Language: UR
’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین کا آغاز حضرت مصلح موعود ؓ کی خصوصی تحریک اور روحانی توجہ کی بدولت جون 1953ء میں ہوا۔ اور اس کی پہلی جلد دسمبر 1958ء میں سامنے آئی۔ اس وسیع پراجیکٹ پر کام جاری و ساری ہے۔ مؤلفہ جلد ۱ تا ۲۱ : دوست محمد شاہد ۔ ایڈیشن 2007ء قادیان۔ مؤلفہ جلد ۲۲ تا ۲۸۔۔۔ نوٹ: اس ایڈیشن میں جلدنمبر 1 اور 2 کو ایک جلد (یعنی جلد نمبر 1) میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح جلد نمبر 3 نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 2 ہے ۔ اسی طرح نئے ایڈیشن میں باقی سب جلدوں کے نمبر پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ایک نمبر پیچھے ہے۔ اور چونکہ جلد نمبر 20 پرانے نمبر کے مطابق ہے، اس لیے جلد نمبر 19 نہیں ہے۔
تاریخ احمدیت جلد نمبر ۲۰ وقف جدید کی الہی تحریک سے لے کر جلسه سالانه ۱۹۶۰ء تک مؤلف دوست محمد شاہد
فہرست تاریخ احمدیت جلد ۲۰ عنوان صفحه پہلا باب صفحہ عنوان پہلا یوم وقف جدید وقف جدید انجمن احمد یہ جیسی عظیم الشان وقف جدید کا خوشکن آغاز اور حضرت الہی تحریک کی بنیاد، ترقی و استحکام اور دینی مصلح موعود کی سکیم و تربیتی کارنامے(۱۹۵۷ء سے ۱۹۸۲ء تک) ہندوستان میں وقف جدید انجمن احمد یہ فصل اول وقف جدید سے متعلق پہلا خصوصی پیغام دوسرا خصوصی پیغام فصل دوم ۱۹ کا قیام ۲۲ ۲۳ ۲۷ شروع مئی ۱۹۵۸ ء کے مراکز وقف جدید ۲۸ ۲۹ وقف جدید کے سال اول میں نہایت شاندار نتائج ۳۰ وقف جدید نئے دور میں پہلا بجٹ وقف جدید سے متعلق مسلسل خطبات وقف جدید کے مالی نظام کی بنیاد مخلصین جماعت کا شاندار لبیک دفتر وقف جدید کا قیام رجسٹریشن اور ابتدائی ممبران ۱۹ حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام وقف جدید کے سال سوم کے آغاز پر فصل سوم معلمین کے پہلے وفد کی تیاری اور روانگی تحریک وقف جدید ایک غیر مسلم ۳۱ ۳۱ وقف جدید کے پہلے انسپکٹر ۲۲ ودوان کی نظر میں ۳۳
فصل چهارم فصل ہفتم حضرت مسیح موعود کا پیغام وقف جدید معلمین کی شاندار خدمات ۱۹۶۶ء میں ۵۸ کے سال چہارم کے آغاز پر ہندوؤں میں تبلیغ کا آغاز اور ۳۶ ناظم مال کا تقرر دفتر اطفال کا آغاز ۵۹ ۵۹ ہندوؤں کے علاقہ میں جماعتی مراکز کا ذکر ۱۹۶۷ء کی مجلس مشاورت میں معلمین کے نام ایک اور خصوصی سرکلر ۶۱ ۶۳ مخلصین جماعت کی خصوصی قربانی کا تذکرہ ۶۴ حلقہ نگر پارکر (سندھ) کے نئے انچارج فصل ہشتم ۱۹۸۰ء میں وقف جدید کا مرکزی ۶۶ نظم و نسق ۱۹۵۸ء سے ۱۹۷۹ ء تک کا گوشوارہ آمد وخرچ ۶۷ خلافت رابعہ کا آغاز اور نئے ناظم ارشاد ۶۸ ۶۸ ۶۹ اے ۷۴ ۳۷ ۴۲ हे ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ اس کے شاندار نتائج فصل پنجم مرکزی دفتر کی بنیاد تعمیر اور افتتاح ایک ضروری سرکلر معلمین کے نام عیسائی تبلیغی کوششوں کے بارہ میں مطلوبہ کوائف فصل ششم وقف جدید کا بجٹ مجلس مشاورت میں کام کی نوعیت مالی قربانی کی خصوصی تحریک مکتبہ وقف جدید کا اجراء ۵۴ 6 کا تقرر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی بیش ۵۵ وقف جدید کے عظیم کارنامے قیمت ہدایات معلمین کے لئے خلیفہ وقت کی زبان سے مبارک سے تحریک وقف جدید شا عراحمدیت وقف جدید اور ہندوؤں میں تبلیغ کی نظر میں بلند پایہ لٹریچر حواشی
۱۰۴ 1+7 ۱۱۳ ۱۱۵ ۱۱۸ ۱۲۰ ۱۲۶ ۱۳۰ ۱۳۲ ۱۳۷ ۱۴۳ مصلح موعود کا ایمان افروز پیغام دوسرا باب صد رسالہ جو بلی منانے کی تحریک سے لیکر حضرت مصلح موعود کی زبر دست مہم ۱۹۵۸ء کے متفرق مگر اہم واقعات فصل اول صدسالہ جو بلی منانے کی تحریک سید نا حضرت مصلح موعود کا سفر سندھ ربوہ میں نامور برطانوی اور ۷۶ LL پردہ کی ترویج کیلئے مسودہ سیرت المہدی حصہ چہارم و پنجم کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب روسی سائسندانوں کی آمد فضل عمر ہسپتال ربوہ کی نئی عمارت کا افتتاح ۸۰ ۸۲ کی وصیت نوجوانان احمدیت کو استیصال عیسائیت کیلئے سرگرم عمل ہونے کی تحریک اخبار ” صدق جدید میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا تذکرہ حضرت مصلح موعود کا پیغام انڈونیشیا حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی احمدی جماعتوں کے نام کا سفر حرمین شریفین ۸۳ فصل دوم حضرت سیدہ ام ناصر کا المناک وصال جنازه و تدفین ابتدائی حالات اور خدمات ۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء مجلة الازہر میں جماعت احمدیہ غانا کی تعلیمی خدمات کا تذکرہ جماعت احمدیہ قادیان کا ذکر ماریشس پاکیزہ سیرت اور ایمان افروز تاثرات کے پریس میں متحدہ عرب جمہوریہ کے صدر کا مکتوب سید منیر الحصنی صاحب کے نام اخبارسنڈے ٹائمنر میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی جد و جہد کا تذکرہ یوم خلافت کی تقریب پر حضرت 1..1+1 ۱۰۳ اشاعت دین کے فریضہ پر خصوصی خطبات جمعہ آزادی مذہب کی عالمی تنظیم میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا لیکچر حضرت مصلح موعود کا نظریہ
پاکستان میں اسلامی حکومت سے متعلق سینما بینی کے خلاف حضرت مصلح موعود کی موثر آواز فصل سوم بیت نور راولپنڈی کی تعمیر سود نیئر کراچی کا اجراء اور اس کی مقبولیت سوونیئر کی اشاعت کے فوائد سود نیئر کی اشاعت کیلئے عہد یداران کی شاندار مساعی مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کی مساعی کے شاندار نتائج حضرت مصلح موعود کا پیغام خدام الاحمدیہ کراچی کے نام سالانہ اجتماع انصار الله ۱۹۵۸ء ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۳ ۱۵۵ سے حضرت مصلح موعود کا ایمان افروز خطاب ۱۵۶ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کی اہم تقریر اجتماع کے اختتامی اجلاس میں جلسه سالانه قادیان ۱۹۵۸ء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام جلسہ کے مقررین ۱۶۳ ۱۶۸ 16.► 121 جلسہ کے اہم کوائف اطالوی پروفیسر بار طولینی کی ربوہ میں آمد سید نا حضرت مصلح موعود کا پیغام سیرالیون کی سالانہ کانفرنس کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ایک قابل قدر آسمانی تحریک فصل چهارم جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۵۸ء اور ۱۷۲ ۱۷۴ ۱۷۴ حضرت مصلح موعود کے پرور خطاب افتتاحی تقریر ۱۸۰ ۱۸۰ بیرونی مشنوں کی دینی خدمات کا تذکرہ ۱۸۲ دنیا کی چالیس سے زائد زبانوں میں تقاریر ۱۸۶ بیرونی ممالک میں تبلیغ دین سے متعلق ایک شاندار معلوماتی نمائش فصل پنجم ۱۹۵۸ء کے جلیل القدر رفقائے مسیح موعود کا انتقال ۱۹۵۸ء کے متفرق مگر اہم واقعات خاندان مسیح موعود میں تقاریب مسرت احمدی نوجوانوں کی شاندار کامیابیاں ۱۸۹ 191 ۲۵۱ ۲۵۱ ۲۵۲ پاکستان میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے اثر انگیز خطاب ۲۵۳
بشپ صاحب دہلی قادیان دارالامان میں ۲۵۳ کی طرف سے تعزیت ۲۶۱ جامعہ نصرت کا الحاق مولانا ابوالکلام آزاد کی رحلت پر جماعت احمدیہ کی طرف سے تعزیت بہلول پور میں ایک یاد گار تقریب سابق سفیر سعودی عرب کا ایک اہم مکتوب ایک عدالتی فیصلہ ۲۵۴ ۲۵۴ ۲۵۵ ۲۵۵ ۲۵۷ کراچی میں دوسری فری ڈسپنسری کی عمارت کا سنگ بنیاد کتاب ”لائف آف محمد “ پر صدق جدید کا تبصرہ ڈھا کہ میں جلسہ سیرت النبی مباہلہ سے متعلق ضروری ہدایات ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا نیا اعزاز ۲۶۲ ۲۶۳ ۲۶۴ ۲۶۴ ۲۶۵ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو پریذیڈنٹ بیرونی ممالک کے احمد یہ مشنوں کی دینی سرگرمیاں ۲۶۷ میڈل اور بیس ہزار روپے کا انعام صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور گروپ کیپٹن عبدالحئی صاحب کا قومی اعزاز صفدر علی خاں صاحب کا شاہی اعزاز نائب صدر عالمی عدالت انصاف کے لئے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا انتخاب ایک الوداعی تقریب ۲۵۷ ۲۵۸ ۲۵۸ ۲۵۸ ۲۵۹ انگلستان سوئٹزرلینڈ ہالینڈ جرمنی سین امریکہ سیرالیون نائیجیریا غانا مشرقی افریقہ ناظم آباد کراچی میں بیت الذکر اور دارالمطالعہ سیلون، انڈونیشیا کاسنگ بنیاد ۲۶۰ بستی رندان میں خوفناک آتشزدگی حضرت مصلح موعود کی ڈاک ڈاکٹر خان کا حاد قبیل اور جماعت احمدیہ ۲۶۰ ۲۶۰ مجاہدین احمد بیت کی آمد در وانگی نئی کتب حواشی ۲۶۷ ۲۷۱ ง ۲۷۴ ۲۸۴ ۲۸۵ ۲۸۸ ۲۹۰ ۲۹۱ ۲۹۲ ۲۹۴ ۲۹۶ ۲۹۷ ۲۹۹
تیسر اباب ربوہ میں آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کے آغاز سے لیکر جلسه سالانه قادیان ۱۹۵۹ء تک فصل اول ربوہ میں پہلا آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنا منٹ جرمن ترجمہ قرآن پر مجلہ الا زہر کا تبصرہ جامعہ احمدیہ میں ایک مذاکرہ علمیہ زرعی پیداوار بڑھانے کی تحریک حضرت مصلح موعود کا پُر معارف ۳۰۷ ۳۱۱ ۳۱۲ ۳۱۳ خطاب لائل پور کے کالجیٹ طلباء سے ۳۱۵ حضرت مصلح موعود کا پیغام مجلس انصار اللہ کراچی کے نام جماعت احمدیہ کی شاندار تبلیغی مساعی اور خالصہ سماچار حضرت مصلح موعود کا ایک جلالی اعلان عالمگیر جماعت احمدیہ کے نام حضرت مصلح موعود کا ضروری پیغام دوسرا ضروری پیغام آچار یہ ونو با بھاوے کی خدمت ۳۲۷ ۳۳۱ ۳۳۲ ۳۳۳ ۳۳۸ میں احمدیہ وفد کی طرف سے اسلامی لٹریچر ۳۳۹ گورنر پنجاب قادیان دارالامان میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی عظیم قومی خدمت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک جماعت احمدیہ کا ذکر اخبار خصوصی پیغام ۳۱۸ ۳۴۲ ۳۴۲ ۳۴۴ حضرت مصلح موعود کا پیغام افریقن سٹوڈنٹ یونین زرعی کالج کے نام جماعت احمدیہ کی فعالیت اور تبلیغی ۳۲۱ مانچسٹر گارڈین میں فصل دوم ربوہ میں ایک کامیاب تبلیغی مذاکرہ ایک ایمان افروز واقعہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۳۴۵ ۳۴۵ جوش و سرگرمی کا اعتراف ۳۲۱ حضرت قمر الانبیاء کا بصیرت افروز پیغام کی غیرت ایمانی اور خلاف سے عقیدت ۳۴۸ دیوم یوم مصلح موعود کے لئے حضرت مصلح موعود کا سفر سندھ ۳۲۲ ۳۲۷ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام خدام احمدیت کے نام ۳۴۹ احمدی علماء کی سید عطاء اللہ شاہ بخاری
سے ایک ملاقات اخبار ”چراغ سحر‘ کانوٹ فصل سود سوم علامہ نیاز فتح پوری کا حقیقت افروز تبصره حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ولولہ انگیز پیغام ہندوستانی احمدیوں کے نام بشپ آف کراچی سے تبلیغی گفتگو ۳۵۰ ۳۵۵ ۳۵۷ ۳۶۴ نگرانوں کے نام حضرت مصلح موعود کا بصیرت افروز خطاب مجلس انصار اللہ کے اجتماع سے آچار یہ ونو با بھاوے قادیان میں مصر کے صحافی السید محمود عودہ اور ڈاکٹر فوزی خلیل ربوہ میں جلسہ سالانہ ۱۹۵۹ء کا ایک ماہ کے لئے التواء قبول احمدیت کے حالات محفوظ مولانا عبدالمجید صاحب سالک کی وفات ۳۶۴ کرنے کی اہم تحریک تحریک احمدیت کے عالمگیر مشنوں پر جنیوا کے ایک مصنف کا حقیقت افروز تبصره حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا طالبات سے خطاب فصل چهارم حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام اور خطاب خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع میں نہایت مبارک دن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام مجالس اطفال الاحمدیہ اور ان کے ۳۷۸ ۳۸۱ ۳۸۹ قبولیت احمدیت کے حالات مخلصین جماعت کی طرف سے حضرت مصلح موعود کا اظہار خوشنودی طلبہ کی کامیابی پر فصل پنجم جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۵۹ء حضرت مصلح موعود کا پیغام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام دوسرے کوائف ۳۹۰ ۳۹۱ ۳۹۳ ۳۹۴ ۳۹۵ ۳۹۶ ۳۹۶ ۴۰۰ ۴۰۲ ۴۰۲ ۴۰۳ ۴۰۵ قافلہ قادیان ۱۹۵۹ء میں شامل حضرات ۴۰۹ حواشی ۴۱۶
فصل اول چوتھا باب جلیل القدر رفقاء اور دیگر مخلصین احمدیت کا راجہ فضل داد صاحب رئیس ڈلوال ضلع چکوال مولانا غلام حسین صاحب ایاز ماسٹر نذیر احمد صاحب رحمانی حواشی ۴۸۴ ۴۸۹ ۴۹۶ ۵۰۰ انتقال ۴۲۰ ملک حسن محمد صاحب سمبر یالوی حضرت شیخ محمد نصیب صاحب ۴۲۰ ۴۲۱ پانچواں باب ۱۹۵۹ء/ ۱۳۳۸ھ کے بعض متفرق مگر اہم واقعات حضرت مولوی غلام رسول صاحب افغان ۴۲۳ میاں عبدالغفار صاحب جراح امرتسر ۴۲۸ فصل اول حضرت سید محمد اسماعیل صاحب سابق خاندان مسیح موعود میں اضافہ اور آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ ۴۲۸ سید محمد شاہ صاحب متوطن معین الدین پوره ۴۲۸ تقاریب شادی احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں حضرت قریشی غلام محی الدین صاحب آل انڈیا سٹوڈنٹس کانفرنس دولت پورضلع سیالکوٹ حضرت میاں عظیم اللہ صاحب فیض اللہ چک حضرت با بوفقیر علی صاحب اسٹیشن ماسٹر بزرگ خواتین کا انتقال فصل دوم دیگر ممتاز خدام دین کا ذکر خیر الحاج حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی خاں صاحب سابق مجاہد انگلستان ۴۳۲ ۴۳۳ ۴۳۹ ۴۴۵ ۴۴۷ ۴۴۷ پٹیالہ میں شمولیت جنوبی ہند میں تبلیغی دورہ احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور کی مساعی صدر پاکستان محمد ایوب خان صاحب کی طرف سے شکریہ فصل دوم ۵۰۴ ۵۰۴ ۵۰۷ ۵۰۷ ۵۰۷ ۵۰۸ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نئے اعزاز ۵۰۹ حضرت چوہدری عبداللہ خاں صاحب فضل عمر ڈسپنسری کراچی کا ذکر انگریزی امیر جماعت احمدیہ کراچی ۴۶۱ اخبار گڑول میں ۵۰۹
۵۴۵ ۵۴۷ ۵۴۸ ۵۴۹ ۵۵۲ ۵۵۴ ۵۵۷ ۵۵۸ ۵۵۹ انڈونیشیا مجاہدین احمدیت کی روانگی اور کامیاب مراجعت نئی مطبوعات ۵۱۱ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا اظہار خوشنودی صدر آل انڈیا کانگرس کو دینی لٹریچر کا تحفہ لاہور کے طلباء کا وفدر بوہ میں صدر آئزن ہاور آف امریکہ کو دینی لٹریچر کی پیشکش ۵۱۲ ۵۱۲ ۵۱۲ ادارۃ المصنفین ربوہ کی شائع کردہ دو کتب پر اخبار ” صدق جدید لکھنو کا تبصرہ صدر پاکستان محمد ایوب خاں مصنوعات سید نا حضرت مصلح موعود کا خصوصی ربوہ کے نمائشی سٹال پر ۵۱۳ پیغام (برادران ( دین حق) کے نام حواشی چھٹا باب افریقہ کے معرکہ حق و باطل سے لیکر علامہ نیاز فتح پوری مدیر نگار کے سفر قادیان تک فصل اول ڈاکٹر بلی گراہم کا دورہ افریقہ، مجاہدین احمدیت کی دعوت مقابلہ اور دین حق کی فتح عظیم خلافت ثانیہ کا چھالیسواں سال ۳۳۹اهش ۱۹۶۰ء لائبیریا نائیجیر ما ۵۱۴ ۵۲۵ ۵۲۷ ۵۲۷ ۵۲۸ ۵۳۰ ۵۳۲ ۵۳۳ ۵۳۸ ۵۴۰ ۵۴۱ ۵۴۳ فصل سوم احمدی مشنوں کی دینی سرگرمیاں انگلستان جرمنی سکنڈے نیویا سوئٹزرلینڈ ہالینڈ سین ڈچ گی آنا مشرقی افریقہ سیرالیون غانا نائیجیریا لائبیریا
مشرقی افریقہ دنیائے عیسائیت میں زبر دست اضطراب و تشویش ۵۷۲ ۵۷۵ کے تاثرات فصل سوم کلکتہ عالمی کانفرنس میں احمدی روزنامہ نوائے وقت لاہور کے نمائندہ نمائندہ کی پُر اثر تقریر خصوصی متعین امریکہ کے تاثرات اخبار رضار کار“ لاہور کا حقیقت افروز تبصره بھارت کے مسلم پریس میں چرچا فصل دوم ڈاکٹر پروفیسرعبدالسلام صاحب کا یادگار دورہ بھارت شیخ امری عبیدی صاحب کا بطور میئر انتخاب شیخ امری عبیدی صاحب کا ایک ایمان افروز مکتوب جلسہ سالانہ ربوہ حضرت مصلح موعود کا افتتاحی خطاب پہلے دن کی بقیہ کا رروائی دوسرادن تیسرا دن حضرت مصلح موعود کا بصیرت افروز اختتامی خطاب جلسہ سے متعلق ایک مخلص احمدی ۵۷۷ ۵۸۰ ۵۸۴ ۵۸۶۱ ۵۸۸ ۵۹۲ ۵۹۵ ۵۹۵ ۵۹۵ ۵۹۶ ۵۹۶ ۵۹۷ سر دارد یوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ریاست دہلی ربوہ میں آخری تین سورتوں کی پُر معارف دعائیہ تفسیر فصل چهارم جماعت احمدیہ کو حقیقی عید منانے کی تحریک جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا خطبہ صدارت جلسہ تقسیم انعامات میں جناب جمال عبدالناصر صدر جمہوریہ متحدہ عرب کی خدمت میں پیغام حق تقوی ، دعوت الی اللہ اور وقف کی پر زور تحریک ۶۰۱ ۶۰۴ ۶۱۲ ۶۱۷ ۶۱۸ ۶۲۰ ۶۲۲ شاہ حسین اردن کا جماعت احمدیہ نائیجیریا کی طرف سے شاندار استقبال ۶۲۴ علامہ نیاز فتح پوری کے تاثرات
۶۴۹ ۶۴۹ ۶۵۳ ۶۵۴ ۶۵۹ ۶۶۱ ۶۶۲ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ 11 فصل اول جغرافیائی حالات آبادی ہند و مسلم کشمکش اور منجی مسلم لیگ کی بنیاد فصل دوم مستقل احمد یہ مشن کی بنیاد فنجی کے بعض ابتدائی احمدیوں کے ایمان افروز کوائف فصل سوم فنجی کی پہلی اور مرکزی بیت فضل عمر کی تعمیر پہلا مناظرہ اور رسالہ الاسلام کا اجراء ٹریکٹوں کا ابتدائی سلسلہ فصل چهارم حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نبی میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا روح پرور پیغام رسالہ ” دی مسلم ہار پنجر“ کا اجراء مولوی نورالحق انور صاحب کی آمد ۶۲۸ ۶۳۰ ۶۳۴ ۶۳۸ ۶۳۹ ۶۴۳ ۶۴۳ ۶۴۶ فضل عمر ڈسپنسریوں سے متعلق ملایا کے وزیر اعظم منکو عبدالرحمان بیت احمد یہ ہیگ میں فصل پنجم وزیراعظم روس کا چیلنج اور حضرت بشیر احمد صاحب کا حقیقت افروز تبصره علامہ نیاز فتحپوری کا سفر پاکستان اور جماعت احمدیہ کا قریبی مطالعہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا دورہ مغربی پاکستان و آزاد کشمیر علامہ نیاز فتح پوری قادیان میں ایک معزز غیر احمدی دوست کا خط اور علامہ صاحب کا خیال افروز جواب احمدی جماعت اور الیاس برنی حواشی ساتواں باب احمد یہ مشن نجی کا قیام احمدیہ
۶۷۵ بیت مبارک کی بنیاد ۱۲ ۶۶۳ بیت ناندی کی بنیا د اور تکمیل پادری عبدالحق صاحب سے کامیاب مباحثہ جزائر مشرقی بحرالکاہل میں قرآن کریم کی وسیع اشاعت گورنر جنرل نجی کو اسلامی لٹریچر ریڈ یونجی سے احمدیت کا چرچا بیت مبارک کا افتتاح پاساوا گروپ کے جزائر کا تبلیغی دورہ فصل ہفتم 922 722 ۶۷۸ ۶۷۸ بیت فضل عمر کی بنیا د اور امام ہمام کا پیغام ۶۷۹ اقوام متحدہ کی ایک اہم مسلمان شخصیت کی طرف سے مبارک باد حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی دعا سے باران رحمت خوابوں کے ذریعہ رہنمائی اور قبولت احمدیت فصل ہشتم ۶۸۰ ۶۸۱ ۶۸۲ ۶۸۳ ۶۸۴ جلسہ سالانہ ۱۹۷۷ء ، بیت فضل عمر اور لائبریری کا افتتاح ۶۶۸ ۶۶۹ ۶۶۹ ۶۷۰ ۶۷۱ ۶۷۲ فصل پنجم فریضہ دعوت حق بجالانے والے دوسرے مجاہدین احمدیت لوٹو کا میں پرائمری سکول کی بنیاد ناندی میں بیت اقصی کی تعمیر تائید الہی کے ایک قہری نشان کا ظہور جزائر ٹونگا کے بادشاہ کو تبلیغ اسلام اور قرآن کریم کی پیشکش جزیرہ واٹو الیو واوررٹی لیوو میں تبلیغی جہاد نور احمد یہ پریس جماعت احمد یہ نبی کی ملی خدمت فصل ششم حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا روح پرور ایک خاندان کے قبول احمدیت کی پیغام جماعت احمدیہ فنجی کے نام ۶۷۴ دلچسپ روداد کسر صلیب کانفرنس کی بازگشت
۶۹۷ ۶۹۸ ۶۹۸ ۶۹۸ ۶۹۹ ۷۰۲ ۷۰۳ ۷۰۴ ۷۰۵ 2+4 L•L 2.9 ۱۳ ۶۸۶ فجی میں جلسم سالانہ ۱۹۷۸ء کے لئے حضرت کی مطبوعات عہد خلافت ثالثہ میں نجی مشن فنجی کے نیشنل پریذیڈنٹ فجی کے نیشنل جنرل سیکرٹری صداقت احمدیت کا چمکتا ہوانشان حواشی آٹھواں باب ماہنامہ انصار اللہ کے اجراء سے جلسہ سالانه ریو ه ۱۹۶۰ء تک فصل اول جماعت احمدیہ کی کامیابیاں رسالہ گورمت پر کاش“ امرتسر کی نظر احمدیت کا ذکر جرمن فیڈرل حکومت کے بلیٹن میں احمد یہ تحریک اسلامی مشنری سرگرمیوں کا مقصد مجلس خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع پیغام امام ہمام لجنہ اماءاللہ کے نام فصل دوم ماہنامہ انصار اللہ کا اجراء ۶۸۶ ۶۸۶ YAZ ۶۸۹ ۶۹۱ ۶۹۲ ۶۹۳ ۶۹۴ ۶۹۵ ۶۹۵ ۶۹۶ خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام ببیت بلال کا افتتاح حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام خدام الاحمدیہ نفی کے نام فصل نهم حضرت خلیفہ المسح الثالث کا روح پرور پیغام جلسہ سالانہ فنجی ۱۹۷۹ء پر ترجمۃ القرآن بزبان کیویتی جلسہ سالانہ ۱۹۸ ء پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اہم پیغام تجارتی میلہ میں کامیاب تبلیغی مهم حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب کی المناک شہادت مجلس انصار الله ومجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا اجتماع پہلی سالانہ تربیتی کلاس فصل دهم حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا جماعت احمد یہ نبی کے نام آخری پیغام
۱۴ سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ مشرقی پاکستان کے طوفان زدگان کی گراں قدرا مداد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی اہم تقاریر ضلع شیخو پورہ وضلع سیالکوٹ میں مغربی افریقہ میں اسلام کی شاندار ترقیات کا واضح اعتراف فصل چهارم جلسه سالانه قادیان ۱۹۶۰ء کے لئے حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام زائرین قادیان کے پاکستانی قافلہ کا مبارک سفر تقاریر جلسه قافلہ قادیان ۱۹۶۰ء کے خوش نصیب اصحاب ۷۲۷ ۷۲۸ ۷۳۱ ۷۳۴ ۷۴۳ ۷۴۴ فصل پنج جلسہ سالانہ ربوہ اور حضرت مصلح موعود کے ایمان افروز خطابات افتتاحی خطاب اختتامی خطاب حواشی نواں باب ۱۹۶۰ء میں وفات پانے والے بعض جلیل القدر اصحاب مسیح موعود اور دیگر مخلصین جماعت فصل اول حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے حضرت مولوی خیرالدین صاحب حضرت چوہدری برکت علی خان صاحب ۷۵۵ ۷۵۹ آف نارووال حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا بصیرت کا ٹھ گڑھی افروز صدارتی خطاب مجلس مذاکرہ علمیہ میں ۷۵۳ وکیل المال ( پنشنر ) حضرت چوہدری دولت خاں صاحب حضرت چوہدری محمد علی خاں صاحب اشرف حضرت میاں شیخ محمد صاحب قریشی 290 ۷۹۰ ۷۹۹ ۸۰۵
ΔΙΑ ΔΙΔ ۸۱۹ ۸۱۹ ۸۱۹ ۸۱۹ ۸۲۰ ۸۲۰ ۸۲۲ ۸۲۲ ۸۲۴ ۱۵ حضرت میاں بدرالدین صاحب مالیر کوٹلوی ۸۰۵ مولا ناذ والفقارعلی خاں گو ہرصاحب حضرت سردار کرم داد خان صاحب ۸۰۷ محترمہ حسین بی بی صاحبہ زوجہ میاں با حضرت با بوافضل خاں صاحب بٹالوی ۸۰۹ امام الدین صاحب سیکھوانی حضرت میاں صدرالدین صاحب در ولیش قادیان ۸۱۲ حضرت چوہدری غلام محمد صاحب آف پوہلا مہاراں ۸۱۳ فصل دوم بعض ممتاز اور بزرگ خواتین کی وفات محترمه بشیرن صاحبه ۸۱۶ فصل سوم پاکستان ،مصر اور سیرالیون کے بعض مخلصین احمدیت کا ذکر خیر چوہدری فیض احمد بھٹی صاحب آف قاضی کوٹ سید بدر الحسن صاحب کلیم محترمه حسین بی بی صاحبه زوجه نشی محبوب عالم صاحب ۸۱۶ ۸۱۶ السید جلال الدین عبد الحمید خورشید صاحب آف مصر حکیم چراغ الدین صاحب ( والد مولوی غلام باری سیف صاحب) محترمہ زینب صاحبہ اہلیہ پیر مظہر قیوم صاحب السید امین خلیل شامی صاحب محترمه استانی صفیہ بیگم صاحبه بنت مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی ۸۱۷ سیدہ بدر النساء صاحبہ اہلیہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ محترمه ایمنہ بیگم صاحبہ بہلول پور MIL ΔΙΑ محتر مہ لہ اللہ خورشید صاحبہ بنت خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب سیٹھ خیر الدین صاحب حواشی ΔΙΑ ☆☆☆ محترمه سردار بیگم صاحبه زوجه ماسٹر فقیر اللہ صاحب محترمہ کلثوم صغری صاحبہ اہلیہ
پیش لفظ یہ جلد ۱۹۵۸ء سے لے کر ۱۹۶۰ء تک کے حالات پر مشتمل ہے.اس عرصہ میں سبہ سے اہم واقعات وقف جدید انجمن احمدیہ کا قیام، جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک سوسال گزرنے کے موقع پر صد سالہ جو بلی ۱۹۸۹ ء منانے کی تحریک اور جزائر فجی میں جماعت احمدیہ کا قیام ہیں.جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں اور بیرونی مشنز کی کارکردگی کی تفاصیل بھی آپ اس جلد میں مطالعہ کر سکیں گے.موجودہ دور کے تقاضوں کے پیش نظر تاریخ احمدیت کا جدید ایڈیشن ترمیمات اور اضافوں کے ساتھ کمپوز کر کے شائع کیا جا رہا ہے.اس کی سات جلدیں طبع ہو چکی ہیں جو کہ سابقہ آٹھ جلدوں کے مواد پر مشتمل ہیں.جدید ایڈیشن میں انڈیکس بھی شامل کیا گیا ہے.۲۱ نومبر ۲۰۰۷
تاریخ احمدیت بسم الله الرحمن الرحيم 1 جلد ۲۰ نحمده و نصلی على رسوله الكريم پہلا باب وقف جدید انجمن احمد یہ جیسی عظیم الشان الہی تحریک کی بنیاد، احمدیہ ربع صدی میں اس کی ترقی و استحکام اور دینی اور تربیتی کارنامے (۱۹۵۷ء سے ۱۹۸۲ء تک ) فصل اول وقف جدید سید نا حضرت مصلح موعودؓ کے عہد مبارک کی آخری یادگار ، الہامی تحریک اور آپ کے کار ہائے نمایاں میں سے ایک عظیم الشان کارنامہ ہے، جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا.یہ انقلاب انگیز تحریک اُس نئے نظام، نئی زمین اور نئے آسمان کی تعمیر نو کا ایک نا قابل فراموش حصہ ہے جو سلسلہ احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہے اور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود و مهدی مسعود علیه السلام کے دیرینہ ارادوں اور خواہشوں اور مقاصد عالیہ کی تکمیل کے سلسلہ کی صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی عالمگیر تنظیموں کے بعد تیسری نہایت اہم اور مبارک کڑی ہے.وقف جدید اگر چہ ظاہری صورت میں جنوری ۱۹۵۸ء میں قائم ہوئی مگر اپنی روح کے اعتبار سے اتنی ہی قدیم ہے جتنی احمدیت کی تاریخ، جس کے پس منظر کو معلوم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل تین اقتباسات کافی ہیں :- اول: - فرمایا ” خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے“.دوم : - فرمایا ”اس عاجز کا ارادہ ہے کہ اشاعت ( دینِ حق ) کے
تاریخ احمدیت له 2 جلد ۲۰ لئے ایسا احسن انتظام کیا جائے کہ ممالک ہند میں ہر جگہ ہماری طرف سے واعظ و مناظر مقرر ہوں اور بندگانِ خدا کو دعوت حق کریں تا حجت ( دینِ حق ) روئے زمین پر پوری ہو.لیکن اس ضعف اور قلت جماعت کی حالت میں ابھی یہ ارادہ کامل طور پر انجام پذیر نہیں ہو سکتا.سوم : - ( ۱۲ جنوری ۱۹۰۳ء بوقت ظہر ) ایک شخص نے حضرت اقدس سے عرض کی کہ میرے پاس کچھ زمین ہے.مگر ایک عرصہ سے اس میں آبادی کی کوشش کرتا ہوں لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوتی.اس لئے اب ارادہ ہے کہ اسے خدا کے نام پر احمد یہ مشن کی خدمت میں وقف کر دوں.شاید اللہ تعالیٰ اس میں آبادی کردے اور وہ دین کی راہ میں کام آوے.حضرت اقدس وو نے فرمایا کہ : - آپ کی نیت کا ثواب تو اللہ تعالیٰ آپ کو دے گا.لیکن آپ خود وہاں جا کر آباد کریں اور اخراجات کاشت وغیرہ نکال کر پھر جو کچھ اس میں بچا کرے وہ اللہ کے نام پر اس سلسلہ کو دے دیا کریں.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے وقف جدید کی مبارک تحریک کا آغاز ۹ / جولائی ۱۹۵۷ء کے خطبہ عید الاضحیہ سے فرمایا جس کا مکمل متن پچھلی جلد میں آچکا ہے.حضور نے فرمایا : - چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو.کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں.وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں.تا کہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کرسکیں.وہ مجھ سے ہدایتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں.ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں.لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے.اور آج بھی اس میں چشتیوں کی ضرورت ہے سہر وردیوں کی ضرورت ہے نقشبندیوں کی ضرورت ہے اگر یہ لوگ آگے نہ آئے اور حضرت معین الدین صاحب چشتی ، حضرت شہاب الدین صاحب سہروردیؒ
تاریخ احمدیت 3 اور حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج جیسے لوگ پیدا نہ ہوئے تو یہ ملک روحانیت کے لحاظ سے اور بھی ویران ہو جائے گا.بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ ویران ہو جائے گا جتنا مکہ مکرمہ کسی زمانہ میں آبادی کے لحاظ سے ویران تھا.پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کریں وہ صدر انجمن احمد یہ یا تحریک جدید کے ملازم نہ ہوں.بلکہ اپنے گزارہ کے لئے وہ طریق اختیار کریں جو میں انہیں بتاؤں گا.اور اس طرح آہستہ آہستہ دُنیا میں نئی آبادی قائم کریں.اور طریق آبادی کا یہ ہوگا کہ وہ حقیقی طور پر تو نہیں ہاں معنوی طور پر ربوہ اور قادیان کی محبت اپنے دل سے نکال دیں اور باہر جا کر نئے ربوے اور نئے قادیان بسائیں.ابھی اس ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں میلوں میں تک کوئی بڑا قصبہ نہیں وہ جا کر کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں اور حسب ہدایت وہاں تبلیغ بھی کریں اور لوگوں کو تعلیم بھی دیں.لوگوں کو قرآن کریم اور حدیث پڑھا ئیں اور اپنے شاگرد تیار کریں.جو آگے اور جگہوں پر پھیل جائیں.اس طرح سارے ملک میں وہ زمانہ دوبارہ آ جائے گا جو پرانے صوفیاء کے زمانہ میں تھا.دیکھو ہمت والے لوگوں نے پچھلے زمانہ میں بھی کوئی کمی نہیں کی.یہ دیو بند جو ہے یہ ایسے ہی لوگوں کا قائم کیا ہوا ہے.مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ نے یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا.اور آج سارا ہندوستان ان کے علم سے منور ہو رہا ہے.حالانکہ وہ زمانہ حضرت معین الدین صاحب چشتی کے زمانہ سے کئی سو سال بعد کا تھا.لیکن پھر بھی روحانی لحاظ سے وہ اس سے کم نہیں تھا جبکہ ان کے زمانہ میں اسلام ہندوستان میں ایک مسافر کی شکل میں تھا.اس زمانہ میں بھی وہ ہندوستان میں ایک مسافر کی شکل میں ہی تھا حضرت سید احمد صاحب بریلوی نے اپنے شاگردوں کو ملک کے مختلف حصوں میں بھجوایا جن میں سے ایک ندوہ کی طرف بھی آیا.پھر ان کے ساتھ اور لوگ مل گئے اور ان سب نے اس ملک میں دین اور اسلام کی بنیادیں مضبوط کیں.....تو ہماری جماعت کے لئے اس ملک میں بھی ابھی صوفیاء کے طریق جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 4 پر کام کرنے کا موقعہ ہے.جیسا کہ دیو بند کے قیام کے زمانہ میں ظاہری آبادی تو بہت تھی لیکن روحانی آبادی کم ہو گئی تھی.روحانی آبادی کی کمی کی وجہ سے مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے دیکھ لیا تھا کہ یہاں اب روحانی نسل جاری کرنی چاہئے تا کہ یہ علاقہ اسلام اور روحانیت کے نور سے منور ہو جائے.چنانچہ انہوں نے بڑا کام کیا.جیسے ان کے پیر حضرت سید احمد صاحب بریلوی نے بڑا کام کیا تھا اور جیسے ان کے ساتھی حضرت اسمعیل صاحب شہید کے بزرگ اعلیٰ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدّث دہلوی نے بڑا کام کیا تھا.یہ سارے کے سارے لوگ اپنے زمانہ کے لئے اسوہ حسنہ ہیں.در حقیقت ہر زمانہ کا فرستادہ اور خدا تعالیٰ کا مقرب بندہ اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ ہوتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے.(باقی انبیاء اپنے اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے ) سید احمد صاحب سرہندی اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے اور حضرت سید احمد صاحب بریلوئی اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے.پھر دیو بند کے جو بزرگ تھے وہ اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے.انہوں نے اپنے پیچھے ایک نیک ذکر دنیا میں چھوڑا ہے.ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے اسے یاد رکھنا چاہئے اور اس کی نقل کرنی چاہئے.سو آج بھی زمانہ ہے کہ ہمارے وہ نوجوان جن میں اس قربانی کا مادہ ہو کہ وہ اپنے گھر بار سے علیحدہ رہ سکیں.بے وطنی میں ایک نیا وطن بنا ئیں اور پھر آہستہ آہستہ اس کے ذریعہ سے تمام علاقہ میں نور ( دینِ حق ) اور نور ایمان پھیلائیں اپنے آپ کو اس غرض کے لئے وقف کریں.میرے نزدیک یہ کام بالکل ناممکن نہیں بلکہ ایک سکیم میرے ذہن میں آرہی ہے.اگر ایسے نوجوان تیار ہوں جو اپنی زندگیاں تحریک جدید کو نہیں بلکہ میرے سامنے وقف کریں اور میری ہدایت کے ماتحت کام کریں.تو میں سمجھتا ہوں کہ خدمت ( دینِ حق کا ایک بہت بڑا موقعہ اس زمانہ میں ہے.جیسا کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے زمانہ میں تھا.یا جیسا کہ حضرت سید احمد صاحب بریلوئی اور دوسرے صوفیاء یا اولیاء کے زمانہ میں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت تھا.LO 5 جلد ۲۰ اس نئی سکیم کی تفصیلات پر حضور نے ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۷ء کے خطاب جلسہ سالانہ میں مزید روشنی ڈالی اور ارشاد فرمایا:- ”اب میں ایک نئی قسم کے وقف کی تحریک کرتا ہوں.میں نے اس سے پہلے ایک خطبہ ۱۹ جولائی ۱۹۵۷ء میں بھی اس کا ذکر کیا تھا اور اس وقت بہت سے لوگوں نے بغیر تفصیلات سنے اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا میں نے ان کو کہہ دیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر میں اس نئے وقف کی تفصیلات بیان کر دیں تو ان تفصیلات کوسن کر اگر تم میں ہمت پیدا ہوئی تو پھر اپنے آپ کو پیش کر دینا.میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ لاہور سے لے کر کراچی تک ہمارے معلمین کا جال پھیلا دیا جائے اور تمام جگہوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر یعنی دس دس پندرہ میل پر ہمارا معلم موجود ہو.اور اس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہے یا دوکان کھولی ہوئی ہو اور سارا سال علاقہ کے لوگوں میں رہ کر کام کرتا رہے اور گو یہ سکیم بہت وسیع ہے مگر میں نے خرچ کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے.ممکن ہے کہ بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں یا اور غیر ملکوں سے بھی لئے جائیں مگر بہر حال ابتداء دس واقفین سے کی جائے گی اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی.۵ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے وقف جدید کی وقف جدید سے متعلق پہلا خصوصی پیغام.مزید وضاحت کے لئے جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء کے چند روز بعد ۵/جنوری ۱۹۵۸ء کو احباب جماعت کے نام حسب ذیل خصوصی پیغام سپر د قلم فرمایا : - بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
تاریخ احمدیت 6 جلد ۲۰ اصر هو الن برادران جماعت احمدیہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته میں نے اس سال ۲۷ / دسمبر کو ارشاد و اصلاح کی ایک اہم تجویز پیش کی تھی جس کے دو حصے تھے ایک وقف اور ایک چندہ.چندہ میں نے کہا تھا گو لازمی نہیں.لیکن ہر احمدی کوشش کرے کہ چھ روپے سالانہ یکمشت یا بارہ اقساط میں دیا کرے.ہماری جماعت میں آسانی سے ایک لاکھ آدمی ایسا پیدا ہو سکتا ہے.اور اگر وہ ایسا کریں تو رشد و اصلاح کی تحریک کو ہم بڑی آسانی کے ساتھ ڈھاکہ سے کراچی تک اور کراچی سے ملتان اور لاہور سے ہوتے ہوئے راولپنڈی کے راستہ سے پشاور اور ہزارہ کی وادیوں میں پھیلا سکتے ہیں.وقف کی تحریک گودیر سے شروع ہوئی مگر خدا کے فضل سے شروع ہوگئی ہے.میرے اس خطبہ کے بعد پانچ درخواستیں آ چکی ہیں.جن میں سے دو مولوی فاضل اور میٹرک اور ایک معمولی تعلیم کا آدمی ہے.میں نے جلسہ میں بتایا تھا کہ ہم پانچویں جماعت کے آدمی کو بھی اس کام کے لئے لے سکتے ہیں.زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ ایسا نوجوان کسی زیادہ تعلیم یافتہ آدمی کے ساتھ لگا دیا جائے گا.مدرسہ احمدیہ میں جو اردو کا کورس شروع ہے.اس کے مکمل ہونے میں بھی پانچ سال لگیں گے جس کے بعد انشاء اللہ پچاس طالب علم ہمیں مل جائیں گے پرائمری پاس جماعت میں اب بھی پچاس ساٹھ ہزار آدمی موجود ہے لیکن وہ آگے نہیں بڑھ رہا.اور ستی دکھا رہا ہے.اور خدا تعالیٰ کو چیلنج کر رہا ہے کہ اس کو بدل کر اس کی جگہ اور آدمی پیدا کر دے.مگر چندہ کا معاملہ جو وقف سے بہت سستا تھا.اس کے لئے ایک درخواست بھی نہیں آئی.حالانکہ ایک لاکھ آدمی کی درخواست کی ضرورت تھی.یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے.اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں.کپڑے بیچنے پڑیں.میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا.اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے
تاریخ احمدیت 7 جلد ۲۰ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو الگ کر دے گا جو میرا ساتھ نہیں دے رہے اور میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اُتارے گا.پس میں اتمام حجت کے لئے ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں تا کہ مالی امداد کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو.اور وقف کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو.مجھے اس کام کے لئے ایک ایسے چست آدمی کی ضرورت ہے.جو سارے پنجاب کا دورہ کر کے ان نئے سکولوں کا معائنہ کر کے رپورٹ کرتا رہے اور انسپکٹر تعلیم کے طور پر کام کرے.اگر کوئی کام کا اہل ہو.تو وہ بھی اپنے آپ کو پیش کرے.اس کام کے لئے ایسا آدمی کافی ہے جو ایف.اے پاس ہو یا مولوی فاضل اور انٹرنس پاس ہو.اور ادھیڑ عمر کا ہو.میں اُمید رکھتا ہوں کہ اگلے تین ہفتہ میں جماعت ان دونوں کاموں کو پورا کر دے گی.میں اُمید رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے معزز زمیندار کراچی سے لے کر پشاور تک اپنے اپنے گاؤں کے ارد گرد دس ایکڑ زمین اس سکیم کے لئے وقف کر دیں گے.اس میں یہ واقفین کھیتی باڑی کریں گے.اور اس سے اس سکیم کو چلانے میں مدد دیں گے.اس کی پیدا وار سب ان کی ہوگی.مرز امحمود احمد (خلیفه لمسیح الثانی) ۵/جنوری ۱۹۵۸ء حضور انور نے ایک ہفتہ بعد ۱۳/جنوری ۱۹۵۸ء کو حسب ذیل دوسرا خصوصی پیغام دوسرا پیغام دیا : - بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هوالن اصر برادرانِ جماعت احمدیہ! السلام عليكم و رحمة الله و بركاته جو وعدے ”وقف جدید کی امداد کے لئے آ رہے ہیں.ان سے پتہ لگتا ہے کہ شاید چھ روپے سالانہ چندہ انتہائی حد ہے.مگر یہ بات غلط
تاریخ احمدیت 8 جلد ۲۰ ہے اتنی بڑی سکیم کو چلانے کے لئے لاکھوں روپے کی ضرورت ہوگی.مگر وہ تو آہستہ آہستہ ہوگا.سردست تو قدم بہ قدم چلا جائے گا.جیسے تحریک جدید کا کام قدم بہ قدم چلا ہے.لیکن دوستوں کی اطلاع کے لئے میں یہ شائع کرتا ہوں کہ جس کی توفیق ۱۲ روپے سالانہ کی ہو وہ ۱۲ روپے سالانہ دے سکتا ہے.جس کی توفیق ۵۰ روپے سالانہ کی ہو وہ ۵۰ روپے سالانہ دے سکتا ہے.دوستوں کو ہدایت دینے کے لئے یہ بات کافی تھی کہ میرا چندہ چھ سو شائع ہو چکا ہے.اور چھ سو، چھ سے سو گنے زیادہ ہے.پس جن کو توفیق تھی.و ۱۲۰ روپے لکھوا سکتے تھے ۲۵ روپے لکھوا سکتے تھے۵۰ روپے لکھوا سکتے تھے.سو لکھوا سکتے تھے.میرا ارادہ ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے تو بجائے چھ سو کے چھ ہزار یا اس سے بھی زیادہ دوں.پہلی تحریک کے وقت میں بھی میں نے چندہ یکدم نہیں بڑھایا تھا.پہلے سال میں نے تین سو دیا تھا.اس سال گیارہ ہزار لکھوایا ہے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ توفیق دے تو میرا اس تحریک کا چندہ چوبیں چھپیں ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہو جائے.اور ساری جماعت کا مل کر چھ سات لاکھ ہو جائے.جس سے اُمید ہے کہ ہم انشاء اللہ کراچی سے لے کر پشاور تک جال رُشد و اصلاح کا پھیلا سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت دے.اور نیک کاموں میں بڑھ بڑھ کر حصہ لینے کی توفیق دے.اور آپ کے مالوں میں برکت دے.تا کہ آپ بڑھ بڑھ کر دین کے کاموں میں حصہ لیں.یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں امیر آدمی بہت زیادہ دے سکتے ہیں وہاں چھ غریب آدمی مل کر ایک روپیہ ڈال کر چھ روپے پورے کر سکتے ہیں.خاکسار: - مرزا محمود احمد (خلیفة المسیح الثانی) ۱۳ / جنوری ۱۹۵۸ء ۱۴ وقف جدید سے متعلق مسلسل خطبات مندرجہ بالا پیغامات کے علاوہ حضور نے وقف جدید کے بارے میں خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا اور ۳ / جنوری، ۱۷/جنوری ، ۲۸ فروری اور ۷ / مارچ ۱۹۵۸ء کو اس آسمانی تحریک کے مختلف پہلوؤں کو کمال شرح وبسط سے بیان کیا چنا نچہ فرمایا : -
تاریخ احمدیت 9 ا.” میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف (یعنی وقف جدید ) کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہماری جماعت کو یادرکھنا چاہئے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اُس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رُشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا یہاں تک کہ پنجاب کا کوئی گوشہ اور کوئی مقام ایسا نہ رہے جہاں رُشد و اصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو.اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک مربی ایک ضلع میں مقرر ہو گیا اور وہ دورہ کرتا ہوا ہر ایک جگہ گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹہ ٹھہرتا ہوا سارے ضلع میں پھر گیا.اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہمارے مربی کو ہر گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچنا پڑے گا اور یه اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس نئی سکیم ( یعنی وقف جدید ) پر عمل کیا جائے اور تمام پنجاب بلکہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ ایسے آدمی مقرر دیئے جائیں جو اُس علاقہ کے لوگوں کے اندر رہیں اور ایسے مفید کام کریں کہ لوگ ان سے متاثر ہوں.وہ اُنہیں پڑھا ئیں بھی اور رُشد و اصلاح کا کام بھی کریں.اور یہ جال اتنا وسیع طور پر پھیلایا جائے کہ کوئی مچھلی باہر نہ رہے کنڈی ڈالنے سے صرف ایک ہی مچھلی آتی ہے لیکن اگر مہا جال ڈالا جائے تو دریا کی ساری مچھلیاں اُس میں آ جاتی ہیں.ہم ابھی تک کنڈیاں ڈالتے رہے ہیں.ان کی وجہ سے ایک ایک مچھلی ہی ہمارے ہاتھ آتی رہی ہے.لیکن اب مہا جال ڈالنے کی ضرورت ہے اور اس کے ذریعہ گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ کے لوگوں تک ہماری آواز پہنچ جائے گی...پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد اس وقف کی طرف توجہ کرے اور اپنے آپ کو ثواب کا مستحق بنائے.یہ مفت کا ثواب ہے جو تمہیں مل رہا ہے.اگر تم اسے نہیں لو گے تو یہ تمہاری بجائے دوسروں کو دیدیا جائے گا.خطبه جمعه ۳ /جنوری ۱۹۵۸ء) ۲.میں نے جو شکل وقف کی جماعت کے سامنے پیش کی ہے اور جس کے ماتحت میرا ارادہ ہے کہ پشاور سے کراچی تک اصلاح وارشاد کا جال بچھا دیا جائے اس کے لئے ابھی بہت سے روپیہ کی ضرورت ہے اس کام کے لئے کم سے کم چھ لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے اگر چھ لاکھ روپیہ سالانہ آنے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 10 لگ جائے تو پھر پچاس ہزار روپیہ ماہوار بنتا ہے اور اگر ہم ایک واقف زندگی کا ماہوار خرچ پچاس روپیہ رکھیں تو ایک ہزار مراکز قائم کئے جا سکتے ہیں اور اس طرح ہم پشاور سے کراچی تک رشد و اصلاح کا جال پھیلا سکتے ہیں.بلکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم نے رشد و اصلاح کے لحاظ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کا گھیرا کرنا ہے تو اس کے لئے ہمیں ایک کروڑ روپیہ سالانہ سے بھی زیادہ کی ضرورت ہے.اگر ڈیڑھ کروڑ روپیہ سالانہ آمد ہو تو بارہ لاکھ پچاس ہزار روپیہ ماہوار بنتا ہے.اگر بارہ لاکھ روپیہ بھی ماہوار آئے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک واقف زندگی کا پچاس روپیہ ماہوار خرچ مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے ۲۴ ہزار نئی طرز کے واقف زندگی بن جاتے ہیں اور ۲۴۰۰۰ واقف زندگی دو لاکھ چالیس ہزار میل کے اندر پھیل جاتے ہیں.کیونکہ ہم نے دس دس میل پر ایک ایک آدمی رکھنا ہے.اور گوا بھی تو اتنی رقم جمع نہیں ہوسکتی لیکن اگر اتنی رقم جمع ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے چوبیس ہزار آدمی رکھے جا سکتے ہیں ہاں اگر یہ واقف زندگی ہمت کریں اور خوب کوشش کر کے جماعت بڑھانی شروع کر دیں تو ممکن ہے کہ اگلے سال ہی یہ صورت پیدا ہو جائے.اب تک جو آمد ہوئی ہے وہ ایسی نہیں کہ اس پر زیادہ تعداد میں نوجوان رکھے جا سکیں لیکن جب روپیہ زیادہ زیادہ آنا شروع ہو گیا اور نوجوان بھی زیادہ تعداد میں آگئے اور انہوں نے ہمت کے ساتھ جماعت کو بڑھانے کی کوشش کی تو جماعت کو پتہ لگ جائے گا کہ یہ سکیم کیسی مبارک اور پھیلنے والی ہے.اس سکیم میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے جہاں اپنی طرف سے اور اپنے خاندان کی طرف سے چندہ لکھوایا ہے وہاں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کراچی کے پاس ٹھٹھہ میں میری زمین ہے.اس میں سے میں اس سکیم کے ماتحت دس ایکڑ زمین وقف کرتا ہوں.دس ایکڑ میں خود انشاء اللہ ضلع تھر پارکر یا حیدر آباد کے ضلع میں وقف کروں گا اور ابھی تو اور بہت سے احمدی زمیندار ہیں جو اس غرض کے لئے زمین وقف کر سکتے ہیں پھر ایک ایک دو دو ایکڑ دے کر کئی آدمی مل کر اس میں حصہ لے سکتے ہیں بہر حال چوہدری صاحب کی زمین اور میری وقف شدہ زمین میں دو مرکز بن جائیں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 11 گے تیسرا مرکز ضلع مظفر گڑھ میں بنے گا.وہاں کے ایک نوجوان نے لکھا ہے کہ میرا ایک مربع ہے جو مجھے فوجی خدمات کے صلہ میں ملا ہے وہ مربعہ میں آپ کی اس سکیم میں دیتا ہوں مگر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کو اس طرح ساری زمین سے محروم کر دیں میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ ہم ان سے کہیں کہ اس زمین سے دس ایکڑ ہمیں کرایہ پر دے دے اور باقی پندرہ ایکڑ وہ خود استعمال کرے.اور دس ایکڑ کوئی معمولی زمین نہیں.ہالینڈ میں میں نے دریافت کیا تھا وہاں تین ہزار فی ایکڑ آمد ہوتی ہے اگر تین ہزار فی ایکڑ آمد ہو تو دس ایکڑ سے تہیں ہزار آمد ہو سکتی ہے اگر سو مربعہ ہمیں اس سکیم میں مل جائے تو ۷۵ لاکھ سالانہ آمد ہو جاتی ہے.اور اس سے ہم سارے مشنوں کا خرچ چلا سکتے ہیں.طریق ہم بتا ئیں گے کام کرنا ہمارے مبلغوں کا کام ہے اگر ان کو خدا تعالیٰ ( دین حق ) کی خدمت کا جوش دے اور وہ شیخ سعدی کے بیان کردہ واقعہ کو یاد رکھیں تو یہ سکیم بہت اچھی طرح چلائی جاسکتی ہے.کیونکہ جن لوگوں میں کام کرنے کی روح پائی جاتی ہو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم حقیر اور ذلیل ہیں وہ صرف یہ بات جانتے ہیں کہ آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے میں وہ نہیں ہوں کہ جس کی پیٹھ تو جنگ میں دیکھے بلکہ تو میرے سر کو میدان میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا پائے گا ہماری جنگ تلوار کی جنگ نہیں بلکہ دلائل کی جنگ ہے اور دلائل کی جنگ میں جس شخص میں کام کرنے کی روح پائی جاتی ہو وہ یہی کہتا ہے کہ میں وہ نہیں جو دلائل کے میدان میں اپنی پیٹھ دکھاؤں بلکہ اگر مقابلہ کی صورت پیدا ہوئی تو میں سب کے آگے ہوں گا اور جب تک میری جان نہ چلی جائے میں قربانی کا عہد نہیں چھوڑوں گا.اگر اس طرز پر عمل کیا جائے ، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سکیم بہت شاندار طور پر کامیاب ہوگی.ابھی تو میری جلسہ سالانہ کی تقریر پر صرف چودہ دن گزرے ہیں لیکن اب آ کر لوگوں کو میری تحریک کا احساس ہوا ہے اور انہوں نے اپنے نام لکھوانے شروع کئے ہیں اسی طریق پر ہر تحریک بڑھتی ہے جب میں نے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 12 تحریک جدید کا اعلان کیا تو جماعت کے لوگوں نے مجھے لکھا تھا کہ ہم نے تو آپ کی تحریک کا یہ مطلب سمجھا تھا کہ سات ہزار روپیہ جمع کرنا ہے مگر اب وہ کام لاکھوں تک پہنچ گیا ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میں نے آپ کی تحریک پر بہت سا چندہ لکھوا دیا تھا اور یہ سمجھا تھا کہ آپ نے صرف ایک ہی دفعہ چندہ مانگا ہے لیکن اب میں اپنا چندہ کم نہیں کروں گا.بلکہ اپنے وعدے کے مطابق دینے کی کوشش کروں گا.اس کے علاوہ اور بھی کئی لوگ تھے جنہوں نے اس وقت سوسو دو دوسو روپیہ چندہ لکھوا دیا تھا مگر بعد میں انہوں نے اس چندہ کو کم نہ کیا اور بڑھتے بڑھتے وہ سولہ سو، دو ہزار یا اڑھائی ہزار چندہ دینے لگ گئے یہ تحریک بھی آہستہ آہستہ قدموں سے شروع ہوئی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے اُمید ہے کہ جماعت میں اس قدر اخلاص اور جوش پیدا ہو جائے گا کہ وہ لاکھوں اور کروڑوں روپیہ چندہ دینے لگ ن لگ جائے گی.تم یہ نہ دیکھو کہ ابھی ہماری جماعت کی تعداد زیادہ نہیں اگر یہ سکیم کامیاب ہو گئی تو تم دیکھو گے کہ دو تین کروڑ لوگ تمہارے اندر داخل ہو جائیں گے.اور جب دو کروڑ اور آدمی تمہارے ساتھ شامل ہو جائیں گے تو آمد کی کمی خود بخود دور ہو جائے گی.دو کروڑ آدمی چھ روپیہ سالانہ دے تو بارہ کروڑ بن جاتا ہے اگر ایک کروڑ روپیہ ماہوار آمد ہو تو دو لاکھ مبلغ رکھا جا سکتا ہے جو ہیں لاکھ میل کے رقبہ میں پھیل جاتا ہے اور اتنا رقبہ تو سارے پاکستان کا بھی نہیں.پس ہمت کر کے آگے بڑھو اور وہی نمونہ دکھلاؤ کہ آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے دشمن تمہارے مقابلہ میں کھڑا ہے اور یہ جنگ روحانی ہے جسمانی نہیں.اس جنگ میں دلائل اور دعاؤں سے کام لینا اصل کام ہے صحابہ کو دیکھ لو وہ تلواروں سے لڑتے تھے اور میدانِ جنگ میں ان کی گردنیں کٹتی تھیں مگر وہ اس سے ذرا بھی نہیں گھبراتے تھے.جنگ اُحد کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے متعلق ہدایت فرمائی کہ اسے تلاش کرو وہ کہاں ہے؟ صحابہ نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی لاش دوسری لاشوں کے نیچے کہیں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 13 دبی پڑی ہے اس لئے وہ کہیں ملی نہیں آپ نے کہا جاؤ اور پھر تلاش کرو چنانچہ بہت تلاش کے بعد وہ صحابی ملے وہ زخمی تھے اور پیٹ پھٹا ہوا تھا تلاش کرنے والے صحابی نے کہا اپنے رشتہ داروں کو کوئی پیغام پہنچانا ہے تو دے دو ہم پہنچادیں گے وہ کہنے لگے اور تو کوئی پیغام نہیں میرے عزیزوں تک صرف اتنا پیغام پہنچا دینا کہ جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی اب یہ فرض تم پر ہے اور میری آخری خواہش یہ ہے کہ میرے خاندان کے سارے افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں اگر تم ایسا کرو گے تو میری یہ موت خوشی کی موت ہوگی.تو دیکھو صحابہؓ نے تو عملی طور پر قربانیاں کی تھیں اور تمہاری مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں تھوک میں بڑے پکائے دلیلیں دینا کون سی بڑی بات ہے دلیلیں دے کر گھر آ گئے لیکن وہاں یہ ہوتا تھا کہ صحابہ میدانِ جنگ میں جاتے تھے اور پھر بسا اوقات انہیں اپنے بیوی بچوں کی دوبارہ شکل دیکھنی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی.ایک عورت کے متعلق تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لئے تشریف لے گئے تو اس کے خاوند کو آپ نے کسی کام کے لئے باہر بھیجا ہوا تھا.جب وہ صحابی مدینہ واپس آئے تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی طرف تشریف لے جا چکے تھے اور اس صحابی کو اس کا علم نہیں تھا.وہ صحابی سیدھے گھر آئے اپنی بیوی سے انہیں بہت محبت تھی وہ گھر میں گھسے اور بیوی انہیں نظر آئی تو انہوں نے آگے بڑھ کر اسے اپنے جسم سے چمٹا لیا لیکن اس زمانہ کی عورتیں بھی اس زمانہ کے مردوں سے زیادہ مخلص ہوتی تھیں اس عورت نے خاوند کو دھکا دیا اور کہنے لگی تجھے شرم نہیں آتی کہ خدا تعالیٰ کا رسول تو جان دینے کے لئے رومیوں کے مقابلہ کے لئے گیا ہوا ہے اور تجھے اپنی بیوی سے پیار کرنا سوجھتا ہے.اس بات کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ اسی وقت اس نے اپنا گھوڑا پکڑا اور سوار ہو کر تبوک کی طرف چلا گیا اور کئی منزلوں پر جا کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل گیا تو اس قسم کی ہمت اگر تم بھی اپنے اندر پیدا کرلو تو دین کی اشاعت کوئی مشکل امر نہیں.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 14 چند دنوں کی بات ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اتر نے والی ہے اب یہ ناممکن بات ہے کہ زیادہ عرصہ تک آسمان اپنی مدد کو روکے رکھے کوئی ۲۵ ، ۲۶ سال تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دشمنوں کی گالیاں سنیں ، ان سے پتھر کھائے، اینٹیں کھا ئیں، ماریں کھائیں ، لیکن تبلیغ جاری رکھی اس کے بعد قریباً پچاس سال تک یہ کام ہم نے کیا.یہ سارا زمانہ مل کر ۷۵ سال کا ہو جاتا ہے آخر اللہ تعالیٰ ایسا تو نہیں کہ ۷۵ سال تک ایک قوم کو گالیاں دلوائے ، ماریں کھلائے ، پتھر مروائے اور پھر چپ کر کے بیٹھا رہے اب میں سمجھتا ہوں بلکہ مجھے یقین ہے کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آسمان سے اترے گئی.(خطبہ ارجنوری ۱۹۵۸ء) ۳.میں نے اپنے پچھلے خطبے میں بتایا تھا کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے کہا ہے کہ ٹھٹھہ میں میری کچھ زمین ہے میں اس زمین میں سے دس ایکڑ تبلیغ کے لئے وقف کر دوں گا مگر یہ میری غلطی تھی.چودھری صاحب نے بتایا ہے کہ ٹھٹھہ کی زمین ابھی پوری طرح ان کے قبضہ میں نہیں آئی دوسرے وہ زمین ایسی جگہ ہے جو ایک طرف ہے اور وہاں آبادی کم ہے اسلئے وہاں کسی مبلغ کا رہنا مشکل ہے.انہوں نے کہا ہے کہ میرا مطلب یہ تھا که لامینی ( ضلع حیدر آباد) میں جو میری زمین ہے اس میں سے دس ایکڑ اس غرض کے لئے وقف کر دوں گا.میرا بھی منشاء ہے کہ میں بھی اپنی زمین میں سے کسی جگہ دس ایکڑ اس غرض کے لئے وقف کروں اس طرح دو وقف ہو جاتے ہیں.ایک باندھی (سندھ) کے رئیس حاجی عبدالرحمن صاحب ہیں.انہوں نے لکھا ہے کہ میری زمین میرے غیر احمدی رشتہ داروں سے مشترک ہے اس کو میں تقسیم نہیں کر سکتا مگر میں یہ کر دوں گا کہ دس ایکڑ زمین خود خرید کر دے دوں.اس طرح تین وقف ہو گئے پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ میرے پاس دو مربعہ زمین ہے اس میں سے جتنی زمین کی ضرورت ہو میں دینے کے لئے تیار ہوں ایک اور دوست نے لکھا ہے کہ مجھے فوجی خدمات کی وجہ سے ایک مربع زمین ملی ہے میں وہ زمین اس غرض کے لئے وقف کرتا ہوں اس کو تو میں نے لکھا ہے کہ میں اس طرح ساری زمین لینے اور تمہیں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 15 روزی سے محروم کرنے کے لئے تیار نہیں تم اس میں سے دس ایکڑ زمین ہمیں مقاطعہ پر دے دینا اس میں ہم اپنا مبلغ رکھیں گے غرض اب تک پانچ زمینیں بھی آچکی ہیں ملتان والے بھی کہہ گئے تھے کہ دو تین جگہیں ہمارے ضلع میں بھی مل جائیں گی کیونکہ بہت سے مربعوں والے ہمارے علاقہ میں ہیں اور بڑے بڑے زمیندار ہیں.اگر وہ ایک ایک ایکڑ بھی دیں تو کافی جگہیں ہو جائیں گی لیکن بڑی چیز جو ان علاقوں میں کام دے سکتی ہے وہ دیسی طب ہے.چوہدری صاحب نے بتایا کہ ان کے رشتہ کے بھائی (یعنی ماموں کے بیٹے ) جو انکی زمینوں پر لا بینی میں کام کرتے ہیں انہوں نے سنایا کہ با وجود یکہ لا بینی ایک جنگل سا ہے پھر بھی امریکن عیسائی وہاں آ کر رہے ہیں اور عیسائیت کی تبلیغ کر رہے ہیں اور وہ ایسے لوگوں میں رہتے ہیں کہ گو وہ ہمارے مزارع ہیں لیکن اگر وہ ہمیں بھی بلائیں تو ہم بھی ان کے گھروں میں نہ جائیں لیکن وہ رات دن وہیں رہتے ہیں اور تبلیغ کرتے ہیں.یہی قربانی کی روح ہمیں بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.اگر اسی قسم کی قربانی کی روح ہم میں بھی پیدا ہو جائے تو ۱۳۵ واقفین کیا ہماری جماعت میں سے ایک لاکھ ۳۵ ہزار واقفین بھی آسانی سے نکل آئیں گے لیکن ضرورت یہ ہے کہ ہم امریکنوں اور انگریزوں جیسی قربانی کرنے لگ جائیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ ایک انگریز عورت چین میں پادری کے طور پر کام کر رہی تھی چینیوں میں پادریوں کے خلاف بڑا جوش پیدا ہوا اور وہ جوش اب تک بھی ہے.ایک دن چینیوں نے اس عورت پر حملہ کیا اور اسے قتل کرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد کھا گئے.جب اس واقعہ کی اطلاع انگلستان میں پہنچی اور پادریوں کے اخبار نے یہ شائع کیا کہ ہماری ایک مبلغہ جو چین میں کام کر رہی تھی.اسے چینیوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لیا ہے ہمیں اس کے قائم مقام کی ضرورت ہے تو اسی دن شام تک دو ہزار عورتوں کی طرف سے تار آ گئے کہ ہم اس مبلغہ کی جگہ جانے کے لئے تیار ہیں تو جب عیسائیت جو ایک باطل مذہب ہے اس کی تائید کے لئے لوگوں کے اندر اس قدر جوش پیدا ہو سکتا ہے تو یہ محض ہماری غفلت اور کوتا ہی ہے کہ ہم لوگوں تک حقیقت جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 16 حال پہنچا نہیں سکے.جب ہم ان تک حقیقت حال پہنچا دیں گے تو انشاء اللہ بڑوں اور چھوٹوں سب کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ وہ دین کی خدمت کے لئے آگے بڑھیں اور پھر جب سارے کے سارے دین کی خدمت کے لئے آگے بڑھیں گے تو لازمی بات ہے کہ اگر دس لاکھ کی جماعت آگے بڑھے گی اور ان میں سے ہر فرد دس دس افراد کو بھی صداقت پہنچا دے گا تو اگلے سال ایک کروڑ احمدی ہوگا.اس سے اگلے سال دس کروڑ احمدی ہوگا اور اس سے اگلے سال ایک ارب احمدی ہو جائے گا.یعنی دنیا کے قریباً سارے ممالک میں احمدیت پھیل جائے گی یہ مگر یہ چیز جوش کا تقاضا کرتی ہے ورنہ ہماری موجودہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی تعداد میں ہے کہ اگر وہ ساری کی ساری اپنا فرض ادا کرے اور دوسروں کے اندر جوش پیدا کر دے تو تھوڑے عرصہ میں دنیا میں صرف احمدی ہی احمدی ہوں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بکو شیداے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا یعنی اے مسلمان نوجوانو.کوشش کرو تا دین اسلام میں بھی قوت پیدا ہو جائے اور اُمت اسلامیہ کے باغ میں بھی بہار اور رونق نظر آنے لگے.اسی طرح ایک اور شعر میں فرماتے ہیں کہ ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدین یعنی میں دیکھ رہا ہوں کہ یزید کی فوجوں کی طرح ہر طرف کفر جوش مار رہا ہے اور اسلام امام زین العابدین کی طرح بیمار اور کمزور ہے.امام زین العابدین حضرت امام حسین علیہ السلام کے بیٹے تھے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت بیمار پڑے تھے.جب ان کی پھوپھی نے آواز دی کہ میرا بھائی خاک و خون میں تڑپ رہا ہے تو یہ اندر سے اُٹھ کر باہر آ گئے اور کہنے لگے میں باہر جا کر دشموں کا مقابلہ کرتا ہوں لیکن خاندان کے بعض افراد آگے آگئے اور انہوں نے کہا تم بیمار ہو تمہیں باہر جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 17 نہیں جانا چاہئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسلام تو آج کل اس طرح بیمار ہے جس طرح امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت امام زین العابدین بیمار تھے.اور کفر یزید کی فوجوں کی طرح جوش مار رہا ہے لیکن ذرا مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو جائے تو دیکھنا کہ انشاء اللہ تعالیٰ کفر میدان میں دم توڑ رہا ہوگا اور اسلام کی فوج میں اس قدر جوش ہوگا کہ اس کی مثال دنیا میں پہلے کسی قوم میں نظر نہیں آئے گی اور ہر جگہ ( دین حق ) کا جھنڈا اونچا ہوگا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہوگی.۴.یہاں ہماری اسٹیٹس کو قائم ہوئے چوبیں چھپیں سال گزر چکے ہیں.ناصر آباد اسٹیٹ تو ۱۹۳۵ء میں قائم ہوئی تھی لیکن احمد آباد۱۹۳۳ء سے اور محمود آباد ۱۹۳۴ء سے قائم ہیں.اس کے بعد محمد آباد ۱۹۳۷ء میں اور بشیر آباد ۱۹۳۹ء میں قائم ہوئیں.مگر باوجود اس کے کہ ان اسٹیوں کو قائم ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اب تک یہاں جماعت کے بڑھنے کی رفتار بہت کم ہے.میرا خیال ہے کہ اگر ان ساری اسٹیٹیوں کے احمدی ملا لئے جائیں تو باوجود اس کے کہ ان میں بہت سے مہاجر بھی ہیں پھر بھی ہزار ڈیڑھ ہزار سے زیادہ احمدی نہیں ہوں گے حالانکہ جس رفتار سے احمدیوں کو بڑھنا چاہئے تھا اگر اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایک احمدی سالانہ ایک ایک آدمی بھی جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کرتا تو اب تک یہاں پچاس ہزار سے زیادہ احمدی ہوتے لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں.اور ہماری جماعت کے قیام کی جو اصل غرض ہے اس کی پرواہ نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ان کی حالت ایک جیسی چلی جاتی ہے...سندھ میں ہی چانڈیہ، خاص کیلی ، گرگیز اور ببر وغیرہ کئی قومیں ہیں اور ہر قوم کے پانچ پانچ سات سات آٹھ آٹھ لاکھ افراد ہیں.بلکہ چانڈیوں کی تعداد تو اس سے بھی زیادہ ہے.سو آپ لوگوں کو اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرنی چاہئے اور اپنے فرائض کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے ایسے ہی لوگوں کو دیکھ کر جو اپنے فرائض کی طرف پوری جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 18 توجہ نہیں کر رہے وقف جدید کی تحریک جاری کی ہے جس کے لئے خود میں نے بھی دس ایکڑ زمین کا وعدہ کیا ہے.اور ارادہ کیا ہے کہ یہاں بھی ایک مرکز قائم کر دیا جائے.لا بینی میں جو مرکز کھولا گیا ہے اس کے ذریعہ اب تک چار آدمی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کر چکے ہیں اور ڈیڑھ سو آدمی احمدیت میں شامل ہونے کے لئے تیار ہیں.یہ لوگ ادنی اقوام میں سے ہیں جن کو امریکن لوگ عیسائی بنا رہے ہیں.اگر پندرہ سولہ دن کے عرصہ میں ایک مرکز نے ۱۵۴ آدمی تیار کر دیئے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ مہینہ میں تین سو آدمی شامل ہو جائے گا مگر یہ تعدا دا بھی کم ہے.ہماری سکیم یہ ہے کہ ہر مرکز سال میں پانچ ہزار آدمیوں کو ( دینِ حق ) پر پختہ کرے اور ان کی اصلاح اور تعلیم کے کام کو مکمل کرے.اس وقت تک ۳۷۰ کے قریب وقف کی درخواستیں آچکی ہیں.اگر ۳۷۰ جگہ مراکز قائم کر دیئے جائیں اور ہر مرکز کے ذریعہ پانچ ہزار آدمی سالانہ اسلامی تعلیم پر پختگی حاصل کر کے سلسلہ میں شامل ہو تو ایک سال میں ۱۸ لاکھ ۵۰ ہزار آدمی ( دینِ حق ) کی حقیقی تعلیم سے روشناس ہو سکتا ہے اور ان کے اندر ایک نئی زندگی اور بیداری پیدا ہو سکتی ہے.اتنے عرصہ میں اُمید ہے کہ یہ تحریک اور بھی ترقی کر جائے گی اور کئی نئے مقامات پر بھی مرکز کھل جائیں گے.یہ تحریک میں نے جلسہ سالانہ میں کی تھی مگر اس وقت لوگ اسے پوری طرح سمجھے نہیں.اب آہستہ آہستہ لوگ اس کی اہمیت سے واقف ہو رہے ہیں.اگر سال ڈیڑھ سال میں ۳۷۰ کی بجائے آٹھ سو یا ہزار واقفین ہو جائیں اور ہر واقف کے ذریعہ پانچ ہزار آدمی سالانہ اسلامی تعلیم سے آگاہ ہو کر اس پر مضبوطی سے قائم ہونے لگے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ان کے ذریعہ پچاس لاکھ آدمی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال اسلامی تعلیم پر پختہ ہوتا چلا جائے گا اور ( دینِ حق ) اور قرآن کی محبت ان کے دلوں میں قائم ہو جائے گی اور دو تین سال میں تو اُمید ہے کہ یہ تعداد انشاء اللہ کروڑوں تک پہنچ جائے گی.11 جلد ۲۰
تاریخ احمدیت فصل دوم 19 جلد ۲۰ درجنوری ۱۹۵۸ء کو حضرت خلیفہ اسی الثانی المصلح الموعود وقف جدید کے مالی نظام کی بنیاد نے اپنی ذاتی امانت تحریک جدید میں سے چھ سو روپیہ امانت تحریک وقف جدید میں منتقل کرنے کا وکیل اعلیٰ کو ارشاد فرمایا.اس طرح خدا کے خلیفہ موعود کی مبارک رقم سے ”وقف جدید کے مالی نظام کی بنیاد رکھی گئی.امانت وقف جدید کی مذ اسی روز مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کے ذریعہ جاری ہوئی تھی.۱۲ مخلصین جماعت کا شاندار لبیک حضرت مصلح موعود کی تقاریر، پیغامات اور خطبات نے پوری جماعت میں فدائیت و اخلاص کی ایک زبر دست لہر دوڑا دی اس نئی سکیم کا خلاصہ یہ تھا کہ : - ۱.قریہ قریہ ایسے واقف زندگی معلمین متعین کئے جائیں جو قرآن مجید اور احمدیت کی تعلیم واشاعت کو ملک بھر میں عام کر دیں.۲- احباب ان معلمین کے اخراجات کے سلسلہ میں کم از کم چھ روپے سالانہ فی کس اور زمیندار اصحاب اپنی اپنی اراضی میں سے کچھ حصہ اشاعت دین کی اس غرض کے لئے وقف کریں.۳- اگر کسی جگہ احباب جماعت کی تعداد مختصر اور اقتصادی طور پر پسماندہ ہو تو ایک ایک یا تین تین اصحاب مل کر بھی اس چندہ کی ادائیگی میں یا زمین کے وقف میں حصہ لے سکتے ہیں.مخلصین جماعت نے وقف جدید کے تینوں پہلوؤں کی طرف فوری توجہ دی اور جوش و خروش کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا کہ تحریک جدید کے ابتدائی ایام ( نومبر ۱۹۳۴ء) کی یاد پھر سے تازہ ہوگئی.نو جوانانِ احمدیت نے اپنے مقدس امام ہمام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور بہت سے دوستوں نے اراضی وقف کرنے اور چندہ پیش کرنے کی مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اس مالی جہاد میں جماعت کے ہر طبقہ کے افراد شامل ہوئے مگر سب سے نمایاں قربانی حضرت مصلح موعود اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے کی جنہوں نے ابتداء ہی میں دس دس ایکٹر زمین وقف کی.ایک مخلص احمدی محترم محمد اعظم صاحب بی ایس سی.بیٹی سیکنڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ : - ۱۵
تاریخ احمدیت 20 20 تحریک وقف جدید میں حضور نے ایک لاکھ چندہ دینے والے احمدیوں کا مطالبہ کیا ہے آج خطبہ جمعہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے میرے دل میں یہ تحریک کی کہ میں ہر چندہ دینے والے احمدی کی طرف سے ضرور کچھ نہ کچھ حصہ ادا کروں شاید اسی طرح اللہ تعالی خاکسار کو اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ لے.سو میں ایک پائی ہر احمدی کی طرف سے ادا کرتا ہوں یعنی کل ایک لاکھ پائی مبلغ ۵۲۰/۱۳/۴ روپے“.14 - جلد ۲۰ اس خط کے ساتھ ماسٹر صاحب موصوف نے اپنے چندہ کا چیک بھی بھجوا دیا.۱۹۵۸ء میں وقف جدید کو چندے کی آمد انسٹھ ہزار سات سو انیس روپے ہوئی اور زمین کی پیداوار سے ایک ہزار سات سو اکہتر روپے حاصل ہوئے جس کے بعد وقف جدید کا مالی قدم ہر سال نمایاں طور پر تیزی سے آگے بڑھنے لگا یہانتک کہ ۱۹۶۵ء میں بانی تحریک حضرت مصلح موعود کا وصال ہوا تو اس کی آمد اپنے آغاز کی نسبت دو گنا اضافے کی حد تک پہنچ چکی تھی.چنانچہ اس سال چندہ کی رقم ایک لاکھ پندرہ ہزار چار سو اٹھارہ روپے تھی اور زمین کی آمد چھ ہزار دوسوسولہ روپے.ازاں بعد خلافت ثالثہ کے سترہ سالہ مبارک دور کے دوران یہ تحریک مالی اعتبار سے اور مستحکم ہو گئی اور ۱۹۸۲ء میں اس کی آمدسات لاکھ تر بین ہزار دو سو تہتر روپے تک جاتا ۱۸ تمصل سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی الصلح الموعود نے تحریک وقف جدید دفتر وقف جدید کا قیام کے با ضابطہ اعلان کے ساتھ ہی اس کے عملی کام کا آغا ز فرما دیا اور ۹ جنوری ۱۹۵۸ء کو مکرم سید منیر احمد صاحب باہری سابق مجاہد برما کو انچارج وقف جدید مقرر کرتے ہوئے با قاعدہ دفتر کھولنے کی ہدایت فرمائی اور بطور کلرک فضل الرحمن صاحب نعیم ابن عبد الرحمن صاحب اتالیق کی منظوری دی.چنانچہ اسی روز وقف جدید کا دفتر ، پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے احاطہ میں قائم ہو گیا اور انہوں نے حضور کی براہِ راست نگرانی میں کام شروع کر دیا.دفتری ریکارڈ کے مطابق وقف جدید کا پہلا ریزولیوشن ۱۳ /جنوری ۱۹۵۸ء کو ہوا.۱۹ رجسٹریشن اور ابتدائی ممبران حضور انور نے انجمن وقف جدید کے حسب ذیل ممبران مقرر فرمائے :- ۱- شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ ضلع لائلپور (فیصل آباد ) صدر
تاریخ احمدیت 21 جلد ۲۰ ۲- حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب -۳ - خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ۴- مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب -۵ مولوی عبد الرحمن صاحب انور ۶ - چوہدری محمد شریف صاحب فاضل سابق مجاہد بلا د عر بیہے.سید منیر احمد صاحب باہری (سیکرٹری ) ۱۲ جنوری ۱۹۵۸ء کو یہ انجمن باقاعدہ رجسٹر ہوگئی اور مندرجہ بالا اصحاب ہی اس کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے.۲۰ معلمین کے پہلے وفد کی تیاری اور روانگی سیدنا حضرت مصلح موجودہی ہدایات کے تحت وقف جدید کے مالی نظام کے ساتھ ساتھ واقفین کے انٹرویو اور انتخاب کا کام بھی شروع کر دیا گیا.حضور نے منتخب شدہ واقفین کی منظوری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ابتداء میں دس معلمین کے ذریعہ اصلاح و تعلیم کی جدو جہد کا آغاز کیا جائے.چنانچہ اس کی تعمیل میں ایک مختصر تربیتی کلاس کا انتظام کیا گیا اور بہت جلد معلمین کا ایک مختصر گروہ میدانِ عمل کے لئے تیار ہو گیا.۳۱ / جنوری ۱۹۵۸ء کو ان معلمین کے اعزاز میں دفتر وقف جدید اور مجلس تجار کی طرف سے عصرانہ کی علیحدہ علیحدہ پارٹیوں کا اہتمام کیا گیا اول الذکر میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے اور موخر الذکر میں خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے دعا کرائی.اگلے روز یکم فروری ۱۹۵۸ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے دیگر مخلص احباب کے ساتھ ربوہ اسٹیشن پر الوداعی اور اجتماعی دعا کرائی اور وقف جدید کا پہلا وفدا اپنے مراکز کی طرف روانہ ہوا جو حسب ذیل معلمین پر مشتمل تھا، احسان الہی صاحب، محمد یوسف صاحب (برائے بہاولپور ) منیر احمد صاحب محمود ( برائے لیہ ) مبارک احمد صاحب (برائے چک نمبر ۶۲ جڑانوالہ).۲۳ اس پہلے تاریخی وفد کے بعد اسی سال مارچ اپریل مئی اور ستمبر میں پانچ اور وفود بھجوائے جن میں حسب ذیل معلمین بھی شامل تھے.لیہ سید عبد السلام صاحب مٹھ ٹوانہ مولوی ظفر محمد صاحب مبارک احمد صاحب و محمد عباس صاحب مردان منظور احمد صاحب کوٹ فتح خان کریم بخش صاحب اوچ شریف عبدالرحمن صاحب گرمولاں درکاں ملک محمد صادق صاحب چک ۶۲ جڑانوالہ ظہور احمد صاحب ناصر کوٹ احمدیاں محمد احمد نسیم صاحب انور آباد عبدالعزیز صاحب وعبدالرشید عابد صاحب جابه
تاریخ احمدیت 22 جلد ۲۰ غلام محمد حق صاحب آدھی کوٹ حکیم محمد جمیل صاحب چک ۲۲۳ فورٹ عباس سید مشتاق احمد صاحب کوٹ فتح خان صوفی کریم بخش صاحب لودھراں چوہدری جمال الدین صاحب برجی بابل عبد الوحید صاحب محمد آباد محمد طفیل وحکیم عطاء الرحمن صاحب ریو کے خلیل احمد خالد ونصیر احمد صاحب شاد ڈسکہ محمد زمان خان صاحب چک ۶۲ جڑانوالہ یہ اسماء أن معلمین کرام کے ہیں جو ۲۳ جنوری ۱۹۵۸ء اور ۲۶ / مارچ ۱۹۵۸ء کو منتخب ہوئے.بعد ازاں ۲۷ را پریل ۱۹۵۸ء کو مزید چوبیس معلمین با تنخواہ اور سات اعزازی معلمین لئے گئے.۲۴ اخبار الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ معلمین کا تیسرا وفد ۷/اپریل کو، چوتھا ۱٫۸اپریل کو پانچواں ۲ رمئی کو اور چھٹا ۲۶ ستمبر ۱۹۵۸ء سے قبل روانہ ہوا.پانچویں وفد سے میدان عمل میں مصروف عمل معلمین کی کل تعداد ۷۲ تک پہنچ گئی اور چھٹا وفد نو معلمین پر مشتمل تھا.اسی طرح ستمبر ۱۹۵۸ء تک وقف جدید کے اکیاسی معلمین سرگرم عمل ہو چکے تھے.۲۵ وقف جدید کے پہلے انسپکٹر وقف جدید کے سب سے پہلے انسپکٹر ارشاد ۵ فروری ۱۹۵۸ء - منشی فاضل مقرر کئے گئے.کو زیر یزولیوشن نمبر ۲۱ صوفی خدا بخش صاحب عبد زیروی بی-اے، اس عظیم الشان الہی اور آسمانی تحریک کے تین بنیادی مطالبات پہلا یوم وقف جدید تھے.(1) خدمت دین اور خدمت خلق کا شوق رکھنے والے حضرات جو کم از کم پرائمری پاس ہوں اپنی زندگی وقف کریں.۲- جو اصحاب وقف کرنے سے قاصر ہوں کم از کم چھ روپے سالانہ چندہ اس مد میں دیں اور جو نادار ہوں وہ چھ آدمی مل کر یہ سالانہ چندہ ادا کریں.۳ - جماعت احمدیہ کے معزز زمیندار دس دس ایکڑ زمین وقف کریں ( چھوٹے زمیندار مل کر بھی دس ایکڑ پیش کر سکتے ہیں ).ان تینوں مطالبات کو پاک و ہند کی جماعتوں کے سامنے رکھنے اور مخلصین جماعت سے وعدے لے کر مکمل فہرستیں بھجوانے کے لئے پہلا یوم وقف جدید ۹ رفروری ۱۹۵۸ء کو منایا گیا.۲۶
تاریخ احمدیت 23 جلد ۲۰ وقف جدید کا خوشکن آغاز اور حضرت مصلح موعود کی سکیم وقف جدید کے پہلے وفد کی سرگرمیوں پر ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کے خوشکن اثرات نمایاں ہونے شروع ہو گئے.اور حضرت مصلح موعود نے ۲۸ فروری ۱۹۵۸ء کے خطبہ جمعہ کراچی میں پیشگوئی فرمائی کہ:- ” خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے آثار بتارہے ہیں کہ اس کا مستقبل بہت شاندار ہوگا“.حضور نے اپنے اس خطبہ میں وقف جدید سے متعلق اپنی سکیم کی بہت سی جزئیات اور تفصیلات پر ولولہ انگیز انداز میں روشنی ڈالی.چنانچہ ارشاد فرمایا :- جیسا کہ احباب کو معلوم ہے اس سال ایک وقف جدید کی تحریک کی گئی ہے جس کے ذریعہ تمام ملک میں رشد و اصلاح کے کام کو وسیع کرنے کے لئے واقف زندگی بھجوائے جارہے ہیں.اب تک یہ واقفین ربوہ سے پشاور ڈویژن ملتان ڈویژن اور بہاولپور ڈویژن میں بھجوائے گئے ہیں نیز خیر پور ڈویژن میں بھی اور حیدر آباد ڈویژن میں بھی بعض واقفین بھیجے گئے ہیں.میں نے چوہدری عبداللہ خاں صاحب سے جو یہاں کی جماعت کے امیر ہیں کہا ہے کہ وہ ایک ایسا انسپکٹر مقرر کریں جو اس طرز سے نواب شاہ تک کے علاقہ کا دورہ کرے اور معلمین کے کام کی نگرانی کیا کرے.آخر جو معلم جاتے ہیں ان کے کام کی نگرانی کرنا بھی ہمارا فرض ہے.مگر بجائے اس کے کہ ربوہ سے انسپکٹر بھجوایا جائے.میں جانتا ہوں کہ کراچی سے ایک انسپکٹر نواب شاہ تک کے علاقہ کو سنبھال لے اور تمام مقامات کا دورہ کرے وہ کہتے تھے کہ اس غرض کے لئے ایک انسپکٹر وقف جدید مقرر کر دیا جائے گا میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اس غرض کے لئے پیش کریں اگر ادھر سے نواب شاہ تک کے علاقہ کی نگرانی کراچی کرے تو ربوہ سے نواب شاہ تک کے علاقہ کی ہم خود نگرانی کر لیں گے.اس کے بعد ہم ایک انسپکٹر صوبہ سرحد سے مانگ لیں گے جو مردان، نوشہرہ، راولپنڈی اور ایبٹ آباد وغیرہ کا کام سنبھال لے گا.اس طرح نگرانی کا کام دو تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر خرچ بہت کم ہو جائے گا.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ چوہدری صاحب سے
تاریخ احمدیت 24 تعاون کریں یہ اتنا تھوڑا علاقہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں مہینہ میں ایک دو دن کے اندر اندر تمام علاقہ کو دیکھا جا سکتا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ سلسلہ کا خرچ بہت سانچ جائے گا.اگر ربوہ سے انسپکٹر چلے تو کراچی تک تھرڈ کلاس میں بھی اکیس روپے خرچ ہو جاتے ہیں.اور اب تو ریل کے کرایوں پر ٹیکس بھی لگا دیا گیا ہے جس سے کرایہ میں اور بھی زیادتی ہوگئی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر ہم وہاں سے انسپکٹر بھجوائیں تو اس کے آنے جانے میں پچاس روپے لگ جائیں گے لیکن اگر یہاں سے کوئی آدمی چلا جائے اور وہ نواب شاہ تک کے علاقہ کی نگرانی کرے تو خرچ میں بہت سی تخفیف ہو جائے گی.دوسرے کام جلدی جلدی ہونے لگے گا.وہاں سے انسپکٹر آئے تو ہمیں انتظار رہے گا.کہ نہ معلوم وہ کب تک سب مقامات کا دورہ کر کے واپس آتا ہے.لیکن اگر ملک کے مختلف سیکشن مقرر ہوں.تو نگرانی میں بڑی آسانی ہوسکتی ہے.مثلاً پشاور والے نگرانی کا کام سنبھال لیں تو وہ مردان ایک ہی دن میں جا کر واپس آ سکتے ہیں.نوشہرہ سے بھی اُسی دن واپس آ سکتے ہیں.راولپنڈی بھی ایک دن میں آ جا سکتے ہیں.۱۹۵۶ء میں جب ہم مری میں تھے.تو ایک دفعہ ہم نے ایک پہاڑی مقام پر سیر کے لئے جانے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ وہاں دُنبہ پکا کر لے چلیں.کیپٹن محمد سعید صاحب جو ان دنوں وہاں ہوتے تھے ان کو ہم نے بھیجا کہ وہ کہیں سے اچھا سا دُنبہ تلاش کر کے لے آئیں.جب وہ دُنبہ لے کر واپس آئے تو اُنہوں نے بتایا کہ یہاں چونکہ اچھا دُنبہ نہیں ملتا تھا.اس لئے میں پشاور چلا گیا تھا.اور وہاں سے دُنبہ لے آیا.تو پشاور سے راولپنڈی تک آنا جانا بڑا آسان ہے.پس پشاور والے اگر ہمت کریں تو اُن کا انسپکٹر مردان نوشہرہ، راولپنڈی، ایبٹ آباد اور مری وغیرہ کی آسانی سے نگرانی کر سکتا ہے.بلکہ اب تو ایبٹ آباد میں بھی اتنے احمدی ہیں کہ ممکن ہے وہی اپنے اردگرد کے علاقہ کو سنبھال لیں اسی طرح ملتان کی جماعت ایک بڑی ہوشیار جماعت ہے.اگر وہ توجہ کرے تو ممکن ہے کہ وہ بھی کئی ضلعے سنبھال لے مثلاً منٹگمری ہے.اوکاڑہ ہے.میاں چنوں ہے.چیچہ وطنی ہے پھر کبیر والہ ہے.شورٹ کوٹ ہے.یہ تمام علاقہ ایسا ہے جس کو ملتان کی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 25 جماعت سنبھال سکتی ہے.اس کے بعد دو چار مرکز جو ربوہ کے اردگرد رہ جائیں گے ان کی نگرانی خود دفتر اچھی طرح کرلے گا.بہر حال اس وقت بعض بڑی جماعتوں کی خدمات کی ہمیں نگرانی کا کام سرانجام دینے کے لئے ضرورت ہے.تاکہ کم سے کم خرچ پر زیادہ سے زیادہ کام ہو سکے.اس وقت تک جور پورٹیں آ رہی ہیں.وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت خوشکن ہیں.جو وفد بہاولپور ڈویژن کی طرح گیا تھا.اس کے کام کا یہ اثر ہوا ہے.ایک گریجوایٹ کے متعلق وہاں سے امیر کی چٹھی آئی ہے کہ اس نے بیعت کر لی ہے.یہ دوست سلسلہ کے لٹریچر کا دیر سے مطالعہ کر رہے تھے.اور وقف جدید کے معلم نے بھی مجھے لکھا تھا کہ ایک دوست احمدیت کے قریب ہیں.اور سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ بیعت اس شخص کی ہوگی.بہر حال اس تحریک کے نتائج خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے نکلنے لگ گئے ہیں.سابق صوبہ سرحد کی طرف سے بھی اچھی رپورٹیں آ رہی ہیں.وہاں ہم نے ایک کمپونڈ ر کو بھجوایا ہے.پہلے اس کے بھائی نے وقف کیا تھا لیکن پھر اس نے ہمیں لکھا کہ میرے بھائی کو آپ چھوڑ دیں.وہ دوسو تمیں روپے لیتا ہے.اور اس کی آمد پر تمام گھر چلتا ہے پھر وہ کچھ زیادہ پڑھا ہوا بھی نہیں.میں کمپونڈری پاس ہوں اور اپنی دوکان کرتا ہوں آپ مجھے لے لیں اور میرے بھائی کو چھوڑ دیں.چنانچہ ہم نے اس کو رکھ لیا.اور اسے پشاور کی طرف بھیجدیا.جیسے سندھ میں ڈاکٹروں کی کمی ہے.اسی طرح سرحد میں بھی ڈاکٹروں کی کمی ہے.اب اس کی طرف سے اطلاع آئی ہے کہ بڑی کثرت کے ساتھ پٹھان میری دُکان پر آتے ہیں اور دین کی باتیں سنتے ہیں.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں بھی وفد گئے ہیں.وہاں سے خوشکن اطلاعات آنی شروع ہو گئی ہیں.مگر کہتے ہیں..کے آمدی و کے پیر شدی جب میں ربوہ سے چلا تھا تو ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ان مرکزوں کو قائم کئے ہوا تھا.حالانکہ اصل نتائج سال ڈیڑھ سال کے بعد نکلا کرتے ہیں.پس صحیح جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 26 نتائج تو اگلے جلسہ کے بعد انشاء اللہ نکلنے شروع ہوں گے.لیکن اس کے خوش کن آثار ابھی سے ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.جیسے کہتے ہیں.ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے آثار بتا رہے ہیں کہ اس کا مستقبل بہت شاندار ہوگا.اس وقت یہ تحریک ایک بچہ کی صورت میں ہے.اور بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے دانت نہیں دیکھے جاتے نہ اس کی داڑھی دیکھی جاتی ہے.دو تین سال میں اس کے دانت نکلتے ہیں.پھر وہ چلنا پھرنا سیکھتا ہے اور کہیں اٹھارہ بیس سال کے بعد اس کی داڑھی نکلتی ہے.اگر پہلے دن ہی اس کی داڑھی تلاش کی جائے تو یہ بیوقوفی ہوگی.اسی طرح وقف جدید کے نتائج اور اس کی خوبیوں کا ابھی سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا.اس وقت تک جو کیفیت ہے اس کے لحاظ سے واقفین زیادہ ہیں اور چندہ کم ہے.جب میں چلا ہوں تو وقف جدید میں ۷۰ ہزار سالانہ کے وعدے آئے تھے.لیکن واقفین ۳۴۵ تھے.اگر پچاس روپیہ ماہوار بھی ایک شخص کو دیئے جائیں.اور پھر دورہ کرنے والوں کے اخراجات کو بھی مدنظر رکھا جائے.اور اوسط خرچ ستر روپے ماہوار سمجھا جائے تو ۳۴۵ واقفین کے لئے ۳۵ ہزار روپیہ ماہوار یا تین لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہوگی.اور اتنا روپیہ ہمارے پاس نہیں بلکہ ہماری اصل سکیم تو یہ ہے کہ کم سے کم ڈیڑھ ہزار سینٹر سارے ملک میں قائم کر دیئے جائیں.اگر ایک ہزار سینٹر بھی کھولے جائیں.اور ستر روپیہ ماہوار ایک شخص کے خرچ کا اندازہ رکھا جائے تو ستر ہزار روپیہ ماہوار یا ساڑھے آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہوگا.بظاہر یہ رقم بہت بڑی نظر آتی ہے.لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے کبھی مایوس نہیں کیا.اس لئے ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ روپیہ ہمارے لئے مہیا فرما دے گا.بلکہ ہمیں تو اُمید ہے کہ ایک دن اس سے بھی زیادہ روپیہ آئے گا اگر ڈیڑھ ہزار سنٹر قائم ہو جائیں.تو کراچی سے پشاور تک ہر پانچ میل پر ایک سنٹر قائم ہو جاتا ہے.بنگال سے بھی اب ایسی خبریں آ رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی لوگوں کو وقف جدید کی طرف جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 27 جلد ۲۰ توجہ پیدا ہو رہی ہے.چنانچہ ایک سکول کے مدرس نے لکھا ہے کہ میں اپنے آپ کو وقف کرنے کے لئے تیار ہوں.میں نے اسے لکھا ہے کہ تم کام شروع کر دو ہم وہیں تمہیں اپنا معلم مقرر کر دیں گے.غرض یہ تحریک خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے.دوست اس کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور ایک دوسرے کو تحریک بھی کرتے رہیں قرآن کریم نے مومن کا یہی کام بتایا ہے کہ وہ نیکیوں میں آگے بڑھتا ہے اور جب کوئی پیچھے رہ جائے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے پھر اور آگے بڑھتا ہے اور جو پیچھے رہ جائے.اسے پھر اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے.اس طرح وہ قدم بقدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی اپنے پیچھے رہ جانے والے بھائیوں کا بھی خیال رکھتا ہے.اور ان کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے.یہاں تک کہ دنیا میں نیکی ہی نیکی قائم ہو جاتی ہے.یہی فاستبقوا الخیرات کے معنے ہیں پس اگر ڈیڑھ ہزار سینٹر قائم ہو جائے تو ہمارے ملک کا کوئی گوشہ اصلاح وارشاد کے دائرہ سے باہر نہیں رہ سکتا.ویسٹ پاکستان کا رقبہ تین لاکھ مربع میل سے زائد ہے.اور ایسٹ پاکستان کا ۵۴ ہزار مربع میل ہے.ہماری سکیم ایسی ہے.جس کے ماتحت چار چار پانچ پانچ مربع میل میں ایک ایک سنٹر قائم ہو جاتا ہے پھر اور ترقی ہو تو دو د و مربع میل پر بھی ایک ایک سنٹر مقرر کیا جا سکتا ہے بلکہ اور ترقی ہو تو ایک ایک میل کے حلقہ میں بھی سنٹر قائم ہو سکتا ہے اور ایک ایک میل میں ہم سنٹر مقرر کر دیں تو پھر ہمارے ملک میں کوئی جگہ ایسی باقی نہیں رہتی جہاں خدا اور رسول کی باتیں نہ ہوتی ہوں.جہاں قرآن کی تعلیم نہ دی جاتی ہو اور جہاں ( دین حق ) کا پیغام نہ پہنچایا جاتا ہو.۲۷ حضرت مصلح موعود کے ارشاد مبارک ہندوستان میں وقف جدید انجمن احمدیہ کا قیام کے مطابق یکم مارچ ۱۹۵۸ء کو ہندوستان میں بھی وقف جدید کا قیام عمل میں آیا.ممبران حسب ذیل تھے :- ا صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ( انچارج وقف جدید ) ۲-مولوی برکات احمد صاحب
تاریخ احمدیت 28 جلد ۲۰ بی.اے راجیکی ( ممبر ) ۳- ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے مؤلف اصحاب احمد (آڈیٹر و ممبر ( ۴ - مولوی بی عبداللہ صاحب فاضل کیرالہ اسٹیٹ ( ممبر ) ۵- محمد کریم اللہ صاحب مدیر آزاد نوجوان مدراس ( ممبر ) ۶.سیٹھ یوسف احمد الہ دین صاحب سکندر آباد دکن (ممبر ) ے.ڈاکٹر سید اختر احمد صاحب اور نیوی پٹنہ (ممبر ) دفتری فرائض کی بجا آوری کے لئے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی نگرانی میں محمد شفیع صاحب عابد اور قاضی شاد بخت صاحب مقرر ہوئے.قاضی صاحب کی وفات کے بعد یہ خدمت چوہدری عبد القدیر صاحب واقف زندگی کو سپرد ہوئی.وقف جدید بھارت کے تحت ابتداء میں جن معلمین نے کام کیا اُن کے نام یہ ہیں.۱- سید محمد محسن صاحب اڑیسہ ۳ - محمد یوسف صاحب ڈارک ۲ - چوہدری محمد طفیل صاحب ضلع گورداسپور ۱۹۶۳ء میں مندرجہ ذیل معلمین وقف جدید سرگرم عمل تھے.۱- سید بدرالدین احمد صاحب را نچی - بابو محمد یوسف صاحب جموں ۳ - سی پی علی کوئی صاحب کیرالہ ۴.حکیم عبدالرحمن صاحب نند گڑھ میسور ۵- محمد حسین صاحب خادم علاقہ پونچھ ۶ - گلزار احمد صاحب علاقہ پونچھ انجمن وقف جدید بھارت کی مساعی کے نتیجہ میں ۱۹۶۳ء تک ۱۹۷ افراد احمدیت میں داخل ہوئے.ٹائیں منکوٹ علاقہ پونچھ وغیرہ مقامات میں مدارس جاری ہوئے.جن میں ۱۹۶۳ء کے دوران سے کے طلباء تعلیم حاصل کر رہے تھے.۲۸ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ریکارڈ کے شروع مئی ۱۹۵۸ء کے مراکز وقف جدید مطابق مئی ۱۹۵۸ء کے پہلے ہفتہ تک وقف جدید کے زیر انتظام اڑ میں فعال مراکز کا قیام عمل میں آ چکا تھا.ان مراکز اور ان میں تعلیمی و تربیتی خدمات بجالانے والے معلمین کرام کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے:.ا ( لا بینی ) احسان الہی صاحب، محمد یوسف صاحب ۲ - ( لاکھا روڈ ) رشید احمد صاحب طارق ۳ - ( آدم واهن ) رشید احمد صاحب طیب ، محمد عقیل صاحب ۴ - (لیه ) منیر احمد صاحب محمود ۵ - ( ڈسکہ) نصیر احمد صاحب شاد، خلیل احمد صاحب خالد ۶ - ( رلیو کے ضلع سیالکوٹ )
تاریخ احمدیت 29 جلد ۲۰ رند - حکیم عطاء الرحمن صاحب ۷ ( چک ۶۲ ٹی.ڈی.اے بھکر) انوار احمد صاحب سامانوی ۸- چک ۶۲ جڑانوالہ ) ملک محمد صادق صاحب محمد زمان خاں صاحب، بدر دین صاحب ۹ - ( مردان ) مبارک احمد صاحب ۱۰ (ترنگ زئی و ترناب رشید احمد صاحب، محمد عباس خاں صاحب ۱۱ - ( گرمولہ ورکاں ) عبدالرحمن صاحب ۱۲ - ( بھا کا بھٹیاں ضلع شیخو پورہ ) سید عبد السلام صاحب ۱۳ - ( با ندھی ضلع نواب شاہ سید مصدق احمد صاحب ۱۴ - ( اوچ شریف ) کریم بخش صاحب ۱۵.(کوٹ احمدیاں ظہور احمد صاحب ناصر، محمد صدیق صاحب، بشیر احمد صاحب ۱۶ - ( کالو والی گجرات) عبدالرشید عابد صاحب، عبد الوحید صاحب ۱۷ - ( کوٹ فتح خاں اٹک ) سید مشتاق احمد صاحب ۱۸ (لودھراں) صوفی کریم بخش صاحب ۱۹ - (ٹھٹھی غربی چنیوٹ ) عبدالعزیز صاحب ۲۰ - ( نمبر ۲۲۳ فورٹ عباس) حکیم محمد جمیل صاحب ۲۱- (آدھی کوٹ خوشاب) غلام محمد صاحب ۲۲ - ( بہلول پور ( عبدالحق صاحب ۲۳- (انور آباد) محمود احمد صاحب نسیم، عبد الواحد صاحب ۲۴ - جمال پور نواب شاہ) چوہدری عبدالرحمن صاحب ۲۵ - ( بھوانہ جھنگ) حافظ اللہ یار صاحب -۲۶ - ( ڈگری گھمناں سیالکوٹ ) فضل احمد صاحب آنریری ۲۷- (جابه ) سید سردار احمد شاہ صاحب -۲۸ - ( بنگلہ بوچھڑ والا ملتان ) شرافت احمد خاں صاحب ۲۹ - ( نانو ڈوگر شیخو پورہ ) محمد دین صاحب سفری ، اقبال احمد صاحب ناصر ۳۰ - ( ڈیرہ غازی خان ) منظور احمد صاحب ساجد ۳۱ - ( کوئٹہ ڈویژن ) عبدالمجید صاحب زرگر ۳۲ - (پنجگرائیں ) محمد یوسف صاحب ۳۳ - ( کھیوڑہ ) حافظ غلام محی الدین صاحب ۳۴ - ( کلر کہار ) ملک محمد شریف صاحب ۳۵ - ( تانی والا شیخوپورہ) حکیم عبدالستار ناصر صاحب -۳۶- (ادرحمہ ) ماسٹر بشیر احمد صاحب ۳۷ - ( گوجر خان ) محمد شفیق صاحب ۳۸ - (ٹھٹہ محبت ) خورشید احمد صاحب وقف جدید کا پہلا بجٹ (۵۹-۱۹۵۸ ء ) اٹھاسی ہزار چھ سوروپے کی آمد وخرچ پر پہلا بجٹ مشتمل تیار کیا گیا.پندرہ ہزار روپے مشروط بآمد تھے جو زمینوں کی آمد سے متوقع تھے اور باقی تہتر ہزار چھ سو روپے کی بنیاد چندہ پر رکھی گئی.جیسا کہ مندرجہ ذیل کوائف سے ۲۹ عیاں ہے :-
تاریخ احمدیت 30 50 جلد ۲۰ از یکم مئی ۱۹۵۸ء بجٹ آمد و خرچ انجمن احمد یہ وقف جدید ربوہ ۵۹-۱۹۵۸ء تا ۳۰ را پریل ۱۹۵۹ء آمد خرچ نمبر شمار نام مد مجوزہ آمدنمبر شمار نام مد مجوزہ خرچ تفصیل صفر ۵/۵/۵۸ چنده وقف جدید - ۷۰۰۰۰ عمله دفتر / ۳۵۶۴ سے ۲ آمد تنخواہ انسپکٹران مشر باقی بذریعہ جماعتہائے سائر دفتر / ۲۹۲۰ صفحه ۳ عمله مراکز / ۵۲۰، ۴۹ صفحه ۴ ملتان، کراچی، پشاور / ۳۰۶۰۰ سائز مراکز /۱۷،۵۹۶ صفحه ۵ جس کی تحریک حضور نے کراچی میں خطبہ میں کی تھی کل آمد مشروط آمد زمین ۱۵۰۰ کل آمد ۸۸،۶۰۰/ کل خرچ / ۷۳٬۶۰۰ صفحه ۶ خرچ مشروط - ۱۵،۰۰۰ کل خرچ / ۸۸،۶۰۰ خاکسار ابوالمنیر نورالحق وقف جدید کے سالِ اول میں نہایت شاندار نتائج تحریک وقف جدید پر ابھی ایک سال تمام نہ ہوا تھا کہ ملک بھر میں اس کے نوے میرا کز قائم ہو گئے.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۸ء کے موقع پر وقف جدید کے معلمین کی شاندار مساعی کا ذکر درج ذیل الفاظ میں فرمایا : - اس سال نوے معلم وقف جدید میں کام کر رہے ہیں اور ستر ہزار روپے کے وعدے جماعت کی طرف سے آئے تھے.جو قریباً پورے ہو گئے ہیں.جس کی وجہ سے یہ صیغہ بڑی عمدگی سے اپنا کام کر رہا ہے.وقف جدید کی معرفت چار سو بیعت آئی ہے جبکہ ارشاد و اصلاح کی معرفت صرف چون افرا د سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.اگر جماعت اپنی آمد بڑھائے تو اس کے نتیجہ میں چندہ کی مقدار بھی بڑھ جائے جس سے ہم اپنے کام سہولت سے وسیع
تاریخ احمدیت 31 جلد ۲۰ کر سکیں گے.اگر جماعت وقف جدید کی طرف توجہ کرے تو اس سے نہ صرف ہم ملکی جہالت کو دور کر سکیں گے بلکہ بیماریوں کو دور کرنے میں بھی ہم ملک کی مدد کر سکیں گے کیونکہ وقف جدید کے معلم تعلیم کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ بھی کرتے ہیں اور اس سے ملک کی بیماریوں کو دُور کرنے میں مددمل رہی ہے.۳۰ تحریک وقف جدید ۲۰ را کتوبر ۱۹۵۹ء کو ایک نئے دور میں وقف جدید نئے دور میں داخل ہو گئی جبکہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے اپنے لخت جگر صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو ناظم ارشاد نامزد فر مایا اور اصلاح و تعلیم اور دعوت و ارشاد کے شعبہ کی نگرانی آپ کے سپرد فرمائی جس کے بعد وقف جدید کی آسمانی تحریک میں ایک زبر دست ولولہ، جوش اور جذبہ عمل پیدا ہو گیا.حضرت مصلح موعودؓ نے سال ۱۹۵۹ء کے اختتام پر وقف جدید کی سرگرمیوں پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا :- اس سال پچھلے سال سے زیادہ اچھا کام ہوا ہے چنانچہ مشرقی پاکستان میں بھی کام شروع ہو گیا ہے اور وہاں بھی ایک انسپکٹر اور چار معلم مقرر کئے جا چکے ہیں.پچھلے سال ان معلمین کی تعلیم و تربیت اور خدمت خلق کا جذبہ دیکھ کر پانچ سو نئے افراد نے بیعت کی تھی اس سال چھ سو اٹھائیس افراد نے بیعت کی ہے“.۳۱ حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام وقف جدید کے سال سوم کے آغاز پر حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے وقف جدید کے تیسرے سال کے آغاز پر احباب جماعت کے نام حسب ذیل پیغام دیا:- اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هوالن ـــاصر
تاریخ احمدیت 32 جلد ۲۰ برادران جماعت احمدیہ السلام عليكم و رحمة الله و بركاته خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کا تیسرا سال شروع ہو رہا ہے.پہلے بھی میں آپ لوگوں کو برابر تحریک کرتا رہا ہوں کہ وقف جدید کو مضبوط بنانا ضروری ہے.لیکن اب تو کام کی وسعت کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالوں میں ترقی دی ہے وہاں آپ کو سلسلہ کی ترقی کے لئے بھی دل کھول کر چندہ دینا چاہئے تا اللہ تعالیٰ سارے پاکستان اور سارے ہندوستان میں ( دین حق ) اور احمدیت کو پھیلا دے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے کہ آپ وقت کی آواز کو سنیں اور کانوں میں روئی نہ ڈالے رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں آسمان بارد نشاں الوقت میگوید زمیں این دو شاہد از پیئے تصدیق من استاده اند خدا کرے کہ آپ آسمان کی آواز کوسنیں اور زمین کی آواز کو بھی سنیں تا کہ آپ کو سرفرازی حاصل ہو.یادرکھو جو شخص وقت پر خدا کی آواز کو نہیں سنتا وہ بد بخت ہوتا ہے.وہ دن آگئے ہیں کہ جب ساری دنیا احمدیت کے ذریعہ ( دینِ حق ) میں داخل ہوگی اگر اس میں آپ کا حصہ نہیں ہوگا.تو کتنی بدبختی ہوگی.تبلیغ کرنا ہر احمدی کا فرض ہے نہ معلوم آپ اس میں کتنا حصہ لیتے ہیں.لیکن اس زمانہ میں تبلیغ کا بڑا ذریعہ اشاعت دین کے لئے چندہ دینا ہے اس لئے آپ لوگوں کا فرض ہے کہ وقف جدید کے چندہ میں بڑھ چڑھکر حصہ لیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کو ظلم کرتا دیکھے تو اس کو ہاتھ سے روک دے.لیکن اگر وہ یہ طاقت نہیں رکھتا تو ظلم کو دل سے برا سمجھے.اس لئے کم از کم آپ کے دل میں تو یہ خواہش پیدا ہونی چاہئے.کہ آپ ( دین حق ) کے لئے قربانی کریں.جب آپ دل میں خواہش کریں گے تو آپ کو خدا کے فضل سے عمل کی توفیق بھی مل جائے گی.میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سچا ایمان بخشے اور آپ کو بڑھ چڑھ کر قربانیوں کی تو فیق عطا کرے.تا ہم میں سے بوڑھے سے بوڑھا شخص بھی ( دینِ حق ) اور احمدیت کی ترقی کو دیکھ سکے.اللهم امين، اللهم امين اللهم امين
تاریخ احمدیت 33 33 جلد ۲۰ فصل سوم تحر یک وقف جدید ایک غیر مسلم و دوان کی نظر میں وقف جودھ جیسی مبارک جدید تحریک کی دینی اور ملی سرگرمیوں سے مشرقی پنجاب کے بعض غیر مسلم حلقے بہت متاثر ہوئے چنانچہ مشہور سکھ لیڈر سردار امر سنگھ صاحب دو سانجھ سابق جنرل سیکرٹری شرومنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی امرتسر نے روز نامہ اکالی پتر کا جالندھر ( گورکھی ) کی دسمبر ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں ایک مضمون لکھا جس میں وقف جدید کے انقلابی پروگرام کی تفصیل بتانے کے بعد تمام سکھوں سے اپیل کی کہ وہ اس تحریک کو اپنے لئے نمونہ ٹھہرائیں اور اپنے مذہب کے پر چار کے لئے کوشش کریں.سکھ لٹریچر کے مشہور سکالر جناب گیانی عباداللہ صاحب کے قلم سے اس مضمون کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- سردار امر سنگھ جی دوسانجھ اپنے مضمون کے شروع میں تحریر فرماتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا مرکز ربوہ ضلع جھنگ (پاکستان) میں ہے.ملک کی تقسیم سے قبل اس دینی جماعت کی سرگرمیوں کا مرکز ضلع گورداسپور کا ایک قصبہ قادیان تھا.آج کل بھی وہاں احمدی کافی تعداد میں رہتے ہیں.لیکن (حضرت) میرزا صاحب (اطال اللہ بقاه ) کی رہائش ربوہ میں ہونے کی وجہ سے اور مسلمانوں کے پاکستان میں ہجرت کر جانے کے باعث قادیان کی اہمیت بہت کم ہو گئی ہے اس جماعت نے بہت سے مشہور آدمی پیدا کئے ہیں.جیسا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جو کسی وقت پاکستان کے وزیر خارجہ رہے ہیں یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والوں میں ( دین حق کی اشاعت کا جذبہ بے حد ہے اور افریقہ، جرمنی، فرانس ، انگلینڈ ، امریکہ اور ملایا وغیرہ ممالک میں احمدی مبلغین پورے انہماک سے تبلیغ کرنے میں مصروف ہیں.
تاریخ احمدیت 34 جلد ۲۰ سردار صاحب موصوف نے اپنے اس مضمون میں تحریک وقف جدید کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اس جماعت کے مذہبی راہنما نے حال ہی میں وقف جدید“ کے نام پر ایک تحریک چلانے کا انقلابی پروگرام بنایا ہے.اس پروگرام کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے ہر ایک احمدی عورت مرد سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ دُنیا میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہ جائے کہ جس تک ( دین حق ) کا پیغام نہ پہنچ سکے.بالفاظ دیگر دنیا کی گلی گلی ، گھر گھر اور کوچہ بکوچہ میں حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تعلیم پہنچانا اس تحریک وقف جدید کا نصب العین ہے یہ تحریک اس بات کا سکہ بٹھانا چاہتی ہے کہ ( دین حق ) نسل انسانی کی زندگی سے متعلق ایک کامل معاشرہ پیش کرتا ہے.زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس سے متعلق ( دینِ حق ) نے راہنمائی نہ کی ہو.احمد یہ جماعت کا یہ دعوی ہے کہ ایک گھاس بیچنے والے سے لے کر بادشاہ تک سب کو ( دینِ حق ) کے جھنڈے تلے لانا اس جماعت کا نصب العین اور مقصد حیات ہے“.تحریک وقف جدید کے چندوں کا ذکر کرتے ہوئے سردا امر سنگھ جی دا سانجھے اپنے اس مضمون میں تحریر فرماتے ہیں :- مالی طور پر اس تحریک کو ایک زندہ اور ٹھوس تحریک بنانے کے لئے ( حضرت ) میرزا صاحب (اطال الله بقاہ ) نے اعلان کیا ہے کہ کم از کم آٹھ آنے مہینہ اور بڑے بڑے زمیندار دس دس ایکڑ زمین اس تحریک کے مقصد کو پورا کرنے کی غرض سے چندہ کے طور پر دیں.تا کہ اس تحریک کے کارکن کھانے پینے کی ضروریات سے بے فکر ہو کر تمام دنیا میں پھیل جائیں.صحیح معنوں میں کارکن وہی بن سکتا ہے جو اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے اعلائے کلمتہ اللہ کرے.کارکن وہی بن سکتا ہے جس کا دل ایمانداری کے نور سے منور ہو چکا ہو.دنیا دار کے لئے اس تحریک میں کوئی جگہ نہیں ( حضرت ) میرزا صاحب نے اس مقاصد پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ میرا راستہ پھولوں کی سیج
تاریخ احمدیت 35 جلد ۲۰ نہیں ہے.اس لئے جن کے پاؤں نازک ہوں وہ میری طرف نہ آئیں.کیونکہ یہاں قدم قدم پر کانٹے بکھرے ہوئے ہیں.نیز وہ لوگ آئیں جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں.جہاد کی تشریح کرتے ہوئے (حضرت) میرزا (صاحب) نے فرمایا ہے کہ (دینِ حق ) میں جہاد فرض ہے.لیکن آج جہاد کی شکل بدل گئی ہے.اب تلوار کی نہیں بلکہ روحانی جہاد کی ضرورت ہے.علم و عمل کی بلندی سے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو بنی نوع انسان تک پہنچانا نہایت ضروری ہے اور یہی روحانی جہاد ہے.اس لئے جہاد میں کمر بستہ ہو کر وہ لوگ شامل ہوں جو علم و عمل میں پورے ہوں“.حضرت امام جماعت (اطال الله بقاه ) کی جاری کردہ تحریک وقف جدید کے مقاصد کو بیان کرنے کے بعد سردار صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ :- ”ہم نے تحریک ”وقف جدید کے مقاصد مختصر الفاظ میں ناظرین کی خدمت میں اس لئے پیش کئے ہیں کہ قوموں کی دوڑ میں کل کی پیدا ہوئی ایک جماعت کس طرح ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھر رہی ہے کتنے ولولے اور جذبے ہیں ان مٹھی بھر لوگوں کے دلوں میں جو تمام دنیا پر اپنے خیالات کی فتح کے خواہشمند ہیں.اس کے بعد سردار صاحب نے سکھ قوم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : - سکھ پنتھ دانیوں کا پنتھ ہے دس گورو صاحبان نے جو قربانیاں کی ہیں وہ دنیا کی تاریخ میں روشن ہیں گوردواروں کے ذریعہ آیا ہوا چڑھاوا مجموعی طور پر شرومنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے پاس آتا ہے.یہ اچھے طریقے ہیں.اچھا دھرم اور اچھی تاریخ رکھنے کے باوجود اگر کوئی مذہبی تحریک موجودہ سکھ قوم پیدا نہیں کرسکی تو اس کا سبب کیا ہے اس سے متعلق کسی ایک پارٹی یا شخصیت پر الزام دینے سے گریز کرتے ہوئے ہم اپنے دلوں کو ٹولنے کی سفارش کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اگر یہ سچ ہے تو کیا ربوہ کی اس تحریک کو دیکھ کر سکھ پنتھ میں بھی کوئی جذبہ پیدا ہوگا ؟ ٣٣
تاریخ احمدیت فصل چهارم 36 36 جلد ۲۰ حضرت مصلح موعود کا پیغام وقف جدید کے سال چہارم کے آغاز پر سیدنا حضرت نے وقف جدید کے سال چہارم کے آغاز پر ۲۷ دسمبر ۱۹۶۰ء کو جو پُر معارف پیغام دیا اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے : بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هوالن اصر برادران جماعت احمدیہ السلام عليكم و رحمة الله و بركاته وقف جدید کی تحریک پر تین سال گزر چکے ہیں اور اب نئے سال کے آغاز سے اس تحریک کا چوتھا سال شروع ہو رہا ہے.میں نے ابتداء ہی میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کی تھی کہ انہیں وقف جدید کا سالانہ بجٹ بارہ لاکھ تک پہنچانا چاہئے تا کہ اس کے ذریعہ کم سے کم ایک ہزار ایسے معلم رکھے جاسکیں جو ( دینِ حق ) اور احمدیت کی تعلیم لوگوں تک پہنچائیں اور ان غلط فہمیوں کو دور کریں جو ہمارے متعلق ان کے دلوں میں پائی جاتی ہیں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک وقف جدید کا بجٹ ستر اسی ہزار کے گرد چکر لگا رہا ہے.اور اس میں سے بھی کچھ وعدے ایسے ہوتے ہیں جن کی وصولی میں دفتر کو مشکلات پیش آجاتی ہیں.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اس غفلت کا ازالہ کرنا چاہئے.نہ صرف اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے بلکہ انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ جماعتوں کی طرف سے نئے سال کے وعدے گزشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ پیش ہوں.کیونکہ جب تک وقف جدید بہت مضبوط نہیں ہوگی ہم معلمین کی تعداد بھی نہیں بڑھا سکتے.اس وقت صرف ساٹھ معلم کام کر رہے ہیں.لیکن صحیح طور پر کام چلانے کے لئے ہمیں کم سے کم ایک ہزار معلمین کی ضرورت ہے.اور ایسا تب ہی
تاریخ احمدیت 37 جلد ۲۰ ہوسکتا ہے جبکہ مالی لحاظ سے وقف جدید کو مضبوط بنایا جائے.پس ہمت سے کام لیں اور وقف جدید کو ترقی دیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک میں کام کرنے والوں کے ذریعہ جماعت کی تعداد میں ترقی ہو رہی ہے اور اگر کام بڑھ جائے اور وقف جدید کی مالی حالت بہتر ہو جائے تو اس میں اور بھی اضافہ ہو سکتا ہے.پس اس تحریک کو کامیاب بنائیں اور نئے سال کے آغاز سے پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور وہ آپ کو اپنے فرائض کو سمجھنے اور ان ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ پر عائد کی گئی ہیں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیلة امسیح الثانی.۲۷ / دسمبر ۱۹۶۰ء.ہندوؤں میں تبلیغ کا آغاز اور اس کے شاندار نتائج ۱۹۶۰ء میں تحریک وقف جدید کی طرف سے پاکستان کے ہندوؤں میں تبلیغ کا عملی قدم اٹھایا گیا جس کے بہت شاندار نتائج جلد جلد ظاہر ہونے لگے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد نے وقف جدید کی ایک رپورٹ میں تحریر فرمایا کہ حضرت مصلح الموعود کی دیرینہ خواہش تھی کہ ہندوؤں میں تبلیغ حق کی طرف خاص توجہ دی جائے.چنانچہ اس عاجز کو بھی حضور نے بارہا ہدایت فرمائی کہ وقف جدید کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے.ان ہدایات کی روشنی میں ایسے علاقوں کے معلمین کو جہاں ہندو اقوام پائی جاتی ہیں بار بار اس طرف توجہ دلائی جاتی رہی.لیکن چند سال پہلے تک کوئی خاطر خواہ اور امید افزا نتیجہ برآمد نہیں ہوا.چنانچہ ۱۹۶۰ء میں یہ تجویز کی گئی کہ احمدی تربیت یافتہ کمپونڈروں میں تحریک کی جائے کہ وہ اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کریں.اور اپنے خرچ پر ہندو علاقوں میں جا کر رہائش اختیار کریں.جہاں طبی پریکٹس کے ذریعہ گزر اوقات کا سامان کرنے کے ساتھ ساتھ تبلیغ حق کا کام بھی کرتے رہیں.اس تحریک کے نتیجہ میں مکرم محمد سعید صاحب ابن مکرم فیروز الدین صاحب انسپکٹر مال تحریک جدید نے اپنے آپ کو پیش کیا.اور ضلع تھر پارکر سندھ کے
تاریخ احمدیت 38 38 ریگستانی علاقہ میں نہایت ہی مشکل اور نامساعد حالات میں کئی سال تک آنریری طور پر فریضہ تبلیغ ادا کیا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ان کی اس قربانی کو مثمر ثمرات حسنہ فرمایا اور ۱۹۶۱ء میں پہلی مرتبہ اس علاقہ کی اچھوت اقوام میں چار دوستوں کو قبول ( دینِ حق ) کی سعادت نصیب ہوئی.اس کامیابی کے نتیجہ میں وقف جدید کو وہاں ایک مرکزی بستی میں باقاعدہ مرکز کھولنے کی توفیق ملی.جہاں ایک نومسلم ہومیو ڈاکٹر نثار احمد راٹھور کو بطور معلم مقرر کیا گیا.اگر چہ اس مشن کے قیام کے بعد چند سال تک تو نہایت مایوس کن حالات کا سامنا کرنا پڑا اور مذکورہ نومسلمین کے ساتھ ان کے اعزا دا قارب کے انتہائی سخت اور نفرت آمیز سلوک سے ڈر کر مزید بیعتیں ہونا بند ہوگئیں تاہم وقف جدید نے نصرت الہی پر بھروسہ کرتے ہوئے وہاں کام بند کرنے کی بجائے اسے مزید تقویت دینی شروع کر دی اور مکرم مولوی محمد شریف صاحب معلم حلقہ نوکوٹ کو بھی وہاں نثار احمد صاحب کے ساتھ تمام علاقے کے دورے پر بھجوایا گیا.اس دورے کی رپورٹ نہایت امید افزا تھی.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق حالات کا بذات خود جائزہ لینے کے لئے اس عاجز نے بھی اس علاقہ کا دورہ کیا اور شدت سے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض اچھوت اقوام ( دینِ حق ) کے بہت قریب آچکی ہیں.اور بعید نہیں کہ ہم جلد اس علاقہ میں یدخلون فی دین الله افواجا کا نظارہ بچشم خود دیکھ لیں.چنانچہ اس دورہ کے بعد اس مشن کو اور آگے بڑھا کر دیہاتی علاقوں میں منتقل کر دیا گیا.اور معلمین کی تعداد بھی مستقل طور پر ایک کی بجائے تین کر دی گئی.الحمد للہ کہ اس کے بہت ہی خوش کن نتائج پیدا ہوئے اور آج تک وہاں تین مختلف دیہات میں ۱۹۱ ہندو ( دینِ حق ) قبول کر چکے ہیں.اور دن بدن ( دین حق کی طرف ان کا رجحان بڑھ رہا ہے.دن بدن تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے تبلیغی اور تربیتی کام کے پیش نظر عنقریب اس مشن کو اور تقویت ینی پڑے گی اور مزید مراکز کھولنے پڑیں گے.اس وقت ہمارے سامنے فوری مسئلہ نومسلمین کی ٹھوس تربیت کا مسئلہ ہے.جس کے لئے معلمین کو بہت جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 39 زیادہ وقت صرف کرنا پڑ رہا ہے.اس کے ساتھ ساتھ ( دینِ حق ) کی طرف توجہ اتنی بڑھ گئی ہے کہ دور دور کے دیہات سے بھی مطالبے آنے شروع ہو گئے ہیں کہ ہمیں بھی دینِ حق کے بارے میں معلومات بہم پہنچانے کا انتظام کیا جائے.احمدیت کی کامیابی کا علاقے میں عام چرچا ہے اور میر پور خاص کے غیر از جماعت اخبارات بھی استحسان کے رنگ میں ہندوؤں میں ( دین حق کی تبلیغی کامیابیوں کا ذکر کر رہے ہیں.چونکہ اس علاقہ میں غیر معمولی اخراجات برداشت کئے بغیر کام کو وسعت نہیں دی جاسکتی.اس لئے آئندہ سال کے لئے وقف جدید کی مد میں احباب جماعت کی مالی قربانی بہت حد تک اس کا فیصلہ کرے گی کہ کام کو مزید کتنی وسعت دی جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور نصرت پر بھروسہ رکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ اگر ہمیں اس علاقہ کی طرف مزید توجہ دینے کی استطاعت ہو تو تھوڑے ہی عرصہ میں ہزارہا کی تعداد میں غیر مسلم اقوام ( دینِ حق ) میں داخل ہوسکتی ہیں.کیونکہ اس وقت ایک زندگی بخش آسمانی ہوا وہاں چل رہی ہے.وہاں کے انچارج معلم نثار احمد راٹھور نومسلم کے ایک تازہ خط کا اقتباس احباب کی دلچسپ کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے:- ان دنوں یہاں کام اچھا چل رہا ہے.لوگ احمدیت میں داخل ہورہے ہیں.سات بیعتیں آج ارسال خدمت کر رہا ہوں.میں چھپیں بیعتیں اور بھی ہیں جو پھولپورہ سے میں بھجواؤں گا.اسی طرح سے بیعتوں کا سلسلہ مختلف گوٹھوں سے شروع ہے.رشید احمد ( چتر بھیج ) کی گوٹھ کولی دیری سے بھی دو تین گھر احمدی ہوئے ہیں.گوٹھ کو لی ویری کے اردگرد کافی چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں اس لئے کوئی ویری میں بھی ایک معلم کا رہنا ضروری ہے.پھولپورہ میں بھی اکیلا معلم نا کافی ہے کیونکہ مریض وغیرہ باہر سے لوگ کثرت سے آتے ہیں اس لئے ایک معلم تو ان میں ہی مصروف رہتا ہے.اور گاؤں والوں کی تربیت بھی کرنی ہوتی ہے اس لئے وہ معلم پھولپوررہ چھوڑ کر باہر نزدیکی گاؤں جن میں احمدی ہوئے ہیں وہاں جا نہیں سکتا.اس پھولپورہ میں دو معلموں کی ضرورت ہے ایک مقامی طور پر رہے اور ایک پانچ میل کے حلقہ میں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 40 مختلف گوٹھوں میں جائے اور رات کو واپس سنٹر میں آئے.مکرم محمد شریف صاحب کھوکھر کو تار دیا جائے تا کہ جلد واپس آجائیں.یہاں پر کام بڑھ رہا ہے.از آں سوا ایک اور معلم کو بھی بھجوایا جائے.حالانکہ کافی لوگ اس علاقہ کے سندھ چلے گئے ہیں.لیکن احمدی ہونے کے لئے پھر بھی کافی موجود ہیں.اور یـــدخـلـون فـي ديـن الـلـه افواجا کی روچل رہی ہے.رکی نہیں.“.پھر ایک اور خط میں لکھتے ہیں:.پچھلے دنوں جو چند شرانگیز لوگوں نے طوفانِ بدتمیزی بپا کیا تھا اور ہماری مخالفت چھڑ گئی تھی اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ نے بہت ہی اچھا نکالا کہ ان ہی کے گاؤں میں ہماری جماعت قائم ہو گئی ہے اور دو تین گھر ہے احمدی ہو گئے ہیں.از آں سوا اور بھی ترقی ہوئی ہے.اور یہاں شہر کے لوگوں کا اور بھی ہمارے ساتھ رابطہ قائم ہو گیا ہے اور آج کل بہت ہی اچھا ماحول ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اور حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ مخالفت کی شدت کے بعد پھر ابر باراں برسنے لگا ہے اور لوگ کھینچے چلے آرہے ہیں.شکر الحمد للہ اس وقت اچھوت قوم کا کافی رجحان احمدیت کی طرف ہے اور ان کے لیڈر سننے میں آیا ہے کہ صلاح مشورے کر رہے ہیں کہ ہم ہندو دھرم کے گڑھے سے نکلیں اور آثار بھی ایسے نظر آرہے ہیں کہ اب ہمیں بہت ہی جلد ترقی ہو گی.دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میرے اچھوت بھائیوں کو اچھوت پنے کی لعنت سے جلد از جلد رہا فرمائے.آمین.پھولپورہ جماعت کے نمائندگان جو جلسہ پر آئے تھے وہ تو بہت ہی اچھا اثر لے کر آئے ہیں.اور حقیقت میں ان کے یہاں آنے کے بعد ہی لوگوں کی توجہ اس طرف ہوئی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ اب جلد ہی کچھ جماعتیں اور بھی قائم ہو جائیں گی.جن کے لئے اور معلمین کی بھی ضرورت ہوگی جو تھوڑی بہت سندھی جانتے ہوں اور علاج معالجہ اچھا کر سکتے ہوں.اس علاقہ کے ایک کونے سے ابتداء ہوئی ہے اور اب ہمیں جلد از جلد پورے علاقہ میں تبلیغ کا جال پھیلا دینا چاہئے.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 41 تا کہ یہ چار لاکھ کی آبادی جلد از جلد احمدیت کے روحانی پانی جلد ۲۰ سے سیراب ہو.آمین.66 ۳۵
تاریخ احمدیت فصل پایم 42 جلد ۲۰ مرکزی دفتر کی بنیاد تعمیر اور افتتاح ۲۹ دسمبر ۱۹۶۲ء کو اڑھائی بجے بعد دو پہر وقف جدید کے مرکزی دفتر کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب عمل میں آئی.تلاوتِ قرآن کے بعد جو مولوی نصیر احمد صاحب شاہد مربی سیالکوٹ نے کی.خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح وارشاد و رکن مجلس وقف جدید نے بیت مبارک قادیان کی ایک اینٹ بنیاد میں رکھی.بعد ازاں رفقائے حضرت مسیح موعود میں سے حضرت حاجی محمد فاضل صاحب ربوہ ، حضرت حکیم انوار حسین صاحب خانیوال، حضرت منشی عبدالحق صاحب خوشنویس ربوه محترم چوہدری فتح دین صاحب، حضرت مولوی محمد عثمان صاحب امیر جماعت احمد یہ ڈیرہ غازی خان اور حضرت صوفی محمد رفیع صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ خیر پور ڈویژن نے بنیادی اینٹیں رکھیں.مجلس وقف جدید کے جن ممبران نے بنیاد میں ایک ایک اینٹ رکھی ان میں حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ صدر مجلس وقف جدید، خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء، ملک سیف الرحمن صاحب، مولوی عبد الرحمن صاحب انور، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید، مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب شامل تھے.امراء علاقائی و اضلاع میں سے حضرت مرزا عبدالحق صاحب (امیر جماعت احمدیہ سابق صوبہ پنجاب و بهاولپور ) مولوی محمد صاحب (امیر جماعت ہائے احمد یہ مشرقی پاکستان ) رحمت اللہ صاحب (امیر جماعت احمد یہ کراچی) چوہدری بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ (امیر جماعت احمد یہ گجرات) نے بھی ایک ایک اینٹ بنیاد میں رکھی.علاوہ ازیں قاضی محمد رفیق صاحب لاہور نے بھی.یہ سب احباب دعائیں کرتے ہوئے باری باری اینٹیں رکھتے جاتے تھے اور ساتھ ہی جملہ حاضرین بھی مصروف دعا تھے.آخر میں خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے اجتماعی دعا کرائی.دفتر وقف جدید کی شاندار عمارت تعمیر کے مختلف مراحل میں سے گزرتے ہوئے جب ایک حد تک مکمل ہو گئی تو ۱۹ را پریل ۱۹۶۴ ء کو اس کا افتتاح ہوا.اس پُر مسرت تقریب میں شرکت کے لئے مدعوین حضرات ساڑھے تین بجے سہ پہر سے ہی آنے شروع ہو گئے تھے.وقف جدید ۳۶
تاریخ احمدیت 43 جلد ۲۰ انجمن احمد یہ پاکستان کے صدر جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے آنے والوں کا استقبال کیا.چار بجے سہ پہر تک جب سب مہمان نئے دفتر کے احاطہ میں جمع ہو گئے تو محترم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ صدر نگران بورڈ نے عمارت کے صدر دروازہ کے سامنے کھڑے ہو کر اجتماعی دعا کرائی.دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے زیر لب دعائیں کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے صدر دروازے کا تالا کھول کر افتتاح فرمایا.اس تقریب پر دو بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ نئی عمارت کا افتتاح عمل میں آچکا تو حضرت مرزا عبدالحق صاحب اور جملہ مدعوین کرام جن میں رفقاء مسیح موعود ، نگران بورڈ کے ممبران ، ناظر اور وکلاء حضرات خصوصی طور پر شامل تھے.محترم صدر صاحب و ناظم ارشاد صاحب وقف جدید نے مہمانوں کو عمارت کے مختلف ونگ اور ان کے کمرے دکھلائے اور ان میں مختلف شعبوں کی ترتیب و تعیین پر روشنی ڈالی.عمارت کا ڈیزائن ، نقشہ اور ضرورت کے مطابق شعبہ وار کمروں کی ترتیب کے معائنہ سے فارغ ہونے کے بعد محترم صدر صاحب نگران بورڈ ، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف ید کے کمرہ میں تشریف لے گئے اور اپنے قلم سے امراء صاحبان اضلاع اور دیگر احباب جماعت کے نام وقف جدید کے لئے فراہمی چندہ کی ایک اپیل رقم فرمائی جس میں لکھا کہ :- یہ دفتر بہت سی مشکلات میں سے گزرتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے چند ماہ پیشتر اس دفتر کے باہر امرائے ضلع و دیگر احباب کرام کا اجلاس کیا گیا تھا.اس وقت صرف دیوار میں ہی بنی ہوئی تھیں اور چھتوں کے لئے کوئی انتظام نہ تھا اتنے تھوڑے عرصہ میں ساری بلڈنگ پر چھتیں ڈال لینا انجمن وقف جدید کے ذمہ دار کارکنان کی بہت ہمت ہے.“.اس طرح اپیل کے ذریعہ افتتاح کے ساتھ ہی باقاعدہ دفتری کام کا بھی آغاز ہو گیا.ازاں بعد جملہ مہمانوں کی مٹھائی وغیرہ سے تواضع کی گئی.اختتام پر صدر نگران بورڈ مکرم مرزا عبدالحق صاحب نے دوبارہ اجتماعی دعا کرائی.دفتر وقف جدید کی یہ شاندار عمارت گولبازار ربوہ کے عقب میں دفتر خدام الاحمدیہ مرکز یہ سے ملحق پلاٹ میں تعمیر کی گئی.صدر صاحب مجلس وقف جدید کے دفتر اور کمیٹی روم کے علاوہ عمارت کے دو ونگ تھے ایک شعبہ مال کے لئے اور ایک شعبہ ارشاد کے لئے.ہر ونگ وسیع وعریض تین کمروں پر مشتمل تھا.عمارتوں کے دونوں سروں پر دو بالائی کمرے بھی تعمیر کئے گئے.ان میں سے ایک کمرہ لٹریچر کے سٹور کے طور پر اور دوسرا آفس ریکارڈ کی حفاظت کے لئے مخصوص کیا گیا.
تاریخ احمدیت 44 جلد ۲۰ علاوہ ازیں ایک گیسٹ روم بھی تعمیر کیا گیا.عمارت کی بنیاد یں اتنی مضبوط اور پختہ رکھی گئیں کہ بعد میں حسب ضرورت بالائی منزل تعمیر کر کے اس میں بآسانی توسیع کی جاسکے.اصل عمارت سے ملحق اس کے جنوبی جانب بعض اور کمرے بھی زیر تربیت معلمین کی ٹرینگ کے لئے کلاسز منعقد کرنے اور ان کی رہائش کے لئے تعمیر کئے گئے.ابتدائی مرحلہ میں اس مختصر مدرسہ اور ہوٹل میں دس معلمین کی ٹریننگ اور قیام کا انتظام تھا.تحریک وقف جدید اب تک ہندوؤں میں اشاعت دین ایک ضروری سرکار معلمین کے نام کے لئے سر بکف تھی مغرب اس نے اپنی توجہ عیسائیوں وو کی طرف بھی مبذول کر دی جو مسلمانوں کو ورغلانے اور مرتد کرنے میں پوری طاقت صرف کر رہے تھے.اور جس کی وجہ سے پاکستان کے مذہبی حلقوں میں زبر دست تشویش اور اضطراب پھیل چکا ہے.اس سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید کی طرف سے وقف جدید کے تمام معلمین کے نام ایک خصوصی سرکلر جاری کیا جس میں تحریر فرمایا : - یہ امر مزید فکر اور تکلیف کا موجب بنتا ہے کہ بعض تخمینوں کے مطابق آج کل عیسائی پاکستان میں اس سے زیادہ مسلمانوں کو عیسائی بنا رہے ہیں جتنا کہ ہم عیسائیوں یا ہندوؤں وغیرہ کو اپنے ملک میں دینِ حق کی آغوش میں لانے میں کامیاب ہورہے ہیں.یہ صرف افسوس کا مقام ہی نہیں بلکہ غیرت کا مقام بھی ہے.آپ جو کہ مسیح محمدی کے غلام ہیں اور ایک زندہ مذہب کو ماننے والے ہیں آپ پر یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ عیسائی کارکنوں سے پیچھے رہ جائیں.چنانچہ آج کے بعد اپنی غفلتوں کا ازالہ عملی نتیجہ ظاہر کر کے کیجئے اور خاص طور پر عیسائیوں کی طرف توجہ دیجئے.آپ کو چاہئے کہ اس سال کم سے کم اتنے تو عیسائیوں کو مسلمان بنا ئیں جتنے مسلمانوں کو عیسائی سالانہ عیسائی بنا رہے ہیں.اور یہ تعداد آٹھ ہزار سالانہ تک پہنچ چکی ہے.اسی ضمن میں جن اعداد و شمار کی ضرورت ہے ان کی تفصیل صفحه ۴ پر ملاحظہ فرما کر مطلوبہ کوائف سے جلد از جلد مرکز کو آگاہ کریں.زیادہ سے زیادہ پانچ دن کے اندر یہ تمام معلومات حاصل کر کے دفتر کو اپنی تفصیلی رپورٹ بھجوا کر ممنون فرمائیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد ناظم ارشاد وقف جدید
تاریخ احمدیت 45 جلد ۲۰ عیسائی تبلیغی کوششوں کے بارہ میں مطلوبہ کوائف ۱ - آپ کے علاقہ میں عیسائی تبلیغی کوششوں کا کیا حال ہے؟ ۲ - عیسائیوں کے کتنے سکول، کالج اور ہسپتال ہیں؟ ۳.کون کون سے عیسائی فرقے اس علاقے میں کام کر رہے ہیں؟ ۴.ہسپتالوں وغیرہ میں عوام کو عیسائیت کی طرف مائل کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کئے جاتے ہیں؟ ۵- کون کون سا لٹریچر عام طور پر تقسیم کیا جا رہا ہے؟ - ( دین حق ) کے خلاف زیادہ تر کون سے بڑے دلائل استعمال کئے جار ہے ہیں؟ ۷.کیا امریکن ایڈ (AID) مثلاً دودھ، گندم وغیرہ بھی عیسائی مبلغین کے ذریعہ تقسیم کی جاتی ہے؟ ۸- کوئی اور قابل ذکر طریق جس سے عیسائی اپنی تبلیغی کوششوں میں فائدہ اٹھار ہے ہوں؟ ۹ - عوام کا رد عمل ؟ ۱۰- آپ کے علاقہ میں عیسائی آبادی کتنی ہے؟ کتنے چرچ ہیں؟ اور کتنے ایسے گاؤں ہیں جن میں بڑے زمیندار عیسائی ہیں؟ ایسے دیہات کے باقاعدہ نام، ڈاکخانہ اور تحصیل وغیرہ تحریر کریں.اسی طرح کل آبادی کے مقابلہ پر عیسائی آبادی کی نسبت ظاہر کریں.۱۱ - آپ کے علاقہ میں عیسائیت کی ترقی کی رفتار کیا ہے؟ اور زیادہ تر کون لوگ عیسائی ہور ہے ہیں؟ نوٹ : یہ کوائف جلد از جلد مرکز میں پہنچ جانے چاہئیں.اور اس بات کی ذمہ داری آپ پر ہوگی کہ یہ سارے کوائف سو فیصد درست ہیں.
تاریخ احمدیت فصل ششم 46 46 جلد ۲۰ وقف جدید کا بجٹ مجلس مشاورت میں ۱۹۶۴ء کا سال وقف جدید کے نظام مالیات کا ایک نہایت اہم سنگ میل ہے کیونکہ اس میں پہلی بار مجلس مشاورت کے سامنے اس کا سالانہ بجٹ پیش ہوا جو ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ آمد وخرچ پر مشتمل تھا.نمائندگان شوری کے لئے بجٹ وقف جدید پر غور کرنے کا پہلا موقع تھا.اس اہمیت کے پیش نظر ناظم ارشاد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے وقف جدید کی اہمیت ، مقاصد اور خدمات سے نمائندگان شوری کو متعارف کرانے کے لئے ایک مفصل مضمون سپر د قلم فرمایا جو’ وقف جدید انجمن احمدیہ کے زیر عنوان ایک کتابچہ کی صورت میں شائع ہوا جس کا مکمل متقن ذیل میں درج کیا جاتا ہے :- بسم الله الرحمن الرحيم هوالنـ نحمده و نصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اصر تحریک وقف جدید انجمن احمد یہ اپنے ساتویں سال میں داخل ہورہی ہے اور اس لحاظ یہ سال انجمن کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ امسال اس انجمن کا بجٹ بھی صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید انجمن احمدیہ کے طریق پر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مجلس شوری میں پیش ہو رہا ہے.اس اہم موقعہ پر نمائندگان شوری کی خدمت میں انجمن ہذا کی مساعی کا طائرانہ نظر میں ایک مختصر سا خاکہ پیش ہے.ور جولائی ۱۹۵۷ء کو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عیدالاضحیہ کے موقعہ پر جماعت کے سامنے اس نئے وقف کا خاکہ پیش کرتے ہوئے فرمایا : - میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح
تاریخ احمدیت 47 جلد ۲۰ جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں وہ اپنی زندگیاں براہِ راست میرے سامنے وقف کریں تا کہ میں ان سے ایسے رنگ میں کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کرسکیں اور مجھ سے ہدایتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں.“ الفضل مورخہ ۶ رفروری ۱۹۵۸ء ) چنانچہ اس اولین اعلان کے تقریباً چھ ماہ بعد اس مبارک سکیم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۳ جنوری ۱۹۵۸ء کو باقاعدہ ایک انجمن کی بنیاد ڈالی جس کا نام وقف جدید انجمن احمد یہ مقرر فرمایا.اس اولوالعزم امام کی قیادت میں جس سے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ وہ جلد جلد بڑھے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی یہ تحریک جس کا آغاز چھ سال پہلے چند کارکنان یعنی دس معلمین اور تین مرکزی کارکنان کے ساتھ ایک مستعار کمرہ میں ہوا تھا اب خدا کے فضل سے ایک با قاعدہ مضبوط انجمن کی صورت میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے طول وعرض میں وسیع پیمانے پر خدمت ( دینِ حق ) بجالا رہی ہے.اور اس کے کارکنان کی تعداد۱۳ سے بڑھ کر ۸۹ تک جا پہنچی ہے اور تقریباً ۷۰ مراکز مختلف مقامات پر فعال شکل میں قائم ہیں.اسی طرح امسال خدا تعالیٰ کے فضل سے مرکزی دفتر کی مستقل عمارت بھی زیر تعمیر ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ جلد مکمل ہونے والی ہے.(۱) تربیت و اصلاح:- یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ۲۰،۱۵ سال میں بعض کام کی نوعیت ناگزیر حالات کی وجہ سے ہماری بہت سی دیہاتی جماعتوں کی تربیتی حالت قابل تشویش حد تک رو بہ انحطاط ہو چکی تھی.حتی کہ بعض ایسی بڑی بری دیہاتی جماعتیں بھی جو ایک عرصہ پہلے اپنے خلوص تقویٰ اور دینداری میں مثالی حیثیت رکھتی تھیں وہ اپنا پہلا سا بلند اور قابلِ ستائش دینی معیار قائم نہ رکھ سکیں.ان کی مرض کی نوعیت اور شدت اور وسعت سے متعلق ہم جس قدر بھی غور کریں اسی قدر ہمارا دل اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ وقف جدید کی تحریک دراصل ان ہی جماعتوں کے شدید تربیتی تقاضوں کا ایک مؤثر عملی جواب ہے اور ان کثیر دینی مسائل اور مشکلات کا ایک عمدہ حل ہے جو ہماری نسبتاً کم علم اور دور افتادہ جماعتوں کو گھیرے ہوئے ہیں.اس مختصر سی پیشکش میں اس امر کی تو گنجائش نہیں کہ کوئی تفصیلی تربیتی جائزہ پیش کیا جائے
تاریخ احمدیت 48 جلد ۲۰ مگر محض اس غرض سے کہ دلوں میں احساس ضرورت کما حقہ بیدار ہو اور وقت کی نزاکت کا احساس پیدا ہو ان سینکڑوں خطوط میں سے محض چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں جو اس موضوع پر وقتاً فوقتاً مختلف صاحب فکر احباب کی طرف سے موصول ہوتے رہتے ہیں.ایک قائد ضلع تحریر فرماتے ہیں :- اس ضلع میں دیہاتی جماعتوں کی حالت بڑی تشویشناک ہے اور یہ ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ ان جماعتوں کے لئے وقف جدید سے معلم کی خدمات حاصل کر کے ان کی تربیت کا کوئی ٹھوس اور مکمل انتظام کیا جائے.اسی طرح ایک جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب کا پر زور تقاضا ہے :- دو ہمیں ایک معلم ضرور دیں اور ہمیں اس نعمت عظمیٰ سے محروم نہ رکھیں.میں دکھے ہوے دل کے ساتھ آپ کی خدمت عالیہ میں عرض کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے لئے ہمارے بچوں اور ہم پر بلکہ تمام اس جماعت کے چھوٹے بڑے مرد و زن پر رحم فرماتے ہوئے جلد از جلد معلم بھیج دیں تا کہ ہماری تربیت ہو اور پودا احمدیت مرجھا نہ جائے.مجلس خدام الاحمدیہ کے ایک انسپکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں :- اس جماعت کی تنظیمی اور تعلیمی حالت نا گفتہ بہ ہے.جب یہاں معلم وقف جدید تھے اس وقت کچھ حالت سدھر نے لگی تھی لیکن معلم یہاں سے چلے گئے اور اب پھر پہلی سی غفلت اور ستی طاری ہورہی ہے.“ ایک امیر صاحب حلقہ اپنی جماعت کے متعلق لکھتے ہیں :- وو حالت تسلی بخش نہیں ایک معلم ضرور دیا جائے جو اس جماعت کی تربیت کر سکے اور بچوں اور بڑوں کو احمدیت سے متعلق مسائل یاد کرا سکے.“ ایک سیکرٹری مال لکھتے ہیں :- وو یہاں احمدیت کی سخت مخالفت ہے مگر ہم کم علمی کی وجہ سے اس قابل نہیں کہ انہیں جواب دے سکیں.اس لئے ہمیں ضرور کوئی معلم دیا جائے.ایک نئی قائم شدہ جماعت کے ممبران تحریر فرماتے ہیں:.
تاریخ احمدیت 49 ہم لوگوں نے احمدیت قبول کی ہے.ہمارے پاس کوئی نہیں جو ہمیں دینی اور دنیاوی تعلیم دے سکے.اس لئے ہمیں ایک معلم کی سخت ضرورت ہے.“ ایک اور جماعت کے پریذیڈنٹ فرماتے ہیں :- ” ہمارے گاؤں میں احمدیت تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آگئی تھی.اس لحاظ سے یہ ابتدائی جماعتوں میں سے ہے لیکن دیہاتی ماحول میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے نہ تربیت صحیح رنگ میں ہوسکتی ہے نہ ہمارے بچوں کی.“ سلسلہ کے ایک مشہور عالم اپنے دورہ کے تاثرات لکھتے ہوئے ایک جماعت سے متعلق لکھتے ہیں :- ” میں نے غور وفکر کے بعد آپ کو لکھا ہے.خدا کے لئے اس ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچائیں.للہ اس طرف توجہ فرما ئیں.“ غرضیکہ علماء سلسله امراء ضلع و مقامی اور مختلف عہد یداران جماعت کی طرف سے کثیر تعداد میں ایسے خطوط موصول ہوتے رہتے ہیں.ایک دوسرا منظر : - یہ تو تصویر کا ایک منظر ہے.اصلاح اور آرائش سے پہلے کا.آئیے اب ہم دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے وقف جدید انجمن احمدیہ کو کس حد تک یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ بدنمائی کے ان عارضی داغوں کو دھوکر احمدیت کے لازوال حسن کو اپنی اصل تابانی کے ساتھ اجاگر کرے.جب ہم اس زاویہ سے صورت حال پر نظر کرتے ہیں تو ایک دلکش منظر ہمارے دلوں کو تسکین دیتا ہے جس کی بعض جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں.اس دلکش روحانی انقلاب اور اسی پاک تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے ایک مخلص دوست تحریر فرماتے ہیں :- حضرت مصلح موعود کا خاص طور پر شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ حضور نے اس مبارک تحریک وقف جدید کا آغاز فرما کر ہم کمزوروں پر احسان فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ حضور کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے.معلم صاحب نے بہت اچھے رنگ میں بچوں کو احمدیت کی تعلیم سے روشناس کرایا.ہم سے اپنی بیت جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 50 جلد ۲۰ الذکر بنانے کا وعدہ لیا.ان کے کام کو دیکھ کر میرے دل میں جوش پیدا ہوا کہ آئندہ میں اپنی آمد کا ۱/۴ حصہ دین کی خدمت کے لئے دیا کروں گا.اللہ تعالیٰ میری اس قربانی کو قبول فرمائے.آمین.“ پھر ایک جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب اپنے معلم سے متعلق لکھتے ہیں :- د معلم کے آنے سے ہماری جماعت کی حالت بدل گئی.جماعت نے ہر تحریک میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے.۱۲ کس سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں.“ وو پھر ایک اور جماعت کے سیکرٹری صاحب اصلاح و ارشا در قمطراز ہیں :- ” جب سے معلم صاحب تشریف لائے ہیں جماعت احمد یہ تعلیمی اور تبلیغی سرگرمیوں میں فزوں تر ترقی کر رہی ہے.اصلاح و ارشاد کے کام میں 66 نہایت خوش کن کام کا آغاز ہو چکا ہے.اکثر لوگ بہت متاثر ہیں.“ ایک اور جماعت کے سیکرٹری مال اپنے جذبات تشکر کا ان الفاظ میں اظہار فرماتے ہیں آپ نے معلم صاحب کو بھیج کر ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچا لیا.خدا کے فضل سے صرف ایک ہفتہ میں جماعت کے بچوں کی کایا پلٹ گئی.عرض ہے کہ ہم چندوں میں اضافہ کی کوشش کریں گے اس لئے معلم کو مستقل طور پر رہائش کا حکم فرمائیں.“ معلم کے طریق کار سے متعلق ایک اور جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب کا تاثر یہ ہے :- ”چھوٹے بڑے گھر اور ڈیروں پر جا کر راستوں میں کھڑے ہو ہو کرلوگوں کو بلایا اور پیغام حق پہنچانے کی کوشش کی.جماعت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوشیار ہو گئی ہے.عورتوں میں بھی درس ہوتا ہے.“ ایک قصباتی جماعت کے پریذیڈنٹ اپنے معلم کے شب و روز کے مشاغل کی تفصیل یوں بیان فرماتے ہیں :- فجر کی نماز کے بعد قرآن مجید ناظرہ اور باترجمہ پڑھایا جاتا ہے مغرب کے بعد درس تفسیر کبیر عشاء کے بعد کتب عربی اور صرف پڑھائی جاتی ہیں.مولوی صاحب جانفشانی اور کوشش سے ہم کو اب قرآن مجید پڑھار ہے
تاریخ احمدیت 51 ہیں.ہم کو مولوی صاحب کا بہت فائدہ ہے.“ جلد ۲۰ کیوں نہ ہو یقیناً جماعت کو ایسے مخلص معلمین کا بہت فائدہ ہے جو دن رات نہایت جانفشانی کے ساتھ دینی تعلیم اور تربیت میں مصروف ہیں.اسی فائدہ کا اپنے الفاظ میں ذکر کرتے ہوئے ایک اور جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب تحریر فرماتے ہیں :- دد معلم نے روزانہ اپنی دلکش تقاریر سے جماعت کے قلوب میں سلسلہ کے متعلق اخلاص پیدا کیا.اور احمدیت کی تعلیم پر مختلف پیرا یہ میں ٹیچر کر کے ایک روح پیدا کی ہے.علاوہ ازیں بچوں کے روزانہ اجلاس کر کے ان کی خاطر خواہ تربیت کی ہے.جماعت کو ان کی آمد سے بڑا فائدہ پہنچا ہے.ایک نوجوان نے بیعت کی جس کا سہرا معلم صاحب کی نورانی 66 پیشانی پر ہے.جگہ کی قلت اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ تفصیل کے ساتھ ان تمام پاک تبدیلیوں کا ذکر کیا جائے جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کے زیر انتظام رونما ہورہی ہیں.آخر پر ایک مرکز سے متعلق ایک ضلع کے امیر صاحب کے تاثر کا ذکر کر کے اس ذکر کو ختم کیا جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں :- وقف جدید کے مرکز کے قیام سے اصلاح و ارشاد کا سالہا سال سے رکا ہوا کام جاری ہو گیا اور جماعت کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی.چندوں میں بھی خدا کے فضل سے نہایت غیر معمولی اضافہ ہوا یہاں تک کہ گزشتہ پانچ صد روپیہ سالانہ کے مقابل پر اب ہمارا بجٹ بڑھ کر ساڑھے چار ہزار روپیہ سالانہ تک پہنچ گیا.فالحمد للہ علی ذالک.یقیناً یہ تحریک القائے الہی کے مطابق جاری کی گئی ہے اور تربیت کی پیاسی جماعتوں کے لئے آب بقا کا کام دے رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے برکت پر برکت دے اور اس کے روحانی فیوض سے پاکستان کا قریہ قریہ سیراب ہو جائے.مگر احباب جماعت کو اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ابھی پانی بہت کم اور پیاسوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.اس قسم کے روحانی چشموں کا جاری کرنا جوئے شیر کے کھینچ لانے کے مترادف ہے اور کوہ کن کے سے عزم اور جانفشانی اور محنت کو چاہتا ہے.
تاریخ احمدیت 52 مدارس : - اصلاح و ارشاد، تربیت اور دینی تعلیم کے علاوہ وقف جدید کے تحت بعض مصالح کے پیش نظر دنیا وی مدارس بھی کھولے گئے ہیں جس کے پہلو بہ پہلو دینی تعلیم و تربیت کا کام بھی خوش اسلوبی سے جاری ہے.اس وقت تین مدارس نہایت عمدہ کام کر رہے ہیں.نیز ایک اور مدرسہ بالخصوص اچھوت اقوام کے فائدہ کے لئے عنقریب جاری ہونے والا ہے جس سے بھاری فوائد کی توقع ہے.ایک مدرسہ سے متعلق علاقہ کے مربی سلسلہ - تحریر فرماتے ہیں :- سکول کا سرکاری معائنہ ہوا تو اس میں ہمارے سکول کا نتیجہ خدا کے فضل سے سو فیصدی رہا.انسپکٹر صاحب تعلیم نے بہت خوشی کا اظہار کیا.اور معلم کو اپنے ساتھ دورہ میں رکھا اور معززین علاقہ سے تعارف کرایا.“ اشاعت لٹریچر : - اشاعت کے سلسلہ میں وقف جدید کی توجہ زیادہ تر بنگالی اور سندھی کی طرف مبذول رہی ہے.کیونکہ ان دونوں زبانوں میں احمد یہ لٹریچر بہت کم تعداد میں ملتا ہے تا ہم اردو میں بھی حسب ضرورت کتب اور رسالہ جات چھپوائے جاتے رہے ہیں.اشاعت لٹریچر کا نقشہ درج ذیل ہے.اردو : - (۱) شہادات فریدی (۲) کفارہ کے متعلق پانچ سوال (۳) بائیل کے الہامی ہونے کے متعلق پانچ سوال (۴) مذہب کے نام پر خون (۵) تحریف بائیل (۶) علمی تبصره ( بشراکت اصلاح وارشاد ).بنگالی لٹریچر : - (۱) تبلیغ حق (۲) تینی امارا کرشنا (۳) حکم درشن (۴) عیسائیوں سے اپیل (۵) علمی تبصره (بشراکت اصلاح و ارشاد ) اس کے علاوہ بنگالی میں ترجمہ کا ایک مستقل شعبہ قائم کر کے مندرجہ ذیل کتب کے تراجم کروائے گئے.جن میں سے اکثر نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے چھپ چکے ہیں.(۱) مذہب کے نام پر خون (۲) موجودہ ملکی حالات کے متعلق حضرت اقدس کے اہم ارشادات (۳) حیات طیبه (۴) راه ایمان (۵) تبلیغ ہدایت.سندھی: سندھی میں اب تک صرف تین رسالہ جات شائع جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 53 جلد ۲۰ ہو سکے ہیں اور بہت سے رسالہ جات اور کتب زیر ترجمہ ہیں جن کی تکمیل پر انشاء اللہ جلد اشاعت کا انتظام کروایا جائے گا.شائع شدہ رسالہ جات کے نام یہ ہیں.احمدیت کا پیغام، تبلیغ ہدایت ، کرشن قادیانی.ہندوؤں اور عیسائیوں میں تبلیغی مراکز :- عیسائیوں اور ہندوؤں میں تبلیغ ( دین حق ) کے لئے کئی مراکز قائم کئے جاچکے ہیں.اور بالخصوص اچھوت اقوام میں نہایت شاندار کامیابیوں کی توقعات ہیں جس کے آثار ابھی سے ظاہر ہیں.جہاں عیسائی مشنریوں کو صرف کثیر اور امریکن گھی اور دودھ کی تقسیم کے باوجود کوئی کامیابی نہیں ہوسکی وہاں حال ہی میں دس ہندوؤں کے قبولِ ( دینِ حق ) کی خوشخبری موصول ہوئی ہے.اور اس علاقہ میں ہمارے دو مراکز بڑی مضبوطی سے قائم ہوچکے ہیں اور ایک مدرسہ عنقریب کھولا جانے والا ہے.لاریب ان قوموں کو عیسائیت کے چنگل سے بچانے کا سہرا خدا تعالیٰ کے فضل سے معلمین وقف جدید کے سر پر ہی ہے.جن کے مقابل پر بعض عیسائی مشنری تو وہ علاقہ ہی چھوڑ کر چلے گئے.پس احباب جماعت سے مؤدبانہ ملتی ہوں کہ جہاں وہ شدید ضرورت کے پیش نظر مالی قربانیوں میں غیر معمولی اضافہ کی کوشش کریں وہاں جانی قربانی سے بھی گریز نہ کریں.اور جیلانی اور چشتی اور سہروردی بننے کے لئے آگے آئیں.نیز دعا کے ذریعہ بھی اس مبارک تحریک کی مدد کریں کہ کام بہت ہی وسیع اور کٹھن ہے لیکن اتنا ہی اہم ہے.وقف جدید کی بنیادیں جتنی مضبوط اور وسیع اور گہری ہوں گی اسی قدر بلند تر ہوں گی.غلبہ ( دین حق ) کی وہ عمارت جو آج احمدیت مشرق و مغرب میں ہر خطہ ارض پر تعمیر کر رہی ہے.“ والسلام خاکسار: ناظم ارشاد وقف جدید انجمن احمدیه ۳۹ مشاورت ۱۹۶۴ ء کی سب کمیٹی ( تحریک جدید اور وقف جدید ) نے یہ تجویز پیش کی کہ صدر انجمن اور وقف جدید کے کاموں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے.اس غرض کے لئے ایک پلاننگ بورڈ تشکیل کیا جائے جس میں صدر انجمن اور وقف جدید کے ممبرز ہوں اور اگر ضرورت ہو
تاریخ احمدیت 54 جلد ۲۰ تو مجالس انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے اراکین کو بھی شامل کیا جا سکے.اس بورڈ کا فرض ہوگا کہ لٹریچر کی ضرورت کی پلاننگ کرے اس کے علاوہ یہ سفارش کی جاتی ہے کہ حتی المقدور صدرانجمن احمدیہ اور انجمن وقف جدید ایک دوسرے کو مفت لٹریچر مہیا کرنے میں تعاون کریں.ام اس فیصلہ کے مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید نے نظارت اصلاح و ارشاد سے خصوصی رابطہ قائم کر کے اشاعت لٹریچر کے لئے ایک ہمہ گیر منصوبہ تجویز فرمایا جس کے مطابق آپ کی براہ راست نگرانی اور خصوصی توجہ سے بعض کتب کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے جن میں سے بعض کو نظارت اصلاح وارشاد نے بعض کو وقف جدید نے شائع کیا.بعض ضروری کتب نظارت اور وقف جدید کے اشتراک سے منظرِ عام پر آئیں اور اہم کتابوں کا ایک خاصہ حصہ مستقل طور پر وقف جدید کے زیر انتظام طبع وشائع ہوئیں.جن سے ہزاروں لاکھوں سینے علم و معرفت کی ضیا پاشیوں سے بقعہ نور بن گئے اور بہت سی سعید روحوں کو حق وصداقت سے وابستگی کا شرف حاصل ہوا.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے وسط مالی قربانی کی ایک خصوصی تحریک جولائی ۱۹۶۴ء میں مخلصین احمدیت سے مالی قربانی کی حسب ذیل خصوصی تحریک فرمائی: - وقف جدید کو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو ایک ہزار یا اس سے زائد سالانہ چندہ دینے کی استطاعت رکھتے ہوں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قربانی کے لئے تیار ہوں.“ اس تحریک کا پس منظر آپ نے یہ بیان فرمایا کہ : - اس وقت ہمارے ۸۸ فیصد چندہ دہندگان اوسطاً چار روپے کے لگ بھگ سالانہ چندہ ادا کر رہے ہیں.وسیع پیمانہ پر اس غریب اکثریت کو چندہ بڑھانے پر آمادہ کرنا نہ صرف دقت طلب ہے بلکہ بہت زیادہ خرچ کو چاہتا ہے.جس کے مقابل پر کچھ زیادہ آمد بڑھنے کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی.پس اس کا ایک ہی حل ہے کہ وہ خوش قسمت جنہیں اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا کی حسنات عطا فرمائی ہیں اظہار تشکر کے طور پر اس کے کئے ہوئے فضلوں کے شایانِ شان قربانی دیں.یہ ایک ایسی تجارت ہے جس میں کوئی گھاٹا نہیں.۴۲
تاریخ احمدیت 55 جلد ۲۰ یہ تحریک بہت کامیاب رہی اور متعدد مخلصین نے پانچ سو بلکہ ایک ایک ہزار روپیہ بلکہ اس سے بھی زیادہ رقوم دے کر اس مالی جہاد میں شرکت فرمائی.مکتبہ وقف جدید کا اجراء اگر چہ ۴۳ معلمین وقف جدید کے لئے ۱۹۵۸ء ہی سے مختصر و م کلاسز جاری تھیں مگر وسیع پیمانہ پر تربیتی ٹریننگ کی ابتداء مکتبہ وقف جدید کے اجراء کی صورت میں ۱۹۶۵ء میں ہوئی جیسا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد نے تحریر فرمایا : - دوگو گوابتداء میں شدید ضرورت کے پیش نظر واقفین زندگی کو کسی تعلیم و تربیت کے بغیر ہی جماعتوں میں بھجوا دیا گیا تھا اور ان کے پہلے سے حاصل کرده دینی علم اور خلوص پر ہی انحصار کیا گیا تھا کہ وہ انشاء اللہ حسب استطاعت جماعت کی تربیت عمدگی سے کریں گے لیکن چند سال کے تجربہ نے ثابت کر دیا کہ معلمین کی اپنی تربیت کا ٹھوس انتظام ہونا ضروری ہے چنانچہ اب با قاعدہ دفتر وقف جدید کی عمارت میں ہی ایک مکتبہ وقف جدید کا جاری کر دیا گیا ہے.جس میں ایک سالہ نصاب مقرر کیا گیا ہے.نصاب میں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ بنیادی دینی علوم کے علاوہ جدید دنیا وی علوم سے بھی معلمین کو ضروری ابتدائی واقفیت ہو جائے.چنانچہ انہیں حساب، جغرافیہ، تاریخ ، سوشیالوجی، اقتصادیات، سیاسیات، زراعت، کیمسٹری اور فزکس کے علوم سے بھی کچھ نہ کچھ واقفیت کروائی جاتی ہے.اسی طرح خانہ داری، کپڑے دھونا، استری کرنا وغیرہ بھی سکھایا جاتا ہے اور مخدوش حالات کے پیش نظر شہری دفاع کی تربیت بھی نصاب میں شامل کر دی گئی ہے.سال ۱۹۶۵ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۸ معلمین نے کامیابی کی سند حاصل کی 66 اور اب جماعتوں میں نہایت عمدگی سے خدمت دین بجالا رہے ہیں.“ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی بیش قیمت ہدایات معلمین کے لئے ۲۰ جنوری ۱۹۲۶ء کو وقف جدید کی طرف سے معلمین کی پہلی باقاعدہ کلاس کے اختتام پر ایک الوداعی تقریب منعقد کی گئی جس سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا اور معلمین کو مندرجہ ذیل بیش قیمت ہدایات دیں.
تاریخ احمدیت متوجہ کریں.فرض ہے.56 جلد ۲۰ ۱.معلمین خدمت دین کے ساتھ ساتھ لوگوں کو شہریت کے حقوق وفرائض کی طرف بھی ۲ - وطن کی طرف سے ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں ادا کرنا ہمارا مذہبی کوشش کی جائے کہ آئندہ سال ڈیڑھ سال میں جماعت کا ہر بچہ قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کے قابل ہو جائے.۴- جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو ہم کوئی دینی یا دنیاوی کام نہیں کر سکتے.اس لئے ہمیں ہر وقت دعا میں لگا رہنا چاہئے.تحر یک وقف جدید شاعر احمدیت کی نظر میں تحریک وقف جدید اپنی خدمات اور تحریک کارناموں کی بدولت جماعت احمدیہ کے ہر طبقہ میں بڑی تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کر رہی تھی اور نہ صرف نثر بلکہ شعر وسخن کی زبان میں اسے خراج تحسین ادا کیا جارہا تھا چنانچہ فروری ۱۹۶۶ء میں سلسلہ احمدیہ کے بلند پایہ شاعر جناب عبدالمنان صاحب ناہید نے حسب ذیل الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا :- رواں رہے یہ تیرا کاروانِ وقف جدید ں نے کی تھی بیاں داستانِ وقف جدید ہوئے ملائکہ بھی نغمہ خوانِ وقف جدید مجھے پیام ملا ہے کہ میرزا طاہر یہ چاہتے ہیں کروں میں بیانِ وقف جدید دل و دماغ کی کم مائیگی پہ نادم ہوں کہاں میں اور کہاں ارمغانِ وقف جدید مجھے یہ تاب کہاں ہے کہ ڈھونڈ کر لاؤں وہ نغمہ جو کہ ہے شایانِ شان وقف جدید کبھی جو مامن تحریک قادیان ہوا تو آج ربوہ ہے دارالامان وقف جدید وہی کہ جس نے لگایا تھا گلشن ”تحریک“ وہ باغباں ہی تو تھا باغبانِ وقف جدید وطن کے کھیت ہوں سیراب اس کے پانی سے چلی ہے ان میں بھی جوئے روانِ وقف جدید قدم قدم پر بنائے نئے جہاں ہم نے انہی جہانوں میں ہے اک جہانِ وقف جدید اس ارضِ پاک کے دیہات کو مبارک ہو نئی زمیں نیا آسمان وقف جدید دلوں میں جذبہ خدمت لبوں پہ پیار کے گیت یہی ہے دولت وارفتگان وقف جدید سپاہ مہدی معہود میں ہوا شامل متاع زیست لئے ہر جوان وقف جدید
تاریخ احمدیت 57 جلد ۲۰ خدا کی پاک کتاب اسوہ رسول خدا فقط یہی تو ہے تیغ و سنان وقف جدید حضور مصلح موعود سے میاں طاہر ! ترے سپرد ہوئی بھی فتح و ظفر کی کلید حاصل ہے رواں رہے یہ تیرا کاروانِ وقف جدید ہے عنانِ وقف جدید
تاریخ احمدیت فصل ہفتم 58 جلد ۲۰ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب معلمین کی شاندار خدمات ۱۹۶۶ء میں ناظم ارشاد نے معلمین وقف جدید کی سال ۱۹۶۶ء کی دینی وتربیتی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا : - معلم کا کام صرف تعلیم و تربیت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ طالبانِ حق تک احمدیت کا پیغام پہنچانا اور جماعت احمدیہ کے متعلق پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا بھی اس کے اہم فرائض میں داخل ہے.اسے اپنے مرکز کے علاوہ ماحول کے پانچ میل کے دائرہ میں واقع تمام دیہات میں بھی یہ فریضہ ادا کرنا ہوتا ہے.علاوہ ازیں اس دائرہ کے اندر اگر کچھ اور احمدی جماعتیں اور افراد آباد ہوں تو ان کی تربیت و اصلاح کے لئے حسب توفیق کوشاں رہنا بھی معلم کے فرائض میں داخل ہے.اس پہلو سے دیکھا جائے تو گو وقف جدید کے مراکز تو اس وقت صرف ۷۰ ہیں لیکن معلمین کا کام کم و بیش ۱۵۶۶ دیہات تک ممتد ہے.اور ان دیہات میں ۲۸۱۷ افرادان سے احمدیت کے متعلق معلومات حاصل کر رہے ہیں.چنانچہ اس گفت وشنید کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۷۲۹ احباب کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی ہے.فالحمد للہ علی ذالک.اس سلسلہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ معلم صرف خود ہی اصلاح وارشاد کا کام نہیں کرتا بلکہ اپنے مرکز اور ارد گرد کے پانچ میل کے دائرہ کے اندر رہنے والے احمدی احباب کو بھی اصلاح وارشاد کے کام کی علمی اور عملی تربیت دیتا ہے جو فی ذاتہ ایک نہایت اور محنت طلب کام ہے.سالِ رواں میں معلمین سے اصلاح و ارشاد کی تربیت حاصل کرنے والے افراد کی تعداد ۱۲۹۷ رہی ہے.امید ہے کہ سال بہ سال اس تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا.اور انشاء اللہ تعالیٰ چند سال کے اندر زیر تربیت دیہاتی جماعتوں کے
تاریخ احمدیت 59 59 جلد ۲۰ بالغ افراد کا ایک معتد بہ حصہ عملاً اصلاح و ارشاد کا کام شروع کر چکا ہوگا.وباللہ التوفیق ۴۷ ناظم مال کا تقرر وقف جدید کی آسمانی تحریک کا دائرہ عمل روز بروز وسیع سے وسیع تر ہورہا تھا اس لئے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس کے مالی امور کی ۴۸ نگہداشت ، ترقی اور استحکام کے لئے ۱۹۶۶ ء میں اس کے لئے ناظم مال کی منظوری عطا فرمائی اور اسی عہدہ کے لئے چوہدری عبدالسلام صاحب اختر ایم اے کو مقرر فرمایا.آپ نے ۱۹۴۵ء میں زندگی وقف کی تھی اور مختلف اوقات میں آپ کو نائب ناظر تعلیم اور پرنسپل تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کی حیثیت سے جماعتی خدمات بجالانے کا شرف حاصل تھا.ناظم مال وقف جدید کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد آپ نے پوری توجہ اور انہماک سے وقف جدید کی مالیات کو مستحکم کرنے میں وقف کر دی.دفتر اطفال وقف جدید کا آغاز ۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء سے دفتر اطفال وقف جدید کا آغاز ہوا جبکہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے احمدی بچوں سے اپیل فرمائی کہ وہ اس آسمانی اور بابرکت تحریک میں پورے جوش وخروش سے حصہ لیں.حضور نے فرمایا:- اس وقت حضرت مصلح موعود کو یہ نظر آرہا تھا کہ ضرورت..اس بات کی ہے کہ ہر جماعت میں کم از کم ایک معلم ضرور بٹھا دیا جائے لیکن چونکہ حضور ایک لمبا عرصہ علیل رہے اور اس عرصہ میں جماعت حضور کے خطبات سے محروم رہی اور چونکہ جب تک بار بار جگایا نہ جاتا رہے انسان عادتاً کمزوری کی طرف مائل ہو جاتا ہے اس لئے وقف جدید کی اہمیت اور افادیت آہستہ آہستہ جماعت کے افراد کی نظروں سے اوجھل ہوتی چلی گئی اور اس تحریک کا وہ نتیجہ نہ نکلا جو میرے نزدیک نو سالوں میں نکلنا چاہئے تھا اور اس کی ذمہ داری ساری جماعت پر بحیثیت جماعت عائد ہوتی پس پہلی بات تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ واقفین اس تحریک میں شمولیت کے لئے اپنا نام پیش کریں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت اس طرف توجہ دے تو ہر سال پہلے سال کی نسبت دگنی تعداد میں واقف آسکتے ہیں.پھر ہمیں کم از کم دو سوا دو لاکھ روپے کی ضرورت ہوگی.اور اس ہے.
تاریخ احمدیت 60 جلد ۲۰ قدر رقم ہمیں ملنی چاہئے تا وہ عظیم اور نہایت ہی ضروری اور مفید کام جو وقف جدید کے سپرد کیا گیا ہے کما حقہ پورا کیا جا سکے.اس کے لئے ایک تو یہ ہونا چاہئے کہ جو دوست اس تحریک میں حصہ لے رہے ہیں وہ اپنے وعدوں پر دوبارہ غور کریں اور جماعت کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں اضافہ کریں اور پھر دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.تیسرے میں آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسول کے بچو! اٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پر کردو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہو گئی ہے.اے احمدیت کے عزیز بچو! اٹھو اور اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑ جاؤ اور ان سے کہو کہ ہمیں مفت میں ثواب مل رہا ہے آپ نہمیں اس سے کیوں محروم کر رہے ہیں.آپ ایک اٹھنی ماہوار ہمیں دیں کہ ہم اس فوج میں شامل ہو جائیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور قربانی و ایثار اور فدائیت اور صدق وصفا کے ذریعے ( دین حق ) کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گی.تم اپنی زندگی میں ثواب لوٹتے رہے ہو اور ہم بچے اس سے محروم رہے ہیں.آج ثواب حاصل.کرنے کا ایک دروازہ ہمارے لئے کھولا گیا ہے.ہمیں چند پیسے دو کہ ہم اس دروازہ میں سے داخل ہو کر ثواب حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کی فوج کے ننھے منے سپاہی بن جائیں.آمین.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا کرے.۵۰ 66 حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کی اس آواز پر احمدی بچوں نے گرمجوشی سے لبیک کہا او وقف جدید کی مالی قربانیوں میں پورے اخلاص و فدائیت سے حصہ لینا شروع کر دیا.
