ممبر شرکت فرمائی.1923ء میں آپ نے ” صیغہ انسداد ارتداد میں نمایاں خدمات انجام دیں جیسا کہ اخبار الحکم 21/28 مئی 1923 صفحہ 8 کی مندرجہ ذیل خبر سے پتہ چلتا ہے:.176 وو صیغہ انسداد ارتداد کا مرکزی کام حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور خان صاحب میاں عبد اللہ خاں صاحب کمال محنت اور دلسوزی سے کر رہے ہیں.“ 1932ء میں حضرت مصلح موعود کی منشاء مبارک سے سندھ میں پانچہزار ایکڑ زمین خریدی گئی جو خصوصاً ہجرت کے بعد بے سروسامانی کی حالت میں بہت بڑی امداد ثابت ہوئیں اور جماعت کے اقتصادی نظام کومستحکم کرنے کا موجب بنیں.اس زمین کا انتخاب ایک نہایت کٹھن اور تھکا دینے والا مرحلہ تھا جو آپ میاں عبداللہ خاں صاحب کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچا.اس غرض کے لئے آپ کو بعض دفعہ میں چھپیں میل روزانہ اونٹ پر سفر کرنا پڑا.آپ سلسلہ کا خرچ نہایت کفایت سے کرتے اور سادہ غذا پر قناعت کرتے.صدرا انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ ( یکم مئی 1932 لغایت 30 اپریل 1933 ء) کے صفحہ 131 میں لکھا ہے کہ :- خانصاحب محمد عبد اللہ خاں خلف رشید نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ خاص شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے سندھ کے متفرق علاقوں میں پھر پھر کر اسے تلاش کیا“ شروع 1933 ء میں آپ نے اپنے لئے ساڑھے پانچ ہزار ایکڑ اراضی ضلع نواب شاہ میں حاصل کی لیکن حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر اس کا تبادلہ نصرت آباد والی اسٹیٹ سے کر لیا.1940 ء میں آپ کی اسٹیٹ گورنمنٹ کی ساٹھ ہزار کی مقروض تھی.مزید برآں اتنی بھاری رقم کا خسارہ کاٹن کی تجارت میں ہوا.آپ نے بہت دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ

Page 222

تاریخ احمدیت 213 جلد 21 بیگم صاحبہ کو بشارات دیں.چنانچہ چند ماہ کے اندر اندر حالات نے پلٹا کھایا اور چند سال میں ہی آپ کی مالی پوزیشن خاصی مضبوط ہو گئی.27 اپریل 1943 ء کو آپ نے نصرت آبا دا سٹیٹ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے شکریہ اور کارکنوں کی خدمت کے عملی اعتراف کے لئے جلسہ کیا اور کارکنوں کو 700 روپے کے انعامات دئے.اس موقعہ پر آپ نے ایک مفصل تقریر بھی کی جسمیں بتایا کہ :- میں اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو بیٹیوں کا خادم سمجھتا ہوں.میری ساری کوشش اور محنت اس لئے ہے کہ اس پاک وجود کے جگر پارے آرام پائیں جن میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک کو میرے والد اور ایک کو میرے سپر د کیا ہے.میرے دونوں بچے اللہ تعالیٰ کی خدمت کے لئے وقف ہیں.میں یہاں اس لئے کام کر رہا ہوں ( کہ ) وہ خدا اور رسول کے چمن کے مالی بنے رہیں.وہ اپنے روز گار کی فکر سے آزا در ہیں وہ صرف اللہ کے بندے بنے رہیں.ان کو کسی غیر کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے.180 26 اگست 1947ء کو آپ خواتین مبارکہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان پہنچے.یکم ستمبر 1947 ء کو حضرت مصلح موعود نے جو دھامل بلڈنگ (لاہور) میں صدر انجمن احمدیہ کی بنیا د رکھی اور اس کا اولین ناظر آپ کو نامزد فرمایا.یہ انتہائی مشکلات کا دور تھا.قادیان کی آبادی کا بڑا حصہ ابھی وہیں تھا اور عملہ نا کافی تھا.آپ کو انتہائی محنت شاقہ کرنی پڑی.مصیبت زدہ احمدی مہاجر اپنی جمع شده امانتی رقوم حاصل کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں آتے.آپ فورا ساتھ ہو لیتے اور بعض دفعہ حساب جلدی میں نہ مل سکتا تو اپنی شخصی ضمانت پر روپیہ دلوا دیتے تا تکلیف نہ ہو.آپ کی بشاشت اور حسن سلوک سے زخمی دل مہاجروں کو بہت آرام پہنچا.نئے مرکز کے لئے موجودہ ربوہ کی زمین خریدنے کا فیصلہ ہوا تو جو درخواست حکومت کے نام خریداری کے لئے لکھی گئی اس پر آپ ہی کے دستخط تھے.1 182- 8 فروری 1949ء کو جبکہ آپ اپنے دفتر میں مفوضہ فرائض انجام دے رہے تھے آپ کے معدہ اور دل میں یکا یک تکلیف ہونی شروع ہوئی.آپ گھر سے دوا لینے کے لئے باہر تشریف لائے مگر جو نہی رتن باغ میں پہنچے آپ گر پڑے.یہ کا رونی تھر مبوسس کا ایک شدید قسم کا حملہ تھا جس میں دل کی شریانوں میں خون منجمد ہو جاتا ہے اور عارضی طور پر دل کی حرکت بند ہو جاتی ہے.اکثر اوقات تو لوگ اس حملہ سے جانبر نہیں ہو سکتے.ڈیڑھ دو گھنٹہ بعد کچھ افاقہ ہوا جس کے بعد دوبارہ شدید حملہ ہوا اور ساتھ ہی تشیخ بھی.صورت حال انتہائی تشویش انگیز ہوگئی حتی کہ لاہور کے مشہور و معروف ڈاکٹر محمد یوسف صاحب زندگی سے بالکل مایوس

Page 223

تاریخ احمدیت 214 جلد 21 کہہ ہو گئے.مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود خاندان مسیح موعود اور جماعت کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور آپ کو معجزانہ طور پر شفا بخشی جس کے بعد آپ کم و بیش بارہ سال تک زندہ رہے.(اس دوران آپ نے 1956 ء میں سندھ کا طویل سفر بھی کیا.) بیماری کے اس حملہ کے وقت حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ راولپنڈی میں تھیں، آپ کسی طرح راولپنڈی سے لاہور پہنچیں اور آپ کی تیمارداری کا حق ادا کیا.اس کی تفصیل خود آپ کے قلم سے لکھنا مناسب ہوگا.آپ تحریر فرماتے ہیں: اس مہر و وفا کی مجسم نے جب میری بیماری کی اطلاع راولپنڈی میں پائی تو نہایت درجہ پریشانی کی حالت میں فوراً لاہور پہنچیں.لیکن کیا مجال میرے پر اپنی گھبراہٹ کا اظہار ہونے دیا ہو.پھر اس قدر تند ہی اور جانفشانی سے میری خدمت میں لگ گئیں کہ میں نہیں کہ سکتا کہ کوئی دوسری عورت اسقدر محبت اور پیار کے جذبہ سے اپنے خاوند کی خدمت کر سکتی ہو.اس اللہ تعالیٰ کی بندی نے اپنے اوپر آرام کو حرام کر لیا.رات دن جاگتے ہوئے کاٹتی تھیں.کمرہ تنگ تھا.اس لئے دوسری چار پائی کمرہ میں بچھ نہیں سکتی تھی اس لئے یہ ناز و نعمت کی پلی جو کہ ریشم اور اطلس کے لحافوں کی عادی تھی زمین پر چند منٹ کے لئے سر ٹیک کر آرام لے لیتی تھی.بلکہ زمین پر نہیں ایک تخت پوش نماز کے لئے بچھا ہوا تھا اس پر چند منٹ کا آرام اگر میسر آجائے تو آجائے ورنہ ہر وقت چوکس ہوشیار.میرے کام کے لئے مستعد ہوتی تھیں.یہ نہیں کہ کوئی اور میرا خبر گیراں نہ تھا.ان ایام میں ملازموں کے علاوہ تمام عزیز اور رشتہ دار میری خدمت میں لگے ہوئے ( تھے )....حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتیاں اور نواسیاں اس محبت اور جذبہ سے خدمت میں لگی ہوئی تھیں کہ اگر میں اس حالت میں مر بھی جاتا تو یہ بھی میرے لئے ایک روحانی انبساط کا موجب ہوتا..لیکن میری باوفا پیاری بیوی نے کسی کی امداد پر بھروسہ نہ کیا بلکہ ان کی یہی خواہش اور آرزو ر ہتی تھی کہ خود ہی میرا کام کریں.1949ء کی بیماری کے نتیجہ میں آپ کو پانچ سال تک چار پائی پر رہنا پڑا.اس کے بعد آپ پہیہ دار کرسی سے چلنے پھرنے لگے اور سلسلہ کے کاموں مثلاً چندوں اور نمازوں کی تلقین اور بعض ذاتی امور کے لئے موٹر پر تشریف لے جایا کرتے تھے.185 آپ نے اپنی وصیت میں اولاد کو نہایت بیش قیمت نصائح کرتے ہوئے لکھا:.” میری دعا اور آرزو ہے کہ میری اولا د خلافت سے منسلک رہے.اور ہمیشہ اس گروہ کا

Page 224

تاریخ احمدیت 215 جلد 21 ساتھ دیں.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام کی اولاد کے افراد زیادہ سے زیادہ ہوں.کیونکہ حضور علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.انى معك و مع اهلك.نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کریں.اور ہر مصیبت کے وقت مولا کریم کو قادر مطلق خدا تصور کرتے ہوئے اس کے حضور جھک کر عجز وانکسار سے استقامت طلب کریں.میں نے اسی طریق سے زندہ خدا کو پایا اور اپنی مشکلات کو کافور ہوتا دیکھا.حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں.ہمیشہ ان کے سامنے یہ بات ہونی چاہئے کہ وہ کس ماں کی اولاد ہیں.اور کس نانا کے وہ نواسے اور نواسیاں ہیں.کس مقام کا ان کا ماموں ہے.اور وہ اس دادا کی اولاد ہیں جس نے اپنی اور اپنی اولا دسنوارنے کے لئے اپنے وطن کو چھوڑا.اور محلات کو چھوڑ کر ایک کو بستی میں تنگ مکان میں بسیرا کیا.اور صرف اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں آن بیٹھا تا اس کو اور اس کی اولاد کو از لی زندگی حاصل ہو.اور دین کو مقدم کرنے کا موقعہ ملے.ہم نے کچھ کچھ اس قربانی کی برکات کا مزا چکھا اور اگر میری اولاد نے صبر وشکر کے ساتھ استقامت دکھائی اور اپنے نانا علیہ الصلوۃ والسلام کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو بے شمار دینی و دنیوی فیوض و برکات کے وارث ہوں گے جو آسمان پر ان کے لئے مقدر ہو چکے ہوں.اللہ تعالیٰ ہم کو ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.اللهم ربنا آمين.میری دعاؤں اور نیک خواہشوں کا وہی بچہ حقدار ہو گا جو اپنی ماں کی خدمت کو جز و ایمان اور فرض قرار دے گا.ان کی ماں معمولی عورت نہیں ہیں.میں نے ان کے وجود میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات کو کارفرما دیکھا ہے ہر وقت اور ہر مشکل کے وقت ان کی ذات کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کا محور پایا.چار سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب کی گود سے لیا پھر عجیب در عجیب رنگ میں ان کی ربوبیت فرمائی.میں نے اللہ تعالیٰ کے جو نشانات اپنی زندگی میں ان کے وجود میں دیکھے ہیں وہ ایک بڑی حد تک احمدیت پر ایمان کامل پیدا کرنے کا موجب ہوئے ہیں.وفات سے چند سال قبل آپ کو خواب میں بتایا گیا کہ آپ کی عمر 66 سال ہوگی.اس خواب کے عین مطابق آپ 66 سال کی عمر میں 18 ستمبر 1961 ء کو انتقال فرما گئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.نماز جنازہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھائی جسمیں ربوہ اور دور ونزدیک کے دیگر مقامات 187

Page 225

تاریخ احمدیت 216 جلد 21 کے آئے ہوئے ہزار ہا احمدیوں نے شرکت کی.اوصاف حمیده 188- حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اللہ تعالیٰ کے ان محبوب بندوں میں شامل تھے جو ر دیا اور الہام کی آسمانی برکتوں کے حامل ہوتے ہیں.آپ کی طبیعت سادہ اور مزاج تصنع سے پاک مگر بہت نفیس تھا.سلسلہ احمدیہ کے فدائی اور اس کے لئے بہت غیور تھے.جماعت کے مالی جہاد میں کمال ذوق وشوق سے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.آپ کی باتوں سے ایمان کو تازگی نصیب ہوتی تھی.آپ کے اوصاف حمیدہ میں پانچ امور بہت نمایاں تھے 1.غیر متزلزل ایمان ، 2.نماز سے عشق، 3 - تقومی شعاری ، 4 - شکر گزاری ، 5- غرباء پروری اور مہمان نوازی ، 1.حضرت نواب سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:.دین وایمان کے معاملہ میں ہمیشہ انتہائی ثابت قدم اور ایک مضبوط چٹان کی مثال رہے.ایمان و اخلاص میں بالکل اپنے والد مرحوم کا نمونہ تھے....حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعاوی پر صدق دل سے ایمان رکھنے والے خلافت سے ظاہر و باطن، دل و جان سے وابستہ رہنے والے کوئی معترض ان پر کسی قسم کا اثر ہر گز نہیں ڈال سکتا تھا.دنیاوی چھوٹی چھوٹی باتوں میں کسی کا اثر اپنے بھولے پن سے جتنی جلدی لے لینے کے عادی تھے اتنے ہی دینی امور میں ایک ایسا پختہ پہاڑ تھے جس پر کوئی وار بھی خراش نہیں ڈال سکتا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احد صاحب (خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں : نماز کے عاشق تھے.خصوصاً نماز با جماعت کے قیام کے لئے آپ کا جذبہ اور جدو جہد امتیازی شان کے حامل تھے.بڑی باقاعدگی سے پانچ وقت مسجد میں جانے والے.جب دل کی بیماری میں صاحب فراش ہو گئے تو اذان کی آواز کو ہی اس محبت سے سنتے تھے جیسے محبت کرنے والا اپنے محبوب کی آواز کو.جب ذرا چلنے پھرنے کی سکت پیدا ہوئی تو بسا اوقات گھر کے لڑکوں میں سے ہی کسی کو پکڑ کر آگے کھڑا کر دیتے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے جذبہ کی تسکین کر لیتے.یا رتن باغ میں نماز والے کمرہ کے قریب ہی کرسی سرکا کر با جماعت نماز میں شامل ہو جایا کرتے.جب ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی ملی تو وہیں پنج وقتہ نماز با جماعت کا اہتمام کر کے گویا گھر کو ایک قسم کی مسجد بنالیا.پانچ وقت اذان دلواتے.

Page 226

تاریخ احمدیت 217 موسم کی مناسبت سے کبھی باہر گھاس کے میدان میں کبھی کمرے کے اندر چٹائیاں بچھوانے کا اہتمام کرتے اور بسا اوقات پہلے نمازی ہوتے.جو مسجد میں پہنچ کر دوسرے نمازیوں کا انتظار کیا کرتا.مختلف الانواع لوگوں کے لئے اپنی رہائش گاہ کو پانچ وقت کے آنے جانے کی جگہ بنا دینا کوئی معمولی نیکی نہیں خصوصاً ایسی حالت میں اس نیکی کی قیمت اور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ صاحب خانہ کا رہن سہن کا معیار خاصا بلند ہو.معاشرتی تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہو.بچیوں کی سہیلیاں ، لڑکوں کے دوست.اپنے ملاقاتی معززین.عزیزوں رشتہ داروں کی بار بار کی آمد ورفت کہیں مہمانوں کی کثرت سے کمروں کی تنگی.کبھی گرمیوں کی شاموں میں لان (LAWN) کا بڑھا ہوا استعمال.یہ سب گہما گہمی اپنے مقام پر رہی اور کبھی بھی پنجوقتہ نماز با جماعت کی ادائیگی میں مخل نہ ہوسکی.باہر یہ اعلان کبھی نہ ہوا کہ چونکہ مستورات باہر صحن میں نکلنا چاہتی ہیں اس لئے آج یہاں نماز نہیں ہوگی.ہاں بسا اوقات اندر یہ سننے میں آیا کہ ابھی باہر نمازی موجود ہیں جب تک وہ فارغ نہ ہو جائیں باہر نہ نکلو.حضرت پھوپھا جان ان افراد میں سے نہیں تھے جو خود تو سختی سے نمازوں کے پابند ہوں لیکن بچوں کا اس بارہ میں خیال نہ رکھیں.کم ہی ایسے بزرگ ہوں گے جو اتنی باقاعدگی سے بلا ناغہ بچوں کو پنج وقتہ نمازوں کی تلقین کرتے ہیں.اور پھر تلقین بھی ایک خشک ملاں کی بے لذت متشددانہ تلقین نہیں بلکہ ایسی پر اثر تلقین جیسے دل اس کے ساتھ لپٹا چلا آیا ہو.اگر کوئی بچه سنتی کرتا تو چہرہ پر غم اور فکر کے آثار بے اختیار ظاہر ہوتے.اور اگر کوئی بچہ آواز پر فوراً لبیک کہتا تو ناز سے بھرے ہوئے خوشی کے جذبات آپ کے چہرہ کو شگفتہ کر دیتے.جن دنوں پہیہ دار کرسی پر بیٹھ کر اسے گھماتے ہوئے آپ نماز کے لئے آتے تھے اس زمانہ میں نماز سے پہلے میں نے بارہا ان کو اسی حالت میں اپنے چھوٹے بچوں میں سے کسی کے کمرہ کی طرف نماز کی یاد دہانی کروانے کے لئے جاتے ہوئے دیکھا ہے.پھر خوب تاکید کر کے مسجد میں چلے جاتے تھے.تو بچے کے انتظار میں ایسی منتظر نظروں کے ساتھ بار بار کبھی گھر کی طرف اور کبھی گھڑی کی طرف دیکھتے تھے کہ جیسے قرار نہ آ رہا ہو.کبھی کبھی وہیں بیٹھے بیٹھے بلند آواز سے بلاتے.کبھی کسی آتے جاتے خادم کو کہتے کہ جاؤ میاں.....سے کہو کہ نمازی انتظار کر رہے ہیں.پھر جب بچہ وقت پر پہنچ جاتا تو خوشی سے بعض اوقات اس طرح ہنس پڑتے جیسے کوئی لطیفہ سنا ہو.اور اگر نہ پہنچتا تو گہری اداسی آپ کے چہرہ پر جلد 21

Page 227

تاریخ احمدیت سایه میگن نظر آتی.190 218 حضرت ملک غلام فرید صاحب کی چشمد ید شہادت ہے کہ :- آپ پنجوقتہ نماز کے نہایت شدت کے ساتھ پابند تھے.میں نے اپنی زندگی کے پچاس سال ان کے ساتھ گزارے.میں ایمانداری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ کی طرح تمول اور تنعم میں پرورش پایا ہو نماز کا ایسا پا بند انسان ساری عمر میں نہیں دیکھا.وہ جہاں کہیں ہوتے تھے.یہاں تک کہ جب وہ سیر اور بحالی صحت کے لئے پہاڑ پر بھی جایا کرتے تھے تو ان کی کوٹھی کا ایک کمرہ ہمیشہ نماز با جماعت کے لئے مخصوص ہوتا تھا.نہایت با قاعدگی سے پانچ وقت اذان ہو کر نماز با جماعت ہوتی تھی.انہوں نے زندگی کے آخری سال لاہور میں گزارے اور شاید سارے شہر لاہور میں صرف ان کی کوٹھی ہی تھی جہاں پانچ وقت با جماعت نماز کے علاوہ ماڈل ٹاؤن کے احباب نماز جمعہ بھی ادا کرتے تھے.اور وہاں حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس بھی ہوتا تھا.جن حالات میں آپ نے پرورش پائی انکو دیکھتے ہوئے انکا ایسا پا بند صوم وصلوٰۃ ہونا ان کے با خدا انسان ہونے کی ایک زندہ دلیل ہے.66 آپ کے مشیر قانونی شیخ نور احمد صاحب ایڈووکیٹ رقمطراز ہیں:.”خاکسار 1950ء سے لے کر متواتر بحیثیت وکیل مختلف مقدمات میں آپ کی خدمت بجالاتا رہا.آپ قانونی پہلو رکھنے والے ہر معاملہ میں مشورہ حاصل کرنے کو بہتر خیال فرماتے تھے.میں علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے ہرامر میں اور ہر مرحلہ پر تقویٰ اللہ کو ملحوظ رکھا.ایک دفعہ ایک کیس میں ایک بیان تحریری دینے کے متعلق میں نے ایک ایسی بات suggest کی کہ جس سے مفہوم ابہام آمیز اور مفید مطلب ہوسکتا تھا.اور اصطلاحی لحاظ سے جھوٹ کی تعریف میں بھی نہیں آتا تھا.مسکراتے ہوئے مگر شدت سے فرمایا ”لیکن کیا تقویٰ ہے؟“ لاشعوری طور پر دل میں رقت سی پیدا ہوگئی.اور میں نے محسوس کیا کہ واقعی خدا تعالیٰ کے فرستادہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق فرزندی نصیب ہونا اسی کیفیت کا متقاضی ہے مگر میں نے عرض کیا کہ اس طرح بلا وجہ لاکھوں روپے کا نقصان ہونے کا امکان ہو سکتا ہے.فرمانے لگے خواہ لاکھوں کا نقصان ہو.میں تقویٰ اللہ کے خلاف کوئی اقدام کرنے کو تیار نہیں.192 جلد 21

Page 228

تاریخ احمدیت 219 جلد 21 حضرت ملک غلام فرید صاحب فرماتے ہیں:.حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب خدا تعالیٰ کے نہایت شاکر بندے تھے اور غالبا یہ ان کے کیریکٹر کا سب سے نمایاں پہلو تھا.میں نے ان پر تنگی کی حالتوں کو بھی دیکھا اور اس حالت کو بھی جب ان کی سالانہ آمدنی ہزاروں تک پہنچ چکی تھی.وہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے نہیں تھکتے تھے.میں نے بلا مبالغہ ان گنت دفعہ ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا کہ ملک صاحب ! اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑے ہی احسان کئے ہیں.میں ان احسانات کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا.ان کے عبد شکور ہونے کا منظر میں نے ان کی لمبی اور خطر ناک بیماری میں دیکھا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس خطر ناک اور لمبی بیماری کے دوران جبکہ ان کے جسم کا کوئی ایک انچ بھی ایسا نہ رہا تھا جن کو ٹیکوں سے نہ چھیدا گیا ہو.اور جب ڈاکٹر صاحبان ان کی دل کی بیماری کے پیش نظر یہ بات سننے کے لئے بھی تیار نہ تھے کہ نواب صاحب موصوف چند دن سے زیادہ زندہ بھی رہ سکتے ہیں میں نے ایک دفعہ بھی ان کے منہ سے شکایت کا کلمہ نہ سنا.اور بیسیوں مرتبہ میں نے اس بیماری میں ان کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ خدا کے مجھ پر بے انتہا احسان ہیں جن کا میں شکر ادا نہیں کر سکتا.سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الرابع ) تحریر فرماتے ہیں:.غرباء کے ہمدرد.کثرت سے صدقہ خیرات کرنے والے.مہمان نوازی میں طرۂ امتیاز کے حامل اس قسم کے فدائی اور خلیق میزبان اس زمانہ میں تو شاذ و نادر ہی ہوں گے.مہمان کے آرام کا خیال و ہم کی طرح سوار ہو جاتا.میری طبیعت پر آپ کی مہمان نوازی کا ایسا اثر ہے کہ اگر غیر معمولی مہمان نوازی کا جذبہ رکھنے والے صرف چند بزرگوں کی فہرست مجھے لکھنے کو کہا جائے تو آپ کا نام میں اس فہرست میں ضرور تحریر کروں گا.اس ضمن میں جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر صوبہ پنجاب) کی ایک چشم دید شہادت بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہے.تحریر فرماتے ہیں:.آپ مہمان نوازی کا اعلیٰ جذبہ رکھتے تھے.جب بھی ملتے یہی خواہش فرماتے کہ ساتھ چلیں اور چائے یا کھانے میں شریک ہوں.قادیان میں میں عام طور پر شہر والے نئے مہمان خانے میں رہتا تھا.آپ اس زمانے میں حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوٹھی دار الحمد میں اقامت پذیر تھے.ایک مرتبہ آپ نے میرا سامان و ہیں منگوالیا.مہمان نوازی

Page 229

تاریخ احمدیت اولاد 220 کا پورا حق ادا فرماتے.ایک شام کو میں گورداسپور سے آیا تو سردی زیادہ تھی.مجھے گرم جرابوں کی ضرورت نہ ہوتی تھی.اور آپ کے لئے یہ بات جائے تعجب تھی.آپ اسی وقت اندر سے ایک نیا عمدہ گرم جرابوں کا جوڑ الائے اور فرمانے لگے میں نے خود اپنے ہاتھوں سے آپ کے پاؤں میں ڈالنی ہیں.میں نے ہر چند انکار کیا لیکن آپ کی بات ماننی پڑی.اور آپ نے خود وہ جوڑا اس عاجز کو پہنایا.یہ عجیب شفقت اور عاجزی کا اظہار تھا.اللہ تعالیٰ آپ پر بے انتہا فضل فرمائے.ایک دو ماہ تک ہر ہفتہ آپ کے پاس رہنے کے بعد میں نے عذر کیا کہ چونکہ سلسلہ کے بعض کام میرے سپرد ہیں اور دوستوں کو دور آنے میں تکلیف ہوتی ہے اس لئے مجھے مہمان خانہ میں ہی جانے کی اجازت دیں.آپ نے بہت تأمل کے بعد اجازت فرمائی لیکن اس کے بعد بھی ہمیشہ دعوتوں کا سلسلہ جاری رہا.اور اس میں بہت خوشی محسوس کرتے.1.صاحبزادہ میاں عباس احمد خان صاحب 2.صاحبزادی آمنہ طیبہ بیگم صاحبہ زوجه صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب 3.صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ زوجه صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب 4.صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبہ زوجہ صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب 5.صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ زوجه صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب 6.صاحبزادی شاہدہ بیگم (ولادت 2 جون 1920ء) ولادت 18 مارچ 1919ء) (وفات 27 مارچ 1996 ء ) ( ولادت 3 جون 1921 ء ) (ولادت 23 نومبر 1923ء) ولادت 20 جون 1927ء) جلد 21 ولادت 31اکتوبر 1934 ء) 7.صاحبزادہ شاہد احمد خان پاشا صاحب ولادت 19 اکتوبر 1935ء) 8.صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ 9.صاحبزادہ میاں مصطفی احمد خان صاحب ولادت 10 جولائی 1943 ء )198 (ولادت 22 نومبر 1941ء)

Page 230

تاریخ احمدیت 221 جلد 21 حضرت مصلح موعودؓ کے دو خصوصی پیغامات اس سال حضرت مصلح موعودؓ نے پر زور تحریک فرمائی کہ احمدی ساری دنیا میں اپنی تبلیغی کوششیں تیز تر کر دیں.اس سلسلہ میں حضور کی طرف سے دو خصوصی پیغامات الفضل میں اشاعت پذیر ہوئے جن کا متن درج ذیل ہے: پہلا پیغام بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر جمله افراد جماعت کو بار بار تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے رہنے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت جماعت کی تعداد آج کی تعداد کا 1/100 حصہ بھی نہ تھی لیکن بیعت کی تعداد آجکل کی نسبت کئی گنا زیادہ تھی.جماعت کو یا درکھنا چاہئے کہ اس موجودہ رفتار سے تو تین سو سال تک بھی دنیا میں کوئی انقلاب پیدا نہیں ہوسکتا.اور اب تک تو اس قدر معجزات ظاہر ہو چکے ہیں اور اس قدر صداقت سلسلہ ظاہر ہو چکی ہے کہ تھوڑی سی توجہ دلانے سے لوگ صداقت کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہیں.کام لینے والوں اور کام کرنے والوں کی باہمی کوشش سے ہی جلدی ترقی ہو سکتی ہے.کام کرنے والوں کو تو ثواب ملے گا ہی لیکن جو افسران اور ذمہ دار احباب اس طرف توجہ دلائیں گے ان کو بھی مفت میں ثواب مل جائے گا.اس لئے افسران کو چاہئے کہ بار بار لوگوں سے انکی کوششوں کی رپورٹیں بھی حاصل کرتے رہیں اس سے بھی توجہ قائم رہتی ہے.کیونکہ دنیا کے دلوں کو فتح کرنا کسی ایک شخص کا کام نہیں ہے باہم مل کر کام کرنے سے ہی یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے.خدا کا نور جس قوم میں ظاہر ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور اس قوم کا فرض ہو جاتا ہے کہ وہ دوسرے سب لوگوں کو اس نور سے منور کرے اور جب تک ساری دنیا پر اسلام کا غلبہ نہ ہو جائے اس کو چھین نہیں آنا چاہئے.

Page 231

تاریخ احمدیت 222 اس زمانہ میں تو بعض ہماری جتنی تعد ادرکھنے والی قوموں نے بھی انقلاب پیدا کر دیا ہے.اگر جماعت کو بار بار اس کا فرض یاد دلایا جاتا رہے تو جماعت احمد یہ بھی ہر قسم کی قربانی کرنے لگ جائے گی.حضرت محمد رسول اللہ یہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کے سردار تھے ان کی قوم جس قدر کوشش عیسائیت کو پھیلانے کے لئے کر رہی ہے ہمارا فرض ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے مشن اسلام کو پھیلانے کے لئے ان لوگوں سے کئی گنا زیادہ کوشش کریں.روزہ اور دعا کے ذریعے روحانی طاقت بڑھتی ہے ان روحانی ذرائع کو بھی اختیار کر کے اپنی روحانی طاقتوں کو زیادہ کرو.تحریک جدید کے افریقہ اور امریکہ کے مشنوں کو توجہ دلائی جائے کہ افریقہ اور امریکہ کی حبشی اقوام کی طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے.یہ پیشگوئی ہے کہ آخری زمانہ میں حبشی قو میں اسلام کی طرف رجوع کریں گی اور خانہ کعبہ کو پھر تعمیر کریں گی.امریکہ کے حبشی باشندے بھی مذہب کے لئے مال و جان کی قربانی پیش کرنے کے لئے بالکل تیار ہیں اس لئے اسلام کی ترقی اس زمانہ میں افریقہ اور امریکہ کے حبشیوں سے وابستہ معلوم ہوتی ہے.احباب جماعت کو یہ بھی چاہئے کہ دو دو چار چار دوست مل کر مشترکہ طور پر الفضل کے خریدار بنیں تا کہ الفضل میں شائع ہونے والے مضامین اور ایمان افروز ارشادات سے فائدہ اٹھا سکیں جو ایمان کی تازگی کا موجب ہوتے ہیں.دوسرا پیغام "بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادران! السلام عليكم و رحمة الله و بركاته اپنے روحانی مرکز سے جدا ہوئے اتنی دیر ہوگئی ہے کہ اب طبیعت بہت گھبراتی ہے.مگر ہم خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک دن ہمیں اپنا روحانی مرکز دلوا جلد 21

Page 232

تاریخ احمدیت 223 دے گا.مگر ہمیں خود بھی جدو جہد کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.دنیا کفر کے اندھیروں میں پڑی ہوئی ہے اور ہمیں خدا کا نور ملا ہے.ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ دنیا کو خدا کے نور کی طرف لائیں اور جو خدا نے ہم کو دیا ہے اسے دنیا تک پہنچا ئیں.دنیا خدا سے دور ہوتی جارہی ہے اور پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ میری مدد کے لئے آؤ.اب یہ ہمارا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کے اچھے خادموں کی طرح اس کی آواز کو سنیں اور اس تک خدا کا پیغام پہنچائیں.سو آگے آؤ اور لوگوں کو دین کی طرف بلاؤ کہ اس سے بہتر موقعہ پھر کبھی نہیں ملے گا.مسیح نے جو تعلیم دی تھی اسلام کی تعلیم کے آگے عشر عشیر بھی نہ تھی مگر عیسائیوں نے اسے اپنی جدوجہد سے دنیا میں پھیلا دیا.اگر ہم اس سے ہزارواں حصہ بھی کوشش کریں تو دنیا کے چپے چپے پر اسلام کا چشمہ پھوٹ جائے اور الست بربکم کے مقابلہ میں بلی کی آوازیں آنے لگیں.سو اٹھو اور کمر ہمت کس لو.عیسائی جھوٹ کے لئے اتنا زور لگا رہے ہیں کیا تم سچائی کے لئے زور نہیں لگا سکتے ؟ خدا تعالیٰ اپنی نصرت کے سامان پیدا کر رہا ہے.ضرورت یہ ہے کہ تم بھی بچے خادموں کی طرح آگے آؤ اور اپنے ایمان کو اپنے عمل سے ثابت کرو.دنیا ہزاروں سال سے پیاسی بیٹھی ہے اور اس کی پیاس بجھانے والے چشمہ کی نگرانی تمہارے سپرد ہے.کیا تم آگے نہیں بڑھو گے اور دنیا کی پیاس نہیں بجھاؤ گے ؟ اٹھو اور آگے آؤ اور خدا تعالیٰ کے ثواب کے مستحق بنو.دنیا میں پھیل جاؤ اور اسلام کی تعلیم کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا دو.خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے اور دنیا کی آنکھیں کھولے اور انہیں اسلام کی طرف لائے.اسلام ہی سارے نوروں کا جامع اور ساری صداقتوں کا سر چشمہ ہے.اس سر چشمہ کے پاس خاموش نہ بیٹھو بلکہ دنیا میں اس کا پانی تقسیم کرو.جس کے پاس چھوٹی سی چیز بھی ہوتی ہے وہ اسے دنیا میں دکھاتا پھرتا ہے.تمہارے پاس تو ایک خزانہ ہے.ایک بڑھیا کے متعلق مشہور ہے کہ اس کے پاس ایک انگوٹھی تھی اسے لے کر کھڑی ہو جاتی اور ہر ایک کو دکھاتی.تمہارے پاس تو خدا تعالیٰ کا نور ہے تم کیوں نہیں اسے دکھاتے اور دنیا کے سامنے پیش کرتے.جاؤ اور دنیا کو اسلام کی طرف پھیر کے لاؤ.اور اسلام کی طاقت کو دنیا پر ظاہر کرو.خدا تمہاری مدد کرے اور ہر میدان میں تمہیں فتح دے.اگر تم خدا کے لئے نکلو گے تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں دنیا کا بادشاہ اور امام بنا دے گا.یہ خدا کا کام ہے یہ جلد 21

Page 233

تاریخ احمدیت 224 کیسے ہو سکتا ہے کہ تم خدا کے کمزور بندے ہو کر اس کا کام کرو اور وہ قادر مطلق ہو کر اپنا کام نہ کرے.پس خدا کا نام لے کر کھڑے ہو جاؤ اور دنیا کو خدا کے نور سے منور کر دو یقیناً وہ تمہاری مدد کرے گا اور دنیا کو تمہارے قدموں میں لاکر ڈال دے گا.تم تو مفت کا ثواب کماؤ گے اور کام سارا خدا کرے گا.صرف اتنی ضرورت ہے کہ ایک دفعہ ہمت کر کے کھڑے ہو جاؤ اور اپنے بچے غلام ہونے کا ثبوت دو.خدا تمہارے ساتھ ہو اور تمہیں خدمتِ اسلام کی توفیق و میں تو بیمار ہوں.دعا ہی کر سکتا ہوں.دنیا سچائی کی پیاسی ہے.تم اگر جاؤ گے تو یقیناً کامیاب ہو جاؤ گے.ایک پیاسے کو کوئی اگر پانی کا پیالہ دے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اس کو رد کر دے.پس اپنے بھائیوں کی پیاس بجھانے کے لئے تیار ہو جاؤ.تمہارا کچھ نہیں بگڑتا ان کو سب کچھ پل جاتا ہے.خدا تمہارے ساتھ ہو اور تمہیں نیکی کی توفیق دے اور ہم ایک دن دیکھ لیں کہ ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کا نور پھیل گیا ہے.مجھے اپنی جوانی میں ایک دفعہ ایک پادری سے تثلیث کے متعلق بات کرنے کا موقعہ ملا.میں نے اسے کہا کہ آپ کی میز پر یہ پنسل پڑی ہے.اگر میں آپ کو اسے اٹھانے کو کہوں اور آپ اپنے نوکروں کو آواز میں دینے لگ جائیں کہ آؤ ہم مل کر یہ پنسل اٹھا ئیں.اس نے کہا ہم پاگل تھوڑی ہیں.میں نے کہا کہ آپ کی جو باتیں ہیں ان سے تو پتہ لگتا ہے کہ پاگل ہیں جو کام خدا کیلا کر سکتا ہے اس کے لئے تین خداؤں کی کیا ضرورت ہے.وہ اکیلا سارا کام کرے گا.تمہاری تکلیف بہت چھوٹی ہے خدا کا انعام بہت بڑا ہے.تم تو اپنے عزیزوں رشتہ داروں کو تھوڑے دنوں کے لئے چھوڑ دو گے مگر خدا تمہیں دائمی جنت دے گا.پس اٹھو اور ہمت کرو.خدا تمہارے ساتھ ہواور دنیا کے ہر میدان میں تمہیں فتح دے.آمین ثم آمین بکوشید اے جواناں تا بدین قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا خاکسار مرز امحمود احمد 19828.11.61 جلد 21

Page 234

تاریخ احمدیت 225 جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی پر عیسائی حلقوں کا اضطراب جلد 21 جماعت احمدیہ کے مبلغین اگر چہ نہایت محدود ذرائع اور وسائل رکھتے تھے اور عیسائی مشنریوں اور ان کی پشت پناہ حکومتوں کے مقابل ان کی اتنی بھی حیثیت نہ تھی جتنی سمندر کے مقابل قطرہ کی ہوتی ہے مگر اس کے باوجود خدا کے فضل سے ان کی تبلیغ کے ایسے شاندار اثرات رونما ہونے شروع ہو گئے کہ انکو دیکھ کر یورپ کے عیسائی حلقوں کا اضطراب روز بروز بڑھتا جا رہا تھا.چنانچہ سوئٹزر لینڈ کے ایک جرمن روزنامہ BIELER TAGBLAT (باسکرٹیکبلٹ ) نے اپنی 3 اکتوبر 1961ء کی اشاعت میں متفرق ثقافتی نوٹس کے زیر عنوان لکھا: مندرجہ بالا عنوان کے تحت ہم پہلے بھی اس عجیب و غریب حقیقت پر روشنی ڈال چکے ہیں کہ اسلام نے باقی دنیا سے صدیوں الگ تھلگ رہنے کے باجود اپنی سابقہ تاریخ اور باطنی قوت کی جھلک دکھانی شروع کر دی ہے اور ایک پر زور حرکت اور عزم کے ساتھ اس نے ساری دنیا کو اپنا حلقہ بگوش بنانے کی ٹھان لی ہے.اسلام میں سب سے زیادہ چاک و چوبند وہ فرقہ ہے جو جماعت احمدیہ کے نام سے موسوم ہے.اور جس نے پہلے ہی مغربی افریقہ کے متعدد ممالک میں اپنی شاخیں قائم کرنے کے علاوہ وہاں متعدد مساجد بھی تعمیر کر لی ہیں.شائد ہم میں سے ہر ایک کو اسکا علم نہ ہو.کہ خود ہمارے اپنے درمیان زیورک میں اس جماعت کا بہت فعال تبلیغی مرکز موجود ہے جسے بظاہر کافی وسائل حاصل ہیں.اس مرکز کے کارکنان تبلیغی لیکچروں اور لٹریچر کی اشاعت کے ذریعہ بہت زیادہ سرگرمی اور گرم جوشی کا ثبوت دیتے ہیں.کچھ عرصہ سے انہوں نے ایسے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک عیسائیوں میں جو گر جا جانے کے عادی ہیں تبلیغی لٹریچر تقسیم کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے.یہ عام طور پر اس وقت یہ لٹریچر تقسیم کرتے ہیں جب لوگ گرجا میں عبادت کرنے کے بعد اپنے گھروں کو واپس جارہے ہوتے ہیں.اسلام کے اس تبلیغی مرکز کو اب تک جو کامیابی ہوئی ہے وہ تعداد کے لحاظ سے زیادہ نہیں ہے.بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے اصل باشندوں میں سے اب تک جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے ان کی تعداد تین چارسو کے درمیان ہے.یہ تعداد ان نومسلموں کی ہے جو باقاعدہ رجسٹر ڈ ممبران کی حیثیت رکھتے ہیں.بظاہر یہ تعداد چنداں اہمیت نہیں رکھتی اور ان کے ایک چھوٹا سا فرقہ ہونے پر دلالت کرتی ہے.

Page 235

تاریخ احمدیت 226 یورپ میں ایسی اور بھی درجنوں چھوٹی چھوٹی جماعتیں موجود ہیں جن کے اراکین کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں.لیکن جب ہم اس کے بعض پہلوؤں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں صورت حال یکسر بدلی ہوئی نظر آتی ہے.یہ اسلامی جماعتیں محض فرقے ہی نہیں ہیں.یہ اپنی ذات میں ایک عالمی مذہب کے بڑے فعال اور مستعد تبلیغی مراکز کی حیثیت رکھتی ہیں.یہ لوگ اپنے ماحول اور اردگرد کے علاقوں میں جاتے ہیں اور اس حال میں جاتے ہیں کہ روحانی تقدس کا ایک ہالہ ان کے گرد ہوتا ہے اور پھر یہ ایک غیر مبدل انداز زیست کی دلکشی ، فکر و نظر کے ایک سادہ اسلوب کی جاذبیت، ولولہ انگیز ماضی کی حوصلہ افزائی، بھر پور ثقافتی روایات کی اثر انگیزی اور رندانہ جوش و خروش کی فراوانی سے پوری طرح مزین ہوتے ہیں اور یہ سب چیزیں مل کر ان میں وہ کشش اور دلر بائی پیدا کر دیتی ہیں کہ جو بہت سے لوگوں پر جادو کا سا اثر کئے بغیر نہیں رہتی.اگر چہ بلحاظ تعداد ان کی کامیابی چنداں اہم نہیں ہے لیکن ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اول تو یورپ میں اسلامی مشن ابھی نوزائیدگی کی حالت میں ہے دوسرے اسلام کی اس عالمی تحریک کے قائدین اس عزم بالجزم سے مالا مال ہیں کہ وہ ان ابتدائی کامیابیوں پر کسی صورت میں بھی اکتفا نہیں کریں گے.اس سال کے آغاز میں جماعت احمدیہ کے قائدین نے اپنے اراکین سے ایک پرزور اپیل کی ہے.اس اپیل میں تمام احمدی خاندانوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فی خاندان کم از کم ایک فردا ایسا پیش کریں جو روئے زمین پر بسنے والے تمام بنی نوع انسان تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے مبلغ کے طور پر خدمات بجالائے اور اس طرح پوری غیر مسلم دنیا کے خلاف تبلیغی ہلہ بولنے میں ہاتھ بٹائے.یہ امر کہ ان کا یہ عزم طے شدہ پروگرام کے مطابق بروئے کار آکر مثمر ثمرات ثابت ہورہا ہے.یہ اس حقیقت سے ہی ثابت ہو جاتا ہے کہ آج بھی افریقہ میں حالت یہ ہے کہ عیسائیت قبول کرنے والے ایک افریقی باشندے کے بالمقابل بائیس افریقی باشندے اسلام قبول کر کے اس کے حلقہ بگوش بن جاتے ہیں.یہ صحیح ہے کہ جہاں تک اسلامی تعلیمات اور اسلام کی مذہبی اصطلاحات کے مغرب میں نفوذ جلد 21

Page 236

تاریخ احمدیت 227 جلد 21 پذیر ہونے کا سوال ہے اس کے لئے ابھی بہت زیادہ وقت اور جد و جہد کی ضرورت ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ مسلم مشنریز اس بناء پر حوصلہ ہارنے کے لئے تیار نہیں ہیں.بلا شبہ وہ اس یقین پر قائم ہیں کہ مگر مغرب کو فتح کرنے کا سازگار موقع یہی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ساتھ کے ساتھ اس عزم سے لبریز ہیں کہ وہ اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر ہی دم لیں گے.199 مولانا نیاز فتح پوری اور حضرت مسیح موعود کی برگزیدہ شخصیت پچھلے دو سال سے مولانا نیاز فتحپوری ایڈیٹر ماہنامہ نگار‘ جماعت احمدیہ سے متعلق اپنے تاثرات و مشاہدات بیان کرتے رہے تھے جس پر اخبار چٹان لاہور اور دوسرے متعصب اخباروں نے کڑی تنقید کی.بایں ہمہ آپ نے نگار نومبر 1961ء میں حضرت مسیح موعود کی عظیم برگزیدہ شخصیت کی نسبت واضح بیان دیا کہ :- میں نے اس وقت تک جو کچھ لکھا ہے وہ صرف مرزا غلام احمد صاحب کی ذات تک محدود ہے.ان کے عقائد سے میں نے کوئی بحث نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کیونکہ جس حد تک مابعد الطبیعاتی امور کا تعلق ہے ان کے پیش نظر میرے مسلمان ہونے ہی میں شک ہے.چہ جائیکہ میرا احمدی ہو جانا کہ وہ تو ایسی سخت منزل ہے کہ اگر میں اپنے ضمیر کے خلاف ان تمام عقائد کو تسلیم کر لوں تو بھی میرے لئے وہاں کوئی جگہ نہیں ، کیونکہ احمدیت نصف سے زیادہ عمل و اخلاق کی گرمجوشی کا نام ہے اور یہاں یہ پارہ صفر سے بھی کئی درجے نیچے ہے.احمدی جماعت کے حالات پر غور کرنے کی تحریک سب سے پہلے مجھ میں اب سے چند سال قبل اس وقت پیدا ہوئی جب پاکستان کی مسلم اکثریت نے احمدی جماعت کو کا فرقراردے کر اس کے خلاف ہنگامہ قتل و خون ریزی بر پا کیا تھا.اس سلسلہ میں مجھ کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے ہوئی کہ اگر احمدی جماع کو کا فر تسلیم کر لیا جائے تو بھی ان کو قتل وذبح کرنا کہاں کا اسلام اور شیوۂ مردانگی تھا.اس کے بعد جب میں نے جاننا چاہا کہ پاکستان کے غازیان احرار کیوں احمدیوں کو کافر کہتے ہیں تو تحقیق و مطالعہ سے معلوم ہوا کہ ان کا سب سے بڑا الزام احمد یوں پر یہ ہے کہ وہ رسول اللہ کو خاتم الرسل تسلیم نہیں کرتے.یہ جان

Page 237

تاریخ احمدیت 228 کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی ، کیونکہ اگر یہ سچ ہو تو بھی کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اس جرم میں انہیں دار پر چڑھاوے، جبکہ پاکستان کی غیر مسلم لاکھوں کی آبادی رسول اللہ کو رسول ہی تسلیم نہیں کرتی چہ جائیکہ انہیں خاتم الرسل سمجھنا.اور ان کو گردن زدنی نہیں سمجھا جاتا.اس سلسلہ میں مجھے احمدی جماعت کے لٹریچر کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا اور میں نے جب مرزا صاحب کی تصانیف کا مطالعہ شروع کیا تو میں اور زیادہ حیران ہوا کیونکہ مجھے ان کی کوئی تحریر ایسی نہیں ملی جس سے اس الزام کی تصدیق ہو سکتی، بلکہ بر خلاف اس کے میں نے ان کو ختم رسالت کا اقرار کرنے والا اور صحیح معنوں میں عاشق رسول پایا.اسی کے ساتھ میں نے مرزا صاحب کی زندگی کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑے مخلص بڑے با عمل بڑے عزم و ہمت والے انسان تھے اور انہوں نے مذہب کی صحیح روح کو سمجھ کر اسلام کی وہی عملی تعلیم پیش کی جو عہد نبوی و خلفاء راشدین کے زمانہ میں پائی جاتی تھی.میں نے ان کے مخالفین کی بھی تحریریں پڑ ہیں، جن میں میرزا صاحب کو کافر ملعون اور مکار اور غدار کہا گیا ہے، لیکن میں نے ان تحریروں میں مطلقا کوئی وزن نہیں پایا.میرزا صاحب کے خلاف دوسرا الزام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مہدی موعود اور مثیل مسیح کہتے ہیں ،سو اس کو میں نے کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا کیونکہ میں سرے سے ان روایات کا قائل ہی نہیں.تاہم میرزا صاحب کے حالات زندگی کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر ضرور پہنچا کہ وہ روایات متداولہ کی بنا پر واقعی اپنے آپ کو مہدی موعود یا مثیل مسیح ضرور سمجھتے تھے اور اگر ایسا سمجھنے اور سمجھانے کے بعد انہوں نے ایک باعمل جماعت مسلمانوں میں پیدا کر دی تو اس کے خلاف مجھے اعتراض ہو تو ہو لیکن ان لوگوں کو کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں جو خود مہدی موعود اور مثیل مسیح کے ظہور کی پیشگوئیوں کو صحیح سمجھتے ہیں.میرا مسلک مذہب کے باب میں یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ قطعاً مسلمان ہے اور کسی کو اسے غیر مسلم یا کافر کہنے کا حق نہیں پہنچتا کیونکہ ہر مسلمان خواہ وہ کسی جماعت سے تعلق رکھتا ہوکم از کم وحدانیت و رسالت رسول کا ضرور قائل ہے اور اسلام نام صرف اسی عقیدہ کا ہے، رہے فروعی مسائل سو ان کا اختلاف کوئی ایسا اختلاف نہیں جس کی بنا پر کسی جماعت کو اسلام سے خارج کر دیا جائے.جلد 21

Page 238

تاریخ احمدیت 229 جلد 21 جس حد تک ذاتی عقائد کا تعلق ہے، مجھے شیعی ، سنی ، خارجی احمدی اہل قرآن، اہل حدیث مقلدین و غیر مقلدین سب سے اختلاف ہے.کسی سے کم کسی سے زیادہ لیکن میں ان سب کو مسلمان اور ہیئت اجتماعی کا فرد سمجھتا ہوں.ہاں اس سے ہٹ کر جب سوال ترجیح و تفوق کا سامنے آتا ہے تو بے شک میں یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اس وقت احمدیوں سے زیادہ با عمل اور منتظم جماعت کوئی دوسری نہیں اور جب تک ان کی یت تنظیم قائم ہے میں ان کو سب سے بہتر مسلمان کہتا رہوں گا، خواہ اپنی نا اہلی، کم ہمتی، بے عملی یا بر خود غلط عقل پسندی کی بنا پر میں کبھی ان میں شامل نہ ہوسکوں.میں یہ نہیں کہتا کہ احمدی جماعت فرشتوں کی جماعت ہے اور وہ کبھی کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے لیکن یہ میں ضرور جانتا ہوں کہ اگر دوسری جماعتوں میں فی ہزار کوئی ایک سچا مسلمان ملے گا تو ان میں ۵۰ فیصدی ایسے افرادل جائیں گے جو اپنی انسانیت اور بلندی اخلاق کے لحاظ سے واقعی مسلمان کہے جا سکتے ہیں ، پھر جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ اس جماعت کی یہ عزیمت و تنظیم نتیجہ ہے صرف مرزا صاحب کی بلند شخصیت کا تو پھر وہ مجھے مہدی موعود سے بھی زیادہ اونچے نظر آتے ہیں کیونکہ اول تو ظہور مہدی کا عقیدہ ہی سرے سے بے معنی بات ہے، لیکن اگر کبھی وہ تشریف بھی لائے تو شاید اس سے زیادہ کچھ نہ کرسکیں گے جو مرزا صاحب نے کر دکھایا.20 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام مجالس خدام الاحمدیہ راولپنڈی کے چوتھے سالانہ اجتماع ( منعقدہ اگست 1961 ء) کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا :- برادران خدام الاحمدیہ راولپنڈی ڈویژن السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ صاحبان کی طرف سے صوفی رحیم بخش صاحب قائد علاقائی کا خط موصول ہوا جس میں مجھ سے حسب سابق خدام کے اجتماع کے لئے پیغام کی خواہش کی گئی ہے.اول تو میں آجکل بیمار ہوں.دوسرے میں ڈرتا ہوں کہ پیغام طلبی اور پیغام رسانی کا سلسلہ کہیں ایک رسم بن کر نہ رہ جائے اور رسموں سے میں بہت گھبراتا ہوں اور اپنے عزیزوں کو بھی اس سے بچانا چاہتا ہوں.لیکن چونکہ راولپنڈی کی جماعت ان جماعتوں میں سے ہے جن کے ساتھ مجھے خاص محبت ہے اس لئے بادل نخواستہ ان کی خواہش کو پورا کر رہا ہوں.اگر آئندہ

Page 239

تاریخ احمدیت 230 جلد 21 اس سلسلہ کو سال وار کی بجائے گاہے گاہے کی حد تک محدود رکھا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا یا پیغام بھیجنے والے اصحاب کے انتخاب میں ہر سال تبدیلی ہوتی رہے تا کہ ان کے پیغام باسی نہ ہونے پائیں اور تازگی کی مہک قائم رہے.بہر حال اس وقت میرا پیغام یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک زمانہ سے روز افزوں دوری کی وجہ سے نیز حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیماری کے نتیجہ میں جماعت کے ایک طبقہ میں تربیت کے لحاظ سے کمزوری پیدا ہو رہی ہے.دوسری طرف جوں جوں نسلی احمدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے توں توں اس کمزوری کی رفتار بھی لازماً تیز ہوتی جارہی ہے.ان حالات میں آپ لوگوں کا فرض ہے کہ زیادہ توجہ دے کر اور خاص انتظامات کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں.دراصل ہمارے ذمہ دو کام ہیں.ایک تبلیغ اور دوسرے تربیت.یہ دونوں کام ایسے ہیں جیسے کہ رتھ کے دو پیسے ہوتے ہیں.جن کے بغیر رتھ کا چلنا محال ہے.البتہ جب کسی وجہ سے کسی جگہ تبلیغ کے کام میں کوئی وقتی روک پیدا ہو جائے تو اس وقت ایک تو تربیت کی طرف زیادہ توجہ دینی شروع کر دینی چاہئے.تا کہ جماعت میں سستی اور بے کاری کے آثار پیدانہ ہوں اور دوسرے بالواسطہ تبلیغ کے رنگ میں ان غلط فہمیوں کے دور کرنے میں لگ جانا چاہئے جو عوام کی طرف سے ہمارے متعلق ہمیشہ پھیلائی جاتی ہیں.میں یقین کرتا ہوں کہ اگر ہمارے دوست ان دو تر بیروں کو اختیار کریں گے تو صداقت کی ترقی اور اشاعت میں انشاء اللہ بھی روک پیدا نہیں ہوگی اور محمدیوں کا قدم ایک بلند مینار کی طرف اٹھتا چلا جائے گا اور یہی اس وقت خدائے عرش کی اہل تقدیر ہے.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد حال لاہور 1 17/8/6‘201 سالانہ اجتماع پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا افتتاحی خطاب اس سال خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع 20 - 21 - 22 اکتوبر 1961 ء کو منعقد ہوا جس کا افتتاح حضرت مصلح موعود کے حکم پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کیا.آپ نے اپنے روح پرور افتتاحی

Page 240

تاریخ احمدیت 231 جلد 21 خطاب میں نوجوان عزیزوں کو نہایت مؤثر انداز میں کئی بیش قیمت نصائح فرما ئیں.جن کا خلاصہ آپ ہی کے الفاظ میں درج ذیل ہے :- 202 1.اپنی عمر کے اس دور کو غنیمت سمجھو.آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ خلافت ثانیہ کا دور زیادہ تر نو جوانوں کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا کیونکہ جب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی خدا کی مشیت کے ماتحت خلیفہ چنے گئے تو اس وقت آپ کی عمر صرف پچیس سال تھی اور جب نظار تیں قائم ہوئیں تو آپ کے ساتھ ناظروں کے عہدوں پر کام کرنے والے بھی زیادہ تر نوجوان ہی تھے.ایک دفعہ مشاورت میں ایک ناظر کی رپورٹ پیش ہونے پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے بڑی خوشی کے ساتھ فرمایا تھا کہ یہ رپورٹ ایسی ہے کہ بڑی بڑی حکومتوں کے تجربہ کار وزیروں کی رپورٹوں کے ساتھ مقابلہ کر سکتی ہے.پھر یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ جب آنحضرت م (فداہ نفسی) نے خدا کے حکم سے رسالت کا دعویٰ کیا تو اس وقت بھی آپ کے ماننے والوں میں اکثر نوجوان ہی تھے.چنانچہ حضرت علی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور حضرت سعد بن وقاص کی عمریں دس سال سے لے کر تمیس سے چوبیس سال کے اندراندر تھیں مگر انہی نوجوانوں نے اپنی ایمانی قوت سے متصف ہو کر دنیا کی کایا پلٹ دی.پس اے عزیز و آپ اپنے آپ کو چھوٹا اور حقیر نہ سمجھیں.آپ کے اندر خدا کے فضل سے وہ برقی طاقت پنہاں ہے جو دنیا میں انقلاب پیدا کرسکتی ہے.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ اپنی قدر و قیمت کو پہچا نہیں اور اپنے ایمان میں وہ پختگی اور اپنے علم وعمل میں وہ روشنی پیدا کریں جو سچے مومنوں کا طرہ امتیاز ہے.بے شک آپ اپنی عمر کے تقاضا کے ماتحت کھیلیں کو دیں اور ورزشی اور تفریحی باتوں میں حصہ لیں اور دنیا کے کاروبار کریں مگر آپ کے دل میں ایمان کی شمع ہر وقت روشن رہنی چاہئے اور نماز اور دعا کے ذریعہ آپ کے دل کی تاریں ہر لحظہ خدا کے ساتھ اسی طرح بندھی رہیں کہ جدا ہونے کا نام نہ لیں.2.حال ہی میں جو خدام الاحمدیہ کے مقامی اور علاقائی اجتماعوں اور تربیتی کورسوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے.یہ سلسلہ خدا کے فضل سے بہت ہی مبارک اور مفید نتائج پیدا کر رہا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں اکثر نو جوانوں میں کافی حرکت اور بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں.سو اس سلسلہ کو مزید ترقی دینی چاہئے تاکہ نو جوانوں میں علمی معلومات کے اضافہ کے علاوہ تنظیم اور قوت عمل اور اتحاد کی روح ترقی کرے اور خدام کو چاہئے کہ

Page 241

تاریخ احمدیت 232 ایسے اجتماعوں میں بعض معمر بزرگوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب کو بھی شامل کر کے ان کی نصیحتوں سے فائدہ اٹھائیں.3.ہمارے نو جوانوں کو تقریر اور تحریر میں خاص مہارت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.مجھے آجنگ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کا تقریر وتحریر میں کمال نہیں بھولتا.ان کی زبان و قلم دونوں میں کمال کا جادو تھا اور ان کی تقریر سننے والا اور تحریر پڑھنے والا گو یا وجد میں آجاتا تھا.اگر ہمارے بچے اور ہمارے نوجوان بچپن اور نو جوانی کی عمر سے ہی اپنے ان دو فطری جو ہروں کو مشق کے ذریعہ اجاگر کرنے کی کوشش کریں تو وہ ملک وملت کے بہترین خادم بلکہ خدا کا فضل شامل ہو تو خادم سے مخدوم بن سکتے ہیں.4.خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ موجودہ بے پردگی کے دور میں غض بصر کے حکم پر بڑی احتیاط اور مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں اور کسی غیر محرم عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھیں اگر اتفاقاً نظر اٹھ جائے تو فوراً نظر نیچی کر لیں.اس سے انشاء اللہ ان کے اندر تقویٰ کی روح ترقی کرے گی اور ان کے نفسوں میں غیر معمولی پاکیزگی پیدا ہوگی.خدام الاحمدیہ کو یہ بھی چاہئے کہ اگر ان کی بہنیں یا دوسری قریبی رشتہ دار لڑکیاں پردے کے معاملہ میں غیر محتاط ہو رہی ہیں تو نصیحت اور مناسب نگرانی کے ذریعہ ان کے اس غیر اسلامی رجحان کو روکیں.5.خدام الاحمدیہ میں ایک شعبہ خدمت خلق ہے.یہ شعبہ بھی بڑا مبارک ہے.بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ رسول کریم اللہ کی تعلیم کے مطابق آپ لوگ خلق کے مفہوم میں انسانوں کے علاوہ جانوروں تک کو بھی شامل کریں.حدیث میں آتا ہے کہ ایک فاحشہ عورت نے ایک ایسے پیاسے کتے کو پانی پلایا جو پیاس کی شدت سے مر رہا تھا اور اللہ تعالی نے اسی نیکی کی وجہ سے اسے بخش دیا.یہ خدمت خلق جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی بار بار توجہ دلا چکے ہیں دلی خلوص کے ساتھ ساری قوموں اور ساری ملتوں تک وسیع ہونی چاہئے.میں تو بعض اوقات اپنے ذوق کے مطابق خدام الاحمدیہ کے معنے ہی یہ کیا کرتا ہوں کہ وہ احمدی نوجوان جو ساری دنیا کے خادم ہیں.مگر ایک بات ضرور ملحوظ رکھنی چاہئے کہ جہاں کوئی بڑا حادثہ سیلاب وغیرہ کی صورت میں وسیع پیمانہ پر پیش آئے تو وہاں انفرادی خدمت بجالانے کی بجائے بہتر طریق یہ ہوتا ہے کہ اپنی خدمات علاقہ کے سرکاری افسروں کو پیش کر دینی چاہئیں تا کہ ایک تنظیم کے ساتھ یکجائی طور پر وسیع پیمانہ پر خدمت ہو سکے.جلد 21

Page 242

تاریخ احمدیت 233 جلد 21 صلى الله آنحضرت ﷺ نے کئی موقعوں پر مسجدوں کی تعمیر میں یا جہاد کی کارروائیوں میں عام مزدوروں کی طرح کام کیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ” میں اپنے تیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں، پس جب ہمارے آقا آنحضرت ﷺ جو سرور کونین اور شہنشاہ دو عالم تھے اور ہمارے سالار قافلہ حضرت مسیح موعود ایک مزدور کا لباس پہنے میں کوئی عیب نہیں دیکھتے بلکہ اس خدمت کو فخر سمجھتے ہیں تو ہمیں جو آپ کے ادنی خادم ہیں خدمت خلق کے لئے بیلچہ ہاتھ میں لے کر اور مٹی کی ٹوکریاں سر پر رکھ کر مزدور بننے میں کیا عذر ہو سکتا ہے؟ 20 اس پر تاثیر خطاب نے احمدی نو جوانوں میں علم وعمل اور جوش پیدا کر دیا.انصار اللہ کے سالانہ اجتماع 1961 ء سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا بصیرت افروز خطاب خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے ایک ہفتہ کے بعد 27-28.29اکتوبر 1961 ء کو انصار اللہ کا ساتواں سالانہ اجتماع منعقد ہوا جس کا افتتاح بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمایا.آپ نے اپنے روح پرور اور بصیرت افروز خطاب میں انصار اللہ کی اصطلاح اس کے وسیع اور ہمہ گیر معانی اور مجلس انصار اللہ کے فرائض اور تقاضوں پر نہایت شرح وبسط سے روشنی ڈالی اور تبلیغ ، تربیت اولاد، نمازوں کی پابندی ، خلافت اور مرکز سے مخلصانہ تعلق، جماعتی کاموں میں دلچسپی اور ضروری جماعتی چندوں میں حصہ لینا، اتحاد قلمی جہاد اور بہترین نمونہ پیش کرنے پر بہت زور دیا.204 66 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ذکر حبیب پر معرکہ آراء تقریر جلسہ سالانہ 1961 ء پر جماعت احمدیہ کے نامور مقررین نے نہایت ٹھوس پر مغز اور فاضلانہ تقاریر فرما ئیں.بالخصوص حضرت مرزا بشیر احمد کی معرکہ آراء تقریر نے سننے والوں پر وجد کی کیفیت طاری کر دی اور علم وعرفان میں از حداضافہ کا موجب بنی.یہ تقریر ” در مکنون“ کے عنوان سے الفضل 19 جنوری 1962ء میں چھپی.بعد ازاں اسی نام سے مستقل رسالہ کی صورت میں شائع ہو کر بہت مقبول ہوئی.

Page 243

تاریخ احمدیت مجالس انصار اللہ خیر پورڈویژن کے نام حضرت مصلح موعود کا پیغام 234 جلد 21 مجالس انصار اللہ خیر پور ڈویژن کا سالانہ اجتماع باندھی ضلع نواب شاہ میں 11-12 فروری 1961ء کو منعقد ہوا.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود نے بذریعہ تار حسب ذیل پیغام "MY MESSAGE IS THAT GOD MAY ENABLE YOU TO BECOME ANSARULLAH IN TRUE SENSE OF THE TERM" KHALIFATUL MASIH RABWAH ارسال فرمایا: میرا پیغام یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو صحیح معنوں میں انصار اللہ بنے کی تو فیق عطا فرمائے.خلیفه ای ربوہ 205 جلسه سالانه قادیان 1961 اس سال قادیان میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ بتاریخ 16 - 17.18 دسمبر 1961ءمنعقد ہوا.اس کامیاب اور مقدس اجتماع میں ہندوستان کے مختلف صوبہ جات بنگال، بہار، اڑیسہ آندھرا میسور یوپی سی پی ریاست ہائے جموں و کشمیر کے احباب کے علاوہ کم و بیش ڈھائی سواحمدی قافلہ میں انفرادی صورت میں پاکستان سے شامل جلسہ ہوا.قادیان اور مضافات سے خاصی تعداد میں غیر مسلم دوستوں نے کارروائی سنی.یہ جلسہ مقررہ جلسہ گاہ کی بجائے بیت اقصیٰ میں ہوا.اس جلسہ سے ہندوستان کے ممتاز احمدی علماء کے علاوہ پاکستان کے مندرجہ ذیل مقررین نے خطاب فرمایا.خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب ، پروفیسر مولوی غلام باری صاحب ،سیف، مربی سلسله گیانی واحد حسین صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، مربی سلسلہ مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل، شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مجاہد بلا دعربی ، مولوی فضل الہی صاحب بشیر سابق مبلغ بلاد افریقہ و عربیہ، چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق مجاہد لنڈن - 20

Page 244

تاریخ احمدیت حضرت مصلح موعود کا روح پر در پیغام جلسہ سالانہ کی مقدس تقریب پر 235 جلد 21 سید نا حضرت مصلح موعود نے اس مبارک تقریب پر نہایت اہم پیغام دیا جو قافلہ کے امیر قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا جسے سنکر شمع خلافت کے پروانوں کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں.حضور کے اس پیغام کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے: 208 اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران هو الناصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عزیزم مرز وسیم احمد صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں بھارت کے ان احمدی احباب کے لئے جو قادیان کی مقدس سرزمین میں جلسہ سالانہ کے موقع پر جمع ہور ہے میں کوئی پیغام ارسال کروں.سوسب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل سے آپ لوگوں کو اپنی زندگیوں میں ایک بار پھر اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ آپ اس کے قائم کردہ روحانی مرکز میں جمع ہوں اور اس کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے تمام مردوں اور عورتوں اور بچوں کو ان کے اس اخلاص کی جزائے خیر عطا فرمائے اور انہیں دین و دنیا میں اپنی برکات اور انوار سے متمتع کرے.آمین اے عزیزو! بے شک جسمانی لحاظ سے ہم اس وقت آپ سے دور ہیں.مگر ہمارے دل آپ کے قریب ہیں اور ہمارے قلوب میں بھی وہی جذبات موجزن ہیں جو آپ کے دلوں میں پائے جاتے ہیں.ہمیں خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہندوستان میں اپنے دین کے جھنڈے کو بلند رکھنے اور آستانہ حبیب پر ڈھونی رما کر بیٹھنے کی تو فیق عطا فرمائی.مگر اے عزیز و! ابھی کام کا ایک وسیع میدان آپ لوگوں کے سامنے پڑا ہے جس کے لئے بے انتہاء خدمات اور قربانیوں کی ضرورت ہے.مالی قربانیوں کی بھی اور وقت کی قربانیوں کی بھی.اس لئے ہمت سے کام لو اور اپنا قدم ہمیشہ آگے بڑھانے کی کوشش کرو.اور غیر مسلم شرفاء کو

Page 245

تاریخ احمدیت 236 اپنے عملی نمونہ سے اور لٹریچر کی اشاعت کے ذریعہ بھی اسلامی خوبیوں سے آگاہ کرتے رہو.اور ہمیشہ ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھو اور ایسے بلند اخلاق کا مظاہرہ کرو کہ وہ تمہیں انسانوں کی صورت میں خدا تعالیٰ کے فرشتے سمجھنے لگ جائیں.یہ امر یا درکھو کہ ہم لوگ کسی سوسائیٹی کے ممبر نہیں ہیں جو محدود مقاصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے.بلکہ ہم ایک مذہب کے پیرو ہیں اور مذہب تعلق باللہ اور شفقت علی خلق اللہ کے مجموعہ کا نام ہوتا ہے.پس جس طرح تعلق باللہ کے بغیر کوئی قوم مذہب سے سچا تعلق قائم رکھنے والی قرار نہیں دی جاسکتی اسی طرح شفقت علی خلق اللہ کے بغیر بھی کوئی مذہب سچا مذہب نہیں کہلا سکتا.اور شفقت علی خلق اللہ کے دائرہ میں ایک ہندو اور سکھ وغیرہ بھی اسی طرح داخل ہے جس طرح ایک مسلمان.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ہمسایوں یعنی ہندو اور سکھ احباب سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھو.اور ان کی خوشی میں اپنی خوشی اور ان کی تکلیف میں اپنی تکلیف محسوس کرو.یہی وہ تعلیم ہے جو اسلام نے محمد رسول اللہ اللہ کے ذریعہ ہمیں دی ہے اور جس کی وجہ سے اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر فوقیت حاصل ہے.اسلام کوئی قومی مذہب نہیں بلکہ ایک عالمگیر مذہب ہے جو تمام دنیا کے افراد کو اپنے دائرہ ہدایت میں شامل کرتا ہے.پس جس طرح مسلمان ہمارے بھائی ہیں اسی طرح ہندو اور سکھ بھی انسانیت کے وسیع حلقہ میں ہمارے بھائی ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سے برادرانہ تعلقات رکھیں اور ان سے لطف و مدارات کا سلوک کریں.اگر کوئی شخص اپنی نادانی کی وجہ سے ہم سے عنا درکھتا ہے تو یہ اس کا ایک ذاتی فعل ہے جس کا وہ خود ذمہ دار ہے.ہماری طرف سے کسی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہئے اور نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا خیال ہمارے دلوں میں آنا چاہئے.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم بدی سے نفرت رکھیں، لیکن بد کی اصلاح کے لئے اس سے محبت اور پیار کا سلوک کریں کیونکہ آخر وہ ہمارا بھائی ہے اور اس کی اصلاح ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے.پنجاب میں جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیش گوئی کے مطابق طاعون کا مرض بڑے زور سے پھیلا ہوا تھا اور لاکھوں لوگ لقمہ اجل ہو رہے تھے کہ ایک دفعہ مجھے بیت الدعا سے یعنی اس کمرہ سے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعاؤں کے لئے مخصوص کیا ہوا تھا اس طرح در دو کرب کے ساتھ رونے اور چیخنے چلانے کی آواز میں آئیں جلد 21

Page 246

تاریخ احمدیت 237 جیسے کوئی عورت دردزہ کی شدت سے کراہ رہی ہو.میں نے کان لگا کر سنا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز ہے.پھر میں نے اور توجہ کے ساتھ کان لگائے تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کر رہے ہیں اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہیں کہ اے خدا! تیری پیشگوئی پوری ہوئی اور طاعون دنیا میں آگئی.مگر اے میرے رب ! اب دنیا طاعون سے مرتی چلی جارہی ہے.اگر سب لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا.پس دنیا کی تباہی میں ہماری خوشی نہیں بلکہ دنیا کی نجات اور خوشحالی میں ہماری خوشی ہے پس تقویٰ اور خدا ترسی پر زور دو.دشمنوں تک سے ہمدردی کرو.بد دعائیں کرنے والوں کو دعائیں دو اور بدخواہی کرنے والوں کی خیر خواہی کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے جو آج تمہارا دشمن ہے وہ کل تمہارے صبر اور حسن سلوک اور نیکی کے نتیجہ میں تمہارا گہرا دوست بن جائے گا.پس سکھوں اور ہندوؤں سے اچھے تعلقات رکھو.سکھوں کا تو اس لحاظ سے بھی ہمارے ساتھ تعلق ہے کہ جس طرح ہم تو حید کے قائل ہیں اسی طرح وہ بھی تو حید کے قائل ہیں.پس تمام غیر مسلم شرفاء سے برادرانہ تعلقات مضبوط کرو.اور انہیں اسلام اور احمدیت کی خوبیوں سے روشناس کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرو کہ وہ ہماری مدد کرے.اور آسمان سے اپنی رحمت کے فرشتے ہماری تائید کے لئے نازل کرے.ہم عاجز اور بے کس ہیں.جو کچھ ہوگا اسی کی تائید اور نصرت سے ہوگا.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کو پھیلائے.دعائیں کرو کہ وہ ہمارے حقیر کاموں میں ایسی برکت پیدا فرمائے کہ ان کے نتائج دنیا کے لئے حیران کن ثابت ہوں اور ساتھ ہی کوشش اور جدو جہد سے کام لو.اور تمام دنیا کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی کوشش کرو اور اسلام اور احمدیت کے پھیلانے کا پروگرام ہمیشہ وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جاؤ.سید امر یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے مامور کے ذریعہ دنیا میں اسی وقت اپنی آواز بلند کیا کرتا ہے.جب چاروں طرف کفر اور شیطانی قوتوں کے حملے ہور ہے ہوں اور روحانی امن اور چین دلوں سے مفقود ہو چکا ہو.پس جس طرح کسی خوفناک جنگل میں شیروں اور درندوں کے حملہ سے وہی بھیٹرمیں محفوظ رہ سکتی ہیں جو گڈریے کی بنسری پر دوڑتی ہوئی اس کے پاس آجائیں.اسی طرح اس زمانے میں بھی وہی لوگ شیطانی حملوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں جو جلد 21

Page 247

تاریخ احمدیت 238 جلد 21 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن سے وابستہ ہوں اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اشاعت اسلام کا فرض ہمیشہ یاد رکھو اور اپنی اولاد در اولادکو یاد کراتے چلے جاؤ اور اپنے اعمال میں نیک تغیر پیدا کرو.تا کہ خدا کا جلال دنیا پر ظاہر ہو اور وہ منشاء پورا ہو جس کے لئے اس نے ہماری جماعت کو قائم فرمایا ہے.بے شک یہ ایک مشکل اور کٹھن کام ہے لیکن استقلال اور دعاؤں سے کام لینے کے نتیجہ میں آسمان کے دروازے آپ لوگوں کے لئے کھل جائیں گے اور دنیا جن باتوں کو آج ناممکن سمجھتی ہے وہ کل ایک حقیقت بن کر ان کے سامنے ظاہر ہو جائیں گی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور نتیجہ خیز بنائے اور آپ کو اپنے فضل سے اس روحانی لذت اور سرور سے حصہ بخشے جس کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس مقدس اجتماع کی بنیاد رکھی ہے.اور مرکز سلسلہ سے مخلصانہ وابستگی اور اشاعتِ اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کی توفیق آپ کو عطا فرمائے.آمین اللھم آمین خاکسارمرزامحمداحمدخلیفة المسیح الان 22/11/61 جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب 210 209 جامعہ احمد یہ ربوہ کی نئی عمارت جس کی بنیاد 29 مارچ 1960ء کو رکھی گئی تھی اس سال کے آخر میں قریباً دولاکھ روپے سے پایہ تکمیل کو پہنچ گئی.یہ جدید طرز کی عمارت جو مخلصین جماعت کی مالی قربانی اور پرنسپل جامعہ احمدیہ محترم سید داؤ د احمد صاحب کی محنت شاقہ اور انتھک مساعی کا نتیجہ تھی.سات کلاس رومز ، دفتر کے تین کمروں ، سٹاف روم ، لائبریری اور ایک وسیع ہال پر مشتمل تھی.ہوٹل کے چھوٹے چھوٹے بائیں کمرے اس کے علاوہ تھے.البتہ اس کی عمارت پر بالائی منزل اور ہوٹل کے ایک حصہ کی تعمیر اور چار دیواری کی تکمیل ابھی باقی تھی.اس شاندار عمارت کا افتتاح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاتھوں 3 دسمبر 1961 ء کو ہوا.اس موقع پر اصحاب احمد اور دیگر بزرگان سلسلۂ ناظر اور وکلاء صاحبان امراء جماعت اور مختلف تعلیمی اداروں کے ممبران سٹاف اور دیگر احباب کثیر تعداد میں شریک ہوئے.ہوئے فرمایا: اس با برکت موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے

Page 248

تاریخ احمدیت 239 اس وقت مجھے قریباً نصف صدی پہلے کا واقعہ یاد آ رہا ہے جبکہ میں مدرسہ احمدیہ کا مینجر تھا.اس زمانہ میں ایک روز حاجی غلام احمد صاحب کر یام ضلع جالندھر اور میاں امام الدین صاحب مولوی ابو العطاء صاحب کو مدرسہ میں داخل کروانے کے لئے لائے.اس وقت میں مدرسہ کے کمروں میں سے ایک کمرہ میں بیٹھا تھا.میں نے کچے کمرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ ہر زمانہ کا قشر الگ ہوتا ہے اس زمانے کے لحاظ سے وہ کچھے کمرے ہی قشر کی حیثیت رکھتے تھے.لیکن آج کل کے حالات کے لحاظ سے ضروری ہے کہ اچھی عمارت بھی ہو نیز ایک اعلیٰ درجہ کی لائبریری کا بھی اس میں انتظام ہو اور اسی طرح تمام دوسرا سامان اور ضرورت کی چیزیں بھی مہیا کی جائیں.پھر یہ امر بھی نہایت ضروری ہے که احباب بچوں کو جامعہ میں تعلیم دلوانے کے لئے یہاں بھجوائیں.جب تک احباب ہر طبقہ کے ذہین اور ہونہار طلبہ نہیں بھجوائیں گے خدمت دین کا کام خاطر خواہ طریق پر نہیں انجام پاسکے گا.میرا اپنا بچہ بھی واقف زندگی ہے اور آجکل افریقہ میں سلسلہ کی طرف سے متعین ہے.میں اس پر خوش ہوں کہ وہ دین کی خدمت کر رہا ہے.پس میں احباب سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عمارت کی جلد از جلد تکمیل اور ایک اعلیٰ درجہ کی لائبریری قائم کرنے کے لئے دل کھول کر چندہ بھی دیں.اور پھر ہر طبقہ کے ہونہار اور ذہین بچوں کو تعلیم کے لئے جامعہ احمدیہ میں بھیجیں.اس ضمن میں محترم میاں صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ جب تک کسی تعلیمی ادارے کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی لائبریری موجود نہ ہو اس وقت تک اس ادارے کو کامیابی کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا.اور تعلیم و تدریس کے خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں ہو سکتے.آپ نے تدریس کے سلسلہ میں پرانے زمانے کے ایک نہایت مفید طریق کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا.پہلے جب اساتذہ باہر سفر پر جاتے تھے تو ان کے ساتھ بعض شاگر د بھی بھیج دئے جاتے تھے اور وہ سفر میں انہیں درس دیتے رہتے تھے.یہ طریق بہت مفید تھا.اس طرح اساتذہ کے سفر پر جانے سے طلبہ کی تعلیم میں حرج واقع نہیں ہوتا تھا بلکہ اس طرح وہ اساتذہ کے ساتھ ہر وقت رہنے کی وجہ سے وہ کچھ سیکھ لیتے تھے جو مدرسہ کے محدود اوقات میں ان کے لئے سیکھنا ممکن نہ ہوتا تھا.جلد 21

Page 249

تاریخ احمدیت 240 جلد 21 فصل پنجم حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا انتقال اس سال کا نہایت الم ناک سانحہ جس نے پوری دنیائے احمدیت میں رنج والم کی لہر دوڑا دی حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمد صاحب کا انتقال ہے.ولادت حضرت صاحبزادہ صاحب آیت اللہ تھے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام "انا نُبَشِّرُكَ بِغُلام “ کے مطابق 27 ذیقعدہ 1213ھ مطابق 24 مئی 1895ء کو پیدا ہوئے.آپکی ولادت پر حضور علیہ السلام نے کشفی رنگ میں آسمان پر ایک ستارہ دیکھا جس پر لکھا تھا معمر الله - 214 عهد مسیح موعود 212 1903ء میں آپ شدید بیمار ہو گئے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے معجزانہ طور پر شفا پائی.حضرت اقدس استجابت دعا کے اس عظیم اعجازی نشان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا میرالڑ کا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑ کا بالکل بے ہوش ہو گیا.اور بے ہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا.مجھے خیال آیا کہ اگر چہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑ کا ان دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھرا ئیں گے اور خدا تعالیٰ کی اس پاک وحی کی تکذیب کریں گے کہ جو اس نے فرمایا انسى أحافظ كل من في الدار یعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا.اس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ میں بیان نہیں کرسکتا.قریبا رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہوگئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اور ہی بلا ہے.تب میں کیا بیان کروں کہ میرے دل کی کیا حالت تھی کہ خدانخواستہ اگر لڑ کا فوت ہو گیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کے لئے بہت کچھ سامان ہاتھ آجائے گا.اسی حالت میں میں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور معاً کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے

Page 250

تاریخ احمدیت 241 جلد 21 وہ حالت میسر آگئی جو استجابت دعا کے لئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے ابھی میں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے.تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چار پائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے اور میں چار رکعت پوری کر چکا تھا فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام ونشان نہیں.....مجھے اس خدا کی قدرت کے نظارے نے الہی طاقتوں اور دعا قبول ہونے پر ایک تازہ نشان بخشا.15 نومبر 1906ء کو آپ کا نکاح حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی بیٹی محترمہ بوزینب بیگم صاحبہ سے ہوا اور شادی 9 مئی 1909 ء کو ہوئی.20 تفسیر تھی.جنوری 1907 میں حضرت اقدس نے آپ کے متعلق یہ عظیم الشان رویا دیکھا کہ : ”اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں.ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا.وہ بادشاہ آیا.دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے.فرمایا.قاضی حکم کو بھی کہتے ہیں.قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور 217 باطل کو رد کر دے.اس سے چند سال قبل حضرت اقدس علیہ السلام نے عالم کشف میں آپ کو مخاطب کر کے فرمایا: اب تو ہماری جگہ بیٹھا اور ہم چلتے ہیں.218 وسط 1907 ء میں آپ دوبارہ بیمار ہو گئے تب حضور کو آپ کی نسبت الہا م بشارت دی گئی کہ " عمره الله على خلاف التَّوَقُعِ.امره الله على خلاف التَّوَقُعِ “ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو امید سے بڑھ کر عمر دے گا اور امید سے بڑھ کر امیر کرے گا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی پوری زندگی ان سب آسمانی پیش خبریوں کی عملی حضرت صاحبزادہ صاحب نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام سے حاصل کی.آپکو بچپن سے ہی دینی علوم کے ساتھ فطری مناسبت تھی.خلافت اولیٰ حضرت خلیفہ لمسیح الاول" کے درس قرآن میں بہت شوق سے شامل ہوتے رہے اور بخاری

Page 251

تاریخ احمدیت 242 جلد 21 221 شریف تو آپ نے درسا در سا مکمل کی.حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحب تحریر فرماتی ہیں: حضرت سیدنا بڑے بھائی صاحب ( حضرت خلیفتہ اسیح لثانی کی طرح) ان پر بھی خدا تعالی کا خاص فضل اس صورت میں نازل ہوا تھا کہ ان کا علم وسیع تھا، بہت ٹھوس تھا جو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس وقت پڑھا اور کہاں پڑھا.مگر علم دین کے ہر پہلو پر عبور تھا.عربی ایسی اعلیٰ پڑھاتے تھے کہ چند دن میں پڑھنے والے کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے.فروری 1914 ء میں حضرت خلیفہ اسیح الاول بستر علالت پر تھے.ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ حضور شہر سے باہر کھلی فضا میں منتقل ہوں.اس پر مولوی محمد علی صاحب اور مولوی صدر الدین صاحب نے منصوبہ بنایا کہ آپ کو بورڈنگ ہائی سکول کی بالائی منزل پر لے جایا جائے اور اس طرح پہرہ لگایا جائے کہ ان کے ہم خیالوں کے علاوہ کوئی اندر نہ جاسکے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے اس کا ذکر نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سے کیا.دونوں کی تحریک پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت خلیفہ اول سے درخواست کی کہ آپ انکی کوٹھی میں تشریف لے جائیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اول نے یہ درخواست قبول فرمالی اور آپ 27 فروری 1914ء کو کوٹھی میں منتقل ہو گئے.منصوبہ باندھنے والوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے چار پائی کو بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سامنے رکوالیا.حضرت خلیفہ اول نے حسرت سے فرمایا : ہیں، یہ اس جگہ مجھے لا رہے ہیں.حضرت مرزا شریف احمد صاحب اس وقت چار پائی کے ساتھ ہی کھڑے تھے.آپ نے اونچی آواز سے کہا کہ حضور یہ صرف چلنے والوں کو آرام دینے کے لئے ہے.ورنہ ویسے آپ نواب صاحب کی کوٹھی پر ہی جا رہے ہیں.“ یہ بات سن کر حضرت خلیفہ اول مطمئن ہو گئے اور خدام بھی چار پائی لے کر آگے چل پڑے.اس طرح یہ منصوبہ پوری طرح ناکام ہو گیا.222 13 مارچ 1914 ء کو حضرت خلیفہ اول کا وصال ہو گیا اور 14 مارچ 1914ء کو خلافت ثانیہ کا بابرکت آغاز ہوا.آپ نے منکرین خلافت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہمیشہ ہی خلافت کے پرزور حامی اور علمبر دار ہے.خلافت ثانیه 1920ء میں حضرت میاں صاحب ڈیرہ دون میں برہا کمپنی میں لفٹینٹ مقرر ہوئے.جناب نیک محمد خان صاحب غزنوی کا بیان ہے کہ: آپ کی ابتدائی ٹریننگ پر صو بیدار مدد خان صاحب جو راولپنڈی کے رہنے والے تھے

Page 252

تاریخ احمدیت 243 جلد 21 223 متعین ہوئے.قریباً ڈیڑھ مہینہ انہوں نے حضرت میاں صاحب کو ٹریننگ دی اور پھر اپنے انگریز کرنل سے کہا جو کچھ یہ جانتے ہیں میں بھی نہیں جانتا.یہ تو اب مجھے پڑھاتے ہیں.میں نے ایسا فہم کا مالک اور نکتہ رس آدمی آج تک نہیں دیکھا.تمام کمپنی میں آپ کی نہایت درجہ تعظیم تھی.بڑے بڑے افسر بھی سب آپ کا احترام کرتے تھے.21 جون 1921 ء کو قادیان میں پہلی مبلغین کلاس جاری ہوئی جس کے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب تھے.کلاس میں مولانا جلال الدین صاحب شمس جیسے اکابر علماء تعلیم حاصل کرتے تھے.یہ کلاس آپ کے مکان پر لگتی تھی.قرآن مجید صحاح ستہ مکمل اور اصول فقہ کی بعض بنیادی اور بڑی کتب آپ نے دوسرے علماء کے ساتھ پڑھیں.1922ء میں مجلس مشاورت کا آغاز ہوا.مجلس کی مطبوعہ رپورٹوں کے مطابق آپ نہ صرف اس پہلی مشاورت میں شامل تھے بلکہ (شاید چند مستثنیات کے سوا) آپ عمر بھر با قاعدگی کے ساتھ اس میں شرکت فرماتے رہے.اسی سال احمدی نوجوانوں میں جفاکشی ، بہادری اور فوجی سپرٹ پیدا کرنے کے لئے احمدیہ ٹیریٹوریل کمپنی انبالہ کا قیام ہوا.جس کے افسر اور کمانڈر حضرت میاں صاحب تھے.آپ کی ذاتی دلچسپی ہمحنت و جانفشانی اور غیر معمولی جد و جہد کے نتیجہ میں اس کمپنی نے دوسری کمپنیوں میں بڑا نام پیدا کیا نیز ڈرل چاند ماری اور کھیلوں میں اپنی برتری کا لوہا منوایا اور انعامات جیتے جن کا تفصیلی ذکر صدرانجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹوں میں ملتا ہے.یہ ایک مثالی کمپنی تھی جس کا ڈسپلن نہایت معیاری تھا اور اس کے جوان نماز با جماعت با قاعدہ ادا کرتے تھے.جس کا دوسروں پر بہت عمدہ اثر ہوتا تھا.آپ 35-1934 میں لف سے ترقی کر کے کیپٹن مقرر ہوئے.کمپنی کے لئے نئی ریکروٹنگ کا کام نہایت مشکل مسئلہ ہوتا تھا مگر آپ نے ہمیشہ اس کو نہایت خوش اسلوبی سے حل کیا.اس کمپنی کے تربیت یافتہ احمدی نوجوانوں نے آئندہ چل کر ملک وملت کی بہت شاندار خدمات سر انجام دیں.227 صو بیدار عبدال صاحب دہلوی کا بیان ہے کہ: دوسرے افسران دوران پریڈ میں اکثر خفگی کا اظہار کرتے اور سخت سست کہتے مگر میں نے حضرت میاں صاحب کے چہرے پر کبھی غصہ کی علامت نہیں پائی.بڑے عمدہ پیرائے میں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتے.یہ ایک فوجی آفیسر میں بہت بڑی خوبی ہوتی ہے.لفٹینٹ

Page 253

تاریخ احمدیت 244 جلد 21 آپکی فراست اور دور اندیشی کے انگریز افسر بھی قائل تھے.ملٹری میں جب مسلمان نوجوان بھرتی ہوتے تو ڈاڑھیاں منڈوانی پڑتی تھیں.ڈاڑھی والے کو انفٹ کر دیتے تھے مگر حضرت میاں صاحب نے کیپٹن ہوتے ہوئے شعار اسلامی کا احترام کیا اور باقاعدہ ڈاڑھی رکھی.....حضرت میاں صاحب کو فوجی یونیفارم میں ڈاڑھی بہت خوشنما معلوم ہوتی تھی.228 1939 ء میں حضرت میاں صاحب نے اپنی بعض مجبوریوں کے باعث کمپنی سے استعفاء دے دیا اور کمپنی آپ کی نگرانی سے محروم رہ گئی.تاہم ریکروٹنگ کے سلسلہ میں آپ کا شفقت بھرا تعاون کمپنی کو حاصل رہا.یکم اپریل 1923ء سے 14 اپریل 1925 ء تک آپ نائب ناظر انسداد ارتداد کے فرائض انجام دیتے رہے.280 یکم مئی 1925 سے 14 جون 1925 ء تک مستقل نائب نا ظر تعلیم و تربیت کی حیثیت سے کام کیا.281 15 جون 1925 ء سے 30 اپریل 1926 ء تک قائم مقام ناظر تعلیم وتربیت رہے.مئی 1926 ء میں حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر نظارت تجارت وصنعت کا قیام ہوا.ابتداء میں یہ صیغہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے سپرد کیا گیا مگر 8 ستمبر 1926 ء کو آپ ناظر مقرر ہوئے.اس نظارت کی زیر نگرانی انجمن کے مندرجہ ذیل تجارتی ادارے تھے : 1.اور ینٹیل ہاؤس وسٹریٹ ایجور روڈ لندن 2 - مگوب ٹریڈنگ ایجنسی قادیان 3 انڈین گٹ مینوفیکچرنگ کمپنی قادیان وسیالکوٹ 4.بک ڈپو تألیف واشاعت قادیان 5- احمد یہ سٹور 284 حضرت میاں صاحب نے نہ صرف ان اداروں کی نگرانی کے فرائض سرانجام دئے بلکہ جماعت میں تجارت و صنعت کی نئی روح پھونک دی.آپ نے مجلس مشاورت 1929ء میں بکڈ پوتالیف واشاعت کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ:

Page 254

تاریخ احمدیت 245 بک ڈپو کا یہ سال گذشتہ تمام سالوں بلکہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں پہلا سال ہے جبکہ ہماری نئی کتابیں ایک قلیل وقت میں ہی کئی کئی ہزار کی تعداد میں چھپیں اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئیں اور مزید خوشی یہ ہے کہ اس تعداد میں سے کافی حصہ غیر احمد یوں اور غیر مسلموں نے بھی خریدا اور پڑھا اور احمد یہ علم کلام سے روشناس ہوئے اور ان کتابوں کے باعث احباب کی وہ شکایت بھی اس سال رفع کر دی کہ کتابیں گراں فروخت ہوتی ہیں کیونکہ اس سال جو کتا میں شائع ہوئی ہیں وہ اتنی ارزاں فروخت کی گئی ہیں کہ اتنی قیمت پر کوئی تاجر کتب فروخت کر ہی نہیں سکتا.جلد 21 مئی 1928 ء سے جون 1938 ء تک آپ متعد د نہایت اہم عہدوں پر فائز رہے اور سلسلہ احمدیہ کی شاندار خدمات بجالاتے رہے.مثلاً قائم مقام ناظر امور عامه، قائم مقام ناظر تعلیم وتربیت، نائب ناظر تعلیم و تربیت، ناظر امور عامه، قائم مقام ناظر امور خارجہ - 20 اکتوبر 1934 ء میں احراری شورش زوروں پر تھی اور انگریزی حکومت کے بعض اعلیٰ حکام بھی جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت پر تلے ہوئے تھے.اس فتنہ کے سد باب کے لئے حضرت مصلح موعود نے ایک شعبہ خاص قائم کیا اور اس کا ناظم بھی حضرت میاں صاحب ہی کو نا مزد فر مایا.مولوی ظفر محمد ظفر صاحب مولوی فاضل کو اس شعبہ میں آپ کے ماتحت عرصہ تک کام کرنے کا موقع ملا.انکا بیان ہے: 237 حضرت میاں صاحب...اکثر اوقات دفتر ٹائم کے بعد بھی اپنے کام میں دیر تک مصروف رہتے تھے.انہیں یہ کبھی بھی خیال نہیں آتا تھا کہ دفتر کب لگتا ہے اور کب بند ہوتا ہے.بلکہ آپ کے پیش نظر ہمیشہ کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اورضروری امور کو پورے طور پر سرانجام دینا ہوتا تھا.28 آپ نے اس بیدار مغزی ، حسن تدبر اور ذہانت و فراست سے دشِ احمدیت کی سرگرمیوں کا تعاقب کیا کہ ان کے کئی خفیہ منصوبے طشت از بام ہو گئے اور کئی چالیں نا کام ہو گئیں.احرار کی انتہائی کوشش تھی کہ جماعت احمدیہ کے امام پر قاتلانہ حملہ کیا جائے لیکن آپ اس رنگ میں حفاظت کا انتظام فرماتے کہ دشمن کو علم بھی نہ ہوتا تھا کہ حضور کس موٹر میں ہیں اور کس راستہ سے گذر گئے ہیں.چوہدری ظہور احمد صاحب (سابق ناظر دیوان ) کا بیان ہے کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری والے مشہور مقدمہ میں جب حضور بذریعہ موٹر گورداسپور تشریف لے گئے تو حضرت میاں صاحب نے جلوس کو ایسے شاندار طریق سے ترتیب دیا کہ دیکھنے

Page 255

تاریخ احمدیت 246 جلد 21 والے کہتے تھے کہ ایسا جلوس اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا“.20 آپ کی کامیاب مساعی کو دیکھ کر آپ کا وجود احرار کی نگاہ میں خار بن کر کھٹکنے لگا.وہ جلد ہی او چھے ہتھیاروں پر اتر آئے اور 8 جولائی 1935ء کو سوچی سمجھی سازش کے تحت آپ پر لاٹھی سے قاتلانہ حملہ کر دیا.مگر آپ خدا کے فضل سے معجزانہ طور پر بچ گئے.20 ہوئے.241 جولائی 1938 ء سے آپ ناظر تالیف و تصنیف اور ناظر تعلیم و تربیت کے عہدوں پر فائز نظارت تالیف و تصنیف کے سپر د حسب ذیل فرائض تھے : 1.سلسلہ احمدیہ کی ضروریات کے پیش نظر مستقل لٹریچر تصنیف کرنایا کروانا 2.سلسلہ احمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والے لٹریچر پر نظر رکھنا 3 مرکز میں ایک مکمل لائبریری کا مہیا رکھنا اور اسکی توسیع 4.ماہوار رسالہ ریویو ( اردو و انگریزی ) کا انتظام اور نگرانی 5.بک ڈپو کا انتظام اور نگرانی حضرت میاں صاحب 1941ء تک اس صیغہ کے انچارج رہے اور آپ کی راہنمائی میں یہ نظارت نہایت خوش اسلوبی سے اپنے مفوضہ فرائض انجام دیتی رہی.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بہت سی قیمتی اور ایمان افروز روایات کی جمع وتدوین کا عظیم الشان کام بھی ہوا نیز تبرکات حضرت مسیح موعود کی فہرستیں مرتب ہو کر اخبار الفضل میں چھپیں مئی 1938 ء سے اپریل 1941 ء کی مطبوعہ رپورٹہائے صدرانجمن احمد یہ میں اس صیغہ کی رپورٹیں آپ کے قلم سے شائع شدہ ہیں جن سے آپ کی قابل قدر مساعی پر روشنی پڑتی ہے.نظارت تعلیم و تربیت جولائی 1938 ء سے مئی 1944ء تک آپ کے ماتحت اپنے کاموں میں سرگرم عمل رہی یعنی سلسلہ احمدیہ کی تمام با قاعدہ مقامی اور مرکزی درسگاہوں اور بیرونی مدارس کی نگرانی اور وظائف تعلیمی و امداد کی تقسیم، کتب حضرت مسیح موعود کے امتحانات اور امتحان دینیات جماعت دہم تعلیم الاسلام ہائی سکول ، اور درس قرآن ، بیت اقصیٰ اور بیتِ مبارک کا انتظام ، جماعتوں کی تربیت کے لئے دورے اور دیگر ذرائع کا استعمال، مقامی تربیت اور متفرق کلاس کی نگرانی وغیرہ.ان مستقل امور کے علاوہ حضرت میاں صاحب کے عہد میں بیت اقصیٰ کی توسیع ہوئی.دارالبیعت لدھیانہ کی مرمت کی گئی اور اس کے ساتھ ایک خانہ خدا تعمیر ہوا.منارة امسیح پر سفیدی کرائی گئی.

Page 256

تاریخ احمدیت 247 جلد 21 مجلس تعلیم کے نام سے ایک مرکزی تعلیمی بورڈ کا قیام عمل میں آیا.آنریری انسپکٹر ان تعلیم وتربیت مقرر کئے گئے.افتاء کمیٹی قائم ہوئی.2 جنوری 1945 ء سے حضرت میاں صاحب ناظر دعوة و تبلیغ مقرر ہوئے.اور جولائی 1947 ء تک اپنے فرائض بجالاتے رہے.26 نظارت دعوة وتبلیغ کا کام ان دنوں مندرجہ ذیل شعبوں پر منقسم تھا: 1 - صدر دفتر ، 2 - نشر و اشاعت 3 طبع واشاعت الفضل، 4.سالانہ جلسہ ، 5 ايام التبليغ 6.-6 جلسہ ہائے سیرت النبی صلی و پیشوایان مذاہب ، 7 تبلیغ اندرونِ ہند ، 8 تبلیغ قادیان و مضافات.نظارت دعوۃ و تبلیغ کا فریضہ جب حضرت میاں صاحب کے سپرد ہوا تو متحدہ ہندوستان میں فرقہ دارانہ اور سیاسی کشیدگی اور افراتفری عروج پر تھی تاہم تقریر وتحریر کے ذریعہ ملک میں حق وصداقت پھیلانے کا کام بدستور جاری رہا.آپ کے چارج سنبھالتے ہی حضرت مصلح موعود کی ہدایات کے ماتحت پنجاب کے دیہاتی علاقہ میں خصوصیت کے ساتھ تبلیغی مہمات کا آغاز کیا گیا اور اس غرض کے لئے 14 دیہاتی مبلغین مختلف حلقوں میں متعین کئے گئے 20 جس کے بہت مفید نتائج ظاہر ہوئے.246 آپ نے قادیان میں کارخانہ مینوفیکچرنگ کمپنی قائم فرمایا جس کی بنیا دسید نا حضرت مصلح موعود نے 3 جون 1946 ء کو رکھی.اس کا رخانہ کی مشینری انگلستان سے درآمد کی گئی تھی.اگر وہ جاری رہتا تو 247 مشرقی پنجاب میں لوہے کا سب سے بڑا کارخانہ شمار ہوتا.20 ہجرت پاکستان کے بعد خدمات پاکستان قائم ہوا تو آپ قادیان سے ہجرت کر کے لاہور تشریف لے آئے اور ماڈل ٹاؤن میں فروکش ہوئے.نومبر 1947 ء میں آپ انگلستان تشریف لے گئے اور شروع جولا ئی 1948ء میں واپس تشریف لائے 20.دوران قیام آپ نے انگلستان کے فوجی انجینئروں کی کانفرنس میں انکی دعوت پر شرکت فرمائی.اس کا نفرنس میں آپ نے رائفل کی مار دور تک کرنے اور نشانے کو زیادہ صحیح بنانے کے لئے قابل قدر مشورے دئے جو بعد میں عملی طور پر بہت فائدہ مند ثابت ہوئے.اس پر آپ کو معقول معاوضہ کی پیشکش کی گئی مگر آپ نے لینے سے انکار کر دیا.250 یکم اپریل 1953ء کو جبکہ لاہور میں مارشل لاء نافذ تھا آپ کی اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب

Page 257

تاریخ احمدیت 248 جلد 21 کے گھر کی تلاشی لی گئی.ان دنوں لاہور میں آپ کی اسلحہ کی ایک دوکان تھی.بندوق آپ نے مرمت کے لئے گھر رکھی ہوئی تھی اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی بیگم صاحبہ کو نواب خاندان کی روایات کے مطابق ایک مرصع خنجر جہیز میں ملا تھا.ان ہر دو اشیاء کی برآمدگی کے جرم میں یہ دونوں مقدس بزرگ گرفتار کر لئے گئے اور 28 مئی 1985 ء کو رہا ہوئے.23 یکم مئی 1955 ء سے آپ ناظر اصلاح وارشاد مقرر ہوئے.جولائی 1956ء میں انکارِ خلافت کا فتنہ اٹھا جس پر آپ نے الفضل 3 اگست 1956 ء میں ایک پُر زور مضمون کے ذریعہ احباب کو توجہ دلائی کہ وہ اس فتنہ کو چھوٹا نہ سمجھیں بلکہ بہت بڑا فتنہ سمجھیں اور دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولاد کو اس سے کلیۂ محفوظ رکھے.1956ء کے جلسہ سالانہ پر ذکر حبیب کے موضوع پر آپ کے ایمان افروز خطابات کا سلسلہ شروع ہوا جو کئی سال تک جاری رہا.آپکی زندگی کا آخری جلسہ سالانہ 1960 تھا.جلسہ سالانہ 1961ء کے انتظامات بھی آپ نے اپنی نگرانی میں کرائے.بلکہ وفات سے دوروز قبل ان کا آخری بار معائنہ بھی فرمایا.مگر افسوس 26 دسمبر 1961ء کو افتتاح جلسہ سے صرف سوا گھنٹہ پیشتر اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.اسی روز قریباً اڑھائی بجے دوپہر آپ کا جنازہ مقبرہ بہشتی کے میدان میں لا کر رکھ دیا گیا جہاں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے ہزار ہا احباب نے ایک خاص نظام اور ترتیب کے ساتھ آپ کے مبارک اور نورانی چہرہ کی زیارت کی.چار بجے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور پھر آپ کا جسد خا کی ہزاروں ہزار ا حباب کی نمناک آنکھوں اور افسردہ دلوں کے ساتھ حضرت اماں جان کے مزار مقدس کی چار دیواری میں سپردخاک کر دیا گیا.انا لله و انا اليه راجعون.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے تاثرات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپکی وفات پر حسب ذیل دونوٹ سپر قلم فرمائے: 1.عزیز میاں شریف احمد صاحب کے متعلق مرحوم کا لفظ لکھتے ہوئے (حالانکہ یہ ایک حقیقت بھی ہے اور دعائیہ کلمہ بھی) دل کو ایک بجلی کا سادھ کہ لگتا ہے اور طبیعت اس حقیقت کو فوری طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی.مگر حقیقت پھر بھی حقیقت ہے اور یہ ایک جگر پاش واقعہ ہے کہ ہم پانچ بھائی بہنوں کی زنجیر میں سے وسطی کڑی جس کے ایک طرف دو بھائی رہ گئے ہیں اور دوسری طرف دو بہنیں ہیں اپنی زنجیر سے کٹ کر عالم ارواح میں پہنچ

Page 258

تاریخ احمدیت 249 چکی ہے.فانا لله و انا اليه راجعون و كل من عليها فان و يبقى وجه ربك ذو الجلال و الاكرام عزیز میاں شریف احمد صاحب نے بڑی لمبی بیماری کاٹی اور اسے غیر معمولی صبر شکر اور ہمت کے ساتھ برداشت کیا.گزشتہ ہیں اکیس سال کے طویل عرصہ میں ان پر کئی ایسے مواقع آئے جبکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ بس اب زندگی کا خاتمہ ہے لیکن ہمیشہ خدائی رحمت کا ہاتھ انہیں گویا بازو سے پکڑ کر موت کے منہ میں سے باہر کھینچ لیتا رہا اور ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام بار بار پورا ہوا کہ عمرة الله على خلاف التوقع یعنی خدا تعالیٰ نے اسے توقع (یعنی ظاہری حالت ) کے خلاف عمر دے گا.یہ ایک حقیقت حال ہے کہ میاں شریف احمد صاحب پر گزشتہ بیس بائیس سال میں بار بار بیماری نے ایسے حملے کئے کہ کئی دفعہ بظاہر مایوسی کی حالت نظر آنے لگتی تھی مگر خدا تعالیٰ انہیں توقع کے خلاف بچاتا اور عمر دیتا گیا حتی کہ مقد ر وقت آ گیا جس سے کوئی ابن آدم بچ نہیں سکتا.یاد رکھنا چاہئے کہ اس الہام میں جو او پر درج کیا گیا ہے لمبی عمر کا کوئی ذکر نہیں ہے ( گوبہر حال ساڑھے چھیاسٹھ سال کی عمر بھی کوئی چھوٹی نہیں) بلکہ صرف توقع کے خلاف عمر پانے کا ذکر ہے اور یہ عمر عزیز میاں شریف احمد صاحب نے پائی بلکہ بار بار پائی.خدا کے کلام میں اکثر کچھ نہ کچھ اخفاء کا پردہ ہوا کرتا ہے.اس پردے کے ماتحت بے شک بعض لوگ بظاہر یہی سمجھتے رہے کہ میاں شریف احمد صاحب کو لمبی عمر ملے گی مگر اصل خدائی وحی میں لمبی عمر پانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ صرف ” توقع کے خلاف‘عمر پانے کا ذکر تھا اور یہ خدائی پیش خبری ایسے عجیب و غریب رنگ میں پوری ہوئی کہ اب جب حقیقت کھل چکی ہے ان الفاظ پر غور کرنے سے ایک خاص قسم کا روحانی سرور حاصل ہوتا ہے اور دل اس ایمان سے بھر جاتا ہے کہ خدا حق ہے اور خدا کا کلام حق ہے.حضرت مسیح موعود خدا کے بچے مامور مرسل ہیں.اللهم صلی علیه و على مطاعه محمد و بارك و سلم.عزیز میاں شریف احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بعض لحاظ سے خاص مشابہت تھی.یہ مشابہت جسمانی نوعیت کے لحاظ سے بھی تھی اور اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی تھی.جسمانی لحاظ سے تو انکا نقشہ اور خد و خال اور رنگ ڈھنگ حضرت مسیح موعود جلد 21

Page 259

تاریخ احمدیت 250 علیہ السلام سے دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور اس مشابہت کو ہر غور کی نظر سے دیکھنے والا انسان محسوس کرتا اور پہچانتا تھا.چنانچہ ان کے جنازے کے وقت مجھ سے بعض دوستوں نے از خود بیان کیا کہ انکا حلیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت ملتا ہے اور یہ مشابہت وفات میں اور بھی نمایاں ہو گئی تھی اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی ہمارے مرحوم بھائی کو بعض لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خاص مشابہت تھی.مثلاً اہم امور میں فیصلہ کرتے ہوئے یا مشورہ دیتے ہوئے انکی رائے بہت متوازن اور صائب ہوتی تھی.وہ نہ تو اپنے ایک بھائی کی طرح زبر دست جلالی شان رکھتے تھے (گو یہ جلال بھی ایک خدائی پیش گوئی کے مطابق ہے ) اور نہ ان میں دوسرے بھائی کی طرح نرمی اور فروتنی کا ایسا غلبہ تھا جو بعض لوگوں کی نظر میں کمزوری کا موجب سمجھا جاسکتا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح ان کے مزاج میں بھی ایک لطیف قسم کا توازن پایا جاتا تھا.عفو وشفقت کے موقع پر وہ پانی کی طرح نرم ہوتے تھے جو ہر چیز کو رستہ دیتا چلا جاتا ہے مگر سزا اور عقوبت کے جائز مواقع میں وہ ایک چٹان کی طرح مستحکم تھے جسے کوئی جذ بہ یا کوئی خیال اپنی جگہ سے متزلزل نہیں کر سکتا تھا اور طبیعت میں نہایت سادگی اور غریب نوازی تھی.کیا عجب کہ ان کی اسی جسمانی اور اخلاقی مشابہت کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام میں اشارہ ہو کہ اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں“ انہوں نے بہر حال ظاہری اور انتظامی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوری جانشینی حاصل نہیں کی تو پھر لامحالہ استعارے کے رنگ میں اس الہام کی یہی تشریح سمجھی جا سکتی ہے جس کی طرف او پر اشارہ کیا گیا ہے.عزیز میاں شریف احمد صاحب ایک دفعہ جماعت احمدیہ کے نظام میں قاضی بھی مقرر ہوئے تھے اور محترم شیخ بشیر احمد صاحب حال بحج ہائی کورٹ انکے ساتھ قاضی تھے.شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے اس دوران میں میاں شریف احمد صاحب کو بہت پختہ اور صائب رائے پایا.جو بہت جلد حقیقت کو پا کر بڑی مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم ہو جاتے تھے اور نا واجب نرمی اور نا واجب سختی سے کلی طور پر بیچ کر رہتے تھے اور انصاف کے تر از وکو پوری طرح قائم رکھتے تھے.اس طرح ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ جلد 21

Page 260

تاریخ احمدیت 251 مکاشفہ بھی پورا ہوا کہ:.اس نے قاضی بنتا ہے“ میاں شریف احمد صاحب کی زندگی میں عسرویسر کے متعد د دور آئے اور ہر دور میں انہوں نے اپنا شاہانہ مزاج قائم رکھا.وہ دل کے درویش تھے مگر مزاج کے بادشاہ تھے.ئیسر کی حالت کا تو کیا کہنا ہے عسر میں بھی وہ اپنے شاہانہ مزاج کو قائم رکھتے تھے اور اپنے ہاتھ کو تنگی کے ایام میں بھی روکتے نہیں تھے اور غرباء کی مدد میں بھی بڑی فیاضی سے حصہ لیتے تھے.بعض دفعہ تو ایسا ہوا کہ انہوں نے رستہ چلتے ہوئے کسی غریب کو پاس سے گزرتے دیکھا تو جھٹ جیب میں سے سو روپے کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا.لینے والا حیرانی میں مبتلا ہو کر اپنی آنکھیں ملتا رہا.اور یہ درویش بادشاہ خاموشی سے آگے نکل گیا.اپنے خرچ پر کنٹرول نہ کرنے کی وجہ سے وہ بسا اوقات قرض میں بھی مبتلا ہو جاتے تھے مگر ان کی شاہ خرچی کے انداز میں کبھی فرق نہیں آیا.ساری عمر اسی شاہانہ ڈگر پر قائم رہے.غالبا انکی ولادت کے موقع پر خدائی فرشتوں نے آسمان پر انکی آئندہ زندگی کا نظارہ دیکھ کر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کانوں میں یہ خدائی الفاظ پہنچادئے ہونگے کہ:.وہ بادشاہ آتا ہے“ دراصل یہ چاروں الہام جو او پر درج کئے گئے ہیں عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی ذاتی زندگی اور ذاتی سیرت کے مختلف پہلوؤں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے نازل ہوئے تھے.مگر تعجب نہیں کہ آگے چل کر ان کی نسل میں ان مکاشفات کے بعض ظاہری پہلو بھی رونما ہوں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی بات خدا کی طرف سے ظاہر کی جاتی ہے وہ بعض اوقات اس کی بجائے اسکی اولاد یا نسل میں پوری ہوتی ہے جیسا کہ ہمارے آقا آنحضرت اللہ نے اپنے ہاتھ میں قیصر و کسری کے خزانوں کی کنجیاں دیکھیں مگر آپ ان کنجیوں کے ملنے سے پہلے ہی فوت ہو گئے اور یہ کنجیاں آپ کے خلفاء اور روحانی فرزندوں کے ہاتھ میں آئیں یا جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے ابو جہل کے ہاتھ میں جنت کے انگوروں کا خوشہ دیکھا مگر ابو جہل کفر کی حالت میں ہی مر گیا اور یہ بشارت اس کے لڑکے حضرت عکرمہ میں پوری ہوئی.یا جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ مکہ فتح ہوا ہے اور حضور نے مکہ کا انتظام اسید کے سپرد کیا ہے مگر اسید آ پکی زندگی میں ہی فوت ہو جلد 21

Page 261

تاریخ احمدیت 254 252 گیا اور آپ نے مکہ فتح ہونے پر اس کے بیٹے عتاب بن اسید کو مکہ کا حاکم مقرر کیا.یہ قدرت خداوندی کے عجائبات ہیں جن سے روحانی دنیا معمور نظر آتی ہے اور خدا اپنے مصالح کو بہتر سمجھتا ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے در نشین والے پنج تن میں درمیانی کڑی درمیان میں سے کٹ کر آسمان کی طرف پرواز کر گئی اور ہم بہن بھائی پانچ میں سے چار رہ گئے ہیں.2- عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی وفات پر اب قریبا ہیں دن گزر چکے ہیں مگر ابھی تک ان کے متعلق غم وحزن اور نقصان کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اور طبیعت میں بہت بے چینی رہتی ہے.انکی وفات گو میں اکیس سال کی لمبی بیماری کے بعد ہوئی اور اس دوران میں کئی خطرے کے وقت آئے مگر با وجود اس کے ان کی وفات ایسی اچانک ہوئی ہے کہ اب تک انکی وفات کا یقین نہیں آتا.دوسری طرف وہ دن بھی جلسہ سالانہ کے دن تھے جس کی گوناگوں مصروفیتوں اور ذمہ داریوں میں انکی وفات یوں ہوئی کہ گویا ایک تیز رفتار بگولہ آیا اور ہمارے سروں پر سے تیزی کے ساتھ گزر گیا اور خدا نے اپنے خاص الخاص فضل سے ہمارے دلوں میں اتنی مضبوطی اور صبر کی کیفیت پیدا کی کہ جلسہ کے سارے کام اپنی پوری شان اور پورے التزام کے ساتھ تکمیل کو پہنچ گئے.و ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم.مگر جب جلسہ کا ہنگامہ گزرگیا اور خدا نے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سرخرو کیا اور طبیعت نے عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی طوفانی بیماری اور بیماری کی تکالیف اور پھر ان کی اچانک وفات کے حالات پر سوچنے اور غور کرنے کی مہلت پائی تو ( خدا ہمیں بے صبری سے بچائے اور اپنا صابر اور شاکر بندہ رکھے ) انکی جدائی پر غم وحزن کا احساس بڑھ رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پتھروں کی ایک مضبوط عمارت جو پانچ پتھروں کے باہم پیوست ہونے کی وجہ سے اپنے بانی کی وفات کے بعد چون سال سے ایک پختہ چٹان کی طرح قائم تھی اس میں سے ایک پتھر اور پتھر بھی وسطی پتھر اچانک الگ ہو کر خلا پیدا کر گیا ہے.مگر ہم اپنے آقا محمد مصطفی امیہ کے ان پیارے الفاظ کے سوا اور کچھ نہیں کہتے کہ العين تدمع والقلب يحزن و ما نقول الا ما يرضى بهِ الله و انا بِفَرَاقٍ أَخِيُنَا لمحزونون جلد 21

Page 262

تاریخ احمدیت 253 ہمارا بھائی گو پبلک میں نسبتا کم آیا مگر اس میں بہت سی خوبیاں تھیں جو حقیقتہ قابل رشک تھیں.سادہ مزاجی ، غریب پروری ، ہمدردی ہنگی اور تکالیف میں صبر وشکر اور اس پر خدمت دین اور جماعتی اتحاد کا جذبہ اور اصابت رائے ایسی باتیں ہیں جن سے ان کی روح میں ایک خاص قسم کا جلا پیدا ہو گیا تھا.انہوں نے اپنی طویل اور تکلیف دہ بیماری کو جس ہمت اور صبر کے ساتھ برداشت کیا وہ انہیں کا حصہ تھا.میں تو جب گزشتہ میں بائیس سال کے حالات پر نظر ڈالتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ انہوں نے کس ہمت اور ضبط اور صبر و شکر سے ان حالات کو برداشت کیا اور کبھی ایک کلمہ ناشکری کا اپنی زبان پر نہیں لائے.مگر افسوس کہ ہم ان کی خدمت کا حق ادا نہیں کر سکے.بعض باتیں تحریر میں نہیں لائی جاسکتیں اور یہ باتیں اکثر لوگوں کی نظر سے اوجھل ہیں لیکن جو لوگ جانتے ہیں وہ ان کی قدر و قیمت کو پہچانتے ہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں سے دعائیں اٹھ اٹھ کر آسمان کی طرف جاتی ہیں.اپنی لمبی بیماری کی وجہ سے ہمارے مرحوم بھائی کے دل میں بیماروں کی ہمدردی کا خاص جذبہ پیدا ہو گیا تھا انکی وفات کے بعد ام مظفر کی ایک خادمہ نے مجھے بتایا کہ جب ام مظفر ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے میوہسپتال میں بیمار تھیں اور انہیں بہت تکلیف تھی تو میاں شریف احمد صاحب ان کی عیادت کے لئے قریباً روز آتے تھے.ایک دفعہ ام مظفر احمد بہت بے چین تھیں اور ٹکور کے لئے گرم پانی کی ضرورت تھی انہوں نے اپنی خادمہ سے کہا کہ پانی گرم کر کے لاؤ اور میرے بستر میں گرم پانی کی بوتل رکھ دو.خادمہ کو اس کام میں کچھ دیر گی تو میاں شریف احمد خود اٹھ کر اور ساتھ والے کمرے میں جا کر پانی گرم کرنے میں مدد دینے لگ گئے اور خادمہ سے کہنے لگے : ” جلدی کر ان کو تکلیف ہے.تو نہیں جانتی کہ بیمار کا دل کتنا حساس ہوتا ہے." وفات سے قبل کمزوری کی وجہ سے گر گئے اور بازو میں چوٹ آئی اور کلائی کی ہڈی میں کر یک (CRACK ) آ گیا مگر با وجود اس کے جلسہ کا انتظام دیکھنے کے لئے موٹر میں گئے اور بعض ہدایات بھی دیں.مگر چونکہ ہڈی کی چوٹ کا دل پر اثر ہوتا ہے اور وہ پہلے سے دل کے مریض تھے اور ایک سال قبل دل کا سخت حملہ ہو چکا تھا اس لئے تیسرے دن اچانک داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنی جوڑی تو ڑ کر آسمان کی طرف پرواز کر گئے.غالبا حکیم سید پیر احمد صاحب سیالکوٹی نے ان کی وفات سے ایک رات قبل جو یہ خواب دیکھی تھی کہ حضرت جلد 21

Page 263

تاریخ احمدیت 254 جلد 21 مسیح موعود علیہ السلام میاں شریف احمد صاحب کا ہاتھ دبا رہے ہیں اس میں اسی بازو کی تکلیف کی طرف اشارہ تھا.اللہ اللہ محبت اور شفقت کا کیا عالم ہے.کاش ہمیں بھی دوسری دنیا میں یہ شفقت اور یہ محبت نصیب ہو.ایک عورت نے ان کی وفات پر خوب کہا کہ پنجاں دی جوڑی بوڑی ہو گئی.بوڑا پنجاب میں اسے کہتے ہیں جس کا کوئی دانت درمیان میں سے ٹوٹ کر خلا پیدا کر دے.سو دنیا میں تو یہ خلا پیدا ہو گیا مگر خدا تعالیٰ ایسا کرے کہ آسمان میں کوئی خلا پیدا نہ ہو.مجھے اس وقت وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب ہم پانچوں بہن بھائی اکٹھے حضرت اماں جان کی آغوش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک سائے کے نیچے رہتے تھے.اب دعا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری اولاد نیکی اور تقویٰ اور خدمت دین پر قائم رہتے ہوئے آخرت میں پھر حضور کے قدموں میں اکھٹی ہو اور سرخرو ہو کر آسمان میں پہنچے.آمین.میں نہیں جانتا کہ میں نے یہ مضمون ( جب کہ میں پہلے ایک مضمون لکھ چکا ہوں) کیوں لکھا ہے.الا حاجةً في نفس يعقوب قضاها.خاکسار مرزا بشیر احمد لاہور 13/1/62‘ 255 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے تاثرات تحریر فرمایا :- حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے پھر باپ ہو جہاں میں پیدا تو بھائی ہو“ کے زیر عنوان 26 دسمبر 1961ء صبح کے وقت میں جلسہ گاہ میں جانے کے لئے تیار ہو کر کمرے سے نکلی تھی کہ ایک عزیز نے یہ خبر سنادی کہ میرے پیارے چھوٹے بھائی آخری سانس لے رہے ہیں.یہ الفاظ ایک تیر تھا کہ سینے سے پار ہو گیا.مجھے نہیں معلوم کہ کس طرح میں وہاں پہنچی.جا کر دیکھا تو خدا تعالیٰ کا منشاء پورا ہو چکا تھا.مصنوعی سانس دلانے کی بے کارسی کوشش جاری تھی جس کو ایک حد تک جاری رکھ کر چھوڑ دیا گیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.اسی وقت میں نے جھک کر پیشانی پر بوسہ دیا اور ان کے کان میں درد بھرے دل سے اپنے آقاو مولی محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المؤمنین علیھا السلام اور اپنے شوہر نواب صاحب کو اپنا سلام پہنچانے کی درخواست کی.اب تک دل نہیں مان الله

Page 264

تاریخ احمدیت 255 رہا تھا.خیال تھا کہ شائد ا بھی سانس چلنے لگے گا.مگر یہ جھوٹی امیدیں بشریت اور محبت کا تقاضا ہوتی ہیں.انسان کمزور ہے.میرے چھوٹے بھائی ( حضرت مرزا شریف احمد صاحب مرحوم) بائیس تئیس سال سے شدید دردوں وغیرہ سے علیل رہتے تھے.کئی کئی روز ان پر بڑے دکھ اور کرب کے گزرتے تھے مگر اب تین ساڑھے تین سال کا عرصہ ہوا کہ تھر مباسس کا حملہ ہوا.ہاسپٹل میں بھی داخل رہے.اس کے بعد تو دراصل وہ بہت سخت بیمار ہے.ذرا سنبھلتے پھر دل پر اثر ہوتا اور حالت گر جاتی.خصوصا وفات سے دو ماہ پہلے سے انکی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی.پاؤں پر گھٹنوں پر ورم ، دل کی کمزوری ، سر میں چکر کئی بار چلتے چلتے گرے اور چوٹیں بھی لگیں جن کے تصور سے دل پر چوٹ لگتی ہے.گویا تمام جسم ہی ضرب خوردہ تھا.وہ ”عالی دماغ “ وہ جو ہر قابل وہ نیر تاباں افسوس کہ بیماریوں کے بادل میں اکثر چھپارہا اور اس کی پوری روشنی سے اسکی قابلیت خدا داد سے دنیا فائدہ نہیں اٹھا سکی.انہوں نے ظاہری تعلیم بہت التزام سے یا کالجوں وغیرہ میں حاصل نہیں کی تھی مگر حضرت سید نا بڑے بھائی صاحب (حضرت خلیفہ اسیح الثانی) کی طرح ان پر بھی خدا تعالیٰ کا خاص فضل اس صورت میں نازل ہوا کہ ان کا علم وسیع تھا بہت ٹھوس تھا جو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس وقت پڑھا اور کہاں پڑھا ؟ مگر علم دین کے ہر پہلو پر عبور تھا.عربی ایسی اعلی پڑھاتے تھے کہ چند دن میں پڑھنے والے کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے.رائے صائب ہوتی.مشورہ ہمیشہ دیانتدارانہ ہوتا.علم تعبیر اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص ودیعت فرمایا تھا.ایسی اعلی تعبیر دیتے اور اتنی تفصیل سے خوابوں کے متعلق نکات بیان کرتے کہ طبیعت سیر ہو جاتی تھی.میں اپنے خواب ان کی یہ خصوصیت دیکھ کر ان کو ہی سنایا کرتی تھی.ایک بار خیال ظاہر کیا کہ میرا دل چاہتا ہے ایک تعبیر نامہ مرتب کروں جس میں نئی چیزوں اور خاص ہماری ملکی اشیاء کی بھی تعبیر میں لکھی جائیں.بیماریوں نے مہلت نہ دی افسوس.مجھ سے صرف کچھ کم دوسال ہی بڑے تھے.ہم دونوں اور مبارک احمد زیادہ ساتھ کھیلے اور وہ تو ساتھ پڑھے بھی.مگر باوجود انکے ہمیشہ بہت محبتانہ سلوک کے ان کے سادہ سادہ بے تکلف طریق کے ان کے علم وفضل انکی انتہائی شرافت کی وجہ سے میرے دل میں ان کی عزت اور ادب بڑھتے ہی گئے.علمی پہلو کے علاوہ وہ ایک نہایت شفیق، اسم بامسمی ، نہایت صاف جلد 21

Page 265

تاریخ احمدیت 256 دل، غریب طبیعت، دل کے بادشاہ، عالی حوصلہ، صابر متحمل مزاج وجود تھے.اس لئے نہیں کہ وہ میرے بھائی تھے بلکہ اس کو الگ رکھ کر کوئی بطور سچی شہادت کے مجھ سے ان کی بابت سوال کرے تو میں یہی کہوں گی کہ وہ ایک ہیرا تھے نایاب.وہ سراپا شرافت تھا.ایک چاند تھا جو چھپارہا اکثر.اور چھپے چھپے چپکے چپکے رخصت ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی آغوشِ رحمت میں پہنچ گیا.ان کے دکھ اور درد آخر ختم ہو گئے گو ہمارے دلوں میں بے شک انکی یاد اور درد جدائی قائم رہے گا.اللہ ہم سب کو دعاؤں سے خدمت کی توفیق دے اور ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے.آمین.میری اور انکی عمر میں بہت کم فرق تھا.ہر وقت کا ساتھ اکٹھے کھیلنا کودنا اور چھوٹے بھائی بہت شوخ وشنگ تھے بچپن میں مگر ہم کبھی نہیں لڑے.مجھے ایک بار بھی کبھی انہوں نے نہیں ستایا بلکہ ہمیشہ میرا ہی کہا مان لیتے.شادی ہوئی تو دوہرا رشتہ ہوا.میرے میاں کے داماد بنے اور کسی سال پھر بوزینب ( بیگم حضرت مرزا شریف احمد صاحب ) کی علالت کے سلسلہ میں ہمارے ہاں ٹھہرے اور ا کھٹے ایک گھر میں رہے.دنیا میں جیسا کہ ہو جاتا ہے ہوسکتا ہے کہ انکی یکجائی کے ایام میں کسی وقت کوئی بدمزگی ہو جاتی یا کوئی فرق برادرانہ تعلق میں آجا تا مگر نہیں ہرگز نہیں.” میرا بھائی میرا بھائی ہی بنارہا.لوگوں کی نظروں میں یہ ایک معمولی بات ہو سکتی ہے مگر میری نگاہ میں اس بات کی بے حد قد رتھی اور رہی اور اب دکھ کے ساتھ وہ اپنے چھوٹے بھائی انکی محبت انکی نرم و پیار بھری آواز اور اب انکی بیماری کے ایام اتنی تکلیف ہر وقت اٹھانا یاد آ کر دل کو بے قرار کر دیتا ہے.آپ نے ایک اور مضمون میں تحریر فرمایا کہ: ”میرے پیارے چھوٹے بھائی کے لئے الفضل میں جتنی طاقت تھی لکھ چکی ہوں.اب تک ان کا ذکر آتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے.ان کا نام سن کر آنسو نکل پڑنا چاہتے ہیں جن کو پی جانا پڑتا ہے.کیا لکھوں.مگر جولکھوں ایک لفظ بھی مبالغہ آمیز نہ ہو گا.نام شریف.دل شریف.تعلقات عزیز داری شریفانہ.قلب صافی.ہمدرد.پھر ہر ایک کے غمگسار.غریبوں کی امداد اپنی طاقت سے بڑھکر کرنے والے جسکو صورت دیکھ کر بھی ضرورت مند محسوس کیا جیب جھاڑ دی.خود مقروض بلکہ اکثر حاجتمندوں کے قرضے اتارے.کام چلوا دئے.غرض بادشاہ دل لے کر پیدا ہوئے تھے.مگر اپنی زندگی سادگی 256- جلد 21

Page 266

تاریخ احمدیت 257 جلد 21 میں گزار دی.کپڑے پھٹ جاتے مگر پرواہ نہ کرتے.جیسا ہوا پہن لیا.بے حد منصف مزاج.انصاف سے فیصلہ کرنے والے.مبارک اور مفید مشورہ دینے والے اور حق بات کہنے سے کبھی کسی کے سامنے بھی گریز نہ کرنے والے.بچے معنوں میں بہادر تھے.کوئی بات ہو مقابل میں خواہ عزیز اولاد ہو یا بیوی ( جنگی خاطر وعزت عمر بھر عزیز رہی) کھری اور انصاف کی بات صاف صاف کہہ دیتے.....بہت خوبیوں کے حامل تھے عوارض و علالت سے اس چاند کو گہن لگا رہا اور افسوس کہ ہمارے دلوں کو اپنی نہ بھولنے والی یا د کا داغ دے کر جلد رخصت ہو گئے.انا للہ و انا اليه راجعون اخلاق و شمائل پر طائرانہ نظر مبارکہ بیگم 258- حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اوصاف حمیدہ کا دلکش نمونہ تھے.آپ کا حلیہ اور آواز سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حلیہ مبارک اور آواز سے بہت ملتی تھی اور انداز گفتگو بہت سادہ اور دلکش تھا.قرآن شریف اور احادیث نبویہ سے آپکو از حد محبت تھی.نماز فجر کے بعد بلا ناغہ قرآن شریف کی تلاوت بآواز بلند فرماتے اور پھر تمام افراد خانہ کو حضرت مسیح موعود کی کتب کا درس دیتے تھے.تلفظ کی صحت کا خاص اہتمام فرماتے.اپنے بچوں ، پوتوں اور بعض بھتیجے اور بھتیجوں کو آپ نے ہی قرآن پڑھایا.بیت مبارک ربوہ میں آپ حدیث نبوی کا درس دیتے رہے جس میں علمی نکات کے علاوہ خاص روحانی رنگ بھی جھلکتا تھا.حضرت میاں صاحب سورۃ فاتحہ درود شریف اور یا حتی يا قيوم برحمتك نستغيث اور سبحان الله و بحمدہ سبحان الله العظیم کا ورد بکثرت کرتے.سفر میں نماز ہمیشہ پہلے وقت میں ادا فرماتے اور اسی کی تلقین دوسروں کو کرتے.آپ صاحب کشف اور مستجاب الدعوات تھے.ایک بار شکار کی غرض سے ریاست کپورتھلہ تشریف لے گئے.رات آپ کو ایک گاؤں میں گزارنا پڑی.جس گھر میں آپ مہمان ٹھہرے اس گھر کا ایک بچہ اسی رات اچانک کہیں کھو گیا اور با وجود تلاش کے نہ ملا.آپنے خاص توجہ اور درد سے دعا کرنی شروع کی کہ اے خدا میں ان کے گھر میں مہمان ہوں.میرے ہوتے ہوئے ان کو کوئی دکھ نہ پہنچے تو انکا بچہ پہنچا دے.دعا کی حالت میں ہی اللہ تعالیٰ نے کشفی رنگ میں دکھایا کہ بچہ محفوظ ہے اور ایک معمر شخص اس کو گھر پہنچانے آیا

Page 267

تاریخ احمدیت 258 جلد 21 ہے.آپ نے سب گھر والوں کو اسی وقت اطلاع دی کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو بتلایا ہے کہ بچہ ایک بوڑھے شخص کے ساتھ بخیریت پہنچ جائے گا.اس لئے سب آرام سے سو جائیں.صبح حضرت میاں صاحب نے روانہ ہونا تھا.مگر ابھی بچہ گھر نہ پہنچا تھا.اسپر آپ نے دوبارہ دعا کی کہ میں گھر والوں کو انتظار کی حالت میں چھوڑ کر نہیں جا سکتا.اے باری تعالیٰ اس بچے کو میرے ہوتے ہوئے پہنچا دے.خدا کی قدرت ! تھوڑے سے انتظار کے بعد ایک معمر شخص بچہ کو گھر لے آیا اور گھر والوں نے خوشی خوشی آپ کو روانہ کیا.20 260- حضرت میاں صاحب کے قیام لندن کا واقعہ ہے کہ آپکے انگریز سیکرٹری نے عرض کیا کہ سفر خرچ میں بہت کمی واقع ہو چکی ہے اور اب مزید سفر کا پروگرام مشکل معلوم ہوتا ہے.آپ نے فرمایا کہ کل انشاء اللہ رقم کا بندوبست ہو جائے گا اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ سے بہت دعا کی کہ اے خدا اس اجنبی ملک میں میرے لئے اپنی خاص نصرت نازل فرما اور ہماری ضرورتوں کو پورا فرما.چنانچہ اگلے روز بلکہ انگریز سیکرٹری بھی آپکے ہمراہ تھا.ایک شخص بازار میں آپ کو ملا جس نے آپ کو روک کر ” SAINT‘ (ولی) کہنا شروع کیا اور پھر ایک بڑی رقم کا چیک آپکی خدمت میں پیش کر کے آپ سے درخواست دعا کی.سیکرٹری اس واقعہ سے بہت متعجب ہوا اور کہنے لگا واقعی آپ لوگوں کا خدا نرالا ہے.حضرت میاں صاحب سلسلہ احمدیہ اور نظام خلافت کے بارہ میں بہت با غیرت تھے.اس بارہ میں کوئی معمولی بات بھی آپ برداشت نہ کر سکتے تھے.اس کا اندازہ حضرت میاں صاحب کی ایک مختصر تحریر سے بخوبی لگ سکتا ہے.آپ خلیفتہ اسیع الاول کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: اس موقع پر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے مخالفین کی خفیہ کارروائیوں کو خوب اچھی طرح جانتے ہوئے اور اس خطرے کو اچھے طور پر محسوس کرتے ہوئے کہ منکرین اس وقت خلافت کو جڑ سے اکھیڑ نا چاہتے ہیں.صرف دعا اور خشیت اللہ سے ان کا مقابلہ کیا.میں حضرت سیح موعود کے خاندان کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے اس بات کا گواہ ہوں کہ اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ہدایت اور اثر کے ماتحت ہمارے تمام خاندان نے خلافت کو خدا تعالیٰ کی امانت جانتے ہوئے اس کے قیام کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوشش کی اور حضور کے دل میں کسی وقت میں اور کسی رنگ میں بھی خود غرضی اور ذاتی مفاد کا خیال پیدا نہیں ہوا.والله على ما نقول شهید میں اس جگہ ایک بات لکھ دینا ضروری خیال کرتا ہوں.ہم جمعہ کی نماز کے بعد واپس آ رہے تھے اور میں اس وقت اس گلی سے گزر رہا تھا جو دفتر ڈاک سے تحریک جدید کے دفتر

Page 268

تاریخ احمدیت 259 کے پاس سے ہوتی ہوئی چوک میں آتی ہے.اس وقت میں نے ایک شخص سے سنا کہ حضرت خلیفتہ اسی فوت ہو گئے ہیں.اس فقرہ کو سن کر میرا پہلا جذ بہ ایک گھبراہٹ کا جذبہ تھا اور میں چند قدم باہر آنے کے لئے دوڑ امگر اچانک میں رک گیا اور اس گلی میں کھڑے ہو کر میں نے جو دعا کی وہ یہ تھی کہ اے خدا خلیفہ اسیح وفات پاگئے ہیں.اب تو جماعت کو فتنہ اور شقاق سے بچائیو.اس دعا کے بعد میں آگے بڑھا.خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے فتنہ سے بچالیا اور جو لوگ فتنہ پیدا کرنے والے تھے وہ خود اس میں ایسے ہے کہ مرکز سے ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گئے.جلد 21 میرا یہ واقعہ بیان کرنے سے صرف یہ مقصد ہے کہ ہماری طبائع نے حضرت خلیفہ المسیح ثانی کے اقوال وافعال سے جو اثر لیا وہ یہ تھا کہ ہمارے دلوں میں صرف ایک ہی تڑپ تھی کہ خدا تعالی کا قائم کردہ سلسلہ انی صحیح تعلیم پر قائم رہے اور یہ جذ بہ اپنے انتہائی کمال تک صرف حضرت خلیفتہ اسیح ثانی میں اس وقت موجود تھا اور ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو خلافت کے لئے اس لئے ہی چنا ہو گا کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں اتحاد ملت کی جو تڑپ اس وقت آپ کے دل میں تھی وہ کسی اور فرد میں موجود نہ تھی“.حضرت میاں صاحب ان احمدیوں سے غیر معمولی محبت کرتے تھے جو پُر جوش طور پر دعوت الی اللہ 262- میں پورے ذوق و شوق سے مصروف رہتے.200 آپ چاہتے تھے کہ سلسلہ کا کام پوری با قاعدگی سے ہو اور آپ کے ساتھیوں میں ذمہ داری کا پورا پورا احساس ہو.آپ ہمیشہ ماتحت عملہ سے احسان کا سلوک فرماتے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب ناظر امور خارجہ فروری 1926ء کو جالندھر کے دورہ پر تشریف لے گئے جہاں ٹیریٹوریل فورس میں احمدیوں کی بھی ایک کمپنی تھی جس کے کمان افسر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب تھے.حضرت مفتی صاحب کا بیان ہے: ” میں نے فوج میں پھر کر اور سپاہیوں اور افسروں سے مل کر اس امر کو غور سے ملاحظہ کیا کہ فوج کے تمام لوگ خواہ وہ عیسائی ہوں یا سکھ یا مسلمان یا ہند وسب حضرت صاحبزادہ میرزا شریف احمد صاحب کا بہت ادب و احترام کرتے ہیں اور آپ کے چہرے میں خدا تعالیٰ نے ایسی نورانی کشش رکھی ہے جو ہر ایک کو آپ کا گرویدہ بنا دیتی ہے.20 آپ وقت کی پابندی کا بہت اہتمام فرماتے.جس جلسہ کا انتظام آپکے ہاتھ میں ہو یا آپ نے 66

Page 269

تاریخ احمدیت 260 تقریر فرمانی ہو اس کا آغاز یقینی طور پر وقت مقرر پر ہوتا تھا.جلد 21 مسلسل محنت آپ کا شعار تھا.نہایت بخار اور سر درد کی حالت میں بھی سلسلہ کا کام جاری رکھتے تھے اور چلتے پھرتے ضروری مسودات کی اصلاح بھی فرماتے تھے.اصابت فکر میں بھی آپ لا جواب تھے.حضرت میاں عزیز احمد صاحب کا بیان ہے کہ ”حضرت میاں صاحب جب صدر انجمن کے اجلاس میں تشریف فرما ہوتے اور کسی معاملہ میں بحث ہوتی تو ہم یہ خیال کرتے کہ حضرت میاں صاحب اس معاملہ میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے مگر جب ہم اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہوتے تو حضرت میاں صاحب ایسی مختصر مگر مدلل رائے کا اظہار فرماتے کہ ہم سب حیران رہ جاتے اور ہمیشہ ان کی رائے قبول کی جاتی “.آپ ایک بہادر جرنیل تھے جنکی زندگی شجاعت کے کارناموں سے لبریز ہے.صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب فرماتے ہیں:.آپ خوف کا تو نام بھی نہ جانتے تھے.آپ نے کسی کام کے متعلق یہ نہیں کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا.1953ء میں آپ رتن باغ میں مقیم تھے.لاہور میں جوالا مکھی کا آتش فشاں پہاڑ بنا ہوا تھا.جماعت کے خلاف تیز و تند جلوس نکالے جاتے تھے.آپ کئی دفعہ کوٹھی سے باہر نکل جاتے.ہم گھبراتے کہ آپ اکیلے کہاں چلے گئے.واپس تشریف لاتے تو فرماتے میں تو جلوس دیکھنے گیا تھا حالانکہ آپ کو تمام ما حول جانتا تھا.آپ ان کے لئے کوئی اجنبی نہ تھے.200 جناب ملک محمدعبد الله فاضل عربی وارد و سابق لیکچرار تعلیم الاسلام کا لج ربوہ رقمطراز ہیں:.حضرت مرزا شریف احمد صاحب سے ابتدائی تعارف تو مدرسہ احمدیہ میں طالب علمی کے زمانہ میں ہوا.میں اس وقت جماعت چہارم میں پڑھتا تھا کہ ایک دن حضرت میاں صاحب ہماری کلاس میں تشریف لائے آپ کی آمد پر سب لڑکے احتراماً کھڑے ہو گئے.نہایت وجیہہ اور نورانی شکل کے مالک تھے.معلوم ہوا کہ آپ بانی سلسلہ کے فرزند حضرت مرزا شریف احمد صاحب ہیں اور آپ ہماری کلاس کو عربی ادب کی مشہور کتاب کلیلہ دمنہ پڑھایا کریں گے جو ہمارے نصاب کی کتاب ہے.یہ شرف صرف ہماری کلاس کو حاصل ہوا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب صرف ایک پیریڈ ہمیں پڑھا کر دفتر صدر انجمن احمد یہ میں اپنے مفوضہ کام کے لئے چلے جاتے.آپ کے پڑھانے کا انداز اتنا دل نشین اور آواز اس

Page 270

تاریخ احمدیت 261 جلد 21 قدر شیر میں تھی کہ تمام طلباء آپ کے پڑھاتے وقت ہمہ تن گوش رہتے اور وقت ختم ہونے پر یہی خواہش ہوتی کہ ابھی کچھ اور پڑھائیں.ازاں بعد 1937 ء میں جب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ساتھ تالیف و تصنیف ک کام پر لگایا گیا تو کچھ عرصہ بعد حضرت فضل عمر نے ایک سال کے لئے حضرت میاں صاحب کو ایک اہم کام پر لگایا اور اس عرصہ میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب ناظر تالیف و تصنیف مقرر ہوئے.دو تین دن کے بعد آپ نے مجھے بلا کر میرے کام کا جائزہ لیا اور فرمایا کہ اس وقت آپ کیا کام کر رہے ہیں.میں نے عرض کیا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے طلباء اور جماعت کے نوجوانوں کے لئے ایک مجموعہ احادیث مرتب کرنے کا کام میرے سپرد فرمایا ہے اور آپ کی بدولت اور راہنمائی میں اس کے متعدد عنوان مقرر کئے گئے.اب ان کے مطابق احادیث منتخب کر کے معہ ترجمہ ان میں درج کر رہا ہوں.پچاس کے قریب احادیث جمع کر کے ان کا ترجمہ کیا ہے باقی تین صد احادیث ابھی منتخب کرنی ہیں.حضرت میاں صاحب نے ہر ایک حدیث اس کا ترجمہ اور عنوان ملاحظہ فرمایا اور ساتھ ہی مجھے ہدایات بھی فرماتے گئے.بعد ازاں مجھے ایک اصولی ہدایت فرمائی کہ احادیث کے انتخاب میں کسی اختلافی مسئلہ کے متعلق حدیث درج نہ کی جائے.یہی بات ان کے ترجمہ میں مد نظر رکھیں.ہاں ان کے پڑھنے والے پر نفسیاتی اثر ہونا چاہئے.براہ راست کوئی اختلاف پڑھنے والے کے سامنے نہیں آنا چاہئے.ی احادیث کا مجموعہ آپ کی زیر ہدایت مکمل ہوا.اس کا پیش لفظ بھی آپ نے تحریر فرمایا.اس کا نام ” کلام النبی تجویز ہوا.یہ کتاب جماعت کے ہائی سکول کی جماعت نہم اور دہم کے نصاب میں رکھی گئی.اس کے کئی ایڈیشن طبع ہوئے.ایک ایڈیشن حضرت سیٹھ عبد اللہ 269 الہ دین صاحب نے سکندر آباد دکن سے شائع کیا.200 آپ بلا شبہ دل کے بادشاہ تھے جیسا کہ حضرت مسیح موعود کو الہاما خبر دی گئی تھی اس سلسلہ میں آپکی زندگی میں بہت سے واقعات ملتے ہیں.نیک محمد خان صاحب کی روایت ہے:.آپ ملٹری میں تھے تو برہما کمپنی کیساتھ ATTACH تھے.برہمی لوگ بڑے فضول خرچ تھے.اپنی تنخواہ خرچ کر لیتے تو پھر حضرت میاں صاحب کے پاس تانتا لگارہتا.آپ مجھے حکم دیتے اسے ہیں روپے دے دو اس کو چالیس روپے دے دو اور بعض دفعہ بعض

Page 271

تاریخ احمدیت 262 آدمیوں کو آپ نے 80 روپے تک بھی دلائے.نیک محمد خان صاحب بیان کرتے ہیں ایک دفعہ میں نے عرض کیا حضرت میاں صاحب میرے پاس کوئی پیسہ نہیں.مجھ سے یہ سنا تو ڈیرہ دون میں مجھے غلام نبی صاحب کے پاس لے گئے اور فرمایا کہ یہ جتنے روپے مانگیں میرے حساب میں انہیں دے دیا کرو.چنانچہ اس کے بعد جب آپ کسی شخص کو بھجواتے میرے پاس پیسے نہ بھی ہوتے تو میں کہتا فلاں وقت آ کر لے جانا اور پھر میں اس کو وہاں سے لا کر دے دیتا.آپ نے ڈاک خانہ والوں کو کہہ دیا تھا کہ میرے تمام منی آرڈر بیمہ وغیرہ نیک محمد کو دے دیا کرو.حضرت صاحبزادہ مرزا امنصور احمد صاحب فرماتے ہیں:.د تقسیم ملک کے بعد ہم شروع شروع میں ماڈل ٹاؤن میں رہتے تھے.ماڈل ٹاؤن میں ایک پان فروش تھا جس کا چھوٹا سا کھوکھا بڑی سڑک کے کنارے ہوتا تھا.میں بھی کبھی اس سے پان لیتا تھا.ایک دن مجھے کہنے لگا وہ بزرگ جن کا کارخانہ ہے وہ آپ کے کیا لگتے ہیں.میاں صاحب فرماتے ہیں شائد اس نے میرے نقوش سے اندازہ کیا ہو یا مجھے کبھی آپ کے ساتھ دیکھا ہو میں نے کہا کیوں کیا بات ہے.کہنے لگا ایک دن وہ دکان پر تشریف لائے پوچھا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کساد بازاری ہے تو جیب سے سور و پیر کا نوٹ میرے ہاتھ میں تھما کر چل دئے.....چوہدری غلام مرتضی صاحب وکیل القانون فرماتے ہیں مالی امور میں مجھے حضرت میاں صاحب کے بہت قریب ہو کر کام کرنے کا موقعہ ملا.میرا تاثر یہی ہے جو ہمیشہ میرے قلب و دماغ پر غالب رہا ہے کہ وہ حد درجہ کے فراخ دل انسان تھے.ان کی دریادلی کو دیکھ کر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ بخدا وہ بادشاہ تھے....کئی مقدمات میں قانون انہیں حق دلاتا تھا لیکن آپ نے اخلاقی ضابطہ کو ترجیح دی اور اپنے حق کو چھوڑ دیا.بتلائیے کہ ایسے آدمی آج کی دنیا میں عنقا ہیں یا نہیں.....میں نے اس بارہ میں حضرت میاں صاحب کو بہت بلند پایا.وہ خدا کے بہت صابر و شاکر بندے تھے.21 حضرت مسیح موعود نے دعا کی تھی عنہ آوے انکے گھر تک رعب دجال جلد 21 حضرت میاں صاحب اس دعا کی قبولیت کا مجسم نشان تھے.ریکروٹنگ کے دوران بڑے بڑے

Page 272

تاریخ احمدیت 263 جلد 21 انگریز فوجی افسر آپ سے ملنے آتے آپ ان کی مہمان نوازی تو فرماتے لیکن انکی آمد کوکوئی غیر معمولی اہمیت نہ دیتے تھے.اسی طرح صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا بیان ہے کہ قادیان میں کارخانہ کے ضمن میں انگریز افسر آتے.آپ نہایت بے تکلفی کے ساتھ ان سے بات کرتے لیکن چونکہ آپ کی گفتگو معلومات سے پر ہوتی اور نہایت درجہ مؤثر ہوتی اس لئے آپ کی بات کا افسر بھی انکار نہ کرتے تھے اور جو افسر بھی آتا آپ کا گرویدہ ہو کر جاتا اور ہمیشہ آپ کا احترام کرتا.حضرت میاں صاحب بعض چیزوں کے موجد بھی تھے.مثلاً آپ نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا تھا جس سے شکار کے وقت فاصلہ ماپا جا سکتا تھا اور اس کے مطابق SIGHT کوفٹ کیا جا سکتا اور نشانہ زیادہ درست اور یقینی ہوسکتا تھا اسی طرح آپنے ایک چھوٹا سا پمپ بھی ایجاد کیا تھا جسے سائیکل کے ساتھ ADJUST کر دیا جا تا اور اگر سائیکل پینچر ہو جائے تو اتر کر ہوا بھرنے کی ضرورت نہ تھی اور خود بخود سائیکل میں ہوا بھر جاتی تھی.اسی طرح آپ نے کشتی کو سائیکل کی طرح چلانے کے لئے پیڈل سسٹم بھی ایجاد فرمایا تھا.حضرت میاں صاحب کی گھریلو زندگی بھی نہایت قابل رشک اور پاکیزہ تھی.صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا بیان ہے کہ:.273 بچوں کے ساتھ آپ کا سلوک بہت محبت اور شفقت کا ہوتا تھا.آپ بچوں میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا فرماتے.کسی چیز کے پیچھے پڑ کر اس پر زیادہ زور نہ دیتے تھے.باوجود اس کے کہ آپ بچوں کے ساتھ سیر و تفریح اور شکار کے لئے جاتے لیکن پھر بھی آپ کا اتنا ادب تھا کہ ہم آپ سے حجاب میں باتیں کرتے تھے اور اکثر دفعہ براہ راست بات کرنے سے ہچکچاتے تھے اور والدہ صاحبہ کی وساطت سے عرض کرتے.بچوں کو تیرنا بھی سکھاتے تھے.آپ کو شکار کے ساتھ تیرنے کا بہت شوق تھا.قادیان میں SWIMMING POOL آپ ہی کی توجہ اور محنت کا نتیجہ تھا.کئی مرتبہ پکنک میں حضرت اماں جان بھی آپ کے ہمراہ ہوتیں.لیکن حضرت نانی اماں سے آپ کا تعلق بہت تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا بہت ادب فرماتے تھے.حتی کہ بعض مرتبہ بات بھی کرنے سے گریز فرماتے تھے.گھر میں مسائل حاضرہ پر تبادلہ خیالات فرماتے.اپنا اجتہاد بھی بیان فرماتے.مگر اپنی رائے پر اصرار نہ فرماتے تھے.آپکی ذاتی لائبریری میں قرآن مجید تمام احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ لغت کی کتب قاموس اور منجد بھی موجود تھیں.میاں صاحب فرماتے ہیں تمام بچوں کی تاریخ پیدائش بھی لغت کے شروع

Page 273

تاریخ احمدیت 264 جلد 21 میں سفید ورق پر آپ تحریر فرماتے تھے.ٹیکنیکل کتب سے آپ کو بہت دلچسپی تھی.دس بارہ ہزار روپیہ کی ٹیکنیکل کتب کارخانہ میں منگوا کر رکھی ہوئی تھیں.شیعہ مذہب کا مطالعہ خاص طور پر فرماتے اور اکثر نواب احسان علی خان صاحب سے تبادلہ خیالات فرماتے لیکن آپکا طریق ایسا ہوتا تھا کہ کوئی آدمی اس سے چڑتا نہ تھا“.گھر میں آپکے لئے کوئی علیحدہ چیز تیار نہ کی جاتی تھی آپ بچوں کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا کرتے تھے.کھانے میں نہایت سادہ تھے.274 66 الغرض آپ نہایت مشفق اور مہربان باپ تھے اور آپ کی ذات بابرکات حدیث نبوی حمید لالی خیر کم خیر کم لاهله “ کی بہترین نمونہ تھی.نور اللہ مرقده حضرت مصلح موعود سے والہانہ عشق سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 22 فروری 2009 ء کو کلاس گلشن وقف نو کو خطاب فرماتے ہوئے بتایا:- ”میرے دادا...حضرت مرزا شریف احمد صاحب....ایک دفعہ مجھے ساتھ لے گئے کہ حضرت خلیفہ ثانی کو ملنے جانا ہے.صبح کا وقت تھا تو جب ان کے گھر پہنچے قصر خلافت میں تو وہ نیچے کھڑے ہو گئے.مجھے کہا کہ اوپر جاؤ تم جاکے بتا کے آؤ کہ میں ملنے آرہا ہوں اجازت لے کر آؤ.چھوٹے بھائی تھے لیکن اس طرح نہیں کہ کھولا دروازہ اندر گھس گئے گھر میں جس طرح ہمارے آجکل ہوتا ہے.پہلے مجھے بھیجا اوپر جاؤ حضرت چھوٹی آپا تھیں وہاں جا کر میں نے انہیں کہا کہ اس طرح میرے دادا کو ہم ابا جان کہتے تھے کہ انہوں نے ملنے ہے آنا ہے.حضرت خلیفہ ثانی کو پوچھا وہ لیٹے ہوئے تھے نا.انہوں نے کہا ٹھیک آجا ئیں.کوئی بات کرنی تھی پھر میں نیچے آیا ان کو بتایا پھر وہ اوپر گئے.پھر وہاں حضرت چھوٹی آپا حضرت ام متین نے کرسی رکھی تھی سرہانے ان کے جہاں وہ لیٹے ہوئے تھے نا، سر کی طرف بیٹھنے کے لئے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی.تو وہ انہوں نے کرسی ہٹا دی اور نیچے بیٹھ گئے.اور جو بھی باتیں کرنی تھیں مجھے باتیں تو یاد نہیں نو دس سال کی عمر میں کیا باتیں تھیں تو جو بھی باتیں تھیں کیں اس کے بعد بڑے احترام سے اٹھے اور آگے آئے اور وہ جو باتیں یہ مجھے تاثر ہے دونوں بھائیوں کی جو باتیں ہو رہی تھیں نا جو اپنی

Page 274

تاریخ احمدیت 265 جلد 21 جماعتی باتیں ہی ہو رہی تھیں لیکن اس میں بھی آپس کا ایک تعلق اور محبت اور پیار کا اظہار دونوں طرف سے چل رہا تھا.20 مبارک اولاد 276- 1.صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ولادت 17 مارچ 1911 ء.وفات 10 دسمبر 1997ء) 2.صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب ( ولادت 10 جولائی 1913 ء.وفات 23 فروری 1985ء) 3.صاحبزادہ مرزا دا ؤ د احمد صاحب ولادت 20 اگست 1914 ء وفات 7 مئی 1993ء) 4.صاحبزادی امتہ الود و د صاحبہ (ولادت 15 ستمبر 1918 ء.وفات 21 جون 1940 ء) مدفون بہشتی مقبرہ قادیان 5.صاحبزادی امۃ الباری بیگم صاحبہ ( ولادت 17 ستمبر 1928 ء ) بیگم نواب زادہ عباس احمد خان صاحب 6.صاحبزادی امتہ الوحید بیگم صاحبہ ولادت 1 3 اگست 1935 ء ) بیگم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب

Page 275

تاریخ احمدیت 266 جلد 21 جلسہ سالانہ ربوہ 1961ء فصل ششم يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ “ کے خدائی وعدہ کے مطابق اس سال 85 ہزار عشاق احمدیت ربوہ کے جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے جو دعاؤں، ذکر الہی اور انابت الی اللہ کی مخصوص روایات کے ساتھ 26، 27، 28 دسمبر 1961 ء کو منعقد ہوا.278 یہ جلسہ 26 دسمبر کو اس درد ناک حال میں شروع ہوا کہ عین اسی روز صبح کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر فرزند اور آپ کی صداقت کے عظیم نشان حضرت مرزا شریف احمد صاحب رحلت فرما گئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب پونے دس بجے صبح جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور احباب جماعت کو اس الم ناک حادثہ سے اطلاع دی تو جلسہ گاہ میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک یکدم رنج والم اور حزن و ملال کی لہر دوڑ گئی اور شدت غم کے باعث احباب کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے.حضرت میاں صاحب نے اس موقع پر ایک پر درد خطاب میں احباب کو صبر کی تلقین فرمائی بہر کیف اس صدمہ عظیم نے جلسہ کے پورے ماحول کو سوز و گداز اور رقت کی ایک خاص کیفیت میں بدل ڈالا اور احباب جماعت نے جلسہ کے مبارک ایام پہلے سے بھی زیادہ توجہ اور انہماک کے ساتھ ربانی باتوں کے سننے اور ذکر الہی میں بسر کئے.بیت مبارک اور بیت محمود میں ہر شب التزام کے ساتھ باجماعت نماز تہجد ادا کی گئی جو علی الترتیب حافظ محمد رمضان صاحب فاضل اور حافظ محمد عبد السلام صاحب وکیل المال تحریک جدید نے پڑھائی.آخری حصہ شب میں خدا کے یہ دونوں گھر نمازیوں سے اس طرح پر ہوتے کہ لوگوں کو ان میں جگہ ملنی مشکل ہو گئی اور بہت سے احباب کو کھلے صحن میں نماز پڑھنی پڑی.خصوصا بیت مبارک اپنی وسعت کے باوجود سخت نا کافی ثابت ہوئی.ہر چند کہ اس کے نصف حصہ صحن پر شامیانے نصب تھے تاہم جن احباب کو ان کے نیچے بھی جگہ نہ ملتی وہ شدید سردی کے باوجود کھلے صحن کے سیمنٹ سے تیار شدہ ٹھنڈے اور یخ بستہ فرش پر ہی نماز ادا کرتے رہے.اسی حالت میں وہ سجدوں کے دوران اللہ تعالیٰ کے حضور اس قدر تضرع اور آہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرتے رہے کہ پوری فضا ہچکیوں اور سسکیوں کی دردناک آوازوں سے گونج اٹھتی تھی.اس طور سے مسلسل تین دن تک اللہ تعالیٰ کے حضور دنیا میں غلبہ حق اور حضرت مصلح موعود کی صحت یابی کے لئے نہایت سوز و گداز سے اجتماعی دعائیں کی گئیں اور ذکر الہی اور پُر سوز دعاؤں کے باعث ربوہ کی مقدس سرزمین جلسہ کے مبارک ایام میں ہزاروں مومنین کی سجدہ گاہ بنی رہی.

Page 276

تاریخ احمدیت حضرت مصلح موعود کی املاء کر دہ تقاریر 267 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زبان مبارک سے جلد 21 اس مبارک اجتماع کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے با وجود ناسازی طبع کے افتتاحی تقریر اور اختتامی خطاب ہر دو خود لکھوا کر ارسال فرما دئے تھے جنہیں حضور کی زیر ہدایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے علی الترتیب پہلے اور آخری اجلاس میں ایسی پر شوکت آواز اور پُر درد لہجے میں پڑھ کر سنایا کہ ہزار ہا قلوب جو حضور کی زیارت اور براہ راست خطاب سے محرومی پر پہلے ہی انتہائی گداز کی حالت میں تھے تڑپ اٹھے اور حضور کی املاء کردہ اور روح پرور تقاریر انتہائی ذوق و شوق اور ولولہ عشق کے عالم میں سنیں.بالخصوص اختتامی اور خطاب کی سماعت کے وقت احباب کی وارونگی اور کیف و سرور کا یہ عالم تھا کہ جلسہ گاہ بار بار بے ساختہ نعرہ تکبیر اور حضرت فضل عمر زندہ باد اور احمدیت زندہ باد کے پُر جوش نعروں سے گونج اٹھتی تھی.اس پر معارف اور ایمان افروز تقریر کے آخر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک مختصر لیکن نہایت جامع اور پُر سوز دعائیہ خطاب سے نوازا اور در دوسوز میں ڈوبی ہوئی ایک لمبی اجتماعی دعا کرائی.20 ایمان افروز افتتاحی تقریر کا متن حضرت مصلح موعود کی روح پرور افتتاحی تقریر کا متن یہ ہے: اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر اللہ تعالیٰ کا بے حد و بے حساب شکر ہے کہ اس نے محض اپنے فضل سے ہماری جماعت کے دوستوں کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اپنی عمروں میں سے ایک سال اور سال کے اختتام پر دین اسلام کی تقویت اور اعلائے کلمتہ اللہ کی غرض سے اس مرکزی اجتماع میں شریک ہوں جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس کے مامور ومرسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے آج سے ستر سال قبل رکھی تھی.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو قائم کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو دنیا خواہ کتنا زور

Page 277

تاریخ احمدیت 268 جلد 21 لگائے وہ اسے مٹانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.دشمن اس کے خلاف شور بھی مچاتے ہیں منافق اس کے متعلق اعتراضات بھی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے کام ہمیشہ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں.یہاں تک کہ وہی بات جسے انہونی قرار دیا جاتا ہے ایک حقیقت بن کر ظاہر ہو جاتی ہے اور وہی جماعت جسے حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے آخر اپنے دلائل اور براہین کی رو سے تمام دنیا پر غالب آجاتی ہے.یہ سنت اس زمانہ میں ہماری جماعت کے ساتھ کام کر رہی ہے.ہر دن جو ہم پر طلوع کرتا ہے وہ ہمیں زیادہ سے زیادہ کامیابیوں اور عروج سے ہم کنار کرتا چلا جاتا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ اس کے ماننے والے لاکھوں سے کروڑوں اور پھر کروڑوں سے اربوں ہو جائیں اور اس ہدایت از لی کا شکار ہو جائیں گے جو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے.پس یہ ترقی تو ایک لازمی چیز ہے اور یقینا یہ ایک دن ہوکر رہے گی لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جب کسی مومن کو اللہ تعالیٰ کا کلام پورا کرنے کا موقعہ میسر آجائے تو اس کے لئے انتہائی خوشی کا موجب ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اسے اپنے کلام کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ بنا کر اس کے لئے بھی اپنی رحمت اور بخشش کا سامان شخص کا پیدا کر دیا ہے.دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ الہی پیشگوئیاں جن وجودوں سے پورا ہوتی ہیں یا جن مادی نشانات کے ذریعہ اس کی جلوہ نمائی ہوتی ہے قرآن کریم نے انہیں شعائر اللہ قرار دیا ہے اور شعائر اللہ کی عظمت ملحوظ رکھنا تقوی اللہ میں شامل ہے اور چونکہ ہمارا یہ جلسہ جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت رکھی گئی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشانوں میں سے ایک بہت بڑا نشان ہے اس لئے یہ بھی شعائر اللہ میں سے ہے اور ہم میں سے ہر فرض ہے کہ وہ اس کی عظمت کو پوری طرح ملحوظ رکھے اور اس کی برکات سے صحیح رنگ میں مستفیض ہونے کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے کہ امریکہ کا ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی ملاقات کیلئے قادیان میں آیا اور اس نے کہا کہ آپ مجھے اپنی

Page 278

تاریخ احمدیت 269 صداقت کا کوئی نشان دکھا ئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے فرمایا آپ خود میری صداقت کا ایک نشان ہیں.اس نے کہا یہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے اس وقت جب مجھے قادیان سے باہر کوئی بھی نہیں جانتا تھا الہام بتایا تھا کہ یاتون من كل فج عمیق یعنی اللہ تعالیٰ دور دراز علاقوں سے تیرے پاس آدمی بھیجے گا اور اتنی کثرت سے آئیں گے کہ جن راستوں پر وہ چلیں گے ان میں گڑھے پڑ جائیں گے.اب آپ بتائیں کہ کیا میرے دعوی سے قبل آپ میرے واقف تھے اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا پھر آپ جو یہاں میرا دعویٰ سن کر آئے ہیں تو الیمی تصرف کے ماتحت ہی آئے ہیں.پس آپ خود میری صداقت کا ایک نشان ہیں.اسی طرح آپ لوگ جو یہاں جمع ہوئے ہیں آپ میں سے بھی ہر فرد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے.کجا وہ زمانہ تھا کہ قادیان میں جب پہلا سالانہ جلسہ ہوا تو اس میں صرف پچھتر آدمی شریک ہوئے اور کجا یہ زمانہ ہے کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے نصف لاکھ سے زیادہ مخلصین اس جلسہ میں شریک ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے اور دنیا کے سامنے اس امر کا کھلے بندوں اعلان کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہو گیا مگر سلسلہ کی یہ عظیم الشان ترقی جہاں ہمارے دلوں کو خوشی سے لبریز کر دیتی ہے وہاں غم واندوہ کی ایک دردناک تلخی بھی اس میں ملی ہوئی ہے کیونکہ یہ خوشی جس مقدس انسان کے طفیل ہمیں میسر آئی وہ آج اس دنیا میں موجود نہیں ہے خود میرے احساسات کی تو یہ حالت ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس سلسلہ کی خدمت کی اور اس دنیا سے گذر گئے وہ مجھے آج تک نہیں بھولے.میری نظر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات آج بھی اسی طرح تازہ ہے جس طرح اس دن تھی جس دن آپ کا وصال ہوا پھر میری نظر میں حضرت خلیفہ اول کی وفات آج بھی اسی طرح تازہ ہے جس طرح اس دن تھی جب آپ کا انتقال ہوا کیونکہ میرے نزدیک وہ شخص جو اپنے کسی احسان کرنے والے کو بھول جاتا ہے وہ پرلے درجے کا محسن کش ہے.صبر کے یہ معنے نہیں کہ انسان اپنے محسنوں کو بھول جائے بلکہ صبر کے یہ معنے ہیں کہ کوئی صدمہ انسان کو اس کے اصل فرائض سے غافل نہ کر دے اور اس کی ہمت اور طاقت کو پست نہ کر دے ورنہ کسی صدمہ کا بھلا دینے کا نام صبر نہیں بلکہ احسان فراموشی ہے میں نے رسول کریم علیہ کی جلد 21

Page 279

تاریخ احمدیت 270 وفات کا اندوہناک سانحہ نہیں دیکھا مگر مجھے وہ دن بھی آج تک نہیں بھولا آج تک آپ کی وفات کے حالات میں نے کبھی نہیں پڑھے کہ میری آنکھیں فرط جذبات سے پر نم نہ ہوگئی ہوں اور مجھے اسی طرح درد و کرب محسوس نہ ہوا ہو جس طرح آپ کا زمانہ پانے والے مخلصین کو ہوا تھا.میں نے جب کبھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ پڑھا ہے کہ آپ صلى الله نے جب پہلی مرتبہ چکی سے پیسے ہوئے باریک آٹے کی روٹی کھائی تو رسول کریم ﷺ کو یاد کر کے آپ کے آنسو بہہ پڑے تو اس وقت میری آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگ جاتے ہیں.ایک عورت کہتی ہے میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ یہ بات کیا ہے کہ اتنی عمدہ روٹی کھا کر بھی آپ کے آنسو بہہ رہے ہیں.انھوں نے فرمایا جب میں نے اس روٹی کا ایک لقمہ اپنے مونہ میں ڈالا تو مجھے رسول کریم ﷺ یاد آ گئے کیونکہ آپ کے زمانہ میں چکیاں نہیں تھیں ہم صرف سلی بطہ پر غلہ کوٹ کر اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے تھے.مجھے خیال آیا اگر اس وقت بھی چکیاں ہوتیں اور میں رسول کریم ﷺ کو ایسے صل الله ملائم اور بار یک آٹے کی روٹی کھلاتی تو آپ ﷺ کو کتنی راحت پہنچتی.میری حالت بھی ایسی ہی ہے.سلسلہ کی کوئی ترقی اور کوئی فتح نہیں جو ایک رنگ میں میرے لئے غم کا نیا سامان پیدا نہیں کرتی کیونکہ اس وقت مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ آج اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ ہوتے تو جو فتوحات اور کامیابیاں ہمیں حاصل ہو رہی ہیں ان کے پھول ہم آپ کے قدموں میں جا کر ڈال دیتے مگر خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ لوگ جو اپنا خون بہا کر اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہلکان کر کے خدائی کھیتی میں بیج ڈالتے ہیں وہ پھل کاٹتے وقت اس دنیا میں موجود نہیں ہوتے لیکن ہمارا دل ان کو کب بھلا سکتا ہے ہم ان کی یاد کو کس طرح فراموش کر سکتے ہیں.ایک ایک کام جو ہمارے سلسلہ میں ہو رہا ہے ایک ایک علمی مسئلہ جو حل ہو رہا ہے ایک ایک فیضان الہی جوہم پر نازل ہورہا ہے انہی کی دعاؤں اور برکتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے پھر کون ایسا تنگ دل اور احسان فراموش انسان ہوسکتا ہے جو کھیت تو کاٹ کر لے آئے پھل تو اکٹھے کرلے مگر ان لوگوں کو یاد نہ کرے جنہوں نے کھیت میں بیج ڈالا اور پھلدار پودے لگائے.بے شک وہ اس وقت خوش ہو رہا ہو گا جب وہ پھل توڑ رہا اور کھیت کاٹ رہا ہو گا مگر اس کے ساتھ ہی اگر وہ خوشی سے ہنس رہا ہو گا تو دوسری طرف اس کی آنکھیں غم سے آنسو بھی بہا رہی ہوں گی کیونکہ وہ خیال کرے گا کہ جو جلد 21

Page 280

تاریخ احمدیت 271 خوشی مجھے حاصل ہو رہی ہے اس کا اصل حقدار وہی تھا جس نے کھیت بونے اور پودے لگانے میں اپنی زندگی خرچ کر دی.مجھے یاد ہے 1924ء میں جب میں لنڈن گیا اور میں نے وہاں مسجد کی بنیا درکھی تو اس وقت میری یہ کیفیت تھی کہ میرے آنسو تھمنے میں ہی نہیں آتے تھے.کیونکہ اس وقت وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر یہ اعلان فرمایا تھا کہ :.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“ جب یہ الہام پا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے اس دنیا کے مقابلہ میں جس کا ایک ایک فرد آپ کے خون کا پیاسا تھا آپ کو لالچی ، حریص ، خود غرض اور کیا کچھ کہ رہا تھا تو اس وقت آپ کی کیا حالت ہوگی.آپ اس مخالفت کو دیکھ کر دنیا سے متنفر ہوں گے.مگر خدا تعالیٰ نے کہا کہ اٹھ اور دنیا میں میرے نام کی منادی کر اور اسے کہہ دے کہ حان ان تعان و تعرف بين الناس.وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا ترکی مدد کرے اور دنیا میں تجھے لا زوال شہرت عطا کرے.اس وقت آپ کو بار بار یہ خیال آتا ہو گا کہ میں تو کسی شخص سے ملنا بھی نہیں چاہتا مگر میرا خدا مجھے کہتا ہے کہ جا اور لوگوں کو بلا آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم کو قبول کر کے وہ موت اختیار کی جس سے بڑھ کر انبیاء کے لئے اور کوئی موت نہیں ہوتی آپ گوشہ تنہائی سے نکل کر دنیا کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور دنیا سے وہ سب کچھ کہلوایا جو پہلے نبیوں کو کہا جاتا رہا ہے.کبھی کہا گیا یہ حریص ہے یہ مال و دولت جمع کرنا چاہتا ہے اور اپنی دکانداری چلانا چاہتا ہے بھی دنیا آپ کی باتوں پر ہنستی اور کہتی کیسی پاگلا نہ باتیں کر رہا ہے کبھی آپ کو مفسد اور فتنہ پرداز قرار دے کر طرح طرح کے دکھ دیئے جاتے کبھی آپ پر قسم قسم کے غلط اور جھوٹے الزام لگا کر کوشش کی جاتی کہ کسی کو آپ کی بات تک سننے نہ دی جائے.سوچو اور غور کرو کہ وہ کیسی تلخ گھڑیاں تھیں کیسا سخت زمانہ تھا جو آپ پر گذرا.لیکن جب ان دنوں کی دعاؤں اور کوششوں کے نتیجہ میں وہ بابرکت دن آئے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے نام کو دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ پھیلا دیا کامیابیوں اور فتوحات کے دروازے کھول دیئے تو وہ اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچ چکا تھا اور انعامات سے اور جلد 21

Page 281

تاریخ احمدیت 272 لوگ لطف اندوز ہورہے ہیں.اس قسم کے جذبات اور خیالات نے میرے دل کو قابو میں نہ رہنے دیا اور جب بھی ہمارے سلسلہ کو کوئی فتح حاصل ہوئی اس پر جہاں میں خوش ہوا کہ خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہوا وہاں میں غمگین بھی ہوا کہ اس وقت وہ ہستیاں نہیں ہیں جوان فتوحات کی بانی ہیں اور جو اس بات کی مستحق ہیں کہ ہم ان کے حضور اپنے اخلاص اور عقیدت کے سچے جذبات کا اظہار کریں.بہر حال ہم میں سے کوئی شخص اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ کے مسیح کے ہاتھوں زمین میں ایک بیج بویا گیا اور وہ بیج ہر قسم کی مخالفانہ ہواؤں کے باوجود بڑھا اور پھولا اور پھلا یہاں تک کہ آج اس پیج سے ایک ایسا شاندار درخت پیدا ہو چکا ہے جس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہیں اور جس پر ہزار ہا آسمانی پرندوں نے بسیرا کیا ہوا ہے مگر ابھی ضرورت ہے کہ ہم اپنے کام کو اور بھی وسیع کریں اور خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کے اظہار کے لئے اس مقدس مشن کی تکمیل میں اپنی عمریں صرف کر دیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دنیا میں مبعوث ہوئے تھے.مجھے سب سے پہلے یہ خیال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر آیا تھا جب آپ نے وفات پائی تو میں نے دیکھا کہ بعض لوگوں کے چہروں کی رنگت اڑ گئی اور ان کی زبانوں سے یہ الفاظ نکل آئے کہ اب کیا ہو گا.اس وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نعش کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عہد کیا کہ اے خدا اگر ساری جماعت بھی خدانخواستہ مرتد ہو جائے تو جس کام کے لئے خدا کا یہ پیارا دنیا میں آیا تھا اس کے لئے میں اپنی جان تک قربان کر دوں گا میں اپنی زندگی کی بہترین گھڑیوں میں سے وہ گھڑی سمجھتا ہوں جب خدا تعالیٰ نے مجھے اس عہد کی توفیق عطا فرمائی اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے ہر فرد کو بھی یہی توفیق عطا فرمائے اور اسے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی اہلیت بخشے.یہی وہ مقصد ہے جس کو جماعت کے سامنے بار بار پیش کرنے کے لئے اس جلسہ کی بنیاد رکھی گئی ہے پس آپ لوگ جو اس جلسہ میں شمولیت کے لئے باہر سے تشریف لائے ہیں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ حکمت کی ایک بات بھی بعض دفعہ انسان کی نجات کا موجب ہو جاتی ہے.اس لئے ہر بات جو یہاں بیان کی جائے اسے آپ پورے غور اور توجہ کے ساتھ سنیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.کیونکہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کونسی بات اس کے لئے نجات کا موجب بنے والی جلد 21

Page 282

تاریخ احمدیت 273 ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جن سے ہزاروں احادیث مروی ہیں وہ بیان کیا کرتے تھے کہ چونکہ میں بہت دیر کے بعد اسلام لایا تھا اور دوسرے لوگوں نے مجھ سے پہلے رسول کریمہ کی بہت سی باتیں سن لی تھیں اس لئے میں نے یہ عہد کر لیا کہ اب میں آپ کے دروازہ سے نہیں ہلوں گا.چنانچہ وہ ہر وقت مسجد میں رسول کریم علیہ کے دروازہ پر بیٹھے رہتے تا کہ جب بھی رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائیں تو وہ آپ کی باتیں سننے کے لئے مسجد میں موجود ہوں اس طرح بعض دفعہ انہیں سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا مگر وہ اس خیال سے نہیں اٹھتے تھے کہ ممکن ہے جس وقت میں جاؤں اس وقت رسول کریم ہے باہر تشریف لے آئیں اور جو کچھ آپ فرما ئیں میں اس کے سننے سے محروم ہو جاؤں.آپ لوگوں کو بھی اپنے اندر عشق کا یہی جذبہ اور یہی رنگ پیدا کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ جو کچھ آپ کو سنایا جائے اسے غور سے سنیں اور نیکی کی باتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کریں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو محمد رسول اللہ کی مجلس میں آتے ہیں اور پھر وہاں سے اٹھ کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص نے ابھی کیا کہا تھا قرآن کریم ایسے منافقوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا ہے کیونکہ وہ رسول کریم ﷺ کے کلام سے فائدہ نہیں اٹھاتے تھے.آپ لوگوں کو چاہیے کہ اس نقص کو بھی اپنے قریب بھی نہ آنے دیں اور توجہ اور انہماک کے ساتھ دین کی باتیں سنیں اور اپنے اوقات کا صحیح استعمال کریں تا کہ یہ گھڑیاں جو سال بھر کے بعد خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو عطا کی ہیں ضائع نہ ہوں بلکہ آپ ان سے پورا پورا فائدہ حاصل کر کے جائیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل اور عفو اور ستاری کو کام میں لاتے ہوئے ہم سے اپنی بخشش اور رحمت کا سلوک کرے اور ہماری جماعت کے تمام مردوں اور عورتوں اور بچوں کو زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت کی توفیق بخشے.کیونکہ جو کچھ ہو گا اسی کے فضل اور احسان سے ہوگا ہماری تمام کوششیں صرف ایک بیج کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن اس پیج کو بڑھانا اور ترقی دینا اور اس سے پھل پیدا کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اس لئے اسی کے آستانہ پر ہم جھکتے ہیں اور اس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے بابرکت کرے اور اسے جماعت کے اندر ایک نیا ایمان اور نیا اخلاص اور نیا جوش پیدا کرنے کا موجب بنائے اور ہمیشہ اس کے فضل ہماری جلد 21

Page 283

تاریخ احمدیت 274 جماعت کے شامل حال رہیں.امین.اللهم امين.“ روح پرور اختتامی خطاب کا متن 66 جلد 21 حضرت مصلح موعودؓ کے روح پر در اختتامی خطاب کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے.اس خطاب کے پر شوکت انداز میں پڑھنے کا اعزاز بھی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو حاصل ہوا جو مخلصین کے ازدیاد ایمان اور زندگی کی نئی روح پیدا کرنے کا موجب بنا اور قافلہ ایک بار پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گیا.اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمدا عبده و رسوله اما بعد فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين الرحمن الرحيم ملك يوم الدين اياك نـعبــد و اياك نستعين اهدنا الصراط المستقيم O صراط الذین انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين (أمين) احباب کو معلوم ہے کہ میری طبیعت ایک لمبے عرصہ سے نا ساز چلی آرہی ہے جس کی وجہ سے اب میرے جسم میں ایسی طاقت نہیں کہ میں سابق دستور کے مطابق کوئی لمبی تقریر کر سکوں مگر اس لئے کہ جماعت کے دوست اس سردی کے موسم میں سخت تکلیف اٹھا کر دور دور سے تشریف لائے ہوئے ہیں میں نے مناسب سمجھا کہ میں احباب کی توجہ کے لئے چند باتیں بیان کر دوں.مجھے 1914ء میں جب اللہ تعالیٰ نے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا تو اس وقت جماعت کی یہ حالت تھی کہ غیر مبایعین علی الاعلان کہ رہے تھے کہ پچانوے فی صدی جماعت ان کے ساتھ ہے اور صرف ۵ فیصدی جماعت نے ابھی خلافت تسلیم کی ہے.ان دنوں مخالفت کا ایک دریا تھا جو انڈا چلا آرہا تھا.انجمن کا خزانہ خالی پڑا تھا اور بڑے بڑے کارکن جن کا صدر انجمن احمد یہ پر قبضہ رہ چکا تھا مجھے گرانے اور نا کام کرنے کے درپے تھے اس وقت خدا ہی تھا جو میری تائید کے لئے اٹھا اور اس نے دوسرے ہی ہفتہ مجھ سے وہ ٹریکٹ لکھوایا جس کا یہ عنوان تھا کہ :.