تاریخ احمدیت 61 جلد ۲۰ ۱۹۷۷ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے اطفال، ناصرات اور کم عمر بچگان کو دفتر اطفال وقف جدید کے لئے معاونین خصوصی بنانے کی تجویز ہوئی جس میں شمولیت کے لئے کم از کم ۲۵ روپے یا ۵۰ روپے یا ۱۰۰ روپے یا ان سے زائد سالانہ ادا ئیگی کی شرط رکھی گئی اس تجویز کو اول نمبر پر عملی جامہ پہنانے کا شرف مجلس خدام الاحمد یہ لا ہور کو حاصل ہوا جس نے ایک ہفتہ کے اندر اندر ۱۶۵ اطفال ، ناصرات اور کم عمر بچگان سے مبلغ ۱۸۲۲۷ روپے کی رقم خطیر وصول کر کے اپنے محبوب آقا کے حضور پیش کر کے ایک قابل تقلید مثال قائم کی جس کے بعد کراچی ، ربوہ ، فیصل آباد اور دوسری احمدی جماعتوں کے بچوں میں بھی مسابقت کی زبر دست روح پیدا ہو گئی اور ننھے معاونین خصوصی کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا گیا.جیسا کہ وقف جدید کے ۱۹۷۸ء اور بعد کے میزانیہ سے ثابت ہے.میزانیہ وقف جدید ۸۱-۱۹۸۰ء کے مطابق ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۹ ء تک کے چندہ دفتر اطفال کا گوشوارہ یہ ہے.۱۹۶۶ء ۳،۳۶۵ ۵۱ ۱۹۶۷ء ۱۷،۵۳۱ ۱۹۶۹ء ۲۲،۳۶۵ ۱۹۷۰ء ۲۴،۱۸۶ ١٩٦٨ء ١٩،٣٧٧ ۱۹۷۱ء ۲۱،۶۱۳ ۱۹۷۲ء ۲۲،۱۱۳ ۱۹۷۳ء ۲۴،۷۹۴ ۱۹۷۵ء ۳۶،۲۵۶ ۱۹۷۶ء ۵۶،۲۵۸ ۱۹۷۴ء ۳۲۲۴۵ ۱۹۷۷ء ۹۰۷، ۱،۶۳ 1.17.22A 8192A ۱۹۷۹ ء ۵۲۱،۲۳،۲۰۰ ١٩٨٠ء ۵۳۱،۲۵،۵۰۳ ہندوؤں کے علاقہ میں تبلیغی مراکز کا ذکر مجلس مشاورت ۱۹۶۷ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد نے مجلس مشاورت ۱۹۶۷ء میں بتایا کہ : - عام علاقوں میں جہاں خدا کے فضل سے احمدی جماعتیں قائم ہیں و, وہاں وقف جدید کو قیامِ مرکز کے سلسلہ میں بہت کم خرچ کرنا پڑتا ہے.بلکہ اکثر اوقات تو کرنا ہی نہیں پڑتا.کیونکہ لوگ گھر پیش کر دیتے ہیں.لیکن بعض اوقات خرچ کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے قیامِ مراکز کی ایک مد ہے اس میں پانچ ہزار روپیہ سالانہ کی گنجائش رکھی گئی ہے.لیکن وہاں حالات مختلف ہیں.ہندوؤں کا نیا علاقہ ہے اس میں جہاں بھی ہم نے مرکز قائم کیا ہے وہاں وقف جدید کو اپنی جائیداد بنانی پڑی ہے مکان خود بنوانا پڑا ہے اور حالات ایسے ہیں کہ بہت زیادہ مزدوری اٹھتی ہے اور سامان بھی باہر سے منگوانا پڑتا
تاریخ احمدیت 62 جلد ۲۰ ہے اس لئے سادہ ترین مکان اور بیت الذکر کے لئے اور وہاں کے بعض زائد اخراجات کے لئے یہ رقم منظور کی گئی ہے وہاں فی الحال پانچ نئے مراکز کھولنے کی تجویز کی گئی ہے اور فی مرکز پانچ ہزار روپے اخراجات کا اندازہ لگایا گیا ہے.اس علاقہ میں ہمارے ایک احمدی نو مسلم معلم مکرم نثار احمد صاحب راٹھور بطور انچارج مشنری کام کر رہے ہیں ویسے اس علاقہ میں اس وقت تین معلم ہیں.مکرم نثار احمد صاحب راٹھور لکھتے ہیں کہ : - ان دنوں یہاں کام اچھا چل رہا ہے.لوگ احمدیت و ( دین حق ) میں داخل ہورہے ہیں.سات بیعتیں آج ارسال خدمت کر رہا ہوں.ہمیں چھپیں بیعتیں اور بھی ہیں جو پھول پورہ سے میں بھجوا ؤں گا.اس طرح سے بیعتوں کا سلسلہ گوٹھوں سے شروع ہے.رشید احمد ( چتر بھیج ) کی گوٹھ کو ہلی ویری سے بھی دو تین گھر احمدی ہوئے ہیں.گوٹھ کو ہلی ویری کے ارد گرد کافی چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں اس لئے کوہلی ویری میں بھی ایک معلم کا رہنا ضروری ہے پھول پورہ میں بھی اکیلا معلم نا کافی ہے.کیونکہ مریض وغیرہ باہر سے کثرت سے آتے ہیں اس لئے ایک معلم تو ان میں مصروف رہتا ہے.اور گاؤں والوں کی تربیت بھی کرنی ہوتی ہے.اس لئے وہ معلم پھول پورہ چھوڑ کر باہر نزدیکی گاؤں جن میں احمدی ہوئے ہیں نہیں جاسکتا.اس لئے پھول پورہ میں دو معلموں کی ضرورت ہے.ایک مقامی طور پر رہے اور ایک پانچ میل کے حلقہ میں مختلف گوٹھوں میں جائے اور رات کو واپس سنٹر میں آئے.“ حالانکہ کافی لوگ اس علاقہ کے سندھ چلے گئے ہیں لیکن احمدی ہونے کے لئے پھر بھی کافی موجود ہیں اور یدخلون في دين الله افواجا کی روچل رہی ہے رکی نہیں.“ پھر ایک خط میں لکھتے ہیں :- وو پچھلے دنوں جو چند شرانگیز لوگوں نے طوفانِ بدتمیزی بپا کیا تھا اور ہماری مخالفت چھڑ گئی تھی اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ نے بہت ہی اچھا نکالا کہ ان ہی
تاریخ احمدیت 63 جلد ۲۰ کے گاؤں میں ہماری جماعت قائم ہو گئی ہے اور دو تین گھر احمدی ہو گئے ہیں.ازاں سوا اور بھی ترقی ہوئی ہے اور یہاں شہر کے لوگوں کا اور بھی ہمارے ساتھ رابطہ قائم ہو گیا ہے.اور آج کل بہت ہی اچھا ماحول ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ مخالفت کی شدت کے بعد پھر ابر باراں برسنے لگا ہے اور لوگ کھینچے چلے آ رہے ہیں.“ اور بھی ان کی رپورٹیں آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہاں کام کرنے کے لئے کم از کم دیہات میں اپنے مراکز قائم کرنے پڑیں گے.رو تو اتنی تیز ہے کہ اگر چاہیں تو جلد ہی ہزار بیعتیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں لیکن ہم نے حکمتاً یہ مناسب سمجھا ہے کہ ان کی خواہش کی شدت بڑھتی رہے لیکن ہم انہیں اس حد تک قبول کریں جس حد تک ہم ان کی تربیت کر سکتے ہیں.بہت زیادہ تیزی کے ساتھ داخلہ کو ابھی ہم ڈسکریج (DISCOURAGE) کررہے ہیں.جب ہم وہاں ( انشاء اللہ ) اپنے پاؤں جمالیں گے اور پانچ نئے مراکز قائم ہو جائیں گے تو انشاء اللہ یہ رفتار پھیلنے کی اور بھی بڑھ سکتی ہے.ایک اطلاع کے مطابق وہاں کے بڑے بڑے لوگ اب مل کر میٹنگیں کر رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ساری کی ساری قوم ہی ( دینِ حق ) میں داخل ہو جائے.اور احمدیت کا فیض پائے.معلمین کے نام ایک اور خصوصی سرکلر ۳۰ ستمبر ۱۹۶۷ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد کے قلم سے معلمین وقف جدید کے نام حسب ذیل سرکلر بھیجا گیا.بسم الله الرحمن الرحيم ۳۱۲۹/۳۰/۹/۶۷ ۵۴ نحمده و نصلى على رسوله الكريم دفتر وقف جدید انجمن احمدیہ پاکستان ربوه مکرم محمد عقیل صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ ’ وقف جدید کو آپ کی ضرورت ہے“ آپ کو معلوم ہے کہ علاقہ نگر پارکر میں اچھوت قوم کے لوگ مسلمان ہورہے ہیں.وقف جدید کو ان لوگوں میں ( دینِ حق ) پھیلانے کے لئے ایسے مخلص اور فدائی معلمین کی ضرورت
تاریخ احمدیت 64 جلد ۲۰ ہے جو وہاں کام کریں اور جن میں مندرجہ ذیل خواص خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر پیدا کئے گئے ہوں :- ا.اس کی خدمات سلسلہ میں للہیت اعلیٰ معیار کے ساتھ قائم ہو.۲ - وہ جسمانی لحاظ سے بھی اچھی صحت کا مالک ہو..اس میں صبر اور شکر کا مادہ نمایاں طور پر موجود ہو.۴.وہاں کی جغرافیائی اور موسمی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرسکتا ہو اور ان تکالیف اور مصیبتوں سے گھبرا کر حرف شکایت زبان پر نہ لانے والا ہو.۵- و ہ محنت اور کوشش سے کام کرنے کا عادی ہو.۶.وہ علمی لحاظ سے اس قدر سُدھ بدھ ضرور رکھتا ہو کہ وہاں کے نومسلموں کو صحیح اسلام سکھا سکے.ے.اس میں غیبت وغیرہ کی عادات ہرگز نہ ہوں اور وہ مرنجاں مرنج آدمی ہو..اس میں ہمدردی اور محبت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا کہ وہ اپنے ہمدردانہ رویہ سے نومسلموں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ سکے اور اس طرح ان کی ( دینِ حق ) سے وابستگی کا باعث بنے.۹.وہ سلسلہ کے کاموں سے بے پناہ محبت رکھتا ہو گویا کہ وہ ان کا موں کو اپنا کام خیال کرتا ہو اور کبھی بھی بے محل یا بے تعلق لوگوں میں حرف شکایت زبان پر نہ لانے والا ہو.اگر آپ میں یہ خواص پائے جاتے ہیں تو وقف جدید کو آپ کی سخت ضرورت ہے اس لئے آپ فوری طور پر اپنے وہاں کام کرنے کے ارادہ سے مطلع فرمائیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.والسلام.خاکسار مرزا طاہر احمد.ناظم ارشاد وقف جدید انجمن احمد یہ.ربوہ نوٹ : - اگر کوئی جائز شکایت ہو تو اس کے ازالہ کے لئے ناظم ارشاد کو تحریر کریں اور اگر وہ اس کا ازالہ نہ کر سکے تو ناظم ارشاد کی معرفت حضرت مصلح موعود....کی خدمت میں عرض کر سکتے ہیں.بعض مخلصین جماعت کی خصوصی قربانی کا تذکرہ ۷۸-۱۹۷۷ء میں وقف جدید غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے مندرجہ ذیل مخلصین جماعت نے خصوصی چندہ دیا: - کے زیر انتظام قیام مراکز اور
تاریخ احمدیت 65 جلد ۲۰ برائے قیام مراکز ( ۱ - چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سابق صدر عالمی عدالت ہیگ ۲ - حکیم عبدالحمید صاحب قریشی گوجرانوالہ - ۳- حسن آراء منیر صاحبہ بیگم میجر منیر احمد شہید مرحوم لاہور -۴- قریشی مسعود احمد صاحب کراچی - ۵ - شیخ عبد اللطیف خاں صاحب اسلام آباد - مد غیر مسلموں میں تبلیغ ) ۱.جنرل عبد العلی ملک صاحب ریٹائر ڈ (اسلام آباد ) -۲- مبارک احمد صاحب ہاشمی (اسلام آباد ) ۳- داؤ د احمد صاحب و بشارت احمد صاحب (اسلام آباد) - میاں عبد الرحیم صاحب پراچہ (اسلام آباد) سندھ کے حلقہ نگر پارکر کا چارج حلقہ نگر پارکر (سندھ) کے نئے انچارج حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد کی ہدایت پر ۱۹۸۲ ء کے آغاز میں حکیم محمد عقیل صاحب معلم وقف جدید کو سونپا گیا.اسی سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرف سے ۲۱ جنوری ۱۹۸۲ء کو حسب ذیل مکتوب بھیجوایا گیا.نحمده و نصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم وو تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے“ نمبر ۲۵۹ تاریخ ۲۱/۱/۸۲ از دفتر ناظم ارشاد وقف جدید انجمن احمد یہ پاکستان.ربوہ مکرم حکیم محمد عقیل صاحب معلم وقف جدید السلام عليكم و رحمة الله و بركاته امید ہے آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہوں گے.آپ کا تبادلہ نگر پارکر میں کیا جاتا ہے.آپ وہاں پہنچ کر احسان الہی صاحب سے پورا چارج لے لیں.اور تازہ دم سپاہی کی حیثیت سے پہلے سے بڑھ کر جذبہ سے محنت اور خلوص سے کام کریں.اور علاقہ میں روحانی انقلاب بر پا کرنے کے لئے تاریخی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ کی نیک مساعی میں برکت ڈالے.اور اپنے حضور سے احسن بدلہ عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.جلد پہنچ کر دفتر کو رپورٹ ارسال کریں.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد ناظم ارشاد
تاریخ احمدیت فصل ہشتم 99 66 جلد ۲۰ اگست ۱۹۸۰ء میں وقف جدید کا مرکزی نظم و نسق اگست ۱۹۸۰ء میں تحریک وقف جدید کے مرکزی نظم ونسق کا نقشہ صوفی خدا بخش صاحب عبد زیر وی کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے :- ڈائریکٹرز : - ۱- محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ.فیصل آباد صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ربوہ - محترم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب ربوہ - محترم مولانا فضل الہی صاحب انور کی ربوہ -۵- محترم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب (ریٹائرڈ) ربوہ - محترم شیخ مظفر احمد صاحب ظفر ایڈووکیٹ لاہور محترم راجہ غالب احمد صاحب گلبرگ لاہور یہ گویا وقف جدید کی مجلس عاملہ تھی جو مجلس وقف جدید کہلاتی تھی.دفتری نظام ۱- دفتر ارشاد ناظم وقف جدید ممبر // افسر اعلیٰ : ناظم ارشاد ( حضرت صاحبزادہ ) مرزا طاہر احمد (صاحب) عملہ سینئر کلرک : ۱- ( ملک مسعود احمد صاحب خالد ایم اے) کلرک : ۳ ( انچارج دفتر چوہدری محمد ابراہیم صاحب بھا مڑی) : انسپکٹر : مددگار کار کن: 1 دفتر مال (بالغان) افسر اعلیٰ : ناظم مال: ( حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) اطفال : انچارج نائب ناظم مال: (صوفی ) خدا بخش عبد زیر وی بی اے ایچ پی
تاریخ احمدیت 67 جلد ۲۰ عملہ ہر دو حصہ دفتر سینئر کلرک : ۱ ( عبدالرحیم صاحب راٹھور بی اے ) کلرک: ۳ انسپکٹران : ۵ مددگار کارکن : ۱ دفتر دیوان افسر اعلیٰ : ناظم دیوان : ( حضرت صاحبزادہ) مرزا طاہر احمد صاحب انچارج : حکیم ضیاء الرحمن صاحب بی اے عملہ: مالی چوکیدار : ۱ خاکروب : ا دفتر اکا ؤنٹنٹ اکا ؤنٹنٹ : حکیم ضیاء الرحمن صاحب بی اے عملہ : آڈیٹر : ا ( پارٹ ٹائم ) ۵۷ ۱۹۵۸ء سے ۱۹۷۹ ء تک کا گوشواره آمد و خرچ خدا تعالیٰ نے وقف جدید کو کس طرح اپنی برکات سے نوازا اس کا اندازہ کرنے کے لئے ذیل میں ۱۹۵۸ء سے ۱۹۷۹ء تک کے ۲۳ ساله گوشواره آمد و خرچ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا کافی ہے.سال سلموں میزان آمد میزان خرچ کیفیت چنده دفتر چندہ دفتر عطیہ برائے غیر بالغان اطفال مراکز میں تبلیغ ۶۳۶۲۳ ۶۱ ،۹۱۹ ۲،۲۰۰ ۵۹،۷۱۹ ۱۹۵۸ء 1 ۶۳۴۲۶ ۵۹،۵۱۸ - ۹،۲۲۱ - ۷۶،۹۳۰ ۸۱،۷۳۶ - ۱۱۹۹۰ ۱۹۵۹ء ۵۰،۲۹۷ ١٩٦٠ء | ۶۹،۷۴۶ ۸۹،۳۰۴ ۸۹،۶۰۲ - ۶،۵۸۱ - ۸۳،۰۲۱ ۹۲،۸۷۰ ۸۶،۳۵۴ - ۶۱۰۱ - ۸۹،۶۷۶ 94.002 ۷،۸۶۳ - ۸۹،۱۴۴ ۴ ۱۹۶۱ء ۱۹۶۲ء | ۸۰،۲۵۳ ٦ ١٩٦٣ء ۱۰۱،۴۱۳ ۱،۰۹،۷۹۰ - ۶،۸۴۹ ۱۹۶۴ء ۱،۰۲،۹۴۱ ۱۱۷ ، ۴۹۷۱،۲۴ ،۳۲۴ - - ۱،۱۵،۴۱۸ ۱۹۶۵ء Δ
68 80 تاریخ احمدیت ٩ ١٩٦٦ ء ۱،۳۸،۱۴۶ | ۳،۳۶۵ ۹،۱۶۸ ١٠ ١٩٦٧ ء ۷۴۴ ۱،۶۳ | ۱۷،۵۳۱ ۶،۳۰۶ 11 V2615 ۱۲ ۱۹۶۹ء ۸،۴۸۶ ۱۹،۳۷۷ ،۶۲،۷۷۷ ۶۰۸۴۷ ۱۲۲،۳۶۵ ۱،۶۲،۰۹۱ ۱۳ ۱۹۷۰ ء | ۱،۴۹،۶۶۱ | ۲۴،۱۸۶ | ۲۱،۴۲۷ | خصوصی عطایا ۱۱،۰۴۸ ۱۴ ۱۹۷۱ ء ۱،۵۶،۰۸۰ | ۲۱،۶۱۳ | ۱۳٬۸۶۵| ۱۵ ۱۹۷۲ء ۱،۸۱،۰۱۰ ۱،۴۸،۷۱۲ ۱،۵۰،۶۷۹ ۱،۸۷،۵۸۱ | ۱،۸۷ ،۵۸۱ ۱،۸۸،۶۲۱ ۱،۹۰،۶۴۰ - ۱،۹۹،۵۰۷ ۱۹۱،۳۰۳ ۲،۱۶،۰۳۳ | ۱،۹۵ ،۲۷۴ ۱۱،۰۴۸ ۱،۸۱،۳۴۵ ۱۹۱،۵۵۸ ۱۱۰۷۶،۵۷۸ | ۲۰۱۷ ،۵۷۸ ۲،۴۴ ،۷۴۹ ۲،۳،۶۷۰ ۲۹۹،۲۸۱ ۳،۰۳۷۸ ۱۳،۳۵،۹۵۲ ۱۳،۴۰،۶۸۷ ۴۱۷ ،۲۳۸۴ ،۲۲،۹۵۹ - - - - - - ۱۴،۴۵۵ ۲۲،۱۱۳ ۱۱۵،۶۸۸۱۲۴،۷۹۴ | ۱۲،۲۳،۱۸۸ ۱۹۷۳ ۱۶ جلد ۲۰ * اصل آمد ۲۷۴، ۹۵ ، ابھی زائد خرچ ۷۵۹، ۲۰ میں ۷۱۱ ۹ کو ریز رو فنڈ وقف جدید سے اور بقیہ ۱۱،۰۴۸ کو چندہ وقف جدید کے خصوصی عطایا کے ذریعہ پورا کیا گیا.۱۷ ۱۹۷۴ء ۲،۵۸،۶۶۳ | ۱۲۷۷۰۳۲،۲۴۵ پیر ۱۸ ۱۹۷۵ ء ۲۰۸۹،۲۱۰ | ۳۶،۲۵۶ ۱۵،۲۲۱ ۱۹ ۱۹۷۶ء ۳،۵۱،۲۶۵ ۱۱۵،۴۳۶۱۵۶،۲۵۸۱ ۲۰ ۱۹۷۷ء ۳۹۹،۰۸۸ ۱،۶۳٬۹۰۷ ۱۷،۸۱۸ - ۵،۸۰،۸۱۳ الا،۵،۰۱ ۲۱ ۱۹۷۸ ء ۴،۵۰،۰۱۰ ۱۹۷۷۸، ۸۰۸۴۹ | ۲۵،۸۵۷ ۶،۰۱،۴۹۴ ۱۵،۶۷،۶۶۴ ۲۲ ۱۹۷۹ء ۵،۲۴۶۴۸ ۱،۲۳،۲۰۰ | ۱۱،۴۸۴ | ۲۱،۳۰۸ ۷۹،۶۴۰ ۶ ۱ ۴،۷۶،۲۰۳ ۲۳ ۷،۳۷ ،۲۷۳ ۳۲،۱۳۱ ۱۰۷۹۵ ۱۱،۲۵،۵۰۳ | ۵،۶۸۰۸۴۴ ۲۷۳، ۵۰۰۷ خرچ نوماه ۱۰/جون ۱۹۸۲ء خلافت رابعہ کے بابرکت عہد کا آغاز اور نئے ناظم ارشاد کا تقرر کو خلافت رابعہ کا انقلاب آفریں اور بابرکت دور شروع ہوا.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے مولوی اللہ بخش صاحب صادق سابق معتمد خدام الاحمدیہ مرکز یہ و مجاہد ہالینڈ کو ناظم ارشاد مقرر فرمایا.۶۰ وقف جدید کے عظیم کارنامے خلیفہ وقت کی زبان مبارک سے بین المسح العراق خلیفة ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ ۱۹۸۲ء کے موقع پر ۲۷ / دسمبر کو سال بھر جماعت احمدیہ پر نازل
تاریخ احمدیت 69 جلد ۲۰ ہونے والے الہی افضال و انعامات پر روشنی ڈالتے ہوئے وقف جدید کے عظیم الشان کارناموں کا وجد آفریں انداز میں تذکرہ کیا چنانچہ ارشاد فرمایا : - جیسا کہ ہر سال ہوتا چلا آرہا ہے امسال بھی وقف جدید نے نمایاں اضافہ کے ساتھ 9 لاکھ تر اسی ہزار روپے کا بجٹ پیش کیا ہے.جہاں تک معلمین وقف جدید کا تعلق ہے وہ بڑی قربانی اور ہمت کے ساتھ کام کر رہے ہیں.معلم کو بہت معمولی وظیفہ ملتا ہے.بعض دفعہ انہیں بڑے سخت حالات در پیش ہوتے ہیں.بعض اوقات ان کے لئے بیک وقت عزت نفس کو قائم رکھنا اور معمول کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.مثلاً ان کے گھر والے کہیں اور رہتے ہیں اور وہ خود کہیں اور.اب یہ ناممکن ہے کہ تھوڑے سے روپے میں جو ان کو ملتا ہے، اس کو تقسیم کر کے وہ دونوں زندہ رہ سکیں.اس کے باوجود معلمین یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور جماعت پر ان کا انحصار نہ ہو.کیونکہ گزشتہ تجربہ بتا تا ہے کہ اگر گاؤں کی روٹیوں پر پلنے والا کوئی ملاں بن جائے تو اس میں تربیت کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اس لئے ان کو بعض اوقات ان حالات میں بڑی مشکل سے گزارہ کرنا پڑتا ہے.ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ بعض دفعہ معلمین مجبور ہوکر جماعت کے اخلاص کے نتیجہ میں اس کی خدمت کو قبول کر لیتے ہیں لیکن دو چار ماہ بعد انہوں نے جماعت سے کہا کہ اب ہم سے یہ چیز برداشت نہیں ہو سکتی.آپ اس قصے کو بند کریں.جیسے بھی ہو ہم گزارہ کرتے رہیں گے...66 وقف جدید اور ہندوؤں میں تبلیغ اس سلسلے میں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوؤں میں جو تبلیغ ہو رہی ہے وہ اللہ کے فضل سے بہت خوش کن نتائج پیدا کر رہی ہے.اس کے علاوہ خیراتی ہو میو پیتھی ادارہ بھی ہے.پھر اپنی توفیق کے مطابق سندھی، پشتو وغیرہ میں چھوٹے چھوٹے رسائل بھی شائع کرتے ہیں.لیکن وقف جدید کی اصل خدمت ہندوؤں میں تبلیغ کرنا ہے.جن کو پاکستان میں پہلے کلیۂ نظر انداز کیا گیا تھا.میرے خیال میں پاکستان بننے کے بعد کی جماعت کی تاریخ میں پہلا پھل جو ہندوؤں میں سے ملا ہے وہ وقف جدید کو ملا ہے اور اب تو یہ کیفیت ہے کہ ہر سال ہزار، گیارہ سو ہند و شرک سے تو بہ کر کے
تاریخ احمدیت توحید میں داخل ہورہے ہیں (نعرے) 70 10 جلد ۲۰ لطف کی بات یہ ہے کہ بعض پہلوؤں سے ہندوؤں کا معیار بہت بلند ہے.جب شروع میں ہم نے ہندو علاقے میں کام کا آغاز کیا تو ہمارے سامنے ایک بڑی دقت یہ تھی کہ عیسائی مناد اور عیسائی پادری وغیرہ وہاں بے شمار خرچ کر رہے تھے.ان دنوں باہر سے جو امداد آتی تھی وہ امریکہ خاص طور پر پادریوں کے ذریعہ تقسیم کرواتا تھا.میں اس وقت وقف جدید میں تھا.چنانچہ مجھ پر بہت دباؤ ڈالا گیا کہ ہمیں بھی کوئی امدادی سکیم چلانی پڑے گی.ورنہ ہم ناکام ہو جائیں گے.مجھے اس علاقے کا دورہ کرنے کا بھی موقع ملا.میں نے معلمین کو بھی اور دوسرے دوستوں کو بھی سمجھایا کہ یہ ایک گری پڑی قوم ہے جس کی عزت نفس کو صدیوں سے کچلا جارہا ہے.ہم تو ان کو اعلیٰ انسان بنانے آئے ہیں.اس سے ادنیٰ درجے پر پہنچانے کے لئے نہیں آئے.جس پر یہ اس وقت قائم ہیں.اس ساری تذلیل اور انتہائی بدسلوک کے باوجود اس قوم میں بعض خوبیاں پائی جاتی ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لین دین کے معاملے میں صاف ستھرے ہیں اور دوسری یہ کہ یہ بھیک نہیں مانگتے.محنت کر کے کماتے ہیں.میں نے کہا یہ ایک قدر اور خوبی جسے زمانے نے نہیں کچلا، تم مجھے مشورہ دیتے ہو کہ اس کو بھی کچل دیا جائے.ہرگز ایسا نہیں ہوگا.( دینِ حق ) شرف انسانیت کو قائم کرنے کے لئے آیا ہے شرف انسانیت کو مٹانے کے لئے نہیں آیا.میں نے ان سے کہا کہ تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو.نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں روپے کی امداد ان ہندوؤں کو عیسائی بنانے میں ناکام ہو گئی.اور ہم ساتھ جو چندہ بھی مانگتے تھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کامیاب ہو گئے اور آج وہاں ۱۴۳ ایسے گاؤں ہیں جہاں خدا کے فضل سے دین حق نافذ ہو چکا ہے.(نعرے) ایک نو مسلم احمدی کے اخلاص اور ایمان کا واقعہ بھی آپ کو سنا دوں.جب ۱۹۶۵ء کی جنگ ہوئی تو وقتی طور پر جس طرح جنگ کے دوران فوجیں کسی بارڈر پر آگے بڑھ جاتی ہیں اور کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں.اسی طرح پاکستان کے اس بارڈر میں جہاں نو مسلم احمدی زیادہ ہور ہے تھے، وہاں ایک حصے میں ہندوستانی فوج آگے بڑھ رہی تھی.ہندوستانی فوجیوں نے بعض نومسلموں کو پکڑا اور زدوکوب کیا اور بہت دباؤ ڈالا کہ کسی طرح وہ ارتداد اختیار کر جائیں یعنی شدھ ہو جائیں.ان میں سے ایک نو مسلم کو چار پائی پر باندھ دیا گیا اور پتے اکٹھے کر کے اس کے نیچے آگ لگادی گئی اور اس سے کہا کہ اگر آج تم نے اسلام سے تو بہ نہ کی تو جل کر یہیں خاک ہو جاؤ گے.اس نے بڑے اطمینان سے کہا کہ ہاں میں جل کر خاک ہو جاؤں گا لیکن اس مذہب
تاریخ احمدیت 71 جلد ۲۰ میں واپس نہیں جاؤں گا جس سے نکل کر میں اسلام میں داخل ہوا تھا.اس نومسلم احمدی کی اس بات میں ایسا عزم تھا کہ بھارتی فوجی افسر نے اپنے فیصلے کو بدل دیا اور کہا کہ اس آگ کو یہاں سے ہٹا دو.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام ظاہری شان میں بھی پورا ہوا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.( تذکرہ طبع سوم صفحہ ۳۹۷) یہ آگ اس دن مسیح موعود علیہ السلام کے غلاموں کی غلام بنائی گئی تھی.جب میں نے یہ واقعہ سنا تو مجھے ایک ہندی دوہا یاد آ گیا.دوہوں میں بعض سبق سکھائے جاتے ہیں.بعض بڑے پیارے دو ہے ہوتے ہیں.دو ہا یہ کہتا ہے کہ کسی درخت پر ایک پرندہ بیٹھا تھا تو کسی نے اس درخت کو آگ لگا دی اور وہ جلنے لگا.دوسرے پرندے نے اس سے کہا کہ آگ پھیل رہی ہے اور تم بھی جلنے کو ہو.اب وقت ہے کہ یہاں سے نکل جاؤ تو اس پرندے نے جواب دیا کہ اس درخت کی شاخوں پر میں نے بسیرا کیا اس کے پھل سے میں نے غذا حاصل کی.اس نے مجھے سایہ بھی پہنچایا اور گرمی اور سردی سے بھی بچایا.میرا دھرم یہی ہے کہ اب میں اس کے ساتھ جل جاؤں.دراصل یہ نو مسلم بھی یہی دوہا پڑھ رہا تھا کہ اسلام نے مجھے عزت عطا کی.اسلام نے مجھے شرف انسانیت سے آگاہ کیا.زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچایا.اس.سے اٹھا کر آسمان تک پہنچایا.اس لئے اگر تم اس اسلام کو جلانا چاہتے ہو تو میرا دھرم یہی ہے کہ میں اسلام کے ساتھ جل جاؤں.جلالو اگر تم جلانا چاہتے ہو.(نعرے) ۶۱ تحریک وقف جدید کی طرف سے ۱۹۵۷ء سے ۱۹۸۲ء تک جو وقف جدید کا بلند پایہ لٹریچر بلند پایہ لٹریچر شائع ہوا اس کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے.اردو ۱ - شہادات فریدی (مولوی عبدالمنان صاحب شاہد مربی سلسلہ احمدیہ ) نومبر ۱۹۶۱ء ۲ - کفارہ کے متعلق پانچ سوال.۳.بائبل کے الہامی ہونے کے بارہ میں پچاس سوال ( ملک فضل حسین صاحب مہاجر ) ۴- مذہب کے نام پر خون ( حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) دسمبر ۱۹۶۲ء ۵ - تحریف بائبل اور مسیحی علماء حصہ اول ( ملک فضل حسین صاحب مہاجر ) نومبر ۱۹۶۳ء ۶ - مولوی مودودی صاحب کے رسالہ ختم نبوت پر علمی تبصرہ (مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لا نکپوری ) ۷- ہماری تعلیم ( حضرت مسیح موعود ( ۸ - اسلامی اصول کی فلاسفی ( حضرت مسیح موعود )
تاریخ احمدیت 72 جلد ۲۰ ۹ - حضرت مسیح موعود کے کارنامے ( حضرت مصلح موعود ( ۱۰ - دعوت الا میر کا باب متعلق صداقت حضرت مسیح موعود ( حضرت مصلح موعود ( ۱۱- ابن مریم کا انجام ( حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ) ۱۲- دو مسئلے ( الحاج حافظ مولوی عزیز الرحمن صاحب فاضل منگلا مربی سلسلہ احمدیہ ) ۱۳ - نماز با ترجمه ۱۴- حديقة الصالحين ( ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ ) ۱۵ - احمدیت کا پیغام ( حضرت مصلح موعود ) ۱۶ - مودودی شہ پارے ( دوست محمد شاہد صاحب ) ۱۷ - وقف جدید انجمن احمد یہ ایک مختصر جائزہ ( صاحبزادہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید انجمن احمد یہ ربوہ ۱۸ - وقف جدید کی سالانہ رپورٹ برائے سال ۱۹۶۶ء (حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) ۱۹ - وقف جدید کی عظیم الشان تحریک اور اس کا نصب العین نظامت مال وقف جدید انجمن احمد یہ ربوہ ) ۲۰ - نصاب برائے آنریری معلمین ( خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری) ۲۱ - خلافت کا منصب اور مقاصد ( وقف جدید انجمن احمدیہ ربوه) ۲۲ - وصال ابن مریم (حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) ۲۳- اسلام کا اقتصادی نظام ( حضرت مصلح موعود ( ۲۴ - اسلام میں اختلافات کا آغاز ( حضرت مصلح موعود ) -۲۵ سیرت حضرت مسیح موعود ۲۶ - مودودی اسلام ( حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) ۲۷ - نصاب معلمین درجہ دوم -۲۸ - آیت خاتم النبیین کا مفہوم ۲۹ - آیت خاتم النبیین اور جماعت احمدیہ کا مسلک ۳۰ - وقف جدید ایک کامیاب الہی تحریک ( حضرت مرزا طاہر احمد صاحب) سندھی: وو ۱- احمدیت کا پیغام ( حضرت مصلح موعود ) ۲- تبلیغ ہدایت (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) - کرشن قادیانی ۴- ہماری تعلیم ( حضرت مسیح موعود ) ۵- پیغام احمدیت ( حضرت مصلح موعود ) ۶ - نماز مترجم ۷- دعوت الامیر کا باب متعلقہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( حضرت مصلح موعود ) - نشکلنک اوتار ( مورانی شار احمد سابق نانک رام راٹھور ) ۹ - ہمارا عقیده ۱۰- پگوان کرشن جواوتار (مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل مربی سلسله مرحوم مترجم مورانی شار احمد راٹھور ) 11- نماز مترجم ۱۲ - سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب ( حضرت مسیح موعود ) ۱۳- اھو سا گیو اسانجو کرشن ( حضرت مصلح موعود )
تاریخ احمدیت 73 جلد ۲۰ پشتو: ا.یاد رکھنے کی باتیں ۲ - الحجۃ البالغہ (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) ۳- کامیابی کی را ہیں ۴.ہماری تعلیم ( حضرت مسیح موعود ) ۵- احمدیت کا پیغام ( حضرت مصلح موعود ) بنگالی : 1- تبلیغ حق (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۲- تیسنی امارا کرشن ۳- حکم درشن ۴ - عیسائیوں سے اپیل ۵ - مولوی مودودی صاحب کے رسالہ ختم نبوت پر علمی تبصرہ ( مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری ۶ - احمدیت مشرقی پاکستان میں (مولوی محمد صاحب امیر جماعت احمد یہ ڈھاکہ ( ۷- احمدیت کی صداقت کے نشانات - مذہب کے نام پر خون (حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) انگریزی : ا اسلامی اصول کی فلاسفی ۲ - اسلام کا اقتصادی نظام خلافت رابعہ کے مبارک عہد میں کس طرح وقف جدید ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئی اور ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۵ء سے ایک عالمی تحریک کی حیثیت سے دنیا بھر میں نا قابل فراموش خدمات بجالا رہی ہے اس کی ایمان افروز تفصیل خلافت رابعہ کی تاریخ میں آ رہی ہے.
تاریخ احمدیت 74 حواشی جلد ۲۰ -1 لد -2 -^ و.-1° -11 - ۱۲ ۱۳ -10 -10 -19 -12 -19 ۲۰ - ۲۱ اشتہار ۴ مارچ ۱۸۸۹ء ( مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اصفحہ ۱۹۸ ( ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ مارچ ۱۹۷۱ء) اشتہار ۲۶ رمئی ۱۸۹۲ء مشموله نشان آسمانی مطبوعه ریاض هند پریس امرتسر بار اول صفحه ۴۰.ایضاً مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیه السلام جلد اصفحه ۳۲۳ البدر قادیان ۱۳ / فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۹ کالم۳ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ۴ صفحه ۴۱۱ الفضل یکم اگست ۱۹۵۷ء صفحه ۴ ، ۵ روز نامه الفضل ربوه ۱۶ رفروری ۱۹۵۸ء صفحه ۳ الفضل ۷ جنوری ۱۹۵۸ ، صفحه ۱-۸ الفضل ۱۵؍جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۱ الفضل ۱۱؍ جنوری ۱۹۵۸ ، صفحہ ۴۰۳ روز نامه الفضل ربوه ۱۶ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۴،۳ روز نامه الفضل ربوه ۲۲ جنوری ۱۹۵۸ ، صفحه ۳ ( خطبه فرموده ۱۷ جنوری ۱۹۵۸ء) الفضل ۱۰ راپریل ۱۹۵۸ء صفحه ۲ ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ امسیح ٹریکٹ وقف جدید کی عظیم الشان تحریک اور اس کا نصب العین، صفحہ 11 السابقون الاولون کی فہرست کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۲ جنوری ، ۱۴ / جنوری ۲۳/جنوری، ۳۱ /جنوری ۱۹۵۸ء الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۸-۵، ۱۲،۱۱،۸ / فروری ، ۲۳ فروری ۴،۶۱۹۵۸ / مارچ ، ۸/ مارچ ۱۳؍ مارچ ( چندہ جماعت احمدیہ کراچی) الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۱ ٹریکٹ وقف جدید کی عظیم الشان تحریک اور اس کا نصب العین، صفحه اانا شر وقف جدید انجمن احمد یہ ربوہ الفضل ۴ /جنوری ۱۹۸۴ء صفحه ا رسالہ انصار اللہ ربوہ نومبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۳۸، ۳۹، الفضل ۱۶ار جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ( اعلان منجانب مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب ) انصار اللہ ربوہ نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ۳۸، ۳۹ رسالہ انصار اللہ ربوہ نومبر ۱۹۶۴ء صفحه ۳۹ ( مضمون سید منیر احمد صاحب باہری ناظم ارشاد) ۲۲ - الفضل ۲ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ا ۲۳ - الفضل ۹ ۱۰ راپریل ،۳ رمئی اور ۲۶ ستمبر ۱۹۵۸ء - ۲۴ ریکارڈ دفتر وقف جدید مرتبہ صوفی خدا بخش صاحب عبد ز میروی الفضل ۱۰۰۹ را پریل ۳ رمئی ، ۲۶ ستمبر ۱۹۵۸ء ۲۶ - الفضل ۳۱ / جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۶ - الفضل ۱۵ فروری ۱۹۵۸ء ( رپورٹ جلسہ لاہور ) الفضل ۲۲ فروری ۱۹۵۸ء (رپورٹ واہ کینٹ، بہوڑ و چک نمبر ۸ ضلع شیخو پورہ) الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۸، صفحه ۳ ۴۰ ۲۸- رسالہ ”الفرقان ربوہ.درویش نمبر.اگست ستمبر اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۱۴۵ ۲۹- ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری -۳۰ الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۵۹ء صفحه ۵
تاریخ احمدیت -۳۱ الفضل ۱۷ رفروری ۱۹۶۰ء صفحه ۴ ۳۲ - الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحها ۳۳ - الفضل ۱۳ / دسمبر ۱۹۶۰ء ۳۴- ضمیمہ الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۶۱ء 75 جلد ۲۰ ۳۵- وقف جدید کی سالانہ رپورٹ برائے سال ۱۹۶۶ء ( مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید -۳۷ انجمن احمد یہ ربوہ ) الفضل ۳ جنوری ۱۹۶۳ء صفحه ۱-۸ الفضل ۲۳ / اپریل ۱۹۶۴ء صفحه ۱ - ۸ -- اصل بجٹ ڈیڑھ لاکھ تھا لیکن سب کمیٹی نے ہیں ہزار روپے کا اضافہ کر کے اس کی منظوری کی سفارش کی تھی ( رپورٹ صفحہ ۹۹) مقصد یہ تھا کہ حضرت مصلح موعود کی منشاء مبارک کے مطابق کم از کم سو معلمین سے ابتداء کی جاسکے.۳۹- وقف جدید انجمن احمدیہ صفحہ ۱ - ۱۶ ( از حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید انجمن احمدیہ ) ۴۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۴ءصفحہ ۹۹٬۹۸ -M وقف جدید کے شائع کردہ لٹریچر کی تفصیل باب کے آخر میں دی گئی ہے.۴۲ - الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۴ء ۴۳ - خصوصی معاونین وقف صف اول کے اسماء گرامی کے لئے ملاحظہ ہو میزانیہ وقف جدید ۷۸-۱۹۷۷ء صفحه ۱۵ میزانیہ وقف جدید ۱۹۷۸-۷۹ء صفحہ ۱۷ ۴۴- رسالہ ” خالد اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۱۶ ( مضمون حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) -۴۵ مفصل تقرير الفضل ۶ / مارچ ۱۹۶۶، صفحہ ۴۲ میں چھپ چکی ہے اور اس تقریب کی متعدد تصاویر رسالہ خالد اپریل ۱۹۶۶ء میں - شائع شدہ ہیں.الفضل ۱۰ر فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۵ ۴۷- وقف جدید کی سالانہ رپورٹ برائے سال ۱۹۶۶ء صفحه ۱۲-۱۳ ( مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید انجمن احمد یہ ربوہ ) ۴۸ - رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ء صفحہ ۲۳۲ میں اس کی ضرورت کا ذکر ہے.۴۹ - الفضل ۲۱ جون ۱۹۷۵ ء صفحه ۸ ( تاریخ وفات ۲۰ جون ۱۹۷۵ء ) ۵۰ الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحه ۴ - ۵ -۵۱ میزانیہ وقف جدید ۷۸-۱۹۷۷ء صفحہب.میزانیہ صفحہ ۳۱ پر لاہور کے اولین ننھے معاونین خصوصی کی مفصل فہرست درج ہے.۵۲ - صفحه میزانیه صفحه ۳۰ ۵۳ میزانیہ وقف جدید ۸۲-۱۹۸۱ء صفحہ ۷ -۵۴ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۷، صفحه ۲۲۰، ۲۲۱ ۵۵ میزانیہ وقف جدید ۷۷ - ۱۹۷۸ء صفحه ۴۴ میزانیہ وقف جدید ۸۰-۱۹۷۹ء صفحه ۲۶ ۵۶ - میزانیہ وقف جدید ۸۰-۱۹۷۹ ء صفحہ ۲۷ ۵۷- ریکارڈ دفتر وقف جدید مرتبہ صوفی خدا بخش صاحب زیروی ۵۸ میزانیہ وقف جدید انجمن احمد یہ بابت ۶۰ - ۱۳۵۹ھ - ۸۱-۱۹۸۰ء صفحہ نمبر ۳۰ نا شر وقف جدید انجمن احمدیہ پاکستان.ربوہ ۵۹- میزانیہ وقف جدید انجمن احمد یہ بابت ۶۱ - ۱۳۶۰ھ.۸۲-۱۹۸۱ء صفحه ۳۰ ناشر وقف جدید انجمن احمدیہ پاکستان.ربوہ ۶۰ - الفضل ۱۶ جون ۱۹۸۲ء صفحه ا -71 الفضل ۲۲ مئی ۱۹۸۳ء صفحه ۲ ،۳
تاریخ احمدیت 76 جلد ۲۰ دوسرا باب سید نا حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے صد سالہ جوبلی منانے کی تحریک سے لے کر ۱۹۵۸ء کے متفرق مگر اہم واقعات تک فصل اوّل صد سالہ جوبلی منانے کی تحریک ۱۰ جنوری ۱۹۵۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے جماعت احمدیہ کو صد سالہ جوبلی منانے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا : - وو چند دنوں کی بات ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اترنے والی ہے.اب یہ ناممکن بات ہے کہ زیادہ عرصہ تک آسمان اپنی مدد کو روکے رکھے.کوئی ۲۵، ۲۶ سال تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دشمنوں کی گالیاں سنیں ان سے پتھر کھائے.اینٹیں کھا ئیں.ماریں کھائیں لیکن تبلیغ جاری رکھی اس کے بعد قریباً پچاس سال تک یہ کام ہم نے کیا یہ سارا زمانہ مل کر ۷۵ سال کا ہو جاتا ہے آخر اللہ تعالیٰ ایسا تو نہیں کہ ۷۵ سال تک ایک قوم کو گالیاں دلوائے ، ماریں کھلائے ، پتھر مروائے اور پھر چپ کر کے بیٹھا رہے.اب میں سمجھتا ہوں بلکہ مجھے یقین ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آسمان سے اترے گی.“ " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۸۲ء میں دعوی کیا اور ۱۹۰۸ء میں آپ فوت ہوئے.یہ ۲۶ سال کا عرصہ ہو گیا.۲۶ سال کے بعد پھر پچاس سال اب تک کے ملائے جائیں تو ۶ ۷ سال بن جاتے ہیں اور اگر ہم یہ عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش سے لیں تو ۱۸۳۵ء میں آپ پیدا ہوئے اور ۱۹۳۵ء میں آپ پر سو سال ہو گئے.ہمارا فرض تھا کہ 66
تاریخ احمدیت 77 جلد ۲۰ ۱۹۳۵ء میں ہم ایک بہت بڑی جوبلی مناتے لیکن ہماری جماعت نے ۱۹۳۹ء میں خلافت کی جو بلی تو منائی لیکن ۱۹۳۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صد سالہ جو بلی بھول گئی.اب بھی وقت ہے کہ جماعت اس طرف توجہ کرے.۱۰۰ سال کی جو بلی بڑی جو بلی ہوتی ہے.جب جماعت کو وہ دن دیکھنے کا موقع ملے تو اس کا فرض ہے کہ وہ یہ جو بلی منائے اب تک انہوں نے ۷۶ سال کا عرصہ دیکھا ہے اور ۲۴ سال کے بعد سو سال کا زمانہ پورا ہو جائے گا اس وقت جماعت کا فرض ہوگا کہ ایک عظیم الشان جو بلی منائے اس سوسال کے عرصہ میں سارے پاکستان کو خواہ وہ مغربی ہو یا مشرقی ہم نے احمدی بنانا ہے اس کے بعد جو لوگ زندہ رہیں گے وہ انشاء اللہ وہ دن بھی دیکھ لیں گے جب ساری دنیا میں احمدی ہی احمدی ہوں گے.66 سید نا حضرت مصلح موعود کا سفر سندھ سید نا حضرت لمصلح موعود اس سال کے آغاز میں ایک ماہ کے لئے سندھ تشریف لے گئے.حضور ۱۷ رفروری ۱۹۵۸ء کو صبح دس بجے بذریعہ چناب ایکسپریس روانہ ہوئے.اس سفر میں حضرت سیده ام متین صاحبہ صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (معه سیده آصفہ بیگم صاحبہ ) صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب، صاحبزادی امۃ الجمیل صاحبہ، صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ اور سید محمود احمد صاحب ناصر کو حضور کے ہمرکاب ہونے کا شرف حاصل ہوا.خدام میں سے میاں غلام محمد صاحب اختر ناظر اعلی ثانی شیخ مبارک احمد صاحب پرائیویٹ سیکرٹری ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب، ڈاکٹر محمد احمد صاحب، منشی فتح دین صاحب بھی شامل قافلہ تھے.کل قافلہ چھیالیس افراد پر مشتمل تھا.حضور کی مشایعت کے لئے ربوہ کے ہزاروں مخلص احباب اسٹیشن پر پہنچ گئے اور جب گاڑی حرکت میں آئی تو سب نے دلی خلوص اور دعاؤں کے ساتھ حضور کو الوداع کہا.لائکپور (فیصل آباد ) گوجرہ ، شورکوٹ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، عبدالحکیم ، خانیوال اور ملتان کے اسٹیشنوں پر بھی سینکڑوں عشاق خلافت اپنے محبوب و مقدس آقا کے استقبال کے لئے موجود تھے.احمدی مستورات کی بھی خاصی تعداد تھی.گوجرہ ، خانیوال اور ملتان میں جماعتوں کی درخواست پر حضور نے اجتماعی دعا کرائی.اگلے روز ۱۸ / فروری دس بجے صبح کے قریب گاڑی کراچی چھاؤنی پہنچی.جماعت کراچی نے اپنے امیر چوہدری عبداللہ خاں صاحب اور نائب امیر شیخ رحمت اللہ صاحب کی قیادت میں حضرت مصلح موعود کا نہایت پر جوش استقبال کیا.حضور اپنی
تاریخ احمدیت 78 جلد ۲۰ 66 کوٹھی ” بیت الفضل واقع ہاؤسنگ سوسائٹی میں قیام فرما ہوئے.یہ نئی کوٹھی میجر شمیم احمد صاحب کی زیر نگرانی تیار ہوئی تھی اور بہت دلکش تھی.نام کراچی میں حضور کا قیام ۱۸ / فروری سے لے کر ۳ / مارچ تک رہا اس دوران قیام کراچی احباب کراچی نے اپنی گزشتہ روایات کے مطابق نہایت اخلاص وعقیدت کے ساتھ اپنے محبوب آقا اور دیگر اہل قافلہ کی خدمت کی.حضور نے اپنی کوٹھی میں جمعہ کے دو پر معارف خطبات ارشاد فرمائے جن میں قرآنی فرمان فبهداهم اقتده (الانعام:۹۱) پرلطیف روشنی ڈالتے ہوئے احباب جماعت کو اپنی زندگیاں وقف کرنے اور مالی قربانی دینے کی طرف توجہ دلائی.۲۰ فروری کو پونے پانچ بجے شام حضور نے اپنے دست مبارک سے حلقہ مارٹن روڈ میں مجلس خدام الاحمدیہ کی ایک پبلک لائبریری اور ڈسپنسری کا سنگ بنیاد رکھا.رات کو حضور کی کوٹھی پر مصلح موعود کی مبارک تقریب پر چراغاں کیا گیا.۲۱ فروری کو حضور نے مجلس عاملہ جماعت احمدیہ کراچی کی ایک دعوت میں شرکت یوم فرمائی.Y ۲۳ فروری کو آپ نماز ظہر وعصر کے بعد مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے اور بعض دوستوں کے سوالوں کے جوابات مرحمت فرمائے.۲۸ فروری کو حضور نے جماعت احمدیہ کراچی کے کارکنان مال کے ایک خصوصی اجلاس میں شرکت فرمائی.یکم مارچ کو حضور انصار اللہ کراچی کے اجلاس میں تشریف فرما رہے.٢ / مارچ کو حضور نے کراچی کے جملہ احباب جماعت کو شرف مصافحہ بخشا.1.سندھ کی مصروفیات ۳ / مارچ ۱۹۵۸ء کی شب کو امام ہمام معہ قافلہ کے کراچی سے بذریعہ پسنجر ٹرین سندھ کے لئے روانہ ہوئے.کراچی کے کئی مخلصین حیدر آباد تک آئے.اور چوہدری احمد مختار صاحب اور شیخ فیض قادر صاحب تو اپنی کاروں میں بشیر آباد تک تشریف لائے.حیدر آباد اسٹیشن پر مقامی احمد یوں، احمد یہ اسٹیٹس کے مینیجر صاحبان اور ڈاکٹر احمد دین صاحب ڈویژنل امیر نے استقبال کیا.جماعت حیدرآباد نے ناشتہ پیش کیا.حیدر آباد سے حضور معہ افراد بیت کاروں کے ذریعہ بشیر آباد تشریف لے گئے.کاروں کا انتظام سید عبدالرزاق شاہ صاحب نے کیا تھا.
تاریخ احمدیت 79 جلد ۲۰ سندھ میں بھی حضور قریباً دو ہفتے قیام فرمار ہے اور ۷ مارچ کو ناصرآباد میں اور ۱۴ / مارچ کو محمد آباد میں خطبہ جمعہ دیا اور سلسلہ کی زمینوں پر مختلف خدمات بجالانے والے افراد کو اپنے فرائض پوری توجہ اور محنت کے ساتھ ادا کرنے اور زیادہ سے زیادہ آمد پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی تا یورپ میں دین کی اشاعت ہو اور زیادہ سے زیادہ بیوت الذکر تعمیر کی جاسکیں.حضور بشیر آباد، مبارک آباد، ناصر آباد، میر پور خاص، محمودآباد، طاہر آباد، خلیل آباد کنری، احمد آباد اسٹیٹ، محمد آباد اسٹیٹ میں بھی تشریف لے گئے اور کارکنوں کو قیمتی ہدایات سے نوازا.اار مارچ کو حضور نے کریم نگر کی ایک گوٹھ کا نام سرور آباد اور محمد آباد کی ایک گوٹھ کا نام اسمعیل آباد تجویز فرمایا اور بشیر آباد کی گوٹھ تبلیغ پورہ کا نام بدل کر منور آباد رکھا.۱۷ مارچ کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا مکرم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب نے پیش کیا.۱۲ واپسی اسی روز حضور کنجیجی سے بذریعہ ٹرین واپس عازم ربوہ ہوئے مخلصین جماعت اس موقعہ پر بھاری تعداد میں موجود تھے جنہوں نے نعرہ ہائے تکبیر کے ساتھ حضور کو الوداع کہا.میر پور خاص میں ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی نے جملہ افراد قافلہ کو ناشتہ اور کھانا پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.قیام سندھ کے دوران ڈاکٹر صاحب نے اپنی کار بھی حضور کے استعمال کے لئے دی رکھی تھی.حیدرآباد اسٹیشن پر چوہدری عبداللہ خاں صاحب نیز جماعت احمدیہ کے کراچی سے ڈاکٹر عبدالحمید صاحب اور کوثر صاحب دیگر کئی اور دوست موجود تھے جنہوں نے کمپارٹمنٹ ریز رو کرانے میں خوب معاونت کی.خدام الاحمدیہ کراچی نے بھی اس موقعہ پر مخلصانہ خدمات سرانجام دیں.اس سلسلہ میں سید حضرت اللہ پاشا صاحب کی زیر قیادت حیدر آباد کے خدام نے رات کے وقت حضور کا پہرہ دیا.پاشا صاحب موصوف معہ چند خدام کے بغرض استقبال میر پور خاص پہنچے ہوئے تھے.اسی طرح حاجی عبدالرحمن رئیس باندھی پہلے نواب شاہ سے کراچی تک بغرض حفاظت ساتھ گئے پھر واپسی پر حیدرآباد سے روہڑی تک شرف رفاقت حاصل کیا.علاوہ ازیں ڈاکٹر احمد دین صاحب امیر حیدر آباد ڈویژن ، حضرت صوفی محمد رفیع صاحب امیر خیر پور ڈویژن اور چوہدری خورشید احمد صاحب امیر بہاولپور ڈویژن اپنے اپنے حلقہ میں حضور کے ہمسفر رہے.مختلف اسٹیشنوں پر احباب جماعت کا جم غفیر حضور کے استقبال کے لئے موجود تھا.نصیر احمد خاں صاحب خانپور اور جماعت احمدیہ ملتان کی طرف سے اہل قافلہ کی خدمت میں کھانا اور جماعت احمدیہ گوجرہ کی طرف سے ناشتہ پیش کیا گیا.گاڑی اگلے دن ۱۸ / مارچ کو سات بجے شام ربوہ اسٹیشن پر پہنچی جہاں اہل ربوہ نے
تاریخ احمدیت 80 حضور انور کا والہانہ استقبال کیا.اس طرح یہ مبارک سفر بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.جلد ۲۰ ربوہ اتنی برق رفتاری سے ربوہ میں نامور برطانوی اور روسی سائنسدانوں کی آمد عالمی دانشوروں کی توجہ کا مرکز بن رہا تھا کہ اپنے اور بیگانے حیرت زدہ ہو گئے.چنانچہ ابھی اس مقدس بستی نے اپنی زندگی کے دسویں سال میں ہی قدم رکھا تھا کہ اس میں عالمی شہرت کے ممتاز سائنسدانوں کی آمد شروع ہو گئی.چنانچہ ۱۲ اور ۱۶ مارچ ۱۹۵۸ء کو پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب ایم ایس سی کے ہمراہ بعض چوٹی کے برطانوی اور روسی سائنسدان تعلیم الاسلام کا لج یونین کی دعوت پر لاہور سے ربوہ آئے اور یہاں کالج یونین کے زیر اہتمام مختلف سائنسی موضوعات پر نہایت قیمتی لیکچر دئیے.جو سائنسی اعتبار سے سامعین کے لئے بہت ازدیاد علم کا موجب ہوئے.مختلف اوقات میں ربوہ آنے والے سائنسدانوں میں سے سائنسی ترقی کی برطانوی ایسوسی ایشن کے خزانچی مسٹر ایم جی بینٹ (MR.M.G.BENNETT) اور نامور روسی سائنسدان مسٹر لیونڈ سیڈوف (MR.LEONID SEDOV) کے اسماء خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں.مسٹر سیڈ وف کو فضا میں پہلا کامیاب مصنوعی سیارہ چھوڑنے کا امتیاز حاصل تھا.وہ اس سائنسی کمیشن کے صدر تھے.جس کا کام خلاء میں پرواز کے متعلق مختلف نوعیت کی ریسرچ اور تحقیقات میں رابطہ پیدا کرنا ہے.روس کا یہ سائنسی ادارہ THE COMMISION ON COORDINATION OF RESEARCH ON COSMIC FLIGHTS کے نام سے موسوم تھا.علاوہ ازیں وہ خلاء میں پرواز کی بین الاقوامی فیڈ ریشن کے نائب صدر بھی تھے.ان کے ہمراہ روس کے ایک اور نامور سائنسدان پروفیسر نکیتان (PROF.NIKITAN) بھی تھے جو سائنسی علوم کی روسی اکیڈمی کے رکن اور حرارت سے تعلق رکھنے والی طبیعاتی لیبارٹریز کے چیئر مین تھے.مسٹر سیڈوف نے اس موقعہ پر تعلیم الاسلام کالج کو تحفہ کے طور پر ڈاک کے بعض وہ یادگاری ٹکٹ بھی دیئے جو پہلا کامیاب سیارہ فضا میں چھوڑنے کی خوشی میں روس میں جاری کئے گئے تھے.سائنسی علوم کی تفہیم برطانوی سائنسدان مسٹر ایم جی بینٹ (MR.M.G.BENNETT) ۱۲ مارچ ۱۹۵۸ء کو لاہور سے ربوہ تشریف لائے.آپ نے کالج کیمسٹری تھیڑ میں ”سائنسی علوم کی تفہیم“ کے موضوع پر لیکچر دیا.جس میں آپ نے فی زمانہ سائنسی علوم سے واقفیت حاصل کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سائنسی علوم اور ان کی
تاریخ احمدیت 81 جلد ۲۰ روز افزوں ترقی کا سوسائٹی اور معاشرہ پر براہِ راست اثر پڑتا ہے اور اس اثر کا حلقہ رفتہ رفتہ اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ دنیا کا کوئی حصہ اور کوئی عالمی مسئلہ اس کے اثر سے آزاد نہیں ہے.اندریں حالات فی زمانہ سائنسی علوم کو سمجھنا اور ان کے اثرات سے پوری واقفیت حاصل کرنا از بس ضروری ہے.اس اجلاس کی صدارت کے فرائض مکرم پر وفیسر نصیر احمد خان صاحب نے ادا کئے.روسی سائنسدان مسٹر سیڈوف اور پروفیسر نکیتان ۱۶ مارچ ۱۹۵۸ء کو ربوہ تشریف لائے.یہاں پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد مسٹر سیڈوف نے کالج یونین کے سیکرٹری صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کی زیر صدارت ڈیڑھ بجے بعد دوپہر کالج ہال میں مصنوعی سیاروں اور کاسمک پرواز کے موضوع پر لیکچر دیا.جس میں آپ نے ان مشکلات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جو خلاء کے اندر انسانوں کی پرواز کو ممکن بنانے کی راہ میں حائل ہیں اور جن پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے.دوران تقریر میں آپ نے بتایا کہ اب تک تیز سے تز رفتار والا جو ہوائی جہاز بنایا گیا ہے اس کی رفتار اعشاریہ ایک کلومیٹر فی سیکنڈ ہے.یعنی قریباً ایک سوگز فی سیکنڈ.اس کے بالمقابل وہ راکٹ جو مصنوعی سیارے کو خلاء میں پہنچاتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دس ہزار گز فی سیکنڈ کی رفتار سے پرواز کرے.یعنی اس کے واسطے تیز سے تیز رفتار ہوائی جہاز کی انتہائی رفتار سے سو گنا زیادہ رفتار درکار ہوتی ہے پھر اس رفتار کا بہر طور مسلسل اور یکساں ہونا ضروری ہے.اگر کسی خرابی کی وجہ سے اس رفتار میں دس گز فی سیکنڈ کی کمی یا بیشی ہو جائے تو مصنوعی سیارہ اپنے مقررہ مدار پر قائم نہیں رہ سکتا.تقریر جاری رکھتے ہوئے مسٹر سیڈوف نے کہا.رفتار کی اس سرعت اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات میں انسان کا خلاء میں زندہ رہنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں کششِ نقل کا اثر زائل ہو جاتا ہے.بالفاظ دیگر اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی جسم میں وزن باقی نہیں رہتا.اب چونکہ انسانی حیات کشش ثقل کی عادی ہے اس لئے اس کشش اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات کے یکسر مفقود ہو جانے کے باعث وہ برقرار نہیں رہ سکتی.سائنسدانوں کی کوشش یہ ہے کہ وہاں انسان کو مصنوعی وزن دے کر اس مشکل پر قابو پایا جائے.ان کا خیال ہے کہ ROTATORY MOTION کا عمل وارد کر کے مصنوعی وزن کی کیفیت پیدا کی جاسکتی ہے.اگر اس میں کامیابی حاصل ہو جائے تو پھر انسان کا خلاء میں پرواز کرنا ممکن ہوسکتا ہے.یہ پر از معلومات تقریر قریباً پون گھنٹے تک جاری رہی جس کے بعد سوالات کا بھی موقعہ دیا گیا آپ نے طلباء کے متعد د سوالوں کا جواب دے کر مصنوعی سیاروں اور متعلقہ مسائل کے بعض اور پہلوؤں
تاریخ احمدیت کو اجاگر کیا.82 جلد ۲۰ لیکچر کے بعد مسٹر سیڈوف اور پروفیسر نکیتان تین بجے سہ پہر کے قریب بذریعہ موٹر کار لاہور روانہ ہو گئے.فضل عمر ہسپتال ربوہ کی عمارت جس فضل عمر ہسپتال ربوہ کی نئی عمارت کا افتتاح کا سنگ بنیاد حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۰ فروری ۱۹۵۶ء کو رکھا تھا اس سال کے شروع میں پایہ تکمیل کو پہنچی جس کا افتتاح حضور نے ۲۱ مارچ ۱۹۵۸ء کو ساڑھے پانچ بجے شام فرمایا.اس یادگار تقریب میں خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد، رفقاء مسیح موعود ، صدر انجمن احمدیہ کے ناظر ، تحریک جدید کے وکلاء اور دیگر کارکنان سلسلہ کثیر تعداد میں شریک ہوئے.حضور انور ساڑھے پانچ بجے کے قریب محترم ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کی معیت میں قصرِ خلافت سے بذریعہ موٹر کار تشریف لائے.محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، ڈاکٹر بشیر احمد صاحب اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب نے آگے بڑھ کر حضور کا استقبال کیا.تقریب افتتاح کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بزرگ رفیق ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے کی.بعد ازاں حضور نے ایک پرسوز اجتماعی دعا کرائی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ خدمت خلق کے اس عظیم الشان ادارے کی نو تعمیر عمارت کا افتتاح عمل میں آیا.صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے فضل عمر ہسپتال کے احاطہ میں تعمیر ہونے والی بیت الذکر کا سنگ بنیا د رکھنے کے لئے بیت مبارک قادیان کی ایک اینٹ حضور کی خدمت میں پیش کی جس پر حضور نے دعا کی.حضور کے تشریف لے جانے کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سنگ بنیا د رکھا.اس جگہ کو یہ تاریخی اہمیت حاصل ہے کہ ربوہ آباد ہونے سے قبل ۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو جب سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی یہاں تشریف لائے تو حضور نے عین اس جگہ پر پہلی نماز پڑھائی تھی.سے پہلے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے بنیاد میں بیت مبارک قادیان کی وہ اینٹ نصب فرمائی جس پر سیدنا حضرت مصلح موعود نے دعا کی تھی.ازاں بعد حضرت میاں صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے بھی ایک ایک اینٹ رکھی جس کے بعد حضرت میاں صاحب نے اجتماعی دعا کرائی.الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۱ - ۸)
تاریخ احمدیت 86 83 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا سفر حرمین شریفین جلد ۲۰ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۱۹۱۴ء سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے بیتاب تھے.آپ کی یہ آرزو اس سال مارچ میں پوری ہوئی چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل یکم اپریل ۱۹۵۸ء میں تحریر فرمایا کہ : - ا خویم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اپنے خط محرره ۲۳ / مارچ ۱۹۵۸ء کے ذریعے جدہ سے مطلع فرماتے ہیں کہ وہ ۱۷ / مارچ کو بیروت سے بذریعہ ہوائی جہاز جدہ پہنچے اور ۱۸ / مارچ کی صبح کو مکہ مکرمہ حاضر ہوئے اور بفضلہ تعالیٰ عمرہ کی سعادت حاصل کی.رستہ میں مسجد حدیبیہ میں دو نفل ادا کئے اور حرم شریف میں علاوہ مسنون نوافل کے خانہ کعبہ میں اول مقام نبوی پر اور پھر تینوں باقی سمتوں میں کھڑے ہو کر نفل ادا کئے.عصر کے بعد منی ، مزدلفہ اور عرفات گئے.عرفات میں بھی دعائیں کیں.بعد مغرب پھر بیت اللہ کا طواف کیا اور نفل ادا کئے ۱۹ کی صبح کو پھر طواف کیا اور نفل ادا کئے.چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ اس کے بعد جدہ واپس لوٹا.۲۲ کو بعد مغرب پھر طواف کے لئے مکہ مکرمہ گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعاؤں کا موقعہ اور توفیق بفراغت ملتی رہی.( دین حق ) اور احمدیت کے لئے دعا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضور کے خاندان اور حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے خاص طور پر دعا کی توفیق ملی.آج شام (۲۳ / مارچ) کو موٹر پر مدینہ منورہ جانے کا انتظام ہے اور پرسوں دوپہر تک وہاں سے واپسی ہے.۲۶ کی صبح کو پھر طواف کے لئے مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ ہے.اس کے بعد بیروت واپس جانے کا پروگرام ہے اور وہاں سے اسی دن ۳۰ کو دمشق سے روم اور جنیوا ہوتا ہوا انشاء اللہ ۱/۸اپریل تک ہیگ پہنچ جاؤں گا.وباللہ التوفیق.عمرہ اور حج کے لئے اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سہولت میسر ہے.جدہ میں بحری جہازوں کے لئے اب باقاعدہ بندرگارہ ہے.مسافر بندرگاہ میں ہی اترتے ہیں اور بندرگاہ سے ہی سوار ہوتے ہیں.بازار اور
تاریخ احمدیت 84 سڑکیں صاف اور فراخ ہیں.پانی با افراط ہے.جدہ سے مکہ کی سڑک عمدہ ہے.اور ۴۵ میل کا سفر سوا گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے.سڑک پر دن رات آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے.کسی قسم کا خوف اور دقت نہیں.جدہ اور مدینہ کی سڑک سنا ہے بہت اچھی ہے.موٹر کا سفر ۵ گھنٹہ میں طے ہو جاتا ہے.مکہ سے منیٰ اور مزدلفہ اور عرفات تک تین چار چوڑی سڑکیں بن چکی ہیں.پانی کا عمدہ انتظام ہے.حرم شریف کی توسیع کے لئے اردگرد کے مکانات خرید کر گرائے جاچکے ہیں.اور توسیع کا پروگرام زیر تکمیل ہے.صفا اور مردہ کے درمیان سے دوکانیں اٹھادی گئی ہیں اور گاڑیوں اور موٹروں کی آمد ورفت بند کر دی گئی ہے اوپر چھت ڈال دی گئی ہے اور نیچے فرش کرنے کا پروگرام ہے.حرم شریف کے اندر کے حصہ میں سنگ مرمر کا فرش ہو چکا ہے.صرف تھوڑا سا حصہ باقی ہے.توسیع کے سلسلہ میں زمزم کو پیچھے ہٹانے کا فیصلہ ہے.چوہدری صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ میں نے نوافل کے متعلق یہ معمول رکھا ہے کہ حرم شریف میں داخل ہونے پر رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان دو نفل ، پھر طواف کے بعد مقام ابراہیم پر دونفل پھر حطیم اور خانہ کعبہ کے درمیان دو نفل.سب سے زیادہ رقت کے ساتھ دعا کرنے کا موقعہ ملتزم کے مقام پر یعنی بیت اللہ کے دروازہ کے نیچے میسر آتا رہا ہے.فالحمد للہ علیٰ ذالک.۱۱۵ جلد ۲۰ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ازاں بعد الفضل ۲۳ را پریل ۱۹۵۸ء میں تحریر فرمایا کہ : - محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے عمرہ کے حالات ایک گزشتہ اشاعت میں چھپ چکے ہیں.اس کے بعد جو خط محررہ ۱۲ را پریل ۱۹۵۸ء چوہدری صاحب موصوف کی طرف سے ہیگ سے موصول ہوا ہے اس میں زیارت مدینہ کے مندرجہ ذیل کوائف درج ہیں جو دوستوں کی خدمت میں دعا کی تحریک کی غرض سے ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں.چوہدری صاحب موصوف لکھتے ہیں : - پچھلا عریضہ لکھنے کے بعد خاکسار بذریعہ موٹر مدینہ منورہ حاضر
تاریخ احمدیت 85 ہوا.ساڑھے سات بجے شام جدہ سے روانہ ہوکر ایک بجے بعد نصف شب مدینہ منورہ پہنچے.۲۴ / تاریخ کو وہاں ٹھہرے.تین بار مسجد نبوی میں حاضر ہو کر نفل ادا کرنے اور روضہ اطہر پر دعا کرنے کی توفیق نصیب ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک.جنت البقیع میں حاضر ہو کر دعائیں کیں.احد اور مسجد قبلتین اور مسجد قباء میں بھی دعائیں کیں.( دونوں مساجد میں نفل بھی ادا کئے ) ۲۵ کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر راستہ میں بدر کے مقام پر نصف گھنٹہ ٹھہرے اور دعا کی.ساڑھے دس بجے واپس جدہ پہنچے.۲۶ کی صبح کو فجر کے بعد تیسری بار مکہ مکرہ میں حاضر ہوا.اور دوبارہ عمرہ ادا کیا.اس بار صفا اور مروہ کے درمیان ننگے پاؤں سعی کی اور چونکہ اب کی بار بالکل اکیلا تھا اس لئے دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ کی توفیق ملی.فالحمد للہ علی ذالک.“ اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب موصوف کی ان دعاؤں کو جو انہوں نے ( دین حق ) کی ترقی اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی صحت اور درازی عمر اور دیگر امور کے لئے کی ہوں گی قبول فرمائے اور چوہدری صاحب موصوف کو بیش از بیش خدمت دین کی توفیق دے اور اولاد نرینہ سے نوازے.آمین.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ ۱۸ / اپریل ۱۹۵۸ء 17.جلد ۲۰ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۲۶ / مارچ کو زیارت حرمین کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جدہ پہنچے اور اسی روز براستہ بیروت دمشق روانہ ہو گئے.روانگی سے قبل آپ نے جدہ سے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مدیر ” الفرقان“ کے نام حسب ذیل مکتوب لکھا :- وو بسم الله الرحمن الرحيم جده ۲۶ مارچ ۱۹۵۸ء مکرم مولانا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں ۷ ا ر کو یہاں پہنچا تھا.۱۸ ء کو اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے مناسک عمرہ کے ادا کرنے کی توفیق پائی.۱۹ر کو دوسری بار طواف کرنے کے بعد واپس جدہ آیا ( مکہ مکرمہ سے منی ، مزدلفہ
تاریخ احمدیت 86 جلد ۲۰ اور عرفات بھی گیا ).۲۱ ر کو ریاض گیا.۲۲ کو واپس آیا.اسی شام پھر طواف کے لئے گیا اور حرم شریف میں نوافل بھی ادا کئے.۲۳ کو مدینہ شریف گیا اور کل واپس آیا.آج پھر عمرہ ادا کیا.ابھی مکہ مکرمہ سے لوٹا ہوں.پہلے عمرہ کے دوران میں خانہ کعبہ کے اندر بھی نوافل ادا کرنے اور دعائیں کرنے کا موقعہ میسر آیا.فالحمد للہ علی ذالک.اس تمام دوران میں بفضل اللہ ( دینِ حق ) ، سلسلہ حقہ احمدیہ ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مکرم صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام و جمله بزرگان و احباب و عزیزان و متعلقین کے لئے دعاؤں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا با فراغت موقعہ ملا اور توفیق عطا ہوئی.فالحمد للہ.جدہ میں میں مکرمی جناب خواجہ شہاب الدین صاحب سفیر پاکستان کے ہاں ٹھہرا.جہاں ہر طرح سے آسائش نصیب ہوئی.فجزاء اللہ احسن الجزاء.باقی سب مقامات پر اور حجاز اور ریاض کے سفروں میں میں جلالۃ الملک ملک سعود کا مہمان تھا.ان کی طرف سے تمام انتظام نہایت آرام دہ تھا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.آج براسته بیروت دمشق واپس جا رہا ہوں.وہاں سے ۳۰ کو روما جائیں گے.(بشری اس دوران میں دمشق اپنی والدہ کے پاس ٹھہری تھیں ) اور ۱٫۸ پریل کو انشاء اللہ ہیگ پہنچیں گے.وباللہ التوفیق.والسلام خاکسار ظفر اللہ خان.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی معرکہ آراء تالیف تحدیث نعمت میں دیار حبیب کے مبارک سفر کے حالات پر نہایت روح پرور انداز میں روشنی ڈالی ہے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں : - ” میں نے بچپن میں سنا تھا کہ میرے دادا جان چوہدری سکندر خاں صاحب مرحوم نے حج کی سعادت حاصل کی تھی.اس وقت میرے دل میں اس فریضہ کی ادائیگی کا اشتیاق تھا.انگلستان میں تعلیم ختم کرنے کے بعد وطن واپس جاتے ہوئے نومبر ۱۹۱۴ ء میں حج کی سعادت حاصل کرنے کا ارادہ تھا.ٹکٹ جون ۱۹۱۴ء میں ہی خرید لئے گئے تھے.اگست ۱۹۱۴ء میں پہلی عالمی جنگ شروع ہو گئی جس سے یہ پروگرام درہم برہم ہو گیا.۱۹۳۹ء کی گرمیوں میں پھر ارادہ کیا کہ جنوری ۱۹۴۰ء میں اس فریضے کی ادائیگی کی جائے.
تاریخ احمدیت 87 جہازی کمپنی سے پروگرام طے ہو گیا لیکن ستمبر ۱۹۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے یہ پروگرام بھی منسوخ کرنا پڑا.قیامِ پاکستان کے بعد اقوامِ متحدہ کی اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں کے دوران میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عالیجاہ امیر فیصل ( حال جلالة الملک فیصل) کے ساتھ نیازمندی کے روابط پیدا ہونے پر میں نے ان سے حج کے لئے مکہ معظمہ حاضر ہونے کے متعلق مشورہ کیا.انہوں نے فرمایا تم آؤ تو ہم سب انتظام کر دیں گے لیکن حج کے ایام میں موسم اس قدر گرم ہوتا ہے کہ باوجود ہر قسم کی سہولت کے ہم لوگوں کے لئے بھی اس کی برداشت مشکل ہو جاتی ہے.ہمارا مشورہ ہے کہ چند سال انتظار کرو جب تک حج کے ایام میں موسم کسی قدر اعتدال پر آجائے.۱۹۵۸ء میں عدالت کا اجلاس شروع فروری کی بجائے اوائل اپریل میں منعقد ہونا تھا.میں نے ارادہ کیا کہ اس تاخیر سے فائدہ اٹھا کر میں عمرے کا پروگرام بناؤں.ممکن ہے اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے حج کی توفیق بھی عطا فرمائے اور اس فرض کی ادائیگی کے لئے مناسب سہولت بھی میسر فرما دے.ان ایام میں خواجہ شہاب الدین صاحب جدے میں پاکستانی سفیر تھے میں نے ان کی خدمت میں اپنے ارادے کی اطلاع کر دی.ان دنوں کراچی سے کوئی پرواز براہِ راست جدے نہیں جاتی تھی.کراچی سے جدے جانے کے لئے دہران یا بیروت سے ہوکر جانا پڑتا تھا.مجھے مشورہ دیا گیا کہ بیروت سے جانے میں سہولت رہے گی.چنانچہ میں ۱۷ / مارچ ۱۹۵۸ء کو جدہ پہنچ گیا.خواجہ شہاب الدین صاحب کمال شفقت سے مطار پر تشریف لائے ہوئے تھے.مصر ہوئے کہ میں ان کے ہاں پاکستانی سفارت خانے میں قیام کروں.خواجہ صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے میرے عمرہ کے لئے حاضر ہونے کا ذکر جلالۃ الملک سعود کی خدمت میں کیا تھا جس پر جلالہ الملک نے فرمایا کہ وہ ہمارا مہمان ہوگا.خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ مہمان تو آپ کا ہی ہوگا اور سب انتظام بھی آپ ہی کی طرف سے ہوگا لیکن آپ کی اجازت سے اگر اس کی رہائش ہمارے ہاں ہو تو ہم اس کے طبی پر ہیز اور عادات سے واقف ہونے کے باعث اس کے خورونوش کا انتظام اس کی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 88 ضرورت کے مطابق کر سکیں گے.اس پر جلالتہ الملک نے اس شرط پر اجازت دے دی کہ باقی سب انتظام سفر وغیرہ کا اور مکہ معظمہ میں قیام کا سعودی محکمہ ضیافت کی طرف سے ہوگا.خواجہ صاحب کے ہاں مجھے ہر سہولت میسر رہی ان کی مہمان نوازی مشہور ہے اور میں کراچی میں بھی اس سے متمتع ہوتا رہا تھا.جدے میں بھی وہی کیفیت تھی.ان کی بیگم صاحبہ محترمہ کی طرف سے بھی میں نهایت تواضع کا مورد رہا.فجز اھم اللہ خیرا.۱۸ / مارچ بعد نماز فجر مکہ معظمہ کے لئے روانہ ہوا.سفارت خانہ کے سپرنٹنڈنٹ میرے ہمراہ تھے.اس سفر میں دل میں جذبات کا جو ہیجان تھا اس کا بیان الفاظ میں مشکل ہے.البتہ ظاہری مناسک کا خلاصہ بیان ہوسکتا ہے.ہر دل اپنی کیفیات اور اپنے ظرف کے مطابق باقی کا قیاس کر سکتا ہے.جدہ سے نکلتے ہی تلبیہ کا ورد شروع ہوتا ہے.حرم کی حدود سے تھوڑے فاصلے پر پہلے حدیبیہ کا مقام آتا ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا اور جہاں قریش کے نمائندے سہیل کے ساتھ آخری شرائط صلح طے یا کر معاہدہ لکھا گیا تھا.یہاں اب ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس میں میں نے دو نفل ادا کئے.حدود حرم کے نشان کے طور پر سڑک کے دونوں طرف ستون ایستادہ ہیں.یہاں سے شروع ہو کر مختلف مقامات پر دعا مستحب ہے.مکہ معظمہ کی آبادی کے قریب مقام مدعی ہے.مکہ معظمہ جاتے ہوئے کعبہ شریف کی چھت پہلے پہل اس مقام سے نظر آیا کرتی تھی اب درمیان میں مکانات بن جانے کی وجہ سے وہاں سے نظر نہیں آتی.شہر مکہ معظمہ کے نظر آنے پر بھی دعا مستجب ہے اور پھر شہر میں داخل ہوتے وقت بھی.میرا قیام فندق مصر میں ہوا.سامان رکھتے ہی مسجد حرام حاضر ہوئے.خانہ کعبہ کی دید سے آنکھیں روشن ہوئیں ، طواف کی سعادت حاصل ہوئی.طواف کی تکمیل پر مقام ملتزم پر کھڑے ہو کر در کعبہ کی دہلیز پر ہاتھ رکھے کامل محویت اور گداز کی حالت میں دعا کی توفیق عطا ہوئی.فالحمد للہ.اسی حالت میں محسوس ہوا کہ کعبہ شریف کا دروازہ کھل گیا ہے.کعبہ شریف کے اندر داخلہ نصیب ہوا.پہلے اس مقام پر کھڑے ہوکر جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 89 نے وہاں نفل ادا کئے تھے دو نفل ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.اور اس کے بعد باقی تینوں جانب باری باری رخ کر کے نفل ادا کئے اور مولانا روم کے مصرعہ در درونِ کعبہ رسم قبلہ نیست“ کی حقیقت عملاً تجربے میں آئی.سعودی خاندان نے جہاں جدے سے مکہ معظمہ ، جدے سے مدینہ منورہ ، مکہ معظمہ سے منی، مزدلفہ، عرفات کی پختہ سڑکیں صرف زرکثیر سے تعمیر کروا کر حجاج کے لئے ان گنت مشکلات اور صعوبتوں کا خاتمہ کر دیا ہے اور حج بیت اللہ اور حرمین کی زیارت بے حد آسان کر دی ہے اور منی اور عرفات کے مقامات پر بافراط تازہ میٹھے پانی کے ذخیرے مہیا کر دیئے ہیں، وہاں صفا و مروہ کے درمیان مقام سعی کو مسقف کر کے اور حرم کے صحن کو وسعت دے کر اور اس فرش کو ہموار کر کے حجاج بیت اللہ کے لئے بہت سی سہولتوں کا سامان کر دیا ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء في الدنيا والاخرة.میرے عمرہ کے لئے حاضر ہونے سے تھوڑا عرصہ قبل کعبہ شریف کی پرانی چھت کے چار فٹ یا ساڑھے چار فٹ نیچے نئی چھت ڈالی گئی تھی.پرانی چھت کے متعلق اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کمزور ہورہی ہے.جب میں کعبہ شریف کے اندر نوافل سے فارغ ہوا تو مجھے بتایا گیا کہ جن انجینئر صاحب کی زیر نگرانی کعبہ شریف کے صحن کی توسیع اور چھت کی تعمیر کا کام ہورہا ہے وہ اس وقت کعبہ شریف کی دونوں چھتوں کے درمیان تشریف فرما ہیں اور مجھے شرف ملاقات سے مشرف کرنے پر رضامند ہیں.چنانچہ میں کعبہ شریف کی اندرونی سیڑھی کے رستے ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور چند منٹ بین السقفین الکعبہ ٹھہرنے کا شرف حاصل کیا.کعبہ شریف سے نکل کر مقام ابراہیم پر نفل ادا کئے.زمزم کا پانی خوب سیر ہوکر پیا.صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے دوران میں حضرت ابراہیم ، حضرت ہاجرہ، حضرت اسمعیل علیہم السلام کی کمال فرمانبرداری اور انتہائی قربانیوں کی یاد تازہ کی اور دل میں خشیت اور گداز کی کیفیات کو محسوس کیا.سعی کی تکمیل کے بعد حطیم کے اندر اور حطیم اور رکن یمانی کے درمیان نفل ادا کئے اور قیام گاہ پر واپس آیا.ظہرین کے بعد منی، مزدلفہ اور عرفات حاضر ہوئے.جبل رحمت پر دعا کی اور سید ولد آدم جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 90 افضل الرسل خاتم النبيين محبوب خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر الہی فرمان کے مطابق بہت بہت درود اور سلام بھیجنے کی سعادت حاصل کی.عرفات کی مسجد میں نفل ادا کئے اور مکہ معظمہ کو واپس ہوئے.بعد مغرب طواف اور نوافل کی سعادت حاصل کی.۱۸ کی رات مکہ معظمہ میں قیام رہا.۱۹ر کی صبح کو تیسری بار حرم کعبہ میں طواف اور نوافل کی ادائیگی کا موقع نصیب ہوا.مکہ معظمہ سے جدے کے لئے روانہ ہوئے تو خیال آیا کہ منی جاتے ہوئے جبل نور پر تو کچھ فاصلے سے نگاہ پڑ گئی تھی ( حرا کا مقام جبل نور پر ہے ) اگر ہو سکے تو غارِ ثور کو بھی خواہ دور ہی سے ہو دیکھنا چاہئے.سپرنٹنڈنٹ صاحب کو غار ثور کا مقام معلوم نہیں تھا اور کار کے شوفر کو ثور کے لفظ سے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا آخر جب میں نے اپنی ناقص عربی میں بتایا وہ غار جس میں ہجرت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر نے عارضی قیام فرمایا تھا تو شوفرمسکرایا اور سر ہلا کر ظاہر کیا کہ وہ مطلب سمجھ گیا ہے.وہ ہمیں پہاڑ کے دامن تک لے گیا.غار میں داخلے کا مقام وہاں سے نظر آتا تھا وہ سڑک سے بہت بلندی پر تھا سورج کی تمازت تیز ہو چکی تھی اس لئے ہم نے نیچے سے دیکھ لینا ہی غنیمت سمجھا اور جدے کی جانب روانہ ہو گئے.دوسرے دن معلوم ہوا کہ جلالتہ الملک نے مجھے ریاض طلب فرمایا ہے.چنانچہ میں ۲۱ / مارچ کو ریاض حاضر ہوا.جلالۃ الملک سلطان عبد العزیز ابن سعود کے حالات میں پڑھا تھا کہ جب کویت سے نکل کر انہوں نے ریاض کو تسخیر کیا اس وقت ریاض ایک کچی دیوار سے گھرا ہوا قصبہ تھا، جس پر اپنے چند جانباز ہمراہیوں کے ساتھ رات کے وقت دیوار پھاند کر سلطان عبدالعزیز نے قبضہ کیا تھا.لیکن وہ ریاض اور تھا اور ان کے فرزند جلالۃ الملک سعود کا دارالحکومت ریاض اور تھا.جو ریاض میں نے دیکھا وہ ریگستان کے درمیان امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہروں کی مانند ایک شہر جس کو دیوار سے گھرے ہوئے قصبے کے ساتھ کسی قسم کی نسبت نہیں تھی.یہی صورت بعد میں کویت میں دیکھی.۱۹۳۴ء میں جب میں نے کویت میں رات بسر کی تو کو یت بھی ایک کچی پکی دیوار سے گھرا ہوا تھا.۲۸ سال بعد جب مجھے پھر جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 91 کو یت میں ٹھہرنے کا موقع ہوا تو کویت گودڑ میں سے لعل بن کر برآمد ہو چکا تھا.اگر چہ ریاض ٹیکساس (امریکہ ) کے شہروں کا مقابلہ کرتا ہے لیکن ٹیکساس کے شہروں کی کوئی عمارت بھی ریاض کے محلات شاہی کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتی.جلالة الملک بہت تواضع سے پیش آئے اور بڑی ذرہ نوازی کا سلوک روا رکھا.فجزاہ اللہ.امیر فیصل ان ایام میں ناسازی طبع کے باعث باہر ریگستان میں تھے اس لئے ان کی خدمت میں حاضری کا موقع نہ مل سکا.ریاض میں عبدالوہاب عزام صاحب سے مل کر بہت خوشی ہوئی.وہ پاکستان میں سفیر مصر کے عہدہ پر فائز رہ چکے تھے.بہت علم دوست تھے.انہوں نے علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کے فارسی کلام میں سے منتخبات کا عربی میں ترجمہ کیا ہے.جب میں ریاض حاضر ہوا وہ وہاں کے دارالعلوم ریکٹر RECTOR تھے اور مختلف شعبوں کی ترتیب اور تنظیم میں منہمک تھے.افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی اور تھوڑا عرصہ بعد داعی اجل کو لبیک کہا.اللہ تعالیٰ مغفرت کرے.کے ۲۲ / مارچ کو میں ریاض سے جدے واپس آیاا ور بعد مغرب طواف اور نفل کے لئے پھر حرم حاضر ہوا.۲۳ / مارچ کی سہ پہر کو مدینہ منورہ حاضر ہونے کا ارادہ تھا لیکن اس دن یومِ پاکستان کی تقریب میں خواجہ صاحب نے وسیع پیمانے پر شام کے کھانے کی دعوت کا انصرام فرمایا تھا اور میری شمولیت پر انہیں اصرار تھا.انکار کی گنجائش نہ تھی.اس لئے مدینہ شریف کا سفر بعد مغرب شروع ہوکر نصف شب سے ڈیڑھ ساعت بعد ختم ہوا.فالحمد للہ.سڑک پختہ بننے سے پہلے اونٹ کی سواری سے یہ سفر ۱۳ دن سے لے کر ے ا دن میں کہتا تھا.مدینہ منورہ میں شاہی مہمان خانے میں قیام ہوا.سفارتخانے کے تجارتی سیکرٹری میرے ہمراہ تھے.۲۴ کی صبح مسجد نبوی میں حاضر ہو کر روضہ مبارک پر دعا کی اور منبر نبوی اور روضہ مبارکہ کے درمیان نفل ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.مسجد نبوی سے جنت البقیع حاضر ہوئے.حضرت عثمانؓ ، حلیمہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ ) عثمان بن جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 92 مظعون، ابراہیم ( فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) ، عبدالرحمن بن عوف اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ رضوان اللہ علیہم کے مزاروں پر دعا کا موقع نصیب ہوا.میدانِ احد سے واپسی پر مسجد قبلتین میں نفل ادا کئے پھر مسجد قبا گئے اور وہاں نفل ادا کئے.واپسی پر مسجد نبوی میں روضہ اطہر پر دعا کی اور مسجد میں نفل ادا کئے.بعد مغرب پھر مسجد نبوی میں حاضر ہوکر روضہ اقدس پر دعا کی اور نفل ادا کئے.مدینہ منورہ میں ایک زائر کے دل و دماغ پر کن جذبات کا ہجوم ہوتا ہے ان کا اظہار اسد ملتانی مرحوم نے اس شعر سے کرنے کی کوشش کی ہے جو انہوں نے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران میں کہا ہر راہ کو دیکھا ہے محبت کی نظر سے شاید کہ وہ گزرے ہوں اسی راہ گزر سے اور سچ تو یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں تمام وقت ہی اور خصوصاً روضہ اطہر کے قرب میں دل کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں.۲۵ کی صبح کو نماز فجر کے بعد ہم جدہ واپسی کے سفر پر روانہ ہو گئے.رستے میں بدر کے مقام کے قریب رک کر جنگ کا مقام دیکھا.یہ جنگ جس میں قریش کی طرف سے ایک ہزار تجربہ کار جنگ آزمودہ بہادر ہتھیاروں سے پوری طرح مسلح نبرد آما تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی صرف ۳۱۳ افراد جن کے جسموں پر پورا لباس نہ تھا ، ہاتھوں میں پورے اسلحہ نہ تھے.اور جن میں سے کچھ تو فنِ حرب سے واقف تھے اور کچھ بالکل نا تجربہ کارلڑ کے تھے.اپنے نتائج کے لحاظ سے دنیا کی تاریخ میں سب سے قاطع اور فیصلہ کن جنگ تھی.ظاہر بین آنکھ طرفین میں کسی قسم کی نسبت نہیں پاتی تھی لیکن حقیقت بین نگہ میں یہ مقابلہ ایک طرف مادی طاقت پر گھمنڈ اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ پر یقین کامل میں تھا.یہ کفر اور ایمان کے درمیان فیصلہ کن جنگ تھی.اگر اس دن بفرضِ محال کفر غالب آتا تو جیسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ شروع ہونے سے پہلے حضرت احدیت میں مناجات کرتے ہوئے عرض کیا تھا.اللہ جل شانہ کی عبادت روئے زمین سے تا ابد مٹ جاتی.لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ کیونکر منظور ہوسکتا تھا.وہ تو برسوں پہلے اپنے رسول اور محبوب سے فرما چکا جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 93 تھا اور وعدہ کر چکا تھا سيهزم الجمع ویولون الدبر.چنانچہ جیسے اللہ تعالیٰ نے جو علیم و قدیر ہے فرمایا تھا ویسے ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ کے قول کو ہی سرفرازی ہوئی.چند گھنٹوں کے اندر قریش کا غرور و تکبر بدر کے میدان میں خاک و خون میں ملیا میٹ ہو کر رہ گیا.دو پہر کے کھانے تک ہم بفضل اللہ بخیریت جدہ واپس پہنچ گئے.۲۶ کی صبح کو میں آخری بار عمرہ ادا کرنے کے لئے بیت اللہ کے صحن میں حاضر ہوا.مکہ معظمہ سے واپسی پر جدے سے بیروت کے ہوائی سفر پر روانہ ہوا.سفر کے دوران میں دل میں پیہم جذبات تلاطم برپا رہا اور آنکھوں سے آبشار جاری رہی اور زیر لب حسرت قلب کا اظہار ان پر سوز الفاظ میں ہوتا رہا ے پریدم سوئے کوئے او مدام من اگر می داشتم بال و پرے جلد ۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء اس سال مجلس مشاورت ۲۶،۲۵ را پریل ۱۹۵۸ء کو حسب سابق تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے ہال میں منعقد ہوئی.مشاورت کے صرف دو اجلاس ہوئے جن کی ساری کارروائی سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے باوجود گرمی اور ناسازی طبع کے کسی معاون کے بغیر خود سرانجام دی.مشاورت میں ۴۳۸ نمائندگان نے شرکت کی.سید شاہ محمد صاحب اور ملک عزیز احمد صاحب نے انڈونیشیا کی ، شیخ مبارک احمد صاحب نے افریقہ کی اور مسٹر بشیر احمد صاحب آرچرڈ نے انگلستان کی نمائندگی کا شرف حاصل کیا.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے شوری کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:- " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سلطان عبدالحمید آف لڑکی کی ایک بات بہت پسند ہے.جب یونان نے حملہ کیا تو سلطان عبدالحمید نے اپنے وزیروں کو بلا کر مشورہ کیا.وہ لوگ لڑنا نہیں چاہتے تھے.اس لئے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے یہ انتظام بھی کرلیا ہے اور وہ انتظام بھی کر لیا ہے.لیکن فلاں بات نہیں ہو سکی.وہ بادشاہ کو یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم لڑنا نہیں چاہتے.انہوں نے کوئی بہانہ ہی بنانا تھا.سو انہوں نے اس طرح سلطان عبد الحمید کے دل کو جنگ سے پھرانے کی کوشش
تاریخ احمدیت 94 کی سلطان عبدالحمید نے کہا اگر ایک بات نہیں ہوئی تو اسے خدا پر چھوڑ دو.آخر ہمیں خدا کے لئے بھی تو کوئی خانہ خالی رکھنا چاہئے.سارے خانے ہم نے ہی تو پر نہیں کرنے.چنانچہ اس کے ایمان کا یہ نتیجہ ہوا کہ کجا تو یہ حالت تھی کہ یورپ سمجھتا تھا لڑکی فوجیں ایک قلعہ بھی فتح نہیں کرسکتیں اور کجا یہ کہ انہوں نے چھ ماہ میں ہی وہ جنگ جیت لی.اور یورپ کی فوجیں جن کا انہوں نے یونان سے وعدہ کیا تھا اس کی مدد کو بھی نہ پہنچ سکیں.اسی جنگ میں ایک جرنیل کو کمانڈر انچیف نے حکم دیا کہ تم فلاں قلعہ فتح کرو.اور اس مہم کے لئے اس نے تین دن کا عرصہ مقرر کیا.دو دن تک اس جرنیل نے پوری کوشش کی لیکن وہ قلعہ فتح کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا.تیسرے دن اس نے اپنے سپاہیوں کو بلایا اور کہا کہ ہم نے اس قلعہ کو آج شام تک فتح کرنا ہے.میں اس قلعہ پر چڑھتا ہوں تم سب میرے پیچھے پیچھے آؤ.چنانچہ وہ قلعہ کی دیوار پر چڑھا.سپاہی بھی بہادری کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے چڑھنے لگے.نصف فاصلہ پر پہنچے تو جرنیل نے کہا ہمیں دشمن تک اس کی بے خبری کے عالم میں پہنچنا ہے اس لئے تم اپنے بوٹ اتار لو.رستہ میں پتھروں کی وجہ سے پاؤں زخمی ہو گئے.تو سپاہیوں نے بوٹ پہننے کی اجازت چاہی.مگر اس نے اجازت نہ دی.نصف فاصلہ سے کچھ آگے گئے تو اچانک دشمن کی ایک گولی جرنیل کے سینہ میں آ لگی.سپاہیوں نے اسے اٹھا کر کسی امن کی جگہ میں لے جانا چاہا تو اس نے کہا میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ تم مجھے یہیں پڑا رہنے دو.اور اگر میں مر جاؤں تو شام کو مجھے اس قلعہ کی چوٹی پر دفن کرنا.ورنہ میری لاش کو کتوں کے آگے پھینک دینا.سپاہی اپنے محبوب جرنیل کے اس فقرہ کی وجہ سے مجنون ہو گئے.اور اس کے ماتحت افسروں نے پاگلوں کی طرح آگے بڑھنا شروع کیا.اور شام کو قلعہ کی چوٹی پر جھنڈا لہرا دیا.حالانکہ دشمن کا خیال تھا کہ لڑکی اس قلعہ کی ابتدائی کڑیاں بھی چھ ماہ میں فتح نہیں کر سکتا.مگر اللہ تعالیٰ نے لڑکی کی مدد کی.اور اس نے نہ صرف ابتدائی کڑیاں ہی فتح کیں بلکہ تین دن میں قلعہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا.اسی طرح مسلمانوں میں اور بھی کئی غیور بادشاہ پیدا ہوئے ہیں.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 95 مثلاً ہندوستان میں احمد شاہ ابدالی اور سلطان ٹیپو جیسے غیور مسلمان پیدا ہوئے مگر ان غیور بادشاہوں کے ساتھ غدار بھی ہمیشہ پیدا ہوتے رہے.چنانچہ پہلی جنگ عظیم میں جب سمرنا میں دشمن نے فوجیں اتاریں اور ایک اسلامی جرنیل کو ان کا مقابلہ کرنے کے لئے کہا گیا.ان دنوں میں ڈیلی نیوز“ منگوایا کرتا تھا.اس کے نامہ نگار نے لکھا کہ میں نے میدانِ جنگ میں ایسا درد ناک نظارہ دیکھا ہے جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا.میں نے دیکھا کہ ترک جرنیل جو دشمن کی فوجوں سے لڑ رہا تھا میدان سے ہٹ کر ایک پتھر پر بیٹھا ہے اور رو رہا ہے.میں نے اس کے رونے کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا ان کارتوسوں کو دیکھو ان میں بارود کی بجائے بورا بھرا پڑا ہے.میں دشمن کو مار نہیں سکتا.اگر ان کارتوسوں میں بارود ہوتا تو میں آج دشمن کو شکست دے دیتا لیکن اب میں کچھ نہیں کرسکتا.غرض جہاں اسلام میں دلیر اور غیور افراد گزرے ہیں وہاں اس میں غدار بھی پیدا ہوتے رہے ہیں.چنانچہ ان کا رتوسوں میں بارود کی بجائے بورا بھرنے والا کوئی غدار ہی تھا جس نے ایسے لوگوں کو ٹھیکہ دے دیا جنہوں نے کارتوسوں میں بارود کی بجائے بورا بھر دیا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس قسم کے غداروں سے محفوظ رکھے.اور ایسے وفا دار لوگ عطا کرے جو اسلام کی خاطر ہمیشہ سینہ سپر رہنے والے ہوں.اور جن کو اپنی اور اپنے بچوں کی جانوں کی پرواہ نہ ہو.وہ میدان میں جائیں اور اسلام کی خاطر اپنی جان لڑا دیں.جنگ اُحد میں جب یہ بات مشہور ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو مسلمانوں کے دل ٹوٹ گئے.اور شہادت کی خبر سن کر مسلمان سپاہیوں کے قدم اکھڑ گئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گڑھے میں سے نکالا گیا اور مسلمان پھر آپ کے اردگرد پروانہ وار جمع ہو گئے تو آپ نے ایک انصاری صحابی کو تلاش کرنے کا حکم دیا.صحابہؓ ان کی تلاش میں نکل گئے.انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک جگہ سر سے پیر تک زخمی پڑے ہیں اور نزع کی حالت میں ہیں.وہ ان کے پاس گئے اور انہوں نے کہا جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 96 رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے.اگر آپ نے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کے نام کوئی پیغام دینا ہو تو دے دیں.ہم پہنچا دیں گے.اس صحابی میں قربانی کی ایسی عظیم الشان روح پائی جاتی تھی کہ انہوں نے کہا اپنا ہاتھ بڑھاؤ اور اقرار کرو کہ تم میرا یہ پیغام میرے عزیزوں تک ضرور پہنچا دو گے.انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور پیغام پہنچانے کا اقرار کیا اس کے بعد اس صحابی نے جب کہ وہ دم توڑ رہے تھے کہا میرے بیٹیوں ، بھائیوں، بھتیجوں اور دامادوں کو کہہ دینا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قیمتی چیز دنیا میں اور کوئی نہیں.جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر بھی آپ کی حفاظت کی کوشش کی اور اب جبکہ میں مر رہا ہوں میری آخری نصیحت یہی ہے کہ تم اپنی زندگیوں کو قربان کر دو مگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی دشمن کو نہ پہنچنے دو.اس طرح غزوہ بدر کے موقع پر انصار نے جس فدائیت کا نمونہ دکھایا ہے وہ بھی ان کے عشق کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور انصار کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اگر مدینہ پر کسی نے حملہ کیا تو انصار آپ کی حفاظت کریں گے.لیکن اگر مدینہ سے باہر حملہ کیا گیا تو وہ لڑائی میں شامل ہونے کے پابند نہیں ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ بدر کے لئے تشریف لے گئے تو چونکہ یہ مقام مدینہ سے فاصلہ پر تھا.آپ نے خیال فرمایا کہ اگر میں نے مدینہ والوں کو دشمن سے جنگ کرنے کا حکم دیا تو یہ ان سے بدعہدی ہوگی.اس لئے آپ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا آپ لوگ مشورہ دیں کہ اب کیا کیا جائے.اب قافلہ کا سوال نہیں.کفار کی مسلح فوج سے مقابلہ ہے.اس پر ایک ایک کر کے مہاجرین اٹھے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم دشمن سے ڈرتے نہیں.ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.مگر جب کوئی مہاجر اپنے خیالات کا اظہار کر کے بیٹھ جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرماتے کہ اے لوگو مجھے مشورہ دو.جب بار بار آپ نے یہ فقرہ دہرایا تو ایک انصاری سردار کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ مشورہ تو آپ کو جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 97 جلد ۲۰ مل رہا ہے.مگر پھر جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما ر ہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم انصار سے ہے.آپ نے فرمایا ہاں.اس سردار نے کہا یا رسول اللہ شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب فرما ر ہے ہیں کہ آپ کے مدینہ آنے سے قبل ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ معاہدہ یہ تھا کہ اگر کسی نے مدینہ پر حملہ کیا تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے لیکن مدینہ سے با ہر نکل کر اگر لڑائی کرنی پڑی تو ہم اس میں شامل ہونے کے پابند نہیں ہوں گے.آپ نے فرمایا ہاں.اسی انصاری سردار نے کہا یا رسول اللہ جب یہ معاہدہ ہوا تھا اس وقت ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی.لیکن اب آپ کی حقیقت ہم پر پورے طور پر واضح ہو چکی ہے.اور آپ کی شان کا ہمیں پتہ لگ گیا ہے.اس لئے اب اس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں.ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ اذهب انت وربك فقاتلا انا ههنا قاعدون.کہ تو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے لڑتے پھرو.ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ یا رسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.یا رسول اللہ جنگ تو ایک معمولی بات ہے اگر آپ حکم دیں کہ ہم سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں تو خدا کی قسم ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے گھوڑے بھی سمندر میں ڈال دیں گے.ایک اور انصاری کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی لڑائیوں میں شامل ہوا مگر میری ہمیشہ خواہش رہی کہ کاش میں ان لڑائیوں میں شامل نہ ہوتا اور یہ فقرات میری زبان سے نکلتے.یہ فدائیت اور قربانی کا وہ عظیم الشان نمونہ تھا جو صحابہ نے ہمارے سامنے پیش کیا اور اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسی قسم کا نمونہ دکھانے کی توفیق عطا فرمائے.حضور نے ایجنڈا پر غور کرنے کے لئے ۲۹ اصحاب پر مشتمل ایک بجٹ کمیٹی مقرر فرمائی جس کا صدر صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اور سیکرٹری میاں عبدالحق رامہ صاحب ناظر بیت المال کو مقرر فرمایا.کمیٹی کی رپورٹ اور اس پر بحث اور آراء شماری کے بعد حضور نے کثرت رائے کے حق
تاریخ احمدیت 98 جلد ۲۰ میں فیصلہ صادر فرمایا.صدر انجمن احمدیہ کا یہ سالانہ بجٹ ۵۹-۱۹۵۸ء جو ۹۳،۷۰۶، ۱۷ روپے آمد اور اسی قدر اخراجات پر مشتمل تھا یہ پہلا سال تھا کہ تحریک جدید کا بجٹ صدر انجمن احمدیہ پاکستان سے زیادہ تھا.اس بجٹ (اخراجات ) کی کل رقم ۳۰۰ ،۹۳، ۱۸ روپے تھی جسے حافظ عبد السلام صاحب وکیل اعلیٰ نے پیش کیا اور بتایا کہ سب کمیٹی کو بھی اس سے اتفاق ہے.نمائندگان کی بھاری اکثریت نے بھی اس کے حق میں رائے دی اور حضور نے بھی از راہِ شفقت اس کی منظوری عطا فرما دی.کارروائی ختم ہونے پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے روح پرور اختتامی خطاب میں پہلے تو اپنی صحت کی صورتحال اور علاج کے بارے میں تفصیل بیان فرمائی اور آخر میں ارشاد فرمایا کہ :- دوست دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت عطا فرمائے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھ لو.آپ نہ صرف خود نبی تھے بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا بھی تھے.آپ فرماتے ہیں واذا مرضت فهو يشفين.جب میں بیمار ہوتا ہوں تو صرف خدا ہی مجھے شفا دیتا ہے.۱۹۵۴ء میں میرے بچنے کی کیا امید تھی.یوں معلوم ہوتا تھا کہ میں ایک دن کا مہمان ہوں.پھر میں یورپ گیا.وہاں جا کر علاج سے اتنا فائدہ ہوا کہ میں نے سارے یورپ کا موٹر پر سفر کیا.پھر واپس آیا تو ۱۹۵۶ء میں مری گئے.وہاں بھی صحت اچھی رہی.۱۹۵۷ء میں جابہ گئے.ابتدائی حصہ سال میں تو اچھا رہا.لیکن بعد میں میری طبیعت خراب ہو گئی.۱۹۵۸ء میں بھی خراب رہی.جولائی ۱۹۵۷ء تک میں کس قدر اچھا تھا.جولائی تک میں اجابت کے لئے چوکی پر بیٹھ سکتا تھا.اب سات آٹھ ماہ سے طبیعت خراب ہے لیکن جس خدا نے پہلے شفا دی تھی وہ اب بھی شفا دے سکتا ہے.اس کے ہاتھ میں شفا ہے.ڈاکٹر ایک دوائی کے متعلق خاص طور پر زور دیتے ہیں کہ اگر میں اس کے شیکے کروالوں تو اس سے فائدہ ہوگا لیکن میں نے ایک جرمن ڈاکٹر سے مشورہ کیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ آپ منہ کے راستہ دوائی کھا لیا کریں.ٹیکہ نہ لگوایا کریں.اس سے فائدہ تو ہوا لیکن مرض ابھی تک گئی نہیں.اب ٹھنڈی جگہ جائیں گے تو وہاں ٹیکے بھی لگوا لیں گے.یورپ میں میرا جو معالج تھا اس کے کئی پیغام آچکے ہیں کہ آپ وہ ٹیکے ضرور لگوائیں.آپ کا علاج وہی ہے.
تاریخ احمدیت 99 ہاں ڈوز (DOSE) چھوٹی کر لیں اور روز ٹیکہ لگوانے کی بجائے ہفتہ میں ایک دفعہ لگوا لیں مگر لگوائیں ضرور.بہر حال خیال ہے کہ ٹھنڈی جگہ جا کر اس کا تجربہ بھی کر لیں گے.ایک دفعہ ناصر آباد میں میں نے یہ ٹیکہ کروایا تھا اس سے فائدہ ہوا تھا.واپسی پر سارے رستہ میں دوست ملتے رہے.میں نے ان سے مصافحہ بھی کیا اور گفتگو بھی کرتا رہا.لیکن مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی.لیکن بعد میں پتہ نہیں مجھے کیوں یہ وہم ہو گیا کہ اب جو صحت خراب ہوئی ہے تو وہ اس ٹیکہ کی وجہ سے ہوئی ہے.حالانکہ اس کے بعد رمضان آیا تو میں اس میں بارہ بارہ تیرہ تیرہ بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ پاروں کی تلاوت کرتا رہا.ممکن ہے اس سے کوفت ہوگئی ہو.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تو ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ آپ زیادہ پاروں کی تلاوت نہ کیا کریں.لیکن میں نے اندازہ لگایا کہ قریباً تیرہ پارہ روزانہ اوسط تھی.ویسے میں نے بعض دنوں میں اس سے بھی زیادہ تلاوت کی ہے.اس کے علاوہ اور کام بھی ہوتے ہیں مثلاً نماز پڑھنا ، کھانا ، پیشاب اور پاخانہ میں بھی کچھ وقت لگتا تھا.اس کو نکال لیں تو باقی وقت میں نے کئی روز تک ۱۸-۱۸ پارہ کی تلاوت کی.پھر دوسرے جماعتی کام بھی کرنے پڑتے تھے.تندرستی میں میں بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ پڑھ لیتا تھا.بعض دفعہ میں ایک دن میں قرآن کریم ختم کر لیتا تھا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہم راجپورہ شکار کو گئے میرے پندرہ پارے رہ گئے تھے.میں نے ظہر کے بعد بیٹھ کر شام تک پندرہ پاروں کی تلاوت کر لی.نماز تراویح میں حافظ ایک پارہ روز ختم کرتے ہیں لیکن میں بعض دفعہ ایک دن میں قرآن کریم ختم کر لیتا تھا.حافظ لوگ ایک پارہ روزانہ نماز تراویح میں پڑھتے ہیں اور وہ بھی اس طرح پڑھتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہے یا کچھ اور ہو رہا ہے.لیکن ہم تو بڑے آرام سے پڑھتے ہیں.اور قرآن کریم کے معارف پر غور بھی کرتے ہیں.چنانچہ اس دفعہ جہاں میں نے بارہ بارہ تیرہ تیرہ پاروں کی تلاوت کی وہاں میں نے تفسیر صغیر میں کئی نوٹ بھی لکھوائے جہاں کوئی ایسی آیت آتی جو اہم ہوتی تو میں اس پر نوٹ لکھوا دیتا.۲۱ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 100 جلد ۲۰ مجلۃ الازہر میں جماعت احمد یہ غانا کی تعلیمی خدمات کا تذکرہ جماعت احمد یہ غانا عرصہ دراز سے مسلمانانِ افریقہ میں تعلیم عام کرنے کی کوششیں کر رہی تھی.اس عظیم الشان جد وجہد کے شاندار نتائج و آثار اب عرب ممالک کے سامنے بھی آنے شروع ہو گئے.چنانچہ شیخ الازہر مصر کی پریس برانچ کے ناظم الاستاذ عطیہ صقر نے از ہر یونیورسٹی کے ماہنامہ مجلۃ الازہر (جولائی ۱۹۵۸ء) میں الاسلام فی غانا“ کے موضوع پر ایک تحقیقی مضمون شائع کیا جس میں جماعت احمدیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ” ولهم نشاط بارز فى كافة النواحى ومدارسهم ناجحة بالرغم من ان تلاميذها لا يدينون جميعا بمذهبهم “ (جماعت احمدیہ ) کی سرگرمیاں تمام امور : مور میں انتہائی کامیاب ہیں اور ان کے مدارس کامیابی سے چل رہے ہیں.باوجود ان مدارس کے سب طلبہ ان کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے.جماعت احمدیہ قادیان کا ذکر ماریشس کے پریس میں ماریشس کے ایک بااثر اخبار لی پراگرس اسلامک (LE PROGRESS ISLAMIQUE) نے جماعت احمدیہ قادیان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:- ” جماعت احمد یہ قادیان (ہندوستان ) یقیناً مستعد اور باعمل ہے اور دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے.یہ بہت مضبوط اور متحد تنظیم ہے اس کا سالانہ جلسہ بھی ہوتا ہے اور اس کی طرف سے ممبران جماعت سے با قاعدہ چندے لئے جاتے ہیں جن کے متعلق حکومت کوئی قانونی گرفت نہیں کرتی.جماعت احمدیہ کے مرد سو فیصدی تعلیم یافتہ ہیں اور پچھتر فیصدی عورتیں پڑھی ہوئی ہیں.جو باپردہ سکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں.جماعت میں باہمی تعاون اور پجہتی کا بے پناہ جذبہ پایا جاتا ہے.قادیان کے احمدی خوشی کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں.اور یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ جماعت بھی ان کی امداد کرتی اور ان کو سہارا دیتی ہے.وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ وقف کر کے ایک نہایت عمدہ اور تعمیری کام میں حصہ لے رہے ہیں.قادیان جو جماعت احمدیہ کا مرکز ہے کسی وقت یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا لیکن اب وہ ایک ترقی یافتہ قصبہ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس میں چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کی کھپت بھی ہو سکتی ہے.
تاریخ احمدیت 101 زمیندار اور پرائیویٹ آمدنی رکھنے والے دوسرے اشخاص نیز ملا زمتوں سے پنشن یافتہ لوگ قادیان میں آکر رہائش پذیر ہو گئے.بعض کاروباری احمدیوں نے بھی یہاں اپنے کاروبار جاری کر دیئے ہیں جن میں ترقی ہوگئی.سلسلہ کی مرکزی تنظیم کی طرف سے بھی کچھ کام شروع کئے گئے.نیز مالدار طبقہ سے بھی جاری کرائے گئے.چنانچہ مزدوروں اور کاریگروں کی ضرورت بڑھنے لگی.سلسلہ کے پاس ( ملک کی تقسیم سے پہلے ) سندھ میں اراضی تھی جہاں جماعت کے بے کار لوگوں کو بھجوایا جاتا تھا.قادیان کے احمدیوں کے سامنے ایک لائحہ عمل اور پروگرام ہے جس پر ان کی طاقتیں خرچ ہوتی ہیں.اور ان کی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں اور اس طرح ان کا جوش اور جذبہ بیدار رہتا ہے.باوجود اس کے کہ سماجی طور پر ان کے خیالات اور اصول پرانے ہیں لیکن وہ جدید طریقوں کو بھی اپنائے ہوئے ہیں اور وہ قادیان میں پرانی یادگاروں کو اب بھی زندگی کے احساس سے دیکھتے ہیں.احمدی پر جوش مبلغ ہیں اور مادی اعتبار سے وہ اپنی چھوٹی اور متحدہ جماعت کو صنعتی اور مالی طور پر وسعت دے رہے ہیں.( ترجمہ ) - ۲۲ جلد ۲۰ متحدہ عرب جمہوریہ کے صدر کا مکتوب سید منیر الحصنی کے نام مئی ۱۹۵۸ء میں احمد یہ مشن شام کے انچارج السید منیر اکھنی صاحب نے جمال عبد الناصر صدر متحدہ عرب جمہوریہ کی خدمت میں سلسلہ احمدیہ کا عربی لٹریچر بھیجا.جس پر انہوں نے اا مئی ۱۹۵۸ء کو شکریہ پر مشتمل مکتوب لکھا جس کا متن شام کے مشہور اخبار ”صوت العرب‘ نے ۱۵ رمئی ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں دیا.چنانچہ لکھا: - ممثل الطائفة الاحمدية يتلقى كتابا رفيعا من سيادة الرئيس جمال عبدالناصر كان السيد منير الحصنى ممثل الطائفة الاحمديه في دمشق اهدى سيادة الرئيس جمال عبد الناصر بعض الكتب
تاریخ احمدیت 102 الاحمدية فاجابه سيادته على هديته بمايلي: بسم الله الرحمن الرحيم ط رياسة الجمهورية مكتب الرئيس السيد منير الحصني الاحمدى تحية طيبة وبعد سورية واشكر لك اهداء ك الى كتابيك المودودي في الميزان والشيخ الأكبر محي الدين بن عربي وبقاء النبوة من تاليفك وكتاب فلسفة الاصول الاسلامية الذى قمت بنشره وارجو ان ينتفع الناس الكتب القيمة وفقنا الله جميعا وسدد خطابا والله اكبر والعزة للعرب القاهرة في ۵/۱۱/ ۱۹۵۸ء جلد ۲۰ رئيس الجمهورية جمال عبدالناصر ترجمہ: - جماعت احمدیہ کے نمائندے کے نام صدر جمال عبدالناصر کا خط.دمشق میں جماعت احمدیہ کے نمائندے السید منیر الحصنی نے متحدہ عرب جمہوریہ کے صدر جمال عبدالناصر کی خدمت میں اپنی جماعت کی بعض کتب ارسال کی تھیں جس پر صدر موصوف نے مندرجہ ذیل جواب مکتوب لکھا: بسم الله الرحمن الرحيم ط رياسة الجمهورية.السيد منير الحصنى الاحمدي تحية طيبة وبعد میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اپنی کتابیں ”المودودی فی المیزان“ اور ”الشیخ الاکبر محی الدین ابن عربی و بقاء النوة" بھجوائی ہیں.اسی طرح فلسفۃ الاصول الاسلامیہ بھی جو آپ نے شائع کی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ عوام ان قابل قدر کتابوں سے فائدہ اٹھائیں گے.خدا ہم سب کو نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں راستی پر قائم رکھے.واللہ اکبر والعزۃ للعرب.القاہرہ.رئیس الجمہوریہ جمال عبد الناصر ۲۴
تاریخ احمدیت 103 جلد ۲۰ لنڈن کے اخبار سنڈے ٹائمز میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی جد و جہد کا تذکرہ مشہور اخبار سنڈے ٹائمز (SUNDAY TIMES) نے ۲۵ مئی ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں الز بتھ ہکسلے کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا FANING THE FLAME OF ISLAM" اس مضمون میں جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی جد و جہد کا ذکر حسب ذیل الفاظ میں کیا گیا : - " At the other extreme lies the Ahmadiyya sect, which holds the interesting belief that Jesus, far from dying on the Cross, made His way to Kashmir and is buried at Srinagar; and that the Second Coming was fulfilled in the person of Mirza Ghulam Ahmad Quadiani, who died in 1908.Although most of its adherents are Punjabis, the sect has mosques in Britain, Holland, Germany, the United States and elsewhere."In East Africa it maintains several newspapers and has translated the Quran into Kiswahili, with a first printing of 10,000; a new Kikuyu translation is on the way.Among the peoples of the Lake Victoria basin, now active in Kenya politics, Ahmadiyya missionaries are gaining converts steadily; in fact the sect, which started in Tanganyika, appears to be spreading in most parts of Eastern Africa."Its missionaries, sent over from Pakistan, are mostly men of impressive intellect and force of character, and the rule, that every adherent must give one-tenth of his income to further his faith, provides funds for further advance.☆☆☆ "The faith spreads slowly, from man to man.In places it is stagnant, and no doubt Islam has its renegades like every
تاریخ احمدیت 104 other faith.But by reason of its dignity, the straightforward discipline, the fellowship of the mosque and, above all, its tolerance of African marriage customs and approval of polygamy, Islam makes a strong appeal." جلد ۲۰ ( ترجمہ ) دوسرے سرے پر جماعت احمد یہ اس دلچسپ نظریہ کی حامل ہے کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ وہاں سے بیچ کر سفر کرتے کرتے کشمیر چلے آئے تھے.اور وہ سرینگر میں مدفون ہیں.نیز یہ کہ مسیح کی آمد ثانی ( حضرت ) مرزا غلام احمد ( قادیانی ) کے وجود میں ہو چکی ہے جنہوں نے ۱۹۰۸ء میں وفات پائی.اگر چہ اس جماعت کے ممبران کی اکثریت پنجاب میں ہے تا ہم اس جماعت کی مسجدیں برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی موجود ہیں.مشرقی افریقہ میں اس جماعت نے بہت سے اخبارات جاری کر رکھے ہیں.علاوہ ازیں اس نے سواحیلی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی کیا ہے جس کا پہلا ایڈیشن دس ہزار کی تعداد میں شائع ہوا ہے.نیز کیکیو زبان میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ ہو رہا ہے.جھیل وکٹوریہ کے علاقہ میں جہاں کے لوگ کینیا کی سیاسیات میں بہت پیش پیش ہیں جماعت احمدیہ کے مبلغین کی مساعی بارآور ثابت ہو رہی ہیں اور وہاں لوگ اس جماعت میں داخل ہور ہے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت جو پہلے پہل تانگانیکا میں پھیلنی شروع ہوئی تھی اب مشرقی افریقہ کے اکثر علاقوں میں پھیلتی نظر آتی ہے.اس کے مبلغین جو پاکستان سے بھیجے جاتے ہیں اکثر و بیشتر ذہنی اعتبار سے پُراثر شخصیت اور اعلیٰ قوت کردار کے مالک ہوتے ہیں.اس جماعت کا یہ اصول کہ ہر رکن اپنی آمد کا دسواں حصہ اشاعت ( دینِ حق ) کے لئے ادا کرے مزید ترقی واشاعت کے لئے فنڈ فراہم کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے.۲۵ ۲۷ مئی یوم خلافت کی تقریب پر حضرت مصلح موعود کا ایمان افروز پیغام ۱۹۵۸ء کو دنیا کے احمدیت میں پورے جوش و خروش سے ” یوم خلافت‘ منایا گیا.اس تقریب پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود نے میاں عطاء اللہ صاحب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی کی درخواست پر جماعت راولپنڈی کے نام ( بذریعہ ٹیپ ریکارڈر ) حسب ذیل پیغام دیا : -
تاریخ احمدیت 105 اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الن برادران جماعت احمد یہ راولپنڈی اصر آپ کے امیر نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں خلافت ڈے پر کچھ الفاظ کہوں جو ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ ریکارڈ کر لئے جائیں اور پھر جماعت کو سنا دیئے جائیں.خلافت ڈے میں خلافت کے متعلق میرا کچھ کہنا تو میرے خیال میں مناسب نہیں ہے اس لئے کہ خلافت کے متعلق بات کرنے کا تعلق جماعت سے ہے خود خلیفہ سے نہیں.کیونکہ اپنے متعلق بات کہنی آداب کے خلاف ہوتی ہے.مگر خلافت کے ساتھ تعلق رکھنے والی ایک بات ایسی ہے جو میں کہہ سکتا ہوں اور مجھے کہنی چاہئے بلکہ زور سے کہنی چاہئے اور وہ یہ کہ خلافت خدا تعالیٰ کی قائم کردہ چیز ہے اور قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب تک سچی خلافت رہے سچا دین بھی جماعت میں قائم رہتا ہے.اور سچے دین کا قائم رکھنا اور ( دین حق کو دنیا میں غالب کرنا یہ ہر سچے مومن کا فرض ہے.پس اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ ( دین حق ) کے لئے اور دین کے استحکام کے لئے اور دین کی درستی اور اصلاح کے لئے میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیشہ اپنی زندگیوں کو خلافتِ احمدیہ کے استحکام اور قیام کے لئے خرچ کریں.اور اس کام کے لئے اگر جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں.کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے جو قرآن کریم کے قول کے مطابق ( دینِ حق ) کو مستحکم بنا سکتا ہے اور دین کی اشاعت اطراف عالم میں کروا سکتا ہے.اور آپ لوگوں نے جو احمدیت قبول کی ہے تو اسی لئے کی ہے کہ ( دینِ حق ) کو دنیا میں مستحکم کریں اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اور خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کریں.اس مقصد میں کوئی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 106 جلد ۲۰ ذراسی بھی کوتاہی ہوئی تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ آپ نے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا اور اپنے دعووں کو خود جھٹلا دیا ہے.اور کافر اسی پر خوش ہوں گے اور خدا تعالیٰ اس پر ناراض ہو گا مگر نہ کافروں کی خوشی دنیوی طور پر آپ کے لئے برداشت کے قابل ہوسکتی ہے اور نہ خدا کی ناراضگی دینی طور پر آپ کے لئے قابل برداشت ہو سکتی ہے.آپ کی کامیابی اسی میں ہے کہ کافر آپ کی شان و شوکت کو دیکھ کر اور آپ کی خدمت کو دیکھ کر اور (دین حق ) کی اشاعت کو دیکھ کر دل میں کڑھے اور اللہ تعالیٰ آپ کے ظاہر و باطن کو دیکھ کر خوش ہو اور ہمیشہ اس کے فرشتے آپ کی مدد کے لئے اور آپ کی نصرت کے لئے دنیا پر اترتے رہیں.اور جس شخص کو خدا اور اس کے فرشتوں کی مدد ا حاصل ہو ظاہر ہے کہ وہ اور اس کی قوم ہمیشہ بالا ہی رہے گی.کبھی نیچی نہیں ہو سکتی.پس یہ میرا پیغام ہے جو میں آپ کو پہنچا تا ہوں.امید ہے کہ آپ اس کو توجہ سے سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے.۲۶ سیدنا حضرت حضرت مصلح موعود کی زبر دست مہم اسلامی پردہ کی ترویج کے لئے مصلح موعود نے اپنے مبارک عہد خلافت میں اس عظیم الشان اور مثالی معاشرہ کی تعمیر نو میں بھر پور حصہ لیا جو چودہ صدیاں قبل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ہاتھوں سے معرض وجود میں آیا تھا.آپ نے جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۳۷ء کے موقع پر اپنی اس دلی تمنا کا اظہار فرمایا کہ :- ”ہم میں سے ہر شخص جہاں بھی پھر رہا ہوں دنیا اسے دیکھ کر یہ نہ سمجھے کہ یہ بیسویں صدی میں انگریزوں کے پیچھے پھرنے اور مغربیت کی تقلید کرنے والا ایک شخص ہے بلکہ یہ سمجھے کہ یہ آج سے تیرہ سو سال پہلےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ کی گلیوں میں پھر رہا ہے.۲۷ 66 ازاں بعد مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - میں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے اور اب پھر بڑے زور سے کہتا ہوں کہ دنیا میں مغربیت نے کافی حکومت کر لی اب خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ وہ مغربیت کو کچل کے رکھ دے.جو لوگ ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مغربیت کا مقابلہ کس طرح ہو سکتا ہے.پردہ قائم رہتا ہوا نظر نہیں آتا.مردوں اور
تاریخ احمدیت 107 جلد ۲۰ عورتوں کے آزادانہ میل جول کو کس طرح روکا جا سکتا ہے یہ چیزیں ضروری ہیں اور اگر ہم ان امور میں مغربیت کی پیروی نہ کریں تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے وہ لوگ یاد رکھیں کہ وہ اپنے ان افعال سے ( دینِ حق ) اور احمدیت کی کامیابی کے راستہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں.یہ چیزیں مٹنے والی ہیں، مٹ رہی ہیں اور مٹ جائیں گی اور ابھی تم میں سے کئی لوگ زندہ ہوں گے کہ تم مغربیت کے درو دیوار اور اس کی چھتوں کو گرتا ہوا دیکھو گے اور مغربیت کے ان کھنڈرات پر ( دینِ حق ) کے محلات کی نئی تعمیر مشاہدہ کرو گے.یہ کسی انسان کی باتیں نہیں بلکہ زمین و آسمان کے خدا کا فیصلہ ہے اور کوئی نہیں جو اس فیصلہ کو بدل سکے.۲۸ 66 خلیفه موعود سید نا محمود نے اسی دیرینہ قلبی جوش کے مطابق اس سال ۶ جون ۱۹۵۸ء کے خطبہ جمعہ کے ذریعہ اسلامی پردہ کی ترویج و اشاعت کے لئے ایک زبر دست مہم کا آغاز کیا.چنانچہ فرمایا : - میں اس خطبہ کے ذریعہ ان لوگوں کو جو اپنی بیویوں کو بے پردہ رکھتے ہیں تنبیہ کرتا ہوں اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ باقی احمدی بھی مجرم ہیں کیونکہ محض اس لئے کہ فلاں صاحب بڑے مالدار ہیں تم ان کے ہاں جاتے ہو ان سے مل کر کھانا کھاتے ہو اور ان سے دوستی اور محبت کے تعلقات رکھتے ہو تمہارا تو فرض ہے کہ تم ایسے شخص کو سلام بھی نہ کرو.تب بے شک سمجھا جائے گا کہ تم میں غیرت پائی جاتی ہے اور تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کروانا چاہتے ہو لیکن اگر تم ایسے شخص سے مصافحہ کرتے ہو اس کو سلام کرتے اور اس سے تعلقات رکھتے ہو تو تم بھی ویسے ہی مجرم ہو جیسے وہ ہیں.پس آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو لوگ اپنی بیویوں کو بے پرد باہر لے جاتے اور مکسڈ پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اگر وہ احمدی ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو نہ ان سے مصافحہ کرو نہ انہیں سلام کرو نہ ان کی دعوتوں میں جاؤ اور نہ ان کو کبھی دعوت میں بلا ؤ.تا کہ انہیں محسوس ہو کہ ان کی قوم اس فعل کی وجہ سے انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.لیکن
تاریخ احمدیت 108 غیر احمدیوں کے متعلق ہمارا یہ قانون نہیں کیونکہ وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں اور ہمارے فتویٰ کے پابند نہیں وہ چونکہ ہماری جماعت میں شامل نہیں.ان پر ان کے مولویوں کا فتویٰ چلے گا.اور خدا تعالیٰ کے سامنے ہم ان کے ذمہ دار نہیں ہوں گے بلکہ وہ یا ان کے مولوی ہوں گے لیکن اگر تم ایسے لوگوں سے تعلقات رکھتے ہو جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو صرف وہی نہیں بلکہ تم بھی پکڑے جاؤ گے.خدا کہے گا کہ ان لوگوں کو تم نے اس گناہ پر دلیری اور جرات دلائی اور انہوں نے سمجھا کہ ساری قوم ہمارے اس فعل کو پسند کرتی ہے.پس آئندہ ایسے احمدیوں سے نہ تم نے مصافحہ کرنا ، نہ انہیں سلام کرنا ہے نہ ان کی دعوتوں میں جانا ہے نہ ان کو بھی دعوت میں بلانا ہے نہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا ہے اور نہ ان کو جماعت میں کوئی عہدہ دینا ہے.بلکہ اگر ہو سکے تو ان کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا.اسی طرح ہماری جماعت کی عورتوں کو چاہئے کہ ان کی عورتوں سے کسی قسم کے تعلقات نہ رکھیں.تمہیں ان سے کیا کہ کوئی کتنا مالدار ہے تمہیں کسی مالدار کی ضرورت نہیں.تمہیں خدا کی ضرورت ہے.اگر تم اللہ تعالیٰ کے لئے ان مالداروں سے قطع تعلق کر لو گے تو بے شک تمہارے گھر میں وہ مالدار نہیں آئے گا لیکن تمہارے گھر میں خدا آئے گا اب بتاؤ کہ تمہارے گھر میں کسی مالدار آدمی کا آنا عزت کا موجب ہے یا خدا تعالیٰ کا آنا عزت کا موجب ہے.بڑے سے بڑا مالدار بھی ہو تو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے.تم اس بات سے مت ڈرو کہ اگر یہ لوگ علیحدہ ہو گئے تو چندے کم ہو جائیں گے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعویٰ کیا تھا تو اس وقت کتنے لوگ چندہ دینے والے تھے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی جماعت پیدا کر دی کہ اب صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ سترہ لاکھ روپیہ کا ہوتا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ دو چار سال میں ہمارا بجٹ پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ تک جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 109 پہنچ جائے گا.پس اگر ایک شخص سے چل کر ہماری جماعت کو اتنی ترقی حاصل ہوئی ہے کہ لاکھوں تک ہمارا بجٹ جا پہنچا ہے تو اگر یہ دس پندرہ آدمی نکل جائیں گے تو کیا ہو جائے گا.ہمیں تو یقین ہے کہ اگر ایک آدمی نکلے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ ہمیں ہزار دے دے گا.پس ہمیں ان کے علیحدہ ہونے کا کوئی فکر نہیں.ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ صرف نام کے احمدی نہ ہوں بلکہ عملی طور پر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہوں.مگر یاد رکھو پردہ سے مراد وہ پردہ نہیں جس پر پرانے زمانہ میں ہندوستان میں عمل ہوا کرتا تھا اور عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں بند رکھا جاتا تھا اور نہ پردہ سے مراد موجودہ برقعہ ہے.یہ برقعہ جس کا آج کل رواج ہے صحابہ کے زمانہ میں نہیں تھا.اس وقت عورتیں چادر کے ذریعہ گھونگھٹ نکال لیا کرتی تھیں جس طرح شریف زمیندار عورتوں میں آج کل بھی رواج ہے.چنانچہ ایک صحابی ایک دفعہ کوفہ کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ پردہ کا ذکر آ گیا اس زمانہ میں برقعہ کی کوئی نئی چیز نکلی تھی وہ اس کا ذکر کر کے کہنے لگے کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس کا کائی رواج نہیں تھا.اس زمانہ میں عورتیں چادر اوڑھ کر گھونگھٹ نکالا کرتی تھیں جس میں سارے کا سارا منہ چھپ جاتا ہے صرف آنکھیں کھلی رہتی ہیں جیسے پرانے زمیندار خاندانوں میں اب تک بھی گھونگھٹ کا ہی رواج ہے.پس شریعت نے پردہ محض چادر اوڑھنے کا نام رکھا ہے اور اس میں بھی گھونگھٹ نکالنے پر زور دیا ہے.ورنہ آنکھوں کو بند کرنا جائز نہیں.یہ عورت پر ظلم ہے.اسی طرح عورت کو اپنے ساتھ لے کر بشرطیکہ وہ پردہ میں ہو سیر کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں.میں نے خود حضرت خلیفہ اول سے سنا کہ امرتسر کے سٹیشن پر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان کو اپنے ساتھ لے کر ٹہل رہے تھے کہ مولوی عبد الکریم صاحب بڑے جوش کی حالت میں میرے پاس آئے اور کہنے لگے مولوی صاحب د دیکھئے حضرت صاحب یہاں ٹہل رہے ہیں اور اماں جان ساتھ ہیں آپ جا حضرت صاحب کو سمجھائیں کہ یہ مناسب نہیں.غیر لوگ سٹیشن پر جمع ہیں اور وہ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 110 اعتراض کریں گے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ میں نے کہا کہ جب آپ کے دل میں ایک اعتراض پید ہوا ہے تو آپ خود حضرت صاحب سے اس کا ذکر کریں میں تو نہیں جاتا آخر وہ خود ہی چلے گئے.تھوڑی دیر کے بعد آئے تو انہوں نے سر نیچے ڈالا ہوا تھا.میں نے کہا مولوی صاحب کہہ آئے ؟ کہنے لگے ہاں میں نے کہا تھا کہ یہ مناسب نہیں.کل ہی سارے اخبارات میں یہ بات چھپ جائے گی اور مخالف اعتراض کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سنا تو آپ نے فرمایا مولوی صاحب وہ کیا لکھیں گے؟ کیا یہ لکھیں کہ مرزا قادیانی اپنی بیوی کو ساتھ لے کر ٹہل رہا تھا اور اگر وہ یہ بات لکھیں تو اس میں ڈرنے کی کون سی بات ہے.غرض اس وقت پردہ میں اتنی شدت تھی کہ اپنی بیویوں کو بھی ساتھ لے کر پھرنا لوگوں کی نگاہ میں معیوب سمجھا جاتا تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے.آپ آخری دنوں میں جب لاہور میں مقیم تھے تو باقاعدہ حضرت اماں جان کو ساتھ لے کر سیر کیا کرتے تھے.آپ چونکہ خود بھی بیمار تھے اور اعصاب کی تکلیف تھی اور حضرت اماں جان بھی بیمار رہتی تھیں اس لئے جب تک آپ لاہور میں رہے روزانہ فٹن میں بیٹھ کر آپ سیر کے لئے تشریف لے جاتے اور حضرت اماں جان بھی آپ کے ساتھ ہوتیں.قادیان میں بھی یہی کیفیت تھی.حضرت اماں جان ہمیشہ سیر کے لئے جاتی تھیں اور ان کے ساتھ ان کی سہیلیاں وغیرہ بھی ہوا کرتی تھیں.پس پردہ کے یہ معنے نہیں کہ عورتوں کو گھروں میں بند کر کے بٹھا دو.وہ سیر وغیرہ کے لئے جاسکتی ہیں.ہاں گھروں کے قہقہے سنے منع ہیں.لیکن اگر دوسروں سے وہ کوئی ضروری بات کریں تو یہ جائز ہے مثلاً اگر وہ ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیں تو بے شک کریں یا فرض کرو کوئی مقدمہ ہو گیا ہے اور عورت کسی وکیل سے بات کرنا چاہتی ہے تو بے شک کرے.اسی طرح اگر کسی جلسہ میں کوئی ایسی تقریر کرنی پڑے جو مرد نہیں کر سکتا تو عورت بھی تقریر کر سکتی ہے.حضرت عائشہ کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپ مردوں کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں بلکہ خود لڑائی کی بھی ایک دفعہ آپ نے کمان کی.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 111 جلد ۲۰ جنگِ جمل میں آپ نے اونٹ پر بیٹھ کر سارے لشکر کی کمان کی تھی.پس یہ تمام چیزیں جائز ہیں جو منع ہے وہ یہ ہے کہ عورت کھلے منہ پھرے اور مردوں سے اختلاط نہ کرے.ہاں اگر وہ گھونگھٹ نکال لے اور آنکھ سے رستہ وغیرہ دیکھے تو یہ جائز ہے لیکن منہ سے کپڑا اٹھا دینا یا مکسڈ پارٹیوں میں جانا جبکہ ادھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور ادھر بھی مرد بیٹھے ہوں یہ ناجائز ہے." الفضل ۲۷ جون ۱۹۵۸ء صفحه ۵،۴) کے قلم سے الفضل ۱۸؍جون ۱۹۵۸ء میں مسودہ سیرت المہدی حصہ چہارم و پنجم کے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وصیت حسب ذیل اعلان سپرد اشاعت ہوا:.” میری کتاب سیرۃ المہدی حصہ اول و دوم وسوم ایک عرصہ سے چھپ کر احباب جماعت کے سامنے آچکی ہے.یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و سوانح کے متعلق خدا کے فضل سے کثیر التعداد وعمدہ روایات اور مفید مواد پر مشتمل ہے.بلکہ میں سمجھتا ہوں اس کے مواد کا معتد بہ حصہ ایسا ہے جو صرف اسی کے ذریعہ محفوظ ہوا ہے ورنہ وہ غالباً ضائع ہو جاتا.چنانچہ حضرت اماں جان اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب.....اور حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت منشی محمد عبداللہ صاحب سنوریؒ اور حضرت میر عنایت علی صاحب مرحوم اور کئی دوسرے اصحاب کی اکثر روایات ایسی ہیں جو سیرت المہدی کے سوا کسی اور اشاعت میں شائع نہیں ہوئیں.اور گو بعض روایات پر گندی فطرت کے مخالفین نے اعتراض کیا ہے اور انہیں غلط رنگ دے کر سادہ طبع غیر احمدیوں کو دھوکا دینا چاہا ہے اور بالکل ممکن ہے کہ بعض روایات میں راویوں کے حافظہ یا سمجھ کی وجہ سے کوئی غلطی بھی ہو گئی ہو کیونکہ حدیث کی طرح ہر زبانی روایت میں یہ دونوں باتیں ممکن ہیں مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ بحیثیت مجموعی سیرۃ المہدی نے تاریخی میدان میں سلسلہ احمدیہ کی عمده خدمت سر انجام دی ہے جس کی قدر و منزلت انشاء اللہ آگے چل کر اور
تاریخ احمدیت 112 بھی نمایاں ہو کر ظاہر ہو گی.بہر حال جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں اس کتاب کے تین حصے شائع ہو چکے ہیں اور ان کے علاوہ میرے پاس دو مزید حصوں کا مواد موجود تھا اور ان بقیہ حصوں کے مسودوں میں بھی خدا کے فضل سے کئی قیمتی روایات درج ہیں جن میں سے زیادہ نمایاں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب.....اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی مرحوم...وغیرہ کی روایات ہیں.اور چونکہ اب میری صحت خراب رہتی ہے اور زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے میں نے ان دونوں حصوں کے مسودے میر مسعود احمد فاضل پسر حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے سپرد کر دیئے ہیں اور انہیں سمجھا دیا ہے کہ اگر اور جب انہیں ان حصوں کو مدون کر کے شائع کرنے کا موقع ملے تو نہ صرف روایات کو عقل ونقل کے طریق پر اچھی طرح چیک کر کے درج کریں بلکہ جہاں جہاں تشریح کی ضرورت ہو وہاں تشریحی نوٹ بھی ساتھ دے دیں.اسی طرح اگر سابقہ تین حصوں میں کوئی غلطی رہ گئی ہو یا کوئی روایت قابل تشریح نظر آئے تو سابقہ روایت کا حوالہ دے کر اس کی بھی تشریح کر دیں.اور میں نے انہیں تاکید کر دی ہے کہ موجودہ زمانہ میں ہمارے مخالفوں کی گندی ذہنیت کے پیش نظر اصول یہ مد نظر رکھیں کہ کسی کمزور یا لاتعلق روایت کو تشریح کے ساتھ درج کرنے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ اسے بالکل ہی ترک کر دیا جائے تا کہ کمزور حدیثوں کی طرح یہ روایتیں فائدہ کی بجائے نقصان کا موجب نہ بن جائیں.میں نے یہ تلخ سبق اپنے زمانہ کے مخالفین کی ناپاک اور پست ذہنیت سے سیکھا ہے.ہاں یاد آیا کہ حصہ چہارم اور حصہ پنجم کے مسودے میں حضرت خلیفہ اول....کی اس وصیت کا اصل کا غذ بھی شامل ہے جو حضور نے اپنی مرض الموت میں آئندہ خلیفہ کے انتخاب کے بارے میں تحریر فرمائی تھی اور پھر اسے مولوی محمد علی صاحب ایم.اے مرحوم سے پڑھوا کر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم کے سپر د کر دیا تھا اور اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم کے دستخط بھی ثبت ہیں.اسی طرح بعض روایات حضرت اماں جان نوراللہ مرقدہا اور بعض جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 113 جلد ۲۰ حضرت خلیفہ صلی الثانی ایدہ اللہ بصرہ کی بھی اس مسودہ میں درج ہیں.اسی طرح اس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی بعض دستخطی تحریر میں بھی شامل ہیں اور اس قرعہ کے کاغذات بھی اسی مسل میں ہیں جو حضرت اماں جان...اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں اور ان کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں ہم تین بھائیوں میں تقسیم ہوئی تھیں.فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ.۱۵؍جون ۱۹۵۸ء ار جولائی ۱۹۵۸ء کو حضرت مصلح موعود نے نوجوانانِ احمدیت کو استیصال عیسائیت نوجوانانِ احمدیت کو متوجہ فرمایا کہ کے لئے سرگرم عمل ہونے کی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد بعثت کسر صلیب ہے لہذا ان کا فرض ہے کہ وہ استیصال عیسائیت کے لئے پوری دنیا میں سرگرم عمل ہو جائیں.چنانچہ حضور نے اسی روز مری میں ایک ولولہ انگیز خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”ہماری جماعت کے نوجوانوں کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں بارہا تحریر فرمایا ہے کہ مجھے خدا نے عیسائیت کے استیصال کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور یہ کام صرف آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص نہیں تھا بلکہ آپ کے سپر د اس عظیم الشان کام کے کرنے کے یہ معنی تھے کہ آپ کے بعد آپ کی جماعت کا یہ فرض ہو گا کہ وہ اس کام کو سنبھالے اور عیسائیت کو مٹانے کی کوشش کرے چنانچہ آپ لوگوں میں سے ہی کچھ نو جوان افریقہ گئے اور وہاں انہوں نے عیسائیت کے خلاف ایسی جدو جہد کی کہ یا تو ایک زمانہ ایسا تھا جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ سارا افریقہ عیسائی ہو جائے گا اور یا آج ہی ایک اخبار میں میں نے ایک انگریز خاتون کا مضمون پڑھا جس میں اس نے لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعے ( دینِ حق ) افریقہ میں بڑی سرعت سے پھیل رہا ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت جو پہلے پہل ٹا نگانیکا میں پھیلنی شروع ہوئی تھی اب مشرقی افریقہ کے اکثر علاقوں میں پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہے.(سنڈے ٹائمنر لنڈن ۲۵ مئی ۱۹۵۸ء)......یه تبلیغ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغوں کی وجہ سے ہی ہو رہی ہے.۱۹۲۷ء میں ہم نے وہاں مشن قائم کئے تھے جن پر اب اکتیس سال کا عرصہ گزر رہا ہے.اس عرصہ میں خدا تعالیٰ
تاریخ احمدیت 114 جلد ۲۰ نے ہماری جماعت کی کوششوں میں ایسی برکت ڈالی کہ اب خود اس انگریز نے تسلیم کیا ہے کہ چار سال کے عرصہ میں پہلے سے دس گنا لوگ مسلمان ہو چکے ہیں.اگر ہمارے نوجوان یورپ اور افریقہ کے عیسائیوں میں تہلکہ مچا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر یہاں کوشش کی جائے تو اس جگہ کے عیسائی بھی ( دین حق ) کے مقابلہ سے مایوس نہ ہو جائیں.لارڈ ہیڈلے جو کسی زمانہ میں پنجاب کے گورنر بھی رہ چکے ہیں جب واپس گئے تو افریقہ میں سے ہوتے ہوئے لنڈن گئے وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ میں افریقہ میں اتنا بڑا تغیر دیکھ آیا ہوں کہ اب میں نہیں کہہ سکتا کہ مسلمان عیسائیت کا شکار ہیں یا عیسائی اسلام کا شکار ہیں.ہمارے وہ مبلغ جنہوں نے ان علاقوں میں کام کیا کوئی بڑے تعلیم یافتہ نہیں تھے.مگر جب وہ خدا تعالیٰ کا نام پھیلانے کے لئے نکل گئے تو خدا نے ان کے کام میں برکت ڈالی اور اکیلے اکیلے آدمی نے بڑے بڑے علاقوں پر اثر پیدا کر لیا اور انہیں اسلام کی خوبیوں کا قائل کر لیا مگر اب وہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ اور آدمی بھی آئیں جو ان علاقوں میں تبلیغ ( دیں) کا کام سنبھا لیں.تاکہ اسلام سارے افریقہ میں پھیل جائے اور یہ کام ان نوجوانوں کا ہے جو ابھی وہاں نہیں گئے شروع شروع میں تو ایسے نوجوان بھجوائے گئے تھے جنہیں عربی بھی اچھی طرح نہیں آتی تھی مگر رفتہ رفتہ انہوں نے اچھی خاصی عربی سیکھ لی.مولوی نذیر احمد صاحب جنہوں نے وہیں وفات پائی ہے نیر صاحب کے بعد بھجوائے گئے تھے اور بی ایس سی فیل تھے اور عربی بہت کم جانتے تھے مگر پھر بھی انہیں ایسی مشق ہو گئی کہ وہ عربی زبان میں گفتگو بھی کر لیتے تھے اور بڑی بڑی کتابوں کا بھی مطالعہ کر لیتے تھے.بلکہ آخر میں تو انہوں نے عربی کی اتنی کتابیں جمع کر لی تھیں کہ جو اعتراض ہوتا اس کا جواب وہ فوراً ان کتابوں سے نکال کر پیش کر دیتے تھے.وہاں مالکیوں کا زور ہے اور وہ لوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں انہوں نے کتابوں میں سے نکال کر دکھایا کہ امام مالک بھی یہی کہتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنے چاہئیں جس پر وہ لوگ بڑے حیران ہوئے اور انہیں یہ بات تسلیم کرنی پڑی کہ آپ کی بات درست ہے.اب بھی وہاں سے خط آیا ہے کہ ہمارا ایک مبلغ جو مولوی فاضل ہے اس سے وہاں کے مولوی نے بحث کی.وہاں کے علماء عربی زبان خوب جانتے ہیں اور ہمارا یہ مبلغ زیادہ عربی نہیں جانتا تھا مگر چونکہ دل میں ایمان تھا اس لئے مقابلہ کے لئے تیار ہو گیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ عربی میں مباحثہ ہو.چنانچہ عربی زبان میں مباحثہ ہوا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مخالف مولوی سب بھاگ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم احمدیوں سے بحث نہیں کر سکتے یہ لوگ تو پاگل ہیں جنہیں ہر وقت مذہبی باتیں
تاریخ احمدیت 115 جلد ۲۰ کرنے کا ہی جنون رہتا ہے.تو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمیں کچھ آتا نہیں جب انسان خدا تعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ خود اس کی مددفرماتا ہے اور اس کی مشکلات کو دور فرما دیتا ہے.خواجہ کمال الدین صاحب کو ہی دیکھ لو انہیں نماز پڑھانی بھی نہیں آتی تھی مگر رفتہ رفتہ انہوں نے ایسی قابلیت پیدا کر لی کہ مشہور لیکچرار بن گئے.مولوی محمد علی صاحب بھی گوایم اے ایل ایل بی تھے اور کالج کے پروفیسر تھے مگر عربی سے انہیں زیادہ مس نہیں تھا لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے ایسی ترقی کہ قرآن کی تفسیر لکھ ڈالی تو جب انسان کو کسی کام کی دھت لگ جائے وہ اس میں ترقی حاصل کر لیتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں انہوں نے بعض مولوی بھی اپنی مدد کے لئے رکھے ہوئے تھے مگر ان کی باتوں کو استعمال کرنے کے لئے بھی تو لیاقت کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ ہمارے ملک میں سینکڑوں مولوی پھرتے ہیں وہ کیوں کوئی تفسیر نہیں لکھ سکتے.ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی نے بھی اس شوق کی وجہ سے ترقی کی اور اس نے قرآن کی تفسیر لکھ دی اس نے حضرت خلیفہ اول سے قرآن سیکھا اور آپ کے درسوں میں شامل ہوتا رہا پھر خود بھی کتابوں کا مطالبہ کرتا رہا اور آخر اتنی ترقی کر لی کہ مفسر بن گیا.پس جماعت کے سب دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی کوشش اور جد و جہد اور نیک نمونہ کے ذریعہ سے عیسائیت کو شکست دینے کی کوشش کریں یہ مت سمجھو کہ عیسائیت تو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ہم اس کو شکست دینے میں کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں.آج ہی میں قرآن پڑھ رہا تھا کہ مجھے اس میں یہ پیشگوئی نظر آئی کہ عیسائیت آخر شکست کھائے گی.اور وہ دنیا سے مٹا دی جائے گی.پس عیسائیت کی ظاہری ترقی کو دیکھ کر مت گھبراؤ.اللہ تعالیٰ ( دین حق ) کی ترقی کے سامان پیدا فرمائے گا اور کفر کو شکست دے گا.ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے اندر ایمان پیدا کرو اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ جس کے لئے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے.اخبار ” صدق جدید میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا تذکرہ مغربی افریقہ کی آزاد مملکت غانا کے ایک مشہور انگریزی اخبار گئی ٹائمنز کی ۷ مارچ ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں جو پین فورڈ (JOE PANFORD) نامی ایک عیسائی کا اسلام کے خلاف ایک دل آزار مضمون شائع ہوا اس میں مضمون نگار نے پانی کے ساتھ طہارت کو گندہ اور گھناؤنا طریق قرار دے کر اسلام اور مسلمانوں پر ناروا حملے کئے.اس کے جواب میں احمد یہ کالج کماسی غانا کے وائس پرنسپل جناب سعود احمد صاحب دہلوی نے ایک مختصر
تاریخ احمدیت 116 جلد ۲۰ سے نوٹ میں یورپی مصنفین کے حوالے سے ثابت کیا کہ آبدست میں کاغذ کی بجائے پانی کا استعمال اصول حفظانِ صحت کی رو سے زیادہ بہتر اور مفید ہے.چنانچہ ان کا یہ نوٹ گنی ٹائمنز کی انگلی اشاعت یعنی ۱۴ مارچ ۱۹۵۸ء کے پرچے میں شائع ہوا.اسلام کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کا موجب بنا.”جناب سعود احمد صاحب وائس پرنسپل احمد یہ کالج کماسی مغربی افریقہ کے اس حقیقت افروز نوٹ کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.آپ نے لکھا کیا مسٹر جیو پین فورڈ سی ایم ایس گرامر سکول لیکس کے سابق پرنسپل مسٹر جے ای ایولیس بی ایس سی ( لندن ) ایل سی پی کی کتاب TROPICAL HYGIENE ( جس پر کہ ڈبلیو ٹو ڈ ایل آرسی پی (لنڈن ) ایم آرسی ایس (انگلینڈ) نے نظر ثانی کی ہے اور جابجا اس میں اضافے کئے ہیں ) کے حسب ذیل اقتباس کو پڑھنے کی زحمت اٹھا ئیں گے.آبدست کے وقت کاغذ کی نسبت پانی کا استعمال زیادہ بہتر ہے.وہ یورپی باشندے جو مشرقی ممالک میں جا کر آباد ہو جاتے ہیں وہ بالعموم پانی استعمال کرنے کا طریق استعمال کر لیتے ہیں جو لوگ اس طریق کے عادی ہو چکے ہوں انہیں اس کو جاری رکھنا چاہئے اور اسے ترک نہیں کرنا چاہئے.طہارت کے وقت خواہ پانی استعمال کیا جائے خواہ کاغذ دونوں صورتوں میں یہ ضروری ہے کہ فراغت کے بعد ہاتھوں کو صابن اور پانی سے صاف کیا جائے.“ ہمارے نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر مشتمل جملہ کتب میں یہ مذکور ہے کہ آپ رفع حاجت کے بعد اپنے ہاتھ صابن یا اس زمانے کے مروج اس قسم کے دوسری چیز سے دھویا کرتے تھے.چنانچہ وہ تمام مسلمان جنہوں نے اپنی زندگیوں کو ہادی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم اور آپ کے نمونہ کے مطابق ڈھالا ہوا ہے اسی طریق پر عمل پیرا ہیں.محولہ بالا سند کی روشنی میں کیا میں مسٹر بین فورڈ سے دریافت کر سکتا ہوں کہ ” جناب اب فرمائیے پانی استعمال کرنے کا طریق گندا اور گھناؤنا ہے یا کاغذ کا ؟“ پھر یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ اسلام کے نزدیک پاکیزگی اور صفائی روحانیت کا لازمی جزو ہے.برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ جان دیزلے نے پاکیزگی کو روحانیت سے خارج کرتے ہوئے اسے دوسرے درجے پر رکھا ہے جیسا کہ اس کی خودساختہ ضرب المثل سے ظاہر ہے کہ
تاریخ احمدیت 117 جلد ۲۰ پاکیزگی اور صفائی کو روحانیت کے بعد ثانوی حیثیت حاصل ہے.“ (سعود احمد کماسی مغربی افریقہ ) برصغیر کے نامور فاضل و ادیب مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے اخبار ”صدقِ جدید میں اس واقعہ پر حسب ذیل نوٹ سپر د قلم فرمایا : ایک دفاعی خدمت : - گھانا مغربی افریقہ کا ایک ہفتہ وار گنی ٹائمز (GUINA TIMES) ہے اس کا ۷ مارچ ۱۹۵۸ء کا ایک تراشہ ڈاک سے موصول ہوا ہے جس میں پرچہ کے خصوصی مقالہ نگار جو بین فورڈ کا ایک بیہودہ سا شذرہ اس مضمون کا درج ہے کہ اسلام کی خوبیاں اپنی جگہ مسلم و قابل داد ہیں لیکن اس میں یہ کیا گندہ اور گھناؤنا طریقہ آبدست لینے کا بجائے کاغذ کے پانی سے رکھا گیا ہے!.لیکن اس تکلیف دہ شذرہ کا جواب بھی دل کو یہ دیکھ کر کیسی خوشی ہوئی کہ پہلے ہی ہفتہ ۱۴؍ مارچ کے پرچے میں نکل گیا کہ اس اسلامی تعلیم میں گندگی کا کوئی ذرا سا پہلو نہیں بلکہ فلاں فلاں ڈاکٹروں کی مستند طبی کتاب "TROPICAL HYGENE" میں فلاں عبارت موجود ہے جس میں صراحت سے پانی کو بجائے کاغذ کے پسند کیا گیا ہے.یہ شانی مدلل جواب ایک احمدی ( قادیانی ) سعود احمد (وائس پرنسپل احمد یہ کالج کماسی) کے قلم سے ہے.اس جماعت کو اسلام سے خارج کرتے وقت آخر اس کی ان ساری خدمات کو کیسے نظر انداز کر دیا جائے.عیب مے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو بھی تو ایک حکیمانہ عادلانہ ہی قول ہے.66 مولانا عبدالماجد صاحب نے اس کے بعد اسی اخبار کی ۱۹ رستمبر ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں صفحه ۳ و ۵ میں سبق آموز کے زیر عنوان تحریر فرمایا : - پچھلے ہفتہ ڈاک سے ایک پیکٹ موصول ہوا جس کے اندر.” 66 ނ ۶ پرچے ایک انگریزی جو ہفتہ وار دی ٹروتھ (TRUTH) کے برآمد ہوئے.پرچے کی پہلی جھلک کچھ اسلامی رنگ کی نظر آئی.حیرت ہوئی کہ یہ انگریزی پر چہ مسلمانوں میں نکالنے والا کون اور کہاں کا ہے؟ دوسرے ہی لمحہ معلوم ہو
تاریخ احمدیت 118 جلد ۲۰ گیا کہ پر چہ احمدیوں ( قادیانیوں) کا ہے اور مقام لاگوس سے ہر ہفتہ شائع ہوتا رہتا ہے.خود یہ لاگوس ہے کہاں؟ کس ملک بلکہ کس براعظم میں؟ اپنی جغرافیہ دانی جواب دیتی معلوم ہوئی.خاصے غور اور تامل کے بعد خیال آیا کہ یہ تو کہیں مغربی افریقہ کے کسی برطانوی علاقے میں واقع ہے.دنیا کے ایک دور افتادہ گوشے میں ہندوستان اور پاکستان دونوں سے ڈیڑھ دو ہزار میل کے فاصلے پر جہاں تک رسائی بھی آسان نہیں.پھر ایک انسائیکلو پیڈیا کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ ملا کہ لاگوس کی آب و ہوا بھی بہت خراب ہے.اور یہاں شہری تمدن کے ذرائع رسل و رسائل بھی دشوار ہیں.قادیانیوں کے عقائد کو چھوڑئیے.ان کی یہ ہمت، تنظیم، سرگرمی، انہماک تبلیغ بھی ہمارے لئے سبق آموز اور رشک انگیز نہیں؟“ حضرت مصلح موعود کا پیغام انڈونیشیا ۱۹۴۹ء سے جماعت احمد یہ انڈونیشیا کی سالانہ کانفرنس با قاعدگی سے منعقد ہو رہی تھی.اس سال کی احمدی جماعتوں کے نام یہ کانفرنس گاروت شہر میں ۱۸ تا ۲۰ جولائی ۱۹۵۸ء / کو منعقد ہوئی.جس کے لئے حضرت مصلح موعود نے حسب ذیل روح پرور پیغام دیا:- مری ۱۶ جولائی ۱۹۵۸ ء.میں انڈونیشیاء کے احمدی مردوں اور وو عورتوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور ان کی کانفرنس کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اپنی تبلیغی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا ورنہ اس وقت تک جماعت کے افراد کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز ہو چکی ہوتی.میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے طریقہ کار میں اصلاح کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدائے تعالیٰ اور مخلوق کے بچے خادم ثابت کریں گے.خدا تعالیٰ آپ کے ملک کو برکت دے اور ہمیشہ صحیح راستے کی طرف اس کی رہنمائی فرماتا رہے.“ (خلیفة المسیح الثانی) حضور کا یہ برقی پیغام کا نفرنس کے دوسرے روز ۱۹ جولائی کے پہلے اجلاس کے دوران
تاریخ احمدیت 119 جلد ۲۰ عین اس وقت موصول ہوا جبکہ جناب راڈن ہدایت کی صدارت میں جناب آؤنگ حمید صاحب جنرل سیکرٹری سالانہ رپورٹ سنا رہے تھے.حضور کی طرف سے بذریعہ تار پیغام موصول ہونے پر اجلاس دس پندرہ منٹ کے لئے ملتوی کر دیا گیا تا اس عرصہ میں تار کا انڈونیشین زبان میں ترجمہ کیا جا سکے.ترجمہ مکمل ہونے پر اجلاس دوبارہ شروع ہوا.سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے پیغام پڑھ کر سنایا.اس سے قبل بھی حضور کے متعدد پیغامات سنائے گئے تھے لیکن یہ پیغام مختصر ہونے کے باوجود بہت ہی مؤثر ثابت ہوا.اور سب انڈونیشین احمد یوں پر رقت طاری ہو گئی.شاہ صاحب نے پیغام پڑھنے کے بعد کہا کہ یہ مختصر پیغام اپنی تفصیل آپ ہے میں صرف یہی کہتا ہوں کہ اللہ کا نام لے کر حضور کے پیغام کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے عملی جد و جہد شروع کر دیں.
تاریخ احمدیت 120 جلد ۲۰ فصل دوم حضرت سیّدہ ام ناصر کا المناک وصال حضرت سیدہ اُمم ناصر حرم اول حضرت مصلح موعود جو خواتین مبارکہ کی الہامی بشارت کا اولین مصداق ہونے کے باعث آیت اللہ تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے پہلی اور بڑی بہو ہونے کا شرف رکھتی تھیں اس سال ۳۱ جولائی ۱۹۵۸ء کو چھ بجے صبح مری میں انتقال فرما گئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.(الفضل یکم اگست ۱۹۵۸ء صفحہ ) حضرت سیدہ اُئِم ناصر مری میں قیام فرما تھیں کہ ۱۸؍جولائی ۱۹۵۸ء کو آپ کو بخار ہوا جو مرض الموت ثابت ہوا اور آپ قریباً دو ہفتے بیمار رہنے کے بعد ۳۱ / جولائی ۱۹۵۸ء کو قریباً چھ بجے صبح داغ مفارقت دے گئیں.خدا کی قدرت ادھر آپ کا انتقال ہوا ادھر حضرت مصلح موعود جابہ کے مقام سے مری کے لئے روانہ ہو گئے اور راولپنڈی پہنچ کر حضور کی خدمت میں یہ درد ناک اطلاع پہنچی کہ حضرت سیدہ کا وصال ہو گیا ہے.صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:.امی جان کو حضور کا بہت انتظار تھا.اور کئی بار پوچھ بھی چکی تھیں.مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.وفات کے بعد فوری طور پر تمام بزرگوں اور عزیزوں کو اس سانحہ کی اطلاع ٹیلیفون و تاروں کے ذریعے کر دی گئی.اسی طرح راولپنڈی کی جماعت کو فون پر ہدایت کر دی گئی کہ جب حضور راولپنڈی پہنچیں تو حضور کو اس کی اطلاع کر دی جائے.حضور گیارہ بجے کے قریب مری پہنچے.حضور کے ہمراہ میاں ناصر احمد صاحب و ہمشیرہ ناصرہ بیگم بھی پہنچ گئیں.کوٹھی پہنچ کر حضور اماں جان کے کمرہ میں تشریف لے گئے اور ان کے سرہانے کھڑے ہو کر اپنی پچپن سالہ شریک زندگی کے چہرے پر نظر ڈالی جو ایک دلر با مسکراہٹ کے ساتھ ابدی نیند سو رہی تھی اور انا للہ پڑھ کر دوسرے کمرے میں تشریف لے گئے اور مجھے فرمایا کہ کیا تمہاری اماں نے کسی خواہش کا اظہار کیا تھا ؟ جس پر میں نے عرض کیا
تاریخ احمدیت 121 جلد ۲۰ که صرف حضور کو ملنے کی شدید تڑپ تھی.اس کے بعد حضور نے قبر وغیرہ تیار کرنے کی ہدایت فرمائی کہ ربوہ فون کر دیا جائے اور ساتھ ہی فرمایا کہ غسل اور کفن مری میں ہی دیا جائے.چنانچہ مولوی محمد اشرف صاحب ناصر مربی مری کفن تیار کروانے گئے.اور پانی وغیرہ تیار کروا کر والدہ لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ اور خوش دامنہ صاحبہ کیپٹن محمد سعید صاحب نے امی جان کو غسل دیا.ان کے معاون کے طور پر سیده مهر آپا صاحبہ و سکینه بی بی خادمه سیده ام متین صاحبہ اور رشیدہ بی بی خادمہ عزیزه امتہ العزیز نے کام کیا.لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ نے اس سلسلہ میں مناسب امداد کی.فجزاهم الله احسن الجزاء اس طرح غسل اور کفن پہنانے کے بعد تقریباً سوا تین بجے حضرت مصلح موعود نے حاضر خدام کے ساتھ جن میں مری کے کچھ دوست بھی شامل تھے نماز جنازہ پڑھائی.جنازہ کو ایک بس میں چار پائی پر رکھا گیا.اور سب حاضر افراد خاندان و دیگر دوست حضرات مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں جنازہ کو لے کر چار بجے کے قریب مری سے روانہ ہوئے.اور چھ بجے کے قریب راولپنڈی پہنچے.راولپنڈی جنازہ کو دوسری بس میں منتقل کیا گیا.اس طرح سامان و سواریاں دوسری بسوں میں منتقل ہوئیں اور سات بجے راولپنڈی سے روانہ ہوئے.راولپنڈی کی جماعت بھاری تعداد میں سڑک پر پیر انوارالدین صاحب کے مکان کے سامنے موجود تھی جہاں شامیانے لگوا دئیے گئے تھے اور دوسری بسیں تیار تھیں تا ہمارے لئے بسیں تبدیل کرنے میں سہولت رہے.ان دوستوں نے ہر طرح سے ہمارے آرام کا خیال رکھا.فجز اہم اللہ احسن الجزاء.سات بجے راولپنڈی سے روانہ ہو کر سوہاوا، چکوال، تلہ گنگ، جابہ ، خوشاب کے راستہ سے ہوئے ہوئے ہم لوگ تین بجے ربوہ کی حدود میں داخل ہوئے جہاں ہزاروں مرد بچے اور عورتیں ہمارے انتظار میں رات بھر سے جاگ کر سڑک پر کھڑے تھے.فجزاهم الله احسن الجزاء.“ ( روزنامہ الفضل ۱۲ را گست ۱۹۵۸ء صفحه ۴ ) صو بیدار عبدالغفور خاں صاحب سابق افسر حفاظت ۳۱ جولائی ۱۹۵۸ء کے اس
تاریخ احمدیت 122 اندوہناک سفر کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:.کون جانتا تھا کہ آج کا آفتاب ہمارے لئے ایک غم اور نا قابلِ برداشت صدمہ کا پیغام لے کر آرہا ہے.۵۸-۷-۳۱ کا آفتاب صبح طلوع ہو رہا تھا مخلہ میں ہمارا قافلہ مری جانے کے لئے تیاریاں کر رہا تھا.سارے انتظامات مکمل ہو جانے پر حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اطلاع پہنچائی گئی کہ سارا قافلہ سفر کے لئے تیار کھڑا ہے.حضور پونے چھ بجے تشریف لائے.موٹروں میں بیٹھنے سے پہلے ساری موٹروں اور ہم سفر احباب پر ایک نظر ڈالی اور پھر موٹر میں بیٹھ گئے.جونہی ہم نخلہ کی سڑک سے پختہ سڑک پر پہنچے حضور نے وقت اور تلہ گنگ کا فاصلہ دریافت فرمایا.خاکسار کے جواب پر حضور نے اندازہ فرمایا کہ اتنی دیر میں ہم پنڈی پہنچ جائیں گے.اور پھر تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد حضور طے شدہ فاصلہ اور وقت دریافت فرماتے رہے جس سے حضور کا منشاء مبارک یہ معلوم ہوتا تھا کہ تیز پہنچنے کی کوشش کی جائے.چنانچہ موٹر کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی.ہم سوا آٹھ بجے پشاور پنڈی روڈ والے پہلے پٹرول پمپ پر جب پٹرول ڈالنے کے لئے رکے تو حضور کو اتنی دیر کے لئے بھی رکنا پسند نہیں تھا.اس لئے جلدی جلدی پٹرول ڈال کر روانہ ہوئے.مگر جوں ہی ہم شہر کے درمیان پہنچے اچانک ہماری کاریں جماعت احمد یہ راولپنڈی کے افراد نے اشارہ کر کے روک لیں.چونکہ حضور کسی رکاوٹ کو پسند نہیں فرماتے تھے میں تیزی سے احباب کو بتانے کے لئے اترنے لگا اتنے میں پیر انوارالدین صاحب نے فوراً آگے بڑھ کر موٹر کا دروازہ کھولا اور حضور کے دست مبارک کو بوسہ دے کر سسکیاں بھرتے ہوئے یہ المناک خبر سنائی کہ مری سے ٹیلیفون کے ذریعے خبر ملی ہے کہ سیّدہ ام ناصر صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہے.انا للہ وانا الیہ راجعون.یہ خبر سب قافلے کے دلوں میں نشتر کی طرح چھی.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے جو قافلے کی رہنمائی فرما رہے تھے چلنے کا حکم دیا.قافلہ روانہ ہوا اور خاکسار ہر سنگِ میل پر طے شدہ فاصلہ کی خبر حضور کو پہنچا تا رہا.حتیٰ کہ جب چھرہ پانی پہنچے تو موٹر اتنی گرم ہو گئی تھی کہ آگے چلنے کے قابل نہ رہی تھی.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 123 گیارہ بجے چھرہ پانی سے جیپ میں سے چند سواریاں اتار کر حضور اور خاکسار جیپ کے فرنٹ سیٹ پر اور محترمہ سیدہ ام متین صاحبہ پیچھے بیٹھ گئیں.جیپ کے ڈرائیور کو ہدایت ملی کہ تم جتنا تیز چلا سکتے ہو چلا ؤ.یہاں سے وقت اور مسافت کی اطلاع دینے کی ذمہ داری حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے اٹھالی.آخر خدا خدا کر کے ہم مری پونے بارہ بجے پہنچے.حضور کی آمد کی اطلاع راستہ ہی میں ٹیلیفون پر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے کر دی تھی.حضرت میاں صاحب والی کار بھی زیادہ تیز رفتاری کی وجہ سے عین چندمیل میں آکر فیل ہو گئی اور وہاں سے وہ بمعہ سواریوں کے پیدل کوٹھی کی طرف آرہے تھے.جب ہماری جیپ اکیلی کا نیشیا لاج پہنچی تو سب حیران ہو گئے.مگر جوں ہی جیپ کوٹھی میں داخل ہوئی تو خاندان کے تمام افراد اور احباب نے جیپ کے گرد گھیرا ڈال لیا.خاکسار نے جب ایک نظر کوٹھی پر ڈالی اور پھر اس کے مکینوں اور دوسرے احباب پر جس میں ہر وقت گہما گہمی رہتی تھی اور ہر شخص ہشاش بشاس رہتا تھا اور جن کے چہروں پر کبھی ملال نہ دیکھا تھا آج سب کی آنکھیں اپنی پیاری امی جان کی جدائی کے ناقابل برداشت صدمہ سے سرخ اور سوجی ہوئی تھیں.حضور کو دیکھتے ہی ان کی آنکھیں جو آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں پھر چھلک گئیں.یہ وقت میرے لئے بہت نازک تھا.مجھے سے بھی ان کا دکھ دیکھا نہیں جاتا تھا میں چاہتا کہ ان میں ہر ایک کے گلے لپٹ کر زور زور سے چلاؤں مگر میری ذمہ داریاں مجھے ہر بار روک دیتیں.پھر خاکسار کئی دفعہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے پاس آتا تو ان کو بہت صبر اور تحمل سے ٹیلیفون پر مختلف لوگوں اور شہروں کو پیغامات دیتے دیکھتا.اور اس طرح باہر کے مہمانوں اور حاضرین سے ملتے اور بہت صبر اور حوصلہ سے باتیں کرتے دیکھتا تو طبیعت میں قدرے سکون پیدا ہو جاتا.تین بجے تک غسل اور تکفین کے تمام انتظامات مکمل ہو جانے کے بعد جنازہ باہر صحن میں لایا گیا اور حضور نے نماز جنازہ پڑھائی.اس کے بعد جنازہ کو اٹھا کر لاری میں رکھا گیا.عین اس وقت مجھے خیال آیا کہ جب ۱۹۵۷ء میں ہمارا قافلہ مری کو چھوڑ رہا تھا اور حضرت امی جان سنوڈن کوٹھی سے نیچے سڑک تک پالکی میں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 124 سواران دشوار گزار راستہ پر اتاری جارہی تھیں اس وقت میں نے ان کی پالکی کو کندھا دیا تھا لیکن اب آج مری سے روانگی کے وقت ان کے جنازہ کو کندھا دے رہا ہوں.انتظامات مکمل ہو جانے پر چار بجے خاندان کے افراد کے لئے دو بسوں کا انتظام کیا گیا تھا.اس میں سب بیٹھ گئے اور ہمارا قافلہ روانہ ہوا راستہ میں باقی قافلہ چھرہ پانی میں تھوڑی دیر کے لئے رک گیا مگر حضور نے فرمایا کہ ہم تریٹ میں نماز ظہر وعصر پڑھ کر چلیں گے.اس لئے ہم آگے تریٹ چلے گئے.جب ہم نماز سے فارغ ہوئے سارا قافلہ روانہ ہوا اور تقریباً چھ بجے ہم راولپنڈی پہنچے.وہاں بزرگانِ جماعت راولپنڈی اور خدام اپنے محبوب آقا کی آمد کا انتظار کر رہے تھے.قافلہ کے لئے چائے اور پانی کا مناسب انتظام کیا گیا تھا.پیر صاحب اور جماعت راولپنڈی کے خدام بھاگ بھاگ کر ہر دوست کی خدمت میں پانی و چائے پیش کر رہے تھے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے.آمین.وہاں پنجاب بس ٹرانسپورٹ کی دو بسوں کا انتظام کیا گیا تھا اور جنازہ کی حفاظت کے لئے کافی مقدار میں برف کا انتظام بھی کیا گیا تھا.ان بسوں میں سامان، سواریاں اور جنازہ منتقل کیا گیا.جماعت پنڈی کے چند خدام دو موٹروں کے ساتھ ہمارے قافلہ میں شامل ہوئے.ساڑھے سات بجے راولپنڈی سے پٹرول ڈلوا کر قافلہ براستہ چکوال روانہ ہوا.سورج غروب بھی ہو رہا تھا مگر ہمارے غموں میں کوئی کمی نہیں آ رہی تھی.بلکہ لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہی ہو رہا تھا.میں اس ہے راستے سے واقف نہ تھا جب حضور نے دریافت فرمایا کہ چکوال کتنے میل.میں نے آنکھوں پھاڑ کر میل سٹون کو دیکھا مگر جہلم اور لاہور کے علاوہ اور کچھ لکھا نہ پایا.میں نے سمجھا کہ شاید غلطی سے پڑھ نہ سکا ہوں گا پھر دوسرے میل سٹون کو زیادہ غور سے دیکھا مگر اس پر بھی چکوال نہیں لکھا تھا.میں نے عرض کیا حضور چکوال نہیں لکھا ہے شاید یہ یاد نہ رہا تھا کہ چکوال کا راستہ آگے جا کر جدا ہوتا ہے حضور نے پھر دریافت فرمایا کہ چکوال کتنے میل ہے میں نے پھر بڑی کوشش کی مگر حیران تھا کہ چکوال آخر کیوں نہیں لکھا.میں نے پھر عرض کیا حضور جہلم اور لاہور لکھا ہے چکوال کہیں نہیں لکھا.کئی سنگ میل پر تو کچھ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 125 بھی نہ لکھا ہوا تھا.جس کی وجہ سے اور بھی الجھن پیدا ہو جاتی.میری پریشانی اور حیرانی کا احساس حضور کو بھی ہوا.حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ چکوال نہیں تو پشاور یا مردان ضرور لکھا ہو گا ہم چکوال جا رہے ہیں اور تم لاہور اور جہلم بتا رہے ہو.آخر حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے چکوال کے راستہ کی وضاحت کر کے میری مشکل حل کر دی.مدراں تھانہ کے پاس ہماری ایک موٹر کی روشنی خراب ہو گئی اور وہاں قافلہ کو تقسیم کرنا پڑا.بسیں اور خدام الاحمدیہ کی موٹریں پہلے چکوال روانہ کر دیں اور باقی کار میں تھوڑی دیر میں روشنی ٹھیک ہونے کے بعد روانہ ہوئیں.اب چکوال کی سنسان سڑک پر یہ برق رفتار قافلہ جا رہا تھا.رات پونے دس بجے ہم چکوال پہنچے.حضور کا ارشاد ہوا چکوال کے ڈاک بنگلہ میں نماز مغرب اور عشاء پڑھیں گے.چنانچہ اسی وقت ڈاک بنگلہ پہنچے.حضور کے پیچھے مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھنے کا موقعہ ملا.پونے گیارہ بجے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا ڈاکٹر منور احمد صاحب کے مشورہ سے ربوہ کو براستہ تلہ گنگ قافلہ روانہ ہوا.اب چونکہ آدھی رات کا وقت ہو گیا تھا.حضور نے احباب ربوہ کے انتظار اور پریشانی کے خیال سے تیز چلنے کا ارشاد فرمایا.ہماری ہر موٹر آج ربوہ اڑ کر پہنچنا چاہتی تھی.حضور نے پھر مسافت دریافت فرمائی چنانچہ حکم کی تعمیل کی گئی.یہ سفر جو غم زدہ اور پریشان حال اور دکھے دلوں کا نہ بھولنے والا سفر تھا اس میں مجھے درود شریف اور استغفار پڑھنے کا بہت موقعہ ملا.اور صحیح سلامت پہنچنے اور حضور کی درازی عمر وصحت یابی اور خاندان حضرت مسیح موعود اور سلسلہ کے تمام کارکنوں اور مبلغین کے لئے اور اپنے جملہ خاندان کے لئے دعائیں کرتا رہا.اس طرح جس نے بھی مجھے دعا کے لئے کہا میں نے سب کے لئے اس سفر میں باوجود اتنی مصروفیت کے بارگاہ الہی سے دعائیں مانگیں کہ ہم سب کو اپنے فضل کے سایہ تلے ہمیشہ رکھے.آمین.اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے.آمین ثم آمین.رات کے پونے دو بجے ہم خوشاب پہنچے.یہاں بہت سے احباب حاضر تھے.خوشاب کے محترم چوہدری نثار احمد صاحب جو بہت ہی مخلص جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 126 دوست ہیں قافلے کے لئے پانی کا اور جنازہ کے لئے برف کا انتظام کئے رات بھر سے انتظار کر رہے تھے.حضور نے انہیں شرف باریابی بخشا.چند مخلص اور جانثار دوست طارق کمپنی کی ایک بس میں ربوہ ہی سے خوشاب پہنچ ای گئے تھے جس میں اور دوستوں کے علاوہ چوہدری صلاح الدین صاحب اور سید احمد صاحب بھی شامل تھے.خوشاب سے پٹرول ڈلوا کر قافلہ اسی رفتار سے روانہ ہوا.جب احمد نگر کے پاس پہنچے تو احمد نگر کے احباب ملے جو ساری رات سڑک پر اپنے پیارے آقا کی آمد کا انتظار کرتے رہے تھے.سوا تین بجے یہ غم زدہ قافلہ ربوہ کے اڈہ سے گزر رہا تھا جہاں بہت بڑا ہجوم قطاریں باندھے ہمارا انتظار کر رہا تھا.اور کچھ لوگ آمد کی خبر سن کر ننگے پاؤں اور ننگے سر گھروں سے دوڑ کر آتے ہوئے نظر آ رہے تھے.موٹریں آہستہ آہستہ ان کے سامنے سے گزر رہی تھیں اور حضور سب کے سلام کا جواب دے رہے تھے.جب ہم قصر خلافت میں پہنچے تو تمام خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بزرگان سلسلہ اور چھوٹے بڑے سینکڑوں کی تعداد میں کھڑے تھے.حضور کار سے اتر کر اندر تشریف لے گئے.تب معلوم ہوا کہ جنازہ والی بس ابھی تک نہیں پہنچی.اس وقت بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا مگر خدا کا فضل ہوا کہ تھوڑی دیر کے بعد جنازہ والی بس پہنچ گئی.جب یہ بس آکر کھڑی ہوئی تو دل ہلا دینے والا منظر سامنے تھا کہ سب لوگ حضرت امی جان کے جنازہ کو دیکھ کر بے حد سسکیاں بھرنے لگے.سب حاضرین نے بڑھ چڑھ کر کندھا دینے کی کوشش کی.جنازہ اندر پہنچایا گیا.۳۷ نماز جنازہ اور تدفین الفضل کے خصوصی نامہ نگار کی رپورٹ ہے کہ : - در صبح چھ بجے تک مستورات کو حضرت سیدہ مرحومہ کی زیارت کا موقع دیا گیا.چنانچہ مستورات نے ہزاروں کی تعداد میں حاضر ہو کر زیارت کا شرف حاصل کیا.ساڑھے چھ بجے صبح حضور حضرت سیدہ مرحومہ کے مکان کے بیرونی صحن میں جہاں جنازہ رکھا ہوا تھا تشریف لے آئے.پونے ساتھ بجے حضرت سیدہ مرحومہ کے مکان سے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 127 جنازہ باہر لایا گیا.جبکہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نونہالوں نے اسے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا.باہر لا کر تابوت ایک چار پائی پر رکھ دیا گیا.اور اس کے ساتھ دو لمبے بانس باندھ دیئے گئے تا کہ زیادہ سے زیادہ احباب بآسانی کندھا دینے کی سعادت حاصل کر سکیں.اس موقعہ پر بزرگان سلسلہ اور ناظر و وکلاء صاحبان کے علاوہ دور و نزدیک کی بڑی بڑی احمدی جماعتوں کے نمائندگان بھی موجود تھے.یہاں سے جنازہ جو ایک تابوت میں رکھا ہوا تھا بیت المبارک کے احاطہ سے باہر لایا گیا.باہر سوگوار عورتوں اور مردوں کا ایک جم غفیر موجود تھا.احباب ایک نظام کے ما تحت باری باری کندھا دینے کی سعادت حاصل کر رہے تھے.سات بجے جنازہ مقبرہ بہشتی کے میدان میں پہنچ گیا.اور احباب نماز جنازہ کے لئے صفوں میں کھڑے ہو گئے.سواسات بجے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بذریعہ کار تشریف لائے اور حضور نے نماز جنازہ پڑھائی.جنازہ میں شریک ہونے والے احباب نو لمبی صفوں پر مشتمل تھے جن میں سے ہر صف میں کم و بیش پانچ سو افراد تھے.نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جنازہ کو حضرت اماں جان نوراللہ مرقد با کے مزار مبارک والی چار دیواری میں لایا گیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ کے میدان سے لے کر چار دیواری تک مسلسل جنازہ کو کندھا دیا.اور اس طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد نے بھی.افراد خاندان حضرت مسیح موعود کے علاوہ رفقائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام، صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے ناظر و وکلاء افسران صیغه جات، بیرونی مبلغین علمائے سلسلہ، بیرونی جماعتوں کے نمائندگان اور غیر ملکی طلباء کو چار دیواری کے اندر جانے کا موقع دیا گیا.پونے آٹھ بجے تابوت کو قبر میں اتارا گیا.تابوت کو قبر میں اتارنے میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت سیدہ مرحومہ کے ساتوں فرزندان کے علاوہ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، خلیفہ صلاح الدین صاحب اور سید میر داؤد احمد صاحب نے حصہ لیا.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 128 تدفین مکمل ہونے تک حضور ایدہ اللہ تعالیٰ وہیں کرسی پر تشریف فرما رہے.تابوت پر چھت پڑنے کے بعد آٹھ بج کر پانچ منٹ پر حضور ایدہ اللہ نے اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی اور حضور کی اتباع میں باقی احباب نے بھی مٹی ڈالنے میں حصہ لیا.قبر تیار ہونے پر سوا آٹھ بجے حضور نے مسنون طریق پر دعا کرائی جس میں تمام احباب شریک ہوئے اور اس طرح حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ مرحومه مغفورہ کو حضرت اماں جان.......کے مزار کے قرب میں جانب مغرب سپرد خاک کر دیا گیا.اس کے بعد حضور نے حضرت اماں جان.....کے مزار مبارک پر دعا فرمائی اور پھر بذریعہ کار واپس تشریف لے آئے.جلد ۲۰ جنازہ میں شرکت کرنے والے احباب کا جنازہ میں شمولیت کرنے والے احباب اندازہ چار پانچ ہزار کے قریب ہے جو مغربی پاکستان کے ہر علاقے اور گوشے سے آئے ہوئے تھے.حضرت سیدہ مرحومہ کی وفات کے معاً بعدا یکسپریس تاروں اور ٹیلیفون کے ذریعہ جماعتہائے احمد یہ کے امراء صاحبان کو اس سانحہ کی اطلاع کر دی گئی تھی.نیز ریڈیو پاکستان کے ذریعہ بھی وفات کی خبر نشر کرنے کا اہتمام کر دیا گیا تھا.تا کہ جلد سے جلد احباب جماعت کو اطلاع ہو سکے.چنانچہ ۳۱ / جولائی بروز جمعرات کی دو پہر سے ہی مختلف شہروں سے احباب جماعت ربوہ پہنچنے شروع ہو گئے تھے اور مورخہ یکم اگست کی صبح تک ہزاروں کی تعداد میں احمدی مرد و زن ربوہ پہنچ چکے تھے.اور مغربی پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے.ان میں سے بعض تو ہوائی جہازوں کے ذریعہ ربوہ پہنچے تھے.تا کہ نماز جنازہ میں شرکت کر سکیں.نماز جنازہ اور تدفین میں شامل ہونے والوں میں وہ غیر ملکی طلبہ بھی تھے جو دنیا کے مختلف حصوں سے دین سیکھنے اور خدمت دین میں اپنی زندگی بسر کر نے ربوہ آئے ہوئے ہیں.حضرت سیدہ مرحومہ کے بھائیوں میں سے مکرم خلیفہ علیم الدین صاحب اور مکرم خلیفہ صلاح الدین صاحب پہلے سے ربوہ میں موجود تھے.آپ کے دوسرے بھائی ڈاکٹر کرنل تقی الدین احمد صاحب اور ہمشیرہ محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ خان بہادر خلیفہ اسد اللہ صاحب مرحوم ) کراچی میں تھے.وہ دونوں بذریعہ طیارہ کراچی سے ۳۱ / جولائی کو روانہ ہو کر ساڑھے دس بجے ربوہ پہنچ گئے تھے.
تاریخ احمدیت انتظامات 129 جلد ۲۰ کل صبح حضرت سیدہ مرحومہ کی وفات کی اطلاع ملتے ہی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی امیر مقامی کی زیر نگرانی بیرونی جماعتوں کو وفات کی اطلاع دینے ، نماز جنازہ اور تدفین اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور قافلہ کی سہولت و آرام کے انتظامات کا کام سرگرمی کے ساتھ شروع ہو گیا.اس سلسلہ میں حضرت میاں صاحب ممدوح کے ساتھ محترم مرزا عزیز احمد صاحب، مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر اور دیگر ناظر صاحبان بھی بہت مصروف رہے.مکرم میر داؤ د احمد صاحب معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور مکرم مولوی محمد صدیق صاحب صدر عمومی ربوہ نے بھی اپنے معاونین کے ہمراہ انتظامات کی تکمیل میں خاص طور پر حصہ لیا.جزا ہم اللہ احسن الجزاء.مقامی احباب کو لاؤڈ سپیکر کے ذریعے قافلہ کی روانگی ربوہ پہنچنے اور نماز کے وقت سے مسلسل اطلاع دی جاتی رہی.۳۸ تعزیتی تاروں اور خطوط کا جواب حضرت ام ناصر کی المناک وفات ایک نہایت درد ناک جماعتی حادثہ تھا جس پر مرکزی تنظیموں اور اداروں نے تعزیتی قرار دادیں پاس کیں اور دنیا کے مختلف اطراف سے بہت سے مخلصین نے تعزیتی تاریں اور خطوط ارسال کئے جن کے جواب میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( صدر انجمن احمد یہ ربوہ ) نے حسب ذیل الفاظ میں مکتوب لکھے :- بسم الله الرحمن الرحيم بخدمت نحمده و نصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود السلام عليكم ورحمة الله وبركاته حضرت امی جان کی وفات پر آپ کا تعزیتی تار/ خط ملا.جزاکم اللہ واحسن الجزاء.میری طرف سے اور باقی بہن بھائیوں اور دیگر افراد خاندان کی طرف سے دلی شکریہ قبول فرما ئیں.اک مختصر سی علالت کے بعد ہماری امی جان کا یوں اچانک رخصت ہو جانا ایک بہت بڑا حادثہ ہے.انا للہ وانا الیہ راجعون.یہ آپ ہی کا بابرکت وجود تھا جسے خود سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر انتخاب نے چنا اور تربیت فرمائی.اور پھر انہوں نے نصف صدی سے زائد عرصے تک عسر اور لیسر میں کمال اطاعت اور وفاداری سے سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت
تاریخ احمدیت 130 اور رفاقت کا حق ادا کیا.اور جماعت کے ہر دکھ درد میں مادر مہربان کی طرح شریک ہوئیں.اور جماعت نے بھی اس نقصان عظیم کو جس طرح محسوس کیا ہے اس کی نظیر صرف روحانی رشتوں ہی میں مل سکتی ہے.دراصل یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان ہے اس لئے جہاں ہم آپ کی اس ہمدردی پر تہ دل سے مشکور ہیں وہاں ہمارے دل اس محسن حقیقی کے حضور بھی جذ بہ ممنونیت سے لبریز ہیں کہ ہمارے لاکھوں لاکھ بھائی بہن ہمارے اس غم میں برابر کے شریک ہیں اور اس شفیق اور متبرک سائے کے اٹھ جانے کی کمی کو یکساں طور پر محسوس کر رہے ہیں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کی بارش برابر ہم سب پر اور حضرت امی جان پر برستی رہے اور سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کا بابرکت وجود تادیر ہمارے درمیان موجود رہے.تا اللہ تعالیٰ رح کے وعدے جلد پورے ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت امی جان....کو اپنے مقام قرب و رضا میں جگہ عطا فرما دے.آمین اللـهـم صــل عـلـى محمد وعلى آل محمد وبارك وسلم انك حميد مجيد.والسلام خاکسار جلد ۲۰ مرزا ناصر احمد - ربوہ جیسا کہ " تاریخ احمدیت جلد سوم میں مفصل ابتدائی حالات اور عظیم الشان خدمات ذکر آپکا ہے اکتو بر ۱۹۰۲ء میں آپ کا رڑ کی میں سیدنا محمود الصلح الموعود سے نکاح ہوا اور اکتوبر ۱۹۰۳ء کے دوسرے ہفتہ آگرہ میں تقریب لمصل رخصتا نہ عمل میں آئی.حضرت سیدہ ام ناصر کا وجود حضرت مصلح موعود کے فیض تربیت کے نتیجہ میں پوری جماعت کے لئے اخلاص و فدائیت کا ایک قابل تقلید نمونہ تھا.آپ نہایت متقی ، نیک، سلسلہ کا درد رکھنے والی سلیقہ شعار خاتون تھیں.بلند اخلاقی، شفقت اور ہمدردی کا پیکر تھیں.احمدی مستورات کے نظم و ضبط اور تحریک لجنہ اماء اللہ کو متحکم کرنے میں آپ کی زریں خدمات کا بھاری عمل دخل
تاریخ احمدیت 131 جلد ۲۰ ہے.آپ ایک لمبے عرصے تک صدر لجنہ مرکزیہ کے فرائض نہایت فرض شناسی اور خلوص اور الفضل باقاعدگی سے سرانجام دیتی رہیں.آپ کی زندگی کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ جن بزرگوں کی مالی قربانیوں سے اخبار الف جاری ہوا ان میں آپ کا نام سر فہرست ہے.سیدنا حضرت مصلح موعود نے اس عظیم الشان قربانی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں رقم فرمایا کہ: - خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی.انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سے زیادہ مذموم تھا اپنے دو زیور مجھے دے دیئے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں.ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے.میں زیورات کو لے کر اسی وقت لا ہور گیا اور پونے پانسو کو وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے.یہ ابتدائی سرمایہ ”الفضل“ کا تھا.الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا.وہ بیوی جن کو میں نے اس وقت تک ایک انگوٹھی بھی شاید بنا کر نہ دی تھی اور جن کو بعد میں اس وقت تک ایک انگوٹھی بنوا کر دی ہے.ان کی یہ قربانی میرے دل پر نقش ہے.ان کا یہ سلوک مجھے شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے.اس حسنِ سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اور میرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا.بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کر دیا.کیا ہی کچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے.اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے.لوگ اس دوکان کو یا درکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں مگر اس گلاب کا کسی کو خیال بھی نہیں آتا جس نے مرکر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا.میں حیران ہوتا کہ
تاریخ احمدیت 132 جلد ۲۰ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا اور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتا اور جماعت میں روز مرہ بڑھنے والا فتنہ کس طرح دور کیا جاسکتا.۳۹ 66 الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۴ کالم نمبر اعنوان یا دایام) حضرت سیدہ ام ناصر کی پاکیزہ سیرت سے متعلق حضرت سیدہ ام ناصر کے وصال کے بعد آپ کی پاکیزہ خاندان حضرت مسیح موعود کے ایمان افروز تاثرات سیرت پر کئی مخلص احمدی دوستوں اور خواتین نے اپنے چشم دید واقعات قلم بند کر کے الفضل میں شائع کرائے.احمدی شعراء نے ان کے اوصاف حمیدہ پر نظمیں کہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کی مبارک زندگی کا صحیح نقشہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے قلم مبارک ہی نے کھینچا.چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ” ہماری بھا وجہ صاحبہ کا انتقال اور احباب کرام کا شکریہ کے زیر عنوان اپنے قلبی تاثرات بایں الفاظ بیان فرمائے :- وو ” ہماری بھا وجہ صاحبہ سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ کی وفات کو جماعت میں جس رنگ میں محسوس کیا گیا ہے وہ ان کی غیر معمولی ہر دلعزیزی اور نیکی اور تقویٰ کا ایک بین ثبوت ہے.ہر چند کہ گزشتہ چند دن سے ان کی بیماری کے متعلق الفضل میں اعلانات چھپ رہے تھے اور بیماری کے تشویشناک پہلو کے متعلق بھی اشارات کافی واضح تھے پھر بھی ان کی وفات کی خبر ایک اچانک صدمے کے رنگ میں محسوس کی گئی جس نے اس کی تلخی کو بہت بڑھا دیا.مگر اس حادثہ کا زیادہ تلخ پہلو یہ ہے کہ بعض ناگزیر حالات کی وجہ سے اور کسی قدر نامکمل اطلاعات کی بنا پر مرحومہ کے زندگی بھر کے رفیق حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ بھی جو اس وقت نخلہ میں تشریف رکھتے تھے ان کی زندگی میں مری نہیں پہنچ سکے اور یہ حسرت دونو کے دلوں میں رہی ہوگی کہ اس دنیائے نا پائیدار میں ان کی آخری ملاقات نہیں ہوسکی.اور حضرت صاحب تیز سفر کرنے کے باوجود وفات سے چار پانچ گھنٹے کے بعد مری پہنچے.
تاریخ احمدیت 133 حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ مرحومہ کا نکاح اکتوبر ۱۹۰۲ء میں بمقام رڑکی میں ہوا تھا جہاں ان کے والد محترم حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم جو قدیم صحابہ میں سے تھے ان ایام میں متعین تھے.اس تقریب میں خلیفہ اول بھی شامل ہوئے.اگلے سال یعنی ۱۹۰۳ء میں بمقام آگرہ آپ کا رخصتا نہ ہوا.اس طرح حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ مرحومہ نے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے ساتھ قریباً پچپن چھپن سال گزارے جو خدا کے فضل سے ایک بہت غیر معمولی زمانہ ہے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کا بھی ایک لمبا موقعہ میسر آ گیا اور پھر ان کو اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی دوسروں کی نسبت زیادہ عطا کی جن میں سے اس وقت خدا کے فضل سے سات لڑکے اور دولڑکیاں زندہ موجود ہیں.ان میں سب سے بڑے عزیزم مکرم مرزا ناصر احمد سلمہ ہیں اور سب سے چھوٹے عزیز مرزا رفیق احمد ہے جو ابھی تک زیر تعلیم اور قابلِ شادی ہے اور سیدہ مرحومہ کو بہت عزیز تھا.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کے زخمی دلوں پر اپنی جناب سے مرہم کا پھایہ رکھے.آمین یا ارحم الراحمین.سیده ام ناصر احمد صاحبہ نہایت ملنسار، سب کے ساتھ بڑی محبت اور کشادہ پیشانی سے ملنے والی اور حقیقتا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے گھر کی رونق تھیں اور حضرت اماں جان...کی وفات کے بعد جماعت کی مستورات کا گویا وہی مرکز تھیں.کیونکہ عمر میں بھی وہ ہمارے خاندان کی سب خواتین میں بڑی تھیں اور طبیعت کے لحاظ سے بھی اس امتیاز کی اہل تھیں.بے شک ہماری بڑی ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ کو بھی یہ وصف نمایاں طور پر حاصل ہے مگر وہ لاہور میں رک جانے اور بعض الجھنوں میں پھنس جانے کی وجہ سے ربوہ کی مرکزیت میں عملاً حصہ دار نہیں بن سکیں اس لئے عملاً یہ فرض سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ کے ذمہ ہی رہا.لہذا ان کی وفات نے وقتی طور پر یقیناً ایک خلا ء سا پیدا کر دیا ہے جسے دور کرنے والا خدا ہی ہے.سیدہ امم ناصر احمد صاحبہ نے بہت بے شر طبیعت پائی تھی ان کے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت.134 وجود سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی اور ان کا وجود ساری عمر اسی نوع کی معصومیت کا مرکز بنا رہا.نیکی اور تقویٰ میں بھی مرحومہ کا مقام بہت بلند تھا.غالبا یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ سیدہ امِ ناصر احمد صاحبہ کو جو جیب خرچ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی طرف سے ملتا اسے وہ سب کا سب چندہ میں دے دیتی تھیں اور اولین موصیوں میں سے بھی تھیں.جب تک روزوں کی طاقت رہی روزے رکھے اور بعد میں بہت التزام کے ساتھ فدیہ ادا کرتی رہیں.یہ انہی کی نیک تربیت کا اثر تھا کہ ان کی اولا د خدا کے فضل سے نمازوں اور دعاؤں میں خاص شغف رکھتی ہے.سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ کو یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ عرصہ دراز تک لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی صدر رہیں.حضرت ام ناصر احمد صاحبہ کی وفات کے نتیجہ میں احباب جماعت کو اس وقت خاص طور پر چار دعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے.(اول) یہ کہ حضرت صاحب کی طبیعت پر ان کی وفات کا کوئی ایسا اثر نہ پڑے جو حضور کی بیماری اور تکلیف میں اضافہ کرنے کا موجب ہو.(دوسرے ) یہ کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی اولاد کا حافظ و ناصر ہوخصوصاً عزیز رفیق احمد کا جو اس وقت بہت غم زدہ اور مضمحل ہے.(تیسرے) یہ کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ میں بہت لطیف دعا سکھائی ہے جماعت ہماری بھاوجہ مرحومہ کے نیک اعمال کے اجر سے محروم نہ ہونے پائے.( چوتھے ) یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ربوہ میں خواتین کے لئے کوئی ایسا وجود پیدا کر دے جو اپنے اندر مرکزیت کا مقام رکھتا ہوتا کہ احمدی مستورات اسے مل کر اپنے دلوں میں روحانی راحت پائیں اور اپنے مسائل میں مشورہ حاصل کر کے سکون حاصل کر سکیں.ہماری دوسری بھاوج سیده ام متین صاحبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی خدمت میں قابل رشک انہماک رکھتی ہیں اور ایک طرح سے خط و کتاب کے کام میں حضرت صاحب کی گویا پرائیویٹ سیکرٹری بھی ہیں.مگر طبعا انہیں مستورات سے ملاقات کرنے کے لئے بہت کم وقت ملتا ہے اور پھر طبائع کی مناسبت بھی جدا گانہ ہوتی ہے.اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ جو بات میں نے فقرہ نمبر چہارم کے ماتحت لکھی ہے اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے اس کا کوئی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 135 احسن انتظام فرما دے یا ہماری ہمشیرہ کے لئے ہی ربوہ میں آکر خیر وخوبی کے ساتھ آباد ہونے کا رستہ کھل جائے..اس موقعہ پر بے شمار بھائیوں اور بہنوں نے دلی محبت اور قلبی ہمدردی کے ساتھ تعزیت کے پیغامات بھجوائے ہیں جو تاروں اور خطوں اور ٹیلیفون کے ذریعہ پہنچے ہیں اور پہنچ رہے ہیں.ان پیغامات کے بھجوانے والوں میں کافی تعداد غیر احمدی اصحاب کی بھی ہے اسی طرح بہت سے اداروں کی طرف سے بھی ہمدردی کے ریزولیوشن پہنچ رہے ہیں.ان سب کے لئے ہمارے دلوں میں مخلصانہ شکریہ کے جذبات جاگزین ہیں.حقیقتا ایسے موقعہ پر دوستوں اور عزیزوں اور ہمدردوں کے محبت کے پیغامات انسان کے لئے بڑے سہارے کا موجب ہوتے ہیں.گو اصل سہارا بہر حال خدا کا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے اور سب کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور سب کا حافظ و ناصر ہو اور جس طرح انہوں نے ہمارے غم کا بوجھ بانٹا ہے اللہ تعالیٰ ان کے بوجھوں کو دور فرمائے.آمین یا ارحم الراحمین.خاکسار جلد ۲۰ مرزا بشیر احمد.ربوہ.۴ را گست ۱۹۵۸ء سلسلہ میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایڈیٹر صاحب الفضل کے نام حسب ذیل مکتوب تحریر فرمایا جو الفضل ۱۳ اگست ۱۹۵۸ء صفحہ ۳ پر شائع ہوا: - ข بھابی جان اُمم ناصر مرحومه سوات سٹیٹ ہوٹل.سید و شریف.سوات ۱۴ را گست ۱۹۵۸ء برادرم ایڈیٹر صاحب الفضل السلام علیکم.بھابی جان ام ناصر مرحومہ کی وفات کا اس قدر دل پر اثر ہے کہ ابھی کچھ لکھنا بھی مشکل ہے.ان کی شادی غالباً ۱۹۰۲ء کے آخر یا ۱۹۰۳ء کے شروع میں ہوئی ہوگی.
تاریخ احمدیت 136 جلد ۲۰ ہو مجھے خدا کے فضل سے اکثر بہت بچپن کی باتیں یاد رہ گئی ہیں خواہ سن وغیرہ یا تفصیل میں کبھی غلطی ہے بھابی جان پہلی بار بیا ہی آکر صرف دو تین دن ہمارے گھر رہیں چونکہ کم عمر تھیں اور ان کو جلد میکے بھیج دیا گیا تھا اور پھر سال بھر کے بعد ذرا اور بڑی ہو جانے پر دوبارہ رخصت ہو کر آگئیں اور پھر گویا مستقل یہاں رہیں.ملنے پر کبھی کبھار چلی جاتی تھیں.۱۹۰۴ء میں گورداسپور کے سفر میں وہ ہمارے ساتھ تھیں اور اتنی دیر کی شادی شدہ تھیں کہ کافی بے تکلف تھیں.انہوں نے شادی کے بعد اس گھر کو اپنا گھر اور ہم لوگوں کو اپنے بہن بھائی سمجھا.ایک گھڑی کو بھی محبت کے بغیر ان کا سلوک یاد نہیں.نہایت پیار سے ہم لوگ رہے.میں بہت چھوٹی تھی ضرور ستاتی بھی ہوں گی مگر ان کی شفقت میں کمی نہ آتی دیکھی.کبھی تیور پر بل نہ آتا تھا.ان کی سعید فطرت اور اس پر حضرت سیدنا بڑے بھائی صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) کی تربیت ، گھر کا مبارک ماحول نیک نمونہ تھا.جو سونے پر سہا گہ ہو گیا تھا.لوگ کہتے ہیں کہ دو برتن بھی ایک جگہ ہوتے ہیں تو کھٹک جاتے ہیں مگر ہم تو ایک بار بھی نہ کھٹکے تھے.مجھ سے جو محبت تھی وہ آخر دم تک نبھائی.ہمارے بچوں کے آپس میں رشتے ہوئے ایسے میں سو باتیں قدرتا ہو جاتی ہیں بدمزگی کی.اور ہوسکتی تھیں.مگر ہمارے ذاتی تعلقات پر کوئی اثر کبھی نہ پڑا.نہ انہوں نے نہ میں وو نے ان رشتوں کو پہلے رشتے کے درمیان کبھی بھی حائل ہونے دیا.حضرت اماں جان...کے بعد بھی محبت و شفقت خصوصیت سے ان کی جانب سے حاصل رہی.انا للہ وانا الیہ راجعون.حضرت مسیح موعود سے بہت اور حضرت اماں جان سے بھی خاص تعلق تھا.بچپن تھا مگر فطرتی شرم اور جھجک کی وجہ سے ان کے سامنے خاموش ہی رہتی تھیں.زیادہ تر بہت کم اس زمانہ میں بات کرتے بڑوں سے میں نے ان کو دیکھا.اکثر وقت اپنے کمرے میں گزارتی تھیں.اکثر شام کو باہر آنا تو مؤدب ہو کر بیٹھنا اور حضرت مسیح موعود کے سامنے بھی دوپٹہ بہت لپیٹ کر اوڑھے رکھنا ان کا طریق تھا.جسے پنجابی میں دوہری بکل“ کہتے ہیں.اب لڑکیوں نے شاید یہ طریق دیکھا بھی نہ ہو.اسی صورت میں دو پٹہ اوڑھ کر صحن میں نکلتی تھیں.یہ ایک طرح کا گھر کا پردہ ہی ہوتا ہے.حالانکہ اس وقت شروع میں پردہ والا کوئی گھر میں خاص نہ ہوتا تھا.بڑے ماموں جان اکثر باہر اور چھوٹے ماموں جان اور دوسرے میرے بھائی تو ابھی چھوٹے لڑکے سے تھے مگر انہوں نے ہمیشہ بہت لحاظ اور شرم کا طریق یکساں ملحوظ رکھا.کبھی میں نے ان کو لڑکوں سے بات کرتے نہیں دیکھا.مجھے بے شک ہر وقت یعنی جتنا بھی وقت مل سکتا اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتی تھیں.لحاظ شرم و حیا اور صبر و رضا ان کی خصوصیات میں سے تھے.
تاریخ احمدیت 137 جلد ۲۰ حضرت مسیح موعود کی خدمت کی بہت خواہش رہتی تھی.مجھے یاد ہے زیادہ بے تکلف نہ تھیں مگر وضو فرمانے لگتے تو لوٹا اٹھا کر پانی ڈالنے لگتیں.غرض اسی طرح چاہتی تھیں کہ کوئی کام کروں گورداسپور میں جب حضرت مسیح موعود عدالت میں تشریف لے جاتے تو میرے ساتھ ٹوکرا لگا کر مینا چڑیاں پکڑا کرتی تھیں.بہت ہی ذوق شوق سے کہ واپس آئیں گے تو آپ کے لئے شکار کا گوشت تیار رکھیں گے.حضرت اقدس بھی بہت شفقت فرماتے تھے ایک بار یونہی کسی نے بات اڑا دی تھی کہ میاں (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) دوسری شادی کریں گے تو حضرت مسیح موعود نے سن کر بہت پیار سے بھابی جان کو دلاسا دیا اور فرمایا کہ ” میری زندگی میں تم کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی.اس وقت مغرب کا وقت تھا اور آپ وضو کر رہے تھے اسی صحن میں تھے جو اب دار ا مسیح قادیان میں ام ناصر کا صحن کہلاتا ہے.وہ بات پوری ہوئی.شادیاں مقدر تھیں ہو کر رہیں مگر مقدرتھیں حضرت اقدس کی زندگی میں یہ تکلیف بھابی جان کو نہیں پہنچی.دعاؤں میں بے حد شغف تھا.بہت دعائیں کرنے والی تھیں.جب میرا پہلا بھتیجا نصیر احمد فوت ہو گیا اور پھر بچہ کافی عرصہ تک نہ ہوا تو چونکہ اب سمجھ اور فکر کا زمانہ آ گیا تھا تو انہوں نے اولاد کے لئے بے حد دعائیں کیں.ایک بار ایک بات سے رنج پہنچا تو مجھے خود بتایا کہ میں نے تمام شب قریباً رو رو کر خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں اور اسی ماہ میں ناصر احمد کی پیدائش کے آثار ظاہر ہو گئے.پھر خدا کے فضل سے اوپر تلے اللہ تعالیٰ نے بیٹے بھی دیئے اور بیٹیاں بھی.مبارک زندگی تھی مبارک انجام ہوا.اللہ تعالیٰ جنت اعلیٰ میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجات عطا فرمائے.احباب سے التجا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی صحت اور زندگی کے لئے خصوصیت سے بے حد دعائیں کریں.مجھے فکر ہے خواہ کتنا بھی اعلیٰ درجہ کا صبر ان کو خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے پھر بھی بشریت کا تقاضا ہے کہ اتنے پرانے رفیق کا جدا ہو جانا دل پر اثر انداز ہو.خدا کرے ان کی صحت کو دھچکا نہ لگے.فقط ( مبارکہ ۴۲ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس اشاعت دین کے فریضہ پر خصوصی خطبات جمعه سال جماعت احمدیہ کو فریضہ تبلیغ کی طرف خصوصی توجہ دلائی اور ہدایت فرمائی کہ دلائل کے ساتھ ( دینِ حق ) کو دنیا میں غالب کرنے کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے.اس عظیم الشان کام کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو اور اس کے لئے صحیح کوشش اور جد و جہد کرتے رہو.
تاریخ احمدیت 138 جلد ۲۰ اس تعلق میں حضور نے ۱۸ اور ۲۲ / اگست ۱۹۵۸ء کو دو خطبات جمعہ دیئے جن کے بعض اہم اقتباسات درج ذیل ہیں:.۱.خطبہ ۱۸ /اگست ۱۹۵۸ء ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اسلامی ترقی کے لئے اپنا پورا زور لگا دیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا وقت آ گیا ہے جیسے ڈال پر آدم پک جاتے ہیں اور ہر آم آپ ہی آپ ٹوٹ کر نیچے گرنے کے لئے تیار ہوتا ہے.اب عیسائی دنیا ( دینِ حق ) قبول کرنے کے لئے بالکل تیار ہے.صرف درختوں کی ٹہنیاں ہلانے کی ضرورت ہے.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے مریم سے کہا کہ کھجور کے تنے کو ہلا تجھ پر تازہ بتازہ کھجور میں گریں گی اسی طرح ہمیں بھی اب صرف تنہ ہلانے کی ضرورت ہے ور نہ پھل پک چکا ہے اور اب وہ گرنے ہی والا ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ ایک دہر یہ باغ میں گیا تو کہنے لگا لوگ تو خدا تعالیٰ کو بڑا عقلمند کہتے ہیں مگر یہ کیسی عقلمندی ہے کہ اس نے ایک پتلی سی بیل کے ساتھ تو اتنا بڑا کرو لگا دیا اور بڑے بڑے مضبوط درختوں پر چھوٹے چھوٹے آم لگا دیئے.تھوڑی دیر کے بعد اسے نیند آئی اور وہ وہیں ایک آم کے درخت کے نیچے سو گیا.سویا ہوا تھا کہ اچانک اس کے سر پر بڑے زور سے ایک آم آگرا وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور کہنے لگا اللہ میاں میری تو بہ میں اپنی گستاخی کی تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں میں سمجھ گیا کہ جو کچھ تو نے کیا ہے بالکل درست ہے.اگر اتنی دور سے کرو مجھ پر گرتا تو میری جان نکل جاتی.اسی طرح یورپ بھی اب ٹپکنے کو تیار بیٹھا ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ جماعت قربانی کرے.کچھ چندوں میں زیادتی کرے اور کچھ نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں.بے شک وقف جدید کے ماتحت بہت سے نو جوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے مگر ابھی تک میں ان کے کام سے پوری طرح خوش نہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کو کام شروع کئے بھی پانچ چھ مہینے ہی ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ابھی ان کے کام میں تیزی پیدا ا نہیں ہوئی.اگر ایک دو سال گزر جائیں تو پھر ان کا صحیح اندازہ ہو سکے گا.اس
تاریخ احمدیت 139 وقت تک وقف جدید کے ذریعے ۱۴۰ بیعتیں ہو چکی ہیں.لیکن میرے نزدیک فی مبلغ ایک ہزار سالانہ بیعت ہونی چاہئے آج کل وقف جدید میں ۷۰ آدمی کام کر رہے ہیں اگلے سال ممکن ہے کہ یہ تعداد ایک سو پچاس تک پہنچ جائے اور پھر ڈیڑھ دو لاکھ سالانہ صرف وقف جدید کے معلمین کے ذریعہ ہی بیعت ہونے لگے.اگر ایسا ہو جائے تو پانچ سات سال میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری تعداد کئی گنے بڑھ سکتی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ ہی سب کام کرنے والا ہے ہمارا کام تو صرف کوشش اور جد وجہد کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہا ماً فرمایا تھا کہ ” میں تیری تبلیغ کو زمین ۴۳ ،، - جلد ۲۰ کے کناروں تک پہنچاؤں گا.چنانچہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچ چکی ہے.مگر ہمیں صرف اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ چکی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری جماعت کو اس قدر ترقی عطا فرمائے گا کہ دوسرے مذاہب کے پیرو اس جماعت کے مقابلہ میں ایسے ہی بے حیثیت ہو کر رہ جائیں گے جیسے آج کل کی ادنی اقوام بے حیثیت ہیں.پس ہماری خواہش یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ زمانہ بھی دکھا دے جب ہماری جماعت ساری دنیا پر غالب آجائے بلکہ اس سے بڑھ کر ہماری یہ دعا ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو غلبہ بھی عطا فرمائے اور دوستوں کو اپنے ایمانوں پر بھی قائم رکھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں جب مسلمان ایمان پر قائم تھے روم اور ایران کے بادشاہ ان کے نام سے کا پنتے تھے مگر جب ان کے اندر ایمان نہ رہا تو ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور انہیں تباہ کر دیا اب بھی مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہیں مگر ادھر وہ امریکہ سے ڈر رہے ہیں اور ادھر روس سے خوف کھا رہے ہیں.کبھی امریکہ سے کہتے ہیں کہ ہماری جھولی میں کچھ ڈالو اور کبھی روس کی طرف اس امید سے دیکھتے ہیں کہ شایدہ وہ ان کی جھولی میں کچھ ڈال دے حالانکہ ایک زمانہ میں مسلمان بڑی سے بڑی لالچ کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا.روم کی جنگ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو تین صحابہ غلطی سے پیچھے رہ گئے.آپ نے واپس آنے پر ان تینوں کو مقاطعہ کی سزا دے دی.ان میں سے ایک صحابی کہتے ہیں کہ جب مقاطعہ لمبا ہو گیا تو میں تنگ آ گیا.میرا ایک بڑا گہرا دوست تھا اور بھائیوں کی طرح مجھے پیارا
تاریخ احمدیت 140 جلد ۲۰ تھا.وہ اپنے باغ میں کام کر رہا تھا کہ میں اس کے پاس پہنچا اور میں نے کہا بھائی تم جانتے ہو کہ میں منافق نہیں میں سچا اور مخلص مسلمان ہوں.صرف غلطی کی وجہ سے جنگ سے پیچھے رہ گیا تھا مگر وہ بولا نہیں اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا اللہ اور رسول بہتر جانتے ہیں.وہ کہتے ہیں مجھے اس سے شدید صدمہ پہنچا اور میں باغ سے نکل کر شہر کی طرف چل پڑا.میں گھر کی طرف جا ہی رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے ایک شخص نے آواز دی میں ٹھہرا تو اس نے مجھے عرب کے ایک بادشاہ کا خط دیا اس میں لکھا تھا کہ ہم نے سنا ہے محمد رسول اللہ نے تم پر بڑا ظلم کیا ہے.تم ہمارے پاس آ جاؤ ہم تمہاری بڑی عزت کریں گے.وہ صحابی کہتے ہیں کہ میں نے پیغام بر کو کہا کہ تم میرے ساتھ چلو میں ابھی اس کا جواب دیتا ہوں وہ میرے ساتھ ساتھ چلا رستہ میں میں نے دیکھا کہ ایک جگہ تنور جل رہا ہے میں اس کے قریب پہنچا اور خط اس کے سامنے اس تنور میں ڈال دیا اور پھر میں نے اسے کہا کہ جاؤ اور اپنے بادشاہ سے کہہ دو کہ یہ تمہارے خط کا جواب ہے.تو دیکھو اسے کتنی بڑی لالچ دی گئی تھی مگر اس نے کچھ بھی پرواہ نہ کی اور بادشاہ کے خط کو آگ میں جھونک دیا مگر آج مسلمان ہر جگہ بھیک مانگتا پھرتا ہے اگر اس کے اندر سچا ایمان ہوتا تو وہ نہ امریکہ کی طرف دیکھتا اور نہ روس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا تا بلکہ خود پیشہ پیشہ جمع کر کے اپنی تمام ضروریات کو خود پورا کرنے کی کوشش کرتا مگر یہ جذبہ قوم میں اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کے افراد اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھیں اور موت کا ڈراپنے دل سے نکال دیں.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ مدینہ کے قریب پہنچ کر آپ دو پہر کے وقت آرام فرمانے کے لئے ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے اور صحابہ بھی ادھر ادھر منتشر ہو گئے کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ اب تو مدینہ قریب ہی آگیا ہے اب کسی دشمن کے حملے کا کیا خطرہ ہو سکتا ہے اتفاقاً ایک شخص جس کا بھائی کسی جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ مارا گیا تھا اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لئے اسلامی لشکر کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اور حملہ کے لئے کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا.اس نے جب دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہیں اور صحابہ بھی ادھر ادھر چلے گئے ہیں تو اس نے آپ کے پاس پہنچ کر آپ ہی کی تلوار اٹھا لی جو درخت کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی اور پھر اس نے آپ کو جگایا اور کہا کہ بتا ئیں اب آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح لیٹے لیٹے نہایت اطمینان اور سکوت کے ساتھ فرمایا کہ اللہ.آپ کا یہ فرمانا تھا کہ اس کا جسم کانپا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی آپ نے فوراً وہی تلوار لی اور پھر اس سے پوچھا کہ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے اس نے کہا آپ ہی مہربانی کریں اور
تاریخ احمدیت 141 جلد ۲۰ مجھے معاف فرما دیں.آپ بڑے رحیم و کریم ہیں.آپ نے کہا کمبخت تجھے اب بھی عقل نہ آئی تو نے کم از کم میری زبان سے ہی اللہ کا لفظ سن کر کہہ دینا تھا اللہ مجھے بچا سکتا ہے.مگر میری زبان سے بھی اللہ کا نام سن کر تجھے سمجھ نہ آئی اور تو نے خدا کا نام نہ لیا.میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانہ میں بھی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت قائم کی جائے اور ان کے دلوں میں اس پر سچا ایمان پیدا کیا جائے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان اب بھی اللہ اللہ کہتے پھرتے ہیں مگر حضرت خلیفہ اول ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ آج کل مسلمانوں کے نزدیک اللہ کے معنے صفر کے ہیں.چنانچہ جب کسی شخص کے گھر میں کچھ بھی نہیں رہتا تو وہ کہتا ہے کہ میرے گھر میں تو اللہ ہی اللہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے گھر میں کچھ نہیں.گویا اللہ کے معنے ان کے نزدیک ایک صفر کے ہیں.حالانکہ پہلے زمانہ میں جب مسلمان کہتے تھے کہ ہمارے پاس اللہ ہی اللہ ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے تھے کہ آسمان بھی ہمارے ساتھ ہے اور زمین بھی ہمارے ساتھ ہے.پہاڑ بھی ہمارے ساتھ ہیں اور دریا بھی ہمارے ساتھ ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ہمارے مقابلہ میں ٹھہر سکے.مگر آج کل یہ کیفیت ہے کہ بھیک مانگنے والے فقیر ہر جگہ یہ کہتے سنائی دیں گے کہ اللہ ہی اللہ - اللہ ہی اللہ اور ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں.خدا کے لئے ہمیں کچھ کھانے کے لئے دو پس مسلمان اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر سچا ایمان پیدا کریں اور خدا تعالیٰ پر توکل رکھیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ اور روس نے ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم بنا لئے ہیں جن کی وجہ سے دنیا ان سے مرعوب ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ سے دعائیں کی جائیں اور اپنے اندر سچا ایمان پیدا کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ان کا بھی کوئی نہ کوئی تو ڑ پیدا فرما دے گا.پہلے میرا خیال تھا کہ امریکہ یا روس ایٹم بم کا کوئی تو ڑ پیدا کر لیں گے مگر اب قرآن کریم پر غور کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ روس اور امریکہ اس کا توڑ پیدا نہیں کریں گے بلکہ آسماں سے ایسے شہاب ثاقب گریں گے جن سے ان کے تمام ہم بیکار ہو کر رہ جائیں گے.اور وہ دنیا کی تباہی کے ارادوں میں ناکام رہیں گے.پس مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں اور س سے سچا تعلق پیدا کریں.اور اگر وہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیں تو ان کی تلوار میں تو پوں سے بھی زیادہ کام کریں گی اور ان کے تھوڑے سے روپے کروڑوں ڈالروں اور پونڈوں سے بھی زیادہ نتیجہ خیز ہوں گے.کیونکہ مومن کے روپیہ میں اللہ تعالیٰ بڑی برکت پیدا فرما دیتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک اشرفی دی اور فرمایا کہ میرے لئے قربانی کے لئے اچھا دنبہ خرید لاؤ.جب وہ واپس آیا تو اس نے آپ کی.
تاریخ احمدیت 142 جلد ۲۰ خدمت میں دنبہ بھی پیش کر دیا اور اشرفی بھی واپس دے دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اشرفی کیوں واپس کر رہے ہو اس نے کہا یا رسو اللہ میں باہر دیہات میں نکل گیا تھا یہاں تو ایک اشرفی کا ایک ہی دنبہ آتا ہے مگر باہر گاؤں میں جا کر ایک اشرفی کے دو دنبے مل گئے جب میں واپس آیا تو میں نے شہر میں ایک دونبہ ایک اشرفی میں فروخت کر دیا.اب دنبہ بھی حاضر ہے اور اشرفی بھی آپ کی خدمت میں پیش ہے.تو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندہ کے روپیہ میں بڑی ۴۶ برکت پیدا فرما دیتا ہے اور اس کا تھوڑا سا روپیہ بھی اس کی ضروریات کو پورا کر دیتا ہے.۲.( خطبه جمعه ۲۵ /اگست ۱۹۵۸ء) " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالا نہ ہوا اس میں سات سو آدمی شامل ہوا تھا اب ربوہ کی آبادی بھی بارہ ہزار ہے مگر ان سات سو افراد کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کام کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں بھیجا تھا وہ پورا ہو گیا ہے اس جلسہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے.تو ہجوم کی وجہ سے آپ کو بار بار ٹھوکر لگتی اور چھڑی آپ کے ہاتھ سے گر جاتی پھر آپ اٹھاتے تو تھوڑی دیر کے بعد کسی اور کی ٹھوکر سے چھڑی گر جاتی.اس ہجوم میں ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے چاہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب پہنچ جائے مگر دوسروں نے دھکا دے کر اسے پیچھے ہٹا دیا.اسے دیکھ کر ایک پرانا احمدی بڑے جوش سے کہنے لگا تجھے دھکوں کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے تھی چاہے تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے پھر بھی تیرا کام یہی تھا کہ تو آگے بڑھتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کر کے آتا.یہ مبارک وقت کب نصیب ہونا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کرنا ایک بڑا انعام ہے ڈرنے اور گھبرانے کی بات نہیں ہوتی.پس ہماری جماعت کو اس عظیم الشان کام کی تکمیل کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے سپرد کیا گیا ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے.اس وقت دنیا کی آبادی سوا دوارب ہے لیکن ممکن ہے اس کام کی تکمیل تک یہ آبادی تین چار ارب ہو جائے اور ہمارا کام اور بھی بڑھ جائے.بہر حال جماعت کی تعداد کو ترقی دینے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہماری نسبت بمقابلہ کم ہوتی چلی جائے اگر ہم جلدی ہی دس کروڑ تک پہنچ جائیں تو پھر دس ارب تک ہمارے ایک ایک آدمی کو سوسو کا مقابلہ کرنا پڑے گا.یہ کام اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا تھا اور ہم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم آپ کے کام کو پورا کریں گے.اس کے لئے ہمیں اپنی جان ، عزت آبرو سب کچھ لگا دینی چاہئے.۴۷
تاریخ احمدیت 143 جلد ۲۰ آزادی مذہب کی عالمی تنظیم میں حضرت آزادی مذہب کی عالمی تنظیم چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کا لیکچر (INTERNATIONAL ASSOCIATION FOR RELIGIOUS FREEDOM) کا چھٹا اجلاس ۱۰ راگست ۱۹۵۸ء کو واشنگٹن میں منعقد ہوا.اس اجلاس میں دنیا کے پانچ مشہور مذاہب کے نمائندوں نے حصہ لیا.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت فرمائی اور ایک پر مغز، جامع اور معلومات افروز لیکچر دیا.آپ نے بتایا کہ موجودہ عالمی مسائل کا اسلام کیا حل پیش کرتا ہے.اس ضمن میں آپ نے توحید، انسانی مساوات ، آزادی ضمیر، مجلس اقدار، اقتصادیات اور بین الاقوامی تعلقات کی نسبت اسلامی تعلیم پر اثر انگیز رنگ میں روشنی ڈالی اور واضح فرمایا کہ اسلام زندہ مذہب اور قرآن زندہ کتاب ہے جو آج بھی پوری انسانیت کی راہنمائی کر سکتی ہے آخر میں آپ نے پرزور الفاظ میں دعوت دی کہ خدائے واحد کی طرف واپس آ جاؤ.چوہدری صاحب کا یہ معرکہ آراء لیکچر پہلے رسالہ ریویو آف ریلیجینز انگریزی (ربوہ) ( ستمبر ۱۹۵۸ء) میں چھپا بعد ازاں نومبر ۱۹۶۴ء میں اسے نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کی طرف سے رسالہ کی صورت میں بھی شائع کیا گیا.حضرت مصلح موعود کا نظریہ پاکستان سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جناب شیخ فضل حق صاحب صدر جماعت احمدیہ میں اسلامی حکومت سے متعلق سمی (بلوچستان) نے ایک مکتوب میں اپنی خواب لکھی تھی جس پر حضرت اقدس کے پرائیویٹ سیکرٹری مولوی عبدالرحمن انور صاحب نے ۱۰ را گست ۱۹۵۸ء کو درج ذیل مکتوب ارسال کیا : آپ کا خط سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ العزیز کے ملاحظہ میں آیا.فرمایا اللہ تعالیٰ خواب کو پورا کرے دیر بہت ہو گئی ہے اور پاکستان اب تک اسلامی حکومت قائم نہیں کرسکا.اسلامی حکومت قائم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ قادیان مل جائے.والسلام خاکسار عبدالرحمن انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثانی
تاریخ احمدیت 144 جلد ۲۰ سینما بینی کے خلاف حضرت مصلح موعود کی مؤثر آواز حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود نے اس سال جماعت احمدیہ میں بے پردگی کے خلاف مہم جاری کرنے کے بعد سینما بینی کے خلاف بھی آواز بلند کی اور ۲۹ اگست ۱۹۵۸ء کے خطبہ جمعہ میں اس کے ہولناک اثرات پر تاریخی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا : - اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے مومنوں تم شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گانا بجانا اور باجے وغیرہ یہ سب شیطان کے ذرائع ہیں جن سے وہ لوگوں کو بہکاتا ہے.پس عیاشی کے تمام سامان اور باجے اور گانا بجانا شیطان کے ہتھیار ہیں.جن سے وہ لوگوں کو ورغلایا کرتا ہے.اسی لئے میں نے جماعت کو ہدایت کی تھی کہ سینما نہ دیکھا کرو.کیونکہ اس میں بھی گانا بجانا ہوتا ہے.پہلے یہ چیز تھیٹر میں ہوا کرتی تھی لیکن جب سے ٹا کی نکل آئی ہے سینما میں بھی یہ چیزیں آ گئی ہیں.بلکہ اس سے زیادہ بڑے پیمانے پر آئی ہیں.کیونکہ تھیٹر کا صرف ایک شو ہوتا تھا.جس میں بڑے بڑے ماہرین کو بلانا بہت بڑے اخراجات کا متقاضی ہوتا تھا.جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے.اور پھر ایک شو صرف ایک ہی جگہ دکھایا جا سکتا تھا.مگر اب ایک سے ہزاروں فلمیں تیار کر کے سارے ملک میں پھیلا دی جاتی ہیں اور بڑے بڑے ماہر فن گویوں کو بلایا جاتا ہے اس لئے تھیٹر سے سینما کا ضرر بہت زیادہ ہوتا ہے.چند دن ہوئے مجھے ملتان سے ایک دوست کا خط آیا کہ احمدی نوجوانوں میں سینما دیکھنے کا رواج پھر بڑھتا چلا جاتا ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ اس کی روک تھام کی جائے.مجھے تعجب آتا ہے کہ یہ نوجوان اتنے جاہل کیوں ہو گئے کہ انہیں اپنی تاریخ کا بھی پتہ نہیں اگر وہ پڑھے لکھے ہوتے اور انہیں تاریخ سے ذرا بھی واقفیت ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ بغداد بھی گانے بجانے سے تباہ ہوا ہے.جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو بادشاہ کی اس وقت یہی آواز آتی تھی کہ گانے والیوں کو بلا ؤ گانے والیوں کو بلاؤ.
تاریخ احمدیت 145 بغداد پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا جو حملہ کرے گا وہ خود تباہ ہو جائے گا.لیکن جب اس سے کچھ نہ ہو سکا تو ہلا کو نے اپنا ایک آدمی اس کے پاس بھجوایا اور کہا کہ مجھے آکر ملو مستعصم باللہ جو بغداد کا آخری بادشاہ تھا وہ ہلاکو کے اس پیغام پر اسے ملنے کے لئے گیا.ہلا کہ خان نے اس کے پہنچتے ہی حکم دے دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے.پھر اس نے اس کے ولی عہد کو مارڈالا اور اس کے بعد بغداد پر حملہ کر کے اٹھارہ لاکھ آدمی ایک دن میں قتل کر دیئے.اور شاہی خاندان کے جو افراد وہاں تھے اُن میں سے کوئی ایک فرد بھی نہ چھوڑ ا.سب کو ہلاک کر دیا.تا کہ آئندہ تخت کا کوئی دعویدار کھڑا نہ ہو.غرض خلافت عباسیہ تباہ ہوئی تو گانے بجانے کی وجہ سے اسی طرح مغل تباہ ہوئے تو گانے بجانے کی وجہ سے.محمد شاہ رنگیلے کو ”رنگیلا کیوں کہا جاتا ہے.اسی لئے کہ وہ گانے بجانے کا بہت شوقین تھا.بہادر شاہ جو ہندوستان کا آخری مغل بادشاہ تھا وہ بھی اسی گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوا.انگریزوں کی فوجیں کلکتہ سے بڑھ رہی تھیں الہ آباد سے بڑھ رہی تھیں کان پور سے بڑھ رہی تھیں میرٹھ سے بڑھ رہی تھیں.سہارنپور سے بڑھ رہی تھیں اور بادشاہ کے حضور گانا بجانا ہو رہا تھا.آخر انہوں نے اس کے بارہ بیٹوں کے سرکاٹ کر اور خوان میں لگا کر اس کی طرف بھیجے کہ یہ آپ کا تحفہ ہے کسی کا ایک بیٹا مر جاتا ہے تو وہ رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے مگر بہادر شاہ کے بارہ بیٹوں کے سرکاٹ کر اس کی طرف بھیجے گئے اس نے درخواست کی تھی کہ میرا وظیفہ بڑھایا جائے.انگریزوں نے اس کے بارہ بیٹوں کے سر کاٹ کر اور خوان میں لگا کر اس کی طرف بھیج دیئے اور ساتھ ہی کہلا بھیجا کہ یہ آپ کا بڑھا ہوا وظیفہ ہے.غرض تمام تباہی جو مسلمانوں پر آئی ، زیادہ تو گانے بجانے کی وجہ سے ہی آئی ہے.اندلس کی حکومت گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوئی.مصر کی حکومت گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوئی.مصر پر صلاح الدین ایوبی نے حملہ کیا تو فاطمی بادشاہ اس وقت گانے بجانے میں مشغول تھا.خدا نے مسلمانوں کو معزز بنایا تھا.مگر نہ معلوم وہ میراثی کب بن گئے.ہر ایک کو شوق ہے کہ میراثی بن جاؤں حالانکہ ان میں سے کوئی مغل جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 146 ہے.ہے کوئی پٹھان ہے.کوئی سید ہے اور کوئی کسی معزز قوم سے تعلق رکھتا اگر تمہیں میراثی بننے کا ہی شوق تھا تو تمہیں چاہئے تھا کہ تم میراثیوں کے گھر میں پیدا ہوتے.مگر ایک طرف تو یہ کیفیت ہے کہ ہر شخص کو میراثی بننے کا شوق ہے اور دوسری طرف یہ حالت ہے کہ ذرا کسی سے کہہ دو کہ فلاں میراثی کی لڑکی سے شادی کر لو تو وہ لڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے کہ کیا تم مجھے میراثی سمجھتے ہو مگر بازار سے گزرتے ہوئے وہ وہی سریں لگاتا ہے جو میراثی لگایا کرتے ہیں.اس کا بیٹا بھی وہی سریں لگاتا ہے جو میراثی لگایا کرتے ہیں.اور ان کی وہ کوئی پرواہ نہیں کرتا.غرض وہ آپ میراثی بنتا ہے اس کے بچے میراثی بنتے ہیں.اس کی بیوی میراثن بنتی ہے لیکن اگر کہا جائے کہ فلاں میراثی کا رشتہ لے لو تو وہ برا مناتا ہے گویا اپنی بیوی کو میراشن بنانے میں تو وہ کوئی حرج نہیں سمجھتا اپنے بچوں کو میراثی بنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا اسی طرح آپ میراثی بنے کو وہ کوئی حرج نہیں سمجھتا لیکن میراثی کولڑ کی دینے یا اس کی لڑکی لے لینے میں بڑی ذلت محسوس کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کے متعلق بڑا بھاری سبق دیا تھا مگر افسوس ہے کہ انہوں نے پھر بھی نصیحت حاصل نہ کی.دلی کی تباہی اس کی وجہ سے ہوئی.بغداد کی تباہی اس کی وجہ سے ہوئی.مصر کی تبا ہی اس کی وجہ سے ہوئی.اندلس کی تباہی اس کی وجہ سے ہوئی اور یا تو وہ سارا ملک مسلمانوں کا تھا اور یا آج ایک ہی مسجد جو وہاں باقی ہے عیسائی اس کو بھی گرانے کی فکر میں ہیں.غرض مسلمانوں پر انتہا درجہ کا ظلم ہوا مگر اب بھی انہیں یہی شوق ہے کہ سینما دیکھیں اور گانا بجانا سنیں.وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ بڑا اچھا سینما آگیا ہے جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے ہوتے ہیں کہ بڑا اچھا میراثی آگیا ہے.غرض مسلمان برابر عیش و طرب میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے اس بات سے ڈرایا تھا اور فرمایا تھا کہ یاتى عليك زمن كمثل زمن موسى ( تذكره مطبوعہ ۱۹۷۷ء صفحہ ۴۶) تجھ پر بھی ایسا ہی زمانہ آنے والا ہے جیسے موسیٰ پر آیا تھا.عام طور پر اس کے معنے سمجھے جاتے ہیں کہ جس طرح موسوی قوم کو فرعونی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 147 مظالم کا مقابلہ کرنا پڑا اسی طرح جماعت احمدیہ کو بھی مختلف ابتلاؤں سے گزرنا پڑے گا.لیکن ایک اور بات جس کی طرف اس الہام میں اشارہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ یہودی مرد اور عورتیں ناچنے گانے میں بڑی مشہور ہیں.پس اس الہام میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تیری قوم پر بھی ایک ایسا ہی زمانہ آنے والا ہے یعنی وہ بھی اپنے اصل فرض کو بھول کر گانے بجانے کی طرف توجہ کر لیں گی.میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر تاریخ کی گواہی سے بھی کسی قوم کو ہوش نہیں آتا اور وہ اسی راستہ پر قدم مارتی جاتی ہے جس پر چل کر پہلے لوگ ہلاک ہوئے تو اس قوم کا مرجانا اس کی زندگی سے بہتر ہوتا ہے.میرے نزدیک ملتان کے سیکرٹری کو جس نے یہ چٹھی لکھی ہے مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں تھی اسے چاہئے تھا که ساری جماعت کے سامنے بیت الذکر میں اس نوجوان کو کھڑا کرتا اور اسے کہتا کہ وہ سب لوگوں کے سامنے یہ الفاظ کہے کہ میں اپنے اس فعل سے ساری جماعت کو تباہ کر دوں گا.میں احمدیت کو مٹا دوں گا کیونکہ جو کام میں کر رہا ہوں اس سے میں بھی مٹوں گا.اور احمدیت بھی مٹے گی.میں سمجھتا ہوں کہ ایک خبیث سے خبیث منافق بھی یہ الفاظ کہنے کی جرات نہیں کرے گا.صرف یہی ہو سکتا ہے کہ وہ جماعت سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دے.لیکن ایسا شخص جماعت سے جتنی جلدی نکل جائے اتنا ہی اچھا ہے اور اس کے نکلنے سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا.بلکہ ہماری ترقی ہی ہوگی.“ ۴۹ 66 جلد ۲۰
تاریخ احمدیت فصل سوم 148 جلد ۲۰ ۵۱ بیت نور را ولپنڈی کی تعمیر راولپنڈی شہر میں اب تک کوئی احمد یہ بیت الذکر نہیں تھی اور احباب جماعت مری روڈ پر واقع ایک دو منزلہ مکان میں نمازیں پڑھتے تھے.٢ / مارچ ۱۹۵۳ء کو مشتعل ہجوم نے اس عمارت میں آگ لگا دی جس سے جماعت کی لائبریری حتی کہ قرآن مجید کے متعدد نسخے بھی جل گئے.اس وقت پانچ احمدی اس میں موجود تھے جنہوں نے ملحقہ مکان پر چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی.اس المناک واقعہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے یہاں تعمیر بیت الذکر کی ہدایت فرمائی.چنانچہ جماعت احمد یہ راولپنڈی نے اپنے مقدس امام کے منشاء مبارک کی تعمیل میں اس کی زور شور سے تیاریاں شروع کر دیں.بیت الذکر کا نقشہ جماعت کے ایک مخلص فرد چوہدری عبدالغنی صاحب رشدی نے نہایت محنت و عرقریزی سے تیار کیا.میونسپل کارپوریشن راولپنڈی سے نقشہ منظور ہو چکا تو اس سال ۱۹۵۸ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر، صدر انجمن احمد یہ ربوہ نے حضرت مصلح موعود کے نمائندہ خاص کی حیثیت سے اپنے دست مبارک سے اس کا سنگ بنیاد رکھا اور خدا کے گھر کی تعمیر کا کام امیر جماعت راولپنڈی جناب میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ کی سرپرستی اور محترم رشدی صاحب کی ذاتی نگرانی میں شروع ہوا اور ڈیڑھ سال کے اندر پایۂ تکمیل تک پہنچ گیا.اس عرصہ میں نمازوں اور اجتماعات کے متبادل انتظام کی ضرورت تھی جو میاں عطاء اللہ صاحب نے اپنے وسیع و کشادہ مکان میں اس خوش اسلوبی سے کر دیا کہ احباب جماعت کو کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا.اپنے مکان کی پیشکش میاں صاحب نے خود ہی کی تھی اور انہوں نے اور ان کی بیگم صاحبہ نے اس خدمت کا حق ادا کر دیا.۵۳ خدا کے گھر کی تعمیر کے لئے ہر اتوار کو وقار عمل منایا جاتا تھا.راولپنڈی کے احمدی احباب نے اس کے مختلف تعمیراتی مراحل میں جس جوش و خروش، دینی ہمت اور جذبہ خدمت کا مظاہرہ کیا وہ یقیناً ایک قابل تحسین امر تھا.راولپنڈی کا کوئی احمدی بچہ اور پیر و جوان نہیں تھا جس نے اس وقار عمل میں حصہ نہ لیا ہو.جب بھی لینٹر ڈالنے کا موقع آتا سبھی مزدوروں کی طرح کام کرتے اور معمار کہتے تھے کہ احمدی احباب ایک دن میں اتنا زیادہ کام کر ڈالتے ہیں کہ ہم بقیہ چھ
تاریخ احمدیت 149 جلد ۲۰ روز میں اتنا نہیں کر پاتے.وقار عمل نماز عشاء کے بعد شروع ہوتا جو کسی وقفہ کے بغیر جاری رہتا اور نماز فجر تک لینٹر مکمل کر دیا جاتا.اس طرح جماعت را ولپنڈی نے نہ صرف بیت الذکر کے اخراجات میں ہزاروں روپے کی بچت کی بلکہ مساوات اور ایثار و عمل کا ایسا شاندار نمونہ پیش کیا جس پر بیگانوں نے بھی خراج تحسین ادا کیا.حصول ثواب میں مسابقت کا یہ جذبہ انتہائی ایمان افروز تھا اور مقامی اخبارات میں ان دنوں احباب جماعت کے اس بے مثال نمونہ کا خوب چرچا رہا.ابتداء میں فیصلہ کیا گیا کہ اس کی عمارت پانچ منزلہ ہونی چاہئے لیکن چونکہ عمارت کے اوپر سے پی اے ایف کے جہاز پرواز کرتے تھے اور زیادہ بلند عمارت ان کی آمد و رفت میں رکاوٹ کا موجب بن سکتی تھی اس لئے یہ ارادہ ترک کر دیا گیا اور ایک نہ خانہ، ایک لائبریری ہال ایک ہال اور گیلری تعمیر کرنے کے بعد بقیہ کام مجبوراً روکنا پڑا.اس طرح ڈیڑھ سال کے اندر جماعت را ولپنڈی کی شاندار بیت الذکر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی جس کا نام بیت نور تجویز ہوا اور اس کی سنگ مرمر کی تختی صاحبزادہ حضرت مرزا مظفر احمد صاحب نے نصب فرمائی اور اب یہ جماعت احمد یہ راولپنڈی کی دینی سرگرمیوں کا مرکز ہے.رسالہ سونیئر کراچی کا اجراء اور اس کی مقبولیت اس سال جماعت احمد یہ کراچی کے جواں ہمت اور پر جوش نوجوانوں نے مقامی جماعت اور مربیان سلسلہ کے تعاون اور سر پرستی میں سوونیئر کے نام سے ایک نہایت دلکش معلومات افروز اور مصور رسالہ جاری کیا.اس رسالہ سے جو اپنی نوعیت کا ایک منفر د رسالہ اور علم و معرفت کا مرقع تھا سلسلہ احمدیہ کے جرائد میں شاندار اضافہ ہوا.یہ مجلہ نہایت درجہ اہتمام اور باقاعدگی کے ساتھ ۱۹۷۱ء تک شائع ہوتا رہا اور جماعت کے ہر حلقہ میں بہت مقبول ہوا.ذیل میں عبدالرشید صاحب سماٹری نگران مجالس و ناظم اشاعت کراچی کے الفاظ میں اس یادگار رسالہ کے بارے میں بعض ضروری معلومات درج کی جاتی ہیں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ :." کراچی کے سوونیئر کی اشاعت کا پس منظر اور مقاصد درج ذیل ہیں : ا.خدام کا علمی اور کھیل کے میدان میں سالانہ ترقی کا خاکہ پیش کرنا.۲.سالانہ اجتماع کے اخراجات کی تکمیل.۳.مسئلے مسائل سے بالاتر ہو کر جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی پر روشنی ڈالنا.۴.خاص طور پر بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی ترقی اور اسلامی خدمات کو دنیا
تاریخ احمدیت 150 جلد ۲۰ کے سامنے انگریزی اور اردو زبان میں پیش کرنا.۵.اسلام کے بنیادی ارکان کے سلسلہ میں مفصل علمی مضامین اور ان کا فلسفہ اور فضائل بیان کرنا.۶.حضرت مصلح موعودؓ کے گولڈن جوبلی کے سلسلہ میں سوونیئر کا نمبر شائع کیا گیا تا کہ سوونیئر کے فنڈز اکٹھا کر کے گولڈن جوبلی (جو کہ آئندہ سالوں میں متوقع تھی) کے موقع پر حضور اقدس کی خدمت میں مجلس کی طرف سے تحفہ پیش کرنا مقصود تھا اور اس وقت کراچی میں پریس کا قیام مدنظر تھا.سوونیئر کی اشاعت کے فوائد :- ۱- بیرون ممالک میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات اور تبلیغی مساعی کا ریکارڈ اور دین حق کے لئے محمد ثابت ہونا.۲- خدام الاحمدیہ کا تعارف اور اس کی مساعی کی رپورٹ.۳- سوونیئر کا اکثر پڑھے لکھے لوگوں تک پہنچنا.-۴- حضرت مسیح موعود اور خلفاء کرام علاوہ دیگر نا در تصاویر کا منظر عام پر لانا.۵- نادر مسودات کی اشاعت جس میں THE GREAT MIRZA GHULAM AHMED کے عنوان پر امریکی اخبار میں مضمون کی اشاعت.۶- قرآن پاک ، ترجمہ تفسیر اور احادیث معہ ترجمہ و تشریح کی اشاعت.۷- کتب حضرت مسیح موعود کے خلاصہ کا بیان.علمی ، معلوماتی ، دینی مضامین کی علماء کرام کی طرف سے اشاعت کے علاوہ بیرون ممالک سے جماعت احمدیہ میں نئے داخل ہونے والوں کے انفرادی انٹرویوز اور جماعت احمدیہ کے بارے میں تاثرات کی اشاعت بعنوان " FROM CHURCH TO MOSQUE" شامل ہیں.۹ - خدام کی اس سوونیئر کے ذریعہ ( دینِ حق ) اور احمدیت کی اشاعت کے لئے ٹریننگ اور واقفیت پیدا کرنا تا کہ آئندہ آنے والوں کے لئے مفید ثابت ہو سکے.سوونیئر کی اشاعت کے لئے عہد یداران کی شاندار مساعی پہلے سوونیئر سے لے کر ۱۹۷۱ء تک اس کی اشاعت کے لئے جن عہد یداروں نے اس مساعی میں حصہ لیا ہے ان کے نام ترتیب وار ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو
تاریخ احمدیت 151 جلد ۲۰ جزائے خیر عطا کرے اور ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے :- سوونیئر ۱۹۵۸ء (انگریزی) ۱- قائد : مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب -۲- ممبر : مکرم ملک مبارک احمد صاحب ۳ - ممبر : مکرم چوہدری افتخار احمد صاحب ۴ - ممبر : مکرم چوہدری جلال محمود صاحب ۵- ممبر : مکرم شریف احمد صاحب -۶ - ممبر : مکرم محمد شمیم صاحب ۷.ممبر : مکرم عبدالحفیظ صاحب ۸ - ممبر : مکرم معین الدین صاحب ۹ -ممبر : مکرم اعجاز مبارک احمد صاحب سوونییر ۱۹۶۰ء (انگریزی) ۱- قائد : مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب ۲- چیئر مین سود نیئر کمیٹی : مکرم مقبول احمد صاحب ۳- سوو نیئر سیکرٹری : مکرم سید محمود احمد صاحب ۴ - فنانس سیکرٹری: مکرم شیخ رشید احمد صاحب محمود سوونیئر ۱۹۶۴ء (انگریزی) ۱- قائد : مکرم ملک مبارک احمد صاحب ۲ - ناظم اشاعت: مکرم سید محمود احمد صاحب ۳- انچارج فنانس و اشتہارات : مکرم شیخ منور احمد صاحب ۴ - آفس سیکرٹری: مکرم نذیر احمد صاحب سلیم ۵- آفس اسسٹنٹ : مکرم عبدالرشید صاحب سماٹری ۶- نائب برائے اشتہارات : مکرم ناصر احمد صاحب ظفر سود نیئر ۱۹۶۵ء (انگریزی) - قائد : مکرم ملک مبارک احمد صاحب ۲ - ناظم اشاعت : مکرم سید محمود احمد صاحب سوونیئر ۱۹۶۶ء (انگریزی اور اردو) ۱- قائد : مکرم ملک مبارک احمد صاحب ۲ - ناظم اشاعت : مکرم شاہد احمد صاحب سو دنیئر ۱۹۶۷ء (انگریزی واردو) ا - قائد : مکرم ملک مبارک احمد صاحب ۲ - ناظم اشاعت : مکرم ظفر اقبال سیفی صاحب (برائے حصہ انگریزی ) ۳- نائب ناظم اشاعت مکرم عبد الرشید صاحب سماٹری (برائے حصہ اردو)
تاریخ احمدیت 152 جلد ۲۰ سود نیئر ۱۹۶۸ء (انگریزی داردو) ا.قائد : مکرم نعیم احمد خاں صاحب ۲- چیئر مین سو نیئر کمیٹی: مکرم عبدالرب انور محمود صاحب ( نائب قائد ) ۳.ناظم اشاعت، سیکرٹری سوونیئر کمیٹی و سود نیئر انچارج : مکرم عبدالرشید صاحب سماٹری -۴- ممبر کمیٹی : مکرم سید محمود احمد صاحب سود نیئر ۱۹۶۹ء (انگریزی واردو) سوونیئر ۱- قائد : مکرم نعیم احمد خاں صاحب ۲- ناظم اشاعت و ایڈیٹر : مکرم عبدالرب صاحب انور - مشیر : مکرم سید محمود احمد صاحب ۴- ممبران : ۱ مکرم رشید احمد صاحب ارشد ۲- مکرم شیخ محمد ادریس صاحب ۳- مکرم ناصر احمد خان جاوید صاحب ۴- مکرم مبشر احمد ناصر صاحب سود نیئر ۱۹۷۰ء (انگریزی) ا.قائد ضلع و مقامی : مکرم نعیم احمد خان صاحب -۲- مشیر تراجم ۱ مکرم احسان اللہ خاں صاحب ۲ - مکرم سید محمود احمد صاحب ۳- ممبران : ا مکرم ناصر احمد خاں صاحب جاوید ۲ - مکرم وسیم احمد صاحب ۳ - مکرم ناصر احمد صاح سود نیئر ۱۹۷۱ء (انگریزی) ا- قائد ضلع مکرم چوہدری اعجاز احمد صاحب ۲ - ناظم اشاعت و ایڈ میٹر: مکرم عبدالرحمن صاحب - - مشیر و ممبران : 1 - مکرم سید محمود احمد صاحب -۲- مکرم ملک مبارک احمد صاحب ارشاد - مکرم چوہدری نعمت علی صاحب ۴- مکرم ناصر جاوید احمد خاں صاحب ۵ - مکرم مظہر احمد صاحب اس کے علاوہ بہت سے بزرگانِ سلسلہ و خدام نے اس کی اشاعت کے سلسلہ میں کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لے کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی ہے ان میں سے اکثر کے نام مع فوٹوز
تاریخ احمدیت 153 سوونیئر ز میں ذکر کیا جاتا رہا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.جلد ۲۰ مرتبه: دستخط ( عبدالرشید سماٹری ) تاریخ ۶/۸/۱۹۷۷ نگران مجالس و ناظم اشاعت ضلع کراچی نوٹ:.اس رپورٹ کی تیاری میں مکرم سید محمود احمد صاحب جو سود نیئر کے سب سے پرانے اور بانی کارکن شمار کئے جاتے ہیں ان کا مشورہ شامل ہے.مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کی مساعی کے شاندار نتائج مجاہدین احمدیت ۱۹۳۴ء سے مشرقی افریقہ میں سرگرم عمل تھے.۱۹۵۸ء میں ان کی کوششوں کے شاندار نتائج خاص طور پر نمایاں ہو کر سامنے آگئے جبکہ عیسائی محققین بھی واضح اعتراف کرنے لگے کہ جماعت احمدیہ کی مساعی کے نتیجہ میں ( دین حق ) کے مقابل عیسائیت پسپا ہو رہی ہے.اس سلسلہ میں بعض اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں : پروفیسر مسٹر گولڈ تھرون کی تازہ ضخیم تصنیف SOCIETY میں لکھا کہ OUT LINES OF EAST AFRICAN ” دینِ حق ) کی یہ کامیابی اس لحاظ سے اور بھی نمایاں حیثیت رکھتی ہے کہ ابھی زمانہ حال میں چند سال قبل تک یہاں مسلم تبلیغی مساعی کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا.گزشتہ دس پندرہ سال میں روشن خیال فرقہ احمدیہ نے جس کا مرکز پاکستان میں ہے بعض مستعد نوجوان علماء بطور مبلغ یہاں بھیجے ہیں اور آج کل سارے مشرقی افریقہ میں ایک درجن کے قریب ایسے مبلغین دینِ حق ) مصروف کار ہیں انہیں یہاں کی مقامی جماعت احمدیہ کی پوری پوری تائید وحمایت اور امداد حاصل ہے.اگر چہ اس جماعت کے افراد تعداد کے لحاظ سے ابھی تھوڑے ہیں لیکن ان میں مالدار اور بااثر لوگوں کی کمی نہیں ہے اس لئے یہ جماعت اپنی تعداد سے کہیں بڑھ کر اثر ڈالنے اور نفوذ حاصل کرنے کی اہلیت سے بہرہ ور ہے.“ (صفحہ ۲۰۴) ترجمہ وو ۲ - " مشرقی افریقہ میں ( دین حق ) کو جو ایک اور مشکل درپیش ہے وہ یہاں کی مقامی زبانوں میں مناسب لٹریچر کی کمی ہے.مشرقی افریقہ کی کسی زبان میں بھی قرآن کا کوئی مستند ترجمہ پہلے سے موجود نہیں ہے.سواحیلی میں
تاریخ احمدیت 154 جلد ۲۰ اب دو تر جمعے شائع ہو چکے ہیں.یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ان میں سے ایک ترجمہ زنجبار کے ایک عیسائی مشنری کین ڈیل نے کیا ہے البتہ دوسرا ترجمہ جماعت احمدیہ نے خود شائع کیا ہے.مزید برآں احمدیوں نے ہی جو کبھی ہمت ہارنا نہیں جانتے ابھی حال ہی میں جبکہ یہ سطور لکھی جا رہی ہیں یوگنڈا زبان میں چند ابتدائی سورتوں کا ترجمہ شائع کر دکھایا ہے.ترجمہ (صفحہ ۲۰۶) ہے.-۳- کمپالہ ( یوگنڈا) سے انگریزی روزنامه موسومہ UGANDA ARGUS INCREASING INFLUENCE OF ISLAM IN UGANDA یعنی " یوگنڈا میں اسلام کا ترقی پذیر اثر“ کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ لکھا : د گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں برطانوی وزیر نو آبادیات سرکاری دورے پر یوگنڈا آئے اور انہوں نے یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا.اس پر یس کا نفرنس میں ( جماعت احمدیہ کے اخبار ) ” وائس آف اسلام کے ایڈیٹر ( حکیم محمد ابراہیم صاحب مبلغ ( دین حق ) یوگنڈا نے وزیر موصوف کی توجہ مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کی طرف مبذول کراتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ یوگنڈا کے مسلمانوں کی اس بارے میں مدد کریں.وزیر موصوف اس سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے سلسلہ میں یوگنڈا کے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنے کا وعدہ کیا.چنانچہ بعد میں انہوں نے اپنے تعلیمی مشیر سر کرسٹوفر کا کس کو اس غرض سے یوگنڈا بھجوایا کہ وہ اس بارے میں تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کریں.سر کرسٹوفر یوگنڈا آئے.سارے معاملے کی تحقیقات کی اور واپس جا کر انہوں نے وزیر نو آبادیات کو اپنی رپورٹ میں مطلع کیا کہ یوگنڈا ہی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں افریقی مسلمانوں کا کافی اثر ہے.نیز انہوں نے وہاں ایک اسلامی ادارہ قائم کرنے کی سفارش کی.“ - 66 اخبار یوگنڈا آرگس مورخہ ۲۹ ستمبر ۱۹۵۸ء) مذکورہ بالا انگریزی روزنامہ نے ایک اور نوٹ OF "FAILURE "CHRISTIANITY IN UGANDA یوگنڈا مشرقی افریقہ میں عیسائیت کی ناکامی کے عنوان سے شائع کیا.جس کے بعض اقتباسات کا ترجمہ درج ذیل ہے:
تاریخ احمدیت وو 155 ” مجھے یوگنڈا کے ایک نہایت ذمہ دار باشندے نے بتایا ہے کہ جونہی یہاں حکومت خود اختیاری کا قیام عمل میں آ جائے گا تو لوگ اس خیال کے پیش نظر کہ چرچ ایک غیر ملکی ادارہ ہے اور شادی کے ایک ایسے نظریہ کا حامل ہے جو اہل یوگنڈا کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے چرچ کو یہاں سے نکال باہر کریں گے.میں نہیں جانتا کہ یہ بات درست ہے یا نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ گزشتہ دو سال سے یوگنڈا میں قدیم عقائد کی طرف عود کرنے کا میلان بڑھ رہا ہے اور شادی کے مسیحی نظریات اور بالعموم خود مسیحیت کے خلاف حملے کی شدت بڑھتی جا رہی ہے.یوگنڈا میں ایسے چیفس پہلے ہی بہت کم ہیں کہ جنہیں چرچ کا سرگرم رکن شمار کیا جا سکے.اس کے نتیجے میں یوگنڈا میں چرچ کی آمد میں بہت کمی واقع ہوگئی ہے.یہ ہے وہ بیان جو یوگنڈا کے بشپ رائٹ ریورنڈیسلی براؤن نے ۸/جنوری ۱۹۵۸ء کو نامی ریمبے کیتھڈرل میں اینگلیکن چرچ کی علاقائی کانفرنس میں دیا.“ جلد ۲۰ حکومت کی طرف سے زائد مالی امداد کی پیشکش کے باوجود ، مینگوی ایم ایس ہسپتال داخل ہونے والے مریضوں کے لئے موجودہ گنجائش میں دو تہائی کمی کرنے پر مجبور ہو گیا ہے.اسی طرح وہ عام طبی خدمات اور نرسوں کی تربیت کے کام سے بھی دستبردار ہو رہا ہے.اس امر کا اعلان یوگنڈا کی علاقائی کانفرنس میں ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر آر بلنگٹن نے کیا.یوگنڈا آرگس ۱۱؍ جنوری ۱۹۵۸ء) حضرت مصلح موعود کا پیغام خدام الاحمدیہ کراچی کے نام مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے اپنے سالانہ اجتماع ( منعقدہ ۲۶، ۲۷، ۲۸ ستمبر ۱۹۵۸ء) کے لئے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیغام عطا فرمانے کی درخواست کی تھی جس پر حضور نے مندرجہ ذیل پیغام تحریر فرمایا جسے مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب قائد مجلس کراچی نے اجتماع میں پڑھ کر سنایا : - خدام الاحمدیہ کراچی کی طرف سے درخواست کی گئی ہے کہ میں ان کے سالانہ جلسہ کے لئے کوئی پیغام بھیجوں.خدام الاحمدیہ کو ایک ہی پیغام ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور بنی نوع انسان کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں.میں مرکزی خدام الاحمدیہ کے ایک سالانہ جلسہ میں یہ
تاریخ احمدیت 156 جلد ۲۰ تقریر کر چکا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے یہ معنے نہیں کہ یہ احمدیت کے خادم ہیں بلکہ احمد یوں میں سے بنی نوع انسان کے یہ خادم ہیں.اس اپنی تقریر کو میں پھر یاد دلاتا ہوں اور کراچی کے خدام سے کہتا ہوں کہ وہ پاکستان کے مرکز میں بستے ہیں جہاں تمام دنیا کے آدمی آتے ہیں اور جہاں خدمت کا بہترین موقع ان کو مل سکتا ہے.وہ اس طرف توجہ کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو یا درکھیں کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں.خالی مسلمان کہلانے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ اصل مسلمان وہ ہے جو دنیا کو امن بخشے.پس دنیا کو امن بخشنے کی کوشش کریں.لڑائی جھگڑوں سے بچیں.بغیر کسی مذہب اور ملت کا خیال کئے ہر مذہب وملت کے آدمیوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں.خاکسار مرزا محموداحمد خلیفة المسیح الثانی) ۱۵۷ سالانہ اجتماع انصار الله ۱۹۵۸ء سے اس سال مجلس انصار اللہ مرکز یہ کا چوتھا سالانہ اجتماع ۳۱ /اکتوبر، یکم نومبر ،۲ /نومبر ۱۹۵۸ء کو حضرت مصلح موعود کا ایمان افروز خطاب منعقد ہوا.حضرت مصلح موعودؓ نے اجتماع کرنا کے دوسرے روز حسب ذیل ایمان افروز خطاب فرمایا : " آج انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کی تقریب ہے.میں اس موقعہ پر آپ سے دو باتیں کہنی چاہتا ہوں ایک تو میں اس بارہ میں آپ سے خطاب چاہتا ہوں کہ آپ اپنے فرائض کی طرف توجہ کریں.آپ کا نام انصار اللہ سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے.پندرہ سے چالیس سال کی عمر کا زمانہ جوانی اور امنگ کا زمانہ ہوتا ہے اس لئے اس عمر کے افراد کا نام خدام الاحمدیہ رکھا گیا ہے تا کہ وہ خدمت خلق کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور چالیس سال سے اوپر عمر والوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے اس عمر میں انسان اپنے کاموں میں استحکام پیدا کر لیتا ہے.اور اگر وہ کہیں ملا زم ہو تو اپنی ملازمت میں ترقی حاصل کر لیتا ہے اور وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے سرمایہ سے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکے.پس آپ کا نام
تاریخ احمدیت 157 انصار اللہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں اور یہ توجہ مالی لحاظ سے بھی ہوتی ہے دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے دینی لحاظ سے بھی آپ لوگوں کا فرض ہے کہ عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور دین کا چرچہ زیادہ سے زیادہ کریں تا آپ کو دیکھ کر آپ کی اولادوں میں بھی نیکی پیدا ہو جائے.حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قرآن کریم میں یہی خوبی بیان کی گئی ہے کہ آپ اپنے اہل وعیال کو ہمیشہ نماز وغیرہ کی تلقین کرتے رہتے تھے.یہی اصل خدمت آپ لوگوں کی ہے.آپ خود بھی نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ کریں اور اپنی اولادوں کو بھی نماز اور الہی کی طرف توجہ دلاتے رہیں.جب تک جماعت میں یہ روح بیدار ہے اور لوگوں کے ساتھ خدا کے فرشتوں کا تعلق قائم رہے اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق کلام الہی ان پر نازل ہوتا رہے اسی وقت تک جماعت زندہ رہتی ہے کیونکہ اس میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز سن کر اسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور جب یہ چیز مٹ جاتی ہے اور لوگ خدا تعالیٰ سے بے تعلق ہو جاتے ہیں تو اس وقت قو میں بھی مرنے لگ جاتی ہیں.پس آپ لوگوں کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اپنی اولادوں کو بھی ذکر الہی کی تلقین کرتے رہنا چاہئے.اور اگر کوئی بشارت آپ پر نازل ہو تو ڈرنا نہیں چاہئے اسے اخبار میں اشاعت کے لئے بھیج دینا چاہئے.اصل میں یہ تو انبیاء کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی رؤیا وکشوف کو شائع کریں لیکن انبیاء اور غیر انبیاء میں یہ فرق ہوتا ہے کہ انبیاء میں تحدی پائی جاتی ہے اور غیر انبیاء میں تحدی نہیں پائی جاتی.غیر انبیاء کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ انکسار کے مقام کو قائم رکھیں اور بے شک خدا تعالیٰ کی تازہ وحی کی جو بارش ان پر نازل ہو اس کا لوگوں کے سامنے ذکر کریں لیکن لوگوں کو یہ نہ کہیں کہ تم ہماری بات ضرور مانو ہاں نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ تم میری بات مانو نہیں تو تمہیں سزا ملے گی لیکن غیر نبی کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ایمان کی زیادتی کے لئے خواب بیان کر دیتا ہے لیکن وہ کسی سے یہ نہیں کہتا کہ تم میری بات ضرور مانو وہ سمجھتا ہے کہ جب میں غیر نبی ہوں تو اگر خدا تعالیٰ نے میری بات کسی سے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 158 منوانی ہے تو وہ خود اس کے لئے کوئی صورت پیدا کر دے گا مجھے اس پر زور دینے کی ضرورت نہیں.لیکن نبی اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ وحی پر زور دے کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے ایسے رنگ میں کلام کرتا ہے جس رنگ میں وہ کسی اور سے نہیں کرتا.اس لئے کوئی شخص اگر میری بات نہیں مانے گا تو اس کو سزا ملے گی اور اسی وجہ سے وہ تحدی کرتا ہے لیکن دوسرا شخص ایسا نہیں کر سکتا.پس جس شخص کو کوئی رؤیا یا کشف ہو اسے وہ کشف یا رویا اخبار میں چھپوانے کے لئے بھیج دینا چاہئے آگے الفضل والوں کا کام ہے کہ وہ اسے شائع کریں یا نہ کریں.یہ بھی غلط طریق ہے کہ بعض لوگ مجھے کہہ دیتے ہیں کہ الفضل ہمارا مضمون شائع نہیں کرتا وہ بے شک نہ چھاپے تم چپ کر رہو کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں کہ وہ چھپے لیکن اس میں خود الفضل والوں کا اپنا فائدہ بھی ہے کیونکہ اس سے جماعت کے اندر ایک بیداری پیدا ہوتی ہے اگر کسی شخص کو کوئی رؤیا یا کشف یا الہام ہوتا ہے اور وہ شائع ہو جائے تو دوسروں کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم توجہ کریں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں بھی کوئی رؤیا یا کشف یا الہام ہو جائے گا.اس طرح الفضل سلسلہ کی ایک خدمت کرے گا.وہ جماعت کے اندر بیداری پیدا کرنے کا موجب ہو گا.لیکن اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ خود گرفت کرے گا.آپ لوگوں کا صرف اتنا کام ہے کہ آپ اسے اس طرف توجہ دلائیں لیکن اگر الفضل نہ چھاپے تو پھر اسے خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیں اور اصرار نہ کریں کہ الفضل ہماری خواب شائع کرے.ایڈیٹر آزاد ہوتا ہے اس کی مرضی ہے کہ کوئی چیز شائع کرے یا نہ کرے.اگر وہ اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ خود اس سے سمجھ لے گا.آپ اس پر داروغہ نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں پر داروغہ نہیں ہو.پھر تم داروغہ کہلانے والے کہاں سے آگئے.بہر حال آپ انصار اللہ کے مقام کو قائم رکھنے کی کوشش کریں.اور انصار اللہ کے معنی یہی ہیں کہ وہ روپیہ سے بھی دین کی خدمت کریں اور روحانی طور پر بھی دین کی خدمت کریں میں نے بتایا ہے کہ روحانی طور پر جلد ۲۰
159 جلد ۲۰ تاریخ احمدیت دین کی خدمت یہی ہے کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں اور اگر اس کی طرف سے بارش کا کوئی چھینٹا آپ پر بھی پڑ جائے تو ان چھینٹوں کو لوگوں تک بھی پہنچائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی تو الگ رہی خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی ہر چیز کی قدر کرتے تھے.ایک دفعہ بارش ہوئی تو آپ باہر نکل آئے اور اپنی زبان باہر نکال لی اس پر بارش کا ایک قطرہ گرا تو آپ نے فرمایا کہ یہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا تازہ نشان ہے.تو قرآن کریم تو الگ رہا آپ نے بارش کے ایک قطرہ کو بھی خدا تعالیٰ کا تازہ نشان قرار دیا ہے.اب اگر کسی شخص پر خدا تعالیٰ کا اتنا فضل ہو جاتا ہے کہ اسے کوئی کشف ہو جاتا ہے یا کوئی الہام ہو جاتا ہے تو وہ تو یقینی طور پر خدا تعالیٰ کا تازہ نشان ہے پھر وہ تحدیث نعمت کیوں نہ کرے.تحدیث نعمت بھی خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریق ہے.دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اب تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کا وقت آگیا ہے.ہمارے ذمہ بہت بڑا کام ہے اور ہم نے تمام غیر ممالک میں بہوت الذکر بنانی ہیں اس وقت ہمارے ملک کی اینچ کی حالت پوری طرح مضبوط نہیں مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ فضل کرتا رہا ہے اور ہمارے کام چلتے رہے ہیں کیونکہ ہماری باہر کی بعض جماعتیں مضبوط ہو گئی ہیں.مثلاً افریقہ کی جماعتیں وغیرہ اور وہ پاکستان کے قوانین کے ماتحت نہیں.اس لئے ان لوگوں نے بیوت الذکر کی خاطر جو جماعت کو پونڈ اور ڈالر دیئے ہیں ان سے کسی حد تک کام چلتا رہا ہے مگر وہ جماعتیں ابھی کم ہیں وہ زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتیں ان کا بوجھ بٹانے کا طریق یہی ہے کہ یہاں کا بوجھ یہاں کی جماعتیں اٹھا لیں.اور ان کو اس بوجھ سے فارغ کر دیا جائے تا کہ وہ غیر ملکوں میں بیوت الذکر بنائیں امریکہ میں عام طور پر حبشی لوگ مسلمان ہیں اور حبشیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی سمجھ کم ہوتی ہے لیکن امریکہ میں ایک بیت الذکر بنی ہے جس کے لئے ایک حبشی مرد اور اس کی بیوی نے اپنا مکان اور جائیداد وقف کر دی تھی.اور پھر انہوں نے کچھ اور روپیہ بھی دیا اس طرح کچھ چندہ دوسرے لوگوں نے بھی دیا.بہر حال وہ "
تاریخ احمدیت 160 بيت الذکر بن گئی ہے اگر امریکہ کے بعض لوگ جو ( دین حق ) سے بہت دور رہے ہیں اور اب قریب عرصہ میں ( دینِ حق ) میں داخل ہوئے ہیں انہیں اتنی توفیق مل گئی ہے کہ وہ بیوت الذکر کے لئے اپنی جائیداد میں وقف کر دیں تو کیا وجہ ہے کہ جو پرانے مسلمان چلے آتے ہیں وہ یہ کام نہ کریں.مغربی افریقہ میں بھی روپیہ بہت ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ہمارے کچھ چیفیس ایسے ہیں جنگی زمینوں میں ہیرے اور سونے کی کانیں نکل آئی ہیں اور ہزاروں ہزار پونڈ انہیں بطور نفع مل جاتا ہے.اگر ہمارے مبلغ ان میں تحریک جاری رکھیں اور وہ بیوت الذکر بنانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیں یا کم سے کم دو دو تین تین بیوت الذکر مشرقی اور مغربی افریقہ والے بنادیں تو پاکستان کی پونڈ جمع کرنے کی دقت دور ہو جاتی ہے کیونکہ ان ملکوں میں پونڈ کثرت سے پایا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں پونڈ کثرت سے نہیں پایا جاتا.ہمارے ملک کی جو چیزیں ہیں ان کے بیچنے کے لئے انہیں دوسری قوموں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے مگر بعض غیر ملکوں میں جن میں پونڈ پایا جاتا ہے ایسی چیزیں ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں مثلاً مغربی افریقہ میں سارا پونڈ ہیروں اور سونے کے ذریعہ سے آتا ہے اور ہیروں اور سونے میں کوئی اور قوم ان کا مقابلہ نہیں کرتی اس لئے لازماً ان کے پاس بہت سا پونڈ بچ جاتا ہے اور اس سے ہمیں مدد مل سکتی ہے.پھر ہماری جماعت فلپائن میں بھی پیدا ہو گئی ہے اور ترقی کر رہی ہے.اگر چہ وہ ترقی آہستہ آہستہ ہو رہی ہے.لیکن بہر حال ہو رہی ہے.پچھلے سال وہاں سے بیعت کا ایک خط آیا مجھے افسوس ہے کہ وہ گھر میں پڑا رہا میں تو بیماری کی وجہ سے خط نہیں پڑھ سکتا اس لئے وہ کہیں پڑا رہا.اب کے وہ خط نکلا تو معلوم ہوا کہ وہ بیعت ایک گورنر کی تھی.مگر ادھر خط ملا اور اُدھر معلوم ہوا کہ وہ بے چارہ قتل بھی ہو گیا ہے اب اس کے خط کے ملنے کا یہی فائدہ ہوا ہے کہ وکیل التبشیر نے کہا ہے کہ ہم اس کے بیوی بچوں کو ہمدردی کا خط لکھ دیتے ہیں.پہلے ہم سمجھتے تھے کہ گورنر کہاں سے آگیا کوئی ڈپٹی کمشنر ہو گا مگر اب وہاں سے جو طالب علم آیا ہوا ہے اس نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے جزیرے ہیں ان جزیروں پر گورنر مقرر ہوتا ہے ڈپٹی کمشنر نہیں ہوتا.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 161 اس نے بتایا کہ بیعت کا لکھنے والا گورنر ہی تھا.مگر وہ تو اب شہید ہو گیا ہے اب اس کی جگہ ایک نائب گورنر نے بیعت کر لی ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقہ میں بھی ترقی ہوئی ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو امریکہ اور فلپائن وغیرہ علاقوں میں جماعت کو اور بھی ترقی ہو جائے گی اور اس طرح ڈالر کی آسانی ہو جائے گی.امریکہ میں تبلیغ کا یہ اثر بھی ہے کہ دوسرے کئی ملکوں میں بھی ہماری تبلیغ کا اچھا اثر پڑ رہا ہے.چنانچہ مولوی نور الحق صاحب انور جو حال ہی میں امریکہ سے آئے ہیں انہوں نے بتایا کہ مصر کا جو وائس قونصل تھا اس کے جبڑے میں درد تھی اس نے آپ کو دعا کے لئے خط لکھا لیکن اس کو آپ کا جواب نہیں پہنچا میں نے دفتر والوں کو خط نکالنے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں وہ خط نہیں ملا.لیکن اب پرسوں یا اتر سوں اس کا دوسرا خط آیا ہے اس نے لکھا ہے کہ غالباً میرا پہلا خط نہیں پہنچا اب میں دوسرا خط لکھ رہا ہوں.میرے جبڑے میں درد ہے آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت دے.انصار اللہ کے جلسے کے بعد مولوی نور الحق صاحب انور ملے تو انہوں نے بتایا کہ اب اس کے جبڑے کو آرام آچکا ہے بلکہ میرے یہاں آنے سے بھی اسے آرام آچکا ہے اس لئے یہ خط پہلے کا لکھ ہوا معلوم ہوتا ہے ) انور صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہ کرنل ناصر کا بچپن کا دوست ہے.اور اس پر بہت اثر رکھتا ہے.یہ امریکہ میں تبلیغ کا ہی اثر ہے ہم امریکہ میں تبلیغ کرتے ہیں تو مصری اور شامی بھی متاثر ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہی جماعت ہے جو ( دینِ حق ) کی خدمت کر رہی ہے.اور اس طرح قدرتی طور پر انہیں ہماری جماعت کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے.پہلی شامی حکومت کی سختیوں کی وجہ سے ہمارے مبلغ منیر احصنی صاحب کا خط آیا تھا کہ اس نے ہماری جماعت کے بعض اوقاف میں دخل اندازی کی تھی لیکن اب انہوں نے لکھا ہے کہ جو نئے قوانین بنائے گئے ہیں ان میں کچھ گنجائش معلوم ہوتی ہے ان کے مطابق میں دوبارہ نالش کرنے لگا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے يدعون لك ابدال الشام ابدال شام تیرے لئے.ا دعائیں کرتے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ شام میں جماعت پھیلے گی پس جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 162 دوستوں کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ وہاں جماعت کے لئے سہولت پیدا کرے.اور وہاں جماعت کو کثرت کے ساتھ پھیلائے تا ابدال شام پیدا ہوں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ہیں نہیں يدعون لك كے معنی ہیں کہ وہ جماعت کے لئے دعائیں کریں گے اور ابدال نام بتاتا ہے کہ ان کی دعائیں سنی جائیں گی.ابدال کے معنے ہیں کہ ان کے اندر بڑی عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ کے مقرب ہو جائیں گے.پس اس کے لئے بھی دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے کہ شام میں جو مشکلات ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دور کرے.وہاں مضبوط جماعت پیدا ہو اور ایسے ابدال پیدا ہوں جو رات دن ( دین حق ) اور احمدیت کے لئے دعائیں کرتے رہیں ہمیں پونڈ مہیا کرنے میں شام کا بھی بڑا دخل ہے.شام میں بھی ڈالر اور پونڈ کا زیادہ رواج ہے اور وہاں سے ہمیں کچھ مددمل جاتی ہے بہر حال اگر سعودی عرب میں جماعت پھیلے اس طرح امریکہ اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور فلپائن میں ہماری جماعت پھیلے تو ڈالر مل سکتا ہے اس طرح اگر مشرقی اور مغربی افریقہ اور انگلینڈ میں جماعت پھیلے تو پونڈ جمع ہو جاتا ہے یہ پونڈ اور ڈالر ہمیں اپنے لئے نہیں چاہئیں خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کے گھر کی تعمیر کے لئے ہمیں ان کی ضرورت ہے.پس دعائیں کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ان ممالک میں جماعت قائم کرے اور ان میں ایسا اخلاص پیدا کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے گھر سارے ممالک میں بنائیں یہاں تک کہ دنیا کے چپہ چپہ سے اللہ اکبر کی آواز آنے لگ جائے اور جو ملک اب تک تثلیث کے پھیلانے کی وجہ سے بدنام تھا وہ اب اپنے گوشہ گوشہ سے یہ آواز بلند کرے کہ مسیح تو کچھ نہ تھا اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے.اگر ایسا ہو جائے تو یہ ( دین حق ) کی بڑی بھاری فتح ہے اور ہمارے لئے بھی یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے.ہم میں سے ہر شخص وہاں تبلیغ کے لئے جانہیں سکتا چند مبلغ گئے ہوئے ہیں باقی لوگ یہ کر سکتے ہیں کہ ان کی روپے سے مدد کریں اور دعاؤں کے ذریعے خدا تعالیٰ کا فضل چاہیں تا کہ وہ ان پر اپنے فرشتے اتارے اور ان کی باتوں میں اثر پیدا کرے.ہمارا ایک طالب علم جرمن گیا ہوا تھا اس کا کل ہی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 163 جلد ۲۰ خط آیا ہے کہ ایک پادری کی بیٹی میرے زیر تبلیغ تھی جو بہت حد تک احمدیت کی طرف مائل ہو گئی ہے لیکن اسے باپ سے ڈر ہے کہ وہ اس کی مخالفت نہ کرے کیونکہ وہ پادری ہے.میں نے لکھا ہے کہ پادری تو بہت مسلمان ہو چکے ہیں اور اس کی لڑکی کو سمجھاؤ کہ ہماری کتابیں پڑھے اور اپنے باپ کو بھی سمجھائے.وہ بھی انشاء اللہ مسلمان ہو جائے گا.اس وقت تک یورپ میں دو پادری مسلمان ہو چکے ہیں تو تین ہو جائیں گے.ایک شخص جو باقاعدہ پادری تو نہیں لیکن اس نے پادری کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے وہ انگلینڈ میں احمدیت میں داخل ہوا ہے.اس کا باپ یہودی مذہب کا عالم تھا جب اس نے اپنے باپ سے ذکر کیا تو اس نے جواب دیا مجھے تو اسلام سچا نظر نہیں آتا لیکن اگر تمہیں سچا نظر آئے تو میں تمہیں روکتا نہیں تم بے شک اسلام قبول کرلو.جن لوگوں کے دلوں میں سچائی کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے اگر وہ خود اسلام قبول نہ کریں تو اپنی اولادوں کو اس کے قبول کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ رستہ کھول دیتا ہے.پس آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالی یورپ اور امریکہ میں ( دین حق ) اور احمدیت کی اشاعت کے لئے رستہ کھولے اور ہماری جو سکیم ہے کہ یورپ میں ہماری کئی بیوت الذکر ہوں امریکہ کی ہر ریاست میں کئی بیوت الذکر ہوں.اس کو خدا تعالیٰ جلد سے جلد پورا کرے اس طرح سپین کے لئے بھی دعا کریں کہ وہ ( دینِ حق ) کی ابتدائی فتوحات میں شامل تھا مگر اب وہاں جبری طور پر عیسائیت کو پھیلا دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس علاقہ میں ( دین حق ) کی نصرت کے سامان پیدا کرے.۶۰ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کی اہم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نائب صدر انصار اللہ مرکزیہ نے اجتماع کے تقریر اجتماع کے اختتامی اجلاس میں اختتامی اجلاس میں جو اہم تقریر فرمائی وہ انصار اللہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ مجلس مرکزیہ کی طرف سے مختلف شعبہ جات کی جو سالانہ رپورٹیں احباب کو پڑھ کر سنائی گئی ہیں ان سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ابھی بہت
تاریخ احمدیت 164 جلد ۲۰ سے کام ایسے ہیں جنہیں سرانجام دینا باقی ہے جہاں تک ان کاموں کی سرانجام دہی کا تعلق ہے اس کی ذمہ داری ایک حد تک تو مجلس مرکز یہ پر ہے اور ایک حد تک اس کے ذمہ دار وہ تمام انصار ہیں جو پاکستان میں اور پاکستان سے باہر دوسرے ممالک میں رہتے ہیں.اب تک مختلف مقامات پر جو مجالس انصاراللہ قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد تین سو کے قریب ہے اس کے بالمقابل پاکستان میں ہی جن مقامات پر جماعتہائے احمد یہ قائم اور منظم ہے ان کی تعداد کم و بیش ۸۰۰ ہے اب ظاہر بات ہے کہ جہاں جہاں ہماری جماعتیں موجود ہیں وہاں مجالس انصار اللہ بھی قائم ہوں یعنی جتنی جماعتوں کی تعداد ہے اتنی ہی مجالس کی تعداد ہو اس لحاظ سے صرف پاکستان میں ہی ۸۰۰ مجالس انصار اللہ ہونی چاہئیں.اگر ہم ۷۹۹ مجالس قائم کر لیں تو بھی ہم تسلی نہیں پاسکتے اس بارے میں اطمینان تو اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب ۸۰۰ جماعتوں میں ۸۰۰ مجالس قائم ہو جائیں.بعینہ یہی کیفیت بیرونی ممالک میں بھی ہونی چاہئے.بیرونی ممالک میں ہماری جتنی جماعتیں ہیں میں نے ان کی تعداد کا کسی قدر تفصیلی جائزہ لیا ہے.اس ضمن میں جو اعداد و شمار میرے علم میں آئے ان کی رو سے صرف افریقہ کے مختلف ممالک میں ہماری ۴۰۲ جماعتیں ہیں اس کے علاوہ ایک سو کے قریب جماعتیں انڈونیشیا میں ہیں.اسی طرح سنگا پور، ملایا اور بور نیو وغیرہ میں اب تک جو جماعتیں قائم ہو چکی ہیں ان کی تعداد ۱۲۷ ہے.مزید برآں خدا تعالیٰ کے فضل سے امریکہ، انگلستان، مغربی جرمنی ، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، اسپین ، سکنڈے نیویا، ڈچ گی آنا، برٹش گی آنا ، اور غرب الہند کے دوسرے جزائر میں بھی ہماری جماعتیں ہیں ان کی مجموعی تعدا د ۲۴ کے قریب ہے پھر بر ما سیلون ، ماریشس، اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بھی ہماری جماعتیں ہیں.اگر ان سب کو ملا لیا جائے تو بیرونی ممالک میں ہماری جماعتوں کی تعداد ۸۰۰ سے اوپر بن جاتی ہے.پاکستان کی طرح بیرونی ممالک کی ان سب جماعتوں میں بھی مجالس انصار اللہ ہونی چاہئیں.کوئی وجہ نہیں کہ ان جماعتوں میں سے ہر جماعت میں مجلس انصاراللہ قائم نہ ہو.اس لحاظ سے صرف بیرونی ممالک میں ہی ہماری ۸۰۰ مجلسیں ہونی چاہئیں.اس میں شک نہیں بیرونی ممالک کی جماعتوں میں مجالس انصار اللہ قائم کرنے کے لئے خط و کتابت پر کافی خرچ کرنا پڑے گا اور ان تمام اخراجات کے لئے روپے کی ضرورت ہوگی لیکن ہمیں اخراجات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے ہمارے اخراجات کا کفیل خود خدا ہے.ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ جب نصرت دین کی خاطر کوئی کام نیک نیتی اور اخلاص سے کیا جائے تو روپیہ خود خدا فراہم کر دیتا ہے اور اگر ہمارے اندازے کے مطابق روپیہ فراہم نہ بھی ہو تو وہ تھوڑے پیسوں
تاریخ احمدیت 165 جلد ۲۰ میں ہی وہ برکت ڈال دیتا ہے کہ ان سے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں اور کام رکنے نہیں پاتا.مثال کے طور پر تعلیم الاسلام کالج کی موجودہ عمارت خود اس کا ایک زندہ ثبوت ہے.آج سے چند سال قبل ہمارا یہ کالج لاہور کے ڈی اے وی کالج کی متروکہ عمارت میں قائم تھا وہ عمارت کہنے کو تو کافی بڑی تھی لیکن تھی بالکل کھنڈر اس کا بیشتر حصہ سرے سے استعمال کے قابل ہی نہ تھا اس کے با وجود بعض اداروں نے سوال اٹھایا کہ یہ عمارت تعلیم الاسلام کالج کے لئے بہت بڑی ہے اس لئے ان سے یہ عمارت واپس لے لینی چاہئے.اگر وہ عمارت ہم سے لے لی جاتی تو حکومت کو ہمارے لئے کسی متبادل جگہ کا انتظام کرنا پڑتا.تاہم سیدنا حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ لاہور میں کوئی اور عمارت لینے کی بجائے کالج کو فورار بوہ میں منتقل کرنے کا انتظام کیا جائے.اب یہاں ربوہ میں ہمارے سامنے کالج کے واسطے ایک موزوں عمارت تعمیر کرنے کا سوال تھا.عجیب مشکل در پیش تھی.وافر مقدار میں پیسہ ہمارے پاس تھا نہیں.ادھر دل یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ ہم کوئی چھوٹی سی بے حیثیت عمارت بنانے پر ہی اکتفا کر لیں.میں نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور جماعت سے عطیہ جات وصول کرنے کی اجازت فرما دیں.چنانچہ حضور نے اجازت دے دی.اور محض اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے کام شروع کر دیا گیا.خدا نے ہماری تھوڑی سی رقم میں وہ برکت ڈالی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں تعلیم الاسلام کالج کی موجودہ عظیم الشان عمارت بن کر تیار ہو گئی.دوسرے لوگوں کو اتنی بڑی عمارت بنانے کے لئے جتنی رقم درکار ہوتی ہے ہمیں اس سے ایک چوتھائی رقم بھی خرچ نہیں کرنی پڑی.ہمارے لئے یہ معجزہ کر دکھانا کیسے ممکن ہوا.اس کا جواب یہی ہے کہ ہم بے شک اس قابل نہ تھے کہ معجزہ کر دکھاتے لیکن ہمارے قادر و توانا خدا نے ہماری خاطر یہ معجزہ کر دکھایا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد تھا کہ کالج فوراً ربوہ میں منتقل کیا جائے.ہم نے نیک نیتی اور صدق دل سے اس کے لئے کوشش کی.پیسے خود خدا فراہم کرتا چلا گیا.اور جو پیسے بھی اس نے ہمیں عطا کئے ان میں اس نے ایسی برکت ڈالی کہ ایک ایک پیسہ چار چار پیسوں کے برابر ہو گیا.لوگ اس عظیم الشان عمارت کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ لوگ بڑے مالدار ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم غریب اور نادار لوگوں کی ایک چھوٹی سی جماعت ہیں.ہمارے پاس دولت نہیں اور نہ ہم اس کے طالب ہیں البتہ خدا کا فضل ہمارے ساتھ ہے اور وہ ہمیشہ ہی ہم کو اپنی رحمت اور برکت سے نوازتا ہے اس لحاظ سے اپنے امیر ہونے کا ہم انکار نہیں کر سکتے.البتہ یہ صحیح ہے کہ ہم ان معنوں میں امیر نہیں ہیں جن معنوں میں دوسرے ہم کو امیر سمجھتے ہیں.ہم امیر ہیں لیکن اس لئے کہ خدا کا فضل ہمارے ساتھ
تاریخ احمدیت 166 جلد ۲۰ ہے.ہم امیر ہیں لیکن اس لئے کہ اس کی رحمتیں ہم پر برستی ہیں.ہم امیر ہیں لیکن اس لئے کہ اس کی نہ ختم ہونے والی برکتیں ہمیں حاصل ہیں.یہی ہماری امارت ہے اور یہی ہماری ثروت.الغرض میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں اس کی پرواہ کئے بغیر کہ اخراجات کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا.بیرونی ممالک میں بھی انصار اللہ کے قیام کی جدوجہد شروع کر دینی چاہئے.ہماری کوئی جماعت خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں ہو ایسی نہ رہے کہ اس میں مجلس انصاراللہ قائم نہ ہو جہاں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہیں وہاں وہاں مجلس انصار اللہ کا قائم ہونا از حد ضروری ہے اور اس میں غفلت یکسر نا قابل برداشت ہے.انصار اللہ کے جس کام کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اس کا تعلق تنظیم سے ہے.تنظیم ہمیشہ کسی اعلیٰ تر مقصد کے پیش نظر ہوا کرتی ہے.اپنے اعلیٰ ترین مقصد کے حصول کی طرف توجہ دینا ہم سب کا اولین فرض ہے.ہمارا اعلیٰ ترین مقصد ہے نصرت دین.مجلس انصاراللہ کی تنظیم ہے ہی اس لئے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اس درجہ ( دینِ حق) کے رنگ میں رنگین کریں اور ہم خدا تعالیٰ کے دین کی نصرت کرنے کے قابل بن سکیں.دین کی نصرت ہم کس طرح کر سکتے ہیں؟ اس کے لئے ہمیں مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.اور اس کے مقتضیات کو پورا کرنے کے لئے ہر آن مستعد رہنا چاہئے.سو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار اپنی کتابوں میں واضح فرمایا ہے کہ آپ کی بعثت کی غرض دنیا میں دین حق کو قائم کرنا ہے اس مقصد کی تکمیل کو ہماری تمام تر جدوجہد میں بنیادی حیثیت حاصل ہونی چاہئے.ہمارا اصل اور بنیادی کام یہی ہے.باقی سب کام ذیلی ہیں دنیا میں دین حق اس طرح قائم ہوگا کہ ہم دنیا کو زندہ خدا، زندہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور زندہ کتاب کی طرف بلائیں.دینِ حق کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نہ صرف خود اس یقین پر قائم ہو جائیں بلکہ دنیا کو بھی یہ باور کرائیں کہ ( دین حق ) جو خدا پیش کرتا ہے وہ ایک زندہ خدا ہے ہم میں سے کون ہے جو یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے زندہ خدا کی زندہ تجلیات کو نہیں دیکھا.ہم میں سے ہر ایک نے اسے دیکھا ہے اس نے ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کے معجزات دکھائے ہیں اور اس کثرت سے دکھائے ہیں کہ ہم اس کی ہستی کا انکار کر ہی نہیں سکتے.ہم نے اپنے انفرادی معاملات میں بھی اور اجتماعی کاموں میں بھی خدا کی نصرت کو بارش کی طرح برستے دیکھا ہے.یہ ہو ہی کیسے سکتا ہے کہ ہم اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے اس کے وجود کے منکر ہو جائیں یا یہ باور کرنا چھوڑ دیں کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے.دوسری
تاریخ احمدیت 167 جلد ۲۰ چیز جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے سامنے پیش کی وہ زندہ رسول کا وجود ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ سب انبیاء فوت ہوئے مگر ہمارے سید و مولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے.آپ زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے یوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی بشر ہی تھے اور کوئی بشر اپنے جسدِ عنصری کے ساتھ ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ کے وجود کی فیض رساں تاثیرات نہ پہلے کبھی ختم ہوئی ہیں اور نہ آئندہ کبھی ہوں گی.ان کا سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے گا.اور ان فیض رساں تاثیرات کی بدولت آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے.سو گویا آپ زندہ ہی نہیں بلکہ دوسروں کو زندہ کرنے والے وجود ہیں.آپ کے ذریعے ہر زمانے میں روحانی مردوں کو زندگی ملتی چلی جائے گی اسی طرح تیسری چیز جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش کی وہ یہ ہے کہ قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے.آپ نے بتایا چونکہ یہ آخری شریعت ہے اور قیامت تک کبھی منسوخ نہ ہوگی اس لئے اس کی فیض رسانی کا سلسلہ جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا.اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے مسلمانوں کے ذریعہ دنیا میں جو عظیم الشان انقلاب بر پا ہوا تھا وہ انقلاب اسی شان کے ساتھ نہ صرف یہ کہ اب بھی رونما ہوسکتا ہے بلکہ خدائی تقدیر کے ماتحت وہ ایک دفعہ پھر رونما ہو کر رہے گا.اور یہ دنیا ایک دفعہ پھر امن و آشتی کا گہوارہ بنے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل حالت یہ تھی کہ قرآن مجید کے ایک زندہ کتاب ہونے کا تصور نا پید ہوتا جا رہا تھا اور یہ صرف جھاڑ پھونک کے لئے ہی رہ گیا تھا.اس پر مزید یہ کہ بدقسمتی سے یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات منسوخ ہو چکی ہیں.یہ ایک خطرناک خیال تھا جس نے دماغوں میں گھر کر لیا تھا اور اس کے نتیجے میں ( دین حق ) کی ابدی شریعت عملاً متروک ہوتی جا رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس خیال کی پر زور تردید فرمائی اور اعلان کیا کہ جس طرح ( دین حق ) کا خدا زندہ خدا ہے ( دینِ حق ) کا رسول زندہ ہے اسی طرح ( دینِ حق ) کی کتاب بھی زندہ ہے.اس کے ذریعہ خدا نے نور اور ہدایت کا جو چشمہ جاری فرمایا ہے وہ کبھی خشک نہ ہوگا اور روحانی لحاظ سے خشک اور بنجر زمینوں کو سیراب کر کے انہیں لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں تبدیل کرتا چلا جائے گا.پھر چوتھی چیز جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائی وہ آخرت پر زندہ ایمان کی اہمیت ہے.آپ نے ثابت فرمایا کہ (دین حق ) دنیا میں جو انقلاب بر پا کرنا چاہتا ہے اس میں قیامت پر زندہ ایمان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے.اس کے بغیر حقیقی روحانی انقلاب برپا ہو ہی نہیں سکتا.یہ چیز ( دین حق کے نزدیک زندگی کی بنیادوں میں سے ایک اہم بنیاد ہے.مزید
تاریخ احمدیت 168 جلد ۲۰ برآں پانچویں اہم نظریہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ( دینِ حق ) کے زندہ مذہب ہونے کا ایک یقینی اور حتمی ثبوت یہ پیش فرمایا که نه صرف دین حق ) کا رسول ایک زندہ رسول ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر سچا متبع بھی ظلی طور پر ایک زندہ وجود کی حیثیت رکھتا ہے.کیونکہ وہ ایک زندہ رسول کا فیض یافتہ ہے اور اس کی زندہ تاثیرات سے حصہ پانے والا ہے.یہ وہ لازوال صداقتیں ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا میں پیش کر کے از سر نو ایک عالمگیر روحانی انقلاب کی بنیاد ڈالی ہے.ہم جو انصار اللہ کہلاتے ہیں ہمارا مشن اور ہمارے وجود کا مقصد وحید یہ ہے کہ ہم خدا کے دین کی نصرت کریں.یہ نصرت اس طرح ہوسکتی ہے کہ ہم دنیا میں ( دینِ حق ) کی پیش کردہ ان صداقتوں کو قائم کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو جائیں.ہمیں اس وقت تک چین نصیب نہیں ہو سکتا جب تک ہم ساری دنیا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لاکر انہیں ان صداقتوں کا گرویدہ نہ بنا دیں اس میں شک نہیں کہ ہم غریب اور بے بضاعت ہیں لیکن اگر نیت اور اخلاص کی دولت انسان کے پاس ہو تو خدا اس کی حقیر کوششوں میں بھی برکت ڈال دیتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور اس کو اسی نے کرنا ہے.ہم اگر نصرت دین کے جذبے کے تحت آگے بڑھ کر جد و جہد کریں گے تو وہ ہماری کوششوں کو رائیگاں نہیں جانے دے گا.بلکہ ضرور اس کا بدلہ دے گا.ہم جتنی جتنی کوشش کریں گے اسی کے مطابق اجر وثواب کے مستحق بنتے چلے جائیں گے.۶۲ اس سال جلسہ سالانہ قادیان کا انعقاد ۱۹،۱۸،۱۷ اکتوبر جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۵۸ء ۱۹۵۸ء کو ہوا.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس عظیم روحانی اجتماع کے لئے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا جو صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا : - بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود هو الن خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران جماعت احمد یہ ہندوستان (بھارت) اصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته قادیان جلسہ سالانہ ہو رہا ہے.اور افسوس ہے کہ ابھی ہم باہر ہیں.ہم اس جلسہ سالانہ
تاریخ احمدیت 169 جلد ۲۰ میں شمولیت کی توفیق نہیں رکھتے.اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ وہ کوئی ایسے برکت والے سامان پیدا کرے کہ ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ مل کر اپنا جلسہ منایا کریں اور اپنے بھائیوں کی ملاقات سے خوش ہو سکا کریں.آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی ذمہ داریاں دنیا کی سب جماعتوں سے زیادہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کا مامور آپ کے ملک میں بھیجا ہے اور اس نے ساری عمر آپ کے ملک میں کام کیا.اسی طرح حضرت خلیفہ اول بھی آپ کے ملک میں ہوئے.اور خلیفہ ثانی کی عمر کا بہت سا حصہ آپ کے ملک میں گزرا.مقبرہ بہشتی بھی آپ کے ملک میں ہے.اللہ تعالیٰ کی بہت سی بشارتیں آپ کے ملک کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جن کے پورا ہونے میں تعویق تو ہوسکتی ہے لیکن وہ ٹل نہیں سکتیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام ٹلا نہیں کرتا.مجھے خدا تعالیٰ نے خاص طور پر بتایا کہ جنوبی ہند اور سکھوں ، ہندوؤں میں احمدیت زیادہ ترقی کرے گی.اس لئے میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنوبی ہند کی طرف اور سکھوں اور ہندوؤں کی طرف خاص توجہ کریں.ہندو قوم کیونکہ تو ہم پرست قوم ہے اس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں تصوف اور روحانیت کی طرف بہت میلان پیدا ہو گیا ہے.پس آپ دعاؤں اور ذکر الہی کی عادت ڈالیں تا کہ آپ پر بھی خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ فضل نازل ہوتے رہیں.اور ان افضال کی وجہ سے ہندو اور سکھ قوم اور مسلمانوں کا وہ حصہ جو کرامت کی طرف زیادہ توجہ کرتا ہے آپ کی طرف مائل ہوں اور جلد سے جلد احمدیت قبول کریں.اگر آپ روحانیت کے حاصل کرنے کی کوشش کریں تو آپ کو بڑی جلدی اس میں کامیابی حاصل ہوگی.مجھے بھی جوانی کا زمانہ یاد ہے کہ جب میں نیا نیا خلیفہ ہوا تھا میرے سامنے ایک دفعہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے خدا تعالیٰ کا پیغام دیا کہ اے قادیان کی جماعت تجھے مبارک ہو کہ خلافت کی تازہ بتازہ برکات تجھ پر نازل ہو رہی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر برکات نازل کرنے کے لئے اتر رہے ہیں تو آپ اگر ذرا بھی توجہ کریں تو دونوں طرف کی رغبت کی وجہ سے فرشتوں میں اور آپ میں جلد ہی میلان ہو جائے گا.اور آپ اللہ تعالیٰ سے ایسے نشانات دیکھیں گے جو دنیا میں اور کسی کو نظر نہیں آتے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور جلد قادیان اور ربوہ کے لوگوں کے ملنے کی صورت پیدا کرے.آمین.فقط والسلام خاکسارمرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ٥ - ١٠ - ٦٣٦۸
تاریخ احمدیت 170 جلد ۲۰ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام برادران بھارت السلام عليكم و رحمة الله و بركاته مجھے افسوس ہے کہ اس سال بھی حکومت ہند نے جماعت احمدیہ کے پاکستانی قافلہ کو قادیان جانے اور اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرنے اور جلسہ قادیان میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی.یہ تیسرا سال ہے کہ بھارت کی حکومت اس بارے میں مسلسل انکار کرتی چلی آرہی ہے.حالانکہ اس عرصہ میں بعض دوسرے پاکستانی قافلوں کو ہندوستان جانے کی اور بعض ہندوستانی قافلوں کو پاکستان آنے کی اجازت ملتی رہی ہے اور دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی درستی کے لئے بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو باہم میل ملاقات کا موقعہ ملتا رہے تا کہ آپس کی غلط فہمیاں دور ہوں اور اختلافی مسائل کو سمجھنے کے لئے ملک میں بہتر فضاء پیدا ہو.قادیان جماعت احمدیہ کا دائمی مرکز ہے.جہاں مقدس بانی احمدیت علیہ السلام پیدا ہوئے.جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے دن گزارے.جہاں کی بیوت الذکر میں انہوں نے اپنے خدا کی شب و روز عبادت کی.جہاں سے انہوں نے ربع صدی تک اپنے مبارک مشن کا پیغام دنیا بھر میں نشر کیا.جہاں کی مٹی میں وہ فوت ہو کر دفن ہوئے اور ان کا مزار بنا جواب مرجع خلائق ہے.جہاں ان کی وفات کے بعد خلافت احمدیہ کے دائمی نظام نے جنم لیا اور جہاں ان کے پہلے خلیفہ اپنے محبوب امام کے پہلو میں راحت فرما رہے ہیں.یہ وہ مقدس یادگاریں ہیں جن کی جڑھ زمین میں ہے اور شاخیں آسمان میں اور بھارت کے دانشمند مد بر کسی صورت میں ان حقائق کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور نہ کوئی دنیوی طاقت ان روحانی نشانوں کو مٹا سکتی ہے.بھارت کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ ایک لا دینی حکومت ہے اور ایک لادینی حکومت کا فرض اولین ہے کہ وہ نہ صرف سب مذاہب کو ایک نظر سے دیکھے بلکہ اس کے دل کی سختی ہر قسم کے پاک نقوش قبول کرنے کے لئے صاف اور تیار ہو.میں خیال کرتا ہوں کہ ہمارے بھارتی بھائیوں نے بھارت کی پبلک اور بھارت کے حکمرانوں تک ( دینِ حق ) اور احمدیت کی پرامن تعلیم پہنچانے میں پوری پوری کوشش اور والہانہ جد و جہد سے کام نہیں لیا ورنہ صداقت جو پتھر پر نقش کر سکتی ہے کس طرح ہندو اور سکھ قوم کے دلوں میں گھر کرنے میں اتنی دیر لگا دیتی.یہ درست ہے، اور یہی سنت الہی ہے کہ آسمان کا پیغام زمین -
تاریخ احمدیت 171 جلد ۲۰ پھیلنے میں کچھ وقت لیتا ہے لیکن اب تو ہماری جماعت ستر سال کی عمر کو پہنچ رہی ہے اور ( دین حق ) کا پیغام اس عرصہ میں دنیا کے کناروں تک گونجنے لگ گیا تھا.مخالف اعتراض کرتے ہیں کہ یہ پیغام تو تلوار کے زور سے پھیلا مگر محقق جانتے ہیں اور اب تو ساری دنیا اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار ہورہی ہے کہ اسلام کی اشاعت میں دلائل و براہین اور روحانی تاثیرات کا ہاتھ تھا نہ کہ فولادی تلوار کا جو کہ ابتداء میں محض حالات کی مجبوری سے دفاع میں اٹھائی گئی تھی.ہندوستان ہی کو دیکھو کیا اس ملک میں پٹھانوں یا مغلوں کی حکومت نے اسلام پھیلایا تھا ؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں بلکہ بھارت کے مسلمان حضرت نظام الدین اولیاء اور حضرت معین الدین چشتی اور حضرت بختیار کا کی اور حضرت باقی باللہ اور حضرت احمد سرہندی اور اسی قسم کے دوسرے بہت سے روحانی بزرگوں کے مرہونِ منت ہیں جن کی ضیاء پاشی نے ان کے دلوں کی تاریکی کو روشن کر کے اسلام کے نفوذ کا رستہ کھولا.یہی ہتھیار اب آپ لوگوں کے ہاتھ میں بھی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تو خدا کا وعدہ بھی ہے ایک وقت آتا ہے کہ بھارت کی ہندو اقوام ”غلام احمد کی جے“ کا نعرہ لگائے گی اور پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا بڑے زور کے ساتھ ( دینِ حق ) کی طرف رجوع ہوگا.پس میرا پیغام یہی ہے کہ : - بکوشید اے جواناں تابدیں وقت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور ہمارے ساتھ بھی اور ہر اس انسان کے ساتھ جو صداقت کا متلاشی ہے.ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ.مقررین ۱۰/اکتوبر ۱۹۵۸ء اس جلسہ سے مندرجہ ذیل مقررین نے خطاب فرمایا : - ۱ - حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ فاضل امیر جماعت احمد یہ بھارت ۲- صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب -۳ - مولانا شریف احمد صاحب امینی ( مبلغ مدراس) ۴ - مولانا بشیر احمد صاحب فاضل ( مبلغ دہلی - چوہدری مبارک علی صاحب ( مبلغ بنگلور ) ۶ - مولوی سمیع اللہ صاحب ( مبلغ بمبئی) ۷- مولوی محمد حفیظ صاحب (ایڈیٹر بد) - مولانا محمد سلیم صاحب ( مبلغ کلکتہ ) ۹ - مولانا شیخ مبارک احمد صاحب (رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ ) 9 -
تاریخ احمدیت 172 جلد ۲۰ ۱۰- مولانا محمد عبد اللہ صاحب مالا باری فاضل مبلغ سلسلہ کیرالہ سٹیٹ جلسہ سالانہ قادیان کے بعض اہم کو الف ایس سال جلسہ سالانہ قادیان کی مبارک تقریب پر پاکستان سے تو کوئی قافلہ نہ آسکا.مگر ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے عقیدت مند مسیح پاک کی مقدس بستی کی زیارت اور چند روز خصوصی دعاؤں میں گزارنے کے لئے پہنچ گئے.جلسہ میں بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر مشرقی افریقہ کے احمدی احباب کو جلسہ میں نمائندگی کا شرف حاصل ہوا.چنانچہ سید ناصر احمد شاہ صاحب بی اے بی ٹی مع افراد بیت دائگی مرکز میں پہنچے اور مقامات مقدسہ کی زیارت اور جلسہ کی عظیم برکات سے مستفیض ہوئے.حسب سابق جملہ مہمانان کرام کے قیام و طعام کے سب انتظامات صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ کی زیر نگرانی نہایت تسلی بخش رہے.موسم کے مناسب حال سایہ کے لئے جلسہ گاہ ( مردانہ و زنانہ ) میں شامیانے نصب کئے گئے لاؤڈ سپیکر کا عمدہ انتظام رہا.اس کے ذریعہ پہلے اور تیسرے روز مردانہ جلسہ گاہ سے زنانہ جلسہ گاہ میں سارا پروگرام نہایت عمدگی سے سنا جاتا رہا.درمیانے روز یعنی ۱۸ / اکتوبر کو مستورات کے جلسہ کا علیحدہ پروگرام تھا وہ بھی بخیر و خوبی پورا ہوا.فصل کی بوائی کی مصروفیت کے باعث جلسہ کی حاضری نسبتا کم رہی تاہم بہت سے غیر مسلم دوست جلسہ کے مختلف اجلاسات میں تشریف لاتے رہے.اور ایک اچھی خاصی رونق ہو جاتی رہی.زنانہ جلسہ گاہ میں غیر مسلم خواتین بھی جلسہ کی کارروائی سننے کے لئے آتی رہیں.خواتین کا باپردہ جلسہ گاہ حسب سابق حضرت مولوی عبد المغنی صاحب کی کوٹھی کے کھلے صحن میں تیار کیا گیا تھا.جلسہ کے تقریری پروگرام سے فراغت کے اوقات تمام دوستوں نے حتی الامکان ذکرِ الہی دعاؤں اور انابت الی اللہ میں گزارے.جملہ احباب بیت مبارک، بیت اقصیٰ ، بیت الدعا اور مقبرہ بہشتی میں انفرادی و اجتماعی دعاؤں کے مواقع سے فائدہ اٹھاتے رہے.چونکہ شروع زمانہ درویشی سے اب تک بیت مبارک میں روزانہ بلا ناغہ تہجد کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے اس لئے مہمانانِ کرام کو اس طرح اجتماعی قیام اللیل میں شرکت اور رات کے آخری وقت خصوصی دعاؤں کا موقع میسر رہا.روزانہ فجر کی نماز کے بعد بیت مبارک میں مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی درس القرآن دیتے رہے.اور بیت اقصیٰ میں حسب سابق کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری رہا.
تاریخ احمدیت 173 جلد ۲۰ ۱۷، ۱۸ را کتوبر کی درمیانی شب بیت مبارک میں مالا بار احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا ایک تربیتی جلسہ زیر صدارت مولانا عبداللہ صاحب فاضل منعقد ہوا.جس میں چھ نوجوانوں نے مختلف زبانوں میں علمی تقاریر کیں.پروگرام خاصہ دلچسپ تھا.حاضری اچھی تھی.صدر جلسہ نے طلباء کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا.انہیں زیادہ محنت اور توجہ سے حصول علم کی تلقین فرمائی تا بڑے ہو کر ( دینِ حق ) واحمدیت کے لئے مفید وجود بن سکیں.اچھی تقریر کرنے والوں کو انعامات دیئے گئے.اور یہ جلسہ قریباً دس بجے تک جاری رہا.ٹھیک اسی وقت لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام ناصرات الاحمدیہ کی ممبرات کا بھی ایک تربیتی جلسہ نصرت گرلز سکول واقع احاطه مرزا گل محمد صاحب مرحوم میں منعقد ہوا.جس میں پندرہ سال سے کم عمر کی ممبرات نے تلاوت قرآن کریم اور تقاریر کے مقابلہ میں حصہ لیا.اس مقابلہ میں اول اور دوم آنے والیوں کو انعامات بھی دیئے گئے.۱۹،۱۸ را کتوبر کی درمیانی شب کو نظارت تعلیم و تربیت کے زیر اہتمام بیت مبارک میں زیر صدارت مولانا محمد سلیم صاحب فاضل ایک تربیتی جلسہ ہوا جس میں مولانا بی عبداللہ صاحب مالاباری، شیخ مبارک احمد صاحب فاضل رئيس التبليغ مشرقی افریقہ اور صاحب صدر نے تربیتی موضوع پر بصیرت افروز تقاریر کیں.ان بزرگان نے احمدیت کی غرض و غایت ، طہارت قلب، دلنشین خدمت دینے کے لئے ایثار و قربانی ، تربیت اولاد، انابت الی اللہ کے مضامین پر نہایت دل پیرا یہ میں روشنی ڈالی.جملہ حاضرین نے سبھی تقاریر اور مواعیظ حسنہ کو نہایت دلچسپی سے سنا.یہ منظر بھی بڑا عجیب تھا.مٹھی بھر افراد اللہ کے گھر میں اس بات کا تذکرہ کر رہے تھے کہ ساری دنیا کو خدا کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے اور ان کے قلوب کو فتح کرنے کے لئے ہمیں اپنے نفوس میں کیسی کیسی تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے.۱۹ اکتوبر کو حیدر آباد دکن سے آنے والے قافلہ کے ساتھ حیدرآباد سے تین موصی مرحومین کی لاشیں بھی لائی گئیں.ان میں سے ایک تو سلسلہ احمدیہ کے اولین مورخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا تابوت تھا.جسے مرحوم کے دونوں صاحبزادے مکرم شیخ یوسف علی صاحب عرفانی اور مکرم داؤد احمد صاحب عرفانی حسب وصیت بہشتی مقبرہ میں دفن کرنے کے لئے ساتھ لائے تھے.دوسرا تابوت مکرم محمد عبد اللہ صاحب بی ایس سی سیکرٹری مال حیدرآباد کے والد ماجد جناب محمد عثمان صاحب کا تھا.جو ے جولائی ۱۹۵۷ء کو حیدرآباد میں وفات پا گئے تھے.
تاریخ احمدیت 174 جلد ۲۰ تیسرا تابوت جناب مومن حسین صاحب مرحوم والدِ ماجد احمد حسین صاحب نائب امیر حیدرآباد (دکن) کا تھا.۲۰ ا کتوبر کو آٹھ بجے صبح تینوں تابوت جنازہ گاہ میں لے جائے گئے اور امیر مقامی حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل نے جملہ مہمانانِ کرام درویشان قادیان کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی اور یہ تینوں بزرگ مقبرہ بہشتی میں سپردخاک کر دیئے گئے.1 اطالوی پروفیسر بار طولینی کی ربوہ میں آمد ۹ نومبر ۱۹۵۸ء کو اطالوی پر و فیسر آ وسوالڈ و بر طولینی مجلس اردو تعلیم الاسلام کالج کی دعوت پر لاہور سے ربوہ آئے.پروفیسر صاحب موصوف میلان یو نیورسٹی میں اردو کے پروفیسر تھے.اور خوب روانی سے درست لہجہ سے اردو بول سکتے تھے.آپ نے طلبہ کالج سے خطاب کیا جس میں اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات بیان کئے.بعد ازاں آپ ربوہ کے مرکزی ادارے دیکھنے کے علاوہ سیدنا حضرت مصلح موعود کی ملاقات سے بھی مشرف ہوئے.پروفیسر بار طولینی نے ربوہ کی تعمیر اور اداروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمد یہ کی اپنی کوشش سے ایک چٹیل اور بے آب و گیاہ میدان کا چند ہی سال کے اندر اندر ایک ایسے شہر میں تبدیل ہو جانا کہ جس میں کالج سکول اور تبلیغی ادارے سب کچھ موجود ہو ایک معجزے سے کم نہیں.یہ کام وہی انجام دے سکتے ہیں جن میں مشنری سپرٹ کارفرما ہو.انہوں نے مزید کہا کہ میں نے یہاں کے لوگوں میں وہی جذبہ اور وہی ایمان کارفرما دیکھا ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ابتدائی حواریوں میں موجزن تھا.انہوں نے ربوہ کے تعلیمی اداروں میں سے خاص طور پر جامعہ احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا میں نے پاکستان کے کسی کالج یا یونیورسٹی میں اتنی تعداد میں غیر ملکی طلبہ نہیں دیکھے جتنی تعداد میں یہاں موجود ہیں اور پھر وہ دینی علم حاصل کر رہے ہیں.یہ سب باتیں میرے لئے نئی ہیں اور دلچسپی کو بڑھانے والی ہیں.میں ایک ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی یاد یہاں سے لے کر لوٹوں گا.سیدنا حضرت مصلح موعود کا پیغام حضرت مصلح موعودؓ نے سیرالیون کی سالانہ احمد یہ کانفرنس منعقده ۱۴،۱۳،۱۲ / دسمبر سیرالیون کی سالانہ کانفرنس کے لئے ۱۹۵۸ء) کے لئے حسب ذیل بصیرت افروز پیغام ارسال فرمایا : -
تاریخ احمدیت 175 جلد ۲۰ برادرانِ جماعت احمدیہ سیرالیون السلام عليكم و رحمة الله و بركاته دو میں نے سنا ہے کہ آپ کی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے.احباب تو چاروں طرف سے آئیں گے ہی مگر خالی احباب کا جمع ہونا مفید نہیں ہوتا جب تک ان کے اندر للہیت اور اخلاص پیدا نہ ہو.پس آپ لوگ اس کا انتظام کریں کہ مبلغین اور للہیت کے پیدا کرنے کی تلقین کریں اور جماعت جس جوش کے ساتھ آئے اس سے سینکڑوں گنا زیادہ جوش کے ساتھ واپس جائے تا کہ ملک کے چپہ چپہ میں احمدیت پھیل جائے.آپ کا ملک بہت وسیع ہے ابھی اس میں اشاعت حق کی بہت ضرورت ہے.جلدی اس طرف توجہ کریں اور ملک کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کریں تا کہ آپ لوگ اسلامی دنیا میں مفید عنصر ثابت ہو سکیں.خالی سیرالیون اسلامی دنیا میں کوئی نقش نہیں چھوڑ سکتا ہے جب کہ پہلے وہ ایک عقیدہ پر قائم نہ ہو اور پھر باقی مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر ( دین حق ) کی خدمت کرے.پس اس مقصد کو آپ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کے لئے جد و جہد کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین.والسلام خاکسارمرزا محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی یکم دسمبر ۱۹۵۸ء 66 حضور کا یہ روح پرور پیغام مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری امیر جماعت احمدیہ سیرالیون نے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا.یہ کانفرنس احمد یہ سنٹرل مشن ہاؤس ”بو“ میں منعقد ہوئی.سیرالیون کے مخلص احمدی ملک کے دور دراز علاقوں سے سفر کر کے جلسہ کی مقررہ تاریخوں سے کچھ روز قبل پہنچ گئے اور انہوں نے جلسہ گاہ کی تیاری اور دیگر انتظامات کی تکمیل میں بڑے شوق و اخلاص سے حصہ لیا.جلسہ سے جن مقررین نے خطاب فرمایا ان میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ، مولوی مبارک احمد صاحب ساقی ، الفا عباس دیفان، ملک غلام نبی صاحب شاہد، قریشی محمد افضل صاحب انچارج مشن فری ٹاؤن ، الحاج چیف قاسم کمانڈا، چیف ناصرالدین گا مانگا خاص طور پر قابل ذکر ہیں.جلسہ کے دوران ۲۹
تاریخ احمدیت افراد نے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت کی.۶۸ 176 جلد ۲۰ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل کے جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۵۸ء میں ایک رؤیا کی بناء پر ایک قابل قدر آسمانی تحریک نوجوانانِ احمدیت کو تحقیقی مضامین کے لئے قلم اٹھانے اور علمی لٹریچر پیدا کرنے کی پر زور تحریک فرمائی اور اس سلسلہ میں متعدد تحقیقی مضامین کے عنوانات کی بھی نشاندہی کی.چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا کہ:- در تحقیقی مضمون لکھنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ پہلے ایک موضوع کو جو کسی حقیقی حاضر الوقت ضرورت کے مطابق ہو چن کر اسے اپنے ذہن میں مستحضر رکھا جائے اور اس پر کچھ وقت تک غور کیا جائے.پھر قرآن اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے بنیادی لٹریچر کا مطالعہ کر کے اس مضمون کے نوٹ لئے جائیں اور انہیں ترتیب اور مرتب کیا جائے.پھر جو امکانی اعتراضات اس مضمون کے متعلق دوسروں کی طرف سے ہوئے ہوں یا ہو سکتے ہوں انہیں ذہن میں رکھ کر ان کا جواب سوچا جائے.پھر ایک عمومی خاکہ اس امر کے متعلق اپنے دماغ میں قائم کیا جائے کہ اس مضمون کو کس طرح شروع کرنا ہے اور کس طرح چلانا اور کس طرح ختم کرنا ہے.آغاز اس طرح ہونا چاہئے کہ مضمون پڑھنے والا اس کی نوعیت اور اہمیت کو محسوس کر کے اس کے لئے ذہنی طور پر تیار اور چوکس ہو جائے اور اختتام اس رنگ میں سوچا جائے کہ گویا چند تیر ہیں جو آخری ضرب کے طور پر پڑھنے والے کے دل میں پیوست کر نے مقصود ہیں.اس کے بعد نوٹ سامنے رکھ کر دعا کرتے ہوئے مضمون شروع کیا جائے.اور ہر ضروری اقتباس کے اختتام میں بریکٹوں کے اندر معین حوالہ درج کیا جائے تا اگر مضمون پڑھنے والا اس بارے میں مزید تحقیق کرنا چاہے تو از خود تحقیق کر کے تسلی کر سکے.مضمون ختم کرنے کے بعد نظر ثانی بہت ضروری ہے.اور نظر ثانی کے لئے بہترین طریق یہ ہے کہ اپنے مضمون کو علیحدگی میں اونچی آواز سے پڑھا جائے.تا کہ آنکھوں کی فطری حس کے علاوہ کان بھی اپنی قدرتی موسیقی
تاریخ احمدیت 177 کو کام میں لاکر اصلاح میں مدد دے سکیں.میں نے بارہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس رنگ میں اپنی تحریرات کو پڑھتے دیکھا اور سنا ہے اور آپ اپنے مضامین کی نظر ثانی بھی ضرور فرمایا کرتے تھے.چنانچہ آپ کے مسودات کی عبارت کئی جگہ سے کئی ہوئی اور بدلی ہوئی نظر آتی تھی اور ایسا نہیں ہوتا تھا کہ بس جو لکھا گیا سولکھا گیا.بلکہ آپ اس غرض سے اور نیز صحت کی غرض سے اپنی کتب کی کا پیاں اور پروف تک بھی خود ملا حظہ فرماتے تھے.ملاحظہ مضمون شروع کرنے سے قبل نیت درست کرنے اور خدمت دین کے جذبہ کو اپنے دل میں جگہ دینے اور دعا کرنے کا میں نے یہ عظیم الشان فائدہ دیکھا ہے کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ غیر معمولی رنگ میں نصرت فرماتا ہے.مثال کے طور پر کہتا ہوں کہ ایک دفعہ جب میں نے اپنے ایک مضمون کی پہلی سطر ہی لکھی تھی تو یکلخت مجھ پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے دیکھا کہ صفحہ کے آخری حصہ میں جو اس وقت خالی تھا ایک خاص عبارت لکھی ہوئی درج ہے اور مجھے توجہ دلائی گئی کہ اپنے اس مضمون کو اس عبارت کے مضمون کی طرف کھینچ لا.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا جس کی وجہ سے مضمون میں ایک نیا اور بہت دلکش رنگ پیدا ہو گیا.بعض اوقات ایسا ہوا کہ میں نے مضمون کا ایک ڈھانچہ سوچ کر نوٹ کیا مگر بعض حصوں میں مضمون لکھتے لکھتے میرا قلم خود بخود ایک نئے رستہ پر پڑ گیا اور بالکل نئی باتیں ذہن میں آگئیں.چنانچہ جو ڈھانچہ میں شروع میں سوچا کرتا ہوں عموماً اس کا نصف یا اس سے کچھ کم حصہ مضمون لکھتے ہوئے بہتر صورت میں بدل جایا کرتا ہے.یہ سب دعا اور حسن نیت اور اللہ کے فضل کا ثمرہ ہے ورنہ من آنم کہ من دانم.بایں ہمہ شروع کی تیاری بہت ضروری ہے کیونکہ یہ تیاری بھی نصرت الہی کی جاذب ہوا کرتی ہے.“ میں یہ ہیں :- اس وقت جو مضمون زیادہ توجہ طلب نظر آتے ہیں وہ میرے خیال (۱) بین الاقوامی تعلقات کے متعلق اسلامی تعلیم (۲) بین الاقوامی مصالحت کی شرائط (۳) ملکی اور قومی معاہدات (۴) مذہبی رواداری جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 178 (۵) دوسری قوموں کے مذہبی پیشواؤں کے متعلق اسلامی احکام (۶) مضمون کہ اسلامی تعلیم کے مطابق ہر قوم میں رسول آئے ہیں.(۷) ( دین حق ) اور دیگر شرائع کی باہمی نسبت اور ان کا مقابلہ (۸) یہودیت اور اسرائیلیت کے متعلق اسلامی پیشگوئیاں.(۹) مسیح ناصری کے حقیقی اور مزعومہ معجزات (۱۰) وفات مسیح از روئے انجیل و تاریخ (۱۱) اشتراکیت اور سرمایہ داری اور نظامِ اسلامی کا مقابلہ (۱۲) وحی و الہام کی حقیقت اور اس کا اجراء (۱۳) ختم نبوت کی حقیقت (۱۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عدیم المثال مقام اور آپ کا افضل الرسل ہونا (۱۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات (۱۶) مسیح کے نزول ثانی کا وعدہ (۱۷) مسیح موعود کے نزول کی حقیقت (۱۸) حضرت مسیح موعود کے لٹریچر کی اہمیت اور یہ کہ دوسرے مسمانوں نے بلکہ دوسری قوموں نے اسے کس طرح غیر شعوری طور پر اپنایا ہے اور اپنا رہے ہیں.(۱۹) ( دینِ حق ) میں روحانیت (۲۰) ( دینِ حق ) کی اخلاقی تعلیم (۲۱) ( دینِ حق ) میں جہاد کی حقیقت (۲۲) ضبط تولید کا مسئلہ (۲۳) اسلامی پردہ کی حقیقت اور یہ کہ کس طرح پردہ کے باوجود عورتیں ترقی کر سکتی اور قومی زندگی میں حصہ لے سکتی ہیں (۲۴) تعدد ازدواج اور یہ کہ یہ تعلیم خاص انفرادی اور قومی ضروریات کے لئے ہے اور اس کی خاص شرائط ہیں (۲۵) خلافت کی حقیقت اور اس کی ضرورت اور اہمیت (۲۶) ( دینِ حق ) کا اقتصاری نظام اور سود اور بیمہ وغیرہ کے مسائل (۲۷) ( دینِ حق ) کا تعزیری نظام وغیرہ وغیرہ.ان میں سے اکثر عنوان بظاہر سادہ نظر آتے ہیں مگر تحقیق یعنی ریسرچ کرنے والوں کے لئے ان میں ایسی طویل اور بیچ دار وادیاں موجود ہیں کہ ان میں طور پر گھومنے والا دنیا کے لئے ایک بہت دلکش اور نیا عالم پیدا کرسکتا ہے.کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ :- بیادر ذیل مستان تا به بینی عالمی دیگر بہشتے دیگر و ابلیس دیگر آدم دیگر پس اے نو جوانو ! آؤ اور اس چمنستان کی وادیوں میں گھوم کر دنیا کو نئے علوم سے شناسا کرو.آؤ اور ( دینِ حق ) کی نشاۃ ثانیہ کی تعمیر میں حصہ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 179 لے کر اقوامِ عالم کو علم و عرفان کے وہ خزانے عطا کرو کہ حجاز اور بغداد اور قرطبہ اور قدس اور مصر کی یادگاریں زندہ ہو جائیں تا دنیا تم پر فخر کرے اور آسمان تم پر رحمت کی بارشیں برسائے اور آنے والی نسلیں تمہاری یاد سے امنگ اور ولولہ حاصل کریں.اے کاش کہ ایسا ہی ہو.وآخر دعونا ان الحمد لله رب العالمين.خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ.۱۸ / دسمبر ۱۹۵۸ء اس کے چند روز بعد آپ کے قلم سے یہ نوٹ شائع ہوا کہ :- ”میرا ایک مضمون الفضل کے جلسہ سالانہ نمبر میں زیر عنوان سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے شائع ہوا ہے.اپنے اس ہے.مضمون میں میں نے مثال کے طور پر ستائیس عنوان بھی تجویز کر کے لکھے تھے جن پر آجکل تحقیقی مضامین لکھنے کی ضرورت ہے اب میں ان ستائیس عنوانوں پر ذیل کے عنوانوں کا اضافہ کرتا ہوں.احباب ان کو سابقہ عنوانوں کے ساتھ درج کر لیں.یہ زائد عنوان یہ ہیں :- (۲۸) ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت منقولی اور معقولی طریق پر (۲۹) یوم آخر اور بعث بعد الموت (۳۰) جنت و دوزخ کی حقیقت (۳۱) فرشتوں کا وجود اور ان کا کام (۳۲) تناسخ اور اس کے مقابل پر اسلامی تعلیم (۳۳) حضرت مسیح موعود کا کرشن ہونے کا دعویٰ (۳۴) ہندوؤں میں آخری زمانہ میں ایک جگ اوتار کی بعثت کی پیشگوئی (۳۵) حضرت بابا نانک کا روحانی مقام قارئین کرام میرے سابقہ عنوانوں پر مندرجہ بالا آٹھ عنوانوں کا اضافہ فرمالیں مگر یاد رکھیں کہ یہ سب عنوان صرف مثال کے طور پر ہیں اور ان پر حصر نہیں ہونا چاہئے بلکہ وقت اور ماحول کی ضرورت کے مطابق جو مسئلہ بھی سامنے آئے اس کی طرف توجہ دی جائے مگر جو لکھا جائے تحقیقی رنگ میں لکھا جائے.اور جادلهم بالتی ھی احسن کی آیت مد نظر ر ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد.۳۱ / دسمبر ۱۹۵۸ء جلد ۲۰
تاریخ احمدیت فصل چهارم 180 جلد ۲۰ جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۵۸ء سے حضرت مصلح موعود کے روح پرور خطاب حسب معمول اس سال بھی جلسہ سالانہ ربوہ ۲۶ / دسمبر سے ۲۸ / دسمبر تک جاری رہا.قریباً ایک لاکھ کے اس فقید المثال اجتماع سے حضور نے متعد د روح پرور خطابات فرمائے.حضور انور نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا :- افتتاحی تقریر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا تو انسان کے لئے ہمیشہ ہی ضروری ہے مگر اس زمانہ میں اس کے فضلوں اور احسانات کو دیکھتے ہوئے اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے.میں اب ضعیف اور بوڑھا ہو چکا ہوں.جوانی کی عمر میں جب میں صرف ۲۶ سال کا تھا مجھے خلیفہ منتخب کیا گیا تھا اور اگر میں زندہ رہا تو جنوری میں میں ۶۹ سال کا ہو جاؤں گا گویا میری خلافت پر ۴۵ سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اتنے لمبے عرصہ تک کام کرنے کی توفیق مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ملی ہے لیکن پھر بھی ایک وہ زمانہ تھا کہ جب میں بغیر سوچے سمجھے تقریر کے لئے کھڑا ہو جاتا تھا اور گھنٹوں تقریر کرتا چلا جاتا تھا اور اب میرا خطبہ بعض دفعہ پانچ سات منٹ کا ہوتا ہے بعض دفعہ ۲۰ منٹ کا ہوتا ہے بعض دفعہ ۲۵ منٹ کا ہوتا ہے اور بعض دفعہ آدھ گھنٹے کا ہوتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ اس عمر میں جو مجھے بیماری کا حملہ ہوا ہے یہ بڑا تکلیف دہ ہے اس کے اثرات کی وجہ سے مجھے یہ وہم ہو گیا تھا کہ بیماری بڑھ رہی ہے مگر جب میں نے یورپ کے اس ڈاکٹر کو لکھا جس نے میرا علاج کیا تھا تو اس نے لکھا کہ بیماری بڑھ نہیں رہی بلکہ یہ ایک اتفاقی امر ہے اور رومائزم یعنی وجع المفاصل کی تکلیف ہے ورنہ یہ درست نہیں کہ آپ کا مرض بڑھ رہا ہے.مرض جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے مگر اس کے علاوہ عمر کا تقاضا بھی ہوتا ہے.مغربیت دنیا میں ایسی غالب آچکی ہے کہ خود ہمارے بعض احمدی نوجوان بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں.خصوصاً سرکاری عہدوں پر جو لوگ ہیں ان پر بہت زیادہ اثر ہو رہا ہے اور ان میں بعض لوگوں کے اہل خانہ پردہ چھوڑ رہے ہیں.میں نے پچھلے دنوں اعلان کیا تھا کہ ایسے لوگ
تاریخ احمدیت 181 جلد ۲۰ جن کی بیویاں پردہ چھوڑ رہی ہیں وہ چاہے کتنے ہی معزز ہوں ان سے عدم تعلق کا اظہار کیا جائے اس پر مجھے افریقہ کے ایک پریذیڈنٹ نے رپورٹ کی کہ مجلس میں بعض ایسے لوگ جمع تھے جن کی بیویوں نے پردہ چھوڑا ہوا تھا میں نے ان سے مصافحہ نہیں کیا اس پر وہ ناراض ہو گئے.میں ہاں نے انہیں لکھا کہ آپ نے جو کچھ کیا درست کیا آپ میرے خطبہ کو صحیح سمجھے ہیں غیر ملکوں میں جہاں پردہ کا رواج نہیں ہے وہاں عدم تعلق کے ساتھ ساتھ سمجھانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فذكر ان نفعت الذكرى یعنی نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت ہمیشہ فائدہ بخش ثابت ہوتی رہی ہے.پس دوسروں پر صرف پریذیڈنٹی کا رعب نہ جماؤ بلکہ اخلاص ، خدمت اور پیار سے انہیں دین کی طرف لاؤ محض رعب سے کام نہیں چلتا بلکہ اخلاص ، خدمت اور پیار سے کام چلتا ہے.غرض میں نے انہیں لکھا کہ بات تو آپ نے سمجھ لی ہے اور صحیح طور پر سمجھ لی ہے لیکن صحیح استعمال یہی ہے کہ عدم تعلق کے ساتھ ساتھ اخلاص خدمت اور قربانی کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کی جائے.اس طرح ہماری جماعت میں تنظیم بھی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پیدا ہوئی ہے جس کے ہمیشہ خوش کن نتائج ظاہر ہوتے رہتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ ایک زمانہ میں جب میں جوان تھا قادیان میں مخالفوں کا جلسہ ہوا انہوں نے اپنی تقریروں میں کہا کہ ہم بہشتی مقبرہ پر حملہ کر دیں گے اور احمدیوں کی قبریں کھود دیں گے میں نے حفاظت کے لئے باہر سے آدمی منگوائے ہوئے تھے وہ زمیندار اور ان پڑھ تھے.رات کو میں یہ دیکھنے کے لئے گیا کہ یہ لوگ کیسا پہرہ دے رہے ہیں میرے ساتھ مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر مرحوم تھے اچانک ایک زمیندار دوڑتا ہوا آیا اور اس نے مجھے کمر سے پکڑ لیا اور کہنے لگا میں آگے نہیں جانے دوں گا.کچھ دوست کہنے لگے یہ خلیفہ اسیح ہیں وہ کہنے لگا میں نہیں جانتا کہ یہ خلیفتہ امسیح ہیں.میری ڈیوٹی یہ ہے کہ میں نے اس جگہ سے آگے کسی کو جانے نہیں دینا.جب تک اس کو پاس ورڈ معلوم نہ ہو یا اس نے ڈیوٹی کا بلا نہ لگایا ہوا ہو.میں نے ان دوستوں کو جنہوں نے یہ کہا تھا کہ یہ خلیفہ اصیح ہیں ڈانٹا اور کہا کہ اس شخص نے جو کچھ کیا ہے درست کیا ہے اس کی ڈیوٹی ہی یہی تھی کہ کسی کو آگے نہ گزرنے دے پھر اس پہریدار نے مجھے کہا پاس ورڈ مقرر ہے وہ مجھے بتا ئیں.خیر اس کا افسر دوڑا ہوا آیا اور اس نے پاس ورڈ بتایا تب پہریدار نے کہا کہ اب آپ اندر جاسکتے ہیں.میں نے اس شخص کی تعریف کی اور کہا یہ اس قابل ہے کہ اسے انعام دیا جائے.اس نے بہت اچھا کام کیا ہے تو ڈیوٹی کی ادائیگی اور تنظیم بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں آئی ہے مگر پھر بھی بعض دفعہ لوگ
تاریخ احمدیت 182 جلد ۲۰ غلطی کر بیٹھتے ہیں مثلاً آج ہی ملاقات میں میں نے دیکھا ہے کہ باوجود اس کے کہ میں دیر سے جماعت کو سمجھا رہا ہوں کہ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور ضعیف ہو گیا ہوں پھر بھی بعض لوگ اظہار عقیدت کی وجہ سے اپنے گھٹنے میرے آگے ٹیک دیتے ہیں اور مجھے آگے کو کھینچتے ہیں ایک شخص نے تو میرے پاؤں پر اپنا گھٹنہ رکھ دیا جس کی وجہ سے مجھے کوئی دو گھنٹے درد رہی وہ پاؤں گو بیماری سے متاثر نہیں ہے مگر شاید یہ بیماری کا اثر ہے اگر میرے دائیں طرف بھی جو بیماری سے متاثر نہیں ہے چوٹ لگے تو وہ بائیں طرف جو بیماری سے متاثر ہے اثر کر جاتی ہے.چنانچہ اس کے بعد میرے لئے ایک قدم چلنا بھی مشکل ہو گیا.اب بھی بڑی مشکل سے یہاں پہنچا ہوں میری انگلیوں میں کھچاوٹ ہوتی تھی.اور کانٹے سے چھتے تھے تو ملاقات کے وقت بہت احتیاط کرنی چاہئے.یہ عقیدت کے اظہار کا طریق نہیں.میں زجر نہیں کرتا.مگر شریعت اس کو گستاخی اور بداخلاقی قرار دیتی ہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بعض لوگ آتے تھے اور وہ بہت اونچی آواز سے باتیں کرتے تھے قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ بے ادبی ہے اور اس سے ایمان ضائع ہو جاتا ہے.(سورۃ حجرات ع۱) اسی طرح قریب آکر اور گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جانا یہ بھی گستاخی ہے بلکہ ڈر ہے کہ اس کا اثر ایمان پر بھی نہ جا پڑے.اب میں دعا کر دیتا ہوں دوست بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو بہت بابرکت والا کرے اور ہمارا یہاں جمع ہونا صرف پاکستان کی جماعت کے لئے ہی برکت والا نہ ہو بلکہ ہمارے یہاں جمع ہونے کے نتیجے میں اللہ تعالی امریکہ انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی برکتیں نازل کرے.۲۷ دسمبر کی تقریریں بیرونی احمدی حضور نے ۲۷ دسمبر کی تقریر میں بیرونی احمدی مشنوں کی دینی خدمات پر مفصل روشنی ڈالی اور مشنوں کی دینی خدمات کا تذکرہ اس ضمن میں سب سے پہلے فلپائن کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ اس ملک میں حضرت عثمان کے زمانہ میں مسلمان پہنچے تھے لیکن جب سپین اور پرتگال نے اس پر قبضہ کیا تو عیسائیوں نے مسلمانوں کی گردنوں پر تلوار رکھ کر ان سے بپتسمہ قبول کرایا میری خواہش تھی کہ اس ملک میں دوبارہ دین کی اشاعت کی جائے چنانچہ میں نے تحریک جدید کو اس طرف توجہ دلائی انہوں نے کوشش کی کہ فلپائن میں مبلغ بھجوایا جائے لیکن وہاں کی حکومت نے اس کی اجازت نہ دی.اس پر انہوں نے یہ تدبیر کی کہ اس ملک میں لٹریچر بھجوانا شروع کیا جس کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو احمدیت سے دلچسپی پیدا ہو گئی.اس کے بعد ڈاکٹر بدرالدین صاحب
تاریخ احمدیت 183 جلد ۲۰ جو احمدیت کے عاشق صادق ہیں.چندہ بھی بڑی مقدار میں دیتے ہیں.اور تبلیغی جوش بھی رکھتے ہیں.انہوں نے اپنی پریکٹس کا نقصان کر کے چند ماہ فلپائن میں تبلیغ کے لئے وقف کئے جس کے نتیجہ میں وہاں کی جماعت تین سو سے زیادہ ہو گئی ہے.اس جماعت کے پریذیڈنٹ وہاں کے ایک مقامی دوست حاجی ابا ہیں جو نہایت مخلص اور سرگرم مبلغ ہیں.ان کے ذریعہ وہاں بڑے طبقہ میں تبلیغ ہوری ہے.پچھلے سال ایک جزیرہ کا گورنر بھی احمدی ہو گیا تھا.مگر باغیوں نے اسے قتل کر دیا.اب ایک ڈپٹی کمشنر احمدی ہوا ہے.وہاں کے ایک نوجوان کو ربوہ بلا کر تعلیم دلانے کی کوشش کی جارہی ہے.مگر فلپائن کی حکومت اسے پاسپورٹ دینے میں روک ڈال رہی ہے.اس عرصہ میں فلپائن کا ایک مخلص احمدی اسامہ نامی با وجود گورنمنٹ کی روکوں کے فلپائن سے برطانوی بور نیو آ گیا.اور وہاں سے ملایا ہوتا ہوا ر بوہ پہنچ گیا اور اب تعلیم پا رہا ہے.اس کی صحت کچھ خراب ہے.تحریک اس کا لاہور میں علاج کروا رہی ہے.احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو شفاء دے.اور پھر اسے اپنے ملک میں کام کرنے کی بھی توفیق دے.اس علاقے میں جو افراد احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.ان میں سے بڑی تعداد ہے.اسی طرح گرلز کالج کی بہت سی لڑکیاں ( دینِ حق ) میں یو نیورسٹی کے طالب علموں پر داخل ہوگئی ہیں.حضور نے فرمایا : - برٹش بور نیو برٹش بورنیو میں ایک انگریز گورنر نے مقامی علماء کو ملا کر ہماری جماعت کے خلاف محاذ قائم کر لیا تھا.ڈاکٹر بدرالدین صاحب نے دلیری سے گورنر اور گورنمنٹ کا مقابلہ کیا.اور وہ علاقہ جس میں گورنر چاہتا تھا کہ احمدیت نہ پھیلے وہاں کے کچھ لوگوں کو اپنے پاس بلا کر تبلیغ کی.اور وہ احمدی ہو گئے.ڈاکٹر صاحب نے ان لوگوں کے ذریعہ اس علاقہ میں بیت الذکر بنانے کی کوشش بھی شروع کر دی ہے اس جزیرہ کے ایک ڈپٹی کمشنر نے ہمارے مبشر قاضی محمد سعید صاحب انصاری کو اپنے علاقہ میں تبلیغ سے باز رکھنے کی کوشش کی بلکہ دھمکی دی کہ میں گرفتار کر لوں گا.ہم نے گورنمنٹ برطانیہ سے احتجاج کیا.چونکہ انگلستان میں ظاہری طور پر روداری بہت ہے اس حکومت کے گورنر سے انگلستان کی حکومت نے جواب طلبی کی.گورنر نے عام قاعدہ کے مطابق ڈپٹی کمشنر سے رپورٹ مانگی.ڈپٹی کمشنر نے جھوٹا جواب دیا اور کہا کہ انصاری صاحب نے ملک میں بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور میری ہتک کی تھی.انگریز دستور کے مطابق گورنر نے
تاریخ احمدیت 184 جلد ۲۰ اس جواب کو صحیح تسلیم کیا اور حکومت انگلستان نے بھی ہمارے پاس معذرت کر دی.ہم نے اپنے مبلغ کو سمجھا دیا کہ حکومت کے افسروں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا چاہئے.کیونکہ آخر اختیار ان کے پاس ہے.امریکہ فرمایا : - امریکہ میں زیادہ تر حبشی لوگ دینِ حق قبول کر رہے ہیں.اور ان میں سے بعض نہایت مخلص ثابت ہوئے ہیں.انہوں نے اس سال سالانہ کا نفرنس میں بڑے زور سے دینِ حق کی اشاعت کرنے اور وصیت کی تحریک کو ہر احمدی تک پہنچانے کا عہد کیا ہے.چند سفید فام افراد بھی احمدی ہوئے ہیں.جن میں سے ایک کینیڈا کا ریٹائرڈ فوجی افسر ہے.ایک جہازوں کا کمانڈر جو سفید رنگ کا ہے وہ بھی احمدی ہوا ہے.ایک حبشی نوجوان وہاں کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے.جب وہ تعلیم سے فارغ ہوگا تو ملک میں دین کی اشاعت کا انشاء اللہ بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوگا.انگلستان (اس تقریر کے بعد نیویارک کے ایک نو مسلم کا خط ملا کہ نیو یارک میں اب احمدیت بہت مقبول ہورہی ہے.اور جلد جلد پھیل رہی ہے ) اس ملک میں سب سے پہلے ہمارا مشن قائم ہوا تھا.مگر بہت کم لوگ احمدی ہوئے.اب مولود احمد صاحب کے ذریعہ تعلیم یافتہ طبقہ کی طرف خصوصیت سے توجہ کی جاری ہے.اور چند بیعتیں بھی آئی ہیں.ایک احمدی نوجوان کو ایک شخص نے ورغلانے کی کوشش کی مگر وہ اپنے ایمان پر بڑی مضبوطی سے قائم رہا.اور متزلزل نہ ہوا.میرا منشاء ہے کہ انگلستان میں دو اور مقامات پر بھی جن سے جنوبا اور شمالاً ہر جگہ دین کا اثر ہو بیوت الذکر بنائی جائیں.اس سلسلہ میں مولود احمد صاحب کو ہدایات بھجوائی جا چکی ہیں.جرمنی کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.چوہدری عبداللطیف صاحب مبلغ جرمنی بہت جرمنی کامیاب ثابت ہوئے ہیں.انہوں نے نہ صرف ہمبورگ میں بیت الذکر بنائی ہے بلکہ فرانک فورٹ میں بھی جو جرمنی کا بڑا شہر ہے بیت الذکر کے لئے جگہ خریدی ہے.اور ان کے تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ وہ وہاں بیت الذکر بنانے کے لئے جا رہے ہیں.(جلسہ کے بعد ان کا خط ملا.جس میں انہوں نے ذکر کیا کہ اب احمدیت کی مقبولیت لوگوں میں بڑھ رہی ہے اور کثرت سے نئے آدمی جماعت میں داخل ہو رہے ہیں.چنانچہ انہوں نے بعض بیعتیں بھی بھجوائیں.)
تاریخ احمدیت سوئٹزر لینڈ 185 جلد ۲۰ اس علاقہ میں شیخ ناصر احمد صاحب کام کر رہے ہیں.شیخ صاحب مولود صاحب کی طرح انتظامی لحاظ سے تو کمزور ہیں لیکن تبلیغی روح رکھنے کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں.ان کے ذریعہ سوئٹزر لینڈ کے ساتھ ملتے ہوئے جرمنی اور آسٹرین علاقہ میں تبلیغ ہو رہی ہے.اور کئی لوگ دین حق میں دلچسپی لے رہے ہیں.(چنانچہ جلسہ کے بعد انہوں نے دو بیعتیں سوئٹزرلینڈ کے ملتے ہوئے علاقہ سے بھجوائی ہیں ).یہ روس سے ملتا ہوا یورپین علاقہ ہے.اور ہالینڈ بلجیم، جرمنی اور انگلستان سکنڈے نیویا کے شمال مشرق میں واقع ہے.اس علاقہ کی ایک حکومت فن لینڈ کہلاتی ہے.چونکہ یہ علاقہ ترکوں کے علاقہ سے بہت قریب ہے اس لئے اس ملک میں لاکھوں ترک سینکڑوں سال سے بس رہے ہیں.انہوں نے اب تک احمدیت قبول نہیں کی مگر ہمارے مبلغ کو بلا کر اپنے علاقہ میں انہوں نے تقریریں کروائیں.دوسری حکومت اس علاقہ کی سویڈن کہلاتی ہے.پہلے ہمارا ارادہ تھا کہ سویڈن میں بیت الذکر بنائیں لیکن ایک جرمن نومسلمہ نے لکھا کہ میں نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں جگہ تجویز کی ہے.میں نے سید کمال یوسف صاحب کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس جگہ کو دیکھ کر رپورٹ کریں.اگر انہوں نے بھی اس کے حق میں رپورٹ کی تو اس علاقہ میں بیت الذکر بنانے کی مغربی افریقہ کی جماعتوں کو تحریک کی جائے گی.کیونکہ ہمارے ملک کے ایچینج کی حالت خراب ہے اور ہمارے لئے زر مبادلہ کے حاصل کرنے میں وقت ہے.مشرقی افریقہ مغربی افریقہ کی طرح اس علاقہ کے بعض احمدی بھی بہت مالدار ہیں بلکہ یہاں خدا تعالیٰ احمدیت کی امداد کی تحریک غیر مسلموں کے دلوں میں بھی پیدا کر رہا ہے.یوگنڈا کے ایک شہر جہ میں بیت الذکر تعمیر ہوئی تو اس کے لئے بہت سا سامان ایک سکھ تاجر نے دیا.نیز اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ یوگنڈا میں جتنی بیوت بھی تعمیر کی جائیں ان کے لئے میں لکڑی لوہا اور اینٹیں مہیا کرنے میں پوری مدد دوں گا.ریشس اس جماعت کا ایک نمائندہ یہاں جلسہ سالانہ پر آیا ہوا ہے.اور اس نے میری اجازت سے جماعت کے سامنے ایڈریس بھی پیش کیا ہے.یہ جماعت خلافت ثانیہ کے آغاز میں قائم ہوئی تھی اب وہاں کئی فتنے سر اٹھا رہے ہیں لیکن جماعت کے مخلص نوجوان اس کا مقابلہ کر رہے ہیں.چونکہ حکومت بھی مخالف ہے اس لئے ان کے رستہ میں بعض دقتیں پیش آ رہی ہیں.
تاریخ احمدیت سیلون 186 جلد ۲۰ اس علاقہ میں ماریشس سے بھی پہلے جماعت قائم ہوئی تھی اور میں نے اپنی خلافت کے اوائل میں ہی حافظ صوفی غلام محمد صاحب کو وہاں بھجوایا تھا جنہیں بعد میں ماریشس بھجوا دیا گیا.اب اس ملک میں کچھ فتنے پیدا ہوئے ہیں اور تامل بولنے والے ہندوستانی ہماری مخالفت کر رہے ہیں.ہماری پالیسی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ہم مقامی باشندوں کی تائید کریں.اس لئے میں نے یہاں کے قدیم باشندوں کی تائید کی ہدایت دی اور ہمارے مبلغ نے ان کی زبان سنہالی میں لٹریچر بھی شائع کیا جس کی وجہ سے قدیم باشندے تو ہمارے مؤید ہو گئے لیکن تامل بو ہنے والے جو اکثریت میں ہیں ہمارے مخالف ہو گئے ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کی مشکلات دور فرمائے اور جماعت کو وہاں بیت الذکر بنانے کی توفیق مل جائے.حضرت مصلح موعود نے ۱۹۳۸ء سے ”سیر روحانی“ کے بصیرت افروز اور بے مثال علمی تقاریر کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا تھا اس کا آخری حصہ تیسری اہم تقریر ۲۸ / دسمبر ۱۹۵۸ء کی تقریر میں حضور نے بیان فرمایا جس میں روحانی عالم کے عظیم الشان کتب خانوں پر مفصل روشنی ڈالی.۷۵ دنیا کی چالیس سے زائد زبانوں میں تقاریر دنیا کی مختلف زبانوں میں تقاریر کا پروگرام قادیان میں سب سے پہلے حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ء کو جاری فرمایا تھا جو نہایت دلچسپ اور ایمان افروز تھا.کئی سال تک یہ مبارک سلسلہ جاری رہا لیکن پھر بند ہو گیا.اس سال سالانہ جلسہ کے موقع پر اس کا احیاء عمل میں آیا.یہ خصوصی اجلاس ۲۶ / دسمبر ۱۹۵۸ء کی شام کو مجلس خدام الاحمدیہ کے شعبہ تحریک جدید کے تحت منعقد ہوا.اجلاس کا افتتاح حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نائب صدر عالمی عدالت انصاف نے ایک روح پرور خطاب سے فرمایا اور صدارت کے فرائض شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لائلپور (فیصل آباد) نے ادا کئے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب الوصیت اور کشتی نوح میں سے حسب ذیل دو اقتباس پڑھ کر سنائے جنہیں مقررین نے دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے سنانا تھا: - (۱) خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء.ان سب کو جو نیک فطرت
تاریخ احمدیت 187 جلد ۲۰ رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.“ ( الوصیت صفحہ ۲ ) (۲) ” تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے اب روئے زمین پر کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ کچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو.اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا تم آسمان پر نجات یافتہ لکھے جاؤ.“ (کشتی نوح صفحه ۱۳) صدارتی ارشادات کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا.دنیا کی جن زبانوں میں تقاریر ہوئیں ان میں سے اکثر کے نام یہ ہیں :- اردو، عربی، فارسی، انڈونیشین، جاپانی، چینی، ترکی، روسی، اڑیسہ، پہاڑی زبان، عبرانی ، فرانسیسی ، تامل، ہنگری، اٹیلین ، ملیالم ، بلوچی ، ملتانی ، انگریزی ، ماریشس کی زبان کر یولی، کشمیری، سنڈہ زبان، جرمن، پنجابی، بنگلہ، پشتو ، پوٹھوہاری، ملائی، سندھی، ہندی، سنسکرت، سوڈانی، سمالی ، ڈچ، سواحیلی ، کو انگور لوہ، پارے کیکویو، مهام ویزی، ٹمنی، اشانٹی ، کریول، مینڈے، عدنی اور سپینش.شامل ہیں.اس میں ایشیاء، افریقہ، مشرق قریب اور یورپ وغیرہ سب علاقوں کی متعدد زبانیں چالیس سے بھی زیادہ زبانوں میں تقاریر کرنے والے احباب.جن احباب نے اس مبارک جلسہ میں تقریریں کیں ان میں صاحب صدر کے علاوہ شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ لبنان، شیخ عبدالواحد صاحب سابق مبلغ ایران، چوہدری محمد اسحاق صاحب سابق مبلغ ہانگ کانگ، صوفی عبدالغفور صاحب سابق مبلغ چین مولوی ظہور حسین صاحب سابق مبلغ بخارا، قریشی محمد حنیف صاحب قمر آنریری مربی ، مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر مبلغ سیلون ، حاجی احمد خان صاحب ایاز سابق مبلغ ہنگری ، مولوی ابراہیم صاحب سابق مبلغ اٹلی، عبدالشکور صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ پنی گاڑی مالا بار، دین محمد صاحب شاہد مربی سلسلہ، ناصر احمد صاحب ظفر ، حسن محمد خان صاحب عارف،
تاریخ احمدیت 188 جلد ۲۰ سید عبدالحئی صاحب، گیانی واحد حسین صاحب، چوہدری عبدالمتین صاحب آف کلکتہ محمود احمد صاحب مختار شاہد، مولوی چراغ دین صاحب ،فاضل، بیجی فضل صاحب، قریشی فیروز محی الدین صاحب سابق مبلغ سنگا پور، مولوی محمد عمر صاحب سندھی ، مہاشہ محمد عمر صاحب، چوہدری عبدالواحد صاحب ود یار تھی اور شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ کے علاوہ چین کے جناب محمد عثمان صاحب، فلسطین کے عبدالرشید شریف صاحب، ماریشس کے جناب ہاشم خاں مخدوم صاحب، انڈونیشیاء کے صالح حبیبی، منصور احمد صاحب، مغربی جرمنی کے وتلف خالد صاحب، سیرالیون مغربی افریقہ کے محمود کونٹے صاحب، غانا مغربی افریقہ کے عبدالوہاب بن آدم صاحب، عدن کے عبداللہ شبوطی صاحب، مشرقی افریقہ کے عبد الکریم صاحب، احمد قاری صاحب، ابوطالب صاحب، ابوبکر صاحب اور علی صالح صاحب نیر، سمالی لینڈ کے سعید عبداللہ صاحب شامل تھے.یہ خصوصی اجلاس بیرونی ممالک کے احمدی احباب کی بکثرت شرکت کے باعث خاصی دلچسپی کا حامل تھا.بالخصوص سیرالیون مغربی افریقہ کے محمود کو نئے صاحب تو اپنے قومی لباس میں ملبوس تھے انہوں نے مغربی افریقہ کی تین زبانوں میں تقاریر کیں.مشرقی افریقہ کے علی صالح صاحب نے جنہوں نے اردو میں بھی کافی مہارت حاصل کر لی ہے کلام محمود میں سے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک نظم خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی جو بہت پسند کی گئی.مشرقی افریقہ کے رئیس التبليغ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے جنہوں نے سواحیلی زبان میں تقریر کی تھی اس موقعہ پر مشرقی افریقہ کے ان تمام طلباء کا تعارف بھی کرایا جو آجکل ربوہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اس ضمن میں بعض ایمان افروز واقعات سنائے جو سب کے لئے ازدیاد ایمان کا موجب ہوئے.الفضل ۸/ جنوری ۱۹۵۹ء صفحه ۵،۴ ) مختلف زبانوں کے اس تاریخی اجلاس کو بہت پسند کیا گیا.حاضر توقع سے کہیں زیادہ تھی.پریس نے بھی اسے بہت اہمیت دی چنانچہ خبر رساں ایجنسیوں کی وساطت سے اس کی روداد ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں شائع ہوئی.علاوہ ازیں اخبار ایسٹ افریقن ٹائمنز اور رسالہ ریویو آف ريليجنز اردو (ربوہ) میں شامل اجلاس ہونے والے مقررین کا گروپ فوٹو بھی شائع ہوا اور جناب نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ نے اسے ۱۹۶۰ء کے احمد یہ کیلنڈر میں نمایاں جگہ دی اور مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنے موقر جریدہ ” صدق جدید میں ہنرش بگو کے زیر عنوان ادارتی نوٹ میں لکھا:- قادیانیوں کے سارے عیب ایک طرف اور فعالیت تبلیغی جوش و
تاریخ احمدیت 189 جلد ۲۰ سرگرمی دوسری طرف تو بھاری یہی دوسرا پلہ رہے گا.لمصر ۱۹۵۸ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جن نئی بیرونی ممالک میں تبلیغ دین سے چیزوں کا اضافہ ہوا ان میں سرِ فہرست دینی متعلق ایک شاندار معلوماتی نمائش معلومات کے اہم نقشوں اور تبلیغی تصاویر کی وہ ظیم الشان نمائش تھی جسے وکالت تبشیر نے نہایت سلیقے اور کمال درجہ نظافت کے ساتھ ترتیب دیا تھا.نمائش کیا تھی دینی معلومات اور بیرونی ممالک میں تبلیغ اور اس کے شاندار نتائج کا تصویری زبان میں ایک ایسا دلکش مرقع تھی کہ جس نے بھی اسے دیکھا اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا.اس نمائش کو دیکھنے سے ایک ہی نظر میں یہ حقیقت واشگاف ہو کر آنکھوں کے سامنے آجاتی تھی کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئیاں جو آپ نے دنیا کے کناروں تک دین حق کے پھیلنے اور غالب آنے کے متعلق کی تھیں آج حسب وعدہ حضرت اصلح الموعود کے ذریعہ پوری ہو کر آپ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر رہی ہیں.نمائش میں زمین کے کناروں تک تبلیغ دین حق اور تعمیر بیوت الذکر کے ایمان افروز مناظر اور اسی طرح مملکتوں کے سر برا ہوں ، اقوام عالم کے سفیروں، دنیا کے نامور لیڈروں اور مانے ہوئے دانشوروں تک پیغام حق پہنچانے کی متعدد تقاریب کے دلکش فو ٹو پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مبعوث ہو کر دنیا کو جس عظیم روحانی انقلاب کی خوشخبری دی تھی حضرت اصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کے ہاتھوں نہ صرف دنیا کے کونے کونے میں اس کی بنیاد پڑ چکی ہے بلکہ اب اس کے ہر آن بڑھنے پھلنے اور پھولنے کے آثار بھی دن بدن نمایاں ہوتے جارہے ہیں.اور یقیناً وہ وقت بھی آئے گا اور ضرور آکر رہے گا کہ جب یہ انقلاب ساری دنیا پر محیط ہوگا اور دین مصطفیٰ کے جھنڈے کو پورے کرہ ارض پر ہمیشہ ہمیش کے لئے سر بلند کر دکھائے گا.انشاء اللہ العزیز و باللہ التوفیق.چھوٹے اور بڑے سائز کی پانچ صد کے قریب تصاویر اور دینی معلومات پر مشتمل متعدد جدولوں اور چارٹس کی نمائش دفاتر تحریک جدید کے کمیٹی روم میں ترتیب دی گئی تھی.اس میں دیواروں کے اوپر کے حصے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلبہ حق سے متعلق الہامات کپڑوں اور بڑے سائز کے کاغذوں پر جلی حروف میں خوشخط لکھوا کر اس خوبی سے آویزاں کئے گے تھے کہ انہیں پڑھ کر اور ساتھ ہی ان کے پورا ہونے کی تصویری مناظر دیکھ کر ناظرین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور ان کی زبانوں پر بے ساختہ ہذا کے الفاظ آکر کمرے کی فضا میں ایک خوش -
تاریخ احمدیت 190 جلد ۲۰ آئند گونج پیدا کر دیتے تھے.اس عظیم الشان نمائش کا افتتاح محترم جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے مورخہ ۲۵ دسمبر ۱۹۵۸ء کی شام کو نماز مغرب کے بعد کثیر مجمع احباب کی موجودگی میں اجتماعی دعا کے ساتھ فرمایا.اس کے بعد یہ جلسہ سالانہ کے ایام میں روزانہ رات کو ساڑھے چھ بجے سے دس بجے تک کھلی رہی تاکہ احباب اسے دیکھ کر اس سے خاطر خواہ استفادہ کرسکیں.اور دنیا کے کونے کونے میں تبلیغ حق کی مساعی اور ان کے شاندار نتائج کو تصویری زبان میں دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ کر سکیں.اور یہ اندازہ لگا سکیں کہ دین کو دنیا میں غالب کر دکھانے کے لئے ابھی کس قدر قربانی اور ایثار اور مداومت عمل کی ضرورت ہے.ہر چند کہ نمائش ایام جلسہ کے بعد بھی ۲۹ اور ۳۰ / دسمبر کو نمازوں کے اوقات کے علاوہ دن بھر کھلی رہی پھر بھی تبلیغی مساعی کے شاندار نتائج کی جھلک دیکھنے کے سلسلہ میں لوگوں کے شوق کا یہ عالم تھا کہ وہ کمیٹی روم کے باہر اپنی باری کے انتظار میں قطاروں میں دیر تک کھڑے رہتے تھے.اور قطاروں کا یہ سلسلہ طویل سے طویل ہوتا چلا جاتا تھا.کیونکہ کمیٹی روم میں جگہ کی تنگی کے باعث ایک وقت میں لوگوں کی ایک محدود تعداد کو ہی داخلہ کی اجازت ملتی تھی.وے
تاریخ احمدیت فصل پنجم 191 جلد ۲۰ جلیل القدر رفقائے مسیح موعود کا انتقال ۱۹۵۸ء میں کئی ممتاز رفقائے مسیح موعود رحلت فرما گئے جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا.حضرت شیخ محمد حسین صاحب پنشنر قانونگو آف دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور ولادت ۱۸۸۲ء.بیعت جنوری ۱۹۰۷ ء.وفات ۱۸ / مارچ ۱۹۵۸ء) حضرت شیخ محمد حسین صاحب کے آباء و اجداد علاقہ باجوڑ کے افغان قبیلہ ککے زئی ۸۱ سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے مورث اعلیٰ (پردادا ) شیخ جھنڈے خاں صاحب سکھوں کے عہدِ حکومت ۸۲ وو میں تحصیلدار قصبہ دھرم کوٹ رندھاوا تھے.شیخ علی احمد خاں صاحب وکیل چیف کورٹ پنجاب رئیس ضلع گورداسپور جو پنجاب کی مرکزی ککے زئی ایسوسی ایشن کے بانی ارکان میں سے تھے اور جنہیں ۱۸۷۷ء میں مقدمہ رلیا رام کے دوران اور بعدازاں اکثر مقدمات میں سیدنا حضرت مسیح موعود کے وکیل ہونے کا شرف حاصل ہوا ، آپ کے چچازاد بھائی تھے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے شیخ علی احمد خاں صاحب کی وفات ( ۱۸ / جولائی ۱۹۱۱ ء ) پر لکھا ' شیخ صاحب مرحوم مسلمانانِ پنجاب کے ایک مسلم لیڈر اور ضلع گورداسپور میں ان کی ملکی اور قومی ضروریات کے لئے اکیلے وکیل اور رہنما شیخ صاحب ہر چند ہمارے سلسلہ میں داخل نہ تھے مگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے ہمیشہ سے موڈت اور محبت کے وفادارانہ تعلقات رکھتے تھے اور حضرت کے اکثر مقدمات میں وہی کام کیا کرتے تھے.مقدمات کے اس طوفانِ بیتمیزی میں جو اس سلسلہ کے خلاف اٹھایا گیا تھا شیخ صاحب کو بڑے بڑے آدمیوں نے فریق مخالف سے شامل ہونے کو اکسایا مگر ان کی حمیت اور غیور طبیعت نے اس کو وفاداری کے خلاف سمجھا.مدرسہ تعلیم الاسلام کے ساتھ انہیں خاص ہمدردی تھی اور اپنے صاحبزادہ بشیر احمد خان کی تعلیم کے لئے اسی مدرسہ کو پسند کیا.انہوں نے مختلف موقعوں پر ہمدردی اور محبت کا ثبوت دیا.ایڈیٹر الحکم کو ان سے ذاتی نیاز حاصل تھا اور وہ بعض مشورہ طلب امور میں جو مسلمانوں کی بھلائی اور خیر سگالی کے متعلق ہوتے اس سے تھے.
تاریخ احمدیت مشورہ کر لینا ضروری سمجھا کرتے غرض 192 ھے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں جلد ۲۰ سید نا حضرت مصلح موعود ۲۳ تا ۲۷ مارچ ۱۹۳۵ء میں دورانِ مقد مہ گورداسپور شیخ علی احمد خاں صاحب کے بڑے صاحبزادے شیخ محمد نصیب خاں صاحب بیرسٹر ایٹ لاء کی کوٹھی میں قیام فرما ر ہے اور متعدد بار لیکچر بھی دیا.اگر چہ وہ بھی احمدی نہ تھے مگر دیر سینہ خاندانی تعلقات کی وجہ سے انہوں نے احراریوں کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کی.حضرت شیخ محمد حسین صاحب کے سوانح اور سلسلہ احمدیہ کی خدمات جلیلہ کی تفصیل آپ کے فرزند اصغر جناب عبدالحمید صاحب عاجز بی اے واقف زندگی قادیان کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.” خاکسار کے والد محترم شیخ محمد حسین صاحب مرحوم.۱۸۸۲ء میں موضع دھرم کوٹ رندھاوا تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں وہاں کے ایک مشہور خاندان ککے زئیاں میں پیدا ہوئے.آپ نے ابتدائی تعلیم مڈل تک ۱۸۹۸ء میں وہاں کے مقامی سکول میں حاصل کی.اس کے بعد آپ اپنے ماموں شیخ نور احمد صاحب کے پاس ایبٹ آباد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے تشریف لے گئے.جہاں آپ نے ۱۹۰۰ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا.جس کے بعد آپ ۱۹۰۱ء میں وہیں امیدوار گرداور قانون گو کا کام سیکھتے رہے.عرصہ تقریباً چھ سال آپ نے ضلع ہزارہ کے مختلف علاقوں میں بندوبست کے کام کی ٹرینینگ حاصل کی اور ۱۹۰۷ء میں ضلع گورداسپور میں بطور گرد اور بندو بست تبدیل ہو کر آگئے.۱۹۰۷ء سے قبل مکرم والد صاحب کے تین ماموں شیخ غلام احمد صاحب، شیخ نور احمد صاحب اور شیخ حسین بخش صاحب احمدیت میں داخل ہو چکے تھے.جن میں سے شیخ غلام احمد صاحب سب سے پہلے احمدی ہوئے تھے اور باقی دو بھائی ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں احمدی ہوئے.مکرم والد صاحب کو ان کے ضلع ہزارہ وایبٹ آباد کے قیام کے دوران میں آپ کے ماموں شیخ نور احمد صاحب اور حکیم محمد یحیی صاحب
تاریخ احمدیت 193 جلد ۲۰ احمدیت کی تبلیغ کرتے رہے تھے مولوی محمد بیٹی صاحب کے متعلق مکرم والد صاحب فرماتے تھے کہ وہ پیر کوٹھا شریف علاقہ مردان کے مرید تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے پیشتر جب یہ پیر صاحب فوت ہونے لگے تو اپنے مریدوں کو وصیت کر گئے کہ مہدی پیدا ہو گیا ہے مگر اس کا ظہور نہیں ہوا.جس وقت وہ دعویٰ کرے تو مان لینا.چنانچہ مولوی محمد بیٹی صاحب کے والد صاحب نے اپنی وفات کے وقت اپنے پیر صاحب کی وصیت اپنے لڑ کے مولوی محمد بیٹی کو پہنچا دی.بعد میں مولوی محمد بیچی صاحب ایک روز تحصیل مانسہرہ میں تشریف لائے.وہاں پر کچھ عرائض نویس ایک اخبار پڑھ رہے تھے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کا بھی ذکر تھا.چنانچہ مولوی صاحب موصوف نے قادیان کا ایڈریس لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط تحریر کیا اس پر حضرت اقدس نے انہیں کچھ رسالہ جات بھیجواتے ہوئے دعا کے لئے تحریر فرمایا مولوی صاحب نے استخارہ کیا تو ان کو کہا گیا یـــــایـــــیــــی خذ الكتاب بقوة اس پر مولوی صاحب بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.چنانچہ مکرم والد صاحب مولوی صاحب کے مندرجہ بالا حالات سے متاثر ہوکر اور ان کی اور اپنے ماموں شیخ نور احمد صاحب کی تبلیغ سے احمدیت میں شامل ہوئے.آپ نے جنوری ۱۹۰۷ ء میں بیت مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی.اس وقت تک آپ کے نہیال کے جملہ رشتہ دارا حمدیت میں شامل ہو چکے تھے.مگر آپ کے ددھیال میں سے آپ ہی اکیلے احمدی تھے.ان دنوں آپ کے قادیان کے قیام کے عرصہ میں سعد اللہ لدھیانوی کی وفات کی تار قادیان آئی تو آپ بتاتے تھے کہ حضور علیہ السلام نے اس وقت فرمایا کہ ہم کو کسی کی موت کی خوشی نہیں ہوتی البتہ خدا تعالیٰ کا نشان پورا ہونے کی خوشی ہوتی ہے.عرصہ ملازمت میں ۱۹۰۷ء سے ۱۹۱۸ء تک علی الترتیب ضلع گورداسپور ہوشیار پور، سیالکوٹ ، انبالہ اور ملتان میں کام کرنے کے بعد ۱۹۱۹ء میں آپ دوبارہ ضلع گورداسپور کی تحصیل شکر گڑھ میں بطور قانونگو متعین ہوئے.اس عرصہ میں آپ مختلف اوقات میں قادیان تشریف لاتے رہے.مگر ۱۹۱۹ء سے ۱۹۳۸ء تک آپ با قاعدہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے علاوہ اکثر
تاریخ احمدیت 194 جلد ۲۰ قادیان تشریف لایا کرتے تھے.۱۹۲۸ء میں آپ بٹالہ کی تحصیل میں تبدیل ہو کر آ گئے جہاں آپ ۱۹۳۵ء تک کام کرتے رہے.یہاں پر مرکز سے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے آپ کو سلسلہ کے کاموں میں زیادہ دلچسپی لینے اور خدمت کے مواقع میسر آتے رہے.قادیان چونکہ تحصیل بٹالہ میں شامل ہے اس لئے سلسلہ کے لئے حصولِ زمین کے ضمن میں ہر ممکن امداد بہم پہنچاتے رہے.اسی طرح احمدی احباب کی مقدمات میں بھی ہر جائز امداد کیا کرتے تھے.آپ ایک صاف گو اور راست باز انسان تھے اور احمدیت کے رشتہ اخوت کی وجہ سے اپنے جذ بہ ہمدردی کو بہت کم دبا سکتے تھے.جس کام کو کرنے کا عزم کرتے تھے اس کو ذمہ داری کے پورے احساس کے ساتھ سرانجام دیتے تھے.آپ کے خلاف اخبار زمیندار وغیرہ میں مضامین بھی شائع کروائے گئے کہ احمدی قانونگو تحصیل بٹالہ میں نہیں ہونا چاہئے مگر چونکہ آپ کے خلاف محکمہ کو کبھی کوئی شکایت کا موقعہ پیدا نہیں ہوا تھا اس لئے مخالفین اپنی اس شرارت میں ناکام رہے.عرصہ سات سال تحصیل بٹالہ میں گزارنے کے بعد ۱۹۳۶ء میں آپ گورداسپور میں متعین کئے گئے.یہاں پر بوجہ ضلع ہونے کے جماعتی کاموں اور احمدی احباب کی امداد کرنے کے لئے آپ کو بٹالہ سے بھی زیادہ مواقع میسر آتے رہے.مکرم والد صاحب اپنے قیام میں بٹالہ اور گورداسپور کے عرصہ قیام میں مقامی جماعت کے کاموں میں بھی پوری طرح دلچسپی اور سرگرمی سے حصہ لیتے رہے.فراہمی چندہ اور سلسلہ کے کاموں میں بعض اوقات آپ گھر سے گھنٹوں باہر رہتے.بے قاعدہ اور نادہند احباب کے گھروں پر جا کر ان سے چندہ جات وصول کرتے.جب کبھی گھر میں بیٹھتے تو تمام گھر والوں کو اکٹھا کر کے اخبار الفضل میں سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ یا کوئی اور مضمون سناتے.اگر کوئی غیر احمدی مہمان یا رشتہ دار گھر میں آتا تو اسے بھی تبلیغ کرتے.احمدیت اور مرکز احمدیت قادیان کے ساتھ محبت کی وجہ سے آپ اپنے آبائی گاؤں دھرم کوٹ رندھاوا میں رہائش رکھنا پسند نہیں کرتے تھے اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ وہاں پر سوائے دنیا داری کی باتوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا.اگر چہ وہاں پر آپ کی جدی زمین اور مکانات کے علاوہ اپنا تیار کردہ دو منزلہ پختہ مکان بھی تھا اور وہاں رہنے سے بہت سی دنیاوی سہولتیں بھی میسر آسکتی تھی مگر چونکہ قادیان کی رہائش آپ کے نزدیک دنیاوی آلائشوں سے پاک اور روحانی ترقی کے لئے ضروری تھی اس لئے آپ کی خواہش تھی کہ پنشن لینے کے بعد آپ اپنی مستقل رہائش
تاریخ احمدیت 195 جلد ۲۰ قادیان میں اختیار کریں.جولائی ۱۹۳۸ء میں مکرم والد صاحب ملازمت سے ریٹائر ہو گئے.اس وقت آپ کی صحت اچھی تھی اگر آپ چاہتے تو آپ کی ملازمت میں مزید دو تین سال کی توسیع ہوسکتی تھی مگر آپ نے اس کے لئے کوشش نہیں کی اور قادیان میں مستقل رہائش کے لئے ہجرت کر کے تشریف لے آئے.یہاں پر آپ نے اپنی بقیہ زندگی کے ایام خدمت سلسلہ کے لئے وقف کر دیے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ سر کار انگریزی کی نوکری کافی کر لی ہے اور بقیہ عمر خدا اور اس کے دین کی خدمت میں صرف کرنے کا قادیان میں بہترین موقعہ ہے.یہاں پر رہائش کے دوران میں بھی ایک دو موقعے ایسے آئے جبکہ سلسلہ کی طرف سے آپ کو الاؤنس پر کام کرنے کے لئے کہا گیا مگر آپ نے بلا معاوضہ خدمات سرانجام دینے کو ترجیح دی.قادیان آکر پہلے آپ بطور آنریری انسپکٹر بیت المال جملہ محلہ جات قادیان میں معائنہ حسابات اور وصولی چندہ جات کا کام کرتے رہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بعض اوقات آپ صبح ناشتہ کر کے گھر سے روانہ ہوتے اور ظہر کی نماز کے وقت کھانا کھانے کے لئے تشریف لاتے اور کھانا ونماز سے فارغ ہو کر پھر سلسلہ کے کاموں کے لئے گھر سے باہر تشریف لے جاتے.اگر کبھی گھر سے کھانے کے لئے دیر سے آنے کی شکایت کی جاتی تو فرماتے کہ سلسلہ کا کام دیگر تمام کاموں سے مقدم اور ضروری ہے.بعض اوقات آپ کھانے کی بھی پرواہ نہ کرتے اور ناشتہ کے وقت ہی ایک آدھ روٹی زائد کھا کر چلے جاتے اور شام تک محلہ جات میں وصولی چندہ جات کا کام کرتے رہتے.۳۹ - ۱۹۳۸ء میں آپ محلہ دارالفضل میں بطور سیکرٹری مال کام کرتے رہے.اور آپ کے وصولی چندہ جات کے کام پر نظارت بیت المال کی طرف سے بھی مختلف مواقع پر اظہارِ خوشنودی کیا جاتا رہا.۱۹۳۹ء میں جو بلی فنڈ کا چندہ وصول کرنے کے لئے بٹالہ اور امرتسر بھجوایا گیا.جہاں پر آپ نے پوری محنت اور کوشش سے اس کام کو سرانجام دیا.اس کے بعد ۱۹۴۲ء میں آپ کو نظارت بیت المال کی طرف سے علاقہ کشمیر میں تیاری بجٹ معائنہ حسابات اور وصولی چندہ جات کے لئے بھجوایا گیا.جہاں آپ نے قریباً ڈیڑھ ماہ نہایت خوش اسلوبی سے کام کیا.۱۹۴۱ء تا ۱۹۴۶ء آپ کو متواتر چھ سال صدر محلہ دارالفضل کے فرائض سرانجام دینے کا
تاریخ احمدیت 196 جلد ۲۰ موقعہ ملا.اس عرصہ میں آپ اپنے محلہ کے ہر قسم کے مقدمات و تنازعات کو نپٹاتے رہے.اور علاوہ اپنے محلہ کے فرائض سرانجام دینے کے آپ کو دیگر متفرق جماعتی کاموں میں بھی خدمت سلسلہ کے مواقع میسر آئے.جن کو آپ نے پوری محنت اور کوشش اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ سرانجام دیا.۱۹۳۷ ء اور ۱۹۴۶ء میں دو دفعہ الیکشن اسمبلی کے موقعہ پر ووٹروں کی فہرستیں تیار کرنے کا کام آپ کے سپرد کیا گیا جس کو آپ نے دن رات ایک کر کے پوری جانفشانی سے کیا.بٹالہ اور گورداسپور میں عذرداری کی درخواستوں کا کام کیا اور احمدی ووٹروں پر کئے گئے اعتراضات کا جواب دیا.اور مخالف پارٹی کی غلط تیار کردہ فہرست ووٹروں پر اعتراض کر کے انہیں نامنظور کرایا.پرا اسی طرح ۱۹۴۱ء میں مردم شماری کے کام میں آپ نے نمایاں خدمات سلسلہ سرانجام دیں.نیز سال ٹاؤن کمیٹی قادیان کے ووٹروں کی فہرستیں تیار کر وانے میں بھی کافی مدد دی.۱۹۴۱ء میں جب آپ محلہ دار الفضل کے صدر منتخب ہوئے تو آپ نے علاوہ تربیتی تنظیمی اور اصلاحی کاموں کے ایک نمایاں کام یہ بھی سرانجام دیا کہ محلہ والوں سے تقریباً آٹھ سو روپیہ فراہم کر کے محلہ کی بیت الذکر (جو اس وقت تک ایک کمرہ کی صورت میں تھی ) کی برجیاں مینار اور کی سفیدی کروا دی.اسی طرح بیت الذکر کو وسعت دینے کے لئے ایک دوست کو تحریک کر کے بیت الذکر سے ملحقہ دس مرلہ زمین مفت حاصل کی.حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر اپنے محلہ کے غیر موصیوں کے لئے ۱۹۴۳ء میں اہل محلہ سے چندہ اکٹھا کر کے بارہ کنال زمین موضع کھارا میں خرید کی.نیز آپ نے حضرت اقدس ایدہ اللہ کی منظوری سے محلہ دار الفضل کے لئے برائے لنگر خانہ صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے دو کنال زمین خرید کی.محترم والد صاحب کی عادت تھی کہ اگر کبھی کوئی بات جماعتی مفاد کے خلاف دیکھتے تو اس کی فوری اصلاح کی کوشش فرماتے اور موجودہ ذمہ دار افسر کو توجہ دلاتے.اگر کسی اہم امر کے متعلق فوری کارروائی کے لئے معاملہ حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کیا جانا ضروری خیال کرتے تو مفاد سلسلہ کے مدنظر بلا توقف حضرت اقدس مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر فرماتے.آپ کسی سے ذاتی رنجش دل میں نہ رکھتے تھے.اگر کسی وقت ناراض بھی ہوتے تو آپ کی ناراضگی بالکل وقتی ہوتی اور جب کچھ وقفہ کے بعد ملتے تو ملنے والا یوں محسوس کرتا
تاریخ احمدیت 197 جلد ۲۰ کہ آپ اس سے کبھی ناراض نہیں ہوئے تھے.آپ جملہ امور میں سادگی کو مدنظر رکھتے اور اپنے ہر قسم کے ذاتی اور خاندانی معاملات میں صاف گوئی کو مدنظر رکھتے.حق بات کو بلاخوف وخطر کہنے میں کبھی نہ ہچکچاتے اور کسی بات کو بیچ دار طریق سے بیان کرنا آپ سخت نا پسند فرماتے اور اولاد کو بھی ہمیشہ قولوا قولا سدیدا کی نصیحت فرماتے.رشتہ داروں کے ساتھ آپ ہمیشہ صلہ رحمی اور شفقت کا سلوک فرماتے.آپ اپنے غیر احمدی رشتہ داروں (جو عموماً احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے معمولی معمولی خاندانی باتوں میں شرارت سے کام لیا کرتے تھے ) سے بھی حسنِ سلوک اور محبت سے پیش آیا کرتے تھے اور جب کبھی موقعہ ہوتا آپ ان کی امداد سے دریغ نہ کرتے.اگر کبھی کسی مخالف رشتہ دار کی متواتر شرارتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے گھر میں سے کوئی مکرم والد صاحب سے عرض کرتا کہ یہ شخص ایسا ہے تو آپ فرماتے کہ ہم اس سے نیکی خدا کے حکم کے ماتحت کرتے ہیں اور ہم نے اپنے کام کا اجر خدا سے لینا ہے نہ کہ اس شخص سے آپ کے حسن سلوک اور ہمدردانہ رویہ کی وجہ سے باوجود مذہبی مخالفت کے آپ کے تمام غیر احمدی بھائی اور اکثر قریبی رشتہ دار آپ کی پوری تعظیم کرتے اور بعض اوقات اپنے باہمی تنازعوں اور بیاہ شادی کے معاملات میں بھی مکرم والد صاحب سے مشورہ لیا کرتے.کیونکہ ان کو والد صاحب کی دلی ہمدردی اور صائب رائے کا پورا یقین ہوتا.حصہ جائیداد انہوں نے اپنی زندگی میں ادا کر دیا تھا اور حصہ آمد کی باقاعدہ بروقت ادا ئیگی کے آپ احتیاط سے پابند تھے بلکہ اکثر اوقات متوقع آمد پر بھی قبل از وقت حصہ آمد کی ادائیگی فرمایا کرتے تھے.آپ نے تحریک جدید کے انیس سالہ مالی جہاد میں با قاعدگی سے حصہ لیا اور اس کے بعد ۱۹۵۴ء میں آئندہ سالوں کے لئے یکمشت مبلغ یکصد روپیہ تحریک جدید میں ادا فرمایا اور بعد میں بھی متواتر ادائیگی فرماتے رہے.اولاد ۸۶ ۸۵ ۱- شیخ محمد خورشید صاحب پٹواری (مدفون مقبرہ بہشتی ربوہ) -۲- محترمہ اقبال بیگم صاحبہ ( مدفون قبرستان قادیان) - ملک عبدالعزیز صاحب ریٹائر ڈ ضلعدار ( تقسیم ملک کے بعد شیخو پورہ میں رہائش پذیر ہوئے) ۴- محتر مہ رشیدہ خانم صاحبہ ریٹائرڈ (ڈسٹرکٹ انسپکٹرس آف سکولز حال گوجرانوالہ ) - محترم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز واقف زندگی (سابق ناظر بیت المال قادیان )
تاریخ احمدیت 198 جلد ۲۰ حضرت مرزا سلطان محمود بیگ صاحب آف قصور ولد مرزا فتح محمد بیگ صاحب ولادت اندازاً ۱۸۸۰ء بیعت ۹۷-۱۸۹۶ء وفات ۱۸ / اپریل ۱۹۵۸ء وو حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب تحریر فرماتے ہیں :- Λ مرزا سلطان محمود بیگ صاحب مرحوم کے والد مولوی مرزا فتح محمد بیگ صاحب عربی کے با قاعدہ تعلیم یافتہ تھے.آپ پٹی تحصیل قصور ضلع لاہور کے رؤسا اور کرسی نشینوں میں سے تھے اور منصف تھے.مسلمانوں کی بہتری کے لئے دست کاری پر زیادہ زور دیتے تھے اور اس کے لئے قصور میں ایک باقاعدہ اسکول بھی کھولا ہوا تھا.ان کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ضلع ہوشیار پور میں بعض با اثر آسوده حال مسلمان راجپوت، عیسائی مشنریوں کے اثر کے ماتحت عیسائیت قبول کر رہے تھے.اس کو روکنے کے لئے ہوشیار پور کے مسلمانوں نے مولوی مرزا فتح محمد بیگ کو بلوایا.اور آپ کے جانے سے عیسائیت کی تحریک ناکام ہو گئی.اس پر مشنری پادریوں نے جو اکثر با اثر انگریز تھے مرزا صاحب مرحوم کے خلاف حکام کے پاس شکایت کی.چنانچہ حکومت نے مرزا صاحب کو وہابی اور مفسدہ پرداز قرار دے کر گرفتار کر لیا اور مقدمہ چلا کر چند ماہ قید رکھنے کے بعد ضلع بدر کر دیا.وطن کی واپسی پر مرزا صاحب مرحوم چند دن قادیان میں ٹھہرے اور حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر قصور میں واپس آکر ۱۸۸۷ء میں فوت ہو گئے.اور آپ کی اولا دکو یتیمی کا زمانہ دیکھنا پڑا.مرزا سلطان محمود بیگ صاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۸۹۶ء میں قصور میں ہوئی.میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی اور مرزا صاحب مجھ سے سات یا آٹھ سال بڑے تھے اور ایک سکول میں پڑھتے تھے اس لئے آپ مجھ سے چھوٹے بھائیوں کی طرح محبت کرتے تھے.اور ہر قسم کی مدد اور حفاظت کرتے تھے.کھیل اور سیر و تفریح کے وقت بھی مجھے ساتھ لے جاتے تھے.مجھے ان کی تاریخ بیعت تو معلوم نہیں غالباً ۱۸۹۶ ء یا ۱۸۹۷ء میں بیعت کر لی تھی.بیعت کے بعد ان کی طبیعت میں یک لخت ایک غیر معمولی اور نمایاں تغیر نیکی اور دین کی طرف ہوا اور جوانی میں طبیعت دنیاوی امور سے نفرت کرنے لگی.اور فرض نمازوں کے علاوہ تہجد با قاعدہ شروع کر دی.میں رات کے وقت اکثر ان کی دعاؤں میں گریہ زاری کی آواز سے جاگ پڑتا تھا.آپ غالبا ۱۸۹۸ء میں قصور سے میٹرک پاس کر کے قادیان چلے گئے.وہاں جا کر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ملازمت اختیار کر لی اور اپنے اہل وعیال کو بھی ساتھ لے گئے اور
تاریخ احمدیت 199 جلد ۲۰ اپنے چھوٹے بھائی مرزا سلطان احمد کو بھی ساتھ لے گئے اور سکول میں داخل کروا دیا.لیکن ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء میں ملازمت سے علیحدگی اختیار کر لی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشورہ سے گوجرہ ضلع لائلپور میونسپل سکول میں ملازمت اختیار کر لی.جتنا عرصہ وہاں رہے جماعت کے امام الصلوۃ اور پریذیڈنٹ رہے.جب تک جماعت نے اپنا بیت الذکر تعمیر نہ کر لیا پنجگانہ نماز اور جماعت کے اجلاس وغیرہ آپ کے مکان پر ہوتے رہے.قادیان کی ابتدائی رہائش میں آپ کے متعدد بچے قادیان میں ہوئے گوجرہ میں تقریباً ۲۰ سال ملازمت کی اور غالباً ۱۹۳۵ء کے قریب ملا زمت سے فارغ ہو کر بمع اہل و عیال واپس قادیان دارالامان پہنچ گئے.اور بذریعہ تجارت گزارہ کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی نہ ہوئی اور تقریباً ۱۹۴۰ ء یا ۱۹۴۱ء میں قادیان سے پٹی میں اپنی جدی اراضیات پر قبضہ حاصل کر لیا اور علاقہ قصور میں جو اراضیات تھیں وہ اپنے چھوٹے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب کو دے دیں.اور تقسیم ملک کے بعد پٹی سے سندھ چلے گئے.قادیان کو مرزا صاحب اپنا وطن سمجھتے تھے اور گوجرہ رہائش کے دوران میں بمع اہل وعیال اکثر قادیان آتے رہتے تھے اور لمبا عرصہ رہائش رکھتے تھے.پٹی یا قصور نہیں جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے آپ کا خاص تعلق تھا.اور اکثر حضرت اماں جان کے پاس یا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے پاس رہائش رکھتے تھے.چنانچہ ۱۹۲۷ء میں جب میری شادی صادقہ بیگم سے ہوئی تو اس وقت آپ بمع اہل و عیال حضرت میاں صاحب کے مکان پر ہی ٹھہرے تھے اور وہیں رخصتا نہ ہوا اور یہ رشتہ بھی حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی کوشش کا نتیجہ تھا.مرحومہ صادقہ کی پیدائش قادیان میں ہی ہوئی تھی.یہ گوجرہ جانے سے پہلے کا واقعہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صادقہ مرحومہ کو گڑھتی بھی دی جس کو ہم اپنے خاندان کی خوش نصیبی کے لئے نیک فال سمجھتے ہیں.جب مرزا محمود بیگ پہلی دفعہ قصور سے قادیان دارالامان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکان پر رہائش تھی.میری خوش دامن صاحبہ کا نام بھی مبارکہ بیگم تھا چونکہ یہی نام حضرت نواب مبارکہ بیگم کا بھی تھا.میری خوش دامن کا نام فضل النساء رکھ دیا.چنانچہ اسی نام سے وہ موسوم رہیں.جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں مرزا محمود بیگ دن رات کا اکثر حصہ نماز دعا اور نوافل میں گزارتے تھے اور نماز انتہائی گریہ و زاری سے ادا کرتے تھے.میل ملاقات وسیع نہیں تھا لیکن جب ملتے تھے تو محبت اور انکسار سے ملتے تھے اور حاجت مندوں کی حسب مقدرت امداد کرتے تھے
تاریخ احمدیت 200 جلد ۲۰ اور جماعت کے کاموں میں پیش پیش رہتے تھے.ان کی دعاؤں کا ایک خاص طریقہ یہ تھا کہ لکھ کر دعا کرتے تھے تا کہ دعا کے وقت توجہ قائم رہے.صاحب کشوف اور رویا بھی تھے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بار بار غور سے پڑھتے تھے.خطبہ الہامیہ کا اکثر حصہ حفظ کیا ہوا تھا اور بار بار پڑھتے رہتے تھے.ا اولاد : - مرزا محمد احمد.مرزا مبارک احمد.الحاج حضرت خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی ۸۸ ولادت ۱۸۷۲ء.بیعت و زیارت ۱۹۰۱ء وفات ۷/اگست ۱۹۵۸ء ) حضرت خان منشی برکت علی صاحب قبول احمدیت کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- ”جہاں تک مجھے یاد ہے سب سے پہلے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر ۱۹۰۰ء کے شروع میں سننے کا اتفاق ہوا جبکہ اتفاقاً مجھے شملہ میں چند احمدی احباب کے پڑوس میں رہنے کا موقع ملا.ان دوستوں سے قدرتی طور پر حضور کے دعوئی میسحیت اور وفات مسیح ناصری کے متعلق سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا میں اگر چہ بڑی سختی سے ان کی مخالفت کیا کرتا تھا مگر بیہودہ گوئی اور طعن وطنز سے ہمیشہ احتراز کرتا تھا.آہستہ آہستہ مجھے خوش اعتقادی پیدا ہو گئی.حضور کا ان ہی دنوں میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ بھی بحث مباحثہ جاری تھا.حضور نے اس پر زور دیا کہ مقابلہ میں قرآن شریف کی عربی تفسیر لکھی جاوے.اور وہ اس طرح کہ بذریعہ قرعہ اندازی کوئی سورۃ لے لی جاوے.اور فریقین ایک دوسرے کے بالمقابل بیٹھ کر عربی میں تفسیر لکھیں.کیونکہ قرآن کریم کا دعوی ہے کہ لا يمسه الا المطهرون (الواقعہ: ۸۰) اور ایک کاذب اور مفتری پر اس کے حقائق اور معارف نہیں کھل سکتے.اس لئے اس طرح فریقین کا صدق و کذب ظاہر ہو سکتا ہے.ان ہی ایام میں پیر صاحب کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا جس میں حضرت مسیح موعود کی طرف چوہیں باتیں منسوب کر کے یہ استدلال کیا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود (نعوذ باللہ ) ملحد اور اسلام سے خارج ہیں.اس اشتہار میں اکثر جگہ حضور کی تصانیف سے اقتباسات نقل کئے گئے تھے.میں عموماً ہر فریقین کے اشتہارات دیکھتا رہتا تھا.مذکورہ بالا اشتہار کے ملنے پر جو غیر احمدیوں نے مجھے دیا تھا میں نے احمدی احباب سے استدعا کی کہ وہ مجھے اصل کتاب لا کر دیں.تا کہ میں خود مقابلہ کر سکوں.مقابلہ کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ
تاریخ احمدیت 201 جلد ۲۰ بعض حوالے کو صحیح تھے مگر اکثر میں انہیں توڑ مروڑ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی.پیر مہر علی شاہ صاحب کے مقابلہ میں تفسیر نویسی کے منظور نہ کرنے پر حضور نے اعجاز امسیح رقم فرمائی اور اس میں چیلنج دیا کہ پیر صاحب اتنے عرصہ میں کے اندر اندر اس کتاب کا جواب تحریر کریں.پیر صاحب نے عربی میں تو کچھ نہ لکھا گو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے اردو میں ایک کتاب لکھی تھی جو بعد میں سرقہ ثابت ہوئی.۸۹ بہر حال اسی کشمکش میں میری طبیعت سلسلہ عالیہ احمدیہ کی جانب زیادہ مائل ہوتی گئی.پھر بھی میں نے خیال کیا کہ احادیث کا تو ایک بڑا ذخیرہ ہے.جس پر عبور کرنا مشکل ہے.مگر احمدی احباب اکثر قرآن کریم کے حوالہ جات دیتے رہتے ہیں.اس لئے بہتر ہوگا کہ قرآن کریم کا شروع سے آخر تک بہ نظر غائر مطالعہ کیا جاوے.چنانچہ گو میں عربی نہ جانتا تھا مگر میں نے ایک اور دوست کے ساتھ مل کر قرآن کریم کا اردو ترجمہ پڑھا اور اس کے مطالعہ سے مجھے معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں ایک دو نہیں ہیں تمہیں نہیں بلکہ متعدد آیات ایسی ہیں جن سے سے وفات مسیح کا استدلال کیا جا سکتا ہے.۱۹۰۱ء کے شروع میں جبکہ مردم شماری ہونے والی تھی حضور نے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں درج تھا کہ جو لوگ مجھ پر دل میں ایمان رکھتے ہیں گو ظاہر ا بیعت نہ کی ہو وہ اپنے آپ کو احمدی لکھوا سکتے ہیں.اس وقت مجھے اس قدر حسنِ ظن ہو گیا تھا کہ میں تھوڑا بہت چندہ بھی دینے لگ گیا تھا.اور گو میں نے بیعت نہ کی تھی لیکن مردم شماری میں اپنے آپ کو احمدی لکھوا دیا.مجھے خواب میں ایک روز حضور کی زیارت ہوئی.صبح قریباً ۴ بجے کا وقت تھا مجھے معلوم ہوا کہ حضور برابر والے احمدیوں کے کمرے میں آئے ہوئے ہیں.چنانچہ میں بھی حضور سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لئے اس کمرے میں گیا.اور جا کر السلام علیکم عرض کی.حضور نے جواب دیا وعلیکم السلام اور فرمایا ” برکت علی تم ہماری طرف کب آؤ گے.میں نے عرض کی حضرت اب آہی جاؤں گا.حضور اس وقت چار پائی پر تشریف فرما تھے جسم نگا تھا.سر کے بال لمبے اور پیٹ کی تو ند ذرا نکلی ہوئی تھی.اس واقعہ کے چند روز بعد میں نے تحریری بیعت کر لی.یہ نظارہ مجھے اب تک ایسا ہی یاد ہے جیسا کہ بیداری میں ہوا ہو.اس کے بعد جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے دارالامان میں حاضر ہو کر دستی بیعت بھی کر لی.اس وقت میں نے دیکھا کہ حضور کی شبیہ مبارک بالکل ویسی ہی تھی جیسی کہ میں نے خواب میں دیکھی تھی.اس کے کچھ عرصہ بعد اتفاقا میں اس مهمانخانہ میں اترا ہوا تھا جس میں اب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ابن
تاریخ احمدیت 202 جلد ۲۰ حضرت مسیح موعودؓ سکونت پذیر ہیں.میں ایک چار پائی پر بیٹھا تھا کہ سامنے چھت پر غالباً کسی ذرا اونچی جگہ پر حضور آکر تشریف فرما ہوئے.نہا کر آئے تھے بال کھلے ہوئے تھے.جسم نگا تھا یہ شکل خصوصیت سے مجھے ویسی ہی معلوم ہوئی جو میں خواب میں دیکھ چکا تھا.اور مجھے مزید یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ نے میری ہدایت کے لئے مجھے دکھلایا تھا.دیگر کوائف : - ازاں بعد مجھے وقتاً فوقتاً جلسہ سالانہ اور دیگر موقعوں پر حاضر ہو کر قدم بوسی کا موقعہ ملتا رہا.مگر افسوس ہے کہ ان مبارک مجلسوں کے کوائف قلمبند کرنے کا کبھی خیال نہ آیا.اور نہ ہی یہ خیال آیا کہ بعد کی ضروریات مجبور کر دیں گی کہ حضور کے اقوال فراہم کئے جاویں.66 حضرت منشی برکت علی خاں صاحب کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آپ کو اپنے خاندان میں سب سے پہلے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.بیعت کے بعد آپ نے اس زور شور سے اپنے خاندان میں تبلیغ شروع کر دی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کے بہنوئی (اور محترم خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب کے والد ماجد ) حضرت مولوی عمر الدین صاحب ساکن صریح ضلع جالندھر احمدی ہو گئے اور پھر یکے بعد دیگرے متعدد افراد خاندان نور احمدیت سے منور ہو گئے جنہوں نے بعد میں نمایاں طور پر خدمت دین کی توفیق پائی جن میں خان صاحب مولوی فرزند علی خانصاحب سابق امام بیت فضل لنڈن و ناظر بیت المال کا اسم گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے.آپ دسمبر ۱۸۹۲ء میں گورنمنٹ آف انڈیا کے دفتر ڈائریکٹر جنرل انڈین میڈیکل سروس شملہ میں ملازم ہوئے تھے.۱۹۰۳ء میں آپ کے دفتر بارک ماسٹری شملہ کو سوا لاکھ روپیہ لاٹری میں ملا.جس میں سے قریباً ساڑھے سات ہزار روپیہ ہر ملازم کے حصہ میں آیا.آپ روپیہ ملتے ہی قادیان پہنچے اور حضرت مسیح موعود کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ لاٹری کا روپیہ حلال ہے یا حرام؟ حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا : - یہ روپیہ تمہارے لئے جائز نہیں اس لئے فی سبیل اللہ مساکین و یتامی میں تقسیم کر دیں.( دینِ حق ) اس وقت غربت کی حالت میں ہے اس لئے یہ روپیہ اشاعت ( دین حق ) پر بھی خرچ ہو سکتا ہے.“ آپ فرماتے ہیں.” میں نے پہلے ہی نیت کر لی تھی کہ حضور اجازت بخشیں گے تو یہ روپیہ میں اپنے مصرف میں لاؤں گا ورنہ نہیں چنانچہ میں نے وہ سب روپیہ ایک ایک سو دو دوسو
تاریخ احمدیت 203 جلد ۲۰ کر کے غرباء میں تقسیم کر دیا.کچھ روپیہ اپنے غریب رشتہ داروں کو دے دیا اور سات سو روپیہ حضرت خلیفہ اسیح اول اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو غرباء میں تقسیم کے لئے بھیج دیا اور اس طرح وہ تمام روپیہ حضور علیہ السلام کے فتویٰ کے مطابق تقسیم کر دیا." ۹۱ حضرت مسیح موعود نے ۱۵ جنوری ۱۹۰۱ ء کو رسالہ ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) جاری کرنے کا اعلان فرمایا.اس غرض کے لئے ایک ادارہ انجمن اشاعت اسلام کے نام سے قائم ہوا جن کا ابتدائی سرمایہ دس ہزار روپیہ قرار پایا جس کی فراہمی کے لئے دس دس روپے کے ایک ہزار حصے مقرر کئے گئے.حضرت خانصاحب منشی برکت علی صاحب نے اس کے حصے بھی خریدے کچھ عرصہ بعد حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ دوستوں کو حوصلہ اور ہمت دے تو وہ نفع کا خیال چھوڑ دیں اور یہ رقوم بطور امداد سلسلہ احمدیہ کو دے دیں.چنانچہ جہاں دوسرے بزرگوں نے یہ روپیہ سلسلہ کو دے دیا وہاں آپ نے بھی پوری رقم سلسلہ کے پاس رہنے دی.مارچ ۱۹۰۳ء میں مینارہ امسیح کی بنیاد رکھی گئی اس کی تعمیر میں ایک ایک سو روپیہ دینے والے مخلصین میں آپ دونوں میاں بیوی بھی تھے.آپ کی رفیقہ حیات عزیزہ بیگم صاحبہ آپ کی طرح نہایت پارسا اور فرشتہ خصلت تھیں اور عمر بھر دینی کاموں میں آپ کی مد و معاون رہیں.جون ۱۹۰۷ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بد کا ایک کارڈ آپ کو ملا کہ 66 صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب اور دو تین اور احمد یہ شملہ آرہے ہیں.صاحبزادہ صاحب کی طبیعت ناساز ہے.ڈاکٹر نے مشورہ دیا ہے کہ وہ کچھ وقت شملہ رہ آئیں.آپ ان کی رہائش اور آسائش کا انتظام کر دیں.کارڈ کے ایک کونے پر حضرت اقدس نے اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا کہ:- ” میری طرف سے مخلص دوستوں کو تاکید ہے کہ مکان وغیرہ آرام 66 و اسباب میرے لڑکے محمود احمد کے لئے میسر کر دیں.مرزا غلام احمد.“ آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے متعدد خطوط لکھے.ایک بار حضور ۹۲ 66 نے آپ کی ایک چٹھی پر رقم فرمایا کہ " السلام علیکم.اسی طرح کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں.۱۳ مارچ ۱۹۱۴ ء کو حضرت خلیفہ مسیح الاول کے وصال کی خبر بذریعہ تار شملہ میں پہنچی تو آپ نے احباب شملہ کو تحریک فرمائی کہ یہ ہمیں معلوم ہے کہ جماعت میں اختلاف ہے اس صورت میں یہ ناممکن ہے کہ انتخاب خلیفہ کے متعلق اتفاق رائے سے فیصلہ ہو.پس ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے نمونہ پر قدم مارتے ہوئے اس بات کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ جدھر کثرت رائے
تاریخ احمدیت 204 جلد ۲۰ ہو ہم ادھر ہو جائیں.یہ تجویز پسند کی گئی.اگلے روز قادیان سے تار موصول ہوا کہ کثرت رائے سے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی منتخب ہو گئے ہیں.اس اطلاع پر آپ فوراً دوستوں کے مکانوں پر گئے اور ان سے بیعت خلافت کے لئے دستخط کرائے اس طرح جماعت شملہ ایک فتنہ سے بچ گئی.۱۹۲۰ء میں حسن کارکردگی کے باعث آپ کو حکومت ہند کی طرف سے خاں صاحب کا خطاب ملا.۱۹۲۵ء میں گوا بھی مزید ملازمت کر سکتے تھے آپ نے ریٹائر ہونے کا ارادہ کر لیا اور اسی ارادہ سے آپ حضرت مصلح موعود کے درس قرآن میں شرکت کے لئے قادیان آ گئے.اختتام درس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپ کی صحت اچھی ہے آپ کو ملازمت کر لینی چاہئے.اس پر آپ واپس شملہ آ گئے.مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ آپ کے ریٹائرمنٹ کے ارادہ کی خبر پر ایک ہندو آپ کی اسامی پر تعینات کے لئے سر توڑ کوشش کر رہا ہے.اور جن افسروں سے خانصاحب کو ہمدردی اور مدد کی توقع تھی وہ رخصت پر ہیں.بہر حال آپ نے کوشش شروع کر دی.پہلے تو روزانہ ایک خط حضور کی خدمت اقدس میں بغرض دعا لکھتے رہے پھر ہر روز تار دینا شروع کر دیا.آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ موعود کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور آپ کے حق میں فیصلہ ہو گیا.آپ کے دفتر کے ایک ہندو نے یہ فیصلہ سن کر بر ملا کہا کہ ہم جانتے تھے کہ بالآخر آپ ہی کے حق میں فیصلہ ہوگا.کیونکہ آپ کا پیر بہت زبر دست ہے.۹۴-۹۵ ۶ / مارچ ۱۹۳۲ء کو شملہ اور دہلی کی احمدی جماعتوں نے آپ کے اعزاز میں تالکٹورہ پارک دہلی میں ٹی پارٹی دی.حضرت مصلح موعود نے (جو ان دنوں کشمیر کمیٹی کے اجلاس کے سلسلہ میں تشریف لائے ہوئے تھے ) اپنی اہم مصروفیات کے باوجود اس میں شمولیت فرمائی اور اپنے دستِ مبارک سے جماعت احمد یہ دہلی اور شملہ کی طرف سے بڑے سائز کا چار پانچ تر جموں والا ایک مترجم قرآن شریف آپ کو تحفہ عطا فرمایا.حضرت خانصاحب ریٹائرمنٹ کے بعد نومبر ۱۹۳۲ء میں قادیان دارالامان میں ہجرت کر کے آ گئے.جہاں ابتداء میں حضور نے آپ کو نائب ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا.بعد ازاں آپ نائب ناظر بیت المال اور پھر جائنٹ ناظر بیت المال مقرر ہوئے اور قادیان میں کم و بیش چودہ سال تک نہایت دلجمعی اور اخلاص سے خدمات بجا لاتے رہے.ہجرت قادیان کے بعد آپ کو بطور ناظر بیت المال چارج لینے کا ارشاد ہوا.۴۷ - ۱۹۴۶ء میں آپ ناظر ضیافت رہے.۱۹۴۸ء میں آپ نے رخصت حاصل کر لی تاہم جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء کے موقع پر آپ کو افسر جلسہ سالانہ کے ۹۶
تاریخ احمدیت 205 جلد ۲۰ فرائض بجالانے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت خانصاحب نہایت متقی ، مخیر ، سادہ مزاج ، عابد و زاہد اور کم گو بزرگ تھے.ہمیشہ تقویٰ کی باریک راہوں پر نظر رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے اگر میں دفتر سے ذاتی استعمال کے لئے ایک پن بھی لیتا ہوں تو وہ بھی اپنے گھر سے لا کر واپس دفتر میں رکھ دیتا ہوں.مختلف ذرائع سے غرباء کی امداد کرنا ان کا مستقل شعار تھا.حضرت مصلح موعودؓ کی ذات بابرکات کے ساتھ خلافت اولی کے زمانہ سے ہی والہانہ عقیدت و اخلاص رکھتے تھے.اور حضور کی ہر تحریک پر لبیک کہتے تھے.آپ کو موصی ہونے کا شرف حاصل تھا اور تحریک جدید کی پانچبزاری فوج میں بھی شامل تھے.انہوں نے اپنا مکان واقع دارالرحمت وسطی ربوہ اغراض سلسلہ کے لئے اپنی زندگی میں ہی صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے پاس ہبہ کر دیا تھا.اس سے پیشتر آپ ایک ٹرسٹ چھ ہزار روپیہ کا اپنی مرحومہ بی بی محترمہ عزیز بیگم صاحبہ کی طرف سے بحق صدرانجمن احمد یہ قائم کر چکے تھے جس کا نفع ان کی خواہش کے مطابق صدقہ جاریہ کے طور پر صیغہ نشر و اشاعت میں دینی کاموں پر خرچ ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو قلمی اور علمی خدمات کی بھی توفیق بخشی.چنانچہ آپ کے قلم سے مندرجہ ذیل رسالے اشاعت پذیر ہوئے.کیا اسلام بذریعہ شمشیر پھیلا، ضرورت نبی ، گوشت خوری، قدامت روح و مادہ ، انتخاب خلافت ، اصول قرآن فہمی.ان سب رسائل کو جماعت میں سند قبولیت عطا ہوئی اور احمد یہ پریس نے ان پر تعریفی نوٹ لکھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپر د قلم فرمایا : - خان صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق تھے اور بہت نیک اور مخلص اور سادہ مزاج بزرگ تھے.ان کی بیعت ۱۹۰۰ ء یا ۱۹۰۱ء کی ہے.ان کو دو زمانوں میں سلسلہ کی خاص خدمت کا موقع میسر آیا.اولاً جماعت احمد یہ شملہ کے صدر اور امیر کی حیثیت میں جبکہ انہوں نے شملہ کی جماعت کو غیر معمولی حسن تدبیر کے ساتھ سنبھالا اور ۱۹۱۴ء کے فتنہ خلافت کے ایام میں خصوصیت کے ساتھ قابل قدر خدمات سرانجام دیں اور جماعت کے کثیر حصہ کو لغزش سے بچا لیا.شملہ کی جماعت میں ان کی صدارت اور امارت کا زمانہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بڑا امتیاز رکھتا ہے.اس کے بعد جب وہ پینشن پا کر قادیان تشریف لائے تو مرکز میں لمبے عرصہ تک جائنٹ ناظر بیت المال کے عہدہ پر بہت مخلصانہ خدمات سرانجام دیں.شملہ میں تنظیم اور با قاعدگی اور حسن تدبیر کی خوبیاں ان کے کام کی طرۂ امتیاز تھیں.خانصاحب مرحوم خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے حقیقی ماموں تھے.۹۸
تاریخ احمدیت 206 جلد ۲۰ خان صاحب برکت علی صاحب نے ۸۶ سال کی عمر میں وفات پائی ہے.مگر ہمت اور جذبہ خدمت کا یہ عالم تھا کہ غالباً دو سال ہوئے انہوں نے قرآنی علوم کے فہم کے متعلق ایک رسالہ تصنیف کر کے شائع کیا تھا جس میں بعض مضامین واقعی عمدہ اور اچھوتے تھے اس طرح ان کی اکثر روایات بھی غالباً چھپ چکی ہیں.خاں صاحب مرحوم نے اپنے پیچھے کوئی اولا د نہیں چھوڑی ان کی اہلیہ جو وہ بھی خاوند کی طرح بہت نیک اور مخلص تھیں ان کی زندگی میں ہی چند سال ہوئے فوت ہو گئی تھیں.اور ربوہ کے مقبرہ بہشتی میں مدفون ہیں.مرحومہ کو حضرت اماں جان کے ساتھ بہت عقیدت تھی اللہ تعالیٰ دونوں کو غریق رحمت کرے اور اپنے افضال سے نوازے اور جماعت میں ان کے امثال پیدا کر کے ان کے نیک عمل کو جاری رکھے.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۷/۸/۵۸ حضرت مولوی رحمت علی صاحب مجاہد انڈونیشیا 1+ 1 ولادت ۱۸۹۳ ء وفات ۳۱ را گست ۱۹۵۸ء حضرت مولوی رحمت علی صاحب حضرت مسیح موعود کے قدیم اور مخلص رفیق اور موصی نمبرا حضرت بابا حسن محمد صاحب کے صاحبزادے تھے.آپ مدرسہ احمدیہ کے اولین فارغ التحصیل طلبہ میں سے تھے.عربی اور دینیات کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے ۱۹۱۹ء میں ایک خادم دین کی حیثیت سے عملی زندگی میں قدم رکھا.آپ پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں عربی اور دینیات کے استاد مقرر ہوئے بعد ازاں آپ کا تبادلہ نظارت دعوۃ و تبلیغ میں ہو گیا.۱۷ / اگست ۱۹۲۵ء کی صبح کو حضرت مصلح موعودؓ کے حکم سے آپ کو جزائر سماٹرا اور جاوا میں بغرض تبلیغ بھجوایا گیا جہاں آپ نے قریباً ۲۶ سال تک اپنے بیوی بچوں سے جدا رہ کر پیغام حق پہنچانے کا فریضہ حد درجہ فدائیت اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا کہ درجنوں نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ داخل احمدیت ہوئے ہر چند کہ آپ اس عرصہ کے دوران تین مرتبہ انڈونیشیا سے واپس مرکز میں بھی تشریف لائے لیکن ہر بار تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد پھر واپس تشریف لے جاتے رہے.اور اس طرح آپ کو خدمت دین کی خاطر بہت لمبا عرصہ اپنے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب سے جدا رہنا پڑا.آخری بار آپ ۱۴ / اکتوبر ۱۹۴۰ء کو انڈونیشا تشریف لے گئے اور دس سال کے بعد ۳۰ را پریل ۱۹۵۰ء کو واپس تشریف لائے.واپسی کے بعد آپ نے بیرونی ممالک سے آنے والے مبلغین احمدیت کے ایک وفد کے ہمراہ رئیس وفد کی حیثیت سے مغربی پاکستان کا
تاریخ احمدیت 207 جلد ۲۰ کامیاب دورہ کیا.اپریل ۱۹۵۳ء میں آپ مشرقی پاکستان کے رئیس التبلیغ مقرر ہوئے.اسی دوران آپ خدمات دینیہ بجالاتے ہوئے بیمار ہو گئے اور بیماری کی حالت میں ہی یکم دسمبر ۱۹۵۵ء کو ڈھاکہ سے لا ہور تشریف لے آئے ارمیو ہسپتال لاہور میں داخل کر دیئے گئے.۲۴ /اگست ۱۹۵۸ء کو آپ لاہور سے ربوہ آگئے جہاں ۳۱ راگست ۱۹۵۸ء کو مولائے حقیقی سے جاملے.اناللہ وانا الیہ راجعون حضرت مولوی صاحب کو انڈونیشین زبان میں بڑا عبور حاصل تھا.آپ اس زبان میں تمہیں سے زیادہ کتابوں کے مؤلف تھے.خالد احمد بیت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے آپ کی وفات پر لکھا: - شہید ملت آسمانی بادشاہت کا ایک اور درخشندہ ستارہ غروب ہو گیا.مولانا رحمت علی صاحب ایک لمبی علالت کے بعد کل نماز فجر کے وقت ۶۵ سال کی عمر میں وفات پا گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ مدرسہ احمدیہ کے (جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم کیا تھا ) اولین ثمرات میں سے تھے.آپ نے مدرسہ احمدیہ سے فارغ ہو کر مولوی فاضل اور او.ٹی کا امتحان پاس کیا پھر ہائی سکول میں عربک ٹیچر رہے.۱۹۲۵ء میں جب انڈونیشیا میں مبلغ بھیجنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضرت...خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی نظر انتخاب آپ پر پڑی اور آپ کو انڈونیشیا بھیجا گیا آپ نے نہایت محنت اور جانفشانی سے فریضہ تبلیغ سرانجام دیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کے کلام میں برکت عطا فرمائی آپ نے عین شباب میں اپنی بیوی اور بچوں سے علیحدگی اختیار کر کے سالہا سال تک وہاں کام کیا.اور آپ کے ذریعہ انڈونیشیا میں متعدد جگہ پر احمدی جماعتیں قائم ہوئیں.آپ نہایت سادہ طبیعت تھے.اور ہر چھوٹے بڑے سے دوستانہ طریق پر ملتے.پہلے آپ اکیلے انڈونیشیا میں کام کرتے رہے پھر اور مبلغ بھیجے گئے تو آپ کو حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ نے رئیس التبلیغ انڈونیشیا مقرر فرمایا.انڈونیشیا سے واپس آکر آپ ایسٹ بنگال میں بطور رئیس التبلیغ بھیجے گئے.وہیں بیمار ہو گئے وہاں سے آکر پھر بیمار ہی رہے...آپ نے جس صبر اور استقلال کا نمونہ دکھایا اور جس رنگ میں سلسلہ کے لئے بے لوث اور قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں وہ قابلِ رشک ہیں اور آپ کا نام تاریخ سلسلہ احمدیہ میں ایک روشن ستارہ کی مانند درخشاں رہے گا اور جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ہمیشہ زندہ رہے گا.ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق ثبت است بر جریدہ عالم دوام نشاں 1+2
تاریخ احمدیت 208 جلد ۲۰ خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری نے لکھا: - ” ہمارے مرحوم بھائی حضرت مولوی رحمت علی صاحب مجاہد سلسہ انہی برگزیدہ بندوں میں سے ایک تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ وہ ربع صدی سے زیادہ عرصہ تک وطن سے دور اپنے اہل واقارب سے جدا ہو کر خدمتِ دین بجالائیں.ان کی یہ قابلِ رشک قربانی اور ایثار احمدیت کے نونہالوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی.اور تاریخ احمدیت ہمیشہ ان کا نام زندہ رکھے گی اور خدائے ارحم الرحمن ان کی نسلوں پر ان کے خلوص کے مطابق اپنے فضلوں کی بارش برسائے گا.اور خود حضرت مولوی صاحب جنت الفردوس میں خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے انعامات سے بہرہ اندوز ہوں گے.حضرت مولوی صاحب اپنی سادگی اور بے تکلفی کے باعث اپنے ہمعصروں میں ایک نمایاں وجود تھے.ہر بات بغیر کسی بناوٹ اور تصنع کے بیان کرتے تھے اور صاف گوئی ان کا شعار تھا.بظاہر گمان ہوتا تھا کہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے بیرونی ممالک میں شاید آپ زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت جس رنگ میں آپ کے شامل حال رہی اور جس طرح آپ نے انڈونیشیا میں احمدیت کی اشاعت میں کامیابی حاصل کی وہ اس امر پر واضح دلیل تھی کہ یہ سلسلہ خدائی سلسلہ ہے اور حضرت مولوی رحمت علی صاحب ان فدایانِ سلسلہ میں سے ایک مقبول وجود ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ خود نوازتا ہے.انڈونیشیا سے آنے والے مبلغین اور وہاں کے طلبہ سے حضرت مولوی صاحب کی ابتدائی مشکلات اور جاں شاری کے واقعات سن کر ایمان تازہ ہوتا ہے اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مرد مجاہد کی روح کو زیادہ سے زیادہ اپنے فضل کے سایہ تلے رکھے اور درجات کی بلندی عطا فرمائے.آمین.حضرت مولوی رحمت علی صاحب کی وفات سے احمدیت کے علمبرداروں کی موجودہ صف اول میں خلا پیدا ہو گیا ہے.اور خاموش و بے ریا مگر ٹھوس کارکنوں میں کمی واقع ہو گئی ہے.نئے نو جوانوں کا فرض ہے کہ اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلی پیدا کریں اور ایسی جانفشانی سے علم وعمل کی وادیوں میں جد و جہد کریں کہ جلد تر پرانے کارکنوں سے قائمقام بن سکیں.بہر حال یہ الہی سلسلہ ہے اور خدائی وعدے بہر حال پورے ہو کر رہیں گے.حضرت مولوی رحمت علی صاحب کی زندگی اور ان کی نمایاں خدمات میں ان کے والد مرحوم حضرت مولوی بابا حسن محمد صاحب کی پرسوز دعاؤں کا خاص حصہ تھا وہ بے نفس پرانے رفیق دن رات اٹھتے بیٹھتے خود بھی دعا کرتے اور دوسروں سے بھی دعا کے لئے درخواست کرتے رہتے تھے
تاریخ احمدیت 209 جلد ۲۰ کہ اللہ تعالیٰ رحمت علی سے خاص خدمت لے اور اسے کامیاب کرے.میں نے بارہا حضرت بابا صاحب ۱۰۸ کے اس دردمندانہ انداز کا مشاہدہ کیا ہے.مولانا محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا حضرت مولوی صاحب کی عظیم شخصیت ، آپ کی درویشانہ طبیعت اور دینی کارناموں اور معرکوں کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- انڈونیشیا کے باشندے عموماً سیدھے سادھے ہیں لیکن اس علاقہ کے لوگ جہاں مولوی صاحب مرحوم نے پہلی جماعت قائم کی سخت طبیعت مقلد اور متعصب ہیں اور ذرا سے اعتقادی اختلاف پر دوسرے کو قتل کر دینا ضروری سمجھتے ہیں یہی ایک علاقہ ہے جس کے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کا فر کو محض کفر کی وجہ سے قتل کر دینا کارثواب ہے.“ وہاں سے فروری ۱۹۲۶ء میں پاڈنگ تشریف لے گئے.پاڈنگ کا علاقہ انڈونیشیا میں مذہبی فوقیت رکھتا ہے.یہاں کے لوگوں کو مذہب سے محبت ہے اور پھر مذہبی علم کے حاصل کرنے کا شوق بھی ہے.اس علاقہ میں اسلامیہ کالج قائم ہیں صرف مردوں کے لئے ہی نہیں بلکہ عورتوں کے لئے بھی.انڈونیشیا کے بڑے اور مشہور علماء اسی علاقے کے باشندے ہیں.مکرم مولانا صاحب مرحوم کے وہاں پہنچنے پر آپ کی آمد کی خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں کیا سارے علاقے میں پھیل گئی.اور لوگ جوق در جوق آپ کے پاس آنے شروع ہوئے.کہ دیکھنے والے دوستوں کا کہنا ہے کہ کئی دفعہ عشاء کے بعد سے شروع ہو کر گفتگو صبح تک جاری رہتی.پوچھنے والے تو کئی ہوتے اور باری باری آتے لیکن حضرت مولوی صاحب اکیلے تھے.جوان سب کے سوالات کے جواب دیتے.زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ وہاں بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے جماعت قائم ہو گئی.اور سب سے پہلے وہاں ایک دوست فقیہ عیسی نے بیعت کی اور جب ۱۹۲۹ء میں مولانا صاحب وہاں سے واپس قادیان تشریف لائے تو اس وقت پاڈنگ شہر، ڈوگو پمپانگن میں با قاعدہ جماعتیں قائم تھیں.پاڈنگ کی جماعت کی تعداد سینکڑوں کی تھی.اور ایک ایک دو دو گھرانے تو بوکلیت تلمکی ، پاڈنگ، بیجنگ، فریامن اور باتو سنکر میں بھی تھے.غرضیکہ خدا تعالیٰ نے مکرم مولوی صاحب کو ایک بڑی اور مخلص جماعت قائم کرنے کی توفیق بخشی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.میں نومبر ۱۹۳۰ء میں مبلغین کلاس پاس کرنے کے بعد مکرم مولا نا صاحب کے ساتھ سماٹرا روانہ ہوا.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مولانا صاحب کو حکم ہوا کہ وہ مجھے سماٹرا ( پاڈنگ ) میں چھوڑ جائیں اور خود جاوا نیا مشن قائم کرنے کے لئے چلے جائیں.