Page 284

تاریخ احمدیت 275 کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اور جہاں جہاں یہ ٹریکٹ پہونچامتر در جماعتوں کے دل صاف ہو گئے اور سنبھل گئے اور وہ تاروں اور خطوط کے ذریعہ میری بیعت کرنے لگیں.پھر خدا نے مجھے انہی دنوں غیر مبایعین کے متعلق الہا مابتایا کہ ”لیمز قنهم ، یعنی وہ ان لوگوں کی جمعیت کو منتشر کر دے گا.چنانچہ تھوڑے ہی دنوں میں دنیا نے یہ عظیم الشان انقلاب اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہی جو اپنے آپ کو پچانوے فیصدی کہا کرتے تھے پانچ فیصدی رہ گئے اور جنہیں پانچ فیصدی کہا جاتا تھا وہ پچانوے فیصدی بن گئے.یہ فوج آخر کہاں سے آئی.بعض نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ اس وقت میرے ساتھ جماعت زیادہ ہے اس لئے میں ترقی کر رہا ہوں مگر میں کہتا ہوں جب ان کے دعوے کے مطابق میرے ساتھ صرف پانچ فیصدی جماعت تھی تو اس وقت کون تھا جس نے مجھے پانچ سے پچانوے فیصدی تک جماعت کو لے جانے کی توفیق بخشی پھر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ میں نے اس عرصہ دراز میں صرف غیر مبایعین کا ہی مقابلہ نہیں کیا بلکہ میں نے عیسائیوں کا بھی مقابلہ کیا ہے میں نے ہندوؤں کا بھی مقابلہ کیا ہے اور میں نے غیر احمدی مسلمانوں کا بھی مقابلہ کیا ہے.اور وہ کروڑوں کی تعداد میں تھے.اگر انسانوں پر ہی میری طاقت کا انحصار ہوتا تو کروڑوں مخالفوں کے مقابلہ میں میری ہستی ہی کیا تھی.مگر وہ کروڑوں ہونے کے باوجود مجھے خدا کے فضل سے نا کام نہ کر سکے اور ہر دن جو مجھ پر چڑھا وہ میری کامیابیوں کو زیادہ سے زیادہ روشن کرتا چلا گیا اسی طرح جب تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اندرونی منافقوں نے سر نکالا اور جماعت میں انہوں نے فتنہ پیدا کرنا چاہا تو اس وقت بھی صرف خدا ہی تھا جس نے میری مدد کی اور میں احمدیت کی کشتی کو پُر خطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے اسے ساحل کامیابی پر لے گیا آج بھی ایسے بیسیوں لوگ زندہ ہوں گے جو یہ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب وفات پاگئے تو انہی غیر مبایعین کے سرکردہ اصحاب نے جو اس وقت صدر انجمن احمد یہ پر قابض تھے یہ فیصلہ کیا کہ سلسلہ کا جو روپیہ علماء تیار کرنے پر خرچ ہو رہا ہے یہ بے فائدہ ہے.مدرسہ احمدیہ کو بند کر دینا چاہیے.اور صرف ہائی سکول میں دینیات کی تعلیم رکھ کر گزارہ کرنا چاہیے.چنانچہ انھوں نے تمام جماعتوں کو ایجنڈا بھیجا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد پہلے جلسہ جلد 21

Page 285

تاریخ احمدیت 276 کے موقعہ پر ہی جب تمام جماعتوں کے نمائندے اکٹھے ہوئے انھوں نے بیت مبارک میں ایک جلسہ کیا اور ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی تقریر کی اور کہا کہ اب ہمیں کسی نئے مسئلہ کی ضرورت نہیں کہ علماء تیار کرنا ہمارے لئے ضروری ہو.بہتر کہ مدرسہ احمدیہ کو بند کر دیا جائے اور لڑکوں کو وظائف دے کر سکولوں اور کالجوں میں بھیجا جائے اور انھیں ڈاکٹر اور وکیل بنایا جائے.ان تقریروں کا ایسا اثر ہوا کہ قریباً تمام جماعت ادھر چلی گئی اور ان میں اس قدر جوش بھر گیا کہ میں سمجھتا ہوں اگر مدرسہ احمدیہ کوئی آدمی ہوتا تو وہ اس کا گھلا گھونٹ دیتے.ابھی یہ تقریریں ہو ہی رہی تھیں کہ میں بھی وہاں جا پہونچا.اس وقت میری عمر بیس سال کی تھی ساری جماعت ایک طرف تھی اور چونکہ بہت سی تقریر میں ہو چکی تھیں اس لئے لوگ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ اب مزید تقریروں کی ضرورت نہیں.اس بات کا فیصلہ کر دیا جائے کہ مدرسہ احمدیہ کو بند کیا جاتا ہے.جب میں نے اس مجلس کی یہ حالت دیکھی تب میرے نفس نے مجھے کہا کہ اگر آج تو نے کچھ نہ کہا اور اس موقعہ پر نہ بولا تو پھر کب بولے گا چنانچہ میں تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا.اس وقت مجھے بعض آواز میں بھی آئیں کہ اب تقریریں بہت ہو چکی ہیں مگر میں نے ان آوازوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ آپ نے جو کچھ فیصلہ کیا ہے یہ آپ کے خیال میں ٹھیک ہوگا مگر ایک چیز ہے جواے جماعت احمدیہ کے لوگو! میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ہمارے کام آج ختم نہیں ہو جائیں گے بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں سالوں تک ان کا اثر چلتا چلا جائے گا.اور دنیا کی نگاہیں ان پر ہوں گی اور اگر ہم کسی کام کو چھپانا بھی چاہیں گے تو وہ نہیں چھپے گا بلکہ تاریخ کے صفحات پر ان واقعات کو نمایاں حروف میں لکھا جائے گا.اس نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف پھیرنا چاہتا ہوں کہ رسول کریم ہے جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو آپ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے ایک لشکر رومی حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار کیا اور حضرت اسامہ بن زید گو اس کا سردار مقرر فرمایا.ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات ہو گئی اور سوائے مکہ مدینہ اور طائف کے سارے عرب میں بغاوت رونما ہو گئی.اس وقت بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ نے مل کر مشورہ کیا کہ اس موقع پر اسامہ کا لشکر باہر بھیجنا درست نہیں کیونکہ ادھر سارا عرب مخالف ہے ادھر عیسائیوں کی جلد 21

Page 286

تاریخ احمدیت 277 ز بر دست حکومت سے لڑائی شروع کر دی گئی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی حکومت درہم برہم ہو جائے گی.چنانچہ انھوں نے ایک وفد حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں روانہ کیا اور درخواست کی کہ یہ وقت سخت خطرناک ہے اگر اسامہ کا لشکر بھی عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے چلا گیا تو مدینہ میں صرف بچے اور بوڑھے رہ جائیں گے اور مسلمان عورتوں کی حفاظت نہیں ہو سکے گی.اے ابو بکر ہم آپ سے التجاء کرتے ہیں کہ آپ اس لشکر کو روک لیں اور پہلے عرب کے باغیوں کا مقابلہ کریں.جب ہم انہیں دبا لیں گے تو پھر اسامہ کے لشکر کو عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے روانہ کیا جا سکتا ہے اور چونکہ اب مسلمان عورتوں کی عزت اور عصمت کا سوال بھی پیدا ہو گیا ہے اور خطرہ ہے کہ دشمن کہیں مدینہ میں گھس کر مسلمان عورتوں کی آبروریزی نہ کرے اس لئے آپ ہماری اس التجا کو قبول فرماتے ہوئے جیشِ اسامہ کو روک لیں اور اسے باہر نہ جانے دیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی منکسرانہ حالت کا اظہار کرنا چاہتے تو اپنے آپ کو اپنے باپ سے نسبت دے کر بات کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے باپ غریب آدمی تھے اور چونکہ ان کے باپ کا نام ابو قحافہ تھا اس لئے اس موقعہ پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیاوہ یہ تھا کہ کیا ابوقحافہ کا بیٹا خلافت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد پہلا کام یہ کرے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے جو آخری مہم تیار کی تھی اسے روک دے.پھر آپ نے فرمایا خدا کی قسم اگر کفار مدینہ کو فتح کریں اور مدینہ کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی صلى الله لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جسے محمد رسول اللہ ﷺ نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا یہ شکر جائے گا اور ضرور جائے گا.یہ مثال بیان کرنے کے بعد میں نے دوستوں سے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ لوگوں کا بھی یہ پہلا اجتماع ہے آپ لوگ غور کریں اور سوچیں کہ آئندہ تاریخ آپ کو کیا کہے گی.تاریخ یہ کہے گی کہ حضرت ابو بکر نے ایسے خطرہ کی حالت میں جبکہ تمام عرب باغی ہو چکا تھا اور جبکہ مدینہ کی عورتوں کی حفاظت کے لئے بھی کوئی مناسب سامان ان کے پاس نہ تھا اتنا بھی پسند نہ کیا کہ رسول کریم ہے کے ایک تیار کئے ہوئے لشکر کو روک لیں بلکہ آپ نے فرمایا کہ اگر مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں رسول کریم ﷺ کے حکم کو منسوخ نہیں کرونگا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جلد 21

Page 287

تاریخ احمدیت 278 وفات سے اڑھائی سال پہلے دسمبر 1905 ء کے جلسہ سالانہ پر تمام جماعت کے دوستوں سے مشورہ لینے کے بعد جس دینی مدرسہ کو قائم فرمایا تھا اور جس کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ وہ عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی یادگار ہوگا اور سلسلہ کی ضروریات کے لئے علماء تیار کرنے کا کام اس کے سپر دہوگا اسے مسیح موعود کی جماعت نے آپ کے وفات پانے کے معا بعد تو ڑ کر رکھ دیا.کیونکہ جس طرح جیش اسامہ کی تیاری کا کام خود رسول کریم اللہ نے فرمایا تھا اسی طرح مدرسہ دینیات کا اجراء خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی آخری عمر میں فرمایا تھا.پس دنیا کیا کہے گی کہ ایک مامور کی وفات کے بعد تو اس کے متبعین نے اپنی عزتوں کا بر باد ہونا پسند کرلیا مگر یہ برداشت نہ کیا کہ رسول کریم کا حکم باطل ہولیکن دوسرے مامور کے متبعین نے باوجود اس کے کہ ان کے سامنے کوئی حقیقی خطرہ نہ تھا اس کے ایک جاری کردہ کام کو اس کی وفات کے معا بعد بند کر دیا.جب میں نے یہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمام لوگوں کے قلوب کو میری طرف پھیر دیا اور بعض کی تو رفت کی وجہ سے چینیں نکل گئیں اور سب نے یکز بان ہو کر کہا کہ ہم ہرگز یہ رائے نہیں دیتے کہ مدرسہ احمد یہ بند ہونا چاہیے ہم اسے جاری رکھیں گے اور مرتے دم تک بند نہیں ہونے دیں گے.تب خواجہ کمال الدین صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے طریق کے مطابق کہا کہ دوستوں کو غلط فہمی ہوئی ہے ہمارا مطلب بعینہ وہی تھا جو میاں صاحب نے بیان کیا ہے.یہ خواجہ صاحب کا عام طریق تھا کہ جب وہ دیکھتے کہ ان کی کسی بات کو لوگوں نے پسند نہیں کیا تو کہتے کہ دوستوں کو غلط فہمی ہوگئی ہے.چنانچہ پھر انھوں نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ایک تقریر بھی کی مگر آخر میں کہا کہ اس پر مزید غور کر لیا جائے.ابھی ہم کوئی فیصلہ نہیں کرتے.بعد میں ہم خط و کتابت کے ذریعہ مشورہ حاصل کر لیں گے.انہوں نے سمجھا کہ شاید اسی طرح جماعت کی رائے ان کی تائید میں ہو جائے چنا نچہ کچھ وقفہ کے بعد انھوں نے پھر تمام جماعتوں سے رائے طلب کی مگر جماعت نے یہی لکھا کہ وہی فیصلہ ٹھیک ہے جو ہم قادیان میں کر کے آئے تھے.اب بتاؤ اس وقت کون تھا جس نے میری مدد کی.مجھے تو کہنے والے یہی کہتے تھے کہ اب کسی اور تقریر کی ضرورت نہیں بہت تقریریں ہو چکی ہیں اور معاملہ بالکل صاف ہے مگر خدا نے میری ہر میدان میں جلد 21

Page 288

تاریخ احمدیت 279 تائید کی اور مجھے ہر جگہ مظفر و منصور کیا.بے شک غیر مبایعین ہمیشہ مجھ پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اسلام کے لئے کس کا وجود مفید ثابت ہوا ہے کیا میرا یا ان کا؟ انھوں نے تو یہی کیا کہ وہ شخص جو اسلام کی خدمت کر رہا ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کا نور صلى الله دنیا میں پھیلا رہا ہے جو قرآن کریم کی عظمت عالم میں قائم کر رہا ہے اس پر رکیک اور بے بنیاد حملے کر دیے.اس قسم کے حملوں سے بھلا کونسا مقدس انسان بیچا ہے.رسول کریم ﷺ پر بھی متعدد اعتراضات لوگوں نے کئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی لوگوں نے کئی اعتراضات کئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی اعتراض کرنے والوں نے اعتراض کئے.پس اس قسم کی باتوں سے کیا بنتا ہے.دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ اسلام کو فائدہ کس کے ذریعہ پہنچ رہا ہے.اگر کوئی شخص واقعہ میں یہ سمجھتا ہے کہ میں نے اسلام کے غلبہ اور اس کی اشاعت کے لئے جس قدر کام کئے ہیں وہ نعوذ باللہ لوہیں اور اسلام کو ان کی بجائے کسی اور رنگ میں کام کرنے سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے تو میں اسے کہتا ہوں کہ تم میدان میں آؤ اور کام کر کے دکھاؤ.اگر تمھارا کام اچھا ہوا تو دنیا خود بخود تمھارے پیچھے چلنے لگ جائے گی.آخر دنیا میں کوئی اسلام سے محبت رکھنے والی جماعت ہے یا نہیں.اگر ہے تو تمھیں ماننا پڑے گا کہ جو شخص بھی اسلام کی خدمت کرے گا وہ اسی کے پیچھے چلے گی.پھر اس میں کونسی مشکل بات ہے.وہ اسلام کی مجھ سے بہتر خدمت کر کے دکھاو میں دنیا خود بخودان کے پیچھے چل پڑے گی.لیکن اگر ایک جماعت ایسی ہو جو صرف اعتراض کرنا ہی جانتی ہو تو اسے یادرکھنا چاہیے کہ یہ دنیا لا وارث نہیں ہے اس دنیا کا ایک زندہ اور طاقت ورخدا ہے وہ مجھ پر اعتراضات کر سکتے ہیں وہ میرے خلاف ہر قسم کے منصوبے کر سکتے ہیں وہ مجھے لوگوں کی نگاہ سے گرانے اور ذلیل کرنے کے لئے جھوٹے الزام لگا سکتے ہیں مگر وہ ان حملوں کے نتیجہ میں میرے خدا کے زبردست ہاتھ سے نہیں بچ سکتے.لیکن میں اسی خدا کے فضلوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا نام دنیا میں ہمیشہ قائم رہے گا اور گو میں مرجاؤں گا مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا ہے کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا اور ہر شخص جو میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگا وہ خدا کے فضل سے نا کام رہے گا دنیا میں جھوٹ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب مبعوث ہوئے تو دنیا نے آپ پر اعتراضات کئے اور کہا کہ یہ جھوٹا ہے فریبی ہے مکار ہے جلد 21

Page 289

تاریخ احمدیت 280 ضال ہے دجال ہے اور اس نے کوشش کی کہ آپ کے نام کو مٹا دے مگر آج ستر اسی سال کے بعد اس نے دیکھ لیا کہ جس کے نام کو مٹانے کے لئے اس نے اپنی انتہائی کوششیں صرف کر دی تھیں اس کا نام اکناف عالم میں پھیل گیا اور ہر دن جو چڑھتا ہے وہ آپ کے نام کو اور زیادہ روشن کر دیتا ہے.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ میں بھی ایک انسان ہوں مگر بعض انسان ایسے مقام پر کھڑے کر دیئے جاتے ہیں کہ گوان کی لیڈری کی عمر تھوڑی ہوگو ان کی جسمانی زندگی چند سال کی ہو مگر ان کے نام کی زندگی ہزاروں سال کی ہوتی ہے اور دنیا کے لوگ اگر کوشش کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی وہ ان کے نام کو مٹا نہیں سکتے.اس کی مثالیں ہمیں روحانی پیشواؤں میں بھی دکھائی دیتی ہیں اور دنیوی بادشاہوں میں بھی نظر آتی ہیں.سکندر جس کے ذکر سے آج تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں میں سال کی عمر میں بادشاہ ہوا تھا اور بتیس سال کی عمر میں مر گیا.گویا صرف بارہ سال اسے بادشاہت کے لئے ملے مگر تئیس سو سال گذر گئے ہیں اور آج بھی ساری دنیا سکندر کو جانتی اور بچہ بچہ کی زبان پر اس کا نام آتا ہے.اسی طرح خدا نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ خواہ مخالف مجھے کتنی بھی گالیاں دیں مجھے کتنا بھی برا سمجھیں بہر حال دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے بھی اختیار میں نہیں کہ وہ میرا نام اسلام کی تاریخ کے صفحات سے مٹا سکے.آج نہیں، آج سے چالیس پچاس بلکہ سو سال کے بعد تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ میں نے جو کچھ کہا تھا یہ صیح تھا یا غلط.میں بیشک اس وقت موجود نہیں ہوں گا مگر جب اسلام اور احمدیت کی اشاعت کی تاریخ لکھی جائے گی تو مسلمان مورخ اس بات پر مجبور ہوگا کہ وہ اس تاریخ میں میرا بھی ذکر کرے.اگر وہ میرے نام کو اس تاریخ میں سے کاٹ ڈالے گا تو احمدیت کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ کٹ جائے گا.ایک بہت بڑا خلاء واقع ہو جائے گا جس کو پُر کرنے والا اسے کوئی نہیں ملے گا.پس مجھے ان کے اعتراضات کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ گالیوں اور بد زبانیوں سے میں ڈرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دشمن کہا کرتے تھے کہ تم کابل چلو تو تمھیں پتہ لگے کہ تم سے کیا سلوک ہوتا ہے.مگر ان باتوں سے کیا بن گیا اگر بندوں پر ہی میری نگاہ ہوتی تو بیشک مجھے گھبراہٹ ہوسکتی تھی مگر جس نے خدا تعالیٰ کے جلال اور جمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور جس نے اسکے سینکٹروں نشانات کا مشاہدہ کیا ہو وہ دنیا پر نگاہ ہی کب رکھ سکتا ہے مجھے تو میرے خدا نے اس وقت جبکہ خلافت کا جلد 21

Page 290

تاریخ احمدیت 281 سوال تک بھی نہیں تھا اور جبکہ میں قریباً پندرہ سولہ سال کا تھا الہام کے ذریعہ یہ بتا دیا تھا کہ ان الذين اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيامة یعنی وہ لوگ جو تیرے متبع ہیں وہ تیرے نہ ماننے والوں پر قیامت تک غالب رہیں گے“ پس یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ جو شخص بھی میری بیعت کا سچا اقرار کرے گا وہ خدا کے فضل سے قیامت تک میرے نہ ماننے والوں پر غالب رہے گا.یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی اور ہوتی رہے گی.زمانہ بدل جائے گا حالات بدل جائیں گے حکومتیں بدل جائیں گے اور میں بھی اپنے وقت پر وفات پا کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہو جاؤں گا مگر خدا تعالیٰ کی یہ بتلائی ہوئی بات کبھی نہیں بدلے گی کہ میرے ماننے والے ہمیشہ میرے نہ ماننے والوں پر غالب رہیں گے.پھر میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت کو قائم ہوئے ستر سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1889ء میں اعلان بیعت کیا تھا جس پر تہتر سال ہو چکے ہیں اور اگر دعویٰ مجددیت کے ابتداء سے اس عرصہ کو شمار کیا جائے تو اسی سال ہو چکے ہیں بیشک اس عرصہ میں ہم نے ترقی بھی کی.جماعت بھی بڑھی.تعلیم و تربیت کے ادارے بھی ہم نے قائم کئے.لٹریچر بھی ہم نے شائع کیا.اخبارات بھی جاری کئے.غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کیا مگر باوجود اس کے ابھی ہم اس مقام پر نہیں پہنچے جس مقام پر پہنچنا خدائی جماعتوں کے لئے ضروری ہوتا ہے.نہ ہماری تعداد اتنی ہو چکی ہے کہ ہم اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگا سکیں کہ آئندہ اتنے سال میں ہماری جماعت ساری دنیا پر غالب آجائے گی یہ تو ہم کہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا ایسا کرے گا مگر جو کام بندوں کے سپرد ہوتے ہیں ان کے متعلق یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ان کی تکمیل میں بندوں نے کتنا حصہ لیا ہے.میں نے جماعت کو بار ہا بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی جماعت کے سپرد کوئی کام کرتا ہے تو پہلے سے اس نے انسانی طاقتوں کا اندازہ کر لیا ہوتا ہے اور وہی کام اس کے سپرد کیا جاتا ہے جو اس کی طاقت کے اندر ہو.یہ کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی جماعت کے سپر د کوئی کام کیا ہو اور وہ اس کو سرانجام دینے کی اہلیت اپنے اندر نہ رکھتی ہو.پس تمھارے سپر داللہ تعالیٰ کا یہ کام کرنا کہ تم دنیا میں جلد 21

Page 291

تاریخ احمدیت 282 اسلام کا نور پھیلاؤ ظاہر کرتا ہے کہ تم میں اس کام کی اہلیت موجود ہے.اور اگر تم اخلاص اور قربانی سے کام کرو تو یقیناً اس فرض کو سر انجام دے سکتے ہو.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ معمولی معمولی عذرات کی بناء پر اس اہم فریضہ کی ادائیگی میں تساہل سے کام لینے لگ جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ثواب سے محروم رہتے ہیں اور دنیا کی ظلمت بھی دور نہیں ہوتی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو شخص اس کام میں حصہ لے گا اسے اپنے وقت کو بھی قربان کرنا پڑے گا اپنا مال بھی قربان کرنا پڑے گا اپنے آرام اور آسائش کو بھی قربان کرنا پڑے گا لیکن دنیا کا کونسا کام ہے جس کے لئے کوئی قربانی نہیں کی جاتی اور اگر بغیر کسی قربانی کے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہیں تو اللہ تعالیٰ سے ہم ثواب کے کس طرح امیدوار ہو سکتے ہیں.میں نے اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے جماعت کے دوستوں کو کئی بار تحریک کی کہ ہر فردکو سال بھر میں کم از ایک شخص کو راہ راست پر لانے کا عہد کرنا چاہیے مگر باوجود اس کے کہ صرف ایک شخص کو اور وہ بھی سال بھر میں اسلامی انوار کا گرویدہ بنانے کا عہد کرنا تھا.پھر بھی بہت کم دوست اس میں شریک ہوئے حالانکہ اگر صحیح کوشش سے کام لیا جائے تو انسان سال بھر میں دس دس ہیں ہیں بلکہ سوسو افراد کو بھی حق کا شکار کر سکتا ہے.ہماری جماعت کی تعداد اس وقت دس لاکھ سے کم نہیں.اگر ایک شخص سال بھر میں دس افراد کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے تو صرف ایک سال میں ہماری تعداد ایک کروڑ تک پہنچ سکتی ہے اور یہ کوئی مشکل امر نہیں سیالکوٹ کے ایک دوست تھے جب میں نے یہ تحریک کی تو پہلے سال انھوں نے کہا کہ میں ایک احمدی بناؤں گا دوسرے سال دو احمدی بنانے کا عہد کیا.تیسرے سال تین احمدی بنانے کا عہد کیا.چوتھے سال چار احمدی بنانے کا عہد کیا.اسی طرح ہوتے ہوتے دس بارہ احمدی بنانے لگ گئے.پھر ایک دفعہ میں نے زیادہ زور دیا تو وہ یہ عہد کر کے گئے کہ میں سواحمدی بناؤں گا.چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس کے بعد برابر ان کی چٹھیوں میں ذکر ہوتا تھا کہ یہ میرا دسواں احمدی ہے یہ بیسواں احمدی ہے یہ چالیسواں احمدی ہے یہ ساٹھواں یا سترواں احمدی ہے اور اس طرح انھوں نے سو کی تعداد پوری کر دی.اگر اس روح کے ساتھ کام کرنے والے دس ہزار آدمی بھی ہماری جماعت میں پیدا ہو جائیں اور ان میں سے ہر شخص سال میں صرف دس افراد کی زیادتی کا موجب بن جائے جلد 21

Page 292

تاریخ احمدیت 283 تو سال بھر میں ایک لاکھ اور دوسرے سال میں دس لاکھ نئے افراد ہماری جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں مگر اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اندر اشاعت اسلام کی ایک آگ پیدا کی جائے اور رات دن یہ مقصد اپنے سامنے رکھا جائے کہ ہم نے دنیا بھر کو اسلام اور محمد رسول اللہ اللہ کی غلامی میں داخل کرنا ہے.مطر پھر میں نے دیکھا ہے کہ جب بعض لوگ دوسروں کو سمجھائیں گے تو ان میں سنجیدگی نہیں ہوگی.کسی نے مذاق کر دیا تو خود بھی مذاق کر دیں گے.ان میں یہ سنجیدگی کہ دوسرا شخص بھی توجہ دینے اور یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائے کہ یہ شخص میری ہدایت کے غم میں مرا جا رہا ہے پائی نہیں جاتی.نوجوان سیروں کو جائیں گے مجالس میں قہقہے لگا ئیں گے دوستوں سے کہیں ہانکنے میں اپنا وقت ضائع کر دیں گے مگر دنیا کے ظلمت کدہ کو منور کرنے کی طرف ان کو توجہ نہیں ہوگی.اگر ہماری جماعت میں ایک دیوانگی ہوتی تو دس لاکھ یا ایک کروڑ کا بھی سوال نہیں اب تک ہماری جماعت دس کروڑ تک پہنچ چکی ہوتی.پس میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے دلوں میں تبدیلی پیدا کر و مخالف کی تبدیلی اتنی ضروری نہیں جتنی تمھاری اپنی تبدیلی ضروری ہے.مخالف آج مانے یا کل اگر تمھارے اپنے اندر درد پیدا ہو جائے تو وہ خود بخود مائل ہونا شروع ہو جائے گا.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو اپنا صح نظر بلند کرنا چاہیے اور خواہ سفر ہو یا حضر ، ان کے مد نظر صرف یہی بات ہونی چاہیے کہ ہمارا کام لوگوں کو حقیقی اسلام کی طرف بلانا اور انہیںمحمد رسول اللہ ﷺ کا حلقہ بگوش بنانا ہے اس اہم فرض کی ادائیگی کا آسان طریق میں نے بتا دیا ہے کہ آپ لوگوں میں سے ہر شخص یہ عہد کرے کہ وہ سال بھر میں کم از کم ایک بھولی بھٹکی روح کو آستانہ الہی کی طرف کھینچ لانے کا موجب بنے گا.بلکہ میں سمجھتا ہوں اب ہمیں اس سے بھی آگے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اور ہماری جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ ایک کی بجائے کم از کم دس نئے افراد کو احمدیت میں شامل کرنے کی کوشش کرے.اگر کسی سال وہ اپنے اس عہد کو پورا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو کم سے کم اس کا اتنا فائدہ تو ضرور ہوگا کہ اسے اپنے نفس میں شرم محسوس ہوتی رہے گی اور وہ کوشش کرے گا کہ میں دوسرے سال ہی اپنی اس کو تا ہی کا ازالہ کروں اور نہ صرف گذشتہ کمی کو پورا کروں......بلکہ پہلے سے دگنے آدمیوں کو پیغام حق پہنچا کر اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جاؤں.جلد 21

Page 293

تاریخ احمدیت 284 پس یہ چیز نہایت اہم ہے اور ہماری جماعت کے افراد کو اسے ایسا ہی ضروری سمجھنا چاہیے جیسے چندہ کو ضروری سمجھا جاتا ہے بلکہ چندے سے بھی زیادہ زور دوستوں سے یہ عہد لینے اور پھر اس عہد کو پورا کر وانے پر صرف کرنا چاہیے کیونکہ چندہ تو بسا اوقات گھر کے تمام افراد میں سے صرف ایک شخص دیتا ہے جو کمانے والا ہوتا ہے.لیکن اشاعت حقہ ایک ایسی چیز ہے جو کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے اور پھر آجکل تو خصوصیت سے اس پر زور دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر عیسائیوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں میں بہت اضافہ کر دیا ہے.آپ لوگ اس عظیم الشان انسان کی جماعت میں شامل ہیں جسے محمد رسول اللہ اللہ نے کاسر الصلیب قرار دیا ہے اور آپ لوگوں کی تبلیغ اسلام کے مخالف تک معترف ہیں.چنانچہ مصر کے ایک مشہور اخبار الفتح نے بھی ایک دفعہ لکھا کہ جماعت احمدیہ کے تبلیغی مراکز یورپ امریکہ اور افریقہ میں قائم ہو چکے ہیں جو اپنے علم اور کام کے لحاظ سے تو عیسائی مشنوں کے برابر ہیں لیکن کامیابی اور لوگوں کے قلوب فتح کرنے کے لحاظ سے عیسائی پادریوں کو ان سے کوئی نسبت ہی نہیں کیونکہ ان کے پاس اسلام کی صداقتیں اور اسکے پر حکمت معارف ہیں پس آپ لوگوں کی ذمہ داریاں دوسرے مسلمانوں سے بہت زیادہ ہیں.اور عیسائیت کا مقابلہ کرنے کا حقیقی فرض در حقیقت آپ کے کندھوں پر ہی عائد ہوتا ہے.اس لئے جہاں دوسرے مسلمانوں کو سمجھانا اور انھیں احمدیت کی غرض وغایت سے واقف کرنا اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا آپ کا فرض ہے وہاں عیسائیت کے فتنہ کو دور کرنے کے لئے بھی اپنے اپنے علاقہ میں منظم کوشش کرنا اور مسلمانوں کے پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ طبقہ کو عیسائیت کے اثر سے بچانا بھی آپ کے اہم فرائض میں شامل ہے.میں سمجھتا ہوں عیسائیوں میں یہ حرکت بھی اسی لئے پیدا ہوئی ہے کہ ہماری جماعت آسمانی نوروں کے پھیلانے میں سستی سے کام لے رہی ہے اگر مسلمان اس تعلیم سے واقف ہوتے جو احمدیت پیش کرتی ہے تو ان کا ایک حصہ عیسائیت کا شکار کس طرح ہوسکتا تھا.سو شکارکس آپ لوگ دوسروں کو بھی اسلامی تعلیم سے آگاہ کریں اور خود بھی مسائل سے گہری واقفیت پیدا کریں.یہی اصل عزت ہے جو انبیاء کی جماعتوں کو حاصل ہوتی ہے کہ ایمان لانے کے بعد وہ نہایت جوش اور اخلاص کے ساتھ دین کی باتیں سیکھنے لگ جاتے ہیں اور پھر وہ جلد 21

Page 294

تاریخ احمدیت 285 اس میں اس قدر ترقی کر جاتے ہیں کہ مخالف کا بڑے سے بڑا عالم بھی ان سے بات کرے تو وہ شرمندہ ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان سے دینی مسائل پر بحث کرنا کوئی آسان کام نہیں.میں ابھی جوان تھا مجھے ڈلہوزی میں ایک پادری سے گفتگو کرنے کا موقعہ ملا اور میں نے اس سے تثلیث اور کفارہ پر بحث کی.جب وہ میرے سوالات کا جواب دینے سے عاجز آ گیا تو کہنے لگا کہ سوال تو ہر بے وقوف کر سکتا ہے مگر جواب دینے کے لئے عقلمند آدمی ہونا چاہیے.میں نے کہا میں تو آپ کو منظمند سمجھ کر ہی آیا تھا.غرض عیسائیت کا مقابلہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دیں اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں لیکن یہ یادرکھیں کہ دوسروں کے سامنے بات پیش کرنے کا طریق ایسا ہونا چاہیے جس سے محبت اور پیار ظاہر ہو اور اگر کوئی شخص اپنی ناسمجھی کی وجہ سے آپ کو برا بھلا بھی کہے تو مسکراتے چلے جاؤ اور نرمی اور انکسار اور حسن اخلاق سے کام لو اگر تم ایسا کرو گے تو خود بخود ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ یہ تو بالکل اور قسم کے انسان ہیں.ہم برا بھلا کہہ رہے ہیں اور یہ مسکرا رہے ہیں.ہم سختی کر رہے ہیں اور یہ محبت اور پیار میں بڑھتے جا رہے ہیں.تب وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ لوگ زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہیں اور وہ بھی تمھارے کندھوں کے ساتھ اپنا کندھا ملا کر اسلام کی خدمت اور محمد رسول اللہ اللہ کے نام کی بلندی کے لئے کفر کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں گے.پس اے میرے عزیزو! تم آسمانی آب حیات کی متلاشی اقوام کو محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں حوض کوثر پر لے جاؤ اور انہیں گندی زیست سے نجات دلانے اور ان کے اندر ایمان کی حرارت پیدا کرنے کے لئے کا فوری اور نجیلی جام پلاؤ اور اس سانپ کا سر ہمیشہ کے لئے کچل دو جس نے آدم کی ایڑی پر ڈ سا تھا اور اسے جنت ارضی سے نکال دیا تھا.اس وقت ہماری جماعت میدان جہاد میں کام کر رہی ہے اور وہی فوج دشمن کا دلیری سے مقابلہ کر سکتی ہے جس کی صفوں میں انتشار نہ ہو قرآن کریم نے اس کی اہمیت پر بڑا زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ مومنوں کی جماعت جب دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہوتی ہے تو اس کی کیفیت ”بنیان جلد 21

Page 295

تاریخ احمدیت 286 ،، مرصوص کی سی ہوتی ہے یعنی وہ ایک ایسی دیوار کی طرح ہوتے ہیں جس کی مضبوطی کے لئے اس پر سیسہ پگھلا کر ڈالا گیا ہو.پس اختلافات کو کبھی اپنے قریب بھی نہ آنے دو ہر شخص جو کسی جماعت میں تفرقہ کا بیج بوتا اور جماعتی اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے وہ احمدیت کا بدترین دشمن ہے اور تمھیں اسی طرح تباہی کے گڑھے میں گرانا چاہتا ہے جس طرح گذشتہ دور میں مسلمان صدیوں تک تنزل کا شکار رہے.تمھیں یا درکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی لئے مبعوث فرمایا ہے کہ دنیا ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو.پس ہر شخص جو اتحاد میں رخنہ اندازی کرتا ہے ہر شخص جو اس سکیم کے راستہ میں روک بنتا ہے وہ خدائی ناراضگی کا نشانہ بنتا ہے.مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ رڈیا کے ذریعہ بھی اس کی طرف توجہ دلائی تھی چنانچہ میں نے ایک شخص کو جسے میں کوئی بادشاہ یار کیس سمجھتا ہوں اور جو میرے سامنے بیٹھا تھار دیا میں کہا کہ :- دیکھو جو شخص ایسے نازک وقت میں بھی اتحاد کے لئے کوشش نہیں کرتا وہ قیامت کے دن رسول اللہ اللہ کے سامنے گردن اونچی کس طرح کر سکے گا.“ جب میں نے یہ فقرہ کہا تو میرے دل میں بہت زیادہ جوش پیدا ہو گیا اور رقت کے ساتھ میرے گلے میں پھندا اپڑ گیا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں نے اپنے سامنے کے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :- " جب تم لوگوں میں سے کوئی شخص اپنے بیٹے کے پھٹے ہوئے کپڑے دیکھتا ہے تو اس کے دل میں سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے اور رقت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو صلى الله آجاتے ہیں مگر تمھیں یہ خیال نہیں آتا کہ محمد رسول اللہ ہے جب اپنی طرف منسوب ہونے والوں کا تفرقہ دیکھتے ہوں گے تو ان کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی جو شخص ایسے وقت میں بھی باہمی اتحاد کی طرف قدم نہیں اٹھاتا یقیناً وہ رسول اللہ اللہ کے سامنے گردن اٹھا کے کھڑا نہیں ہو سکے گا.“ پس اتحاد کی اہمیت کو سمجھو.اشاعت اسلام کا فرض اپنے سامنے رکھو اور دعاؤں ،عبادت اور ذکر الہی پر زور دو تا کہ آسمان سے خدا تعالیٰ کے فرشتے تمھاری مدد کے لئے نازل ہوں اور جو کام تمھارے کمزور ہاتھ نہیں کر سکتے وہ فرشتوں کی مدد سے آسانی کے ساتھ ہونے لگیں.یہ امر یاد رکھو کہ کوئی حقیقی فتح فرشتوں کی مدد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.آخر وہ آسمان سے جلد 21

Page 296

تاریخ احمدیت 287 زمین پر کیوں آئیں.وہ اسی وقت زمین پر آتے ہیں جب بنی نوع انسان کا ایک طبقہ انتہائی جوش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا نام بلند کر رہا ہو.پس اگر تم دعاؤں اور ذکر الہی پر زور دو گے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے بے تاب ہو کر تمھاری طرف دوڑے چلے آئیں گے اور کہیں گے کہ جب یہ خدا کے کمزور بندے ہو کر اس قدر کوشش کر رہے ہیں تو ہم خدا کے فرشتے ہو کر کیوں نہ کام کریں.اور جب خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تمھاری مدد کے لئے اتر آئیں گے تو تمھاری فتح میں کوئی شبہ ہی نہیں رہ سکتا.پھر جس میدان میں بھی تم لڑو گے تمھارے ساتھ فرشتے بھی لڑیں گے اور جب تمھارے ساتھ خدا تعالیٰ کے فرشتے ہوں گے تو تمھارے مقابل پر کون ٹھہر سکتا ہے.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اسلام کے لئے سچی اور مستقل قربانی کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اندر ایسے لوگ زیادہ سے زیادہ پیدا فرمائے جو اسلام اور احمدیت کے انوار پھیلانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہوں اور اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے جب اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں اپنی پوری شان کے ساتھ لہرانے لگ جائے.اسی طرح میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارے وہ مربی جو پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور وہ مبلغ جو پاکستان سے باہر غیر ممالک میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہو اور ان کو اپنی خاص تائید اور نصرت سے بہرہ ور فرمائے اور خواہ ہمارا مبلغ کسی ملک میں اکیلا اور تن تنہا پھر رہا ہو پھر بھی اللہ تعالیٰ اپنی نصرت اور تائید سے اسے ایسی طاقت بخشے کہ وہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسان کو بھی اپنے علم اور اپنی روحانیت سے مغلوب کر سکے.پھر اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے چھوٹوں اور بڑوں، ہمارے مردوں اور عورتوں، ہمارے بچوں اور بوڑھوں ، ہمارے بیماروں اور تندرستوں غرض سب کو اپنی پناہ میں لے لے.اپنا فضل ان کے شامل حال رکھے.اپنی برکات ان پر نازل کرے، اپنے رحم اور کرم سے ان کو نوازے اور ہماری جماعت کو اپنے خاص فضل سے ایک عرصہ دراز تک جو حیرت انگیز اور معجزانہ طور پر دراز ہو دنیا میں اپنا نام روشن کرنے اور دین کا جھنڈا بلند کرنے کا موجب بنا دے.آمین یا رب العلمین دستخط ) مرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی 282 28-12-61 جلد 21

Page 297

تاریخ احمدیت حواشی 288 جلد 21 1 - رسالہ انصار اللہ ربوہ مارچ 1961 ، صفحہ 39 تا 43.2- البشری ( ربوہ ) رمضان 1380ھ مطابق مارچ 1961 ء صفحہ 39-40.3.فیروز سنز اردو انسائیکلو پیڈیا طبع چہارم 2005، صفحہ 1221 زیر لفظ گیمبیا.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد دوم نا شر شیخ غلام نبی اینڈ سنز لاہور چیئر مین الیس.اے.رحمان.4.اس سطر سے آخر تک کا گیمبیا سے متعلق مواد مولانا چوہدری محمد شریف صاحب سابق مجاہد بلا د عربیہ بانی گیمبیا مشن کا نظر ثانی شدہ ہے.( وفات 30 جولائی 1993ء) 5 عربی زبان میں اسے امین ولی نجمی لکھا جا سکتا ہے.6 الفضل 21 جولائی 1983 ، صفحہ 3 مضمون چوہدری محمد شریف صاحب محررہ 1962ء.7.اخبار ویسٹ افریقہ 27 جنوری 1962 ء صفحہ 93.( مضمون ہمفرے فشر ) 8 الفضل 21 جولائی 1983 صفحہ 3."Islam in Africa"Page: 351, Author: Professor Mahmud Brelvi.Publisher: Institution -9 of Islamic culture club road, Lahore.1964.10.باتھرسٹ کے اخبار "THE VANGUARD" نے 13 دسمبر 1958ء کے ادارتی نوٹ میں اس مطالبہ کی زبر دست تائید کی کہ گیمبیا میں احمد یہ مشن کو اجازت ملنی چاہئے.11.مرحوم سابق ایڈیشنل وکیل التصنیف و ایڈیشنل ناظر تصنیف لنڈن تھے.(وفات 16 مئی 1992 ء) 12.رسالہ تحریک جدید اگست 1981 ، صفحہ 15.16.13 - رسالہ انصار اللہ ربوہ دسمبر 1960 ء صفحہ 50.14 - الفضل 21 جولائی 1983 ، صفحہ 4، ورسالہ انصار اللہ ربوہ دسمبر 1960 صفحہ 50.15.رپورٹ چوہدری محمد شریف صاحب 13 مارچ 1961 ، ( ریکارڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن ) الفضل 16 اکتوبر 1976 صفحہ 3- 27 جولائی 1983 صفحہ.16.رپورٹ چوہدری محمد شریف صاحب 12 مارچ 1961 ء ریکارڈ وکالت تبشیر - الفضل 27 اکتوبر 1983 صفحہ 5 - رساله تحریک جدید ر بوه جون 1981 صفحہ 6.17.چوہدری محمد شریف صاحب 2 جون 1961 ء.( ریکارڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن ) 18 - الفضل 27 جولائی 1983 صفحہ 4.19.رپورٹ 9 جون 1961 ء.( ریکارڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن ) 20.رپورٹ 4 اگست 1961 ء.( ریکارڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن) 21.الفضل 27 جولائی 1983، صفحہ 5 ، رپورٹ 17 اگست 1961ء.( ریکارڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن ) 22 الفضل 27 جولائی 1983 ، صفحہ 5 ، رپورٹ 17 اگست 1961 ء.( ریکارڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن ) 23.رپورٹ 4 جنوری 1962 ء.( ریکارڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن ) 24.الفضل 7 جولائی 1983 صفحہ 5.25 الفضل 26 مارچ 1964 ءصفحہ 4.26.الفضل 27 جولائی 1983 ء صفحہ 5.27.رپورٹ 10 اکتوبر 1962 ء ( ریکارڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن) - افضل 27 جولائی 1983 ، صفحہ 5

Page 298

تاریخ احمدیت 289 28.رپورٹ 25 جنوری 1963 ء.( ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ) 29.رپورٹ 11 جون 1963 ء ( ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ).رسالہ تحریک جدیدر بوہ جون 1981 صفحہ 8-9.30.رسالہ تحریک جدید نومبر 1969 ءصفحہ 9.31 الفضل 31 مئی 1964 ، صفحہ 3.32.رسالہ تحریک جدیدر بوه جون 1981 ، صفحہ 6.33 الفضل 8 جون 1965 ، صفحہ 1 - جلد 21 34 الفضل 8 جون 1965 ، صفحہ 3-4.35 الفضل 17 جولائی 1965 صفحہ 3.36.یہ اعلامیہ دی گیمبیا نیوز بلیٹن (THE GAMBIA NEWS BULLETIN) مؤرخہ 18 دسمبر 1965ء صفحہ 1 کالم 1 پر شائع ہوا.37.رسالہ تحریک جدیدر بوہ نومبر 1969 ، صفحہ 5 تا صفحہ 9.38.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ.39.رسال تحریک جدید جون 1981ء صفحہ 6.40 الفضل 10 فروری 1968 ءصفحہ 5.41 الفضل 27 اگست 1968 صفحہ 3.42.الفضل 31 جنوری 1969 ء صفحہ 3 - 4 والفضل 3 مئی 1969 ، صفحہ 3.43 الفضل 3 مئی 1969 ، صفحہ 3.44.ریکار ڈ وکالت تبشیر ربوہ ” گیمبیا مشن.45.ان ایام میں چوہدری محمد شریف صاحب کے ساتھ اقبال احمد صاحب شاہد اور مرزا محمد اقبال صاحب ( پاکستانی مبلغین ) اور ابراهیم عبد القادر جلنی صاحب، سالک مبارک صاحب، ابراهیم آلیور صاحب اور حامد مبائی صاحب ، ( لوکل مبلغین) تبلیغی خدمات بجالا رہے تھے.(الفضل 3 مئی 1969 ء صفحہ 5) 46.خالد مغربی افریقہ نمبر.اکتوبر 1970 ء صفحہ 81 تا صفحہ 91.47 الفضل 9 اکتوبر 1970 ، صفحہ 3 48.خالد ” مغربی افریقہ نمبر.اکتوبر 1970 ء صفحہ 90.49.رسالہ تحریک جدید.ربوہ جون 1981 ، صفحہ 6.50.رسالہ ” تحریک جدید “.ربوہ جون 1981 ءصفحہ 6.51.ریکارڈ مجلس نصرت جہاں.وکالت تبشیر ربوہ.52.ریکارڈ وکالت تبشیر لندن.( گیمبیا مشن ) 53.رسالہ تحریک جد یدر بوه جون 1981 ، صفحہ 6.ریکارڈ وکالت تبشیر.( گیمبیا مشن ) 54.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ.( گیمبیا مشن ) 55.ریکار ڈ وکالت تبشیر.( گیمبیا مشن ) 56.متن کی تلاش جاری ہے.نشریہ کا ذکر وکالت تبشیر کے ریکارڈ گیمبیا مشن سے ملتا ہے.57 - الفضل 5 مئی 1976 ، صفحہ 1 - ) کیبل گرام مولوی عبدالشکور صاحب ) 58 الفضل 7 جون 1977 ، صفحہ 1 - ( کیبل گرام مولوی عبد الشکور صاحب ) 59 - الفضل 17 اپریل 1978 صفحہ 6.60 - ریکارڈ گیمبیا مشن وکالت تبشیر ربوہ والفضل 7 جون 1978 ، صفحہ 3.61.الفضل 2 جون 1979 ءصفحہ 3.

Page 299

تاریخ احمدیت 62 الفضل 15 اپریل 1980 صفحہ 1 - -63 الفضل یکم جولائی 1980 صفحہ 3.64.الفضل 7 مئی 1981 ء صفحہ 1.65.الفضل یکم جون 1981 ء صفحہ 4.290 66 الفضل 20 اپریل 1982 ، صفحہ 1 - 8، 31 جولائی 1982 ء، یکم اگست 1982 صفحہ 3.67.الفضل 5 مئی 1982 ء صفحہ 8._69 68.ریکارڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن.6 الفضل 16 مئی 1981 ءصفحہ 1.70 الفضل یکم اپریل 1982 صفحہ 2.71- الفضل 5 مئی 1985 ء صفحہ 8.72 مکمل تقریر کا متن الفضل 2 مئی 1982ء میں شائع شدہ ہے.73 الفضل یکم اپریل 1982 صفحہ 2 - 74.الفضل 9 اگست 1982 ، صفحہ 1.75.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ.76.یہ سطور دسمبر 1986ء میں لکھی جارہی ہیں.77.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ.( گیمبیا مشن) 78.ریکار ڈ وکالت تبشیر لندن.( گیمبیا مشن ) 79 الفضل ربوہ 12 دسمبر 1983 ء صفحہ 8.80.ریکارڈ وکالت تبشیر لندن.( گیمبیا مشن ) 81.ریکارڈ وکالت تبشیر لندن ( گیمبیا مشن رپورٹ چوہدری سعید احمد چٹھہ صاحب.-8 الفضل 19 نومبر 1984 ء صفحہ 8._82 83.ریکارڈ وکالت تبشیر لندن.( گیمبیا مشن ) 84.ریکار ڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن لندن ور بوہ.85 - ضمیمہ ماہنامہ مصباح ربوہ جون 1985 صفحہ 6-7- 86 - ریکار ڈ وکالت تبشیر لندن گیمبیا مشن.87.ریکار ڈ وکالت تبشیر گیمبیا مشن (لندن).88 ضمیمہ ماہنامہ مصباح ربوہ دسمبر 1985 صفحہ 6.89.ریکارڈ وکالت تبشیر لندن ( گیمبیا مشن ).90.غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ.91 الفضل 18 مارچ 1961 ء صفحہ 1.92 الفضل 16 مارچ 1961 ، صفحہ 1.93.رپورٹ مجلس مشاورت 1961 ، صفحہ 36.ا.الفضل 8 اپریل 1961 ءصفحہ 1.194 95.رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمد یہ منعقدہ ربوہ - 24 - 25 - 26 مارچ 1961 ، صفحہ 102 تا106.97-96.رپورٹ مجلس مشاورت 1961ء صفحہ 109-112.98 الفضل 26 اپریل 1961 - جلد 21

Page 300

تاریخ احمدیت 291 99 الفضل 8 جولائی 1961 صفحہ 3.100 - منعقدہ بیت احمد یہ محله باغبانپورہ گوجرانوالہ از 23 جولائی تا 30 جولائی 1961 ء.جلد 21 یہ لاہور ڈویژن کی مجالس خدام الاحمدیہ کی تیسری سالانہ تربیتی کلاس تھی جس میں لاہور شیخو پورہ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے خدام نے نہایت گرم جوشی سے حصہ لیا اور سلسلہ احمدیہ کی ممتاز شخصیات نے فاضلانہ مقالے پڑھے.رسالہ ” خالد نومبر.دسمبر 1961ء کی خاص اشاعت میں اس تاریخی تربیتی کلاس کی مکمل کارروائی ریکارڈ کر دی گئی جو معلومات افروز ہے.101 - منعقدہ 7 تا 21 مئی 1961ء بمقام بیت احمد یہ سول کوارٹرز پیشاور.اس کامیاب تربیتی کلاس کی مفصل روداد الفضل کے وقائع نگار خصوصی کے قلم سے الفضل 14 - 15 جون 1961 ء میں شائع شدہ ہے.ان دنوں محمد سعید احمد خالد صاحب پشاور وڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے قائد مجلس خدام الاحمدیہ تھے اور انہی کی زیر نگرانی اس تاریخی کل اس کا نہایت درجہ خوش اسلوبی سے انعقاد ہوا.102.مؤلف "CITIZEN OF TWO WORLD" شائع کردہ معارف لمیٹڈ کراچی (پاکستان) طبع اول 1960 - طبع دوم 1979 ء.103 - تلخیص کتاب اسلامی دنیا صفحہ 28 تا 34 - ناشر الفصل اردو بازار غزنی سٹریٹ لاہور ).104 - خطبات وقف جدید صفحہ 2-3 - ( ناشر وقف جدید ربوہ اکتوبر 2008ء) 105 - الفضل 29 اپریل 1970 ، صفحہ 5 106 - الفضل 21 نموبر 1961 ءصفحہ 7،5.107 _الفضل 20 مارچ1962 ءصفحہ 3.8.108 - الفضل 9 جون 1962 ، صفحہ 3.109 - الفضل 2 ستمبر 1962 ، صفحہ 3.4.110.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ.( آئیوری کوسٹ مشن ) 111 - الفضل 3 مئی 1963 ، صفحہ 3.112 - الفضل 9 اگست 1963 ء صفحہ 3.113 - الفضل 30 اپریل 1964 ، صفحہ 3.114 - افضل 10 جولائی 1963 صفحہ 4.115 - الفضل 18 اگست 1963 ، صفحہ 3.4.116.ریکار ڈ وکالت تبشیر ربوہ.( آئیوری کوسٹ مشن ) 117 - الفضل 21 نومبر 1963 ء صفحہ 3.118.ریکار ڈ وکالت تبشیر ربوہ.( آئیوری کوسٹ مشن ) 119 - الفضل 21 نومبر 1963 ء صفحہ 3.120.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ( آئیوری کوسٹ مشن ) 121.ریکار ڈ وکالت تبشیر ربوہ.( آئیوری کوسٹ مشن ) 122 - الفضل 30 اپریل 1964 ء.123.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ( آئیوری کوسٹ مشن ) 124 - ریکارڈ وکالت تمشیر ربوہ ( آئیوری کوسٹ مشن ) 125 - الفضل 30 اپریل 1964 ، صفحہ 4.126.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ.( آئیوری کوسٹ مشن ) 127.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ( آئیوری کوسٹ مشن ) 128 - الفضل 24 مئی 1970 ، صفحہ 4.129 - الفضل 24 مئی 1970 ء صفحہ 4.

Page 301

تاریخ احمدیت 130 - الفضل 24 مئی 1986 ، صفحہ 3-4 131 - افضل 23 جون 1980 ، صفحہ 1 - 132.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ( آئیوری کوسٹ مشن ) 133.ریکار ڈ وکالت تبشیر ربوہ.( آئیوری کوسٹ مشن ) 134 - الفضل 27 جنوری 1983 ، صفحہ 1 - 135 - الفضل 27 جنوری 1983 صفحہ 1 - 292 136 - ضمیمہ مصباح ربوہ جون 1985ء، صفحہ 1.ریکارڈ وکالت تبشیر ( آئیوری کوسٹ مشن ).137 - ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ( آئیوری کوسٹ مشن ).138.ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ( آئیوری کوسٹ مشن ) 139.وفات 29 ستمبر 2008 ء بمقام سڈنی آسٹریلا بعمر 76 سال.140 - الفضل 9 دسمبر 1990 ، صفحہ 4-5.مزید تفصیل قبل ازیں تاریخ احمدیت جلد 8 طبع اول صفحہ 411-412 میں آچکی ہے.141 - الفضل 30 مئی 1961 ، صفحہ 1.142 - الفضل 29 اکتوبر 1961 ء صفحہ 1.143 - الفضل 21 نومبر 1961 ء صفحہ 1.8.144 - الفضل 21 نومبر 1961 ء صفحہ 1.8.145 - تلخيص الفضل 22 جون 1961 ، صفحہ 3-4.146 مختصر سوانح اور بیعت کی تفصیلات ” تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 159 تا 163 میں آچکی ہیں.147 - اخبار ” صدق جدید 15 جون 1962 ءصفحہ 7-8.148 - الفضل 19 اگست 1961 ، صفحہ 3 -5- 149 - معلومات مرسلہ چوہدری طاہر محمود صاحب مربی سیالکوٹ.12 مارچ 1983ء.150.رپورٹ سالانہ صدرا جمن احمد یہ پاکستان 1961 ء تا 1967 ء.151 - معلومات مرسلہ چوہدری طاہر محمود صاحب مربی سیالکوٹ.(بذریعہ مراسلہ 12 مارچ 1987ء) 152 تلخیص رپورٹ ہائے صدر انجمن احمد یہ پاکستان 1960 ء تا1965ء.153 - سالانہ رپورٹ صدرا جمن احمد یہ پاکستان 3- 1964 ، صفحہ 172.154.رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمدیہ پاکستان 5-1966 صفحہ 220 - 221 - 155 - سالانہ رپورٹ صدرا حجمن احمد یہ پاکستان (6-1967 ء ) صفحہ 215 تا 219.156 - الفضل 24 ستمبر 1961 ، صفحہ 1 - -15 الفضل 19 نومبر 1961 ءصفحہ 3.4.1-157 جلد 21 158 - اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 26 مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے.ناشر احمد یہ بک ڈپو دار الرحمت شرقی ربوہ پاکستان طبع اول مئی 1965 ء.159.اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 130 -131.160.البدر 8 جنوری 1904ء صفحہ 2 کالم 2.161.سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم السلام ہائی سکول ربوہ.162 - اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 155 ( از مکرم ملک صلاح الدین صاحب).163.مجاہد جرمنی و انگلستان و مفسر انگریزی ترجمہ قرآن.164.یہ 10 مارچ 1912 ء کا واقعہ ہے.165.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 163 - 164 -

Page 302

تاریخ احمدیت 293 جلد 21 166.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 156 - 168 مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے.167 - الفضل 11 دسمبر 1915ء صفحہ 8.168.ایضاً.( تاریخ احمدیت جلد 5 طبع اول صفحہ 202 تا 204 مین احمد یہ ہوٹل کے قیام کا ذکر آچکا ہے.) 169.الفضل 11 دسمبر 1915ءصفحہ 8.170.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 156 مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے.171.تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 195 - 196 - 172.بیان مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ.( اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 120 ) 173 - ا الفضل 22 اکتوبر 1961 ء صفحہ 3.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 138 ) 174.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 154.175 - الفضل 14 اکتوبر 1961 ، صفحہ 5.(اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 142 ، 143 ) 176 - تفصیل " تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 83-85 میں گذر چکی ہے.177.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 129.178 - الحلم 7/14 مئی 1943 ، صفحہ 3 کالم.179.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 130 - 180 - پوری تقریر اخبار الحکم 7/14 مئی 1943 صفحہ 3-5 میں شائع شدہ ہے.181.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 129 - 182.ایضاً صفحہ 110 - 183.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 82.184.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 130.185.(ڈائری خودنوشت ) اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 85.186.اصحاب احمد جلد 14 صفحہ 96-97.187 - الفضل 10 اگست 1961 ، صفحہ 2 ، اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 99.188 - الفضل 21 ستمبر 1961 ءصفحہ 1.189.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 4-5.190.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 152 - 153 - 191.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 170 - 171 - 192.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 142.193.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 170.194.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 152 - 153 - 195.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 127.196.اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 203 ( از مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ) طبع اول اگست 1952ء نورآرٹ پر لیس راولپنڈی.197 - الفضل 23 ستمبر 1961 ، صفحہ 1 - یہ پیغام نظارت اصلاح وارشا در بوہ نے بصورت ٹریکٹ دس ہزار کی تعداد میں شائع کیا.198.الفضل 30 نومبر 1961 ء صفحہ 1.8.199 - الفضل 28 نومبر 1961 ، صفحہ 1.8.200 الفضل 19 نومبر 1961 ءصفحہ 5.201 _ الفضل 19 ستمبر 1961 ءصفحہ 4.

Page 303

تاریخ احمدیت 294 جلد 21 202.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 15 - 16 - 17 اپریل 1927 ء صفحہ 129.203 الفضل 4 نومبر 1961 ، صفحہ 3-4( تلخیص).204 - انصار اللہ نومبر 1961 ء صفحہ 17 تا 19.205 - رسالہ ” انصار اللہ مارچ 1961 ، صفحہ 22.206.الفضل 7 جنوری 1962 ء صفحہ 3.1208 207.الفضل 7 جنوری 1962 ء صفحہ 3.-2 الفضل 7 جنوری 1962 ء صفحہ 3.209_الفضل 10 جنوری 1962 ء صفحہ 2.3.210.سیرت داؤ د صفحہ 55.ناشر جامعہ احمد یہ ربوہ.211.سیرت داؤ د صفحہ 60، 61 - ناشر جامعہ احمد بدر بوہ.212.انوارالاسلام صفحہ 39 حاشیہ مطبوعہ 1894ء.213 - ٹائیٹل ضیاء الحق صفحہ آخر 214.احکم 10 جنوری 1907 ، صفحہ 1 ، تذکر و طبع سوم صفحہ 270.215.حقیقۃ الوحی صفحہ 84.85- حاشیہ.216 - تاریخ احمدیت جلد سوم طبع اول.مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو.اصحاب احمد.جلد 2 صفحہ 254 تا 259 - ( از ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ).217 الحکم 10 جنوری 1907 ، صفحہ 1 - 218 الحکم 10 جنوری 1907 ، صفحہ 1 - -3190731-219 220.ضمیمہ الفضل 28 دسمبر 1961 ء صفحہ 2.221.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 36 مرتبہ چوہدری عبدالعزیز صاحب واقف زندگی.حال مقیم فرینکفرٹ جرمنی.ناشر مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ.222 الفضل 3 اگست 1956 صفحہ 3 - تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 538-540- 223.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 56 ( مؤلفہ چوہدری عبد العزیز صاحب واقف زندگی).224.تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 261 262 ( طبع اول ).225.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 52-53.226.رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمد یہ 32-1933ء صفحہ 56.227.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ 35-1934 ، صفحہ 193.اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں یہ کمپنی سی کمپنی 11/15 پنجاب رجمنٹ“ کے نام سے موسوم تھی.228 - الفضل 11 مارچ 1962 ، صفحہ 5.229.رپورٹ سالانہ صیغہ جات صد را مجمن احمدیہ صفحہ 348 یکم مئی 1938 لغایت.30 اپریل 1939 مطبوعہ اللہ بخش سٹیم پر لیس قادیان.230.سروس بک.231.سروس بک.232.سروس بک.233.رپورٹ مجلس مشاورت 1927ء صفحہ 122 -

Page 304

295 جلد 21 تاریخ احمدیت 234.رپورٹ مجلس مشاورت 1928 صفحہ 293.اور مینٹل ہاؤس کی ابتداء 1920ء میں ہوئی.1928ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اسے بند کر دیا جائے کیونکہ کام مفید ثابت نہیں ہوا.(رپورٹ مشاورت 1929 ، صفحہ 243 ).235.رپورٹ مجلس مشاورت 1929ء صفحہ 245 - 246.236.سالانہ رپورٹہائے صیغہ جات صدرانجمن احمد یہ.237 - تفصیل تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 485 486 طبع اول میں گزر چکی ہے 238 - الفضل 11 فروری 1962 صفحہ 6.239.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 67-68.240.تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 541-542.241.رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی 1938 تا30 اپریل 1939 ء صفحہ 222 تا 224.242 تفصیل تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 429 تا 432 طبع اول میں گزر چکی ہے.243.انکی تفصیل ان رپورٹوں میں موجود ہے جو حضرت میاں صاحب کی مرتب شدہ ہیں اور جو دوسرے صیغوں کی سالا نہ رپورٹوں کےساتھ شائع ہوئیں.244.رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمد یہ 1323 ھش / 1944ء.1324 مش:1945 صفحہ 89.245.رپورٹ سالانہ صیغہ جات صد را نجمن احمد یہ 48-1947 صفحہ 1.246.رپورٹ سالانہ 1323 مش / 1944ء - 1324 مشن 1945ء، صفحہ 89.رپورٹ کے صفحہ 76 پر 14 دیہاتی مبلغین کے نام ( مع ان کے حلقہ جات اور مساعی کی تفصیل کے ) درج ہیں.247.الفضل 4 جون 1946 ء صفحہ 1.248.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 91.249.الفضل 6 جولا ئی 1948 ء.تاریخ احدیث جلد 12 صفحہ 268 طبع اول.250 - الفضل 21 جنوری 1962 ء صفحہ 6 ( مضمون خلیفہ صباح الدین صاحب ).251.اس 29 مئی 1953ء (لا ہور تاریخ احمدیت صفحہ 562-563 مؤلفہ شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگرمل ) مطبوعه وطن پرنٹنگ پریس المصل لاہور فروری 1966ء.252.سروس بک.( مجلس مشاورت اور صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی سالانہ رپورٹوں میں آپکا عہدہ ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد بتایا گیا ہے.) 21 ضمیمہ الفضل 28 دسمبر 1966 - صفحہ 1.2.-253 254 افضل 9 جنوری 1962 ، صفحہ 3-4 255 الفضل 18 جنوری 1962 ء صفحہ 3.256 الفضل 16 جنوری 1962، صفحہ 5.257.ہو کتابت سے "مگر" کی بجائے بلکہ" لکھا گیا ہے.258.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 40-41 مؤلفہ چوہدری عبد العزیز صاحب واقف زندگی.259.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 50 - 51.260 - الفضل 21 جنوری 1962 ، صفحہ 1 - 3 - الفضل 17 مارچ 1962 ، صفحہ 3 ( مضمون خلیفہ صباح الدین صاحب).261 الفضل 21 جنوری 1962 ، صفحہ 4 - ( مضمون خلیفہ صباح الدین صاحب).262.الحکم 28 دسمبر 1939 صفحہ 54.263.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 132.264.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 81-82.2 الفضل 16 فروری 1926 ، صفحہ 9.-265

Page 305

تاریخ احمدیت 266.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 60-63.267.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 63 - 64.268.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 87-88.269.میری یادیں صفحہ 32-33.اشاعت 1995 ء.270.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 74-75.296 جلد 21 271.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 72-73.اس سلسلہ میں احتجاج علی صاحب زبیر کی کی چشمد ید روایت خاص طور پر قابل مطالعہ ہے جس سے آپ کی دریادلی اور دل کا بادشاہ ہو نی کا ثبوت ملتا ہے.(ملاحظہ ہو سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 108 -113 ) 272.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 58-59.273.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 91.274.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 90-91.275.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 91-92.276.مرتبہ حافظ انوار رسول صاحب مربی سلسلہ.277.ولادت کی تواریخ اصحاب احمد جلد 2 صفحہ 301 - مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے سے ماخوذ ہیں.278 ضمیمہ الفضل 28 دسمبر 1961 ، صفحہ 1.279.الفضل 31 دسمبر 1961ء صفحہ 2.280_الفضل 31 دسمبر 1961ء صفحہ 3 ، کالم 1.281.الفضل 2 جنوری 1962 ءصفحہ 1 تا 5.282.الفضل 3 جنوری 1962 ، صفحہ 1 تا 5.

Page 306

تاریخ احمدیت 297 تیسرا باب جلیل القدر رفقاء مسیح موعود کا انتقال جلد 21 1961ء میں متعدد نامور اور جلیل القدر رفقاء مسیح موعود انتقال فرما گئے جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے.ابوالبشارت حضرت مولانا عبدالغفور صاحب مبلغ سلسلہ (ولادت 26/25 دسمبر 1898ء ( پیدائشی احمدی)، زیارت 1907ء وفات 4 جنوری 1961 ء.معروف بزرگ صحابی حضرت میاں فضل محمد صاحب آف ہرسیاں ضلع گورداسپور کے فرزندِ اکبر.سلسلہ کے مشہور مناظر و عالم اور تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کے مجاہد ) آپ ابھی بچے ہی تھے کہ آپ کے والد صاحب نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر کے خدمت دین کے لئے وقف کر دیا.آپ تحریر فرماتے ہیں: مجھے خوب یاد ہے کہ میری والدہ محترمہ نے بچپن ہی سے اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینی شروع کر دی تھی اور خدا کی تو حید اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق بھی ہم کو بہت کچھ سکھاتی رہتی تھیں....میرے والدین کو ( اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے فضل نازل فرمائے) جہاں اپنے بچوں کی اصلاح کا بہت شوق تھا وہاں وہ خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے بہت فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور بار بار قادیان آتے رہتے تھے.ان دنوں چونکہ میں ہی اپنے والدین کے گھر بڑا لڑکا تھا اس لئے مجھے بھی ساتھ لے آیا کرتے تھے اور اس طرح مجھے بھی خدا کے پیارے اور مقدس مامور حضرت مسیح موعود کی زیارت کا موقع مل گیا.گھر کے ماحول میں ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور 1924ء میں مولانا ابوالعطاء صاحب، مولانا محمد عبد اللہ صاحب مالا باری، مولانا تاج دین صاحب لائکپوری جیسے جید علماء کے ساتھ مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پھر قریباً دو سال تک حضرت حافظ روشن علی صاحب کی مبلغین کلاس میں تبلیغی ٹریننگ حاصل کرتے رہے.مئی 1926 ء سے جبکہ ابھی آپ کلاس میں تھے آپ کے قلم سے اخبار ” فاروق ( قادیان) میں تبلیغی مضامین چھپنے شروع ہوئے.اس سال کے ماہ ستمبر اکتوبر

Page 307

تاریخ احمدیت 298 جلد 21 میں آپ نے مولوی قمر الدین صاحب و مولوی علی محمد صاحب اجمیری کے ساتھ شکر گڑھ کا تبلیغی دورہ کیا.یکم مئی 1927 ء سے آپ بحیثیت مبلغ سلسلہ خدمت دین میں سرگرم عمل ہو گئے.ابتداء میں آپکو مرکز کی طرف سے فتح گڑھ اور کتھ والی میں مباحثہ کے لئے بھجوایا گیا.1928ء میں آپ کے ذریعہ ضلع لائل پور کے ایک ہی گاؤں میں متعدد نفوس داخل احمدیت ہوئے.32-1931ء میں آپ کو راولپنڈی کیملپور جہلم اور میانوالی کے اضلاع کا انچارج مبلغ بنا دیا گیا.اس وسیع حلقہ میں آپ نے بارہ مناظرے کئے اور اپنی تقریروں کے ذریعہ احمدیت کی آواز دور دور تک پہنچادی.اور خدا کے فضل سے کئی سعید روحوں کو قبول حق کی توفیق ملی.35-1934ء میں آپ کو ڈیرہ غازی خان، ملتان، مظفر گڑھ اور میانوالی کے اضلاع میں دعوت الی اللہ کا فریضہ سونپا گیا.جسے آپ نے خوش اسلوبی سے سر انجام دیا.ان اضلاع میں آپ کے سات کامیاب مناظرے ہوئے.36-1935ء میں آپ نے ہندوستان کے مختلف اضلاع کا دورہ کر کے احمدیت کا پیغام پہنچایا اور مناظرے بھی کئے.1936-37ء میں آپ پنجاب کے ضلع شاہپور میں متعین کئے گئے.1937-38ء میں آپ کا تقرر بہار واڑیسہ میں کیا گیا جہاں آپ کئی سال تک نہایت محنت اور جانفشانی سے تبلیغی خدمات بجالاتے رہے.آپ نے پورے علاقہ کے وسیع پیمانے پر دورے کئے، سینکڑوں لیکچر دئے اور متعدد مباحثوں میں احمدیت کی دھاک بٹھا دی اور بہت سے لوگ احمدی ہوئے.10 وسط 1938ء کا واقعہ ہے کہ مولانا محمد سلیم صاحب مجاہد فلسطین اور آپ مرکزی ہدایت کے تحت احمد یہ کٹک کانفرنس میں شامل ہوئے اور واپسی پر بعض مخلص احمدیوں کے ساتھ کیرنگ تشریف لے گئے.کیرنگ کے قریب ایک گاؤں میں ایک ہندو سے پانصد سالہ پرانی قلمی کتاب’الیکا‘ نام دستیاب ہوئی جو اُڑ یہ زبان میں بھوج پتر پر لکھی ہوئی تھی.ایک دوست نے اس کا اردو تر جمہ کرنا شروع کیا تو یہ معلوم کر کے سب دنگ رہ گئے کہ اس کتاب میں یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ نہہ کلنک اوتار مغل ہو گا اور اڑیسہ کے شمال مغرب میں ہوگا ( نقشہ کے مطابق قادیان کی مبارک بستی کٹک کے عین شمال مغرب میں واقع ہے ).علاوہ از میں لکھا تھا کہ نہ کلنک اوتار کے شاگردان خاص میں سے دو بھائی اڑیسہ پہنچیں گے جن کو خاص طور پر وہاں بھجوایا جائے گا مالیکا میں ان بزرگوں کے اس سفر کی تفصیلات کے بارے میں صدیوں قبل کئی اور علامات بھی بتائی گئی تھیں جو حیرت انگیز رنگ میں پوری ہوئیں.|11.بہار واڑیسہ میں حق و صداقت کی کامیاب منادی کے بعد آپ کو مرکز احمدیت میں بلایا لیا گیا جہاں آپ تقسیم ہند تک قادیان اور دوسرے بیرونی مقامات میں فریضہ تبلیغ بجالاتے رہے اور مناظروں کا سلسلہ بھی جاری رہا.

Page 308

تاریخ احمدیت 299 جلد 21 قیام پاکستان کے بعد آپ پہلے سرگودھا میں دعوت وارشاد کا کام کرتے رہے پھر 1948ء میں مبلغ لاہور مقرر کئے گئے اور ایک لمبا عرصہ جو کم و بیش چھ سال تک ممتد تھا اشاعت حق میں کمال جانفروشی کے ساتھ منہمک رہے.اس دوران میں آپ نے بہت سے جلسوں سے خطاب کیا.ساڑھے بائیس ہزار ٹریکٹ شائع کئے.درس قرآن دیا.قرآن کلاسز جاری کیں.1953ء کے فسادات لاہور میں بلوائیوں نے دہلی دروازہ کی مسجد اور آپ کی قیام گاہ کا محاصرہ کر لیا تھا.اس موقعہ پر آپ نے کمال بہادری اور جوانمردی کا ثبوت دیا.کچھ عرصہ آپ تحقیقاتی عدالت کے لئے مواد جمع کرنے میں وقف رہے.1955-56ء میں آپ مقامی اصلاح وارشاد کے زیرانتظام سرگودھا، جھنگ اور لائل پور (فیصل آباد) میں اہم تبلیغی خدمات بجالاتے رہے.1956-57ء میں آپ کا تقرر مرکزی مہمان خانہ میں ہوا.جس کے دوران بیر ونجات میں بھی آپ نے 16 لیکچر دئے اور 62 نفوس آپ کے ذریعہ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.15 اپریل 1959ء کو آپ ریٹائر ہوئے مگر آپ کے جوششِ خدمت اور دینی جذ بہ اور ولولہ میں کوئی کمی نہیں آئی اور آپ تحریک جدید میں کام کرنے لگے.زندگی کے آخری دور میں آپ کو زعیم اعلیٰ ربوہ کی اہم ذمہ داری سپرد کی گئی جسے آپ نے پوری فرض شناسی سے نباہا.الغرض آپ کی پوری زندگی تبلیغی جہاد میں بسر ہوئی.ع خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را مولانا عبدالغفور صاحب فاضل جلسہ سالانہ کے ممتاز مقررین میں سے تھے.جلسہ سالانہ کے مقدس سٹیج سے آپ کی پہلی تقریر 1930ء میں اجرائے نبوت از روئے قرآن“ کے موضوع پر ہوئی اور آخری تقریر جلسہ سالانہ 1951 ء پر ہوئی جس کا عنوان تھا ” صداقت حضرت مسیح موعود قرآن و حدیث کی روسے“.آپ کی تقریر نہایت سادہ مگر بہت مؤثر اور معلومات افروز ہوتی تھی.بنیادی مسائل کا بار یک نظری سے مطالعہ کرنے اور نئے انداز اور نئے استدلال کے ساتھ پیش کرنے کا انہیں خاص ملکہ حاصل تھا.آپ خلافت ثانیہ کے ان ابتدائی مبلغین میں سے تھے جنہیں چومکھی لڑائی لڑنی پڑی.اس معرکہ آزمائی میں آپ نے کبھی اپنے آرام کا خیال نہیں رکھا اور نہ کسی چیز کو حائل ہونے دیا.مشکلات کے وقت آپ ایمان کی مضبوط چٹان ثابت ہوئے اور ہر نازک موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد آپ کے شامل حال رہی.اکثر بسلسلہ تبلیغ گھر سے باہر رہے.گھر میں آکر ویسا ہی دینی جوش اپنی اولاد میں دیکھنے کی خواہش

Page 309

تاریخ احمدیت 300 جلد 21 رکھتے تھے.خدمت دین کو ہر چیز پر مقدم رکھا.برصغیر کی احمدی جماعتوں کی تعلیم وتربیت میں حصہ لینے کے آپ کو خاص مواقع میسر آئے.قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ”حنیفا قرار دیا گیا ہے.آپ اس کا مطلب یہ بھی بیان فرمایا کرتے تھے کہ احکام خداوندی کی بجا آوری میں حضرت ابراہیم علیہ السلام عام لوگوں کی طرح ادھر اُدھر نہیں دیکھتے تھے کہ کوئی اور بھی ساتھ دیتا ہے یا نہیں بلکہ سید ھے اس کام میں تند ہی سے لگ جاتے تھے.یہی طریق عمل پوری عمر حضرت مولوی صاحب کے پیش نظر رہا.ایک کامیاب اور پُر جوش مبلغ اور مقبول مقرر ہونے کے باوجود بے نفس اور بے ریا طبیعت کے مالک تھے.قرآن مجید سے آپ کو گہرا شغف تھا اور درس قرآن مجید آپ کی روح کی غذا تھی.ساری عمر تجد پڑھی اور حد درجہ تضرع کے ساتھ سجدہ گاہ ہمیشہ آنسوؤں سے تر رہی.فرمایا کرتے تھے جوانی میں ہمت تھی.عبادت کا بہت موقع ملتا تھا.اکثر ساری ساری رات عبادت میں گزرتی اور ایسا محسوس ہوتا جیسے فی الواقع اللہ تعالیٰ سے باتیں ہو رہی ہیں.ان دنوں کو بڑی حسرت سے یاد کرتے.آپ عبادات میں ہمیشہ مستعد رہے.وفات سے تھوڑی دیر پہلے ظہر اور عصر کی نمازیں لیٹے لیٹے جمع کر کے پڑھیں اور سرخرو ہو کر اپنے مولائے حقیقی کے حضور میں حاضر ہو گئے.خالد احمد بیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپر د قلم فرمایا: آپ کی طبیعت میں شروع ہی سے خدمت دین کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.زمانہ طالب علمی میں بھی آپ نیکی اور خدا ترسی کے لئے مشہور تھے.آپ مدرسہ احمدیہ کی پانچویں چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے کہ جماعت کی طرف سے تحریک ہوئی کہ نو جوانوں کو میدان جنگ میں جا کر خدمات بجالانی چاہئیں.آپ نے بھی اپنے آپ کو پیش کر دیا اور منتخب ہو گئے.چار سال کے بعد واپس آکر پھر تعمیل تعلیم کے لئے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.غالباً وہ چھٹی جماعت میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے.ان دنوں مدرسہ احمدیہ کی آٹھویں جماعت مولوی فاضل کلاس ہوتی تھی.اس جماعت میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا جاتا تھا.ہم سات طلباء نے 1924 ء میں مولوی فاضل کا امتحان دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم سب کامیاب ہو گئے تھے.محترم مولوی عبدالغفور صاحب بھی ان کامیاب طلباء میں سے تھے.ہمارے کلاس فیلو طلباء میں سے اکثر دوسرے کاموں پر لگ گئے.لیکن خاکسار اور مولوی عبدالغفور صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب کے پاس مبلغین کلاس میں تکمیل تعلیم اور تبلیغی ٹریننگ حاصل کرنے کے 14

Page 310

تاریخ احمدیت 301 لئے داخل ہو گئے.اس کلاس میں بعض ہم سے پہلے کے طلباء بھی شامل تھے.آخر یکم مئی 1927 ء کو محترم مولوی قمر الدین صاحب محترم مولوی عبدالغفور صاحب اور خاکسار فارغ التحصیل ہو کر با قاعدہ طور پر واقف زندگی مبلغین سلسلہ میں شامل ہوئے.ہمارے مولوی فاضل کے ساتھیوں میں سے محترم مولوی محمد عبد اللہ صاحب مالا باری بھارت میں جاں فشانی سے قابل رشک خدمات سلسلہ بجا لا رہے ہیں.محترم مولوی تاج الدین صاحب لائل پوری ربوہ میں دار القضاء کے ناظم ہیں، محترم مولوی عزیز بخش صاحب کئی سال سے وفات پاگئے ہیں....محترم مولانا عبد الغفور صاحب اور خاکسار اب پاکستان میں خدمات دینیہ پر مامور ہیں.مولانا مرحوم دو سال پیشتر قواعد صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت ریٹائر ہو چکے تھے مگر وہ ولولہ اور جوش جو ابتداء سے آپ کو اپنے نیک باپ سے ورثہ میں ملا تھا اور جسے بہترین اساتذہ نے جلا بخشا تھا آپ کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا.چنانچہ آپ نے تحریک جدید میں کام شروع کر دیا.ربوہ کی مجلس انصار اللہ میں آپ زعیم اعلیٰ تھے اور جہاں موقعہ ملتا آپ شوق سے تقریر وغیرہ کے لئے تشریف لے جاتے.ابھی نومبر کے آخری عشرہ میں ہم چک نمبر 46 شمالی سرگودھا گئے تھے.مولوی صاحب موصوف نے وہاں ایک پُر جوش تقریر فرمائی تھی.میں نے طالب علمی اور خدمات سلسلہ کے طویل عرصہ میں اخویم محترم مولانا ابوالبشارت صاحب کو نہایت متقی اور سلسلہ کا غیور سپاہی پایا ہے.آپ نے تقریر اور مباحثہ کے میدان میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں.تقسیم ملک سے پہلے اڑیسہ اور شکر گڑھ کے علاقہ میں عرصہ دراز تک متعین رہے اور ہندوستان اور پھر پاکستان کے اکثر علاقوں کا تبلیغی دورہ کیا اور ملک کے طول وعرض میں اسلام واحمدیت کی صداقت کا اعلان فرماتے رہے.آپ کی طبیعت تکلف اور ریا کاری سے بہت دور تھی.سفر میں ساتھیوں کا بہت خیال رکھتے تھے.اگر کبھی کوئی غلط فہمی پیدا ہوتی تو فوراً اس کی اصلاح ہو جاتی تھی.ایک جفاکش اور نڈر خادم سلسلہ تھے.1953ء کے فسادات میں آپ لاہور میں متعین تھے.آپ نے اس موقعہ پر بھی نہایت دلیری سے کام کیا.آپ کی خاص خاص تقریریں بہت گہرے معارف اور عشق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہوتی تھیں اور بہت پسند کی جاتی تھیں.محترم مولوی صاحب کی وفات سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے.ہم اپنے ایک مخلص ساتھی سے محروم ہو گئے ہیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.جلد 21

Page 311

تاریخ احمدیت تالیفات 302 جلد 21 عروج احمدیت ، شانِ محمد ، خدائی بشارت ، صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، احرار کے کار ہائے نمایاں ، اسمہ احمد ، آسمانی مصلح کی ضرورت ، عام مسلمان مولانا مودودی کی نظر میں ، حدیث لا نبی بعدی میں الجھنے والے علماء کے سامنے راہ نجات ( پمفلٹ) ، اقلیت قرار داد و ہینڈیل.اولاد: (بیٹے محترم بشارت احمد صاحب ، محترم سعادت احمد صاحب، محترم ہدایت احمد صاحب، محترم عبدالسمیع صاحب (سب امریکہ میں مقیم ہیں ) (بیٹیاں) محترمہ رحمت بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبداللہ صاحب مرحوم کراچی محترمہ نصرت بیگم صاحبہ اہلیہ مولانا امام الدین صاحب مرحوم مجاہد انڈونیشیا محتر مہ امۃ الہادی صاحبہ اہلیہ رشید الدین صاحب مرحوم کراچی محترمہ امۃ الرشید ممتاز صاحبہ اہلیہ عطاء اللہ صاحب بنگوی مرحوم کراچی محترمہ امتہ السمیع شہناز صاحبہ اہلیہ نصیر احمد صاحب مرحوم اسلام آباد محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ابرار احمد صاحب کراچی محترمه کشور احسان صاحبہ اہلیہ احسان الہی صاحب امریکہ.16 حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی (سابق ہریش چندر) (ولادت یکم جنوری 1879 ء.بیعت و زیارت ستمبر 1895 ء.وفات 5/6 جنوری 1961ء) حضرت بھائی صاحب سارسوت برہمنوں کی ایک ذیلی شاخ ماہیال کے چشم و چراغ تھے.سر ڈینزل ابسٹن کی تحقیق کے مطابق :- کہا جاتا ہے کہ ان کا نام ان سات مہینوں یا قبیلچوں کی وجہ سے پڑ گیا جو ان میں شامل ہیں.وہ کافی حد تک دامن کوہ خطہ کو ہستان نمک تک محدود ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد نے مغل دور میں اعلیٰ رتبات حاصل کئے جس کے بعد انہوں نے تمام پجار یا نہ کام یا مقدس کردار کا دعوی کرنا چھوڑ دیا.وہ کا شتکاری کرتے ہیں، لیکن خاص طور پر فوج کی نوکری یا کلر کی بھی.وہ برہمن کہلانے پر اعتراض کرتے ہیں کیونکہ ہماری فوج میں

Page 312

تاریخ احمدیت 303 جلد 21 برہمنوں کی بھرتی ممنوع بتائی جاتی ہے.یہ ان کا اپنا بیان ہے، لیکن ہزارہ خاص میں موہیاں پر وہتا نہ فرائض سر انجام دیتے اور دوسرے برہمنوں کی طرح نذرانے اور دان وصول کرتے ہیں.13 ماہیال قوم کے دوسرے اکثر راجپوت قبائل مثلاً منہاس، چپ لوہدرہ چوہان وغیرہ مہتہ کہلاتے ہیں.محقق پاکستان انجم شہباز سلطان ایم اے کے نزدیک راجہ جگ دیو کے برج دیو اور رام دیو د ولڑکے تھے.راجا رام دیو نے مہتہ کا لقب اختیار کیا....مہی سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی بزرگی کے ہیں.یہ گوت نہیں بلکہ 66 لقب ہے.19 نیز لکھتے ہیں: ”جو راجپوت میدان جنگ میں کار ہائے نمایاں دکھاتا تھا اس کو مہنہ کا لقب دیا جاتا تھا.مہتہ کا لفظ انگریزی زبان کے نائیٹ (KNIGHT) کے مترادف ہے“.20 ای ڈی میکلین اور ایچ اے روز کا بیان ہے کہ ہزارہ خاص میں موہیال...دوسرے برہمنوں کی طرح نذرانے اور دان وصول کرتے تھے.حضرت بھائی صاحب کے والد ماجد کا نام مہتہ گوراند تیل تھا اور والدہ کا نام پاربتی دیوی تھا.ابتدائی تعلیم بکالیاں ضلع (گجرات) کے مدرسہ میں حاصل کی.ازاں بعد اپنے والدین کے ساتھ تحصیل چونیاں کے بعض سکھ دیہات میں آگئے جہاں ایک مقامی پنڈت جی سے ہندی پڑھی اور دید منتر زبانی یاد کئے.پھر آپ نے چونیاں کے ایک مدرسہ میں داخلہ لیا.سکول کے کورس میں ان دنوں ایک کتاب رسوم ہند داخل تھی.اس کتاب کے مطالعہ نے آپ پر مقناطیسی اثر کیا اور آپ کی کایا پلٹ گئی.اور آپ دل سے (دین حق ) پر فریفتہ ہو گئے.اور حلاوت ایمانی جناب الہی کی طرف سے آپ کے رگ و پے میں سرایت کر گئی.یہاں تک قلبی انقلاب ہوا کہ رات کو سوتے وقت اس بات کا خاص اہتمام کرنے لگے کہ آپ کی چارپائی ایسے رُخ پر رہے کہ پاؤں قبلہ کی طرف نہ ہوسکیں.آپ ابھی مڈل کے طالب علم تھے کہ 1894ء میں ظہور مہدی الزماں کا مشہور عالمی نشان کسوف و خسوف ظاہر ہو گیا.سکول کے ہیڈ ماسٹر مولوی جمال الدین صاحب مولوی فاضل منشی فاضل نے سب طلبہ کو بتایا کہ مہدی موعود کی سب سے بڑی علامت معرض وجود میں آچکی ہے اس لئے اس کی تلاش کرنی چاہئے.اس دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کی خصوصی رہنمائی کے لئے حضرت میر حامد شاہ صاحب کے ایک

Page 313

تاریخ احمدیت 304 عزیز ڈاکٹر سید بشیر حیدر صاحب کو چونیاں پہنچادیا اور وہ آپ کے کلاس فیلو بن گئے.جلد 21 آپ کے والد صاحب نے فروری یا مارچ 1895 ء میں سارے کنبہ کو چونیاں سے سیالکوٹ بلا لیا.یہاں پہنچنے کے بعد سید بشیر حیدر صاحب اور چونیاں کے دوسرے مسلمان دوستوں کے خطوط کا تانتا بندھ گیا.آپ پا پیادہ سیالکوٹ پہنچے اور سید بشیر حیدر صاحب کے بالا خانہ میں قیام کیا.شاہ صاحب کی لائبریری میں حضرت مسیح موعود کی کتاب نشان آسمانی اور انوار الاسلام موجود تھی جن کے مطالعہ نے آپ کے دل میں عرفان و حکمت کے چشمے جاری کر دئے اور آپ حضرت سید میر حامد شاہ صاحب کا تعارفی خط لے کر حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت اقدس میں قادیان پہنچے.حضور انور نے آپ کو کلمہ طیبہ پڑھایا اور آپ داخل احمدیت ہو گئے جس کے بعد آپ کی زندگی کا ایک نیا اور انقلابی دور شروع ہو گیا.حضرت بھائی جی ان اصحاب خاص میں سے تھے جن کی پوری زندگی بلکہ زندگی کا ہر سانس دینی خدمات سے عبارت ہے.آپ کو حضرت حافظ حامد علی صاحب کے بعد مسیح دوراں کے خادم خاص ہونے کا موجب صد افتخار اعزاز حاصل ہوا اور یہ اعزاز آپ نے دور خلافت میں بھی پورے اخلاص و وفا کے ساتھ جاری رکھا.اور اس سلسلہ میں آپ دنیائے احمدیت میں اس درجہ شہرت یافتہ تھے کہ میاں محمد یا مین صاحب تاجر کتب خانہ قادیان نے 25 نومبر 1920ء کو اپنی کتاب ”قادیان گائیڈ میں بطور خاص شیدائی“ کے زیر عنوان لکھا: حضرت خلیفہ اسیح ثانی کے خدام اور شیدائی یوں تو آپ کے سب کے سب مبائعین ہیں لیکن سب سے زیادہ خدمت کرنے والے بعض یہ ہیں مثلا شیخ عبدالرحمان صاحب قادیانی ، نیک محمد عبد الاحد احمد الدین زرگر وغیرہ وغیرہ (صفحہ 112) وو محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان کی مشہور تالیف اصحاب احمد جلد نہم اور کتاب ”حضرت بھائی جی عبدالرحمان قادیانی میں آپ کے مفصل سوانح اور کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے.ذیل میں صرف ان کے خلاصہ پر اکتفا کیا جاتا ہے: دور اول : 1.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 21 دسمبر 1896ء کو جلسہ اعظم مذاہب کے لئے ایک اشتہار سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری لکھا.آپ یہ مطبوعہ اشتہار لے کر لاہور پہنچے اور حضور

Page 314

تاریخ احمدیت 305 جلد 21 کی ہدایت پر انہیں تاکید کی کہ اس کی خوب اشاعت کریں.2 جنوری 1897ء میں کتاب ضمیمہ انجام آتھم ، جس کی فہرست 313 اصحاب میں حضرت اقدس نے آپ کا نام نمبر 101 پر درج فرمایا.3- 1897ء میں آپ نے انجمن خادم الاسلام قائم کی جس کے سر پرست حضرت حکیم الامت حافظ مولانا نورالدین صاحب بھیروی تھے.4 قتل لیکھرام 6 مارچ 1899 ء کے بعد حضرت مسیح موعود اور الدار کی حفاظت کے لئے پہرے کا خصوصی انتظام کیا گیا جوکم و بیش دو تین سال تک متواتر جاری رہا.اس انتظام کے مہتم خصوصی آپ ہی تھے.5.جنوری 1898ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان جاری ہوا تو آپ اس کے سٹاف میں شامل کئے گئے اور وسط جنوری 1903 ء تک آپ نہایت فرض شناسی سے تدریسی فرائض انجام دیتے رہے.6.1900 ء کے خطبہ الہامیہ کو خدا کے مقدس مسیح کی زبان مبارک سے سنے کی جن خوش نصیب رفقاء کو سعادت ملی ان میں آپ بھی تھے.7.جنوری 1903ء کو آپ کو سفر جہلم میں حضرت مسیح موعود کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا.حضرت صاحبزادہ شہزادہ عبداللطیف رئیس کا بل بھی اس مقدس قافلہ میں شامل تھے.8.22 نومبر 1906ء کو آپ پانچویں حصہ آمد کی وصیت کر کے آفاقی نظام، الوصیت سے وابستہ ہو گئے.1900-9ء میں حضرت سید محمود المصلح الموعود نے حضرت مسیح موعود کی اجازت خاص سے انجمن تشحذ الاذہان کی بنیاد رکھی جس کا احیاء 1906ء میں ہوا جس کے سیکرٹری حضرت منشی عبد الرحیم صاحب مالیر کوٹلوی تھے اور اس کے پر جوش ممبروں میں آپ کا شمار صف اول میں ہوتا تھا.10.27 اپریل 1908ء کو حضرت مسیح موعود نے اپنی زندگی کا آخری سفر لا ہور اختیار کیا تو اس میں خادم خاص کی حیثیت سے ابتداء سے وصال مبارک بلکہ مراجعت قادیان تک بیش بہا خدمات کے مواقع حاصل ہوئے.دوران قیام لاہور حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے جو معرکۃ الآراء خطاب فرمایا اس کو آپ نے اس دیدہ ریزی، شرح وبسط اور خوبصورتی سے قالمبند کیا کہ پڑھنے والے عش عش کر اٹھے.یہ خطاب آپ کے قلم حقیقت رقم سے 14 جولائی 1908ء کے الحکم میں شائع شدہ ہے اور قابل دید اور لائق مطالعہ ہے.

Page 315

تاریخ احمدیت 306 جلد 21 دور دوم 11.نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سفر مصر د عرب کے لئے تشریف لے گئے تو مرکز نے آپ کو ان کے الوداعی انتظامات کے لئے بمبئی تک بھجوایا.12.حضرت خلیفہ اسی الاول کے منشاء کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد اصلح الموعود کے ہاتھوں انجمن انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا تو آپ بھی اس کے ممبروں میں شامل ہو گئے اور ممبری کا حق ادا کیا.دور سوم: 13.خلافت ثانیہ کے با برکت آغاز میں آپ کو اخبار الفضل کا طابع و ناشر بنایا گیا.تقسیم ملک (1947ء) تک آپ کو یہ فریضہ بجالانے کی توفیق ملی.14.12 اپریل 1914ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم پر قادیان میں برٹش انڈیا کی جماعتوں کے نمائندوں کی پہلی مجلس شوری منعقد ہوئی جس کی تفصیل منصب خلافت میں ریکارڈ ہو چکی ہے.شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے بعد آپ نے حضرت خلیفہ اسیح کے حکم سے غیر مبائعین کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لئے پشاور تک کی جماعتوں کا سفر کیا.15.1923ء کے آغاز میں حضرت خلیفہ المسیح کی طرف سے تحریک شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان ہوا.12 مارچ کی نماز فجر کے بعد حضور نے تحریک فرمائی کہ بعض مخلصین فوراً میدان عمل میں پہنچ جائیں.ظہر تک 120 احباب نے اپنا نام پیش کیا اور حضور نے ڈلہ کے موڑ پر اس پہلے قافلہ جہاد کو الوداع کیا.حضرت بھائی جی کو بھی ان اولین مجاہدوں میں شمولیت کا فخر حاصل ہوا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے قلم سے الحکم 7 جون 1923ء صفحہ 2 میں آپ کے متعلق ایمان افروز تاثرات شائع ہوئے جو بہت روح پرور ہیں.حضرت بھائی جی کم و بیش نو دس ماہ شدھی تحریک کے خلاف مصروف جہادر ہے اور اس اخلاص، جانفشانی اور بے جگری سے فریضہ تبلیغ ادا کیا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے نو جوان مبلغین کے لئے آپ کو بطور مثال پیش کیا اور آپ کی رپورٹوں کو محفوظ رکھنے کا خصوصی ارشاد فرمایا.حضور نے 31 جولائی 1923ء کو فرمایا کہ ہندوؤں میں سے بعض ایسے لوگ اس سلسلہ میں آئے ہیں کہ ان کی خدمات اور غیرت اسلام پر رشک آتا ہے اور وہ دوسرے دس دس ہزار مسلمانوں کے مقابلہ میں ایک ہیں.اس تعلق میں حضور نے حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اور حضرت بھائی عبد الرحیم

Page 316

تاریخ احمدیت 307 جلد 21 صاحب قادیانی کا نام لیا.16.1924ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے پہلے سفر یورپ میں آپ کو بھی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا.ڈائری نویسی آپ کا فرض منصبی نہیں تھا مگر آپ نے محض شوق ذاتی کی وجہ سے اپنے محبوب آقا کے حالات سفر اپنے بڑے لڑکے مہتہ عبد القادر صاحب کے نام لکھے.جب آپ کا لکھا ہوا پہلا خط قادیان پہنچا اور بعض احباب اور بزرگوں نے بھی اسے پڑھا تو حضرت مولانا شیر علی صاحب امیر جماعت قادیان کی طرف سے آپ کو حکم پہنچا کہ ایسے خطوط براہ راست ان کے نام بھیجا کریں تا تمام دوست اپنے مقدس اور محبوب امام کے حالات سے مستفیض ہو سکیں.چنانچہ آپ کے خطوط پہنچتے ہی باقاعدہ اعلان کر کے احباب کو جمع کیا جاتا اور مجمع عام میں ان کے سنانے کا باقاعدہ انتظام کیا جاتا تھا.حضرت بھائی جی تحریر فرماتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ میں نے لندن دیکھا ہی نہیں کہ ہے کدھر اور ہے کیسا؟ کیونکہ میں اپنی ڈیوٹی سے وقت بچا کر ڈائری لکھنے اور پہنچانے میں سارا سرور اور ساری لذت محسوس کیا کرتا تھا کیونکہ یہ حس خدا نے خاص طور پر ودیعت فرمارکھی ہے کہ اپنے محبوب آقا کی جدائی کا صدمہ میرے لئے نا قابل برداشت ہوا کرتا ہے.سو اس حسن کی وجہ سے میں اپنے بھائیوں کی تڑپ اور پیاس کا اندازہ کر کے یہ خدمت بجالایا کرتا تھا.سوحضور کی معیت میں اگر کہیں جانے کا موقع مل گیا تو گیا مگر چلتے ہوئے بھی عمارتوں بازاروں اور بلند و بالا ایوانوں کی بجائے میری نظر اور میرا دھیان کاغذ اور اس کی تحریر ہی پر ہوا کرتا تھا.“ 1936-17ء میں مسٹر کھوسلم مشن بج گورداسپور نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ کے فیصلہ میں حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ذات بابرکات کی نسبت نہایت ہی گندے اور نا قابل برداشت الفاظ استعمال کئے.اس شرمناک فیصلہ کے خلاف بطور احتجاج قادیان میں 26 مارچ اور 19 اپریل 1936 ء کو پبلک جلسے ہوئے جن میں آپ نے دو نہایت پر جوش تقاریر کیں اور باطل شکن الفاظ میں جماعت احمدیہ کے جذبات کا اظہار فرمایا.آپ کی یہ لاجواب تقاریر 32 صفحات کا ایک کتابچہ تنقید حصہ اول بر فیصلہ مسٹر کھوسلہ سیشن جج گورداسپور میں 12 اپریل 1936ء کو چھپ گئی تھیں.18.1945ء میں آپ نے اصحاب احمد قادیان کی فہرست مرتب فرمائی.1947-19 ء میں آپ کو ہجرت کر کے پاکستان آنا پڑا لیکن مئی 1948ء میں مستقل طور پر قادیان تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ قافلہ میں حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب قادیانی اور بعض دوسرے اصحاب احمد بھی تھے.آپ اس کے بعد قریباً پونے تیرہ سال تک زندہ رہے.آپ کا مبارک وجود درویشان

Page 317

تاریخ احمدیت 308 قادیان کے لئے مشعل راہ اور آسیہ رحمت تھا.چنانچہ مولوی برکات احمد صاحب را جیکی تحریر فرماتے ہیں: حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا حضرت اقدس مسیح موعود اور آپ کے اہل بیعت سے والہانہ عشق و محبت تھا.نہ صرف یہ کہ آپ کا قلب ان مقدسین کی محبت اور احترام کے جذبہ سے سرشار تھا بلکہ عملی رنگ میں آپکی والہانہ شیفتگی کا اظہار ہر حرکت وسکون سے ہوتا تھا.جب آپ حضرت اقدس مسیح موعود اور سیدۃ النساء حضرت اماں جان اور خاندان اہل بیعت کے کسی فرد کا ذکر فرماتے تو آپکی حالت مجسم عشق اور ممنونیت کی ہوتی.اور آپ نہایت دلچسپ اور روح افزاء انداز میں ان مقدسین کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بیان کرتے اور احسانات کو یاد کرتے ہوئے چشم پر آب ہو جاتے اور بار بار اسی بات کا اظہار کرتے کہ ہم کچھ نہ تھے اس مقدس خاندان کی غلامی میں اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیا.اور اتنا دیا کہ اس کا شکر ادا کرنا بھی ممکن نہیں.ی اسی محبت اور احترام کا تقاضا تھا کہ حضرت بھائی جی کو بار ہا مسجد مبارک کے دروازہ پر حضرت اقدس مسیح موعود کے ایک نو نہال کے جوتوں کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کرتے دیکھا گیا.ایسی خدمات میں آپ فخر محسوس کرتے تھے.سوائے آخری دو تین سال کے باوجود ضعیف العمری کے آپ کا حافظہ بہت باریک اور پختہ تھا اور آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام ، حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک زمانوں کے حالات و کوائف پوری تفصیلات کے ساتھ از بر تھے.اسی طرح قادیان کے مقدس مقامات کے متعلق جملہ تفصیلات یاد تھیں.اور آپ نہایت پُر جوش اور رقت آمیز لہجے میں اور انتہائی عقیدت اور محبت کے ساتھ ان تفصیلات کو بیان کرتے تھے.بٹالہ اور گورداسپور میں جن مقامات پر حضرت مسیح موعود قیام پذیر ہوئے تھے وہ بھی آپ کے ذہن میں گہرے طور پر مرتسم تھے.آپ نے حضرت اقدس کی جنازہ کی جگہ کی نشاندہی کی تھی.تو وہاں سردی کی شدت کے باوجود نلائی کرنا.کھرپے سے روشوں کو درست کرنا، محبت و عشق والی محنت و مشقت کی ایک زریں مثال ہے.آپ کی ایک اور نمایاں خوبی یہ تھی کہ جب آپ پر سلسلہ کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد جلد 21

Page 318

تاریخ احمدیت 309 جلد 21 کی جاتی تھی تو آپ اس کو نبھانے کے لئے پورے طور پر احساس کرتے.چنانچہ موجودہ دور میں بارہا دیکھا گیا ہے کہ آپ علالت یا ضعف سے نڈھال ہونے کے باعث گھر میں چار پائی پر دراز ہیں لیکن دفتر سے یہ اطلاع ملنے پر کہ آپ کو قائم مقام امیر مقامی یا ناظر اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے تو آپ فورا کمر بستہ ہو جاتے اور یوں معلوم ہوتا کہ آپ کے ناتواں اور سال خوردہ جسم میں یکدم طاقت اور چستی پیدا ہو گئی ہے اور آپ حتی المقدور کام سر انجام دیتے اور ہر کام میں ذاتی دلچسپی لیتے اور جس کا رکن کے ذمہ کام ہوتا اس کے پاس پہنچ کر اس کی سرانجام دہی کے لئے تاکید فرماتے.یہی وہ فرض شناسی کا جذبہ تھا جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی اور نجی کاموں کی سرانجام دہی اور اس کی وجہ سے تقرب کا موقعہ ملا.بلکہ 1924 ء کے سفر یورپ میں ہمسفر ہونا نصیب ہوا.20.عہد ور روایتی: آپ کے سوانح نگار ملک صلاح الدین صاحب ایم اے آپ کے عہد درویشی سے متعلق خدمات و حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں: اصحاب احمد کے کام میں آپ نے ہمیشہ بیش قیمت مشورے دئے اور اس بارہ میں نظر ثانی کے لئے آپ ہمیشہ آمادہ رہتے تھے.اور خوشی محسوس کرتے تھے.چنانچہ جلد اول کا سارا مسودہ آپ نے اپنا قیمتی وقت صرف کر کے سنا.اسی طرح جلد دوم کی بہت سی روایات کے متعلق میں نے مشورے کئے.جلد اول میں مقامات مقدسہ کے جو نقشے درج کئے گئے ہیں وہ آپ ہی کی زیر نگرانی تیار ہوئے تھے.آپ اس امر کے لئے ہمیشہ مستعد رہتے تھے اور اس میں بہت لذت وسرور محسوس کرتے تھے کہ احباب و زائرین کو دار امسیح اور مسجد مبارک دکھا ئیں.اور بتائیں کہ حضور مسجد مبارک میں بیت الفکر کی اس کھڑکی سے داخل ہوتے.کس کس مقام پر کھڑے ہو کر حضور نے نمازیں ادا کیں.اور حضور کی نشست کہاں ہوتی تھی.مسجد اقصیٰ میں کس مقام پر حضور نے خطبہ الہامیہ دیا وغیرہ.بہت کچھ تفصیل بیان فرماتے تھے تا آئندہ نسلیں ان باتوں کو محفوظ رکھ سکیں.نو دس سال قبل آپ نے بڑے باغ کے شمالی حصہ میں اس جگہ کی

Page 319

تاریخ احمدیت 310 نشاندہی کی تھی جہاں حضرت خلیفہ اول کا انتخاب عمل میں آیا اور جہاں حضرت مسیح موعود کا جنازہ مبارک رکھا گیا.اور جہاں حضور کی نماز جنازہ ادا کی گئی.چنانچہ ایک جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ایک جنازہ کی نماز سے قبل اس جنازہ گاہ میں مختصر کلمات میں حضرت عرفانی صاحب نے بھی اس نشاندہی کی تصدیق کی تھی.خاکسار اس موقعہ پر موجود تھا.بھائی جی نے اس جگہ کو گول چکر کی شکل میں بنوا کر وہاں پودے لگوائے اور مہینوں کئی کئی گھنٹے اکیلے یا کسی کو خود تحریک کر کے اپنے ساتھ لے جا کر وقار عمل کرتے.جگہ ہموار کرتے مٹی اٹھا اٹھا کر ڈالتے.پودے لگاتے ، گھاس صاف کرتے اور پانی ڈالتے.اور بار بار دیکھنے میں آیا کہ ضعیف العمری میں ایسی مشقت کرنے سے آپ کو بخار آ جاتا لیکن با وجود اصرار اور منت سماجت کے اس کام سے نہ رکتے.آپ کی سالہا سال کی منفر دانہ توجہ سے بحمد للہ یہ یادگار قائم ہو چکی ہے.اور حضرت مسیح موعود کی اس یادگار کے ساتھ حضرت بھائی جی کا نام بھی وابستہ رہے گا.آپ کو حضرت مسیح موعود کے خاندان کے تمام افراد سے بہت محبت تھی.اور تمام افراد اس محبت کو محسوس کرتے تھے.چنانچہ مجھے صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ( نبیرہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب) نے تحریر کیا ہے کہ بچپن سے حضرت بھائی جی سے میری وابستگی تھی.اور آپ خاص سلوک محبت سے پیش آتے تھے.حضرت مسیح موعود کے خاندان کے کسی نونہال سے ملاقات ہوتی تو آپ کے روئیں روئیں سے محبت پھوٹ کر ظاہر ہوتی.آپ فرط انبساط سے ان کے ہاتھ پر بوسہ دیتے.ان کے دکھ درد کو اپنا درد اور ان کی خوشی کو اپنی بہترین خوشی سمجھتے.حضور کا خاندان اور احباب جماعت آپ سے بہت محبت رکھتے تھے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قدردانی کرتے ہوئے 1950 ء سے مجالس صدر انجمن احمد یہ وانجمن تحریک جدید قادیان کا ممبر بھی اور بعد ازاں قائم مقام ناظر اعلیٰ و قائم مقام امیر مقامی بھی مقررفرمایا تھا.اور 1955 ء سے آپ کے لئے ایک سو روپے کا ماہوار وظیفہ بھی جاری کیا تھا.حضور یا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے کوئی ارشاد موصول ہوتا تو ہمہ تن نیاز ہو جاتے اور وہ امر جس فرد یا افسر سے متعلق ہوتا با وجود بڑھاپے کے فوراً اس کے پاس پہنچتے اور باوجود عرض کرنے کے کہ آپ ہمیں اپنے پاس بلا لیا کریں.آپ کیوں تکلیف فرماتے ہیں.آپ اپنی تکلیف یا علو مرتبت کا کبھی جلد 21

Page 320

تاریخ احمدیت 311 خیال نہ کرتے.گویا جہاں آپ کی طبیعت میں خوداری تھی وہاں حد درجہ انکساری بھی تھی.کوئی امر قابل دعا ہوتا یا کوئی خوشی یا رنج کی خبر ہوتی تو بہت سے احباب سے انفراداً ذکر کر کے بزرگان کی خوشی یا رنج میں شرکت کرتے.خوشی کی خبر پر بآواز بلند الحمد للہ کہنا ، اذان سنتے ہوئے مسنون طریق اختیار کرنا، بیت الذکر میں آنے والے ہر فرد کو مکمل جواب وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہنا ہمارے کانوں میں گونجتا ہے.آپ نہایت با قاعدگی سے تہجد اور نماز با جماعت ادا کرنے والے بزرگ تھے.اکثر دیکھنے میں آتا کہ آپ علالت کے باوجود با جماعت تہجد اور نماز میں تشریف لاتے.حالانکہ آپ میں چلنے کی طاقت بھی نہ ہوتی.اور آپ کسی درویش کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گھر واپس پہنچتے.مسجد مبارک میں نماز با جماعت کے وقت سے بہت پہلے تشریف لاتے اور سنن و نوافل میں دیر تک مصروف رہتے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کا قلب صافی کلام اللہ اور بیت الذکر سے معلق اور وابستہ ہے.کیونکہ آپ تلاوت اور نماز با جماعت میں اپنی طاقت سے بڑھ کر کوشاں نظر آتے تھے.آپ کو یہ امر حد درجہ مرغوب تھا.اور اس کے لئے آپ کوشاں رہتے تھے.کہ بیت الفکر اور مسجد مبارک کی درمیانی کھڑکی کے مغرب کی طرف اس جگہ بیٹھیں اور سنن و نوافل ادا کریں جہاں حضرت مسیح موعود مجلس میں تشریف فرما ہوتے تھے.یا نماز ادا فرماتے تھے.اسی طرح دیگر ایسے مقامات پر بھی با جماعت نماز کے وقت کھڑے ہوتے تھے جہاں حضور نے نماز میں پڑ ہی تھیں.اور اس خاطر آپ نماز کے ابتدائی وقت میں مسجد میں تشریف لاتے تھے.آپ کا سر نیاز دعاؤں کے لئے ہمیشہ درگاہ الہی پر خم رہتا.آپ ہمارے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھے.ہم آپ کی خدمت میں دعاؤں کے لئے عرض کرتے اور ہمین اطمینان ہوتا.مکرم صاحبزادہ مرز وسیم احمد صاحب اور آپ کی بیگم صاحبہ محترمہ دعاؤں کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور دیگر افراد خاندان حضرت اقدس اور جماعت کے بلا مبالغہ ہزار ہا خطوط آپ کی خدمت میں پہنچے.اور جب تک آپ کی صحت اچھی رہی تو ابتدا اپنے قلم سے اور بعد ازاں کسی دوسرے کے ذریعہ جواب بھجوا دیتے.آپ نہایت رقیق القلب تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام سے شدید عشق تھا.ان کے ذکر پر آپ کی آواز بھرا جاتی.اور آپ جلد 21

Page 321

تاریخ احمدیت 312 جلد 21 آبدیدہ ہو جاتے اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تکلیف کا علم ہونے پر آپ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے.1948ء میں حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب اور آپ جیسے بزرگوں کو جنہیں تقسیم ملک کے وقت حکماً قادیان سے نکلنا پڑا تھا.قادیان بھجوانے کا مقصد حضور کے پیش نظر یہی ہوگا کہ ان بزرگوں کے تقویٰ، تہجد گزاری ، عبادت میں انہاک، رجوع الی اللہ آنحضرت صلعم اور حضرت مسیح موعود سے عشق ، اسلام پر فدائیت، خلافت سے وابستگی وغیرہ کا اسوۂ حسنہ درویشوں کے سامنے رہے اور قولاً اور فعلاً اپنے بلند معیار کے ذریعہ ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوں.اور در حقیقت ان کا ایسا ہی مقام تھا.اور حضور کے دل میں ان کا حد درجہ احترام تھا.چنانچہ مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے نام ایک مکتوب میں حضور نے ان دو بزرگوں کو سلام لکھا.1953ء والے خلاف احمدیت فسادات سے 1 بہت قبل سید نا حضور اید اللہ تعالیٰ نے اپنی دور بین نگاہ سے آئندہ پیش آنے والے حالات کو بھانپ لیا تھا.چنانچہ حضور نے ان دونوں کو اپریل 1950ء میں ذیل کا مکتوب بذریعہ رجسٹری ارسال فرمایا تھا: مگر می شیخ عبدالرحیم صاحب و بھائی عبدالرحمن صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج کل کچھ ذاتی پریشانیوں اور کچھ سلسلہ کی پریشانیوں کی وجہ سے طبیعت پر بہت بوجھ ہے.یہ پریشانیاں بہت سخت ہیں اور سلسلہ کے کام کو سخت دھکا لگنے کا احتمال ہے اس لئے یہ خط تحریر ہے.کہ آپ اور دوسرے ایسے احباب جو دعائیں کرنے کے عادی ہیں بیت الدعاء، مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ اور مقبرہ بہشتی میں جا کر جب موقعہ ملے اور صحت اجازت دے دعائیں کریں کہ ان ذاتی اور جماعتی پریشانیوں کو (وہ) دور فرمائے.اور سلسلہ کو عظیم اور پراگندگی سے محفوظ رکھے.اور دعا کے علاوہ استخارہ بھی کریں کہ شاید اللہ تعالی کوئی تسلی بخشے.اور کوئی راہ اور تجویز بلیات سے نجات کی تجویز کرے.نقصان والسلام خاکسار مرز امحموداحمد لاکھوں کی جماعت میں آپ مسلم ومحترم بزرگ تھے.آنکھیں ترسیں گی لیکن ایک ہاتھ میں عصا تھامے اور دوسرے ہاتھ سے کسی درویش کے کندھے کا سہارا لئے اور سر پر روئی دار گدی رکھے (جسے آپ نماز کی جگہ فرش کی سختی سے بچنے کے لئے رکھتے تھے ) آپ کو نہ

Page 322

تاریخ احمدیت 313 جلد 21 دیکھ پائیں گی.آپ نے حضرت مسیح موعود کے مبارک عہد میں بھی اور درویشی کے خاص دور میں بھی ایک ہی جتنا عرصہ پایا یعنی بارہ سال آٹھ ماہ کے قریب.آپ کی زندگی نہایت قابل رشک تھی.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات اعلیٰ علیین میں بلند فرمائے.اور ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین یا رب العالمین.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے تاثرات : 28.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کا وصال 5/6 مئی 1961 ء کو پاکستان میں ہوا اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.آپ جیسی عظیم شخصیت کی وفات پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے درج ذیل الفاظ میں تاثرات سپر د قلم فرمائے:.حضرت بھائی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیم ترین رفقاء میں سے تھے اور ان کو یہ غیر معمولی امتیاز حاصل تھا کہ جبکہ ابھی بھائی صاحب بالکل نوجوان بلکہ گویا بچہ ہی تھے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیک وقت ہندو مذہب ترک کر کے اسلام قبول کرنے اور احمدیت کی نعمت حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر ایک لمبا عرصہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صحبت کا موقعہ میسر آیا.چنانچہ جب 1908ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لاہور میں وصال ہوا تو اسوقت بھی حضرت بھائی صاحب حضور کے ساتھ تھے اور بالآخر ملکی تقسیم کے بعد حضرت بھائی صاحب کو قادیان میں درویشی زندگی کی سعادت نصیب ہوئی.29 حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک اور نوٹ میں لکھا:.حضرت بھائی صاحب کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ خلافت ثانیہ کی ابتداء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو سفر بھی فرماتے تھے اس میں لازماً حضرت بھائی صاحب کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور حضرت بھائی صاحب بڑی محنت اور جانفشانی سے ضروری خدمت بجالاتے تھے.ایسے سفروں میں عموماً نیک محمد خان صاحب غزنوی بھی ساتھ ہوتے تھے.چونکہ حضرت بھائی صاحب کی طبیعت بہت حساس تھی اس لئے حضور ان کی دلداری کا بہت خیال رکھتے تھے.جب حضرت بھائی صاحب نے قادیان میں جا کر درویشی زندگی اختیار کی تو حضور نے اس زمانے میں ان کو صدر انجمن احمد یہ قادیان کا نمبر

Page 323

تاریخ احمدیت 314 بھی مقرر فرما دیا تھا.جو ایک طرف ان کے علو مرتبت اور دوسری طرف ان پر حضرت صاحب کے اعتماد کی ایک دلیل ہے.حضرت بھائی صاحب بہت محبت کرنے والے بزرگ تھے.اور خاندان حضرت مسیح موعود کے ساتھ بڑا اخلاص رکھتے تھے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ نصیحت فرماتے رہتے تھے کہ مرکز اور خاندان حضرت مسیح موعود کے تعلق میں کبھی غفلت نہ کرنا.ایک دفعہ حضرت بھائی صاحب اوائل زمانہ میں اجازت کے ساتھ وسط ہند میں مرزا احسن بیگ صاحب مرحوم کے پاس کچھ عرصہ جا کر ٹھرے تھے اس زمانے میں جنگل میں ایک دفعہ ایک چیتے نے حضرت بھائی صاحب پر حملہ کیا تھا جس کی وجہ سے حضرت بھائی صاحب کی ایڑی پر زخم آیا تھا.مگر خدا کے فضل سے جلد آرام آ گیا.مرزا صاحب ہمارے پھوپی زاد بھائی تھے انکی والدہ مرحومہ حضرت مسیح موعود کی چچا زاد بہن تھیں.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مرحوم کے ساتھ حضرت بھائی صاحب کے خاص تعلقات تھے کیونکہ ہر دو کی طبیعت بے حد جذباتی تھی.اور غالباً کچھ عرصہ حضرت بھائی صاحب نے الحکم کے عملہ میں بھی کام کیا تھا.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جن دوستوں نے حضرت مسیح موعود کی وفات پر حضور کو غسل دیا ان میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی شامل تھے.اور چونکہ لا ہور اس آخری سفر کے دوران حضرت بھائی صاحب بھی حضرت مسیح موعود کے ساتھ تھے.اس لئے حضرت بھائی صاحب کو حضرت مسیح موعود کے آخری سفر اور وفات اور جنازہ اور تدفین وغیرہ کے واقعات خوب یاد تھے.اللہ تعالیٰ حضرت بھائی صاحب کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کی اہلیہ اور اولاد کا دین ودنیا میں حافظ و ناصر ہو.فقط والسلام شاندار علمی خدمات: خاکسار مرزا بشیر احمد 25/1/62 ،، جلد 21 حضرت بھائی جی اگر چہ کسی عربی درسگاہ یا ادبی کالج میں نہیں پڑھے تھے مگر آپ نے گرانقدر لٹریچر اپنی یادگار چھوڑ ا جو سفر یورپ میں 1924ء کی حقیقت افروز روداد اور بیش قیمت مقالوں پر مشتمل ہے جسے

Page 324

تاریخ احمدیت 315 جلد 21 مستقبل کا کوئی مؤرخ نظر انداز نہیں کر سکتا.آپ کا علم و فضل اور ثقافت و عدالت سلسلہ احمدیہ کے تمام حلقوں میں مسلم ہے.آپ کی تاریخی تحریرات کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1.حضرت خلیفہ ثانی کا سفر یورپ 1924 ء (اشاعت 2008ء) 2.خلافت ثانیہ کا قیام تاریخی مضامین: 1 - اسلام قبول کرنے کے ایمان افروز حالات (الحکم 7 و 28 مارچ 1938 ء ) 2.ایک مقدس خدا نما وجود ( الحکم 27 مئی تا 7 جون 1939 ء) 3.خلافت ثانیہ کی صداقت و عظمت ( الحکم 7-14 اکتوبر 1939ء) 4.حضرت مسیح موعود اور ایک مردانہ ہمت عورت (الحکم 21.28اکتوبر 1939 ء) 5.حضرت مسیح موعود کے رفقاء کی جاں شاریاں و فدا کاریاں (الحکم 7.14 نومبر 1939 ء) 6.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے چشم دید حالات (الحکم 21.28اکتوبر 1939ء) 7.ارض حرم قادیان کی ابتدائی تاریخ اور قادیان کی بستی کا احیاء اور اس کی عظمت کا دور ( الحکم 7.14 جون 1940 ء ) 8.باران رحمت (الحکم 28 جنوری 1940 ء ) 9.داغ ہجرت کا الہام ( بدر 7 مارچ 1952ء) 10.حضرت اماں جان کا روحانی اور اخلاقی کمال (بدر 28 اپریل 1952ء) 11.اللہ تعالیٰ ہمارے آقا کی منزل مقصود کو قریب اور آسان بنادے( بدر 28 اگست 1952ء) 12.اولوالعزم فاتح.ولیم دی کانکر ر (بدر 21.28 دسمبر 1952ء) 13 جلسہ اعظم مذاہب لا ہور“ ( اصحاب احمد جلد نہم مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے صفحہ 252) 14.عید قربان 1900 ء اور خطبہ الہامیہ ( اصحاب احمد جلد نہم مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے صفحہ 267)

Page 325

تاریخ احمدیت اولاد 316 جلد 21 1 محترم مہتہ عبدالقادر صاحب -2 محترمہ امۃ الرحیم خانم صاحبہ ( بیگم حضرت مرزا برکت علی صاحب انجینئر نعمانیہ (عراق) -3 محترم مہتہ عبدالرزاق صاحب (پریس فوٹو گرافر کراچی ) -4 محترم مہتہ عبد الخالق صاحب سابق مشیر معدنیات حکومت مشرقی پاکستان حال لاہور مصنف "MEMORIES OF FIELD GEOLOGIST" 5 محترم عبدالسلام صاحب ڈرلنگ انجینئر حضرت سید محمد فاضل شاہ صاحب ( آف پنجوڑ یاں تحصیل کھاریاں ضلع گجرات) ولادت 1876ء.بیعت 1904 ء وفات 17 جنوری 1961 ء81 آپ کوئٹہ میں آرمی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مضمون پڑھا اور حضرت مسیح موعود کی خدمت میں بذریعہ خط بیعت کی درخواست کی.حضور نے اپنے دست مبارک سے قبولیت بیعت کا خط تحریر فرمایا.بیعت کے بعد آپ نے دوسرے لوگوں کو پیغام حق پہنچانا شروع کر دیا اور کئی ایک لوگ احمدی ہونے کے لئے تیار ہو گئے.آرمی کے ہندوستانی آفیسروں کو پتہ چلا تو وہ آپ کی مخالفت کے در پے ہو گئے.برطانوی آفیسروں کے پاس آپ کی شکایت کی گئی اور آپ کو بالآخر مجبوراً ملا زمت سے علیحدہ ہونا پڑا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد کہ ” خدا تعالیٰ مومن کو اکیلا نہیں چھوڑتا بار ہا تجربہ میں آیا.جنوبی ہندوستان میں جہاں آپ مقیم رہے آپ بعض ایسے مقامات میں تشریف لے گئے جہاں کوئی احمدی نہ ملتا تھا.لیکن خدا کے فضل سے تھوڑے عرصے کے بعد ہی کوئی نہ کوئی احمدی آپ کو ضرور مل جاتا.حضرت شاہ صاحب در ولیش منش، حلیم، صابر اور خاموش طبع بزرگ تھے.پوری عمر سادگی میں گزری.حضرت مصلح موعود سے انتہائی محبت اور عقیدت تھی اور حضور کے احسانات اور مشفقانہ سلوک کا ہمیشہ ذکر فرماتے رہتے تھے اور حضور کے خطابات اور تحریرات کو پڑھوا کر سننے کے لئے ہمیشہ بے تاب رہتے تھے.تقسیم ہند سے چار پانچ سال قبل ہجرت کر کے قادیان میں سکونت پذیر ہوئے.بعد ازاں سیالکوٹ اور راولپنڈی پھر کراچی میں رہے.شروع 1960 ء میں ربوہ آگئے اور یہیں انتقال کیا.

Page 326

تاریخ احمدیت اولاد 317 سید محمد یوسف شاہ صاحب ( مدفون بہشتی مقبره) سید محمد سلمان شاہ صاحب ربوه سید عبدالرفیق شاہ صاحب کراچی سید عبدالرشید صاحب مرحوم سید عبد السلام شاہ صاحب مرحوم سابق معلم وقف جدید سید عبداللطیف شاہ صاحب لنڈن حضرت سید محمد علی شاہ صاحب کا ٹھ گڑھی جلد 21 ولادت 1 186 ء.بیعت 1903 ء.وفات 18 جنوری 1961 ء بعمر قریباً سوسال حضرت شاہ صاحب پُر جوش داعی الی اللہ تھے.آپ کے ذریعہ نہ صرف کا ٹھ گڑھ میں جماعت کی ترقی ہوئی بلکہ اس کے اردگرد بھی کئی نئی جماعتیں قائم ہوئیں.آپ صاحب کشف والہام تھے.تلاوت قرآن اور ذکر الہی آپ کی روح کی غذا تھی.حضرت مسیح موعود کی کتابوں کا با قاعدہ مطالعہ کرتے تھے.حضرت مصلح موعود کے عاشق صادق تھے.سرکاری ملازمت کے دوران پہلے ریاست جموں و کشمیر میں پھر ضلع لدھیانہ اور ریاست پٹیالہ میں رہے.ازاں بعد ہجرت کر کے قادیان آگئے اور 1926 ء سے لے کر 1941 ء تک انسپکٹر بیت المال کے فرائض سرانجام دیتے رہے.اولاد محترمہ (اہلیہ حمد یوسف علی صاحب چک L-135/16 تحصیل خانیوال) حضرت ڈاکٹر حافظ بدرالدین صاحب ایم بی بی ایس ولادت 1898ء.وفات 30/31 جنوری 1961ء86 سلسلہ احمدیہ کے نہایت مخلص، متقی اور جاں فروش مجاہدوں اور ممتاز اور فدائی خادموں میں سے تھے.آپ نے بحیثیت ڈاکٹر دنیا کے متعدد ممالک میں انسانیت کی جو عظیم الشان خدمات انجام دیں وہ اپنی جگہ پر قابل قدر ہیں مگر ان کا سب سے نمایاں وصف اپنے فن طبابت تبلیغ اور اخلاق سے روحانی مریضوں

Page 327

تاریخ احمدیت 318 جلد 21 کے لئے شفا کا سامان مہیا کرنا تھا.آپ اگر چہ جماعت کے با قاعدہ مبلغ نہ تھے مگر آپ کی پوری زندگی سراسر اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے وقف تھی.آپ نے قرآن مجید بڑی عمر میں صرف چار ماہ میں حفظ کیا تھا اور اسکی تلاوت میں آپ کی زبان ہمیشہ تر رہتی تھی.آپ اپنے والد بزرگوار حضرت خان صاحب فرزند علی خاں صاحب سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں تحریری بیعت کر کے داخلِ احمد بیت ہوئے.تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان اور احمد یہ ہوٹل لاہور کے قدیم طلباء میں سے تھے.ڈاکٹری پاس کرنے کے بعد مشرقی افریقہ میں تشریف لے گئے اور ممباسہ نیروبی کمپالا ٹا نگانیکا اور یوگنڈا میں کئی نئی جماعتیں قائم کیں.مشرقی افریقہ کی ملازمت ترک کر کے آپ 38-1937 ء کے قریب بغرض پریکٹس کراچی آگئے.یہاں الفنسٹن سٹریٹ میں جماعت نے ایک ہال کرایہ پر لیا ہوا تھا.اسی ہال میں آپ کی انگریزی میں تقاریر ہوا کرتی تھیں.1946ء میں جبکہ صوبہ بہار میں ہولناک فسادات اٹھ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو شدید مظالم سے دوچار ہونا پڑا آپ حضرت مصلح موعود کی تحریک پر صوبہ بہار پہنچے اور بے پناہ مشکلات کے باوجود تا را پور کے متاثرہ علاقہ میں ریلیف کا کام کیا اور مقررہ مدت تک مظلوم مسلمان بھائیوں کی نا قابل فراموش خدمات سرانجام دے کر واپس لوٹے.حضرت مصلح موعود کے حکم پر آپ عرصہ دراز تک بور نیو میں مقیم رہے جہاں سینکڑوں افراد کو آپ کے ذریعہ قبول حق کی توفیق ملی اور نئی جماعتیں قائم ہوئیں.ایک رسالہ ملائی اور انگریزی زبان میں PEACE بھی آپ نے جاری کیا.آپ اپنی پریکٹس کا حرج کر کے 1957ء میں فلپائن تشریف لے گئے.آپ کی تبلیغ اور تقریروں اور ملاقاتوں سے فلپائن کی جماعت میں غیر معمولی اضافہ ہوا.چنانچہ سید نا حضرت مصلح موعود نے سالانہ جلسہ 1958 ء کے موقعہ پر آپ کے نمونہ اور اخلاص پر شاندار الفاظ میں اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا: ” اس ملک (فلپائن) میں حضرت عثمان کے زمانہ میں مسلمان پہنچے تھے لیکن جب سپین اور پرتگال نے اس پر قبضہ کیا تو عیسائیوں نے مسلمانوں کی گردنوں پر تلوار میں رکھ کر ان سے بپتسمہ قبول کروایا.میری خواہش تھی کہ اس ملک میں دوبارہ اسلام کی اشاعت کی جائے چنانچہ میں نے تحریک جدید کو اس طرف توجہ دلائی.انہوں نے کوشش کی کہ فلپائن میں مبلغ بھیجا جائے لیکن وہاں کی حکومت نے اس کی اجازت نہ دی اس پر انہوں نے تدبیر کی کہ اس ملک میں لٹریچر بھجوانا شروع کیا.جس کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو احمدیت سے دلچسپی شروع ہو گئی.اس کے بعد ڈاکٹر بدرالدین صاحب جو احمدیت کے عاشق صادق ہیں، چندہ بھی بڑی مقدار میں دیتے ہیں اور تبلیغی جوش بھی رکھتے ہیں، انہوں نے اپنی پریکٹس کا

Page 328

تاریخ احمدیت 319 جلد 21 نقصان کر کے چند ماہ تبلیغ کے لئے وقف کئے.جس کے نتیجہ میں وہاں کی جماعت تین سو سے زیادہ ہوگئی.“ پھر حضور نے برٹش بور نیو کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس ملک میں ایک انگریز گورنر نے مقامی علماء کو ملا کر ہماری جماعت کے خلاف محاذ قائم کر لیا تھا.ڈاکٹر بدرالدین صاحب نے دلیری سے گورنر اور گورنمنٹ کا مقابلہ کیا اور وہ علاقہ جس میں گورنر چاہتا تھا کہ احمدیت نہ پھیلے وہاں کے کچھ لوگوں کو اپنے پاس بلا کر تبلیغ کی اور وہ احمدی ہو گئے.حضرت ڈاکٹر صاحب بور نیو میں ہی تھے کہ سخت بیمار ہو گئے.ان کی دلی آرزو تھی کہ ان کی وفات ربوہ میں ہو.اللہ تعالیٰ نے انکی خواہش کو پورا کرنے کا معجزانہ سامان فرما دیا.آپ پاکستانی طیارہ ( پی آئی اے ) کے ذریعہ 5 جنوری 1961ء کو لاہور پہنچے.حضرت مصلح موعود نے از راہ شفقت اپنی کار آپ کے لئے لاہور بھجوا دی تھی.لاہور پہنچ کر فرمایا اب مجھے تسلی ہے کہ اب ربوہ سے صرف سو میل دور ہوں.دوسرے دن میونسپل ہسپتال میں ڈاکٹر رؤف صاحب نے معائنہ کیا اور اُن کے مشورہ پر ہسپتال داخل ہو گئے.شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ لاہور ملاقات کے لئے آئے تو آپ نے بتایا کہ مجھے آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ ” تیاری کرو " تیاری کرو“.میں نے یہ سمجھ کر کہ کہیں یہاں پر ہی پیغام اجل نہ آجائے واپسی کا عزم کر لیا.چند روز ہسپتال میں علاج کروانے کے بعد آپ نے فرمایا کہ اب میں ربوہ جانا چاہتا ہوں یہاں تو اس لئے داخل ہو گیا تھا کہ بعد میں کہیں حسرت نہ رہے کہ ہسپتال میں داخل ہو کر علاج نہیں کروایا.چنانچہ آپ ربوہ تشریف لے آئے.13 جنوری کو آخری وصیت لکھی جس کا 38 ضروری حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود 13 جنوری 61ء بقائی ہوش وحواس یہ وصیت کرتا ہوں کہ آقا کی خدمت میں السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت میاں ناصر احمد صاحب اور سارے خاندان ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کو السلام علیکم.اہالیان ربوه و درویشان قادیان سب کو محبت بھرا السلام علیکم.تمام جماعت احمدیہ.تمام مبلغین و واقفین - مجاھدین.جماعت کراچی.ممباسہ.نیروبی.کمپالہ.ٹانگانیکا کے سب

Page 329

تاریخ احمدیت 320 دوستوں و احباب کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ....یہ وصیت اولا دو نسل کو ہے.آئندہ زمانہ آنے والا ہے کہ محض عام واقفین نہیں بلکہ جماعت کا ہر فرد واقف ہو گا.تاجر، وکیل، ڈاکٹر مختلف ملکوں میں پھیل جائیں گے.خود کمائیں گے اور تبلیغ کریں گے.مرکزی نظام کے ماتحت تو حید اور رسالت کی شہادت زندگی اور موت کا واحد مقصد بنانا حفاظ پیدا کرنے کی کوشش کرنا.اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمداً عبده و رسوله خلافت کے نظام کے ساتھ ہمیشہ مستقل اور پختہ وابستگی رکھنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے مطالعہ کی عادت اولا دو نسل میں جاری رہے.مردار دنیا اور دوستوں کی طرف رغبت نہ کرنا.کروڑ پتی بھی روتے ہی جاتے ہیں.البتہ تم دنیا زیادہ سے زیادہ کما کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت کے قدموں میں لا کر ڈالتے رہنا.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.ربنا توفنا مسلما و الحقنا با لصالحین - تمام رشتہ داروں بہن بھائیوں اور سب دور ونزدیک کے اقربا کو السلام علیکم.وو اللهم صلى على محمد و علی آل محمد و على عبدك المسـ الموعود و على خلفائه وبارك وسلم انك حميد مجيد اللهم آمين مندرجہ ذیل سطور وفات سے چار پانچ روز پہلے لکھیں)....اہلیہ واولا د کو جزع فزع بے صبری اور اونچی آواز سے رونا نہیں ہے بلکہ جو رونا ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور توکل سے بھرا ہوا ہو.اور متوکلانہ شجاعانہ موہ طریق سے ہو.زندگی کا کام یعنی خدمت دین کرنا بیوی اور اولاد ہر ایک کا مقصود ہوگا.خاکسار بدرالدین احمد عفی عنہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپر و قلم فرمایا: ” خدائے عرش کی تقدیر پوری ہوئی اور ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب فوت ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب کو میں بچپن سے جانتا ہوں کیونکہ وہ سکول کے زمانہ میں میرے شاگر د ر ہے ہیں اور اس کے بعد بھی انہوں نے ہمیشہ خط و کتابت اور ملاقات کے ذریعہ تعلق قائم رکھا.میں اپنے ذاتی مشاہدہ اور ذاتی علم کی بنا پر کہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر بدرالدین صاحب بے حد شریف اور بے شر اور مخلص اور نیک فطرت جلد 21

Page 330

تاریخ احمدیت 321 اولاد انسان تھے.بچپن سے ہی وہ نمازوں کے پابند ، قرآن کے عاشق اور دعاؤں میں شغف رکھتے تھے اور اصطلاحی طور پر غیر واقف زندگی ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی ساری زندگی عملاً خدمت دین کے لئے وقف رکھی.تبلیغ ان کی روح کی غذا تھی اور سلسلہ کے لئے قربانی اور امام کی فرمانبرداری ان کا طرہ امتیاز.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بور نیو کے دور دراز ملک میں جا کر آباد ہو گئے اور وہیں اپنی بقیہ زندگی خدمت سلسلہ میں گذار دی اور اس ملک کو اس وقت چھوڑ ا جب انہوں نے سمجھ لیا کہ میرا وقت آچکا ہے اور اب مجھے اپنے آشیانہ میں واپس پہنچ جانا چاہئے.چنانچہ ربوہ پہنچتے ہی چند دن کے اندر اندر آسمانی آقا کے حضور حاضر ہو گئے.ان کی زندگی حقیقتاً قابل رشک تھی.بے حد شریف، بے نفس ،تہجد گزار ، دعا گو اور قرآن خوان انسان تھے.ان کے سب قدیم وجدید دوست ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں.غالبا تریسٹھ سال کی عمر تھی اور یہ وہی عمر ہے جس میں ہمارے محبوب آقا حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کے وصال کا پیغام آیا تھا.و كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال و الاكرام الله تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے اور ان کی بیوی بچگان کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین یا ارحم الراحمين 1- محترمہ امۃ الرحیم عطیہ صاحبہ (اہلیہ مبلغ امریکہ صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی ) 2 - مولوی نصیر الدین احمد صاحب ایم اے مرحوم ( سابق انچارج احمد یہ مشن سیرالیون) 3 محترمہ امۃ العزیز صاحبہ (اہلیہ مکرم مرزا محمد ادریس صاحب مرحوم ) 4.منیر الدین احمد صاحب 5 محتر مہ امۃ الکریم راضیہ صاحبہ حضرت چوہدری خوشی محمد صاحب آف کر یام مقیم را ہوالی ضلع گوجرانوالہ ولادت اندازاً 1885 ء.وفات 13 جنوری 1961ء محترم میر اللہ بخش صاحب تسنیم صدر جماعت احمد یہ را ہوالی کا تحریری بیان ہے کہ....چوہدری خوشی محمد صاحب ولد چوہدری علی بخش صاحب قوم راجپوت گھوڑے جلد 21

Page 331

تاریخ احمدیت 322 واہ.گوت کو تلکس.ساکن موضع کر یام تحصیل نواں شہر ضلع جالندھر حضرت مسیح موعود کے ایک مرنجاں مرنج نا خواندہ صحابی تھے جو قیام پاکستان کے بعد ہمارے گاؤں موضع تلونڈی را ہوالی ضلع گوجرانوالہ میں آباد ہوئے اور 13 جنوری 1961ء کو بعارضہ پیچیش بیمار ہوکر فوت ہوئے اور اسی گاؤں میں مدفون ہیں.ان کی بیماری کے دوران میں ان کی عیادت کے سلسلہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر بندہ نے ان سے جو حالات معلوم کئے وہ حسب ذیل ہیں.انہوں نے فرمایا کہ میری بیعت 1901 ء یا 1902 ء کی ہے اور اس وقت میری عمر سولہ یا سترہ سال کی تھی.فرمانے لگے ”ہمارے گاؤں میں سب سے پہلے سید عبدالرزاق صاحب نے بیعت کی تھی.لیکن ان کی بیعت کا معاملہ کچھ عرصہ تک پوشیدہ ہی رہا اور گاؤں میں کسی کو خبر نہ ہوسکی کہ وہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو چکے ہیں.جب حاجی غلام احمد صاحب نے بیعت کی تو اس وقت پتہ چلا کہ سید عبدالرزاق صاحب نے بھی بیعت کی ہوئی ہے.حاجی غلام احمد صاحب نے بیعت کرنے کے بعد عام لوگوں سے جُد انماز پڑھنا شروع کر دی اور قریباً ایک ماہ تک اکیلے ہی نماز پڑھتے رہے.لوگوں کو ان کے اس رویہ پر بڑا تعجب ہوا.کیونکہ وہ گاؤں کے سرکردہ آدمی تھے اور دینی امور میں بڑی دلچسپی لیا کرتے تھے.وہ بڑی ٹھنڈی طبیعت کے آدمی تھے.اب تک انہوں نے اپنے بیعت کرنے اور جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کا کسی سے ذکر نہیں کیا تھا.لوگوں نے جب علیحدہ نماز پڑھنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ امام مھدی آگیا ہے اور میں نے اس کی بیعت کر لی ہے.اور جو وقت کے امام کو نہ مانے اس کے پیچھے وقت کے امام کو ماننے والے کی نماز نہیں ہو سکتی.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ امام مھدی کی آمد کی جو علامت مثلا رمضان کے مہینے میں مقررہ تاریخوں پر چاند گرہن ہوا اور سورج گرہن کا ظہور پذیر ہونا وہ سب کی سب پوری ہو چکی ہیں.اگر حضرت مرزا صاحب بچے امام مہدی نہیں تو کوئی دکھائے جس نے امام مہدی ہونے کا اس زمانہ میں دعویٰ کیا ہو.لوگوں نے جب اس قسم کی باتیں حاجی صاحب کی زبان سے سنیں تو انہوں نے خیال کیا کہ حاجی صاحب معزز اور شریف آدمی ہیں.جھوٹ بولنے والے نہیں کیونکہ موصوف احمدی ہونے سے پہلے بھی بڑے متقی اور پرہیز گار مشہور تھے.حاجی صاحب کی باتیں سن کر میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے بھی جلسہ سالانہ پر ساتھ جلد 21

Page 332

تاریخ احمدیت 323 جلد 21 لے چلنا.چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ ضرور لے چلیں گے.جب جلسہ سالانہ کی تاریخیں قریب آگئیں تو ہمارے گاؤں کے قریباً ایک سو آدمی جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض سے حاجی صاحب کی معیت میں قادیان کو روانہ ہو گئے.میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا.بٹالہ ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر ہم گاڑی سے اترے اور یوں میں سوار ہو کر قادیان روانہ ہو گئے.قادیان پہنچ کر ہم مہمان خانہ میں چلے گئے.دوسرے دن ہمیں حاجی صاحب ہمراہ لیکر حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے.حضور بیت مبارک میں کھلنے والی کھڑکی کے راستہ (بیت) میں تشریف لائے.اس وقت ( بیت ) میں حاجی غلام احمد صاحب اور ہم سب کے علاوہ خواجہ کمال الدین صاحب اور حضرت خلیفہ اسی الاول اور چند اور آدمی بھی موجود تھے.ہم لوگ جو کر یام سے آئے تھے ان میں مہر خان صاحب اور ان کے والد مادے خان صاحب جو حاجی صاحب کے چا بھی تھے شامل تھے اور انہوں نے بھی ہمارے ساتھ ہی بیعت کی تھی.حاجی صاحب ذکر کیا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود سب سے پہلے السلام علیکم کہا کرتے.ہم کوشش کیا کرتے تھے کہ حضور سے پہلے حضور کو السلام علیکم کہیں.لیکن حضور سب پر سبقت لے جایا کرتے تھے.حضور نے ایک ایک کا ہاتھ اپنے ہاتھ کے اوپر رکھ کر بیعت لی تھی.بیعت لینے کے بعد حضور نے نصیحت کے طور پر فرمایا دین کو دنیا پر مقدم رکھو یہ نہیں کہ دنیا کو ترک ہی کر دو.اگر کوئی تمہارا بہن بھائی ناراض ہو تو اس کے لئے ہدایت کی دعا کرو.حضرت چوہدری غلام محمد خاں صاحب گرداور قانونگو : ولادت 1883ء.بیعت 1893ء.8 وفات 16 فروری 1961ء پھگا نہ ضلع ہوشیار پور (انڈیا) میں پیدا ہوئے.حضرت منشی حبیب الرحمان صاحب رئیس حاجی پورہ کے ذریعہ زمانہ طالب علمی میں داخل احمدیت ہونے کی سعادت نصیب ہوئی جس کے بعد آپ خود بھی دیوانہ وار تبلیغ کرنے لگے.آپ سرکاری ملازمت کے دوران جموں، پٹیالہ، پونچھ، ریاست بہاولپور، جھنگ، کرنال ،تحصیل لدھیانہ وسمرالہ ، ہوشیار پور، کاٹھ گڑھ، ماہل پور اور ادنہ تحصیل میں تعینات رہے اور جہاں اپنے محکمانہ فرائض نہایت دیانتداری اور جانفشانی سے انجام دئے وہاں نڈر ہو کر پیغام حق بھی پہنچایا.کئی علماء سے آپ کے کامیاب مباحثے ہوئے.آپ کے دلکش انداز تبلیغ اور حسن اخلاق سے بہت سے لوگ حلقہ بگوش

Page 333

تاریخ احمدیت 324 جلد 21 احمدیت ہوئے جن میں حضرت راجہ علی محمد صاحب مہتم بند و بست گجرات ، غلام مرتضی صاحب نعیم تحصیلدار ساکن جھنگ مگھیانہ اور قاضی عطاء الہی پٹواری گوجرانوالہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ان حضرات نے 1904-05ء میں ( جبکہ آپ بندو بست کی ملازمت کے دوران ضلع کرنال میں متعین تھے ) سلسلہ احمدیہ میں شمولیت کا شرف حاصل کیا.آپ اپنی خودنوشت سوانح میں لکھتے ہیں: حضرت مسیح موعود کا بہترین زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر افسوس زیادہ وقت حضور کی صحبت نصیب نہ ہوئی.حضور پر نور کے زمانہ میں ایسا اطمینان قلب ہوتا تھا جو کروڑوں اربوں روپوں میں بھی حاصل نہیں ہو سکتا.کوئی فکر کسی قسم کا دل میں آتا ہی نہیں تھا.“ حضرت چوہدری صاحب حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعود کے قبولیت دعا کے کئی نشانوں کے گواہ تھے اور خود بھی احمدیت کی برکت سے مستجاب الدعوات تھے.ملازمت کے ایام میں قرآن مجید کا کثرت سے مطالعہ اور حفظ کرنا آپ کا معمول رہا.نومبر 1937 ء کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہوئے مگر دعوت الی اللہ میں برابر مصروف رہے.20 اگست 1947ء کو سکھوں نے پھگا نہ پر حملہ کر دیا جس پر آپ مع دیگر افراد خانہ ہوشیار پور کیمپ میں منتقل ہو گئے.شروع ستمبر 1947 ء میں آپ کے بڑے بیٹے غلام اللہ خاں آپ کو ہوشیار پور کیمپ سے کراچی میں لے آئے.دسمبر 1947 ء میں آپ چک 68 ج.ب.ضلع لائلپور میں رہائش پذیر ہو گئے.1948ء میں یہیں آپ نے اپنے حالات زندگی قلم بند کئے جو بہت ایمان افراز ہیں.اولاد 1 - الحاج ڈاکٹر غلام اللہ خاں (ر) ڈائر یکٹر بیالوجیکل ریسرچ پاکستان.فارسٹ انسٹی ٹیوٹ تمغہ قائد اعظم“ 2.سردار بیگم صاحبہ (اہلیہ چوہدری عبدالرحیم صاحب کا ٹھ گڑھی ).میجر عبدالقادر خان صاحب 4 - حسن آراء بیگم 5.منورہ (مرحومہ) سابق ناظر دیوان صدر انجمن احمد یہ وقائد عمومی مجلس انصار اللہ مرکزیہ ) اہلیہ پیر عزیز الرحمان خاں صاحب) اہلیہ بشارت احمد صاحب)

Page 334

تاریخ احمدیت 325 6 را نا لطیف احمد خان صاحب صدر غلام محمد آباد فیصل آباد) 7 کلیم اللہ خان صاحب ( چک 68 ج.ب - ضلع فیصل آباد ) حضرت ملک عبد الغنی صاحب کنجاہ ضلع گجرات بیعت 1901 ء وفات 23 مارچ 1961ء جلد 21 آپ کے فرزند مکرم ملک عبد الرشید کنجاہی صاحب مقیم 16 شاہ دین اچھرہ لاہور نے حضرت خلیفة امسیح الرابع کی خدمت اقدس میں اپنے والد معظم کے حالات ارسال کئے جس پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے تحریر فرمایا: لندن 24.2.92 پیارے مکرم عبدالرشید صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط ملا.آپ نے اپنے والد صاحب کے جو حالات لکھے ہیں بہت دلچسپ ہیں اور ایمان کو تازگی بخشنے والے ہیں.اللہ ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں جاری رکھے اور وہ محض یاد بن کر دلوں میں زندہ نہ رہیں بلکہ ان کی خوبیاں نیک اعمال میں ڈھل کر ان کی اولاد میں زندہ رہیں.یہ واقعات مصدقہ طور پر مکرم مولوی دوست محمد صاحب مؤرخ احمدیت کے پاس بغرض ریکارڈ بھجوا دیں.تمام عزیز وں کو سلام پہنچائیں.والسلام، خاکسار مرزا طاہرا میبی خلیفہ ایح الرابع ذیل میں مبینہ واقعات کا مکمل متن مع تصدیق نامہ کے درج کیا جاتا ہے: روایت کی میرے والد صاحب اور میری والدہ برکت بی بی صاحبہ نے جو کہ میں حلفاً بیان کر رہا ہوں.فر ماتے تھے کہ اس زمانہ میں میرے والد صاحب اپنے ماحول کے ساتھ ہندوستان ، یوپی ، لکھیم پور اور اس کے گردو نواح میں کپڑا بیچنے کا کام کرتے تھے اور 14 منافع کے حقدار ہوتے تھے اور واپس آکر حضور کی خدمت میں قادیان حاضر ہوتے اور دعا کے لئے عرض کرتے اور چند روپے بطور نذرانہ پیش کرتے.ان دنوں ( والد صاحب اور والدہ صاحبہ ) فرماتے تھے کہ 1906ء میں جب ہم دونوں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کے

Page 335

تاریخ احمدیت 326 لئے عرض کیا اور چند سکے ( یعنی روپے ) حضور کو پیش کئے تو حضور میری والدہ کو فرمانے لگے ” کیا آپ کے میاں ٹھیکیداری کرتے ہیں والدہ صاحبہ نے عرض کیا کہ نہیں حضور بزازی کا کام کرتے ہیں.پھر فرمایا ٹھیکیداری اور پھر تیسری دفعہ باوجود کہنے کے کہ ”بزازی فرمایا ٹھیکیداری.والدہ صاحبہ فرماتی تھی کہ میں سمجھی کہ شاید آپ نے سنا نہیں اور بات ختم ہوگئی اور والدہ صاحبہ اور والد صاحب واپس آگئے.میرے نانا صوفی محمد دین صاحب بھی بزازی کا کام ہندوستان میں جا کر کرتے.انہوں نے میرے والد صاحب کو کہا کہ میرے والد ماموں کے ساتھ نہ جائیں اور میرے نانا کے ساتھ جائیں اور منافع آدھا دے دیا کریں گے لہذا میرے والد صاحب نے ماموں کو جواب دے دیا لیکن میرے نانا صاحب کو کوئی اور آدمی تھوڑے منافع پرپل گیا اور وہ میرے والد صاحب کو چھوڑ کر چلے گئے.والد صاحب فرماتے تھے میں پریشانی کے عالم میں بازار سے گزر رہا تھا ایک ہند ولالہ بکھل نے پوچھا کہ " اولر کے سب کپڑا بیچنے ہندوستان چلے گئے ہیں تو کیوں نہیں گیا ؟“ والد صاحب فرماتے تھے ساری بات لالہ کو بتا دی اس نے ) کھاتہ پر دستخط کروائے اور 1500 پندرہ صد رو پیر دیا اور کہا تم بھی کام کرو.فرماتے تھے گھر آکر میں نے کچھ گندم والدین کو اور کچھ والدہ کو دی اور خود تھیم پور کے لئے عازم سفر ہو گیا.تا کہ جا کر کپڑالے کر کام کروں (ھیم پور، یو پی ہندوستان کا ایک شہر ہے ).جس ہند وسیٹھ کی دکان سے کپڑا لیا کرتے تھے اس کے پاس پہنچا اور کہا کہ کپڑا دیں تو سیٹھ نے کہا ” کیوں رقم بر باد کرتے ہو لوگ کپڑا بیچ کر واپس جا رہے ہیں فرماتے تھے کہ میں وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور بہت پریشان تھا کہ کیا بنے گا.ایک سرائے تھی رات کو میں وہاں چلا گیا (پرانے زمانے کا ہوٹل ) صبح اٹھا تو وہاں ایک اور آدمی نے ( جو پنجاب کا رہنے والا تھا پوچھا کہ اتنے پریشان کیوں لگتے ہو.فرماتے تھے کہ اس کو بھی میں نے ساری بات بتا دی.کہنے لگا جاؤ نا گدھ متھرا ریلوے بن رہی ہے وہاں کام چل جائے گا.فرماتے تھے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا.میں نا گدھ منتھر دوسرے دن پہنچ گیا.فرماتے تھے میں کھڑا دیکھ رہا تھا اور ہزاروں مزدور کام کر رہے تھے کہ سامنے سے ایک انگریز گھوڑے پر میرے پاس آ کر رک گیا اور کہنے لگا کام کرو گے ( بعد میں پتا چلا کہ وہ جلد 21

Page 336

تاریخ احمدیت 327 جلد 21 66 ایکسین IXEN تھا).فرماتے ہیں میں نے کہا مجھے کام کا پتہ نہیں اور پھر اس انگریز نے پوچھا ”پیسہ ہے.فرماتے تھے کہ میں نے واسنی (جسے کمر کے گرد باندھ کر روپیہ محفوظ کیا جاتا تھا ) انگریز کو دکھلائی اور کہا تقریباً 1200 روپیہ ہے.اس نے مجھے ساتھ لیا اور گھوڑے پر چلتا گیا اور تقریباً ایک پل چل کر کہا کہ یہ تمہارا کام ہے.ادھر سے مٹی کھو دو اور یہاں ڈالو.مزدور بہت تھے.100 روپے کی ٹوکریاں اور کہیاں خریدیں اور مزدور کو لگا دیا اور مٹی ڈلوانی شروع کر دی.تقریباً آٹھ دن کے بعد پھر وہی انگریز آیا اور اپنے ہاتھ سے پیمائش کی اور ایک کتاب پر لکھ دیا (MB) اور کہا دفتر میں آکریل لے لو.دفتر نزدیک ہی تھا.والد صاحب گئے رقم لے آئے.فرماتے تھے کہ اس طرح مجھے تقریباً سولہ ہزار روپے کا منافع ہوا جو اس زمانہ میں بہت بڑی رقم تھی.چونکہ برسات کے موسم میں کام بند ہو جاتا تھا.گھر واپس آئے اور قادیان حضور کی خدمت میں مع والدہ صاحبہ حاضر ہوئے.والدہ صاحبہ نے حضور کی خدمت میں چند پاؤنڈ پیش کئے جو اس زمانہ میں سونے کا سکہ تھا.حضور نے فرمایا " کیا آپ کے میاں ٹھیکیداری کرتے ہیں.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ عرض کیا حضور کی دعا سے.فرماتے تھے یوں حضور کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پورے ہوئے جو حضور کی سچائی کا کھلا نشان تھا.تصدیق روایت : مکرم عبدالرشید صاحب ولد ملک عبد الغنی صاحب رفیق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ روایت میرے رو بر و حلفاً بیان کی اور تحریر لکھ کر دی.جس کی میں بقول ان کے بیان کے تصدیق کرتا ہوں.بشیر احمد ظفر صدر جماعت احمد یہ کنجاہ ضلع گجرات (مهر) یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حضرت ملک عبد الغنی صاحب صداقت حضرت مسیح موعود کے دو ایسے عظیم الشان نشانوں کے عینی شاہد تھے جن کا تذکرہ حضرت اقدس نے اپنی کتاب ”حقیقۃ الوحی“ کے صفحہ 303 اور 304 میں نشان 133-134 کے تحت کیا ہے.مؤخر الذکر نشان کے گواہوں میں تو ان کا نام شائع شدہ ہے.جہانتک نشان 133 کا تعلق ہے حضرت ملک صاحب نے اپنے قلم سے حقیقۃ الوحی کے ذاتی نسخہ پر ہی تحریر فرمایا.یہ عاجز یعنی عبد الغنی حضرت صاحب کی حفاظت کے لئے باغ میں اور کئی دوسرے

Page 337

تاریخ احمدیت 328 جلد 21 دوستوں کے ہمراہ حضرت صاحب کے مکان کے آگے چارپائی بچھا کر سویا.اور کئی دوست بھی چار پائیاں بچھا کر میرے ساتھ سو گئے.یہ چور کا واقعہ بھی انہی دنوں کا ہے.خاکسار عبدالغنی حضرت ماسٹر مامون خان صاحب سابق ڈرل ماسٹر ہائی سکول قادیان ولادت 1871ء.بیعت بذریعہ خط 1904 ء.زیارت و دستی بیعت 1906 ء وفات 21 اپریل 1961 ء.اصل وطن ماچھی واڑہ تحصیل سمرالہ ضلع لدھیانہ.آپ ماچھی واڑہ سکول میں ایک مخلص احمدی سید محمد شاہ صاحب ماچھی واڑہ کے ساتھ ملازم تھے کہ 1902ء میں آپ نے خواب دیکھا کہ چاند آسمان سے ٹوٹ کر آپ کی جھولی میں آپڑا ہے.سید محمد شاہ صاحب نے اس کی تعبیر یہ کی کہ تمکو عزت ملے گی یا کسی بزرگ کی بیعت کرو گے اور ساتھ ہی تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا جو بالآخر آپ کی بیعت پر منتج ہوا.گنگا بشن جس نے حضرت مسیح موعود کے سامنے قتل لیکھر ام کے سلسلہ میں قسم کھانے پر آمادگی ظاہر کرنے کے بعد فرار اختیار کیا.19 ماچھی واڑہ ہی کا باشندہ اور محکمہ پولیس کا عہد یدار تھا.مامون خان صاحب اپنی خودنوشت روایات میں اسکی نسبت لکھتے ہیں کہ : " حضرت مسیح موعود کی دعا اس پر بھی ہم نے کارگر دیکھی.کہ مسمی گنگا بشن....ایک سال متواتر عذاب کی موت سے ہلاک ہوا.پہلے اندھا ہوا.پھر فالج گرا.دوسروں کی پیٹھ پر سوار ہو کر ہسپتال اور حکیموں کے پاس جاتا رہا....ہائے مجھے کیا ہوا ہے مجھے کیا ہوا ہے کی منحوس آوازیں نکالتا ہوا بڑے عذاب کی موت سے ایک سال متواتر عذاب کے بعد مرا جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کا مؤید بنا ( اور ) ہمارے لئے ہدایت کا موجب ہوا.یہ نشان آپ نے بیعت سے قبل دیکھا.ایمان لانے کے بعد کا واقعہ ہے کہ آپ کی اہلیہ جنت بی بی صاحبہ تپ دق کی مرض میں مبتلا ہو گئیں.آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت میں لکھا کہ اب تو میں بے امید ہو چکا ہوں.آپ مسیح ہیں میری اہلیہ کی صحت اور زندگی کے لئے دعا کرو“.جس پر حضور نے درددل سے دعا کی.آپ کی بیوی کا عارضہ گھٹنے لگا.یہاں تک کہ اسکو خدا نے مکمل شفا دی اور ایک لڑکا بھی عطا کیا جس کا نام عبد الرحمان رکھا گیا جو 26 سال تک زندہ رہا.

Page 338

تاریخ احمدیت 329 جلد 21 ایک بار آپ نے حضور سے عرض کی کہ میرے والد سخت مخالف ہیں دعا کریں کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ نے حضور کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور آپ کے والد احمدی ہو گئے.محترم ماسٹر صاحب 1906ء میں مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان آگئے اور عرصہ تک تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ڈرل ماسٹر کے فرائض بجالاتے رہے.حضرت مستری عبدالسبحان صاحب (لاہوری) درویش: ولادت قریباً 1885ء.بیعت جنوری 1903ء.وفات 23 اپریل 1961 ء محلہ سمیاں لاہور کے باشندے تھے.اس محلہ میں گورنمنٹ سکول کے ایک ماسٹر قاضی غلام قادر صاحب رہتے تھے.پہلے انہوں نے پھر ان کے بیٹے عبد الغنی صاحب نے ( جو بعد میں اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر بنے اور اس وقت تعلیم پاتے تھے ) آپ کو سید نا حضرت مسیح موعود کی بیعت کرنے کی تحریک کی.آپ نے جواب دیا میری غرض بیعت سے خدا تعالیٰ دیکھنا ہے.کہنے لگے یہ ناممکن ہے.آپ نے عبد الغنی صاحب سے کہا کہ حضور کو میری طرف سے نہایت ادب سے خط لکھو.چنانچہ انہوں نے آپ کی نسبت خط لکھا.حضور کی طرف سے یہ عنایت نامہ صادر ہوا کہ ” دل لگا کر نماز میں پڑھو اور اپنی زبان میں دعائیں مانگتے رہو.یہی طریقہ ہے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا.ان الفاظ سے آپ کو پورا یقین اور اطمینان قلب نصیب ہو گیا.جنوری 1903 ء میں حضرت مسیح موعود قادیان سے سفر جہلم کے دوران لاہور تشریف لائے اور حضرت میاں چراغ الدین کے مکان پر قیام فرما ہوئے.مستری عبدالسبحان صاحب رات کے وقت مکان پر پہنچے اور دوسرے دن صبح کو حضور کے دست مبارک پر بیعت کر لی.مئی 1908ء جو اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نعش مبارک کے ساتھ لاہور سے 53 قادیان تشریف لے گئے تھے ان میں آپ بھی شامل تھے.آپ ہجرت کر کے قادیان آگئے اور محلہ دار الفتوح میں بود باش اختیار کر لی تھی.تقسیم ملک کے وقت آپ نے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے درویشانہ زندگی کو تر جیح دی.آپ کو معماری کے کام سے شغف تھا اس لئے آپ با وجود پیرانہ سالی کے ابتدائی زمانہ درویشی میں بطور نجار مخلصانہ خدمت بجالاتے رہے مگر کچھ عرصہ بعد آپ کی صحت نے جواب دے دیا تو آپ نے اپنے رہائشی کمرہ میں تلاوت قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ میں مصروف ہو گئے.آنکھوں کی بینائی آخری دم تک قائم رہی اور عینک کی مدد کے بغیر بآسانی پڑھ سکتے تھے.54

Page 339

تاریخ احمدیت 330 جلد 21 حضرت مولوی محمد علی صاحب الراعی ولادت تقریبا 1869 ء- 55 بیعت 1895ء.50 وفات 3 مئی 1961ء.والد ماجد مولوی رمضان علی صاحب مجاہد تحریک جدید و بانی ارجنٹائن مشن حال مقیم لندن.مولوی رمضان علی صاحب کا تحریری بیان ہے کہ دو صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے کہ ایک عربی النسل سردار شاہ حاور یا ھوار نامی موضعات جاجا، بودھاوا، ارمر ٹانڈا تحصیل دسو بہ ضلع ہوشیار پور مشرقی پنجاب میں آکر آباد دسوہہ ہوئے.میاں ھوار کے پوتے میاں نکے شاہ صاحب اور ان کے بیٹے حضرت میاں جمعہ شاہ صاحب سکھوں کے عہد حکومت میں ایک معزز زمیندار اور نہایت ہی با رسوخ اور دیندار شخصیت تھے.آپ دونوں تبلیغ دین مصطفیٰ علیہ السلام اور ضرورت مندوں کی امداد کیا کرتے تھے.میاں جمعہ شاہ صاحب کے صاحبزادہ میاں شہیرات علی صاحب جو ایک صاحب علم اور بزرگ انسان تھے، کے کئی بیٹے سکھ عہد کی مشکلات کے سبب ہوشیار پور کو چھوڑ کر موضع بہادر تحصیل و ضلع گورداسپور میں آبسے.یہ ایک دیندار اور صاحب علم معلم تھے.میاں شب برات علی صاحب کے کئی بیٹے میاں نور علی صاحب کی اولاد میں لمبی عمر پانے والوں میں دو بیٹے حضرت مولوی محمد علی صاحب اور میاں سلطان احمد صاحب اور ایک بہن مرحومه محمد بی بی تھے.یہ تینوں بہن بھائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیمی مریدین میں شامل ہو گئے اور ان کے ساتھ ہی ان کے والد بزرگوار اور والدہ محترمہ کریم بی بی صاحبہ بھی سلسلہ احمد یہ عالیہ میں منسلک ہو گئے.حضرت میاں نور علی صاحب مرحوم و مغفور جو بذات خود ایک صاحب علم معلم تھے، نے اپنے بڑے بیٹے مولوی محمد علی صاحب کو چار پانچ سال کی عمر میں ہی سکول میں داخل کروا دیا تھا اور چونکہ انھیں دینی تعلیم کا زیادہ شوق تھا انگریزی تعلیم کی بجائے عربی زبان اور دینیات کی تعلیم میں ڈال دیا.اغلبا بچپن ہی سے چینیاں والی مسجد اندرون لوہاری گیٹ لاہور سے تعلق رکھتے تھے.عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ حصول علم کا شوق بھی بڑھ رہا تھا.جس پر آپ شہر لدھیانہ، سہارن پور اور دبلی وغیرہ مراکز تعلیم میں منتقل ہوتے رہے.خدا داد قابلیت ، نیک اطواری اور اعلیٰ پایہ کی عالمانہ اہلیت کے سبب آپ کو واعظ اور خطیب کے طور

Page 340

تاریخ احمدیت 331 پر انبالہ شہر کی جامع مسجد کا امام الصلوۃ اور ہیڈ ٹیچر مقرر کر دیا گیا.اور اغلباً 1880ء سے 1900 ء تک آپ انبالہ میں مقیم رہے.آپ نے جوانی میں کئی قسم کی چلہ کشی اور روحانی ریاضتیں کیں ہمیشہ ظاہری اور باطنی اور پاکیزگی کا دھیان رکھتے تھے.اغلباً ہمیشہ با وضو رہنے کی کوشش فرماتے تھے.نماز صبح کے بعد تلاوت قرآن پاک اور ادائیگی نوافل ساری عمر عمل رہا.نہایت درجہ صیح اور خوش الحانی سے تلاوت کرتے اور اپنی اولا د اور اولاد کی اولاد میں سے جس کسی کو تھوڑا بہت قرآن مجید پڑھا یا وہ سب آج تک صحیح ترین قراءت و تلاوت پر قائم ہیں.گو آپ حافظ قرآن مجید مشہور نہیں تھے لیکن میرے ذاتی علم اور قیاس کی بناء پر آپ حافظ قرآن حکیم تھے اور کسی بھی حافظ کی تلاوت کی تصحیح کر سکتے تھے.چونکہ انبالہ سے اپنے والدین کی ملاقات کے لئے موضع بہادر نزد گورداسپور آتے رہتے تھے لہذا انہیں دنوں میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنے اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا.اور حضور کو امام مہدی اور مسیح موعود یقین جانتے ہوئے بذریعہ خط و کتابت اور پھر بالمشافہ حضور کی بیعت کر لی.حضرت والد صاحب کی تبلیغ پر آپ کے والدین اور دیگر رشتہ دار بھی احمدیت سے منسلک ہوئے.مثلا آپ کے چھوٹے بھائی میاں سلطان احمد ، آپ کے برادر نسبتی حکیم رحمت اللہ صاحب وغیرہ وغیرہ....جب ہمارے والد بزرگوار احمدیت کے سبب انبالہ شہر کی امامت و وعظ اور افتاء کا مسند چھوڑ کر موضع بہادر تحصیل گورداسپور واپس آرہے تھے تو بہت سے مریدوں، دوستوں اور بہی خواہوں نے بڑی رقت خیز حالت اور آہ و بکاء اور دعاؤں سے آپ کو الوداع کہا.کچھ دنوں تک اپنے والدین کے پاس مقیم رہے اور لاہور کے ایک رئیس خان بہادر میاں محمد سزا وار صاحب جو نہ صرف آپ کے خالو تھے بلکہ آپ کی نیکی اور اہلیت کے معترف تھے، نے آپ کو اپنا مختار عام مقرر کرنے پر حضرت والد صاحب موصوف موضع نواں پنڈ بھمہ اور ڈیال میں مقیم ہو گئے.یہاں ایک مسجد بنوائی اور نگرانی اور اصلاح اراضی کے علاوہ عام اور ضرورتمند مسلمان ہمسایوں کے لئے پرائمری سکول قائم کروایا.خود بھی قرآن مجید اور احادیث شریفہ کا درس شروع کر دیا....حضرت والد صاحب نے ہمارے دو بڑے بھائیوں کو جنگ عظیم اول کے زمانہ میں ہی تعلیم کے لئے قادیان دارالامان بھیجوا دیا تھا.پھر جنگ کے خاتمہ کے ساتھ ہی تمام برادران کو اور جلد 21

Page 341

تاریخ احمدیت 332 مجھے حضرت والدہ صاحبہ محترمہ کے ساتھ قادیان بھجوا کر مختلف سکولوں میں داخل کروا دیا.اور 1919ء میں دارالرحمت میں اپنا ذاتی مکان تعمیر کروایا.یہ اس محلہ کا دوسرا اور تیرہ (13) مشتمل مکان تھا.یہاں تمام پڑوسیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے رہے خصوصاً حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور ان کے محترم والدین، حضرت مرزا بشیر احمد کمرہ ہے صاحب، حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ.حضرت والد صاحب نے اپنی ملازمت لاہور 1935 ء سے چھوڑ کر اپنی ملکیت دومربعہ زرعی زمین کی آبادی کی طرف توجہ دی.یہ قطعات وہاڑی اور کمالیہ میں تھے اور دونوں جگہوں پر مساجد اور تبلیغ و وعظ کا سلسلہ جاری رکھا.ساری عمر کامل پر ہیز گاری، ورع اور اتباع سنت نبوی پر کار بند ر ہے.قرآن کریم کے عاشق صادق تھے.آپ سے بہت سی کرامات اور قبولیت دعاء کے واقعات منسوب کئے جاتے ہیں....حضرت والد صاحب اپنی زندگی کے آخری سالوں میں زیادہ تر ربوہ شریف میں مقیم رہے اور یہیں 3 مئی 1961 ء کو واصل حق تعالیٰ ہوئے اور وصیت کے مطابق مقبرہ بہشتی میں مدفون ہیں.حضرت میاں محمد یوسف صاحب اپیل نویس بگٹ گنج مردان ( سرحد ): 59 جلد 21 ولادت اندازاً1861 ء.بیعت 1901 ء.وفات 6 مئی 1961 ء بعمر قریباً 100 سال اصل وطن مدضلع امرتسر - حضرت بابو شاہدین صاحب اسٹیشن ماسٹر ( ساکن سا ہو وال تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ ) کے ذریعہ احمدی ہوئے اور پھر اپنے بھائیوں اور کئی اور افراد کو حمدیت میں لانے کا موجب بنے.اکتوبر 1902 ء کے تاریخی مباحثہ مذ کے محرک آپ ہی تھے.ایک لمبے عرصہ تک امیر جماعت احمدیہ مردان کے فرائض انجام دیتے رہے.بہت خاموش طبع اور مخلص بزرگ تھے اور شعر گوئی کا پاکیزہ ذوق رکھتے تھے.مردان میں ہی دفن کئے گئے.حضرت چوہدری غلام محمد صاحب بی اے سابق مینیجر نصرت گرلز ہائی سکول قادیان ): ولادت اکتوبر 1877ء.51 بیعت 19 دسمبر 1905 ء.62 وفات 7 اگست 1961 ء.88 موضع ڈھئی متصل کو ٹلی لوہاراں شرقی ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.1901 ء میں میٹرک اور

Page 342

تاریخ احمدیت 333 جلد 21 1904ء میں جے وی پاس کیا.بعد ازاں خوشاب، شاہ پور اور ڈسکہ میں ملازم رہے.ڈسکہ آپ کے مراسم ایک احمدی بزرگ حضرت مولوی جان محمد صاحب فارسی ٹیچر سے ہو گئے اور گو حضرت مسیح موعود کے بعض اشتہارات آپ زمانہ طالب علمی میں مطالعہ کر چکے تھے مگر احمدیت کا مؤثر رنگ میں پیغام انہی سے ملا اور آپ جلد ہی دل سے صداقت احمدیت کے قائل ہو گئے.چنانچہ آپ حضرت مولوی صاحب اور حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے ساتھ دسمبر 1905ء کے جلسہ سالانہ کی تقریب پر قادیان تشریف لے گئے.جہاں آپ کی ملاقات حضرت مولوی صاحب کے کلاس فیلو محکم دین صاحب وکیل امرتسر سے ہوئی.انہوں نے آپ کو پُر زور تحریک کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کے الہام ہو رہے ہیں اور تم نے ضرور احمدی ہو جانا ہے اس لئے بہتر ہے کہ تم فوراً بیعت کر لو ورنہ بعد میں پچھتاؤ گے.اسپر آپ نے چوہدری مولا بخش صاحب سیالکوٹی سے کہا کہ میری بیعت کرا دیں.انہوں نے حضور کی خدمت میں رقعہ لکھا.حضور نے فوراً آپ کو بلا لیا اور اپنے دست مبارک میں آپ کا ہاتھ لے کر بیعت لے لی.بیعت کے بعد آپ نے مصمم ارادہ کر لیا کہ بی اے پاس کرنے کے بعد باقی زندگی قادیان کے مقدس ماحول اور حضور کے قدموں میں گزاریں گے اور حضور کے حکم کے ماتحت جو خدمت ہو سکے گی کریں گے.اس خیال سے آپ نے نومبر 1907ء میں کالج میں داخلہ لے لیا مگر چند ماہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انتقال ہو گیا جس کا آپ کو انتہائی صدمہ ہوا تاہم آپ نے پڑھائی جاری رکھی اور بی اے پاس کر کے 1909 ء میں قادیان آگئے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سٹاف میں شامل ہو کر تعلیمی خدمات بجا لانے لگے.آپ ہائی سکول میں اعلیٰ جماعتوں کو سائنس اور حساب پڑھاتے تھے اور بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ بھی تھے.خلافت ثانیہ کے آغاز میں 12 اپریل 1914ء کو ایک خصوصی شوری کا انعقاد ہوا جس میں آپ کو بھی شرکت کا موقعہ ملا.16 دسمبر 1916 ءکومشہور مستشرق اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارگولیتھ حضرت خلیفتہ المسح الثانی سے ملاقات کے لئے قادیان آئے.حضور نے ان کی مہمان نوازی کا انتظام آپ کے سپرد فرمایا.ابتداء میں قادیان کی ساری تجارت ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی اور احمدیوں کی صرف چند کا نہیں تھیں.آپ نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ احمدیوں کی ضروریات پورا کرنے کے لئے کو آپریٹو سٹور کھولا جائے.حضور کے ارشاد پر آپ نے قواعد بنائے جن پر حضور کی مقرر فرمودہ ایک کمیٹی نے نظر ثانی کی اور حضور نے ان کو منظور فرمالیا اور اس کا نام احمد یہ سٹور رکھا گیا.یہ دسمبر 1916 ء یا 1917ء کی بات ہے.

Page 343

تاریخ احمدیت 334 جلد 21 حضور نے احمد یہ سٹور کے لئے ایک انتظامیہ کمیٹی بھی منظور فرمائی جس کے حسب ذیل ممبران تھے : حضرت قاضی امیر حسین صاحب منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی.شیخ نورالدین صاحب.ماسٹر غلام محمد صاحب بی اے.منشی نعمت اللہ صاحب ( کلرک بورڈنگ ہاؤس ).سٹور کے ایک حصہ کی قیمت پانچ روپے مقرر کی گئی.سٹور نے چوہدری حاکم دین صاحب اور شیخ نور الدین صاحب کی مساعی سے خوب ترقی کی اور اس کا سرمایہ نوے ہزار کے قریب پہنچ گیا.سٹور کے ماتحت ایک دکان تھوک کی دو دکانیں پرچون کی ایک دکان دیار کی لکڑی اور ایندھن کی ایک بھٹہ اور آنا پینے کا انجمن جاری کیا گیا.اب کام بہت بڑھ گیا تھا اور یہ پورا وقت چاہتا تھا.اس لئے ماسٹر غلام محمد صاحب کو سٹور سے الگ ہونا پڑا.آپ کی غیر حاضری میں شیخ عبدالرحمان صاحب مصری نے جو سٹور کے مینجر مقرر ہوئے تھے بہت سا فضول سودا خرید لیا جو نقصان پر فروخت کرنا پڑا اور بالآخر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ سٹور بند کر دیا گیا.بہر حال جماعت کی اجتماعی رنگ میں یہ پہلی کوشش اور ایک نیا تجربہ تھا جس کا آغاز حضرت ماسٹر غلام محمد صاحب کی تحریک سے ہوا.مئی 1933 ء میں آپ نے حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزاروی کی مدد سے سھیل العربیہ “ کے نام سے ایک ہزار صفحات پر مشتمل مستند عربی اردو لغت شائع فرمائی.یہ کتاب ان بزرگوں کی چار سال کی شبانہ روز محنت و جانفشانی سے تیار ہوئی اور بہت مقبول ہوئی.قرآن مجید کے محاورات اور اس کے معانی اور نئے علمی الفاظ واصطلاحات کو خصوصیت سے اس میں درج کیا گیا تھا.1935ء میں آپ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول سے نصرت گرلز سکول میں بطور مینجر منتقل کر دیا گیا.آپ نے گرلز سکول کو مڈل سے ہائی بنانے کی تجویز کی اور اس کے لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نزدیک ایک عمارت کرایہ پر لی اور حضرت مولوی محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے مشورہ اور انسپکٹر مدارس کی اجازت سے لڑکیوں کی ہائی کلاسز لڑکوں کے ہائی سکول کے سیکشن کے طور پر بنا دیں.لڑکیاں پردہ میں بیٹھتی تھیں.یہ انتظام تین سال تک جاری رہا.بعد ازاں ایک ہند و انسپکٹر مدارس آ گیا جس نے یہ انتظام نا منظور کر دیا.اس پر آپ نے مستقل طور پر لڑکیوں کا ہائی سکول جاری کر دیا.اسی دوران صدر انجمن احمدیہ نے حکیم محمد عمر صاحب سے ایک شاندار عمارت خرید لی اور سکول اس میں منتقل ہو گیا جہاں آپ کی مساعی سے ایف اے اور پھر بی اے کلاس بھی شروع کر دی گئی اور ان کے امتحانات کے لئے قادیان میں سنٹر بھی کھلوا لیا.آپ کے زمانہ کارکردگی میں طالبات نے ایک بار بی اے کا امتحان دیا.اس کے بعد آپ ریٹائر ہو گئے.10

Page 344

تاریخ احمدیت 335 جلد 21 1947 ء میں آپ ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے اور راج گڑھ متصل چوبرجی لاہور میں مقیم ہو گئے.آپ نے جولائی 1917ء میں وصیت کی.آپ کو تحریک جدید کے دفتر اول کا مجاہد ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.آپ صاحب رؤیا اور مستجاب الدعوات اور نہایت ہی خلیق بزرگ تھے.حضرت مولوی محمد جی صاحب ( سابق استاد مدرسہ احمدیہ ) نے آپ کی وفات پر لکھا: آپ کی زندگی صحابہ کی زندگی کی طرح دل میں روشنی پیدا کرنے والی تھی.آپ سوچنے اور غور کرنے والے بزرگ تھے.اپنے دل میں ہمسایہ اور دوست اور محتاج کی سب کی غمخواری کا خیال رہتا تھا.ایک دفعہ جب دیکھا کہ کارکنوں کو خوردنی اور ضروری استعمال کی چیزوں کے حصول میں دقت پیش آرہی ہے اور بعض دوست بریکار اور مفلس ہیں تو ضروری اشیاء کے گودام قائم کرنے کا ارادہ کیا اور متعدد دوستوں سے پانچ پانچ روپے فی حصہ لے کر گودام قائم کیا جس سے کارکنوں کے لئے اشیاء کا حصول آسان ہو گیا اور بہت سے بیکار کام پر لگ گئے.پیغمبر علیہ السلام کے اس ارشاد کے موافق کہ صلہ رحمی سے بڑھ کر کسی عبادت کا ثواب نہیں.قرابتداروں سے انتہائی محبت کا برتاؤ کیا کرتے تھے اور ان کے لئے کام سوچ کر اس پر لگا دیا کرتے تھے.اس وقت ان میں سے بہت سے افراد سلسلہ کے لئے سفیر اور صاحب عزت وجود ہیں جو آپ کی شفقت سے اس درجہ کے اہل بنے.آپ اپنے بچوں کو امانت سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ بچوں کا دل پاک ہوتا ہے اور تمام نقوش سے خالی ہوتا ہے اس میں سعادت کا بیج ڈالا جائے تو سعادت پر سرفراز ہوں گے.آپ نے پیغمبر علیہ السلام کے ارشاد کی تعمیل میں اپنی لڑکیوں کو بڑی شفقت اور محبت سے تعلیم دلائی اور ان کو علم کے بالا درجہ تک پہنچایا.بعض ان پڑھ دوستوں کی لڑکیوں کو بھی علم کے لباس کا مالک بنایا.ان میں سے ایک بیوہ ہو گئی تو آپ کی کوششوں سے ڈاکٹری کا علم سیکھ لیا.مغفور کی شفقت عام تھی.صبر اور تحمل اور عفو کا اعلیٰ جو ہر موجود تھا.ایک شخص نے آپ پر چغلی کھائی جو تحقیقات سے کذب بیانی ثابت ہوئی مگر آپ نے اس شخص کو نہ کبھی ملامت کی اور نہ ماتھے پر بل ظاہر کیا.غرض آپ جیسے قد و قامت اور شکل و شباہت میں وجیہہ اور حسین تھے سیرت اور خلق میں بھی کافی اور وافر حصہ رکھتے تھے.آپ کے نام کو رہتی دنیا تک یادرکھنے کے لئے کتاب ”تسھیل العربیہ" کا نایاب گوہر

Page 345

تاریخ احمدیت 336 جلد 21 موجود ہے جو مستفید ہونے والوں کے دلوں کو آپ کے لئے دعائے مغفرت کرنے کے لئے مائل کرتی رہے گی.الغرض حضرت چوہدری صاحب مغفور کی زندگی پر یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے.چناں زندگانی کن اندر جہاں که چون مرده باشی نگویند مرد جناب چوہدری غلام حیدر صاحب مرحوم سابق استاد مدرسہ احمدیہ وہیڈ ماسٹرتعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں نے آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے تحریر فرمایا: خاکسار کے تایا زاد بھائی تھے.آپ کا آبائی وطن موضع ڈھپئی متصل کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ ہے.ہمارے خاندان اور گاؤں میں آپ سب سے پہلے احمدی ہوئے.آپ موصی تھے.نہایت ہی خلیق نیک پارسا اور سادہ طبع تھے.ابتدائی تعلیم آپ نے خاکسار کے والد چوہدری محمد خان صاحب مرحوم کے پاس جو کہ ایک لمبا عرصہ پسر ور ہائی سکول میں مدرس رہے حاصل کی.پھر علی گڑھ سے بی اے پاس کرنے کے بعد آپ نے لاہور سے ایس اے وی کی تعلیمی ڈگری حاصل کی اور تمام عمر قادیان میں بطور مدرس سیکنڈ ماسٹر، ہیڈ ماسٹر اور بعد ازاں مینیجر نصرت گرلز سکول کی حیثیت سے گزار دی.خاکسار کے والد صاحب جب فوت ہوگئے تو یہ نا چیز بھی انہیں کے پاس قادیان بغرض تعلیم چلا گیا اور میٹرک قادیان سے ہی ان کے زیر سایہ پاس کیا.یہ انہی کی طبیعت کی سادگی کا اثر تھا کہ خاکسار کو بھی لباس اور عادات واطوار میں سادگی سے ایک گونہ الفت ہوگئی.73 اولاد پہلی بیوی سے: 1.ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ ربوہ ( زوجہ چوہدری محمدتقی صاحب) 2.چوہدری غلام احمد صاحب مقیم لندن 3.چوہدری عبدالرحمان صاحب (پرنسپل جنجه یوگنڈا مشرقی افریقہ ) دوسری بیوی سے: 4 منظور فاطمہ صاحبہ بی اے بی ٹی ( اہلیہ شیخ حمد عبداللہ صاحب سعودی عرب ) 5- کنیز فاطمہ صاحبہ

Page 346

تاریخ احمدیت 337 6.چوہدری عبد اللہ عطاء الرحمان صاحب ( یوگنڈا مشرقی افریقہ) 7.چوہدری رشید احمد صاحب 8.چوہدری رفیق احمد صاحب 9.آمنہ بشری صاحبہ.حضرت میاں چراغ دین صاحب مددگار کار کن مدرسه اح جلد 21 ولادت قریباً 1 188 ء.بیعت 1902 ء وفات 15 اگست 1961 ء - 76 آپ قادیان کے قدیم باشندے تھے.بچپن میں آپ خادم خاص کی حیثیت سے دار اسیح میں خدمت بجالاتے رہے.بعد ازاں سالہا سال تک مدرسہ احمدیہ میں بطور مددگار کار کن کام کرنے کا موقعہ ملا.اولاد: 1- محمد عبد اللہ صاحب بھٹی مرحوم کارکن صدر انجمن احمد یہ پنشنر 2.میاں عبد الغنی صاحب بھٹی کارکن صدرانجمن احمد یہ پاکستان 3- عزیزہ بیگم صاحبه زوجہ محمد طفیل صاحب قلعی گر 4.حمیدہ بیگم صاحبہ زوجہ فتح محمد صاحب 5.زینب بی بی صاحبہ مرحومہ 6.غلام فاطمہ صاحبہ مرحومہ 7.عبدالرحیم صاحب بھٹی ٹیلر ماسٹر مرحوم حضرت چوہدری ودھاوے خان صاحب متوطن شریف پورہ امرتسر : ولادت 1 188 ء.بیعت 1902ء.زیارت 1903 ء.وفات 19 اگست 1961 ء.78 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشتی نوح صفحہ 2،1 میں خدا تعالیٰ کی یہ وحی شائع فرمائی کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلا دے.اس پیشگوئی کے عین مطابق چوہدری ودھاوے خاں صاحب کے اہل وعیال بھی طاعون سے محفوظ رہے.چنا نچہ تحریر فرماتے ہیں:.

Page 347

تاریخ احمدیت 338 جلد 21 اولاد امرتسر کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ یہاں پر طاعون بہت زوروں پر تھی.میں ایک دن سکول سے گھر آیا تو میری اہلیہ صاحبہ دروازہ پر کھڑی تھی.میں نے دریافت کیا کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے اندر چو ہے مرے پڑے ہیں اور گھبراہٹ کا اظہار کیا.میں نے بڑے یقین سے کہا کہ فکر نہ کرو ہماری جماعت طاعون سے محفوظ رہے گی اور کوئی اندیشہ نہیں.اس کے بعد میں نے جھاڑو دے کر مکان کو صاف کر دیا.دوسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ ہوا اور چوہوں کے ساتھ کیڑے بھی بہت تھے میں نے پھر ان کو صاف کر دیا اور اپنی اہلیہ کو تسلی دی کہ کوئی فکر نہیں ہماری جماعت اس سے محفوظ رہے گی.تیسرے چوتھے دن کے بعد رات کے بارہ بجے مجھے میری اہلیہ نے کہا کہ مجھے تو گلٹی نظر آئی ہے.میں نے بڑی تسلی اور یقین سے کہا کہ گھبرائیں نہیں صبح ہی حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے لکھ دوں گا.چنانچہ میں نے صبح ہی خط لکھ دیا اور میرا خیال ہے کہ وہ خط ابھی قادیان نہیں پہنچا ہوگا کہ وہ گلی نا پید ہوگئی اور میری اہلیہ بالکل تندرست ہوگئی.اس طرح پھر دوسرے یا تیسرے دن میرے لڑکے عبد الکریم کو جو ایک سال کا ہو گا اسے گلٹی نظر آئی میں نے پھر حضور کی خدمت میں دعا کے لئے ایک خط لکھ دیا اور گھر والوں کو بہت تسلی دی.چنانچہ وہ گلٹی بھی خود بخود نا پید ہوگئی.اس وقت پلیگ کا اس قدرز ور تھا کہ روزانہ دواڑ ھائی صد آدمی اس بیماری سے مرتا تھا اور اس شرح موت کا ذکر کمیٹی کی طرف سے روزانہ ہوتا تھا.1 - عبدالرحمان صاحب 2 - عبد الکریم صاحب 3.شریف احمد صاحب وڑائچ.پریذیڈنٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی 4.شاہ محمد صاحب خوشنویس مرحوم 5 - مشتاق احمد صاحب شائق ( سابق انچارج شعبہ شماریات ربوہ ) 80 حضرت منشی نورمحمد صاحب آف قادیان لائبریرین سنڈیمن لائبریری کوئٹہ: وفات 24 اگست 1961ء جناب محمود احمد صاحب سنوری ( ابن حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ) تحریر فرماتے ہیں:.