تاریخ احمدیت 210 جلد ۲۰ روانگی کے وقت جو ٹی پارٹی ہمیں دی گئی اس میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو تین اہم نصائح فرمائیں اول جو لوگ زیر تبلیغ ہیں ان سے واقفیت پیدا کی جائے.دوم وہاں کی زبان اور عادات کا غور سے مطالعہ کیا جائے.سوم ملکی سیاسی معاملات میں دخل نہ دیا جائے.ان تین نصائح میں سے میرے لئے دوسری نصیحت کا دوسرا حصہ قابل تعجب تھا.یعنی لوگوں کی عادات کا مطالعہ.لیکن جب میں پاڈ نگ پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ مکرم مولانا رحمت علی صاحب کی کامیابی کا راز اسی میں مضمر ہے.انہوں نے ان لوگوں کی عادات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا.ان میں گھل مل گئے.حتی کہ ان میں سے ہر ایک یہی خیال کرتا کہ مولانا صاحب ان کے گھرانے کے ایک فرد ہیں.احمد یوں کو تو احمدیت کی وجہ سے مولانا صاحب سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ محبت پر مجبور کر رہا تھا.لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے غیر احمدیوں کو دیکھا کہ وہ بھی آپ سے بہت محبت کرتے.وہ احمدی نہ تھے لیکن وہ مولوی صاحب سے ضرور محبت کرتے اور عزت بھی کرتے.پاڈنگ میں ہمارے دار التبلیغ کے پہلو میں ایک عرب رہا کرتا تھا.جب وہ کوئی اچھا کھانا پکاتا تو مولانا صاحب کو ضرور بھجوا دیتا.اور جب ملتا تو خوشی اور محبت سے ملتا.اسی تعلق کے نتیجہ میں مولانا صاحب کے جانے کے بعد مجھ سے بھی اس کے تعلقات اچھے رہے.انڈونیشیا میں پگڑی پہننے کا رواج نہیں لیکن مولوی صاحب اور خاکسار ہمیشہ پگڑی استعمال کرتے رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں اس کا پہلا فائدہ تو یہ تھا کہ جو شخص بھی ہمیں دیکھا خیال کرتا کہ یہ نئے آدمی ہیں اس طرح کئی دفعہ گفتگو کا موقعہ مل جاتا.وہ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ دوسرے لوگوں کو یہ خیال ہوتا کہ یہ لوگ نقال نہیں.مکرم مولوی صاحب کا دلائل کی برکت سے اتنا رعب تھا کہ علماء مولانا صاحب کو دیکھ کر ڈر جاتے اور کئی لوگ یہ کہتے کہ مولوی رحمت علی صاحب کی پگڑی کے اوپر کے شملے میں جادو بھرا ہے.ایک بات جو میں نے مولانا صاحب کی دیکھی وہ یہ تھی کہ قرآن مجید ہمیشہ ساتھ رکھتے.چھوٹی سی حمائل شریف تھی سیاہ رنگ میں جلد بندھی ہوئی تھی.اور اس پر چند آیات نوٹ کی ہوئی تھیں.جب کسی سے گفتگو شروع ہوئی اور آیت پیش کرتے تو مد مقابل کے پوچھنے پر فوراً نکال کر اسے دکھا دیتے اس لئے بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ مولوی صاحب حافظ قرآن ہیں.اسی خیال کے مدنظر مجھے بھی نصیحت فرماتے کہ قرآن مجید ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا کرو.چنانچہ میں نے اس نصیحت
تاریخ احمدیت 211 جلد ۲۰ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.مولانا صاحب کے تعلقات ہر قسم کے لوگوں سے تھے.مسلمان کیا ہندو اور عیسائی کیا اور دہر یہ کیا سب کو دوست بنا رکھا تھا.ایک دفعہ ایک بد نام سا شخص بازار میں آپ کے ساتھ ہو لیا اور مولانا صاحب سے دوستانہ گفتگو کرتا رہا.وہ نوجوان تھا اور تھا بھی نا تجربہ کار.اس آدمی کے چلے جانے کے بعد ہم نے مولانا صاحب سے کہا کہ آپ ایک پاک سلسلہ کے ممبر ہیں اور پھر مبلغ لیکن آپ ایک ایسے بد نام آدمی سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور پھر بازار میں اس کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں کہنے لگے یعنی تمہیں کیا علم یہ شخص تو میری بڑی مدد کرتا ہے.پھر مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ مبلغ ایک ڈاکٹر کی حیثیت رکھتا ہے اسے زیادہ تر بیماروں سے واسطہ پڑتا ہے.جو بھی اس کے پاس آئے اُسے اس کا علاج کرنا پڑتا ہے.جب تک مبلغ ایسا نہ ہو وہ مخلوق خدا سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اس نصیحت کا بھی مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میرا نظریہ بدل گیا.اور اس نظریہ کی تبدیلی میرے لئے بہت مفید ثابت ہوئی.چونکہ سلسلہ عالیہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے اس لئے نیک نیت کارکنوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید بھی ہوتی ہے.چنانچہ پاڈنگ کے ایک درزی دوست نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ مولانا رحمت علی صاحب اس کی دکان پر ایک عیسائی سے تبادلہ خیالات کر رہے تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی.اور اس علاقہ میں جب ایسی بارش شروع ہو تو گھنٹوں برستی چلی جاتی ہے.پادری نے للکار کر کہا کہ ”اگر تمہارا مذہب اسلام سچا ہے اور عیسائیت کچی نہیں تو ذرا اپنے خدا سے کہو کہ اس موسلا دھار بارش کو بند کر دے.“ اس کا یہ مطالبہ کرنا تھا کہ مولانا صاحب نے کہا کہ ”اے بارش خدا کے حکم سے تھم جا.اور اپنے زندہ اور بچے خدا کا ثبوت دے.راوی کہتا ہے کہ چند منٹ میں ہی وہ بارش ختم ہو گئی.مکرم مولوی صاحب پاؤنگ میں ایک مخلص دوست داؤد کے گھر رہتے جو پاسر مسکین میں واقع تھا.ان علاقوں کے مکانات عموماً لکڑی کے بنے ہوتے ہیں.اس محلہ میں اتفاقا آگ لگ گئی اور تمام مکانات کو راکھ کرتی ہوئی مولانا صاحب کے مکان کے قریب تک پہنچ گئی اور اس کے شعلے مولانا صاحب کے مکان کے چھجے تک پہنچ رہے تھے.(چنانچہ میں نے شعلوں کے سیاہ نشان خود دیکھے ہیں) لیکن مولانا صاحب کہہ رہے تھے کہ یہ مکان مسیح موعود کے ایک مرید کا مسکن ہے.آگ اسے نہیں چھوئے گی.لوگ آگ کو بھی دیکھ رہے تھے اور مولانا صاحب کی بات بھی یاد کر رہے تھے کہ اچانک موسلا دھار بارش آئی اور آگ کو ٹھنڈا کر کے گزرگئی اور اُسے اجازت نہ ہوئی
تاریخ احمدیت 212 جلد ۲۰ کہ اس مکان کو نگلے.وہ مکان آج تک محفوظ ہے.اور جب ہم اکٹھے اس میں بیٹھتے تو اس واقعہ کا ذکر آ جاتا.ایک دفعہ آپ کو گفتگو کے لئے بلایا گیا.خیال تھا کہ مباحثہ ہوگا.ادھر مولوی صاحب کے ران کے نچلے حصے میں ایک بہت بڑا پھوڑا نکلا ہوا تھا اور اس قدر تکلیف تھی کہ اٹھنا بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا.روانگی کی صبح تک یہی حال تھا.آخر روانگی سے قبل انہوں نے ایک استرا منگوایا.اور استرے سے اس کو خود ہی کاٹ دیا.اور اوپر پٹی باندھ کر روانہ ہو گئے.ہر مباحثہ اور بڑے پیمانہ پر گفتگو سے قبل جب گھر سے روانہ ہوتے تو آپ کی عادت تھی کہ علیحدہ جا کر دعا کرتے.ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ کیا دعا کرتے ہیں.کہنے لگے دعا کرتا ہوں کہ اے خدا میں تو نالائق ہوں دیکھنا! میری نالائقی کی وجہ سے تمہارا مسیح موعود نالائق نہ ٹھہرے.میری مددفرمانا اور روح القدس کو مجھ پر نازل کرنا.اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی کامیابی بخشی اور گو آخر تک آپ کی ملایو زبان درست نہیں ہوئی.لیکن آپ کی بات کا اثر بہت ہوتا تھا.جاوا میں مولانا صاحب کے زمانہ میں ہی ” سینار اسلام مجلّہ شائع ہونا شروع ہوا.اور انہی کے زمانہ میں مرکزی جماعتیں جا کرتا ، بوگور ، بنڈ ونگ، گاروت، سینگا پرنا، تاسیک ملایا وغیرہ قائم ہیں.جو ہزاروں افراد پر مشتمل ہیں.اور آج ان میں سے اکثر کی آنکھیں مولانا صاحب کی وفات کی وجہ سے پرنم ہیں.اولاد ۱ - عطاء اللہ صاحب ایم اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ ۲ - لطف المنان صاحب.پنجاب ٹرانسپورٹ.بیٹی شیخ شمس الدین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ مڈھ رانجھا ضلع سرگودھا ولادت ۱۸۸۳ء بیعت دسمبر ۱۹۰۱ء.وفات ۹ ستمبر ۱۹۵۸ء) فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے بیعت کی تو بیت مبارک کی وسعت بس اتنی تھی کہ پانچ چھ آدمی نماز پڑھ سکتے تھے.ہم بٹالہ میں مولوی محمد حسین صاحب کے ہاں مہمان ٹھہرے اور پا پیادہ قادیان گئے.شام کے وقت کا کھانا بیت مبارک کی چھت پر کھایا جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور
تاریخ احمدیت 213 جلد ۲۰ حضرت مولانا نورالدین صاحب (خلیفہ اسیح الاول) کے علاوہ دس بارہ آدمی اور تھے دوسرے دن جمعہ تھا.خطبہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھا.ہم کو صرف دو دن حضور کی مجلس میں رہنے کا اتفاق ہوا اور انہی دو دنوں میں حضور کے اخلاق فاضلہ، شفقت اور میدانِ عمل میں امتیازی شان دیکھی اور حضور کے دعاوی کو سچا پایا.آپ عرصہ تک جماعت احمد یہ مڈھ رانجھا کے امیر اور پریذیڈنٹ رہے.دینی لٹریچر اور اخبار الفضل“ کے مطالعہ کا بہت شوق تھا.آپ کی ذاتی لائبریری بھی تھی.آپ تہجد گزار اور موصی بزرگ تھے.مولوی عطاء اللہ صاحب در ویش قادیان آپ کے داماد ہیں.کئے گئے.آپ نے اپنی بیوہ کے علاوہ پانچ لڑکیاں یادگار چھوڑیں اور امانتاً مڈھ رانجھا میں دفن.11.حضرت قریشی محمد شفیع صاحب بھیروی ( ولادت انداز ۱۸۶۸ء.بیعت ۱۸۹۴ء.وفات ۱۶رنومبر ۱۹۵۸ء آپ حضرت خلیفہ اسی الاول کے سگے بھانجے اور حضرت قریشی کامل دین صاحب کے صاحبزادے تھے.۳۱۳ کے رفقاء کبار کی فہرست میں حضرت مسیح موعود نے آپ کا نام ضمیمہ انجام آتھم صفحه ۴۴ نمبر ۲۵۱ پر درج فرمایا ہے.آپ میانوالی میں بطور اوورسیئر ملازم تھے اور وہیں بودوباش رکھتے تھے.آپ بڑے مخلص اور غیور بزرگ تھے.آپ کا مکان بیت نور بھیرہ کے ساتھ واقع تھا جسے آپ نے جماعت کے نام ہبہ کر دیا.آپ پر جوش داعی الی اللہ تھے.ملک منظور حسین صاحب منظور ایم اے ایم او ایل کا چشمدید بیان ہے کہ حضرت قریشی صاحب سر بازار تبلیغ کیا کرتے تھے.ان کا چہرہ جو سرخ و سفید تھا جوش تبلیغ میں کابلی انار کی طرح چمکنے لگتا تھا.تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کی مطبوعہ فہرست میں آپ کا نام صفحہ ۳۸۴ پر درج ہے.اولاد قریشی احمد شفیع صاحب جنرل مرچنٹ میانوالی قریشی غلام احمد صاحب کلکٹر.سابق مختار عام صد را انجمن احمد یہ ۱۱۴
تاریخ احمدیت 214 جلد ۲۰ حضرت حکیم قاضی محمد حسین صاحب ( والد ماجد مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری ) کور و وال تحصیل وضلع سیالکوٹ ولادت ۱۸۸۱ء.بیعت ۱۹۰۴ ء.وفات ۶ / دسمبر ۱۹۵۸ء آپ کے والد حضرت شیخ ( قاضی ) نجم الدین صاحب سلسلہ احمدیہ کے قدیم عشاق میں سے تھے جنہیں ۱۸ فروری ۱۸۹۲ء کو مسیح محمدی کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل تھی.آپ نے ۱۹۰۴ء میں داخل احمدیت ہونے کا شرف پایا.آپ کے پوتے جناب قاضی مبشر احمد صاحب مقیم عجمان الامارات المتحده ص، ب، ۱۱۹۷) کا تحریری بیان ہے کہ 114 اپنے دادا جان حکیم قاضی محمد حسین صاحب رفیق سیدنا حضرت مسیح الموعود و مهدی الموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں عرض ہے.آپ کو اپنے خاندان میں سب سے پہلے قبولیت احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت اقدس مسیح الموعود و مہدی مسعود علیہ الصلوة والسلام امام الزمان کی شناخت تسلی و تشفی کے بعد آپ داعی الی اللہ کے لئے سب سے پہلے اپنے ہی خاندان کی طرف متوجہ ہوئے.اور زبر دست جد و جہد کے بعد بفضل تعالیٰ بہت سے اہل خاندان کو ہم خیال بنالیا.مگر اس سلسلہ میں اپنے بڑے بیٹے حضرت قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری‘ سے جب بھی بات چیت ہوتی مناظرے کا رنگ اختیار کر لیتی اور یہ سلسلہ کافی مدت تک یونہی چلتا رہا.دادا جان یعنی میاں جی کو اللہ تعالیٰ نے مسیح الزمان کی شناخت عطا فرمائی تھی اور تایا جان یعنی بابا جی کو اس وقت دنیا وی علم کا گماں تھا.چنانچہ کوئی بھی ہار ماننے کے لئے تیار نہیں تھا.اسی دوران حضرت بابا جی کوئی امتحان ( غالباً مولوی فاضل یا عربی فاضل ) دے کر آئے.حضرت میاں جی نے باباجی کو فرمایا کہ محمد نذیر حضور ایدہ اللہ کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے خط تحریر کر دو.بابا جی نے جوابا کہا کہ جب مجھے علم ہے کہ امتحان میں کیا کرنا تھا اور میں کیا کر کے آیا ہوں تو خط لکھنے کی کیا
تاریخ احمدیت 215 ضرورت ہے.حضرت میاں جی کو اس جواب سے سخت صدمہ اور مایوسی ہوئی کہ ایک ہونہار بیٹے کا یہ جواب دین و آخرت سے حقیقتاً دور لے جانے والا تھا.تب میاں جی نے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر اولاد کی خیر چاہی اور دعا یہ کی کہ اے اللہ میرے بیٹے کو اس دنیوی امتحان میں فیل کر دے.خدا کی شان جب نتیجہ آیا تو بری طرح ناکام ہو گئے جو حضرت بابا جی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا.مگر پھر جلد ہی باپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اگلے امتحان میں خدا قدوس نے دل موڑ دیا.اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نہ صرف شیدائی و خادم ہو گئے بلکہ اپنی زندگی کا مقصد ہی صرف اور صرف داعی اللہ بن گیا.جو نہ صرف ہمارے خاندان کی پہچان بن گئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی خدمتوں کی توفیق عطا فرمائی.وقف زندگی کے بعد حضرت بابا جی کے بارے میں کچھ لکھنا یا کہنا حضور ایدہ اللہ سے زیادہ کون جانتا ہوگا.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو اپنی رحمت و شفقت و قربت میں جگہ عطا فرمائے.آمین.یہ واقعہ میری والدہ مرحومہ موصیبہ اور والد صاحب کی زبانی علم ہوا تھا.جو آپ دادی جان کے پنجابی لفظوں میں کچھ یوں بیان کیا کرتی تھیں.پیو پتر جہدوں وی چھنگیر تے روٹی کھان واسطے اکٹھے ہوندے وو سان قل پندے سان.“ یعنی باپ بیٹا جب بھی کھانا کھانے کے لئے اکٹھے ہوتے دینی مسئلہ مسائل میں الجھ پڑتے تھے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ہر فرد یقیناً کوئی نہ کوئی معجزہ سے لازمی گزرا ہو گا.ایسا ہی ایک واقعہ عرض ہے.حضرت میاں جی بہت دعا گو بزرگ تھے.اور میرے والد صاحب مرحوم قاضی محمد منیر صاحب کا ذریعہ معاش لوگوں کی زمینوں میں ٹیوب ویل لگا کر زمین سراب کرنے کا تھا.ایک موقعہ پر دھان ( مونجی ) کی فصل کے دوران اچانک ایک ٹیوب ویل کا بور یعنی پانی آنا بند ہو گیا.فوری طور پر دوسرا بور کرانا پڑا مگر عین آخر میں لوہے کے پائپ نہ نیچے جائیں اور نہ ہی واپس اوپر آئیں.کئی روز مسلسل جدو جہد کے بعد بھی کوئی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 216 بہتری کی صورت نظر نہ آتی تھی.نا کامی کی صورت میں ناقابل تلافی نقصان تھا.تب حضرت میاں جی اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کے لئے دعاؤں میں مشغول ہو گئے.رات آخری پہر کو والد صاحب کو یاد کیا اور حکم دیا کہ جاؤ اسی وقت بور کرانے کا انتظام کراؤ.وہاں جا کر دیکھا تو ایسا لگا جیسے کبھی کوئی مشکل پیدا ہی نہ ہوئی ہو.الحمد للہ یہ واقعہ گاؤں کے اکثر غیر از جماعت کے علاوہ مجھے بڑی ہمشیرہ صاحبہ مسٹر ملک غلام نبی صاحب شاہد سابق مبلغ افریقہ نے بھی سنایا تھا.(۲) محترم چچا جان ڈاکٹر قاضی محمد بشیر صاحب سابق پرنسپل گھٹیالیاں کالج زمانہ طالب علمی میں سمبڑیال سے گاؤں کو ر و وال پیدل رات کو آ رہے تھے.راستے میں دو ڈاکوؤں نے روک لیا.چچا جان نے کہا کہ میرے پاس صرف میڈیکل کی چند کتب ہیں جو تمہاری سمجھ اور کام میں نہیں آئیں گی.البتہ ایک نشتر بھی ہے یہ رکھ لو.یہ کہہ کر بڑی پھرتی سے نشتر ایک ڈاکو کو دے مارا.اس کی دلخراش شیخ سے دوسرا بھاگ گیا.یہ بھی سمجھے اس چاقو نما نشتر لگنے سے مر گیا ہے.آپ بھی جلد بازی میں نشتر کو وہیں چھوڑ کر گھر بھاگ آئے.گھر آکر بتایا تو سبھی سخت پریشان ہو گئے.صبح صبح دیکھا تو چند لوگ کسی کو چار پائی پر ڈالے ہمارے گاوں کی جانب آرہے تھے.گاؤں کے قریب پہنچے تو ہمارے گھر کی طرف ہی رخ کر لیا.اب تو افراد خانہ کا سانس بھی بند ہونے لگا.صرف حضرت میاں جی انتہائی پر اعتماد اور دعاؤں میں مشغول تھے.ان لوگوں نے آکر بتایا کہ رات کو کسی ڈاکو نے اس نشتر سے حملہ کر کے زخمی کر دیا تھا.لہذا بغرض علاج کے لئے میاں کے پاس آئے تھے.یہ سن کر سب کی جان میں جان آئی.اور یہ معمہ ہمیشہ خاموش ہی رہا.حضرت میاں جی نے غیر احمدی علماء کے علاوہ عیسائیوں سے کئی زبانی اور تحریری مناظرے کئے.اب عیسائیوں یا پادریوں کو صرف اتنا معلوم ہو جائے کہ ہم قاضی صاحب کے خاندان سے ہیں تو وہ نہ تو کوئی بات کرتے ہیں اور نہ ہی بظاہر مخالفت کرتے ہیں.جس سے سخت فکر ہوتی ہے کہ کوئی حق کی طرف مائل نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ بدستِ دعا ر ہتے ہیں کہ مولا کریم جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 217 اس بنجر زمین کو بھی سرسبز فرمائے.حضرت میاں جی کا ایک یادگار میرے لئے نایاب قلمی نسخہ پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں بطور ہدیہ عرض خدمت ہے.امید ہے حضور از راہ شفقت قبول فرمائیں گے.جس سے حضور کو اندازہ کرنے میں مدد ملے گی کہ بے شمار گمنام احمدی ستاروں کی طرح یہ بزرگ بھی صرف علماء سے ہی نہیں بلکہ عیسائیت کی دجالی قوت سے ٹکرانے میں کبھی بھی پیچھے نہیں ہوئے تھے.حضرت میاں جی کو امام الزمان کے قدموں میں سعادت حاصل کرنے کے بعد طرح طرح کے ظلموں وستم اور بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا.اس کے ساتھ ہی مصائب کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی شروع ہو گیا.اپنا سگا بھائی ڈاکٹر عنایت اللہ جو صرف پہلی تنخواہ لے کر ہی آئے تھے کہ زہر دے کر کسی نے مار دیا.والد جو گمشدگی میں ہی کہیں فوت ہو گئے.جن کے بارے میں بتایا جاتا تھا کہ آپ نے بھی بذریعہ خط بیعت کر لی تھی.(واللہ اعلم بالصواب) پہلی بیوی داغ مفارقت دے گئی اوپر نیچے تین جوان بچے گزر گئے.مخالف جماعت جو بظاہر ہمدرد لگتے تھے اکثر حضرت میاں جی کو طنزاً حضرت مسیح الموعود المهدی موعود علیہ السلام کا قول بتایا کرتے تھے کہ کچھ مصائب اپنے گنا ہوں سے پیدا ہوتے ہیں.اور آپ نے چونکہ نعوذ باللہ جھوٹے نبی کو مان لیا ہے اس لئے دنیا میں بھی اس کا اجر مل رہا ہے.اس کے ساتھ تحریک شدی تحریک احراری ۵۳ء کے فسادات ، عزیزوں کے ظلم ، معاشی تنگی ، آپ نے ہر طرح کا زمانہ پایا.مگر آپ ہمیشہ دعائیں بھی کرتے اور دوا بھی دیتے رہے.کچھ نہ ہوا تو اپنے غیر از جماعت عزیزوں نے کھانے میں زہر ملا دیا.تمام اہل خانہ سخت مشکل میں پڑ گئے.اتفاقاً وہ سالن صرف میاں جی نے محض اس لئے نہ کھایا کہ آپ نفلی روزہ سے تھے.بعد میں بفضل تعالیٰ حضرت میاں جی کی تیمار داری سے اور دعاؤں سے سب کی جان بچ گئی.(الحمد للہ ) حضرت میاں جی کی خدمت خلق اور معاف کرنے کی عادت کی وجہ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 218 جلد ۲۰ اولاد سے دشمن بھی آہستہ آہستہ عزت کرنے لگے.اور اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے جب سے ہم نے ہوش سنبھالا اپنے گھرانے کو بڑا با عزت پایا.۱۹۵۳ء کے فسادات میں حالات بڑے خراب تھے.پورے گاؤں میں صرف تین گھرانے احمدیوں کے تھے.یہاں بھی جتھے اور جلوس اردگرد کے گاؤں سے آتے تھے.ایک خونخوار جلوس پر ملٹری ایکشن بھی ہوا.تو ان ہی ایام میں چند مکار قسم کی عورتیں میری والدہ مرحومہ کے پاس آئیں.اور کہنے لگیں کہ قیمتی قیمتی اشیاء آپ ہمارے گھر میں رکھوادیں.جب حالات نارمل ہوں گے تو آپ واپس لے لینا.میری والدہ مرحومہ نے انتہائی جرات سے کہا کہ ہماری قیمتی چیزیں ہاتھوں میں اسلحہ لے کر ہم لوگوں کی حفاظت کے لئے دن رات چھتوں پر بیٹھے پہرہ دے رہے ہیں.جب یہ نہیں رہیں گے تو تم بھی آکر اپنا حصہ بانٹ لینا.یہ عورتیں شرمندہ ہوکر چلی گئیں.یہ عورتیں چونکہ گھر کے حالات کا جائزہ بھی لینے آئی ہوئی تھیں.اتفاق سے اس وقت بچے خالی کارتوسوں سے کھیل رہے تھے.جو تقریباً دو گھڑے پانی والے“ میں آتے تھے.چونکہ والد صاحب مرحوم کو اپنے وقت میں شکار کا بہت شوق تھا.اور خالی کارتوس بچے جمع کرتے رہتے تھے یہ سب دیکھ کر وہ عورتیں سمجھیں کہ ان کے گھر اسلحہ کے انبار ہیں.گھر سے نکلتے ہی شور مچاتی ہوئی بھاگ گئیں اور کسی کو گھر کی طرف دیکھنے کی جرات نہ ہوئی.۱۱۹ ا - قاضی مولانا محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری ( وفات ۱۵ ستمبر ۱۹۸۰ء) ۲ - قاضی محمد منیر صاحب ( وفات ۱۹ ستمبر ۱۹۸۵ء ) ۳ - قاضی عبدالحمید صاحب (وفات ۲۴ را پریل ۱۹۷۸ء) حضرت چوہدری بڑھے خان صاحب آف رجوعہ ضلع منڈی بہاؤالدین ولادت ۱۸۴۳ء.بیعت ۱۹۰۳ ء.وفات ۱۹۵۸ء) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰۳ء میں ایک مقدمہ کے سلسلہ میں جب جہلم
تاریخ احمدیت 219 جلد ۲۰ تشریف لے گئے تو اس علاقہ کے لوگوں کو بھی احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.پھر سلسلہ کے نامور عالم اور بزرگ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب کے ذریعہ بھی ضلع گجرات میں کثرت سے لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا اور جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.چنانچہ تحصیل پھالیہ کے ایک گاؤں رجوعہ اور اس کے ماحول کے نیک فطرت دیہاتیوں نے امام الزمان کو قبول کیا اب یہ گاؤں ضلع منڈی بہاؤالدین میں شامل ہے.قبل ازیں ضلع گجرات میں شامل تھا.مضمون نگار کے آباء و اجدا در جوعہ گاؤں میں سکونت پذیر رہے ہیں.احمدیت کے قیام کی یہ داستان موصوف کی معلومات پر مبنی ہے.مکرم چوہدری مرزا خاں صاحب سابق صدر جماعت احمد یہ رجوعہ نے بیان کیا کہ جوعہ تحصیل پھالیہ میں حضرت حکیم مرزا علی احمد صاحب امام الصلوۃ اس علاقہ کے مشہور حکیم بھی تھے وہ اپنے خطبات میں امام مہدی کی آمد کے متعلق قرآن و احادیث میں پائی جانے والی پیشگوئیاں بیان کیا کرتے تھے.انہوں نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے دعویٰ مسیح موعود کے بارہ میں سنا تو قادیان جا کر بیعت کر لی.بعد میں باقی چاروں بھائیوں نے بھی بیعت کر لی.ان میں سے دو کے نام مرزا نور احمد اور مرزا سلطان احمد تھے.....جب ان کی بیعت کا علم لوگوں کو ہوا تو ان کی سخت مخالفت ہوئی.مکرم چوہدری سکندر خاں صاحب راں کو حضرت حکیم مرزا علی احمد کے ذریعہ پیغام پہنچا تو وہ بھی قادیان گئے اور بیعت کر کے آئے تو ان کے دوسرے بھائی جنجر خاں صاحب، عمر دین صاحب، امام الدین صاحب اور فضل دین صاحب بھی احمدی ہو گئے.مکرم غلام احمد صاحب راں موجودہ صدر جماعت احمد یہ ان کی اولاد میں سے ہیں.ایک پوتے مکرم سردار خاں ولد خوشی محمد کی اولاد چک نمبر ۳۲ جنوبی ضلع سرگودھا میں آباد ہے.حکیم برادران پڑے لکھے لوگ تھے مختلف شہروں میں جا کر آباد ہو گئے.جب اس چھوٹے سے گاؤں میں دس خاندان حلقہ بگوش احمدیت ہوئے تو علاقہ بھر میں ایک شور برپا ہو گیا دعوت الی اللہ کا ماحول پیدا ہو گیا.مخالف علماء نے ان نو احمدیوں کو ڈرانے دھمکانے کا رویہ اختیار کیا تا کہ یہ احمدیت سے منحرف ہو جائیں.چنانچہ رجوعہ میں علماء کو بلایا گیا ان سے تقاریر کروائی گئیں آخر اس سلسلہ میں ایک مباحثہ کی طرح ڈالی گئی حضرت مولانا غلام رسول را جیکی صاحب اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: - سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حین حیات میں ایک دفعہ موضع رجوعہ تحصیل پھالیہ کے بعض احباب مجھے اپنے ساتھ لے گئے.جب
تاریخ احمدیت 220 جلد ۲۰ میں ان کے گاؤں میں پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہاں کے غیر احمدی لوگ حافظ مولوی قطب الدین صاحب ساکن چک میانہ کو جو اس علاقہ میں شہرت رکھتے تھے احمدیوں کو بہکانے کے لئے لائے ہوئے ہیں اور یہ بھی سنا گیا کہ انہوں نے ایک مجلس میں قرآن مجید اور احادیث سے غلط استدلال کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی اور دلائل کی تردید کی بھی کوشش کی ہے.خیر جب میں وہاں پہنچا اور لوگوں کو بھی میرے آنے کی اطلاع مل گئی تو ایک اجتماع کی صورت میں مولوی صاحب مذکور سے مباحثہ شروع ہو گیا اس مباحثہ میں جب خدا تعالیٰ نے مولوی صاحب کو کھلی کھلی شکست دی اور ان کے سب دلائل ٹوٹ گئے لوگوں پر خاص اثر ہوا اور چوہدری قطب الدین صاحب اور چوہدری بڑھا صاحب وڑائچ اس وقت احمدی ہو گئے.“ حیات قدسی حصہ دوم ص ۷۱ - ۷۸ ) خاکسار کے پڑدا دا مکرم چوہدری بڑھے خاں صاحب وڑائچ نے جون ۱۹۰۳ء میں ۶۰ سال کی عمر میں احمدیت قبول کی.آپ راں برادران کے داماد تھے.احمدیت قبول کرنے سے قبل آپ نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ قرآن تقسیم کر رہے ہیں تو میں نے بھی ایک قرآن ان سے لے لیا.یہ ان کے حضرت مسیح موعود کو قبول کرنے کی طرف اشارہ تھا.چنانچہ قبول احمدیت کے بعد آپ قادیان گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شرف ملاقات حاصل ہوا آپ اپنی ملاقات کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں :- ’ ایک دفعہ میں قادیان آیا.نئے مہمان خانہ میں چار چار پائیاں نئی تھیں اور ایک پرانی.حضرت صاحب تشریف لائے اور ایک پرانی اور ٹوٹی ہوئی چار پائی پر بیٹھ گئے.قریباً چھ سات آدمی اور کھڑے تھے سب کو فر مایا کہ بیٹھ جاؤ.ہمیں بڑی شرم محسوس ہوئی کہ حضرت صاحب ایک چھوٹی سی چار پائی پر بیٹھ گئے ہیں جو پرانی ہے.ہم اچھی چارپائیوں پر کیسے بیٹھ سکتے ہیں.ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ایک مولوی صاحب نے کہا کہ یوں تو آپ حضرت صاحب کا ادب کر رہے ہیں مگر حضور کے فرمان کا انکار کر رہے ہیں.اس پر ہم بیٹھ گئے.میں بالکل حضور کے سامنے بیٹھا تھا.میرے ساتھ بٹالہ کے ہند و تحصیلدار کا چپڑاسی بیٹھا ہوا تھا.اس نے مجھے حضور کے آگے سے
تاریخ احمدیت 221 جلد ۲۰ ہٹانے کی کوشش کی.جب دو تین دفعہ اس نے ایسا کیا تو میں اس کی طرف متوجہ ہوا.تو اس نے کہا کہ پیچھے تحصیلدار بیٹھا ہے وہ حضور کی زیارت کرنا چاہتا ہے.میں نے کہا وہ تو بٹالہ سے آئے ہیں اور میں ضلع گجرات سے آیا ہوں.میں نے جب اونچی آواز سے کہا تو حضور نے فرمایا کہ جس جگہ بیٹھے ہو بیٹھے رہو.ایک دفعہ ہم یہاں آئے.طاعون کا ہماری طرف زور تھا.ہم نے عرض کیا کہ حضور طاعون کا زور ہے.فرمایا جب کوئی چوہا مرے تو فوراً باہر نکل جانا چاہئے اور کنوئیں پر ڈیرہ لگا لیا کرو.ہم نے عرض کی کہ حضور باہر کوئی مکان نہیں ہوتا.فرمایا : - چوتھیوں کی پائلیں بنالیا کرو.( یعنی عارضی خیمے بنالیا کرو) ہمارے گاؤں کا ایک شخص عمر تھا.اس کے متعلق مشہور تھا کہ جب کبھی وہ حضرت صاحب کے پاس آتا تھا حضور سے لپٹ جاتا تھا.ایک دفعہ ہمارے ساتھ بھی آیا.کوئی ۹۸ بجے کا وقت تھا حضور ( بیت ) مبارک میں تشریف فرما تھے.ہم حاضر ہوئے تو عمر حضور سے لپٹ گیا.اور عرض کیا کہ حضور دل چاہتا ہے کہ آپ کو اس طرح اپنے گھر لے جاؤں.حضور نے زبان سے کچھ نہیں فرمایا مگر اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھے رکھا.(رجسٹر روایات نمبر ۱۲ ص ۵۴،۵۳) مکرم مرزا خان صاحب ( جو حضرت بڑھے خاں صاحب کے بیٹے اور خاکسار کے والد کے چچا ہیں ) بیان کرتے ہیں کہ چوہدری قطب دین صاحب کے احمدی ہونے کے بعد ان کے سب بھائی بھی احمدیت میں شامل ہو گئے.حضرت مسیح موعود جب مقدمہ مولوی کرم دین کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے تو اس موقعہ پر رجوعہ کے مزید چار افراد مکرم محمد الدین صاحب، مکرم خدا بخش صاحب، مکرم کریم بخش صاحب اور مکرم حسن محمد صاحب زمیندار بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.اس طرح رجوعہ کے گاؤں کا اہم حصہ احمدیت کی آغوش میں آ گیا تو ۲۳ خاندانوں پر مشتمل جماعت قائم ہوگئی.حضرت چوہدری بڑھے خاں صاحب چونکہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے حتی کہ قرآن مجید ناظرہ بھی نہیں پڑھ سکتے تھے.احمدیت قبول کرنے سے قبل آپ نے جو خواب دیکھا تھا اس خواب
تاریخ احمدیت 222 جلد ۲۰ کی بناء پر حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب سے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا جو ایک سال کے اندر مکمل طور پر پڑھ لیا.حضرت چوہدری صاحب کا ڈیرہ لوگوں کے راستہ پر تھا اس لئے آپ ڈیرہ پر حقہ تیار رکھتے اور آنے جانے والے مسافرستانے کے لئے اکثر آجاتے.آپ ان کو بتاتے کہ دیکھو امام مہدی آگیا ہے قادیان جا کر دیکھ لو.اس طرح دعوت الی اللہ کا کام ہوتا رہتا.آپ مالی قربانی میں بھی حصہ لیتے رہے.لمبا عرصہ خدمت دین کے کاموں میں حصہ لینے کا موقع ملا.مکرم چوہدری مرزا خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہمارا ایک مقدمہ عدالت میں چل رہا تھا جس میں حضرت چوہدری بڑھے خاں صاحب کے تینوں بیٹوں اور چاروں پوتوں کو قید ہونے کی سزا کا خدشہ تھا اگر چہ یہ سب جھوٹے مقدمے میں ملوث تھے.چوہدری مرزا خاں صاحب کہتے ہیں میں پیشی سے ہو کر آیا ایک سرکاری کارندے نے مجھے ترغیب دی کہ پانچ سو روپے رشوت دیں تو سب کی جان چھڑوا دیتا ہوں.میں نے کہا کہ کل تک لے کر آجاؤں گا.میں نے والد صاحب سے ساری حقیقت بیان کی آپ نے فوری طور پر پانچ سو روپے کا بندو بست کر لیا اور صبح میرے ساتھ چل پڑے.راستے میں دعوت الی اللہ کرتے ہوئے نماز ظہر کے وقت پھالیہ پہنچ گئے.ظہر کی نماز ادا کی.والد صاحب نے بہت لمبا سجدہ کیا جس سے میں پریشان ہو گیا میں نے آواز دے کر کہا کہ اب تو دفتر بھی بند ہونے والے ہیں.تب سجدہ سے سر اٹھایا.نماز کے بعد سیدھے ڈاکخانے چلے گئے.میں پیچھے پیچھے تھا.ڈاکخانے جاتے ہی وہ پانچ سو روپیہ قادیان منی آرڈر کر دیا اور پھر حج صاحب کی کوٹھی کی طرف روانہ ہوئے میں نے کہا کہ اب کیا لینا ہے وہ رقم تو آپ قادیان بھجوا چکے ہیں.مجھے بڑے تحمل سے فرمایا میاں اس رقم کی خدا تعالیٰ کے دین کو ضرورت تھی جو میں نے بھجوا کر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے.اب خدا تعالیٰ کو دیے ہوئے کا نظارہ دیکھ لینا.آپ آگے آگے جا رہے تھے اور میں ان کے پیچھے تھا.عدالت ایک بلند جگہ پر تھی.سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑتا تھا.( یہ کوٹھی آج بھی پھالیہ میں موجود ہے اور حج کی رہائش گاہ ہے ) ہم سیڑھیاں چڑھنے لگے آگے آگے والد صاحب اور میں پیچھے تھا میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خوبصورت نوجوان ٹوپی پہنے ہوئے چچا جی چچا جی کہتا نیچے دوڑا آرہا ہے اور والد صاحب کو گلے لگا لیا اور کہتا ہے کہ آپ کہاں.والد صاحب نے کہا کہ میرے بچوں کو بے گناہ سزا دے رہے ہیں.میں اسے حقیقت حال بتانا چاہتا ہوں اس نے کہا چچا جی حج تبدیل ہو گیا ہے اور میں اس کی جگہ آ گیا ہوں.چنانچہ بعد میں نئے جج صاحب نے دوسری تاریخ پر فریقین کی صلح کروا دی.اس
تاریخ احمدیت 223 جلد ۲۰ طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی مدد فرمائی.حضرت چوہدری بڑھے خاں صاحب نے ۱۹۵۸ء میں تقریباً ۱۱۵ سال کی عمر میں وفات پائی.آپ کی تدفین رجوعہ کے قبرستان میں ہوئی.تحصیل پھالیہ کے ہر گاؤں میں حضرت چوہدری صاحب کے جاننے ولے لوگ اب تک بھی موجود ہیں.اور ان کا نام بڑی عزت سے لیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ان مخلصین کی قربانیاں قبول فرمائے اور ان کے لگائے ہوئے اس پودا کو ثمر آور کرے.آمین.
تاریخ احمدیت فصل ششم 224 دوسرے مخلصین جماعت کا ذکر خیر ۱- محمد مغل صاحب ( عرف مغلا ) ساکن کوٹ محمد یار چنیوٹ ضلع جھنگ ( وفات ۱۸ مارچ ۱۹۵۸ء ) ۱۲۴ جلد ۲۰ آپ کے چھ بھائی تھے اور سبھی چور تھے لیکن آپ کو چوری سے فطرتاً نفرت تھی اور آپ گریہ و بکا کرتے کہ اے میرے ہادی مجھے راہ مستقیم پر چلا اور ان کاموں سے نجات دے.کچھ عرصہ بعد سمیع و بصیر خدا نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو کسی ذریعہ سے احمدیت کا پیغام پہنچا.آپ والدین اور بھائیوں سے چوری چھپے راتوں رات چک جھمر تک پیدل پہنچے.کرایہ پاس نہ تھا گاڑی میں بیٹھ کر بھوکے پیاسے لاہور تک آئے.یہاں پہنچ کر آپ کی پٹائی ہوئی مگر کہا میں نے قادیان ضرور جانا ہے.آخر کئی دن کے بعد پیدل قادیان پہنچے.چند روز کے بعد حضرت خلیفہ ایچ الاول کے دستِ مبارک پر بیعت کر لی اور واپس اپنے گاؤں آ گئے.ماں باپ اور بھائیوں کو پتہ لگا تو انہوں نے مارا پیٹا مگر آپ حق و صداقت کی چٹان بن گئے اور سچائی کا ایسا نمونہ قائم کر دیا جو ہمیشہ مشعل راہ کا کام دے گا.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : - جھنگ کا ہی ایک واقعہ ہے یہاں ایک دوست احمدی ہوئے جن کا نام مغلا تھا ان کے تمام رشتہ دار ان کے سخت مخالف ہو گئے.اس علاقہ کے لوگ چوری کو ایک فن سمجھتے ہیں.اور پھر اس پر فخر کرتے ہیں.چنانچہ جتنا بڑا کوئی چور ہو گا اتنا ہی وہ چوروں میں معزز ہوگا.مثلاً کہا جائے گا فلاں آدمی بڑا معزز ہے اس لئے کہ فلاں موقع پر اس نے اتنی بھینسیں نکال لیں یا فلاں آدمی بہت معزز ہے کہ اس نے اتنی گائیں نکال لیں اور پھر چوروں میں اس حد تک نظام قائم ہوتا ہے کہ ہر علاقہ میں جو چند ضلعوں یا چند تحصیلوں پر مشتمل ہوتا ہے علاقہ کے سب چور اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں.اور مال
تاریخ احمدیت 225.مسروقہ میں سے اس کا حصہ نکالتے ہیں.مغلا ایسے ہی بادشا ہوں میں سے ایک تھے جو بعد میں احمدی ہو گئے اور چوری سے انہوں نے تو بہ کر لی.انہوں نے بتایا کہ علاقہ کے چور مال مسروقہ کا پانچواں یا دسواں یا بارہواں حصہ میرے گھر پر لاتے تھے اور وہ سنایا کرتے تھے کہ چوروں کے اندر ایسا نظام موجود ہے کہ بعض چوری کی ہوئی چیزوں کو دو دو تین تین سومیل تک پہنچا دیا جاتا ہے.ہر ایک جگہ کا اڈہ مقرر ہوتا ہے اور پہلے سے ہی یہ طے ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسروقہ چیز مشرق کے کسی علاقہ کی طرف نکالنی ہو تو اتنے میل پر فلاں آدمی کو دے آؤ.اور اگر مغرب کو مال نکالنا ہے تو چھ سات میل پر ایک دوسرے آدمی کو دے آؤ.اسی طرح شمال اور جنوب میں ایک ایک آدمی مقرر ہوتا ہے.چور مخصوص حالات کے مطابق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مال فلاں طرف نکالا جائے.مثلاً اگر وہ دیکھتا ہے کہ جس کے ہاں چوری کی گئی ہے اس کی رشتہ داریاں مشرق میں ہیں تو وہ مسروقہ مال مغرب کی طرف بھیج دے گا.اور اگر رشتہ داریاں مغرب میں ہیں تو وہ اسے مشرق کی طرف بھیج دیتا ہے اسی طرح اگر اس کی رشتہ داریاں شمال کی طرف ہیں تو وہ مال جنوب کی طرف بھیج دے گا.اگر رشتہ داریاں جنوب کی طرف ہیں تو وہ مال شمال کی طرف بھیج دے گا.مثلاً بیکانیر گورداسپور سے کتنی دور ہے لیکن ہمارے علاقہ کا مسروقہ مال بریکا نیر جاتا تھا.پھر چوروں میں ایک قسم کا نظام ہوتا ہے مثلاً ایک شخص اگر کوئی جانور چوری کرتا ہے تو وہ حالات کے مطابق اسے دس بارہ میل پر کسی مقررہ اڈے پر پہنچا دے گا اور اسے مثلاً دسواں حصہ قیمت کا مل جائے گا.پھر دوسرا آدمی اسے دوسرے اڈے تک پہنچا دے گا اور اسے دسواں حصہ قیمت کامل جائے گا.اس طرح وہ ایک عام اندازہ لگا کر قیمت کے حصے کرتے جائیں گے اور آخری وقت اسے بیچ کر اپنا حصہ پورا کرے گا.مغلا جب احمدی ہوئے تو انہوں نے قومی عادت یعنی چوری کو ترک کر دیا.اور جھوٹ بولنا بھی چھوڑ دیا.کیونکہ یہ ابتدائی جرم ہوتا ہے ان کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا.کیونکہ وہ سمجھتے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 226 تھے کہ مغلا کافر ہو گیا ہے.لیکن بعد میں پتہ لگا کہ ان کا لڑکا کافر ہو کر سچ بولنے لگ گیا ہے اور چوری بھی اس نے چھوڑ دی ہے.چور چوریاں کرتے تھے اور پولیس اور دوسرے لوگ ان کا تعاقب کرتے تھے.عدالتوں میں بات اور ہوتی ہے اور انسان وہاں جھوٹ بول کر گزارہ کر لیتا ہے لیکن برادری یا پنچایت میں یہ بات مشکل ہوتی ہے کہ کوئی اپنا قصور چھپا لے.عدالتوں میں بتانے والے لوگ نہیں ہوتے ہیں اس لئے مجرم جو چاہے بیان دے دے.لیکن برادری اور پنچایت میں وہ اگر جھوٹ بولے گا تو فوراً بعض واقف لوگ کھڑے ہو جائیں گے جو اس کا جھوٹ ظاہر کر دیں گے.غرض جب چور چوریاں کر کے گھروں میں واپس آتے تو تعاقب کرنے والے بھی پہنچ جاتے.اور کہتے تم نے ہمارا مال چرایا ہے لیکن وہ کہتے نہیں.اور اکثر قرآن کریم بھی اٹھا لیتے.لوگ چونی اٹھنی پر قسمیں کھا لیتے ہیں.پھر بھینسیں یا گائے پر وہ قرآن کریم کیوں نہ اٹھاتے.تعاقب کرنے والے چوروں کی قسموں پر اعتبار نہ کرتے اور کہتے لاؤ مغلے کو اگر وہ کہہ دے کہ تم نے مال چوری نہیں کیا تو ہم مان لیں گے.وہ وہاں پہنچتے اور مغلے سے کہتے تم گواہی دو کہ ہم نے ان کا مال نہیں چرایا.وہ کہتے میں کیسے کہوں کہ تم نے مال نہیں چرایا.کیا تم فلاں مال چرا کر نہیں لائے.ان کے بھائی کہتے کیا تم ہمارے بھائی ہو یا ان کے بھائی.وہ کہتے اس میں کوئی شک نہیں کہ تم میرے بھائی ہو لیکن کیسے ہوسکتا ہے کہ میں جھوٹی گواہی دوں.وہ انہیں مارتے پیٹتے اور سمجھتے کہ اب مارکھا کر اسے عقل آگئی ہوگی لیکن وہ دوبارہ یہی کہہ دیتے کہ تم نے چوری کی ہے.میاں مغلا سنایا کرتے تھے کہ جب کوئی چوری کا معاملہ میرے سامنے آتا تو میں خیال کرتا کہ اگر سچ بولا تو میرے بھائی اور رشتہ دار مجھے ماریں گے اور اگر جھوٹ بولا تو گناہ گار ہو جاؤں گا.اس لئے میں کہہ دیتا میں تو آپ کے نزدیک کافر ہوں.پھر آپ میری گواہی کیوں لیتے ہیں.وہ کہتے تم کافر تو ہو لیکن بولتے سچ ہو.پھر میں کہتا میرا اس معاملہ سے کیا واسطہ.لیکن وہ میرا پیچھا نہ چھوڑتے.میرے بھائی اور رشتہ دار مجھے چٹکیاں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 227 جلد ۲۰ کاٹتے اور مجبور کرتے کہ میں جھوٹ بول دوں.لیکن میں کیا کہتا.تم لائے تو تھے فلاں بھینس.پھر میں جھوٹ کیسے بولوں.نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ مجھے خوب مارتے.وہ دوست تنگ آکر قادیان آگئے اور ایک احمدی انجینئر خاں بہادر نعمت اللہ خاں صاحب مرحوم نے جنہوں نے ربوہ کے قریب دریائے چناب ۱۲۵ 66 کا پل بنایا تھا انہیں ملازم کرا دیا." آپ کے صاحبزادے مکرم بشیر احمد طاہر صاحب حال مقیم سوئٹزر لینڈ آپ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ” میرے والد صاحب بزرگوار میاں محمد مغل مرحوم جن کو عرف عام میں مغلا کہا جاتا ہے ان کا اصل نام تو محمد مغل تھا لیکن دیہاتی ماحول و رواج کے زیر اثر ان کو مغلا کہا جاتا تھا.بعدہ جماعت میں پھر وہ اسی نام سے جانے پہچانے جاتے تھے.آپ چنیوٹ کے نزدیک دریائے چناب کے شمال مشرقی کنارے پر ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹ محمد یار میں رہتے تھے.اعوان خاندان تھا.اگر چہ والد صاحب کی کوئی دنیوی تعلیم نہ تھی لیکن احمدیت قبول کرنے کے بعد عام رواج کے مطابق انہوں نے گاؤں کے مولوی صاحب سے قرآن مجید ناظرہ پڑھ لیا تھا.جیسا کہ بعد میں ذکر کروں گا احمدیت کی روشنی پانے پر کئی ایک احادیث اور قرآن مجید کی آیات یاد تھیں.اس زمانہ میں ( آغاز بیسویں صدی عیسوی ) ظہور امام مہدی کا بہت چرچا تھا.آپ تک بھی خبریں پہنچتی تھیں.تاریخ احمدیت سے ثابت ہے کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لالیاں میں کچھ رفقاء تھے جو پا پیادہ قادیان جاتے تھے.بڑے بھائی ملک منظور احمد صاحب انور مرحوم کے بقول چنیوٹ میں دو رفیق حضرت مولا بخش صاحب اور حضرت شیخ تاج محمود صاحب تھے.والد صاحب کی ان سے ملاقات ہو گئی.والد صاحب چارہ کاٹتے اکثر دعا کرتے کہ الہی امام مہدی کا ظہور ہو گیا ہے تو ان کو بھی دیکھنے کی سعادت عطا فرما لیکن قادیان جانے کی کوئی صورت نہ بنتی تھی.آپ غالباً ان رفقاء میں سے کسی کی معرفت قادیان پہنچے اور
تاریخ احمدیت ہیں :- 228 حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے دستِ مبارک پر بیعت کی.جلد ۲۰ ( تابعین اصحاب احمد حصہ دہم ) بیعت کے بعد آپ کی شدید مخالفت شروع ہو گئی.میرے چچا رعب و دبدبہ والے تھے اور مویشی وغیرہ کی چوری میں ماہر بھی تھے.چوروں کی پشت پناہی بھی کرتے تھے.کسی کو ان کے خلاف گواہی دینے کی جرأت نہ ہوتی تھی مگر والد صاحب ہمیشہ ان کے خلاف سچی گواہی دیتے تھے اور ان کے غضب کا نشانہ بنتے تھے.بڑے بھائی بیان کرتے تھے کہ اس زمانہ میں بیت مبارک قادیان میں نماز مغرب کے بعد مجلس عرفان ہوتی تھی اور حضرت مصلح موعود تشریف فرما ہوتے.کم لوگ ہوتے تھے.ابا میاں حضور انور کے پاؤں وغیرہ دباتے.محبت و پیار کی باتیں ہوتیں.حضور انور فرماتے سناؤ مغلا.واقعات سناؤ.تو ابا میاں اپنے بھائیوں کے اور دیگر دلچسپ واقعات سناتے.ایسے واقعات حضرت خلیفہ ثانی نے کئی ایک خطبات یا تقاریر میں بیان کئے ہیں.حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی از راہ شفقت ۳۰ جون ۱۹۹۵ء کے خطبہ جمعہ میں اور بعدہ اردو کلاس نمبر ۱۳۴ میں حضرت خلیفہ ثانی کی تقاریر کے حوالہ سے ذکر فرمایا کہ مغلا ماریں کھاتے رہے لیکن حق نہیں چھپایا اور ہمیشہ سچ بولا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی والد صاحب کے ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ”ایک دفعہ سکھوں نے میری گھوڑیاں چرالیں اور پولیس نے میرے خیال میں انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی.لیکن چونکہ پولیس والے ایسے معاملات میں مجرموں سے کچھ لے کر کھا پی بھی لیتے ہیں اس لئے وہ سفارش بھی لے آئے کہ انہیں معاف کر دیں اور اپنی رپورٹ واپس لے لیں.یہ لوگ گھوڑیاں واپس دے دیں گے.ان کا خیال تھا کہ اگر انہوں
تاریخ احمدیت 229 جلد ۲۰ شادی نے معاف کر دیا اور پولیس نے اپنی رپورٹ واپس لے لی تو بعد میں گھوڑیاں غائب کر دی جائیں گی.میں نے کہا میں ایسا نہیں کروں گا.ہمارے وہ دوست میرے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا میں نے سنا ہے سکھوں نے آپ کی گھوڑیاں چرا لی ہیں.وہ لوگ سیدھی طرح تو گھوڑیاں واپس نہیں کریں گے.آپ اجازت دیں تو میں ان کی گھوڑیاں چوری کروا دوں.اس طرح وہ آپ کی گھوڑیاں واپس کر دیں گے.میں نے کہا آپ نے تو بہ کی ہوئی ہے اپنی تو بہ پر قائم رہیں.گھوڑیوں کی خیر ہے..........غرض جب کوئی شخص سچائی کے ساتھ کام کرتا ہے تو خدا تعالیٰ خود اس کا بدلہ لیتا ہے.مغلا جب احمدی ہوئے تو انہوں نے قومی عادت یعنی چوری کو ترک کر دیا.اور جھوٹ بولنا بھی چھوڑ دیا.کیونکہ یہ ابتدائی جرم ہوتا ہے ان کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مغلا کا فر ہو گیا ہے.لیکن بعد میں پتہ لگا کہ ان کا لڑکا کا فر ہو کر سچ بولنے لگ گیا ہے اور چوری بھی اس نے چھوڑ دی ہے.66 ۱۲۶ والد صاحب کے رشتہ دار کہا کرتے تھے کہ تم برادری سے کٹ گئے ہو اب تمہارا رشتہ نہیں ہو گا.اس لئے برادری میں رشتہ تو ناممکن تھا.آپ قادیان اکثر آتے جاتے تھے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سے خاص دوستی تھی.اکثر ان کے ہاں ہی قیام کرتے اور رشتہ کے بارہ میں دعا کی بھی اکثر درخواست کرتے.ہم زبان بھی تھے.خاکسار راولپنڈی میں تھا.۱۹۷۰ء کی بات ہے مرحوم سید اعجاز احمد شاہ صاحب جن کو ایک لمبا عرصہ بطور انسپکٹر بیت المال خدمات سلسلہ کی سعادت ملی.ایک شام کسی مجلس میں مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تمہاری والدہ ملتان کی تھیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا.کہنے لگے کہ تمہیں پتہ ہے کہ تمہارے والد صاحب کی شادی کیسے ہوئی تھی.میں نے لاعلمی کا اظہار کیا.کہنے لگ تو سنو ! قادیان میں قیام کے دوران تمہارے والد صاحب ایک بار پھرتے پھراتے آئے.قیام تو حسب معمول حضرت مولانا را جیکی صاحب کے ہاں ہی تھا.حضرت مولانا راجیکی صاحب کسی تحریر میں مشغول تھے.تمہارے والد صاحب نے حسب عادت و معمول رشتہ کے لئے دعا کی درخواست کی.حضرت مولانا نے تحریری
تاریخ احمدیت 230 جلد ۲۰ کام میں گہرائی کی وجہ سے مداخلت پر ناراضگی کا اظہار کیا جس کا مفہوم تھا کہ میں نے تمہارے لئے یہاں رشتے رکھے ہوئے ہیں.ادھر سے آتے ہو تو رشتہ کی بات ، ادھر سے آتے ہو تو رشتہ کی بات.والد صاحب سناٹے میں آگئے کہ لو مولوی صاحب بھی خفا ہو گئے.خاندان کی اذیت و تکلیف پر اس سہارے کا بھرم بھی ٹوٹتا نظر آیا.دل غم سے بھر گیا اور صبر کا بندھن ٹوٹ گیا.آنکھوں کے نیر ٹپ ٹپ گرنے لگے.حضرت مولانا نے جو خاموشی دیکھی تو نگاہ اوپر اٹھائی ، آنسوؤں کا امڈتا ہوا ایک ریلا نظر آیا.فوراً اٹھے اور والد صاحب کو گدی سے پکڑ کر کمرے میں جائے نماز پر لے گئے کہ جتنا رونا ہے یہاں رولے.جو کچھ ملے گا یہاں سے ملے گا، میرے پاس کچھ نہیں.کچھ دنوں کے بعد ملتان سے ایک شخص آئے اور حضرت مولانا راجیکی صاحب سے کہا کہ میری دو بیٹیاں ہیں ایک کی شادی تو بامر مجبوری غیر از جماعت رشتہ داروں میں ہو چکی ہے.دوسری کی شادی میں چاہتا ہوں کہ احمدی سے ہو.زندگی کا اعتبار نہیں.حضرت مولانا نے فرمایا ہاں ہاں ایک زمیندار گھرانے سے ہی نوجوان ہے دیکھ لو.میرے نانا مرحوم حافظ قرآن تھے اور ادھر ملتان کے کسی نزدیکی گاؤں سے آئے تھے.نانا جان مرحوم نے کہا کہ نہیں نہیں آپ کو منظور ہے تو مجھے بھی منظور ہے.یہ میرا پتہ ہے نوجوان کو بھیج دینا.واپس آکر حضرت نانا جان مرحوم نے گھر کے افراد کو بتا دیا.افرادِ خانہ (میرے ماموں وغیرہ) ناراض ہو گئے کہ نہ دیکھا نہ بھالا ، نہ انتہ نہ پتہ، زبان دے آئے.ادھر والد صاحب کے ملنے پر حضرت مولانا راجیکی نے خوشخبری سنائی اور پتہ دے کر لودھراں بھیجا.قادیان سے واپسی پر تقدیر الہی سے نانا جان جلد ہی فوت ہو گئے.اس کے بعد اگلے واقعات ماموں جان مرحوم روتے ہوئے بیان کرتے تھے کہ جب تمہارے والد صاحب آئے تو میں نے زبان، کلچر ، ظاہری طور طریقے دیکھ کر فوراً انکار کر دیا.اور تمہاری والدہ صاحبہ کو بھی انکار کرنے پر زور دیا اور کئی قسم کے نقص نکالے.تمہاری والدہ مرحومہ نے صاف کہہ دیا کہ وہ ایسے ہی ہیں جیسے آپ بیان کرتے ہیں لیکن ایمان تو ہے ناں.میں ہر گز انکار نہیں کروں گی.والد صاحب ( خاکسار کے نانا جان مرحوم ) نے جہاں زبان دی ہے میں ہرگز ہرگز اس سے انکار نہیں کروں گی.چنانچہ شادی کی تاریخ مقرر کر دی گئی.ادھر برادری میں والد صاحب نے آکر بتایا تو سب مذاق کریں کہ تمہارے ساتھ کسی نے دل لگی کی ہے.تمہیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے.بہر حال حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی معیت میں کل چار افراد کی بارات
تاریخ احمدیت 231 جلد ۲۰ سے والد صاحب، والدہ مرحومہ کو بیاہ لائے.یہ رشتہ کیا با برکت ثابت ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہم سب پر کیا کیا فضل نازل فرمائے یہ ایک لمبی داستان ہے.اولاد خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم ایک بہن اور پانچ بھائی ہیں.بڑے بھائی مرحوم ملک منظور احمد صاحب انور تھے جو مکرم عزیزم رشید احمد صاحب ارشد مبلغ سلسلہ انگلستان کے والد تھے.عزیزم رشید احمد ارشد صاحب نے جامعہ احمدیہ سے تعلیم پا کر پھر مرکزی ہدایت پر چینی یونیورسٹی سے چینی زبان میں ڈگری لی اور آج کل اسلام آباد ٹلفورڈ ، انگلستان میں مولانا محمد عثمان چاؤ (چینی) کے ساتھ مل کر چینی زبان میں ترجمہ و تالیف کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں.خاکسار کے ایک بھائی مکرم منیر احمد صاحب جو سکول کی ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں دوسرے بڑے بھائی ملک لطیف احمد صاحب شاد ہیں اور احمد یہ بک ڈپو کراچی کے انچارج ہیں.سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں.سب سے چھوٹا بھائی ڈاکٹر خلیل احمد ناصر PCSIR لیبارٹری کراچی میں سینئر سائنٹیفک آفیسر (Senior Scientific Officer) ہیں.بڑی بہن کی شادی حضرت عبداللہ سنوری صاحب کے خاندان میں ہوئی.وہ لاہور میں ہیں.ان کے بیٹے ڈاکٹر لطیف احمد ٹیچی مان (غانا) میں نصرت جہاں سکیم کے تحت احمد یہ ہسپتال میں قریباً چھ سال گزار کر اب پاکستان واپس جاچکے ہیں.خاکسار بشیر احمد طاہر مع بیوی بچوں کے خدا تعالیٰ کے فضل سے سوئٹزر لینڈ میں ہے.الحمد للہ علی ذالک والد صاحب مرحوم جن کے بارہ میں برادری نے اعلان کیا تھا کہ ان کی شادی نہیں ہوگی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اور...احمدیت کی برکت سے اتنی اولاد دی کہ اگر اکٹھا کیا جائے تو پورا ایک گاؤں آباد ہو سکتا ہے.اولاد واحفاد کی تعداد ستر (۷۰) سے اوپر جا رہی ہے.دوسری طرف والد صاحب کے بھائی بہنیں جو احمدیت کے مخالف تھے ان میں سے میرے ایک چا قتل ہوئے.دوسرے بغیر شادی کے وفات پاگئے.بڑے چا کے دو بیٹے تھے لیکن اب کوئی نرینہ اولاد نہیں اور نسل ختم ہو گئی.والد صاحب کی دو بہنیں تھیں.ان کی نسل سے بھی کوئی نرینہ اولاد نہ چلی سوائے ایک آدھ کے.اور ان کی نسل بھی برائے نام ہے.اس میں بھی عقل اور سمجھ رکھنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ کے بڑے نشان ہیں.والد صاحب شروع میں عام دینی تعلیم سے نابلد تھے.ہاں احمدیت قبول کرنے کے بعد
تاریخ احمدیت 232 جلد ۲۰ اوائل جوانی میں گاؤں کی مسجد کے مقامی مولوی سے قرآن مجید ناظرہ پڑھ لیا تھا اور آخری عمر تک اس کی تلاوت کثرت سے کرتے رہے.دوسری طرف خدا تعالیٰ کے فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان کی برکت سے آپ علم و معرفت میں بہت ترقی کر گئے.کئی ایک احادیث اور آیات قرآن مجید یاد تھیں.غیر از جماعت افراد اور ہندوؤں سے بہت بحث مباحثہ کرتے اور احمدیت کی صداقت پر دلائل دیتے.تبلیغ کے لئے نئے نئے طریقے نکالتے......ابھی اپنے بھائیوں کے ساتھ زمیندارہ کرتے تھے.شادی نہیں ہوئی تھی.مخالفت زوروں پر تھی.ادھر پیغام حق پہنچانے کا جذبہ و جنون بھی دل میں موجزن...ہمارے علاقہ میں عورتیں کھیتوں میں کام کرنے والے مردوں کے لئے (چاہے سردیوں میں توے کی روٹی ہو خواہ گرمیوں میں تندور کی ) ایک ایک بڑی روٹی پکایا کرتی تھیں.چنانچہ آپ کی بھی ایک ہی روٹی ہوتی تھی.آپ اکثر کسی نہ کسی کو تبلیغ کرتے کرتے کھانے پر لے آتے.جھگڑا ہوتا کہ اب اس کو کہاں سے دیں.والد صاحب فرماتے ” میری گلی اینہوں دیو چا.“ یعنی میری روٹی اسے دے دیں.اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ آپ کھیت میں اکیلے چارہ کاٹ رہے تھے کہ آپ کے گاؤں میں کسی دردناک گیت ( پنجابی ڈھونے ) کی آواز پڑی.دیکھا تو ایک عمر رسیدہ شخص گیت گا تا اور روتا جا رہا تھا.آپ کا دل پسیج گیا ، بلایا، حالات سنے، پوچھا کہاں کا ارادہ ہے.وہ بولا فلاں پیر کے پاس دعا کے لئے جا رہا ہوں.آپ نے فرمایا کہ بابا ایک بات تو بتاؤ کہ جب سورج نکل آئے تو کیا دیئے، بتیاں جلتی رہتی ہیں کہ بجھا دیتے ہیں.اس نے کہا کہ بجھا دیتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اب چھوڑو بابا ان دیوں، بتیوں کو.سورج نکل آیا ہے، امام مہدی آ گیا ہے اسے مان لو تمہارے دکھ دور ہوں گے.چنانچہ اسے دوسرے دن چنیوٹ لے جانے کی غرض سے اپنے ساتھ کرلیا.گھر جاتے ہوئے سوچا کہ مخالفت شدید ہوگی، اسے پھسلانے اور گمراہ کرنے کے لئے کوشش ہوگی.کیا ترکیب ہو.خدا تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی.اس بوڑھے کو کہنے لگے کہ دیکھو بابا! میرے گھر والے اور دوسرے لوگ تمہیں مجھ سے بدظن کریں گے اور تمہیں جدا کریں گے.کئی ایک قسم کی باتیں کریں گے.تم صرف ایک بات کہنا ” مغلا جو کہندا اے سچ کہندا اے، مغلا جو کہندا اے سچ کہندا اے.یعنی مغلا جو کہتا ہے سچ کہتا ہے.آپ نے اس کو اس بات پر اچھی طرح مضبوط کر لیا.چنانچہ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا.لیکن بابا بھی ہر بار یہی کہے کہ ”مغلا جو کہندا اے سچ ر,
تاریخ احمدیت 233 جلد ۲۰ کہندا اے.‘ گاؤں کے رشتہ دار اور دوسرے لوگ تو تھک گئے کہ مغلے نے خوب پٹی پڑھالی ہے، یہ بابا کسی کی نہیں سنتا.دوسرے دن چنیوٹ جاتے ہوئے غالباً بازار سناراں میں لوگوں نے پہلے تو بابے کو گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار بابے کے یہ کہنے پر کہ ”مغلا جو کہندا اے سچ کہندا اے ( کہ مغلا جو کہتا ہے سچ کہتا ہے ) اسے زبر دستی والد صاحب سے چھین کر کسی جگہ بند کر دیا اور والد صاحب کو کسی اور جگہ بند کر دیا.کافی دیر کے بعد الگ الگ وقتوں میں چھوڑا.والد صاحب نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکا.والد محترم نے اپنے سب بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا.میرے دو بڑے بھائی منظور احمد صاحب انور اور لطیف احمد صاحب شاد مڈل تک قادیان میں پڑھے.ہم تین چھوٹوں کی تعلیم زیادہ تر تعلیم الاسلام ہائی سکول و کالج ربوہ میں ہوئی.مجھے اچھی طرح یاد ہے تقسیم ہند کے بعد ہم لاہور میں تھے.بڑے بھائی منظور احمد صاحب انور حلقہ برانڈرتھ روڈ کے محصل مقرر ہوئے.چندہ جات کا حساب کتاب کرتے دیکھ کر والد صاحب بہت خوش ہوتے کہ ان کا بیٹا خادم دین ہے.گھر میں مغرب وعشاء کی نماز باجماعت ہوتی.جلسہ سالانہ قادیان اور پھر ربوہ جانے کا خاص انتظام کرتے.ہر سال بطور زائر مشاورت پر جانے کا خاص اہتمام فرماتے.پگڑی پہنتے تھے.لباس شلوار قمیص اور سردیوں میں لمبا بڑا کوٹ پہنتے تھے.۱/۱۰ حصہ کے موصی تھے.تحریک جدید میں با قاعدہ تھے.خاکسار نے حضور انور کی مبارک تحریک پر ان کی طرف سے چندہ دینا شروع کیا تھا.چند سال قبل خیال آیا کہ والد صاحب کا ریکارڈ مرکز سلسلہ سے منگواؤں.تحریک جدید مرکز یہ سے تفصیل آنے پر خاکسار نے ان کے وعدہ کو بڑھا بڑھا کر ۲۰۰۰ ء تک کل رقم ادا کر دی.ان کی آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے وعدہ کی ادائیگی چندہ کا حساب لگایا تو ہم آج ہزاروں لینے والے بھی تناسب سے ابھی ان کی قربانی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ پار ہے.حضور انور رحمہ اللہ نے درست فرمایا تھا کہ ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کے پھل کھا رہے ہیں.والد صاحب بہت دعا گو تھے.دنیاوی تعلیم نہ ہونے کے باوجود احمدیت نے ان کے قلب صافی میں نور ہی نور بھر دیا تھا.پارٹیشن کے بعد مالی حالات بہت ہی مخدوش تھے.ہماری کاپی پنسل تک کے لئے پیسے نہ ہوتے.بڑے بھائی لطیف احمد صاحب شاد بیان کرتے ہیں کہ میاں جی (والد صاحب) کو جب کہا جاتا کہ یہ بے بسی و غربت کب ختم ہوگی.جب آپ کی دعائیں خدا تعالیٰ سنتا ہے تو یہ کیوں دعا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مالی کمزوری دور فرمائے.وہ مسکرا دیتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ کیا کہے گا کہ مانگا بھی تو کیا مانگا.خدا تعالیٰ تمہیں سب کچھ دے
تاریخ احمدیت 234 جلد ۲۰ گا.گاڑیاں ( کاریں ) بھی مل جائیں گی.خدا تعالیٰ سے دنیا مانگتے مجھے شرم آتی ہے.میں تو تمہارے لئے دین مانگ رہا ہوں.اسی طرح کچھ عرصہ کے لئے چندہ میں سے تخفیف کرانے کی منت کی جاتی تو فرماتے خدا تعالیٰ کیا کہے گا کہ واہ مغلے میرے پاس آنے کا وقت آیا تو چندہ روک دیا.یہ ہرگز نہیں ہوگا.وفات سے ایک آدھ سال قبل جبکہ میں ابھی مڈل بھی پاس نہ کر پایا تھا، آپ عارضی طور پر چیچو کی ملیاں ایک پاور ہیڈ ورکس پر ملازم تھے.نہ جانے کیا خیال آیا، مجھے بلایا ( خاکسار لاہور پڑھتا تھا اور دو چار چھٹیاں ہونے پر شکار کرنے آپ کے پاس چلا جاتا تھا.خلیل سے پرندوں کا شکار کرنا اور کنڈی سے مچھلیاں پکڑنا بڑا مشغلہ تھا).کہنے لگے بشیر ! میں تم سے ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں.میں نے کہا کیا ؟ فرمانے لگے کہ وعدہ کرو کہ میٹرک کے بعد زندگی وقف کرو گے.میں نے لاعلمی کی وجہ سے پوچھا وہ کیا ہوتا ہے.آپ نے فرمایا کہ...کی تبلیغ کے لئے زندگی دے دینا.میں غیر از جماعت مولوی حضرات کے کرتوت و اعمال بد دیکھتا، پڑھتا تھا.چنانچہ اس تاثر سے مولوی سپن سے شدید نفرت تھی.والد صاحب نے غالباً سمجھایا اور بندہ نے بادل ناخواستہ ہاں کر دی.لاہور میں مڈل کے ورنیکلر امتحان میں میرے ہائی نمبر تھے.ہیڈ ماسٹر نے میرے حالات جانتے ہوئے سٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا کہ اپنے والد صاحب کو بلا لاؤ.میں میاں جی (والد صاحب کو ہم میاں جی کہتے تھے ) کو بلا لایا.ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ بابا تمہارا بیٹا لائق ہے، تم اسے پڑھا نہیں سکتے.یہ مجھے دے دو.میری اولاد نہیں میں اسے اعلیٰ تعلیم دلاؤں گا.والد صاحب نے میری طرف دیکھا، میں سر جھکائے کھڑا تھا.میں نے سر کی ہلکی سی جنبش سے انکار کر دیا.ہیڈ ماسٹر نے دیکھا تو کہنے لگا با با بچے سے کیا پوچھتے ہیں فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ بچے نے.والد صاحب بڑی سادگی سے فرمانے لگے چبل کھاتے اپنے پڑھنا کہ میں.‘ کہ اس بیوقوف نے پڑھنا ہے کہ میں نے.بہر حال بحث تمحیص کے بعد بندہ نے سرٹیفکیٹ لے لیا اور ربوہ جماعت نہم میں داخلہ لے لیا.رہائش گاؤں کے مکان میں رکھی جو والد صاحب کی ملکیت میں تھا.خدا تعالیٰ کا فیصلہ آپکا تھا.اسی سال والد صاحب بیمار ہوئے.دسمبر میں بڑے بھائی لطیف احمد شاد صاحب ان کو جلسہ سالانہ کے بعد کراچی بغرض علاج لے آئے لیکن آپ جلد ہی ۱۹۵۸ء میں وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.خاکسار نے میٹرک کیا.احمدیت کے بارہ میں شعور قدرے بیدار ہو چکا تھا.زندگی وقف کی.وکالت دیوان نے منظوری دیتے ہوئے جامعہ احمدیہ میں داخل کروا دیا.یہ تو مجھے بعد
تاریخ احمدیت 235 جلد ۲۰ میں علم ہوا کہ مجھے داخلہ والد صاحب بزرگوار کے مرتبے کی وجہ سے ملا کیونکہ اس وقت کے اکثر بڑے بزرگ اور سلسلہ کے عہدیدار والد صاحب کو جانتے تھے.اگر چہ میٹرک میں میری ہائی فرسٹ ڈویژن تھی تاہم والد صاحب کے علم و معرفت کے مقابلے میں ابھی طفل مکتب تھا جو گھٹنوں کے بل بھی نہ چل سکے.تقدیر الہی سے بیمار ہوا.ہر چند ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ( مرحوم ) اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد (خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ ) نے انتہائی نگہداشت و توجہ سے ایلو پیتھی و ہومیو پیتھی علاج فرمایا لیکن کوئی فرق نہ پڑا.آخر وکالت دیوان نے بورڈ بٹھا کر فیصلہ فرمایا کہ خاکسار بیماری کی وجہ سے آئندہ تعلیمی بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور اولیٰ جماعت سے فارغ کر دیا گیا.حضرت سید میر داؤد احمد صاحب (مرحوم) نے مجھے بڑے پیار سے رخصت کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ بشیر تمہارا وقف خدا تعالیٰ کے نزدیک منظور ہے لیکن سلسلہ کی اپنی مجبوریاں ہیں.جامعہ احمدیہ میں اس ڈیڑھ دو سال کے عرصہ نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی.خاکسار نے خدا تعالیٰ کے فضل سے بعد میں ایف.اے ، بی.اے اور پھر حضرت میر داؤ د احمر صاحب کے مشورہ واعانت سے ملازمت کے دوران ہی بی.ایڈ کر کے اپنے آپ کو پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی خدمت میں پیش کر دیا.جس پر نصرت جہاں سکیم کے دفتر سے اطلاع ملی کہ ٹھیک ہے جب ضرورت پڑی بلا لیں گے.آج ہم جو کچھ ہیں ، اپنے فقیر منش در ولیش باپ اور مہاجر ماں جن کا نام بھی ہاجرہ بی بی تھا کی درد بھری دعاؤں کے طفیل فضل الہی کی بارش کے نتیجہ میں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آسمان سے نازل ہوئی.میری والدہ محترمہ بھی نہایت نیک اور دعا گو خاتون تھیں.گاؤں کی بوڑھی چند ایک احمدی عورتیں ہمیں روتی ہوئی بتاتی تھیں کہ تمہاری والدہ مرحومہ درمشین کی نظمیں اسلام سے نہ بھا گو راہ ہدی یہی ہے اور حمد وثناء اسی کو جو ذات جاودانی، بہت پڑھتی تھیں.سجدات میں غیر احمدی شریک برادری (چیاں) کی عورتوں کے ظلم و ستم سہتی ہوئی روتی اور بہت دعا کرتی تھیں.یہ چچیاں اپنے صحن کا کوڑا کرکٹ تمہاری والدہ مرحومہ کے صحن میں پھینک دیتیں.خاکسار کے بڑے بھائی منظور احمد صاحب انور مرحوم کے بیان کے مطابق والد صاحب کے تعلقات جن بڑے رفقاء سے تھے اور جن کی صحبت صالحہ سے فیضیاب ہوئے ان میں سے سرفہرست حضرت میر محمد الحق صاحب، حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ، حضرت مولوی محمد صادق صاحب،
تاریخ احمدیت 236 جلد ۲۰ حضرت مولانا غلام سرور صاحب، حضرت میاں محمد صدیق صاحب بانی اور شاہ ولی اللہ صاحب ہیں.ان کے گھروں میں بھی بے تکلفی سے چلے جاتے.قادیان میں قیام عموماً حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کے ہاں ہوتا.اور بعض دفعہ بیوی بچوں سمیت حضرت محمد صدیق صاحب بانی کے ہاں بھی قیام کرتے.ہم تین چھوٹے بھائی ابھی بہت ہی صغرسنی میں تھے کہ والدہ مرحومہ ایک جلسہ سالانہ سے چند روز قبل داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.والد صاحب نے اس صدمہ اور غم کو کس صبر وشکر سے برداشت کیا واللہ اعلم بالصواب.خاکسار نے اپنی پھوپھی جان اور بہن بھائیوں وغیرہ سے بعض واقعات سنے جو دلچسپ بھی ہیں اور ازدیاد ایمان کا موجب بھی.پھوپھی جان بیان کرتی تھیں کہ خاندان کے افراد جب کوئی جانور وغیرہ چوری کر کے لاتے اور پکڑے جانے کا خطرہ سر پر منڈلانے لگتا تو فوراً اس جانور کو ذبح کر دیتے.گوشت تو گھروں میں تقسیم کر دیا جاتا اور جانور کی اوجھڑی ، انتڑیاں ، گوبر ، خون وغیرہ باڑے کے درمیانے حصہ میں بڑا سا گڑھا کھود کر دیا دیا جاتا اور اوپر گوبر وغیرہ ڈال کر اپنے جانور باندھ دیتے.تمہارے والد صاحب ایسی ہنڈیا نہیں کھاتے تھے اور کہہ دیتے مجھے اپنی بھینس کے دودھ سے روٹی دے دو.اسی طرح کا واقعہ میرے چھوٹے پھوپھا جی سناتے تھے ( میری چھوٹی پھوپھی جان بھی بڑی نیک خاتون تھیں.والد صاحب سے بہت پیار تھا.ان کی شادی سانگراں سے جانب جنوب چناب کے کنارے کسی گاؤں میں ہوئی تھی.مرحومہ دریائے چناب میں ڈوب کر فوت ہوئیں ) کہ ایک شادی کے موقع پر ہم نے چوری کا جانور ذبح کر ڈالا.رات کو تمہارے والد صاحب نے کھسر پسر سن لی.دوسرے دن صبح سویرے اٹھے اور خاموشی سے چنیوٹ اپنے گاؤں کی راہ لی.ہمیں پتہ چلا تو لگے منت سماجت کرنے.تمہارے والد کہیں کہ تم نے چوری کا جانور ذبح کیا.میں حرام گوشت نہیں کھاؤں گا، نہ رہوں گا.بھائیوں کے ساتھ زمیندارہ کرتے تھے.مقامی مسجد کے مولوی صاحب سے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا.صبح سویرے قرآن مجید کا سبق بھی لینا اور پھر جانوروں کے لئے چارہ بھی کاٹنا.پھوپھی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار چارے والی کھیتی ذرا دور دریا کے نزدیک تھی.دوسرے بھائی چارہ صبح سویرے کاٹ کر اپنے حصے کے جانوروں کو ڈالتے تو آپ کے اباجی کے حصے والے
تاریخ احمدیت 237 جلد ۲۰ جانور بیچارے بے چین ہو جاتے اور دوسرے جانوروں کو کھاتا دیکھ کر رسے توڑتے اور اس طرح جانوروں میں بھی لڑائی ہوتی اور بھائیوں میں بھی.اسی طرح کے ایک جھگڑے میں تمہارے والد نے غصہ میں آکر کہہ دیا ایہہ کیاری مگروں وی نہیں لہندی.“ کہ اس کیاری کا چارہ ختم ہونے میں نہیں آتا.مراد تھی کہ میں نے قرآن مجید کا سبق بھی پڑھنا ہوتا ہے اور اتنی دور سے پھر چارہ بھی کاٹنا ہوتا ہے.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس سال سیلاب آیا اور وہ پوری کی پوری کیاری ( کھیت ) دریا برد ہو گئی.بھائی طعنہ دیں کہ لے مغلا کہتا تھا کہ کیاری سے جان نہیں چھوٹتی.یہ کیاری ہمیشہ کے لئے چلی گئی.خاندان کے پاس گائیں بھینسیں اور دوسرے جانور بہت تھے.پھوپھی صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ تمہارے والد صاحب گھر میں جھگڑا کھڑا دیتے کہ ہم پر زکوۃ لازم ہے، ان کی زکوہ نکالو.لیکن دوسرے بھائی اس طرف توجہ نہ دیتے تھے.ایک سال جانوروں میں بیماری پھیل گئی اور بہت سے ڈھور ڈنگر مر گئے.تمہارے والد خوب ہنستے کہ لو اور زکوۃ نہ دو." احمدیت میں داخلہ پر خاندان میں رشتہ کا سوال ہی نہیں تھا.لیکن ماں آخر ماں ہے.یعنی ہماری دادی صاحبہ کو فکر رہتی تھی.پھوپھی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ تمہارے والد چوری چھپے قادیان چلے جاتے.لیکن والدہ کو بتا دیتے کہ وہ کہاں جارہے ہیں.اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ آدھی رات کے وقت (بقول پھوپھی صاحبہ ) کمرے میں کھسر پسر ہوئی.اندھیرا تھا.میں والدہ کے قریب ہی دوسری چار پائی پر سوئی ہوئی تھی.تمہارے والد صاحب نے ماں سے آہستہ سے کہا کہ ”اماں ساتھ ائے ماں بولی ” پتر ساک اے کتھے اے.‘ والدہ اونچا سنتی تھی.والد صاحب اونچا بولنا نہیں چاہتے تھے.مبادا کسی کو خبر ہو جائے.ہر بار والد صاحب کہتے ”اماں ساتھ اے.‘ ساتھ اے سے مراد تھی کہ میرا کوئی ساتھ ہے جس کے ساتھ قادیان جارہا ہوں.والدہ ہر بار پوچھتی ” پتر دس کتھے ساک اے.“ ( بیٹا بتاؤ رشتہ کہاں ہے؟) پنجابی میں ” ساک“ رشتہ کو کہتے ہیں.غرض اس دلچسپ مکالمہ میں پھوپھی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میری ہنسی نکل گئی.والد صاحب نے پیار بھرے انداز میں ڈانٹ کر کہا اچھا تمہیں پتہ لگ گیا ہے تو اب چپ رہنا ، زبان بند رکھنا.بہر حال ماں نے کچھ تمبا کو دیا کہ بیچ کر سفر کا خرچہ پورا کر لینا.وو آپ قادیان آتے جاتے رہتے تھے.جب بھی خاندان سے دل کبیدہ و مضطر ہوتا ، قادیان چلے جاتے.بھائی پیچھا کرتے اور حضرت خلیفہ اسیح ثانی سے منت سماجت کر کے واپس لے جاتے.اسی طرح کا ایک واقعہ ہے.ریل تو نہیں تھی.لاہور چک جھمرہ لائکپور (فیصل آباد )
تاریخ احمدیت 238 جلد ۲۰ ,, ریل تھی.والد صاحب کچھ پیدل، کچھ ٹانگے اور کچھ ریل پر سفر کرتے.ایک بار کرا یہ کم تھا.جہاں تک ممکن تھا ٹکٹ لے لیا.ٹکٹ چیکر نے پکڑ لیا کہ ٹکٹ دکھاؤ.والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی جھوٹ موٹ کہانی بناؤں تو یہ سراسر غلط ہے.کہاں جانا ہے“ کے جواب میں قادیان کا نام لوں تو ا تار بھی دیا جاؤں گا اور سزا بھی ملے گی.سوچا ” خاموش رہو.“ اب بار بار ٹکٹ چیکر پوچھے ٹکٹ کہاں ہے، کہاں جانا ہے؟ ” ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والا منظر.والد صاحب اسے دیکھیں ، آنکھوں سے آنکھیں چار ہوں لیکن کوئی جواب نہ ملے.وہ ٹکٹ چیکر گونگا بہرہ سمجھ کر چلا گیا.والد صاحب بیان کرتے تھے کہ کوئی جو مرضی سمجھے میں نے جھوٹ تو نہیں بولا اور قادیان بھی پہنچ گیا.والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ کھیتی باڑی کے دوران چنیوٹ کے ہندو بیو پاری ٹھیکہ پر زمین لیتے.بیج ان کا ہوتا ، پانی اور رکھوالی ہماری.ایک موسم میں رمضان شریف آ گیا.ہندو تاجر نے خربوزے بوئے ہوئے تھے.شام کو وہ پکے ہوئے خربوزے توڑتے اور ڈھیر لگا کر دوسری صبح سویرے سویرے گدھوں پر لاد کر منڈی لے جاتے.رات کو میری چوکیداری تھی.میں نے روزہ رکھنا تھا.میں نے ایک خربوزہ جو بہت ہی میٹھا تھا اجازت سے اپنی چارپائی کے سروالے پائے کے ساتھ رکھ لیا کہ صبح روٹی اس خربوزے سے کھا کر سحری کروں گا.رات کو گیدڑ آیا اور وہی خربوزہ سارے ڈھیر کو چھوڑ کر کھا گیا.صبح روشنی میں خربوزے کے چھلکے نظر آئے.بہت ہنستے تھے کہ گیدڑ انسانوں سے بھی زیادہ میٹھے خربوزہ کو چنے میں ماہر ہے.والد صاحب میں احمدیت نے دعا پر یقین اور توکل الہی کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا.آپ کی دعا کی قبولیت کا ایک واقعہ حضرت یونس سے ملتا جلتا ہے.والد صاحب زبر دست تیراک تھے.ان دنوں پانی طوفانی کیفیت سے بہتا تھا.پل وغیرہ تو تھا نہیں ، اکثر دیہاتی تیراک ہوتے تھے.تیر کر ہی دریا پار کرتے تھے.اور شدید طوفانی بھری لہروں کو بھی چیر کر لوگ پار اتر جاتے تھے.اسی قسم کی کیفیت میں ایک بار والد صاحب کو دوسرے کنارے پر جانا تھا.چنانچہ دریا میں چھلانگ لگادی.جب درمیان میں پہنچے تو ایک بہت بڑے گرداب میں پھنس گئے.بہت کوشش کی لیکن کوئی پیش نہ گئی.آنا فانا ایک بڑے بھنور نے ان کو دبایا اور والد صاحب دور کہیں نیچے چلے گئے.شادی ہو چکی تھی ، ابتدائی ایام تھے.نیچے خلا تھا.دعا کرنے لگے کہ الہی میری پردیسن بیوی ہے اس کا کیا بنے گا.میں تو یہاں سے اب بچ کر نہیں نکل سکتا.لمحہ بھر کیا کیا دعائیں کیں.ہوش آیا تو اپنے آپ کو اوندھے مونہہ دریا کے کنارے ریت پر پایا.اونچی جگہ سے کوئی آدمی جھانک رہا تھا کہ یہ
تاریخ احمدیت 239 جلد ۲۰ شخص مردہ ہے کہ زندہ.غالباً گاؤں کے کسی شخص نے ڈوبتے ہوئے دیکھ لیا تھا.اس نے بھاگ کر گاؤں اطلاع کی.رشتہ دار وغیرہ روتے پیٹتے دریا کی طرف بھاگے.آپ اتنی دیر میں کنارے پر موجود شخص سے کپڑا مانگ کر اور پہن کر ہوش میں آچکے تھے.والد صاحب بھائیوں سے بیزار ہو کر علیحدہ ہو چکے تھے.ریلوے میں ایک احمدی کی وساطت سے انڈیا برج ڈیپارٹمنٹ ( Bridge Dept) میں ملا زمت تھی.ہندوستان کے کسی دور کے علاقے میں کسی پل پر کام ہو رہا تھا.آبادی سے ہٹ کر چھولداریوں میں رہتے تھے.ایک بار تنخواہ لیٹ ہو گئی.آپ کو فکر لاحق ہوئی میری بیوی بچے خرچ کہاں سے کریں گے.وہ مانگتی بھی نہیں کسی سے، کیا کروں.اسی سوچ بچار میں آخر دعا کی طرف توجہ ہوئی.دعا کی کہ اللہ میاں مجھے اتنی رقم چاہئے میں تجھ سے ادھار مانگتا ہوں میں واپس کروں گا.یہی دعا کرتے کرتے ایک رات اپنے احمدی دوست کے ساتھ جب نماز سے فارغ ہو کر جائے نماز اٹھایا تو ان کو کوئی چیز گرنے کی آواز آئی.بجلی تو غالبا نہ تھی.ڈھونڈا تو آپ کے ہاتھ میں اتنی رقم آئی، نوٹ وغیرہ، جتنے آپ نے خدا تعالیٰ سے مانگے تھے.بہت خوش ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے دعا سن لی ہے.دوسرے دن فوراً منی آرڈر کر دیئے.کچھ دنوں کے بعد جب تنخواہ ملی تو سوچ میں پڑ گئے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے ادھار مانگے تھے اب میں خدا تعالیٰ کو واپس کیسے کروں.غریبوں کو دوں تو وہ تو صدقہ میری طرف سے ہوا.چندہ دوں تو وہ بھی مناسب معلوم نہیں دیتا.پھر دعا شروع کی کہ اے اللہ میں تجھے کیسے لوٹاؤں.آپ آبادی سے دور کسی پل وغیرہ پر کام کرنے کی وجہ سے ایک قسم کے بے آباد علاقہ میں تھے.مہینہ پندرہ دن کا کھانے پینے کا سامان اکٹھا لے آتے تھے.چنانچہ آپ مہینہ بھر کے لئے گھی وغیرہ بھی لے آئے.رات کو غالباً ہنڈیا پکائی، گھی استعمال کیا لیکن ڈھکنا اچھی طرح بند نہ کیا.رات کو کوئی جنگلی بلی وغیرہ آئی اور کچھ کھایا کچھ گرا کر بہا گئی.صبح اٹھے تو دیکھا کہ گھی ضائع ہو چکا ہے.اپنے نفس کو کوسنے لگے کہ یہ تمہارا قصور اپنا ہے.بلی تو جانور ہے تم نے ڈھکنا کیوں نہ بند کیا.اب مغلا تمہاری سزا ہے کہ مہینہ بھر گھی استعمال نہیں کرنا.ٹھیک ہے جی ، بغیر گھی کے سہی ، لیکن لوگ دیکھنے والے کیا کہیں گے کہ مغلا صبح سوکھی روٹی پکاتا اور کھاتا ہے.سوچا صبح صبح اندھیرے میں پکا کر کھا لیا کروں گا.چنانچہ صبح صبح چولہا جلا تا ، توے پر پانی ڈالتا تا کہ وہ سوں سوں کرے شور پیدا ہو، لوگ سمجھیں مغلا پر اٹھے پکا رہا ہے.ایک دن ایسا کر رہے تھے کہ اوپر سے وہی احمدی جس کے ساتھ نماز پڑھتے تھے آپہنچا.بولا مغلا یہ کیا ڈرامہ ہے.پانی توے پر.والد صاحب بولے میاں یہ مغلے کی سزا ہے.سارا واقعہ بتایا.وہ احمدی بولا واہ مغلا ! معمولی نقصان پر اپنی جان
تاریخ احمدیت 240 جلد ۲۰ پر ظلم.میں بھی تو ہوں اپنا نقصان اٹھا کر بھی صبر سے زندہ ہوں.والد صاحب کے کھلکھلا کر ہنس پڑے.اس سے سارا واقعہ سن کر رقم واپس کی.حضرت آخر میں خاکسار جماعت احمد یہ عالمگیر کے دوسرے اولوالعزم خلیفہ سید نا حضرت مصلح موعود جو سخت ذہین و فہیم اور دل کا حلیم تھا کے آخری دیدار کا واقعہ بیان کرتا ہے جو آج بھی قلب و ذہن پر مثل تحریر بر سنگ نقش ہے.دسمبر ۱۹۶۲ ء ہے.سیدنا امامنا لمبی تکلیف دہ بیماری سے گزر رہے ہیں اور ہر آن بستر پر لیے بے چینی اور اضطرابی کی کیفیت سے دوچار ہیں.قدرے افاقہ ہوتا ہے تو جماعت ہی کے بارے میں سوچ و فکر ، کسی قسم کی ملاقات کا سوال ہی نہیں.خاکسار وکالت دیوان کے فیصلہ کے مطابق جامعہ احمدیہ سے فارغ کیا گیا ہے.ربوہ سے لاہور آنے کا ارادہ ہے لیکن آخری بار پیارے وجود کے چہرہ مبارک کا دیدار کرنے کی شدید خواہش اور تڑپ ہے.خاکسار ت میر داؤد احمد صاحب سے ذکر کرتا ہے کہ کسی طرح دیدار ہو جائے.آپ فرماتے ہیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.حضور انور کی بیماری کی کیفیت ایسی ہے کہ کوئی مل نہیں سکتا.خاکسار نے عرض کی کہ اسی لئے تو آپ سے گزارش کی ہے.فرماتے ہیں وعدہ نہیں ، کوشش کرتے ہیں.ذرا طبیعت سنبھلے گی تو دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی دیدار کی اجازت ہوئی.محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے اوپر بھجوایا.جو نہی بندہ السلام علیکم عرض کر کے کمرہ میں داخل ہوا حضور انور کو بے چینی میں کروٹ بدلتے دیکھا.میری طرف توجہ فرما کر پوچھا کس کے بیٹے ہو.بندہ ہاتھ باندھے کھڑا تھا.عرض کیا میاں محمد مغل عرف مغلا کا بیٹا ہوں.دریافت فرمایا کیا حال ہے ان کا ؟ خاکسار نے عرض کیا وہ وفات پاچکے ہیں.میرا یہ کہنا تھا کہ آپ شدید بے چین ہو گئے اور ایک بچے یا مریض کی طرح درد سے کراہتے ہوئے زیرلب بولنے لگے جو بندہ سمجھ نہ سکا.حضور کی اس کیفیت پر دروازے پر موجود پہرے دار نے مجھے اشارہ سے فوراً کمرے سے نکل آنے کو کہا.اور کہنے لگے کہ حضور انور کی پہلے ہی یہ کیفیت ہے تم نے کیا کہہ دیا.خاکسار نے کہا کہ میں نے صرف ان کے دریافت کرنے پر اپنے والد صاحب کا نام بتایا ہے اور یہ کہ وہ وفات پاچکے ہیں.اللہ اللہ ایک عظیم انسان ، سراسر نور ہی نور اور جو صاحب شکوہ و عظمت و دولت تھا، نے آخر تکلیف دہ بیماری میں بھی اپنے ایک بدوی عاشق کو کیسے یاد رکھا.۱۲۷-
تاریخ احمدیت 241 جلد ۲۰ ۲ - احمد جواہر صاحب روز بل ( ماریشس ) جماعت احمد یہ ماریشس کے ایک سرگرم رکن ، سیکرٹری مال اور بہت پر جوش داعی الی اللہ تھے.حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ غیر معمولی عقیدت تھی اور آپ کے خلاف کوئی بات نہ سن سکتے تھے.اور مبلغین سلسلہ کے ساتھ دل و جان سے تعاون ان کا شعار تھا.۱۲۹ ۳ - اخوند عبدالقادر صاحب ( وفات ۱۷ را پریل ۱۹۵۸ء ) پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب ایم ایس سی پر و فیسر تعلیم الاسلام کا لج کا بیان ہے کہ اخوند صاحب مرحوم بہاولپور کالج میں لیکچرار تھے.لیکن بوجہ احمدی ہونے کے ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑا.پھر عرصہ تک بیکار رہنے کے بعد پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر مقرر کئے گئے پھر تعلیم الاسلام کالج کے انگریزی کے پروفیسر بنے.اپنے فرائض کی ادائیگی میں با قاعدگی اور پابندی وقت کو خاص طور پر ملحوظ رکھتے تھے.اردو اور انگریزی کے کامیاب مقرر و فاضل تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں جب تقریر کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو سینکڑوں الفاظ دست بستہ میرے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور بزبانِ حال پکارتے ہیں کہ ہم خدمت کے لئے حاضر ہیں.۴ - منشی سبحان علی صاحب کا تب الفضل (وفات ۱۲ ر ا پریل ۱۹۵۸ء) آپ ۱۹۲۲ء میں داخل احمدیت ہوئے اور باوجود یکہ آپ کو احمدیت سے منحرف کرنے کی انتہائی کوششیں ہوئیں مگر آپ کوہ وقار بن کر ایمان پر قائم رہے.ابتداء میں احمد یہ مڈل سکول گھٹیالیاں اور سار چور میں ٹیچر کے فرائض انجام دیئے پھر محمود سیٹلمنٹ میں کام کرتے رہے اسی دوران آپ نے خوشنویسی کی مشق کی اور ادارہ الفضل سے منسلک ہوکر ایک لمبے عرصہ تک اس مرکزی اور قومی اخبار کی خدمت میں پورے شوق و ذوق سے سرگرم عمل رہے.۵- سید صمصام علی صاحب سونگھڑ وی بھدرک ( وفات ۲۹ مئی ۱۹۵۸ء) آپ ۱۹۱۰ء میں اپنے بڑے بھائی سید ممتاز علی صاحب کی کوشش سے احمدی ہوئے ان دنوں آپ کلکتہ انگریزی پریس کے کمپوزیٹر تھے.داخل احمدیت ہونے کے بعد آپ میں یکا یک
تاریخ احمدیت 242 جلد ۲۰ ایک نمایاں تبدیلی اور زبردست جوش اور امنگ پیدا ہوگئی.خدمتِ دین کا جذبہ انہیں کلکتہ سے کٹک لے آیا جہاں ایک پریس میں ملازم ہو گئے مگر جلدی ہی جماعت احمدیہ کیرنگ کی درخواست پر مستقل ملا زمت چھوڑ دی اور دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے مدرسہ احمدیہ میں مدرسی کے فرائض انجام دینے لگے اور اپنی قابلیت ، محنت اور توجہ و دلجمعی سے اسے بہت ترقی دی.تقریباً ایک صد طلبہ نے مدرسہ میں تعلیم پائی جن میں سے ایک نے قادیان دارالامان سے مولوی فاضل بھی کیا.آپ کے فرزند سید غلام مہدی صاحب ناصر تحریر فرماتے ہیں کہ :- اس زمانہ میں جبکہ مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام ہوا تھا.والد صاحب مرحوم نے جماعت احمدیہ کیرنگ کے نوجوانوں کو منظم کر کے ان کی ایک مجلس قائم کی تھی جس کا نام خادمانِ احمدیت اور چھوٹے لڑکوں کی مجلس کا نام جاں شارانِ احمد یت رکھ کر ان کو احمدیت کی تعلیم اور تبلیغی ٹریننگ دینی شروع کر دی.ان نوجوانوں کو ہفتہ عشرہ کے لئے اپنے ساتھ لے کر اطراف میں پیغام احمدیت پہنچاتے رہے.جب سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی تحریک پر مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام ہوا تو اس وقت والد صاحب مرحوم نے جماعت احمدیہ کیرنگ کے نوجوانوں کو جو پہلے مجلس خادمانِ احمدیت میں تنظیم کے ساتھ کام کرنے والے بن گئے تھے حضور ایدہ اللہ کے ارشاد پر کام کرنے والے بن گئے تھے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی روشنی میں انہیں اور آگے قدم بڑھانے کی تلقین کی اور ہمیشہ پانچ چھ خدام کا وفد بنا کر دس پندرہ میل کے اندر شمال و جنوب مشرق و مغرب کی طرف اپنے ساتھ لے کر تبلیغ کے لئے جاتے رہے.ان کے اس حسنِ انتظام اور خدا تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہونے کے سبب اس وقت حضرت خلیفۃ اصسیح الثانی کے دست مبارک سے سب سے پہلا انعامی جھنڈا خدام الاحمدیہ کیرنگ نے حاصل کیا.والد صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے اڑیہ زبان میں تقریر کا خاص ملکہ عطا کیا ہوا تھا.طرز بیان کچھ ایسا دلکش اور نرالا تھا جو گورنر ، وزراء اور راجاؤں تک کو متاثر کئے بغیر نہ رہتا.جماعت احمدیہ کی طرف سے یوم سیرت النبی کا جلسہ کٹک شہر میں ہوا کرتا تھا.جس کی صدارت پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور گورنر چیف منسٹر اوتکل یو نیورسٹی کے وائس چانسلر نے کی.
تاریخ احمدیت 243 ان جلسوں میں والد صاحب مرحوم ( دینِ حق ) کی تعلیم پر تقریر کرتے رہے جس کو ان تمام صدر صاحبان نے سراہا.چنانچہ والد صاحب مرحوم و مغفور کی تقریر کی پسندیدگی کا نتیجہ تھا کہ ہری کشن مہتاب سابق گورنر بمبئی اور چیف منسٹر اڑیسہ نے قرآن کریم کا اڑیہ زبان میں ترجمہ حکومت کے خرچ پر کروانے کا وعدہ فرمایا.صوبہ اڑیسہ میں احمدیت کے آنے کے بعد سے اب تک اڑیہ کی علاقائی زبان میں ( دین حق کی طرف سے بولنے والا وجود والد صاحب مرحوم جیسا کوئی نہیں ہوا آپ نے ہر سوسائٹی میں ( دینِ حق ) کو پیش کیا اور جملہ اعتراضات کا ایسے رنگ میں جواب دیتے رہے جس سے سامعین اور سوال کنندہ کی تسلی ہو جاتی.الغرض والد صاحب مرحوم کو تبلیغ کا جنون تھا..کا جس کے سبب سفر و حضر بیماری و تندرستی ہر حالت میں پیغام احمدیت پہنچاتے رہے..- مولوی محمد جعفر صاحب سولنگی سونا منڈی تحصیل کنڈیار وضلع نواب شاہ ( وفات ۱۸/۱۷ / اگست ۱۹۵۸ء) جلد ۲۰ جناب حکیم محمد موہیل صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ کمال ڈیرہ سندھ آپ کے حالات قبول احمدیت اور خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- ۱۹۴۵ء میں ایک قصبہ تھا روشاہ میں جانے کا اتفاق ہوا.وہاں ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موگا کے ایک عزیز حکیم محمد یعقوب صاحب سے ملاقات ہوئی.انہوں نے دوران تبلیغ کچھ ٹریکٹ اور کتب سلسلہ برائے مطالعہ دیں.جن کی وجہ سے اس سال جلسہ سالانہ پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی.اور حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل ہوا.جلسہ سے واپسی پر گاؤں آکر کھلم کھلا تبلیغ شروع کر دی.قبول حق کے جرم کی پاداش میں عرصہ حیات ہر طرح سے تنگ کر دیا گیا.ظلم و تشدد کا دور شروع ہو گیا.مولوی بلائے گئے.احمدیت سے تائب ہونے پر مجبور کیا جانے لگا.تذلیل و رسوائی کے ہر قسم کے ذرائع عمل میں لائے گئے.ایک
تاریخ احمدیت 244 جلد ۲۰ دفعہ مخالفوں کے انبوہ کثیر نے گھیرے میں لا کر سخت مجبور کیا کہ حضرت مرزا صاحب کو گالی دو.لیکن آپ نے کہا وہ زبان کہاں سے لاؤں جو اپنے آقا کو گالی دے.اس پر مخالفین نے آپ کو سخت اور نا قابل برداشت تکلیفیں دیں.حتی کہ آپ بے ہوش ہو گئے.قرب و جوار میں کوئی احمدی بھی نہ تھا.آخر شیخ عظیم الدین صاحب سوداگر نے جو رادھن کے اسٹیشن پر کاروبار کرتے تھے خبر ہونے پر آپ کو وہاں بلا لیا.وہاں سے پھر جماعت باڈہ ( سندھ ) ضلع لاڑکا نہ بھیج دیا.کچھ عرصہ ہوا آپ منشی محکم الدین صاحب احمدی کے پاس مقیم رہے.اب آپ عرصہ اٹھارہ ماہ سے مستری فیض محمد صاحب کی استدعا پر جماعت کمال ڈیرہ میں مقیم تھے اور بچوں کو تعلیم دیتے تھے.مرحوم نے محض احمدیت کی خاطر اپنے عزیزوں کو چھوڑ کر خالصہ انقطاع الی اللہ کی صورت اختیار کر لی تھی.پیرانہ سالی میں قبولِ احمدیت ، اس پر یہ استقلال اور استقامت اور اخلاص کا ایسا اعلیٰ نمونہ چھوڑا جو ہم سب کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے.مرحوم تہجد گزار، رمضان شریف میں اکثر اعتکاف بیٹھا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشان کے طور پر اکثر بیان فرماتے تھے کہ جس پیر نے مجھے مخالفت کے جوش میں ایذا ئیں دیں اللہ تعالیٰ نے اس کو عبرتناک سزا دی.وہ ذلت سے مار کھا کر گاؤں سے نکالا گیا.اس کے مکان کو آگ لگ گئی وہ ایسا ذلیل ہوا کہ اس علاقہ میں دوبارہ منہ نہیں دکھا سکتا.فرماتے کہ میں تو پھر بھی جب کبھی گاؤں جاتا لوگ عزت سے ملتے اور پیش آتے.لیکن اس پیر کو گاؤں میں دوبارہ آنے کی توفیق میسر نہیں ہوئی.۱۳۳ ۷.حضرت شیخ کریم بخش صاحب آف کوئٹہ ( وفات ۱۶ ستمبر ۱۹۵۸ء) آپ کا اصل وطن پنڈ دادنخان ضلع جہلم تھا.۱۹-۱۹۱۸ء کے قریب داخل احمدیت ہوئے.ابتداء میں آپ ریلوے میں بطور سٹور کیپر ملازم رہے اور اس طرح دینداری اور ایماندری سے اپنے فرائض انجام دیئے کہ ریلوے کے اعلیٰ افسر تک آپ کے ساتھ بہت عزت و احترام سے پیش آتے اور آپ کی نیکی ، پرہیز گاری اور دیانتداری کے باعث بہت سے ذاتی اور نجی کام
تاریخ احمدیت 245 جلد ۲۰ بھی آپ کے سپرد کر دیتے تھے.آپ ملازمت کے سلسلہ میں کندیاں ( ضلع میانوالی) میں تھے کہ آپ کو تجارت کا شوق ہوا چنانچہ آپ ریلوے کی ملازمت ترک کر کے پہلے ڈیرہ اسماعیل خاں اور پھر مستقل طور پر ۱۹۲۲ء میں کوئٹہ میں تشریف لے آئے جہاں کئی قسم کے کاروبار شروع کر دئیے.احمدیت کی مخلصانہ خدمت اور اپنے آقا و پیشوا حضرت مصلح موعودؓ سے فدائیت نے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کیا اور آپ کے کاروبار میں بہت برکت بخشی.تقسیم ملک کے وقت آپ نے کپڑے کا بھی ایک کارخانہ شروع کیا.قائد اعظم ایک بار موسم گرما میں کوئٹہ کے قریب قیام فرما ہوئے تو تجارت میں ماہرانہ قابلیت اور حب الوطنی کے مخلصانہ جذبات کی بدولت قائد اعظم سے آپ کو خاص تعارف حاصل ہوا.محترمہ فاطمہ جناح بھی آپ کی گفتار اور طریق کار سے بہت متاثر ہوئیں.وہ آپ کے ذریعہ قائد اعظم کے بعض نجی کام کرائیں اور آپ کی تاجرانہ مساعی پر بہت خوش ہوتیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پاک وعدہ کے مطابق کہ وہ مسیح موعود کے بچے محبین ومخلصین کے اموال ونفوس میں بہت برکت بخشے گا آپ کو بہت مال عطا فرمایا مگر آپ نے اسے ( دینِ حق ) اور سلسلہ کی خاطر قربان کرنے کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھا.سلسلہ کی تمام مرکزی مقامی بلکہ فردی تحریکات میں بھی نہایت فراخدلی، بشاشت قلبی اور گرمجوشی سے حصہ لیتے تھے اور یہی عاشقانہ روح آپ نے اپنے پاک نمونہ سے اپنے سب افراد بیت خصوصاً صاحبزادگان میں پھونک ڈالی.حضرت شیخ صاحب پر جوش داعی الی اللہ تھے.جب کبھی سیدنا حضرت مصلح موعود قیام پاکستان کے بعد کوئٹہ میں تشریف لائے آپ اور آپ کے صاحبزادگان خاص اہتمام سے معززین کوئٹہ کو حضور کی ملاقات کے لئے لاتے تھے اور جب تک حضور کا قیام رہتا آپ مع افرادِ بیت اپنے آقا کی خدمت کے لئے مجنونانہ وار وقف ہو جاتے تھے.سلسلہ کے کارکنوں خصوصاً مبلغین سلسلہ کا خاص احترام کرتے اور ان کی خدمت و تواضح میں بہت خوشی محسوس کرتے تھے.مولانا شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ ایک مبلغ نے حضرت شیخ صاحب کو خط لکھا اور اس کے آخر میں اپنے نام سے پہلے محتاج دعا کے الفاظ بھی لکھ دیئے ان الفاظ کو پڑھ کر آپ پر رقت طاری ہو گئی اور رورو کر آنکھیں سرخ کر لیں کہ سلسلہ کے خادم اور فدائی کارکن جو اپنے محبوب و مقدس امام کی دعاؤں سے ہردم حصہ لے رہے ہیں وہ انہیں بھی دعا کی تحریک کر رہے ہیں.آپ مبلغین کے لئے الحاح سے دعا کرتے اور اس کا اظہار بھی فرماتے کہ یہ سب احمدیت کی برکت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہے.ایک دفعہ
تاریخ احمدیت 246 جلد ۲۰ آپ کے عزیزوں میں سے کسی نے ایک مربی سلسلہ کا نام لیا آپ کو شبہ ہوا کہ عدم احترام کے جذبہ سے ایسا کہا ہے فوراً ٹو کا اور فرمایا حضرت کہہ کر پکارو جب تم عزت کے الفاظ کے بغیر ان کا نام لیتے ہو تو مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے.الغرض اپنے عزیزوں کو بھی مبلغین سلسلہ اور جماعت کے کارکنوں اور خادموں سے محبت رکھنے کی تلقین فرماتے.آپ کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود اور خاندان حضرت مسیح موعود کے سب افراد سے خاص لگاؤ اور محبت ودیعت فرما دی تھی جو گویا ایک چشمہ کی طرح ہر وقت موجزن رہتی تھی.یہی وجہ ہے کہ ان کی خدمت و تواضع میں انہیں غایت درجہ مسرت و راحت محسوس ہوتی.اور جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے حضرت مصلح موعودؓ کے قیام کوئٹہ کے ایام میں تو اور آپ کے خاندان کے تمام افراد نے فدائیت کا عدیم النظیر نمونہ پیش کیا اور انتہائی کوشش کی کہ حضور کو ہر طرح آرام حاصل ہو اور حضور کی دعاؤں سے زیادہ سے زیادہ حصہ لیں اس مقصد کے لئے بڑی سے بڑی قربانی بھی آپ کے لئے ایک ادفی بات تھی.حضرت شیخ صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم فرمودہ یادگاروں اور اداروں سے دلی انس تھا.جب کبھی آپ مع اہل و عیال ربوہ تشریف لاتے تو حضرت شیخ محمد الدین صاحب مختار عام کے ہاں قیام فرماتے مگر ہمیشہ ہی اس بات کی کوشش کرتے کہ پہلے لنگر خانہ سے کھانا کھایا جائے آپ بڑی محبت اور خلوص کے جذبہ سے حضرت مسیح موعود کے لنگر خانہ کا تبرک استعمال کرتے اور اس کے بعد گھر کا کھانا کھاتے.آپ عرصہ تک جماعت کو ئٹہ کے نائب امیر کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے بجا لاتے رہے.آپ کی نیکی اور تقویٰ کا اپنوں پر ہی نہیں غیر از جماعت حلقوں پر بھی وسیع اور گہرا اثر تھا.کوئٹہ کے بہت سے معززین نے آپ کی وفات پر رنج والم کے قلبی جذبات کے ساتھ تعزیت کی.آپ کے مختصر حالات زندگی آپ کے فرزند شیخ محمد شریف صاحب کے قلم سے الفضل ۲۹/۲۸ رستمبر ۱۹۵۸ء میں شائع شدہ ہیں جو قابل دید ہیں بلاشبہ حضرت شیخ صاحب احمدیت کا چلتا پھرتا نمونہ اور سلسلہ احمدیہ کے پاک نفس، فدائی اور شیدائی بزرگ تھے.حضرت مصلح موعود کے عاشق صادق اور جماعتی نظام کے احترام میں اپنی مثال آپ تھے.انکسار، خدمت خلق اور مہمان نوازی آپ کے رگ وریشہ میں رچی ہوتی تھی.لیکن کلمہ حق کہنے میں کمال درجہ نڈر جری اور بہادر تھے.سلسلہ احمدیہ کے مالی جہاد میں فراخدلی سے حصہ لیتے تھے.آپ کا نام تحریک جدید کی پانچبزاری کی فہرست کے صفحہ ۴۴۱ پر درج ہے.۱۳۶
تاریخ احمدیت 247 جلد ۲۰ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے آپ کی وفات کی خبر سن کر حسب ذیل نوٹ الفضل کے لئے سپر و قلم فرمایا : - مرحوم و مغفور نہایت مخلص نیک صالح پر جوش اور مخیر احمدی تھے.سلسلہ کی مالی تحریکات میں فیاضانہ رنگ میں حصہ لیتے تھے.مجھے یاد ہے کہ جب الشركة الاسلامیہ کے حصص فروخت کرنے کے سلسلہ میں کمپنی کا نمائندہ ان سے ملا تو آپ اس کے ساتھ ہو لئے اور بعض احمدی دوستوں کو خریداری حصص کی تحریک کی.جب دیکھا کہ کامیابی نہیں ہوتی تو انہوں نے خود ہی دو سو حصص خرید کر لئے.سلسلہ احمدیہ اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ العزیز سے آپ کو والہانہ محبت تھی.آپ نے ۱۹۵۵ء میں چھاؤنی کوئٹہ میں ایک کوٹھی تعمیر کی اور اس کے بنانے سے آپ کی اولین خواہش یہ تھی کہ جب حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کوئٹہ تشریف لے جائیں تو آپ اس میں قیام فرمایا کریں.۱۹۵۶ء میں جب یہ کوٹھی تیار ہو چکی تو انہوں نے حضور کی خدمت میں کوئٹہ تشریف لے جانے کے لئے عرض کیا.جب انہیں معلوم ہوا کہ حضور کوئٹہ تشریف لے جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تو انہوں نے مجھے لکھا کہ حضور تو اس دفعہ تشریف لانے کا ارادہ نہیں رکھتے اس لئے ہماری خوش قسمتی ہوگی کہ اگر آپ جیسے حضور کے خادم ہمارے پاس کوٹھی میں آکر قیام کریں اور مجھے طبی مشورہ کے ماتحت پہاڑ پر جانا تھا.چنانچہ میں نے ان کے پاس ایک ماہ تک اس کوٹھی میں قیام کیا.نہایت متواضع ، خاکسار، مہمان نواز ، سادگی کے دلدادہ لیکن اظہار حق کے وقت تیغ براں تھے.ان کی نیکی اور سلسلہ سے والہانہ محبت کا اثر ان کی اولا د شیخ محمد شریف صاحب اور شیخ محمد اقبال صاحب اور شیخ محمد حنیف صاحب میں بھی پایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو مرحوم و مغفور کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اور انہیں اور مرحوم کے دیگر متعلقین کو صبر جمیل بخشے اور مرحوم و مغفور کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.ع اے خدا بر تربت او ابر رحمتها ببار
تاریخ احمدیت 248 جلد ۲۰ مسٹر عبد اللہ آرسکاٹ صاحب مسٹر عبداللہ آرسکاٹ صاحب نے ۱۹۳۵ء میں حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی اور عراق میں انہوں نے وصیت کی.جسے حضرت مرزا برکت علی صاحب امیر جماعت عراق نے اپنے دستخطوں سے بھجواتے ہوئے ۳۱ جنوری ۱۹۳۹ء کو لکھا کہ یہ شخص غیروں کے سامنے احمدیت کی صداقت کے نشان کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے.احمدیت کیلئے ہر تکلیف برداشت کرتا ہے.پچھلے ہی دنوں ایک ملازمت سے اس لئے علیحدہ کیا گیا کہ یہ مسلم کیوں ہوا؟ لیکن اس نے کوئی پرواہ نہ کی اور اس علیحدگی کو خوشی سے قبول کیا ؟ مسٹر عبداللہ آرسکاٹ صاحب ۱۹۵۸ء میں اربیل کے مقام پر فوت ہوئے ان کا بیٹا لبنان میں ڈاکٹر ہے.اس سال مبلغ امریکہ مکرم سید جواد علی صاحب کی اہلیہ محترمہ سیدہ طینت جواد علی صاحب نے ۱۶ مارچ ۱۹۵۸ء کو پٹسبرگ کے ہسپتال میں انتقال کیا.مرحومہ اکتوبر ۱۹۵۷ء میں امریکہ.۱۳۹ تشریف لے گئی تھیں.چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر ایم اے انچارج احمد یہ مشن امریکہ نے ان کی ناگہانی وفات پر ایک نوٹ میں لکھا: - عزیزہ سیدہ طینت مرحومہ کے نانا حضرت خصیلت علی شاہ صاحب آف سیالکوٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی رفقاء میں سے تھے.۱۹۲۹ء میں عزیزہ مرحومہ کی پیدائش کے وقت آپ کے والد مرحوم جڑانوالہ کے قریب ایک گاؤں میں سکونت رکھتے تھے.مرحومہ اپنے بہن بھائیوں میں نی شگفتگی طبع ، سعادت اور نیکی کی وجہ سے بچپن سے ہی سب سے چھوٹی اور اپنی سارے خاندان میں ہر دلعزیز تھیں.خاکسار کو چونکہ بچپن سے ہی گہراتعلق رہا ہے اس لئے سیدہ طینت مرحومہ کو ان کے اوائل عمر سے جانتا تھا.اور ان کی طبیعت کی سادگی اور خلوص سے بہت متاثر تھا.آپ کے والد آپ کی پیدائش کے چند سال بعد ہی سیالکوٹ واپس آکر مستقل طور پر مقیم ہو گئے تھے.مرحومہ نے چھوٹی عمر سے ہی مقامی جماعت کی مساعی میں جوش اور انہاک کے ساتھ نمایاں حصہ لینا شروع کر دیا تھا.چنانچہ ایک عرصہ تک سیالکوٹ شہر
تاریخ احمدیت 249 کی ناصرات الاحمدیہ کی سیکرٹری رہیں.پھر مقامی لجنہ کے کاموں میں بھی سرگرمی کے ساتھ کام کرتی رہیں.ملک کی تقسیم کے بعد زخمی اور حاجت مند مہاجرین کی خدمت کے لئے والنٹیئر نرس کے طور پر بھی خدمت خلق کرتی رہیں.ان خدمات کے باعث لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ اور دوسری خواتین کی متعلقہ تنظیموں میں آپ کی پر خلوص اور بے لوث خدمات کی وجہ سے آپ کو محبت اور احترام سے دیکھا جاتا تھا.سیدہ طینت مرحومہ کو اکثر سچی خوابیں آتی تھیں.بعض خوابوں کی بناء پر انہیں یہ خیال تھا کہ ان کی وفات اسی ملک میں ہوگی.اور اس امر کے متعلق کئی دفعہ اشارہ کر چکی تھیں.کہ انہیں تو امریکہ کی مٹی کھینچ لائی ہے.ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے ایک خواب دیکھ چکی تھیں جس کی بناء پر وہ سمجھتی تھیں کہ ان کی وہاں سے واپسی نہ ہو سکے گی.مرحومہ کو بچپن ہی سے ٹائیفائڈ کے ایک حملے کے زیر اثر حرکت قلب کی تکلیف تھی جو آخر اس ملک میں آکر جان لیوا ثابت ہوئی.مرحومہ کی وفات کی خبر حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ ، مرکز اور آپ کے عزیزوں کو تار کے ذریعے کرنے کے بعد امریکہ کی جماعتوں کو بھی کر دی گئی تھی.اور جنازہ کے وقت سے بھی اطلاع دے دی گئی تھی.چنانچہ ۱۸ / مارچ بروز منگل جنازہ میں شمولیت کے لئے واشنگٹن، نیو یارک، بالٹی مور، نیکس ٹاؤن، کلیولینڈ، ڈیٹن ، شکاگو، ڈیٹرائٹ ، اور سینٹ لوئیس سے احباب پہنچ گئے.جو احباب یا جماعتیں جنازہ میں شامل نہ ہوسکیں ان کی طرف سے تعزیت کے تار درجنوں کی تعداد میں موصول ہوئے.پٹس برگ کی ہماری احمدی بہنوں نے مرحومہ کو خود غسل دیا اور کفن پہنایا.جنازہ قریباً پونے دو بجے بعد دو پہر پٹس برگ مشن میں ہوا.جس کے بعد مرحومہ کو اسی قبرستان میں دفن کیا گیا جس میں امریکہ مشن کے پہلے شہید مرزا منور احمد صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ مدفون ہیں.اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت ہے کہ سلسلے کے مغربی ممالک کے مشنوں میں سے صرف امریکہ میں ہی دو خدام سلسلہ کی وفات ان کے زمانہ جہاد میں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 250 ہوئی ہے.دونوں عین جوانی میں فوت ہوئے.دس سال قبل پٹس برگ کے شہر میں مرزا منور احمد صاحب مرحوم کا انتقال ہوا تھا.خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے عجب نہیں کہ ان دو قربانیوں کے بدلے وہ اس ملک میں احمدیت کی شاندار اور جلد تر ترقی اور فتوحات کے دروازے کھول دے اور اس ملک کے مرد اور عورتیں فوج در فوج ہمارے مرحوم بھائی اور ہماری مرحومہ بہن کی قربانی کے نتیجے میں صداقت کو قبول کر لیں.اے اللہ تو ایسا ہی کر.۱۴۰ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت فصل ہفتم 251 ۱۹۵۸ء ۱۳۳۷اعش کے متفرق مگر اہم واقعات خاندان مسیح موعود میں تقاریب مسرت ولادت : جلد ۲۰ ۸ جنوری ۱۹۵۸ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی نواسی اور میجر وقیع الزمان صاحب کی صاحبزادی امتہ الکبیر لبنی صاحبہ پیدا ہوئیں اور ۱۶، ۱۷ نومبر ۱۹۵۸ء کو حضرت سید میر محمد اسحق صاحب کے نواسہ اور سید محمود احمد صاحب ناصر کے پہلے فرزند سید شعیب احمد یحیی صاحب کی ولادت ہوئی.نکاح ۱۴۲ سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۱۶ / فروری ۱۹۵۸ء کو حضرت سید میر محمد اسحق صاحب کی صاحبزادی سیدہ امۃ الرفیق صاحبہ کا نکاح چوہدری محمد نصر اللہ خاں صاحب (ابن چوہدری محمد عبداللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی) کے ساتھ پڑھا.۲۷ / دسمبر ۱۹۵۸ء کو خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے نواب زادہ محمد احمد خانصاحب کے صاحبزادہ میاں حامد احمد صاحب کے نکاح کا اعلان کیا جو شمیم ناصر صاحبہ بنت چوہدری خوشی محمد صاحب ناظر کے ساتھ قرار پایا تھا.محترمہ چند سال قبل جماعت شادی ۱۴۵ احمدیہ میں داخل ہوئی تھیں.۱۰ردسمبر ۱۹۵۸ء کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی صاحبزادی سیدہ امتہ الوحید بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.ان کی شادی حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلی صدرانجمن احمد یہ ربوہ کے صاحبزادے مرزا خورشید احمد صاحب پروفیسر تعلیم الاسلام کالج کے ساتھ ہوئی.تقریب رخصتانہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد، رفقاء حضرت مسیح موعود، صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید
تاریخ احمدیت 252 جلد ۲۰ کے ناظر اور وکلاء حضرات ، سٹاف تعلیم الاسلام کالج ، صیغہ جات افسران اور دیگر مقامی احباب بکثرت شامل ہوئے.۱۴۶ ۲۰ / دسمبر ۱۹۵۸ء کو حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی صاحبزادی ریحانہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانہ منعقد ہوئی.ان کی شادی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے صاحبزادے سید احمد صاحب کے ساتھ ہوئی.شادی کی اس مبارک تقریب میں بھی حضرت مصلح موعود رونق افروز تھے اسی طرح سلسلہ کے دیگر بزرگوں اور دیگر مقامی احباب نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی.۱۴۷ -1 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے مقرر احمدی نوجوانوں کی شاندار کامیابیاں عبدالرشید صاحب نے سیکنڈری بورڈ آف ایجوکیشن زونل اردو مباحثہ میں جو گورنمنٹ کالج سرگودھا میں منعقد ہوا اول پوزیشن حاصل کی.۲ - پنجاب یونیورسٹی اور سیکنڈری بورڈ آف ایجو کیشن کے تحت کشتی رانی کے مقابلوں میں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی ٹیموں نے چیمپئن شپ جیت لی.کالج کی ٹیم گزشتہ آٹھ سال سے چیمپئن شپ کا امتیاز حاصل کرتی آ رہی تھی جسے اس سال بھی اس نے برقرار رکھا.تعلیم الاسلام کالج نے مغربی پاکستان اوپن روئنگ چیمپئن شپ کے سالانہ مقابلوں میں اس سال بھی ٹرافی جیت لی.۴ - حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے کالج کی تقریب تقسیم اسناد میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے محمد سلطان اکبر صاحب کو ایک طلائی تمغہ عطا فرمایا.انہوں نے بی اے آنرز کے عربی امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے تھے.۵ - محمد اسلم صاحب سیال متعلم ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور ایم بی بی ایس کے فرسٹ پروفیشنل کے امتحان میں پنجاب یو نیورسٹی میں اول آئے.- مرکزی مجلس تعمیر ملت (حیدر آباد دکن) کے زیر انتظام کل ہند رحمتہ للعالمین تحریری مقابلہ ہوا جس میں جامعہ احمدیہ قادیان کے درجہ اولیٰ کے طالب علم محمد ولی الدین صاحب اول رہے.آپ نے ”امن عالم اور ( دین حق “ پر مضمون سپر و قلم کیا تھا.ے.بشری بشیر صاحبہ نے اسلامیات میں یو نیورسٹی بھر میں اول پوزیشن حاصل کی وہ گزشتہ سال بی اے کے امتحان میں جامعہ نصرت ربوہ میں اول آئی تھیں.۱۵۰
تاریخ احمدیت 253 جلد ۲۰ پاکستان میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ اس سال حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے متعدد مقتدر ملی اور خان صاحب کے اثر انگیز خطاب جماعتی اداروں اور احمدی جماعتوں سے ان کے حلقہ میں تشریف لے جا کر نہایت پر اثر تقاریر فرما ئیں.مثلاً ۱۵۱ ۱- روٹری کلب لاہور (۷ /جنوری موضوع ” بے غرضانہ خدمت کا اسلامی تصور -۲- مغربی پاکستان بار ایسوسی ایشن لاہور (۹) جنوری.موضوع عالمی عدالت انصاف کا ۱۵۲ طریق کار اور اس کے اختیارات ) - مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ ( ۱۰ / جنوری نوجوانان احمدیت کی ذمہ داریاں ) HD ۴ - مجلس ارشاد تعلیم الاسلام کا لج ربوه (۲۳ جنوری موضوع " زندگی کا حقیقی اور ۱۵۵ ۱۵۳ اعلی تر مقصد ) on ۵ - تعلیم الاسلام ہائی سکول کا جلسہ تقسیم انعامات ( ۲۴ فروری ) - جماعت احمد یہ ڈسکہ ( ۲۸ فروری افتتاح بیت احمد یہ کے موقع پر قیمتی نصائح ) ۷.تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں ( یکم مارچ موضوع بنی نوع انسان کی ہمدردی ) احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کراچی (مقام لیکچر جمعیت میموریل ہال زیر صدارت حکیم محمد احسن صاحب سابق میئر کراچی موضوع مغرب میں ( دین حق ) کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ) ۱۵۶ ۱۵۷ ۱۵۸ ۷ار جنوری ۱۹۵۸ء کو جناب ایس.کے بشپ صاحب دہلی قادیان دارالامان میں منڈل صاحب بشپ دہلی قادیان اپنے خاص دورہ پر قادیان تشریف لائے.جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے جس میں مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی.اے ناظر امور عامہ، ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مؤلف اصحاب احمد“، میاں محمد شمس الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ کلکتہ، مولوی عمر علی صاحب بنگالی مولوی فاضل قادیان اور مکرم شمس الدین صاحب آف کلکتہ شامل تھے.جناب بشپ صاحب سے ملاقات کی اور انہیں سیرت نبوی، خصوصیات قرآن اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ اور اس کے مخصوص علم کلام سے متعلق انگریزی لٹریچر پیش کیا.جسے انہوں نے خوشی سے قبول کیا.اور اپنی تقریر میں جو بہت عمدہ اور واعظانہ رنگ رکھتی تھی قادیان کی تاریخی عظمت اور شہرت کا بھی تذکرہ کیا.ان سے قادیان کے حالات تبلیغی امور اور عیسائیوں کے حالات کے متعلق مختصر گفتگو ہوئی.چونکہ آپ بنگالی تھے اس لئے بنگالی احمدیوں نے ان سے بنگلہ زبان میں گفتگو کی جس سے
تاریخ احمدیت وہ بہت محظوظ ہوئے.254 جلد ۲۰ ۲۴ جنوری ۱۹۵۸ء کو جامعہ نصرت ربوہ کا الحاق سیکنڈری بورڈ جامعہ نصرت کا الحاق آف ایجوکیشن سے منظور ہوا.مولانا ابوالکلام آزاد کی رحلت پر حضرت مسیح موعود کے رفیق مولانا ابوالنصر آہ کے برادر اصغر، بھارت کے ممتاز و محبوب سیاسی ۱۶۱ جماعت احمدیہ کی طرف سے تعزیت راہ نما اور مرکزی و زیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد ۲۲ فروری ۱۹۵۸ء کو انتقال فرما گئے.اس موقع پر اخبار ”بدر‘ قادیان نے اپنے تعزیتی اداریہ میں ان کی سیاسی اور علمی وادبی خدمات کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا.اور ناظر صاحب امور عامہ قادیان نے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم بھارت اور مولانا حفظ الرحمن صاحب سہاروی جنرل سیکرٹری جمعیت العلماء کی خدمت میں حسب ذیل تعزیتی تار بھجوایا : - ” جماعت احمد یہ قادیان کو جناب مولانا آزاد کی نہایت افسوسناک وفات پر بہت صدمہ ہوا ہے.آپ کا ذاتی طور پر اور قومی طور پر نا قابل تلافی نقصان ہوا ہے.احمد یہ جماعت کی طرف سے دلی ہمدردی کا پیغام قبول فرمائیں اور مولانا مرحوم کے لواحقین کو بھی یہ پیغام تعزیت پہنچا دیں.“ " ناظر امور عامہ سلسلہ احمدیہ قادیان) ۱۶۳ علاوہ ازیں ناظر امور خارجه صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی طرف سے مولانا مرحوم ۱۶۴ کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب اجمل خاں صاحب کے نام حسب ذیل پیغام تعزیت بذریعہ تار ارسال کیا گیا : - مولانا ابوالکلام آزاد کی افسوسناک وفات پر جماعت احمد یہ دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتی ہے.ہمدردی اور تعزیت کے یہ جذبات ان کے خاندان تک پہنچا کر ممنون فرمائیں.اللہ تعالیٰ ان کی روح پر ۱۶۵ سکینت نازل کرے.مولانا آزاد کی نماز جنازہ مولانا سعید احمد صاحب نے پڑھائی.پانچ لاکھ افراد نے شرکت کی اور آپ مولانا شوکت علی مرحوم کی آخری آرام گاہ کے قریب پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دئیے گئے.
تاریخ احمدیت 255 جلد ۲۰ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصرا حمد صاحب، بہلول پور میں ایک یادگار تقریب خاندان حضرت مسیح موعود کے بعض دیگر بزرگ اور بعض ناظر صاحبان ۲۳ فروری ۱۹۵۸ء کو ضلع لائکپور (فیصل آباد ) کی مشہور بستی بہلول پور میں تشریف لے گئے جہاں حضرت صاحبزادہ صاحب اور مولانا ابوالعطاء صاحب خالد احمدیت نے بالترتیب اتحاد و خدمت اور سیرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک موضوع پر جامع خطاب فرمایا.اس بابرکت تقریب پر حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں چندہ کی وہ رقم پیش کی گئی جو چوہدری عصمت اللہ صاحب پریذیڈنٹ بہلول پور کے فرزند چوہدری صلاح الدین احمد صاحب (ناظم جائیداد صدرانجمن احمد یہ پاکستان) نے تعلیم الاسلام کالج کی تعمیر وتکمیل کے سلسلہ میں بہلول پور، سانگلہ ہل ، چک چھور۱۷ امغلیاں، چک نمبر ۱۲۶ ر-ب، چک نمبر ۱۴۷ ر- ب اور لائل پور کے مخلصین جماعت سے جمع کی تھی.۱۶۶ اس سال پروفیسر عبدالمجید صاحب سابق سفیر سعودی عرب کا ایک اہم مکتوب ایم اے سابق سفیر سعودی عرب کی طرف سے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ قادیان کو حسب ذیل اہم مکتوب موصول ہوا.د و ۴۴ کلارک ہوٹل شملہ ۱۷/۳/۸۵ پیارے مرزا وسیم احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ہوں خط کی رسیدگی کی اطلاع دیر سے دینے پر مہربانی کر کے معاف فرما دیں.جیسا کہ آپ کو علم ہے میں باقاعدہ بیعت شدہ احمدی نہیں لیکن میرا نظریہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب بانی جماعت احمدیہ کے متعلق ہمیشہ احترام اور قدردانی کا رہا ہے اور ۱۹۲۸ء سے میرے تعلقات موجودہ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی ہیں.علا وہ ازیں میرے بہت سے قریبی رشتہ دار پچیس سال سے زائد عرصہ سے احمدی ہیں.ذاتی طور پر میں عام معروف طریق پر مذہبی آدمی نہیں ہوں کیونکہ میں اپنے اوپر پرانی روایات اور رسومات اور عقائد کی پابندیاں عائد نہیں
تاریخ احمدیت 256 کر سکتا.اور مجھ میں تنگ نظری نہیں پائی جاتی.میں ایک ناچیز مسلمان ہوں جو اپنی مادر وطن یعنی ہندوستان کے ساتھ عقیدتمندی کے جذبات رکھتا ہوں.اور اسلام کی رواداری اور وسیع النظری کی جو تشریح احمد یہ جماعت کے بانی اور آپ کے دونوں خلفاء نے فرمائی ہے اس سے بہت متاثر ہوں.خاص طور پر ”جہاؤ کی جو وضاحت روحانی جد و جہد اور قلم اور زبان سے تبلیغی کوششوں کے معنوں میں انہوں نے فرمائی ہے اس نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے..قرآن شریف نے بجا طور پر فرمایا ہے :- قل يا ايها الناس قدجاء كم الحق من ربكم ، فمن اهتدى فانما يهتدى لنفسه ومن ضل فانما يضل عليها وما انا عليكم بوكيل ۱۶۷ یعنی کہہ دے کہ اے لوگو! تمہارے پاس خدا کی طرف سے حق آ گیا ہے پس جو ہدایت پاتا ہے اس کا فائدہ اس کو ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے اس کا نقصان اُسے ہے اور میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.اور ادع الى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة وجادلهم بالتي هي احسن NA یعنی اپنے رب کے رستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے بلاؤ ا اور اچھے طریق سے بات کرو.دوسرے الفاظ میں تلوار کا جہاد اس زمانہ میں (دین حق ) کی نفی ہے.کیونکہ لا اکراہ فی الدین یعنی دین میں جبر نہیں.۱۶۹ میری خواہش ہے کہ ہندوستان کے احمدی جہاد کے صحیح مفہوم کو جو اسلامی تعلیمات کے رو سے ہے زیادہ سے زیادہ اشاعت کریں.میں یہ مشورہ بھی دینا چاہتا ہوں کہ ایک پمفلٹ جہاد کے صحیح مفہوم کے متعلق انگریزی میں شائع کر کے مفت تقسیم کیا جائے.آپ ہندوستان اور ( دینِ حق ) کی ایک بہت بڑی خدمت کریں گے.اگر انگریزی، اردو، ہندی اور پنجابی میں ان تمام تقاریر اور مضامین کو جو جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 257 فرقہ وارانہ اتحاد اور سیر وسوانح پیشوایان مذاہب کے متعلق ۱۹۴۸ء کے بعد سے پڑھے گئے ہیں مفت تقسیم کے لئے شائع کریں.والسلام آپ کا مخلص پروفیسر عبدالمجید جلد ۲۰ ایک عدالتی فیصلہ کچھ عرصہ ہوا اخبار پاک کشمیر راولپنڈی نے اپنی ایک اشاعت میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصرا حمد صاحب ایم اے آکسن پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے نام سے ایک سراسر جعلی خط شائع کیا اور پھر اس کی بناء پر مختلف الزامات عائد کئے.ازاں بعد اس فرضی خط کے پیش نظر اخبار تسنیم ( لاہور ) اخبار نوائے پاکستان (لاہور) اور اخبار کو ہستان (لاہور- راولپنڈی) نے حاشیہ آرائی کی اور خوب زہر اگلا.جس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے اخبار پاک کشمیر کے ایڈیٹر مسٹر محمد فیاض عباسی اور کو ہستان پریس راولپنڈی کے پروپرائٹر مسٹر عنایت اللہ کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ دائر کیا.ایڈمنسٹریٹو سول جج صاحب جھنگ کی عدالت سے مقدمہ کا فیصلہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے حق میں ہوا اور مبلغ ۵۲۵۰ روپے کل حرجانہ مطلوبہ کی ڈگری حق مدعی ہوئی.بلکہ عدالت نے قرار دیا کہ مدعی اس رقم سے بھی زیادہ حرجانہ طلب کر سکتا تھا.عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں لکھا کہ اخبارات کو کوئی حق نہیں کہ غیر موزوں ریمارک دیں یا کسی شخص کے چال چلن پر الزام لگائیں یا اس کے پیشے پر کوئی الزام عائد کریں.اخباری تنقید کا دائرہ اسی قدر وسیع ہے جیسا کہ کسی اور مضمون کا ، اس سے زیادہ نہیں.گو اخبارات کا فرض ہے کہ وہ اپنے ناظرین کی دلچسپی کے لئے ہر قسم کی خبر شائع کریں لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جو پبلک کی دلچسپی کا موجب ہو وہ قانون کی زد سے باہر ہو.جو صحافی ہتک آمیز اور جھوٹی شکایات شائع کرتا ہے وہ قانون کی زد سے باہر نہیں بلکہ اس پر اس بات کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غلط بیانیوں سے اجتناب کریں.( ترجمہ ) ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو پریذیڈنٹ صدر پاکستان جناب سکندر مرزا نے یوم جمہوریہ (۲۳ / مارچ) کے میڈل اور بیس ہزار روپے کا انعام موقع پر نامور سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پروفیسر امپیریل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو ان کی شہرہ آفاق ریسرچ اور گرانقدر خدمات کے اعتراف کے طور پر پریذیڈنٹ میڈل اور میں ہزار روپے کا
تاریخ احمدیت انعام عطا فرمایا.123 258 جلد ۲۰ سے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور گروپ اسی تقریب پر صدر مملکت کی طرف کیپٹن عبدالحئی صاحب کا قومی اعزاز کی ایس پی سابق فنانس سیکرٹری حکومت مغربی پاکستان اور گروپ کیپٹن ڈائریکٹر آف ٹیکنیکل سروسز عبدالحئی صاحب کو بھی فرض شناسی حسن کارکردگی اور خدمت جلیلہ کے صلہ میں تمغہ قائداعظم درجہ اول کا نمایاں قومی اعزاز دیا گیا.127 صفدر علی خانصاحب کا شاہی اعزاز اس سال ہر میجسٹی ملکہ الزبتھ دوم نے برطانوی دولت مشترکہ کی سربراہ کی حیثیت سے پاکستان ریڈ کر اس سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری جناب صفدر علی خاں صاحب کو ایسوسی ایٹ آفیسر برادر ( آرڈر آف سینٹ جان ) کا نمایاں اعزاز عطا کیا.آپ کو ہر میجسٹی کی طرف سے یہ شاہی اعزاز آپ کی ان شاندار خدمات کی بناء پر عطا کیا گیا جو آپ نے انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر قومی اور بین الاقوامی طور پر گزشتہ ۲۰ سال کے عرصہ میں انجام دیں.نائب صدر عالمی عدالت انصاف کے لئے ۱۷ اپریل ۱۹۵۸ء کو عالمی عدالت انصاف ہیگ کا حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کا انتخاب انتخاب عمل میں آیا جس میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب تین سال کے لئے نائب صدر کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے.ناروے کے حج کلاسٹیڈ (HELGE KLAESTAD) کو صدر عدالت منتخب کیا گیا.یہ ایک غیر معمولی کامیابی تھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے غیر معمولی حالات میں عطا فرمائی چنانچہ حضرت چوہدری صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں تحریر فرمایا و کل سہ پہر کے ( یعنی ۷ اراپریل ۱۹۵۸ء) کے اجلاس میں صدر اور نائب صدر کے انتخابات عمل میں آئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے نہ کہ خاکسار کی کسی خوبی یا خدمت کی وجہ سے خاکسار کو
تاریخ احمدیت 259 جلد ۲۰ نائب صدر کے انتخاب میں کامیابی عطا فرمائی.فالحمد للہ علی ذلک.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے مجھے متعلقہ فرائض کی کماتھہا سرانجام دہی کی توفیق عطا فرمائے اور اس اعزاز کو اپنی رضا اور خوشنودی کے حصول کا ذریعہ بنائے.آمین.صرف تین سال کی عدالت کی رکنیت کے بعد نائب صدر منتخب ہونا غیر معمولی ہے.خصوصاً جبکہ تین اور امیدوار ایسے تھے جن میں ایک تو صدارت کے امیدوار تھے اور ان کے متعلق توقع کی جاتی تھی کہ اگر صدر منتخب نہ ہوئے تو نا ئب صدر منتخب کر لئے جائیں گے.دوسرے امیدوار خود نا ئب صدر تھے اور صدر منتخب نہ ہونے کی صورت میں توقع رکھتے تھے کہ دوبارہ نا ئب صدر منتخب کر لئے جائیں گے اور تیسرے امیدوار بارہ سال سے عدالت کے رکن چلے آرہے ہیں.بہرحال اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات میں خاکسار کو کامیابی عطا فرمائی.اب اس دعا کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس عہدہ کے فرائض کو خیر و خوبی اور کامیابی کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.حضرت چوہدری برکت علی خاں صاحب یکم اپریل ۱۹۵۸ء کو ایک الوداعی تقریب ی وکیل المال اول کے عہدہ جلیلہ سے ریٹائر ہوئے.چوبیس اپریل ۱۹۵۸ء کو تحریک جدید کی طرف سے آپ کے اعزاز میں الوداعی تقریب ہوئی جس میں حافظ عبدالسلام صاحب وکیل اعلیٰ نے ایڈریس پیش کیا اور آپ کی ان شاندار خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جو حضرت چوہدری صاحب نے ۱۹۰۲ء سے ۱۹۵۸ء کے اوائل تک انجام دیں اور بالخصوص وکیل المال کی حیثیت سے تحریک جدید کے مالی نظام کو مستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور بتایا کہ آپ کا دفتری طریق کار وقف زندگی کا ایک انمول نمونہ پیش کرتا ہے.ایڈریس کے جواب میں حضرت چوہدری صاحب نے عزت افزائی کا شکریہ ادا کیا اور اس امر پر زور دیا کہ تحریک جدید کے ضمن میں جو تعریفی کلمات کہے گئے ہیں ان کے حقیقی مستحق سیدنا حضرت مصلح موعود ہیں کیونکہ حضور ہی کی توجہ ، دعا اور ہدایات کی بدولت ان کے لئے سلسلہ حقہ کی خدمت بجالا نا ممکن ہوا.آخر میں آپ نے عزم ، محنت شوق اور قربانی و ایثار سے متعلق حضور کی بعض زریں ہدایات پڑھ کر سنا ئیں جنہیں آپ نے ہمیشہ اپنے لئے مشعل راہ بنایا ور جن پر عمل پیرا ہوکر دوسرے کا رکن بھی اپنے فرائض احسن طریق سے انجام دے سکتے ہیں.124
تاریخ احمدیت 260 جلد ۲۰ کو چوہدری محمد عبد اللہ ناظم آباد کراچی میں بیت الذکر اور دارالمطالعہ کا سنگ بنیاد اسی روز (۲۴ راپریل خاں صاحب نے ناظم آباد کراچی میں بیت الذکر اور دارالمطالعہ کا سنگِ بنیاد رکھا.قبل ازیں ۶ را پریل کو سید نا حضرت مصلح موعود نے مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کی درخواست پر ایک اینٹ پر دعا کی جسے بنیاد میں سب سے پہلے نصب کیا گیا جس کے بعد اجتماعی دعا ہوئی.یہ زمین مسعود احمد صاحب خورشید (ابن مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ) نے خرید کر اپنے والدین کی طرف سے جماعت کراچی کو دے دی تھی.بستی رندان میں خوفناک آتشزدگی ڈیرہ غازیخاں شہر سے میں میل دور ضلع کے احمدیوں کی ایک کثیر تعدا د بستی رنداں میں آباد ہے.۲۸ /۱ اپریل ۱۹۵۸ ء کو یہاں آتشزدگی کی ہولناک واردات ہوئی.آگ نے بائیس مکانات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بیشتر مکانات کا اثاثہ نقدی، پارچات اور زیورات جل کر خاکستر ہو گئے اور یہ لوگ خانماں برباد ہو کر رہ گئے.مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر امیر جماعت ہائے احمد یہ ڈیرہ غازی خاں نے اس حادثہ کی اطلاع ملتے ہی جناب ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع ڈیرہ غازی خاں ، چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمد یہ لا ہور اور چوہدری عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ ملتان کو اس سے مطلع کر دیا.جس پر نہ صرف حکومت کی طرف سے خشک دودھ، گھی کے ڈبے، گندم اور رضائیاں وافر تعداد میں پہنچ گئیں بلکہ لاہور اور ملتان کی جماعتوں اور لجنہ اماء اللہ ڈیرہ غازی خاں کی طرف سے بھی نقدی، پار چات اور ظروف کی گرانقدر امداد حاصل ہوگئی جس سے ان تباہ حال اور مصیبت زدہ بھائیوں کو (جن میں غیر از جماعت بھی تھے ) اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں خاصی مددملی..IZA حضرت مصلح موعودؓ کی ڈاک آغاز خلافت ثانیہ سے ۱۹۵۷ء تک سید نا حضرت مصلح موعود ساری ڈاک خود کھول کر پڑھتے تھے مگر اس سال کے دوران یہ طریق حضور کی علالت طبع کے باعث تبدیل ہو گیا.اب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب براہ راست ڈاک پڑھنے اور حضور کی خدمت میں اسے پیش کر کے ہدایات لینے لگے.تا ہم جو نہی طبیعت میں بہتری کے آثار نمایاں ہوتے حضور اقدس گزشتہ معمول کے مطابق ڈاک ملاحظہ فرماتے
تاریخ احمدیت 261 جلد ۲۰ اور ہدایات جاری فرما دیتے.جس سے امام عالی مقام کی اولوالعزمی اور بنی نوع انسان خصوصاً جماعت سے محبت و شفقت کا پتہ چلتا ہے.ڈاکٹر خان کا حادثہ قتل اور جماعت احمدیہ کی طرف سے تعزیت و رمئی ۱۹۵۸ء کو مغربی پاکستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور سرحدی لیڈر عبد الغفار خاں کے بھائی ڈاکٹر خاں صاحب لاہور میں چھرا گھونپ کر ہلاک کر دئیے گئے.اس المناک سانحہ پر اخبار الفضل ربوہ نے ایک خصوصی اداریہ میں لکھا کہ : - ڈاکٹر خانصاحب کا بے دردانہ قتل فی الواقعہ ایک نہایت ہی سخت قومی سانحہ ہے جس کے لئے جتنا بھی افسوس کیا جائے تھوڑا ہے.آپ نہایت نیک دل انسان تھے.مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے.نہایت سادہ طبع اور ہر قسم کے تکلف سے بری تھے.ملنسار تھے اور آپ کی نظر میں چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں تھی اور نہ آپ کے دل میں کسی قسم کا تعصب ہی راہ پاتا تھا.کوئی ہو کہیں ہو آپ ہر وقت سب سے مل لیتے تھے.جہاں تک قومی خدمت کا تعلق ہے پاکستان بننے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ اس میں بھی کسی سے کم نہیں رہے.آپ نے چند ہی دنوں میں ملک وقوم کے دل میں اپنا اعتماد پیدا کر لیا تھا.آپ کے سیاسی خیالات سے خواہ کوئی کتنا ہی اختلاف رکھتا ہو مگر آپ کا بڑے سے بڑا سیاسی حریف بھی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ قومی خدمت میں مخلص نہیں تھے.سچی بات تو یہ ہے کہ آپ نے ایسے وقت میں سہارا دیا جب ملک کی سیاسی کشتی سخت طوفانوں میں گھری ہوئی تھی اور باوجود معمر ہونے کے آپ نے کام سے کبھی دل نہیں چرایا تھا.اور نہ آپ نے مخالفانہ تنقید کی کبھی پرواہ کی ہم اس فعل شنیع کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ملزم یا ملزمان کو جو بھی تحقیقات سے ثابت ہوں ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ آئندہ اس قسم کا واقعہ اس سرزمین میں ظہور پذیر نہ ہونے پائے.۱۸۰ 66 اس اداریہ کے علاوہ ناظر صاحب امور خارجہ صدرانجمن احمد یہ پاکستان نے محترم ڈاکٹر خان صاحب کے درد ناک حادثہ قتل پر جماعت احمدیہ کی طرف سے گہرے رنج و الم اور دلی
تاریخ احمدیت 262 جلد ۲۰ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۵۸ء کو مرحوم کے صاحبزادے خان سعد اللہ خان اور بھائی خان عبد الغفار خان صاحب نیز صدر مملکت جناب سکندر مرزا صاحب وزیر اعظم ملک فیروز خان صاحب نون ، گورنر مغربی پاکستان جناب اختر حسین صاحب اور صوبائی وزیر اعلیٰ جناب مظفر علی قزلباش صاحب کے نام حسب ذیل تعزیتی پیغامات بذریعہ تار ارسال کئے.ا.خان سعد اللہ خان ڈپٹی سیکرٹری مواصلات حکومت مغربی پاکستان اور خان عبدالغفار خان کے نام تعزیتی پیغام :- ڈاکٹر خاں صاحب مرحوم کا دردناک حادثہ قتل شدید صدمہ کا باعث ہوا.ان کی وفات ایک قومی نقصان ہے جماعت احمد یہ اس خوفناک المیہ پر گہرے رنج والم کا اظہار کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی روح اور اس بلند مقصد کو جس کی خاطر وہ تمام عمر جد و جہد کرتے رہے اپنی رحمت سے نوازے.براہ کرم ہماری طرف سے پر خلوص ہمدردی اور دلی تعزیت قبول فرمائیں.“ ( ناظر امور خارجه صدرانجمن احمدیہ ) ۲- صدر مملکت جناب سکندر مرزا، وزیر اعظم ملک فیروز خاں نون ، گورنر مغربی پاکستان جناب اختر حسین اور صوبائی وزیر اعلیٰ نواب مظفر علی قزلباش کے نام تعزیتی پیغام : - ڈاکٹر خان صاحب کے المناک قتل سے جماعت احمدیہ کو شدید صدمہ ہوا.ان کی وفات ایک قومی نقصان ہے.جس مقصد کے لئے وہ زندگی بھر کوشاں رہے اللہ تعالیٰ اسے کامیابی سے نوازے اور وہ تمام مخلص کارکن جو خدمت قوم کے جذبہ کے تحت مصروف عمل ہیں انہیں طاقت اور ہمت سے خدمات بجالانے کی توفیق عطا کرے.آمین.“ (ناظر امورِ خارجہ جماعت احمدیہ ) کراچی میں دوسری فری ڈسپنسری کی عمارت کا سنگِ بنیاد ۱۸۱ مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کی دوسری فری ڈسپنسری کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب ۱۷ / اگست ۱۹۵۸ء کو منعقد ہوئی.چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے تقریباً ۳۵۰ احباب کی موجودگی میں بیت احمد یہ گولیمار کے ملحقہ پلاٹ میں سنگ بنیاد رکھا.آپ اس تقریب میں شرکت کے لئے
تاریخ احمدیت 263 جلد ۲۰ حیدرآباد سے تشریف لائے تھے.قائد مجلس خدام الاحمدیہ کراچی مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نے ایڈریس پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ خدمتِ خلق کا کام عوام اور عوامی جماعتوں کو کرنا چاہئے.اور اس کے لئے ہمیں حکومت کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ احمدیت کا واحد مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے اور اسی مقصد کے پیش نظر مجلس کراچی نے شہر کے مختلف علاقوں میں فری ڈسپنسریاں کھولنے کا پروگرام بنایا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مارٹن روڈ میں ایک لائبریری اور ایک ڈسپنسری کی تعمیر اس وقت تکمیل کے آخری مراحل میں ہے.اب یہ دوسری ڈسپنسری گولیمار کے علاقہ میں یہاں عوام کی سہولت کے پیش نظر کھولی جا رہی ہے.امیر صاحب نے مختصر خطاب میں فرمایا کہ ہمیں خدمت خلق کرتے وقت یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ یہ شخص کس فرقہ سے یا قوم سے تعلق رکھتا ہے بلکہ ہر شخص جو مصیبت میں ہو ہماری توجہ کا مستحق ہونا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ انسان کا واحد مقصد ایک دوسرے سے رحم اور محبت کا سلوک کرنا ہے.آپ نے کارکنوں سے فرمایا کہ وہ نیک جذ بہ سے مخلوق خدا کی امداد کریں اور یہ ذہن میں رکھیں اور ابھی اور بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں اس قسم کی ڈسپنسریوں کی ضرورت ہے.حاضرین میں ایک خاص تعداد غیر از جماعت احباب کی تھی جنہوں نے مجلس کی اس کوشش کو سراہا.۱۱۸۲ ,, کتاب لائف آف محمد پر صدق جدید“ کا تبصرہ “ اخبار صدق جدید لکھنو کے ایڈیٹر مولانا عبدالماجدی صاحب دریا آبادی نے سید نا حضرت مصلح موعود کی مشہور تالیف ”لائف آف محمد“ پر حسب ذیل تبصرہ کیا :- لائف آف محمد (انگریزی) (از مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ جماعت احمد یہ ۲۲۱ صفحه مجلد مع گرد پوش.پتہ احمدیہ مسلم فارن مشن آفس.ربوہ، پاکستان) سیرت نبوی پر یہ ایک جامع کتاب خلیفہ قادیان مرزا بشیر الدین محمود کے قلم سے ہے.سارے واقعات زندگی کے ساتھ ( جو خاصی تفصیل سے درج ہیں) سب سے زیادہ زور حضور کے اخلاقی اوصاف پر دیا ہے غیر مسلم اگر اس کا مطالعہ کریں گے تو ضرور انہیں ذات مبارک کے ساتھ گرویدگی پیدا
تاریخ احمدیت 264 جلد ۲۰.ہو جائے گی.اور انگریزی خوان مسلمان پڑھیں گے تو وہ بھی اچھا ہی اثر لیں گے.شروع میں فہرست مضامین خوب مفصل ہے.کتاب جہاں تک کہ تبصرہ نگار اس کے سرسری مطالعہ سے اندازہ کر سکا ہے تبلیغ احمدیت کے نہیں تبلیغ محمدیت کے نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہے اور اختلافی مسئلوں کے چھیڑنے سے احتیاط برتی گئی ہے.کاغذ ، جلد ، چھپائی وغیرہ ظاہر لوازم بھی پسندیدہ ہیں.۱۸۳ ڈھا کہ میں جلسہ سیرت النبی ۷ ستمبر ۱۹۵۸ء کو جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام ڈھا کہ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شاندار جلسہ منعقد ہوا.صدر جلسہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد ابراہیم صاحب تھے.نامور غیر مسلم مقررین نے اپنی تقاریر میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پُر خلوص خراج عقیدت پیش کیا.ڈاکٹر گورند چند رادیو پروفیسر ڈھا کہ یونیورسٹی نے فرمایا کہ اسلام کے معنی امن کے ہیں اور آج کل تمام قومی اور بین الاقوامی معاملات میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ امن ہی ہے.موجودہ معاشرہ کی سب سے بڑی خرابی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور افلاس ہے جس کا واحد حل نماز اور زکوۃ سے متعلق اسلامی تعلیم ہے.جناب اجیت کمار گوہا پروفیسر جگن ناتھ کالج ڈھا کہ نے فرمایا کہ یہ پیغمبر اسلام ہی تھے جنہوں نے ایک ایسا مذہب پیش کیا جو انسانی زندگی کی صحیح حدود کو تسلیم کرتا ہے اور پیشوایان مذاہب کو قابل احترام تسلیم کرنے پر زور دیتا ہے.مولوی سید اعجاز احمد صاحب مربی سلسلہ احمدیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے عشق و محبت پر روشنی ڈالی.اور آنحضرت کے ارفع مقام اور مثالی کارناموں کی نہایت خوش اسلوبی سے وضاحت کی.ڈھاکہ کے نامور مسلمان لیڈر جناب غلام قادر صاحب ایم.پی.اے نے اس حقیقت پر زور دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل متحدہ انسانیت کا عالمی تصور پیش فرمایا تھا.جلسہ میں ہر طبقہ و مسلک کے معززین بھاری تعداد میں شامل ہوئے.۱۸۴ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ایڈیشنل ناظر مباہلہ سے متعلق ضروری ہدایات اصلاح و ارشاد کے قلم سے الفضل ۲ /نومبر ۱۹۵۸ء کے صفحہ ۶ پر حسب ذیل اعلان سپر دا شاعت ہوا: -
تاریخ احمدیت وو 265 مباہلہ کوئی کھیل اور مذاق نہیں بلکہ عقائد کے فیصلے کا ایک آخری طریق ہے.اس لئے اس میں تمام شرائط اور حالاتِ حاضرہ کو ملحوظ رکھنا از بس ضروری ہے وہ شرائط حسب ذیل ہیں :- اول:- مباہلہ سے پہلے عقائد کے بارہ میں اچھی طرح تبادلہ خیالات ہو جانا چاہئے تا کہ فریقین کسی غلط فہمی میں مباہلہ کا اقدام نہ کر لیں.دوم مباہلہ قوم کے سر بر آوردہ اور لیڈروں کے درمیان ہونا چاہئے جن کی ذاتی حیثیت اور وجاہت قوم پر اثر انداز ہو سکے.سوم: - مباہلہ کے فیصلہ کے لئے حسب حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ضروری طور پر ایک سال میعاد ہونی چاہئے.بصورت ثانی مباہلہ سنت طریق کے خلاف ہوگا.جلد ۲۰ ضروری نوٹ : - موجودہ حالات میں احمدیوں کی طرف سے دعوتِ مباہلہ کا دیا جانا مناسب نہیں کیونکہ اس سے دو فریق میں کشمکش پیدا ہونے کا احتمال ہوسکتا ہے جو موجودہ دور میں مستحسن نہیں.کیونکہ تجربہ سے یہ ثابت ہے کہ عام لوگ مباہلہ کی اصل روح سے ناواقف ہیں اس لئے اسے منافرت کا ذریعہ بنا سکتے ہیں.پس جماعتیں مطلع رہیں اور ایسی دعوت پر مرکز کی طرف رجوع کریں.“ احمدیت کے مایہ ناز فرزند اور پاکستان کے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا نیا اعزاز نامور سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو کیمبرج یونیورسٹی نے دنیائے سائنس میں آپ کی گراں قدر خدمات اور زبر دست تحقیقات کی بناء پر آپ کو مشہور عالم انعام ہاپکنس پرائز کا مستحق گردانا.اس نئے اعزاز پر پاکستان کے روز نامہ ڈان نے اپنی ۹ / دسمبر ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل خبر شائع کی جو اس کے نامہ نگار خصوصی مقیم لندن جناب نسیم احمد صاحب نے ارسال کی تھی :- 9 لندن ۸/دسمبر.جوہری توانائی کے نامور پاکستانی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو جو لنڈن یونیورسٹی میں شعبہ ریاضیات کے صدر ہیں ہاپکنس پرائز کا مستحق قرار دیا گیا ہے.ہاپکنس پرائز (HOPKIN'S PRIZE) کیمبرج یونیورسٹی میں اول اول ۱۸۶۷ء میں شروع ہوا تھا.اور سب سے پہلے سرجی جی سٹوکس (SIR G.G.STOKES " جیسی
تاریخ احمدیت 266 نامور شخصیت کو یہ انعام ملا تھا.قریب زمانہ میں جن لوگوں کو اس انعام کا مستحق گردانا گیا ہے ان میں پروفیسر سی.ایف پاول (C.F POWELL) اور سر جان کا کرافٹ (SIR, JOHN COCKROFT) شامل ہیں.ان میں سے مؤخر الذکر وہ نامور سائنسدان ہیں جنہیں برطانیہ میں وسیع پیمانے پر جوہری توانائی کی ترقی کا علمبردار تصور کیا جاتا ہے.یہ انعام کیمبرج یونیورسٹی کی فلاسافیکل سوسائٹی ریاضیات کی تجربانی سائنس یا ریاضیاتی طبیعات کے میدان میں بہترین سرگزشت پیش کرنے یا کوئی نئی دریافت یا ایجاد کرنے کی بناء پر ہر تین سال کے بعد دیا جاتا ہے.” پروفیسر سلام سب سے چھوٹی عمر کے وہ نامور پروفیسر ہیں کہ جنہیں برطانوی یو نیورسٹی کے کسی شعبہ علم میں صدارت کا منصب سنبھالنے کا اعزاز حاصل ہے.گزشتہ سال آپ کو سائنس کے میدان میں گراں قدر تحقیقات کی بناء پر عالمی پیمانے پر خراج تحسین وخراج عقیدت پیش کیا گیا تھا.آپ کی یہ گراں قدر تحقیق ہی تھی کہ جو دو امریکی سائنسدانوں کو نوبل پرائز“ دلانے کا موجب بنی.نوبل پرائز حاصل کرنے والے ان دونوں سائنسدانوں نے اپنے مقالہ میں پروفیسر سلام کے کار ہائے نمایاں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی بہت تعریف کی تھی.کچھ عرصہ پروفیسر سلام“ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے مشیر بھی رہے لیکن دو سال قبل جب آپ کو لنڈن یونیورسٹی میں شعبہ ریاضیات کی مسند صدارت پیش کی گئی تو آپ کو اس عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا اب آپ کو جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں سائنسی علوم پر لیکچر دینے کے لئے مدعو کیا گیا ہے.یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ پروفیسر سلام جیسے نامور پاکستانی سائنسدان کو جنہیں صدر پاکستان کا سائنسی ایوارڈ پیش کیا گیا تھا اطراف و جوانب عالم میں تو لیکچر دینے کے لئے مدعو کیا جاتا ہے لیکن ان کے اپنے ملک میں انہیں اس غرض کے پیش نظر کبھی مدعو نہیں کیا گیا.آئندہ ماہ کراچی میں جو سائنس کانفرنس منعقد ہورہی ہے اور جس کا افتتاح ڈیوک آف اڈنبرا کریں گے اگر اس میں پروفیسر سلام جیسے نامور سائنسدان کو سائنسی علوم پر تخلیقی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 267 جلد ۲۰ مقالے پیش کرنے کی دعوت دی جائے تو یہ امر بہت کچھ استفادہ کا موجب ہوسکتا ہے.( ترجمہ ) اس سال بھی دنیا کے تمام بیرونی ممالک کے احمد یہ مشکوں کی دینی سرگرمیاں احمدی مشن دین حق کی اشاعت کے جہاد میں سرگرم عمل رہے جیسا کہ مشنوں کی مطبوعہ رپورٹوں کے درج ذیل خلاصہ سے واضح ہوگا.امام بيت فضل لنڈن مولود احمد خان صاحب دہلوی نے مشن ہاؤس کے علاوہ انگلستان انگلستان کی بعض اہم سوسائٹیوں مثلاً تھیوسوفیکل سوسائٹی روٹری کلب اور اسلامک سوسائٹی آف برسٹل کے زیر اہتمام فاضلانہ لیکچر دیئے.جن کی علمی طبقوں میں خوب پذیرائی ہوئی اور ان کو نہایت درجہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور سنا گیا.چنانچہ صدر روٹری کلب لندن بیلے ڈبلیو بیرل نے امام صاحب کی خدمت میں مکتوب لکھا کہ میں کلب کے جملہ ممبران کی طرف سے آپ کے انتہائی دلچسپ اور معلوماتی لیکچر پر جو آپ نے ہمارے کلب میں تشریف لا کر دیا نہایت درجہ خلوص کے ساتھ آپ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.یقیناً آپ کے اس لیکچر سے ہمیں اسلام کے بنیادی اصولوں اور اعتقادات کا جو آپ کو بے حد عزیز ہیں صحیح اور مکمل تصور قائم کرنے میں بہت مدد ملی.مسٹر لارنس رابنسن ( کیلفورنیا کی مشہور فرم میسرز لارنس، رابنسن اینڈ سنز کے مالک نے تحریر کیا کہ آپ نے پچھلے دنوں روٹری کلب میں جو لیکچر دیا تھا میں اس سے بے حد محظوظ ہوا میں اس خط کے ذریعہ آپ کے عمدہ لیکچر اور اس کے نفس مضمون کے بارہ میں از راہ تو صیف کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس سے میں بے حد مستفیض ہوا ہوں.روٹری کلب کی تقاریر کا اثر خاص طور پر نہایت گہرا ہوا اور سامعین کے قلوب و اذہان میں ( دین حق ) کی خوبیاں گھر کرنے لگیں چنانچہ "EASHER NEWS ADWERTISER" نے لکھا کہ ایشر روٹیرین نے آج ایک غیر معمولی تقریر امام صاحب لندن بیت الذکر کی زبانی سنی.مسٹر مولود انٹر ورتھ روٹری کلب کے ممبر ہیں.انہوں نے بتایا مغرب میں علوم کا چرچا ہونے کے باوجود یہاں کے لوگ مذاہب کے متعلق اتنا نہیں جانتے جتنا مشرقی اقوام جانتی ہیں.( دین حق ) اور مسلمانوں کے متعلق عیسائیت کو بہت تھوڑا علم ہے حالانکہ مسلمان خصوصاً احمد یہ جماعت کے افراد عیسائیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں.چنانچہ انہوں نے ( دین حق ) اور عیسائیت میں اختلافات کچھ اسی انداز سے بیان کئے کہ حاضرین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.انہوں نے ( دینِ حق ) کی
تاریخ احمدیت مذہبی رواداری پر بہت زور دیا.268 جلد ۲۰ CATERHEM کی روٹری کلب میں بھی امام صاحب نے تقریر کی.SCOTCH روٹیرین نے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عجیب بات ہے کہ ہم بھی مذہبی رواداری کا چرچا کرتے ہیں مگر جہاں مسلمان حضرت مسیح ناصری کو خدا کا سچا نبی مانتے ہیں اور ہر قبیلہ اور قوم میں خدا کے مامورین کے قائل ہیں وہاں عیسائیت کی تعلیم کے مطابق ہم حضرت محمد کو خدا کا سچا نبی نہیں مانتے.آپ نے اسلامک سوسائٹی برسٹل کے زیر اہتمام برسٹل یونیورسٹی اور برسٹل کے ایک چرچ میں بھی معلومات افروز لیکچر دیئے جن کو اسلامک سوسائٹی کے سیکرٹری ایم آفریدی نے اس کو بہت سراہا اور اپنے ایک مراسلہ میں امام صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ آپ کی دونوں تقریر میں سامعین نے بہت پسند کیں اور میرا خیال ہے وہ روشن خیالات کو ابھارنے والی اور نہایت سادہ اور احسن طریق پر کی گئی تھیں.دوسرے دن ہوسٹل روٹری کلب کے صدر مسٹر سیش ورڈ (SISHE WIRDE) نے مجھ سے ذکر کیا کہ جو کچھ آپ نے ” ( دین حق ) ایک عام فہم مذہب ہے“ کے تحت بیان کیا وہ اس سے بہت ہی متاثر ہوئے دوسرے معزز حاضرین کے بھی یہی احساسات ہیں جن میں ہمارے صدر ڈاکٹر سید یوسف بھی شامل ہیں.مسٹر ڈگلس جیمز (DOUGLAS JAMES) جنہوں نے BEDMINSTER میں آپ کی تقاریر کا انتظام کیا تھا مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے کہا ہے انہوں نے کہا ہے کہ آپ نے ان کو اور ان کے دوسرے نوجوان دوستوں کو ( دینِ حق ) اور عیسائیت کے متعلق بہت خیالات قائم کرنے کا موقع دیا ہے.آپ کو دوبارہ ملنے کا متمنی اور آپ کے بہترین حالات کا دعا گو.آپ کا مسلم بھائی.ایم آفریدی امام بیت فضل لنڈن نے پٹنی ہائی سکول کی ۳۰ طالبات میں اسلامی تعلیم پر مؤثر لیکچر دیا.جس پر سکول کی ہیڈ مسٹرس نے ایک خط میں لکھا کہ لڑکیوں نے آپ کے خطاب کو بہت دلچسپی.سنا اور بہت متاثر ہوئیں.ہم آپ کی تشریف آوری کو اور ہمیں خطاب کرنے کے لئے وقت نکالنے کو بہت پسندیدگی سے دیکھتے ہیں.خیر اندیش K-HOLLIDAY (ہیڈ مسٹر لیں).ایک طالبہ نے یہ لکھا کہ جناب عالی.میں آپ کی خصوصا مشکور ہوں اور آپ کی تقریر پر مسرت کا اظہار کرتی ہوں ہمیں اسلام کے مختصر سے مطالعہ میں کئی ایک مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا.میں خود قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے شادی اور طلاق کے نظریات پڑھتے وقت بہت
تاریخ احمدیت 269 جلد ۲۰ الجھن میں پڑ جاتی تھی اور میں ممنون ہوں کہ آپ نے ان مسائل کی نہایت سادہ اور واضح تشریح میں اپنی تقریر کی.ہم سب نے اس امر کو کہ اسلام عیسائیت کو کیا سمجھتا ہے نہایت دلچسپی سے سنا.مسئلہ صلیب کے متعلق آپ کے اسلامی نظریات ہمارے لئے ایک نئی چیز تھی.دونوں مذاہب کے متعلق کے سلسلہ میں آپ کی اس قدر واضح تشریح نے ہمیں اسلام کو سمجھنے میں کافی مدد دی ہے.بالآخر میں تمام طالبات کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے ہمیں ایسے دلچسپ خطاب سے ممنون کیا.نیز ہمارے تمام سوالات کا اس قدر واضح اور تسلی بخش جواب دیا.خیر اندیش میرٹن ڈنکسن اس سال احمد یہ مشن میں غانا کے ہائی کمشنر اور سفیر انڈونیشیا جیسی اہم شخصیات کے اعزاز میں شاندار تقریبات کا انعقاد عمل میں آیا.چنانچہ یکم مارچ ۱۹۵۸ء کو غانا کے ہائی کمشنر مسٹر سافوا جیسے کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا جس میں لنڈن کے لیڈی میٹرس برطانوی پارلیمنٹ کے رکن سر ہیرلڈ شوبرٹ نیز پاکستانی ہائی کمیشن کے اعلیٰ حکام اور پاکستان کے چالیس سے بھی زیادہ سر بر آوردہ اصحاب شریک ہوئے.اس موقع پر جناب مولود احمد خاں صاحب نے مختصر تقریر کی.ہائی کمشنر صاحب غانا نے جوابی تقریر میں اپنی عزت افزائی پر جماعت احمدیہ کے لنڈن مشن کا شکر یہ ادا کیا اور جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کو سراہا جو وہ غانا میں سرانجام دے رہی ہے.آپ نے بالخصوص ان سکولوں اور کالج کا ذکر کیا جو جماعت احمدیہ کے غا نامشن نے وہاں قائم کئے ہیں.۲۱ را پریل کو عید الفطر کی تقریب کس شان سے منائی گئی؟ اس کی تفصیل پاکستان ٹائمنر کے سٹاف رپورٹر کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.سٹاف رپورٹر نے ” خالص دینی ماحول کے زیر عنوان لکھا : - پٹنی کی بیت فضل میں جو جماعت احمدیہ کے مشن کا ہیڈ کوارٹر ہے قریباً ۸۰۰ افراد عید الفطر کی تقریب میں شریک ہوئے ان میں ایک خاصی تعداد غیر مسلم مہمانوں کی بھی تھی.یہ لوگ پبلسٹی کا بہتر شعور رکھتے ہیں.اس موقع پر ان کی طرف سے ہر سال ہی بہت بڑی تعداد میں نامور شخصیتوں کو مدعو کیا جاتا ہے.امسال ان کے ہاں عید کی تقریب میں لنڈن کے سات میئر اور بہت سے سیاسی مد بر شریک ہوئے.پھر ان میں وہ سفارتی حکام بھی شامل تھے جنہوں نے اس تقریب میں مغربی جرمنی ، نیپال اور ہندوستان کی نمائندگی
تاریخ احمدیت 270 جلد ۲۰ کی.روسی سفارتخانے کے فرسٹ سیکرٹری خود روسی سفیر مسٹر جیکب ملک کے نمائندے کے طور پر آئے ہوئے تھے.کیونکہ سفیر موصوف ذاتی طور پر شریک نہیں ہو سکے.امام بیت فضل لنڈن جناب مولو داحمد خان نے اس خیال سے کہ غیر مسلم مہمان اسلامی تعلیمات سے مستفید ہوسکیں اپنے خطبہ میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی.آپ نے قرآن مجید میں پیشگوئیوں کے ذکر اور ان کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سورۃ القارعہ کو خاص طور پر پیش کیا اور اس کی آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان میں ایک بہت بڑی عالمگیر مصیبت کی خبر دی گئی ہے جو دنیا کی دو مخالف طاقتوں کی باہمی لڑائی کے نتیجہ میں رونما ہوگی اس وقت انسان پروانوں اور پتنگوں کی طرح پراگندہ حالت میں ہوں گے اور پہاڑ دھنگی ہوئی پشم کی طرح نظر آئیں گے.آپ نے بتایا کہ ان آیات میں ایٹمی جنگ کے نتائج کی طرف اشارہ کیا گیا 66 DAY -4 ۲۳ را گست ۱۹۵۸ء کو سفیر انڈونیشیا ہز ایکسی لینسی ڈاکٹر سناریو کے اعزاز میں پر تکلف دعوت دی گئی.ہز ایکسی لینسی نے لندن مشن اور بیت الذکر فضل لندن کی تعمیر پر جماعت کو بہت بہت مبارکباد دی.مولود احمد خان صاحب نے جماعت احمد یہ لنڈن کی طرف سے آپ کو خوش آمدید کہا اور اپنی تقریر میں جماعت کی مختصر تاریخ اور احمدیت کی غرض و غایت بیان کی.ہز ایکسی لینسی نے جوا با جماعت احمد یہ لنڈن کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے فرمایا ” ہم مسلمان ہیں اور دو ایسی قوموں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بہت سی باتیں آپس میں ملتی ہیں ہماری تاریخ، ماضی و مستقبل بھی ایک دوسرے کے بہت قریب ہے اور ہمارے مقاصد کے پورا ہونے کا ایک دوسرے پر بہت انحصار ہے مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے دعوت دی اور مجھے یہاں آنے کا موقع ملا.اس طرح آپ سب سے بہت سی اہم باتوں پر گفتگو کا بھی موقع ملا جو ہمارے اور آپ کے مستقبل کے لئے بہت ضروری ہیں.آپ نے فرمایا جماعت احمدیہ سے میرا تعارف ۱۹۲۹ ء یا ۱۹۳۰ء میں ہوا.جماعت کے دوستوں سے تو اتنا نہیں جتنا کہ جماعت حمدیہ کی انگریزی تصنیفات سے.اور میں نے جماعت احمدیہ کے قیام اور اس کے مقاصد کو بڑی دلچسپی سے پڑھا.اس وقت میں انڈونیشیا میں وکالت کرتا تھا اور مجھے مختلف مذاہب کو پڑھنے اور انہیں
تاریخ احمدیت سوئٹزرلینڈ 271 جلد ۲۰ قریب سے دیکھنے کا بہت شوق تھا.اس طرح مجھے آپ کے خیالات ، مقاصد ، اور احمدیت کی تعلیم پڑھنے کا موقعہ ملا اور آپ لوگوں کے اسلامی تاریخ پر مکمل عبور سے میں بہت متاثر ہوں اور سمجھتا ہوں کہ آپ اسلامی تعلیمات کو بیان کرنے میں بہت آگے ہیں.میرے خیال میں آپ کی اسلامی سعی و جد و جہد ایک مکمل پیغام کی حیثیت رکھتی ہے س نے مجھے وسعت خیال اور اسلامی رواداری سے روشناس کرایا جو تاریخ اسلام کی بنیاد ہیں.الغرض مجھے جماعت احمدیہ سے انہی ایام سے بہت اخلاص ہے.مجھے انڈونیشیا میں ایک احمدی دوست سے بھی ملاقات کا موقعہ ملا.شاید اب وہ وہاں کے امیر جماعت ہیں مگر سب سے بڑی بات یہ تھی کہ انہوں نے قرآن مجید کا ترجمہ ڈچ زبان میں کیا تھا نیز اور بھی بہت سی کتب ڈچ زبان میں ( دین حق ) پر لکھی تھیں.حقیقتاً میرے لئے وہ ایک لمحہ فکر یہ تھا جبکہ آپ کے امام صاحب نے مجھے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ پیش کیا میں اس تحفہ کو ہمیشہ لنڈن کی بہترین یادگار کے طور پر رکھوں گا.شیخ ناصر احمد صاحب انچارج سوئٹزر لینڈ عرصہ سے مشن کو سرکاری طور پر رجسٹرڈ کئے جانے کی جدوجہد میں مصروف تھے جو اس سال فروری میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی.جونہی اس کا اعلان سرکاری گزٹ میں ہوا ملک بھر کے اخبارات میں مضامین شائع ہونے شروع ہو گئے کہ اب اسلام نے اپنے آپ کو ملک میں منتظم کر لیا ہے.اس مشن کو انفرادی کوشش نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی تدبیر کا جال ہے جو اس بات کی مظہر ہے کہ احمدی رکنے والے نہیں اب چرچ کا فرض ہے کہ مقابلہ کے لئے تیار ہو جائے اس طرح خالص خدائی تصرف سے ملک کے طول و عرض میں جماعت احمدیہ کے مشن کی مفت میں تشہیر اور منادی ہو گئی.سوئٹزرلینڈ کے تقریباً ۲۲ اخبارات نے رجسٹریشن کے موقع پر جماعت احمدیہ کی مساعی کا تذکرہ کیا ایک مشہور اخبار "REFORMIERTES VOLKSBLATT" نے یکم مارچ ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں لکھا کہ : - ”مرزا غلام احمد (علیہ السلام ) جنہوں نے (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور سابقہ کتب سماوی کی پیشگوئیوں کے بموجب مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعوی کیا جماعت احمدیہ کے بانی تھے.اس جماعت کا مقصد حقیقی اور خالص اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانا ہے اس کا دعوی ہے کہ اسلام آخری اور کامل ترین آسمانی ہدایت ہے.بناء بریں تمام دنیا کے لئے اس کو قبول کرنا ضروری
تاریخ احمدیت 272 جلد ۲۰ ہے.یہ جماعت....بنی نوع انسان کو کسی گری ہوئی حالت سے اٹھانے اور دنیا میں حقیقی امن کے قیام اور اس کی راہ ہموار کرنے کی دعویدار ہے.یورپ میں سے انگلستان ، ہالینڈ، جرمنی ، سپین، سویڈن اور سوئٹزر لینڈ میں اس جماعت کے با قاعدہ تبلیغی مراکز قائم ہیں.جیسا کہ سوئٹزر لینڈ کے سرکاری گزٹ کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے فرقہ احمدیہ نے اپنے آپ کو اور زیادہ منظم کر لیا ہے.یہ اس بات کی علامت کرلیا ہے کہ آج سے چند سال قبل اس نے سوئٹزرلینڈ میں تبلیغ اسلام کی جس مہم کا آغاز کیا تھا یہ اسے اور زیادہ وسیع کرنا چاہتی ہے اس کی کوشش یہ ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے اپنے میدان کو اور زیادہ زرخیز بنائے تا اچھی فصل حاصل کر سکے.چونکہ جماعت کی مجلس عاملہ میں خود سوئٹزرلینڈ کے بعض باشندوں کے نام بھی شامل ہیں لہذا یہ باور کرنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ ان کی تبلیغی مساعی بارآور ثابت ہورہی ہیں.اس مسلم جماعت کی موجودگی اس ضرورت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہم عالمی مذاہب کے اندر رونما ہونے والی تحریکات سے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ باخبر رکھیں اور ان کی طرف خاص توجہ دیں.چونکہ یہ اسلامی تحریک کتابوں رسالوں اور ٹریکٹوں کی اشاعت کے ذریعہ اثر و نفوذ حاصل کرنا چاہتی ہے اس لئے ہمارے مذہبی لوگوں کا یہ فرض ہے کہ وہ طلبہ کو مذہبی بحث و مباحثہ کی زیادہ سے زیادہ تربیت دیں.( ترجمہ و تلخیص ) شیخ ناصر احمد صاحب نے اس سال زیورک، بازل، برن اور بون میں کامیاب دیئے.نیز حاضرین کے سوالوں کے جوابات دیئے.آپ کی ایک تقریر ینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن میں اسلام میں مسیح کے مقام پر ہوئی اسی طرح دینیات کے ایک کالج سے آپ نے دو مرتبہ خطاب کیا.آپ نے ۱۹۵۸ء میں جن اہم موضوعات پر روشنی ڈالی ان میں سے بعض یہ تھے :- ( دین حق ) آجکل ، ( دینِ حق ) کا اثر مغربی تمدن پر ، ( دین حق ) یورپ میں، ( دین حق ) اور مغرب، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم.سوئٹزرلینڈ مشن کے ترجمان رسالہ ”اسلام“ کے علمی اثرات کا حلقہ اس سال سے پہلے
تاریخ احمدیت 273 جلد ۲۰ بہت زیادہ وسیع ہو گیا اور دین حق کی مقبولیت میں اضافہ کا موجب بنا جس کا کسی قدر اندازه قارئین کی مندرجہ ذیل آراء سے ہوسکتا ہے :- ایک صاحب نے لکھا کہ رسالہ کے ذریعہ احمدیت کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا ہے ایک اور صاحب نے لکھا کہ اس رسالہ سے اسلام کو جونفوذ حاصل ہو رہا ہے اسے دیکھ کو بہت خوشی ہوتی ہے.مجھے آپ کے رسالہ سے دلی لگاؤ ہے.یہ ہر دفعہ میرے لئے ذہنی جلا کا سامان فراہم کرتا ہے اسی طرح ایک اور صاحب کا خط موصول ہوا کہ میں رسالہ کے نئے پرچہ کا ہر دفعہ شوق سے انتظار کرتا ہوں.آپ کا یہ رسالہ مہینہ میں دوبار بلکہ ہر ہفتہ شائع ہونا ا چاہئے تا اسلام مقدس کے خلاف یورپین پریس کے ذریعہ پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور تعصبات کا جواب دیا جا سکے.ایک اور نوجوان نے لکھا اسلام سے مجھے دلچسپی ہے کیونکہ یہ ایک اہم عالمگیر مذہب ہے.ان ممالک میں اسلام کو لوگ نہیں جانتے بلکہ بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں جماعت احمدیہ اسلام کی بہت خدمت کر رہی ہے.یہ جماعت اسلام کی عزت کو دوبارہ قائم کرتی ہے.آپ کی کوششوں کا بہت بہت شکریہ.سوئٹزرلینڈ کی نوجوان سرگرم عمل جماعت احمدیہ کو میرے جذبات پہنچا دیں.یہ لوگ ہر احترام کے اہل ہیں ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے.اکتوبر ۱۹۵۸ء کے آخر میں نئے پوپ کا انتخاب عمل میں آیا.جس پر شیخ صاحب نے رومن کیتھولک دنیا کے جدید مذہبی لیڈر کے نام ایک تبلیغی مکتوب لکھا جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد ۱۲ صفحہ ۱۱۳ میں بتایا جاچکا ہے.اس سلسلہ میں آپ نے ایسا انتظام فرمایا کہ انتخاب کی اطلاع کے نصف گھنٹہ کے اندر اندر اسے بھجوا دیا گیا اور اس کی نقول پریس ایجنسیوں اور مختلف ممالک کے چیدہ چیدہ اخباروں کو بھی ارسال کر دی گئیں.اس غرض کے لئے انہوں نے ایک مسلم پریس سروس جاری کی.آپ نے پہلے مکتوب کے چار ہفتہ بعد ایک دوسرا خط عزت مآب پوپ صاحب کو لکھا جس میں سیدنا حضرت مصلح موعود کی اس دعوت کا ذکر کیا جو حضور نے انگریزی ترجمہ قرآن کے دیباچہ میں پوپ اور ان کے نمائندوں کو اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے دے رکھی تھی.اس خط کی نقول بھی سائیکلو سٹائل کے ذریعہ مسلم پریس سروس کی طرف سے پریس کو پہنچا دی گئیں.مشن نے ۱۹۵۸ء میں ایک رسالہ احمدیت " پر شائع کیا جس میں سلسلہ احمدیہ کی مختصر تاریخ کے علاوہ نظام جماعت کی جھلک بھی دکھائی گئی تھی جن لوگوں کو تر جمہ قرآن اور دیگر لٹریچر تحفہ دیا گیا ان میں ایک اہم بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری کے ڈائر یکٹر خاص طور پر قابلِ
تاریخ احمدیت ذکر ہیں.274 جلد ۲۰ سوئٹزرلینڈ کے ایک عیسائی طالب علم مسٹر والٹر ہمرمان نے احمد یہ مشن کی قابل قدر دینی مساعی سے متاثر ہو کر اسلام کے متعلق ایک مفصل مضمون سپر د قلم کیا جس میں بڑی تفصیل سے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ پادریوں نے مغربی ممالک میں اسلام کو سراسر غلط رنگ میں پیش کیا ہے.نیز بتایا کہ مستقبل میں اسلام عیسائیت کے ہر پہلو پر غالب آکر رہے گا.انسانوں کی خوش قسمتی اس میں ہے کہ دنیا میں ایک ہی مذہب ہو یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا لایا ہوا دین.مسٹر والٹر نے مضمون کے آخر میں یہ تجاویز پیش کیں کہ : ہالینڈ سوئٹزرلینڈ میں مزید مشن کھولے جانے چاہئیں.مزید اجلاس منعقد کئے جانے چاہئیں.تا کہ اسلام قدم جمائے اور دلوں کو فتح کر سکے.اسلامی تعلیم پر مشتمل کتب اور رسالے کم قیمت پر میسر تو آتے ہیں تاہم ان کی اشاعت اور زیادہ کی جانی چاہئے اگر جماعت احمدیہ کا ہر فرد تبلیغ کر ہے تو اسلام سوئٹزرلینڈ میں قدم جما سکتا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابتدائی مشکلات بہت سخت ہیں بالخصوص ایک ایسے ملک میں جہاں غلط پراپیگنڈا کا زور ہوتا ہم جو نہی عوام میں سے بعض لوگ اسلام کی عظمت کا علم حاصل کر لیں گے اور پھر اسے دوسروں تک پھیلائیں گے تو کامیابی بھی جلد آجائے گی.(ترجمہ) حکومتِ پاکستان کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی کے زیر انتظام ۳۱ / دسمبر ۱۹۵۷ء سے ۸/ جنوری ۱۹۵۸ء تک ایک بین الاقوامی اسلامی مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی.جس میں برطانیہ، ہالینڈ ، امریکہ، روس، چین، مصر، شام، افغانستان وغیرہ میں ممالک کے ۱۲۵ مسلم و غیر مسلم مندوب شامل ہوئے اور مختلف اہم موضوعات پر نوے مقالے پڑھے.ہالینڈ کے جو تین مستشرقین شریک مذاکرہ ہوئے ان میں لائیڈن یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر در یوس (DREWES) بھی تھے جنہوں نے نہ صرف اپنے پر از معلومات مقالہ سے سامعین کو محظوظ فرمایا بلکہ اپنی دیرینہ خواہش کے مطابق سلسلہ احمدیہ کے مرکز ربوہ میں تشریف لے گئے اور حضرت مصلح موعود سے شرف ملاقات حاصل کیا.اور واپسی پر حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج ہالینڈ مشن کی فرمائش پر ۲۸ مئی ۱۹۵۸ء کو بیت الذکر ہیگ میں ایک خصوصی لیکچر دیا.اس موقع پر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی تشریف فرما تھے اور آپ نے اس لیکچر سے قبل عمدہ الفاظ میں ان کا تعارف کرایا.پروفیسر ڈاکٹر دریوس نے اپنے لیکچر کے آغاز میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے مفصل ۱۸۹
تاریخ احمدیت 275 جلد ۲۰ حالات بیان کئے اور پھر جماعت احمدیہ سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ میں لاہور سے بذریعہ موٹر ربوہ پہنچا.یہ قصبہ گو دریا کے کنارے واقع ہے لیکن یہ مقام بالکل بے آب و گیاہ ہے.خشک اور پتھریلی پہاڑیوں کے درمیان گھرا ہوا ہے یہ جماعت احمدیہ کا ہیڈ کوارٹر ہے.جماعت احمدیہ نے ہندوستان سے ہجرت کرنے کے بعد اس شہر کی بنیاد رکھی تھی.اور اب اس کی آبادی کثرت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے.مکانات نئی طرز کے پختہ ہیں.میں یہ کہوں گا کہ جماعت کا ایسا نا مساعد حالات میں اور ایسے بنجر، بیابان اور پتھر یلے علاقہ میں شہر بسا دینا ایک خاص اولوالعزمی کا مظاہرہ ہے جو بہت ہی قابل تعریف ہے.آپ نے اہل ربوہ کے مذہبی اور علمی مذاق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس چھوٹے سے شہر میں پرائمری سکولز اور اعلیٰ تعلیم کے نئے کالجز موجود ہیں.آبادی میں جگہ جگہ خوبصورت بیوت الذکر تعمیر کئے گئے ہیں طبی ضروریات کے لئے بہت بڑا ہسپتال موجود ہے.ہسپتال کی عمارت شاندار جدید طرز کی ہے.آپ نے ربوہ کے جملہ اداروں، دفاتر اور اہم عمارتوں کا نہایت اچھے رنگ میں ذکر فرمایا اور فرمایا کہ یہ تمام امور اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ربوہ فی الحقیقت ایک زندہ جماعت کا فعال مرکز ہے.دوران تقریر آپ نے حضرت مصلح موعود سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کی ملاقات کا ایک خاص اثر میری طبیعت پر ابھی تک ہے.امام جماعت احمد یہ باوجود بڑھاپے اور بیماری کے بڑے انہماک اور تندہی سے اپنے کام میں لگے ہوتے ہیں اور از حد مصروف الاوقات ہیں.آپ نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان کی مہمان نوازی کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ میرا قیام آپ ہی کی کوٹھی پر تھا.جماعت کے دیگر احباب وہاں جس شوق اور محبت کے ساتھ پیش آئے ان کے لئے جذبات تشکر کا اظہار فرمایا نیز بین الاقوامی اسلامی مذاکرہ کے حسنِ انتظام پر حکومت پاکستان اور ارباب انتظام کا نہ دل سے شکریہ ادا کیا.اس جلسہ کی جملہ کا رروائی ملک کے سب سے بڑے اخبار "HAAGCHE CURANT" میں شائع ہوئی.ماہ فروری میں ہالینڈ کے آزاد خیال یونیورسٹی کے طلباء نے آرمنم (AURNHEM) شہر میں ایک دو روزہ مذہبی کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں حافظ قدرت اللہ صاحب نے ( دینِ حق ) اور عیسائیت کے موضوع پر نہایت کامیاب لیکچر دیا.ہالینڈ کے شمالی حصہ میں کیمپن (KAMPEN) کا عیسائی کالج اپنی دیرہ بینہ روایات کی بناء پر بہت مشہور ہے.اور اس جگہ پادریوں کو ٹر یننگ دی جاتی
تاریخ احمدیت 276 جلد ۲۰ ہے اس ادارہ میں بھی حافظ صاحب کو ( دین حق ) پر لیکچر دینے کا موقع ملا جسے جملہ طلباء نے پوری توجہ اور دلچسپی کے ساتھ سنا.اور پھر تین گھنٹے تک گرما گرم بحث جاری رہی.کالج کے طلباء کے لئے جب اپنے عقائد کو ثابت کرنا مشکل ہو جاتا تو یہ کہہ کر اپنا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے کہ یہ عقیدہ ایک سربستہ راز (MYSTERY) ہے جس کو انسانی عقل سمجھ نہیں سکتی مگر ان کے پاس اس بات کا کوئی جواز نہ تھا کہ ایک چیز جس کو انسانی عقل قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو اور خلاف عقل ہو اسے قبول کیسے کیا جا سکتا ہے اور اگر عقل کو عقائد کی قبولیت میں کسی قسم کا دخل نہیں ہے تو کسی امر کو رد کرنے یا اپنا لینے کا دارو مدار پھر کس بات پر ہوگا.انہی دنوں دو مارمن امریکن پادریوں کا مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل نائب امام بیت مبارک سے تین گھنٹے تک تبادلۂ خیالات ہوا.پہلے تو انہوں نے بائبل سے عقائد کو ثابت کرنا چاہا مگر جب اس میں انہیں مشکل نظر آئی تو صاف کہہ دیا کہ بائبل میں بہت سی اغلاط پائی جاتی ہیں اس لئے ہم اس پر بھروسہ نہیں کر سکتے اور مارمن تحریک کے بانی جوزف سمتھ JOSEPH SMITH) IN) کی تاب BOOK OF MORMON کا سہارا لیا پھر مشن سے چند کتابیں خریدیں اور کسی وقت آنے کا وعدہ کر کے چلے گئے.ایک بار لائیڈن یونیورسٹی کے ۲۰ طلباء عین جمعہ کے وقت احمد یہ مشن ہاؤس میں آئے پہلے خطبہ جمعہ بعد ازاں میٹنگ روم میں حافظ قدرت اللہ صاحب کے ( دینِ حق ) پر لیکچر کو سنا اور بعض سوالات کئے جن کے تسلی بخش جواب دیئے گئے.طلباء کے ساتھ ان کے پروفیسر اور ایک پادری صاحب بھی تھے جنہوں نے ابتداء میں ایک آدھ سوال کیا پھر مصلحنا خاموشی اختیار کر لی.۱۶ ر جولائی ۱۹۵۸ء کو بیت مبارک میں دنیا کے مختلف ممالک مثلاً ناروے، سویڈن، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، مشرقی مغربی اور جنوبی افریقہ، مصر، شام، لبنان، پاکستان، ہندوستان ، امریکہ اور ہالینڈ کے پچاس کے قریب طلباء مشن ہاؤس میں آئے.یہ طلباء دنیا کے ممتاز ماہرین اور پروفیسرز صاحبان سے بین الاقوامی قانون کی اعلیٰ اور امتیازی تعلیم حاصل کر ر ہے تھے.حافظ قدرت اللہ صاحب نے طلباء کو جماعت احمدیہ کی غرض و غایت اور دنیا بھر میں اس کی دینی علمی اور رفاہی خدمات بالخصوص مختلف زبانوں میں تراجم قرآن اور دینی لٹریچر سے متعارف کرایا.آپ کے بعد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب وائس پریذیڈنٹ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس نے ایمان افروز خطاب فرمایا جس میں آپ نے بتایا کہ ہالینڈ مشن کی مؤسس جماعت احمد یہ ہے جو اگر چہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے مگر اپنی تنظیم اور کام کے لحاظ سے بہت بڑی اور
تاریخ احمدیت 277 جلد ۲۰ منفرد حیثیت رکھتی ہے اور مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میں بھی اس جماعت کا ایک ادنی ممبر ہوں.آپ نے جماعت کی تاریخ نہایت اختصار کے ساتھ بیان فرماتے ہوئے طلباء پر اس کے قیام کی غرض و غایت واضح فرمائی اور بتلایا کہ بیسویں صدی کے نصف میں جوہری توانائی نے ایک غیر معمولی ترقی حاصل کر لی ہے اور جہاں اس کے ذریعہ انسانوں نے بہت سے مادی اور دنیوی فوائد حاصل کئے ہیں وہاں انہیں بہت سے خطر ناک اور کٹھن مسائل سے بھی دو چار ہونا پڑا ہے.اس نئی مصیبت سے نجات اور مخلصی حاصل کرنے کے لئے بہت سی تدابیر کی گئیں.اسے مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے جانچا گیا تا اس خطرہ کا کوئی مناسب اور معقول حل تلاش کیا جائے مگر نتیجہ یہی ہے کہ ابھی تک معاملہ جوں کا توں ہے.موجودہ دور کے اہم ترین اور بظاہر لایل مسائل کا ذکر کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے آج سے ساٹھ سال قبل ہی جب کہ ان حالات کے پیدا ہونے کا وہم و گمان بھی نہ تھا ان ساری باتوں سے لوگوں کو خبر دار کر دیا تھا اور جماعت احمدیہ کی بنیا د رکھتے ہوئے ان مسائل کے بہترین حل پر بھی روشنی ڈال دی تھی اور بتلا دیا تھا کہ اس بے اطمینانی اور بے چینی کا حل صرف اور صرف مذہب ہی پیش کر سکے گا.جماعت احمدیہ کا ایمان ہے کہ اگر دنیا مذہب کی طرف پورے طور پر توجہ کرے تو خوف و ہر اس اور بے چینی کی تاریک گھٹائیں خود بخود چھٹ کر روشنی کا سورج نمودار ہوسکتا ہے لیکن اس موقع پر یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مکمل راہنمائی صرف وہی مذہب کر سکتا ہے جو اپنے اندر زندگی رکھتا ہو اور جس کی تعلیم بغیر کسی شک وشبہ کے خدا تعالیٰ کے اپنے الفاظ پر مشتمل ہو اور خدا تعالیٰ اس کی پشت پناہی کرتا ہو اور ایسا مذہب صرف ( دینِ حق ) ہی ہے کیونکہ قرآنِ پاک خدا تعالیٰ کے اپنے الفاظ مشتمل ایک زندہ اور عمل ہدایت ہے.یہ وہ صاف اور شفاف چشمۂ آب شیریں ہے جو پیاسوں کی تشنگی دور کرنے کے لئے ہر وقت جاری وساری ہے اور ہر زمانہ اور ہر حالت میں اس کے زندگی بخش پانی سے سینچے ہوئے درخت و پودے پھل پھول سکتے ہیں.تقریر کے دوران میں آپ نے بتلایا کہ لنڈن میں مجھ سے عیسائیوں کے میتھوڈسٹ فرقہ (METHODIST) کے لیڈر نے اپنی ایک کانفرنس کے موقع پر ذکر کیا کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نئی پود چرچ سے علیحدہ ہوتی جارہی ہے.آپ نے فرمایا آخر اس کی وجہ کیا ہے یہی کہ اب ان کے پاس روحانی تشنگی دور کرنے کی قوت جاتی رہی ہے اس کے
تاریخ احمدیت 278 جلد ۲۰ برعکس حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ تن تنہا اٹھے اور لوگوں کو ( دین حق ) کی طرف بلایا تو لوگ جوق در جوق ان کے گرد اکٹھے ہو گئے.انہوں نے اسی وقت بتا دیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تیری جماعت زمین کے کناروں تک پھیل جائے گی.چنانچہ آج ہم اپنی آنکھوں سے اس پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں.احمدی دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں اور انہوں نے دین حق کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر دی ہوئی ہیں.اور روز بروز جماعت کو مزید ترقی حاصل ہوتی جارہی ہے.یہ ایک بین امتیاز ہے جو دوسرے مذاہب کے مقابل احمدیت میں آپ کو نظر آ سکتا ہے.اس سال ہیگ میں جماعت احمدیہ کے یورپی مشنوں کی کامیاب چھٹی سالانہ کانفرنس ۱۹ تا ۲۱ ستمبر ۱۹۵۸ء) کو منعقد ہوئی.کانفرنس کا افتتاح حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے فرمایا اور اپنے افتتاحی خطاب میں منجملہ دیگر نصائح کے اس بات کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی کہ مبشرین احمدیت کو کیتھولک فرقہ کی تاریخ کا پوری طرح علم ہونا چاہئے.یہ فرقہ آج تک کن کن حالات سے گزرا ہے اور کس کس رنگ کی تبدیلی اس میں پیدا ہوئی ہے.یہ نظام عیسائیت کا سب سے اہم نظام ہے اور زمانہ وسطی کی نسبت آج بہت زیادہ مضبوط ہے ان کے متبعین بڑی پختگی کے ساتھ اپنے عقائد پر قائم ہیں اور یہ امر عین قرین قیاس ہے کہ تبلیغی دوڑ میں ہمارا آخری مقابلہ اسی فرقہ سے ہو.لہذا ان کے متعلق ہماری معلومات بہت وسیع ہونی چاہئیں.آپ نے عیسائیت کے دیگر مکاتیب فکر کے عقائد اور مذہبی رجحانات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتلایا کہ آج کل ایک گروہ بڑی سرعت کے ساتھ بڑھ رہا ہے جو امریکہ میں عام ہے مگر یورپ میں بھی پاؤں پھیلا رہا ہے وہ آزاد خیال عیسائی ہیں جو کٹر عیسائی عقائد کے خلاف ہیں اور اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں درحقیقت یہ فرقہ لوگوں کو آہستہ آہستہ مذہب سے دور بلکہ دور تر لے جا رہا ہے.بظاہر ان کا حملہ عیسائیت پر نظر آتا ہے مگر دراصل یہ حملہ مذہب پر ہے.یہ گروہ اپنی آزادانہ روش کے پیش نظر سب سے زیادہ خطرناک ہے اور اس کا مقابلہ ہمیں سب سے پہلے کرنا ہوگا.حضرت چوہدری صاحب نے مزید فرمایا کہ تبلیغ میں جب وسعت پیدا ہو تو اس کے لئے تربیت یافتہ آدمیوں کی بھی بہت ضرورت ہوگی جس کی طرف مرکز کو خصوصی توجہ دینی چاہئے کہ وہ مغرب کی ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے مبلغین تیار کرے.فلسفہ اور تاریخ ادیان کے مضمونوں کے علاوہ زبان کا مسئلہ بہت اہم ہے.مغربی ممالک میں تبلیغ کے لئے عربی ، انگریزی ، فرانسیسی اور سپینش زبانیں بہت ضروری ہیں.قرآن کریم کا علم پوری طرح ہو اور مبلغین اس کی تلاوت
تاریخ احمدیت 279 جلد ۲۰ خوش اسلوبی سے کر سکتے ہوں.اس کے ساتھ ہی علم حدیث میں بھی دسترس بہت ضروری ہے.حدیث کے مطالعہ اور شغف سے انسان اپنے آپ کو صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں محسوس کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دیتا ہے آپ نے اس ضمن میں الواح الہدی (اردو ترجمہ "ریاض الصالحین کے مطالعہ کی طرف خاص توجہ دلائی اور فرمایا کہ دعا کی عادت بھی پختہ ہونی چاہئے اس سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے اس صورت میں بفضلہ تعالیٰ پھر کسی بھی میدان شکست کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا.اسی روز مبلغین کی کامیاب پریس کانفرس ہوئی جس میں یورپ کو واضح لفظوں میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی کہ اب دین حق کی منظم تبلیغ یورپ میں شروع ہو چکی ہے.ہمارا کام ان ممالک میں نہ سکول کھولنا ہے نہ ہسپتال بنانا ہے نہ عوامی بہبود کے دیگر اداروں کا اجرا کرنا ہے.ان کاموں پر یورپ پہلے ہی خاص توجہ دے رہا ہے جس چیز کی طرف توجہ نہیں کی جارہی وہ انسان کی روحانیت ہے.خدا تعالیٰ کو دلوں سے بھلا دیا گیا ہے.اب ( دینِ حق ) اس خلا کو پر کرے گا.کانفرنس کے دوسرے روز یورپ میں تبلیغ کو وسیع تر اور تیز تر کرنے کے لئے اہم فیصلے کئے گئے اور شام کو ہیگ کے مشہور ہال (DIEREN TUIN) میں ایک شاندار پبلک جلسہ ہوا جس میں ملک کے طول و عرض کے معززین نے بکثرت شرکت کی.پریس رپورٹر اور پریس فوٹوگرافر بھی موجود تھے.جلسہ کی صدارت کے فرائض عبد اللہ خاں اونک (ABDULLAH V.ONCK) نے انجام دیئے اور اس سے بالترتیب مندرجہ ذیل مبلغین نے خطاب فرمایا: مولود احمد خاں صاحب دہلوی امام بیت فضل لنڈن (( دین حق ) کا تعلق دوسرے مذاہب کے ساتھ ) چوہدری کرم الہی صاحب ظفر مبلغ سپین ( جہاد کے متعلق اسلامی نظریہ ) چوہدری عبد اللطیف صاحب بیت ہمبرگ ( ( دین حق ) میں عورت کا مقام ) سید کمال یوسف صاحب مبلغ سکنڈے نیویا (اسلامی نظریہ نجات) شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئٹزرلینڈ ( حضرت مسیح قرآن مجید کی روشنی میں ) صاحب صدر ہر تقریر کا خلاصہ ڈچ زبان میں پیش فرماتے رہے جو سامعین کے لئے بڑی سہولت اور دلچسپی کا باعث ہوا.ان ایمان افروز تقاریر کے بعد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سیرت مقدسہ پر ایک معرکہ آراء لیکچر دیا جو نہایت درجہ اثر انگیز تھا.یہ کا نفرنس اس ملک کے لئے ایک منفرد اور مثالی کانفرنس تھی جو ہر اعتبار سے کامیاب رہی.حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج ہالینڈ مشن اور ان کے نائب مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل
تاریخ احمدیت 280 جلد ۲۰ نے کانفرنس کے جملہ انتظامات نہایت خوش اسلوبی ، محنت اور ہمت کے ساتھ انجام دیئے.کانفرنس کے نظارے کئی دن تک دکھائے جاتے رہے اور ٹیلی ویژن اور پریس کے ذریعہ ملک کی فضاء ( دین حق ) کے زندگی بخش پیغام سے گونج اٹھی اور سارے ملک میں ایک زبر دست حرکت پیدا ہوگئی.ملکی اخبارات میں کانفرنس کا نمایاں چرچا ہوا اور تصاویر اور خبریں شائع ہوئیں.پریس نے جس رنگ میں کانفرنس کا ذکر کیا وہ نہایت متانت اور سنجیدگی کا پہلو لئے ہوئے تھا.ان اخبارات نے مبلغین احمدیت کے بعض فقروں کو بہت نمایاں طور پر شائع کیا.اخبارات کی دلچپسی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگ سکتا ہے کہ قریباً پچپن تراشے ہالینڈ مشن میں کانفرنس کے بارے میں موصول ہوئے.بطور نمونہ بعض اخبارات کا تذکرہ کیا جاتا ہے.ހނ - اخبار NIEUWE ROTTERDAMSE COURANT ( روٹرڈم ) نے کانفرنس کی مفصل خبریں جماعت احمدیہ کی تبلیغی وسعتوں اور ان کے نتائج کا ذکر کیا اور آخر میں پریس کانفرنس میں جاری کردہ بیان کا حوالہ نقل کرتے ہوئے اپنے طویل مضمون کو یوں ختم کیا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یورپ اپنے عزت و وقار کو جلد جلد کھوئے جا رہا ہے اور روز بروز مشکلات میں پھنستا جا رہا ہے اسلام کا پیغام ان مشکلات کا صحیح حل ثابت ہو گا کیونکہ آج یہی پیغام ہے جو دنیا میں از سرنو اتحاد وامن اور عالمگیر اخوت کے جذبات پیدا کرنے کی قوت اپنے اندر رکھتا ہے.(ترجمہ) ۲ - روز نامه NET NEUWE DAGBLAD ( روٹرڈم ) نے اسلام یورپ کو فتح کرے گا کے زیر عنوان پوری تفصیل.جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا ذکر کیا.اور پھر جلی الفاظ میں پریس کانفرنس کے یہ الفاظ نقل کئے.”ہم یورپ میں اس لئے نہیں آئے کہ یہاں سکول ہسپتال اور ایسے ہی اور سوشل ادارے قائم کریں بلکہ ہم یہاں اسلام کا روح پرور پیغام لے کر آئے ہیں کیونکہ یہاں خدا کے نام کا خانہ خالی ہوتا جا رہا ہے اور اسے روز بروز بھلایا جا رہا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اسلام ایک دن ضرور غالب آ کر ہی رہے گا مگر کسی مادی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ محض اپنی روحانی طاقت کے اثر سے.“ پریس کانفرنس کے اکثر حصوں کو اس اخبار نے نقل کیا.جماعت احمد یہ جس رنگ میں دینی لٹریچر اور تراجم قرآن کی یورپ میں اشاعت کر رہی ہے اس کا ذکر بھی تفصیل کے ساتھ کیا.
تاریخ احمدیت 281 جلد ۲۰ کٹر کیتھولک اخبار HCT BINNENHOF (بیگ) نے جلی حروف میں یہ دو کالمی عنوان دیا کہ مسلم مبلغین یورپ کو مسلمان بنانے کے لئے آرہے ہیں.‘ عنوان کے نیچے پریس کانفرنس کے بیان کے مختلف حصے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ ان نمائندگان اسلام کے نزدیک اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اسلام ایک دفعہ پھر ساری دنیا میں پھیل جائے اور اس کے لئے ان کے لٹریچر میں پہلے سے پیشگوئی موجود ہے.نیز ان کا یہ کہنا ہے کہ اسلام کی یہ فتح کسی مادی طاقت سے نہیں ہوگی بلکہ اسلام کی پر امن تعلیم کے ذریعہ ہوگی اور اس غرض کے لئے وہ اسلامی لٹریچر کی اشاعت کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں.(ترجمہ) اس کے بعد اخبار نے تراجم قرآن مجید اور دیگر لٹریچر کی اشاعت کا ذکر کیا.ساتھ ہی جماعت کی مختصر تاریخ اور جماعت کی مساعی کے ضمن میں یورپ میں بیوت الذکر کی تعمیر کا بھی.۴ - روزنامه NI EUWE HAAGSCH CAURANT نے اپنی ۲۰ ستمبر ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں لکھا.مغربی یورپ میں اسلامی مہم کا آغاز اسلام کسی ایک خاص قوم یا علاقہ کا مذہب نہیں بلکہ یہ عالمگیر مذہب ہے اور موجودہ عالمی مشکلات کا حل اسی میں مضمر ہے..اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ گیارہ بارہ سال کے عرصہ میں یورپ نے بہت بڑی تعداد میں اسلام کو عملاً قبول نہیں کیا مگر یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس عرصہ میں اس جماعت کی کوششوں سے ایک بہت بڑی تعداد اسلام سے ہمدردی رکھنے والوں کی ضرور پیدا ہوگئی ہے جو بہت ہی خوشگوار اور امید افزا ہے.(ترجمہ) اس کے بعد اخبار مذکور نے جماعت احمدیہ کے تراجم قرآن کریم کا ذکر کیا اور اسلامی ، وو لٹریچر کی اشاعت کے کام کو بہت سراہا.۵ - اخبار ALGEMEEN HANDELSBLAD (ایمسٹرڈم ) نے جلی الفاظ میں یہ سرخی دی کہ ” یورپ میں مسلم مبلغین کا اجتماع جماعت احمد یہ ہیگ میں ایک کانفرنس کر رہی ہے“ اس اخبار نے تفصیل کے ساتھ پبلک جلسہ میں مبلغین احمدیت کی تقاریر کا نام بنام ذکر کیا اور تقایر کے خلاصے درج کئے.نیز حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے خطاب کا خاص طور پر ذکر کیا.اخبار مذکور کی یہ رپورٹ کا نفرنس کی تفصیل اور جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی پر مشتمل تھی.- اخبار HET VRIJ NOLK ( بیگ) نے لکھا.
تاریخ احمدیت 282 جلد ۲۰ ”اسلام دنیا کا آخری مذہب ہے.ہیگ کی ایک عمارت میں ان الفاظ کی گونج رپورٹ میں مضمون نگار نے بہت سے دیگر امور کے علاوہ مشن کی مہمان نوازی اور مبلغین کے پختہ ارادہ اور یقین اور پھر پروفیسر کرامر کے مشہور اقتباس کا ذکر کیا جس میں پروفیسر مذکور نے جماعت کا نہایت تعریفی رنگ میں ذکر کیا تھا.اخبار نے جماعت احمدیہ ہالینڈ کے چند ڈچ نومسلموں کا بھی ذکر کیا اور دیگر متعلقہ امور دلچسپی کے ساتھ بیان کئے.یورپین کا نفرنس کے نتیجہ میں سعید الفطرت خصوصاً نو جوان طبقہ اسلام میں دلچسپی لینے لگا.ایک خوشگوار تبدیلی یہ ہوئی کہ ملک کی مشہور تنظیموں کی طرف سے اسلام پر لیکچر کے لئے احمد یہ مشن میں درخواستوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا.چنانچہ ماہ اکتو بر ۱۹۵۸ء میں درج ذیل تنظیموں کے زیر اہتمام حافظ قدرت اللہ صاحب نے مقررہ تاریخوں پر فاضلانہ تقاریر فرمائیں.نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ قرآنی تعلیم کو پیش کیا اور ہر تقریر کے بعد سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے.۱ - بیپٹسٹ چرچ سوسائٹی ، حافظ صاحب نے ایک گھنٹہ تک ( دینِ حق ) کے موضوع پر مدلل تقریر کی جو بہت پسند کی گئی.AMERS FOORT ۲ - ورلڈ کانگرس آف فیتھ.اس عالمگیر تنظیم کی سہ روزہ کانفرنس T میں منعقد ہوئی جس میں انگلستان اور جرمنی سے بھی لوگ شامل ہوئے.تقاریر کے بعد تبادلہ خیالات کا خوب موقع ملا اور متعدد افراد تک پیغامِ حق پہنچا.- امریکن کلب.حافظ قدرت اللہ صاحب نے ایک گھنٹہ تک تقریر فرمائی جسے بہت سراہا گیا.تقریر کے بعد امریکی پادری صاحب اور دیگر نوجوانوں میں ایک گھنٹہ تک سوالات و جواب جاری رہے.حافظ صاحب نے اپنی تقریر میں عیسائیت پر کچھ تنقیدی نظر بھی ڈالی تھی اس لئے بعض افراد نے ( دین حق ) پر بھی تنقیدی سوالات کئے مگر معقول جوابات سے مطمئن ہو گئے.۴ - روٹری کلب.حافظ صاحب نے اسلامی تعلیم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے دوسرے مذاہب کی تعلیم کے مقابلہ میں اس کی برتری اور فوقیت کو ثابت کیا اور کلب کے ممبروں کو ٹھوس معلومات فراہم کیں.تقریر کے بعد سوال و جواب ہوتے رہے.سامعین نے حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر فوت نہ ہونے کے نظریہ کو بہت تعجب اور دلچپسی کی نگاہ سے دیکھا.اکتوبر میں ہی عبد الحکیم صاحب اکمل اور مسٹر خالد براؤن کی ہیگ میں پراٹسٹنٹ عیسائیوں کے سرگرم رکن اور عالم و فاضل سے دلچسپ گفتگو ہوئی جو ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی.۱۹ رنومبر ۱۹۵۸ء کو ایمسٹرڈم میں وسیع پیمانہ پر ایک مذاہب کانفرنس منعقد ہوئی کانفرنس
تاریخ احمدیت 283 جلد ۲۰ میں عیسائیت کے تین مختلف الخیال گروہوں کی نمائندگی کے علاوہ ہندو مذہب بدھ مت اور اسلام کے نمائندوں کو بھی ”موت“ کے متعلق ہمارا نظریہ کے موضوع پر اظہارِ خیالات کی دعوت دی گئی.حاضری ہزار بارہ سو کے قریب تھی.جملہ تقاریر ڈچ زبان میں تھیں.اس کا نفرنس میں حافظ قدرت اللہ صاحب نے واضح کیا کہ دینِ حق کی رو سے موت دوسری زندگی میں داخلہ کے لئے ایک دروازہ ہے.اس اخروی زندگی میں انسان کو ایک اور نورانی وجود عطا کیا جاتا ہے جس کے ساتھ انسان غیر محدود ترقیات کی طرف قدم بڑھاتا چلا جاتا ہے آپ نے عقلی دلائل سے ثابت کیا کہ اخروی زندگی کا وجود ہماری موجودہ زندگی کے مقاصد کی تکمیل کے لئے از حد ضروری ہے.دسمبر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہالینڈ مشن کی شہرت اور تبلیغ کا ایک غیر معمولی اور با برکت موقع پیدا کر دیا اور وہ یہ کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے لارڈ میئر پرنس فہد الفیصل ہالینڈ کی سیاحت کے دوران بیت مبارک ہیگ میں بھی تشریف لائے ان کی معیت میں ان کے سیکرٹری اور مشیر خاص کے علاوہ جرمن سعودی عرب ایمبیسی کے نمائندہ ، ڈچ براڈ کاسٹ برائے عرب ممالک کے انچارج اور جمہوریہ عرب کی ایمبیسی کے نمائندہ بھی تھے.پریس نے قبل از وقت شہزادہ فیصل کی تصویر کے ساتھ یہ خبر ایک بڑے کالم میں شائع کر دی تھی کہ آپ بیت مبارک کی زیارت کے لئے جار ہے ہیں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور حافظ قدرت اللہ صاحب نے احباب جماعت کے ساتھ پر تپاک استقبال کیا.بعد ازاں حافظ قدرت اللہ صاحب نے عربی زبان میں ایڈریس پڑھا جس میں شہزادہ موصوف کا خیر مقدم کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ بیان کی اور بتلایا کہ یہ چھوٹی سی غریب جماعت کن مشکل حالات میں بھی خدمت دین کے مقدس فریضہ کو سرانجام دے رہی ہے.نیز جماعت کی طرف سے غیر زبانوں میں شائع کردہ اسلامی لٹریچر اور تراجم کا ذکر کرتے ہوئے ان کی خدمت میں قرآن مجید انگریزی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ تحفہ پیش کیا.پرنس موصوف معلومات حاصل کر کے جماعت کے کام سے بہت متاثر ہوئے اور فرمایا کہ مشن کی لائبریری کے لئے اگر کچھ کتب کی ضرورت ہو تو میں وطن واپس جا کر ارسال کر سکتا ہوں.چنانچہ آپ نے سعودی عرب پہنچ کر قریباً ایک سو جلدیں بذریعہ ہوائی جہاز بھجوائیں جو تفسیر طبری، جامع الاصول فی احادیث الرسول، صحیح ابن حیات اور دیگر مختلف کتابوں پر مشتمل تھیں.شہزادہ فہد الفیصل حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے مل کر بہت خوش ہوئے
تاریخ احمدیت 284 جلد ۲۰ اور آپ کی ان بے مثال اور عظیم خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جو آپ نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے سرانجام دیں اپنے پر خلوص اور تشکرانہ جذبات کا اظہار کیا.آپ نے قریباً ایک گھنٹہ تک قیام فرمایا اور ڈچ مسلمانوں سے تعارف حاصل کیا.یہاں کی خبر رساں ایجنسی کے نمائندگان بھی موقع پر موجود تھے جنہوں نے اس نظارہ کو فلمایا اور بیت الذکر کے مختلف مناظر کی تصاویر لیں.اخبار کے نمائندگان کی طرف سے بیت الذکر کی تصویر کے ساتھ جملہ کارروائی کی خبر شائع ہوئی..191- جرمنی سویڈن کے ایک مشہور علمی رسالہ TIDENS TECKEN کے ایڈیٹر دسمبر ۱۹۵۷ء میں چوہدری عبد اللطیف صاحب انچارج احمد یہ مشن سے انٹرویو کے لئے ہمبرگ گئے.دو گھنٹے تک تفصیلی گفتگو ہوئی.یہ انٹرویو یسوع مسیح کے خلاف جنگ کے زیرعنوان SPRING EDITION میں شائع ہوا جس میں جماعت احمدیہ کی دینی مساعی اور ان کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے پوری عیسائی دنیا کو خبردار کیا گیا کہ ( دینِ حق ) میں رونما ہونے والے اس مسیح موعود کا وجود اس کی قائم کردہ جماعت اور اس کے تبلیغی مشن یہ سب چیزیں ہمارے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں.ان حالات میں ہمیں اس امر پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ کیا ہم عیسائیوں میں وہی جذ بہ وہی سچائی اور وہی روح القدس موجود ہے جو ہمارے مسیح کی ابتدائی جماعت میں کارفرما تھا ؟ اگر نہیں تو پھر ہم نے عیسائیت کے مقصد اور اس کی غرض و غایت کو فراموش کر دیا ہے.بے شک ہمارے گر جے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں اور ہماری جماعتیں اور تنظیمیں جگہ جگہ موجود ہیں لیکن سچائی کی روح کے بغیر ہمارا مذہب ، ہمارے عقائد اور ہماری تنظیمیں سراسر غیر مفید اور بے سود ہیں اور ایک بڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں.ہر چند کہ اس اسلامی جماعت کے مشن عیسائیت کے لئے خطرناک نہیں کہلا سکتے لیکن ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ یہ جماعت ایشیاء، امریکہ، یورپ اور افریقہ میں جارحانہ طور پر عیسائیت پر حملہ آور ہے.اس کے پیش کردہ دلائل ٹھوس ، مضبوط اور قوی ہیں.ان حالات میں جب ہم ان نتائج پر غور کرتے ہیں جو اس تبلیغی جد و جہد کے نکل سکتے ہیں تو ہم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے.کیا ہم عیسائیوں میں وہ روحانی طاقت موجود ہے جس سے ہم اس جارحانہ تحریک کا مقابلہ کر سکیں.کیا ہم عیسائیوں پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ ہم اسلام کے اس چیلنج کا اپنے صحیح عقائد دعا اور روح القدس کی برکت سے جواب دینے کے قابل ہوسکیں.
تاریخ احمدیت 285 جلد ۲۰ سویڈن کے علاوہ جرمن پریس میں اس سال کئی بار جماعت احمدیہ کا تذکرہ ہوا.مثلاً اخبار BRGEDORF کی اشاعت مورخہ ۱۰ر دسمبر ۱۹۵۸ء میں ایک پادری صاحب کی تقریر کا یہ خلاصہ چھپا کہ آج اسلام تلوار اور آگ کے ذریعہ نہیں بلکہ مشنری پراپیگنڈا کے ذریعہ ہمارے درمیان پھیلتا جا رہا ہے.ہمبرگ میں جماعت احمدیہ نے خدا کا گھر تعمیر کر کے اس کا مزید ثبوت بہم پہنچا دیا ہے.جماعت احمدیہ کی عورتیں اپنے زیور بیچ کر مردوں کے دوش بدوش اشاعت دین کے کام کے لئے قربانیاں پیش کر رہی ہیں.اس سال چوہدری عبداللطیف صاحب کو ملک کی متعدد سوسائٹیوں میں دین حق کا پیغام پہنچانے کی سعادت نصیب ہوئی.اور ملک کی مختلف شخصیات سے متعارف ہونے اور ان تک لٹریچر پہنچانے کی سعادت ملی.ایک بار جب آپ نے ہمبرگ کی تھیوسافیکل سوسائٹی کے سامنے اسلامی رواداری کے پہلو کو قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام کے واقعات سے پیش کر کے حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے تو آپ کے خیالات کا اس قدر گہرا اثر تھا کہ ان میں سے قریباً ہر ایک نے فرداً فرداً سپین ۱۹۴ ۱۹۳ آپ کا شکریہ ادا کیا.ماہ جون ۱۹۵۸ء میں صنعتی نمائش کا انعقاد ہوا.اس موقع سے مبلغ سپین مولوی کرم الہی صاحب نے خوب فائدہ اٹھایا.قریباً ایک سو افراد نے لٹریچر لیا.ہسپانوی، جرمن، ڈچ ، انگریز اور سوس افراد تک پیغام حق پہنچایا.ایک خاتون نے حضرت خلیفۃ امسیح الاول مولانا نورالدین کا فوٹو دیکھ کر کہا کہ ان کو میں نے خواب میں دیکھا ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ آپ کو سچائی کا پتہ لگ چکا ہے اس لئے آپ کو نورالدین یعنی ( دین حق ) کے بچے نور کو قبول کرنے میں تا خیر نہیں کرنی چاہئے.فرانس اور سپین کے درمیان ایک چھوٹی سی آزاد ریاست ایڈنرا (ANDANRA) کے پادری صاحب اور ایک نوجوان لٹریچر لے گئے اور خاصی دلچپسی کا.۱۹۵ اظہار کیا.اس سال کیتھولک پادریوں کی مزاحمتوں اور پولیس کی مداخلت کے کئی واقعات ہوئے.میڈرڈ کے مضافات میں جرانجا (GRANGA) ایک گاؤں ہے جہاں آپ قریباً تین ہفتے تک انفرادی تبلیغ کرتے رہے.ایک روز ہیڈ پادری صاحب نے آپ کو مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارا ملک سچے مذہب کا پیرو ہے کسی غیر کیتھولک مذہب کو یہاں قانوناً تبلیغ کی اجازت نہیں.لوگوں کا ایک ہجوم ہو گیا پادری صاحب عوام کو مشتعل کرنے کے لئے کہنے لگے کہ یہ شخص حضرت عیسی اور حضرت مریم کی ہتک کرتا ہے.مولوی صاحب نے نہایت نرمی سے سمجھانے کی
تاریخ احمدیت 286 جلد ۲۰ کوشش کی کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ رسول اور حضرت مریم کو مقدس خاتون سمجھتے ہیں مگر پادری صاحب نے کوئی بات نہ سنی اور پہلے تو شور مچا کر لوگوں کو منع کرنے لگے کہ اس شخص سے ہرگز بات نہ کرو اور پھر گاؤں کے سرکاری افسر اعلیٰ کے پاس شکایت کے لئے پہنچے.انہوں نے آدمی بھجوا کر آپ کو طلب کیا.آپ نے قرآن کریم کے ہسپانوی ترجمہ سے سورۃ آل عمران اور سورۃ مریم کی وہ آیات دکھلائیں جن میں حضرت عیسی علیہ السلام کی معجزانہ پیدائس کا ذکر ہے.آپ نے انہیں یہ بھی بتایا کہ حکومت کے اعلیٰ ارکان اور جنرل فرانکو بھی ہمارے سلسلہ کی کتب پڑھ چکے ہیں اس سے ان کی تسلی تو ہو گئی مگر ساتھ ہی تنبیہ کی کہ بر سر عام تبلیغ نہ کریں آپ نے ان کو کتاب اسلام کا اقتصادی نظام تحفہ پیش کی.ہیڈ پادری صاحب صدر مقام سے دو انسپکٹر ان پولیس کو بھی بلا لائے.مولوی صاحب نے انہیں بھی حقیقت سے آگاہ کیا اور قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ دکھایا کہ پادری صاحب کی شکایت بیجا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس گاؤں میں پادری صاحب کی مخالفت کے باوجود نجی ملاقاتوں، گفتگوؤں اور لٹریچر کے ذریعہ حق وصداقت کی اشاعت زور شور سے جاری رہی.یو نیورسٹی میں لاء کالج کی عمارت کے اندر اقوام متحدہ کے اجلاس کی ایک فلم تیار کی جارہی تھی.آپ کو بھی قومی لباس میں پاکستان کا نمائندہ ہونے کی دعوت دی گئی.اس موقع سے آپ نے فائدہ اٹھاتے ہوئے ( دینِ حق ) پر پادریوں کے اعتراضات کے جواب دیئے سب لوگ آپ کی دلچسپ گفتگو سے نہایت درجہ متاثر ہوئے.آپ ایک روز ویجیٹرین سوسائٹی کے مرکز میں بھی تشریف لے گئے اور ان کے پریذیڈنٹ کو دو گھنٹے تک تبلیغ کی.باقی لوگ بھی گہری دلچسپی سے آپ کی گفتگو سنتے رہے.پریذیڈنٹ صاحب خاص طور پر متاثر ہوئے اور وعدہ کیا کہ اب وہ ضرور ( دین حق ) کا مطالعہ کریں گے.۱۹۵۸ء کے پہلے سات ماہ کے دوران امریکہ مشن کے تمام مبلغین کو کثرت سے ملک کے گرجوں، کلبوں اور کانفرنسوں سے خطاب کا موقع ملا.سب سے زیادہ لیکچر ڈاکٹر چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر انچارج امریکہ مشن نے دیئے جن کی تعداد تھیں تھی.آپ کی کامیاب تقاریر کے نتیجہ میں کئی اشخاص کو دین حق کے مطالعہ سے گہری دلچسپی ہوئی اور سلسلہ احمدیہ کی کتب کے مطالعہ کی طرف رجحان پہلے سے بڑھ گیا اور وہ مشن کے بہت قریب آگئے.آپ نے جن مقامات میں لیکچر دیئے ان میں سے تین بالخصوص قابلِ ذکر ہیں.امریکہ ۱۹۶ وو ۱.نیو یارک میں امریکہ کی مشہور آرگنائزیشن " چرچ میں یونین CHURCH)
تاریخ احمدیت 287 جلد ۲۰ (PEACE UNION کے زیر اہتمام مذہب، اخلاق اور خارجی پالیسی کے مختلف پہلوؤں پر غور وفکر کے لئے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ارباب حل و عقد مجلس اقوام کے ممتاز افسران، بعض یونیورسٹیوں کے صدر اور مختلف مذاہب کے زعماء کو بلایا گیا جس میں سیمینار (SEMINAR) کی طرز پر ہفتہ بھر تک تبادلہ خیالات کی مجالس منعقد ہوتی رہیں.جن میں آپ نے شرکت فرمائی اور آپ کو ( دینِ حق ) اور عالم اسلام سے متعلق مستند معلومات بہم پہنچانے کا موقع ملا.۲- این آر بور (ANN ARBOR) میں یونیورسٹی آف مشی گن کے زیر انتظام ایک مذہبی کانفرنس ہوئی جس میں آپ نے بھی تقریر فرمائی.علاوہ ازیں یونیورسٹی کے پروفیسروں اور طلباء سے وسیع پیمانے پر آپ کی ملاقاتیں ہوئیں.- ویسٹ سنٹر میں مشنریوں کی ٹریننگ کی ایک درس گاہ WESLEY THEOLOGICAL SEMINARY کے نام سے قائم اس کالج نے آپ کو تین تقریروں کے لئے مدعو کیا.پہلی تقریر جماعت احمدیہ کے بنیادی عقائد اور مقاصد کے موضوع پر تھی.دوسری تقریر کا عنوان ” ( دینِ حق ) میں خدا تعالیٰ کا تصور تھا اور تیسری تقریر اسلامی دنیا کے سیاسی مسائل سے متعلق تھی.امریکہ مشن کی طرف سے اس سال ملک کے طول و عرض میں بکثرت لٹریچر تقسیم کیا گیا مشن نے ایک پمفلٹ احمد یہ موومنٹ ان اسلام کے نام سے ۱۲ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.علاوہ ازیں ڈاکٹر واگلی ایری کی کتاب AN INTERPRETATION OF ISLAM کا دوسرا دیدہ زیب اور عمدہ ایڈیشن چھپوایا گیا.پٹس برگ میں جماعت احمدیہ کی گیارہویں سالانہ کنونشن ۳۰،۲۹ ،۳۱ راگست کو نہایت کامیابی سے منعقد ہوئی جس میں مندرجہ ذیل مقامات سے احباب شریک ہوئے.بوسٹن ، کیمبرج ، ٹرینٹن ، ونسٹن ٹاؤن، نیو یارک، مانٹ کلیر ، نیو آرک، بالٹی مور، واشنگٹن، ڈی سی لوئی ول، اینز برگ، پٹس برگ، ڈوکین، پنسلووینیا، ینگس ٹاؤن، کلیولینڈ، ڈیٹرائیٹ ، شکاگو، ملور کی ، ڈیٹن ، انڈیانا پولس ستسائی، کینال زون، لوئی دل سینٹ لوئیس ، کینیڈا.مورخہ ۲۹ راگست کا اجلاس شوریٰ کے طور پر منعقد ہوا.جس میں ہر جماعت کا ایک ایک نمائندہ شریک ہوا اور اس میں تربیتی تبلیغی ، مالی اور معاشی امور پر غور کیا گیا.لجنہ اماء اللہ اور خدام الاحمدیہ کے اجلاس ۳۰ اگست کو ہوئے بقیہ تمام اجلاسوں میں غیر مسلم پبلک بھی شامل ہوتی رہی.۱۹۷
تاریخ احمدیت سیرالیون 288 جلد ۲۰ یہ مشن بھی مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری امیر جماعت و انچارج مشنری کی قیادت میں پورا سال دینی خدمات میں سرگرم عمل رہا.اس سال خدا کے فضل سے مدینہ ( داما ریاست ) مانگے والا ( ٹونگیا ریاست ) اور مانگو بو ( مضافات فری ٹاؤن ) میں تین نئی مخلص اور فعال جماعتوں کا قیام عمل میں آیا جو بالترتیب الفافوڈ و صالح ( لوکل مشنری ) ملک غلام نبی صاحب شاہد اور باہ سعید و ینگورا (لوکل مشنری ) کی انتھک اور مجاہدانہ کوششوں کا ثمر تھا.علاوہ ازیں دو پر جوش احمدی نوجوانوں یعنی مسٹر عثمان پاٹا ماہ اور مسٹر موسیٰ پاٹا ماہ نے ایک مہینہ تبلیغ دین کے لئے وقف کیا اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر پندرہ مختلف گاؤں اور قصبوں تک پیغام حق پہنچایا.بہت سا دینی لٹریچر مفت تقسیم کیا.۲۴ افراد داخل احمدیت ہوئے اور ایک نئی جماعت کا اضافہ ہوا.۲۳ رمئی ۱۹۵۸ء کو گورنر سیرالیون ہز ایکسی لینسی سرمورس این ڈور مین بؤ شہر کے سرکاری دورہ پر تشریف لائے اور احمد یہ سنٹرل سکول کا معائنہ کیا آپ کے ہمراہ جنوب مشرقی صوبہ کے کمشنر مسٹر پیج (PAGE) اور گورنر صاحب کے بڑے صاحبزادے بھی تھے.مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مولوی محمود احمد صاحب شاد چیمہ اور مولوی محمد بشیر صاحب شاد نے خوش آمدید کہا اور گورنر صاحب کو سکول سے متعلق مناسب معلومات بہم پہنچائیں.گورنر صاحب نے خود بھی ہر کلاس میں جا کر نہایت دلچسپی سے اساتذہ کے انداز تعلیم اور طلباء کی قابلیت کا جائزہ لیا اور واپسی پر سکول کی لاگ بک میں مندرجہ ذیل ریمارکس سپرد قلم کئے.یہ میری اس سکول میں پہلی آمد ہے اور میں یہ دیکھ کر بہت خوشی محسوس کرتا ہوں کہ سکول میں معقول اور اچھا تعلیمی معیار قائم رکھا جا رہا ہے اور کلاسوں میں طریق تعلیم بھی خوشکن اور روح افزاء ہے.سرمورس این ڈور مین.گورنر آف سیرالیون - ۲۳/۵/۵۸ مولوی محمد بشیر صاحب شاد جو نذیر احمد یہ پرنٹنگ پریس اور بک شاپ کے مینیجر اور نگران کے فرائض سرانجام دے رہے تھے سیرالیون سے تبدیل ہو کر لیگوس تشریف لے گئے.آپ کے بعد مولوی محمود احمد صاحب چیمہ نے چارج لیا اور نہایت محنت اور تگ و دو سے پریس کی کارکردگی مزید بہتر ہو گئی.قاضی مبارک احمد صاحب شاہد احمد یہ سنٹر سکول بو کے ہیڈ ماسٹر اور سیکرٹری ایجو کیشن مشن سیرالیون تھے.آپ کی غیر معمولی کوششوں سے سکول کو ایک خاص مقام حاصل ہوا پ کے بعد مولوی محمد اسحاق صاحب خلیل یہ قومی فریضہ نہایت عمدگی سے ادا کرنے لگے اس سلسلہ میں آپ نے وزیر اعظم کی پریس کانفرنس میں شرکت کی.ٹیچرز ایسوسی ایشن کے بہت سے
تاریخ احمدیت 289 جلد ۲۰ اجلاسوں میں شامل ہوئے اور کئی بار ایجو کیشن آفیسر جنوب مغربی صوبہ بوکو اور ایجوکیشن سیکرٹری ساؤتھ ویسٹرن پراونس سے ملاقاتیں کیں.نیز بوشہر برٹش کونسل کے ہال میں اسلامی نظریۂ نجات کے موضوع پر ایک لیکچر دیا جو مسلم اور عیسائی حلقوں میں بہت دلچسپی سے سنا گیا.دو بار آپ نے عیسائی فرقہ جمو و اوٹنس کے پادریوں سے تبادلہ خیالات کیا.حاضرین آپ کے دلائل سے بہت متاثر ہوئے.اس سال کا ایک اہم واقعہ جناب نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ اور قریشی محمد افضل صاحب کی سیرالیون میں آمد ہے.آپ ۳۰ / اگست ۱۹۵۸ء کو فری ٹاؤن میں پہنچے ان حضرات کی آمد کی خبر سیرالیون ریڈیو پر تین مرتبہ نشر ہوئی اور ڈیلی میل (DAILY MAIL) میں بھی شائع ہوئی.آپ نے فری ٹاؤن کے قیام کے دوران تمام بڑے بڑے مسلمان لیڈروں اور وزیروں سے ملاقات کی خصوصاً آپ نے آنریبل مصطفیٰ اور الحاج جبرئیل سیسے سے ( دینِ حق ) کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبود اور دیگر مسائل پر گفتگو کی اور مشورے کئے.اسی اثناء میں امریکہ سے ایک شامی مسلمان شیخ جواد جو مغربی افریقہ کا دورہ کر رہے تھے آئے.آپ نے ان سے بھی ملاقات کی اور دونوں نے فری ٹاؤن کے ولیم ولبر فورس میموریل ہال میں مسلمانوں کے ایک جلسہ کے دوران حاضرین سے خطاب کیا اور بتایا کہ اس وقت مسلمانوں کو ایک جگہ متحد ہو کر کام کرنا چاہئے.جناب سیفی صاحب نے سامعین کو یقین دلایا کہ احمد یہ مشن کی خدمات بلا امتیاز فرقہ و عقا ئد سب مسلمانوں کے لئے حاضر ہیں وہ ہر موقعہ پر احمد یہ مشن کو ہر خدمت بجالانے کے لئے مستعد اور تیار پائیں گے.آپ کی تقریر کے بعد آنریبل مصطفیٰ سنوسی صاحب نے کہا کہ ” جماعت احمد یہ دنیا میں ( دینِ حق ) کی ترقی اور اس کے غلبہ کی علمبردار ہے اور خاص طور پر سیرالیون میں جماعت احمدیہ نے جو خدمات مسلمانوں میں دینی روح اور تعلیم کو فروغ دینے کے سلسلہ میں سرانجام دی ہیں ان کی وجہ سے میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ احمد یہ جماعت کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں.“ آپ نے اپنے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو جب بھی کوئی مشکل پیش آئے میرے پاس آئیں میں بخوشی آپ کی مشکلات کے ازالہ کی کوشش کروں گا اور باوجود احمدی نہ ہونے کے احمد یہ جماعت کی امداد کرنا قابل فخر سمجھتا ہوں.66 اس کے بعد مسلم ریفارمیشن سوسائٹی کے صدر الحاج جبرائیل نے کہا "سیرالیون کے لوگوں پر جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے ذریعہ ہی اسلام کی حقیقت روشن ہوئی ہے اس لئے یہاں
تاریخ احمدیت 290 جلد ۲۰ 66 کے لوگ احمد یہ مشن کے بے حد شکر گزار ہیں.“ فری ٹاؤن کے قیام کے دوران جناب سیفی صاحب نے اکثر وقت بڑے بڑے لیڈروں سے ملاقات میں گزارا.خاص طور پر آپ نے مسلمانوں کو تحریک فرمائی کہ مسلم نو جوانوں کی تعلیم و تربیت اور عیسائیت کے طوفان سے بچانے کے لئے اپنے سکول اور کالج کھولنے پر گورنمنٹ کو توجہ دلائیں.اس سلسلہ میں آپ کی وزیر اعظم سیرالیون اور دیگر وزراء مملکت سے بھی ملاقاتیں ہوئیں.اس سال کے آخر میں برٹش پارلیمنٹ کے چار ممبران پر مشتمل ایک خاص وفد سیرالیون کے سیاسی اور ملکی کوائف معلوم کرنے کے لئے یہاں پہنچا جس کے لیڈر کنزرویٹو پارٹی کے ممبر مسٹر این اے پائنل (PANNEL) تھے.۴ / دسمبر ۱۹۵۸ء کو سیرالیون احمد یہ مشن کی طرف سے خوش آمدید ایڈریس پیش کیا گیا اور دینی لٹریچر اور مشن کے ترجمان اخبار افریقین کریسنٹ کی ایک ایک کاپی بھی پیش کی گئی.نیز سلسلہ احمدیہ اور احمد یہ مشنوں کے متعلق بعض سوالات کے تسلی بخش جواب دیئے.مولوی مبارک احمد صاحب ساقی نے وفد کو نائیجیریا کے مسلمانوں اور احمد یہ مشن سے متعلق ضروری معلومات بہم پہنچا ئیں.وفد جماعت احمد یہ سیرالیون کے سکول کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا.اسے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ سکول میں دینیات اور عربی زبان کے ساتھ ساتھ سارے دنیوی مضامین حکومت کے مقررہ کورس کے مطابق پڑھائے جاتے ہیں.۱۹۸ ۱۹۵۸ء کا وسط جماعت احمد یہ نائیجیریا کے لئے خدا کے فضلوں کا منادی بن کر آیا نا پنجیر یا جب کہ ملک کے مختلف علاقوں میں ۸۰ افرا د سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہوئے جن میں سے ۵۵ شمالی نائیجیریا کی ایک اہم درسگاہ ٹریڈ سنٹر (TRADE CENTRE) سے تعلق رکھتے تھے.اسی طرح مغربی نائیجیریا کے تین مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور اس علاقہ کے ایک حج ، دو اساتذہ اور ٹریننگ سنٹر کے ایک درجن کے قریب اساتذہ نے بھی احمدیت قبول کی اور نائیجیریا کے مشرقی علاقہ میں بھی جہاں کیتھولک فرقہ کے عیسائیوں کی اکثریت ہے بعض سعید روحیں داخل احمد بیت ہوئیں.مشن کا دسواں کامیاب سالانہ جلسہ اپنی مخصوص روایات کے ساتھ ۲۶،۲۵/دسمبر ۱۹۵۸ء کو بیت احمد یہ لیگوس کے احاطہ میں منعقد ہوا جس میں ملک کے طول وعرض سے کثیر تعداد میں احباب نے شرکت کی.نائیجیرین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے کانفرنس کے انعقاد کی خبر نشر کی.جناب نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ و امیر نایجیر یا مشن نے افتتاحی خطاب فرمایا
تاریخ احمدیت 291 جلد ۲۰ جس میں جلسہ کی غرض و غایت بیان کی اور اس میں شامل ہونے والوں کو حضرت مسیح موعود کی صداقت کے زندہ ثبوت کے طور پر پیش کیا.آپ کے علاوہ جن فاضل مقررین نے تقاریر کیں ان میں آنریبل ایم اے ثانی (M.A SANNI) ممبر ایوان نمائندگان مملکت ، شیخ نصیر الدین صاحب ایم اے خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اس جلسہ میں نیوزی لینڈ کے ایک سکالر مسٹر ہنفری جان فشر (MR HANPHERY JHON FISHER) مبصر کی حیثیت سے شامل ہوئے.آپ ۱۵/اکتوبر ۱۹۵۸ء کو ۳ ماہ کے لئے مغربی افریقہ آئے ہوئے تھے اور نائیجیریا، غانا اور سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی اور تعلیمی سرگرمیوں پر ایک مقالہ لکھ رہے تھے.نائیجیریا کی فیڈرل انفارمیشن سروس نے اپنے پریس ریلیز میں بتایا کہ مسٹر فشر ۱۹۳۳ء میں نیوزی لینڈ کے مقام DUNEDIN میں پیدا ہوئے.۱۹۵۵ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے گریجوایٹ کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں مغربی افریقہ میں اسلام کی ترقی کے متعلق تحقیقات کرنے کے لئے داخل ہوئے.ان تحقیقات میں مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی حالات معلوم کرنے کی بجائے ان کی توجہ خالص مذہبی امور کی طرف ہے.مسٹر فشر عربی ، فرانسیسی اور جرمن زبان لکھ پڑھ سکتے ہیں.جلسہ سالانہ کی تقریب پر سلسلہ احمدیہ کے جرائد بیرونی مشنوں کی تصاویر اور جماعتی ۲۰۰ مطبوعات کی دلکش نمائش کا انتظام بھی تھا.احمد یہ مشن غانا کی ششماہی رپورٹ ) جنوری تا جون ۱۹۵۸ء) کے مطابق مولوی نذیر احمد غانا صاحب مبشر امیر جماعت احمدیہ غانا نے ۲۹۷۱ میل کا سفر کیا اور ۳۵ مختلف قصبات میں تبلیغی لیکچر دیئے.ماہ اپریل میں ۸ افریقن آزاد ممالک کی اکرا کانفرنس کے موقع پر نمائندگان کے لئے خاصی تعداد میں لٹریچر بھیجا.اسی طرح بیروت میں منعقدہ اسلامی کتب کی نمائش کے لئے احمد یہ مشن غانا کی شائع کردہ کتب ارسال کیں نیز جماعت احمدیہ کے تعلیمی اداروں کے جنرل مینیجر کے فرائض بھی ادا کرتے رہے.اس سلسلہ میں آپ نے وزیر تعلیم غانا کی دعوت پر ۹ / مارچ اور 11 جون کو دو میٹنگ میں شرکت فرمائی جس میں آپ کی پیش کردہ اکثر تجاویز سے اتفاق کیا گیا اور ۱۳ افراد کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے ایک ممبر آپ بھی تھے.کماسی مشن کے انچارج ملک خلیل احمد صاحب اختر نے ۱۷ مقامات کا دورہ کیا اور ۲۵ تقاریر کیں.ایکسٹرا ماربل سٹڈی ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام اسلامی فقہ اور اسلامی تمدن کے عنوانات پر لیکچر دیئے.عرصہ زیر رپورٹ میں ایسوکورا (ASOKORA) میں ایک نیا ٹڈل سکول کھولا
تاریخ احمدیت 292 جلد ۲۰ گیا اور احمد یہ سیکنڈری سکول کماسی کے ہوسٹل کا قیام عمل میں آیا اور ملک صاحب تبلیغی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ سیکنڈری سکول میں عربی اور دینیات کی کلاسیں بھی لیتے رہے.مولوی فضل الہی صاحب انوری احمد یہ عربی سکول سویڈرو کے ہیڈ ماسٹر تھے.آپ نے سکول کے سلیبس اور ٹائم ٹیبل کو نئے سرے سے ترتیب دیا اور لائبریری کے لئے بہت سی کتب مصر سے منگوا ئیں.وزیر اعظم غانا ڈاکٹر کو وامی نکروما کی شادی پر انہیں سکول کی طرف سے پیغام تہنیت کے علاوہ سلسلہ احمدیہ کی چھ کتب کا ایک سیٹ بطور تحفہ ارسال کیا جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.مارچ ۱۹۵۸ء میں افریقن مسلمانوں کے مذہبی راہنما الحاج امام عباس احمدیہ عربی سکول میں تشریف لائے اور عربی زبان کو فروغ دینے کے سلسلہ میں احمد یہ سکول کی مساعی کو بہت سراہا.جناب انوری صاحب عیسائی مشنوں کے سربراہوں کی ایک میٹنگ میں بھی شامل ہوئے جو انڈسٹریل سکول کے پرنسپل کی طرف سے طلباء کے مذہبی اور اخلاقی بہبود کے سلسلہ میں بلائی گئی تھی.آپ نے عام طلباء کی اخلاقی اور مسلمان طلباء کی مذہبی تربیت کے بارے میں تجاویز پیش کیں.اس سال مشن کو اشاعت دین میں خاصی کامیابی ہوئی.دورانِ سال ۲۹۸ نفوس حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.غانا میں بعض نئی جماعتوں کے قیام کے علاوہ فرانسیسی افریقہ میں بھی دونئی جماعتیں قائم ہوئیں جن میں سے ایک آئیوری کوسٹ اور دوسری فرانسیسی سوڈان میں تھی.فرانسیسی مقبوضات میں باقاعدہ کسی مبلغ احمدیت کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی.غانا کے افریقن احمدی تجارت کی غرض سے سفر کرتے اور پیغام احمدیت پہنچاتے رہے.جماعت احمد یہ غانا ایک عرصہ سے دار الحکومت اکرا میں بیت الذکر اور مشن ہاؤس کے لئے زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو اس سال کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور حکومت نے اس غرض کے لئے مفت زمین دے دی.اس سال عیسائی صحافت نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ جماعت احمدیہ کی تبلیغی مشرقی افریقہ مساعی کے نتیجے میں عیسائیت ( دین حق ) کے مقابل پر پسپا ہورہی ہے.اس ضمن میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ کے قلم سے الفضل ۱۲ رفروری ۱۹۵۸ء صفحہ ۷ پر ایک مضمون بھی چھپا جس میں آپ نے عیسائی اخباروں کے درج ذیل اقتباسات شامل مضمون کئے :-
تاریخ احمدیت 293 گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں برطانوی وزیر نو آبادیات سرکاری دورے پر یوگنڈا آئے اور انہوں نے یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا.اس پریس کانفرنس میں جماعت احمدیہ کے اخبار ” وائس آف اسلام کے ایڈیٹر ( حکیم محمد ابراہیم صاحب مبلغ ( دینِ حق ) یوگنڈا ) نے وزیر موصوف کی توجہ مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کی طرف مبذول کراتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ یوگنڈا کے مسلمانوں کی اس بارے میں مدد کریں.وزیر موصوف اس سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے سلسلہ میں یوگنڈا کے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنے کا وعدہ کیا.چنانچہ بعد میں انہوں نے اپنے تعلیمی مشیر سرکرسٹوفر کا کس کو اس غرض سے یوگنڈا بھجوایا کہ وہ اس بارے میں تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کریں.سر کرسٹوفر یوگنڈا آئے.سارے معاملے کی تحقیقات کی اور واپس جا کر انہوں نے وزیر نو آبادیات کو اپنی رپورٹ میں مطلع کیا کہ یوگنڈا ہی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں افریقی مسلمانوں کا کافی اثر ہے.نیز انہوں نے وہاں ایک اسلامی ادارہ قائم کرنے کی سفارش کی.“ 66 اخبار یوگنڈا آرگس‘ مورخہ ۲۹ ستمبر ۱۹۵۸ء) وو مذکورہ بالا انگریزی روزنامہ نے ایک اور نوٹ FAILURE OF CHRISTIANITY IN UGANDA یوگنڈا مشرقی افریقہ میں عیسائیت کی ناکامی کے عنوان سے شائع کیا ہے جس کے بعض اقتباسات درج ذیل ہیں :- ” مجھے یوگنڈا کے ایک نہایت ذمہ دار باشندے نے بتایا ہے کہ جو نہی یہاں حکومت خود اختیاری کا قیام عمل میں آجائے گا تو لوگ اس خیال کے پیش نظر کہ چرچ ایک غیر ملکی ادارہ ہے اور شادی کے ایک ایسے نظریہ کا حامل ہے جو اہل یوگنڈا کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے.چرچ کو یہاں سے نکال باہر کریں گے.میں نہیں جانتا کہ یہ بات درست ہے یا نہیں.لیکن اتنا ضرور ہے کہ گزشتہ دو سال سے یوگنڈا میں قدیم عقائد کی طرف عود کرنے کا میلان بڑھ رہا ہے اور شادی کے مسیحی نظریات اور بالعموم خود مسیحیت کے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 294 جلد ۲۰ خلاف حملے کی شدت بڑھتی جارہی ہے.یوگنڈا میں ایسے چیفس پہلے ہی بہت کم ہیں کہ جنہیں چرچ کا سرگرم رکن شمار کیا جا سکے اس کے نتیجے “ میں یوگنڈا میں چرچ کی آمد میں بہت کمی واقع ہوگئی ہے.یہ ہے وہ بیان جو یوگنڈا کے بشپ رائٹ ریورنڈ یسلی براؤن نے جنوری ۱۹۵۸ء کو نامی ریمیے کیتھڈرل میں اینگلیکن چرچ کی علاقائی کانفرنس میں دیا.“ حکومت کی طرف سے زائد مالی امداد کی پیشکش کے باوجود مینگوسی ایم.الیس ہسپتال داخل ہونے والے مریضوں کے لئے موجودہ گنجائش میں دو تہائی کمی کرنے پر مجبور ہو گیا ہے.اسی طرح وہ عام طبی خدمات اور نرسوں کی تربیت کے کام سے بھی دستبردار ہو رہا ہے.اس امر کا اعلان یوگنڈا کی علاقائی کانفرنس میں ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر آرلنگٹن نے کیا.اس مشن کے انچارج مشنری مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر سات سالہ خدمات کے بعد سیلون اپریل ۱۹۵۸ء میں عازم ربوہ ہوئے اور مشن کا چارج قریشی عبدالرحمن صاحب شاہد نے سنبھالا.مشرقی صوبہ مشن کے مقامی مبلغ مولوی محمد شمیم صاحب تھے جنہوں نے ایک ہزار میل سے زائد سفر پیدل، بس اور گاڑی کے ذریعہ کیا اور مختلف علاقوں تک سلسلہ کا لٹریچر پہنچایا.حکومتِ سیلون نے گذشتہ سال میلادالنبی کی رخصت نہ دینے کا اعلان کیا تھا جس پر جماعت احمد یہ سیلون نے سب سے پہلے ریزولیوشن پاس کیا جو اخبار سیلیون ڈیلی نیوز میں شائع ہوا.بعد ازاں حکومت نے یوم میلاد کی تعطیل کا اعلان کر دیا.اس سال کولمبو سے ۸۲ میل دور ایک شہر میں نئی جماعت قائم ہوئی.مشن کی طرف سے ایک کتاب ” مسلمان کون ہے“ شائع ہوئی جو مشرقی صوبہ کے ایک اہل حدیث عالم کی کتاب کے جواب میں مولوی محمد شمیم صاحب نے لکھی اور کتاب مذکور کے اعتراضوں کے مدلل جوابات دیئے.یہ کتاب اس علاقہ میں ایک ہزار کی تعداد میں مفت تقسیم کی گئی.۲۰۳ انڈونیشیا جماعت احمد یہ انڈونیشیا کی نویں سالانہ کانفرنس مغربی جاوا کے شہر گا روت میں ۱۸، ۱۹ ، ۲۰ جولائی ۱۹۵۸ء کو کامیابی کے ساتھ منعقد ہوئی جس کی خبریں مرکزی ریڈیو اور پریس میں بھی آئیں.
تاریخ احمدیت 295 جلد ۲۰ کانفرنس کا افتتاح کانفرنس کمیٹی اور جماعت گاروت کے صدر جناب بیٹی صاحب نے کیا جس کے بعد سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے حضرت مصلح موعود کے گزشتہ سالوں کے پیغامات سے بعض اقتباسات سنائے جن سے سامعین کے اندر ایک نئی روح اور ولولہ پیدا ہوا.دوسرے روز جناب آؤنگ حمید صاحب (جنرل سیکرٹری ) نے گزشتہ سال کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جنوری ۱۹۵۷ء سے جون ۱۹۵۸ء تک جماعت کی تعداد میں تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد کا اضافہ ہوا.رپورٹ کے بعد سید شاہ محمد صاحب نے حضرت مصلح موعود کا حسب ذیل تازہ برقی پیغام پڑھ کر سنایا.( ترجمہ ) مری ۱۶؍ جولائی ۱۹۵۸ء.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته میں انڈونیشیا کے احمدی مردوں اور عورتوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوا خدا تعالیٰ کے حضور ان کی کانفرنس کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اپنی تبلیغی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا ورنہ اس وقت تک جماعت کے افراد کی تعداد دس لاکھ سے متجاوز ہو چکی ہوتی.میں یہ امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے طریقہ کار میں اصلاح کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ اور مخلوق کے سچے خادم ثابت کریں گے.خدا تعالیٰ آپ کے ملک کو برکت دے اور اس کی ہمیشہ صحیح راستے کی طرف راہنمائی کرتا رہے.(خلیفہ اسیح الثانی) اس مختصر مگر مؤثر پیغام نے مخلصین جماعت پر رقت کا عالم طاری کر دیا.پیغام پڑھنے کے بعد سید شاہ محمد صاحب نے کہا یہ مختصر پیغام اپنی تفصیل آپ ہے.میں صرف یہی کہتا ہوں کہ اللہ کا نام لے کر حضور کے پیغام کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے عملی جدوجہد شروع کر دیں.جلسہ کے آخری اجلاس سے مولوی امام الدین صاحب، مولوی محمد زہدی صاحب، ملک عزیز احمد صاحب اور بعض دوسرے احباب نے تقاریر فرما ئیں.کانفرنس میں یہ ریزولیوشن بھی پاس کیا گیا کہ یہ کانفرنس اپنے محبوب آقا کی خدمت میں عاجزانہ درخواست کرتی ہے کہ حضور اپنی تشریف آوری سے اس ملک کو برکت بخشیں.اس سال پہلی مرتبہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع کا نفرنس سے قبل ہوا اور جماعت کی دوسری ذیلی تنظیموں کے اجلاس کا نفرنس کے ایام میں ہوئے.کانفرنس کے تیسرے روز مڈل سکول کے ہال میں ایک کامیاب تبلیغی جلسہ ہوا.ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.غیر از جماعت دوستوں نے بھی تسلیم کیا کہ سب تقاریر اہم اور معلومات سے پر تھیں.جلسہ میں کتاب ”پیغام احمدیت“ اور
تاریخ احمدیت 296 جلد ۲۰ رسالہ سلسلہ احمدیہ بصورت ٹریکٹ تقسیم کیا گیا.ساری تقاریر پہلی بار ٹیپ ریکارڈ کی گئیں." یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اس سال ملک میں مارشل لاء اور کرفیو کے نفاذ کی وجہ سے انڈونیشیا کے اکثر مبلغین اپنی جگہوں پر محصور رہے خصوصاً ان علاقوں میں جہاں بغاوت کے باعث جنگ جاری تھی اس کا تبلیغی سرگرمیوں پر بہت اثر پڑا.تا ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ۲۶۱ افراد سلسلہ حقہ میں شامل ہوئے اور مندرجہ ذیل پانچ مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئیں.تلوک بتونگ (TELUK BETUNG) ، رفلکس بتونگ (RANGKAS BETUNG)، چلگوں (CHILGGON)، کبو میں ، سالا تیگا (SALATIGA) ۱۹۵۸ء میں مشرقی جاوا کے صدر مقام سورا با ئیا (SURA BAYA) اور مغربی جاوا کے مشہور شہر چری بون (CHIRE BON) میں دو عظیم الشان بیوت الذکر تعمیر کی گئیں اول الذکر کی تعمیر میں ڈاکٹر عبدالغفور صاحب کی انتھک مساعی کا بھاری دخل تھا اور ثانی الذکر کی تعمیر جماعت احمدیہ مانس لور (MANISLOR) کے متواتر وقار عمل کے ذریعہ ہوئی.اور انہوں نے معماروں اور مزدوروں کا کام بھی خود انجام دیا.دوران سال انڈونیشیا مشن نے 11 مختلف علمی تربیتی و تبلیغی مضامین پر مشتمل ٹریکٹ شائع کئے.ہر ٹریکٹ اوسطاً ۱۶ صفحات کا تھا.مجاہدین احمدیت کی آمد و روانگی ۱۹۵۸ء میں درج ذیل مجاہدین احمدیت فریضہ اعلائے کلمۃ اللہ کی بجا آوری کے لئے ربوہ سے ۲۰۴ مختلف بیرونی ممالک میں تشریف لے گئے.۱- عبدالعزیز جمن بخش صاحب ۸/ جنوری (برائے ڈچ گی آنا ) ۲ - مولوی محمد بشیر صاحب شاد ۲۱ فروری (برائے سیرالیون ) ۳ - مولوی محمد اسحاق صاحب خلیل ۲۱ فروری ( برائے سیرالیون ) ۵ اپریل ( برائے سیرالیون ) -۴- سید احمد شاہ صاحب ۵- قریشی محمد افضل صاحب ۶ - مولوی عبد القادر صاحب ضیغم ے.ملک عزیز احمد صاحب ۸- سید شاہ محمد صاحب رئيس التبليغ ٫۵اپریل ( برائے سیرالیون ) ۴ رمئی (برائے امریکہ) ۲۱ رمئی (برائے انڈونیشیا) ۲۴ / جون (برائے انڈونیشیا) ۹.مسٹر بشیر احمد آرچرڈ صاحب ۲۵ / جون (برائے ٹرینیڈاڈ ) ۱۰ مولوی مبارک احمد صاحب ساقی ۶ ستمبر (برائے سیرالیون ) ۲۰۵
تاریخ احمدیت ۱۱ - مولوی محمد صادق صاحب سماٹری 297 ۳/دسمبر ( برائے سنگا پور ) درج ذیل مبشرین فریضہ اشاعت دین کی ادائیگی کے بعد واپس وطن پہنچے.۱- مولانا شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبليغ ۲۹ ؍ مارچ ( مشرقی افریقہ ) / ۲ - مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ۱۹ اپریل ۳ - سعود احمد صاحب ۲۴ / جون (سیلون) (غانا) ۴- قاضی مبارک احمد صاحب ۲۳ جولائی ( سیرالیون) ۵- صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ۲۴ / جولائی ۶ - مولوی نور الحق صاحب انور ۱۷اگست (غانا) (امریکہ) ۲۰۹ جلد ۲۰ ۲۰۸ ے.مولوی محمود احمد چیمہ صاحب ۱۸ / دسمبر ( سیرالیون ) امسال برصغیر پاک و ہند میں حسب ذیل رسالے اور کتب شائع ہوئیں اور سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں مفید اضافہ کا موجب بنیں.ا.نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں ( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) ۲ - ذکر حبیب ( حضرت مرزا شریف احمد صاحب) - امن عالم اور اسلامی تعلیم ( قاضی محمد اسلم صاحب) ۴ - فیضانِ نبوت محمدیہ ( مولانا قاضی محمد نذیر صاحب) ۵ - ( دین حق ) میں نکاح و شادی کے احکام ( مولوی غلام باری سیف صاحب).سکھ مسلم تاریخ ( گیانی عباداللہ صاحب.ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور ) ے.سکھ مسلم اتحاد کا گلدستہ (اردو ترجمہ چونویں پھل ) از گیانی عباداللہ صاحب.ناشر نظارت دعوت و تبلیغ قادیان - اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اول ( ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان) ۹ - جماعت احمدیہ کا غیر مسلموں کے ساتھ سلوک ۱۰ تبلیغ دین زمین کے کناروں تک مولوی برکات احمد صاحب را جیکی 11- اشاعت ( دینِ حق ) اور ہماری ذمہ داریاں (صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) "OUR FOREIGN MISSIONS" - ۱۲ ۲۱۱ ۱۳- هدایتة المقتصد (با محاورہ اردوترجمه بدایۃ المتحد تالیف علامه ابن رشد مترجم ا
تاریخ احمدیت 298 جلد ۲۰ مولوی محمد احمد صاحب ثاقب) ۱۴ پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق ( مولانا جلال الدین صاحب شمس خالد احمدیت ) ۱۵- عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام کے نقصانات (میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی) | ۱۶ - جماعت اسلامی پر تبصرہ ( دوست محمد شاہد ) ۲۱۳
تاریخ احمدیت 299 جلد ۲۰ -1 -۲ -۳ - -Y -2 -^ ۹ - 1+ 11- - ۱۲ روزنامه الفضل ربوه ۶ار جنوری ۱۹۵۸ء صفحه یم حواشی الفضل ۱۹ر جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۲۳،۱ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۵ اس سفر کے دوران جماعت احمدیہ لائکپور (فیصل آباد) نے قافلہ کو دوپہر کا کھانا ، جماعت احمدیہ ملتان نے پچھلے پہر کا عصرانہ اور رات کا کھانا اور جماعت حیدر آباد نے ناشتہ پیش کیا.الفضل ۲۳ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۵ الفضل ۲۷ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۲ ، الفضل ۹ مارچ ۱۹۵۸ ء صفحه ۳ ( متن خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۵۸ء) الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۲ ( متن خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۵۸ء) الفضل ۲۵ رفروری ۱۹۵۸ء صفحه ا الفضل ۲۷ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۲ الفضل ۲۸ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۱ الفضل ۶ / مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۲ الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۲ خطبه جمعه محمد آبا د ۱۴ مارچ ۱۹۵۸ء ( مکمل متن الفضل ۲۹ / مارچ ۱۹۵۸ء صفحہ ۲ میں چھپ چکا ہے.الفضل ا۱۱؍ مارچ تا ۲۰ مارچ ۱۹۵۸ء -- الفضل یکم اپریل ۱۹۵۸ء صفحه ۵ -۱۴ -17 -12 -19 - ۲۱ -۲۲ الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۱-۸ الفضل ربوہ یکم اپریل ۱۹۵۸ء صفحه ۴ روز نامه الفضل ۲۳ را پریل ۱۹۵۸ء صفحه ۴ الفرقان اپریل ۱۹۵۸ء سر ورق نمبر ۲ صفحه ۶۴۴ تا ۶۴۸ ( طبع دوم دسمبر ۱۹۸۲ء مطبع پاکستان پرنٹنگ پریس ریٹی گن روڈ لاہور سورۃ مائده : ۲۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء صفہ ۳ - ۷ ناشر مولوی عبدالرحمن صاحب انور سیکرٹری مجلس مشاورت رپورٹ مجلس مشاورت صفحه ۳۷ تا ۴۴ ایضا الفضل ۲۹،۲۷ ،۳۰ را پریل ، ۲ رمئی ۱۹۵۸ء حاشیہ صفحہ ۹۷.اخبار بدر قادیان ۱۷ را پریل ۱۹۵۸ء صفحه ۱-۸ ۲۳- لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ ۲۴ - الفضل ۱۷ ؍ جولائی ۱۹۵۸ء صفحه ۲ ۲۵ - الفضل و ر جولائی ۱۹۵۸ ء صفحہ ۱ الفضل یکم جون ۱۹۵۸ء صفحه ۳ -۲۶ - ۲۸ -۲۹ ۳۰ انقلاب حقیقی ( تقریر فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۷ء ) طبع خانی صفحہ ۱۲۹.ناشر الشرکة الاسلامیہ ربوہ اکتوبر ۱۹۵۷ء رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحه ۱۵۰ الفضل ۱۸؍جون ۱۹۵۸ءصفحہ ۵ روزنامه الفضل ربوہ ۲۵ جولائی ۱۹۵۸ء صفحه ۳ اخبار گئی ٹائمنر (GUIANA TIMES) اکرا.غانا.مورخه ۱۴ / مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۳ بحواله روزنامه الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۵۸ء صفحه یم
تاریخ احمدیت 300 جلد ۲۰ ۳۲ صدق جدید لکھنو ا ا / جولائی ۱۹۵۸ ، صفحہ ۳ (باقی صفحہ ۱۴ اپر ) ۳۳ - الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ ( ترجمه ) ۳۴- ایضاً صفحہ نمبر ۴،۳ - ۳۵ مشیر قانونی صدرانجمن احمد یہ پاکستان ۳۶- ابن حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب روز نامه الفضل ربوه ۲۸ راگست ۱۹۵۸ء صفحه ۴ ، ۵ -۳۷ ۳۸ روز نامه الفضل ۲ /اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۸ ۳۹ - الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۴ کالم نمبر ا عنوان یاد ایام“ - ۴۱ - مضمون خلیفه صلاح الدین صاحب الفضل ۱۳ را اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۳) مضمون صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب (الفضل ۷ را گست ۱۹۵۸ء صفحه ۴، ۵) مضمون بیگم صاحبہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب الفضل ۳۰ راگست ۱۹۵۸ء صفحه ۴،۳) نوٹ: محترمہ اہلیہ صاحبہ محمد عیسی بھا گلوری مرحوم ناظم آباد کرچی نمبر ۱۸ ( الفضل ۱۹ اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۵) مضمون اہلیہ محترمه حضرت مولوی رحمت علی صاحب مجاہد انڈو نیشیا ( الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۵۸، صفحه ۴ ) الفضل ۷ اگست ۱۹۵۸ ، صفحه ۳ ۴۲ - الفضل ۱۳ را گست ۱۹۵۸ء صفحه ۳ ۴۳ - الحکم ۲۰، ۲۷ را گست ۱۸۹۸ء صفحه ۱۴.تذکره طبع چہارم صفحه ۳۱۲ ناشر الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ ۱۹۷۷ء -۴۴ یہ حضرت کعب ابن مالک کا واقعہ ہے.خط غسان کے نصرانی بادشاہ کا تھا ( بخاری ) (کتاب المغازی حدیث کعب بن مالک ) -۲۵ غزوہ نجد سے واپسی پر یہ واقعہ پیش آیا تھا ( مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۷۱) روز نامه الفضل ربوه ۲۷ اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۵،۴،۳ - - ۴۶ ۴۷ روز نامه الفضل ربوه ۱۰ار ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ - - ۴۸ "THE CONTRIBUTION TO THE SOLUTION OF WORLD PROBLEMS" مطبوعہ جے ہند پر لیس نہرو گارڈن روڈ جالندھر شہر ۴۹ - الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳،۲ ۵۰- قدیم ریکارڈ کے مطابق یہ عمارت تقریباً سو سال قبل ۱۸۸۶ء میں ایک پادری کرنیل بیلی کی بیوہ کیچ (CATAGE) عرف میم صاحبہ کی ملکیت تھی جو اس نے ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۹ء کو سردار دیو سنگھ صاحب ساکن صدر بازار راولپنڈی ( ٹھیکیدار چھاؤنی راولپنڈی) کو چودہ سو روپیہ میں بیچ دی.سردار صاحب کے دو بیٹے تھے رائے بہادر ہری سنگھ صاحب آنریری مجسٹریٹ اور رائے بہادر سردار جے سنگھ صاحب رئیس اعظم را ولپنڈی مؤخر الذکر تمام جائیداد کا مختار عام تھے جنہوں نے اپنے بھتیجے اقبال سنگھ صاحب ولد ہری سنگھ صاحب) کی طرف سے یہ پراپرٹی راولپنڈی کے ایک مسلمان ٹھیکیدار میاں محمد شفیع صاحب ولد میاں خدا بخش صاحب مغل کے پاس ۱۰ جنوری ۱۹۴۴ء میں پندرہ ہزار لے کر فروخت کر دی.یہ عمارت ہری سنگھ صاحب کی ملکیت کے زمانہ سے ہی جماعت احمد یہ راولپنڈی کے پاس کرایہ پر تھی اور اسے بطور بیت الذکر استعمال کیا جاتا تھا.۲۰ /جون ۱۹۴۵ء کو صد را انجمن احمدیہ نے یہ عمارت اٹھارہ ہزار روپیہ میں ٹھیکیدار مذکور سے میاں محمد یوسف صاحب سپلائی آفیسر راولپنڈی کے ذریعہ خرید لی.چنانچہ قیام پاکستان کے بعد جب بعض احمدی کشمیر اور مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے روالپنڈی پناہ گزیں ہوئے تو یہاں نمازیں پڑھی جاتی تھیں اور جمعہ اور جلسے وغیرہ کی تقاریب منعقد ہوتی تھیں.( امارت ضلع راولپنڈی کی فراہم کردہ معلومات کا خلاصہ ) ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ (اردو ) تفصیل " تاریخ احمدیت جلد نمبر ۱۶ میں آچکی ہے.10- ۵۲ ۳۶۵ بی واقع کالج روڈ راولپنڈی ۵۳ تابعین اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۱۶۳،۷۲
تاریخ احمدیت 301 جلد ۲۰ ۵۴ معلومات فراہم کردہ امارت ضلع راولپنڈی ۵۵- ابن مولانا محمد صادق صاحب سماٹری ( وفات ۲۰ / مارچ ۱۹۸۰ء ) ۵۶ ترجمه بحواله بدر قادیان ۱۲ / فروری ۱۹۵۹ء صفحہ ۷ -02 روز نامہ الفضل ربوه ۱۷۷ کتوبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ ۵۸ متن میں جہاں جہاں بیوت الذکر کے الفاظ ہیں وہاں اصل تقریر میں ” مساجد کے الفاظ ہیں جو شائع شدہ ہیں.۵۹ - الهام ۶ را پریل ۱۸۸۵ء تذکره طبع چہارم صفحه ۱۲۶ -Y.روز نامه الفضل ربوه ۶ رنومبر ۱۹۵۸ء صفحه ۲،۱ ۳۰.اس موقع پر آپ نے زندہ خدا کی زندہ تجلیات کی بہت سی ایمان افروز مثالیں بیان فرمائیں.الفضل ربو ۱۴۰ نومبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ ۴۰ (شخص) ۶۳ - ہفتہ روزہ بدر قادیان ۳۰ /اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ -۶۴ هفته روزه بدر ۷۳۰ اکتوبر ۱۹۵۸ء صفہ یہ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۴، ٫۵نومبر ۱۹۵۸ء ۶۵ - الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۵۸ء صفحه ۴ ۶۶- بدر قادیان ۲۰ / نومبر ۱۹۵۸ء صفحه ۶ ۶۷ - الفضل ۲۰ فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۳ - الفضل ۲۴،۲۲،۲۰ فروری ۱۹۵۹ء الفضل ۲۶ ؍ دسمبر ۱۹۵۸ صفحه ۸،۷ الفضل ۲ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۸ - ۶۹ -21 RHEUMATISM ۷۲ - الاعلیٰ :۱۰ ۷۳ روز نامه الفضل ربوه ۲۴ / جنوری ۱۹۵۹ء صفحه ۴،۳ ۷۴ الفضل ۲۵ / جنوری ۱۹۵۹ء صفحه ۴ -۷۵ متن برائے ملاحظہ ہو " سیر روحانی جلد سوم تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۵۳۶ -24 ۷۷.الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۶ ۷۸ صدق جدید لکھنو ۳۰ /جنوری ۱۹۵۹ء بحوالہ اخبار بدر قادیان ۶ رفروری ۱۹۵۹ء صفحه ۶ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل و رجنوری ۱۹۵۹ء صفحه ۴، ۵ -29 الفضل ۲۳ / اپریل ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ، اخبار بدر قادیان ۱۸ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ا پر سلسلہ کے نئے ممبروں کی فہرست میں آپ کا نام اور پتہ درج ہے ” شیخ محمد حسین صاحب ولد شیخ غلام قادر صاحب گرد اور بندوبست ایبٹ آباد.یوسف زئی کی سرگزشت صفحه ۳۸۰ ، ۳۸۱ ( مؤلفه خان روشن خان صاحب) ناشر روشن خان اینڈ کمپنی پھول چوک جونا مارکیٹ کراچی نمبر ۲ فروری ۱۹۸۶ء کچھ باتیں کچھ یادیں، صفحہ ۲۰ مؤلفہ شیخ عبدالحمید صاحب عاجز قادیان - طبع دوم جنوری ۱۹۹۱ء مطبع جے کے آفسٹ پریس دہلی.مقصد زندگی حصہ اول صفحه ۵ مؤلفه منشی حسین بخش صاحب دبیر انجمن اسلامیہ بٹالہ مطبوعہ مجددی پریس امرتسر اشاعت ستمبر ۱۹۱۳ء کا تب و دھا و یخاں صاحب جمناسٹک ماسٹر مدرسته المسلمین امرتسر -۸۳ ہفت روزہ الحکم قادیان ۲۱ / اگست تا ۷ ستمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲ -۸۴ الفضل ۵ر اپریل ۱۹۳۵ ، صفحہ ۱۰ کالم نمبرا
تاریخ احمدیت 302 جلد ۲۰ ۸۵ - الفضل ربوه ۲۳ ۲۴۰، ۲۸ را پریل ۱۹۵۸ء بدر قادیان دارالامان ۱۰-۱۷ را پریل ۱۹۵۸ء ۸۶ ماخوذ از مکتوب شیخ عبدالحمید صاحب عاجز (۲۹ جنوری ۱۹۸۸ء) الفضل ۲۶ / اپریل ۱۹۵۸ء صفحه ۶ الفضل ۱۵/ جون ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ۸۹- فرمایا ”جو شخص بیعت کرنے کے لئے مستعد ہے گوا بھی بیعت نہیں کی اس کو بھی چاہئے کہ اس ہدایت کے موافق اپنا نام لکھوائے اور پھر مجھے کسی وقت اپنی بیعت سے اطلاع دے دئے اشتہار واجب الاظہار ۴ رنومبر ۱۹۰۰ ء ( مطبوعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ ۳۵۷ ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ.جون ۱۹۷۵ء) ۹۰ - رجسٹر روایات نمبر ۴ صفحه ۱۳۶، ۱۳۹ -91 الفضل ۱۶/ جون ۱۹۵۱ء صفحه ۴ ( تقریر حضرت خاں صاحب مرتبہ مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوئی ) الفضل ۷ ارجون ۱۹۵۰، صفحه ۵ و الفضل ۱۴ جون ۱۹۵۰ء صفحه ۴ -۹۴ تاریخ احمد بیت جلد ۷ صفحہ ۲۵ پر اس تقریب کی فوٹو شائع شدہ ہے.۹۵ - الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۳۲ء صفحها ۹۶ - رپورٹ سالانہ ۳۴-۱۹۳۳ء صفحہ ۲۵۹ - اخبار الحکم دسمبر ۱۹۳۹ء جو بلی نمبر صفحہ ۴۹ صدر انجمن احمد یہ قادیان ۹۷ - رپورٹ سالانہ ۳۴-۱۹۳۳ء صفحه ۲۵۹ - اخبار الحکم دسمبر ۱۹۳۹ء جو بلی نمبر صفحہ ۴۹ صدرانجمن احمد یہ قادیان الفضل ۱۷، ۲۰،۱۸ اگست ۱۹۵۸ء ( ملخص مضمون جناب شیخ خورشید احمد صاحب اسٹنٹ ایڈیٹرالفضل ربوہ حال کینیڈا ) مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد سوم طبع خانی صفحہ ۱۳۷ تا ۲۱۸ ( مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان) ۹۹ - اصل تحریر میں صحابی کا لفظ ہے.( ناقل ) نام عزیزہ بیگم جو منشی مولی بخش صاحب حافظ دفتر ضلع کچہری ہوشیار پور کی دختر تھیں.حضرت خان صاحب کے ساتھ قریباً ۵۲ سال تک رفاقت اختیار کرنے کے بعد ۲۱ / دسمبر ۱۹۴۹ء کو بھر ۶۲ سال انتقال کر گئیں اور مقبرہ بہشتی ربوہ میں دفن ہوئیں.-1++ -1+1 -1+5 الفضل ۱۷ را گست ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ) اصل تحریرہ میں ام المؤمنین'' کا لفظ ہے.( ناقل ) روزنامه الفضل ربوه ۱۰ / اگست ۱۹۵۸ء صفحه یم 10 - الفضل ۲ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۱-۸ ۱۰۴ - الفضل ۲۰ / اگست ۱۹۲۵ء صفحه ۴ -۱۰۵- تفصیلات تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۵۱۴ تا ۵۲۶ طبع اول میں آچکی ہیں.١٠ - الفضل ۲ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۸،۱ ۱۰۷ روز نامه الفضل ربوه ۳ رستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۴ ۱۰ - الفضل ۲۱ ا کتوبر ۱۹۵۸ء صفحه ۴ ۱۰۹ - الفضل ۷، ۹؍ دسمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۵ - الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ( مضمون ( راجہ ) بشیر الدین احمد صاحب ( جنجوعہ ) سیکرٹری انجمن احمد یہ مڈھ رانجھا ) بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحه ۶۵ ( از فضل الرحمن صاحب بسمل امیر جماعت احمد یہ بھیرہ) مطبوعہ دسمبر ۱۹۷۲ء ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ ١١- الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۵۸ء صفحه ۱ ۱۱۴.بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ ۶۶ ۱۱۵ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ ) تحریر مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لاسکیوری)
تاریخ احمدیت ۱۱۶.رجسٹر بیعت اولی ۱۱۷ - الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۵۸ء صفحه ا 303 جلد ۲۰ ۱۱۸ حضرت خلیفة أصبح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایک مکتوب (جنوری ۲۰۰۲ء) سے ماخوذ اصل مکتوب شعبه تاریخ احمدیت ربوہ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے.۱۱۹- ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت - ۱۲۰- مرسله معلومات قاضی بشیر احمد صاحب (ابن قاضی محمد منیر صاحب مرحوم ) عجمان الامارات المتحد وص ب ۱۱۹۷ ۱۲۱ ماخوذ از ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل ۲۰۰۴ صفحه ۳۲ تا ۳۴، ۴۰ مضمون چوہدری صفدر علی وڑائچ صاحب سرگودھا.۱۲۲- ان دنوں ابھی چنیوٹ میں ریل نہیں آئی تھی اور چنیوٹ سے چک جھمرہ تک تانگہ پر سفر کرنا ہوتا تھا.۱۲۳ - دو تابعین اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۱۷۹ حاشیہ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان ۱۲۴ - الفضل ۴ رمئی ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ( مضمون ملک منظور احمد صاحب انور ) ۱۲۵ مشعل راه صفحه ۷۰۴ تا ۶ ۷۰ ناشر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یه ربوده ۱۴ار دسمبر ۱۹۷۵ء مطابق ۱۴ رفتح ۱۳۴۹ھ ۱۲۶ - مشعل راه صفحه ۷۰۴ تا ۶ ۷۰ ناشر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ ۱۴؍ دسمبر ۱۹۷۵ء مطابق ۱۴/ فتح ۱۳۴۹ھ ۱۲۷ الفضل انٹر نیشنل لنڈن ۱۳ تا ۱۹ر جون ۲۰۰۳ ، صفحه ۹ تا ۱۱ - الفضل ۸ / اپریل ۱۹۵۸ ، صفحه ۵ ١٢٩ - الفضل ۲۵ را پریل ۱۹۵۸ء صفحه ۵ -170 الفضل یکم مئی ۱۹۵۸ء صفحیم ( تلخیص) آپ کے بیٹے نصیر احمد صاحب ( حال لائبریرین پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس لاہور) نے آپ کے تفصیلی حالات مرتب کئے ہیں اور الفضل ۱۳، ۱۵ جولائی ۱۹۵۸ء میں شائع شدہ ہیں.جناب عبد السلام صاحب ظافر مجاہد سیرالیون آپ ہی کے صاحبزادے ہیں.۱۳۲ - الفضل ۲۸ را کتوبر ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ۱۳ - الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ۱۳۴ - الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۵۹، صفحه ۳ ( مضمون شیخ محمد شریف صاحب لاہور ) ۱۳۵ - شیخ محمد اقبال صاحب، شیخ محمد حنیف صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ بلوچستان، شیخ محمد شریف صاحب، شیخ محمد لطیف صاحب اقبال محمد احمدیہ شیخ محمد سکاڈرن لیڈر ۱۳۶ - الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحیم (تلخیص مضمون مولانا مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ انچارج احمد یہ مشن انگلستان و امریکہ ) ۱۳۷ - الفضل ۱۸ رستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۸ ۱۳۸ - ( رپورٹ الطاف احمد مرزا صاحب دار الصدر غربی ربوہ ۱۹ / نومبر ۱۹۶۷ء.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ ) ۱۳۹ - الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ا ۱۴۰ روز نامه الفضل ۴ رمئی ۱۹۵۸ء صفحه ۳ ۱۴۱ - الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۱ ۱۴۲ - الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۵۸ء صفحه ا ۱۴۳ - الفضل ۱۹ رفروری ۱۹۵۸ء صفحه ۱ ۱۴۴ ولادت ۱۸۷۲ء ، وفات ۱۹۴۴ ء.وطن گجرات.علی گڑھ سے بی اے کر کے ریاست کشمیر کے ملازم ہوئے اور ترقی کر کے گورنر کے منصب تک پہنچے.آپ ان نامور شعراء میں سے ہیں جنہوں نے علامہ حالی کی تحریک کو پنجاب میں عام کیا.ان کا کلام جدید اور اردو شاعری کا پاکیزہ نمونہ ہے اور ان کی مشہور نظم جوگی اردو کی کلاسیکی نظموں میں شمار ہوتی ہے.مجموعہ کلام نغمۂ فردوس دو -
تاریخ احمدیت 304 جلدوں میں ہے.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۹۸ ناشر غلام علی اینڈ سنز لاہور اشاعت ۱۹۸۸ء) ۱۴۵ - الفضل ۲ جنوری ۱۹۵۹ء صفحه ا ١٤٦ - الفضل ۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۵۸ء صفحه۸،۱ -۱۴۷ الفضل ۲۳ / دسمبر ۱۹۵۸ء صفحها ۱۴۸- بدر قادیان ۲۳،۱۶ را کتوبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳۰ جلد ۲۰ ۱۴۹ - چوہدری محمد عبد اللہ صاحب انجینئر کی بیٹی اور چوہدری محمد اسحاق صاحب سابق مبلغ چین کی بھتیجی !! آپ جامعہ نصرت ربوہ کی پرنسپل بھی رہ چکی ہیں.۱۵۰ - الفضل ربوه ۲۸ جنوری ۱۳ ،۲۳ فروری ، ۱۷ رجون ، ۴ جولائی، ۱۶ نومبر ۱۹۵۸ء.۱۵۱ - الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ا -۱۵۲ الفضل ۱۱؍ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۱ ۱۵۳ - الفضل ۲ رفروری ۱۹۵۸ء صفحه ۳ -۱۵۴ الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۵۸ء صفحها، ۸ ۱۵۵ الفضل ۲۶، ۲۸ فروری ۱۹۵۸ء صفحهیم ۱۵۶ - الفضل ۶ / مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ۱۵۷ - الفضل اار مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ۱۵۸ - الفضل ۲ / دسمبر ۱۹۵۸ء صفحیم -۱۵۹ اخبار بدر قادیان ۲۳ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ا -17.رپورٹ صدرا مجمن احمدیہ پاکستان ۵۷-۱۹۵۸ء صفحه ۱۱۶ ( ناشر ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ پاکستان ) ۱۶۱- دیکھئے اخبار بدر قادیان ۲۷ فروری ۱۹۵۸ء صفحها مولوی برکات احمد صاحب را خیلی بی اے درویش قادیان ۱۶۳ اخبار بدر ۲۷ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۱۳ ۱۶۴- حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ۱۶۵ اخبار ا اخبار الفضل ۲۶ فروری ۱۹۵۸ء صفحها -١٢ الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۵۸ ، صفحہ ۵ ( رپورٹ معہ اسماء چندہ دہندگان وغیرہ) ۱۶۷- سورۃ یونس آیت : ۱۰۹ ۱۶۸ - النحل : ۱۲۶ ۱۶۹ - البقره: ۲۵۷ ۱۷۰ اخبار بدر ۲۶ جون ۱۹۵۸ء صفحه ۲ ا الفضل ۸ / اپریل ۱۹۵۸ء صفحه ۳ ١٧٢ الفضل ۲ را بریل ۱۹۵۸ء صفحه ۱ ، ۸ ۱۷۳ - ايضاً صفحه ۸ ۱۷۴ - الفضل ۱۱ را پریل ۱۹۵۸ء صفحه ۱۷۵ - الفضل ۱۳ مئی ۱۹۵۸ء صفحه ۳ ۱۷۶ - الفضل ۲۶ را پریل ۱۹۵۸ء صفحه ۱، ۸ ۱۷۷ - الفضل ۳۰ را پریل ۱۹۵۸ء صفحه ۴ ۱۷۸ - الفضل ۷ جون و ۴ ار جولائی ۱۹۵۸ء.رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یه ۵۹ - ۱۹۵۸ء صفحه ۳۳
تاریخ احمدیت 305 جلد ۲۰ ۱۷۹ - رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمدیہ پاکستان سال ۵۹-۱۹۵۸ء صفحه ۲ مرتبه ناظر اعلی صدرانجمن احمد یہ پاکستان.مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) ۱۰ - الفضل ۱۳ رمئی ۱۹۵۸ء صفحه ۸ ۱۸۱- الفضل ۱۳ رمئی ۱۹۵۸ء صفحه ا ۱۸۲ - الفضل ۳ رستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۴ ۱۸۳- صدق جدید لکھنو ۲۹ اگست ۱۹۵۸ء صفحہ۶ ۱۸۴ - الفضل ۱۱ رستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۸،۱ ۱۸۵ - الفضل ۱۴؍ دسمبر ۱۹۵۸ء صفحه۸،۱ ۱۸۶ بحواله الفضل ۱۵ رمئی ۱۹۵۸ء صفحه یم - ۱ ۱۸۷ الفضل ۵ر مارچ ۱۴ تا ۲۰ جولائی ۱۹۵۸ء والفضل ۲۱ ۲۲ / اپریل ۱۹۵۹ء ۱۸۸ - الفضل ۱۴ فروری ، ۲۹ / مارچ ، ۱۱ارمئی ، ۲۶ / جولائی ، ۶ رستمبر ، ۲۳/اکتوبر، ۵/ نومبر ۱۹۵۸ء والفضل ۱۴ فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۴،۳ ۱۸۹- اخبار ” نوائے وقت‘ لاہور ۹ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ا -19+ ولادت ۱۸۰۵ء.وفات ۱۸۴۴ء.ایک نئے مسیحی فرقے CHURCH OF JESUS CHRIST OF THE LATER-DAY SAINTS کا امریکن بانی جس نے دعوی کیا کہ اسے کشف کے ذریعہ بعض خفیہ اور مدفون نوشتوں کی موجودگی کی اطلاع دی گئی.-۱۹۱ الفضل ۲۴ ۲۹ / اپریل ۱۱رجون ، ۲۶ / جولائی ، یکم اگست، ۲۴ ستمبر ۲۸،۲۲، ۳۰،۲۹ اکتوبر ، ۳، ۱۸؍ دسمبر ۱۹۵۸ء و الفضل ۷ راپریل ۱۹۵۹ء صفحه ۳ 6 ۱۹۲ - ( ترجمه ( الفضل ۶ / اپریل ۱۹۵۸ء صفحه ۱ ، ۱۶ رمئی ۱۹۵۸ء صفحه ۴۰۳ الفضل ۲۸ رفروری ۱۹۵۹ء صفحه ۴ ۱۹۴ - الفضل ۱۷ رمئی ۱۹۵۸ء صفحه ۳ ۱۹۵ - الفضل ۱۳؍ جولائی ۱۹۵۸ء صفحه ۳ ١٩٦ - الفضل ۱۱ را کتوبر ۱۹۵۸ء صفحه ۴،۳ ۱۹۷ الفضل ۷ جون ، ۲۳،۱۱ ، ستمبر، ۱۲،۱۱/ نومبر ۱۹۵۸ء ۱۹۸ - الفضل ۱۳ رمئی، ۱۴،۵ جون ، ۲۶، ۳۰ ستمبر ،۱۲ ،۱۶،۱۳ر دسمبر ۱۹۵۸ء، ۱۱ جنوری ۱۹۵۹ء صفحه ۵ - ۱۹۹ -۲۰۰ یه مبسوط مقالہ ۱۹۶۳ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس لندن سے کتابی شکل میں شائع ہوا جو ۲۰۶ صفحات پر مشتمل ہے.نام: -"AHMADIYYA - A STUDY IN CONTEMPORARY-ISLAM ON THE WEST AFRICAN COAST" الفضل ۲۳ ۲۴ / جون ، ۱۸ / جولا ئی ، ۸/ نومبر ۱۹۵۸ء ، الف 19ء، الفضل ۲۳٬۲۲ جنوری ۱۹۵۹ء ۲۰۱ - الفضل ۴ رمئی ، ۲۶ / اگست ۲۳،۱۹۵۸ جنوری ۳ / مارچ ۱۹۵۹ء صفحه ۴ ۲۰۲ - یوگنڈا آرگس ۱۱ جنوری ۱۹۵۸ء ٢٠ - الفضل ۲۹،۲۸ نومبر ۱۹۵۸ء ۲۰۴ - الفضل ۲۱،۲۰۱۹ اور ۲۳ ستمبر ۱۹۵۸ء اور ۱۸، ۱۹ / مارچ ۱۹۵۹ء ۲۰۵ - الفضل ۱۰ جنوری ۲۳ فروری ۴ را پریل، ۲۲،۷ رمئی ۱۹۵۸ء ۲۰۶ - الفضل ۲۲ رمئی، ۲۶ ، ۲۷ / جون ۱۹۵۸ء ۲۰۷- ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ -۲۰۸ ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ۲۰۹ - الفضل ۳۰ / مارچ ، ۱۰ را پریل ، ۲۶ جون ، ۲۵، ۲۶ / جولائی ، ۱۹ اگست، ۲۱ دسمبر ۱۹۵۸ء ۲۱۰ یہ کتاب بھارت میں خوب مقبول ہوئی.چند تبصرے ملاحظہ ہوں :-
306 جلد ۲۰ تاریخ احمدیت ا.سکھ مسلم اتحاد کے سلسلہ میں اب تک جس قدر کوششیں کی گئی ہیں ان میں بہترین کوشش اس کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہے.بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ آج تک سکھ مسلم تعلقات کے سلسلہ میں اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی.“ (روز نامہ الجمعیۃ دہلی ۷ دسمبر ۱۹۵۸ء بحواله بدر ۱۸؍ دسمبر ۱۹۵۸ء صفحه۱) ۲- احمد یہ جماعت قادیان نے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے.“ (روز نامہ ساتھی پینه ۱۳/دسمبر ۱۹۵۸ء بحوالہ بدر ۲۵ / دسمبر ۱۹۵۸ء صفحه۱) - ۲۱۱ ۲۱۲.اس کتاب میں نہایت مدلل اور مفصل طریقے سے یہ دکھایا گیا ہے کہ سکھوں کی جماعت جو ایک موحد جماعت ہے مسلمانوں سے کس قدر قریب ہے...اس کتاب نے رواداری اور دوستی کی جو فضا پیدا کی ہے وہ نہایت لائق تحسین ہے.ہفت روزہ ” ہماری زبان، علی گڑھ ۲۲ / دسمبر ۱۹۵۸ء بحوالہ بدر قادیان یکم جنوری ۱۹۵۹ ، صفحه ۸) ہفتہ روزہ اخبار ”ہماری زبان، علی گڑھ ( ۲۲ / دسمبر ۱۹۵۸ء) نے اس کتاب پر یہ تبصرہ کیا یہ حقیقت ہے کہ جو تبلیغی جوش اور سرگرمی احمدیوں میں پائی جاتی ہے وہ دوسرے اسلامی فرقوں میں نہیں ہے موجودہ زمانے میں احمدی جماعت نے منتظم تبلیغ کی جو مثال قائم کی ہے وہ حیرت انگیز ہے.اس کتاب سے جماعت مذکورہ کی تبلیغی مساعی کا اندازہ ہو سکتا ہے.( بحوالہ بدر قادیان یکم جنوری ۱۹۵۹ء صفحه ۸) مولوی ارجمند خان صاحب لیکچرار تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی رائے : " ترجمہ ایسا شگفتہ، آسان اور سلیس اردو میں کیا گیا ہے که خود ایک مستقل تالیف کی شکل اختیار کر گیا ہے.فاضل مترجم نے جستہ جستہ مقامات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاوی سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر اور دارالقضاء کے فیصلوں کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے مسلک کی تعیین بھی کر دی ہے.مشکل اور بار یک مسائل کی تشریح کے لئے مفید حواشی کا اضافہ کیا گیا ہے.آیات واحادیث کے تراجم اور حوالے بھی درج کئے ہیں.اس کی تمام اشاعت کی گئی تو معاشرہ بہت سی الجھنوں اور پیچیدگیوں سے محفوظ ہو جائے گا.‘ ( الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۵) -۲۱۳ حضرت مصلح موعود نے مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء کے دوران کفارہ کی حقیقت" ، "احمدیت کا مستقبل“، ”ہماری تعلیم“ اور جماعت اسلامی پر تبصرہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا " یہ ایسی کتابیں ہیں جو مفید ہیں اور اس قیمت پر سارے پاکستان بلکہ سارے ہندوستان میں بھی نہیں مل سکتیں.“ ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ءصفحہ ۳۰)
تاریخ احمدیت 307 تیسرا باب ربوہ میں آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کے آغاز سے لے کر جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۵۹ء تک فصل اول خلافت ثانیہ کا پینتالیسواں سال ۱۹۵۹ء ۱۳۳۸ هش ) جلد ۲۰ ربوہ میں پہلا آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنا منٹ اس سال کے اہم واقعات کا آغاز ربوہ میں پہلے آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ سے ہوتا ہے جس کا انعقاد ۲۹ تا ۳۱ /جنوری ۱۹۵۹ء میں ہوا اور جس میں ربوہ کی ٹیموں کے علاوہ ملک بھر کی مشہور ٹیموں مثلاً وائی ایم سی اے، پنجاب پولیس، این ڈبلیو آر، برادرز کلب (لاہور ) ، بمبئے سپورٹس (کراچی)، فرینڈ ز کلب ( سرگودہا)، لائکپور کلب نے شرکت اور شاندار کھیل کا مظاہر کیا.ملکی سطح پر اس علاقہ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد ٹورنا منٹ تھا جس کا افتتاح حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج نے فرمایا اور اختتامی خطاب اور تقسیم انعامات کی تقریب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ( نائب صدر عالمی عدالت انصاف) کے ذریعہ عمل میں آئی.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی اثر انگیز افتتاحی تقریر میں ارشاد فرمایا کہ: ”انسانی زندگی میں کھیلوں کو اپنے فائدے کے لحاظ سے ایک خاص اہمیت حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کھیلیں اپنی ذات میں انسان کی ذہنی اور جسمانی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہیں.جہاں تک اخلاقی تربیت کا تعلق ہے کھیل کے میدان سے ہمیں ایک بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ کسی ناروا اقدام سے فائدہ اٹھا کر ہم دوسروں کو ان کے جائز حقوق سے محروم نہیں کر سکتے.کامیابی
تاریخ احمدیت 308 کے لئے ضروری ہے کہ ہم پوری دیانتداری سے اپنی اہلیت کا مظاہرہ کر کے اپنے آپ کو اس کے حصول کا مستحق ثابت کریں جس طرح کھیل میں ہمارے کردار کا جائزہ لینے کے لئے ریفری مقرر ہوتے ہیں اسی طرح زندگی کے کھیل میں بھی سب سے بڑا ریفری ہر آن ہماری نگرانی کرنے اور ہم کو ہمارے کیسے کا بدلہ دینے کے لئے موجود ہے اور وہ ہم سب کو پیدا کرنے والا یعنی ہمارا خدا ہے اگر ہم کھیل سے یہ ایک سبق حاصل کر کے اس کی مقتضیات پر پورا اترنے کا عزم کر لیں تو ہماری اخلاقی تربیت کے لئے یہ کافی اور بسا کافی ہے.ذہنی تربیت کے اعتبار سے کھیلوں کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ ان کی مدد سے انسان میں توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس طرح ہر کھلاڑی کے لئے ضروری ہے کہ وہ جیتنے کے لئے اپنی توجہ کو تمام تر کھیل ہی میں مصروف رکھے اسی طرح زندگی کے ہر میدان اور ہر شعبہ میں انسان کے لئے لازمی ہے کہ وہ پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کرے اس کے بغیر ترقی اور کامیابی کی امید عبث ہے.کھیلیں جسمانی قوتوں کے باہمی توازن کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں.اور ان قوتوں کی متوازن کیفیت ہی صحت کہلاتی ہے.اس طرح خود کھیلوں میں بھی توازن کو برقرار رکھنا ضروری ہے.یعنی نہ انسان انہی کا ہو رہے اور نہ ان سے بکلی اجتناب اختیار کرے بلکہ مناسب حد تک ان میں حصہ لے کر بھی کردار سازی کا ایک ذریعہ بنائے.اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی بقاء اور اس کے ارتقاء کا مدار توازن پر رکھا ہے اسی لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وضع الميزان (الرحمن : ۸) یعنی ہر چیز میں توازن کی کیفیت رکھی گئی ہے..اخلاقی ، ذہنی اور جسمانی تربیت کے لحاظ سے کھیلوں کی اہمیت بھی مسلم ہے.آپ اس تربیت کو صرف کھیل تک محدود نہ سمجھیں بلکہ جس طرح کھیل کے میدان میں آپ آگے نکلنے اور سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح آپ زندگی کے میدان میں بھی آگے نکلنے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے سر توڑ جد و جہد کریں اور قوم و ملک کے لئے اپنی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 309 جلد ۲۰ خدمات کے ذریعہ ثابت کر دکھا ئیں کہ آپ کھیل کے میدان میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے میدان کے شہسوار ہیں تا کہ آپ کا نام آپ کے کارناموں کی وجہ سے قیامت تک روشن رہے.پھر میرے نزدیک کھیلوں میں سے باسکٹ بال کے کھیل کو ایک خصوصیت حاصل ہے اور یہ کہ کھیل کے دوران میں اس میں متبادل کھلاڑیوں کو شامل کرنے کی اجازت ہوتی ہے.یہ خصوصیت اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ دنیا کی کوئی چیز اور کوئی ذات ایسی نہیں جس کے بغیر گزارہ نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا بدل پیدا کیا.صرف اور صرف ایک ہی ہستی ہے جس کا کوئی بدل اور قائم مقام نہیں اور وہ ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی ہے اور وہ ہے خدا کی ذات.باقی سب فانی ہیں.آج ہیں تو کل نہیں ان کا بدل اور قائم مقام دنیا میں ہو سکتا ہے کھیلوں میں سے یہ سبق ہمیں صرف باسکٹ بال کے کھیل ہی سے ملتا ہے ان الفاظ کے ساتھ میں تمام کھلاڑیوں کو جو پاکستان کے مختلف شہروں سے یہاں آکر جمع ہوئے ہیں خوش آمدید کہتے ہوئے ٹورنامنٹ کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں.ابھی چونکہ ہمارے ملک میں کھیلوں کا رواج عام نہیں اور انہیں مقبول بنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اس لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ بڑے بڑے شہروں کے نامور کھلاڑی اور ان کی مشہور ٹیمیں گاہے گاہے ملک کے ایسے حصوں میں جہاں ابھی کھیلوں کا زیادہ چرچا نہیں جمع ہوں اور اپنے اعلیٰ کھیل کا مظاہرہ کر کے کھیلوں کو ملک کے ہر حصے اور ہر کونے میں مقبول بنا ئیں.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹورنامنٹ اپنے اندر ایک خاص اہمیت رکھتا ہے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے اختتامی خطاب کا ملخص یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انسان کے ہر عمل کی قدر و قیمت کا مدار اس کی نیت پر ہوتا ہے.اس لحاظ سے مومن کا ہر کام گو وہ بظاہر دنیا سے تعلق رکھتا ہو دین کا حصہ بن سکتا ہے لیکن اس کے لئے دو بنیادی شرائط ہیں.اول یہ کہ وہ کام موقعہ اور محل کے مناسب ہو.دوسرے نیت نیک ہو.نیت کی نیکی کا ارفع و اعلیٰ مقام یہ ہے کہ انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مد نظر رکھے اور اسی کو اپنا منتہی مقصود بنائے.اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا سے مراد یہ ہے
تاریخ احمدیت 310 جلد ۲۰ کہ وہ جو کام بھی کرے بنی نوع انسان کی خدمت کی نیت سے کرے اور مقصد اس کا یہی ہو کہ وہ مخلوق خدا کی خدمت کا فریضہ ادا کرنے کے قابل بن سکے.اگر اس نیت اور ارادے سے کھیلوں میں حصہ لیا جائے تو کھیل بھی دین کا حصہ بن جاتے ہیں.ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی کھیل کراتے بھی تھے اور اس میں حصہ بھی لیتے تھے.پس ایسے کھیل ہماری دینی روایات میں شامل ہیں.کھیلوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان میں گو مقابلہ ہوتا ہے تاہم مخالفت نہیں ہوتی.دونوں میں سے ہر ایک کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسرے سے آگے بڑھ جائے اگر اس طور سے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی کہ جس میں مخالفت کی بجائے مقابلے اور مسابقت کی روح پائی جاتی ہو تو یہ بھی دین ہی ہے کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاستبقوا الخيرات (البقرة : ۱۴۹) کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو.کھیل کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کو قواعد کا پابند بناتا ہے.قواعد کی پابندی کو انسان کی تربیت میں بہت اہمیت حاصل ہے.انسان اپنے آپ کو قواعد کا پابند بنائے بغیر اعلیٰ کردار کا مالک نہیں بن سکتا زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی اور ترقی کے لئے قواعد کی پابندی ضروری ہے ان سے آزاد ہو کر صحیح لائنوں پر ترقی کرنا ممکن نہیں.کھیل کا تیسرا اور اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی غلطی تسلیم کرنے اور صحیح راہ اختیار کرنے کا خوگر بناتا ہے.کھیل میں ہر کھلاڑی بہر صورت ریفری کے فیصلے کا پابند ہوتا ہے.دنیا میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان جس کو بڑا لتسلیم کرے اس کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے آپ کو اپنی غلطی بلا تامل ماننے اور پھر اصلاح کی طرف مائل ہونے کا خوگر بنائے.یوں تو کھیلوں کے اور بہت سے فائدے ہیں لیکن اگر ان تین باتوں کو ہی ہر کھلاڑی اپنے سامنے رکھے اور زندگی کے ہر شعبے اور کام میں ان پر عمل پیرا ہونے کی مشق کرتا رہے تو وہ اپنے حلقے میں (خواہ وہ حلقہ اسکول یا کالج یا کوئی محکمہ اور ادارہ ہو ) دوسروں کے لئے اثباتی رنگ کی ایک مثال قائم کر سکتا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ سب نے ٹورنا منٹ میں اسی روح اور جذبے کے ساتھ حصہ لیا ہے اور آپ سب اسی روح اور جذ بہ کو تازہ کر کے یہاں سے لوٹیں گے.اس مختصر لیکن حقیقت افروز خطاب کے بعد حضرت چوہدری صاحب نے ٹیموں اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم فرمائے.اس مثالی ٹورنامنٹ کی ابتداء حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام
تاریخ احمدیت 311 جلد ۲۰ کالج اور جناب پروفیسر نصیر احمد خان صاحب صدر کالج باسکٹ بال کلب کی گہری دلچسپی اور شبانہ روز مساعی کا نتیجہ تھی.یہ سالانہ ٹورنامنٹ نہایت با قاعدگی ، دلچپسی اور پر جوش جذ بہ کے ساتھ ۱۹۸۳ ء تک جاری رہا اور اس کی گونج عرصہ تک پورے ملک میں سنائی دیتی رہی.جرمن ترجمه قرآن احمدیہ جماعت جرمن ترجمہ قرآن پر مجلہ الا زہر کا تبصرہ کی طرف سے ۱۹۵۴ء میں شائع ہوا تھا اور یورپ میں خوب متعارف ہو چکا تھا اب اس کی بازگشت دنیائے عرب میں بھی سنائی دینے لگی.چنانچہ اس سال الدکتور محمد عبد اللہ قاضی ناظم مدارس دینیہ مصر نے جامع از ہر کے آرگن الا زہر میں ایک شاندار تبصرہ کیا جو شعبان ۱۳۷۸ھ مطابق فروری ۱۹۵۹ء کے پر چہ میں شائع ہوا.الدکتور محمد عبداللہ صاحب قاضی نے ترجمہ قرآن کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا........اما الترجمة نفسها فقد اختبرتها في مواضع مختلفة وفي كثير من الايات في مختلف السور فوجدتها من خير الترجمات التي ظهرت للقرآن الكريم في اسلوب رقيق محتاط، ومحاولة بارعة لاداء المعنى الذى يدل عليه التعبير العربي المنزل لايات القرآن الكريم........یعنی میں نے مختلف مقامات پر مختلف سورتوں کی متعدد آیات کا ترجمہ بغور دیکھا اور اس ترجمہ کو قرآن مجید کے آج تک شائع شدہ تر جموں میں سے بہترین ترجمہ پایا ہے اس کے ترجمہ میں نہایت باریک بینی اور احتیاط کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور اداء معنی کے لئے انتہائی کاوش سے کام لیا گیا ہے تا کہ عربی میں نازل شدہ قرآنی آیات کی صحیح ترجمانی ہو سکے.اس جگہ یہ تذکرہ ضروری ہے کہ ۱۹۳۲ء سے ۱۹۳۶ء تک شام ومصر کے بعض اکابر علماء غیر ملکی زبانوں میں تراجم قرآن کے شدید مخالف تھے.چنانچہ محمد سعید البانی الدمشقی (۱۸۷۷ء- ۱۹۳۳ء) مفتی عسکر عربی و قاضی شرعی اردن اور استاذ محمد عبدہ کے شاگرد محمد رشید رضا ایڈیٹر المنار (۱۸۶۵ء- ۱۹۳۵ء) نے خصوصی مقالات لکھے جن میں اسلام میں ترجمہ قرآن کے ناجائز ہونے کے با قاعدہ دلائل دیئے.نیز مصر کے المحكمة الشرعیۃ العلیا کے قاضی الشیخ محمد سلیمان نے خاص اس موضوع پر ایک کتاب ” حادث الاحداث في الاقدام علی ترجمۃ القرآن“ کے نام سے شائع کی اور سب سے
تاریخ احمدیت 312 جلد ۲۰ بڑھ کر یہ کہ جدید از ہر کے شیخ الجامع محمد مصطفے المراغی ( ولادت ۱۵ مارچ ۱۸۸۱ ء وفات ۲۱ /اگست ۱۹۴۵ء) نے ۱۹۳۲ء میں ترجمہ قرآن کے خلاف زبردست بحث کی جو بعد ازاں مجلۃ الازہر میں بھی شائع ہوئی از ہر کے ایک مشہور عالم اور مصر یو نیورسٹی قاہرہ کے سابق پروفیسر جناب حسن الاعظمی قرآن کا ترجمہ کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں ” یہی شیخ مراغی ہیں جو حکومت کے مقابلہ میں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے تھے اور حکومت کو قرآن کا ترجمہ شائع کرنے سے روکا تھا.جب مصری حکومت نے زرکثیر صرف کر کے علماء اور مستشرقین کی مدد سے قرآن کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرانا چاہا 66 جامعہ احمدیہ میں ایک مذاکرہ علمیہ ۳ فروری ۱۹۵۹ء کو جماعت احمدیہ کے وو مرکزی تعلیمی ادارہ جامعہ احمد یہ ربوہ میں ایک " مذاکرہ علمیہ کا انعقاد ہوا جس میں ” ضرورت انسانی کے لئے وحی والہام کے تواتر کی ضرورت پر بعض ٹھوس اور پُر مغز مقالے پڑھے گئے اور بحث کے دوران سلسلہ احمدیہ کے جید علماء اور دیگر ذی اہلِ علم احباب نے حصہ لیا.صدر مذاکرہ سید داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے مذاکرہ کی غرض و غایت بیان کی اور اس ضمن میں مشہور عیسائی مصنف پروفیسر کینٹ ول سمتھ آف مانٹریال یونیورسٹی کی کتاب ISLAM IN MODERN" HISTORY پر مسلم سن رائز میں شائع شدہ ریویو اور اس پر مبلغ امریکہ مکرم ڈاکٹر خلیل احمد صاحب کے ساتھ ان کی مزید خط و کتاب کا ذکر کیا.اور بتایا کہ پروفیسر موصوف نے اس خط و کتابت کے دوران اس سوال کو اٹھایا ہے کہ ان کے نزدیک عقلِ انسانی پہلے سے نازل شدہ وحی کی روشنی میں اپنے مخصوص حالات اور ضروریات کے مطابق اپنے لئے نیا مذہب وضع کرنے میں آزاد ہے.اس لئے مزید کسی وحی یا آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں.جو وحی پہلے سے کسی کے پاس موجود ہے وہی اس کے لئے کافی ہے.اس سوال پر بحث کرنے کے لئے ہی یہ مذاکرہ منعقد کیا گیا ہے.تاکہ اس کے ہر پہلو پر تفصیل کے ساتھ روشنی پڑ سکے.بعد ازاں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نائب صدر عالمی عدالت انصاف نے مسلم سن رائز میں شائع شدہ ریویو اور مکرم ڈاکٹر خلیل احمد صاحب کے ساتھ پروفیسر کینٹ ول سمتھ کی خط و کتابت کے بعض اقتباسات پڑھ کر سنائے اور بتایا کہ پروفیسر مذکور کا صحیح موقف کیا ہے اور اس کی روشنی میں بحث کا رخ کیا ہونا چاہئے.بعد ازاں جامعہ احمدیہ کے طلباء میں سے جمیل الرحمن صاحب رفیق ، قاضی نعیم الدین صاحب،
تاریخ احمدیت 313 جلد ۲۰ نصیر احمد خان صاحب اور عبد الوہاب بن آدم صاحب آف مغربی افریقہ نے ہدایت انسانی کے لئے وحی و الہام کی ضرورت کے موضوع پر ٹھوس اور پُر مغز مقالے پڑھے.ان مقالوں کے بعد ایک نہایت مفید اور بصیرت افروز بحث کا آغاز ہوا.جس میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب، مولانا جلال الدین صاحب شمس، مولوی ابوالعطاء صاحب، قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری، حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب، حضرت مولوی ارجمند خان صاحب ملک سیف الرحمن صاحب، صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب، خلیفہ صلاح الدین صاحب، سید محمود احمد صاحب ناصر، پر و فیسر بشارت الرحمن صاحب، عبدالسلام صاحب اختر، مرزا منصور احمد صاحب اور چوہدری شبیر احمد صاحب نے حصہ لیا.اور موضوع کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی.زرعی پیداوار بڑھانے کی تحریک حضرت مصلح موعودؓ نے ۶ فروری ۱۹۵۹ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کو اپنی زرعی پیداوار بڑھانے کی پر زور تحریک کی.چنانچہ فرمایا : - تمام جماعت کو چاہئے کہ زرعی پیداوار بڑھانے کی کوشش کرے.اس کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر جگہ ایک سیکرٹری زراعت مقرر کرے جو مرکز میں باقاعدہ رپورٹ بھیجا کرے کہ اس کے علاقہ میں کیا کوشش ہو رہی ہے.کھاد کیسے ڈالی جارہی ہے اور کتنے ہل دیئے جار ہے ہیں؟ اگر محنت اور دیانتداری کے ساتھ کام کیا جائے تو ایک سال کے اندر اندر ہمارے ملک کی حالت درست ہو جائے گی.اور ہمارے چندے بھی کئی گنا بڑھ سکتے ہیں.اگر قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہی ہماری فصل پیدا ہو تو گو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس اندازہ سے بھی فضل بڑھا دیتے ہیں مگر نہ بڑھے تب بھی تحریک اور انجمن کی کئی ارب روپیہ کی آمد ہو جاتی ہے.اور ہماری گورنمنٹ کی آمد تو کئی کھرب ہو جاتی ہے.مگر ضرورت یہ ہے کہ لوگ تقویٰ سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں.اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور جو تجربات سائنس نے کئے ہیں یا جو تجربات ان کے باپ دادوں کے ہیں ان سے وہ فائدہ اٹھائیں تو ان کی اپنی حالت بھی درست ہو جائے گی اور گورنمنٹ کی اقتصادی بدحالی بھی دور ہو جائے گی.اگر قرآنی اندازہ کے مطابق فصل پیدا ہونے لگ جائے تو سات ایکٹر
تاریخ احمدیت 314 والا زمیندار بھی اتنا اچھا گزارہ کر سکتا ہے جتنا ایک ڈپٹی کمشنر کرتا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ عملاً ایسا ہو جائے.عملاً جب تک ایسا نہیں ہوتا سات ایکڑ کا ما لک چپڑاسی جیسا گزارہ بھی نہیں کر سکتا.چنانچہ جن ملکوں میں زراعت کی طرف توجہ نہیں کی جاتی وہاں چپڑاسی کی حیثیت ایک زمیندار سے زیادہ ہے.ایک دفعہ مغربی افریقہ کے ایک احمدی نے جو چپڑاسی کا کام کرتا تھا مجھے لکھا کہ میں ریاست کی نوابی کے لئے کھڑا ہو رہا ہوں میرے لئے دعا کریں.میں نے لکھا تم تو چپڑاسی ہو.اور نوابی کے لئے کھڑے ہور ہے ہو.اس نے لکھا کہ یوں تو میرا باپ یہاں کا نواب تھا لیکن چپڑاسی کو یہاں اتنی تنخواہ مل جاتی ہے کہ زمیندارہ میں اتنی آمد نہیں ہوتی.لیکن پھر بھی میری خواہش یہ ہے کہ میں نواب بن جاؤں.نواب بن جانے پر مجھے خود زمیندارہ نہیں کرنا پڑے گا.ہاں ٹیکس وغیرہ کی آمدنی ہوگی.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب تک دو احمدی مغربی افریقہ میں نواب ہو چکے ہیں.اب ایک بادشاہ کی جگہ خالی ہوئی ہے اور ایک لڑکے کا خط آیا ہے کہ میرے لئے دعا کریں میں بادشاہ ہو جاؤں.ہمیں اس کے بادشاہ ہونے سے اتنی دلچسپی نہیں جتنی دلچسپی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام سے ہے کہ 66 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ ہم چاہتے ہیں کہ بعض جگہوں کے بادشاہ ہماری زندگی میں ہی احمدی ہو جائیں اور وہ برکت ڈھونڈ نے لگ جائیں.تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کا یہ الہام ہم اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھیں.(اس کے بعد ایک خط امریکہ سے ایک نو مسلمہ کا آیا جس میں اس نے ذکر کیا ہے کہ شاہ فاروق کی والدہ ملکہ نازلی نے میرے خاوند کا جو وہاں مبلغ ہے ایک عیسائی رسالہ کی تردید میں ایک مضمون پڑھا تو انہوں نے کہا کہ اسلام کی خدمت احمدیوں کے سوا اور کوئی نہیں کر رہا.جب ایک ملکہ کو اس طرف توجہ پیدا ہوئی تو بادشاہ کو بھی ہو سکتی ہے.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 315 جلد ۲۰ ۸ فروری ۱۹۵۹ء کو لائکپور (فیصل آباد ) کے حضرت مصلح موعود کا پر معارف کالجیٹ طلباء کا ایک گروپ مرکز احمدیت خطاب لائکپور کے کالجیٹ طلباء سے میں پہنچا یہ طلباء صدرانجمن احمدیہ اور ٹریک جدید کے مرکزی دفاتر اور ربوہ کے تعلیمی ادارے دیکھنے کے بعد سوا گیارہ بجے صبح کے قریب حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے.دوران ملاقات حضور نے ان سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : - آپ لوگ طالب علم ہیں.آپ جس زمانے میں سے گزر رہے ہیں یہ ایک ایسا زمانہ ہے جس میں آئندہ زندگی کی بنیاد پڑتی ہے.اس زمانے کی اہمیت اور قدروقیمت کو سمجھنا اور اس کے مطابق اپنے اعمال وکردار کو بنانا نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی پر آئندہ ترقی کا تمام دارو مدار ہے بلکہ اگر آپ لوگ دیکھیں اور غور کریں تو آئندہ زندگی کی بنیاد بچپن سے ہی پڑنی شروع ہو جاتی ہے اگر بچپن میں نیک عادتیں ڈالی جائیں تو بڑے ہونے پر وہی عادتیں راسخ ہو کر انسان کو نیکی طرف مائل کرنے کا موجب بن جاتی ہیں اور اس طرح اس کی زندگی سنور جاتی ہے.برخلاف اس کے اگر بچپن سے ہی بری عادتیں پڑ جائیں تو بڑے ہو کر ان عادتوں کا ترک کرنا مشکل ہو جاتا ہے.کیونکہ جو عادتیں چھوٹی عمر میں گھر کر لیں وہ بعد میں مشکل ہی سے جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ اسلام میں بچے کی تربیت کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہو جاتا ہے کہ جب وہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ حکم ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہی جائے پہلے لوگ اس بات کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے سے قاصر تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ بچے کے کان میں اذان وغیرہ دینا بے معنی ہے لیکن اب سائیکولوجی نے ثابت کر دیا ہے کہ سب سے پہلے بچے کے کان کام کرنے لگتے ہیں.سونو زائیدہ بچے کے کان میں اذان کہنے سے شریعت کی غرض یہ تھی کہ جب پہلے روز ہی یہ الفاظ بچے کے کانوں میں ڈالے جائیں گے تو ان الفاظ کا احترام ہمیشہ اس کے دل میں قائم رہے گا کیونکہ بڑا ہونے کے بعد جب بھی اسے یہ بتایا جائے گا کہ تیرے
تاریخ احمدیت 316 پیدا ہونے پر تیرے کان میں یہ آواز ڈالی گئی تھی یقینا ان الفاظ پر غور کرنے اور ان کے مفہوم کو سمجھنے کی طرف اسے رغبت پیدا ہوگی اور اس طرح وہ ان باتوں کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنانے کی طرف مائل ہوتا چلا جائے گا.الغرض بچپن اور پھر طالب علمی کا زمانہ اس لحاظ سے انتہائی اہم ہوتا ہے کہ اس میں آئندہ زندگی کی بنیا د رکھی جاتی ہے.سلسلۂ خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جب کبھی کسی عمارت کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو اس وقت با قاعدہ ایک تقریب منعقد کر کے بڑے بڑے لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور بڑی خوشی منائی جاتی ہے.یہ سب اہتمام ظاہر کرتا ہے کہ لوگ ایک عمارت کی بنیاد کو بڑی اہمیت دیتے ہیں.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ اپنے اس زمانہ طالبعلمی میں جس عمارت کی بنیاد رکھ رہے ہیں اس کی اہمیت کتنی زیادہ ہے؟ آپ جو بنیاد رکھ رہے ہیں وہ عقل و شعور اور زندگی اور عمل کی بنیاد ہے.اس کے آگے اس بنیاد کی جومٹی اور چونے سے اٹھائی جاتی ہے کوئی حیثیت نہیں.عقل و شعور اور زندگی و عمل کی بنیاد اینٹ پتھر اور چونے کی بنیاد سے بہت زیادہ اعزاز واکرام کی مستحق ہے اور اس کے لئے خاص اہتمام اور فکر ضروری ہے.پس آپ اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھیں بلکہ اپنی اور اس وقت کی قدر و قیمت کو پہچانیں اگر آپ آئندہ زندگی کی بنیاد کو صحیح لائنوں پر استوار کریں گے اور پھر اسے مضبوط سے مضبوط کرتے چلے جائیں گے تو پھر یاد یہ بنیاد ایک طرف زمین کے پاتال تک اور دوسری طرف آسمان کی غیر محدود بلند یوں تک جاسکتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- ضرب الله مثلا كلمة طيبة كشجرة طيبة اصلها ثابت وفرعها في السماء تؤتي أكلها كل حين باذن ربها (ابراہیم: ۲۶،۲۵) ط یعنی نیک بات کی مثال اچھے درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں تو زمین میں گڑی ہوئی ہیں لیکن اس کی شاخیں آسمان میں ہیں.اور ہر وقت اپنے رب کے حکم سے تازہ بتازہ پھل دیتا رہتا ہے.پس اگر آپ چاہیں تو آپ کی شاخیں آسمان میں جا کر فرشتوں سے باتیں کرسکتی ہیں اور اسی طرح جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 317 جلد ۲۰ آپ دنیا میں اپنے کارناموں سے تاریخ کا رخ موڑ سکتے ہیں.اس ضمن میں حضور نے طلبہ کو قرون اعلیٰ کے مسلمانوں کے کارناموں کو پڑھنے اور ان کی قائم کردہ روایات کو آگے بڑھانے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ تاج محل تو ایک عمارت ہے دنیا کے کونے کونے سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں.اگر آپ ان لائنوں پر کام کر کے آئندہ زندگی کی بنیاد ڈالیں گے تو آپ کے ذریعہ عقل و شعور اور عمل و کردار کی جو عمارت تعمیر ہوگی وہ تاج محل سے بہت زیادہ بلند و بالا اور رفیع الشان ہوگی جس اشتیاق سے لوگ تاج محل کو دیکھنے جاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ وہ آپ کے پاس آئیں گے.اور بہت زیادہ تعداد میں آئیں گے.اصل چیز یہ ہے کہ آپ لوگ ( دین حق ) کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کریں.آپ ( دینِ حق ) سیکھیں خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کریں اور پھر اس کے عطا کردہ علم کی مدد سے دنیا کے بنیں.اگر اللہ تعالیٰ سے انسان کا تعلق قائم ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ انسان کو وہ علم عطا کرتا ہے جس کے آگے دنیوی ذرائع سے حاصل ہونے والا علم کوئی حیثیت نہیں رکھتا جس کو خدا تعالیٰ علم کی دولت سے مالا مال کر دے وہ مرجع خلائق بن جاتا ہے اور دنیا اس کی طرف کھینچی چلی آتی ہے اس ضمن میں حضور نے تحدیث نعمت کے طور پر اپنے بعض واقعات بیان کئے.اور بتایا کہ علم کا حقیقی سرچشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے حضور نے فرمایا :.پس میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ ( دینِ حق ) سیکھیں خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کریں اور دنیا کے استاد بنیں.حضرت مصلح موعود کی ملاقات کے بعد متعدد کالجوں کے ان طلباء کے اعزاز میں نظارت اصلاح و ارشاد نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں انہیں انڈونیشیا، عدن، مغربی جرمنی نیز مشرقی و مغربی افریقہ کے ان تمام طلبہ سے متعارف ہونے کا سنہری موقعہ میسر آیا جو ان دنوں ربوہ میں علم دین حاصل کر رہے تھے اس موقعہ پر خالد احمدیت مولانا شمس صاحب نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس زمانہ میں غلبہ دین حق کے ذرائع کیا ہیں.
تاریخ احمدیت 318 جلد ۲۰ اسی روز (۸/فروری ۱۹۵۹ء کو ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک خصوصی پیغام مجلس خدام الاحمدیہ حلقہ گولبازار ربوہ کے زیر انتظام سیرت رفقاء پر ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا.یہ جلسہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی زیر صدارت ہوا اور اس میں مندرجہ ذیل بزرگانِ سلسلہ کی سیرت اور کارناموں پر تقریریں ہوئیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کابل ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الاسدی ، حضرت میر سید محمد اسحاق صاحب.ان تقاریر سے قبل چوہدری عبدالعزیز صاحب ڈوگر زعیم مجلس نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا مندرجہ ذیل خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا : - مجھے معلوم ہوا ہے کہ خدام الاحمدیہ گولبازار ربوه ۸/فروری ۱۹۵۹ء کو ایک جلسہ منعقد کر رہے ہیں جس کی غرض و غایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار رفقاء کے اوصاف حمیدہ بیان کرنا ہے یہ چار رفیق یہ ہیں.(۱) حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب (۲) حضرت مفتی محمد صادق صاحب (۳) حضرت میر محمد الحق صاحب (۴) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفاتی.اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ چاروں بزرگ جماعت احمدیہ کے بہت ممتاز رکن تھے اور انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی خدمت کا بہت اچھا موقعہ پایا.حضرت مولوی عبداللطیف صاحب شہید تو گویا مجسم خدمت تھے کیونکہ انہوں نے اپنے خون سے احمدیت کے پودے کو سینچا اور سرزمین کابل میں ایک نہایت مبارک بیج کا کام دیا جو دن بدن پھولتا اور پھلتا چلا جاتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی بے حد تعریف فرمائی ہے بلکہ ان کے بالوں کو یادگار اور تبرک کے طور پر سالہا سال تک اپنے بیت الدعا میں لگائے رکھا.اور اب یہ بال میرے پاس محفوظ ہیں.انہوں نے صداقت کی خاطر سنگساری جیسی ہیبت ناک سزا کو اس طرح ہنستے ہوئے برداشت کیا گویا ایک شخص پھولوں کی سیج پر لیٹا ہوا ہے لا ریب ان کا نمونہ قربانی کے میدان میں جماعت کے نوجوانوں کے لئے ایک نہایت مبارک نمونہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ہ پیچھے آیا اور بہتوں سے آگے نکل گیا.