Page 348

تاریخ احمدیت 339 ”ہمارے نہایت ہی پیارے.درویش صفت.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خادم اور خدا اور رسول کے عاشق حضرت منشی نور محمد صاحب ( اللہ ان سے راضی ہو ) محترم حضرت فتح محمد صاحب کہروڑ پکا کے سب سے بڑے صاحبزادے اور ہمارے چا اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے رفقاء میں سے تھے.مرحوم نے جب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ (اللہ کی آپ پر بے پایاں رحمتیں ہوں ) کا تذکرہ سنا اور آپ کی کتب واشتہارات پڑھے تو بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.جس کی وجہ سے آپ کو بہت مصائب برداشت کرنے پڑے.کچھ عرصہ بعد گلگت تشریف لے گئے اور وہاں سرکاری ملازمت کر لی.اور قادیان آنے جانے لگے.یہ قدرت ثانیہ کے مظہر اول کا زمانہ تھا.ایک دفعہ حضور سے دست بستہ عرض کیا: ”حضور میرا دل دنیا کی طرف نہیں لگتا بلکہ دین کی خدمت کرنے کی تڑپ ہے.لِلہ اجازت دیں تو قادیان حاضر ہو کر دین کی خدمت بجالاؤں“.چنانچہ سیدنا حضرت خلیفہ نورالدین صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے اجازت مرحمت فرمائی اور آپ کا تقرر بطور ہیڈ کلرک صدر انجمن احمد یہ قادیان ہو گیا.اور قیام پاکستان تک سلسلہ کی خدمت بجالاتے رہے اور صبر وشکر کا مظاہرہ کیا.اور اس زمانہ میں قلیل تنخواہ کے باوجود تنگی ترشی سے گزر اوقات کرتے رہے اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت پر فخر کرتے رہے.جب آپ گلگت گئے تھے وہاں آپ کے ساتھی حضرت خان بہادر غلام محمد خان صاحب تھے وہ ترقی کرتے کرتے بڑے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو گئے تھے اور ان کو خان بہادر کا خطاب بھی سرکار کی طرف سے ملا تھا.لیکن آپ سلسلہ احمدیہ کی خدمت بجالانے کو زیادہ افضل سمجھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کے اعلیٰ عہدہ سے میرے پیارے اور مقدس امام کی غلامی اور سلسلہ احمدیہ کی خدمت ہزاروں درجہ بہتر ہے.حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب آف خود پور مانگا ضلع لاہور : دو ولادت 1870 ء.دستی بیعت 1902 ء.وفات 9 ستمبر 1961ء آپ کے فرزند جناب نوراحمد صاحب عابد دارالصدر شمالی ربوہ تحریر فرماتے ہیں :.والد صاحب اپنے باپ کے واحد فرزند تھے اور تین بہنوں کے بھائی تھے اور بتایا کرتے تھے کہ گزشتہ چھ سات نسلوں سے ان کے آباء واجداد میں صرف ایک ہی بیٹا پیدا جلد 21

Page 349

تاریخ احمدیت 340 اولاد ہوتا رہا مگر والد محترم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی برکت سے چھ بیٹے عطا فرمائے جن میں سے ایک تو بچپن میں فوت ہو گیا اور باقی پانچ بیٹوں سے جو نسل چلی وہ اب تک سینکڑوں میں آچکی ہے.خود پور مانگا میں ہماری جدی زرعی زمین دریا برد ہو چکی تھی اور نئے بند و بست اراضی کے تحت ضلع منٹگمری اور ضلع لائکپور میں مالکان زمین کونی آبادکاری کے لئے زرعی زمین دی جا رہی تھی اس سے استفادہ کرنے میں ہمارے دادا نا کام رہے کیونکہ وہ ایک علمی خاندان سے متعلق تھے جن کا بنیادی کام درس و تدریس تھا.اس لئے والد صاحب کو اپنے آبائی مقام سے نقل مکانی کرنا پڑی اور وہ مع اہل وعیال کے پکی ٹھٹی تحصیل چونیاں میں رہائش پذیر ہو گئے اور یہیں سے انہیں قبول احمدیت کی توفیق ملی.....اس کے بعد والد صاحب علی پور نزد پتو کی ضلع لاہور میں منتقل ہو گئے اور ان کا کام قرآن کریم کی درس و تدریس اور دعوت الی اللہ رہا.جس کے نتیجہ میں علی پور ، شمس آباد اور کھر پھٹر وغیرہ میں جماعت احمدیہ کا قیام ہوا.اور میری پیدائش بھی 13 اپریل 1919 ء کو علی پور میں ہوئی.پھر کچھ عرصہ بعد والد صاحب مع اہل و عیال چک نمبر 1 - 6/11 ضلع منٹگمری میں رہائش پذیر ہو گئے جہاں آپ نے مطب کھولا.برانچ پرائمری سکول میں مدرس کے طور پر کام کرتے رہے اور ساتھ ہی برانچ پوسٹ ماسٹر کا عہدہ بھی سنبھالا اور اس کے ساتھ ساتھ گاؤں کے اکثر مردوں اور خواتین کو قرآن کریم ناظرہ پڑھایا جس میں احمدی اور غیر از جماعت بھی شامل تھے اور دعوت الی اللہ کا سلسلہ بھی جاری رہا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک محکم جماعت یہاں قائم ہو گئی جس کے صدر مکرم چوہدری نورالدین صاحب ذیلدار مرحوم تھے.1 - حسین بی بی صاحبہ 2 - محمد صدیق صاحب 3 - مریم صاحبہ ( فوت شدہ) 4.محمد اسماعیل صاحب 5.بشیر احمد صاحب مرحوم جلد 21

Page 350

تاریخ احمدیت 6 - محمد احمد صاحب 7.فاطمہ صاحبہ ( فوت شده) 8..نوراحمد صاحب عابد 9.مبارک احمد صاحب بزرگ خواتین کا وصال 341 جلد 21 اس سال مندرجہ ذیل تین بزرگ خواتین احمدیت بھی وصال پاگئیں جنہیں صحابیات کے بے نفس اور پاک زمرہ میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل تھا.محتر مدامة اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت سید حسن شاہ صاحب آف ناصر آباد قادیان ( تاریخ وفات 7اکتوبر 1961ء) آپ حضرت منشی عبد الرحمان صاحب کپور تھلوی ( یکے از اصحاب 313) کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں.بہت عابدہ اور تہجد گزارخاتون تھیں.بچوں کو بھی پابندی نماز کی تلقین کرتیں.قرآن کریم نہایت خوش الحانی سے پڑھتیں.دینی باتوں کے سنے کا بہت شوق تھا.سلسلہ کی ہر مرکزی تحریک میں حصہ لیتیں اور کمزوری صحت کے باوجود جلسہ سالانہ میں ضرور شامل ہوتیں.حضرت مسیح موعود اور حضور کے مبارک خاندان سے نہایت درجہ محبت و عقیدت رکھتی تھیں.محترمه سکینه بی بی صاحبہ زوجہ حضرت سید فضل شاہ صاحب (ولادت 1879ء.بیعت قبل از 1905 ء.وفات 16 اکتوبر 1961 ء) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپر و قلم فرمایا: مرحومہ حضرت سید فضل شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادم اور اول درجہ کے مخلص اور درویش بزرگ تھے.مرحومہ نے شروع میں ہی یعنی اپریل 1906ء میں وصیت کرا دی تھی.چنانچہ ان کی وصیت کا نمبر 150 تھا جس میں چار اصحاب شامل تھے یعنی حضرت سید فضل شاہ صاحب اور ان کی اہلیہ اور حضرت شاہ صاحب کے بھائی حضرت سید ناصر شاہ صاحب

Page 351

تاریخ احمدیت 342 جلد 21 مرحوم اور ان کی اہلیہ.اور انہوں نے وصیت کے ساتھ ہی وصیت کی رقم بھی ادا کر دی تھی اور گو حضرت شاہ صاحب مرحوم بیعت میں زیادہ قدیم تھے مگر خود مرحومہ کی بیعت بھی کافی پرانی تھی اس لئے صحابہ کے قطعہ خاص میں دفن ہوئیں اور ان کی اولاد کا دین و دنیا میں خدا تعالیٰ حافظ و ناصر ہو.وفات کے وقت قمری حساب سے عمر غالباً 85 سال تھی.حضرت امۃ الکریم صاحبہ اہلیہ حضرت قاضی عبد المجید صاحب مرحوم آف امرتسر.(بیعت 1892ء.وفات 19 نومبر 1961 ء بعمر 76 سال) بہت نیک اور پارسا خاتون تھیں.آپ کا اکثر وقت ذکر الہی میں گذرتا تھا.سلسلہ احمدیہ سے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ 1/3 حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی.مالی جہاد میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں.تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا.مہمان نوازی اور غرباء پروری کا وصف بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو ودیعت کیا تھا.مرحومہ کی پوری زندگی دین کو دنیا پر مقدم کرنے میں بسر ہوئی.محترمه حاکم بی بی صاحبہ: زوجہ محترم خواجہ محمد دین صاحب سیالکوٹی ان بزرگ صحابیات کے علاوہ 14 اپریل 1961 ء کو محترمہ حاکم بی بی صاحبہ زوجہ خواجہ محمد دین صاحب سیالکوئی بھی داغ مفارقت دے گئیں.آپ شاعر احمدیت جناب عبدال ناہید صاحب کی والدہ محترمہ تھیں.محترم ناہید صاحب کا تحریری بیان ہے کہ ”خاکسار کی والدہ محترمہ حاکم بی بی صاحبہ زوجہ خواجہ محمد دین صاحب پوسٹ ماسٹر ( مرحوم) حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی کی بڑی دختر تھیں.14 اپریل 1961 ء بروز جمعہ قریباً اڑسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی....آپ فرمایا کرتی تھیں کہ جب میری ابھی شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی پھوپھو صاحبہ کے پاس غالبا 8-7-1906 ، میں گئی تھی.وہاں پر سب لڑکیاں جن میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی بیگم صاحبہ.مولوی محمد علی صاحب کی پہلی بیوی محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ محترمہ حاجرہ بیگم صاحبہ جو حضرت خلیفتہ المسیح اول کی نواسی تھیں

Page 352

تاریخ احمدیت 343 اور قریب سب ہم عمر تھیں.حضرت اقدس کے دولت خانہ پر رہتی تھیں.اور اکثر حضور کے پاس بیٹھنے کا موقعہ ملتا رہتا تھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب عام طور پر حضرت اقدس کے مکان میں ہی رہتے تھے اور حضور اپنی رہائش گاہ سے ملحق ہی ان کو کمرے دے دیتے تھے.اس طرح والدہ صاحبہ کو بہت قریب سے اللہ تعالیٰ کے مسیح اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت اماں جان اور ان کی اولاد کو دیکھنے اور ان پاک نفوس کی صحبت میں رہنے کا فخر حاصل تھا.حضرت اقدس جب اپنے خدام کے ساتھ سیر کو جایا کرتے تو یہ سب بیگمات اور مولویانی صاحبہ حضرت اماں جان کی معیت میں ساتھ جایا کرتی تھیں.اگر لڑکیاں زیادہ ہوتیں تو وہ باری باری رتھ پر سوار ہوتی تھیں.انہی ایام میں خاکسار کی والدہ محترمہ نے حضرت اقدس کے دست مبارک پر بیعت کی تھی.آپ کے والد محترم حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب پہلے ہی بیعت کر چکے تھے.2.خاکسار راقم الحروف کی اہلیہ عائشہ محمودہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ان ایام کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک دفعہ والدہ محترمہ نے انہیں بتایا کہ ایک عید سے قبل حضرت اماں جان نے میرے لئے ایک نیا جوڑا بنوایا...جب کھانے پر تمام لڑکیاں پہنچ گئیں تو حضرت اماں جان نے مجھے وہاں نہ پا کر پھوپی صاحبہ سے دریافت کیا کہ حاکم بی بی کہاں ہے.آپ نے بتایا کہ وہ آپ کا دیا ہوا جوڑا آج پہنا چاہتی تھی مگر میں نے نہیں دیا.اس لئے اس نے کپڑے نہیں بدلے اور کمرہ میں ہی ہے.آپ نے پھوپی صاحبہ سے فرمایا کہ وہ جوڑا اسے پہننے کے لئے دیدو.چنانچہ میں وہ جوڑا پہن کر آ گئی اور اس بات کے احساس سے کہ میری خفگی کا سب کو علم ہو گیا ہے کچھ شرما کر پیچھے کھڑی رہی.حضرت اماں جان نے دیکھا تو فرمایا ” آساڈیا حاکما آجا یہ انہی پاک شب و روز کی نیک صحبت کا نتیجہ تھا کہ والدہ مرحومہ خوب پابندی سے ارکان دین حق ) بجالاتی تھیں.بے فائدہ باتوں سے اجتناب کرتی تھیں اور ذکر الہی میں مشغول رہتیں.غیبت دروغ گوئی.عیب چینی.غرور و تکبر اور کسی کی تحقیر کرنے سے نفرت تھی اور ان باتوں سے بچنے کی ترغیب دیتی تھیں.محلہ کی تمام عورتیں آپ کی شرافت اور خوش اخلاقی کے باعث آپ سے بہت محبت رکھتی تھیں اور آپ کو بڑے احترام سے دیکھتی تھیں.ہم نے گھر میں اکثر یہ نظارہ دیکھا کہ کوئی محتاج عورت گھر میں آئی اور اس نے اپنا مقصد جلد 21

Page 353

تاریخ احمدیت 344 بیان کیا اور والدہ محترمہ نے پوری توجہ سے اس کی بات کو سنا.پھر اپنا صندوق کھولا.اسکے بعد انکی بند مٹھی اس عورت کے ڈوپٹہ کے نیچے سے اسکے ہاتھ میں ہی کھلتی.ہمیں یہ تو اندازا ہو جاتا تھا کہ اسکی نقدی سے امداد کی گئی ہے مگر یہ بھی نہ پتہ چلتا کہ اسے کیا دیا گیا ہے.3.خاکسار کی اہلیہ نے مزید بیان کیا کہ اماں جی نے ایک دفعہ انہیں بتایا کہ میں ابھی چھوٹی تھی کہ ایک دن حضرت منشی محمد عبد اللہ صاحب سیالکوٹی (رفیق حضرت اقدس) کے ہاں گئی.ان کی ایک بچی شدید بیمار تھی.منشی صاحب کی والدہ محترمہ نے مجھے کہا کہ دعا کر یہ اچھی ہو جائے.میں نے اسی وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو مجھے ایک آواز آئی جس پر میں نے ان سے کہا کہ پائی کہندا اے.اے نہیں بچن لگی.کا کا ہوئے گا اوہ جیوندار ہے گا، یعنی کوئی آدمی کہتا ہے کہ یڑ کی نہیں بچے گی.البتہ ایک لڑکا ہوگا جو زندہ رہے گا.اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ایسا ہی تھا چنانچہ وہ لڑکی فوت ہو گئی.جس کے بعد حضرت منشی محمد عبد اللہ صاحب کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام خدا کے مسیح نے عبد الحئی رکھا.جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی زندہ ہیں.4.والدہ محترمہ کسی صدمہ پر انتہائی ضبط قتل سے کام لیتی تھیں.ہمارا چھوٹا بھائی ظفر جو بڑا ہی خوبصورت اور تندرست بچہ تھا اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر کی رونق بھی تھا جب تیرہ برس کی عمر میں فوت ہو گیا تو ہم نے والدہ صاحبہ کے خاموشی کے ساتھ آنسو بہتے ہوئے تو دیکھے مگر کوئی ایسا کلمہ ان کی زبان سے نہیں سنا جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا پر نارضامندی یا شکایت کا اظہار ہوتا ہو.5.گھر میں جب کبھی کوئی اچھی چیز آتی یا خود پکاتیں تو محلہ کے تمام گھروں میں بھی ضرور تقسیم کرتیں.اپنی اولاد اور بہوؤں کے ساتھ نہایت ہی مشفقانہ سلوک تھا.کبھی کسی سے سختی سے پیش نہیں آتی تھیں الفضل کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتی تھیں.آخری عمر میں جب نظر خراب ہو گئی تو اپنی کسی بہو یا بچہ کو پاس بٹھا کر الفضل سنا کرتی تھیں.اس خاکسار کی جب کبھی کوئی تازہ نظم الفضل میں شائع ہوتی تو اسے بڑی محبت اور توجہ کے ساتھ سنتیں.اور گو زبان سے کچھ نہ کہتیں مگر چہرے کی چمک اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بیٹے کی جس رنگ میں حوصلہ افزائی کرتی اسے کچھ دل ہی جانتا ہے.بچپن میں ہمیں آپ کی طرف سے ہدایت ہوتی کہ مغرب سے پہلے گھر پہنچ جائیں.بڑے بچوں کا بھی رات دیر تک گھر سے جلد 21

Page 354

تاریخ احمدیت 345 جلد 21 باہر رہنا پسند نہ کرتی تھیں.یہ پابندی نمازوں کے اوقات پر نہیں تھی اور اگر دینی کاموں کے سلسلہ میں ساری رات بھی باہر رہنا پڑا تو بخوشی اجازت دے دیتیں.6.آپ کی شادی نومبر 1908ء میں ہمارے والد صاحب با بومحمد دین صاحب پوسٹماسٹر مرحوم سے ہوئی.آپ کے بطن سے مندرجہ ذیل اولاد پیدا ہوئی: 1 - عبدالسلام صاحب (ڈپٹی کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس) 2.امۃ السلام صاحبہ مرحومہ زوجہ ڈاکٹر میجر عبدالحق ملک ( سول سرجن ) مرحوم 3.خاکسار عبدال ناہید ریٹائر ڈ ڈپٹی کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس 4 خورشید مسرت صاحبہ مرحومہ زوجہ میجرمحی الدین ملک پسر حضرت ملک نواب الدین صاحب مرحوم ( ہیڈ ماسٹر.پرائیویٹ سیکرٹری خلیفتہ اسیح الثانی ) 5 نسیم اختر صاحبہ اہلیہ میجر میرمحمد عاصم صاحب پسر حضرت مولوی محمد جی صاحب فاضل مرحوم انکے علاوہ امۃ الرحمان.ظفر اسلام اور شمیم بچپن میں ہی فوت ہو گئے.بعض مخلصین احمدیت کا ذکر خیر 1 محترم شیخ عبد الخالق صاحب نو مسلم فاضل عیسائیت: وفات 2 جنوری 1961 ء91 90 آپ 20 دسمبر 1914 ء کو اپنے ایک ساتھی کے ساتھ وارد قا دیان ہوئے.اس وقت آپ کا شمار ملک کے مشہور پادریوں میں ہوتا تھا اور آپ عیسائی مذہب کے چوٹی کے عالم سمجھے جاتے تھے.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے ان کو شرف باریابی بخشا.ملاقات کا یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا.حضرت چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی پہلے دن کی ملاقات میں موجود تھے آپ بیان فرماتے ہیں کہ عند الملاقات مکرم عبد الخالق صاحب نے تجویز پیش کی کہ میں اسلام پر اعتراض کروں گا.آپ اس کا جواب دیں پھر آپ عیسائیت پر اعتراض کریں تو میں اس کا جواب دوں گا مگر حضور نے یہ تجویز منظور نہ فرمائی اور فرمایا کہ جب تک وہ دیوار (عیسائیت کی ) جو آپ کے دل میں ہے پہلے میں اس کو نہ گرالوں اپنی (اسلام کی ) دیوار کی بنیاد کیسے رکھ سکتا ہوں.شیخ صاحب نے اس کو تسلیم کر لیا پھر حضور نے عیسائیت پر اعتراضات کرنا شروع کئے.شیخ

Page 355

تاریخ احمدیت 346 جلد 21 صاحب جواب دیتے.حضور ان کے جواب پر معترض ہوتے تو شیخ صاحب کہتے کہ حضرت ! ہم عیسائیوں کے پاس اس سے بڑھ کر اور کوئی جواب نہیں“.حضور روزانہ ان کو چار گھنٹے کے قریب وقت دیتے رہے.حضور نے ان کے مذہب کی کمزوری ان سے منوا کر ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور سب سے پہلے اس سوال کا جواب دیا کہ اسلام میں نجات کا کیا طریق ہے اور ذنب استغفار انبیاء کے کیا معنی ہیں.22 دسمبر کو اس سوال کا جواب دیا کہ شریعت پر عمل ہوسکتا ہے یا نہیں.پھر حضور نے گناہ سے بچنے کے طریق بیان فرمائے.شیخ عبد الخالق صاحب جو ابتداء ہی میں سمجھ چکے تھے کہ عیسائیت کی بنیا د اسلام کے مقابل بالکل کھوکھلی ہے، حضور کے بیان فرمودہ حقائق کو سن کر دنگ رہ گئے اور اسلام قبول کر لیا.شیخ صاحب قبول حق کے بعد مستقل طور پر قادیان آگئے اور دفتر تصنیف میں کام شروع کر دیا.ہر چند کہ یہاں انکی زندگی سخت تنگی سے گذری مگر ان کا قدم کبھی نہیں ڈگمگایا اور انہوں نے ساری زندگی قلمی ولسانی خدمت میں گزار دی.قادیان میں آپ واقفین کے استادر ہے پھر جامعہ احمدیہ میں بھی آپ کو عیسائیت کا مضمون پڑھانے کا موقعہ ملا.حضرت مصلح موعود بھی بعض دفعہ آپ سے بائبل کے حوالے دریافت فرمالیتے تھے.2 سیٹھ عبد القادر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ لا بوان بورنیو : (وفات 17 جنوری 1961ء) آپ موصی تھے.بور نیو میں سب سے پہلے احمدی ہوئے.آپ کے عملی نمونہ اور تبلیغ سے بہت سے لوگوں کو قبول احمدیت کی توفیق ملی.جماعت کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.97 3.میر محمد ابراہیم صاحب سابق پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ پسر ورضلع سیالکوٹ: (وفات 26 مارچ 1961ء) نہایت مخلص، نڈر اور جانباز احمدی تھے.حق بات کہنے میں گویا شمشیر برہنہ تھے.جماعت احمدیہ پسرور کی تنظیم و ترقی میں ان کی خدمات کا بھی عمل دخل ہے.آپ 1952ء سے 1959 ء تک پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ پسر ور ر ہے اور اپنے فرائض نہایت فرض شناسی اور مستعدی سے ادا کرنے کی سعادت پائی.98

Page 356

تاریخ احمدیت حواشی 1.رجسٹر روایات جلد 5 صفحہ 8.الفضل 26 فروری 1961 ء صفحہ 5.2 الفضل 6 جنوری 1961 ، صفحہ 5.3.رجسٹر روایات جلد 5 صفحہ 8-9- 4.رپورٹ مجلس مشاورت 1927 ، صفحہ 51.5.رپورٹ مجلس مشاورت 1928 ، صفحہ 194.6.رپورٹ سالانہ صد را جمن احمد یہ قادیان 32-1931 ء صفحہ 19.7.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ قادیان 35-1934 ، صفحہ 18.8.رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ قادیان 36-1935ء صفحہ 6-8.9.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ قادیان 37-1936 ء صفحہ 4.347 10.ملاحظہ ہور پورٹ سالانہ صدرا حجمن احمد یہ قادیان از 38-1937 ء تا 41- 1940 ء.جلد 21 11- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مولانا محمد سلیم صاحب مجاہد بلاد عربیہ کا مضمون مطبوعہ اخبار الحکم ( قادیان ) 28 مئی.7 جون 1939ء صفحہ 17 ،18.12.خلاصہ رپورٹ ہائے سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان از 49-1948 ءتا54-1953ء.13.رپورٹ سالانہ صدر انجمن حد یہ پاکستان 57-1956 صفحہ 97.14 - الفضل 26 فروری 1961 ، صفحہ 5.15 - افضل 8 جنوری 1961 ، صفحہ 3 16.مرسلہ جناب محترم بشارت احمد صاحب امریکہ.17 - الحکم قادیان 7-14 مئی 1938 ، صفحہ 3 الفضل 7 جنوری 1961 ء.18.پنجاب کی ذاتیں صفحہ 501 از سرڈ ینزل ابٹسن مترجم یاسر جواد فکشن ہاؤس مزنگ روڈ لا ہور اشاعت 1998 ء.19.اقوام پنجاب صفحہ 24 نا شریک کارنر مین بازار جہلم.20.اقوام پنجاب صفحہ 78 نا شریک کارنر مین بازار جہلم.21.ذاتوں کا انسائکلو پیڈیا صفحہ 420 مترجم یاسر جواد.ناشر بک ہوم مزنگ روڈ لا ہو راشاعت 2007.22.خاندانی او را بتدائی تعلیمی حالات آپ کی خود نوشت سوانح سے ماخوذ ہیں جو الحکم 7-28 مارچ 1938ء میں شائع شدہ ہیں.23 - بدر 3 اکتوبر 1912ء صفحہ 2 کالم 1.24 - ضمیمہ الحکام 17 اگست 1923ء - 25.اصل فہرست رجسٹر کی صورت میں خلافت لائبریری ربوہ کے ریکارڈ میں ہے اور اسکی نقل ضمیمہ " تاریخ احمد بیت، جلد ہشتم 26.اصحاب احمد جلد نہم صفحہ 141.27.مکتوبات اصحاب احمد جلداول صفحہ 47.28.اصحاب احمد جلد نہم صفحہ 150 تا 153.29 الفضل 7 جنوری 1961 ء صفحہ 1.30.اصحاب احمد جلد نہم صفحہ 153-154 - 31.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل 31 جنوری 1961 ء صفحہ 5.-32

Page 357

تاریخ احمدیت 348 جلد 21 34-33 افضل 15 فروری 1961 صفحہ 6 35.آپ اصطلاحی طور پر حضرت مسیح موعود کے صحابہ میں سے نہ تھے کیونکہ کو تحریری بیعت کر کے حضور ہی کے زمانہ میں احمدی ہوئے مگر زیارت کا شرف حاصل نہیں کر سکے تاہم حضرت مصلح موعود کی اجازت سے رفقائے خاص کے قطعہ میں دفن کئے گئے.36 الفضل 12 اپریل 1961 ، صفحہ 5.37 الفضل 25 جنوری 1959 ، صفحہ 3-4 38 الفضل 28 مارچ 1961 ءصفحہ 4.39 الفضل 12 اپریل 1961 ، صفحہ 5.40 الفضل 14 فروری 1961 صفحہ 5.41 الفضل 7 فروری 1961 ، صفحہ 1 - 42- الفضل 10 اگست 1972 صفحہ 4.43.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.ایضاً فارم الوصیت مورخہ 10 اگست 1941 ء.44.دیکھئے کتاب ” حضرت چوہدری غلام محمد خاں صاحب اور ان کی اولاد تالیف ڈاکٹر غلام اللہ خاں تمغہ قائداعظم E-6 ماڈل ٹاؤن لاہور نمبر 14 اشاعت مارچ 1986ء.45_’اہل خانہ“ چاہیئے ناقل.46 - ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ.47.رجسٹر روایات جلد 7 صفحہ 149.48.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.49 تفصیل ” تاریخ احمدیت جلد دوم ( طبع دوم ) صفحہ 425، 426 پر گزر چکی ہے.50.رجسٹر روایات جلد 7 صفحہ 149-150 ( روایات مرقود 24 جنوری 1938 ء).51.رجسٹر روایات جلد 7 صفحہ 86 اخبار بدر قادیان 27 اپریل 1961 ، صفحہ 2.52.رجسٹر روایات جلد 7 صفحہ 86-87.53.نوٹ: - لاہور میں آپ کے ہم نام ایک اور بزرگ آپ سے قبل اصحاب احمد کے زمرہ میں شامل ہو چکے تھے انہی کا نام 313 اصحاب کی فہرست میں زیر نمبر 278 درج ہے.(ضمیمہ انجام آتھم ) 54 - اخبار بدر قادیان 27 اپریل 1961 صفحہ 2.55-56 - ریکارڈ بہشتی مقبرہ.5 _ الفضل 31اکتوبر 1961ء.1_57 58 - اصل بیان ( جس پر مولوی صاحب نے اپنی بجائے اپنی بہن محتر مہ نور بیگم صاحبہ مصطفی آباد لاہور کا نام خوشنویس سے لکھوا دیا ہے.) شعبہ تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے.59.ریکارڈ شعبہ تاریخ ربوہ.60 الفضل 10 مئی 1961 صفحہ 1 - تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 234 الفضل 21 مئی 1961 ، صفحہ 6.61 - اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه 45-50 مرتبہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان ) مطبوعہ دسمبر 1960 ء ناشر احمد یہ بک ڈپور بوہ.62.روایات صحابہ جلد 6 صفحہ 86 - 63.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.64.والد ماجد ڈاکٹر شاہنواز خاں صاحب.65.قبول احمدیت کے بعد آپ کے ذریعہ آپ کے خاندان کے اکثر افراد نے بھی بیعت کر لی آپ اپنے گاؤں اور خاندان میں پہلے احمدی تھے.66.اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ 51.

Page 358

تاریخ احمدیت 67.الحکم 21 اپریل 1914 ء صفحہ 4 کالم 2.68- اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ 52 69.اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ 58 تا 60.70 - اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه 59-60 - 71 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوا اصحاب احمد جلد ہشتم.72 الفضل 22 اگست 1961 ، صفحہ 5 73 الفضل 22 اگست 1961 ، صفحہ 5.349 74 اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ 46 مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ) 75.رجسٹر صحابہ قادیان - مشمول ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم.ة الفضل 22 اگست 1961 ء صفحہ 5.176 77.الفضل 22 اگست 1961 ، صفحہ 5.78 - ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.79.رجسٹر روایات جلد 11 صفحہ 25 ، 26.80.اس فہرست میں کوئی ترتیب نہیں اسی طرح آپ کی ایک صاحبزادی کا نام بھی معلوم نہیں ہو سکا.81.الفضل 7 فروری 1989 صفحہ 6.83-82.ریکارڈ بہشتی مقبرہ.84 - الفضل 11 اپریل 2007 صفحہ 6.85.ماخوذ مکتوب نوراحمد صاحب عابدر بوہ مورخہ 24 اگست 1986ء.86 الفضل 26 نومبر 1961 ءصفحہ 4.87.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.1-88 الفضل 19اکتوبر 1961ء صفحہ 1.89 الفضل 25 نومبر 1961ءصفحہ 1-8.90.ریکارڈ شعبہ تاریخ ربوہ.91 الفضل 13 جنوری 1961 ء صفحہ 5.92 الفضل 24 دسمبر 1914 ، صفحہ 1 الفضل میں مصلحنا آپ کا نام درج نہیں کیا گیا.93 الفضل 4 فروری 1961 ء صفحہ 5.جلد 21 94 الفضل 24 دسمبر 1914ء - حضور کی بصیرت افروز تقریر کا ایک حصہ اخبار الفضل 14 تا 19 جنوری 1914ء میں شائع شدہ ہے جو لفظ ذنب اور غفر کی حقیقت کے بارہ میں ہے.95.سلسلہ کے رسائل واخبارات میں ان کے مضامین شائع شدہ ہیں جو ان کی علمی قابلیت کا آئینہ دار ہیں.96 افضل 4 فروری 1961 ، صفحہ 5 97 الفضل 3 فروری 1961 صفحہ 5 98 افضل 18،8 اپریل 1961 ، صفحہ 54

Page 359

تاریخ احمدیت 350 چوتھا باب 1961ء/1341 ھش کے بعض متفرق مگر اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود میں اضافہ اور خوشی کی تقاریہ نکاح ولادت جلد 21 1- امامہ صاحبہ بنت مرز اسلیم احمد صاحب ( ولادت 25 جنوری 1961 ء ) 2- سعد یہ احمد صاحبہ بنت چوہدری ناصر محمد سیال صاحب ( ولادت 9 اپریل 1961 ء ) -3- شاہدہ صاحبہ بنت ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب ( ولادت 27 جون 1961 ) 4- مدثر احمد صاحب ابن سید ناصر احمد صاحب ( ولادت 13 جولا ئی 1691ء) 5- امتہ العلیم صاحبہ بنت مکرم داؤ د مظفر شاہ صاحب ( ولادت 15 ستمبر 1961ء) 6- امۃ المومن حنا صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب (ولادت 22 ستمبر 1961ء) 7- سید ہاشم اکبر احمد ابن سید محمد احمد صاحب (ولادت 16 اکتوبر 1961ء) 8- فائزہ بیگم صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (ولادت 17 اکتوبر 1961 ء ) 9- امۃ الرؤف صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا او سیم احمد صاحب ( ولادت 11 نومبر 1961 ء ) 1- 19 اپریل 1961ء کومحترم نواب زادہ محمد احمد خان صاحب کے صاحبزادے حامد احمد خان صاحب کی تقریب شادی محترمہ شمیم بیگم صاحبہ بنت چوہدری خوشی محمد صاحب آف فیصل آباد سے عمل میں آئی.10 اپریل 1961ءکو ولیمہ کا اہتمام کیا گیا.5-2 نومبر 1961ء کو صاحبزادی سیدہ امتہ الرفیق صاحبہ ایم.اے بنت حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب کی تقریب شادی ہمراہ حضرت اللہ پاشا صاحب ایم.اے ایگریکلچرل اکنامسٹ پلینگ اینڈ ڈویلپمنٹ حکومت مغربی پاکستان سے ہوئی.آپ کا نکاح اسی روز خالد احمد بیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے 7 ہزار روپیہ حق مہر پر پڑھایا.

Page 360

تاریخ احمدیت 351 جلد 21 نونہالان احمدیت کی نمایاں کامیابی اور شاندار اعزاز 1- عزت مآب امری عبیدی صاحب 3 جنوری 1961ء کو دارالسلام (مشرقی افریقہ) کے دوبارہ میئر منتخب ہو گئے.اسی روز صدر پاکستان محمد ایوب خان صاحب نے مکرم صفدر علی خان صاحب کو ایوان صدر کراچی میں نمایاں قومی وملکی خدمات کے صلہ میں ستارہ خدمت اور مکرم احمد جان صاحب کو تمغہ خدمت کے اعزاز عطا کئے.-2- جامعہ نصرت ربوہ کی طالبہ محترمہ امۃ الرشید لطیف صاحبہ عربی کی تمام طالبات میں اول رہیں اور کے بی محمد حسین مبارک گولڈ میڈل حاصل کیا.3- ڈسٹرکٹ جھنگ ہائی سکول ھیڈ ماسٹر ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام 3 فروری 1961ء کو جھنگ میں ضلع کے ہائی سکولز کا مقابلہ ہوا جس میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کی ٹیم اول قرار پائی.4- 23 مارچ 1961 ء کو صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب نے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ایڈیشنل چیف سیکرٹری حکومت مغربی پاکستان کو ستارہ پاکستان کا اعزاز عطا کیا.5 - جامعہ نصرت ربوہ کی طالبہ محترمہ امتہ الباسط صاحبہ سال اول میں ثانوی تعلیمی بورڈ کے اردو مضمون کے مقابلہ میں دوسرا اور محترمہ قمر النساء صاحبہ سال دوم نے تیسرا انعام حاصل کیا.6- مکرم بشارت احمد خان صاحب ابن مکرم محمد عباس خان صاحب تر ناب تحصیل چارسدہ ضلع پشاور 755 نمبر لے کر مڈل کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول رہے.7- مسلم ہائی سکول ملتان کے طالب علم سہیل کوثر صاحب ابن شیخ امیر احمد صاحب نے ورنیکلر فائنل کے امتحان میں 664 نمبر لے کر ملتان شہر کے تمام سکولوں میں اول پوزیشن حاصل کی.8.میٹرک کے امتحان میں مکرم نعیم الرحمن صاحب درد ( ابن حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ) 813 نمبر لے کر ضلع جھنگ میں اول آئے.9- محترمہ فیروزه فائزه صاحبه ( بنت مکرم جنید ہاشمی صاحب ابن حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب) میٹرک کے امتحان میں 770 نمبر لے کر سر گودھا ڈویژن میں اول رہیں.10 - مکرم عبد الباسط صاحب ( ابن محترم میاں عبد الکریم صاحب لاہور ) پنجاب یونیورسٹی کے B.D.S تھرڈ پروفیشنل کے امتحان میں صوبہ بھر میں اول رہے.11 - محترمہ امة الحفیظ قریشی صاحبہ ( بنت قریشی محمد مطیع اللہ صاحب آف قادیان ) میٹرک کے امتحان میں 719 نمبر لے کر ضلع سیالکوٹ میں اول آئیں.

Page 361

تاریخ احمدیت 352 جلد 21 12 - مكرم مجیب الرحمن صاحب (ابن مکرم مولوی ظل الرحمن صاحب مربی سلسلہ ) کراچی یونیورسٹی میں ایل.ایل.بی فائنل کے امتحان میں دوم رہے.13 - مکرمہ طاہرہ نسرین صاحبہ ( بنت نثار احمد صاحب فاروقی ) نے پشاور یونیورسٹی سے ایم.ایس سی فزکس میں 358/500 نمبر لے کر اول پوزیشن حاصل کی.14 - محترمہ فضیلت غزالہ صاحبہ ( بنت محترم اللہ داد خان صاحب آر.او.گجرات ) الیف.ایس سی میڈیکل گروپ میں ضلع گجرات میں اول رہیں.15 - جناب عطاء المجیب صاحب راشد ابن خالد احمدیت حضرت مولونا ابو العطاء صاحب) ایف ایس سی کے امتحان میں 614 نمبر لے کر جھنگ ضلع میں اول رہے.16.مکرم اعجاز الحق صاحب قریشی.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ.فرسٹ ایئر میں 306 نمبر لے کر یو نیورسٹی میں اول رہے.17 - تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے استاد مکرم خواجہ منظور احمد صاحب ایم.اے زوالوجی کے امتحان میں کراچی یونیورسٹی میں اول آئے.18 - مکرم محمد عبد الرشید صاحب (ابن مکرم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب.پروفیسر جامعہ احمدیہ ) انجینئر نگ کالج لاہور کے مائننگ گروپ میں سیکنڈ ائر کے امتحان میں یو نیورسٹی میں دوم رہے.19 - محترمہ سیدہ امتہ الرفیق صاحبہ ( بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب) نے ایم.اے عربی فرسٹ کلاس میں 466 نمبر لے کر لڑکیوں میں اول اور یو نیورسٹی بھر میں دوم پوزیشن حاصل کی.20.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے طالب علم راجہ عبدالمالک صاحب بی.ایس سی نے سول ڈیفنس ٹریننگ کورس منعقدہ مری میں پنجاب یونیورسٹی کے تمام چیدہ کالج کے طلباء میں اول پوزیشن حاصل کی.21 - مولوی مکرم نور الدین صاحب منیر مجاہد مشرقی افریقہ ایم.اے جنرل ازم انگریزی کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں دوم رہے.22.تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی ٹیم نے بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن سرگودھا زون کی باسکٹ بال چیمپئن شپ جیت لی.23.ضلع جھنگ کے 22 سکولوں کا ایک ٹورنا منٹ ربوہ میں منعقد ہوا جس میں تعلیم الاسلام ہائی سکول نے 16 میں سے 4 کپ جیتے.والی بال اور تلیکس کی ٹیمیں اول اور کرکٹ وہا کی کی ٹیمیں دوم قرار پائیں.24.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے طالب علم مکرم مشہود احمد صاحب گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد کے زیر

Page 362

تاریخ احمدیت 353 جلد 21 اہتمام کل پاکستان بین الکلیاتی انگریزی مباحثہ میں دوم.اور اسی مقابلہ میں محمد اویس صاحب چہارم رہے.25.چوہدری محمود احمد صاحب شاد بی.ایس سی مکینیکل انجینئر نگ فائنل سیشن 0-1961 میں 1128 نمبر لے کر یو نیورسٹی میں اول رہے.موصوف گذشتہ سال بھی سیکنڈ ملینیکل انجینئر نگ میں - اول آئے تھے.10 ہندوستانی جماعتوں کی طرف سے اہم شخصیات کی خدمت میں لٹریچر 1 - برطانیہ کی ملکہ الزبتھ 1961 ء کے آغاز میں بھارت کے دورہ پر تشریف لا ئیں.اس موقع پر فروری 1961ء میں نظارت دعوۃ تبلیغ قادیان کی زیر ہدایت جماعت احمدیہ کا ایک وفد د بلی گیا اور برطانوی سفارت خانے کی معرفت ملکہ موصوفہ کو قرآن کریم اور اسلامی لٹریچر کا تحفہ بھجوایا.وفد مولانا محمد سلیم مبلغ دہلی، مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے، مکرم رحمت اللہ خان صاحب صدر جماعت دہلی اور مکرم پروفیسر مبارک احمد صاحب ایم.ایس.سی پر مشتمل تھا.سفارت خانہ کی طرف سے 2 مارچ 1961ء کو بذریعہ خط صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت تبلیغ قادیان کو اطلاع ملی کہ لٹریچر کا تحفہ ملکہ معظمہ نے شکر گذاری کے جذبہ کے ساتھ قبول فرمایا.2 - 4 مارچ 1961ء کو جماعت احمدیہ بمبئی کے ایک وفد نے مہاراشٹر کے گورنر شری پرکاش جی سے راج بھون میں ملاقات کی.ارکان وفد کے نام یہ ہیں: 1.مولوی سمیع اللہ صاحب مبلغ بمبئی ، 2.پی عبدالرزاق صاحب صدر جماعت احمدیہ بمبئی ، 3.یوسف علی صاحب عرفانی ، 4.ڈاکٹر منصور احمد صاحب لکھنوی ، 5.جناب محمد سلمان صاحب بی.اے.ایل.ایل بی.6.سیٹھ عبد اللطیف صاحب میمن.اس موقع پر مولوی سمیع اللہ صاحب نے موصوف کی خدمت میں قرآن مجید انگریزی پیش کیا جسے موصوف نے خوشی کے ساتھ قبول کیا.3- دسمبر 1961ء کو بٹالہ سے سری ہربنس لال ڈپٹی چیف منسٹر کا انگرس کے جلسہ کے لئے قادیان آئے.جناب مولوی برکات احمد صاحب را جیکی ناظر امور عامہ اور ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے نے اس موقع پر موصوف کولٹریچر دیا جس پر انہوں نے اظہار مسرت کیا.جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں پر ایک مشہور سکھ کے تاثرات جالندھر کے ایک معروف سکھ راہنما سردار امر سنگھ دوسانجھ سابق جنرل سیکرٹری شرومنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی.حال مینیجنگ ڈائریکٹر روز نامہ اکالی پتر کانے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت تبلیغ

Page 363

تاریخ احمدیت 354 جلد 21 قادیان کی خدمت میں لکھا: ’ ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ تبلیغ کا جو شوق تحریک کے اراکین میں پایا جاتا ہے.شاید ہی روئے زمین پر آپ ایسی ادنی ذرائع رکھنے والی کسی دھارمک جماعت میں ہو لگن ہے دُھن ہے اور سرگرمی ہے.یہ علامتیں دیکھ کر بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے نقطہ نظر کے ساتھ کسی کو اختلاف ہو یا اتفاق تاہم ہر ایک کو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ یہ ایک فعال جماعت ہے باتونی نہیں“.(مکتوب 10 فروری 1961 ء ) جنوبی ہند کی جماعتوں کا دورہ امسال مولانا محمد سلیم صاحب سابق مجاہد بلاد عربیه ، مولانا شریف احمد امینی صاحب فاضل ، چوہدری مبارک علی صاحب اور مولوی سمیع اللہ صاحب پر مشتمل ایک وفد نے 22 مارچ سے 21 اپریل تک جنوبی ہند کی درج ذیل جماعتوں کا وسیع دورہ کیا.1 - یاد گیر - 22-23 مارچ کو سالانہ جلسہ منعقد ہوا.اس جلسہ میں ہندو اور مسلمان بکثرت شامل ہوئے.24 مارچ کو ایک تربیتی جلسہ بھی منعقد ہوا جس میں مرکزی علماء نے تقاریر کیں.2 - تیما پور ( 25 مارچ ) - 3 - رائچور ( 28 مارچ ).یہاں جلسہ کی صدارت شری ایم.نا گیا بی.اے.ایل.ایل.بی نے کی.ایک غیر مسلم شری پانڈورائے نے تقریر کرتے ہوئے اصلاح معاشرہ کے لئے جماعت احمدیہ کی کوششوں کو سراہا.کئی غیر احمدیوں سے احمدی علماء کا تبادلہ خیالات بھی ہوا.4.مشیر آباد (30 مارچ ) - 5- حیدرآباد ( یکم اپریل ) - 6- ظہیر آباد (2) اپریل).حیدرآباد سے ظہیر آباد دسفر اور جلسہ ظہیر آباد کے انتظامات سیٹھ اسماعیل آدم صاحب آف چنتہ کنٹہ نے کئے.جلسہ کے ذریعہ حسن و خوبی سے اہالیان ظہیر آباد کو تبلیغ کی گئی.7- چنتہ کنٹہ 3 اپریل ).اس جلسہ میں بیسیوں غیر مسلم معززین شامل ہوئے.8 کرنول ( 5, 6 اپریل ).دو جلسوں کے علاوہ شہر کے سرکردہ افراد سے علماء جماعت نے تبادلہ خیالات کیا.9.ہبلی ( 6, 7 اپریل).ایک معزز ہندو پنڈت صاحب نے جماعت کی خدمات کو سراہا.10 - ساؤنٹ واڑی ( 8 اپریل ) - 11 - شموگہ (10 اپریل ).جلسہ کا انتظام مکرم مولوی ولی الدین صاحب شموگہ نے اچھے پیمانہ پر کیا.12 - سرب (11) اپریل ).یہاں جلسہ میں لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.حاضرین جلسہ ہندو اور مسلم دونوں تھے.13 - بنگلور (15 اپریل ).سامعین جلسہ میں ہندو دوستوں کی تعداد زیادہ تھی.14 - مدراس 18 19 اپریل ) - 15 - میلاد پور (مدراس) (21 اپریل ).مدراس اور میلاد پور

Page 364

تاریخ احمدیت 355 جلد 21 کے جلسوں میں مکرم مولوی عبداللہ صاحب فاضل نے تین دن تامل زبان میں تقاریر کیں جنہیں بہت پسند کیا گیا.میلاد پور کے جلسہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مکرم عبد القادر سابق میئر مدراس اپنے چند ا حباب کے ہمراہ ایک اور دوست محترم علی محی الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے جہاں مولوی عبد اللہ صاحب نے ان سے دو گھنٹہ تک تامل زبان میں تبادلہ خیالات کیا جس سے وہ بہت متاثر ہوئے.یہاں حکیم محمد دین صاحب مبلغ حیدر آباد بھی شامل وفد ہو گئے اور بعض مقامات پر خطاب بھی کیا.مرکزی وفد کا دورہ اُڑیسہ و بہار اس سال صوبہ بہار واڑیسہ کی جماعتوں کی بیداری اور تبلیغی اغراض کے لئے مکرم مولوی بشیر احمد صاحب فاضل، مکرم مولوی عبدالحق صاحب فاضل، مکرم محمد محسن صاحب معلم وقف جدید کے ایک مرکزی وفد نے 30 مارچ 1961 ء سے 6 مئی تک دورہ کیا.1 - بھدرک (30 مارچ) کے تربیتی اجلاس میں بعض غیر احمدی بھی شامل ہوئے جنہوں نے تقاریر کو بہت پسند کیا.یہاں 31 مارچ و یکم اپریل کو سیرت النبی ” موجودہ زمانہ کے مصلح کے عناوین کے تحت دو جلسے منعقد ہوئے.صدر جلسہ نارائن چندر اور دیانند نے سیرت کے جلسہ میں حضور ا کرم کے اخلاق کی توصیف کی.جلسہ سیرت میں غیر احمدی کافی تعداد میں شامل ہوئے جن میں سابق ڈپٹی اسپیکر اڑیسہ بھی شامل تھے.2.کرڈا پلی ( یکم اپریل ).تربیتی اجلاس ہوا.3.آٹھ گڑھ (3 اپریل ) یہاں پیشوایان مذاہب کا جلسہ ہوا.جلسہ کے صدر بابوا چھوتا نند اس پریذیڈنٹ کانگرس کمیٹی آٹھ گڑھ نے پروگرام کو بہت پسند کیا.اس جلسہ میں غیر احمدی و غیر مسلم کافی تعداد میں شامل ہوئے.غیر مسلموں میں لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.جلسہ کی حاضری 500 نفوس پر مشتمل تھی.جلسہ میں کر ڈا پلی ، بنگال ، تال برکوٹ ، غنچہ پاڑہ ، ارک پٹنہ، کوٹ پلہ، منڈلی پنگارسی کے احمدی دوست بھی شامل ہوئے.4.پنکال (4) اپریل ).بہت سے غیر مسلم دوست جلسہ میں شامل ہوئے.مکرم مولوی بشیر احمد صاحب نے تقریر کے بعد سوالوں کے جواب بھی دئے.5.سونگڑہ (16اپریل).اجلاس کے خاتمے پر ہیڈ ماسٹر اور دیگر اساتذہ کولٹر پچر دیا گیا نیز یہاں تربیتی جلسہ بھی ہوا.6- کیندرہ پاڑہ.(7) اپریل) - خطبہ جمعہ میں جماعت کو تربیتی نصائح کی گئیں.7.چودہ کلاٹ (7 اپریل ).پیشوایان مذاہب کا جلسہ ہوا.حاضرین جلسہ 700 تھے جن میں غیر احمدی بھی شامل ہوئے.وفد نے 8 اپریل کو کیندرہ پاڑہ میں واپس آکر ایک جلسہ کیا.8.کیرنگ (10 اپریل).سات آٹھ بستیوں کے غیر مسلم و غیر احمدی بھی شریک جلسہ ہوئے.تبلیغی جلسہ کے علاوہ تربیتی اجلاس بھی ہوا.9.مانکا

Page 365

تاریخ احمدیت 356 جلد 21 گوڑا (12 اپریل).جماعت کا پہلا جلسہ منعقد ہوا.ہندو اور مسلمان کثیر تعداد میں شریک جلسہ ہوئے.10 - کٹک (14 اپریل).خطبہ جمعہ دیا گیا.11.بھونیشور.16 اپریل کو پٹیل ہال میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک پریس کانفرنس بلائی گئی.نمائندگان کے سامنے جماعت کی طرف سے ایک ٹائپ شدہ میمورنڈم پیش کیا گیا جس میں مختصر الفاظ میں جماعت کا تعارف کرایا گیا تھا جسکے بعد مکرم مولوی بشیر احمد فاضل نے جماعت احمدیہ کی غرض وغایت اور اس کی صلح کن تعلیم پر روشنی ڈالی اور سوالوں کے جواب دئے.اس کے بعد شری ستیہ پر یہ مہنتی سابق لاء منسٹر اڑیسہ کی زیر صدارت جلسہ ہوا جنہوں نے صدارتی تقریر میں جماعت احمدیہ کی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: جماعت احمد یہ وہ واحد جماعت ہے جو قیام امن کے لئے اڑیسہ اور پورے ہندوستان میں عزم و استقلال کے ساتھ کوشش کر رہی ہے اور اس میں اسے نمایاں کامیابی حاصل ہو رہی ہے ہمیں چاہئے کہ ہم اس جماعت کی تقلید کریں.“ پریس میں ذکر بھونیشور کے جلسہ کی کارروائی مقامی اخبارات پر جانتر کٹک“ اور ” کلین کا کٹک“ میں بھی شائع ہوئی.”پر جانتر کٹک نے 18 اپریل 1961 ء کی اشاعت میں جلسہ کے ذکر کے ساتھ جماعت احمدیہ کے بارہ میں لکھا: جماعت احمدیہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام کے علاوہ ہندو، عیسائیت وغیرہ ہر ایک مذہب کا احترام کرنا.مشرقی پنجاب کے قادیان میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے اس مذہب کو رائج کیا تھا اور اہل اسلام میں ہندوستان میں احمدیوں کی تعداد تمیں ہزار سے زائد ہے.“ 12- جمشید پور (18 اپریل) تبلیغی جلسہ ہوا جس میں غیر احمدی بکثرت شامل ہوئے.13 - موڑ یا گاؤں.مرکزی وفد احمدی عقائد سے متاثر ایک رئیس شیخ محمد عثمان غنی کی خواہش پر 19 اپریل کو موڑ یا گاؤں گیا اور وہاں ایک کامیاب جلسہ کیا.جلسے میں ایک غیر از جماعت مولوی مولوی نعمت اللہ صاحب نے مولانا بشیر احمد صاحب کی تقریر سننے کے بعد سامعین جلسہ کو کہا: ما یہ احمدی مبلغین اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں.انکا ایک بیت المال ہے جسکے ذریعہ سال میں یہ لوگ سینکڑوں علماء پیدا کر لیتے ہیں اور پھر اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں بھجوا دیتے ہیں.غرضیکہ احمدیہ

Page 366

تاریخ احمدیت 357 جلد 21 جماعت اسلام کی عظیم الشان خدمت کر رہی ہے مگر دوسرے مسلمان اس وقت غفلت کی نیند سورہے ہیں.غیر مسلم احباب نے بھی جلسہ میں شرکت کی.14- رانچی.22 اپریل کو رانچی کے جلسہ میں معززین شہر کثیر تعداد میں شامل ہوئے.صدر جلسہ قاضی شہر مولانا صوفی جمال نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا: دد مبلغین اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد قابل قدر ہیں جو انتہائی مشکلات کے با وجود فریضہ تبلیغ کو سرانجام دے رہے ہیں.“ 15 - پٹنہ.25 اپریل کو سیرت النبی کا جلسہ ہوا جس میں کالج کے پروفیسر، طلباء، ادباء، شعراء اور دیگر اعلیٰ افسران شامل ہوئے.صدر جلسہ اردو ادب کے مشہور شاعر علامہ جمیل مظہری تھے جنہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اس وقت جماعت احمدیہ کے مبلغین ہی اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی توفیق پارہے ہیں.16- مظفر پور.(26.اپریل ).تربیتی و تبلیغی اجلاس ہوئے.تبلیغی جلسہ میں 400 ہندو سکھ ، مسلمان شامل ہوئے.17.بھاگلپور 29, 30 اپریل کو تبلیغی اجلاس منعقد ہوئے.30 اپریل کے جلسے میں ہند و بکثرت شامل ہوئے.اسی روز بھا گلپور سے متصل گاؤں برہ پورہ میں بھی جلسہ ہوا.18 - خانپور ملکی ( یکم مئی ) تبلیغی جلسہ ہوا.19 - بلاری.2 مئی کو ایک جلسہ ہوا.سامعین جلسہ 500 تھے جن میں اکثریت ہندو تھے.20.مونگھیر.4 مئی اور 5 مئی کو تبلیغی جلسے ہوئے.21 - اورین.6 مئی کو جلسہ ہوا.گردو نواح سے متعدد غیر مسلم دوست شامل ہوئے.حاضرین 3 ،4 صد تھے.انڈین باسکٹ بال ٹیم کی ربوہ میں آمد انڈین وائی ایم سی اے باسکٹ بال ٹیم کراچی اور لاہور میں متعد دنمائشی میچ کھیلنے کے بعد 15اکتوبر کو ربوہ کے منتخب کھلاڑیوں سے ایک نمائشی میچ کھیلنے کی غرض سے ربوہ آئی.میچ کے علاوہ ٹیم کے اعزاز میں متعدد استقبالیہ تقاریب کا اہتمام عمل میں آیا.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹرمیاں محمد ابراہیم صاحب کے ایڈریس کا جواب دیتے ہوئے ٹیم کے ایک ممتاز فر دمسٹر ہیوبرٹ رہن راج نے کہا: آپ لوگوں نے ہمیں خوش آمدید کہنے اور ہر قسم کا آرام پہنچانے میں جو سرگرمی دکھائی ہے ہم اس سے بے حد متاثر ہوئے ہیں.کسی جگہ آرام و آسائش کامل جانا اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنا کہ محبت و اخلاص کا وہ جذبہ رکھتا ہے جو اس کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے.دراصل آپ

Page 367

تاریخ احمدیت 358 جلد 21 لوگوں کا یہ جذبہ ہی ہے جس نے ہمیں بے حد متاثر کیا ہے.ہم جب واپس جائیں گے تو پاکستان کی اور بہت سی خوشگوار یادوں کے ساتھ ساتھ ربوہ میں چند گھنٹے قیام کی یاد بھی ہمارے دلوں میں عرصہ دراز تک تازہ رہے گی اور ہم جا کر اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے بھی اس کا ذکر کریں گے.....آپ لوگوں کا بے آب و گیاہ اور شور قطعہ زمین میں ذاتی محنت اور کاوش کے بل پر ایک خوبصورت شہر آباد کر لینا اس امر کا ثبوت ہے کہ آپ لوگ باطنی ایمان اور یقین کی قوت سے بہرہ ور ہیں.میں نے یورپ اور امریکہ کے بہت سے علاقے دیکھے ہیں اور ایسے مذہبی آثار قدیمہ کا بھی مشاہدہ کیا ہے جو ماضی میں گذری ہوئی قوموں کے جذبہ ایمان کے مظہر ہیں.یہی جذبہ مجھے آپ لوگوں میں بھی نظر آیا ہے.میں آپ لوگوں کے اس جذبہ ایمان اور یقین کی بہت قدر کرتا ہوں اور اس جذبہ کے پیش نظر ہی مجھے اس شہر کا مستقبل بہت روشن معلوم ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ چند سال بعد یہ ایک سرسبز اور ترقی یافتہ شہر کی شکل اختیار کر لے گا.16 رنگ محل مشن ہائی سکول کے اساتذہ ربوہ میں رنگ محل مشن ہائی سکول کے انیس اساتذہ اپنے پرنسپل مکرم سردار خان صاحب کے ہمراہ جماعت احمدیہ کے تعلیمی ادارے دیکھنے کے لئے 25 نومبر 1961ء کو ربوہ تشریف لائے.صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب افسر لنگر خانہ نے ان کے اعزاز میں عصرانہ دیا.صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب نے ربوہ کے قیام کی غرض وغایت سے اساتذہ کو آگاہ کیا اور مختلف اداروں سے روشناس کرایا.مغرب کے بعد یہ اساتذہ جامعہ احمدیہ کے ایک علمی مذاکرہ میں شامل ہوئے.اگلے روز انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسل تعلیم الاسلام کالج ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب چیف میڈیکل آفیسر سے ملاقات کی.نیز تعلیمی ادارے اور صدر انجمن احمد یہ پاکستان اور تحریک جدید کے دفاتر دیکھے اور اسی روز واپس لاہور تشریف لے گئے.17 مہتہ عبد الخالق صاحب کی سعودی عرب میں مخلصانہ خدمات مہتہ عبد الخالق صاحب (شہرت یافتہ پاکستانی جیالوجسٹ) 1961 ء سے 1972 ء تک سعودی عرب میں مقیم رہے اور ماہر ارضیات کی حیثیت میں اس سرزمین مقدس کے پوشیدہ خزانوں کے سراغ لگانے 5 MINISTRY OF PETROLEUM & MINERAL RESOURCES

Page 368

تاریخ احمدیت 359 جلد 21 بھاری اعانت کی.ملازمت کے دوران انہوں نے سعودی فرمانروا شاہ فیصل سے بھی ملاقات کی اور ملک میں بعض کارآمد اور نئی معدنیات کے انکشافات پر داد حاصل کی.علاوہ ازیں سعودی ڈائریکٹر جنرل معد نیات شریف اے قاسم نے 14 اکتوبر 1962ء کو سفیر پاکستان کو ایک خصوصی مراسلہ لکھا جس میں جناب مہتہ صاحب کی اعلیٰ کارکردگی پر مبارک باد کے ساتھ حکومت پاکستان کا شکر یہ ادا کیا کہ ایک پاکستانی جیالوجسٹ نے معد نیاتی تلاش میں اپنا بھر پور کردار ادا کر کے اپنے ملک کے نام کو دوسروں سے بلند اور بالا ثابت کر کے دکھایا ہے.راولپنڈی کا اخبار " VIEW POINT" اکتوبر 1987 ء کے الیشوع میں لکھتا.ترجمہ :.یعنی مسٹر مہتہ نے جو اپنے ملک میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے سعودی عرب میں ایک جیالوجسٹ کی حیثیت سے محکمہ معدنیات میں ملا زمت حاصل کر لی.انہوں نے محکمہ کے حکام اعلیٰ کو زمین میں پوشیدہ خزانوں کے بے نقاب کرنے میں اپنی پُر اسرار صلاحیت سے خوشگوار حیرت بخشی.انکی ایک غیر معمولی دریافت میگنسائٹ (MAGNESITE) کے وسیع تجارتی ذخائر تھے جن کا اندازہ 4 ملین ٹن کا لگایا گیا تھا.یہ ایک اہم صنعتی چٹان ہے.یہ سیمنٹ فیکٹری سٹیل مل اور اونچے درجہ حرارت کی بھٹیوں میں استعمال ہوتا ہے.انہوں نے فلورائٹ (FLUORITE) ، سیلیکا سینڈ SILICA) ہے: (SAND اور پزلون میٹیریل (PUZZOLON MATERIALS) کا بھی پتہ دیا.سعودی عرب کے حکمران شاہ فیصل کو گا ہے لگا ہے مہتہ صاحب کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں.شاہ فیصل نے انکو شاہی دربار میں آنے کی دعوت دی جہاں انکی کامیابیوں کا اعلانیہ بیان کیا گیا.1972ء میں مہتہ صاحب سعودی عرب سے واپس آئے.

Page 369

تاریخ احمدیت 360 جلد 21 بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں انگلستان 1961ء میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ نے لندن کا تبلیغی دورہ کیا جس کے دوران آپ ساؤتھ ہال بھی تشریف لے گئے.جہاں انتخاب کرایا گیا اور جماعت ساؤتھ ہال کا قیام عمل میں لایا گیا.10 جرمنی صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان 20 جنوری 1961ء کو مغربی جرمنی کے سرکاری دورہ کے سلسلہ میں ہیمبرگ تشریف لے گئے.امام بیت ہیمبرگ مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب ، کرم منیر الدین احمد صاحب یکی فضلی صاحب اور مکرم ناصر و ہلم نکولسکی صاحب نے موصوف کا استقبال کیا.اسی روز شام کو جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب کی قیادت میں صدر صاحب سے ملاقات کی اور ان کو جرمنی میں تبلیغ اسلام کے متعلق جماعت احمدیہ کی مساعی سے آگاہ کیا.صدر پاکستان نے احمدیہ وفد کی باتوں میں گہری دلچسپی لی اور جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہا.اس موقع پر آپ کی خدمت میں قرآن مجید کا تحفہ دیا گیا.فروری سے جون 1961 ء کے دوران چوہدری عبد اللطیف صاحب انچارج جرمنی مشن نے 9 فروری کو ہیمبرگ کے مضافاتی قصبہ ونس کے سکول میں اسلام کے موضوع پر تقریر کی اور سوالوں کے جواب دیئے.ازاں بعد 14 فروری، 29 مئی اور 9 جون کو تبلیغی سفر کے دوران لیکچر دیئے.25 مئی کو عید الاضحی منائی گئی.اس موقع پر مغربی جرمنی کے ٹیلی وژن نے نہایت عمدہ انداز میں جماعت احمدیہ کی تاریخ اور جرمنی میں مشن کی ابتداء، ترقی اور مساجد کی تعمیر کا تذکرہ کیا.19 اپریل کو بوریا (مغربی جرمنی) کے ٹیلی ویژن کے نمائندہ نے مکرم چوہدری صاحب موصوف سے انٹرویو لیا.انٹرویو کے ذریعہ اسے جماعت احمدیہ کے مشنوں کی مساعی اور انکے نتائج سے آگاہ کیا گیا اور مطالعہ کے لئے لڑر پچر دیا گیا.18 اپریل کو آپ نے انڈونیشیا کے کونسل جنرل سے ملاقات کر کے جماعت کے مشنوں کا تعارف کرایا اور موصوف کو انگریزی ترجمہ قرآن پیش کیا.جماعت کا ذکر پریس نے بھی کیا.چنانچہ جرمنی بھر کے

Page 370

تاریخ احمدیت 361 جلد 21 اخبارات نے ماہ مئی میں مسجد کی فوٹو شائع کرتے ہوئے لکھا ”یہ مسجد جماعت احمدیہ نے قائم کی ہے اور یہ 66 جماعت بڑی کامیابی سے تبلیغ اسلام کر رہی ہے.چوہدری صاحب نے 23 ستمبر کو بین الاقوامی ادارہ کے 25 افراد کو خطاب کر کے سوالوں کے جواب دئے.10 اکتوبر کو یونیورسٹی کے طلبہ کے سامنے موجودہ حالات کا حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں “ کے موضوع پر تقریر کر کے حاضرین میں لٹریچر تقسیم کیا.31 اکتوبر کو مسجد میں ”اسلام کی اہمیت پر تقریر کی جسکے بعد سوالوں کے جواب دئے اور لٹریچر تقسیم کیا.نومبر کے اوائل سے کریچن اکاڈمی کے تحت ایک پادری ہر ہفتہ اسلام کے بارہ میں غلط فہمیاں پھیلا تا تھا.چوہدری صاحب نے پادری کی تین تقاریر میں شامل ہو کر اسکے اعتراضات کا جواب دیا جس کا سامعین پر خوش گوار اثر ہوا.15 نومبر کو ہیمبرگ کے مضافاتی قصبہ کی اصلاحی انجمن کے تحت آپ کا لیکچر ہوا جس کے بعد آپ نے سوالوں کے جواب دئے اور لٹریچر تقسیم کیا.21 نومبر کو 27 مصری احباب پر مشتمل ایک وفد مسجد کی زیارت کے لئے آیا اور بے حد مسرور ہوا.وفد نے GUEST BOOK میں لکھا: ”تمام مسلمان جماعت احمدیہ کے ممنون ہیں کہ اس نے خدا تعالیٰ کا نام بلند کرنے اور اسلام کی اشاعت کے لئے یورپ بھر میں مشن و مساجد قائم کر دی ہیں“.وفد کولٹر پچر دینے کے علاوہ ان کے استفسارات کے جواب بھی دئے گئے.28 نومبر کو چوہدری صاحب نے اسلام میں عورت کا مقام“ کے موضوع پر خطاب کیا.اس اجلاس کی حاضری باقی سب اجلاسوں سے زیادہ تھی.اجلاس میں مشہور مستشرق پروفیسر ڈاکٹر شپولر (صدر شعبہ اسلامک سٹڈیز ہیمبرگ) نے بھی شمولیت اختیار کی.پروفیسر موصوف نے چوہدری صاحب کی تقریر کے بعد اپنے خطاب میں قرآن کریم کی تعلیم کو قابل تعریف قرار دیا.24 اکتوبر کو نومسلم جرمن و ہلم ناصر نکولسکی نے مسلم ممالک اور اسلام“ کے موضوع پر ایک علمی مجلس کی دعوت پر تقریر کی.بعد ازاں لٹریچر تقسیم کیا.2 اکتو بر کو جرمن ٹیلی وژن نے اسلام کے بارہ میں ایک تفصیلی رپورٹ نشر کرتے ہوئے احمد یہ مشن کا تعارف کرایا.آخری سہ ماہی میں نیوی کے ایک افسر نے بیعت کی.سکنڈے نیویا انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سو کارنو وسط 1961 ء میں ڈنمارک تشریف لے گئے.مبلغ سکنڈے نیویا جناب کمال یوسف صاحب نے صدر صاحب موصوف سے دو دفعہ ملاقات کی اور قرآن مجید کا ڈینش ترجمہ

Page 371

تاریخ احمدیت 362 جلد 21 تحفہ پیش کیا نیز جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی پر روشنی ڈالی.صدر موصوف نے شکر یہ ادا کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کو سراہا.ڈنمارک پریس نے صدر انڈونیشیا کے ساتھ مبلغ اسلام کی ملاقات اور ترجمہ قرآن کی پیشکش کو بہت اہمیت دیتے ہوئے تصاویر کے ساتھ خبریں شائع کیں.سوئٹزرلینڈ و آسٹریا سوئٹزر لینڈ مشن کے انچارج شیخ ناصر احمد صاحب نے انفرادی تبلیغ کے علاوہ لیکچروں اور جلسوں کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا اور دلچسپی رکھنے والے افراد کولٹریچر دیا.25 اپریل کو بازل شہر میں اسلام کا عالم روحانی“ کے موضوع پر تقریر کی اور 3 جولائی کو مینا ڈری (MANNEDRY) میں عیسائی دوستوں کے ایک گروپ میں تقریر کی اور سوالوں کے جواب دئے.اخبارات میں تذکرہ سوئٹزر لینڈ کے اخبار (FRIBURGER NACHRICHTEN) نے 18 مارچ 1961 ء کی اشاعت میں لکھا: فرقہ احمد یہ جو اسلام ہی کا ایک سرگرم اور فعال حصہ ہے اس کے لیڈروں نے دنیا بھر میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو تیز تر کرنے کے بارہ میں اپنے ممبران سے ایک پر زور اپیل کی ہے.اس اپیل میں جماعت کے ممبران سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے خاندان میں سے ایک ایک آدمی اشاعت اسلام کی غرض سے پیش کریں کیونکہ ماہوار چندوں کی رقوم ادا کر کے اپنے آپ کو فریضہ تبلیغ سے سبکدوش سمجھ لینا اور اس طرح تبلیغ کے کام کو محض اتفاقات کے حوالے کر دینا مناسب نہیں ہے.اپیل میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مبلغین اسلام کی تعداد کو بڑھانا اور تمام ذرائع کام میں لا کر تبلیغ اسلام کی منظم جد و جہد کو تقویت پہنچانا ضروری ہے.اس وقت افریقہ میں یہ حالت ہے کہ اگر ایک افریقی بندہ عیسائیت قبول کرتا ہے تو اس کے بالمقابل بائیس افریقہ باشندے اسلام کے حلقہ بگوش بن جاتے ہیں.اسلام کی طرف سے مذکورہ بالا تیز تر تبلیغی جد و جہد بلاشبہ ایک اور بائیس کی اس نسبت کو اور بھی زیادہ بڑھا دے گی اور یہ امر عیسائیت کے لئے مزید نقصان اور دھکے کا موجب ہوگا.سوئٹزر لینڈ کے مشہور روزنامہ بائکر ٹیبلٹ (BIELER TAGBLATT) نے 11 جون 1961 ء کی اشاعت میں حسب ذیل نوٹ دیا:

Page 372

تاریخ احمدیت 363 جلد 21 یہ جماعت دنیا کے اور بہت سے حصوں میں بھی پھیل گئی ہے.جہاں تک یورپ کا تعلق ہے لندن ، ہیمبرگ، فرانکفورٹ ، میڈرڈ ، زیورک اور سٹاک ہالم میں اب اس جماعت کے با قاعده مشن قائم ہیں.امریکہ کے شہروں میں سے واشنگٹن ، لاس انجلیز ، نیو یارک ، پیٹسبرگ اور شکاگو میں بھی اس کی شاخیں موجود ہیں اس سے آگے گر نیا ڈا ، ٹری نیڈاڈ اور ڈچ گی آنا میں بھی یہ لوگ مصروف کار ہیں.افریقی ممالک میں سے سیرالیون ، گھانا ، نائیجیریا، لائبیریا اور مشرقی افریقہ میں بھی انکی خاصی جمعیت ہے.مشرق وسطی اور ایشیا میں سے مسقط ، دمشق، بیروت، ماریشس، برطانوی شمالی بور نیو، کولمبو، رنگون ، سنگا پور اور انڈونیشیا میں انکے تبلیغی مشن کام کر رہے ہیں.دوسری عالمگیر جنگ سے قبل ہی قرآن کا دنیا کی سات مختلف زبانوں میں ترجمہ کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا.چنانچہ اب تک ڈچ ، جرمن اور انگریزی میں پورے قرآن مجید کے تراجم عربی متن کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں.اسی طرح عنقریب روسی ترجمہ بھی منظر عام پر آنے والا ہے.اس جماعت کا نصب العین بہت بلند ہے یعنی یہ کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام بنی نوعِ انسان کو ایک ہی مذہب کا پابند بنا کر انہیں باہم متحد کر دیا جائے.وہ مذہب احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہے.اس کے ذریعہ یہ لوگ پوری انسانیت کو اسلامی اخوت کے رشتے میں منسلک کر کے دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن قائم کرنا چاہتے ہیں.انہیں توقع ہے کہ بالآخر تمام بنی نوع انسان اسلام کی آغوش میں آکر مسلمان ہو جائیں گے.یہ جماعت خود اور اس کا اپنے مولد اور مسکن سے نکل کر پوری دنیا پر اس قدر مضبوطی سے پھیل جانا نوع انسان کی روحانی تاریخ کے عجیب وغریب واقعات میں سے ایک عجیب و غریب واقعہ اور نشان ہے.تبلیغی دورے شیخ ناصر احمد صاحب نے آسٹریا کا دو دفعہ دورہ کر کے 7 لیکچروں کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا.آپکا پہلا دورہ اکتوبر کے شروع میں ہوا.چنانچہ آپ نے 3.14اکتوبر کو انز بروک یو نیورسٹی میں دو لیکچر دئے.16اکتوبر کو سالزنگ میں اسلام اور کمیونزم کے موضوع پر تقریر کر کے سوالوں کے جواب دے.اسی دن

Page 373

تاریخ احمدیت 364 جلد 21 موصوف نے ٹیلیفو (TELFO) کا دوسری بار دورہ کیا اور 16 نومبر کو اسلام اور کمیونزم 23 نومبر کو ایک مسلمان کی زندگی نیز 30 نومبر کو اسلام کی موجودہ تحریکوں پر لیکچر دئے.ان سات لیکچروں کے علاوہ 13 اکتوبر کومشن کے قیام کی سالگرہ کی مناسبت سے ایک پبلک جلسہ منعقد ہوا اس موقع پر شیخ صاحب موصوف نے اسلام پر تقریر کی.اس موقع پر مختلف زبانوں میں احمد یہ لٹریچر کی نمائش بھی کی گئی.ہالینڈ ہالینڈ مشن کے زیر اہتمام ہفتہ وار علمی مجالس کے علاوہ متعدد پبلک جلسے منعقد ہوئے جنکے نتیجے میں کئی غیر ممالک کے معززین کو اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے مواقع ملے.ان جلسوں میں معراج النبی کا جلسہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم احباب نے شرکت کی اور حافظ قدرت اللہ صاحب امام مسجد ہالینڈ ، نیز ایک ڈچ احمدی عبدالرشید صاحب نے تقاریر کیں جنکو سامعین نے توجہ اور دلچسپی سے سنا.12 فروری کو ہیگ کی ایک سوسائٹی میکائیل کی دعوت پر مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے " اسلامی تصوف کے موضوع پر تقریر کی اور سوالوں کے جواب دئے.ماہ اپریل میں امرسفورٹ کی انسٹی ٹیوٹ میں ایک مذہبی کا نفرنس ہوئی.حافظ صاحب موصوف نے گناہ اور نجات“ کے موضوع پر خطاب فرمایا جس کا اچھا اثر رہا.آپ نے سوالوں کے جواب بھی دئے اور بعض معززین سے تبادلہ خیالات بھی کیا.ماہ مئی میں مکرم حافظ صاحب نے DEFT یونیورسٹی کی دو انجمنوں کی دعوت پر مختلف اوقات میں دو تقاریر کیں اور سوالوں کے جواب دئے اسی طرح آپ نے 13 جون کو فریس لینڈ FRIS LAND کے پبلک ہائی سکول میں بھی خطاب فرمایا.اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے مشن ہاؤس میں مختلف وفود آتے رہے.ان وفود میں انٹر نیشنل لاء کورس کے طلبہ کا وفد خاص طور پر قابل ذکر ہے.یہ وفد یورپ، افریقہ اور ایشیا کے بہت سے ممالک کے طلبہ پر مشتمل تھا.ان طلبہ تک پیغام حق پہنچانے کے لئے مشن ہاؤس میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا جس سے حافظ قدرت اللہ صاحب نے خطاب فرمایا جس کے بعد سوالوں کے جواب دئے گئے.طلبہ تقریر مسجد اور مشن ہاؤس سے بہت متاثر ہوئے.ان طلبہ میں لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.مارچ میں مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے ہالینڈ کے وزیر انصاف سے گھنٹہ بھر ملاقات کی اور انہیں مشن کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا اس موقع پر آپ نے موصوف کی خدمت میں قرآن کریم ، لائف آف محمد 28

Page 374

تاریخ احمدیت 365 جلد 21 اور دیگر اسلامی کتب کا تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے خلوص و مسرت کے جذبات سے قبول کیا.اسی سال بحرین کے شیخ حامد بن عبداللہ الخلیفہ یورپ کے دورہ کے دوران ہالینڈ آئے تو آپ کیم اگست کو احمد یہ مشن ہاؤس میں بھی تشریف لائے اور گھنٹہ بھر مشن میں رہے.انہوں نے جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں سے بہت دلچسپی لی.اس موقع پر احمد یہ مشن کی طرف سے آپ کی خدمت میں قرآن کریم انگریزی اور لائف آف محمد کا روحانی اور دینی تحفہ پیش کیا.ولندیزی پریس نے اس واقعہ کو بھی وسیع 30 پیمانے پر کوریج دی.8 اگست کو نائیجیریا کے وزیر اقتصادیات مشن میں تشریف لائے اور پونے دو گھنٹے تک رہے.حافظ قدرت اللہ صاحب نے انہیں تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں جماعت کی مساعی سے آگاہ کیا.وزیر موصوف نے جوابا کہا ” مجھے یہ دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی ہے کہ آپکی جماعت کی بدولت یہاں مسلمانوں کے لئے ایک مسجد قائم ہوئی ہے.آپ لوگ جس طرح اسلام کی خدمت کر رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے اور ہالینڈ میں آپ کا مشن دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی.اگست کے آخر میں مالی فیڈریشن کے محکمہ ریڈیو کے ڈائریکٹر مشن ہاؤس تشریف لائے حافظ صاحب موصوف نے انہیں جماعتی سرگرمیوں سے آگاہ کیا.انہوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ” میں مالی لوٹ کر اپنے پریذیڈنٹ سے خود ملوں گا اور اصرار کروں گا کہ جب آپ ہالینڈ کا دورہ کریں تو وہاں ہیگ میں مسلمانوں کی ایک مسجد ہے جو جماعت احمدیہ نے بنائی ہے اسکی ضرور زیارت کریں“.انہی دنوں نیوز ایجنسی کے ایک نمائندہ نے جماعت کے متعلق حافظ صاحب سے انٹر ویولیا جسے متعدد اخباروں نے چھاپا.اگست تا اکتوبر 1961 ء کے عرصہ میں دو سعید الفطرت ڈچ احمدی ہوئے.23 اگست کو سیرت النبی کا جلسہ ہوا.سامعین جلسہ 80 سے زائد تھے.جن میں غیر مسلم بھی شامل ہوئے.سامعین نے بڑی دلجمعی سے تقاریر سنیں اور مشن کے لٹریچر کا مطالعہ کیا.7 اکتوبر کو چرچ انسٹی ٹیوٹ کے 40 طلباء و طالبات کا گروپ مشن ہاؤس آیا.حافظ قدرت اللہ صاحب نے پون گھنٹہ تک تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دئے.25 اکتوبر کو حافظ موصوف نے UTRECHT یونیورسٹی میں 70 سامعین کے سامنے اسلام کے موضوع پر اور اسی طرح آخر اکتوبر میں ایک مشہور ایسوسی ایشن کے 60 سامعین کے سامنے تقریر کر کے سوالوں کے جواب دئے.8 نومبر 1961ء کو مخلص احمدی خاتون مسز ناصرہ نے چرچ سے متعلق نو جوان طبقہ کی ایک سوسائٹی

Page 375

تاریخ احمدیت 366 جلد 21 میں نصف گھنٹہ تک تقریر کر کے سوالوں کے جواب دیے.17 نومبر کو ڈیلفٹ کے طلباء کے سامنے 20 نومبر کو چرچ کمیونٹی کی دعوت پر LEIDSDOK میں اور 28 نومبر کو ہیگ کی ایک سوسائٹی میں حافظ قدرت اللہ صاحب کو پیغام اسلام پہنچانے کی سعادت ملی.33 غرناطہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب کی دعوت پر مکرم چوہدری کرم الہی صاحب ظفر نے 23 نومبر 1961 ء کو ایک اثر انگیز خطاب کیا.عنوان تھا ” پاکستان کی ایک مذہبی تحریک جو تجدید اسلام کے لئے قائم ہوئی ہے جناب پروفیسر صاحب کا خیال تھا کہ دس پندرہ افراد یکچر سنے آئیں گے مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ وقت سے پہلے ہی لیکچر ہال کھچا کھچ بھر گیا.حاضرین کی تعداد 500 کے قریب تھی.لوگوں نے لیکچر میں گہری دلچسپی لی.ایک گھنٹہ کے لیکچر کے بعد سوالوں کے جواب بھی دئے گئے.غرناطہ پریس نے لیکچر کی کامیابی کی خبر عمدہ الفاظ میں شائع کی.امریکہ 8 مئی 1961 ء کو شکاگو کے ایک اہم اخبار شکا گوسن ٹائمنز CHICAGO SUN) (TIMES میں مکرم امین اللہ خاں صاحب سالک کا انٹرویو شائع ہوا.یہ اخبار ساڑھے پانچ لاکھ کی تعداد میں شائع ہوتا تھا.اخبار میں اسلام کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے علاوہ جماعت احمدیہ کی اشاعت اسلام کیلئے قربانیوں کا بھی ذکر کیا گیا.بعد ازاں 22 مئی 1961ء کو ریڈیو اسٹیشن شکا گو نے آدھ گھنٹہ تک آپ کا انٹر ویو نشر کیا جس کے ذریعہ آپ نے اسلامی تعلیم کے محاسن کو پیش کیا.نیز ڈیٹن اور واشنگٹن کے چرچوں میں تقاریر کیں اور سینکڑوں پمفلٹ تقسیم کر کے پیغام حق پہنچایا.شکا گو میں ایک سعید روح نے قبول حق کیا.غانا 7-6-5 جنوری 1961ء کو جماعت احمدیہ غانا کا سالانہ جلسہ سالٹ پانڈ میں منعقد ہوا.جلسہ کا افتتاح مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے فرمایا.دیگر معزز مقررین کے نام یہ ہیں :.مولوی نسیم سیفی صاحب (مہمان خصوصی)، صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب (ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب)، مولوی عبد الوهاب بن آدم صاحب، جناب بیٹی صاحب ( معلم وا) عبدالواحد صاحب عزیز

Page 376

تاریخ احمدیت 367 جلد 21 سیکرٹری اشانی سیکشن ، محترم محمد آرتھر صاحب چیف ایگزیکٹو آفیسر غانا ہاؤسنگ کارپوریشن ، چوہدری نذیر احمد صاحب ایم ایس سی ، مسٹر چرچل بن آدم صاحب.پیش کی.دوران جلسہ شوریٰ کا اجلاس بھی ہوا.جس میں مخلصین جماعت نے 1360 پاؤنڈ کی مالی قربانی سات برس پیشتر جماعت احمدیہ غانا نے اپریل 1954 ء میں وا (WA) میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو اس سال کے آغاز میں ایک لاکھ میں ہزار روپے کے مصرف سے پایہ تکمیل کو پہنچی.اس عالیشان مسجد کی تقریب افتتاح 29 جنوری 1961ء کو منعقد ہوئی.اس مسجد کے بھاری اخراجات الحاج امام محمد صالح آف وا جیسے مخلص بزرگ نے ادا کئے.آپ 1931 ء میں حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کے ذریعہ نور احمدیت سے منور ہوئے.ابتداء میں آپ کی شدید مخالفت ہوئی مگر کوہ استقلال بنے رہے.اور ایک مضبوط، فعال، مخلص اور منظم جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے.افسوس الحاج امام محمد صالح صاحب اس تقریب سعید سے پچیس روز قبل اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.مولانانذیر احمد صاحب مبشر نے اس موقع پر اپنی تقریر میں خاص طور پر آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.وہ شخص جس کی مخلصانہ اور ان تھک کوششوں کے نتیجہ میں اس جماعت کو یہ قابل فخر مسجد بنانے کی توفیق ملی اور جو روح رواں تھا، وہ افتتاح سے صرف چھپیں دن پہلے وفات پا گیا.“ یہ کہتے ہوئے مولانا کی آواز رقت سے بھرا گئی اور اکثر حاضرین کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے تر ہو مسجد کا افتتاح مسٹر وائی بی صدیق ڈپٹی کمشنر وا کے ہاتھوں عمل میں آیا جنہوں نے افتتاحی تقریر میں پہلے الحاج امام محمد صالح صاحب کا خصوصی تذکرہ کیا پھر فرمایا :.جماعت احمدیہ جس کی بنیاد اس علاقہ میں 1932 ء میں سخت مخالف حالات میں پڑی برابر ترقی کرتی گئی حتی کہ اب دو ہزار پانچ سو آٹھ افراد کی ایک مضبوط جماعت اس علاقہ میں قائم ہے.اتنے افراد کا 9700 پاؤنڈ کے خرچ اور کئی ایک وقار عمل منا کر اتنی شاندار مسجد بنانا قابل رشک قربانی ہے.مسجد کا رقبہ 11.978 مربع فٹ ہے اور اس میں ایک ہزار ایک سو افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے.مینار کی بلندی 77 فٹ 7 انچ ہے.اور یہ بہت دلکش اور جاذب نظر ہے اور مستقبل کا مورخ کبھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتا کہ یہ سب میناروں سے بلند اور اعلیٰ ہے.“ اس سال غانا کی سرزمین میں مندرجہ ذیل مجاہدین احمدیت ملک کے کونے کونے میں تحریر و تقریر

Page 377

تاریخ احمدیت 368 جلد 21 اور پبلک ملاقاتوں اور اشاعت لٹریچر کے ذریعہ اسلام واحمدیت کا روح پرور پیغام پہنچانے میں سرتا پا جہاد کرتے رہے:.مولانا نذیر احمد صاحب مبشر ( انچارج مشن ) ، مولوی عطاء اللہ کلیم صاحب، مولوی عبد الوھاب بن آدم غانا ، مولوی عبدالمالک خاں صاحب ( لخت جگر حضرت خانصاحب ذوالفقار علی خاں)، قریشی فیروز محی الدین صاحب، مرز الطف الرحمن صاحب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی مساعی میں بہت برکت ڈالی اور ایک محتاط اندازہ کے مطابق کم و بیش 135 خوش نصیب حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.مشن کی تاریخ میں اس سال کے کئی واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مولانا نذیر احمد صاحب مبشر اس سال جولائی تک انچارج مشن کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور آپ نے تبلیغی اور تعلیمی مقاصد کے لئے 2754 میل کا طویل سفر کیا جس کے دوران 24 مقامات تک حق کی پر شوکت آواز پہنچی.آپ نے عربی کلچر سینٹر کے ڈائریکٹر عبدالعزیر علی کو 40 کتب پر مشتمل دینی لٹریچر دیا.آپ کا ایک مفید ٹریکٹ دو ہزار کی تعداد میں ملک کے طول و عرض میں شائع کیا گیا.مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم نے یونیورسٹی کالج غانا میں پراثر لیکچر دیا.اس موقع پر متحدہ عرب کے کلچرل سینٹر نانا کے ڈائریکٹر بھی موجود تھے.لیکچر کے بعد آپ کا ایک فاضل عربی معلم آدم سے نظریہ حیات و وفات مسیح پر مذاکرہ ہوا.جس کے نتیجہ میں دس افراد حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے.آپ کماسی مارکیٹ کے قریب با قاعدہ ہفتہ وار تبلیغی لیکچر دیتے رہے.2200 میل سفر کیا.آپ کی معیت میں اسی افراد جماعت کا قافلہ جنوبی غانا میں پہنچا اور اکم اوڑ ا، کم سویڈ را، بیانی اور ٹیچی منڈیا کی بستیوں میں پبلک جلسے منعقد کئے جن سے متاثر ہو کر 5 نفوس داخل احمدیت ہوئے.مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کے واپس مرکز تشریف لے جانے کے بعد مولوی عطاء اللہ کلیم صاحب نے 23 اگست 1961ء کو غانا مشن کا چارج سنبھالا جس کے معا بعد آپ کی تبلیغی سرگرمیوں میں یکا یک اضافہ ہو گیا.چنانچہ آپ نے منکسم اور کورم کرم میں تبلیغی و تربیتی کانفرنس کی جن میں عیسائی اور دوسرے لوگ کثیر تعداد میں شریک ہوئے.مجاہدین غانا کے ایک وفد نے چیف جسٹس غانا کی خدمت میں انگریزی ترجمہ القرآن کا تحفہ پیش کیا.اسی طرح فنانس منسٹر انڈیا اور سیلون اور انچارج ریجس براڈ کاسٹنگ ریڈ یو غانا اور ڈپٹی کمشنر ا کرا کو بھی کلام اللہ کا مقدس ہدیہ نذر کرنے کی سعادت حاصل کی.مولانا عبد المالک خان صاحب کی خصوصی جدو جہد کے نتیجہ میں علاقہ اشانٹی میں ایک کامیاب کانفرنس 3, 4, 25 نومبر کو بیانی (BIBIANI) مقام پر منعقد ہوئی.کانفرنس میں اشائی کے سینکڑوں

Page 378

تاریخ احمدیت 369 جلد 21 احباب نے شمولیت کی.”برونگ رہا نو ریجن کی جماعتوں کے نمائندے بھی اس میں شامل ہوئے.کھانے اور سفر کے اخراجات احباب نے خود برداشت کئے.کانفرنس کا افتتاح مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم امیر غانا نے فرمایا.کانفرنس میں مقامی مبلغین کے علاوہ مولانا عبد المالک خان صاحب ، محترم سعود احمد خان صاحب ، محترم حاجی الحسن عطاء صاحب، مکرم مرز لطف الرحمن صاحب کی تقاریر ہوئیں.اس موقع پر احباب نے قریبا سواد و ہزار روپے قربانی پیش کی.اس کا نفرنس کی ایک امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ دو دن شہر کے مختلف علاقوں میں تبلیغی جلسے کئے گئے جن میں شہر کے مسلم و غیر مسلم احباب نے ہزاروں کی تعداد میں پیغام حق کو سنا.مولا نا عبدالمالک خان صاحب نے کماسی مارکیٹ کے پبلک جلسوں سے سات بار خطاب فرمایا.اور سوالات کے جوابات دیے.نیز ڈنکو اور بیانی کے قصبات کو بھی اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ، جس کے نتیجہ میں کیتھولک مناد اور ریلوے کے تعلیم یافتہ ملازم نے اسلام قبول کر لیا.آپ کے ایک کامیاب مذاکرہ میں 100 معززین نے شرکت کی.مولا نا عبدالمالک خان صاحب کی زیر نگرانی کماسی میں ہر اتوار کو تبلیغی اجلاس منعقد ہوتے رہے.موصوف نے 1400 میل سفر کیا اور پیاناسی ، اسکوڈی مومیانگ، ٹیچی منفیہ ، اہانو ، میراسو، نو ماسو، بکوائے، جماسی اور اکوٹو کم کے مقامات میں تبلیغی و تربیتی فرائض انجام دیے.آپ کی زیر نگرانی مجلس مذاکرہ کے پانچ اجلاس ہوئے.آپ نے کوامی نکرومہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی افتتاحی تقریب میں مختلف ممالک کے نمائندگان کو سلسلہ کا تعارف کروایا.اور اشانٹی کے ریجنل کمشنر کو قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر پیش کیا.اس بات کا ذکر ریڈ یو غانا اور ملک کے انگریزی اور لوکل اخباروں نے کیا.اس موقع پر مکرم مرز الطف الرحمن صاحب بھی آپ کے ہمراہ تھے.مرز الطف الرحمن صاحب نے 2 پیرا ماؤنٹ چیفس سے ملاقات کر کے ایک کو مہدی موعود کی آمد سے آگاہ کیا اور دوسرے کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا.علاوہ ازیں ایک شامی تاجر کو بھی لٹریچر دیا.آپ نے 19, 20 نومبر کو ایک کانفرنس بلائی جس میں مختلف احباب کی تقاریر ہوئیں اس موقع پر آپ نے جماعت کو تبلیغی و تربیتی مساعی کو تیز تر کرنے کی تلقین کی.آپ کی تحریک پر احباب نے دار التبلیغ کیلئے 77 پونڈ کی رقم نقد ادا کی.موصوف نے اپنے ریجن کے مغربی حصے کا دورہ کر کے مختلف مقامات پر چھ جلسے کئے.جناب قریشی فیروز محی الدین صاحب کی مساعی اکثر و بیشتر ملک کے علمی حلقوں میں زور شور سے جاری رہیں چنانچہ آپ نے مختلف ملکوں کے سفراء، یو نیورسٹیوں کے طلبہ نیز دیگر اہم ملکی شخصیات تک بکثرت لٹریچر پہنچایا جن میں وزیر تعلیم غانا، انچارج مذہبی محکمہ غانا براڈ کاسٹنگ سسٹم، ہائی کمشنر سیلون، پیراماؤنٹ

Page 379

تاریخ احمدیت 370 جلد 21 چیف مشرقی ریجن، بھارتی وزیر خزانہ مرار جی ڈیسائی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اس کے علاوہ آپ نے متعدد تبلیغی جلسوں میں لیکچر دیے خصوصا مشرقی غانا کے علاقہ اکرا میں معززین سے نجی ملاقاتیں کیں اور پیغام حق پہنچایا.قریشی صاحب ہر ہفتہ جیل خانے کے قیدیوں کو بھی تبلیغ کرتے رہے.آپ نے سال کے آخر میں لوکل مبلغ اور اکرا چیف کی معیت میں وولٹ ریجن کا پانچ روزہ دورہ کیا اور چیفس اور پیراماؤنٹ چیفس تک پیغام حق پہنچایا اور پانچ مقامات پر کامیاب جلسے کئے.آپ نے گورنر سٹیٹ بنک پاکستان کو دعوت استقبالیہ دی جنہوں نے جماعتی خدمات اسلامیہ کو سراہا.محترم مولوی عبد الوھاب صاحب مبلغ شمالی غانا نے متعدد پبلک تبلیغی جلسے منعقد کئے جن میں اساتذہ کے علاوہ ڈسٹرکٹ کمشنر عملی نیز کئی دیگر اہم ملکی شخصیات نے شرکت کی.آپکے 5 لیکچر گورنمنٹ سکول ٹمالو میں ہوئے جن سے اسلام کا پیغام نہایت احسن رنگ میں پہنچا.آپ نے سیکنڈری سکول میں اسلام کے مختلف موضوعات پر دس تقاریر کیں جن کو اسا تذہ اور طلباء نے نہایت دلچسپی سے سنا.تقاریر کے بعد سوالوں کے جواب دیے.علاوہ ازیں موصوف نے گورنمنٹ ٹریننگ کالج ٹا مالے میں احمدی اور غیر احمدی میں فرق کے موضوع پر بہت کامیاب تقریر کی.اس تقریر کے بعد اس کالج کے طلباء بکثرت دار التبلیغ آکر احمدیت کے متعلق معلومات حاصل کرتے رہے.موصوف سے سرکاری محکمہ معلومات نے ایک انٹرویو کیا جو ایک رسالہ ناردرن ریویو میں مع جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ کے شائع ہوا.1961ء میں جماعت احمد یہ غانا کی طرف سے صدر جمہوریہ انڈونیشیا کی خدمت میں قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا.علاوہ ازیں صدر صومالیہ ہز ایکسی لینسی عبداللہ عثمان، ان کی کا بینہ کے وزیر تعلیم اور دیگر اعلیٰ افسروں کے ساتھ غانا تشریف لائے.مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم انچارج مشن و امیر جماعت غانا کی قیادت میں پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ غانا مسٹر محمد آرتھر اور قریشی فیروز محی الدین صاحب پر مشتمل وفد نے سٹیٹ ہاؤس میں ان کو خوش آمدید کہا اور جماعت احمدیہ کی اشاعت اسلام سے متعلق عالمی مساعی سے متعارف کروایا.نیز ترجمۃ القرآن انگریزی اور دیگر اسلامی لٹریچر تحفہ پیش کیا.جناب صدر نے جماعت احمدیہ کی اسلامی سرگرمیوں پر اظہار مسرت کرتے ہوئے مشن کی گیسٹ بک میں تحریر فرمایا:.مجھے یہ معلوم کر کے انتہائی خوشی ہوئی کہ ایک اسلامی مشن غانا میں صرف تبلیغ ہی نہیں کر رہا بلکہ نہایت تندہی اور محنت کے ساتھ ترقی کی راہوں پر سرعت سے گامزن ہے.اسلام کی مقدس تعلیمات ( روحانی فلسفہ و سادہ اور قابل فہم احکامات کی تبلیغ میں جمود کی وجہ با قاعدہ

Page 380

تاریخ احمدیت 371 جلد 21 منظم اور تربیت یافتہ مبلغین کی کمی تھی اور جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو دیکھ کر واقعی بہت مسرت ہوتی ہے.“ ریڈ یو نا نا نے اس خبر کو انگریزی کے علاوہ پانچ مقامی زبانوں میں نشر کیا.علاوہ ازیں غانا کے ایک کثیر الاشاعت روزنامے میں اس کی اشاعت کی.اسی طرح مکرم امیر صاحب اور قریشی صاحب نے موریطانیہ کے صدر محمد مختار دادا سے ملاقات کر کے انھیں جماعت کی تبلیغی مساعی سے آگاہ کیا.اور ان کی خدمت میں عربی و فرانسیسی لٹریچر پیش کیا.نیز سالٹ پانڈ میں ایک اسٹنٹ ایجو کیشن آفیسر کو بھی امیر صاحب نے لٹریچر پیش کیا.مکرم امیر صاحب نے میموریل زائن سیکنڈری سکول نیز ایک اور موقع پر 250 عیسائی طلبہ اور 12 اساتذہ کے سامنے تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دئے.نائیجیریا مولوی نیم سیفی صاحب ( رئیس التبلیغ مغربی افریقہ )، مولوی محمد بشیر شاد صاحب اور مولوی بشیر احمد صاحب شمس نے تحریر وتقریر اور پبلک لیکچروں اور نجی ملاقاتوں غرضیکہ ہرضروری طریق سے اشاعت حق کی مساعی پورے ذوق وشوق سے جاری رکھیں اور خدا کے فضل سے 76 سعید الفطرت احباب نے قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا.اور ایک نئی جماعت کا قیام بھی عمل میں آیا.نومبائعین میں ہاؤ سا قبیلہ کے ایک عالم دین اور اس علاقہ کے حاکم بھی تھے.جناب نسیم سیفی صاحب نے ریڈ یو نائیجیریا سے ہر ماہ تقاریر فرمائیں.مولوی محمد بشیر شاد صاحب نے ویسٹرن ریجن اور شمالی نائیجیریا کا تبلیغی دورہ کیا.JOS میں ڈیڑھ ماہ قیام کر کے دس پبلک لیکچر دئے.اس علاقہ میں دس افراد داخل احمدیت ہوئے.آپ نے شمالی نائیجیریا کا بھی دورہ کیا.جس کے دوران علاقہ KAFANCHAN میں ایک نئی جماعت قائم ہوگئی.یہاں آپ کے دس روزہ قیام کے دوران 16 احباب حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.بعد ازاں JOS میں آپ نے ڈیڑھ ماہ تک قیام کیا دس لیکچر دیے جن سے متاثر ہوکر 5 نفوس نے خدا کی پاک جماعت میں شمولیت اختیار کی.مولوی بشیر احمد شاد صاحب نے ویسٹرن ریجن اور مغربی صوبہ کا کامیاب تبلیغی دورہ کر کے بعض چیفس اور ممتاز شہریوں تک دعوت حق پہنچائی.ابادان میں آپ کا قیام دو ہفتہ رہا جہاں آپ کے تین پبلک لیکچر ہوئے جن میں کثیر تعداد میں سامعین شامل ہوئے اور ایک شخص نے بیعت کی.ابادان میں موصوف نے

Page 381

تاریخ احمدیت 372 ایسے کوٹا کے رئیس سے دو گھنٹہ تک گفتگو کی جس کے دوران انھوں نے کہا :- مذہبی اور تعلیمی لحاظ سے مسلمانوں کی موجودہ بہتر حالت احمد یہ جماعت کی وجہ سے ہی ہے.جلد 21 رئیس موصوف کو اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ بطور تحفہ دیا گیا جسے موصوف نے خوشی سے قبول کیا.جنوری کے بقیہ دو ہفتے مکرم بشیر احمد صاحب شمس نے ELE-IFE میں قیام کیا اور پانچ لیکچر دیے.ایک عیسائی نے اسلام قبول کیا آپ نے یکم تا27 فروری کا عرصہ ایک اور جگہ قیام کیا جہاں کے بشپ کولٹر پچر دیا.اور 4 اشخاص داخل سلسلہ ہوئے.4 مارچ کو آپ اونڈ مشن کے سیکرٹری کے آبائی گاؤں تشریف لے گئے وہاں آپ کے لیکچر میں 800 سے زائد افراد شامل ہوئے.وہاں تین افراد داخل سلسلہ ہوئے.8 مارچ سے 22 مارچ تک موصوف OWO میں رہے وہاں تین پبلک لیکچر دیے.23 مارچ سے 22 اپریل تک آپ اکرا رہے.وہاں اپنے اردگرد کے قصبات میں سات لیکچر دیے.لیکچروں کے علاوہ چیفس ، سکول ٹیچرز، ہیڈ ماسٹر ،مسلم سکول مینیجر C.M.S کے ممبران سے ملاقاتیں کیں اس دوران 35 افراد داخل سلسلہ ہوئے.موصوف 23 اپریل سے 19 مئی تک ADOF-KITI رہے وہاں 5 پبلک لیکچر دیے.20 مئی سے 6 جولائی تک آپ نے AGBDE نامی جگہ میں قیام کیا اور اردگرد کے دیہات میں 11 پبلک لیکچر دیے.اور چیدہ چیدہ شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں.وہاں کے 14 افراد داخل احمد بیت ہوئے.اس جگہ پر قیام کے دوران 10 جون کو موصوف نے ایک گاؤں AUCHI کے تمام چیدہ چیدہ احباب سے ایک مجلس میں تین گھنٹے تک اسلامی مسائل پر گفتگو کی اور لوگوں میں لٹریچر تقسیم کیا.آپ نے 7 جولائی سے 38.9 جولائی تک BANIN CITY میں قیام کیا.وہاں ایک پبلک لیکچر دیا.دو افراد داخل سلسلہ ہوئے.سال کے آخر میں 28 - 29 دسمبر 1961ء کو جناب مولوی نسیم سیفی صاحب کی زیر صدارت سالانہ احمدیہ کا نفرنس منعقد ہوئی آپ کے علاوہ مندرجہ ذیل اصحاب نے بھی خطاب فرمایا:.مولوی بشیر احمد صاحب شمس.پروفیسر فضل احمد صاحب افضل.کرنل ڈاکٹر محمد یوسف شاہ صاحب، چوہدری رشید الدین صاحب، اقبال سیفی صاحب، حاجی فیض الحق صاحب، بعض مقامی معلمین کی تقاریر بھی ہوئیں.ایک معزز غیر از جماعت دوست نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ :-

Page 382

تاریخ احمدیت 373 جلد 21 نائیجیریا میں مسلمانوں کی تعلیمی و مذہبی حالت نہایت خست تھی مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی نائیجیریا میں آمد سے مسلمانوں میں ایک زبر دست انقلاب پیدا ہو چکا ہے.دوران کانفرنس شورٹی اور لجنہ کے اجلاس بھی ہوئے.کانفرنس سے ایک روز قبل دس زبانوں میں تقاریر کا ایک خصوصی اجلاس ہوا جو بے حد پسند کیا گیا.نائیجیر یا پریس میں تین روز کانفرنس کا چر چار ہا.کانفرنس سے قبل مولوی نسیم سیفی صاحب نے نائیجیریا ریپبلک کے مسلمان صدر کی خدمت میں ترجمہ قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی کتب تحفہ پیش کیں.سیرالیون جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے 3-4 فروری 1961ء میں جماعت سیرالیون کی شاندار سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس نے مجاہدین احمدیت اور مخلصین جماعت کے حوصلوں اور ولولوں کو نئی قوت بخشی تبلیغی دورے پیغام احمدیت پھیلانے میں ہمیشہ موثر کردار ادا کرتے ہیں جس کی طرف سیرالیون کے مجاہدین نے اپنے امیر مولوی محمد صدیق صاحب شاہد کی زیر قیادت سال کے آخر میں بالخصوص بہت توجہ دی.چنانچہ تمبر 1961ء میں مکرم مولوی غلام احمد صاحب نسیم اور مولوی اقبال احمد صاحب نے پندرہ دن کا ایک تبلیغی دورہ کیا.600 میل کے اس دورے میں انھوں نے مختلف مقامات پر پبلک تقاریر کیں.متعد د سوالات کے جوابات دئے اور سینکڑوں لوگوں تک پیغام حق پہنچایا.ماہ اکتوبر میں مکرم مولوی اقبال احمد صاحب نے سیرالیون کے شمالی اور جنوب مشرقی صوبوں کا دورہ کر کے ہیں مقامات پر تقاریر کیں اور بیسیوں سوالات کے جوابات دیے.موصوف نے پبلک تقاریر بھی کیں.اس دورے میں ان کے ہمراہ 2 لوکل مبلغ سعید بنگو را صاحب اور فوڈے صالح صاحب مختلف اوقات میں رہے اور ترجمان کے فرائض ادا کرتے رہے اسی دوران یو مانڈو نامی گاؤں میں نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا.خود مولوی محمد صدیق صاحب جنوب مشرقی صوبہ میں تشریف لے گئے جس نے جماعتوں میں نئی بیداری پیدا کر دی.عربی کے ایک پروفیسر گنی سے سیرالیون آئے تو احمد یہ مشن نے انہیں مدعو کیا.ان کے ساتھ آٹھ مسلمان بھی تھے جن کی خدمت میں مشن کی طرف سے عربی اور انگریزی لٹریچر پیش کیا گیا جن سے وہ بہت متاثر ہوئے.نومبر کے آخر میں ملکہ برطانیہ سیرالیون میں تشریف لائیں.گورنر ہاؤس میں مولوی محمد صدیق

Page 383

تاریخ احمدیت 374 جلد 21 صاحب نے انہیں جماعت احمدیہ کی پر امن دینی مساعی سے آگاہ کیا اور ترجمۃ القرآن انگریزی اور دیگر اسلامی لٹریچر پیش کیا.ان سالانہ مساعی کے نتیجہ میں تین نئی جماعتیں معرض وجود میں آئیں اور 96 خوش نصیبوں کو آغوش احمدیت میں آنے کی سعادت نصیب ہوئی.جماعت احمد یہ سیرالیون کی تیرھویں سالانہ کانفرنس 8-9-10 دسمبر 1961 ء کو بو میں منعقد ہوئی.کانفرنس کا افتتاح مکرم مولوی محمد صدیق صاحب شاہد امیر و مبلغ انچارج سیرالیون نے کیا.امیر صاحب نے اپنے خطاب میں جلسہ کی اغراض پر روشنی ڈالنے کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں آپ نے احباب جماعت کو اس امر کی تلقین فرمائی کہ وہ اہل افریقہ کی حقیقی آزادی کے لئے دعا کریں جس میں نہ صرف ان کا جسم آزاد ہو بلکہ روحیں بھی آزاد ہوں.آپ نے احباب کو حقیقی بڑائی حاصل کرنے کی تلقین کی جو اخلاق، نیکی اور تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے.نیز مبلغین کو مساوات کا نمونہ بننے کی تلقین فرمائی اور احباب جماعت کی دینی ودنیاوی رفعتوں کیلئے دعا کی.ازاں بعد وکیل التبشیر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا پیغام پڑھ کر سنایا.آپ نے احباب کو نفرت و حقارت ختم کر کے اخوت اختیار کرنے کی تلقین کی نیز تبلیغ اور مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی.افتتاحی تقریر و دعا کے بعد مسٹر ایم بی ابراهیم صاحب و جنرل سیکرٹری نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ امسال 268 افراد نے اسلام قبول کیا ہے.اس کے بعد درج ذیل احباب نے تقاریر کیں :- 1.ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب 2.مسٹرایم کے بنگائے صاحب M.Bangay ہیڈ ماسٹر فری ٹاؤن سکول 3 - مکرم مولوی غلام احمد نسیم صاحب ، 4.اے.ایس.ڈی اوکلا صاحب ( A.S.D Aucla) نو جوان ٹیچر 5.چوہدری سمیع اللہ صاحب سیال، 6.شیخ امام سیسے صاحب ٹیچر سیکنڈری سکول بو، 7.کیرا فا کمار صاحب (Keriefa Kamar) پریذیڈنٹ ڈسٹرکٹ کونسل ، 8.الحاج المامی سوری صاحب، 9.منور احمد صاحب ایم.ایس.سی ، 10.مولوی اقبال احمد صاحب، 11.الفا ادریسا صاحب، 12.چیف وی وی کالون صاحب (Kallon.)، 13.مولوی عبد القدیر شاہد صاحب، 4 1 - الحاج علی روجر ز صاحب، 5 1.مسٹر اے ایس مانسرے صاحب (Mr.A.Mansary)، 16.ڈاکٹر شاہنواز صاحب، 17.مسٹر سنفا آدم صاحب ( Sanfa Adam)،18.چیف گمانگا صاحب،19 - مکرم شیخ نصیرالدین احمد صاحب.

Page 384

تاریخ احمدیت 375 جلد 21 کانفرنس کے آخری روز وزیر رسل و رسائل اور فری ٹاؤن کے میئر نے بھی خطاب کیا.وزیر رسل و رسائل الحاج کانڈے بورے نے جماعت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ :- اسلام کا طرہ امتیاز ہمدردی خلق کی تعلیم ہے اور یہی لاثانی جو ہر لے کر احمدیت اس ملک میں طلوع ہوئی ہے.احمد یہ جماعت سچائی کی علمبر دار ہے اور یہی چیز مبلغین احمدیت سیرالیون میں لے کر آئے ہیں.تھوڑے سے عرصہ میں جماعت احمدیہ نے بڑے کارنامے کر دکھائے ہیں.تعلیم کے لحاظ سے بہت سے پرائمری سکولوں کے علاوہ سیکنڈری سکول بھی قائم ہو چکا ہے.لوگوں کی جسمانی خدمت کے لئے احمدی ڈاکٹر تشریف لا رہے ہیں اور لوگوں کی روحانی اصلاح کے لئے مبلغین ملک کے تقریبا ہر حصہ میں موجود ہیں.“ اسی طرح فری ٹاؤن کے میئر ( ALDAMANA FREHMAN) نے خطاب کرتے ہوئے کہا :- احمد یہ جماعت بنی نوع انسان کی ہر ممکن خدمت کر رہی ہے.اسلام کی خدمت کے لئے واقعی ایسی ہی منظم جماعت درکار تھی سو خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو اسلام کی خدمت کیلئے کھڑا کر دیا.ملک کی خدمت کیلئے جماعت نے نہایت ہی اہم اور دور رس پروگرام شروع کئے ہوئے ہیں پرائمری سکولز میں عربی اور انگریزی دونوں زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے، کے علاوہ سیکنڈری سکول کی عمارت جماعت کی ہمت و استقلال کی آئینہ دار ہے.سب سے زیادہ قابل قدر کام جو جماعت احمد یہ اس ملک میں کر رہی ہے وہ سکولوں کو ایک خاص معیار پر چلانے کا ہے تعلیم کے میدان میں جماعت احمد یہ جو کوششیں کر رہی ہے ان کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے.“ دوران کا نفرنس شوری کا اجلاس بھی ہوا جس میں مشن کی ترقی اور تبلیغی کام کو موثر طریق پر چلانے کے لئے دور رس تجاویز پر غور کیا گیا.نیز لجنہ اماءاللہ کا اجلاس بھی ہوا.ریڈ یوسیر الیون نے کانفرنس کی خبر نشر کی.لائبیریا 40- مئی 1961 ء میں لائبیریا کے دارالحکومت منروویا میں آزاد افریقن ممالک کے سر براہوں کی کانفرنس ہوئی جس میں 21 ممالک کے نمائندگان نے شرکت کی.اس کانفرنس میں مکرم مبارک احمد صاحب ساقی اخباری نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے.اس موقع پر موصوف نے چار ممالک کے وزراء اعظم اور تین ممالک کے پریذیڈنٹوں سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کر کے ان کی خدمت میں قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر پیش کیا اور ہر ایک کو ایڈریس پیش کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ اور مشن کی مساعی

Page 385

تاریخ احمدیت 376 جلد 21 سے آگاہ کیا.علاوہ ازیں آپ نے اس سہ ماہی میں لائبیریا کے صدر مسٹر ولیم ٹب مین کو بھی قرآن مجید اور اسلامی کتب پیش کیں.مشرقی افریقہ 41 اس مشن میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے اس سال قلمی جہاد میں ایک نیار ریکارڈ قائم کیا جس کی تفصیل یہ ہے:.1.ٹریکٹ بزبان لوء 5 ہزار 2 ٹریکٹ برائے ٹانگانیکا 10 ہزار.اسوہ حسنہ 3.ٹریکٹ کی کا مبازبان 5 ہزار -4- کیکویو قبیلہ کی زبان کیکویو میں 1 ہزار عنوان ” میں اسلام کو کیوں قبول کرتا ہوں“ 5 - رو عیسائیت 5 ہزار ( سواحیلی زبان) 6 - ترجمه ادعیۃ الرسول 3 ہزار علاوہ ازیں احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اردو زبان میں ماہ اکتوبر سے زجاجہ رسالہ جاری کیا گیا.مجاہدین احمدیت مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، مولوی نور الحق صاحب انور، مولوی منصور احمد صاحب مبلغ ٹانگانیکا ، چوہدری عنایت اللہ صاحب ٹانگانیکا ، حافظ محمد سیلمان صاحب ٹانگانیکا مئی 1961 ء میں مشن کے نئے نظام عمل کے مطابق یوگنڈا میں مولوی عبد الکریم صاحب شرما، حکیم محمد ابراہیم صاحب اور مولوی عنایت اللہ خلیل صاحب بغرض تبلیغ متعین کئے گئے.یہ سال اسلام اور عیسائیت کے نمائندوں میں معرکہ آرائی کا سال تھا جس میں رب محمد نے کاسر الصلیب کے شاگردوں کو فتح مبین بخشی.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ دار السلام میں عیسائی کانفرنس وسط 1961 ء کے دوران ہوئی جس میں بشپ بیچر (BISHAP BEECHER) نے عیسائیوں کے ایک مجمع میں تقریر کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ اسلام بھی کمیونزم کی طرح تہذیب و تمدن کے لئے عظیم خطرہ کی حیثیت رکھتا ہے.اس الزام کے جواب میں مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے بشپ پچر کو چیلنج کیا کہ وہ پلک

Page 386

تاریخ احمدیت 377 جلد 21 میں اس طرح اسلام کے خلاف ناروا حملے کرنے کی بجائے با قاعدہ تقریری یا تحریری مناظرے کے ذریعہ اسلام کے خلاف اس سراسر غلط اور بے بنیاد الزام کو ثابت کریں ورنہ انھیں آئندہ اسلام کے خلاف اس قسم کی بے سروپا باتیں کرنے سے احتراز کرنا چاہئے.آپ کا یہ چیلنج مشہور پندرہ روزہ انگریزی اخبار ایسٹ افریقن ٹائمنز میں 15 جولائی 1961 ء کو شائع ہوا اور اس کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہوئی.42 ازاں بعد بشپ نے اپنی ذلت کا داغ مٹانے کے لئے روز نامہ سواحیلی (MWAFRIKA) میں ایک آرٹیکل چھپوایا جس پر مولوی محمد منور صاحب فاضل بشپ صاحب کو میدان میں آکر مناظرہ کرنے کا کھلا چیلنج دیا چنانچہ اس سواحیلی روزنامہ نے 26 جون 1961ء کی اشاعت میں یہ چیلنج شائع کر کے لکھا کہ احمد یہ مشن نے آرچ بشپ صاحب کو اسلام اور عیسائیت کے موازنہ پر دعوت مباحثہ دی ہے اور للکارا ہے.آرچ بشپ صاحب کو چاہئے کہ وہ مرد میدان بنیں اور تفرقہ انگیز بیانات سے گریز کریں.مشرقی افریقہ کے مسلمانوں نے مولوی محمد منور صاحب کے اس بیان اور جرات ایمانی پر خوشی کا اظہار کیا.اس چیلنج کے بعد بشپ صاحب بالکل ساکت وصامت ہو گئے اور ایک دفعہ پھر جاءالحق کا نظارہ سامنے آ گیا.مبشرین اسلام کے دوران سال مختلف ذرائع و وسائل سے اسلام واحمدیت کی آواز کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی.دور حافظ محمد سلیمان صاحب، چوہدری عنایت اللہ صاحب، مولوی نورالحق صاحب انور، مولوی محمد منور صاحب نے تبلیغی سفروں کے ذریعہ بہت سے شہروں تک موثر انداز میں حق کی آواز پہنچائی.اہم شخصیات سے رابطہ جن اہم شخصیتوں سے احمد یہ مشن کے مبلغین نے رابطہ کر کے ان تک اسلامی لٹریچر پہنچایا ان میں سے قابل ذکر یہ ہیں :.چیف ہارون لگدشہ سابق ڈپٹی سپیکرٹانگا نیکا.چیف ہومی زبونامبر لیجسلیٹو کونسل.چیف عبداللہ سعیدی فنڈ یکرا وز یر قانون.پالی بومانی وزیر زراعت پبلسٹی سیکرٹری نیشنل کانگریس مسٹر FEOMIDO.وزیر اعظم ٹانگا نیکا، عہدیداران مسلم پولیٹیکل یونین، وزیر اعظم یوگنڈا، پروفیسر ڈاکٹر ارین پروفیسر انڈیانا یونیورسٹی، چیف ہارون کوسا مسٹر مگازی (MAGAZI)، عبد اللہ الناصر پیپل پارٹی.افریقن لیڈر مسٹر موئی (MI).مسٹر نام بویا ( ایک مشہور سیاسی پارٹی کے سیکرٹری ) میئر صاحب نیروبی.

Page 387

تاریخ احمدیت 378 جلد 21 علاوہ ازیں حکیم محمد ابراہیم صاحب نے مسز اندرا گاندھی وزیر اعظیم بھارت کی خدمت میں انگریزی ترجمۃ القرآن اور مولوی عنایت اللہ خلیل نے سواحیلی ترجمۃ القرآن پیش کئے.یہ تحفے مع ایڈریس کے دو مقامات پر پبلک جلسوں میں دیے گئے.جس کو ہندو پبلک نے خوب سراہا اور اخبار اور ریڈیو میں بھی اس کا چرچا ہوا.اہم خطابات مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے کرسچن کونسل آف کینیا کے ایک اجتماع میں اسلام کے موضوع پر ایک گھنٹہ تک سواحیلی میں خطاب کیا اور سوالوں کے جوابات دیے.ماہ دسمبر میں کینیا براڈ کاسٹنگ سے آپ کی ایک تقریر ضرورت مذہب کے عنوان پر نشر ہوئی.نارتھ فرنٹیئر ڈسٹرکٹ سے ایک صومالی لیڈر، مختلف انجمنوں اور سوسائیٹیوں اور ممبروں کے جلو میں نیروبی تشریف لائے جن سے متعدد اسلامی مسائل پر مشتمل موثر لیکچر دیا.مقامی معلمین نومبائعین معلم نعمان صاحب.معلم علی صاحب کی تبلیغی خدمات بھی قابل تعریف رہیں.الفضل میں مطبوعہ رپورٹوں کے مطابق اس سال مشرقی افریقہ میں 140 نفوس داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے.18 سالانہ کانفرنس 5 تا 7 اگست کو جماعت احمدیہ ٹانگانیکا کی سالانہ کانفرنس 1961ء کو دارالسلام ٹا نگانیکا میں منعقد ہوئی.کانفرنس میں طورا، ٹانگانیکا ، موروگورو، ڈوڈوما، موشی، روما فیجی، لنڈی ،کلوا، ارنگا، یکو یا اور بعض دیگر مقامات کی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی.کانفرنس میں اشاعت اسلام کی مہم کو تیز تر کرنے اور زیادہ موثر بنانے کے سلسلہ میں بعض تجاویز پر غور کر کے متعدد اہم فیصلے کئے گئے.اس کانفرنس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ نمائندگان کی اکثریت افریقن احباب پر مشتمل تھی اور ساری کارروائی سواحیلی زبان میں ہوئی کانفرنس کی رپورٹ اور اس کے اہم فیصلہ جات مشہور انگریزی اخبار ٹا نگانیکاسٹنڈرڈ میں شائع ہوئے.

Page 388

تاریخ احمدیت شمالی بور نیو 379 جلد 21 1961ء میں دیگر تبلیغی مشنوں کی طرح بور نیومشن کی سرگرمیاں بھی جاری رہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے :- تین تبلیغی ٹی پارٹیاں منعقد کر کے اسلامی تعلیم کی فضیلت اور برتری حاضرین پر واضح کی گئی ان پارٹیوں میں انگریز ، چینی ، ملائی ، ہندوستانی و پاکستانی سب طبقہ کے اصحاب شامل ہوئے تینوں پارٹیوں کے موقع پر صداقت اسلام کو واضح کرنے کے لئے تقاریر کی گئیں.جماعت کا لٹریچر کثرت سے حاضرین میں تقسیم کیا گیا.ماہ جون میں سرواک سے 7 افراد پر مشتمل ایک وفد بور نیو آیا مکرم مرزا محمد اور لیس صاحب مبلغ بور نیو نے ہر ایک ممبر کو سلسلہ کا لٹریچر تحفہ پیش کیا جو تمام ممبران نے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیا.وفد کے لیڈر نے سرواک واپس جا کر خط میں مبلغ بور نیو کو لکھا:." آج کل کی دہریت کی فضا میں مذہب کی تبلیغ قیام امن کا ایک بڑا ذریعہ ہے مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ اس کام کو سرانجام دے کر انسانیت کی بڑی خدمت کر رہے ہیں.“ اسی طرح ایک اور موقع پر مبلغ بورنیو نے سرواک کے وفد سے ہوائی جہاز میں ملاقات کر کے جماعت کا تبلیغی لٹریچر پیش کیا.موصوف نے ایک احمدی کے ہمراہ اخبار کے ایڈیٹر مسٹر ڈونلڈ رسٹیفن سے ملاقات کر کے قرآن مجید انگریزی اور اسلامی لٹریچر پیش کیا.جو انہوں نے بڑے شوق سے قبول کیا.مبلغ بور نیو کی اہلیہ صاحبہ نے بھی گورنر کی بیوی کو قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر پیش کیا ہر دو تحائف کا ذکر اخبار سابا ٹائمنر (SABA TIMES) نے کیا.مکرم مرز امحمد ادریس صاحب نے ہر ماہ تبلیغی و تربیتی دورے بھی کئے.اس کے علاوہ موصوف نے مختلف تقاریب کے مواقع پر پیغام حق پہنچایا.جن افراد کو دعوت حق دی گئی ان میں مسلمان، متعدد غیر مسلم، اساتذہ اور ایک پولیس انسپکٹر شامل ہیں.بتوفیقہ تعالیٰ.ان کی مساعی کے نتیجہ میں بور نیو کے 6 اور فلپائن کے ایک دوست نے بیعت کی.ماریشس 44 13 اگست 1961 ء کا دن جماعت احمد یہ ماریشس کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا

Page 389

تاریخ احمدیت 380 جلد 21 جبکہ اس چھوٹی سی جماعت کی مخلصانہ کوششوں کے نتیجہ میں سیمنٹ سے پختہ تیار شدہ مسجد مبارک ” مونتا میں بلانش کا افتتاح عمل میں آیا.اس جگہ پر 1959ء میں مولانا فضل الہی بشیر صاحب کی زیر نگرانی مسجد تعمیر ہوئی تھی.1960ء کے زبر دست طوفان نے اس مسجد کو گرا دیا تھا جس پر ایک جواں ہمت دوست ہاشم خان مخدوم نے مسجد کا پروگرام بنایا.چنانچہ 22 ہزار روپیہ کی لاگت سے یہ شاندار مسجد مکمل ہوئی جو علاقہ کی بہترین مسجد کہلاتی ہے.یہ مسجد جماعت کے افراد کی قربانیوں کی یاد دلاتی ہے کئی دفعہ مسجد فنڈ کی کمی کے باعث خدام نے وقار عمل کے ذریعہ کام کو جاری رکھا بارش کے باوجود افتتاحی جلسہ کیلئے خدام نے دس پندرہ دن رات ایک کر کے جلسہ گاہ تیار کی.مسجد کا افتتاح انڈین ہائی کمشنر جناب مصطفیٰ کمال قدوائی نے کیا.اس موقع پر مشنری انچارج مولوی محمد اسماعیل منیر نے موصوف کو ایڈریس پیش کرتے ہوئے ان کی خدمت میں ترجمہ قرآن انگریزی پیش کیا.احمد یہ مشن کے زہر اہتمام روز بل میں ہر ماہ تبلیغی جلسوں کا سلسلہ با قاعدگی سے جاری رہاسب سے کامیاب پبلک جلسہ دار السلام میں 25 اگست کو منعقد ہوا.ایک معزز ہند و دوست جناب ایم.ایل.سہی نے سید ولد آدم خاتم المومنین شہنشاہ نبوت حضرت محمد رسول اللہ اللہ کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا.اسی نوعیت کے دس پبلک جلسوں کا انتظام روز ہل کے سوا دوسری مخلص جماعتوں نے کیا جس میں ہندو مسلم معززین بہت کثرت اور ذوق وشوق سے شرکت کی.انڈونیشیا جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی سالانہ کانفرنس 20 تا 23 جولائی 1961 ء کو وسطی جاوا کے شہر پورو کر تو میں منعقد ہوئی کانفرنس کا آغاز دعا سے ہوا جو مکرم سید شاہ صاحب نے کرائی.کانفرنس کی خلاف توقع کامیابی اور حضرت مصلح موعود کی بیماری نے دعا میں مسرت و حزن کا ایک عجیب رقت آمیز سماں پیدا کر دیا جس کا نقشہ کھینچتے ہوئے مکرم میاں عبدالحی صاحب لکھتے ہیں :.دعا کیلئے ہاتھ اٹھانے کی دیر تھی کہ آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور آہ و بکا کی وجہ سے ایک کہرام مچ گیا.ایک طرف تو احباب جماعت کا نفرنس کی غیر متوقع کامیابی کی وجہ سے حزین ، ان ملے جلے جذبات کی وجہ سے شاید ہی کوئی ایسی آنکھ ہوگی جو پر نم نہ ہو.فوج سول اور پولیس وغیرہ کے جو نمائندگان آئے ہوئے تھے وہ بھی اس عجیب وغریب نظارہ کی تاب نہ لا کر اپنی آنکھوں کو تر ہونے سے روک نہ سکے.یوں تو ہر کانفرنس کے افتتاح پر ہی

Page 390

تاریخ احمدیت 381 جلد 21 مخلصین جماعت رقت بھرے جذبات سے دعائیں کیا ہی کرتے ہیں لیکن اس دفعہ کی دعائیں کچھ اور ہی رنگ لئے ہوئے تھیں کانفرنس میں حضرت مصلح موعود اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے.حضور کے پیغام کا متن حسب ذیل تھا:.انڈونیشیا کی جماعت بڑی پرانی ہے اور مولوی رحمت علی صاحب کے زمانہ میں قائم ہوئی تھی میں آپ لوگوں کو آپ کے اس لمبا عرصہ استقلال سے رہنے پر مبارک باد دیتا ہوں اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کی امداد کرے اور آپ کو تعداد میں بڑھائے.“ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے اپنے پیغام میں جماعت کو احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنی کوششیں تیز کرنے اور اس غرض کے لئے اعلیٰ نمونہ بنے نیز نیکی کے جذبہ کو آئندہ نسل میں منتقل کرنے کی تلقین فرمائی.بعد ازاں رئیس التبلیغ نے پُر جوش خطاب فرمایا.کانفرنس کے موقع پر جلسہ استقبالیہ بھی ہوا جس کی صدارت جناب بر مادی صاحب نے کی.مکرم مولوی محمد زهدی صاحب نے تلاوت کی.اس کے بعد مکرم احمد رشدی صاحب نے حکومت اور ان لوگوں کا شکر یہ ادا کیا جنھوں نے کانفرنس کے انعقاد میں مدد دی.اس کے بعد بر مادی صاحب نے انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر احمد سوئیکارنو اور 11 دیگر معززین کے برقی پیغامات پڑھ کر سنائے.اس کے بعد راڈین ہدایت صاحب نے خطاب کیا.پھر رئیس التبلیغ صاحب نے چالیس منٹ تقریر کی.اس استقبالیہ جلسہ میں ایک ہزار احمدی اور 500 غیر از جماعت دوست شامل ہوئے.مہمانوں میں محکمہ جات کے افسر، ممتاز فوجی، وزارت امور عامہ مذاہب کا خاص نمائندہ اور پریس کے نمائندگان شامل تھے.کانفرنس کے چوتھے روز ایک تبلیغی جلسہ کا انعقاد کیا گیا جس میں مکرم شکری بر مادی صاحب، مکرم میاں عبد الحی صاحب، مکرم مولوی محمد ایوب صاحب نے تقاریر کیں.تبلیغی جلسہ کے لئے ہزاروں دعوت نامے جاری کئے گئے ان کے نتیجہ میں پر مینگو شہر سے 50 افراد جلسہ میں شامل ہوئے اسی طرح چلا چپ شہر کے اسسٹنٹ کمشنر بھی شریک جلسہ ہوئے.کانفرنس کے آخری اجلاس سے مکرم مولوی عبد الواحد صاحب لجنہ اماء اللہ ، ناصرات الاحمد بده انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ کے ایک ایک نمائندہ ، کرتا آتما جا صاحب، حسن مورنو صاحب، مکرم میاں عبدالحی صاحب نے خطاب کیا.کانفرنس کے موقع پر ذیلی تنظیموں کے الگ الگ اجلاس ہوئے.

Page 391

تاریخ احمدیت 382 جلد 21 کانفرنس کے مہمانوں کے لئے کھانا پکانے کا انتظام لجنہ اماءاللہ کے سپرد تھا.روزانہ گیارہ بارہ صد افراد کے لئے تین وقت کھانے کا انتظام لجنہ اماءاللہ نے تسلی بخش طور پر انجام دیا.تقسیم خوراک کے سلسلہ میں جناب حسن احیا بر مادی صاحب نے انتھک محنت سے کام لیا اسی طرح حمید اللہ صاحب سوکار جو آف جو کرتا نہایت محنت سے مصروف عمل رہے.اس کانفرنس میں پہلی مرتبہ انڈونیشیا کے صدر سو کارنو نے اپنا پیغام بھجوایا اور کانفرنس کے انعقاد کی مبارکباد پیش کی.یہ کانفرنس اپنے اندر غیر معمولی اثرات رکھتی تھی جس کا ذکر سیکرٹری صاحب جماعت احمد یہ انڈونیشیا نے ان الفاظ میں کیا :- کانفرنس کی ابتداء سے لے کر انتہاء تک ہر شخص کے اندر یہ احساس تھا کہ ایک غیبی ہاتھ ہے کہ جو اس سارے ماحول پر حاوی ہے یہ غیبی ہاتھ حاضرین کو ایک ایسے غیبی ماحول کی طرف کھینچ رہا تھا جس کا اس سے قبل انھیں تجربہ نہیں ہوا تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان سب کے اوپر ایک ایسی تیز روشنی ہے جو کہ ہر ایک شامل ہو نیوالے کی روح کی گہرائیوں میں پہنچ کر اس کے اندرا حساس اور یقین پیدا کر رہی ہے کہ وہ اس وقت ایک خدائے قادر کی نگہبانی میں ہے.“ کانفرنس کے انتظامات کے لئے ایک لاکھ بیالیس ہزار روپیہ کا بجٹ بنایا گیا.جون 1961 ء کے آخر تک اس بجٹ کی وصولی میں 62 ہزار روپے کی کمی تھی.ایک بلٹن کے ذریعہ جماعت کو یہ کمی پوری کرنے کی تحریک کی گئی.اس سلسلہ میں مخیر احباب نے قابل رشک نمونہ دکھایا اور کانفرنس کے ختم ہونے تک 75 ہزار روپے کی رقم جمع کرادی.کانفرنس میں جماعت کے ایک ہزار نمائندگان نے شرکت کی.علاوہ ازیں دیگر احباب بھی خاصی تعداد میں شامل ہوئے.مجاہدین احمدیت کی آمد وروانگی 1961ء میں درج ذیل مبلغین بیرون ملک تشریف لے گئے : 1 - محمد ابراہیم مانو صاحب 2 جنوری (برائے غانا) 2.مولوی محمد سعید صاحب انصاری.5 جنوری (برائے سنگا پور )

Page 392

تاریخ احمدیت 383 3 مکرم حافظ بشیر الدین.30 جنوری ( سیرالیون ) 4.چوہدری محمد شریف صاحب.12 فروری (برائے گیمبیا) 5.عنایت اللہ صاحب خلیل.26 فروری (برائے مشرقی افریقہ ) 6 مسعود احمد صاحب جہلمی.یکم مارچ ( برائے جرمنی ) 7 مولوی نصیر احمد خان صاحب.9 مارچ (برائے لبنان ) 8.مولوی محمد منور صاحب.4 مئی (برائے مشرقی افریقہ ) 9.مولانا عبدالمالک خان صاحب.وسط جون (برائے غانا) 10 - حکیم محمد ابراہیم صاحب.18 جون ( مشرقی افریقہ ) 11.رشید الدین صاحب.18 جون (برائے نائیجیریا) 12.عبدالقدیر صاحب شاہد.18 جون (برائے سیرالیون) 13 - مولوی نور الحق صاحب انور.2 جولائی (برائے مشرقی افریقہ ) 14.مولوی اقبال احمد صاحب شاہد.20 جولائی ( برائے سیرالیون ) 15 - صلاح الدین خان صاحب بنگالی.4 اگست ( برائے ہالینڈ ) 16.قاضی مبارک احمد صاحب.22 اگست (برائے غانا) 17.مولوی عبد الخالق صاحب.10 ستمبر ( برائے مشرقی افریقہ ) 18 - فیض الحق خان صاحب.14 نومبر ( برائے نائیجیریا) 19 - مولوی فضل احمد صاحب افضل.14 نومبر (برائے نائیجیریا) 20.مولوی امام الدین صاحب.20 نومبر ( برائے انڈونیشیا) 1961ء میں درج ذیل مبلغین واپس پاکستان تشریف لائے :- 1.ڈاکٹر حافظ بدرالدین صاحب.5 جنوری (از بورنیو) 2 مکرم محمد افضل صاحب قریشی.9 فروری (از سیرالیون) مکرم ملک غلام نبی صاحب.9 فروری ( از سیرالیون ) -4 مکرم عبد الحکیم صاحب اکمل.23 مارچ ( از ہالینڈ ) 5 مکرم مولود احمد خان صاحب.14 اپریل ( از انگلستان) 6 مکرم مولوی فضل الهی بشیر صاحب.4 جون ( از مشرقی افریقہ ) جلد 21

Page 393

تاریخ احمدیت 384 7 - مکرم مولوی محمد بشیر صاحب شاد.9 جون (از نائیجیریا) مکرم مولوی روشن الدین احمد صاحب.9 اگست (از مسقط) مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر.30 اکتوبر (از غانا ) نئی مطبوعات جلد 21 1961ء میں درج ذیل نئی کتب شائع ہوئیں جن سے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں گرانقدر اضافہ ہو.1.خدمت دین کا فریضہ اور احمدی نوجوان ( خطبه حضرت مصلح موعود ) 2.اچھی تربیت ( قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے) 3 - مباحثہ مصر ( خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ایڈیٹر الفرقان) 4 ابتلاؤں کے متعلق الہی سنت ( خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ایڈیٹر الفرقان) 5-AHMADYYA MOVEMENT IN GHANA(صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) 6 - القول الصريح في ظهور المهدی و مسیح ( مولوی نذیر احمد صاحب مبشر مجاہد غنانا) 7.جماعت احمدیہ کے اہم فرائض ( خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ) 8 - تقوی اللہ اور اس کے حصول کے ذرائع ( محترم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جمات احمد یہ ضلع سرگودھا) 9.شہادات فریدی (عبدال صاحب شاہد مربی سلسلہ ) 10.زندہ کتاب اور زندہ رسول (صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب) 11 - منظوم دعائیں ( قریشی محمد حنیف قمر صاحب سائیکل سیاح) 12.احمدیت پر اعتراضات کے جوابات ( مولانا قاضی محمد نذیر صاحب) 13.خلافت.ضرورت، اہمیت اور برکات پرو فیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر قائد تربیت انصار اللہ ) 14.تابعین اصحاب احمد جلد اول ( ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان) 15 - اصحاب احمد جلد نہم ( ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان ) 16.اصحاب احمد جلد دہم ( ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان)

Page 394

تاریخ احمدیت تراجم 385 17 - امام مہدی کا ظہور ( قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل مربی سلسلہ احمدیہ ) 18.ایک نئی انجیل کا انکشاف ( شیخ عبدالقادر صاحب محقق عیسائیت) 19.ورزش کے زینے (حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب مہتم صحت جسمانی ) 1-INVETATION TO AHMADIYYA ( ترجمہ دعوت الامیر.مترجم محترم قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے کینٹب) 2دعوة الاحمديه و غرضها ( ترجمہ احمدیت کا پیغام طبع اول دمشق طبع ثانی ربوہ) جلد 21

Page 395

تاریخ احمدیت حواشی 386 جلد 21 1.ایک مبارک نسل کی ماں صفحہ 120 تا 129 - ( مرتب سید سجاد احمد صاحب ربوہ ) الفضل 30 جون.26 ستمبر.19 اکتو بر.15 نومبر 1961ء.2 الفضل 12 اپریل.7 نومبر 1961 ، صفحہ 1.3 الفضل 10 ، 11 جنوری 1961 ، صفحہ 1.4.الفضل 19 جنوری.7 فروری.26 مارچ 1961ء.5 الفضل 11،4 مئی.2 جون 1961 ، صفحہ 1.6 الفضل -6 7-9 جولائی 1961ء 7 الفضل 12 ، 18 جولائی.6، 9اگست 1961ء.8 الفضل 13 ، 24 اگست - 1 ،2 ستمبر 1961 صفحہ 8.والفضل 5، 10، 15 ستمبر.19 نومبر 1961ء.10.الفضل 22 نومبر.7 دسمبر 1961ء.28 جنوری 1962 ء.11 - بدر 16 مارچ 1961 ء صفحہ 1.12.اخبار بدر قادیان 23 مارچ - 14 ، 21 دسمبر 1961ء.13 - بدر 2 مارچ 1961 ء صفحہ 11.14.بدر 20 اپریل 1961 ، صفحہ 7 ، 8 - 27 اپریل 1961 ، صفحہ 5 ، 6 - بدر 4 مئی 1961 ، صفحہ 2.11 مئی 1961 ء صفحہ 1.15.بدر 20 ، 27 اپریل.11،4، 18، 25 مئی 1961 ء.-16 1.الفضل 8،7اکتوبر 1961ء.17 - الفضل 29 نومبر 1961 ء صفحہ 1.18.ریکارڈ TEST MONIAL- 19 - الفضل 31 اگست 1962 ، صفحہ 4.20 الفضل 24 جنوری 1961 ء.الفضل 29 مارچ 1961 ء.21 - الفضل 22، 23 جولا ئی 1961 ء.22 الفضل 24 ، 25 جنوری 1962 ء.23_الفضل 28 جون 1961ء.24 - الفضل 30 نومبر 1961 ، صفحہ 3، 4.یکم دسمبر 1961 ، صفحہ 3.25.ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل 1961 ء صفحہ 43.26.ماہنامہ انصار اللہ ربوہ 1962 ء صفحہ 7،6.1-27 -2 الفضل 23 جنوری 1962 ء صفحہ 3.28_الفضل 17، 19 ستمبر 1961 ، صفحہ 5.29.الفضل 19 ستمبر 1961 ء صفحہ 5.30 الفضل 19 اگست 1961 ، صفحہ 5-5 دسمبر 1961ء صفحہ 4.31 الفضل 5 دسمبر 1961 ءصفحہ 4.32 الفضل 5 دسمبر 1961 ء صفحہ 3 ، 4.الفضل 7 دسمبر 1961 ء صفحہ 4،3.

Page 396

تاریخ احمدیت 33 الفضل 16 مارچ 1962 ءصفحہ 3.34 الفضل 16 دسمبر 1961 ، صفحہ 3.35 الفضل 16 جون 1961 ، صفحہ 5.36 الفضل 10 فروری 1961 ، صفحہ 4،3.387 جلد 21 37.الفضل 26 مارچ.28 ،30 مئی.19 ، 22، 23، 26 ستمبر.22، 23 نومبر.2 دسمبر 1961ء.الفضل 17 تا 20، 30 اپریل 1962 ء.اخبار بدر 5 اکتوبر 1961 ء.38 الفضل 11 اگست 1961 ، صفحہ 5،4.39 الفضل 30 جنوری 1962 ء صفحہ 3 ،4.40 الفضل 16 تا 18 فروری 1962ء.41.الفضل 16 جولا ئی 1961 ء صفحہ 5.42.الفضل 16 ستمبر 1961 ء صفحہ 5.43.الفضل 11 اگست.14، 15 نومبر.23، 24 دسمبر 1961ء - افضل 5 ، 6 جنوری - 25 فروری 22 اپریل.7،6،5 مئی.5 جولائی 1962 ء.الفضل 25 فروری 1963 ء.44 الفضل 8، 9 دسمبر 1961 ء صفحہ 3.45.الفضل 5 اپریل 1962 ، صفحہ 4.بدر 31 اگست 1961، صفحہ 1.46.الفضل ربوہ 4 اپریل 1962 ء صفحہ 4.47.الفضل 26 ، 30 جولائی.3 تا 7 اکتوبر 1961 ء.48.ماخذ ریکارڈ وکالت تبشیر الفضل 4، 5 جنوری 14 فروری 1، 12 مارچ.21 جون - 4، 22 جولائی.24،6 اگست.12 ستمبر 1961ء.49.مأخذر یکارڈ وکالت تبشیر.الفضل 10 جنوری.16اپریل.10 جون.1 ، 22، 23 نومبر 1961 ء.50.ماخذر یکارڈ وکالت تبشیر.الفضل 10 جنوری.16اپریل.یکم نومبر 1961ء.

Page 397

تاریخ احمدیت 388 پانچواں باب (فصل اول) خلافت ثانیہ کا اڑتالیسواں سال ( جنوری 1962 ء ا صلح 1341 ھش تا دسمبر 1962 ء افتح 1341 هش) حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کا وصال سوانح جلد 21 سلسلہ احمدیہ کے بے مثال فدائی نہایت مخیر اور شہرہ آفاق بزرگ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی پیدائش 12 اکتوبر 1877ء کو بمبئی میں ہوئی آپ کے والد ماجد اللہ دین صاحب ولد ماؤجی سر آغا خاں کے معتقد اور اسماعیلی خوجہ قوم کے چشم و چراغ تھے.جو 1882ء میں بغرض تجارت بمبئی سے حیدر آباد دکن کے شہر سکندر آباد میں آگئے اور یہیں بودوباش اختیار کر لی.1903ء میں آپ کی شادی حضرت سکینہ بانو صاحبہ سے ہوئی.1904ء میں آپ کے والد انتقال کر گئے.اسوقت آپ کی عمر ستائیس سال اور ( خان بہادر) سیٹھ احمد الہ دین صاحب کی انیس سال تھی اور دوسرے دو بھائی بچے ہی تھے اور اڑھائی ہزار کے بیمہ کے سوا کوئی سرمایہ نہ تھا اور تجارت کی حالت بھی اچھی نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ نے جو تمام برکات کا منبع ہے اسی تجارت میں ایسی برکت دی کہ پہلے ہی سال اس سے ہزار ہاروپیہ نفع ہونے لگاھتی کہ چند سالوں میں سرمایہ لاکھوں تک پہنچ گیا.1913ء میں پہلی بار آپ نے قادیان کا نام سنا.جبکہ مینجر رسالہ ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) کی طرف سے یہ رسالہ آپ کی فرم کے نام اشتہار حاصل کرنے کیلئے موصول ہوا.مذہب سے دلچپسی نہ ہونے کے باعث یہ رسالہ کئی روز تک آپ کی میز پر پڑا رہا.ایک دن آپ کی نظر اس کے آخری صفحہ پر پڑی جسمیں ٹیچنگز آف اسلام (اسلامی اصول کی فلاسفی ) کا اشتہار تھا.آپ نے کتاب منگوائی اور اس کا نہایت دلچسپی سے مطالعہ کیا.اس کتاب کا آپ پر ایسا فوری اثر ہوا کہ گویا آپ ظلمت سے نکل کر نور میں آگئے آپ نے اسکی متعد د جلد میں مسلم اور غیر مسلم افراد میں تحفہ تقسیم کیں.آغا خانی خیالات کے زیر اثر آپ سمجھتے تھے کہ قرآن عربوں کے لئے تھا ہمیں اس کی ضرورت نہیں اس لئے قرآن مجید پڑھنا بھی چھوڑ چکے تھے مگر اس کتاب کے پڑھنے سے آپ کے اندر زبردست

Page 398

تاریخ احمدیت 389 جلد 21 تبدیلی واقع ہوگئی اور آپ کمال ذوق اور ولولہ جوش کے ساتھ مطالعہ قرآن میں منہمک ہو گئے.پہلے پنجوقتہ نمازوں میں بے قاعدہ تھے اب پورے التزام سے تہجد اور نوافل بھی پڑھنے لگے.تجارت میں ہر قسم کے ناجائز طریقے موقوف کر دیئے اور سالانہ زکوۃ کی ادائیگی شروع کر دی اور مع اہل وعیال حج بیت اللہ کا بھی شرف حاصل کیا.اس کتاب کے ذریعہ آپ کو یہ عجیب بات بھی معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ دعاسنتا اور جواب بھی دیتا ہے.اس امر کی تحقیق کیلئے آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور بعض دعائیں کیں جس کے جواب میں آپ کو ایسی واضح خوا میں دکھلائی گئیں کہ آپ یقین محکم پر قائم ہو گئے کہ خدا تو یقینا مستجیب الدعوات ہے.ان روحانی تجربات و مشاہدات کے باوجود آپ کی توجہ احمدیت کی طرف نہ ہوئی جسکی وجہ یہ تھی کہ ایک اہلحدیث شخص کی مصاحبت سے آپ کٹر اہلحدیث ہو گئے تھے.1914ء میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کسی کام کے لئے سکندر آباد تشریف لے گئے اور آپ پر ہر پہلو سے صداقت احمدیت واضح کی.قادیان سے بہت سی کتابیں بھی منگوا دیں مگر آپ قبول احمدیت پر قطعاً آمادہ نہ ہوئے.جون 1914ء میں خلیفہ امسیح الثانی نے اعلیٰ حضرت نظام دکن کیلئے ” تحفتہ الملوک، تصنیف فرمائی اور اس کو پہنچانے اور مختلف حلقوں میں تقسیم کرنے کیلئے سب سے پہلے حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی ( موجد مفرح عنبری لاہور ) اور پھر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو بھیجا گیا لیکن حضرت سیٹھ صاحب کو اس وفد کا علم نہ ہوسکا.ازاں بعد حضرت مفتی صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب حضور کے حکم پر حیدر آباد تشریف لے گئے.تو حضرت سیٹھ صاحب اُن کے لیکچر میں شامل ہوئے جن کے سننے کے بعد آپ نے اپنے مکان الہ دین بلڈنگ میں انکی تقریریں کرائیں اور درس قرآن بھی جاری کرایا.یہ دونوں بزرگ دو تین ماہ تک روزانہ اُن کے پاس سکندر آباد تشریف لے جاتے اور تبلیغ کرتے رہے.مخالف علماء کو بھی اعتراضات کرنے کا کھلا موقعہ ملا.فریقین کے دلائل سننے اور موازنہ کرنے کے بعد آپ کو حضرت مسیح موعود کی صداقت پر کامل یقین ہو گیا.اس اثنا میں جبکہ آپ تحقیقات کر رہے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کے لئے دعا کی تو خواب میں دیکھا کہ ”آپ ایک بڑی عمارت میں بیٹھے ہیں جس کے بیچ میں ایک بہت بڑا مگن ہے ایک تخت اس میں بچھا ہے اور آپ اس پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آسمان سے خدا تعالیٰ کے فضل کی بارش بہ شکل نور ہورہی ہے اور آپ پر گر رہی ہے، حضور کو یقین ہو گیا کہ آپ سلسلہ میں داخل ہو کر سلسلہ کیلئے بہت مفید وجود ثابت ہوں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.

Page 399

تاریخ احمدیت قبول احمدیت اور انقلابی دور کا آغاز 390 جلد 21 حضرت سیٹھ صاحب 9 اپریل 1915 ء کو داخل احمدیت ہوئے اور پھر اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور جائیداد عملاً دین کے لئے وقف کر کے دیوانہ وار جہاد تبلیغ میں منہمک ہو گئے اور انگریزی ، اردو، گجراتی، ملیالم، تلگو، گورمکھی ، ہندی ، برمی ، کنٹری اور چینی زبان میں اپنے خرچ پر اس درجہ وسیع پیمانے پر دینی لٹریچر شائع کیا کہ اس سے پہلے جماعت کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.یہ لٹریچر دنیا میں جہاں جہاں پہنچا وہاں وہاں اُس کے شاندار نتائج رونما ہوئے.بہت سی سعید روحوں نے حق قبول کیا.گیمبیا میں احمدیت کا بیج آپ کی شائع کردہ نماز ہی کے ذریعہ بویا گیا جو آہستہ آہستہ تناور درخت کی صورت اختیار کر رہا ہے.بیعت کے بعد 1915ء میں آپ نے پہلی کتاب EXTRACTS FROM HOLY" QURAN کے نام سے انگریزی میں شائع فرمائی.یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اور آپ کی زندگی میں اسکی تیرہ بار اشاعت ہوئی.دسمبر 1916ء میں آپ پہلی بار جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان دارالامان تشریف لے گئے جس کے بعد (چند مستثنیات کے سوا) آپ قریباً اکتالیس سال تک اس مبارک تقریب کی برکات سے مستفید ہوتے رہے.جلسہ کا ایک اجلاس ہمیشہ (الا ما شاء اللہ ) آپ کی زیر صدارت ہوتا تھا.اگست 1917 ء میں قادیان سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب" فاضل حلالپوری بغرض تبلیغ بمبئی بھیجے گئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد پر آپ بھی شامل وفد ہوئے اور تبلیغی سرگرمیوں میں اس درجہ نمایاں اور سرگرم حصہ لیا کہ مخالفین نے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی مگر خدا کے فضل سے یہ منصوبہ ناکام رہا.1918ء میں آپ کا انجمن احمد یہ حیدر آباد دکن کے سالانہ جلسہ میں ایک نہایت پُر جوش لیکچر ہوا جس کا عنوان تھا دنیا کے تمام مسلمانوں کی علی الخصوص اور دیگر مذاہب کو بالعموم دس ہزار روپے کے انعام کے ساتھ ایک چیلنج سید بشارت احمد صاحب نے جلسہ کی رپورٹ میں لکھا:.سیٹھ صاحب نے جس عمدگی اور خوش دلی کے ساتھ اپنے مضمون کو سنایا نہ صرف دیگر سامعین کو بلکہ ہم واقف کاروں کو بھی حیرت میں ڈال دیا.خدا کی قدرت نظر آتی تھی کہ چند سال میں آپ کو کیسے معلومات اور قوت بیانی حاصل ہو گئی کہ اعلیٰ سے اعلیٰ مضمون نگار بھی

Page 400

تاریخ احمدیت 391 جلد 21 اپنے لیکچر کے ذریعے ایسے زبر دست فطری جذبات کو اس طرح عام فہم مثالوں میں کبھی نہ بیان کرسکتا کہ جس طرح سیٹھ صاحب نے ادا کیا ہے.لیکچر کیا تھا دعوت حق کا ایک زبر دست پیغام تھا.شروع 1923ء میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے سکندر آباد میں احمدیت کے مخالف تقریر کی.حضرت سیٹھ صاحب نے اُن کے نام کھلا اشتہار دیا کہ اگر وہ ایک جلسہ میں اپنے عقائد پر مجوزہ عبارت میں مؤکد بعذاب قسم اٹھا ئیں تو ان کو اسی وقت پانچصد روپیہ دوں گا اور اگر وہ ایک سال تک سلامت رہے تو انہیں مزید دس ہزار روپیہ پیش کیا جائے گا.اس کے بعد آپ نے انکو ایک اور چیلنج یہ دیا کہ وہ جلسہ میں یہ حلف اٹھائیں کہ میں نے مرزا صاحب کے مضمون ” مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا مرزا صاحب جھوٹے تھے اس لئے خدائی گرفت میں آ کر فوت ہو گئے اور میں حق پر تھا اس لئے زندہ رہا.اگر میں اس حلف میں جھوٹا ہوں تو اے علیم وخبیر تو مجھ پر موت وارد کر یا ایک سال کے اندر مجھ پر عبرتناک عذاب وارد کر دے.سیٹھ صاحب نے اعلان فرمایا کہ وہ مولوی صاحب کو یہ حلف اٹھاتے ہی اسی جلسہ میں پانچصد روپے نقد پیش کر دیں گے اور اگر وہ اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہے یا کسی عبرتناک عذاب میں (جس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہ ہو ) محفوظ رہے تو اُن کو مزید تین ہزار روپے انعام دیا جائے گا.جناب مولوی ثناء اللہ صاحب کو عمر بھر یہ حلف اٹھانے کی جرات نہ ہوئی.1924 ء سے آپ نے اسلامی اصول کی فلاسفی کے تراجم کی اشاعت کا آغاز فرمایا اور اس سلسلہ میں اس سال سب سے پہلے گجراتی ترجمہ شائع کیا جس کے بعد آپ نے مسلسل کئی سالوں کی محنت و کاوش اور زرکثیر سے انگریزی، ملیالم، تلگو، گورمکھی، ہندی، برمی، کنٹری، چینی اور مرہٹی تراجم چھپوائے.انگریزی ایڈیشن بارہ دفعہ شائع ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا:- ” میرے مشورہ کے بعد سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ مختلف زبانوں میں شائع کرنا شروع کیا ہے یہ وہ کتاب ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ سے اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا...معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترجمے اپنا اثر پیدا کر رہے ہیں.جنوری 1926ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کی بے مثال مالی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا :- "سلسلہ کی بے نظیر خدمت میں سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کا مرتبہ سب سے بڑھا ہوا ہے

Page 401

تاریخ احمدیت 392 جلد 21 ایک وقت میں بڑی سے بڑی رقم تو اُن کی طرف سے سلسلہ کو تیرہ ہزار کی ملی ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ متواتر سلسلہ کی خدمت میں اُن کا نمبر غالبا سب سے بڑھا ہوا ہے، اُن کی مالی حالت میں جانتا ہوں ایسی اعلیٰ نہیں جیسی کہ بعض لوگ اُن کی امداد کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں لیکن اُن کو خدا تعالیٰ نے نہایت پاکیزہ دل دیا ہے اور مجھے اُن کی ذات پر خصوصاً اس لئے فخر ہے کہ ان کے سلسلہ میں داخل ہونے کے وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے اُن کے اخلاص کے متعلق پہلے سے اطلاع دی تھی.حالانکہ میں نے اُن کو دیکھا بھی نہ تھا.میں دیکھتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے درد میں اسقدر گداز ہیں کہ مجھے ان کی قربانی کو دیکھ کر رشک آتا ہے اور میں اُن کو خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت سمجھتا ہوں کاش کہ جماعت کے دوسرے دوست اور خصوصاً تاجر پیشہ اصحاب اُن کے نمونہ پر چلیں اور اُن کے رنگ میں اخلاص دکھا ئیں تو سلسلہ کی مالی تنگیاں بھی کا فور ہو جائیں اور خدا کی برکات بھی جو قربانیوں پر نازل ہوتی ہیں خاص طور پر نازل ہوں.11 ملک صلاح الدین صاحب ایم اے تحریر فرماتے ہیں کہ :- مولوی محمد اسمعیل صاحب یادگیری وکیل (مرحوم) نے آج سے قریباً اٹھائیس سال پہلے حضرت سیٹھ صاحب کے کھانہ جات کا جائزہ لے کر بتایا تھا کہ بیعت 1915 ءتا 1950ء آپ نے سوا نو لاکھ کے قریب خدمت دین میں صرف کئے.ان میں سے 1944 ء.1948 ء و1949 ء تین سالوں میں ایسا انفاق دولاکھ سترہ ہزار کے قریب تھا.اُن کا جائزہ یہ تھا کہ آپ اپنی آمدنی میں سے صرف دو آنے فی رو پیدا اپنی ذات کے لئے استعمال کرتے ہیں اور چودہ آنے فی روپیہ خدمت دین پر.جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن کو ایسی کوئی جگہ میسر نہ تھی جہاں تقاریر اور اجلاس کئے جاسکیں.حضرت سیٹھ صاحب نے شہر کے ایک با موقعہ مقام پر جو علاقہ افضل گنج میں واقع ہے ایک عالیشان احمد یہ جو بلی ہال تعمیر کرایا جس کا افتتاح 23 اکتوبر 1931 ء کو عمل میں آیا.حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب ناظر دعوت و تبلیغ نے اس ہال کی نسبت تحریر فرمایا :- سیٹھ صاحب محترم نے حیدر آباد کے عین مرکز میں ایک شاندار ہال بنوا دیا ہے جو صدرانجمن احمدیہ کی وصیت میں دے دیا گیا ہے.اس میں لائبریری اور ریڈنگ روم ہے اور وہیں پر ہی جلسے ہوتے ہیں اور یہ سیٹھ صاحب محترم کا صدقہ جاریہ ایسا ہے کہ جماعت

Page 402

تاریخ احمدیت 393 جلد 21 احمدیہ کو ابھی تک ایسی جگہ ہندوستان میں کسی دوسری جگہ میسر نہیں آئی.13 66 یہ جوبلی ہال جماعت احمدیہ کی دینی اور تبلیغی اور تربیتی سرگرمیوں کا مشہور مرکز بن چکا ہے.نومبر 1934 ء میں تحریک جدید " جاری ہوئی.سلسلہ کے جن مخیر بزرگوں نے اس مالی جہاد میں نمایاں اور قابل رشک حد تک حصہ لیا ان میں آپ سر فہرست تھے.چنانچہ کتاب " تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین‘ (صفحہ 461) کے مطابق آپ کے انیس سالہ چندہ کا میزان-/62065 روپے بنتا ہے.حضرت سیٹھ صاحب تحریک جدید کے دوسرے مطالبات پر بھی ہمیشہ کار بند رہے اور آپ نے حضرت مصلح موعود کی ہدایت کے مطابق پوری عمر ایک کھانا کھایا حالانکہ دوسروں کے لئے آپ کے دستر خوان پر ہمہ قسم کے لوازمات مہیا ہوتے تھے.سید نا حضرت مصلح موعود نے مارچ 1932 ء میں فیصلہ فرمایا کہ جماعت سال میں دوبار یوم التبلیغ منائے.اس فیصلہ کے مطابق پہلا یوم التبلغ 18اکتوبر 1932ء کو منایا گیا.حضرت سیٹھ صاحب ہمیشہ یہ 16 دن نہایت جوش و خروش سے منایا کرتے تھے.چنانچہ مولانا عبدالمالک خاں صاحب ناظر اصلاح وارشاد کا بیان ہے کہ :- حضرت اصلح الموعود کی طرف سے جب یہ اعلان ہوا کہ احباب جماعت یوم تبلیغ منایا المصلح: کریں تو دیکھا گیا کہ سیٹھ صاحب ٹریکٹ لے کر بس سٹاپ پر جا کھڑے ہوتے اور ایک بس سٹاپ سے دوسرے بس سٹاپ تک تقسیم کراتے اور یہ اندازہ فرما لیتے کہ جس کوٹریکٹ دیا گیا ہے وہ اس کا مطالعہ کرے گا.وہ شخص جو موٹرنشین تھا اپنے امام کی آواز پر لبیک کہنے اور اپنے جذ بہ تبلیغ کی تسلی کے لئے اپنے آرام کو یوں قربان کر دیا کرتا تھا.ان کی اس خوبی نے اپنے پرائے سب کو متاثر کیا.اکتوبر 1938 ء میں حضرت مصلح موعود نے حیدر آباد دکن کا تاریخی سفر کیا اور روانگی سے قبل حضرت سیٹھ صاحب کو دو پرائیویٹ خطوط رقم فرمائے ، جن میں سفر کی اطلاع دیتے ہوئے بعض ضروری ہدایات دیں.آپ نے ان ہدایات کی روشنی میں سفر کو زیادہ سے زیادہ مفید اور خوشگوار بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جس پر حضور نے اظہار خوشنودی فرمایا اور واپسی پر آپ کے نام ایک مکتوب میں لکھا.حیدر آباد دیکھنے کا مدت سے شوق تھا لیکن جو لطف اس سفر میں رہا.اس کا اندازہ پہلے نہ تھا.ہر طرح آرام اور خوشی سے یہ سفر ہوا جس میں بہت سا حصہ آپ کے اور آپ کے اہل خانہ کے اخلاص اور محبت کو حاصل تھا.

Page 403

تاریخ احمدیت 394 جلد 21 16 جولائی 1941ء کو حضرت سیٹھ صاحب کی صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نکاح کا اعلان حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا.فریقین کی طرف سے حضور ہی وکیل تھے.اس موقعہ پر حضور نے ایک نہایت لطیف خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ کے اخلاص اور تبلیغی خدمات اور مالی قربانیوں پر مفصل روشنی ڈالی چنانچہ فرمایا :- جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں.اس میں لڑ کی سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب کی ہے جو سکندر آباد کے رہنے والے ہیں.گو آج مجھے نقرس کے درد کی تکلیف ہے اور یوں بھی جب لڑکے لڑکی والے دونوں یہاں موجود نہ ہوں تو عربی کے خطبہ پر ہی کفایت کرتا ہوں.کیونکہ نصیحت جن کے لئے ہوتی ہے وہ خود ہی موجود نہ ہوں تو چنداں فائدہ نہیں ہوتا.مگر اس وقت میں نے ” الفضل‘ والوں کو بلا لیا ہے تا کہ خطبہ لکھ لیں تا کہ شائع ہو کر اُن تک پہنچ جائے اور یہ ان تعلقات کی وجہ سے ہے جو سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب سے مجھے ہیں.سیٹھ صاحب جب غیر احمدی تھے ایک ہمارا وفد حیدر آباد میں تبلیغ کے لئے گیا.وفد کے ارکان کو کسی ذریعہ سے معلوم ہوا کہ سکندر آباد میں خوجوں میں سے ایک صاحب دین سے بہت دلچسپی رکھتے ہیں.نماز روزہ کے پوری طرح پابند ہیں.اس پر وہ دوست اُن کے پاس بھی گئے اور تبلیغ کی.سیٹھ صاحب نے چار یا پانچ سوال لکھ کر دیئے کہ اُن کے جواب دیدیئے جائیں.اگر ان سے میری تسلی ہو گئی تو میں احمدی ہو جاؤں گا.ہمارے مبلغین نے وہ سوال مجھے بھجوادیے اور ساتھ ہی لکھا کہ یہ صاحب بہت شریف اور با اخلاق ہیں.ان کے دل میں دین کی بڑی محبت ہے.ان کے لئے دُعا کی جائے کہ احمدی ہو جائیں.کیونکہ اگر یہ احمدی ہو گئے تو اس علاقہ میں تبلیغ احمدیت کا بڑا ذریعہ بن جائیں گے.میں نے ان کے سوالات کا جواب بھی لکھا اور دعا بھی کی.میں نے رؤیا دیکھا کہ باہر صحن میں ایک شخص بیٹھا ہے.سیٹھ صاحب کو میں نے دیکھا ہوا نہیں تھا.جب بعد میں دیکھا تو ان کی شکل اس شخص سے ملتی جلتی تھی جسے میں نے رویا میں دیکھا تھا.تو میں نے دیکھا ایک صاحب باہر تخت پر بیٹھے ہیں.ان کے سر پر چھوٹی سی ٹوپی ہے.وہ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں.اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ آسمان میں شگاف ہوا ہے.جس میں سے (فرشتے) نور پھینک رہے ہیں اور وہ اس شخص پر گر رہا ہے.میں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ ان کواللہ تعالیٰ

Page 404

تاریخ احمدیت 395 ہدایت دے گا اور نہ صرف ہدایت دے گا بلکہ سلسلہ کے لئے مفید بنائے گا.میرا خیال ہے کہ شاید ان کے سوالات کے جواب ابھی میری طرف سے انھیں نہ پہنچے تھے کہ انھوں نے استخارہ کر کے بیعت کر لی.اس کے بعد احمدیت سے اُن کا عشق بڑھتا گیا اور وہ بڑی سے بڑی قربانی اور ہر رنگ کی قربانی کرتے رہے ہیں.تبلیغ میں اس حد تک انہیں جوش ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم میں والنزعت غرقاً والنشطت نشطاً والسبخت سبحاً فا السبقت سبقاً، والمدبرات امرا.ارشاد فرمایا گیا ہے.یہ مقام ان کو حاصل ہے.یوں ان کی مذہبی تعلیم کچھ نہیں عربی تعلیم بھی نہیں.انگریزی کا چونکہ ان کی قوم میں رواج ہے کہ اس میں خط و کتابت کرتے ہیں، اس لئے وہ اس میں لکھ پڑھ لیتے ہیں.ورنہ کالج میں تعلیم پا کر اس میں خاص کسب کمال کیا ہو یہ بات نہیں ہے.مگر اس جوش میں کہ تبلیغ کریں.اُردو، انگریزی اور گجراتی میں کتابیں لکھتے رہے ہیں اور پھر تبلیغی لٹریچر شائع کرانے کی انہیں ایسی دُھن ہے کہ ان کی جد وجہد کو دیکھ کر شرم آ جاتی ہے کہ قادیان میں اتنا عملہ ہونے کے باوجود اس دھن سے کام نہیں ہوتا جس سے وہ کرتے ہیں.انہوں نے تبلیغی لٹریچر کی اشاعت کے کئی ڈھنگ نکالے ہوئے ہیں.کسی غریب اور بے کار آدمی کو پکڑ لیتے ہیں اور تبلیغی لٹریچر دے کر کہتے ہیں جاؤسٹیشنوں پر جا کر اسے فروخت کرو اور جو آمد ہو وہ تم لے لو.اس طرح وہ اپنی ایک ایک کتاب کے پندرہ پندرہ ، سولہ سولہ ایڈیشن شائع کر چکے ہیں.غرض وہ اس دھن سے تبلیغ احمدیت کا کام کرتے ہیں کہ اگر چند اور ایسے ہی کام کرنے والے ہوتے تو اس وقت تک بہت بڑا کام ہو چکا ہوتا.مدراس وغیرہ کی طرف جماعتیں گوا بھی چھوٹی چھوٹی ہیں مگر ان کے لٹریچر کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں.وہ عام اخبارات میں اشتہارات دیتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ یہ کتابیں ہیں.اگر کوئی مول لینا چاہے تو قیمت لے لے اور اگر کوئی مفت لینا چاہے تو مفت منگا لے.اس طرح لوگ ان سے کتابیں منگاتے اور پڑھتے ہیں اور پھر جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں.پھر یوں بھی تبلیغ میں اس قسم کا جوش اُن میں پایا جاتا ہے کہ وہ دیوانگی جو ایمان اور اخلاص ایک مومن میں پیدا کرنا چاہتا ہے ان میں پائی جاتی ہے.آگے اولاد کے متعلق بھی اُن کی یہی خواہش ہے کہ وہ تبلیغ میں مصروف رہے.انھوں نے اپنے بڑے بیٹے سیٹھ علی محمد جلد 21

Page 405

تاریخ احمدیت 396 جلد 21 صاحب کو ولایت بھجوایا.اُن کے واپس آنے پر یہی خواہش ظاہر کی کہ دین کی خدمت کرے.چھوٹے لڑکے کے متعلق بھی اُن کی یہی خواہش ہے کہ دین کا خادم رہے.وہ مجھ سے جب بھی اپنی اولاد کے لئے دعا کی خواہش کرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ دُعا کریں میری اولاد دین کی خادم ہو.یہی شادی جس کا میں خطبہ پڑھ رہا ہوں اس میں بھی یہی خواہش کام کر رہی ہے سیٹھ صاحب خود خدا کے فضل سے زیادہ آسودہ حال ہیں.لڑکا ایسا نہیں ہے مگر سیٹھ صاحب کی خواہش ہے کہ چونکہ اس خاندان میں احمدیت نہیں اس لئے جب لڑکی جائے گی اور انہیں تبلیغ کرے گی تو وہ لوگ بھی احمدی ہو جائیں گے.سیٹھ صاحب کے چھوٹے بھائی خان بہادر احمد صاحب چھوٹے رہ گئے تھے.جب ان کے والد فوت ہوئے سیٹھ عبداللہ بھائی کی یہ بھی نیکی ہے کہ انہوں نے چھوٹے بھائی کو پالا اور اپنی کوئی الگ جائیداد نہ بنائی بلکہ بھائی کے ساتھ مشترکہ ہی رکھی.وہ سیٹھ صاحب کے منجھلے بھائی ہیں.اپنے کاروبار میں بہت ہوشیار ہیں اتنے ہوشیار کہ سیٹھ صاحب کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں.وہ بہت زیادہ کما سکتے ہیں.کماتے رہے ہیں اور کماتے ہیں.مگر با وجوداس کے کہ وہ مالی لحاظ سے، رسوخ کے لحاظ سے اور پبلک کے ساتھ تعلقات کے لحاظ سے بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں.ان پر سیٹھ صاحب کے سلوک کا ایسا اثر ہے کہ جس طرح بہت نیک بیٹا اپنے باپ کا ادب کرتا ہے اسی طرح وہ سیٹھ صاحب کا ادب کرتے ہیں.ان کے متعلق بھی سیٹھ صاحب کی یہی خواہش ہوتی ہے دعا کریں احمدی ہو جائیں.میں جب حیدر آباد گیا تو جس وقت دونوں بھائی میرے سامنے اکٹھے ہوئے انہیں سیٹھ صاحب یہی کہتے.احمد بھائی ! بہت دنیا کمائی.اب احمدی ہو جاؤ.تو تبلیغ کا اُن میں وہ جوش پایا جاتا ہے جو بعض ان مبلغین میں بھی نظر نہیں آتا جنھوں نے خدمت دین کے لئے زندگیاں وقف کی ہیں.میں اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے یہ بھی ایک احسان سمجھتا ہوں کہ تجارت کرنے والے طبقہ میں سے بھی احمدی ہوں جو اپنے طبقہ میں تبلیغ کر سکیں.“ پھر حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی کے اخلاص اور مالی قربانیوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ :- ان کے بعد سلسلہ میں بڑے تاجروں میں سے کوئی نہ رہا تھا اور خیال آیا کرتا تھا کہ تاجروں میں سے کوئی احمدی ہوتا کہ اس طبقہ میں تبلیغ کی جاسکے.پنجاب میں تو کوئی بڑا

Page 406

تاریخ احمدیت 397 مبائع تاجر نہیں ہے.معمولی ہیں ان کی اور بات ہے.سیٹھ عبداللہ صاحب کو خدا تعالیٰ نے شروع خلافت میں ہی دے دیا اور انہوں نے اسی وقت نہایت سرگرمی کے ساتھ تبلیغ شروع کردی.جس پر آج بائیس تئیس سال کا زمانہ گزررہا ہے.مگر ان کے جوش تبلیغ میں فرق نہیں آیا.ان پر خدا تعالیٰ کا یہ بھی فضل ہو گیا کہ وہ پہلے بہت اونچا سنتے تھے.کان پر ایک گچی سی لگا کر بیٹھتے تھے اور جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی ہے یہ مرض بڑھتا جاتا ہے.اس وقت کہا کرتے تھے کہ دُعا کریں کان درست ہو جائیں تا کہ تقریر میں اچھی طرح سُن سکوں.اب خدا تعالیٰ نے ان پر ایسا فضل کیا ہے کہ کان کے پیچھے ہاتھ رکھ کر دور بیٹھے ہوئے بھی سُن لیتے ہیں پہلے تو اُن کی یہ حالت تھی کہ میرے سامنے میز پر بیٹھ کر یا میز سے ٹیک لگا کر یالا وڈسپیکر کا سا آلہ کان سے لگا کر سنا کرتے تھے.میں نے ان کے اخلاص اور تبلیغی خدمات کا اس لئے بھی ذکر کیا ہے کہ ہمارے کام کرنے والے نو جوان ان سے سبق سیکھیں اور دیکھیں کہ کس طرح ایک شخص بڑی عمر میں جبکہ آرام کرنے کا وقت ہوتا ہے، کام کر رہا ہے.دکان کے کاروبار سے وہ پنشن لے چکے ہیں.اس میں کام نہیں کرتے.ان کا الگ کمرہ ہے جس میں اب وہ تصنیف کا کام کرتے ہیں نو جوانوں کو ان سے سبق حاصل کرنا چاہیئے.پھر میں نے اس لئے بھی ذکر کیا ہے کہ جب کسی انسان کی خدمات اور اخلاص کے متعلق واقفیت ہو تو اس کے لئے دعا کی تحریک ہوتی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے لڑکے کی مالی حالت ان جیسی نہیں ہے لیکن انھوں نے محض اس لئے کہ لڑکی اس خاندان میں جا کر تبلیغ احمدیت کرے، یہ رشتہ کیا ہے.احباب دعا کریں کہ سیٹھ صاحب نے جس خواہش کے پیش نظر یہ رشتہ کیا ہے خدا تعالیٰ اسے پورا کرے اور اس خاندان میں احمدیت پھیلائے.اس میں شبہ نہیں کہ اس قوم نے جن کو دین سمجھا اس کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.مالی قربانی کرنے میں یہ لوگ خوجے، میمن ، اور بورے.بہت بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے دنیوی لحاظ سے انہیں برکت بھی دی ہے.یہ لوگ ظاہر میں جسے دین سمجھتے ہیں.اس کے لئے انہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.ہماری جماعت میں سے جولوگ وصیت کرتے ہیں وہ دسواں حصہ دیتے ہیں اور جماعت کے مقابلہ میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے.لیکن ہر خوجہ اپنی آمدنی کا دسواں حصہ دیتا ہے.ایک جلد 21

Page 407

تاریخ احمدیت 398 جلد 21 آغاخاں کا حکم تھا کہ اگر مقررہ رقم کی ادائیگی کے وقت تم سمندر میں ہو تو سمندر میں ہی گرادو ہمیں پہنچ جائے گی دراصل یہ ایک ڈھنگ تھا با قاعدہ ادا ئیگی کے لئے پابند بنانے کا.اگر پانچ فیصدی رقم سمندر میں گر ا بھی دی جاتی تو پچانوے فیصدی با قاعدہ پہنچ جاتی.وہ لوگ اسی طرح کرتے.اگر سمندر میں جاتے ہوئے وقت آجاتا تو سمندر میں پھینک دیتے.پس ان قوموں نے جسے دین سمجھا اس کے لئے بڑی قربانی کی.ان میں اگر احمدیت پھیل جائے تو اس کا بہت اچھا اثر ہندوستان میں ہوگا.سیٹھ صاحب کی کتابیں دُور دُور اثر کرتی ہیں.ان کے لٹریچر کے ذریعہ ہی ایک بڑے آدمی کی بیوی احمدی ہوئی بہت بڑے آدمی ہیں.بڑے بڑے افسروں اور گورنروں کی پارٹیوں میں جاتے ہیں اور ان کے گھر پر آتے ہیں.ان کی بیوی نے سیٹھ صاحب کی کسی کتاب میں پردہ کے متعلق پڑھا تو پردہ کرنے لگ گئی اور پارٹیوں میں جانا چھوڑ دیا.اس پر سارے گھر والے اسے پاگل کہنے لگ گئے.اس نے مجھے لکھا میں حیران ہوں کہ کیا کروں.میں نے جواب دیا کہ پردہ کرنا شریعت کا حکم ہے.جس حد تک اس پر عمل کر سکتی ہو کر و.مجھ پر اس سے یہ اثر ہوا کہ سیٹھ صاحب کی کتاب کا اثر کہاں جا پہنچا.اتنے بڑے گھرانے کی خاتون ، ولایت سے پھر کر آئی ہوئی ، اس کے خاوند اور ٹھسر کو نواب کا خطاب ملا ہوا ہے، وہ ایسی متاثر ہوئی کہ پردہ کر کے گھر میں بیٹھ گئی کیونکہ سیٹھ صاحب کے دل سے نکلی ہوئی بات اپنا اثر کر گئی اس رنگ میں ان کی تبلیغ ہر قوم میں اثر کر رہی ہے اور جنوب 166 مغربی ہند میں اس کا بہت اثر ہے.حضرت سیٹھ صاحب نے اعلان فرمایا کہ آپ مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین کو اس مؤکد بعذاب حلف اٹھانے پر ساٹھ ہزار روپیہ انعام دیں گے کہ جن عقائد پر وہ آج قائم ہیں.یہی حضرت مسیح موعود کے عقائد تھے اور وہ خود بھی حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں یہی عقائد رکھتے تھے.مولوی صاحب موصوف پہلے تو کئی سال خاموش رہے پھر اخبار ”پیغام صلح (4 دسمبر 1946ء) میں یہ اعلان شائع کرایا کہ حضرت امیر ایدہ اللہ تعالی مطلوبہ حلف اٹھانے کو تیار ہیں اور اس کے لئے 25 دسمبر 1946 ء کا دن اور وقت بھی مقرر کر دیا گیا.حضرت سیٹھ صاحب نے جو عرصہ سے اس موقعہ کے انتظار میں تھے اس روز اپنی طرف سے عبد القادر صاحب صدیقی کو بطور نمائندہ بھجوادیا تا مطلوبہ حلف کے بعد انعامی رقم انکوفوری طور پر ادا کی جا سکے مگر افسوس! جناب مولوی صاحب نے سیٹھ صاحب کے مجوزہ الفاظ میں حلف

Page 408

تاریخ احمدیت اٹھانے سے صاف انکار کر دیا.66 399 جلد 21 ربوہ کا پہلا جلسہ سالانہ 15 ، 16 ، 17 اپریل 1949ء کو منعقد ہوا.اُن ایام میں دہلی کے حالات سخت محذوش اور کشیدہ تھے.بایں ہمہ آپ نے سیٹھ یوسف احمد الہ دین صاحب کی معیت میں پاکستان کا سفر اختیار فرمایا اور اس مبارک اجتماع میں شرکت فرمائی.1953 ء میں آپ نے ” خدا تعالیٰ کا عظیم الشان نشان“ کے نام سے گجراتی میں اپنی سوانح حیات شائع فرمائی.ماہ فروری 1955ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو حیدر آباد دکن اور سکندر آباد کا امیر نامزد فرمایا.آپ تا وفات اس اہم عہدہ پر فائز رہے اور اپنے فرائض کمال مستعدی ، فراست، تقوی شعاری اور دعا اور موہ فراست سے بجالاتے رہے.مارچ 1955ء میں حضور نے سیٹھ صاحب کو ایک مفصل مکتوب ارسال فرمایا جس میں سفر یورپ پر روانگی کی اطلاع دی اور لکھا:.ان دنوں آپ کا خاندان بھی بہت دعاؤں کا محتاج ہے.انشاء اللہ سفر میں آپ کے خاندان کو دعاؤں میں یاد رکھوں گا.آپ میری زندگی کے سفر کے ساتھی ہیں پھر میں آپ کو کس طرح بھول سکتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے سیٹھ عبدالرحمن اللہ رکھا مدراسی کی شکل میں اپنے فرشتے بھجوائے تھے میرے پاس اللہ تعالیٰ نے 26 66 آپ کی شکل میں فرشتے بھجوائے ہیں.“ نیز فرمایا:- 27 ”ہندوستان کی جماعت کا خیال رکھیں آپ کی طبیعت میں جو شرم وحیا ہے اس کی وجہ سے میں آپ پر کام کی ذمہ داری نہیں ڈالتا مگر وقت آ گیا ہے کہ آپ آگے آ کر جماعت کو مضبوط کریں اور مرکز قادیان کو مضبوط کرنے کی سعی فرمائیں.جلسه سالا نہ قادیان 1956ء اور جلسہ سالانہ ربوہ 1957 ء حضرت سیٹھ صاحب کی زندگی کے آخری جلسے تھے جن میں آپ نے شرکت فرمائی جس کے بعد آپ چار سال تک بقید حیات رہے اور 26 فروری 1962 ء کو انتقال کیا.آپ کی نعش مبارک سکندر آباد کے آبائی قبرستان میں امائنا دفن کی گئی.پھر آپ کا تابوت 21 دسمبر 1962ء کو بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ خاص میں رفقاء نمبر 4 میں سپرد خاک کر دیا گیا.دراصل حضرت مصلح موعود نے آپ کی زندگی میں ہی یہ فیصلہ فرما دیا تھا کہ :.

Page 409

تاریخ احمدیت وو 400 " بے شک سیٹھ صاحب کو ان کی نمایاں خدمات کی وجہ سے اُن کی وفات پر ( خدا اُن کی زندگی کولمبا کرے ) صحابہ کے قطعہ میں دفن کیا جائے.قابل رشک اخلاص اور مثالی شمائل 166 28 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپر د قلم فرمایا:.سیٹھ صاحب مرحوم کا نام نامی جماعت میں کسی تعارف کا محتاج نہیں.انہوں نے غالباً خلافت ثانیہ کے ابتداء میں اسمعیلیہ فرقہ سے نکل کر احمدیت کو قبول کیا تھا اور پھر ایمان وا خلاص میں ایسی جلد جلد ترقی کی اور قربانی اور خدمت دین کا ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا کہ بہت سے پہلے آنے والے لوگوں سے آگے نکل گئے.یہی وہ مبارک طبقہ ہے جسے قرآن مجید نے سابقون کے اعزازی نام سے یاد کیا ہے یعنی وہ بعد میں آتا ہے مگر دین کے میدان میں اپنی تیز رفتاری سے پہلوں سے آگے نکل جاتا ہے.حضرت سیٹھ صاحب نے غیر معمولی مالی قربانی کے علاوہ اسلام اور احمدیت کی خدمت میں اتنا وسیع لٹریچر شائع کیا کہ اُن کے تبلیغی ولولہ کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.گویا ایک مقدس جنون تھا جو انہیں ہر روز آگے ہی آگے بڑھاتا چلا جاتا تھا اور اُن کا یہ دینی جذ بہ آخر تک ( غالباً اسی سال سے اوپر عمر پا کر فوت ہوئے) یکساں قائم رہا.بلکہ ترقی کرتا گیا اور ذاتی نیکی اور عبادت میں بھی اُن کا مقام حقیقتہ مثالی تھا.اللہ تعالیٰ حضرت سیٹھ صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور بہترین نعماء سے نوازے اور انکی اولاد کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو اور جماعت میں بھی اُن کے مقدس ورثہ کو ہمیشہ جاری اور ساری رکھے آمین یا رب العالمین وہ یقیناً اُس طبقہ میں سے تھے جن کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ منهم من قضى نحبہ اور منهم من ينتظر والے طبقہ کا خدا حافظ ہے.اے خدا بر تربت او بارش رحمت بیار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم عظیم الشان جماعتی خدمات 29 جلد 21 حضرت 10 سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نہایت درجہ عابد وزاہد بزرگ تھے اور پابند صوم وصلوٰۃ ہونے کے علاوہ تہجد ، اشراق، چاشت اور دیگر نوافل خاص التزام سے پڑھتے تھے اور ذکر الہی کا بے حد شغف

Page 410

تاریخ احمدیت 401 جلد 21 تھا فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس فرشتے مختلف لباسوں میں آتے ہیں.آپ پوری عمر تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن رہے اور توکل کا بے مثال نمونہ دکھا یا تقسیم ملک کے بعد آپ کی الہ دین بون فیکٹری“ پر تین لاکھ روپیہ کا ٹیکس عائد ہوا.ایک لاکھ اسی ہزار روپے آپ نے پہلے ادا کیا اور بقیہ رقم مقطوں سے ادا کی جبکہ ٹیکس کا معاملہ سرکاری طور پر زیر کارروائی تھا اور یقین ہو چکا تھا کہ بھاری ٹیکس لگے گا.آپ کو مشورہ دیا گیا کہ آپ اپنادیوالیہ نکال دیں اس طرح آپ کو بہت کم رقم ادا کرنی پڑے گی.آپ نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ سرمایہ موجود ہے اور میر امکان بھی.ایسی صورت میں دیوالیہ کیونکر ہو جاؤں یہ خالص دھو کہ ہوگا.پھر مشورہ دیا گیا کہ تاجروں کی طرز پر از سرنو حساب تیار کرا کے پیش کر دیں تو ٹیکس کی مقدار میں بہت کمی آسکتی ہے.مگر آپ نے اس تجویز کو بھی پائے استحقار سے ٹھکرادیا اور فرمایا.یہ تو جھوٹ ہے لوگ کہیں گے کہ یہ دنیا بھر میں تبلیغ کا ڈھنڈورہ پیٹتا اور جھوٹ سے لوگوں کو منع کرتا تھا لیکن روپیہ بچانے کی خاطر خود اُس نے جھوٹ کی غلاظت پر منہ مارا میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا اس میں اسلام کی بدنامی ہے.میں اصل حساب کے مطابق ہی انکم ٹیکس ادا کروں گا.آپ کا یہ مقدمہ ایک ہندو انکم ٹیکس آفیسر مسٹرشیٹی (Shetti) کے پاس زیر سماعت تھا موصوف آپ کے حسابات دیکھ کر بہت متاثر ہوئے کہ دنیا دار تاجر حسابات میں سفر خرچ، عملہ سٹیشنری وغیرہ سب کچھ بڑھا چڑھا کر درج کرتے ہیں تا کہ خالص منافع کی مقدار جس قدر ممکن ہو کم ہو جائے لیکن یہ عجیب شخص ہیں کہ عملہ میں صرف ایک شخص کی تنخواہ درج ہے اخراجات بے حد کم لکھے ہیں اور خالص منافع کی مقدار بہت زیادہ ہے طرفہ تر یہ کہ آپ آمد کا کثیر حصہ فی سبیل اللہ خرچ کر دیتے تھے مگر چونکہ خیراتی اور مذہبی اخراجات کو انکم ٹیکس کی خاطر منہا کرنے کا جواز ملکی قانون میں نہیں تھا اس لئے افسر ایسی چھوٹ نہ دے سکے اور بھاری ٹیکس ادا کرنے سے آپ کا کاروبارختم ہو گیا جسے آپ نے رضائے الہی کی خاطر بانشراح قبول فرمایا.بشیر الدین الہ دین صاحب نے (جو 1949 ء تا1959ء آپ کے حسابات کا کام کرتے رہے) آپ سے دریافت کیا کہ آپ پر جو انکم ٹیکس کا بوجھ پڑنے والا ہے کیا آپ کو اس کا فکر ہے فرمایا مجھے اس کا کوئی فکر نہیں.جب اس ٹیکس کی وجہ سے آپ کے کاروبار کی حالت بہت خراب ہوگئی تو آپ نے دوسال کے لئے اسے ٹھیکہ پر دے دیا.کسی نے دکن سے اس خستہ حالی اور بے سروسامانی کے بارے میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں تحریر کر دیا.آپ کو پتہ چلا تو اس اطلاع دہی کو بہت ناپسند فرمایا.حضور نے مرکز قادیان کو ہدایت فرمائی کہ آپ کو پچاس ہزار روپیہ بھجوایا جائے لیکن ابھی ہیں ہزار روپیہ ہی آیا تھا کہ آپ نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ اب مزید روپیہ کی ضرورت نہیں اور اسوقت تک شدید بے چین رہے جب تک کہ کاروبار کی فروختگی کے ذریعہ یہ میں ہزار روپیہ واپس نہیں کر دیا.ایسی مخدوش مالی حالت کے دوران جو نہی

Page 411

تاریخ احمدیت 402 جلد 21 بینک سے روپیہ آنے کی اطلاع ملتی تو آپ اولین کام یہ کرتے کہ قادیان کو چندہ بھجوانے کیلئے بینک کا ڈرافٹ منگواتے اور اپنی دنیوی ضروریات واخراجات کی مطلقاً پروا نہ کرتے تھے.حضرت سیٹھ صاحب نے خدمت دین کے لئے اس طرح بے دریغ روپیہ خرچ کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.آپ نے شروع میں طویل عرصہ تک سیکرٹری مال جماعت سکندر آباد کے فرائض انجام دیئے آپ کا طریق تھا کہ کسی سے وصولی ہو یا نہ ہو آپ اپنی گرہ سے سو فیصدی چندہ مرکز کو بھجوا دیتے تھے آپ نے 5 مئی 1918 ء کو اپنی جائیداد کے چھٹے حصہ کی وصیت کی پھر 1931ء میں اضافہ کر کے اسے ایک تہائی تک بڑھا دیا اور اس کی ادائیگی بھی اپنی زندگی میں کر دی.نومبر 1934 ء میں تحریک جدید کی الہامی تحریک کا اجراء ہوا تو اس کے پانچ ہزاری مجاہدین میں اس شان سے شامل ہوئے کہ مجسم قربانی بن گئے.اس کے علاوہ آپ نے سلسلہ احمدیہ کی دوسری تمام اہم مالی تحریکات میں بھی قابل رشک حصہ لیا.مثلاً چنده منارة اُسیح ( 1916ء) ، چندہ تبلیغ ولایت ( 1917ء)، تعمیر شفاخانه نور (1917، 1923)، وظیفہ برائے طلبا مدرسہ (1918ء)، تعمیر مسجد انگلستان (1920ء) اور یتامیٰ فنڈ (1921ء) چنده انسداد ارتداد ملکانہ (1923ء ) تحریک پچیس لاکھ ریزروفنڈ ( 1927 تا 1929ء)، تحریک چنده خاص (1929 تا 1 193ء)، تحریک قرض 60 ہزار ( 1934ء)، مطالبہ قرض (1935ء)، امداد مصیبت زدگان زلزلہ کوئٹہ (1935 ء)، قادیان میں تالاب بنانے کی تحریک (1940ء)، تحریک قرضہ نصف لاکھ ( 1941ء) تبلیغ ماحول قادیان (1940 تا 1943ء)، چندہ تعمیر مسجد کر ڈا پلی اڑیسہ واعانت لائبریری موسی بنی مائنز، چندہ برائے تعمیر دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ قا دیان (1942ء)، درویش فنڈ (1955ء) ، امداد سپین مشن (1962ء).حضرت سیٹھ صاحب حقیقی معنوں میں مجاہد فی سبیل اللہ تھے آپ کی قابل قدر تبلیغی مساعی آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے.آپ کے پر جوش کارناموں کا ذکر سلسلہ کے لٹریچر میں بڑی کثرت سے ملتا ہے.آپ کی قائم کردہ انجمن ترقی اسلام کے ذریعہ لاکھوں نہیں کروڑوں تک احمدیت کا پیغام پہنچا اور بہت سے لوگ آپ کی تبلیغ سے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.آپ کا مقصد حیات عبادت، خدمت دین اور تبلیغ تھا.جو شخص بھی آکر آپ سے کہتا کہ میں اسلام قبول کرنے کو تیار ہوں تو آپ روپیہ کیا جان تک اس پر نثار کرنے کو آمادہ ہو جاتے تھے.آپ نے اعلان کر رکھا تھا کہ کارڈ آنے پرلٹر پچر مفت مہیا کیا جائے گا.خاندان حضرت مسیح موعود خصوصاً حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سے بے مثال محبت وعقیدت تھی.

Page 412

تاریخ احمدیت 403 جلد 21 1953 ء میں جب حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب قید کر لئے گئے تو آپ نے فرش پر سونا شروع کر دیا.تکیہ بھی نہیں لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ میرے پیارے تکلیف میں ہیں یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں بستر پر سوؤں.ان مقدس بزرگوں کی رہائی کی خبر آنے تک آپ کا یہی معمول رہا.ایک بار آپ نے بوجہ ضعیفی سیٹھ یوسف احمد الہ دین صاحب سے حضرت مصلح موعود کے فرزند کی خدمت میں خط لکھوایا.انہوں نے مکتوب الیہ کے لئے صرف مکرم و محترم کے الفاظ کافی سمجھے مگر آپ نے فرمایا کہ حضرت کا لفظ کیوں نہیں لکھا ؟ چنانچہ یہ لفظ لکھوایا اور پھر دستخط ثبت کئے.آپ کو مرکز احمدیت قادیان سے غیر معمولی محبت تھی.ہر جلسہ پر تشریف لے جاتے آخری عمر میں آپ کی مالی حالت پہلے جیسے نہ رہی تھی اس لئے آپ فرسٹ یا سیکنڈ کی بجائے تھرڈ کلاس میں قادیان کا سفر کرتے اور مرکز کے روحانی فوائد کی خاطر تمام تکالیف برداشت کرنے کو باعث سعادت سمجھتے تھے.آپ کے دل میں بزرگان سلسلہ اور مبلغین جماعت کا بہت احترام تھا.آپ بنی نوع انسان کے بچے ہمدرد تھے اور بلاتمیز امیر وغریب ہر ایک سے یکساں محبت کا سلوک فرماتے تھے.مہمان نوازی، غربا پروری اور یتامیٰ کی پرورش آپ کے خاص اوصاف میں سے تھے.آپ کی عادات سادہ تھیں.غذا سادہ تھی اور لباس بھی سادہ اور اپنی ذات پر بہت کم خرچ کرتے تھے.گھر کے اخراجات کے لئے آپ نے ایک مخصوص رقم ماہوار مقرر کی ہوئی تھی اس طرح کفایت کر کے دینی اور خیراتی کاموں میں روپیہ صرف کرتے تھے.آپ کی دلی خواہش تھی کہ خدمت دین کا بے پناہ جذ بہ آپ کی نسل میں ہمیشہ قائم رہے اسی رنگ میں آپ نے اپنی اولاد کی تربیت فرمائی کہ وہ سلسلہ کے لئے مفید وجود بن سکیں.آپ کے پوتے ڈاکٹر حافظ صالح محمد الہ دین صاحب فرماتے ہیں کہ بعد نماز فجر آپ ہم سے ترجمہ قرآن سنتے تھے.میں نے جب حفظ قرآن مجید مکمل کر لیا تو جس محبت و شفقت سے آپ نے اس عاجز سے معانقہ کیا اور پیار کیا وہ بیان سے باہر ہے اور اس خوشی میں آپ نے مجھے سو روپیہ بطور تحفہ عطا کیا.“ آپ اپنے بے پناہ جذبہ خدمت دین کی وجہ سے یہ جذ بہ اپنی نسل میں بھی قائم رکھنا چاہتے تھے آپ بچپن میں مجھے کئی طرزوں سے نصیحت فرماتے مثلاً یہ کہ ہماری مثال ایک خزانچی کی سی ہے.سرکاری خزانچی کے پاس بے شک ڈھیروں ڈھیر مال آتا ہے لیکن وہ اس کا مالک نہیں ہوتا اور وہ ان اموال کو صرف سرکاری کاموں کے لئے صرف کرتا ہے.

Page 413

تاریخ احمدیت 404 جلد 21 اسی طرح ہم بھی اللہ تعالیٰ کے خزانچی ہیں.اپنی ضروریات سے جس قد ر روپیہ بچے اسے فی سبیل اللہ خرچ کرنا چاہیے.یہ بھی فرماتے کہ اس دنیا میں ہماری مثال ایک مسافر کی سی ہے.یہ دنیا ہمارا اصل گھر نہیں اس لئے اگر سفر میں تکلیف ہوتو کیا حرج ہے؟ یہ بھی فرماتے کہ ایک مجاہد کا درجہ ہزار عابد سے زیادہ ہوتا ہے.“ 66 ”آپ نے اپنے شدید جذ بہ تبلیغ کی وجہ سے بچپن میں ہی مجھے اپنی جملہ گجراتی زبان کی تصانیف پڑھا دیں تا کہ مجھے اُن سے تبلیغ میں مدد ملے.حضرت سیٹھ صاحب کی مثال اور عظیم شخصیت جماعت احمدیہ کے علاوہ دوسرے متدین حلقوں میں بھی خاص احترام کی نظر سے دیکھی جاتی تھی اور وہ آپ کی بزرگی ، تو کل، صداقت شعاری اور ولولہ تبلیغ اسلام سے از حد متاثر تھے.اس حقیقت کا اندازہ جناب سید غلام دستگیر صاحب بی کام ایف سی (بانی و مالک ایس جی دستگیر اینڈ کمپنی چارٹر ڈا کا ؤنٹس) کے ایک بیان سے ہوتا ہے.جناب سید صاحب حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے گہرے عقیدتمند ہیں.کاروباری حساب کتاب کے سلسلہ میں ان کا حضرت سیٹھ صاحب سے تمیں سال تک قریبی رابطہ رہا اور آپ کی کتاب زندگی کا گہرا اور تنقیدی نظر سے مطالعہ کرنے اور جائزہ لینے کا موقعہ ملا.ذیل میں آپ کے بیان کا آخری حصہ درج کیا جاتا ہے.فرماتے ہیں:- آپ کی زندگی کا مقصد وحید عبادت، خدمت دین اور تبلیغ تھا اور شب و روز آپ انہی امور کے افکار میں غلطاں و پیچاں رہتے تھے.آپ انہی امور کے لئے باوجود پیرانہ سالی کے،ضعف اور علالت کے، صبح ہی اپنے دفتر میں آجاتے تھے آپ احباب سے نہایت آہستگی سے کلام کرتے تھے.میں نے بھی آپ کو غصہ میں آتے نہیں دیکھا آپ کی درازی عمر کا یہ راز تھا کہ آپ احباب کے لئے دعائیں کرتے تھے اور خدمت قوم میں مشغول رہتے تھے.آپ کی زندگی آپ کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے وقف تھی.آپ اپنے معتقدات کے پکے تھے.میں نے قریباً ایک تہائی صدی تک آپ کو نہایت قریب سے دیکھا.میں نے اپنی ساٹھ سالہ عمر میں بہت سی دنیا دیکھی.تمام دنیا کے حالات نیز آپ کے حالات کو گہری اور تنقیدی نظر سے دیکھا.آپ کے مبارک چہرہ کونورالہی سے منور پایا.میں نے آپ جیسی کوئی اور عظیم اور عدیم المثال شخصیت نہیں دیکھ پائی.آپ حقیقی معنوں میں ولی اللہ تھے.

Page 414

تاریخ احمدیت 405 تالیفات اور دیگر مطبوعات 1915ء Extracts from Holy Quran and Tradations (صفحات 702، تیره بار) 1917ء Difference Between Ahmadies & Non Ahmadies ( صفحات 16) 1917ء آنحضرت میہ کے مبارک فرمان (گجراتی صفحات 380، تین بار ) 1918ء IMAM of the AGE (صفحات 52، پانچ بار ) 1918ء اہل اسلام کس طرح ترقی کر سکتے ہیں (صفحات 32 ، اٹھائیس بار ) 1918ء انسان کس لئے پیدا کیا گیا ہے (گجراتی صفحات 32) 1919ء Ahmad Claim & Teaching (صفحات 398 ، دوبار ) 1919ء انعامی چیلنج (صفحات 32 ، سات بار) 1921ء احمدیت کے متعلق پانچ سوالات کے جوابات از حضرت خلیفہ اسیح الثانی اردو ایڈیشن بارہ بار چھپا.انگریزی 1949 ء دوبار) جلد 21 1924ء اسلامی اصول کی فلاسفی گجراتی 1924 ء دوبار.انگریزی 1929 ء بارہ بار.ملیالم 1931ء.تلگو 1932 ء.گورمکھی 1932ء.ہندی 1933 - برمی 1934 ء.کنٹری 1935 ء.چینی 1935 ء.مرہٹی 1939 ء ایک ایک بار ) 1930ء چار صداقتوں کا انکشاف ( صفحات 16 ، گیارہ بار ) 1930ء Vindication of The Prophet of Islam ( صفحات 68، بارہ بار) (صفحات 300 ، چھ بار ) The Way to Peace & Happiness 1930 1930ء age of Peace (تصنیف حضرت مسیح موعود ) (باره دفعه ) 1931ء احمد یہ جو بلی بلڈنگ (صفحات 68 ، ایک بار ) 1933ء Future Religion of the World (صفحات 78 ، دس بار ) 1935ء A Divine Sign (صفحات 32) 1936ء پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار (گجراتی، صفحات 32) 1936ء نبوۃ کی حقیقت (گجراتی ، صفحات 32)

Page 415

تاریخ احمدیت 406 جلد 21 1938ء خدا تعالیٰ کا عظیم الشان پیغام ( صفحات 64، چار بار ) 1938ء خدا تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ( اپنی سوانح عمری ) 1940ء نماز مترجم اردو صفحات 64 دوبار - گجراتی 1953 صفحات 74) (صفحات 38،48 بار) 1940ء A Heavenly Call to Diffrent Nations of The Globe (صفحات 64، سات بار) 1940ء ربانی سنت (صفحات 240، چار بار ) 1940ء پیارے امام کی پیاری باتیں 1941ء Divine Teachings Regarding Peace & Happiness (صفحات 52، چار بار ) 1942ء Pricious Gems 8,500 (صفحات 850، چار بار ) 1942ء Muslim Prayer with Illustrations ( صفحات 64، اکیس بار) 1942ء A Challenge to All The Nations of -/1,5000.Globe with Rewards of Rs (صفحات 58، پانچ بار ) 1943ء ہرانسان کوضروری پیغام (صفحات 68، چار بار ) 1943ء ملفوظات امام زمان (صفحات 62 ، پانچ بار ) 1943ء پیارے رسول کی پیاری باتیں از حضرت میر محمد الحق صاحب (صفحات 176 ، دس بار ) 1944 ء دونوں جہاں میں فلاح پانے کی راہ (صفحات 32، چار بار ) 1944ء ہرانسان کے لئے پیغام گجراتی.صفحات 52 - تلگو 102 صفحات ) گورمکھی 131 صفحات.ہندی 64 صفحات ) 1945ء اسلام کا ایک عظیم الشان معجزہ (صفحات 64، تین بار ) 1945ء احمدیت کے متعلق اعتراضات اور جوابات (صفحات 84) 1945ء New World Order (تصنیف حضرت مصلح موعود ) 1946ء All About Jesus Christ (صفحات 54، چار بار ) 1946ء A Standing Miracle of Islam ( صفحات 16 ، پانچ بار ) 1947 ء مسلمانوں کی ترقی کی راہ (صفحات 32)

Page 416

تاریخ احمدیت تقسیم ہند کے بعد 407 جلد 21 1948ء احمدیت کا پیغام از حضرت مصلح موعود ( فارسی ایڈیشن 1948 ء.اردو ایڈیشن 1949 ء.1950ء پیارے خدا کی پیاری باتیں گجراتی ایڈیشن 1952 ء) (صفحات 198) 1950ء عورتوں کا مقام از مولانا ابوالعطاء صاحب (صفحات 84 ، تین بار ) 1950ء Mohammad The Liberator of Woman از حضرت مصلح موعود ( تین بار ) 1951ء Promised Divine Messenger (صفحات 110 ، دوبار ) 1951ء Ahmadia Movement in India ( تین بار ) 1951 ء مسلم نو جوانوں کے سنہری کارنامے از شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر 1952ء فیصلہ کن کتاب (صفحات 94، تین بار ) 1953ء Questions and Answers (صفحات 64، چار بار ) 1954 ء 700 حدیثیں اور حضرت علی کے فرمان (گجراتی صفحات 178 ، پانچ بار ) 1955ء A Great Divine Sign (صفحات 66) 1955 ء مقصد زندگی و احکام ربانی (گجراتی صفحات 80، چار بار.اردوصفحات 1956،46ء) 1956ء Object of Man's Existence (صفحات 60، ایک بار ) 1958ء اشاعت اسلام کی فرضیت (صفحات 36) 33 ٹیکٹ ایک عظیم الشان بشارت اشتہارات 1 قبر کے عذاب سے بچو 2.نامدار آغا خاں صاحب کے فرمان کلام امام مبین سے 3.تمام غیر مسلم اقوام کو چیلنج بیس ہزار کے ساتھ 4.ہر انسان پر ایک عظیم الشان فرض 5.ہر مسلمان پر ایک عظیم الشان فرض (اردو، گجراتی) (گجراتی) (اردو) (اردو) (اردو)

Page 417

تاریخ احمدیت اولاد 6.بچے اور جھوٹے کے پہچاننے کی کسوٹی 408 جناب سیٹھ علی محمد الہ دین صاحب سکندر آباد 34 (اردو) جلد 21 محترمہ فاطمہ بائی صاحبہ (اہلیہ فاضل الہ دین سکندر آباد ) محترمہ زینب بیگم صاحبه (اہلیہ شیخ محمود الحسن صاحب) جناب سیٹھ یوسف احمد الہ دین صاحب سکندر آباد محترمہ ہاجرہ بیگم صاحب اہلیہ محترم رشید الدین خاں صاحب) مدفون بہشتی مقبرہ قادیان محترمہ امتہ الحفیظ بائی صاحبہ مقیم کراچی ( بیوہ مکرم شیر علی صاحب) ہفتہ ” الوصیت حضرت مصلح موعود کا اہم پیغام 36 اس سال بھی 12 مارچ سے 18 مارچ 1962 ء تک دنیائے احمدیت میں ہفتہ الوصیت“ منایا گیا.اس موقعہ پر سیدنا حضرت مصلح موعود نے حسب ذیل پیغام دیا جو الفضل 23 فروری 1962 ء کے شمارہ میں پہلے صفحہ پر شائع ہوا :- اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ــــوالـــنــــاصـــر برادران جماعت ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ایک گزشتہ مجلس شوریٰ میں میں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہر سال ایک ہفتہ وصیت منایا جایا کرے تا کہ وصایا میں اضافہ ہواور تا اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے لوگوں کے اندر زیادہ سے زیادہ قربانی کا جذبہ پیدا ہو.نظارت بہشتی مقبرہ اس فیصلہ کی تعمیل ہر سال کرتی رہی ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس سال بھی ”ہفتہ الوصیت‘ے کے لئے 12 سے 18 مارچ کے ایام مقرر کیے گئے ہیں.سیکرٹری صاحب بہشتی مقبرہ نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ اس موقعہ پر میں بھی جماعت کو کوئی پیغام دوں.

Page 418

تاریخ احمدیت 409 جلد 21 میں دوستوں سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وصیت کی اہمیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسالہ ” الوصیت میں اچھی طرح واضح کر دی ہے.اس کے بعد میں نے بھی اپنے خطبات اور تقریروں اور تحریروں میں اسکی طرف بار ہا توجہ دلائی ہے مگر جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے اب تک وصیت کرنے والوں کی تعداد قریباً ساڑھے سولہ ہزار تک پہونچی ہے جو جماعت کی موجودہ تعداد کے مقابلہ میں بہت کم ہے.اگر نظارت بہشتی مقبرہ کثرت سے اس بارہ میں الوصیت اور میری تقریروں اور تحریروں کو شائع کرے تو امید ہے کہ وصایا کی کمی بہت جلد دور ہو جائیگی اور سلسلہ کی مالی حالت بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گی کیونکہ اس کی مضبوطی کا وصایا کی زیادتی کے ساتھ گہرا تعلق ہے.پس میں اس کے ذریعہ جماعت کے ہر فرد کو جس کا گزارہ ماہوار آمدن یا جائیداد پر ہے نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی تحریک کرتا ہوں اور ہر مرکزی اور مقامی جماعت کے عہدیداروں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس طرف خاص طور پر توجہ کریں.اس غرض کیلئے مناسب ہوگا کہ ہر جماعت میں سیکرٹری وصایا مقرر کیے جائیں جو اس تحریک کو چلاتے رہیں.اسی طرح امراء اور مربیان سلسلہ کو بھی چاہیے کہ وہ اس تحریک کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ ہمیشہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے آپ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے.والسلام مجلس مشاورت ربوہ 1962ء خاکسار مرزا محمود احمد 37 "21-02-1962 اس سال جماعت احمدیہ کی تینتالیسویں مجلس مشاورت 23 تا 25 امان 1341 ھش مطابق 23 تا 25 مارچ 1962 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے وسیع ہال میں منعقد ہوئی.سید نا حضرت مصلح موعود کی طبیعت ناساز تھی اس لئے حضور کے ارشاد پر صدارت کے فرائض حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے انجام دیئے.حضور کی طویل علالت کا دردناک احساس مجلس کے پورے ماحول پر حاوی تھا تا ہم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی غیر معمولی فراست اور بیش قیمت راہنمائی کے باعث اس پُر وقار مجلس کا معیار خاصا بلند رہا اور ایک نئی زندگی اور بیداری بھی محسوس کی جاتی رہی.آپ نے ممبران کو ابتدا ہی میں یہ تا کیدی ہدایت فرما دی کہ

Page 419

تاریخ احمدیت 410 جلد 21 بات مختصر ہو اور متعلق امور تک محدود ہو صرف اسکو کہیں اور دعا کرتے ہوئے اٹھیں.مشاورت ایک بھاری ذمہ داری اپنے ساتھ رکھتی ہے.اس کے فیصلے قیامت تک اثر پیدا کرنے والے ہیں.اس لئے دعا کرتے ہوئے، خشیت کے ساتھ ، تقویٰ کے ساتھ جو 39 66 بات کہنی ہو کہیں اور متعلقہ امور تک اپنے آپ کو محد و درکھیں اور باری باری انٹھیں.اس مشاورت میں مرکزی نمائندگان اور اصحاب مسیح موعود سمیت مغربی و مشرقی پاکستان اور آزاد کشمیر کی جماعتوں کے 489 مندوبین نے شرکت فرمائی.10 مجلس کے چارا جلاس ہوئے.پہلے اجلاس میں ایجنڈا پر غور کرنے کے لئے چارسب کمیٹیوں کا تقرر عمل میں آیا.1- سب کمیٹی نظارت علیا و نظارت تعلیم (صدر شیخ محمود الحسن صاحب) نمائندہ مشرقی پاکستان ( سیکرٹری حضرت مولوی محمد الدین صاحب ناظر تعلیم ) 2- سب کمیٹی بیت المال (صدر مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا.سیکرٹری میاں عبدالحق صاحب رامه ناظر بیت المال) 3- سب کمیٹی اصلاح وارشاد و امور عامه (صدر شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ لائل پور.سیکرٹری چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد) 4- سب کمیٹی تحریک جدید ( صدر مرزا غلام حیدر صاحب ایڈووکیٹ نوشہرہ چھاؤنی.سیکرٹری حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال) دوسرے اجلاس میں پہلے گزشتہ مجلس شوری کے فیصلوں کی تعمیل کی رپورٹیں اور نظارتوں کی طرف سے جماعتی دوروں کی رپورٹیں پڑھی گئیں پھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے نگران بورڈ کے خاص اصلاحی فیصلوں کا نہایت جامع رنگ میں خلاصہ بیان فرمایا ازاں بعد سیکرٹری مجلس مشاورت مولوی عبدالرحمن صاحب انور نے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے بجٹ میں اضافہ جات اور رڈ شدہ تجاویز کی تفصیل پیش کی اس کے بعد سب کمیٹی نظارت علیا و تعلیم کی رپورٹ سنائی گئی ابھی اس کی ایک شق پر غور ہوا تھا کہ اجلاس ملتوی ہو گیا اس لئے بقیہ شقوں پر تیسرے اجلاس میں کارروائی مکمل ہوئی جس کے بعد سب کمیٹی اصلاح وارشاد و امور عامہ کی رپورٹ زیر بحث آئی.چوتھے اور آخری اجلاس میں بجٹ کمیٹی شوری 1962 ءسب کمیٹی بیت المال ، سب کمیٹی تحریک جدید تعلیمی کمیشن مجلس مشاورت برائے جامعہ احمدیہ اور تعلیمی بورڈ اور تعلیمی کمیشن سے متعلق رپورٹیں سنائی

Page 420

تاریخ احمدیت 411 جلد 21 گئیں اور اسی ترتیب سے ممبران نے ان پر اپنی آراء پیش کیں نیز صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے پیش کردہ بجٹ منظور کیئے جانے کی سفارش کی جن کی تفصیل یہ ہے :- 1- میزانیہ آمد وخرچ صدر انجمن احمدیہ پاکستان پچیس لاکھ اکتالیس ہزار تین سونوے روپے.2.بجٹ آمد و خرج انجمن احمد یہ تحریک جدید ستائیس لاکھ پچانوے ہزار موخر الذکر بجٹ پیش ہونے سے قبل صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے فرمایا کہ ” جماعت نے جو قربانی چندوں اور واقفین مہیا کرنے کی صورت میں کی اور یورپ اور افریقہ اور دوسرے ممالک میں احمدیت کے پودے لگائے اب وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پھولنے پھلنے لگ گئے ہیں اور شیریں پھل دینے لگے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ کشف میں کچھ سفید پرندے دکھائے گئے تھے جن کو آپ نے پکڑا.انہی سفید پرندوں میں سے ایک پرندہ اور شیریں پھلوں میں سے ایک پھل اسوقت ہمارے درمیان موجود ہیں...یہ ڈنمارک کے ایک دوست ہیں.گزشتہ سال جب میں وہاں گیا تھا تو انہوں نے بیعت کی تھی ان کا نام مسٹر بشیر حسین ٹوبی ہے.“ اس پر ایک دراز قامت یور پی نوجوان جن کا چہرہ نہایت خوبصورت ڈاڑھی سے مزین تھا.سٹیج پر کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے حاضرین کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا اور انگریزی زبان میں مختصر تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ میں چھ ماہ قبل ڈنمارک مشن کے ذریعہ عیسائیت کو خیر باد کہ کر اسلام میں داخل ہوا ہوں.میری دلی خواہش تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ، مرکز سلسلہ کی زیارت کا شرف حاصل کروں اور میں بہت خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری یہ خواہش پوری کردی.آخر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ان مشوروں کو قبول کرے اور ان میں برکت ڈالے ، حضرت صاحب کو صحت دے اور نمائندگان اور زائرین کو توفیق دے کہ جو مشورے یہاں ہوئے ہیں ان کو اپنے اپنے علاقہ میں بہترین صورت میں جاری کر سکیں تا کہ جماعت اور اسلام کا ہر قدم ہر آن اوپر کی طرف اٹھتا جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شاندار الہام پورا ہو کہ ” بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر مینار بلند تر محکم افتا“.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس مشاورت کی جملہ سفارشات کو شرف قبولیت بخشا اور حضور کے فیصلہ جات کی مکمل اور مصدقہ نقل الفضل 10 جون 1962 ، صفحہ 3 تا 6 میں شائع کر دی گئی.بعض اہم فیصلے حسب ذیل تھے.1- صدر صاحب نگران بورڈ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ حسب ضرورت نگران بورڈ کے لئے

Page 421

تاریخ احمدیت 412 جلد 21 جماعت میں سے زائد ممبر مقرر کر سکیں گے اور جب ضرورت محسوس کریں ان میں تبدیلی کر دیں.اس وقت جو تین ممبر نگران بورڈ میں جماعت کے نمائندہ کے طور پر ہیں ان کی تعداد تو قائم رہے گی لیکن ان میں بھی صدر صاحب نگران بور ڈرڈ و بدل کر سکتے ہیں.2.نگران بورڈ کے تمام فیصلہ جات مثبت اور منفی جن میں صدر صاحب نگران بورڈ (حضرت) مرزا بشیر احمد صاحب کی شمولیت اور اتفاق رائے شامل ہو صد را انجمن احمدیہ اور مجلس تحر یک جدید اور مجلس وقف جدید کے لئے واجب العمل ہوں گے اور صدر صاحب نگران بورڈ کی وساطت سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اپیل کرنے کا حق سب کو ہو گا.3- آئندہ اپریل 1962ء کے وسط میں مشرقی پاکستان کی جماعت ہائے احمدیہ کا جو جلسہ سالانہ ہو رہا ہے.اس موقعہ پر صدر صاحب نگران بورڈ ایک کمیشن متعین فرمائیں جو وہاں جا کر مشرقی پاکستان کی جماعتوں کی ضروریات کا جائزہ لے اور پھر واپس آ کر مناسب مشورہ دے.4 مشرقی پاکستان سے دس طالب علم جامعہ احمدیہ کے لئے ایسے لئے جائیں جن کا خرچ جامعہ احمدیہ میں تعلیم پانے کیلئے مرکز برداشت کرے.ان طالبعلموں کے کوائف لکھ کر پہلے سے پرنسپل صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ سے مشورہ کر لیا جائے.جب بھی اس دس کی تعداد میں کمی آئے اس کو پورا کرنے کیلئے مزید طالب علم لئے جایا کریں نیز جو کمیشن وسط اپریل 1962ء میں مشرقی پاکستان جائے گاوہ مشرقی پاکستان کے حالات کے ماتحت نیز مرکز کے حالات کے ماتحت اس سوال کا مزید جائزہ لے کہ اس تعداد میں کس قدر مزید اضافہ کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے.5- مربی کو جس علاقہ میں متعین کیا جائے وہاں کی لوکل زبان سیکھنے کی اُسے کوشش کرنی چاہیے اور نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے اس بارہ میں بار بار تاکید ہوتی رہنی چاہئے.6- ایک شعبہ مستقل طور پر قائم کیا جائے جس کا کام صرف رشتہ ناطہ کے معاملات کو سرانجام دینا ہو اور ایک قابل اور تجربہ کار شخص اس صیغہ کا انچارج ہو جسے ایک سمجھ دار کلرک دیا جائے اور اس غرض کے لئے اس سال بجٹ منظور کیا جائے.علاوہ ازیں صدر صاحب نگران بورڈ کی طرف سے ایک کمیشن مقرر کیا جائے جو رشتہ ناطہ کے اہم اور نازک معاملہ کے متعلق سارے حالات اور مشکلات کا جائزہ لے کر اپنی تجاویز پیش کرے.7- وصیت کی عمر کے متعلق وہی طریق مناسب ہے جو اس وقت رائج ہے یعنی 18 سال کی عمر سے قبل بھی وصیت کی جاسکتی ہے.لیکن وصیت کے لئے کم از کم پندرہ سال کی عمر ہونی ضروری ہوگی جو شرعی بلوغت کی عمومی عمر ہے.ایسی صورت میں 18 سال کی عمر ہو جانے پر وصیت کی تجدید کرنی ضروری ہوگی.

Page 422

تاریخ احمدیت 413 جلد 21 تا کہ وصیت کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے اگر کسی ملک میں بلوغت کی عمر 18 سال سے کم یا زیادہ مقرر ہو تو تجدید اس کے مطابق ہوگا.8.ربوہ میں یتامی کے لئے ایک ادارہ قائم کیا جائے.- آئندہ جامعہ احمدیہ میں داخلہ کا معیار کم از کم میٹرک پاس ہو اور بہتر ہوگا کہ مناسب مرحلہ پر طلباء کومولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کروایا جائے.اگر اس ادارہ میں ایسے طالبعلم داخل ہوں جو د نیوی تعلیم مکمل کر چکے ہوں مثلا بی اے یا ایم اے ہوں اور پھر وہ چار پانچ سال میں دینی علوم سیکھ لیں تو بہترین مربی اور عالم بن سکتے ہیں.10 - جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل کارکنان کا گریڈ حتی الامکان ایک ہی سطح پر ہو خواہ ایسے کارکنان صدرانجمن احمدیہ میں کام کریں یا تحریک جدید میں خواہ اُن کو انتظامیہ کے لئے چنا جائے یا مربی اور مبشر مقرر کیا جائے.پر نہ ہو.11 - جامعہ احمدیہ کے لیکچرز اور پروفیسر صاحبان کا گریڈ حتی الوسع کالج کے واقفین لیکچرز سے کم سطح 12 - آئندہ سے جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل علماء کے درمیان کوئی ایسی تقسیم نہ کی جائے کہ ایک حصہ مستقل طور پر اندرون ملک کے لئے مخصوص ہو کر رہ جائے بلکہ اندرون ملک اور بیرون ملک کے مربیان اور مبلغین ایک باقاعدہ سکیم کے ماتحت با ہم تبدیل ہوتے رہیں.13- عام سلوک میں یہ پوری کوشش کی جائے کہ دنیا دارانہ اداروں کا سارنگ ہمارے نظام میں سرایت نہ کرنے پائے بلکہ یہ رنگ غالب نظر آئے کہ ہم سب با وجود فرق مراتب کے ایک برادری کے افراد ہیں جو باہم سلوک اور محبت کے رشتوں میں منسلک ہیں.مرکز میں شعبہ رشتہ ناطہ کا قیام شوری 1962 ء کی تجویز کے مطابق اس سال کے شروع میں ہی نظارت امور عامہ کے ماتحت شعبہ رشتہ ناطہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے افسر مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا مقرر ہوئے.نومبر 1963 ء سے یہ شعبہ نظارت اصلاح وارشاد میں منتقل کر دیا گیا.مولانا ظہور حسین صاحب مئی 1964ء سے اپریل 1971 ء تک یہ خدمت بجالاتے رہے آپ کے بعد چوہدری عبدالواحد صاحب ( نائب ناظر اصلاح وارشاد ) مئی، جون 1971ء میں اس کے انچارج رہے.جولائی 1971 ء سے اپریل 1974 ء تک

Page 423

تاریخ احمدیت 414 جلد 21 سید عبدالسلام صاحب نے بحیثیت کلرک شعبہ کو سنبھالا بعد ازاں پہلے مولانا محمد اسمعیل صاحب دیا لگڑھی مربی سلسلہ (مئی 1974 ء تا 15 اگست 1982 ء ) پھر شیخ نور احمد صاحب سابق مجاہد بلاد عربیه (16 اگست 1982ء تا 19 اگست 1983ء) انچارج صیغہ کے فرائض انجام دیتے رہے.20 اگست 1983ء کومولوی منیرالدین احمد صاحب سابق مبلغ افریقہ سویڈن ( حال جرمنی ) اس اہم شعبہ کے نگران مقرر ہوئے.مباہلہ سورو ( اڑیسہ ) اور اس کے حیرت انگیز نتائج بھارت کے ضلع بالیسر صوبہ اڑیسہ میں بھدرک کے قریب سورونامی ایک قصبہ ہے جہاں 25 مارچ 1962 ء بروز منگل علاقہ کے مشہور بریلوی عالم مولوی حبیب الرحمن صاحب دھام نگری اپنے دو شاگردوں مولوی عبد القدوس امام مسجد شنکر پور بھدرک اور مولوی شوکت علی صاحب ہیڈ مولوی مدرسہ نعمانیہ بھدرک مدرسہ کا ظمیہ کے پندرہ بیس طلباء کولیکر پہنچے اور احمد یوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا.احمدیوں نے یہ چیلنج قبول کر لیا دونوں فریق ڈاک بنگلہ کے سامنے والے کھلے میدان میں جمع ہوئے.غیر احمدیوں کی طرف سے 22 افراد شامل ہوئے اور مولوی عبدالقدوس صاحب نے فہرست پر دستخط کیے اور ان اشخاص کے ساتھ قبلہ روکھڑے ہو کر موکد بعذاب قسم کھائی کہ :- ”ہم بحلف کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی سچا نبی نہیں ہے تو ہم پر عام عذاب شدید ایک سال کے اندر نازل ہو.اس پر سب نے آمین کہی.دعائے مباہلہ کا رقت انگیز منظر دوسری طرف انہیں احمدیوں نے مباہلہ میں شرکت کی جن کے اسماء گرامی یہ ہیں :.مولانا بشیر احمد صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ، مولوی سید محمدمحسن صاحب ( سونگھڑہ ) ، مولوی سید غلام مهدی صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ (بھدرک)، مولوی محمد یونس صاحب (سورو)، مکرم ہارون الرشید صاحب ( نائب صدر جماعت احمدیہ بھدرک) عبدالرب صاحب بی اے (بھدرک) محمد سلیم صاحب (بھدرک) صادق علی صاحب ( بھدرک ) محمد علی شاہ صاحب (بھدرک)، سید محمد زکریا صاحب صدر جماعت احمدیہ ( بھدرک) گل محمد صاحب ( بھدرک) شیخ غلام الدین صاحب ( بھدرک ) شیر علی صاحب (سورو)، عبدالستار صاحب (سورو)، عبدالحکیم صاحب ( بھدرک)، شیخ غلام بادی صاحب (بھدرک)، عبدالنور صاحب ( بھدرک)، شیخ عمران صاحب ( بھدرک) شیخ قمرالدین صاحب ( بھدرک ) مولوی سید محمد محسن صاحب معلم وقف جدید نے دستخط کیے.بعد ازاں جملہ احمدی مباہلین رو بقبلہ

Page 424

تاریخ احمدیت 415 جلد 21 کھڑے ہوئے.مولانا بشیر احمد صاحب فاضل انچارج تبلیغ بنگال واڑیسہ نے نہایت ہی بلند مگر رقت آمیز لہجہ میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اور حسب ذیل الفاظ میں موکد بعذاب قسم کھائی.ہم ممبران جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو ان کے دعوی نبوت میں سچا تسلیم کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں انہوں نے مرتبہ نبوت حاصل کیا.ہم موکد بعذ اب حلف لے کر کہتے ہیں کہ اگر مرزا غلام احمد صاحب اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں تو ہم پر خدا تعالیٰ کا عذاب شدید ایک سال کے اندر نازل ہو اور اگر وہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں تو ان لوگوں کو جو اس وقت مقابل پر حلف اٹھا رہے ہیں ایک سال کے اندر عذاب شدید میں مبتلا کر جو دوسروں کے لئے عبرت کا موجب ہو.آمین.“ اس دعا کے بعد آپ نے تین دفعہ قرآن شریف کی یہ دعا پڑھی کہ ربـنـا تقبل منا انك انت السميع العلیم اور سب نے آمین کہی اور دعاختم کی.دعا کے وقت رقت کا عالم طاری تھا اور سب احمد یوں کی آنکھیں خدا کے حضور گریہ وزاری سے پر نم تھیں.دعائے مباہلہ ختم ہوئی تو مولوی حبیب الرحمن صاحب نے ( جنہیں مباہلین میں شرکت کی جرات نہ ہوسکی تھی) مولانا بشیر احمد صاحب فاضل سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ تو مباہلہ میں شامل ہو گئے.اس پر مولانا صاحب نے پر شوکت اور پر جلال الفاظ میں فرمایا کہ آپ مباہلین کی فہرست میں نام نہ لکھوانے سے پبلک کو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر خدا جانتا ہے کہ آپ ساری کارروائی میں شامل ہیں اس لئے آپ بھی خدا کے عذاب سے نہیں بچ سکتے.مولوی حبیب الرحمن صاحب خاموش رہے مباہلہ کی مجلس اختتام پذیر ہوئی.اسوقت پورے مجمع پر سکوت طاری تھا.10 احمدیوں نے مباہلہ کے پہلے دن سے ہی خاص دعائیں شروع کر دی تھیں مگر جب مباہلہ کی میعاد کا آخری دور قریب آن پہنچا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ تضرع اور عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی دعاؤں میں لگ گئے علاوہ ازیں مولوی سید فضل الرحمن صاحب صوبائی امیر نے حضرت مصلح موعود اور دیگر بزرگوں کی خدمت میں درخواست دعا کی علاوہ ازیں جماعت بھدرک نے (جس کے صدر ان دنوں سید محمد ذکریا صاحب تھے ) ایک سکیم کے تحت حضرت مصلح موعود، صح به مسیح موعود و بزرگان عظام پاک و ہند اور بیرونی ممالک کے مبلغین اور جماعت کے دوستوں کی خدمت میں دعا کی درخواست بھجوائی.اکثر جگہوں سے پُر از محبت اور ہمدردانہ خطوط پہنچے کہ دعا جاری ہے اللہ تعالیٰ احمدیت کو بین فتح

Page 425

تاریخ احمدیت نصیب کرے.416 جلد 21 حیرت انگیز بات یہ تھی کہ حضرت مصلح موعود، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور بعض دوسرے بلند پایہ بزرگوں کے جواب میں ایک خاص بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ مباہلہ سور و جماعتی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہو چنانچہ ان بزرگ ہستیوں نے جس رنگ کی فتح کیلئے دعائیں کی تھیں.اسی رنگ میں وہ جناب الہی کے ہاں قبول ہوئیں اور فتح کا دروازہ جماعتی ترقی ہی کی صورت میں کھلا چنانچہ جہاں مباہلہ کے وقت سورو میں صرف تین احمدی تھے وہاں مباہلہ کے بعد اُن کے تعداد تین درجن تک پہنچ گئی.نئے بیعت کنندگان میں قاضی محلہ مسجد کے پیش امام مولوی شمس الدین صاحب بھی شامل تھے.یہ وہی مسجد ہے جہاں مولوی حبیب الرحمن صاحب دھام نگری نے قیام کیا تھا.احمدی مباہلین پر افضال ربانی اس مجزا نہ ترقی کے علاوہ بفضلہ تعالیٰ جملہ احمدی مباہلین نہ صرف ہر طرح محفوظ ومصون رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے افضال و برکات سے نوازا اور ان کی عمر، صحت، ایمان اور اخلاص میں برکت بخشی.رب کریم کے اس مشفقانہ سلوک کی تفصیلات مولوی ہارون الرشید صاحب صدر جماعت احمد یہ بھدرک کے قلم سے درج ذیل ہے.فرماتے ہیں:.محترم مولانا بشیر احمد صاحب فاضل جنہوں نے 18 احمدی احباب کو ساتھ لے کر دعائے مباہلہ کرائی اور دعا کے بعد مولوی حبیب الرحمان کے ایک استفسار پر یہ کہا کہ آپ بھی خدا کے عذاب سے نہیں بچ سکتے.دعا سے قبل مولوی حبیب الرحمان صاحب اور مولوی عبد القدوس صاحب سے آپ نے جماعت احمدیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے گفتگو فرمائی.مولانا موصوف بفضلہ تعالیٰ خدمت دین اور اشاعت اسلام کے اہم فریضہ کی ادائیگی میں شب وروز لگے ہوئے ہیں اور مباہلہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ بھی توفیق دی کہ کلکتہ جیسے بڑے شہر میں اپنی زیر نگرانی جماعت احمدیہ کی ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کرائی یہ مسجد اس لحاظ سے یادگاری مسجد ہوگی کہ مباہلہ سورو کے بعد میعاد مباہلہ کے اندر مولانا موصوف کو اللہ تعالیٰ نے شرقی زون کے ایک بڑے شہر میں مسجد تعمیر کرانے کا زریں موقعہ عطا فرمایا.اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی جماعتوں میں مولانا موصوف قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.مرکز کی طرف سے آپ صوبہ بنگال واڑیسہ کے انچارج مبلغ ہیں.نیز آجکل جماعت احمد یہ کلکتہ کی امارت کے معزز عہدے پر بھی فائز ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب امیر اور

Page 426

تاریخ احمدیت 417 جلد 21 کامیاب مبلغ ہیں.بنگال اور اڑیسہ میں ہند و احباب بھی ان کے لیکچروں سے اتنے متاثر ہیں کہ وہ خود مولانا موصوف کو بلانے کے خواہشمند رہتے ہیں.اشاعت اسلام کے لئے مولانا صاحب ہر طریقہ سے کوشاں رہتے ہیں.کلکتہ سے مختلف زبانوں میں ہزاروں کی تعداد میں لٹریچر کی اشاعت کا انہوں نے انتظام کیا ہے اور نہ صرف خود ہی اسلام کی اشاعت میں مصروف ہیں بلکہ جماعت کے احباب بھی اسلام کی خدمت کی تڑپ رکھتے ہیں....اسی طرح مباہلہ میں شامل ہونے والے ہمارے بزرگ مولوی سید محمد محسن صاحب سونگھڑ وی ولد سید جواہر علی صاحب مرحوم سابق معلم وقف جدید ہیں.جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ خدمت اسلام میں صرف کر دیا اور اب بھی باوجود پیرانہ سالی کے احمدیت و اسلام کی تبلیغ کا ایسا جوش ان میں پایا جاتا ہے کہ جو جوانوں میں بہت کم ملتا ہے.سورو میں احمدیت کے بانی آپ اور مولوی محمد یونس صاحب ہیں.یہ پودا انہی کا لگایا ہوا ہے اور اب امید ہے.کہ اب یہ پودا جو سورو میں ان کے مبارک ہاتھوں سے لگ چکا.بڑھے گا، پھولے گا اور پھلے گا اور کوئی طاقت اس کی ترقی میں روک نہیں ہو سکتی.مورخہ 25 مارچ 1962 ء کو محترم مولانا بشیر احمد صاحب فاضل کے ارشاد پر آپ نے اس فہرست پر دستخط کیے تھے جو احمدی مباہلین کی تیار کر کے غیر احمدیوں کے سپرد کی گئی تھی.میرے سامنے اب بھی وہ نظارہ ہے.جب فہرست پر دستخط کرنے کے لئے آپ سے مولانا نے فرمایا تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس مرد مجاہد نے دستخط کر دیئے.حالانکہ آپ کافی عمر رسیدہ تھے اور یہ خیال آ سکتا تھا کہ معلوم نہیں میں ایک سال تک زندہ رہوں یا نہ رہوں مگر اس مرد مجاہد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر اتنا محکم یقین تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ مباہلہ میں شامل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں ایک سال تک ضرور زندہ رکھے گا.چنانچہ ایسے ہی ہوا....مباہلہ میں شامل ہونے والے ایک اور دوست مکرم مولوی سید غلام مہدی صاحب ہیں.جو ان دنوں بحیثیت مبلغ بھدرک میں مقیم تھے آپ محترم سید صمصام علی صاحب مرحوم کے صاحبزادے ہیں.اڑیسہ کے دوست جانتے ہیں کہ سید غلام مہدی صاحب کے والد مکرم سید صمصام علی صاحب مرحوم اسلام کے آنریری مبلغ تھے اور اڑیہ زبان کے ORATOR اور فصیح البیان مقرر تھے.انہوں نے کیرنگ کے نو جوانوں میں اپنی پر جوش نظموں کے ذریعہ ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا.آج بھی ان کی نظمیں جب کسی جلسہ میں پڑھی جاتی ہیں تو وجد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.محترم سید صمصام علی صاحب نے اپنے بچوں کو دنیا داری میں نہ لگایا بلکہ دین کی خدمت کے لئے وقف کیا.مکرم سید غلام مہدی صاحب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب مبلغ ہیں اور آجکل موسیٰ بنی مائنز

Page 427

تاریخ احمدیت 418 جلد 21 میں تبلیغی خدمات ادا کر رہے ہیں.ہمارے ایک اور نوجوان مکرم عبد الرب صاحب بی اے بھی اس مباہلہ میں شامل تھے انہوں نے ہی مولوی محمد اسمعیل صاحب سونگھڑوی سے یہ فرمایا تھا کہ آپ کے ساتھ تو بہت مناظرے ہو چکے ہیں اب آپ کے ساتھ مباہلہ ہونا چاہیئے.احباب کی آگاہی کے لئے یہ بھی تحریر کیا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ ہوا سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ایک جماعت کی تحریک پر یہ اجازت آئی تھی کہ مولوی محمد اسمعیل صاحب کے ساتھ اگر مباہلہ کی ضرورت پیش آئے تو میری طرف سے مولانا بشیر احمد صاحب انچارج مبلغ کلکتہ کو مباہلہ کرنے کی اجازت ہے....مکرم سید محمد زکریا صاحب صدر جماعت احمد یہ بھد رک با وجود اپنی علالت طبع کے مباہلہ میں شامل تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ احمدیت کی تبلیغ کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں.ان کے بھائی مکرم مولوی سید محمد یونس صاحب مقیم سور و بھی مباہلہ میں شامل تھے اور سور و میں جماعت کے قائم کرنے میں ان کا بھی بڑا ہاتھ ہے.پہلے وہ سورو میں اکیلے تھے اب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک مخلصین کی جماعت عطا کر دی ہے اور سور و کے وہ احمدی احباب جو مباہلہ میں شامل ہوئے وہ بھی بفضلہ بہت پختہ ہو گئے ہیں.غرضیکہ جماعت احمدیہ کا ہر وہ فرد جو مباہلہ میں شامل ہوا خدا تعالیٰ کے فضلوں سے وافر حصہ لے رہا ہے اور اپنی اس خوش قسمتی پر نازاں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح کی صداقت کے لئے اسے بھی منتخب فرمایا.مباہلہ سورو کے نتیجہ میں جہاں خدائے رحیم و کریم نے اپنے پیارے مہدی موعود کی مظلوم جماعت کی خارق عادت رنگ میں تائید و نصرت فرمائی وہاں فریق ثانی کیلئے یہ مباہلہ قہر الہی کا عبرتناک نشان ثابت ہوا جو رہتی دنیا تک یادر ہے گا.عدوان احمد بیت تغضب الہی کی زد میں حضرت شاہ عبد القادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ( ولادت 1753 ء وفات 1814ء) قرآنی آیت قل هو القادر على ان يبعث عليكم عذابا (الانعام: 65) کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :.قرآن شریف میں اکثر کافروں کو عذاب کا وعدہ دیا یہاں کھول دیا کہ عذاب وہ بھی ہے جو اگلی امتوں پر آیا آسمان سے یا زمین سے اور یہ بھی ہے کہ آدمیوں کو آپس میں لڑا دے اور اُن کو قتل یا قید یا ذلیل کرے حضرت نے سمجھ لیا کہ اس امت پر یہی ہوگا کہ اکثر عذاب الیم اور عذاب مہین اور عذاب شدید اور عذاب عظیم انہی باتوں کو فرمایا ہے.“

Page 428

تاریخ احمدیت 419 جلد 21 مولوی حبیب الرحمن صاحب دھام نگری کے شاگرد علماء اور دوسرے غیر احمدی اصحاب نے بھی حلفیہ دعا کی تھی کہ اگر مرزا غلام احمد قادیانی بچے نبی ہیں تو ہم پر عذاب شدید ایک سال کے اندر نازل ہو.“ اس جھوٹی قسم کی پاداش میں یہ لوگ کس طرح عذاب شدید کی لپیٹ میں آگئے اور اکابر سے لیکر اصاغر تک غضب خداوندی کا نشانہ بن کر سخت ذلیل و رسوا ہوئے اسکی تفصیل پر بھی مولوی ہارون الرشید 66 صاحب نے ایک مبسوط مضمون میں روشنی ڈالی ہے.جو اخبار ”بدر قادیان (24 اکتوبر تا 21 نومبر 1963ء) میں بالاقساط چھپ چکا ہے اور نہایت دردناک حالات پر مشتمل ہے.خلاصہ ان کا یہ ہے کہ مباہلہ سورو میں سب سے نمایاں شخصیات تین تھیں.1 - مولوی حبیب الرحمن صاحب دهام نگری 2.مولوی عبد القدوس صاحب امام مسجد شنکر پور ( بھدرک) -3 مولوی شوکت علی صاحب ہیڈ مولوی مدرسہ نعمانیہ (بھدرک) یہی علماء عظام تھے جنہوں نے سورو کے عام مسلمان بھائیوں کو بہکایا اور پھر جماعت احمدیہ کے اصرار کے باوجو د میدان مباہلہ میں پبلک کو ایک دوسرے کے عقائد سے روشناس کرانے کے قیمتی موقعہ سے محروم رکھا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت بھی ان پر زیادہ رہی.مولوی حبیب الرحمن صاحب بریلوی فرقہ کے مشہور عالم دین تھے جن کا مباہلہ سے قبل اس علاقہ میں طوطی بولتا تھا اور بوجہ زمینداری اور اچھی پوزیشن کا مالک ہونے کے ایسا اثر و رسوخ تھا کہ کسی کو اُن کے سامنے دم مارنے کی جرات نہ ہوتی تھی کسی غریب پر ناراض ہوتے تو اس کی شامت آ جاتی اور جینا محال ہو جاتا.اپنی اسی قوت و طاقت کے بل بوتے پر وہ جماعت احمدیہ کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور مباہلہ کی طرح ڈالی مگر خدا کی شان دیکھو کہ مباہلہ سورو کے بعد اُن پر مصائب و آفات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے خود ان کی برادری نے جو اپنی خاندانی وجاہت کے باعث بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی اُن کا بائیکات کر دیا اور وہ عقیدتمند جو اُن کی قدم بوسی کو موجب سعادت سمجھتے اور انہیں ”حضرت“ کے نام سے یاد کرتے تھے کھلم کھلا مخالف ہو گئے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ان کے ہم مسلک عالم مولانا احسن الہدی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے اُن کے خلاف سخت توہین آمیز اشتہارات کا سلسلہ شروع ہو گیا.دارالافتاء بریلی نے اُن کے خلاف پے درپے فتاوی دیئے جن کی علاقہ بھر میں وسیع پیمانہ پر اشاعت ہوئی جس سے اُن کی زندگی سخت تلخ ہوئی.

Page 429

تاریخ احمدیت 420 جلد 21 مولوی حبیب الرحمن صاحب نے سالہا سال سے اپنا شیوہ اور معمول بنا رکھا تھا کہ اپنی تقریر میں جب کبھی احمدیت کا ذکر چھیڑتے محمدی بیگم سے متعلقہ پیشگوئی پر ضرور استہزاء کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان اقدس میں ” دیوث نبی کے گستاخانہ الفاظ استعمال کرتے تھے.اب جو مباہلہ کے بعد مخالفت کا محاذ کھلا تو اُن کے کیریکٹر پر بکثرت کتابیں شائع کی گئیں.جن میں مولوی صاحب کی ایک فاحشہ مہر النساء سے داستان معاشقہ کے واقعات درج تھے اور یہ کتا بیں شائع کرنے والے ان کے ہم عقیدہ اہل سنت و الجماعت حنفی بزرگ تھے جن میں بہار کے کئی علماء کرام بھی شامل تھے.مولوی صاحب موصوف کی بے آبروئی انتہا تک پہنچ گئی.لیکن آسمان پر ان کی ذلت ورسوائی کے جو فیصلے ہو چکے تھے ان میں سے ایک اہم فیصلے کی تنفیذ زمین پر ابھی باقی تھی اور وہ یہ کہ ان کے ذمہ کچھ سرکاری لگان باقی تھا جو ایک عرصہ سے وہ ادا نہیں کر رہے تھے.جس پر سرٹیفکیٹ آفیسر جناب کے.ایم.میگراج ڈپٹی کلکٹر و مجسٹریٹ فرسٹ کلاس نے مولوی صاحب کا باڈی وارنٹ جاری کیا اور اس کے تحت وہ حاکم موصوف کے سامنے کورٹ میں حاضر کیے گئے.عدالت نے حکم دیا کہ ملزم سے روپیہ وصول کیا جائے بصورت دیگر اسے سول جیل میں بھیج دیا جائے.یہ 5 مارچ 1963 ء کی تاریخ تھی اور یوم مباہلہ (25 مارچ 1962ء) کی طرح منگل ہی کا دن تھا.مولوی عبد القدوس صاحب مرزا پوری امام مسجد محله شنکر پور بھدرک مولوی حبیب الرحمن صاحب کے چہیتے شاگرد اور منظور نظر ہونے کی وجہ سے بھدرک اور دھام نگر کے معزز تعلیم یافتہ حلقے بالخصوص میاں فیملیز کے لوگ انکو خاص عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور مجالس وعظ میں انہیں خاص اہتمام سے مدعو کیا جاتا تھا.لیکن مباہلہ کے بعد یہ بھی اپنے استاذ کے ساتھ عوام و خواص کے غیظ وغضب کا نشانہ بنے اور حد درجہ ذلیل وخوار ہوئے اور وہ تمام " القابات جلیلہ اور دشنام طرازی جو مولوی حبیب الرحمن صاحب کے حق میں روا رکھی گئی مولوی عبد القدوس صاحب کو بھی وافر حصہ اس کا دیا گیا بلکہ کئی ایک ٹریکٹ اور اشتہارات تو انہی کو مخاطب کر کے لکھے اور ان میں اسقدر ان کی ذلت و اہانت کی گئی کہ الامان والحفیظ.ان اشتہارات میں موصوف کے کارٹون بھی شائع کیے گئے ایک کارٹون میں تو یہاں تک بتایا گیا کہ مفتی بھدرک رشوت لیکر فتوی فروشی کرتے ہیں اور شریعت میں حیلہ و بہانہ اور مکر وفریب کو داخل کر کے فتوے لینے والے کو سکھاتا ہے کہ چند دن کے لئے عیسائی بن جاؤ تا کہ شرعی قیود سے آزادی حاصل ہو سکے اور شریعت اسلامیہ کے احکام تم پر جاری نہ ہو سکیں اور پھر اپنا مقصد حاصل ہونے کے بعد تو بہ کر کے مسلمان ہو جاؤ.مباہلہ سے پہلے مولوی عبد القدوس صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کا ہجوم رہتا تھا مگر مباہلہ

Page 430

تاریخ احمدیت 421 جلد 21 کے بعد ا کثر لوگوں نے ان کی امامت کو خیر باد کہ دیا حتی کہ عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کی تقریبات جو ان حضرات کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتی ہیں نمازیوں کی قلت کے باعث خالی گذر گئیں اور مالی لحاظ سے انہیں سخت دھکہ لگا ان کی نوجوان بیٹی ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہو گئی اور اس کے علاج پر تین صد خرچ ہو گیا.مولوی صاحب کا خیال تھا کہ یہ رمضان اُن کے لئے کمائی کا عمدہ ذریعہ ہوگا.اُن کا ایک بیٹا حافظ تھا اور رمضان شریف میں ثمن قلیل پر تراویح پڑھایا کرتا تھا.انہوں نے سوچا کہ تراویح کی بابرکت آمد سے لڑکی کی شادی کر دی جائے گی مگر وہ رقم بھی ڈاکٹروں کی جیب میں چلی گئی اور اس سال شادی بھی نہ کی جاسکی.غرضیکہ عذاب شدید نے اُن کے گھر میں اسطرح ڈیرہ ڈال لیا کہ ضربت عليهم الذلة والمسكنہ“ کا منظر سامنے آ گیا.مولوی شوکت علی صاحب سابق ہیڈ مولوی مدرسہ نعمانیہ بھدرک خدائے جبار قہار کی جب لاٹھی چلی تو یہ مولوی صاحب بھی اپنے ساتھیوں کی طرح اس کی زد میں آگئے پہلے تو مینجنگ کمیٹی مدرسہ نعمانیہ کے سیکرٹری صاحب نے اُن کی جواب طلبی کی کہ وہ میری اجازت کے بغیر مباہلہ میں شرکت کیلئے سورو کیوں گے تھے؟ کمیٹی میں ان کا معاملہ پیش ہوا تو وہ کھڑے ہو کر جواب دینے لگے مگر سیکرٹری صاحب نے زبردست ڈانٹ پلائی اور کہا اپنی تقریر بند کر دیں.اس کے بعد چند ماہ تک وہ صدر وسیکرٹری کمیٹی کی نگرانی میں بہت سہمے ہوئے کام کرتے رہے اور بالآخر اس نوکری سے بھی نہایت ذلت وخواری سے انہیں ہاتھ دھونا پڑا جس کی بظاہر وجہ یہ ہوئی کہ 16 مارچ 1963ء کو جبکہ میعادمباہلہ کے ختم ہونے میں چند دن باقی تھے وہ سیکرٹری کمیٹی کی ممانعت کے باوجود بالیسر میں وعظ شریف کے لئے گئے.جس پر کمیٹی نے متفقہ فیصلہ کیا کہ مولوی صاحب استعفاء دے کر ملازمت سے علیحدہ ہو جائیں.لیکن مولوی صاحب نے استعفاء دینے سے گریز کیا.کمیٹی نے سٹینڈنگ آرڈر کے ذریعہ نوکری سے ڈسچارج کر دیا اس پر بھی مولوی صاحب نے چارج نہ دیا.کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری نے یہ معاملہ پولیس کے سپرد کرنا چاہا تا بذریعہ پولیس انہیں مدرسہ سے نکلوا دیا جائے.سیکرٹری صاحب اس معاملہ کو طے کرنے کے کیلئے تھانہ جارہے تھے کہ کمیٹی کے ایک ممبر یونس صاحب نے سیکرٹری صاحب سے کہا کہ آپ کچھ وقت رک جائیں میں مولوی صاحب کو سمجھاتا ہوں بالآخر اُن کے سمجھانے پر ہیڈ مولوی صاحب نے بادل ناخواستہ چارج دیا اور بہت بے آبرو ہو کر مدرسہ سے نکال دیئے گئے.وہ رہائشی مکان جہاں وہ مع اہل وعیال قیام پذیر تھے چھن گیا ساتھ ہی مسجد ملاں ساہی کی امامت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا جس کے بعد وہ سر بازار ایک تنگ و تاریک کمرہ میں اپنی زندگی کے دن گزار نے لگے.ایک دن کسی شخص نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ مباہلہ کا کیا معاملہ -

Page 431

تاریخ احمدیت 422 جلد 21 ہے کہنے لگے ارے بھائی دیکھو قا دیانیوں سے سورو میں مباہلہ ہوا تھا.میں بھی اس میں شریک تھا مگر ہمارے بھائی ہمارے پیچھے پڑگئے ہیں میری بے عزتی کرتے ہیں گالی گلوچ کرتے ہیں اگر قادیانی یہ خبر سن پائیں تو بہت برا ہوگا.50 الغرض تینوں صاحبان نے مباہلہ کے بعد ذلت وخواری اور عذاب شدید کا ایسا مزہ چکھا کہ نشان عبرت بن گئے.دوسرے غیر احمدیوں کا حشر مباہلہ میں شامل ہونے والے دوسرے غیر احمدیوں کا حشر بھی بہت عبرتناک ہوا مثلاً 1- حافظ برکت اللہ صاحب امام الصلوۃ جامع مسجد بھدرک جنہوں نے سورو کے میدان مباہلہ میں احمدیوں کے خلاف یا مردود“ کا نعرہ بلند کیا تھا.زنا جیسے شرمناک اور گھناؤنے فعل کا ارتکاب کر کے بھاگ گئے اور خدا اور اس کے بندوں کی نظر میں ہمیشہ کے لئے مردود ہو گئے.2- حافظ برکت اللہ صاحب کے بعد جامع مسجد میں حافظ شوکت علی صاحب کو جو مباہلہ میں شامل تھے امام الصلوۃ مقرر کیا گیا لیکن چند دنوں کے بعد ہی اکثر نمازیوں نے اُن کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا.انہوں نے صحن مسجد کے آخری حصہ میں مدرسہ کاظمیہ کے بعض طلبہ کو لے کر الگ جماعت کرانا شروع کر دی مگر بالآخر کافی تکا فضیحتی اور دھکم دھکا کے بعد مسجد سے نکال دیئے گئے.3- مباہلہ سور و میں جامع مسجد بھدرک کے ملحقہ کمروں میں قائم مدرسہ کاظمیہ کے قریباً ایک درجن طلبہ نے شرکت کی تھی.یہ مدرسہ مولوی حبیب الرحمن صاحب نے اپنے ہم نواؤں کی مدد سے قائم کیا تھا.اس مدرسہ کے طلبہ سور و کو جاتے وقت زور زور سے نعرے بلند کر رہے تھے گویا اُن کی فتح یقینی ہے.مگرا بھی مباہلہ پر تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ان کی کرتوتوں کو دیکھ کر ان پر چاروں طرف سے لعنت و ملامت کی بوچھاڑ شروع ہوگئی.شہر کے قریباً یک صد آدمیوں نے متولی صاحب جامع مسجد اور مسلمانان بھدرک کے نام 28 ستمبر 1962 ء کو تحریری درخواست دی کہ جامع مسجد و مدرسہ کاظمیہ گویا کہ اختلاف وفتنہ وفساد کا گھر بن گئے ہیں.موجودہ کمیٹی جو پارٹی بازی اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتی رہتی ہے اسے توڑ دیا جائے اور مدرسہ کاظمیہ کو مسجد کے ملحقہ مکان سے بالکل ہٹا لیا جائے.چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب کی حامی کمیٹی توڑ دی گئی جس سے مدرسہ کا ظمیہ کے طلبہ گویا یتیم ہو گئے اور ان کی پہلی سی آن بان یکسر ختم ہوگئی.4- سید شمشاد علی صاحب : میدان مباہلہ میں جب محترم مولانا بشیر احمد صاحب فاضل نے مولوی

Page 432

تاریخ احمدیت 423 جلد 21 حبیب الرحمن صاحب کو للکارا اور مباہلہ میں شامل ہونے کا مطالبہ کیا تو اسوقت سورو کے ایک غیر احمدی نے ( جو مباہلہ میں شامل تھا) کہا کہ ہمارا مولوی حبیب الرحمن شیر ہے جس پر مولانا بشیر احمد صاحب فاضل نے فرمایا اگر وہ شیر ہیں تو میرے مقابل پر مباہلہ میں آئیں کیوں گیدڑ بن کر بزدلی دکھاتے ہیں.اس پرسید شمشاد علی ( مولوی حبیب الرحمن کے مرید) نے اپنی جوانی کے گھمنڈ میں آنکھیں دکھا کر کئی بار مولانا بشیر احمد صاحب کی طرف قدم بڑھایا اور کہا کہ ہمارے مولانا کی توہین کرتے ہو.اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے تکبر وغرور کو اس رنگ میں توڑا کہ مباہلہ کے چند دنوں بعد وہ اپنے ماموں سے زمین کے متعلق جھگڑا کرنے لگا جس پر اُس کے سالے نے اس کی جوتوں سے خوب مرمت کی.5- سید کلیم الدین صاحب رئیس سور و مباہلہ میں شامل تھے اور بڑا بول بولنے والے تھے اور سورو کے غیر احمدی مخالفین کے روح رواں تھے یہ صاحب ہندوؤں کے غیظ وغضب کا نشانہ بنے.علاوہ ازیں وہاں کی مسجد کے چندہ کے سلسلہ میں اُن کی پبلک میں سخت بدنامی ہوئی.6- عبدالرشید خاں سورو پر خدا کی طرف سے یہ آفت پڑی کہ گورنمنٹ نے تقریباً ڈیڑھ ہزار کی بھاری رقم بابت سیل ٹیکس اُن سے چارج کی اور مقدمہ میں الجھ کر مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوئے.-7- سید بشیر الدین خلیفہ صاحب سورو.ان صاحب نے میدان مباہلہ میں مولوی حبیب الرحمن صاحب کو شیر اور مبلغ احمدیت مولانا بشیر احمد صاحب کو بھیڑیا کہہ کر خدا کی غیرت کو چیلنج کیا تھا خدائے غیور کا عذاب شدید اس شخص پر چیچک کے شدید حملہ کی صورت میں نمودار ہوا یہی وہ عذاب تھا جس سے ابر ہ کالشکر جر ار تباہ و برباد ہوا تھا.الغرض مولوی حبیب الرحمن صاحب کے تمام ساتھی اور ہمنوا جو اس مباہلہ میں شریک ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر پہلو سے ذلیل ورسوا کر کے رکھ دیا اور وہ لوگوں کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے اور یہ سب واقعات اس لئے ہوئے کہ وہ خدا جو بچوں کا حامی ہے یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میدان مباہلہ میں انہوں نے جو بار بار کہا کہ مرزا صاحب (معاذ اللہ ) جھوٹے نبی ہیں ان کو بتا دے کہ تمہارا کہنا سراسر غلط اور بالبداہت باطل ہے اور ساری دنیا پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی سچائی سورج کی طرح نمایاں کر دے بالآخر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ 25 مارچ 1962 ء کو جب سورو میں مباہلہ ہوا مولانا بشیر احمد صاحب فاضل نے مولوی حبیب الرحمن سے بات چیت کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے وفد کی نسبت ارشاد فرمایا تھا کہ اگر یہ لوگ مباہلہ کرتے تو ایک سال کے اندر اندر اس مباہلہ کا نتیجہ دیکھ لیتے لہذا امدت مباہلہ ایک سال ہوگی.جسے مولوی حبیب الرحمن صاحب نے تسلیم کر لیا لیکن مجمع میں

Page 433

تاریخ احمدیت 424 جلد 21 بعض لوگ بولے کہ اتنی لمبی مدت کی کیا ضرورت ہے.ایک اور صاحب بولے ایک سال بہت ہے.ایک مہینہ میں اس کا نتیجہ ظاہر ہونا چاہیے.خدا کی قدرت !! مباہلہ کے چند دنوں بعد شہر کے حالات نے ریکا یک ایسا پلٹا کھایا کہ ایک مسلمان ڈرائیور کی ایک اخلاق سوز حرکت کی وجہ سے ہندو مسلم کشیدگی نے دیکھتے ہی دیکھتے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا.یہانتک کہ سخت فساد کا خطرہ پیدا ہو گیا.اسی دوران مباہلہ کے ٹھیک ایک ماہ بعد 25 اپریل 1962ء کو یہ افواہ پورے زوروں سے گرم ہو گئی کہ اس دن سورو کے مسلمانوں پر حملہ کر کے انہیں ختم کر دیا جائے گا.یہ افواہ بجلی کی طرح گری جس نے ہر طرف دہشت پھیلا دی سب آہ و بکا کرنے لگے اور سورو سے بھاگ بھاگ کر بھدرک اور بالیسر میں پناہ لینے لگے.اس واقعہ نے سورو کے مخالفین احمدیت کا سارا غرور توڑ دیا اور اُن کی ساری عزت و عظمت خاک میں مل گئی اور خدا کی یہ بات ایک بار پھر پوری آب و تاب سے پوری ہوئی کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا سے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.59 مولا نانیاز صاحب فتحپوری کا حقیقت افروز بیان راولپنڈی کے ایک غیراحمدی دوست نے مولانا نیاز صاحب فتچوری کو لکھا کہ معلوم ہوا ہے کہ جماعت احمد یہ ربوہ کی طرف سے انہیں ساڑھے پانچ ہزار روپے دیئے گئے ہیں.مولانا نیاز فتحپوری نے اپنے موقر ماہنامہ نگارلکھنو ماہ مئی 1962ء میں اس الزام کی سختی سے تردید کی اور لکھا:.ربوہ سے ساڑھے پانچ ہزار کی امدادی رقم ملنے کی جو خبر آپ نے سنی ہے بالکل غلط ہے اور مجھے حیرت ہے کہ آپ نے جو میری افتاد طبع سے پوری طرح واقف ہیں کیونکر اس کا یقین کر لیا کہ جو کچھ میں احمدیت کی موافقت میں لکھ رہا ہوں.وہ نتیجہ ہے اس امداد کا.آج تک میں ربوہ نہیں گیا اور نہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے مل سکا.لیکن ارادہ ضرور ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہاں احمدی جماعت کی تنظیم کا مطالعہ کروں گو میں قادیان جا کر وہاں کی تنظیم کا بڑا گہرا اثر دل پر لے کر آیا ہوں اور ربوہ میں بھی یقینا وہی ہوگا جو قادیان میں دیکھ چکا ہوں بہر حال آپ نے جو کچھ سنا ہے وہ بالکل غلط ہے اور آپ جانتے ہیں کہ جس حد تک میرے ضمیر کا تعلق ہے وہ کسی قیمت پر نہیں خریدا جاسکتا.پچھلے دوسال کے اندر بے شک میں نے میرزاغلام احمد صاحب اور ان کی تحریک کو بہت سراہا ہے لیکن محض بر بنائے حقیقت وصداقت و آزادی ضمیر مجھے معلوم تھا کہ سارا زمانہ احمدی جماعت اور مرزا غلام احمد

Page 434

تاریخ احمدیت 425 جلد 21 صاحب کا مخالف ہے.لیکن جب میں نے خود اس جماعت کے لٹریچر اور اس کے عملی پہلو کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ مخالفت محض بر بنائے عصبیت ہے اور جو الزامات میرزا صاحب موصوف پر قائم کئے جاتے ہیں ان میں صداقت کا شائبہ تک نہیں.سب سے بڑا الزام ان پر یہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ختم نبوت کے قائل نہ تھے حالانکہ اس سے زیادہ لغو ولا یعنی الزام کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا.وہ یقینا ختم نبوت کے قائل تھے اور غالبا اس شغف وشدت کے ساتھ جو ایک سچے عاشق رسول میں پایا جانا چاہیے.وہ اپنے آپ کو بر بنائے تقلید نبوی، رسول کا سایہ اور اسوہ نبوی کا مظہر ضرور قرار دیتے تھے.سو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہر شخص جو رسول اللہ کی زندگی کو سامنے رکھ کر اس کی تقلید کرے وہ ”ظل نبوی“ کہلایا جائے گا اور اگر میرزا صاحب نے عملاً اس کو کر دکھایا تو وہ یقینا ظل نبو سی بھی تھے اور بروز اسوہ رسول بھی.کتنے افسوس کی بات ہے کہ لوگ نہ احمدی جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ اُن کے کارناموں کو دیکھتے ہیں اور محض سنی سنائی باتوں پر اعتماد کر کے اس کی طرف سے بدظن ہو جاتے ہیں.کس قدر عجیب بات ہے کہ مخالفین احمدیت بھی اس کی تنظیم اور اس کی وسعت تبلیغ کے قائل ہیں (جن سے دجال کے دور افتادہ علاقوں میں بھی اسلام کی حقیقت لوگوں پر واضح ہوتی جارہی ہے ) لیکن جس وقت سوال میرزاغلام احمد صاحب کے عقائد وکردار کا آتا ہے تو وہ چراغ پا ہو جاتے ہیں.محض اس لئے کہ ان کے زمانہ میں چند سر پھرے مولویوں نے بر بنائے رشک اپنی نا اہلیت چھپانے کے لئے مرزا صاحب موصوف کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا تھا.آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مرزا صاحب نے 86 سے زیادہ کتابیں اپنی مختصر عمر میں لکھیں اور ان سب کا مقصود صرف یہ تھا کہ وہ دنیا کے سامنے اسلام کو صحیح معنی میں پیش کریں اور مسلمانوں کی ایک باعمل جماعت دنیا میں پیدا کر سکیں سو آپ خود غور کیجئے کہ ان کے مخالفین دس آدمیوں کی بھی کوئی جماعت پیدانہ کر سکے اور مرزا صاحب کی تعلیم کے زیر اثر آج دنیا کے ہر گوشہ میں لاکھوں انسان تعلیم اسلام سے روشناس ہو چکے ہیں اور اس قدر پابندی سے احکام اسلام کے متبع ہیں کہ مجھے تو اس کی مثال کسی بڑے سے بڑے عمامہ بند مولوی میں بھی نہیں ملتی.آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مذہب اسلام کوئی خیالی مذہب نہ تھا اور نہ اس کی بنیاد کسی ذہنی فلسفہ پر قائم تھی بلکہ وہ یکسر عمل ہی عمل تھا اور احمدی جماعت نے اس عملی پہلو کو سامنے رکھ کر اپنی جماعت میں ایک ایسی نئی روح پھونک دی جس کی مثال ہمیں کسی دوسری مسلم جماعت میں اس وقت نہیں ملتی.کس قدر تعجب کی بات ہے کہ وہ افراد جو نماز با جماعت کے پابند ہوں، جو ایام صیام کا پورا احترام

Page 435

تاریخ احمدیت 426 جلد 21 کرتے ہوں، جو صدقہ وزکوٰۃ کی رقم بغیر کسی پس و پیش کے نکالتے ہوں، جولہو ولعب کی زندگی سے متنفر ہوں جو حد درجہ سادہ معاشرت بسر کرتے ہوں، جو کسی وقت بے کا ر زندگی نہ بسر کرتے ہوں، جو ہر وقت ہر انسان کی خدمت کے لئے آمادہ رہتے ہوں، جو صادق القول ہوں، امین ہوں ، عہد و پیمان کے پابند ہوں.ان کو آپ بُرا کہتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ مرزا غلام احمد صاحب کو مہدی موعود سمجھتے ہوں.حالانکہ جس حد تک روایات کا تعلق ہے وہ میرزا صاحب پر منطبق ہو سکتی ہیں.آپ آج کل علیل ہیں اس لئے مطالعہ کتب کا وقت آپ کے پاس کافی ہوگا.اگر نامناسب نہ ہو تو سب سے پہلے میرزا صاحب کی براہین احمدیہ پڑھ ڈالیے اور اس کے بعد ان کی دوسری تصانیف.آپ پر خود واضح ہو جائے گا کہ میرزا صاحب کتنے بڑے انسان کتنے سخت قائل نبوت تھے اور کیسے کیسے چھوٹے انسانوں نے ان کے بلند کردار پر خاک ڈالنے کی کوشش کی.مشرقی پاکستان میں مرکزی وفد اس سال وسط اپریل 1962ء میں مرکز احمدیت ربوہ سے ایک خصوصی مرکزی وفد مشرقی پاکستان میں بھجوایا گیا جو مندرجہ ذیل ارکان پر مشتمل تھا.1 - صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی تحریک جدید (امیر وفد ) 2 مولانا جلال الدین صاحب شمس سابق مجاہد بلا دعر بسیه و انگلستان -3- میاں عبد الحق صاحب رامه ناظر بیت المال ربوه -4 چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ناظر اصلاح وارشاد.5- میرسید داؤ داحمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ.6-صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید.60 7- حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری (رفیق خاص مسیح موعود ) صدر نگران بورڈ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس وفد کی روانگی پر اسکی بنیادی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا:- اس سال کی مجلس مشاورت میں فیصلہ ہوا تھا کہ چونکہ مشرقی پاکستان کی جماعتیں دُور کے علاقہ کی جماعتیں ہونے کی وجہ سے اس بات کی زیادہ حقدار ہیں کہ ان کے ساتھ مرکزی کارکن زیادہ سے زیادہ رابطہ قائم رکھیں اور سال میں کم از کم دو وفد مشرقی پاکستان

Page 436

تاریخ احمدیت 427 جلد 21 بھیجوا کر وہاں کے حالات کا جائزہ لیتے رہیں (اور دراصل یہ فیصلہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر مبنی تھا اسلئے صدر انجمن احمد یہ ربوہ نے اس سال ماہ رواں کے وسط میں مشرقی پاکستان میں دو ناظروں کے بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے.یعنی چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ناظر اصلاح وارشاد اور میاں عبد الحق صاحب رامہ ناظر بیت المال اور دوران اجلاس میں خاکسار کے مشورہ پر اس وفد میں مولوی جلال الدین صاحب شمس ممبر صدر انجمن احمدیہ کے نام کا بھی اضافہ کیا گیا سوان تین ارکان کا وفد صدرانجمن احمد یہ ربوہ کی طرف سے بہت جلد مشرقی پاکستان روانہ ہو جائے گا اور ڈھاکہ کے اس اجتماع میں بھی شرکت کرے گا جو بنگال کے دوستوں کا وسط اپریل میں منعقد ہو رہا ہے.اس کے علاوہ انہی ایام میں گو غالباً سفر کے آغاز کے لحاظ سے ایک دو دن بعد مرکزی کارکنوں کا ایک دوسرا وفد بھی مشرقی پاکستان کی طرف روانہ ہورہا ہے جس میں عزیز مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید اور عزیز مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید اور عزیز میر داؤ داحمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ مرکز یہ شریک ہوں گے اس طرح یہ وفد مجموعی طور پر چھ ارکان پر مشتمل ہوگا اور مشرقی پاکستان کی تبلیغی اور تربیتی اور تنظیمی اور مالی ضروریات کا جائزہ لیکر مرکز میں رپورٹ کرے گا اور اپنی نگرانی میں حسب حالات مشرقی بنگال کے مرکزی عہدیداروں کا انتخاب بھی کروائے گا اور مشرقی پاکستان کے دوستوں کو ان کی پیش آمدہ ضروریات اور مشکلات کے متعلق مشورہ بھی دے گا.اس کے علاوہ انہی ایام میں مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی پیشکش کی ہے کہ وہ اپنے خرچ پر مشرقی پاکستان تشریف لے جا کر دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات سنائیں گے.66 وفد کی کامیاب دینی سرگرمیاں اس وفد کی پہلی پارٹی 12 اپریل کو اور دوسری 14 اپریل کو پہنچی.وفد کا یہ دورہ بہت کامیاب رہا.وفد کے ممبران نے زیادہ سے زیادہ مقامی احباب سے رابطہ پیدا کرنے کیلئے احمدی جماعتوں کی سالانہ کانفرنس منعقدہ دار التبلیغ ڈھا کہ مورخہ 14، 15 اپریل) اور اسکی شورٹی میں شرکت کی اور احباب سے پر اثر خطاب کیا.اس کے بعد وفد نے مختلف جماعتوں کا دورہ کیا اور تیرہ مختلف جماعتوں کے حالات کا

Page 437

تاریخ احمدیت 428 جلد 21 نہایت باریک نظری سے جائزہ لیا.اس دوران 21 اپریل 1962ء کو جماعت احمد یہ چٹا گانگ نے ایک بڑا ہال کرایہ پر لیکر پہلی بار پبلک جلسہ منعقد کیا.جس میں شہر کے ہر طبقہ کے آٹھ سو سے زائد سامعین تھے.ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.جلسہ میں صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ” یورپ میں اسلام“ کے موضوع پر اور مولانا جلال الدین صاحب شمس نے اسلام کامل اور زندہ مذہب ہے“ کے موضوع پر تقاریر فرمائیں.آخر میں بعض سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے.مقامی اخبارات نے اس جلسہ کی مختصر کارروائی شائع کی اگلے روز جلسہ کا اجلاس مسجد احمد یہ چٹا گانگ میں ہوا جس میں مقامی مبلغین کے علاوہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری نے بھی تقریر فرمائی اور حضرت مسیح موعود کے ایمان افروز حالات سنائے.وفد بر همن بڑ یہ بھی گیا جہاں اس ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے.وفد کے ارکان جہاں بھی تشریف لے گئے خواہ شہر ہوں یا دیہات غیر از جماعت دوستوں نے بھی دلچسپی کا اظہار کیا اور قریباً ہر جگہ علمی گفتگو ہوئی.وفد کے دورے سے وہاں کی جماعتوں اور احمدیوں میں کام کی ایک نئی روح پیدا ہوگئی اور ان کو یہ احساس ہوا کہ ہمارے کام کا جائزہ لینے والا اور ہماری مشکلات سنے والا اور ضرورت کے موقعہ پر کوئی ہمدردی کرنے والا موجود ہے.وفد نے واپسی پر اپنے تنظیمی تربیتی اور تبلیغی جائزہ کی مفصل رپورٹ دی.وفد کا تاثر یہ تھا کہ جماعت احمد یہ مشرقی پاکستان کی اکثریت نہایت مخلص احمدیوں پر مشتمل ہے اور ان کے دل میں حضرت مصلح موعودؓ سے بے پناہ محبت ہے اور مرکز کا بہت احترام ہے.البتہ جماعتی تنظیم نہایت درجہ قابل توجہ ہے.دوسری طرف مشرقی پاکستان میں جتنا وسیع تبلیغی میدان ہے.مغربی پاکستان میں نہیں عوام الناس میں احمد بہت سے دلچپسی پائی جاتی ہے.تبلیغ کرنے پر لوگ توجہ سے سنتے ہیں اور استفسار کر کے ہمارا نقطہ نظر سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرتے ہیں.وفد نے اپنی رپورٹ میں صوبائی انجمن ، مالی تنظیم، تبلیغی نظام، لٹریچر اور اقتصادی پروگرام سے متعلق متعد دمفید سفارشات کیں.نگران بورڈ نے ان سفارشات پر حسب ذیل فیصلے صادر کیے.1- صدرانجمن احمدیہ اور دیگر مرکزی ادارے مشرقی پاکستان کی جماعتوں کی براہ راست نگرانی کریں اور خط و کتابت کے سلسلہ میں جوطریق مغربی پاکستان کی جماعتوں کے ساتھ جاری ہے.وہی مشرقی پاکستان کی جماعتوں کے لئے بھی اختیار کیا جائے.2.وفد اور سب کمیٹی نظارت علیا نے سفارش کی تھی کہ ایک سینئر مبلغ سارے مشرقی پاکستان کا مبلغ انچارج ہو.مربیوں کے متعلق ہر قسم کے اختیارات اس کو حاصل ہوں اور پراونشل نظام کا اس کے ساتھ کوئی

Page 438

تاریخ احمدیت 429 جلد 21 تعلق نہ ہو اور موجودہ چار سینئر مبلغوں کے علاوہ کم از کم آٹھ اور مبلغ مبلغ انچارج کے ماتحت صوبائی فورس کے طور پر رکھے جائیں.نگران بورڈ کی طرف سے ہدایت کی گئی کہ اس سلسلہ میں صدر انجمن احمد یہ نظارت اصلاح وارشاد سے جلد ر پورٹ حاصل کر کے نگران بورڈ میں معہ اپنی سفارشات کے ارسال کرے.3- ہر نظارت اپنا تعلق مشرقی پاکستان کی جماعتوں کے ساتھ براہ راست رکھے نظارت بیت المال میں ایک بنگالی جاننے والا کارکن موجود ہے.ایسا کارکن نظارت اصلاح وارشاد کو بھی دیا جائے.4- زیادہ سے زیادہ بنگالی لٹریچر شائع کرنے کی طرف اصلاح وارشاد توجہ کرے.5.صوبائی امیر، مشرقی پاکستان (کی جماعتوں) کے اقتصادی حالات بہتر بنانے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل کریں جو اپنی رپورٹ امیر صاحب کی وساطت سے صدر انجمن احمد یہ کو بھجوائے.( یہ فیصلہ صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی پیش فرمودہ ایک تجویز کی بناء پر کیا گیا ) ان فیصلوں کے علاوہ نگران بورڈ کی طرف سے صدر انجمن احمدیہ کی سفارش پر مشرقی پاکستان کی جماعتوں کے مالی نظام پر ایک کمیشن مقرر کیا گیا.جس نے مجلس مشاورت 1964ء میں یہ رپورٹ پیش کی کہ مشرقی پاکستان کی مقامی جماعتوں کو اسی طرح سے گرانٹ دی جایا کرے جس طرح مغربی پاکستان میں دی جاتی ہے.یہ گرانٹ بالعموم چندہ کی تسلی بخش وصولی کی صورت میں دس فیصدی دی جاتی ہے.مشرقی پاکستان کی صوبائی انجمن کو جو گرانٹ اسوقت دی جاتی ہے.وہ بند کر دی جائے اور صوبائی انجمن کی ضروریات کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا جائے (الف) تبلیغی اور تربیتی ضروریات جس میں اشاعت لٹریچر ، رسالہ احمدی تعلیم ، رساله جلسہ شامل ہیں ان امور کے لئے مرکز جلسہ خود انتظام کرے گا.(ب) صوبائی امیر اور دیگر عہدہ داران کے اخراجات سفر، مہمان نوازی، ڈاک، سرکلر، کلرک، دار التبلیغ، امداد غرباء، ہنگامی اخراجات وغیرہ کے لئے مرکز مناسب گرانٹ دے گا.اسوقت دس ہزار روپیہ گرانٹ کی سفارش کی جاتی ہے.تفاصیل صدر انجمن احمد یہ بعد میں امیر صاحب مشرقی پاکستان کے مشورہ سے طے کرے.مالی کمیشن کی اس رپورٹ کی مجلس شوری کے اکثر نمائندوں نے تائید کی اور حضرت مصلح موعود نے بھی اس رپورٹ کی منظوری عطا فرما دی.یہ انقلابی فیصلے مستقبل میں مشرقی پاکستان کی مخلص جماعتوں کے لئے سنگ میل ثابت ہوئے جن سے اس سرزمین میں اشاعت حق کی رفتار بھی یکا یک تیز ہوگئی اور جماعتی نظم و استحکام میں بھی شاندار اضافہ ہوا نیز آئندہ کے لئے مرکزی وفود کے پہنچنے کی مبارک راہ کھل گئی.

Page 439

تاریخ احمدیت 430 حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا ورود کلکتہ اور پُر اثر خطاب جلد 21 صاحبزدہ مرزا طاہر احمد صاحب دورۂ مشرقی پاکستان کو نہایت کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد عازم مرکز ہوئے اور 1962ء کی شب کو بذریعہ طیارہ کلکتہ پہنچے اگلے روز نماز مغرب کے بعد آپ کی صدارت میں ایک جلسہ منعقد ہوا.جلسہ کی کارروائی سے قبل آپ نے اکثر خدام سے نماز کی مسنون آیات اور ترجمہ پوچھا.خدام حسب لیاقت جواب دیتے رہے بعد ازاں آپ نے احباب جماعت سے ایک اثر انگیز خطاب کیا.آپ نے فرمایا کہ جماعت کی آئندہ ترقی کا انحصار نو جوانوں کے مخلصانہ جوش عمل پر ہے.فکر و عمل میں موہ شان ہی مذہبی جماعت کی زندگی کا ثبوت ہے.جماعت اسوقت تک پھیلتی رہے گی جب تک کہ افراد جماعت کے اندر روح تبلیغ بیدار رہے گی آپ نے حضرت مصلح موعود کی اس عظیم الشان تحریک کا خصوصی ذکر فر مایا کہ ہر احمدی سال میں ایک نیا احمدی بنانے کا عہد کرے.آپ نے فرمایا بھارت جیسے دلیش میں چالیس کروڑ نفوس بستے ہیں.ان کو قبول حق پر آمادہ کرنے میں اگر موجودہ رفتار تبلیغ کو پیش نظر رکھا جائے تو چالیس ہزار سال لگیں گے.جبکہ اس تمدنی دور کے آدم پر صرف ساڑھے چھ ہزار سال گزرے ہیں.کسی قوم کی ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ اتنی طویل مدت تک انتظار نہیں کرتا.احمدیوں کو ترقی کی کوئی نئی راہ نکالنی ہوگی یا طریق کار میں تبدیلی پیدا کرنی ہوگی.حضرت مصلح موعود کے بتائے ہوئے اصول پر چلنے سے بائیس سال میں چالیس کروڑ انسان کی نجات کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے.چالیس ہزار سال اور بائیس سال کا ریاضیاتی تناسب حیرت انگیز تو ہے لیکن حد امکان کے اندر ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے تحریک وقف جدید کی افادیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے تبلیغی نظام کی بہ انداز نوتشکیل کی ہے اور اس کے نتائج خوشکن نظر آرہے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کے اس اثر انگیز خطاب نے نو نہالان احمدیت پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے.احمد یہ بیت الذکر سرگودھا کی تعمیر اور انصاف پسند پریس پاکستان کے مشہور شہر سرگودھا میں مقامی جماعت احمدیہ کی ایک پرانی بیت الذکر عرصہ سے موجود تھی جو ملکی تقسیم کے بعد سرگودھا کی احمدی آبادی کے لئے بالکل ناکافی ہوگئی.جس پر سرگودھا کے دوستوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سرگودھا اور کمشنر صاحب سرگودھا کی خدمت میں اپنی جائز ضروریات پیش کر کے درخواست کی کہ انہیں سرگودھا میں ایک نئی بیت الذکر تعمیر کرنے کیلئے ایک پلاٹ عطا فرمایا جائے جس کی وہ

Page 440

تاریخ احمدیت 431 جلد 21 واجبی قیمت ادا کر دیں گے ان ہر دو افسروں نے اس درخواست کو معقول قرار دیتے ہوئے جماعت کی یہ درخواست منظور کر لی اور مناسب قیمت پر نیوسول لائنز کے علاقہ میں چار کنال کا ایک قطعہ اراضی جماعت احمد یہ سرگودھا کے پاس بیت الذکر کی تعمیر کی غرض سے فروخت کر دیا جماعت کی طرف سے مقررہ قیمت ادا کر دی گئی اور باقاعدہ رجسٹری ہوگئی.چنانچہ جماعت احمد یہ سرگودھا نے میونسپل کمیٹی میں مسجد کا نقشہ بغرض منظوری داخل کرا دیا ، چاردیواری اور محراب کی منظوری پہلے ہی ہو چکی تھی اور جلدی پلاٹ کی چار دیواری مکمل کر کے اس میں با قاعدہ پنچگانہ نماز میں ادا کرنا شروع کر دی گئیں.ابھی نمازوں کی ادائیگی پر ڈھائی ماہ ہوئے تھے کہ غیر از جماعت عناصر میں سے بعض متعصب لوگوں نے بعض بالائی افسروں تک بے جا شکائتیں پہنچا کر شور مچانا شروع کر دیا کہ احمدیوں کو اس جگہ مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہ دی جائے.اس سلسلہ میں ایک وفد کمشنر صاحب سرگودھا سے ملا جنہوں نے ارکانِ وفد کو یقین دلایا کہ اس بات کا فیصلہ ہونے تک کہ قادیانیوں کی یہ بیت الذکر تعمیر ہونی چاہیے یا نہیں اس کی تعمیر روک دی جائے گی اور اس کا فیصلہ عیدالاضحی (15 مئی 1962 ء) کے بعد جلدی کر دیا جائے گا.اس خبر پر ہفت روزہ شعلہ (سرگودھا) نے 20 مئی 1962 ء کی اشاعت میں احمدیوں کی بیت الذکر کی تعمیر کے زیر عنوان لکھا:.یادر ہے کمشنر سرگودھا نے 10 اپریل کو قادیانی جماعت کی درخواست پر نیوسول لائنز کے علاقہ میں مسجد کی تعمیر کے لئے پرائیویٹ معاہدے کے تحت چار کنال زمین-/1388 روپے فی کنال کے حساب سے فروخت کرنے کی منظوری دے دی تھی اور قادیانیوں نے نہایت تیزی سے میونسپل کمیٹی سے نقشہ منظور کرا کر مسجد کی تعمیر شروع کر دی تھی.مسجد قریباً تین فٹ اونچائی تک تعمیر ہو چکی ہے اور تعمیر نہایت تیزی سے جاری ہے وغیرہ ہم نہیں جانتے کہ حکام اعلیٰ اس مسئلہ کو کس طرح حل کریں گے یا کیسے حل کر چکے ہیں البتہ ہم حیران ہیں کہ کمشنر صاحب سرگودھا ڈویژن نے وفد کے خیالات سننے کے بعد مذکورہ مسجد کی تعمیر روک دینے کا احساس کیوں فرمایا ہے.کیا انہیں مذکورہ مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں عام مسلمانوں کے جذبات یا رد عمل کا احساس اُس وقت نہیں ہو سکا تھا.جب وہ مذکورہ مسجد کی زمین کی فروخت کی منظوری دے رہے تھے.

Page 441

تاریخ احمدیت 432 ہم عام مسلمانوں کی اس ذہنیت پر بھی متاسف ہیں کہ احمدیوں کی مسجد بنے پر تو وہ بے حد مشتعل ہو جاتے ہیں.اگر چہ وہ با قاعدہ طور پر جگہ حاصل کر کے اور متعلقہ ادارے سے نقشه منظور کرا کر ہی بنائی جائے.لیکن خود عام محلوں ،گلی کو چوں اور سڑکوں پر جہاں جی میں آئے راتوں رات مسجد میں تعمیر کرنے کی سعادت حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں بے حد بے باک ہیں اور اس ضمن میں زمین کے مالک سے اجازت لینا اور کسی متعلقہ ادارے سے نقشہ منظور کرانے کا تکلف بھی گوارا نہیں کرتے.دراصل ہمارے خیال کے مطابق مسلمانوں میں احمدیوں کے خلاف ناگوار حد تک تعصب پھیل گیا ہے اور بعض سستی شہرت حاصل کرنے کے خواہشمند ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں جس میں حصہ لیکر وہ عوام کی نظروں میں خدا پرست اور اسلام پرست بننے کا شرف حاصل کر سکیں.یہ مذکورہ مسجد روکنے رکوانے میں بھی ایسے ہی ”خدام ملک وملت کی مساعی بروئے کار آ رہی ہیں ورنہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے تو اس ایک لاکھ کی آبادی کے شہر میں اگر احمدی فرقہ کے لوگوں کو بھی ایک مسجد تعمیر کر لینے دی جائے تو کونسی قیامت آجائے گی.66 جلد 21 اسی طرح اخبار پیام قائد سرگودھا (21 مئی 1962ء) نے سید اقبال حسین صاحب کرمانی ممبر مجلس عاملہ آل پاکستان ادارہ تحفظ حقوق شیعہ سرگودھا کا حسب ذیل بیان شائع کیا:- آج کل سرگودھا میں جماعت احمدیہ کی جامع مسجد تعمیر ہونے کے خلاف بعض مفاد پرست لوگ خواہ مخواہ شور پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں افسوس کہ ذمہ دار احباب کیوں اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے اور ایسے شر پسند عناصر کے ابھرنے میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتے.کسی جماعت کے مسجد تعمیر کرنے میں مخالفت پیدا کرنا اپنے اندر سوائے شرارت کے اور کوئی چیز نہیں رکھتی.ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں حکومت کی طرف سے عطا کردہ جگہوں اور متعدد بلا منظوری جگہوں پر مساجد تعمیر کر دی گئی ہیں.سوائے جماعت احمدیہ کے کہ انہوں نے باقاعدہ قانونی طور پر حصول اراضی کی کوشش کر کے اب تعمیر کرنا شروع کی.حکومت کو چاہیئے کہ بروقت حالات کا صحیح اندازہ کر کے ایسے مفاد پرست عناصر کو ان کی من مانی کارروائی سے روک دیں قبل اس کے کہ ایسے حالات پیدا ہو جا ئیں کہ ملک کا امن تہ و بالا ہو اور غیر ممالک میں ہمارے ملک کی رسوائی ہو.“

Page 442

تاریخ احمدیت 433 جلد 21 اس اخبار نے 28 مئی 1962ء کو "جامع مسجد جماعت احمد یہ سرگودھا“ کے عنوان سے درج ذیل ادار یہ بھی سپرد قلم کیا :- اخبار وفاق مورخہ 19 مئی کا شمارہ اس وقت ہمارے سامنے ہے اور ہم افسوس کے ساتھ بار بار ان چند سطور کو پڑھتے ہیں جو جماعت احمد یہ سرگودھا کی جامع مسجد تعمیر کرنے کے بارے میں ایک عرضداشت کے ذریعہ مملکت کے سر براہ کی خدمت میں بھیجی گئی ہے.اس عرضداشت میں مندرجہ ذیل وجوہ کی بناء پر صدر مملکت کی خدمت میں گزارش کی گئی ہے کہ جماعت احمدیہ کو نیوسول لائن میں مسجد بنانے سے روک دیا جائے.1- اس علاقہ میں مرزائیوں کا ایک گھر بھی نہیں ہے.2- یہ جگہ مقامی گرلز ہائی سکول کے قریب ہے.3.اس جگہ سے اہل سنت والجماعت کی عید گاہ 300 گز کے فاصلہ پر ہے.4- سرگودھا میں قادیانیوں کی تعدا د سمندر میں قطرہ کے مترادف ہے.ہم نے غیر جانبداری سے ان وجوہ کی چھان بین کی ہے اور افسوس ہے کہ ان میں ایک بات بھی وزن دار ثابت نہ ہو سکی.حقیقت بھی یہی ہے کہ اس امر یا میں احمدیوں کے تقریب بارہ سے پندرہ گھرانے آباد ہیں اور مزید تحقیق کے مطابق کسی ایک بلاک میں احمدیوں کی اتنی کثیر تعداد یکجا آباد نہیں ہے.2- گرلز سکول مسجد کی جگہ سے کافی فاصلہ پر ہے.بہت سوچ بچار کے باوجود اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی کہ مسجد کے قرب سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے اور ایک محتاط اندازہ کے مطابق سینما ہاؤس اور ٹرک سٹینڈ ، سبزی منڈی اس سے زیادہ قریب ہیں.3- عیدگاہ ضرور قریب واقع ہے لیکن اس میں داخلہ کا راستہ کوٹ دیواسنگھ کی سڑک پر ہے اور پھر اس میں ہجوم کی آمد صرف سال میں دوبار ہوتی ہے.ایک فرقہ کی عبادت گاہ کا دوسرے فرقہ کی عبادت گاہ سے اگر کوئی فاصلہ ضرور ہونا چاہیے تو ہم ان احباب سے دریافت کرتے ہیں کہ 19 بلاک میں واقع مسجد اہلحدیث اور شیعہ حضرات کا مدرسہ دار السلام محمد یہ صرف ایک گلی یعنی زیادہ سے زیادہ 8 فٹ کے فاصلہ پر کبھی تنازعہ کا موجب نہیں ہے.پھر جماعت احمدیہ کے افراد آج تک جہاں نماز عید ادا کرتے چلے آرہے ہیں وہ دوسرے فرقہ کے عید پڑھنے کے مقام سے بالکل ملحق ہے اور داخلہ کا بھی ایک ہی راستہ ہے جب اس قدر قریب میں نماز عید ادا کرنے میں کوئی عیب نظر نہیں آیا تو عید گاہ سے تین سو گز کے فاصلہ پر جامع مسجد کی تعمیر پر کیا معقول

Page 443

تاریخ احمدیت 434 جلد 21 اعتراض وارد ہو سکتا ہے؟ 4 چوتھی وجہ وجود کوضرور تسلیم کرتی ہے اور جب سرگودھا میں تمام فرقہ ہائے اسلام کو مسجد تعمیر کرنے کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے جگہیں دی گئیں تو پھر اس خاص فرقہ سے کیوں سوتیلوں والے سلوک کوروا رکھنے کی فہمائش کی جاتی ہے.ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ سمندر میں قطرہ افراد پچاس ہزار روپیہ سالانہ کے قریب با قاعدہ بجٹ کی صورت میں تبلیغ اسلام اور بیرونی غیر اسلامی ممالک میں مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ مہیا کرتے چلے آ رہے ہیں اور اُن کی یہ مستقل قربانی جو انہوں نے خوشی سے اپنے اوپر فرض کر رکھی ہے دوسروں کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے.حکومت کے لئے ان سب امور کو سوچنے کا دراصل وقت زمین کی عطا ئیگی سے قبل تھا اور اب جبکہ مسجد کی تعمیر کیلئے حکومت کے ذمہ دار افسران ایک جگہ منظور کر کے دے چکے ہیں وہاں پر مسجد تعمیر ہو چکی ہے اور با قاعدہ طور پر نمازیں ادا ہورہی ہیں تو پھر کسی شر پسند عصر کے خوامخواہ شور سے ہم حیران ہیں کہ تعصب اور بیجا دشمنی انسان کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتی ہے اور اندھی مخالفت غلط دلائل پیش کرنے پر مجبور کر دیتی ہے.ان حالات میں حکومت کے لئے معاملہ کی صحیح پوزیشن کو دیکھنا یقینا آسان اور واضح ہے.حضرت مرزا عبدالحق صاحب امیر صوبہ پنجاب کا بیان ہے:.سالہا سال کی کوشش کے بعد جماعت احمد یہ سرگودھا کو 1961ء کے قریب بیت الاحمدیہ کیلئے 4 کنال زمین حکومت سے خرید کرنے کی اجازت ملی رجسٹری بیع ہوگئی قبضہ مل گیا اور انتقال ہو گیا تو مولویوں کا ایک وفد نواب صاحب کالا باغ ( جو اسوقت گورنر مغربی پاکستان تھے ) کے پاس گیا انہوں نے اس بیع کو منسوخ کر دینے اور قبضہ واپس لینے کا حکم دیا.ہم نے اس حکم کے خلاف عدالت عالیہ ہائی کورٹ لاہور میں رٹ دائر کی لیکن یہ رٹ 12 جون 1963ء کو اس بناء پر خارج کر دی گئی کہ اسکے متعلق با قاعدہ دعویٰ عدالت دیوانی میں ہونا چاہیے بیت الاحمدیہ کا کچھ حصہ اسوقت بن چکا تھا.عدالت عالیہ ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف ہم نے سپریم کورٹ میں اپیل کی وہاں ہماری اپیل منظور ہوئی اور کیس واقعات کی بناء پر فیصلہ کرنے کیلئے ہائیکورٹ کو ریمانڈ کیا گیا.ہائیکورٹ نے بالآخر ہماری رٹ 73-1972ء میں منظور کر لی اور ہمیں اس جگہ بیت الاحمدیہ بنانے کی اجازت دے دی.حکومت نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل نہ کی اس لئے یہ فیصلہ حتمی ہو گیا اور ہم نے 1973 ء میں بیت الاحمدیہ کی تعمیر شروع کر دی.

Page 444

تاریخ احمدیت 435 جلد 21 1973-74 ء میں جو فسادات ختم نبوت والوں کی طرف سے بر پا کیے گئے ان میں اس بیت الاحمدیہ کا سارا سامان جو جائے تعمیر پر موجود تھا ( سریہ، سیمنٹ، اینٹیں وغیرہ ) وہ سب اردگرد سے لوگ آکر لوٹ کر لے گئے اور درخت جو اس جگہ اُگے ہوئے تھے سب کاٹ کر لے گئے.سارا دن اس غرض کیلئے انکے رہڑے چلتے رہے.1974 ء میں ہی ہم نے پھر اسکی دوبارہ تعمیر شروع کر دی جو 1975ء میں لکھوکھا روپیہ کی لاگت سے پایہ تکمیل کو پہنچی.اس تعمیر کے انچارج مکرم ڈاکٹر عبداللطیف صاحب مرحوم تھے.جنہوں نے اپنے پاس سے بھی اس کیلئے ایک لاکھ روپے سے زائد خرچ کیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.انکے صاحبزادے مکرم ڈاکٹر عبدالشکور صاحب بھی انکے ساتھ اس کام میں شریک رہے ویسے اسکی امداد میں سرگودھا کی ساری جماعت شامل تھی.اللہ تعالیٰ سب بھائیوں کو جزائے خیر دے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسمیں از راہ کرم توجہ اور مدد فرمائی.پاکستان میں عیسائیت کی سرگرمیاں اور جماعت احمد یہ مرزا عبدالحق امیر جماعت احمد یہ سرگودھا 05-03-1987 قیام پاکستان کے بعد جب متعصب اور فرقہ پرست علماء نے ملک میں منافرت کی آگ بھڑکانا شروع کی تو عیسائی مشنوں کا زور بڑھ گیا اور سینکڑوں مسلمان عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے اور سرکاری مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق 1950ء سے 1961 ء تک مسیحی آباد میں 34.9 فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو گیا اس افسوناک صورت حال کے پیش نظر جماعت احمدیہ نے اپنے محدود ذرائع اور مشکلات کے با وجود عیسائیت کی روک تھام کیلئے اپنی سرگرمیاں پہلے سے تیز تر کر دیں.وقف جدید کے معلمین ، مربیان سلسلہ نے رد عیسائیت کی طرف خصوصی توجہ دی مرکزی اداره نشر واشاعت کی طرف سے اس ضمن میں کثرت سے لٹریچر شائع کیا گیا.ادارہ کے بعض ٹریکٹ اسلامک ریسرچ سینٹرلاہور کے ذریعہ چھپے اور ملک میں تقسیم ہوئے.اس ادارہ نے 62-1961ء میں حضرت مسیح موعود کی کتاب ”سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب اور چشمہ مسیحی“ کے علاوہ رد عیسائیت میں جوٹریکٹ چھپوائے ان میں سے بعض کا نام یہ ہے.ندائے حق ( حضرت میر محمد اسحاق صاحب ) مباحثہ مصر ( مولانا ابوالعطاء صاحب)

Page 445

تاریخ احمدیت 436 جلد 21 بائبل کی الہامی حیثیت.پادری عبدالحق کی غلط تفسیر.آنحضرت کی پیشگوئیاں بائبل میں.کیا مسیح علیہ السلام زندہ ہیں؟ عہد کا رسول.ایک نئی انجیل کا انکشاف.بعد ازیں پاکستان کے احمدی پریس نے بھی رڈ عیسائیت کے باب میں اپنی ذمہ داریوں کو بڑی قابلیت سے نبھایا.چنانچہ روزنامہ ”الفضل“ میں اس موضوع پر ٹھوس مضامین چھپے رسالہ ریویوآف ریلیجنز (انگریزی) کی طرف سے صوفی عبد الغفور صاحب امریکہ کا ایک اہم مضمون Challenge to Church‘ دودفعہ بصورت پمفلٹ شائع کیا گیا.6 خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب نے رسالہ ” الفرقان کا ایک ضخیم عیسائیت نمبر (اکتوبر نومبر 1962ء) شائع کیا جو نہایت موثر اور مفید مضامین پر مشتمل تھا.بعض اہم مضامین کے عنوان یہ تھے :- وو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے بڑھاپے کی تصویر (جناب شیخ عبدالقادر صاحب محقق عیسائیت) بائیل میں آنحضرت ﷺ کی واضح بشارات ( پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے) قربانی کا برہ اور اس کی صفات ( ملک محمد مستقیم صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری) موجودہ عیسائیت عقل کی کسوٹی پر ( حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) پولوس.موجودہ عیسائیت کا بانی ( مولوی محمد اجمل صاحب شاهد مربی سلسلہ مقیم پیشاور ) مولانا ابوالعطاء صاحب نے جہاں ”الفرقان کا عیسائیت نمبر شائع کر کے مفید حوالوں کا بیش بہا ذخیرہ جمع کر دیا وہاں 1962ء میں ہی مسیحیوں کے مایہ ناز پادری عبدالحق صاحب سے الوہیت مسیح کے موضوع پر تحریری مناظرہ کر کے انہیں شکست فاش دی پادری صاحب موصوف دو پرچے لکھنے کے بعد بالکل لا جواب ہو گئے اور آئندہ جواب لکھنے سے ہی انکار کر دیا.جس پر مولانا صاحب نے چند ماہ بعد مباحثہ کی تفصیلی روداد ” تحریری مناظرہ کے نام سے شائع کر دی یہ کتاب عیسائیوں کے مقابلہ میں نہایت موثر دستاویز ہے اور ر صلیب کی منہ بولتی شہادت !! مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:.”پڑھے لکھے مسلمانوں کے لئے پڑھنے کے قابل ہے پادری صاحب کی تحریروں میں قدیم یونانی معقولات کی اصطلاح کی بھر مار اور درشت کلامی اور حریف پر مسلسل ذاتی حملے نمایاں ہیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام ضلع ملتان کے احمدی دوستوں کے نام مارچ 1962 ء میں ضلع ملتان کے احمدیوں کا ایک تربیتی اجتماع منعقد ہوا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس موقع پر مولوی محمد شفیع صاحب اشرف مربی سلسلہ احمدیہ کی درخواست پر حسب ذیل مختصر مگر نہایت روح پرور پیغام عنایت فرمایا :-

Page 446

تاریخ احمدیت 437 وو برادران ملتان السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے معلوم ہوا ہے کہ ملتان میں جماعت احمد یہ ایک ضلع وارا اجتماع تربیتی نکتہ نگاہ سے منعقد کر رہی ہے اور مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں بھی اس موقعہ پر چند نصیحت کے کلمات کہہ کر شرکت کا ثواب حاصل کروں.سو ہر چند کہ میں کچھ عرصہ سے بیمار اور کمزور ہوں.مگر ملتان کے قدیم اور تاریخی شہر کی اہمیت کے پیش نظر میں اس مبارک موقعہ کی شرکت سے محروم نہیں رہنا چاہتا اور ذیل میں ایک مختصر سا پیغام بھجوار ہا ہوں.جیسا کہ سب جانتے ہیں برعظیم پاک و ہند کا وہ خطہ جو سب سے پہلے اسلام کے زیر اثر آیا وہ سندھ کا علاقہ تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی مسلمانوں نے اسلام کے نور سے منور کر دیا تھا.ملتان گویا اسی مبارک علاقہ کا دروازہ ہے.اسی لئے وہ قدیم زمانہ سے صلحاء کا مولد و مسکن رہا ہے اور اس میں گورستانوں کی کثرت بھی ایک حد تک ای حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے.پس اب جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اسلام پر دینی اور روحانی لحاظ سے کمزوری کا دور آیا ہوا ہے ہمارا فرض ہے کہ اس تاریخی علاقہ کی اصلاح اور ترقی کی طرف خاص توجہ دیں اور دنیا کو بتادیں کہ ہم خدا کے فضل سے احسان فراموش نہیں بلکہ جہاں جہاں سے ہمارے ملک کو ابتدا میں نو ر پہنچا ہے.ہم اس کی خدمت....کے لئے ہر طرح آمادہ اور ایستادہ ہیں.یہ خدمت آپ لوگ دو طرح سے بجا لا سکتے ہیں.اول اس طرح کہ خود اسلام کی تعلیم کا سچا نمونہ بنیں اور آپ کے چہروں پر اسلام کا نور اس طرح چمکتا ہوا نظر آئے جس طرح کہ ایک صاف اور صیقل شدہ آئینہ میں سورج کا عکس نظر آتا ہے.صحابہ کرام کی زندگیاں آپ لوگوں کے سامنے ہیں انہوں نے اسلام کی تعلیم کو اس طرح اپنے اندر جذب کیا کہ مجسم نور بن گئے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگر داس طرح گھومنے لگ گئے.جس طرح کہ چاند سورج کی شکل اختیار کر کے اس کے ارد گرد گھومتا ہے.انہوں نے قربانی اور و فاداری کے جذبہ کو انتہاء تک پہنچادیا اور سچ مچ رسول پاک کے ہاتھ پر بک گئے اور نیکی اور اخلاص کا ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا کہ تاریخ اسکی نظیر لانے سے عاجز ہے.خدمت کا دوسرا طریق یہ ہے کہ جو حق آپ کو حاصل ہوا ہے اسے دوسروں تک پہنچائیں اور جلد 21

Page 447

تاریخ احمدیت 438 جلد 21 دن رات کی کوشش کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی حقیقت پر قائم کریں اور نہ صرف خود پاک ہوں بلکہ اپنے ماحول کو بھی پاک کریں اور امن اور محبت کے طریق پر دنیا کو اسلام کی روح کی طرف کھینچیں اور کھینچتے چلے جائیں.اس وقت دنیا صداقت کی پیاس میں مری جاتی ہے.آپ کے پاس خدا کے فضل سے وہ آسمانی پانی موجود ہے.جس کا ہر چھینٹا اور ہر قطرہ زندگی بخش ہے.دنیا ابھی تک اس آب حیات کو شناخت نہیں کرتی مگر آپ لوگ اس کی روح پر در صفات کا ذوق پاچکے ہیں.پس دوستو اٹھو اور سستیوں کو چھوڑ واور نہ صرف خود ابدی زندگی اختیار کرو بلکہ دنیا کوبھی زندہ کرنے میں لگ جاؤ کہ اسی پر اسلام کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور چاہیے کہ احمد یہ جماعت کا ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچہ اور ہر بوڑھا اسلام کی ایک جیتی جاگتی تصویر بن جائے اور اسلام کی خدمت میں اس جہادا کبر کا نمونہ پیش کرے جس کی ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہماری جماعت کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے قول و فعل سے ہمیں تعلیم دی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اس مقدس مقام پر فائز کرے جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ منهم من قضى نحبه و منهم من ينتظر یا درکھو کہ یہ خاص خدمت کا زمانہ ہے پس بکوشید اے جواناں تابدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا والسلام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے حج بدل خاکسار.مرزا بشیر احمد ربوہ 17 مارچ 1963 ء 79¢ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب عرفان الہی اور عشق رسول کا چلتا پھرتا پیکر تھے اور آپ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ارض حرم کیلئے محبت و شیفتگی کا عدیم المثال جذ بہ موجزن تھا.اسی جذبہ کے پیش نظر آپ نے اس سال حکیم عبد اللطیف صاحب شاہد گوالمنڈی لاہور کو اپنی طرف سے حج بدل کا فریضہ ادا کرنے کیلئے بھجوایا.محترم حکیم صاحب 28 مارچ 1962 ء کو ربوہ سے روانہ ہوئے اور حرمین شریفین کی زیارت کے بعد وسط جولائی 1962ء میں واپس پہنچے.روانگی کے موقع پر حضرت صاحبزادہ 81

Page 448

تاریخ احمدیت 439 جلد 21 صاحب نے اپنے قلم مبارک سے انہیں درج ذیل ہدایات دیں جن پر انہوں نے حتی المقدور پوری طرح عمل کیا اور اس مبارک سفر کے آغاز سے لیکر اختتام تک دعاؤں میں مصروف رہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی یہ بیش قیمت اور زریں ہدایات احمدی حجاج کے لئے مشعل راہ ہیں.آپ نے تحریر فرمایا کہ :- ”بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود مکرم و محترم مولوی عبد اللطیف صاحب شاہد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ (1) آپ میری طرف سے فریضہ حج ادا کرنے کے لئے ارض حرم میں تشریف لے جار ہے ہیں.اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کے ذریعہ میری دیرینہ آرزو کو بصورت احسن پورا فرمائے اور آپ کے ذریعہ میرے حج کو بہترین برکات کے ساتھ قبول کرے اور مجھے اس کے بہترین ثواب سے نوازے اور آپ کو بھی اس کے ثواب سے حصہ عطا کرے کیونکہ آپ میرے حج کا واسطہ بن رہے ہیں.ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم ونرجوامنك خيرا الثواب وخير الدنيا والآخرة (2) جو ہدایات میں نے محترم احمد صاحب کو ام مظفر احمد کی طرف سے حج بدل کرنے کے موقعہ پر لکھ کر دی تھیں ان کو بھی غور سے پڑھ لیں اور انہیں ملحوظ رکھیں.(3) سارا سفر در دو سوز کی دعاؤں میں گزاریں اور سورۃ فاتحہ اور درود پر بہت زور دیں اور اپنے قلب میں رفت اور حضور کی کیفیت پیدا کریں اور ہر وقت یہ تصور رکھیں کہ آپ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور اس مقدس زمین میں جارہے ہیں جو خدا کے محبوب کی زمین ہے.جس میں صحابہ جیسی مقدس جماعت نے جنم لے کر دنیا کو نو رو برکت سے بھر دیا اور رات کی تاریکی کو دن کی روشنی میں بدل دیا.(4) پہلی نظر میں جو آپ کی بیت اللہ پر پڑے اس میں ذکر الہی کو بلند کرتے ہوئے یہ عرض کریں کہ اے ارض حرم اور اے بیت عقیق میں تجھے خدا کے عاجز بندے مسیح موعود کے ایک نالائق فرزند بشیر احمد کا سلام اور دعائیں پہنچاتا ہوں.خدا کا عاجز بندہ اپنی بے شمار کمزوریوں کے باوجود اپنے خالق و مالک اور حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر اس زمانہ میں رسول پاک کے نائب حضرت مسیح موعود کے ساتھ شدید محبت اور عقیدت رکھتا ہے.سو اے آسمانی آقا میں تیرے اس بندے کی طرف سے عرض کرتا ہوں کہ تو اس کی کمزوریوں سے درگزر فرما اور اس کا انجام بخیر اور قیامت کے دن اسے اس گروہ میں شامل فرما جو تیرے حبیب کی بشارت کے مطابق حساب کتاب کے بغیر بخشش پائے گا اور تیری رضا کا وارث بنے گا اور تو

Page 449

تاریخ احمدیت 440 جلد 21 اسے اور اس کی نسل کو ہمیشہ اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھ.(5) جماعتی دعاؤں میں سورۃ فاتحہ اور درود کے علاوہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے بہت دعا کریں.حضرت صاحب کی صحت کے لئے اور خاندان حضرت مسیح موعود کے لئے اور ام مظفر کے لئے اور عزیز مظفر احمد کی اولاد کے لئے اور میری جملہ اولاد کے لئے اور مرکزی کارکنوں کے لئے اور جماعت کے امراء کے لئے اور حضرت مسیح موعود کے ( رفقاء) کیلئے اور تمام جماعت کے لئے سارے سفر کے دوران میں اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں در دوسوز کے ساتھ دعائیں کریں.(6) مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں عرب قوم اور عالم اسلام کے لئے بھی خاص طور پر دعا کریں کیونکہ ان کے ذریعہ ہمیں اسلام کا ابتدائی نور پہنچا ہے اور یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو کمزوری کی حالت میں سے نکال کر پھر طاقت اور غلبہ اور روحانی نور کا جلوہ عطاء کرے.(7) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کی زیارت حاصل ہو تو اس عاجز کا محبت بھر اسلام پہنچائیں اور حضور کے مزار مقدس کے سامنے کھڑے ہو کر وہ سب دعا ئیں دہرائیں جوا و پرلکھی گئی ہیں اور میرا دل حضور کے سامنے رکھ دیں.(8) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جملہ خاندان اور ہمارے ماموؤں اور ان کی اولاد کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کی جملہ اولاد ذكور واناث کے لئے بھی خاص دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور تقویٰ پر قائم رکھے اور جماعت کے لئے نمونہ بنائے اور ان کو دین کی نمایاں خدمت کی توفیق دے.حضرت خلیفہ اول کی اولاد کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیکی کی توفیق دے اور غلطیوں کی اصلاح کا رستہ کھولے اور خلافت کے ساتھ مخلصانہ وابستگی نصیب کرے.(9) یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری تمام دعاؤں کو قبول فرمائے اور ان تمام نیک خواہشات کو پورا کرے جو جو میرے دل میں بچپن سے لے کر اس وقت تک وقتا فوقتا پیدا ہوئی ہیں اور میرے نفس کو اس طرح اپنی محبت اور تقویٰ کے ذریعہ دھودے كما ينقى الثوب الابيض من الدنس.اور مجھے قیامت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قرب اور حضور کی خوشنودی حاصل ہو اور میرے جملہ عزیز بھی آخرت میں میرے ساتھ رہیں.(10) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ( رفقاء) کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیک زندگیوں میں برکت دے اور ان کے روحانی فیوض کو لمبا کرے اور جماعت کے نو جوانوں کو توفیق دے کہ اُن سے تقویٰ اور روحانیت کا سبق سیکھیں اور یہ نیکی کا ورثہ قیامت تک چلتا چلا جائے.الغرض ارض حرم سے اپنی

Page 450

تاریخ احمدیت 441 جلد 21 جھولی پوری طرح بھر کر واپس آئیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ میرے حج کو بہترین صورت میں قبول کرے اور آپ کو بھی جو نیک دعائیں آپ کو یاد ہوں یا خیال میں آئیں وہ بھی سب کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو بہترین دعاؤں کی توفیق دے.الغرض اس سفر میں اور ارض حرم میں مجسم دعا بن جائیں.میں نے یہ مختصر نوٹ بیماری کی حالت میں لکھے ہیں مگر جو کچھ میں نے لکھا ہے میرے دل میں اس سے بہت کچھ زیادہ نیک آرزوئیں اور نیک حسرتیں ہیں اللہ تعالیٰ میرے عمل کے مطابق نہیں بلکہ دل کی آرزؤں کے مطابق مجھ سے سلوک فرمائے آمین.سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد 19-03-62 جامعہ احمدیہ میں رڈ عیسائیت کی ٹرینینگ کا خاص انتظام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ کو پے در پے تین مکتوبات تحریر فرمائے جن میں زور دیا کہ اس مرکزی درسگاہ کے طلبہ میں مقابلہ عیسائیت کی ٹریننگ کا خاص انتظام ہونا چاہیے.آپ کے خطوط کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے:.1 - مکرمی محترمی پرنسپل صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اہم ترین اغراض میں سے ایک غرض کسر صلیب ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود نے اپنی زندگی میں مسیحیت کے باطل خیالات کے خلاف زبر دست جہاد جاری رکھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن اور انجیل اور دیگر شواہد سے فوت شدہ ثابت کر دیا.مگر کچھ عرصہ سے بعض احمدی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ گو یا وفات مسیح کا مسئلہ صرف احمد یوں اور غیر احمدیوں کے درمیان تعلق رکھتا ہے حالانکہ اس کا زیادہ تعلق مسیحیت کے ساتھ ہے.آپ مہربانی کر کے اپنے طلباء میں اس مسئلہ کی اہمیت سمجھانے کی بار بار کوشش فرمائیں اور مسیحیت کے مقابلہ پر طلباء کی خاص ٹرینگ کا انتظام کریں.وفات مسیح کا مسئلہ در اصل دو دھاری تلوار ہے ایک طرف وہ غیر احمدیوں کے باطل

Page 451

تاریخ احمدیت 442 جلد 21 خیالات کا قلع قمع کرتی ہے اور دوسری طرف وہ مسیحیت کے قلعے پر ایک ایسی بمباری کا حکم رکھتی ہے جو گویا ایک ہی ضرب میں مسیحیت کا خاتمہ کر دیتا ہے.آپ ضرور اس طرف خاص توجہ دیں اور اپنے طلباء کو اس مسئلہ کی اہمیت سمجھا ئیں تا کہ کسر صلیب کا کام تکمیل کو پہنچ جائے.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں مسیحی مشنریوں نے اپنا بوریا بستر اباندھنا شروع کر دیا تھا مگر اب پھر انہوں نے کچھ عرصہ سے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونی ممالک میں بھی سر اٹھانا شروع کیا ہے آپ کی درسگاہ چونکہ جماعت کا آرسنل (ARSENAL) ہے اس لئے آپ کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد 02-04-28 2- عزیزم مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ آپ کا مفصل خط 62-05-148/24 موصول ہوا.خدا کے فضل سے مسیحیت کے متعلق آپ کا نصاب اور پروگرام بہت خوب ہے اس میں حسب حالات توسیع ہوتی چلی جائے گی.مسیح کی وفات کے مسئلہ پر خاص زور ہونا چاہیے.نہ صرف اس لئے کہ اس سے صداقت مسیح موعود کا رستہ کھلتا ہے بلکہ اس لئے کہ مسیح" کی وفات کے ساتھ ہی مسیحیت پر بھی موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک انسان رسول سے بڑھ کر مسیح کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی اور انسان رسول کی حیثیت میں بھی کئی دوسرے رسولوں سے کم تر.پس وفات مسیح کے عقیدہ کو نہ صرف قرآن مجید سے بلکہ انجیل سے اور تاریخی شواہد سے اس طرح قطعی طور پر ثابت کیا جائے کہ دنیا پر حیات مسیح کے عقیدہ کا پول کھل جائے.اس کے ساتھ ہی الوہیت مسیح اور تثلیت اور کفارہ کا بھی خاتمہ ہو جائے.حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں خدا نے یہ ایک ایسا زبردست حربہ دیا ہے کہ جس کے سامنے مسیحیت بالکل بے دست و پا ہے.پس اس پر خاص زور دیا جائے.علاوہ ازیں جن قرآنی آیات سے مسیحی لوگ مسیح کی افضلیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ان کی حقیقی تشریح واضح کی جائے مثلا مسیح کا بے باپ ہونا.مسیح کا کلمتہ اللہ ہونا.مسیح کا پرندے پیدا کرنا اور مسیح کا مردے زندہ کرنا وغیرہ یہ سادہ سے مسائل ہیں مگر مسیحی لوگوں نے ان سے نادان مسلمانوں کے سامنے بڑا فائدہ اٹھایا ہے.آپ نے نصاب میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے رسالوں اور مولوی ابوالعطاء صاحب کے رسالہ کا ذکر نہیں کیا.یہ دونوں ٹھوس رسالے ہیں جن کے مقابل پر مسیحی منا دتڑپتے ہوئے رہ جاتے ہیں.سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ اپنے طالب علموں کے دلوں سے میسحیت اور دجالیت اور

Page 452

تاریخ احمدیت 443 جلد 21 مغربیت کا رُعب مٹادیں اور انہیں اسلام کے حق میں اور مسیحیت کے خلاف ایک سیف عریاں بنادیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد 62-05-27 3- مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ (1) آج کل ملک میں پھر مسیحی مشنریوں نے شور شروع کر رکھا ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ بالکل دب گئے تھے.......اس کے لئے بعض اور تدبیریں بھی سوچی جارہی ہیں مگر آپ بھی جامعہ میں طلبہ پر زیادہ زور دیں کہ وہ مسیحیت کے مطالعہ کی طرف زیادہ توجہ دیں اور ان کے مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.مسیحیت کی موجودہ تعلیم محض تار عنکبوت ہے.مگر عنکبوت کے جالے کو توڑنے کے لئے بالآخر ہاتھ ہلانا پڑتا ہے.آپ کا ہر مبلغ کا سر صلیب ہونا چاہیے.خدا کے فضل سے لٹریچر کی کی نہیں.(2) نیز جب کوئی خاص مبلغ باہر دورے پر جایا کریں.تو آپ ان کے ساتھ باری باری بعض سینئر طلبہ کو ٹریننگ کے خیال سے بھجوا دیا کریں.شروع زمانہ میں اچھے مبلغ حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے ساتھ دوروں پر ہم سفر رہنے کے ذریعہ ہی تیار ہوتے تھے.خاکسار مرزا بشیر احمد 16-11-61 حضرت میاں صاحب کے ان تاکیدی ارشادات کے بعد جامعہ کے نو نہالوں میں کسر صلیب کے تبلیغی جہاد کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے اور گزشتہ روایات کی طرح طلبائے جامعہ کو تبلیغی دوروں پر بھی بھیجوایا جانے لگا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام تربیتی کلاس کے نام مئی 1962 ء میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام سالانہ تربیتی کلاس کا انعقاد ہوا جس میں 39 مجالس کے 103 نمائندوں نے شرکت کی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس موقعہ پر حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا جو سید داؤ د احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے اسکی اختتامی تقریب میں پڑھ کر سنایا.پیغام تو بہت ہو چکے ہیں اب تو عمل کا سوال ہے.اس لئے میرا پیغام یہ ہے کہ

Page 453

تاریخ احمدیت 444 جلد 21 خدام الاحمدیہ کو چاہیے کہ نیکی اور تقویٰ اور عملی قوت کو ترقی دیں.دنیا کا وسیع میدان حق و صداقت کی پیاس میں تڑپ رہا ہے.بلکہ خود احمدیت کے نوجوان تربیت کے پیاسے ہیں ان کے اندر سچائی اور روحانیت کی روح پیدا کریں کہ گویا اسلام اور احمد بیت کا سارا بوجھ ان کے کندھوں پر ہے.منزل بہت دور کی ہے اور ہم بالکل شکستہ پر ہیں.خدا کی نصرت کے سوا کوئی امید کی جھلک نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے نوجوان اپنے اندر وہ آگ پیدا کریں جو خدائی نصرت کو بھینچتی ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ر بوه 62-05-01 کلاس کی اختتامی تقریب میں مولانا ابوالعطاء صاحب نے نمایاں طور پر کامیاب طلباء کو انعامات تقسیم کئے اور اپنے پُر اثر خطاب میں نصیحت فرمائی کہ وہ ابھی سے اپنا سمح نظر بنا ئیں کہ انہوں نے بہر حال 87 دین کی خدمت کرنی ہے.ربوہ میں دار الاقامہ النصرہ کا قیام قادیان میں جماعت کے یتیم اور نادار بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لئے ”دار الشیوخ کا نہایت مفید ادارہ قائم تھا جس نے محدث احمدیت حضرت میر سید محمد الحق صاحب کی ذاتی توجہ، غیر معمولی جد و جہد اور حسن تربیت سے سلسلہ احمدیہ اور ملک وملت کے لئے کئی قیمتی اور گرانمایہ وجود پیدا کئے.ایک عرصہ سے یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اس قسم کا کوئی دارالیتا می ربوہ میں بھی موجود ہونا چاہیئے.اس سلسلہ میں ملک عبد اللطیف صاحب ستکو ہی مولوی فاضل نے پہلی بار مجلس مشاورت 1961ء میں اور دوبارہ مجلس مشاورت 1962ء میں پر زور تحریک کی اور ابتدائی امداد کے طور پر دو ہزار کا گرانقدر چندہ اور اپنا مکان بھی پیش کیا.جس کے بعد حضرت مصلح موعود کی منظوری سے 1962 ء کے وسط میں دار الاقامہ النصرة“ کا قیام عمل میں آیا اور اس کی نگرانی کے فرائض حضرت میر سید محمد الحق صاحب کے خلف اکبر سید داؤ د احمد صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ کے سپرد ہوئے جنہیں اسبارہ میں کچھ عرصہ قبل حضرت مصلح موعود کی طرف سے بھی توجہ کرنے کا ارشادمل چکا تھا اور وہ خود بھی اس پر غور اور مشورہ کر چکے تھے.ادارہ کا نام حضرت مصلح موعود کی منظوری سے حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم ( نوراللہ مرقدھا) کی یاد میں تجویز کیا گیا تھا.90

Page 454

تاریخ احمدیت 445 جلد 21 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل ( یکم جون 1962ء) کے ذریعہ دار الیتامی کے قیام کی اطلاع دی اور تحریک فرمائی کہ مخیر اصحاب امدا د فرما کر عنداللہ ماجور ہوں.اس تحریک پر بہت سی مخلص جماعتوں نے لبیک کہا سید داؤ د احمد صاحب کو غربا اور یتامیٰ کی پرورش اور نگہداشت کا جذبہ ورثہ میں ملا تھا.آپ با وجود دوسری بہت سی مصروفیات کے اس مبارک خدمت میں پوری طرح منہمک ہو گئے.جیسا کہ آپ کی مندرجہ ذیل ابتدائی رپورٹ سے عیاں ہے آپ تحریر فرماتے ہیں:.دو مجلس مشاورت کے فیصلہ کے مطابق دار الیتامی قائم کر دیا گیا ہے فی الحال ایک مکان کرایہ پر لے لیا گیا ہے.اس وقت دس بچے داخل ہیں ان کے کھانے اور رہائش کا مناسب انتظام ہے.تربیت اور نگرانی کے لئے ایک ٹیوٹر مقرر ہے.حضرت میاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی تحریک کے نتیجہ میں بہت سے احباب اور جماعتیں عطیہ جات ارسال فرماتے ہیں.16 مارچ 1963 ء تک کل رقم وصول شدہ - 12,323 روپے بنتی ہے.مستقل عمارت کی تعمیر زیر غور ہے.آبادی کمیٹی ربوہ نے چار کنال زمین دینی منظور کی ہے جس کا قطعہ تا حال معین نہیں ہوا.جو نہی قطعہ معین ہوگا.نقشہ بنا کر عمیر کا کام شروع کر دیا جائے گا.انشاء اللہ العزیز مستقل عطیہ جات کے لئے احباب جماعت کی خدمت میں حسب فارم مجوزہ تحریک کی جا رہی ہے.اس وقت تک مندرجہ ذیل چار احباب نے مستقل ماہوار عطیہ دینے کا وعدہ کیا ہے.1- سیدہ مہر آپا صاحب حرم حضرت امیر المومنین خلیفة اسم الثانی ایدہ اللہ تعالی نصر العزيزة 2.چوہدری سلطان محمود صاحب انور مربی سلسلہ 3 چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب 4- ماسٹر فقیر اللہ صاحب ہماری کوشش یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ احباب اور جماعتیں مستقل ماہوار عطیہ مقرر کریں اس سے امید ہے کہ جملہ اخراجات پورے ہوتے رہیں گے.صاحبزادی امته الباسط بیگم صاحبہ (حرم سید داؤد احمد صاحب) کا بیان ہے کہ میر صاحب دار الاقامہ النصرۃ“ کے لڑکوں کا خاص طور پر بہت خیال رکھتے تھے جمعہ کے دن بھی گھر سے باہر چلے جاتے.میں نے اُن سے کہا کہ جمعہ کے دن تو چھٹی ہوتی ہے آپ صبح ہی صبح کہاں جاتے ہیں؟ کہنے لگے میں دارالاقامہ کے لڑکوں کے پاس جاتا ہوں تا ان کو یہ احساس نہ ہو کہ ہمارا کوئی نہیں اور کہنے لگے جب سے

Page 455

تاریخ احمدیت 446 جلد 21 میں نے جانا شروع کیا ہے لڑکے اتنے خوش ہیں کہ بعض اوقات تو مجھے رونا آجاتا ہے اور میں بڑی مشکل سے ضبط کرتا ہوں.ہفتہ میں صرف ایک دفعہ جانے سے ہی یہ یتیم بچے مجھے بالکل اپنا باپ سمجھنے لگے ہیں اور مجھے سے بہت بے تکلف ہو گئے ہیں.کوئی میری ٹانگوں سے چمٹ جاتا ہے کوئی ہاتھ پکڑ لیتا ہے اس طرح گیارہ بجے تک ان کے پاس رہتا ہوں ان کو بھی تسلی ہو جاتی ہے اور مجھے بھی خوشی ہوتی ہے.مولوی محمد احمد صاحب جلیل سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں:.92 ”میر صاحب مرحوم کے ذرائع آمد محدود تھے.مگر آپ بڑے غریب پرور تھے.اپنی گرہ سے یا جہاں سے بھی مہیا کر سکیں.کئی غریبوں کی ضروریات پوری کرتے رہتے.کئی بے تکلف دوستوں نے متعدد بار اُن سے خاصی بڑی رقوم لے کر بعض ضرورت مندوں میں تقـ کیں.یتیم اور نادار طالب علموں کا ادارہ دارالاقامہ النصرۃ آپ کی غریب پروری کا آئینہ دار ہے.میر صاحب کی شفیقا نہ توجہ سے کئی بیوہ ماؤں کے نادار بچے علم حاصل کر کے یا ہنر سیکھ کر برسر روزگار ہو گئے اور جماعت پر بار بننے کی بجائے جماعت کے مفید رکن بن گئے.22 جون 1973ء کومیر داؤد احمد صاحب کی وفات کے بعد یہ ادارہ حضرت خلیفتہ امسح الثالث کی منظوری سے صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے تحت مشروط بآمد شعبہ کے طور پر سر گرم عمل ہو گیا اور اس کا نام حضور نے ”مد امداد طلبہ رکھا اور اس کے نگران سید محمود احمد صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ مقرر ہوئے جو 18 نومبر 1978 ء تک یہ فرائض انجام دیتے رہے.آپ کے بعد یہ شعبہ صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی زیر نگرانی 17 جولائی 1983 ء تک جاری رہا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے 3 اگست 1983 ء کوارشاد فرمایا:- تمام وظائف تعلیم کا انتظام ناظر صاحب تعلیم بحیثیت ناظر تعلیم کریں گے.مد امداد طلبہ کو بھی آئندہ سے ناظر صاحب تعلیم کنٹرول کریں گے.“ دسمبر 1986ء میں اس شعبہ سے میٹرک سے لیکر یونیورسٹی کی سطح تک کے 90 طلبا وطالبات امداد حاصل کر رہے تھے.حضرت امام جماعت احمدیہ کا برقی پیغام صدر پاکستان کے نام پاکستان میں ساڑھے تین برس تک ملک کا نظم ونسق مارشل لاء کے تحت چلایا گیا.8 جون 1962ء کو مارشل لاء ختم کر دیا گیا اور ملک میں آئینی زندگی کی بحالی کے لئے ایک نیا آئین نافذ کر دیا گیا جس کے تحت فیلڈ مارشل ایوب خاں نے جمہوریہ پاکستان کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا.اس تقریب

Page 456

تاریخ احمدیت 447 جلد 21 پر جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجه صدرانجمن احمدیہ پاکستان نے ایک برقیہ کے ذریعہ مبارک باد دی اور اگلے روز 9 جون کو حضرت مصلح موعودؓ نے صدر پاکستان محمد ایوب خاں کو نئے آئینی دور کے آغاز پر حسب ذیل برقی پیغام ارسال فرمایا:- پاکستان کو پہلے سے بڑھ کر پُر مسرت اور خوشحال تر بنانے کی مساعی میں میری دعائیں اور نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی برکت سے نوازے اور اس تعلق میں آپ کی مساعی کو بابرکت فرمائے.“ مرزا بشیر الدین محمود احمد - امام جماعت احمد به خدام الاحمدیہ کراچی کے نام دو اہم پیغامات منعقد ہوئی.مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے زیر اہتمام 21 تا 30 جون 1962ء کو ایک دس روز ہ تربیتی کلاس 97.جس کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے نہایت اہم پیغامات دیئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے روح پر دور پیغام میں تحریر فرمایا کہ : - ”آپ لوگ یہ بات ہمیشہ یادرکھیں کہ اگر کام کرنے والوں کا کردار بلند ہو اور نیتیں پاک اور صاف ہوں اور قوت عمل پیدا ہو تو وہ عظیم الشان کام کر سکتے ہیں.درحقیقت ایسے نوجوان روحانی مقناطیس کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں.جو دوسرے لوگوں کو اس طرح اپنی طرف کھینچنے کی طاقت رکھتا ہے جیسا کہ ظاہری مقناطیس لوہے کے ٹکڑے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.پس اپنے اندر سچا علم پیدا کریں اور اس مقصد کو کبھی نہ بھولیں جو احمدیت آپ کے سامنے پیش کرتی ہے.یعنی دنیا میں روحانیت اور اخلاق کا غلبہ.اگر آپ اس غلبہ کے لئے اپنے 98 166 آپ کو تیار کر لیں گے.تو آپ یقینا آسمان کے چاند اور ستارے بن جائیں گے.حضرت میاں ناصر احمد صاحب نے اپنے مختصر پیغام میں خدام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقصد بعثت پر غور کرتے رہنے کی تلقین فرمائی اور بتایا کہ :- حضور کی تشریف آوری کی اصل غرض یہ تھی کہ راہ گم گشته انسان ایک بار پھر اپنی جبین آستانہ الوہیت پر رکھ دے اور سب کچھ اسی کو سونپا جائے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک کہ ہم جو حضور علیہ السلام پر ایمان لاتے ہیں اور جنہیں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت

Page 457

تاریخ احمدیت 448 جلد 21 نصیب ہوئی ہے.اسلام کی اس صحیح تعلیم پر عمل پیرا نہ ہو جائیں جس کی طرف اس زمانہ میں حضور علیہ السلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے.اسلام کی بنیادی تعلیم تقویٰ ہے.ہمیں ہر کام میں ہمیشہ تقولی یعنی خدا کا ڈر مد نظر رکھنا چاہیے.ہر کام کرتے وقت یہ دیکھیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس سے ناراض تو نہیں ہو گا.“ اس تعلق میں آپ نے حضور کی کشتی نوح میں بیان فرمودہ تعلیم کا ایک اہم اقتباس بھی درج فرمایا جس میں حضور نے ارشادفرمایا ہے کہ :- د نیکی کوسنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کر دو.یقیناً یا درکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہو.ہر ایک نیکی کی جڑ تقوی ہے.حضرت چوہدری محمد حسین صاحب کا بابرکت قیام انگلستان اور اس کے ثمرات قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مصلح موعود کے عمر بھر دست و بازو بنے رہے اور ہر میدان میں ایسی سنہری خدمات انجام دیں جو چاند ستاروں کی طرح آسمان احمدیت پر ہمیشہ درخشندہ و تابندہ رہیں گی.آپ حضرت مصلح موعود کا عکس جمیل تھے اور حضور ہی کی طرح آپ کو نو جوانان احمدیت کی تربیت و اصلاح کا فکر ہمیشہ دامنگیر رہتا تھا.اُن دنوں دنیا کے مایہ ناز سائنسدان اور بطل احمدیت ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے والد حضرت چوہدری محمد حسین صاحب لنڈن میں قیام فرما تھے اور منجھلے بھائی چوہدری عبدالحمید صاحب مغربی جرمنی میں.چوہدری عبدالحمید صاحب کا حضرت قمر الانبیاء کی خدمت میں ایک مکتوب موصول ہوا جس میں ڈنمارک، ہالینڈ اور مغربی جرمنی کے احمدی مشنریوں کی کامیاب دینی مساعی کا تذکرہ تھا.آپ کو اس خوشکن اطلاع سے دلی مسرت ہوئی اور آپ نے 26 جون 1962 ء کو ان کے نام حسب ذیل گرامی نامہ ارسال فرمایا:- بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود عزیزم مکرم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط ملا.اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب و با مراد کر کے واپس لائے اور دین و دنیا میں ترقی دے.الحمد للہ کہ کوپن ہیگن اور ہالینڈ اور مغربی جرمنی کے مشن کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں اور وہاں کے نومسلموں میں اخلاص پایا جاتا ہے.اب تو آپ کے بھائی عبدالماجد

Page 458

تاریخ احمدیت 449 جلد 21 صاحب بھی لندن پہنچ چکے ہیں.میں آپ کے والد صاحب محترم کو تحریک کرتا رہتا ہوں کہ لندن کے نوجوان پاکستانیوں کی تربیت کا کام سنبھالیں.اب قریباً دوسو احمدی نوجوان وہاں پہنچ چکا ہے.انہیں اگر منظم کیا جائے تو بڑی طاقت ہے.والسلام مرزا بشیر احمد 62-06-26 حضرت چوہدری محمد حسین صاحب کے قیام انگلستان اور حضرت قمر الانبیاء کے ارشاد کی تعمیل سے متعلق ایک مفصل نوٹ آپ کے صاحبزادے چوہدری محمد عبدالرشید صاحب مقیم لنڈن کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے.حضرت والد صاحب کے چند واقعات زندگی جن کا تعلق آپ کے انگلستان میں قیام سے ہے عرض کرتا ہوں.(1) حضرت والد محترم انگلستان میں اپریل 1959 ء میں تشریف لے گئے.اور دسمبر 1962 ء تک لندن میں ہی قیام فرمار ہے.جب آپ اپریل 1959 ء میں تشریف لائے تو آپ کی دونوں آنکھوں میں موتیا اترا ہوا تھا.جس کی وجہ سے بہت تکلیف تھی.ہر وقت گھبراہٹ رہتی تھی کہ اب میری نظر ٹھیک نہیں رہی میں تلاوت کس طرح کروں گا.ہم ان کو بہت تسلی دلاتے کہ ہم آپ کو پڑھ کر سنا ئیں گے.لیکن پھر بھی گھبراہٹ برقرار رہی.چند روز بعد ایک خواب کی بناء پر آپ نے فرمایا کہ میرا خدا زندہ خدا ہے.وہ میری مدد کرے گا اور میری بینائی بحال کر دے گا.خدا کے فضل سے بالکل ایسا ہی ہوا.الحمد للہ ! (2) لندن میں جب ان کی آنکھیں ڈاکٹروں کو دکھائی گئیں تو ان کی عمر اس وقت 68 سال کی تھی.ڈاکٹر لی جو کہ مور فیلڈ ہسپتال لندن کے خاص ڈاکٹر تھے.انہوں نے بتایا کہ آپریشن تو میں کر دیتا ہوں لیکن آنکھوں میں نور نہیں ڈال سکتا.نور ڈالنے کے بارے میں میں بالکل بے بس ہوں.چار ماہ کے عرصہ میں ان کی دونوں آنکھوں کا مور فیلڈ ہسپتال میں آپریشن ہوا.پھر آپ تین چار ہفتہ کے بعد گھر تشریف لے آئے.آرام کرنے کے بعد آپ میرے ساتھ ڈاکٹر لی کے پاس گئے تاکہ پتہ چلے کہ آنکھوں کا کیا حال ہے.آنکھیں دیکھنے سے قبل ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جو کچھ میرے بس میں تھا میں نے کر دیا تھا.مزید کچھ نہیں کر سکتا.اس پر پیارے ابا جان نے فرمایا.ڈاکٹر صاحب آپ تو حضرت عیسی علیہ السلام کے مرید ہیں.وہ تو بقول آپ کے مردوں کو زندہ کر دیتے تھے تو

Page 459

تاریخ احمدیت 450 کیا آپ آنکھوں میں نور نہیں ڈال سکتے.“ ڈاکٹر صاحب نے اقرار کیا کہ قدرت کے کاموں میں ان کا کوئی دخل نہیں.ہمارا کام تو اسی پاک ہستی سے مانگنا ہے اسپر والد صاحب نے دو مرتبہ الحمد للہ پڑھا اور فرمایا شکر ہے ڈاکٹر صاحب کو اب سمجھ آ گئی ہے.تب والد صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو دعاؤں کے اثر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ”ہمارا خدا زندہ خدا ہے.وہ ہماری سب دعائیں سنتا ہے.حضرت صاحب اور درویشان قادیان کے علاوہ میرے لیے میرا بڑا لڑکا ڈاکٹر عبد السلام (جو ان دنوں انڈیا کے دورہ پر گیا ہوا تھا ) قادیان گیا اور وہاں بیت الدعا میں جا کر میرے لیے بے انتہا دعائیں کیں.جن کا اثر یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے نئے سرے سے آنکھوں کا نور عطا فرما دیا.الحمد للہ “ جب ڈاکٹر لی صاحب نے ان کی آنکھوں کا معائنہ کیا تو اعتراف کیا کہ واقعی خدا تعالیٰ نے تو بڑا معجزہ دکھایا ہے ورنہ مجھے تو امید نہیں تھی کہ آنکھیں اس قدر ٹھیک ہو جائیں گی.تب والد صاحب نے ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں.قرآن ہماری کتاب ہے.دعا ہمارا بہترین ہتھیار ہے.خدا تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو سنا ہے اور اپنا فضل فرمایا ہے.پھر والد صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو 40 منٹ تبلیغ کی جس کا بڑا اچھا اثر ہوا.الحمد للہ.(3) آپ لندن میں تقریباً پونے تین سال رہے.کبھی بھی جمعہ کی نماز میں شامل ہونے میں ناغہ نہیں کیا.ہمیشہ وقت سے پہلے میرے ساتھ مسجد فضل لندن میں پہنچتے.ان کی خواہش ہوتی تھی کہ نماز کی اذان وہ دیں.مسجد فضل ہمارے گھر سے دو میل کے فاصلہ پر ہے.ہمارے گھر کے قریب سے دو بسیں شہر کی طرف جاتی ہیں.آپ میرے ساتھ بس اسٹاپ پر کھڑے ہوتے اور مسجد کی طرف جانے والی بس نمبر 37 کا انتظار کرتے.جب آپ بس اسٹاپ پر کھڑے ہوتے تو انگریز آپ کی سفید شلوار قمیض اور اچکن دیکھ کر خوش ہوتے.آپ کے ہاتھ میں سوٹی ، سر پر عمامہ اور لمبی داڑھی جس میں ہر وقت مہندی لگی ہوتی تھی دیکھ کر آپ کو سلام کرتے.آپ ان کو ہمیشہ اسلام علیکم کہتے اور پھر السلام علیکم کے معنی سمجھا دیتے وہ لوگ بڑی خوشی کا اظہار کرتے.اکثر دفعہ بس اسٹاپ پر کھڑے ہوئے لوگوں سے پوچھتے کہ آپ نے کونسی بس لینی ہے.ان کے جواب دینے پر ان کو فرماتے کہ آپ کو پتہ ہے کہ اس بس کے علاوہ باقی بسیں آپ کو آپ کی منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتیں.اس لئے آپ ٹھیک وہی بس لیتے : جلد 21

Page 460

تاریخ احمدیت 451 جلد 21 ہیں جو کہ صراط مستقیم پر پہنچاتی ہے.تب آپ لوگوں کو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے معنی سمجھاتے اور پھر فرماتے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ :- إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ سَلْسِلَا وَأَغْلَلاً وَسَعِيرًا o إِنَّ الْإِبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًاo (سورۃ الدہر آیت 6،5) پھر اس آیت کے معنی سمجھا دیتے.(4) آپ نے مسجد فضل لندن میں تین سال کے عرصہ میں تقریباً 100 کے قریب لیکچر اور تقاریر کی ہیں.آپ کی ہمیشہ کوشش ہوتی کہ قرآن پاک کی تعلیم لوگوں تک زیادہ سے زیادہ پہنچا سکیں.قیام لندن کے دوران میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے اکثر خطوط آتے رہتے تھے.ان خطوط میں حضرت میاں صاحب مرحوم کی لندن میں تبلیغی و تربیتی سرگرمیوں پر خوشنودی کا اظہار فرماتے تھے اور ساتھ ہی یہ دعا بھی تحریر فرماتے تھے کہ خدا تعالیٰ ان کو اسی رنگ میں ہمیشہ خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.(5) مرحوم ہر گھڑی جماعت احمدیہ کی بہتری، برتری، دینی و اخلاقی ترقیات اخلاص و مروّت کے سلوک، برادرانہ شفقت اور حسن سلوک کے لئے کوشاں رہتے تھے.کبھی کسی کو آپ سے کوئی شکایت نہیں ہوئی.قرآن پاک اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر وقت پڑھنے کی عادت تھی.ہمیشہ قرآن پاک کا درس گھر میں خود دیتے تھے اور ہم سب بھائی بہنوں کو زیادہ سے زیادہ قرآن پاک یاد کرنے کی تلقین کرتے تھے.آپ جماعتِ احمد یہ ملتان اور جھنگ شہر کے کافی عرصہ صدر رہے ہیں.لندن میں سیکرٹری تعلیم و تربیت کے عہدہ پر بھی اخلاص اور محنت سے کام کرتے رہے.100 166 حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا با برکت سفر یورپ 1962 ء کا نہایت اہم واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لخت جگر حضرت نواب سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا با برکت سفر یورپ اور آپ کے ہاتھوں بیت الذکر زیورک کاسنگ بنیاد ہے.اس مبارک سفر کی تقریب کے غیبی سامان اللہ تعالیٰ نے خود فرمائے.آپ 25 جولائی 1962ء کی صبح کراچی سے بذریعہ پی آئی اے انگلستان کے لئے روانہ ہوئیں اور اسی دن شام چھ بجے بخیریت لنڈن پہنچ گئیں.آپ کے ساتھ آپ کی صاحبزادی سیدہ فوزیہ بیگم صاحبہ بھی تھیں.جماعت احمد یہ لنڈن نے ہوائی

Page 461

تاریخ احمدیت 452 جلد 21 اڈہ پر آپ کا محبت وعقیدت کیسا تھ استقبال کیا.آپ کی دوسری صاحبزادی ( بیگم صاحبزادہ مرزا مجید 10 احمد صاحب) اور صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب جو چند دن قبل غانا سے لنڈن پہنچے تھے ایئر پورٹ پر موجود تھے.آپ کا قیام محترم عبد العزیز دین صاحب کے ہاں تھا.5 اگست کو لجنہ اماء اللہ لندن نے آپ کے اعزاز میں ایک عصرانہ کا انتظام کیا.جس میں ممبرات لجنہ اور بعض دیگر معزز مسلم خواتین نے بھی شرکت کی.اس تقریب میں بیگم صاحبہ محترم پروفیسر عبدالسلام صاحب صدر لجنہ نے آپ کی خدمت میں اردو میں ایڈریس پیش کیا جسمیں آپ کی قومی اور دینی خدمات کو سراہا.اس ایڈریس کا ترجمہ سیکرٹری لجنہ لنڈن محترمہ مسز اصغری نے کیا.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے اس موقعہ پر حسب ذیل بصیرت افروز تقریر فرمائی:- دو بسم اللہ الرحمن الرحیم سب سے پہلے تو میں آپ سب بہنوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے نہایت محبت سے اس غیر ملک میں میرا استقبال کیا.حقیقت ہے مجھے بالکل ایسا معلوم ہورہا ہے.جیسے اپنے وطن اور اپنے خاندان کے درمیان بیٹھی ہوں مطلقاً اجنبیت یا گھبراہٹ نہیں جزاکم اللہ احسن الجزاء اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ہے.ورنہ من آنم کہ من دانم یہ رشتہ جس میں ہم منسلک ہیں ایک روحانی رشتہ ہے جو دنیا کے تمام خونی رشتوں پر فوقیت رکھتا ہے.اکثر جبکہ یہاں پر متفرق جگہوں پر بکھرے ہوئے دوست تشریف لاتے ہیں تو میرے قلب کی جو کیفیت ہوتی ہے نا قابل بیان ہے.بے اختیار زبان سے اللهم صلى على محمد وعلى اله وعلى عبده المسيح الموعود نکل جاتا ہے.ورنہ اس شہر میں کون کسی کو پوچھ سکتا ہے.جبکہ مصروفیتیں بھی بے حد بڑھی ہوئی ہوں.مکرمی عزیز صاحب جن کے مکان میں بطور مہمان میں مقیم ہوں.وہ اس قدر خیال رکھتے ہیں جو اس روحانی رشتہ کے علاوہ نا ممکن تھا اللہ تعالیٰ ان کو بمعہ فیملی دین ودنیا کے نعماء سے نوازے.امین.میرا ارادہ تھا کہ اپنی لنڈن میں رہائش رکھنے والی بہنوں کو بعض امور کے متعلق توجہ دلاؤں.مگر دو روز سے میری طبیعت کافی خراب ہے.دراصل اپنے میاں مرحوم کے بعد میری صحت بہت ہی غیر مطمئن ہی ہوگئی ہے.گھڑی میں اچھی گھڑی میں خراب.میں کوئی پروگرام بنا ہی نہیں سکتی.تاہم تین مختصر اصول اگر آپ کے ذہن نشین کروا سکوں تو خوش قسمتی سمجھوں گی.اول.ہماری بہنوں کو جو مستقل طور پر یہاں آباد ہو گئی ہیں اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ کرنی چاہئے.آپ کے راستہ میں بہت سی مشکلات ہیں جن کا مجھے پورا احساس ہے.مگر اللہ تعالیٰ

Page 462

تاریخ احمدیت 453 جلد 21 کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا آپ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے صدق دل سے کوشش کریں.آپ کو اپنی نیت کا پھل انشاء اللہ ضرور ملے گا مجبوری کی بناء پر ہمارے بچے یہاں کے سکولز میں تعلیم پارہے ہیں.اس صورت میں آپ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ماں کا حق بھی آپ کو ادا کرنا ہوگا اور استانی کا بھی.چھوٹے چھوٹے مسائل، مذہبی غیرت، اپنے سلسلہ کی عظمت، اپنے خلیفہ کی محبت ، نظام کی پابندی کرنا آپ کا فرض ہے.اتنا تو معمولی تعلیم یافتہ ماں بھی کر سکتی ہے.جب رات کو آپ کا ننھا سا خاندان یکجا ہو.اس وقت آپ ایک آدھ روایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ملفوظات سے ہی سہی ضرور اپنے بچوں کو پڑھ کر سند یا کریں.حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہتعالیٰ سے ملاقات کے وقت کا کوئی سا واقعہ سنادیا.کوئی قادیان کی بات کر دی.کبھی ربوہ کا ذکر کر دیا.حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت کے لئے دعا کی تحریک کر دی.جلسہ سالانہ کے ایام میں ان کے سامنے بار باران با برکت ایام کا ذکر کریں.اپنی محرومی پر افسوس ریں.ان ایام میں بچوں کے سامنے کثرت سے درود شریف پڑھیں اور اس کی وجہ ان کے ذہن نشین کرا ئیں.آپ دیکھیں گی کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے کیسے شاندار نتائج انشاء اللہ تعالیٰ مرتب ہوں گے.آپ کے بچے بے شک اس ملک میں تعلیم حاصل کریں.جائز حد تک تفریحات میں حصہ لیں.وہ سب کچھ سیکھیں جو اسلام نے جائز قرار دیا ہے.صرف آپ اتنا دھیان رکھیں کہ وہ اپنی شخصیت نہ کھو دیں.ان کی نگاہ میں اپنا وقار قائم رہے اور ان کے قلوب پر رعب دجال“ نہ مسلط ہو جائے.دوسری بات.جو آپ سے کہنا چاہتی ہوں.وہ آپس میں محبت واتفاق کے متعلق ہے.اس دور دراز ملک میں آپ چند نفوس ہیں اگر آپ یکجان ہو کر نہ رہ سکیں تو افسوس نہیں بلکہ شرم کا مقام ہے.آپ ایک دوسرے کے لئے ماں باپ بہن بھائی سب ہی عزیزوں کا بدل ہیں.آپ کی آپس میں اخوت و محبت غیر ملکیوں کے لئے ایک قابل رشک نمونہ ہونا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فقرہ یہاں نقل کرنا کافی ہے.اس سے بڑھ کر میں کیا کہہ سکتی ہوں.آپ فرماتے ہیں:.میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں اول خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت و ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو.“ امید ہے میری بہنیں حضور کے اس فقرہ کو مشعل راہ بنا کر سامنے رکھیں گی.تیسری چیز نظام کی کامل اطاعت ہے ہماری ترقی کا راز نظام ہی میں ہے.جس نے نظام سے باہر قدم رکھا وہ گیا.جو آپ کا مقامی امام ہو اس کی اطاعت بھی آپ کا فرض ہے.بالکل اسی طرح جیسے مقامی امام پر مرکز کی کامل اطاعت واجب ہے.اصل چیز مرکز سے وابستگی ہے.مرکز کے ادنیٰ سے ادنیٰ حکم پر آپ

Page 463

تاریخ احمدیت 454 جلد 21 کو حضور قلب سے لبیک کہنا چاہیے.خواہ اس میں کیسی قربانی دینی پڑے.بیعت کے معنی تو آپ کو معلوم ہی ہیں.پھر بیع شدہ چیز میں دعویٰ ملکیت کیا ؟ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و مددگار ہو.آپ ہر قدم پر اس کی استقامت طلب کریں پھر انشاء اللہ تعالیٰ 103 وہ آپ کو کبھی ضائع نہ ہونے دے گا.حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت کے لئے مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب نے اپنی کارکو وقف رکھا اور لندن اور گردو نوح میں آپ کو سیر کرائی.16 اگست کو آپ اپنی صاحبزادیوں اور مرزا مجید احمد صاحب اور مرزا مجیب احمد صاحب کے ساتھ سکاٹ لینڈ تشریف لے گئیں.اللہ تعالیٰ نے بشیر احمد خان صاحب رفیق نائب امام مسجد لنڈن کو بھی اس سفر میں آپ کی معیت کی سعادت بخشی.105- 104 اُن دنوں چوہدری رحمت خاں صاحب امام بیت الذکر لنڈن کے فرائض انجام دے رہے تھے.موصوف نے اپنے ایک مکتوب میں چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ انچارج سوئٹزرلینڈ مشن کو حضرت بیگم صاحبہ کے ورود لنڈن کی اطلاع دی.یہ خبر اُن کے لئے اتنی غیر متوقع اور خوشکن تھی کہ اس کے سچا ہونے پر انہیں یقین نہ آتا تھا.انہوں نے فوری طور پر آپ کی خدمت میں بذریعہ تار خوش آمدید عرض کی اور بیت الذکر زیورک کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کی جسے آپ نے کمال شفقت ومسرت سے منظور فرمایا اور تحریر فرمایا کہ میں اسے عظیم سعادت سمجھتی ہوں.بیت الذکر زیورک کی تقریب سنگ بنیاد 25 اگست مقرر تھی جس میں شرکت کیلئے حضرت بیگم صاحبہ 17 اگست کولنڈن سے عازم سوئٹر رلینڈ ہوئیں اور سب سے پہلے ہالینڈ تشریف لے گئیں.آپ کے ہمراہ آپ کی دونوں صاحبزادیاں اور صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب بھی تھے.ایمسٹرڈم کے ہوائی اڈہ پر حافظ قدرت اللہ صاحب امام بیت الذکر ہالینڈ اور صاحبزادہ مرزا مجیب احمد صاحب (ابن صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) اور دیگر افراد جماعت بھی موجود تھے.آپ ہالینڈ میں دور روز قیام فرمار ہیں.آپ نے ہالینڈ کی احمدیہ مسجد میں بھی قدم رنجہ فرمایا اور احمدی مبلغین اور دوسرے احباب کو قیمتی نصائح سے نوازا.19 اگست کو آپ ہمبرگ (جرمنی) کیلئے روانہ ہوئیں.100 ہمبرگ کے فضائی مستقر پر مبلغ جرمنی چوہدری عبداللطیف صاحب اور جرمنی کے نو مسلم اصحاب اور مغربی جرمنی میں مقیم احمدیوں نے آپ کا پُر خلوص خیر مقدم کیا اور محبت وعقیدت کے اظہار کے طور پر احتراماً آپ کی خدمت میں پھول پیش کیے.جرمن اخبارات نے آپ کی آمد کی خبر نمایاں طور پر شائع کی.چودھری عبداللطیف صاحب کا بیان ہے.حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی تشریف آوری سے جرمن پریس میں اسلام کا

Page 464

تاریخ احمدیت 455 جلد 21 ،، خوب چرچا ہوا.عیسائیوں کا یہ اعتراض کہ اسلام عورت کو کوئی درجہ نہیں دیتا اس کی وسیع پیمانے پر تردید ہوئی.میں نے اس بات پر خصوصیت سے زور دیا کہ زیورک میں زیر تعمیر بیت الذکر کا حضرت بیگم صاحبہ کے ذریعے سنگ بنیا د اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں عورت کی حیثیت بہت بلند ہے.ایک اخبار سے اس انٹرویو کا ذکر کرتے ہوئے متعدد آیات قرآنی اور احادیث کو نقل کیا اور اس پر خاص طور پر زور دیا کہ حضرت نبی کریم ہے کے نزدیک جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے.108 حضرت سیدہ موصوفہ مغربی جرمنی سے کوپن ہیگن تشریف لے گئیں اور مشن ہاؤس میں مختصر قیام کے بعد 24 اگست کو زیورک پہنچیں جہاں آپ کا پُر تپاک خیر مقدم کیا گیا.24 اگست کو صبح ساڑھے دس بجے سنگ بنیاد کی پُر وقار خصوصی تقریب کا انعقاد عمل میں آیا.آپ نے بیت مبارک قادیان کی ایک اینٹ (جس پر حضرت مصلح موعود نے دعا کی تھی ) اپنے دست مبارک سے زیرتعمیر بیت الذکر کے محراب والی جگہ کے نیچے رکھی اس مبارک اور یادگاری تقریب میں سوئیٹزرلینڈ اور آسٹریا کے نو مسلم احمدی احباب کے علاوہ متعدد ممالک کے مسلمانوں نے بھی شرکت کی اور جیسا کہ سوئیٹزرلینڈ مشن کی تاریخ میں تفصیل سے بتایا جاچکا ہے.100 سوئیٹر رلینڈ پریس نے اس تقریب میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا.اس موقعہ پر اخبارات اور ریڈیو کے نمائندے خاص تعداد میں آئے ہوئے تھے.ریڈیو نے تقریب کی پوری کارروائی قلمبند کرنے کے علاوہ حضرت سیدہ موصوفہ کا ایک خصوصی پیغام بھی ریکارڈ کیا جس کا جرمن زبان میں ترجمہ چوہدری عبد اللطیف صاحب امام بیت الذکر ہمبرگ نے کیا ہوا تھا.بیت فضل لنڈن کے بعد قلب یورپ میں تعمیر ہونے والی اس پہلی بیت الذکر کو قیامت تک یہ خصوصی امتیاز حاصل رہے گا کہ اس کا سنگ بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولا د یعنی نسل سیدہ میں سے ایک درخشندہ گوھر کے مقدس ہاتھوں سے رکھا گیا.10 111 حضرت بیگم صاحبہ بیت الذکر کا سنگ بنیا در کھنے کے بعد 27 اگست کو واپس لنڈن پہنچ گئیں.آپ نے قریباً تین ماہ انگلستان میں قیام فرمایا.مکرم عبدالعزیز دین صاحب کو آپ کی مہمان نوازی کا قابل فخر شرف حاصل ہوا.پاکستان کے لئے آپ کی سیٹیں مورخہ 21 اکتوبر کے لئے بک ہو چکی تھیں.لیکن 21،20 کی درمیانی رات آپ کی طبیعت اچانک ناساز ہوگئی.فوری طور پر تین ماہر ڈاکٹروں کو بلایا گیا.انہوں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا.چنانچہ سیٹیں منسوخ کر دی گئیں اور جملہ احباب جماعت کو بذریعہ سرکلر آپ کی بیماری کی اطلاع

Page 465

تاریخ احمدیت 456 جلد 21 بغرض دعا کی گئی.ڈاکٹری مشورہ کے مطابق آپ کا طبی معائنہ (CHECKUP) ہوا.ڈاکٹر کی اس رپورٹ سے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں آپ بالکل صحت مند ہیں.سب نے خدا کا شکر ادا کیا اور اطمینان کا سانس لیا.انگلستان مشن کی طرف سے آپ کو الوداعی دعوت دی گئی.مکرم چوہدری رحمت خاں صاحب امام بیت الذکر لنڈن نے آپ کی خدمت میں ایڈریس پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.28 اکتوبر بروز اتوار گیارہ بجے شب آپ لندن ائیر پورٹ سے پاکستان کے لئے روانہ ہوئیں.آپ کی روانگی کی اطلاع بذریعہ سرکلر جملہ دوستوں کو کر دی گئی تھی.چونکہ احباب کثرت سے آپ کو الوداع کہنے کے لئے ہوائی اڈہ پر جانا چاہتے تھے.اس لئے مشن نے ایک بس کا انتظام کیا.کئی احباب اپنی مستورات کیساتھ کاروں پر پہنچے.کل تعداد اسوقت 60 کے قریب ہوگی.روانگی سے قبل مکرم امام صاحب نے دعا کرائی.حضرت بیگم صاحبہ نے امام صاحب سے فرمایا کہ وہ الوداع کیلئے موجود احباب کا انکی طرف سے شکریہ ادا کر دیں.متعدد خواتین پر رقت طاری تھی.جماعت انگلستان نے آپ کے مبارک وجود سے بہت فائدہ اٹھایا.دوران قیام آپ کئی مرتبہ مشن ہاؤس میں تشریف لائیں.آپ کے تشریف لے جانے کے بعد متعد دمستورات نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہوں نے آپ کی جدائی کو ایک مادر مشفق و مہربان کی طرح محسوس کیا ہے.حضرت بیگم صاحبہ 28 اکتوبر کی شب کو روانہ ہو کر اگلے روز 29 اکتوبر کو بخیریت کراچی تشریف لے آئیں.جماعت احمدیہ کراچی اور لجنہ کراچی نے ہوائی مستقر پر آپ کا خیر مقدم کیا.اگلے روز صدر لجنہ اماءاللہ کراچی کی درخواست پر آپ 30 اکتوبر کو احمد یہ ہال میں تشریف لائیں اور کراچی کی احمدی بہنوں کو شرف ملاقات بخشا.لجنہ کراچی کی طرف سے محترمہ مبارکہ نیر صاحبہ نے سپاسنامہ پیش کیا آپ کی طبیعت ناساز تھی اس لئے آپ کی ہدایت پر محترمہ جمیلہ عرفانی صاحبہ نے آپ کا رقم فرمودہ خطاب پڑھ کر سنایا جس کا متن حسب ذیل ہے.خطاب بسم اللہ الرحمن الرحیم 112 السلام علیکم ! عزیزہ مجیدہ بیگم و آپا سلیمہ بیگم نے خواہش ظاہر کی تھی کہ میں اپنے سفر یورپ کے کچھ حالات لجنہ اماءاللہ کے اجتماع میں سنادوں.شاید میں خود تو نہ سنا سکوں کیونکہ مجھے عادت نہیں ہے البتہ کچھ لکھ کر بتا سکوں گی.میرا یورپ جانا محض ایک اتفاق تھا.میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتی ہوں کہ زندگی میں اگر مجھے کوئی

Page 466

تاریخ احمدیت 457 جلد 21 مجنونانہ شوق رہا ہے تو وہ غیر ممالک کی سیاحت کا تھا.حالات ہی ایسے پیدا ہوتے رہے کہ اس وقت تک یہ تمنا پوری نہ ہوسکی.میرے میاں مرحوم نے دو برس پیشتر اپنا پاسپورٹ بھی بنوالیا تھا اور میری یہ خواہش پوری کرنے کی ان کو بے حد تڑپ تھی ہمیشہ کہتے تھے.” بیگم میں نے تمہارا یہ قرض دینا ہے جو انشاء اللہ تعالی ضرور ادا کروں گا.انہوں نے اپنا وعدہ اپنے بعد بھی پورا کر دکھایا.خیر یہ تو ضمنا بات آگئی.میرا یہ سفرا اتفاق اس لئے بن گیا کہ اب یہ برسوں کی پالی ہوئی آرزو بالکل مردہ ہو چکی تھی.خواہش تو ایک طرف مجھے اس سفر سے ایک تنفر سا پیدا ہو چکا تھا.مگر اکثر اوقات انسان کی آرزوتب پوری ہوتی ہے جب اس کی رغبت اور اہمیت فنا ہو چکتی ہے.میرے ساتھ تو اکثر ایسا ہوا ہے.بہر حال خدا جانے کس طرح میری لڑکی عزیزہ طاہرہ صدیقہ نے تین دن کے اندر زور دے کر مجھے تیار کر دیا.پھر خدا تعالیٰ نے جلد جلد ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ خلاف امیدا پینج وغیرہ بھی مل گیا اور میں 25 جولائی کو یہاں سے لنڈن کے لئے روانہ ہوگئی.میرے سفر یورپ کا سب سے زیادہ خوشگوار اور مبارک پہلو میری بیت الذکر زیورچ کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شمولیت تھی.میں تو اب سمجھتی ہوں کہ میرا ادھر جانا بھی اسی تقدیر کے ماتحت تھا.میرے تو وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ بیٹھے بٹھائے یہ سعادت میرے حصہ میں آ جائے گی.ایک روز اچانک مکرمی مشتاق احمد صاحب باجوہ کا تار میرے نام آیا جس میں میری آمد پر خوش آمدید کہا تھا اور زیورچ جا کر بیت الذکر کا سنگ بنیا د اپنے ہاتھ سے رکھنے کی فرمائش کی تھی.پہلے تو میں بوجہ اپنی فطرتی جھجھک کے انکار کرنے لگی تھی مگر میرے دل نے ملامت کی.آخر میں نے مان لیا.میں نے یہی سوچا کہ یہ سب کچھ تصرف غیبی کے ماتحت ہو رہا ہے.میرا یہاں بلا ارادہ اچانک آجانا اور مکرم باجوہ صاحب کے دل میں الہی تحریک سے میرا خیال پیدا ہونا یہ سب تقدیری امور ہیں.میں 24 تاریخ کو زیورچ پہنچ گئی 25 تاریخ کو صبح 10 بجے یہ تقریب عمل میں آئی تھی جو بفضل تعالیٰ بہت شاندار طریقہ سے انجام پذیر ہوئی.متعدد پریس والے اور بہت سے مقامی غیر مسلم باشندے علاوہ اپنی جماعت کے موجود تھے.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے میری سیر و سیاحت کو بھی ایک مذہبی رنگ دے دیا.خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل جائے یہ تو میرے سفر کا اہم ترین حصہ تھا.اس کے علاوہ میں ہالینڈ گئی.جرمنی گئی.کوپن ہیگن گئی.ماشاء اللہ سب جگہ اپنے مشن تھے.ہر جگہ میرا قیام اپنے مشن ہاؤس میں ہی رہا.جہاں تک ایک عورت کی نگاہ دیکھ سکتی ہے میں نے تو سب لوگوں کو اچھا پایا خصوصیت سے میں آپ بہنوں کو اپنے جرمنی کے مشن کے حالات

Page 467

تاریخ احمدیت 458 جلد 21 سے روشناس کروانا اپنا فرض سمجھتی ہوں تا کہ آپ لوگ سمجھ سکیں کہ اس دُور دراز ملک میں بھی احمدیت کی برکت سے وطن کا سا ماحول پیدا ہو گیا تھا.میں ہالینڈ سے جرمنی تک صرف اپنی اس بچی فوزیہ کے ساتھ تنہا تھی.جب پلین نے لینڈ کیا تو مجھے قدرتی طور پر گھبراہٹ ہوئی کہ یہاں تو کوئی زبان بھی نہیں سمجھتا ہم ائیر پورٹ تک تنہا ہوں گے وہاں سے کسٹم سے بھی تنہا گزرنا ہوگا.خیر میں نے فوزیہ سے کہا کہ مسافروں کے پیچھے ہو لیتے ہیں اسی طرح پہنچ جائیں گے.سیڑھی تک پہنچے اور ابھی دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تھا کہ لوگوں نے لپک لپک کر ہمارے ہاتھوں کے سب بوجھ اٹھا لئے حتی کہ ہمارے پاس ہینڈ بیگ بھی نہ رہے اور وہیں ہم پر پھول لاد دیئے گئے.کم و بیش پانچ چھ آدمی تو وہاں تھے اور باقی ائیر پورٹ پر موجود تھے.میری ایسی کیفیت ہوئی جو صرف محسوس کی جاسکتی ہے بیان نہیں ہوسکتی.ہمارے ہمبرگ کے مبلغ مکرمی چوہدری عبد اللطیف صاحب مع دیگر افراد جماعت جن میں پاکستانی و نومسلم جرمن، ایک دو غیر مسلم جرمن موجود تھے.ان میں مستورات بھی تھیں بچے بھی تھے جو اهلا و سهلا و مرحبا کہہ کہ کر پھول پیش کر رہے تھے.دیگر مسافرانِ جہاز حیرت سے دیکھنے لگے کہ یہ دو برقعہ پوش گمنام سی معمولی عورتیں کیا چیز نکلیں کہ ایسا شاندار استقبال ان کا ہورہا ہے.میرا دل تشکر وامتنان کے جذبات سے لبریز تھا.زبان بند تھی مگر میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو بھر رہے تھے.میں اپنی گھبراہٹ پر اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی نادم تھی جس کی انتہا نہیں.اس وقت میرے دل نے ، میری زبان نے بے اختیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجا.دوسرے دن کے حالات تو آپ لوگوں کو اخبارات سے معلوم ہو گئے ہوں گے صبح سے کیمرہ مین اور پریس کی طرف سے عورتیں انٹرویو کے لئے چلے آ رہے تھے.سو یہ تھی وہ برکت احمد یہ جس کا تجربہ مجھے اس سفر میں ہوا میں سوچا کرتی ہوں کہ اپنے وطن میں 20 سال ریاضت کر کے بھی میرا ایمان خدا تعالیٰ پر اس پایہ کا نہ ہوتا جتنا اس تین ماہ کے ممالک غیر کے قیام میں ہوا.پھر تو یہ سلسلہ ہی شروع ہو گیا.یہاں سے کوپن ہیگن وہاں سے زیورچ میں تنہا ہی گئی.مگر دل کو تقویت حاصل ہو چکی تھی.تجربہ نے ثابت کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جوتیوں کے صدقہ ہر جگہ بہن بھائی اور بچے موجود ہیں.لنڈن تو خیر اپنا گھر ہی تھا ما شاء اللہ پاکستان کی طرح جماعت معلوم ہوتی ہے.ہفتہ پیشتر میری بیماری میں لنڈن کی جماعت نے اتنا خیال رکھا ہے کہ قریبی عزیز اور اپنے لڑ کے بھی نہ رکھ سکتے.میرے منع کرنے پر بھی وہ لوگ ڈاکٹر پر ڈاکٹر لئے چلے آرہے تھے.میں نے بہت بھاگنا چاہا مگر انہوں نے نہیں چھوڑ ا جب تک اپنی تسلی نہیں کر لی.