تاریخ احمدیت 319 پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص الخاص رفقاء میں سے تھے اور مسیح موعود علیہ السلام ان کے ساتھ بچوں کی طرح محبت کیا کرتے تھے اور ان کا ذکر ا کثر ” ہمارے مفتی صاحب کے پیارے الفاظ سے کیا کرتے تھے اور حضرت مفتی صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کے اتنے دلدادہ تھے کہ گویا ایک پروانہ شمع کے گرد گھوم رہا ہے ان کی روح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں گداز تھی.حضرت مفتی صاحب کو مسیحی مذہب کا خاص مطالعہ تھا اور مسیحی پادری ان سے اس طرح بھاگتے تھے کہ گویا ان کے سامنے آنے سے ان کی روح فنا ہوتی تھی.اخبار بدر کی ایڈیٹری کے زمانے میں بھی حضرت مفتی صاحب نے نمایاں خدمات سرانجام دیں.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈائریوں اور خطبات کو محفوظ رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے خاص حصہ پایا.حضرت میر محمد الحق صاحب گوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بچہ تھے مگر بعد میں ان کو اللہ تعالیٰ نے (دینِ حق ) اور احمدیت کی خاص خدمت کا موقع عطا کیا.حدیث کے درس میں ایسا رنگ نظر آتا تھا کہ گویا ایک عاشق اپنے معشوق کی باتیں کر رہا ہے.مذہبی مناظرات میں انہیں کمال حاصل تھا.اور وہ اپنے دلائل کو اس طرح سجا کر بیان کرتے تھے کہ فریق مخالف بالکل بے بس ہو کر دم بخود رہ جاتا تھا.حضرت میر صاحب مرحوم نے جو خدمات لنگر خانہ کے افسر کے طور پر اور پھر مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر سرانجام دیں وہ ہمیشہ یادگار رہیں گی بچوں کی تعلیم اور خصوصاً یتیموں کی تربیت ان کے ایمان کا جزو تھی.بے شمار یتیم اور غریب بچے ان کے طفیل علم و عمل کے نور سے آراستہ ہوکر دین کے بہادر سپاہی بن گئے.مہمان نوازی بھی حضرت میر صاحب کا طرۂ امتیاز تھی.اور ان کے لئے ہر مہمان ایک مجسم خوش خبری تھا.جس کی خدمت میں وہ روحانی لذت پاتے تھے.پھر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بھی بہت ممتاز جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 320 احمدیت رفیق میں سے تھے.وہ السابقون الاولون میں سے تھے.اور گویا سلسلہ کی تاریخ کے کسٹوڈین تھے.انہوں نے بڑی محنت سے سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح کا مواد جمع کیا اور اس میدان میں بہت اچھا لٹریچر اپنی یادگار چھوڑا ہے.گو افسوس ہے کہ وہ اسے مکمل نہ کر سکے.اخبار الحکم بھی ان کا ایک خاص کارنامہ ہے جسے جماعت احمدیہ کا سب سے پہلا اخبار ہونے کا شرف حاصل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اخبار الحکم اور بدر کو اپنے دو باز و فرمایا کرتے تھے.اس میں شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ان دو اخباروں نے بہت نمایاں بلکہ خاص الخاص خدمت کی توفیق پائی.حضرت عرفاتی صاحب نے خدا کے فضل سے بہت لمبی عمر پائی مگر باوجود اس کے ان کا قلم آخر عمر تک.کی خدمت میں مصروف رہا.اس طرح ان کی وفات گویا جہاد کے میدان میں ہوئی.وہ ان چاروں ممتاز اصحاب میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے.احمدیت کے قبول کرنے میں غالباً وہ حضرت مفتی صاحب سے بھی زمانہ کے لحاظ سے پہلے تھے اور صداقت کی تائید میں وہ ایک برہنہ تلوار تھے.اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں کی روحوں پر اپنی رحمت کی بارش برسائے اور جنت میں ان کا مقام بلند کرے.ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے میدان میں جماعت کے لئے ایک بہت عمدہ نمونہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو وہ ہدایت کا مینار ثابت ہوگا.جماعت کا فرض ہے کہ ان کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے انہیں اپنے لئے مشعلِ راہ بنائے ان میں سے ہر ایک اپنے رنگ میں ایک ستارہ ہے.اور ہر ایک خاص قسم کے نور کا حامل ہے اور ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک صحبت کے طفیل ایک مقناطیس ہے.بشرطیکہ جماعت کے نوجوان اپنے اندر مجذوبیت کی صفت پیدا کریں پھر انشاء اللہ وہی ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :- بايهم اقتديتم اهتديتم وما توفيقنا الا بالله العظيم.خاکسار مرزا بشیر احمد.لاہور ۶ رفروری ۱۹۵۹ء.‘‘ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 321 جلد ۲۰ حضرت مصلح موعود کا پیغام افریقن سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے ارفروری ۱۹۵۹ء کو افریقن سٹوڈنٹ یونین زرعی کالج لاسکپور سٹوڈنٹ یونین زرعی کالج کے نام (فیصل آباد) کے نام حسب ذیل پیغام دیا:- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں افریقہ کے لوگ بہت ترقی کریں گے اور دنیا کی سیاست ان کے ہاتھ آجائے گی.اس لئے آپ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق آئندہ زمانہ کے لیڈر ہیں اس لئے آپ کو اپنے کیریکٹر کو اچھا بنانے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ جب تک لیڈروں کا کیریکٹر اچھا نہ ہو دوسروں کے لئے وہ نمونہ نہیں بن سکتے.اگر آپ لوگ اپنے اخلاص کو ( دین حق ) کے مطابق ڈھال لیں گے تو امید ہے کہ آئندہ دنیا بھی ( دینِ حق ) کے مطابق عمل کرنے لگے گی.پس میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور دنیا کے لئے نمونہ اور مثال بننے کی کوشش کریں گے.۱۴ ،، (ہفت روزہ جماعت احمدیہ کی فعالیت اور تبلیغی جوش و سرگرمی کا اعتراف صدق جدید لکھنو کا تازہ نوٹ ) واجب الاطاعت امام کی اقتداء میں خاص تنظیم کے ماتحت ساری دنیا میں اشاعت و تبلیغ اسلام کے جس پروگرام پر جماعت احمد یہ عمل پیرا ہے اس کے خوشکن نتائج منظر عام پر آنے سے جہاں ہر اسلام پسند انسان کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں وہاں اس نمایاں خدمت سے جماعت احمدیہ کو دیگر اسلامی فرقوں سے امتیاز بھی بخشتے ہیں.جماعت کی اس امتیازی شان کا اعتراف مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے بار ہا فرمایا.اسی قسم کا ایک نوٹ صدق جدید مجریہ ۳۰ /جنوری ۱۹۵۹ء میں ہنرش نیز بگو کے عنوان سے آپ نے تحریر فرمایا جسے بجنسہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے.ہنرش نیز بگو.جماعت اسلامی ہند کے ایک ترجمان سے ماخوذ : - حیدرآباد.جماعت احمدیہ کا عام سالانہ اجلاس ربوہ میں ختم ہو گیا ہے اور مندوبین واپس آنے لگے ہیں.انہوں نے بتایا کہ اس سال وہاں ایک لاکھ سے زیادہ افراد جمع تھے.ان میں کم و بیش ۲ ہزار نمائندے ایشیاء، افریقہ، امریکہ اور دوسرے ملکوں سے آئے تھے.اس طرح پورے اجتماع میں ۵۲ مختلف زبانیں بولنے اور سمجھنے
تاریخ احمدیت والے تھے.322 تقریریں بھی اتنی ہی زبانوں میں اور سالانہ رپورٹ بھی اتنی ہی زبانوں میں مرتب ہوگی.اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ جنوبی افریقہ میں ( دینِ حق ) بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور گاؤں کے گاؤں مسلمان ہوتے چلے جاتے ہیں.امریکہ اور اسپین میں بھی ان کی تعداد خاصی ہے.مگر اسپین میں حکومت نے مذہب اور نام بدلنے اور خاص طور پر دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی ہے." اکبر" کا ایک ظریفانہ شعر تحریک موالات کے زمانہ شباب میں ۱۹۲۰ء کا کہا ہوا ہے ”صاحب“ میں سب برائی لیکن وہ خوب چوکس گاندھی میں سب بھلائی لیکن وہ محض بے بس موقع کچھ اس وقت بھی ایسے ہی شعر پڑھنے کا ہے.” قادیانیوں“ کے سارے عیب ایک طرف اور فعالیت اور تبلیغی جوش و سرگرمی کا ایک ہنر دوسری طرف تو بھاری یہی دوسرا پلہ نکلے گا.جلد ۲۰ حضرت قمر الانبیاء کا بصیرت افروز پیغام ”یوم مصلح موعود کے لئے ۲۰ رفروری ۱۹۵۹ء کو مجلس علمی جامعہ احمدیہ کے زیراہتمام بیت الذکر نور ربوہ میں جلسہ انعقاد پذیر ہوا.قبل ازیں بیت الذکر مبارک میں نماز جمعہ کے بعد مرکزی سطح پر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی صدارت میں ایک کامیاب جلسہ عام بھی منعقد ہوا.اس خصوصی تقریب کے لئے سلسلہ احمدیہ کے نامور خادم جناب محمد شفیق قیصر صاحب سیکرٹری مجلس علمی نے حضرت قمر الانبیاء کی خدمت میں حسب ذیل عرضداشت پیش کی تھی :- مخدومی و معطی حضرت میاں صاحب دام معالیکم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج بعد نماز مغرب بیت الذکر نور ربوہ میں مجلس علمی جامعہ احمدیہ کے زیر اہتمام ربوہ کے تینوں نامور مرکزی اداروں یعنی تعلیم الاسلام کالج ،
تاریخ احمدیت 323 جلد ۲۰ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کا ایک مشتر کہ جلسہ یوم مصلح موعود کی با برکت تقریب پر منعقد ہو رہا ہے.جس میں تینوں اداروں کے طلبہ پیشگوئی مصلح موعود کے مختلف پہلوؤں پر تقاریر کریں گے.یہ جلسہ اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ ہے لہذا حضور کی خدمت میں التماس ہے کہ از راہ نوازش ایک مختصر سا پیغام عطا فرما دیں جو جلسہ میں پڑھ کر سنایا جائے.نیز حضور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں ( دینِ حق ) اور احمدیت کا سچا خادم بنائے اور خلافت جیسی عظیم نعمت کے فیوض و برکات سے ہمیں نوازتا رہے.اللہ تعالیٰ حضور کو کامل صحت اور کام کرنے والی لمبی عمر عطا فرمائے.والسلام خاکسار خادم شفیق قیصر سیکرٹری مجلس علمی جامعہ احمد یہ ربوہ ) حضرت قمر الانبیاء نے قلت وقت اور مصروفیات کے باوجود ایک بصیرت افروز پیغام سپر د قلم فرمایا اور اپنے قلم مبارک سے ہدایت فرمائی :- د کوئی شخص اسے بار بار پڑھ کر رواں کرلے اور پھر جلسہ میں بلند ۱۶ آواز سے ٹھہر ٹھہر کر سنا دے.مرزا بشیر احمد ۲۰/۲/۵۹.ارشاد کی تعمیل میں آپ کا پیغام جناب محمد شفیق صاحب قیصر نے پڑھ کر سنایا جس کا مکمل متن یہ ہے.آج ربوہ میں بلکہ جہاں جہاں بھی جماعت احمد یہ قائم ہے یوم مصلح موعود منایا جا رہا ہے اور مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں بھی اس موقع پر ربوہ کے جلسہ کے لئے کوئی مختصر سا پیغام دوں.سو میرا پیغام یہی ہے کہ ہمارے دوست مصلح موعود والی پیشگوئی کی اصل حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں.یہ حقیقت جیسا کہ اکثر لوگوں کو غلطی لگتی ہے یہ نہیں ہے کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں سے ایک اہم پیشگوئی ہے اور بس.بلکہ مصلح موعود والی پیشگوئی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ پیشگوئی اس عظیم الشان پیشگوئی کی فرع ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود
تاریخ احمدیت 324 کے نزول کے متعلق فرمائی ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ آخری زمانہ میں ( دینِ حق ) کی تجدید اور مسلمانوں کے احیاء ثانی کے لئے ایک مثیل مسیح نازل ہوگا اور اس کے ذریعہ خدا ( دین حق ) کو پھر دوبارہ غالب کرے گا اور یہ غلبہ دائمی ہوگا وہاں آپ نے اس پیشگوئی کے اندر شامل کر کے اور گویا اسی کا حصہ بنا کر یہ الفاظ بھی فرمائے ہیں کہ :- يتزوج و يولد له د یعنی مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کے اولاد پیدا ہوگی.“ پس آپ کا مسیح موعود کے نزول والی پیشگوئی کے اندر شامل کر کے اور اس کا حصہ بنا کر ان الفاظ کا فرمانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک مصلح موعود والی پیشگوئی مسیح موعود والی پیشگوئی کی فرع ہے نہ کہ ایک جدا گانہ منفرد پیشگوئی.اور اس سے مراد یہ تھی کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس کے ہاتھ سے ( دینِ حق ) کے دوسرے احیاء کا بیج بویا جائے گا اور جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے یہ بیج اس کے زمانہ میں ایک خوبصورت کونپل کی شکل میں پھوٹے گا اور اپنی زم زم جمالی پتیاں نکالے گا جو مسیح موعود کے ساتھ کام کرنے والے زُرّاع یعنی کسانوں کے دلوں کو لبھائیں گی مگر دشمن اس کے اٹھتے ہوئے جو بن کو دیکھ دیکھ کر دانت پیسیں گے مگر اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے اور پھر مسیح موعود کے بعد (یعنی دور اوچوں شود بکام تمام ) اس کونپل کو ایک تناور درخت کی صورت میں ترقی دینے اور پروان چڑھانے کے لئے مصلح موعود ظاہر ہو کر جلال الہی کے ظہور کا موجب بنے گا اور اس کے وقت میں اس درخت کی شاخیں تمام دنیا میں پھیل جائیں گی اور قو میں اس سے برکت پائیں گی مگر مصلح موعود کی یہ جلالی شان مسیح موعود کی جمالی شان کی فرع ہوگی نہ کہ خدائی جلال کا کوئی مستقل اور جدا گانہ جلوہ.کیونکہ ( دین حق ) کا یہ دور اپنی اصل کے لحاظ سے صفت احمدیت کا دور ہے جو ایک جمالی صفت ہے.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ مصلح موعود والی پیشگوئی پر غور جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 325 کرتے ہوئے اس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ مصلح موعود کا ظہور مسیح موعود کی بعثت کا تنتمہ ہے اور اس کے کام کی تکمیل کے لئے مقدر ہے.اس کے زمانہ میں اس کو نیل نے ایک درخت بننا ہے جس کا بیج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں سے بویا گیا اور پھر اس درخت نے دنیا میں پھیلنا اور پھولنا اور پھلنا ہے.اندریں حالات ہمارا فرض ہے کہ ہم اس درخت کی آبپاشی اور ترقی میں انتہائی کوشش اور انتہائی قربانی سے کام لیں تاکہ ( دینِ حق ) کے عالمگیر غلبہ کا دن قریب سے قریب تر آجائے اور ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام چار اکناف عالم میں گونجے اور ہمارے سردار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ مسلمانوں کا قدم پھر ایک اونچے مینار پر قائم ہو جائے جیسا کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا کا وعدہ ہے کہ : - بخرام که وقت تو نزدیک رسید وپائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد خدا کرے کہ وہ دن جلد آئے کہ جب محمد رسول اللہ صلعم کی مقدس روح خدا کے حضور یہ مژدہ پیش کر سکے کہ تیرے ایک بندے اور میرے ایک نائب کے ذریعہ ( دینِ حق کا جھنڈا دنیا میں سب سے اونچا لہرا رہا ہے.واخر دعونا ان الحمد لله رب العالمين.خاکسار مرزا بشیر احمد ۲۰/۲/۵۹ ربوه جلد ۲۰ اس عظیم الشان جلسہ کی رپورٹ جناب محمد شفیق صاحب قیصر کے قلم سے درج ذیل الفاظ میں شائع ہوئی :- مورخہ ۲۰ فروری یوم مصلح موعود کی بابرکت تقریب پر بیت الذکر نور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں مجلس علمی جامعہ احمدیہ کے زیر اہتمام بعد نماز مغرب ربوہ کے تعلیمی اداروں کا مشترکہ جلسہ ہوا جس میں ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کے طلباء نے تقاریر کیں.جلسہ کی صدارت مکرم مولوی غلام
تاریخ احمدیت 326 باری صاحب سیف نے فرمائی.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جو جمیل الرحمان صاحب نے کی اس کے بعد قریشی محمد اسلم صاحب نے درشین سے خوش الحانی سے ایک نظم سنائی.ہائی سکول کے طالب علم سیف الرحمان صاحب نے خلافت ثانیہ کے ابتداء میں رونما ہونے والے واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا.اور یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ ہر موقعہ پر مصلح موعود کی مدد و نصرت فرماتا رہا ہے.جو آپ کی سچائی کی ایک دلیل ہے.جمیل الرحمان صاحب نے حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی زندگی کے عنوان پر تقریر فرمائی.آپ نے حضور کی حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں دینی امور کی طرف شغف کا تفصیل سے ذکر فرمایا اور اس ضمن میں رسالہ تشخید الاذہان کے اجراء اور اس کے مضامین کی اہمیت کے متعلق اکابر غیر مبایعین کی آراء کا بھی ذکر فرمایا.مکرم جمیل صاحب کی تقریر کے بعد صدر صاحب نے رسالہ حید الاذہان کے مضامین کے بارے میں مولوی محمد حسین بٹالوی کی رائے کا بھی ذکر فرمایا.سید داؤ د احمد صاحب انور نے "حضرت مصلح موعود حضرت خلیفہ المسح الاول کی نظر میں " کے عنوان پر تقریر فرمائی.آپ نے اپنی تقریر میں بتایا کہ حضرت خلیفۃ امسیح الاول ، حضرت مصلح موعود کا بہت احترام فرماتے تھے.اس محبت اور احترام کی وجہ یہی تھی کہ آپ کو حضور کے مقام مصلح موعود کے متعلق کامل معرفت حاصل ہو چکی تھی.آپ نے اس ضمن میں بہت سے حوالے بھی پیش کئے.مرزا محمد سلیم صاحب نے مولوی ظفر محمد صاحب کی ایک نظم سنائی.اس کے بعد مسعود احمد صاحب جہلمی نے تقریر فرمائی.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے عہد زریں کے خاص خاص واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا.اس کے بعد مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف نے حضرت مصلح موعود کی صفت ”وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا“ کے متعلق بعض ایمان افروز واقعات سنائے.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 327 اس کے بعد خاکسار نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام جو آپ نے اس جلسہ کے لئے تحریر فرمایا تھا پڑھ کر سنایا.آخر میں مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف نے دعا کروائی اور دعا کے بعد ہمارا یہ اجلاس برخاست ہوا.جلد ۲۰ سیدنا حضرت مصلح موعود اس سال دو بار سندھ حضرت مصلح موعود کا سفر سندھ تشریف لے گئے.ا حضور مع افراد بیت ۲۱ فروری ۱۹۵۹ ء کو بذریعہ کار روانہ ہوئے.حضور کے ہمراہ میاں غلام محمد صاحب اختر ناظر اعلی ثانی ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، ڈاکٹر محمد احمد صاحب اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری و محکمہ حفاظت کے اصحاب تھے.حضور نے لاہور پہنچ کر گلبرگ کوٹھی کی بنیاد رکھی اور پھر بذریعہ تیز گام بشیر آباد پہنچے اور پھر ناصر آباد اسٹیٹ آگئے.ٹنڈوالہ یار سے میر پور خاص جاتے ہوئے حضور کی کار کو حادثہ پیش آیا اور حضور کی پشت مبارک پر ضرب شدید پہنچی جس نے پوری جماعت میں زبر دست تشویش و اضطراب کی لہر پیدا کر دی.صدقات دیئے گئے اور خصوصی دعائیں ہوئیں.٢ / مارچ کو حضور محمود آباد اسٹیٹ سے روانہ ہوکر ۳ / مارچ کو کراچی پہنچے جہاں قریباً ایک ہفتہ تک اپنی کوٹھی بیت الفضل میں قیام فرما رہنے کے بعد اار مارچ کو بذریعہ چناب ایکسپریس ربوہ تشریف لائے.درد نقرس کی تکلیف اور نا سازی طبع کے باعث حضور اس حال میں گاڑی سے اترے کہ حضور کرسی پر بیٹھے تھے اور خاندان حضرت مسیح موعود کے بعض افراد بعض دیگر مخلصین نے کرسی کو نہایت احتیاط کے ساتھ ہاتھوں میں سنبھالا ہوا تھا.۲- اس کے بعد حضور کو بغرض علاج دوبارہ اس سال کراچی جانا پڑا.حضور ۲۱ راگست کو بذریعہ ٹرین کراچی پہنچے اور ۳ / ستمبر کو ربوہ میں رونق افروز ہوئے.۲۰ ان دونوں سفروں میں احباب جماعت نے حسب سابق اپنے مقدس آقا سے والہانہ محبت و شیفتگی کا ثبوت دیا اور ہر جگہ پر تپاک خیر مقدم کے ایمان افروز نظارے دیکھنے میں آئے مگر افسوس حضور کی ناسازی طبع اور شدید علالت کے باعث ان سفروں کے درمیان غم واندوہ کی ایسی فضا قائم رہی جس نے عشاق خلافت کو تڑپا دیا.حضرت مصلح موعود کا پیغام مجلس انصار اللہ کراچی کے نام حضور کے قیام کراچی کے دوران ۷، ۸ مارچ ۱۹۵۹ء کو مجلس انصاراللہ کراچی کا پہلا سالانہ اجتماع صدرانجمن احمدیہ کی ملکیتی عمارت دارالصدر میں
تاریخ احمدیت 328 جلد ۲۰ منعقد ہوا.حضور چونکہ بعارضہ نقرس بیمار تھے اس لئے اجلاس میں تو تشریف نہ لا سکے مگر ایک پر معارف پیغام مرحمت فرمایا جو ٹیپ ریکارڈ میں محفوظ کر کے لے مارچ کو سنایا گیا یہ پیغام حسب ذیل الفاظ میں تھا.اے احباب کراچی ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.چونکہ میں اس دورہ میں بیماری سے دوچار رہا ہوں اس لئے یہاں کراچی آکر مجھے یہ موقعہ نہیں ملا کہ آپ لوگوں سے ملوں.یا آپ لوگوں کو اپنے سے ملنے کا موقعہ دوں.دوستوں نے خواہش کی ہے کہ میں ٹیپ ریکارڈ پر کچھ الفاظ کہوں اور وہ آپ کو سنا دیئے جائیں.اب سب سے پہلے میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں کہ کراچی میں آنے کے باوجود آپ کو وہ ملاقات کا موقعہ نہیں ملا جو میزبان کو اپنے مہمان سے ملنے ملانے کا ملتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو میں پہلے ہی بیمار تھا.پھر بشیر آباد واپسی پر مجھے کار کا ایک حادثہ پیش آیا جس کی خبر الفضل میں چھپ چکی ہے اس حادثہ سے پہلے تو یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ بس اب خاتمہ ہی ہے.جو دوست میرے پیچھے پیچھے آرہے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ جب یکدم آپ کی موٹر گری تو ہمارا دل دہل گیا.کہ پتہ نہیں کیا ہو گیا.مگر جب آپ کار سے باہر نکلے تو آپ کو دیکھ کر ہمیں تسلی ہو گئی کہ آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے صحیح وسلامت ہیں.پہلے خیال تھا کہ نخاع کٹ گیا ہے لیکن ڈاکٹروں نے دیکھنے کے بعد بتایا کہ ایسا نہیں ہوا.کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ کھڑے نہیں ہو سکتے تھے لیکن میں کار سے باہر نکلا اور سہارا لے کر کھڑا ہو گیا.ناصر آباد جا کر میرے دائیں پاؤں پر نقرس کا شدید حملہ ہوا لیکن علاج کی وجہ سے جلد ہی افاقہ ہو گیا.پہلے دن تو چار پائی کے ساتھ ہی پاٹ رکھنا پڑتا تھا لیکن دوسرے تیسرے دن میں دوسرے کمرہ میں پاٹ کے پاس چلا جاتا تھا.پھر ایک دن ہم باغ میں سیر کے لئے بھی گئے.لیکن جب ہم محمود آباد گئے تو چونکہ وہاں کی آب و ہوا میں رطوبت زیادہ تھی اس لئے وہاں مجھ پر نقرس کا دوبارہ حملہ ہوا جو برابر ریل میں بھی کراچی پہنچنے تک جاری رہا.یہاں پہنچ کر باوجود اس کے کہ جماعت کے ڈاکٹروں اور شہر کے
تاریخ احمدیت 329 دوسرے چوٹی کے ڈاکٹروں سے علاج کرایا گیا ابھی تک کوئی افاقہ نہیں ہوا.اور اس وقت تک برابر اتنا درد ہے کہ میں نہ تو رات کو سو سکتا ہوں اور نہ دن کو آرام سے لیٹ سکتا ہوں.اس لئے مجبور ہوں کہ آپ سے نہیں مل سکا.اور اسی طرح میں نے آپ کے دل کو رنج پہنچایا ہے.امید ہے کہ آپ لوگ اس کا ازالہ دعا سے کریں گے کیونکہ ہمارا اصل معالج خدا تعالیٰ ہی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں :- واذا مرضت فهو يشفين کہ جب میں اپنی بیوقوفیوں کی وجہ سے بیمار ہوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل سے شفا دیتا ہے.تو حقیقت یہی ہے کہ بیماریاں ہماری اپنی بیوقوفی سے آتی ہیں لیکن شفاء خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے.ورنہ ڈاکٹر دیکھتے رہ جاتے ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں لگتا کہ کیا بیماری ہے.مجھے بھی کل یہاں کے ایک چوٹی کے ڈاکٹر نے جن کی یورپ میں بھی شہرت ہے کہا ہم آپ کی مرض کا خاطر خواہ علاج نہیں کر سکتے کیونکہ عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ کا جسم بیماری کا مقابلہ نہیں کرتا.حالانکہ عمر کی زیادتی محض انسانی کم عقلی کا بہانہ ہے.ورنہ ایک دفعہ گجرات کا ایک شخص میری بیعت کرنے کے لئے آیا.تو اس نے مجھے بتایا کہ اس وقت میری عمر ۱۱۸ سال کی ہے اور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں جوان تھا.تو انسان اپنی کوتاہی کی وجہ سے بہانے بناتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ حکیموں اور ڈاکٹروں کو عقل دے تو انہیں علاج سوجھ جاتا ہے اور اگر خدا تعالیٰ انہیں عقل نہ دے تو کچھ بھی نہیں ہوتا.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا کام تو محض قارورہ سونگھنا ہے ورنہ علاج تو اللہ تعالیٰ ہی سمجھاتا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ سرگودھا کا ایک رئیس میرے پاس آیا.وہ اپنے آپ کو بہت بڑا رئیس سمجھتا تھا میں نے اسے بیماری کا معمولی سا علاج بتایا تو اس نے برا منایا اور سمجھا کہ گویا میں نے اس کی ہتک کی ہے.پھر وہ غصہ سے کہنے لگا کہ آخر آپ لوگ پیشاب ہی سونگھنے والے ہیں.تو حقیقت یہی ہے طبیب حقیقی خدا تعالیٰ ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ علم طب محض ظنی ہے اور طبیب کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ مرض کیا جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 330 ہے وہ محض تک مارتا ہے جو بعض اوقات صحیح بھی ہو جاتی ہے.میرا علاج وہی ہو رہا ہے جو جوانی کی عمر میں ہوتا تھا اور اس سے فائدہ ہو جاتا تھا.لیکن اب اس علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.کل ہی مجھ سے ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ یہ عمر کا تقاضا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک شخص بیعت کے لئے میرے پاس قادیان آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ اس کی عمر ۱۱۸ سال کی ہے اور وہ لاہور سے پیدل چل کر آیا ہے اور قادیان لاہور سے قریباً ۷۰ میل دور تھا.پس اگر خدا تعالی طاقت دے اور وہ بڑی قدرتوں کا مالک ہے تو ۱۱۸ سال کی عمر کا آدمی بھی ۷۰ میل چل لیتا ہے میرا تو ابھی سترھواں سال شروع ہوا ہے اور میں اس کے شروع میں ہی اتنا کمزور ہو گیا ہوں کہ اس کی کوئی حد نہیں.جب میں پڑھتا ہوں یا سنتا ہوں کہ میرے زمانہ میں ( دین حق ) دنیا کے کناروں تک پہنچ گیا ہے تو میں شرمندہ ہو کر خدا تعالیٰ سے کہتا ہوں کہ یہ محض اس کی حسن ظنی ہے ورنہ حق یہ ہے کہ میں وہ فرض پورا نہیں کر سکا جو تو نے میرے سپرد کیا تھا اگر میں وہ فرض پورا کر لیتا تو اب تک ( دینِ حق ) دنیا کے کناروں تک پھیل چکا ہوتا.یہ میری غفلت اور کوتا ہی کا ہی نتیجہ ہے کہ ابھی دنیا کے صرف چند ہی ملکوں میں تبلیغ ہوئی ہے.میں ۱۹۱۴ء میں خلیفہ ہوا تھا لیکن تحریک جدید جس کے ماتحت مبلغین باہر جاتے ہیں اس کی ابتداء ۱۹۳۴ء میں ہوئی.گویا میں نے ۲۰ سال غفلت میں گزار دیئے یعنی ۲۰ سال بعد جا کر کہیں مجھے ہوش آئی کہ ابھی بہت کام باقی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عرصہ میں یورپ اور دیگر ممالک میں بیت الذکر تعمیر کی گئیں.جماعتیں قائم ہوئیں اور بہت سے لوگ ( دین حق ) میں داخل ہوئے لیکن اگر یہ تحریک ۲۰ سال قبل شروع کی جاتی تو شاید جماعت کی تعداد اور بھی بڑھ جاتی.بہر حال میں جماعت سے ان کی اس تکلیف کی وجہ سے ہمدردی کرتے ہوئے جزا کم اللہ کہتا ہوں.ایک خدمت ایسی ہوتی ہے کہ باتیں کرنے یا سننے سے اس کا کسی قدر بدلہ خدمت کرنے والے کو مل جاتا ہے لیکن آپ کو ایسی خدمت کی توفیق ملی ہے جو بغیر معاوضہ کے تھی.میں ابھی تک اس کا کوئی معاوضہ نہیں دے سکا.شاید اللہ تعالیٰ فضل کرے اور آپ کو اس خدمت کا بدلہ دے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 331 جلد ۲۰ دے.پس میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس خدمت کا بدلہ دے اور ادھر مجھے صحت اور ( دین حق ) کی خدمت کی توفیق دے.کہ میں اور آپ سب ( دین حق ) کی ترقی اپنی آنکھوں سے دیکھیں.پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں قادیان بھی دے.ہم اپنی زندگی میں قادیان جائیں.اور ہم میں سے جو لوگ مستحق ہوں ان کو اللہ تعالیٰ بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرب میں جگہ دے..خدا تعالیٰ کا قرب تو ہمیں ہر جگہ نصیب ہے.اینما تولوا فثم وجه الله جہاں بھی ہم جائیں خدا تعالیٰ موجود ہے لیکن خدا تعالیٰ کو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دیکھا ہے اس لئے ہمارا دل تڑپتا ہے کہ جہاں ہمیں خدا تعالیٰ کا ظاہری قرب نصیب ہے وہاں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ظاہری قرب بھی نصیب ہو.آپ کا قرب باطنی تو ہر ایمان والے کو حاصل ہے لیکن قادیان بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے کو آپ کا ظاہری قرب بھی مل جائے گا تو اللہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کے ظاہری اور باطنی دونوں قرب عطا فرمائے اور پھر صرف ہمیں ہی عطا نہ فرمائے بلکہ دنیا کے سب لوگوں کو عطا فرمائے.کیونکہ سب لوگ ہمارے دادا حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور ایک دادا کی اولاد میں کوئی فرق نہیں ہوتا.بلکہ وہ سب آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جماعت احمدیہ کی شاندار تبلیغی مساعی اور خالصہ سماچار امرتسر کے مفت روز و سکھ نے ۴ را پریل ۱۹۵۹ء کے مقالہ افتتاحیہ میں لکھا: - دو اخبار ”خالصہ سماچار سردار امرسنگھ جی دوسانجھ نے ایک مضمون میں یہ بیان کیا تھا کہ صرف احمدی مسلمانوں نے ہی کس طرح دنیا کے تقریباً ہر ملک میں مبلغ بھیج کر اور مساجد قائم کر کے اپنے پاؤں مضبوط کر لئے ہیں.امریکہ ایسے ملک میں ان کے ۱۸ تبلیغی مراکز قائم ہیں اور گولڈ کوسٹ افریقہ میں یہ تعداد ۲۴۷
تاریخ احمدیت 332 جلد ۲۰ ہے.دوسرے لٹریچر کے علاوہ ان کے گیارہ اخبار غیر ملکی زبانوں میں شائع ہورہے ہیں.یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ افریقہ ایسے پسماندہ ملکوں میں تبلیغ کا میدان زیادہ وسیع ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اس طرف خاص توجہ دے رہے ہیں.اور حیران کر دینے والی کامیابی حاصل کر رہے ہیں.نیز لکھا : - دد گورو کی سکھی کے لئے کاروبار کرتے کراتے ہی سکھ دھرم و کے مشنری بھی بن جانے کا عہد کریں جس طرح قادیانی مسلمانوں کے کاروباری احباب دلیش پر دیش میں کر رہے ہیں.“ ( ترجمہ ) ۲۲ سید نا حضرت مصلح موعود نے ۴ رمئی ۱۹۵۹ء حضرت مصلح موعود کا ایک جلالی اعلان کو نظام سلسلہ کی نگرانی کے لئے حسب ذیل اعلان تحریر فرمایا جو حضور کے ارشاد کی روشنی میں ربوہ کی بیوت الذکر میں پڑھ کر سنایا گیا : - تمام احباب جماعت کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے (بعد میں اخبار میں بھی شائع کر دیا جائے گا ) کہ گو ہماری جماعت میں اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے دیانتداری چل رہی ہے لیکن پھر بھی چونکہ پچھلی اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک وقت میں آکر نہایت دیانتدار قوم میں بھی بعض بد دیانت لوگ پیدا ہو گئے تھے لہذا اس امر کی نگرانی کے لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جس شخص کو کسی افسر کے متعلق ایسی شکایت ہو کہ اس نے اعلیٰ درجہ کی دیانتداری سے کام نہیں لیا وہ مجھے آکر بتائے تا کہ جرح کر کے میں اپنی تسلی کروں.میں بوجہ بیماری ملاقاتیں کم کرتا ہوں لیکن جو شخص ایسی رپورٹ دینا چاہے وہ دفتر میں آکر ملاقات کے لئے نام لکھوائے اور ساتھ یہ بھی لکھوائے کہ ملاقات برائے اصلاح جماعت ہے ایسے آدمی کو میں ضرور بلوالیا کروں گا مگر میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ اس کی بات کو ضرور مان لوں گا میں تحقیقات کروں گا اور اس پر جرح کروں گا.اگر ( دینِ حق ) کے قواعد کے مطابق اس کی بات میں کوئی نیم سچائی بھی نظر آئی تو افسر متعلقہ سے باز پرس کروں گا اور اگر تحقیقات سے بات سو فیصدی سچی ثابت ہوئی تو افسر متعلقہ کو انشاء اللہ سزا دوں گا اور خدا کے فضل سے اس بات کی بھی بھی پروا نہیں کروں
تاریخ احمدیت 333 جلد ۲۰ گا کہ وہ آدمی بڑا ہے یا چھوٹا.اس اعلان کے ذریعہ میں خدا کے سامنے بری ہوتا ہوں اب اگر کوئی شخص ایسی شکایت نہیں لاتا تو خدا تعالیٰ کے سامنے وہ مجرم ہے میں مجرم نہیں اور اگر اس کی غفلت کی وجہ سے جماعت میں کوئی خرابی پیدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے سامنے وہی شخص سزا کا مستحق ہوگا..مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۴۴/۵/۵۹ ۲۳ ۷ ارمئی ۱۹۵۹ء کو سیدنا حضرت مصلح موعود عالمگیر جماعت احمدیہ کے نام حضرت مصلح موعود کا ضروری پیغام ضروری پیغام دیا:- نے دنیا بھر کے احمدیوں کو حسب ذیل نہایت اشهد ان لا اله الاالـلـه وحده لاشريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله ہم دوسرے انسانوں سے الگ قسم کے انسان نہیں تھے مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے خبر دی کہ مسیح موعوڈ شاہی خاندان میں پیدا ہوگا اور اس کے ذریعہ سے پھر اسلامی بادشاہت قائم ہوگی اس کی وجہ سے باوجود نہایت نالائق ہونے کے ہم نے ایک لمبی سکھ کی زندگی بسر کی اور اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے مطابق شاہی خاندان میں پیدا ہوئے.ہماری اس میں کوئی خوبی نہ تھی.ہم ذلیل تھے اس نے ہمیں دین کا بادشاہ بنا دیا ہم کمزور تھے اس نے طاقتور کر دیا.اور ( دین حق ) کی آئندہ ترقیوں کو ہم سے وابستہ کر دیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے طفیل ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائیں یہ وہ مشکل کام تھا جس کو بڑے بڑے بادشاہ نہ کر سکے لیکن خدا تعالیٰ نے ہم غریبوں اور بے بسوں کے ذریعہ سے یہ کام کروا دیا اور اس بات کو سچا کر دکھایا کہ فسبحان الذي اخرى الاعادي (یعنی پاک ہے وہ خدا جس نے دین کے دشمنوں کو ذلیل کر دیا ) مجھے یقین
تاریخ احمدیت 334 ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک دین کو برتری بخشتا رہے گا اور مجھے امید ہے میری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہمیشہ دین کے جھنڈے کو اونچا کرتی رہے گی اور اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی قربانی کے ذریعے سے (دینِ حق ) کے جھنڈے کو ہمیشہ اونچا ر کھے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گی.میں اس دعا میں ہر احمدی کو شامل کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور ان کو اس مشن کے پورا کرنے کی توفیق دے.وہ کمزور ہیں لیکن ان کا خدا ان کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہو اسے انسانوں کی طاقت کا کوئی ڈر نہیں ہوتا.دنیا کی بادشاہتیں ان کے ہاتھ چومیں گی اور دنیا کی حکومتیں ان کے آگے گریں گی بشرطیکہ نبیوں کے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق یہ لوگ نہ بھولیں اور دین کے جھنڈے کو اونچا رکھنے کی کوشش کرتے رہیں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو ہمیشہ ان کی مدد کرتا رہے اور ہمیشہ ان کو سچا راستہ دکھاتا رہے.بے شک وہ کمزور ہیں تعداد کے لحاظ سے بھی اور روپے کے لحاظ سے بھی اور علم کے لحاظ سے بھی لیکن اگر وہ خدائے جبار کا دامن مضبوطی سے پکڑیں گے تو خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں ان کے حق میں پوری ہوں گی.اور دینِ حق کے غلبہ کے ساتھ ان کو بھی غلبہ ملے گا اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی.خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے اور قیامت کے دن نہ وہ شرمندہ ہوں نہ ان کی وجہ سے حضرت مسیح موعود یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرمندہ ہوں.نہ خدا تعالیٰ شرمندہ ہو کہ اس نے ایسی نالائق جماعت کو کیوں چنا.یہ خدا تعالیٰ کا لگایا ہوا آخری پودا ہے جو اس پودے کی آبیاری کرے گا.خدا تعالیٰ قیامت تک اس کے بیج بڑھاتا جائے گا اور وہ دونوں جہان میں عزت پائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ اے عزیز و ! ۱۹۱۴ء میں خدا تعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کا بوجھ مجھ پر رکھا تھا.اور میری پیدائش سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ میری خبر دی تھی.میں تو ایک حقیر اور ذلیل کیڑا ہوں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے مجھے نوازا اور میرے ذریعہ سے دین کو دنیا میں قائم کیا.جس خدا نے میرے جیسے حقیر انسان کے ذریعہ سے دنیا میں دین کو قائم کیا میں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 335 اسی خدائے قدوس کا دامن پکڑ کر اس سے التجا کرتا ہوں کہ وہ دین کو برتری بخشے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اگلے جہان میں ساری دنیا کے سردار ہیں اس جہان میں بھی ساری دنیا کا سردار بنائے بلکہ ان کے خدام کو بھی ساری دنیا کا بادشاہ بنائے مگر نیکی اور تقویٰ کے ساتھ نہ کہ ظلم کے ساتھ.تو حید دنیا سے غائب ہے خدا کرے کہ پھر تو حید کا پرچم اونچا ہو جائے اور جس طرح خدا غالب ہے اسی طرح اس کا جھنڈا بھی دنیا میں غالب رہے.اور دین حق اور احمدیت دنیا میں توحید اور تقویٰ اور دین کی عظمت پھر دنیا میں قائم کر دیں اور قیامت تک قائم رکھتے چلے جائیں یہاں تک کہ وہ وقت آجائے کہ خدا کے فرشتے آسمان سے نازل ہو کر خدا کے بندوں کی روحوں کو بلند کر کے آسمان پر لے جائیں اور ان میں ایک ایسا مضبوط رشتہ قائم کر دیں جو ابد تک نہ ٹوٹے.آمین ثم آمین بادشاہت سب خدا کا حق ہے مگر افسوس ہے کہ انسان نے اپنی جھوٹی طاقت کے گھمنڈ میں اس بادشاہت کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے.اور خدا کے مسکین بندوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے.خدا تعالیٰ اس غلامی کی زنجیروں کو توڑ دے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اور مسیح موعود علیہ السلام کی اولا د کو نیکی پر ہمیشہ قائم رکھے اور اعتدال کے رستہ سے پھرنے نہ دے.اس سے یہ بات بعید نہیں گو انسان کی نظر میں یہ بات بڑی مشکل معلوم ہوتی ہے.میں اس کے بندوں کی باگ اسی کے ہاتھ میں دیتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ ان کا خیر خواہ ثابت ہوگا اور قریب کی قیامت بلکہ دور کی قیامتوں کے موقعہ پر سچے مسلمانوں کی سرخروئی اور اعزاز کا موجب ہوگا میں اپنے لڑکوں اور لڑکیوں اور بیویوں کو بھی اس کے سپرد کرتا ہوں میری نرینہ اولاد موجود ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا انسان کچھ نہیں کر سکتا اس لئے میں اولاد در اولا د اور بیویوں اور ان کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں جس کی حوالگی سے زیادہ مضبوط ہوا لگی کوئی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تھا جلد ۲۰
تاریخ احمدیت سپردم بتو 336 تو دانی حساب کم خویش را و بیش را ہم نے اس الہام کی سچائی کو ۵۱ سال تک آزمایا ہے اور خدا تعالیٰ سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ دنیا کے آخر تک اس الہام کی سچائی کو ظاہر کرتا رہے گا.اس کا کلام ہمیشہ سچا ہی ثابت ہوتا رہے گا اصل عزت وہی ہے جو مرنے کے بعد انسان کو ملے گی لیکن پھر بھی اس دنیا میں نیکی کا پیج قائم رکھنے سے انسان دعاؤں کا مستحق بن جاتا ہے.اور اپنے پرائے اس کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں.یہ خوبی کا مقام بھلایا نہیں جاسکتا اور میں اپنے خاندان کے مردوں عورتوں کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو یہ مقام ہمیشہ عطا رکھے اور اسی طرح میرے بھائیوں اور بہنوں کی اولاد کو بھی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی پیدا نہیں ہوا نہ آگے پیدا ہوگا آپ کو خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں اور اگلے جہان میں بھی سردار مقرر کیا ہے.خدا کرے آپ کی یہ سرداری تا ابد قائم رہے.اور ہم قیامت کے دن درود پڑھتے ہوئے آپ کے نشان والا جھنڈا لے کر آپ کے سامنے حاضر ہوں اور اپنے خدا سے بھی کہیں کہ اے خدا تو نے جس انسان کی عزت کو اپنی عزت قرار دیا تھا ہم اس کی عزت قائم کر کے آئے ہیں ہم پر بھی رحم کر اور اپنے فضلوں کا وارث بنا.آمین ثم آمین میری اولاد کے نام.میری نعش میری اماں جان کی نعش اور میری بیویوں کی نعشوں کو قادیان پہنچانا تمہارا فرض ہے.میں نے ہمیشہ تمہاری خیر خواہی کی.تم بھی میری خواہش پوری کرنا.اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو اور تمہیں عزت بخشے.میں ساری جماعت احمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیوں کو خدا اور رسول کے لئے وقف کریں اور قیامت تک دین کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو، ان کی مدد کرے اور اپنی بشارتوں سے ان کو نوازے.میں امید کرتا ہوں کہ یورپ کے نئے احمدی اپنی جان اور مال سے ایشیا کے پرانے احمدیوں کی مدد جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 337 کریں گے اور تبلیغ کے فریضہ کو ادا کرتے رہیں گے یہاں تک کہ دین ساری دنیا پر غالب آ جائے.اگر لینن کے متبعین نے چند سال میں ساری دنیا پر اپنا سکہ جما لیا تھا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین یہ کام کیوں نہیں کر سکتے.صرف عزم اور ارادہ کی پختگی کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو.وہ کبھی ظلم نہ کریں اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے بندوں کے سامنے عجز وانکسار کے ساتھ سر جھکا ئیں تا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کی مددان کو ملتی رہے اور دین کا سر ہمیشہ اونچا رہے اور قیامت کے دن خدا کا آخری نبی بلکہ خدائے واحد خود نہایت شوق سے اپنے ہاتھ پھیلا کر ان کی ملاقات کے لئے آگے بڑھے اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا تعالیٰ کی برکات کے وارث ہوں.میں احمدیت اور اس کے آثار کو بھی خدا کے سپرد کرتا ہوں وہی ان کا بھی محافظ ہو اور ان کی عزت کو قیامت تک قائم رکھے.آمین.ثم آمین اے دوستوں! میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں.نبوت ایک بیج ہوتی ہے جس کے بعد خلافت اس کی تاثیر کو دنیا میں پھیلا دیتی ہے.تم خلافت حقہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دنیا کو متمتع کرو تا خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے اور تم کو اس دنیا میں بھی اونچا کرے اور اس جہان میں بھی اونچا کرے.تا مرگ اپنے اپنے وعدوں کو پورا کرتے رہو.اور میری اولاد اور حضرت مسیح موعود کی اولاد کو بھی ان کے خاندان کے عہد یا د دلاتے رہو.احمدیت کے مبلغ دین کے نیچے سپاہی ثابت ہوں اور اس دنیا میں خدائے قدوس کے کارندے بنیں.کیا ہمارا خدا اتنی طاقت بھی نہیں رکھتا جتنا کہ حضرت مسیح ناصری رکھتے تھے.مسیح ناصری تو ایک نبی تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کے سردار تھے خدا تعالیٰ ان کی سرداری کو دونوں جہاں میں قائم رکھے اور ان کے ماننے والوں کا جھنڈا کبھی نیچا نہ ہو اور وہ اور ان کے دوست ہمیشہ سر بلند رہیں.آمین ثم آمین میں یہ نصیحتیں پاکستان سے باہر کے احمدیوں کو بھی کرتا ہوں وہ بھی خدا تعالیٰ کے ایسے ہی محبوب ہیں جیسے پاکستان میں رہنے والے احمدی.اور جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 338 جب تک وہ دین کو اپنا صح نظر قرار دیں گے خدا تعالیٰ ان کو بھی اور دین کو بھی دنیا میں بلند کرتا چلا جائے گا انشاء اللہ.خدا کرے احمدیوں کے ذریعہ سے کبھی دنیا میں ظلم کی بنیاد قائم نہ ہو.بلکہ عدل، انصاف اور رحم کی بنیاد قائم ہوتی چلی جائے.اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کے دائیں بھی کھڑے ہوں اور بائیں بھی کھڑے ہوں اور کوئی شخص ان کی طرف نیزہ نہ پھینکے جسے خدا تعالیٰ کے فرشتے آگے بڑھ کر اپنی چھاتی پر نہ لے لیں.آمین ثم آمین آدم اول کی اولاد کے ذریعہ سے بالآخر دنیا میں بڑا ظلم قائم ہوا اب خدا کرے آدم ثانی یعنی مسیح موعود کی اولاد کے ذریعہ سے یہ ظلم ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے.اور سانپ یعنی ابلیس کا سر کچل دیا جائے.اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت اسی طرح دنیا میں بھی قائم ہو جائے جس طرح آسمان پر ہے اور کوئی انسان دوسرے انسان کو نہ کھائے.اور کوئی طاقت ور انسان کمزور انسان پر ظلم اور تعدی نہ کرے.آمین ثم آمین مرزا محمود احمد ، ۱۷ارمئی ۱۹۵۹ء ۲۴ ۱۹ مئی ۱۹۵۹ء کو حضور نے دوسرا پیغام بایں الفاظ میں دیا :- دوسرا ضروری پیغام "خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق انسان کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھتا ہے.مسیح موسوٹی کو گزرے ہوئے ۱۹۰۰ سال ہو چکے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ طاقت بخشی کہ آج تک کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا.دہر یہ یورپ بھی مجبور ہے کہ ان کا نام عزت سے لے ورنہ وہ ڈرتا ہے کہ اس کی طاقت ٹوٹ جائے گی اور باوجود دہریت کے غلبہ کے وہ مجبور ہے کہ مسیح کا نام ادب سے لے.پس میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کریں اور مسیح محمدی سے مضبوط رشتہ قائم کریں اور نیکی کو اپنا شعار بنا ئیں تب قیامت تک اللہ تعالیٰ ان کو غلبہ بخشے گا اور قیامت تک کوئی طاقت ان کو ہلا نہیں سکے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے جے جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھو خدا تعالیٰ تمہیں دین اور دنیا میں غلبہ بخشے گا اور کوئی طاغوتی طاقت تمہیں شکست نہیں دے سکے گی.اور جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 339 جلد ۲۰ دلوں میں اتحاد پیدا کرو اور ساری دنیا کے احمدیوں اور مسلمانوں کو ایک نقطہ پر جمع رکھو.( دینِ حق ) کے اتحاد سے ہی خدا تعالیٰ کی شان ظاہر ہوگی اور دین کے اتحاد سے ہی خدا کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی خدا کرے حضرت مسیح موعوڈ کی نسل ہمیشہ کے لئے خدا کی حکومت کو دنیا میں قائم رکھے اور طاغوتی حکومتوں کو ہمیشہ کے لئے کچل ڈالے.آمین مسیح موعود اللہ تعالیٰ کا آخری نشان ہے اگر شیطان اس کے ہاتھ سے مارا گیا تو پھر شیطان کبھی سر نہیں اٹھائے گا کیونکہ شیطان کا سر کچلے جانے پر اور کوئی چیز نہیں جو دنیا میں شیطان کو قائم رکھے.اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ میں یہ برکت حضرت مسیح موعود کو بخشی ہے کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی قائم ہو.میں وصیت کرتا ہوں کہ احمدی جماعت ہمیشہ شیطان کا سر کچلنے کے لئے مستعد رہے اور دنیا کے چاروں کونوں تک دین کو پھیلائے.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو ان کے کام میں برکت دے اور ان کی نیتوں کو صاف رکھے اور وہ کسی پر ظلم کرنے والے نہ بنیں بلکہ ہمیشہ عدل اور رحم اور انصاف کو قائم رکھیں اور ان کا یہ طریق عیسائیوں کی طرح زبانی نہ ہو بلکہ حقیقی ہو.وہ عیسائیوں کی طرح آپس میں اس طرح نہ لڑیں جیسے دو جانور لڑتے ہیں بلکہ دنیا میں اسلامی اتحاد کو اور آسمان پر خدا کی تو حید کو قائم رکھیں.آدم اول کے بعد دنیا نے بڑے گناہ کئے خدا کرے آدم ثانی یعنی مسیح موعود کے ذریعہ سے ایسی دنیا قائم ہو جو قیامت تک خدا تعالیٰ کے نام کو روشن رکھے.“ 66 مرزا محمود احمد ۱۹/۵/۵۹ آچار یہ ونو با بھاوے کی خدمت میں اس سال ہندوستان کی مشہور بھومیدان تحریک کے بانی آچار یہ ونوبا بھاوے نے احمد یہ وفد کی طرف سے اسلامی لٹریچر ملک کو اپنی تحریک سے روشناس کرانے کے لئے پنجاب اور کشمیر کے طویل سفر کئے.یکم اپریل ۱۹۵۹ء کو آپ پنجاب میں داخل ہوئے اور مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے کشمیر روانہ ہونے کے لئے مئی کے آخر میں پٹھانکوٹ پہنچے جہاں جماعت احمد یہ قادیان کے ایک وفد نے ناظر دعوت و تبلیغ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی ا
تاریخ احمدیت 340 جلد ۲۰ قیادت میں ان سے مفصل ملاقات کر کے انہیں دعوت حق دی اور قرآن کریم (انگریزی ترجمہ ) اور دیگر اسلامی لٹریچر کا تحفہ پیش کیا جو انہوں نے کمال مسرت و احترام سے قبول کیا اور اس کے بعد قریباً دس ہزار کے کے مجمع میں جس میں پنجاب سرکار کے کئی وزیر اور ایم ایل اے بھی موجود تھے اس ملاقات اور تحفہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور بتایا کہ : - " مجھے آج بہت خوشی ہوئی ہے.قادیان سے میرے پاس مسلمان بھائی آئے انہوں نے قرآن شریف کی کاپی بھینٹ (نذر) کی میں نے ان سے کہا آپ نے مجھے سب سے قیمتی چیز پیش کی ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز پیاری نہیں.آپ نے اپنی سب سے پیاری چیز ۲۷ 66 آج مجھے دی ہے.جماعت احمدیہ کی اس عظیم خدمت دین کو ہندوستان کے مسلم پریس اور مسلم عمائدین نے نہایت درجہ قدر اور استحسان کی نظر سے دیکھا اور زبر دست خراج تحسین ادا کیا.چنانچہ جماعت اسلامی ہند کے آرگن سہ روزہ دعوت (دہلی ) نے اپنی ۴ جون ۱۹۵۹ء کی اشاعت میں زیر عنوان ” قادیانی وفد ونو با بھاوے جی کی خدمت میں حسب ذیل نوٹ شائع کیا : - ا بھی جب اچاریہ دونو بھاوے پنجاب کا دورہ کر رہے تھے تو قادیان کی جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی اور ان کی خدمت میں قرآن کریم کا ترجمہ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پیش کی جس پر ونو با بھاوے جی نے اپنے خصوصی تاثرات کا اظہار کیا.انہوں نے مختلف مغربی مستشرقین اور ایشیائی مستشرقین کے انگریزی تراجم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس نے نہ صرف یہ کہ ان انگریزی ترجموں کو پڑھا ہے بلکہ گجراتی ، مرہٹی زبانوں کے علاوہ اردو زبان میں بھی بعض تراجم اور تفاسیر بھی دیکھی ہیں.اس سلسلہ میں آپ نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ترجمان القرآن کی دو جلدوں کے مطالعہ کا بھی ذکر کیا.آپ نے کہا ”اس وقت بھی میرے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ موجود ہے جو قاعدہ یسرنا القرآن کی طرز پر طبع شدہ ہے.“ سیرت کی کتاب کو ونو با بھا وے جی نے بڑے اشتیاق سے قبول کیا
تاریخ احمدیت 341 جلد ۲۰ اور اسی وقت کھول کر دیکھنا شروع کر دیا ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ” میں نے اعظم گڑھ والوں کی طرف سے طبع شدہ سیرت النبی کی چھ جلدوں کا مطالعہ کیا ہے ( علامہ شبلی اور علامہ سید سلیمان ندوی کی مرتبہ کردہ) حضرت ابوبکر کے سلسلہ میں آپ نے کہا یہ رتبہ ہر شخص کو حاصل نہیں ہوا کرتا.اسی دن پراتھنا کی تقریر میں آپ نے انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کا کہنا ہے کہ لا نفرق بين احد من رسله سب رسولوں نے عالمگیر بھائی چارے کی دعوت دی ہے جسے ماننا چاہئے.“ بے چارے احمدی خارج از اسلام سہی لیکن یہ بات کتنی قابل قدر بلکہ لائق تقلید ہے کہ جس پیغام کو انہوں نے حق سمجھا ہے اسے پہنچانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے جس مقام پر عارف اور صوفی دم بخود ہیں وہاں یہ بادہ فروش پہنچ رہے ہیں.“ ۲۸ 66 مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے نہ صرف اپنے اخبار صدق جدید (لکھنو ) مجریہ ۱۲ جون ۱۹۵۹ء میں اخبار ”دعوت“ کا مندرجہ بالا نوٹ ہی شائع کیا بلکہ اس کی ۱۹رجون ۱۹۵۹ء کی اشاعت میں ایک تبلیغی خبر“ کے عنوان سے درج ذیل نوٹ سپر د قلم فرمایا : - مشرقی پنجاب کی خبر ہے کہ اچار یہ ونو با بھا وے جب پیدل دورہ کرتے ہوئے وہاں پہنچے تو انہیں ایک وفد نے قرآن مجید کا ترجمہ انگریزی اور سیرت نبوی پر انگریزی کتابیں پیش کیں.یہ وفد قادیان کی جماعت احمدیہ کا تھا.خبر پڑھ کر ان سطور کے راقم پر تو جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا.اچاریہ جی نے دورہ اودھ کا بھی کیا بلکہ خاص قصبہ دریاباد میں قیام کرتے ہوئے گئے.لیکن اپنے کو اس قسم کا کوئی تبلیغی تحفہ پیش کرنے کی توفیق نہ ہوئی نہ اپنے کو نہ اپنے کسی ہم مسلک کو ندوی، دیو بندی، تبلیغی ، اسلامی جماعتوں میں ہے! آخر یہ سوچنے کی بات ہے یا نہیں کہ جب بھی کوئی موقع اس قسم کی تبلیقی خدمت کا پیش آتا ہے یہی ” خارج از اسلام جماعت شاہ نکل جاتی ہے اور ہم سب دیندار منہ د دیندار منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں !! ١٢٩
تاریخ احمدیت 342 جلد ۲۰ در ویشان قادیان کا ایک وفد چنڈی گڑھ.گورنر پنجاب قادیان دارالامان میں میں گورنر پنجاب شری این وی گیڈیکل سے ملا اور انہیں مرکز احمدیت میں آنے کی دعوت دی.جس پر آپ ۹ ر ا پریل ۱۹۵۹ء کو قادیان تشریف لائے آپ کے ساتھ ملٹری سیکرٹری شری دمو دھر داس صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور، سردار گورچرن سنگھ صاحب ایس پی گورداسپور اور بہت سے افسران تھے.جناب گورنر صاحب اور دیگر معززین نے بیت اقصیٰ اور بیت مبارک کی زیارت کی اور سلسلہ احمدیہ کے تاریخی حالات دلچسپی سے نے.بعد ازاں مدرسہ احمدیہ میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے جماعت احمد یہ قادیان کی طرف سے ایڈریس دیا.جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ میں قادیان میں صرف احمدیوں کے پاس آیا ہوں.اگر مجھے کوئی اور بلاتا تو میں اوروں کے پاس بھی آجاتا.چونکہ احمدیوں نے مجھے دعوت دی تھی اس لئے میں ان کے پاس آیا ہوں.میں آریہ سماج کے مندروں میں بھی جاتا ہوں اور دوسرے مذہبی مقامات پر بھی جاتا ہوں.میں کسی خاص جماعت کا فرد نہیں بلکہ سارے پنجابیوں کا ہوں.جن میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی وغیرہ سب شامل ہیں.میں نے اس دفعہ چنڈی گڑھ میں دریافت کیا تھا کہ اگر کوئی مسلمان چنڈی گڑھ میں ہو تو میں اس کی عید کے موقعہ پر دعوت کروں.پھر مجھے دورہ کے موقعہ پر آنا پڑا.آئندہ عید پر میں ضرور مسلمانوں کی خوشی میں شریک ہونے کا انتظام کروں گا.بھارت کے آئین میں سب مذاہب کے لوگ مساوی حقوق رکھتے ہیں اس میں کسی کو چھوٹا یا بڑا نہیں سمجھا جاتا.انہوں نے سورج اور چاند کی مثال دے کر واضح کیا کہ جس طرح ان کی روشنی اور گرمی بلالحاظ فرقہ و قوم پہنچتی ہے اسی طرح بھارت کے آئین کی فیض رسانی ہندوؤں، مسلمانوں ، سکھوں اور ہریجن سب کے لئے یکساں ہونی چاہئے.اگر اب تک ہم اس اصول پر پورے طور پر کار بند نہیں تو بھی ہمیں پوری پوری کوشش ضرور کرنی چاہئے.“ ایڈریس کے اختتام پر صاحبزادہ صاحب نے انہیں قرآن کریم انگریزی اور سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انگریزی اور دیگر لٹریچر تحفہ پیش کیا جو انہوں نے بخوشی قبول فرمایا.ایک خادم خلق جناب پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی عظیم قومی خدمت و اکثر فرید بھی صاحب بخش نے فرید آباد چک ۳۳۳ ( ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ ) میں اپنی کوشش سے پرائمری سکول جاری کیا تھا جسے سمتبر ۱۹۵۸ء میں انٹرمیڈیٹ کالج کا درجہ دلانے میں کامیاب ہو گئے جس کے بعد انہوں نے
تاریخ احمدیت 343 جلد ۲۰ اسلامیہ غوثیہ کالج میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کا سامان مہیا کرنے کے لئے انگلستان کا رخ کیا جہاں ۲۷ رمئی ۱۹۵۹ء کو وہ ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے.ڈاکٹر صاحب نے اپنے محبوب وطن کی اس قومی درسگاہ کی گرانقدر اعانت فرمائی.چنانچہ واپسی پر ڈاکٹر فرید بخش صاحب نے اخبار ” نوائے وقت“ کے نمائندہ خصوصی کو انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا : - میں انگلستان ۱۱ جنوری ۱۹۵۹ء کو پہنچا اور وہاں پہنچتے ہی میں نے محب وطن پاکستانی باشندوں سے اسلامیہ غوثیہ کالج کے نام پر چندہ جمع کرنے کی مہم شروع کر دی.اور تین چار ماہ تک سابق حکمرانوں کے وطن میں قریہ قریہ پھرتا رہا.دریں اثنا بہت سے پاکستانیوں نے میری پہچانوے سال کی عمر میں جواں ہمتی سے متاثر ہو کر میری چندہ کی اپیل پر لبیک کہا ان کے علاوہ برطانیہ کے بعض اخبارات نے بھی میری کوششوں کی تعریف کی.ان دنوں مجھے کسی نے بتایا اگر میں پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کا تعاون حاصل کرلوں تو سائنس کے سامان کی بہم رسانی کا مسئلہ بہت جلد حل ہو جائے گا.چنانچہ میں ۲۷ مئی ۱۹۵۹ء کو رات کے ۹ بجے صبح جھنگ کے چوہدری محمد حسین کے بیٹے ڈاکٹر عبدالسلام پروفیسر لنڈن یونیورسٹی کے مکان پر گیا.وہاں میں نے اسلامیہ غوثیہ کالج کے لئے تعاون کی درخواست کی تو وہ موم کی طرح پکھل گئے.فوراً ساڑھے سات پونڈ دے کر انجمن اسلامیہ غوثیہ چک نمبر ۳۳۳ کے لائف ممبر بن گئے اور بعدازاں انہوں نے میرے کالج کے لئے سائنس کا سمان مہیا کرنے کے سلسلہ میں جس جس طریقے سے امداد کی میں اس کی تعریف نہیں کرسکتا.ان کی وجہ سے پاکستانی ہائی کمیشن کے افسروں نے بھی قابل تعریف حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا.پاکستان کو ڈاکٹر عبد السلام جیسے سپوت پر ناز کرنا چاہئے.ایسے بیٹے روز روز پیدا نہیں ہوتے.میں انگلستان کا پانچ چھ ماہ کا دورہ کرنے کے بعد فخر وانبساط کے جذبات لے کر واپس آیا ہوں.کالج میں سائنس کی تعلیم کے لئے مطلوبہ سامان خریدا جاچکا ہے.جو عنقریب چک ۳۳۳ میں پہنچ جائے گا اور پھر
تاریخ احمدیت 344 جلد ۲۰ میرے غوثیہ کالج میں سائنس کی جماعتیں شروع کر دی جائیں گی.۳۱ احمدیت جس تیزی اور جماعت احمدیہ کا ذکر اخبار مانچسٹر گارڈین میں وسعت کے ساتھ مغربی افریقہ میں پھیل رہی تھی اس کا نقشہ اخبار مانچسٹر گارڈین نے اس سال درج ذیل الفاظ میں کھینچا : - راسخ العقیدہ مالکی مسلمانوں کے علاوہ برٹش مغربی افریقہ میں مسلمانوں کا ایک اور چھوٹا سا فرقہ ہے جو احمد یہ کہلاتے ہیں ان کا مرکز پاکستان میں ہے.اس جگہ ان کی تبلیغی مساعی کا آغاز ۱۹۲۰ء میں ہوا.یہ تحریک بسرعت بڑھ رہی ہے.عیسائیوں اور مشرکوں سے اس قدر افراد اس تحریک کو اپنا رہے ہیں کہ گولڈ کوسٹ میں ۱۹۳۱ء میں ان کی تعداد ۳۱۱۰ تھی.جبکہ ۱۹۴۸ء میں یہ ۲ ۲۲۵۷ ہو گئی.اس طرح ملک کے تمام حصوں میں ان کی تبلیغ مؤثر ثابت ہورہی ہے.ان کے اپنے مدارس بھی قائم ہیں جن میں سیکنڈری معیار کے مطابق بہت تعلیمی سہولتیں ملتی ہیں اور سارے مغربی افریقہ میں.گیمبیا - کو چھوڑ کر باقی تمام علاقوں میں ان کی مساعی جاری ہے.جہاں ان کے مبلغین کو اس وجہ سے داخلہ کی اجازت نہیں دی گئی کہ پہلے ہی ملک میں کافی مذاہب ہیں.تحریک احمدیت کے لئے ان کی تبلیغی جدوجہد ان کا ترقیاتی معاشرتی اور معین پروگرام محدود فرقہ جات کے لحاظ سے مفید ثابت ہوا ہے.کٹر مسلمانوں کے نزدیک اس تحریک کے پیرو مومن نہیں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں سے کم درجہ کے مشرکین جیسے ہیں.احمدیوں کا دعوی ہے کہ ان کی جماعت کے بانی (حضرت) مرزا غلام احمد صاحب بیک وقت اپنے زمانہ میں حضرت محمد صلعم حضرت یسوع مسیح اور حضرت کرشن کے بروز تھے.سیاسی لحاظ سے احمدی صرف تبلیغ کی آزادی چاہتے ہیں اور احمدی ہر جگہ اپنے عقیدہ و ذاتی ضمیر کے لحاظ سے اپنی ہر حکومت کی خواہ وہ کوئی بھی ہو امداد کرتے ہیں.جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ پاکستان سے کوئی سیاسی ہدایات جاری نہیں کی جاتیں اور نہ ہی اس کا امکان ہے.(ترجمہ از ایسٹ افریقن ٹائمنز نیروبی مورخه ۱۵ جون ۱۹۵۹ء صفحه ۴ )
تاریخ احمدیت 345 جلد ۲۰ فصل دوم ربوہ میں ایک کامیاب تبلیغی مذاکرہ اس سال کا ایک قابلِ ذکر واقعہ یہ ہے کہ ۲۰ / جون ۱۹۵۹ء کو خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب کا سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے بعض پادری صاحبان سے ”نجات“ کے موضوع پر ایک کامیاب تبلیغی مذاکرہ ہوا جو بیت مبارک ربوہ میں قریبا تین گھنٹہ تک جاری رہا.یہ مذاکرہ کسر صلیب کا مجسم ثبوت اور حضرت مسیح موعود کے جدید علم کلام کی برتری کا منہ بولتا نشان تھا.اس مذاکرہ کی مختصر روداد مولانا صاحب کے قلم سے رسالہ ”الفرقان“ جون، جولائی ۱۹۵۹ء میں شائع شدہ ہے اور قابلِ دید ہے.احمدیت کا خدا زندہ خدا ہے جس کی زندہ قدرتوں کے نمونے ایک ایمان افروز واقعہ جماعت احمدیہ میں ہمیشہ ظاہر ہوتے رہے ہیں اسی قسم کا ایک ایمان افروز نشان اس سال پاکستان کے صوبہ سرحد میں ظاہر ہوا جو سلسلہ کے ایک ممتاز فرد خان دانشمند خاں صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ شہر ہی ضلع پشاور کی ذات سے متعلق تھا آپ تحریر فرماتے ہیں:- سر مورخہ ۱۳، ۱۴ / جولائی ۱۹۵۹ء کی درمیانی رات کو ڈیڑھ بجے اس عاجز پر ( جبکہ میں اپنے موضع بانڈہ محبّ میں سویا ہوا تھا) کسی آدمی نے میرے بائیں کندھے پر بندوق سے فائر کیا اور زخمی کر کے بھاگ گیا.اس وقت یہ عاجز دائیں کروٹ پر رو بقبلہ ہو کر لیٹا ہوا تھا اور حملہ آور نے کند ھے کو میرا سر سمجھ کر فائر کیا.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میرے سر کو بچا لیا.حملہ آور نے چونکہ دو گز کے فاصلہ سے چھرہ دار بندوق سے فائر کیا تھا اس لئے میرے ہاتھ کی بہت سی رگیں کٹ گئیں اور کافی خون جاری ہو جانے سے بہت ضعف ہو گیا.مجھ سے تھوڑے فاصلہ پر دامادم محمد حسن خان صاحب درانی سوئے ہوئے تھے وہ بھی جاگ کر آگئے اور مجھے چار پائی پر ڈال کر اول تھا نہ میں اور
تاریخ احمدیت 346 پھر سول ہسپتال نوشہرہ میں لے گئے مگر کچھ فائدہ نظر نہ آیا.پھر میرے بیٹے لیفٹینٹ وزیر احمد خان اور ہمشیرہ زادہ میجر سیف علی خاں نے باہم مشورہ کر کے مجھے فوجی ہاسپٹل نوشہرہ میں پہنچایا مگر میری حالت پھر بھی نہ سنبھلی.پھر میرے بیٹے نذیر احمد خان نے لیڈی ریڈنگ ہاسپٹل نوشہرہ کے سول سرجن کو ٹیلیفون کیا.اس پر سول سرجن صاحب نے پہلے فوجی ڈاکٹر صاحب سے میرے حالات دریافت کئے.ڈاکٹر صاحب نے انہیں بتایا کہ زخم میں پیپ پڑ گئی ہے اور زخم دل کے قریب ہے.اس لئے کیس بڑا خطرناک ہے اور بچنے کی امید کم ہے.تب سول سرجن صاحب نے عذر کر کے میرے کیس کو لینے سے انکار کر دیا.اس کے بعد پسرم نذیر احمد خان نے فوجی ہسپتال پشاور کے ڈاکٹر میجر اکرم خان کو ٹیلیفون کیا.( یہ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں مانے ہوئے سپیشلسٹ سرجن ہیں) انہوں نے ٹیلیفون پر فرمایا کہ مریض کو فوراً میرے پاس پہنچا دو.چنانچہ مجھے فوراً پشا ور فوجی ہاسپٹل میں پہنچا دیا گیا اور آفیسر وارڈ کے کمرہ نمبرا میں مجھے اتارا اور علاج شروع کیا.چند دن گزرنے کے بعد ایک اور ڈاکٹر کرنل صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ تمہارا کیا حال ہے اس پر میں نے ان سے یہ شکایت کی قیدیوں کی طرح میرے ہاتھ کو سخت باندھ کر مجھے تکلیف میں ڈالا گیا ہے.اور چونکہ میرے ہاتھ کی رگیں تو کٹ چکی ہیں اس لئے براہ مہربانی میرے ہاتھ کو کاٹ کر الگ کر دیا جائے تاکہ میں اس تکلیف سے چھوٹ جاؤں.میرے بار بار اصرار پر ڈاکٹر صاحبان نے ۱۵ راگست کی تاریخ میرا آپریشن کرنے کی مقرر کی.جب مجھے اپریشن روم میں میز پر لٹایا گیا تو میرے دیگر عزیز و اقارب کے علاوہ پسرم نذیر احمد خان احمدی اور دامادم محمد اسلم خان احمدی بھی موجود تھے.میجر ڈاکٹر محمد اکرم خان صاحب اور ایک اور میجر ڈاکٹر صاحب نے میرا تازہ معائنہ کیا تو اس وقت نبض اور دل کی حرکتیں بند تھیں اور بدن کا خون بھی رکا ہوا تھا تب انہوں نے ہر چند کوشش کی کہ کسی طرح نبض اور دل جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 347 چل پڑیں مگر کامیابی نہ ہوئی.بالآخر ایک ڈاکٹر صاحب نے باہر آکر عزیزم نذیر احمد خان کو کہا کہ آپ کے والد صاحب ۲۰،۱۵ منٹ کے مہمان ہیں سواری کا جلد انتظام کرلو.مگر عزیز نذیر احمد خان نے کہا کہ جناب آپ مطمئن ہو کر اپریشن کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے والد صاحب ابھی نہیں مرتے.مگر ڈاکٹر صاحبان اپریشن پر تیار نہ ہوتے تھے.آخر نذیر احمد خان نے یہ تحریر لکھ کر ڈاکٹر صاحب کو دے دی کہ اگر اپریشن میں میرے والد صاحب فوت ہو گئے تو آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوگی.اس فیصلہ کے بعد جناب ڈاکٹر صاحبان دوبارہ میرے پاس آکر میری نبض اور دل دیکھنے لگے تو دونو درست چل رہے تھے.تب بغیر کلور و فارم سونگھائے میرا اپریشن شروع کر دیا.اور بار بار میرے دل کی بابت پوچھتے کہ دل کا کیا حال ہے؟ میں جواب دیتا کہ ٹھیک ہے آپ بیشک اپنا کام کرتے جائیں.آخر انہوں نے میرا ہاتھ الگ کر دیا اور میں نے اطمینان کا سانس لیا.الحمد للہ ڈاکٹر صاحب نے باہر آ کر نذیر احمد خان سے پوچھا کہ آپ کس بناء پر بڑے وثوق سے کہتے تھے کہ آپ بے شک اطمینان سے اپریشن کریں.میرے والد صاحب ابھی نہیں مرتے حالانکہ وہ تقریباً مر چکے تھے.تو برخوردار نے جواب دیا کہ میرے بڑے بھائی بشیر احمد خان بی اے کا لنڈن سے خط آیا ہے کہ انہوں نے والد صاحب کے زخمی ہو جانے کی خبر سن کر اللہ تعالیٰ سے بہت رو رو کر ان کی صحت کے لئے دعائیں کی ہیں.اور انہیں اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ تمہارا والد ۸۰ سال زندہ رہے گا اور میرے والد صاحب کی عمر ابھی ۷۰ سال ہے.گویا ۱۰ سال باقی ہیں.اس بناء پر میں نے عرض کیا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میرے بھائی کی بات ضرور سچی ہوگی.کیونکہ وہ واقف زندگی ہو کر دین کی خدمت کو گیا ہے اور مبلغ دین ہے.جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر بتائی ہے.یہ واقعہ سن کر جناب میجر ڈاکٹر محمد اکرم صاحب بہت متعجب اور متاثر ہوئے اور میرے بڑے بیٹے بشیر احمد خان مبلغ کا بار بار حال پوچھتے.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 348 یہ عاجز دو ماہ زیر علاج رہنے کے بعد ۱۴ ستمبر ۱۹۵۹ء کو خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان سے اور حضور مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ اور احباب جماعت کی دعاؤں کی برکت سے صحت یاب ہو کر گھر آگیا.الحمد لله على احسانه.ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء.٣٣ جلد ۲۰ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب چوہدری محمد عبد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی سلسلہ احمدیہ کے کی غیرت ایمانی اور خلافت سے عقیدت فدائی وشیدائی اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے چھوٹے بھائی تھے جو اس سال ۱۳رجون ۱۹۵۹ء کو رحلت فرما گئے.دنیائے احمدیت کی اس ممتاز شخصیت کے مختصر حالات سوانح تو آگے آرہے ہیں یہاں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی غیرت ایمانی اور خلافت سے عقیدت کا اہم واقعہ بتانا مقصود ہے جو اس قومی المیہ کے بعد پیش آیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چوہدری محمد عبد اللہ خاں صاحب کے انتقال پر جہاں بہت سے احمدی بزرگوں اور دوستوں نے تعزیتی خطوط حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو لکھے وہاں میاں عبد المنان صاحب عمر ایم اے ( خلف حضرت خلیفہ اول) نے بھی ایک مکتوب لکھا جس میں انہوں نے مرحوم پر اس وجہ سے ناپاک حملہ کیا کہ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ سے بے مثال فدائیت کے باعث ابناء خلیفہ اول سے قطع تعلق کر لیا تھا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی غیرت ایمانی نے اس موقع پر خاموش رہنا گوارا نہ کیا اور ہیگ سے ۱۳ / جولائی ۱۹۵۹ء کو ایک مفصل مکتوب لکھا جس کے لفظ لفظ سے خلافت سے عقیدت و شیفتگی ٹپکتی ہے.آپ نے تحریر فرمایا : - خط لکھنے والے صاحب نے ظاہر تو یہ کیا ہے کہ اس صدمہ میں انہیں میرے ساتھ ہمدردی ہے اور اس ہمدردی کے جذبہ نے انہیں آمادہ کیا ہے کہ وہ میری دلجوئی کی خاطر مجھے خط لکھیں چنانچہ دورانِ تحریر میں انہوں نے لکھا ہے کہ عبداللہ خاں سب بھائیوں میں سے بڑھ کر تمہارا فرمانبردار تھا اور تم سے محبت کرتا تھا اس لئے تمہیں اس کی جدائی کا صدمہ بھی زیادہ محسوس ہوا ہوگا اس احساس کے ماتحت بظاہر ان کی تحریر کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس صدمہ میں میری غمخواری کریں وہ خط کی ابتداء تو ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ عبد اللہ خاں
تاریخ احمدیت 349 بہت خوبیوں کا مالک تھا لیکن پھر ساتھ ہی لکھتے ہیں کہ آخر میں وہ يقطعون ما امرالله به ان يوصل کا مرتکب ہوا.میرا دل بے شک محزون اور صدمہ خوردہ ہے عبداللہ خان کو میرے ساتھ بہت گہری محبت تھی اتنی گہری اور شدید کہ بعض دفعہ مجھے خوف ہونے لگتا تھا کہ اتنی شدت کی محبت جائز بھی ہے یا نہیں.مجھے بھی وہ بہت پیارا تھا.بوجہ بھائی ہونے کے.بوجہ عرصہ سے رہینِ الم ہونے کے.بوجہ اپنی محبت اور اطاعت کے.بوجہ سلسلہ کے لئے انتہائی غیرت رکھنے کے.بوجہ حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصره العزيز ومتعنا الله بطول حیاتہ کی ذات بابرکات کے ساتھ والہانہ عشق کے.بوجہ بندگان خدا کے ساتھ ہمدردی اور ان کی خدمت کے جذبے کے.اور بوجہ اپنی بہت سی اور خوبیوں کے جو ہزاروں دلوں کو گرویدہ کئے ہوئے تھیں.اس کی جدائی پر میرے دل کا مبتلائے درد ہونا طبعی امر ہے اس حالت میں جب میں نے اچانک یہ فقرہ پڑھا کہ عبداللہ خان آخر میں يقطعون ما امر الله به ان يوصل کا مرتکب ہوا تو میرا دل مرغ بسمل کی طرح تڑپا دیا اور مجھے لکھنے والے کے دل اور دماغ کی کیفیت پر رحم آیا.جب میری حالت کچھ سنبھلی اور میں کچھ غور کر سکا تو مجھے احساس ہوا کہ لکھنے والے نے یہ خط مجھے ہمدردی کی نیت سے نہیں لکھا اور یہ فقرہ اس کے قلم سے لاعلمی اور نہ منہی میں نہیں نکلا.اس نے یہ فقرہ عمداً لکھا ہے اور اسے لکھ کر میرے مرحوم بھائی کے مردہ جسم اور اس کی زندہ روح کو ایک مسموم خنجر کے ساتھ ذبح کرنا چاہا ہے...میں اپنے دل کے درد اور دکھ کا شکوہ نہیں کرتا.انما اشكوا بثي وحزنى الى الله.مولوی صاحب سے صرف اتنا کہتا ہوں اے ہلاک اللہ چه بد فهمیده والسلام خاکسار ظفر اللہ خان بیگ ۱۳؍ جولائی ۱۹۵۹ء جلد ۲۰ ۳۴ سال ۱۹۵۹ء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام خدام احمدیت کے نام میں سیلاب کے خطرے کے پیش نظر حضرت مرزا بشیر احمد نے خدام کو یہ پیغام دیا: -
تاریخ احمدیت 350 اس سال غیر معمولی طور پر برسات کے شروع میں ہی سیلاب کا زبر دست خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور پنجاب کے سارے دریاؤں میں عدیم المثال طغیانی کے آثار نظر آرہے ہیں.گزشتہ تجربہ بتاتا ہے کہ ایسے سیلابوں میں جانوں اور مالوں کا بے پناہ نقصان ہوا کرتا ہے.بے شمار جانیں ضائع جاتی یا زخمی ہوتی ہیں جن میں زیادہ تر عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور بیماروں اور پھر خصوصیت سے غریبوں اور بے سہارا لوگوں پر زد پڑتی ہے.اور یہی وہ طبقہ ہے جو زیادہ ہمدردی اور زیادہ امداد کا مستحق ہوتا ہے.اس کے علاوہ اجناس کے ذخیروں مکانوں اور مکانوں کے سامانوں اور راستوں اور پلوں اور ریلوں اور مویشیوں وغیرہ کے نقصان کا تو کوئی حد و حساب ہی نہیں رہتا.پس میں تمام مجالس خدام الاحمدیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ حسب سابق اس موقعہ پر آگے آئیں اور مخلوق خدا کی خدمت کا ثواب کمائیں.ڈوبتے ہوؤں کو بچائیں.ملبہ کے نیچے دبے ہوؤں کو نکالیں.زخمیوں کو دوائیں مہیا کریں.بھوکوں کو کھانا کھلائیں.شکستہ مکانوں کی مرمت کریں.مصیبت زدہ لوگوں کو حفاظت کے مقامات تک پہنچائیں اور مویشیوں اور سامانوں کو ضائع ہونے سے بچائیں اور جہاں جہاں حکومت کو یا بے یارو مددگار لوگوں کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو ان کی مدد کو فوراً پہنچیں.اور اس امداد میں مذہب و ملت کا کوئی لحاظ نہ رکھیں.ہمارا خدا سب کا خالق و مالک ہے.پس اس کی مخلوق کو جہاں بھی اور جیسی بھی امداد کی ضرورت ہو خدام الاحمدیہ چست بندگان خدا کی طرح لبیک لبیک کہتے ہوئے آگے آجانے چاہئیں.ومن كان في عون أخيه كان الله في عونه.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۶/۷/۵۹ جلد ۲۰ مجالس خدام الاحمدیہ نے اس ولولہ انگیز پیغام پر لبیک کہتے ہوئے خدمتِ خلق کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی تفصیلات اخبار الفضل میں موجود ہیں.۱۴؍ جولائی ۱۹۵۹ء کو ملک احمدی علماء کی سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے ایک ملاقات سیف الرحمن صاحب فاضل (مفتی سلسلہ احمدیہ ) مولوی غلام باری صاحب سیف استاذ جامعہ احمدیہ اور چوہدری عبدالحفیظ
تاریخ احمدیت 351 جلد ۲۰ صاحب ایڈووکیٹ ملتان نے سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری (امیر شریعت احرار ) سے ملاقات کی.شاہ جی ان دنوں ملتان شہر کے محلہ فرید آباد میں نہایت کسمپرسی کے عالم میں اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہے تھے.اس ملاقات کی تفصیل جناب سیف صاحب کے قلم سے سپر دقر طاس کی جاتی ہے.۱۴؍ جولائی ۱۹۵۹ء کی ایک شام محلہ فرید آباد ملتان میں ہم اپنے دوست منظور احمد صاحب کے ساتھ کھڑے تھے.باتوں باتوں میں منظور احمد صاحب نے کہا یہ وہ محلہ ہے جہاں عطاء اللہ شاہ بخاری رہتے ہیں.جو نہی منظور احمد صاحب نے یہ کہا فوراً ہم نے کہا پھر ان سے ملاقات کرائیے.بمشکل یہ فقرہ پورا کیا ہوگا کہ منظور احمد صاحب نے اشارہ کیا وہ جارہے ہیں بخاری صاحب.کپڑے کی ٹوپی پہنے ہلمل کا کرتہ زیب تن کئے ، دھوتی باندھے، سوٹی کو ٹیکتے ہوئے ، ساتھی کے کندھے پر ہاتھ رکھے موٹے شیشے کی عینک لگائے ، خراماں خراماں ایک سفید ریش مولوی صاحب چلے جا رہے تھے.ہم تینوں ملک سیف الرحمن صاحب، منظور احمد صاحب اور راقم الحروف آگے بڑھے.د السلام علیکم شاہ صاحب نے جواب میں وعلیکم السلام کہا.منظور احمد صاحب نے تعارف کرایا.میں نے مزاج پرسی کی.شاہ صاحب! کیا حال ہے؟ شاہ صاحب موٹے شیشے کی عینک میں سے دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے.شاہ صاحب کے متعلق جو کچھ سنا ہوا تھا اب اس کے صرف آثار ہی تھے.شاہ صاحب نے جواب دیا.” اچھا ہے.جیسا شامِ غریباں میں جنون کا ہونا چاہئے.“ اور اس فقرے کے ساتھ سر کو خاص انداز میں داد کے لئے جنبش دی اور رخصت ہو گئے.یہ تو سر را ہے ملاقات تھی.میں نے منظور احمد صاحب سے کہا بھئی شاہ صاحب سے کچھ باتیں کرنی ہیں.آپ وقت لیں اور کل پانچ بجے کا وقت مناسب ہوگا.چنانچہ انہوں نے ایک دوست کے ذریعہ وقت لیا اور ہم اگلے دن چوہدری عبدالحفیظ صاحب وکیل کے ہمراہ پانچ بجے شاہ صاحب کے دولت کدہ پر حاضر ہو گئے.پیچ در پیچ گلی میں سے ہم ہوتے ہوئے ایک مکان کے سامنے منظور صاحب نے ہمیں لاکھڑا کیا.ہم بیٹھک میں داخل ہوئے.ایک چھوٹا سا لڑکا اور ایک دیہاتی دوست چٹائی پر بیٹھے
تاریخ احمدیت 352 جلد ۲۰ تھے.اور آج دیکھا کہ فی الحقیقت یہاں شام غریباں کا نقشہ تھا.ایک طرف میلی چٹائی، دوسری طرف ایک چار پائی، ایک کو نہ میں نلکا اور اس کے پاس میلی سی بالٹی.چٹائی پر ایک میلا کچیلا گاؤ تکیہ.ہم بھی چٹائی پر بیٹھ گئے.شاہ صاحب کی اندرونِ خانہ سے آواز آرہی تھی کچھ دیر کے بعد شاہ صاحب تشریف لے آئے.سلیک علیک کے بعد تعارف ہوا تو فرمانے لگے کل ملاقات ہو جو گئی تھی.عرض کیا وہ تو سر را ہے تھی.آپ سے کچھ باتیں کرنے کی خواہش تھی.شاہ صاحب گویا ہوئے.” مجھے کیا ملنا ہے بھائی.مجھے کیا ملنا ہے.اور یہ کہنے کے ساتھ ہی اپنی بیماری کا قصہ شروع کر دیا.فلاں تاریخ تھی ، فلاں وقت تھا، مجھ پر اس طرح فالج کا حملہ ہوا.“ اور یہ حصہ بھی خاصہ دلچسپ تھا.خصوصاً اس کا وہ حصہ جب اسی دن محمد علی جالندھری آئے اور شاہ صاحب نے انہیں یہ المناک خبر سنائی کہ محمد علی مجھے فالج ہو گیا ہے.یہ قصہ بھی شاہ صاحب کی زبانی سنئے.شاہ صاحب فرمانے لگے.عشاء کی نماز کے لئے میں وضو کرنے لگا.ہاتھوں پر پانی ڈالا، ہاتھوں کو ملوں تو ہاتھ گرفت نہ کریں.دائیں ہاتھ پر پانی ڈالا تو ہاتھ بیگا نہ بیگا نہ معلوم ہوا.بائیں ہاتھ پر ڈالا تو کچھ اوپرا معلوم ہوا.منہ میں کلی کے لئے پانی ڈالا تو منہ کے دونوں طرف سے پانی بہہ گیا کہ منہ کی بھی گرفت نہ تھی.خیر میں نے وضو کیا، کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا تو پاؤں لڑکھڑا گئے.گرا ہی چاہتا تھا کہ سنبھلا اور پھر نماز پڑھنی شروع کی.یہ مسئلہ ہی ذہن سے نکل گیا کہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے.خیر نماز سے فارغ ہوا تو شدید بھوک محسوس کی.دودن سے میں نے داڑھ کی درد کی وجہ سے کچھ کھایا نہ تھا.اندرونِ خانہ گیا.بیوی سے کہا بیوی! مجھے فالج ہو گیا ہے.بیوی نے کہا ہا ئیں.بیٹی سے کہا بیٹیا! مجھے فالج ہو گیا ہے.بٹیا نے کہا ہا ئیں.میں نے کہا کچھ کھانے کو ہے؟ گھر والوں نے کہا آپ چونکہ کئی دن سے کھانا نہ کھاتے تھے اس لئے ہم نے آپ کے لئے کھانا تیار نہیں کیا.بیٹی نے کہا ہاں ابا کچھ ٹھنڈی کھچڑی ہے.چنانچہ بیٹی تام چینی کی تھالی میں کھچڑی ڈال کر لے آئی.میں نے کہا بٹیا کوئی سالن ہے؟ بیٹی نے کہا ابا شلجم کا ٹھنڈا سالن موجود ہے.میں نے کہا لاؤ.چنانچہ کھچڑی پر سالن ڈال کر منہ اوپر کر کے چمچہ سے اس میں کھچڑی ڈالنی شروع کی.کیونکہ مونہہ گرفت نہ کرتا تھا.اور اس طرح دو تھالیاں کھچڑی کی کھا کر اور ٹھنڈا پانی پی کر بیٹھک میں آگیا.ابھی آکر بیٹھا ہی تھا کہ مولوی محمد علی صاحب جالندھری ایک دوست کے ہمراہ تشریف لائے.میں نے کہا محمد علی مجھے فالج ہو گیا ہے.مولوی صاحب نے کہا ہائیں ! اور پھر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے.اور تھوڑی ہی دیر میں خراٹے لینے لگے.دوسرے دوست کو
تاریخ احمدیت 353 جلد ۲۰ میں نے کہا مجھے ذرا د با دو.چنانچہ اس نے خوب زور سے دبایا حتیٰ کہ مجھے پسینہ آ گیا.میں نے اوپر کپڑا اوڑھ لیا.اور سونے کی تیاری کرلی.محمدعلی کو جگا دیا کہ اب وہ جائیں کافی رات ہوگئی ہے.اللہ اللہ امیر شریعت کی زبان سے ان کا قدیم رفیق اور مرید با صفا یہ خبر سنے کہ انہیں فالج ہو گیا ہے اور دیوار سے ٹیک لگا کر سو جائے عقیدت کا کتنا شاندار مظاہرہ تھا.اب میں نے بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی اور عرض کیا شاہ صاحب! آپ نے ایک لمبا عرصہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کی ہے...ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ شاہ صاحب نے فوراً فقرہ کو قطع کیا اور فرمایا ”نہیں بھائی نہیں بھائی.ایمان اور اعتقاد کا معاملہ تھا کسی کی مخالفت نہ تھی.میں نے عرض کیا تو اب شاہ صاحب آپ کے تاثرات کیا ہیں؟ کہنے لگے تاثرات؟ ” بھائی تمہیں کام کرنا آتا ہے ہمیں کام کرنا نہیں آتا.ایک ایسے شخص کے منہ سے یہ سن کر جس نے اپنی ساری طاقت احمدیت کو مٹانے کے لئے صرف کر دی تھی دل کی عجیب کیفیت تھی اور ذہن نے اس فقرہ کا تجزیہ کرنا شروع کر دیا.کہ ایک مذہبی جماعت کے لیڈر کا اپنی ناکامی کے متعلق نتیجہ فکر یہ ہے کہ اسے کام کرنا نہیں آتا.کیا اسے انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر میسر نہ تھا ؟ کیا اسے اچھے ذہین اور کام کرنے والے کارکن میسر نہ تھے؟ اور یہ اس نے کب محسوس کیا ؟ کیا اس کا دھیان کامیابی یا نا کامی کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف منتقل نہ ہوا ؟ کیا اس نے اس بارگاہ ایزدی سے کبھی استمداد نہ کی تھی؟ کیا اس نے یہ مشاہدہ نہ کیا تھا کہ اس کے مقابل ایک حقیر سی جماعت کی ہر لمحہ غیب سے امداد ہوتی ہے؟ اور یہ فقرہ کہ ” بھائی تمہیں کام کرنا آتا ہمیں کام کرنا نہیں آتا شاہ صاحب نے دوبارہ دورانِ گے میں دہرایا.66 گفتگو میں نے پھر دوسرا سوال کیا.شاہ صاحب آپ کی کوئی تصنیف ؟ شاہ صاحب نے فرمایا ” بھائی آپ نے مجھے پہچانا ہی نہیں پہچانا تو تھا اسی لئے تو یہ سوال کیا تھا) میں نے کہا.شاہ صاحب آپ کی تقاریر کو ہی محفوظ کیا ہوتا.تقاریر کا کوئی مجموعہ ہی شائع ہوا ہوتا ؟ شاہ صاحب نے فوراً کہا ” بھائی آپ کی جماعت کے پاس الفضل میں ضرور محفوظ ہو گا.“ میں نے عرض کی کہ شاہ صاحب! جب تک جماعت احمدیہ قائم ہے آپ کے ارشادات بھی محفوظ رہیں گے.اور ہاں شاہ صاحب ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء کی ان معرکتہ الآراء تقاریر میں آپ نے بعض پیشگوئیاں کی تھیں.شاہ صاحب نے فرمایا ”نہیں نہیں بھائی میں نے کوئی پیشگوئی نہیں کی.حالانکہ اگر آج شاہ صاحب خودان تقاریر کو پڑھیں تو تعجب فرمائیں کہ کیا واقعی میں نے ایسا کہا تھا.کیونکہ جو کہا تھا آج ان کی آنکھ اس
تاریخ احمدیت کا حشر دیکھ رہی تھی.354 جلد ۲۰ اور پھر ایک اور موضوع پر تبادلہ خیالات کے دوران کہنے لگے.”آج تمام ہندو پاکستان میں آپ کی جماعت سے زیادہ مضبوط جماعت اور کوئی نہیں.“ سبحان اللہ! یہ فقرہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی زبان سے نکلوایا تھا جس کی آمد کے موقعہ پر آریہ سکول قادیان کے میدان میں شاعر نے ایک پنجابی نظم پڑھی تھی جس کا ایک شعر یہ تھا جیہڑی عمارت کھڑی اے ریت اتے اونہوں کرن لئی مسمار ایہہ معمار آئے لیکن وہ بھول گئے تھے اس دن کو اور اب یاد آ رہا ہوگا اور احقر نے تو کہہ ہی دیا.شاہ صاحب! تعمیر کا مقابلہ تخریب نہیں تعمیر ہے.میں نے پھر عرض کیا.شاہ صاحب! آپ آئندہ کے لئے اپنے رفقاء کار کو نصیحت فرما دیں کہ بع من نه کردم شما حذر بکنید کہنے لگے کیا مطلب؟ میں نے عرض کیا وہ جو تشدد کی تلقین ہوتی تھی.سٹیج پر ہاتھ میں کلہاڑی لے کر Pose بنا کر کہا جاتا تھا " واقتلوهم حيث ثقفتموهم" فرمانے لگے کسی غیر ذمہ دار نے یہ کہا ہوگا.عرض کی گئی کہ ایک فہرست شائع ہونی چاہئے تھی ذمہ داروں کی اور غیر ذمہ داروں کی.یہ گفتگو ہورہی تھی کہ ایک عورت ایک چھوٹا سا بچہ اٹھائے آئی اور عرض کیا.شاہ صاحب دم کر دیجئے بچہ بڑی اڑی“ کرتا ہے.شاہ صاحب نے جواب دیا اڑی تو آج سارے ہی کرتے ہیں.عورت نے پھر درخواست کی.شاہ صاحب بڑی ضد کرتا ہے.ماں کا دودھ نہیں پیتا.شاہ صاحب نے کہا پھر تو کوئی بڑا افسر بنے گا.پھر ہماری طرف مخاطب ہوئے اور یوں گویا ہوئے.”دیکھو خود بیمار دیگران را علاج اور زیر لب کچھ پڑھا اور بچے کے جسم پر پھونک ماردی.گفتگو کے سلسلہ کو جاری کرتے ہوئے میں نے عرض کی.شاہ صاحب! یہ مکان آپ کا اپنا ہے؟ کہنے لگے نہیں بھائی کرایہ دیتا ہوں.“ میں نے کہا شاہ صاحب ! کوئی مکان الاٹ کیوں نہیں کروایا.کیا آپ کا کوئی کلیم نہیں ہے؟ ” ہے بھائی بہت سا ہے.ہزاروں کا ہے.محفوظ ہے.روسی نوٹ کی طرح دیکھ لیتا ہوں.“
تاریخ احمدیت 355 جلد ۲۰ انگریز کے چلے جانے کا ذکر آیا تو کہنے لگے ” کہاں گیا ہے.کون کہتا ہے گیا ہے.اب امریکہ جو ہے چا ٹائم میں نے طرح دی کہ شاہ صاحب چانہیں تا یا ٹھہرا.بڑا بھائی ہے.”ہاں ہاں بھائی ترمیم منظور کرتا ہوں.اور پھر یوں گویا ہوئے ” کہاں گئے انگریز.تمہاری جماعت جو موجود ہے.انگریز کہاں گیا.“.میں نے عرض کی شاہ صاحب! پھر قرآن مجید کی اس آیت کا کیا مفہوم بنے گا.ولو تقول علينا بعض الاقاويل لاخذنا منه باليمين ثم لقطعنا منه الوتين.فما منكم من احد عنه حاجزين- کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر کوئی ہم پر افترا کرے تو ہمارے عذاب سے اسے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی.شاہ صاحب نے فرمایا پھر انگریز سب سے نیچے ہوئے.میں نے عرض کی شاہ صاحب! انگریز نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ خدا کے فرستادہ ہیں.شاہ صاحب نے فرمایا یہ تو بھئی دوسری بات ہے.اب شاہ صاحب یہ چاہتے تھے کہ یہ سلسلہ گفتگو ختم کیا جائے.چنانچہ ان کی خواہش کے پیش نظر ہم نے اجازت چاہی اور سلیک علیک کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے.اخبار چراغ سحر کا نوٹ اس سلسلہ میں مزید یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ جالندھر کے روز نامہ پرتاپ“ نے ”چراغ سحر“ کے زیر عنوان " حسب ذیل نوٹ لکھا : - و جس شخص کو متحدہ پنجاب میں خطیب الامت ، امیر شریعت، خطیب اعظم اور امیر احرار وو کہا جاتا تھا جس کی تقریروں پر لوگ جھوم اٹھتے تھے.جو انہیں ہنسانا بھی جانتا تھا اور رلانا بھی.جس کی آواز میں ایسا جادو تھا کہ لاکھوں کا مجمع مسحور و مبہوت بیٹھا رہتا تھا.اب پاکستان میں اپنے دن کس طرح کاٹ رہا ہے؟ یہ پاکستانی معاصر ” کوہستان کے سٹاف رپورٹر سے سنئے : - وہ ملتان کے ایک چالیس روپیہ ماہوار کرایہ کے مکان میں رہتا ہے.اتنی گمنامی کی زندگی بسر کر رہا ہے کہ محلہ والوں سے پوچھئے کہ بخاری کہاں ہے؟ تو وہ سر ہلا دیں گے.جوں جوں وہ زندگی کا سفر طے کر رہا ہے سارے رشتے آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں.بخاری اب زندگی کے افق کی ایک شفق ہے جسے نہ جانے کب موت کی سیاہی پاٹ جائے.زندگی اس کا ساتھ چھوڑنے کو ہے.ذیا بیطیس کا مرض ہے.بڑھاپے نے اس سے سب کچھ چھین لیا.حتی کہ قوت گویائی بھی عمر پا گئی ہے اور اب وہ نظر کی کمزوری کی وجہ
تاریخ احمدیت 356 سے کسی کو نہیں پہچانتا اور احباب اسے قصہ پارینہ سمجھ کر فراموش کر چکے ہیں.میں نے ان سے ان کی صحت کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ ذیا بیطیس کے ساتھ فالج کی بھی شکایت ہے بع چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں اس کے بعد سر پکڑ کر بیٹھ رہے.میں نے بات کرنا چاہی تو کہنے لگے.دعا کرو قبر کے لئے زمین نصیب ہو جائے.رہنے کے لئے گھر تو نہیں ملا.“ اس کے بعد معاصر کا نامہ نگار لکھتا ہے :- ایک زمانہ تھا کہ شاہ صاحب کے گرد ہر وقت عقیدتمندوں کا جمگھٹا رہتا تھا.اب زورِ بیان ختم ہو گیا تو سب ساون کے بادلوں کی طرح چھٹ گئے ہیں.کچھ اللہ کو پیارے ہو گئے اور جو باقی رہ گئے وہ زمانہ کے تقاضوں کے ساتھ ہو لئے.اب بڑھاپے کا یارا نہ رہ گیا ہے اور وہ بھی نہ جانے کب ٹوٹ جائے.“ کیسا حسرت ناک انجام ہے یہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا ؟ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت فصل سوم 357 جلد ۲۰ علامہ نیاز محمد خان نیاز مدیر "نگار" علامہ نیاز فتح پوری کا حقیقت افروز تبصرہ (ولادت ۱۸۸۷ء A وفات ۱۹۶۶ء) ہندوستان کے ایک نہایت بلند پایہ نقاد، ادیب اور روشن خیال عالم و فاضل تھے جو پوری زندگی متعصب اور فرقہ پرست مولویوں سے چومکھی لڑائی لڑتے رہے.مگر جہاں مولانا عبدالماجد دریا بادی جیسے وسیع المشرب عالم دین جماعت احمدیہ کی خدمات دینیہ کی برملا تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے وہاں علامہ نیاز ابھی تک خاموش تھے اس سال ان کی زندگی میں یہ خوشگوار علمی انقلاب رونما ہوا کہ انہوں نے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا شروع کیا اور پھر اس کی تائید میں ایک نڈر سپاہی کی طرح میدان میں آگئے.اور ہر نوع کے عواقب سے بے نیاز ہوکر بقیہ عمر اس جرات و بے باکی سے سلسلہ احمدیہ کے عظیم کارناموں کو سراہا کہ ادبی و مذہبی حلقوں میں زبردست ہلچل مچ گئی.اس سلسلہ میں پہلا حقیقت افروز تبصرہ آپ کے قلم سے رسالہ ” نگار لکھنو (اگست ۱۹۵۹ ء ) میں شائع ہوا جو بجنسہ درج ذیل کیا جاتا ہے." ملاحظات اب سے تقریباً ۶۰ سال پہلے کی بات ہے جب مناظرہ کی احمدی جماعت ایک کتاب ”سرمہ چشم آریہ میری نگاہ سے گزری اور یہ تھا میرا اولین غائبانہ تعارف اس کتاب کے مصنف جناب مرزا غلام احمد صاحب (بانی جماعت احمدیہ ) سے.میرے والد کو اس فن سے خاص دلچسپی تھی.اور یہ کتاب انہی کے اشارہ سے میں نے پڑھی تھی.یہ زمانہ میری طالب علمی کا تھا اور بعض معقول اساتذہ کے زیر اثر مذہب کا مجادلانہ ذوق میرے اندر بھی نشو ونما پا رہا تھا اس لئے مجھے یہ کتاب پسند آئی اور بار بار میں نے اس کا مطالعہ کیا لیکن یہ مطالعہ صرف کتاب ہی تک محدود رہا اور خود مرزا صاحب کی شخصیت یا ان کی مذہبی تبلیغ و اصلاح پر غور کرنے کا موقعہ مجھے نہ مل سکا.کیونکہ اس کی اہلیت و فرصت دونوں مجھے حاصل نہ تھیں.اول تو میں کمسن تھا
تاریخ احمدیت 358 دوسرے درس نظامی کی ” قال اقوال اور اس کی روایت پرستانہ گرفت سے کہاں چھٹکارا تھا کہ میں آزادی کے ساتھ کسی مسئلہ پر غور کرسکتا.تاہم یہ کتاب مرزا صاحب کی وسعت مطالعہ اور قوت استدلال کا بڑا گہرا اثر میرے ذہن وفکر پر چھوڑ گئی.اور عرصہ تک میں اس سے متاثر رہا.مجھے نہیں معلوم کہ احمدی تحریک کا آغاز اس وقت تک ہو چکا تھا یا نہیں اور اگر ہو چکا تھا تو اس کے مقاصد و دعاوی کیا تھے.لیکن اس کے بعد ضروری کوئی نہ کوئی آواز اس جماعت کے متعلق میرے کانوں میں پڑ جاتی تھی.اور وہ آواز یکسر مخالفانہ ہوتی تھی.زمانہ گزرتا گیا اور ختم تعلیم کے بعد بھی عرصہ تک میں احمدی تحریک سے بے خبر رہا لیکن اس دوران میں بعض ایسی کتابیں ضروری میری نگاہ سے گزرتی رہیں جو اس تحریک کی مخالفت میں شائع ہوئیں.اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ میں ان سے متاثر بھی ہوا لیکن یہ تاثر زیادہ تر سلبی قسم کا تھا ایجابی نہ تھا کیونکہ جو کچھ میں نے سنا وہ مخالفین کی زبان سے سنا.خود اس جماعت کے لٹریچر کی طرف سے میں بالکل خالی الذہن تھا.ان کتابوں نے بعض عجیب و غریب باتیں میرے ذہن نشین کرادی تھیں.مثلاً یہ کہ جماعت اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں سمجھتی.ان کی مسجد میں اور نمازیں جمہور سے علیحدہ و مختلف ہیں.وہ غیر احمدی جماعتوں سے رشتہ مصاہرات بھی قائم نہیں کرتے.نیز یہ کہ مرزا صاحب ختم نبوت کے قائل نہ تھے.اپنے آپ کو مثیل مسیح یا مہدی موعود کہتے تھے.وحی و الہام کا مہبط بھی قرار دیتے تھے.اور برطانوی حکومت کی حمایت حاصل کرنا ان کی تحریک کا حقیقی مقصد تھا.اس میں شک نہیں ان میں سے بعض باتیں مجھے پسند نہیں آئیں.اور میں اس تحریک کو بہ نظر استخفاف دیکھتا رہا.لیکن جب اس کے بعد میں نے دائره تقلید و روایات سے ہٹ کر غائت مذاہب کا مطالعہ شروع کیا اور انہی علماء اسلام کے افعال و کردار کو سامنے رکھا جو اس تحریک کے سخت دشمن تھے تو جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 359 جلد ۲۰ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر احمدی جماعت گمراہ ہے تو غیر احمدی جماعتیں اور ان کے اکثر علماء خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ، مقلد ہوں یا غیر مقلد ، اہل قرآن ہوں یا اہلِ حدیث کہیں زیادہ گمراہ ہیں.کیونکہ رسول اللہ کو خاتم النبیین ماننے کے بعد بھی وہ اسوۂ نبی کا اتنا احترام نہیں کرتے جتنا احمدی جماعت با وجود انکار ختم نبوت کے (حالانکہ یہ الزام صحیح نہیں ) کرتی ہے.اگر ( دین حق ) کی صحیح روح محض بلندی اخلاق و انسانیت پرستی ہے جس کا تعلق یکسر عملی زندگی سے ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کی ایک بے عمل جماعت کو تو ہم سچا مسلمان سمجھیں اور دوسری با عمل جماعت کو کافر و غیر مسلم قرار دیں محض اس لئے کہ اس کا بانی ومؤسس کچھ ایسی باتیں کہتا ہے جو نا قابل قبول معلوم ہوتی ہیں.اس میں شک نہیں کہ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جو چند مخصوص شعائر ومعتقدات نہ رکھتا ہو.لیکن حقیقی مقصود محض اصلاح اخلاق ہے اور عبادات و معتقدات صرف ذریعہ ہیں.تمدن و معاشرہ کی تنظیم و اخوت و انسانیت کی ترویج و اشاعت کا.پھر اس حقیقت کے پیش نظر آپ مسلم جمہور اور ان کے علماء کے حالات و کردار کا مطالعہ کریں گے تو صورتِ حال بالکل واژگوں نظر آئے گی.کیونکہ ان کے نزدیک ( دین حق کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ چند ما بعد الطبیعاتی عقائد کو تسلیم کر کے رسمی عبادت کر لی جائے اور ہیئت اجتماعی کے مسائل خیر و فلاح کو خدا پر چھوڑ دیا جائے حالانکہ خدا نے یہ چیز خود انسان پر چھوڑ دی تھی.(ليس للانسان الا ماسعى) اس سلسلہ میں جب میں نے مسلمانوں کی دوسری جماعتوں کا مطالعہ کیا تو عملی زندگی اور اصلاحی جد و جہد کے لحاظ سے کئی جماعتیں سامنے آئیں.بوہرہ ، میمن ، خوجہ ، بہائی، احمدی.ان میں سے اول الذکر تین جماعتوں کو میں نے نظر انداز کر دیا.کیونکہ وہ ایک مخصوص دائرہ کے اندر محدود ہیں.جس میں کوئی غیر شخص داخل نہیں ہوسکتا.بہائیوں کا دائرہ عمل بے شک زیادہ وسیع ہے اور عقائد سے قطع نظر اخلاقی حیثیت سے اس کی وسعت نظر مجھے پسند آئی.لیکن چونکہ یہ عجمی تحریک
تاریخ احمدیت 360 ہے اور سرزمین ہند سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس لئے اس کی کامیابی یہاں مجھے مستعبد نظر آئی.اب رہ گئی تھی صرف احمدی جماعت سو بے اختیار میرا جی چاہا کہ ان کی زندگی کا قریب تر مطالعہ کرنے کی غرض سے خود قادیان جاؤں لیکن افسوس ہے کہ یہ ارادہ فی الحال پورا نہ ہوسکا.(ممکن ہے کبھی پورا ہو جائے ) اور ان کا لٹریچر فراہم کر کے اس کا مطالعہ شروع کیا.پھر میں تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ از اول تا آخر میں نے اس کا سارا لٹریچر پڑھ لیا ہے لیکن جتنا کچھ میسر آیا وہ بھی نتیجہ تک پہنچنے اور صحیح رائے قائم کرنے کے لئے کافی تھا.اس سلسلہ میں سب سے پہلے ان کے معتقدات میرے سامنے آئے.اور ان میں کوئی بات مجھے ایسی نظر نہ آئی جو جمہور مسلم کے معتقدات کے منافی ہو.یعنی مسلمان ہونے کی جو شرطیں دوسری مسلمان جماعتوں میں ضروری قرار دی جاتی ہیں وہی ان کے یہاں بھی ہیں.اور ان کے اس عقیدہ کو نظر انداز نہ کر دیا جائے کہ مرزا غلام احمد مثیل مسیح یا مہدی موعود تھے تو تمام عقائد و شعائر میں یکساں ہیں.میں نے ان کی تفاسیر دیکھیں ان کا استناد بالاحادیث دیکھا ان کی کتب تاریخ و سیر کا مطالعہ کیا لیکن ان میں کوئی بات ایسی نظر نہیں آئی جو مسلمہ جمہور کے خلاف ہو.یہاں تک کہ انکار ختم نبوت کا الزام بھی مجھے بالکل غلط نظر آیا.رہا دعویٰ مہدویت سو اس سے انکار کی بھی کوئی وجہ نظر نہیں آئی.جبکہ خود کلام مجید سے ہر زمانہ اور ہر قوم میں کسی نہ کسی بادی و مصلح کا پیدا ہونا ثابت ہے.اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مرزا صاحب جھوٹے انسان نہیں تھے وہ واقعی اپنے آپ کو مہدی موعود سمجھتے تھے اور یقیناً انہوں نے یہ دعوی ایسے زمانہ میں کیا جب قوم کی اصلاح و تنظیم کے لئے ایک ہادی و مرشد کی سخت ضرورت تھی.علاوہ اس کے دوسرا معیار جس سے ہم کسی کی صداقت کو جان سکتے ہیں نتیجہ عمل ہے.سو اس باب میں احمدی جماعت کی کامیابیاں اس درجہ واضح و روشن ہیں کہ اس سے ان کے مخالفین بھی انکار کی جرأت نہیں کر سکتے.اس وقت دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں ان کی تبلیغی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 361 جلد ۲۰ جماعتیں اپنے کام میں مصروف نہ ہوں.اور انہوں نے خاص عزت و وقار نہ حاصل کرلیا ہو.پھر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ کامیابیاں بغیر انتہائی خلوص و صداقت کے آسانی سے حاصل ہو سکتی تھیں.کیا یہ جذ بہ خلوص و صداقت کسی جماعت میں پیدا ہو سکتا ہے اگر اسے اپنے ہادی و مرشد کی صداقت پر یقین نہ ہو.اور کیا وہ ہادی و مرشد اتنی مخلص جماعت پیدا کر سکتا تھا اگر وہ خود اپنی جگہ صادق مخلص نہ ہوتا.بہر حال اس سے انکار ممکن نہیں کہ مرزا صاحب بڑے مخلص انسان تھے.اور یہ محض ان کے خلوص کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی بے عمل جماعت میں عملی زندگی کا احساس پیدا ہوا.اور ایک مستقل حقیقت بن گیا.۴۲ 66 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ولولہ ۱۹ار اگست ۱۹۵۹ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ہندوستانی احمدیوں کے نام حسب ذیل انگیز پیغام ہندوستانی احمدیوں کے نام پیغام ارسال فرمایا جو بدر ۲۷ اگست ۱۹۵۹ء کے صفحہ ۲۱ میں نمایاں قلم کے ساتھ اشاعت پذیر ہوا: - بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود مکرمی و محترمی ناظر صاحب اعلیٰ قادیان وو السلام عليكم ورحمة الله وبركاته میری طرف سے ذیل کا پیغام دوستوں تک پہنچا دیا جائے.مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی کہ بھارت کے تمام شہریوں کے لئے اب کشمیر کا رستہ کھل گیا ہے بلکہ ایک تربیتی وفد بھی قادیان کے دوستوں کا کشمیر کی وادی میں ہو آیا ہے.اللہ تعالیٰ اس وفد کی نیک مساعی کو کامیاب کرے اور کشمیر کے احمدیوں کو نہ صرف اخلاص اور تقویٰ اور عمل صالح میں ترقی دے بلکہ ان کی تعداد کو بھی بڑھائے.آمین یا ارحم الراحمین.کشمیر کے ساتھ خدا کے فضل سے ہمارا خاص روحانی تعلق ہے.کیونکہ اول تو اس کے مرکزی شہر سرینگر میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا مزار ہے جن کا مثیل بنا کر خدا نے ہمارے سلسلہ کے مقدس بانی کو مبعوث
تاریخ احمدیت 362 کیا.دوسرے اس مزار کا انکشاف بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہوا تھا.تیسرے خدا نے اپنے فضل سے کشمیر اور جموں کو اس جہت سے بھی نوازا ہے کہ اس میں ہماری جماعت کی ایک بھاری تعداد پائی جاتی ہے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض قدیم رفقاء خاص بھی گزرے ہیں.پس اس مثلث روحانی رشتہ کی وجہ سے ہمارے دلوں میں کشمیر اور اہلِ کشمیر کی خاص محبت پائی جاتی ہے.اور میں چاہتا ہوں کہ اب جب کہ بھارت کے احمدیوں کے لئے کشمیر کا رستہ کھل گیا ہے انہیں اپنے کشمیری بھائیوں کی روحانی اور دینی اصلاح و ترقی کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے وہ حضرت مسیح ناصری کے حواریوں اور حضرت مسیح محمدی کے مقدس رفقاء کی طرح ان کے اندر ایسی پاکیزگی کی روح پھونکیں کہ وہ خدا رسیدہ لوگوں کی طرح گویا روحانی مقناطیس بن جائیں تا کہ لوگ ہر طرف سے ان کی طرف بے اختیار کھچے چلے آئیں.مگر یاد رکھو کہ ( دین حق ) اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق ہمارا کام نہایت پر امن طریق پر ملکی قانون کے مطابق محبت اور نرمی اور آشتی اور صلح جوئی کے رنگ میں ہونا چاہئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تجویز فرمائی تھی ضروری ہے کہ اپنی کوششوں کو ( دینِ حق ) اور احمدیت کی خوبیوں کے بیان کرنے تک محدود رکھا جائے اور کسی دوسرے مذہب یا فرقہ پر حملہ نہ کیا جائے.قرآن مجید فرماتا ہے:.ادع الى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة“ ”لا اكراه في الدين.جلد ۲۰ د یعنی اپنے رب کے رستے کی طرف دلائل اور حکمت اور نصیحت کے رنگ میں بلاؤ.دین کے معاملہ میں کسی قسم کا دباؤ نہیں ہونا چاہئے.“ پس اپنے دینی بھائیوں کو میری یہی نصیحت ہے کہ چونکہ مذکورہ بالا وجود کی بناء پر کشمیر کا ملک ہمیں بہت پیارا ہے اس لئے اہل کشمیر اور ان کے ہم وطنوں کو چاہئے کہ اصلاح وارشاد کے کام میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں.حسن اتفاق سے بھارت کی حکومت اس وقت خود اپنے بیان کے مطابق ایک لا دینی حکومت ہے.اسے تمہاری پرامن دینی مساعی پر کوئی اعتراض نہیں
تاریخ احمدیت 363 ہوسکتا.پس خوش ہو کہ تمہاری روحانی کوششوں کے لئے میدان خالی اور موقعہ بہت وسیع ہے.لہذا اس وقت کو غنیمت جانو اور سچے درویشوں اور گرو کے بھگتوں کی طرح اس خدمت خلق میں لگ جاؤ اور اپنے اخلاق اور اپنے کردار کو ایسا دلکش بناؤ کہ تمہیں دیکھ کر لوگوں کو گزشتہ زمانوں کے ولیوں اور رشیوں کے چہرے نظر آنے لگیں اور تمہیں مل کر لوگ روحانی سرور اور دلوں کا سکون حاصل کریں.یہ بھی یاد رکھو کہ نہ صرف قرآنی تعلیم بلکہ ہندوستان میں گاندھی جی اور پاکستان میں قائد اعظم کی بار بار کی تلقین کے ماتحت ہم سب کے لئے یہ ایک پختہ اور زریں ہدایت ہے کہ جس ملک میں ہم رہیں اس کے نیچے وفادار بن کر رہیں.ہماری جماعت کے مقدس بانی کو تو اپنی دینی خدمات میں اتنا انہماک اور استغراق تھا کہ انہوں نے بڑے جوش کے ساتھ فرمایا : - تاج و تخت بند قیصر کو مبارک ہو مدام ان کی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہِ روزگار مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار ان اشعار میں گو اس زمانہ کے حالات کے مطابق صرف قیصر ہند کا نام لیا گیا ہے مگر جیسا کہ ان اشعار کی روح سے ظاہر ہوتا ہے مراد یہ ہے کہ جماعت احمد یہ ایک خالص دینی جماعت ہے جس کا اصل کام دین الہی کی خدمت اور مخلوق خدا کی سیوا سے تعلق رکھتا ہے.لہذا ہر وہ حکومت جو ملک میں امن و انصاف قائم رکھتی اور پبلک کی فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف رہتی ہے وہ بلا استثناء ہمارے دلی تعاون اور تعریف کی حقدار ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے ہندوستانی اور قادیانی بھائی اس اصول کو سامنے رکھ کر اپنے آپ کو خدا کے بچے بھگت ثابت کریں گے اور خصوصیت کے ساتھ کشمیر کی مخلصانہ روحانی خدمت کی طرف توجہ دیں گے.کیونکہ اس خطہ ارض کا جسے دنیا کے لوگوں نے جنت ارضی کا نام دیا ہے ہم پر دہرا بلکہ تہراحق ہے.پس آؤ کہ ہم دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اپنی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 364 خدا داد روحانی طاقتوں کے ذریعہ اس ملک کی خدمت میں لگ جائیں.ہمارا خدا سب اسود و احمر کا مالک و آقا اور تمام گوروں، کالوں کا خالق اور رازق اور تمام پست و بلند قوموں کا حقیقی معبود ومسجود ہے اور اسی کے قدموں ا میں ہماری زندگی بسر ہونی چاہئے اور وہی ہماری کوششوں کو بارآور کرنے والا ہے.ولاحول ولا قوة الا بالله العظيم.وآخر دعونا ان الحمد لله رب العالمين.والسلام خالق ارض وسما کا ادنیٰ خادم جلد ۲۰ خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ ۱۹ / اگست ۱۹۵۹ء بشپ آف کراچی سے تبلیغی گفتگو ربوہ میں پادری صاحبان سے مذاکرہ کے قریباً دو ماہ بعد مولانا ابوالعطاء صاحب اگست ۱۹۵۹ء کے آخری عشرہ میں کوئٹہ تشریف لے گئے جہاں ان کی بشپ آف کراچی اور بعض دیگر پادری صاحبان سے تبادلہ خیالات ہوا.جس سے پاکستانی کلیسیا پر حجت تمام ہو گئی.مولانا ابوالعطاء صاحب نے اس اہم دینی گفتگو کی تفصیلات بھی رسالہ الفرقان ستمبر ۱۹۵۹ء میں شائع کر دیں.مولانا عبدالمجید صاحب سالک کی وفات اس سال جماعت احمد یہ پٹھانکوٹ کے ممتاز رکن منشی غلام قادر صاحب سیکرٹری میونسپل کمیٹی کے چشم و چراغ، حضرت مولانا عبد اللہ بکل مصنف ”ارج المطالب“ کی سکے زئی برادری کے درخشندہ گوہر اور برصغیر پاک و ہند کے مایہ ناز صحافی وادیب اور صاحب طرز شاعر مولانا عبدالمجید صاحب سالک ۲۷ ستمبر ۱۹۵۹ء کو راہی ملک بقا ہو گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.۴۴ مولانا سالک صاحب ۱۳ / دسمبر ۱۸۹۴ء کو قادیان دارالامان کے ماحول میں واقع قصبہ بٹالہ میں پیدا ہوئے.۱۹۱۲ ء میں پٹھان کوٹ سے ادبی ماہنامہ ” فانوس خیال“ جاری کر کے صحافتی زندگی میں قدم رکھا.حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل کا بیان ہے کہ :- ۱۹۱۲ء کا ذکر ہے کہ ان کا ایک خط پٹھانکوٹ سے مجھے موصول ہوا کہ میں ایک ادبی رسالہ ماہوار شائع کرنا چاہتا ہوں اس کا پہلا نمبر مجھے چھپوا
تاریخ احمدیت 365 جلد ۲۰ دیں.مجھے لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد صاحب اور چچا صاحب مخلص احمدی تھے اور قادیان آتے جاتے تھے.میں "بدر" سے حضرت خلیفہ ثانی کے زور دینے پر تفخیذ الاذہان میں منتقل ہو چکا تھا اور ضیاء الاسلام پریس کے بعد میگزین پریس دستی میرے زیر اثر تھا اور میرے مضامین واشعار بعض بیرونی اخبار میں چھپتے تھے.جن سے میرا تعارف سلسلہ سے باہر بھی تھا.میں نے ان کو لکھا کہ نیا رسالہ ایک مبتدی کا مقبولِ عام نہیں ہو سکے گا.کیوں خواہ مخواہ خرچ کرتے ہومگر وہ چند روز بعد رسالہ کا مسودہ غالبا کا پیاں لے کر آگئے.میں نے کہا جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوں.وہ بہت جلد مجھ سے بے تکلف ہو گئے.میں بوجہ دائم المرض اور کمزور ہونے کے ایک تخت پر گدا ڈال کر کام کیا کرتا تھا.وہ میرے پاس ہی بیٹھے تھے میں ان سے باتیں بھی کرتا جاتا اور کچھ لکھ بھی رہا تھا پوچھا یہ کیا لکھ رہے ہیں.میں نے کہا ”نظم “ اور آپ سے خطاب ہے’ سالک راہ ھدی آجا ادھر جان من ظلمت کدے میں کچھ نہیں نور منزل میں عصا شوق گاڑ چاہیئے ہرگز نہ اہلِ ارض کو آسمان کے رہنے والوں سے بگاڑ آفتاب صدق سے دے گا روشنی کھول دے تو خانہ دل کے کواڑ دست بازو اکمل محزوں کا بن! بند کر اس کے عدو کی چھیڑ چھاڑ یہ پندرہ سولہ اشعار کی نظم تھی میں نے جب قوافی کے بارے میں عرض کیا تو دو چار قافیے مہیا کئے.کہنے لگے چچا صاحب نے بھی توجہ دلائی تھی اور آپ بھی کہتے ہیں.میں حضرت خلیفہ امسیح (اول) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں.میں نے کہا وہ آپ کے والدین اور عمو صاحب کو جانتے ہیں میرے ساتھ جانے یا تعارف کی ضرورت نہیں.اس طرح ان کے اخلاق فاضلہ کا اندازہ بھی ہو جائے گا ساتھ دفتر کا ایک آدمی کر دیا وہاں سے ایک گھنٹہ بعد واپس آئے کہ لو قاضی صاحب تعمیل ارشاد کر آیا بیعت بھی ہو گئی.مسائل کا علم تو مجھے پہلے ہی سے کافی
تاریخ احمدیت ہے ان کی بزرگی کا خاص اثر ہے." 366 جلد ۲۰ مولانا سالک صاحب کو حضرت سیدنا مصلح موعود کی ذات بابرکات کے ساتھ ابتداء ہی سے خصوصی محبت تھی.چنانچہ انہوں نے حضور کے سفر مصر و حجاز پر روانگی کے وقت ایک شاندار الوداعی نظم کہی جو اخبار بدر قادیان ۱۰ راکتو بر ۱۹۱۲ء صفحہ ۷ پر شائع ہوئی.مولانا سالک صاحب یکم نومبر ۱۹۲۰ء کو مولانا ظفر علی خان کے روز نامہ زمیندار (لاہور) کے عملہ ادارت سے منسلک ہوئے اور اپنی خداداد قابلیت سے چیف ایڈیٹر بن گئے اور ۲۱ مارچ ۱۹۲۷ء تک اس کی ادارت کے فرائض بجا لاتے رہے.۱۹۲۲ء میں ہندوؤں نے ملکانہ راجپوتوں میں شدھی کی ناپاک تحریک جاری کی تو مسلمانوں میں تنظیم اور انسداد شدھی کے لئے حرکت پیدا ہوئی اس دور میں جماعت احمدیہ کی شاندار خدمات دینیہ کو جہاں دوسرے روشن خیال مسلمانوں نے زبر دست خراج تحسین ادا کیا وہاں مولانا سالک بھی بہت متاثر ہوئے.آپ خود فرماتے ہیں ”ملکا نہ راجپوتوں میں انسداد ارتداد اور تبلیغ دین حق ) کا کام شروع ہوا بریلوی ، دیوبندی ، شیعہ، احمدی ، لاہوری احمدی، میر نیرنگ کی جمعیۃ الاسلام کے مبلغ غرض ہر فرقے اور ہر جماعت کے کارکن آگرہ اور نواحی علاقوں میں پھیل گئے.چاہئے تو یہ تھا کہ مل جل کر ( دین حق ) کی خدمت کرتے لیکن ان جماعتوں نے وہاں آپس میں لڑنا شروع کر دیا.صرف احمدی مبلغین تو کچھ کام کرتے تھے.اور باقی تمام فرقوں کے لوگ یا آپس میں مصروف پریکار تھے یا احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے شائع کرتے تھے.غرض ان لوگوں کی مال اندیشی اور نفسانیت نے انسداد ارتداد کو نا ممکن بنا دیا اور کفر کی مشین پوری قوت سے چلتی رہی.۴۸ 66 مولانا سالک صاحب نے ۱۲ اپریل ۱۹۲۷ء کو مولانا غلام رسول صاحب مہر کے ساتھ مل کر روزنامہ انقلاب“ جاری کیا جو اکتوبر ۱۹۴۹ ء تک نکلتا رہا.ادارت ”انقلاب“ کے زمانہ میں انہوں نے حضرت مصلح موعود کی قریباً ان تمام تحریکات کی پوری قوت سے حمایت کی جو حضور نے مسلمانانِ ہند کی ترقی و بہبود کے لئے جاری فرما ئیں.آپ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور بعد ازاں کشمیر ایسوسی ایشن کے سرگرم ممبر تھے.چنانچہ دونوں تنظیموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- کشمیر کے ان ہولناک حوادث سے ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں شدید اضطراب پیدا ہو گیا.لاہور ، دہلی اور دوسرے بڑے شہروں میں ڈوگرہ راج کے خلاف عظیم الشان جلسے منعقد ہوئے.اس کے بعد شملہ میں مقتدر اور نمائندہ مسلمانوں کا ایک اجلاس ہوا جس میں جموں اور کشمیر کے
تاریخ احمدیت 367 جلد ۲۰ بعض معززین بھی شریک ہوئے.یہاں آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی گئی.جس کے صدر مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمد یہ منتخب کئے گئے.66 اختلاف پیدا ہوا تو مرزا بشیر الدین محمود احمد نے صدارت سے استعفاء دے دیا اور علامہ اقبال ان کی جگہ عارضی طور پر صدر منتخب ہوئے لیکن مرزا صاحب کے علیحدہ ہو جانے سے ان کے احباب و مریدین نے جو کمیٹی کے اصلی کا رکن تھے کشمیر کمیٹی کے کام میں دلچسپی لینا ترک کر دیا اور یہاں کوئی اور کارکن تھے ہی نہیں لہذا علامہ نے بھی کمیٹی کی صدارت سے استعفاء دے دیا اور کمیٹی ہی کے خاتمہ کا اعلان کر دیا.نیز لکھتے ہیں :- ” جب احرار نے احمدیوں کے خلاف بلاضرورت ہنگامہ آرائی شروع کر دی اور کشمیر کی تحریک میں مخالف عناصر کی ہم مقصدی و ہمکاری کی وجہ سے جو قوت پیدا ہوئی تھی اس میں رخنے پڑ گئے تو مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفاء دے دیا.اور ڈاکٹر اقبال اس کے صدر مقرر ہوئے.کمیٹی کے بعض ممبروں اور کارکنوں نے احمدیوں کی مخالفت محض اس لئے شروع کر دی کہ وہ احمدی ہیں یہ صورتِ حال مقاصد کشمیر کے اعتبار سے سخت نقصان دہ تھی.چنانچہ ہم نے کشمیر کمیٹی کے ساتھ ہی ساتھ ایک کشمیر ایسوسی ایشن کی بنیا د رکھی جس میں سالک، مہر، سید حبیب، منشی محمد دین مشہور کشمیری مؤرخ) مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کے احمدی اور 66 غیر احمدی رفقا ء سب شامل تھے.انقلاب کو یہ منفر د خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے خطبہ الہ آباد سے پہلے پاکستان کا مطالبہ کیا اور اس ضمن میں مرتضی حسن میکش کے مضامین شائع کئے اور اس کے بعد بھی مسلمانوں کا موقف نہایت مدلل رنگ میں پیش کیا.گو تحریک پاکستان کے دوران اس نے زیادہ تر یونینسٹ پارٹی کی ترجمانی کی تاہم ڈاکٹر عبد السلام صاحب خورشید کے یہ الفاظ حقیقت پر مبنی ہیں کہ اگر مؤرخ کو برعظیم کی سیاسی تاریخ کے دوران اس سوال کا جواب دینا ہو کہ مسلمانوں کو کانگرس سے الگ کرنے میں کس اخبار کا سب سے زیادہ دخل ہے تو
تاریخ احمدیت 368 جلد ۲۰ ۵۴ اس میں یقیناً انقلاب کا نام لیا جائے گا.۱۹۴۷ء کے خونچکاں دور میں مولانا سالک نے اپنے اخبار انقلاب میں قادیان کے ۵۵ جانفروش احمدی نوجوانوں کے کوائف اور ان کی ملی خدمات کا متعدد بار ذکر کیا.۷/نومبر ۱۹۴۸ء کو حضرت مصلح موعود کی دعوت پر دوسرے صحافیوں کے ساتھ آپ بھی ربوہ تشریف لائے اور حضور کی پریس کانفرنس میں شرکت کی.۱۹۵۰ء میں آپ پاکستان کے مرکزی محکمہ اطلاعات سے منسلک ہو گئے اور تین سال تک کام کرتے رہے.۱۸ نومبر ۱۹۵۲ء کو روزنامہ ”آفاق لاہور میں احراری علماء کے ہنگامہ تکفیر کے خلاف آپ کا ایک حقیقت افروز مقالہ شائع ہوا جس میں آپ نے بتایا کہ 'جب ( دینِ حق ) جیسے سادہ و آسان دین میں منطقیانہ موشگافیاں ہونے لگیں تو ایسے علماء پیدا ہونے لگے جنہوں نے اخوت اسلامی اور اتحاد ملی کو بالائے طاق رکھ کر تکفیر کی تیغ بے پناہ بے نیام کر لی اور پھر ان کی ضربوں سے کوئی مسلمان محفوظ نہ رہا.“ اس تمہید کے بعد آپ نے آئمہ دین، اکابر امت، سرسید احمد خان ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دیو بند اور دیوبندی علماء اور زمانہ حال کے دیگر مسلمان سیاسی ، قومی اور مذہبی لیڈروں کے فتویٰ تکفیر کا نشانہ بنائے جانے کا ذکر کیا اور پھر تمام فرقوں کی تکفیر با ہمی کا اندوہناک منظر پیش کرنے کے بعد لکھا کہ : - اس ہنگامہ تکفیر کو ( دین حق ) سے کوئی ترقی نہیں.اللہ اور رسول اور آئمہ دین اس سے کاملاً بری ہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ ( دینِ حق ) کلمہ تو حید ہے جو تمام مسلمانوں کو ایک کر دیتا ہے.جو شخص اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ لا الہ الالله محمدرسول الله (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدم اس کے رسول اور پیغمبر ہیں) وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے.“ اپریل ۱۹۵۴ء میں فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت کی طرف سے انگریزی میں رپورٹ پیش کی گئی جس کا با محاورہ اردو ترجمہ مولانا سالک صاحب کے قلم کا رہین منت تھا.زندگی کے آخری سالوں میں آپ نے متعدد تصانیف لکھیں مثلاً ”یاران کہن“ ”ذکر اقبال اور سرگزشت جس میں حضرت مسیح موعود، حضرت مصلح موعود اور جماعت احمدیہ کا عمدہ پیرا یہ میں ذکر کیا.آپ نے ”ہندوستان میں اسلامی تمدن کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی جس پر یونیسکو نے آپ کو چار سو اسی ڈالر کی رقم بطور انعام دی.علاوہ از میں حکومت پاکستان نے ان کی علمی وادبی
تاریخ احمدیت 369 جلد ۲۰ خدمات کے اعتراف میں پانچ سو روپے ماہوار کا وظیفہ دیا جو آخر تک جاری رہا.۵۷ مولانا سالک صاحب کے المناک حادثہ ارتحال پر احمد یہ پریس نے نہایت درجہ رنج و غم کا اظہار کیا اور اسے عظیم قومی اور ملی المیہ سے تعبیر کیا.ا.جماعت احمدیہ کے مرکزی ترجمان اخبار الفضل“ نے اپنی ۲۹ ستمبر ۱۹۵۹ء کی اشاعت میں آپ کے المناک انتقال کی خبر نمایاں رنگ میں صفحہ اول پر شائع کی.نیز آپ کی مختصر سوانح اور شاندار علمی اور ملی کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا: - سالک صاحب مرحوم ایک صاحب طرز ادیب، نامور صحافی اور بلند پایہ مصنف ہونے کے علاوہ بہت مرنجان مرنج اور صلح کل انسان تھے.اور حق بات کو بیان کرنے میں بہت بے باک واقع ہوئے تھے.ہمدردی خلائق کا جذبہ بھی آپ میں نہایت درجہ تھا.نیز فطرتاً بذلہ سنج اور ظریف الطبع واقع ہوئے تھے.جب گویا ہوتے تو باغ و بہار دکھلا دیتے تھے.ان خوبیوں کی وجہ سے آپ ہر حلقے اور ہر طبقے میں بہت ہر دلعزیز تھے اور بلا امتیاز سب لوگ ہی آپ کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے.ادارہ الفضل آپ کی وفات کو ایک قومی نقصان قرار دیتے ہوئے آپ کی وفات پر دلی رنج والم کا اظہار کرتا ہے اور آپ کے افراد خاندان کے ساتھ دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتا ہے اور دست بدعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا ہر طرح حامی و ناصر ہو.آمین.“ ۲- چوہدری عبدالسلام صاحب اختر ایم اے پرنسپل تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں نے لکھا : - مولانا عبدالمجید صاحب سالک جو ہمارے ملک کے کہنہ مشق صحافی اور صف اول کے ادیب و انشا پرداز تھے وفات پاچکے ہیں.ان کی وفات پر ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے اہلِ قلم اور اخبار نویس حضرات تو بہر حال لکھیں گے اور لکھ رہے ہیں دوسرے لوگ بھی ان کے صدمے کو ویسے ہی محسوس کر رہے ہیں جیسے کہ ان کے خاندان کے افراد یا دیگر قلمکار ادب کسی طبقہ یا فرقہ کی اثاث نہیں اور نہ ہی کسی قوم تک محدود ہے.سالک صاحب کی بذلہ سنجی اور طبیعت کی ایک بے پایاں بحر تھا.جس سے ہر خاص و عام شاد کام تھا.جہاں تک مجھے یاد ہے وہ ربوہ میں چار پانچ دفعہ تشریف لائے.سب سے پہلی دفعہ ۱۹۴۸ء میں جب سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ربوہ میں پریس کانفرنس طلب فرمائی اور سابق پنجاب کے تقریباً تمام چنیدہ اخبار نویس یہاں آئے
تاریخ احمدیت 370 جلد ۲۰ تو سالک صاحب بھی تشریف لائے.کانفرنس کے دوران میں بھی اور اس کے بعد بھی سالک صاحب کی خوش طبعی سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور دیگر اہلِ محفل بار بار مسکراتے اور خوشی کا اظہار فرماتے.کھانے کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا کہ مہمان حضرات کو ربوہ کے قرب و جوار کے علاقے کی سیر کرائی جائے.چنانچہ ہم مختلف پہاڑیوں کا چکر لگانے کے بعد ایک کھلی جگہ آ بیٹھے.ہم لوگ ایک دائرہ میں بیٹھے تھے اور سالک صاحب صدر محفل تھے کہ ایک دوست نے اشعار‘“ کی فرمائش کی ہم نے اپنا اپنا کلام پیش کیا.آخر میں جب سالک صاحب کی باری آئی تو آپ نے غالباً پہلی دفعہ اپنی وہ مشہور نظم سنائی جو بعد میں تمام بزم سخن کی جان قرار پائی اس کا ایک شعراب بھی بے اختیار میری زبان پر آ رہا ہے.کبھی ماضی منور تھا اگر ، تو ہم نہ تھے حاضر جو مستقبل کبھی ہو گا درخشاں، ہم نہیں ہوں گے سالک صاحب کی مرنجاں مرنج طبیعت کی وجہ سے ایک عالم ان کا گرویدہ تھا.جماعت احمدیہ کے درجنوں نہیں سینکڑوں افراد سے ان کے مراسم نہایت دوستانہ تھے اور خود حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے عقیدت کے جذبات ان کے دل میں موجود تھے.۵۸ - مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مدیر ” الفرقان“ نے تحریر فرمایا : - مولانا سالک مرحوم احمدی والدین کے ہونہار فرزند اور احمدی بھائیوں کے ہمدرد بھائی تھے.احمدیت کی چاشنی سے انہوں نے کافی حصہ پایا اور نہایت قابلِ شکر یہ حد تک جماعت کی امداد و اعانت بھی کرتے رہے گو وہ با قاعدہ سلسلہ میں داخل نہ تھے.مرنجاں مرنج بزرگ تھے.بہت بڑے ادیب تھے ان کا انتقال ایک بہت بڑا قومی اور ملکی صدمہ ہے.۴.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے رسالہ "المنار" نے حسب ذیل ادارتی نوٹ شائع کیا :- اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی ۵۹ 66 حال ہی میں مولانا عبدالمجید صاحب سالک ہم سے جدا ہوئے ہیں.اناللہ وانا الیہ راجعون.ہر مخلص اور ہمدرد ادیب قوم کی متاع عزیز ہوتا ہے.ایک ایسا ستارہ جس کی روشنی میں قومی کارواں منزل کی طرف بڑھتا ہے.سالک بھی ایک ایسا ہی ستارہ تھا جو صحافت اور ادب کے آسمان پر پوری تابانی سے جگمگاتا رہا!! یہی وجہ ہے کہ مولانا کی وفات کا صدمہ ملک کے
تاریخ احمدیت 371 جلد ۲۰ گوشے گوشے میں محسوس کیا گیا ہے.مرحوم کے فن اور تحقیق و تدقیق کے جذبہ سے قوم کے علمی اور ادبی سرمائے میں گرانقدر اضافہ ہوا ہے..66 مرحوم کی آخری تصنیف ”مسلم ثقافت ہندوستان میں ایشیا کی بہترین کتاب سمجھی گئی ہے.اور یونسکو نے مصنف کو انعام کا مستحق قرار دیا ہے.یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس پر ملک وقوم فخر کر سکتے ہیں.مولانا مرحوم یوں تو بہت سی خوبیوں کے مالک تھے لیکن سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ادبی ، علمی بلکہ ہر شعبہ زندگی میں نوجوانوں کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے کا مقدس جذ بہ آپ کے حساس دل میں پوری طرح موجزن تھا.مولانا مرحوم کئی مرتبہ ربوہ آئے.آخری بار ۱۹۵۵ء میں تعلیم الاسلام کالج کے ایک مشاعرے کی صدارت کے لئے تشریف لائے تھے.اس وقت طلبہ نے مرحوم کی پرکشش شخصیت کا قریب سے جائزہ لیا اور انہیں خوش خلقی ، معنی آفرینی ، جدت طرازی اور بذلہ سنجی کا مجسمہ پایا.ان کا متبسم چہرہ ، خلوص، شفقت اور بے لوث محبت کا آئینہ دار تھا.موت نے قوم سے ایک بہت بڑا ادیب ،صلح کل مصنف ، معروف طناز، مشہور صحافی اور عظیم شاعر چھین لیا ہے.مولانا سالک مرحوم کی وفات سے ملک کے علمی ، ادبی اور صحافتی حلقوں میں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کے پُر ہونے کی توقع نہیں.ادارہ المنار اس عظیم ملی صدمے پر قوم کے صدمے میں پوری طرح شریک ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم پر رحم فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل بخشے.۶۰ ۵- جماعت احمدیہ کے مشہور انشاء پرداز ، یگانہ روزگار مصنف اور فاضل بزرگ شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی نے مولانا سالک صاحب کو حسب ذیل الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا : - مولانا عبدالمجید سالک صاحب بی اے لاہور کے مشہور ادیب، اعلیٰ پایہ کے شاعر بہت بڑے اخبار نویس، بہت سی کتابوں کے مصنف ، نہایت زندہ دل، بذلہ سنج اور اپنے دور کے بے نظیر مزاح نویس تھے.”زمیندار“ اور انقلاب کے افکار و حوادث“ ان کی مزاح نویسی کے لازوال نمونے
تاریخ احمدیت 372 جلد ۲۰ ہیں.علم وفضل کے ساتھ ساتھ نہایت با اخلاق ، بامروت اور نہایت ہمدرد اور مخلص انسان تھے.دوسروں کا کام کر کے، دوسروں کی سفارش کر کے، دوسروں کی اعانت کر کے، انہیں روحانی خوشی ہوتی تھی.حسنِ اخلاق اور شیریں کلامی میں پرانے بزرگوں کا بہت اچھا نمونہ تھے.بہت سی دلچسپ کتابوں کے مصنف مؤلف اور مترجم تھے جن کی فہرست خاصی طویل ہے.۱۳ دسمبر ۱۸۹۴ء کو بٹالہ میں پیدا ہوئے اور ۲۷ رستمبر ۱۹۵۹ء کو مسلم ٹاؤن لا ہور میں وفات پائی.‘ 66 ۶۱ آپ کے برادر اصغر اور نہایت مخلص احمدی جناب عبدالجلیل صاحب عشرت آپ کی ادبی، سیاسی اور ملی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں :- عبدالمجید سالک ایک بلند پایہ صحافی ، ادیب، شاعر، افسانہ نگار، مزاحیہ نویس اور سب سے بڑھ کر ایک انسان دوست شخص تھے.ان کی ذات مذہبی و مسلکی تعصب سے بالا تھی.وہ محبت سب سے اور نفرت کسی سے نہیں‘ کے اصول کے پابند تھے.سچ بات کہنے اور لکھنے میں بے باک تھے.ان کی زندگی کے مختلف شعبوں پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے.یہاں ان کی صحافت، انسان دوستی اور حق گوئی کے متعلق چند اشارات کئے جانے مقصود ہیں.۱۹۲۷ء کے آغاز میں جبکہ سالک صاحب، ظفر علی خان کے اخبار زمیندار کے مدیر تھے اخبار کی مالی حالت سخت خراب تھی.ظفر علی خان اور اختر علی خان نے عملہ اخبار کو مہینوں سے ان کی تنخواہیں نہ دی تھیں.عملہ نے اس زیادتی پر تنگ آکر ہڑتال کر دی.سالک و مہر نے بھی غریب عملہ کی حمایت میں ہڑتال کی.اس پر بھی تنخواہیں نہ ملنے پر آخر سالک و مہر اور سارا عملہ اخبار مستعفی ہو گیا.سخت نا مساعد حالات کے باوجود مستعفی عملہ کے معاش کا بندوبست کرنے کے لئے سالک صاحب نے اخبار انقلاب“ جاری کیا.اپنی کتاب سرگزشت میں سالک صاحب لکھتے ہیں.”مولانا عبدالقادر قصوری نے ہم پوچھا کہ اب کیا کرو گے؟ تو ہم نے کہا اخبار نکالیں گے.اس کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں.صرف ہم دونوں (سالک ومہر ) کا معاملہ ہوتا تو ہم کسی نہ
تاریخ احمدیت 373 کسی طرح مزدوری کر کے پیٹ پال لیتے لیکن عملہ کے سولہ سترہ انسانوں کے روزگار کا بندو بست تو اخبار کے بغیر نہیں ہو سکتا.“ یہ سالک صاحب کی انسان دوستی اور غریب پروری کی ایک مثال ہے.اخبار انقلاب کے پہلے پرچہ میں صفحہ اول پر علامہ اقبال کی ایک تازہ فارسی نظم شائع ہوئی جو علامہ نے ظفر علی خان کی مزدور عملہ پر زیادتی سے متاثر ہو کر لکھی.اخبار انقلاب کے سرورق پر روزانہ علامہ اقبال کا یہ شعر چھپتا رہا آفتاب تازه پیدا بطن گیتی ނ ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک! اور اس شعر سے اوپر قرآن کریم کی آیت جس کا ترجمہ یہ ہے اور ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ کس مقام کی طرف ان کو لوٹ کر جانا ہے.اخبار انقلاب مسلمانان ہند کے سیاسی اور مذہبی حقوق حاصل کرنے کے لئے وقف رہا.پھر قیام پاکستان کے لئے سالک و مہر اور انقلاب کی جد و جہد کسی چوٹی کے لیڈر سے کم نہ تھی.سالک و مہر جہاں قیام پاکستان کی حمایت میں مضامین لکھتے لکھواتے رہے وہاں ذاتی طور پر عبد اللہ ہارون وغیرہ اکابر سے مشوروں میں مخلصانہ تعاون کرتے رہے.آج کل تاریخ کو مسخ کرنے کا دور ہے.جن مسلمان کہلانے والے ) کانگرسی اور احراری گروہوں) نے ہندوستان میں غیر مسلموں سے مل کر پاکستان بننے کی سخت مخالفت کی اسے نا پاکستان اور قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے رہے وہ اب پاکستان کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور بزور اقتدار حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں لیکن جو لوگ ہندوستان میں مسلم حقوق کے لئے لڑتے رہے اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں صف اول میں شامل رہے ان کے ذکر خیر سے بھی کاملاً اجتناب کیا جا رہا ہے.سیاست و صحافت کے اس رخ کو سالک صاحب نے شروع میں ہی بھانپ لیا تھا.اپنی کتاب سرگزشت میں خاتمہ بخن" میں لکھتے ہیں :- جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 374 ۱۵ /اگست کو پاکستان قائم ہو گیا.اس وقت کے بعد کی سرگزشت لکھنا بے حد دشوار ہے.میں ابھی اپنے دل و دماغ اور اپنے قلم میں اتنی صلاحیت نہیں پاتا کہ جو کچھ میں نے دیکھا اور سنا اور بساط سیاست پر شاطرین نے جو چالیں چلیں ان کو قلمبند کرسکوں.اور شاید اس سرگزشت کو فاش انداز سے لکھنا مصلحت بھی نہیں.چنانچہ سالک صاحب نے ۱۹۴۹ء میں انقلاب بند کر دیا کہ یہی مصلحت بینی کا تقاضہ تھا.سالک صاحب کچی بات لکھنے کہنے میں بے باک تھے.سرگزشت الاسلام میں ملکانہ میں انسداد ارتداد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- بریلوی، دیوبندی، شیعہ، لاہوری احمدی ہر نیرنگ کی جمعیتہ تبلیغ کے مبلغ غرض ہر فرقہ اور ہر جماعت کے کارکن آگرہ اور نواحی علاقوں میں پھیل گئے.چاہئے تو یہ تھا کہ مل جل کر ( دینِ حق ) کی خدمت کرتے لیکن ان جماعتوں نے وہاں آپس میں لڑنا شروع کر دیا.صرف احمدی مربیان کچھ کام کرتے تھے اور باقی تمام فرقوں کے لوگ یا آپس میں برسر پیکار رہتے یا احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے شائع کرتے تھے.غرض ان لوگوں کی غیر مآل اندیشی اور نفسانیت نے انسداد ارتداد کو ناممکن بنادیا.اور کفر کی مشین پوری قوت سے چلتی رہی.“ تحریک آزادی کشمیر کے سلسلہ میں لکھتے ہیں :- آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر بدستور مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب چلے آرہے تھے لیکن جب احرار نے احمدیوں کے خلاف شورش شروع کر دی تو مرزا صاحب نے خود ہی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور علامہ اقبال کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے.کمیٹی کے بعض ممبروں اور کارکنوں نے احمدیت کی مخالفت محض اس لئے شروع کر دی کہ وہ احمدی ہیں.یہ صورت حال مقاصد کشمیر کے اعتبار سے سخت نقصان دہ تھی.چنانچہ ہم نے کشمیر کمیٹی کے ساتھ ہی ساتھ ایک کشمیر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی.جن میں سالک، مہر ، سید حبیب، منشی محمد دین فوق ، مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کے احمدی اور غیر از جماعت جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 375 رفقاء سب شامل تھے.ایسوسی ایشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مبادا کشمیر کمیٹی آگے چل کر احرار ہی کی ایک شاخ بن جائے اور وہ متانت و سنجیدگی رفو چکر ہو جائے جس سے ہم اب تک کشمیر میں کام لیتے رہے ہیں.بہر حال تھوڑا بہت کام ہوتا رہا.لیکن کچھ مدت کے بعد نہ کمیٹی رہی نہ ایسوسی ایشن.رہے نام اللہ کا.“ سالک صاحب کا حضرت امام جماعت احمدیہ (ثانی) سے نہایت مخلصانہ دوستی کا تعلق رہا.۱۹۱۲ ء کی بات ہے سالک صاحب قادیان گئے.حضرت امام جماعت احمدیہ (اول) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جب انہی دنوں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی حج پر روانگی کی الوداعی تقریب منعقد ہوئی تو اس میں سالک صاحب نے الوداعی نظم پڑھی جو اخبار ”بدر“ میں شائع ہوئی.بعد میں سالک صاحب گا ہے گاہے قادیان اور پھر اس کے بعد ربوہ جاتے رہے.اور حضرت امام جماعت سے ملتے رہے.مجھے یاد ہے جب میں حضرت امام جماعت احمدیہ ( ثانی) کی آخری بیماری میں حضور کی عیادت و زیارت کے لئے حاضر ہوا تو سالک صاحب کے ذکر پر حضور پر سخت رقت طاری ہوئی اور فرمایا سالک صاحب بہت خوبیوں کے مالک تھے.افسوس وہ بھی رخصت ہوئے.“ ذکر ہو رہا تھا سالک صاحب کی حق گوئی کا.۱۹۵۲ء میں ایک خط میں لکھتے ہیں :- آج کل مغربی پاکستان کے شہروں میں مولویوں اور احراریوں نے احمدیوں کے خلاف خاصا ہنگامہ کر رکھا ہے اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ ظفر اللہ خان کو وزارت سے نکالا جائے.اور احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.ہم لوگ حکومت میں اس مطالبہ کی شدید مخالفت کر رہے ہیں.میں پچھلے ہفتے وزیر اعظم صاحب سے بھی ملا تھا.دیکھیں اس محشرستاں کا کیا حشر ہوتا ہے.اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ قطع نظر اپنے ذاتی مذہبی عقائد کے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 376 سالک صاحب جس بات کو درست سمجھتے تھے اسے لکھتے اور کہتے تھے.جیسا کہ شروع میں ذکر آیا ہے سالک صاحب بلند پایہ مزاحیہ نگار تھے ان کا یہ پہلو اور ان کی محفل آرائی الگ داستان ہے.66 جلد ۲۰ تحریک احمدیت کے عالمگیر مشنوں پر جنیوا عالمی، وائی ایم سی اے جنیوا کے ایک مصنف مسٹر ٹریسی سٹرانگ MR.TRACY کے ایک مصنف کا حقیقت افروز تبصرہ STRONG نے اپنی تصنیف ”دنیائے م کی ایک مقدس زیارت A PILGRIMAGE IN TO THE WORLD OF ISLAM‘ میں سلسلہ احمدیہ کے عالمگیر مشنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا.(ترجمہ) ” نیروبی کے انہیں بارسوخ اٹارنی کے ذریعہ مجھے شیخ مبارک احمد صاحب اور دوسرے احمدی لیڈروں سے متعارف ہونے کا موقعہ ملا.اس جماعت کی بنیاد ( حضرت ) مرزا غلام احمد علیہ السلام نے رکھی تھی........اس جماعت کی ایک کتاب ہمارے بیرونی مشن (Our Foreign missions) سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی اور مغربی افریقہ میں وسیع پیمانے پر اشاعت و تبلیغ کا کام ہورہا ہے.نیز خصوصیت سے انگریزی بولنے والے علاقوں اور جرمنی، سوئٹزرلینڈ ، ہالینڈ ، سکنڈے نیوین ممالک، برطانیہ، امریکہ، انڈونیشیا، سیلون ، برما، ملایا اور مشرق وسطی کے کئی ممالک بشمول اسرائیل میں بھی تبلیغ کا کام ہو رہا ہے.اس جماعت کی مطبوعات میں سے جو مجھے نیر و بی اور لیگوس میں دی گئیں ایک خوبصورت قرآن کریم بھی ہے جس میں عربی عبارت کے ساتھ ساتھ انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا ہے.اور اس کے ساتھ ہی فکر انگریز دیباچہ بھی ہے جس میں حسب ذیل عناوین پر بحث کی گئی ہے.پرانے عہد نامہ کی متضاد اور خلاف عقل تعلیمات، نیا عہد نامہ اور اس کے متعلق اعتراضات.قابلِ اعتراض اخلاقی تعلیم، وید، کتاب استثناء اور نئے عہد نامہ کی پیشگوئیاں بعد ازاں آخر میں قرآنی تعلیم کی خصوصیات و فضائل قرآن کریم کے روحانی عالم کا خاکہ اور حضرت احمد مسیح موعوڈ پر بھی بحث کی گئی ہے.ان کے دیگر پمفلٹ جو انگریزی اور بہت سی افریقن زبانوں میں شائع کئے گئے ہیں اس
تاریخ احمدیت 377 قسم کے مضامین پر مشتمل ہیں.”محمد اینڈ کرائسٹ“، ” ( دینِ حق ) میں عورتوں کا مقام، کمیونزم اور ڈیما کریسی..ہے.ایک کتابچہ ڈاکٹر محمد ظفر اللہ خان صاحب نائب صدر عالمی عدالت انصاف کی تصنیف ہے جس میں اس قسم کے مضامین پر روشنی ڈالی گئی.( دین حق ) کا عالمگیر پیغام ، مذہب ( دینِ حق ) کا خطاب، قبائلی ، قومی نسلی اور تمدن قیود و حدود سے بالا ہے، ( دینِ حق ) کی بناء بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے ساتھ انسانیت اور زندگی کی وحدانیت و یکسانیت پر ہے.سائنس کے موجودہ ایٹمی دور میں ہماری رہنمائی اور ہمارے ان مسائل کا حقیقی علاج جو مستقبل قریب میں ہم سب پر اثر انداز ہونے والے ہیں یہی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور روحانی یکسانیت و خلوص قلب کے ساتھ تعلق باللہ استوار کریں اور ہمارا عزم یہ ہو کہ ہر قسم کے مصائب و مسائل میں ہم اپنی رہنمائی اس اصول سے حاصل کریں گے کہ نہ ہماری بلکہ خداوند تعالیٰ کی مرضی کا ظہور ہو.“ اس کے بعد مصنف نے لکھا کہ :- (لیگوس میں ) ایک چھوٹی سڑک پر ہم ایک مسجد میں گئے جہاں قدیم مسلمان عبادت کر رہے تھے.اس کے بالمقابل اسی سڑک پر خدا کے اس گھر میں گئے جو مولوی نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ کا ہیڈ کوارٹر ہے.یہ مبشر ربوہ (مغربی پاکستان ) سے آئے ہوئے ہیں.انہوں نے مجھے بہت تپاک سے خوش آمدید کہا اور ” ( دین حق ) و عیسائیت کے موضوع پر مجھے اپنی محققانہ اور خیال افروز کتب پیش کیں.سالٹ پانڈ ، کماسی اور روا“ میں متعدد احمد یہ جماعتیں ہیں.جماعت احمدیہ نے ۱۵۰ بیوت الذکر اور ۱۳ سکول تعمیر کئے ہیں.۱۹۴۸ء میں یہاں احمدیوں کی تعدا د ۲۲۵۷۲ تھی اب یقینا رو بہ ترقی ہے.سیرالیون میں احمد یہ مشن نے ۲۵ مساجد تعمیر کی ہیں.تعلیمی میدان میں مسلمانوں کو بہت کم مراعات دی گئی ہیں.احمد یہ مشن کی طرف سے حال ہی میں کئی نئے سکول تعمیر کئے گئے ہیں.ہر دو مسلمان و عیسائی سرکاری حکام جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 378 جلد ۲۰ نے ان نوجوان مبلغین کی قربانیوں اور مساعی کو قدر دانی سے سراہا ہے جو ملک کی تعلیمی اور روحانی ترقی کے لئے کوشاں ہیں.عیسائی عوامل بھی مسلمانوں کی اس بیداری سے باخبر ہیں اور وہ ایسے انداز سے اس کے مقابلہ کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنوری ۱۹۶۰ء میں آزادی سے قبل سیرالیون ایک متحد قومیت کی شکل اختیار کر سکے.لائبیریا میں بھی احمد یہ مبلغین کو وہاں کے عوام میں کام کرنے کا موقعہ دیا گیا ہے.اول اول ۱۹۵۷ء میں جب لائبیریا میں احمدیت کا قیام ہوا تو انہوں نے بہائی تحریک کے مقابلہ کے لئے خوب کوشش کی.اس کے بعد مصنف نے اسلامی اذان کے زیر عنوان لکھا ” ( دینِ حق ) میں نمایاں ترین عالمگیر عبادت اسلامی اذان اور نماز ہے.میرے لئے یہ امر بہت خوشی کا موجب ہوا کہ مجھے یروشلم کا قبة الضحر DOME OF ROCK I) جاکر نہ کی جدید مسجد عظیم ، اصفہان کی عظیم مسجد، ازرق اور لیگوس میں ایک ہی سڑک پر تین مختلف فرقوں کی مسجدوں نیز نیروبی کی احمد یہ بیت الذکر میں عبادت کے لئے داخل ہونے کا موقعہ حاصل ہوا.“ مصنف نے مزید لکھا : - ۱۹۵۸ء کی کل افریقن چرچ کا نفرنس کی ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ہمارے لئے ( دین حق ) کی ترقی کے مسئلہ میں خاص اقدامات لابدی ہیں.۱۳ اکتوبر ۱۹۵۹ء کو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا طالبات سے خطاب جامعہ نصرت ربوہ کے جلسہ تقسیم انعامات کی تقریب تھی اس موقع پر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حسب ذیل خطبہ صدارت ارشاد فرمایا : - پرنسپل صاحبہ اور میری پیاری چھوٹی بہنو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته میں دلی مسرت سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں.آپ نے اس خوشی کے موقعہ پر شمولیت کی دعوت دے کر مسرور کیا.مجھے خصوصیت سے طالبات جامعہ کے لئے جنہوں نے یہاں سے تعلیم پا کر باہر نکلنا اور دنیا میں
تاریخ احمدیت 379 پھیلنا ہے اور انشاء اللہ ہماری آنے والی نسلوں کی مائیں بننا ہے چند الفاظ ضرور کہنے ہیں.مجھے امید ہے کہ آپ میری ان باتوں کو غور سے سنیں گی.محض سنیں گی نہیں بلکہ ایک عزم کے ساتھ انہیں دل کی گہرائیوں میں جگہ دیں گی.اور خدا نہ کرے کہ آپ جلسہ برخواست ہونے کے بعد یہاں ہال میں ہی انہیں بھلا کر چلی جائیں.آپ جانتی ہیں دنیا میں ہمارے کالج سے تعلیمی اور انتظامی لحاظ سے بہت بڑھ کر اعلیٰ کالج ہیں.بہتر سے بہتر تعلیمی ادارے ہیں.اور محترمہ پرنسپل صاحبہ اور نیز دیگر لیکچررز سے معذرت چاہتے ہوئے مجھے کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے بہتر معلمات معلمین بھی ہیں.مگر پھر بھی ہم کہہ سکتے ہیں اور خوشی اور بفضلہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ جو دولت آپ کو یہاں سے مل سکتی ہے دنیا کے پردے پر کہیں بھی میسر نہیں آسکتی.بشرطیکہ آپ اپنے دامن موتیوں سے بھر لیں.اور مرکز کے ماحول سے حقیقی فائدہ اٹھا ئیں.حضرت مسیح موعود مہدی مسعود علیہ السلام نے جو خزائن تقسیم کرنے تھے اور کئے بلکہ اکناف عالم میں لٹائے وہ سونے چاندی کے ذخائر کی صورت میں نہ تھے نہ محض علوم ظاہری کی شکل میں بلکہ آپ کی آمد کا ایک مقصد تھا مسلمان را مسلمان باز کردند مراد محض اعمال ظاہری سے بھی نہیں تھی بلکہ ایک غالب محبت الہی اور مضبوط تعلق باللہ قلوب میں پیدا کرنا، ایمان کامل اور مردہ روحوں کو زندگی دوباره بخشا وہ مقصد تھا جس کے لئے آپ کو مسیحائے زماں بنا کر بھیجا گیا.دنیائے روحانیت مفقود ہو چکی تھی.اعمال جو باقی تھے وہ خشک چھلکوں کی صورت میں تھے جن کا کوئی مقصد مفاد باقی نہیں رہ جاتا.سو آپ اپنے قلوب کا ہمیشہ جائزہ لیں.اگر ان میں روحِ محبت رچ گئی ہے ایک حقیقی تڑپ اور سچا اخلاص ہے تو مطمئن ہو جانے کی وجہ جائز ہے.ورنہ ہرگز نہیں.علوم دنیاوی میں دنیا ہم سے بہت آگے بڑھ چکی ہے.آپ کا اول مقصد ایمان بالیقین حاصل کرنا اور اتنا اخلاص ، محبت اپنے دلوں میں جاگزیں کرنا اور ایک جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 380 آگ اپنے سینوں میں تبلیغِ.احمدیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک علم کا تمام عالم کے گوشے گوشے میں بلند کرنے کے لئے بھڑ کا لینا ہے.حتیٰ کہ ایک خاص جذب اور کشش آپ میں سے ہر ایک وجود میں پیدا ہو جائے کہ آپ کہیں بھی جائیں کسی سوسائٹی میں ملیں ایک ایسا نور ایسی روشنی آپ کی پیشانیوں سے آپ کو ہر جگہ ممتاز کرنے والی ظاہر ہو.کہ زمانہ آپ کے رعب اثر میں آئے بجائے اس کے کہ آپ زمانہ کے ساتھ گھسٹتی چلی جائیں.اپنی خصوصیات کو قائم آپ جب ہی رکھ سکیں گی جب آپ کا دل آپ کا ساتھ دے رہا ہو گا اپنے دلوں کو ایمان محبت سے بھر لیں.اپنے دامن میں جواہرات کو لپیٹ لیں.جو آپ کو مہدی آخر زماں کے خزانہ سے ملے.پھر کوئی دولت، وجاہت علم دنیوی آپ کو مرعوب و مغلوب نہ کر سکے گا.نہ آپ کے مقابلے میں ٹھہر سکے گا.باطل کا رنگ آپ کا رنگ دیکھ کر اڑے گا.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل اور محض رحمانیت سے آپ کو اس جماعت آخر میں شامل کر کے ایک خاص مقام پر کھڑا کیا ہے سو اپنی قدر و منزلت پہلے خود پہچانیں.دنیا آپ کی قدر کرنے پر مجبور ہو جائے گی.اور آپ کی نیتیں آپ کے اعمال خدا کے حضور مقبول ہوں گے کہ بالآخر نجات اسی کے ہاتھ میں ہے.خدائے کریم آپ کے ساتھ ہو.آمین.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت فصل چهارم 381 حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام اور خطاب خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع میں لمصل جلد ۲۰ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اصلح الموعود نے مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۵۹ء کے موقعہ پر ایک نہایت ایمان افروز پیغام دیا.یہ تاریخی پیغام ۲۳ ا کتوبر ۱۹۵۹ء کو خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے افتتاحی اجلاس میں صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے پڑھ کر سنایا اور دوسرے روز ۲۴ /اکتوبر کو حضور نے خود تشریف لا کر یہ پیغام پڑھا اور اس میں درج شدہ تاریخی عہد دوباره خدام سے دوہرایا اس روح پرور پیغام کا متن حسب ذیل ہے :- اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم هو الن نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ــــــاصر خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کو میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انسان دنیا میں پیدا بھی ہوتے اور مرتے بھی ہیں لیکن قو میں اگر چاہیں تو وہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہ سکتی ہیں.پس تمہیں اپنی قومی حیات کے استحکام کے لئے ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے اور نسلاً بعد نسل...احمدیت کو پھیلانے کی جدو جہد کرتے چلے جانا چاہئے.اگر مسیح موسوٹی کے پیرو آج ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسیح محمدی جو اپنی تمام شان میں مسیح موسوی سے افضل ہے اس کی جماعت ساری دنیا میں نہ پھیل جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اس مقصد کے لئے دعا بھی کی ہے اور فرمایا ہے کہ.
تاریخ احمدیت 382 عے پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا اور خواہش کو پورا کرنے کے لئے جد وجہد کرنا آپ لوگوں میں سے ہر ایک پر فرض ہے اور آپ لوگوں و یہ جد و جہد ہمیشہ جاری رکھنی چاہئے یہاں تک کہ قیامت آجائے.یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قیامت تک جد وجہد کرنا صرف ایک خیالی بات ہے بلکہ حقیقتا یہ آپ لوگوں کا فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر عائد کیا گیا ہے کہ قیامت تک آپ لوگ احمدیت کا جھنڈا بلند رکھیں یہاں تک کہ دنیا میں.احمدیت عیسائیت سے بہت زیادہ پھیل جائے اور تمام دنیا کی بادشاہتیں احمدیت کی تابع ہو جائیں..حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ مجھے ایک دفعہ عالم کشف A میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور جن میں سے بعض ہندوستان کے تھے ، بعض عرب کے، بعض فارس کے، بعض شام کے، بعض روم کے اور بعض دوسرے ممالک کے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے.اور تجھ پر ایمان لائیں گے.اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور ان پیشگوئیوں کے مطابق روس، جرمنی، امریکہ اور انگلستان کے بادشاہ یا پریذیڈنٹ احمدی ہو جائیں تو خدا کے فضل سے ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی اور ( دین حق کے مقابلہ میں باقی سارے مذاہب بے حقیقت ہو کر رہ جائیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آجکل دنیا کے اکثر ممالک میں بادشاہتیں ختم ہو چکی ہیں مگر پریذیڈنٹ بھی بادشاہوں کے ہی قائمقام ہیں.پس اگر مختلف ملکوں کے پریذیڈنٹ ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں تو یہ پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ متواتر اور مسلسل جد و جہد کی جائے اور تبلیغ ( دین ) کے کام کو جاری رکھا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوح بھی قرار دیا گیا ہے اور حضرت نوح کی عمر جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے ساڑھے نو سو سال تھی جو درحقیقت ان کے سلسلہ کی عمر تھی.مگر حضرت مسیح جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 383 موعود علیہ السلام تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز تھے جو تمام نبیوں سے افضل تھے اور حضرت نوح بھی ان میں شامل تھے.پس اگر نوح کو ساڑھے نو سو سال عمر ملی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز اور آپ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو ساڑھے نو ہزار سال عمر ملنی چاہئے اور اس عرصہ تک ہماری جماعت کو اپنی تبلیغی کوششیں وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جانا چاہئے.میں اس موقعہ پر وکالت تبشیر کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بیرونی مشنوں کی رپورٹیں باقاعدگی کے ساتھ شائع کیا کرے تا کہ جماعت کو یہ پتہ لگتا رہے کہ یورپ اور امریکہ میں (دین حق ) کے لئے کیا کیا کوششیں ہو رہی ہیں اور نو جوانوں کے دلوں میں ( دین حق ) کے لئے زندگیاں وقف کرنے کا شوق پیدا ہو.مگر جہاں یورپ اور امریکہ میں تبلیغ ( دین ) ضروری ہے وہاں پاکستان اور ہندوستان میں اصلاح وارشاد کے کام کو وسیع کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے جس سے ہمیں کبھی غفلت اختیار نہیں کرنی چاہئے.دنیا میں کوئی درخت سرسبز نہیں ہوسکتا جس کی جڑھیں مضبوط نہ ہوں.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پاکستان اور ہندوستان میں بھی جماعت کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے درخت سے دی ہے جس کا تنا مضبوط ہو اور اس کے نتیجہ میں اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں.یعنی ایک طرف تو سچے مذہب کے پیرو اپنی کثرت تعداد کے لحاظ سے ساری دنیا میں پھیل جائیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ اس کے ماننے والوں کو اتنی برکت دے کہ آسمان تک اس کی شاخیں پہنچ جائیں.یعنی ان کی دعائیں کثرت کے ساتھ قبول ہونے لگیں اور ان پر آسمانی انوار اور برکات کا نزول ہو.یہی فرعها في السماء (ابراہیم : ۲۵) کے معنے ہیں کہ جو شخص آسمان پر جائے گا وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہو جائے گا.اور چونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی جسمانی وجود نہیں اس لئے اس کے قریب ہونے کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کی دعائیں سنے گا.حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ مومن جب رات کو تہجد کے وقت دعائیں کرتا جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 384 ہے تو اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کی قبولیت کے لئے آسمان سے اتر آتا ہے.پس ضروری ہے کہ تمام جماعت کے اندر ایسا اخلاص پیدا ہو کہ اس کی دعائیں خدا تعالیٰ سننے لگ جائے اور پاتال تک اس کی جڑیں چلی جائیں اور دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہ رہے جس میں احمدی جماعت مضبوط نہ ہو اور احمدی جماعت کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو جس کی دعائیں خدا تعالیٰ کثرت کے ساتھ قبول نہ کرے.پس تبلیغ بھی کرو اور دعائیں بھی کرو تا اللہ تعالیٰ احمدیت کو غیر معمولی ترقی عطا کرے.سکھوں کو دیکھو ان کا بانی نبی نہیں تھا مگر پھر بھی وہ بڑے پھیل گئے اور اب بھی ان میں اتنا جوش ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.تمہارا بانی تو نبی تھا اور اپنی تمام شان میں مسیح موسوی سے بڑھ کر تھا پھر اگر مسیح موسوی کی امت تمام دنیا میں پھیل گئی ہے تو مسیح محمدی جو ان سے بڑے تھے ان کی جماعت کیوں ساری دنیا میں نہیں پھیل سکتی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے متعلق یہ بھی فرمایا ہے کہ اک شجر ہوں جس کو داؤ دی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار اور جالوت اس شخص کو کہتے ہیں جو فسادی ہو اور امن عامہ کو برباد کرنے والا ہو.پس اس کے یہ معنے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں امن قائم فرمائے گا اور ہر قسم کے فتنہ و فساد اور شرارت کا سد باب کر دے گا.پس..نظام خلافت سے اپنے آپ کو پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رکھو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ ” میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.“ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 385 آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.66 سوتم قیامت تک خلافت کے وابستہ رہو تا کہ قیامت تک خدا تعالیٰ کے تم پر بڑے بڑے فضل نازل ہوتے رہیں.حضرت مسیح ناصری سے آپ کا مسیح بہت بڑا تھا مگر عیسائیوں میں اب تک پوپ جو پطرس کا خلیفہ کہلاتا ہے چلا آ رہا ہے اور یورپ کی حکومتیں بھی اس سے ڈرتی ہیں.نپولین جیسا بادشاہ ایک دفعہ پوپ کے سامنے گیا اور وہ گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اس وقت قاعدہ کے مطابق پوپ کو مقدم رکھنا ضروری تھا مگر نپولین نے یہ ہوشیاری کی کہ وہ دوسری طرف سے اسی وقت اندر جا کر بیٹھ گیا جس وقت پوپ بیٹھا تھا اور اس طرح اس نے چاہا کہ وہ پوپ کے برابر ہو جائے اگر عیسائیوں نے اپنی مردہ خلافت کو اب تک جاری رکھا ہوا ہے تو آپ لوگ اپنی زندہ خلافت کو کیوں اب تک جاری نہیں رکھ سکتے.بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لا تقوم الساعة الا على اشرار الناس یعنی قیامت ایسے لوگوں پر ہی آئے گی جو اشرار ہوں گے اخیار نہیں ہوں گے.مگر آپ لوگوں کی ترقی چونکہ خدائی پیشگوئیوں کے ماتحت ہے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو خدا تعالیٰ نے خیر الامم قرار دیا ہے.اس لئے اگر آپ قیامت تک بھی چلے جائیں گے تو خدا تعالیٰ آپ کو نیک ہی رکھے گا.اور اخیار میں ہی شامل فرمائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ ه ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے مگر ضروری ہے کہ اس کے لئے دعائیں کی جائیں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں ہمیشہ صالح لوگ پیدا کرتا رہے اور کبھی وہ زمانہ نہ آئے کہ ہماری جماعت صالحین سے خالی ہو.صالحین کی ہماری جماعت میں قلت ہو بلکہ ہمیشہ ہماری جماعت میں صالحین کی اکثریت ہو جن کی دعائیں کثرت کے ساتھ قبول ہوتی ہیں.اور جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وجود اس دنیا میں بھی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت ظاہر ہو.“ 386 سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے یہ پیغام پڑھنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ:- د میں اس وقت تمام خدام سے ایک عہد لینا چاہتا ہوں..تمام خدام کھڑے ہو جائیں اور اس عہد کو دوہرائیں.اشهدان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهدان محمدا عبده ورسوله.ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم ( دینِ حق ) اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک ( دینِ حق ) کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جد و جہد کرتے رہیں گے.اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ ( دین حق ) کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللهم امين اللهم امين اللهم امين فرمایا: یہ عہد جو اس وقت آپ لوگوں نے کیا ہے متواتر چار صدیوں بلکہ چار ہزار سال تک جماعت کے نوجوانوں سے لیتے چلے جائیں اور جب تمہاری نئی نسل تیار ہو جائے تو پھر اسے کہیں کہ وہ اس عہد کو اپنے سامنے رکھے اور ہمیشہ اسے دہراتی چلی جائے اور وہ نسل یہ عہد اپنی تیسری نسل کے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 387 جلد ۲۰ سپر د کر دے.اور اس طرح ہر نسل اپنی اگلی نسل کو اس کی تاکید کرتی چلی جائے.اسی طرح بیرونی جماعتوں میں جو جلسے ہوا کریں ان میں بھی مقامی جماعتیں خواہ خدام کی ہوں یا انصار کی یہی عہد دوہرایا کریں.یہاں تک کہ دنیا میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے اور دینِ حق ) اتنا ترقی کرے کہ دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائے.مجھے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے رویا میں دکھایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا نور ایک سفید پانی کی شکل میں دنیا میں پھیلنا شروع ہوا ہے یہاں تک کہ پھیلتے پھیلتے وہ دنیا کے گوشے گوشے اور اس کے کونے کونے تک پہنچ گیا.اس 66 وقت میں نے بڑے زور سے کہا کہ احمدیوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتے ہوئے ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان یہ نہیں کہے گا کہ اے میرے رب اے میرے رب تو نے مجھے کیوں پیاسا چھوڑ دیا بلکہ وہ یہ کہے گا کہ اے میرے رب ! اے میرے رب ! تو نے مجھے سیراب کر دیا یہاں تک کہ تیرے فیضان کا پانی میرے دل کے کناروں سے اچھل کر بہنے لگا.پس اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو اور ہمیشہ دین کے پھیلانے کے لئے قربانیاں کرتے چلے جاؤ.مگر یاد رکھو کہ قومی ترقی میں سب سے بڑی روک یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ افراد کے دلوں میں روپیہ کا لالچ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ طوعی قربانیوں سے محروم ہو جاتے ہیں.تمہارا فرض ہے کہ تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو وہ تمہاری غیب سے مدد کرے گا.اور تمہاری مشکلات کو دور کر دے گا.بلکہ تمہارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان بھی کیا ہوا ہے کہ اس نے ایک انجمن بنادی ہے جو تمام مبلغین کو با قاعدہ خرچ دیتی ہے.مگر گزشتہ زمانوں میں جو مبلغین ہوا کرتے تھے ان کو کوئی تنخواہیں نہیں دیتا تھا.بعض دفعہ ہندوستان میں ایران سے دو دوسو مبلغ آیا ہے مگر وہ سارے کے سارے اپنے اخراجات خود برداشت کرتے تھے اور کسی دوسرے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے.پس اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت بجالا ؤ اور لالچ اور حرص کے جذبات سے بالاتر رہتے ہوئے ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند کرنے کی کوشش کرو.
تاریخ احمدیت 388 جلد ۲۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ :- مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے مال کئے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں.سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے ۶۹ 66 لئے کام کریں.پس لالچ اور حرص کو کبھی اپنے قریب بھی مت آنے دو.اور ہمیشہ احمد بیت کو پھیلانے کی جد و جہد کرتے رہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصلح موعود کے متعلق الہی بشارات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہوگا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اس مه سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں غیر معمولی تغیرات پیدا فرمائے گا جن کے نتیجہ میں ہماری جماعت اتنی ترقی کرے گی کہ ساری دنیا کے لوگ اس میں داخل ہونے شروع ہو جائیں گے.اسی طرح اس شہادت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو رسوا اور نا کام کرے گا اور ہمیں کامیابی اور غلبہ عطا فرمائے گا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.اور وہ ہمیشہ ( دین حق ) کے غلبہ اور احمدیت کی ترقی کے لئے آپ کو رات دن کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہاں تک کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے اور کیا عیسائی اور کیا یہودی اور کیا دوسرے مذاہب کے پیرو سب کے سب احمدی ہو جائیں.لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا تمہیں کم از کم پاکستان اور ہندوستان میں تو اپنے آپ کو پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود
تاریخ احمدیت 389 علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کرشن اوتار بھی قرار دیا گیا ہے.آپ کا الہام ہے کہ ” ہے کرشن روڈ ر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے.66 جلد ۲۰ پس اگر دنیا نہیں تو کم سے کم ہندوستان کے ہندوؤں کو تو....احمدیت میں داخل کرلو تا کہ اصلها ثابت کی مثال تم پر صادق آجائے اور فرعها في السماء بھی اس کے نتیجہ میں پیدا ہو جائے.آجکل ہندوستان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگوں کو احمدیت کی طرف بڑی رغبت پیدا ہو رہی ہے اور بڑے بڑے مخالف بھی احمدیت کے لٹریچر سے متاثر ہورہے ہیں.اور زیادہ اثر ان پر ہماری تفسیر کی وجہ سے ہوا ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا دے تو لاکھوں لوگ ہماری جماعت میں داخل ہو سکتے ہیں.بے شک ہم میں کوئی طاقت نہیں لیکن ہمارے خدا میں بہت بڑی طاقت ہے پس اسی سے دعائیں کرو اور ہمیشہ ( دین حق) کے جھنڈے کو دنیا کے تمام مذاہب کے جھنڈوں سے بلند رکھنے کی کوشش کرو.66 نہایت ہی مبارک دن ۲۴ اکتوبر ۱۹۵۹ء کا دن جماعت احمدیہ کے لئے اس سال کا نہایت ہی مبارک دن تھا.کیونکہ اس دن سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی متعنا الله بطول حیاتہ طویل مدت کے بعد ( جبکہ حضور علالت طبع کے باعث تشریف نہ لاسکے) پہلی مرتبہ اپنے خدام کے درمیان رونق افروز ہوئے انہیں اپنے دیدار سے مشرف کیا اور اپنے زندگی بخش اور روح پر ور خطاب سے نوازا.الحمد للہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ خدام الاحمدیہ کے اٹھارویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر مورخہ ۲۳/اکتوبر کو بعد نماز عصر اجتماع میں تشریف لائے تھے اور حضور نے کار میں بیٹھ کر مقام اجتماع کا چکر لگایا.مورخه ۲۴ اکتوبر کو جو نہی خدام کو علم ہوا کہ حضور آج بھی تشریف لا رہے ہیں.تو وہ حضور کے دیدار سے مشرف ہونے کے لئے سراپا انتظار بن گئے اور بے تابی کے ساتھ ان راستوں کی طرف دوڑنے لگے.جہاں سے کی کارنے گزرنا تھا.لیکن ان کی خوشی اور شادمانی کی انتہاء نہ رہی جبکہ حضور کی کار سٹیج کے قریب آکر رک گئی.اور بالکل غیر متوقع طور پر حضور اپنے خدام سے خطاب فرمانے کے لئے سٹیج پر رونق افروز ہوئے.قریباً آٹھ ماہ کے طویل اور صبر آزما عرصہ کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ حضور تقریر فرمانے کے سے حضور
تاریخ احمدیت 390 جلد ۲۰ لئے تشریف لائے.حضور کی یہ تقریر جس میں حضور نے دو بار خدام سے ان کا نیا عہد بھی دو ہروایا ایک گھنٹہ دس منٹ تک جاری رہی.تقریر کے دوران حاضرین مجلس پر رقت اور سوز وگداز کی ایک خاص کیفیت طاری رہی.جس نے اختتامی دعا کے موقعہ پر بے اختیار آہ و بکا اور چیخ و پکار کی صورت اختیار کر لی.کوئی آنکھ نہ تھی جو آنسو نہ بہا رہی ہو.اور کوئی دل نہ تھا جو درد والحاح کے ساتھ ( دین حق کی سربلندی اور حضور اطال الله بقاء ہ کی صحت کاملہ و عاجلہ کے لئے دعاؤں میں مصروف نہ ہو.66 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام مجالس حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس سال مجالس اطفال الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ اور ان کے نگرانوں کے نام ان کے نگرانوں کے نام حسب ذیل پیغام مرحمت فرمایا جو ۲۵ /اکتوبر ۱۹۵۹ء کے سالانہ اجتماع اطفال الاحمد یہ ربوہ میں پڑھ کر سنایا گیا.اطفال کی تربیت کا کام بڑا نازک اور بڑا اہم ہے کیونکہ اطفال کا وجود قومی زندگی میں بیج کا حکم رکھتا ہے اور اچھا زمیندار سب سے پہلے پیج کی فکر کیا کرتا ہے.کیونکہ بیج کے اچھا ہونے پر فصل کی کامیابی کا بڑی حد تک دار و مدار ہے.پس اطفال کے نگرانوں کے لئے بلکہ خود اطفال کے لئے میرا پیغام یہی ہے کہ اگر جماعت کی آئندہ ترقی کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے ہو تو بچپن ہی سے بلکہ ولادت سے ہی بچوں کی اچھی تربیت کا انتظام ہونا چاہئے.( دینِ حق ) نے نوزائیدہ بچے کے کانوں میں اذان کے الفاظ ڈالنے کا حکم دے کر اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ایک بچے کی ولادت کے ساتھ ہی اس کی تربیت کا کام شروع ہو جانا چاہئے.بلکہ قرآن مجید نے خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو ایک ہری کونپل کے ساتھ تشبیہہ دی ہے.جو اچھے بیج میں سے نکل کر کسان کے دل کو لبھاتی اور دشمنوں کے دلوں میں غصہ اور مرعوبیت کے جذبات پیدا کرتی ہے.پس اے ہمارے عزیز بچو! اور اے وے لوگو جن کے ہاتھوں میں
تاریخ احمدیت 391 جلد ۲۰ ان کی تربیت کی باگ ڈور دی گئی ہے اپنی ذمہ داری کو سمجھو اور اس عمر کی قدر و قیمت کو پہچانو.کیونکہ آگے چل کر آج کے بچوں کے سر پر ہی جماعتی کاموں کا بوجھ پڑنے والا ہے.لہذا اپنے آپ کو ابھی سے ( دینِ حق ) اور احمدیت کے مضبوط سپاہیوں والی تربیت دو جن کے کندھے اتنے فراخ اور مضبوط ہوں کہ ہر بوجھ کو اٹھانے کی طاقت رکھیں اور یا د رکھو کہ بچپن کی تربیت میں پانچ باتیں خاص طور پر بڑی اہم اور بڑی دور رس ہیں یعنی :- ۱- صداقت اور سچ بولنے کی عادت.۲- دیانتداری اور ہر قسم کے دھوکا اور فریب سے اجتناب.- محنت اور جانفشانی اور عرق ریزی.جماعت کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانی کا جذبہ.۵- نمازوں کی پابندی اور دعاؤں کی عادت.اگر ہماری جماعت کے بچے اپنے اندر یہ پانچ بنیادی صفات پیدا کر لیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کا مستقبل بلکہ جماعت کا مستقبل محفوظ ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر رہے.آمین.فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ ۱۸/۹/۵۹ - ۳ حضرت مصلح موعود کا بصیرت افروز اس سال مجلس انصار اللہ مرکز یہ سالانہ.اجتماع ربوہ میں ۳۱/اکتوبر و یکم نومبر خطاب مجلس انصار اللہ کے اجتماع سے ۱۹۵۹ء کو منعقد ہوا.حضرت سیدنا مصلح موعود نے پہلے روز اجلاس دوم سے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا.حضور نے انصار کو مخاطب کر کے اسی طرح ایک بصیرت افروز پیغام پڑھا جس طرح اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو نوازا تھا.پیغام کے دوران ہی حضور نے انصار اللہ سے یہ تاریخی عہد لیا کہ وہ دنیا بھر میں اشاعت دین کا فریضہ نسلاً بعد نسل کمال مستعدی سے ادا کرتے چلے جائیں گے.۷۵
تاریخ احمدیت 392 جلد ۲۰ اجتماع کے آخری اجلاس میں حضرت مصلح موعود کا حسب ذیل پیغام صاحبزادہ اہم پیغام مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی تحریک جدید نے پڑھ کر سنایا : - اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم برادران! هو الن : نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اب تحریک جدید کے نئے سال کا وقت آگیا ہے ہماری جماعت کا چندہ پہلے سے ہزاروں گنا بڑھ جانا چاہئے.اگر پہلے لاکھ ہوتا تھا تو اب ایک کروڑ ہونا چاہئے.پس میں تحریک کرتا ہوں کہ آئندہ سال تحریک جدید کے لئے اپنے وعدے لکھوائیں اور اپنے شہروں میں جا کر تمام احمد یوں سے لکھوائیں تا کہ تحریک جدید کا چندہ نہ صرف کروڑ بلکہ کروڑوں ہو جائے.خدا تعالیٰ آپ کے مالوں میں برکت دے گا.اور جماعت کو بھی بڑھائے گا کیونکہ روپیہ بھی خدا تعالیٰ کے پاس ہے اور طاقتیں بھی خدا تعالیٰ کے پاس ہیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واعلموا ان الله يحول بين المرء وقلبه (انفال: ۲۵) یعنی وہ انسان کے خیال سے زیادہ قریب ہے.آپ جانتے ہیں کہ خیال انسان کے کتنا قریب ہے، مگر خدا تعالیٰ اس سے بھی زیادہ قریب ہے.پس خدا تعالیٰ سے دعا ئیں بھی کیجئے کہ خدا ساری دنیا کے دلوں کو احمدیت کی طرف پھیر دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار.“ عیسائیت کو ۱۹۵۹ سال ہو گئے.مسیح محمدی کا زمانہ اس سے بڑا ہوگا.آپ کی جماعت میں انشاء اللہ کئی گنا زیادہ آدمی ہوگا اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت تک زندگی دے گا جب تک احمدیت دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل چکی ہوگی اور دنیا کے تمام اموال احمدیت پر قربان ہورہے ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا
تاریخ احمدیت 393 ہزاروں گنا زیادہ شان وشوکت سے پوری ہوگی کہ وو پھیر دے میری طرف اے سارباں جنگ کی مہار.“ پس اپنے چندوں کو بڑھاؤ اور خدا کی رحمت کو کھینچو کیونکہ جتنا تم چندہ دو گے اس سے ہزاروں گنا زیادہ تمہیں ملے گا.اور دنیا کی ساری دولت کھینچ کر تمہارے قدموں میں ڈال دی جائے گی.جس کے متعلق تمہارا فرض ہوگا کہ سلسلہ احمدیہ کے لئے خرچ کرو.تا کہ دنیا کے چپہ چپہ پر مبلغ بھیجے جاسکیں.اور ساری دنیا میں ( دین حق ) پھیل جائے.اور دنیا کی ساری حکومتیں ( دین حق ) میں داخل ہو جائیں.آپ کو یہ بات بڑی معلوم ہوتی ہوگی خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑی نہیں.کرتا ہوں.پس میں اس اعلان کے ذریعہ تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز مرز امحموداحمد.خلیفہ المسح الثانی ۱/۱۱/۵۹ جلد ۲۰ اجتماع کا اختتام صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ولولہ انگیز خطاب سے ہوا جس میں آپ نے انقلاب عظیم کے خوشکن آثار کا تذکرہ کر کے انصار بزرگوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف وجد آفریں رنگ میں توجہ دلائی.مئی ۱۹۵۹ء میں آچاریہ ونوبا بھاوے نے آچار یہ ونو با بھا وے قادیان میں قادیان کے احمد یہ وفد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ دورہ کشمیر مکمل کرنے کے بعد واپسی پر قادیان بھی تشریف لائیں گے.چنانچہ آپ حسب وعدہ ۴ رنومبر ۱۹۵۹ء کو دھار یوال پہنچے اور پھر قادیان آئے.احمد یہ محلہ میں ان کا گرم جوش استقبال کیا گیا.آپ اپنے ساتھیوں اور دیگر سینکڑوں غیر مسلم معززین کے ساتھ بیت اقصیٰ میں پہنچے.جہاں ان کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا.حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب جٹ فاضل امیر جماعت قادیان نے جماعت کی طرف سے ایڈریس پڑھ کر سنایا جس میں ( دین حق ) کے اقتصادی نظام کا خلاصہ پیش کیا.ایڈریس کے بعد اچاریہ جی کو تفسیر صغیر اور دوسرا لٹریچر پیش کیا گیا.جسے موصوف نے بڑے ادب اور احترام اور ممنونیت کے ساتھ قبول کیا.اچاریہ جی نے ایڈریس کے جواب میں اس خوشی کا اظہار کیا کہ روحانیت کا ایک مرکز دیکھنے کا ایک موقعہ انہیں میسر آیا.ازاں بعد انہوں نے کالج گراؤنڈ میں چھ سات ہزار کے مجمع میں تقریر کی جس میں احمدیہ
تاریخ احمدیت 394 جلد ۲۰ جماعت کے حسنِ سلوک اور قرآن شریف کے انمول اور بے بہا تحفے کا ذکر کرتے ہوئے کہا : - احمدی بھائیوں نے بڑے پریم سے باتیں کیں اور قرآن شریف اردو تفسیر کے ساتھ بھینٹ کیا اسی طرح اور بھی بعض ضروری کتابیں ہمیں تحفہ دیں.اس سے پہلے پٹھانکوٹ میں انگریزی ترجمہ کے ساتھ قرآن دے چکے ہیں.ZA مصر کے صحافی السید محمود عودہ اور ڈاکٹر فوزی خلیل ربوہ میں ۱۶ نومبر ۱۹۵۹ء کو بعد دو پہر مصر کے ایک ممتاز صحافی السید محمود عودہ جو قاہرہ کے مشہور اخبار الجمہوریہ کے ایڈیٹوریل سٹاف کے رکن تھے ربوہ تشریف لائے.آپ کے ہمراہ ڈاکٹر فوزی حسن خلیل بھی تھے جو عرب جمہور یہ متحدہ کی طرف سے عربی زبان کی تعلیم و ترویج کے لئے پاکستان آئے ہوئے تھے.اور ان دنوں پنجاب یو نیورسٹی میں عربی کے پروفیسر تھے.ہر دو معزز مہمانوں کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا بعد نماز عصر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر کے لان میں معزز مہمانوں کے اعزاز میں ایک دعوت عصرانہ دی گئی.جس میں صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے متعدد ناظر و وکلاء صاحبان اور دیگر بزرگان سلسلہ و علمائے کرام کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے بھی شمولیت فرمائی.اور مہمانوں سے تبادلہ خیالات کیا.اس موقعہ پر تلاوت قرآن کریم کے بعد جو انڈونیشین طالب علم منصور احمد صاحب نے کی.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر، نائب وکیل التبشیر نے معزز مہمانوں کی خدمت میں عربی میں ایڈریس پیش کیا.ایڈریس میں مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں جماعت احمدیہ سے متعارف کیا گیا.اور اس سلسلے میں بیرونی ممالک میں تعمیر بیوت الذکر، مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور تبلیغ کے ذریعہ جماعت احمد یہ جو دینی خدمات سرانجام دے رہی ہے اس کا مختصراً ذکر کیا گیا.ایڈریس کے جواب میں دونوں مہمانوں نے مختصر طور پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.الاستاذ سید محمود عودہ نے اپنی تقریر میں بتایا کہ میرے پاکستان آنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کے حالات کا جائزہ لے کر پاکستان اور عرب جمہوریہ متحدہ کے درمیان مزید گہرے روابط پیدا کرنے میں مدد دوں.آپ نے کہا کہ دونوں اسلامی ملک مل کر دنیا کے موجودہ حالات میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں.جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ میں آنا بھی میرے پروگرام کا
تاریخ احمدیت 395 جلد ۲۰ ایک اہم حصہ تھا جسے آج میں پورا کرتے ہوئے دلی خوشی محسوس کر رہا ہوں.(دینِ حق ) ایک جامد مذہب نہیں ہے.وہ پہلے بھی کئی ایک مادی فلسفوں کا کامیابی سے مقابلہ کر چکا ہے.ہمیں آج بھی متحد ہوکر یہ ثابت کر دینا چاہئے کہ دین حق ) اس زمانہ میں بھی ایک زندہ طاقت ہے.جو زمانہ کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے.آخر میں آپ نے اہلِ ربوہ کا شکر یہ ادا کیا.پروفیسر فوزی خلیل نے اپنی تقریر میں عربی زبان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی ایک زبان ہے جو رنگ ونسل کے فرق کے باوجود عالم اسلام میں اتحاد اور یگانگت پیدا کر سکتی ہے.اہلِ پاکستان کو بھی اس زبان کی ترویج و اشاعت میں نمایاں حصہ لینا چاہئے.جلسہ سالانہ ۱۹۵۹ء کا ایک ماہ کے لئے التواء حکومت پاکستان کی طرف سے ۸۰ اس سال ۲۶ / دسمبر سے ملک بھر میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخاب منعقد کئے جارہے تھے.اس استثنائی صورتِ حال کے پیش نظر سید نا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جلسہ سالانہ ۱۹۵۹ء کے ایک ماہ کے لئے ملتوی کئے جانے کی درخواست کی گئی جس کو حضور نے منظور فرمایا اور ۲۲ ۲۳ ۲۴ جنوری ۱۹۶۰ء کو اس کے انعقاد کی تاریخیں مقرر فرمائیں.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد نے خلیفہ وقت کے اس فیصلہ کی اطلاع اور تیاری جلسہ کی تحریک کے لئے مندرجہ ذیل اعلان فرمایا : - جماعت احمدیہ کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کی تاریخوں میں تبدیلی منظور فرمائی ہے.اب ۲۶، ۲۷، ۲۸ / دسمبر کی بجائے جلسہ سالانہ انشاء الله ۲۲ ،۲۳ ۲۴ /جنوری ۱۹۶۰ء بروز جمعہ، ہفتہ، اتوار ہوگا.حضور نے فرمایا ہے ہمارا جلسہ تو خالصہ مذہبی جلسہ ہے لیکن چونکہ ان ایام میں بالخصوص ملک بھر میں لوگ بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات میں مصروف ہوں گے اس لئے جماعت کے مشورے کے مطابق یہ تبدیلی منظور کی جاتی ہے.بنیادی جمہوریتوں کا قیام ملک کے آئینی نظام اور اس کی ترقی و استحکام کے حق میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے احباب جماعت کو چاہئے کہ وہ دیگر برادرانِ وطن کے دوش بدوش حکومت کے اس تجربے کو جس کے ساتھ ملک کی فلاح و بہبود وابستہ ہے کامیاب بنانے کی
تاریخ احمدیت 396 جلد ۲۰ پوری پوری کوشش کریں.ان استثنائی حالات میں حضور ایدہ اللہ نے جلسہ سالانہ کی تاریخوں میں تبدیلی منظور فرمائی ہے.اب انشاء اللہ جلسہ سالانه ۲۲ ،۲۳ ۲۴ جنوری ۱۹۶۰ء بروز جمعہ، ہفتہ، اتوار ہوگا.احباب مطلع رہیں.ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد ر بوه 66 ΔΙ حضرت صاحبزادہ مرزا قبول احمدیت کے حالات محفوظ کرنے کی اہم تحریک شریف احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد نے بذریعہ الفضل ۱۰ ؍ دسمبر ۱۹۵۹ء کو یہ تحریک فرمائی کہ احباب جماعت اپنے قبول احمدیت کے ایمان افروز حالات صیغہ نشر واشاعت ربوہ کو بھجوائیں تا یہ تاریخی امانت ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو اور کتابی صورت میں چھپ کر دوسری سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بن سکے.۸۲ اس تحریک پر متعدد بزرگ رفقاء مسیح موعود اور دیگر مخلصین جماعت نے اپنے حالات قلمبند کر کے ارسال فرمائے.مگر افسوس حضرت میاں صاحب اس تحریک کے تھوڑا عرصہ بعد انتقال فرما گئے اور یہ مجموعہ مرتب نہ ہوسکا.قبولیت احمدیت کے حالات جن بزرگوں اور دوستوں نے حضرت میاں صاحب کی اس اہم تحریک پر لبیک کہتے ہوئے حالات ارسال فرمائے ان مخلصین جماعت کی طرف سے کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے.(کل تعداد ۹۵) حالات زمانہ مسیح مو وعود 1- حالات حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور ( نوشتہ حکیم نذیرحسین صاحب چغتائی ولد حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی ( ۲ - حضرت چوہدری نظام الدین صاحب جوڑا ضلع لاہور ( نوشته حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ) ۳- شیخ خدا بخش صاحب لائل پوری (نوشته ملک محمد شریف صاحب -۴- حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی (نوشته مولوی برکات احمد صاحب را جیکی) ۵- سید ولایت شاہ صاحب میڈیکل پریکٹیشنر نیروبی ۶ - حکیم ہاشم علی صاحب (نوشته غلام مهدی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ۱۹۵ رکھ ضلع لائکپورے.مولوی الف دین صاحب ساکن چونڈہ ضلع سیالکوٹ - ڈاکٹر عطر دین صاحب درویش قادیان ۹ - منشی احمد علی صاحب -
تاریخ احمدیت 397 جلد ۲۰ دوالمیال (نوشته مرزا نثار احمد صاحب ڈھیر سیداں ضلع جہلم) ۱۰.حضرت چوہدری محمد علی صاحب اشرف آف بیرم پورہ ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر و سابق جائنٹ ایڈیٹر و مینجر اخبار بدر حال چنیوٹ ۱۱.حضرت حاجی غلام احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کریام ( نوشتہ چوہدری احمد دین صاحب) ۱۲ - چوہدری غلام محمد صاحب راجگڑھ لاہور سابق ہیڈ ماسٹر نصرت گرلز سکول قادیان ۱۳ عبد الصمد صاحب دہلوی ( نوشته حکیم عبدالواحد صاحب صدیقی کراچی ) ۱۴- حضرت حاجی اللہ بخش صاحب چندر کے منگولے ضلع سیالکوٹ ( نوشتہ چوہدری محمد اسحاق صاحب دفتر تحریک جدید ) ۱۵ - محمد عبداللہ صاحب پریکٹیشنر قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ -۱۶ - مہر محمد دین صاحب سید والا (نوشته مولوی قمر الدین صاحب فاضل انسپکٹر تعلیم و تربیت ربوہ ) ۱۷ - حضرت حافظ محمد امین صاحب ( نوشته قریشی عطاء الرحمن صاحب ناظر بیت المال قادیان) ۱۸ - محمد یعقوب صاحب ساکن سار چور ضلع گورداسپور حال ناصر آباد سندھ ۱۹ - حضرت قاضی محمد یوسف صاحب مردان ہوتی امیر جماعت سرحد ۲۰- حضرت سید فقیر محمد صاحب کابلی (خسر حضرت ڈاکٹر بدرالدین صاحب) ۲۱ - خلیفه سراج دین صاحب کلاسوالہ تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ ۲۲ - چوہدری غلام سرور صاحب با جوه چک ۲۷/ ۵۵ تحصیل اوکاڑہ ضلع منٹگمری -۲۳ - اخوند محمد اکبر خان صاحب ( نوشته ملک عزیز محمد صاحب وکیل ڈیرہ غازیخان ( ۲۴ - محمد یعقوب خان صاحب قند ہاری آف کڑی افغاناں حال گکھڑ تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ حالات عہد خلافت اولیٰ ۱- برکت علی صاحب برمی موضع سٹھیالی ضلع گجرات ۲ - سید محمد اصغر صاحب مونگھیری ۳ - صوفی عطا محمد صاحب جالندھری (والد صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم اے) ۴- مرزا عبدالمجید صاحب پنشنر ڈی ایس پی پشاور ۵- رشید احمد خان صاحب سہارنپوری حال ربوه ۶ - سید محمد لطیف صاحب سابق انسپکٹر بیت المال ربوہ ۷.منشی محمد رمضان صاحب کلرک ضلعوار نظام جماعت احمد یہ گجرات -۸- حکیم شاہ عبدالہادی صاحب موضع چند در ضلع مونگھیر حالات عہد خلافت ثانیہ ا.حکیم محمد موبیل صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمد یہ کمال ڈیرہ سندھ ۲- میاں سلطان بخش صاحب سابق پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ کلر کہار -۳ - الحاج حافظ مولوی عزیز الرحمن صاحب منگلا ضلع
تاریخ احمدیت 398 جلد ۲۰ سرگودھا ۴ - محمد حسین صاحب مهدی پوری تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ ۵- عبدالحمید صاحب زیدہ ۶ - صوبہ خان صاحب امیر جماعت احمد یہ ٹوپی تحصیل صوابی ضلع مردان ۷.عبدالحق صاحب قادیانی درویش معاون ناظر اعلی قادیان -۸ محمد بخش صاحب پنشنر کنال سکنیلر محلہ دارالنصر ربوہ ۹ - میاں عبدالصادق صاحب ڈھوک جمعہ جہلم حال سرگودھا ۱۰ - شیخ فضل حق صاحب جنرل مرچنٹ سبی ( بلوچستان (۱۱ - مولوی محمد عرفان صاحب اپیل نویس مانسہرہ ضلع ہزارہ ۱۲- ماسٹر فضل الدین صاحب طارق کنری سندھ ۱۳- سید رحمت علی شاہ صاحب کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ ( نوشتہ سیده قامته دختر سید رحمت علی شاہ ) ۱۴ - چوہدری محمد یوسف صاحب مهاجر احمد نگر ضلع جھنگ ( نوشته محمد عیسی صاحب ظفر سیکرٹری مال چک نمبر ۳۸ ج ضلع سرگودھا) ۱۵- خوشی محمد صاحب رامه ساکن بھا گو ارائیں تحصیل سلطانپور لودی ریاست کپورتھلہ حال ملٹری ڈیری فارم چھاؤنی کراچی نمبر 9 -۱۶ - مستری غلام نبی صاحب لائل پوری ( نوشته عبدالمنیب محمد احمد صاحب دفتر الفضل ربوہ ) ۱۷ - سید محمد حسین شاہ صاحب ملتانی نا در دواخانه ربوه ۱۸ - حکیم عبد العزیز صاحب چک چٹھہ ضلع گوجرانوالہ ۱۹ - محمد عبداللہ صاحب پٹواری حال دوده ساکن بھیرہ -۲۰ گل محمد صاحب بلوچ ساکن ہیرو شرقی تحصیل تونسہ ضلع ڈیرہ غازیخان -۲۱- عبدالعزیز صاحب قریشی میڈیکل پریکٹیشنر ر بوه ۲۲ - اللہ بخش غازی صاحب پنشنز ٹیچر ہیرو شرقی ضلع ڈیرہ غازی خان -۲۳ - فضل حسین صاحب معلم وقف جدید حال کوٹ فتح خاں تحصیل فتح جنگ ضلع کیمپور ساکن کلر کہار تحصیل چکوال ضلع جہلم ۲۴ - الحاج نواب زاده محمد امین خان صاحب بنوں ۲۵ - فضل احمد صاحب تلونڈی عنایت خان ضلع سیالکوٹ ۲۶ - نواب بیگم صاحبہ بنت ملک شیر محمد خاں صاحب کوٹ ملک رحمت خان ضلع شیخو پورہ ۲۷ - ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب کڑی افغاناں -۲۸ چوہدری عبد الکریم صاحب (داماد حضرت ملک شیر محمد خان صاحب کوٹ رحمت خان ) ۲۹ - اللہ بخش صاحب ساکن کڑی افغاناں حال گکھڑ منڈی تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ ۳۰ - صو بیدار میجر سلیم صاحب کیمسٹ نوشہرہ ۳۱ - حکیم محمد عبد اللہ صاحب منظور حافظ آبادی ۳۲ - شمشیر خان صاحب جوئیہ ربوہ ۳۳ - میاں محمد حسین صاحب سیکرٹری مال جماعت احمد یہ مہدی پور تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ ( نوشتہ بشیر احمد صاحب صراف ڈسکہ) ۳۴- سعید احمد خان صاحب حیدرانی گورنمنٹ ہائی سکول اوچ شریف ۳۵ - بسم اللہ بیگم صاحبہ زوجہ محمد اسحاق صاحب فوجی افسر ڈیر یا نوالہ تحصیل نارووال ۳۶ - صاحبہ بی بی کوٹ محمد یار تحصیل چنیوٹ ( نوشتہ منظور احمد سالک ولد خدا بخش احمدی کوٹ محمد یار تحصیل چنیوٹ ( ۳۷ - سید محمد امیر بابا ( نوشته محمد اقبال صاحب -
تاریخ احمدیت 399 جلد ۲۰ بی اے) ۳۸ - مرزا شکر علی صاحب آف کلو ضلع کانگڑہ ۳۹.فضل محمد صاحب کپورتھلوی درویش -۴- غلام محمد صاحب گھڑی ساز حافظ آباد -۴۱.سردار احمد صاحب خادم محلہ دارالنصر ربوہ ۴۲ - مسعود احمد واقف زندگی در ولیش قادیان -۴۳ - مستری عبد الکریم صاحب ساکن پنڈوری حال چک ۳۹ ڈی بی ضلع سرگودھا -۴۴ - افضال احمد صاحب قریشی محله دارالرحمت ربوه ۴۵ - حاجی عبدالکریم صاحب ( کراچی ) ۴۶ - شیخ سمیع اللہ پائل ضلع کپورتھلہ حال عرائض نولیس کچہری لائل پور ۴۷ - میاں سراج دین صاحب سابق مؤذن بیت اقصی قادیان ۴۸ - شیخ عبدالحکیم صاحب شملونی متوطن کھوکھر تحصیل چکوال ۴۹ - کیپٹین ڈاکٹر محمد رمضان صاحب سردار بہادر او.بی.آئی پنشنر محلہ دار الصدر ربوہ ۵۰- ڈاکٹر جلال الدین صاحب ٹمپل روڈ کراچی ۵۱- میاں چراغ دین صاحب ریٹائرڈ انسٹرکٹر قلعہ سوبھا سنگھ ضلع سیالکوٹ ۵۲- ماسٹر محمد بخش صاحب سولنگی ۵۳ - ملک محمد شفیع صاحب نوشهروی دارالرحمت ربوه ۵۴ - میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ ۵۵- چوہدری عبدالستار صاحب بی اے ایل ایل بی سیکشن آفیسر سیکرٹریٹ مغربی پاکستان لاہور ۵۶ - فضل احمد صاحب باجوہ موضع تلونڈی عنایت خان ضلع سیالکوٹ ۵۷- عبدالرزاق صاحب جنا ریڈیو سروس چوک گونڈہ یوپی بھارت ۵۸ - عبد العزیز احمدی معمار راہی ۵۹ - دین محمد صاحب بٹالوی ساکن اوکاڑ ۶۰۰.شیخ محمد علی صاحب انبالوی پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چوہڑ کا نہ منڈی ضلع شیخو پورہ ۶۱- ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب اخوند ریٹائرڈ میڈیکل آفیسر ساکن مٹاری ضلع حیدرآباد سندھ ۶۲ - حکیم محمد نواب خان بدر چک نمبر ۴-۷/۱۲-۱ تحصیل و تحصیل و ضلع منٹگمری ۶۳ - غلام محمد صاحب ریٹائرڈ ٹیچر گلی نمبر ۴ محلّہ صرافاں شاہدرہ ۶۴ - احمد الدین صاحب تو فی روڈ متصل عید گاہ مہاجر سٹور کوئٹہ ۶۵ - پیر فیض عالم صاحب قریشی الہاشمی گولیکی -۶۶ - عبد الواحد خان احمدی معلم ہیرو شرقی ضلع ڈیرہ غازی خان ۶۷ - فیروز الدین امرتسری انسپکٹر تحریک جدید ر بوه ۶۸ - فضل دین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ملیا نوالہ تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ ۶۹ - سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد سعید صاحب گڑی شاہو.۲ مفتی سٹریٹ لاہور ۷۰- قریشی محمد حسین شاہ محبّ پور تحصیل خوشاب ضلع سرگودھا اے.فضل احمد صاحب پریذیڈنٹ دولیا جہاں ڈاکخانہ پلاک ضلع میر پور آزاد کشمیر ۷۲- جلال الدین صاحب گل سیکرٹری اصلاح و ارشاد ہڈیارہ ضلع لاہور ۷۳.چوہدری محمد الدین صاحب پٹواری نمبر حلقہ لنڈ یا نوالہ تحصیل چونیاں ضلع لا ہو ر ۴ ۷.صوبیدار فضل محمد صاحب احمدی چک ۳۲۴ ج ب پڑا ڈاکخانہ خاص براستہ ٹو به ٹیک سنگھ ضلع لائل پور -۷۵ افتخار علی صاحب سپرنٹنڈنٹ انجینئر محکمہ انہار حکومت مغربی پاکستان -L -
تاریخ احمدیت 400 جلد ۲۰ -17 - لاہور ۷۶- محمد بیبین صاحب احمدی ٹیچر مکان نمبر ۲۱٢.٥ وحدت کالونی کوئٹہ ۷۷.حکیم غلام رسول صاحب معلم وقف جدید موضع جھول ڈاکخانہ بنگلہ باغ و بہار ۷۸- محمد سلیمان خان صاحب اسٹنٹ انسٹرکٹر پولیس وائرلیس ٹریننگ سکول بہاولپور -۷۹- سراج دین صاحب رانجھا ساکن مراد وال ضلع گجرات -۸۰- غازی محمد صدیق کوٹلی آزاد کشمیر حال راولپنڈی ۸۱- محمد سلیمان کسوموں (Kisumu) مشرقی افریقہ ۸۲ - حافظ برکت علی نقیب جامع بیت احمد یہ سیالکوٹ شہر ۸۳- محمد جان پولیس وائرلیس سٹیشن سول لائنز سرگودھا -۸۴ حضرت صاحب منڈا سکھر پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ پہلی میسور اسٹیٹ بھارت ۸۵- مبارک علی صاحب قائد خدام الاحمد یہ عارف والا ضلع منٹگمری - شیخ عنایت اللہ صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت جماعت احمد یہ تخت ہزارہ ضلع سرگودھا ۸۷- چوہدری برکت علی صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ ۱۳۹ کمی ضلع لائل پور ۸۸- محمد رفیق صاحب بھٹی ساکن کوٹ نیناں تحصیل شکر گڑھ ضلع سیالکوٹ -۸۹ نور الہی صاحب چک ۲۶ ج ب کلاں ڈاکخانہ خاص تحصیل و ضلع لائل پور ۹۰ - بختیار احمد خان صاحب کیشیئر گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس پشاور و پریذیڈنٹ حلقہ شہر نمبر ۲ پشاور ۹۱ - خدا بخش صاحب بھٹی پی اے ایف ڈرگ روڈ کراچی ( متوطن کوٹ طان تحصیل چنیوٹ ضلع جھنگ) ۹۲ - محمد اسد اللہ قریشی صاحب محلہ بھا بڑا گلی نمبر ۴ راولپنڈی ۹۳ - ماسٹر شیر محمد صاحب مدرس مدرسه چک نمبر ۲۸ شمالی براستہ بھلوال ضلع سرگودها ۹۴ - چوہدری اللہ دتہ صاحب جٹ گور ایا مدرس مڈل سکول گولیکی و سیکرٹری تحریک جدید گولیکی ۹۵ - محمد یوسف صاحب بٹ قائد خدام الاحمدیہ خانو والی تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ ۸۳ ۱۴،۱۳؍ دسمبر ۱۹۵۹ء حضرت مصلح موعود کا اظہار خوشنودی طلبہ کی کامیابی پر کوضلع جھنگ کے تمام ہائی سکولوں کے نمائندہ طلبہ کا جھنگ میں اردو اور انگریزی تقاریر کا مقابلہ ہوا جس میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے طلبہ نے امتیازی پوزیشن حاصل کی.چنانچہ انگریزی میں سیف الرحمن صاحب قیصرانی دوم اور محمد افضل صاحب سوم اور اردو میں جاوید احمد صاحب دوم اور سیف الرحمن صاحب قیصرانی سوم قرار پائے.اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے صوفی محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے نام حسب ذیل مکتوب گرامی ارسال فرمایا : - ہیڈ ماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ
تاریخ احمدیت 401 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میری طرف سے لڑکوں کو جنہوں نے تقریروں میں انعام لئے ہیں اور جن کے نام آج الفضل میں چھپے ہیں مبارکباد دیں.اللہ تعالیٰ انہیں ( دین حق) کی خدمت کی توفیق دے اور دین حق ) کو ان کے ہاتھ پر فتح دے.ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ صرف اپنے ماں باپ کے بیٹے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ اور مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے ہیں اور ان کے دین اور جھنڈے کو اونچا رکھنا ان کا فرض ہے.اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے علم ، دین اور تقویٰ میں برکت دے گا.( دستخط ) مرزا محمود احمد خلیفه امسیح ربوه ۱۹/۱۲/۵۹ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت فصل پنجم 402 جلد ۲۰ سالانہ جلسہ قادیان ۱۹۵۹ء اس سال جلسہ سالانہ قادیان ،۱۵، ۱۶، ۱۷ار دسمبر ۱۹۵۹ء کو انعقاد پذیر ہوا.جس میں ہندوستان کے طول و عرض سے قریباً ڈھائی سو احمدیوں نے شرکت کی اور ۲۰۵ کے قریب پاکستانی احمدی شریک جلسہ ہوئے.جن میں سے اکثر با قاعدہ قافلہ کی صورت میں چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کی زیر قیادت تشریف لے گئے.اس جلسہ میں سلسلہ کے جید علماء نے نہایت پر مغز تقاریر کیں.جلسہ کی روح رواں وہ ایمان افروز پیغامات تھے جو خلیفہ موعود سید نا محمود الصلح الموعود اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ارسال فرمائے تھے.حضرت مصلح موعود کا پیغام خدا تعالیٰ پر تو کل سب سے اہم چیز ہے جو کچھ خدا کرسکتا ہے بندہ نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو کہ وہ ایسا راستہ کھولے جس سے آپ کی اور جماعت کی تکلیفیں دور ہوں.اس میں سب طاقتیں ہیں.جہاں بندہ کی عقل نہیں پہنچتی اس کا علم پہنچتا ہے.خواہ ایک ٹکڑا ہو صدقہ بہت دیا کرو کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے جہاں دعا ئیں نہیں پہنچتیں صدقہ بلاؤں کو رد کر دیتا ہے.صدقہ کا لفظ بھی بتاتا ہے کہ تعلق باللہ سچا ہے.پس تعلق باللہ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ جو کام آپ نہیں کر سکتے وہ خدا کردے.رب اغفرلي وارحمنى وانت خير الراحمين رب كل شيء خادمك رب فاحفظني وانصرني وارحمني کثرت سے پڑھا کریں.
تاریخ احمدیت 403 رب انك تعلم ولا اعلم وانت اعلم منى من خفاء نقائصى فانزل على فضلك ورحمتك وازل عن طريقتى كل عوائق لاتقرنى بعدى وانت اعلم منى من حالی.“ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام بسم ا الله الرحمن الرحيم مرزا محمود احمد - ۱۳/ دسمبر ۱۹۵۹ء.AY نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود مکرمی و محتر می مولوی عبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمد یہ قادیان!.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته فضل الحمد لله ثم الحمد للہ کہ چار پانچ سال طویل وقفہ کے بعد احباب جماعت پاکستان کو قافلہ کی صورت میں قادیان جانے کا موقعہ مل رہا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے یہ سفر اہلِ قافلہ کے لئے اور اہلِ قادیان کے لئے اور ہندوستان کے لئے اور پاکستان کے لئے اور ( دینِ حق ) اور احمدیت کے لئے ہر جہت سے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ کرے.آمین یہ قافلہ گو دوسو افراد پر مشتمل ہے مگر دراصل پاکستان کی ساری ہی جماعت قادیان کی زیارت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دعائیں کرنے کی تڑپ رکھتی ہے اور خدا سے دست دعا ہے کہ وہ اپنے سے کامل ملاپ کا رستہ کھولے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن عالمگیر ہے اس لئے یہ حد بندیاں یہ پابندیاں طبعا مخلص احمدی کے دل پر بہت گراں گزرتی ہیں ولعل الله يحدث بعد ذالك امرا.آپ لوگوں کو چاہئے کہ پر امن تبلیغ اور پاک نمونہ کے ذریعہ ( دینِ حق ) اور احمدیت کا پیغام لوگوں کو پہنچاتے چلے جائیں اور ہر اسود احمر کے دل میں اس طرح گھر کر جائیں کہ ایک طاقتور مقناطیس کی طرح لوگ خود بخود آپ کی طرف کھنچتے چلے آئیں.گزشتہ ایام میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کا دل قادیان کے لئے بہت بے چین رہا ہے اگر حضور کی یہ بے چینی خدائی تقدیر کی انگلی ہے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 404 تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ بچھڑے ہوئے بھائیوں کو پھر ملا دے.وما ذالك على الله بعزیز.مگر یاد رکھو کہ اس کے لئے تین باتوں کی ضرورت ہے.(اول) والہا نہ تبلیغ (دوسرے ) پاک اور دلکش نمونہ (تیسرے) اور سوز و گداز کی دعائیں.ہمارا آسمانی آقا آپ کو ان تینوں باتوں کی توفیق دے اور آپ کو اپنے فضل و رحمت اور قوت و جبروت کے دائمی پروں کے نیچے رکھے.آمین ثم آمین.یہ قافلہ دو سو افراد پر مشتمل ہے اور کچھ دوست جن کے پاس بیرونی ممالک کے پاسپورٹ ہیں علیحدہ طور پر بھی جارہے ہیں اور امید ہے اس سے کچھ زیادہ تعداد ہندوستان کے مختلف علاقوں کی بھی اس موقعہ پر قادیان پہنچ جائے گی اس طرح زائرین کی تعداد انشاء اللہ چھ سات سو ہو جائے گی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتداء میں جلسہ کی داغ بیل ڈالی تو اس وقت جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد دوسو سے بھی کم تھی.اگر دوسو کی تعداد سے ترقی کر کے جماعت اپنی موجود تعداد کو پہنچی ہے تو خدا کے فضل سے چھ سات سو کی تعداد سے پیدا ہونے والا بیج بہت جلد ایک عظیم الشان درخت بن سکتا ہے.موجودہ قافلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض رفقاء ہیں.بعض امراء جماعت ہیں.بعض بیرونی ممالک کے مبلغ ہیں.بعض خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد ہیں.بعض بیرونی ممالک کے طلبہ ہیں اور بعض ان چار طبقوں میں سے نہ ہونے کے باوجود اخلاص میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں.میری دعا ہے کہ یہ سب آپ لوگوں کی نیک صحبت اور پاکیزہ دعاؤں سے فیض پائیں اور آپ لوگ ان کی نیک صحبت اور پاک دعاؤں سے مستفید ہوں اور پھر دونوں کی دعائیں مل کر آسمان میں وہ حرکت پیدا کر دیں جو دنیا کے دلوں کو فتح کرنے والی ہو.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 405 جلد ۲۰ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم وتب علينا انك انت التواب الرحيم آمين يا ارحم الراحمين نوٹ :- جو بھائی توفیق پائیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر میرا عاجزانہ سلام پہنچائیں اور دعا کریں کہ حضور کے قدموں کے طفیل اللہ تعالیٰ مجھے خدمت دین کی توفیق دے اور میرا انجام بخیر ہو.والسلام خاکسار : مرزا بشیر احمد.۱۴؍ دسمبر ۱۹۵۹ء دوسرے کوائف مندرجہ بالا اہم پیغامات کا تذکرہ کرنے کے بعد اس مبارک اجتماع کے دوسرے اہم کوائف پر روشنی ڈالی جاتی ہے.اخبار بدر ۲۴ / دسمبر ۱۹۵۹ء نے لکھا: - وو جلسہ کی تاریخیں ۱۵، ۱۶، ۱۷ دسمبر تھیں جس میں شرکت کے لئے ۱۳ / دسمبر سے ہی احباب قادیان پہنچنے شروع ہو گئے.ان میں اندرون ملک کے مختلف مقامات کے دوستوں کے علاوہ بیرونی ممالک مثلاً جزائر ، فجی، ماریشس، عدن ، افریقہ، برما کے احباب مقررہ تاریخوں سے ایک دو روز قبل ہی تشریف لے آئے.سب کے قیام و طعام کا خاطر خواہ اہتمام کیا گیا.ادھر ۱۴ دسمبر کو پانچ بسوں میں سوار پاکستانی احمدیوں کا قافلہ بھی سات بجے پہنچ گیا.پاکستانی قافلہ ابھی بٹالہ سڑک پر ہی تھا کہ اطلاع ملنے پر منارۃ اسیح کے آٹھوں بجلی کے لیمپ روشن کر دیئے گئے اس طرح منارہ کی برقی روشنی نے دور ہی سے مسیح پاک کے معزز مہمانوں کا خیر مقدم کیا جبکہ دیار مسیح سے نکلنے والی شعاؤں کو دیکھ کر اہلِ قافلہ پر غیر معمولی رقت طاری ہو گئی اور سب ہی زیرلب دعاؤں میں مشغول ہو گئے.قافلہ کی پانچوں بسیں ڈلہ کے موڑ سے گھوم کر پرانے اڈہ خانہ سے ریتی چھلہ کے پاس سے گزرتی ہوئیں محلہ دار الانوار میں پہنچ گئیں اور بیت الظفر سے احمد یہ محلہ کی طرف مڑ گئیں.ادھر ضیاء الاسلام پریس اور جلسہ گاہ کے قریب جملہ درویشان قادیان اور حاضر الوقت مہمانان اپنے پاکستانی احمدی بھائیوں کی پیشوائی کے لئے موجود تھے.مقام استقبال پر بجلی کی روشنی کا خاطر خواہ انتظام تھا.جونہی بسیں اس جگہ پر
تاریخ احمدیت 406 پہنچیں اھلا و سهلا و مرحبا.اور نعرہ ہائے تکبیر اور دیگر اسلامی نعروں سے فضا گونج اٹھی.درویشان قادیان و دیگر احباب ایک لمبی قطار میں کھڑے تھے.جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب کی قیادت میں سب مہمان بسوں سے اتر کر باری باری مصافحہ کرتے اور السلام علیکم کا تحفہ پیش کرتے چلے گئے اور کچھ دیر بعد سب مہمانوں کو ان کی فرودگا ہوں میں پہنچا دیا گیا.جلسہ سالانہ کے جملہ انتظامات از فتم خدمت و تواضع مهمانان کرام محترم مرزا وسیم احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ کی نگرانی میں نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام پائے اور کم و بیش سو درویشان نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت میں نہایت مستعدی اور پوری تندہی سے کام کیا اور مہمانانِ کرام کو آرام پہنچانے میں حتی الامکان کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا.اور ہر طرح محبت و اخلاص سے خدمت کر کے علی قدر المراتب خدا تعالیٰ سے بہتر اجر کے مستحق بنے.ان کے اخلاص کو بڑھانے اور پرخلوص خدمات کو بپایہ قبولیت جگہ دے.آمین.مہمانانِ کرام کے قیام کا مجموعی انتظام مدرسہ احمدیہ، دار المسیح اور نصرت گرلز سکول میں کیا گیا تھا.علاوہ ازیں ایک معقول تعداد ہند و پاکستان و بیرون جات سے آنے والی فیملیز کی تھی جن کے لئے درویشانِ کرام نے اپنے مکانوں کا ایک حصہ پیش کر کے ان کے علیحدہ قیام اور آرام و آسائش کا اہتمام کیا.فجز اہم اللہ احسن الجزاء.احباب جماعت قادیان میں محض مقامات مقدسہ کی زیارت اور ذکر الہی و دعاؤں کی خاطر آتے ہیں اور عرصہ قیام قادیان میں ان کا تمام تر یہی روحانی مشغلہ رہتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان مبارک ایام میں سب احباب انفرادی دعاؤں ، نوافل کی ادائیگی اور ذکر الہی میں مشغول رہے اور انہیں مساجد میں باجماعت پنجگانہ نمازوں کے علاوہ روزانہ نماز تہجد بھی باجماعت ادا کرنے کا موقع میسر رہا.اسی طرح جلسہ سالانہ کے افتتاح و اختتام پر اجتماعی دعائیں ہوئیں اور مورخہ ۱۸؍ دسمبر کو نماز جمعہ کے بعد مقبرہ بہشتی میں تدفین کے لئے حیدرآباد سے آئے ہوئے دو جنازوں کی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 407 نماز جنازه محترم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل نے جنازہ گاہ میں ادا فرمائی.اور اس موقع پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر اجتماعی دعا ہوئی.مورخہ ۱۶، ۱۷ دسمبر کی درمیانی شب بیت مبارک میں زیر صدارت جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمد یہ لا ہور ذکرِ حبیب کی مجلس منعقد ہوئی.جس میں مختلف رفقاء خاص کی طرف سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں ایک ایک روایت سنانے کا اہتمام ہوا.چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی، محترم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل، حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری، جناب شیخ عبدالعزیز صاحب رفقاء حضرت مسیح موعود نے روایات سنائیں.جناب ملک صلاح الدین صاحب نے بھی بعض رفقاء کی مروی روایات پڑھ کر سنا ئیں.اس موقعہ پر جناب میاں عطاء اللہ صاحب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی نے رفقاء کرام کے مقام پر ایک پر مغز تقریر فرمائی اور صدر جلسہ نے رفقاء کرام کے حالات اور ان کی بیان کردہ روایات کو محفوظ کرنے کی اہمیت وضرورت پر تفصیلی روشنی ڈالی.اور اس سلسلہ میں اپنے والد ماجد حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب اور اپنی والدہ ماجدہ ( جو دونوں ہی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء میں سے تھے ) کی چند ایمان افروز روایات سنائیں.ذکرِ حبیب کی یہ مجلس آٹھ بجے سے دس بجے تک جاری رہی.مورخہ ۱۷، ۱۸ کی درمیانی شب ساڑھے سات بجے بعد نماز عشاء بيت اقصیٰ میں زیر صدارت جناب لیفٹینٹ کرنل سردار سرین سنگھ صاحب سرائے خاص ضلع جالندھر چالیس زبانوں میں تقاریر ہوئیں.جس کا اہتمام مکرم قریشی فیروز محی الدین صاحب آف ربوہ سابق مبلغ سنگا پور نے کیا.یہ سوا تین درجن مختلف زبانیں بولنے والے سب کے سب مسیح پاک علیہ السلام کے پروانے ہی تھے.اور اس طرح سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو برسوں پہلے دیئے گئے خدائی وعدہ کا ایفا ء سب حاضرین مجلس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۵ء میں فرمایا تھا: - جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 408 خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.“ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶، ۳۰۷) مورخه ۱۸/دسمبر بروز جمعۃ المبارک بعد نماز فجر زیر صدارت چوہدری اسداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور مجلس انصاراللہ بھارت کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.جس میں درس القرآن ، درس الحدیث، درس کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ ذکر حبیب کے موضوع پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی، محترم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل، حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب، ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑک اور جناب شیخ عبدالعزیز صاحب پانچ صحابہ نے ایک ایک روایت سنائی جو حاضرین کے لئے ازدیاد ایمان کا موجب ہوئیں اور بعدۂ اجتماعی دعا ہوئی.جلسہ سالانہ کا سہ روزہ پروگرام ۱۷؍ دسمبر کو پانچ بجے ختم ہو گیا.بعض دوست زیادہ فرصت نہ پانے کے باعث اسی روز رات کی گاڑی اور بعض اگلے روز اپنے وطنوں کو واپس روانہ ہو گئے.مورخہ ۱۹؍ دسمبر کو پاکستانی قافلہ کی واپسی تھی.پانچوں بسیں جلسہ گاہ کے وسیع احاطہ کے ایک طرف کھڑی تھیں اب روانگی کے لئے کھلے میدان میں ترتیب وار کھڑی کی گئی تھیں.ہر پاکستانی زائر اپنا ضروری سامان بستر وغیرہ لے کر ساڑھے سات بجے صبح ہی پہنچ گیا.جملہ درویشان قادیان اور حاضر الوقت دیگر مہمان بھی اپنے پاکستانی احمدی بھائیوں کو الوداع کہنے کے لئے اس جگہ پہنچ گئے اس وقت بھی ایک عجیب منظر تھا.مقامات مقدسہ میں پانچ روز قیام کے بعد یہ ابراہیمی طیور اپنے گھونسلے کو پھر نہ معلوم وقت کے لئے چھوڑ جانے والے تھے اور الوداع کہنے والے دوستوں سے رخصت ہور ہے تھے.اس وقت جذبات کا ایسا ہجوم تھا کہ سب کی آنکھیں پرنم تھیں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 409 جلد ۲۰ اور جانے والے مسیح پاک کی مقدس بستی اور دیارِ حبیب کو حسرت بھری نگاہوں سے تک رہے تھے کہ چند ہی ساعات میں اپنے محبوب مرکز سے کوچ کرنے والے ہیں.الوداع کہنے والوں کے جذبات و احساسات کا بالکل وہی عالم تھا جس کی ترجمانی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عرصہ پیشتر ایک ایسے ہی موقعہ پر حسب ذیل مبارک کلمات میں فرمائی تھی مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے تم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سبحان من برانی اس موقعہ پر محترمی مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمد یہ قادیان نے اجتماعی دعا کرائی اور دیر تک جلسہ گاہ کا وسیع احاطہ ہچکیوں، سکیوں اور آہ و بکا کی آوازوں سے گونجتا رہا.بالآخر مہمانانِ کرام کی بسیں روانہ ہوئیں.درویشان قادیان اور دیگر احباب کاہلواں کی طرف بٹالہ کو جانے والی سڑک پر دور تک بسوں کے ساتھ ساتھ چلتے چلے گئے اور ہاتھوں کے اشاروں اور رومالوں کے ہلانے سے اپنے بھائیوں کو الوداع کرنے کے بعد جب بسیں نظروں سے اوجھل ہوگئیں تو واپس لوٹ آئے اور باقی مہمان بھی ایک دو روز بعد اپنے وطنوں کو روانہ ہو گئے.“ اس سال قافلہ قادیان میں جن قافلہ قادیان ۱۹۵۹ء میں شامل حضرات حضرات کو شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی ان کے نام یہ ہیں.یہ فہرست حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے الفضل“ مورخه ۲۵ /نومبر ۱۹۵۹ءصفحہ ۵ تا ۷ پر شائع ہوئی.۱- چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر.۱۱ کینال پارک ( گلبرک ) لا ہور (امیر قافلہ ) ۲ - ماسٹر اللہ داد خان صاحب ولد مولا بخش صاحب زعیم انصار اللہ ننکانہ صاحب ضلع شیخو پوره ۳ - امۃ الرشید صاحبہ اہلیہ سید لال شاہ صاحب.وار برٹن ضلع شیخو پوره ۴ - سید اعجاز احمد صاحب انسپکٹر بیت المال.حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ ۵ - امین الرشید ہاشمی ولد قریشی رشید احمد صاحب ارشد کراچی ۶ - امة المنان صاحبہ بنت خواجہ محمد شریف صاحب سبزی فروش ربوہ ۷- امتہ السمیع صاحبہ
تاریخ احمدیت اہلیہ 410 جلد ۲۰ سید پیر احمد صاحب سیالکوٹ -۸ امتہ الوہاب ضیاء صاحبہ اہلیہ عبداللطیف خان صاحب دار الصدر شرقی ربوه ۹ - آیت الرحمن صاحب ولد شیخ فقیر اللہ صاحب معرفت راجپوت سائیکل ورکس نیلہ گنبد لا ہور ۱۰ - اله بخش صاحب ولد خزانہ محلہ تاج پورہ سیالکوٹ شہر ا.چوہدری الطاف حسین صاحب ولد چوہدري عنايت محمد صاحب مکان نمبر ۱۶ سالگرام سٹریٹ نزد لال کوٹھی لا ہور ۱۲.مرزا انس احمد صاحب تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ۱۳ - مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری ربو ۱۴۰ - ملک بشارت احمد صاحب ولد ملک مولا بخش صاحب مرحوم ربوه -۱۵ - منشی بشیر احمد صاحب ولد محمد علی صاحب چک نمبر ۹۶ گ ب ضلع لائل پور ۱۶.برکت علی صاحب ولد حسین بخش صاحب چک نمبر ۶۹ R.B گھسیٹ پورہ ضلع لائل پور ۱۷.سردار بشیر احمد صاحب ایس ڈی اونمبر ۵۰ آر یہ نگر پونچھ روڈ لاہور ۱۸- عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ سردار بشیر احمد صاحب نمبر ۵۰ آریہ نگر پونچھ روڈ لاہور ۱۹ - بلال احمد صاحب معرفت خیبر ٹیکسٹائل اینڈ ہوزری ملز ۹۸ راوی روڈ لاہور ۲۰ - بشیر احمد صاحب ولد میاں محمد شریف صاحب معرفت با بو قاسم الدین صاحب سیالکوٹ ۲۱ - حکیم سید پیر احمد صاحب سیالکوٹ شہر ۲۲ - تیمور احمد صاحب چغتائی ولد میاں کمال دین صاحب ۱۳ نکلسن روڈ لاہور ۲۳- مرزا چاند بیگ صاحب دفتر فوڈ گرین ننکانہ صاحب ضلع شیخو پوره ۲۴ - حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ پیر شیر عالم صاحب گولیکی ضلع گجرات ۲۵- ماسٹر حسن محمد صاحب آف کلوسوہل محلہ دار النصر ربوه ۲۶ - طالعه بی بی صاحبہ اہلیہ ماسٹر حسن محمد صاحب محلہ دار النصر ربوہ ۲۷ - پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب دار الرحمت شرقی ربوه ۲۸ - گل بانو بیگم صاحبہ اہلیہ پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب دارالرحمت شرقی ربوه ۲۹ - حکیم حفیظ الرحمان صاحب سنوری لال حویلی اکبری منڈی لاہور ۳۰ - حمیدہ حفیظ صاحبہ اہلیہ حکیم حفیظ الرحمن صاحب لال حویلی اکبری منڈی لاہور ۳۱ - خیر الدین صاحب ولد نتھو مشین والا محله وارڈ نمبر ۱۰ نارووال ضلع سیالکوٹ ۳۲ - مولوی خلیل احمد اختر صاحب مبلغ غانا منٹگمری ۳۳ - حسن احمد صاحب ولد میاں محمد صاحب پونچھ روڈ سمن آباد لاہور ۳۴ - سردار حمید احمد صاحب ولد ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ۵۰ آریہ نگر پونچھ روڈ لاہور ۳۵.رشیدہ صاحبہ اہلیہ مولوی بشارت احمد صاحب بشیر وکالت تبشیر ربوه ۳۶ - رحیم بخش صاحب ولد نقو موضع مان کوٹ تحصیل کبیر والا ضلع ملتان ۳۷ - مولوی رشید الدین صاحب ولد چوہدری جلال دین صاحب ( مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ کوئٹہ ) ۳۸ - رحمت اللہ صاحب ولد برکت علی صاحب چک نمبر R.BY9 گھسیٹ پور براستہ شاہ کوٹ ضلع لائل پور ۳۹ - شیخ دوست محمد صاحب شمس معرفت رفیق برادرز سمندری روڈ لائکپور ۴۰ - رشید احمد خان صاحب ضلع دار سبزی مارکیٹ بازار گلی نمبر ۲ جڑانوالہ ۴۱ - اہلیہ صاحبہ رشید احمد خان صاحب
تاریخ احمدیت 411 جلد ۲۰ ضلع دار سبزی مارکیٹ بازار گلی نمبر ۲ جڑانوالہ ۴۲.رابعہ بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری محمد اسماعیل صاحب دار الصدر شرقی ربوه ۴۳ - رفیع الزمان خان صاحب نمبر ۱۰ عارف منزل اوٹرام روڈ کراچی نمبرا ۴۴ - سعی محمد صاحب بمقام مرالہ تحصیل پھالیہ ضلع گجرات ۴۵ - چوہدری سردار خان صاحب مکان نمبر ۲ آستانہ سٹریٹ نمبر ۲ مسلم ٹاؤن لاہور ۴۶ - سلطان محمود احمد صاحب ولد میاں خدا بخش صاحب کراچی ۴۷ - شیر محمد صاحب ولد چوہدری کرم الہی صاحب کرمپورہ ڈاک خانہ وار برٹن ضلع شیخو پوره ۴۸ - کلثوم بیگم زوجہ شیر محمد صاحب کرمپورہ ڈاک خانہ وار برٹن ضلع شیخو پورہ ۴۹ - شاہد احمد خان صاحب ابن نواب محمد عبد اللہ خان صاحب چارسده ۵۰- سردار بی بی صاحبه زوجه ولی محمد صاحب در ولیش شا د یوال ضلع گجرات ۵۱ - سعیده حبیب اللہ صاحبہ پروفیسر جامعہ نصرت ربوہ ۵۲ - مرز ا سمیع احمد صاحب ظفر ولد مرزا مولا بخش صاحب دار الصدر شرقی ربوه ۵۳ - سعادت احمد خان صاحب ولد چوہدری برکت علی خان صاحب دارالرحمت وسطی ربوه ۵۴- سکینہ النساء صاحبه بنت حکیم غلام نبی صاحب کوارٹر نمبر ۷ ایچ بلاک ٹمپل روڈ مزنگ لاہور ۵۵- صادقہ ابراہیم صاحبہ بنت محمد ابراہیم صاحب لیڈی ڈسپنسر محکمہ ریلوے لاہور ۵۶ - چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ ربوہ ۵۷ - انیس احمد ولد چوہدری ظہور احمد صاحب صدرانجمن احمد یہ ربوہ ۵۸ - ملک علی حیدر صاحب دوالمیال ضلع جہلم ۵۹ - حاجی ڈاکٹر عبدالرحمان صاحب ننکانہ صاحب ضلع شیخو پوره ۶۰ - عبدالرحیم صاحب پراچہ معرفت ڈاکٹر اللہ رکھا صاحب ہومیو پیتھک سیالکوٹ ۶۱ - حکیم عبد الرشید صاحب کوارٹرز تحریک جدید ربوہ ۶۲ - ماسٹر عطاء محمد صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ ضلع جھنگ ۶۳ - عبد الرشید کوثر صاحب اسلام سٹریٹ شیش محل پارک لاہور ۶۴ - شاہین کوثر صاحبہ بنت عبد الرشید کوثر صاحب اسلام سٹریٹ شیش محل پارک لاہور ۶۵ - قریشی عبدالرشید صاحب دفتر آبادی تحریک جدید ربوه -۶۶- چوہدری عزیز احمد صاحب نائب ناظر بیت المال ربوہ ۶۷ - عبد الغنی صاحب ولد میاں عمر دین صاحب کلاسوالہ تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ ۶۸ - عبداللطیف صاحب شاہد نمبر ۱۴ مین بازار گوالمنڈی لاہور ۶۹ - عبدالحکیم صاحب ولد فضل دین صاحب بک سیلرریل بازار اوکاڑہ ۷۰- ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑک سول لائن گوجرانوالہ اے.محمد مختار صاحب ولد چوہدری فتح محمد صاحب چک نمبر ۱۸ سانگلہ ہل ۷۲ - نثار احمد ولد ایم سراجدین ریلوے کوارٹر نمبر ۲۳۸ پشاور کینٹ ۷۳- عبد القادر صاحب ڈیسنٹ کلاتھ ہاؤس صدر بازار اوکاڑہ ۷۴.عبد الحفیظ خان صاحب عارضی منزل ربوه ۷۵- عباس احمد صاحب ولد بڈھے خان صاحب کلرک اکاؤنٹ برانچ ریلوے ہیڈ کوارٹرز آفس لاہور ۷۶.عبدالرب خان صاحب ۴۳ عبد الکریم
تاریخ احمدیت 412 جلد ۲۰ روڈ قلعہ گوجر سنگھ لاہور ۷۷.مرزا عبد الشکور صاحب ولد مرزا عبدالحمید صاحب دارالصدر شرقی ربوه ۷۸- عبدالحمید صاحب ولد چوہدری محمد حسین صاحب سیلز انجینئر کراچی ۷۹- عبد اللہ چوہدری ولد عزیز الرحمن نمبر ۲۱۶ F پرانی جہانگیر روڈ کراچی ۸۰ - عبد اللطیف صاحب ولد احمد دین صاحب محله باغبانپورہ گوجرانوالہ ۸۱ - قاضی ملک عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمد یہ دوالمیال ضلع جہلم ۸۲- عبدالقیوم صاحب ولد عبدالغفور صاحب سرور منزل گلی نمبر ۲۶ ڈگی محلہ لاہور کینٹ ۸۳- عبد الغفور صاحب ب مکینیکل اوورسیئر بیراج در کشاپ جام شور و - ۸۴- شیخ عبدالعزیز صاحب ولد سلطان محمود صاحب دھوبی گھاٹ گلی نمبر ۱۰ لائکپور ۸۵- عبدالقدیر صاحب ولد شیخ عبدالعزیز صاحب دھوبی گھاٹ گلی نمبر ۱۰ لائکپور ۸۶- میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی ۸۷- عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ میاں عطاء اللہ صاحب راولپنڈی -۸۸ مسعود احمد صاحب ولد میاں عطاء اللہ صاحب راولپنڈی ۸۹ عبداللطیف صاحب بیت الرشید ۴۵ پونچھ روڈ اسلامیہ پارک لاہور ۹۰ - عبد اللطیف صاحب مراد کلاتھ ہاؤس ریل بازار لائک پور ۹۱ - علم دین صاحب ولد محمد بوٹا چک نمبر 49 R.B گھسیٹ پورہ ضلع لائلپور ۹۲ - صوفی عبدالکریم صاحب گلی نمبر ۹ اسلام آباد ضلع گوجرانواله ۹۳ - عزیزہ بیگم بنت عبد الرحمن صاحب انبالوی لیڈی ویل فیئر ورکر معرفت ضیاء اللہ اکرم منزل گجرات ۹۴ - مولوی عبدالباسط صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ کراچی ۹۵ - عبدالمنان ارشد صاحب معرفت شیخ فیض قادر صاحب ناظم آباد کراچی نمبر ۱۸ ۹۶ - عزیز احمد صاحب ولد منشی میاں محمد صاحب مکان نمبر ۱۶ الطاف سٹریٹ محمد نگر میو روڈ لاہور ۹۷ - ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ۱۱ - دیا رام گدول روڈ جمشید کوارٹرز کراچی نمبر ۳ ۹۸ - مسز غلام فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ۱۱- دیا رام گرول روڈ جمشید کوارٹرز کراچی نمبر ۳ ۹۹- خواجہ عبدالرشید صاحب ولد خواجہ عبد الحمید صاحب لنگر خانه ربوہ ضلع جھنگ ۱۰۰ - غلام رسول صاحب ولد چوہدری عطا محمد صاحب تلونڈی بھنڈراں ضلع سیالکوٹ -۱۰۱ ملک غلام نبی صاحب قار والی گلی ڈسکہ ضلع سیالکوٹ ۱۰۲ - عائشہ بیگم صاحبہ زوجہ ملک غلام نبی صاحب قار والی گلی ڈسکہ ضلع سیالکوٹ ۱۰۳- میاں غلام نبی صاحب معرفت با بو قاسم الدین صاحب سیالکوٹ ۱۰۴- ایم فضل الہی صاحب ۲۵ نیوسول لائن سرگودھا ۱۰۵ - ڈاکٹر فضل حق صاحب فضل عمر ہسپتال جھنگ مگھیا نہ ۱۰۶ - فضل کریم صاحب کریم میڈیکل ہال گول منشی محلہ لائکپور ۱۰۷ - فیض الحق خان صاحب معرفت ناصرحق برادر زقندهاری بازار کوئٹہ ۱۰۸- فضل دین صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب بیرون ریل بازار لائکپور ۱۰۹- چوہدری فضل احمد صاحب نائب ناظر تعلیم ربوہ ۱۱۰- میاں فضل الرحمان صاحب ولد میاں محمد یعقوب صاحب
تاریخ احمدیت 413 جلد ۲۰ گوند لانوالہ ضلع گوجرانوالہ - رحیم بی بی صاحبہ زوجہ فضل الرحمن صاحب ۱۱۲- با بو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ ۱۱۳ - مبارک احمد صاحب ولد بابو قاسم الدین صاحب سیالکوٹ ۱۱۴ - مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری محلہ دار النصر ربوه ۱۱۵ قمر محی الدین صاحب ولد حافظ میراں بخش صاحب موضع کور پور تھا نہ سمبڑیال تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ ۱۱۶- کریم بخش صاحب ڈار را ما سٹریٹ کوئٹہ ۱۱۷ - لطف الرحمن صاحب شاکر فضل عمر ہسپتال ربوه ۱۱۸ - حلیمہ نزہت زوجه لطف الرحمن صاحب شاکر ربوہ ۱۱۹ - سید لال شاہ صاحب امیر جماعت احمد یہ وار برٹن ضلع شیخو پوره ۱۲۰ - مرزا لطیف احمد صاحب دفتر تعمیر ربوہ ضلع جھنگ ۱۲۱- محمد رمضان صاحب کارکن وکالت تبشیر ربوه ۱۲۲- محمد نور احمد صاحب گوٹھ غلام رسول براستہ میر پور خاص ۱۲۳ - منور احمد صاحب ولد چوہدری محمد وریام صاحب دارالصدر ربوه ۱۲۴ - مبشر احمد صاحب ولد بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار معرفت منیر احمد لال حویلی اکبری منڈی لاہور ۱۲۵ - صوفی محمد ابراہیم صاحب سابق ہیڈ ماسٹر محلہ دار الرحمت وسطی ربوه ۱۲۶ - مشتاق احمد صاحب گلی عزت خاں وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ ۱۲۷ - منیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مشتاق احمد صاحب ۱۲۸ - ملک محمد دین صاحب خادم دفتر آبادی ربوه ۱۲۹ - مختار احمد صاحب بٹ کلرک دفتر ڈائریکٹر آف انڈسٹریز مظفر آبا د ۱۳۰ - محمد اسلم صاحب ولد چوہدری عبدالرزاق صاحب مجاہد کلاتھ ہاؤس چوک بازار ملتان شہر ۱۳۱- چوہدری محمود احمد صاحب ۲۱۹ R.B گنڈا سنگھ والا ضلع لائکپور ۱۳۲ - خواجہ محمد شریف صاحب محله دارالرحمت ربوه ۱۳۳- نواب بی بی صاحبہ زوجہ خواجہ محمد شریف صاحب دار الرحمت ربوه ۱۳۴ - حکیم محمد عالم صاحب ولد حکیم رحمت اللہ صاحب دارالرحمت ربوه ۱۳۵ - عنایت بیگم صاحبه زوجه حکیم محمد عالم صاحب دارالرحمت ربوہ ۱۳۶ - مبارک احمد صاحب دفتر انسپکٹر آف سکولز ملتان ڈویژن ملتان ۱۳۷- سید محمد حسین شاہد صاحب معرفت ڈاکٹر محمد جی صاحب ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ۱۳۸ - مستری محمد ابراہیم صاحب کلاس واله تحصیل پسر ورضلع سیالکوٹ ۱۳۹ - چوہدری مسعود احمد صاحب با جوه ولد چوہدری غلام قادر صاحب ایف بلاک اوکاڑہ ۱۴۰ - محمد عیسی صاحب زیر وی راجہ جنگ ضلع لاہور ۱۴۱.شیخ محمد خورشید صاحب ولد شیخ اللہ داد صاحب مرحوم ملتان چھاؤنی ۱۴۲ - چوہدری محمد عمر صاحب نمبر ۹ سلیمان بلڈ نگ دل محمد روڈ لاہور ۱۴۳- منیر الدین احمد صاحب جامعہ احمدیہ ربوہ ۱۴۴ - جمیلہ بیگم پال زوجه منیر الدین صاحب ربوه ۱۴۵ - خواجہ منظور احمد صاحب ولد خواجہ دوست محمد صاحب کوٹ مومن ضلع سرگودھا ۱۴۶ - خواجہ مشتاق احمد صاحب ولد خواجہ دوست محمد صاحب کوٹ مومن ضلع سرگودھا ۱۴۷ - خواجہ محمد شریف صاحب ولد حاجی قادر بخش صاحب کلاتھ مرچنٹ کوٹ مومن ۱۴۸- ملک مبارک احمد
تاریخ احمدیت 414 جلد ۲۰ صاحب ولد ملک عبدالسبحان صاحب ناظم آباد کراچی ۱۴۹ - سید محمود احمد صاحب ۱۴ ملکانی محل فیریر روڈ کراچی نمبر ۱۵۰ - مریم بیگم صاحبہ اہلیہ دوست محمد صاحب شمس لائکپور ۱ ۱۵- محمد رفیق صاحب ولد چراغ دین صاحب شملہ ٹیلرنگ ہاؤس نیو ٹاؤن کیٹن روڈ ۱۵۲- محمد شفیع صاحب ولد چوہدری محمد اسمعیل صاحب مارکیٹ کمیٹی کلرک دفتر ڈی سی گوجرانواله ۱۵۳ - مسعود احمد صاحب قریشی ولد اللہ بخش صاحب ۹۲۵ پیر الہی بخش کالونی کراچی نمبر ۵ ۱۵۴ - محمد شریف صاحب اشرف پرائیویٹ سیکرٹری ربوه ۱۵۵ - سید محمد حسین شاہ صاحب ولد سید حسن شاہ صاحب محلہ بھبرانہ فضل سٹریٹ مگھیا نہ ۱۵۶ - عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمد حسین صاحب محلہ بھبر ا نہ فضل سٹریٹ مکھیا نہ ۱۵۷- محمد علی اکبر صاحب ۴ / ۲۱۶ پرانی جہانگیر روڈ کراچی نمبر ۵ ۱۵۸ - محمد یعقوب صاحب ولد چوہدری ۲۱۶/۴ رحیم بخش صاحب کریم کاٹن فیکٹری لائکپور ۱۵۹ - محمد ظفر اللہ صاحب ولد رحمت اللہ صاحب بٹ ۴/۹۶۰ لالوکھیت کراچی ۱۶۰ - محمد شریف صاحب ولد چوہدری عطا محمد صاحب محلہ گو بند گڑھ گوجرانوالہ ۱۶۱- شیخ محمد عبداللہ صاحب ہا گورا وزیر آباد ۱۶۲-محمد یعقوب صاحب دکان نمبر ۵۱ اندرون بوہڑ گیٹ ملتان شہر ۱۶۳ - مبارک احمد صاحب ولد مولوی عبد الکریم صاحب نیا محلہ جہلم ۱۶۴ - محمد لطیف صاحب ولد محمد شریف صاحب پر نامی محلہ کر بلا روڈ منٹگمری ۱۶۵ - محمد حسین صاحب ولد نظام الدین صاحب ٹھیکیدار محلہ دارالیمن ربوہ ۱۶۶ - مولوی محمد صدیق صاحب لائبریرین خلافت لائبریری ربوہ ۱۶۷ - مرزا محمد اسلم صاحب ولد مرزا محمد حیات صاحب سرور منزل ڈگی محلہ لاہور کینٹ ۱۲۸ - شیخ ممتاز رسول صاحب ولد شیخ سردار محمد صاحب کاٹن بروکر کراچی ۱۶۹.۱۷۰ - محمد عبد اللہ صاحب ولد میاں فضل دین صاحب نیو مارکیٹ حافظ آباد ۱۷۱ - محمد جمیل صاحب ولد حکیم محمد دین صاحب رضوان سٹریٹ عزیز روڈ مصری شاہ لا ہو ر ۱۷۲.قریشی محمد حنیف صاحب سائیکل سیاح لائکپور ۱۷۳ - شیخ مبارک احمد صاحب نائب ناظر تعلیم ربوه ۱۷۴ - چوہدری منظور احمد صاحب ولد چوہدری جان محمد صاحب موضع رلیو کے ضلع سیالکوٹ ۱۷۵ - محمد ابراہیم صاحب مکان نمبر ۰ اگلی نمبر ۶ گنج مغلپورہ لاہور ۱۷۶ - محمد رشید صاحب ریلوے ٹکٹ کلیکٹر لاہور اسٹیشن ۱۷۷ - چوہدری محمد سعید صاحب ولد چوہدری نواب محمد دین صاحب ۱۴۵ ہیرا آباد حیدر آباد ۱۷۸ - عزیزہ بیگم زوجہ چوہدری محمد سعید صاحب ۱۴۵ ہیرا آباد حیدرآباد ۱۷۹- میاں محمد عبد اللہ صاحب ولد میاں اللہ رحم صاحب معرفت با بو قاسم الدین صاحب سیالکوٹ ۱۸۰ - محمد احمد صاحب درویش فرنیچر ہاؤس دار الرحمت ربوہ ۱۸۱ - مختار احمد ناصر کلرک نظارت امور عامه ربوه ۱۸۲ - سید محمد ہاشم صاحب بخاری اولڈ پریس سٹریٹ جہلم ۱۸۳-سید ہارون بخاری
تاریخ احمدیت 415 جلد ۲۰ 0-19+ ولد سید محمد ہاشم صاحب بخاری اولڈ پریس سٹریٹ جہلم ۱۸۴ - نواب دین صاحب حمید ٹرنک ہاؤس نزد بڑا مندر چنیوٹ ۱۸۵ - نصیرہ تسنیم صاحبہ بنت ڈاکٹر شاہنواز صاحب پروفیسر جامعہ نصرت ربوہ ۱۸۶ - نور محمد صاحب ورک گرمولہ ورکاں حال دارالرحمت غربی ربوہ ۱۸۷- مولوی نورالحق صاحب انور مبلغ امریکہ ربوہ ۱۸۸ - چوہدری نور احمد خان صاحب گوبند رام اسٹریٹ چمبرلین روڈ لاہور ۱۸۹ - نورالدین صاحب ولد مولوی الف دین صاحب دارالبرکات ربوہ فضل بی بی صاحبہ معرفت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ربوہ ۱۹۱ - محمد شریف صاحب ولد حسین بخش صاحب.ٹھیکیدار سٹون ربوہ ۱۹۲- ثریا بیگم صاحبہ زوجہ مختار احمد صاحب ناصر محلّله دار الیمن ربوه ۱۹۳ - عبدالحمید صاحب ولد عبدالغفور صاحب درویش دارالرحمت غربی ربوه ۱۹۴ - عطا محمد صاحب آف بسراواں حال تلونڈی بھنڈراں ضلع سیالکوٹ ۱۹۵-عبدالحمید صاحب ولد میاں فیروز الدین صاحب سیالکوٹ -۱۹۶ - محمد رمضان صاحب خادم ولد محمد وارث صاحب ربوہ ۱۹۷ - محمد اعظم صاحب بی ایس سی ولد محمد رمضان صاحب ربوه ۱۹۸ - محمد اقبال صاحب زرگر محلہ پڑ نگاں بھاٹی گیٹ لاہور ۱۹۹- محمد ابراہیم صاحب منگلی چک نمبر ۳۰۰ ج ب ڈاک خانہ گوجرہ ضلع لائکپور ۲۰۰ - مولوی نور احمد صاحب ولد چوہدری سر بلند صاحب ربوہ.