Page 468

تاریخ احمدیت 459 جلد 21 آپ بہنوں کو بھی یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ روحانی رشتہ سب رشتوں سے بڑھ کر ہے.جہاں بھی آپ رہیں احمدی آپ کے بھائی ہیں.وہاں کی مستورات آپ کی بہنیں ہیں.یہی آپ کی برادری ہے.یہی خاندان ہے.میری دعا ہے کہ ہمارا رشتہ اخوت و محبت مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے نفاق، حسد، بخل اور نفرت کے جذبات کو بیخ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دے.آمین.خلوص محبت، ہمدردی اور رواداری کے جذبات زیادہ سے زیادہ ہوتے چلے جائیں.میری طبیعت کل سے پھر خراب ہے.میں نے جلدی میں خدا جانے کس طرح یہ لکھا ہے تا کہ آپ کی خواہش رد نہ کروں.آخر میں میں آپ سب بہنوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے اتنی محبت سے بلایا اور ملنا چاہا کل میں جارہی ہوں.اپنی دعاؤں میں مجھے یا درکھیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو.صدر مملکت پاکستان کا اہل ربوہ کی طرف سے پُر جوش خیر مقدم صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں رابطہ عوام کے خصوصی دورہ پر چناب ایکسپریس کے ذریعہ راولپنڈی سے کراچی جاتے ہوئے یکم اگست 1962ء کو صبح پونے 9 بجے کے قریب ربوہ سے گزرے.اس موقعہ پر اہل ربوہ نے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر صدر مملکت کا نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا.ٹاؤن کمیٹی نے لوکل انجمن احمد یہ ربوہ اور مقامی مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کے تعاون سے صدر مملکت کے استقبال کے جملہ انتظامات ایک روز قبل ہی مکمل کر لئے تھے اور ربوہ کے شہریوں کو صبح آٹھ بجے تک ریلوے اسٹیشن پر جمع ہو جانے کی ہدایت کر دی تھی.چنانچہ آٹھ بجے تک اسٹیشن کا پلیٹ فارم ، اس کی نو تعمیر شدہ عمارت کا برآمدہ اور ویٹنگ ہال زائرین سے پوری طرح بھر چکے تھے اور صدر مملکت کو خوش آمدید کہنے کیلئے سارا شہر امڈ آیا تھا.سب احباب ایک خاص نظام کے تحت قطار وار کھڑے تھے.پہلی دو قطار میں ٹاؤن کمیٹی کے ممبران، ناظر صاحبان صدر انجمن احمدیہ پاکستان وکلا ء صاحبان تحریک جدید اور غیر ممال میں فریضہ تلخ ادا کرنے والے مبلغین کرام کے لئے مخصوص تھیں.جو نہی گاڑی سٹیشن پر آ کر رکی اور صدر مملکت اپنے سیلون کے دروازے میں آ کر کھڑے ہوئے ٹاؤن کمیٹی کے ممبران اور ناظر اور وکلا ء صاحبان آپ کے استقبال کے لئے آگے بڑھے اور جملہ احباب نے یک زبان ہوکر نہایت بلند آواز سے آپ کو السلام علیکم کہا اس کے بعد اھلا و سھلا ومرحبا کا پُر جوش نعرہ بلند ہوا.بعد ہ علی الترتیب پاکستان پائنده باد، صدر مملکت زنده باد، آئین نو زندہ باد اور ہمارا محبوب قائد زندہ باد کے پر جوش نعروں سے اسٹیشن اور اس کے ارد گرد کا سارا علاقہ گونج اٹھا اس دوران صدر مملکت مسکرا مسکرا کر اور

Page 469

تاریخ احمدیت 460 جلد 21 ہاتھ ہلا ہلا کر محبت و خلوص کے اس والہانہ اظہار کا جواب دیتے رہے اس اثناء میں چوہدری صلاح الدین صاحب بی اے ایل ایل بی ممبر ٹاؤن کمیٹی ربوہ نے آگے بڑھ کر ٹاؤن کمیٹی اور اہل ربوہ کی طرف سے صدر مملکت کی خدمت میں پھولوں کے ہار پیش کئے جو آپ نے قبول فرمائے اور پھر سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی صحت کے متعلق دریافت فرمایا.مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ( ممبر یونین کونسل احمد نگر ) نے جواباً عرض کیا کہ حضور کی طبیعت پہلے کی نسبت بہتر ہے اور حضور آجکل جابہ میں قیام فرما ہیں اس پر صدر مملکت نے حضرت صاحب تک سلام پہنچانے کے لئے کہا ازاں بعد آپ نے ربوہ میں درختوں کی کمی ، پانی کی قلت اور ٹیوب ویلز سے متعلق بعض امور دریافت فرمائے جن کے جواب مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل اور چوہدری صلاح الدین صاحب نے عرض کیسے اور ربوہ میں پانی کی سپلائی کے تعلق میں واٹر ورکس سکیم کا بھی اختصار سے ذکر کیا.اسی اثناء میں گاڑی نے وسل دی.اس کے ساتھ ہی مولوی محمد صدیق صاحب صدر عمومی لوکل انجمن احمد یہ ربوہ اور چوہدری عبدالعزیز صاحب مہتم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے اہل ربوہ کی طرف سے آپ پر بکثرت پھول نچھاور کیے جو نہی گاڑی حرکت میں آئی.اسٹیشن پر حاضر ہزاروں احباب نے نہایت بلند آواز سے فی امان اللہ کہا اور ایک دفعہ پھر فضا پاکستان پائنده با دصدرمملکت زنده باد اور ہمارا محبوب قائد زندہ باد کے پُر جوش نعروں سے گونج اٹھی جب تک گاڑی پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ گزرتی رہی صدر مملکت اپنے سیلون کے دروازے میں کھڑے ہاتھ ہلا ہلا کر اہل ربوہ کے پُر جوش نعروں اور محبت و خلوص کے والہانہ اظہار کا جواب دیتے رہے.اخبار ” نوائے وقت“ 12 اگست 1962 ء نے اہل ربوہ کے پر جوش استقبال کی خبر حسب ذیل الفاظ میں شائع کی:.وو چناب ایکسپریس جب ربوہ پہنچی تو ہزاروں عوام نے آپ کا بڑے جوش وخروش سے استقبال کیا.آپ نے مسکراتے ہوئے اپنے سیلون کا دروازہ کھولا تو عوام نے بڑی گرم جوشی سے پاکستان پائندہ بادصدر ایوب زندہ باد کے نعرے لگائے.شہریوں کی طرف سے آپ کو گلدستے پیش کیے گئے اور پھولوں کی پتیاں آپ پر نچھاور کی گئیں.صدر مملکت نے دریافت کیا کہ اس علاقہ میں درخت کیوں کم ہیں؟ اس کے جواب میں آپ کو بتایا گیا کہ اس علاقہ میں پانی کی قلت ہے آپ نے قصبہ کے معزز افراد سے بعض امور پر تبادلہ خیالات کیا.16

Page 470

تاریخ احمدیت 461 جلد 21 مسیح الزمان کی صداقت کا چمکتا ہوا نشان ایک برگزیدہ خاتون کے ذریعہ مسجد کی بنیاد نہ صرف یورپ بلکہ تاریخ اسلام میں پہلا اور انوکھا واقعہ ہے.جو سیح الزمان کی صداقت کا چمکتا ہوا نشان ہے جس کا دستاویزی ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے موعود اور مبشر خاندان کی نسبت خدا سے علم پا کر 1899 ء میں یہ خبر دی کہ :- چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں بڑی بنیا دحمایت اسلام کی ڈالے گا...اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان سادات دہلی ناقل) کی لڑکی میرے نکاح میں لا وے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.سو اللہ جلشانہ کے ان پاک وعدوں کے مطابق دوسری تمام احمدی بیوت الذکر کی طرح بیت 166 الذکر ز یورک بھی تو حید اور رسالت محمدی کے انوار پھیلانے کا مرکز بن چکی ہے.جاپان میں احمد یہ اسلامک ریسرچ گروپ کا قیام اس سال 13 اگست 1962ء کو زیر تبلیغ جاپانی احباب کے مشورہ سے ٹوکیو میں ایک احمدیہ اسلامک ریسرچ گروپ کا قیام عمل میں آیا.گروپ کے بانی ارکان میں سے عبدال صاحب (آف لاہور ) مسٹر نور احمد تھکائی ،مسٹر مبشر احمد صاحب آئینو اور پروفیسر احمد یوشیدا خاص طور پر قابل ذکر تھے.گروپ کے قیام پر وکالت تبشیر کی وساطت سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا حسب ذیل پیغام محترم عبدال صاحب کو موصول ہوا.بسم الله الرحمن الرحيم مکرم عبدال خاں صاحب نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط مورخہ یکم اگست 1962 کو حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی خدمت میں پیش ہوا حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے مندرجہ ذیل پیغام آپ کی میٹنگ کے لئے دیا ہے:.آپ کی طرف سے جاپان میں مجوزہ میٹنگ کی اطلاع ملی اللہ تعالیٰ اسے کامیاب کرے اور اہل جاپان کے لئے مفید اور نتیجہ خیز بنائے.اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور احمدیت جو اسلام کی خدمت کے لئے مبعوث کی گئی ہے وہ بھی ایک عالمگیر نظام ہے اس لئے

Page 471

تاریخ احمدیت 462 جلد 21 ہمارے مبلغ قریباً ہر ملک میں امن اور محبت کے طریق پر خدا کی تو حید اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا پیغام پہنچارہے ہیں.بے شک ابھی یہ نظام ایک چھوٹے سے پیج کا رنگ رکھتا ہے مگر جس طرح آہستہ آہستہ ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے اسی طرح انشاء اللہ احمدیت کا بیج بھی اپنے وقت پر ایک عظیم الشان درخت بننے والا ہے جس کی شاخیں دنیا کے چارا کناف میں پھیلیں گی اور قوموں کے اتحاد کا موجب بنیں گی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.“ والسلام (مرزا بشیر احمد ) 11-08-62 اس پیغام کو ارسال کرنے کے بعد آپ اس پیج کو سرزمین جاپان میں بڑھتا ہوا اور پھلتا ہوا دیکھنے کے بھی خواہاں تھے اور جو اضطراب اس سلسلے میں آپ کے دل میں تھا اس کا کچھ اندازہ اس پیغام سے جو آپ نے مسٹر محمد موسے عرف اوکی کے آف نائجیریا کے جاپان سے اپنے وطن نائجیر یا واپس جانے پر ارسال کیا.کیا جاسکتا ہے.مسٹر اوکی کے OKI KE) ہمارے احمد یہ گروپ کے ایک سرگرم رکن تھے اور اپنی ٹیکنیکل تعلیم مکمل کر رہے تھے وہ چھ سال قبل عیسائیت سے نکل کر اسلام میں داخل ہوئے تھے.حضرت میاں صاحہ کا پیغام درج ذیل کیا جاتا ہے :- بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عزیزم مکرم اے ایم خان.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت دے اور مسٹر اوکی کے (OKI KE) کے جانے کا بدل عطا کرے وہ قادر ہے اور اس زمانے میں اس کی تقدیرہ یہی ہے کہ دنیا بھر میں اسلام اور احمدیت پھیلے اور اس کا غلبہ ہو.میں آپ کو اپنی کتاب ”اسلام اور اشتراکیت بھجوا رہا ہوں اور ایک کتاب ” قرآن کا اول و آخر بھی بھجوار ہا ہوں.نیز میں نے کشتی نوح“ کا خلاصہ چھپوایا ہے جس کا نام ہماری تعلیم ہے اس کا ایک بلاک کا نسخہ بھجوا رہا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام مرزا بشیر احمد 25-09-1962

Page 472

تاریخ احمدیت 463 جلد 21 ٹوکیو میں گروپ کے قیام کے بعد جب حضرت میاں صاحب کو گروپ کے ممبران کی چند تصویریں ارسال کی گئیں تو آپ نے جاپان اور جاپانی قوم اور یہاں پر ہمارے ایک مضبوط مشن کے قیام کے متعلق مندرجہ ذیل مکتوب گرامی تحریر فرمایا :- بسم م الله الرحمن الرحيم عزیزم مکرم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ نحمده ونصلى على رسوله الكريم آپ کا خط محررہ 1962-08-26 موصول ہوا جس کے ساتھ ایک عدد فوٹو بھی تھا چونکہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ اس خط کی نقل وکالت تبشیر کو بھی بھجوار ہے ہیں اس لیے میری طرف سے انہیں لکھنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاص میں برکت دے اور آپ کی کوششوں میں کامیابی کا راستہ کھو لے جاپان ایک بڑا اہم ملک ہے اور آبادی کے لحاظ سے بھی بہت بڑا ہے اور اس کے باشندوں میں ترقی کی غیر معمولی صلاحیت ہے خدا کرے کہ جاپان کے نیک فطرت لوگ اسلام اور احمدیت کی طرف توجہ کرنے لگ جائیں اور یہاں ہمارا ایک مضبوط مشن قائم ہو جائے.جو انشاء اللہ اپنے وقت پر ضرور ہوگا کیونکہ اسلام اور احمدیت کا پیغام ساری دنیا کے لئے ہے اس لئے ناممکن ہے کہ جاپان میں اسے کامیابی حاصل نہ ہو ظاہری کوششوں کے علاوہ دعاؤں سے بھی بہت کام لیں.والسلام مرزا بشیر احمد 1962-09-01 گروپ کے قیام کی تقریب پر دوسرا گرانقدر پیغام حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ارسال فرمایا جو انگریزی زبان میں تھا.ذیل میں اس بصیرت افروز پیغام کا اردو تر جمہ دیا جاتا ہے:.میں آپ کی خدمت میں نہایت ادب اور خلوص سے سلام پیش کرتا ہوں.اب جاپانی معاشرہ کے احیاء اور نشاۃ ثانیہ کا زمانہ ہے.جس میں آپ کی حیثیت اسلام کے داعی کی ہی ہے.یہ معاشرہ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا شکار رہ چکا ہے اور اب نئے سرے سے علمی جستجو میں کوشاں اور مادی ارتقا کے راستے پرنئی امنگوں اور نئے ولولوں کے ساتھ گامزن ہے.ترقی ایک متقابل اور اضافی اصطلاح ہے.سائنسی اور ٹیکنیکی ترقی کا موازنہ اخلاقی اور روحانی اقدار کی نشو و نما کے ساتھ بخوبی کیا جاسکتا ہے.نوع انسانی یقینا ترقی کے نئے دور کا آغاز کر چکی ہے.اس دور کی سب سے امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ دنیا سائنسی علوم و فنون کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے بڑی تیزی

Page 473

تاریخ احمدیت 464 جلد 21 سے رواں دواں ہے اور انسان قدرت کی طاقتوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے اور ان پر مکمل عبور حاصل کرنے کے لئے شب وروز کوشاں ہے.اس کے نتائج بڑے امیدافز انظر آ رہے ہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی خوف، ڈر اور ناامیدی کے سیاہ بادل بھی امڈتے دکھائی دے رہے ہیں.اور وسعت طاقت میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے اور اسے خدا کی دین سمجھنا چاہیے.خوف ان شکوک کا نتیجہ ہے جو وسیع تر علم کو استعمال میں لانے سے پیدا ہوتا ہے.یہ وہ علمی وسعت ہے.جس کی انسانیت دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد میں وارث بنتی جارہی ہے.علم کی بدولت انسانی ہاتھوں میں لامحدود طاقت کی موجودگی بھی بھیا نک خطرے کا باعث ہو سکتی ہے.کیا اس بات کا تعین ممکن ہے کہ یہ طاقت انسان کی فلاح و بہبود کے لئے بروئے کار لائی جائے گی.تا کہ اسے غلط طور پر استعمال کرنے کا خدشہ جاتا ر ہے؟ جہاں تک انسان کو ان معاملات میں آزادانہ رائے قائم کرنے کا حق ہے.اس کی کوئی گارنٹی ( ضمانت ) نہیں کہ علم اور طاقت کو کیسے استعمال کیا جائے ہاں صرف مذہب کا دائرہ اختیار ہی راہ نمائی اختیار کرسکتا ہے.اور یہ راہنمائی ہرقسم کی فلاح و بہبود پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس خوف و ہراس کا بھی خاتمہ کر دے گی.جو سیاہ بادلوں کی نعمتوں کے غلط استعمال کی وجہ سے اس وقت تمام دنیا پر چھایا ہوا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنس کی بدولت ہر لمحہ بڑھتے ہوئے قوت کے اس اثاثہ کا استعمال اور اس میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کی کوشش اخلاقی اور روحانی اقدار کے ہاتھ میں ہو.ورنہ تباہی ہی تباہی ہے.اس مقصد کے حصول کے لئے اسلام عقیدہ توحید کا پرچار کرتا ہے اور انسان کو واضح طور پر اس کے اعمال کے لئے دنیا و آخرت میں جواب دہ ٹھہراتا ہے.یہی وہ بات ہے جو خدائی تعلیم کا اعتراف کراتی ہے اور اس تعلیم پر قائم رہنا ہی صحیح اور نیک افعال کا پیش خیمہ ہوگا.18 سرگودھا ڈویژن کے احمدی نوجوانوں کیلئے اہم پیغام اس سال مجلس خدام الاحمدیہ سرگودھا ڈویژن کی ایک تربیتی کلاس بیت فضل لائل پور (فیصل آباد) میں ہوئی جو 24 تا 26 اگست 1962 ء جاری رہی.

Page 474

تاریخ احمدیت فرمایا کہ :- 465 جلد 21 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس موقعہ پر ایک نہایت اہم اور ضروری پیغام دیا جس میں تحریر خدام کا کام موٹے طور پر چارشاخوں میں تقسیم شدہ ہے.اول تربیت کا کام ہے جو ہر نظام کے لئے گویا ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے.دوسرے جماعت کے خلاف جو غیر از جماعت لوگوں کی طرف سے غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں انہیں دور کرنے کا انتظام ہے.جس کے بغیر ہم اپنے ماحول میں کبھی بھی حفاظت کا سانس نہیں لے سکتے حال ہی میں جو واقعات بیت احمد یہ سرگودھا اور بیت احمد یہ ٹو بہ ٹیک سنگھ 10 کے تعلق میں رونما ہوئے ہیں وہ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں کہ بعض متعصب غیر از جماعت لوگوں نے ہمارے خلاف غلط فہمیوں اور بدظنیوں کا ایک جال پھیلا رکھا ہے حتی کہ اس افترا سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے کہ ہم نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی ختم نبوت کے منکر ہیں حالانکہ ہم جس شدت اور جس زوردار رنگ میں حضور سرور کائنات کی ختم نبوت پر ایمان لاتے ہیں وہ ایسا شاندار رنگ رکھتا ہے کہ ہمارے مخالفین اس کا عشر عشیر بھی پیش نہیں کر سکتے اور ہمارے سلسلہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں اس ایمان سے لبریز اور بھر پور ہیں.پس اس قسم کی غلط فہمیوں کو دور کرنا اور پُر امن طریق پر اپنے نظریات کی تشریح کرنا ہمارے نوجوانوں کا اولین فرض ہے.تیسرے نمبر پر تنظیم ہے یعنی جماعت کے نوجوانوں کو صحت مندانہ قواعد اور مفید پروگراموں کے ذریعہ ایک لڑی میں پرو کر رکھنا تا کہ وہ قرآنی ارشاد کے ماتحت ایک ایسی دیوار بن جائیں جس کی اینٹوں کے درمیاں گویا سیسہ پگھلا کر ڈالا جاتا ہے اور اتحاد کا ایسا نمونہ دکھا ئیں کہ ایک فرد کی تکلیف سب افراد کی تکلیف کا رنگ اختیار کرے.چوتھے نمبر پر خدمت خلق کا کام ہے یعنی خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ جہاں بھی اُن کے ماحول میں کوئی فرد یا افراد کسی حادثہ یا مصیبت وغیرہ کی وجہ سے تکلیف میں ہوں تو وہاں سچے مومنوں کی طرح ان کی امداد کو پہنچیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومنوں کی جماعت ایک انسانی جسم کی طرح ہونی چاہئے جس کا یہ فطری قاعدہ ہے کہ جب کوئی عضو کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو صرف عضو کو ہی تکلیف محسوس نہیں ہوتی بلکہ سارا بدن ہی دردوکرب سے تلملا اٹھتا ہے.

Page 475

تاریخ احمدیت 466 جلد 21 پس میں اپنے عزیز نو جوانوں کو یہی نصیحت کرتا اور یہی پیغام دیتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو پہچانیں اور ان فرائض کی ادائیگی میں ایسا کامل نمونہ دکھا ئیں کہ دنیا اسے دیکھ کر یقین کرے کہ یہ ایک پاک درخت کے پھل ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.پس اے عزیز و اور اے دوستو! آپ ایسا شیریں پھل بننے کی کوشش کریں کہ آپ کو دیکھ کر دنیا یقین کرلے کہ احمدیت کا درخت ایک سچا اور پاک درخت ہے جسے خدا نے اپنے ہاتھ سے نصب کیا ہے.20 حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا سفرٹرینیڈاڈ وٹو بیگو ٹرینیڈاڈ اور ٹو بیگو کے جزائر بحر کیری بین (Cari Bbean Sea) میں واقع ہیں.یہ جزائر 121 31 اگست 1962ء کو آزاد ہوئے.انکو قریباً دوسو برس پہلے پین نے بسایا تھا.حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے حکومت پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے ان کے جشن آزادی میں شرکت فرمائی.ٹرینیڈاڈ حکومت کے وزیر مولوی کمال الدین صاحب کی تحریک پر انجمن اسلامیہ نے آپ کی ایک تقریر کا انتظام بھی کیا.آپ کی یہ تقریر ہمالیہ کلب میں ہوئی اور اسے چوٹی کے مسلم حلقوں نے ازحد پسند کیا.چنانچہ حضرت چودھری صاحب نے 26 ستمبر 1962 ء کے مکتوب نیو یارک میں مولانا جلال الدین شمس صاحب ناظر اصلاح وارشادر بوہ کے نام لکھا:.”ہمالیہ کلب میں میری تقریر اسلام اور دنیا کی موجودہ مشکلات کاحل“ کے موضوع پر تھی اور بفضل اللہ بہت مقبول ہوئی.سامعین میں کثرت مسلمان اصحاب کی تھی جن میں سے اکثر نے تقریر کے بعد جوش کے ساتھ اپنی خوشنودی کا اظہار کیا.خصوصاً چند علماء جوموجود تھے انہوں نے جوش اور اخلاص کیسا تھ مصافحہ کیا اور تقریر کی تعریف کی دوسرے دن ایک بزرگ امام صاحب جو حاجی بھی تھے تین چار رفقاء کے ساتھ ہوٹل میں تشریف لائے اور تقریر کے متعلق اپنی خوشنودی کا اظہار کیا اور تقریر کی تعریف کرتے رہے.تین چار دن بعد مکرمی جناب کمال الدین محمد صاحب وزیر حکومت ٹرینیڈاڈ اور مکرمی جناب نور غنی صاحب سیکرٹری انجمن تقویت الاسلام نے خاکسار کی دعوت کی جس میں ٹرینیڈاڈ کے چند چیدہ مسلمان شرفاء بھی مدعو تھے اور اس مجلس میں ٹرینیڈاڈ کے مسلمانوں کی دینی اخلاقی اور

Page 476

تاریخ احمدیت 467 جلد 21 روحانی بہبودی کے متعلق مشورہ خاکسار کے ساتھ ہوتا رہا.دعوت کے بعد میزبان خاندان کی بیگمات خاکسار سے بعض فقہی مسائل کے متعلق دریافت فرماتی رہیں.الغرض حضرت چودھری صاحب کی تقریر کا ٹرینیڈاڈ کے مسلم زعماء اور دوسرے مسلمان طبقوں کی طرف سے پُر جوش خیر مقدم کیا گیا اور آپ کی اس دینی خدمت کو خاص احترام اور عقیدت سے دیکھا گیا.ایک بے بنیادالزام کی تردید افسوس پاکستان کے بعض شر پسند عناصر نے روزنامہ ”انجام“ پشاور (15 ستمبر 1962ء) میں آپ کی طرف یہ بے بنیاد بیان منسوب کیا کہ آپ نے ٹرینیڈاڈ کی ہمالیہ کلب میں تقریر کرتے ہوئے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کو آخری نبی بتایا جس سے وہاں کے مسلمانوں کو شدید اذیت اور مایوسی ہوئی.یہ پرا پیگنڈا عین اس موقع پر کیا گیا جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدارت کا انتخاب قریب تھا اور اقوام متحدہ میں حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب (مستقل مندوب پاکستان ) کی کامیابی کے امکانات بہت روشن تھے اور اس مہم کا مقصد حضرت چودھری صاحب کی نیک شہرت کو داغدار کرنا اور خالص سیاسی مقاصد کی خاطر جماعت احمدیہ کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانا تھا.حضرت چوہدری صاحب نے متذکرہ بالا مکتوب میں اس بیان کی واضح الفاظ میں تردید کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ اس بیان میں کوئی ایسی بات میری طرف منسوب کی گئی ہے جو نہ صرف نا جائز اور نا واجب ہے بلکہ میرے عقیدہ کے بالکل مخالف اور متضاد ہے.“ بیت احمد یہ کلکتہ کی تعمیر کلکتہ (اب کولکتہ ) برطانوی ہند کا پہلا دارالسلطنت اور مشرق بعید کا دروازہ اور ر بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے.یہاں جماعت احمدیہ کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں ہی ہو چکا تھا.مگر بیت احمدیہ کی بنیا د خلافت ثانیہ کے آخری دور میں 16 ستمبر 1962ء کو رکھی گئی اور افتتاح 14 فروری 1964 ء کو عمل میں آیا.ذیل میں جناب سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی کے قلم سے اس بیت الذکر کے تاریخی حالات بیان کئے جاتے ہیں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ :-

Page 477

تاریخ احمدیت 468 جلد 21 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے قبل جو احمدی احباب کلکتہ میں موجود تھے وہ مکرم خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم کی دوکان میں نمازیں ادا کرتے تھے.حضرت خلیفہ امسیح اول کے عہد خلافت میں کالج سٹریٹ میں شیخ محمد امین، فضل کریم و حاجی محکم الدین صاحبان مرحوم چمڑے کے سلیپروں کا کاروبار کرتے تھے.ان تینوں بھائیوں نے بھی جماعت احمدیہ کی بہت مخلصانہ خدمت کی.فجز اہم اللہ احسن الجزاء.گوخلافت اولی میں جماعت کی تعداد میں ترقی ہوئی مر با قاعدہ نظام کی صورت پیدا نہ ہوسکی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی " کے مبارک عہد کے اوائل میں غالباً 1918ء میں مکرم چودھری نواب علی صاحب نے واٹر لوسٹریٹ میں جماعت احمدیہ کی تنظیم قائم کی.مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب کشمیری نے تبلیغ اور تربیت کے سلسلہ میں نمایاں کام کیا اور درس قرآن مجید اور باقاعدہ جلسوں کا اہتمام کیا.ان ایام میں جن خوش قسمت احباب کو سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق حاصل ہوئی ان میں مکرم مولوی لطف الرحمن صاحب.مکرم حکیم ابوطاہر محمود احمد صاحب.مکرم ڈاکٹر اُمید علی صاحب اور مکرم میاں محمد صدیق صاحب تاجر بھی شامل تھے.ان بزرگوں نے اپنے اپنے رنگ میں سلسلہ احمدیہ کی بہت خدمت کی.اللہ تعالیٰ ان سب کو غریق رحمت کرے اور نیک جزا عطا فرمائے.آمین.جماعت احمدیہ کی اپنی کوئی بیت الذکر نہ تھی اس لئے تعمیر بیت الذکر سے پہلے مختلف علاقوں میں ادائیگی نماز اور تبلیغی جلسے منعقد کرنے کا اہتمام ہوتا رہا.1944ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی پر منکشف فرمایا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں اور حضور نے قادیان، ہوشیار پور، لاہور، لدھیانہ اور دہلی میں اس نعمت عظمی کا اعلان فرمایا.دہلی کے جلسہ میں شمولیت کا موقعہ کلکتہ سے وہاں پہنچ کر ہم دونوں بھائیوں، برادرم میاں محمد یعقوب صاحب، عزیزم محمد داؤد صاحب اور اخویم میاں محمد صدیق صاحب وہرہ کو حاصل ہوا.ہم دونوں بھائی اپنا کاروبار بند کر کے گئے تھے.قادیان کے قافلہ میں پسران عزیزان منیر احمد ونصیر احمد بھی اس جلسہ میں شمولیت کے لئے آئے تھے.اس زمانہ میں کلکتہ کے بعض احمدیوں کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کلکتہ میں جو کہ ایک طرح مشرقی دنیا کا دروازہ ہے.ایک ایسا ہی جلسہ منعقد کرنے کی اجازت کے لئے عرض کیا جائے.اس طرح یہ شہر بھی حضور کے قدوم میمنت لزوم سے مشرف ہو جائے گا.اس سلسلہ میں میری طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ حضور کو ایسے دور دراز کے سفر پر آمادہ کرنے کے لئے کسی ایسی تقریب کا سامان کرنا ضروری ہے.جس سے ہماری اس درخواست میں وزن اور جاذبیت پیدا ہو اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ کلکتہ میں بیت احمدیہ کی تعمیر کا پروگرام بنایا جائے.جس کا اپنے مبارک ہاتھوں سے حضور سنگ بنیاد رکھیں یا افتتاح فرما ئیں.

Page 478

تاریخ احمدیت 469 جلد 21 مقامی احباب نے اس تجویز کو بدل و جان قبول کیا اور اس وقت کے امیر جماعت احمدیہ کلکتہ محترم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کی صدارت میں جماعت کا ایک خصوصی اجلاس مجوزہ مسجد کے لئے چندہ فراہم کرنے کے لئے منعقد ہوا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس تحریک میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ اس اجلاس ہی میں اکسٹھ ہزار روپے کے وعدے ہوئے اور بعد ازاں مزید ا حباب نے بھی حصہ لیا اور تقریباً اتنی ہزار روپیہ جمع ہو گیا.فالحمد لله رب العلمین.ان وعدہ جات کی تفصیل یہ ہے.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب پانچ صد، میاں احسان الہی صاحب دتی والا دس ہزار، میاں محمد حسین ومحمد شفیع صاحبان ودھاون تین ہزار.میاں دوست محمد صاحب شمس پانچ ہزار.میاں محمدحسین ، دوست محمد ونذر محمد صاحبان ساڑھے بارہ ہزار.میاں محمدعمر ومحمد بشیر صاحبان سہگل پانچ ہزار اور محمد صدیق بانی محمد یوسف بانی برادران پچیس ہزار روپیہ.اب دوسرا مرحلہ موزون زمین خریدنے کا تھا.اس بارہ میں طے پایا تھا کہ شہر کے جنوب مشرقی علاقہ میں اس کی تلاش کی جائے.وہاں علاقہ پارک سرکس میں سید امیر علی ایونیو میں ایک غیر از جماعت فرد خان بہادر شیخ محمد جان کی وسیع جائیداد تھی جسے وہ پلاٹ بنا کر فروخت کر رہے تھے.اس میں سے ہیں کٹھا رقبہ کے ایک پلاٹ کا سودا ساڑھے چار ہزار روپیہ فی کٹھا کے حساب سے طے کرلیا گیا اور معقول بیعانہ دے دیا گیا اور کاغذات کی جانچ پڑتال کرنے مسودہ تیار کرنے اور رجسٹری وغیرہ کرانے کا کام ایک اٹارنی کمپنی کے سپرد کر دیا گیا.لیکن جب فروخت کنندہ کو معلوم ہوا کہ اس قطعہ پر احمد یہ بیت الذکر تعمیر ہوگی تو اس نے رجسٹری کر دینے سے انکار کر دیا اور باوجود بہت سمجھانے کے وہ اپنی ضد پر اڑا رہا.اس کا انکار بیعانہ والے تحریری معاہدہ کے سراسر خلاف تھا اور قانونی طور پر اسے مجبور کیا جا سکتا تھا.مقامی جماعت نے اس مشکل کا یہ حل نکالا کہ چونکہ ابتدائی گفتگو میرے نام پر ہوتی رہی تھی اس لئے فی الحال میرے نام پر ہی خرید کی تکمیل کی جائے اور میری طرف سے یہ قطعہ صدر انجمن احمد یہ کے نام منتقل کر لیا جائے.اس تجویز کی روشنی میں رجسٹری میرے نام پر ہوگئی.لیکن وہاں مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا گیا.کیونکہ جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو اس تجویز کا علم ہوا تو حضور نے اس بات کو نا پسند کیا اور فرمایا کہ اس طرح تو جھگڑے کی صورت پیدا ہوگی.ہم ایسی زمین پر بیت الذکر تمیر نہیں کرنا چاہتے جس کی ابتداء جھگڑے سے ہو.ہم ایسی جگہ پر مسجد تعمیر نہیں کریں گے.اس زمانہ میں فروخت کنندہ کے پاس مکرم مولوی محمد عیسی صاحب بی اے بھا گلپوری ملازم تھے ان کے ذریعہ اس خرید کردہ قطعہ کی واپسی کی کوشش کی گئی اس نے یہ شرط پیش کی کہ جتنی رقم مجھے ملی ہے اتنی ہی وہ واپس کر دیگا.اس صورت میں اخراجات رجسٹری قریباً ساڑھے چار ہزار روپے ضائع ہوتے تھے.بادلِ نخواستہ یہ نقصان جماعت کو برداشت کرنا پڑا.اللہ تعالیٰ کے کام عجب ہیں.یہ واپس شدہ قطعہ ایک تنگ گلی

Page 479

تاریخ احمدیت 470 جلد 21 میں واقع تھا.اس کی واپسی سے پہلے ہی اسی علاقہ میں لیکن بڑے راستہ پر ایک قطعہ ساڑھے تیرہ کٹھا (ایک کنال بارہ مرلہ ) ساڑھے چھ ہزار روپے فی کٹھا کے نرخ سے ایک بنگالی ہند و فرم سے دستیاب ہو گیا.اس کی رجسٹری کرانے کے لئے قریباً اسی ہزار روپیہ مطلوب تھا.مقامی جماعت کے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا.کیونکہ سارا چندہ پہلے قطعہ میں پھنسا ہوا تھا.جس کے وصول ہونے میں ابھی بہت دیر تھی.اس لئے صدر انجمن احمد یہ قادیان سے ساری رقم قرض حاصل کر کے اسی کے نام پر رجسٹری کرائی گئی اور پہلے قطعہ کی رقم وصول ہونے پر یہ سارا قرض بے باق کر دیا گیا.نئی زمین کی خرید وغیرہ کے بعد 1946 ء میں سارے ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے اور کلکتہ بھی ان کی لپیٹ میں آ گیا.تقسیم ملک کے باعث حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی کلکتہ میں تشریف آوری خارج از امکان ہو گئی.اس لئے تعمیر بیت الذکر کا کام ملتوی کر دیا گیا.تعمیر کے لئے مقامی جماعت کے پاس سرمایہ بھی نہیں تھا.کچھ عرصہ کے بعد اس قطعہ کو عارضی طور پر کرایہ پر دے دیا گیا.لیکن پھر کچھ مدت کے بعد اس کرایہ دار سے یہ جگہ خالی کروا کر اس پر قبضہ لے لیا گیا اور چار دیواری بنا کر نمازوں کے ادا کرنے کا اور وضو کرنے کا انتظام کیا گیا.فسادات 1946 ء سے پہلے مقامی جماعت نے لنگٹن سکوائر کے قریب ایک مکان کی پہلی منزل کرایہ پر لی ہوئی تھی جس میں نماز یں اور ہفتہ واری جلسے وغیرہ کا انتظام تھا اور ایک کمرہ میں مبلغ سلسلہ مولوی محمد سلیم صاحب کا مع اہل وعیال قیام تھا.فسادات کی وجہ سے یہ مقام بہت خطرہ میں تھا.اس لئے وہاں سے انجمن کا سامان پارک سرکس میں چودھری انور احمد صاحب کاہلوں کی رہائش گاہ میں منتقل کیا گیا اور مولوی صاحب نے بھی اسی علاقہ میں ایک مناسب جگہ پر اپنی رہائش اختیار کر لی.انہی ایام میں مکرمی میاں محمد حسین ومحمد شفیع صاحبان و دھاون احمدی نے مکان نمبر 149 لوئر چت پور روڈ خریدا.اس میں زیادہ تر ہند و قیام پذیر تھے.فسادات کے دوران ان سب کے چلے جانے کی وجہ سے سارے مکان کا خالی قبضہ مل گیا اور میاں صاحبان نے شمالی طرف کے تین کمرے جماعتی استعمال کے لئے بلا کرا یہ وقف رکھے.یہ جگہ مرکزی علاقہ میں تھی.مقامی انجمن کا سامان یہاں منتقل کر لیا گیا اور عرصہ تک جماعت احمدیہ کے احباب وہاں نمازیں ادا کرتے اور جلسے کرتے رہے اور درس قرآن بھی ہوتا رہا.فجز اہم اللہ احسن الجزاء.تقسیم ملک پر چودھری انور احمد صاحب کاہلوں امیر جماعت احمد یہ کلکتہ، مشرقی پاکستان میں منتقل ہو گئے.میاں دوست محمد صاحب شمس امیر جماعت مقرر ہوئے.بعد ازاں 61-1960 ء میں جبکہ الحاج منشی شمس الدین صاحب امیر جماعت تھے.بیت الذکر کا نقشہ کلکتہ کارپوریشن سے منظور کرایا گیا.بعد میں -

Page 480

تاریخ احمدیت 471 جلد 21 مولوی بشیر احمد صاحب دہلوی دہلی سے بطور مبلغ کلکتہ تبدیل ہوئے اور امیر جماعت کلکتہ بھی مقرر ہوئے.کلکتہ کی فضا پُر امن تھی اور کاروباری حالات بہتر تھے اور بتو فیقہ تعالیٰ احباب جماعت کلکتہ اس قابل تھے کہ بیت الذکر اور مبلغ کا کوارٹر تعمیر کرسکیں.چندہ کی تحریک پر مندرجہ ذیل احباب نے وسعت قلبی سے کام لیتے ہوئے وعدے کیے اور پھر ان کی وصولی بھی ہوگئی :.میاں محمد حسین ومحمد شفیع صاحبان و دھاون بارہ ہزار.میاں محمد عمر ومحمد بشیر صاحبان سہگل دس ہزار.میاں محمد یوسف صاحب بانی پانچ ہزار.خاکسار ہیں ہزار.متفرق احباب دس ہزار.میاں محمد صدیق 20 صاحب وہرہ پانچ صد روپیہ.صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے بھی پانچ ہزار روپیہ کی اعانت حاصل ہوئی.محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ( ابن حضرت مصلح موعود خلیفہ امسیح الثانی ) بمعیت جناب شیخ عبدالحمید صاحب عاجز ناظر بیت المال کلکتہ تشریف لائے اور 16 ستمبر 1962 ء کو مقامی احباب کے اجتماع میں دعاؤں کے ساتھ محترم صاحبزادہ صاحب نے بیت الذکر کا سنگ بنیاد رکھا اور چند بکرے صدقہ کیے گئے.مولوی بشیر احمد صاحب دہلوی کی نگرانی میں عمارت کا کام شروع ہوا اور یہ نہایت ہی خوبصورت عمارت فروری 1964ء کے پہلے ہفتہ میں تکمیل پذیر ہوئی اور 14 فروری کو جمعتہ الوداع کے مبارک دن مولوی صاحب موصوف نے اس کا افتتاح کیا.فالحمد لله رب العلمین.یہ بیت الذکر اس قطعہ کے قریباً ایک تہائی حصہ میں بنائی گئی ہے.دو تہائی حصہ کو دیگر تبلیغی ضروریات کے لئے ریزرور کھا گیا ہے.بیت الذکر کی عمارت ایک وسیع ہال، ایک برآمدہ اور خواتین کے لئے دو کمروں پر مشتمل ہے.بیت الذکر اور کوارٹر پر تقریباً پینسٹھ ہزار روپیہ لاگت آئی.علاوہ ازیں پختہ اور خوبصورت فرش کے اخراجات میری اہلیہ نے اور بجلی کی وائرنگ وغیرہ ٹیوب لائٹ اور سولہ عدد سپنکھے لگوانے کے اخراجات میرے تینوں بیٹوں نے ادا کیے.لاؤڈ سپیکر کے اخراجات مکرم میاں محمد یوسف صاحب بانی نے مہیا کیے.ساری بیت الذکر کے لئے خوبصورت دریاں بھی فراہم ہوئیں.فجزاهم الله احسن الجزاء.قریباً اٹھارہ ہزار روپیہ کی لاگت سے مبلغ کی رہائش اور دیگر جماعتی ضروریات کے لئے ایک علیحدہ حصہ تعمیر کیا گیا.جس میں سے آٹھ ہزار روپے کے قریب صدر انجمن نے اور دس ہزار روپے میں نے برداشت کیے.یہ بیت الذکر مغربی بنگال کی احمدی جماعتوں کی تربیتی تعلیمی اور تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور انڈیمان، انڈونیشیا، نجی ملیشیا اور آسٹریلیا سے آنے جانے والے احمدیوں کا مستنعقر اور راہ نمائی کا بہترین ذریعہ ہے.

Page 481

تاریخ احمدیت 472 جلد 21 سوئٹزرلینڈ کے ایک ممتاز اخبار کا روح پرور تبصرہ بیت الذکر ز یورک کو سنگ بنیاد ہی کے دن سے جو شہرت و عظمت حاصل ہوئی اس کا کسی قدراندازہ زیورچ ہی کے ایک مسیحی ترجمان اخبار شویز رایونجلسٹ (SCHWEIZER EVENGALIST) کے حسب ذیل روح پرور تبصرہ سے بخوبی لگ سکتا ہے.اخبار نے یورپ میں اسلام کی روز افزوں ترقی پر شدید خطرہ کا اظہار کرتے ہوئے اپنی 10 اکتوبر 1962 ء کی اشاعت میں لکھا:.جرمنی میں تعمیر شدہ اور زیر تعمیر مساجد کی مجموعی تعداد سات ہے.لندن، دی ہیگ، اور ہلسنکی میں بھی مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا.سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورک میں بھی ایک مسجد کا سنگ بنیا د رکھا گیا ہے.ان مساجد میں سے اکثر مساجد گزشتہ تین سال کے عرصہ میں ہی تعمیر ہوئی ہیں یا انہیں تعمیر کرنے کی تجویز منصہ شہود پر آئی ہے.یہ مساجد اس امر کی آئینہ دار ہیں کہ یورپ میں اسلامی مشنوں ( تبلیغ اسلام کے مراکز کا ایک جال پھیلایا جا رہا ہے.ان مشنوں کے قائم کرنے والے مسلمانوں کے صف اول کے دو بڑے گروہوں یعنی شیعہ اور سنی فرقوں سے تعلق نہیں رکھتے.ان کا تعلق مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت سے ہے جنہیں بالعموم بدعتی سمجھا جاتا ہے.اس جماعت کا نام جماعت احمد یہ ہے یورپ کی اکثر مساجد اس جماعت نے ہی تعمیر کی ہیں.یہ جماعت آج سے ستر سال قبل برصغیر پاک و ہند میں معرض وجود میں آئی تھی.اس جماعت کے افراد کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے.اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ حقیقی اسلام کے علمبردار ہے.اپنے اس دعوی کی رو سے یہ نوع انسان کی فلاح اور دنیا میں امن کے قیام کے لئے کوشاں ہے.احمد یہ تحریک اول و آخر ایک مشنری تحریک ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ہر خاندان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے میں سے کم از کم ایک فردا یا پیش کرے جو تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف رکھے.یہ عقل کو اپیل کرنے کی بنیاد پر اپنے مشن بالعموم اسلامی ممالک میں نہیں بلکہ افریقی ممالک میں اور ان میں سے بھی زیادہ تر مغربی افریقہ میں اور پھر یورپ اور امریکہ میں قائم کر رہے ہیں ان کے یورپی مراکز ، زیورک، لندن اور کوپن ہیگن میں قائم ہیں ان میں سے زیورک کا مرکز وسطی یورپ اور اٹلی کے علاقہ کو کنٹرول کرتا ہے.لندن کے مرکز کا رابطہ سارے

Page 482

تاریخ احمدیت 473 جلد 21 مغربی یورپ سے ہے اور کوپن ہیگن کے مرکز کے دائرہ عمل میں شمالی یورپ کا تمام علاقہ شامل ہے.یورپ کی مساجد صرف اس غرض کے لئے ہی قائم نہیں کی گئی ہیں کہ مسلمان ان میں عبادت کریں بلکہ تبلیغ اسلام کی ساری مہم ان مساجد کے ساتھ ہی وابستہ ہے.مساجد سے ملحق کلب کے کمرے اور لائیبر یریاں وغیرہ بھی ہوتی ہیں تاکہ ان میں جماعت کے افراد باہم مل کر اپنی مساعی اور سرگرمیاں جاری رکھ سکیں.یورپ کے عیسائی ممالک میں اسلام کے یہ نمائندے بدھ مت والوں کے برخلاف عیسائیت کا مقابلہ کرنے میں بہت پیش پیش ہیں ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ مسیح کی اصل تعلیم عہد نامہ جدید کے واسطہ سے تحریف کا شکار ہونے کے بعد بدلی ہوئی شکل میں آگے پھیلی ہے.یہ مسیح کی صلیبی موت کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے اس طرح سے یہ لوگ بائیبل کے مندرجات اور عیسائی معتقدات کے بارہ میں نئی تو جیہات پیش کر کے ناقص علم رکھنے والے سامعین اور قارئین کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جرمن زبان میں ان کی جو مطبوعات شائع ہوئی ہیں ان میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام میں زمانہ حال کے جدید مسائل کا پوراحل موجود ہے اور اسلام ہی انسانی ضرورتوں کے مناسب حال وہ اکیلا مذہب ہے جو وسعت فکر تعمیر وترقی اور آزاد خیالی کا علمبردار ہے." حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب صدر جنرل اسمبلی 1962ء کا تیسرا ربع پوری دنیائے اسلام خصوصاً پاکستان اور جماعت احمدیہ کے لئے عالمی سطح پر بہت مبارک ثابت ہوا جبکہ 18 ستمبر 1962 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سترھویں سالانہ سیشن کے لئے پاکستان کے مستقل مندوب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب واضح اکثریت اور برتری کے ساتھ صدر اسمبلی منتخب کر لئے گئے.پاکستان کے وقیع انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے امریکہ میں مقیم خصوصی نامہ نگار نے اس ضمن میں مفصل آرٹیکل بھجوایا.اس کا عنوان ہی یہ تھا کہ "Clear cut Victory for Zafrullah" ظفر اللہ خاں) کی فتح مبین 126 آپ کے حامیوں میں مصر سمیت تمام عرب ممالک اور بہت سے افریقی ممالک مثلاً گنی ، مالی، گھانا، کانگو اور بعض دیگر ممالک تھے اس طرح بہت سے ممالک نے معروف سیاسی وابستگیوں سے بالا ہو کر رائے شماری میں حصہ لیا.127

Page 483

تاریخ احمدیت 474 جلد 21 اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ میں اسمبلی سے متعلقہ امور کے انچارج نائب سیکرٹری مسٹر اینڈ ریوکور ڈیر (Mr.Andrew Cor Dier) تھے جو ابتدا سے اس منصب پر فائز چلے آ رہے تھے.وہ اسمبلی کے سولہویں اجلاس کے بعد مستعفی ہو کر کولمبیا یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے ادارے میں ڈین کے منصب پر فائز ہو گئے تھے اور ہرا جلاس میں صدر کے بائیں ہاتھ بیٹھتے تھے اور اپنے علم ، قابلیت اور تجربے کی وجہ سے ممتاز حیثیت حاصل کر چکے تھے.صدر کیلئے ان کی موجودگی بہت تقویت کا موجب ہوتی تھی.وہ اسمبلی کی نبض شناسی میں خوب ماہر ہو چکے تھے.حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب پہلے صدر تھے جنہیں ان کا مشورہ میسر نہیں تھا ایسے تجربہ کا نائب سیکرٹری سے محروم ہو جانا طبعی طور پر آپ کے لئے وجہ پریشانی تھا خصوصاً اس لئے کہ آپ نے اسمبلی کے قواعد وضوابط کا گہرا مطالعہ نہیں کیا ہوا تھا اور صدر کو قدم قدم پر قواعد کے ساتھ سابقہ پڑتا ہے.جوارکان اسمبلی چند ایک کمیٹیوں کی صدارت کر چکے ہوں انہیں صدارت کے فرائض کے متعلق خاصہ تجربہ ہو جاتا ہے.بلکہ کمیٹی اول کی صدارت تو گویا اسمبلی کی صدارت کا پیش خیمہ سبھی جاتی ہے.مگر آپ کو تو اسمبلی کی کسی کمیٹی کی صدارت سرانجام دینے کا موقع نہیں ملا تھا حضرت چوہدری صاحب اپنی اس بے بسی کو دیکھ کر نہایت درد بھرے دل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے اور نماز میں نہایت عاجزی سے دعا کی کہ :- ”اے اللہ یہ منصب خالص تیری عطا ہے تو اپنے اس عاجز بندے کی خامیوں سے خوب واقف ہے.مجھے اس منصب کے فرائض کی سرانجام دہی میں جو مشکلات پیش آئیں تو اپنے خاص فضل سے انہیں خود ہی حل فرمائیو اور ہر مرحلے پر اس عاجز کی رہنمائی فرمائیو.128 اپنے مولا سے اس دردمندانہ التجا کے بعد آپ صدر اسمبلی کی کرسی پر رونق افروز ہوئے اور عہدہ سنبھالتے ہوئے بلند آواز سے قرآن مجید کی ایک دعا پڑھی جو جنرل اسمبلی کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا.یہ دعا حسب ذیل تھی :- رب اشرح لي صدري ويسرلی امری واحلل عقدة من لساني يفقهوا قولي.اے میرے رب میرا سینہ کھول دے اور میرا کام میرے لئے آسان کر دے اور میری زبان سے گرہ کھول دے تا کہ وہ میری بات سمجھیں.مولا نا عبدالماجد کا زبر دست خراج تحسین مولا نا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے اپنے ایک نوٹ میں لکھا:.

Page 484

تاریخ احمدیت 475 جلد 21 عربی دعا یو.این.میں.نیویارک 19 ستمبر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر چودھری محمد ظفر اللہ خاں نے آج شب اپنا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے عربی زبان میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ عقل و فہم عطا کرے اور رواداری کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے.خدائے تعالیٰ سے دعا اور وہ بھی عربی میں جو عجب نہیں کہ قرآنی آیتوں میں شامل ہو.اقوام متحدہ کی کرسی صدارت کو اس سے پہلے کیوں کبھی اس کا اتفاق ہوا ہوگا.بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے وہ جب اور جس سے اور جہاں چاہے اپنے نام کی پکار کرا دے.صدق جدید لکھنو 5 اکتوبر 1962 ، صفحہ 2 چندہ ماہ بعد پھر لکھا کہ ”سر ظفر اللہ خاں کے سیاسی خیالات سے یہاں بحث نہیں.امتیازی چیز یہ ہے کہ اتنا بڑا اعزاز (اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدارت) ایک کلمہ گو کو یہ مغربی اور ماڈی دنیا پیش کر رہی ہے.یاد ہو گا مجلس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کرسٹی صدارت سے آیات قرآنی رب اشرح لی صدری ویسرلی امری کی تلاوت جنرل اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار انہی ظفر اللہ خاں نے کی.اور چند سال ادھر جب مغربی پاکستان میں رات کے پچھلے پہر ریل کا ایک عظیم حادثہ پیش آیا تھا تو اس وقت بھی یہی ظفر اللہ خاں (وزیر خارجہ پاکستان ) اپنے سیلون میں نماز تہجد ادا کرتے ہوئے پائے گئے.پریس کانفرنس 130 مروجہ دستور کے مطابق حضرت چودھری صاحب نے اختتامی اجلاس کے معا بعد پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اس اہم خطاب کی تفصیل اخبار پاکستان ٹائمز لا ہور کے نامہ نگار خصوصی کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے:.مجھ پر اعتماد کا اظہار کر کے در اصل پاکستان اور اہل پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے“ پاکستان نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے مشترکہ مفاد کا دل سے خواہاں ہے "

Page 485

تاریخ احمدیت 476 جلد 21 جنرل اسمبلی کی صدارت سنبھالتے وقت مندوبین سے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کا خطاب اقوام متحدہ ( نیویارک) - محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مورخہ 18 ستمبر 1962 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدارت کا عہدہ سنبھالتے وقت اسمبلی میں شریک اقوام عالم کے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا مجھے اس گرانبار ذمہ داری کا پورا احساس ہے جو اعتماد کا اظہار کر کے میرے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.میں پورے خلوص، عجز و انکسار اور دلی تڑپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل اور رحم سے میری رہنمائی فرمائے تا کہ میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اُس اعتماد کا اہل ثابت ہو سکوں جس کا آپ لوگوں نے اس وقت اظہار کیا ہے.پاکستان کی عزت افزائی آپ نے فرمایا میں اس امر کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ میری جو عزت افزائی کی گئی ہے وہ دراصل پاکستان اور اہل پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے کے مترادف ہے.آپ نے کہا پاکستان کا بڑی طاقتوں میں شمار نہیں ہوتا اور نہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو اپنی سلامتی و حفاظت اور اپنے باشندوں کی فلاح و بہبود سے بڑھ کر بحیثیت مجموعی سب کے مشترکہ مفاد کے سوا کوئی اور امتیازی خواہش یا مفا درکھتا ہو ہم سب کا مشترکہ مفاد جس کا پاکستان دل سے خواہاں ہے یہی ہے کہ ایک ایسی دنیا معرضِ وجود میں آئے جس میں حقیقی امن کا دور دورہ اور قانون کی حکمرانی ہوتا کہ سو دمند اور ہمدردانہ تعاون کی مدد سے دنیا کے تمام علاقوں کے عوام اور ان کا ایک ایک فرد بالآخر اس قابل ہو جائے کہ وہ ایک زیادہ بھر پور، زیادہ خوشحال اور زیادہ پُر مسرت زندگی گزار سکے جو اُس کے ایک جائز ورثہ اور حق کی حیثیت رکھتی ہے.آپ نے فرمایا پاکستان نے گزشتہ سالوں میں اپنے عمل سے اقوام متحدہ کے منشور کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دینے کے علاوہ اس امر کا ثبوت بھی بہم پہنچادیا ہے کہ منشور کے مندرجات میں جو روح اور مقصد کارفرما ہے وہ اُس کا بھی پوری طرح احترام کرنے اور پورے خلوص کے ساتھ اس کا دم بھرنے کو اپنا فرض سمجھتا ہے.اُس نے اپنے طرز عمل اور پالیسی سے واضح طور پر ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ آزادی، وقار اور فلاح و بہبود کے معقول معیار سے متعلق تمام اقوام اور بلا شبہ تمام بنی نوع انسان کے حق پر ایمان رکھتا ہے.یہ اصول اور یہ صلح ہائے نظر اور کرہ ارض کے گردا گر درہنے والے میرے کروڑوں کر وڑ ہم جنس ساتھیوں کی یہ خواہش کہ ان کی اپنی زندگیوں پر بھی یہ اصول اور صلح ہائے نظر اثر انداز ہوں اور انہیں ایک خوشگوار تبدیلی سے ہمکنار کر دیں....وہ اُن امور کی حیثیت رکھتے ہیں جو اس منصب جلیلہ کی عظیم ذمہ داریوں کے تعلق میں د مطر

Page 486

تاریخ احمدیت 477 جلد 21 آغاز کار ہی سے میرے قلب و ذہن پر چھائے ہوئے ہیں.نئے اراکین اور انکی اہمیت جنرل اسمبلی کے موجودہ سیشن کے سامنے سابقہ سیشن کی طرح ایک طویل اور مشکل ایجنڈا ہے.اگر چہ اس سیشن کا آغا ز نسبتاً ایک زیادہ پُر سکون ماحول میں ہوا ہے تاہم اس سیشن کو بہت سے اہم مسائل کا سامنا ہے ان میں سے بعض مسائل تو بنی نوع انسان اور خود اس عالمی تنظیم کے مستقبل کے نقطہ نگاہ سے بہت فوری نوعیت کے حامل ہیں.اس موقع پر بعض نئے ممبران کی شمولیت کا ذکر کرتے ہوئے محترم چوہدری صاحب نے فرمایا ہر نئے ممبر کی شمولیت سے دنیا کا نقشہ قدرے بدل جاتا ہے اور یہ تنظیم اپنے مقصد کے ایک قدم اور قریب ہو جاتی ہے.وہ مقصد یہ ہے کہ یہ تنظیم صحیح معنوں میں بنی نوع انسان کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی صورت اختیار کر لے.اقوام عالم کے باہمی تعلقات میں ایک صحت مند تبدیلی رونما ہورہی ہے تسلط اور محکومیت کی جگہ مساوات اور تعاون کا جذبہ دن بدن بڑھ رہا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا ہور ہے ہیں کہ جن میں دوستی کا جذبہ تقویت پکڑے اور باہمی اختلاف دور ہو کر ہمدردانہ تعاون کی راہ ہموار ہو.اخبار پاکستان ٹائمنز کے نامہ نگار خصوصی مقیم نیو یارک نے حضرت چودھری صاحب کی شاندار کامیابی پر حسب ذیل رپورٹ سپر و قلم کی جو 20 ستمبر 1962ء کے پرچہ میں اشاعت پذیر ہوئی.ذیل میں اخبار پاکستان ٹائمنز“ کے نامہ نگار کے آرٹیکل کا عنوان اس کا متن اور ترجمہ دیا جاتا ہے:- Clear-cut Victory for Zafrullah Small nations' anxiety for world peace stressed IMPARTIALITY IN ALL ISSUES ASSURED From Our U.N.Special Correspondent UNITED NATIONS (New York), Sept.19: Ch.Mhammad Zafrullah Khan of Pakistan, who was elected President of the U.N.General Assembly last night,

Page 487

جلد 21 478 تاریخ احمدیت received 72 votes officially but unofficially 76.The four invalid ballots carried the word "Pakistan" instead of the name of the candidate and had to be declared invalid for that reason.This was not publicised, the ballot being secret, but it is a true fact.Thus the defeat of Prof.Malalasekera of Ceylon is complete with 38 votes only out of 100 valid ballots.Voting for him were the Communist countries and Cuba and Yugoslavia, Israel, India, Ceylon and a few other unidentified ones.Among Ch.Zafrullah's supporters were all the Arabs including Egyptians, many Africans such as Guinea, Mali and Ghana, (Leopoldville) Congo and others.In short, the vote did not follow the usual political alignments except for the Communists.Many of the Afro-Asian supporters of Ch.Zafrullah may be classified as left of centre and this is a trust in his objectivity as Assembly President.NEUTRALITY STRESSED According to custom, he held a Press conference right after the Assembly adjourned, but although every year we go through this ceremony, we can never get much news out of it.As soon as a delegate becomes Assembly President, he must forget his opinions, personal as well as those of his country.

Page 488

جلد 21 479 تاریخ احمدیت Throughout the Press conference, Ch.Zafrullah stressed his neutrality on all subjects and refused to be drawn into controversy, saving: "The President represents the whole Assembly and not any particular section of it." But when asked if he believed that small nations had any particular role to play to bridge the gap between the "giants" he did say he hoped so, adding: "I share their keen anxiety to be of assistance in this matter because of the continuance of the tension, and should the tension be resolved, it will affect the whole of mankind, not only the Great Powers which are directly involved in it.We are all drawn in its wake, as it were." In his acceptance speech, Ch.Zafrullah did mention Mr.Mongi Slim's plan to speed up Assembly work which would 'inter alia' reduce the length of speeches and the number of speakers.Referring to new members, he said: "With the admission of every new member, the map of the world changes a little and this organization is one step nearer the goal of becoming truly the tribune of mankind...there is a striving today among all peoples to live in freedom and in peace with each other." QURANIC REFERENCES OMITTED As he often does in his speeches, Ch.Zafrullah cited verses from the Quran, but surprisingly the

Page 489

جلد 21 480 تاریخ احمدیت Department of Public Information did not mention that a sentence in Arabic had been in the text, although they have excellent translators.They simply omitted all references to the Quran in their Press releases and one wonders who gave them the authority to edit a delegate's speech, let alone that of the Assembly President.Tuesday was a great day for Ch.Zafrullah and Pakistan and Foreign Minister Mohammad Ali expressed his gratification at seeing Zafrullah elected.As in all Assemblies this one may develop into a vociferous and unruly gathering when touchy subjects come up, but there is one thing everybody knows too, that Ch.Zafrullah has an imposing personality which will enable him to restore order if necessary.When Mongi Slim, after balloting, announced the victory by such a big margin applause broke out and even the Indians clapped but Ceylon's Malalasekera did not applaud although, as everybody acknowledged, Ch.Zafrullah campaigned in a clear and sporting way.NEED TO RESPECT ICJ RULINGS Reuter adds: Ch.Zafrullah warned today that failure to uphold a World Court opinion that U.N.peace keeping operations impose financial obligations upon all members could seriously damage the Court's usefulness.He said that the Court's ruling was at least "morally

Page 490

جلد 21 481 تاریخ احمدیت binding".The Soviet Union, which has declined to pay its share for Congo and Middle East peacekeeping, is expected to lead opposition to the Court decision during the current Assembly session.The west wants the world forum to endorse the advisory opinion, which would mean that members who fell more than two years in arrears would lose their vote.Russia already owes more than 50 million dollars.Ch.Zafrullah at first sidestepped a question whether he though the Assembly would "rather forcefully endorse the advisory opinion of the Court." He replied: "I will not give you my opinion, but I am free to express my feeling that will be so..I use the word 'feeling' rather than 'opinion'." Asked if he thought sanctions would be invoked against South Africa, he said: "As President, I would not wish to express my view regarding the merits of any proposal that might come before the Assembly."My election has implicitly laid that ban upon me.I am President of the Assembly.Therefore, I can have no particular views on questions." (Informed sources said that South Africa had been among the 72 nations which voted for Ch.Zafrullah for President, despite the longstanding dispute over the

Page 491

جلد 21 482 تاریخ احمدیت treatment of persons of Indo-Pakistan origin in South Africa).Asked if he would rule that the issue of Chinese representation in the U.N.should be subject to a two-third majority decision, Ch.Zafrullah said: "It depends upon how the matter is brought up and what exigencies of the situation demand." TRIBUTE TO U.N.PRESS Ch.Zafrullah Khan, who has long been a good friend of U.N.correspondents, opened the news conferene with an endorsement of the important role of the Press at world headquarters."If the Press is not specifically mentioned in the Charter, I regard the Press as an important organ of the U.N.," he said, "It is engaged in duties as important as those of the other organs of the U.N." ACCEPTANCE SPEECH Ch.Zafrullah Khan told U.N.delegates in his acceptance speech he was "deeply conscious of the heavy responsibility this mark of your confidence places.upon my shoulders." He said he prayed to God "humbly, sincerely and earnestly, of His grace and mercy, so to guide me, in His wisdom, that in the discharge of my responsibilities I might prove worthy of your confidence."

Page 492

جلد 21 483 تاریخ احمدیت He said he appreciated that the honour done to him was a tribute to Pakistan and her people."Pakistan is not a great power nor a country which, beyond its own security and the well-being of its people, has any ambition or interest other than the common interest of all of us here, that is to say the creation of a world in which peace might reign and law prevail, so that through beneficent co-operation, the common man in all the regions of the earth might at long last be enabled to claim and possess his rightful inheritance of a fuller, richer and happier life," he said."Over the years, Pakistan has given proof of its loyalty to the Charter of the United Nations and its sincere devotion to the spirit and purposes underlying its provision."By its conduct and policy it has clearly affirmed its faith in the right of all peoples and nations, indeed of all human beings, to freedom, dignity and a reasonable standard of wellbeing."These principles and ideals and the yearning of hundreds of millions of my fellow beings around the globe to realise their impact upon their own lives, occupy the forefront of my mind as I enter upon the discharge of the responsibilities of this high office."

Page 493

تاریخ احمدیت 484 جلد 21 THORNY AGENDA The General Assembly, like its predecessor, had a long and difficult agenda before it.While the session opened in a more tranquil atmosphere than did the preceding session.It was confronted with many grave issues, some of a momentous nature for the future of mankind as well as of the organisation."With the admission of every new member, the map of the world changes a little and this organisation is one step nearer to the goal of becoming truly the tribune of mankind," he said."The relationship between nations is undergoing a healthy change from one of dominance and subservience to that of equality and co-operation.As a consequence, amity is now in the process of replacing strife discord is yielding to beneficent co-operation.ظفر اللہ کی واضح فتح دنیا کے امن کے لئے چھوٹے ملکوں کی تشویش پر زور تمام مسائل پر غیر جانبداری کی یقین دہانی (ہمارے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ کے ذریعے) اقوام متحدہ ( نیویارک ) 19 ستمبر.پاکستان کے چوھدری محمد ظفر اللہ خان گزشتہ رات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے ان کو 72 ووٹ ملے جبکہ غیر سرکاری طور پر ان کے ووٹوں کی تعداد 76 بتائی گئی ہے.چار ووٹ جو مسترد کئے گئے ان پر امیدوار کے نام کی بجائے لفظ ”پاکستان“ لکھا ہوا تھا.اس

Page 494

تاریخ احمدیت 485 جلد 21 وجہ سے انکو مستر د کر دیا گیا.اس بات کی تشہیر نہیں کی گئی.ووٹنگ خفیہ ہوئی تھی.تاہم مذکورہ بالا بات بالکل درست ہے.اس طرح سے سیلون کے پروفیسر ملا لا سیرا کی شکست 38 ووٹوں سے ہوئی جبکہ کل ووٹ 100 تھے.ان کے لئے کمیونسٹ ملکوں نے ووٹ ڈالے اور کیوبا اور یوگوسلاویہ، اسرائیل ، بھارت ، سیلون اور بعض نامعلوم ممالک تھے.چوہدری ظفر اللہ کے حمائتیوں میں تمام عرب ممالک شامل تھے جن میں مصر، کئی افریقی ممالک مثلاً گنی ، مالی اور غانا ( لیوپولڈ ویل ) کانگو وغیرہ بھی تھے.مختصر یہ کہ ووٹنگ معمول کی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہوئی سوائے کمیونسٹ بلاک کے.چوھدری ظفر اللہ کے کئی ایفرو ایشین حمایتی ممالک کو اعتدال پسند مگر بائیں باز و کارجحان رکھنے والے ممالک کہا جا سکتا ہے اور یہ بطور صدر اسمبلی انکی غیر جانبداری پر اعتبار کی دلیل ہے.غیر جانبداری پر زور طریق کے مطابق انہوں نے اسمبلی ملتوی ہونے کے فورا بعد ایک پریس کانفرنس بلائی.اور چونکہ ہم ہر سال اس تقریب کو دیکھتے ہیں اسلئے ہم جانتے ہیں کہ اسمیں کوئی خاص بات نہیں ہوا کرتی.جونہی کوئی نمائندہ اسمبلی کا صدر بنتا ہے وہ اپنے ذاتی خیالات ترک کر دیتا ہے اور ساتھ ہی اپنے ملک کے خیالات کو بھی چھوڑ دیتا ہے.پر یس کا نفرنس کے سارا وقت چوہدری ظفر اللہ نے تمام مسائل میں اپنی غیر جانبداری پر زور دیا اور اس ضمن میں کسی قسم کے تنازعہ میں پڑنے سے انکار کیا.انہوں نے کہا ”صدر اسمبلی تمام اسمبلی کا نمائندہ ہوتا ہے اس کے کسی خاص حصے کا نہیں ہوتا.‘“ لیکن جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹے ممالک اپنے اور بڑے بڑے جنوں کے درمیان حائل فرق کو دور کرنے کیلئے کچھ کر سکتے ہیں تو انہوں نے مثبت امید کا اظہار کیا.اور کہا کہ میں اس سلسلے میں ان کی فکروں میں شریک ہوں کیونکہ اس سلسلے میں کشیدگی جاری ہے اور اگر یہ کشیدگی ختم ہو جائے تو اس سے صرف بڑی طاقتوں کو ہی فائدہ نہیں پہنچے گا جو اسمیں براہ راست شریک ہیں بلکہ تمام انسانیت کو فائدہ پہنچے گا.ہم تمام اس میں شریک ہوں گے.خدا کرے کہ ایسا ہو.عہدہ سنبھالنے کے وقت اپنی تقریر میں چوہدری ظفر اللہ نے مسٹر مونگی سلیم کے منصوبے کا ذکر کیا

Page 495

تاریخ احمدیت 486 جلد 21 جس کا مقصد اسمبلی کے کام کی رفتار کو تیز کرنا تھا.اسمیں تقاریر کا وقت اور مقررین کی مقدار کم کرنا بھی شامل تھا.نئے ممبروں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہر نئے ممبر کی آمد سے دنیا کے نقشے پر تھوڑی سی تبدیلی رونما ہوتی ہے اور یہ تنظیم عالم انسانیت کا حامی بننے کے مقصد میں ایک قدم اور آگے بڑھ جاتی ہے...آج کے دور میں سب لوگوں میں اس کی خواہش اور کوشش کی جاتی ہے کہ وہ آپس میں آزادی اور امن کی فضا میں زندگی گزاریں.“ قرآنی حوالوں کا ذکر موجود نہ تھا چوہدری ظفر اللہ نے اپنی تقریر میں جیسا کہ وہ اکثر کرتے ہیں، قرآن کریم کی متعدد آیات کے حوالے دیئے.لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ اطلاعات عامہ کے شعبے نے ایک بھی عربی زبان کے جملے کا حوالہ نہیں دیا جو تقریر میں بیان ہوا ہو.حالانکہ ان کے پاس بہترین مترجم موجود ہیں.انہوں نے اپنی پریس ریلیز میں تمام قرآنی حوالوں کا ذکر غائب کر دیا اور ہم حیران ہیں کہ ان کو یہ اجازت کس نے دی کہ وہ ایک ایسے نمائندہ کی تقریر کو ایڈٹ کریں جو اسمبلی کا صدر بھی ہے.منگل کا دن چوہدری ظفر اللہ اور پاکستان اور وزیر خارجہ حمد علی کے لئے ایک عظیم دن تھا.مسٹر محمد علی نے ظفر اللہ کے منتخب ہونے پر بڑی خوشی کا اظہار کیا.جیسا کہ اکثر اسمبلیوں میں ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی نازک جذباتی موضوع زیر بحث آتا ہے تو مجمع ہنگامہ خیز اور شور و غوغا کرنے والا اور قابو سے باہر ہونے والا بن جاتا ہے.لیکن اس بارے میں ہر شخص کو یہ بھی علم تھا کہ چوہدری ظفر اللہ ایک چھا جانے والی شخصیت کے مالک ہیں اور یہ چیز ان کو اس قابل بنادے گی کہ جب ضرورت محسوس ہو وہ نظم وضبط بحال کر سکیں گے.ووٹ پڑنے کے بعد جب جناب مونگی سلیم نے اتنے بڑے فرق کے ساتھ فتح کا اعلان کیا تو تحسین و آفرین کا شور بلند ہو حتیٰ کہ بھارتیوں نے بھی تالیاں بجائیں لیکن سیلون کے ملالا سیکر انے کوئی تالی نہ بجائی حالانکہ ہر شخص نے تسلیم کیا کہ چوہدری ظفر اللہ نے اپنی انتخابی مہم بڑی صفائی اور شائستگی سے چلائی تھی.عالمی عدالت کے فیصلوں کے احترام کی ضرورت رائٹر نے مزید بتایا ہے کہ: چوہدری ظفر اللہ نے آج تنبیہ کی کہ عالمی عدالت انصاف نے جو یہ فیصلہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی امن قائم رکھنے والی فوج پر اٹھنے والے اخراجات تمام رکن ممالک کی مشترکہ ذمہ داری

Page 496

تاریخ احمدیت 487 جلد 21 ہے، اس پر اگر عمل درآمد نہ کیا گیا تو اس سے عدالت کی فائدہ مند حیثیت کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ کم از کم اخلاقی طور پر لازمی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے.سوویت یونین جس نے کانگو اور مشرق وسطی میں اقوام متحدہ کی امن فوج پر اٹھنے والے اخراجات میں اپنا حصہ ادا کرنے سے انکار کیا ہے اس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اسمبلی کے موجودہ اجلاس میں عدالت کی مخالفت کی قیادت کرے گا.مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ عالمی ادارہ مشاورتی رائے کی تائید کرے جس کا یہ مطلب ہوگا کہ جن رکن ملکوں کا دو سال سے زیادہ کا بقایا ہوگا ان کا ووٹ کا حق باقی نہیں رہے گا.روس کی طرف پہلے ہی سے 50 ملین ڈالر واجب الادا ہیں.چوہدری ظفر اللہ نے شروع میں یہ سوال اٹھایا کہ کیا اسمبلی کو عدالت کی مشاورتی رائے کو زبردستی نافذ کرنا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ ”میں اس پر اپنی رائے نہیں بتاؤں گا.لیکن میں اس بارے میں آزاد ہوں کہ میری جو بھی رائے ہو اس کو اپنے وقت پر ظاہر کر دوں.میں اپنی رائے کی بجائے اپنے محسوسات کا لفظ استعمال کرتا ہوں.ان سے دریافت کیا گیا کہ ان کے خیال میں جنوبی افریقہ کے خلاف پابندیاں عائد کرنی چاہیں ؟ انہوں نے کہا کہ بحیثیت صدر میں کسی ایسے موضوع پر اظہار خیال نہیں کروں گا جو اسمبلی میں زیر بحث آنے والا ہو.”میرے انتخاب نے مجھ پر یہ واضح پابندی لگادی ہے.میں اسمبلی کا صدر ہوں اس لئے مجھے ان سوالات پر کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے.“ (باخبر حلقوں کا بیان ہے کہ جنوبی افریقہ بھی ان 72 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے صدارت کے انتخاب کے لئے چوہدری ظفر اللہ کی تائید میں ووٹ دیا تھا اور یہ اس کے باوجود ہوا کہ پاک بھارت علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ روا ر کھے جانے والا سلوک بڑی دیر سے متنازعہ چلا آ رہا ہے.) جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا ان کے خیال میں چین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے سوال کو دو تہائی اکثریت کی منظوری سے مشروط کر دینا چاہیے ؟ چوہدری ظفر اللہ نے جواب دیا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ معاملہ کس طرح پیش کیا جاتا ہے اور صورت حال کی نزاکت کس رد عمل کا تقاضا کرتی ہے.“ اقوام متحدہ کے پر لیس کو خراج تحسین چوہدری ظفر اللہ خاں جو لمبے عرصے سے اقوام متحدہ کے صحافتی نمائندوں کے اچھے دوست رہے

Page 497

تاریخ احمدیت 488 جلد 21 ہیں انہوں نے اپنی پریس کانفرنس کے آغاز میں ہی عالمی ادارے کے ہیڈ کواٹر میں موجود پریس کے اہم کردار کی تائید کی.اگر چہ عالمی ادارے کے چارٹر میں پریس کا ذکر خصوصی طور پر نہیں کیا گیا تاہم میں پریس کو اقوام متحدہ کا ایک اہم آرگن تصور کرتا ہوں.انہوں نے کہا یہ بھی اسی طرح اہم ذمہ داری ادا کرتا ہے جس طرح اقوام متحدہ کے دیگر آرگن اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں.“ عہدہ سنبھالنے کی تقریر اپنا عہدہ سنبھالنے کی تقریر میں چوہدری ظفر اللہ خاں نے اقوام متحدہ کے نمائندگان سے کہا کہ وہ اپنی اس زبر دست ذمہ داری کے بوجھ سے اچھی طرح آگاہ ہیں جو نمائندگان کے ان پر اعتماد کے نتیجے میں ان پر عائد ہوتی ہے.انہوں نے کہا کہ وہ اللہ کے حضور بڑی عاجزی، اخلاص اور دل کی گہرائیوں سے دعا گو ہیں کہ وہ اپنی رحمت اور فضل سے نوازے اور اپنی حکمت کا ملہ سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں رہنمائی کرے تا کہ میں آپ کے اعتماد پر پورا اتر سکوں.“ انہوں نے کہا کہ وہ اس کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کو جو اعزاز حاصل ہوا ہے وہ پاکستان اور 66 اس کے عوام کی خدمت میں ایک خراج تحسین کا درجہ رکھتا ہے.پاکستان کوئی بڑی قوت نہیں اور نہ ہی اس کے اپنی سلامتی اور اپنے عوام کی بہتری کے سوا کوئی اور عزائم یا مقاصد ہیں سوائے ان مشترکہ مفادات کے جو ہم سب میں مشترک ہیں مثال کے طور پر ایک ایسی دنیا کی تعبیر جسمیں امن وامان ہو اور جہاں قانون کی بالا دستی ہو تا کہ آپس کی فائدہ مندی کے ذریعے دنیا کے ہر علاقے میں بسنے والا انسان آخر کا راس قابل ہو جائے کہ وہ نہ صرف یہ کہ ایک خوشیوں اور امن ومسرت سے بھر پور زندگی گزار سکے بلکہ اپنے بعد آنے والوں کے لئے چھوڑ کر بھی جائے.“ انہوں نے کہا کہ کئی سال سے پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتا چلا آ رہا ہے اور اس کی مختلف شقوں کے پیچھے جو اخلاص اور جذبے کی روح ہے اس کا اظہار کرتارہا ہے.اس نے اپنے طرز عمل اور پالیسی کے ذریعے تمام ملکوں اور قوموں کے عوام کے حقوق بلکہ تمام عالم انسانی کے لئے آزادی ، وقار اور زندگی گزارنے کا ایک معقول معیار حاصل ہونے کا حق حاصل ہونے کی واضح طور پر تائید کی ہے.

Page 498

جلد 21 489 تاریخ احمدیت ان اصولوں اور نظریات کے بارے میں میرے کروڑوں لاکھوں ساتھی انسانوں کی آرزوئیں ہیں کہ وہ اپنی زندگیوں پر ان کا عکس دیکھیں اور یہ وہ خیالات ہیں جو میری سوچوں کا اس وقت محور بنے ہوئے ہیں جبکہ میں اپنے عہدے کی عظیم ذمہ داری سنبھالنے کیلئے آج کھڑا ہوا ہوں.مشکل ایجنڈا جنرل اسمبلی کے سامنے سال گذشتہ کی طرح ایک لمبا اور مشکل ایجنڈا پیش ہے.پچھلے سال کی نسبت اس سال اجلاس کا آغا ز نسبتاً سکون واطمینان سے ہوا، اس میں کئی نازک امور زیر بحث ہیں جن میں سے بعض کا تعلق عالم انسانیت اور اس ادارے کی فلاح و بہبود اور اس کے مستقبل کے لئے بہت اہم ہیں.ہر نئے رکن کی شمولیت سے دنیا کے نقشے پر ایک چھوٹی سی تبدیلی آتی ہے اور یہ ادارہ دنیا بھر کے لوگوں کی ایک جمہوری تنظیم بننے کے مقصد کی طرف ایک قدم اور اٹھالیتا ہے.قوموں کے درمیان کے تعلقات ایک خوشگوار تبدیلی کے عرصے میں داخل ہورہے ہیں اور ایک دوسرے پر تسلط اور طاقت حاصل کرنے کی بجائے برابری اور مساوات کے دور میں آرہے ہیں اور اس کے نتیجے میں اب کشاکش و اضطراب کی بجائے خوشگواری اور محبت آرہی ہے اور آپس میں دشمنیوں کی بجائے تعاون کا جذ بہ اس کی جگہ لیتا جارہا ہے.“ اس سلسلہ میں رائٹر کی حسب ذیل خبر اخبار پاکستان ٹائمنز (لاہور) نے اپنی 20 ستمبر 1962ء کی اشاعت میں دی.U.N.Presidency for Zafrullah CROWNING ACHIEVEMENT OF DISTINGUISHED CAREER UNITED NATIONS, (New York), Sept.19: Ch.Mohammad Zafrullah Khan, yesterday elected President of the General Assembly, holds a post in which he never will have to take part in debate.As President, he will be an impartial arbiter above the hurly-burly of U.N.politics.The Assembly Presidency caps a long and

Page 499

جلد 21 490 تاریخ احمدیت distinguished legal and diplomatic career which has taken Ch.Zafrullah Khan to the League of Nations, the United Nations and as a Judge to the International Court of Justice.Like former President Truman, the trim, erect veteran Pakistani diplomat favours brisk morning walks.New York's Central Park is his usual "beat" for a half-hour stroll from his Manhattan apartment around 7-30 a.m.He says this keeps him fit.The new Assembly President is a man of many titles.He was knighted by King George V in the 1930's but since Pakistan became a Republic he has not used the "Sir".He prefers to be addressed as "Chaudhry" a Pakistani honorific bestowed upon landowners.Khan itself is a noble name.He may also be addressed as "Justice" as he was a Judge at the World Court at The Hague for nine years.His legal career began in 1916 after an education which included King's College, Cambridge.He was a member of the Viceroy's Executive council in British India from 1935 to 1941, and led the Indian delegation to the League of Nations session in 1939.He was appointed foreign Minister of Pakistan in 1947 and led his country's delegations to the annual U.N.

Page 500

تاریخ احمدیت 491 جلد 21 General Assembly sessions from that year until 1954, when he was appointed to the World Court.DECISIVE VICTORY Ch.Zafrullah Khan scored a decisive victory for the Presidency over Prof.G.P.Malalasekera of Ceylon, who had Soviet and some neutralist support.As the representative of a member State of the Western alliance, the Pakistani delegate was known to have had strong backing from Britain, the United States and the other Western allies.The election was by secret ballot-Reuter." جنرل اسمبلی کا صدارتی انتخاب اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان امتیازی کامرانیوں سے بھر پور زندگی کی انتہائی ارفع کامیابی اقوام متحدہ ( نیویارک ) 19 ستمبر.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں جنہیں کل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا ہے ایک ایسے عہدہ پر متمکن ہوئے ہیں جس کی رو سے وہ کسی بحث میں حصہ نہیں لے سکیں گے.صدر کی حیثیت میں آپ اقوام متحدہ کی ہنگامہ خیز سیاست سے بالا رہتے ہوئے ایک غیر جانبدار ثالث کے فرائض سر انجام دیں گے.اسمبلی کی صدارت ایک ایسی شخصیت کے حصہ میں آئی ہے جس کی قانونی اور مدبرانہ زندگی اور امتیازی کامیابیوں اور کامرانیوں کا ریکارڈ بہت شاندار ہے.قانونی اور مدبرانہ زندگی کی یہی کامیابیاں اور کامرانیاں تھیں جو چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کو لیگ آف نیشنز اور پھر اقوام متحدہ میں پہنچانے کا موجب بنیں اور آپ عالمی عدالت میں بھی حج کے عہدہ پر فائز ہوئے.سابق صدر ٹرومین کی طرح پاکستان کے یہ پابند وضع مستعد اور آزمودہ کار مدبر صبح کی فرحت افزا سیر کے بہت دلدادہ ہیں نیو یارک کے سنٹرل پارک میں صبح ساڑھے سات بجے کے قریب نصف گھنٹہ سیر کرنا آپ کا روزانہ کا معمول ہے.آپ کا کہنا ہے کہ صبح کی یہ سیر آپ کو مستعد رکھنے میں بہت ممد ثابت ہوتی ہے.اسمبلی کے نئے صدر بہت سے خطابات کے حامل ہیں 1930 ء یا اس کے معا بعد کے زمانے میں شاہ جارج پنجم آنجہانی نے آپ کو سر کا خطاب عطا کیا تھا.لیکن جب سے پاکستان جمہوریہ بنا ہے.آپ

Page 501

تاریخ احمدیت 492 جلد 21 نے اس خطاب کو کبھی استعمال نہیں کیا.آپ ” چوہدری“ کہلانے کو ترجیح دیتے ہیں.یہ ایک تکریمی لفظ ہے جو پاکستان میں زمینداروں کو مخاطب کرنے کے لئے بولا جاتا ہے.اسی طرح ” خان کا لفظ بھی اپنی ذات میں عزت اور تکریم پر دلالت کرتا ہے.آپ کو جسٹس کے خطاب سے بھی مخاطب کیا جاسکتا ہے.کیونکہ آپ عالمی عدالت انصاف ہیگ کے نو سال تک بج رہے ہیں.زمانہ تعلیم کے بعد جس میں کنگز کالج کیمبرج میں حصول تعلیم کا زمانہ بھی شامل ہے.آپ کی قانونی زندگی کا آغاز 1916 ء میں ہوا.برطانوی ہند میں آپ 1935 ء سے 1941 ء تک وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن رہے اور اسی دوران میں آپ نے لیگ آف نیشنز کے اجلاس منعقدہ 1939ء میں ہندوستانی وفد کی قیادت کا فرض ادا کیا.1947 ء میں آپ پاکستان کے وزیر خارجہ مقرر ہوئے اور اس وقت سے لے کر 1954 ء تک آپ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں اپنے ملک کے وفود کی قیادت کرتے رہے.1954 ء میں آپ عالمی عدالت انصاف کے جج مقرر ہوئے.چوہدری محمد ظفر اللہ خان نے جنرل اسمبلی کے صدارتی انتخاب میں سیلون کے جی.پی.ملا لاسکیرا کے بالمقابل فیصلہ کن فتح حاصل کی.پروفیسر سیکر ا کو روس اور بعض غیر جانبدار ممالک کی حمایت حاصل تھی.مغربی اتحاد کے ایک ممبر ملک کے نمائندے کی حیثیت سے پاکستانی مندوب کے متعلق پہلے ہی سے یہ گمان تھا کہ اسے برطانیہ، امریکہ اور دوسرے مغربی اتحادیوں کی پرزور حمایت حاصل ہے.صدارتی انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوا.امریکی پریس کارڈ عمل اس انتخاب پر امریکی پریس کا رد عمل بہت خوشگوار تھا اور حیرلڈ ٹریبیون اور ٹائمنز جیسے مقتدر اخبارات نے حضرت چودھری صاحب کو اس موقعہ پر خراج تحسین ادا کیا.چنانچہ لکھا ہے:.PRESS TRIBUTES TO ZAFRULLAH Impartiality stressed NEW YORK Sept.19: The New York 'Herald Tribnue' said today that in electing Ch.Mohammad Zafrullah Khan of Pakistan as President of the General Assebmly, the United Nations had chosen "an outstanding

Page 502

جلد 21 493 تاریخ احمدیت veteran diplomat".The newspaper said in an editorial: "The election of Sir Mohammad Zafrullah Khan as President may not please all 104 members states, but it certainly pleased a great majority of them."In Zafrullah Khan, the General Assembly has an outstanding veteran diplomat whose service to the cause of better international relations goes all the way back to the League of Nations.And he can be relied upon to administer his one-year term of office with impartiality to all members, including those of the Soviet bloc." 'TIMES TRIBUTE' The United Nations correspondent of the 'Times' today paid a warm tribute to the gifts of Ch.Zafrullah Khan.After describing him as a tolerant person with a flair for human relations the 'Times' correspondent added: "As President of the Assembly he may be relied upon to handle contentious issues with his judical flair."Outside its sittings he will doubtless continue to exercise his other gifts as a 'raconteur' and conversationalist."A modest man, he has been heard to remark that he has succeeded in life far beyond his deserts: his many friends would hardly agree with this." - Reuter.132

Page 503

تاریخ احمدیت 494 جلد 21 ظفر اللہ خاں کو پریس کا خراج تحسین غیر جانبداری پرزور نیویارک 19 ستمبر.نیو یارک ہیرالڈٹریبیون نے آج یہاں لکھا ہے کہ پاکستان کے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو جنرل اسمبلی کا صدر منتخب کر کے اقوام متحدہ نے ایک غیر معمولی محترم سفارت کار کا انتخاب کیا ہے.اخبار نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے صدر کی حیثیت سے سر محمد ظفر اللہ خان کے انتخاب سے تمام 104 ممالک تو شاید خوش نہ ہوئے ہوں لیکن یقینی طور پر اس سے بہت بھاری اکثریت کو خوشی ہوئی ہے.“ ظفر اللہ خان کی صورت میں جنرل اسمبلی کو ایک ایسا غیر معمولی محترم سفارت کار میسر آیا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی بہتری کے لئے جس کی خدمات کا دائرہ ماضی میں لیگ آف نیشنز تک وسیع ہے اور اس بارے میں ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ ان کی صدارت کے ایک سال کے دوران تمام رکن ممالک سے جس میں سوویت بلاک بھی شامل ہے.غیر جانبداری کا سلوک کیا جائے گا.“ ٹائمنر کا خراج تحسین ”ٹائمز کے اقوام متحدہ کے نامہ نگار نے چوہدری ظفر اللہ خان کی خصوصیات کو نہایت گرمجوشی سے خراج تحسین پیش کیا.یہ بیان کرنے کے بعد وہ ایک نہایت متحمل مزاج شخص ہیں جن کو انسانی تعلقات کی بھی مہارت حاصل ہے.ٹائمنز کے نمائندے نے لکھا کہ اسمبلی کے صدر کے طور پر اس بات کا یقین کیا جاسکتا ہے کہ وہ متنازعہ معاملات سے اپنی قانونی مہارت کے ساتھ نپٹ لیں گے.اسمبلی کے اجلاسوں کے باہر ان کے بارے میں بلا شک و شبہ یہ یقین ہے کہ وہ اپنی خوبصورت گفتگو اور بذلہ سنجی کی خوبیوں کا استعمال جاری رکھیں گے.وہ ایک منکسر المزاج شخص ہیں ان کے بارے میں یہ سنا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ان کو زندگی میں جس قدر بھی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ ان کے استحقاق سے بہت زیادہ ہیں، ان کے بہت سے دوست ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے.“ ( رائٹر ) ظفر اللہ نے زبر دست کام کر دکھایا سٹیونسن کی طرف سے بھر پور خراج تحسین اقوام متحدہ ، 22 دسمبر.اقوام متحدہ میں امریکی وفد کے سربراہ مسٹر ایڈی ایل سٹیونسن نے گزشتہ

Page 504

تاریخ احمدیت 495 جلد 21 روز جنرل اسمبلی کے صدر چوہدری محمد ظفر اللہ خان (پاکستان) کو جنرل اسمبلی کی کارروائی چلانے پر خراج تحسین پیش کیا ، اسمبلی کا اجلاس کل صبح ختم ہو گیا.مسٹر سٹیونسن نے کہا کہ ہماری رائے میں ”انہوں نے پارلیمانی مہارت سمجھ داری اور مروت کی صلاحیتوں کے استعمال کی مثال قائم کر دکھائی ہے.“ ( رائٹر ) پاکستانی پریس کا اظہار مسرت 134 پاکستان کے مقتدر پریس نے اس انتخاب پر بہت مسرت کا اظہار کیا چنانچہ ملک کے مشہور اور قدیم انگریزی روز نامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنی 21 ستمبر 1962ء کی اشاعت میں حسب ذیل ادارتی مقالہ لکھا:.HONOUR TO PAKISTAN Chaudhry Zafrullah Khan's election as President of the UN General Assembly is an honour as much to his person as to Pakistan.It is a measure of the recognition by UN members of his varied experience in national and international fields that he has been voted to the high office by an overwhelming majority.At no stage was his success in doubt.All the same, an interesting aspect of the contest was the extraordinary interest taken in it by India, of course against Chaudhry Sahib, and, for that matter, against Pakistan.New Delhi could certainly not have forgotten how unreserved was Pakistan's support to its nominee for this very post nine years ago.For very valid reasons Pakistan could work against Mrs.Pandit's candidature for the Presidentship of the General Assembly but she not only did not work against her but cast her own vote in her favour.But, as it is, India carried

Page 505

جلد 21 496 تاریخ احمدیت her whims and prejudices to an arena which, to be true to its salt, should be singularly free from them.In expecting her to support a Pakistani's candidature this country did not expect that India would do a good turn in return for this country's good turn to her in 1953 but that she would shed irrational prejudices and take a wider view of men and matters at a forum wich should be above all narrow-mindedness.India's conduct comes as no surprise to Pakistan; indeed this very approach is responsible for the continuing deadlock over Kashmir in the United Nations.In several respects Pakistan should be eminently suited to preside over a body like the UN General Assembly.Her support for the aims and ideals of the United Nations has been spontaneous and unqualified.She has been a most dedicated upholder of the right of self-determination for peoples everywhere.For fifteen long years she has waged almost a lonely but resolute, fight for the liberation of Kashmir in terms of the Security Counsil resolution.Although the provocation to give up the policy of peace has for long been the greatest yet Pakistan has refused to succumb to it.Her nationals can, therefore, be relied upon to serve the best interest of the world body.We are confident that Chaudhry Zafrullah would measure up to world's expectations.

Page 506

تاریخ احمدیت 497 (ترجمہ) چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا صدر منتخب ہونا جس قدر آپ کی اپنی ذات کے لئے عزت افزائی کا موجب ہے اسی قدر یہ امر پاکستان کے لئے بھی ایک اعزاز کی حیثیت رکھتا ہے.اس منصب جلیلہ پر چوہدری صاحب موصوف کو بہت بھاری اکثریت سے منتخب کیا گیا ہے.یہ گویا ممبران اقوام متحدہ کی طرف سے ایک رنگ میں اعتراف ہے اس گونا گوں اور مختلف النوع تجر بہ کا جو آپ کو قومی اور بین الاقوامی دونوں میدان میں حاصل ہے.کسی مرحلہ پر بھی آپ کی کامیابی مشتبہ نہ تھی بایں ہمہ اس مقابلہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت نے اس میں غیر معمولی دلچسپی لی اور لی بھی چوہدری صاحب کے خلاف چوہدری صاحب کی مخالفت کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے اس معاملہ میں پاکستان کی مخالفت کی.بھارتی حکومت کو یقینا یاد ہوگا کہ آج سے نو سال قبل پاکستان نے کس کھلے دل کے ساتھ اسی منصب کے لئے بھارت کے نامزد امیدوار کی حمایت کی تھی بڑی جائز اور معقول وجوہات کی بناء پر اُس وقت پاکستان جنرل اسمبلی کے صدارتی انتخاب میں مسٹر پنڈت کی مخالفت کر سکتا تھا.لیکن اُس نے نہ صرف یہ کہ کوئی مخالفت نہیں کہ بلکہ خود اپنا وٹ بھی اس کے حق میں ڈالا واقعہ یہی ہے کہ بھارت نے اس موقع پر اپنی من مانی خواہشات اور تعصبات کو ایک ایسی انجمن تک پہنچانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جسے اس قسم کے تعصبات سے پاک رکھنا ضروری ہے.جہاں تک اس معاملے میں بھارت سے حمایت کی توقع رکھنے کا سوال تھا پاکستان کو یہ توقع نہ تھی کہ بھارت 1953ء میں اس کے ساتھ کی گئی مروت کے جواب میں مروت کا کوئی ثبوت دے گا.لیکن اس قیاس کی گنجائش موجود تھی کہ شاید وہ تنگ دلانہ تعصبات کو ترک کر کے ایک ایسے مقام اجتماع میں جسے ہر قسم کی تنگ دلی ، بالا رکھنا ضروری ہے افراد اور معاملات کا جائزہ لینے میں وسعت نظری کا ثبوت دے.بہر حال بھارت کا طرز عمل پاکستان کے لئے نہ خلاف توقع ہے اور نہ کسی تعصب یا اچنبہ کا باعث یقیناً بھارت کی یہی وہ روش ہے جو اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلہ پر نہ ختم ہونے والے تعطل کی ذمہ دار ہے.کئی اعتبار سے پاکستان واضح اور نمایاں طور پر اس امر کا زیادہ اہل اور سزاوار ہے کہ اسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جیسے ادارے میں صدارت کے منصب پر فائز ہونے کا اعزاز جلد 21

Page 507

تاریخ احمدیت 498 جلد 21 دیا جائے.وہ ہمیشہ ہی اقوام متحدہ کے مقاصد اور مطمع ہائے نظر کی بے لوث اور بے ساختہ حمایت کرتا رہا ہے اور ہر علاقے کی اقوام کے حق خود اختیاری کی علمبرداری کا فرض ادا کرنا اس کا نمایاں امتیاز رہا ہے.پندرہ سال کی طویل مدت تک اس نے حفاظتی کونسل کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیر کی آزادی کے لئے تن تنہا لیکن بڑے عزم و ہمت کے ساتھ جد و جہد جاری رکھی ہے.ہر چند کہ پاکستان کو امن پسند روش ترک کرنے پر مجبور کرنے کی انتہائی درجہ کی اشتعال انگیزی میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی گئی پھر بھی پاکستان نے ہمیشہ اس اشتعال انگیزی کا اثر قبول کرنے سے انکار ہی کیا.اندریں حالات اس کے شہری بدرجہ اولیٰ اس امر کے مستحق ہیں کہ اس عالمی ادارے کے بہترین مفادات کی حفاظت اور خدمت بجالانے کے تعلق میں ان پر اعتماد کیا جائے.ہمیں پورا وثوق ہے کہ دنیا نے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب سے جو توقعات وابستہ کی ہیں آپ انہیں یقینا پورا کر دکھا ئیں گے.افریشیائی اقوام کی برتری جنرل اسمبلی کے نئے اجلاس کا ایک امتیازی پہلو تھا.اسمبلی ہال کے ڈائس پر ایشیا کی تین شخصیتیں رونق افروز تھیں ان میں اسمبلی کے سیکرٹری جنرل اوتھانٹ (U.THANT) صدر اسمبلی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور اقوام متحدہ کی کابینہ کے سر براہ سی.وی.ناراسمن (C.V.Narismhan) شامل تھے.18 اسمبلی کے اجلاس کی پہلی کارروائی روانڈا اور برونڈی، جمیکا اور ٹرینی ڈاڈ ٹو با گوکو اقوام متحدہ کی رکنیت عطا کرنا تھا.جس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ میں افریشیائی ممالک کی تعداد 53 ہوگئی.حضرت چودھری صاحب نے نئے ارکان کا پُر جوش خیر مقدم کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ یوگنڈا کو اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کا رکن بنالیا جائے گا آپ نے فرمایا کہ یہ امر انتہائی طمانیت اور مسرت کا موجب ہے کہ الجزائر کے بہادر نڈر عوام کی آزمائش ختم ہو گئی ہے اور وہ بھی ہمارے درمیان اپنی جگہ سنبھالیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا آپ نے نئے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اقوام کے درمیان تعلق میں ایک صحت مند تبدیلی رونما ہورہی ہے اور اب تسلط اور محکومیت کی جگہ مساوات اور تعاون لے رہا ہے.180 اقوام متحدہ میں الجزائر کی رکنیت سے حضرت چوہدری صاحب کو خاص طور پر مسرت ہوئی.الجزائر کے صدر احمد بن بیلا نے اس موقعہ پر جو استقبالیہ تقریب منعقد کی اسے حضرت چوہدری صاحب کے نام سے منسوب کیا اور چوہدری محمد علی بوگرا سے ( جو وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت سے نیو یارک میں موجود تھے اور

Page 508

تاریخ احمدیت 499 جلد 21 اس دعوت میں شامل تھے ) دوستانہ شکوہ کیا کہ شمالی افریقہ کے اسلامی ممالک لیبیا، تونس ، الجزائر ، مراکش کی جد و جہد آزادی میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے نمایاں حصہ لیا ہے وہ ہم سب کو بہت عزیز ہیں اور ہم سب کی بڑی خواہش ہے کہ وہ ہمارے ہاں آئیں لیکن ابھی تک رضامند نہیں ہوئے.چوہدری محمد علی بوگرا نے صدر بن بیلا کا شکوہ بیان کر کے دریافت کیا کہ آپ کیوں تشریف نہیں لے جاتے آپ نے فرمایا ”میں حکومت پاکستان کا ملازم ہوں حکومت کے ارشاد کے بغیر یہاں سے ہل نہیں سکتا.انہوں نے کہا اسکا انتظام ہو جائے گا چنانچہ اگلے سال آپ نے ان اسلامی ممالک کا بھی دورہ کیا جس سے ان ممالک کے پاکستان سے روابط ور واسم پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئے.ایوان اسمبلی کے صدارتی پلیٹ فارم کے عقب میں ایک چھوٹا سا کمرہ اگر چہ صدر اسمبلی کے عارضی استعمال کیلئے ہے مگر اُس کا اصل دفتر ایک وسیع کمرے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ کی 38 ویں منزل پر ہے.آپ کے انتخاب پر آپ کو یہ کمرہ دکھایا گیا کہ اجلاس میں آنے سے پہلے اپنا دفتری کام بھی یہاں کیا کریں اور ارکان اور افسران عملہ سے ملاقاتیں بھی مگر آپ نے فرمایا کہ ”میں تو ایک سادہ طبع آدمی ہوں ان تکلفات کا عادی نہیں نہ ان کی ضرورت کا قائل ہوں.مزید براں اراکین ممالک کے مندوبین سے الگ تھلگ ہوکر اس بلند برج میں بیٹھ جانے سے تو مجھے اُن کے ساتھ تبادلہ خیالات کے مواقع میسر نہ آئیں گے اور میں اُن کے تاثرات سے آگاہ نہ ہو سکوں گا میں تو جیسے پہلے اسمبلی میں آتا ہوں ویسے ہی آیا کروں گا اور اپنے دفتری کام کے لئے ایوان اجلاس کے عقب والا چھوٹا کمرہ استعمال کروں گا کہ وہ میری ضروریات کے لئے کافی ہے اور میرے ملنے والوں کو بھی اس میں سہولت رہے گی میرے ساتھ پانچ منٹ کی گفتگو کے لئے انہیں دس منٹ سیکریٹریٹ کی اڑتیسویں منزل تک اور مزید گفتگو کے بعد مزید دس منٹ وہاں سے اتر کر اسمبلی میں پہنچنے کے لئے صرف کرنے کی حاجت نہ ہوگی.ایوان اجلاس کے عقب والے کمرے میں وہ بلا تکلف بلا اطلاع میرے وہاں موجود ہونے کے اوقات میں جس وقت چاہیں مجھ سے مل سکتے ہیں.عملے کے افسران سے بھی وہیں مشورہ ہو جایا کرے گا وہ بھی خواہ مخواہ کی زحمت سے بچ جایا کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوتا رہا.جس سے ملاقاتیوں کو غیر معمولی سہولت رہی اور آپ کے زمانہ صدارت کے دوران اٹر تیسواں منزل والا شاندار دفتر غیر مستعمل رہا.صدر پاکستان کا خراج تحسین ہوئے فرمایا:- 26 ستمبر 1962ء کو صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں نے جنرل اسمبلی کو خطاب کرتے

Page 509

تاریخ احمدیت 500 جلد 21 حضرات کرام و معز ز نمائندگان اسمبلی! پاکستان کے لئے یہ امر موجب امتنان و تفاخر ہے کہ اقوام عالم کی جلیل القدر اسمبلی نے پاکستان کے ممتاز ومخلص باشندوں میں سے ایک ممتاز ترین شہری کو جنرل اسمبلی کا صدر منتخب کر کے ایک خصوصی اعزاز بخشا ہے.مجھے یقین واثق ہے کہ روائتی غیر جانبداری مدبرانہ صلاحیت اور غیر معمولی احساس فرض کے اوصاف (جن کی وجہ سے آپ پہلے ہی بہت نیک شہرت کے مالک ہیں ) اپنے اہم فرائض کی ادائیگی میں آپ کے لئے مشعل راہ ثابت ہو نگے.ایجنڈا کے مراحل کی خوش اسلوبی سے تکمیل 139- جنرل اسمبلی کے ابتدائی دو اجلاسوں میں ایجنڈا کی ترتیب اور تقسیم کی کارروائی کے اہم امور تھے جو خلاف توقع نہایت پرسکون اور پُر وقار ماحول میں مکمل ہوئے حالانکہ اس مرحلہ پر ہنگامہ آرائی کے سے منظر دیکھنے میں آتے تھے.چنانچہ مشہور عالم ہفت روزہ میگزین ٹائم (TIME) نے اپنی 28 ستمبر 1962 ء کی اشاعت میں لکھا:.(ترجمہ) عالمی سیاسی مدبرین اس امر سے خائف تھے کہ جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پھر جوتیوں میں دال بٹے گی مگر اسمبلی کے نئے پاکستانی مستبع داڑھی والے صدر جناب چودھری محمد ظفر اللہ خاں نے پچھلے ہفتہ ثابت کر دیا کہ وہ اسمبلی میں کسی قسم کی بد تمیزی کو یا غیر آئینی کا رروائی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے.روی نمائندوں نے جب کہا کہ جنرل کمیٹی جس کے چودھری صاحب موصوف چیئر مین ہیں اپنی ساکھ کھورہی ہے.تو جناب چودھری صاحب نے کمال سکون سے فوراً جواب دیا کہ کمیٹی اپنے وقار کی خود محافظ ہے اور اپنے وقار کی حفاظت کرنے کی بخوبی طاقت بھی رکھتی ہے.چودھری صاحب موصوف ایک قابل ترین قانون دان اور عالمی سیاسی مدبر ہیں.آپ ٹھنڈے دل اور دماغ کے مالک ہیں.آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ سیاسی ارتقاء اور انتہاء پسند تحریکوں کے دور سے گزرا ہے.مگر آپ ہمیشہ افراط اور تفریط سے بچ کرمیانہ روی کی پالیسی کے علمبر دار ر ہے ہیں.آپ انتہائی شائستہ اور باوقار شخصیت ہیں.یہاں تک کہ انتہائی گرما گرم بحث کے دوران بھی لغو اور بیہودہ زور خطابت کے مقابلہ میں نکتہ رس عقلی دلائل کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں اقوام متحدہ میں آپ کے بدترین مخالف ہندوستان کے رسوائے عالم آتش بیان کرشنا مین کے ساتھ کئی دفعہ آپ کی جھڑپیں ہوئی ہیں.ظفر اللہ خاں آزادی ہند کے اولین علمبرداروں میں سے ہیں مگر آپ نے جذبات کی رو میں بہہ کر اندھا دھند جد و جہد کو بھی اپنا شعار نہیں بنایا اور

Page 510

تاریخ احمدیت 501 جلد 21 نہ ہی پنڈت نہرو کی طرح جیلوں میں نظر بند ر ہے ہیں.آپ نے ہمیشہ اس بات کو ترجیح دی کہ حکومت برطانیہ کے ساتھ ایک معقول تدریجی سیاسی آزادی کا معاہدہ کیا جائے جس کے نتیجہ میں ان پر طعن بھی کیا گیا.ظفر اللہ خاں کمیونسٹوں کے سخت مخالف ہیں اور اکثر پرائیویٹ مجالس میں امریکہ پر بھی نکتہ چینی کرتے ہیں کہ امریکہ اپنے مضبوط حلیف پاکستان کے مقابلہ میں نا قابل اعتبار اور غیر ذمہ دار ممالک کی امداد زیادہ کرتا ہے.آپ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں.نہ سگرٹ پیتے ہیں.نہ شراب، جو نہی آپ نے کرسی صدارت سنبھالی آپ نے اپنی اہم ذمہ داریوں کے بوجھ کو محسوس کرتے ہوئے عربی زبان میں یہ دعا مانگی رب اشرح لي صدري ويسرلى امرى واحلل عقدة من لساني يفقهوا قولي - 140 ایجنڈا کے ترتیب پا جانے کے بعد اسمبلی کے باقاعدہ اجلاس شروع ہوئے.قبل ازیں یہ رسم پڑگئی تھی کہ مندوبین اسمبلی کی عمارت میں تو پہنچ جاتے لیکن ایوان اجلاس میں آنے کی بجائے ایوان مند و بین میں بیٹھے تمباکو نوشی وغیرہ کے شغل میں مصروف رہتے یا ادھر اُدھر کی باتوں میں وقت صرف کرتے.نتیجہ یہ ہوا کہ صدر اسمبلی کے لئے انتظار کا وقفہ سولہویں سالانہ اجلاس تک قریباً چالیس منٹ تک پہنچ گیا.صبح کے اجلاس کا اعلان شدہ وقت تو ساڑھے دس بجے کا تھا لیکن اجلاس کی کارروائی گیارہ بجے کے بعد شروع ہوتی تھی.حضرت چودھری صاحب نے ابتدا ہی سے مقررہ وقت پر کارروائی شروع کرنے کی شاندار روایت قائم فرمائی.جب مندوبین نے دیکھا کہ آپ پابندی وقت پر مصر ہیں تو رفتہ رفتہ انہوں نے بھی با قاعدہ وقت پر شامل اجلاس ہونا شروع کر دیا.اس سالانہ اجلاس کے دوران جب پہلے دن بارش ہوئی تو حاضری معمول سے کم تھی مگر اس کے باوجود آپ نے اجلاس کی کارروائی شروع کر دی اور سہ پہر کے اجلاس کے اختتام پر مند و بین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- آج صبح کے اجلاس کے شروع میں بارش کی وجہ سے حاضری توقع سے کم تھی اب موسم خزاں کی طرف بڑھ رہا ہے بارش، برف اور تیز ہواؤں کا سامنا ہوگا اس کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اجلاس کی کارروائی دیر سے شروع ہوا ایسے موسم میں وقت پر پہنچنے کے لئے آپ اپنے دولت کدوں یا اپنے دفاتر سے ذرا جلد ہی روانہ ہو جایا کریں.آپ نے از راہ کرم ایک ستر سالہ بوڑھے کو اسمبلی کا خادم اول منتخب کیا ہے جیسے آپ اس سے بجا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کو مستعدی سے سرانجام دے ویسے ہی وہ آپ جیسے چست نو جوانوں سے بجا توقع رکھتا ہے کہ آپ اس کے ساتھ پورا تعاون کریں.میں صبح ساڑھے سات بجے اپنے پاکستانی دفتر میں پہنچ جاتا ہوں اور وہاں سے سوا دس بجے یہاں صدر کے کمرے

Page 511

تاریخ احمدیت 502 جلد 21 میں پہنچ جاتا ہوں.جو امر میرے لئے آسان ہے وہ آپ سب کے لئے آسان تر ہونا چاہیئے.حضرت چودھری صاحب نے یہ بات بے تکلفانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہی اور مندوبین نے بھی ہنستے ہنستے سنی.لیکن اس کے بعد وہ ایسے پابند اوقات ہوئے کہ آپ کو اس کے دُہرانے کی ضرورت پھر 141 کبھی پیش نہیں آئی.پیشتر از میں جنرل اسمبلی میں ضابطے کے سوالوں پر بڑی گرما گرم بحثیں ہوتی تھیں اور پہلے سالوں میں تو ہرا جلاس میں صبح شام تین چار بلکہ اس سے بھی زیادہ دفعہ ایسے سوال اٹھائے جانے کا معمول ہو گیا تھا.اس سے ایک تو پروگرام میں حرج واقع ہوتا دوسرے زیادہ ضابطے کے سوالوں کا اٹھایا جانا صد راسمبلی کی کار کردگی پر اعتراض سمجھا جاسکتا ہے.حضرت چودھری صاحب کے دور صدارت کی یہ منفرد اور مثالی خصوصیت ہمیشہ یادگار رہے گی کہ سترھویں اجلاس کے دوران کسی مندوب کو ضابطے کا سوال اٹھانے کی جرات نہیں ہوئی.آپ نے ارکان اسمبلی کی سہولت کے لئے کمیٹیوں کے صدروں کو یہ قیمتی مشورہ دیا کہ وہ اپنے اپنے ایجنڈوں کی ہفتہ وار تقسیم کے نقشے تیار کر لیں اور جب دیکھیں کہ کسی ہفتے میں کام کی رفتارست پڑ رہی ہے.تو کمیٹی کو توجہ دلا دیں اور کہہ دیں کہ ہفتے کا کام ختم کرنے کی خاطر کمیٹی کے اجلاس شام کو بھی مقرر کرنا ہوں گے.اس تجویز پر عمل کرنے سے بہت فائدہ ہوا اور بہت کم شام کے اجلاس کرنے پڑے.اسمبلی کا آخری اجلاس تو شام کو رکھنا لازم ہوتا ہے اور نصف شب تک چلتا ہے لیکن آپ کے عہد صدارت میں نہ تو ہفتے کی صبح کو کوئی اجلاس کرنا پڑا اور نہ کسی شام کو.اس طریق سے مندوبین کو بھی بہت سہولت رہی اور انہیں ایجنڈے کے مسائل پر غور اور مشورہ کرنے اور متفرق امور کی طرف توجہ کرنے کے مواقع متواتر میسر آتے رہے.اسمبلی کا دستور ہے کہ ہر دوسری جمعرات کے دن صدر اسمبلی اقوام متحدہ میں کام کرنے والے پریس کے نمائندگان میں سے پندرہ میں نمائندگان کی دو پہر کے کھانے پر دعوت کرتا ہے دوسری طرف پر لیس کے نمائندگان ہر سیشن کے دوران میں ایک بار صدر کے اعزاز میں شام کے کھانے پر ایک جشن منعقد کرتے ہیں جس میں کھانے کے بعد موسیقی اور ناچ اور تماشا ہوتا ہے.یہ تقریب رات دو بجے تک جاری رہتی ہے.حضرت چودھری صاحب سے اقوام متحدہ کے صحافیوں کی انجمن کے صدر نے دریافت کیا کہ کیا فلاں شام اس جشن کے لئے موزوں رہے گا.آپ نے پیغام دیا کہ مجھے اس تقریب کیلئے کوئی شام بھی موزوں نظر نہیں آتی جس پر صدر صاحب خود ملاقات کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں بتایا کہ اس تقریب کا

Page 512

تاریخ احمدیت 503 جلد 21 ہر پہلو مغربی تہذیب اور معاشرے کی تصویر ہے جس کی طرف میری طبیعت کو کچھ بھی رغبت نہیں بلکہ ایسی تقریبوں میں ہونے والے بعض اشغال سے میری طبیعت منقص ہوتی ہے اور گو میں خودان میں شرکت نہ کروں پھر بھی وہ میری طبیعت پر گراں ہوں گے لہذا کیا ضرورت ہے کہ میں ایک رات کا آرام ایسی تقریب کی خاطر قربان کروں اور اپنی عادات اور عبادات کے اوقات میں اس کے نتیجے میں خلل اور بے قاعدگی پیدا کروں.“ صدر صاحب نے عرض کی آپ شام کے کھانے کی دعوتوں میں تو جاتے ہیں.آپ نے فرمایا جاتا ہوں لیکن دس بجے سے چند منٹ قبل اجازت لے کر چلا آتا ہوں صدر نے کہا کہ اچھا پھر ہم بھی ایسا ہی انتظام کر لیں گے کھانا ختم ہوتے ہی میں آپ کا جام صحت تجویز کروں گا اور آپ اس کا جواب دے کر بے شک چلے آئیں.حضرت چودھری صاحب نے تجویز منظور کر لی اور فرمایا ” اس صورت میں میں بڑی خوشی سے شامل ہوں گا.“ آپ اپنے فرائض کی بجا آوری میں اپنی جدو جہد کو نقطہ کمال تک پہنچادینے کے قائل تھے اور انتظامی اور اصولی امور کو بڑی گہری نظر سے دیکھتے اور اس بارے میں جزئیات کی حد تک نگرانی کرتے تھے.ایک روز اسمبلی پہنچنے پر آپ نے ایجنڈا پر سرسری نظر ڈالی تو احساس ہوا کہ جو ایجنڈا آپ نے طے کیا تھا اس میں کچھ تبدیلی کی گئی ہے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک وفد کی طرف سے کسی دقت کی بناء پر ایک تبدیلی کی خواہش کی گئی تھی.آپ نے فرمایا مجھ سے کیوں نہ ذکر کیا گیا؟ متعلقہ افسر نے بتایا کہ رات کے گیارہ بج چکے تھے آپ جلد سو جاتے ہیں ساتھ ہی یقین تھا کہ اگر آپ تک اُن کی خواہش پہنچائی جائے تو آپ ضرور اُسے منظور فرمالیں گے.آپ نے فرمایا یہ تو درست ہے اور جو تبدیلی ہوئی اس پر مجھے اعتراض نہیں لیکن اصولاً یہ طریق صحیح نہیں.یہ بھی درست ہے کہ میں جلد سو جاتا ہوں اور آپ صاحبان کو دیر تک کام کرنا پڑتا ہے جس کی میں بہت قدر کرتا ہوں لیکن رات کو ٹیلیفون میرے بستر کے پاس ہی ہوتا ہے جب ضرورت ہو آپ بلا تکلف رات کو کسی ساعت میں میرے ساتھ بات کر سکتے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کبھی میرے آرام میں مخل نہیں ہوں گے نہ میری آواز میں نیند کا اثر محسوس کریں گے اور بات ختم ہونے کے نصف منٹ کے اندر میں پھر گہری نیند سو رہا ہوں گا.166 حضرت چودھری صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ آپ غیر جانبداری کی پالیسی کو پیش نظر رکھیں گے.آپ نے اپنے اس عہد کو ایسی عمدگی ، قابلیت اور احسن طریق سے نبھایا.روس اور مشرقی یورپین ممالک جنہوں نے آپ کے خلاف پروفیسر ملالا سیکرا کو ووٹ ڈالے تھے وہ بھی آپ کے گرویدہ ہو گئے اور ابتدائے اجلاس سے آخر تک آپ سے بھر پور تعاون کرتے رہے.روسی مشن متعینہ

Page 513

تاریخ احمدیت 504 جلد 21 اقوام متحدہ کے سر براہ سفیر زورین بڑی پُر وقار شخصیت تھے.جب کبھی انہیں اسمبلی کی عمارت کے اندر آپ سے ملاقات کا موقعہ ملتا وہ بڑے تپاک سے مصافحہ کرتے اور آپ کے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر ”ہمارے محترم صدر.ہمارے غیر جانبدار صدر کے الفاظ سے آپ کا خیر مقدم کیا کرتے تھے ایک بار وہ روس کے وزیر خارجہ گرومیکو (Andrei Gromy Ko) کے ساتھ آپ کے کمرے میں بھی آئے اور انہوں نے گفتگو کے دوران روس آنے کی دعوت دی.کچھ دن بعد سفیر زورین پھر تشریف لائے اور فرمایا کہ وزیر خارجہ ماسکو واپس چلے گئے ہیں اور جاتے ہوئے مجھے تاکید کر گئے ہیں کہ آپ کو ان کی دعوت کی یاد دہانی کرادوں چنانچہ اگلے سال جون 1963 ء میں آپ روس تشریف لے گئے اور لینن گراڈ ، ماسکو، تاشقند اور سمرقند کی سیر کی.اس دوران مسٹر خروشیف سے بھی ملاقات ہوئی.وزیر خارجہ مسٹر گرومیکو نے آپ کے اعزاز میں دعوت طعام دی جس میں نائب وزیر خارجہ سابق سفیر زورین بھی شامل تھے.مسٹر زورین قیام ماسکو کے دوران آپ کے ساتھ بہت محبت اور تواضع کا سلوک کرتے رہے.148 نومبر 1962ء میں حضرت چودھری صاحب مسٹر اینڈریو کوری کی دعوت پر واشنگٹن تشریف لے گئے اور سینئر ڈپلومیٹس کے سمینار میں لیکچر دیا.امریکی وفد متعینہ اقوام متحدہ کی طرف سے آپ کو بتایا گیا کہ صدر اسمبلی اپنی صدارت کے دوران اگر واشنگٹن جائے تو وہ صدر ریاستہائے متحدہ سے ضرور ملاقات کرتا ہے.چنانچہ واشنگٹن جانے پر آپ کی صدر کینیڈی سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی وہ بڑی بے تکلفی سے پیش آئے.مختلف امور پر گفتگو ہوئی جن میں قضیہ کشمیر بھی تھا.الغرض اللہ تعالیٰ نے کس شان کے ساتھ اپنے پیارے بندے کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور قدم قدم پر تائید و نصرت فرمائی.مگر رب کریم کی قدرت نمائی اور معجزانہ شان کا ظہور جس رنگ میں سترھویں اجلاس کے اختتام پر ہوا اُس نے پریس اور عالمی اسمبلی کے مندوبین کو سچ مچ ورطہ حیرت میں ڈال دیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر چہ جنرل کمیٹی ایجنڈا مرتب کرنے کے ساتھ ہی سیشن کے ختم ہونے کی تاریخ بھی تجویز کرتی ہے.جو 21-22 دسمبریا اس کے قریب قریب ہوتی ہے.لیکن بحث اتنی طول کبھیچ جاتی کہ مجوزہ تاریخ پر اجلاس ختم نہ ہو سکتا اور کرسمس کی تعطیلات کے لئے ملتوی ہوکر جنوری میں جاری رہتا.لیکن حضرت چودھری صاحب کے دور صدارت کے آخری ہفتے سے پہلے ہی دو ایک کمیٹیوں نے اپنا ایجنڈا ختم کر کے اپنا کام مکمل کر لیا پھر آخری ہفتے کے وسط تک بعض اور کمیٹیوں کا کام بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا.جس پر پریس کے نمائندگان میں کچھ ہلچل شروع ہوگئی کہ شاید سیشن اس دفعہ مقررہ تاریخ ( 22 دسمبر ) تک ختم ہو جائے.کام کی رفتار سے تو اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ 22 دسمبر تک اسمبلی اپنا ایجنڈا ختم کر کے کام پورا کرلے گی.لیکن یہ ایسی

Page 514

تاریخ احمدیت 505 جلد 21 اچھنبے کی بات معلوم ہوتی تھی کہ کسی کو اس پر اعتماد نہیں تھا.اسی اثناء میں 21 دسمبر کا دن آ گیا.اس دن کے ایجنڈے پر آخری اندراج اعلان صدر درباره تکمیل اجلاس کے الفاظ میں تھا.پر لیس اور مند و بین دونوں حیران رہ گئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ سب کا اندازہ تھا کہ گوا جلاس ختم ہونے کو ہے لیکن یہ ہرگز ممکن نہیں کہ مجوزہ تاریخ سے ایک روز قبل آج ہی ختم ہو جائے مجوزہ تاریخ کی نصف شب تک ضرور چلے گا.مگر دنیا بھر کے چوٹی کے سب سیاسی نمائندوں اور صحافیوں کے اندازے یکسر غلط ثابت ہوئے اور سترھواں اجلاس اسی روز نہایت کامیابی کیساتھ اختتام پذیر ہو گیا جس سے جنرل اسمبلی کی تاریخ میں ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوا اور ہر طرف خوشی اور مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی.ایجنڈا ختم ہوا تو الوداعی تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا اسوقت ماحول نہایت سنجیدہ اور پر اطمینان تھا.منتخب مندوبین نے نہایت محبت و اخلاص اور عقیدت بھرے الفاظ میں حضرت چودھری صاحب کو خراج تحسین ادا کیا.پروفیسر مالاسیکر انے بھی نہایت تعریفی کلمات میں آپ کی خدمات کو سراہا.اگر چہ سارے اشتراکی ممالک کی طرف سے بلغاریہ کے مندوب مناسب الفاظ میں اظہار کر چکے تھے.لیکن روسی سفیر زورین اس پر مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے روس اور اشترا کی ممالک کی طرف آپ کی عظیم الشان خدمات اور بالخصوص آپ کی غیر جانبداری کی دل کھول کر تعریف کی.اسمبلی کی کارروائی کا کامیابی سے اختتام حضرت چودھری صاحب اس اختتامی کا رروائی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.” میرا ارادہ اپنے الفاظ کو مند و بین اور عملے کے تعاون کے شکریہ تک محدود رکھنے کا تھا لیکن ایوان کا ماحول کچھ زائد کا متقاضی تھا میں نے خوشحال اور تنگ حال ممالک کے درمیان اقتصادی تفاوت کی طرف توجہ دلا کر اس بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنے کی شدید ضرورت پر زور دیا.میری آواز ہجوم جذبات کی وجہ سے نرم اور دبی ہوئی تھی شاید اس وجہ سے اور بھی توجہ سے سنی گئی.ایوان میں کامل خاموشی تھی.لیکن جب میں نے آخری الفاظ اپنے رفقاء کو خدا حافظ کہہ کر تقریر کوختم کیا تو بالکل ایسا معلوم ہوا جیسے کسی طوفانی سمندر کا بند ٹوٹ گیا ہے اور مندوبین کا ایک جمگھٹا صدارت کے پلیٹ فارم پر جمع ہو گیا.بعض افریقی اور ایشیائی مندوبین نے مجھے معانقے سے نوازا اور بہت سوں نے شکریہ اور آفرین کے الفاظ کہے.میں کچھ کہنے کے قابل نہ تھا لیکن دل بار بار پکار رہا تھا سجدت لك روحى وجناني.سجدت لك روحى و جناني 766

Page 515

تاریخ احمدیت 506 نمائندہ پاکستان ٹائمنز“ کی خصوصی رپورٹ نیو یارک پاکستان ٹائمنز کے وقائع نگار خصوصی نے حسب ذیل رپورٹ ارسال کی :- جلد 21 U.N.Assembly adjourns before due date DELEGATES PAY GLOWING TRIBUTES TO ZAFRULLAH From Our U.N.Special Correspondent.UNITED NATIONS: Dec.21: The assembly adjourned one day before its target date, thus breaking all records in the Assemblies history.The record is more remarkable since the United Nations has doubled its membership and with 110 loquacious members this year.We certainly expected to need more than the usual three months required when we were only 55.The merit belongs entirely to Ch.Zafrullah, and to him alone.By doing this he has also proved that it is not necessary to take drastic measures to "streamline" the Assembly's work, such as those proposed by many delegates and experts.Among these measures there were even suggestions to begin the Assebmly in August, which would have ruined the vacations of all the children of United Nations people as well as them, by forcing them to return to New York when it is hottest and most humid.

Page 516

جلد 21 507 تاریخ احمدیت All it took to end at the prescribed time was discipline and the courage to impose it.There was a lot of grumbling, especially because Ch.Zafrullah began his gavel and began his meeting at exactly the announced time, whether there was quorum or not.After a few doses of this medicine delegates were at their desk on time.When meetings of the plenary session had to be adjourned because the delegates were not ready, Ch.Zafrullah told them bluntly that if they were not ready they should give up their receptions and dinners and do their home-work or else return after January to finish the work.He would not prolong the debates beyond Friday, the 21st at 6 p.m.(the entire Secretariat Christmas vacations would have been disorganized, if we had to work on Saturday or Monday).Incidently, by doing this and adhering so strictly to rules Ch.Zafrullah saved the United Nations a petty penny; according to estimates of Secretariat given to the Fifth Committee, one week of Assembly plenary meeting and of one single committee meeting cost exactly 42,000 dollars.Last Years second part of the Assembly with only the fourth commitee and The Plenary in session lasting seven weeks, cost 4,00,000 dollars.This money-saving which is a corollary of Ch.Zafrullah's iron discipline is one of its most important if less noticed aspects.

Page 517

جلد 21 508 تاریخ احمدیت In a special interview with this correspondent about this Assembly, Ch.Zafrullah said how greatful he was for co-operation he received from all the delegations, adding: "I did not have to make one ruling." This was indeed remarkable.There is not one President of Assembly who did not have to make rulings now and then, in the course of three months, and these rulings are challenged some times.At other times, I have been seen Presidents become completely and inextricably entwined in beautiful procedural snarls and spend hours trying to get of them.But, with Ch.Zafrullah nothing like this ever happened.After completing all the agenda work it is customary for delegate to pay tributes to their President, but this custom too was more than customary on Thursday night.The extraordinary praise lavished on Ch.Zafrullah was sincere and reserved, and it began graciously with a speech be Ceylon's Mr.Malalasekera, who had lost the presidency to Ch.Zafrullah in September, and who spoke on behalf of Asian neutral countries Indonesia, Burma etc.But, India's name was absent from his list.Other followed speaking on behalf of group of countries.The most unusual tributes were two from eastern-Europe - Bulgaria, who spoke for entire group, praised Ch.Zafrullah for simultaneously exerting discipline and giving full freedom of expression to everybody.The Soviet -

Page 518

تاریخ احمدیت 509 جلد 21 delegate came to the rostrum, although Bulgaria had spoken on his behalf too, and gave Ch.Zafrullah an other round of compliments.Finally Ch.Zafrullah gave short address which moved every body, in which he spoke of the under-developed countries and their needs.Then he gave a particular praise to the Secretariat and its help, in a manner more impressive than perfunctory compliments usually paid to these dedicated workers.It was indeed Ch.Zafrullah's finest hour, but what he does not know is what the Secretariat people kept telling me these last few days, and the more emphatically as closing time approached; "They should make him Assembly President for life."150 اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کارروائی وقت مقررہ سے پہلے ختم ہو گئی نمائندگان کی طرف سے ظفر اللہ کو سنہری الفاظ میں خراج عقیدت اقوام متحدہ میں ہمارے خصوصی نمائندہ سے ) اقوام متحدہ: 21 دسمبر.جنرل اسمبلی کی کارروائی اپنے مقررہ وقت سے ایک دن پہلے ختم ہوگئی اور اس طرح اسمبلی کی تاریخ میں پہلے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے.یہ ریکارڈ اس لحاظ سے بھی زیادہ شاندار ہے کیونکہ آجکل اقوام متحدہ کے اراکین ممالک کی تعداد ماضی کے مقابلے میں دگنی ہو چکی ہے اور اس سال اس کے اراکین میں کل 110 با تونی اراکین شامل ہیں.ہمیں یقینا یہ توقع تھی کہ کارروائی ختم کرنے کیلئے معمول کے تین مہینوں سے زیادہ وقت لگے گا کیونکہ یہ وقت اس وقت مقرر کیا گیا تھا جب اقوام متحدہ کے اراکین کی کل تعداد صرف 55 تھی اور یہ سہرا صرف اور صرف چودھری ظفر اللہ کے سر بندھتا ہے اور کسی کے نہیں.یہ کام کر کے انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جنرل اسمبلی کی کارروائی کو پڑی پر چڑھائے رکھنے کیلئے بہت بڑے اقدامات کئے جائیں جیسا کہ بعض نمائندگان اور ماہرین نے

Page 519

تاریخ احمدیت 510 جلد 21 انہیں مشورہ بھی دیا تھا.ان غیر معمولی اقدامات میں یہ بھی شامل تھا کہ اسمبلی کی کارروائی اگست سے شروع کر دی جائے.ایسا کرنے سے اقوام متحدہ سے منسلکہ تمام لوگوں اور ان کے بچوں کی چھٹیاں برباد ہو کر رہ جائیں کیونکہ ان کو اس پر مجبور کیا جاتا کہ وہ ایسے دنوں میں نیو یارک واپس پہنچ جائیں جبکہ شدید گرمی اور مرطوب آب و ہوا کے دن ہوتے ہیں.وقت مقررہ میں کام ختم کرنا اس لئے ممکن ہو گیا کہ ڈسپلن کا خیال رکھا گیا اور اس کو نافذ کرنے کی جرات موجود تھی.اس پر خاصا شور شرابا ہوا اور اسکی وجہ خاص طور پر یہ تھی کہ چودھری ظفر اللہ اپنا اجلاس اور دیگر کام عین وقت مقررہ پر شروع کر دیتے تھے چاہے اس وقت کو رم ہوتا یا نہ ہوتا.اس دوائی کی چند خوراکوں کے بعد ہی نمائندگان وقت مقررہ پر اپنی نشستوں پر نظر آنے لگے.جب مکمل اجلاسوں کی کارروائی اس لئے ملتوی کرنی پڑی کہ نمائندگان تیار نہ ہوتے تھے تو چودھری ظفر اللہ نے ان کو صاف صاف کہ دیا کہ اگر وہ تیار نہ ہو سکیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے استقبالیے اور ڈنر ترک کر دیں اور اس کی بجائے اپنا ہوم ورک مکمل کریں بصورت دیگر انہیں جنوری کے بعد آنا پڑے گا.انہوں نے کہا کہ وہ بحث کو جمعہ 21 تاریخ شام چھ بجے سے زیادہ طویل نہیں ہونے دینگے.(اگر ہم نے ہفتہ اور سوموار کو بھی کام کیا تو سارے سیکریٹریٹ کی کرسمس کی چھٹیاں متاثر ہو جائیں گی ) اتفاق سے یہ بھی ہوا کہ ایسا کرنے سے اور قواعد پر پوری طرح عمل کرنے سے چودھری ظفر اللہ نے اقوام متحدہ کی خاصی رقم بچالی.پانچویں کمیٹی کوسیکر یٹریٹ نے جو تخمینہ فراہم کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسمبلی کے ایک ہفتے کے مکمل اجلاس اور صرف ایک کمیٹی کی میٹنگ پر پورے بیالیس ہزار ڈالر خرچ ہو جاتے ہیں.گزشتہ سالوں میں اسمبلی کے دوسرے حصے میں جسمیں صرف چوتھی کمیٹی کا اجلاس اور مکمل اجلاس منعقد ہوئے اور جو سات ہفتے جاری رہے 4لاکھ ڈالرخرچ ہوئے.رقم میں یہ کفایت جو کہ چودھری ظفر اللہ کے اپنی نظم و ضبط کا ایک نتیجہ تھا.اس معاملے کے اہم ترین پہلوؤں میں سے ایک تھا اگر چہ اس بات کی طرف کم توجہ ہوئی ہے.اس نمائندے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اس اسمبلی کے بارے میں چوھدری ظفر اللہ نے کہا کہ مجھے تمام نمائندگان کی طرف سے جو تعاون ملا ہے اس پر میں ان سب کا بے حد مشکور ہوں انہوں نے مزید کہا کہ ”مجھے ایک بھی رولنگ نہیں دینی پڑی.یقینی طور پر یہ ایک زبر دست بات ہے.اس اسمبلی کا کوئی ایک بھی صدر ایسا نہیں گزرا جس کو آئے دن رولنگ نہ دینا پڑتی ہوں اور بعض اوقات ان رولنگ کو چیلنج بھی کر دیا جاتا تھا.دیگر صدر صاحبان کے وقت میں میں نے یہ بھی دیکھا کہ :-

Page 520

تاریخ احمدیت وو 511 جلد 21 وہ ضابطے کی خوبصورت پیچیدگیوں میں اس بری طرح پھنس جاتے تھے کہ وہ اس سے رہائی کیلئے کئی کئی گھنٹے صرف کیا کرتے تھے.لیکن چوہدری ظفر اللہ کے ساتھ ایسا معاملہ کبھی پیش نہیں آیا.ایجنڈے کا تمام کام ختم کرنے کے بعد یہ دستور ہے کہ نمائندگان اپنے صدر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن جمعرات کی رات کو یہ رسم معمول کی رسم سے بہت بڑھ کر تھی.چوہدری ظفر اللہ کی جو غیر معمولی تعریف کی گئی وہ اخلاص اور احترام پر مبنی تھی اور یہ تقریب سیلون کے مسٹر ملالا سیکرا کی تقریر سے نہایت خوشگوار انداز میں شروع ہوئی.یادر ہے کہ یہ صاحب چودھری ظفر اللہ کے مقابل پر گزشتہ ستمبر میں صدارت کا الیکشن ہار چکے ہیں وہ ایشیا کے غیر جانبدار ملکوں انڈونیشیاء بر ماوغیرہ کی طرف سے بول رہے تھے.لیکن ان کی فہرست میں بھارت کا نام شامل نہیں تھا.اس کے بعد دیگر ممالک کے نمائندگان کی تقاریر ہوئیں.بہت غیر معمولی خراج تحسین دو مشرقی یورپی ممالک کی طرف سے تھا اول بلغاریہ جو تمام گروپ کی طرف سے بولا.اس نے چودھری ظفر اللہ کی تعریف کرتے ہوئے انکی بیک وقت دوخو بیوں کی تعریف کی کہ ایک طرف تو انہوں نے ڈسپلن برقرار رکھا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ہر کسی کو رائے کے اظہار کی پوری آزادی اور مہلت بھی دی روسی نمائندہ بھی تقریر کرنے اٹھا حالانکہ اس کے گروپ کی طرف سے بلغاریہ تقریر کر چکا تھا.اس نے چودھری ظفر اللہ خاں کو بھر پور خراج تحسین پیش کیا.آخر میں چودھری ظفر اللہ نے مختصر خطاب کیا جس نے ہر شخص کو گہرا متاثر کیا.اس تقریر میں انہوں نے پسماندہ ممالک اور ان کی مشکلات کا ذکر کیا.اس کے بعد انہوں نے سیکریٹریٹ کا شکر یہ ادا کیا.ان کا خطاب ان مخلص کارکنوں کو دیے جانے والے رسمی شکریہ سے زیادہ متاثر کن تھا.یقیناً یہ چودھری ظفر اللہ خاں کا بہترین وقت تھا.لیکن جو بات وہ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ سیکریٹریٹ کے لوگ ان آخری چند ایام میں مجھے بار بار کہتے رہے اور جوں جوں آخری وقت آتا گیا ان کے اصرار میں شدت بڑھتی گئی ان کا کہنا تھا کہ ان کو اسمبلی کا تاحیات صدر بنادینا چاہیے.وسیع پیمانہ پر لڑ یچر کی اشاعت 66 مولوی محمد صاحب امیر جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان کا مرکز میں مراسلہ موصول ہوا کہ جماعت کے خلاف دوبارہ فتنہ کھڑا کیا جا رہا ہے.اس فتنہ کے سد باب کے لئے نظارت اصلاح وارشاد نے ایک مفصل سکیم تیار کی.نیز مشرقی اور مغربی پاکستان میں وسیع پیمانے پر موثر لٹریچر کی اشاعت کی.چنانچہ نظارت کی مطبوعہ رپورٹ سے حسب ذیل تفصیلات کا پتہ چلتا ہے:.

Page 521

تاریخ احمدیت 512 جلد 21 الف:.اس فتنہ کے انسداد کے سلسلہ میں عوام کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے مندرجہ ذیل عناوین پر رسائل اور پمفلٹ شائع کئے گئے.1 - مودودی صاحب کے رسالہ ختم نبوت“ کا جواب علمی تبصرہ کے عنوان پر مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کا تحریر کردہ ۹۰۰۰ ہزار کی تعداد میں شائع کر کے ملک کے طول وعرض میں پھیلایا گیا.اس کا بنگالی میں ترجمہ کر کے مشرقی پاکستان میں ۵۰۰۰ ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا گیا.2:- محترم مولانا ابوالعطاء صاحب کا تحریر کردہ جواب بھی " القول المبین فی تفسیر خاتم النبین“ 1000 کی تعداد میں نظارت کی طرف سے شائع کیا گیا.3:- خاتم انبین کا عدیم المثال پمفلٹ ۵۰۰۰ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.4:- خاتم النبین اور بزرگان امت کے عنوان سے ایک پمفلٹ ۱۵۰۰۰ ہزار کی تعداد میں شائع کیا.5:.مکتوب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جس میں ختم نبوت کے متعلق جماعت کا نظریہ بیان کیا گیا تھا.سولہ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.6: - " جماعت احمدیہ کے عقائد جس میں مسئلہ ختم نبوت کے متعلق ضروری وضاحت بھی کی گئی ہے۰ ۵ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.علاوہ ازیں مولانا جلال الدین شمس صاحب کی تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کتابی صورت میں ۱۵۰۰۰ ہزار کی تعداد میں چھپ رہی ہے.گویا اس فتنہ کے ازالہ کے لئے (۱۱۶۰۰۰) ایک لاکھ سولہ ہزار کتب، رسائل اور پمفلٹ شائع کرنے کا انتظام کیا گیا.(ب) حکام بالا تک مخالفین کی غیر مناسب اور فتنہ انگیزی پر مشتمل کارروائیوں کی اطلاع پہنچائی جاتی رہی اور بعض جگہ ان کے متعلق حکام نے ضروری کارروائی بھی کی.(ج) حکام بالا سے ملاقاتیں کی گئیں اور اس فتنہ کے مالہ وماعلیہ اور خطرناک نتائج جس سے ملک کا امن و امان خطرہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے ان سے اس کا ذکر کیا گیا.( د ) بعض ملکی و علاقائی اخبارات کے ذریعہ بھی اس فتنہ کے ازالہ کے لئے مختلف طریق پر مناسب کوشش کی گئی.(ر) حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا بیان و مکتوب بمعہ متعلقہ امور کی وضاحت کے پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا تھا جو حکام بالا.پولیس کے افسران.پارلیمنٹ کے ممبران اور وزراء تک پہنچایا گیا.

Page 522

تاریخ احمدیت 513 ( ز ) نظارت اصلاح وارشاد نے بعض دیگر مساعی کو بھی عملی جامہ پہنایا.خلاصہ یہ ہے کہ نظارت اس فتنہ کو فرو کرنے میں پوری فرض شناسی سے مصروف عمل رہی.جلد 21 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا سالانہ اجتماع سے آخری افتتاحی خطاب گذشتہ سال کی طرح امسال بھی خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع (19-20-21 اکتوبر 1962ء) کی افتتاحی تقریر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ارشاد فرمائی.آپ کی طبیعت ناساز تھی اس لئے کرسی پر بیٹھ کر آپ نے خطاب کیا.جو آپ کی زندگی کا خدام احمدیت کے سالانہ اجتماع سے آخری پبلک خطاب تھا.جس کے بعض اہم حصتے ذیل میں ریکارڈ کئے جاتے ہیں.آپ لوگوں میں سے کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہوگی جو بھی سکولوں اور کالجوں میں تعلیم پارہے ہیں.انہیں اس غلط فہمی میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے کہ تعلیم پانے کا زمانہ صرف درس گاہوں کی چاردیواری تک محدود ہے.حق یہ ہے کہ درس گاہیں تو صرف علم کے دروازے تک پہنچاتی ہیں.اس کے آگے علم کا ایک بہت وسیع میدان ہے.ایسا وسیع جس کی کوئی حدو انتہا نہیں.اس میدان میں انسان سکول اور کالج سے فارغ ہونے کے بعد خود اپنی کوشش اور اپنی آنکھوں اور کانوں کو کھلا رکھنے کے ذریعہ علم حاصل کرتا ہے.پس درس گاہوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی تحصیل علم کا سلسلہ جاری رکھو.اور ضرور جاری رکھو کیونکہ یہ وہ علم ہے جو درس گاہوں میں حاصل ہو نیوالے علم سے بہت زیادہ وزن رکھتا ہے.ہمارے آقا ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل ورحمت سے علم کے آسمان پر پہنچا دیا مگر پھر بھی آپ کی یہی پکار رہی کہ رب زدنی علما.رب زدنی علما یعنی خدایا مجھے اور علم عطا کر.مجھے اور علم عطا کر “ دینی علوم کے حصول کے لئے آپ لوگوں کے واسطے تین نہایت قیمتی خزانے موجود ہیں.ایک قرآن مجید ہے.جو خدا کا کلام ہے اور اس کے علوم میں اتنی وسعت ہے کہ قیامت تک کے لئے اور دنیا کی ساری قوموں کے لئے وہ تمام ضروری علوم کا خزانہ اور سرچشمہ قرار دیا گیا ہے.پس اسے سیکھو اور اس کے ساتھ محبت پیدا کرو.ایسی محبت جس کی نظیر نہ ہو.پھر حدیث ہے جو حضرت خاتم النبین ﷺ کے مبارک اقوال کا مجموعہ ہے اور وہ بھی بیش بہا علوم پر مشتمل ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح مکہ کے صحراء میں 66

Page 523

تاریخ احمدیت 514 پیدا ہونے والے ایک امی نے علوم کے دریا بہا دئے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود کی کتب اور ملفوظات ہیں جو ایک عمدہ اسفنج کے ٹکڑے کی طرح علم کے شہد سے بھر پور ہیں.اور ان میں اس زمانے کی بیماریوں کا مکمل علاج ودیعت کیا گیا ہے.اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کتب اور خطبات ہیں جنہیں پڑھ کر غیر متعصب دشمن بھی عش عش کر اٹھتا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ علم تو ایسی چیز ہے کہ جہاں بھی کوئی حکمت اور دانائی کی بات ملے اور اس میں کوئی دھو کہ یا ملمع سازی کا پہلو پوشیدہ نہ ہو تو اُسے بھی شوق کے ساتھ قبول کرنا چاہیے.ہمارے آقا حضرت سرور کائنات (فدان فسی ) کا کتنا پیارا قول ہے کہ کلمة الحكمة ضالة المومن اخذها حيث وجدها یعنی حکمت اور دانائی کی بات مومن کی اپنی ہی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے.اُسے چاہیئے کہ جہاں بھی ایسی بات پائے اُسے لے لے.“ اس تعلق میں میں صدر صاحب خدام الاحمدیہ کو بھی یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو وہ پاکستان کے ہر ضلع میں خدام الاحمدیہ کے انتظام کے ماتحت دینی کتب کا سال وار یا ششماہی امتحان لیا کریں جس میں قرآن مجید اور حدیث اور کتب سلسلہ میں سے مناسب نصاب مقرر کیا جائے اور ملک کے مختلف حصوں میں سوالات کے پرچے بھجوا کر امتحان کا انتظام کیا جائے.اور کوشش کی جائے کہ سوائے کسی جائز عذر کے کوئی خادم اس امتحان سے باہر نہ رہے تا کہ خدام کے علم میں بھی ترقی ہو اور یہ علم خدا کے فضل سے ان کے عمل میں بھی اصلاح اور ترقی کا باعث بن جائے.اور ترغیب و تحریص کی غرض سے اس امتحان میں اوّل دوم اور سوم آنیوالوں کے لئے مناسب انعامات مقرر کئے جائیں جو سالانہ اجتماع کے وقت دئے جائیں.میں امید کرتا ہوں کے سرسری طور پر نہیں بلکہ اگر اچھی طرح سوچے سمجھے پروگرام کے ماتحت ایسے امتحانوں اور ان کے نصابوں کا انتظام کیا جائے تو نہ صرف نو جوانوں میں علم کا شوق ترقی کریگا بلکہ ان کی قوت عملیہ میں بھی خدا کے فضل سے بہت اضافہ ہوگا.اور ضمنی طور پر عربی سیکھنے کی طرف بھی کسی قدر توجہ پیدا ہو گی.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحقیق کے مطابق تمام زمانوں کی ماں ہے اور اسی لئے قرآن مجید کو جو ساری دنیا اور ساری قوموں کے لئے آیا ہے عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے." مجھے یہ خوشی ہے کہ اس سال ملک کے مختلف مقامات میں خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام جلد 21

Page 524

تاریخ احمدیت 515 نہایت کامیاب تربیتی اجتماعات ہوئے ہیں جن میں خدام نے بڑی دلچپسی سے حصہ لیا ہے اور خدا کے فضل سے انصار اس خدمت میں شریک ہوتے رہے ہیں.جیسا کے رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے.یہ تربیتی اجتماع کئی لحاظ سے بہت مفید اور کامیاب ہوئے ہیں.یعنی اوّل تو ان کے ذریعہ نو جوانوں میں تنظیم اور اخلاص اور سلسلہ کے ساتھ محبت کی روح نے ترقی کی.دوسرے شرکت کر نیوالے خدام کی معلومات میں قابل قدر اضافہ ہوا.اور تیسرے جو غیر از جماعت اصحاب ایسے اجتماعوں میں شریک ہوئے انہوں نے بھی خدا کے فضل سے بہت اچھا اثر لیا..پس جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ کوشش کرنی چاہیئے کہ اس قسم کے اجتماع ہر ضلع میں منعقد ہوا کریں.اور ان میں علماء کی تقریروں کے علاوہ خود سمجھدار خدام کی بھی تقریریں ہوں اور کچھ تلاوت اور دلپذ یر نظموں اور دوسرے دلچسپ کاموں کو بھی شامل کیا جایا کرے.قوالی تو ہرگز پسندیدہ چیز نہیں اور اس سے ہمارے عزیزوں کو اجتناب کرنا چاہیئے لیکن خالق فطرت نے اچھی آواز میں ایک خاص اثر رکھا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ایک صحابی سے قرآن مجید کی تلاوت یا کچھ اشعار سنے تو اس کی دلکش آواز سے خوش ہو کر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں لحن داؤدی سے حصہ ملا ہے.یہ آپ نے اس لئے فرمایا کیونکہ روایتوں میں لکھا ہے کہ حضرت داؤدعلیہ السلام خوبصورت آواز کے بہت ماہر اور بہت شوقین تھے.مگر ضروری ہے کہ ہر بچہ یا ہر نوجوان جس سے کسی اجتماع میں تلاوت یا نظم خوانی کروانی ہو اس سے کوئی سمجھدار انسان علیحدہ بیٹھ کر اجتماع سے قبل تلاوت اور نظم خوانی سُن لے اور اگر کوئی غلطی ہو تو اُس کی اصلاح کردے تا کہ جلسہ میں بے لطفی نہ پیدا ہوا اور ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت بھی ہوتی جائے.“ تقریر اور تحریر کے مقابلے تو خدام الاحمدیہ کے اجتماعوں میں ہوتے ہی ہیں ان پر آئندہ خصوصیت سے زیادہ زور دینا چاہیے.تا کہ خدا چاہے تو ہمارے ہر بچہ کا حجاب دُور ہو جائے اور اُسے تقریر اور تحریر میں ایسی مشق پیدا ہو جائے جس کے نتیجہ میں انسان دوسروں کے دل کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ ان مــن البـــان لـسـحـراً د یعنی بعض بیان ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جادو کی تاثیر ہوتی ہے.“ یہی جادو ہر خدام کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے.بے شک مختلف انسانوں میں فطرت کی طاقتوں کے لحاظ سے طبعا فرق ہوتا ہے مگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے کوشش ہونی چاہیئے کہ جن نو جوانوں میں جلد 21

Page 525

تاریخ احمدیت 516 زبان اور قلم کا جو ہر موجود ہو اُن میں مسلسل مشق کے ذریعہ ایک غیر معمولی کشش اور جلاء پیدا کر دیا جائے.میں نے گذشتہ سال بیان کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب صحابی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی میں یہ دونوں جو ہر بدرجہ اتم موجود تھے.ان کی تقریر بھی سحر تھی اور ان کی تحریر بھی سحر تھی.اور انسان ان کی تحریر پڑھ کر اور تقریر سن کر یوں محسوس کرتا تھا کہ اس کے اندر کسی غیبی بیٹری کے ذریعہ بجلی بھری جارہی ہے اکثر اوقات ان کی تلاوت سن کر رستہ میں گذرتے ہوئے کئی غیر مسلم بھی رُک کر سنے لگ جاتے تھے.یہی ملکہ خدا کے فضل سے ہمارے خلیفتہ اُسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میں موجود ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دیکر پھر جماعت کو یہ موقع عطا فرمائے کہ وہ آپ کی مسحور کر نیوالی تقریر میں سُن سکیں.آمین یا ارحم الراحمین ) بالآخر میں اپنے عزیز نو جوانوں کو ان کی ذاتی تربیت اور اخلاقی درستی کے متعلق بھی ایک فقرہ کہہ کر اپنے اس خطاب کو ختم کرتا ہوں جہاں تک میں نے قرآن مجید اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات کا مطالعہ کیا ہے انسان کی ذاتی نیکی اور ذاتی اخلاق کا خلاصہ تین باتوں میں آجاتا ہے.اوّل یہ کہ اس کا اپنے خالق و مالک کے ساتھ ذاتی تعلق اور رابطہ پیدا ہو جائے اور وہ اپنے خدا کو بیچ بیچ پہچان لے اور اس کے ساتھ اس طرح لپٹا ر ہے.اس غرض کے لئے نمازوں کی پاپندی اور نمازوں میں خشوع وخضوع کیسا تھ دعاؤں کی عادت پیدا کرنا کامیابی کی کلید ہے.نماز اس طرح پڑھو کہ گویا تم خدا کے سامنے کھڑے ہو.خدا تمہیں دیکھ رہا ہے.اور تم خدا کو دیکھ رہے ہو.اور اس سے صلى الله دعا اس رنگ میں کرو کہ گویا ہمیں جو کچھ ملنا ہے اسی دربار سے ملنا ہے.آنحضرت ﷺ کا یہ کتنا پیارا قول ہے کہ الدعا مخ العبادۃ یعنی دعا نماز کے اندر کا گودا ہے.جس طرح ایک ہڈی گودے کے بغیر غذا کے لحاظ سے ایک ناکارہ چیز ہوتی ہے اسی طرح نماز بھی دعا کے بغیر چنداں حقیقت نہیں رکھتی.دوسری بات یہ ہے کہ جس نظام کیسا تھے تم لوگ پروئے گئے ہو یعنی جماعت احمدیہ کا الہی نظام جو دنیا میں نیکی کو ترقی دینے اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے خدا کی طرف سے پیدا کیا گیا ہے.اس کی اعانت اور مدد کے لئے ضرور اپنی حیثیت کے مطابق اپنی آمدنی میں سے یا اگر تم طالب علم ہو تو اپنے جیب خرچ میں سے چندہ دیتے رہو.جو شخص احمدی ہونے جلد 21

Page 526

تاریخ احمدیت 517 جلد 21 کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر اسلام کی اعانت میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتا وہ اپنے دعوی میں جھوٹا اور خدا کے سامنے جواب دہ ہوگا.تیسری بات یہ ہے کہ اپنے اندر سچ بولنے کی عادت اور اپنے اعمال میں دیانتداری کی روح پیدا کرو.یہ دونوں اخلاق انسان کا بہترین زیور ہیں.اور ایسا انسان خواہ امیر ہو یا غریب.کمزور ہو یا طاقتور اس کی گردن کسی شخص کے سامنے اور کسی مجلس میں نیچی نہیں ہو سکتی.پس ہمیشہ سچ بولو اور صداقت کو اپنا وطیرہ بناؤ اور ہمیشہ دیانتدار رہو.اور کسی سے دھو کہ نہ کرو اور خیانت سے یوں بھاگو جیسے کہ ایک ہوش مند انسان زہریلے سانپ سے بھاگتا ہے.بس یہی میری نصیحت ہے اور اسی پر میں اپنے خطاب کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اپنے فضل ورحمت کے سایہ میں جگہ دے.آمین یا ارحم الراحمین.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ.۱۹.اکتوبر ۱۹۶۲ 158 حضرت مصلح موعود کا پیغام خدام الاحمدیہ کے نام اس اجتماع کے مقدس ترین لمحات وہ تھے جب دوسرے روز 120اکتوبر کو پونے دو بجے دوپہر کے قریب سید داؤ داحمد صاحب صدر مجلس نے خدام کو اطلاع دی کہ گذشتہ سالوں میں یہ امر ہمارے لئے درد اور ملال کا موجب رہا ہے کہ ہم پہلے کی طرح اپنے اجتماع میں حضور کے روح پر ور خطابات سے مستفیض نہیں ہو سکے ہر خادم اپنی اس محرومی کو بشدت محسوس کرتا ہے.اس دفعہ حضور کی خدمت میں درخواست کی گئی تھی کہ حضور خدام کے نام کوئی پیغام ریکارڈ کروادیں.حضور نے از راہ شفقت ہماری یہ درخواست منظور فرمائی اور ایک مختصر سا پیغام ریکارڈ کرا دیا.حضور کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ چند فقرے ہمارے لئے نہایت قیمتی نصائح پر مشتمل ہیں.حضور کا یہ پیغام ٹیپ ریکارڈ کے ذریعہ ابھی سنایا جائیگا.“ اس اعلان پر ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مقام اجتماع سبحان اللہ اور جزاکم اللہ کی دھیمی لیکن بے ساختہ آوازوں سے یکدم گونج اٹھا اور چشم زدن میں جملہ خدام ہمہ تن گوش ہو کر اس حال میں حضور کا پیغام سننے کے لئے تیار ہو گئے کہ ان پر

Page 527

تاریخ احمدیت 518 جلد 21 خشوع خضوع اور رقت کا عالم طاری تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ حضور کی صحت یابی کے لئے زیر لب نہایت درجہ درد و سوز میں ڈوبی ہوئی دعائیں کرنے میں مصروف تھے.محویت اور استغراق کے اس عالم میں جملہ خدام نے محبت وعقیدت اور گہرے اشتیاق کے جذبات کے ساتھ اپنی جان سے پیارے آقا کا حسب ذیل روح پرور پیغام سنا:.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم خدام الاحمدیہ !! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ اسلام اور احمدیت کے خدام ہیں.اس لئے آپ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آپ کو اپنے اخلاق وغیرہ ایسے بنانے چاہیں کہ بجائے خادم بننے کے آپ دنیا کے مخدوم بن جائیں.دنیا حق کی متلاشی ہے.تبلیغ کرنے کی بہت ضرورت ہے.آپ کو چاہیے کہ اسلام کی تبلیغ میں لگے رہیں تا کہ رسول کریم اللہ کی امت ساری دنیا میں پھیل جائے اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا مقدس مرکز قادیان ہمیں جلد واپس دلا دے.“ سیدنا حضرت مصلح موعود کا یہ اہم پیغام یکے بعد دیگرے تین مرتبہ سنایا گیا.پیغام کے اختتام پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے (جو اجلاس میں صدارت کے فرائض سر انجام دے رہے تھے ) حضور کی صحت یابی کے لئے ایک مختصر لیکن نہایت دردانگیز اجتماعی دعا کروائی.جملہ خدام پر حضور کا روح پرور پیغام سن کر پہلے ہی سوز وگداز اور رقت کی کیفیت طاری تھی.دعا کے لئے ہاتھ اٹھنے کی دیر تھی کہ سارا مقام اجتماع چشم زدن میں دلوں کی گہرائی سے نکلی ہوئی آہ و پکار اور چیخوں اور سسکیوں کی دردناک آوازوں سے تڑپ اٹھا اور گویا میدان حشر کا نظارہ پیش کرنے لگا.خدام الاحمدیہ کے ہال کا سنگ بنیاد خدام الاحمدیہ کے اس اکیسویں سالانہ اجتماع کی ایک اور اہم خصوصیت یہ تھی کہ اسی روز پانچ بجے شام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے دست مبارک سے مجلس کے ایک وسیع وعریض ہال کا سنگ بنیاد رکھا.اس بابرکت تقریب میں پاکستان کی مجالس کے دو ہزار نمائندگان کے علاوہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ارکان مجلس انصار اللہ نے بھی شرکت فرمائی.

Page 528

تاریخ احمدیت 519 جلد 21 تقریب کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا جو صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب نے کی.تلاوت کے بعد سید داؤ د احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے فرمایا آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے خدام الاحمدیہ کے ہال کی بنیا درکھ رہے ہیں.جہاں یہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے وہاں اس میں فکر و عمل کی دعوت کا بھی کچھ کم سامان نہیں ہے.ہر ترقی جہاں خوشی کا موجب ہوا کرتی ہے وہاں اس کے ساتھ بعض نئی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں.بڑی بڑی عمارتیں اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں اصل چیز وہ دل، وہ نیت ،وہ روح ہے جس کے تحت کوئی عمارت تعمیر کی جاتی ہے.عمارتیں اور سامان اس وقت با برکت ہوتے ہیں جب وہ اصل مقصد کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اس ہال کو بھی اس رنگ میں بابرکت فرمائے کہ یہ اس مقصد کے حاصل کرنے کا ذریعہ بنے جس مقصد کے پیش نظر ہم اسے تعمیر کر رہے ہیں.آپ کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حاضرین کو نہایت قیمتی نصائح سے نوازا.چنانچہ آپ نے فرمایا مجھے خوشی ہے کہ مجھ کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے ایسی تقاریب جماعتوں اور تنظیموں کے لئے بڑی برکت سعادت اور مضبوطی کا موجب ہوتی ہیں بشرطیکہ اس روح کو سمجھا جائے جو ایسی تقریبوں کے پیچھے کام کر رہی ہوتی ہے جیسا کہ عزیز داؤ د احمد نے ابھی کہا ہے کہ اصل چیز عمارتیں نہیں بلکہ وہ روح ہے جو اس کی تعمیر میں پوشیدہ ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ اس کو پہنچتا ہے.پس ایسی تقاریب بابرکت ہیں لیکن انہیں برکت سے ہمیشہ ہی بھر پور رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس روح کو زندہ رکھا جائے جس کی خاطر یہ منعقد کی جاتی ہیں.خدام کو یا درکھنا چاہیے کہ ان کا یہ دفتر ان کے لئے ثانوی قسم کا ایک مرکز ہے وہ کھونٹا ہے جس کے ساتھ بندھ کروہ اپنی تنظیم کو اور اپنے کاموں کو زندہ رکھ سکتے ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ ہال اور دفتر کی تعمیر خدام میں ایک نئی زندگی دوڑانے کا موجب ہوگی.خدام کو میری یہی نصیحت ہے کہ تم اپنی تنظیم کو ایک مرکزی کھونٹا سمجھو اور ہمیشہ اس کے ساتھ مضبوطی سے بندھے رہو.ان زریں نصائح کے بعد آپ نے دعائیں کرتے ہوئے باری باری وہ دو اینٹیں بنیاد میں رکھیں جن پر حضرت مصلح موعود نے بھی دعا کی تھی اس کے بعد آپ نے اور ایک اینٹ نبیاد پر رکھی.یہ بہت روح پرور منظر تھا.حضرت میاں صاحب ہر اینٹ رکھنے کے بعد کچھ دیر اس پر ہاتھ رکھ کر دعا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ حاضرین بھی اپنی اپنی جگہ کھڑے خدا کے حضور مصروف دعا تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس بنیاد کو احمدیت اور خدام الاحمدیہ کے لئے ہر لحاظ سے بابرکت کرے اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے.حضرت میاں صاحب بنیاد میں اینٹیں رکھ چکے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب میں سے علی الترتیب حضرت حاجی

Page 529

تاریخ احمدیت 520 جلد 21 محمد دین صاحب آف تهال ضلع گجرات درویش قادیان - حضرت منشی عبدالحق صاحب خوشنویس، حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب سابق مبلغ انگلستان اور حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی نے ایک ایک اینٹ رکھی.ازاں بعد علی الترتیب صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منورا حمد صاحب سابق نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ.جناب سید داؤ د احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ اور حضرت صاحبزاہ مرز اطاہر احمد صاحب نائب صدر مرکزیہ نے ایک ایک اینٹ رکھی.آخر میں خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو نو نہال صاحبزادوں یعنی مرزا لئیق احمد صاحب اور مرزا فرید احمد صاحب نے بھی ایک ایک اینٹ رکھی اس طرح مجموعی طور پر کل بارہ اینٹیں رکھی گئیں.156 سنگ بنیا درکھنے کے بعد حضرت میاں صاحب نے ارشاد فرمایا کہ احباب اب مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس بنیاد کو ہر جہت سے حقیقی رنگ میں مبارک کرے.اس کے اچھے نتائج ظاہر فرمائے.اور اسے مجلس خدام الاحمدیہ اور جماعت کے لئے مضبوطی اور استحکام کا باعث بنائے اس وقت دو بچوں نے بھی بنیاد میں اینٹیں رکھیں ہیں.ان سے میری تجویز کے مطابق ہی اینٹیں رکھوائی گئی ہیں.یہ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتوں کے بچے ہیں میں نے مناسب سمجھا کہ اس با برکت موقع پر معصوم بچوں کے ہاتھوں سے بھی اینٹیں رکھوائی جائیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس بنیاد کو جو رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھی ہے اور جس میں دو معصوم بچوں نے بھی شرکت کی ہے بابرکت کرے اور اس کے نیک نتائج پیدا فرمائے.“ اس کے بعد حضرت میاں صاحب نے ایک پر سوز اجتماعی دعا کرائی اور اس طرح یہ بابرکت تقریب جو دعاؤں اور ذکر الہی کے روحانی ماحول میں منعقد ہوئی اختتام پذیر ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی بصیرت افروز تقریر 157 اس اجتماع سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے عنوان پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بھی ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا.آپ نے بتایا کہ ان حقوق کی ادائیگی کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا تعلق اپنے پیارے رب اور خالق و مالک کے ساتھ قائم ہو جائے اور تعلق باللہ شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا نام ہے.ایک عاجز اور بے مایہ انسان جب خلوص نیت سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے تو محبت الہیہ کا ایک سمندر اپنے دل میں موجزن پاتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو سنتا ہے.اسے بشارتیں دیتا ہے.تب دل میں حقیقی اطمینان اور خوشی پیدا ہوتی ہے.یہی وہ اطمینان اور خوشی ہے جو ایک انسان کے لئے اس دنیا میں سب سے بڑی نعمت اور انعام ہے.یہی وہ نعمت ہے جو آج اسلام اور احمدیت کے طفیل ہمیں حاصل ہوئی

Page 530

تاریخ احمدیت 521 جلد 21 ہے.احمدی نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اس نعمت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور ایسے طور پر حقوق اللہ کو ادا کریں کہ ان کی زندگیوں میں بھی خدا تعالیٰ کا جلوہ نظر آئے.حقوق العباد کا نچوڑ آپ نے یہ بیان فرمایا کہ جس طرح ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کو پانے کی تڑپ ہو اسی طرح یہ تڑپ بھی ہو.158 اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور حضرت مصلح موعود کا ولولہ انگیز پیغام خدام الاحمدیہ کے اکیسویں سالانہ اجتماع ہی کی تاریخوں ( 19 تا 21 اکتوبر 1962ء) میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع بھی اپنی گذشتہ روایات کے مطابق نہایت کامیابی کیساتھ انعقاد پذیر ہوا.جس میں 33 مقامات کی لجنات کی 127 نمائندگان نے شرکت کی.ربوہ کی خواتین نے بھی خاص شوق سے حصہ لیا.دوران اجتماع سامعات کی تعداد دو ہزار سے بھی بڑھ جاتی رہی.اس اجتماع میں بھی سیدنا حضرت مصلح موعود کا ایک ریکارڈ شدہ ولولہ انگیز پیغام سنایا گیا.نگاہیں تشنہ رہیں لیکن حضور کے پیغام سے دل شاد ہو گئے.خواتین نے یہ پیغام نہایت توجہ انہاک اور ذوق و شوق سے سنا.حضور کے پیغام کا متن یہ تھا.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم ممبرات لجنہ اماءاللہ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.لجنہ کا اجتماع شروع ہے.میں بیماری کی وجہ سے تقریر نہیں کرسکتا.لیکن آپ تک یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ عورتوں کے بھی فرائض ہوتے ہیں.اگلی نسل ان کی تربیت سے ہی پیدا ہوتی ہے.اس لئے کوشش کرو کہ اگلی نسل مضبوط ہو اور اسلام کو دنیا میں پھیلاؤ.اس وقت عیسائیت کا غلبہ ہے مگر رسول کریم کے سب سے بڑے نبی اور دنیا کے نجات دہندہ ہیں.اس لئے اسلام کو پھیلانے اور رسول کریم میں اللہ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کی تمہیں پوری کوشش کرنی چاہیے.100 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا پُر معارف خطاب اس روح پرور پیغام کے بعد حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک نہایت پر معارف خطاب فرمایا جس میں اپنی ایک رویاء کی بناء پر روحانیت اور بشریت کے باہمی تعلق اور ایک دوسرے پر غالب آجانے کے اثرات و نتائج پر لطیف انداز میں روشنی ڈالی اور فرمایا:-

Page 531

تاریخ احمدیت 522 جلد 21 اگر روحانیت ہمارے ذرہ ذرہ میں سما گئی تو پھر بشریت بھی نعمت ہے لیکن اگر بشریت ہی حاوی ہوگئی تو روح کمزور ہو کر رفتہ رفتہ ایک بے کار، ناقص اور ناپاکی سے آلودہ چیز ہو جائے گی.ہماری تو خصوصاً توجہ اس طرف چاہیے کہ روحانیت کو ترقی دیں کیونکہ آپ کے آقا کا ہر پیغام ہم نے دوبارہ تازہ ترین ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا اور آپ کے وجود میں ہی وہی جلسہ دیکھا.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان تھا وہ جو اپنے بندوں کو کبھی بھولتا نہیں.مگر اب ہمارا یہ فرض ہے کہ شکر گزار بندے بنیں اور دعاؤں ، ذکر الہی سے محبت الہی سے اپنی روح کو زیادہ سے زیادہ جلا بخشنے میں کوشاں رہیں کہ ہماری روحانیت بشریت پر حاوی رہے اور ہماری بشریت بھی ایک بہت نیک نمونہ خلق خدا کے لئے بن جائے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ریکارڈ شدہ پیغام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی سالانہ اجتماع لجنہ کے لئے بذریعہ ٹیپ ریکارڈ ایک اہم پیغام دیا تھا جو پہلے اجلاس کے آخر میں سنایا گیا.جو حسب ذیل الفاظ میں تھا :- اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خواتین کرام اور ہمشیرگان.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں ان کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر ٹیپ ریکارڈنگ مشین پر انہیں ایک مختصر سا پیغام دوں.سوسب سے پہلے تو میں دعا کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے مرکزی اجتماع کو کامیاب کرے اور اس کے بہترین نتائج پیدا ہوں.یہ امر بڑی خوشی کا موجب ہے کہ ہماری مستورات میں خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی بیداری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں.اور وہ اسلام اور احمدیت کی خدمت میں بڑے شوق اور ذوق سے حصہ لینے لگی ہیں.اور تعلیم کے حصول میں بھی ان کا قدم تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے.عورتیں گو تعداد کے لحاظ سے کسی جماعت یا سوسائیٹی کا نصف حصہ ہوتی ہیں.مگر اس لحاظ سے ان کے ہاتھ میں قوم کے نونہال پرورش پاتے ہیں.اور اگلی نسل کی ابتدائی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے.ان پر ایک طرح سے مردوں کی نسبت بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہے.اس سےصرف یہی مراد نہیں کہ بچے ماؤں کی خدمت کا ثواب حاصل کر کے اپنے لئے جنت کا دروازہ

Page 532

تاریخ احمدیت 523 جلد 21 کھول سکتے ہیں بلکہ اس میں یہ بھی لطیف اشارہ ہے کہ ماؤں کی اچھی تربیت کے نتیجہ میں ساری قوم کا قدم ہی جنت کی طرف اٹھ سکتا ہے.پس میں لجنہ کی ممبرات کو جو ہماری بہنیں اور بیٹیاں ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ آئندہ پہلے سے بھی زیادہ ذوق وشوق سے کام لیں اور دین کی خدمت کا ایسا نمونہ دکھائیں جو حقیقتا عدیم المثال ہو.عورت ایک بڑی عجیب وغریب ہستی ہے.ایک طرف وہ اپنے حسن تدبر اور خدمت اور محبت کے ذریعہ اپنے خاوند کا گھر اس کے لئے جنت بنا سکتی ہے.اور دوسری طرف وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی اچھی تربیت کر کے جماعت کی عالی شان خدمت سر انجام دے سکتی ہے.مجھے یہ خوشی ہے کہ جماعت میں مستورات کے اندر تعلیم کے لحاظ سے بہت بیداری پائی جاتی ہے.مگر میرا یہ احساس ہے خدا کرے کہ وہ غلط ہو کہ ابھی تک جماعت کی مستورات کو تبلیغ کی طرف اتنی توجہ نہیں جتنی کہ ہونی چاہیے.اگر احمدی عورتیں تعلیم کی طرح تبلیغ کی طرف بھی زیادہ توجہ دیں تو خدا کے فضل سے ان کے ذریعہ بہت جلد بھاری تغیر پیدا ہو سکتا ہے.میری دعا ہے کہ لجنہ اماءاللہ جلد تر اس مقام کو حاصل کرے جس میں وہ نہ صرف تعلیم کے میدان میں بلکہ تبلیغ اور تربیت کے لحاظ سے بھی ایک مثالی تنظیم بن جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ 19 اکتوبر 1962 ، 132 اجتماع انصاراللہ 1962 ء اور حضرت مصلح موعود کا ایمان افروز پیغام حسب دستور خدام ولجنہ کے اجتماعات کے بعد 26-27-28اکتوبر 1962ء کو انصار اللہ کا مرکزی اجتماع منعقد ہوا جسمیں 188 مجالس کے 980 ارکان 462 نمائندگان اور 1815 زائرین نے شرکت کی.168 سید نا حضرت مصلح موعود کی زیر ہدایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ہی نے موثر خطاب اور پرسوز اجتماعی دعا سے اس کا افتتاح فرمایا.آپ نے انصار اللہ کے مفوضہ کام اور اس کی وسعت و اہمیت پر روشنی ڈالنے کے بعد ارشاد فرمایا:- ”سب سے پہلے اپنے انصار بھائیوں سے میری یہ درخواست ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس اہم اور نازک کام میں ہم سب کی نصرت فرمائے اور جو کشتی اس نے دنیا کے وسیع سمندر میں آگے دھکیلنے کے لئے ہمارے کمزور ہاتھوں کے سپرد کر رکھی ہے اس کے

Page 533

تاریخ احمدیت 524 جلد 21 چپو خود اپنے ہاتھوں میں سنبھال لے.جب ہمیں یہ خدائی نصرت حاصل ہو جائے گی تو کامیابی بھی یقینی ہوگی اور آپ لوگوں کو بھی یقیناً بے حساب ثواب حاصل ہوگا اور اگر دیکھا جائے تو یہ ثواب دراصل مفت کا ثواب ہوگا کیونکہ کشتی بھی خدا کی ہے اور کشتی کا چلانے والا بھی خدا کا ہاتھ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی خوب فرمایا ہے کہ.بمفت ایں اجر نصرت را دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا 66 اس کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے نظاموں اور ان کے باہمی ربط اور گہرے تعلق کو واضح کرنے کے بعد انصار اللہ کو جماعت احمدیہ کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا اور انہیں ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بیش بہا نصائح سے نوازا اور اسلامی احکام کی بعض پر حکمت باریکیوں کو ایسے دلنشین انداز میں واضح فرمایا کہ سامعین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی.اس تعلق میں آپ نے تبلیغ اور تربیت کے بنیادی فریضے ، جماعتی میوزیم کے قیام میں انصار اللہ کے تعاون کی اہمیت، اسلامی پردہ کے قیام اور آئندہ نسل کی تربیت کے ضمن میں ان کی اہم اور خصوصی ذمہ داریوں نیز ملک میں بھوک ہڑتال کے بڑھتے ہوئے سراسر غیر اسلامی رجحان اور بیاہ شادیوں میں اسراف اور ناجائز مطالبات کے انسداد پر خاص زور دیا مزید برآں آپ نے انصار اللہ کو علمی خدمت کے لئے تحریر کا ملکہ پیدا کرنے ، کتب سلسلہ کے امتحانات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور علی الخصوص مالی قربانیوں میں پیش پیش رہنے کی نہایت زور دار الفاظ میں تلقین فرمائی.علاوہ ازیں آپ نے رسالہ انصار اللہ کی ترتیب و تدوین اور اس کے مضامین پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی اشاعت کا حلقہ وسیع کرنے اور اس کے لئے معیاری مضامین لکھنے کی بھی موثر تحریک فرمائی.اجتماع کے دوسرے روز ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ( معالج خصوصی حضرت مصلح موعود ) نے حضور کی علالت اور علاج سے متعلق تفصیلی کو الف بیان فرمائے.ICE اور کامل شفاء یابی کے لئے دعا کی دردانگیز تحریک کی.جس پر تمام احباب نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس کی اقتداء میں نہایت در دو سوز ، تضرع اور ابتہال اور خشوع خضوع سے دعا کی.165 اسی روز حضور نے ازراہ شفقت اجتماع کے ایک نمائندہ وفد کو جو مختلف اضلاع کے 30 خوش نصیب انصار پر مشتمل تھ ملاقات کا شرف عطا فرمایا.اس وفد کی سرکردگی کی سعادت محترم شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم اے قائد عمومی کو نصیب ہوئی.100

Page 534

تاریخ احمدیت 525 جلد 21 اجتماع کا آخری اجلاس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ کی زیر صدارت ہوا.آپ نے اپنے ولولہ انگیز اختتامی خطاب میں دو اہم امور پر روشنی ڈالی.1.جماعت احمدیہ کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کی اہمیت.2.دنیا کو تباہی سے بچانا احمدیوں کا فرض ہے.چنانچہ آپ نے نہایت پُر جوش انداز میں فرمایا کہ ہمارے خلاف جو غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں وہ دراصل ہمارے خلاف نہیں پھیلائی جاتیں.ہمارے خدا کے خلاف پھیلائی جاتی ہیں.کہ وہ پہلے تو بولتا تھا مگر اب معاذ اللہ ہمکلام نہیں ہوتا ہمارے آقا و مطاع حضرت خاتم النبین ﷺ کے خلاف پھیلائی جاتی ہیں کہ نعوذ باللہ حضور کا فیض جاری نہیں.وہ پھیلائی جاتی ہیں ہماری اکمل واتم شریعت قرآن مجید کے خلاف کہ نعوذ باللہ وہ ایک زندہ کتاب نہیں جس کی تاثیرات جاری ہوں ان غلط فہمیوں کے ازالہ میں سوال ہمارا یا ہماری ذات کا نہیں بلکہ ہمارے حی و قیوم خدا کا ہے جس کی کوئی صفت کبھی معطل نہیں ہوتی.ہمارے آقا و مطاع کی ذات والا صفات کا ہے.جن کا فیض تا قیامت جاری ہے.ہماری کتاب فرقان حمید کا ہے جو قیامت تک کے لئے ایک زندہ کتاب ہے جس کی تاثیرات کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوسکتا.اندریں حالات ہم ایسی غلطیوں کا ازالہ کریں اور ضرور کریں.عليسة آپ نے واضح فرمایا کہ دنیا پر تباہی کے بادل ہر طرف منڈلا رہے ہیں یہ دنیا اسلام کی پُر امن تعلیم کو اپنائے اور اسلام کو قبول کر کے خدا کی امان کے نیچے آئے بغیر حقیقی اور پائیدار امن کا منہ نہیں دیکھ سکتی.اور دنیا کو خدا کی امان کے نیچے صرف اور صرف احمدی ہی لا سکتے ہیں کیونکہ خدا نے اپنے مسیح کو مبعوث کر کے خود انہیں اس کام پر مامور کیا ہے اور انہیں فتح و ظفر کی بشارت دی ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم افریقہ، ایشیا.یورپ و امریکہ اور جزائر کو اس تعلیم سے بہرہ ور کریں جس کے بغیر یہ دنیا کبھی اور کسی حال میں بھی پائیدار امن سے ہمکنار نہیں ہو سکتی.یہ تقریر نہایت درجہ ایمان افروز تھی جسے سن کر سامعین پر روحانی کیف وسرور کی خاص کیفیت طاری ہو گئی.آخر میں حضور نے حضرت مصلح موعود کا حسب ذیل زندگی بخش اور انقلاب آفریں پیغام پڑھ کر سنایا جو حضور نے انصار اللہ کے نام ارسال فرمایا تھا:.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم انصار اللہ.اسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مجھے افسوس ہے کہ میں بیماری کی وجہ سے آپ کے جلسہ میں شرکت نہیں کر سکتا لیکن آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.تبلیغ کریں تبلیغ کریں.تبلیغ کریں.یہاں تک کہ حق آجائے اور باطل

Page 535

تاریخ احمدیت 526 جلد 21 اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے اور دنیا میں صرف محمد رسول اللہ کی حکومت ہو.اس کام کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں.اب دیکھنا یہ ہے کہ من انصاری الی اللہ تحریک جدید کے نئے سال کا بھی اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو قربانیوں کی توفیق دے.آمین اللهم آ خاکسار مرز امحمود احمد خلیفہ اسیح الثانی - 10 نصرت ہائر سیکنڈری سکول کی افتتاحی تقریب آمین.129اکتوبر 1962 ء کو نصرت ہائر سیکنڈری سکول ربوہ کا افتتاح عمل میں آیا اور جامعہ نصرت اور نصرت گرلز ہائی سکول کا حصہ ایف اے اور حصہ میٹرک مستقل صورت میں ہائر سیکنڈری درسگاہ کے طور پر قائم ہو گیا.اس موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے ایک خصوصی پیغام میں ارشاد فرمایا کہ.جماعتی بچیوں کی تعلیم کا سوال بے حد اہم ہے اور ہمارے آقا آنحضرت ﷺ نے اپنے متعدد ارشادات میں اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے.پس اب جبکہ دونوں درسگا ہیں ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہیں اس کی استانیوں اور طالبات دونوں کو چاہیئے کہ پوری محنت اور عزم اور استقلال کے ساتھ اس نئے دور کو شروع کریں اور اپنی کوششوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا فضل چاہتے ہوئے اس درسگاہ کو ایک مثالی درسگاہ بناد میں جو تعلیم کے لحاظ سے بھی مثالی ہو اور تربیت کے لحاظ سے بھی مثالی ہو اور نتائج کے لحاظ سے بھی مثالی ہو اور نظم و ضبط کے لحاظ سے بھی مثالی ہو اور اخلاقی ماحول کے لحاظ سے بھی مثالی ہو.یہ تو ظاہر ہے کہ پڑھانے والیوں اور پڑھنے والیوں میں بہت گہرا رابطہ قائم ہونا چاہیے تا کہ وہ ایک خاندان کے طور پر زندگی گزاریں.پڑھانے والیاں ہر لحاظ سے پڑھنے والیوں کے لئے نمونہ بنیں اور پڑھنے والیاں اس ذوق اور شوق کے ساتھ کام کریں جو اعلی ترقی تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی قوم کی عورتوں میں بیداری اور حقیقی ترقی کے آثار پیدا ہو جائیں اور وہ ماحول کے بداثرات سے بچ کر رہیں تو عورتیں ملک وقوم کی ترقی میں بڑا اثر پیدا کر سکتی ہیں.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بعض نیک اور خادم دین عورتوں نے حیرت انگیز کارنامے سر انجام دیئے ہیں.مثلاً آنحضرت ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمی کے نام نامی کو کون نہیں جانتا.ان بزرگ خواتین نے اپنی عقل و دانش کے ذریعہ امت کی بعض ایسی گتھیاں سلجھائی ہیں جن میں مردوں کی عقل نا کام ہو کر رہ گئی تھی.یہی مواقع آپ کے لئے بھی میسر ہیں بشرطیکہ آپ اپنے علم وعمل کو اس معیار تک پہنچا دیں جو قوموں کی زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا کرتا ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا کرے کہ آپ قیامت کے دن ایسی ثابت

Page 536

تاریخ احمدیت 527 169.جلد 21 ہوں جن کے نیک کاموں پر آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام محبت کیساتھ فخر کر سکیں.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے سکول کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بہت قیمتی نصائح فرمائیں اور خاص طور پر احمدیت کا نمونہ بنے کی پر زور تحریک کی چنانچہ فرمایا:- ” میری دعا ہے اور تمنا ہے کہ ٹیچرس اور کیا طالبات سب کی سب نیک نمونہ احمدیت کا بہنیں...اپنا مقام اپنی پوزیشن اپنے فرائض کو پہچانیں اور ہر قدم پر یا درکھیں ایسی بنیں کہ ایک نمایاں نورایمان آپ کی پیشانیوں پر چمکے اور صدق وصفا کی روشنی آپ کی آنکھوں سے جھلکے.خلق احسن کی ضیاء آپ کی ہر حرکت سے ہرادا، ہر فعل میں نمایاں نظر آئے.آپ کے منہ سے وقت کلام نیکی ، پاکیزگی، اور محبت کے پھول جھڑیں.بُوئے اخلاص آپ کے جسموں سے پھوٹ پھوٹ کر نکلے اور ایک عالم کو مہکا دے.“ پس تقوی کو شعار بناؤ، نیکی کے حصول کے لئے کوشاں رہو، بہادر بنو، دینی کیریکٹر اتنا قوی بناؤ کہ دنیا داری کی تڑک بھڑک تم پر کوئی اثر نہ ڈال سکے.دوسرے لوگ تمہارے پیچھے چلیں تمہاری ریس کرنا فخر جانیں تم ان کے لئے نمونہ بنو.ان کو اپنے لئے نمونہ نہ بناؤ صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کا تاریخی مکتوب جناب سید اختر اور نیوی صاحب ایم اے (صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی) نے حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (صدر نگران بورڈ ) کی خدمت میں لکھا کہ :- 1:.ہمیں ایک احمدیہ میوزیم قائم کرنا چاہیئے.مرکزی طور پر ربوہ اور قادیان میں اور ان کے علاوہ ایک برطانیہ میں، ایک امریکہ میں ایک افریقہ میں اور ایک انڈونیشیا میں.2:.سب سے پہلے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کے قلمی نسخے ان کے خطوط اور دوسرے ملفوظات فورا اکٹھا کرنا چاہیئے اور ان کے فوٹوسٹیٹ دوسرے مراکز میں روانہ کرنا چاہیئے.مجھے معلوم نہیں کہ ان عظیم کتابوں کے قلمی نسخے موجود ہیں یا نہیں ؟ حضور کے مسودات تو ہوں گے.احمد یہ میوزیم میں موسم کے بداثرات سے بچانے والا کمرہ ہونا چاہیئے.3:- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور یادگاریں مثلاً کپڑے، قلم، دوات، میز، بستر ا، جوتا وغیرہ محقق طور پر جمع کرنا چاہیئے.:.حضور کی تصانیف کے پہلے ایڈ لائن جمع کئے جائیں اور ان پر حضرت خلیقہ امنبع الثانی اور

Page 537

تاریخ احمدیت 528 جلد 21 دوسرے رفقاء کے دستخط ہو جائیں اور پھر ان کی فوٹوسٹیٹ کا پیاں تیار کی جائیں.5:- مذکورہ بالا تین خلفاء ، اصحاب اور اراکین، اہل بیت اور جید مبلغوں کی تصانیف مکتوبات و ملفوظات کے سلسلہ میں بھری جائیں.یعنی قلمی نسخے اور کتابوں کی پہلی اشاعتیں جمع کی جائیں اور ان پر تصدیقی دستخط ہوں.6:- احمد یہ میوزیم میں تبلیغی چارٹ تبلیغی کتب اور سب سے بڑھ کر قرآن حکیم کی تفسیر میں اور ترجمے رکھے جائیں.نیز احمد یہ البم.7- زندہ صحابہ کا کلام ٹیپ ریکارڈ کیا جائے اور سب سے بڑھ کر پیارے امام کے خطبات و پیغامات ان کے فوٹو بھی رکھے جائیں.8:- اور پہلوؤں سے میوزیم کو مکمل کیا جائے.مثلا فلم بندریل بھی جمع کئے جائیں.اگر آپ اس تحریک کو پسند فرما ئیں تو پیارے امام کے سامنے پیش کر دیں اور آقا کی منظوری کے بعد اس مجوزہ احمدیہ میوزیم کی تنظیم کا کام آپ کی نگرانی میں شروع کر دیا جائے.اللہ تعالیٰ برکت دے مرکز میں تاریخی میوزیم کمیٹی کا قیام نگران بورڈ کی طرف سے اس مفید اسکیم پر عملدرآمد کے لئے اکتوبر 1962ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات کے ریکار ڈ اور ان کی حفاظت کی لئے جماعتی تاریخی میوزیم کمیٹی کا قیام عمل میں آیا نیز فیصلہ کیا گیا کہ جن دوستوں کے پاس حضرت اقدس علیہ السلام کا کوئی تبرک از قسم پارچات یا دستاویزات وغیرہ ہو وہ اس کی تفصیل کمیٹی کو بھجوائیں تا کہ بعد تصدیق اسے ریکارڈ کیا جاسکے.وو جماعتی تاریخی میوزیم کمیٹی کی سفارش پر صدر انجمن احمدیہ نے تبرکات کی تصدیق کے لئے حسب ذیل ممبران پر مشتمل کمیٹی مقرر کی 1.مولانا جلال الدین صاحب شمس ( چیئر مین ) 2.صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب.کرنل عطاء اللہ خان صاحب.4.ملک سیف الرحمن صاحب.(سیکرٹری) اس کمیٹی کا نام ” تصدیقی کمیٹی برائے قیام جماعتی تاریخی میوزیم تجویز ہوا.مولا نا ملک سیف الرحمن صاحب نے الفضل 14 اکتوبر 1962ء میں ان ہر دو کمیٹیوں کی اطلاع

Page 538

تاریخ احمدیت 529 جلد 21 دیتے ہوئے اعلان فرمایا کہ :- وہ تمام دوست جن کے پاس کوئی تبرک کسی قسم کا ہو وہ 15 نومبر 1962 ء تک اس تبرک کے متعلق مندرجہ ذیل تفصیلات سیکرٹری ” تصدیقی کمیٹی برائے قیام جماعتی تاریخی میوزیم کو بھجوائیں :- 1 - نام مع ولدیت و مکمل پتہ جس کے پاس تبرک ہے 2 تبرک کی نوعیت ( کپڑایا مسودہ یا کوئی اور تحریر تفصیلاً ) 3.کتنے عرصہ سے یہ تبرک اس کے پاس ہے.4.یہ تبرک اسے کیسے ملا.5- تصدیقی گواہ یا دستاویز 6.کوئی اور ثبوت جو وہ دینا چاہے 7.کیا یہ تبرک وہ عاربیڈ یا مستقلاً جماعت کو دینے کے لئے تیار ہے نوٹ :.یہ معلومات امیر صاحب مقامی کی تصدیق کے ساتھ بھجوائی جائیں.اگر کوئی شخص اپنے تبرک کے متعلق تصدیق حاصل نہ کرے گا اور بغیر تحریری تصدیق کے دعوی کرے گا کہ اس کے پاس کوئی تبرک 56 ہے تو جماعت اس کے اس دعوی کو قبول نہیں کریگی.محترم ملک صاحب نے الفضل 9 نومبر 1962ء میں جماعتی تاریخی میوزیم کے متعلق ایک اور اہم اعلان بھی شائع فرمایا جس میں ان 108 خوش نصیب دوستوں کی فہرست بھی دی جنہوں نے 1938ء میں بھی مرکز کو اپنے ہاں تبرکات ہونے کی اطلاع دی تھی اس اعلان کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے:.1 :- جن دوستوں کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی تیرک ہے وہ خاکسار کو اطلاع دیں فی الحال صرف اطلاع کافی ہے.2:- اطلاع دینے والے دوستوں کی خدمت میں کمیٹی مطبوعہ فارم بھجوا ئیگی جنہیں پر کر کے تصدیقی کمیٹی کو واپس کرنا ہوگا.3- ہر دوست جس کے پاس کسی قسم کا کوئی متبرک ہے وہ مہربانی کر کے ضرور اطلاع دے اور کسی وجہ سے اپنے آپ کو مستثنیٰ نہ سمجھے کمیٹی ان کے اس تعاون کی شکر گزار ہوگی کیونکہ یہ سب کارروائی تاریخی ریکارڈ کو مکمل اور مستند بنانے کے لئے کی جارہی ہے.4:.کسی دوست سے اس کی مرضی کے خلاف جماعتی میوزیم میں رکھنے کے لئے تبرک نہیں لیا جائے گا صرف رضا کارانہ پیشکش کو قبول کیا جائے گا.اس لئے دوست پورے اطمینان کے ساتھ جلد یہ

Page 539

تاریخ احمدیت 530 جلد 21 اطلاع بہم پہنچا کر عنداللہ ماجور ہوں.5:.ذیل میں ان دوستوں کے نام شائع کئے جارہے ہیں جنہوں نے 1938ء میں بھی ان کے ہاں تبرکات ہونے کی اطلاع دی تھی اور ان کی فہرستیں الفضل میں شائع ہوئی تھیں اب ایسے دوست یہ اطلاع دیں کہ آیا ان کے پاس اب بھی مذکورہ تبرکات ہیں یا کسی وجہ سے ان کے پاس نہیں رہے ان میں سے بعض دوست فوت ہو چکے ہیں ان کے ورثاء یہ اطلاع دیں کہ تقسیم میں اب یہ تبرکات کس کس کے پاس ہیں اور ان کی نوعیت کیا ہے.1 - باب فضل دین صاحب اور سیر جالندھر چھاؤنی 2.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب قادیان 3.صاحبزادہ عبدالحمید صاحب ٹوپی مردان 4 - محمد احمد صاحب جلیل بورڈنگ تحریک جدید 5.خان عبدالحمید خاں صاحب کپورتھلہ 6 سیٹھی کرم الہی صاحب قادیان 7.نذیر احمد خاں صاحب نئی دہلی 8.ماسٹر رکن الدین صاحب ٹیری ضلع کو ہاٹ 9 - عبد الرحمن صاحب کنجاہ 10 - عبداللطیف صاحب گجراتی قادیان 11 - مرزا مہتاب بیگ صاحب قادیان 12 - مولوی فتح علی صاحب دوالمیال 13.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب پنشنر قادیان 14.ڈاکٹر چوہدری شاہ نواز خاں صاحب افریقہ 15.چوہدری محمد اسحاق صاحب مجاہد تحریک جدید ہانگ کانگ 16.ملک عمر علی صاحب آف ملتان حال قادیان 17.مولوی نذیر احمد صاحب سیالکوٹی مبلغ افریقہ مغربی 18.خانصاحب ذوالفقار علی خاں صاحب ناظم تجارت تحریک جدید قادیان 19.چوہدری غلام احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ پاک پتین

Page 540

تاریخ احمدیت 531 20 - حکیم فیروز الدین صاحب قریشی انسپکٹر بیت المال قادیان 21.مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ 22.احمد گل صاحب سکنہ شاہ پور حال آبادان ایران 23 - محمد سلیمان صاحب قادیان 24 حکیم عبدالعزیز صاحب ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان 25 - محمد امین صاحب احمدی ریلوے کلرک جموں 26 - حکیم یونس صاحب دینگورلہ 27.سیٹھ اسماعیل صاحب آدم امیر جماعت احمدیہ بمبئی 28.میاں محمد اسماعیل صاحب دفتر تعلیم وتربیت قادیان 29.سید محمد شاہ صاحب پیج باڑہ کشمیر 30 - محمد احمد صاحب خادم بھاگلپوری 31 - مبارکہ نیر صاحبہ بنت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر قادیان 32- عبدالمجید خاں صاحب (امیر المجاہدین ) ویر دوال ضلع امرتسر 33.بنت رسول صاحبه دختر میر عابد علی شاہ صاحب موضع دین کوٹ ضلع سیالکوٹ 34.مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم محد عمر صاحب 35.احمد دین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ڈنگہ 36.اہلیہ صاحبہ کرم داد خاں صاحب قادیان 37.قریشی محمد دین صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ چھور نمبر 117 ضلع شیخوپورہ 38 عطاءالرحمن صاحب بھیرہ 39 - شیخ غلام قادر صاحب شرق سکندر آباد دکن 40.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی قادیان 41- حکیم قطب الدین صاحب قادیان 42.سید محمد ہاشم صاحب بخاری قادیان 43.ملک محمد عبد اللہ صاحب قادیان 44 - بابا محمد حسن صاحب قادیان جلد 21

Page 541

تاریخ احمدیت 532 45.میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب افغان قادیان 46 - محمد اعظم صاحب بوتالوی قادیان 47 - محمد اسمعیل صاحب 48- علی اکبر صاحب پنڈی گھیپ 49.بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی قادیان 50 امتہ الرحیم صاحبہ بنت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی 51.مرزا برکت علی صاحب 52.رشید احمد ارشد قادیان 53.سید محمود اللہ شاہ صاحب افریقہ 54.چوہدری محمد حسین صاحب راولپنڈی 55 - محتر مہ زینب صاحبه قادیان 56.بابوعبدالمجید صاحب نئی دہلی 57.ملک ستار بخش صاحب ایم اے محمودہ 58.میاں غلام حیدر صاحب قادیان 59.خانصاحب میاں عبداللہ خاں صاحب 60.میاں محب الرحمن صاحب 61.سید افتخار حسین صاحب 62.مرز امحمد ابراہیم صاحب 63.میر قاسم علی صاحب 64.حضرت مفتی محمد صادق صاحب 65.عطاء اللہ صاحب 66.میاں عبدال صاحب ابن شیخ احمد اللہ صاحب 67 سید اعجاز احمد صاحب مولوی فاضل 68.بابو عبد الحمید صاحب نئی دہلی 69.میاں عبدالمالک صاحب جلد 21

Page 542

تاریخ احمدیت 533 70.مولوی عبد الکریم خاں صاحب نیر کا ٹیج 71.قاضی قمر الدین صاحب شکار 72.اہلیہ بابوعبدالحمید صاحب نئی دہلی 73 منشی عبدالحی صاحب سنوری 74.میاں محمد حیات صاحب کا تب 75.عبدالرحمن صاحب شاکر 76 - صو بیدار شیر محمد خاں صاحب سیالکوٹ چھاؤنی 77.سید حافظ عبدالرحمن صاحب احمدی بٹالہ 78.سید امیر احمد صاحب متعلم مدرسہ احمدیہ 79.ماسٹر مولا بخش صاحب ریٹائر ڈمدرسہ احمدیہ 80.سید عبدالحکیم صاحب کنکی 81.سید مقبول احمد صاحب کراچی 82.مومنہ خاتون صاحبہ اہلیہ مولوی عبد الرحمن صاحب ایم اے 83.سید عبدالرحمن صاحب 84.بھائی کرم دین صاحب نیروبی 85.میاں عبدالحی صاحب نیروبی 86.چوہدری محمد شریف صاحب نیروبی 87.بھائی نذیر احمد صاحب نیروبی 88.سید محمد قاسم صاحب شاہ جہان پور 89.مولوی سید محمد ہاشم صاحب بخاری 90.میاں غلام محمد صاحب ساکن سید والا ضلع شیخو پورہ 91.میاں عبدالرحمن صاحب رینج آفیسر کشمیر 92 - مرزا محمد شفیع صاحب اڈیٹر صدرانجمن احمدیہ 93.میاں عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی 94.میاں احمد اللہ خاں صاحب جلد 21

Page 543

تاریخ احمدیت 534 جلد 21 95 شیخ کظیم الرحمن صاحب 96 - سید عباس علی شاہ صاحب نواب شاہ سندھ 97.اہلیہ سید عباس علی شاہ صاحب 98.اہلیہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری 99.میاں عبد الغفار صاحب حراج امرتسر 100.ڈاکٹر نذیر احمد صاحب مگاڑی افریقہ 101 محترمہ زینب بی بی صاحبہ اہلیہ با بوالهی بخش صاحب مرحوم 102.مسٹر محمد علی صاحب بنگالی 103.سیٹھ ابوبکر صاحب یوسف 104 - شیخ محمدحسین صاحب ریٹائر ڈ سب حج 172 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا جیکب آباد میں ورود مسعود جناب ارشاد احمد صاحب شکیب قائد مجلس خدام الاحمدیہ جیکب آباد کا تحریری بیان ہے کہ.صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب مورخہ 21 نومبر 1961ء کو صبح گیارہ بجے جیکب آباد تشریف لائے.آپ کی آمد کی اطلاع یہاں کی جماعت کو آپ کی آمد سے دو روز قبل مل چکی تھی.اور یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ آپ کا قیام فقط دو گھنٹہ کے لئے ہوگا.لہذا آپ کی آمد کی خوشی کے ساتھ ساتھ آپ کی فوری جدائی کا ملال بھی دامنگیر تھا.اور اسی مسرت و غم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جملہ احباب چشم براہ تھے.بار بار نگاہیں اس موڑ کی طرف اٹھتیں جہاں سے آپ کی جیپ نے نمودار ہونا تھا.آخر کار گیارہ بجے یہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں.اور ایک سبز رنگ کی جیپ میاں طاہر احمد صاحب،عبداللہ خان صاحب ( نواب شاہ والے) اور عبدالرشید صاحب شرما ( شکار پوروالے) کو لئے ہوئے آپہنچی.آپ جیپ سے اترتے ہی حاضرین سے باری باری نہایت خندہ پیشانی سے ملے اور معانقہ کیا.اس کے بعد آپ بیٹھک میں تشریف لے آئے.سب احباب آپ کے گرددری پر حلقہ بنا کر بیٹھ گئے.سب سے پہلے جناب عبدالرشید صاحب شرما نے آپ سے سب احباب کا تعارف کروایا.بعد ازاں میاں صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی بقاء و ترقی کا انحصار اصلاح وارشاد پر ہی ہے.آپ نے طلسماتی کہانیوں میں پڑھا ہو گا کہ کسی شہزادے کا مقابلہ کسی جن سے ہوتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ اس جن کی جان فلاں طوطے میں ہے

Page 544

تاریخ احمدیت 535 جلد 21 جو کہ فلاں جگہ پنجرے میں بند ہے.چنانچہ وہ اس طوطے کی گردن مروڑ کر جن کو ہلاک کر دیتا ہے.اگر ہم استعارے کی زبان استعمال کریں.تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی جان محض تبلیغ کے اندر ہے.آپ نے فرمایا کہ تبلیغ کے ذریعہ انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے.جب وہ دوسروں کے پاس نیکی اور حق کا پیغام لیکر جاتا ہے تو وہ اپنا جائزہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے.اور سوچتا ہے کہ کیا مجھ میں تو وہ خامیاں نہیں ہیں جن سے میں لوگوں کو منع کرنے چلا ہوں.اگر افراد جماعت پیغام حق پہنچانے میں منہمک ہو جائیں تو جماعت میں خود بخو د اتحاد اور یک جہتی پیدا ہوتی چلی جائے گی.داخلی اختلافات مٹتے چلے جاتے ہیں.اور لوگوں میں خود بخو دا خلاص اور اطاعت کا مادہ پیدا ہوتا چلا جاتا ہے.اس کے بعد آپ نے تبلیغ کا نہایت پر حکمت طریقہ بتایا کہ وہ سال بھر میں کم از کم ایک احمدی ضرور بنائیں.آپ کی اس مختصر مگر نہایت ہی موثر تقریر کے بعد حاضرین میں سے ایک غیر احمدی بزرگ نے اپنا ایک خواب سنایا کہ ایک کمرہ ہے اور اس میں حضرت مرزا صاحب.مولوی نورالدین صاحب اور شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب تشریف فرما ہیں.میں اندر داخل ہوا.اور مرزا صاحب سے سوال کیا کہ حضرت یہ لوگ کہتے ہیں کہ عبد القادر جیلانی ہماری مدد کر کیا یہ درست ہے.تو مرزا صاحب نے فرمایا "هذا شرك عظیم اس پر سب حاضرین مجلس کی زبانوں سے بے ساختہ سبحان اللہ کے کلمات نکلے.بزرگ مذکور نے میاں صاحب سے درخواست دعا کی اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو نیک اور محمد رسول اللہ کے جھنڈے کو بلند کرنے والا سمجھتا ہوں.میاں صاحب نے فرمایا کہ آپ ایسا سمجھتے ہیں تو آپ بھی اعلائے کلمتہ الحق میں ہمارا ساتھ دیں.اس پر انہوں نے کہا کہ قبلہ کیا کروں میری کچھ مجبوریاں ہیں.(بزرگ مذکور کی عمر تقریبا 70 سال ہے.متعد در فقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واقف ہیں.آنکھوں سے نابینا ہیں ).حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا کہ آجکل لوگ مذہب کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہیں.میاں صاحب نے فرمایا کہ اس لئے کہ آپ خود سنجیدہ نہیں ہیں.اگر آپ خود سنجیدہ ہو جائیں.تو لوگ خود بخود سنجیدہ ہو جائیں گے.آپ نے فرمایا کہ اگر آپ کسی شخص سے کہتے رہیں کہ میں تمہاری ٹوپی اتار کر بھاگ جاؤں گا.یا میں تمہارا پین نکال کر بھاگ جاؤں گا.تو وہ لازماً اسے مذاق ہی سمجھے گا.اور سن کر مسکراتا رہیگا.لیکن اگر آپ واقعی کسی شخص کی کوئی چیز چھین کر بھاگنے لگیں.تو پھر کوئی بھی اسے مذاق نہیں سمجھے گا.اور فوراً آپ پر جوابی حملہ کرے گا.اسی طرح اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو جائے کہ آپ اس کے خیالات کو بدلنا چاہتے ہیں اور اس کے غلط عقائد کو جسے اُس نے حق سمجھتے ہوئے اپنے خون سے سینچا ہے.اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں تو اُس کی سب سنجیدگی واپس آجائیگی.اور اس میں اس قدر جوش اور ولولہ پیدا ہوگا کہ آپ یہ محسوس کئے

Page 545

تاریخ احمدیت 536 جلد 21 بغیر نہ رہ سکیں گے کہ اپنے عقائد اسے دنیا کی ہر چیز سے بڑھکر عزیز ہیں اور مذہب کے معاملہ میں وہ سب سے بڑھ کر سنجیدہ آدمی ہے.ایک اور صاحب نے سوال کیا کہ کیا مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اور بھی نبی آسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا.ضرور آ سکتے ہیں کیونکہ یا بنی آدم والی آیت میں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے.اس لئے لازماً اور نبی بھی آئیں گے.اس پر انہی صاحب نے مزید سوال کیا کہ مسیح موعود علیہ السلام کے تشریف لانے پر اُمت مسلمہ میں سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے آپ کو قبول کیا.اور اس طرح حق کو ماننے والے دنیا میں مٹھی بھر رہ گئے.اب کل کوئی صاحب احمدیوں میں سے اُٹھ کر کہیں کہ خداوند نے مجھے مقام نبوت پر سرفراز فرمایا ہے تو پھر ان مٹھی بھر افراد میں سے بھی کچھ تو مان لینگے.اور کچھ انکار کر دیں گے.اور اس طرح حق کو ماننے والے تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جائیں گے.کجا یہ کہ وہ دنیا پر غالب آئیں.اس سوال پر حاضرین میں کافی اشتیاق اور دلچسپی پیدا ہوگئی.اور وہ میاں صاحب کا جواب سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو گئے.آپ نے نہایت اطمینان سے فرمایا کہ جب کوئی دعویٰ کریگا تو دوصورتوں میں سے ایک ضرور ہوگی.یا تو وہ سچا ہو گا یا جھوٹا.اگر جھوٹا ہوگا تو قرآن مجید کی رُو سے ہمیں یقین ہے کہ خداوند قہار اُسے ہلاک کر دیگا.اور اگر وہ سچا ہے تو پھر اُمت مسلمہ کی فکر ہم سے زیادہ خدا کو ہونی چاہیئے.یہ جواب سنکر تمام حاضرین کے چہروں پر یقین واطمینان کی لہر دوڑ گئی.گفتگو کے اختتام پر جب آپکی خدمت میں گزارش کی گئی کہ دعا فرما دیں.تو آپ نے پھر ایک معرفت کا نکتہ بیان فرمایا.آپ نے فرمایا کہ دُعا کے ساتھ ہمیشہ کریں“ کے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں.کیونکہ دعا کرنے والا خواہ کتنا بڑا بزرگ ہی کیوں نہ ہو.خدا عز وجل کی بارگاہ میں دُعا فرماتا نہیں.بلکہ گڑ گڑاتا ہے.اس لئے دعا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جو لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے دُعا کریں ہے نہ کہ دعا فرمائیں.میاں صاحب کی درویشانہ طبیعت ، انداز گفتگو اور اخلاص نے یہاں کے جملہ احباب کو دل کی گہرائیوں تک متاثر کیا.آپ کی ایک ایک بات حاضرین کے دل میں اُترتی چلی گئی.یوں محسوس ہوتا تھا گویا کوئی مقناطیسی قوت ہے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے.وہ مجلس تو بہت جلد ختم ہوگئی.مگر اس کی حلاوت اب تک قلوب میں باقی ہے.173

Page 546

تاریخ احمدیت 537 جلد 21 کتاب ”مذہب کے نام پر خون“ کی اشاعت افسوس بہت سے دوسرے مشرقی ممالک کی طرح اس زمانہ میں پاکستان میں بھی ایسی پاکیزہ اور پُر امن فضا کا فقدان ہو چکا تھا اور اسلام اور پاکستان دونوں بدنام ہورہے تھے.اس تشویشناک صورت حال کے پیش نظر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ( ناظم ارشاد وقف جدید ) نے 1962ء میں مذہب کے نام پر خون“ کے نام سے ایک بصیرت افروز کتاب شائع فرمائی جس میں ان نظریات اور طریقہ ہائے عمل کا فاضلانہ و عارفانہ انداز میں تجزیہ کیا جو بار ہاملکی فضا کو مکہ رکرنے کا موجب بن چکے تھے یا بن رہے تھے.یہ کتاب پندرہ ابواب پر اس کتاب کو بلند پایہ علمی حلقوں میں بہت پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی.اب تک اس کے تین ایڈیشن چھپ چکے ہیں.اس کا انگریزی ترجمہ امریکہ میں سید برکات احمد صاحب ( خلف الصدق حضرت محقق دہلوی) نے کیا جو چھپ کر ساری دنیا میں شائع ہو چکا ہے.شاندار تبصرے مشتمل ہے.1.مولانا ابوالعطاء صاحب مدیر ” الفرقان نے اس کتاب پر حسب ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا :- محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے نہایت موثر اور دلکش پیرایہ میں ان لوگوں پر بھر پور وار کیا ہے جو اسلام کو تلوار یا جبر یا تشہ دکا مذہب قرار دیتے ہیں.اس ضمن میں آپ نے مودودی صاحب کے نظری قتل مرتد کے پر خچے اڑا دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے صاحبزادہ صاحب کو فکر صائب اور دلنشیں انداز تحریر عطا فرمایا ہے.2:.مشہور سکھ سکالر سردار شمشیر سنگھ صاحب اشوک محکمہ پنجاب پٹیالہ نے اس پر مفصل تبصرہ کیا جو پنجابی کے ممتاز ماہنامہ ”جیون پریتی پٹیالہ کے مارچ 1963 ء کے پرچہ میں چھپا.ذیل میں اس کا ترجمہ جناب عباداللہ صاحب گیانی کے قلم سے دیا جاتا ہے:.66 سردار صاحب موصوف نے اپنے تبصرہ کی ابتدا میں لکھا:.174 یہ کتاب جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے.مذہب کے نام پر کئے گئے مظالم کی تاریخ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے.فاضل مصنف نے اس میں جگہ جگہ اسلامی کتب اور دوسرے لٹریچر کے حوالہ جات پیش کئے ہیں.اور ثابت کیا ہے کہ سچا مذ ہب کبھی کسی شخص کو بدی یا مذہب کے نام پر بے گناہوں کا خون بہانے کی تلقین نہیں کر سکتا.لیکن اقتدار کے

Page 547

تاریخ احمدیت 538 جلد 21 بھو کے ملاں.مولوی یا دوسرے دھرم پر چارک جو مذہب یعنی دھرم کی حقیقی روح سے نا آشنا ہوتے ہیں.مقدس کتب کے من پسند معنے بیان کر کے اور تاریخی روایات کو بگاڑ کرنا واقف اور ان پڑھ لوگوں کو مذہب کے نام پر مشتعل کرتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ فلاں مومن ہے اور فلاں کا فر.کافروں کو قتل کر دو اور ان کے گھر لوٹ لو...“ سردار صاحب موصوف نے فرقہ بندیوں کے جھگڑوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ." کچھ احراری مسلمانوں نے جن کے ساتھ مولانا مودودی صاحب صف اول میں ہیں 1953ء میں اپنے بعض عقیدت مند مسلمانوں کو احمدی مسلمانوں کے خلاف مشتعل کیا جس کی وجہ سے 1947 کی مانند ہی پاکستان میں فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی اور متعدد بیگناہ احمدی لوٹے گئے اور مارے گئے.گو بعد میں حکومت نے کوشش کر کے مجروں کو پکڑا اور امن بحال کر دیا.تاہم مذہبی جوش کا نتیجہ بُرا ہی نکلا.پاکستان میں نہ صرف احمدی مسلمان ہی بلکہ دیو بندی، وہابی، بریلوی وغیرہ بھی جو کسی ایک فرقہ سے باہر ہیں دوسروں کی نظر میں کافر ہیں.یہ ہیں وہ اسلامی فرقے جنہوں نے ایک مذہبی ملک میں خود اس مذہب کو ہی خطرہ میں ڈالا ہوا ہے.“ ”اس میں شک نہیں کہ احمدی مسلمان اپنے بانی حضرت مرزا غلام احمد (علیہ السلام) کو امام مہدی اور نہ کلنک اوتار تسلیم کرتے ہیں جس سے متعلق قدیم اسلامی اور غیر اسلامی لٹریچر میں کئی قسم کی پیشگوئیاں (Predication) پائی جاتی ہیں.احمدی مسلمانوں کے یہ اپنے ذاتی خیالات ہیں.اگر دوسرے مسلمان ان کے اس عقیدہ کو درست تسلیم نہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ احمدیوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے ان پر جبر یا تشدد کیا جائے یہ تو کسی ایک طبقہ کو سوئی کے نا کہ میں سے گزار نیوالی بات ہوگی.جو کسی طرح بھی ممکن اور مناسب نہیں کیونکہ تشددخواہ کسی فرقہ کی طرف سے کیا جائے ہمیشہ خدائے رحیم سے دوری اور قابل نفرت ہے.“ سردار صاحب اپنے اس تبصرہ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.جہاں تک اسلام کی تبلیغ کا تعلق ہے.یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ احمدی مسلمانوں نے اپنے دین اسلام کی تبلیغ کے لئے عملی صورت میں جتنی سرتوڑ کوشش کی ہے وہ شائد ہی عرب کے خلفاء راشدین کے بعد کسی اور اسلامی جماعت نے کی ہو.آپ لوگوں نے

Page 548

تاریخ احمدیت 539 جلد 21 عیسائیوں کے عیسائیت کے عالمگیر مشنوں کا ذکر تو کئی مرتبہ سنا ہوگا.احمدی مسلمانوں نے ٹھیک اسی طرح ایک چھوٹے سے دائرے سے نکل کر نہ صرف پنجاب میں ہی بلکہ افغانستان ، برما.لنکا.ملایا.سنگا پور.اسرائیل.مسقط.سیریا.لبنان، بور نیو، انڈونیشیا، مشرقی اور مغربی افریقہ، امریکہ، انگلینڈ، پولینڈ، ہنگری، البانیہ، یوگوسلاویہ، پین، جرمنی وغیرہ ایشیائی اور یورپین ممالک میں جہاں بھی بس چلا کافی روپیہ خرچ کر کے اپنے مبلغین بھیجے ہیں اور تکالیف اٹھا کر تبلیغ کے لئے مساجد کی شکل میں مراکز قائم کئے ہیں.اور قرآن شریف کے تراجم تقریبا ہر ملک کی زبان میں شائع کر کے تقسیم کئے ہیں.اس طرح متعدد ایشیائی اور یورپین زبانوں میں اپنے مشنوں کے اخبار اور رسالے شائع کرنے بھی شروع کر دیئے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ان کوششوں میں اگر تھوڑی سی سچائی بھی ہو تب بھی تبلیغ کرنے کا ایسا خیال دوسرے اسلامی فرقوں کے مسلمان خواہ وہ کتنے ہی اچھے اور پاک دل مومن کیوں نہ ہوں اپنے دل میں کبھی نہیں لا سکے.ہمارے سکھ دہرم کے پر چارکوں کے لئے جو گورو نانک جی کے مشن کا پرچار کرتے رہتے ہیں.احمدی مسلمانوں کی یہ جدوجہد قابل غور اور قابل تقلید ہے.سردار صاحب موصوف نے جماعت احمدیہ سے متعلق مندرجہ بالا خیالات کا اظہار کرنے کے بعد لکھا.مرزا طاہر احمد صاحب نے اسلامی کتب کا بہت گہرا مطالعہ کیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی اس کتاب کی ابتدا میں مذہب کے نام پر کی گئی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے بڑے دردناک الفاظ میں لکھا ہے.انسان کی تاریخ خاک و خون سے لتھڑی پڑی ہے.اس دن سے لے کر جب ( آدم کے بیٹے ) قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا اس قدر خون ناحق بہایا گیا ہے کہ اگر اس خون کو جمع کیا جائے تو آج روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے کپڑے اس خون سے رنگے جاسکتے ہیں.بلکہ شائد اس پر بھی خون باقی بیچ رہے.اور ہماری آئیند ہ آنے والی نسلوں کے لباس کو بھی لالہ رنگ کرنے کے لئے کافی ہو.مگر مقام حسرت ہے کہ اس پر بھی آج تک انسانوں کے خون کی پیاس نہیں بجھی.ص 9 پھر آگے چل کر ان الفاظ کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ.یہ خون ریزیاں خود خدا ہی کے نام پر کی گئیں اور مذہب کو آڑ بنا کر سفا کا نہ بنی نوع انسان کا خون بہایا گیا.سب کچھ ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے....ایک مذہب تھا جس

Page 549

تاریخ احمدیت 540 جلد 21 سے یہ توقع تھی کہ انسان کو انسانیت کے آداب سکھائیگا.مگر خود اس کا دامن بھی خون آلود نظر آتا ہے.“ (صفحہ 11) اشوک جی“ نے اس سلسلہ میں یہ بھی بیان کیا کہ.فاضل مصنف کے اپنے الفاظ میں اسلام کے صحیح معنے سلامتی اور امن کا مذہب ہیں ( ملاحظ ہو صفحہ 13 ) اور مذہب در اصل روحانی تبدیلی کا ہی دوسرا نام ہے (ملاحظہ ہوصفحہ 31) جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے وہ غلطی پر ہیں.کیونکہ اسلام کے بانی حضرت محمد (ع ) مذہب کے نام پر کسی قسم کی سینہ زوری کے حق میں نہیں تھے اور نہ انہوں نے مذہب کے نام پر جبر کرنے کی تلقین کی ہے (ملاحظہ ہو صفحہ 41) اس لئے:.یہ راتیں کب ختم ہوں گی.اور وہ دن کب آئیں گے جب خدا کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے خون کی ہولی نہیں کھیلی جائے گی.(ملاحظہ ہو صفحہ 303) اپنے اس تبصرہ کے آخر میں سردار شمشیر سنگھ جی اشوک نے لکھا کہ :.یہ ہے اس کتاب کا مختصر خلاصہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے قابل مصنف مرزا طاہر احمد صاحب نے بہت تحقیق اور محنت سے اسکی تکمیل کی ہے.اس کتاب کی زبان بہت سلیس اور شستہ ہے.اس میں چودہ مختلف عنوان ہیں.طرز بیان بہت دلکش.الفاظ کی ترکیب اور بندش بہت چست اور درست ہے.میرے نزدیک ایسی کتاب جس میں مذہبی اتحاد اور رواداری کی پوری پوری جھلک ہے.ہر لائبریری میں ہونی چاہیئے.“ -3 خالصہ ہائی سکول پٹیالہ کے ایک معز ز سکھ ایشر سنگھ گیانی نے لکھا.” میں نے کتاب ”مذہب کے نام پر خون کو بغور پڑھا واقعی اس کے مصنف قابل مستحسن ہیں.اس کتاب کے مصنف محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ربوہ نے اس کتاب کو جس محققانہ پیرائے اور خوش اسلوبی و وضاحت کے ساتھ نیز قرآن شریف کی آیات کے حوالے دیکر اپنے موضوع کو واضح کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی.واقعی مصنف نے اس کتاب کی تصنیف میں جادو بھر دیا ہے کہ مذہب کے نام پر حقیقی علمبر داروں نے نہیں بلکہ لامذہب ولا علم لوگوں کی طرف سے جسکو حقیقی دین، دھرم یا مذ ہب سے کوئی لگاؤ تک نہیں ہوتا صرف اپنی غرض و مطلب براری کے لئے حقیقی مذہب والوں پر تشدد کئے اور ظلم وستم ڈھائے ہیں.اور اب بھی یہی وطیرہ اختیار کیا ہوا ہے اس پر اچھی طرح سے روشنی ڈالی ہے.الغرض یہ معرکتہ الآراء کتاب ایسی ہے جس سے ہر مذہب کے لوگ مستفید ہو سکتے ہیں اور ایسی

Page 550

تاریخ احمدیت 541 جلد 21 مفید کتب کا وجود ہر سکول و پبلک لائبریری میں ہونا لازمی ولا بدی ہے.66 افریقہ میں جماعت احمدیہ کا تبلیغی جہاد اور امریکہ کے ایک مسیحی لیڈر اس سال نیور یارک کے یو نیٹرین فرقہ کے ایک ممتاز لیڈر JUCK-NEND ELSOHN کی درج ذیل عنوان سے کتاب شائع ہوئی."GOD, ALLAH AND JUJU.RELIGION AFRICA TODAY" اس کتاب میں احمدی مبلغوں خاص طور پر مولانا نسیم سیفی صاحب کی دینی خدمات کا بہت تذکرہ کیا گیا.اسلام کے پھیلانے ، اس کی برتری و فضلیت ثابت کرنے اور عیسائیت کو پسپا کرنے کے لئے جماعت احمد یہ جو کار ہائے نمایاں انجام دے رہی ہے ان کا جگہ جگہ ذکر ہے.صفحہ 23 پر مصنف لکھتا ہے.ترجمعہ ” لیگوس میں بھی ایک مشہور و معروف مسلمان عالم کی طرف سے بلی گراہم کو ایک پلک مناظرہ کا چیلنج دیا گیا لیکن حسب معمول اس نے اس دعوت کو ٹھکرا دیا.اس کے اس انکار پر ایک تبصرہ نگار نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر بلی گراہم مسلمانوں کے مذہب پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو اسے ہر طرح سے یہ حق حاصل ہے لیکن اسے بھی تو چاہئے کہ میدان مناظرہ میں آکر اپنے خیالات کھلے طور پر پیش کرے اور اس کے جواب سنے.“ صفحہ 96 پر دوبارہ اسی چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے.اگر یہ دیکھنا ہو کہ نائیجیریا ریڈیو اپنے سننے والوں کے سامنے اسلام کی کس قدر سادہ قابل قبول اور عملی شکل کا مظاہرہ کرتا ہے تو ہمیں مولانا نسیم سیفی کی طرف رجوع کرنا چاہیئے یہ وہی عالم دین ہیں جنہوں نے بلی گراہم کی مبشرانہ صلیبی مہم کے موقع پر لیگوس میں اسے چیلنج دیا.جس کا جواب نہیں دیا گیا...“ صفحہ 111 پر جماعت احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے:.” میں نے اس کتاب میں بہت سے مواقع پر اسلام کی نشر واشاعت میں احمدیت کے نفوذ و اثر کا ذکر کیا ہے.افریقہ میں نہایت درجہ سرگرم اور وسعت پذیر مسلم مشنری تحریک یہی ہے در انحالیکہ یہ تحریک افریقن سرزمین سے نہیں ابھری اس فرقہ نے پنجاب میں جنم لیا اور اس کے تبلیغی مراکز پاکستان میں ہیں.“ صفحہ 114 پر جماعت احمدیہ کے تبلیغی مشنوں اور سکولوں کا ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے :-

Page 551

تاریخ احمدیت 542 شمال مغربی نائیجیریا کے مشہور قصبے احمدیت کے مقناطیسی اثرات کی زد میں ہیں انہوں نے ایک مذہبی ٹیکس زکوۃ اپنے پیروکاروں پر عاید کر رکھا ہے اور ان کے زیادہ تر پیروکار بڑے بڑے تاجر ہیں.احمدیہ تحریک کو بروئے کار لانے کے لئے حیران کن حد تک بڑی بڑی رقوم جمع ہو جاتی ہیں ان رقومات کا کچھ حصہ ابتدائی اور ثانوی سکولوں کے اغراض و مقاصد کے لئے خرچ ہوتا ہے افریقن جو کہ علم و حکمت کے بھوکے اور پیاسے ہیں ان کے لئے احمدیہ تحریک کے تعلیمی پروگرام میں بے پناہ کشش پائی جاتی ہے.سب سے زیادہ متاثر کرنے والی بات یہ ہے کہ قومی روایات سے انحراف کرتے ہوئے احمدیوں نے اس بدعت“ کا آغاز کیا ہے.کہ انہوں نے جہاں لڑکوں کی تعلیم کا انتظام کیا وہاں لڑکیوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے سکول کھولے.“ جلد 21 صفحہ 106 پر سیرالیون میں مسلمانوں کی تعداد و شمار پر بحث کرتے ہوئے مصنف نے وہاں جماعت کی کوششوں سے تعمیر کردہ مساجد کا یوں ذکر کیا ہے :- احمد یہ مشن کی مجاہدانہ مساعی سے تقریبا چھپیں مساجد تعمیر کی گئی ہیں اس نے ایسے سرگرم نوجوان مبلغوں کی فوج تیار کی ہے.جنہوں نے اپنے آپ کو ملک کی روحانی اور تعلیمی ترقی کے لئے وقف کر رکھا ہے.“ صفحہ 117 پر افریقہ کی جماعت اسلامیہ کے ایک لیڈر کے مندرجہ ذیل الفاظ بھی مصنف نے کتاب میں دیئے ہیں:.اسلام افریقہ کے صحرائی علاقوں میں بڑی سرعت سے پھیل رہا ہے اس ترقی کو ثابت کرنے کے لئے میں اعداد و شمار تو پیش نہیں کر سکتا کیونکہ ان کا مہیا کرنا مشکل ہے لیکن افریقی ماحول سے آپ اس کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں.بلی گراہم اپنے تبلیغی دورہ پر جتنی دیر یہاں رہا اس کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس امر سے خوفزدہ ہے اور میرے کچھ کیتھولک مشنری دوستوں نے اپنے مراکز میں ایسی رپورٹس بھیجیں جن سے ان کی بدحواسی مترشح تھی.176 766

Page 552

تاریخ احمدیت 543 جلسه سالانه قادیان جلد 21 اس سال قادیان دار الامان کا عظیم الشان جلسہ سالانہ اپنی مقدس روایات کے مطابق 18-19-20 دسمبر 1962ء کو منعقد ہوا جو یاتون من كل فج عميق کی الہامی صداقت کا جیتا جاگتا نشان تھا.جلسہ میں ہندوستان کے طول و عرض سے پندرہ سولہ سو سے متجاوز احمدیوں نے شرکت فرمائی.پنجاب کے مختلف مقامات سے بعض غیر از جماعت اصحاب بلکہ غیر مسلم معززین بھی محض جلسہ کی خاطر قادیان آئے.افریقہ عدن اور ماریشس کے بعض مخلصین کے علاوہ 200 پاکستانی احمدیوں پر مشتمل قافلہ بھی دیار حبیب میں پہنچا اور اس مبارک اجتماع کی برکات سے مستفید ہوا.امیر قافلہ قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور تھے.قافلہ میں مولانا ابوالعطاء صاحب مدیر الفرقان سید داؤد احمد صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ مولانا نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ غانا ، مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل.مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعه احمدیہ شیخ عبد القادر صاحب محقق ،عیسائیت شیخ نصیر الدین صاحب مبلغ سیرالیون اور مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر مبلغ ماریشس بھی شامل تھے.ان حضرات نے اور ہندوستان کے دیگر ممتاز احمدی علماء نے پرمغز تقاریر فرمائیں.شمع احمدیت کے پروانوں نے جلسہ کے ایام ذکر الہی اور پر سوز دعاؤں کے روحانی ماحول میں گزارے اور علم و عرفان کی جھولیاں بھر کر واپس آئے.اس جلسہ کے لئے سیدنا حضرت مصلح موعود اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے روح پرور پیغامات ارسال فرمائے جو اس کے افتتاحی اجلاس میں بالترتیب قریشی محمود احمد صاحب اور سید داؤ د احمد صاحب نے پڑھ کر سنائے.حضرت مصلح موعود کے ایمان افروز پیغام کا مکمل متن یہ ہے.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم ھوالناصر خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران جماعت احمد یہ بھارت! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ میری خلافت کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ کشفی طور پر دیکھا کہ ایک شخص جس کا نام مجھے عبدالصمد بتایا گیا کھڑا ہے اور وہ یہ کہ رہا ہے کہ.مبارک ہو قا دیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی برکتیں یار رحمتیں نازل ہوتی ہیں.“ یہ الہام گو عمومی رنگ میں ہماری ساری جماعت پر ہی چسپاں ہو سکتا ہے.مگر اس حقیقت سے بھی

Page 553

تاریخ احمدیت 544 جلد 21 انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے صرف آپ کی جماعت ہی وہ غریب جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے درویشانہ رنگ میں خدمت سلسلہ کی توفیق عطا فرمائی اور نا مساعد حالات میں بھی آپ لوگ خدائے واحد کا نام بلند کرتے رہے.پس آپ لوگ یقیناً خوش قسمت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس بات کی بھی بشارت دے دی کہ وہ اس درویشانہ خدمت کے نتیجہ میں آپ لوگوں کو خلافت کی برکات سے خاص طور پر حصہ عطا فرمائے گا.میں سمجھتا ہوں کہ جہاں یہ الہام سب لوگوں کے لئے بڑی بھاری بشارت کا حامل ہے.وہاں اس سے آپ لوگوں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے.جن سے عہدہ بر آ ہونے کی صرف وہی صورت ہے جس کی طرف عبد الصمد نام میں اشارہ کیا گیا ہے.صمد کے معنی اس ذات کے ہوتے ہیں جو کسی کی محتاج نہ ہو.لیکن کوئی دوسرا وجود اس سے غنی نہ ہو.یعنی کوئی وجود ایسا نہ ہو جو اس کی مدد کے بغیر قائم رہ سکے.اسی طرح صمد کے معنی ہمیشہ قائم رہنے والے اور نہایت بلند شان والے کے بھی ہوتے ہیں.اور یہ تمام معانی تو حید کامل کا مفہوم اپنے اندر رکھتے ہیں.کیونکہ موجودات میں سے کوئی وجود ایسا نہیں جو بلندی اور عظمت میں اس کا مقابلہ کر سکے.پس عبد الصمد نام میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو اپنا حقیقی طلاء اور مالی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی سمجھنا چاہئے اور اس پر کامل تو کل اور بھروسہ رکھنا چاہیئے.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت آپ لوگوں کے سپر د اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عظیم الشان کام سپر د کیا گیا ہے.وہ اسی صورت میں سرانجام دیا جا سکتا ہے.جب اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت شامل حال ہو.ورنہ اس کے انجام پانے کی اور کوئی صورت نہیں.پس اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق بڑھاؤ اور دعاؤں اور ذکر الہی پر خصوصیت سے زور دو.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اسلام اور احمدیت کو ساری دنیا میں پھیلائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام ممالک میں بڑی شان اور عظمت سے لہرائے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن ایسا ہی ہوگا.بے شک دنیا ان باتوں کو نا ممکن بجھتی ہے.لیکن ہم نے خدا تعالیٰ کے نشانات کو بارش کی طرح برستے دیکھا ہے اور ہم نے اس کی قدرتوں اور جلال کا بار ہا مشاہدہ کیا ہے.اس لئے ہمیں یہ یقین ہے کہ احمدیت اور اسلام بڑھیں گے اور پھلیں گے اور پھولیں گے اور ایک دفعہ پھر ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بڑی شان کے ساتھ گاڑا جائیگا.یہ آسمانی فیصلہ ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا.آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی اسلام اور احمدیت کی کامیابی کی بشارت لکھ چکی ہے.اور جو فیصلہ آسمان پر ہو جائے زمین اسے بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی.پس اس مقصد کے حصول کے لئے پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور استقلال اور زیادہ چستی کے ساتھ

Page 554

تاریخ احمدیت 545 جلد 21 دین اسلام کی خدمت میں لگ جاؤ.اور اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا کرو.نمازوں میں خشوع و خضوع کی عادت ڈالو.دعاؤں اور ذکر الہی پر زور دو.صدقہ و خیرات کی طرف توجہ رکھو.سچائی سے کام لو.دیانت اور امانت میں اپنا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ.اور عدل وانصاف اپنا شیوہ بناؤ.یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لو تو تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور اس کی معجزانہ تائید تمہاری طرف دوڑتی چلی آئے گی.اور خدا تعالیٰ ایک دن ساری دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دے گا.میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے اور آپ کے مردوں اور عورتوں او بچوں اور بوڑھوں میں وہ تغیر پیدا کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا کرنا چاہتے تھے اور آپ لوگوں کو اسلام اور احمدیت کا سچا اور حقیقی خادم بننے کی توفیق عطا فرمائے.آمین یا رب العالمین خاکسار مرز امحموداحمد خلیفه امسیح الثانی 178-13-12-1962 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام درج ذیل کیا جاتا ہے.یہ آخری پیغام ہے جو حضرت صاحبزاہ صاحب نے اپنی زندگی میں جلسہ سالانہ قادیان کے لئے سپرد قلم فرمایا.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود قادیان کی مقدس سرزمین میں جمع ہونے والے بھائیو اور بہنو! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ میں کچھ عرصہ سے بیمار چلا جارہا ہوں اور کمزوری زیادہ بڑھ گئی ہے اور دل میں بھی کافی ضعف پیدا ہو گیا ہے اس لئے اس دفعہ کوئی خاص پیغام آپ کے لئے میں نہیں بھجوا سکتا اور صرف اسی بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ اس وقت جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے ستر سال سے اوپر ہو گئے ہیں اور گویا خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو بڑی ترقیوں سے نوازا ہے اور اس کے فضل سے جماعت احمد یہ دنیا کے اکثر آزاد ملکوں میں قائم ہو چکی ہے لیکن ابھی تک ہماری ترقی کی رفتار ایسی نہیں جو ہمارے دلوں کو خوش کر سکے.یا ہم اسے اپنے آسمانی آقا کے سامنے فخر کے ساتھ پیش کر سکیں اسوقت دنیا کی مختلف قوموں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے غیر معمولی دوڑ دھوپ شروع ہے.پس ضروری ہے کہ ہم اپنا قدم تیز بلکہ بہت تیز کر کے خدا کے

Page 555

تاریخ احمدیت 546 جلد 21 سامنے سرخرو ہونے کی کوشش کریں.یا درکھو کہ اسلام اور احمدیت خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کی قدر و قیمت کو ابھی تک بعض احمدیوں نے بھی پوری طرح نہیں پہچانا.اور یہ نعمت ساری دنیا کے لئے آسمان سے نازل کی گئی ہے.پس ہمیں اپنے قدموں کو تیز کر کے اس نعمت کو جلد تر دنیا کے سارے کونوں اور ساری قوموں تک پہنچا دینا چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمام دنیا کے لئے بشارت اور انذار کا پیغام لیکر آئے تھے.آپ کے الہامات میں ہندؤوں کے لئے بھی بشارت ہے اور مسیحیوں کے لئے بھی بشارت ہے.اور بدھوں کے لئے بھی بشارت ہے.اور سکھوں کے لئے بھی بشارت ہے اور دوسری قوموں کے لئے بھی بشارت ہے، بشرطیکہ اور وہ اس حق کو قبول کریں جو خدا نے اس زمانہ کے مامور اور اوتار کے ذریعہ دنیا میں نازل کیا ہے.پس آج جبکہ نئے سال کا آغاز ہونے والا ہے.آپ لوگوں کو چاہئے کہ نئے ولولے اور نئے عزم کے ساتھ اپنے کام کو شروع کریں اور اسلام اور احمدیت کے پیغام کو خاص جد و جہد کے ساتھ جلد تر ساری دنیا تک پہنچا دیں.مگر ضروری ہے کہ اور یہ ضرورت دن بدن بڑھتی جارہی ہے کہ آپ لوگ تبلیغ اور تربیت کی طرف بھی توجہ دیں اور مردوں اور عورتوں کی تربیت کے علاوہ نئی نسل کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں صحیح تعلیم وتربیت کے ذریعہ وہ روح پیدا کریں جو قوموں کے لئے ترقی کی غیر معمولی بنیاد بنا کرتی ہے.اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اپنا ذاتی نمونہ اچھا بنا ئیں.کیونکہ اچھے نمونہ کے بغیر نہ انسان خود ترقی کرتا ہے اور نہ اگلی نسل ترقی کر سکتی ہے.نمازوں اور دعاؤں پر زور دیں.اور خدا کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کریں.یاد رکھو کہ اسلام نے خدا کو محض ایک خشک فلسفہ کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ ایک زندہ حقیقت اور کی قیوم اور قادر و متصرف ہستی کے طور پر پیش کیا ہے.اسلام کا خدا وہ ہے جس نے دنیا کو نیستی سے پیدا کیا.اور اس کے بعد وہی دنیا کے نظام کو چلا رہا ہے.اور تقدیر کی ساری کنجیاں بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں.اور اب اس زمانہ میں اس کی حکیمانہ تقدیر نے تقاضا کیا ہے کہ اسلام کو اسی طرح روحانی رنگ میں ترقی دے جس طرح کہ اپنے دور اول میں اس نے سیاسی رنگ میں ترقی کی تھی اور اسلام کو اپنی روحانی طاقتوں کے ذریعہ ساری دنیا پر غالب کر دے.مگر خدا کی یہ بھی سنت ہے کہ ہر تقدیر کے ساتھ جو آسمان سے نازل ہوتی ہے.انسانوں کی تدبیر بھی شامل ہونی ضروری ہوتی ہے.کیونکہ جس طرح تقدیر آسمان سے زمین پر اترتی ہے، تدبیر زمین سے آسمان کی طرف چڑھتی ہے اور دونوں کے ملنے سے ایسی طاقت پیدا ہوتی ہے جو دنیا کی کایا پلٹ دیتی ہے.پس بھائیو! اور بہنو! اپنی ذمہ داری کو پہچانو اور خاص توجہ اور خاص کوشش اور خاص ولولہ اور غیر معمولی نیکی اور تقویٰ اور اسوہ حسنہ کے ذریعہ اسلام کی ترقی کے سامان پیدا کرو.اس وقت دنیا مادیت کے ماحول میں

Page 556

تاریخ احمدیت 547 جلد 21 گھری ہوئی روحانیت کے لحاظ سے گویا دم تو ڑ رہی ہے.آپ کا فرض ہے کہ اس نیم مردہ لاش کو روحانیت کا حیات بخش پیغام پہنچا ئیں اور مرتی ہوئی انسانیت کو ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچالیں.پس تبلیغ کے ذریعہ اور تربیت کے ذریعہ اور دعاؤں کے ذریعہ اور نیک نمونہ کے ذریعہ اور ان روحانی طاقتوں کے ذریعہ جو خدا تعالیٰ نے نیک لوگوں میں ودیعت کر رکھی ہیں.دنیا سے بدی کو مٹائیں اور نیکی کو ترقی دیں کہ اسی میں آپ کی اور ہماری اور تمام دنیا کی نجات ہے ہم آپ لوگوں کی نیک کوششوں میں روحانی جدوجہد کے لحاظ سے آپ کے ساتھ ہیں مگر جسمانی لحاظ سے ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے کہ.بلبل سے صحن باغ ہے سے دور اور پروانہ ہے چراغ سے دور اور شکسته شکسته والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ر بوه غیر مسلم صحافی کے تاثرات 26 دسمبر 1962 ء179 جناب لاہوری رام بالی صاحب ایڈیٹر پندرہ روزہ اخبار ” بھیم پتر کا ( جالندھر ) نے قادیان کے عظیم الشان روحانی اجتماع کے بارے میں ایک با عمل جماعت“ کے زیر عنوان حسب ذیل نوٹ سپرد اشاعت کیا :- ملک کی تقسیم سے پہلے ہمارے شہر میں مسلمان تو کافی تھے مگر ان میں ایک احمدی بھی تھے.اپنی چند خوبیوں کی بدولت سارے ہی شہر میں مشہور تھے.وہ ہمارے پڑوسی بھی تھے.اس ناطے میں اکثر ان کے پاس اردو اخبار پڑھنے جایا کرتا تھا.اس وقت طالب علمی کے دن تھے.کافی سُوجھ بوجھ تھی نہ گہرا مطالعہ.لیکن پھر بھی جلسے جلوسوں میں شرکت کرنے کا شوق تھا.لیکچر سننے سنانے کی دُھن تھی.گہرا مطالعہ کرنے کو جی چاہتا تھا.دوسرے لوگ نفرت اور چھوا چھوت کا برتاؤ کرتے تھے.مگر یہی مسلمان اپنے پاس بٹھاتا تھا.پڑھنے لکھنے میں مدددیتا تھا.اس سے اُنس ہونا ایک قدرتی بات تھی.ملک تقسیم ہو گیا.ہم بچھڑ گئے لیکن اپنے اس دوست جو احمدیت کا ایک نمونہ تھا کے خط و خال اس کا مدلل اور پر سلیقہ طرز بحث اس کی گہری علمیت اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ....یہ سب کچھ مجھے اب بھی یاد ہے....تبھی سے میں ”لائی لگ مومن نالوں کھوجی کافر چنگا کے سدھانت کا قائل ہو گیا.

Page 557

تاریخ احمدیت 548 جلد 21 اس وقت احمدی تحریک کے متعلق میری واقفیت اگر تھی تو محض برائے نام......حالات نے زندگی کا رخ بدل دیا.عملی طور پر پبلک زندگی میں آنے کا موقع ملا.....میرے ایک دوست محمد لطیف صاحب کئی برسوں سے مجھے قادیان جانے کی تلقین کرتے آرہے تھے.میری اپنی بھی وہاں جانے کی دلی خواہش تھی.سو اس مرتبہ 19 دسمبر 1962ء کو مجھے بھی احمدی جماعت کی سالانہ کانفرنس میں جو قادیان ( ضلع گورداسپور ) میں منعقد ہوئی شرکت کرنے کا موقع ملا.ایک دیرینہ خواہش پوری ہوگئی:.مولانا ابوالعطاء صاحب.مولانا سمیع اللہ صاحب، مولانا بشیر احمد صاحب،اور مولانا شریف احمد صاحب امینی کی تقاریر جو اس دن کے پروگرام میں شامل تھیں.سنیں.چونکہ میری واقفیت اب بھی سرسری ہے اس لئے احمدی جماعت کے متعلق فی الحال کچھ مفصل طور پر لکھنا میرے لئے مناسب نہ ہوگا.لیکن پھر بھی سالانہ کا نفرنس میں شامل ہونے کے بعد اپنے مشاہدے کی بناء پر میں کہ سکتا ہوں کہ اسلام کا پر چار جتنے ٹھوس عمدہ اور مدلل ڈھنگ سے احمدی لوگ کرتے ہیں شاید ہی کوئی کرتا ہو یا کرسکتا ہو.کم از کم میری نظر سے تو ان کے برابر کوئی جماعت یا فرد واحد نہیں گزرا.سچ سچ یہ لوگ تلواروں کے سایہ میں اسلام کا پر چار کر رہے ہیں.ہندوستان تو کیا پاکستان میں بھی کیا کم مظالم ڈھائے گئے ہیں؟ ظلم وستم برداشت کرنے کے باوجود کیا مجال کہ تبلیغ کے کام میں سستی آئے یا ان کے....قدموں میں لغزش پیدا ہو! میں تو یہ کہے بنا نہیں رہ سکتا کہ اگر کسی نے دھرم پر چار کا ڈھنگ سیکھنا ہو تو احمدیوں سے سیکھے.کتنا اتحاد ہے ان میں ! کتنی منظم ہے یہ با عمل جماعت !! مولا نا شریف احمد صاحب امینی نے ”قومی یکجہتی اور اس کے قیام کے ذرائع“ کے عنوان پر جو معرکہ انگیز اور پر سوز تقریر کی ہے اس سے بے حد متاثر ہوا.مولانا موصوف نے اپنی تقریر میں بجھتی قائم کرنے کے لئے دس نکات پر مشتمل پروگرام پیش کیا جن میں سے چند ایک یہ ہیں:.1.ہندوستان میں بسنے والے افراد کو بلا لحاظ مذہب وملت وفادار شہری سمجھا جائے.2.مذہبی آزادی میں مداخلت نہ کی جائے..ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذاہب کے پیشواؤں اور بانیوں کا احترام کریں 4.صحیح یا غلط پرانے واقعات کو دوہرا کر فتنہ وفساد بپا کرنے کی کوشش نہ کی جائے.5.ہر ایک مذہب والے اپنے مذہب کی صرف خوبیاں ہی بیان کریں.دوسرے مذہب یا مذہبی رہنماؤں پر کیچڑ نہ اچھا لیں.اگران تجاویز پر ایمان داری سے عمل کیا جائے تو صحیح معنوں میں پچہتی کیوں نہ قائم ہو؟ ضرور ہو سکتی ہے.

Page 558

تاریخ احمدیت 549 جلد 21 سالانہ کا نفرنس میں شرکت کرنے کے لئے مجھے پاکستان میں احمدی جماعت کے مرکز....ربوہ بھی جانا تھا.مگر ابھی تک پاسپورٹ ہی نہیں ملا....کانفرنس کب کی ختم ہو چکی ہے لیکن پاسپورٹ کے کاغذات شاید کسی کلرک بادشاہ یا تھانیدار کی میز پر چکر کاٹ رہے ہیں.ایک نہ ایک دن ربوہ جانے کی خواہش بھی ضرور پوری ہو جائے گی.فرصت ملی تو احمدی جماعت کے متعلق پھر کبھی لکھوں گا....ابھی تو میں اس کا مطالعہ ہی کر رہا ہوں.اخیر میں میرا یہ نوٹ نامکمل رہ جائے گا اگر میں جناب محمد لطیف صاحب کے علاوہ حضرت شہامت علی صاحب اور جناب عبدالعظیم صاحب مینیجر احمد یہ بکڈپو کا شکریہ ادا نہ کروں جنہوں نے میرا پُر خلوص اور پرتپاک خیر مقدم کیا.180 مقدس قافلہ قادیان پاکستانی زائرین کی فہرست پاکستان سے جلسہ سالانہ قادیان 1962ء میں شرکت کرنے والے مقدس قافلہ کے امیر قریشی محمود احمد صاحب ایڈوکیٹ اور جائنٹ امیر سید میر داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ تھے.حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب ناظر خدمت درویشاں کے قلم مبارک سے اس بابرکت قافلہ میں شامل مخلصین احمدیت کی مکمل فہرست ذیل میں زیب قرطاس کی جاتی ہے.یہ قافلہ 17 دسمبر 1962ء کولا ہور سے بذریعہ ریل روانہ ہوا.1.چوہدری احمد جان صاحب 54-R سید پوری گیٹ راولپنڈی 2.حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری احمد جان صاحب 3.ڈاکٹر اعظم علی خان صاحب نئی منڈی گجرات 4.مولانا ابوالعطاء صاحب 5- امتہ اللہ بیگم صاحبہ بیوہ فیض احمد صاحب محلہ واٹر ورکس سیالکوٹ شہر 6.مہر اللہ دتا صاحب محلہ سنت پورہ لائل پور 7- حسن بیگم صاحبہ زوجہ مہر اللہ دتہ صاحب 8.امتہ الحفیظ شاکر بنت میاں عبد الحق صاحب شاکر ربوہ 9.ملک اکرام اللہ خان صاحب معرفت طارق ٹرانسپورٹ جو دھامل بلڈ نگ لاہور 10.امتہ الرشید صاحبہ اہلیہ محمد امجد خان صاحب سمن آباد لاہور

Page 559

تاریخ احمدیت 550 11 - امتہ البشیر بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبد المغنی صاحب راولپنڈی 12- قریشی اعتقاد النبی صاحب محلہ دار الصدرر بوه 13.ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب ڈینٹل سرجن لاہور 14.فہمیدہ اعجازالحق صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب لاہور 15 - امتہ الباسط ایاز اہلیہ افتخار احمد صاحب ایاز ربوه 16.امتہ الرافع ایاز بنت افتخار احمد صاحب ایاز ربوه 17.صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب دارالضیافت ربوہ 18.بیگم بی بی صاحبہ زوجہ محمد عبد اللہ صاحب باغبانپورہ گوجرانوالہ 19.برکت علی صاحب ولد چوہدری محمد علی صاحب گجرات 20.ڈاکٹر بشیر احمد صاحب گولبازارر بوہ 21.ملک برکت علی صاحب حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ 22 - فیروزہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک برکت علی صاحب حافظ آباد 23.بشارت احمد صاحب نسیم وکالت مال ربوہ 24.سردار بشیر احمد صاحب آری نگر پونچھ روڈلاہور 25.چوہدری ثناء اللہ صاحب دھرگ میانہ ضلع سیالکوٹ 26 جمیل احمد صاحب سبزی فروش گولبازار ر بوه 27.چوہدری جلال الدین صاحب حال چک 37 ج سرگودھا 28.حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری بشیر احمد صاحب گورا یا گنج مغلپورہ لاہور 29.عابدہ صدیقہ صاحبہ بنت چوہدری بشیر احمد صاحب گورا یا گنج مغلپورہ لاہور 30.نصیر احمد صاحب ابن چوہدری بشیر احمد صاحب گورایا گنج مغلپورہ لاہور 31.صوفی خدا بخش صاحب عبد بی اے.ربوہ 32.سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ 33.دین محمد صاحب شاہد ایم.اے مربی سلسلہ راولپنڈی 34.رابعہ بی بی صاحبہ زوجہ محمد اسماعیل صاحب دار الصدر ر بوه 35 رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب ربوہ جلد 21

Page 560

تاریخ احمدیت 551 36 - رفیقہ بیگم صاحبہ بنت کرم دین صاحب دار النصر ر بوه 37.رفیع الزمان خان صاحب میشامل روڈ.جناح چوک کراچی 38.رحمت اللہ صاحب چک R B 69 گھسیٹ پورہ ضلع لائلپور 39.رشید احمد خان صاحب شاہجہانپوری گولبازار ر بوه 40.رقیہ فقیر اللہ صاحبہ بنت ایم فقیر اللہ صاحب پرانی میوہ منڈی لاہور 41.ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب میڈیکل پریکٹیشنر قلعہ صو با سنگھ سیالکوٹ 42.رابعہ بی بی صاحبہ اہلیہ مولوی اللہ دین صاحب شاہدرہ ٹاؤن 43.زاہدہ صاحبہ بنت شیخ عبدالقادر صاحب ہائیڈ مارکیٹ لاہور 44.سید سعید احمد صاحب وار برشن ضلع شیخوپورہ 45.سعیدہ صادقہ صاحبہ اہلیہ سید سعید احمد صاحب دار برشن 46.سعیدہ احسن صاحبہ دارالرحمت وسطی ربوہ 47.سائرہ خاتون صاحبہ بنت ڈاکٹر اعظم علی صاحب نئی منڈی گجرات 48 - شیخ سبحان علی صاحب چک نمبر 416 ج- ب ضلع لائل پور 49.سکینہ بیگم صاحبہ بنت میاں عمر دین صاحب جھنگ صدر 50.سراج الدین صاحب ولد محمد الدین صاحب مغل پورہ لاہور 51- سلیمہ ناہید صاحبہ اہلیہ خلیل احمد صاحب.راولپنڈی 52.سردار محمد صاحب چوہڑ کا نہ منڈی.ضلع شیخوپورہ 53.چوہدری شہاب الدین صاحب کوٹ باغ دین.سندھ 54.شیر علی صاحب ظفر چو ہڑ کا نہ منڈی ضلع شیخو پورہ 55.صلاح الدین صاحب ولد میاں فضل حق صاحب.ربوہ 56.صالحہ بیگم صاحبہ بنت مفتی فضل احمد صاحب عبہ سیداں.سیالکوٹ شہر 57.صوفیہ خانم صاحبہ بیوہ ماسٹر نذیر احمد صاحب رحمانی اسلامیہ پارک.لاہور 58- حمید احمد خان ابن ماسٹرنذیر احمد صاحب رحمانی اسلامیہ پارک.لاہور 59.چوہدری صلاح الدین صاحب ناظم جائیدا در بوه 60 - صلاح الدین بٹ صاحب سلطان پورہ روڈ.لاہور جلد 21

Page 561

تاریخ احمدیت 552 61 - مرز اصالح علی صاحب رسالہ روڈ.حیدرآباد 62.اہلیہ مرزا صالح علی صاحب رسالہ روڈ.حیدرآباد 63.خلیفہ طاہراحمد ولد خلیفہ عبدالرحمن صاحب.کوئٹہ 64 ظریف احمد خان ڈسپنسر فضل عمر ہسپتال.ربوہ 65.چوہدری علی اکبر صاحب نائب ناظم تعلیم.ربوہ 66.حافظ عزیز احمد صاحب.چنیوٹ 67- عبدالمجید خان صاحب دار النصر.ربوہ 68 - ملکہ خانم صاحبہ اہلیہ عبدالمجید خان صاحب.ربوہ 69.عائشہ بیگم صاحبہ بیوہ مولوی رحمت علی صاحب.ڈیوس روڈ.لاہور 70.شیخ عبدالقادر صاحب چوبرجی پارک.لاہور 71.سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ عبد القادر صاحب.لاہور 72.عبدالماجد ابن شیخ عبدالقادر صاحب.لاہور 73 - عطیہ بیگم صاحبہ بنت حافظ غلام رسول صاحب.ربوہ 74.شیخ عبداللطیف صاحب مراد کلاتھ ہاؤس.لاہور 75.ماسٹر علی محمد صاحب مسلم.فرید ٹاؤن منٹگمری 76.خلیفہ عبدال صاحب.جیل روڈ.لاہور 77.امتہ النصیر صاحبہ اہلیہ خلیفہ عبدال صاحب.لاہور 78- عزیزہ بیگم صاحبہ بنت با بوعبد الرحمن صاحب.جھنگ صدر 79.عبدالوہاب صاحب کو چہ چابک سواراں.لاہور 80 علی محمد صاحب انور.جیکب لائن.کراچی 81.عبدالحق صاحب ( کاتب) ربوہ 82.عبدالحمید صاحب ولد حکیم محد عبد اللہ صاحب.جہلم 83.ماسٹر عطاء محمد صاحب جامعہ احمدیہ.ربوہ 84.مولوی عبدالغفور صاحب کو ہاٹ 85.فردوس بی بی صاحبہ اہلیہ مولوی عبدالغفور صاحب.کوہاٹ جلد 21

Page 562

تاریخ احمدیت 553 86.عید وصاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالکریم صاحب دار النصر.ربوہ 87.چوہدری عبد اللطیف صاحب اور سیئر دار النصر.ربوہ عبداللہ دارالنصر 88.عالماں بیگم زوجہ محمد الدین صاحب 89.عائشہ بی بی صاحبہ بیوہ ملک محمد شفیع صاحب.کوئٹہ 90.عبدالرشید صاحب ظفر نظارت بیت المال.ربوہ 91.میاں علم دین صاحب ولد میاں اللہ بخش صاحب دارا الیمن ربوہ 92 - عبد السلام صاحب ولد محمد اسماعیل صاحب دارالیمن.ربوہ 93.گیانی عباداللہ صاحب.ربوہ 94.ملک عبداللطیف صاحب ستکو ہی.لاہور 95.خیر النساء صاحبہ اہلیہ ملک عبداللطیف صاحب.لاہور 96.منور احمد صاحب ابن ملک عبد اللطیف صاحب.لاہور 97 علم دین صاحب ولد محمد بوٹا چک 69 رب گھسیٹ پورہ.لائکپور 98.احمدی صاحبہ اہلیہ علم دین صاحب 99.خلیفہ عبدالرحمن صاحب.کوئٹہ 100.مولوی عبدالعزیز ( محتسب ) ربوہ 101.ڈاکٹر عبد المغنی صاحب سب چارج سول ہسپتال.راولپنڈی 102 - عبدالحمید صاحب سب چارج سول ہسپتال راولپنڈی 103 - عبدالسلام صاحب سیٹلائٹ ٹاؤن.راولپنڈی 104 چوہدری عبد الحمید سمن آباد.لاہور 105 - عزیز بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ عبد القادر صاحب ہائیڈ مارکیٹ.لاہور 106 - عبد الحفیظ خان صاحب عارضی منزل.ربوہ 107.عبدالرؤف خان صاحب سا گر روڈ.لاہور چھاؤنی 108 - عبدال صاحب کباب فروش گولبازار ر بوه 109 - سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدال صاحب کباب فروش گولباز ار ر بوه 110.نعیمہ بنت عبدال صاحب کباب فروش گولباز ارر بوه جلد 21

Page 563

تاریخ احمدیت 554 111 - عبدالرحیم صاحب چک نمبر 84 سرشمیر روڈ ضلع لائلپور 112 - عبدالرحمن خان صاحب.قائد آباد.کوئٹہ 113 - عبدالشکور شاد ولد عبدالرحیم صاحب فیکٹری ایریا.ربوہ 114 - عائشہ بی بی صاحبہ زوجہ عبدالکریم صاحب فیکٹری ایریا.ربوہ 115 - مستری عطاء اللہ صاحب چونڈ ضلع سیالکوٹ 116 - امتہ القیوم بنت مستری عطاء اللہ صاحب چونڈہ ضلع سیالکوٹ 117 - عزیزہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر غلام غوث صاحب 118.خواجہ عبدالرشید صاحب ولد خواجہ عبدالحمید صاحب.ربوہ 119 - چوہدری عبد الرحمن صاحب ولد چوہدری دیوان خان صاحب گوالمنڈی.لاہور 120.غلام حسن صاحب ولد اللہ بخش صاحب مزنگ روڈ.لاہور 121.ماسٹر غلام محمد صاحب شاہدرہ ٹاؤن لاہور 122 - آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ غلام حسن صاحب مزنگ روڈ.لاہور 123.مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ.ربوہ 124.ملک فضل احمد صاحب حال وکالت تبشیر ربوہ 125.چوہدری فضل احمد صاحب نائب نا ظر تعلیم ربوہ 126.فاطمہ بی بی صاحبہ اہلیہ محمد عبد اللہ صاحب چنیوٹ 127 - شیخ فتح محمد صاحب قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ 128.فاطمہ بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم محمد ابراہیم صاحب جھنگ صدر 129.قادر بخش خان صاحب فضل عمر ہسپتال ربوه 130.صوفی کریم بخش صاحب گولبازار.ربوہ 131 - کمال یوسف صاحب.وکالت تبشیر ربوہ 132.لال پری صاحبہ زوجہ میر خاں صاحب ربوہ 133 - لطیف احمد صاحب عارف 134 - کلثوم بیگم صاحبہ اہلیہ ماسٹرلطیف احمد صاحب عارف ربوہ 135 - محمد ایوب صاحب بٹ.بلوچ منزل.کوئٹہ جلد 21

Page 564

تاریخ احمدیت 555 136.چوہدری محمد احمد صاحب کارکن دفتر تعمیر ربوہ 137.ملک محمد دین صاحب خادم محله دارالیمن ربوه 138 - محمد انور خانصاحب لونیاں منڈی لاہور چھاؤنی 139- منیرہ ملک زوجہ محمد انور خانصاحب لونیاں منڈی لاہور چھاؤنی 140 - طارق انورا بن محمد انور خانصاحب لونیاں منڈی لاہور چھاؤنی 141.نوابزادہ محمد امین خانصاحب 142 - محمد شریف صاحب بیت الشمس گوجرانوالہ 143- محمد اکرام الحق رتن باغ سٹریٹ لاہور 144 - محمد لطیف صاحب محله باغبانپورہ گوجرانوالہ 145.مرزا منظور احمد جٹ لائن کراچی ( آف قادیان ) 146 - محمد اسماعیل صاحب ولد میاں اللہ دتہ صاحب دارالیمن ربوہ 147 - محمد صادق صاحب ولد محمد اسد اللہ صاحب مشین محلہ جہلم 1 - شیخ محمد بشیر احمد صاحب پٹرول ڈیلر جھنگ صدر 149.خانصاحب میاں محمد یوسف صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور 150 - ممتاز قریشی صاحبہ بنت مفتی فضل محلہ طلبہ سیداں سیالکوٹ شہر 151.مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ 152.رشید احمد ابن مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ 153 - محمد حسین خادم مسجد مبارک ربوہ 154 - محمد امین صاحب ولد محمدحسین صاحب قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ 155 - شیخ محمد علی صاحب ولد شیخ دوست محمد صاحب قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ 156 - سید مبارک احمد صاحب محلہ دارالصدر شرقی ربوہ 157 حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید مبارک احمد صاحب 158.مظفر احمد صاحب ابن سید مبارک احمد صاحب 159.حافظ محمد سلیمان صاحب کوارٹر تحریک جدیدر بوه 160.مولوی محمد اسماعیل صاحب کوارٹر تحریک جدید ر بوه جلد 21

Page 565

تاریخ احمدیت 556 161.ممتاز احمد صاحب خوب چند روڈ.کوئٹہ 162.چوہدری مقبول احمد صاحب ڈسٹرکٹ انجینئر شیخوپورہ 163 - محمد امجد خانصاحب سمن آباد.لاہور 164 - محمد رمضان صاحب وکالت تبشیر ربوه 165 - رابعہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد رمضان صاحب وکالت تبشیر ربوہ 166 - محمد علی صاحب ولد حسین بخش گلبرگ لاہور 167.نواب بی بی صاحبہ زوجہ حسین بخش گلبرگ لاہور؟؟؟؟ 168.چوہدری محمد اعظم صاحب ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ 169.رسول بیگم صاحب اہلیہ چوہدری محمد اعظم صاحب ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ 170 - ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ فقیر اللہ صاحب نوازش بلڈ نگ لاہور 171 - حسیب ابن فقیر اللہ صاحب نوازش بلڈنگ لاہور 172 - محمد احمد صاحب ثاقب جامعہ احمد یہ ربوہ 173.مسٹر محمود احمد صاحب چیمہ گلبرگ روڈ لاہور 174.ایم محمد عمر صاحب ربوہ 175.امیر بیگم صاحبہ اہلیہ محمد عمر صاحب ربوہ 176.چوہدری محمد اسماعیل خالد صاحب احمد آباد اسٹیٹ سندھ 177.سید مبشر احمد صاحب جھنگ صدر 178 محمد نوراحمد صاحب گوٹھ غلام رسول سندھ 179 - محمد الحق صاحب ولد مولوی خلیل احمد صاحب کراچی 180.مولوی محمود احمد صاحب مختار دفتر اصلاح وارشا در بوه 181 - حاجی محمد فاضل صاحب دار الرحمت وسطی ربوه -18 - شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ 183.قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ نمبر 4 میکلوڈ روڈ لاہور 184 - آمنہ صدیقہ صاحبہ زوجہ قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ نمبر 4 میکلوڈ روڈلاہور 185.شیخ محمد عبد اللہ صاحب ہا گور اور کس وزیر آباد جلد 21

Page 566

تاریخ احمدیت 557 186.خواجہ محمد شریف صاحب برانڈ رتھ روڈ لاہور 187.چوہدری منور لطیف اللہ صاحب سمن آبا دلا ہور 188.ناصر احمد صاحب با جو ہ 32 ایلگن روڈلا ہور چھاؤنی 189.نظام الدین صاحب وکالت تبشیر 190.مولوی نور الحق صاحب ادارۃ المصنفین ربوہ 191.نثار احمد صاحب فاروقی 192.مولوی نصیر الدین احمد صاحب دار الصدر ربوہ 193.مولوی نذیر احمد صاحب مبشر وکالت تبشیر ربوه 194.چوہدری نبی بخش صاحب مسن باڑہ سندھ 195.نوراحمد خان صاحب گوالمنڈی لاہور 196.چوہدری ناصر احمد صاحب سرائے عالمگیر گجرات 197.ناصرہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری ناصر احمد صاحب سرائے عالمگیر گجرات 198.مولوی نور الحق تنویر صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ 199.نوراحمد محلہ دارالیمن ربوہ 200.ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ کرم دین صاحب دار النصرر بودن جلد 21

Page 567

تاریخ احمدیت 558 جلد 21 جلسہ سالانہ ربوہ 182 جلسہ سالانہ قادیان کے چند روز بعد دارالہجرت ربوہ کی مبارک سرزمین میں 26-27-28 دسمبر 1962 کو نہایت درجہ کامیاب جلسہ سالانہ منعقد ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کی نسبت پیشگوئی فرمائی تھی کہ خدا نے اس کے لئے قو میں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.اس خدائی وعدہ کا ایک بار پھر شاندار ظہور ہوا اور ربوہ کی بستی نوے ہزار فدائیوں سے معمور ہو کر ذوق وشوق، انابت الی اللہ کا پر کیف منظر پیش کرنے لگی.اس جلسہ میں مشرقی و مغربی پاکستان کے علاوہ کویت، عمان، مشرقی افریقہ، ماریشس ، سیرالیون، جرمنی ، سکینڈے نیویا اور انگلستان کے مخلصین نے شمولیت کی سعادت حاصل کی.اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی جلسہ کی برکات سے بہرہ افروز ہوئے.الغرض یہ ان قوموں کا ایک نمائندہ اجتماع تھا جنہیں خدا تعالیٰ دنیا کے دور دراز علاقوں میں شامل سلسلہ ہونے کے لئے تیار کر رہا ہے.اگر چہ سیدنا حضرت مصلح موعود علالت طبع کے باعث بنفس نفیس تشریف نہ لا سکے حضور نے نہایت ایمان افروز افتتاحی اور اختتامی خطاب لکھوا کر ارسال فرمائے جنہیں حضور کی زیر ہدایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پہلے اور آخری اجلاس میں نہایت پر درد آواز میں پڑھ کر سنایا جسے سنتے ہوئے فضا بار بار نعرہ ہائے تکبیر، حضرت فضل عمر زندہ با داور احمد بیت زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی.امام حمام کے روح پرور پیغامات حضور کے دونوں پیغامات ذیل میں قلمبند کئے جاتے ہیں:.افتتاحی پیغام اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الــنــاصــر برادران جماعت احمدیہ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس نے ہمیں اپنی زندگیوں میں ایک بار پھر آپس میں ملنے اور اپنے ذکر کو بلند کرنے کے لئے اس

Page 568

تاریخ احمدیت 559 جلد 21 اجتماع میں شامل ہونے کی توفیق بخشی.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے آپ لوگوں کا یہاں آنا مبارک کرے اور جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ کی بنیا د رکھی ہے.اس کو پورا کرنے کی آپ کو تو فیق عطا فرمائے.آپ لوگ یا درکھیں ہمارا یہ جلسہ دنیوی جلسوں کا رنگ نہیں رکھتا بلکہ خالص دینی مقاصد کو ترقی دینے اور باہمی اخوت اور محبت بڑھانے کے لئے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے.اس لئے ان ایام کو ضائع نہ کریں بلکہ ان سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں کہ جب آپ جائیں تو آپ اپنے دلوں میں محسوس کریں کہ آپ کے ایمان اور آپ کے اخلاص اور آپ کے علم اور آپ کے عمل میں ایک نمایاں ترقی ہوئی ہے اور آپ کی روحانیت اور باطنی پاکیزگی میں اضافہ ہوا ہے.اگر آپ اس جلسہ سے یہ فائدہ اٹھا لیں تو آپ کا میاب ہو گئے اور اگر آپ اپنے اندر کوئی تغیر محسوس نہ کریں تو آپ کو اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے.رسول کریم ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جس شخص کے دو دن بھی نیکی کے لحاظ سے برابر رہے وہ گھاٹے میں رہا.آپ کے لئے تو جلسہ کے تین دن رکھے گئے ہیں.اگر ان تین دنوں میں بھی آپ کے اندر کوئی تغیر پیدا نہ ہوا تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کتنے بڑے گھاٹے میں رہیں گے.پس یہ ایام بہت زیادہ فکر کے ساتھ بسر کریں.اور اٹھتے بیٹھتے دعاؤں اور ذکر الہی پر زور دیں.تقریروں سے فائدہ اٹھائیں اور سلسلہ کی ضروریات کا علم حاصل کر کے ان میں حصہ لینے کی کوشش کریں.مجھے افسوس ہے کہ میں بیماری کی وجہ سے جلسہ میں شامل نہ ہو سکا لیکن میرا یہ پیغام ہے جو آپ لوگ یا درکھیں کہ دنیا کی نجات اس وقت آپ لوگوں سے وابستہ ہے اس لئے اشاعت اسلام اور اشاعت احمدیت کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں اور اپنے نمونہ سے لوگوں کے دلوں کو احمدیت کی طرف مائل کریں.جس طرح ہر مغز اپنے ساتھ ایک قشر رکھتا ہے اسی طرح اشاعت اسلام کا کام بھی جہاں ضروری جد و جہد سے تعلق رکھتا ہے.جو اس کا ایک جسم ہے وہاں اس کا مغز اور اس کی روح وہ اخلاص اور تبتل الی اللہ ہے جو ایک سچے مومن کے اندر پایا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تائید آسمان سے نازل ہوتی ہے جس طرح قربانیوں کا گوشت اور خون خدا تعالیٰ کو نہیں پہنچتا بلکہ دل کا اخلاص اور تقویٰ خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے.اسی طرح صرف ظاہری جد و جہد خدا تعالیٰ کے حضور مقبول نہیں ہوتی بلکہ وہ جد و جہد مقبول ہوتی ہے جس میں تقویٰ اور اخلاص اور روحانیت کی چاشنی بھی موجود ہو اور جس شخص کے اندر سچا اخلاص اور تقویٰ پایا جائے اس کے جوارح پر بھی اس کا اثر

Page 569

تاریخ احمدیت 560 جلد 21 پڑتا ہے اور وہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جاتا ہے.جب لوگ اسے دیکھتے ہیں تو وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ بظاہر دیکھنے میں تو یہ شخص بھی ہماری طرح ہے لیکن اس کے اخلاق ہم سے اعلیٰ ہیں.اس کی عادات ہم سے بہتر ہیں.اس کے اندر نماز اور روزہ اور دعاؤں اور صدقات کا زیادہ شغف پایا جاتا ہے اور ہر قسم کے رزائل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے.اگر یہ شخص اپنے اندر ایک نیک اور پاک تغیر پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے تو ہم کیوں کامیاب نہیں ہو سکتے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی احمدیت کو قبول کر لیتے ہیں.کیونکہ فطری طور پر ہر انسان پاکیزگی کا خواہشمند ہے.صرف بیرونی علائق اور روکیں ہی ہیں جو اسے خدا تعالیٰ سے دور رکھتی ہیں.لیکن جب کوئی نیک نمونہ اس کے سامنے آتا ہے تو اس کی خوابیدہ فطرت بیدار ہو جاتی ہے اور وہ بھی دنیوی علائق کو توڑ کر خدا تعالیٰ کے آستانہ کی طرف جھک جاتا اور اس سے سچا تعلق پیدا کر لیتا ہے.پس احمدیت پھیلانے کے لئے اپنا نیک نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرو اور ان کی ہدایت سے کبھی مایوس نہ ہو تمام دل اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ جب چاہے تغیر پیدا کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دل کھول دیئے صلى الله اور وہ جوق در جوق اسلام میں شامل ہونے لگ گئے یہاں تک کہ ہند بنت عتبہ جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ تک نکلوایا تھا وہ بھی رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئی اور جب رسول کریم ﷺ نے عورتوں سے یہ اقرار لیا کہ کہو ہم شرک نہیں کریں گی تو ہند جو ایک دلیر عورت تھی فوراً بول اٹھی کہ یا رسول اللہ ! کیا اب بھی ہم شرک کریں گی آپ اکیلے اور بے یار و مددگار تھے کوئی جماعت آپ کے ساتھ نہ تھی کوئی ہتھیار آپ کے پاس نہ تھے اور دوسری طرف سارا مکہ تھا اور بڑے بڑے سردار آپ کے مقابلہ میں تھے مگر آپ کا خدا جیتا اور ہمارے بت ہار گئے.کیا اتنا بڑ انشان دیکھنے کے بعد بھی ہم بت پرستی کر سکتی ہیں.؟ اب دیکھو ہند بنت عتبہ کتنی شدید دشمن تھی مگر پھر کس طرح ایک دن بچے دل سے رسول کریم ہے پر ایمان لے آئی.جب حنین کی جنگ ہوئی تو مکہ کے ہزاروں نو مسلم بھی اس جنگ میں شریک ہو گئے.مگر چونکہ ایمان ابھی ان کے دلوں میں راسخ نہ تھا اس لئے جب دشمن نے تیروں کی بوچھاڑ کی تو سب سے پہلے مکہ کے نو مسلم میدان جنگ سے بھاگے اور ان کے بھاگنے کی وجہ سے صحابہ کی سواریوں کے قدم بھی اکھڑ گئے اور انہوں نے بھی میدان جنگ سے بھاگنا شروع کر دیا جب صحابہ نے یہ حالت دیکھی تو انہوں نے بڑی سختی سے اپنی سواریوں کو روکنا شروع کیا مگر وہ اتنی خوف زدہ تھیں کہ ذرا باگ ڈھیلی ہوتی تو وہ پھر پیچھے کو دوڑ پڑتیں.

Page 570

تاریخ احمدیت 561 جلد 21 اس جنگ میں ایک وقت ایسا آیا جب رسول کریم ﷺ کے گرد صرف چند صحابہ رہ گئے اس وقت شخص جو دل سے کافر تھا اور صرف اس لئے جنگ میں شامل ہوا تھا کہ مجھے موقعہ ملا تو میں رسول کریم ہے کو قتل کر دوں گا اس نے جب دیکھا کہ اس افراتفری کی وجہ سے میدان خالی پڑا ہے تو اس نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا اور اپنی تلوار کھینچ کر رسول کریم ﷺ کی طرف بڑہنے لگا.وہ شخص خود بیان کرتا ہے کہ جب میں رسول کریم ﷺ کے قریب ہونا شروع ہوا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ بھڑک رہا ہے اور قریب ہے کہ وہ مجھے بھسم کر دے اتنے میں مجھے رسول کریم کی آواز سنائی دی.کہ شیبہ میرے قریب ہو جاؤ جب میں آپ کے قریب گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پر پھیرا اور فرمایا اے خدا! شیبہ کو ہر قسم کے شیطانی خیالات سے نجات دے.شیبہ کہتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا ہاتھ پھیر نا تھا کہ تمام شیطانی خیالات یکدم میرے دل سے نکل گئے اور یا تو میں رسول کریم ﷺ کو قتل کرنے کی نیت سے آگے بڑھا تھا اور یا یہ کیفیت ہوئی کہ رسول کریم ہے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے نظر آنے لگے پھر آپ نے فرمایا شیبہ آگے بڑھو اور دشمن سے لڑ وتب میں آگے بڑھا اور میں نے دشمن سے لڑائی شروع کر دی اور میں اتنے جوش کے ساتھ لڑا کہ خدا کی قسم اگر اس وقت میراباپ بھی میرے سامنے آتا تو میں اس کے پیٹ میں اپنا خنجر گھونپ دیتا اور اس کے مارنے سے قطعاً دریغ نہ کرتا.پس مشکلات کود یکھ کر کبھی گھبراؤ نہیں اللہ تعالی نے احمدیت کی فتح مقدر کر رکھی ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ خدا اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مرا در کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.بے شک لوگ ہمیں حق پہنچانے کی وجہ سے تنگ کر سکتے ہیں ہمیں گالیاں دے سکتے ہیں ہمیں اپنے مظالم کا نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن وہ ہمارے سلسلہ کو نہیں مٹا سکتے.کیونکہ خدا اس کی دائمی زندگی کا عرش سے فیصلہ کر چکا ہے.اور جو چیز خدا نے ہمیں دے دی اسے کوئی انسان ہم سے چھینے کی طاقت نہیں رکھتا.پس احمدیت کو پھیلانے کی جدو جہد رکھو اور اپنی نسلوں کو وصیت کرتے چلے جاؤ کہ انہوں نے

Page 571

تاریخ احمدیت 562 جلد 21 احمدیت کو ساری دنیا میں پھیلانا ہے بے شک یہ بہت بڑا کام ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس وقت ہماری جماعت کے ہاتھوں سے کام لینا چاہتا ہے پس مبارک ہے وہ جس نے یہ کام سرانجام دیا اور افسوس اس پر جو اس کے لئے آگے نہ بڑھا اور اس نے یہ قیمتی موقع ضائع کر دیا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو اس بابرکت اجتماع سے ہر رنگ میں فائدہ اٹھانے اور اپنے اندر ایک نیک اور پاک تغیر پیدا کرنے کی توفیق بخشے تا کہ اسلام کی اشاعت کا کام جو صرف ہماری زندگیوں تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی نسلوں تک ممتد ہے وہ پوری شان کے ساتھ سرانجام پائے اور ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے وارث ہوں.آمین یارب العالمین خاکسار مرز امحموداحمد خلیفة المسح الثانی 184 25-12-62

Page 572

تاریخ احمدیت 563 جلد 21 اختتامی پیغام اعوذبالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم برادران جماعت احمدیہ نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هــوالـنـاصـر السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب 1908 میں انتقال ہوا تو اس وقت میری عمر صرف ہیں سال کے قریب تھی.اس وقت میں نے دیکھا کہ جماعت کے بعض دوستوں کے قدم لڑکھڑا گئے اور ان کی زبانوں سے اس قسم کے الفاظ نکلے کہ ابھی تو بعض پیشگوئیاں پوری ہونے والی تھیں مگر آپ کی وفات ہوگئی ہے.اب ہمارے سلسلہ کا کیا بنے گا؟ جب میں نے یہ الفاظ سنے تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک جوش پیدا کیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش کے سرہانے کھڑا ہوگیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی قسم کھا کر یہ عہد کیا کہ اے میرے رب ! اگر ساری جماعت بھی اس ابتلاء کی وجہ سے کسی فتنہ میں پڑ جائے تب بھی میں اکیلا اس پیغام کو جو تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ بھیجا ہے دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا اور اس وقت تک چین نہیں لونگا جب تک کہ میں ساری دنیا تک احمدیت کی آواز نہ پہنچا دوں.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے محض اپنے فضل سے مجھے اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور میں نے آپ کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی تمام زندگی وقف کر دی جس کا نتیجہ آج ہر شخص دیکھ رہا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں اور ہزار ہا لوگ جو اس سے پہلے شرک میں مبتلا تھے یا عیسائیت کا شکار ہو چکے تھے محمد رسول اللہ علیہ پر درود اور سلام بھیجنے لگ گئے ہیں.لیکن ان تمام نتائج کے با وجود یہ حقیقت ہمیں بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا کی اس وقت

Page 573

تاریخ احمدیت 564 جلد 21 اڑھائی ارب کے قریب آبادی ہے اور ان سب کو خدائے واحد کا پیغام پہنچانا اور انہیں محمد رسول اللہ ہے کے حلقہ بگوشوں میں شامل کرنا جماعت احمدیہ کا فرض ہے.پس ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور بڑا بھاری بوجھ ہے جو ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا گیا ہے.اتنے اہم کام میں اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید اور نصرت کے سوا ہماری کامیابی کی کوئی صورت نہیں.ہم اس کے عاجز اور حقیر بندے ہیں اور ہمارا کوئی کام اس کے فضل کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر آن اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں اور دعائیں کرتے رہیں کہ وہ ہمارے راستہ سے ہر قسم کی مشکلات کو دور کرے اور ہمیں کامیابی کی منزل تک پہنچا دے.بے شک ہم اس وقت دنیا کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کی حیثیت بھی نہیں رکھتے لیکن اگر ہم صبر اور ہمت اور استقلال سے کام لیں گے اور دعاؤں میں لگے رہیں گے اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ایک تغیر پیدا کر دے گا اور وہی لوگ جو اس وقت ہمیں اپنے مخالف دکھائی دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو صداقت کی طرف کھینچ لائے گا.تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ اس وقت اسلام کا جھنڈا خدا تعالیٰ نے تمہارے ہاتھ میں دیا ہے اور تم پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد کی ہے.پس جس طرح صحابہ نے اپنی موت تک اسلام کے جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دیا اسی طرح تمہارا بھی فرض ہے کہ تم اسلام کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھو اور نہ صرف اپنے اخلاق اور عادات میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرو بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اسلامی رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرو.اگر اس زمانہ میں بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب کا زمانہ ہے کوئی شخص احمدی کہلاتے ہوئے اس تعلیم پر نہیں چلتا جو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا عذر پیش کر سکے گا ؟ بندوں کے سامنے تو تم ہزار عذر کر سکتے ہو مگر خدا تعالیٰ کے سامنے جب اولین و آخرین جمع ہوں گے تم اس بات کا کیا جواب دو گے کہ تم نے کیوں خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل نہ کیا اور کیوں اپنی آئندہ نسلوں کی اصلاح کی کوشش نہ کی؟ اور اگر خدا کے سامنے پیش کرنے کے لئے تمہارے پاس کوئی عذر نہیں تو تم کیوں اپنے دلوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتے جس کے بغیر کوئی کامیابی اور فتح حاصل نہیں ہوسکتی.پس میں تمام دوستوں سے کہتا ہوں کہ اپنی

Page 574

تاریخ احمدیت 565 جلد 21 تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ کرو.اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرو.اپنی جماعت کی تربیت کی طرف توجہ کرو.اپنے اخلاق کی اصلاح کرو.قرآن کریم کے درس ہر جگہ جاری کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھو اور پھر ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرو اور تبلیغ پرزور دو.مجھے حیرت آتی ہے جب میں جماعت کے بعض دوستوں کے متعلق سنتا ہوں کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور جماعتی اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں.میں ایسے تمام دوستوں کو کہتا ہوں کہ اے بھائیو! کیا وعظ ونصیحت صرف دوسروں کے لئے ہی ہے تمہارے لئے نہیں.کیا یہ جائز ہے کہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنے حقیقی مقصد کو فراموش کر دو اور جماعت کی کمزوری اور اس کی بدنامی کا موجب بنو میں تمہیں قرآنی الفاظ میں ہی کہتا ہوں.کہ اے مومنو! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تمہارے دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جائیں اور تم دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنے کی بجائے انہیں اسلام اور احمدیت کی طرف راغب کرنے کا موجب بنو.ان مختصر کلمات کے ساتھ میں آپ کو رخصت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے ان ایام میں جو مفید باتیں سنی ہیں اللہ تعالیٰ ان پر آپ سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے دلوں میں وہ نو را ایمان پیدا کرے جو احمدیت پیدا کرنا چاہتی ہے.اور جماعت کی ترقی کے راستے کھولے.یہ امرا چھی طرح یا درکھو کہ اسلام اور احمد بیت کی خدمت ایک عظیم الشان نعمت ہے جو خدا تعالیٰ نے صدیوں کے بعد آپ لوگوں کو عطا فرمائی ہے.پس اس نعمت کی قدر کرو اور اپنے آپ کو اسلام اور احمدیت کا سچا اور حقیقی پیرو بناؤ.اسی طرح آئندہ نسلوں کو بھی نیک اور پاک ماحول میں رکھو.انہیں دعاؤں اور ذکر الہی کا عادی بناؤ.اور انہیں ان کی دینی ذمہ داریوں سے ہمیشہ آگاہ کرتے رہو تا کہ قیامت کے دن ہم خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوسکیں اور ہمارا سر اس فخر سے اونچا ہو کہ ہم نے ساری دنیا کو محمد رسول اللہ اللہ کے قدموں میں ڈال دیا ہے.اے خدا! تو ایسا ہی کر.آمین یا رب العالمین خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة امسیح الثانی 1962-12-27 سید نا حضرت مصلح موعود کے ان انقلاب انگیز پیغامات کے علاوہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے

Page 575

تاریخ احمدیت 566 جلد 21 اس سال بھی ذکر حبیب کے موضوع پر مسبوط اور ایمان افروز مقالہ تحریر فرمایا جسے اختتامی اجلاس کے ابتدا میں مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد نے نہایت پر شوکت انداز میں پڑھ کر سنایا اس تقریر کا سلسلہ قریباً دو گھنٹے جاری رہا.احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو نہایت درجہ محویت کے عالم میں بیٹھے سنتے اور سر دھنتے رہے اور فضا پُر جوش اسلامی نعروں سے گونجتی رہی.آخر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضور کا اختتامی پیغام پڑھنے کے بعد احباب کو ایک مختصر دعائیہ خطاب سے نوازا اور اثر و جذب میں ڈوبی ہوئی پر سوز اور لمبی دعا کرائی.دیگر اہم کوائف احباب نے جلسہ کے مبارک ایام میں اپنے مقدس امام کے روح پرور پیغامات اور اہم دینی وعلمی موضوعات پر علمائے سلسلہ کی ایمان افروز تقاریر سنیں اور راتیں بیداری اور اللہ تعالیٰ کے حضور آہ وزاری میں بسر کیں.مسجد مبارک میں ہر شب با قاعدگی اور التزام کے ساتھ باجماعت نماز تہجد ادا کی گئی.نماز تہجد کے بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس قرآن مجید کا درس دیتے رہے.آخری روز صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جذبہ عشق سے سرشار ہو کر نہایت ایمان افروز روایات بیان فرمائیں.روزانہ احباب درس سے ہونے کے بعد جوق در جوق مقبرہ بہشتی جا کر حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کے مزار مقدس اور دوسرے بزرگان سلسلہ کی قبروں پر دعائیں کرتے رہے.مستفیض جلسہ کے مقررہ اجلاسوں کے علاوہ شب کو بھی دو اہم اجلاسوں کا انعقاد عمل میں آیا.( 1 ) 26 دسمبر کی شب کو دنیا کی پچاس زبانوں میں تحریک جدید کے مقصد پر تقاریر ہوئیں جس کے آخر میں حضور کی اس تقریر کا ریکارڈ بھی سنایا گیا جو حضور نے تحریک جدید کی اہمیت پر 1954ء کے جلسہ سالانہ پر فرمائی تھی.(2) 28 دسمبر کی شب کو غیر ملکی طلبہ اور متعدد بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ بجالانے والے مجاہدین نے اشاعت اسلام کے ایمان افروز حالات سنائے.ایک معزز غیر احمدی مبصر کی رپورٹ اس جلسہ میں غیر احمدی معززین کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی اور بہت متاثر ہوئے مثلاً سرگودھا کے جناب محمد اکرم خاں صاحب نے ہفت روزہ رسالہ لاہور کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا :- جناب مدیر لاہور ہدیہ تسلیمات! میں آپ کی خدمت میں اپنا ایک مشاہدہ بھجوا رہا ہوں.امید ہے آپ اسے لاہور میں شائع کر کے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کر دیں گے جو ہمارے ( اپنی فطرت سے مجبور ) علماء سوء اسلام کی ایک فدائی جماعت کے متعلق آئے دن پھیلاتے رہے.

Page 576

تاریخ احمدیت 567 جلد 21 جناب والا! بعض ” بگاڑ بھی ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے سنوار کے پہلو نکل آتے ہیں.ہماری بس سرگودھا سے آتی ہوئی احمد نگر کے برابر پہنچ کر کچھ ایسی بگڑی کہ ہم مایوس ہو کر پیدل ہی چنیوٹ کی سمت روانہ ہو گئے.اور پھر کوئی پون میل کی پیدل مسافت کے بعد ربوہ کے اڈے پر آگئے.جہاں ان دنوں خوب گہما گہمی تھی.دل نے کہا.چلور بوہ کی سیرا اپنی آنکھوں سے بھی کر دیکھیں.لائکپور کا ایک مولوی تو منبر پر سوار ہو کر اکثر اس جماعت کے متعلق عجیب و غریب فیلر چھوڑ تا رہتا ہے...چنانچہ میں سیدھا وہاں سے جلسہ گاہ میں پہنچا.جہاں ستر پچھتر ہزار کے لگ بھگ افرادزمین پر پرالی پر بیٹھے اپنی جماعت کے علماء کی تقریریں سن رہے تھے.جب میں پہنچا.ایک سوئٹزرلینڈ کا گورا مسلمان انگریزی میں حاضرین جلسہ کو خطاب کر رہا تھا.میں اس کی تقریر کا جتنا حصہ بن پایا یہ تھا ( ترجمہ ) ” میرے بھائیو! میں سوئٹزر لینڈ سے آیا ہوں.سوئٹزر لینڈ کی جماعت نے آپ سب کی خدمت میں السلام علیکم کے بعد دلی شکریہ کا نذرانہ بھی بھجوایا ہے کیوں کہ آپ سب نے بڑی محبت کے ساتھ سوئٹزر لینڈ کی مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا ہے.میں آج آپ لوگوں سے خطاب کرتا ہوا پھولا نہیں سما تا.کہ آپ کی اسلام سے محبت کے طفیل ہمیں بھی اسلام ایسی نعمت غیر مترقبہ ملی اور وہاں بھی رسول اللہ علیہ کے شیدائیوں کی ایسی جماعت پیدا ہوئی.جو صبح سویرے اٹھتے اور رات کو بستروں میں گھستے وقت اب اپنے سینوں پر صلیب کا نشان بنانے کی بجائے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتی ہے." سبحان اللہ اس مختصر سی تقریر میں کتنا اثر اور جذب تھا کہ ہر طرف سے نعروں کا غلغلہ بلند ہو گیا.اور میرے اردگر داس تقریر کو سن کر کتنے ہی اپ ٹو ڈیٹ احباب کے گالوں پر محبت اور مسرت کے آنسو بہہ نکلے.اس خوشی میں کہ مولا کریم نے انہیں ایک اور ملک میں اللہ اور اس کے پیارے رسول کا نام پہنچانے کی توفیق دی ہیں کرسیوں والے بلاک ہی میں مجھے میرے ایک لائکپوری پروفیسر مل گئے.انہوں نے رات کے کسی اجلاس کی کارروائی سنائی.جس میں چار درجن کے لگ بھگ بیرونی مشنریوں نے حاضرین کو خطاب کیا تھا.اپنی اپنی زبان میں.ان کی زبانیں مختلف تھیں.لہجے مختلف تھے.ان کے رنگ اور چہروں کے نقوش بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے.لیکن جب وہ اپنی تقریروں کے دوران ہمارے پیارے رسول ﷺ پر درود بھیجتے تھے یا قرآن کی کسی آیت اور نبی کریم میہ کی کوئی حدیث تلاوت کرتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب ایک ہی درخت کے پھل ہیں.ایک ہی باپ کے بیٹے ہیں جنہیں اس جماعت کے

Page 577

تاریخ احمدیت 568 جلد 21 وو بانی نے اپنے آقا و مولا کے نام پر اسی کے دین کی اشاعت کے لئے یکجا کر کے..جامع المتفرقین “ کا خطاب حاصل کر لیا ہے.اس بے آب و گیاہ زمین کے بھی عجیب بھاگ جاگے ہیں.سرکاری کاغذات میں یہ صدیوں سے بنجر قدیم اور بے آب و گیاہ چلی آرہی تھی.لیکن آج اس کے سینے پر ستر اسی ہزار مہمان ٹھہرے ہوئے تھے جو اس کڑاکے کی سردی میں اس کلر زدہ زمین پر صرف اس لئے اپنے آرام و آسائش کو حج کر آئے تھے کہ خدائے قدوس کے توحید کے ترانے گائیں اور اس کی عظمت کے راگ الا ہیں.یہاں نہ کوئی ہوٹل نہ کوئی سینما ہے نہ تماشا گاہ ہے نہ کوئی ریس کورس ہے اور نہ کوئی تفریحی پارک لیکن اس کے باوجو د خدائے ذوالجلال نے اس مٹی کو ایسا نواز دیا ہے کہ بس ہر طرف سے لوگ کھینچے چلے آتے ہیں.ایں سعادت بزور بازو نیست 28 دسمبر کا پہلا اجلاس ختم ہوا تو مجھے دو جرمنوں اور ایک انڈونیشی مسلمان سے ملاقات کا موقع ملا.انڈونیشی انگریزی آہستہ آہستہ بولتا تھا.مگر اسلام کے لئے سرتا پا محبت تھا.اس کا کہنا تھا کہ اگر اس جماعت کا انڈونیشیا میں مرکز نہ ہوتا تو آزادی کی جدو جہد کے ایام میں شاید ہمارا سارا ملک ہی کیمونسٹ بن چکا ہوتا.مگر ان مبلغوں نے ہمیں اسلام صرف بتایا ہی نہیں اس پر قائم رہنے میں بھی مدددی.افسوس کہ مجھے ایک شادی میں شرکت کی وجہ سے وہاں سے جلد لوٹنا پڑا.لہذا مجبوراً اٹھ کر کھڑا ہوا.اس وقت اسٹیج سے کوئی احمدی شاعر اپنے اس شعر سے میرے دلی جذبات کی ترجمانی کر رہا تھا.یہ بزم ناز ہے کس جاں نثار دین احمد کی یہاں تو سرنگوں ہے کجکلاہوں کی رعونت بھی مگر سارا راستہ یہ سوچتا آیا، ہمارے ملا لوگ بھی خوب ہیں.انہوں نے تکفیر سازی کواب با قاعدہ پیشہ بنا لیا ہے.یہ نہ خود کام کرتے ہیں نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں.اور دین کے نام پر ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہیں کہ بے دینی بھی ان کی مکاریوں سے پناہ مانگ اٹھتی ہے.گجا یہ کہ باہر یہ پھیلایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے رسول کریمہ کے مقابلے پر اپنا ایک نیا بی گھڑ رکھا ہے.اور کجا یہ حقیقت کہ یہاں ذرہ ذرہ دل و جان سے آمنہ کے اس لال پر فدا ہے.سمجھ میں نہیں آتا.یہ محدود علم کے لوگ کب تک کیچڑ کی دیوار میں بن کر حق کی تلاش کرنے والوں کا راستہ روک کر کھڑے رہیں گے.اللہ ہر ایک کو یہ توفیق دے کہ وہ اجہلوں کی ہر قسم کی لعنت و ملامت سے بے نیاز ہو کر اس جماعت کی طرح اس روشنی کو پھیلانے کی سعادت حاصل

Page 578

تاریخ احمدیت 569 جلد 21 کرے.جو نبی اکرم ﷺ کے وجود باجود کی صورت میں ہمیں نصیب ہوئی.آمین والسلام خاکسار محمد اکرم خان ( نز د جناح ہال ) سرگودھا.187 سنگ بنیاد دفتر تحر یک وقف جدید حضرت سید نا اصلح الموعود کی جاری فرمودہ عظیم الشان تحریک انجمن احمدیہ وقف جدید کا کام نہایت تیزی سے وسیع سے وسیع تر ہورہا تھا مگر ابھی تک اس کے دفتر کی مستقل عمارت موجود نہیں تھی.جلسہ سالانہ کے مبارک موقعہ پر 29 دسمبر 1962ء کو اڑھائی بجے بعد دو پہر ( دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے دفتر سے ملحقہ پلاٹ میں ) اس کے مرکزی دفتر کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب عمل میں آئی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعد در فقاء کرام، مجلس وقف جدید کے ارکان جلسہ پر تشریف لانے والے امراء صاحبان اضلاع اور دیگر احباب نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی.تقریب کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا جو مولوی نصیر احمد صاحب ناصر مربی سلسلہ احمدیہ سیالکوٹ نے خوش الحانی سے کی اس کے بعد خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح وارشا دور کن مجلس وقف جدید نے مسجد مبارک قادیان کی ایک اینٹ بنیاد میں رکھی بعد ازاں صحابہ حضرت مسیح موعودؓ میں سے حضرت حاجی محمد فاضل صاحب ربوہ ، حضرت حکیم انوار حسین صاحب خانیوال، حضرت منشی عبدالحق صاحب خوشنویس ربوہ ، حضرت چوہدری فتح دین صاحب، حضرت مولوی محمد عثمان صاحب امیر جماعت احمدیہ ڈیرہ غازیخان اور حضرت صوفی محمد رفیع صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ خیر پور نے بنیادی اینٹیں رکھیں.مجلس وقف جدید کے مندرجہ ذیل ممبران نے بھی ایک ایک اینٹ رکھی :- حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ صدر مجلس وقف جدید.خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب، مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید - مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب رکن مجلس وقف جدید - امراء صاحبان علاقائی و اضلاع میں سے مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ سابق صوبہ پنجاب و بہالپور ،مولوی محمد صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ مشرقی پاکستان، شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت کراچی، چوہدری بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ گجرات نے بھی ایک ایک اینٹ رکھی.اسی طرح قاضی محمد رفیق صاحب لاہور نے بھی.یہ سب احباب دعائیں کرتے ہوئے باری باری اینٹیں رکھتے جاتے تھے اور جملہ حاضرین بھی

Page 579

تاریخ احمدیت 570 جلد 21 دعاؤں میں مصروف تھے.آخر میں مولانا شمس صاحب نے اجتماعی دعا کرائی.بعد ازاں جملہ احباب میں شیرینی تقسیم کی گئی.188- سیمینار نظارت اصلاح و ارشاد محترم چوہدری انور حسین صاحب امیر جماعت احمد یہ شیخوپورہ نے حضرت صدر صاحب نگران بورڈ کی خدمت میں 1962ء کے شروع میں یہ تجویز پیش کی کہ مختلف نظارتوں اور وکالتوں اور دیگر انتظامی شعبہ جات گاہے بگا ہے ایسے سیمینار منعقد کیا کریں جن میں بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر آئندہ کی پالیسی پر تبادلہ خیال ہو اس طرح انتظامی شعبوں میں مسلسل اصلاح اور ترقی ہوگی.چنانچہ اس ارشاد کی تعمیل میں نظارت اصلاح وارشاد نے 29 دسمبر 1962ء کو سیمینار منعقد کیا چونکہ 1960 ء کی مردم شماری کے بعد پاکستانی پریس میں عیسائیوں کی رفتاترقی پر بہت تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اس لئے نظارت نے مناسب سمجھا کہ اس سیمینار میں پاکستان میں عیسائیت کی رفتار ترقی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور اس کو روکنے کے لئے تتجاویز سوچی جائیں.چنانچہ نظارت نے تمام امراء صاحبان اور مربیان کو ایک طویل سوالنامہ بھیجا اور اس کے جوابات کی روشنی میں نظارت نے ایک جامع اور مفصل رپورٹ مرتب کی اور یہ طے پایا کہ ہونے والے سیمینار میں یہ رپورٹ پڑھی جائے اور اس پر بحث ہوا اور پھر عیسائیت کے فتنہ کو روکنے کی مؤثر تجاویز سوچی جائیں.مختلف حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نظارت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سیمینار جلسہ سالانہ کے معا بعد مورخہ 29 دسمبر کو منعقد کیا جائے اس میں شمولیت کے لئے تمام ناظر صاحبان، وکلا تحریک جدید، امراء جماعت اور مربیان سلسلہ کو پہلے ہی اطلاع دے دی گئی.کارروائی شروع ہوئی اور نظارت کی مرتب کردہ رپورٹ سنائی جانے کے بعد مربیان اور امراء نے اپنے اپنے حلقہ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید معلومات بہم پہنچا ئیں.مرکز اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ عیسائیوں کی ترقی کی خبریں مبالغہ آمیز تھیں مسلمانوں سے شاذ و نادر ہی کوئی شخص عیسائیت میں جاتا ہے البتہ سندھ اور مشرقی پاکستان کے قبائلی علاقہ میں اچھوت ذاتوں سے کثیر تعداد کا پتہ دے رہی ہے تا ہم ہمیں اس فتنہ کی روک تھام کے لئے بہت کوششوں کی ضرورت ہے اور بہت سی تجاویز کے پیش ہونے پر ایک سب کمیٹی تجویز ہوئی جو اس امر پر غور کرے کہ بعض پسماندہ علاقوں میں جہاں خصوصیت سے عیسائی غیر مسلم اقلیتوں کو عیسائی بنارہے ہیں.پرائمری سکول کھولے جائیں اور اس طرح عیسائیت کی طرف سے رحجان کو روک کر احمدیت کی طرف توجہ پھیری جائے.1100

Page 580

تاریخ احمدیت 571 جلد 21 اس سب کمیٹی میں ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی صدر اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید - حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب خالد احمدیت.مولوی احمد خان صاحب نسیم انچارج مقامی تبلیغ ، میاں محمود احمد خان صاحب نائب امیر راولپنڈی اور مولوی محمد صاحب امیر جماعت احمد یہ مشرقی پاکستان ممبران تجویز ہوئے.کمیٹی نے حسب ذیل تجاویز پیش کیں.100 1.آئندہ ایک سال میں پاکستان کے اندر مناسب جگہوں پر دس پرائمری سکول کھولے جائیں.سب کمیٹی کے نزدیک ایک سکول کھولنے پر پانچ ہزار روپے خرچ کا اندازہ ہے سب کمیٹی کی تجویز یہ ہے کہ یہ رقوم اس علاقہ کے صاحب حیثیت لوگوں سے عطیہ جات اکٹھے کر کے مہیا کی جائے تفصیلات بعد میں طے ہو سکتی ہیں.2.سب کمیٹی نے ایسے سکول کثرت سے چلانے اور خدمت خلق اور رفاہ عامہ کے دوسرے کاموں کے لئے مستقل اخراجات فراہم کرنے کی تجویز کی ہے کہ جماعت کے احباب سے رجسٹر ڈ کو اپریٹو سوسائٹیز کے اصولوں پر مختلف علاقہ جات میں ایک ایک لاکھ کے حصص فروخت کر کے سرمایہ جمع کیا جائے.ان سوسائٹیوں کا بنیادی اصول یہ ہوگا کہ حاصل شدہ منافع کا نصف حصہ حصہ داران میں تقسیم کیا جائے اور نصف حسب ہدایات صدر انجمن احمد یہ خدمت خلق ، اشاعت اسلام اور سکول کھولنے پر خرچ کیا جائے تاکہ عیسائیت کے فتنہ کی روک تھام ہو سکے.اپنی نوعیت کا یہ منفرد اور تاریخی سیمینار خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں نظارت اصلاح وارشاد کی دعوت پر علاقائی اور ضلع وارامراء اور مربیان سلسلہ نے شرکت فرمائی.نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے ملک میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیوں کے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جس پر تفصیلی بحث کے بعد ان سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے متعدد تجاویز پیش کی گئیں اور ان کا عملی جائزہ لینے کے لئے حسب ذیل ممبران پر مشتمل کمیٹی مقرر ہوئی.1 - مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی (امیر جماعت ہائے احمد یہ حیدر آباد ڈویژن) 2.حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ( ناظم ارشاد وقف جدید ) 3.خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری 4 مکرم مولوی محمد صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ مشرقی پاکستان 5.جناب مولوی احمد خاں صاحب نیم ( انچارج اصلاح و ارشاد مقامی و نائب ناظر اصلاح و ارشاد سابق مجاہد تحریک جدید بر ما - ان

Page 581

تاریخ احمدیت 572 1962ء میں جلیل القدر رفقاء کا انتقال (فصل دوم) اس سال درج ذیل متعدد جلیل القدر رفقاء وفات پاگئے.حضرت حکیم اللہ دتہ صاحب در گانوالی ضلع سیالکوٹ ولادت 1869 ء، بیعت 1898 ء، وفات 8 جنوری 1962 ء 192 جلد 21 آپ کے نواسے محترم ماسٹر محمد الدین صاحب انور سیکرٹری تحریک جدید وصدر حلقہ سٹیٹ لائٹ ٹاؤن سرگودھا تحریر فرماتے ہیں:.آپ کے علم و فضل اور نیکی اور تقویٰ کے زیر اثر آپ کے بہت بڑے خاندان نے جن میں آپکے والد (حاکم دین صاحب) بھی شامل تھے احمدیت قبول کی.آپ کے زیر اثر احمدیت قبول کرنے والے عزیزوں اور ان کی اولاد میں سے خدا تعالیٰ نے اکثر کو سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کرنے کی سعادت عطا فرمائی اور ان سب میں سے بعض نے سلسلہ کی خاطر زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں آپ کے دل میں سلسلہ کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے ساتھ انہیں والہانہ عشق تھا اور سلسلہ حقہ کے لئے بہت عزت رکھنے والے تھے.بیعت کرنے کے بعد اصلاح و ارشاد میں بہت جوش و خروش سے مصروف رہے.آپ کی کوشش سے نہ صرف آپ کے اعزہ واقربا نے احمدیت قبول کی بلکہ اردگرد کے علاقہ میں بھی احمدیت پھیلی.ایک لمبے عرصہ تک آپ در گانوالی کے حلقہ کی جماعتوں کے امیر رہے اور جماعتی تربیت کے فرائض خوش اسلوبی اور باقاعدگی سے ادا کرتے رہے.سلسلہ حلقہ سے وابستگی اور اس کی تبلیغ و اشاعت کے راستہ میں آپ کو بہت مخالفت اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا جنہیں آپ صبر اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے آپ ایک ماہر طبیب تھے.اپنے پیشہ میں حصول معاش سے بڑھ کر خدمت خلق کا جذبہ کارفرما تھا.آپ کی طبیعت بہت سادہ تھی.نمود اور ریا آپ میں قطعا نہ تھی.آپ کا سلوک اپنے دوستوں، عزیزوں اور اولاد کے ساتھ نہایت مشفقانہ خلوص و محبت کا تھا.عبادت اور ذکر الہی سے بہت شغف تھا.سلسلہ کی ترقی اور اپنے لواحقین کے لئے بڑے درد و کرب سے دعائیں کرتے تھے.193-

Page 582

تاریخ احمدیت اولاد 573 جلد 21 1- محترمہ الہی جان صاحبه مرحومه زوجه مهر دین صاحب مرحوم ( والد ماسٹر محمد الدین صاحب انور ) 2- حکیم شریف احمد صاحب مرحوم -3 محترمہ مریم بی بی صاحبہ مرحومہ زوجہ مہر بشیر احمد صاحب مرحوم -4- محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ زوجہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب مرحوم سابق در ولیش قادیان 5- محترمہ زینب بی بی صاحبه زوجه لال دین صاحب مرحوم دار الرحمت وسطی ربوه 6- محترم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب گگومنڈی ضلع وھاڑی 7 - مولوی نصیر احمد صاحب ناصر سابق انسپکٹر تربیت و مربی سلسلہ احمدیہ حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب آف طغل والانز دقادیان ولادت ( تقریباً 1875ء، بیعت و زیارت 1901 ء وفات 5 جنوری 1962 ء18 194 196 شیخ صاحب کے والد شیخ جھنڈا صاحب نے والد ماجد حضرت مسیح موعودؓ سے چھ سال تک طب پڑھی اس لئے انہیں نہایت قریب سے حضور کی قبل از دعوی زندگی کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا تھا اور وہ حضور کی بے داغ سیرت اور پر عظمت کردار کے بہت مداح تھے فرماتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے مجھے حضرت مرزا صاحب مسیح موعود ) کو بلا لانے کے لئے فرمایا.میں آپ کے حجرہ کے دروازے پر پہنچا تو یوں آواز آئی گویا کوئی عورت دردزہ کی وجہ سے کراہ رہی ہے.میں سمجھا کہ شاید کمرہ بھول گیا.لیکن پتہ چلا کہ وہی کمرہ ان کا ہے چنانچہ میں دستک دے کر انتظار کرنے لگا.تھوڑی دیر میں آپ نماز ظہر سے فارغ ہو کر باہر تشریف لائے اور مجھ سے مصافحہ کیا میرا پیغام سن کر فرمایا کہ میں آتا ہوں آپ آئے تو والد صاحب نے بتایا کہ کل مقدمہ کی پیشی ہے.آپ عدالت میں یہ بیان دیں آپ نے والد صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ آپ مجھے لکھ دیں میں عدالت میں پیش کر دوں گا.والد ماجد صاحب نے کہا کہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں یہ باتیں زبانی بیان کر دیں لیکن حضور نے جواب دیا کہ میں اپنی زبان سے بیان نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے اس بیان کی صحت کے متعلق یقین نہیں البتہ آپ کا بیان آپ کی طرف سے عدالت میں پیش کردوں گا.شیخ جھنڈ ا صاحب بیان کرتے تھے کہ حضور کی عمر اس وقت

Page 583

تاریخ احمدیت 574 جلد 21 تیں سال کی ہوگی اور شیخ صاحب حضور کی صاف گوئی ، صداقت پسندی اور گریہ وزاری سے بہت متاثر ہوئے.166 وو شیخ صاحب کو قبول احمدیت کی سعادت میاں محمد چراغ صاحب مصنف ” سیف حق“ اور امام 198 الدین صاحب ساکن قلعہ کے ذریعہ نصیب ہوئی چنانچہ آپ کا بیان ہے :- ’والد صاحب سے اس خاندان کے حالات سن کر حضرت مسیح موعود کی عظمت سے متاثر تھا میں پھیری کر کے بزازی کا کاروبار کرتا تھا.اس لئے حضور کے دعوی کی طرف کوئی توجہ نہ ہوئی.ایک دن محمد چراغ صاحب مصنف سیف حق“ اور امام الدین صاحب ساکن قلعہ ہمارے گاؤں میں آئے محمد چراغ صاحب کی سہ حرفی کا مجھے صرف ایک شعر یاد ہے.الف اُٹھ جیا چل قادیاں نوں جتھے مہدی مسیح نزول کیتا سنو علم والے جیہڑے لوگ آپے حلیہ دیکھ کے اونہاں قبول کیتا یہ موسم گرما تھا میں نماز تہجد کے لئے اٹھا تو دیکھا چار پانچ گھروں کے فاصلہ پر چھت پر دو اشخاص عبادت میں مصروف ہیں اور جب میں نے نماز تہجد ختم کر لی تو پھر بھی ان دونوں کو میں نے مصروف عبادت دیکھا تو خیال آیا کہ یہ فرشتہ سیرت لوگ ہمارے گاؤں میں آئے ہیں.ان سے ملاقات کرنی چاہیے.چنانچہ ان سے ملاقات کی تو ان کی پاکیزہ دلی ان کے چہروں سے ہی نظر آتی تھی اور دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ہم احمدی ہیں اور ہم نے یہاں ٹھیکہ پر کام لیا ہے اور چھ ماہ تک اسی گاؤں میں ہمارا قیام ہوگا اور انہوں نے بتایا کہ احمدیت اور حضور علیہ السلام کا دعویٰ کیا ہے.حضور علیہ السلام کا دعویٰ میرے لئے باعث تعجب تھا کیونکہ میں حیات مسیح کا قائل تھا.میں نے حیات مسیح کے متعلق کچھ آیات پیش کیں جو انہوں نے فوراً حل کر دیں اور میں ان کے دلائل سے اسی وقت وفات مسیح کا قائل ہو گیا.ان کا انداز گفتگو اسقدر حلیمانہ اور پر خلوص تھا کہ ان کی ایک ایک بات میرے دل میں اترتی چلی گئی میرے دریافت کرنے پر کہ وہ قادیان کب جائیں گے انہوں نے بتایا کہ وہ کل جمعہ وہیں پڑھیں گے تو میں نے کہا کہ مجھے ساتھ لے چلیں.چنانچہ ہم تینوں قادیان پہنچے اور بیت مبارک میں گئے.موذن نے اسقدر خوش الحانی سے اذان دی کہ گویا ایک وجد کا عالم طاری ہو گیا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے خطبہ دیا جو پُر سوز تھا جس کا نماز میں بھی اثر قائم رہا.حضور کوئی ڈیڑھ بجے بیت الذکر میں تشریف لائے.یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا آپ مغسل خانہ سے نکل کر آئے ہیں.حضور کا انوار سے منور چہرہ دیکھ کر حضور کی محبت میرے دل میں گھر کر گئی ایک

Page 584

تاریخ احمدیت 575 جلد 21 دوست ست نے بعد جمعہ عرض کیا ایک شخص بیعت کے لئے حاضر ہے فرمایا عصر کے بعد.چنانچہ عصر کے بعد جب حضور نے اپنے دست مبارک میں میرا ہاتھ لے کر الفاظ بیعت پڑھوائے تو اس کلمہ شہادت کے پڑھنے سے عجیب کیفیت پیدا ہوئی اور یوں محسوس ہوا کہ گویا پہلی بار یہ کلمہ صحیح معنوں میں پڑھ رہا ہوں اور استغفار کے الفاظ حضور کے دل سے نکلتے محسوس ہوتے تھے اور اس وقت بے اختیار میری چیخ نکل گئی بیعت کے وقت کا سرور اور حلاوت اس وقت تک دل کی گہرائیوں میں موجود ہے.بعد بیعت میں نے ایک روپیہ نذرانہ پیش کر کے دعا کے لئے عرض کیا.حضور نے نہایت شفقت اور پیار سے فرمایا آپ کے لئے ضرور دعا کی جائے گی.بیعت کے بعد آپ آٹھ دن تک قادیان میں ٹھرے بعد ازاں گاؤں واپس آئے تو آپ کے گھر والے آپکی گریہ وزاری اور قادیان سے والہانہ الفت دیکھ کر دنگ رہ گئے.آپ کے والد ماجد چونکہ حضور کی پاکیزہ سیرت کے عینی شاہد تھے اس لئے انہوں نے نہ صرف مخالفت نہیں کی بلکہ قریباً ڈیڑھ سال بعد حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کر لی.200 شیخ صاحب کو داخل سلسلہ ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود اور قادیان سے خاص الفت پیدا ہوگئی.آپ ہر جمعہ قادیان میں پڑھتے اور قادیان آنے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے.صبح دکان پر اپنے بھائی کو بٹھا کر چلے جاتے اور شام کو نماز مغرب ادا کر کے گھر پہنچتے اور کبھی مسلسل کئی روز قادیان میں ہی قیام رکھتے.E آپ کا بیان ہے کہ وہ قحط سالی کا زمانہ تھا.حضرت مسیح موعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ قحط اور وبا اکٹھے ہو رہے ہیں پھر بھی لوگ تو یہ نہیں کرتے.حضور نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حکم دیا کہ غلہ جس قدر ہو سکے مہیا کیا جاوے.حضور نے گھر کا سب زیور فروخت کر دیا اور سات سو روپیہ گندم کی خرید کے لئے عطا فرمایا.حضرت مولوی صاحب نے میاں نجم الدین صاحب مرحوم کو غل والا بھیجا مرزا محمد اسماعیل صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے جنہوں نے لنگر خانہ کے لئے 30 بوری گندم آپ سے خرید کی.ان دنوں بریکا نیر کے لوگ پنجاب میں آگئے تھے اور روٹی روٹی کی آواز ہر طرف سے آتی تھی.حضور نے حکم دیا کہ لنگر میں ہر وقت روٹی تیار رہے اور کوئی بھی خالی نہ جاوے چند روز میں غلہ ختم ہو گیا پھر حضور نے تقریر فرمائی جس کے الفاظ یہ تھے کہ یہ وقتی بات ہے ہمیشہ نہ ایسی قربانی کرنی پڑتی ہے نہ ایسا اجر ملا کرتا ہے.یہ مومنوں کے لئے خاص دن ہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے اللہ تعالیٰ دوستوں کو توفیق دے اس تقریر پر کچھ رو پیدا کٹھا ہو گیا اور کچھ باہر سے آیا اور غلہ خرید کیا گیا.غرض اسی طرح سلسلہ قحط کے دنوں میں جاری رہا اور حضور فرمایا کرتے تھے کہ میں نے فلاں اخبار میں دیکھا کہ اتنے بچے بھوک سے مر گئے اور اتنے آدمی مر گئے غلہ ملتا نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا سخت غضب ہے کہ غلہ نہیں ملتا اور بار بارذ کر کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور سخت گھبراہٹ سے میاں

Page 585

تاریخ احمدیت 576 جلد 21 نجم الدین صاحب سے پوچھتے اور حضرت مولوی صاحب سے غلہ کے بارہ میں ذکر فر ماتے.آپ طغل والا میں ہی تھے کہ طاعون کا شدید حملہ شروع ہو گیا آپ کی چھوٹی ہمشیرہ بھی اس مہلک مرض میں مبتلا ہوگئی دو دن بالکل بول نہ سکی تیسرے دن کچھ ہوش آیا.اشارہ سے کہا کہ مسیح موعود علیہ السلام ہمارے گھر میں آئے ہیں.میرے بدن پر پھونک ماری ہے.آپ قادیان پہنچے اور سارا حال حضرت اقدس کو سنا دیا حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا گھبرانے کی کوئی بات نہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ صحت یاب ہوگئی.حضور نے اس وقت ہدایت فرمائی کہ طغل والا سے ان دنوں میں قادیان نہ آویں اور میں آپ کے لئے اور آپ کے گھر کے لئے دعا کروں گا نیز فرمایا یہ دعا کثرت سے پڑھا کرو.رب کـــل شـیـنـی خادمك رب فاحفظني وانصرنى وارحمنى استغفار بسم الله هو الكافي.بسم الله هو الشافي باسم الله اشفنی اور درود شریف.فرمایا کرتے تھے.یہ دعا اللہ تعالیٰ نے مجھے انہی دنوں کے 202- لئے سکھائی تھی.20 1905-06ء میں آپ نے ہجرت کر کے دیار حبیب قادیان میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور بیت مبارک کے ساتھ والی دکانیں کرایہ پر لے لیں.حضور کی خدمت میں عریضیہ بھیج کر راہ نمائی چاہی کہ میں کونسا کاروبار شروع کروں حضور نے جواب تحریر فرمایا کہ :- دنیا کے کام آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں جو کام بھی آپ شروع کریں گے میں اسکے لئے دعا کروں گا اور اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا.“ چنانچہ آپ نے پنساری کی دکان کھول لی اور اس کے بعد اور بھی مختلف کام کئے مثلاً کوئلہ اور چونہ بھی فروخت کیا اور حضور کی دعاؤں کی برکت سے کبھی نقصان نہیں اٹھایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہی برکت دی.بیت مبارک سے متصل دکانوں کے مالک مرزا نظام الدین صاحب تھے اور ماہوار کرایہ فی دکان ڈیڑھ روپیہ تھا قادیان میں سب سے پہلی دکان کریانہ کی جو کسی احمدی نے کھولی وہ آپ کی تھی کچھ سامان آپ لنگر خانہ کے پاس فروخت کر دیتے تھے اور کچھ حضرت مسیح موعود کے پاس اور اس سے آپ کا گزارہ ہو جاتا تھا.بیت مبارک کے قرب کی وجہ سے آپ کو حضرت اقدس کی بابرکت مجالس سے فیضیاب ہونے اور قبولیت دعا کے کئی نشانات دیکھنے کا موقعہ ملا.ایک دفعہ کسی نے حضرت مولوی نورالدین صاحب سے شکایت کے رنگ میں کہا کہ بیت الذکر کے قریب دکان نہیں ہونی چاہئے.آپ نے حضرت مسیح موعودؓ سے ذکر کیا تو حضور نے ارشاد فرمایا آپ جانتے ہیں یہ کون لوگ ہیں؟ یہ اصحاب الصفہ ہیں.یہ سن کر خوشی کے مارے آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے.200

Page 586

تاریخ احمدیت 577 جلد 21 18 نومبر 1910ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الا ؤول گھوڑے سے گر گئے اور جیسا کہ خلافت اولیٰ کے حالات میں بتایا جا چکا ہے یہ حادثہ آپ کے مکان کے سامنے رونما ہوا آپ نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ ایح کا پاؤں مبارک رکاب میں لٹک گیا ہے.شیخ صاحب نے بھاگ کر فور الگام پکڑ لی آپ نے گھوڑی کو چھوڑا نہیں وہ آپ کو دھکیل کر آٹھ دس قدم تک لے گئی.اس دوران حضور کا پاؤں رکاب سے نکل گیا اور آپ کھنگر پر گر پڑے اور بیہوش ہو گئے.شیخ صاحب نے اپنی اہلیہ کو آواز دی وہ چار پائی اور کپڑا لے آئیں اور حضور چار پائی پر لیٹ گئے.آپ نے حضور کے سر میں پانی ڈالا مگر خون بند نہ ہوا.آپ نے اپنی پگڑی سے خون صاف کیا تھوڑی دیر بعد ہوش آئی تو فرمایا کہ خدا کے مامور کی بات پوری ہو گئی آپ نے عرض کیا کہ کونسی.فرمایا کیا آپ نے اخبار میں نہیں پڑھا کہ حضور نے گھوڑے سے میرے گرنے کی خواب دیکھی تھی.20 آپ کی اہلیہ نے عرض کیا کہ حضور دودھ لاؤں فرمایا نہیں میں دودھ کا عادی نہیں.پھر حضور کو چار پائی پر ہی اٹھا کر آپ کے مکان پر آپ کے شاگر د حکیم غلام محمد صاحب امرتسری اور آپ کے بچوں کے خادم غلام محی الدین صاحب اٹھا کر لے گئے.تیسرے روز حکیم صاحب موصوف آئے اور کہا کہ حضرت خلیفہ اول خون آلود پگڑی منگواتے ہیں.شیخ رحمت اللہ صاحب ان کے ساتھ حاضر ہو گئے.فرمایا وہ پگڑی ہمیں دے دو.شیخ صاحب کے توقف پر حضور نے ارشادفرمایا کہ اچھا اسے دھلا لو اور استعمال کرو لیکن ٹکڑے کر کے اسے تقسیم نہ کرنا پھر ایک نئی پگڑی بھی عنایت فرمائی.آپ نے حسب ارشاد پہلی پگڑی دھلائی اور دونوں پگڑیاں استعمال کر لیں.آپ کا حلفیہ بیان ہے کہ ” میں نے خواب دیکھا کہ میں رورہا ہوں اور حضرت خلیفہ اول کے پاس بیٹھا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ حضور تو جارہے ہیں ہمیں کس کے سپرد کر کے جارہے ہیں.بیت مبارک میں گویا ظہر کے وقت نمازی جمع ہیں اور بہت سے ابھی آرہے ہیں.اتنے میں حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب تشریف لے آئے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ ”میاں اس محراب میں کھڑے ہو جاؤ جب حضرت میاں صاحب کھڑے ہو گئے تو آپ نے اپنا ایک ہاتھ میرے سر پر رکھ کر اور ایک ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر منہ ادھر گھما کر فرمایا کہ یہ ہے جس کے سپر د کر چلا ہوں.میرے بعد یہ تمہارا خلیفہ ہوگا اور آپ نے یہ الفاظ دودفعہ دہرائے.“ اگلے روز خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک پر دومنہ والے سولہ سانپ کھڑے پھنکارتے ہیں.منظر نہایت ہیبت ناک ہے.لوگ خوف کے مارے کھڑے ہیں اور راستہ صاف ہونے کے منتظر ہیں میں بھی سڑک پار کرنا چاہتا ہوں مگر سانپوں کی وجہ سے نہیں کر سکتا اتنے میں ایک شخص آیا.میرے پوچھنے پر بتایا کہ میں فرشتہ ہوں میرا نام رحمت علی ہے اور میں تمہارے لئے ایک حربہ لایا ہوں اس نے گھاس کھودنے والا رمبہ مجھے دیا اور اس کے چلانے کا طریقہ مجھے بتا کر کہا کہ اس طرح چلاؤ کہ یہ سانپ کٹ جائیں چنانچہ میں نے

Page 587

تاریخ احمدیت 578 جلد 21 اس تیزی سے چلایا کہ ان کے نچلے منہ کٹ گئے اور وہ کھنڈرات میں گر گئے اور میں نے زور زور سے پکارا کہ لوگو! آجاؤ کہ راستہ صاف ہے اور لوگ گزرنے لگے.اگلے روز بروز جمعہ حضرت خلیفہ اول انتقال فرما گئے اور ہفتہ مسجد نور کے قریب بڑے درخت کے نیچے مولانا محمد علی صاحب کے ہم خیالوں نے خلافت کے خلاف ٹریکٹ تقسیم کئے.مسجد میں حضرت سید محمد احسن صاحب امروہی کھڑے ہوئے اور آپ نے حضرت میاں محموداحمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کہا کہ حضور خلافت کے لائق ہیں.اس وقت مجھے یکدم جوش آیا اور میں نے زور سے کہا کہ حضور اسی وقت بیعت ہونی چاہئے.میرے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ حاضرین نے میری آواز میں آواز ملا دی اور ہر طرف سے یہی آواز آنے لگی.اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور مولوی صدرالدین صاحب نے کہا کہ ٹھہرو ٹھہر وا بھی بیعت میں جلدی نہ کرو.میں نے جوش میں کہا کہ نہیں ٹھہریں گے.اس پر سید احمد نور صاحب کا بلی کو بھی جوش آ گیا اور انہوں نے مولوی غلام رسول صاحب پٹھان کو کہا کہ انہیں باہر نکال دو.یہ لوگ جن کی تعدا د سولہ تھی وہاں سے بھاگ گئے.میں نے اپنی پگڑی ”سید احمد نور صاحب کی لنگی کو باندھ کر حضور کی طرف پھینکا حضور نے پگڑی کا سرا اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور بیعت لی محترم شیخ صاحب کو سلسلہ کی متعدد خدمات کی توفیق ملی.منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے آپ نے پچاس روپے کا سیمنٹ اور چونا اور چالیس روپے نقد دئے.ارتداد ملکانہ کے موقعہ پر اپنی طرف سے اپنے ایک عزیز کو وہاں تبلیغ کے لئے بھجوایا.اور ڈیڑھ صدر و پیہ خرچ برداشت کیا.تحریک جدید کے دفتر اول کے مالی جہاد میں بھی آپ شامل ہوئے اور حضرت مصلح موعود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ نے تحریک وقف جائیداد کے سلسلہ میں اپنی جائیداد وقف کر دی تھی.20 205 تقسیم ھند کے بعد آپ مع دیگر افراد بیت کے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے اور لائل پور (فیصل آباد ) میں مقیم ہو گئے اور یہیں انتقال کیا.اولاد 1- حاجی شیخ محمد عبداللہ صاحب تاجر 2- شیخ عبدالرحمن صاحب تاجر 3- محترمہ امتہ العزیز صاحبہ (اہلیہ حکیم محمد اسماعیل صاحب فاضل سابق پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ) 4- محتر مہ امتہ الحفیظ صاحبه ( مدفونه بہشتی مقبره قادیان اہلیہ شیخ محمد یعقوب صاحب امرتسری)

Page 588

تاریخ احمدیت 579 جلد 21 5- حاجی شیخ عبد اللطیف صاحب مولوی فاضل ( سابق قائد خدام الاحمدیہ وسیکرٹری امور عامه لائل پور (فیصل آباد) 6- شیخ عبدالغفور صاحب تاجر 7- شیخ عبدالمجید صاحب تاجر ( سابق ناظم تربیت واصلاح لائل پور شہر فیصل آباد ) 8- محترمہ امتہ الحکیم صاحبہ (اصلیہ شیخ طاہر احمد صاحب ابن حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ وامیر جماعت احمد یہ ضلع فیصل آباد ) 0 حضرت پیر محمد عبد اللہ صاحب ہاشمی گولیکی گجرات ( وفات یکم اپریل 1962 ء ) آپ نے اپنے والد حضرت پیر غلام غوث محمد 200 صاحب کے ہمراہ حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.جماعت احمد یہ گولیکی کے انتھک کارکن نڈر مبلغ اور عبادت گزار بزرگ اور حلیم و بردباری کا چلتا پھرتا پیکر تھے.پوری عمر قرآن کریم کی خدمت میں گذاری آپ کے ذریعہ کئی مرد عور تیں اور بچے زیور قرآن سے آراستہ ہوئے.سیدنا حضرت مصلح موعود کے ساتھ نہایت درجہ عقیدت رکھتے تھے پانچوں نمازیں اور تہجد بھی بیت الذکر میں ادا فر ماتے تھے.نماز پڑھانے کے بعد بڑی محبت سے جائزہ لیتے کہ کون نماز پڑھنے نہیں آیا.جب تک اس کی غیر حاضری کا سبب معلوم نہ ہو جاتا ان کا دل مطمئن نہ ہوتا.مرحوم کے ہاں چھ بچے پیدا ہوئے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی.لڑکے آپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے.ایک لڑکی یادگار چھوڑی جو مولوی محمد اعظم صاحب بوتا لوی کی اہلیہ ہیں.200 حضرت چوہدری غلام سرور صاحب نمبر دار چک 1-55/2 اوکاڑہ ولادت 1883 ء دستی بیعت 1902 ء وفات 17 جون 1962 ء 210 209- آپ حضرت نواب محمد الدین صاحب کے چھوٹے بھائی اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ مجاہد تحریک جدید انچارج مشن انگلستان و سوئٹزر لینڈ) اور میجر شریف احمد صاحب باجوہ ( انچارج مشن انگلستان وامریکہ ) کے چچا تھے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پہلی بارمئی 1902ء میں حاضر ہوئے جبکہ حضور کی طبیعت در دگردہ کی تکلیف سے ناساز تھی.بیماری اس درجہ شدید تھی کہ گو یا حضرت مسیح علیہ السلام کا واقعہ صلیب جو پورا موت کا نمونہ تھا پیش آ گیا اسی دوران 11 مئی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے درازی عمر اور فتح ونصرت کی بشارتوں پر مشتمل یہ وحی ہوئی:.

Page 589

تاریخ احمدیت 580 خوشی کا مقام - نصر من الله و فتح قريبا جلد 21 چنانچہ اس کے بعد حضور کی صحت روز بروز ترقی کرتی رہی اور 23 مئی 1902 ء کو حضور نماز جمعہ میں بھی تشریف لائے.چوہدری صاحب فرماتے ہیں :.1902ء کا ذکر ہے کہ جب میں قادیان آیا تو حضرت صاحب درد گردہ کی وجہ سے بیمار تھے میر حامد شاہ صاحب بھی بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.ہمیں اندر بیت الذکر کے ساتھ والے کمرہ میں بلایا گیا اس وقت حضور کے پاس ہمارے علاوہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ، حضرت مولوی نورالدین صاحب، حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب بھی تھے.حضرت اقدس علیہ السلام نے میر حامد شاہ صاحب کے لئے کرسی بچھا دی اور باقی ہم لوگ چٹائی پر بیٹھ گئے.حضور نے فرمایا کہ جب مجھے شدید تکلیف ہوئی تو میں نے سمجھا کہ بس اب آخری وقت ہے اس لئے میں نے تمام دوستوں کے نام لے لے کر دعا کی اس واقعہ کے بعد بھی حضرت مسیح موعود کی زندگی میں آپ کو کئی بار قادیان میں حاضر ہونے اور حضور کی مبارک مجالس سے فیضیاب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ایک بار آپ نے چوہدری مولا بخش صاحب سیکرٹری سیالکوٹ کے ساتھ الدار میں حضرت مسیح موعود کی ملاقات کا شرف حاصل کیا.اس وقت حضور کی خدمت میں ایک عرب بیٹھے ہوئے تھے جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے اور دوسال سے احمدی تھے مگر اس کا اظہار کسی پر نہیں کیا تھا.ایک دفعہ جبکہ آپ گوہانہ ضلع رہتک میں ملازم تھے، حضور علیہ السلام کے لئے چاندی کے دستہ والی ایک چھڑی اور کچھ میٹھائی لائے.حافظ حامد علی صاحب آپ کو حضور کے پاس اندر لے گئے حضور نے فرمایا کہ گوہانہ کی طرف کے تو معلوم نہیں ہوتے آپ نے عرض کیا کہ حضور میں سیالکوٹ کا باشندہ ہوں اور وہاں ملا زم ہوں حضور نے از راہ شفقت حافظ حامد علی صاحب سے فرمایا کہ آج مرزا محمد یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے لئے چائے تیار ہو گی ان کو بھی شامل کر لیں 6/7 نومبر 1907 ء کو حضرت مسیح موعود پر الہام ہوا عید تو ہے چاہے کرو چاہے نہ کرو حضور علیہ السلام صبح مہمان خانہ میں تشریف لے گئے اور یہ تازہ الہام سنا یا چوہدری صاحب موصوف اس وقت دوسرے دوستوں کے ساتھ مہمان خانہ میں بیٹھے ہوئے تھے آپ فرماتے ہیں:.

Page 590

تاریخ احمدیت 581 جلد 21 حضور علیہ السلام تشریف لائے اور اپنا الہام سنایا کہ عید تو ہے چاہے کرو چاہے نہ کرو پھر آپ نے مولوی محمد احسن صاحب کو حکم دیا کہ آپ وفات مسیح پر تقریر کریں....ان کی تقریر کے بعد حاضرین نے باری باری حضرت اقدس علیہ السلام سے مصافحہ کیا اور آپ کے ہاتھ کو اکثر نے بوسہ دیا اور نذرانہ بھی قریباً تمام احباب نے پیش کیا.بعض احباب نے سوال کیا کہ حضور کیا ہم روزہ چھوڑ دیں.حضور خاموش رہے، لوگوں نے تین دفعہ سوال کیا مگر حضور تینوں دفعہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا اسپر بعض احباب نے روزہ چھوڑ دیا اور بعض نے رکھے رکھا.دوسرے روز عید کی نماز پڑھی گئی.عید کی صبح کو حضور نے کھانے کا انتظام کیا.پلاؤ نمکین ہر ایک مہمان کو کھلایا گیا.چوہدری صاحب کی ظاہری تعلیم اگر چہ پانچ چھ جماعت تک تھی مگر دینی مسائل پر خوب عبور حاصل تھا.آپ شروع سے ہی صوم وصلوٰۃ کے سخت پابند تھے اور ابتدائی موصیوں میں سے تھے آپ کا وصیت نمبر 205 ہے.آپ ابتدا میں کچھ عرصہ محکمہ مال میں ملازم رہے.1920ء کے قریب آپ کو خدا کے فضل اور حضرت نواب محمد الدین صاحب کی وساطت سے پونے چار مربع زمین چک 2/55 ایل ( تحصیل وضلع اوکاڑہ میں مل گئی اور آپ نے یہاں مستقل سکونت اختیار کر لی آپ اعلی درجہ کے سخی تھے.غرباء، یتامی ، بیوگان کی مدد کرنا عمر بھر آپ کا شعار رہا.مزارعوں کے ساتھ بہت نرمی و محبت کا سلوک کرتے تھے.تمام گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بڑی الفت اور پیار سے پیش آتے.کبھی کسی فقیر کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے.اگر کوئی قرض مانگتا تو اسے قرض دینے کی بجائے کچھ رقم بطور امداد دے دیتے.آپ کو دعاؤں میں بہت شغف تھا دن رات دعاؤں میں مصروف رہتے جماعت کے امیر تھے اور ساتھ ہی امام الصلوۃ اور سیکرٹری مال کے فرائض بھی نہایت خلوص و اہتمام سے بجالاتے تھے.حضرت مصلح موعود سے والہانہ عقیدت تھی.مجلس مشاورت میں ہمیشہ اپنے گاؤں سے بطور نمائندہ منتخب ہوتے اور عمدہ پیرا یہ میں اپنے خیالات کا اظہار فرماتے تھے.جلسہ سالانہ پر ضرور حاضر ہوتے دو تین دن پہلے پہنچتے اور نئے سال کے آغاز کے بعد مرکز سے روانہ ہوتے.ربوہ میں چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے پاس قیام فرماتے.مرکز میں رہنے والوں کی بہت عزت کرتے.اکثر ملنے والوں کو تحفہ پیش کرتے تحفہ پیش کرنا ان کی عادت تھی اپنے عزیز واقارب کو بھی تحائف پیش کرتے رہتے تھے.جب مرکز میں آتے کافی رقم ساتھ لاتے لیکن جب واپس جاتے تو کسی رشتہ دار یا عزیز سے رقم لیکر واپسی کے اخراجات پورے کرتے گھر پہنچ کرفور ارقم بذریعہ منی آرڈر ارسال کرتے اور

Page 591

تاریخ احمدیت 582 جلد 21 حاصل کردہ رقم کے علاوہ کچھ رقم بطور شکرانہ ضرور ارسال کرتے.اکثر ربوہ سے کپڑا خرید کر درزی سے سلواتے تھے فرماتے ربوہ ہمارا مرکز ہے اس کو پاؤں پر کھڑا کر نا ہم سب کا فرض ہے.تبلیغ کرنا آپ کا محبوب شغل تھا.دعوت الی اللہ کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے.سفر میں ضرور تبلیغ کرتے کئی مسافروں نے اس سلسلہ میں آپ سے زیادتی بھی کی تو آپ نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا آپ کا لباس سادہ اور گفتگو شائستہ ہوتی تھی اور چہرے سے شرف و نجابت اور نیکی اور بزرگی کے آثار ٹپکتے تھے.10 اولاد 216 1- چوہدری غلام اللہ صاحب سابق ڈائریکٹر شاہ نو از لمیٹڈ لاہور وشاہ تاج شوگر ملز لمیٹڈ لاہور 2.کرنل عطاءاللہ صاحب -3- چوہدری نصر اللہ خاں صاحب زمیندار اوکاڑہ -4- چوہدری منصور اللہ صاحب زمیندار اوکاڑہ -5 محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمود احمد صاحب مرحوم سابق سپر نٹنڈنٹ جیل 6- محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ میجر عزیز احمد صاحب مرحوم -7- محترمہ امتہ العزیز مرحومہ اہلیہ کموڈور رحمت اللہ صاحب باجوہ 8- محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ چوہدری اعجاز احمد صاحب مینجر شاہ تاج شوگر ملز لمیٹڈ لاہور 9- محترمہ امتہ القیوم صاحبہ اہلیہ چوہدری آفتاب احمد صاحب سابق مینجر ماڈرن موٹر ز لمیٹڈ کراچی حضرت مرزا مہتاب بیگ صاحب انچارج درزی خانه قادیان ولادت 1882 ء بیعت و زیارت 14 جولائی 1901 ، 210 وفات 17 مارچ 1962 ، 220 اصل وطن سیالکوٹ شہر.آپ تحریر فرماتے ہیں :.15 جولائی 1901 ء میں سید حامد شاہ صاحب مرحوم کے ساتھ قادیان 5 بجے شام وارد ہوا اور ہمارے ساتھ بابو عطا محمد صاحب اور سیئر بھی تھے.جب ہم قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شاہ صاحب نے اطلاع کرائی اندر سے اسی وقت نوکر نے آکر کہا کہ اندر آ جاؤ.ہم لوگ بیت مبارک کی سیڑھیوں سے اس دروازہ سے اندر داخل ہو گئے جو شمال کی طرف گھر کی مشرقی طرف ہے.اندر صحن میں جا کر ہم ایک تخت پوش پر بیٹھ گئے.اسی اثناء میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بھی اوپر سے تشریف لے آئے.

Page 592

تاریخ احمدیت 583 جلد 21 تھوڑی دیر بعد حضور مغربی کمرہ سے ننگے سر کھلی آستینوں والا ململ کا کرتہ ( جس کا گلا شانوں پر ہوتا ہے جو کہ دونوں طرف استعمال ہو سکتا ہے) پہنے ہوئے تشریف لائے.میں نے دیکھا کہ حضور کا چہرہ مبارک نہایت نورانی اور سر اور داڑھی مبارک کے بال سرخ تھے اور ازار بند کے ساتھ ایک چابیوں کا گچھا لٹک رہا تھا.میرے دل میں خفیف سا اعتراض پیدا ہوا کہ یہ علامت تو دنیا داروں والی ہے جو کہ روپے پیسے سے محبت کرتے ہیں مگر حضور تو خدا کے نبی ہیں.ان کو ایسی باتوں سے کیا واسطہ خیر اسی وقت حضور نے ایک لڑکے کو فرمایا کہ چائے لاؤ.اتنے میں حضور شاہ صاحب سے ضلع سیالکوٹ کے حالات دریافت کرتے رہے کیونکہ ان دنوں ضلع سیالکوٹ میں لوگوں نے ایک تحصیلدار کو کرائین کی وجہ سے مار دیا تھا اسپر حضور نے کچھ فرمانا شروع کیا اور میرے اس وسوسہ کا جواب حضور نے یوں دیا.کہ بعض دفعہ لنگر خانہ کے اخراجات میں تنگی ہو جاتی ہے.چونکہ عورتیں ناقص العقل ہیں اس واسطے میں لنگر کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھتا ہوں.ان دنوں دفتر وغیرہ کوئی نہیں ہوتا تھا.چنانچہ میرا وسوسہ اسی وقت دور ہو گیا اور میرے دل کے حالات سے حضور نے اطلاع پاکر مجھے جو جواب اپنی گفتگو میں دے دیا اس سے میری تشفی ہوگئی.پھر حضور 1904ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے اور میں حضور کی خدمت کرتا رہا اور پھر میں جلسہ پر آتا رہا.قادیان میں مستقل طور پر درزی خانہ کے لئے انجمن نے مجھے سیالکوٹ سے بلا بھیجا اور میں 1913 ء میں چلا آیا.22 قادیان میں عرصہ تک آپ درزی خانہ کے انچارج رہے.اس قومی ادارہ سے کئی نوجوانوں نے کام بھی سیکھا اور متفرق کلاس میں قرآن مجید، حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود پڑھنے کی بھی توفیق پائی جس کا ذکر صدر انجمن احمد یہ قادیان کی مطبوعہ رپورٹوں میں موجود ہے.رپورٹ 20-1919 ء میں درزی خانہ سے کام سیکھنے والے ابتدائی طلبا کی ایک فہرست درج ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طالبعلم نیروبی ( مشرقی افریقہ ) کے تھے.جو فارغ ہونے کے بعد وہیں چلے گئے.تقسیم ملک 1947 ء کے وقت آپ نے اپنے بڑے بیٹے مرزا عبداللطیف صاحب کو بطور درویش قادیان میں قیام کے لئے چھوڑا.بعد ازاں کئی بار آپ پاکستان سے بڑی بے تابی اور اشتیاق سے دیار حبیب کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے رہے اسی جذبہ کے تحت 1961 ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کیلئے پہنچے مگر شدید بیمار ہو گئے.قدرے افاقہ ہونے پر واپس آگئے اور فضل عمر ہسپتال میں

Page 593

تاریخ احمدیت 584 داعی اجل کو لبیک کہا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر لکھا:.مرحوم ایک بہت نیک اور مخلص کم گو بزرگ تھے.قادیان کے زمانہ میں مرزا صاحب صدرانجمن احمدیہ کے صنعتی سکول ( درزی خانہ) کے سالہا سال انچارج رہے اور اب کچھ عرصہ ہوا پاسپورٹ حاصل کر کے قادیان کی زیارت کے لئے قادیان تشریف لے گئے تھے اور وہاں بیمار ہو کر لمبا عرصہ صاحب فراش رہے.چند دن ہوئے ان کے لڑکے مرزا عبداللطیف صاحب درویش قادیان انہیں بیماری کی حالت میں ربوہ پہنچا گئے تھے چنا نچہ آج ان کا انتقال ہو گیا مرحوم کی دوسری بیوی حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی پوتی ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین رفقاء میں سے تھے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے اور پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.2 حضرت میاں جان محمد صاحب پوسٹ مین قادیان 66 ولادت 1882.بیعت 1897.وفات 29 اگست 1962 ء.226 جلد 21 آپ سالہا سال تک قادیان میں بطور پوسٹ مین کام کرتے رہے بہت خوش خلق ، ملنسار اور دعا گو بزرگ تھے احمدیت سے والہانہ محبت رکھتے تھے.27 اولاد میاں محمد دین صاحب حجام لاہور میاں احمد جان صاحب ٹیلر ماسٹر حضرت قاری غلام مجتبی صاحب چینی متوطن رسول پور ضلع گجرات ولادت 1870ء.بیعت 1906 ء.وفات 24 اکتوبر 1962ء.آپ جماعت احمد یہ ہانگ کانگ کے بانی ارکان میں سے تھے.مولا نا شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں:.حضرت قاری صاحب موصوف تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے اکتوبر میں وکٹوریہ جیل ہانگ کانگ ( چین ) چیف وارڈن کے عہدہ سے ریٹائر ڈ ہو کر قادیان میں سکونت اختیار لی اور تقسیم برصغیر تک وہیں رہے.اس کے بعد ایک لمبا عرصہ لاہور میں رہائش رکھی اور

Page 594

تاریخ احمدیت 585 جلد 21 یہیں وفات پائی.آپ بہشتی مقبرہ کے قطعہ رفقاء مسیح موعود میں مدفون ہیں.مرحوم بہت مستعد ، نیک اور سادہ اور عبادت گزار بزرگ تھے قادیان میں کافی عرصہ تک بعہدہ جنرل پریذیڈنٹ خدمات بجالاتے رہے.اولاد.عبدالقادر صاحب سول سرجن اور چار بہنیں.220 حضرت قاری صاحب معاون ناظر امور عامہ قادیان کے عہدہ پر بھی ممتاز رہے.حضرت سید فقیر محمد صاحب کا بلی (افغان) وفات 6 نومبر 1962ء-280 آپ حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کے معتقدین میں سے تھے.جو آپ کے ایماء پر 98-1897ء میں مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے.تقسیم ملک کے موقع پر آپ کو پاکستان آنا پڑا.وفات سے قریباً ایک ماہ قبل آپ یہ عہد کر کے ربوہ سے قادیان گئے کہ وہ اس پاک بستی سے واپس نہیں آئیں گے.چنانچہ آپ نے وہاں پہنچتے ہی گویا اعلان کر دیا کہ میں مرنے کے لئے قادیان آیا ہوں اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہونا چاہتا ہوں.حضرت امیر صاحب مقامی مولانا عبدالرحمن صاحب جٹ کے حکم پر چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی نے حضرت اماں جان کے مکان مبارک کے ایک مقدس کمرہ میں ان کے قیام کا انتظام کر دیا.آپ کی صحت اس وقت اچھی تھی اور چلتے پھرتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے عزم کے پورا کرنے کے لئے بہت دعائیں کیں.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ کے دفتر سے وصیت کا سرٹیفیکیٹ اور اپنے حصہ آمد کا حساب بھی لے گئے تھے.علاوہ ازیں آپ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ کے امپرسٹ میں دو سو روپے کی رقم اس غرض کے لئے جمع کرا آئے تھے کہ اگر وہ ( قادیان کی بجائے ) ربوہ میں فوت ہوں تو ان کی نعش کو قادیان میں پہنچانے کا انتظام کیا جائے اور یہ تحریر بھی آپ کے ساتھ تھی.بظا ہر آثار یہی تھے کہ آپ کچھ سال اور جئیں گے لیکن تین ہفتوں کے بعد آپ پر فالج کا شدید حملہ ہواغشی کی کیفیت طاری ہوگئی اور پانچ چھ روز میں اللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت میں پہنچ گئے.آپ کے فرزند اور سلسلہ احمدیہ کے مخلص بزرگ الحاج خلیل الرحمن صاحب مولوی فاضل کا تحریری بیان ہے کہ :.مرحوم کے بڑے بھائی سید آدم خان مرحوم خلافت ثانیہ کے انتخاب میں موجود تھے.

Page 595

تاریخ احمدیت 586 جلد 21 1916-17ء میں وفات پا کر مقبرہ بہشتی میں مدفون ہیں.والد مرحوم دوصد روپے وصیت حصہ جائیداد سید آدم خان مرحوم لیکر قادیان آئے اور مسجد مبارک میں حضرت اصلح الموعود کےسامنے رکھ دیئے.فرمایا کہ یہ ایک ایسی جگہ سے رقم لائے ہیں کہ لوگ ایک ایک پیسے پر قتل کردئے جاتے ہیں.حضور نے یہ رقم حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب خسر حضرت اصلح الموعود کو دیدئیے.یہ واقعہ میں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں عرض کیا تو فرمایا کہ مجھے یہ واقعہ یاد ہے.علاقہ خوست سے جتنے افغان احمدی قادیان ہجرت کر کے آئے ہیں یا طلبہ آئے ہیں ان سب کو میرے تایا مرحوم سید آدم خان و عبدالرحیم خان مرحوم لیکر آئے ہیں.دونوں بھائیوں نے حضرت سید عبداللطیف شہید کی بیعت کی تھی اور دونوں نے حضرت شہید مرحوم کے ساتھ میراں شاہ ایجنسی برطانیہ تک آئے تھے اور یہاں سے ان کو اور دوسرے ہمراہیوں کو واپس کر دیا تھا.حضرت والد مرحوم نے شہید مرحوم کے گھوڑے کی لگام پکڑی ہوئی تھی.فرمایا.پائجامہ نیچے کرلو زیادہ اوپر ہے.حضرت شہید مرحوم کے صاحبزادہ حافظ محمد طیب صاحب کو گود میں کھیلایا ہے.اسی طرح باقی بچوں کو بھی کھیلایا ہوگا.حضرت شہید مرحوم کے ساتھ پانچ افراد قادیان گئے تھے ان کو اچھی طرح میں نے دیکھا پہچانا ہے.چھٹے آدمی نے بیعت نہیں کی تھی.ان کو نہیں جانتا ہوں.مجھے میرے والد 19-1918ء میں قادیان لائے تھے.مجھ سے پہلے میرے بڑے بھائی حبیب الرحمن و غلام محمد مرحوم حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور چند دوسرے طلبہ آئے تھے اور ولی دادخان شہید کو میرے تایا سید آدم خان مرحوم قادیان لائے تھے.والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں نے 18 سال کی عمر میں نماز تہجد شروع کی ہے اور اخیر عمر تک با قاعدگی سے پابند رہا ہوں.صاحب کشف و رویا صالحہ تھے.ان پڑھ تھے.لیکن قرآنی آیات کی صورت میں خواب میں آجاتی تھیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی...بچی کے رشتہ کے بارہ میں ہمراہ وقیع الزمان صاحب استخارہ کا کہا.دوسرے دن حضرت میاں صاحب کو کہا.”انا فتحنا لک فتحا مبينا“ کے الفاظ میری زبان پر بار بار جاری ہوئے ہیں.سب سے پہلے بیت المال کے محافظ پہرہ دار والد صاحب مفت مقرر ہوئے تھے بعد میں ایک روپیہ مشاعرہ مقرر ہوا.بیت المال کی حفاظت کیلئے بندوق کا لائسنس ہم دونوں باپ بیٹے کے نام تھا.جب

Page 596

تاریخ احمدیت 587 جلد 21 والد صاحب وطن چند ماہ کیلئے چلے جاتے تھے یا سلسلہ کے کسی اور کام پر چلے جاتے تھے.تو میں ان کے قائمقام پہرہ کی ڈیوٹی ادا کرتا تھا.مرحوم نے قادیان میں باغیچہ امرود، آموں کا لگایا تھا.امرود موسم سرمامیں حضرت مصلح الموعود کی خدمت میں بار بار پیش فرمایا کرتے تھے اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں پیش فرمایا کرتے تھے والد صاحب کی دلجوئی کیلئے کچھ رقم بھی عطا فرمایا کرتے تھے.حاجی خلیل الرحمن مولوی فاضل 232 والسلام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر لکھا:.سید صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی اور نیک بزرگ تھے پچھلے دنوں پاسپورٹ اور ویزا پر قادیان گئے تھے تا کہ وہاں اپنا آخری وقت دعاؤں میں گزاریں.ان کی انتہائی خواہش تھی کہ وہ قادیان کے بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوں.سواللہ تعالیٰ نے ان کی دلی خواہش کو پورا فرما دیا.حضرت خلیفہ عبدالرحیم صاحب جمونی ولادت 12 دسمبر 1893 - 2 پیدائشی احمدی.وفات 9 نومبر 1962ء.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور نہایت مخلص صحابی حضرت خلیفہ نورالدین احب جمونی کے صاحبزادے تھے اور حضور علیہ السلام کی دعاؤں کے نتیجہ میں پیدا ہوئے.آپ نے اپنے والد کے زیر سایہ اور ان کی تربیت کے تحت تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں تعلیم پائی.میٹرک پاس کرنے کے بعد لاہور سے کمرشل کلاس پاس کی جس کے بعد پہلے مہاراجہ ہری سنگھ کے ذاتی سٹاف میں اور پھر ریاست کے مختلف دفاتر اور محکموں میں ترقی کرتے کرتے سیکرٹری شپ تک پہنچے.ان دنوں مسلمان نو جوانوں کے ولایت جانے کے بہت کم مواقع میسر ہوتے تھے مہاراجہ ان کو اپنے ساتھ باہر لے جانا چاہتے تھے لیکن آپ بمبئی سے ہی اس لئے واپس آگئے کہ آپ کسی صورت میں داڑھی منڈوا کر اسلامی شعار کی بے حرمتی پر تیار نہ تھے اور مہاراجہ کو انہیں داڑھی سمیت شامل وفد کر نے میں تامل تھا.مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے زمانہ میں بدانتظامی اور ظلم کی بناء پر انگریزوں نے ایک کونسل بنادی تھی.جن دنوں خلیفہ صاحب راجہ ہری سنگھ صاحب کے پرنسپل سٹاف میں شامل ہوئے ان دنوں راجہ صاحب سینئر کونسل ہونے کے علاوہ ولی عہد ریاست بھی تھے.راجہ ہری سنگھ صاحب کی بعض غلطیوں کے باعث محل کے اندر اور باہر تحریک شروع ہوئی کہ انہیں ولی عہدی سے برطرف کر دیا جائے.راجہ ہری سنگھ صاحب جو خطوط

Page 597

تاریخ احمدیت 588 جلد 21 وائسرائے ہند یا دیگر اعلیٰ افسروں کو بھیجتے وہ خلیفہ صاحب ٹائپ کرتے تھے.راجہ صاحب کے مخالفین نے سینئر مہارانی کی طرف سے آپ کو ہزاروں روپے کا لالچ دیا بلکہ ریاست سے باہر ایک بھاری جائیداد بھی دینے کی پیشکش کی کہ وہ ان خطوط کی نقول انہیں دے دیں مگر خلیفہ صاحب نے اعلیٰ کیریکٹر اور استغناء کا ثبوت دیتے ہوئے صاف انکار کر دیا.آپ ریاست میں بڑے اہم عہدوں پر فائز ہوئے افسرانِ بالا کا اعتماد مسلسل حاصل رہا جہاں جس محکمہ میں رہے مسلمانوں اور اسلام اور جماعت کے مفادات کے لئے شمشیر برہنہ بنے رہے خصوصاً تحریک آزادی کشمیر کے دوران جس کے باعث مہاراجہ ہری سنگھ صاحب ان سے سخت ناراض ہو گئے اور کچھ عرصہ کے لئے آپ کو ملازمت سے بھی الگ کر دیا.لیکن آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی کچھ عرصہ کے بعد آپ کو اسٹنٹ ڈائریکٹ فوڈ کنٹرول (صوبہ کشمیر ) مقرر کر دیا گیا.چند سالوں کے بعد اسسٹنٹ ریونیو سیکرٹری اور اسسٹنٹ ہوم سیکرٹری کی آسامیاں خالی ہو ئیں.اس زمانہ میں ریاست کار یو نیومنسٹر انگریز تھا.خلیفہ صاحب نے اسٹنٹ ریونیو سیکرٹری کی آسامی کے لئے سعی کی چنانچہ ریاست کی کابینہ نے سفارش کر کے کاغذات مہاراجہ صاحب کی منظوری کے لئے بھیج دیئے کافی عرصہ تک منظوری نہ آئی آپ کے والد حضرت خلیفہ نورالدین صاحب دعا کر رہے تھے انہوں نے رویا میں دیکھا کہ خلیفہ عبدالرحیم صاحب والے کاغذ پر ایک لمبی لکیر کے بعد مہاراجہ صاحب کے دستخط ثبت ہیں چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ کچھ وقفہ کے بعد یہ کام ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.مہاراجہ صاحب نے خلیفہ صاحب کو اسٹنٹ سیکرٹری بنانے کی منظوری تو دے دی مگر ساتھ ہی کسی وہم کے باعث یہ خفیہ ہدایت کی کہ انہیں انگریز وزیر کے ساتھ نہ لگایا جائے چنانچہ آپ کو اسٹنٹ ہوم سیکرٹری لگایا گیا مگر آپ کا کام ایسا اعلیٰ تھا کہ چند سالوں کے بعد ترقی کر کے ہوم سیکرٹری بن گئے.جناب مولوی عبدالواحد صاحب سابق ایڈیٹر اخبار ” اصلاح سرینگر تحریر فرماتے ہیں:.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جب مجھے اخبار ” اصلاح“ کا چارج لینے کے لئے کشمیر روانہ کیا تو ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ خلیفہ عبدالرحیم صاحب ایک پرانے اور مخلص احمدی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان سے تعلقات موڈت قائم کرنا اور بڑھانا آپ کے لئے مفید ہوگا.میں نے حضور کے ارشاد کی تعمیل میں محترم خلیفہ صاحب سے تعلقات اخوت استوار کئے اور آخر یہ صورت حال ہوئی کہ اگر سرینگر میں ان کے قیام کے ایام میں میں چند روز ان کے مکان پر حاضر نہ ہوتا تو وہ خود میرے پاس تشریف لے آتے ہمارا کام زیادہ تر سیاسیات کشمیر سے متعلق تھا.بعض اوقات ہم

Page 598

تاریخ احمدیت 589 جلد 21 حکومت جموں وکشمیر کے زیر عتاب بھی آجاتے.خفیہ پولیس کی کڑی نگرانی بھی ہم پر رہتی مگر خلیفہ صاحب مرحوم ان امور کو کبھی خاطر میں نہ لاتے.حالانکہ وہ حکومت جموں وکشمیر کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور عموماً سرکاری عہدیدار ایسے ناگوار حالات میں میل ملاقات سے گریز کرتے ہیں.ریاست جموں وکشمیر میں ذبیحہ گاؤ کی سزا بہت سخت تھی جب بعض ہند ولیڈروں اور اخبارات نے گائے کے احترام کے سوال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو اخبار ” اصلاح میں اس موضوع پر متعدد مضامین شائع ہوئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب کو سرینگر بھجوایا.مہاشہ محمد عمر صاحب کے جو مضامین اصلاح میں شائع ہوئے ان میں ویدوں اور شاستروں کی مدد سے گاؤ خوری کو جائز ثابت کیا گیا اس سے جہاں مسلمانوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی.وہاں ہندو پریس میں صف ماتم بچھ گئی اور ہندوؤں کی طرف سے برملا مطالبہ ہونے لگا کہ کارکنان اصلاح کے خلاف حکومت فوری اقدام کرے اس زمانہ میں سر گوپال سوامی آئنگر جیسا کٹر مہا سبھائی ریاست کا وزیر اعظم تھا.سرینگر میں مسلمانوں کے احتجاجی جلوس پر لاٹھی چارج کے بعد گولیاں برسائی گئیں.مسلمانوں کی لاشیں اور زخمی جامع مسجد میں جمع کئے گئے تھے.ایسے نازک وقت میں بڑے بڑے دلیر گھبرا گئے تھے مگر خلیفہ صاحب مرحوم نے اسوقت بھی اپنے تعلقات میں فرق نہ آنے دیا.حالانکہ اخبار اصلاح کو حکومت بلیک لسٹ کر کے مزید اقدام کے متعلق سوچ رہی تھی.سرینگر اور جموں کی احمد یہ بیوت الذکر کی بنیاد میں خلیفہ صاحب کا نمایاں حصہ تھا سرینگر میں بیت احمد یہ کے لئے زمین دینے کا حکم راجہ پرتاپ سنگھ نے دیا تھا مگر کسی مناسب زمین کی منظوری نہ ہوسکی مولوی عبدالواحد صاحب ایڈیٹر اصلاح نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں حالات عرض کئے حضور نے چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کی زیر سر کر دگی ایک وفد وزیر اعظم صاحب ریاست جموں و کشمیر کے پاس بمقام جموں بھیجا کیونکہ سردیوں کے باعث دربار و دفاتر جموں آئے ہوئے تھے.وزیر اعظم صاحب نے چوہدری صاحب کی گفتگو سے یہ محسوس کیا کہ یہ بڑا ظلم ہے کہ احمد یہ بیت الذکر سرینگر کے لئے زمین دیئے جانے کا حکم تو آنجہانی مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے زمانہ سے ہو چکا ہے.مگر کسی مخصوص رقبہ کا قبضہ نہیں دیا گیا چنانچہ انہوں نے گورنر صاحب کشمیر کو حکم دیا کہ زمین تجویز کر کے فورا قبضہ دیا جائے.یہ حکم

Page 599

تاریخ احمدیت 590 جلد 21 ملنے پر گورنر صاحب جناب خلیفہ صاحب مرحوم کے مکان پر خود گئے اور انہیں ساتھ لیکر چند ایک موزوں مقامات دکھلائے جس کے بعد خلیفہ صاحب نے مولوی عبد الواحد صاحب، خواجہ غلام نبی صاحب گل کار اور دیگر احباب سے مشورہ کر کے سرینگر کی تحصیل سے ملحق رقبہ کے لئے درخواست کی جس کا چند دنوں بعد قبضہ مل گیا.حضور نے اطلاع ملنے پر مبارک باد دی.جماعت نے فی الفور مسجد کمیٹی تشکیل کر کے خلیفہ صاحب کو اس کا صدر بنایا.آپ کی توجہ اور کوشش سے چار دیواری اور دو کمرے مکمل ہو سکے تھے کہ تقسیم ملک عمل میں آگئی.اسی طرح جموں میں خلیفہ صاحب کی مساعی سے ایک مخلص دوست نے احمد یہ بیت الذکر کے لئے رقبہ عنایت کیا اور خلیفہ صاحب کی کوششوں سے با موقعہ بیت الذکر تعمیر ہوگئی اس زمانہ میں کچھ عرصہ کے لئے ماسٹر امیر عالم صاحب پر یڈیڈنٹ انجمن احمد یہ کوٹلی جموں میں مقیم رہے.ماسٹر صاحب موصوف جب خوش الحانی سے آذان دیتے یا تلاوت قرآن کرتے تو خلیفہ صاحب بہت خوش ہوتے تھے.280 1944ء میں جماعت ہائے احمدیہ کشمیر کی تنظیم و تربیت کے لئے صوبائی نظام عمل میں آیا اور مولوی عبدالواحد صاحب دو بار صوبائی امیر مقرر ہوئے.مولوی عبدالواحد صاحب کا بیان ہے کہ.خلیفہ صاحب مرحوم نے تعاون و اطاعت نظام کا بہترین نمونہ دکھایا ان کی معاونت اور مفید مشوروں نے میری ذمہ داریوں کو آسان بنا دیا اور آج تک میرے دل سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے.20 تقسیم ملک کے چند ماہ بعد آپ جموں سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں مقیم ہوئے ان کے وسیع تجربے کی بناء پر سردار محمدابراہیم صاحب صدر حکومت آزاد کشمیر نے انہیں ریونیو سیکرٹری مقرر کیا مگر بعض ریاستی لیڈروں نے (جن میں بعض حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے پروردہ بھی تھے ) ذمہ دار آسامیوں سے احمدیوں کی علیحدگی کی تحریک شروع کر دی جس میں پہلا نمبر مولوی عبدالواحد صاحب اور دوسرا غالباً آپ کا تھا حالانکہ سب ان بزرگوں کی ملی خدمات کے معترف تھے.2 خلیفہ صاحب سیالکوٹ کی جماعت احمدیہ کے کاموں میں زندگی کے آخری سانس تک سرگرمی سے حصہ لیتے رہے آپ مقامی مجلس عاملہ کے رکن اور محترم امیر صاحب ضلع سیالکوٹ (با بو قاسم الدین صاحب) کے مشیر خاص تھے.خلیفہ صاحب کو حضرت مصلح موعود سے غیر معمولی عقیدت تھی حضور بھی آپ پر نظر شفقت فرماتے تھے.آپ کا دستور تھا کہ اپنی ہر ضرورت اور تکلیف میں حضور سے مشورہ اور رہبری طلب کرتے اور اس مقصد کے لئے اکثر حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے.نہایت مخلص دیندار عابد، ملنسار اور مہمان نواز

Page 600

تاریخ احمدیت 591 جلد 21 بزرگ تھے.آپ اپنی اہلیہ اور ہمشیرہ کے ساتھ دسمبر میں قادیان جانے اور اگلے سال حج بیت اللہ کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے کہ اچانک مولائے حقیقی کا بلاوا آ گیا.20 انا للہ وانا الیہ راجعون.اولاد خلیفہ عبدال صاحب خلیفہ عبدالوهاب صاحب خلیفہ عبدالمومن صاحب خلیفہ عبدالوکیل صاحب خلیفہ عبدالعزیز صاحب محترمہ امته الرفیق صاحبه محترمہ امتہ الحمید صاحبه 244 حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب آسنور ضلع اسلام آباد کشمیر ولادت انداز 18821 ء 245 بیعت 246 دسمبر 1901 ء وفات 27 نومبر 1962ء 247 قصبہ آسنور کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس مردم خیز خطہ میں پانچ نہایت مخلص رفقاء پیدا ہوئے یعنی حضرت حاجی عمر ڈار صاحب، حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب ، حضرت خواجہ عبدالرحمن صاحب میر ، حضرت محمد صاحب وانی یہی پانچوں صحابہ سارے کشمیر میں اشاعت احمدیت کا موجب ہوئے اور انہی کے چراغوں سے چراغ روشن ہوتے گئے.ان مبارک وجودوں میں آخری صحابی حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب تھے.محترم جناب خواجہ سعید احمد صاحب ڈار جنرل سیکرٹری صوبائی انجمن احمد یہ کشمیر ک تحریری بیان ہے کہ.حضرت مولوی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور اپنی تمام عمر نہ صرف اہل آسنور کے لئے بلکہ گردو نواح کے تمام احمدیوں اور غیر احمدیوں کے لئے مشعل ہدایت بنے رہے.چنانچہ قریبی گاؤں سرگام کے ایک بزرگ لوگوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ اگر کبھی تمہیں احمدی بنا پڑا تو مولوی حبیب اللہ صاحب کی طرح کا احمدی بنا گویا آپ کے زہد و تقویٰ کا سکہ غیروں کے دلوں میں بھی بیٹھا ہوا تھا.اپنی عمر کے آخری دنوں تک آپ اپنے ہاتھ سے روزی کماتے رہے کبھی محتاج نہ بنے بلکہ ہمیشہ دوسروں پر احسان کرتے رہے.آپ کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ نے اپنی ساری عمر خدا ، قرآن اور محمد کی حکومت اپنے اوپر قائم رکھی اور اپنی زندگی کا ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے تحت گذار نے

Page 601

تاریخ احمدیت 592 جلد 21 کی کوشش کرتے رہے.آپ کو اپنی زندگی میں ایک عظیم سانحہ سے دو چار ہونا پڑا.یعنی آپ کا اکلوتا فرزند.کہ وہی آپ کی واحد اولاد تھی ، خواجہ محمد عبد اللہ صاحب فاضل جنہوں نے قادیان میں تعلیم حاصل کی تھی اور جموں کے سری رنبیر سنگھ ہائی اسکول میں عربی مدرس تھے.47ء کے فرقہ وارانہ فساد میں شہید ہو گئے.لیکن حضرت مولوی صاحب نے اسی پر عمل کیا جو قرآن کریم نے فرمایا یعنی آپ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر صبر کے ساتھ خاموش ہو گئے گوشدید صدمہ کے باعث شفقت پدری کے تقاضا نے آپ سے آنسو بھی بہائے.اور دیکھا کہ اکثر تہجد پڑھتے وقت سجدہ گاہ تر ہوتی تھی.آپ کا ہر لحہ ذکر الہی میں گذرتا تھا.آپ کی دیانت وامانت بھی مسلم تھی.اسی لئے گاؤں کے لوگوں کو آپ کی بزرگی سے عقیدت تھی....حضرت مولوی صاحب اپنی تمام عمر نہ صرف خود احمدیت کے اصولوں پر محبت اور خلوص سے گامزن رہے بلکہ گاؤں اور علاقہ بھر کے احمدیوں کو ان اصولوں پر چلانے کی کوشش کرتے رہے.آپ کی طبیعت میں غصہ نہ تھا لیکن کسی کی بے راہ روی کو دیکھ کر اور اسے سمجھاتے وقت آپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا.خطبات جمعہ وغیرہ میں قیامت کے روز کا ذکر اس طرح کرتے تھے کہ خود بھی روتے تھے اور سامعین کو بھی رلاتے تھے.آپ کی شخصیت زہد و تقویٰ کی وجہ سے اتنی محبوب تھی کہ باوجود اس کے کہ آپ چوبیس گھنٹوں گاؤں میں موجود رہتے تھے لوگ آپ کی دید کے مشتاق رہتے اور شمع اور پروانوں کا سا عالم ہوتا.وعظ و تقریر میں آپ کو خاص ملکہ تھا قرآن کریم کی چند آیات تلاوت کر کے مثالوں اور واقعات کے ساتھ ان کی تشریح کرتے تھے.جو بڑی دلپذیر ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ آپ کی موجودگی میں لوگ کسی اور کے وعظ کو اہمیت نہ دیتے تھے.آپ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق تھے اور ساتھ ہی علم و تقویٰ کے حامل تھے.اس لئے آپ کی نصائح موثر بھی ہوتی تھیں اور کارگر بھی.بچپن سے آپ کی طبیعت میں نیکی اور سادگی تھی.اس سلسلہ میں بڑے بزرگوں سے جو چند واقعات سنے ہیں ان کا ذکر کر دیتا ہوں بچپن کی عمر عام طور پر کھیل کود کی عمر ہوتی ہے لیکن آپ بچوں سے الگ تھلگ رہتے تھے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ بچے آپ کو اپنی شرارتوں کا نشانہ بناتے.آپ نے اپنے بچپن ہی میں مروجہ ابتدائی تعلیم عربی اور فارسی کی حاصل کرلی تھی.یعنی کر یما.نام حق گلستان بوستان اور قرآن شریف حدیث فقہ وغیرہ.اس کے بعد آپ نے درزی کا کام سیکھا.لیکن جب آسنور کے سکول میں ایک عربی دان مدرس کی ضرورت پیش آئی تو کشمیر سر کار نے آپ کی خدمات حاصل کر لیں اور اس سے نہ صرف

Page 602

تاریخ احمدیت 593 جلد 21 آپ کو معزز روز گار مل گیا بلکہ محکم تعلیم اور اس علاقے کو ایک اچھا شفیق مدرس بھی مل گیا اور اس طرح آپ آسنور اور مضافاتی دیہات کے بچوں کو دینی تعلیم کے نور سے منور کرتے رہے اور اس ہمدردی محنت اور شفقت سے بچوں کو پڑھایا کہ علاقہ بھر کے احمدیوں اور غیر احمد یوں میں آپ معزز قرار پائے.اس ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ نے پھر درزی کا کام شروع کر دیا تھا لیکن اس طرح کہ یہ پیشہ جو کپڑوں کے ٹکڑوں کی وجہ سے بدنام ہے آپ نے اپنے مسلسل دیانتدارانہ عمل سے اسے معزز بنادیا اور وہ اس طرح کہ کپڑوں کی کرنیں بھی مالکوں کو واپس مل جاتی تھیں علاوہ اس کے چونکہ آپ کی دوکان ایک دار التبلیغ بھی ہوتی تھی اس لئے گاہک جب آپ کی دوکان سے نکلتا تھا تو جسمانی لباس کے ساتھ ہی روحانی لباس میں بھی ملبوس ہوتا تھا.20 بعض دیگر مخلصین جماعت کا ذکر اس سال مندرجہ ذیل مخلصین جماعت بھی اپنے محبوب حقیقی کو جاملے.1- شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی ( ولادت 31 اکتوبر 1927 ء وفات 9 جنوری 1962 ء) حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کے فرزند اکبر تھے.آپ کی ولادت کے زمانہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سونی پت میں متعین تھے اور حضرت اماں جان بھی چند یوم کے لئے تشریف رکھتی تھیں.آپ بچہ کی پیدائش کی اطلاع پر بنفس نفیس پانی پت تشریف لے گئیں اور نہ صرف دعاؤں سے برکت بخشی بلکہ کپڑوں کا ایک جوڑا بھی مرحمت فرمایا.حضرت اماں جان کی خاص توجہ اور دعاؤں کی بدولت شیخ محمد احمد صاحب میں بچپن ہی سے رشد و اصلاح اور شرافت و نجابت کے غیر معمولی اثرات نمایاں تھے اور تاریخ اسلام کے واقعات تو چھوٹی عمر میں اس تفصیل اور صحت کے ساتھ یاد تھے کہ ان کے اساتذہ بھی دنگ رہ جاتے تھے.آپ نے ابتدائی تعلیم پانی پت کے مسلم ہائی سکول میں حاصل کی پھر 1942ء کے آخر میں مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے کی غرض سے قادیان پہنچے.کچھ عرصہ بعد حضرت اماں جان کو حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ محمد احم مدرسہ احمدیہ میں پڑھتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اس کی تعلیم کے اخراجات میں خود ادا کروں گی اور یہ فرمانے کے ساتھ یکصد روپیہ کا نوٹ حضرت ڈاکٹر صاحب کو دیا اور فرمایا کہ اس میں سے ماہ بماہ فیس اور اخراجات ادا کرتے رہیں اس کے بعد نہایت با قاعدگی کے ساتھ سال کے

Page 603

تاریخ احمدیت 594 جلد 21 سال سور و پیه یکمشت عنایت فرماتی رہیں حتی کہ 1949ء میں بھی جبکہ آپ نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کر لیا ایک سال تک یہ وظیفہ جاری رکھا.1951 ء سے 1954 تک آپ روز نامہ الفضل ربوہ اور روزنامه المصلح، کراچی کے ادارہ ء تحریر میں شامل رہے اور رپورٹنگ اور خبروں کی ایڈیٹنگ کے علاوہ بعض انگریزی تراجم اور نہایت قابل قدر مضامین سپرد قلم کئے.اس کے بعد آپ نے اسلامی تاریخ کی عربی کتب کے تراجم کی طرف توجہ دی اور نہایت مختصر عرصہ میں مشرق وسطی کے بلند پایہ اور نامور ادباء وفضلاء کی تصانیف کو ایسی عمدگی ، سلاست، روانی اور نفاست کے ساتھ اردو زبان میں منتقل کیا کہ برصغیر میں دھوم مچ گئی اور اس میدان میں آپ نے اتنی شہرت حاصل کی کہ بہتوں سے آگے نکل گئے اور بڑے بڑے نقادوں سے خراج تحسین حاصل کیا.علامہ نیاز فتحپوری نے لکھا ترجمہ شیخ محمد احمد پانی پتی کا ہے اور خوب ہے ( نگارلکھنو نومبر 1955ء) مولانا رئیس احمد جعفری نے آپ کی ایک کتاب کی نسبت یہ رائے دی کہ.اس ترجمہ کے بعض مقامات پر تو رشک کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے واقعہ یہ ہے کہ ترجمہ اتناشستہ اور رواں ہے کہ ترجمہ پن ذرا بھی محسوس نہیں ہوتا“ ( ثقافت ستمبر 1957 ء) جماعت اسلامی کے ترجمان روز نامہ تسنیم یکم جون 1956 ء نے لکھا:.مصنف ( عمر ابوالنصر ) کے اسلوب نگارش نے کتاب کو ایک دلکش ادبی جامہ پہنا دیا ہے اور فاضل مترجم نے ترجمہ میں اس دلکشی کو قائم رکھنے کی پوری اور کامیاب کوشش کی ہے ترجمہ نہایت شستہ اور رواں ہے اور زبان بے حد شگفتہ اور دلفریب ہے.“ ہفت روزہ چٹان لاہور ( 24 جون 1957 ء) نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:.مستند ہونے کے ثبوت میں یہی کہہ دینا کافی ہے کہ اس کے مصنف عالم اسلام کے عظیم المرتبت و نامور مورخ ڈاکٹرمحمد حسین ھیکل مصری مرحوم ہیں شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی نے اسے اردو کا لباس پہنا کر ترجمہ میں تصنیف کا رنگ بھر دیا ہے.“ ماہنامہ طلوع اسلام لاہور ( جولائی 1957 ء ) نے ھدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے لکھا:.ترجمہ شگفتہ ہے اور ترجمہ معلوم نہیں ہوتا.ہم اس ترجمہ کی کامیابی پر محمد احمد صاحب کو قابل 66 مبارکباد سمجھتے ہیں.“ ماہنامہ چراغ راہ (اپریل 1958 ء) نے لکھا:.”آزادی کے بعد ہماری ادبی دنیا میں عربی سوانخ و تاریخ کی کتب کے تراجم شائع کرنے کا

Page 604

تاریخ احمدیت 595 جلد 21 رجحان کافی مقبول ہوا ہے ان میں سے بیشتر کتب شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی نے ترجمہ کی ہیں ان کی زبان رواں اور زور دار ہے ان کے تراجم کو دیکھ کر کوئی نہیں جان سکتا کہ یہ کسی دوسری زبان کا ترجمہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں عربی زبان پر کافی دسترس ہے.“ علاوہ ازیں اخبار امروز (22 اگست 1955ء نیز 2 اپریل 1956ء) رسالہ ”حمایت اسلام“ ( 23 ستمبر 1955ء) رسالہ برھان دہلی (مارچ 1956 ء ) ہلال پاکستان ( 4 جون 1956ء) تعمیر انسانیت (جولائی اگست 1956 ء ) نیا دور “ لاہور ( شماره 11، 12 ) نے شاندار تبصرے کیے.20 آپ نے مختصر سی عمر میں نصف صد کے قریب عربی کتب کے تراجم کئے جو نامور اشاعتی اداروں کی طرف سے شائع ہوئے.مشہور تراجم کے نام یہ ہیں.نبی امی.خلفائے محمد.ابوبکر صدیق اکبر.خدیجہ عائشہ.الزاھراء - الحسین.خالد سیف اللہ.خالد اور ان کی شخصیت.عمرو بن عاص.معاویہ.عہد نبوی کی اسلامی سیاست.اسلام کا نظامِ عدل.آل محمد کربلا میں علی اور عائشہ سید العرب.الشیخان.جغرافیہ تاریخ اسلام.اشک پیہم.علاوہ ازیں آپ نے تعلیم القرآن.غلامان محمد.سیرت النبی اور اساس اسلام کے نام سے تالیفات بھی کیں.الغرض آپ نے تنیس سال کی عمر میں قوم و ملک کے لئے اتنا عظیم الشان لٹریچر یاد گار چھوڑا کہ حیرت آتی ہے.ایک بلند پایہ ادیب.صحافی.مضمون نگار مترجم اور مولف ہونے کے باوجود نہایت منکسر المزاج ملنسار، بے نفس اور بہت ہی مخلص اور فدائی قسم کے نوجوان تھے.جماعتی کاموں میں ہمیشہ بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے نہایت ہی سرگرم اور مستعد رکن اور عہدیدار کی حیثیت سے شاندار خدمات انجام دیں.آپ پوری زندگی اس اصول پر سختی سے کار بندر ہے کہ انسان اس جہان نا پائیدار میں مظلوم ہو کر زندگی گزارے.قدرت نے اس معاملہ میں آپ کی استقامت اور صبر کو آزمانے کیلئے بعض امتحان اور ابتلا پیدا کئے اور آپ ہر امتحان میں سے ہنسی خوشی کامیاب ہو کر گزرتے رہے اور کبھی حرف شکایت تک زبان پر نہ لائے آپ ہر ایسی بات کو خدا پر چھوڑ دینے کے قائل تھے اور اسی میں راحت محسوس کرتے تھے.شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی کے سوانح اور اوصاف و عادات اور علمی خدمات کا بہترین ماخذ وہ مضامین ہیں جو مولانا مسعود احمد خاں صاحب دہلوی نے انہی دنوں تحریر فرمائے اور الفضل میں شائع ہوئے مولانا صاحب کی چشمد ید شہادت ہے کہ.خلوت وجلوت میں انہیں دیکھا اور ہر لحاظ سے انہیں ایک قابل رشک نو جوان پایا.میں اس امر کا عینی شاہد ہوں کہ پانچوں نماز میں نہایت با قاعدگی سے ادا کرتے اور اپنے اس

Page 605

تاریخ احمدیت 596 جلد 21 معمول میں کبھی فرق نہ آنے دیتے اسی طرح راست گفتاری کا یہ عالم تھا کہ سچ بولنے میں انہیں کتنی ہی تکلیف کیوں نہ اٹھانی پڑے وہ سچ بات کہنے سے کبھی نہ ہچکچاتے تھے بچپن سے لیکر.....آخر دم تک انہوں نے اس خوبی کو پورے عزم و ہمت اور تعہد کے ساتھ نبھایا.پھر نہایت درجہ متواضع طبیعت پائی تھی اکرام ضیف کا ایسا شاندار مظاہرہ کرتے کہ نو وارد مہمان بھی جذبات تشکر سے لبریز ہو کر پہلی ملاقات میں ہی ان کا گرویدہ اور دلی دوست بن جاتا.یہی وجہ ہے کہ بہت خاموش طبع اور کم گو ہونے کے باوجود ان کا حلقہ احباب وسیع تھا.احمدیت کی روح کو خوب سمجھتے تھے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے اور اپنی اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی تھے....الغرض بہت دیندار اور مخلص نوجوان تھے اور خدا نے انہیں بہت نافع اور مفید وجود بنایا تھا.وفات میں صرف دو گھنٹے پیشتر خواب میں دیکھا کہ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ایک کنیز کے ہاتھ ایک سفید چادر بھجوائی اور ارشادفرمایا کہ اس چادر کے سایہ میں آجاؤ میرے پاس پہنچ جاؤ گے.66 آخر میں آپ کے والد ماجد حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کے قلم سے آپ کی سوانح شمائل اور شاندار ادبی وعلمی خاندان پر ایک جامع نوٹ سپر دقر طاس کیا جاتا ہے.شیخ محمد احمد پانی پتی (بیٹے کی سرگذشت باپ کی زبانی) میں نے بڑے شوق ، نہایت تلاش اور بے حد کاوش کے بعد اپنے محترم دوست طفیل صاحب مدیر نقوش کی فرمائش پر لاہور کے مرحوم ادیبوں اور انشا پردازوں کا تذکرہ لکھا.مگر مجھ بد بخت اور بدنصیب کو کیا پتہ تھا کہ مجھے اپنے لخت جگر اور نور بصر محمد احمد کو بھی اس تذکرہ کی بھینٹ چڑھانا ہوگا جو اس تذکرہ کی ترتیب کے وقت زندہ سلامت اور بالکل نوجوان تھا اور جس کے متعلق وہم بھی نہیں تھا کہ اس کی زندگی کا چراغ اس قدر جلد گل ہو جائے گا.اس کی عمر صرف 32 برس کی ہوئی مگر اس قلیل عرصہ میں اس نے ادب علم اور اسلام کی اس قدر کثیر خدمت کی کہ میں نے اپنی 70 برس کی عمر میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں کیا.وہ تقسیم ملک کے وقت 25 نومبر 1947ء کو پانی پت سے لاہور پہنچا.اور 9 جنوری 1962 ء کی صبح کو میوہسپتال لاہور میں ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا.وہ عربی زبان کا مشہور مترجم، بہترین ادیب اور بہت اعلی درجہ کا انشا پرداز تھا.اس کے قلم میں بڑی سلاست اور روانی تھی.اس کے ترجمے نہایت فصیح و بلیغ ہوتے تھے.مترجمہ کتابوں

Page 606

تاریخ احمدیت 597 جلد 21 - پر عالمانہ اور محققانہ حواشی اور نوٹ لکھنے میں وہ اپنا نظیر نہ رکھتا تھا.ادبی علمی ، سوانحی اور تاریخی اسلامی لٹریچر کا جو پاکیزہ ذخیرہ اس نے یادگار چھوڑا ہے وہ اردو ادب میں ایک شاندار اضافہ ہے.مصر و شام اور لبنان کے مشہور و معروف اور چوٹی کے ادیبوں اور انشا پردازوں کی جن بہترین کتابوں کا اس نے عربی سے اردو میں ترجمہ کیا ان کے نام یہ ہیں :- 1- نبی امی.2.سید العرب - 3- خلفائے محمد.4 ابو بکر صدیق اکبر-5- خدیجہ.6- عائشہ.7 - الز ہر.8 - احسین - 9 - سوانح حیات حضرت بلال - 10 - خالد سیف اللہ.11 - خالد اور ان کی شخصیت.12- عمرو بن العاص - 13 - فاتح مصر - 14 - معاویہ.15- الشیخان - 16 - آل محمد کربلا میں.17 - علی اور عائشہ- 18 - البارون - 19 - سلطان محمد فاتح - 20 - عہد نبوی کی اسلامی سیاست.1 2 - اسلام کا نظام عدل - 22 - جغرافیہ تاریخ اسلام - 23 - اشک پیہم.24 - تاریخ ادب العربی.25.اس نے تمام قدیم سیر و ر جال کی عربی کتابوں سے اخذ و انتخاب کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے 315 صحابہ کا مبسوط تذکرہ غلامانِ محمد کے نام سے لکھا جو دنیا کی ظاہری نظر میں غلام تھے.26.بچوں کے لئے جو قاعدہ تعلیم القرآن“ اس نے لکھا وہ اپنی نظیر آپ ہے.27.طلبا کے لئے ”سیرۃ النبی نہایت آسان زبان میں لکھی.28.مولانا حالی کے عربی خطوط کا ترجمہ کیا.29- کتاب کلیلہ دمنہ کی تاریخ عربی سے ترجمہ کی.30- محمد حضرمی کی مشہور عربی تاریخ سے ہارون الرشید کے سوانحی حالات ترجمہ کئے.31- عبد اللطیف شرارہ کی عربی کتاب حجاج بن یوسف کا ترجمہ شروع کیا.ان کے علاوہ بہت سے نفیس اور اعلیٰ پایہ کے ادبی تحقیقی اور تاریخی و اسلامی مضامین مخزن ، نقوش، صحیفہ، قندیل، لاہور، زیب النساء، تشحیذ الاذہان ، خالد الفضل، امروز اور لیل و نہار میں لکھے.اس کی زندگی خالص طالبعلما نہ تھی اور اس نے اپنی ، ساری عمر نہایت خاموشی کے ساتھ ادب کی خدمت میں گزار دی.اور کسی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا.نہ کبھی کسی کھیل تماشے میں شریک ہوا.نہ لاہور میں رہتے ہوئے کبھی کوئی سینما د یکھا.دن رات لکھنے پڑھنے اور تصنیف و تالیف سے کام تھا اور آخری وقت تک اس مشغلہ میں مشغول رہا.ذاتی طور پر نہایت نیک، صالح، کم گو، شریف طبیعت.مہمان نواز اور ہمدرد نو جوان تھا.دوستوں سے نہایت اخلاص سے ملتا اور ملنے والوں سے نہایت اخلاق سے پیش آتا.کبھی اس نے زبان یا ہاتھ یا قلم سے کسی کو تکلیف نہیں دی غرض خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

Page 607

تاریخ احمدیت 598 جلد 21 2- محمد لطیف صاحب آف جا کے چیمہ ضلع سیالکوٹ آپ وقف جدید کے آنریری معلم تھے جو 45 سال کی عمر میں 13 جنوری 1962 ء کو کار کے ایک حادثہ میں شہید ہو گئے.سیدی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ان دنوں وقف جدید کے ناظم ارشاد تھے.آپ نے الفضل 17 جنوری 1962ء میں مرحوم کی بے لوث دینی خدمات کا نہایت دلکش انداز میں تذکرہ فرمایا اور آپ کو نہایت ہی مخلص اور سلسلہ کا فدائی کارکن قرار دیتے ہوئے لکھا:.تقریباً دو سال کا عرصہ ہوا اپنا نام آنریری طور پر وقف جدید میں پیش کیا اور اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ اس ڈر سے کہ کہیں وقف نا منظور نہ ہو جائے پر زور سفارش کروائی اور بار بار یہ امر واضح کرتے رہے کہ میرا نام معلمین کی فہرست میں شامل کر لیا جائے میں سلسلہ پر بار نہیں بنوں گا.چنانچہ اس دن سے آج تک نہایت تندہی سے بغیر کسی وظیفہ کے معلم کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور خود کو با قاعدہ سلسلہ کا ملازم تصور کرتے رہے اطاعت شعار محض فرض شناسی کے طور پر نہیں تھے بلکہ شوق تھا کہ اطاعت کا امتحان ہو اور یہ اس پر پورے اتریں چنانچہ چھوٹے چھوٹے امور پر بھی جن میں دفتر ان کو پابند نہیں سمجھتا تھا یہ با قاعدہ اجازت لیا کرتے تھے اور باوجود اس کے کہ آنریری معلمین کے لئے یہ کوئی پابندی نہیں کہ وہ اپنا مرکز چھوڑتے وقت دفتر سے رخصت طلب کریں یہ التزاماً رخصت لیا کرتے تھے“ د تبلیغ کا جنون تھا اور باوجود اس کے کہ علم واجبی سا تھا یہ وفور شوق سے اس کمی کو پورا کر دیا کرتے تھے چنانچہ اپنے خرچ پر بھی سلسلہ کا لٹریچر خرید کر احباب تک پہنچاتے رہتے تھے.چنانچہ گزشتہ سال انہیں (تعلیمی کلاس میں ) زیادہ حاضریوں میں اول آنے پر جو انعام دیا گیا وہ تمام کتب سلسلہ کی خرید پر خرچ کر دیا.“ دینی غیرت اور جرأت ایمان بدرجہ وافر پائی جاتی تھی.1953ء کے فتنہ میں اپنے گاؤں میں انہوں نے جس جرات ایمانی کا مظاہرہ کیا آج تک وہاں کے باشندے اسے یاد کرتے ہیں.ان دنوں اس علاقہ میں احمدیوں کو نہایت شدید اور حقیقی خطرات در پیش تھے مگر مرحوم ایسے اطمینان سے بے خوف و خطر اپنی احمدیت کا اعلان کرتے پھرتے تھے کہ غیر بھی انگشت بدنداں تھے.“

Page 608

تاریخ احمدیت 599 3- مولوی ممتاز احمد صاحب مربی سلسلہ متعینہ مشرقی پاکستان وفات مارچ 1962 بعمر 66 سال.جلد 21 تحریک خلافت اور اس کے بعد مسلم لیگ کے بڑے سرگرم کارکن تھے.قبول احمدیت کے بعد سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف ہو گئے.آپ ایک نڈر مبلغ تھے اور سلسلہ کی خاطر تنگی کی قطعاً پروانہ کرتے تھے.قرآن شریف کا بنگلہ ترجمہ آپ کے سپر د تھا جس کا بہت سا حصہ آپ مکمل کر چکے تھے کہ واپسی کا بلا وا آ گیا.230 4- ڈاکٹر محمد احمد صاحب آف عدن (وفات 17 جولائی 1962) حضرت حاجی محمد الدین صاحب تہا لوی درویش قادیان کے بڑے صاحبزادے تھے جو حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک کے اواخر میں پیدا ہوئے اور حضور ہی نے ان کا نام رکھا.جماعت عدن کے مختلف عہدوں پر فائز رہے.مہمان نوازی ان کا خاص وصف تھا.عدن کے راستہ آنے جانے والے مبلغین احمدیت اور سلسلہ کے دوسرے احباب کو نہایت اخلاص و محبت سے اپنے ہاں ٹھہراتے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے ولایت جاتے ہوئے آپ کے ہاں قیام فرمایا تھا.5- ملک عزیز احمد صاحب کنجاہی سابق مجاہد انڈونیشیا (ولادت 23 ستمبر 1915 ء.وفات ستمبر 1962 ء ) آپ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے پہلی بار فروری 1936 ء میں جاوا تشریف لے گئے اور 1940 ء میں واپس قادیان آئے.1941ء میں آپ دوبارہ جاوا بھجوائے گئے اور سولہ سال تک اہم دینی خدمات بجالانے کے بعد 1957 ء میں ربوہ پہنچے 1958ء میں تیسری بار آپ اسی ملک میں تشریف لے گئے اور تبلیغی جہاد کے دوران وفات پائی اور یہیں دفن کئے گئے.آپ نے قرآن مجید کے جاوی ترجمہ میں مدد دی اور حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعود کی بہت سی کتابوں کا ترجمہ انڈونیشین زبان میں کیا.6- میاں عبدالرحیم صاحب فانی در ویش قادیان ( وفات 22 اکتوبر 1962 ء بعمر 75 سال) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:.