لا -^ و.- 1+ 11- - ۱۲ -1 -۲ تاریخ احمدیت 416 حواشی الفضل ربوه ۳۱ /جنوری ۱۹۵۹ء صفحه۱، ۸ جلد ۲۰ امام بخاری ، نسائی ، احمد بن حنبل اور دار قطنی نے عہد نبوی میں گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ کے مقابلوں کا ذکر کیا ہے.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو' سیرت النبی جلد دوم (از علامہ شبلی مرحوم ) روزنامه الفضل ربوه ۳ فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۸،۱ تاریخ احمدیت جلد ۱۳ صفحه ۱۵۰ ( طبع اول ) صفحه ۶۵۳ المستشرقون و ترجمة القرآن الکریم صفحه ۶۵ - منشورات دار الافاق الجدیده بیروت الطبعۃ الثانیہ ۱۴۰۳ھ.۱۹۸۳ء آزاد مصر صفحه ۳۵۳ مؤلفه حسن الاعظمی سابق پروفیسر مصر یونیورسٹی قاہرہ پبلشر فاران لمیٹڈ کراچی.اشاعت باراول ۱۵ نومبر ۱۹۴۸ء الفضل ۵ فروری ۱۹۵۹ء صفحہ ( مذاکرہ علمیہ کے اہم مقالے الفضل میں شائع ہوئے) الفضل ۸ مارچ ۱۹۵۹ء صفحه ۳ روز نامه الفضل ربوده ۱۱ فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۱، ۸ الفضل ۱۰ رفروری ۱۹۵۹ ، صفحه ۱ الفضل ۱۱ فروری ۱۹۵۹ء صفحه ا ۱۳ -10 - ۱۵ -17 -12 -IA -19 -۲۰ - ۲۱ روز نامه الفضل ربوه ۱۷ / فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۳ غیر مطبوعہ بحوالہ اخبار بدر قادیان ۱۲ / فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۶ غیر مطبوعہ ( ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ) الفضل ربوه ۲۷ فروری ۱۹۵۹ ، صفحه ۳ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۴ الفضل ۱۳،۵، ۱۸؍ مارچ ۱۹۵۹ء الفضل ۲۱ / اگست ، ۲۳ /اگست ، ۹،۵ رستمبر ۱۹۵۹ء روز نامه الفضل ۴ ر ا پریل ۱۹۵۹ ، صفحه ۳ ۲۲- بحواله الفضل ۱۶ را پریل ۱۹۵۹ء صفحه ۵ ( مضمون گیانی عباداللہ صاحب) ۲۳- ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ ۲۴ الفضل ۲۰ مئی ۱۹۵۹ء صفحہ ۳۱.ضروری نوٹ: - قانونی تقاضوں کی بناء پر پیغام میں جہاں بھی اسلام کا لفظ تھا وہاں دین کا - ۲۵ ۲۶- لفظ لکھ دیا گیا ہے.( ناقل ) الفضل ۲۱ رمئی ۱۹۵۹ ء صفحہ.نوٹ: اس پیغام میں بھی اسلام کے لفظ کی بجائے دین کا لفظ کتابت ہوا ہے.ارکان : صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، جناب مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی اے ناظر امور عامه قادیان، شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی اے ناظر بیت المال ،قادیان، ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مؤلف اصحاب احمد، یونس احمد صاحب بریلوی ، چوہدری عبد القدیر صاحب معاون ناظر دعوت و تبلیغ قادیان مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری ایڈیٹر بدر قادیان ، فضل الہی خان صاحب کا رکن دفتر نظارت امور عامہ قادیان.۲۷- بدر قادیان ۲۸ مرمئی ۱۹۵۹ء صفحہ ۱۲۱.اس تبلیغی ملاقات کا بھارتی پریس میں خوب چرچا ہوا اور پرتاپ ( دیلی و جالندھر ) اور
تاریخ احمدیت -۲۸ -۲۹ -۳۰ -۳۱ 417 آزاد ہند ( کلکتہ ) وغیرہ میں نمایاں طور پر اس کا خلاصہ شائع ہوا.بحوالہ بدر قادیان ۱ار جون ۱۹۵۹ء صفحه ۱ حوالہ بدر قادیان ۲ ؍ جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ ۱ بدر ( قادیان ) ۶ ار اپریل ۱۹۵۹ء صفحه ا نوائے وقت ۷ ار ا گست ۱۹۵۹ء بحواله الفضل ۲۶ را گست ۱۹۵۹ء صفحه ۵ ۳۲- بحوالہ بدر ۹ / جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ ۱ ۳۳- رساله الفرقان ربوہ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۳۲-۳۳ الفضل ۲۳ / جولائی ۱۹۵۹ء صفه ۳ - ۳۵ الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ ۱ الفضل ۱۴،۱۲،۱۰، ۱۶، ۱۸، ۱۹، ۲۱ ۲۲ / جولائی و ۶ راگست ۱۹۵۹ء ۳۷ - الفرقان جون ۱۹۶۰ء صفحه ۲۳ تا ۲۶ ۳۸ - روزنامه پرتاپ“ جالندھر ۱۸ ستمبر ۱۹۶۰ء ۳۹ فیروز سنز اردو انسائیکلو پیڈیا طبع سوم (لاہور) جلد ۲۰ ۴۰.علامہ موصوف کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ ( فتح پور ) میں ہوئی.بعد ازاں مدرسہ عالیہ ( رامپور ) اور ندوۃ العلوم (لکھنو ) میں پڑھتے رہے.انگریزی اور ترکی سیکھی.۱۹۱۰ء میں ادارہ ”زمیندار“ کے ساتھ منسلک ہوئے.فروری ۱۹۲۲ء میں لکھنو سے ماہنامہ ” نگار نکالا.جولائی ۱۹۶۲ء کے بعد آپ پاکستان تشریف لے آئے اور رسالہ کراچی سے شائع ہونے لگا.علامہ صاحب طرز انشا پرداز اور بلند پایہ مصنف تھے.آپ کے یہ مضامین و مکاتیب مولوی محمد اجمل شاہد صاحب ایم اے سابق مربی سلسلہ احمدیہ کراچی نے ۱۹۶۸ء میں ملاحظات نیاز" کے نام سے شائع کر دیے تھے.-۴۳ ۴۲ - ماہنامہ نگار لکھنو بابت اگست ۱۹۵۹ء صفحه ۳،۲ ۴۰ بحواله اخبار بدر قادیان ۲۷ را گست ۱۹۵۹ء صفحه ۸،۷ وفات ۵ر جولائی ۱۹۴۶ء.مولانا سالک تحریر فرماتے ہیں والد مرحوم منشی غلام قادر پٹھانکوٹ میونسپلٹی کے سیکرٹری تھے اور چالیس سال تک انہوں نے انتہائی دیانت اور راستبازی سے اہل قصبہ کی خدمت کی تھی اس لئے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی صد با کی تعداد میں جمع تھے اور ہر شخص آبدیدہ تھا.چونکہ والد مرحوم احمدی عقائد رکھتے تھے اس لئے احمدیوں کی فرمائش پر پٹھانکوٹ سے ایک میل دور موضع دولت پور میں دفن کئے گئے جہاں احمدیوں کا اپنا قبرستان تھا ( سرگذشت صفحہ۳۹۹ مؤلفہ مولانا عبدالمجید سالک ناشر قومی کتب خانہ ریلوے روڈ بار دوم ۱۹۶۶ء) ۴۴ ، ۴۵ - رسالہ نقوش لاہور نمبر۷ فروری ۱۹۶۲ء صفحه ۹۲۹، ۱۹۳۰ (مدیر ناشر ادارہ فروغ اردو لاہور ) رسالہ نقوش ” آپ بیتی نمبر ( جون ۱۹۶۴ء صفحه ۷۰۳) ۴۶ - ہفت روزه بدر قادیان ۵/ نومبر ۱۹۵۹ء صفحه ۸ ۴۷ - سرگزشت ۱۱۴ ۴۸ - سرگزشت صفحه ۲۰۴ - ۴۹ دیکھئے تاریخ احمدیت جلد ششم صفحه ۶۰،۵۹ ( ضمیمه طبع اول ) ۵۰- سرگزشت صفحه ۲۹۷ ۵۱ ذکر اقبال صفحه ۱۷۴ از مولانا عبدالمجید سالک ناشر بزم اقبال کلب روڈ لاہور طبع دوم مئی ۱۹۸۳ء ۵۲ - "سرگزشت صفحه ۳۴۲ ۵۳ مولانا عبدالمجید سالک کے نامور فرزند جو بٹالہ میں پیدا ہوئے ۱۹۴۲ء میں صحافت کا ڈپلومہ لیا.۱۹۵۵ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے تاریخ کیا.۱۹۵۶ء میں ایمسٹر ڈم سے صحافت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی.۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۸ء پنجاب یونیورسٹی
418 جلد ۲۰ تاریخ احمدیت کے شعبہ صحافت میں سینئر لیکچرار اور بعد ازاں صدر شعبہ کے منصب پر فائز رہے.۱۹۶۴ء میں ریڈر ( صحافت ) مقرر ہوئے.۱۹۷۶ء سے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے صدر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں.آپ کی چند اہم تصانیف: - پریس ان مسلم ورلڈ.دنیائے اسلام کی صحافت، صحافت پاکستان و ہند میں ( داؤ د انعام یافتہ ) کاروان صحافت، جرنلزم ان پاکستان، فمن صحافت، ممالک اسلامیہ کی سیاست، اردو کے ہندی شعراء، اردو ڈراما.وے صورتیں الہی.سرگزشت اقبال، قائد اعظم اور پاکستان (فیروز سنز اردو انسائیکلو پیڈیا ایڈیشن سوم جنوری ۱۹۸۴ء ۵۴ صحافت پاکستان و ہند میں صفحہ ۴۵۲ تالیف ڈاکٹر عبدالسلام خورشید مجلس ترقی ادب -۲- کلب روڈ لاہور طبع اوّل جون ۱۹۶۳ء -۵۵ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تا ریخ احمدیت جلد یاز دہم.صفحہ ۲۴۷ تا ۲۵۱ طبع اول ۵۶ تاریخ احمدیت جلد سیز دہم صفحه ۵۲ ،۵۳ طبع اول ۵۷ الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۱ - ۸.مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو: ا - فیروز سنز اردو انسائیکلو پیڈیا صفحه ۶۳،۵۶۲ ۵ طبع سوم ناشر فیروز سنز لاہور راولپنڈی.کراچی اشاعت سوم جنوری ۱۹۸۴ء ۲ - اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحه ۷۲۵-۷۲۶ ( ناشر غلام علی اینڈ سنز لاہور اشاعت اول ۱۹۸۷ء ۵۸ - الفضل ۱۳ را کتوبر ۱۹۵۹ء صفحه ۵ ۵۹- رساله الفرقان ربوه اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحه ۴ "المنار" ربوه اکتوبر نومبر ۱۹۵۹ء صفحه ۱۳ -Y.-71 - ۶۲ رساله نقوش لاہور نمبر صفحه ۹۲۹ فروری ۱۹۶۹ء مدیر محمد طفیل ادارہ فروغ اردو لا ہور.الفضل یکم جنوری ۱۹۹۰ ، صفحہ ۳ ۶۳ - اخبار ٹروتھ (TRUTH) لیگوس ۹ تا ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۹ ء بحوالہ الفضل یکم جنوری ۱۹۶۰ء صفحه ۳ ۴۰ را ۴۰،۳ ۶۴ - الفضل ۲۰ /اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحه ۶ - ۶۵ -۶۶ ۱۸۶۸ ء یا ۱۸۶۹ء کا واقعہ تذکر و طبع چہارم صفحه ۹ ۱۰ ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ ۱۹۷۷ء ۶۷ - الوصیت صفحہ ۶ طبع اول مطبوعه ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۵ء میگزین پریس قادیان اول کنز العمال جلد ۱۴ حدیث ۳۸۴۸۸۶ ناشر الشركة المتحده التوزيع سوريا دمشق - ۶۸ -4• -21 الوصیت صفحه ۱۸ لیکچر سیالکوٹ صفحه ۳۴ طبع اول نومبر ۱۹۰۴ء الفضل ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحه ۳ ، ۴.رسالہ خالد نومبر، دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۳ تا ۱۱ ۷۲ - الفضل یکم نومبر ۱۹۵۹ء صفحه ۳ - الفضل ۴ رنومبر ۱۹۵۹ء صفحه ۵ ۷۴- مفصل کا رروائی الفضل ۷،۵، ۱۲،۱۰ نومبر ۱۹۵۹ء میں شائع شدہ ہے.۷۵ - الفضل ۷ نومبر ۱۹۵۹ء صفحه ۴ - الفضل ۳ رنومبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۱ ۷۷.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۵۹ء صفحه ۵،۳ ۷۸ اخبار بدر ۱۲/ نومبر ۱۹۵۹ء صفحه ۲،۱ ۷۹- عربی متن کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ البشری ربوہ جمادی الآخره ۱۳۷۹ھ مطابق دسمبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۴۱،۳۹ -۸۱ ۸۲ الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۵۹ء صفحه ا الفضل ۹؍ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ا یہ سب حالات شعبہ تاریخ احمدیت کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں.
تاریخ احمدیت -٨٣ -۸۴ -۸۵ -AY -AL ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ا الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۳ بدر ۲۴ / دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۳ بدر ۲۴؍ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۳ 419 جلد ۲۰
تاریخ احمدیت فصل اوّل 420 چوتھا باب جلیل القدر رفقاء اور دیگر مخلصین احمدیت کا انتقال جلد ۲۰ ۱۹۵۹ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود مهدی مسعود علیہ السلام کے متعدد رفقائے خاص رحلت فرما گئے جن کا ذکر اس فصل میں کیا جاتا ہے.ا ملک حسن محمد صاحب سمبر یا لوی ( ولادت بیعت و زیارت ۱۹۰۴ء.وفات ۱۶ را پریل ۱۹۵۹ء ) مولوی روشن دین صاحب سابق مبلغ مسقط کا بیان ہے کہ : - ,, ملک حسن محمد صاحب.کو تبلیغ و تربیت کا از حد شوق تھا ان میں اس کے لئے بعض دفعہ عاشقانہ رنگ بھی پیدا ہو جاتا تھا.جن دنوں خاکسار مکیریاں احمد یہ دار التبلیغ میں بطور مبلغ کام کر رہا تھا تو کئی دفعہ حضرت ملک صاحب ایک ایک مہینہ وقف کر کے فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے لئے وہاں آئے.میں نے ان کو ہمیشہ ہی ہنس مکھ پایا اور اپنے کام کو اپنے ہاتھ سے سرانجام دینے میں بہت آرام اور راحت محسوس کرتے ہوئے دیکھا.چنانچہ ایک دفعہ خاکسار بعارضہ ملیریا بخار بیمار تھا تو حضرت ملک صاحب قادیان سے ایک ماہ وقف کر کے احمد یہ دار التبلیغ میں فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کے لئے تشریف لائے.آتے ہی فرمانے لگے آپ کو ملیر یا بخار ہے گھبرائیں نہ خداوند تعالی بخار کو دور فرمائے گا اور تمام سہولت کے سامان مہیا فرمائے گا.ایک دو دن خود کھا نہ تیار کر کے مجھے دیتے رہے اور دوسری خدمات بھی بشرح صدر بجالاتے رہے.چنانچہ چند دنوں میں مجھے آرام ہو گیا.
تاریخ احمدیت اولاد: 421 الغرض حضرت ملک صاحب والہانہ رنگ اپنے اعمال میں رکھتے تھے.جن سے صاف عیاں ہوا کرتا تھا کہ آپ کسی مامور من اللہ کی صحبت سے فیضیاب ہیں.66 جلد ۲۰ ۱- ملک غلام نبی صاحب ڈسکہ ۲.ملک نصر اللہ خان صاحب ایشو افریقن کمپنی کراچی ۳ - ملک محمد عبد اللہ صاحب مولوی فاضل سابق لیکچر ارتعلیم الاسلام کا لج ربوہ ۲ - حضرت شیخ محمد نصیب صاحب صدر جماعت احمدیہ خانقاہ ڈوگراں ( ولادت قریباً ۱۸۷۹ء، بیعت ۱۶ را گست ۱۸۹۷ء، وفات ۲۷ را پریل ۱۹۵۹ء) حضرت شیخ صاحب نے طالب علمی کے زمانہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.فرماتے ہیں :- ۱۶ اگست ۱۸۹۷ء کو بیت مبارک میں جب اول مرتبہ حضرت اقدس علیہ السلام سے میری ملاقات ہوئی میں ۱۶، ۱۷ برس کا تھا حضرت مجھے دیکھ کر متعجب ہوئے کہ یہ بچہ کہاں سے آگیا ؟ میں نے حضور سے سلام کہا اور مصافحہ کیا حضور نے میرا نام دریافت کیا میں نے عرض کیا محمد نصیب.پھر فرمایا باپ کا نام؟ عرض کیا قطب الدین.حضور نے میری طرف خاص توجہ سے دیکھا.میاں معراج الدین صاحب عمر مرحوم آف لاہور اور میاں الہ دین صاحب فلاسفر نے جو اس مجلس میں موجود تھے بعد میں مجھ سے کہا کہ حضرت صاحب نے تمہاری طرف بڑی توجہ سے دیکھا تھا.یہی وجہ ہے کہ میں تین بار قادیان سے باہر گیا.مگر خدا مجھے حضرت اقدس کے یا حضور کے خلفاء کے قدموں میں 66 بار بار لے آتا رہا ہے.آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ابتدائی طلبہ میں سے تھے بعد ازاں آپ نے تعلیم الاسلام میں بھی کام ہائی سکول میں ہی بطور ٹیچر بھی خدمات انجام دیں.نیز دفتر ریویو آف ریلیجنز کیا.آپ بہت عابد و زاہد، تہجد گزار اور ہر آن ذکر الہی میں مشغول رہنے والے بزرگ تھے.آپ کے اوصاف میں دینی غیرت کا وصف بھی خاص طور پر نمایاں تھا.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور
تاریخ احمدیت 422 جلد ۲۰ علی الخصوص سید نا حضرت خلیفہ اسی ثانی اصلح موعود سے والہانہ محبت تھی.آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قربت کا یہ خاص شرف بھی حاصل تھا کہ آپ کی اہلیہ محترمہ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے بڑے پوتے صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب مرحوم ابن سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود کو ( جو الہام تری نسلاً بعيدا کے اولین مصداق تھے ) دودھ پلایا تھا.آپ کو قادیان میں رہنے اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پر معارف مجالس میں شریک ہونے کا موقع میسر آیا تھا اور آپ بہت سے نشانات کے عینی شاہد تھے.اور بہت پر درد و پراثر لہجے میں روایات سنایا کرتے تھے.مجلس انصاراللہ کے سالانہ اجتماعات کے مواقع پر ذکر حبیب علیہ السلام کے زیر عنوان آپ نے ایمان افروز تقاریر فرمائیں.مولوی روشن دین صاحب واقف زندگی سابق مبلغ مسقط کی عینی شہادت ہے کہ :- دو تقسیم پنجاب کے بعد میرا عارضی قیام خانقاہ ڈوگراں ضلع شیخو پورہ میں ہوا تھا.قبل ازیں شیخ صاحب بمع اہل وعیال یہاں رہائش اختیار کر چکے تھے.نمازیں انہی کی بیٹھک میں عام طور پر ہوا کرتی تھیں اور حضرت شیخ صاحب ہی امام ہوا کرتے تھے.نمازیں پوری پابندی سے ہوتیں.میں حضرت شیخ صاحب کو نماز پڑھنے کے وقت بالکل اس حالت میں پاتا کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ان سے باتیں کر رہے ہیں.قرآن کریم کی تلاوت ہمیشہ باقاعدگی سے کیا کرتے.باوجود بڑھاپے کے قرآن پاک کو ازبر کرنے کا شوق ابھی تک جاری تھا.اپنے بچوں کی تربیت کا از حد خیال رکھتے جس کا ذکر کئی دفعہ مجھ سے کرتے.تبلیغ کا از حد شوق تھا.غالبًا ۱۹۴۸ء کا واقعہ ہے میں لاہور سے خانقاہ ڈوگراں قیام کے لئے آیا ہوا تھا.اس کے بعد مجھے مسقط آنا تھا.ان دنوں لوگ سکول کے احاطہ میں ریڈیو سے خبریں سننے کے لئے اکٹھے ہوا کرتے تھے.چنانچہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا ایک مضمون قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے متعلق اخبار الفضل میں شائع ہوا.اس مضمون کو پڑھ کر حضرت شیخ صاحب مجھے فرمانے لگے مولوی صاحب آج رات سکول کے احاطہ میں لوگوں کو یہ مضمون سنانا چاہئے.میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے.میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا.چنانچہ ہم دونوں موقعہ پر
تاریخ احمدیت 423 جلد ۲۰ اولاد:- پہنچے اور خبریں سنیں.ازاں بعد صاحب موصوف نے مضمون پڑھنا شروع کیا تو پبلک نے آہستہ آہستہ وہاں سے کھسکنا شروع کیا اور بعض غیر احمدیوں نے ہاہو کے آوازے بھی کسے.مگر حضرت شیخ صاحب نے نہایت ہی سنجیدگی اور وقار سے مضمون کو پڑھا.جب مضمون ختم ہوا تو دو تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے.مگر شیخ صاحب مضمون کو ختم کئے بغیر نہ رکے.اسی طرح ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خانقاہ ڈوگراں میں شیخ صاحب کی دکان پر ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر چند اعتراضات کئے تو مجھے فوراً انہوں نے گھر سے بلایا کہ ان مولوی صاحب کے اعتراضوں کے جواب دیں.چنانچہ آدھ گھنٹہ تک گفتگو جاری رہی.حضرت شیخ صاحب کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام والہانہ محبت تھی جس کا ذکر اپنی مجالس میں کیا کرتے تھے.میں جب بیرون پاکستان میں تبلیغ کے لئے خانقاہ ڈوگراں سے روانہ ہوا تو مجھے کچھ نقدی دی.اور فرمانے لگے یہ رقم تحفہ دی ہے.دعاؤں کے ساتھ مجھے روانہ کیا.حضرت شیخ صاحب تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں شامل تھے.ނ ۱ - صو بیدار عبدالرحمن صاحب خانقاہ ڈوگراں ضلع شیخو پوره ۲ - محمد نصیر صاحب شوگر ملز لیہ ضلع مظفر گڑھ ۳ - امۃ اللہ صاحبہ (اہلیہ ملک نذیر احمد صاحب پی ایس آئی سیالکوٹ ) ۴ - امتہ الرحمن صاحبہ (اہلیہ قاضی عبدالرشید صاحب ایڈووکیٹ ایبٹ آباد ) - حضرت مولوی غلام رسول صاحب افغان (ولادت بیعت ۱۹۰۲ء ، ہجرت ۱۹۰۴ء ، وفات ۶ مئی ۱۹۵۹ء) آپ قبول احمدیت سے قبل حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی بیعت میں تھے بہت عابد و زاہد بزرگ تھے.قرآن مجید کی تلاوت سے آپ کو خاص شغف تھا.آپ کے خود نوشت حالات یہ ہیں :-
تاریخ احمدیت 424 د میں نے بچپن میں ۲ - ۱۹۰۱ء میں حضرت بزرگ صاحب مولانا عبدالستار صاحب کا بلی مہاجر کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت خط لکھ کر کی تھی.اس وقت میرے والد صاحب ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے.حضرت مولانا سید عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد ۱۹۰۴ء میں میں قادیان چلا آیا.اور قریباً دو اڑھائی سال میں پہلی دفعہ یہاں آیا.اس کے بعد میرے والد صاحب مجھے واپس لے جانے کے لئے یہاں آئے.اور اس کے لئے مجھے کہا.میں نے عذر کیا.انہوں نے سید احمد نور صاحب کاہلی کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اسے میرے ساتھ وطن سابق کی طرف جانے کا ارشاد فرمایا جائے.چنانچہ حضور نے مجھے اس بارہ میں ارشاد فرمایا جس پر میں اپنے والد صاحب کے ساتھ وطن سابق کی طرف چلا گیا.میرے والد صاحب نے اسی سفر میں حضور کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور میں نے حضور کی بیعت دستی طور پر پہلی دفعہ یہاں آنے پر ۱۹۰۴ء میں کی تھی.میں وطن جا کر صرف چند مہینے وہاں رہا.اور پھر واپس دارالامان چلا آیا.جب میں دوسری بار یہاں پہنچا تو اس وقت بیت مبارک کی توسیع ہو چکی تھی.میرے پہلے قیام دارالامان کے عرصہ میں اور کچھ دوبارہ قیام کے وقت میں جب حضور کسی سفر پر تشریف لے جاتے تھے تو پہرہ اور خدمت کے لئے میں بھی اکثر حضور کے ساتھ یا حضور کے سامان کے ساتھ جایا کرتا تھا.چنانچہ حضور کے آخری سفر لاہور کے موقعہ حضور کی رتھ (جو حضرت نواب صاحب نے حضور کی خدمت میں پیش کی لے کر مع چند اور ہمراہوں کے لاہور گیا تھا.اور جب حضور کی وفات ہو گئی تو میں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سنت کو یاد کر کے حضور کے چہرہ مبارک کا بوسہ لیا.حضور کی رحلت کے کچھ عرصہ بعد پھر میں ایک دفعہ اپنے وطن سابق کی طرف گیا اور دوبارہ بھی صرف چند مہینے وہاں رہ کر واپس چلا آیا.اور یہاں پہنچ کر حضرت خلیفہ اسیح اول کی خدمت میں رہ کر پڑھنا شروع کر دیا.اس کے بعد میں اپنے سابق وطن کی طرف نہیں گیا.حضور کی زندگی میں کچھ عرصہ میں بیت مبارک میں پہرہ کا کام بھی کرتا رہا ہوں.اور جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 425 جلد ۲۰ نوٹ لکھا : - جن ایام میں حضور ۱۹۰۵ء میں اہلِ خانہ اور اصحاب الصفہ کو ساتھ لے کر باغ میں قیام فرما رہے تھے اس وقت بھی میں مع چند ساتھیوں کے اس خدمت پر متعین تھا.ان ایام میں ایک دفعہ رات کو سخت تیز آندھی آئی اور بہت دیر تک تیز ہوا چلتی رہی.حضور مع اہل وعیال ایک سائبان کے نیچے آرام فرما رہے تھے.حضور نے اس غرض سے کہ سائبان گر نہ جائے فرمایا کہ اس کی تمام چو بوں کو ایک ایک آدمی تھامے رہے ان چوبوں کو تھامنے والوں میں سے ایک میں بھی تھا.حضور کے جس سفر میں میں حضور کے ساتھ نہیں جاتا تھا اس میں میں حضور کے مکانات کے پہرہ کی خدمت پر متعین ہوتا تھا.نیز میں اپنے خسر میاں عبد الغفار خان صاحب کا بلی مہاجر مرحوم کے ساتھ مقبرہ بہشتی میں 66 پہرہ کا کام کرتا رہا ہوں.مولوی محمد شہزادہ خاں صاحب استاذ مدرسہ احمدیہ نے آپ کے حالات زندگی پر حسب ذیل آپ افغانستان کے سمت جنوبی علاقہ خوست کے باشندے تھے.درگئی نامی گاؤں کے رہنے والے تھے جو حضرت شہید مرحوم صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب کے گاؤں سید گاہ کے قریب واقع ہے.آپ کے روحانی تقدس کی وجہ سے درگئی کے لوگ کثیر تعداد میں آپ کے مریدین میں شامل تھے اور آپ ہی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں شامل ہو گئے ان میں ہر قسم کے لوگ شامل تھے.جیسے مولوی احمد نور صاحب کا بلی، حضرت مولوی عبدالستار صاحب عرف بزرگ صاحب، مولوی غلام محمد صاحب وزیر و ملا ، ملک خان بادشاہ سید صاحب وغیرہ.ان میں منگل کے بعض نیک دل لوگ بھی شامل تھے جیسے ملا عبد الغفار صاحب وملا امیرالدین صاحب عرف میر و صاحب، و بزرگ صاحب و عبداللہ صاحب ولد ملا عبدالغفار صاحب دوگی کے لوگوں کے علاوہ بعض نیک دل بچے بھی احمدیت میں شامل ہو گئے جن میں سے ایک مولوی غلام رسول صاحب افغان بھی تھے.۱۹۰۴ء میں قادیان آئے.مگر باپ کے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت سے ماں کی ملاقات کے لئے والد صاحب کے ساتھ خوست واپس چلے گئے.
تاریخ احمدیت 426 مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں واپس قادیان پہنچے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت حضور کے پاس لاہور میں موجود تھے.آپ نے مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ اول سے لے کر ۱۹۱۲ء تک حضرت خلیفہ اول کے درس میں بیٹھ کر علم حاصل کیا تھا.ضروری مسائل کے علاوہ بعض احادیث کے الفاظ اور اکثر ان کے مضامین آپ کو زبانی یاد تھے.۱۹۱۲ ء میں حضرت خلیفہ اول نے ملا عبد الغفار صاحب من کی لڑکی عائشہ بی بی سے شادی کر دی اس شادی کی وجہ سے چار رفقاء سے آپ کا تعلق رشتہ داری قائم ہوا.ملا عبدالغفار صاحب،ملا امیرالدین عرف میر وصاحب، مولوی عبدالستار عرف بزرگ صاحب ملا عبدالغفار کے لڑکے عبداللہ صاحب اور پانچویں خود مولوی غلام رسول صاحب ایک گھر میں پانچ رفیق حضرت مسیح موعود موجود تھے.ذالك فضل الله يوتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم.شادی کے اخراجات کے بھی انتظامات حضرت خلیفہ اسیح اول نے کئے.چار پانچ جوڑے لڑکی کے لئے بنائے اور چار پانچ جوڑے لڑکے کے لئے بنائے اس دن سات آٹھ لڑکیوں کا رخصتانہ حضرت خلیفہ اول نے کیا اور ہر ایک کو ایسا ہی جہیز اپنے پاس سے دیا تھا.شادی کے بعد چند دن لنگر سے کھانا کھایا بعد میں بٹالہ سے گوشت لاکر بیچا کرتے تھے اور اس کے بعد کریانہ کی دوکان ڈال کر مستقل تجارت شروع کی.امانت دیانت میں اتنے مشہور ہو گئے کہ باہر سے لوگ بچوں کو بھیج کر ان سے سودا منگوایا کرتے تھے.چونکہ تجارت کی رقم اپنی نہیں تھی اور حساب کتاب با قاعدہ نہیں سیکھا تھا اور تجارتی اصول سے بھی ناواقف تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھاری نقصان ہوا.قرضہ میں آپ کا مکان بکا مگر اس کو برا نہیں منایا بلکہ خندہ پیشانی سے قبول کیا.اس کے بعد دودھ کی دکان ڈالی اس میں بھی امانت دیانت کی غیر معمولی طور پر شہرت ہوئی.خالص دودھ بیچتے اور قطرہ پانی نہیں ڈالتے تھے.جب آپ کے پاس غلطی سے کھوٹا سکہ آتا تو اسے ضائع کرتے یا پتھر سے توڑ دیتے کہ مجھے تو دھو کہ لگا ہے کسی اور کو دھو کہ نہ لگے.علی العموم دکان میں درس جاری رکھتے تھے.کسی کو قرآن کریم پڑھاتے کسی کو عمدۃ الاحکام جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 427 جلد ۲۰ اولاد پڑھاتے اور اگر کوئی اور نہ ہو تو خود قرآن کریم پڑھتے رہتے اور حفظ کرتے.اپنے بچے عبد الکریم کو پڑھاتے قرآن کریم بہت ہی صحیح پڑھتے تھے.اور اپنے بچوں کو صحیح قرآن کریم پڑھایا.اور جتنا حصہ قرآن کریم کا حفظ تھا با قاعدہ تہجد میں پڑھتے تھے.آپ کی لڑکی اچانک فوت ہوگئی تو صبر واستقلال دکھایا کوئی جزع فزع نہیں کیا.ایک دفعہ کا ذکر ہے جمعہ کا دن تھا دکان بند کر کے کھانا کھانے کے لئے گھر آگئے.کھانا تیار نہ تھا کہنے لگے اگر انتظار کروں تو جمعہ کی نماز ضائع ہو جائے گی.مجھے پانی دے دو.پانی دیا تو نمک پانی میں ڈال کر اسی میں روٹی ڈبو ڈبو کر کھائی اور جمعہ کی نماز کے لئے چلے گئے.اللہ اللہ درویشانہ زندگی بھی عجیب چیز ہے.آپ علی العموم تنگدست رہتے تھے.مگر سوال سے نفرت کیا کرتے تھے.کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا.بلکہ اس کو گناہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے خدا پر ایمان رکھو.بندوں سے نہ مانگو خدا.ނ مانگو.آپ اپنے بال بچوں اور اہلیہ کے حق میں بہت ہی مہربان تھے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے صاحبزادے مرزا ظفر احمد کو آپ کی بیوی عائشہ بی بی صاحبہ نے دودھ پلایا ہوا تھا.اس سعادت کے علاوہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کے ساتھ بھی آپ کے خادمانہ تعلقات تھے.ان کے بچے عام طور پر حضرت میاں صاحب کے گھر آتے جاتے تھے.حضرت میاں صاحب بھی ان کا بہت خیال رکھا کرتے تھے.جزا ہم اللہ احسن الجزاء.حضرت اماں جان نوراللہ مرقدہا بھی ہر وقت ان کا خیال رکھا کرتی تھیں.جب ان کی بڑی لڑکی جوان ہوئی تو حضرت اماں جان نے اس کی شادی میرے ساتھ تجویز فرمائی اور ہمیشہ ان کی خبر گیری کرتی رہیں.اللہ اللہ ! ان لوگوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدام کی کس قدر خیر خواہی تھی.۱- مولوی عبدالکریم خاں صاحب -۲- زینب بی بی صاحبہ اہلیہ مولوی محمد شہزادہ خان صاحب افغان مرحوم ۳ - سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ میجر مصلح الدین سعید صاحب ۴ - امتہ الکریم بیگم صاحبہ (اہلیہ
تاریخ احمدیت 428 جلد ۲۰ عبدالمجید صاحب ناصر ) ۵ - امته الباسط بیگم صاحبہ (اہلیہ منیر احمد صاحب سیفی ) -۴- خواجہ عبد الغفار صاحب جراح امرتسر (بازار قلعہ بھنگیاں) ولادت ۱۸۹۰ء اندازاً وفات ۱۳ مئی ۱۹۵۹ء) حضرت مسیح موعود کے قدیم رفیق حضرت حاجی خواجہ غلام رسول صاحب کے صاحبزادے تھے.سلسلہ عالیہ احمدیہ سے نہایت درجہ اخلاص رکھنے والے بزرگ تھے.اور حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعودؓ سے والہانہ عقیدت تھی.طبیعت میں خشوع خضوع بہت تھا.حضرت مسیح موعود کے ذکر مبارک پر بے اختیار رو پڑتے تھے.آپ کی بیان فرمودہ روایات، رجسٹر روایات نمبر ۱۱ ( صفحہ ۲۸ تا ۴۳ ) میں درج ہیں.۵- حضرت سید محمد اسمعیل صاحب سابق آڈیٹر صدرانجمن احمد یہ ولادت ۱۸۸۵ء، بیعت و زیارت ۱۹۰۱ ء، وفات ۲۹ رمئی ۱۹۵۹ء) حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کے برادر اصغر تھے.عمر کا بیشتر حصہ خدمت سلسلہ میں گزارا اور صدرانجمن احمدیہ کے مختلف دفاتر میں سالہا سال تک خدمات انجام دیں.۱۹۴۶ء میں آپ ریٹائرڈ ہوئے اس وقت آپ آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ کے عہدہ پر فائز تھے.اولاد -1 ۱۲ ۱- حاجی سید عبدالقیوم صاحب دار الرحمت وسطی ربوه ۲- آمنہ بیگم صاحبه زوجه سید سلیم شاہ صاحب ۳ - امۃ الرشید صاحبه زوجہ سید لال شاہ صاحب امیر جماعت احمد یہ آنبہ کالیہ ضلع شیخو پوره ۴ - سید عبدالرشید صاحب حال لنڈن ۶ - جناب سید محمد شاہ صاحب متوطن معین الدین پورہ.صدر فتح پورہ ضلع گجرات ولادت ۱۸۷۴ء (اندازاً)، بیعت فروری ۱۹۰۸ء ، وفات ۲۵ / ستمبر ۱۹۵۹ء ) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اپنی کتاب ”حیات قدسی“ حصہ چہارم صفحہ ۲۶، ۲۷ پر تحریر فرماتے ہیں :- وو مناظرہ کے بعد مکرمی منشی محمد الدین صاحب اور مکرمی چوہدری سلطان عالم صاحب ساکن گولڑ یالہ کی معیت میں ہم کھاریاں ، نورنگ، نصیرا،
تاریخ احمدیت 429 فتحپور وغیرہ میں تبلیغ کے لئے گئے.میں فتح پور میں کثرت کار کی وجہ سے بیمار ہو گیا.مکرمی سید محمد شاہ صاحب نے مجھے مصری کا شربت اور اسبغول استعمال کرایا.لیکن میرے ساتھ وہی معاملہ ہوا جس کے متعلق صاحب مثنوی نے فرمایا چوں قضا آمد طبیب ابله شود شربت پیتے ہی اسہال شروع ہو گئے.اور تکلیف اس قدر بڑھ گئی که دو دو، چار چار منٹ کے بعد دست آنے شروع ہو گئے.یہاں تک کہ قضائے حاجت کے لئے مکان کے اندر ہی انتظام کرنا پڑا.سیدہ فاطمہ صاحبہ اہلیہ سید محمد شاہ صاحب نے اکرام ضیف اور تیمار داری کا وہ نمونہ دکھایا کہ دنیا میں بہت کم نظر آئے گا.جب میری بیماری اور ضعف ہر آن بڑھتا گیا اور حالت نازک ہو گئی تو میں نے منشی محمد الدین صاحب سے کہا کہ میں اپنے آخری لمحات میں مناسب سمجھتا ہوں کہ وصیت تحریر کراؤں.چنانچہ منشی صاحب کو میں نے وصیت لکھوا دی.جب پڑھ کر سنائی گئی تو سب دوست آبدیدہ ہو گئے اور انہوں نے حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تار کے ذریعے درخواست دعا کی.چنانچہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا اور میں روبصحت ہونے لگا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق میں نے بارہا دیکھا ہے کہ ادھر حضور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا گیا اور قدرت کی طرف سے اسباب مخالفہ کو اسباب مونعقہ میں تبدیل کر دیا گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جب مجھے چلنے پھرنے کی نرینہ اولاد طاقت حاصل ہو گئی تو میں نے مکر می سید محمد شاہ صاحب اور ان کی اہلیہ مکرمہ کے احسانات کے پیش نظر ان دونوں کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے اپنا کوئی مقصد بتا ئیں جس کے لئے میں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کروں.اس پر انہوں نے کہا کہ اب تک ہمارے ہاں چار لڑکیاں پیدا ہوئی ہیں.لیکن نرینہ اولا د کوئی نہیں.ہماری آرزو ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 430 نرینہ اولاد سے نوازے.میں نے ان کے احسانات کی وجہ سے دعا کے لئے خاص جوش محسوس کیا.اور کہا کہ آئیے سب مل کر دعا کرلیں.جب میں نے دعا کی تو میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت محسوس کی.اور ان کو اطلاع دے دی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے ان کو نرینہ اولاد عطا فرمائی.اور اب ان کے لڑکے جوان اور برسر روزگار ہیں اور میں بہت خوش ہوں کہ میرے محسنوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کے مقصد میں کامیاب فرمایا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.“ آپ موضع معین الدین پور نز د گجرات کے باشندے تھے.اور وہاں کی رہائش ترک کر کے اپنے خسر حضرت سید محمود شاہ صاحب کے گاؤں فتح پور ضلع گجرات میں مستقل سکونت اختیار کر لی...حضرت سید محمود شاہ صاحب کی زندگی میں ہی سید محمد شاہ صاحب ملازمت سے فراغت پا کر اور پنشن یاب ہو جانے کے بعد سلسلہ کی خدمات میں پورے انہماک سے دلچسپی لیتے رہے.لیکن اپنے خسر کی وفات کے بعد آپ نے سلسلہ کی ہر طرح کی خدمات کو نہایت تندہی سے سرانجام دینا شروع کیا اور پریذیڈنٹ مقامی جماعت اور امام الصلوۃ اور خطیب رہ کر سالہا سال تک سلسلہ کی ہر طرح دامے، درمے، قدمے سخنے خدمات سرانجام دیں.فجزاہ اللہ خیر أحسناً.“.آپ ۸۵ سال کی عمر میں راہی عالم جاودانی ہوئے.آپ سلسلہ کے لئے بہت غیرت رکھنے والے بزرگ تھے.اور حضرت خلیفۃ امسیح الثانی ایدہ اللہ کے ساتھ انتہائی فدائیت کے نظارے ہم نے بار بار آپ کی زندگی میں دیکھے.بیسیوں بار آپ کے گاؤں اور اردگرد کے دیہات میں احمدیت کی مخالفت کے طوفان اٹھے.جس کا آپ نے مومنانہ جرات کے ساتھ مقابلہ کیا اور جماعت کو کئی آڑے وقتوں میں سنبھالا.خاندان سادات کا ایک فرد اور اہلِ علم ہونے کی وجہ سے غیر احمدی اصحاب بھی آپ کے اور آپ کے خسر سید محمود شاہ صاحب کے ساتھ تعظیم کے ساتھ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 431 پیش آتے.تبلیغ کے علاوہ آپ کے خسر اور آپ کا ذاتی وقار اور مومنانہ اخلاق مقامی جماعت کی ترقی کا باعث بنا.اس میں آپ کی مرحومہ اہلیہ بھی برابر کی شریک تھیں.قادیان سے آنے جانے والے مہمانوں مبلغوں اور بزرگوں کی ہر رنگ میں خدمات سرانجام دینا آپ کے خاندان کا طرہ امتیاز آپ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ ۱۹۱۱ء میں شہنشاہ جارج پنجم کی تاج پوشی کے سلسلہ میں آپ کا رسالہ بھی دہلی میں مقیم تھا کہ رسالہ کے بعض سائیسوں نے ایک توپ کے گولہ کو ناکارہ سمجھ کر اسے اپنے کسی مصرف میں لانے کی کوشش کی.اور اس میں اپنی بے وقوفی سے آگ لگادی.جو بڑے زور سے آپ کے خیمہ کے سامنے پھٹ گیا اور کئی آدمی ہلاک اور زخمی ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے خیمہ کو بال بال بچا لیا.اس پر آپ نے اپنے ساتھیوں کی حیرانی کو دیکھ کر فرمایا کہ ہمارا اور ہمارے خیمہ کا معجزانہ طور پر بچ جانا ہمارے حضرت اقدس مسیح موعود کے ایک مشہور الہام اور بشارت کے نتیجہ میں ہے جس میں دائمی مژدہ سنایا گیا ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ آپ کے اس الہام الہیہ کی تفصیل سنانے پر رسالہ کے ایک افسر رسالدار چوہدری حاکم علی صاحب از حد متاثر ہوئے.اور آپ سے سلسلہ کے لٹریچر اور حضرت اقدس علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کی خواہش کا اظہار کیا اور تحقیق وتسلی کے بعد سلسلہ حقہ میں شامل ہو گئے.آپ نے اپنی ملازمت کے اثناء میں رسالہ کے اندر اور شہر میں طاعون کی ہولناک تباہی کو دیکھ کر اپنے زبر دست ایمان اور یقین کی بناء پر بار بار یہ اعلان کیا کہ انشاء اللہ خدا تعالیٰ مجھ کو اس مرض سے محفوظ رکھے گا.اور میرا بال بھی بیکا نہ ہوگا.اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا یہ عظیم الشان نشان ہے کہ آپ کا کوئی مخلص مرید اس مرض سے ہلاک نہ ہو گا.آپ کے اس اعلان کے پیش نظر آپ کے رسالہ کے اکثر افراد آپ کے خیمہ میں پناہ گزیں رہے.اور ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس مرض سے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 432 جلد ۲۰ اولاد محفوظ رکھا.ان دنوں میں آپ کا رسالہ انبالہ چھاؤنی میں مقیم تھا اور صدہا افراد نے آپ کے یقین اور ایمان سے بھرے ہوئے اعلان کو اور پھر اس کے نتیجہ کو بھی دیکھا.موضع فتح پور کا ہی ایک ایمان افزاء واقعہ ہے کہ ایک بار چند شریر مخالفین کی شہ پر غیر احمدیوں نے ایک مخالفانہ جلوس نکالا جس میں گاؤں کے چند بھانڈوں کی جو شادی بیاہ کے موقعہ پر باجہ بجانے کا کام کرتے تھے ) خدمات حاصل کی گئیں.جو گاؤں میں باجہ کے ساتھ گندے شعر پڑھتے ہوئے آپ کے دروازہ کے سامنے سے گزرے اور آپ کی اہلیہ محترمہ سیدہ فاطمہ بیگم مرحومہ نے ان لوگوں کی اس نازیبا حرکت پر ان کو سخت زجر کی اور سیدہ مرحومہ نے کہا کہ تم نے خدائے پاک کے مقدس مسیح کی محض از راہ ظلم توہین کی.اللہ تعالیٰ تم کو سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑے گا.اس کے بعد چاروں بھانڈ جو آپس میں بھائی بھائی تھے یکے بعد دیگر لقمہ طاعون ہو گئے.جب مرنے والوں کی ماں نے دیکھا کہ یہ بلائے آسمانی سیدہ مرحومہ کی بددعا کے نتیجہ میں ان پر پڑی ہے تو وہ انتہائی کرب کی حالت میں واویلا کرتی ہوئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور جہلاء کی طرز پر آپ کے قدموں میں گر پڑی.اور کہنے لگی کہ ہمیں اس مصیبت سے بچالے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ساری مصیبت ہم کو آپ کی بددعا سے پیش آئی ہے اس پر سیدہ مرحومہ نے فرمایا کہ تم آئندہ کے لئے مصائب سے بچنا چاہو تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو، ۱۴ ۱ - سید محمد خلیل صاحب نیوی آفیسر ۲ - سید محمد جلیل صاحب راولپنڈی ۷.حضرت قریشی غلام محی الدین صاحب دولت پور ضلع سیالکوٹ ولادت ۱۸۸۱ء بیعت ۱۹۰۸ء وفات ۲۵ ستمبر ۱۹۵۹ء.) بیعت سے تادمِ واپسیں سلسلہ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کے
تاریخ احمدیت 433 جلد ۲۰ جذبات سے معمور رہے.سالہا سال تک سیکرٹری مال انجمن احمد یہ نوشہرہ پسر ورضلع سیالکوٹ کے فرائض نہایت ذوق و شوق سے بجا لاتے اور کوشاں رہے کہ اولاد بھی خدمت دین کے جذبہ سے سرشار رہے.دعا گو اور تہجد گزار بزرگ تھے.تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کی مطبوعہ فہرست کے صفحہ ۱۹۶ پر آپ کا نام موجود ہے.اولاد ۱۵ ۱۶ قریشی عبدالرحمن صاحب شہید احمدیت (امیر جماعت احمد یہ ضلع سکھر و شکار پور جیکب آباد و ناظم اعلیٰ انصار اللہ ضلع سکھر و خیر پور ڈویژن ) ۲ - قریشی عبدالرزاق صاحب دولت پور تحصیل پسر ورضلع سیالکوٹ ۳ - سید بیگم صاحبہ (اہلیہ قریشی عبدالرحیم صاحب سابق عربی ٹیچر ہائی سکول نارووال حال پسرور ) - حضرت میاں عظیم اللہ صاحب ولد حافظ ملک غلام غوث صاح فیض اللہ چک حال منٹگمری (ساہیوال) ولادت ۱۸۸۶ء بیعت ۱۹۰۲ء تاریخ وفات ۱۴ / اکتوبر ۱۹۵۹ء) ۱۹ آپ جماعت احمد یہ فیض اللہ چک ضلع گورداسپور کے قدیم بزرگوں میں سے تھے اور تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے.آپ کے اکلوتے فرزند ڈاکٹر عطاءالرحمن صاحب امیر جماعت احمد یہ ساہیوال تحریر فرماتے ہیں کہ :- وو جب سیدنا حضرت امام جماعت احمد یہ الثانی نے جماعت احمدیہ میں امارت اور بعض جماعتوں میں صدارت کا نظام رائج فرمایا تو میاں عظیم اللہ صاحب اپنے گاؤں فیض اللہ چک کے صدر جماعت چنے گئے.نہ صرف صدر بلکہ جماعت کے اس وقت کے لحاظ سے تمام ہی عہدے ان کے پاس تھے.وہی سیکرٹری تعلیم ، سیکرٹری ضیافت ، سیکرٹری مال وغیرہ تھے اور ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک تک بڑی تندہی سے اور بشاشت قلب سے ان تمام عہدوں پر جماعت احمدیہ کی خدمت کرتے رہے.حضرت میاں عظیم اللہ صاحب کے خصوصی تعلقات حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال،
تاریخ احمدیت 434 حضرت عبدالمغنی صاحب، حضرت میر محمد اسحاق صاحب، حضرت مولوی فرزند علی صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے ساتھ تھے.خاکسار کے قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہمیشہ اپنی عربی نسل کی گھوڑی جو کہ سرگودھا ریماؤنٹ ڈپو سے ان کے چھوٹے بھائی (میاں سمیع اللہ صاحب نے جو سرگودھا میں زراعت کے بڑے افسر تھے ) نے خرید کر بھیجی تھی اس پر سوار ہو کر قادیان جاتے تھے..سلسلہ کے تمام مہمان ہمیشہ حضرت میاں عظیم اللہ صاحب کے ہاں ہی ٹھہرتے اور آپ ان کے لئے ہر قسم کی سہولیات مہیا کر کے مہمان نوازی کر کے خوشی محسوس کرتے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب عام طور پر دورہ پر تشریف لے جاتے تھے.ایک مرتبہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور حضرت نواب محمد الدین صاحب بھی داعی الی اللہ کے پروگرام کے سلسلہ میں ۱۹۴۵ء کے شروع میں ہمارے ہاں تشریف لے گئے.خاکسار تو ان دنوں فوجی خدمات کے سلسلہ میں قاہرہ (مصر) میں تعینات تھا.اسی سال مکرم و محترم حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جو ان دنوں فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے جج تھے انگلستان سے واپس تشریف لاکر راستہ میں قاہرہ بھی ٹھہرے اور ہمارے فوجی میس میں جو قاہرہ میں ۱۵ انڈین ہاسپیٹل کا تھا ایک رات ڈنر پر مدعو تھے.وہاں پر ہی حضرت چوہدری صاحب نے اپنے فیض اللہ چک خاکسار کے ہاں جانے کا ذکر فرمایا.جہاں حضرت میاں عظیم اللہ صاحب اور ان کی والدہ محترمہ نے ان کی مہمان نوازی فرمائی ملکی تقسیم کے موقع پر بڑی بہادری سے حالات کا مقابلہ کرتے رہے اور خطر ناک سے خطرناک جگہ پر بے دھڑک اپنی چھڑی لے کر چلے جاتے.ان کے تعلقات اردگرد کے علاقہ میں بڑے وسیع تھے.ویسے مسلمانوں کے علاوہ بیشتر سکھ گھرانے عیسائی اور ایک گھر ہندو پنڈتوں کا بھی جس کے سربراہ کا نام چونی لال تھا ہمارے خاندان کی زمینوں پر مزارع تھے.جلسہ سالانہ کے دنوں میں اپنے ہاں سے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی سہولت کے لئے کافی کسیر اور کھوری بھجواتے.کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ جلسہ سالانہ کے انتظامات کے آخری وقت میں حضرت میر محمد الحق صاحب کی طرف سے پیغام موصول جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 435 ہو جاتا کہ مزید کسیر یا کھوری کی ضرورت ہے.کسیر جو ہڑوں کے کناروں سے اور کھوری کماد کی فصل سے حاصل ہوتی تھی.ہمارے ہاں چاول کی فصل ان دنوں زیادہ نہیں ہوتی تھی اس لئے پرالی مہیا نہیں ہوسکتی تھی.حضرت میاں عظیم اللہ صاحب کئی مرتبہ ۲۴ یا ۲۵ دسمبر کے دن چالیس چالیس پینتالیس پینتالیس آدمیوں کے سروں پر گٹھے رکھوا کر ان کو قادیان روانہ کر دیتے اور سلسلہ کی ضرورت پوری کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے.حضرت میاں عظیم اللہ صاحب نے اپنے بہن بھائیوں اور ان کی اولادوں کے تقریباً ۲۴ کے قریب قیموں کی پرورش میں انتہائی کوشش اور محنت کی.ایک عرصہ تک حضرت میاں عظیم اللہ صاحب تینوں گاؤں کے سر براہ نمبردار تھے.کیونکہ ان کے بھائیوں کے بیٹے جو نمبرداری کے حقدار تھے اور بہن کے بیٹے جو وہ بھی نمبرداری کے حقدار تھے وہ اپنے والدین کے فوت ہو جانے کی وجہ سے نابالغ رہ گئے تھے ان کی بلوغت تک حضرت میاں صاحب ان کی زمینوں اور جائیدادوں کی نگہداشت اور انتظام نہایت ایمانداری اور کوشش سے کرتے رہے.ان کی تعلیم کا بھی بندوبست کیا.ان کی شادیوں کا بھی انتظام کیا اور بعض کی ملازمتوں کا بھی بندو بست کیا.ان کے بالغ ہونے پر ان کی زمینیں اور جائیدادیں وغیرہ ان کے سپرد کر دیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کو اس کی بہترین جزا د یوے.اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے.۱۹۴۷ء کے تقسیم ملک کے بعد خاکسار کچھ عرصہ تک حکومت پاکستان کی خواہش کے مطابق ضلع شیخوپورہ میں پہلے چوہڑکانہ میں اور بعد میں مانانوالہ میں میڈیکل آفیسر تعینات رہا.جہاں پر ان دنوں مہاجرین بڑی تعداد میں آکر مہاجرین کے کیمپوں میں ٹھہرے ہوئے تھے.ان کے علاج اور ان کی غذا وغیرہ کا بھی دیگر موقع پر موجود افسران سے مل کر انتظام کرنا ہوتا تھا.وہاں پر حضرت میاں عظیم اللہ صاحب بھی خاکسار کے ہمراہ ہی تشریف فرما تھے اور ہمارے پرانے علاقہ سے کئی ایک احباب خاکسار کی وہاں پر تعیناتی کا سن کر آکر کئی کئی یوم بطور مہمان ٹھہرتے رہے اور باوجود اس بات کے کہ ہم لوگ بھی بطور مہاجر پاکستان میں آئے تھے حضرت میاں صاحب سب کی پورے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 436 جلد ۲۰ طور پر مہمان نوازی کرتے رہے اور سب کی ہر قسم کی ضروریات مہیا کرنے کی کوشش کرتے رہے اور اس میں خوشی محسوس کرتے تھے.سب کی ڈھارس بندھاتے تھے اور ہر قسم کی امداد کر دیتے تھے.“ اپریل ۱۹۴۸ء میں خاکسار ساہیوال آ گیا تو کچھ عرصہ کے بعد حضرت میاں عظیم اللہ صاحب بھی یہاں ہی تشریف لے آئے.نیز تحریر فرماتے ہیں :- ۱۹۳۴-۳۵ء کے سالوں میں جماعت احمدیہ کے بعض وفود اردگرد کے دیہات میں دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں جایا کرتے تھے.اسی دوران ایک وفد جس میں مکرم حامیم صاحب ریٹائرڈ سب انسپکٹر پولیس اور مکرم ملک فضل کریم صاحب جو فیض اللہ چک کے رہنے والے تھے اور وطن ہائی سکول لاہور میں ٹیچر تھے اور مکرم قاضی کریم اللہ صاحب ( جو خاکسار کے چچا تھے ) اور میاں عظیم اللہ صاحب کے چھوٹے بھائی اور بعض اور دوست جمعہ کے روز ایک گاؤں ظفر وال میں (جو دھار یوال سے تقریباً ڈیڑھ میل پر واقع تھا) پہنچے.اس وقت جمعہ کی نماز کا وقت ہو رہا تھا ان لوگوں نے اس گاؤں کی مسجد میں اذان دی اور نماز کی تیاری کرنے لگے.تو اس گاؤں کے سکھ مسلح ہو کر آگئے اور دریافت کیا کہ اذان کیوں دی گئی ؟ ہماری عورتوں اور بچوں پر اس کا برا اثر ہوتا ہے.مگر یہ معلوم ہونے پر کہ بعض افراد نزد یکی گاؤں فیض اللہ چک کے ہیں صرف دھمکیوں پر اکتفا کر کے چلے گئے.نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد جب یہ احباب فیض اللہ چک پہنچے تو اس واقعہ کی اطلاع حضرت میاں عظیم اللہ صاحب کو دی.ان کو بڑا افسوس ہوا کہ اس گاؤں میں لوگوں کو خدا تعالیٰ کا نام لینے سے روکا ہوا ہے.چنانچہ میاں صاحب اس گاؤں میں گئے اور امام مسجد میاں خیرالدین صاحب کو مل کر حالات دریافت کرنے کے بعد ان کو حوصلہ دلایا کہ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں.آپ اپنے سب مسلمان بھائیوں کو منظم کریں.یہ یادر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا.میاں خیرالدین صاحب نے ان اپنے ساتھیوں کو منظم کرنا شروع کیا.اسی دوران بیساکھی کے میلہ
تاریخ احمدیت 437 کے موقع پر ( جو غالبا ۱۲ را پر میل تھی ) سکھوں کے کچھ نوجوان لڑکے میلہ سے واپس آئے وہ شراب کے نشہ میں دھت تھے اس وقت میاں خیرالدین صاحب اپنے لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے.ان لڑکوں نے نمازیوں پر بلا وجہ اور بلا اشتعال حملہ کر دیا.امام صاحب کو بھی مارنا شروع کیا.امام صاحب نماز کے دوران ہی مسجد کے کمرہ کے اندر جو کچا کمرہ تھا چلے گئے.ان کے پیچھے ہی نمبر دار کا لڑکا جو کہ سکھ تھا مسجد کے کمرہ میں ان کو مارنے کے لئے چلا گیا.اور اندر وہ میاں خیر الدین صاحب کو مارنے کی بجائے خود مارا گیا.پولیس میں رپورٹ ہوئی.علاقہ کا تھانیدار بھی سکھ تھا.اس نے آکر میاں خیر الدین صاحب کو ۳۰۲ ت ھ کے تحت گرفتار کر لیا اور فیض اللہ چک کے بعض افراد جن میں حضرت میاں عظیم اللہ صاحب بھی شامل تھے ان کو مسلمانوں کو منظم کرنے کے جرم ۱۵۱/ ۱۰۷ کے تحت مقدمہ قائم کر دیا.چنانچہ میاں عظیم اللہ صاحب نے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی اور ان دونوں کیسوں کی سماعت ایک ہند و مجسٹریٹ دیوان سکھا نند کی عدالت میں شروع ہوئی.کئی پیشیاں ہوئیں.حضرت میاں عظیم اللہ صاحب نے میاں خیر الدین کی ۳۰۲ ت ھ کے کیس میں ضمانت دی ہوئی تھی.ނ اسی دوران حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب قادیان تشریف لائے.میاں صاحب نے ان کیسوں کے مفصل حالات بیان کر کے ان مشورہ طلب کیا.حضرت چوہدری صاحب نے فرمایا کہ خیرالدین صاحب کی ضمانت منسوخ کر دو اور ہائی کورٹ میں مقدمہ کے کسی اور ضلع میں تبدیل کئے جانے کی درخواست دے دو.اگلی تاریخ پیشی پر محترم میاں عظیم اللہ صاحب نے اپنے وکلاء سے یہ تمام حالات بتا کر ایسی عرضی تیار کرنے کو کہا کہ اس ضلع میں ہم کو انصاف کی امید نہیں ہے.ہمارے کیس کی سماعت روک دی جائے.ہم ہائی کورٹ میں کسی اور ضلع میں کیس تبدیل کرنے کی عرضی دینا چاہتے ہیں.مسلمان وکلاء نے ڈپٹی کمشنر صاحب کے خلاف عرضی دینے سے معذوری کا اظہار کیا.چنانچہ میاں صاحب نے خود ہی اس مضمون کی عرضی ڈپٹی کمشنر صاحب کے نام تحریر کرلی اور ڈپٹی کمشنر صاحب کے آفس جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 438 سپرنٹنڈنٹ صاحب کو (جن کا نام غالبا محمد عبداللہ تھا ) دے دی.وہ عرضی لے کر دو پہر کے کھانے کے وقفہ پر ڈپٹی کمشنر صاحب کے پاس گئے اور بتایا کہ اس قسم کی عرضی آئی ہے.اس ڈپٹی کمشنر صاحب نے اپنی سبکی ہونے کے خیال سے فوری طور پر دیوان سکھا نند مجسٹریٹ کو بلایا اور اس کو کچھ ہدایات دیں.پیشی کی آواز پڑنے پر جب میاں صاحب عدالت میں گئے تو مجسٹریٹ صاحب نے میاں صاحب سے کہا کہ آپ تو چھوٹے ہتھیاروں پر آگئے ہیں.آئندہ سے ۱۵۱/ ۰۷ا ختم کی جاتی ہے.آپ پیشی پر نہ آیا کریں.یہ سن کر میاں صاحب نے دوسری عرضی جس میں میاں خیر الدین صاحب کی ضمانت کی منسوخی کی تحریر تھی مجسٹریٹ صاحب کے سامنے رکھ دی کہ میں ان کی ضمانت نہیں دینی چاہتا.اس پر اگر چہ جرم ۳۰۲ تعزیرات ہند کا تھا مگر دیوان سکھانند صاحب نے میاں خیر الدین صاحب سے بھی یہی کہا کہ اچھا آپ ہی تاریخ پر آجایا کریں اور کوئی مزید ضمانت طلب نہ کی.جلد ہی سیشن جج صاحب نے جو کٹر ہندو تھے میاں خیر الدین کو اس مقدمہ میں سزائے موت دے دی جو کہ ہائی کورٹ لاہور میں اپیل کرنے پر بعد میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے بری ہو گئے اور ۱۹۴۷ء تک اگر چہ احمدیت میں شامل تو نہیں ہوئے مگر جماعت کے بڑے احسان مند اور بڑے تعریف کرنے والوں میں سے تھے.۱۹۴۷ء کے فسادات سے قبل ظفر وال میں سکھوں اور ہندوؤں نے بھی چندہ دے کر مسجد کو پختہ بنوا دیا اور ۱۹۴۷ء کے فسادات کے دوران میاں خیر الدین صاحب کو جو ظفر وال سے نکل کر فیض اللہ چک آرہے تھے سکھوں کے بعض نوجوان ورغلا کر واپس لے گئے اور جاکر شہید کر دیا.اللہ تعالیٰ مغفرت فرما دے.“ 66 اولاد ۲۱ جلد ۲۰ ۱- خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ میاں محمد لطیف صاحب ابن حضرت میاں فضل الہی صاحب (رفیق حضرت مسیح موعود ) وفات ۱۹۷۵ء۲ - پارساں بیگم صاحبہ اہلیہ صو بیدار غلام رسول صاحب ( وفات ۱۹۵۲ء) ۳ - ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ ساہیوال ۲۳
تاریخ احمدیت 439 حضرت با بو فقیر علی صاحب ریٹائر ڈ اسٹیشن ماسٹر ولادت ۱۸۸۲ ء یا ۱۸۸۴ء، بیعت ۱۹۰۵ء ، وفات ۱۴ر دسمبر ۱۹۵۹ء) جلد ۲۰ حضرت بابو صاحب کا اصل وطن کو ٹلہ ضلع گورداسپور تھا.بچپن میں آپ کے کانوں میں احمدیت کی آواز موضع تھصہ غلام نبی (ضلع گورداسپور ) کے احمدی بزرگوں کے ذریعہ پہنچی.زمانہ تعلیم میں آپ حضرت منشی عبدالغنی صاحب و حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی اور سیکھوانی برادران سے متعارف تھے.اور شروع سے اخبار الحکم اور البدر کا دلچسپی سے مطالعہ کیا کرتے تھے.۱۹۰۵ء میں آپ بلوچستان کے پہلے اسٹیشن جھٹ پٹ پر بطور اسٹمنٹ اسٹیشن ماسٹرمتعین تھے کہ حضرت منشی عبد الغنی صاحب نے آپ کو حضرت مسیح موعود کا اشتہار ” الانذار (مورخہ ۱/۸اپریل ۱۹۰۵ء ) ارسال فرمایا تھا.جس کو پڑھتے ہی آپ کے دل میں سخت کرب و اضطرار پیدا ہوا.۲۴ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس میں یہ زبر دست انتباہ فرمایا تھا کہ : - ”دیکھو آج میں نے بتلا دیا زمین بھی سنتی ہے اور آسمان بھی کہ ہر ایک جو راستی کو چھوڑ کر شرارتوں پر آمادہ ہوگا اور ہر ایک جو زمین کو اپنی بدیوں سے نا پاک کرے گا وہ پکڑا جائے گا.خدا فرماتا ہے کہ قریب ہے جو میرا قہر زمین پر اترے.کیونکہ زمین پاپ اور گناہ سے بھر گئی ہے.پس اٹھو اور ہوشیار ہو جاؤ کہ وہ آخری وقت قریب ہے جس کی پہلے نبیوں نے بھی خبر دی تھی مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا کہ یہ سب باتیں اس کی طرف سے ہیں آگ لگ چکی ہے اٹھو اور اس آگ کو اپنے آنسوؤں سے بجھاؤ.“ حضرت بابو صاحب نے اشتہار کے لرزا دینے والے الفاظ پڑھ کر سنسان مقامات پر جا کر دعائیں شروع کر دیں کہ اے اللہ ، اے اللہ میری راہنمائی فرما.اگر مرزا صاحب تیری طرف سے ہیں اور میں ان کو قبول کئے بغیر مر گیا تو کیا بنے گا؟ اور اگر بیعت کرلوں اور یہ امر درست نہ ہو تو کیا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کی راہنمائی فرمائی اور عجیب طریق سے صداقت آپ پر کھول دی.واقعہ یوں ہوا کہ ایک دن آپ نے اپنے عزیز رشتہ داروں کی معیت میں نماز فجر کے بعد قرآن مجید ہاتھ میں لیا اور کہا کہ آپ سب گواہ رہیں کہ اس وقت میں حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا فیصلہ قرآن مجید سے چاہوں گا.جو مسلمہ طور پر کلام اللہ ہے.دائیں طرف کی سطر فیصلہ
تاریخ احمدیت 440 جلد ۲۰ کن ہوگی.چنانچہ اس کے بعد آپ نے قرآن مجید کھولا اور تصرف الہی سے یہ آیت سامنے آئی "ما هذا بشراء ان هذا الا ملك كريم " (يوسف : ٣٢) یہ آیت دیکھتے ہی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے آئے اور اپنی اور اپنی اہلیہ کی طرف سے بیعت کا خط بھیج دیا.اور تمام عملہ ریلوے میں بھی قبول احمدیت کا اعلان کر دیا.چند دن بعد جب منظوری کا جواب بھی موصول ہو گیا ، آپ قادیان تشریف لے گئے اور حضور کی زیارت سے مشرف ہوئے.حضور نے دریافت فرمایا کہ شناخت کیسے ہوئی.آپ نے ساری تفصیل عرض کر دی.حضور نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا : - طلب کی.“ آپ نے خوب کیا.دعاؤں کے بعد قرآن شریف سے راہنمائی حضور نے ایسے پیارے الفاظ کہے.ایسے حسین وقار کے ساتھ حضور نے میرا حال سنا اور پیارے مسکراتے چہرہ سے مجھے وہ الفاظ فرمائے کہ جب کبھی اس پہلی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے میرے دل میں ایک ایسی لہر پیدا ہو جاتی ہے جس کا الفاظ میں اظہار نہیں کرسکتا.“ حضرت اقدس نے آپ کو واپسی کی اجازت دی اور آپ قادیان دارالامان میں دو ایک روز کے مختصر قیام کے بعد مع اہل و عیال گورداسپور سے ہوکر واپس بلوچستان آ گئے.آپ نے اپنے نام الحکم اور ریویو آف ریلیجنز (اردو) جاری کروا لئے.حضرت بابو صاحب نے ملازمت کے دوران تقویٰ کی باریک راہوں پر عمل پیرا ہونے کا ایسا مثالی نمونہ دکھلایا جو آئندہ نسلوں کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے.اس ضمن میں ان کے فرزند میاں بشیر احمد صاحب مرحوم ( سابق امیر جماعت احمد یہ جھنگ) کے بیان فرمودہ بعض دلچسپ واقعات کا خلاصہ ذکر کرنا مناسب ہوگا.ا.ایک مسلمان ہیڈ ماسٹر کی اہلیہ کو سفر کے دوران جھٹ پٹ سے ایک سٹیشن قبل زچگی شروع ہو گئی.ہندو اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر نے اسے بتایا کہ اگلے سٹیشن پر ایک مسلمان اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر ڈیوٹی پر ہے.آپ وہاں پہنچیں.چنانچہ گاڑی آئی تو والد صاحب نے اس خاتون کو پلنگ پر اٹھوا کر اپنے گھر بھجوا دیا.اور ساتھ ہی اپنے افرسٹیشن ماسٹر اور اس کی اہلیہ کو بھی بلوالیا نیز ایک بلوچ کو ایک تیز گھوڑے پر بھجوایا تا چپیس میل کے فاصلہ سے دایہ کو لے کر آئے.اس خاتون کو اچھی طرح سنبھال لیا گیا.اللہ تعالیٰ نے اسے چار لڑکیوں کے بعد بیٹا عطا کیا.دایہ بعد مسافت کی
تاریخ احمدیت 441 جلد ۲۰ وجہ سے بعد میں پہنچ سکی.اس خوشخبری پر ہیڈ ماسٹر کے کئی اقارب آپ کے ہاں پہنچے اور دس روز تک قیام پذیر رہے.۲ - والد صاحب ریلوے قوانین کی نہ صرف خود سختی سے پابندی کرتے تھے بلکہ دوسروں سے بھی پابندی کراتے تھے.قلمی جو گھر سے سٹیشن پر آپ کا کھانا لاتا آپ اس کا معاوضہ بھی ادا کرتے تھے.ہندوؤں کی طرف سے آپ کی مخالفت ہوتی تھی.چنانچہ ۱۹۱۹ء کے مارشل لاء کے ایام میں جس کا آغاز ہی امرتسر سے ہوا تھا، آپ اپنے فرائض کو ادا کرتے رہے اور ریل گاڑیوں کی آمد ورفت سنبھالے رکھی.لیکن ان حالات کی وجہ سے اور آپ کی تبلیغی مساعی کے باعث ہندوؤں کی طرف سے جو تمام محکموں پر چھائے ہوئے تھے، آپ کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی رہی اور زیادہ ترقی نہ ہو سکی.البتہ گرفت میں لینے کی مساعی ان مخالفین کی ناکام رہتی تھی.۳ - آپ سٹیشن گور دست ستلانی پر تبدیل ہوئے تو پہلے ہی روز باوجود نحیف ہونے کے آپ نے چار موٹے تازے سکھ جائوں کو روک لیا اور کہا تم نے بغیر ٹکٹ سفر کیا ہے.رقم ادا کرو.انہوں نے کہا ہم نے آج تک ٹکٹ نہیں لیا.آپ نے کہا کہ میں سرکاری ملازم ہوں.آپ سے ٹکٹ لوں گا یا رقم.اور باتیں کرتے ہوئے انہیں اپنے کمرے میں لے آئے اور تار کے ذریعہ اٹاری اسٹیشن پر اطلاع دی.چنانچہ دو میل کا فاصلہ طے کر کے پولیس پہنچ گئی.آپ نے میمو بنا کر پولیس کے سپرد کر دیا.ان لوگوں نے اس یقینی خطرہ کے پیش نظر کہ اب پولیس ہتھکڑی لگا کر لے جائے گی رقم ادا کر دی.بابو صاحب کو دھمکی دے کر کہا یہ پہلا موقع ہے کہ ہم سے رقم وصول کی گئی ہے.ہم آج رات ہی آپ سے یہ رقم وصول کر لیں گے.بابو صاحب نے کہا باپ کے بیٹے ہو تو کوتا ہی ہرگز نہ کرنا.انہوں نے حیران ہو کر ایک قلی سے کہا کہ یہ مولوی کیا مصیبت آ گیا ہے.ہم آج ہی اس کا گھر لوٹ لیں گے.اس نے کہا کہ ان کے گھر میں ٹوٹی ہوئی صف ، مٹی کا لوٹا مٹی کی کنالی اور مٹی ہی کی ہنڈیا ہے.دھات کا کوئی برتن نہیں.اس کی بیوی کے پاس پیتل تک کا زیور نہیں.البتہ اگر انہیں زدو کوب کرنے کا ارادہ کیا تو یہ جان لو کہ وہ جماعت احمد یہ کے فرد ہیں.ان کی جماعتی تنظیم ان کی مدد کرے گی.اور آپ کا سارا گاؤں اس ظلم کی پاداش میں تباہ ہو جائے گا.چنانچہ آپ کئی سال تک اس سٹیشن پر متعین رہے اور آپ کا بال تک بیکا نہ ہوا.اور کبھی کسی کو وہاں بغیر ٹکٹ اترنے کی جرات نہ ہوئی.۴ - آپ کوٹ لکھپت کے جب سٹیشن ماسٹر تھے تو ایک ہند وسٹال والے کی شکایت پر کہ اس کے گھڑے ایک مسلمان نے بھرشٹ کر دیئے ہیں، آپ نے اس مسلمان سے قیمت دلا دی.
تاریخ احمدیت 442 جلد ۲۰ چند روز بعد ہندو سٹال والے نے مسلمانوں کے گھڑے کو ہاتھ لگا دیا.آپ نے اس سے کہا کہ تم مسلمانوں سے زیادہ گندے ہو.اس روز میں نے ایک مسلمان سے گھڑے کی قیمت دلائی تھی اب تم رقم ادا کرو.چنانچہ نتیجہ ہندوؤں کی ایسی شکایات رک گئیں.۲۵ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۲۸ء کو قادیان دارالامان میں ریل گاڑی جاری ہوئی تو آپ قادیان کے اولین سٹیشن ماسٹر مقرر ہوئے.آپ ساری عمر پابندی قانون کے جن اصولوں پر کار بند رہے ان پر آپ قادیان میں تعیناتی کے دور میں اور زیادہ سختی سے عمل پیرا ہو گئے.باوجود یکہ قادیان کا سٹیشن چھوٹا سا تھا اور اس کے پلیٹ فارم ٹکٹ کی ضرورت نہ تھی.لیکن قادیان کی شہرت اور تقدس کے احترام میں آپ نے پلیٹ فارم ٹکٹ جاری کروا دیا.آپ نے کبھی بلا ٹکٹ سفر نہیں کیا اور نہ آپ کے اقارب میں سے کسی کو یہ جرات ہوتی تھی کہ بلا ٹکٹ سفر کر کے آپ تک پہنچے.ایک مرتبہ آپ کی اہلیہ محترمہ ایک مرغی بک کرائے بغیر لے آئیں.آپ کو علم ہوا تو فوراً اس کے کرایہ کی رسید کاٹ کر رقم ادا کر دی.ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ دارالبرکات قادیان میں رہائش پذیر ہوئے.۱۹ ؍ جولائی ۱۹۳۲ء کو حضرت مصلح موعود نے اپنے دست مبارک سے آپ کے مکان کی بنیا د رکھی.۲۷ آپ اعزازی طور پر نظارت امور عامہ میں شعبہ رشتہ ناطہ میں کام کرتے رہے.قیام پاکستان کے بعد آپ قادیان سے ہجرت کر کے احمد نگر ( متصل ربوہ) میں مقیم ہو گئے اور یہیں وفات پائی.حضرت بابو صاحب احمدیت کا چلتا پھرتا نمونہ اور پر جوش داعی الی اللہ تھے.ہر جگہ پیغام حق پہنچانے میں دیوانہ وار سرگرم عمل رہے.آپ کے سوانح نگار ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نے آپ کی تبلیغی زندگی کے متعدد ایمان افروز واقعات درج کئے ہیں.آپ کی تحریک و تبلیغ سے ابتداء میں جو بزرگ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے وہ خلیفہ محمد صادق علی صاحب مختار عام حضور حضرت پیر سید گیلانی حسنی حسینی آفندی مجیدی سجادہ نشین رانی پور شریف ریاست خیر پور سندھ تھے.جن کا نام ”سلسلہ حقہ کے نئے ممبر کے زیر عنوان اخبار بدر ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء پر شائع ہوا اور حضرت اقدس کے نام بیعت کے دو مفصل خطوط اسی اخبار کی ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۷ء کی اشاعت میں صفحہ ا پر چھپے.ا حضرت بابو صاحب نے ۱۹۲۲ء کی مشہور آریہ شدھی تحریک کے خلاف جہاد میں حصہ لیا
تاریخ احمدیت 443 جلد ۲۰ اور ایران میں بھی آنریری طور پر بغرض تبلیغ تشریف لے گئے.امرتسر کے تعیناتی سات سالہ عرصہ میں آپ سیکرٹری تبلیغ و تعلیم و تربیت رہے.اس زمانہ میں امرتسر کے طبقہ امراء اور معززین کے علاوہ مولانا محمد علی صاحب جو ہر ، مولانا شوکت علی صاحب، گاندھی جی ، پنڈت موتی لال نہرو، مسٹر گو کھلے اور دیگر رہنماؤں سے آپ کی بالمشافہ مذہبی گفتگوئیں ہوئیں.آپ بڑے بڑے سیاسی اور مذہبی جلسوں میں شرکت کرتے تھے.مشہور اہل حدیث عالم مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے کئی دفعہ آپ کے مقابلے ہوئے.ایک موقع پر تو انہیں مجمع میں بالکل خاموش ہونا پڑا.میں ایک بار ایک پنجابی مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں سیدنا حضرت مسیح موعود کی شانِ مبارک میں نازیبا کلمات کہے اور آپ کی طرف خدائی کا دعویٰ منسوب کیا آپ نے ثبوت طلب کیا کہ کس کتاب میں لکھا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا یہ ”مرزائی ہے اسے نکال دو.چنانچہ لوگوں نے دھکے دے کر نکال دیا.آپ کی پگڑی بھی اتر گئی.اگلے روز مولوی صاحب کا پنجابی محلہ میں وعظ تھا.آپ بھی وہاں پہنچ گئے اور سوال کیا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کہاں فرمایا ہے کہ ہم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا؟ یہ سنتے ہی مولوی صاحب بھڑک اٹھے اور حکم دیا اسے مسجد سے باہر نکال دو.چنانچہ لوگوں نے یہاں بھی آپ کو مسجد سے نکال کر دم لیا.چند روز بعد یہی مولوی صاحب آپ کے سامنے سے گزرے تو آپ نے کھڑے ہو کر خوش آمدید کہا اور کرسی پیش کی آپ اس وقت سرکاری ڈیوٹی پر تھے.مولوی صاحب کا رنگ فق ہو گیا کہ مبادا اپنے ماتحتوں کے ذریعہ میری پٹائی کرا دیں.جھٹ خوشامدانہ لب ولہجہ میں کہنے لگے بابو صاحب میں آپ کی مومنانہ جرات کی داد دیتا ہوں.آپ نے فرمایا سنت اللہ کے مطابق خدا کے بندوں کے ساتھ لوگ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں.۲۸ ایک دفعہ آپ رخصت لے کر بعض احمدیوں کے ہمراہ علاقہ بیٹ میں تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے.ایک پٹواری کی شرانگیزی سے مخالفین نے زدوکوب کیا لیکن آپ نے صبر سے کام لیا اور معینہ مدت پوری کر کے لوٹے.بعد ازاں اس پٹواری کی تعیناتی آپ کے سسرال کے علاقہ میں ہوگئی تو وہاں کے احمدی زمینداروں نے اس سے انتقام لینے کا ارادہ کیا لیکن حضرت بابو صاحب نے نہ صرف یہ کہ اجازت نہ دی بلکہ سختی سے انہیں منع کر دیا اور ارشاد فرمایا یہ اس کی نادانی تھی میں نے اس کو معاف کر دیا ہے.اس بات کا اس پر بہت اثر ہوا اور وہ سخت نادم ہوا.قادیان دارالامان میں تعیناتی کے دوران اسٹنٹ سٹیشن ماسٹر پنڈت رگھبیر چند صاحب آپ کے اعلیٰ نمونہ سے متاثر ہوکر ( دین حق ) کے گرویدہ ہو گئے.
تاریخ احمدیت 444 جلد ۲۰ مہت پور مکیریاں (ضلع ہوشیار پور ) میں تحریک جدید کا تبلیغی مشن ابھی قائم نہیں ہوا تھا کہ آپ کی مساعی کے نتیجہ میں یہاں ایک مخلص جماعت کا قیام عمل میں آ گیا.اسی طرح پیر محمد اقبال صاحب اسٹیشن ماسٹر اور ان کے خاندان کے بیس پچیس افراد بیک وقت داخل احمدیت ہو گئے ۲۹ ,, حضرت با بوصاحب میں زہد و ورع ، قناعت اور تعلق باللہ کے اوصاف بھی بہت نمایاں تھے.بابو زہد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے اللهم احیـنـى مسكيـنــا وامتني مسكينـا واحشرني في زمرة المساكين.یعنی اے میرے اللہ مجھے مسکین کی حیثیت سے زندہ رکھ، مسکین کی صورت میں ہی میری وفات ہو اور میرا حشر مسکینوں کے زمرہ میں کرنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا آپ کے قلب صافی پر ایسا گہرا اثر تھا کہ غریبانہ زندگی کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے.چنانچہ آپ کی طرز بود و باش ہمیشہ فقیرانہ اور درویشانہ رہی.آپ سچ سچ ” فقیر علی ہی تھے.آپ کے فرزند میاں بشیر احمد صاحب کا بیان ہے کہ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب ضروریات سلسلہ کی تحریک کے لئے ایک دفعہ امرتسر میں تشریف لائے.آپ ان دنوں تہی دست تھے.آپ ان کو لے کر گھر پہنچے اور آٹے والا ٹین لا کر دکھایا کہ جس میں صرف آدھ سیر آٹا تھا اور حلفاً عرض کیا کہ میرے پاس یہی کچھ ہے.حضرت ممدوح نے اپنے کپڑے میں وہی انڈیل کر قبول فرمالیا اور یہ رات ان کے اہلِ خانہ کو بغیر کھانے کے بسر کرنا پڑی.حضرت بابو صاحب تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کے مجاہدین میں شامل تھے.مولانا ابوالعطاء صاحب نے آپ کی وفات کے بعد اپنے ایک نوٹ میں تحریر فرمایا: - ہجرت کے آغاز سے ہی محترم بابو فقیر علی صاحب احمد نگر میں ہمارے ساتھ رہے ہیں.وہ ایک نہایت پر جوش ( رفیق خاص ) اور مرد مومن ۳۱ تھے.آخری دم تک تحریر و تقریر کے ذریعہ خدمت دین کرتے رہے...موصی تھے اور اپنے نیک نمونہ سے بہتوں کے لئے رہنمائی کا موجب تھے.جماعت احمد نگر میں سالہا سال تک سیکرٹری مال کے عہدہ پر نہایت عمدہ کام کرتے رہے...درویشانہ زندگی فخر سے گزاری اور دوسروں کا دست نگر ہونا سخت عار سمجھتے تھے..ہم نے ہمیشہ حضرت بابو صاحب مرحوم کو استغناء کے مقام پر دیکھا ہے انہیں سلسلہ کی جرات مندانہ تر جمانی کرنے پر
تاریخ احمدیت 445 جلد ۲۰ اولاد مزہ آتا تھا.بڑے سے بڑے آدمی کو واضح رنگ میں.......احمدیت کا پیغام پہنچاتے تھے.بسا اوقات گاؤں کے لوگوں کو چائے وغیرہ پر بلا کر بھی تبلیغ کرتے تھے.اس بات کو ہمیشہ خاص فخر سے ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان ریلوے سٹیشن پر سب سے پہلا سٹیشن ماسٹر میں مقرر ہوا تھا.حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے والہانہ محبت رکھتے تھے.سالہا سال تک احمد نگر میں اکٹھے رہنے کے نتیجہ میں حضرت بابو صاحب سے پوری واقفیت کی بناء پر میں یہ کہتا ہوں کہ حضرت بابو صاحب فقیر علی ایک نهایت بزرگ اور صالح انسان تھے.ا.میاں بشیر احمد علی صاحب ( سابق صدر جماعت ڈیرہ دون.امیر جماعت احمد یہ ضلع جھنگ) ۲ - مولوی نذیر احمد علی صاحب (رئيس التبليغ مغربی افریقہ ) ۳- محمود احمد (بچپن میں فوت ہو گئے ) ۴.شریف احمد ) بچپن میں فوت ہو گئے ) ۵ - عبد اللہ ( بچپن میں فوت ہو گئے ) - حلیمہ بی بی صاحبہ (اہلیه با بو غلام رسول صاحب لاہوری ریلوے کلرک ) ان عشاق احمدیت کے علاوہ اس سال درج ذیل بزرگ خواتین بھی وفات پا گئیں.ان سب کو حضرت اقدس مسیح موعود کے مبارک زمانہ میں بیعت کرنے اور پوری عمر کمال ۳۴ وفاداری ، خلوص اور استقلال کے ساتھ اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی سعادت نصیب ہوئی.۱- زینب بی بی صاحبہ ( والدہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مجاہد انگلستان، سیرالیون، لائبیریا، سنگاپور، مجی) نہایت پارسا متوکل علی اللہ اور ( دین حق ) و احمدیت کی خاطر قربانیاں کرنے والی خاتون تھیں.نماز پنجگانہ کو التزام سے ادا کرنے کے علاوہ تہجد اور اشراق کی بھی پابند اور مستجاب الدعوات تھیں.خاندان حضرت مسیح موعودؓ سے خصوصاً اور بزرگانِ سلسلہ- عموماً بہت عقیدت تھی.( وفات ۲۲،۲۱ را پریل ۱۹۵۹ء) -۲- مریم بی بی صاحبہ ( مولانا نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ انچارج احمد یہ مشن غانا کی بڑی ہمشیرہ) اصل وطن سیالکوٹ تھا.۱۹۲۱ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئیں.بہت نیک دل غریب پرور اور دعا گو خاتون تھیں.( وفات ۲۷ جولائی ۱۹۵۹ء) ۳۶
تاریخ احمدیت 446 جلد ۲۰ ۳ - مختار بیگم صاحبہ (اہلیہ ملک علی بخش صاحب بھو پال.حضرت مسیح موعود کی بیعت سے ۱۹۰۴ء میں مشرف ہوئیں.۱۹۰۹ء میں ۱/۹ حصہ کی وصیت کی.پابند صوم وصلوٰۃ اور تہجد گزار تھیں.فرمایا کرتی تھیں :- میں نے مسیح پاک سے دل کھول کر باتیں کی ہیں اور جونور میں نے ۳۷ دیکھا ہے وہ آپ کے نصیب میں کہاں.“ ( وفات ۹ / اکتوبر ۱۹۵۹ء ) رابعہ بی بی صاحبہ آف چھور نمبر ۱۷ اضلع شیخو پورہ ( والدہ محمد اقبال صاحب سب انسپکٹر سیالکوٹ ) مرحومہ نے ساری عمر بچوں اور عورتوں کو قرآن کریم پڑھانے میں وقف رکھی احمدیت اور حضرت مصلح موعود کی شیدائی تھیں.(وفات ۱۳؍ دسمبر ۱۹۵۹ء) ۳۸
تاریخ احمدیت 447 جلد ۲۰ فصل دوم دیگر ممتاز خدام دین کا ذکر خیر ( وفات یافته ۱۹۵۹ء) ۱- الحاج حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب سابق مجاہد انگلستان و ناظر بیت المال ( وفات ۹ر جون ۱۹۵۹ء ) ۲۰ اکتوبر ۱۸۷۶ء کو صریح ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے اور انٹرنس پاس کر کے انسپکٹر جنرل آف آرڈینینس کے مرکزی دفتر میں ملازم ہو گئے.فروری ۱۹۰۷ء میں ہیڈ کلرک ہوئے.آپ دورانِ ملازمت کلکتہ، شملہ، فیروز پور اور راولپنڈی میں تعینات رہے اور ہر جگہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے جائز حقوق دلانے کی سر توڑ کوشش میں مصروف رہے اور بہت سے مسلمانوں کو ملازمتیں دلانے میں کامیاب ہو گئے.چونکہ آپ کے ذریعہ بھرتی ہونے والے مسلمان اپنی لیاقت اور محنت کے باعث اپنی جگہ پر مستحکم ہو جاتے تھے اس لئے جو شخص ایک دفعہ ٹک جاتا تھا اسے مستقل جگہ مل جاتی تھی.متعصب غیر مسلم عمر بھر آپ کے خلاف بار بار شکایات کرتے رہے کہ یہ شخص مسلمانوں کی بے جا طرف داری کرتا ہے لیکن تحقیق کے بعد یہی ثابت ہوتا کہ ایسی شکایات محض تعصب کی بناء پر کی گئی ہیں اور بے بنیاد ہیں.۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۷ ء تک آپ نے راولپنڈی میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے لئے چندہ کی فراہمی کے لئے شاندار خدمات سرانجام دیں اور آپ کی جدوجہد سے مقامی ممبروں کی تعداد قریباً ڈھائی سو تک پہنچ گئی.دسمبر ۱۹۰۸ء میں پہلی بار جلسہ سالانہ کے دوران قادیان تشریف لے گئے.اور سیدنا حضرت خلیفہ اصبح الاول مولانا نورالدین صاحب کی تقریر سے ایسے متاثر ہوئے کہ فیروز پور میں آکر مسلمانوں کی مشتر کہ فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا شروع کر دیا اور متمول مسلمانوں سے چندہ جمع کر کے غریب اور مستحق مسلمان طلبہ کو کتابوں کے خرید نے اور دوسری ضروریات کے لئے وظیفے دینے کی پر جوش تحریک کی جو بہت مقبول ہوئی.آپ ہی کو اس کا سیکرٹری بنا دیا گیا.اور تھوڑے ہی عرصہ میں خاص رقم
تاریخ احمدیت 448 ۳۹ جلد ۲۰ غریب مسلم طلبہ کے لئے جمع ہونی شروع ہو گئی.۱۹۰۹ء میں آپ نے کئی برسوں کی مکمل تحقیقات کے بعد فیروز پور کے ایک پبلک جلسہ میں قبول احمدیت کا اعلان کیا.جس سے شہر میں تہلکہ مچ گیا.داخل احمدیت ہونے سے قبل اہل حدیث عالم مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے دیرینہ تعارف تھا.آپ کے احمدی ہونے کے بعد انہوں نے مئی ۱۹۱۰ء کے آخری ہفتہ میں جلسہ اہل السنت والجماعت میں تردید احمدیت میں تقریر کی جس کے جواب میں آپ نے ”فرزند علی بجواب ابراہیم کے نام سے ایک مدلل و مسکت اور جام مانع رسالہ شائع فرمایا.آپ ان دنوں فیروز پور شہر کے ہیڈ کلرک قلعہ میگزین تھے.یہ رسالہ جو اس سال رفاہ عام سٹیم پریس لاہور سے طبع ہوا بڑی تقطیع کے ا۵ صفحات پر مشتمل تھا.بیعت کے بعد آپ حضرت خلیفتہ اسیح الاول کے ارشاد پر قرآن مجید سیکھنے کے لئے تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان تشریف لے گئے.حضرت خلیفہ اول نے قریباً تین چوتھائی حصہ پہلے پارہ کا پڑھایا جس کے بعد آپ کو گھوڑے سے گرنے کا حادثہ پیش آ گیا لہذا آپ نے قرآن شریف کے پہلے چودہ پارے خلافت اولی میں حضرت سیدنا محمود اصلح موعودؓ سے پڑھے اور باقی قرآن مجید حضرت حافظ روشن علی صاحب سے پڑھا.آپ سید نا محمود کی خدمت میں روزانہ حاضر ہوتے اور قرآن شریف کے سبق کے علاوہ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیالات بھی ہوتا تھا جس میں تکلف اور تصنع کا کوئی دخل نہ ہوتا تھا.اس درس و تدریس کی وجہ سے آپ کے دل میں یہ بات میخ کی طرح گڑ گئی کہ حضور ہی آئندہ خلیفہ ہوں گے.۱۹۱۳ء میں آپ کو اپنے والد مولوی عمر الدین صاحب ( ولد غلام محی الدین صاحب حکیم ) کی معیت میں حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی.۱۹۲۰ء میں بمقام فیروز پور آپ کا غیر مبائع مبلغ میر مدثر شاہ صاحب سے مناظرہ ہوا.غیر مبائعین کی طرف سے خان بہادر میاں غلام رسول صاحب تمیم پریذیڈنٹ تھے.آپ نے حقیقۃ الوحی ( طبع اول) صفحہ ۳۹۱ کا یہ حوالہ پیش کیا کہ : - " غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا....الخ غیر مبائع مناظر بالکل لاجواب ہو گئے حتی کہ ان کے پریذیڈنٹ صاحب نے اپنے مقرر سے کہا کہ اگر آپ کے پاس اس حوالہ کا کوئی جواب ہے تو میدان مباحثہ میں پیش کر کے دکھلائیں
تاریخ احمدیت 449 جلد ۲۰ ور نہ مناظرہ ختم کر دیں.یہ مناظرہ مرزا ناصر علی صاحب کی کوٹھی میں ہوا.آپ کا دوسرا مناظرہ اس کے بعد مشہور اہلحدیث عالم مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے فیروز پور میں ہی ۳ جون ۱۹۲۲ء کو ہوا.اس مناظرہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے جناب پیرا کبر علی صاحب بی اے ممبر لیجسلیٹو کونسل نے پریذیڈنٹ کے فرائض انجام دیئے.جس میں فریقین کے پچیس پچیس افراد شامل ہوئے.سامعین کے لئے یہ شرط تھی کہ وہ کاپی پنسل پر فریقین کے دلائل نوٹ کرتے جائیں تا کہ موازنہ کرنے میں آسانی رہے.اس مناظرہ میں بھی احمدیت کو شاندار فتح ہوئی.چنانچہ مناظرہ کے بعد بابو محمد امیر صاحب مرحوم نے کہا کہ آج ہمیں ایسی فتح حاصل ہوئی ہے کہ شکرانہ کا سجدہ ادا کرنا چاہئے.حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت اقدس میں جب اس مناظرہ کی تفصیلات پہنچیں تو حضور بہت خوش ہوئے اور اس بات پر خاص طور پر اظہار خوشنودی فرمایا کہ کسی مبلغ کو بلانے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور آپ نے خود ہی یہ معرکہ سر کیا ام ہے.۱۹۲۸ء میں آپ سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے اور بقیہ زندگی سلسلہ احمدیہ کے لئے وقف کر دی.حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا انتخاب بطور امام بیت فضل لنڈن فرمایا اور آپ ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۳ء تک انگلستان میں نہایت جانفشانی سے اعلائے کلمۃ الحق میں مصروف رہے.یکم مئی ۱۹۳۳ء سے اکتوبر ۱۹۳۶ء تک ناظر امور عامہ کے فرائض بجا لاتے رہے.اس عرصہ میں احرار ایجی ٹیشن کی وجہ سے مفوضہ ذمہ داریاں بہت مشکل پیچیدہ اور نازک تھیں.آپ کو حضرت مصلح موعود کی منشاء مبارک کے مطابق بالا افسروں سے ملاقاتیں کرنے اور سلسلہ کی مؤثر نمائندگی کرنے کی خصوصی توفیق ملی ازاں بعد آپ نے ناظر بیت المال کا عہدہ سنبھالا اور جماعت کے مالی نظام کو کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کر دیں.۱۲ مئی ۱۹۴۶ء کو آپ نے حضرت مصلح موعود کے حکم سے مستقل طور پر نظارت علیا کا چارج لیا.ان دنوں حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ناظر اعلیٰ تھے اور پنجاب اسمبلی کے ممبر بن گئے تھے.۱۳ مئی ۱۹۴۶ء کو آپ پر فالج کا حملہ ہوا.آپ نے رخصت کی درخواست دی.آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ نے ایک ماہ کی رخصت منظور کی.جب کاغذات حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش ہوئے تو حضور نے ارشاد فرمایا چھٹی لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.جب خاں صاحب پر یہ حملہ ہوا ہے اس وقت وہ ڈیوٹی پر تھے لہذا مکمل صحت ہونے تک پورا الاؤنس ملتا رہے.قیام پاکستان کے بعد آپ پہلے لاہور پھر پشاور چلے گئے.بعد ازاں دسمبر ۱۹۴۹ء میں حضور کے ارشاد مبارک پر
تاریخ احمدیت 450 جلد ۲۰ مستقل طور پر ربوہ میں آگئے اور بیماری کی حالت میں ہی دوبارہ نظارت بیت المال کا چارج سنبھال لیا اور قریباً چار سال تک یہ ذمہ داری نہایت محنت و خلوص سے بجالاتے رہے.اسی دوران ۲۶ نومبر ۱۹۵۶ء کو آپ پر دوبارہ فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے.مگر دینی خدمت کے جوش ولولہ اور جذبہ میں کوئی کمی نہیں آئی.یہاں تک کہ مالک حقیقی کا آخری بلاوا آ گیا.لکھا کہ : - ۴۲ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت خان صاحب مرحوم کے انتقال پر میں لاہور میں تھا کہ مجھے عزیز شیخ مبارک احمد صاحب کی تار سے حضرت خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب کی وفات کی اطلاع ملی.انا للہ وانا الیہ راجعون.خان صاحب موصوف گو صحابی نہیں تھے مگر خوبیوں کے مالک اور اول درجہ کے مخلصین میں سے تھے اور تنظیم کا غیر معمولی مادہ رکھتے تھے.چنانچہ وہ قادیان آنے سے قبل فیروز پور اور راولپنڈی کی جماعتوں میں بہت کامیاب امیر جماعت رہے.پنشن پانے کے معاً بعد انہوں نے اپنے آپ کو خدمت سلسلہ کے لئے وقف کر دیاا ور پھر آخر تک یعنی جب بیماری سے بالکل مجبور ہو گئے سلسلہ کی مخلصانہ خدمت میں مصروف رہے.شروع میں خان صاحب نے لندن میں احمدیت کے کامیاب مبلغ کی حیثیت میں کام کیا اور اس کے بعد واپسی پر مرکز سلسلہ میں ایک کامیاب ناظر رہے.اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ وفات سے چند روز قبل بھی جب کہ ان کی عمر پچاسی سال سے تجاوز کر چکی تھی ان کی خواہش تھی کہ خدا مجھے صحت دے تو پھر خدمت سلسلہ کی سعادت پاؤں.خان صاحب مرحوم نمازوں کے بہت پابند اور دعاؤں اور وظائف میں خاص شغف رکھتے تھے.ایسے بزرگ جماعت کے لئے بہت بابرکت وجود ہوتے ہیں.اس لئے نماز جنازہ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اللهم لا تحرمنا اجرہ.خان صاحب کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر بدرالدین صاحب حال بور مینو بھی نہایت مخلص اور فدائی نوجوانوں میں سے ہیں.اسی طرح ان کے دو دوسرے صاحبزادے محبوب عالم صاحب خالد ایم اے اور شیخ مبارک احمد صاحب بی اے
تاریخ احمدیت 451 جلد ۲۰ بھی سلسلہ کی مخلصانہ خدمات میں مصروف ہیں.خان صاحب کے ایک پوتے نصیر الدین صاحب پسر ڈاکٹر بدرالدین صاحب اس وقت افریقہ میں مبلغ ہیں اور خان صاحب کے ایک نو ا سے شیخ خورشید احمد صاحب الفضل کے اسٹنٹ ایڈیٹر ہیں.خدا تعالیٰ خان صاحب مرحوم کو غریق رحمت کرے اور ان کے جملہ پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.خان صاحب کی موجودہ اہلیہ حضرت بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب کی بڑی صاحبزادی ہیں.حضرت بھائی صاحب سکھ سے مسلمان ہوئے تھے جس کے بعد وہ علم دین سیکھ کر نہ صرف ایک عالم دین بن گئے بلکہ صاحب کشف والہام کے درجہ کو پہنچے.خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ ۱۳/۶/۵۹ محترم میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی سابق ہیڈ ماسٹرتعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ و مجاہد امریکہ تحریر فرماتے ہیں :- حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب سلسلہ کے ایک ممتاز خادم تھے.محترم شیخ محبوب عالم صاحب ایم.اے ناظر بیت المال کے والد محترم قادیان میں میرے ہمسایہ تھے.میں شروع سے ہی سلسلہ کے نامور اراکین کی سرگرمیوں کا بغور مطالعہ کرتا رہا ہوں اور ان کے متعلق ان میں سے بعض کے گزر جانے کے بعد ان کے محاسن کا سلسلہ کے اخبارات میں ذکر بھی کیا کرتا ہوں.میرا خیال ہے ان دنوں میں نے غالباً حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب پر الفضل میں ایک مفصل مضمون لکھا تھا جو حضرت مولوی فرزند علی صاحب کو پسند آ گیا.یہاں تک کہ ایک روز اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے اس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے فرمایا کہ پتہ نہیں ہمارے بعد بھی تم اس قسم کا مضمون لکھو گے یا نہیں.یہ بات آج سے تقریباً پینتالیس سال پہلے کی ہے.حضرت خان صاحب کو وفات پائے بھی تقریباً اتنا ہی عرصہ گزر گیا ہے.مجھے یاد نہیں کہ میں ان کی خواہش کا احترام کر چکا ہوں یا نہیں لیکن دو تین روز سے مجھے خیال آرہا ہے کہ اگر اس زمانہ میں کچھ لکھا بھی تھا تو بھی حضرت خان صاحب کی شخصیت اس قدر بلند تھی کہ مجھے ان کے اوصاف اور
تاریخ احمدیت 452 خدمات کا دوبارہ تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کرنی چاہئے.حضرت فضل عمر کو جیسے وہ خود عظیم تھے ویسے ہی اللہ تعالیٰ نے بلند و بالا قابلیت اور وقار والے خدام عطا فرمائے تھے.حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب ( والد ماجد حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب) حضور کے پہلے ناظر اعلیٰ بعد میں حضرت میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت مولوی عبدالرحیم در د صاحب، حضرت مولوی عبد المغنی صاحب، حضرت میر محمد اسحق صاحب ان ہی خاص بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے آقا کے ہمہ وقتی خادم بن کر اپنی فدائیت کا ثبوت دیا اور حضور کے عزائم کی تعمیل میں اپنی عاقبت سنوار لی اور سلسلہ کی تاریخ میں رہتی دنیا تک نام پیدا کیا.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرماتا رہے.جہاں تک میں جانتا ہوں خان صاحب حضرت مولوی فرزند علی صاحب حضرت امام جماعت کے اولین جاں نثاروں میں سے تھے.انہیں خود حضور سے قرآن شریف پڑھنے کا فخر حاصل ہے.حضرت فضل عمر کی صداقت کا ایک نا قابل تردید ثبوت یہ بھی ہے کہ حضور خود تو اصطلاحی معنوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ تھے.اعلیٰ کا لفظ بھی میں حضور کے منصب کی نسبت سے کہہ رہا ہوں ورنہ حضور تو میٹرک بھی پاس نہ کر سکے تھے بلکہ جیسا کہ حضور نے خود بیان فرمایا تھا وہ تو مڈل کی کلاسز میں بھی فیل ہوتے رہے اور مدرسہ والے (جو جماعت کا اپنا ادارہ تھا) لحاظاً انہیں اوپر کی جماعت میں چڑھا دیتے تھے.۱۹۱۴ء میں اختلاف ہونے پر سلسلہ کے تقریباً تمام مغربی تعلیم کے لحاظ سے اعلی تعلیم یافتہ اصحاب قادیان چھوڑ کر لاہور چلے گئے.جو دوست حضور کے ساتھ منسلک رہے ان میں خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو خاص مقام حاصل تھا.انصار اللہ میں بھی ( جو تنظیم چند سال پہلے ہی عمل میں آئی تھی ) ان کا عمل دخل تھا.آپ ان دنوں یا چند سال بعد فیروز پور آرسنل میں ہیڈ کلرک تھے.ہیڈ کلرک جو غالباً اختیارات اور عہدہ کے لحاظ سے آج کل کے اعلیٰ ترین پر سائل آفیسر کے برابر ہوتا تھا.ان کے ماتحت کام کرنے والے احمدی 66 جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 453 نوجوانوں کو مثل حضرت چوہدری احمد جان صاحب اور حاجی سراج الحق صاحب ان سب کو سلسلہ کی خدمت کرنے کا جذبہ اور فدائیت حضرت خان صاحب کے نمونہ سے ہی ملی.مالی قربانی میں حصہ لینے والے بھی یہی لوگ تھے.غالباً سلسلہ کے اداروں کی طرح آرسنل میں کام کرنے والے جو شیلے اور مخلص نوجوانوں کا چندہ بھی ماہانہ اور تحریکات سے متعلق باقاعدگی سے کتنا اور سلسلہ کے خزانہ میں داخل کیا جاتا.نمازوں میں باقاعدگی اور سلسلہ کے امور میں مثالی دلچسپی اپنے ماتحت عملہ میں رائج کرنا حضرت خاں صاحب کا امتیازی وصف تھا.یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے جس جماعت میں امارت کا نظام جاری ہوا وہ فیروز پور کی جماعت ہی تھی.لاہور کے امیر کا تقرر بھی بعد میں ہوا.جب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب امیر بنے (یہاں تک کی میری معلومات کا ماخذ و منبع سلسلہ کی تاریخ کے اوراق ہیں ) میں نے خود حضرت خاں صاحب کو اس زمانہ میں دیکھا جب آپ لندن میں سلسلہ کے مربی کے طور پر خدمت کرنے کے بعد قادیان میں واپس تشریف لائے.حضرت خاں صاحب (اور یہ خاں صاحب سرکاری خطاب تھا) ایک وجیہہ اور باوقار شخصیت کے مالک تھے.بارعب، اپنی وجاہت اور حیثیت کو ہر مجلس میں قائم رکھنے والے بزرگ تھے لیکن اپنے آقا اور مقتدا کے سامنے لاشی.ریٹائرمنٹ کے بعد انگلستان میں جماعت احمدیہ کی بحیثیت مربی ہی نہیں قوم اور ملک کی سیاسی میدان میں بھی ایک فعال اور معزز کارکن کی حیثیت سے خدمت کی.دوستوں نے مولانا غلام رسول مہر کی وہ تحریر اخبارات میں دیکھی ہوگی جس میں انہوں نے لندن گول میز کانفرنس کے سلسلہ میں ان کی تگ و دو اور مساعی جمیلہ کا ذکر کیا ہے.انگریزی زبان پر خاصا عبور تھا.قادیان میں مجلس ارشاد کے اجلاس میں (جو حضور کی صدارت میں ہوا کرتے تھے اور جس کا خاکسار سیکرٹری تھا) اور مباحثوں میں حصہ لیا کرتے تھے.بطور ناظر امور عامہ و خارجہ سلسلہ کے دفاتر کی کماحقہ حفاظت کی اور مال کے ناظر کے طور پر نمایاں کام کیا.ان کے آنے سے پہلے صدر انجمن احمدیہ کی مالی حالت اس قدر پتلی تھی کہ کارکنوں کو کئی کئی ماہ تنخواہ نہ ملتی تھی لیکن جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 454 جلد ۲۰ خاں صاحب موصوف نے اس کیفیت کو دور فرمایا.اس زمانہ میں ان کے ماموں خان صاحب برکت علی صاحب ایڈیشنل ناظر مال بنے جو حضرت مولوی فرزند علی صاحب کی بہت عزت کیا کرتے تھے لیکن وہ خود اپنی ذات میں بھی ایثار اور خدمت کی قابل تقلید مثال تھے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے.۴۴ حضرت خان صاحب کے پوتے محترم شیخ ناصر احمد خالد صاحب ( ابن پروفیسر شیخ محبوب عالم صاحب خالد صدر انجمن احمد یہ پاکستان ) رقمطراز ہیں :- ”ہمارا خاندان موضع صریح ، تحصیل نکو در ضلع جالندھر میں آباد تھا.سرکاری کاغذات مال کے مطابق یہ خاندان سکھوں کی عملداری سے پیشتر ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے کسی نواحی گاؤں سے آکر یہاں آباد ہوا تھا.حضرت خان صاحب کے والد کا نام حضرت حکیم میاں عمر الدین صاحب ، دادا کا نام حکیم میاں غلام محی الدین صاحب اور پڑ دادا کا نام حکیم میاں خدا بخش صاحب تھا.ہمارے خاندان کے مورث اعلیٰ کا نام حکیم میاں صریح الدین صاحب تھا اور ان کے نام پر ہی گاؤں کی بنیاد پڑی.ان سب بزرگوں کا آبائی پیشہ حکمت تھا.میرے دادا جان حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب مورخه ۲۷ اکتوبر ۱۸۷۶ء کو پیدا ہوئے.آپ کے ماموں حضرت خان صاحب منشی برکت علی خان صاحب شملوی ۱۹۰۲ ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکے تھے.اس طرح آپ کی والدہ محترمہ اور نانی صاحبہ بھی اسی سال بیعت کی سعادت پا چکی تھیں.ہمارے خاندان کے بزرگ حضرت مسیح موعود کے رفقاء میں شامل تھے.تا ہم آپ نے خود لمبی تحقیق کے بعد ۱۹۰۹ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے دست مبارک پر بیعت کر کے سلسلہ میں شمولیت اختیار کی.گو آپ بعد میں آئے لیکن ایک دفعہ احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ نے آخر تک اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کئے رکھی.دوران ملازمت آپ ہمیشہ اہل ایمان کے مفاد کے لئے سینہ سپر رہے.۱۹۲۸ء میں آپ سرکاری ملازمت سے
تاریخ احمدیت 455 ریٹائر ہونے کے بعد قادیان آگئے.۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۲ء تک انگلستان میں بطور امام بیت الفضل لندن خدمات سرانجام دیں اور وہاں دعوت الی اللہ کا فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیا.وہاں سے واپس آکر آپ نے کچھ عرصہ ناظر امور عامہ و خارجہ کے طور پر کام کیا.بعد ازاں ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۶ء تک اور پھر پاکستان بننے کے بعد ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۵ء تک ناظر مال ربوہ کے عہدے پر فائز رہے اور اس طویل عرصہ میں حضرت خلیفہ ثانی کی زیر ہدایت جماعت کے مالی نظام کو مستحکم کرنے میں قابل قدر خدمات انجام دیں.نیز اوائل میں ایک سال افسر جلسہ سالانہ کے فرائض بھی ادا کئے.آپ پر اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل یہ تھا کہ نہ صرف آپ خود خدمت دین کا بے پناہ جذ بہ رکھتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد بھی خادم دین عطا کی.آپ نے ۱۹۲۸ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوکر تقریباً ۲۷ سال تک صدرانجمن احمدیہ میں اہم عہدوں پر فائز رہ کر شاندار خدمات سرانجام دیں.“ اخبار الفضل ربوہ اارجون ۱۹۵۹ء) آپ کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے ایک شاندار مضمون اخبار الفضل میں تحریر فرمایا جس میں لکھا آپ بڑی خوبیوں کے مالک اور اول درجہ کے مخلصین میں شامل تھے اور تنظیم کا غیر معمولی مادہ رکھتے تھے.چنانچہ جب قادیان آنے سے قبل فیروز پور اور راولپنڈی کی جماعتوں میں بہت کامیاب امیر رہے.پینشن پانے کے معاً بعد آپ نے اپنے آپ کو خدمات سلسلہ کے لئے وقف کر دیا.پھر آخر تک یعنی جب بیماری سے بالکل مجبور ہو گئے سلسلہ کی مخلصانہ خدمت میں مصروف رہے.خان صاحب نے لندن میں (-) احمدیت کے کامیاب مربی کی حیثیت سے کام کیا اور اس کے بعد واپسی پر مرکز سلسلہ میں ایک کامیاب ناظر رہے.وفات سے چند روز قبل جبکہ ان کی عمر ۸۵ سال سے تجاوز کر چکی تھی آپ کی خواہش تھی کہ خدا مجھے صحت دے تو پھر سلسلہ کی خدمت کی سعادت پاؤں خان صاحب مرحوم نمازوں کے بہت پابند اور دعاؤں اور وظائف میں خاص شغف رکھتے تھے.ایسے بزرگ جماعت کے لئے بہت بابرکت وجود ہوتے ہیں.“ روزنامه الفضل ربوہ ۱۶ جون ۱۹۵۹ء) جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 456 حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد حضرت خان صاحب مرحوم کو داعیان خلافت ثانیہ میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا.اخبار الفضل میں شائع شدہ ایک اعلامیہ کے مطابق ان داعیان کی طرف سے احباب جماعت کو حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کی تحریک کی گئی تھی.( بحوالہ اخبار الفضل قادیان ۱۸ / مارچ ۱۹۱۴ء ) سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنی خلافت کے زمانے سے قبل ایک رویا کی بنا پر حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے فروری ۱۹۱۱ء میں ایک انجمن بنائی جس کا نام ”انصار اللہ رکھا گیا.حضرت خان صاحب کو بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بابرکت تحریک میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا.فہرست ممبران میں آپ کا نام چوتھے نمبر پر درج ہے.قبولیت احمدیت ( اخبار بدر قادیان ۲۳ فروری ۱۹۱۱ء) انجمن احمد یہ فیروز پور نے ۳۱ / جولائی اور یکم اگست ۱۹۰۹ء کو دوروز کے لئے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ کیا جس کی صدارت کے فرائض خان صاحب منشی فرزند علی صاحب نے سرانجام دیئے.اس جلسہ میں آپ نے اعلان کیا کہ:- میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور مہدی موعود جان کر جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں.“ اس کے بعد آپ نے صداقت حضرت مسیح موعود کے موضوع پر ایک تقریر کی جس کے دوران فرمایا : - میں نے ایک دفعہ شیخ نجم الدین صاحب افسر مال فیروز پور سے دریافت کیا کہ مرزا صاحب کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ تو شیخ صاحب نے فرمایا کہ ہمارے خاندانی پرانے تعلقات مرزا صاحب سے ہیں اور ہمیں ان کے حالات سے بخوبی آگا ہی ہے.اگر چہ مرزا صاحب کا دعویٰ میری سمجھ میں نہیں آیا تاہم میں جانتا ہوں کہ وہ راستباز ہیں اور کبھی جھوٹ بولنے والے یا افتراء کرنے والے نہیں.اس شہادت نے میرے دل پر بہت اثر کیا کیونکہ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 457 یہ شہادت ایک غیر احمدی کی طرف سے ہے.‘ ( بدر۱۲ /اگست ۱۹۰۹ء صفحه ۲ ) شیخ نجم الدین صاحب اس جلسہ میں اس تقریر کو سن رہے تھے.انہوں نے جلسہ کے بعد اقرار کیا کہ جو کچھ خان صاحب نے ان کے متعلق کہا ہے یہ بالکل درست ہے.بے شک میری رائے اور علم ہے.“ ( بدر ۱۲ را گست ۱۹۰۹ء) بیعت کے بعد خان صاحب کے قبل از احمدیت کے زمانہ کے دوست مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے فیروز پور آ کر خان صاحب کے مکان کے ساتھ ملحقہ مکان کے وسیع صحن میں ایک لیکچر دیا اور حیات مسیح کے حق میں دلائل دیئے.اس کے جواب میں جناب خان صاحب نے ایک کتاب لکھی جس میں بالوضاحت مولوی صاحب کے بیانات کا رد کیا.جب حضرت خلیفہ امسیح الاول سے نام کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضور نے فرمایا یہ نام رکھو’ فرزند علی بجواب ابرا ہیم“.( بدر یکم فروری ۱۹۱۲ء) حضرت خان صاحب نے ۳ / جون ۱۹۲۲ء کو مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب سے فیروز پور میں ایک کامیاب مناظرہ کیا جس کی پوری تفصیل اخبار الفضل قادیان ۱۰ جولائی ۱۹۲۲ء میں شائع ہوئی ہے..دوران ملازمت آپ نے رخصت لے کر شدھی تحریک میں دعوت الی اللہ کا کام کیا اور آگرہ کے علاقہ میں بحیثیت نائب امیر المجاہدین خدمات سرانجام دیں.الفضل قادیان ۵ فروری ۱۹۲۴ء) ۱۹۱۳ء میں آپ کو اپنے والد حضرت حکیم میاں عمرالدین صاحب رفیق حضرت مسیح موعود ) کے ہمراہ زیارت مدینہ منورہ و حج کعبہ کی سعادت نصیب ہوئی.الفضل قادیان ۷ دسمبر ۱۹۱۳ء) جب حضرت خلیفہ ثانی نے ۱۹۱۹ء میں جماعت احمدیہ میں امارت کا نظام قائم کیا تو سب سے پہلے آپ کو امیر جماعت احمد یہ فیروز پور کے عہدہ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 458 پر مقرر فرمایا.انگریزی میں قابلیت اب میں کچھ باتیں حضرت خان صاحب کی انگریزی قابلیت کے متعلق عرض کرتا ہوں.دوران ملازمت آپ کو اپنی انگریزی قابلیت بڑھانے کا بہت شوق تھا اور اس کے لئے ہمیشہ انگریزی کتب زیر مطالعہ رکھتے.پانچ سال کی سروس کے بعد ان کو دفتر کے لائبـــــریــــری سیکشن کا انچارج بنا دیا گیا.مزید دو سال بعد سات سال کی سروس کے اختتام پر دفتر کے اسٹیبلشمنٹ (Establishment) کے انچارج مقرر کرائے گئے.یہ سیکشن دفتر کا اہم ترین اور مرکزی سیکشن تھا اور اسی میں خان صاحب کی بقیہ سروس کی ساری ترقیات کی بنیاد پڑی.دوران سروس آپ نے بے شمار احباب کو میرٹ پر اپنے محکمہ میں بھرتی کیا جس پر مخالف ہندو سکھ آپ کی شکایت افسران بالا سے کرتے.انکوائری میں آپ جواب دیتے کہ میں نے تمام تقرریاں آپ ہی کے وضع کردہ قواعد وضوابط کے مطابق کی ہیں اور اس معاملہ میں آپ بہت دلیر تھے اور دشمن آپ کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکتے.چنانچہ چوہدری احمد جان صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی ، ونگ کمانڈر (ر) داؤد احمد صاحب کے والد محمد اسحاق عابد صاحب، خواجہ مسعود صاحب، چودھری عبدالرحمان صاحب آف راولپنڈی، محترم قاضی محمد رشید صاحب سابق وکیل المال ثانی تحریک جدید ربوہ اور برادرم احسان الحق خاں صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ کے والد محترم فیض الحق خان صاحب بھی شامل ہیں.یہ تمام احباب پاکستان کے بعد سی.جی.او (سویلین گزیٹڈ آفیسر کے عہدہ پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے اور ہمیشہ حضرت خان صاحب کے لئے دعا گور ہے.خان صاحب کی خواہش تھی کہ اپنے پاس انگریز کرنل تک کسی طرح رسائی ہو جائے تا کہ وہ خود ان کے کام اور قابلیت سے واقف ہو جائے.ایسا موقعہ ان کو تب ملا جب انگریز چیف کلرک رخصت پر انگلستان چلا گیا اور اس کی جگہ عارضی طور پر ایک انگریز لیفٹینٹ کا تقرر ہوا.جو گو قابل جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 459 تھا مگر کرنل کے پاس بعض مواقع پر فائل متعلقہ کی بابت تسلی بخش معلومات مہیا کرنے کے قابل نہ پا کر وہ خان صاحب کو کرنل کے پاس جواب دہی کے لئے بھیجنے لگا تب ایک موقعہ ایسا آیا کہ کرنل کسی ضروری اور اہم خط کا مسودہ تیار کر رہا تھا.اس میں اس نے کوئی ایسا انگریزی لفظ استعمال کیا جس کا متبادل بہتر لفظ خان صاحب نے تجویز کر دیا.کرنل فوراً چونک پڑا اور اس نے تسلیم کیا کہ واقعی مجوزہ لفظ ہی اس فقرہ کے لئے موزوں ترین تھا اور مسودہ خان صاحب کے حوالے مکمل کرنے کے لئے کر دیا.اس واقعہ سے خان صاحب کی انگریزی قابلیت کا کرنل پر ایسا اثر ہوا کہ پھر تو خان صاحب پورے دفتر پر چھا گئے.تبادلے پر راولپنڈی شہر میں آپ کے اعزاز میں جو شاندار الوداعی پارٹی ہوئی اور اس میں ان کی خدمات کے ضمن میں تقاریر ہوئیں جن کے جواب میں آپ نے جو تقریر انگریزی زبان میں کی وہ تقریر اس قدر پر اثر اور عمدہ تھی کہ تمام حاضرین (جن میں انگریز بھی شامل تھے ) آپ کی انگریزی قابلیت کا لوہا مان گئے.قیام انگلستان کے دوران آپ لندن روٹری کلب کے ممبر بن گئے.انگلستان کے بااثر طبقہ ممبران پارلیمنٹ لارڈز اور پریس سے ذاتی تعلقات پیدا کئے.چنانچہ تینوں گول میز کانفرنسوں کے دوران آپ بطور امام بیت الفضل لندن بہت فعال تھے.سر آغا خان وفد کے لیڈر ہوتے تھے اور ممبران میں بیرسٹر محمد علی جناح ( قائد اعظم ) ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال اور حضرت سر چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل ہوتے.ایک دفعہ مشہور ادیب اور مؤرخ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے مجھے بتایا کہ مسلم وفد کے ترجمان سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ہوا کرتے تھے جو پریس کو بریفنگ کے لئے بیان جاری کرتے تھے.ان باتوں کے بعد اب میں حضرت خان صاحب کی حس مزاح کے متعلق کچھ تحریر کروں گا.میں اپنے طالب علمی کے زمانے میں خان صاحب کے نام آئے ہوئے خطوں کے جواب تحریر کرنے کے لئے جایا کرتا تھا.بعض اوقات وہ مجھے رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے لئے مضمون بھی لکھوایا کرتے تھے اور جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 460 کبھی کبھی مجھے کوئی لطیفہ یا مزاح کی بات بھی سنایا کرتے.ایک دفعہ کہنے لگے کہ لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے فورڈ کار جارہی تھی اور ایک خچر بھی جا رہا تھا.خچر نے فورڈ کا ر سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ فورڈ نے جواب دیا کہ میں کار ہوں.مگر تم کون ہو.خچر یہ سن کر کہنے لگا کہ اگر تم کار ہو تو پھر میں گھوڑا ہوں.معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں فورڈ کار کی شہرت کوئی زیادہ اچھی نہ تھی.محترم میاں محمد ابراہیم صاحب سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول و سابق مربی امریکہ نے ایک دفعہ ملاقات پر بتایا کہ جماعت کے ایک بزرگ وفات پاگئے.میاں صاحب نے ان کے بارے میں اخبار الفضل میں ایک تعزیتی مضمون تحریر کیا.یہ مضمون حضرت خان صاحب کو اس قدر پسند آیا کہ میاں صاحب سے مزاح کے رنگ میں فرمانے لگے کہ اگر آر میرے بارے میں بھی اتنا اعلیٰ مضمون لکھنے کا وعدہ کریں تو میں کل ہی مرنے کو تیار ہوں.مضمون کی تعریف کرنے کا یہ ایک پیارا انداز تھا.ایک دفعہ میں حضرت خان صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا.ان کی طبیعت بخار کی وجہ سے علیل تھی.ممکن ہے کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے کچھ دیگر عوارض بھی ہوں.اتنے میں حضرت خان صاحب کے ماموں حضرت خانصاحب منشی برکت علی خان صاحب شملوی (رفیق حضرت مسیح موعود ) بھی تشریف لے آئے.آپ عمر میں خان صاحب سے دو ایک سال چھوٹے تھے مگر ماموں ہونے کے ناطے رشتے میں بڑے تھے.آپ بہت زندہ دل اور خوش باش بزرگ تھے.دونوں بزرگوں کی آپس میں بہت بے تکلفی اور دوستی تھی.کہنے لگے فرزند علی! تم کچھ فکر نہ کرو میں تمہیں خود اپنے کندھوں پر اٹھا کر سڑک کے اس پار لے جاؤں گا.( یہ ساری گفتگو ہوئی تو پنجابی میں تھی مگر میں اردو میں تحریر کر رہا ہوں ) خان صاحب کی رہائش صدرانجمن احمدیہ کے کوارٹروں میں سڑک کے اس طرف تھی اور سڑک کے پار دوسری طرف بہشتی مقبرہ تھا.اس مذاق پر دونوں بزرگ کھلکھلا کر ہنسنے لگ گئے اور خان صاحب بھی اپنی علالت جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 461 کو بھول گئے.دونوں حضرات کو ہندوستان میں سرکار برطانیہ کی طرف سے خان صاحب کا خطاب ملا ہوا تھا.احباب جماعت احمد یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کی نیکیاں قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اخلاص و وفا کے وہی معیار قائم کرتے چلے جائیں جن کے نمونے ہمارے بزرگوں نے دکھائے.(آمین ) ۱۴۵ ۲ - حضرت چوہدری عبد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی ( وفات ۱۳ / جون ۱۹۵۹ء) جلد ۲۰ حضرت چوہدری نصر اللہ خاں کے لخت جگر ، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے چھوٹے بھائی، اخلاص و فدائیت کے پیکر، مثالی منتظم اور سلسلہ احمدیہ کے نڈر اور غیور خادم !! جن کی ساری عمر با وجود اعلیٰ سرکاری عہدوں پر ممتاز رہنے کے عملاً خدمت دین و انسانیت کے لئے وقف رہی.السلام کے حضرت چوہدری عبداللہ خان صاحب سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیه ا پیدائشی رفیق تھے جو ۴ نومبر ۱۹۰۱ ء میں بمقام سیالکوٹ پیدا ہوئے.بچپن میں قرآن مجید کی تعلیم حضرت حافظ مولوی محمد فیض الدین صاحب سیالکوٹی (امام بیت احمد یہ کبوتر انوالی) سے حاصل کی جنہوں نے ستمبر، اکتوبر ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود کے تاریخی سفر سیالکوٹ کے دوران شرف بیعت حاصل کیا تھا.انہی مبارک ایام میں حضرت چوہدری صاحب کی والدہ ماجدہ اور والد ماجد کو بھی احمدیت کی لازوال نعمت نصیب ہوئی.حضرت چوہدری صاحب اپنے بزرگ استاد کا ذکر خیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- ۴۸ حضرت مولوی صاحب مرحوم کو.میں نے پہلی دفعہ بیت احمدیہ (جو مسجد کبوتر انوالی کے نام سے مشہور تھی) سیالکوٹ میں دیکھا جبکہ مجھے آپ کی خدمت میں قرآن کریم پڑھنے کے لئے لے جایا گیا.ہم چاروں بھائیوں اور ہمارے خالہ زاد بھائی چوہدری سلطان علی صاحب نے قرآن کریم حضرت مولوی صاحب مرحوم سے پڑھا.قرآن کریم پڑھاتے وقت اس قدر خیال رکھتے تھے کہ زیر زبر کی غلطی کے علاوہ اگر تلفظ
تاریخ احمدیت 462 جلد ۲۰.کے لہجہ میں بھی فرق نظر آتا ہو تو آگے نہیں پڑھتے تھے جب تک درست نہ کروالیں.مجھے جب بھی یاد آتا ہے کہ کس توجہ اور محنت سے آپ نے مجھے قرآن مجید پڑھایا تو بے اختیار ان کے لئے دعا نکلتی ہے.جتنا عرصہ میں نے مرحوم سے قرآن کریم پڑھا آپ نے توجہ سے پڑھایا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ قرآن کریم صحیح پڑھنا مجھے آ گیا.مجھے مرحوم کے خطبات سننے کا بھی بہت موقع ملا اور باوجود بچپن کا زمانہ ہونے کے آپ کے ارشادات کی طرف توجہ پیدا ہوتی تھی اور کبھی طبیعت اکتائی نہیں تھی.میں کئی دفعہ دعا کے لئے بھی مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ہمیشہ شفقت سے پیش آئے اور دعا فرمانے کا وعدہ کرتے میرا بہت بچپن سے دعا پر ایمان ہے اور میرا قیاس ہے کہ اس میں بہت حد تک دخل مرحوم کی نصائح کا تھا کہ ہر موقع پر اللہ تعالی کی طرف رجوع لازمی ہے اور وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کوسنتا اور پائیہ قبولیت بخشتا ہے.حضرت چوہدری صاحب کالج میں بی اے تک پڑھے جس کے بعد ٹیریٹوریل میں بھرتی ہو کر لیفٹینٹ بنے.آپ کی ملازمت کا آغاز پنچایت افسر کی حیثیت میں گورداسپور سے ہوا.حضرت مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی پنجاب کا بیان ہے کم و بیش ایک دو ماہ خاکسار کے ساتھ رہے...گورداسپور میں آپ سال دو سال رہے.آپ اس وقت بھی ایک صالح نوجوان تھے.احمدیت کے لئے نہایت غیرت مند اور بڑے فراخ دل اور فراخ حوصلہ تھے اور ہمدردی بھی ان میں بہت تھی.“ غالباً ۱۹۲۵ء اور ۱۹۳۰ء کے دوران آپ رو پڑ ضلع انبالہ کی میونسپل کمیٹی کے ایگزیکٹو آفیسر مقرر ہوئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں ہر دلعزیز اور مقبول خاص و عام ہو گئے.اور اپنے حسنِ اخلاق سے اپنوں اور بیگانوں کو والا وشیدا بنا لیا.روپڑ کے بعد آپ کچھ عرصہ مظفر گڑھ میں پنچایت افسر رہے جہاں ان دنوں حضرت ڈاکٹر سید محمد اسماعیل صاحب بحیثیت سول سرجن طبی خدمات بجا لا رہے تھے.یہیں آپ کو فتنہ مستریاں کی اخلاق سوز اور خلاف انسانیت شرارتوں کا علم ہوا جس پر آپ نے حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں ۹ ۱ اپریل ۱۹۳۰ء کو حسب ذیل اخلاص نامه ارسال
تاریخ احمدیت 463 کیا جس کے لفظ لفظ سے غیرت و عشق کے بے پناہ جذبہ کی عکاسی ہوتی ہے :- بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلی عبدہ المسیح الموعود ہماری جانوں، مالوں، والدین، بہن بھائی اور بیوی بچوں سے عزیز پیارے خلیفہ.ہماری عزتوں اور آبروؤں سے عزیز ہمارے محبوب خلیفہ.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ تعالیٰ آپ پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے.آپ کے ماں باپ، بہنوں ، بھائیوں ، ازواج مطہرات اور اولاد پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے.آمین.خدا گواہ ہے جب سے خبیث اور رذیل مستریوں کی شرارت کا علم ہوا ہے چین اور اطمینان کے نام سے نا آشنا ہو چکا ہوں.خدا جانے دل میں کیا خواہش رکھتا ہوں اور کس قدر جوش کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور پھر کس حسرت کے ساتھ خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہوں کہ شاید آپ کبھی معاف بھی کریں یا نہیں.ان بے حیاؤں نے اپنے الفاظ سے جسم کے ذرہ ذرہ کو انتہائی زخمی کر دیا ہے.کاش کہ مجھ جیسے بدعمل گنہگار کو جس کی ذات احمدیت جیسی پاک مظہر شئے کے لئے ممکن ہے تنگ ہو اگر اجازت نہیں تو کم از کم نظر اندازی کا ہی یقین ہوتا تو میں اطمینان سے تو مر جاتا مگر ہمارے محبوب کے خلاف بکنے والے مجھ سے پہلے اپنی انتہائی کمینگی کا مزا چکھ چکے ہوتے.جان سے پیارے محمود.جان جیسی حقیر اور بے حقیقت چیز کی ہستی ہی کیا ہے.ایک جان تو کیا لا تعداد جانیں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے ہر ایک کو آپ کے محبوب قدموں پر شار کرتا جاتا اور ہر بار پہلی بار سے زیادہ خوشی ہوتی.میرے محبوب آقا! مجھے جیسے گنہگار اپنے اعمال سے تو خوش کرنے سے رہے افسوس اگر ہے اور ہمیشہ رہے گا تو صرف یہی کہ یہ ایسا کام تھا جو میں بد عمل انتہائی مسرت سے کر سکتا تھا مگر اس سے بھی محروم رہا نہیں بلکہ حکماً کیا گیا ہوں.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 464 بتا اے خالقِ ارض و سماء کس کام آوے گی میری ہستی کہ اک دھبہ سا ہے دنیا کے دامن میں میری ہستی کس کام آ سکتی ہے.جس کا عدم اور وجود برابر ہیں.کیا اس کے کسی فعل کو بھی آپ نظر انداز نہیں فرما سکتے.کاش کہ میرا جسم حضور کے متبرک اور پاک قدموں میں تڑپ رہا ہوتا اور میں اسی حالت میں اپنے خالق و مالک حقیقی سے جا ملتا.وہ کون بے ایمان منافق ہے جس کو احمدی ہو کر آپ کی ذات سے عشق نہیں.یہ علیحدہ امر ہے کہ آپ کا رعب اظہار کی اجازت نہ دے.میں گو برے اعمال کی وجہ سے آپ کے حضور بہت کم آیا اور جب حاضر ہوا خاموش رہا اور مجھ کو طاقت ہی نہ ملی کبھی اک صحیح فقرہ ہی کہہ سکوں مگر جتنا عشق مجھے حضور کی ذات سے ہے وہ کچھ میں ہی جانتا ہوں.افسوس کبھی تحریر میں ہی ظاہر کرنے کی جرات ہوتی.میری انتہائی خواہش یہی ہے کہ خدا کرے میں ضرور بالضرور جان حضور کے قدموں میں دوں.“ والسلام خادم عبد اللہ خان ۵۱ جلد ۲۰ ۱۹۳۱ء کے قریب آپ کا تقرر قصور شہر کی میونسپلٹی کے ایگزیکٹو آفیسر کی حیثیت سے ہوا.یہاں بھی عوام آپ کے اعلیٰ کیریکٹر ، بلند اخلاق اور نیک سیرت سے بہت متاثر ہوئے.آپ کا دستر خوان بہت وسیع تھا.کسی ضرورت مند کو خالی ہاتھ بھجوانا پسند نہ کرتے.بارہا ایسا ہوا کہ کسی شخص سے رقم مستعار لے کر سائل کی ضرورت فوری طور پر پوری کر دی اور بعد میں قرض ادا کر دیا.آپ احمدی احباب کو اکثر اپنے پاس رکھتے تا نماز با جماعت اور اجتماعی دعاؤں کی توفیق ملتی رہے.آپ کا معمول تھا کہ قصور سے بذریعہ موٹر کار حضرت مصلح موعود کی زیارت اور ملاقات کے لئے اکثر قادیان تشریف لے جاتے جو حضور کی ذات مقدس سے والہانہ محبت اور شیفتگی کا آئینہ دار ہے.قصور شہر ان دنوں مخالفت کا گڑھ اور شعلہ جوالہ بنا ہوا تھا.مجلس احرار آپ کے خلاف دن رات جھوٹے پراپیگینڈا میں مصروف رہتی تھی اور اسے میونسپلٹی کے پریذیڈنٹ کی سرپرستی حاصل تھی.اس سلسلہ میں فروری ۱۹۳۶ء میں میونسپلٹی کی جنرل میٹنگ کا ایک اجلاس معرکہ آراء ثابت ہوا جبکہ
تاریخ احمدیت 465 جلد ۲۰ احراری نمائندوں کی زبر دست مخالفت کے باوجود آپ کی ملازمت میں ترقی کے ساتھ مزید تین سال کی توسیع کا متفقہ ریزولیوشن پاس کیا گیا.چنانچہ اخبار پرتاپ (لاہور ) کے نامہ نگار خصوصی نے اپنی روئداد میں لکھا :- قصور میونسپلٹی کی جنرل میٹنگ زیر صدارت خان بہادر سردار محمد شہباز خان آنریری ای اے کی پریذیڈنٹ میونسپلٹی منعقد ہوئی.چونکہ آج کے اجلاس میں سالانہ بجٹ پیش ہونا تھا اور لیفٹینٹ چوہدری عبداللہ خاں بی اے ایگزیکٹو افسر میونسپلٹی قصور جن کی میعاد عہدہ اگست ۱۹۳۶ء کو ختم ہورہی ہے توسیع ملازمت پر غور کیا جانا تھا اس لئے میونسپل ہال احراریوں و دیگر پبلک سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.ایگزیکٹو افسر نے بتلایا کہ کمیٹی کو اس سال کل آمدنی ۱،۶۲،۲۲۰ روپے ہوئی اور خرچ ۱،۶۲،۳۹۳ روپے ہوا ہے.بجٹ میں امسال سڑکوں کی مرمت نالیوں اور فرشوں پر خاص توجہ دی گئی..سید مبارک علی شاہ احراری نے تجویز پیش کی کہ چونکہ مالی سب کمیٹی نے اگزیکٹو افسر کے میعاد عہدہ میں توسیع و تنخواہ میں ترقی کی سفارش کی ہے اور اس پر غور ہونا ہے لہذا اگزیکٹو افسر کو دفعہ ۳ آف اگزیکٹو آفیسرز ایکٹ کے مطابق باہر بھیج دیا جائے.مگر ہاؤس نے اس تجویز کو مستر د کر دیا.اس کے بعد اگزیکٹو افسر کی توسیع ملازمت پر غور کیا گیا.کمیٹی کے تمام ہند و ممبران جو تعداد میں ۵ ہیں و مسلم ممبران نے باتفاق رائے گورنمنٹ پنجاب سے سفارش کی کہ اگزیکٹو افسر کی ملازمت میں ۷۵ روپے ترقی کے ساتھ ۳ سال کی توسیع کی جائے.آج کا اجلاس اس لحاظ سے خاص طور پر قابل ذکر.کہ احرار کی انتہائی مخالفت اور جدوجہد کے باوجود اگزیکٹو افسر کو سولہ ووٹوں ہے.میں سے چودہ ووٹ ملے.پریذیڈنٹ صاحب غیر جانبدار رہے.“ ہے (اخبار پرتاپ بحواله الفضل یکم مارچ ۱۹۳۶ء صفحه ۶) الفضل کے نامہ نگار خصوصی مقیم قصور کے قلم سے اس ہنگامہ خیز اجلاس کی رپورٹ حسب ذیل الفاظ میں سپر د اشاعت ہوئی:.د لیفٹینٹ چوہدری عبداللہ خان صاحب بی اے جب سے قصور میں ایگزیکٹو آفیسر تعینات ہوئے ہیں احرار نے ان کی بے جا مخالفت اپنا
تاریخ احمدیت 466 مستقل فرض بنا رکھا ہے.اور آئے دن غلط اور گمراہ کن پروپیگنڈا چوہدری صاحب موصوف کے خلاف کرتے رہتے ہیں.تا کہ کسی طرح پبلک اور افسروں کو بدظن کر سکیں.لیکن بفضل خدا ہر دفعہ ان کو ذلت و نا کامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے.علا وہ اس کے کہ وہ اعلیٰ افسران جنہوں نے میونسپلٹی کا معائنہ چوہدری صاحب کے وقت میں کیا نہایت شاندار الفاظ میں چوہدری صاحب کی تعریف کی ہے.پنجاب گورنمنٹ نے اپنے ریویو میں جن کمیٹیوں کا خصوصیت سے ایگزیکٹو آفیسرز صاحبان کے زیر انتظام ترقی کرنے کا ذکر کیا ہے وہ رو پڑ اور قصور کی کمیٹیاں ہیں.اور ان دونوں کمیٹیوں کی باگ ڈور یکے بعد دیگرے چوہدری صاحب موصوف کے ہاتھ میں رہی ہے.آڈیٹر صاحبان اور افسرانِ اعلیٰ نے ہمیشہ چوہدری صاحب موصوف کی دیانت وامانت اور محنت اور جانفشانی کی داد دی ہے اور انتظام کمیٹی میں نہایت قابل قدر تبدیلی اور ترقی کا اقرار کیا ہے.امسال جبکہ چوہدری صاحب موصوف نے تخمینہ بجٹ سالانہ ۳۶ - ۱۹۳۷ء تیار کر کے گورنمنٹ کو بھجوایا اور اس کی نقل کمیٹی کو بھیجی تو سب کمیٹی مال نے بدیں الفاظ جنرل کمیٹی کو سفارش کی کہ چوہدری عبداللہ خان صاحب نے بجٹ میں اپنی موجودہ تنخواہ کا گریڈ بھی درج کیا ہے.چوہدری صاحب کی میعاد یگزیکٹو آفیسری ۲۴ راگست ۱۹۳۶ء کو ختم ہونے والی ہے.اور چونکہ چوہدری صاحب نے اپنے عرصہ ملازمت میں نہایت محنت و دیانتداری اور جانفشانی سے کام کیا ہے اور کمیٹی کے تمام شعبہ جات میں بے حد اصلاح کی ہے.کمیٹی کے تمام قرضہ جات اپنے حسنِ انتظام سے ادا کر کے ایک کافی رقم خزانہ کمیٹی میں جمع کر دی ہے.پبلک کی فلاح و بہبود کو ہمیشہ مدنظر رکھا ہے.معائنہ کرنے والے افسران اور محکمہ آڈٹ نے ہمیشہ چوہدری صاحب موصوف کی تعریف کی ہے.لہذا سب کمیٹی چوہدری صاحب کے متعلق کامل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے جنرل کمیٹی کو متوجہ کرتی ہے کہ وہ گورنمنٹ عالیہ سے سفارش کرے کہ لیفٹیننٹ چوہدری عبداللہ خان صاحب کی میعاد میں تین سال کی مزید توسیع اسی جگہ کی جائے اور ان کو ۳۵۰ روپے ماہوار تنخواہ اور ۳۰ روپے سالانہ ترقی دی جائے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 467 اور سواری الاؤنس بدستور دیا جائے.یہ سفارش کیا تھی ایک بم تھا جو مجلس احرار پر گرا.اور انہوں نے جابجا چوہدری صاحب کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا شروع کر دیا.حتی کہ ایک ملا عبدالمنان کو لاہور سے بلوا کر ایک مسجد میں جلسہ کرنے کی حسب معمول ناکام کوشش کی.جس جلسہ کی روئیداد اخبار ” مجاہد اور احسان‘ میں اس طرح شائع کرائی گئی ہے کہ اس عظیم الشان جلسہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی.وہ جس قدر بے رونقی اور گڑ بڑ میں ختم ہوا اس سے پبلک قصور آگاہ ہے.مذکورہ بالا اخبارات میں احرار نے ایک ریزولیوشن بھی چھپوایا ہے کہ اسلامیان قصور کا یہ عظیم الشان جلسہ مرزائی ایگزیکٹو آفیسر کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے اور ممبر صاحبان کمیٹی سے پرزور سفارش کرتا ہے کہ مرزائی ایگزیکٹو آفیسر کی توسیع میعاد کی سفارش گورنمنٹ عالیہ سے نہ کی جائے.مگر پبلک قصور نے ایک پر پشہ کے برابر بھی اس ریزولیوشن کو وقعت نہ دی اور عقائد کی بناء پر مخالفت کرنے کے خلاف عملی طور پر نہایت شاندار طریق پر اظہار نفرت کیا.جس کا ثبوت ہندو مسلم ممبران نے کمیٹی کے جلسه مورخہ ۲۳ فروری میں پیش کیا.اور چوہدری صاحب موصوف کی قابلیت حسن انتظام، حسن سلوک و اخلاق، محنت اور دیانتداری کی داد دیتے ہوئے مالی سب کمیٹی کی سفارش کے ایک ایک لفظ سے اتفاق کرتے ہوے ریزولیوشن پاس کر دیا.یعنی گورنمنٹ سے توسیع میعاد اور ایزادی تنخواہ کی سفارش کر دی.یہ خبر سنتے ہی شہر کے ہر طبقہ میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی اور جہاں ایسے شریف افسر کے قیام پر خوشی کا اظہار کیا گیا وہاں پبلک نے اپنے نمائندگان میونسپل کمشنر صاحبان کی فرض شناسی کی بے حد داد دی.صرف ایک ووٹ ریزولیوشن کے خلاف تھا اور وہ مبارک علی شاہ کا تھا.شاہ صاحب موصوف نے ایگزیکٹو آفیسر کے خلاف ایک ترمیم بھی پیش کی لیکن وائے ناکامی کہ کسی ممبر نے ان کی تائید نہ کی.اور احراری ناکام و نامرادسر چھپانے کو جگہ ڈھونڈتے ہوئے اپنے گھروں کو سدھارے.چوہدری صاحب کے حق جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 468 جلد ۲۰ میں ہر مذہب کے نمائندوں نے ووٹ دیئے.اس طرح آپ کے حق میں ۱۴ اور آپ کے خلاف صرف ایک ووٹ تھا.یہ کامیابی صوبہ بھر میں غالباً اپنی آپ ہی نظیر ہے.کہ کمیٹی نے ازخود اپنے ایگزیکٹو افسر کی لیاقت وحسن انتظام کی داد دی.اور ہر پہلو سے اس کی قابلیت کو تسلیم کرتے ہوئے گورنمنٹ عالیہ سے سفارش توسیع میعاد و ایزادی تنخواہ کی کی.جہاں ہم چوہدری صاحب موصوف کو ان کی شبانہ روز محنت ، ان کی قابلیت اور لیاقت، ان کے حسن انتظام و تدبر، ان کی شرافت اور دیانتداری پر مبارک باد پیش کرتے ہیں وہاں ہندو مسلم پبلک اور نمائندگان یعنی میونسپل کمشنر صاحبان کو مبارک باد دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دے کر پبلک کو شکر گزار کیا.“ ۵۲ 66 اس شاندار کامیابی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ اس دور کے اخبارات سے پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں ملک بھر میں میونسپل کمیٹیوں کی سخت ابتر حالت تھی اور کئی بڑے بڑے شہروں کی میونسپلٹیاں اپنی بدانتظامی اور فرقہ واریت کے باعث توڑی جارہی تھیں چنانچہ مولوی ثناء اللہ صاحب و امرتسری نے اخبار اہلحدیث ۶ / مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ا پر ملکی مطلع کے عنوان سے لکھا: - گورنمنٹ نے از راہ کرم گستری ہندوستان کو حکومتِ خود اختیار کی پہلی منزل میونسپلٹی کی شکل میں بنا کر دی تھی جس کو بطور مثال پرائمری سکول کہا جائے تو بجا ہے.انصاف اور حق یہ ہے کہ ہندوستانی اس پرائمری درجے میں بری طرح فیل ہو گئے.میونسپلٹیوں کو اگر آئندہ سوراج کا نمونہ سمجھا جائے تو انگریزوں کا قول صحیح ثابت ہوتا ہے کہ ہند وستانی حکومت کے لائق نہیں.کمیٹیوں میں اس قدر فرقہ داری اور ذاتی اغراض کا غلبہ رہتا ہے کہ دیکھنے اور سننے میں بڑا فرق ہے.گزشتہ ایام میں بنارس کی کمیٹی گورنمنٹ نے توڑ دی تھی.اب تازہ خبر آئی ہے کہ سیالکوٹ کی بلد یہ بھی توڑ دی گئی.ہمارا اندازہ ہے کہ ادائیگی فرض کے لحاظ سے امرتسر کی بلدیہ سے زیادہ غافل...کوئی اور بلدیہ نہ ہوگی..گورنمنٹ امرتسر کی بلدیہ کو بھی (خواہ عارضی طور پر ہی سہی ) بلد یہ سیالکوٹ کی طرح توڑ کر اس کا انتظام کسی افسر کے سپر د کر دے تو اہالی شہر پر بڑا احسان ہو.“
تاریخ احمدیت 469 جلد ۲۰ حضرت چوہدری محمد عبداللہ خان صاحب آخر ۱۹۳۸ء سے مئی ۱۹۴۷ء تک جمشید پور (بہار) کی مشہور عالم کمپنی ٹاٹا آئرن اینڈ سٹیل ملز میں ٹاؤن سپرنٹنڈنٹ کے اعلیٰ منصب پر فائز رہے آپ کے سپرد کمپنی کے ملازموں کو رہائشی مکانات الاٹ کرنا تھا.آپ کا شمار چوٹی کے افسروں میں ہوتا تھا اور آپ بلا تفریق مذہب و ملت اپنے اثر سے ملازمتیں دلوانے کی بھر پور کوشش کرتے تھے.جب آپ کی وفات کی اطلاع جمشید پور کے ڈاکٹر پی سی بسواس بنگالی اور سردار سمرن سنگھ جی لکھاری پنجابی کو ہوئی تو دونوں زار زار رونے لگے.آپ کے یہاں تلاش روزگار یا کسی اور کام کے لئے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا اور لوگ ڈیرہ لگا کر مہینوں اس طرح بیٹھ جاتے گویا وہ اس خاندان کے افراد ہیں اور آپ افراد خانہ ہی کی طرح نہایت وسعت قلبی اور عالی ظرفی سے ان کے قیام و طعام کا اہتمام فرماتے تھے.غرباء کی امدا د مخفی رنگ میں کرتے تھے.آپ نے پنجاب میں ایک قیمتی جائیداد فروخت کی اور اس کی خطیر رقم جمشید پور کے غرباء میں تقسیم کر دی.ایک بار حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے ذریعہ ایک ہزار روپیہ سے تپ دق کی دوا تیار کرائی اور تاکید فرمائی کہ یہ غرباء کو مفت دی جائے.ایک دفعہ ٹاٹا کمپنی کے ایجوکیشن افسر نے سازش کر کے ٹاٹا ہائی سکول کے مسلمان ہیڈ ماسٹر اختر احمد صاحب آف پٹنہ کو موقوف کر دیا.حضرت چوہدری صاحب اس مظلوم کی فریا درسی کے لئے کمپنی کے جنرل مینیجر سر جہانگیر گاندھی کے پاس خود پہنچے اور تفصیل بتائی انہوں نے اسی وقت ہدایت جاری کی کہ اختر صاحب کو فوراً بحال کر دیا جائے اور کوئی مخالفانہ کا رروائی بھی نہ کی جائے جس پر ہر طرف حیرانی کی لہر دوڑ گئی کہ یہ کام کیسے ہو گیا ؟ سب کہتے تھے کہ گاندھی جی تک رسائی صرف چوہدری صاحب کے لئے ممکن ہے کسی اور کا یہ کام نہیں ہے.قیام جمشید پور کے دوران آپ پہلے تو جمشید پور کی جماعت احمدیہ کے امیر منتخب ہوئے پھر امیر صوبائی بہار کے منصب پر ممتاز ہوئے اور اپنے حسنِ انتظام، حسنِ عمل اور خداداد قابلیت سے جماعت کے ہر فرد خصوصاً نوجوانوں میں زبر دست روح عمل بھر دی اور یہ اور اس کی ذیلی مجالس صف اول کے معیار پر آگئیں.مولانا محمد سلیم صاحب سابق مجاہد بلاد عربیہ تحریر فرماتے ہیں :- آپ نے اپنے زمانہ قیام جمشید پور میں بار بار وہاں وسیع پیمانے پر تبلیغی جلسے منعقد کئے اور ان موقعوں پر مجھے ہمیشہ یاد فرمایا اور میں بھی بصد ذوق وشوق ان میں شامل ہوتا اور تقاریر کرتا رہا.وہاں طوفانی مجالس مذاکرہ
تاریخ احمدیت 470 بر پا ہوا کرتیں اور بڑے سلیقہ اور مدبرانہ رنگ میں احمدیت کا پیغام پہنچایا جاتا.تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپ کوئی ایسا لطیفہ چھوڑ دیتے کہ جس سے ساری مجلس زعفران زار بن جاتی اور پژمردہ چہرے بھی خوشی سے کھل اٹھتے.جلد ۲۰ حضرت چوہدری صاحب پیغام حق پہنچانے میں بہت کوشاں رہتے تھے.ایک بار آر نے انگریز جنرل مینیجر کی زیر صدارت انگریزی میں نہایت روانی کے ساتھ ( دین حق ) کے بارہ میں تقریر فرمائی.جلسہ گاہ تمام انگریز افسران ان کی خواتین اور انگریزی دان بنگالی اور مدراسی افسروں سے بھرا ہوا تھا.سب نے آپ کی اثر انگیز تقریرسنی اور بہت محظوظ ہوئے.قیام پاکستان کے بعد محکمہ بحالیات کا قیام عمل میں آیا تو اپنی ذاتی صلاحیت و قابلیت اور انتظامی خوبیوں کے باعث آپ ایڈیشنل کلیمز کمشنر مقرر ہوئے اور پاکستان کا پہلا دارالسلطنت کراچی آپ کا ہیڈ کوارٹر قرار پایا جہاں آپ کم و بیش بارہ سال تک قومی اور دینی فرائض کی بجا آوری کے جہاد میں سرگرم عمل رہے.آپ کے دفتر میں پناہ گزینوں کا ہجوم رہتا.آپ ہر فرقہ کے مہاجرین کی شکایت نہایت ٹھنڈے دل سے سنتے اور ان کی ہر ممکن مدد کرتے.دوسرے دفتروں کی طرح آپ کے دفتر میں یہ طریق رائج نہ تھا کہ نام اور کام لکھ کر ملاقات کی اجازت لی جائے.آپ کے دفتر کا اردلی کہتا تھا کہ بلا کھٹکے اندر چلے جائیے یہ دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہے.چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمد یہ کراچی کا چشمد ید بیان ہے کہ :- آپ بے نفس انسان تھے.باوجود ایڈیشنل کسٹوڈین ہونے کے جبکہ دوسروں کو جائیدادوں وغیرہ کی الاٹمنٹ کا کام آپ کے محکمہ سے ہوتا تھا اور آپ کو ایسا اختیار حاصل تھا ) آپ نے کوئی جائیداد نہیں بنائی.آپ کی کوئی اپنی جگہ رہائش کے لئے نہ تھی.آپ کبھی کہیں اور کبھی کہیں قیام رکھتے تھے.چند ماہ آپ کا قیام سنٹرل ہوٹل میں رہا.زیادہ عرصہ آپ ہاؤسنگ سوسائٹی میں مقیم رہے.“ ”یہ اللہ تعالی کا خاص فضل تھا کہ آپ بے شمار اوصاف حمیدہ کیے مالک تھے.بہت صابر اور بردبار اور حلیم طبیعت آپ نے پائی تھی.آپ کا افضل ترین خلق ہمدری خلائق اور خدمت خلق
تاریخ احمدیت 471 کا تھا.آپ کا دروازہ ہر ایک شخص کے لئے کھلا ہوتا.جو بھی آتا وہاں فیض پا کر لوٹتا.آپ نے کبھی کسی کو انکار نہیں کیا.معمولی سے معمولی انسان کے ساتھ بھی آپ پیار اور شفقت سے پیش آتے اور اس کی کسی ضرورت کے وقت مدد کرنے سے گریز نہ کرتے.- ہر ضرورت مند کی امداد آپ کا معمول تھا.سفارش اور مدد کرنے سے آپ نے کبھی پہلوتہی نہیں کی.اور ہر ایک کی جائز امداد کی.اس قسم کے واقعات ہر روز ہوتے تھے.اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم مجموعہ بن جائے.آپ یہ سب کچھ رضائے الہی کی خاطر کرتے تھے.آپ نے کبھی کسی سائل کو مایوس نہیں لوٹایا.جو کچھ پاس ہوتا دے دیتے.اگر کسی وقت کچھ نہ ہوتا تو کسی دوست سے امداد کرا دیتے تھے.مکرم ملک جلال الدین صاحب جو آج کل بدین میں ہیں چوہدری صاحب کی وفات کے چند سال بعد اپنے علاقے کے مختار کار سے ملاقات کرنے گئے.اس نے برسبیل تذکرہ محترم چوہدری عبداللہ خان صاحب کے بارے میں پوچھا کہ ان کا کیا حال ہے.جب ملک صاحب نے بتایا کہ وہ تو وفات پاچکے ہیں اس پر اس مختار کار نے زار و قطار رونا شروع کر دیا.کچھ دیر کے بعد بتایا کہ مجھ پر ایسا وقت آیا کہ میں دو تین روز سے مع اہل وعیال فاقہ سے تھا.کسی نے مجھے بتایا کہ میں چوہدری صاحب محترم کے پاس چلا جاؤں.وہ میری مدد کریں گے.میں آپ کے پاس پہنچا اور اپنی ضرورت کا ذکر کیا.اور آپ کے کہنے پر ملازمت کے لئے درخواست تحریر کر کے دی.جو آپ نے اپنے دفتر میں کسی کو دے دی اور میرے تقرر کرنے کی ہدایت کی لیکن مجھ پر یہ اثر ہوا کہ دیگر دفاتر کی طرح یہاں بھی سردمہری سے کام لیا گیا ہے.آپ نے یہ بات بھانپ لی.پیچھے آپ کا کوٹ لٹک رہا تھا اس میں سے پچاس روپے نکال کر دیئے اور فرمایا ابھی گزارہ کریں.کل آجائیں.اس زمانہ میں یہ ایک کثیر رقم تھی.دوسرے روز میری تقرری ہوگئی اور اب میں ترقی کرتے کرتے مختار کار بن چکا ہوں.آپ کی وفات کا سن کر اس احسان کی وجہ سے میں یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکا.“ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 472 شیخ محمد حنیف صاحب ( سابق امیر جماعت بلوچستان حال لا ہور ) کا بیان ہے :- محترم چوہدری صاحب کی دلنواز شخصیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ آپ اپنے سرکاری کام کے سلسلہ میں کوئی ربع صدی پہلے کوئٹہ تشریف لائے تھے اور آپ کو قریب سے دیکھنے سے آپ کی صلاحیتوں اور اخلاق حمیدہ کا علم ہوا.اتنا طویل عرصہ گزرنے پر بھی آپ کی یاد کے نقوش ہمارے دلوں میں قائم ہیں.آپ اس عاجز سے غالبا اس لئے بھی بہت محبت کا سلوک فرماتے تھے کہ ہمارے خاندان کے کسی فرد کا کوئی نہ کلیم (CLAIM) تھا اور نہ کسی قریبی عزیز کا آپ کے دفتر میں کوئی کام تھا.یہ عاجز روزانہ بعد نماز عشاء آپ کی جائے قیام سرکٹ ہاؤس میں حاضر ہوتا تھا.اور کئی گھنٹے تک ہم لان (LAWN) پر بیٹھتے اور میرے استفسار پر آپ کے خیالات کسی نہ کسی دینی مسئلے پر سننے کا موقعہ ملتا تھا.آپ کا انداز بڑا دلنشیں اور دوسروں سے مختلف ہوتا تھا.زیر بحث مسئلہ پر آپ کا ذہن بہت صاف، گرفت بڑی مضبوط اور بات مدلل اور بچی تلی ہوتی.اعلیٰ پایہ کے اشعار بھی برمحل زیب بیان ہوتے تھے.شعر و ادب سے آپ کی وابستگی ٹھوس علمی بنیادوں پر قائم تھی.آپ کی غریب پروری اور عدل گستری کا اس واقعہ سے علم ہوتا کہ ایک غیر از جماعت دوست ایک بہت غریب مہاجر نوجوان کو میرے پاس لائے کہ اس کی مشرقی پنجاب میں متروکہ جائیداد کا اسے بہت کم معاوضہ دیا گیا ہے.وغیرہ وغیرہ.میں نے کہا کہ اچھی طرح سوچ لو بات پکی اور سچی ہونی چاہئے.میں یقین دلاتا ہوں کہ ایسی صورت میں محترم چوہدری صاحب، اگر ان کے اختیار میں یہ بات ہوگی تو بلا تردد اس کی مدد کریں گے.میں نے اسے اپنے ہمراہ لے جا کر آپ سے بات کی.آپ نے بھی یہی فرمایا کہ اگر یہ حق پر ہے تو اس کے ساتھ انصاف ہوگا.ایک لمبے عرصہ کے بعد اس شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ مجھ غریب کے ساتھ چوہدری صاحب کی طرف سے بڑا ہی پیار کا سلوک ہوا اور مجھے میرا حق مل گیا تھا.چوہدری صاحب کی عظمت اخلاق دیکھئے کہ آپ نے مجھ سے اشارہ بھی ذکر نہ کیا تھا کہ آپ نے اس کا کام کر دیا ہے.“ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 473 جلد ۲۰ متروکہ جائیداد کے سلسلہ میں مولوی عبدالقدوس صاحب بہاری اس ہیئت میں آپ کی خدمت میں پہنچتے کہ سید نا حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کی کوئی کتاب ان کی بغل میں ہوتی اور وہ اسے سامنے میز پر رکھ دیتے.آپ ان کا کام کر دیتے.کسی نے عرض کیا کہ یہ صاحب تو احمدیت کے شدید معاند ہیں.فرمایا دیکھتے نہیں کہ کتنا بڑا واسطہ دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں ان کا کام کر دیتا ہوں.اپنے محکمہ کے ملازمین سے نہایت شفقت بھرا سلوک کرتے ، ان سے چشم پوشی کرتے اور ان کی مشکلات دور کر کے روحانی مسرت محسوس کرتے تھے.نہایت اعلیٰ درجہ کے مقرر اور فن گفتگو کے ماہر تھے.طبیعت میں نہایت درجہ مزاح تھا.اور کلام برجستہ اور شگفتہ تھا.زندہ دلی سے ہر مجلس پر چھا جاتے تھے.خود بھی قادر الکلام شاعر تھے.سید محمد جعفری ، ضمیر جعفری، ادیب سہارنپوری ، ظریف جبل پوری ، راغب مراد آبادی ، صہبا اختر اور جناب شوکت تھانوی جیسے مایہ ناز شعراء اور ادباء آپ کی مجالس میں شرکت کیا کرتے تھے.اسی طرح دانشور، تاجر، صحافی، سیاست دان، ایک اشارے پر کھنچے چلے آتے تھے.ان کی یہ مقناطیسی کشش اونچے طبقوں تک ہی محدود نہ تھی.کراچی کے عوامی حلقے بھی آپ کے مداحوں میں شامل تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تالیف و تسخیر قلوب کا ایک نسخہ دیا ہوا تھا کہ جو ان سے ملتا انہی کا ہو کے رہ جاتا.یہ نسخہ دراصل بے غرض جذبہ خدمت خلق اور ایک دردمند دل کے سوا اور کچھ نہ تھا.ایک غیر از جماعت دوست اور نامور شاعر پاکستان جناب صہبا اختر صاحب تحریر فرماتے ہیں :- میں ۵۰ - ۱۹۴۹ء میں اپنی شاعری کے وقت نو عمر تھا اور مالی لحاظ سے مفلوک الحال بھی.ایک روز شام کو نگار ہوٹل میں شعرائے کرام کا ڈنر تھا.جناب حفیظ صاحب ہوشیار پوری میرے پاس آئے اور کہا کہ میں اپنا کلام اس تقریب میں ساتھ لے چلوں.وہاں جناب اختر انصاری نے میرا تعارف چوہدری عبداللہ خاں صاحب سے کروایا جو اس روز مہمانِ خصوصی تھے.آپ کا تعلق آخر تک اس محفل سے قائم رہا.میں مالی تنگی کے باعث بے حد فلاکت زدہ تھا.چنانچہ ایک ایسی نشست میں جناب حفیظ صاحب موصوف نے آپ سے میرا ذکر کیا اور آپ نے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب کے ذریعہ محکمہ خوراک میں مجھے ملازمت دلوا دی جس سے میری مالی حالت بہتر ہو گئی.
تاریخ احمدیت 474 جن دنوں آپ حیدر آباد سندھ میں متعین تھے جناب اختر انصاری صاحب کے منشاء سے ایک شخص کو ملا زمت دلوانے کے لئے میں حیدر آباد پہنچا اور آپ کے پاس جانے سے پہلے آپ سے فون پر بات کی.آپ ناراض ہوئے کہ جبکہ میں رات سے حیدر آباد پہنچا ہوا ہوں تو آپ کے پاس ٹھہر نے کی بجائے ہوٹل میں کیوں ٹھہرا ہوں.مجھے معذرت کرنا پڑی.میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے اپنی کرسی کے پاس میرے لئے کرسی رکھوا دی.اس وقت آپ ایک مقدمہ کی سماعت میں مصروف تھے.تین چار منٹ کے بعد آپ نے مقدمہ پیش کرنے والے وکیل سے مخاطب ہوکر دریافت کیا کہ آپ کو کتنے عرصہ کی وکالت کا تجربہ ہے.وکیل نے کہا کہ چار پانچ سال کا.فرمایا کیا آپ کو معلوم ہے کہ مہمان آجائے تو رک جانا چاہئے.جس پر وکیل خاموش ہو گیا اور پھر اجازت لے کر چلا گیا.پھر میری طرف سے اس شخص کا ذکر ہونے پر آپ نے اس کو ملا زمت دلوا دی.چوہدری صاحب کے محکمہ کا ایک ملازم رشوت لینے کی وجہ سے معطل ہوا.اس نے مجھ سے سفارش کروانا چاہی.میں اسے چوہدری صاحب کے پاس لے گیا کہ آپ اس محکمہ کے افسر اعلیٰ تھے.آپ نے اسے بلوا کر فہمائش کی.اور کہا کہ آئندہ ایسا نہ کرنا.اور اسے بحال کر دیا.اس نے پھر رشوت لی اور معطل ہوا.وہ پھر مجھ سے سفارش کا طالب ہوا.میں ڈرتے ڈرتے چوہدری صاحب کے پاس گیا.آپ نے بات سن کر فرمایا.صہبا اختر ! یہ باز نہیں آتا.چونکہ آپ نے سفارش کی ہے اس لئے میں اسے بحال کر دیتا ہوں.اور اسے شفقت سے بحال کر دیا.اس سے ظاہر ہے کہ آپ بہت ہی دوست پرور غریب نواز اور اعلیٰ ظرف انسان تھے.اور بہت ذرہ نواز.حالانکہ میری کوئی دینی یا دنیوی حیثیت نہ تھی.فرمایا کرتے تھے کہ کسی کی رزق ماری نہیں کرنی چاہئے.بلکہ لوگوں کی بہتری کا خیال رکھنا چاہئے.“ جلد ۲۰ کراچی میں تشریف آوری کے پہلے سال ہی آپ کو امیر جماعت احمدیہ کراچی منتخب کر لیا گیا.اور تا وفات آپ ہی اس عہدہ پر فائز رہے.حتی کہ جن دنوں آپ کا تبادلہ حیدرآبادسندھ ہو گیا اس وقت بھی آپ ہی امیر مقرر ہوئے.آپ کے گیارہ سالہ دور قیادت میں خدا کے فضل و
تاریخ احمدیت 475 جلد ۲۰ کرم اور حضرت مصلح موعود کی روحانی توجہ اور برکت سے جماعت احمد یہ کراچی نے حیرت انگیز ترقی کی جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے کئی بار اظہار خوشنودی کیا.چنانچہ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء میں فرمایا کہ کراچی کا چندہ ساری جماعت (پاکستان) کا پانچواں حصہ ہو گیا ہے.دیگر جماعتوں کو اس جماعت پر رشک کرنا چاہئے.نیز مجلس مشاورت ۱۹۵۹ء میں ارشاد فرمایا کہ اس وقت صرف کراچی کی جماعت اچھا کام کر رہی ہے.انہوں نے ڈسپنسری بھی قائم کر لی ہے اور دو ( بیوت ) بھی بنالی ہیں.ایک عرصہ قبل حضور کو عالم رؤیا میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب، حضرت چوہدری عبداللہ خاں صاحب اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب دکھائے گئے.حضور نے اس وقت دل میں کہا کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں.اس رویا کا تذکرہ حضور نے اس مشاورت کے موقع پر بھی خاص طور پر کیا اور بتایا اس رؤیا کے عین مطابق ان تینوں کو جماعتی خدمات کی توفیق ملی.پھر فرمایا کہ " (رویا) کے بعد چوہدری عبداللہ خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کراچی میں ۵۵ ۵۴ کام کرنے کی توفیق دی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کو احمدیت کا قابل فخر نوجوان“ کے خطاب سے یاد کرتے ہوئے تحریر فرمایا : - اپنے اخلاص اور فدائیت اور قربانی اور انتظامی قابلیت میں اکثروں کے لئے ایک قابلِ رشک نمونہ تھے.ان کی کراچی کی خدمات خصوصیت سے بہت ممتاز ہیں.جہاں انہوں نے ایک نسبتاً کمزور جماعت کو پایا اور دیکھتے ہی دیکھتے خدا کے فضل اور نصرت سے اسے ہر جہت سے ایک مثالی جماعت بنا دیا.جواب اپنی تنظیم اور اخلاص اور مالی قربانی میں پیش پیش ہے.۵۶ قسام ازل نے کس فیاضی سے آپ کو حسناتِ دارین سے نوازا اور جس وفاداری ،لگن اور عشق سے خدمات دین کا حق ادا کیا اس کے بیان کے لئے ایک دفتر چاہئے.چوہدری احمد مختار صاحب حضرت چوہدری محمد عبد اللہ خاں صاحب کے عہد امارت اور آپ کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- جماعت کراچی کو منظم کرنے کے لئے اس کو حلقوں میں تقسیم کرنا، ان کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا اور ہر ایک سیکرٹری کو اپنے فرائض منصبی کی
تاریخ احمدیت 476 جلد ۲۰ ادائیگی کے لئے توجہ دلانا یہ مرحوم کے ایسے کام تھے جن سے آپ نے جماعت کراچی کو اپنے تمام عرصہ امارت میں تقویت دی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس جماعت کے شعبوں کی کارگزاری اعلیٰ میعار پر رہی ہے.آپ ہر ایک عہدہ دار کو اپنے کام میں آزادی دیتے اور بوقت ضرورت اس کی مدد بھی کرتے اور اس کی رہنمائی بھی فرماتے تھے.موجودہ وقت میں اس جماعت کے جتنے بھی اچھے کارکن ہیں وہ سارے آپ کی تربیت کا ثمرہ ہیں.قولوا قولا سدیدا کی روشنی میں آپ ہمیشہ اپنے خطابات سے جماعت کی صحیح رہنمائی فرماتے.باقاعدہ نگرانی کرتے اور ان لوگوں کی مدد فرماتے جو جماعتی لحاظ سے کمزور ہوتے.آپ نے منافقین سے کبھی سروکار نہ رکھا اور نہ ہی ان کو موقعہ دیا کہ وہ کراچی میں آکر فتنہ پردازی کریں..محترم چوہدری صاحب سلسلہ کے لئے اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے بہت غیرت رکھتے تھے.ہیں :- ۵۷.آپ کے زمانہ امارت کے بعض کا رہائے نمایاں درج ذیل ۵۸ ا احمدیہ ہال تعمیر ہوا.۲.بیت الذکر گولیمار تعمیر ہوئی.۳.فضل عمر ڈسپنسری گولیمار تعمیر ہوئی.۴.بیت الذکر احمد یہ مارٹن روڈ کے لئے قطعہ زمین خریدا گیا.۵.فضل عمر ڈسپنسری و لائبریری مارٹن روڈ قائم کی گئی.۶ - ڈرگ روڈ کی بیت الذکر احمدیہ کی ابتدائی تعمیر ہوئی.۷.احمد یہ لائبریری بندر روڈ قائم ہوئی.۸.مکرم مولا نا عبدالمالک خاں صاحب اس وقت مربی جماعت تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے کراچی میں ایک مشن ہاؤس تعمیر کروایا جس کا نام دار الصدر رکھا گیا.۹ - آپ نے جماعت کو منظم کیا.۱۰- لوکل فنڈ کا سلسلہ جاری کیا گیا جو جماعت کی تقویت اور مقامی ضروریات کے لئے اب تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے.اح اخبار کراچی سے جاری ہوا.جو پہلے ہفت روزہ تھا لیکن جب روز نامہ الفضل پر لمصلہ پابندی عائد ہو گئی تو اس کی جگہ کراچی سے اصلح روز نامہ کے طور پر شائع ہوتا رہا.اظہار حق میں آپ ایک برہنہ شمشیر تھے.جس پر دوستوں کو بھروسہ ہو اور جس سے دشمن لرزاں ہوں.۱۹۵۳ء کے خلاف سلسلہ فسادات میں کراچی کے جہانگیر پارک میں جلسہ
تاریخ احمدیت 477 جلد ۲۰ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی صدارت میں منعقد ہوا.اس میں محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی تقریر بھی تھی.خاکسار اس وقت سیکرٹری امور عامہ تھا.مخالفین نے بڑا شور اور ہنگامہ برپا کیا لیکن محترم چوہدری عبداللہ خاں صاحب نہایت استقلال و استقامت کے رنگ میں حکم رہے اور جلسہ کو جاری رکھا.بعد میں جب یہ فسادات بڑھ گئے تو آپ ہر رنگ میں جماعت کی بہتری کے لئے کوشاں رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نتیجہ جماعت احمدیہ کراچی معمولی نقصان کے سوا جانی اور مالی نقصان سے محفوظ رہی.اس زمانہ کے حالات کے مطابق حضرت مصلح موعود کے نزدیک یہ امر ضروری تھا کہ جماعت احمدیہ کراچی میں ایک صدرانجمن احمد یہ قائم کی جائے.چنانچہ حضور کے ارشاد پر یہ قائم کی گئی.جس کا ایک رکن خاکسار بھی تھا.حضور کی ہدایت یہ تھی کہ تمام کارروائی محترم چوہدری عبداللہ خاں صاحب کی ہدایات پر کرنی ہے.میجر شمیم احمد صاحب سابق نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی حال مقیم کینیڈا کا بیان ہے کہ: وو ' آپ انتہائی ہر دلعزیز ، زندہ دل، مرنجاں مرنج قسم کے انسان تھے.ہر چھوٹے بڑے سے ایک جیسے ملاقات کرتے.کبھی کسی سے آپ نے گریز نہیں کیا.اور نہ ہی امتیاز برتا.آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ امیر جماعت بھی تھے اور ایک مخلص دوست بھی.یہی وجہ تھی کہ احباب جماعت آپ سے بہت نزدیک تھے.اور بے حد مانوس.ورنہ بالعموم احباب جماعت اور امیر جماعت میں ایک بعد رہتا ہے.آپ کے مزاج میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا خلوص عطا ہوا تھا کہ جو شخص آپ سے ملتا آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا.میرے دل میں ان کی بھاری قدر ان کی ( دینِ حق ) دوستی اور احمدیت سے عشق اور ہر حاجتمند کی امداد کے لئے مستعدی کی وجہ سے تھی.ایک دفعہ آپ کے گاؤں کے ایک دھوبی نے کراچی آکر اپنا پاسپورٹ آپ کی مدد سے بنوانا چاہا.ان دنوں پاسپورٹ بنوانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا.آپ نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ فی الحال ٹھہر جاؤ.لیکن اس کا اصرار تھا کہ آپ چوہدری ہیں اور آپ کے لئے کوئی کام مشکل نہیں.آپ نے اس کے اصرار پر مجبور ہو کر فون اٹھایا اور پاسپورٹ آفیسر سے یوں گویا ہوئے کہ یہ ہمارے گاؤں کا ایک غرض مند آیا ہے جسے پاسپورٹ درکار ہے.اس کا اصرار ہے کہ آپ چوہدری ہیں.میں اسے بہت دیر سے سمجھا رہا ہوں کہ ہم چوہدری اپنے گاؤں کے ہیں ، یہاں کے نہیں.لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں.افسر مذکور بھی کوئی زندہ دل ہی تھا.فوراً بول اٹھا.اسے کہہ دیں آپ یہاں بھی چوہدری ہیں.اس کا کام ہو
تاریخ احمدیت جائے گا.478 جلد ۲۰ آپ کا کام کرانے کا طریق نرالا تھا.ہر ضرورت مند کی ضرورت پورا کرنے اور اس کی اعانت کرنے میں پیش پیش رہتے تھے.آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا.آپ میل ملاقات میں بہت خلیق اور متواضع انسان تھے.بجے اس کی باتوں میں گلوں کی خوشبو وو آپ کی مہربانیاں اور الطاف کریمانہ کسی خاص دوست یا حلقہ تک محدود نہ تھیں.آپ کا باران کرم ہر جگہ یکساں برستا تھا.تمام افرادِ جماعت کے معاملے میں آپ گہری دلچسپی لیتے تھے اور ان کی نجی پریشانیوں اور مالی حالت تک کا آپ کو اندازہ رہتا.اور جس کو ضرورت مند خیال کرتے اس کی مدد ڈھکے چھپے کرتے رہتے تھے.کیوں نہ ہوتا آپ ایک مہربان دوست بھی تھے اور ایک مشفق باپ بھی.ہم عہدہ داروں کی ذرا ذرا کام کی آپ اتنی حوصلہ افزائی فرماتے تھے کہ ہم میں خود اعتمادی پیدا ہوگئی.افرادِ جماعت کا جوہر خاص‘ شناخت کرنے کا آپ میں بڑا ملکہ تھا.پھر اس جو ہر کو نکھارنے اور جلا دینے کی آپ ہر ممکن کوشش کرتے.انہیں نئے نئے مواقع فراہم کرتے اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بڑا فیاضانہ تعاون کرتے تھے.ہمارے معمولی سے کام کو آپ اس رنگ میں بیان فرماتے اور ان کو سراہتے کہ ہم خود شرمندہ ہو جاتے.آپ کی ذرہ نوازی نے ہی مجھے جیسے بیسیوں کمزور اور پر خطا عہدہ داروں کو مرکز سے روشناس کرایا.ورنہ من آنم کہ من دانم.زندگی کی تلخیوں کو خوشیوں میں بدلنا آپ کے لئے مشکل نہ تھا.آپ خود سنجیدہ رہتے تھے.لیکن دوسروں کو مسکراتا دیکھنا پسند کرتے تھے.آپ ہر محفل اور مجلس کی روح رواں تھے.افراد جماعت اور دیگر آپ سے میل ملاقات رکھنے والے آپ سے بے حد بے تکلف تھے.اٹھنے بیٹھنے میں جیسے آپ خود بے تکلف تھے دوسروں کو بھی آپ ویسا ہی بے تکلفی کا موقعہ دیتے تھے.اور ملاقات کے کسی طریق پر آپ کو اعتراض نہ ہوتا تھا.ایک دفعہ ( مشہور مزاح نگار ) مجید لاہوری مرحوم نے اپنے کسی دوست کو رقعہ دے کر بھیجا.گو اس کا کام تو ہو گیا لیکن ادھورا رہا.اس لئے وہ دوست پھر آیا اور مجید لاہوری صاحب کا یہ مزاحیہ فتویٰ لایا براہِ کرم اس کا کام تمام کر دیں.“ میرے نزدیک آپ کی کراچی جماعت کی ہی خدمات ایک ایسا لا فانی ترکہ ہے جسے اگر صحیح معنوں میں اپنایا جائے تو جماعت کراچی انشاء اللہ تعالیٰ اپنا وہ مقام جسے خلیفہ وقت کی خوشنودی حاصل ہے، قائم رکھ سکے گی.
تاریخ احمدیت 479 جلد ۲۰ آپ انتہائی پاکیزہ شخصیت کے مالک تھے.آپ کی ایک بہت بڑی خوبی آپ کی صاف گوئی تھی.آپ ہر قسم کی ظاہرداری، تصنع اور ریا سے میرا تھے.بیچ ہے کہ جن لوگوں کی پیشانی پر نور ہوتا ہے ان کی روح کو لبادے اوڑھنے کی ضرورت کبھی نہیں پڑتی.مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب ایڈووکیٹ نائب امیر جماعت احمد یہ کراچی رقمطراز ہیں:.آپ کو حضرت مصلح موعودؓ سے بے مثال عشق اور محبت تھی.آپ نے جماعت کراچی کی جس قدر اور جس انداز میں تربیت کی اس کے نتیجہ میں یہ جماعت پاکستان بھر میں اپنی خدمات میں ممتاز ہے.مجلس خدام الاحمدیہ کراچی چھ دفعہ اول قرار پائی ہے اور مجھے بھی آپ کی وجہ سے خدمات سلسلہ کی سعادت ملی.فالحمد للہ علی ذالک.آپ مرض الموت میں سیونتھ ڈے (SEVENTH DAY) ہاسپٹل میں داخل تھے.مجھے قائد کو رات آٹھ نو بجے پیغام ملا کہ محترم چوہدری صاحب کو خون دیا جانے کی ضرورت ہے.چنانچہ خاکسار نے تمام خدام کو دفتر میں جمع کر کے یہ پیغام دیا کہ:- آج ہمارے محبوب امیر کو آپ کے خون کی ضرورت ہے.اگر میرا خون اس گروپ کا ہوا جو مطلوب ہے تو سب سے پہلے میں دوں گا.ورنہ آپ نے خون دینا ہوگا.اس مختصر سی اپیل پر قریباً سوا صد خدام خون دینے کے لئے حاضر ہوئے.اس لمبی قطار کے ہر خادم کی خواہش تھی کہ مجھے یہ سعادت حاصل ہو.مسیحیوں کے اس ہسپتال کے تمام ڈاکٹر حیران تھے کہ یہ کون عظیم انسان ہے جس کو خون دینے کے لئے اتنے افراد آ گئے ہیں ہمیں تو کئی کئی دن تک اپیل کرنے پر بھی مریضوں کے لئے خون نہیں ملتا.حالانکہ ہم ہزاروں روپے بھی خرچ کرتے ہیں.لیکن یہ خدام بغیر معاوضہ کے خون دینے کے لئے پہنچے ہیں.سو حسب ضرورت خدام نے خون دیا بلکہ بعض نے دو تین دفعہ بھی دیا.خون اتنی مقدار میں جمع ہو گیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بلاوا آ گیا تب بھی ہسپتال میں اس گروپ کے خون کی کئی بوتلیں موجود تھیں.اس سے ظاہر ہے کہ آپ کو نو جوانوں سے کس قدر پیار تھا.اس کے نتیجہ میں ان نو جوانوں نے پ سے اپنی گہری محبت کا اظہار کیا.ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء جلیل القدر خدمات حضرت چوہدری صاحب کو سلسلہ احمدیہ کی عظیم الشان خدمت کے اور بہت سے مواقع میسر آئے.مثلاً 66 ا جلسہ سالانہ ۱۹۳۴ء کے موقع پر نائب افسر و پہرہ کی حیثیت سے قصر خلافت قادیان کی حفاظت اور ملاقاتوں کے وقت پہرہ دینے کی سعادت نصیب ہوئی.اس انتظام کے انچارج
تاریخ احمدیت 480 چوہدری فقیر محمد صاحب انسپکٹر پولیس میانوالی تھے.۶۲ جلد ۲۰ ۲ - ۳ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو بیت مبارک ربوہ کا حضرت مصلح موعود نے مقدس ہاتھوں سے سنگ بنیا د رکھا.اس تاریخی موقعہ پر جو امرائے جماعت احمدیہ تشریف لائے ان میں آپ بھی شامل تھے.نیز آپ کی بیگم صاحبہ کو ایک صد روپیہ چندہ نقد پیش کرنے کی توفیق ملی.۶۳ -۳- جلسه سالانه قادیان دارالامان ۱۹۵۰ء کے لئے ۲۵ / دسمبر کو رتن باغ لاہور سے جو قافلہ اومنی بس سروس کی تین بسوں کا شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ کے زیر انتظام روانہ ہوا اس کی ایک بس کے انچارج حضرت چوہدری صاحب تھے.آپ نے جلسہ سے خطاب بھی فرمایا.۶۵ ۴ - مشاورت ۱۹۵۱ء میں صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے نمائندوں کی ایک خصوصی کمیٹی تجویز ہوئی جس کا صدر حضرت مصلح موعود نے آپ کو مقرر فرمایا.۵ - ۱۰ / مارچ ۱۹۵۴ء کو حضرت مصلح موعودؓ پر حملہ ہوا.اس المناک اور دلگداز حادثہ کی تحقیقات کے لئے جو حفاظتی کمیٹی قائم کی گئی اس کے ایک ممبر آپ بھی تھے.اس سلسلہ میں آپ نے مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء میں ایک دل ہلا دینے والی تقریر فرمائی اور تحریک کی کہ حفاظتی تدابیر کے لئے پچاس ہزار سالانہ کی رقم رکھی جائے.نمائندگان نے اس تحریک کا پر جوش خیر مقدم کیا اور نہ صرف یہ کہ مطلوبہ رقم مشاورت ہی کے دوران پوری ہو گئی بلکہ وعدوں کو ملا کر ساٹھ ہزار سے بھی تجاوز کر گئی جو خلافت سے فدائیت اور وارفتگی کا ایک شاندار مظاہرہ تھا.- مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء میں صدر انجمن احمدیہ کے پنشنرز اور کارکنان کے حقوق سے متعلق سات اصحاب پر مشتمل کمیشن قائم کیا گیا جس میں آپ بھی شامل تھے.۷- اگست ستمبر ۱۹۵۶ء میں جبکہ آپ انگلستان میں تھے آپ نے احمد یہ مشن ہاؤس لنڈن میں حضرت مصلح موعود کی خلافت حقہ پر بصیرت افروز تقریر فرمائی.نیز جلسہ سیرت النبی کی صدارت کے کامیاب فرائض انجام دیئے.حضرت چوہدری صاحب تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کے مجاہدین میں سے نماز جنازه و تدفین حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور خاندان حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے ساتھ آپ کو لحد میں اتارا اور قبر تیار ہونے پر دعا کرائی اور آپ بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں سپردخاک کئے گئے.
تاریخ احمدیت 481 جلد ۲۰ حضرت چوہدری صاحب کی وفات حسرت آیات پر سلسلہ کے مرکزی اداروں اور برصغیر پاک و ہند کی جماعتوں نے تعزیتی قراردادیں پاس کیں اور جماعتی پریس نے آپ کے اخلاق و شمائل پر روشنی ڈالی.شعرائے احمدیت نے مرثیے کہے اور کثیر التعداد دوستوں اور جماعتوں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے نام تعزیتی خطوط لکھے جس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک نوٹ میں رقم فرمایا : - وو چوہدری عبداللہ خان صاحب مرحوم واقعی بڑی خوبیوں کے مالک تھے.ان کی وہ خدمات جن کی ان کو اپنی زندگی کے آخری سالوں میں کراچی کی امارت کے زمانہ میں توفیق ملی خصوصیت سے بہت نمایاں ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک عام جماعت اخلاص اور قربانی اور تنظیم میں خدا کے فضل اور توفیق سے ایک مثالی جماعت بن گئی.فجزاه الله احسن الجزاء ورفع درجاته في السماء حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے تاثرات حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب سابق صدر عالمی اسمبلی و نائب صدر عالمی عدالت ہیں) نے آپ کے وصال پر منهـم مــن قضى نحبة.میرا بھائی عبداللہ خاں“ کے عنوان سے حسب ذیل الفاظ میں اپنے تاثرات سپر د قلم فرمائے:.حلیم، متواضع ، صابر اور کم گو تھا.اس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے کسی کو ضرر نہیں پہنچا اور بہت ہیں جو ان سے فیضیاب ہوئے.پندرہ سال سے اس کا جسم مبتلائے الم تھا.پچھلے تین سال تو اس نے پیہم درد و کرب میں گزارے.آخری چھ ماہ میں قلبی حزن اور پریشانی بھی شامل حال ہو گئے.اس کا نحیف جثہ اور ان کی نا تو ان جان درد کی کن کیفیات کے مور د ر ہے اس کا دل اور اس کا رب ہی جانتے ہیں.اس تمام عرصے میں اس نے سلسلہ عالیہ کی مخلصانہ خدمت بنی نوع انسان کی گہری ہمدردی اور فرائض منصبی کی کماحقہ سرانجام دہی میں کسی قسم کی سستی یا کوتا ہی سرزد نہیں ہونے دی.نہ حرف شکایت زبان پر آنے دیا.مرحبا يا عبدالله نعم الاخ.عبداللہ خان فرمانبردار بیٹا ، اطاعت گزار بھائی ، مونس و غمخوار خاوند، شفیق اور حنون ،باپ، وفادار اور قابل اعتماد دوست تھا.اس کا سینہ اور دل نور ایمان سے معمور اور منور تھے.( دین حق ) اور سلسلہ کی بے حد غیرت رکھتا تھا.حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ
تاریخ احمدیت 482 جلد ۲۰ بنصره العزيز ( اللهم متعنا بطول حياته برحمتك كى ذاتِ اقدس کے ساتھ اسے والہانہ عشق تھا.مجھے حقیر و ناچیز پر خطا و عصیان کے ساتھ بھی اسے گہری محبت تھی.فجزاه الله احسن الجزاء وجعل الجنة العليا مثواه برحمته وهو ارحم الراحمين عبداللہ خان عاجز انسان تھا.اللہ تعالیٰ کے عفو اور غفران اور اس کی رحمت کا محتاج.اس کے تمام دکھ اور درد رب العالمین کے حضور اس کی کمزوریوں اور خطاؤں کا کفارہ ہوں.اور وہ اپنے مولیٰ اور رب سے وافر رحمت کا سلوک دیکھے.آمین یا ارحم الراحمین.میں نے اس کا پیارا چہرہ آخری بار ۱۵ / فروری کی سہ پہر کو کراچی کے مطار پر دیکھا.جب میں نے اسے لاہور کے سفر پر رخصت کیا.جب اس نے اس سفر کا ارادہ کیا تو مجھ سے کہا میں چلتا پھرتا تو نظر آتا ہوں لیکن میں اپنے اندر کوئی طاقت محسوس نہیں کرتا.چونکہ مجبوری ہے اس لئے آمادہ ہو گیا ہوں.لاہور پہنچنے کے بعد اسی رات اس کے سینے میں شدید درد اور ساتھ تپ شروع ہو گیا.چند دن کے بعد اس حالت میں کچھ افاقہ تو ہوا لیکن دراصل پھر طبیعت سنبھلی نہیں.کمزوری بڑھتی گئی اور دبے ہوئے عوارض ظاہر ہونا شروع ہو گئے.آخر این جانِ عاریت که بحافظ سپرد دوست روزے رخش بینم و تسلیم دے کنم کا عہد از لی وفا کیا.ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت لا انتہاء اور لطف بے پایاں پر تکیہ کرتے ہوئے دست بدعا ہیں کہ عبداللہ خان درگاہِ الہ العالمین سے یہ خطاب سنے.يا ايتها النفس المطمئنة ارجعى الى ربك راضية مرضية فادخلى في عبادي وادخلي جنتي میرا جسم دور تھا لیکن میری روح اس عرصے میں عبداللہ خان کے گرد بے قرار اور رب العلمین کے حضور اس کی صحت اور تندرستی کے لئے زاری میں تھی.میں جانتا ہوں کہ عبداللہ خان کی آنکھیں اپنے محبوب بھائی کے دیکھنے کو ترستی ہوں گی.لیکن میری مجبوری اور میرے دل اور میری روح کی کیفیت ضرور اس پر آشکار ہوگی.عبداللہ خان اپنے رب کے بلاوے پر لبیک اللھم لبیک کہتا ہوا اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا.العين تدمع والقلب يحزن ولكن لا نقول الا ما يرضي ربنا وانا بفراقك يا عبدالله لمحزونون.