Page 609

تاریخ احمدیت 600 امروہہ کے رہنے والے تھے اور تقسیم ملک کے بعد قادیان کی آبادی کے سلسلہ میں اپنے وطن سے ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے اور پھر کئی سال تک بطور انسپکٹر بیت المال خدمت سلسلہ بجالاتے رہے.باوجود پیرانہ سالی کے بہت محنتی اور خوش مزاج واقع ہوئے تھے.- محترم عبد القادر صدیقی صاحب حیدر آباد دکن 259 جلد 21 ( وفات 15 ستمبر 1962ء) آپ کے فرزند جناب محمد عبد الماجد صدیقی کے قلم سے روز نامہ الفضل 21 اپریل 1990ء صفحہ 6-7 میں شائع ہو چکے ہیں جن کا خلاصہ آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے.میرے والد محترم محمد عبد القادر صدیقی صاحب آف حیدر آباد دکن 1896ء میں قصبہ نارائن پیٹھ میں پیدا ہوئے.میرے دادا جان مکرم و محترم محمد عبد الرحمن صدیقی صاحب ایک اہل علم، مذہبی اور اپنے علاقہ کے مشہور عالم دین اور پارسا انسان تھے.میرے والد محترم کو بھی بچپن سے ہی دین سے گہرا لگاؤ تھا وہ بھی اپنے بڑے بھائی صاحب کی معیت میں بزرگوارم مکرم و محترم میر محمد سعید صاحب کی محفلوں میں شرکت کرتے رہے.جس کے نتیجہ میں وہ بھی آغوش احمدیت میں آگئے.میرے نانا جان عبدالکریم صاحب جو حیدر آباد دکن کی جماعت کے اولین اراکین میں سے تھے اور مکرم میر محمد سعید صاحب کی محفلوں میں باقاعدگی سے شریک ہوا کرتے تھے.میرے والد صاحب کو بھی وہیں سے جانتے تھے کہ وہ ایک تقوی شعار اور دین کا شغف رکھنے والے نو جوان تھے.میر صاحب محترم سے صلاح اور مشورے کے بعد میرے نانا جان نے اپنی بڑی صاحبزادی کا نکاح میرے والد صاحب سے کر دیا.اس وقت والد صاحب تلاش معاش میں مصروف تھے.آخر کار انہیں محکمہ علاج حیوانات کی نظامت میں ملازمت مل گئی.اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے رات میں اخبارات میں انگریزی خبروں کے ترجمہ کا کام بھی شروع کیا.کچھ عرصہ بعد انہوں نے وکالت کی تعلیم شروع کی اور اس کے امتحانات کو بھی عمدہ طریق پر پاس کیا.ملازمت سے قبل ہی انہوں نے لڑکوں کو پڑھانا شروع کیا تھا جو کافی عرصہ تک اس سلسلہ کو جاری رکھا.ان کے شاگردوں میں چند طلباء حیدر آباد دکن کے وزراء کے لڑکے بھی تھے.ان کی ان مصروفیات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا نہایت آسان ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں محنت کے کتنے عادی تھے اور تعلیم اور تدریس سے کتنا گہرا لگاؤ تھا.اسی طرح دین کا شغف بھی اتنے ہی عروج پر تھا.انہیں قادیان جیسا ماحول ملا جس نے ان کی

Page 610

تاریخ احمدیت 601 جلد 21 شخصیت کو اور بھی نکھار دیا.سلسلہ کی ہر کتاب آپ کے کتب خانہ میں موجود تھی.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتب سے لے کر آپ کے آئمہ کی کتب نیز جماعت کے بزرگ علماء کی کتب اس کتب خانہ میں موجود تھیں.آپ کا روزانہ کا معمول تھا کہ رات میں ان کتب کا مطالعہ فرماتے.آپ کی نیک سیرت اور علمی تبحر کے پیش نظر آپ کو برس ہا برس تک حیدر آباد دکن کا سیکرٹری دعوت الی اللہ رہنے کا شرف حاصل رہا.وہ ایک عالم ، مد بر، بہت اچھے مقر ر اور عدہ نثر نگار تھے آپ کے اکثر مضامین الفضل اور ریویو آف ریلیجنز میں شائع ہوتے رہے.کبھی کبھی نظم بھی کہہ دیا کرتے اور چند نظمیں آپ کی الفضل میں بھی چھپ چکی ہیں.آپ کی سرشت میں خدمت خلق کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.کیا اپنے خاندان کے افراد اور کیا اپنے رحمی رشتوں کے افراد کی بے حد خدمت کی جنہیں ملازمتوں کی ضرورت تھی انہیں ملازمتیں دلوائیں.جنہیں مالی امداد کی ضرورت تھی انہیں مالی امداد فراہم کی مگر ایسے کہ صرف لینے والا ہی جانتا تھا.خاندان کے بچوں کی پڑھائی میں بیحد دلچسپی لیتے گو کہ اکثر اوقات آپ کے پاس وقت کی کمی ہوتی.بہت سے بچے آپ سے پڑھنے آتے اور آپ نہایت کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے انہیں پڑھاتے.خاص طور پر انگریزی اور حساب.یتیموں ، بیواؤں اور ایسے احباب کی خاص طور پر مدد فرماتے جو اپنی عزت نفس کی وجہ سے سوال نہیں کر سکتے تھے.بیواؤں اور غریبوں کے مقدمات عام طور پر بغیر معاوضہ کے لڑتے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ جاتے نہیں دیکھا.بہت سے حضرات اور ضرورت مندوں کو قرضہ حسنہ دیا کرتے لیکن کبھی اپنی طرف سے شائد ہی کسی سے واپسی کے لئے کہا ہو.آپ کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ جب کبھی بھی آپ کسی دوست یا سائل کو قرضہ حسنہ دیا کرتے اس کا کوئی تذکرہ گھر میں عام طور پر نہیں فرماتے اور اگر ان میں سے کوئی رقم لوٹانے میں کامیاب نہ ہوتے تو کبھی حرف شکایت اپنی زبان پر نہ لاتے.آپ کی شخصیت اپنے اعلیٰ اخلاق ، نیک فطرت اور انسانی ہمدردی کی وجہ سے ہر ماحول اور ہر حلقہ احباب میں نہایت معروف و مقبول رہی.ہر شخص چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب یکساں آپ کی عزت کرتے کیونکہ آپ ہمہ وقت خدا کی مخلوق کی خدمت کے لئے تیار رہتے.9.خلیفہ صلاح الدین احمد صاحب وفات 9 دسمبر 1962ء مسیح الزماں کے رفیق خاص حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کے فرزند ارجمند اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعود کے برادر نسبتی.آپ بہت مخلص اور فدائی احمدی تھے.قادیان میں آپ

Page 611

تاریخ احمدیت 602 جلد 21 کو 1943 و 1944ء میں مہتم نشر و اشاعت کی حیثیت سے علمی خدمات بجالانے کی توفیق ملی.تفسیر کبیر و سورہ یونس تا سورہ کہف کی عمدہ اور بروقت طباعت کے انتظام میں بھی آپ کا نمایاں حصہ تھا.فلسفہ اور سائنسی علوم سے خاصی دلچسپی اور شغف تھا.آپ کے قلم سے متعدد مضامین الفضل میں چھپ چکے ہیں.تالیفات.مذہب اور سائنس.اسلامک کلچر (انگریزی).لائحہ عمل سیکرٹریان نشر واشاعت - تفسیر القرآن کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کے دعوی کی حقیقت تفصیلی حالات اخبار الفضل 16، 19، 20 جولائی 1963ء میں ریکارڈ ہو چکے ہیں.200 10 - چوہدری عطا محمد صاحب ریٹائر ڈ تحصیلدار (وفات 6 نومبر 1962ء) سلسلہ کے ایک مخلص بزرگ تھے.قادیان میں عرصہ تک صدر انجمن احمدیہ کے انتظامی کمیشن کے کارکن رہے.1935ء میں آپ کو حضرت مصلح موعود نے چندوں میں اضافہ اور نظام بیت المال بہتر بنانے کے لئے تجاویز پیش کرنے کی ہدایت فرمائی آپ نے چار ماہ تک مختلف مقامات کا دورہ کر کے اپنی تجاویز رپورٹ کی شکل میں مرتب کر کے پیش کیں جو بہت مفید ثابت ہوئیں.حضور نے آپ کو مجلس مشاورت کا مستقل نمائندہ مقررفرمایا ہوا تھا.جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی آبادی اور تعمیر میں آپ نے شاندار خدمات انجام دیں.آپ 1949 ء سے 1952 ء تک سیکرٹری تعمیر ربوہ کے عہدہ پر ممتاز رہے.آپ کے دور میں نہ صرف دفاتر اور رہائش کے لئے تین سو سے زائد عارضی عمارتیں بنیں بلکہ بیت مبارک، قصر خلافت دارالضیافت اور تعلیم الاسلام ہائی سکول مستقل اور وسیع عمارات بھی تیار ہو ئیں.اسی طرح دفاتر صدر انجمن احمد یہ اور جامعہ نصرت کا خاصا حصہ تعمیر ہوار بوہ کے لئے سیمنٹ کی ایجنسی کا انتظام ہوا.پہلی بار سینکڑوں درخت اور پھلدار پودے اس وادی بے آب و گیاہ میں لگائے گئے جس سے ربوہ کی نئی بستی جہاں ہر طرف کلر ہی کلر نظر آتا تھا ایک دلکش اور خوبصورت منظر پیش کرنے لگی.آپ کے بڑے فرزند چوہدری عبد اللطیف صاحب دس سال سے نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے جرمنی میں فریضہ تبلیغ بجالا ر ہے تھے اور ان کی واپسی بہت جلد متوقع تھی اور آپ نہایت بے تابی سے اپنے مجاہد بیٹے کی انتظار میں تھے کہ اچانک پیغام اجل آ گیا.آپ کے مفصل حالات چودھری عبداللطیف صاحب کے قلم سے الفضل 14 اپریل 1963ء میں شائع شدہ ہیں.

Page 612

تاریخ احمدیت 603 1962ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود میں اضافہ اور خوشی کی تقاریب ولادت نکاح جلد 21 262-9 1 - مرزا غلام قادر صاحب ابن صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب.ولادت 19 جنوری 1962ء 2- امتہ الناصر صاحبہ بنت محترم سید داود احمد صاحب.ولادت 29 مئی 1962 ء - 206 3- مرزا سلطان احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب.ولادت 6 اگست 1962 ء 26 4- سارہ تسنیم صاحبہ بنت نوابزادہ حامد احمد خان صاحب.ولادت 11 اگست 1962 ء.26 5 سید حمید اللہ نصرت پاشا صاحب ابن سید حضرت اللہ پاشا صاحب ( ولادت 16 ستمبر 1962ء) 6- مرزا توفیق احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزار فیق احمد صاحب ( ولادت 22 نومبر 1962 ء) 7- مرزا جاوید احمد صاحب ابن مرز اسلیم احمد صاحب ( ولادت نومبر 1962ء ) 20 22-1 جنوری 1962ء کو محترم صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب (ابن حضرت مصلح موعود ) کی شادی همراه محترمه سیده فریده بیگم صاحبہ (بنت سید عبدالجلیل شاہ صاحب آف سیالکوٹ ) ہوئی 23 جنوری کو حضرت مصلح موعود نے انکے ولیمہ کا اہتمام فرمایا.200 269.2- خالد احمدیت محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے 14اپریل 1962 ءکو محترمہ صاحبزادی امتہ الشکور بیگم صاحبہ ( بنت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب) کا نکاح محترم شاہد احمد خان صاحب ( ابن حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب) سے پندرہ ہزار روپے مہر پر پڑھا.5 اپریل کو تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.20 احمدیوں کے نمایاں اعزازات امسال درج ذیل احمدیوں نے نمایاں اعزازات حاصل کیے.1- جامعہ نصرت کی طالبہ محترمہ ثریا سلطانہ صاحبہ (بنت محترم شیخ دلاور علی صاحب) نے بی اے عربی

Page 613

تاریخ احمدیت 604 جلد 21 کے مضمون میں یونیورسٹی بھر کی لڑکیوں میں اول رہ کر ایم بی مبارک علی محمد حسین گولڈ میڈل حاصل کیا.2.تیسرے کل پاکستان بین الکلیاتی انگریزی مباحثہ منعقد ہ 11 جنوری 1962ء بمقام منگمری تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے انگریزی مباحثہ کی ٹرافی جیت لی.3- عبدالحلیم صاحب صادق ( پسر میاں عبدالرحمن صاحب صراف پنڈی چری ضلع شیخو پورہ) ایف ای ایل کے سالانہ امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے اور جسٹس محمد جان گولڈ میڈل“ کے حقدار قرار پائے.20 4 مکرم چوہدری رشید احمد صاحب جاوید بی اے آنرز تعلم تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ”آل پاکستان انٹر کالجیٹ تحریری مقابلہ منعقدہ اردو کالج کراچی میں دوم قرار پائے.5 مکرم چوہدری محمود احمد صاحب شاد آف ربوہ بی ایس سی ملینیکل انجینئر نگ کے امتحان میں 1128 نمبر لیکر یو نیورسٹی بھر میں اول رہے.276 6- آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ میں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے چیمپین شپ جیت لی.7- تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے گورنمنٹ کالج جہلم میں 29 جنوری کو منعقدہ کل پاکستان سالانہ اردو مباحثہ کی ٹرافی جیت کی مباحثہ میں جاوید حسن (ابن چوہدری محمد علی صاحب) اول اور عطاء المجیب صاحب ( ابن مولانا ابوالعطاء صاحب ) سوئم رہے.8.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے صوبہ بھر کے متعدد کالجوں کے انگریزی مباحثہ منعقدہ گورنمنٹ کالج جو ہر آباد میں ٹرافی جیت لی فضل احمد صاحب نے دوسری اور خالد ملک صاحب نے تیسری پوزیشن حاصل کی.270 9- جامعہ نصرت ربوہ کی طالبہ محترمہ امتہ الباسط صاحبہ نے ثانوی تعلیمی بورڈ کے اردو مضمون نویسی 279- کے مقابلہ میں دوئم اور محترمہ قمر النساء صاحبہ نے سوئم پوزیشن حاصل کی.10- برطانیہ کے مشہور سائنسی ادارہ ' دی انسٹی ٹیوٹ آف فزکس اینڈ فزیکل سوسائٹی کی طرف سے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو میکسول میڈل پیش کیا گیا.20 11 - کیرنگ اُڑیسہ کے ایک ہونہار احمدی نوجوان مکرم مزمل خاں صاحب (ابن آفتاب الدین خاں صاحب) نے آئی ایس سی سائنس کے امتحان میں یو نیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی.12 - مکرم لطف الرحمن صاحب محمود (ابن میاں عطاء الرحمن صاحب پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ) بی ایڈ میں 736 نمبر لیکر پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے.281-

Page 614

تاریخ احمدیت 605 جلد 21 -13 - حیدرآباد دکن میں میلادالنبی کے سلسلہ میں 14 اگست 1962ء کو منعقدہ کل ہند تحریری مقابلہ میں ایک احمدی طالب علم برادر جعفر علی صاحب اول رہے.200 14 - محترمہ طاہرہ نسرین صاحبہ ( بنت مکرم مرزا نثار احمد صاحب فاروقی ) ایم ایس سی فزکس میں 647 نمبر لیکر پشاور یونیورسٹی میں اول رھیں اور ایک نیا ریکارڈ قائم کیا.15- محمد انور صاحب نسیم ( ابن مکرم محمد شفیع خاں صاحب نجیب آبادی صدر حلقہ ناظم آباد ) ایم 285 ایس سی کیمسٹری کے امتحان میں کراچی یو نیورسٹی میں دوئم رہے.16 - مکرم طاہر احمد صاحب ملک (ابن مکرم ملک حبیب احمد صاحب) نے ایف ایس سی کے امتحان میں 682 نمبر لیکر پنجاب یونیورسٹی میں پانچویں پوزیشن لی.20 17- مکرم کریم اللہ صاحب عبد ز یروی ( ابن مکرم صوفی خدا بخش صاحب عبد ز یروی انسپکٹر وقف جدید ) ایم ایس سی کیمسٹری میں 431/600 نمبر لیکر کراچی یونیورسٹی میں دوم رہے.-18 محترمہ امتہ الباری صاحب ( بنت مکرم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش قادیان) نے ایم اے اردو میں 252 نمبر حاصل کر کے پنجاب یو نیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کی.19 - مکرم عبدالشکور صاحب اسلم نے ایم ایس سی باٹنی میں 452/600 نمبر لیکر کراچی یونیورسٹی 289 287 288- میں چوتھی پوزیشن حاصل کی.200 20.محکمہ اوقاف مغربی پاکستان نے عربی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کا مختلف موضوعات پر مقالہ نویسی کا انعامی مقابلہ کرایا جس میں جامعہ احمدیہ کے طلباء مکرم محمد یوسف صاحب سلیم بی اے 100 مکرم محمود احمد صاحب بی اے بی ایڈ کے انگریزی مقالے بہترین قرار دیئے گئے اور سوسوروپے انعامات کے مستحق قرار پائے.21 - مکرم مرزا محی الدین صاحب ابن محترم گیانی واحد حسین صاحب) بی ایس سی آنرز میڈیکل گروپ کے امتحان میں 679 نمبر لیکر یو نیورسٹی بھر میں اول رہے.22.بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے زونل باسکٹ بال ٹورنامنٹ میں تعلیم الاسلام کالج 294 293 نے زونل چیمپئن شپ جیت لی.23- 28 نومبر 1962ء کو ضلع جھنگ کے تقریری مقابلہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے طالب علم مکرم پر ویز احمد طارق صاحب ( ابن محترم چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی ) اول قرار پائے.24.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے پنجاب یونیورسٹی باسکٹ بال چیمپئن شپ جیت کر یونیورسٹی کے

Page 615

تاریخ احمدیت 606 جلد 21 جملہ کالجوں میں نمایاں امتیاز حاصل کیا.25- مکرم رشید احمد صاحب ارشد (ابن مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب مولوی فاضل پنشنز ا کال گڑھ ضلع گوجرانوالہ) نے ایم اے انگلش کے امتحان میں یو نیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی.26- مکرم محمود احمد صاحب قریشی ( ابن مکرم محمد اسمعیل صاحب معتبر نائب قائد خدام الاحمدیہ لاہور بی اے سپلیمنٹری امتحان منعقدہ اکتوبر 1962ء میں یو نیورسٹی میں اول آئے.200 اولین احمدی بھکشو مبلغ 297 سید نا حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جس طرح بدھ قوم میں بھکشو اپنے عقائد کی تبلیغ کے لئے قربانی کرتے ہیں اسی طرح احمدی نو جوانوں کو بھی اشاعت اسلام کے لئے آگے آنا چاہیئے.اس خواہش کی تکمیل میں سب سے پہلے جن نو جوانوں نے اپنی زندگی اس رنگ میں وقف کی وہ در ویش قادیان محمد یوسف صاحب زیر وی تھے جو درویشانہ دور میں سب سے پہلے بدھ مت کے طریق پر احمدی بھکشو مبلغ بنے اور بھارت میں چھ سال تک رضا کارانہ ور پر فریضہ تبلیغ بجالاتے رہے اور مرکز سے کسی قسم کا کوئی گزارہ نہیں لیا.البتہ جنوری 1962 ء سے ان کا درویشی وظیفه از سرنو جاری کر دیا گیا اور وہ دوبارہ قادیان میں ہی مقیم ہو گئے.200 299.بھارت کی اہم شخصیتوں کی خدمت میں پیغام حق اور لٹریچر کی پیشکش 1 - ہندوستان کے وزیر خزانہ شری مرار جی ڈیسائی 10 جنوری 1962 ء کو بٹالہ تشریف لائے اور تقریر کی اس موقع پر مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ قادیان نے موصوف کو خوش آمدید کہا اور انکی خدمت میں اسلامی لٹریچر پیش کیا جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا آپکے علاوہ بھی بعض اصحاب کولٹر پچر دیا گیا 100 اس جماعتی کوشش کو سراہتے ہوئے مولانا عبد الماجد صاحب دریا آبادی نے 2 فروری 1962 ء کے صدق جدید میں لکھا ” مجمع ظاہر ہے ہزاروں کا ہوگا اور اس میں اسمبلی کے ممبر، پارلیمنٹ کے ممبر اور معززین و تعلیم یافتہ سب ہی شامل ہونگے ایسے موقعوں پر ہمارے اپنے حضرات اصل حق فرما ئیں کہ کتنی بار انہوں نے اس جرات و مستعدی ، جوش تبلیغ اور فرض شناسی کا ثبوت دیا ہے.17-2 فروری 1962ء کو کانگرس کمیٹی کے زیر اہتمام غلہ منڈی قادیان میں ایک جلسہ ہوا جس میں سردار امر سنگھ صاحب دو سانجھ سابق جنرل سیکرٹری گوردوارہ پر بندھک کمیٹی امرتسر و ایڈٹیر روزنامه ’اجیت‘ جالندھر خاص طور پر شریک ہوئے اس موقع پر جلسہ سے قبل محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب

Page 616

تاریخ احمدیت 607 جلد 21 ناظر دعوۃ و تبلیغ نے موصوف کی خدمت میں اسلامی لٹریچر پیش کیا.23-3 فروری 1962ء کو وزیر اعلی اڑیسہ آنریبل بیجہ نند پٹنا ئیک اپنے رفقاء کے ہمراہ کیرنگ تشریف لائے جماعت احمد یہ کیرنگ کی بہت بڑی تعداد نے آپکا پر جوش استقبال کیا.اس موقع پر جلسے میں کیرنگ کے مبلغ سید محمد موسیٰ صاحب نے اپنی تقریر میں بتایا کہ جماعت احمد یہ ہمیشہ گورنمنٹ کی وفادار رہی تقریر کے بعد آپ نے وزیر اعلیٰ کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا جو موصوف نے خوشی سے قبول کیا.4 19 مارچ 1962ء کو بھووان تحریک کے مشہور لیڈر آچار یہ دونو بھاوے کے ساتھی سروودے لیڈر شری کانتے جی آپٹے دورے پر قادیان تشریف لائے انہوں نے قادیان کے مقدس مقامات کی زیارت کے بعد از ان مہمان خانہ میں احباب کے سامنے تقریر کی جس میں حضوراکرم کا عقیدت مندی سے ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا کے بگاڑ کا جو نقشہ نبی صاحب کے زمانہ میں تھا وہی اب بھی نظر آ رہا ہے اسوقت بھی دنیا کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے آپ نے لوگوں کے دلوں کی اصلاح کے ساتھ دنیا کے ان ٹکڑوں کو جوڑ دیا اب بھی ضرورت ہے کہ دلوں کو جوڑا جائے“ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے جوابی تقریر میں نہایت دلکش انداز میں موصوف کو اسلام واحمدیت سے روشناس کرایا اور آپکی خدمت میں اسلامی لٹریچر پیش کیا.5- کالی کٹ میونسپل کونسل کے زیر اہتمام ایک تعلیمی وصنعتی نمائش لگائی گئی اس موقعہ پر جماعت احمدیہ نے بھی ایک جاذب نظر سٹال کھولا.روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ سٹال سے کتب خریدتے اور جماعت کے بارہ میں معلومات حاصل کرتے رہے نمائش کا افتتاح 8 اپریل کو آنریبل جسٹس ٹی کے جوزف نے کیا افتتاحی تقریب کے بعد جب وہ جماعت کے سٹال میں تشریف لائے تو مولانا عبداللہ صاحب فاضل مبلغ کیرالہ نے انکی خدمت میں قرآن کریم انگریزی اور دیگر کتب کا تحفہ پیش کیا جسکو موصوف نے بخوشی قبول کیا.اسی طرح اس موقع پر کیرالہ کے وزیر صنعت کے اے دامو در مین اور بعض دیگر معززین کو بھی لٹریچر دیا گیا.806 جناب حمید نظامی کی المناک وفات 304 اخبار ” نوائے وقت“ لاہور کے بانی و مدیر تحریک پاکستان کے مجاہد صف اول کے رہنما اور صحافی جناب حمید نظامی جن کی پوری عمر قیام و تعمیر پاکستان اور جماعت احمدیہ کی خدمات کے برملا اور بے باکانہ اظہار میں گذری اس سال 25 فروری 1962 ء کو داغ مفارقت دے کر مولائے حقیقی کو جاملے.

Page 617

تاریخ احمدیت 608 جلد 21 1947 ء اور 1953ء کے واقعات میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی ریڈ کلف ایوارڈ کے سامنے مسلمانوں کے موقف کی مدلل اور کامیاب ترجمانی اور تحقیقاتی عدالت 1953ء میں آپ کے اس جرات مندانہ بیان کا ذکر آچکا ہے کہ آپ نے یقین و بصیرت سے لبریز الفاظ میں فاضل جج صاحبان کو بتایا کہ جماعت احمدیہ اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف مطالبات بعض سیاسی طالع آزماؤں نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کئے تھے.احمدیوں کو ہرگز اقلیت نہیں قرار دینا چاہیے نہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے ہٹایا جائے.800 جناب ڈاکٹر عبدالسلام خورشید.ولادت 1919 ء ، وفات.سابق صدر شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی تحریر فرماتے ہیں حمید نظامی ان صحافیوں میں شامل تھے جو محض عوام کی ترجمانی کے نہیں بلکہ رہنمائی کے بھی قائل تھے چنانچہ بعض اوقات وہ رائے عامہ سے بھڑ بھی گئے.چنانچہ 1953 ء کی اینٹی احمد یہ ایجی ٹیشن میں انہوں نے غیر جانب داری کی روش اختیار کی کیونکہ وہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی حمایت نہیں کرتے تھے.جناب حمید نظامی چونکہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی عظیم الشان ملی خدمات جلیلہ کے عینی شاہد ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ زبر دست مداح تھے.آپ نے پاکستانی صحافت کے مندوب کی حیثیت سے 11, 12, 13 مئی 1954 ء کو منعقدہ و یا نا اسمبلی میں شرکت فرمائی.آپ کی مطبوعہ ڈائری میں لکھا ہے.11 مئی 1954 ء کو صبح سوا آٹھ بجے ہوائی جہاز پیرس سے اڑا اور پونے گیارہ بجے میونخ پہنچا.یہ وہی شہر ہے جہاں چیمبرلین نے جرمنوں سے معاہدہ کیا تھا.جنگ میں اتحادیوں نے میونخ کی ایٹ سے اینٹ بجادی تھی.آج بھی چاروں طرف تباہی ہی تباہی نظر آتی ہے.جہاز میں ایک نصرانی اور یہودی لڑکے سے ملاقات ہوئی.جو سولہ برس پہلے نازیوں کے ظلم وستم کی داستان بیان کرنے لگے.مذکورہ بالا یہودی کوئی عالم تھا اور سیاسی آدمی تھا چوہدری ظفر اللہ خاں کی سخت مذمت کرتا تھا مگر ان کی قابلیت کا بے حد مداح تھا.وی آنا ( 11 مئی 1954 ء ) پہنچ گئے.ہوٹل پہنچ کر سامان رکھتے ہی ایک خط محمودہ ( بیوی کو ) اور تین چھوٹے چھوٹے خط شیمی (شعیب) کا کو ( عارف ) اور گوگو (سارہ) کے نام لکھے.حامد کو بھی اپنی خیریت کی اطلاع دی.پھر ایک ریستوران میں چائے پی اور اسمبلی کے اجلاس میں پہنچا.کوئی ایک سو کے قریب ایڈیٹر دنیا کے ہیں ملکوں سے جمع تھے.

Page 618

تاریخ احمدیت 609 جلد 21 ہندوستانی صرف ایک ہے اور وہ بھی لندن سے آیا ہے.میں واحد پاکستانی مندوب ہوں.انڈونیشیا سے تین اور جرمنی کے کافی ہیں.امریکی اور انگریز زیادہ ہیں.وی آنا میں اسمبلی ایک اسرائیلی اخبار کا ایڈیٹر بھی آیا ہوا تھا.یہ شخص ظفر اللہ خان کو برا بھلا کہتا تھا مگر یہ بھی کہتا تھا کہ یو این او کے ممبر عرب ملکوں میں قابلیت کے لحاظ سے کوئی شخص ظفر اللہ خان کا 308 پاسنگ نہیں.کچھ بے کیف سا تھا.جناب حمید نظامی کو جہاں جماعت احمدیہ کا عمر بھر کمال جرات و دلیری کا اعتراف رہا وہاں وہ مولوی سیدابوالاعلیٰ مودودی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور ان کی جماعتوں کے خلاف ہمیشہ قلمی جہاد میں سرگرم رہے اور ان کی غداریوں ، ملت دشمنیوں اور پاکستان میں فتنہ انگیزیوں کی سرکوبی کا انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.الغرض آپ نابغہ روز گار شخصیت تھے اور شجاعت وسباعت اور حق گوئی کا چلتا پھرتا پیکر بھی.جماعت احمدیہ کی خوبیوں پر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار پرتاپ سنگھ کا تبصرہ 28 جولائی 1962 ء کو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب سردار پرتاپ سنگھ کیروں قادیان تشریف لائے جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کا استقبال کیا گیا آپ نے جماعت کے مقدس مقامات کی زیارت کی صاحبزادہ مرزا وسیم احمد نے انہیں جماعت سے متعارف کرایا جسکے جواب میں موصوف نے کہا ” مجھے آج احمد یہ جماعت کے مقدس مقامات میں آکر بہت خوشی ہوئی ہے.بالخصوص احمد یہ جماعت کی رواداری ، وسعت قلبی کو دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان خوبیوں والی جماعت کو دنیا میں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور یہ جماعت احمدیہ کا حق تھا کہ یورپ و دیگر ترقی یافتہ ممالک اس کے لئے خندہ پیشانی سے اپنے دامن کو پھیلائے.ہمارے ملک میں مذہب تنگ نظری اور تعصب کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے.ایسے مذہب دنیا میں کسی طرح مفید نہیں ہو سکتے اصل چیز انسانیت ہے اور وہی مقدم ہے پس میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے خیالات کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں تا کہ دنیا میں انسانیت اور رواداری کا بول بالا ہو...میرا یہ خیال ہے کہ احمدیہ جماعت نے اسلام کو جس رنگ میں پیش کیا ہے اس سے اسلام کی ترقی کی بنیادیں مضبوط ہوگئی ہیں.یہ جگہ بہت ہی بابرکت اور نورانی ہے اور میں اس میں آکر بہت خوش ہوا ہوں.احمد یہ جماعت اگر چه اقلیت میں ہے لیکن اس کو تبلیغ اور پر چار کا پورا پوراحق ہے اور اسمیں کوئی روک نہیں ڈال سکتا اگر کوئی مطالبہ یا شکایت جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کی جائے گی تو میں پوری ہمدردی اور انصاف سے اسکی

Page 619

تاریخ احمدیت 610 جلد 21 طرف توجہ کروں گا.بعد ازاں موصوف کی خدمت میں صاحبزادہ صاحب نے قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی لٹریچر پیش کیا جسے وزیر اعلیٰ نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.309.7 ڈپٹی منسٹر وزارت تعلیم پنجاب شریمتی اوم پر بھاؤ جین یوتھ کانگرس کی دعوت پر 9 اگست کو قادیان تشریف لائیں احمدیہ محلہ میں جماعت کی طرف سے انکا استقبال کیا گیا موصوفہ کی خدمت میں اسلامی لٹریچر پیش کیا گیا جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا.10 8.یکم تمبر 1962 ءکومکرم ڈاکٹر سید منصور احمد صدر جماعت احمد یہ مظفر پور نے کمیونسٹ پارٹی کے بعض لیڈروں کو دعوت دی جس میں 20 معززین شامل ہوئے اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے مشہور لیڈر مسٹر ایس کے ڈانگے کی خدمت میں اسلامی لٹریچر پیش کیا جسے موصوف نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.9.منسٹر آف سٹیٹ پنجاب جناب گیانی ذیل سنگھ صاحب (بعد ازاں صدر جمہوریہ بھارت ) 5 ستمبر 1962 ء کو قادیان تشریف لائے جماعت کی درخواست پر جب وہ احمدیہ محلہ میں تشریف لائے تو احباب جماعت نے انکا استقبال کیا.آپ نے مقدس مقامات کی زیارت کی.نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے موصوف کی خدمت میں اسلامی لٹریچر پیش کیا گیا جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا.10- 19 ستمبر 1962ء کو جماعت احمدیہ حیدر آباد کے ایک وفد نے آندھرا پردیش کے نئے گورنر شری جنرل میگس سے ملاقات کی یہ وفد مکرم مولوی محمد عمر صاحب مالا باری نائب انچارج دار التبلیغ حیدر آباد، مکرم سیٹھ محمد معین الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ حیدر آباد و سکندر آباد، مکرم چوہدری مبارک علی صاحب انچارج دار التبلیغ آندھرا پر دیش اور محترم سید جعفر حسین صاحب بی اے ایل ایل بی صدر جماعت احمد یہ شادنگر پر مشتمل تھا.مکرم سیٹھ محمد معین الدین صاحب نے گورنر صاحب کی خدمت میں قرآن مجید انگریزی کا تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے احترام سے قبول کیا.مکرم چوہدری مبارک علی صاحب نے موصوف کو جماعت سے متعارف کرایا.اس موقع پر گورنر صاحب کے اسٹنٹ ملٹری سیکرٹری کی خدمت میں بھی قرآن کریم انگریزی اور اسلامی لٹریچر پیش کیا گیا.20-11 ستمبر 1962ء کو سردار جگجیت سنگھ صاحب نامدھاری گورو بھینی قادیان تشریف لائے.جماعت کی درخواست پر جب وہ احمدیہ محلہ تشریف لائے تو جماعت نے انکا استقبال کیا.انہوں نے مقامات مقدسہ کی زیارت کی.بعد ازاں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں مکرم عبد اللطیف صاحب گیانی نے موصوف کو جماعت سے متعارف کرایا جسکے جواب میں سردار صاحب نے کہا ” جماعت احمدیہ کے افراد اور مقامات مقدسہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی در حقیقت جب بھی میں اس علاقہ سے گزرتا ہوں تو آپکی جماعت کی محبت

Page 620

تاریخ احمدیت 611 جلد 21 314 اور حسن سلوک مجھے یاد آ جاتا ہے میں نے آپ کی جماعت کی مساعی اور کوششوں کو افریقہ میں بھی دیکھا ہے ہم لوگ کام بہت کم کرتے ہیں باتیں اور پراپیگنڈ زیادہ کرتے ہیں لیکن میں نے افریقہ اور دوسرے بیرونی ممالک میں خود مشاہدہ کیا ہے کہ احمد یہ جماعت کام زیادہ کرتی ہے اور باتیں اور پراپیگنڈا بہت کم کرتی ہے یہ ایک ٹھوس اور پر خلوص کام کرنے والی واحد جماعت ہے اور اسکی ترقی ایک طبعی امر ہے جس کو کوئی روک نہیں سکتا.12.ھندوؤں کی ایک معروف مذہبی شخصیت شری گور و شنکر اچاریہ آف سرینگری (میسور سٹیٹ ) شیموگہ میں تشریف لائے ھندو احباب کے علاوہ احمدیوں نے بھی انکو خوش آمدید کہا.میسور سٹیٹ کے مبلغ مکرم حکیم محمد الدین صاحب، مکرم اختر حسین صاحب سیکرٹری تبلیغ اور مکرم سید عبداللہ صاحب پر مشتمل ایک وفد نے موصوف سے ملاقات کی اور مکرم حکیم محمد الدین نے آپ کو جماعت احمدیہ سے متعارف کرایا اور انکے استفسارات کے جواب دیے بعد ازاں آپکی خدمت میں قرآن مجید انگریزی اور دیگر اسلامی لٹریچر پیش کیا گیا.نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد 22 فروری 1962ء کو نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیا در رکھنے کی تقریب عمل میں آئی.سنگ بنیا د حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے اپنے دست مبارک سے رکھا اور اجتماعی دعا کرائی.اس مبارک تقریب میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواتین مبارکہ کے علاوہ ربوہ کی بہت سی دیگر مستورات نے بھی شرکت فرمائی تقریب کے بعد محترمہ امتہ العزیز عائشہ صاحبہ ہیڈ مسٹرس نصرت گرلز ہائی سکول کی طرف سے مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا اور بچوں میں شیرینی 316- تقسیم کی گئی.جماعت احمدیہ کی مساعی صدق جدید لکھنؤ کی نظر میں ہفت روزہ ”صدق جدید لکھنؤ کے ایڈیٹر مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے 16 مارچ 1962ء کی اشاعت میں جماعت احمدیہ کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.آپکو علم ہے کہ جماعت احمدیہ ( قادیانی) کے با قاعدہ مبلغ کتنی تعداد میں ہندوستان اور پاکستان میں مشن قائم کئے ہوئے اپنا کام کر رہے ہیں؟...200...اور ان دونوں ملکوں کے باہر جرمنی، فرانس، انگلستان، امریکہ، سپین، ہالینڈ ، سوئٹزرلینڈ ، برما، سیلون، غرض یورپ ، ایشیا اور افریقہ کے 22 ملکوں میں کہیں ایک کہیں دو کہیں اور زیادہ کتنے

Page 621

تاریخ احمدیت 612 جلد 21 پھیلے ہوئے ہیں؟...68...یہ اعداد و شمار اسی جماعت کے سرکاری بیان کے مطابق ہیں اور اسی بیان کے مطابق تقریباً 50 مبلغ اور بھی کام کر رہے ہیں بڑی مسرت ہو گی اگر اہل سنت یا جمہور ملت کے بڑے بڑے ادارے اپنے اپنے مبلغین کی تعداد سے بہ قید علاقہ و ملک مطلع فرمائیں.آرو.علاقہ رانچی میں تبلیغ احمدیت محترم مولوی سید بدر الدین صاحب مبلغ سلسلہ 1962ء میں تین مختلف مواقع پر آرو علاقہ رانچی میں تشریف لے جاتے رہے آپ نے بحث و مباحثہ اور تقاریر کے ذریعہ بڑی محنت سے پیغام حق پہنچایا.آپ کی کوششیں بار آور ہوئیں اور 70 افراد کو قبول حق کی سعادت حاصل ہوئی.ایک دورے میں آپ کے ہمراہ مکرم مولوی عبد الحق صاحب فضل بھی تھے.مکرم مولوی بشیر احمد صاحب فاضل کا دورہ اڑیسہ نظارت دعوۃ و تبلیغ قادیان کی زیر ہدایت مکرم مولوی بشیر احمد صاحب انچارج صو بہ اُڑیسہ نے 24 مارچ سے 22 اپریل تک درج ذیل مقامات کا تبلیغی و تربیتی دورہ کیا.1- بھدرک - 26 مارچ کو بعد نماز مغرب مکرم محمد علی شاہ صاحب کے مکان میں ایک تبلیغی جلسہ ہوا مولانا بشیر احمد اور سید غلام مھدی صاحب نے تقاریر کیں.2.دھواں ساہی.28 مارچ کو مبشر الدین صاحب امیر جماعت سونگھڑہ کی زیر صدارت ایک پبلک جلسہ ہوا جس میں بعض غیر احمدی احباب بھی شامل ہوئے.مولانا بشیر احمد اور مولانا محمد ادریس صاحب نے تقاریر کیں.29 مارچ کوسونگھڑہ اکرام رسول ہائی سکول میں ایک جلسہ ہوا.-3 کسمی.30 مارچ کو جلسہ ہوا مولانا بشیر احمد ، مولوی سید محمدمحسن صاحب، مکرم مولوی محمد موسیٰ صاحب مبلغ کیرنگ نے تقاریر کیں.-4 کند را پاڑہ.یکم اپریل کو ٹاون کمیٹی کے احاطہ میں ایک پبلک جلسہ منعقد ہوا.مکرم مولانا بشیر احمد صاحب اور ڈاکٹر غلام ابراہیم صاحب کی تقاریر کے علاوہ گوبند شاستری صاحب اور سد انند چوہدری ہسٹری پر وفیسر نے بھی تقاریر کیں.جلسہ کی صدارت مکرم وھنو بندھو سا ہو صاحب ایم اے بی ایل ایڈووکیٹ جنرل وسابق منسٹر اڑیسہ نے کی.غیر مسلم تعلیم یافتہ افراد کثیر تعداد میں جلسہ میں شامل ہوئے.2 اپریل کو کندرا پاڑہ میں لجنہ اماءاللہ کا جلسہ ہوا.مولانا صاحب کے علاوہ سید محمد حسن صاحب نے خطاب کیا.

Page 622

تاریخ احمدیت 613 جلد 21 14-5اپریل کو کر ڈا پلی میں تربیتی جلسہ ہوا مولانا صاحب کے علاوہ مکرم سید فضل عمر صاحب مبلغ علاقہ تنگر یا مکرم سید غلام مہدی صاحب نے تقاریر کیں.16 اپریل کو مولا نا صاحب نے یہاں جمعہ پڑھایا.6- پنکال.16اپریل کو جلسہ منعقد ہوا مرکزی نمائندہ کے علاوہ مکرم سید محمدمحسن صاحب سید غلام ہادی صاحب نے تقاریر کیں.7 - مانیا بندھ.7 اپریل کو تبلیغی جلسہ ہوا جس کی صدارت ایک پنڈت جناب شری بندھو بڑانے کی مولانا بشیر احمد کے لیکچر سے غیر مسلم بے حد متاثر ہوئے.مکرم سید غلام ہادی صاحب نے ساتھ ساتھ مولانا کی تقریر کا اڑیہ زبان میں ترجمہ کیا.تقریر کے بعد سوالوں کے جواب بھی دیئے گئے جلسہ کی حاضری 500 افراد تھی.8.کوٹ پلہ.8 اپریل کو تربیتی جلسہ ہوا مرکزی نمائندہ کے علاوہ مکرم سید محد محسن صاحب، مکرم سید غلام ہادی صاحب نے تقاریر کیں.9.رگڑی پاڑہ - 9اپریل کو تبلیغی جلسہ ہوا سید غلام ہادی صاحب، مولانا بشیر احمد صاحب نے تقاریر کیں.10- آپ نے 12 اپریل کو کٹک میں جمعہ پڑھایا.11 - بھاگ ماری.15 اپریل کو بھاگ ماری کے پرائمری سکول میں جلسہ منعقد ہوا سید غلام ہادی صاحب اور مولانا بشیر احمد صاحب نے تقاریر کیں.بھا گماری کے سینکڑوں غیر مسلم شریک جلسہ ہوئے نیز کیرنگ کے سینکڑوں احمدیوں نے بھی جلسہ میں شرکت کی.12- نر گاؤں.16 اپریل کو تبلیغی جلسہ ہوا.مولانا بشیر احمد صاحب اور سید غلام ہادی صاحب نے تقاریر کیں یہاں مولانا بشیر احمد صاحب کی ایک پنڈت اور اس کے ساتھیوں سے بعض مسائل پر طویل گفتگو ہوئی.13 - مانکا گھوڑا.18 اپریل پرائمری سکول کے عقب میں ایک پبلک جلسہ منعقد ہوا.سید غلام ہادی صاحب اور مرکزی نمائندہ نے تقاریر کیں.جلسے کے صدر راج کشور پیٹنا ٹک بی اے بی ای ڈی ہیڈ ماسٹر ہائی سکول مانگا گھوڑا نے صدارتی خطاب میں مولانا بشیر احمد صاحب کی تقریر پر بے حد مسرت کا اظہار کیا.جلسے میں ھندو مسلم بکثرت شامل ہوئے.ہیڈ ماسٹر صاحب کی خواہش پر مولانا بشیر احمد صاحب نے 19 اپریل کو ہائی سکول کے طلباء کے سامنے ایک تقریر کی اور بعض سوالوں کے جواب دیئے.مکرم سید غلام ہادی صاحب نے بھی تقریر کی.14 - کیرنگ.20 اپریل کو مولانا بشیر احمد صاحب نے کیرنگ میں جمعہ پڑھایا نیز یہاں تربیتی جلسہ ہوا جس میں آپ کے علاوہ مولوی سید محمد محسن صاحب، سید غلام ہادی صاحب نے تقاریر کیں.

Page 623

تاریخ احمدیت 614 جلد 21 15-ھلویا.21 اپریل کو تبلیغی جلسہ ہوا مولانا بشیر احمد صاحب نے تقریر کے علاوہ سوالوں کے جواب دیئے نیز سید غلام ہادی صاحب نے تقریر کی.یہ جلسہ ھنود کی بستی میں منعقد ہوا.16- خوردہ.22 اپریل کو ایک تبلیغی جلسہ ہوا مولانا بشیر احمد صاحب کے علاوہ سید فضل الرحمن صاحب قائمقام امیر نے خطاب کیا.B10 محکمہ تعلیم کے افسران کی ربوہ میں آمد 1- محترم انور عادل صاحب سیکرٹری تعلیم حکومت مغربی پاکستان 18 مارچ 1962ء کو تعلیم الاسلام کالج یونین کی درخواست پر ربوہ تشریف لائے اور طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: بلا شبہ آپ کا یہ تعلیمی ادارہ اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ اسے وہ ماحول میسر ہے جسے ہم صحیح معنوں میں تعلیمی ماحول کہہ سکتے ہیں.یہاں دھیان بٹانے اور توجہ ھٹانے والی بے مقصد قسم کی غیر معمولی مصروفیات ناپید ہیں.یہی وجہ ہے کہ اس خالص تعلیمی ماحول میں حصول تعلیم اور کردار سازی کے نقطہ نگاہ سے آپ کو یہاں ایک بھر پور زندگی بسر کرنے کا زریں موقعہ حاصل ہے اور آپ لوگ سیرت وکردار کے یکساں سانچوں میں ڈھلتے ہوئے نظر آتے ہیں......یہ علیمی ادارہ صحیح خطوط پر گامزن ہوتے ہوئے ابھی بہت ترقی کرے گا اسے مثالی راہنمائی اور مثالی نگرانی حاصل ہے آپ کے پرنسپل ( محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے) جسطرح اس کی راہنمائی اور نگرانی کا فرض ادا کر رہے ہیں اس کی مثال ایسی ہی ہے جس طرح ایک باپ اپنے بچوں کی راہنمائی اور نگرانی کرتا ہے اور ہمہ وقت انکی فلاح و بہبود میں ہی لگا رہتا ہے مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ کے پرنسپل صاحب اپنے سٹاف کی مدد سے نو جوانوں کو نہ صرف مثالی طلبہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں بلکہ ان کی کوشش یہ ہے کہ وہ ساتھ کے ساتھ مثالی شہری بھی بنیں آپ طلبہ کا یہ فرض ہے کہ آپ ان کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں تا انکی یہ مساعی بار آور ثابت ہوں“.20 2.اسی تاریخ کو میاں محمد عبد العزیز صاحب ڈویژنل انسپکٹر آف سکولز ربوہ تشریف لائے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا :- تعلیم دینے اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے استاد اور شاگرد میں ایسے ہی تعلق کی ضرورت ہوتی ہے جیسا تعلق باپ اور اسکی اولا د میں ہوتا ہے.سو مجھے خوشی ہے کہ میں نے یہی جذبہ یہاں کارفرما دیکھا ہے......یہ امر بھی میرے لئے خاص طور پر خوشی کا موجب ہوا ہے کہ آپ کے ہیڈ ماسٹر صاحب بڑی توجہ اور رہنمائی کے ساتھ آپ کو تعلیم دینے اور آپ

Page 624

تاریخ احمدیت 615 جلد 21 کی تربیت کرنے میں کوشاں ہیں....اس ادارہ میں آپ کی تربیت اس بنیاد پر کی جارہی ہے کہ آپ اچھے شہری بن سکیں آپکا فرض ہے کہ آپ اس تربیت سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور قوم و ملک کے بہترین خادم ثابت ہوں“.احمدی حجاج اس سال حکیم عبداللطیف صاحب شاہد کے علاوہ ( جنہوں نے حضرت قمر الانبیاء کی طرف سے حج بدل کیا ) برصغیر پاک وھند، نجی اور افریقہ کے متعد د احمدیوں نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی مثلاً پاکستان: ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موگا (لاہور) استانی رضیہ صاحبہ ( سیالکوٹ ) چوہدری رشید احمد صاحب ریڈیو آفیسر (کراچی) کرنل مبارک احمد صاحب ( واہ کینٹ) محمد عمر خاں صاحب ترنگ زئی ( پشاور ) خلیفہ عبدالرحمن صاحب آف جموں ( کوئٹہ ) محمد سلیمان صاحب ( ڈھا کہ حال بنگلہ دیش ) بھارت: نورالحسن صاحب بھاگل پوری فنجی : اہلیہ صاحبہ مکرم عبدالطیف صاحب افریقہ: عائشہ ای جیڈی AYSHA E JIDE (لیگوس.نائیجیر یا ) رئیس حسن صاحب.Wa - غانا ) الحاج عمر صاحب (wa - غانا ) ڈیرہ غازی خاں کے مصیبت زدگان کے لئے جماعتی مدد ڈیرہ غازی خاں کی ایک بستی میں آگ لگنے سے 60 جھونپڑیاں جل گئیں لوگوں کا تمام غلہ اور اثاثہ نذرآتش ہو گیا اس موقع پر ان مصیبت زدگان کے لئے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے 500 روپے اور 187 گز کپڑا بھجوایا گیا.صاحبزادہ مرز اوسیم احمد صاحب کا سفر حیدر آباد 1 - محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب یکم جون 1962 ء کو حیدر آباد تشریف لائے 3 جون کو احمد یہ جو بلی ہال میں ایک پبلک جلسہ منعقد کیا گیا مکرم مولوی مبارک علی صاحب ،سید جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ ، مولوی شریف احمد صاحب امینی، کریم اللہ صاحب ایڈیٹر آزاد نوجوان“ کی تقاریر کے بعد صاحبزادہ صاحب نے خطاب فرمایا.7 جون کو صاحبزادہ صاحب یاد گیر تشریف لے گئے.8 جون کو یاد گیر میں خطبہ جمعہ دیا جس میں احباب کو تربیتی نصائح کیں.اسی روز بعد نماز مغرب یاد گیر کے احباب کو

Page 625

تاریخ احمدیت 616 جلد 21 ایک تربیتی تقریر کے ذریعہ ان کی ذمہ داریاں یاد دلائیں.9 جون کو آپ حیدر آباد واپس تشریف لے گئے 13 جون کو خدام کے ایک تقریری مقابلہ میں خطاب فرمایا.15 جون کو خطبہ جمعہ دیا.17 جون کو لجنہ اماء اللہ حیدر آباد کے ایک کثیر اجتماع کو خطاب کیا.22 جون کو حیدر آباد میں جمعہ پڑھایا.24 جون کو حیدر آباد کے خدام سے خطاب فرمایا.26 - 2- حیدر آباد سے واپسی پر محترم صاحبزادہ صاحب نے 29 جون کو شموگہ میں جمعہ پڑھایا نماز جمعہ میں شموگہ کے علاوہ بنگلور.سرب.ساگر اور مدراس کے احباب نے بھی شرکت کی.اسی روز نماز مغرب کے بعد آپنے احباب سے تربیتی خطاب فرمایا 30 جون کو ایک پارٹی میں غیر از جماعت افراد کے سوالوں کے جواب دیئے.یکم جولائی کو آپ نے سیرت پیشوایان مذاھب کے جلسے میں تقریر کی.20 13-3 ستمبر 1962ء کو محترم صاحبزادہ صاحب کلکتہ تشریف لے گئے.یہاں 16 ستمبر کو آپ نے بیت احمد یہ کا سنگ بنیا درکھا.سنگ بنیاد سے قبل آپ کی صدارت میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں مکرم عبد القادر صاحب برما، مولانا بشیر احمد صاحب فاضل مبلغ کلکته ، مولوی محمد سلیم فاضل صاحب نے تقاریر کیں.آخر میں صاحبزادہ صاحب نے صدارتی خطاب میں بیت الذکر کی تعمیر کی اہمیت پر روشنی ڈالی جلسہ کے بعد 5 بنیادی اینٹیں اپنے ہاتھ سے رکھیں.4- 18.نومبر 1962ء کو آپ دوبارہ حیدر آباد تشریف لے گئے.دوسرے دن انگریزی اخبار ’BLAZE‘ کے ایڈیٹر اور’CURRENT WEKLY“ کے نمائندہ نے آپ سے ڈیڑھ گھنٹہ تک انٹرویو لیا جس میں ہندوستان پر چین کے تسلط اور مسئلہ جہاد کے موضوعات پر گفتگو ہوئی.327- 20 نومبر کو آپ یاد گیر تشریف لے گئے اور بعد از نماز عصر آپ نے اپنے خطاب میں احباب جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.یکم دسمبر کو حیدر آباد کے محلہ مراد نگ میں آپ کی زیر صدارت جلسہ ہوا جس میں مکرم چوہدری مبارک علی صاحب مبلغ آندھرا پردیش ، مکرم مولوی محمد کریم الدین صاحب، مکرم میر احمد صادق صاحب مکرم مولوی محمد عمر صاحب مبلغ حیدر آباد، مکرم محمد کریم اللہ صاحب ایڈیٹر آزادنو جوان کے علاوہ صاحبزادہ صاحب نے بھی خطاب فرمایا جس میں جماعت احمدیہ کے عقائد پر روشنی ڈالی.اس جلسہ میں غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوئے.”اسلامی اصول کی فلاسفی کے ملیالم ترجمہ پر مالابار کے مشہور اخبار ”دن پر بھا“ کا تبصرہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تصنیف ”اسلامی اصول کی فلاسفی کا ملیالم زبان میں ترجمہ کیا گیا

Page 626

تاریخ احمدیت 617 جلد 21 جس پر مالا بار کے ایک موقر اور آزاد خیال روز نامہ دن پر بھا (DINA PRABHA) نے 16 جون 1962 ء کی اشاعت میں حسب ذیل تبصرہ کیا:.اسلامی اصول کی فلاسفی ایک اسم بامسمی کتاب ہے یعنی اس میں اسلام کے تمام اصولوں پر بہترین رنگ میں روشنی ڈالی گئی ہے یہ کتاب قرآن کریم کے گہرے مطالعہ کا ایک ثمر ہے کیونکہ یہ قابل تعریف رنگ میں لکھی گئی ہے.ٹھوس علمی مضامین پر مشتمل بیش قیمت کتاب ہے.مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم احباب کے لئے بھی یہ کتاب ہر رنگ میں مفید ثابت ہو گی.....عوام الناس کو اسلام کی تعلیم سے اچھی طرح بہرہ ور ہونے کے لئے یہ پر معارف کتاب بہت ہی ممد و معاون ثابت ہوگی غیر مسلموں کو اسلام اور اسکی سنہری تعلیم کے متعلق بہت زیادہ علم یہ کتاب دیتی ہے.اس کتاب کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی تعلیم مختلف مذاہب کے مابین پیدا شدہ منافرت دور کر کے ایک دوسرے مذہب کو قریب لاتی ہے تاکہ اس طرح مذہبی تعصب اور جنون کا خاتمہ ہو جائے.....یہ کتاب قرآن کریم کا ایک آئینہ ہے.....یہ کتاب قرآن کریم کی عالمگیر حیثیت ، خصوصیت اور اہمیت کی علمبردار ہے جس کے مطالعہ سے اسلام کے متعلق ایک اچھی خاصی واقفیت حاصل ہوتی ہے.329 پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے متعلق نوائے وقت کی رائے روزنامہ نوائے وقت لاہور نے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارہ میں لکھا.”میرے خیال میں جو سب نوجوانوں کے لئے قابل تقلید بات ہے.وہ یہ ہے کہ پروفیسر سلام کی زندگی بے انتہا سادہ و پاکیزہ ہے اور وہ ایک دیندار آدمی ہیں.اتنی طویل مدت سے یورپ میں رہتے ہوئے انہوں نے لہو ولعب کی طرف کبھی نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا با قاعدہ پانچ وقت کی نماز اور بعض اوقات تہجد اس نوجوان کے روز مرہ مشاغل کا حصہ ہیں ادھر اُدھر وقت ضائع کرنا ان کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے.66

Page 627

تاریخ احمدیت 618 حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کی طرف سے طلبہ کو تعلیم الاسلام کالج میں بھجوانے کی تحریک جلد 21 امسال تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ساحب نے طلبا کی تعلیمی اور تربیتی بہتری کے لئے احباب جماعت کو یہ پُر زور تحریک فرمائی کہ وہ اپنے بچے ربوہ کے کالج میں داخل کروا ئیں چنانچہ فرمایا :.اعلی تعلیم اب ضروریات زندگی میں سے ہے اس لئے میٹرک ( سیکنڈری سکول) کا امتحان پاس کرنے کے بعد طلبہ عموماً کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں 15-16-17 سال کی عمر زندگی کا اہم ترین دور شمار ہوتی ہے جس میں اگر بچے صحیح راہ پر گامزن ہو جائیں تو دین ودنیا کی نعمتوں سے مالا مال ہو جاتے ہیں اور جوخدانخواستہ غلط قدم اٹھا لیں تو انہیں بالعموم مہلک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ عمر ایسی ہے جس میں ایک نوجوان کچھ نہ کچھ ذمہ داریوں کا بار اٹھانے کے قابل ہو جاتا ہے اس لئے سر پرستوں کی کڑی نگرانی کی بجائے اسے ایک حد تک آزاد ماحول میں کچھ نہ کچھ آزادی عمل کا موقعہ دیا جاتا ہے اس لئے نو خیز جوانی کے اس دور میں ان کے لئے صحیح طور پر پنپنے اور ترقی کرنے کے لئے ایک صحت مند ماحول مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے ذہنی اور عقلی لحاظ سے نا پختگی اور ناتجربہ کاری کے اس دور میں غیر صحت مند ماحول میں بچے ماں باپ سے الگ ہو کر اکثر بھٹک جاتے ہیں اور غلط راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں اس لئے کالجوں میں داخلہ کے وقت والدین اور سر پرستوں پر یہ عظیم اور نازک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس امر کولو ظ رکھیں کہ بچوں کو کسی غیر صحت مند ماحول میں تو نہیں بھجوا رہے.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ مخصوص اور شاندار روایات کا حامل اور پرسکون فضا میں قائم ہے جس کے اساتذہ اکثر واقف زندگی اور طلبہ کی اخلاقی اور تعلیمی نگرانی میں گہری دلچسپی لیتے ہیں اس لئے میں ایسے احباب سے جنکے عزیز اب کالجوں میں داخلہ لے رہے ہیں پر زور درخواست کرتا ہوں کہ بچوں کو زیادہ تعداد میں تعلیم الاسلام کا لج میں داخل کروائیں 331 دار الرحمت وسطی ربوہ کی بیت الذکر کا سنگ بنیاد 9 نومبر 1962ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے دارالرحمت وسطی ربوہ کی بیت الذکر کا سنگ بنیاد رکھا آپ نے دعا کے بعد بنیاد میں دو اینٹیں رکھیں جن میں سے ایک بیت مبارک قادیان کی تھی اور دوسری پر حضرت مصلح موعود اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم نے دعا کی تھی.آپ کے

Page 628

تاریخ احمدیت 619 جلد 21 بعد حضرت مولوی محمد دین صاحب، حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی، حضرت قاضی محمد رشید صاحب اور حضرت ماسٹر مولا دا د صاحب ( رفقاء کرام حضرت مسیح موعود ) نے ایک ایک اینٹ رکھی نیز صدر صاحب محلہ اور ملک محمد شفیع صاحب نوشہروی نے بھی ایک اینٹ رکھی.بعد ازاں حضرت صاحبزادہ صاحب نے اجتماعی دعا کرائی.332 پنجاب مہا بیر دل کا نفرنس بٹالہ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی 30,29,28 دسمبر 1962ء کو بٹالہ ضلع گورداسپور میں ہندووں کی مشہور جماعت پنجاب مہابیر دل کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جماعت کے ایک وفد نے بھی شمولیت اختیار کی.وفد مکرم چوہدری عبدالحق صاحب، مکرم مولوی محمد عمر صاحب مالابار اور مکرم گیانی عبداللطیف صاحب پر مشتمل تھا.وفد نے کانفرنس کے دوران جماعت کا لٹریچر سینکڑوں کی تعداد میں تقسیم کیا جو عوام نے خوشی سے قبول کیا.333

Page 629

تاریخ احمدیت انگلستان 620 بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں فصل سوم جلد 21 کراچی سے لندن سفر کرتے ہوئے مکرم عبدالحمید صاحب واقف زندگی نے مسٹر کینیڈی کو ان کے سکیورٹی آفیسر کے ذریعہ 26 مارچ 1962ء کو احمدیت.یعنی حقیقی اسلام کا نسخہ پیش کیا مسز کینیڈی نے موصوف کو شکریہ کا خط لکھا.سه ماهی دوم -1- مکرم بشیر احمد صاحب رفیق نے 19اپریل کو مشہور عیسائی کلب Toch میں تقریر کی اور رات کے بارہ بجے تک سوالوں کے جواب دیئے.8 مئی کو روٹری کلب آف ساؤتھ اینڈ میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.21 مئی کو آپنے روٹری کلب آف کنگزران میں تقریر کے بعد لٹریچر تقسیم کیا.26 مئی کو سکاؤٹ ھیڈ کواٹرز میں تقریر کے بعد رات کے گیارہ بجے تک سوالوں کے جواب دیئے اور لٹریچر تقسیم کیا.4 جون کو روٹری کلب نیو مالڈن میں اور 20 جون کو روٹری کلب آف شیپرٹن میں تقریر کی نیز آپ نے ہائیڈ پارک میں سوڈانی وانگریز نومسلموں کولٹریچر پیش کیا.2- ماہ اپریل میں Appreciation سوسائٹی کے 35 افراد بیت فضل لندن تشریف لائے.مکرم چوہدری رحمت خان صاحب امام مسجد نے ان کے سامنے اسلامی تعلیمات پر تقریر کی جس کے بعد آپ نے اور مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب نے سوالوں کے جواب دیئے اور ممبران کی خدمت میں لٹریچر بھی پیش کیا.3- مکرم میجر عبدالحمید صاحب نے 14 اور 19 اپریل کو ہائیڈ پارک میں تقاریر کیں یہاں آپ کی بحث ایک یہودی عالم سے بھی ہوئی.آپ نے ایک انگریز کو تبلیغ کی.اسپر بچولسٹ میٹنگ میں تقریر کے بعد لٹریچر تقسیم کیا.4 طلباء کی ایک پارٹی کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا.استنبول یو نیورسٹی کے ایک پروفیسر نیز اطالوی و فرانسیسی جوڑے کولٹریچر دیا.آپ نے اور مکرم چوہدری رحمت خان صاحب نے ایک عیسائی کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا.

Page 630

تاریخ احمدیت 621 جلد 21 4 - مكرم بشیر احمد صاحب رفیق نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کے بارہ میں 200 صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ جومشن کی طرف سے شائع ہوا.چوہدری سر محمد ظفر اللہ صاحب کا ایک کتابچہ حضرت مسیح نے صلیب سے کیسے نجات پائی ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا.مشن نے ایک احمدی ڈاکٹر عمر سلیمان کا کتابچہ بھی شائع کیا.14افراد نے بیعت کی.انہی دنوں ونڈرز ورتھ میں ایک عشائیہ کی تقریب منعقد ہوئی جس میں مسجد لندن نے متعدد حاضرین کو پیغام اسلام پہنچایا نیز تر کی سفارت خانہ کے ثقافتی اٹاچی اور سعودی عرب کے افسر کو جماعت احمدیہ کی خدمات سے آگاہ کیا.عرصہ رپورٹ کا نہایت اہم واقعہ یارک شائر (York Shire) کا تبلیغی دورہ ہے جس کے دوران امام مسجد لندن چوہدری رحمت خاں صاحب اور نائب امام بشیر احمد خاں صاحب رفیق بریڈ فورڈ تشریف لے گئے اور شہر میں مقیم احمدی دوستوں میں برکات تنظیم پر روشنی ڈالی بعد ازاں انتخاب کرایا.بریڈ فورڈ کے پہلے پریذیڈنٹ چوہدری منصور احمد صاحب مقرر ہوئے لندن سے باہر یہ انگلستان کی پہلی جماعت تھی جس کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا اسی جماعت کے ساتھ شہر لیڈز (Leeds) کو بھی منسلک کیا گیا.جماعت بریڈ فورڈ کے ہفتہ وارا جلاسوں کا سلسلہ چوہدری منصور احمد صاحب ہی کے مکان پر شروع ہو گیا اور یہ فعال جماعت جلد جلد ترقی کرنے لگی.مکرم امام صاحب بعض احمدی خاندانوں کے گھر پر گئے جن میں مکرم عبد الحمید خان صاحب مرحوم 336 آف کپورتھلہ کا خاندان بھی شامل ہے.مورخہ 30 جون کو جماعت ساؤتھ ہال نے پبلک جلسہ کا اہتمام کیا.ساؤتھ ہال لنڈن سے دس بارہ میل دور ہے اور اب لندن کا ایک حصہ بن چکا ہے یہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے پچاس کے قریب احمدی دوست رہتے ہیں پچھلے سال جب مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی لندن تشریف لائے تھے تو آپ یہاں بھی تشریف لے گئے آپ نے جماعت سے ملاقات کی اور مکرم امام صاحب کو ہدایت کی کہ ساؤتھ ہال کے احباب کی تنظیم کی جائے چنانچہ وہاں انتخاب کرایا گیا اور جماعت ساؤتھ ہال کا قیام عمل میں لایا گیا.ان کے سابق پریذیڈنٹ مکرم راجہ بشیر احمد صاحب مظفر First President of First Jamaat (local) of England نے نہایت تندہی سے جماعت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کیا ہے.آج کل صدر مکرم کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ ہیں.30 جون کو ساؤتھ ہال کے ایک پبلک جلسہ سے امام مسجد لندن اور نائب امام نے خطاب فرمایا.

Page 631

تاریخ احمدیت جولائی تا اکتوبر 622 جلد 21 1 - 8 جولائی کو مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق نے ایک پارک میں ایک عیسائی پادری سے بحث کی.9 جولائی کو آپ نے روٹری کلب آف Wisbech میں اسلام کے بارہ میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.15 جولائی کو ایک پارک میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے 22 جولائی کو بھی ایک پارک میں تقریر کی 23 جولائی کو بوگمور رجس (Bogmor Rogis) کے روٹری کلب میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.13 ستمبر کو روٹری کلب میں تقریر کی.2 مکرم چوہدری رحمت خان صاحب امام مسجد لندن نے بریڈ فورڈ.لیڈز.پریسٹن کا دورہ کیا.روٹری کلب کے اجلاس میں ایک مقرر سے عیسائیت اور اسلام پر تبادلہ خیالات کیا.چیف انسپکٹر الیکٹرسٹی کو احمدیت سے متعارف کرایا.منسٹری آف نیشنل انشورنس کے انگریز کو اسلام سے روشناس کرایا اور لٹریچر پیش کیا.3- مکرم میجر عبدالحمید صاحب نے سپر بچولسٹ فرقہ کی ایک میٹنگ میں حاضرین کے سوالوں کے جواب دیئے اور سلسلہ احمدیہ سے متعارف کرایا.آپ نے ماہ اگست میں اسلام اور جنگ“ کے موضوع پر تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.روٹری کلب میں ایک تقریر کی.ہائیڈ ر پارک میں دو مرتبہ تقاریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے نیز ایک پمفلٹ تقسیم کیا.نومبر دسمبر 1962ء پر تقریر کی.ماہ نومبر میں مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے مشن ہاؤس میں ” ایسے سینیا میں تبلیغ اسلام کے موضوع اسی ماہ میں مکرم میجر عبدالحمید صاحب نے انٹرنیشنل فرینڈ شپ لیگ میں تقریر فرمائی.آپ نے دسمبر 1962ء میں ٹیکنیکل کالج براملے میں اسلام پر تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے اور لٹریچر تقسیم کیا.جرمنی ریاست میسور کے ایک مسلمان چند ماہ تک فرانکفورٹ میں رہے واپسی پر انہوں نے مبلغ جرمنی کو ایک مکتوب میں لکھا.

Page 632

تاریخ احمدیت 623 جلد 21 جولمحات آپ کے ہاں اور خدا کے گھر میں گزرے وہ یاد آتے ہیں تو دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے کہ اس کفرستان میں بھی ایک سے زیادہ مسجدمیں موجود ہیں دنیا میں کئی مسلم ممالک ہیں ان میں سے کسی ملک کو بھی اسلام کو وسیع طور پر پھیلانے کا خیال نہ آیا یہ صرف آپکی جماعت احمد یہ ہی ہے جو اس مقدس فریضہ کو انجام دے رہی ہے.“ ایک جرمن دوست حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.0 اگست تا دسمبر 14اکتوبر 1962ء کو محترم چوہدری عبداللطیف صاحب انچارج مبلغ جرمنی نے اسلام کے موضوع پر ایک نہایت کامیاب لیکچر دیا.لیکچر کو سننے کے لئے فرانکفورٹ کے علاوہ بعض دوسرے مقامات سے ایک سومیل سے زیادہ مسافت طے کر کے بعض جرمن نو مسلم اور غیر مسلم احباب تشریف لائے سامعین میں مشہور مستشرق ڈاکٹر کلاؤس بھی شامل تھے.پون گھنٹہ کی تقریر کو بڑے انہماک سے سنا گیا تقریر کے بعد سوالوں کے جواب بھی دیئے گئے.موصوف نے ایک لیکچر مشن کے میٹنگ ہال میں دیا جو 45 منت تک رہا یکچر کے بعد آپ نے سوالوں کے تسلی بخش جواب دیئے اور جرمن لٹریچر تقسیم کیا.علاوہ ازیں یروشلم.جرمنی، مصر، پاکستان، ہندوستان، اردن اور ترکی سے 60 احباب مشن ہاؤس آئے جنکو اسلام اور احمدیت کے بارہ میں معلومات بہم پہنچائی گئیں اور جرمن، انگریزی اور عربی لٹریچر پیش کیا گیا.ہالینڈ 341 15 جنوری 1962 ء کو ڈچ عرب سرکل کی ایک کانفرنس میں حافظ قدرت اللہ صاحب نے خطاب کیا آپ نے 24 فروری 1962 ء کو ڈ لفٹ کے بڑے ہال میں بہائیوں کے زیر اہتمام ایک مذہبی کانفرنس میں اسلام کے بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی.342-6 جولائی تا ستمبر 1- احمد یہ مشن ہالینڈ کے قیام پر پندرہ سال گزرنے پر 13 جولائی 1962ء کو ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں پریس کے 21 نمائندے شامل ہوئے.اس موقع پر تقسیم کے لئے مسیح کا پیغام کے عنوان سے 5 ہزار کی تعداد میں ایک پمفلٹ شائع کیا گیا اس پمفلٹ کی اشاعت کے جملہ اخراجات ڈاکٹر عمر سلیمان صاحب آف لندن نے ادا کئے.حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج مشن ہالینڈ نے مشن کے

Page 633

تاریخ احمدیت 624 جلد 21 اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور نمائندگان پریس کے سوالوں کے جواب دیئے اس کانفرنس کا ذکر ریڈیو کے علاوہ 40 اخبارات نے کیا ایک اخبار De Noor Oster نے لکھا.یہ پاکستانی مشنری (امام مسجد ہالینڈ ) ان بہت سے پاکستانی مشنریوں میں سے ایک ہیں جو جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام کی تبلیغ اور اسلام کے متعلق صحیح نظر یہ لوگوں تک پہنچانے کیلئے بھیجے جاتے ہیں.مسلمانوں میں یہی ایک منظم جماعت ہے جس نے ایک نظام کے تحت تبلیغ اسلام کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے مسجد کے ہال میں جو دنیا کا نقشہ لٹکا ہوا ہے اس پر ایک نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح دنیا کے 66 تمام اطراف میں جماعت احمدیہ کے مبلغین سرگرم عمل ہیں.“ کانفرنس کے روز ایک ڈچ خاتون نے اسلام قبول کیا.2.ہیگ اور ہیگ سے باہر مختلف جگہوں سے وفود مشن میں آتے رہے چنانچہ ڈچ ایر فورس کے 20 افراد مسجد میں آئے جنہیں جماعتی سرگرمیوں سے آگاہ کیا گیا اور جن سے ایک گھنٹہ تک تبادلہ خیالات ہوا ایک موقعہ پر ایمسٹر ڈم کی مشہور انجمن Anne Frank کے 25 افراد مسجد میں آئے ان سے دو گھنٹے تک مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب کا تبادلہ خیالات ہوا.حافظ قدرت اللہ صاحب نے انٹر نیشنل ہیلپ سروس کے گروپ کی دعوت پر اسلام کے بارہ میں نصف گھنٹہ تقریر کی اور سوالوں کے جواب دیئے اسیطرح ڈ لفٹ میں نو جوانوں کی سوسائٹی میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.ہیگ کی مذہبی انجمن میں تقریر کی.اوترخت یو نیورسٹی کے طلبہ کی دعوت پر 80 طلبہ کی مجلس میں اسلام کے بارہ میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دئیے آپ نے اینٹی الکوحل انجمن کی مجلس میں اسلامی تعلیمات پر روشنی ڈالی اور سوالوں کے جواب دیئے.مکرم صلاح الدین خان صاحب نے اوترخت یو نیورسٹی کی 60 طالبات اور لائیڈ جان یونیورسٹی کے 20 طلبہ کے سامنے تقاریر کیں نیز لائیڈ جان اور انٹر نیشنل اسٹوڈنٹس کلب میں سوالوں کے جواب دیئے.ایک پمفلٹ ”اسلام کا پیغام دس ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا اس عرصہ میں 2 افراد نے بیعت کی.برٹش گی آنا 344 8 جنوری 1962 ء سے نیوایمسٹرڈم برپائس میں ایک احمد یہ ہائی سکول کھولا گیا.برٹش گی آنا میں

Page 634

تاریخ احمدیت 625 جلد 21 یہ اپنی نوعیت کا پہلا ہائی سکول تھا اس میں نہ صرف دنیوی تعلیم کا اہتمام تھا بلکہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں طلباء کو اعلیٰ کردار کے جملہ اوصاف سے متصف کرنے کا اہتمام کیا گیا.اس سکول کے قیام میں جماعت احمدیہ برٹش گی آنا کے احباب نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.مبلغ امریکہ محترم صوفی عبدالغفور صاحب وسط 1962ء میں کینیڈا تشریف لے گئے آپ نے یہاں کے ایک قصبہ ونڈسر سے نکلنے والے اخبار ”ونڈ سر سٹار کے ایڈیٹر سے ملاقات کر کے ڈیڑھ گھنٹہ تک اسلام اور احمدیت کے متعلق گفتگو کی اس اخبار نے 21 جون 1962 ء کی اشاعت میں جماعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: احمد یہ تحریک کی بنیا د احمد قادیانی کے ہاتھوں پڑی ان کی وفات 1908 ء میں ہوئی اور انہیں ان کے پیر و مسیح مانتے ہیں....اسی تحریک کے ایک مبلغ مسٹر صوفی نے کہا اگر انگریزی بولنے والی اقوام کو دوستوں کی احتیاج ہے تو اس کا بہترین دوست اور سہارا اسلام ہی ہے....ہم سارے عالم میں عموماً اور مسلمانوں میں خصوصاً دین کی روح پھونکنا چاہتے ہیں مارکسنرم کے ماننے سے خدا تعالیٰ پر ایمان ترک کرنا پڑتا ہے.“ صوفی صاحب نے سڈنی“ شہر میں ایک اخبار کے ایڈیٹ کو ٹیچنگز آف اسلام دی.آپ نے ٹورنٹو میں عیسائیوں کے سوالوں کے جواب دئیے موصوف نے یہاں کے چوٹی کے اخبار ” گلوب اینڈ میل (Globe And Mail) کے ایڈیٹر سے 1/2-2 گھنٹہ تک ملاقات کی.اخبار نے 30 جون 1962ء کی اشاعت میں ملاقات کا مفصل ذکر کرتے ہوئے لکھا:.66 سلسلہ احمدیہ کی بنیاد 1889 ء میں حضرت مرزا غلام احمد نے رکھی.آپ نے قرآنی تعلیم کی وضاحت میں 84 کتب تصنیف فرما ئیں آپ کے پیرووں کی اکثریت ایشیا اور افریقہ میں پائی جاتی ہے لیکن انگلستان اور یورپ میں بھی انکے مرید موجود ہیں.امریکہ میں انکی تعداد کئی ہزار ہے وہاں انکی چار مسجد میں ہیں.آپ کے فرزند مرزا بشر الدین محمود احمد خلیفہ امسیح الثانی جماعت کے منتخب امام ہیں انکا مرکز ربوہ مغربی پاکستان میں ہے بقول مسٹر صوفی اس وقت قریبا دوصد مبلغ اسلام کی تبلیغ میں کوشاں ہیں ان کا کہنا ہے کہ اسلام کے شمالی امریکہ میں کامیابی کے بہت امکانات ہیں.

Page 635

تاریخ احمدیت 626 جلد 21 امریکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سالانہ پندرھویں کا نفرنس یکیم.2 ستمبر 1962ء کو پٹس برگ کے مقام پر وائی ایم سی اے ہال میں منعقد ہوئی.کانفرنس میں امریکہ کی شرقی اور وسط غربی علاقوں کی متعدد ریاستوں اور کینیڈا کی احمدی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی.کانفرنس کا افتتاح مبلغ انچارج مکرم صوفی عبدالغفور صاحب نے کیا.کانفرنس میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا محترم صاحبزادہ صاحب نے جلسہ میں شرکت کرنے والے احباب کو اپنے پیغام میں فرمایا کہ جب تک آ پکی زندگیاں عملی لحاظ سے اسلام کی عکاسی نہ کرتی ہونگی لوگ اسلام کی اخلاقی تعلیم کو توجہ سے نہیں سنیں گے.علاوہ ازیں کانفرنس سے درج ذیل افراد نے خطاب کیا.1 - مکرم محمد بشیر صاحب-2- مکرم بشیر افضل صاحب.3.مکرم منیر احمد صاحب.4.مکرم خلیل محمود صاحب-5- مکرم رشید احمد صاحب - 6- مکرم حافظ صالح محمد صاحب الہ دین.7.مکرم چوہدری غلام بین صاحب 8- مکرم عبد القادر صاحب ضیغم - 9.مکرم امین اللہ خان صاحب سالک.کانفرنس میں بجٹ پر بھی بحث ہوئی خدام، انصار، لجنہ کے اجلاس بھی ہوئے کانفرنس میں کینیڈا کے ایک مسلمان عالیہ قونیا خوجہ نے جماعت کی خدمات کو سراہا اور مجاہدین احمدیت کے ذریعہ مسلمان ہونے والے افراد کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوگ مجھ سے بہتر مسلمان ہیں.غانا امریکہ کے مشہور اخبارات نے کانفرنس کا ذکر کیا.پہلی سہ ماہی 348 1 - جماعت احمد یہ غانا کا جلسہ 4, 5, 6 جنوری 1962 ء کو سالٹ پانڈ میں منعقد ہوا.جلسے کا افتتاح مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب مبلغ انچارج و امیر جماعت ہائے گھانا نے فرمایا.موصوف نے اپنے خطاب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کا پیغام سنایا جس میں غانا کے احمدی احباب کو توجہ دلائی گئی تھی کہ وہ اپنے ملک کی روحانی اور مادی ترقی کے لئے بڑھ چڑھ کر کوشش کریں.آپ کے علاوہ درج ذیل احباب نے جلسے سے خطاب کیا.1- صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول کماسی.2.مکرم مولوی

Page 636

تاریخ احمدیت 627 جلد 21 عبدالوہاب صاحب - 3- محترم مولوی نور محمد صاحب نیم سیفی رئیس تبلیغ مغربی افریقہ.آپ مہمان خصوصی کی حیثیت سے نائیجیریا سے اس کا نفرنس میں تشریف لائے تھے.4- الحاج یعقوب (ڈپٹی سپیکر نیشنل اسمبلی).آپ نے جماعت کی تبلیغی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ اسلام مادیات کے تھیٹروں میں کبھی کا دب چکا ہوتا.میں چشم دید گواہ ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں وہ دنیا کے مختلف ممالک میں سر بلندی حاصل کر رہا ہے.5.مسٹر عبد اللہ طینی - 6- سلیمان الحسن صاحب لوکل مبلغ.7- محترم عبدالواحد عزیز صاحب سیکرٹری جنرل کماسی - 8- مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب.9.محترم مولوی عبدالمالک خان صاحب - 10- مکرم محمد آرتھر صاحب صدر جماعت غانا - 11 - مکرم مسعود احمد خان صاحب.اس موقع پر دار المطالعہ کا افتتاح بھی ہوا جس میں تقریر کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر علاقہ نے کہا ”حکومت بھی عنقریب ایک ریڈنگ روم کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن احمد یہ موومنٹ نے پہل کر کے عوام کی خیر خواہی کا ثبوت دے دیا ہے میں تمام حاضرین سے گزارش کرتا ہوں کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے خدمت خلق کے اس جذبہ کی تقلید کریں اور جماعت احمدیہ کے اس جاری کردہ دار المطالعہ سے کما حقہ فائدہ اٹھائیں“.جلسہ میں 6 ہزار سے زائد احمدی شامل ہوئے.جلسہ کے موقع پر برطانوی ہائی کمشنر کے نمائندہ.ریجنل ایجو کیشن آفیسر.میڈیکل آفیسر.ڈسٹرکٹ کمشنر.ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسر.سیکنڈری سکول کے اساتذہ.نمائندگان پر لیس و ریڈیو.ڈپٹی کمشنر علاقہ اور ڈپٹی سپیکر کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا گیا.جلسہ میں 28 ہزار سے زائد روپیہ کی مالی قربانی پیش کی گئی اخبارات و ریڈیو نے جلسہ کا ذکر کیا اور ہاؤسا زبان میں بعض تقاریر کے تراجم نشر ہوئے.دوران جلسہ شوریٰ کا اجلاس بھی ہو ا جس میں 64877 پونڈ 6 اشلنگ بجٹ پاس ہوا.2- غانامشن نے آنحضرت کی سیرت و تعلیم پر 21 صفحات کا ایک کتابچہ 6 ہزار کی تعداد میں شائع کیا.مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم انچارج غانا مشن نے 6 تعلیمی اداروں میں تبلیغی تقاریر کیں جن کے بعد سوالوں کے جواب دیئے اور لٹریچر تقسیم کیا.اس وجہ سے طلباء میں اسلامی تعلیم کے متعلق مزید دلچسپی پیدا ہوئی.سنٹرل ریجن کے دو مقامات پر مساجد کا افتتاح عمل میں آیا افتتاحی تقاریب میں عیسائی ومشرکین بھی شامل ہوئے جن کے سامنے اسلام کی خصوصیات بیان کی گئیں.تمام مبلغین کی مجموعی مساعی سے 136 افراد داخل سلسلہ ہوئے.850 -3- مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب نے کماسی کے ہفتہ وارتبلیغی اجلاسوں میں 17 لیکچر دیے جن کے بعد سوالوں کے جواب بھی دیئے.آپ کے ہمراہ کماسی کے 100 افراد موچیا نک اشانٹی میں گئے

Page 637

تاریخ احمدیت 628 جلد 21 وہاں سارا دن تبلیغ پر صرف کیا نیز جلسہ بھی کیا گیا جس میں عیسائیوں کے سوالوں کے جواب دئیے گئے اور چیف کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا گیا.-4- قریشی فیروز محی الدین صاحب نے 85 افراد کو تبلیغ کی.28 پمفلٹ تقسیم کئے 300 کتب لائبریریوں میں رکھوائیں.آپ کا ایک انٹرویو ریڈیو سے نشر ہوا آپ نے فوج کے چیف امام اور چینی سفیر کو لٹریچر دیا.موصوف دعوت الی اللہ کے لئے جیلوں میں بھی گئے.ایک سیکنڈری سکول میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دئیے.851 دوسری سہ ماہی مبلغین کی مجموعی کوششوں سے 136 بیعتیں ہوئیں.مساعی کی تفصیل درج ذیل ہے.1- غانا یو نیورسٹی کے شعبہ دینیات کے ماتحت اپریل کے پہلے ہفتہ میں Longon Hall میں عیسائی پادریوں اور مذہبی لیڈروں کے لئے چھٹی ریفرشمنٹ کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں ملک کے تمام ریجنز سے بڑی تعداد میں پادری شامل ہوئے اس کا نفرنس میں مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم امیر جماعت ہائے احمد یہ غانا نے ایک گھنٹہ تک تقریر کی جو پوری توجہ سے سنی گئی بعد ازاں آپنے نصف گھنٹہ تک سوالوں کے جواب دیئے جنکا بہت عمدہ اثر ہوا.مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب مبلغ اکرانے اس موقع پر اسلامی لٹریچر کی نمائش بھی کی اس موقع پر دو کتابچے مفت تقسیم کئے گئے.مکرم امیر صاحب نے اپنی موٹو کالج Achimoto College میں آنحضرت کی سیرت پر تقریر کی نیز حضور کی سوانح پر مشتمل کتابچہ کی تین صد کا پیاں طلباء میں تقسیم کیں اور دو مختلف مواقع پر طلبہ کے سوالوں کے جواب دیئے علاوہ ازیں موصوف نے تین سیکنڈری سکولوں میں تقاریر کیں.چاروں اداروں کی لائبریریوں کو لٹریچر دیا نیز آنحضرت کی سوانح پر مشتمل کتابچہ تقسیم کیا.آپ نے غانا اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر الحاج یعقوب کو دعوت الامیر کا انگریزی ترجمہ پیش کیا نیز اشانٹی ریجن کے دو ڈسٹرکٹ کمشنروں اور محکم تعلیم کے بعض افسران کو سلسلہ کا لٹریچر پیش کیا.2 مكرم مرزا الطف الرحمن صاحب نے ایسٹرن ریجن میں 3 اور ا کر میں بھی 3 جلسے منعقد کئے.پاکستانی ہائی کمشنر جلال الدین عبدالرحیم صاحب کو جماعت کی مساعی سے متعارف کرانے کے علاوہ انہیں دو کتب پیش کیں.علاوہ ازیں بین الاقوامی شہرت کے مالک پروفیسر الیانڈ روپشین، برطانیہ کے آرچ بشپ را برٹس، جناب اے کے بروہی ، جناب شریف عمر عبداللہ متعلم آکسفورڈ کی خدمت میں بھی لٹریچر

Page 638

تاریخ احمدیت 629 جلد 21 پیش کیا.آپ نے ساڑھے تین گھنٹہ تک عیسائیوں سے مباحثہ کیا.غانا کے صدر مملکت ڈاکٹر کوری نکروما کی تجویز پرا کرا میں ایک ہیں الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں نامور شخصیتوں نے شرکت کی اسلامی ممالک کے نمائندگان کومشن ہاؤس میں پارٹی دی گئی اور ان کی خدمت میں مرزا الطف الرحمن صاحب نے اسلامی لٹریچر پیش کیا.3 مکرم مولوی عبدالوہاب صاحب کو ہر ہفتہ مختلف کالجوں اور سکولوں میں حقانیت اسلام واضح کرنے کا موقع ملا.آپ نے باوجود برسات کے پبلک لیکچرز دیئے.ریجنل کمشنر اور شمالی کی لائبریری کے انچارج کی خدمت میں قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا.-4 مکرم قریشی فیروز محی الدین صاحب کے حلقے میں 15 جلسے منعقد ہوئے جس کے نتیجہ میں جماعت میں نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا آپ نے 33 افراد تک پیغام حق پہنچایا.5.مولانا عبدالمالک خان نے رسول کریم کے متعلق ایک فلم کے خلاف احتجاج کیا جس پر فلم واپس لی گئی آپ کے حلقہ میں متعدد تبلیغی اجلاس منعقد ہوئے موصوف نے 27 لیکچروں کے ذریعہ صداقت احمدیت واضح کی.اکتوبر و دسمبر 352- 1 میلادالنبی کی تقریب کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں اور قصبات میں جلسے کئے گئے جن میں عیسائی ہمشرکین اور غیر از جماعت اصحاب کثیر تعداد میں شریک ہوئے.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سلسلہ میں ایک جلسہ سالٹ پانڈ میں منعقد ہوا جس کی صدارت غانا کے وزیر تعلیم نے کی.موصوف نے صدارتی تقریر میں جماعت احمدیہ کی کوششوں کو سراہا جلسہ کی خبر اور وزیر موصوف کے ریمارکس ریڈیو پر نشر ہوئے جلسہ میں عیسائی اور مشرکین بھی کافی تعداد میں شامل ہوئے.ٹمالی (Tamale) میں ایک جلسہ سیرت پیشوایان مذاہب کے سلسلہ میں منعقد ہوا.جلسہ کے صدر الحاج یعقوب ڈپٹی سپیکر غا نا پارلیمنٹ نے صدارتی ریمارکس میں جماعت احمدیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس جماعت کو ہی یہ سعادت حاصل ہوئی کہ Tamale میں تمام مذاہب کے لیڈروں کو ایک اسٹیج پر جمع کرے.انہوں نے جلسہ کے انعقاد کو اس امر کا ثبوت قرار دیا کہ اسلام کی رواداری کی تعلیم کس قدر اعلیٰ ہے.اس جلسہ میں ڈسٹرکٹ کمشنر ز مجسٹریٹوں، ایجو کیشن آفیسرز اور دیگر ممتاز افسران حکومت نے شمولیت اختیار کی.2- کماسی مارکیٹ میں تبلیغی جلسوں کا سلسلہ جاری رہا جن میں مقامی مبلغین کے علاوہ مولانا

Page 639

تاریخ احمدیت 630 جلد 21 عبد المالک خان صاحب بھی وقتاً فوقتاً تقریر فرماتے رہے موصوف کی قیادت میں (Kukuom) کے مقام پر دو تبلیغی جلسے ہوئے اس موقع پر لٹریچر بھی تقسیم ہوا.احباب نے 52 پونڈ مالی قربانی پیش کی.مولانا عبدالمالک خان صاحب نے ڈسٹرکٹ کمشنر ممیانگ اور اس علاقہ کے لوکل کونسل کے ذمہ دار افراد کولٹر پچر پیش کیا آپ نے انفرادی طور پر 82 افراد کو تبلیغ کی.آپ کے حلقے اشانٹی کی سالانہ کانفرنس جمواسی کے مقام پر منعقد ہوئی جو تین دن تک رہی.مکرم مولا نا عطاء اللہ کلیم صاحب مبلغ انچارج غانا نے کانفرنس کا افتتاح کیا کانفرنس میں مختلف جماعتوں کے سینکڑوں مرد عورتیں اور بچے شامل ہوئے.مکرم مولوی عبدالوہاب ، مکرم سید باشم بخاری، مکرم مسعود احمد خان، مکرم مولانا عبدالمالک خان عبد الواحد متعلم مشنری ٹریننگ کالج نے تقاریر کیں.اس موقع پر جماعت کو 222 پونڈ مالی قربانی کی توفیق ملی.تین عیسائی دوران کا نفرنس داخل احمدیت ہوئے مولا نا موصوف نے تین مقامات کا دورہ کیا.مکرم مولوی عبدالوہاب صاحب نے ٹمالی جیل کے قیدیوں میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.آپ نے تیجانی فرقہ کے ایک ممتاز عالم عربی سکول کے ایک مدرس معلم رشید ، مکہ مکرمہ کے ایک غیر احمدی عالم الحاج الیاس کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا.-4- مکرم مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم نے Peki ٹیچرز ٹریننگ کالج میں تقریر کے بعد متعدد سوالوں کے جواب دیئے نیز دو کتا بچوں کی کا پیاں تقسیم کیں.WINEBA ٹیچر ز ٹریننگ کالج میں بھی تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے اور ایک کتا بچہ تقسیم کیا.آپ نے ACHIMITA کالج میں ایف اے کے طلبا وطالبات کے سامنے آنحضرت کی سیرت پر تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے آپ دو ہفتہ بعد دوبارہ اسی کالج میں تشریف لے گئے سوالوں کے جواب کے علاوہ کتا بچہ بھی تقسیم کیا.موصوف نے EBENZER سیکنڈری سکول اکرا کے جملہ طلباء و طالبات وسٹاف کے سامنے تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے WESLEN گرلز سیکنڈری سکول ایف اے کی طالبات میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے قصبہ (وا.WA) کے دو مڈل سکولوں میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے آپ نے مندرجہ بالا کالجز اور سکولوں کی لائبریریوں کے لئے قرآن کریم اور اسلامی لٹریچر پیش کیا.نیز ایک امریکن پادری، وزیر تعلیم ، ڈپٹی سپیکر غانا پارلیمنٹ.ڈسٹرکٹ کمشنر وا ، اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کیپ کوسٹ کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا.آپ نے جنوبی اور شمالی غانا کی بعض جماعتوں کا دورہ کیا.مرز الطف الرحمن بھی آپ کے ہمراہ تھے.5- مکرم مرز الطف الرحمن صاحب نے ڈپٹی منسٹر انصاف کو انگریزی تفسیر قرآن مطالعہ کے لئے دی.

Page 640

تاریخ احمدیت 631 جلد 21 6- مکرم قریشی فیروز محی الدین صاحب نے ٹیچی مان (Techiman) میں لائبریری کے قیام کا انتظام کیا جسکی افتتاحی تقریب میں غیر مسلم معززین بھی شامل ہوئے.اس عرصہ میں جملہ مبلغین کی مساعی ے 121 افراد نے بیعت کی.860 ހނ نائجیر یا سہ ماہی اوّل 1- جنوری 1962ء کے شروع میں لیگوس اور فروری میں کانو کے مقام پر ڈسپنسری کا قیام عمل میں آیا.لیگوس کے ڈسپنسری انچارج کرنل ڈاکٹر محمد یوسف شاہ صاحب اور کانو کی ڈسپنسری کے انچارج ڈاکٹر ضیاءالدین صاحب مقرر ہوئے.جنوری 1962 ء کو لیگوس میں براعظم افریقہ کے مسائل پر غور کرنے کے لئے ایک کا نفرنس بلائی گئی تھی جس میں تمام ممبر ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محترم مولانا نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ اور چوہدری رشید الدین صاحب نے بعض نمائندوں کی خدمت میں لٹریچر تقسیم کیا اسی طرح 25 سے 30 جنوری تک 22 ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس منعقد ہوئی جن میں وزراء خارجہ اور دیگر چیدہ افسران بھی شامل ہوئے.اس موقع پر تمام سر برا ہوں اور بعض وزراء کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا گیا.2.دسمبر 1 196ء کے جلسہ میں محترم صاحبزادہ مرز امبارک احمد نے احباب کو اپنے پیغام میں تبلیغ اسلام کی خصوصی طور پر متوجہ فرمایا تھا اس پیغام کی روشنی میں مکرم مولا نانی سیفی صاحب نے احباب سے اپیل کی تھی کہ وہ 1962 ء کو اسلام کی ترقی کا سال قرارد یکر تبلیغ میں مصروف ہوں اور عہد کریں کہ سال میں کم از کم ایک شخص کو ضرور مسلمان بنا ئیں گے.خدا کے فضل سے اسکا بڑا اچھا اثر رہا.چنانچہ پہلی سہ ماہی میں ہی جماعت کی مساعی کے نتیجہ میں ڈیڑھ صدا افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.اس عرصہ میں ہر ہفتہ کومشن ہاؤس کے سامنے شارع عام میں تبلیغی اجلاس منعقد کئے جاتے رہے جن میں لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.مکرم مولا نانیم سیفی صاحب ڈاکٹر محمد یوسف شاہ صاحب، امین صاحب، گیوا صاحب کی تقاریر ریڈیو پر نشر ہوئیں.3- مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب کی زیر ہدایت مکرم بشیر احمد صاحب شمس نے بعض مقامات کا دورہ کر کے معززین تک پیغام حق پہنچایا آپ کے ذریعہ 29 افراد داخل سلسلہ ہوئے.4- شمالی نائیجیریا کے وزیر صحت کی خدمت میں مشن کی طرف سے قرآن مجید انگریزی اور بعض دیگر اسلامی کتب بھجوائی گئیں جس کے جواب میں انہوں نے مولانا نسیم سیفی صاحب کی خدمت

Page 641

تاریخ احمدیت 632 جلد 21 میں اپنے خط میں لکھا.اسلام کی وہ جلیل القدر خدمات جو آپ لوگ نائیجیریا میں بجا لا رہے ہیں اس درجہ کامیاب ہیں کہ بے اختیار دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور انسانیت کی خدمت کے اس اعلیٰ مقصد میں ہمیشہ ہمیش بے نظیر کامیابی عطا فرما تا رہے.مجھے ہمیشہ قرآن مجید پڑھ کر مسرت حاصل ہوتی ہے اور اسلامی اصول کی فلاسفی تو ایک ایسی کتاب ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ ہر اس غیر مسلم کے لئے بھی جو غور و فکر سے کام لے ایک بیش قیمت خزانہ ثابت ہو چکی ہے.سہ ماہی دوم 6 مشن کی طرف سے مولانا نسیم سیفی صاحب کا مرتبہ پمفلٹ پانچ نکات دس ہزار کی تعداد میں " شائع ہوا " Presenting Islam To The Christians “ دو ہزار نیز” Hazrat Ahmad‘ پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوئے.ریڈ یونائیجیریا سے تین خطبات جمعہ نشر ہوئے اسی طرح ریڈ یو نے 6دفعہ مولا نانسیم سیفی صاحب کے سوال و جواب کو نشر کیا.کنگز کالج کے بعض طلباء مشن ہاؤس آئے جن کے سوالوں کے جواب دیئے گئے اور لٹریچر پیش کیا گیا.اسی کالج کے مجلس مذاکرہ میں مولانا سیفی صاح نے اسلامی نقطہ نگاہ پیش کیا.اس دوران 6 افراد نے بیعت کی.سه ماهی سوم ریڈ یونا یجیریا سے تین دفعہ خطبہ نشر ہوا.یہ خطبات جمعہ مولانا سیم سیفی صاحب نے دیئے تھے آپ کی تقاریر ریڈیو سے اور ایک تقریر ٹی وی سے نشر ہوئی.نیز تین مرتبہ سوالوں کے جواب ریڈیو سے نشر ہوئے.آپ نے مقامی کلب کے ممبروں کی دعوت پر کلب میں دعا کے بارہ میں اسلامی نقطہ نگاہ پیش کیا.دو مقامی احمدی بھائیوں اور مکرم چوہدری رشید الدین صاحب نے بھی ریڈیو پر دو تقاریر کیں.نائیجیریا میں اردن کے سفیر جناب شریف کامل صاحب کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا گیا.جنوبی افریقہ کے اخبار مسلم نیوز کے ایڈیٹر اور دو پاکستانی ایجوکیشن آفیسرز کی خدمت میں لٹریچر بھجوایا گیا.مشن کی طرف سے دو ٹریکٹ بھی شائع ہوئے.ہندوستانی وزیر اعظم پنڈت جو ہر لعل نہرو کی نائیجیریا آمد پر ہندوستانی ہائی کمشنر نے ایک پارٹی کا اہتمام کیا جس میں مبلغین اور جماعت کے دیگر افراد مدعو تھے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت کی طرف سے ہائی کمشنر کے ذریعہ پنڈت نہرو کی خدمت میں قرآن مجید اور اسلامی اصول کی فلاسفی پیش کی

Page 642

تاریخ احمدیت 633 جلد 21 357 گئی.مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب، چوہدری رشید الدین صاحب اور ڈاکٹر محمد یوسف شاہ صاحب انچارج احمد یہ ڈسپنسری لیگوس دو مقامی احباب کی معیت میں ایک قصبہ Otta Aggeye میں تشریف لے گئے.دو جگہ تقاریر کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا.سوالوں کے جواب دیئے لٹریچر تقسیم کیا گیا.حکومت نائیجیریا کے ایک وزیر مسٹر الحاج شیو شکاری کی خدمت میں مولانا نسیم سیفی صاحب نے ایک تبلیغی خط لکھا اور بعض کتب بھجوائیں.وزیر موصوف نے اسکا شکر یہ ادا کیا.جماعت احمدیہ نائیجیریا کی سالانہ کانفرنس 27, 28 دسمبر کو منعقد ہوئی کانفرنس کا افتتاح مکرم مولانا نور محمد صاحب نیم سیفی امیر و مبلغ انچارج نائیجیریا نے کیا اس کے علاوہ درج ذیل احباب نے خطاب کیا.1 - الحاج فیض الحق صاحب مبلغ شمالی نائیجیریا 2.مسٹر اے.آر.اے.اوتول(A.R.A.Otule) سیکرٹری جنرل جماعت نائیجیریا.3-اے بی ڈانمولا ( A.B.Dan mola) مقامی معلم.4.مسٹر ا قبال سیفی.5.ایچ.او سانیالو (H.Sanyalu) مقامی معلم.6.مکرم بشیر احمد صاحب شمس - 7 - مکرم قریشی فیروز محی الدین صاحب 8- عبدالمجید صاحب بھٹی پرنسپل ٹیچر ٹرینگ کالج.9.مسٹر رشید - 10- ایس بی گیوا (S.B.Giwa) -11- مکرم چوہدری رشید الدین صاحب نے اپنے خطاب میں بتایا کہ مشرقی نائیجیریا کے 26 خاندان ایک سال کے عرصہ میں داخل احمد بیت ہوئے.12.کرنل ڈاکٹر محمد یوسف شاہ صاحب.کانفرنس کے دوران شوری کا اجلاس کے متعلق مولانا نسیم سیفی صاحب کا انٹرویو ریڈیو نائیجیریا نے نشر کیا.سیرالیون جنوری تا اپریل 1962ء 1 - مکرم مولوی محمد صدیق شاهد صاحب امیر ومشنری انچارج سیرالیون نے ڈپٹی برٹش ہائی کم امریکن سفیر متعین سیرالیون ، امریکن ایجوکیشن ڈائریکٹر سے ملاقات کر کے انکی خدمت میں اسلامی لٹریچر پیش کیا موصوف اور شیخ نصیر الدین احمد صاحب نیز مسٹر بونگے فری ٹاؤن کے میئر کو نیز امیر صاحب و شیخ صاحب نے پیراماؤنٹ چیف کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا.مکرم امیر صاحب کا خطبہ جمعہ تین بار ریڈیو پر نشر ہوا.آپ نے بعض مقامات کا دورہ کیا جس کے دوران پر کاک نامی گاؤں میں دس افراد پر مشتمل ایک جماعت قائم ہوئی.کسی (Kissi) میں 3، ایک گاؤں میں 29 اور ایک میں 13 افراد نے بیعت کی.علاوہ ازیں امیر

Page 643

تاریخ احمدیت 634 جلد 21 صاحب نے بو، باجے بو، بلاما، سرابو، کینما، بیلے، باڈو، مگبور کا، مکالی اور سنگینی کا دورہ کیا.لندن سے اسلام کے خلاف ایک نہایت دل آزار کتاب "عائشہ نامی شائع ہوئی یہ کتاب فری ٹاؤن میں بھی فروخت ہو رہی تھی.احمد یہ مشن سرالیون کے امیر نے اس کے خلاف موثر احتجاج کیا اور حکومت کو توجہ دلائی چنانچہ حکومت نے اس کتاب کی فروخت بند کرا دی اس پر سیرالیون کے مسلمانوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور اعتراف کیا کہ احمدی مجاہدین نے اسلام کے ساتھ کچی محبت اور غیرت کا ثبوت دیا ہے.2- مکرم میر غلام احمد صاحب نسیم نے ” بو کے متعدد افراد میں انگریزی و عربی لٹریچر تقسیم کیا.ان میں ایک اسسٹنٹ ڈی سی بھی شامل تھے.انہوں نے جماعتی لٹریچر کے مطالعہ کے بعد کہا ” احمد یہ لٹریچر کے ذریعے مجھے علم ہوا ہے کہ اسلام واقعی ایک سادہ اور لاثانی مذہب ہے اور اس کے مقابلہ میں عیسائیت کی کوئی حیثیت نہیں.اسلامی تعلیمات میں دنیا کے ہر مسئلہ کا حل موجود ہے.....احمدیت کے ذریعہ ایسا لٹریچر بھی ظہور میں آچکا ہے جسکو ہر انگریزی پڑھا لکھا آدمی با آسانی اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہوسکتا ہے.مکرم ملک غلام نبی صاحب نے بعض شامی اور افریقن تجار سے ملاقاتیں کر کے ان کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا آپ نے ایک امریکی جرنلسٹ کی خدمت میں اسلامی کتب کا ایک سیٹ پیش کیا جسے اس نے قبول کرتے ہوئے کہا میرے لئے یہ ایک گراں قدر تحفہ ہے.-4- مکرم مولوی اقبال احمد صاحب نے مگبور کا کے قریب ایک صد ا حباب کو اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا جن میں ایک پیرا ماونٹ چیف بھی شامل ہے آپ نے شمالی صوبہ کے متعدد مقامات کا دورہ کیا جن میں مکینی ، پورٹ لوکو، روکو پور، یونی با نا، پھیلے ہنٹینی شامل ہیں.ان مقامات پر لیکچروں کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا.-5- تین لوکل مبلغ مکرم مولوی غلام احمد صاحب نسیم کی زیر ہدایت مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لئے گئے ان میں سے ایک مبلغ الفاڈے کو نمایاں کامیابی ہوئی ان کے ذریعہ 20 افراد پر مشتمل ایک نئی جماعت قائم ہوئی اس عرصہ میں کل 109 افراد داخل سلسلہ ہوئے اور چار نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.0 6 جولائی کومکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کی ایک تقریر ریڈیو سے نشر ہوئی.مئی تا جولائی 361 360 مکرم مولوی محمد صدیق صاحب شاہد نے متحدہ عرب جمہور یہ اور نائیجیریا کے سفیروں سیکرٹریوں، امریکن مشن چرچ آف گاڈ کے وفد ، ایک عیسائی وفد سکول و کالج کے بعض طلباء، وزیر تعلیم ، وزیر

Page 644

تاریخ احمدیت 635 جلد 21 مواصلات، وزیر تجارت اور سیکرٹری وزارت مال کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا.موصوف نے یوم جمہوریہ کی ایک تقریب میں شرکت کی جس میں وزیر تعلیم نے جماعت احمدیہ کے بارہ میں کہا ” اب تک ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں صرف احمد یہ مشن ہی ہے جو تعلیمی میدان میں ہماری قابل قدر مدد کر رہا ہے.آپنے میڈ نگو قبیلہ کے جلسہ میں ” اسلام اور سیاست پر تقریر کی.اس قبیلہ کے امام نے جماعت احمدیہ کے بارہ میں مشن میں آکر جماعتی لٹریچر پر حسب ذیل رائے کا اظہار کیا.جو اسلام احمدی لٹریچر میں ہے وہ ہم مصری کتابوں سے نہیں سیکھ سکتے اب تک ہم سمجھتے رہے ہیں کہ اسلام عربوں سے سیکھیں گے مگر اب معلوم ہوا ہے کہ وہ اب اس میدان کے آدمی نہیں رہے اس میدان میں ماہر اور کامیاب احمدی ہی ہیں.“ 2- مکرم مولوی غلام احمد صاحب نسیم نے 20 جماعتوں کا دورہ کیا.تین پبلک لیکچر دیئے.سینکڑوں میل تبلیغی سفر کیا آپ نے کینما کے ایک صوبائی وزیر سے ملاقات کی جس نے جماعت کی عظمت کا ان الفاظ میں اعتراف کیا.اگر احمدیت اس ملک میں بر وقت نہ آتی تو نہ جانے مسلمانوں کی کیا حالت ہوتی کیونکہ ایک طرف تو عیسائی اسلام پر پوری طرح مسلح ہو کر حملہ آور تھے اور دوسری طرف مسلمان لیڈروں نے اسلامی تعلیمات کو اس طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا کہ بجائے کشش کے ایک طبقہ اس سے متنفر ہورہا تھا مگر احمد یہ جماعت نے آکر اسلامی تعلیمات کو انکی صحیح شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا.“ 3 مکرم حافظ بشیر الدین صاحب نے تقسیم لٹریچر اور پبلک جلسوں کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا.-4 مکرم مولوی غلام نبی صاحب نے بعض جماعتوں کا دورہ کیا.چار پیرامونٹ چیفس کو لٹریچر دیا.5 مکرم مولوی اقبال احمد صاحب نے لوکل مبلغین کے ہمرا ہ 120 مقامات کا دورہ کیا مگبور کا کے متعد دسکولوں میں لیکچر دیئے اور مصری ٹیچروں کو سلسلہ کا لٹریچر دیا.جملہ مبلغین کی مساعی کے نتیجہ میں 96 افراد داخل سلسلہ ہوئے.362- اگست تا اکتوبر 1 - مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کے حلقہ میں دو مرتبہ اجتماعی طور پر یوم تبلیغ “ منایا گیا.جس میں احباب جماعت کے علاوہ سکول کے بچوں نے بھی حصہ لیا.سلسلہ کا لٹریچر اور پمفلٹ بکثرت تقسیم کئے گئے.دو جلسے منعقد کئے گئے جس میں جماعت کے چار مقررین نے حصہ لیا اور مختلف مسائل پر روشنی ڈالی.غیر از جماعت احباب نے بھی ان جلسوں میں شرکت کی آپنے لسٹر اور گلوسٹر کی جماعتوں کا دورہ کیا.

Page 645

تاریخ احمدیت 636 جلد 21 اس دوران میلادالنبی کا جلسہ منعقد کیا گیا جس میں عیسائی مرد و خواتین نے کثرت سے شرکت کی.آپ نے 363 دومرتبہ ریڈیو پر تقاریر کیں.گنی کے وزیر داخلہ جیلو عبدالرحمان کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا.2 مکرم مولوی محمد صدیق صاحب شاہد نے غانا کے ہائی کمشنر کو قرآن کریم اور دیگر کتب پیش کیں.3- مکرم مولوی اقبال احمد صاحب نے ایک عیسائی کو کتاب دی وہ بہت متاثر ہوا.آپ نے بعض افراد سے حیات مسیح اور مسیح موعود کی آمد پر بحث کی.لٹریچر بکثرت تقسیم کیا.بعض مقامات کے دورے کر کے لیکچر دیئے اور چیفس کو تبلیغ کی.4- مکرم مولوی غلام نبی صاحب نے مولوی عبد القدیر صاحب کے ہمراہ سیر میکولیا کی جماعت کا دورہ کیا واپسی پر بعض چیفس کو تبلیغ کی.آپ نے ایک عیسائی سکول کے دو لیکچراروں سے ہیں پچپیس آدمیوں کے مجمع میں مسیح کی صلیبی موت کے بارہ میں گفتگو کی.مالکی فرقہ کی ایک میٹنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر روشنی ڈالی.11 افراد کولٹریچر دیا ساڑھے پانچ سومیل سفر کیا.جماعت احمد یہ سیرالیون کی سالانہ کانفرنس 7, 8, 9 دسمبر 1962 ء کو منعقد ہوئی.کانفرنس کا افتتاح وائس پریذیڈنٹ جماعت ہائے احمد یہ سیرالیون پیرامونٹ چیف ناصرالدین صاحب گمانگا نے کیا.آپ نے افتتاحی خطاب کے بعد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں احباب کو قربانیوں اور اسلامی تعلیمات کا نمونہ بنے کی تلقین کی گئی تھی.علاوہ ازیں درج ذیل افراد نے تقاریر کیں.1 - مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم انچارج غانا مشن سیرالیون کی جماعت کی دعوت پر خاص نمائندے کے طور پر غانا سے تشریف لائے.2- حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب.3.مکرم حمید اللہ ظفر صاحب.4.مکرم مولوی صدیق احمد صاحب شاہد.5.موسیٰ سواد صاحب لوکل مبلغ - 6- مکرم مولوی غلام احمد نسیم صاحب.7.مسٹر مگبا کمارا (MAGBAA KAMARA)8- محمد آرتھر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ غانا ( نمائند غانا ) 9.مسٹر بونگے (Bongay) نے مشن کی رپورٹ میں بتایا کہ دوران سال کبالہ میں 2 نئے سکول جاری کئے گئے.6 خطبات جمعہ ریڈیو سیرالیون سے نشر ہوئے.280 افراد نے بیعت کی اور بعض نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.10.مکرم مولوی مبارک احمد صاحب ساقی انچارج مشن لائبیریا.آپ لائبیریا سے خصوصی دعوت پر سیرالیون کانفرنس میں شامل ہوئے.11- الحاج علی روجرز - 12- معلم شریف عباس صاحب.13.مسٹر S.M.Joe معلم سیکنڈری سکول.14.سمیع اللہ صاحب سیال-15- نمائندہ جرمن نومسلم ناصر نکولسکی.16- مکرم منور احمد ایم ایس سی.17.مسٹر کول امام احمد یہ مسجد فری ٹاؤن - 18- ایم ایس کٹیا صدر جماعت احمد یہ گیمبیا.19- آنریبل

Page 646

تاریخ احمدیت 637 جلد 21 ایم ایس مصطفی نائب وزیر اعظم و وزیر صنعت حکومت سیرالیون نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: جماعت احمدیہ کا وجود اس ملک میں اسلام کے لئے ایک بہت بڑی طاقت کا موجب ہے لائبیریا 364 اس جماعت نے اسلام کی جس طرح خدمت کی ہے صدیوں سے کسی نے نہیں کی.20.میئر آف فری ٹاؤن اے.ایف رحمان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: احمد یہ جماعت گذشتہ تمیں سال سے اس ملک میں نہایت کامیابی کے ساتھ مذہبی تعلیمی اور ثقافتی کام کر رہی ہے ہم جماعت کے اس کام کے لئے جو وہ ملک کی بہبود کے لئے کر رہی ہے بہت زیادہ ممنون ہیں.جب سے احمد یہ جماعت کا قیام سیرالیون میں ہوا ہے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں اسلام کا مطالعہ کرنے کا رجحان کافی حد تک بڑھ گیا ہے اور اب سارے ملک میں لوگ اسلام کی تعلیم کی طرف توجہ دے رہے ہیں جماعت کا پریس ملک کی نہایت ہی اہم ضرورت کو پورا کر رہا ہے....تعلیمی میدان میں جماعت کی خدمات بھی قابل قدر ہیں متعدد پرائمری سکولوں کے علاوہ سیکنڈری سکول کھول کر ملک کی ایک ایسی ضرورت کو پوری کیا گیا ہے جو دیر سے محسوس کی جارہی تھی.سارے ملک میں مسلمانوں کا یہ واحد سیکنڈری سکول ہے جو بڑی کامیابی سے تعلیم کے علاوہ مذہبی تعلیم بھی دے رہا ہے.احمد یہ جماعت ایک خالصہ مذہبی جماعت ہے اور یہی اصول ان کی کامیابی کا راز ہے مذہبی امور کے علاوہ انسانی ضرورت کی طرف بھی جماعت توجہ دے رہی ہے چنانچہ کچھ عرصہ ہوا ایک ڈاکٹر اس ملک میں طبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھجوایا گیا الغرض یہ جماعت نہایت اہم اسلامی خدمات ادا کر رہی ہے.“ دوران کانفرنس شوریٰ کا اجلاس بھی ہوا نیز ریڈیو اور اخبارات نے کانفرنس کی خبر میں دیں.1.سب سے پہلے روسی (میجر یوری گاگرین) جنہوں نے خلاء میں سفر کیا پانچ روز کے دورہ پر جنوری 1962ء کولائبیریا تشریف لائے.ان کی پارٹی آٹھ افراد پر مشتمل تھی.مکرم مبارک احمد صاحب ساقی نے موصوف سے ملاقات کی جماعت کا تعارف کرایا اور ان کی خدمت میں اسلامی کتب پیش کیں.100 2- ساقی صاحب نے لائبیریا ریڈیو اسٹیشن سے نشر کئے جانے والے ایک مباحثہ میں حصہ لیا موصوف نے مختلف مقامات پر جا کر لٹریچر تقسیم کیا اور تقاریر کے ذریعہ بھی پیغام حق پہنچایا.ایک گاؤں کے

Page 647

تاریخ احمدیت 638 جلد 21 لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک گھنٹہ تک تقریر کی اور سوالوں کے جواب دیئے.منروویا کے امیگریشن آفیسر کو مشن کی غرض و غایت بیان کی اور ان کی خدمت میں قرآن مجید اور دیگر کتب کا تحفہ پیش کیا علاوہ ازیں آپ نے 367 فنانشل ایڈوائزر، کلکٹر آف انٹرنل ریونیو، کلکٹر آف کسٹم، ایجوکیشن آفیسر کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا.3 مکرم ساقی صاحب فوجی ہیڈ کوارٹر بار کلے ٹریننگ سنٹر میں متعدد بار تشریف لے گئے اور اسلام کے متعلق مختلف موضوعات پر لیکچر دے کر سوالوں کے جواب دیئے آپ منروویا سے باہر دیہاتوں میں متعدد بار تشریف لے جاتے رہے تقاریر کے بعد حاضرین میں لٹریچر تقسیم کیا.ایک دفعہ سوالوں کے جواب بھی دیئے.آپ نے ایک عیسائی مبلغ سے ڈھائی گھنٹے تک تبادلہ خیال کیا.368 مشرقی افریقہ مغربی افریقہ کی طرح مشرقی افریقہ میں بھی مبشرین احمدیت کی مساعی اس زور شور سے جاری رہیں کہ اسلام واحمدیت کی روز افزوں ترقی کو دیکھ کر عیسائی حلقوں میں شدید اضطراب کے آثار پیدا ہونے شروع ہو گئے.چنانچہ ملک کے ممتاز اخبار ممباسہ ٹائمز (Mombasa Times) نے 21 جون 1962 ء کی اشاعت میں واضح طور پر لکھا کہ افریقہ میں مسلمان مبلغین ہمارے عیسائی مشنریز کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تیز رفتاری سے لوگوں کو اسلام کا حلقہ بگوش بنارہے ہیں.نیز بتایا ” بہت سے مبصرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر عیسائیت نے خطرہ کا پورے طور پر احساس نہ کیا تو اسلام بآسانی سارے افریقہ کا مذہب بن جائے گا.تانگانیکا جنوری 1962 ء میں مکرم مولوی محمد منور صاحب مشنری انچارج تانگانیکا نے جنوبی افریقہ سے انڈیا جانے والے دس مسافروں تک پیغام حق پہنچایا.اس ماہ ٹانگانیکا میں 14 افراد داخل سلسلہ ہوئے.0 دوسری سہ ماہی 370- مبلغین نے ہر طبقہ کے افراد کو پیغام حق پہنچانے کی بھر پور کوشش کی چنانچہ لٹریچر تقسیم کیا گیا.سیکنڈری سکول میں 5 تقاریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے گئے.احمد یہ مسلم لٹریری سوسائٹی کے تحت ایک جلسہ میں بھی 2 تقاریر کی گئیں.بعض ہندووں اور سکھوں کو بھی تبلیغ کی گئی.ایک افریقن کی طرف سے 20 ہزار کی تعداد میں پمفلٹ شائع ہوا.پنگالے میں تعلیم الاسلام پرائمری سکول جاری ہوا.ان کوششوں

Page 648

تاریخ احمدیت 639 جلد 21 میں برکت پڑی اور 45 افراد داخل احمدیت ہوئے.جولائی 1962ء 1 - مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب نے 96 میل سفر کر کے 6 دیہات میں 78 افراد تک پیغام اسلام پہنچایا.600 پمفلٹ تقسیم کئے.موصوف نے وزیر قانون کے چھوٹے بھائی مسٹر ہارون سعیدی فنڈ یکیرا کو دو گھنٹے تک تبلیغ کی.آپ نے ٹورا کے مشنری سکول میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے جیل خانہ کے 28 قیدیوں کے سامنے تقریر کی US Soke میں افریقن مسلمان معلمین اور لیڈروں کی کانفرنس میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.آپ نے ایک روسی پروفیسر کو تر جمہ قرآن اور دیگر لٹریچر دیا.اسرائیل و فرانس کے سفیروں کو جماعت سے متعارف کرایا.2 مکرم جمیل الرحمن صاحب رفیق نے ٹانگا نیگا کی مختلف جماعتوں کا دورہ کیا.دورہ میں متعدد ہندووں ،سکھوں ،مسلمانوں اور عیسائیوں کو پیغام حق پہنچایا.8 سو میل سفر کیا اور 4 ہزار پمفلٹ تقسیم کئے آپ نے اور مولانا محمد منور نے ایک افریقن شیخ ، دو اسماعیلی دوستوں سے طویل گفتگو کی ، ان کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا گیا.مکرم جمیل الرحمن صاحب نے کیرالہ سٹیٹ کے ایک دوست کولٹریچر دیا.ایک افریقن کو اسلام کی تبلیغ کی.مورد گورو میں آپ نے ایک سکول ٹیچر اور ایک سکھ سے تین گھنٹے تک گفتگو کے ذریعہ پیغام احمدیت پہنچایا.ایک اور ٹیچر کو صداقت احمدیت پر گفتگو کے بعد لٹریچر دیا.آپ نے ڈوڈومہ اور ار نگا کے سکھ گوردواروں ، مورو گورو کے سیکنڈری سکول اور ارنگا کے ایک سکول میں تقاریر کیں.ڈوڈومہ میں آپ کی تقریر ایک سو سکھوں نے نہایت توجہ سے سنی.تقریر کے بعد صدر مجلس نے کہا: ڈوڈومہ کی ساری سکھ کمیونٹی تمام جماعت احمدیہ کو مبارکباد دیتی ہے جس کے مبلغ بڑی رواداری اور سنجیدگی کے ساتھ دوسرے مذاہب کا بھی مطالعہ کرتے ہیں چنانچہ آج کی تقریر اس بات کا عملی ثبوت ہے.ہم اس وجہ سے جماعت احمدیہ کے بہت ممنون ہیں.“ 3- آنریری معلم مکرم رشیدی صالح صاحب نے 38 میل سفر کر کے مختلف دوستوں تک پیغام حق پہنچایا.اس عرصہ میں 7 افراد جماعت میں داخل ہوئے.اگست ستمبر -1 مکرم مولوی جمیل الرحمن صاحب رفیق نے 25 اگست کو احمد یہ مسلم لٹریری سوسائٹی کے اجلاس میں انگریزی میں تقریر کی.جس میں تین غیر از جماعت بھی شامل ہوئے بعد ازاں نصف گھنٹہ تک سوالوں

Page 649

تاریخ احمدیت 640 جلد 21 کے جواب دئیے آپ نے گوا کے ایک عیسائی دوست کو تبادلہ خیالات کے بعد لٹریچر دیاKinondoni کے علاقہ میں متعدد افراد کو لٹریچر دیا آپ نے معلم عبدہ عمران صاحب کے ہمراہ مارکیٹ میں جا کر تبلیغ کی 100 افراد کے سوالوں کے جواب دیئے اور ان میں پمفلٹ تقسیم کئے.2- مکرم مولا نا محمد منور صاحب نے بعض جماعتوں کا درہ کیا جس کے دوران 5 افراد سے آپ کا تبادلہ خیالات ہوا آپ کی ایک تقریر میں 60 غیر از جماعت شامل ہوئے.4 اور 7 ستمبر کو آپ نے گورنمنٹ سیکنڈری سکول کے طلبہ میں تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.موصوف نے ٹاپا (Tapa) کے سیکرٹری کو پیغام حق پہنچایا.3 مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب نے 500 میل تبلیغی سفر کر کے 200 پمفلٹ تقسیم کئے اور متعدد افراد تک پیغام حق پہنچایا ان میں نڈالا جابوٹو ، مویسی، نیابا، ڈیمینری، نریگا، ٹینڈے، اسا کا اور ٹبورا جبیل شامل ہیں.آپ نے عبورا کی مسجد اور سیکنڈری سکول، ایک گوردوارہ میں تقاریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.4- ایک معلم مکرم عبدہ عمران نے 50 افراد کے سامنے تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.مکرم چوہدری رشید احمد صاحب سرور نے متعدد احباب کو تبلیغ کی.مکرم حمیدی مبیا نا صاحب جنرل سیکرٹری نے ایک تقریر کے بعد سوالوں کے جواب دیئے.تقریر میں 4 غیر احمدی شامل ہوئے.مشن کی طرف سے سواحیلی کتاب اسباق الاسلام، پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی.51 افراد داخل احمدیت ہوئے.ایک روسی آفیسر تک پیغام حق 1962ء میں یوگنڈا مشن کے ایک اہم واقعہ کی رپورٹ چوہدری عنایت اللہ صاحب کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے:.1962ء میں جب یہ عاجز طبورا ( تنزانیہ ) میں تھا.خاکسار کو اس بات کا علم ہوا کہ کئی روسی باشندے حکومت تنزانیہ کے مختلف محکموں میں بطور مشیر کام کر رہے ہیں.تو عاجز نے ان کے ایڈریس حاصل کر کے بذریعہ ڈاک ان کو احمدیت کے متعلق لٹریچر بھجوانا شروع کیا لیکن کسی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا بلکہ بعض کی طرف سے تو لٹریچر واپس کر دیا گیا.روس سے ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود چونکہ میں نے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ارشاد سنا تھا کہ حضور نے زار روس کا سونٹا اپنے ہاتھ میں دیکھا اور فرمایا تھا کہ روس میں جماعت احمد یہ ریت کے ذروں کی مانند ہے.اس لئے دل میں شدید خواہش تھی کہ کاش میں بھی کسی روی تک پیغام پہنچا سکوں چنانچہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس ناچیز کی خواہش کے پورا ہونے کے سامان

Page 650

تاریخ احمدیت 641 جلد 21 پیدا کر دئیے گئے.مجھے مکرم جناب شیخ امری عبیدی صاحب نے بتایا کہ ایک بہت قابل اور مشہور روسی لیڈر پروفیسر پوٹوخن صاحب جو ماسکو میں ڈائریکٹر آف افریقن انسٹی ٹیوٹ آف رشیا ہیں اور 35 برس سے براعظم افریقہ کے حالات کا مطالعہ کر رہے ہیں.دورہ پر تنزانیہ آئے ہوئے ہیں.یہ خبر پا کر میرے دل میں انہیں ملنے اور پیغام تو حید پہنچانے کی شدید خواہش پیدا ہوئی.آخر کار ایک روز وہ اپنے سیاسی دورہ پر ہمارے شہر بو را بھی پہنچ گئے.خبر پاتے ہی میں انہیں ملنے ہوٹل پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ ٹاؤن کو نسلر مسٹر ہنس راج (ہندو) کے ساتھ ان کی کار میں ابھی ہوٹل سے کہیں چلے گئے ہیں.میں سائیکل پر مسٹر ہنس راج کے مکان پر پہنچا وہاں بھی انہیں موجود نہ پایا.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین ( واحد حکمران سیاسی جماعت) کے دفاتر کے عقب میں پرائیویٹ احاطہ کے اندر ایک اجتماع کو خطاب کرنے گئے ہوئے ہیں یہ عاجز بھی سائیکل پر وہیں پہنچ گیا.حاضرین کی اکثریت سے عاجز کا کسی نہ کسی رنگ میں تعلق یا تعارف تھا.اس لئے منتظمین نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اس ناچیز خادم کو مجلس میں جگہ دے دی.اب مجلس میں صرف تین غیر ملکی تھے.روسی پروفیسر جو لیکچر دے رہے تھے کونسلر ہنس راج ہندو دکاندار ) جو تر جمان کے فرائض ادا کر رہے تھے اور سامعین میں یہ عاجز.افریقیوں میں زیادہ تعداد سیاسی لیڈروں کی تھی.کچھ پادری بھی عام لباس میں وہاں موجود تھے.میں بیٹھا خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتا رہا کہ اس روی لیڈ رتک پیغام حق پہنچانے کا موقع کسی نہ کسی طرح میسر آ جائے.خدا تعالیٰ کی قدرتیں عجیب ہیں.تقریر انگریزی زبان میں جاری تھی جس کا ترجمہ سواحیلی زبان میں مسٹر ہنس راج کر رہے تھے.میرے پہنچنے کے بعد مسٹر ہنس راج نے ترجمانی میں غلطیاں شروع کر دیں.انسانی قلوب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.جو نہی ترجمان کوئی غلطی کرتا انگریزی جاننے والے افریقن سب میری طرف دیکھنے لگ جاتے.حالانکہ میں سٹیج پر نہیں بلکہ مجلس کے پیچھے ایک طرف بیٹھا تھا.میں سارا نظارہ دیکھتا رہا انجام کار ترجمان نے ایک لفظ کا سواحیلی زبان میں ترجمہ نہ کر سکنے کے باعث خود ہاتھ سے میری طرف اشارہ کر کے مجھے ترجمانی کے فرائض ادا کرنے کی دعوت دے دی اور خاکسار مجلس کے پیچھے سے اٹھ کر سٹیج پر پہنچ گیا اور ترجمانی کے فرائض سر انجام دینے لگا.تقریر کے بعد سوالات کا موقع دیا گیا.پروفیسر صاحب سیاستدانوں کی طرح ہر سوال کا جواب گول مول دیتے تھے.لوگوں نے پھر میری طرف دیکھنا شروع کیا گویا کہ وہ بزبان حال مجھ سے سوالات کرنے کی درخواست کر رہے تھے.اس پر میں نے پروفیسر صاحب سے سوال کرنے کی اجازت چاہی.میں نے ان سے چند سوالات کئے جو یوں تھے.

Page 651

تاریخ احمدیت 642 جلد 21 سوال: کیا روس میں مذہبی آزادی ہے؟ جواب : جی ہاں.روس میں مسجدیں بھی ہیں گرجے بھی ہیں لوگ ان میں عبادت کرتے ہیں.سوال: جس طرح آپ ہمارے درمیان اپنے خیالات آزادی سے پھیلا رہے ہیں کیا روس میں مساجد اور گرجوں سے باہر عیسائیوں اور مسلمانوں کو اپنے خیالات کی اشاعت کی اجازت ہے؟ جواب نہیں.سوال: کیا روس جانے کے لئے آپ مجھے اجازت نامہ دلوا سکتے ہیں؟ جواب: اس کا جواب صرف ہما را روسی سفارتخانہ ہی دے سکتا ہے.ازاں بعد مجلس برخواست ہوگئی اور میں نے معزز مہمان مسٹر پوٹوشن صاحب کی خدمت میں درخواست کی کہ وہ کل ساڑھے چار بجے دوپہر میرے ساتھ احمد یہ مشن کے دفتر میں چائے نوش فرما ئیں اور نصف گھنٹہ ملاقات کا موقع دیں.انہوں نے مسٹر میڈینگے (Madenge) کی طرف ہاتھ کر کے (جواس وقت جلسہ کے صدر تھے.پروفشنل سیاسی جماعت کے سیکرٹری تھے ) فرمایا کہ میں آپ کی دعوت کو ضرور قبول کرتا لیکن مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس وقت نہیں اور میرا سارا پروگرام ان کے ہاتھ میں ہے ان کے منہ سے یہ آخری فقرہ نکلا ہی تھا کہ صاحب صدر نے اپنی جیب سے پروگرام نکال کر میز پر رکھ دیا اور اس پر غور کرنے لگے چندلمحات بعد انہوں نے معز ز روسی مہمان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کل بعد دو پہر دو بجے ہم چیف عبد اللہ سعیدی ( فونڈی کیرا) وزیر انصاف سے ملنے جارہے ہیں.وہاں سے نصف گھنٹہ پہلے آجائیں گے اور شیخ احمدی کے ہاں چائے پینے چلے جائیں گے چنانچہ پروفیسر صاحب نے خاکسار کی دعوت عصرانہ کو قبول کر لیا.میں نے چند انگریزی جاننے والوں کو بھی اس دعوت میں مدعو کر لیا.لیکن ہما را قا در خدا بڑی قدرتوں کا مالک ہے وہ جانتا ہے کہ نصف گھنٹے میں ایک احمدی کی پیاس دعوت الی اللہ نہیں بجھ سکتی اس نے کسی حد تک میری اس روحانی پیاس بھجانے کا عجیب سامان پیدا فرمایا.وہ مہمان جنہوں نے ساڑھے چار بجے آنا تھا پورے اڑھائی بجے میرے دفتر پہنچ گئے.نہ چائے تیار تھی نہ ہی کوئی احمدی دوست سوائے مکرم چوہدری رشید احمد صاحب سرور کے میرے پاس موجود تھا.ہم دونوں نے بڑھ کر معزز مہمانوں کا استقبال کیا.روسی پروفیسر صاحب کے ساتھ وہی ہندو دکاندار اور ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین کے جنرل سیکرٹری مسٹر میڈ ینگے اور ایک حکومت کی طرف سے پروٹوکول کے افسر، یہ چار افراد تھے.میں نے سواحیلی زبان میں مسٹر میڈ ینگے سے مقرر وقت سے دو گھنٹے قبل تشریف آوری کی وجہ دریافت کی.تو انہوں نے ہنس کر مجھے جواب دیا میرا جی بھی آپ کی گفتگو سنے کو چاہتا تھا اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وزیر انصاف کے ہاں جانے سے قبل احتیاطاً میں نے انہیں

Page 652

تاریخ احمدیت 643 جلد 21 ٹیلی فون پر اطلاع دینا چاہی کہ ہم پروگرام کے مطابق آرہے ہیں تو ان کی اہلیہ صاحبہ نے جواب دیا کہ ”وزیر صاحب تو کل فلاں جگہ گئے تھے اور ابھی تک وہاں سے واپس تشریف نہیں لائے.اسلئے میں نے موقع غنیمت جانا اور جناب پوٹو خن کو آپ کے پاس لے آیا ہوں.اب آپ جی بھر کر باتیں کرلیں.میں نے دوستوں کو پیغام بھجوایا دیا کہ معزز مہمان تشریف لے آئے ہیں اور خود ان سے محو گفتگو ہو گیا.جب خاکسار نے ان کو کرسی پیش کی تو انہوں نے بڑی بے تکلفی سے بیٹھتے ہوئے کہا کہ میں خدا کے وجود کا بالکل قائل نہیں.میں نے ادب سے عرض کیا کہ آپ تشریف تو رکھیں.اور ہمیں بھی کچھ بتا ئیں آخر آپ کیوں قائل نہیں.کہنے لگے مذہب جو ہے یہ سرمایہ داروں کا بنایا ہوا ہے اور غریبوں کا خون چوسنے کے لئے ہے.میں نے عرض کیا اس کا کوئی ثبوت.روسی پروفیسر صاحب نے جواب دیا.میرے والد صاحب عیسائی پادری تھے اور میں بھی پادری بننے کے لئے تربیت حاصل کر رہا تھا.جب 1917ء میں ہمارے ملک میں انقلاب آیا تو پادریوں نے سرمایہ داروں کا ساتھ دیا اس وقت سے ہم مذہب سے بے زار ہیں.مجھے ان پر رحم آیا اور عرض کیا کہ اگر مجھے ایک طبیب سے علاج کروانے پر شفا حاصل نہ ہوتو کیا میں تمام اطباء سے بے زاری کا اعلان کر دوں گا.یا دوسرے طبیب کی طرف رجوع کرونگا.روسی پروفیسر: دوسروں کی طرف رجوع کریں گے.تب میں نے کہا بائیبل نے آپ کو شفا نہ دی تو آپ نے قرآن کریم کا نسخہ بھی نہ آزمایا.روسی پروفیسر بائیبل ، قرآن سب ایک جیسی چیزیں ہیں کون جانے کس نے لکھی ہیں.عاجز نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا یہ میرے پاس مختلف بائبلیں پڑی ہیں ان کے متن میں فرق ہے لیکن قرآن کریم 14 سو سال سے جوں کا توں ہے.اسکے متن میں مطلقاً کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.آپ کیسے کہتے ہیں کہ دونوں کتا بیں ایک ہی قسم کی ہیں.روی پروفیسر : مجھے افسوس ہے کہ مجھے اس کا علم نہ تھا.روسی پروفیسر نے ( دوبارہ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے ) کہا کہ جو کام ہمارے ملک میں کمیونزم نے ایک مختصر عرصہ میں کر لیا ہے وہ آپ ایک لمبے عرصے میں نہیں کر سکے.میں نے عرض کیا آپ کے اور ہمارے کام کی نوعیت میں زمین و آسمان کا فرق ہے.آپ لوگ نفرت پھیلائے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہوتے اور ظاہر ہے کہ نفرت پھیلا ناسب سے آسان کام ہے.آپ نے ایک طبقہ کے خلاف نفرت پھیلائی اور طاقت کے زور پر انقلاب برپا کر دیا اور ہر قسم کی

Page 653

تاریخ احمدیت 644 جلد 21 آزادی ضمیر تحریر و تقریر سلب کر کے اپنا کام چلا رہے ہیں.لیکن ہمارا کام نفرت کو دور کرنا اور محبت کو پھیلانا ہے جو نسبتاً بہت مشکل کام ہے اور پھر ہمارا دین کسی کی آزادی ضمیر کو کچلنے کے لئے طاقت کے استعمال کی بھی اجازت نہیں دیتا.عاجز نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے روسی پر و فیسر کو یقین دلایا کہ دین حق ہمارے دل میں دنیا کے ہر شخص اور قوم کیلئے محبت اور خیر خواہی کو جنم دیتا ہے.لہذا ہمیں روسیوں سے بھی ویسی ہی محبت ہے جیسا کہ عربوں، عجمیوں ، افریقتوں ، امریکنوں ، انگریزوں، فرانسیسیوں ، چینی اور جاپانیوں وغیرہ کے ساتھ ہے اور یہ نعمت دین حق سے باہر کہیں نہیں ملتی.ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت میں یہ ناچیز انہیں جو دلیل قرآن مجید یا بائیبل سے دیتا تو وہ بڑی بے پرواہی اور بے رغبتی سے سننے سے انکار کر دیتے اور یہ کہتے کہ یہ پرانی کتابیں ہیں اور میں پرانے قصے سننے کے لئے تیار نہیں.تب اس ناچیز نے حضرت اقدس بانی سلسلہ کے نشانات کا ذکر شروع کیا.تو انہوں نے کہا کہ کیا مرز اغلام احمد زندہ ہیں میں نے عرض کیا کہ 1908ء میں وفات پاگئے ہیں.لیکن ان کی اپنی تصانیف اور ان کے رفقاء موجود ہیں.اس پر بھی انہوں نے یہی جواب دیا کہ یہ پرانی باتیں ہیں.مجبوراً انہیں سمجھانے کے لئے بات کا پہلو بدلنا پڑا میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور مکرم شیخ امری عبیدی صاحب وزیر تنزانیہ کو جانتے ہیں اس کا انہوں نے اثبات میں جواب دیا.چنانچہ میں نے ان کو دو ذاتی مندرجہ ذیل مشاہدات بتائے اور کہا کہ آپ خود خط لکھ کر ان دو بزرگوں سے تصدیق کروا سکتے ہیں.میں نے انہیں بتایا کہ غالباً 1952ء میں جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جوان دنوں پاکستان کے وزیر خارجہ اور یو این او میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کے مقابلہ میں عربوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے وکالت کر رہے تھے.عبورا میں اسی کرسی پر بیٹھے ہوئے اس ناچیز کے دل پر القاء ہوا کہ مکرم جناب چوہدری صاحب خطرہ میں ہیں.ان کو اپنی حفاظت کا انتظام کرنا چاہیے.اسی وقت میں نے ابروگرام پر اپنی زندگی میں پہلا خط مکرم چوہدری صاحب کو لکھ کر ان کی خدمت میں درخواست کی کہ وہ خطرہ میں ہیں اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کا انتظام فرمائیں.خط لکھ کر پوسٹ کر دیا گیا.میں امریکہ سے ہزاروں میل دور تھا.مکرم چوہدری صاحب سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ تھا اور میرا خط بھی ابھی چوہدری صاحب کے ہاتھوں میں نہ پہنچا تھا کہ انہیں امریکہ کے اندر سے لکھے ہوئے گمنام قتل کی

Page 654

تاریخ احمدیت 645 جلد 21 دھمکیوں پر مشتمل خطوط ملنے شروع ہو گئے اور دنیا کے ریڈیو پر یہ خبر نشر ہوگئی.لیکن اس بے نفس اور باخدا انسان کا خدا تعالیٰ پر کامل بھروسہ تھا اور کوئی خوف نہ تھا.جبکہ حکومت امریکہ اور پاکستانی سفارتخانہ کی طرف سے ان کی حفاظت کا انتظام پیش کیا گیا لیکن چوہدری صاحب نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی.لیکن اس خادم احمدیت کا خط ملنے پر اللہ تعالیٰ کی خاطر حفاظتی انتظامات کر نیکی اجازت دے دی.پھر اسی طرح 1963ء کا واقعہ ہے مکرم شیخ امری عبیدی صاحب تنزانیہ کے ویسٹرن ریجن میں پرونشل کمشنر تھے.بے حد تقوی شعار اور پر ہیز گار انسان تھے.اللہ تعالیٰ نے اس ناچیز کو ان کا مقام ایک عالی شان عمارت کی شکل میں دکھایا.جو خو بصورت بلند اور کشادہ کمروں والی تھی.اور اس میں روشنی کا بہت عمدہ انتظام تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس مکان کی نگرانی میرے سپرد ہے اور صاحب مکان کہیں سفر پر گئے ہوئے ہیں جس پر اس گہنگار کو احمدیت کی برکت سے یہ القاء ہوا کہ امری عبیدی صاحب کو وزیر مقرر کیا گیا ہے چنانچہ میں نے مکرم امری عبیدی صاحب اور بعض دوسرے دوستوں کو اس کی طلاع دے دی.قریباً ایک برس بعد جب امری صاحب کہیں سرکاری دورہ پر تشریف لے گئے ہوئے تھے ان کی غیر حاضری میں حکومت کی طرف سے ان کو ترقی دے کر وزیر مقرر کر دیا گیا اور ہم نے ریڈیو پر یہ اعلان سنا.سیہ دو واقعات سنانے کے بعد میں نے روسی پر و فیسر صاحب سے دریافت کیا کہ اگر خدا تعالیٰ کی ذات نہیں ہے جس نے مجھے یہ دونشانات بتائے تھے تو یہ واقعات کیسے رونما ہوئے.اس پر وہ خاموش ہو گئے.پھر میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر احمدیت کی برکت سے میرے جیسے کمزور احمدی پر بھی اللہ تعالیٰ فضل فرما سکتا ہے.تو آپ مجھے اجازت دیں کہ آپ کو حضرت اقدس بانی سلسلہ کی وہ پیشگوئیاں بتاؤں جن کا تعلق خود آپ کے ملک روس سے ہے.اس پر وہ میری بات سننے کے لئے تیار ہو گئے.سب سے پہلے میں نے انہیں حضور کی زار روس کی تباہی کے بارہ میں پیشگوئی سنائی کہ ”زار بھی ہوگا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار میں نے انہیں بتایا کہ آپ کا انقلاب 1917ء میں آیا اور حضرت مسیح موعود نے 1908ء میں وفات پائی اور یہ پیشگوئی 1905ء کی ہے.اس پر انہوں نے کچھ جرح قدح نہ کی اور حیران سے ہو گئے.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس بانی سلسلہ کو یہ بھی دکھایا تھا کہ رشیا میں ہماری جماعت ریت کے ذروں کی مانند پھیلے گی اور یہ کہ روس کا عصا حضور کو دیا

Page 655

تاریخ احمدیت 646 جلد 21 جائے گا.اس پر وہ سخت حیران ہوئے اور اس حیرانی کے نمایاں آثار ان کے چہرے پر عیاں تھے.موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس حقیر نے سلسلہ کلام جاری رکھا اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں.ہماری جماعت کسی ملک پر چڑھائی کا پروگرام نہیں رکھتی بلکہ دعاؤں پیار اور محبت سے آپ کے دلوں کو جیتنے کا پروگرام رکھتی ہے.جو اللہ نے چاہا تو ضرور پورا ہوکر رہے گا.میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہ کہ روس یا امریکہ کی حکومت جب کوئی دعوی کرتی ہے تو اپنی مادی طاقت، سائنسی ترقی یا جدید ٹیکنالوجی کی بناء پر کرتی ہے.لیکن حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیان کی گمنام بستی میں پیدا ہوئے.ہزاروں باتیں آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتائیں.اور لاکھوں لوگوں نے اس کی گواہی دی.اب آپ بتائیں کہ اگر خدا تعالیٰ زندہ موجود نہیں ہے.تو یہ تمام باتیں کیسے پوری ہو گئیں ؟ اس پر وہ کہنے لگے کہ میں اور تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ہم آج بہت اچھے دوست بن گئے ہیں.ازاں بعد ان کی خدمت میں قیمتی لٹریچر پیش کیا گیا جو انہوں نے بخوشی قبول کیا اور عاجز نے پھران سے درخواست کی کہ یہ پیشگوئیاں جو میں نے روس کے بارہ میں بیان کی ہیں میری طرف سے اپنی اولاد اور دوسرے لوگوں کو بھی پہنچادیں.اس گفتگو کے بعد ان کی چائے سے خاطر تواضع کی گئی.اسکے بعد وہ ہم سے الوداع ہوئے.ان کی تنزانیہ سے روانگی کے چند ماہ بعد مجھے تنزانیہ میں روسی سفارتخانہ کی طرف سے ایک بڑے سائز کا قرآن کریم کا نسخہ بھجوایا گیا جس کے ساتھ ایک خط تھا جس میں لکھا تھا کہ روسی پروفیسر پوٹون نے انہیں ہدایت کی ہے کہ یہ قرآن کریم کا تحفہ مسٹر عنایت اللہ احمدی کو پہنچادیں.اس وقت بھی وہ قرآن کریم کا نسخہ تنزانیہ احمد یہ مشن کے پاس موجود اور محفوظ ہے.مجھے وہ قرآن کریم کا نسخہ وصول کر کے بے حد خوشی ہوئی.خدا کا شکر ادا کیا.لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس نسخہ قرآن کریم پر کسی بھی جگہ یہ ذکر نہ تھا کہ کس پر لیں اور کس ملک میں شائع ہوا ہے.اب کہاں سے مل سکتا ہے.کیا ہدیہ ہے.پرنٹ اور پبلشر کون لوگ ہیں اور نہ ہی معزز روسی لیڈر جناب پروفیسر پوٹو خن صاحب نے میرے ساتھ بلا واسطہ کوئی خط و کتابت کی.یوگنڈا.جنوری تا ستمبر 1 - مکرم حکیم محمد ابراہیم صاحب نے کمپالہ کے قریب ”سٹیا‘ مقام پر وسط جنوری 1962 ء کو احمد یہ نرسری سکول کا سنگ بنیاد رکھا.سنگ بنیاد کی تقریب میں متعد د قوموں اور نسلوں کے قریباً دوصد

Page 656

تاریخ احمدیت 647 جلد 21 افراد نے شرکت کی.ان میں امریکن وائس کونسل، جرمن اخبار نویس اور پروفیسر ہمایوں آف میکر یرے بھی شامل تھے اس موقع پر سات مہمانوں نے اپنی تقاریر میں جماعت احمدیہ کی تعلیمی اور اسلامی خدمات کو 375 لیکچرد.خراج تحسین ادا کیا.2- مکرم مولوی عبدالکریم صاحب شرمانے لو بیری کا لج میں مسلمان طلباء کی دعوت پر 2 لیکچر دئیے آپ نے مکرم حکیم محمد ابراہیم صاحب کے ہمراہ دو دفعہ میکر میرے کالج اور میکر میرے سیکنڈری سکول کے طلباء میں لٹریچر تقسیم کیا اسی طرح بشپ فکر کالج کے بعض طلباء کو تبلیغ کی.آپ ایک احمدی محمد حسین صاحب کے ہمراہ بشپ ویلیز ٹیچر ٹرینگ کالج تشریف لے گئے اور مذہبی گفتگو کے علاوہ، لٹریچر تقسیم کیا اسی طرح آپنے Varaka Teaching School میں ایک ٹیچر دیا.مگو کا سیکنڈری سکول کے اساتذہ کو تبلیغ کی.مقامی مشن سکول کے بعض اساتذہ کولٹر پچر دیا.ڈیموکریٹک پارٹی کے دولیڈروں کو قرآن کریم انگریزی اور دیگر لٹریچر دیا یوگنڈا پیپلز کانگرس کے سیکرٹری کولٹریچر دیا.3- مکرم حکیم محمد ابراہیم صاحب نے میکر مرے کالج کے پروفیسروں ڈاکٹر گولڈ تھروپ اور ڈاکٹر برنٹ کو دیباچہ قرآن کریم انگریزی پیش کیا اسی طرح آپنے ایس ٹی پیٹ تھیلا جیکل کالج کے وائس پرنسپل کو طویل گفتگو کے بعد لٹریچر پیش کیا.مشن کے زیر اہتمام جنجہ کے ٹاؤن ہال میں سیرت پیشوایان مذاہب کا جلسہ ہوا جس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے تقاریر کیں اس موقع پر احمدیت کے متعلق تعارفی اشتہار شائع کر کے تقسیم کیا گیا.لوگنڈا زبان میں مسیح موعود کے ظہور کے متعلق ایک پمفلٹ دس ہزار کی تعداد میں شائع کر کے مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا.دوسرا پمفلٹ " کیا مسیح خدا تھے لو گنڈا میں دس ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.جنجہ میں دریائے نیل کے منبع کی دریافت کے سلسلہ میں بعض تقریبات آٹھ روز تک منائی گئیں.اس موقع پر مشن نے انگریزی میں ایک ٹریکٹ " مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے“ پندرہ ہزار کی تعداد میں شائع کر کے تقسیم کیا گیا.19 افراد داخل سلسلہ ہوئے.آخری سہ ماہی مکرم صوفی محمد الحق صاحب نے یوگنڈا کے شمالی علاقہ کا دورہ کیا.آپ نے لیرا شہر کے متعدد سرکاری دفاتر میں پمفلٹ تقسیم کئے.شمالی صوبہ کے صدر مقام کلو کے عیسائی طبقہ میں وسیع پیمانہ پر ایک پمفلٹ تقسیم کیا.صوفی صاحب نے ضلع کے کونسلروں کو ایک لیکچر دیا بعد ازاں سوالوں کے جواب دیئے.آپ نے کل ڈیڑھ ہزار میل سفر کیا ایک ہزار پمفلٹ تقسیم کئے.300 افراد کو انفرادی تبلیغ کی.377

Page 657

تاریخ احمدیت کینیا 648 جلد 21 6 مئی 1962ء کو جماعت احمدیہ کی دعوت پر بھارت کے کمشنر نیروبی کی مسجد میں تشریف لائے اس موقع پر ایک تقریب میں مولانا نور الحق صاحب انور نے تقریر کی جسکے بعد کمشنر کی خدمت میں دعوت الأمیر اور قرآن مجید انگریزی کا تحفہ پیش کیا جسے موصوف نے شکریہ سے قبول کیا.مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ”راک (Rock) کرسچین کونسل آف کینیا کا ایک موقر اخبار ہے اور نیروبی سے شائع ہوتا ہے اس میں اور بعض دوسرے اخبارات میں دو سال کی بات ہے ”غلامی کے موضوع پر اسلام کے خلاف اور حضرت رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہرا گلا گیا.چنانچہ احمد یہ مشن نے فوری طور پر اخبار مذکور کو ایک مفصل خط لکھا اور اس کی غلطی کو اس پر واضح کرتے ہوئے مدلل طور پر بتایا کہ اسلام اور حضرت بانی اسلام صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات اس الزام سے بری اور پاک ہیں.اور کوئی قرآن کریم کی آیت یا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ایسا نہیں پیش کیا جا سکتا جو غلامی کی حمایت میں ہو.برعکس اس کے غلامی کو سخت گناہ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ جنگ کے برابر قرار دیا گیا ہے.چنانچہ اخبار مذکورہ کے ایڈیٹر ریورنڈ بوتھ (Revrand Booth) نے ملاقات کی خواہش کی.احمد یہ مشن نیروبی کے دفتر میں مقررہ وقت پر وہ آئے.اور دو تین گھنٹہ تک اس مسئلہ پر خاکسار سے مفصل گفتگو ہوئی اور خدا کے فضل سے وہ اس بات کو تسلیم کر کے اٹھے کہ فی الواقعہ اسلام اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات پر یہ بے بنیاد الزام ہے.اس سے پہلے وہ اپنے اخبار میں ہمارا جوابی خط شائع کرنے کے لئے بھی تیار نہ تھے لیکن بعد میں خط کا خلاصہ بھی شائع کیا اور اپنی طرف سے مندرجہ ذیل نوٹ لکھا:."We entirely agree that Christians have frequently made ignorant, prejudiced and uncharitable attacks we are deeply sorry".ہم اس بات کا پورے طور پر اعتراف کرتے ہیں کہ عیسائیوں نے اسلامی عقائد پر جہالت، تعصب اور غیر رواداری کے جذبہ کے ساتھ نکتہ چینی اور اعتراضات کئے ہیں.اور اس وجہ سے ہم گہرے تاسف اور ندامت کا اظہار کرتے ہیں.اگر مشرقی افریقہ میں احمدیہ مشن سا ایک منظم ادارہ تبلیغ اسلام کے فریضہ کو انجام دینے کے لئے نہ ہوتا تو کیا یہ عظیم کام ہوسکتا اور دوسرے شاندار کام انجام پاسکتے تھے؟ ایک عیسائی پادری کاعلی الاعلان اپنے

Page 658

تاریخ احمدیت 649 جلد 21 اخبار میں اسلام اور حضرت بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حملوں کو جہالت، تعصب اور غیر رواداری کے جذبہ کی وجہ قرار دینا اور پھر اسپر افسوس و معذرت کا اظہار کرنا یہ ایک ایسا اعتراف ہے جو بہت کم پادریوں کی طرف سے دکھائی دیتا ہے.ریورنڈ بوتھ صاحب ملاقات اور گفتگو سے ایسے متاثر ہوئے کہ بعد میں انہوں نے اپنی ایک ماہانہ میٹنگ میں مجھے دعوت دی اور اسلام پر لیکچر بھی کروایا.اور میرا تعارف کراتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا کہ بہت سی باتیں ہم عیسائیوں میں غلط مشہور ہیں.آج کی تقریر میں صحیح حقیقت معلوم ہوگی وغیرہ وغیرہ.ابھی تازہ بات ہے احمد یہ مشن ٹانگانیکا نے سکول کی ایک ٹیکسٹ بک ”ہیروز آف ہسٹری حصہ دوم (Herose of History Part II) کے خلاف ٹانگانیکا کی وزارت تعلیم کے پاس پروٹسٹ کیا.اس کتاب میں حضرت رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کا ایک فرضی فوٹو شائع کیا گیا تھا اور یہ لکھا گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں فوت ہوئے ہیں اور اسی طرح یہ غلط بیانی کی گئی تھی کہ مسلمان ارض مقدس کا احترام نہیں کرتے.اس طرح عیسائیوں اور مسلمانوں میں تفرقہ.مسلمانوں کے جذبات کو مجروح اور مسلمان طالب علموں کو غلط تاریخ سے آشنا کیا جا رہا تھا.1962ء سے اس کے خلاف احمد یہ مشن تانگانیکا پروٹسٹ کر رہا تھا.بالآخر حکومت نے تحقیق کے بعد ان باتوں کو جواحمد یہ مشن نے پیش کی تھیں درست پا کر یہ فیصلہ کر دیا کہ اس کتاب کو آئندہ سکولوں میں نہ پڑھایا جائے.جماعت احمدیہ کی تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں منظم جد و جہد کو لمبا عرصہ تک مشاہدہ کرنے کے بعد ممباسه (مشرقی افریقہ ) تہذیب مسلم سکول کے پرنسپل جناب شیخ قاسم علوی صاحب جو گذشتہ دنوں اسلامی ممالک کی سیاحت اور مصر میں چھ سات ماہ تک قیام اور الازھر یونیورسٹی کے اساتذہ اور شیخ محمود شلتوت سے بھی ملاقات کر چکے ہیں.اپنے دورہ سے واپسی کے بعد مشرقی افریقہ میں اپنے بیانات میں انہوں نے احمدی مجاہدین کی تبلیغ اسلام کی جدو جہد کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے کہا:.ترجمہ : " کہ مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کا جو شاندار کام پاکستانی مبلغین کر رہے ہیں.میں ان کی تعریف و توصیف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.“ اس پر ایک نامہ نگار نے دریافت کیا کہ آپ مصر اور از ہر یونیورسٹی کا دورہ کر کے آئے ہیں.آپ کا کیا خیال ہے کیا ازہر کے علماء یہاں کام کے لئے مستعد ہوں گے؟ تو جناب شیخ قاسم علوی صاحب نے چھوٹتے ہی کہا :-

Page 659

تاریخ احمدیت 650 جلد 21 ”انہیں بڑی بڑی تنخواہیں چاہئیں.بڑی بڑی موٹر کار میں اور بڑے بڑے بنگلے وہ مانگتے ہیں.اور ہر ایک قسم کی راحت و آسائش کے طلب گار ہیں.“ اور اپنے بیان کو ختم کرتے ہوئے کہا:.Wapi wataweza kazi hii wao? وہ ان علاقوں میں تبلیغ اسلام کا کام کہاں کر سکتے ہیں؟ یہ ان کے بس کی بات نہیں ! ! اور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے علی وجہ البصیرت یہ کہتا ہوں کہ مودودیوں کے بس کی بھی یہ بات نہیں.معزز افریقن مسلمانوں کا اعتراف آنریبل عبد اللہ فونڈ یکیر اجو حکومت ٹا نگانیکا میں پہلے وزیر انصاف اور وزیر ز مین رہ چکے ہیں آج کل ایک اہم سرکاری کارپوریشن کے چیئر مین ہیں.ٹانگا نیکا پارلیمنٹ کے ممبر ہیں اور اپنے علاقہ کے چیف ابن چیف اور ایک سمجھدار مسلمان نوجوان ہیں.گذشتہ چھپیں ستائیس برس سے وہ جماعت احمدیہ کی تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں مساعی کو خود دیکھ رہے ہیں اور ان کے نتائج کومحسوس کر رہے ہیں اگر جماعت احمدیہ کا منظم ادارہ تبلیغ اسلام کے کام میں مشرقی افریقہ میں مشغول نہ ہوتا تو یہ اثرات مرتب نہ ہو سکتے تھے اور نہ ہی وہاں کے لیڈر اس قسم کی تعریف و توصیف اور حقائق پر مشتمل شکر گزاری کے جذبات کا اظہار کرتے.حال ہی میں جنوبی افریقہ کے مشہور شہر جو ہنس برگ کے رہنے والے اور علمی شغف رکھنے والے اور اسلام کی تبلیغ کا خاص در در کھنے والے دوست مسٹرالیں.کے جمال نے اپنے تاثرات کا اظہار ایک خط میں کیا ہے جو نیروبی کے انگریزی اخبار ایسٹ افریقن ٹائمز میں شائع ہوا ہے.اس خط میں احمد یہ جماعت کی تبلیغی جد و جہد کا دل کھول کر قدردانی کے جذبات سے اعتراف کرتے ہوئے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ The spread of Islam in East and West Africa is solely due to the unwavering efforts of the Ahmadies.No Sunni Alim can claim this honour." مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام از مولانا شیخ مبارک احمد صاحب صفحہ 16 تا 18 ، 28 تا30 ) 29 اپریل 1962ء کو نامدھاری سکھوں کے گورو جگجیت سنگھ جی اپنے بھائی کے ہمراہ تین ہفتہ کے دورہ پر ہندوستان سے مشرقی افریقہ تشریف لائے.مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل مبلغ یوگنڈا اور مکرم کبیر الدین صاحب نے ائیر پورٹ پر انکا استقبال کیا.یکم مئی کو جماعت احمد یہ نیروبی نے گور و صاحب کے

Page 660

تاریخ احمدیت 651 جلد 21 اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا جس میں گور وصاحب کے علاوہ بعض دیگر سکھ بھی شامل ہوئے مولانا نورالحق صاحب انور امیر جماعت ہائے کینیا نے استقبالئے میں توحید باری تعالیٰ کے بارہ میں تقریر کی جس سے سکھ بہت متاثر ہوئے اسکے بعد گور و صاحب نے کچھ باتیں بیان کیں.بعد ازاں مولا نا نور الحق صاحب نے گور وصاحب اور ان کے بھائی کو کتاب ”چونویں پھل کا تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا.جنوبی افریقہ مئی 1962ء کو جنوبی افریقہ میں یوم تبلیغ منایا گیا جس میں افریقہ میں اسلام کتاب تقسیم کی گئی.مشن ہاؤس میں آنے والے احباب کو اسلام کے متعلق معلومات دی گئیں.ماہ ستمبر میں علاوہ دیگر 680 احباب کے ایک رومن کتھولک عیسائی مسٹر ڈی.جی.ڈیویز کولٹریچر دیا گیا.مشن کے سیکرٹری محمد حنیف ابراہیم کا عیسائیوں سے ایک مباحثہ ہوا.مشن ہاؤس میں آنے والے دوستوں کو احمدیت اور اسلام کے بارہ میں معلومات دی گئیں.2 افراد داخل سلسلہ ہوئے.سال کے آخر میں 2 بیعتیں ہوئیں 3 اہم افراد مشن ہاؤس آئے جن کے سوالوں کے جواب دیئے گئے ایک پمفلٹ کی ایک ہزار کا پیاں شائع کر کے بکثرت تقسیم کی گئیں.34 کتب اسکے علاوہ تقسیم ہوئیں.382- الغرض اس سال بھی احمدی مجاہدین نے افریقہ کے طول وعرض میں اشاعت اسلام کی عظیم الشان جد و جہد زور شور سے جاری رکھی.دیلی کے اخبار ”الجمعیة“ نے اپنی 22 ستمبر 1962ء کی اشاعت میں لکھا:.افریقہ میں ایک طبقہ اشاعت اسلام کے لئے بہت کوشش کر رہا ہے وہاں سے اس کے انگریزی اخبارات بھی نکلتے ہیں اور ریڈیو پر تقریریں بھی ہوتی ہیں اور اس کی طرف سے اسلامی اسکول بھی کھولے گئے ہیں.ضرورت ہے کہ افریقہ میں تمام مسلم فرقے اشاعت اسلام کے کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اس خطہ میں آپس کے اختلافات کو ہوا نہ دیں.“

Page 661

تاریخ احمدیت شمالی بور مینو جنوری تا اگست 652 جلد 21 کوڈٹ شہر میں مسلمانوں کی سہ روزہ کانفرنس منعقد ہوئی.مکرم مرزا محمد ادریس صاحب مبلغ بور نیو نے کانفرنس میں شریک ہو کر بکثرت لٹریچر تقسیم کیا جن لوگوں کو لٹریچر دیا گیا ان میں ملایا کے وزیر صحت، نائب وزیر داخلہ، سراوک کالونی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری آونگ عثمان شامل تھے موصوف سپینگ کے علاقہ کے ایک صاحب اثر ورسوخ دوست حاجی تنگاں کے ہاں تشریف لے گئے جہاں حاجی صاحب کے علاوہ دیگر افراد سے تین گھنٹہ تک آپ کی دینی گفتگو ہوئی نیز آپ نے ان کے سوالوں کے جوابدئیے علاوہ ازیں آپ نے ایک ڈسٹرکٹ آفیسر، جیسلٹن کے زیر تبلیغ احباب اور فلپائن کے چند غیر احمدی تاجروں کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا.علاقہ راناؤ کے 8 افراد کو تبلیغ کی.اسی علاقہ کے عیسائی ٹیچر کے سوالوں کے جواب دیئے اور مسٹر جیملی کولٹر پچر دیا.مکرم مرزا صاحب نے عید الفطر کے موقع پر جیسلٹن ہوٹل میں ایک تبلیغی مجلس کا انعقاد کر کے ایک گھنٹہ تک تقریر کی تقریر کو ہر طبقہ کے افراد نے سنا اسی طرح عید الاضحیة کے موقع پر تبلیغی پارٹی میں آپ نے خطاب فرمایا.جس کا سامعین پر خوشگوار اثر پڑا.تقریر کا ذکر اخبارات نے بھی کیا.آپ نے قونصل انڈونیشیا کی خدمت میں قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر پیش کیا.6 افراد داخل سلسلہ ہوئے.ماریشس 383 1 - جماعت احمد یہ ماریشس کا سالانہ جلسہ 7 جنوری 1962 ء کو دار السلام ہال میں منعقد ہوا.مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر، مکرم احمد حسین صاحب سو کیہ اور احمد اللہ صاحب نے تقاریر کیں.2 - ماریشس کے ٹاؤن ”روزھل میں 1923ء میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب نے دار السلام کے نام سے احمدیہ مجد تعمیر فرمائی تھی جو احد یہ مرکز بن گئی.اس عمارت کو طوفان بادوباراں نے بہت نقصان پہنچایا.عمارت کی تعمیر نو کے لئے مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے 8 جنوری 1961ء کو ایک فنڈ قائم کیا جس پر احباب نے دل کھول کر حصہ لیا.25 اگست 1961ء کو مسٹر Vele Govinden ممبر آف لیجسٹو کونسل نے اس کی بنیا دوں کو کھودنے کا افتتاح کیا.3 ستمبر 1961 ء کھدائی کا با قاعدہ کام شروع ہوا.9 دسمبر 1961ء کو خصوصی وقار عمل کے ذریعہ چھت ڈالی گئی جس میں احباب نے نہایت جوش خروش سے حصہ لیا.ان کوششوں کے نتیجہ میں دار السلام کی پہلی منزل اس قابل ہو گئی کہ 16 جنوری

Page 662

تاریخ احمدیت 653 جلد 21 1962 ء کو اس میں فضل عمر کالج کا اجراء ہوا.BBC 14 اور 15 اپریل 1962 ء کو 225 مخلص احمدیوں نے دار السلام‘بلڈنگ کی دوسری چھت پر تقریباً 2000 مکعب فٹ کنکریٹ بچھایا اس موقع پر احمدیوں نے تنظیم اتحاد، محبت اور تعاون کا بہترین مظاہرہ کیا جس نے دوسروں کو بھی متاثر کیا.مئی 1962 ء ماریشس سے ایک اخبار Le Message شائع ہوا جس سے جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہوا.سنگا پور ملایا کے چیف سلطان بینگ دی پر تو اں اگانگ کی دعوت پر وسط 1962ء کو تھائی لینڈ کے نو جوان بادشاہ بھومیھال انکی ملکہ اور بعض وزراء ملایا تشریف لے گئے.اس موقع پر احمد یہ مشن کی طرف سے شاہ تھائی لینڈ کی خدمت میں قرآن کریم انگریزی اور لائف آف محمد کا تحفہ پیش کیا گیا اور ایک میمورنڈم کے ذریعہ دعوت حق دی گئی اس تحفہ کو شکریہ کے ساتھ قبول کیا گیا.500 جون تا دسمبر 1962ء مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے مولانا محمد صادق صاحب کی معیت میں سنگا پور کے موجودہ چیف قاضی سابق مفتی اور بعض اکابرین ، مسلمان وکلاء نیز دیگر افسران سے ملاقات کر کے ان کی خدمت میں عربی اور انگریزی لٹریچر پیش کیا جو ہر سٹیٹ کے چیف مفتی دا تو عبدالجلیل صاحب کو تبلیغ کی اور کتب کا تحفہ دیا.امریکن لائبریری، سنگاپور یونیورسٹی لائبریری اور نیشنل لائبریری میں قرآن کریم انگریزی اور دیگر لٹریچر رکھا.اسی طرح آپکو دو جہازوں میں لٹریچر تقسیم کرنے اور لائبریریوں میں رکھوانے کا موقع ملا آپ نے انگلینڈ کے مشہور پروفیسر اینڈرسن کے لیکچروں میں شمولیت اختیار کی.پروفیسر صاحب کو لائف آف محمد ، تحمه دی نیز لیکچر میں شامل کئی عیسائیوں کو تبلیغ کے علاوہ لٹریچر پیش کیا.آپ نے سنگا پور کے وکٹوریہ میموریل ہال میں بکثرت لٹریچر تقسیم کیا.انگلینڈ کے پرنس فلپ ڈیوک آف ایڈنبرا اور حکومت کمبوڈیہ کے صدر کی خدمت میں قرآن کریم انگریزی اور انکی اہلیہ کی خدمت میں لائف آف محمد کا تحفہ پیش کیا.ایک ٹریکٹ Invitation کے عنوان سے چھپوا کر تقسیم کیا گیا.کل 1100 تبلیغی اشتہارات و پمفلٹ و رسائل احباب کی مدد سے تقسیم کئے.13 احباب بیعت کر کے داخل سلسلہ ہوئے.389

Page 663

تاریخ احمدیت 654 جلد 21 انڈونیشیا جماعت احمد یہ انڈونیشیا کا سالانہ جلسہ 21, 22, 23, 24 جولائی 1962ء کو بوگور میں منعقد ہوا.جلسہ میں ملک کے طول و عرض سے 2 ہزار احمدی شامل ہوئے بعض افراد کا نفرنس کی تیاری کے سلسلہ میں سارا سال اپنی خدمات پیش کرتے رہے جن میں جناب ابراہیم صاحب نائب سیکرٹری اور اہلیہ جناب راڈن یوسف صاحب سیکرٹری ضیافت خاص طور پر قابل ذکر ہیں جنہوں نے انتھک محنت کر کے کانفرنس سے کافی عرصہ پہلے تیاریوں کو مکمل کر لیا.گرانی کے باعث جماعت بوگور“ نے اشیاء کا ذخیرہ پہلے ہی کر لیا.بعض غیر ا حباب نے کانفرنس کے اخراجات کے لئے مالی قربانی کا قابل رشک نمونہ دکھایا.کانفرنس سے قبل جماعت کے ایک وفد نے میئر کی خدمت میں انگریزی ترجمہ قرآن اور دیگر اسلامی کتب پیش کیں.مستورات کے ایک وفد نے صدر مملکت کی بیگم ہر تینی (Hartini) سے ملاقات کر کے ان کے سامنے جماعت کے اغراض و مقاصد ر کھے اور سلسلہ کی کتب پیش کیں.موصوفہ نے جماعت کی تبلیغی مساعی خصوصاً قرآن کریم کے یورپین زبانوں میں تراجم کو بہت سراہا.اسی طرح کا نفرنس سے قبل ایک پریس کانفرنس منعقد کر کے سوالوں کے جواب دیئے گئے اور پریس والوں کو سلسلے کی کتب پیش کی گئیں.کانفرنس کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام سنایا گیا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اسلام کو احمدیت کے ذریعہ غلبہ حاصل ہو گا.مگر اس کے لئے جماعت کو ایسی والہانہ کوشش کرنی ہوگی جس سے جگر خون ہو جائے.پیغام میں احمدیوں کو سچا علم صحیح قوت عمل پیدا کرنے اور قربانی کی روح کے ساتھ آگے بڑھنے کی تلقین کی گئی تھی.جلسے کا افتتاح کانفرنس کمیٹی کے صدر جناب ایوا صاحب نے کیا.علاوہ ازیں جلسہ سے درج ذیل اصحاب نے خطاب کیا.1 - جناب شاہ محمد صاحب 2- مکرم مولوی امام الدین صاحب - 3- مکرم مولوی محمد ایوب صاحب.4.مکرم میاں عبدالحی صاحب-5- مکرم مولوی ابو بکر ایوب صاحب - 6- جناب راڈن ہدایت صاحب.7- صالح شبیبی صاحب.8.مکرم مولوی عبد الواحد صاحب.9.کانفرنس کے سامنے رپورٹ پیش کرتے ہوئے جنرل سیکرٹری نے انڈونیشیا کی جماعتوں کی جولائی 1961 ء سے جون 1962 ء کی کارکردگی کا خلاصہ پیش کیا.جس میں بتایا گیا کہ جا کرتا میں متعدد افراد کو سلسلہ کا لٹریچر وفود کی صورت میں پیش کیا گیا.پورو کر تو کے شہر کے وسط میں ایک مسجد تعمیر ہوئی نوجوان بچوں اور بچیوں کی تربیتی کلاس میں 141 طلبا و طالبات شامل ہوئے.338 افراد داخل سلسلہ ہوئے.کانفرنس کے موقع پر استقبالیہ جلسہ اور تبلیغی جلسہ کا انعقاد بھی ہوا.استقبالیہ جلسہ میں وزیر امور دینیہ

Page 664

تاریخ احمدیت 655 جلد 21 کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا گیا جس میں جماعت کے تبلیغی کارناموں کی واشگاف الفاظ میں تعریف کی گئی تھی.کانفرنس کے موقع پر خدام، انصار، لجنہ ، ناصرات کے اجلاس بھی ہوئے.مبلغین کی آمد وروانگی 391 امسال درج ذیل مبلغین بیرون ملک تشریف لے گئے.-1- مکرم مولوی صالح محمد صاحب.21 جنوری (برائے غانا ) 2- مکرم صوفی عبدالغفور صاحب.3 فروری (برائے امریکہ ) -3 مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ 25 فروری ( برائے سوئٹزرلینڈ ) -4- مکرم سید محمد ہاشم صاحب بخاری.25 فروری (برائے غانا ) -5- مکرم ملک غلام نبی صاحب.20 مارچ ( برائے سیرالیون ) 6- مکرم میجر عبدالحمید صاحب.20 مارچ (برائے لنڈن ) 7- مکرم جمیل الرحمن صاحب رفیق.11 اپریل (برائے مشرقی افریقہ ) 8- مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری.3 مئی ( برائے یوگنڈا ) 398 401 9.مکرم سید مسعود احمد صاحب.7 مئی ( برائے ڈنمارک) 100 -10 مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر.19 مئی (برائے سیرالیون ) 0 11 - مکرم مولوی رشید احمد صاحب سرور.7 جون (برائے مشرقی افریقہ ) 12 - مکرم قاضی نعیم الدین صاحب.8 جولائی (برائے مشرقی افریقہ ) 13 - مکرم صوفی محمد الحق صاحب 12 جولائی (برائے مشرقی افریقہ) 14 - مکرم چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ.21 جولائی (برائے جرمنی ) 10 15 - مکرم مولوی فضل الہی صاحب بشیر.23 جولائی ( برائے ماریشس ) 100 درج ذیل مبلغین واپس وطن تشریف لائے.1 - مکرم مولوی عبد الخالق صاحب - 2 فروری ( از مشرقی افریقہ ) 2- مولانا شیخ مبارک احمد صاحب.7 مئی (از مشرقی افریقہ ) 407 408 409 3- مکرم محمد سلیمان صاحب.6 جون ( از مشرقی افریقہ ) -4 مکرم مولوی نورالحق صاحب تنویر.21 جولائی (از مصر) 10 403 404 406

Page 665

تاریخ احمدیت 656 جلد 21 412 5 مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب.24 جولائی (از سیرالیون ) 6- مکرم مولوی محمد صادق صاحب.19 اگست ( از ملایا) 7- مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر - 8 ستمبر ( از ماریشس ) 8- مکرم سید کمال یوسف صاحب.18 اکتوبر (از سکینڈے نیویا ) 9- مکرم مولوی عبد القدیر صاحب.2 دسمبر (از سیرالیون ) 413 411 10 - مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب 10 دسمبر (از مغربی جرمنی ) 0 -11 - مکرم مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری 22 دسمبر (از سیرالیون ) نئی مطبوعات 1962ء میں درج ذیل نئی کتب شائع ہوئیں.1 - مذہب کے نام پر خون.(حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) 2- در مکنون.( قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے) خلافت را شده ( خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ) -4 بائکمیل کی الہامی حیثیت.( قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری ) -5- حقیقت نبوت.( قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری ) 6- سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب.(مرتبہ چوہدری عبدالعزیز صاحب ) -7- تربیت.( خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب) 8- سیرت احمد ( حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری) تحریری مناظرہ ( ما بین حضرت مولا نا ابوالعطاء صاحب و پادری عبدالحق صاحب چندی گڑھ انڈیا ) قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے رقم فرمایا :.اس مناظرہ میں بھی خدا نے اپنے فضل سے حضرت کا سر صلیب علیہ السلام یعنی مسیح محمدی کے شاگرد کو نمایاں فتح عطا کی اور پادری عبدالحق صاحب یہ مناظرہ درمیان میں ہی نامکمل چھوڑ کر کنارہ کشی اختیار کر گئے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک بڑا کام کسر صلیب بھی تھا اور حضور نے مسیحیت کے

Page 666

تاریخ احمدیت 657 خلاف شاندار فاتحانہ مجاہدہ کا رنگ پیدا کر کے اپنے مخالفوں تک سے ”فتح نصیب جرنیل کا لقب حاصل کیا.اس لئے ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ بھی مسیحیت کے مطالعہ کیطرف خاص توجہ دیں تا کہ دنیا بھر میں کسر صلیب کا کام شاندار رنگ میں پورا ہو جائے.میں امید کرتا ہوں کہ مولوی ابوالعطاء صاحب کی یہ کتاب....اس کام کے لئے مفید ثابت ہو گی.پس دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ " کا سر صلیب کا ہر شاگرد بھی کسر صلیب کے کام میں اپنی توفیق اور طاقت کے مطابق حصہ دار بن جائے.“ ( الفضل 30 اپریل 1963ء صفحہ 4) جلد 21 - اصحاب احمد جلد یاز دہم.حالات خاندان حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب ( ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) 10- تابعین اصحاب احمد جلد 2 سوانح مصلح الدین احمد صاحب ( ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) 11 - مولوی مود دوی صاحب کے رسالہ ختم نبوت پر علمی تبصرہ.(حضرت قاضی محمدنذیر صاحب) 12 - مخزن معارف.( محترم پیر معین الدین صاحب) حضرت مصلح موعود نے اس کے بارہ میں درج ذیل پیغام دیا جو 26 دسمبر 1962ء کو جلسہ سالانہ میں پڑھا گیا ” برادران جماعت.اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عزیزم پیر معین الدین صاحب کو میں نے اپنے قلمی نوٹ دیئے تھے کہ ان کی اور میری کتب و خطبات وغیرہ کی مدد سے تفسیری نوٹ مرتب کر لیں اور ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور حضرت خلیفہ اول کے نوٹ بھی ملا لیں.انہوں نے پہلے پانچ پاروں کی جلد بلاک پر شائع کی ہے دوستوں کو چاہئے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اللہ تعالیٰ اس کام میں برکت دے اور عزیز معین الدین کو اسکی تکمیل کی توفیق دے.خاکسار مرزا محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی 2 13 - ربوہ دار الحجرت ( ملک خادم حسین صاحب) 14- Islam In Africa(مرزا مبارک احمد صاحب)

Page 667

تاریخ احمدیت حواشی 658 جلد 21 1.سوانح حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب مصنفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے اشاعت مئی 1983 ء حیدر آباد.2.ولادت 11 مارچ 1885 ء وفات 18- 19 جنوری 1970 ء.حضرت سیٹھ صاحب کی بیعت کے کچھ عرصہ بعد آپ نے بھی بیعت کر لی.آپ اپنے اپنے خاوند کے ساتھ حج کی توفیق بھی پائی.خدمات دینیہ میں بھی آپ کا نہایت بلند مقام ہے.پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کے علاوہ تہجد گزار تھیں اور چندوں کی ادائیگی کا خاص التزام فرماتی تھیں.جلسہ سالانہ قادیان کا نہایت شدت سے انتظار کرتیں اور اس کے لئے بیقرار رہتیں.بے کس ، نادار اور غریب الحال بچوں بچیوں کا سہارا تھیں اور ان کے موزوں رشتوں کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتیں.آپ کے ذریعہ کئی رشتے طے ہوئے حضرت سیٹھ صاحب کی وفات کے بعد حیدر آباد اور سکندرآباد کے احمدی احباب کیلئے آپ بہت برکتوں کا موجب تھیں.کبھی آپ کو میٹھی اماں کے نام سے پکارتے تھے.(سوانح صفحہ 238 تا 240 ) -3 ایضاً سوانح صفحہ 16 ،24، 34 35.4.ایضا سوانح صفحہ 25-32.5 الفضل 22 اپریل 1915 ، صفحہ 6.6 تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 220-221.7.”سوانح حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین ، صفحہ 253 از ملک صلاح الدین ایم اے.مطبوعہ دائرہ پرنٹنگ پریس چھتہ بازار حیدر آباد 1983ء.8.الفضل 9 اپریل 1918 ، صفحہ 8.9.صداقت احمدیت.عظیم الشان نشانات صفحہ 184-185 - 18.( بحوالہ سوانح حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صفحہ 137-138) 10 - الفضل 2 جنوری 1934 ء صفحہ 4.11 - افضل 29 جنوری 1926 ، صفحہ 2 12.سوانح حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب صفحہ 176.13 - سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمد یہ بابت 38- 1939 ، صفحہ 52.14 - اخبار بدر 15 مارچ 1962ء صفحہ 7 مضمون محمد عبد اللہ صاحب بی ایس سی ایل ایل بی سیکرٹری مال جماعت احمد یہ حیدر آباد دکن.15 - تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ 12 - 16 سوانح حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب ، صفحہ 1 28-282.17- تفصیل کیلئے دیکھئے تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 507 تا 529.18 تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 509،508 - 19 ، 20 - سوانح حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب صفحہ 195.21 - الفضل 18 جولا ئی 1941 صفحہ 2.22 الفضل 6 اگست 1941 ء صفحہ 3 تا 5.23 - الفضل 24 دسمبر 1946 ، صفحہ 1 - 27 دسمبر 1946 ، صفحہ 3 تا 5.24.سوانح حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب صفحہ 46.25.سوانح حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب صفحہ 221،220.26.یادر ہے تقسیم ملک کے بعد آپ کو اور آپ کے خاندان کو شدید مالی بحران سے دو چار ہونا پڑا اور مالی حالت حد درجہ کمزور ہوگئی.مگر آپ کے جذ به خدمت اور دینی جوش میں چنداں کوئی فرق نہیں آیا.27 - الفضل 16 مارچ 1955 ، صفحہ 2- ( مکمل مکتوب تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ 458 تا 460 میں بھی شائع شدہ ہے ) 28.سوانح حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب صفحہ 272.29 الفضل یکم مارچ 1962 ، صفحہ 1 -

Page 668

تاریخ احمدیت 30.ماخوذ از کتاب ” حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب.31 - سوانح حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب صفحہ 298 299.32 - سوانح حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب صفحہ 302 303.33.سوانح صفحہ 128 تا132.34 - ایضاً صفحہ 133 - 659 جلد 21 35 محترم ڈاکٹر حافظ صالح محمد الہ دین صاحب (داماد مولانا عبدالمالک خاں صاحب ) آپ ہی کے صاحبزادے ہیں جو اپنے دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علمی و دینی خدمات بجالا رہے ہیں.36 سوانح حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب صفحہ 236، 237 میں مفصل شجرہ درج ہے.37 الفضل 23 فروری 1962 ، صفحہ 1 - 38.خودحضرت میاں صاحب نے افتتاحی خطاب میں فرمایا میں تو جب بھی کسی اجتماع یا عید وغیرہ میں شامل ہوتا ہوں تو دل میں ایسے موقعہ پر درد اٹھتا ہے کہ حضرت صاحب بیماری کی وجہ سے ایسے اجلاسوں میں تشریف نہیں لاتے.(رپورٹ مشاورت 1962 ، صفحہ 78 ) 39.رپورٹ مجلس مشاورت 1962ء صفحہ 40.40.رپورٹ مجلس مشاورت 1962 ، صفحہ 156.41.رپورٹ مجلس مشاورت 1962 ، صفحہ 138 ، 139.42.رپورٹ مجلس مشاورت 1962ء صفحہ 147.حسب ذیل تھے.1.صاحب صدر - حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد 43 اُن دنوں عمران پوری کا مرزا مبارک احمد صاد است صاحبزادہ مرزا برای صاحب ص شیخ صاحب مظہر صدر وقف جدید بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ.مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ.چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ موخر الذکر تین اصحاب جماعت کی نمائندگی کے فرائض انجام دے رہے تھے.44.اس فیصلہ کے مطابق درج ذیل ممبران پر مشتمل کمیشن کا تقرر عمل میں آیا.1.چوہدری اعظم علی صاحب ریٹائر ڈسیشن جج (کنو میز )2.چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ ایڈووکیٹ سیالکوٹ 3- ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب لاہور.(الفضل 13 جون 1962 ء صفحہ 7) 45 الفضل 10 جون 1962 ، صفحہ 3 تا 6.46 ریکارڈ نظارت اصلاح وارشادر بوہ.47.بدر قادیان 21 نومبر 1963 ء صفحہ 8.48.بدر 24 اکتوبر 1963 ، صفحہ 4،3.49.بدر 14 مئی 1964 ءصفحہ 8،7.مضمون مولوی ہارون رشید صاحب ( بھدرک) 50 - بدر قادیان 21 نومبر 1963 ء صفحہ 8.51 " موضح القرآن بر حاشیہ ترجمہ قرآن مجید ( حضرت شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ ) 52 - مثلا خود ساخته جدید سیر تی سنی اور ان کے گندے غیرت فروشی کے کارنامے “.اعلان جدائی“.53.اخبار بدر 2 جنوری 1964ء صفحہ 8،7.( مضمون مولوی ہارون رشید صاحب) 54.بدر 24 اکتوبر 1963 ، صفحہ 6،5.55- بدر 31 اکتوبر 1963 ، صفحہ 6،5.56 - بدر 7 نومبر 1963 ء صفحہ 6،5.57 - بدر 14 نومبر 1963 ، صفحہ 10،9.58.بدر قادیان 21 نومبر 1963 ء صفحہ 7.59.” براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 557 حاشیہ در حاشیہ 4 مطبوعہ 1883ء.60 الفضل 17 اپریل 1962 ، صفحہ 1 -

Page 669

تاریخ احمدیت 61 الفضل 10 اپریل 1962 ، صفحہ 1 - 62 الفضل 14 - 17 اپریل 1962 ، صفحہ 1 - 63.الفضل 4 مئی 1962 ء صفحہ 4.164 660 جلد 21 الفضل 20 مئی 1962 ، صفحہ 6.رپورٹ مجلس مشاورت ربوہ 1963 ، صفحہ 66 (رپورٹ مصلح الدین صاحب بنگالی قائد خدام الاحمد یہ چٹا گانگ) 65.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہور پورٹ مجلس مشاورت 1963 ، صفحہ 66 تا 70.66.رپورٹ مجلس مشاورت 1964ء صفحہ 37 -121،41 تا 134.67 الفضل 12 مئی 1964 ءصفحہ 4.68 - بدر 7 جون 1962ء صفحہ 2-5 - ( رپورٹ محمد نور عالم صاحب بیگو سرائی) 69 الفضل 21 جولائی 1962 ، صفحہ 1 و 26 جولائی 1962 ، صفحہ 3.70 ہفت روزہ ” شعلہ 20 مئی 1962 ء بحوالہ الفضل 26 جولائی 1962 ء صفحہ 5.71.بحوالہ الفضل 26 جولائی 1978 ء صفحہ 5.-72 بحوالہ الفضل 26 جولائی 1978 ، صفحہ 5 73- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو پاکستان میں مسیحیت صفحہ 20 تا23، 5010499 - از ڈاکٹرمحمد نادر رضا صدیقی ناشر مسلم اکادمی محمد مگر علامہ اقبال روڈ لاہور 5.اشاعت شعبان 1399ھ / جولائی 1979 ء.74.رپورٹ مجلس مشاورت 1962 ، صفحہ 11، 12.75.رپورٹ مجلس مشاورت 1962ء صفحہ 11، 12.76.رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ پاکستان بابت سال 42-1341 حش /63-1962، صفحہ 153 - 77.عیسائیت سے متعلق آپ کے متعدد مضامین الفضل 1962 ء میں بھی شائع ہوئے.78 - صدق جدید 22 فروری 1963ء بحوالہ الفضل 19 مارچ 1963 ءصفحہ 12.79 الفضل 3 نومبر 1963 ء صفحہ 3.80 الفضل 29 مئی 1962 ، صفحہ 1.81 الفضل 19 جولائی 1962 ، صفحہ 1 - 82.یہ 1960 ء کا واقعہ ہے.83 الفضل 29 اکتوبر 1963 ، صفحہ 2 ، 3.84.مطبوعہ مجلہ الجامعہ ترجمان جامعہ احمد یہ ربوہ.85 الفضل 20 مئی 1962 ء صفحہ 8.86.الفضل 6-20 مئی 1962ء.87 الفضل 6-20 مئی 1962 ء.88’ رپورٹ مشاورت 1961ء صفحہ 91-92 رپورٹ مجلس مشاورت 1962 ، صفحہ 122-123.الفضل یکم جون 1962ء صفحہ 1.89.رپورٹ مجلس مشاورت 1962 ، صفحہ 122 - 90.رپورٹ سالانہ صدرانجمن پاکستان بابت سال 63-1962 ء42-1341 ھش صفحہ 18.91.رپورٹ سالانہ صدرانجمن پاکستان بابت سال 63-1962 ء 42-1341 ھش.( ناشر ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ) 92.سیرت داؤد ، صفحہ 192،191 ، 194 - ( ناشر الجمعية العلمیہ جامعۃ الاحمد یہ ربوہ ) مارچ 1974 ء.93 سیرت داؤد ، صفحہ 191 ،192 ، 194 - ( ناشر الجمعية العلمیہ جامعۃ الاحمد یہ ربوہ ) مارچ 1974 ء.94.بیان لطیف احمد صاحب بھٹی کا رکن نظارت تعلیم صد را مجمن احمدیہ پاکستان.(موصوف 1970 ء سے دار الیتامی کے ساتھ بطور کارکن منسلک ہوئے) 95 الفضل 10 جون 1962 ء صفحہ 1.

Page 670

تاریخ احمدیت 661 96.ترجمہ تار.الفضل 13 جون 1962 ، صفحہ 1.97 تفصیل رسالہ ” خالد اکتوبر 1962 ء صفحہ 50،49 میں مندرج ہے.98.رسالہ ” خالد اکتوبر 1962 ، صفحہ 19.99."کشی نوح صفحہ 21 ( خالد اکتوبر 1962ء صفحہ 25) 100 - حضرت چوہدری محمد حسین صاحب صفحہ 260 تا 263 - ناشر محمد احمد اکیڈمی رام گلی لاہور.101 - الفضل 28 جولائی 1962 ، صفحہ 1.102 - الفضل 16 فروری 1963 ، صفحہ 3.103 - ا الفضل 26 فروری 1963 ء صفحہ 3.-105 104 - الفضل 26 فروری 1963 ، صفحہ 3.-10 - الفضل 28 ستمبر 1962 ، صفحہ 3.جلد 21 106 - الفضل 2 ستمبر 1962 ، صفحہ 3 - الفضل 14 دسمبر 1962 ءصفحہ 3.107 - الفضل 25 اگست 1962 ، صفحہ 1 - 108 _ الفضل 18 اپریل 1963 ، صفحہ 4.109 - تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 125 تا 128 - 110 - الفضل 28 اگست 1962 ، صفحہ 1-8._111 الفضل 30 اگست 1962 ء صفحہ 8.112 - الفضل یکم نومبر 1962 ، صفحہ 1 - تاریخ لجنہ اماءاللہ حصہ سوم صفحہ 132 ، 133 - مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اشاعت 25 دسمبر 1972ء.113 - مصباح ربوہ مارچ 1963 ، صفحہ 7-8-12- -1 الفضل 3 اگست 1962 ، صفحہ 1-8.1 - 114 115 - الفضل 3 اگست 1962 ، صفحہ 8.116 - تریاق القلوب صفحہ 65 طبع اول تالیف 1899 ء اشاعت 4 نومبر 1900.117 - الفضل 14 فروری 1964 ء صفحہ 4.118 - الفضل 10 اپریل 1964 ، صفحہ 3.119.سرگودھا کے بعد بعض فتنہ پردازوں نے اس قصبہ کی احمدیہ مسجد کی تعمیر میں روڑے اٹکانے شروع کر دیئے تھے.(نوائے وقت 17 اگست 1962، صفحہ 120.ایضاً خالد اکتوبر 1962 ، صفحہ 19-20.121.” تحدیث نعمت طبع دوم 661-662 ( از حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب) اشاعت دسمبر 1982 ء.ناشراے ودود احمد 48 جو ہرمحمود روڈ نیو سمن آبا دلاہور پاکستان.122 - الفضل 14اکتوبر 1962 ، صفحہ 2 ( اس مکتوب کا عکس رسالہ " لاہور 22 اکتوبر 1962 ، صفحہ 4 پر شائع شدہ ہے ) 123.سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی.124 - تابعین اصحاب احمد (جلد دہم) صفحہ 98 تا 103 مولف ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان مطبوعہ آرٹ پر لیس امرتسر ا گست 1982ء.125 - ترجمه الفضل 23 ستمبر 1964 صفحہ 8 126 - پاکستان ٹائمنر 20 ستمبر 1962ء صفحہ 6.127.پاکستان ٹائمنر 20 ستمبر 1962ء صفحہ 4( ترجمہ ).128.” تحدیث نعمت طبع دوم صفحہ 664-665 از حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب.اشاعت دسمبر 1982ء.ناشر اے ودود احمد 48 جو ہر محمود روڈ.نیو سمن آباد لاہور.

Page 671

تاریخ احمدیت 662 129.رسالہ ”ٹائم (TIME) امریکہ 28 دسمبر 1962 - اخبار پاکستان ٹائمنر لاہور 20 ستمبر 1962ء صفحہ 2.130.” صدق جدید لکھنو 11 جنوری 1963ء.131 - ترجمہ پاکستان ٹائمنز " 20 ستمبر 1962 صفحہ 2.The Pakistan Times Sept.20, 1962 Page 5 Column 3-132 133.دی پاکستان ٹائمنر 20 ستمبر 1962 صفحہ 5 کالم 3.134.دی پاکستان ٹائمنر.اتوار 23 دسمبر 1962 صفحہ 7 ، کالم 2.135 - اخبار پاکستان ٹائمنر لاہور 23 ستمبر 1962 - ( صفحہ اول پر اس تاریخی موقعہ کی تصویر شائع شدہ ہے) 136.پاکستان ٹائمنر 20 ستمبر 1962ء.الفضل 21 ستمبر 1962.137 - تحدیث نعمت صفحہ 688-965 138 - تحدیث نعمت صفحہ 667-668 طبع دوم.139.بحوالہ الفضل 3 اکتوبر 1962 ، صفحہ 1-8.” لا ہور 28اکتوبر 1962 ء صفحہ 4.140.ترجمہ از الفضل 17 نومبر 1962 ءصفحہ 5.141 - تحدیث نعمت‘ صفحہ 667 طبع دوم.142 - تحدیث نعمت صفحہ 674-675 طبع دوم.143 - تحدیث نعمت صفحہ 668 طبع دوم.144 - تحدیث نعمت صفحہ 669-670 طبع دوم.145.پروفیسر موصوف نے اجلاس کے دوران آپ کو خراج تحسین ادا کیا.پاکستان ٹائمنز 29 ستمبر 1962 ءصفحہ 6.146 - تحدیث نعمت صفحہ 670 طبع دوم.147 - تحدیث نعمت صفحہ 702-713 طبع دوم.148 - تحدیث نعمت صفحہ 672-674.149 - تحدیث نعمت صفحہ 676.The Pakistan Time, Sunday, December 23, 1962 page 7, col.1-150 151.دی پاکستان ٹائمز ، اتوار 23 دسمبر 1962ء صفحہ 7 کالم 1.152.رپورٹ مجلس مشاورت 1963ءصفحہ 64-65.153.رسالہ خالد نومبر 1962 ، صفحہ 12-20.154 - الفضل 23 اکتوبر 1962 ، صفحہ 1 -8- 155.ابن صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب.156.ابن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب.157.الفضل 23 اکتوبر 1962 ء صفحہ 5.158.الفضل 30 اکتوبر 1962 ء صفحہ 3.4.15 _ الفضل 28 اکتوبر 1962 صفحہ 3.-159 160 - الفضل 23 اکتوبر 1962ء صفحہ 1.161 - الفضل 25 اکتوبر 1962 ء صفحہ 3-4.162 - الفضل 25 اکتوبر 1962ء صفحہ 3.163 - الفضل 30 اکتوبر 1962ء صفحہ 8.164 - الفضل 28 اکتوبر 1962 ء صفحہ 8.جلد 21

Page 672

تاریخ احمدیت 663 جلد 21 165.آپ کی تقریر کا متن الفضل 11 نومبر 1962 ء صفحہ 3 پر شائع شدہ ہے.166.الفضل 30 اکتوبر 1962 ، صفحہ 8 الفضل 4 نومبر 1962 ، صفحہ 5.167 - الفضل 10 نومبر 1962 ، صفحہ 5 168.الفضل 30 اکتوبر 1962 ، صفحہ 1.حضور کی زبان مبارک سے تحریک جدید کے سال نو کا اعلان سن کر مخلصین نے فوراً والہانہ انداز پر لبیک کہا چنا نچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند گھنٹوں کے اندراندر - 1074441 روپے کے وعدے اور نقد رقوم جمع ہوگئیں.الفضل 30 اکتوبر -81962 1-169 16 - الفضل 8 نومبر 1962 ءصفحہ 3.170 - الفضل 10 نومبر 1962 ، صفحہ 3.171 - الفضل 14 اکتوبر 1962 ، صفحہ 4.172.الفضل 9 نومبر 1962 ءصفحہ 6.173.رسالہ ” خالد ربوہ فروری 1962 ، صفحہ 25-27.174.رسالہ ”الفرقان“ ربوہ فروری 1963 ء صفحہ 43-44.175 - مکتوب بنام گیانی عباداللہ صاحب مطبوعہ، الفضل 10 فروری 1963 ، صفحہ 6.176 - الفضل 18 جنوری 1962 ء ص 5-8.177 - بدر 3 جنوری 1963ء.178 - الفضل 10 جنوری 1963 ، صفحہ 3 - بدر 3 جنوری 1963 ، صفحہ 3.179 - الفضل 11 جنوری 1963 ، صفحہ 3.180.اخبار بھیم پتر کا5 جنوری 1962 بحوالہ اخبار بدر 17 جنوری 1963ءصفحہ 1.181.الفضل 5 دسمبر 1962 ءصفحہ 1-8.182.اشتہار.7 دسمبر 1962 ء صفحہ 2.الفضل یکم جنوری 1962 صفحہ 3-4.-183 184.الفضل یکم جنوری 1963 ء صفحہ 1-2.1 - 185 1.الفضل 2 جنوری 1963ء.186 _ الفضل یکم جنوری 1963ء صفحہ 1-4.187.اخبار لاہور 6 جنوری 1964 ء صفحہ 2.188 - الفضل 3 جنوری 1963 ء صفحہ 8.189.رپورٹ مجلس مشاورت 1963ء، مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ.اگست 1963 ء.190.تجاویز منظوری کے لئے مجلس مشاورت 1963 ء میں پیش ہو ئیں جیسا کہ آگے ذکر آ رہا ہے.191.الفضل یکم جنوی 1963 ء صفحہ 1 تا 4.192.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.-1 الفضل 6 فروری 1962 ء صفحہ 6.1 - 193 194 - ریکارڈ بہشتی مقبرہ 195.رجسٹر روایات رفقاء جلد 8 صفحہ 74 - ( بہشتی مقبرہ کے ریکارڈ میں سال بیعت 1903 ء درج ہے مگر شیخ صاحب کی ایک دوسری زبانی - روایت کے مطابق جناب ملک صلاح الدین ایم اے کی رائے میں 1902 ء زیادہ قرین قیاس ہے ) 196 - الفضل 12 جنوری 1962 ، صفحہ 1.197.اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 178 - ( ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے احمد یہ بک ڈپور بوہ 1961 ء )

Page 673

تاریخ احمدیت 664 جلد 21 198 - ( بیعت غائباً 1900ء تہجد گزار اور نیک سیرت بزرگ تھے.1906ء میں وفات پائی.امرتسر میں سپردخاک کئے گئے حضرت مسیح موعود نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی تھی عبدالواحد صاحب اور سیئر جہلم آپ ہی کے صاحبزادے ہیں.میاں امام دین صاحب نے موضع قلعہ میں خلافت اولی کے دوران انتقال کیا.(اصحاب احمد جلد دہم حاشیہ صفحہ 178) 199.اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 178-179.200.وفات 12 اپریل 1910 ء مدفون بہشتی مقبره قادیان (اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 186 ).201.اصحاب احمد جلد دہم ص 180.202.روایات رفقاء جلد 8 صفحہ 74-75.203.اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 182.204 - البدر 27 مارچ 1903 ء صفحہ 75.205.اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 182 تا 185.206.اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 185 207.اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 186.208.حضرت اماں جان کی طرف سے آپ نے حج کیا تھا.209 - الفضل 9 جولائی 1962 میں 5.210.باجوہ خاندان صفحه 147 ( مؤلفہ چوہدری غلام اللہ صاحب باجوہ) ناشر چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ.اشاعت جنوری 1986 ء.211.الحکم پر چہ غیر معمولی 11 مئی 1902ء ( تذکر پس 429 طبع سوم ).212.رجسٹر روایات جلد 13 صفحہ 142.213.بدر 10 نومبر 1907 ء ص 2 الحکم 10 نومبر 1907 ءص3.214.رجسٹر روایات جلد 13 صفحه 147-148 - 215.رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمد یہ 35-1934 صفحہ 230 سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ایک حلقہ کا آنریری انسپکٹر بیت المال بھی مقرر کیا گیا تھا.216 'باجوہ خاندان تلخیص صفحه 147 تا 155 - 217.باجوہ خاندان ص 155-156 - 220-218.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل 20 مارچ 1962 ءصفحہ 1.219 - 221.آپ کا نام بیعت کرنے والوں کی فہرست میں الحکم 24 جولائی 1901 صفحہ 5 پر شائع ہوا مگر آپ نے بیعت کا شرف 14 جولائی کو حاصل کیا جس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے اتحکم 28 اپریل 1905 ، صفحہ 4 کالم 1 میں واضح طور پر بتایا ہے کہ آپ کی بیعت کے اگلے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ دیوار کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے گئے اور اخبار الحکم 17 جولائی 1901 ء سے ثابت ہے کہ حضور نے یہ سفر 15 جولائی 1901ء کو اختیار فرمایا تھا پس آپ کی تاریخ بیعت 14 جولائی 1901ء ہی متعین ہوتی ہے.222.رجسٹر روایات رفقاء جلد 5 صفحہ 29 ، 30.آپ 13 اپریل 1913ء کو معہ اہل وعیال ہجرت کر کے قادیان آ گئے تھے.(بدر‘ قادیان 29 مارچ 1962 ، صفحہ 7).223- بدر 29 مارچ 1962 ء صفحہ 7.224.وفات 20 دسمبر 1984ء.225.الفضل 20 مارچ 1962 ، صفحہ 1.226 227.ریکارڈ بہشتی مقبرور بوہ.الفضل یکم تمبر 1962 ، صفحہ 8.(رجسر " قادیان کے صحابہ میں آپ کا سال بیعت وزیارت 1898 ء درج ہے ) 228.ریکارڈ بہشتی مقبرہ.

Page 674

665 جلد 21 تاریخ احمدیت 229.” لا ہور تاریخ احمدیت صفحه 353 مولفہ مولانا شیخ عبد القادر فاضل ( سابق سوداگر مل ) اشاعت 20 فروری 1966 ء لا ہور ( مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ لاہور ) 230.اخبار بد 15 نومبر 1962 ء ص 12.231.اخبار بدر 15 نومبر 1962 ء ص 12.232 مکتوب گرامی مورخہ 19 نومبر 1975 ء از پشاور شہر بنام مولف ایضا الفضل 11 جولائی 1984 صفحہ 6، 7 بعنوان "محترم سید آدم خاں صاحب و محترم عبدالرحیم خاں صاحب 2_الفضل 10 نومبر 1962ءصفحہ 1.-233 234." تاریخ احمدیت جموں و کشمیر صفحہ 24 از مولا نا قریشی محمد اسد اللہ صاحب فاضل مربی سلسلہ احمدیہ.235 الفضل 13 نومبر 1962 ، صفحہ 8.ریکارڈ بہشتی مقبرور بوہ.236.بیعت 27 دسمبر 1891ء (رجسٹر بیعت).237_الفضل 18 نومبر 1962ء ( مضمون میاں محمد ابراہیم صاحب جھوٹی ھیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ).238.الفضل 7 دسمبر 1962ء صفحہ 5 ( مضمون مکرم مولوی عبدالواحد صاحب).239 الفضل 7 دسمبر 1962 ، صفحہ 5 ( مضمون مکرم مولوی عبدالواحد صاحب ).240.الفضل 8 دسمبر 1962ء صفحہ 5 ( مضمون مکرم مولوی عبدالواحد صاحب).-241 2_الفضل 7 دسمبر 1962ء صفحہ 5.242.میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی سابق ھیڈ ماسٹ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ممانی.محمدابراہیم حیڈ ماسٹر ہائی 243.الفضل 18 نومبر 1962 ء صفحہ 5.244.الفضل 18 نومبر 1962 ءصفحہ 5.245.جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مصنف اصحاب احمد نے آپ کی عمر 80 سال لکھی ہے ( بدر قادیان 13 دسمبر 1962 ء صفحہ 8) لیکن خواجہ سعید احمد صاحب ڈار جنرل سیکرٹری پراونشل انجمن احمد یہ کشمیر کے نزدیک بوقت وفات آپ کی عمر قریباً نوے سال تھی ( بدر 10 جنوری -(101963 246 الحکم قادیان 17 دسمبر 1901 صفحہ 12.247 - بدر قادیان 13 دسمبر 1962 ء صفحہ 8.248.مضمون مکرم خواجہ سعید احمد صاحب ڈار جنرل سیکر ٹری پراونشل انجمن احمد یہ کشمیر مطبوعہ بد 10 جنوری 1963 ، صفحہ 10.249.الفضل 17 مارچ 1962 ء صفحہ 5.250.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل 2 فروری 1962 ، صفحہ 3 ،4.251.خالد فروری 1962 ءصفحہ 38،37.252_الفضل 11 جنوری 1962ء صفحہ 1-8- الفضل 2 فروری 1962 ، صفحہ 3-4.الفضل 17-18 مارچ 1962ء 253_الفضل 18 مارچ1962 ء صفحہ 5 254.رسالہ ” خالد ربوہ.فروری 1962 ء صفحہ 28 255.رسالہ ”نقوش‘لا ہور نمبر صفحہ 955،954.256 الفضل 23 مارچ 1962 ، صفحہ 6.257.الفضل 3 اگست 1962 ء صفحہ 5 والفضل 22 جولائی 1962 ، صفحہ 1.258 الفضل 25 ستمبر 1962 ، صفحہ 1 - ریکارڈ تحریک جدیدر بود 259_الفضل 31 اکتوبر 1962 ، صفحہ 1 - بدر قادیان 29 نومبر 1962 ءصفحہ 9.260 الفضل 12 دسمبر 1962 ، صفحہ 8.فہرست کتب شائع کردہ میاں عبد العظیم صاحب درویشان قادیان.پر و پراکٹر احمد یہ بک ڈپو.

Page 675

تاریخ احمدیت 666 جلد 21 261 - الفضل 9 نومبر 1962 ، صفحہ 1 - 8 - رپورٹ سالانہ صدر انجمن پاکستان بابت سال -51-1950 صفحہ 88-92ور پورٹ بابت -74821951-52 262 الفضل 28 جنوری 1962ء.ایک مبارک نسل کی ماں مرتبہ سید سجاداحمد صفحہ 131.263.الفضل یکم جون 1962ء.ایک مبارک نسل کی ماں ص 129 - 264 الفضل 8 اگست 1962 ء.ایک مبارک نسل کی ماں ص 120 - 265 افضل 16 اگست 1962 ، شجرہ مبشرہ نسیم احمد خان 1983 ءلاہور.266.الفضل 27 ستمبر 1962 ءصفحہ 1.267 الفضل 27 نومبر 1962ء صفحہ 1.ایک مبارک نسل کی ماں صفحہ 127 - 268 الفضل 27 نومبر 1962 ، صفحہ 1.ایک مبارک نسل کی ماں صفحہ 121.269.الفضل 25 جنوری 1962 ءصفحہ 1.-272 270.الفضل 7 اپریل 1962 ، صفحہ 1.271 - الفضل 13 جنوری 1962 ، صفحہ 1.- الفضل 16 جنوری 1962 ، صفحہ 1.273.الفضل 18 جنوری 1962 ء صفحہ 8.274.الفضل 23 جنوری 1962 ء صفحہ 5.275 الفضل 28 جنوری 1962 ، صفحہ 6.276_الفضل 30 جنوری 1962 ، صفحہ 1.277_الفضل یکم فروری 1962 ، صفحہ 1.278.الفضل 3 فروری 1962 ءصفحہ 1.279.الفضل 13 مارچ 1962 ، صفحہ 1.280 _ الفضل 26 مئی 1962 ء صفحہ 1.281 - بدر 12 جولائی 1962 ، صفحہ 1.282.الفضل 18 اگست 1962 ، صفحہ 1.283.بدر 20 اگست 1962ء صفحہ 7.284.الفضل 26 اگست 1962 ، صفحہ 1.285_الفضل 5 ستمبر 1962 ء صفحہ 6.286_الفضل 8 ستمبر 1962 ءصفحہ 4.287.الفضل 15 ستمبر 1962 ء صفحہ 8.288_الفضل 18 ستمبر 1962 ء صفحہ 1.289_الفضل 9 اکتوبر 1962 ء صفحہ 8.290 - حال انچارج شعبہ زود نویسی.291.حال واقف زندگی ٹیچر یوگنڈا.292 - الفضل 26 اکتوبر 1962 ، صفحہ 1 تا 8.-2 الفضل 31 اکتوبر 1962 ، صفحہ 1.-293 294.الفضل 8 نومبر 1962ءصفحہ 1.295 الفضل یکم دسمبر 1962 صفحہ 5.

Page 676

تاریخ احمدیت 296 الفضل 12 دسمبر 1962 ، صفحہ 1.297_الفضل 13 دسمبر 1962 ، صفحہ 8.1298 2 الفضل 16 جنوری 1962 ء صفحہ 3.667 299.تصدیق نامہ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ قادیان محرر و 20 دسمبر 1963 ء.300 - بدر 18 جنوری 1962 ، صفحہ 1.301 - بدر 22 فروری 1962 ء صفحہ 4.302 - بدر 22 فروری 1962 ، صفحہ 11.303 - بدر 22 مارچ1962 ، صفحہ 1 - 304 - بدر 29 مارچ 1962 ، صفحہ 1-12- 305- بدر 17 مئی 1962 ء صفحہ 8.306.روز نامہ ملت لاہور 25 دسمبر 1935 صفحہ 6 کالم 5.307 حمید نظامی بحیثیت صحافی صفحہ 276 از ڈاکٹر فوزیہ اسحاق صاحبه ناشر گوھر سنز رحمان مارکیٹ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور.308.ایضاً صفحہ 43-44 ایضا نشان منزل صفحہ 48.بیگم محمودہ حمید نظامی.309.بدر 2 اگست 1962 ء صفحہ 1-8.310 - بدر 16 اگست 1962 ء صفحہ 12.311.بدر 20 ستمبر 1962 ، صفحہ 1.جلد 21 312 - بدر 13 ستمبر 1962 ، صفحہ 12.313 - بدر 4 اکتوبر 1962 ءصفحہ 1.314.بدر 27 ستمبر 1962ء صفحہ 1-12- 315 - بدر 29 نومبر 1962 ء صفحہ 8.316 الفضل 25 فروری 1962 ، صفحہ 1.317.بحوالہ الفضل یکم اپریل 1962 ، صفحہ 1.318.بدر 17 جنوری 1963 ء صفحہ 5.319 - بدر 21 جون 1962 ، صفحہ 9-10 - بدر 28 جون 1962 ء صفحہ 9-19 - بدر 12 جولائی 1962ء صفحہ 9-10 - بدر 19 جولائی 1962 ، صفحہ 10.320 الفضل 20 مارچ 1962 ءصفحہ 1-8.321.الفضل 22 مارچ 1962 ءصفحہ 1-8.322 الفضل 18 مئی 1962 ، صفحہ 1.323 الفضل 18 مئی 1962 ، صفحہ 1 - 324 الفضل 31 مئی 1962 ، صفحہ 4 الفضل 2 جون 1962 ء صفحہ 1.325.بدر 14 جون 1962 ء صفحہ 2 - بدر 21 جون 1962ء صفحہ 8 - بدر 12 جولائی 1962ء صفحہ 2-6.326.بدر 19 جولائی 1962 ء صفحہ 2-11.327- بدر 27 ستمبر 1962ء صفحہ 1 - بدر 18 اکتوبر 1962 ء صفحہ 5-6.328.بدر 29 نومبر 1962 ء صفحہ 6 - بدر 20/27 دسمبر 1962 ، صفحہ 26.329.بدر 21 جون 1962 ء صفحہ 8.330.بحوالہ بدر 19 جولائی 1962 ء صفحہ 6.3 الفضل 8 اگست 1962 ء صفحہ 5.-331

Page 677

تاریخ احمدیت 332 الفضل 11 نومبر 1962 ، صفحہ 4 333.بدر 11 جنوری 1962 ، صفحہ 12.334 الفضل 18 اگست 1962 ، صفحہ 3-4.335 الفضل 31 اگست 1962 ءصفحہ 3-4.668 جلد 21 336.ویک فیلڈ جیل کے گورنر کی درخواست پر چوہدری رحمت خاں صاحب نے جیل میں اسلام پر لیکچر دیا اور اسلامی تہواروں کے متعلق بتایا اس وقت سے جیل کے مسلمان قیدیوں کو عید پر چھٹی ملنے لگی اور جماعت بریڈ فورڈ بھی بہت عرصہ تک قیدیوں کے لئے ہر عید کے موقع پر کھانا بھجواتی رہی.1963ء میں جماعت نے نماز عید Little Horton Lane 2 کے ایک کمرہ میں ادا کی 1976 ء تک جماعت کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ گئی اس لئے جماعتی اجلاس گھروں کی بجائے Y.M.C.A ہال میں ہونے لگے 1979 ء میں جماعت نے مشن ہاؤس کے لئے لیڈ ز روڈ پر ایک بہت بڑی عمارت خرید لی جس کا افتتاح ستمبر 1980ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا.(مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو ماہانہ البصیرت بریڈ فورڈ سالنامہ اپریل 1985 ، صفحہ 33-34) 337 الفضل ربوہ 31 اگست 1962 ، صفحہ.رپورٹ از جناب مکرم و محترم بشیر احمد خان رفیق صاحب.338 الفضل 26 فروری 1963 ء صفحہ 3-4.339 الفضل 29 ستمبر 1963 ء صفحہ 4.340.الفضل 26 ستمبر 1962 ، صفحہ 5.341 الفضل 15 نومبر 1962 ء صفحہ 3 - الفضل 17 جنوری 1963 ءصفحہ 3.342 _ الفضل 13 مارچ 1962 ، صفحہ 5 - الفضل 16 مارچ 1962 ، صفحہ 3.3 الفضل 12 اگست 1962 ، صفحہ 5._343 344.الفضل 14 دسمبر 1962 ، صفحہ 3-4-الفضل 15 دسمبر 1962ء صفحہ 3.345 الفضل 20 جنوری 1962 ، صفحہ 1 - 346.ایڈیٹر کو سہو ہوا ہے.جماعت کی بنیاد 1889 کو رکھی گئی.انور 347 الفضل 3 اگست 1962 ء صفحہ 4.348 الفضل 5 اکتوبر 1962 ء صفحہ 5._350 349 الفضل 17 جنوری 1962 ، صفحہ 1 - الفضل 26 جنوری 1962 ء صفحہ 3-4 الفضل 27 جنوری 1962 ء صفحہ 3-4.- الفضل 16 جون 1962 ء صفحہ 3-4.351 الفضل 22 جون 1962ء صفحہ 4-5 - الفضل 23 جون 1962 ، صفحہ 5 الفضل 26 جون 1962 ء صفحہ 5-8.352 الفضل 23 اکتوبر 1962 ، صفحہ 3-4 الفضل 27 اکتوبر 1962 ، صفحہ 3-4- الفضل 30 اکتوبر 1962 ، صفحہ 54 353 الفضل 2 مارچ 1963 ء صفحہ 3-4 الفضل 3 مارچ 1963 ، صفحہ 3 - الفضل 5 مارچ 1963 ء صفحہ 3 - الفضل 7 مارچ 1963 ء صفحہ 3-7.354.الفضل 25 اپریل 1962 ء صفحہ 3.355 الفضل 17 جون 1962 ، صفحہ 3-4- الفضل 19 جون 1962 ء صفحہ 5-8 الفضل 28 جون 1962 ، صفحہ 3.356 الفضل 21 ستمبر 1962 ، صفحہ 4-5 الفضل 22 ستمبر 1962 ءصفحہ 3-4.357 الفضل 23 جنوری 1963 ، صفحہ 5 - الفضل 24 جنوری 1963 ء صفحہ 5.358 الفضل 5 فروری 1963 ء صفحہ 5.359.عائشہ نامہ کتاب پر نائیجیریا مشن کی طرف سے بھی وزیر اعظم سیرالیون کو احتجاجی مراسلہ بھیجا گیا جسکا ذکر اخبارات و ریڈیو نے بھی کیا.الفضل 29 جون 1962 ، صفحہ 5.360 الفضل 3 جون 1962 ء صفحہ 3-4 - الفضل 5 جون 1962ء صفحہ 5 الفضل 7 جون 1962 ء صفحہ 5.361 الفضل 7 اگست 1962 ء صفحہ 3-4.362 الفضل 21 اگست 1962 ، صفحہ 3-4- الفضل 24 اگست 1962 ، صفحہ 3.

Page 678

تاریخ احمدیت 669 363 الفضل 9 دسمبر 1962ء صفحہ 3-4- الفضل 11 دسمبر 1962 ء صفحہ 3-4.364.وزیر موصوف کا مفصل بیان تاریخ احمدیت جلد 8 ص426 تا428 پر درج ہے.365.الفضل یکم فروری 1963 ء صفحہ 4.الفضل 2 فروری 1963 ، صفحہ 4, 8,5.الفضل 19 دسمبر 1962 ءصفحہ 1-8.366 الفضل 13 اپریل 1962 ، صفحہ 1 - 1196213 367 الفضل 11 اگست 1962 ء صفحہ 5.368 الفضل 27 جنوری 1963 ء صفحہ 5.369 مفصل اقتباس " تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ 294 میں درج کیا جا چکا ہے.370 الفضل یکم اپریل 1962 ، صفحہ 3.371 - الفضل 29 جولائی 1962 ، صفحہ 3-4 372_الفضل 18 ستمبر 1962ء صفحہ 3-4- الفضل 19 ستمبر 1962 ءصفحہ 4-5.373 الفضل 30 جنوری 1963 ، صفحہ 5-8.374 الفضل ربوہ 4 جنوری 1989 صفحہ 3 ،5،4.375 الفضل 20 جنوری 1962 ، صفحہ 1.376 الفضل 3 اکتوبر 1962 ، صفحہ 5،4.377 الفضل 20 مارچ 1962 ء صفحہ 3.378.بدر 24 مئی 1962 ، صفحہ 1 - 379.بدر 31 مئی 1962 ، صفحہ 1.380 الفضل 8 جولائی 1962 ء صفحہ 4.381.الفضل 17 نومبر 1962 ءصفحہ 5.382 الفضل 20 دسمبر 1962ء صفحہ 5.3 الفضل 8 ستمبر 1962 ء صفحہ 3-4.1383 384 الفضل 16 جنوری 1962 ، صفحہ 1.الفضل 14اپریل 1962 ، صفحہ 4.385.الفضل 4 اپریل 1962 ءصفحہ 3.الفضل 28 جون 1962 ، صفحہ 4-5.-386 387.الفضل 20 جون 1962 ، صفحہ 5 - الفضل 21 جون 1962 ء صفحہ 4.388.الفضل یکم نومبر 1962 ءصفحہ 3-4.389 الفضل 14 فروری 1963 ء صفحہ 2 - الفضل 6 فروری 1963ء صفحہ 2.390 الفضل 28 جولائی 1962 ، صفحہ 1 - 391 الفضل 7 اکتوبر 1962ء صفحہ 3-4 - الفضل 9 اکتوبر 1962 ، صفحہ 54.الفضل 1 اکتوبر 1962 ءصفحہ 3.392 الفضل 21 جنوری 1962 ، صفحہ 1.39 الفضل 13 مارچ 1962 ، صفحہ 1 - 394 الفضل 27 فروری 1962 ، صفحہ 1.395 الفضل 27 فروری 1962 ، صفحہ 1.396.الفضل 23 مارچ 1962 ، صفحہ 1.30 اپریل 1962 ، صفحہ 1.397 الفضل 23 مارچ 1962 ، صفحہ 1 - 30 اپریل 1962 ، صفحہ 1 - 398 الفضل 13 اپریل 1962 ، صفحہ 1 - جلد 21

Page 679

تاریخ احمدیت 399 الفضل 6 مئی 1962 ، صفحہ 1.400 الفضل 8 مئی و 9 جون 1962 ، صفحہ 1.401 الفضل 22 مئی 1962 ، صفحہ 1.402.ریکارڈ تبشیر.403 الفضل 10 جولائی 1962 ، صفحہ 1 - 404 الفضل 15 جولائی 1962 ، صفحہ 1 - 670 405 الفضل 24 جولائی 1962 ء صفحہ 8.الفضل 3 اگست 1962 ، صفحہ 1.406 الفضل 5 اگست 1962ء صفحہ 8 - الفضل 25 جولائی 1962 ، صفحہ 1.407.ریکارڈ تبشیر.408.الفضل 9 مئی 1962 ء صفحہ 1.409.الفضل 8 جون 1962 ، صفحہ 1.410 الفضل 24 جولائی 1962 صفحہ 8 411.الفضل 26 جولائی 1962ء صفحہ 1.412.الفضل 23 اگست 1962 ، صفحہ 1.413 الفضل 11 ستمبر 1962 ، صفحہ 1 - 414.الفضل 20 اکتوبر 1962 ، صفحہ 1.415.الفضل 9 دسمبر 1962 ء صفحہ 1.جلد 21 416 الفضل 13 دسمبر 1962 ء صفحہ 1.417.الفضل 25 دسمبر 1962 ، صفحہ 1.418.الفضل 30 اپریل 1962 ء صفحہ 4.419.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد نے اس کتاب کے بارہ میں تحریر فرمایا.اصحاب احمد کی گیارھویں جلد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کو دیکھنے کا موقع ملا ہے بہت عمدہ مرقع ہے.مکرم چوہدری نصر اللہ خان صاحب انکی اہلیہ محترمہ اور ان کے فرزندان گرامی سے متعلقہ جملہ ضروری حالات کو نہایت محنت سے یکجا کر دیا گیا ہے اور ہر واقعہ کی سند بھی ساتھ ہی درج کر دی گئی ہے اور ان کی مذہبی، سیاسی اور ذاتی کارگزاریوں کا بہت خوبی سے ذکر کیا ہے جس سے مکرم چوہدری صاحب اور ان کے خاندان کے علو مرتبت کا نقشہ کھینچ جاتا ہے اور ان سب کے لئے دعا پر طبیعت اپنے آپ کو مجبور کرتی ہے یہ کتاب انسائیکلو پیڈیا کا کام دیتی ہے اس میں مکرم صلاح الدین صاحب نے بہت محنت سے سلسلہ کے لٹریچر اور دیگر اخبارات اور کتب سے جملہ ضروری امور کو یکجا کر دیا ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء الفضل 27 جنوری 1963 ، صفحہ 3.420 الفضل 27 جنوری 1963 ، صفحہ 3.421 الفضل 6 جنوری 1963 ، صفحہ 1 - 422.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے اس کتاب کے بارہ میں مکرم کیپٹن خادم حسین کو تحریر فرمایا یہ کتاب مفید اور دلچسپ معلومات پر مشتمل ہے ایسی کتاب کی قدر آئندہ زمانوں میں بڑھتی چلی جائے گی جبکہ جماعت کی تاریخ کے مدون کرنے کا وقت آئے گا اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.الفضل 27 اکتوبر 1962، صفحہ 4)

Page 680

تاریخ احمدیت 671 جلد 21

Page 681

اشاریہ جلد ۲۱ (مرتبہ : ریاض محمود باجوہ شاہد ) اسماء ۱تا ۱۹ مقامات ۲۰ تا ۲۶ کتابیات ۲۷ تا ۳۰

Page 682

۴۹۹،۴۹۸ ۳۵۱ ۵۸۴ ۱۹۸ ۶۵۲ ۵۷۱ ۳۸۱،۹۸ ۹۹ ۱۷۴۱۶۹ ۹۳ ۶۱۶ 44 ۱۱۸ ۵۷۸ ۴۶۱ ۵۲۷،۸ ۶۱۱ ۵۳۴ ۱۹۵ ۳۷۷ ۶۲ ۵۸۹ ۱۶۳ ۱۶۲ ۳۵۴ ۱۳۸،۱۳۵ اسماء ابوالعطاء جالندھری، حضرت مولانا ۲۳۴، احمد بن بیلا.صدر الجزائر ۲۳۹، ۳۵۰،۳۰۰،۲۹۷، ۴۳۶، ۴۴۲، ۴۴۴، احمد جان ۴۶۰ ، ۵۳۷ ،۵۴۳، ۵۷۱،۵۶۹،۵۴۸ | احمد جان ، میاں ۵۶۹ | احمد حسن.پشاور ابوالمنیر نورالحق ابوبکر ، الحاج.آئیوری کوسٹ ۱۷۰ احمد حسین سوکیہ ابوبکر، ڈائریکٹر.مالمو ابوبکر ایوب ، مولوی ۲۰۳ احمد خاں نسیم ،مولانا ۹۷،۹۶ | احمد رشدی.انڈونیشیا ابوبکر نتفاوا بلیوا.وزیر اعظم نائیجیریا ۱۸۱ احمد شاہ، سید مجاہد انگلستان ابوبکر سلہ.آئیوری کوسٹ ۱۷۰ احمد شمشیر سوکیه ۲۷۷ احمد شہید.امریکن ۱۳۸ | احمد صادق، میر ۴۶۸ احمد گائی.گیمبیا ۲۵۱ احمد نور کابلی سید ۲۹۶ احمد یوشیدا، پروفیسر ۳۶۸ ۵۸۶،۵۸۵ ۷۶ ۲۶ ۱۱۷ ۳۸۸ ۶۲ آ آدم.عربی فاضل معلم.غانا آدم خاں ، سید آڈیٹولا، چیف جسٹس آرن ٹو فٹ آش مالک انڈوئی آغا خاں،سر آکرے آمنه بشری ۳۳۷ ابوبکرصدیق ،حضرت آونگ عثمان ،سراوک آئرن کرین.برطانیہ ۶۵۲ ۱۴ ابوبکر طورے ابوطاہر محموداحمد حکیم آئزن ہاور.امریکی صدر ۹۵،۸۹٬۸۸ ابو جہل احتجاج علی زبیری ابراہیم.انڈونیشیا احتشام الحق ، ڈاکٹر ۱۲۵ | اختر احمد اور مینوی ، سید ابراہیم آلیور.گیمبیا ابراہیم منیب احسان اللہ ، ملک.لاہور ۶۹ اختر حسین شیموگہ ۲۸۹ احسان اللہ عائشہ ۲ ارشاد احمد شکیب.جیک آباد ابراہیم بن محمد مانو.غانا ۲۴ احسان الہی ، میاں.دیلی ۴۶۹ ارشاد حسین ایم.اے سید ابراہیم سمبیگو ابرا ہیم عبدالقادر جکینی ابراہیم قادر، علامہ ابرا ہیم محمد مینو.غانا 171 ۱۲۲،۱۱۸ ۲۸۹،۱۳۸ ۱۱۷ ۹۹ احسان علی خاں ، نواب ۲۶۴ | ارشد محمود احمد احسن الحدی، علامہ ۴۱۹ ارین، پروفیسر ڈاکٹر احسن بیگ، مرزا ۳۱۴ اسامہ بن زید احسن موسیٰ قمر.قائمقام صدر گیمبیا ۱۳۳ اسحاق.افرانسی احمد الخطيب - لبنان ابوالاعلیٰ مودودی ، علامه ۹۱،۸۹، ۵۳۷، احمد الدین زرگر ۶۰۹،۵۳۸ احمد اللہ.ماریشس ابوالبشارت عبد الغفور ، مولانا ۲۹۷ تا ۳۰۲ | احمد الہ دین ہیٹھ ۳۹۶،۳۸۸ اسماعیل طراوے.گیمبیا ۱۴۵ اسد اللہ خاں، چوہدری ۳۰۴ حضرت اسماعیل علیہ السلام ۶۵۲ اسماعیل آدم ہیٹھ.جنتہ کنٹہ

Page 683

اسماء.زائرین جلسہ سالانہ قادیان الیاس، الحاج.مکہ مکرمہ ۵۴۹ تا ۵۵۷ | الیاس برنی اسماء تبرکات رکھنے والے احباب الیانڈ روپشین، پروفیسر ۵۳۴۲۵۳۰ آمنه طبیبه بیگم ، صاحبزادی نواب ۶۳۰ 11 لمة الرؤف بنت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد ۳۵۰ لامته السلام زوجہ ڈاکٹر میجر عبد الحق ملک ۳۴۵ ۶۲۸ امتہ السمیع شہناز ۲۲۰ امت الشکور بیگم، صاحبزادی بیگم،صاحبزادی ٣٠٢ ۶۰۳ اسماء طاہرہ بنت مولوی عبد الباقی ایم اے امام الدین ، مولوی.انڈونیشیا ۹۶، ۹۹ ، امتہ العزیز اہلیہ حکیم محمد اسماعیل فاضل ۵۷۸ ۴۵۲ اصغری، مسٹر لندن اعجاز احمد سلیا نہ ایم.اے ۱۹۷ امام الدین، میاں اعجاز الحق ، ڈاکٹر.لاہور ۶۵۹ امام الدین.ساکن قلعہ ۴ امامہ بنت مرز اسلیم احمد ۳۵۲ امة الباسط - ربوہ ۶۵۹ امته الباسط بیگم، صاحبزادی ۳۲۱ ۶۵۴۳۸۳ امتہ العزیز اہلیہ مرزا محمد ادریس ۲۳۹ امة العزيز اہلیہ کموڈور چوہدری رحمت اللہ ۶۶۴،۵۷۴ باجوہ ۳۵۰ امۃ العلیم بنت داؤ د مظفر شاہ ۶۰۴۳۵۱ امۃ العزیز عائشہ ۵۸۲ ۳۵۰ ۶۱۱ ۴۴۵ امتہ القیوم اہلیہ چوہدری آفتاب احمد ۳۸۲ ۳۴۲ ۳۲۱ ۳۴۱ ۵۶ ۳۵۰ ۶۰۳ ۲۶۵ ۲۶۵ ٣٠٢ اعجاز الحق قریشی.مظفر گڑھ اعجاز الحق قریشی.ربوہ اعظم علی، چوہدری افتخار حسین ،سید گھٹیالیاں ۱۹۷ امتہ الباری بیگم، صاحبزادی ۲۶۵ امتہ الکریم اہلیہ قاضی عبدالمجید اقبال احمد ، مولوی.سیرالیون اقبال احمد شاہد.مجاہد گیمبیا ۳۷۳ امتہ الباری بنت میاں عبد الرحیم ۶۰۵ امتہ الکریم راضیه ۶۳۴٬۳۸۳،۳۷۴ تا ۶۳۶ امتہ الحفیظ اہلیہ چوہدری اعجاز احمد ۵۸۲ امتہ اللہ بیگم.قادیان ۲۸۹ لمتہ الحفیظ اہلیہ شیخ محمد یعقوب امرتسری ۵۷۸ امتہ المجید، صاحبزادی اقبال احمد غضنفر، مولوی اقبال حسین کرمانی ،سید ۴۳۲ اقبال سیفی ۶۳۳،۳۷۲ الحسن عطاء،حاجی ۱۲۱ امة الحفیظ بائی ۶۰۸ امتہ المومن حنا، صاحبزادی امة الحفیظ.حضرت سیدہ نواب ۲۱۰ تا ۲۱۲، امة الناصر ، سیده ۴۵۱،۳۹۴۰۲۱۴ تا ۴۵۹ امۃ النور بنت پیر معین الدین ۳۶۹ امتہ الحفیظ قریشی سیالکوٹ ۳۵۱ ۳۵۳ امتہ الحکیم اہلیہ شیخ طاہر احمد امۃ الواسع ندرت ، سیده ۵۷۹ امته الوحید بیگم ، صاحبزادی ۳۷۴ امتہ الحميد بنت خلیفہ عبدالرحیم جمونی ۵۹۱ امة الودود،صاحبزادی لیہ الرحمان بنت خواجہ محمد دین سیالکوٹی ۳۴۵ امتہ الہادی - کراچی الزبتھ ، ملکہ الفا اور لیسا.سیرالیون اللہ داد، بابو اللہ بخش تسنیم ، میر ۳۲۱ امة الرحیم خانم اللہ دتہ، حکیم.در گانوالی (رفیق) ۵۷۲ امتہ الرحیم عطیہ اللہ دین ولد ماؤ جی بمبئی ۵۷۳ ۳۸۸ امة الرشيد لطيف امة الرشيد ممتاز المامی، امام - گیمبیا المامی سوری الحاج - سیرالیون ۳۷۴ امته الرفیق ، سیده ۳۱۶ امر سنگھ ، سردار ۶۰۶،۳۵۳ ۳۲۱ ۳۵۱ امری عبیدی، شیخ.تنزانیہ ،۶۴۱،۳۵۱ ۶۴۳ تا ۶۴۵ ۳۰۲ ام سلمی ۵۲۶ ۱۱۷ امتۃ الرفیق ، صاحبزادی ۳۵۰ ام متین ، سیده ( مریم صدیقه ) ۶۱۱،۲۰۵ ۳۵۲ ام مظفر النبی جان زوجه مهردین ۵۷۳ لمتۃ الرفیق بنت خلیفہ عبدالرحیم جمونی ۵۹۱ امیرحسین، قاضی سید ۴۳۹،۲۵۳ ۳۳۴

Page 684

۵۹،۱۸ برکت اللہ ، حافظ.بھدرک ۴۲۲ امیر عالم ، ماسٹر کوٹلی ۵۹۰ | ایڈورڈ ہنری ونڈ لی ،سر امیر محمد خاں، ملک امید علی، ڈاکٹر امین ،مسٹر نائیجیریا ۴۶۸ الیس.اے کا کوکی ۶۳۱ الیس سلیمان جیک ۱۱۶ بدرالدین، ڈاکٹر حافظ ۳۱۷ تا ۳۸۳،۳۲۱ ایڈی ایل سٹیونسن ۴۹۴ ، ۴۹۵ بدرالدین، مولوی سید ۱۸۴ برج دیو ۶۱۲ ۳۰۳ ۱۳۴ ، برکات احمد را جیکی مولوی ۳۵۳٬۳۰۸ امین اللہ خاں سالک ۶۲۶،۳۶۶،۹۳ الیس عبد اللہ.جرمن جرنلسٹ امین ولی نجی ۲۸۸ ایس کے ڈانگے اندرا گاندھی ۳۷۸ ایشر سنگھ گیانی انجم شہباز سلطان ایم.اے ٣٠٣ اے.کے بروہی انوار احمد ، ڈاکٹر.گیمبیا انوار حسین ، حکیم.خانیوال ۵۶۹ انوار رسول، حافظ ۲۹۶ ۶۱۰ برکت اللہ ، ملک ۵۴۰ برکت بی بی اہلیہ ملک عبد الغنی کنجاہی ۳۲۵ ۶۲۸ برہان الدین جہلمی ، مولانا ۱۲۴ ایل ایس جوارا.گیمبیا ۱۳۶ تا ۱۳۸ بشارت احمد.امریکہ ایلڈرمین اے ایف رحمان.سیرالیون بشارت احمد ، سید حیدر آباد دکن انور احمد ، صاحبزادہ مرزا ۳۵۸ ایم ایچ ڈی الغالی.سیرالیون انور احمد کاہلوں، چوہدری ۴۷۰ ایم ایل سی انور حسین ایڈووکیٹ، چوہدری انور عادل انور فرید انیس احمد عقیل ایم.اے ۱۵۲، ایم بی ابراہیم.سیرالیون ۶۵۹،۵۷۰ ایم ایس کیا.گیمبیا ۶۱۴ ایم ایس مصطفی.سیرالیون ۷۶ ۱۲۶ ایم.کے بنگائے.سیرالیون اوتول، اے.آر.اے.نائیجیریا ۶۳۳ ۱۰۸،۱۰۵،۱۰۴ ۱۰۴ بشارت احمد ابن مولانا ابوالبشارت عبد الغفور ۳۸۰ بشارت احمد بشیر ، مولانا ۳۷۴ ۶۳۶ ۲۷۸ ۳۴۷ ۳۹۰ ٣٠٢ ،۱۶۸ ،۷۴ ۶۵۵،۶۳۵،۶۳۴ بشارت احمد خاں.ترناب ۱۰۴ زیروی بشارت الرحمن زیر وی.بانحبل ۱۰۹، ۶۳۷ بشیر احمد ، حاجی ملک.امریکہ ۳۷۴ بشیر احمد ، ڈاکٹر.کوپن ہیگن ایم.نا گیائی ، شری ۳۵۴ بشیر احمد ، ڈاکٹر.گگومنڈی ۲۵ ایم نورالحسن گھٹیالیاں ۱۹۷ بشیر احمد ابن میاں محمد ابراہیم ۳۵۱ ۱۲۷ ۹۳ ۲۶،۲۴ ۵۷۳ ۳۴۰ اور تنگ تکی عبد القادر اوتھانٹ، جنرل اوله باسی اجاله اوم پر بھاؤ ، شریمتی ۴۹۸ اینڈرسن، پروفیسر.انگلینڈ ۶۵۳ بشیر احمد ایڈووکیٹ ، شیخ ۱۰ اینڈریو کور ڈیر ۶۱۰ اینڈریوکوری ۴۷۴ ۱۵۲ ۱۸۲ تا ۶۵۹،۲۵۰،۱۸۶ ۵۰۴ بشیر احمد ایڈووکیٹ، چوہدری.گجرات ۵۶۹ اہلیہ چوہدری نسیم احمد بانکیل ۱۲۶ اینڈریو گرو میکو.روسی وزیر خارجہ ۵۰۴ اہلیہ عبداللطیف بینی اہلیہ محمد یوسف علی اہلیہ مولوی محمد اعظم بوتالوی اے ایس ڈی اوکلا ۶۱۵ این.کیو.کنگ، پروفیسر ۳۱۷ ایوا، مسٹر انڈونیشیا ۵۷۹ ۳۷۴ باڈاطر اوے اے ایس مانسرے مسٹر ۳۷۴ بانجا تیجان سی.سیرالیون بشیر احمد ایم.اے، صاحبزادہ مرزا ۷،۶، ۹۵، ۱۰۱، ۱۵۰،۱۴۹ تا ۱۵۶،۱۵۲ ۱۵۷ ،۲۰۴،۱۹۸ ،۱۹۵،۱۹۴ ، ۱۸۸ ،۱۸۷ ، ۱۶۰ ،۲۵۴،۲۴۸،۲۳۸ ،۲۳۳،۲۳۰،۲۲۹ ،۲۱۵ ،۳۱۳،۳۱۱،۳۱۰ ، ۲۷۴ ،۲۶۷ ۲۶۶ ۲۶۱ ۱۳۶ ۳۸۱،۳۷۴،۳۴۱ ،۳۳۲،۳۲۰،۳۱۴ ۱۸۵

Page 685

۳۹۰ ، ۴۰۰، ۴۰۹ تا ۴۱۲، ۴۳۶،۴۱۶، ۴۳۸ ، ۶۱۸،۵۸۷،۵۸۶،۵۷۷،۵۶۵، ۶۵۷ پیراحمد سیالکوٹی ، حکیم سید ،۵۱۳،۴۶۵،۴۶۲۰ ۴۶۱ ،۴۵۱ ، ۴۴۱ بشیر حیدرسیالکوٹی ، ڈاکٹر سید ۳۰۴ پی عبدالرزاق.بمبئی ۵۱۷ تا ۵۴۳،۵۲۷،۵۲۳،۵۲۲،۵۱۹، بکھل، لالہ ،۵۸۴،۵۶۶،۵۶۵،۵۵۸ ،۵۴۹ ،۵۴۵ ،۶۵۴،۶۲۶،۵۹۹،۵۸۷ ، ۵۸۶ ۳۲۶ ت.ٹ.بلی گراہم ، ڈاکٹر ۶۵ ۸۵،۸۴، تاج دین لائکپوری، مولانا ۶۷۰،۶۵۹ بندھو بڑا، شری بشیر احمد باجوہ.داتا زید کا ۲۰۲،۱۹۷ بوزینب بیگم، صاحبزادی ۹۹،۹۸، بوسیا، ڈاکٹر بشیر احمد خاں رفیق ، خان ۸۸، ۵۴۲٬۹۱،۸۹ | توفیق احمد ، مرزا ۶۱۳ تنگاں ، حاجی ۴۵۴، ۶۲۰ تا ۶۲۲ بونگے، مسٹر فری ٹاؤن کے میئر ۶۳۶،۶۳۳ ٹرومین، صدر بشیر احمد دہلوی، مولوی فاضل ۳۵۶،۳۵۵ بچه نند پٹنائک ۲۵۳ ۳۵۳ ۳۰۱،۲۹۷ ۶۰۳ ۶۵۲ ۲۴۱، ۲۵۶ ٹام بویا، مسٹر ۳۷۷ ۱۷۱ شب مین.وزیر اعظم لائبیریا ۱۸۱ ۱۸۳ ۲۰۷ شلفاک، ڈاکٹر.جرمن نومسلم لات ۴۹۱ ۱۷ ۴۱۴ تا ۴۲۳،۴۲۲،۴۱۸، ۴۷۱ ، ۵۴۸، بیچر ، بشپ ۳۷۶، ۳۷۷ ٹی.کے.جوزف جسٹس ۶۱۲ تا ۶۱۶ بیمبا الرڈ.سیرالیون ۱۰۴ ثریا سلطانہ بنت شیخ دلاور علی ۶۰۷ ۶۰۳ بشیر احمد ظفر کنجاہ ۳۲۷ بھیجات قندیل ۴۲۳ بشیر احمد شمس، مولوی ۶۳۳،۳۷۲،۳۷۱،۹۹ بھو میھال.تھائی لینڈ کا بادشاہ بشیر احمد مظفر، راجہ.انگلینڈ بشیر احمد افضل.امریکہ بشیر الدین اسامہ.امریکہ بشیر الدین الہ دین سیٹھ بشیر الدین خلیفہ،سید.سورو بشیر الدین عبید اللہ ، حافظ ۶۲۱ ۶۲۶ ۹۳ ۴۰۱ بھونیشور پر شاد، شری ڈاکٹر پا رہتی دیوی پانڈ ورائے ، شری پالی بومانی پرتاپ سنگھ، مہاراجہ ۷۶ تا ۷۸ ثناء اللہ امرتسری،مولوی جارج پنجم ، شاہ جان محمد ،مولوی.ڈسکہ ۳۰۳ جان محمد میاں.رفیق ، ۴۹۱ ۳۳۳ ۵۸۴ ۳۵۴ جاوید احمد ، مرزا ابن مرز اسلیم احمد ۶۰۳ ۳۹۱ ۶۵۳ ٩،٨ ج - چ ۳۷۷ جاوید حسن ابن چوہدری محمد علی جبرئیل سعید ۶۰۴ ۱۱۵،۱۱۴ ۵۸۹،۵۸۷ ۳۸۳،۱۲۷ ۶۳۶،۶۳۵ شیرالدین محمد احمد خلیل اسی نشانی مالی پرتاپ سنگھ کیوں مردار الموعود ،۱۴۷ ،۹۷ ،۹۵،۱۷ ،۱۳،۲ ،۲۲۴،۲۲۱،۲۱۳،۱۹۰ ،۱۶۲،۱۵۲،۱۴۹ ،۱۴۸ ،۲۴۷ ،۲۳۸ ،۲۳۵،۲۳۴،۲۳۱،۲۳۰ ۲۶۴ ، ۲۷ ۲۷۴، ۳۰۴،۲۸۷ تا ۳۰۶ پر کاش جی ، شری پرویز احمد طارق ۳۵۳ جبریل سیسے، الحاج سیرالیون ۱۰۵ ۱۰۴ جعفر حسین ایڈووکیٹ، سید ۱۹۰ تا ۱۹۲، پوٹوخن، پروفیسر.روسی لیڈر ۶۴۱ تا ۶۴۳، جعفر علی.حیدر آباد دکن پورٹر ، ڈاکٹر ۳۹۲،۳۹۰،۳۸۹،۳۸۰،۳۱۲،۳۱۰ تا ۱۳۹۴ ۴۰۸ تا ۴۱۱، ۴۲۴،۴۱۶ ، ۴۴۷ ، ۴۶۰ ، ۵۱۷ ، ،۵۶۲،۵۵۸،۵۴۵، ۵۲۶ ، ۵۲۳،۵۲۱ پی ای در ساء ابراهیم پی ای وی اسماعیل.انڈونیشیا ۶۴۶ ۸۱،۷۹ ۹۸ ۹۸ جکنڈ ایلیسن.امریکی مسیحی لیڈر جگجیت سنگھ جی ، گورو ۶۱۱۶۱۰ ۵۴۱ جنگ دیو، راجہ جلال الدین شمس ،مولانا ٣٠٣ ،۱۵۸ ،۱۲۰،۲ ۲۴۳، ۴۲۶ تا ۴۲۸، ۵۲۸،۵۱۲،۴۶۶،

Page 686

۵۶۹،۵۶۶ تا ۵۷۱ | حامد علی، حافظ جلال الدین عبدالرحیم ۶۲۸ حامد مبائی ۵۸۰،۳۰۴ ۲۸۹،۱۳۸ حمیدی بیانا حنیف احمد ، صاحبزادہ مرزا ۶۴۰ جمال الدین، ماسٹر جمال عبدالناصر جمعہ شاہ، میاں.رفیق جمال،مولانا صوفی.رانچی ۳۵۷ حبیب الرحمان - کامل ۵۸۶ خادم حسین کیپٹن جميل الحلاق ، الشیخ - لبنان ۱۴۳ حبیب الرحمان منشی.حاجی پوره ۳۲۳ خالد، شیخ معلم تنزانیہ ۳۰۳ حبیب الرحمان ، مولوی.دھام نگر 1+9 ٣٣٠ خالد رسیڈلر، ڈاکٹر ۴۱۴ تا ۴۱۶، ۴۱۹ ، ۴۲۰، ۴۲۲ ۴۲۳ خالد ملک.ربوہ حبیب اللہ ، مولوی.آسنور ۵۹۱ خدا بخش، چوہدری ۶۷۰ ۹۱ جمیل الرحمان رفیق جمیل مظہری علامہ.پٹنہ جمیلہ عرفانی ۳۵۷ ۴۵۶ جنت بی بی اہلیہ ماسٹر مامون خان حسن احیا بر مادی ۳۲۸ حسن، رئیس.غانا ۶۵۵،۶۳۹ حسن آراء بیگم حسنات احمد ، سید خروشیف ۱۹۸ خلیل احمد ، صاحبزادہ مرزا ۳۸۱،۹۶ | خلیل احمد ، ملک.مجاہد غانا ۳۲۴ ۲۸ ۶۰۴ ۱۹۹ ،۱۹۷ ۵۰۴ ۷۳ ۶۱۵ خلیل احمد اختر ، ملک ۶۴ جنڈ والطور لا 112 حسن شاہ سید.قادیان ۳۱ خلیل احمد ناصر ، ڈاکٹر ۹۳ جواد علی ،سید ۹۹ | حسن عبد القادر معرب.مرا کو ۵۹ خلیل الرحمان ، الحاج مولوی فاضل جواہر لعل نہرو حسن کے چام ۱۳۸ ۵۸۷،۵۸۵ جولیانہ ، ملکہ ۴۹ حسن مورنو.انڈونیشیا ۳۸۱ خلیل محمود امریکہ جوئے ، ایس.ایم ۶۳۶ بی حسین بی بی بنت میاں محمد ابراہیم ۳۴۰ خورشید احمد ، شیخ ۶۲۶،۹۳ ۱۵۹ جیلو عبد الرحمان حسین قزق جھنڈا ، شیخ ۵۷۳ حضرت اللہ پاشا، سید چراغ الدین، میاں.لاہور ۳۲۹ حفیظ احمد شاہد چراغ دین ، میاں.قادیان ۳۳۷ حفیظ ملک چرچل بن آدم ۳۶۷ حمید احمد خاں.ربوہ ۱۴۶ خورشید احمد، صاحبزادہ مرزا ۴۴۶،۲۶۵ ۳۵۰ خورشید مسرت زوجه میجر محی الدین ملک ۸۸ خوشی محمد آف کریام، چوہدری م د.ڈ.ذ ح - خ حمید اللہ ایم.اے، چوہدری ۱۳۹، ۱۷۷ دا تو عبدالجلیل ، مفتی حاکم بی بی اہلیہ خواجہ محمد دین سیالکوٹی حمید اللہ سو کار جو ۳۴۲ تا ۳۴۵ حاکم دین ، چوہدری.قادیان حامد احمد خاں ، نواب حامد بن عبد اللہ الخلیفه حمید اللہ ظفر.سیرالیون ۳۳۴ حمید اللہ نصرت پاشا، سید ۳۵۰ حمز گا، حضرت ۳۶۵ حمزه بینالو.نائیجیریا حامد شاہ سیالکوٹی ، سید میر ۳۰۴٬۳۰۳ حمید نظامی ۵۸۲،۵۸۰ حمیدہ بیگم زوجہ فتح محمد ۳۸۲ داؤد.آئیوری کوسٹ ۶۳۶ ۶۰۳ ۵۶۰ ۱۱۵،۱۱۴ ۶۵۳ ۱۶۹ ۲۶۵ ،۲۳۸ ،۱۱۱،۱۰۹ داؤد احمد ، صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد سید میر ۴۲۶ ، ۴۲۷، ۴۴۱ تا ۴۴۶ ، ۰۵۱۹،۵۱۷ ۵۴۹،۵۴۳،۵۲۰ ۱۹۸ ۶۰۷ تا ۶۰۹ داؤ د احمد ایم.اے.گھٹیالیاں ۳۳۷ داؤ د احمد حنیف، مولوی ،۱۲۴،۱۲۲،۱۲۰ ۱۳۸،۱۳۶،۱۳۵ ۳۴۵ ۳۲۱

Page 687

۱۸۱ ۲۶ ۶۱۵ ۵۱۹،۳۵۸ ۳۳۷ ۶۰۳،۳ ۱۲۸ رضا، میجر جنرل ۵۴۷ رضیہ.مالمو ۳۰۳ رضیہ، استانی.سیالکوٹ ۱۲۷ تا ۱۳۳،۱۳۲،۱۲۹ تا ۱۳۶ ۱۳۹ ۱۴۰ راڈن یوسف.انڈونیشیا ۱۲۵ | رام بالی.لاہوری ۱۱۷ رام دیو واؤ واحمد طاہر ، ڈاکٹر داؤ د انجی، جسٹس الحاج داؤ د جوارا.صدر گیمبیا ۱۲۲،۱۱۱، رحمت اللہ حکیم د تلف خالد ۳۳۱ رفع احمد ، صاحبزادہ مرزا ۱۳۳ ۱۳۴ | رحمت اللہ ، شیخ.کراچی ۱۱ ۵۶۹ رفیق احمد، چوہدری ۲۰۱۸، ۹۸ رحمت الله شیخ طغل والا ۷۳ ۵ تا ۵۷۹ رفیق احمد ، صاحبزادہ مرزا در مشین بنت صاحبزادہ مرزا مجید احمد رحمت اللہ خاں.دیلی ۳۵۳ رفیق احمد جاوید - مجاہد گیمبیا در یوس ، ڈاکٹر ۴۳ رحمت بیگم.کراچی دوست محمد شاہد، مولانا ۳۲۵ رحمت خاں، چوہدری.امام ۳۰۲ رفیق احمد کلرک گھٹیالیاں رقیم احمد برگن دوست محمد شمس ،میاں دین محمد شاہد ، مولوی < ۱۹۵ ۲۶ بیت فضل لندن ۹۹، ۴۵۴،۲۰۵، رمضان علی ، مولوی.مجاہد ارجنٹائن ۳۳۰ ۶۲۰،۴۵۶ تا ۶۲۲، ۶۶۸ روز ، ایچ اے دی سینگ، ڈاکٹر ۳۴، ۳۸، ۴۰ رحمت علی ، مولوی.انڈونیشیا ۶۳۳ ۳۸۱ روشن الدین احمد - مجاہد مسقط ٣٠٣ ۳۸۴ رحیم بخش ، صوفی.راولپنڈی ۲۲۹ روشن علی ، حافظ ۳۸۹،۲۹۷،۲۴۳٬۲۰۷ ۶۳۰ ریورنڈ اے، آرمیم پسن ۹۲ ۶۴۸ ۸۰ ۱۹۷ ۲۲۰ ۵۰۵،۵۰۴ ڈانمولا، اے.بی ڈیکو کسانا ، ڈاکٹر ۱۳۶ رشید - معلم غانا ڈبلیو ویجسٹر ۷۶ رشید نائیجیریا ۶۳۳ ریورنڈ بوتھ ڈرامی ،شیخ ۷۹ تا ۸۱ | رشید احمد.امریکہ ۶۲۶٬۹۳ ریورنڈ سائر ڈور تھی ،لیڈی ۸۳ ۸۴ رشید احمد، چوہدری ۳۳۷ زرتشت منیر خاں ڈولف خیرف، ڈاکٹر ۹۴ رشید احمد، چوہدری.ریڈیو آفیسر ۶۱۵ زکیہ بیگم، صاحبزادی نواب ڈونلڈ سٹیفن ۳۷۹ رشید احمد ارشد ۶۰۶ زورین سفیر اقوام متحدہ ڈیگ ہیمر شولڈ ، جنرل ڈینزل ابسٹن ،سر ۳۰۲ رشید احمد سرور ڈیویز ، ڈی جی ۷۵ رشید احمد جاوید، چوہدری ۶۰۴ زین العابدین ولی اللہ شاہ سید ۲۴۴، ۴۴۷ ۶۴۰ ۶۵۵،۶۴۲۰ | زینب بی بی بنت میاں چراغ دین ۳۳۷ ۶۵۱ رشید احمد، شیخ.ڈچ گی آنا ۹۴ زینب بی بی زوجه لال دین ذوالفقار علی خاں ، سرنواب ۲۰۹ رشید احمد، چوہدری گھٹیالیاں ذیل سنگھ، گیانی رز رابرٹ ، پادری را برٹش آرچ راج کشور پٹنائک ۶۱۰ رشیدالدین، چوہدری ۷۳ رشیدالدین،ڈاکٹر خلیفہ ۱۹۷ زینب بیگم ابلیه شیخ محمود الحسن ،۳۸۳،۳۷۲ ۶۳۱ تا ۶۳۳ سار المۃ الحفیظ ۶۰۱،۵۸۶ سارا بنت حمید نظامی س ۵۷۳ ۴۰۸ ۶۰۸ ۶۲۸ رشید حسین.ایڈیٹر اخبار ”الفجر ۴۵ سارا تسنیم بنت نوابزادہ حامد احمد خاں ۶۰۳ ۶۱۳ رشیدی معلم - تنزانیہ راڈن ہدایت.انڈونیشیا ۹۷،۹۶ رشیدی صالح - تنزانیہ ۹۱ سالک مبارک.مجاہد گیمبیا ۶۳۹ سانیالو، ایچ او ۲۸۹ ۶۳۳

Page 688

۳۵۴۹،۷ ۶۱۵،۵۴۸ ۳۳۸ ۳۵۹ ۶۳۶ سپولر، پروفیسر ۳۶۱،۵۹ | سنفا آدم سدانند ، چوہدری.کند را پاڑہ ۶۱۲ سوری ابراہیم کا نو.سیرالیون سردار بیگم اہلیہ چوہدری عبدالرحیم ۳۲۴ سوی جابی.آئیوری کوسٹ سردار خاں.لاہور سکندر اعظم ۳۵۸ سوکولے، مسٹر ۲۸۰ سہیل کوثر سیکینہ بانو اہلیہ سیٹھ اللہ دین ۳۸۸ سی جیلو.گیمبیا ۳۷۴ شریف احمد امینی ، مولانا ۱۰۴ ۱۷۵ شریف احمد وڑا کچ وڑائچ ۱۷۰ شریف اے قاسم ۳۵۱ شریف عباس.معلم سیرالیون سکینه بی بی زوجه فضل شاه سکینہ سیفی سعادت احمد سعدیہ احمد سعود احمد خاں ، پروفیسر سعید احمد ، ڈاکٹر سعید احمد چٹھہ، چوہدری سعید احمد ڈار ، خواجہ سعیدہ عصمت سعیدی فنڈ یکر ۳۴۲،۳۴۱ ٣٠٢ ۱۳۹ شریف کامل - سفیر اردن سیسل نارتھ کاٹ ۸۴ سیسے، امام.سیرالیون ۶۰ شریف عمر عبد اللہ ۳۷۴ شعیب ابن حمید نظامی سیف الاسلام محمود ارکسن ۲۰۴۲۳ شمس الدین، مولوی نواحمدی ۶۳۲ ۶۲۸ ۶۰۸ ۴۱۶ ۳۵۰ ۱۲۵،۱۲۳،۱۲۱ ۲۹۰،۱۳۷ ۶۶۵،۵۹۱ ۶۰۳،۲۲۰ ۳۵۰ سیف الرحمان ، ملک ۵۶۹،۵۲۹،۵۲۸ شمس الدین، الحاج منشی سی.وی.ناراسمن ش شاہد احمد خان پاشا، نواب شاہدہ بنت ڈاکٹر مرزا مبشر احمد ۴۹۸ شمشاد علی سید ۴۷۰ ۴۲۳،۴۲۲ شمشیر سنگھ اشوک ،سردار ۵۳۷ تا ۵۴۰ شمیم ابن خواجہ محمد دین سیالکوٹی شمیم بیگم بنت چوہدری خوشی محمد ۳۴۵ ۳۵۰ شاہدہ بیگم ، نواب ۲۲۰ شوکت جہاں،صاحبزادی ۳۷۷ شاہدین ، بابو ۳۳۲ شوکت علی ، حافظ.بھدرک ۴۱۹،۴۱۴ ، سلطان احمد ،صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا ۶۰۳ شاہ فیصل ۳۵۹ سلطان احمد ، میاں.دسوہہ ۳۳۰، ۳۳۱ شاہ محمد ، سید مجاہد انڈونیشیا سلطان محمود انور ، مولانا سلیمان احمد ، مولوی.مجاہد گیمبیا ۴۴۵ ۱۳۵ ۶۵۴۹۷ ۹۶ شہامت علی قادیان شیبه شاہ محمد خوشنویس ۳۳۸ شیو شنگاری، الحاج سلیمان الحسن.غانا ۶۲۷ شاہ نواز ، چوہدری ١٩٦ شیٹی.مسٹر سلیم الدین اختر شاہ نواز خاں،ڈاکٹر شیر علی، مولانا شیر علی سورو ۴۲۲،۴۲۱ ۵۴۹ ۵۶۱ ۶۳۳ ۴۰۱ ۳۳۲،۳۰۷ ۴۱۴ ۴۱۴ ۶۳ 3 ۱۴۶ ۹۸ ۹۱ سلیم ناصر سلیمہ بیگم.کراچی ۳ ۱۷۰ ۴۵۶ شباباه - گیمبیا.لوکل مبلغ سمیع اللہ ، مولوی.بمبئی ۳۵۳، شہیرات علی ، میاں ۵۴۸،۳۵۴ | شبیر احمد ، خواجہ.برما ،۸۱،۷۹ ٣٧٤،٩٩ ۱۳۵ صیض ۳۳۰ | صادق علی.بھدرک ۹۸ صالح ، الحاج معلم غانا سمیع اللہ سیال ۳۷۴،۱۸۵،۹۹، ۶۳۶ شریف احمد حکیم.در گانوالی ۵۷۳ صالح الحمودی.لبنان سمیع اللہ قیصر ، مولوی سنجیدار ریڈی ، شری 2 شریف احمد ،صاحبزادہ مرزا ۲۱۲،۸، صالح الشبيبي محمد، ۲۴۰ تا ۴۰۳٬۲۶۶ | صالح محمد شیخ معلم تنزانیہ

Page 689

صالح محمد ، مولوی ۶۵۵،۹۹ صالح محمد الہ دین، ڈاکٹر حافظ ۴۰۳، طعمه رسلان، السید - لبنان ۶۰۵،۳۵۲ ۱۴۶،۱۴۳ عبدالحق، قاضی عبد الحق ، مرزا.بانجل ۲۰۷ ۱۲۶ صباح الدین، خلیفہ صبحی قزق لبنان ۶۵۹،۶۲۶ ۲۹۵ طورے، الحاج ۱۷۰ عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا ظفر احمد ،صاحبزادہ مرزا ۴۶۹،۲۶۵ ۱۴۶ ظفر اسلام ۳۴۵ عبد الحق خوشنویس منشی ،۱۶۰،۱۵۲ ۶۵۹،۵۶۹،۴۳۵ ، ۴۳۴ ،۴۱۰،۲۱۹ ۵۶۹،۵۲۰ صدر الدین، مولوی ۵۷۸،۲۴۲،۲۰۸ ظفر اللہ کناک.(جرمن مسلم ) عبد الحق رامہ، میاں ۴۱۰، ۴۲۶، ۴۲۷ صدیق ، الحاج.لائبیریا ۷۵ ظفر برادر عبد المنان ناهید ۳۴۴ عبد الحق فضل ، مولوی ۶۱۲ صفدر علی خاں ۳۵۱،۳ | ظفر محمد ظفر ، مولوی ۲۴۵ عبد الحلیم.( بھدرک ) ۴۱۴ صلاح الدین احمد خلیفہ ۶۰۱ ظل اللہ.لبنان ۱۴۶ عبد الحلیم المل صلاح الدین ایم اے، ملک ۳۰۹،۳۰۴، ظہور احمد، چوہدری ۲۴۵ عبد العلیم صادق ۳۸۳،۳۱،۲۵ ۶۰۴ صلاح الدین بی اے، چوہدری ۴۶۰ صلاح الدین خاں بنگالی صمصام علی سید ۶۲۴۳۸۳ ظہور حسین ، مولانا ۴۱۷ ظہور دین - تنزانیہ ضیاء الحسن، بریگیڈئر ڈاکٹر ۱۲۵ ضیاءالدین، ڈاکٹر ۶۳۱،۳۷۴،۱۷۰ عابد حنیف.امریکہ طحظ عارف ابن حمید نظامی عباداللہ گیانی ۱۸۷ عالیه قونیا خوجه طارق باجوہ.ربوہ طاہر احمد.ناروے ۳۹۲،۳۵۳ ظہور احمد باجوہ، چوہدری ۴۱۰،۱۷۰، عبدالحمید.آئیوری کوسٹ طاہر احمد ،صاحبزادہ مرزا.خلیفہ ایح الرابع عائشہ ای جیڈی ،۲۱۶،۲۱۱،۱۷۹،۱۷۸ ،۱۴۱ ،۱۴۰،۱۳۳،۵ عائشہ بی بی ۳۲۵،۲۳۴٬۲۱۹، ۴۲۶ تا ۴۳۰،۴۲۸، عائشہ صدیقہ ۵۳۴،۵۲۰،۵۱۸ تا ۵۹۸،۵۷۱،۵۶۹۰۵۴۰ عائشہ محموده طاہراحمد،کیپٹین ڈاکٹر طاہر احمد ملک طاہر محمود، چوہدری طاہرہ بیگم، سیده ۴۲۶ ، ۴۲۷ | عبدالحمید، با بو.قادیان ۴۱۳ عبدالحمید، چوہدری ۹۱ عبدالحمید، میجر عبدالحمید خاں.کپورتھلہ عبدالحمید عاجز، شیخ عبدالحی ، میاں ۵۳۷ عبدالحی ،میاں.مجاہد انڈونیشیا ۶۱۵ ۵۷۳ عبدالحی.سیالکوٹ عبدالحی ہیٹھ.یاد گیر ۵۲۶ عبد الخالق ، شیخ فاضل عیسائیت ۳۴۵ ۳۴۳ ۱۲۵ عباس احمد خاں، نواب ۲۶۵،۲۲۰ عبد الخالق، مولوی.مجاہد مشرقی افریقہ عبد الاحد ۳۰۴ ۶ ۳۴۶ ۶۵۵،۳۸۳ ۳۵۹،۳۵۸،۳۱۶ ۲۹۲ عبد الباسط ۳۵۱ عبد الخالق، مهنته ۲ عبدالجبار.برما طاہرہ بیگم، صاحبزادی نواب ۲۲۰، ۴۵۷ عبد الحق، پادری طاہرہ نسرین بنت نثار احمد فاروقی ۴، عبد الحق، چوہدری.قادیان ۴۳۶ ۶۱۹ ۹۸ عبد الرب بی.اے.بھدرک ۴۱۴، ۴۱۸ عبدالرحمان، چوہدری.جنجه عبد الرحمان، چوہدری.لندن ۳۳۶ ۴۵۴ ۱۷۱،۱۶۷ ۲۱۰ ۴۴۸ ۶۵۵،۶۲۲،۶۲۰ ع ۶۲۱ ۴۷۱ ۹۳ ۲۰۸ ۶۰۸ ،۹۶ ۶۲۶ ۶۵۴،۳۸۱،۳۸۰ ۳۴۴

Page 690

عبدالرحمن.نواب میاں ۲۰۶ تا ۲۰۸ عبدالرحیم خاں ۵۸۶ عبدالرحمن ، خواجہ - آسنور ۵۹۱ عبدالرحیم دہلوی ، شاہ ۲۰۹ عبد الشکور ، ڈاکٹر عبدالرحمان،خلیفہ.جموں ۶۱۵ عبدالرحیم فانی ، میاں ٣٠٢،٣ ۴۳۵ ۵۹۹ عبد الشکور ، مولوی.مجاہد گیمبیا ۲۸۹،۱۲۷ عبدالرحمن.ڈچ نومسلم ۳۴، ۳۸ عبدالرحیم قادیانی ۳۰۶،۲۰۷، ۳۱۲،۳۰۷ | عبد الشکور اسلم عبدالرحمن ابن چوہدری ودھاوے خاں عبدالرحیم کشمیری، مولوی ۴۶۸ عبد العزیز ، چوہدری.واقف زندگی ۲۹۴ ۳۳۷ عبدالرحیم مالیر کوٹلوی عبدالرحمان ابن ماسٹر مامون خان ۳۲۸ عبدالرحیم نیر، مولانا عبدالرحمن اللہ رکھا مدراسی سیٹھ عبدالرحمان انور، مولانا عبدالرحمان تاجر ، شیخ ۳۹۹،۳۹۶ ۵۶۹،۴۱۰،۱۲۰ ۵۷۸ ۳۰۵ | عبدالعزیز، خلیفه ۱۸۱ عبد العزیز علمی عبدالرزاق ، سید کریام ۳۲۲ عبد العزیز خاں.سروعہ ۳۱۶ | عبدالعزیز دین.برطانیہ عبدالرزاق ، مہتہ عبدالرشید.ہالینڈ عبدالرشید خاں.سورو ۳۶۴ ۴۲۳ عبد العظیم.قادیان ۵۹۱ ۳۶۸ ۲۱۰ ،۱۴ ۴۵۵،۴۵۲ ۵۴۹ عبدالرشید رازی ،مولانا ۱۷۵ تا ۱۷۸ عبدالغفور، ابوالبشارت ۲۹۷ تا ۳۰۲ عبدالرحمن جٹ ، مولانا ۳۳۲،۵، عبدالرشید شر ما.شکار پور ۵۳۴ عبد الغفور، صوفی ،۶۲۵،۴۳۶ ۶۰۶،۵۸۵ عبدالرشید فنڈ تر ۴۰،۳۹،۳۵،۳۴ عبدالرحمان شین باور عبدالرحمان سلیم ، شیخ ۴۷ عبدالرشید کنجاہی، ملک ۳۲۵، ۳۲۷ | عبدالغفور تاجر، شیخ ۱۴۶ عبدالرشید منگلا.بانجل عبدالرحمان صدیقی ، ڈاکٹر ۵۷۱ عبدالرفیق شاہ ، سید عبدالرحمن فانی ، مولوی ۹ عبدالسبحان ، مستری.لاہور عبدالرحمن قادیانی ، بھائی ۳۰۲ تا ۳۱۶ عبدالستار سورد ۳۲۹ ۴۱۴ عبد اغنی بھٹی ،میاں ۱۲۷ عبد اغنی.برما ۵۷۹ ۹۸ ۳۱۷ عبدالغنی ، چوہدری تنزانیہ ۹۱ عبد اغنی ابن قاضی غلام قادر ۳۲۹ ۳۳۷ عبدالرحمان کپور تھلوی منشی عبدالرحمان مصری ، شیخ ۳۴۱ عبد السلام ،سید ۴۱۴ عبد الغنی کنجاہ ، ملک ۳۲۵، ۳۲۸،۳۲۷ ۳۳۴ عبد السلام، مبته ۳۱۶ | عبد القادر.سول سرجن ۵۸۵ ۳۴۵ عبد القادر ہیٹھ.بور نیو ۳۴۶ عبدالرحمان موگا، ڈاکٹر ۶۱۵ عبدالسلام.سیالکوٹ عبدالرحمن مہر سنگھ، ماسٹر ۲۰۷ عبد السلام اختر ایم.اے ۱۹۵،۱۹۴، ۱۹۸ عبد القادر، شیخ محقق عیسائیت ۴۳۶ ۵۴۳ ۹۶ عبدالرحمان ہیفر عبد السلام خورشید عبدالرحیم.ربوہ ۶۵ عبدالسلام شاہ ،سید عبدالرحیم.انڈونیشیا عبدالسلام محمودار کسن عبدالرحیم بھٹی.ٹیلر ماسٹر عبدالرحیم جمونی ،خلیفہ ۶۰۸ عبد القادر، مهنته ۳۱۶،۳۰۷ ۳۱۷ عبد القادر، مولانا شیخ ۵۸۴٬۳۱۹،۲۹۳ ۲۴ عبد القادر.مدراس ۳۳۷ عبد السلام میڈسن.ڈنمارک ۱۹ تا ۲۶، عبد القادر بی اے، شیخ گھٹیالیاں ۵۸۸،۵۸۷ ۵۷، ۲۰۴۱۸۷،۵۸ عبد القادر خاں ، میجر عبدالرحیم خالد نواب میاں ۲۰۶ تا ۲۰۸ عبدالسمیع ابن ابوالبشارت مولانا عبدالغفور | عبدالقادر دہلوی،شاہ ۳۵۵ ۱۹۷ ۳۲۴ ۴۱۸

Page 691

۲۴۳ ۳۴۵،۳۴۲ ۵۹۱ ۱۲۶ ۴۱۴ اللطیف شاہ ،سید ۴۳۸،۳۱۷، عبدالمنان دہلوی، صوبیدار ۶۱۵،۴۳۹ عبد المنان ناهید ۶۰۱۶۰۰،۳۹۸ ۶۲۶،۹۳ عبدالقادر صدیقی عبدالقادر ضیغم ،مولوی عبدالقدوس ،مولوی شنکر پور بھدرک ۴۱۴، عبداللطیف میمن ،سیٹھ ۳۵۳ عبد المومن ، خلیفه ۴۱۶، ۴۱۹ ، ۴۲۰ عبد اللہ، الحاج.گیمبیا ۱۲۸ عبد المومن ، سید عبدالقدیری شاہد ، مولوی ۳۸۳،۳۷۴، عبداللہ ، سید.شموگہ སྐད་ عبد النور.بھدرک ۶۵۶،۶۳۶ | عبدالله مولوی فاضل ۳۵۵، ۶۰۷ | عبد الواحد ، مولوی.انڈونیشیا عبدالکریم.حیدر آباد دکن ۶۰۰ عبد الله الصلایلی، الشیخ.لبنان ۶ عبد الله الملتی.سینیگال ۱۷۰،۱۳ عبداللہ الہ دین سیٹھ عبدالکریم.رائے چور عبدالکریم ،مولوی عبدالکریم ابن چوہدری ودھاوے خاں عبدالکریم ایم.اے.گھٹیالیاں ۳۳۸ ۱۹۸ عبد اللہ چیرو ۱۴۴ ۱۶۵ عبد الواحد، شیخ.نبی آئی لینڈ ،۲۶۱،۱۱۲ عبد الواحد.غانا ،۹۶ ۶۵۴،۳۸۱ ۹۹ ۶۳۰ ۳۸۸ تا ۴۰۸ | عبد الواحد ، مولوی.ایڈیٹر اخبار اصلاح“ ۱۷۰ ۵۸۸ تا ۶۶۵،۵۹۰ عبداللہ خاں.نواب شاہ ۵۳۴ | عبد الواحد، اوورسیئر.جہلم عبدالکریم سیالکوٹی، مولانا ۲۷۸،۲۳۲، عبدالله سعیدی ( فونڈی کیرا) ۶۵۰۶۴۲ عبد الواحد، روسن ۵۸۲٬۵۸۰ | عبد اللہ طینی.غانا ۶۲۷ ۶۶۴ ۲۵ عبد الواحد عزیز.غانا ۳۶۶،۷۴، ۶۲۷ عبدالکریم شرما، مولوی ۳۷۶،۹۱، ۶۴۷ عبداللہ عثمان.صدر صومالیہ ۳۷۰ | عبد الواحد، ودیا تھی ، چوہدری عبداللطیف، چوہدری.مجاہد جرمنی ۱۵ عبدالله عطاء الرحمان، چوہدری ۳۳۷ عبدالوکیل خلیفہ ۲۴،۲۲،۲۱، ۴ ۵ تا ۲۰۵،۲۰۳،۵۹،۵۶، عبدالله کلی بالی ۱۷۰،۱۶۹،۱۹۷ عبدالوہاب، خلیفہ ۵،۴۵۴،۳۶۱،۳۶۰ ۴۵ ، ۴۵۷، ۴۵۸ | عبدالمالک، راجہ ۶۵۶،۶۲۳۶۰۲ عبداللطیف مولوی فاضل، حاجی شیخ ۵۷۹ عبداللطیف،ڈاکٹر ۴۳۵ عبدالمالک خاں، مولانا ۴۱۳ ۵۹۱ ۵۹۱ ۳۵۲ عبدالوہاب آدم.غانا ۷۲،۶۲ تا ۷۴ ،۳۶۹،۳۶۸ ۶۵۹،۶۳۰،۶۲۹،۶۲۷ ،۳۹۳،۳۸۳ ۴۴۸ ،۴۳۶،۱۹۰ عبد الماجد، چوہدری عبداللطیف ، صاحبزادہ.شہید کابل ۳۰۵ عبد الماجد دریابادی عبداللطیف، گیانی ۶۲۱،۵۸۵ ۶۳۰،۶۲۹،۶۲۷ ،۳۷۰،۳۶۸،۳۶۶،۹۸ عبده عمران عتاب بن اسید عثمان، الحاج ۶۱۱،۶۰۶،۴۷۴ عرفان الحق.لاہور ۶۱۹،۶۱۰ عبدالمجید ، میر.مجاہد گیمبیا ۱۲۷ عرفانگ کرامو طراوے، امام عبداللطیف، مرزا قادیان ۵۸۴۵۸۳ عبدالمجید بھٹی نائیجیر ما عبداللطیف، مولوی، مجاہد غانا ۶۲ عبدالمجید تاجر، شیخ عبداللطیف ابن سیٹھ عبدالحی.یاد گیر ۷ عبد المغنی خاں، مولوی عبداللطيف الحداد، شیخ ۱۴۶ ۶۳۳ عزیز احمد ، صاحبزادہ مرزا ۵۷۹ عزیز احمد ، انڈونیشیا ۳۹۲ عزیز احمد کنجاہی ، ملک عبدالمنان.آف لاہور ۴۶۲،۴۶۱ عزیز بخش، مولوی ۶۴۰ ۲۵۱ ۱۶۷ م ۱۳۸ ۲۶۰ ۹۶ ۵۹۹ ۳۰۱ ۳۳۷ ۵۹۱ عزیزہ بیگم زوجہ محمد طفیل قلعی گر عبد اللطیف ستکوہی ، ملک م م م عبدالمنان ، خلیفہ

Page 692

۵۷۹ عطاء اللہ ، ڈاکٹر کرنل ۱۶۰ عمر عثمان.مالمو عطاء اللہ باجوہ، کرنل ۲۶ غلام سرور نمبر دار، چوہدری ۵۸۲ عمر علی طاہر.مجاہد گیمبیا ۱۳۵، ۱۳۸ | غلام غوث محمد عطاء اللہ بخاری ، سید ۲۴۵، ۶۰۹،۳۰۷ عنایت اللہ خلیل ۳۸۳٬۳۷۸،۳۷۶٬۹۹ غلام فرید ، ملک ۵۷۹ ۲۱۹،۲۱۸ ،۲۱۰،۲۰۸ ۳۳۶ غلام فاطمہ اہلیہ چوہدری محمد تقی غلام فاطمہ بنت میاں چراغ دین ۳۳۷ غلام قادر، قاضی.لاہور ۳۲۹ ۶۰۳ ۵۸۴ ۶۵۲،۲۰۷ ،۱۴۷ ۲۰۷ ،۳۷۶،۹۱ عنایت اللہ احمدی، چوہدری ۶۵۰،۶۴۶،۶۴۰،۶۳۹،۳۷۷ ۲۲۲ ۵۲۸ ،۶۶،۶۴۶۳ عطاء اللہ ظہور، کرنل عطاء اللہ حکیم ، مولانا ا۷ تا ۷۴، ۳۶۸ تا ۶۲۶،۳۷۰، ۶۲۸، عیسی علیہ السلام، حضرت ۶۳۰، ۶۳۶ عیسی معلم غلام قادر ، صاحبزادہ مرزا غ غلام مجتنی چینی ، قاری - رفیق غلام احمد، چوہدری - لندن ۳۳۶ غلام محمد، حافظ صوفی محمد غلام احمد کریام، حاجی ۳۲۲،۲۳۹ ،۳۲۳ | غلام محمد، چوہدری غلام احمد ایم.اے ، صاحبزادہ مرزا ۳۱۰ غلام محمد.کابل غلام احمد بد وملهوی ۱۲۰،۱۱۹ غلام محمد امرتسری ، حکیم غلام احمد قادیانی ، حضرت مرزا مسیح موعود ۵ غلام محمد بخشی ۵۸۶ ۵۷۷ ۲۳۳،۲۲۷،۱۰۵،۸۳،۱۲،۱۱، ۲۸۰،۲۴۰، غلام محمد بی.اے، چوہدری ۳۳۲ تا ۳۳۶ ۴۱۵،۳۰۴ ۴۶۱،۴۲۴۰، ۴۶۷ ، غلام محمد خاں گرداور، چوہدری ۵۷۳،۵۲۷ غلام محمد خاں گلگتی ۳۲۳ ۳۳۹ ۵۷۷ ۵۷۳ ۲۶۲ غلام احمد نسیم ، مولانا ۱۸۵،۱۸۳٬۹۹، غلام محی الدین.قادیان ۶۳۴،۳۷۴ تا ۶۳۶ غلام مر مرتضی ، حضرت مرزا غلام ابراہیم ، ڈاکٹر.کند را پاڑا ۶۱۲ غلام مرتضی، چوہدری.وکیل القانون ۳۲۴ ۱۱۷ ،۱۱۶،۱۱۲ ،۴۱۷ ،۴۱۴،۸ ۶۱۳۶۱۲ ۴۶۸ ۵۹۰ ۳۸۳ ۴۱۴ غلام مرتضی نعیم ۵۸۲ غلام مصطفی کیا ۶۰۴۳۵۲ ۳۲۴ ۵۸۲ ۶۰۲ ۲۵۱ عطاء المجیب راشد عطاء الہی پٹواری، قاضی عطاء محمد ، اور سیئر ، بابو عطاء محمد، چوہدری عکرمه علی معلم علی با.گیمبیا ۱۲۲ علی بخش ، چوہدری.کریام ۳۲۲ على روجرز ، الحاج ۶۳۶،۳۷۴ علی رؤف آکان.ترک جرنلسٹ ۱۷ علی محمد ، راجہ ۳۲۴ علی محمد ، اجمیری ۲۹۸ علی محمد الہ دین سیٹھ.سکندر آباد ۴۰۸،۳۹۶ غلام الدین شیخ ( بھدرک) غلام اللہ باجوہ، چوہدری غلام اللہ خاں، الحاج ۳۲۴، ۳۴۸ غلام مهدی ، مولوی غلام باری سیف،مولانا ۵۴۳،۲۳۴ غلام حیدر، چوہدری.گھٹیالیاں ۳۳۶،۱۹۷ غلام نبی ، خواجہ کلکتہ غلام حیدر ایڈووکیٹ ، مرزا ۴۱۰ غلام نبی گلکار، خواجه غلام دستگیر ، سید ۲۰ غلام نبی ، ملک مجاہد سیرالیون ۶۳۴ تا ۶۵۵۰۶۳۶ غلام بادی، شیخ ( بھدرک ) غلام بادی ،سید ۴۱۴ ۶۱۴۶۱۳ ۲۱۰ غلام رسول پٹھان غلام رسول را جیکی ، مولانا ۳۴۵ ۳۵۵ لا ۶۱۵ ۱۲۴ ۴۱۴ 112 ۵۹۱ ۶۲۳۶۲۱ علی محمد، بی اے بی ٹی علی محی الدین علی مختار با عمر ،الحاج.غانا عمر الدین سدھو ، ڈاکٹر عمران ، شیخ.بھدرک عمر جوف عمر ڈار، حاجی.آسنور عمر سلیمان ، ڈاکٹر

Page 693

۱۲ غلام یسین، چوہدری ف ۶۲۶،۹۳ فلپ، پرنس ۶۵۳ فوزیہ بیگم صاحبزادی نواب ۴۵۱٬۲۲۰ فاریمان محمد سنگھائے ،سر ۱۱۷، ۱۱۸، فہمیدہ بنت چوہدری ظفر علی ۱۲۰ تا ۱۲۳ فهیم احمد سیفی فاطمہ بائی.سکندر آباد ۴۰۸ فومیڈو.وزیر اعظم نانگانیکا فائز الشبابي، السيد - لبنان ۱۴۳، ۱۴۶ فیروز محی الدین ، مولوی فائزہ بیگم ، صاحبزادی فتح دین، چوہدری فتح محمد.کہروڑ پکا ۳۵۰ ۵۶۹ ۲۴ ۳۷۷ ،۶۹،۶۲،۵۰ قیصر، مسٹر ک میگ کارڈسن ڈی لنگ کانتے جی آپٹے ،شری کا نڈے بورے کبیر الدین.کیفیا ۷۲،۷۱، ۳۶۹،۳۶۸،۹۸ تا ۶۲۸،۳۷۱، کرتا آتما جا.انڈونیشیا ۳۳۹ فیروزه فائزہ بنت جنید ہاشمی ۶۳۳،۶۳۱،۶۲۹ فرخ احمد ابن نواب عباس احمد خاں فیض احمد، چوہدری.پوہلہ مہاراں فرزند علی خاں ، خان ۳۱۸ فرید احمد، صاحبزادہ مرزا ۵۲۰ فیض احمد ، مولوی فرید احمد ، ڈاکٹر ۱۲۵ فیض احمد خادم گھٹیالیاں فریده سیده بنت سید عبدالجلیل شاه ۶۰۳۳ فیض احمد گجراتی ، چوہدری فضل احمد.ربوہ ۲۰۴ فیض الحق ، حاجی فضل احمد افضل، پروفیسر مولوی ۳۸۳٬۳۷۲ فیض الحق خاں نائیجیریا فضل احمد بٹالوی ، شیخ فضل حسین ،مہاشہ فضل الرحمان، مولوی سید فضل الہی انوری ، مولوی فضل الہی بشیر، مولوی فضل شاہ ، سید فضل عمر رسید فضل کریم.کلکت فضل محمد ، میاں.ہرسیاں فضیلت غزاله فقیر اللہ، ماسٹر فقیر محمد کابلی ،سید ۶۱۹،۵۲۰ ۵۸۹ ۶۱۴۴۱۵ ۹۹،۶۵ ۳۸۰،۲۳۴ ۶۵۵،۳۸۳ ۳۴۲ ۶۱۳ ۴۶۸ ۲۹۷ ۳۵۲ ۴۴۵ ۵۸۵ ق ۳۵۱ ۲۰۲،۱۹۷ ۶ ۱۹۷ ۵۸۵ ۳۷۲ ۶۳۳،۳۸۳ کرم الہی ظفر ، چوہدری ۴۹ 3 ۶۰۷ ۳۷۵،۱۰۵،۱۰۴ ۳۸۱ ۳۶۶ کریم اللہ.ایڈیٹر آزاد نوجوان ۶۱۵ کریم اللہ عبد ز میروی کریم بی بی.دسوہہ کشور احسان.امریکہ ۶۱۶ ۳۳۰ ۳۰۲ ۶۲۳ ۴۲۳ کلاؤس ، ڈاکٹر.جرمنی کلیم الدین ،سید.سور و کلیم اللہ خاں.(چک ۶۸ ج.ب فیصل آباد) قاسم الدین، بابو ۱۹۶ تا ۵۹۰،۱۹۸ کلیم اللہ شاہ ، سید قاسم علوی، شیخ قاسم محمود،سید ۶۴۹ کلیم ہوکنس ۱۶۱ | کمال الدین خواجہ قدرت اللہ ، حافظ مولوی.مجاہد ہالینڈ ۲۴ کمال الدین شہزادہ ۳۲۵ ۲۵ ۳۲۳،۲۷۸ ۲۰۴ ۲۵، ۳۱ تا ۳۳، ۳۶، ۳۸ تا ۴۴ ، ۴۸ تا ۵۰ کمال الدین محمد ، مولوی.ٹرینیڈاڈ ۴۶۶ ۳۶۴،۲۴۹، ۶۲۴۰۶۲۳،۴۵۴،۳۶۶ کمال یوسف ،مولانا.مجاہد سکنڈے نیویا ۶۵۶،۳۶۱،۱۸۷،۵۷ ،۲۳ ۲۲۰ کنیز فاطمہ بنت چوہدری غلام محمد بی.اے قدرت اللہ سنوری ، مولوی ۴۲۶ تا ۴۲۸ قدسیہ بیگم صاحبزادی نواب قمر الدین، مولوی ۳۰۱،۲۹۸ قمر الدین، شیخ.بھدرک ۴۱۴ کورے نکروما، ڈاکٹر قمر النساء.ربوہ ۶۰۴۳۵۱ کوفی کا جو.آئیوری کوسٹ ۳۳۶ ۶۲۹ ۱۶۳

Page 694

۱۳ کول ،مسٹر.فری ٹاؤن ۶۳۶ | لئیق احمد فرخ ، ڈاکٹر کولیٹر ، مسٹر ۷۹ لی ،ڈاکٹر.لندن کے ایم شیخ ، جنرل ۷۱،۶۹،۶۶ لیمن ولی انجائے کے ایم میگراج ۴۲۰ کیرا فا کمار.سیرالیون ۳۷۴ مادے خاں.کریام ۱۲۵ مبارکہ نیر - کراچی ۴۵۰،۴۴۹ مبشر احمد.پشاور ۱۱۲ مبشر الدین سونگھڑہ ۳۲۳ ۴۵۶ ۶۱۲ مبشر سلمی بنت اخوند ڈاکٹر عبد العزیز سندھی کینیڈی.مسز کھوسلہ، مسٹر یشن حج گار با جاهميا، الحاج - گیمبیا ۶۲۰ ۳۰۷ ۱۲۸ مارگولیتھ ، پروفیسر مامور سمیع با جان.گیمبیا ۳۳۳ ۱۲۲ مجیب احمد ، صاحبزادہ مرزا ۴۵۴ مجیب الرحمان این مولوی ظل الرحمان ۳۵۲ مجید احمد ، صاحبزادہ مرزا مامون خان، ماسٹر.رفیق.قادیان ۳۲۸ گامانگا، پیرامونٹ چیف.سیرالیون ۷۸ مانگو.انڈونیشیا گل محمد.بھدرک گنگا بشن گوبند شاستری گوپال سوامی آئنگر ، سر مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا ۹۸ ۳۷۴ ،۷۸ ،۲۴ ۴۱۴ ۳۷۴،۳۶۰،۱۸۷ ، ۱۷۰ ، ۱۶۸ ،۱۶۰،۱۲۳ ۳۲۸ ،۶۳۱،۶۲۶،۶۲۱،۴۲۷ ، ۴۲۶ ،۴۱۱ ۶۱۲ ۶۵۹،۶۳۶ ۵۸۹ ۴ مجید احمد بی.اے، ماسٹر مجیدہ بیگم.کراچی ،۳۶۶،۶۶ ۶۲۶،۴۵۴۴۵۲ ۱۹۵ ۴۵۶ ۵۲۴ محبوب احمد خالد، شیخ محکم دین ایڈووکیٹ.امرتسر ۳۳۳ حضرت محمد ع ۳۸۰،۲۲۲، ۶۴۹،۵۲۷ ۵۷۱،۵۶۹ ،۵۱۱ ،۳۶۷ ،۷۲،۷۱،۶۵ ۶۳۶،۶۲۷،۳۷۰ ،٣٧٨،٣٧٦،٩٩ ۶۴۷،۶۴۶،۳۸۳ ۵۹۰ ۲۱۰،۲۰۹،۲۰۷ Δ ۳۳۹ ۶۶۵،۳۵۷ ۳۴۶ ۳۸۲ ۴۳۶،۸ ۱۲۵ محمد ، مولانا محمد آرتھر، مسٹر محمد آف آکوا مکرم محمد ابراہیم ، حکیم مبارک احمد.پشاور مبارک احمد، قاضی.مجاہد غانا ۳۸۳ مبارک احمد، کرنل.واہ کینٹ ۶۱۵ مبارک احمد ،مولانا شیخ ،۹۵،۹۱،۸۷ ۶۵۵،۶۴۸،۳۷۸،۳۷۶ مبشر احمد آئینو ۴۶۱ ٣٠٣ ۶۱۱ ۶۳۳،۶۳۱ ۱۶۳ گوراند تیل، مہتہ گور و شنکر اچاریہ، شری گیوا،الیس بی.نائیجیریا لا ما کمھارا.آئیوری کوسٹ لامن لی.گیمبیا لسٹول، لارڈ لطیف احمد خاں ۱۳۷ مبارک احمد ایم ایس سی ، پروفیسر ۳۵۳ ۶۲ مبارک احمد تیما پوری ،مولوی ۳ لطیف احمد خاں، رانا.فیصل آباد ۳۲۵ محمد ابراہیم، سردار مبارک احمد ساقی ، مولوی ۹۹٬۸۳٬۸۲، محمد ابراہیم، صوفی ۱۱۲ ۱۱۴ ۶۳۶،۳۷۵ تا ۶۳۸ محمد ابراہیم ، مولوی.مجاہد سلسلہ ۴۴،۱۸،۱۶، مبارک علی چوہدری.مجاہد سلسلہ ۶۱۰، محمد ابراہیم ، میاں خود پور ۴۶۸ مبارکہ بیگم، سیده نواب لطف الرحمان، مرزا ۳۶۹،۳۶۸، ۶۲۷ تا ۶۳۰ لطف الرحمان،مولوی.کلکتہ لطف الرحمان محمود لئیق احمد ، مرزا ۶۰۴ ۵۲۰ ۶۱۶،۶۱۵ محمد ابراہیم ، میاں.ربوہ ۲۵۴۲۱۶، محمد ابراہیم، میر - پسرور ۲۵۷، ۵۲۱،۴۱۶ ، ۶۱۸،۵۲۷ محمد ابراہیم مانو مجاہد غانا مبارکہ بیگم اہلیہ ابرار احمد.کراچی ۳۰۲ محمد اجمل شاہد ، مولوی لیق احمد انصاری ، ڈاکٹر ۱۲۴، ۱۲۶، ۱۳۶ مبارکه بیگم اہلیہ چوہدری محمود احمد باجوہ ۵۸۲ محمد اجمل، ڈاکٹر

Page 695

۱۴ محمد احسن امروہی ،سید ۵۸۱،۵۸۰،۵۷۸ | محمد اشرف ،ڈاکٹر محمد احمد ، ڈاکٹر.عدن محمد احمد انور.حیدر آبادی ۱۲۵ محمد جان، خان بہادر شیخ ۵۹۹ محمد اشرف ایم.اے گھٹیالیاں ۱۹۷ محمد جمال.ایڈیٹر اخبار الندوہ ۱۲۶ | محمد اشرف ناصر محمد احمد پانی پتی ، شیخ ۵۹۷،۵۹۳ محمد افضل ، قریشی.مجاہد سیرالیون Δ ۴۶۹ ۴۵ محمد جی ہزاروی، مولانا ۳۳۴،۲۰۷، ۳۳۵ ۷۸ محمد چراغ ، میاں.مصنف سیف حق محمد احمد جلیل، مولانا ۴۴۶ ۱۶۸،۱۶۶ تا ۳۸۳،۱۷۵،۱۷۴،۱۷۲ ۵۷۴ محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ، شیخ ۴۱۰،۱۶۰، محمد اقبال شاہد، مرزا ۱۲۱ ۱۲۲، ۲۸۹ محمد حسین احمدی - میکر میرے ۶۴۷ ۱۲۷ محمد حسین، چوہدری ۴۴۸ تا ۴۵۰ محمد احمد و جلوح ۱۳۲ محمد اکرم ایم.اے.غانا ۶۵۹،۵۶۹ محمد اکرم، ملک.مجاہد گیمبیا ۷۴ محمد حسین.ودھاون ۴۷۰ تا ۴۷۱ محمد اور لیں.آئیوری کوسٹ ۱۷۱ محمد اکرم خاں.سرگودھا ۵۶۹،۵۶۶ | محمد حسین چیمه محمد ادرلیس ، مرزا.مجاہد بور نیو ۳۷۹، محمد الدین نواب ۵۸۱،۵۷۹ | محمد حسین شاہ ، ڈاکٹر سید ۶۵۲،۶۱۲ محمد الدین حکیم.حیدر آباد محمد حسین قریشی محمد اسحاق ، سید میر ۴۴۲،۳۹۰ تا ۴۴۴ محمد الدین انور ۵۷۲ | محمد حسین کھوکھر ، حاجی ۶۵۵۰۶۴۷ | محمد الدین تهالوی، حاجی ۵۹۹ محمد حسین ھیکل ، ڈاکٹر محمد اسحاق ، صوفی محمد اسحاق ،مولوی ۲۱۰ محمد الغزالى الجاب الحاج ۱۶۶،۱۶۵ محمد حفیظ خاں، ڈاکٹر محمد اسحاق بی اے، حافظ ۸۵ محمد المناصفی، شیخ.لبنان محمد اسلم، پروفیسر قاضی ۴۳۶ محمدامین ، شیخ.کلکتہ محمد اسماعیل ، مرزا محمد اسماعیل سیٹھ.چنتہ کنٹہ محمد اسماعیل، مولوی.مجاہد سلسلہ محمد اسماعیل، ڈاکٹر میر ۶ ۵۷۵ ۶ ۵۹۳ ۱۴۴ محمد حنیف ابراہیم ۴۶۸ محمد خاں، چوہدری.پسرور محمد امین الحسینی - مفتی اعظم فلسطین ۱۴۵ محمد خاں ، میجر ڈاکٹر ۱۲۷ محمد داؤد.کلکة ۶۲۱ ۵۸۰ ۳۸۹ ۹۱ ۵۹۴ ۱۲۵ ۶۵۱ ۳۳۶ ۱۲۴ ۴۶۸ ۲۰۵ محمد در جنانی، السید - لبنان ۱۴۳،۱۴۲، ۱۴۶ محمد امین چیمہ، مولوی محمد انور نسیم.کراچی محمد اولیس ۳۵۳ محمد دین، ماسٹر محمد اسماعیل ابن میاں محمد ابراہیم ۳۴۰ محمد ایوب.انڈونیشیا ۶۵۴۹۶ | محمد دین، حاجی.تہال محمد اسماعیل پانی پتی ،شیخ ۵۹۶،۵۹۳ | محمد ایوب خاں.صدر پاکستان ۵۳،۱۳،۳، محمد دین، صوفی ۶۱۹،۴۱۰،۳۳۴،۲۰۷ ۵۲۰ ۳۲۶ ۵۸۴ محمد اسماعیل حلالپوری، مولانا ۳۹۰ ۴۴۶،۳۶۰،۳۵۱٬۵۸ ، ۴۵۹،۴۴۷ ، محمد دین حجام، میاں.لاہور محمد اسماعیل سیالکوٹی بنشی ۳۳۴ ۳۴۳٬۳۴۲ محمد بشیر.امریکہ محمد اسماعیل سونگھڑ وی محمد اسماعیل منیر محمد اسماعیل یادگیری ۴۶۰، ۴۹۹ محمد دین، حکیم.مجاہد حیدر آباد ۶۱۱،۳۵۵ ۴۱۸ محمد بشیر ایم.اے ، قاضی ۱۹۸،۱۹۷ | محمد رفیع صوفی.خیر پور ۳۸۰،۹۱، محمد بشیر سہگل ،میاں ۴۷۱،۴۶۹ | محمد فیق، قاضی.لاہور ۶۵۶،۶۵۲،۵۴۳ محمد بشیر شاد، مولوی ۳۸۴،۳۷۱،۸۶،۸۲ ۳۹۲ محمد بی بی.دسوہہ ۶۱۹ ۵۶۹ ۵۶۹ ۲۶۶ محمد رمضان، حافظ ۳۳۰ محمد زکریا ،سید.بھدرک ۴۱۵،۴۱۴، ۴۱۸ ۶۲۶ محمد رشید، قاضی

Page 696

۱۵ محمد زهدی، مولوی محمد سرور، بریگیڈئر ۳۸۱،۹۶ محمد صدیق ابن میاں محمد ابراہیم ۶۵۵،۶۵۳ محمد عبد اللہ ہاشمی.گولیکی ۳۴۰ محمد عبد الله مالا باری محمد سرور شاہ سید ۵۸۰،۳۸۹ | محمد صدیق بانی ہیٹھ ۴۶۷ تا ۴۶۹ محمد عبد الماجد صدیقی محمد سعید، میر محمد سعید احمد خالد ۵۷۹ ۳۰۱،۲۹۷ ۶۰۰ ۲۰۰ محمد صدیق شاہد گورداسپوری، مولانا ۳۷۳، محمد عثمان ایم.اے مولوی ۲۰۰،۱۹۸،۱۹۵ ۲۹۱ ۶۳۳،۳۷۴ تا ۶۵۶،۶۳۶ محمد عثمان ، مولوی.ڈیرہ غازیخاں محمد سعید انصاری، مولوی ۳۸۲ محمد صدیق و ہرہ ، میاں کلکتہ ۲۷۱،۴۳۶۸ محمد عثمان غنی، شیخ جمشید پور محمد طیب، صاحبزادہ حافظ ۵۸۶ | محمد علی الراعی ۳۱۷ محمد ظفر اللہ خاں ، سر چوہدری ۴۳ ۵۱، ۱۲۸، محمد علی ایم.اے، چوہدری ۵۶۹ ۳۵۶ ۳۳۰ ۱۷۰ ۴۱۴ ،۲۹۸،۶ محمد سلطان اکبر، چوہدری محمد سلمان شاہ، سید محمد سلیم.بھدرک محمد سلیم ،مولانا.مجاہد سلسلہ ۶۱۶،۴۷۰،۳۵۳،۳۴۷ محمد سلیمان، حافظ محمد سلیمان (ڈھاکہ) محمد سلمان بی اے محمد سینا گو.گیمبیا محمد شاہ ،سید ۱۹۴، ۴۱۶، ۴۴۵، ۴۶۳، ۴۶۶، ۴۶۷ ، محمد علی ایم.اے مولوی ۴۷۳ تا ۵۱۲،۵۱۱، ۶۰۹،۶۰۸،۵۵۸، ۳۷۶۰۹۱، محمد عبد التعلیم، مولوی فاضل ۶۵۵،۳۷۷ | محمد عبد الرحمن صدیقی ۶۱۵ محمد عبد الرشید، چوہدری ۲۴۲ ۵۷۸،۳۹۸ ۶۲۱ ۶۴۴ محمد علی بوگرا، چوہدری ۴۹۹،۴۹۸،۴۸۶ ۱۹۷ محمد علی خاں، نواب ۶۰۰ ،۲۰۶،۲۰۵ ۲۴۲،۲۴۱ ،۲۱۰،۲۰۸ ۴۴۹ محمد علی رئیس باندھی ، چوہدری ۳۵۳ محمد عبد الرشید ابن مولانا محمد احمد ثاقب ۳۵۲ محمد علی شاہ.بھدرک ۱۳۵ محمد عبد السلام، ڈاکٹر ۴۵۲،۴۵۰ ، محمد علی شاہ کا ٹھگڑی ، سید ۳۲۸ محمد شریف، چوہدری.مجاہد سلسله ۱۱۶ تا ۱۱۸، محمد عبد السلام، حافظ ۱۲۰ تا ۱۲۴،۱۲۲، ۱۲۷، ۲۸۸، ۳۸۳،۲۸۹ | محمد عبد العزیز ، میاں محمد شریف، ماسٹر ۱۹۷ ۶۰۴، ۶۱۷ محمد عمر ، مہاشہ ۲۶۶ محمد عمر ، حکیم ۶۱۴ | محمد عمر خاں.ترنگزئی محمد عبد الله، نواب ۲۰۵ تا ۲۱۲ ۲۴۲،۲۲۰ محمد عمر سہگل، میاں محمد شفیع.ودھاون ۴۶۹ تا ۴۷۱ محمد عبد اللہ ، چوہدری ۱۹۹،۱۹۷ | محمد عمر مالا باری، مولوی ١٩٦ ۶۱۲،۴۱۴ ۳۱۷ ۵۸۹،۵۴۳ ،۲۳۴ ۳۳۴ ۶۱۵ ۴۷۱،۴۶۹ ۶۱۹،۶۱۶،۶۱۰ ۵۶۹ ۳۱۶ ۶۱۶ محمد شفیع اشرف، مولانا ۴۳۶ محمد عبد اللہ ، خواجہ.آسنور ۵۹۲ محمد عیسی بھاگلپوری محمد شفیع نوشهیروی ، ملک ۶۱۹ | محمد عبد اللہ، قاضی ۵۲۰،۲۰۷ محمد فاضل، حاجی.ربوہ محمد شفیق، ڈاکٹر ۱۲۵ محمد عبد اللہ ، ملک محمد صادق مفتی ۳۸۹| محمد عبد اللہ بی ایس سی محمد صادق، مولانا ۶۵۶،۶۵۳ | محمد عبد اللہ بھٹی ۲۶۰ محمد فاضل شاہ ، سید ۶۵۸ محمد کریم الدین ۳۳۷ محمد کریم اللہ.ایڈیٹر آزاد نوجوان 4 محمد صالح ، امام.غانا ۳۶۷ محمد عبد الله تاجر، شیخ ۵۷۸ محمد کولی بالی.نائب صدر آئیوری کوسٹ ۱۶۷ محمد صدیق، چوہدری لائیبریرین ۱۵۹ ۴۶۰ محمد عبد اللہ سنوری ۵۸۴ محمد لطیف ۵۴۹،۵۴۸ محمد صدیق امرتسری ۱۰۰۷۵،۱۳، محمد عبد اللہ سیالکوٹی ۳۴۴ محمد لطیف آف جاکے چیمہ ۵۹۸

Page 697

محمد محسن.معلم وقف جدید ۳۵۵ ۶۳۳۶۳۱ مزمل خاں.کیرنگ محمد محسن، مولوی سید ( سونگھڑه) ۴۱۴، ۴۱۷ محمد یونس ، مولوی (سورو ) ۴۱۴ ، ۴۱۷، ۴۱۸ مسرور احمد ، صاحبزادہ مرزا محمد محسن سید کسمی محمد محمود اقبال محمد مختار دادا ۶۱۳۶۱۲ محمود.لبنان ۱۲۶، ۱۳۸ | محموداحمد.دھرم سال ۳۷۱ محمود احمد.ہائی کمشنر پاکستان محمد مستقیم ایڈووکیٹ، ملک ۴۳۶ محمود احمد ایڈووکیٹ ، قریشی محمد مصطفی.آئیوری کوسٹ محمد معین الدین سیٹھ محمد منور، مولانا 121 ۶۱۰ محمود احمد بی ٹی ۳۷۷،۹۹، محمود احمد چیمہ، چوہدری ۱۴۶ ۹ ۱۸۱ مسر داؤ د احمد حنیف مزنیم احمد - گیمبیا مسعود احمد ، سید میر ۲۳۵، مسعود احمد جہلمی.مجاہد جرمنی ۶۰۴ ۲۶۴ ۱۳۷ ۱۳۷ ۳۸۳ ۵۴۹،۵۴۳ مسعود احمد خاں.دہلوی ۶۳۰،۶۲۷،۵۹۵ ۶۰۵ مشتاق احمد ایم.اے، چوہدری ۳۸۳، ۶۳۹،۶۳۸ | محمود احمد خاں نسیم ، میاں.راولپنڈی ۵۷۱ محمد منورایم.اے، پروفیسر ۱۹۷ محمود احمد سنوری مشتاق احمد باجوہ، چوہدری ۷۴ ،۲۳۴،۸ ۶۵۵،۵۸۱،۵۷۹،۴۵۷ ، ۴۵۴ ۳۳۸ مشتاق احمد شائق محمد موسیٰ ، سید مجاہد کیر تنگ ۶۱۲۶۰۷ | محمود احمد شاد، چوہدری ۶۰۴۳۵۳ مشہود احمد ، سید میر محمد موسیٰ عرف اوکی محمد نذیر ،مولانا قاضی محمد نواز خاں ایم.اے محمد نذیر احمد محمد نور عالم بیگوسرائی ۴۶۲ محمود احمد قریشی.لاہور ۵۱۲ ۶۰۶ مشہود احمد.ربوہ محموداحمد ناصر ،سیدمیر ۴۴۶ مصطفی - سیرالیون محمود الحسن، شیخ ۱۹۵ محمودہ اہلیہ حمید نظامی ۶۶۰ ۴۱۰ مصطفی احمد خاں ، نواب ۶۰۸ ۳۳۸ ۳۵۳ ZA ۲۲۰ مصطفی سنوسی ۱۸۱ تا ۱۸۶،۱۸۳ محمود بریلوی، پروفیسر ۲۸۸،۱۱۳ | مصطفی کمال قدوائی ۳۸۰ محمد وانی کشمیر ۵۹۱ محمود جمالی.ربوہ مصلح الدین بنگالی محمد و گاوی.گیمبیا ۱۲۹ محمود شبو مصطفی خالدی محمد ہاشم بخاری،سید ۶۵۵ | محمود شلتوت، شیخ محمد یا مین ، میاں ۳۰۴ محمود نعیم الاسلام محمد یعقوب ، میاں.کلکتہ ۴۶۸ محی الدین، مرزا محمد یعقوب بیگ، مرزا ۵۸۰ محی الدین اکبر.ربوہ محمد یوسف ، میاں.اپیل نویس محمد یوسف، ڈاکٹر.لاہور ۳۳۲ ۱۴۶ ۶۴۹ } ۲۴ مظفر احمد، صاحبزادہ مرزا مظفر احمد منصور معین الدین، پیر ۳۵۱ ۱۷۵ تا ۱۷۸ ۶۰۵ مقبول احمد ، قریشی ۱۶۲،۹۹ تا ۱۶۴ مدثر احمد ابن سید نا صر احمد ۳۵۰ مگبا کمارا.سیرالیون ملالا سکیر ا.پروفیسر ۲۱۳ مدحت ابراہیم.مالمو محمد یوسف بانی ہیٹھ ۴۶۹، ۴۷۱ مددخان، صوبیدار.راولپنڈی محمد یوسف زمروی ۶۰۶ مرار جی ڈیسائی محمد یوسف سلیم ، ملک ۲۰۵ مریم بی بی بنت میاں محمد ابراہیم ۲۶ ۲۴۲ ۶۰۶،۳۷۰ ملٹن ما گائی ،سر ۳۴۰ ممتاز احمد ، مولوی محمد یوسف شاہ ،سید ۳۷۲،۳۱۷ | مریم بی بی زوجہ مہر بشیر احمد ۵۷۳ | ممتاز بیگ.غانا ۱۶۶تا ۱۶۸ ۶۳۶ ،۴۸۶،۴۸۵ ۵۱۱،۵۰۵،۴۹۲ ۱۸۶،۱۸۰،۱۰۴ ۵۹۹ اے ง

Page 698

۱۷ منصور احمد ، صاحبزادہ مرزا ،۲۶۲،۲۶۰ ۵۲۸،۲۶۵،۲۶۳ موسیٰ سواد.سیرالیون موسیٰ کمارا ۶۳۶ ناصر اقبال - کراچی منصور احمد، چوہدری ۶۲۱ مولا بخش سیالکوٹی منصور احمد، ڈاکٹر سید منصور احمد ،مولوی.مجاہد تنزانیہ ۶۱۰ مولا داد، ماسٹر ۵۸۰،۳۳۳ ۶۱۹ مولائی حسن ،السید منصور احمد ایم.اے.گھٹیالیاں ۱۹۷ مولو د احمد خاں ۱۷۶ ناصر و بلم نکولسکی ناصر نواب سید میر ۱۶۷ | ناصرالدین گما نگا.سیرالیون ۳۸۳،۱۳ ناصرہ، مسٹر.ہالینڈ 1.،۵۴،۴۶ ۶۳۶،۳۶۱،۳۶۰ ۶۳۶ منصور احمد لکھنوی، ڈاکٹر ۳۵۳ مونگی سلیم ۴۸۶،۴۸۵ ناصرہ بیگم ۳۶۵ ۵۸۲ منصور اللہ باجوہ، چوہدری ۵۸۲ موئی.افریقن لیڈر ۳۷۷ ناصرہ زمرمان.ہالینڈ منصور و بیگم ،سید نواب ۱۷۰،۱۲۳ مہتاب بیگ، مرزا قادیان ۵۸۲ تا ۵۸۴ | شار احمد ایم.اے سید ۱۹۸ منظور احمد ایم.اے، خواجہ ۳۵۲ مهر آپا، سیده ۴۴۵ نجم الدین ، میاں طغل والا ۵۷۵ ۴۶۹ منظور احمد شاکر ایم.اے ۱۹۷ مہر النساء بیگم مہرالنساء منظور فاطمہ.سعودی عرب منظور محمد ، پیر ۳۳۶ مہر النساء ۲۰۶ مهر خان - کریام ۲۰۵ نذر محمد - کلکتہ ۴۲۰ نذیر احمد ، ڈاکٹر ۶۲۲ ۳۲۳ نذیر احمد ایم ایس سی منور احمد، چوہدری منور احمد، ڈاکٹر ۱۲۴ میڈینگے، مسٹر منور احمد ، صاحبزادہ مرزا ۵۲۴،۵۲۰،۳۵۸ میکلیگن ،ای ڈی منور احمد ایم ایس سی.سیرالیون ۳۷۴، ۶۳۶ میگازی، مسٹر منور احمد خورشید.مولوی ۱۳۵ ۱۳۸ میگس ، شری جنرل تا ۴ میخائیل نعیمہ.لبنان ۱۴۵ نذیر احمد باجوہ، چوہدری ۶۴۲ نذیر احمد بگھیلوایم ایس سی ۳۰۳ نذیر احمد علی، الحاج مولانا ۳۷۷ ۶۵۹،۳ ۱۳۷ ،۱۸۱،۱۰۵ ۳۶۷،۱۸۴ ۶۱۰ نذیر احمد مبشر ، مولانا ۳۶۶،۶۱ تا ۳۶۸، منور احمد ولد سراج الدین ، ڈاکٹر منور احمد ولد غلام رسول، ڈاکٹر منورہ بیگم اہلیہ بشارت احمد ۱۲۵ ان ۱۲۵ ناصر احمد، صاحبزادہ مرزا حضرت ۱۲۲ تا ۱۲۴ نسیم احمد، میاں ۱۲۸ تا ۱۷۴،۱۷۰،۱۶۰،۱۵۶،۱۵۲،۱۳۳ نسیم احمد سیفی ، مولانا ۵۴۳،۳۸۴ ۱۴۷ ،۸۲،۵۰ منیر احمد.امریکہ منیر احمد کلکتہ منیر احمد بسرا.بانجل منیر احمد رشید خانا منیر احمد عارف ، مولوی منیر احمد منیب منیر الحصنی ، استاد.لبنان ۳۲۴ ۶۲۶ ،۲۴۸ ،۲۴۷ ،۱۹۸،۱۹۵،۱۹۴،۱۸۵،۱۸۳ ۴۶۸ ،۵۲۵،۵۲۴ ۵۲۰ ، ۴۴۷ ، ۴۰۳ ،۳۵۸ ۱۲۶ ۶۷۰،۶۵۹،۶۱۸،۶۱۴،۵۹۹ ۹۹ ،۹۸ ۱۲۶ ۱۴۲ ناصر احمد ، سید ۳۴۲ ناصر احمد، شیخ.مجاہد سوئٹزرلینڈ ۲۷،۲۶، ۳۶۳،۳۶۲۲۰۴،۲۰۳ ،۹۴ منیر الدین احمد ۴۱۴۳۶۰،۳۲۱،۹۹،۲۱ ناصر احمد پروازی ،۳۶۶،۱۲۸،۱۱۵ ۱۱۴ ۱۱۲،۸۵،۸۳ ۶۳۱،۶۲۷،۵۴۱،۳۷۳،۳۷۱ تا ۶۳۳ نسیم اختر اہلیہ میجر میر محمد عاصم نسیم احمد ایم ایس سی ، چوہدری.بانجل نصر اللہ خاں، چوہدری.ڈسکہ ۳۴۵ ۱۲۶ ۳۳۳ ۵۸۲ نصر اللہ خاں باجوہ، چوہدری نصرت بیگم اہلیہ مولانا امام الدین ۳۰۲ نصرت جہاں بیگم حضرت سیده ۴۴۴۳۴۳

Page 699

۵۸۶ ۶۵۲ ۶۰۷ ۶۱۲ ۳۷۴ ۴۰۸ ،۴۱۶ ،۴۱۴ ۶۵۹ ،۴۱۹ ۶۳۹ ۳۹۷ ۳۷۷ ۳۵۰ ۶۳۰ ۳۸۰ ۱۸ نصرت عقیل اہلیہ انیس احمد عقیل ۱۲۶ | نورالحسن بھاگلپوری نصیر احمد.سالٹ پانڈ نصیر احمد.کلکتہ ۶۴ نور الحق تنویر، مولوی ۴۶۸ ܬܙܖ ولی داد خاں ۶۵۵ ولی گوونڈن - ماریشس نورالدین، حضرت حکیم مولانا.خلیفہ مسیح ولیم ٹب مین.صدر لائبیریا نصیر احمد خاں، مولوی.مجاہد لبنان ۳۸۳،۱۴۲ الاول نصیر احمد شاد چیمه ۱۲۸ ،۲۵۸،۲۴۲،۲۰۹ ،۲۰۸ ونو بھاوے ۵۷۵،۳۰۵ تا ۵۷۸ ،۵۸۰ وھنو بندھو سا ہو نصیر احمد ناصر ۵۷۳،۵۶۹ | نورالدین، شیخ - قادیان ۳۳۴ | وی وی کالون.سیرالیون نصیر الدین، ڈاکٹر ۱۲۵، ۱۳۶ نورالدین جمونی، خلیفه ۵۸۸،۵۸۷ | ہاجرہ بیگم نصیر الدین احمد ، شیخ ۸۲،۷۸، نورالدین ذیلدار، چوہدری ۳۴۰ ہارون الرشید.بھدرک ۱۸۵،۱۸۳۱۸۲، ۳۷۴،۳۲۱،۱۸۶، نور بیگم مصطفی آباد.لاہور ۶۳۳،۵۴۳ ،۶۵۶ نور علی، میاں.دسوہہ نصیر حسین سہارنپوری سید نظام بدھن ،ڈاکٹر نعمان - معلم نعمان احمد ، مرزا نور غنی.ٹرینیڈاڈ ۳۴۸ ۳۳۰ ہارون سعیدی فنڈ یکیر ا ۴۶۶ ہارون گلوسا ۱۶۹ نور محمد منشی.قادیان ۳۳۹،۳۳۸ ہارون لگدشه ۳۷۸ نیاز فتح پوری ، علامہ نعمت اللہ منشی.قادیان ۳۳۴ نیک محمد خاں غزنوی ۱۱،۷، ۲۲۷، ہاشم اکبر احمد ۴۲۴ تا ۴۲۷ ۵۹۴۰ باشم بخاری، سید ،۲۶۱،۲۴۲ باشم خان مخدوم نعمت اللہ، مولوی.جمشید پور ۳۵۶ ۳۱۳۲۶۲ ہاؤ بر ختس عمر ۴۹ نعیم احمد.ربوہ و.ہی ہدایت احمد ۳۰۲ نعیم الدین، قاضی ۶۵۵ واحد حسین ، گیانی ۲۳۴ ہربنس لال نعیم الرحمان درد ۳۵۱ واندی کلن، چیف ۷۸ ہر تینی.بیگم صدر انڈونیشیا نعیم اللہ شاہد ، ڈاکٹر ۱۲۶ وائی کی صدیق.غانا ۳۶۷ ہرفرانز جوناس نکے شاہ، میاں ۳۳۰ ودھاوے خاں، چوہدری ۳۳۷، ۳۳۸ ہری سنگھ ، راجہ ۳۵۳ ۶۵۴ ۹۴ ۵۸۸،۵۸۷ نواب علی ، چوہدری.کلکتہ ۴۶۸ وسیم احمد ، صاحبزادہ مرزا ۲۳۵۰۶، ہری کرشن مہتاب ، ڈاکٹر < نوراحمد ایڈووکیٹ، شیخ ۲۱۸،۲۱۱ نوراحمد بوستاد ۲۴ ۶۰۶،۴۷۱،۳۵۳،۳۱۲،۳۱۱، ۶۰۷ ، ہمایوں، پروفیسر میکریرے ۶۱۶،۶۱۵،۶۰۹ | ہمفرے فشر ۶۴۷ نور احمد تھکائی ۴۶۱ وقیع الزمان ۵۸۶ هند بنت عتبہ ۲۸۸ ۵۶۰ نور احمد عابد ۳۳۹ وکٹر بابو نور احمد منیر، شیخ ۲۳۴٬۹۹،۹۸، ۴۱۴ ولی الدین مولوی.شموگہ نورالحق انور ، مولوی ،٣٧٧،٣٧٦ ولی الرحمان ۶۵۱٬۶۴۸٬۳۸۳ | ولی اللہ یا نسن ۷۳ ہنس راج ۳۵۴ ھوار، شاه ۶۴۱ ۳۳۰ م هومبی زبوٹا ۳۷۷ ۳۹ ھیرلڈ میلملن.وزیر اعظم برطانیہ ۸۳ تا ۸۵

Page 700

Hon yerim a balla 85 MR.FENNER BROCK 115 ممبر برطانوی پارلیمنٹ WAY ۱۹ ھیملی.ایک عیسائی ۶۵۲ یوسف احمد الہ دین سیٹھ ۴۰۸،۴۰۳،۳۹۹ ھیو برٹ دہن راج ۳۵۷ یوسف علی عرفان ۳۵۳ ۶۳۷ یحی معلم غانا سکی پونتو.انڈونیشیا ۳۶۶ یوری گاگرین HERR GOULIED SUTT ADAN SISTATE 74 ۹۶ WCELER MR.H.RELANUS 30 DR.IN HET YELD 46 DR.ADALT SCHARB ٣٦٠ ڈچ مستشرق صدر آسٹریا 36 28 LEONHARD FRANCE 27 AERK FRANZ JONAS M.V.HOVACK صدر بلد یہ وی آنا 34 28 THOMAS CARLYLE 37 EXEL PETERSEN 205 سیحی جامی یحی فضلی سر بیمابالا.نائیجیریا یعقوب ، الحاج.غانا ۶۲۷ تا ۶۲۹ یعقوب علی عرفانی ، شیخ ۳۱۴، ۳۹۰،۳۸۹ سینگ دی پر تو اں اگانگ سلطان ملایا ۶۵۳

Page 701

مقامات آ.اسی کماری ا انبالہ ۳۳۱،۲۴۳ اشانٹی ۳۶۸ انجلا ۸۹ آبی جان ۱۶۲ تا ۷۵،۱۶۸ اتا ۱۷۷ افرانی ۶۲ انجواره ۱۲۵،۱۲۴ آٹھ گڑھ ۳۵۵ آرد ۶۱۲ ۶۱۵،۵۴۲،۵۴۱ ،۳۶۴،۲۲۶،۲۲۲۹۱ افریقہ ۳۱،۱۰ تا ۸۹،۸۸،۷۵،۶۱،۳۳، | انڈونیشیا ۴۵،۳۳، ۹۵ تا ۳۶۰،۹۷ ، ۳۸۰،۳۶۳ تا ۶۵۴۶۰۹،۳۸۲ آسٹریلیا آسٹریا ۳۲ ،۹۴،۳۳،۲۸،۲۷ ۳۶۳،۳۶۲ آسن گوموا ۶۶ آسنور ۵۹۲،۵۹۱ آندھرا ۲۳۴ ۴۹۹،۶۴ | انز بروک افریقہ (مشرقی) ۸۷ تا ۳۶۳٬۹۱، | انقره ۳۷۶ تا ۶۳۸،۵۵۸،۳۷۸ | انیا ما افریقہ (مغربی) ۶۰،۵۰،۴۹ ، | اوٹر ڈم ۲۲۵،۱۱۵،۸۲،۶۴ | اوٹکور افریقہ (جنوبی) ۷ ۴۸ ۶۵۱۷ | انڈیانا پیلیس افریقہ (شمالی) ۹۳ ۳۶۳،۲۷ ۳۳ ۶ آئیوری کوسٹ ۱۶۱تا ۱۷۹ ابادان ۳۷۱،۸۶،۸۵،۵۰ افغانستان اکال گڑھ ۴۵ اوسلو ۶۰۶ اوترخت ۲۴ ۶۲۴،۳۶۵،۳۶،۳۵ ابو بوگار ۱۶۷ اکرا اپروولٹا اکرافو ۶۳۰،۳۷۰،۱۳۳،۶۹،۶۷ اونڈ و ۶۶۰۶۴ اوہائیو ۳۷۲ ۹۳ اٹلی اورین ارک پٹنہ ارمر ٹانڈا ارنگا اڑیسہ ۱۶۴ ۳۵۷ ۳۵۵ اکم اوڑا ۳۶۸ اہا نو ۳۶۹ اکم سویڈرا ۳۶۸ ایسے کوٹا اکو ٹو کم ۳۶۹ ایران ۳۷۲ ۵۲،۴۵،۸ ۳۳۰ البانية ایشیا ۳۶۴،۳۶۳ ۶۳۹،۳۷۸ ،۳۵۵،۲۹۸،۲۳۴،۸ الجزائر ۲۸ ایمسٹرڈم ، ۴۴ ۴۲،۴۱ ،۳۳،۲۴ الكمار ۳۳ ۶۲۴ ۴۸ ۶۳۴،۸۲ ،۱۱۸ ،۱۱۶،۱۱۴،۱۱۲،۱۱۱ ۱۴۱ ،۱۲۵،۱۲۴ ،۱۱۱ ۶۳۴ ۳۶۴ امرسفورٹ ۶۰۰ امروہہ باجے بو امریکہ ۹۲،۳۲،۸ تا ۱۶۳٬۹۵، ۱۸۷، باتھرسٹ باڈو ،۵۴۱،۴۹۲،۳۶۶،۳۶۳،۲۲۲ ۶۴۶،۶۲۶ ۶۱۲،۶۰۴۴۱۷ ۶۴۰ ۳۳ ۴۸۵ ۳۶۹ اسا کا اسدورپ اسرائیل اسکوڈی مومیانگ

Page 702

پاکستان ( مشرقی) ،۴۱۲،۵ ۴۲۶ تا ۵۵۸،۵۱۱،۴۲۹ ۵۹۳ ۱۳۶ ۳۶۹ ۶۲۶ ۳۵۷ ۳۱۷،۵ ۳۱۸ ۶۲۲ ۳۴۶،۱۹۵ ۱۵۹،۴،۳ ۳۲۲ ۶۳۴ ۲۴۷ ،۲۳۶ ۶۰۴ ۶۱۳،۳۵۵ 171 ۶۳۴ ۳۸۰ ۳۶۳ ۶۳۳ ۳۲۴،۳۲۳ σ ۹۷ ۵۰۴ ۳۵۵ ۱۳۴،۱۳۳ پانی پت پائپ لائن پیاناسی پٹس برگ پٹنہ پٹیالہ پرتگال پریسٹن پسرور پشاور تلونڈی را ہوالی میلے پنجاب پنڈی چری پنکال پورٹ بویت پورٹ لوکو پور وکر تو پیٹس برگ پیکاک پاگانہ ۵۱۱ ۳۵۳،۳۴،۶ ۱۴۱ ،۱۳۴ ۴۷۱،۴۱۷ ،۳۵۵،۲۳۴،۱۵۸ ،۱۶۶،۱۶۵ ۳۵۴ ۱۴۱،۱۲۳ تارا پور تا سکھلایا تاشقند تال بر کوٹ تالنڈ نگ کنچانگ ۶۵۲،۳۷۹،۳۶۳،۳۱۹،۳۱۸ ،۱۸۵،۱۸۴،۱۸۲،۱۰۹ ،۱۰۴ ۶۳۴،۳۷۴ ۳۳۰ ۱۶۷ ۱۶۱ ۴۲۰،۳۵۵،۲۹۸،۲۳۴ ۳۳۰ ۶۱ ۳۶۳،۱۴۶،۱۴۵ ۱۳۶ ۴۹ ۶۳۴ ۳۵۷ با ڈانگ ۹۷ بلغاریہ بار کلے ۶۳۸ بمبئی بازل ۳۶۲۲۷ بنجول باسم با کاؤ ۱۷۶ ۱۱۸ بنگال بنگرول بالی ۴۴ بنگلور بانجل ۱۳۶۰۱۲۶،۱۱۱ تا ۱۴۱، ۱۷۷ بنو کا کنڈا باندھی ۲۳۴ بور نیو بانڈ ونگ ۹۵ بو بیبیانی ۳۶۸ بٹالہ بدوملهی ۶۱۹،۶۰۶،۳۰۸ ۲۰۰،۱۹۵ بودھاوا بوکا برائٹن ۱۳ تا ۱۵ بوگور برٹش گی آنا ۶۲۴ برجا صور ۱۴۶ برطانیہ (انگلینڈ، انگلستان) ۳۲،۱۳۸، ۸۴، ۱۳۹، ۱۸۱ ، ۱۸۷، ۳۶۰،۲۴۷، ۴۴۸، بیڈروم بونتو بہار بہادر بیروت بیر کاما بیرن بیلے بھاگلپور ۶۲۰،۵۵۸،۴۹۲،۴۵۵ ۱۸ ۹۸ ۳۶۹ ۳۵۷ ۴۲۸ بھاگ ماری 14 ۶۲۱ بھدرک بھونیشور ۶۱۳ ۴۱۵،۳۵۵ تا ۶۱۲۴۲۴ ۳۵۶ ،۴۵،۴۴،۳۳،۱۶ ،۱۳،۱۰،۸ پاکستان ،۱۷۱ ،۱۵۹ ، ۱۱۴ ،۹۲،۹۱،۶۶، ۶۳ ،۵۲ ۱۴۱،۱۳۷ ، ۱۳۴،۱۲۵،۱۲۲ ۳۶۹ ۳۵۷ ۶۳۴ ، ۴۸۴،۴۷۶،۴۴۶ ،۲۴۷ ،۲۰۴،۱۸۵ ۳۲ برلن برما بر ونگ رہا نو بره پوره برهمن بڑیہ بریڈ فورڈ بصر بکوائے بلاری بلاما

Page 703

۲۲ تر شدل ۱۶۷ ترکی جگریا ۵۱۰۴۴،۱۷ ،۱۶،۸ ۶۱۳ تنزانیہ تیما پور ۶۴۶ جاوا جاوا (وسطی) جرمنی ۵۹۹ حنین ۳۸۰ حیدرآباد (دکن) ،۵۹،۵۸،۵۶،۵۳،۳۲،۱۵ ۵۶۰ ، ۱۹۱ ،۱۹۰،۶ ۶۱۶،۶۱۵،۶۰۰،۳۹۹،۳۹۴،۳۹۲،۳۵۴ ۶۰۹،۵۵۸،۴۷۲،۳۶۰،۲۰۴،۱۸۷، خانا میانوالی ۶۲۳،۶۲۲ خانپور ملکی ١٩٩ 69 تھائی لینڈ ۶۵۳ جرمنی (شمالی) ۱۷ خود پور مانگا ٹاپا ۶۴۰ جرمنی (مغربی) ۴۴۸،۳۶۰،۳۲،۲۰ خورده ٹانگانیکا ۸۹ تا ۳۷۸،۹۱، ۶۳۹،۶۳۸ جسوانگ ٹیورا ترینیڈاڈ ٹمالو ۶۴۰،۳۷۸ ۴۶۷ ،۴۶۶،۳۶۳ ۶۳۰،۶۲۹،۳۷۰ جکالیاں ۱۱۸ | خوشاب ۳۰۳ خیر پور ڈویژن ۳۵۷ ،۹ ۳۴۰،۳۳۹ ۶۱۴ ۳۳۳ ۲۳۴ جماسی ۳۶۹ و.ڈ جمشید پور شمالی ۶۷ جموں ۳۵۶ ۵۹۰،۹ دابو ۱۶۵ تا ۱۶۷ دانا سگرا ٹمانوب ۶۴۷ ۱۳۶ جنجه در گانوالی ۹۸ ۵۷۲ ٹمبکٹو ۱۶۱ ٹوبیگو جنوبی هند ۴۶۶ جو بنسبرگ ۶ دمشق دھارواڑ ۶ ٹورنٹو ٹوکیو ٹیچی مان ۶۲۵ ۴۶۱ ۶۳۱،۷۵ جیسلٹن جیک آباد جھنگ ۶۵۲ دهام نگر ۴۲۰ ٹیچی منڈیا ۳۶۹،۳۶۸ جھنگ مگھیانہ ٹیلفو ۳۶۴ ٹیلے کوئے ۱۳۹ ٹینڈے ۶۴۰ ٹیونس ۷۲ ان جاپان جارج ٹاؤن جاجا جا کرتہ جالندھر ۳۳۰ چونیاں ۹۵ چیکوسلا و یکیه ۳۵۳،۲۵۹ چین دھواں ساہی ۶۱۲ 푸 دیودرگ ڈاکار چ - ح - خ ڈاوین چٹا گانگ ۴۲۸ ڈچ گی آنا چک 1-2-55 (اوکاڑہ ) ڈسکہ ۶ ۱۴۲ ۱۳۶ ۳۶۳۹۵،۹۴ ۳۳۸،۱۹۵ چک 68 ج - ب (فیصل آباد ) ۳۲۴ ج.ب ڈلفٹ ۶۲۴ چنتہ کنٹہ ۴۶۱ تا ۴۶۳ چودوار ۱۴۱،۱۴۰،۱۳۴،۱۱۸ چونگین ۳۵۴ Δ ۱۴۱ ۳۰۴،۳۰۳ ڈنڈ واڈ ۳۳ ڈنمارک ۱۹،۱۵، ۲۱ تا ۵۶،۵۳،۲۴، ۴۴۸ ،۴۱۱،۳۶۱،۲۰۴،۲۰۳،۱۸۷ ۱۴۱ ،۱۴۰ ۵۳۴ ١٩٩ ۳۲۴ ۵۷۹ ۶۶ ۴۸۷ ڈوٹا بولو ڈوڈوما ڈونگورا ۶۳۹،۳۷۸ ۱۳۹

Page 704

۲۳ ڑھئی ۳۳۲ زیورک ڈیال ۳۳۱ ،۴۵۴،۳۶۳،۳۰،۲۸،۲۷ ۴۷۲،۴۶۱،۴۵۵ ڈیبلٹ ڈیٹن ڈیرہ دون ڈیرہ غازیخان ڈیفٹ ڈیلفٹ ڈیمیزی ڈیوک آف کینٹ رز رائے چور رانا ؤ رانی راولپنڈی را ہوالی ربوه ۳۹ ۳۶۶ سابا ۲۶۲،۲۴۲ سارے بکری سیش سمارنگ سمرقند سنگینی لا ۵۰۴ ۱۴۱ 館 ۶۳۴ ۶۵۳،۳۶۳ سوڈان ۶۲،۵۹ ،۴۵ ۶۱۵ سارے جبل ۱۴۱،۱۳۶ ۱۴۱،۱۳۶ سورو ۴۱۴ تا ۴۲۴ ۳۶۴ ۳۶۶،۴۱،۳۳ ۶۴۰ ۱۸۱ ساگر سوکوتو ۱۶۱ ۶۱۶ سونگڑہ ۶۱۲،۳۵۵ سالٹ پانڈ سالزنگ ،۳۶۶،۶۷،۶۴۶۲ ۶۲۶،۳۷۱ ۳۶۳ سونی پت سوئٹزرلینڈ ۵۹۳ ،۲۲۵،۱۸۷ ،۹۴،۳۲،۲۷ سالکینی ۵۶۷ ،۴۷۲،۴۵۵،۴۵۴،۳۶۲ ۱۲۰ ، ۱۳۹،۱۳۷ تا ۱۴۱ سویڈرو ۳۵۴۶ ساؤتھ ہال ۳۶۰ ۶۵۲ ۳۵۷ ۲۲۹،۲۱۴،۱۵۹ ۳۲۱ ،۱۵۸،۱۱۴۹۳،۵۴۴،۳ ۱،۴۴۴ ،۴۰۹،۳۹۹،۳۵۸ ،۳۵۷ ،۱۸۹،۱۶۶ ۶۱۴۵۵۸،۴۶۰۰ ۴۵۹ ساؤنٹ واڑی سپینگ سپین سٹاک ہالم سٹیا سڈنی سرا بو سویڈن ۲۰۴،۲۰۳،۲۳ ۳۵۴ ۶۵۲ ۳۱۸،۱۸۷ ،۱۳۹،۵۶ سہارنپور 11 سیالکوٹ ۵۹۰،۳۰۴،۲۰۱،۱۹۹ ۲۳ تا ۲۵ سیرالیون ۷۸،۶۶۰۶۰ تا ۰۸۲ ۱۰۴ تا ۱۸۷،۱۸۰،۱۷۲،۱۰۹ ۶۴۶ ۶۲۵ سیرالیون ۳۷۳،۳۶۳ تا ۳۷۵ ۶۳۳،۵۵۸،۵۴۲ ۶۳۴ ۶۳۶ ، ۴۸۶،۴۸۵،۷۲۶۶ ۵۱۱،۴۹۲ ۱۳۹ ۱۴۱ ۱۳۶ ۱۳۱،۱۲۲ تا ۱۴۲،۱۳۹،۱۳۳، ۱۶۹،۱۶۵،۱۶۳ ۲۳۴ ۱۴۱ ،۱۲۰ ۶۵۲ سیر یکولیا سیلون ۶۱۶،۳۵۴ ۶ رسول پور ( گجرات ) ۵۸۴ | سراوک سرب سر چور ۶۱۳ ۳۶۳۹۸ ۶۵۲ سرگودہا ،۲۹۹ ،۱۹۹،۴،۳ سیماٹا با ۶۴۲،۵۰۴ ۴۹۲ ۴۳۰ تا ۴۶۴۴۳۴ سینا چو ۶۳۴ سر بینام ۳۳ سینچو ۳۷۸ سرینگر ۳۳ سکندر آباد ۲۰۴ 1.،۳۸۹،۳۸۸،۱۹۰،۶ ۳۹۹،۳۹۱ سینیگال سی پی سکنڈے نیویا ۲۳ ۵۵۸،۳۶۱،۳۲،۲۴ | سیر اکھنڈا ۴۷۲،۴۵۸،۹۴ رگڑی پاڑہ رنگون روز هل روس روکو پور روما فیجی زند فورٹ زولو ( آئی لینڈ) زیورچ

Page 705

۶۲۰،۴۵۶،۴۴۷ ۶۱۳،۳۵۵ ۳۵۴ ۶۱۲ ۶۳۳ ۶۱۶،۴۶۸،۴۶۷، ۴۳۰ ۷۴ ،۷۳۷۰ ،۶۹،۶۴،۶۳ ۶۲۷،۳۶۸،۱۶۷ ،۸۲،۷۴ ۶۵۳ ۶۴۶ ۶ ۱۴۱ ۵۹۹،۳۲۵ ۶۱۲ ۱۳۶ ۲۴ ۱۹۱ فراٹو ۱۳۶ ۳۶۶،۳۶۳ | فرافینی ۱۳۹،۱۲۱،۱۲۰ تا ۱۴۱ کرڈا پلی ۴۵،۱۶ | فرانس فرانکفورٹ ۶ فریس لینڈ ۱۶۱،۲۸ ۶۲۲،۳۶۳،۱۸ ۳۶۴،۳۳ کرنول سمى شاد نگر شکاگو شام شاہ آباد ۳۳۳ شاہ پور شریف پوره (امرتسر) شکر گڑھ شمس آباد ۶۱۶،۳۵۴ شموگہ شورت شیخو پوره ص- ط - ظ صيدا ۳۳۷ فری ٹاؤن ۱۰۵ تا ۱۸۲،۱۸۰،۱۰۷، ۲۹۸ ۳۴۰ فلارد نگن ۳۷۵،۱۸۵ ۳۳ کشمیر کلکتہ كلوا فلپائن فلسطین ۶۵۲،۳۷۹،۳۱۸ کلیرک ۱۵۹ فیصل آباد ( لائلپور) فیلا سمانا با قادیان ۴۶ ۲۰۶،۲۰۵،۱۱۴،۵۴، کمپالہ ۱۰۹ ۴۶۵ ۱۳۹ کماسی کمبوڈیا کنانور کنٹے کنڈا ۱۴۶ ،۶۰۷،۵۴۳،۴ ۴ ۴ ،۲۶۳ ، ۲۴۷ ،۲۳۴ ۵۷۳ ۶۱۰،۶۰۹ ۳۵۴۶ قاعور قلعہ صو با سنگھ ک میگ ۱۲۵،۱۲۴ کنجاه ۱۹۹ کند را پاژه کنڈا کنگناٹا ۱۳۶ کوپن ہیگن ۱۸۷،۵۷،۵۶،۲۵،۲۴، ۴۵۸،۴۵۵،۴۴۸ ،۲۰۴،۲۰۳ ۱۳۹ ۱۴۲ ۶۱۳،۳۵۵ ۶۵۲ ۳۶۸ } ۹۳ ۳۶۳ ۵۵۸ کالی کٹ ۶۰۷ ،۶ کانگو ۴۸۷ کبالہ ۶۳۶ کانو کوٹا ۸۷ کاولک ۱۴۲ کوٹال کادور کا ٹھ گڑھ ۱۲۱ ۳۱۷ کوٹ پلہ کوڈٹ کپورتھلہ کتھو والی ۲۵۷ کورم کرم ۲۹۸ کولمبس کولمبو کویت ۶۱۳،۳۵۶ ،۳۵۷ ،۱۸۷،۱۵۹،۱۱،۱۰ ،۷ ۵۹۹ Λ ۳۴۰ طغل والا ظہیر آباد ع غ ،۹۲،۸۲،۷۲،۶۶۰۶۱ ،۳۶۳،۱۸۰،۱۷۲،۱۷۱ ،۱۶۳،۱۱۴ ۳۶۶ تا ۶۲۶،۶۱۵،۴۸۵،۳۷۱ ۳۶۶ ۳۵۵ ۲۹۸ کٹک ۶۱۵ | کراچی عدن عراق علی پور عمان غانا غرناطه غنیه پاڑہ فق فتح گڑھ علي

Page 706

۳۲۸ ۱۶۱ ،۳۶۳،۱۷۲،۱۶۹،۱۴۷ ۶۵۲۵۵۸،۳۷۹ ۵۰۴ ۶۱۶ ۲۰۳،۲۶،۲۴،۱۹ ،۱۶۶،۱۶۵،۱۶۱،۱۴۲،۱۳۵ ۴۸۵،۱۷۷ ،۱۶۹ ۱۷۶ ۶۱۳،۳۵۶،۳۵۵ ۶۱۳ ،۳۳،۳۲ ۵۲،۴۵ ۳۳۲ ۶۱۶،۳۵۴،۶ ۱۳۶ ۱۶۳،۳۲ ۴۷ ۵۹ ۳۳۲ ١٩٩ ۳۶۳ ۳۶۳ ۳۵۴ ۲۰۴،۱۰۹ ،۷۶ ،۴۵،۱۶ ۱۴۰ ۶۱۰،۳۵۷ ۶۳۴ ۲۰۰،۱۹۹،۱۹۴ ماچھی واژه مارکوری ماریشس ماسکو مالا بار مالمو مالی ۳۴۶ ۱۳۶ ۱۴۰ ۳۶۳ گھٹیالیاں لا بوان لاٹری لاٹری کنڈا ۹۲ ۶۶،۶۵،۶۲ ۶۰۷ ،۶۰۷ ،۶۰۴،۳۵۵،۲۹۸ ۶۱۳۶۱۲ ۷۲ لاس انجليز ،۳۶۳،۷۶،۷۵۰۷۲،۶۶ ۶۳۷،۳۷۶،۳۷۵ ۶۲۴ مان مانکا گوڑا مانیا بندھ ۱۴۲،۷۲،۶۶۱۶ تا ۱۴۷ متحدہ جمہور یہ عرب ۴۷ ،۴۱ ،۳۳ ،۲۱۳،۲۱۰،۲۰۹،۲۰۰ ، ۱۹۹ ،۱۵۸ لائبیریا لائیڈ جان لائیڈن لاہور ۱۳۷ ۳۵۵ ۶۳۴ ۶۴۸،۹۰،۸۹ ۶۲۶،۶۲۵ ۳۵۷ ،۳۱۹،۳۰۵ ،۳۰۴،۲۶۰،۲۴۷ ،۲۱۴ ۴۸۵ ۱۴۲ ۳۱۷ لبنان لبيا لٹ مینگے لدھیانہ ۳۴۰ ۱۶۷ ۸۵ مد مدراس مد پینه مڈل ایسٹ مراکش مرا کو مردان مری مسقط مشرق وسطی مشیر آباد مصر مظفر پور مکالی ۳۲۶ ،۲۵۸۰۸۴،۸۳۵۰،۱۳ لندن ، ۴۵۴،۴۵۱،۴۴۹ ،۴۴۸ ،۳۶۳ ،۳۶۰ ۶۳۴۶۲۳،۶۲۰،۶۰۹ ،۴۵۵ ۱۳۶ ۳۷۸ ۲ ۶۴۷ ،۱۶۶،۸۲،۵۰، ۶۳۱،۶۱۵ ۵۰۴ لنڈن کارنر لنڈی لو بیری لیگوس لینن گراڈ م ۱۶۷ ۳۶۳ ۶ ۱۱۷ ۴۸۵ ۱۶۹،۱۶۱،۱۴۲،۱۳۵ ۱۴۲ ۱۵۹ ۳۰۸،۲۴۵ ۵۷۹ ۶۳ کیپ ٹاؤن کیپ کوسٹ کیرالہ کیرنگ کیمرون کیموجے کین پینڈا کیندره پاژه كينما کینیا کینیڈا کیوبا کھر پڑ کا گنوا گامبیا گرانڈ با سام گر نیاڈا گلبرگه گنجور گئی گنی بساؤ گنی کوناکری گوجرانوالہ گورداسپور گولیکی گوموا آسن گوہانہ گیمبیا ۵۸۰ ۱۱۲ تا ۳۹۰،۱۴۲

Page 707

۶۲۵ ونڈسر وی آنا ۹۴،۳۰،۲۸ ہاردو یک ۳۳ ہالینڈ ۲۴، ۳۱ تا ۳۶،۳۵،۳۳، ۳۸ ، ۴۰ ۴۲ ، ۴۵ ، ۴۷ تا ۳۶۴،۲۰۴،۵۲ ۶۲۳،۴۵۴،۴۴۸ ،۳۶۵ ۵۸۴ ۳۵۴ ۶۱۴ ،۵۵،۴۵ ،۲۱،۲۰،۱۸،۱۷ ہانگ کانگ ہیلی حلويا همبرگ ۴۵۴،۳۶۳،۳۶۱،۳۶۰،۵۹،۵۸ ہندوستان (بھارت.انڈیا ) ،۴۵،۱۶ ۶۱۵،۴۸۵،۳۵۳۹۰ ھیگ ، ۴۷ ، ۴۳،۴۲،۳۹،۳۸،۳۳ ۶۲۴،۳۶۶ ۶۱۵،۳۵۴،۷ ، ۱۳۹ ۳۶۹ ۳۷۸ ،۲۰۳،۱۸۷ ،۱۶۳،۳۵،۳۱ ۶۰۰ ۲۰۰ ۲۰۰ ۱۸۷ ،۲۳ ۳۲۶ ۲۶ اد ۱۳۹ ۱۶۶ ،۶۷ ،۶۰،۵۰،۴۹،۳ نارائن نارنگ نارووال ناروے ناگدہ متھرا نا نا یا لایا ۲۵۱ ۶۳۴ ۶۳۵،۶۳۴ ۶۴۷ ۶۳۴ ۶۳۰ ۸۲ ۶۵۳ نائیجر نائیجیریا ۸۲ تا ۳۶۳،۱۷۲،۱۶۳،۱۶۱،۱۱۵،۸۷، ۳۷۱،۳۶۵ تا ۶۳۱،۳۷۳ تا ۶۳۳ ۶۴۰ ۶۱۳ ۶۴۰ ۳۳۱ ۳۳ یادگیر یا لابا راسو یکوبا یورپ ۳۶۹ ۶۴۰ } نڈ الا چا بوٹوا نر گاؤں نریگا نواں پنڈ ھمہ نورد و یک نوماسو ۴۳۷ ،۴۳۶ ۳۵۵ ۶۳۸،۳۷۵ ۳۶۸ ۷۲ ۶۳۹،۳۷۸ ۳۷۱،۱۶۹،۱۴۲،۱۳۶،۱۳۵ ۳۵۶ ۴۱۷ مكنى مگبور کا تگو کا منگنی ممیانگ ملائی سوکو ملایا ملتان منڈلی پنگاری منروويا منم منگوائی مورد گورد موریطانیہ موڑ یا گاؤں موسی اپنی موشی مونگھیر مولسی ۳۷۸ نیا با ۳۵۷ نیدرلینڈ ۶۴۰ نیروبی ۳۵۳ نیوزی لینڈ ۳۶۳ نیویارک ۶۲۲،۶۱۱،۲۳۴ ۶۴۷ ۳۵۵،۳۵۴ ۸۲ وا و اختگن واستار ۶۴۸،۸۹ ۶۶ ۵۴۱،۳۶۳٬۹۲،۷۵ | یوپی و.ہی ۳۶۷،۶۳ ۳۹ یوگنڈا یوگوسلاویہ یو مانڈو ۳۳ یونی با نا ۴۵۱،۳۶۵،۳۶۴،۲۲۶ تا ۴۵۹ ۲۳۴ ۶۴۷،۶۴۶،۶۴۱ ،۹۰،۸۹ ۴۸۵،۲۰،۱۶ ۶۳۴ ۵۰۴۳۶۶،۳۶۳ ۱۶۷ ۲۷ واشنگٹن وا گادوگا ونٹر تھور ۳۶۲ مہاراشٹر میڈرڈ میکررے میلادپور میل نمبر 47 میناڈری

Page 708

N

Page 709

1..۶۵۷،۶۵۱ ۳۰۲ 1+1 ۲۷ کتابیات كتب اصحاب کہف کے صحیفے مصنفین سلسله افریقہ میں اسلام ۶۵۹ آسمانی مصلح کی ضرورت آنحضرت کی پیشگوئیاں بائیل میں ۴۳۶ آنحضرت صلعم کے مبارک فرمان ۴۰۵ اقلیت قرارداد ھینڈ بل الاسراء والمعراج القول الصريح في ظهور المهدى والمسيح ۳۸۴ القول المبين في تفسير خاتم النبيين ۵۱۲ امام مہدی کا ظہور انسان کس لئے پیدا کیا گیا انعامی چیلنج ۳۸۵ ۴۰۵ ۴۰۵ اہل اسلام کس طرح ترقی کر سکتے ہیں ۴۰۵ ایک عظیم الشان بشارت ۴۰۷ ایک مبارک نسل کی ماں ایک نئی انجیل کا انکشاف باجوہ خاندان ۳۸۶،۱۰۲ ۴۳۶،۳۸۵ ۶۶۴ بائیبل کی الہامی حیثیت ۶۵۶،۴۳۶ بشارات آسمانی برحق مامور ربانی بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام اور اس کے نتائج پادری عبدالحق کی غلط تفسیر پاکستان کے گوردوارے پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار 1+1 ۴۳۶ 1+1 ۴۰۵ ۴۰۶ پیارے امام کی پیاری باتیں پیارے خدا کی پیاری باتیں ۴۰۷ پیارے رسول کی پیاری باتیں ۴۰۶ پیشگوئی مرزا احمد بیگ اور اس کے متعلقات ۷۶ ۳۸۴ ۳۸۴ ٣٠٢ موضح القرآن کتب حضرت مسیح موعود اسلامی اصول کی فلاسفی (ذکر عربی ،فرانسیسی اور ملیالم ترجمہ ) آؤٹ لائن آف مسلم لاء ۶۱۶،۳۸۸،۱۶۳،۱۸ ابتلاؤں کے متعلق الہی سنت اچھی مائیں احرار کے کار ہائے نمایاں احمد کلیم اینڈ ٹیچنگ ۴۰۵ احمدیت کے متعلق اعتراضات اور جوابات ۶۶۱ ۴۳۵ ۳۲۷ تریاق القلوب چشمه مسیحی حقیقۃ الوحی سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ۴۳۵ احمدیت کیا ہے ( پمفلٹ ) کتب خلفاء سلسله احمد یہ تحریک پر تبصرہ ۴۰۶،۳۸۴ 122 ۱۰۰ احمد یہ جو بلی بلڈنگ احمدیت کے متعلق پانچ سوالات ۴۰۵ ۶۴۰ ۴۶۲ ۴۰۶ ۷۶ 1.٣٠٢ ۴۰۷ اسباق الاسلام اسلام اور اشتراکیت اسلام کا ایک عظیم الشان معجزہ اسلام میں انصاف کا تصور اسلامی معاشرہ 1..۳۸۴،۳۰۴ ۶۶۴۶۶۳،۳۸۴ ۴۰۵ ۶۲۰ 11 + ۱۲۱ ۳۸۹ کے جوابات احمدیت.یعنی حقیقی اسلام الكفر ملة واحدة امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ تحفة الملوک خدمت دین کا فریضہ اور احمدی نوجوان ۳۸۴ مذہب کے نام پرخون ۵۳۷ تا ۵۴۰ اسمه احمد اشاعت اسلام کی فرضیت اصحاب احمد جلد ہفتم ہشتم اصحاب احمد جلد نہم اصحاب احمد جلد دہم اصحاب احمد جلد یاز دهم ۳۸۵ ورزش کے زینے

Page 710

۲۸ کی وضاحت حیات آخرت 1++ تابعین اصحاب احمد جلد اوّل ۳۸۴ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ۴۰۶،۳۹۹ عام مسلمان مولانا مودودی کی نظر میں تحدیث نعمت ۶۶۲۶۶۱ خدائی بشارت ٣٠٢ عروج احمدیت ۳۰۲ ۳۰۲ تحریری مناظرہ ۴۵۶،۴۳۶ خلافت ثانیہ کا قیام تربیت خلافت راشده ۳۱۵ عظیم الشان نشان ۶۵۶ | علمی تبصره تقویٰ اللہ اور اس کے حصول کے ذرائع خلافت.ضرورت، اہمیت اور برکات عورتوں کا مقام ۳۸۴ تنقید حصہ اوّل بر فیصلہ مسٹر کھوسلہ سیشن جج در عدن گورداسپور ۳۰۷ در مکنون ۳۸۴ عہد کا رسول 1..۶۵۷،۵۱۲ ۴۰۷ ۴۳۶ فضل عمر ہجری شمسی دائمی تقویم (ضمیمه مجمع ۶۵۶،۲۳۳ | البحرین) 1+1 ۴۰۷ جماعت احمدیہ کے اہم فرائض ۳۸۴ دونوں جہاں میں فلاح پانے کی راہ ۴۰۶ فیصلہ کن کتاب جماعت احمدیہ کے عقائد ۵۱۲ راه ایمان ۱۰۱ قادیان گائیڈ ۴۰۶ قرآن کا اوّل و آخر ۳۰۴ ۴۶۲ جماعت احمدیہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ربانی سنت ۵۱۲ ربوہ.دارالہجرت چار صداقتوں کا انکشاف ۴۰۵ زندہ کتاب اور زندہ رسول ۶۵۷ کیا مسیح علیہ السلام زندہ ہیں ۳۸۴ گورو گرنتھ صاحب اور اسلام چونویں پھل ۲۵۱ سوانح حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین حدیث لا نبی بعدی میں الجھنے والے علماء کے ۶۵۹،۶۵۸ سامنے راہ نجات ٣٠٢ سیرت احمد لاہور تاریخ احمدیت مباحثہ مصر ۶۵۶ | مخزن معارف ۴۳۶ 1+1 ۴۳۵،۳۸۴ حضرت بھائی جی عبدالرحمان قادیانی ۳۰۴ سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب مسلمانوں کی ترقی کی را تقسیم ھند کے بعد حضرت چوہدری غلام محمد خاں صاحب اور ان کی اولاد حضرت خلیفہ ثانی کا سفر یورپ ۳۴۸ سیرت داؤد ۳۱۵ سیرت طیبہ ۱۰۱ سیرت نبوی ۶۵۶،۲۹۶۲۹۴ ۴۰۶ ۶۶۰،۲۹۴ مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے ۴۰۷ مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام مغرب کے افق پر مقصد زندگی و احکام ربانی حضرت سرور کائنات حضرت مسیح پاک کی دعائیں 1..سیف حق حضرت مسیح نے صلیب سے کیسے نجات پائی شان رسول عربی حضرت مسیح کشمیر میں ۶۲۱ شان محمد ۱۰۰ شهادات فریدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں صداقت احمدیت حقیقت نبوت ۱۰۰ صداقت حضرت مسیح موعود ضرورت نبوت کا ثبوت 1..1..۵۷۴ 1+1 ۳۰۲ ملفوظات امام زمان ۳۸۴ منظوم دعا ئیں ۶۵۸ نبوت کی حقیقت ٣٠٢ : ندائے حق ۶۴۷ 1..۴۰۷ ۴۰۶ ۳۸۴ ۴۰۵ ۴۳۵

Page 711

۲۹ Islam in the nether land | اسلام پر ایک نظر ( ڈاکٹر ویگلیری) ۶۷ اسلامی دنیا (سید قاسم محمود ) ۲۹۱،۱۶۱ ۳۴۷ Islam of the Age | اقوام پنجاب 51 405 ۴۰۶ نماز مترجم نیو ورلڈ آرڈر ہر انسان کو ضروری پیغام ۳۴۷ ۶۶۷ Mohammad the liberator | پاکستان میں مسیحیت of woman | پنجاب کی ذاتیں Muslim prayer with | حمید نظامی بحیثیت صحافی A DIVINE SIGN 405 407 Ahmad claim and Teaching 405 ۳۳۵،۳۳۴ ۳۴۷ ۲۶۰ ۶۳۴ ۲۹۸ متفرق کتب تسهيل العربي ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا کلیله دمنہ عائشہ مالیکا ( پانصد سالہ پرانی قلمی کتاب ) illustrations 406 A HEAVENLY CALL to Memorise of field DIFFREN NATION of geologist 316 THE GLOBE 406 Objeet of man's All about jesus christ 406 Existence 407 A Challenge to all the Promised divine messenger 407 nations of Globe with Rewards of Rs.15000 Herose of history part II Questions and Answers 406 649 407 A Standing miracle of God Allah and Juju 541 The way to peace and Islam 406 اخبارات ورسائل اخبار ابی جان ما تین آئیوری کوسٹ ۱۶۴ Happiness The muslim prayer 112 405 Ahmadia Movement in India 407 Vindieation of the ۶۰۶ ۷۳ اخبار اجیت جالندھر اخبار اشانٹی پاؤنیر.غانا A Great divine sign 407 prophet of Islam 405 Divine teachings ۵۸۹،۵۸۸ ۱۳۳ كتب مخالفین سلسله اخبار اصلاح.سرینگر regarding place and ۲۸ رسالہ الاسلام.گیمبیا رسالہ الاسلام.آسٹریا happiness 406 ۵۱۲ 11 ۵۲،۵۱ ۲۰۶ 191 رسالہ الاسلام.ہالینڈ ۲۸۸،۱۰۹ ختم نبوت (رساله) فتنہ قادیانیت قادیانی مذہب اخبار البدر تاریخ وسیرت رسالہ البشری.ربوہ Difference between Ahmadies non Ahmadies 405 Extracts from Holy Quran tradations 390 405 رسالہ البصیرت.بریڈ فورڈ اسلام ان افریقہ (محمود بریلوی) ۱۱۳، ۲۸۸ | اخبار الجمعیۃ.دہلی ۶۶۸ ۶۵۱ Future religion of the world 405

Page 712

اخبار الحام اخبار الفجر تل ابیب لفة اخبار افتح مصر ٢٠٦ اخبار ڈان ۴۵ اخبار ڈیفنڈر.ابادان ۲۸۴ اخبار ڈیلی.سیرالیون 1.۸۶ اخبار ممباسہ ٹائمنر رسالہ ناردرن ریویو.خانا ۱۸۲ | رسالہ نبی اسلام.آسٹریا اخبار الفضل.قادیان ۲۴۶ اخبار ڈیلی وڈ ان سوڈان ۵۹ اخبار نا کیجیرین ٹریبیون.ابادان اخبار الندوہ مکہ اخبار امروز ۴۵ اخبار ڈیلی گریفک.فانا ۵۹۵ اخبار راک نیروبی ۴۶۷ رساله ریویو آف ریلیجنز اخبار انڈیانا پیلس ٹائمنٹر ۹۳ رسالہ زجاجہ.مشرقی افریقہ اخبار انجام.پیشاور ۶۳ ۶۴۸ ۳۰ ٣٧٦ رسالہ نقوش.لاہور رسالہ نگار لکھنؤ ۶۳۸ ۳۱ ۸۶ ۲۲۷ ،۱۱ اخبار نوائے وقت.لاہور ۸۷، ۴۶۰،۴۱۷ اخبار نیا دور.لاہور ۵۹۵ اخبارایسٹ افریقن ٹائمنر.نیروبی ۸۹، اخبار سابا ٹائمنر.بور نیو ۳۷۹ | اخبار وفاق.سرگودھا ۹۰، ۶۵۰،۳۷۷ اخبار سنڈے ٹریبیون.کیپ ٹاؤن ۹۲ اخبار ونڈسر سٹار اخبار بائکر ٹیبلٹ.سوئٹزرلینڈ ۳۶۲٬۲۲۵ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ ۴۹۵ اخبار ویسٹ افریقہ ۵۹۵ رساله شعله - سرگودھا ۴۳۱ ۶۶۰ | اخبار ویسٹ افریقہ رسالہ برہان.دہلی اخبار بھیم پتر کا.جالندھر ۶۶۳٬۵۴۷ اخبار شکا گوسن ٹائمنر اخبار پاکستان ٹائمنر ۴۷۳۶۰ اخبار شویز را ایونجلسٹ.زیورچ ۴۷۵ ، ۶۶۲۶۶۱،۵۰۶،۴۸۹،۴۷۷ اخبار صدق جدید لکھنو ۳۵۶ ۴۳۲ رسالہ طلوع اسلام.لاہور اخبار پر جانتر کٹک.بھونیشور اخبار پیام قائد سرگودھا اخبار تسنیم ۵۹۴ اخبار غانا ٹائمنر تانگانیکا سٹنڈرڈ ۳۶۶ اخبار ویو پوائنٹ.راولپنڈی ۴۳۳ ۶۲۵ ۲۸۸،۱۱۴ ۲۸۸،۱۱۴ ۳۵۹ ۴۷۲ اخبار ھیرلڈ ٹریبیون.امریکہ ۴۹۴۴۹۲ ۴۷۵،۲۹۲، اخبارین ساباه ترکی ۱۷ اخبار Holbaeh Amstidende ۶۶۲۶۶۰،۶۱۱،۶۰۶ ۵۹۴ ۷۳ ۳۵۶ ۹۴ ۳۷۸ اخبار کلینی کا کٹک.بھونیشور اخبار ٹائمنز.امریکہ ۴۹۴۴۹۲ ۶۶۲ | اخبار کولمبس سیٹزن جرنل اخبار ٹروتھ.غانا ۷۳ اخبار گلوب اینڈ میل.ٹورنٹو اخبار ٹروتھ.نائیجیریا ۱۱۸٬۸۶ اخبار گیمبیا نیوز بلیٹن ۶۲۵ ۲۸۹،۱۲۱ ڈنمارک رساله ڈنمارک ۲۲ Kirhensfriend ۱۹ رسالہ جیون پریتی.پٹیالہ ۵۳۷ رسالہ لاہور.لاہور رسالہ چٹان.لاہور ۵۹۴٬۲۲۷ | رساله لائف میگزین رساله چراغ راه ۵۹۴ اخبار لی جرنل.آئیوری کوسٹ رسالہ حمایت اسلام ۵۹۵ اخبار لی میچ.ماریشس میسج رساله خالد ربوہ ۲۸۹ رسالہ مجلہ الجامعہ.ربوہ اخبارون پر بھا.مالا بار ۶۱۶، ۶۱۷ اخبار مسلم نیوز.جنوبی افریقہ ۵۶۶ ۲۵ ۱۶۴ ۶۵۳ ۶۶۰ ۶۳۲

Page 712