تاریخ احمدیت 483 دل بدرد آمد زیجر اینچنیں یک رنگ دوست ایک خوشگودیم برفعل خداوند کریم اے خدا بر تربت أو بارش رحمت بیار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعيم جلد ۲۰ ( عاجز ظفر اللہ خان ) اس نوٹ کے بارہ سال بعد آپ نے اپنی معرکہ آراء تالیف ” تحدیث نعمت“ میں تحریر فرمایا کہ:- بین الاقوامی عدالت کی رکنیت کے دوران ۱۹۵۹ء میں مجھے بھائی عبداللہ خان کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا.وہ کراچی میں ایڈیشنل کلیمز کمشنر تھے.اور جماعت احمدیہ کراچی کے امیر بھی تھے.طبیعت کے حلیم، متواضع ، صابر اور کم گو تھے.ان کے ہاتھ اور ان کی زبان سے کسی کو ضر ر نہیں پہنچا اور بہت ہیں جو ان سے فیضیاب ہوئے.کئی سالوں سے ان کی صحت اچھی نہ تھی اور وفات سے پہلے تین سال تو انہوں نے پیہم درد و کرب میں گزارے.لیکن اس سارے عرصہ میں اپنے فرائض منصبی کی کماحقہ سرانجام دہی ، بنی نوع انسان کی گہری ہمدردی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مخلصانہ خدمت میں کسی قسم کی ستی یا کوتا ہی سرزد نہ ہونے دی.نہ ہی کبھی حرف شکایت زبان پر آنے دیا.عبداللہ خان فرمانبردار بیٹا ، اطاعت گزار بھائی ، مونس و غم خوار خاوند، شفیق باپ، وفادار اور قابلِ اعتماد دوست تھا.اس کا دل نورِ ایمان سے منور تھا.میرے ساتھ اسے گہری محبت تھی.میں نے اس کا پیارا چہرہ آخری مرتبہ ۱۵/فروری ۱۹۵۹ء کی سہ پہر کو کراچی کے مطار پر دیکھا جب میں نے اسے لا ہور جانے کے لئے رخصت کیا.لاہور پہنچنے کے بعد اسی رات اس کے سینے میں شدید درد اٹھا اور ساتھ ہی بخار بھی ہو گیا.کچھ دن بعد اس حالت میں کچھ افاقہ تو ہوا لیکن دراصل پھر طبیعت سنبھلی نہیں.کمزوری بڑھتی گئی اور دبے ہوئے عوارض ظاہر ہونا شروع ہو گئے.آخر این جانِ عاریت که به حافظ سپرد دوست روزے رخش به بینم و تسلیم دے کنم وے کا ازلی عہد وفا کیا.اس کی وفات کے وقت میں ہیگ میں تھا.میرا
تاریخ احمدیت اولاد 484 جسم دور تھا لیکن میری روح اس کے گرد بے قرار رب العالمین کے حضور اس کی صحت یابی کے لئے زاری میں تھی.عبداللہ خان اپنے رب کے بلا وے پر لبیک کہتا ہوا اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا اور ہم بھی اپنے اپنے وقت پر وہیں جانے والے ہیں اور وہاں پھر جدائی نہ ہوگی." ا چوہدری محمد نصر اللہ خاں صاحب.امیر جماعت احمد یہ عمان - ۲ - چوہدری حمید نصر اللہ خاں صاحب.امیر جماعت احمد یہ لاہور ۳ - چوہدری اور میں نصر اللہ خاں صاحب ایڈووکیٹ لاہور رکن افتاء کمیٹی -۳- راجہ فضل داد صاحب رئیس ڈلوال ضلع چکوال ( وفات ۲۹ ستمبر ۱۹۵۹ء) جلد ۲۰ ۷۵ بستی ڈلوال کے پہلے احمدیت بزرگ تھے.حضرت راجہ علی محمد صاحب (رفیق مسیح موعود ) کے ذریعہ احمدیت کی دولت نصیب ہوئی.آپ کے بیٹے محترم پروفیسر راجا نصر اللہ خاں صاحب پرنسپل ہیون سکول ربوہ تحریر فرماتے ہیں :- ڈلوال کا قریبی گاؤں دوالمیال حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے ہی احمدیت کی برکت اور جماعت کی تعداد کے لحاظ سے علاقہ بھر میں خاص اہمیت اور شہرت رکھتا ہے.پہلے احمدی جرنیل ملک نذیر احمد صاحب کا تعلق دوالمیال ہی سے تھا اور ڈلوال کے پہلے احمدی خاکسار کے والد محترم راجہ فضل داد خان رئیس ڈلوال تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ان کے قبول احمدیت کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود کا یہ پیارا مصرع صادق آتا ہے :- ھے جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار والد محترم نے خود خاکسار کو سنایا کہ جب وہ ڈلوال مشن سکول میں پڑھتے تھے تو اس وقت دوالمیال کے کچھ احمدی طلباء بھی اس سکول میں زیر تعلیم تھے.والد صاحب بتاتے تھے کہ انہوں نے ان طلباء کو درمشین کی وہ
تاریخ احمدیت 485 خوبصورت نظم خوش الحانی سے پڑھتے ہوئے کئی بار سنا جس کا پہلا شعر یہ ہے.کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو والد محترم بتاتے تھے کہ جب وہ یہ دلآویز الفاظ مترنم آواز میں سنتے تھے ان کے قلب و ذہن پر خاص اثر ہوتا تھا.اور یہی حق کی پہلی آواز تھی جو ان کے کان میں پڑی اور دل میں اترتی چلی گئی.پر ڈلوال اور اس کے اردگرد کا علاقہ فوجی خطے کے طور پر مشہور تھا اور ہمارے دا دا راجہ پناہ خان صاحب، حضرت علی محمد صاحب رفیق حضرت مسیح موعود بیعت ۱۹۰۵ء) سلسلہ عالیہ کے ایک معروف بزرگ اور متدین و پروقار شخصیت تھے ان کا آبائی گاؤں چوآسیدن شاہ سے مشرق کی طرف کچھ فاصلہ اقع تھا اور کوٹ راجگان کہلاتا تھا.جماعت احمد یہ لاہور کے ایک مخلص خادم سلسلہ مکرم راجہ غالب احمد صاحب حضرت راجہ علی محمد صاحب کے فرزند ہیں.جب میرے والد صاحب راجہ فضل داد خان نے کچھ عرصہ کے لئے لاہور وغیرہ میں ملازمت کی تو راجہ علی محمد صاحب، جو افسر مال کے عہدے پر تعینات تھے ، کی نیک صحبت اور گفتگو کا والد صاحب پر بہت اچھا اثر پڑا.اسی طرح خوش قسمتی سے والد صاحب کی ملاقات لاہور ہی میں خان بشیر احمد خان صاحب سے ہوئی جو کپورتھلہ جیسی خوش قسمت جماعت کے معروف بزرگ حضرت منشی محمد خان صاحب کے منجھلے صاحبزادے تھے.والد صاحب کے قبول احمدیت کے بعد ان کی شادی خان بشیر احمد خان صاحب کی دوسری بیٹی محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ سے ہو گئی.اس طرح حضرت منشی محمد خان صاحب ہماری والدہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ کے سگے دادا اور ہم بہن بھائیوں کے پڑنا نا ہوئے.والد صاحب کی شادی کے بعد ڈلوال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلا احمدی گھرانہ قائم ہو گیا اور والد صاحب کا دوالمیال جماعت کے ساتھ ملنا جلنا بہت بڑھ گیا.الحمد للہ ہمارے والد صاحب محترم راجہ فضل داد خان بیعت کے بعد بفضلہ تعالیٰ ہمیشہ ثابت قدم رہے.اس زمانہ میں وہ ڈلوال میں اکیلے احمدی تھے لیکن ان جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 486 جلد ۲۰ کے اعلیٰ اخلاق اور کردار کی وجہ سے پورا علاقہ ان کا احترام کرتا تھا.ہمارے دادا راجہ پناہ خان صاحب بس لکھے پڑھے آدمی تھے.اگر چہ انہیں احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی لیکن انہوں نے والد صاحب کی کبھی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی احمدیت کے متعلق کبھی منفی رد عمل ظاہر کیا جیسا کہ اس علاقہ کے عام لوگوں کا دستور تھا.......احمدیت کی برکت سے والد محترم بہت پابندی اور خشوع و خضوع سے نمازیں ادا کرتے تھے.رمضان میں باقاعدہ روزے رکھتے اور ہر سال اپنے پڑوس میں رہائش رکھنے والے ایک مسکین اور ضعیف بزرگ بابا دوست محمد صاحب کو باقاعدگی سے دو وقت کا کھانا یعنی سحری اور افطاری خود ان کے گھر پہنچاتے.یہ ڈیوٹی اپنے کسی بیٹے یا ملازم کے سپرد نہ کرتے.آپ ڈلوال کے حاجت مندوں اور بیماروں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہوا ہے کہ الہی افضال اور نعمتوں کا اثر انسان کی اپنی شخصیت پر بھی نظر آنا چاہئے.آپ اپنے اہل وعیال کی جائز ضروریات و اخراجات کا مناسب خیال رکھتے تھے.آپ خود بہت وضع دار شخصیت کے مالک تھے.آپ کا لباس صاف ستھرا اور بے شکن ہوتا.آپ عام طور پر شلوار قمیص استعمال کرتے تھے اور اوپر کوٹ پہنتے تھے.سر پر کلہ اور طرہ والی پگڑی ہوتی تھی اور ہاتھ میں بید کی چھڑی..ان میں والد صاحب کا نام بھی شامل تھا.یہ وہ زمانہ تھا جب ہم سب بہن بھائی تقریباً سکول جانے کی عمر کے تھے.ہمارے والد صاحب اپنی مالی قربانیوں کا ہمارے ساتھ ذکر نہیں کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کی جملہ مالی نیکیاں اور جماعتی خدمتیں قبول فرمائے.آمین خاکسار نے جب ۱۹۸۵ء میں بیرون ملک سے مستقل طور پر پاکستان واپس آکر ربوہ میں سکونت اختیار کر لی تو کچھ عرصہ کے بعد خیال آیا کہ جماعت کی جانب سے مناظرہ ڈلوال میں شرکت کرنے والے دو بزرگوں حضرت مولوی محمد حسین صاحب (سبز پگڑی والے ) اور مکرم مولانا احمد علی شاہ صاحب (جو ان دنوں نائب ناظر اصلاح و ارشاد کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ) سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہتا ہے تو ان قابل احترام بزرگوں
تاریخ احمدیت 487 سے ڈلوال کے مناظرہ کے کچھ حالات بھی سننے کی سعادت حاصل کی جائے.چنانچہ خاکسار باری باری ان دونوں بزرگوں کے پاس حاضر ہوا.اور مناظرہ سے متعلق ایمان افروز واقعات سنے.محترم مولانا احمد علی شاہ صاحب نے بتایا کہ ڈلوال میں یہ مناظرہ فروری ۱۹۴۲ء میں احمدیوں اور مخالفین کے درمیان ہوا تھا.مخالف گروہ کے بڑے مناظر مولوی لال حسین اختر تھے.جماعت احمدیہ کے مناظر اعلیٰ محترم مولانا محمد یار عارف تھے جو علم وفضل اور اخلاق کا عمدہ نمونہ تھے.جب خاکسار سکول کا طالب علم تھا تو ہمارے والد محترم راجہ فضل داد خان مرحوم نے ایک سے زائد مواقع پر خاکسار کو اس مناظرے کے انعقاد کی وجہ اور آغاز کی کہانی بتائی.والد محترم فرماتے تھے کہ ایک دفعہ جب وہ اپنی زمینوں کے دورے پر (ضلع سرگودھا ) گئے ہوئے تھے تو مولوی لال حسین اختر ڈلوال آکر مسجد خواجگان میں مقیم ہوئے اور لوگوں سے پوچھا کہ یہاں بھی کوئی قادیانی ہے؟ تو لوگوں نے والد صاحب کا نام لیا.جب والد صاحب زمینوں سے واپس آئے اور انہیں اس بات کا پتہ چلا تو وہ خود مسجد خواجگان میں پہنچ گئے.ابتدائی گفتگو کے بعد مولوی لال حسین اختر سے مناظرہ کی بات چل پڑی اور والد صاحب نے مرکز قادیان میں ساری اطلاع تحریراً عرض کر دی اور اس طرح مقررہ تاریخ تک ہمارے تینوں فاضل مناظر جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے، تشریف لے آئے اور اس طرح ڈلوال کی جامع مسجد (مسجد خواجگان) میں یہ تاریخی مناظرہ ہوا.اور علاقہ بھر کے لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے والد صاحب اور آپ کے اہل خانہ اور خادمان کو ان دنوں میں بہت خدمت کا موقع ملا.اردگرد کے احمدی احباب پورے ایمانی جذبہ اور ذوق و شوق سے یہ مناظرہ سننے کے لئے ڈلوال آئے.ان سب احباب کے کھانے کا مکمل بندوبست ہمارے والد محترم اپنے وسیع و عریض گھر پر کرتے.یہ حویلی نما گھر جو دو منزلوں پر مشتمل ہے آج بھی موجود ہے اوپر والی منزل گھر والوں کا رہائشی حصہ تھا اور نچلی والی منزل پر آرام دہ مہمان خانہ اور وسیع صحن موجود تھا.بہت سے احباب شام کو واپس اپنے گھروں میں چلے جاتے تھے لیکن کچھ دور دراز جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 488 کے دوست رات کو بھی ہمارے گھر میں ہی قیام فرماتے تھے.اس مناظرے کا مختصر سا ذکر تاریخ احمدیت میں بھی محفوظ ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کرنے والوں کی کایا ہی پلٹ جاتی ہے اور ان کے دین و دنیا نکھر اور سنور جاتے ہیں.ہمارے والد محترم فرماتے تھے کہ ہم جب کبھی ٹرین یا بس میں سفر کر رہے ہوتے تھے تو ہم اعلیٰ اخلاق اور اطوار کی بنا پر پہچان لیتے تھے کہ اس ڈبے یا بس میں فلاں دوست بھی احمدی ہیں اور پھر بڑے تپاک اور اخلاص سے ایک دوسرے کو ملتے اور باتیں کرتے تھے.یہاں پر خاکسار کو یہ خوبصورت مصرع یاد آ رہا ہے: ع که قدرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی جیسا کہ پہلے تحریر کیا گیا ہے ڈلوال میں کچھ ہند و گھرانے بھی سکونت پذیر تھے جو نقل آبادی کے موقع پر ڈلوال چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے.اس فساد کے زمانہ میں اس عبوری دور میں دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں انتظامیہ کی عدم موجودگی کے باعث ڈلوال کے کئی لوگوں نے ہندوؤں کی متروکہ املاک پر قبضہ کر لیا.ہمارے والد صاحب کے ایک قریبی رشتہ دار نے اپنے پڑوس میں واقع ایک ہندو کی زمین اپنے گھر کے ساتھ ملا لی.کچھ عرصہ کے بعد جب علاقے کے حکام امن و امان قائم کرنے اور ناجائز قبضہ کی تحقیق کرنے ڈلوال پہنچے تو انہوں نے ہمارے والد صاحب کے ان قریبی رشتہ دار کے بیان کی سچائی کو پر کھنے کے لئے کہا کہ ڈلوال کی قابل اعتماد اور تعلیم یافتہ شخصیت راجہ فضل داد خان جو گواہی دیں گے ہم اسے درست تسلیم کر لیں گے اور اس کے مطابق فیصلہ صادر کریں گے.اس پر والد صاحب نے صاف صاف اور برملا بیان کیا کہ یہ زمین ہندوؤں کی ہے.جو ان کے عزیز نے اپنے قبضے میں لے لی ہے چنانچہ سرکاری فیصلہ ان صاحب کے خلاف گیا.بعد میں والد صاحب کے وہ عزیز اور ان کے اہل خانہ ایک لمبے عرصہ تک اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے رہے کہ والد صاحب نے اپنے قریبی رشتہ دار کے خلاف بیان دے کر انہیں نقصان اور ندامت سے دوچار کیا ہے.اس پر ہمارے والد محترم یہی فرماتے تھے جو حق بات تھی میں نے وہی کہی ہے.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 489 جلد ۲۰ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جرات اور حق گوئی سب احمدیت کی برکت اور تقویٰ کا ثمرہ تھا.56 -۴ مجاہد سنگا پور و بور نیومولانا غلام حسین صاحب ایاز ( وفات ۱۷، ۱۸ / اکتوبر ۱۹۵۹ء بمقام لابورن شمالی بور نیو ) تحریک جدید کے ابتدائی مجاہدین میں سے تھے.۶ رمئی ۱۹۳۵ء کو پہلی بار قادیان سے سنگا پور تشریف لے گئے جہاں مسلسل ۱۶ سال تک شدید مخالفت کے باوجود پیغام احمدیت پہنچانے میں دیوانہ وار مصروف رہے اور ایک مخلص جماعت قائم کر دی.۲۴ /اکتوبر ۱۹۵۰ء کو واپس ربوہ تشریف لائے اور قریباً چھ سال تک پاکستان میں مختلف دینی خدمات بجا لانے کے بعد ۱/۸ کتوبر ۱۹۵۶ء کو دوبارہ سنگا پور بھجوائے گئے.ازاں بعد بور نیو میں متعین ہوئے اور میدانِ جہاد میں ہی انتقال کیا.مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مدیر ” الفرقان“ نے آپ کے وصال پر حسب ذیل نوٹ سپر د قلم فرمایا :- دو گزشتہ ماہ علاقہ بورنیو میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے ہوئے ہمارے جواں ہمت اور سراپا اخلاص و ایثار و بے نفس جناب مولانا غلام حسین صاحب ایاز فاضل نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی اور اپنے رب کی آواز پر خندہ پیشانی سے لبیک کہتے ہوئے اس دار فانی سے رحلت فرما گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ نے پوری جوانی پورے جوش کے ساتھ دین کی خدمت میں صرف کی ہے اور اس کا بیشتر حصہ ہندوستان و پاکستان سے باہر کے علاقوں میں اعلائے کلمہ حق میں گزارا ہے.آپ کی روحانی تاثیرات کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کے ذریعہ سے متعدد مخلص جماعتیں سنگا پور اور بور نیو وغیرہ علاقوں میں پیدا ہوئیں.مولانا مرحوم ان شب بیدار مجاہدین میں سے ایک تھے جو یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تمام قدرتیں حاصل ہیں اور وہ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے اس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور درحقیقت ایسے لوگوں کی مساعی کے بارآور ہونے کا بڑا ذریعہ ان کی یہی پر سوز دعائیں ہوتی ہیں.
تاریخ احمدیت 490 مولانا غلام حسین صاحب کو میں ان کے زمانہ طالب علمی سے اچھی طرح جانتا ہوں.بہت بے نفس اور متواضع عالم تھے.انہیں بڑی تڑپ تھی کہ مجھے زیادہ سے زیادہ خدمت دین کا موقعہ ملے.آخری مرتبہ دینی سفر پر جانے سے پہلے اپنی بڑی بچی کا رخصتانہ کر گئے تھے جن کا نکاح مکرم عبد اللطیف صاحب ستکو ہی لاہور سے ہوا تھا.ان کی اہلیہ محترمہ اور دو بچے اس سفر میں ان کے ہمراہ تھے.یقیناً ان کی دور دراز علاقہ میں اس طرح وفات سخت صدمہ کا موجب ہے اور ایسے جاں نثار مجاہد کا اس طرح داغ مفارقت دے جانا بہت ہی رنجیدہ حادثہ مگر جہاں تک حضرت مولوی غلام حسین صاحب ایاز کی ذات کا سوال ہے وہ یقیناً اپنے مقصد کو پا گئے اور نہایت کامیابی سے اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے ہیں.غریب الوطنی کی موت جو محض خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے تھی حدیث نبوی کے مطابق قطعی طور پر شہیدوں کی موت ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے مرحوم مجاہد بھائی کے جنت الفردوس میں درجات بلند فرمائے اور اس کے جملہ متعلقین بالخصوص ان کے بوڑھے والد بزرگوار جناب ملک غلام قادر صاحب اور مجاہد بھائی مولوی غلام احمد صاحب فرخ ، ان کے صدمہ رسیدہ بچوں اور ان کی دردمند اہلیہ محترمہ کو اللہ تعالیٰ صبر جمیل کی توفیق بخشے اور جماعت میں ایسے مجاہدین کے نقش قدم پر چلنے والے نو جوانوں کی فراوانی فرمائے.آمین ثم آمین.LA مولانا غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ احمدیہ نے تحریر فرمایا: - د محترم اخویم غلام حسین صاحب ایاز ہم پانچ بہن بھائیوں اور تین بہنوں میں بڑے تھے.آپ کی ولادت ۱۹۰۲ء میں ہوئی.ہمارے والد صاحب بزرگوار کو ۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا.اس طرح ایاز صاحب مرحوم کی ولادت احمدیت میں اور حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہوئی.آپ نے ابتدائی تعلیم موضع فیض اللہ چک میں حاصل کی جو ہمارے گاؤں سکنہ تھہ غلام نبی سے دومیل کے فاصلہ پر واقع ہے.پرائمری کی تعلیم کے بعد آپ مدرسہ احمد یہ قادیان میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل ہوئے اور پنجاب جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 491 یو نیورسٹی سے مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی اور پھر خدمت دین کے لئے اپنی زندگی وقف کردی..اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ان کو نہایت ہی کامیاب مبلغ بنایا اور.احمد بیت کی تاریخ میں آپ نے قربانیوں کے ایسے شاندار نقوش چھوڑے کہ ایاز مرحوم کا نحیف و نا تواں جسم گو آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے مگر ان کی قربانیوں اور تبلیغی کارناموں کی یاد ہمیشہ دلوں کو گرماتی رہے گی.“ جنگ عظیم دوئم میں جب ملایا اور سنگا پور پر جاپانیوں نے قبضہ کرلیا تو انگریز فوجوں کو جن میں کثرت سے ہندوستانی تھے قید کر دیا گیا.ان میں سکھ ، ہندو، عیسائی، احمدی اور غیر احمدی سبھی تھے.اس زمانہ میں آپ.نے ہمدردی جانفشانی ، حسنِ سلوک اور خدمت خلق کا نہایت ہی اعلیٰ نمونہ پیش کیا.آپ اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر ان مصیبت زدہ قیدیوں کو خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کیمپوں میں پہنچاتے تھے.مجھے متعدد غیر از جماعت دوست ملے ہیں.جن پر آپ کے اس حسنِ سلوک کا نہایت گہرا اثر تھا.آپ ان مشکلات اور مخالفتوں کے ایام کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ :- اس زمانہ میں بڑی رقت اور گداز سے دعائیں کرتا تھا.اور اللہ تعالیٰ کا مجھ سے یہ سلوک تھا کہ اکثر دفعہ بذریعہ کشف اور الہام دعا کی قبولیت اور آئندہ کامیابی کے متعلق مجھے بشارات مل جاتی تھیں اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی توجہ کی برکت تھی.“ مہمان نوازی کا وصف بھی آپ کی طبیعت میں نمایاں حیثیت میں پایا جاتا تھا.مہمان کے آنے پر آپ کا دل انبساط اور بشاشت سے بھر جاتا تھا اور مقدور بھر اس کو خوش رکھتے اور اس کے جذبات کا خیال رکھتے تھے.اسی وجہ سے آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور سادگی کے ساتھ دلی خلوص کے امتزاج سے مہمان نوازی کی شان دوبالا ہو جاتی تھی.رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی کا آپ میں خاص جذبہ تھا.ان کی خدمت کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے تھے.اگر رشتہ دار ناراض بھی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 492 جلد ۲۰ ہو جائیں تو بہت جلد ان کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرتے اور سچے ہوتے ہوئے جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرتے تھے.ہمسایوں اور دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کی بھی یہی کیفیت تھی.ان کے حالات کی باقاعدہ خبر رکھتے.بیماروں کی تیمار داری اور ان کے علاج کے لئے ہر ممکن طریق سے مدد کرنا ان کا معمول تھا.خود بھوکے رہنا برداشت کر لیتے مگر دوسرے کی بھوک برداشت نہیں کر سکتے تھے.یہ جملہ اخلاق و اوصاف اللہ تعالیٰ نے آپ میں ودیعت کئے تھے.لیکن آپ کو سب سے زیادہ شغف محبت اور عشق دین کی تبلیغ سے تھا.جب تبلیغی اور تربیتی کام میں مشغول ہوتے تو آپ کو کھانا بھی بھول جاتا اور سونا اور آرام کرنا بھی.اور جب آپ کو اس بارے میں کہا جاتا تو مسکرا پڑتے اور فرماتے کہ :- کھانا تو پھر بھی کھایا جاسکتا ہے.مگر تبلیغ کا موقعہ معلوم 66 Λ نہیں پھر میسر آئے یا نہ آئے.جناب عبدالرحمن صاحب شاکر ( سابق کارکن نظارت اصلاح وارشادر بوہ ) کا بیان ہے خاکسار کے ایک ہم زلف حکیم محمد نذیر صاحب احمدی موضع منگریل ڈاکخانہ صابو وال ضلع شاہ پور...جنگ عظیم ثانی میں.انگریزی فوج کے محکمہ سپلائی میں بھرتی ہوکر بر ما سنگا پور اور جاوا تک گئے تھے.۴۶ - ۱۹۴۵ء میں وہ تقریباً گیارہ ماہ سنگا پور میں مقیم رہے.وہاں مکرم محترم مولوی غلام حسین صاحب ایاز مرحوم کے ہمراہ اکثر نشست و برخاست رہی..مکرم حکیم محمد نذیر صاحب نے ۱۹۴۵ء میں راقم الحروف عبدالرحمن شاکر ) کو سنگا پور سے لکھا کہ اگر سنگا پور میں کوئی احمدی مبلغ ہوں تو ان کا ایڈریس بھجواؤ.میں نے ان کو مولوی غلام حسین صاحب کا پتہ دے دیا.حکیم صاحب اپنی فوج کے ہمراہ کرنجی کیمپ میں جو سنگا پور سے گیارہ میل دور تھا مقیم تھے.میرا خط لے کر نمبر 1 اون روڈ پہنچے.مولوی صاحب کو میرا
تاریخ احمدیت 493 تعارفی خط دیا.وہ ان سے مل کر بے حد خوش ہوئے اور بہت گرم جوشی سے باتیں ہوئیں.تقریباً دو گھنٹے کے بعد رخصت ہو کر واپس چلے آئے.حکیم صاحب نے واپس کیمپ میں آکر دیگر احمدی دوستوں کو بھی مولوی صاحب سے ملاقات کا ذکر سنایا.تمام دوست خوش ہوئے.اگلے جمعہ کو بہت سے دوست جمعہ پڑھنے کے لئے مشن ہاؤس پہنچ گئے.مولوی غلام حسین صاحب اس دن بے حد مسرور تھے.جاپانی قبضہ سنگا پور کے بعد پہلی مرتبہ احمدیوں سے ملاقات ہوئی.اور ان میں سے بعض خاص قادیان کے باشندے تھے.پھر کیا تھا ہر جمعہ اور اتوار کو مشن ہاؤس میں اجتماع ہونے لگا.پچاس ساٹھ کے قریب احمدی جن میں افسر اور ماتحت کبھی ہوتے تھے آیا کرتے.باجماعت نماز ادا ہوتی.مولوی صاحب کی ایمان افزاء تقریریں، نهایت درجه سبق آموز گزشتہ واقعات بے حد لطف دیتے تھے.سنگا پور پر جاپانی قبضہ سے پہلے مولوی صاحب موصوف خود کپڑے کی پھیری لگایا کرتے تھے جس سے وہ کافی کچھ کما لیا کرتے تھے اور جدھر نکل جاتے ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرتے اس کے علاوہ انہوں نے ایک موٹر بوٹ خریدی ہوئی تھی جو مختلف مقامات کے درمیان لوگوں کا سامان تجارت لے جاتی تھی.اس پر ایک آدمی ملازم رکھا ہوا تھا.اس کی بھی آمدنی ہوتی تھی.تیسرے موٹر لاری بھی خرید لی ہوئی تھی.وہ بھی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ تھا.چوتھے مولوی صاحب گا ہے گا ہے سیالکوٹ سے کھیلوں کا سامان منگوا کر فروخت کر لیا کرتے تھے.مگر جاپانی قبضہ کے بعد یہ تمام ذرائع آمدنی مسدود و گئے.اوپر سے بوجہ جنگ ڈاک کا سلسلہ قطعی طور پر بند تھا.مولوی صاحب کو مرکز سے کسی قسم کی کوئی امداد نہیں پہنچ سکتی تھی.غرضیکہ سخت ابتلاء کے دن تھے اور نہایت تنگی سے گزر اوقات کرتے تھے.ہو پھر مولوی صاحب اکیلے ہوتے تو ایک بات بھی تھی.انہوں نے دو چینی خاندانوں کو جن کے کمانے والے افراد مر گئے تھے محض خوفِ خدا کر کے اپنے مکان میں پناہ دے رکھی تھی.اور ان کے ہرقسم کے اخراجات کے کفیل تھے.ان دنوں بوجہ فوجی حکومت ہونے کے تمام انتظامات درہم برہم تھے.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 494 جلد ۲۰ ضروریات زندگی تو کجا معمولی سادہ کھانا بھی مشکل سے میسر آتا تھا.مگر مولوی صاحب ان دونوں خاندانوں کو تسلی دیتے رہتے اور کہا کرتے تھے کہ تم منہ میں کچھ ڈالو گے تو تب خود کھاؤں گا.کمال دلسوزی سے ان کی ضروریات پوری کرتے.انہی ایام میں بعض اوقات مولوی صاحب پر ایسے آئے کہ سرس کی قسم کے ایک درخت کے پتے ابال کر کھایا کرتے تھے.“ آخر کار چار سال متواتر غیر متوازن غذا کھانے اور سختیاں جھیل جھیل کر مولوی صاحب کی صحت بالکل تباہ ہوگئی اور مرض بیری بیری (BERRY BERRY) ہو گیا اور جسم محض ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا.انہی ابتدائی ایام میں مولوی صاحب نے حکیم محمد نذیر صاحب سے کہیں ذکر کر دیا کہ ان کے ذمہ ایک معقول رقم قرض ہو چکی ہے جس کے اتارنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.تو حکیم صاحب نے جھٹ اپنی گرہ سے ۳۰۰ ڈالر سنگا پوری ایک ڈالر سنگا پوری = ڈیڑھ روپیہ ) مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا اور کیمپ میں آکر دوسرے احمدی دوستوں سے بھی ذکر کر دیا اور ان سب کو غیرت دلائی کہ ہمارا مبلغ سخت پریشانی میں ہے کیوں نہ ہم سب مل کر اس کی امداد کریں؟ چنانچہ تمام دوستوں نے اپنی ہمت سے بڑھ چڑھ کر ایک معقول رقم جمع کی اور چپکے سے مولوی صاحب کے حوالے کر دی جس سے نہ صرف مشن کا تمام قرضہ اتر گیا بلکہ مولوی صاحب کی صحت پر بھی بہت اچھا اثر پڑا.کیپٹین ڈاکٹر حافظ بدرالدین صاحب ( حال بورنیو ) اور کیپٹن ڈاکٹر عمرالدین صاحب ( حال راولپنڈی) نے علاج معالجہ بھی شروع کیا جس سے صحت بہتر ہو گئی اور مولوی صاحب و چوبند ہو گئے.پھر تو سب احمدی دوستوں کا معمول ہو گیا کہ جو بھی مولوی صاحب سے ملاقات کے لئے جاتا کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور لے کر جاتا.کوئی پھل لئے جا رہا ہے کوئی کپڑے، کوئی ڈبہ میں بند فروٹ.حکیم محمد نذیر صاحب نے تو معمول ہی بنالیا تھا کہ اپنی ڈیوٹی سے فارغ اوقات میں مشن ہاؤس میں حاضری دیتے.مولوی غلام حسین صاحب نے سخت تکالیف برداشت کیں.فاقے بسر کئے.مگر بنگ میں جو رقم ( ڈھائی ہزار ڈالر ) جمع کرائی ہوئی تھی اسے ہاتھ نہ لگایا کیونکہ وہ جماعتی چندوں کی رقم تھی.اور بوجہ سلسلہ مواصلات بند ہونے کے مرکز میں نہ بھجوا سکے تھے.بعد میں راستے کھلنے پر انہوں نے وہ رقم قادیان بھجوا دی.سبحان اللہ کیا قربانی ہے.حکیم صاحب نے اپنی پہلی ملاقات کے بعد مولوی صاحب کو اپنے کیمپ میں دعوت طعام چاق
تاریخ احمدیت 495 جلد ۲۰ دی.وہاں گندم کی روٹی دیکھ کر مولوی صاحب نے فرمایا کہ آج چار سال کے بعد گندم کی روٹی میسر آئی ہے ورنہ جاپانی قبضہ میں تو چاول بھی بمشکل نظر آیا کرتے تھے.گندم کا تو ذکر ہی کیا.مولوی صاحب نے اپنے دفتر میں ایک ملائی احمدی سکول ماسٹر کو کچھ اجرت پر رکھا ہوا تھا.جو اپنے فارغ اوقات میں انگریزی اور عربی خطوط ٹائپ کر دیا کرتا تھا اور سائیکلو سٹائل مشین پر تبلیغی ہینڈ بل بھی طبع کر دیا کرتا تھا.جو مولوی صاحب تقسیم کیا کرتے تھے.انہی دنوں ایک ڈچ ڈاکٹر بھی وہاں آیا تھا.یہ شخص غیر مبائع تھا مگر مولوی صاحب سے دو ہفتے تک گفتگو کر کے مبائع ہو گیا تھا.بڑا نیک بخت ، تہجد گزار اور شریف انسان تھا.اب یاد نہیں رہا.مولوی صاحب کی زندگی ہر لحاظ سے بڑی سادہ تھی.لباس بھی سادہ تھا.تکلف نام کو بھی نہ تھا.رات بیت الذکر کے فرش پر ہی سو رہتے تھے.اپنے وعظ ونصیحت میں زیادہ تر اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے پر زور دیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اپنے اعمال سے ( دین حق ) کی سچائی کا ثبوت دو.اور جو کہتے ہو اس کے مطابق عمل بھی کر کے دکھاؤ.آپ نے ملائی زبان میں سلسلہ کی بعض کتب کے تراجم بھی کئے تھے.ملائی زبان پر خوب عبور حاصل تھا.ڈاکٹر بدرالدین صاحب نے جب قرآن مجید حفظ کیا تو آخری پارے مولوی صاحب ان سے روزانہ سنا کرتے تھے کہ اچھی طرح حفظ ہو گئے ہیں کہ نہیں؟ آخر جولائی ۱۹۴۶ء میں حکیم محمد نذیر صاحب رخصت پر ہندوستان آئے.مولوی صاحب سے ملاقات کے لئے گئے تو مولوی صاحب کہنے لگے محمد نذیر ! دل میرا بھی بہت چاہتا ہے کہ وطن جاؤں مگر جب تک حضرت صاحب کی اجازت نہ آجائے کیونکر جا سکتا ہوں.پھر فرمانے لگے کہ تم جو جا رہے ہو حضرت صاحب سے ملاقات کرنا اور میرے تمام حالات عرض کر دینا.تم اپنی طرف سے اشارہ و کنایہ کچھ کہہ سکو تو کہہ دینا مگر میری طرف سے ہر گز نہ کہنا کہ واپس آنے کو دل چاہتا ہے.‘‘ اس کے بعد حکیم صاحب کو حضرت صاحب کے حضور عرض کرنے کے لئے مختصر نوٹ لکھوائے کہ ان کو سامنے رکھ کر تفصیل سے عرض کر دینا.حکیم صاحب ۲ / اگست ۱۹۴۶ء کو قادیان پہنچے.حضرت صاحب ان دنوں اپنی نو تعمیر شدہ کوٹھی واقع ڈلہوزی میں تشریف فرما تھے.حکیم صاحب نے راقم الحروف سے کہا کہ چلو ڈلہوزی چلیں.حضرت صاحب کی زیارت کر آئیں.میں نے حکیم صاحب کے چہرے پر اشتیاق کی جھلک کچھ زیادہ ہی دیکھ کر پوچھا کہ کیا کوئی خاص بات ہے مگر مجھے اس وقت کچھ نہ بتایا.یہی کہا کہ بس
تاریخ احمدیت 496 جلد ۲۰ تم میرے ساتھ ڈلہوزی چلے چلو.حضرت صاحب سے ملاقات کر آئیں گے اور سیر تو ہو ہی جائے غرضیکه ۱۴ اگست ۱۹۴۶ء کو ہم صبح ۱۰ بجے کے قریب ڈلہوزی پہنچ گئے.ظہر کے وقت حاضر ہوئے.حضور نے نماز ظہر و عصر جمع کرائی اور اندرونِ خانہ تشریف لے گئے.میں نے ایک مختصر سا رقعہ لکھ کر ایک خادمہ کے ہاتھ اندر بھجوا دیا کہ حکیم محمد نذیر صاحب سنگا پور سے آئے ہیں.ملاقات کے خواہشمند ہیں.چند منٹ عنایت فرمائے جائیں.- حضور نے حکیم صاحب کو اندر بلوا لیا اور پھر تین گھنٹے تک تفصیل سے باتیں ہوئیں.میں باہر نماز کے خیمے میں اکیلا بیٹھا ٹھٹھرتا رہا.حکیم صاحب نے بھی پیغام رسانی کا حق ادا کر دیا.اور حضور نے بھی ایک اعلیٰ درجے کے جرنیل کی طرح تمام معاملات کو اچھی طرح بھانپ لیا.جب حکیم صاحب رخصت ہونے لگے تو حضرت نے فرمایا (مفہوم) کہ ” جب غلام حسین یہاں سے روانہ ہو رہا تھا تو مجھے شبہ تھا کہ یہ شخص اپنی روزانہ روٹی بھی کما سکے گا کہ نہیں.مگر آپ نے تو بتایا ہے کہ جاپانی قبضہ سے پہلے ان کی ماہوار آمدنی تجارت سے ۳۰۰ ڈالر تھی.انہوں نے خوب کام کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے اسرار بھی عجیب ہوتے ہیں.اب جو نہی مجھے موقعہ ملے گا میں انشاء اللہ وہاں پر مزید مبلغ بھجوا ؤں گا.حکیم صاحب واپس سنگا پور پہنچے تو مولوی صاحب سے ڈلہوزی والی ملاقات کا ذکر مزے لے لے کر کیا اور مولوی صاحب کمال مسرور ہوئے.مگر اس کے بعد جلد ہی ان کی فوج کوچ کر کے جاوا چلی گئی.ΔΙ " ۵- ماسٹر نذیر احمد صاحب رحمانی ( وفات ۸/نومبر ۱۹۵۹ء) آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے پرانے اساتذہ میں سے تھے.ابتداء میں فیروز پور کے ایک سرکاری دفتر میں ملازم ہوئے لیکن ۱۹۱۸ء کے قریب ملازمت ترک کر کے خدمت دین کی نیت سے قادیان آ گئے.آپ پہلے تعلیم الاسلام مڈل سکول گھٹیالیاں میں قریباً آٹھ سال تک بعد ازاں تعلیم الاسلام ہائی سکول ( قادیان و ربوہ ) میں تمہیں سال تک مدرس رہے.اس طرح تمام عمر سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں گزار دی.
تاریخ احمدیت 497 جلد ۲۰ بہت مرنجاں مرنج، سادہ طبیعت اور علم دوست بزرگ تھے.نماز باجماعت اور دعاؤں میں خاص شغف رکھتے تھے.آپ کے شاگردوں کا سلسلہ بہت وسیع تھا.مولوی برکات احمد صاحب را جیکی ناظر امور عامہ قادیان نے آپ کی وفات پر لکھا:.خاکسار کو بھی ماسٹر صاحب مرحوم سے چھٹی ساتویں اور آٹھویں جماعت میں تو تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا.ان ایام کے واقعات سے ایک ایک کر کے دل و دماغ کے سامنے سے گزر رہے ہیں.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قدیمی اساتذہ میں سے بفضلہ تعالیٰ ہر استاد تعلیمی، تربیتی اور اخلاقی اعتبار سے ایک کامل نمونہ تھا.لیکن بعض اساتذہ کو دوسرے اساتذہ کے مقابل پر بعض خاص خصوصیات اور امتیازی پہلو حاصل ہوتے ہیں.محترم رحمانی صاحب میں یہ خاص وصف پایا جاتا تھا کہ وہ اپنے چھوٹی عمر کے شاگردوں کو کبھی آدھے نام سے نہ پکارتے تھے بلکہ اکثر نام کے ساتھ ”میاں“ وغیرہ کا لفظ بھی استعمال کرتے اور اس طرح بچوں کو عزت نفس اور اخلاق کا نہایت عمدہ سبق دیتے.خاکسار نے تقریباً تین سال تک ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا.لیکن مجھے یاد نہیں کہ اس عرصہ میں میں نے کبھی آپ کے منہ سے معمولی گالی یا سخت کلامی سنی ہو.آپ کی گفتگو نہایت ادیبانہ اور مہذب طریق پر ہوتی تھی اور دورانِ تعلیم میں آپ دلچسپ تاریخی واقعات سنایا کرتے تھے.چنانچہ نادر شاہ کے دہلی پر حملہ آور ہونے اور اس کی لال قلعہ میں مہمانی شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر، سلطان ٹیپو اور سلطان صلاح الدین ایوبی وغیرہ شاہانِ اسلام کے متعلق کئی لطائف اور واقعات سب سے پہلے ہم نے رحمانی صاحب کے منہ سے ہی سنے اور سکول کی تعلیم سے فراغت کے بعد اس قسم کے واقعات نے ہمارے اندر تاریخی مطالعہ کا ذوق پیدا کر دیا.جناب رحمانی صاحب تعلیمی کورس کے پڑھانے کے علاوہ عام معلومات پر مشتمل بہت سی باتیں بیان کرتے اور ان باتوں کو سن کر اکثر طلبہ کو کورس کے علاوہ دیگر کتب پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا رہا.آپ اپنی گفتگو میں بہت سے موزوں اشعار جن میں آپ کے والد ماجد اور خود آپ کے اپنے اشعار بھی شامل ہوتے.اپنے مخصوص لہجہ میں پڑھتے اور اس طرح طلبہ کی دلچسپی کو بڑھاتے رہے.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور دیگر افراد بیت سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کو دلی محبت اور خلوص تھا جو اکثر آپ کے کلمات سے مترشح ہوتا رہتا تھا.نظام سلسلہ کی پابندی ، خلاف منشاء بھی خندہ پیشانی سے کرتے.دوران تعلیم
تاریخ احمدیت 498 جلد ۲۰ میں ہم نے کبھی ان کی زبان سے شکوہ کا حرف نہ سنا.محترم رحمانی صاحب کے اخلاق میں مہمان نوازی بھی ایک نمایاں خلق تھا باوجود آپ کی مالی حالت کے کمزور ہونے کے ضیافت اور مہمان نوازی میں آپ خاص فرحت محسوس کرتے تھے.اور حتی الوسع مہمانوں کی خواہش کو پورا کرتے اور ان کی دلجوئی کا خاص خیال رکھتے تھے.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ماسٹر جناب سمیع اللہ صاحب کی چشم دید شہادت ہے کہ : - محترم رحمانی صاحب مرنجاں مرنج بزرگ تھے.تقویٰ اور طہارت کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھے.روحانیت میں سچ سچ انہیں بہت اونچا مقام حاصل تھا.وہ جہاں بھی رہے انہوں نے وہیں اپنی شرافت، بزرگی اور خلوص کے نشان چھوڑے.مجھ سے ان کے تعلقات میرے زمانہ طالب علمی ہی کے تھے.میں خود ہی ان کا شاگرد نہیں ہوں میرے والد صاحب بھی ان کے شاگرد ہیں اور میں نے ہمیشہ اس پر بڑا فخر محسوس کیا ہے.جن دنوں وہ ہمیں پڑھایا کرتے تھے یہ امر واقع ہے کہ لڑکے ان سے بہت انس رکھتے تھے.اس کی وجہ غالباً یہی تھی کہ سکول کی کتابوں کے علاوہ ہم نے ان سے شرافت اور دوسروں کے لئے بے پایاں ہمدردی کے اصول بھی سیکھے.اور پھر سکول ہی میں مجھے ان کے شریک کار بننے کا شرف بھی حاصل ہوا.اگر چہ یہ بہت ہی تھوڑا عرصہ تھا.۱۹۶۵ء میں وہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں اپنی طویل علالت کے بعد ریٹائر ہو گئے تھے.تاہم میں نے ہی نہیں باقی اساتذہ نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا.سارا دن پڑھانے کے بعد چھٹی کے وقت تھک کر جب سب لوگ سٹاف روم میں جمع ہوتے تو محترم رحمانی صاحب اشعار سنا کر ہماری تھکن کو دور کرتے.میں نے ہمیشہ ان کے حافظے پر رشک کیا.شعور ادب کا ایک نہایت ستھرا مذاق رکھتے تھے.جن لوگوں نے ان کے اس مذاق سے فائدہ اٹھایا ہے وہ انہیں کبھی نہیں بھول سکتے.اردو اور فارسی کے سینکڑوں ہی اشعار انہیں یاد تھے اور میں نے خود دیکھا ہے کہ مختلف تقاریر اور مقابلوں کے لئے بچوں کو انہوں نے اپنے ہاتھ سے نقار بر لکھ کر دیں اور پہروں ان کی نوک پلک سنوارنے میں اپنا وقت صرف کیا.۸۲
تاریخ احمدیت 499 ہر وقت ان کی زبان پر مسنون دعائیں جاری رہتی تھیں.شاید ہی کوئی نماز ہوگی جو انہوں نے باجماعت ادا نہ کی ہو.اکثر انہیں اندھیرے میں لالٹین ہاتھ میں پکڑے بیت الذکر کی طرف باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے جاتے دیکھا جاتا تھا.ان دنوں انہوں نے ریویو آف ریلیجنز کے لئے انگریزی میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا تھا.ایک دو تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں لیکن افسوس کہ انہیں اس خدمت کا زیادہ موقع نہ مل سکا.جب ان کی ریٹائرمنٹ پر سکول کی طرف سے انہیں الوداعی پارٹی دی گئی، طلباء اور اساتذہ کے سامنے آنسو ان کی آنکھوں سے رواں تھے اور جذبات کی شدت کی وجہ سے ان پر رقت طاری تھی.اس حالت میں بھی انہوں نے کہا تو یہی کہا کہ ” خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری زندگی سلسلہ کی خدمت ہی میں صرف ہوئی اور اس کے لئے میں سلسلہ کا ممنون ہوں.١٨٣ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت -1 -۲ الفضل ۲۱ / اپریل ۱۹۵۹ء صفحه ۸ الفضل یکم جنوری ۱۹۶۷، صفحه ۵ الفضل ۱/۸ کتوبر ۱۹۵۸ ، صفحه ۳ 500 حواشی جلد ۲۰ -^ -9 - 1+ 11- - ۱۲ الفضل ۳۰ را پریل ۱۹۵۹ء صفحہ ۸ ) آپ کی روایات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل " جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۵۷ء نیز الفضل ۱۰،۸ را کتوبر ۱۹۵۸ء) الفضل یکم جنوری ۱۹۶۰ء صفحه ۵ مطبوعه فهرست صفحه ۲۶۰ رجسٹر رفقاء مسیح موعود قا دیان الفضل ۶ رمئی ۱۹۵۹ء صفحه ۱، ۸ رجسٹر روایات ۶ صفحه ۱۴،۱۳ ( غیر مطبوعہ ) الفضل ۲۷ رمئی ۱۹۵۹ء صفحه ۵ الفضل ۱۵ رمئی ۱۹۵۹ء صفحه ۱ الفضل ۱۲ جون ۱۹۵۹ ، صفحها بدر ۶ رفروری ۱۹۰۸ء صفحه ۱۵ کالم نمبرا ۱۴ - الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۵۹ء صفحه ۴ الفضل ۸/اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحه ۶ تاریخ شہادت یکم مئی ۱۹۸۴ء بمقام سکھر -10 -17 ۱۷- فہرست مرسله قریشی مبارک احمد صاحب مربی سلسلہ کوارٹر نمبر ۳۸ تحریک جدید ربوه (۲۱ فروری ۱۹۸۵ء) الشركة الاسلامیہ رہو.تاریخ اشاعت جون ۱۹۷۵ء -۱- آپ کے والد میاں نور محمد صاحب ریاست کپورتھلہ میں دیوان مال تھے اور ان کی نیکی اور پارسائی کے باعث مہاراجہ کپورتھلہ نے انہیں قاضی کا خطاب دیا تھا اس لئے حضرت میاں عظیم اللہ صاحب بھی قاضی کے نام سے یاد کئے جاتے تھے.-19 -۲۰ - ۲۱ -۲۲ مکتوب ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ساہیوال مورخه ۱۵ رمئی ۱۹۹۳ء بنام مؤلف ) ریکارڈ دفتر بہشتی مقبره ر بوه روز نامه الفضل ۹ رمئی ۱۹۹۳ء صفحه ۳ مکتوب ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ساہیوال مورخہ ۶ جون ۱۹۹۳ء بنام مؤلف ( غیر مطبوعہ ) ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب کے مکتوب (مورخہ ۱۵ مئی ۱۹۹۳ء بنام مؤلف ) سے ماخوذ -۲۳ اولاد : - لطف الرحمن صاحب، حمید الرحمن صاحب، بشری رحمان صاحبه، ندیم الرحمن صاحب، خلیل الرحمن صاحب، رضوانہ رحمان صاحبہ، حفیظ الرحمن صاحب ، رخسانہ رحمن صاحبہ، وسیم الرحمن صاحبہ.-۲۴ مطبوعہ ضیاء الاسلام پرلیس قادیان ( مشموله مجموعه اشتہارات جلد سوم صفحه ۲۱ ۵ تا ۵۲۵) اصحاب احمد جلد سوم صفحہ ۵۰ ۵۱ طبع دوم - مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے.قادیان.دسمبر ۱۹۶۹ء مطبع لا ہور آرٹ پرلیں انار کلی لاہور ناشر احمد یہ بک ڈپور بوہ.۲۶- تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ ۱۱۸ تا ۱۲۱ میں تفصیل آچکی ہے.الفضل ۲۱ ؍ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ۱
تاریخ احمدیت -۲۸ -۲۹ -۳۰ اصحاب احمد جلد سوم طبع دوم صفحه ۴۵ تا ۴۹ ( تلخیص) ايضاً صفحه ۴۳ جامع الصغیر للسیوطی مصری جلد اصفحه ۶۰ ۱- اصحاب احمد جلد سوم طبع دوم صفحه ۵۴،۵۳ ۳۲- دیکھئے مطبوعہ فہرست صفحه ۱۷۴ ۳۳ - الفضل ۲۰ / جون ۱۹۶۰ء صفحه یم 501 جلد ۲۰ -۳۴ تفصیلی کوائف کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد سوم ( مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان طبع اول جون ۱۹۵۷، مطبع دوم دسمبر ۱۹۶۹ء ناشر احمد یہ بک ڈپور بوہ ۳۵ - الفضل ۱/۲۳ پریل ۱۹۵۹ءصفحہا.الفضل ۹ رجون ۱۹۵۹ءصفحہ ۵ ٣٦- الفضل ۲۹ ؍ جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ ۱ ۳۷ - الفضل یکم نومبر ۱۹۵۹ء صفحه ۶ - ۴۰ ۴۱ الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۶ اخبار "بدر" قادیان دارالامان ۱۲ر اگست ۱۹۰۹ء صفحه ۲ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۶ - ۴۰۷ الفضل ۱۰؍ جولائی ۱۹۲۲ءصفحہ ۶ تا ۸ -۴۲- تلخیص خود نوشت حالات خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب (مطبوعه الفضل ۱۰ اکتوبر تا ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۹ء) مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل اار جولائی ۱۹۵۹ء (رپورٹ نامہ نگار الفضل الفضل ۲۲ جولائی و ۲۴ جولائی ۱۹۵۹ء (مضمون ڈاکٹر بدرالدین صاحب مجاہد بورنیو ) ۴۳ - الفضل ١٦ الفضل ۱۶؍ جون ۱۹۵۹ ، صفحه ۵ م سم - الفضل ۱۴ رمئی ۱۹۸۹ ء صفحه ۵ ۲۵ - الفضل ۱۷ / دسمبر ۲۰۰۴ء صفحه ۶،۵ ۴۵ متن میں درج شدہ اکثر و بیشتر واقعات کا مآخذ تابعین اصحاب احمد جلد یاز دہم ہے جو ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کی تالیف ہے.کتاب کا دوسرا نہایت دلکش اور نفیس ایڈیشن ۱۹۹۱ ء میں لاہور سے عبداللہ کے پیارے نام سے شائع ہوا.۴۷.میاں عبدالرزاق صاحب سیالکوٹی اوور سیر تعمیرات فیصل آباد کے بیان کے مطابق ابتداء میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے بھی قرآن آپ سے پڑھا.(حیات فیض صفحہ ۱.مؤلفہ مولوی عبدالمالک خاں صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کراچی اشاعت دسمبر ۱۹۵۵ء) ڈاکٹر اقبال اپنی ابتدائی تعلیم کی نسبت خود بیان فرماتے ہیں کہ ” میرے والد کی بڑی خواہش تھی کہ مجھے تعلیم دلوائیں.انہوں نے اول تو مجھے محلے کی مسجد میں بٹھا دیا پھر شاہ ( سید میرحسن ) کی خدمت میں بھیج دیا.“ (اقبال کے حضور جلد اول صفحه ۹۴ بحواله زنده رود حصہ اول صفحه ۵۱ مرتبه جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب سابق حج ہائی کورٹ طبع سوم ۱۹۸۵ء ناشر غلام علی اینڈ سنز لاہور ) - ۴۸ - ۴۹ ” میری والدہ صفحه ۳۶ ۳۹.مؤلفہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ناشر النصرت پبلشرز ربوہ.اشاعت ۷ ستمبر ۱۹۷۹ء حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب رقمطراز ہیں: " سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہونے کے بعد والد صاحب نے فرمایا کہ اب تم قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کے لئے جناب مولوی فیض الدین صاحب کی خدمت میں کبوتراں والی مسجد میں حاضر ہوا کر و.مولوی صاحب موصوف بھی انہی ایام میں بیعت ہوئے تھے.وہ مجھے بڑی شفقت سے پڑھایا کرتے تھے.(تحدیث نعمت طبع دوم صفحه ۶ اشاعت دوم دسمبر ۱۹۸۲ ء.ناشر اے و دود احمد نیوسمن آباد لاہور پاکستان مطبع پاکستان پر نٹنگ ورکس ریٹی گن روڈ لا ہور.
تاریخ احمدیت ۵۰- حیات فیض ، صفحہ ۶ ، ۷ 10- 502 اصل مکتوب شعبہ تاریخ احمدیت کے خصوصی ریکارڈ میں محفوظ ہے.۵۲ الفضل ۲۸ فروری ۱۹۳۶ء صفحه ۶ -۵۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۹ء صفحه ۳۳ ۵۴ - الفضل ۲۹ رمئی ۱۹۵۵ء صفحه ۱ ۵۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۹ء صفحه ۳۳ ۵۶ الفضل ۱۴؍ جون ۱۹۵۹ء صفحه ا -02 جلد ۲۰ چوہدری محمد علی صاحب منظر سابق پر نسل تعلیم الاسلام کالج حال وکیل وقف نو کی چشم دید شہادت ہے کہ: آپ....ایک حساس اور گداز دل کے مالک تھے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ذرا سے ذکر سے آپ کا قلب صافی پکھل کر آنکھوں کے رستے بہنے لگتا تھا.ایک دفعہ ہمارے موجودہ امام و مطاع حضرت....خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاں جب آپ تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل تھے ایک دعوت تھی.مہمان اندرونی صحن میں داخل ہورہے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب اور محترم چوہدری عبداللہ خان صاحب نہایت پیار اور دوستانہ رنگ میں ایک دوسرے سے محو گفتگو تھے.عاجز بتقاضائے ادب ان کے عقب میں کھڑا تھا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے بلند آواز سے فرمایا عبداللہ خاں تمہیں اپنا وہ شعر یاد ہے اور پھر ایک شعر پڑھا جس میں عجیب والہانہ انداز میں حضرت امام جماعت خلیفہ ثانی سے محبت و عشق کا اظہار کیا گیا تھا.اس پر چوہدری صاحب نے ایک آہ کھینچی اور پکار کر کہا.یہاں.آپ نے یہ کیا ستم کیا ؟ یہ شعر کیوں یاد دلا دیا ؟ اور بے اختیار آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور وہ حضرت مرزا صاحب اور مرزا صاحب ان سے لپٹ گئے.میں ان کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ نظارہ دیکھنے پر مجبور تھا.میں تو خود اندر صحن میں چلا گیا اور شمع خلافت کے یہ دونوں پروانے بہت دیر کے بعد اندر آئے.“ ۵۸- سنگِ بنیا د حضرت چوہدری محمد عبداللہ خاں نے رکھا ( مارچ ۱۹۵۹ء ) افتتاح چوہدری احمد مختار صاحب نے اکتوبر ۱۹۶۰ء میں کیا.۵۹- سنگ بنیاد حضرت سیدنا فضل عمر کے دست مبارک سے (۲۰ فروری ۱۹۵۸ء) افتتاح بذریعہ چیف کمشنر کراچی جناب ایم این -Y.-71 -۶۲ خاں (۸/ مارچ ۱۹۵۸ء) 9 تر جهان مجلس خدام الاحمدیہ کراچی.آغاز ۱۵ جولائی ۱۹۵۱ء.پہلے ایڈیٹر یو.زیڈ تا شیر صاحب (حال ایڈیٹر رسالہ ” اپنا گھر و ماہنامہ مسرت کراچی) جناب تاثیر صاحب برصغیر پاک و ہند کے قدیم صحافی ہیں جنہیں ۹ رمئی ۱۹۴۷ء کو آل انڈیا مسلم نیوز پیپرز ایڈیٹرز کنوینشن منعقدہ دہلی میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے.آپ ان دنوں ہفت روزہ ”خادم“ (پٹیالہ ) کے مدیر تھے.اس تاریخی کنوینشن کے کنوینٹر الطاف حسین ایڈیٹر ڈان تھے.اس تقریب میں متعدد دیگر مسلم زعماء کے علاوہ بہت سے ملکی غیر ملکی صحافی بھی شریک تھے.(کتاب ” قائد اعظم اور صحافت، صفحہ ۱۱۶، ۱۶۱ مؤلفہ سید اشتیاق اظہر.ناشر ا کرم زیبائی میزان ادب فردوس کا لونی کراچی نمبر ۱۸.اشاعت اپریل ۱۹۸۶ء) کتاب ” پاکستان و ہند میں مسلم صحافت کی مختصر ترین تاریخ صفحه ۴ ۵ - ۶۱ - ( مؤلفہ ڈاکٹر مسکین علی حجازی.ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور اشاعت (۱۹۸۹ء) یه ۱۲ / اپریل ۱۹۵۳ء کا واقعہ ہے.اعلان کا متن " تاریخ احمدیت جلد ہفتم طبع اول صفحہ ۱۹۴، ۱۹۵ میں شائع شدہ ہے.الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۳۵ ، صفحه ۲ کالم۲ ۶۳ - الفضل ۸/اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحه ۵ ۶۴ - الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۵۱ء صفحه ۵ - الفضل ۷ جنوری ۱۹۵۱ء صفحه ۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء ۶۷ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء صفحه
تاریخ احمدیت 503 جلد ۲۰ -79 -21 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء صفحه ۱۰ غیر مطبوعہ مکتوب مولود احمد خاں صاحب امام بیت الفضل لنڈن بحضور مصلح موعود مورخہ ۶ رستمبر ۱۹۵۶ء ( ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ) مطبوعه فهرست صفحه ۱۶۰ سید نا حضرت مصلح موعود متعدد بار اس دور میں کراچی تشریف لے گئے.ہر موقع پر کراچی کی مخلص جماعت نے اپنے مقدس محبوب امام عالی مقام کی نہایت درجہ عقیدت کی خدمت کا اعزاز حاصل کیا اور انوار خلافت سے فیضان حاصل کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جس میں حضرت چوہدری صاحب کی عدیم المثال امارت و سیادت کا بھاری عمل دخل ہے.( تفصیل پہلی جلدوں میں گزر چکی ہے ) ۷۲ روز نامه الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۵۹ء صفحه ۳ الفضل ۲۵ / جون ۱۹۵۹ء صفحه ۳ ۷۴- تحدیث نعمت از حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب صفحہ ۶۳۶ ، ۶۳۷ طبع دوم ۶ رستمبر ۱۹۸۱ء ۷۵ - الفضل ۳ / مارچ ۲۰۰۵ ء صفحه ۱۲ الفضل ۳ / مارچ ۲۰۰۵ء صفحه ۴،۳ ۷۷ الفضل ۲۰ / اکتوبر ۱۹۵۹ ء صفحه ۱ - ۸ ( مفصل حالات تاریخ احمدیت جلد ہشتم طبع اول صفحہ ۲۰۱ تا ۲۱۲ میں آچکے ہیں.) ۷۸ - الفرقان ربوہ نومبر ۱۹۵۹ء سرورق یہ قابل تحقیق ہے کیونکہ ۱۸۹۱ء کے مبائعین کے جو اسماء بیعت اولیٰ کے تاریخی رجسٹر میں درج ہیں ان میں آپ کا نام موجود -29 نہیں ہے.- الفضل ۲۰ فروری ۱۹۶۰ ء صفحه ۵ -۸۱ رساله مصباح ربوه مئی ۱۹۶۰ء صفحه ۲۵ تا ۲۸ - الفضل ۲۶ / نومبر ۱۹۵۹ ، صفحه ۴ - ايضاً الفضل ربوه ۳۱ / مارچ ۱۹۹۰ ، صفحه ۶ (مضمون ما سٹر سمیع اللہ صاحب) الفضل ۳۱ / مارچ ۱۹۹۰ ء صفحہ ۶
تاریخ احمدیت 504 جلد ۲۰ فصل اوّل ولادت پانچواں باب ۱۹۵۹ء/ ۱۳۳۸ھ کے بعض متفرق مگر اہم واقعات خاندان مسیح موعود میں اضافہ اور تقاریب شادی ۱- صاحبزادی یاسمین صاحبہ بنت چوہدری ناصر محمد صاحب سیال (۷ فروری ۱۹۵۹ء) -۲- صاحبزادی امتہ الوکیل صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب (۱۷؍فروری ۱۹۵۹ء ) ۳ - سید صہیب احمد شاہ صاحب ابن سید داؤد مظفر شاہ صاحب (۱۰ / اگست ۱۹۵۹ء) -۴- مرزا وحید احمد صاحب ابن مرزا خورشید احمد صاحب (۲ /اکتوبر ۱۹۵۹ء) ۵- سید طاہر احمد صاحب ابن سید احمد ناصر صاحب (۳ /اکتوبر ۱۹۵۹ء) ۱ - ۲۶ فروری ۱۹۵۹ء کو صاحبزادی شاہدہ خاتون صاحبہ ( بنت حضرت تقاریب شادی نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کی تقریب رخصتا نہ عمل میں آئی.آپ کا نکاح سیدنا حضرت مصلح موعود نے صاحبزادہ مرزا نسیم احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب سے جلسہ سالانہ ۱۹۵۸ء میں پڑھا تھا.۲ - ۱۵/ نومبر ۱۹۵۹ء کو صاحبزادی امته الرؤف صاحبہ ( بنت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب) کی شادی سید مسعود احمد صاحب ( ابن حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب سے ہوئی.یہ سال بھی احمدی نوجوانوں کی کامیابیوں کا منادی بن احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں کر ظاہر ہوا.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے:.۱ - منصور محمد صاحب شرما (ابن فتح محمد صاحب شرما آف کراچی ) انگلینڈ کے ایک کالج سے الیکٹرک انجینئر کے پہلے امتحان میں ۲۰۰/ ۱۹۵ نمبر لے کر اول رہے.سوم
تاریخ احمدیت 505 جلد ۲۰ تعلیم الاسلام کالج ربوہ نے سیکنڈری بورڈ سرگودھا کے انگریزی زونل مباحثہ کی چیمپئن شپ جیت لی.محمد اجمل صاحب غوری اول اور محمود الیس صاحب چہارم رہے.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے مقررین نے اار فروری ۱۹۵۹ء کو بہاولپور کے ایس ای کالج کے آل پاکستان قائد اعظم میموریل مباحثہ انگریزی کی ٹرافی جیت لی.انگریزی میں محمد اجمل صاحب غوری اول اور عبد اللہ ابوبکر صاحب سوم رہے.اسی مباحثہ کے اردو مقابلہ میں منور احمد صاحب نے تیسری پوزیشن اور ۲۸ فروری کو اسلامیہ کالج لائکپور (فیصل آباد ) کے آل پاکستان مباحثہ میں دوسری پوزیشن حاصل کی.۴ - ۱۹ / فروری ۱۹۵۹ء کو گورنمنٹ کالج سرگودھا کے پاکستان اردو مباحثہ میں تعلیم الاسلام کالج یونین کے مقرر عبدالسمیع صاحب نے تیسری پوزیشن حاصل کی.۵- بشیر آباد سکول کے طالب علم عبد الرشید صاحب بھٹی نے تقریری مقابلہ میں پورے ڈویژن میں چوتھی پوزیشن حاصل کی.اسی طرح احمد یہ بشیر آباد فارم نے ایک ترقیاتی میلہ میں ۱۲ انعامات جیتے.۶ - احمد یہ سکول بو ( سیرالیون) نے دستکاری اور سلائی میں چار انعام حاصل کئے.نیز زراعتی نمائش میں زراعتی شیلڈ جیت لی.۷.سیرالیون کے گورنر سرمورس ڈورمن نے احمدی پیرا ماؤنٹ چیف جناب ناصرالدین صاحب کنیو ا گا مانگا کو ایم بی ای کا نشان امتیاز دیا.منصوره محموده صاحبه طالبه جامعه نصرت ربوہ ایجوکیشن بورڈ کے انگریزی مقابلہ میں ۱۲ ۱۳ دوم آئیں اور ۷۵ روپے انعام حاصل کیا.سیکنڈری بورڈ آف ایجوکیشن کے مڈل کے امتحان میں فیروزہ فائزہ صاحبہ بنت عبدالرحمن صاحب جنید ہاشمی نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ ۶۱۰ نمبر لے کر ضلع بھر میں اول رہیں.-۱۰ قریشی محمد مطیع اللہ صاحب آف سیالکوٹ کی صاحبزادی محترمہ امۃ الحفیظ صاحبہ مڈل کے امتحان میں ۶۴۶ نمبر لے کر ضلع سیالکوٹ میں اول اور بورڈ میں چہارم رہیں.۱۱.منیر احمد عطاء اللہ صاحب ابن ڈاکٹر کرنل عطاء اللہ صاحب بی ایس سی نوٹیفیکیشن کے امتحان میں ۳۶۵ نمبر لے کر پنجاب یونیورسٹی میں سوم رہے.۱۲ - مولوی محمد یعقوب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی ربوہ کی صاحبزادی صالحہ صاحبہ ایف اے کے امتحان میں بورڈ بھر کی لڑکیوں میں اول رہیں.1 14
تاریخ احمدیت 506 جلد ۲۰ ۱۳- ناصر احمد صاحب قریشی ابن محمد شمس الدین صاحب بھاگلپوری B.E الیکٹریکل (مکینیکل انجینئر نگ ) کے امتحان میں کراچی یونیورسٹی میں سوم رہے.۱۴- زینت جہاں آراء صاحبہ ( بنت ملک محمد مستقیم صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری) نے پنجاب یونیورسٹی ایم اے اکنامکس کے امتحان میں ۳۸۵ نمبر لے کر لڑکیوں میں اول اور جملہ طلبہ میں ششم پوزیشن حاصل کی.۱۵- عبد الوہاب خان صاحب وائس پرنسپل پالیٹکنک راولپنڈی (ابن عبدالمالک صاحب لاہور) نے اوکلاہوما سٹیٹ یونیورسٹی سے ایم ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری سو فیصد نمبر لے کر حاصل کی.۱۹ ۱۸ ۱۶ - زکیه ثروت صاحبہ بنت چوہدری محمد اسمعیل صاحب مگھیا نہ ضلع جھنگ ۷۲۱/۱۰۰۰ -17 نمبر لے کر یونیورسٹی کی طالبات میں اول رہیں.۱۷- ارشد محمود صاحب ( ابن قاضی محمد اسحاق صاحب بسمل آف سیالکوٹ.صدر جماعت احمد یہ رسالپور ) فرسٹ پروفیشنل بی ڈی ایس کے امتحان میں یونیورسٹی میں اول آئے.اسی امتحان میں سلیم الدین صاحب آف چنیوٹ دوم رہے.۱۸- قریشی عبدالرشید صاحب وکیل المال تحریک جدید ادیب فاضل کے امتحان میں ۲۲ ۲۱ ۳۸۱ نمبر لے کر یو نیورسٹی میں سوم رہے.۱۹ - محمد زبیر خان صاحب ( ابن محمد یعقوب خان صاحب سب انسپکٹر کو آپریٹو سوسائٹی جڑانوالہ ) نے بی ایس سی میڈیکل کے امتحان میں یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی.۲۰ - تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے ہونہار طالب علم لطف الرحمن محمود صاحب ( ابن پروفیسر - ۲۵ ۲۳ عطاء الرحمن صاحب ) آل پاکستان تحریری مقابلہ میں دوم رہے.۲۱ - مسعود احمد صاحب قریشی ابن مکرم محمد اسمعیل صاحب معتبر پنجاب یونیورسٹی کے سپلیمنٹری امتحان بی فارمیسی میں ۸۰۵ نمبر لے کر یو نیورسٹی بھر میں اول رہے.۲۲ - ڈسٹرکٹ جھنگ ٹورنامنٹ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول نے چیمپیئن شپ جیت لی.سکول کی ٹیمیں کرکٹ، فٹ بال، اتھلیٹکس کے مقابلوں میں ضلع بھر میں اول رہیں.اسی طرح اسی کالج نے باسکٹ بال زونل شپ جیت لی.کالج نے گارڈ کالج راولپنڈی سے میچ کھیل کر فٹ بال میں زونل شپ جیت لی.۲۸ ۲۳ - عبد الغفور صاحب زاہد راجپوت آف چنیوٹ ۱۰۱۷ نمبر لے کر ایم بی بی ایس کے
تاریخ احمدیت 507 جلد ۲۰ ۲۹ فائنل امتحان میں پنجاب یو نیورسٹی میں دوم رہے.۲۴.مسٹر سوگی آف ٹانگانیکا متعلم تعلیم الاسلام کالج ربوہ مرے کالج سیالکوٹ کے آل پاکستان انگریزی مباحثہ میں دوم اور محی الدین صاحب چہارم قرار پائے.۲۵ - امتہ الرشید غنی صاحبہ ربوہ بنت عبد الغنی صاحب بی اے عربی کے تمام طلباء میں اول رہیں اور مالیر کوٹلہ گولڈ میڈل کی حقدار قرار پائیں اور امتہ الحمید صاحبہ ( بنت میاں عبدالرحیم صاحب درولیش) عربی کی طالبات میں اول پوزیشن حاصل کی اور ” کے بی چوہدری محمد حسین گولڈ میڈل“ حاصل کیا.۲۶ - امۃ الرشید غنی صاحبہ نے انگریزی میں اور امتہ المجید جلیل صاحبہ نے فلاسفی میں ۳۲ امتیازی پوزیشن حاصل کرنے پر پنجاب یونیورسٹی سے وظیفہ حاصل کیا.-۲۷ - نائیجیریا کے ملکی انتخابات میں ایک مخلص احمدی سر ما بالا صاحب (YERIMABALLA) کامیاب ہو گئے..۳۳ آل انڈیا سٹوڈنٹس کا نفرنس پٹیالہ میں شمولیت پٹیالہ (بھارت) میں ۲۸ تا ۳۱ جنوری ۱۹۵۹ء کو آل انڈیا سٹوڈنٹس کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں مدرسہ احمدیہ قادیان کے نمائندہ طالب علم محمد ولی الدین صاحب نے ۲۹ /جنوری کے دوسرے اجلاس میں اپنا مضمون پڑھا.جنوبی ہند میں تبلیغی دورہ اس سال کے آغاز میں احمدی مبلغین کے ایک وفد نے جنوبی ہند کی جماعتوں کا کامیاب دورہ کیا اور جلسوں سے خطاب کیا.وفد میں مولوی شریف احمد صاحب امینی، مولوی سمیع اللہ صاحب قیصر، مولوی فیض احمد صاحب، کریم اللہ صاحب ایڈیٹر ” آزاد نوجوان“ حکیم مولوی محمد دین صاحب شامل تھے.۳۵ کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور کی مساعی برلن یونیورسٹی کا ایک وفد احمد یہ انٹر پاکستان آیا.وفد میں ۳ طلبہ اور ۲ اساتذہ شامل تھے.احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور کے صدر اور پنجاب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ پرویز پروازی صاحب ایم اے نے بعض ممبروں کی قیادت میں ” نیڈوز ہوٹل میں اس وفد سے ملاقات کی اور تین گھنٹہ تک احمدیت کے متعلق تبادلہ خیالات کیا اور سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر پیش کیا جسے وفد نے خوشی سے قبول کیا.وفد کے قائد ڈاکٹڑھیس نے جماعت کے بارہ میں کہا ” جماعت احمدیہ نے قرآن کریم کا جرمنی میں ترجمہ شائع کر کے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے اس سے پہلے بھی جرمن زبان میں
تاریخ احمدیت 508 جلد ۲۰ قرآن پاک کا ترجمہ موجود تھا لیکن وہ ترجمہ واضح مستند اور مؤثر نہیں ہے.اسی طرح بیوت الذکر کی تعمیر کے بارہ میں کہا کہ ان کی تعمیر کا کام بہت اہمیت کا حامل ہے اور مجھے خوشی ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ یہ کام ہو رہا ہے.علاوہ ازیں پانچ طلبہ اور تین طالبات کا ایک وفد ملا یا یو نیورسٹی کی طرف سے پاکستان آیا.یکم مئی ۱۹۵۹ء کو احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور کے ایک گروپ نے مسعود احمد خان صاحب سابق وائس پرنسپل گھانا کی قیادت میں وفد سے ملاقات کر کے جماعت کی مساعی سے آگاہ کیا.وفد کے قائد مسٹر ای شیریان کو دینی لٹریچر پیش کیا جس کو انہوں نے شکریہ سے قبول کرتے ہوئے کہا : - مختلف دینی مسائل کے حل کے لئے جو نقطہ نظر جماعت احمدیہ نے پیش کیا ہے وہ زیادہ قابل قبول، مؤثر اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ہے.اسی وجہ سے جماعت احمدیہ کو انڈونیشیا، افریقہ اور یورپی ممالک میں بہت مقبولیت حاصل ہو رہی ہے.66 ۲۳ / مارچ ۱۹۵۹ء صدر پاکستان محمد ایوب خان صاحب کی طرف سے شکریہ کو یوم پاکستان کی لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کے صدر عمومی صاحب نے جماعت احمدیہ کی طرف سے صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان صاحب کی خدمت میں مبارکباد اور دعا کا پیغام بھیجا جس کے جواب میں اسسٹنٹ سیکرٹری صدر مملکت کی طرف سے یہ اطلاع موصول ہوئی کہ یوم پاکستان کی تیسری سالگرہ کے موقعہ پر آپ نے مبارکباد کا جو پیغام بھیجا ہے اس پر صدر مملکت نے مجھے ہدایت فرمائی ہے کہ میں ان کی طرف سے آپ کا اور دوسرے ممبران ایسوسی ایشن کا شکر یہ ادا کروں.“ آپ کا مخلص.دستخط (اے وحید ) اسٹنٹ سیکرٹری صدر مملکت ۳۸
تاریخ احمدیت فصل دوم 509 جلد ۲۰ ا صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نئے اعزاز صاحب نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب صدر شعبہ ریاضیات امپریل کالج آف سائنس لندن کو ستارہ پاکستان کا اعزاز دیا.۲- کیمبرج یونیورسٹی آف لندن نے ڈاکٹر صاحب کو ایڈمز پرائز کا مستحق قرار دیا.یہ انعام ہر سال دیا جاتا ہے اور ۳۷۸ پونڈ سٹرلنگ پر مشتمل ہوتا ہے.ڈاکٹر صاحب کو یہ انعام ایک نہایت قیمتی مقالہ پیش کرنے پر دیا گیا.محمد ایوب خاں صدر پاکستان نے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - م ”انہوں نے اتنی کم عمر میں سائنس کے میدان میں جو کارنامے سرانجام دیئے ہیں وہ ہمارے لئے قابل فخر ہیں اور ان سے ہمارے دلوں میں ایک نئی تخلیقی تحریک پیدا ہوتی ہے.مجھے یقین ہے کہ سائنسی کمیشن میں ان کی شرکت تمیشن کی سفارشات میں وزن اور وقار پیدا کرے گی." 66 فضل عمر ڈسپنسری کراچی کا ذکر انگریزی اخبار ”گڈول میں مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے اس سال «فضل عمر خیراتی شفاخانہ کے نام سے ایک ڈسپنسری قائم کی جس پر کراچی کے پندرہ روزہ انگریزی اخبار گڈول نے ۱۵ جون ۱۹۵۹ء کی اشاعت میں لکھا کہ : - جماعت احمدیہ کے نوجوان بنی نوع انسان کی خدمت کے صحیح جذبے سے کام لیتے ہوئے آج کل خدمتِ خلق کا ایک بے نظیر کا رنامہ سرانجام دینے میں مصروف ہیں.ان میں بڑے بڑے تاجر اعلیٰ سرکاری افسر، ڈاکٹر ، قانون دان اور کالج کے طلبہ الغرض ہر طبقے اور مرتبہ کے لوگ شامل ہیں.انہیں مزدوروں کی طرح کام کرتے ہوئے دیکھنے سے ایک عجیب نظارہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے.یہ لوگ کراچی میں مارٹن روڈ پر فضل عمر خیراتی ڈسپنسری کی عمارت کے لئے چار کمرے تعمیر کرنے کے سلسلہ میں روزانہ شام کو تین گھنٹے مزدوروں کی طرح کام کرتے رہے ہیں.
تاریخ احمدیت 510 جلد ۲۰ اس طرح انہوں نے عمارت کی بنیادیں کھود نے اور انہیں کنکریٹ سے بھرنے کا کام خود سرانجام دیا.اپنی ان کوششوں کے نتیجہ میں انہوں نے دو ماہ ہوئے فضل عمر خیراتی ڈسپنسری کو ایک ہسپتال میں تبدیل کر دکھایا ہے.فضل عمر خیراتی ڈسپنسری جدید طرز کی ایک خوبصورت اور دلکش عمارت میں قائم ہے.ڈسپنسری پوری با قاعدگی سے چل رہی ہے اور اس میں روزانہ بہت بڑی تعداد میں مریض آکر دوائیں وغیرہ حاصل کرتے ہیں.ڈسپنسری کو دو ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی خدمات حاصل ہیں.ان میں سے ایک مشہور و معروف لیڈی ڈاکٹر مسٹر محمودہ بنت نذیر احمد ہیں.یہ لیڈی ڈاکٹر صاحبه موصوفہ گزشتہ دو ماہ سے یعنی جب سے کہ یہ ڈسپنسری قائم ہوئی ہے.باقاعدگی کے ساتھ رضا کارانہ طور پر خدمات بجالا رہی ہیں.یادر ہے کہ ڈسپنسری کی افتتاحی رسم کراچی کے (سابق) چیف کمشنر جناب این ایم خان صاحب سی ایس پی نے ادا کی تھی اور پانچ سوروپے بطور عطیہ دیئے تھے.مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر منتظمین نے اب اسے وسعت دے کر پوری طرح ساز وسامان سے آراستہ کلینک میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس سلسلہ میں مجلس خدام الاحمدیہ نے مزید کمرے تعمیر کرنے کا ذمہ اٹھایا ہے.یہ مجلس سابق چیف انجینئر سید غلام مرتضی صاحب، مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب قائد خدام الاحمدیہ اور تعمیر کمیٹی کے صدر نذیر احمد صاحب کی رہنمائی میں اس امر کی پوری کوشش کر رہی ہے کہ اراکین مجلس کی رضا کارانہ خدمات سے فائدہ اٹھا کر کم سے کم لاگت میں نئے کمرے تعمیر ہوسکیں.بلا شبہ ان لوگوں نے خدمتِ خلق کی ایک بہت بڑی مثال قائم کر دکھائی ہے.شہر میں طبی سہولتوں کی کمی اور رضا کارانہ خدمت کے قابلِ قدر جذ بے کے عام فقدان کے پیش نظر جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کا یہ کارنامہ انتہائی طور پر قابلِ تعریف ہے.انہوں نے جو مثال قائم کر دکھائی ہے وہ اس قابل ہے کہ ہماری معاشرتی زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی تقلید کی جائے.ہماری سابقہ ناکامیوں کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم میں سماجی اور شہری احساس کا فقدان تھا.ہم میں سے ہر ایک اپنی خاطر زندگی بسر کر رہا تھا.قوم کی خاطر نہیں.آؤ ہم بھی ان رضا کار نوجوانوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو از سرِ نویح خطوط پر استوار کریں اور اسی طرح قومی خدمت کا فریضہ بجالائیں جس طرح یہ لوگ اس فریضے کی ادائیگی میں مصروف ہیں.۴۲ 66
تاریخ احمدیت 511 جلد ۲۰ دسمبر ۱۹۵۹ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا اظہار خوشنودی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ڈسپنسری کا معائنہ فرمایا اور حسب ذیل ریمارکس اپنے قلم مبارک سے سپر دقر طاس کئے.بسم الله الرحمن الرحيم I have visited the Fazl-e-Umer dispensary today and have been much impressed with all the arrangements.To administer relief and cansolation to those in pain and distress is one of the best expressions of worship of the Creator.I pray humbly sincerely for all those connected with this that God may, of His grace and mercy, abundantly, bless there efforts.Ameen.Zafrullah Khan 9.12.59 of Sir Zafrullah Khan1.bmp not found.
تاریخ احمدیت ترجمہ:- 512 بسم الله الرحمن الر.جلد ۲۰ آج میں نے فضل عمر ڈسپنسری کا معائنہ کیا ہے اور تمام تر انتظامات سے بہت متاثر ہوا ہوں.درد اور دکھ میں مبتلا لوگوں کے لئے سکھ اور تشفی کا سامان کرنا خالق حقیقی کی عبادت کی ایک بہترین صورت ہے.میں اس اولوالعزم کام سے منسلک تمام اصحاب کے لئے عاجزانہ اور مخلصانہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان کی مساعی میں زیادہ سے زیادہ برکت دے.آمین.ظفر اللہ خان ۹-۱۲-۵۹ صدر آل انڈیا کانگرس کو دینی لٹریچر کا تحفہ مسز اندرا گاندھی صدر آل انڈیا کانگرس ۸/ستمبر ۱۹۵۹ء کو بٹالہ میں تشریف لائیں اور عوام سے خطاب کیا.اس موقع پر صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے انہیں قرآن شریف انگریزی ، لائف آف محمد اور دیگر دینی لٹریچر پیش کیا جس کا ذکر مشرقی پنجاب کے مشہور اخبار پرتاپ ( جالندھر) نے اپنی 9 ستمبر ۱۹۵۹ء کی اشاعت میں کیا.۹/ نومبر ۱۹۵۹ء کو نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے لاہور کے طلباء کا وفد ربوہ میں ۴۳ گیارہ طلباء کا وفد ربوہ آیا.ملک حفیظ الرحمن صاحب سلیم افر تعمیر صدرانجمن احمدیہ نے وفد کا استقبال کیا.اور اسے دفاتر صدرانجمن ، تحریک جدید، نیز ہسپتال اور تعلیمی ادارے دکھلائے.شام کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے آکسن پرنسپل تعلیم الاسلام کالج نے طلباء کو شرف ملاقات بخشا.نم نم صدر آئزن ہاور آف امریکہ کو دینی لٹریچر کی پیشکش ماہ دسمبر میں امریکہ کے صدر آئزن ہاور چار روزه دورہ کے لئے دہلی تشریف لے گئے تو دہلی میں مقیم سفیر کے ذریعہ ان کی خدمت میں قادیان سے بذریعہ ڈاک دینی لٹریچر بھجوایا گیا.چنانچہ اس کے جواب میں وزارت امور خارجہ نے محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو لکھا: - وو پیارے احمد.صدر آئزن ہاور کی ہندوستان میں حالیہ آمد کے موقعہ پر جو آپ کی طرف سے نوکتب کا معقول ہدیہ پیش کیا گیا باشندگان امریکہ کے نمائندہ صدر موصوف کی طرف سے مجھے نہایت خلوص سے شکر یہ ادا
تاریخ احمدیت 513 جلد ۲۰ کرنے کی اجازت دیجئے.مجھے یہ معلوم ہے کہ صدر ان کتب کی عزت و احترام کریں گے.ایک ایسی شخصیت کا جو ہمارے نزدیک امن کا نشان ہے ہند وستانیوں کی طرف سے جو نہایت گرمجوشی سے اور استثنائی طور پر دوستانہ خوش آمدید کہی گئی.مجھے موقع دیجئے کہ میں آپ کی ذات کا اور لکھوکھا دیگر ہند وستانیوں کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کروں.آپ کا مخلص ۴۵ 66 (ڈبلیو کے بنس مشیر امور عامہ ) صدر پاکستان محمد ایوب خاں مصنوعات ربوہ کے نمائشی سٹال پر صدر پاکستان محمد ایوب خاں صاحب ۱۹؍ دسمبر ۱۹۵۹ کو چنیوٹ تشریف لائے اس موقع پر جماعت احمدیہ کی طرف سے چنیوٹ ریلوے اسٹیشن پر مصنوعات ربوہ کا ایک نمائشی سٹال لگایا گیا.سٹال پر ربوہ کے چار صنعتی اداروں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ایسٹرن پر فیومری کمپنی ایم اے انڈسٹریز اور دواخانہ خدمتِ خلق کی تیار کردہ مصنوعات رکھی ہوئی تھیں.صدر مملکت پاکستان نے ان مصنوعات کا گہری دلچسپی سے معائنہ فرمایا اور اس بات کو سن کر بہت خوش ہوئے کہ شائنو بوٹ پالش اور جملہ انگریزی ادویہ کے فارمولے فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تجربات کے بعد تیار کئے گئے اور انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ سکالرز نے ( دین حق ) اور ملک و ملت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں نیز یہ کہ ایسے دور افتادہ علاقے اور چھوٹی سی جگہ میں با قاعدہ سائنٹیفک ریسرچ کے ذریعہ مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے.سٹال کے انچارج ملک منور احمد صاحب نے صدر مملکت کی خدمت میں مصنوعات کے نمونے کا تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے بخوشی قبول فرمایا.
تاریخ احمدیت فصل سوم 514 احمدی مشنوں کی دینی سرگرمیاں جلد ۲۰ جماعت احمدیہ کے عالمی مشن اس سال بھی دعوت الی اللہ میں پورے جوش و خروش اور جذبہ فدائیت سے سرگرم عمل رہے.۱۹۵۹ء کے بعض قابل ذکر واقعات کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.مشن کی مطبوعہ رپورٹ (فروری تا جولائی ۱۹۵۹ء) کے مطابق مولو داحمد خاں صاحب نگلستان دہلوی امام بہیت فضل لندن نے متعد دکلبوں میں نہایت کامیاب لیکچر دیئے.ایک بار جے ایم سکول کے ۴۵ طلباء میں تاریخ ( دین حق ) پر تقریر کی جو دلچسپی سے سنی گئی.خاں بشیر احمد خاں صاحب رفیق نائب امام تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مشن کے مالی استحکام کی جدو جہد میں بھی مصروف رہے جس سے مشن پہلے سے بہت زیادہ مستحکم ہو گیا.آپ نے ۱۸ ؍ جولائی ۱۹۵۹ء کو سکاٹ لینڈ، نوٹنگھم، بریڈ فورڈ اور لمبیڈز وغیرہ کا دورہ کیا.چوہدری عبدالرحمن صاحب نے اپنی کار اس مقصد کے لئے پیش کی اور پورے دورے میں آپ کے ساتھ رہے.یہ دورہ بہت مفید رہا.چنا نچہ گلاسگو میں چوہدری منصور احمد صاحب ( ابن حضرت چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی ) متفقہ طور پر امیر جماعت اور سیکرٹری مال منتخب ہوئے.نو نگھم میں جماعت قائم ہوئی اور آزاد صاحب اس کے امیر اور سیکرٹری مال مقرر ہوئے.دورہ کے ذریعہ متعدد مسلم اور غیر مسلم معززین تک پیغام صداقت پہنچا.لنڈن مشن کی طرف سے ۲۶ /اکتوبر ۱۹۵۹ء کو پاکستان ہائی کمشنر مقیم انگلستان جنرل محمد یوسف خان کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر استقبالیہ دیا گیا.امام بیت فضل نے موصوف کو خوش آمدید کہا.ہائی کمشنر صاحب نے اپنی جوابی تقریر میں جماعت احمدیہ کی ان دینی خدمات کی تعریف فرمائی جو وہ دنیا بھر میں بجالا رہی ہے.نیز لندن مشن کو اس کی اعلیٰ شہرت اور گونا گوں سرگرمیوں کی بناء پر خراج تحسین پیش کیا اور ان عظیم الشان مساعی کو منظم طور پر جاری رکھنے کے سلسلہ میں احمد یہ قیادت کو مبارکباد پیش کی اور فرمایا کہ یہ مساعی دوسرے مسلمانوں کے لئے قابلِ تقلید مثال کی حیثیت رکھتی ہیں.آپ نے مسلمانوں میں باہمی اتحاد و اتفاق کی اہمیت پر بھی زور دیا.اس
تاریخ احمدیت 515 جلد ۲۰ تقریب میں دوسرے مہمانوں کے علاوہ ملایا کے ہائی کمشنر، پاکستان ہائی کمیشن کے بعض اعلیٰ افسران اور عالمی سائنسندان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور قریباً ہمیں دیگر اہم شخصیات بھی شامل تھیں.۴۷ جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق تحریر فرماتے ہیں :- ۱۸ / فروری ۱۹۵۹ء کو خاکسار اہلیہ اور ایک بیٹے کے ساتھ انگلستان کے ساحل سمندر پر واقع شہر لیور پول پہنچا.ہمارا یہ سفر بحری جہاز کے ذریعہ ۱۸ دن میں طے ہوا تھا.لیور پول سے ہم ریل گاڑی میں سوار ہوئے.یہ ان ی انگلستان کی سرزمین پر خاکسار کا پہلا سفر تھا.یہ ٹرین بوٹ ٹرین کہلاتی تھی.جو جہاز کے مسافروں کو پانچ گھنٹوں میں نان سٹاپ لندن پہنچا دیتی تھی.گاڑی لندن کے یوسٹن اسٹیشن پر ٹھہری.شام ہو چکی تھی.لیکن اسٹیشن بقعہ نور بنا ہوا تھا.اور رات میں دن کا سماں تھا.ہمارے استقبال کے لئے امام بیت الفضل مولود احمد خان صاحب تشریف لائے ہوئے تھے.ان کے ساتھ لندن کے چند اور دوست یعنی مکرم عبدالعزیز دین صاحب، پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب، چوہدری محمد اشرف صاحب اور مولوی عبد الرحمن صاحب بھی آئے ہوئے تھے.ہم مولوی عبد الرحمن صاحب کی موٹر میں سوار ہوئے.سردی شدید تھی.کار لندن کے احمد یہ مشن ہاؤس کی طرف روانہ ہوئی.میں نے زندگی میں اتنا بڑا شہر کبھی نہیں دیکھا.سارا شہر روشنیوں کا شہر لگتا تھا.کرسمس کی روشنیاں ابھی تک دکانوں اور سڑکوں پر جگمگ کر رہی تھیں.مولوی عبدالرحمن صاحب ساتھ ساتھ قابل دید مقامات ہمیں دکھا رہے تھے.ایک گھنٹہ کے بعد بالآخر ہماری گاڑی احمد یہ مشن ہاؤس یعنی ۶۳ میلروز روڈ کے سامنے رکی.ہم نے کار سے اتر کر مشن ہاؤس میں قدم رکھتے ہی خدا کا شکر ادا کیا.کہ جس بیت الفضل اور مشن ہاؤس کا تذکرہ ہم ایک زمانہ سے سنتے چلے آئے تھے وہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے تھا.مکرم امام صاحب کا قیام مشن کی پہلی منزل پر تھا.انہوں نے پر تکلف کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا.تین ہفتوں کے بحری سفر کے بعد پہلی مرتبہ
تاریخ احمدیت 516 ہم نے ساگ گوشت کھایا تو بہت لطف آیا.بحری جہاز میں ہم نے گوشت کو ہاتھ نہیں لگایا تھا اور صرف سبزیوں پر گزارہ کیا تھا.کھانے کے بعد امام صاحب ہمیں ملحقہ بلڈنگ یعنی ۶۱ میلر وز روڈ میں لے گئے.یہ چار منزلہ عمارت تھی.اور اس میں احمدی کرایہ دار مقیم تھے.چوتھی منزل پر ایک کمرہ کا فلیٹ تھا.یہ ہماری رہائش گاہ تھی.امام صاحب نے فلیٹ کی چابی ہمیں دی اور ہم نے اپنا سامان رکھا.رات کافی بیت چکی تھی اور سفر کی تھکان بھی تھی.جلد سونے کی کوشش میں بستروں پر دراز ہو گئے.رات یخ بستہ تھی.سارا فلیٹ کرہ زمہریرہ بنا ہوا تھا.اس زمانہ میں گھروں میں سنٹرل ہیٹنگ کا کوئی انتظام نہ تھا.عام طور پر گھروں میں کوئلے کی انگیٹھیاں یا تیل سے چلنے والے ہیٹر ز ہوتے تھے.لیکن ہمارا فلیٹ ان دونوں سہولیات سے محروم تھا.ہم پاکستان سے اپنے ساتھ رضائیاں لائے تھے.ان میں گھس گئے.لیکن سردی اتنی شدید تھی کہ رضائیاں بھی اس کی شدت کو کم کرنے میں نا کام ہوگئیں.رات آنکھوں میں کئی اور خدا خدا کر کے صبح ہوئی.باہر سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر برف جمی ہوئی تھی.مشن کے باغ کو بھی برف کی سفید چادر نے پوری طرح ڈھانپ رکھا تھا.صبح ہونے پر ہم ناشتہ کے لئے محترم امام صاحب کے گھر گئے.انہوں نے پوچھا رات کیسے کئی.میں نے عرض کیا.اتنی شدید سردی تو میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی.ربوہ میں بھی ہمارے گھر میں بجلی کے ہیٹرز موجود تھے.امام صاحب نے فرمایا.افسوس کہ آپ کے فلیٹ میں ہیٹرز مہیا کرنے کی بجٹ میں گنجائش نہیں ہے.دو پہر کو محترم مولوی عبد الرحمن صاحب تشریف لائے.آپ واقف زندگی تھے.لیکن اب فراغت پا کر اپنا کاروبار کرتے تھے.مجھے رات کی شدید سردی سے نزلہ کا عارضہ تھا.مولوی صاحب موصوف نے پوچھا کوئی تکلیف تو نہیں.خاکسار نے عرض کیا مولوی صاحب میرے فلیٹ کو گرم رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے.نہ جانے اس شدید سردی میں وقت کیسے گزرے گا.مکرم مولوی صاحب نے فرمایا کہ وہ فنانس کمیٹی کے ممبر ہیں اور یہ بات جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 517 درست ہے کہ بجٹ میں کوئی گنجائش نہیں ہے.لیکن وہ اپنی جیب سے خرچ کر کے خاکسار کو ایک تیل کا ہیٹر مہیا کر دیں گے.اور جب بجٹ میں گنجائش نکل آئے گی تو رقم لے لیں گے.تھوڑی دیر بعد وہ بازار سے ایک تیل سے نے والا ہیٹر لے آئے.میں نے یہ اپنے ایک کمرہ میں جلایا.کمرہ کی سردی میں کمی آنی شروع ہوئی تو میری جان میں جان آئی.اور میں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ مولوی عبدالرحمن صاحب کے لئے بہت دعا کی.میں ان کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا.دو چار دن کے بعد ایک دن مکرم امام صاحب نے مجھے ایک فہرست دی اور فرمایا کہ اس فہرست میں برطانیہ میں مقیم دوصد افراد کے نام ہیں لیکن ان میں سے اکثر طالب علم ہیں.جو ممکن ہے وطن واپس جاچکے ہوں اور بعض ایسے ہیں جو عید پر ہی نظر آتے ہیں.تم اس فہرست کے افراد کو چیک کر کے ایک نئی فہرست تیار کرو.صرف ان احمدیوں کی جو واقعی برطانیہ میں موجود ہیں.میں نے ان سب احباب سے رابطہ کی کوشش کی اور کچھ عرصہ کی جد و جہد اور دوڑ دھوپ کے بعد جن احباب سے رابطہ کر سکا ان کی کل تعداد ۱۴۹ نکلی.گویا ۱۹۵۹ء میں سارے انگلستان میں یہ کل احمدیوں کی تعداد تھی.جماعت ان دنوں زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل تھی.فیملی والے خال خال تھے.ساری جماعت میں صرف مولوی عبد الرحمن صاحب، چوہدری محمد اشرف صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کے پاس کاریں تھیں.اور یہ متینوں کاریں مشن کے استعمال میں بھی آیا کرتی تھیں.انہیں جب بھی جماعتی کاموں کے سلسلہ میں بلایا جاتا تھا یہ فوراً اپنی کا رسمیت حاضر ہو جایا کرتے تھے.پٹرول بھی اپنا خرچ کر کے جماعتی کاموں کو مستعدی سے سرانجام دیتے تھے.مولوی عبد الرحمن صاحب غالبًا ۱۹۴۸ء میں پہلی مرتبہ بطور تجارتی مربی انگلستان بھجوائے گئے تھے.بعد میں انہوں نے وقف سے فراغت حاصل کر لی اور انگلستان میں بس گئے.نہایت مخلص، فدائی اور خادم دین تھے.میں جب انگلستان پہنچا تو یہ ایک ریسٹورنٹ چلا رہے تھے.بعد میں جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 518 پاکستان ہائی کمیشن کے زیر اہتمام چلنے والے پاکستانی کینٹین کے مالک بنے.ہر کسی کے کام آنے والے اور خدمت گزار انسان تھے.مجھے یاد نہیں کہ کبھی انہیں کسی جماعتی خدمت کے لئے بلایا گیا ہو اور انہوں نے کسی قسم کی پس و پیش کی ہو.چوہدری محمد اشرف صاحب ایک زمانہ سے انگلستان میں مقیم تھے.نہایت مخلص مہمان نواز خادم دین اور خوش خلق انسان تھے.دوستوں کو باصرار گھر لے جا کر ان کی خاطر تواضع کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے.اکثر جماعتی میٹنگز کے مواقع پر گھر سے انواع و اقسام کی مٹھائیاں وغیرہ لا کر احباب کی خدمت میں پیش کرتے تھے.ان کی موٹر کار ہر کسی کے استعمال کے لئے ہر وقت حاضر رہتی تھی.اس لئے بعض احباب مذاقا ان کی کار کو مشن کی مفت ٹیکسی بھی کہا کرتے تھے.مجھے ان کے ساتھ کئی مرتبہ لندن سے سو دوسو میل باہر تک جانے کا اتفاق ہوا لیکن باوجود میرے اصرار کے کبھی پٹرول کے لئے ایک پینی بھی قبول نہ کرتے تھے.ان کی بیگم صاحبہ ایک عرصہ تک انگلستان لجنہ اماء اللہ کی صدر بھی رہیں.مولوی عبد الکریم صاحب بھی واقف زندگی تھے.افریقہ میں لمبے عرصہ تک خدمات بجا لانے کے بعد بعض مجبوریوں کی وجہ سے فراغت حاصل کر کے لندن میں مقیم ہو گئے تھے.ان کی کار بھی مشن کے کاموں کے لئے وقف رہتی تھی.یہ محترم مولانا محمد احمد جلیل کے چھوٹے بھائی تھے.عبدالعزیز دین صاحب ایک لمبے عرصہ سے انگلستان میں رہتے تھے.بچپن میں اپنے والد حضرت عزیز دین صاحب کے پاس جو ان دنوں انگلستان میں تھے چلے آئے تھے.عبد العزیز دین کو جماعت کی خدمت کی لمبے عرصہ تک توفیق ملی.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے جب ہائیڈ پارک میں ایک پادری سے مناظرے کئے تو عبدالعزیز دین ٹائم کیپر کے فرائض سرانجام دیتے تھے.۱۹۳۱ء میں جب قائد اعظم محمد علی جناح بارہا لندن مشن حضرت مولانا درد صاحب سے ملنے آتے تھے تو عبدالعزیز دین صاحب ان کی مہمان نوازی کے فرائض سرانجام دیتے تھے.مرحوم فرشتہ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 519 سیرت، مخلص ، فدائی اور بے نفس انسان تھے.۱۹۵۹ء میں لندن کا مشن دو مکانات پر مشتمل تھا.یعنی ۶۱ اور ۶۳ میلروز روڈ.۶۳ میلر وز روڈ تو مشن ہاؤس تھا.یہ تین منزلہ عمارت تھی اور ایک نہ خانہ تھا.نہ خانہ میں ایک باورچی خانہ اور ایک کمرہ بھی تھا.یہ باورچی خانہ جماعتی تقاریب کے دنوں میں استعمال ہوتا تھا.اور کمرہ میں کوئی نہ کوئی احمدی مہمان رہائش پذیر رہتا تھا.گراؤنڈ فلور پر دو بڑے کمرے تھے.جس کے درمیان کی دیوار کو گرا کر وہاں ایک Sliding door ہوا کرتا تھا.عام دنوں میں ایک کمرہ بطور ڈرائنگ روم اور دوسرا کمرہ بطور لائبـــریـــری استعمال ہوتا تھا.لیکن میٹنگز کے لئے درمیانی دروازہ کھول کر سارے کمرہ کو استعمال میں لایا جاتا تھا.گراؤنڈ فلور پر دو دفاتر بھی تھے اور ایک غسلخانہ بھی تھا.اور باہر کی طرف بالکنی تھی.اوپر کی دومنزلیں امام کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال میں لائی جاتی تھیں.۶۱ میلر وز روڈ ایک وسیع و عریض بلڈنگ تھی.اس میں زیر زمین ایک فلیٹ کے علاوہ اوپر تین منزلیں تھیں.۱۹۵۵ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی لندن تشریف لائے تو اسی بلڈنگ میں رہائش پذیر ہوئے تھے جبکہ ۱۹۶۷ء میں اپنے دورہ انگلستان کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۶۳ میلر وز روڈ میں قیام فرمایا تھا.ابتداء میں جب بیت الفضل کے لئے قطعه خریدا گیا تھا تو اس کے ساتھ ۶۳ میلر وز روڈ کی بلڈنگ کے علاوہ قریباً ایک ایکڑ زمین کا ٹکڑا بھی تھا.جبکہ ۶۱ میلر وز روڈ ایک انگریز کی ملکیت میں تھا.جو بیت الفضل بن جانے کے بعد جماعت کا بہت مخالف ہو گیا تھا اور اس نے بیت الفضل سے نداء دیے جانے کی مخالفت بھی کی تھی.اور لوکل کونسل میں جماعت کے خلاف دعوی دائر کیا تھا کہ یہ بیت الفضل میں نداء نہ دیا کریں لیکن کونسل نے جماعت کے حق میں فیصلہ دیا تھا.جنگ عظیم دوم کے ایام میں جب بیت الفضل کے اردگرد کے علاقہ میں جرمن بمباری نے شدت اختیار کی تو ۶۱ میلر وز روڈ کے مالک نے اپنا مکان فروخت کے لئے لگا دیا لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کر دی کہ یہ مکان جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 520 کسی ہندوستانی کو نہ بیچا جائے.تاکہ احمدی اس کو نہ خرید سکیں.ان دنوں حضرت مولوی جلال الدین شمس صاحب امام تھے.انہوں نے ایک انگریز نواحمدی کو ایجنٹ کے پاس بھیجا اور مکان کا سودا کرالیا.چنانچہ یہ مکان کچھ عرصہ اس انگریز احمدی کے نام رہا.بعد میں جماعت نے اپنے نام منتقل کرالیا.۶۳ میلروز روڈ کا مشن ہاؤس بہت تاریخی اہمیت کا حامل تھا.اس میں ۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفہ ثالث آکر قیام پذیر ہوئے تھے.اپنے طالب کے زمانہ میں بھی حضور نے اپنی تعطیلات کا اکثر حصہ اس عمارت میں گزارا تھا.مسلم دنیا کے چند بڑے مشاہیر بھی اس مشن ہاؤس میں آتے رہے.جن میں قائد اعظم محمد علی جناح، شاہ فیصل آف سعودی عرب، شاه ادریس آف لیبیا، علامہ سر محمد اقبال، سر فیروز خان نون جو بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بھی رہے.سر شیخ عبدالقادر، مشہور صحافی غلام رسول مہر اور م.ش ، مشہور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی ، میاں ممتاز دولتانہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب وغیرہ شامل تھے.ان کے علاوہ سر سنگھاٹے گورنر جزل گیمبیا پریذیڈنٹ طب مین آف لائبیریا اور بہت سارے وزراء، سفراء اور عمائدین بھی اس مشن ہاؤس میں تشریف لائے.یہ دونوں عمارات ۱۹۷۰ ء میں نئی عظیم الشان بلڈنگ بن جانے کے بعد مسمار کر دی گئیں.۱۹۵۹ء میں لندن میں خدام الاحمدیہ کی تنظیم قائم تھی.ملک خلیل الرحمن قائد ہوا کرتے تھے.یہ نہایت فعال اور مخلص کارکن تھے.۱۹۶۲ء میں نئے نظام کے ماتحت مرکز نے خاکسار کو برطانیہ میں خدام الاحمدیہ کا نائب صدر مقرر کر دیا.ان دنوں صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان میں ہوا کرتے تھے.بیرونی ممالک میں نائبین کا تقرر کر دیا جاتا تھا.لجنہ اماءاللہ کی تنظیم بھی قائم تھی.اس کی صدر مسز نسیم ہوا کرتی تھیں.ان کے خاوند ڈاکٹر نسیم صاحب جو الہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج تھے اور مجلس عاملہ انگلستان کے جنرل سیکرٹری تھے.خاکسار کی آمد پر مرکز نے خاکسار کو نائب امام ہونے کے علاوہ مجلس عاملہ کا جنرل سیکرٹری اور فنانس سیکرٹری مقرر کر دیا تھا.مسز نسیم کے بعد جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 521 مسر اشرف صدر لجنہ منتخب ہوئیں.ان کے بعد ایک لمبے عرصہ تک مسز سلام جو ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی اہلیہ ہیں صدر لجنہ رہیں ان کے دور صدارت میں لجنہ نے بہت ترقی کی.برطانیہ بھر میں نئی لجنات کا قیام عمل میں آیا.سالانہ اجتماعات کا آغاز ہوا.بیت الفضل میں ان دنوں بیٹنگ (Heating) کا انتظام بہت ناقص تھا.چند ہیٹر تھے.جبکہ بیت الذکر کا فرش سردیوں میں بے حد ٹھنڈا رہتا تھا.سردیوں میں نمازیوں کی تعداد معدودے چند ہوتی تھی.اور بیت الذکر کو گرم کرنے پر بہت زیادہ خرچ آتا تھا.اس لئے عموماً موسم سرما میں نماز میں مشن ہاؤس کے ایک کمرہ میں ادا کی جاتی تھیں.انگلستان میں ان دنوں شدید سردی پڑتی تھی.دسمبر، جنوری ، فروری اور بسا اوقات مارچ میں بھی برفباری ہو جاتی تھی.موسم سرما کی سب سے تکلیف دہ بات شدید دھند ہوا کرتی تھی.جو بعض اوقات ایک دو دن متواتر رہتی تھی.اس شدید دھند میں اکثر صرف چند فٹ تک نظر آتا تھا.اور یوں لگتا تھا کہ کسی نے سفید چادر تان رکھی ہے.یہ موسم دمہ کے مریضوں کے لئے خطرناک ہوتا تھا.مجھے یاد ہے کہ ۱۹۶۰ء میں ایک دفعہ میں اپنے قریبی بازار سے مشن ہاؤس کی طرف آ رہا تھا کہ اچانک دھند چھا گئی.اور تھوڑی ہی دیر میں بمشکل ایک فٹ یا اس سے بھی کم نظر آنے لگا.میں سخت پریشانی کا شکار ہوا.راستہ نظر نہیں آتا تھا.سردی کی شدت اس کے علاوہ تھی.میں بے بسی کی حالت میں فٹ پاتھ کی ایک جانب کھڑا ہو گیا.دھند کی وجہ سے سڑکیں بھی سنسان تھیں.ٹریفک رک گئی تھی اور مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں.دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے کہ اللہ کی مدد حاصل ہو اور کسی طرح گھر تک پہنچ سکوں.اسی گھبراہٹ میں میں نے اپنے قریب آہٹ سنی.تو میں نے مدد کے لئے درخواست کی ایک انگریز نے میرا ہاتھ پکڑا اور پوچھا کہاں جانا ہے میں نے گھر کا پتہ بتایا وہ کہنے لگے.میں نے بھی اسی سڑک پر جانا ہے.آؤ ا کٹھے قدم قدم چلتے ہیں.مجھے دھند میں گھر تک پہنچنے کا تجربہ ہے.چنانچہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ساتھ چلنا شروع کیا.اور کچھ دیر بعد گھر پہنچا.اور انگریز کا دلی شکر یہ ادا کیا اور خدا کا شکر کیا.جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 522 ۱۹۶۵ء میں لندن کو دھوئیں سے پاک کر دیا گیا اور تمام کو ملے سے چلنے والی فیکٹریوں کو بند کر دیا گیا.تو دھند ختم ہوئی.کوئلے فیکٹریوں کی وجہ سے لندن کی عمارات بھی سیاہ ہو جاتی تھیں.چنانچہ ہاؤس آف پارلیمنٹ اور بعض اور عمارات کو صاف کرنے پر کروڑوں پونڈ خرچ ہوئے.تب جاکران کی موجودہ صاف صورت نکل آئی.ان دنوں عیدین کی تقاریب کے بعد مشن کی طرف سے تمام حاضرین کو دو پہر کا کھانا پیش کیا جاتا تھا.ساری ساری رات مشن کے نہ خانے والے باورچی خانہ میں کھانا تیار کیا جاتا تھا.عبدالعزیز دین صاحب، عبدالرحیم صاحب ماریشس ، مولوی عبدالکریم صاحب، مولوی عبدالرحمن صاحب، شیخ منصور احمد صاحب اور چوہدری منصور احمد صاحب اور بعض دیگر احباب ساری ساری رات کھانے کی تیاری میں لگے رہتے تھے.اس زمانہ میں کثرت سے غیر از جماعت احباب جن میں ہندوستانی پاکستانی احباب کے علاوہ ترک اور سائپرس کے لوگ بھی عید کی نماز بیت الفضل میں پڑھا کرتے تھے.اس طرح عید کا سارا دن بیت الفضل سے ملحقہ باغ میں گزر جایا کرتا تھا.لوگ شام کو چائے کے بعد رخصت ہوتے تھے.۱۹۳۱ء میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی عید الاضحیہ میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے اور کھانے کے بعد ہندوستان کی آزادی پر بیت الفضل کے احاطہ میں ایک ولولہ انگیز تقریر کی تھی.ہر پندرہ روز بعد مشن ہاؤس میں میٹنگز کا اہتمام کیا جاتا تھا.ان میٹنگز میں مسلمان اور غیر مسلم سکالرز خطاب کرتے تھے.۱۹۵۹ء میں لنڈن یونیورسٹی کے فقہ کے بہت بڑے سکالر Mr.Anderson تشریف لائے تھے.اکثر تقریر بھی کرتے اور اگر تقریر نہ ہوتی تو عمومی بحث میں شریک ہو جایا کرتے تھے.پروفیسر اینڈرسن نے اسلامی فقہ پر بہت ساری کتب تحریر کی ہیں.جواب شامل نصاب ہیں.اس قسم کی میٹنگز میں جب علامہ اقبال اور دیگر ہندوستانی اراکین گول میز کانفرنس لندن میں ہوتے تھے تو شرکت کرتے تھے.چنانچہ ایک مرتبہ جب انگریز نواحمدی بچی نے قرآن کریم کی تلاوت کی جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 523 تو علامہ اقبال کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اسے ایک گنی بطور انعام دی.۱۹۵۹ء میں ان مجالس کے روح رواں عبدالعزیز دین صاحب اور حضرت میر عبدالسلام صاحب ہوا کرتے تھے.جو حضرت مسیح موعود کے رفیق بھی تھے.آپ کو انگریزی زبان پر زبر دست قدرت حاصل تھی.اس وقت کے امام مولود احمد خان صاحب دہلی کے رہنے والے تھے.دہلی یو نیورسٹی کے گریجویٹ تھے.آپ اچھے مقرر تھے.انگریزی زبان بھی بہت اچھی بولتے تھے.خاکسار ان کا نائب تھا.لندن پہنچنے کے چند دن بعد میری ملاقات بلال نکل سے ہوئی.آپ انگریز نو احمدی تھے.نہایت خوش طبع ، ملنسار اور احمدیت کے شیدائی تھے.۱۹۲۶ء میں جب بیت الفضل کا افتتاح ہوا تو انگریروں کی طرف سے پہلی نداء آپ نے دی تھی.حضرت خلیفہ ثانی نے آپ کا نام بلال اسی لئے رکھا تھا.بلال محل سے میرا تعلق دن بدن مضبوط ہوتا چلا گیا.اکثر ویک اینڈ پر وہ مشن ہاؤس میں ہی دو دن مقیم ہو جایا کرتے تھے اور مشن کے وسیع باغ کی صفائی کٹائی وغیرہ میں ہاتھ بٹاتے تھے دیسی کھانے بھی بنانے سیکھ لئے تھے.اور شوق سے تہوار کے دن کوئی نہ کوئی دیسی ڈش تیار کر کے سب کو کھلا با کرتے تھے.بلال عمل کو حضرت خلیفہ ثانی سے عشق کی حد تک تعلق تھا.اکثر ان کا ذکر کیا کرتے تھے.۱۹۵۹ء میں ایک اور نو احمدی انگریز مسٹر سمرز ہوا کرتے تھے.ان سے بھی میرا گہرا تعلق قائم ہوا.آپ احمدیت کے شیدائی تھے.حضرت مسیح موعود کے عشق میں سرشار تھے.کہا کرتے تھے کہ میرے سرہانے قرآن کریم اور اسلامی اصول کی فلاسفی موجود رہتی ہے اور میں ان پر غور وفکر کرتا ہوں.ماہوار چندہ میں نہ صرف انتہائی باقاعدہ تھے بلکہ ان دنوں سب سے زیادہ ماہوار چندہ انہی کا ہوا کرتا تھا.طبعاً خاموش طبیعت کے مالک تھے.لمبی لمبی نمازیں پڑھا کرتے تھے اور بیت الفضل میں لمبے عرصہ تک خاموش بیٹھ کر ذکر الہی کرتے تھے.انہی دنوں میری ملاقاتیں انگریز نو احمد یوں مسٹر بانڈ اور مسٹرسٹن جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 524 اور مسٹر بلال سے بھی ہوئیں.مسٹر بانڈ اور مسٹرسٹن ادھیڑ عمر کے انگریز تھے.یہ حضرت مولوی فرزند علی خان صاحب کے زمانہ میں جماعت میں شامل ہوئے تھے.اور نہایت مخلص تھے.مسٹر بانڈ کو باغبانی کا شوق تھا.مشن ہاؤس کے باغ میں ان کے ہاتھ کے لگائے ہوئے بے شمار پھول ہوتے تھے.جلد ۲۰ اس زمانے کا انگلستان آج کے انگلستان سے بہت مختلف تھا.لوگوں میں اخلاق ، دیانت اور شرافت اور ہمدردی کا جذبہ آج کل سے کہیں زیادہ تھا.راہ چلتے انگریز ایک دوسرے کو گڈ مارننگ یا گڈ ایوننگ وغیرہ کہنے کے عادی تھے.ایک دوسرے کی مدد کا جذ بہ بے حساب تھا.دیانت کا یہ عالم تھا کہ جب میں انگلستان میں پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ صبح سویرے منہ اندھیرے دودھ والا آکر گھروں کے آگے دودھ کی بوتلیں رکھ جاتا ہے.اس لئے تمہیں جتنے دودھ کے بوتلوں کی ضرورت ہو آرڈر کر دو وہ روزانہ دودھ تمہارے دروازے کے باہر رکھ جایا کرے گا.اور ہفتہ کے روز رقم لے جایا کرے گا.میں نے بوتلیں آرڈر کر دیں اور پھر مہینوں دودھ والے کی شکل نہیں دیکھی.وہ ہر جمعہ کے دن دودھ کی بوتلوں کے نیچے اپنا بل رکھ دیتا تھا.میں رات کو بوتلوں کے نیچے چیک رکھ دیتا تھا.اس طرح کام چلتا رہتا.جب مزید دودھ کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی تو ایک شام قبل بوتل کے نیچے لکھ کر رکھ دیتا کہ مزید اتنی بوتلیں درکار ہیں.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی باہر سے دودھ کی بوتل اٹھا کر لے گیا ہو یا رقم اڑالی ہو.لیکن اب تو اگر فوراً دودھ کی بوتل اندر نہ لے جائیں تو خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی بچہ یا سکول کو جانے والا طالب علم دودھ کی بوتل اٹھا کر نہ لے جائے.رقم باہر رکھنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.ان دنوں سودا سلف مفت گھر میں پہنچانے کا دکانوں کی طرف سے عام انتظام ہوتا تھا.مشن ہاؤس کے قریب ہی ایک گروسری کی دکان تھی.میں انہیں فون پر یا خود وہاں جا کر آرڈر دے جاتا تھا اور رقم ادا کر دیتا تھا.اگر فون پر آرڈر دیا ہوتا تو رقم بھی دکاندار سامان پہنچا کر وصول کرتا تھا.دکاندار شام کو سامان گھر کے دروازہ کے باہر رکھ دیتا تھا اور یوں لمبے عرصہ تک دکاندار کی شکل بھی نہیں دیکھتے تھے.اب تو گھر پر Delivery کا رواج ہی تو ختم ہو گیا ہے.بعض بڑی دکانیں پیسے لے کر البتہ Delivery کر جاتی ہیں.بینک مینیجروں اور ڈاکٹر ز یعنی G.P سے ذاتی تعلق ہوتا تھا.بینکوں میں عام طور پر ایک مخصوص رقم تک چیک بغیر تصدیق کئے کیش ہو جایا کرتا
تاریخ احمدیت 525 جلد ۲۰ جرمنی تھا.بنگ کا عملہ اپنے گاہکوں کو فرداً فرداً جانتا پہچانتا تھا.اور باہمی اعتماد کی فضا قائم تھی جواب نہیں ہے.مکرم عبد العزیز دین صاحب ویلفیئر سیکرٹری ، مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب ممبر ، مکرم شمس الرحمن بنگالی بارایٹ لاء ممبر، مکرم پروفیسر سلطان محمود شاہد صاحب ممبر، خاکسار کے آنے کے بعد خاکسار کو بطور نائب امام اور جنرل سیکرٹری شامل کر لیا گیا تھا.مشن کا ماہوار چندہ ان دنوں پچیس تیس پونڈ کے لگ بھگ ہوتا تھا.چونکہ اس رقم سے بجٹ پوری طرح نہیں چل سکتا تھا.اس لئے جو کمی رہ جاتی تھی وہ مرکز کے حکم سے ایسٹ افریقہ سے آجاتی تھی اور اس طرح کام چلتا رہتا تھا.۶۱ میلر وز روڈ کے تین فلیٹ کرایہ پر تھے اس سے ۱۵ پونڈ ہفتہ وار وصول ہو جاتے تھے.اور اس طرح مجموعی ماہوار آمدنی ۸۰ سٹرلنگ پونڈ کے لگ بھگ ہو جاتی تھی.مشن ہاؤس سے ملحقہ وسیع باغ کی صفائی کٹائی اور پھلدار درختوں کی نگہداشت ایک مشکل کام تھا.باغبان رکھنے کی توفیق نہ تھی اس لئے یہ کام عموماً وقار عمل کے ذریعہ ہو جایا کرتا تھا.گرمیوں میں درخت سیبوں اور ناشپاتیوں سے لد جاتے تھے.اس میں سے پھل اتار کر اردگرد ہمسایوں میں اور احمدیوں میں تقسیم ہو جایا کرتا تھا.اور زائد پھل کو مجبوراً زمین میں دبا دیا جاتا تھا.ان دنوں فریج فریزر تو ہوتے نہ تھے.پھل گل سڑ جانے سے کیڑے مکوڑوں کا خطرہ ہوتا تھا.بعد میں جدید مشن ہاؤس اور محمود ہال بن جانے کی وجہ سے یہ درخت کاٹنے پڑے اور اب مشن کے احاطہ میں کوئی پھلدار درخت نہیں ہے.۱۹۵۷ء میں ہمبرگ بیت الذکر کی تعمیر ہوئی تھی اس سال فرینکفورٹ میں بھی ایک شاندار خانہ خدا بن گیا.توحید کے اس روحانی مرکز کی بنیاد چوہدری عبداللطیف صاحب انچارج جرمنی مشن نے ۸ مئی ۱۹۵۹ء کو رکھی اور اس کا افتتاح حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نائب صدر عالمی عدالت انصاف ہالینڈ کے مبارک ہاتھوں سے ۱۲؍ ستمبر ۱۹۵۹ء کو ہوا.فرینکفورٹ کے ایک نہایت اہم اخبار FRANKPURTER RUNDSCHU نے اپنی ۴ار تمبر ۱۹۵۹ء
تاریخ احمدیت 526 کی اشاعت میں حضرت چوہدری صاحب کا فوٹو دیتے ہوئے لکھا: - (ترجمه) فرینکفورٹ میں ایک سفید دارالذکر سبز گنبد اور دلفریب مناروں کے ساتھ تعمیر ہو چکی ہے.اس کے افتتاح کے لئے ۱۲ ستمبر کو یورپ کی جماعت احمدیہ کے نمائندے موجود تھے.افتتاح کی رسم ( حضرت ) چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نائب صدر بین الاقوامی عدالت انصاف نے ادا کی.چمکتے ہوئے سورج اور نیلے آسمان کے نیچے مہمان بھاری تعداد میں موجود تھے.مسٹر عبداللطیف نے تقریر کرتے ہوئے اپنی جماعت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مشنوں کے پیغامات پڑھ کر سنائے اور کہا کہ اتنے قلیل عرصہ میں جماعت کے ذریعہ جرمنی میں خدا کے دوسرے گھر کی تعمیر حضرت مصلح موعود امام جماعت احمدیہ کی ذاتی توجہ اور کوشش کا نتیجہ ہے.مسٹر لطیف نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا کہ فرینکفورٹ کی حکومت نے کمال رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے بیت الذکر کی تعمیر کی اجازت دی.فرینکفورٹ کے چیف میئر نے اپنے ذاتی نمائندہ مسٹرا برخت (MR.ALDRFCHT) کے ذریعہ اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا.مسٹر ابرخت نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فرنکفورٹ کی حکومت نے بیت الذکر کی تعمیر کے لئے بلا تامل اجازت دی کیونکہ ہمارے شہر میں تمام مذاہب کے لئے اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی پوری اجازت ہے تا کہ وہ سب امن اور رواداری کو قائم کریں جیسا کہ خدا کے اس گھر کی تعمیر کا مقصد آج بیان کیا گیا ہے.اس کا نقشہ ظفر اللہ کناک صاحب (MR.ZAFRULLAH KNAAK) نے بنایا اور تعمیر کا کام MT.CHMIDT کے ذریعہ پایہ تکمیل کو پہنچا.۲۸ /اکتوبر سے یکم نومبر ۱۹۵۹ء تک چوہدری عبد اللطیف صاحب نے جرمنی کا تبلیغی دورہ کیا اور پاکستان کے نئے سفیر برائے جرمنی ہزایکسی لینسی میاں ضیاء الدین صاحب سے ملاقات کی اور جماعت احمدیہ کی دینی سرگرمیوں کے بارے میں واقفیت بہم پہنچائی.بون میں آپ کا قیام ایک احمدی جرمن جرنلسٹ مسٹر عبد اللہ کے ہاں تھا.آپ نے انہیں حضرت مسیح کی صلیبی موت کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کی تحریک کی.چنانچہ انہوں نے جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 527 جلد ۲۰ چند ہفتوں میں یہ کتاب مرتب کرلی اور اس سال کے آخر میں طباعت کے لئے پریس کو دے دی گئی.۱۳/ نومبر ۱۹۵۹ء کو پرنس یحیی بن الحسین (شاہ یمن کے بھتیجے ) اور السید عبداللہ بن علی شرقی رکن وزارت الخارجیہ یمن تشریف لائے ان کے ہمراہ ہمبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر راجنس (RATJENS) بھی تھے.ان سے چوہدری عبداللطیف صاحب نے احمدیت کے بارہ میں تفصیلی گفتگو کی اور سکنڈے نیویا عربی لٹریچر بھی پیش کیا.ماه فروری ۱۹۵۹ء میں سید کمال یوسف صاحب انچارج مشن نے ”ایکٹو اسلام کے نام سے سویڈیش ، نارویجن اور ڈینش زبانوں میں ایک ماہوار رسالہ جاری کیا.چوہدری عبداللطیف صاحب انچارج جرمنی مشن کے متعدد انٹرویو مختلف اخبارات میں شائع ہوئے.سیف الاسلام محمود ( گونر آرگن) کا ٹیلی ویژن انٹرویو ہوا جو مشن کی شہرت کا موجب بنا.سال کے وسط میں سات بیعتیں ہوئیں.( دین حق ) اور عیسائیت کے موضوع پر ایک پمفلٹ شائع کیا گیا.نیز سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے لیکچر میں ( دین حق ) کو کیوں مانتا ہوں ؟“ کا ڈینش ترجمہ اشاعت پذیر ہوا.شیخ ناص ناصر احمد صاحب بی اے انچارج مشن نے ۲۰/جنوری ۱۹۵۹ء کو BIRMENSDARY میں اور ۳ رفروری کو GOSSAU میں عالم اسلامی اور سوئٹزرلینڈ ( دین حق ) کے موضوعات پر تقاریر کیں.دونوں جگہ حاضرین کثیر تعداد میں موجود تھے.آپ تحریر فرماتے ہیں ”جون ۱۹۵۹ء کے شروع میں خاکسار آسٹریا کے تبلیغی دورہ پر گیا.9 جون کو خاکسار نے وی آنا میں ( دینِ حق ) پر ایک مفصل تقریر کی.یہ تقریر شہر کے ایک مشہور ہال میں ہوئی.اسی شام وی آنا ریڈیو نے خاکسار کے ساتھ ایک انٹرویو نشر کیا.اگلے روز ایک اور جگہ ( یو نیورسٹی کی اور نینٹل انسٹی ٹیوٹ ) میں خاکسار کی تقریر ہوئی.وی آنا میں خاکسار نے مختلف مواقع پر نئے احمدی احباب سے انفرادی ملاقاتیں کیں اور انہیں تنظیم اور چندوں وغیرہ کی طرف توجہ دلائی.پہلی تقریر کے بعد ایک اور نوجوان نے بیعت بھی کی.“ اس سال کا یادگار واقعہ جرمن ترجمہ قرآن کے دوسرے شاندار ایڈیشن کی اشاعت ہے جو شیخ صاحب کی انداز اتین سال کی محنت شاقہ کا ثمر تھا.آپ نے اس ایڈیشن کی تیاری میں
تاریخ احمدیت 528 جلد ۲۰ تفسیر صغیر کو خاص طور پر پیش نظر رکھا.متعدد قیمتی حوائش کا اضافہ کیا.ہزاروں مقامات پر ترجمہ میں مفید اصلاحات کیں اور اسے جرمن زبان کے جدید اسلوب کے مطابق کرنے میں گہری توجہ دی جس سے ترجمہ پہلے سے بہتر اور با محاورہ ہو گیا.۱۱/ نومبر ۱۹۵۹ء کو بیت الذکر ہیگ کی ایک خاص تقریب میں مطبع کی فرم کے ڈائر یکٹر MR.STOOK نے آپ کو پہلا تیار شدہ نسخہ پیش کیا.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ترجمہ کی طباعت مکمل ہونے کی اطلاع پر برقی پیغام ارسال فرمایا کہ میں مبارک باد دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے کام کو یورپ میں دین حق کی اشاعت کا ایک نہایت موثر ذریعہ بنائے (خلیفہ اسی ) نیز ایک خط تحریر فرمایا کہ جزاک اللہ بہت خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ اس ترجمہ کو قبول فرمائے.“ ایک اور خط میں رقم فرمایا :- ہالینڈ اللہ تعالیٰ واقع میں اس کو یورپ کے لئے فائدہ مند بنائے.ھے آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج ۵۳ اس کے ذریعہ وہ لوگ جن کو تعصب نہیں دین حق کی طرف مائل ہو جائیں گے.اس سال ہالینڈ مشن کے انچارج حافظ قدرت اللہ صاحب اور ان کے نائب جناب عبدالحکیم صاحب اکمل نے ملک کے طول و عرض میں منعقد ہونے والی مجالس اور کانفرنسوں میں شرکت کر کے پیغام کو نہایت کامیابی سے بااثر علمی حلقوں تک پہنچایا.ذیل میں بعض ایسے اہم جلسوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن کے پلیٹ فارم سے مشن کو حق کی مؤثر آواز بلند کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.۱- جلسہ فری میسنز سوسائٹی ( منعقدہ ۱۲ جنوری ۱۹۵۹ء) ۲- جلسہ ہیومینٹس (HUMANISTS ) ( منعقده ۶ ارفروری ۱۹۵۹ء ).لیکچر ڈ لفٹ یو نیورسٹی (۲۹ فروری ۱۹۵۹ء) -۴- مذاہب کانفرنس پر انسٹنٹ چرچ آرگنائزیشن (۸/اکتوبر ۱۹۵۹ء) ۵ - ورلڈ کانگریس آف مینس کا نفرنس ( منعقدہ ۵/ نومبر ۱۹۵۹ء ایمسٹر ڈم) ۶ - ڈچ عرب سرکل سوسائٹی کا جلسہ منعقدہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۵۹ء) اس سال احمد یہ مشن ہاؤس کی دینی سرگرمیاں پہلے سے بہت تیز ہو گئیں.بکثرت وفود آئے ، متعد د علمی مجالس کا انعقاد ہوا.زائرین میں نائیجیریا کے ایک وزیر الحاج ڈی ایس اڈگ بینر (D.S.ADEGBENOR) بھی تھے جو ۲۰ جولائی ۱۹۵۹ء کی شام کو بیت الذکر ہیگ میں
تاریخ احمدیت 529 جلد ۲۰ تشریف لائے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب پاکستانی قونسلر جمہور یہ متحدہ عرب اور انڈونیشین سفارتخانہ کے سیکرٹری صاحبان اور بعض احمدی احباب نے استقبال کیا.حافظ قدرت اللہ صاحب نے ان کی خدمت میں ایک مختصر سا ایڈریس پیش کیا.جس کے بعد ہالینڈ سے شائع شدہ انگریزی ترجمہ قرآن مجید اور لائف آف محمد کی ایک ایک جلد بطور ہدیہ نذر کی جسے آپ نے قدر و محبت سے سرشار جذبات کے ساتھ قبول کیا اور ایڈریس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا :- (ترجمہ) '' آج جماعت احمد یہ جس رنگ میں تبلیغ دین کا فریضہ ادا کر رہی ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے.میں نے افریقہ میں ان کا کام دیکھا ہے اور آج یورپ میں بھی دیکھ رہا ہوں اور اس سے بہت متاثر ہوں.جس رنگ میں قرآن کریم کی اشاعت اور اس کی تعلیم پھیلانے میں آپ کی جماعت کوشاں ہے اور جس طرح نو جوانوں کو دین حق کی تعلیم سے آشنا کیا جارہا ہے یہ صرف جماعت احمدیہ کا ہی حصہ ہے اور وہ اس ضمن میں منفرد ہے.دراصل یہی اسلامی تعلیم ہی ہے جس سے دنیا میں صحیح معنوں میں امن قائم کیا جاسکتا ہے اور یہی ایک گر ہے جس کے ذریعہ ترقی ہوگی نائیجیریا میں آپ نے جس رنگ میں دین حق کی عظیم الشان عمارت کی بنیادوں کو پھر سے کھڑا کیا ہے اور سکول اور کالج کھول کر اور بیوت الذکر تعمیر کر کے جس طرح اسلامی تعلیم کو رواج دیا ہے آنے والی عمارت میں اسے ستونوں کے طور پر استعمال کیا جائے گا.“ ۱۹۵۹ء میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ریڈیو، خبر رساں ایجنسیوں اور پریس نے جماعت احمدیہ کی دینی مساعی میں غیر معمولی دلچسپی لی.ہالینڈ کے روزنامہ WIEUWE HRUG SHE COURANT نے اپنی ۲۱ فروری ۱۹۵۹ء کی اشاعت میں ایک مفصل مضمون ” مشرقی مذاہب کا احیاء کے زیر عنوان شائع کیا ہے جس کے آخر میں مضمون نگار نے بیت الذکر ہیگ کے افتتاح کا فوٹو دیتے ہوئے مندرجہ ذیل تشریحی نوٹ لکھا : - ( ترجمہ ) یہ فوٹو نماز باجماعت کی کراچی ، قاہرہ یا بغداد میں کسی نماز کی تقریب کا نہیں بلکہ ہمارے ملک میں ہیگ کی بیت الذکر کا ہے.یورپ میں مسلمان دو دفعہ آئے.ایک دفعہ ۷۳۸ء میں جبکہ کارل مارٹل نے ان کا مقابلہ کیا پھر دوسری دفعہ ۱۵۲۷ء میں جبکہ وہ وی آنا کے دروازہ تک پہنچ گئے.اس وقت بھی انہیں طاقت کے ساتھ پیچھے دھکیل دیا گیا.لیکن اس زمانہ میں وہ دوسرے دروازے سے داخل ہوئے ہیں اور انہیں کسی لشکر اور فوج سے مقابلہ نہیں کرنا پڑا ہاں ان کا مقابلہ اس دفعہ اہل یورپ کے قلوب سے
تاریخ احمدیت 530 جلد ۲۰ ہے جو عیسائیت کی روح سے خالی ہیں اور زندگی کی کوئی جھلک ان میں نظر نہیں آتی.۵۴ ملکی قانون میں اشتہارات تقسیم کرنے اور کھلے بندوں پیغامِ حق پہنچانے کی اجازت نہ تھی اس لئے مجاہد پین مولوی کرم الہی صاحب ظفر دیوانہ وار انفرادی تبلیغ میں پورے سال سرگرم رہے.اس ضمن میں چند واقعات نمونتاً بیان کئے جاتے ہیں.ا.چلی کے قونصل صاحب (SM.D CARLOS SANDER) کو آپ نے قونصل نامزد ہونے پر مبارکباد کا پیغام بھیجا.نیز ان سے ملاقات کی.قونصل صاحب نے اسلام کا اقتصادی نظام اور اسلامی اصول کی فلاسفی مطالعہ کے لئے حاصل کی اور دین حق کی تحقیق میں دلچسپی کا اظہار کیا.۲ مشن ہاؤس میں ملاقاتیوں کا سلسلہ جاری رہا آنے والوں میں ایک کیتھولک اور ریلوے کے آفیسر بھی تھے.اتوار کے روز 4 بجے شام سے ۱۱ بجے شب تک تبادلۂ خیالات کا معمول تھا.- - میڈرڈ کے ایک پروفیسر اور ان کی بیگم صاحبہ نے آپ کو چائے پر مدعو کیا ان کے بیٹے جو ان دنوں انگلینڈ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے موجود تھے.رات کے بارہ بجے تک گفتگو جاری رہی.- پانچ ڈاکٹروں کو اسلامی اصول کی فلاسفی دی اور حضرت مسیح کے سفر کشمیر کی نئی ریسرچ سے آگاہ کیا.۵ فروری میں آپ ایک نئے فلیٹ میں منتقل ہوئے اور اپنے ماحول میں دعوت وارشاد کے مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا شروع کر دیا.- ایک زیر تبلیغ دوست نے خط لکھا کہ انہیں ( دین حق ) کی سچائی کا پورا یقین ہو چکا ہے اور مجھے یہ بھی یقین کامل ہے کہ اللہ تعالیٰ خود دنیا کی ہدایت کے سامان پیدا کرے گا.انہوں نے ہسپانوی زبان میں ترجمہ قرآن کریم طلب کیا.( رپورٹ فروری ۱۹۵۹ء ) ے.کیتھولک مجلس عمل کے زیر اہتمام میڈرڈ میں بعض لیکچر ہوئے ایک پادری صاحب نے غریب کی مدد پر لیکچر دیا آپ نے انہیں تحریک کی کہ وہ اسلام کا اقتصادی نظام سے ایک اقتباس پڑھ کر سنا دیں.جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ ”ہمارے ملک کے امراء کو چاہئے کہ وہ وقت پر اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور ان حقوق کو ادا کریں جو ان پر غرباء کے متعلق
تاریخ احمدیت 531 جلد ۲۰ عائد ہوتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ کمیونزم کا پیدا ہونا ایک سزا ہے ان لمبے مظالم کی جو امراء کی طرف سے غرباء پر ہوتے چلے آئے تھے لیکن اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلیں.اور تو بہ سے اپنے گزشتہ گنا ہوں کو دور کرنے کی کوشش کریں.اگر وہ اپنی مرضی سے غرباء کو ان کے حقوق ادا نہیں کریں گے تو خدا اس سزا کے ذریعہ ان کے اموال ان سے لے لے گا.لیکن اگر وہ تو بہ کریں گے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیں گے تو یہ مہیب آفت جو ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے اسی طرح چکر کھا کر گزر جائے گی جس طرح آندھی ایک علاقہ سے دوسرے علاقے کی طرف منہ اپنا موڑ لیتی ہے.اب یہ تمہارا اختیار ہے کہ چاہو تو اللہ تعالیٰ کے اس محبت کے ہاتھ کو جو تمہاری طرف بڑھایا گیا ہے ادب کے ساتھ تھا مو اور اپنے اموال کو غرباء کی بہبود کے لئے خرچ کرو اور اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو برداشت کرو اور دولت اپنے پاس رکھو جو کچھ دنوں بعد تم سے باغیوں اور فسادیوں کے ہاتھوں چھنوا دی جائے گی.پادری صاحب نے یہ اقتباس حاضرین کو پڑھ کر سنایا چونکہ لیکچر ریکارڈ کرنے کا انتظام تھا اس لئے آپ کی گفتگو اور پادری صاحب نے حضرت مصلح موعود کی تقریر کا جو حصہ سنایا تھا وہ بھی ریکارڈ ہو گیا.مجلس میں ایک فوجی جرنیل بھی موجود تھے انہوں نے اصل کتاب دیکھنے کے لئے طلب کی بعد میں اسلام کا اقتصادی نظام اور اسلامی اصول کی فلاسفی، دونوں کتا ہیں خرید لیں اور اپنا کارڈ بھی دیا.- ۵۵ آپ فدبن کے شعبہ اسلامیات کے ایک سیکرٹری صاحب کے لیکچر میں شامل ہوئے.وہ مندرجہ بالا دونوں کتابیں حاصل کر کے بہت خوش ہوئے اور کہا میں صداقت ( دینِ حق ) کا دل سے قائل ہوں.۹ - آپ ایک بار یوگا والوں کی ایک سوسائٹی میں تشریف لے گئے.۱۱ بجے سے ۲ بجے رات تک صاحب صدر کی تقریر تھی.بعد میں آپ کو خطاب کا موقعہ ملا.آپ نے بتایا کہ انسان کی حقیقی نجات اللہ تعالیٰ کی سچی معرفت اور تزکیہ نفس میں مضمر ہے.اس پر متعدد دلچسپ سوالات کئے گئے جن کا آپ نے تسلی بخش جواب دیا.آپ نے میڈرڈ کے مشہور وکیل (JUAN BRANO) کو کھانے پر مدعو کیا اور ان پر پادریوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ناپاک اعتراضات کی حقیقت واضح کی اور بتایا کہ دنیا کے اکثر لوگوں کو حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کا علم نہیں جو نہی انہیں اس کا علم ہوا تمام قو میں آپ کی غلامی میں آجائیں گی.۱۰ - آپ کو عیسائیوں کی تنظیم اخوان کیتھولک (CATHOLIC HERMANLAD)
تاریخ احمدیت 532 جلد ۲۰ کی مجلس میں شامل ہونے کا اتفاق ہوا.پریذیڈنٹ صاحب نے عیسائی تعلیم اور طریق عبادت تفصیل سے بیان کی.آپ نے بعض سوالات کئے اور ساتھ ہی اسلامی عبادت سے متعارف کرایا جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے.پریذیڈنٹ نے اپنی تقریر کے بعد بمشکل چار منٹ حقیقی اخوت“ کے موضوع پر بولنے کی اجازت دی آپ نے مختصر بتایا کہ حقیقی عالمگیر اخوت محض خدائے واحد کی حقیقی معرفت سے ہی قائم ہو سکتی ہے.ابھی مقررہ وقت ختم نہیں ہوا تھا کہ پریذیڈنٹ صاحب نے گھبرا کر آپ کی تقریر بند کرادی.تعلق 11- ان دنوں میڈرڈ بھر میں سبزی خوروں (VEGETARIAN-CENTRE) کی مجلس تھی جسے حکومت کی اجازت حاصل تھی اس لئے کہ انہوں نے مذہب کے بارے میں بے تو رہنے کا تحریری وعدہ کیا ہوا تھا.مولوی کرم الہی صاحب ظفر اس کے اجلاس میں بھی شامل ہوئے اور بتایا کہ گوشت ہرگز انسان کو گنہگار نہیں بناتا.( دین حق ) سؤر اور مردہ گوشت کھانے سے منع کرتا ہے کیونکہ اس کا روحانیت پر واقعی نا گوار اثر پڑتا ہے.۱۲.ہندوستانی سفارتخانہ کے ایک معزز ہندو دوست اتم صاحب نے دعوتِ چائے پر مدعو کیا.آپ نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام حق پہنچایا اور کتاب پیغام صلح ( MESSAGE OF PEACE) تحفہ دی.مسئلہ تناسخ پر بھی آپ نے تفصیلی روشنی ڈالی.ڈچ گی آنا شیخ رشید احمد صاحب اسحاق انچارج مشن کی مطبوعہ رپورٹ (جنوری تا اپریل ۱۹۵۹ء) کے مطابق ریڈیو سے ان کی نو تقاریر نشر کی گئیں.ڈاکٹر SPACHMAN نے ایچ این ایس (H.N.S) کلب ہال میں ”ہندو مذہب کے زیر عنوان لیکچر دیا.اس موقع پر انہوں نے صدر جلسہ کی اجازت سے بتایا کہ ذات پات کی تمیز کے متعلق صرف قرآن مجید جواب دے سکتا ہے جو لفظی اور معنوی اعتبار سے عدیم المثال ہے اور اس میں رنگ ونسل نہیں فقط تقویٰ معیار فوقیت ہے.انہی ایام میں جنوبی افریقہ کے بہائی مشنوں کی انچارج مسز وار لی MRS.WORLY کے پبلک لیکچر میں آپ نے مسکت سوالات کئے آپ نے یہ بھی پوچھا کہ کیا آپ کی مذہبی کتاب اقدس“ آپ کے پاس موجود ہے؟ جس کا جواب مسز وارلی کو نفی میں دینا پڑا.شیخ رشید صاحب نے امریکہ کے نئے قونصل برائے ڈچ گی آنا (MR.R.MILLONS) کو پیغام احمدیت پہنچایا اور سلسلہ کا لٹریچر پیش کیا.چند روز بعد قونصل سے دوبارہ ملاقات ہوئی جس میں کمیونزم موضوع گفتگو تھا.
تاریخ احمدیت 533 جلد ۲۰ ۲۱ فروری کو بشیر احمد آرچرڈ صاحب مبلغ ٹرینیڈاڈ پانچ روزہ دورہ پر تشریف لائے اور ۲۵ فروری کو واپس ٹرینیڈاڈ تشریف لے گئے.ان علاقوں میں یہ احساس شدت سے پایا جاتا ہے کہ مذہب ( دینِ حق ) صرف عربوں اور ہندوستانیوں کے لئے ہے.یورپین اقوام اسے قبول نہیں کرتیں.مسٹر بشیر آرچرڈ کے مصروف تبلیغی پروگرام سے اس غلط فہمی کا خوب ازالہ ہوا.ملک کے چوٹی کے اخبارات مثلاً سورینام (SURINAM) اور ڈی ویسٹ (DE WEST) وغیرہ نے آپ کے مفصل انٹرویو شائع کئے.آپ کی ملاقات سے امریکن قونصل صاحب بہت متاثر ہوئے نیز اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا مجھے احمد یہ مشن کے ذریعہ یہاں بسنے والی مختلف اقوام کے متعلق بہت عمدہ اور مفید معلومات حاصل ہوئی ہیں.مسٹر بشیر آرچرڈ صاحب اور انچارج مشن کی عزت مآب وزیر اعظم (S.D.EMAMIVILS) سے بھی ملاقات ہوئی.آرچرڈ صاحب نے وزیر اعظم صاحب کو ڈچ قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا اور شیخ صاحب نے ایڈریس پڑھا جس میں جماعت احمدیہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود کے دعوئی کی حقانیت پر روشنی ڈالی.وزیر اعظم نے مشن کی کوششوں کو سراہتے ہوئے شکرایہ ادا کیا.اس تقریب کی خبر پریس اور ریڈیو دونوں نے دی.مسٹر بشیر آرچرڈ کی آخری تقریر H.N.S کلب ہال میں ہوئی جہاں آپ نے اس درجہ جوش اور جرأت کے ساتھ مذہب ( دینِ حق ) پر تقریر فرمائی کہ ہال بار بار تالیوں سے گونج اٹھا.مشرقی افریقہ یہ سال مشرقی افریقہ مشن کے لئے ترقی اور وسعت کا سال تھا جس کے دوران کیکو یو قبیلہ میں دین حق کا وسیع پیمانہ پر نفوذ ہوا.احمد یہ مشن مشرقی ۵۷ افریقہ کے قیام کی سلور جوبلی منائی گئی.۲۶،۲۵ ، ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۹ء کو سالانہ کانفرنس شاندار روایات اور اخلاص و روحانیت کی فضا میں منعقد ہوئی.دونئی جماعتیں قائم ہوئیں اور دورانِ سال ۲۲۶ خوش نصیب حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.اب تفصیل ملاحظہ ہو.شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ وعدن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں تحریر فرمایا کہ:- وہ قیدی جنہیں ماؤ کا ؤ تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی گئی تھی ہمارا سواحیلی اور انگریزی لٹریچر پڑھ کر ( دین حق کی طرف متوجہ ہوئے اور بعد میں ملکی حالات جب نسبتاً بہتر ہو گئے تو ان کی سزاؤں میں تخفیف ہو گئی اور وہ اپنے نظر بندی کے کیمپوں سے مسلمان بن کر رہا ہو رہے ہیں.اس سال اسی ترجمۃ القرآن سواحیلی اور سینکڑوں کتب و اخبارات ان لوگوں کی خواہش پر انہیں مفت بھجوائے گئے.جنہیں وہ قید میں فارغ اوقات میں
تاریخ احمدیت 534 جلد ۲۰ پڑھتے رہے اور ان کے خیالات میں عظیم الشان انقلاب پیدا ہو گیا.ان میں سے بھاری اکثریت عیسائیوں کی تھی اور تھوڑے سے لوگ بے دین اور کچھ مسلمان تھے سب نے اس تاثر کا اظہار کیا ہے کہ انہیں ہمارے لٹریچر سے بڑا روحانی اور مذہبی فائدہ حاصل ہوا ہے.ایک سمجھدار اور تعلیم یافتہ افریقن نے تو یہ بھی لکھا کہ اگر قرآن مجید کا ترجمہ سواحیلی دس سال پہلے ہو جاتا تو کینیا کی مشکلات کا خود بخود خاتمہ ہو جاتا.اس نے یہ بھی لکھا کہ وہ اور ان کے ساتھی صرف ترجمۃ القرآن پڑھ کر مسلمان ہوئے حالانکہ اس سے قبل وہ ( دین حق ) کے شدید دشمن تھے.“ شیخ مبارک احمد صاحب نے عرصہ زیر رپورٹ میں قریباً ۱۶۰ افریقوں ، دس ایشیائیوں، چھ عربوں اور پانچ یورپیوں تک پیغام حق پہنچایا.۴۳۷ خطوط تحریر فرمائے.قریباً چار سو پیکٹ سواحیلی و انگریزی لٹریچر کے خریداروں اور جماعتوں میں بھجوائے.پندرہ روزہ سواحیلی اخبار مینیزی یا منگو (MAPENI YA MUNGU) کی ہر اشاعت کے چھ سو پیکٹوں کی ترسیل کا بھی انتظام کیا.اکتوبر میں آپ نے ٹورا کا ایک ہفتہ کے لئے دورہ کیا.احمد یہ بیت الذکر ٹبورا میں ایک سو سے زائد غیر از جماعت افریقن دوست چائے پر مدعو کئے گئے.جماعت کے مرد و عورت بھی موجود تھے.اس موقعہ پر آپ نے ایک نکاح کا اعلان کرتے ہوئے اسلامی خطبہ نکاح پر نہایت شرح و بسط سے بصیرت افروز روشنی ڈالی.بعد میں ہر ایک کو جماعتی لٹریچر بھی دیا گیا.احمدی احباب کا کہنا تھا کہ جب سے خدا کا یہ گھر تعمیر ہوا ہے اتنی تعداد میں غیر از جماعت دوستوں ا یہ پہلا اجتماع تھا.شیخ صاحب کی اس فاضلانہ تقریر کا شہر میں بہت چرچا ہوا.نیا نزا پر اونس کے انچارج مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل نے اس سال ۲۶۸۷ میل سفر کیا جس میں سے ۵۰۰ سے زائد میل پیدل تھا.۶۱ معززین تک جن میں گورنمنٹ افسر بھی تھے پیغام حق پہنچایا.۱۵۱۱۵ اشتہارات، اخبارات اور کتب تقسیم و فروخت کیں.۱۱۳۹۵ افراد کو بذیر یعہ ملاقات احمدیت سے متعارف کرایا.آپ نے نیا نزا اپر اونس کے طول و عرض میں مع چار سو معلمین کے قریباً ہمیں دورے کئے.شمالی اگنیاں کے چیف مسٹر جوں را ڈیڈ وکو قرآن کریم کا ترجمہ سواحیلی تحفہ پیش کیا جس پر انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور بعد میں بوقت ملاقات بتایا کہ میں قرآن مجید باقاعدہ پڑھتا ہوں اور اس کے مسائل پر غور کرتا ہوں.آپ نے آریہ سماج کے ایک جلسہ میں ” خدا تعالیٰ کی صفات کے موضوع پر تقریر فرمائی.مولوی عبدالکریم صاحب شرما کی رپورٹ جنوری تا مارچ ۱۹۵۹ء کے مطابق ضلع ٹائٹھا میں آپ کی مساعی سے ایک نئی جماعت قائم ہوئی.یہاں کے ڈسٹرکٹ آفیسر اور چیف سے
تاریخ احمدیت 535 جلد ۲۰ ملاقات کر کے آپ نے جماعت احمدیہ سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کیا.عربوں نے سلطان زنجبار کی سالگرہ خاص اہتمام سے منائی.نیز زنجبار کے شاہی خاندان کا ایک شہزادہ سلطان کے نمائندہ کی حیثیت سے ممباسہ آیا.اس کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں جناب شر ما صاحب بھی مدعو تھے.انہوں نے شہزادہ صاحب کو دورانِ ملاقات جماعت احمدیہ سے متعارف کرایا.نیز لٹریچر بھی ارسال کیا جولائی سے ستمبر تک کے عرصہ رپورٹ میں آپ نے قریباً سترہ سو میل سفر کر کے متعدد مقامات کا دورہ کیا.سالی لینڈ کے قریب لاموں عربوں کا ایک پرانا قصبہ ہے جس کے قاضی اور بعض علماء سے ملاقاتیں کیں.نیز عربی اور سواحیلی لٹریچر تقسیم کیا.عربوں کا ایک اور اہم قصبہ مالنڈی ہے.وہاں آپ نے عرب معززین سے ملاقات کی اور سلسلہ کا لٹریچر دیا.نیز اباضی فرقہ کے ایک عالم اور لیجسلیٹو کونسل کے ایک معز ز صومالی ممبر سے تبادلہ خیالات کیا.آپ کی مساعی سے چالیس افریقن داخل احمدیت ہوئے.مولوی محمد منور صاحب فاضل کی سہ ماہی رپورٹ (جنوری تا مارچ ۱۹۵۹ء) سے پتہ چلتا ہے کہ مولوی نورالدین صاحب منیر ایڈیٹر ایسٹ افریقن ٹائمز“ ایک ماہ کے لئے یوگنڈا تشریف لے گئے جس دوران آپ نے ادارت سنبھالی اور دو پرچے شائع کرائے.ماؤ ماؤتحریک کے متعدد عیسائی قیدیوں کی طرف سے خطوط موصول ہوئے کہ وہ عیسائیت سے بیزار ہیں اور ( دین حق ) کے مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں جس پر آپ نے قرآن مجید ترجمہ سواحیلی کے تیرہ نسخے اور اس سے چار گنا کتب اور اخبارات ان قیدیوں کو بھجوائے.مولوی عبد الکریم صاحب شرما نے ممباسہ کے متعدد تعلیم یافتہ عرب اور افریقن تک پیغام صداقت پہنچایا.چیدہ لوگوں سے ملاقاتیں کیں.عرب سیکنڈری سکول اور مسلم انسٹی ٹیوٹ کی طرف خصوصی توجہ دی.ایک بار زنجبار کے ایک تاجر آپ سے حضرت مسیح موعود کی عربی کتب لے گئے.دوبارہ آئے تو کہنے لگے خدا کی قسم میں نے ان کتابوں میں نور پایا ہے.میرا ایمان ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے اور مجھے یقین ہے کہ احمدیت ضرور پھیل کے.رہے گی.چوہدری عنایت اللہ صاحب انچارج مشنری ٹو را سارا سال دینی خدمات میں منہمک رہے.وہ یوگنڈا کے دورہ پر بھی تشریف لے گئے.سال کی دوسری ششماہی میں انہوں نے ۹ دیہات کا دورہ کیا ۹۳۵ میل سفر کیا اور ۵۰۰ سے زائد افراد تک پیغام حق پہنچایا.
تاریخ احمدیت 536 جلد ۲۰ مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ۱۸ / جولائی ۱۹۵۹ء کو مرکز سے ممباسہ پہنچے اور ایک ماہ تک نیروبی کے مرکزی مشن میں رئیس التبلیغ صاحب کی زیر نگرانی کئی امور انجام دینے کے بعد اپنے حلقہ (سبورا) میں سرگرم عمل ہو گئے جہاں چوہدری عنایت اللہ صاحب انچارج مشنری کے فرائض انجام دے رہے تھے.آپ نے ٹورا میں تعلیم بالغان کا انتظام کیا.ٹیو را کی نواحی جماعتوں کے دورے کئے اور ۱۰۶۰ میل کا سفر تبلیغی اغراض کی خاطر کیا.اخبار ایسٹ افریقن ٹائمز“ کے لئے مضامین لکھے اور مشن میں آنے والے کثیر تعداد زائرین کو معلومات بہم پہنچا ئیں.نیز لٹریچر دیا.و یہ مشن پچیس سال قبل ۲۷ / نومبر ۱۹۳۴ء کو معرض وجود میں آیا تھا.اس مناسبت سے اس سال کے آخر میں جماعت احمد یہ مشرقی افریقہ کی طرف سے پر جوش سلور جوبلی منائی گئی.اخبار ” ایسٹ افریقن ٹائمنز اور مپینزی یا منگو (MAPENZI YA MUNGU) کے دسمبر میں خصوصی نمبر شائع ہوئے جو دس دس ہزار کی تعداد میں چھپوائے گئے اور مقبول ہوئے.اس تقریب پر قومی اور ملکی لیڈروں کے تہنیتی پیغامات موصول ہوئے.چنانچہ وزیر اراضیات چیف عبد اللہ فید یکر آف ٹا نگانیکا نے لکھا: - ( ترجمہ ) میں جماعت احمدیہ کو اس موقعہ پر مبارک باد بھیجنے میں خوشی محسوس کرتا ہوں اور مشرقی افریقہ کے ان ممالک میں ان کے لئے اس اہم کام تبلیغ دین حق کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں.اس جماعت نے گزشتہ ۲۵ سالوں میں قابل قدر کام کیا ہے ابتداء میں اس جماعت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.کیونکہ ایک ہی وقت میں اسے دو محاذوں پر مقابلہ کرنا پڑا.ایک طرف تو انہیں ( دین حق ) پر اس نکتہ چینی کا جواب دینا پڑا جو دوسرے مذاہب کے لیڈر ( دین حق کے خلاف پھیلا رہے تھے.اور اب اس بات کو دیکھ کر ہمیں خوشی ہے کہ اب ( دینِ حق ) کے دشمنوں کے منہ بند ہو گئے.دوسری طرف مشن کو مسلمانوں کی اس غلط فہمی کو دور کرنا تھا کہ احمدیوں کے عقائد ( دین حق ) کے خلاف نہیں بلکہ ( دین حق ) کو مضبوط کرنے والے ہیں.ان اصولوں کو پھیلا کر احمد یہ جماعت نے بہت سے مسلمانوں کو اپنے طور پر فیصلہ کرنے میں مدد کی ہے.کسی چیز کو با قاعدگی سے ترقی کی طرف لے جانا بہت مشکل ہوتا ہے.تا ہم اس جماعت نے ۲۵ سال کے مختصر عرصہ میں
تاریخ احمدیت 537 جلد ۲۰ کافی منازل طے کر لی ہیں اور یہ قوی امید ہے کہ اس کا مستقبل اس کے ماضی سے کہیں زیادہ شاندار ہوگا.“ ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین کے صدر مسٹر جے کے نیریرے (G.K, NYERERE) نے حسب ذیل پیغام دیا : - (ترجمہ) ''ہمارے مسلمان بھائی جو احمد یہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس ملک میں اپنے تبلیغی کام کی سلور جوبلی منارہے ہیں.میں اس موقعہ پر انہیں ان کی کامیابیوں پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ان کا اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا مستقبل شاندار ہوتا کہ وہ مل جل کر ایک ایسی قوم کو تشکیل دیں جس میں سارے مذاہب کے پیروکار بھائیوں کی طرح حصہ دار بنیں.یہ منظر دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اس ملک میں جس کا طرہ امتیاز امن اور باہمی اتحاد ہے سب مذاہب، مختلف قبائل کی طرح باہمی پرورش پارہے ہیں تاکہ سارے باشندوں کی ایک قوم بنے.ہمارے اس ملک میں دوسرے مہذب ملکوں کی طرح ہر مذہب کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اسے اپنی تعلیمات کی تبلیغ کرنے اور پھیلانے کی پوری آزادی ہوگی.اور یہ چیز یقیناً ملکی اتحاد اور امن کو قائم رکھنے اور مضبوط بنانے.66 کے لئے مددگار ہوگی.“ چیف ہارون لگوشمہ ڈپٹی سپیکر لیجسلیٹو کونسل آف ٹا نگانیکا نے پیغام دیا کہ : - ( ترجمہ ) احمدی جماعت مشرقی افریقہ کے مسلمانوں میں ایک بہترین منظم جماعت ہے.وہ اپنی ذمہ داریوں کو نہایت محنت اور جوش سے سرانجام دیتے ہیں جو یقیناً دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے.مشرقی افریقہ میں انہوں نے اسلام کی تعلیمات کو اس رنگ میں پھیلایا ہے جو حالاتِ حاضرہ کے عین مناسب تھا.میں ان کی ۲۵ سالہ کامیابیوں پر ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں.“ ان کے علاوہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی پیغام ارسال فرمایا جو اخبار ” ایسٹ افریقن ٹائمز میں آپ کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا.۲۶،۲۵، ۲۷ دسمبر ۱۹۵۹ء کو جماعت احمد یہ مشرقی افریقہ کی کامیاب سالانہ کانفرنس
تاریخ احمدیت 538 جلد ۲۰ نیروبی میں منعقد ہوئی جس میں کینیا کالونی، ٹانگانیکا اور یوگنڈا سے افریقی اور ایشیائی احمدی مندوبین کے علاوہ مبشرین احمدیت نے بھی شرکت فرمائی.شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ نے مشن کی سالانہ کارگزاری پر نہایت مؤثر انداز میں تبصرہ کیا.بجٹ آمد و خرچ ۱-۱۹۶۰ ء ایک لاکھ پینتیس ہزار دوسو پچاس شلنگ منظور ہوا اور دین حق کی توسیع اشاعت کے لئے مفید اور اہم تجاویز پاس کی گئیں.سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ فروخت لٹریچر کے سلسلہ میں خاص ترقی ہوئی.چنانچہ سواحیلی ترجمہ قرآن مجید سے ۴۶۳۴/۱۸ شلنگ کی آمد ہوئی.سواحیلی اخبار اور کتب کی فروخت سے صرف چھ ماہ میں آمد ۴۳۲۴/۸۹ شلنگ تھی.قرآن مجید کی اسی کا پیاں مفت بھجوائی گئیں.مشرقی افریقہ کے علاوہ مشن کی طرف سے جنوبی افریقہ، نیا سالینڈ، بلجیم ، کانگو، روڈ یشیا، سالی لینڈ، پرتگیز ، مشرقی افریقہ اور زنجبار میں بھی بذریعہ ڈاک لٹریچر بھجوایا گیا.۱۹۵۹ء میں بعض مخالفین نے احمدیت کے خلاف بعض رسالے شائع کئے جن کا افریقن مبلغ شیخ امری عبیدی صاحب نے حقیقت افروز رنگ میں جواب دیا.شیخ مبارک احمد صاحب نے یہ عظیم الشان خوشخبری سنائی کہ جب وہ مارچ ۱۹۵۹ء میں پاکستان رخصت گزار کر پہنچے تو مشرقی افریقہ مشن پر تقریباً ایک لاکھ شلنگ کا قرض تھا جو اب خدا کے فضل اور مخلص دوستوں کی شاندار مالی قربانیوں سے بہت حد تک اتر چکا ہے اور باقی کے جلد ختم ہونے کے امید ہے.آپ نے ان سب مخیر اصحاب کے اسماء سنائے جنہوں نے اس کارخیر میں حصہ لیا اور بتایا کہ حضرت مصلح موعود نے بھی اس پر خوشی کا اظہار فرمایا ہے اور جناب وکیل التبشیر صاحب نے خاص شکریہ کے خطوط لکھے ہیں.جن اصحاب نے بطور عطیہ گرانقدر امداد کی ان میں عبدالعزیز صاحب بٹ ، میسر ز فقیر محمد خاں اینڈ سنز ، ڈاکٹر ظفر محمود صاحب آف ٹبو را، ڈاکٹر نذیر احمد صاحب اور ڈاکٹر طفیل احمد صاحب ڈار خاص طور پر قابلِ ذکر تھے.کانفرنس کے آخری اور پانچویں اجلاس میں حضرت مصلح موعودؓ کے معرکہ آرا خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۵۳ء کا ریکارڈ دو گھنٹے تک سنایا گیا جو ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب آف بور نیو کے طفیل حاصل ہوا اور جس نے سامعین پر ایک خاص کیفیت طاری کر دی.۶۲ یوں تو نائیجیریا اور غانا کی طرح سیرالیون میں جماعت احمدیہ کے کئی سکول قائم تھے سیرالیون مگر پہلا سکول جسے حکومت نے تسلیم کیا اور اسے امداد دینے کی منظوری دی ملک کے دارالحکومت فری ٹاؤن میں ۲۰ جنوری ۱۹۵۹ ء کو کھولا گیا.افتتاحی تقریب میں بعض نامور اصحاب نے اعتراف کیا کہ احمدیت مغربی افریقہ کے مسلمانوں کے لئے رحمت ہے جو انہیں جدید
تاریخ احمدیت 539 جلد ۲۰ تعلیم سے بہرہ ور کر رہی ہے.اس کے علاوہ اس سال کے آغاز میں گلبو ر گا احمد یہ سکول کا افتتاح عمل میں آیا.اس موقع پر سیکنڈری سکول کے پرنسپل نے جماعت کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا : - میں اگر چہ جماعت احمدیہ کا ممبر نہیں ہوں مگر ان لوگوں کی تعلیمی اور مذہبی خدمات کا جو انہوں نے اس ملک میں عوام کے لئے سرانجام دی ہیں معترف ہوں.ان لوگوں نے بہت دور دراز ملک سے یہاں آکر جو کام اور خدمت اس ملک کے عوام کی کی ہے اور کر رہے ہیں وہ بہت ہی بے نظیر ہے.اس لئے میں تمام حاضرین خصوصاً اپنے مسلمان بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان سے ہر رنگ میں تعاون کریں تا یہ لوگ ہمارے ملک کے بچوں کو دونوں رنگوں میں یعنی دینی اور مذہبی میں تربیت دے کر قوم اور ملت کے لئے بہترین وجود بنا ئیں.اسی سال باؤما ہوں اور شینگے میں بھی نئے سکول جاری کئے گئے.ان سب سکولوں نے سیرالیون کے مسلمانوں میں خوشی کی ایک نئی لہر دوڑا دی اور ان کی نسلوں کا تعلیمی مستقبل روشن نظر آنے لگا.۲۵ رمئی ۱۹۵۹ء کو حکومت سیرالیون کے وزیر تعمیرات آنریبل چیف کا نڈے بورے صاحب اپنے عملہ کے متعدد افسران اور دیگر سر بر آورده حضرات کے ہمراہ احمد یہ دار التبلیغ ہو" میں تشریف لائے.مولوی مبارک احمد صاحب ساقی اور دوسرے مبشرین اور احمدی احباب نے ان کا پر تپاک استقبال کیا.وزیر موصوف نے مشن کی خدمات کو سراہا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ جماعت احمد یہ مسلمانوں میں عربی علوم مروج کرنے کے لئے ایک عربی کالج کا انتظام کرے.ماہ فروری ۱۹۵۹ء کے شروع میں انگلینڈ سے پادریوں کا ایک وفد سیرالیون آیا اور فری ٹاؤن میں مختلف مقامات پر جلسے کر کے دعوی کیا کہ وہ لولوں ،لنگڑوں اور اندھوں کو یسوح مسیح کے طفیل تندرست کر سکتے ہیں.احمد یہ مشن سیرالیون نے اس پراپیگنڈہ کی قلعی کھولنے کے لئے بذریعہ پمفلٹ تحریری چیلنج دیا جس کے منظر عام پر آتے ہی یہ لوگ سیرالیون کو خیر باد کہہ گئے.آخر مارچ ۱۹۵۹ء کو مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری انچارج احمد یہ مشن سیرالیون اور پیرا ماؤنٹ چیف آنریبل موسیٰ صاحب نے سیرالیون کی ڈسٹرکٹ کینما میں ایک بیت الذکر کی بنیاد رکھی.لنگٹن میں ایک نئی جماعت کا قیام ہوا.سیرالیون کی احمدی خواتین کے تبلیغی وفود مختلف علاقوں میں ایک خاص پروگرام کے تحت پہنچتے رہے اور ان کی مساعی کے نتیجہ میں ، امستورات کو دولت ایمان نصیب ہوئی.اس سال بھی بو کی سرکاری زراعتی نمائش میں احمدیہ پریس اور احمد یہ بک شاپ کی مطبوعات کا سٹال لگایا گیا.حکومت سیرالیون کے وزیر معدنیات، کمشنر صوبہ، ڈی سی اور
تاریخ احمدیت 540 جلد ۲۰ پریذیڈنٹ ڈسٹرکٹ کونسل نے بھی سٹال دیکھا.وزیر معدنیات کو لوکل زبان میں احمد یہ پریس سے شائع کردہ لٹریچر کا ایک ایک سیٹ پیش کیا گیا.اس نمائش میں تمام سکولوں نے حصہ لیا.اس مقابلہ میں احمد یہ سنٹرل سکول نے صوبہ بھر کے تمام سکولوں میں اول پوزیشن حاصل کی اور شیلڈ کے انعام کا حقدار قرار پایا.سیرالیون کے دو احمدی مسٹر سلیمان (شمالی صوبہ ) اور مسٹری وانڈی کالوں (ریاست ڈارو) کے چیف منتخب کر لئے گئے.۶۳ جماعت احمد یہ غانا کی سالانہ کانفرنس ۱۵ تا ۱۸ / جنوری ۱۹۵۹ء سالٹ پانڈ میں نہایت غانا جوش و خروش سے منعقد ہوئی.حاضرین کی تعداد چار پانچ ہزار تھی.جلسہ گاہ اور مہمانوں کی رہائش کے انتظامات سالٹ پانڈ کی مخلص جماعت نے کئے.غانا کے مرکزی ریڈیو نے انگریزی اور بعض مقامی زبانوں میں اس کی خبریں نشر کیں اور غانا کے کثیر الاشاعت اخبار غانا ٹائم میں اس کے گروپ فوٹو شائع ہوئے.الحاج مولوی نذیر احمد صاحب مبشر امیر و انچارج مشن نے اپنی اختتامی تقریر میں گزشتہ سال کی تبلیغی و تعلیمی مساعی پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور آخر میں بتایا کہ میں نے نانا کے وزیر تعلیم ہی کو نہیں بلکہ ملکی درسگاہوں کے تمام جنرل مینجر وں کو بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ کسی مسلمان طالب علم کو عیسائیت کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور انہوں نے اس کا وعدہ کیا ہے.آپ کے بعد مولوی نسیم سیفی صاحب نے جماعتی اتحاد اور لٹریچر کی ضرورت و اہمیت پر مؤثر تقریر فرمائی.دیگر مقررین کے نام یہ ہیں.سینئر چیف رئیس مسٹر جبرائیل ، مولوی خلیل احمد صاحب اختر ، مولوی عبدالرشید صاحب رازی ، مسٹر محمد آرتھر ، الحاج آدم صاحب، مولوی فضل الہی صاحب انوری انچارج عربی سکول سویڈرو، عبدالواحد صاحب جنرل سیکرٹری اشانٹی ، منیر احمد صاحب پروفیسر احمد یہ سیکنڈری سکول ، یعقوب یمنی صاحب.حسب دستور اس جلسہ پر بھی مالی جہاد میں مسابقت کا روح پرور نظارہ سامنے آیا اور کل نقد وصولی ساڑھے سات سو پونڈ ہوئی.احمدی مستورات نے بیت الذکر ہالینڈ کے لئے دوسو شلنگ چندہ پیش کیا جو اس کے علاوہ تھا.کانفرنس کے دوران مجلس شوری بھی ہوئی جس کی صدارت جناب نسیم سیفی صاحب نے فرمائی.مشن کی سرگرمیاں پورا سال انچارج مشن کی سرکردگی میں جاری رہیں.ان دنوں غانا مشن تنظیمی اعتبار سے چار حلقوں میں منقسم تھا.ا.شمالی غانا ۲ - اشانٹی سیکشن ۳ - کالونی مغربی ریجن ۳ - اکرا شہر اور مشرقی غانا
تاریخ احمدیت 541 جلد ۲۰ شمالی غانا اور کالونی مغربی ریجن کی براہ راست نگرانی امیر صاحب جماعت احمدیہ غانا فرماتے تھے.اشانٹی سیکشن کے انچارج مولوی خلیل احمد صاحب اختر اور اکرا شہر اور مشرقی غانا کے انچارج مولوی عبدالرشید صاحب رازی تھے.مشن کی سہ ماہی رپورٹ (ازجنوری تا مارچ ۱۹۵۹ء) کے مطابق مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے ۱۳ شہروں اور قصبات کا دورہ کر کے ایک سو اشخاص تک بذریعہ ملاقات پیغام احمدیت پہنچایا.غانا کے تمام احمدی سکولوں کے جنرل مینجر کے فرائض انجام دیئے.تین نئے سکول جاری کئے.گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی سالٹ پانڈ کے احمد یہ مڈل سکول نے ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ ٹرافی جیت کر اپنا اعزاز برقرار رکھا.مولوی خلیل احمد صاحب اختر نے عرصہ زیرر پورٹ میں 9 مقامات کا دورہ کیا اور ۱۹ تقاریر کیں.۸/فروری کو اہا فوریجن میں OYUCDO کے مقام پر کل اشانٹی احمدیہ تبلیغی کا نفرنس منعقد کی.۲۲ رفروری کو AKROKRI اور ٢٩ / مارچ کو TELHING میں کامیاب جلسے ہوئے.اختر صاحب احمدیہ سیکنڈری سکول اور گورنمنٹ مڈل سکول میں عربی اور دینیات پڑھاتے رہے.مولوی عبدالرشید صاحب رازی نے اپنے حلقہ کی جماعتوں کا دورہ کیا.آپ کی کوشش سے غانا یونیورسٹی میں ۱۰ ۱۱ فروری کو مولانا نسیم سیفی صاحب کے دو لیکچروں کا انتظام ہوا.یہ فاضلانہ ٹیچر پروفیسر مسٹر کنگ انچارج شعبہ دینیات کی زیر صدارت ہوئے جس کے بعد جناب سیفی به صاحب نے یونیورسٹی کے ایک مذاکرہ علمیہ میں شرکت فرمائی اور نہایت اثر انگیز انداز میں توحید کے متعلق اسلامی نقطہ نگاہ پیش کیا.نیز طلبہ کو عمدہ پیرایہ میں جوابات دیئے.سوال و جواب کا یہ سلسلہ قریباً گیارہ بجے شب تک جاری رہا.مسٹر چیئر مین نے کہا کہ ہم مولا نا نیم سیفی صاحب سے ( دین حق ) کی تعلیمات سن کر بہت متاثر ہوئے ہیں.اس سال غانا میں ۳۰۸ خوش نصیب داخل احمدیت ہوئے.غانا کے شمالی علاقہ میں ایک مشن ہاؤس تعمیر ہوا.دارالحکومت اکرا میں نئے مشن ہاؤس کی بنیاد رکھی گئی اور اس کے لئے ۱۸۰ پونڈ کا فرنیچر اور سامان آرائش خریدا گیا.نیز مرکزی ہدایت کے مطابق مقبرہ موصیان کے ۲۴ قیام کی تجویز پر عمل شروع ہوا.اس سال مولانا نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ، مولوی محمد بشیر صاحب شاد نائیجیریا اور حافظ محمد اسحاق صاحب بی.اے شاہد نے متعدد اہم مقامات کا دورہ کیا.شمالی علاقوں میں رئیس التبلیغ کا دورہ بالخصوص نہایت کامیاب رہا.آپ لائبیریا، غانا اور سیرالیون بھی تشریف لے گئے.پورے ملک میں نئے مبائعین کی مجموعی تعداد ۲۴۲ رہی.
تاریخ احمدیت 542 جلد ۲۰ حسب سابق مولانا صاحب کا تبلیغی ہیڈ کوارٹر لیگوس تھا جہاں آپ کے زیر ادارت اخبار دی ٹروتھے باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا اور مسلمان نائیجیریا کی تقویت کا موجب بنا.اسی طرح لیگوس کے جریدہ ڈیلی سروس (DAILY SERVICE) میں آپ کے قلم سے ہر جمعہ کو مسلمانوں کے اضافہ علم کے لئے مضامین کا سلسلہ جاری رہا.نیز نائیجیرین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے آپ کے دلچسپ مذہبی جوابات نشر کئے.شمالی نائیجیریا کے انچارج مولوی محمد بشیر صاحب شاد تھے.ان کے حلقہ میں کانو کے نزدیک ایک نواحی بستی میں نئی جماعت قائم ہوئی جن میں اکثریت ہاؤسا‘ باشندوں کی تھی.غیر معمولی ترقی دیکھ کر مخالفین احمدیت نے پبلک جلسوں اور اخباروں میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا.ان کے کئی وفود نئے احمدیوں کو منحرف کرنے کے لئے ان لوگوں میں پہنچے اور ان کے اعز واقارب کے ذریعہ انہیں دہشت زدہ کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.مولوی صاحب نے ان مخالفانہ کارروائیوں پر کڑی نگاہ رکھی اور مقامی اخبارات میں غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے مضامین لکھے.نتیجہ یہ ہوا کہ اس مخالفت کے ذریعہ احمدیت کا نام پورے علاقہ میں پہنچ گیا اور لوگ احمدیت میں پہلے سے زیادہ دلچسپی لینے لگے.یہ مغربی نائیجیریا کے صدر مقام ابادان میں حافظ محمد اسحاق صاحب کی نگرانی میں ایک نیا اداره ’ احمد پر ریلیجس ٹریننگ سنٹر معرض وجود میں آیا جس کی ابتداء 9 طلبہ سے ہوئی.آپ یہاں روزانہ لیکچر دیتے رہے.حافظ صاحب کے کئی ٹیچر یونیورسٹی کالج ابادان اور نائیجیریا کالج میں مسلم سٹوڈنٹس سوسائٹی کے زیر انتظام ہوئے.آپ نے گورنمنٹ کالج ابادان میں مسلم سٹوڈنٹس سوسائٹی کے طلبہ میں سلسلہ کا لٹریچر تقسیم کیا.روزنامہ ٹریبیون اور ڈیفنڈر میں آپ کے مضامین شائع ہوئے.ابادان ڈویژن کے پانچ احمد یہ سکولوں کی نگرانی آپ کے سپر د تھی.اس سلسلہ میں آپ نے محکمہ تعلیم کے حکام سے ملاقاتیں کیں اور بعض افسروں کو مشن ہاؤس میں مدعو کیا.اس سال مرکز احمدیت ربوہ کی تحریک پر نائیجیرین احمد یوں کو نظام وصیت سے وابستہ کرنے کی مہم کا آغاز ہوااور قطعہ زمین (برائے مقبرہ موصیان ) کی خرید کے لئے جلسہ سالانہ نائیجیریا کے موقع پر ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی.جماعت احمد یہ نا پیجیریا کا سالانہ جلسه ۲۶ ، ۲۷، ۲۸ / دسمبر ۱۹۵۹ء کو منعقد ہوا.جلسہ کے پروگرام اور متعدد اجلاسوں کی کارروائی نائیجیریا ریڈیو سے خبروں کی شکل میں مسلسل تین روز تک نشر ہوتی رہی.جلسہ میں ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی جماعت ہائے احمدیہ کی تقریباً ۲۵
تاریخ احمدیت 543 جلد ۲۰ جماعتوں کے ہزار ہا احباب نے شرکت کی.جلسہ میں اہم دینی اور تعلیمی موضوعات پر انگریزی، عربی ، ہاؤسا وغیرہ زبانوں میں تقاریر ہوئیں اور ان کی ترجمانی یورو با زبان میں بھی کی گئی.جلسہ سے مولانا نسیم سیفی صاحب، مولوی محمد بشیر صاحب شاد، عبدالسلام صاحب معلم ، موسیٰ محمد صاحب، حبیب صاح معلم ، الحاج فلا دیو صاحب ، مسٹر اور لیں، الف کبوا صاحب، محمد اسحاق صاحب اور مولوی مبارک احمد صاحب ساقی نے خطاب کیا.مخلصین جماعت نے سو پاؤنڈ کی مالی قربانی پیش کی.اس موقع پر جماعت احمدیہ نائیجیریا کی مجلس شوریٰ کا بھی اجلاس ہوا.نیز فیصلہ کیا گیا کہ یو نیورسٹی کالج ابادان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنے ہاں اسلامی علوم کی تدریس کا اعلیٰ پیمانے پر انتظام کرے.اس سلسلہ میں کالج کا ہاتھ بٹانے کے لئے جماعت کی خدمات پیش کرنے کا بھی فیصلہ ہوا.جلسہ کے اختتام پر پورے عزم کے ساتھ یہ عہد دہرایا گیا کہ نظام خلافت کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہیں گے اور اس کی مضبوطی اور استحکام کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے اور آئندہ نسلوں کو بھی خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے اور پوری تندہی سے دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کرنے کی تلقین کرتے رہیں گے.سٹیج کے ساتھ نائیجیریا مشن کی مطبوعات اور جماعت احمدیہ کے بین ۲۵ الاقوامی جرائد کی نمائش کا بھی انتظام تھا جو حاضرین جلسہ کے لئے گہری دلچسپی کا باعث ہوا.وسط ۱۹۵۹ء میں نائیجیریا کے گورنر جنرل سر جیمس را برٹسن تین روز کے دورہ خیر سگالی پر لائبیریا تشریف لائے.اس تقریب پر انہیں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری انچارج لائبیریا مشن نے جماعت کی طرف سے ایڈریس پیش کیا.نیز دینی لٹریچر تحفہ پیش کیا جو احمدیت کے لائبیریا تعارف پر مشتمل تھا.ایڈریس کے جواب میں اُن کے پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر جے بونیارڈ کی طرف سے حسب ذیل مکتوب موصول ہوا:- ترجمہ از گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس“ منروویا.لائبیریا.۶ جولائی ۱۹۵۹ء محترم الحاج مولوی محمد صدیق صاحب مجھے نائیجیریا کی متحدہ حکومت کے گورنر جنرل ہزایکسیلنسی سر جیمس را برٹسن نے آپ کو جواب دینے اور انہیں قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور مذہب
تاریخ احمدیت 544 جلد ۲۰ ( دین حق ) پر دیگر کتب پیش کرنے پر ان کی طرف سے آپ کا شکر یہ ادا کرنے کا ارشادفرمایا ہے.ہز ایکسی لینسی جہاں جماعت احمدیہ کی نائیجیریا میں مساعی اور خدمات کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہاں انہیں یہ معلوم کر کے بھی نہایت خوشی ہوئی ہے کہ لائبیریا میں بھی جماعت احمد یہ قائم ہے.نائیجیریا میں اس وقت ہزاروں بچے احمد یہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر کے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور گذشتہ تمہیں سال کے عرصہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے نائیجیریا کے جملہ علاقوں میں بہت بڑی تعداد میں مسلم اسکول کھولے گئے ہیں.ہز ایکسی لینسی نے مجھے یہ بھی آپ کو لکھنے کا ارشاد فرمایا ہے کہ لیگوس سے نکلنے والا جماعت احمدیہ کا ہفتہ وار اخبار دی ٹروتھ “ وہ با قاعدہ حاصل کرتے ہیں اور وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اخبار واقعی اس نام ( دی ٹروتھ ) " کا مستحق ہے.بالآخر ہز ایکسی لینسی آپ کا اور احمد یہ مشن لائبیریا اور دیگر ممبران کا ناصرف اسلامی کتب پیش کرنے بلکہ دینِ حق ) کا اعلیٰ پیغام پہنچانے پر شکر یہ ادا کرتے ہیں جو آپ نے ان کے نام اپنے خط کے آخری حصہ میں پیش کیا ہے.آپ کا خیر خواہ جے بونیارڈ پرائیویٹ سیکرٹری.گورنر جنرل نائیجیریا اسی ماہ وزیر اعظم غانا ڈاکٹر کو امے نکروما اپنی کابینہ کے بعض وزراء کے ساتھ لائبیریا تشریف لائے.لائبیریا کے مشہور قصبہ لسانو کو بے میں ایک اہم پولٹیکل کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر نکروما کے کے علاوہ ولیم ٹب مین اور گنی کے پریذیڈنٹ ٹورے اور دیگر سرکردہ لیڈروں نے شرکت کی.احمد یہ مشن لائبیریا کی طرف سے مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے ان امریکن لیڈروں خاص کر وزیر اعظم غانا اور ان کے ساتھیوں کو ایک چٹھی کے ذریعے دین حق قبول کرنے کی دعوت دی اور انگریزی زبان میں ضروری لٹریچر تحفہ پیش کیا.وزیر اعظم ڈاکٹر نکروما کی طرف سے ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے مولانا محمد صدیق
تاریخ احمدیت 545 صاحب کو حسب ذیل الفاظ میں شکریے کا خط لکھا : - (ترجمه) از دفتر وزیر اعظم غانا اکرا بتاریخ ۵/اگست ۱۹۵۹ء محترم الحاج مولوی محمد صدیق صاحب احمد یہ مشن منرو و یا.لائبیریا.جلد ۲۰ مجھے وزیر اعظم غانا نے ہدایت فرمائی ہے کہ ان کی طرف سے ۱۴ اور ۲۸ / جولائی کی دونوں چٹھیوں اور ان کے ساتھ اسلامی کتب پیش کرنے پر جو کہ آپ نے ان کے لائبیریا کے حالیہ دورے میں انہیں پیش کی تھیں، آپ کا شکریہ ادا کروں.انہوں نے فرمایا ہے کہ وہ آپ کے اس تحفے کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بہت شکریہ ادا کرتے ہیں.ڈاکٹر نکر و ما آپ کو خوشی کے جذبات کے ساتھ اپنا سلام بھیجتے ہیں.آپ کا خیر خواہ پرائیویٹ سیکرٹری جناب وزیر اعظم ماہ اگست میں افریقہ کے نو آزاد ممالک (غانا) ، حبشہ، گنی ، مراکش، ٹیونس، مصر، گیمبیا، الجزائر ، لائبیریا ) کے ستر لیڈروں اور سیاستدانوں کی ایک اہم کانفرنس منروویا میں ہوئی.اس اہم موقعہ پر مولوی محمد صدیق صاحب نے تمام نمائندگان کو خوش آمدید کہا.ان کی رہائش گاہوں اور ہوٹلوں میں پہنچے اور وفود کے لیڈر السید عبدالرشید ابراہیم صاحب وزیر اعظم مراکش اور دیگر نمائندگان تک پیغام حق پہنچایا نیز انگریزی، عربی اور فرینچ زبان میں احمد یہ لٹریچر تحفہ پیش کیا.وزیر اعظم مراکش چونکہ تینوں زبانیں جانتے تھے اس لئے انہیں فرنچ لٹریچر کے علاوہ تحفہ بغداد، الخطاب الجلیل “ اور ”لائف آف محمد ، خاص طور پر پیش کی گئیں جو انہوں نے کمال مسرت اور انڈونیشیا ۶۶ شکریہ کے ساتھ قبول کیں.جماعت احمد یہ انڈونیشیا کا شاندار سالانہ جلسہ انڈونیشیا کے ثقافتی اور تعلیمی مرکز جو گجا کرتا میں ۲۳ ۲۴ ۲۵ / جولائی ۱۹۵۹ء کو منعقد ہوا.جا کرتا کے علاوہ انڈونیشیا کے بعض دوسرے اہم شہروں کے اخبارات نے اس جلسہ کے انعقاد کی خبر شائع کی.ریڈیو سے بھی خبر نشر ہوئی.جلسہ سے قبل ۲۰ سے ۲۳ / جولائی کی دو پہر تک خدام الاحمدیہ انڈونیشیا کا کامیاب اجتماع ہوا جس میں ڈیڑھ سو سے زیادہ احمدی نوجوان شامل ہوئے.جلسه سالانہ کا افتتاح تلاوت کے بعد جناب سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ کی پرسوز اجتماعی دعا سے ہوا.بعدازاں انہوں نے حضرت مصلح موعود کے ایک مطبوعہ پیغام کا ترجمہ پڑھ کر
تاریخ احمدیت 546 جلد ۲۰ سنایا جس نے سامعین پر رقت کی کیفیت طاری کر دی.آپ نے اپنی صدارتی تقریر میں گذشتہ سال کی ترقی پر اچٹتی نظر ڈالی.نیز پریذیڈنٹ انڈونیشیا سوکا رنو صاحب کی ایک ملاقات کا ذکر کیا جس میں انہوں نے ایک سفیر سے جماعت احمدیہ کی مساعی کی تعریف کی اور کہا کہ جماعت کی کوششیں انڈونیشین لوگوں کی ترقی میں ممد و معاون ثابت ہوئی ہیں.سفیر صاحب نے بعد میں ایک ملاقات کے دوران مولانا سید شاہ محمد صاحب سے کہا کہ وہ تو ایسی باتیں کر رہے تھے جیسا کہ جماعت احمدیہ کے مبلغ ہیں.افتتاحی اجلاس کے بعد جماعت احمد یہ جو گجا کرتا کی پہلی بیت الذکر کا افتتاح عمل میں آیا.جلسہ سالانہ میں جنرل سیکرٹری صاحب نے گذشتہ سال کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ : ا.اس سال تین نئی جماعتیں قائم ہوئیں.کبومین (وسطی جاوا ) چی لیگون (جاکرتا کا مغربی علاقہ ) با تو راجا ( جنوبی سماٹرا ).۲- ملک عزیز احمد صاحب نے قرآن کریم کا انڈو نیشین ترجمہ مکمل کر لیا.۳ - خدام الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کی تعلیمی کلاس منعقد ہوئی.۴ - تین سونفوس داخل احمدیت ہوئے.۵- پورے ملک میں دوبارہ کامیاب یوم التبلیغ منایا گیا.جلسہ سالانہ کے ایام میں شہر کے وسطی اور موزوں حصہ میں ایک نہایت خوبصورت اور وسیع ہال میں جماعت انڈونیشیا کا استقبالیہ جلسہ ہوا.ہال میں ایک ہزار کرسیاں قرینہ سے لگائی گئیں.اس کے باوجود سینکڑوں کو گیلری میں کھڑا ہونا پڑا.راڈون ہدایت صاحب صدر، عہدیداران اعلیٰ مرکز یہ نے اپنے خطاب میں پاکستانی مبلغین اور جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی نا قابل فراموش قومی خدمات کا تذکرہ کیا.اس ضمن میں راڈون محی الدین مرحوم ( خسر ملک عزیز احمد صاحب مجاہد انڈونیشیا) اور مولانا سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ کی خدمات کو بہت سراہا.اول الذکر نے قومی تحریک کے دوران جام شہادت نوش کیا اور ثانی الذکر نے متعدد کارنامے انجام دیئے جن کو حکومت انڈونیشیا نے بھی سراہا.جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب حکومت کا مرکز جا کرتا تبدیل ہوا تو ہوائی جہازوں پر جو وفد روانہ ہوا ان میں سید شاہ محمد صاحب بھی تھے.شاہ صاحب نے اپنی تقریر میں احمدیت کا پس منظر اور اس کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی.حاضرین نے جن میں اکثریت کالج کے طلبہ پر مشتمل تھی تقاریر کا زبر دست خیر مقدم کیا.جلسہ میں سلطان جو گجا کرتا کے مندوب PALN ISLAM والئی شہر کے نمائندہ، پروفیسر ، وکلاء اور
تاریخ احمدیت 547 جلد ۲۰ دوسرے سر بر آوردہ اصحاب بھی تھے.اس موقعہ پر مندرجہ ذیل اہم شخصیتوں نے مبارک بادی کے برقی پیغامات ارسال کئے.وزیر اعلیٰ صاحب، وزیر امور دینیات ، وزیر نشریات، وزارت امور دبینیات محکمہ مذہبیات، محکمہ نشریات، گورنر وسطی جاوا، انسپکٹر جنرل پولیس انڈونیشیا، وزیر زراعت، میئر آف جا کرتا.سپیکر آف دی پارلیمنٹ ، ریذیڈنٹ میگلا نک.ایک اجلاس میں جماعت احمد یہ انڈونیشیا کا سالانہ بجٹ منظور کیا گیا.نیز آئندہ تین سال کے لئے نئے عہدیداران مرکزی کا انتخاب عمل میں آیا.۲۶ / جولائی کو ایک وسیع ہال میں ایک تبلیغی جلسہ عام ہوا جس میں مولوی عبدالواحد صاحب، ملک عزیز احمد صاحب اور مولانا سید شاہ محمد صاحب نے بالترتیب اسلام کی نشاۃ ثانیہ، مسئلہ ارتقاء روحانی و جسمانی اسلامی نقطۂ نگاه سے اور اسلام زندہ مذہب کے موضوع پر بصیرت افروز لیکچر دیئے.ایک پروفیسر اور ایک ایڈووکیٹ دوست نے کہا اگر یہ تقریریں یونیورسٹی ہال میں ہوتیں تو مقررین ڈاکٹر کی ڈگری کے مستحق تھے.جلسہ کے آخری اجلاس میں مولوی زہدی صاحب، مولوی محمد ایوب صاحب اور مولانا ابوبکر ایوب صاحب ( سابق مجاہد ہالینڈ) کی تقاریر ہوئیں اور اجتماعی دعا پر یہ عظیم الشان جلسہ کامیابی سے اختتام پذیر ہوا.دعا کے موقع پر مخلص احمدیوں کی آنکھوں سے جاری تھے اور چینیں نکل رہی تھیں.۶۷ مجاہد بین احمدیت کی روانگی اور کامیاب مراجعت ۱۹۵۹ء میں مندرجہ ذیل مبشرین بیرونی ممالک میں بغرض اعلائے کلمۃ اللہ تشریف لے گئے.۱- چوہدری نذیر احمد صاحب ایم ایس سی غانا (۱۶/جنوری ۱۹۵۹ء) (از کراچی ) -۲- خان بشیر احمد خان صاحب رفيق مع اہل و عیال انگلستان (۱۸/جنوری ۱۹۵۹ء ) ۳- حافظ محمد سلیمان صاحب مشرقی افریقہ (۵ / مارچ ۱۹۵۹ء) -۴ - شیخ مبارک احمد صاحب مشرقی افریقہ (۷/ مارچ ۱۹۵۹ء) ۵ - مرزا لطف الرحمن صاحب جرمنی (۴ را پریل ۱۹۵۹ء) ۶ - مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر مشرقی افریقہ ( رمئی ۱۹۵۹ ء ) ۷.مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم غانا (۲ ستمبر ۱۹۵۹ء) ۸- علی صالح صاحب مشرقی افریقہ (۵/ دسمبر ۱۹۵۹ء ) ۹ - مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری سیرالیون (۹ / دسمبر ۱۹۵۹ء) ۱۰- مولوی عبد اللطیف صاحب شاہد پریمی غانا (۹ / دسمبر ۱۹۵۹ء)
تاریخ احمدیت 548 جلد ۲۰ اس سال جو مجاہدین تحریک جدید اشاعت حق کا فریضہ کامیابی سے انجام دینے کے بعد مرکز میں واپس پہنچے اُن کے اسماء گرامی یہ ہیں :- ا - صوفی محمد الحق صاحب لائبیریا سے (۲۸ / مارچ ۱۹۵۹ء) ۲- حافظ بشیر الدین صاحب مشرقی افریقہ سے (۲ جون ۱۹۵۹ء ) ۳- مولوی نورالدین صاحب منیر مشرقی افریقہ (۲ جون ۱۹۵۹ء ( ۴ - چوہدری خلیل احمد ناصر صاحب امریکہ سے (۱۰ جولائی ۱۹۵۹ء) ۵- مولوی محمد سعید صاحب انصاری بورینو سے (۲۷ ستمبر ۱۹۵۹ء) ۶- ملک خلیل احمد صاحب اختر ۶۸ غانا سے (۱۰ را کتوبر ۱۹۵۹ء ) ۷- مولوی عبدالرشید صاحب رازی غانا سے (۱۹/ نومبر ۱۹۵۹ء) نئی مطبوعات -۱ خاندانی منصوبہ بندی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) ۲- عید کی قربانیاں -۳- سیلاب کی تباہ کاریاں ۴- ذکر حبیب (حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد ) -۵ اسلامی معاشرہ (حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجہ ( ۶ - احمدیت کا اثر عالم اسلامی پر ( حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان نائب صدر عالمی عدالت انصاف ہیگ ) ۷.نبیوں کا سردار (مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد ) -۸- حضرت مسیح موعود کے معجزات (میاں عطاء اللہ ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی) ۹ - زندہ مذہب ( قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے کینٹب صدر شعبہ نفسیات کراچی یونیورسٹی ) ۱۰- تاریخ تبلیغ دین حق ) در هندوستان ( شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی ناشر عبدالعظیم صاحب تاجر کتب منیجر احمد یہ بک ڈپو قادیان ) ۱۱- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام (حضرت قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائکپوری ناظم نشر واشاعت ربوہ ) ۱۲- در عدن ( مجموعہ کلام حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ( ۱۳ - اصحاب احمد جلد ششم ( ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان) ۱۴- تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین (چوہدری برکت علی خان صاحب سابق وکیل المال اوّل ) ۱۵ - درد و درمان ) کلام فارسی حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لائل پور ( ۱۶ - تاریخ احمد یہ سرحد ( حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمد یہ صوبہ سرحد ) ۱۷ - سیرت سیدہ حضرت امی جان ( صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب) ۱۸ انجیل مرقس کا آخری ورق ) شیخ عبد القادر صاحب محقق عیسائیت لاہور ) ۱۹ - حیات طیبہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل مربی سلسلہ احمدیہ ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کتاب پر حسب ذیل تبصرہ فرمایا :
تاریخ احمدیت 549 یہ کتاب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لٹریچر میں ایک بہت عمدہ اضافہ ہے.غالباً ایک جلد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس قدر جامع اور مرتب سوانح عمری اس وقت تک نہیں لکھی گئی.واقعات کی حتی المقدور تحقیق و تدقیق اور ترتیب اور موقعہ بموقعہ مناسب تبصرہ جات نے اس کتاب کی قدر و قیمت میں کافی اضافہ کر دیا ہے اور ضروری فوٹو بھی شامل ہیں.کتاب کا مطالعہ کرنے والا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بلند و بالا شخصیت اور تبلیغ ( دین حق ) کے لئے ان کی والہا نہ جد وجہد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.طباعت بھی اچھی ہے.میرے خیال میں یہ کتاب اس قابل ہے کہ نہ صرف جماعت کے دوست اسے خود مطالعہ کریں بلکہ غیر از جماعت اصحاب میں بھی اس کی کثرت کے ساتھ اشاعت کی جائے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو نافع الناس بنائے اور مصنف کو جزائے خیر دے.66 جلد ۲۰ ادارۃ المصنفین ربوہ کی شائع کردہ دو ہدایة المقتصد مجلد ۲۰ + ۲۹۸ صفحات قیمت درج نہیں.پتہ ادارۃ المصنفین ربوہ ضلع کتب بر اخبار صدق جدید لکھنو کا تبصرہ جنگ (پاکستان) پر فقیه قاضی ابن رشد مالکی (۵۲۰ ھ - ۵۹۵ھ ) بمطابق ۱۱۲۶ ء.۱۱۹۸ء) کا شمار چھٹی صدی ہجری کے مشاہیر علماء میں ہوتا ہے اور ان کی کتابوں میں سے بدایۃ المجتہد ( دو جلدوں میں) ایک مرتبہ امتیاز رکھتی ہے.کتاب میں تمام فقہی عنوانات سے متعلق ابن رشد، مختلف ائمہ فقہ (خصوصاً ائمه اربعہ) کی آرائیں اور اقوال دیتے اور خود بھی جابجا محاکمہ کرتے چلے گئے ہیں.کتاب جتنی دقت نظر سے لکھی گئی ہے اتنی ہی اس کی زبان بھی سلیس ہے.پیش نظر اردو کتاب اسی مشہور عربی کتاب کی جلد دوم کے صرف ابتدائی پانچ بابوں کتاب النکاح، کتاب الطلاق ، کتاب ایلاء، کتاب الاظہار، کتاب اللعان کا ترجمہ ہے مگر افسوس ہے کہ سرورق پر اس کی کوئی صراحت موجود نہیں اور دھو کہ ہوتا ہے کہ شاید یہ ترجمہ پوری کتاب کا ہے جو حجم میں اس سے کئی گنا زائد ہے.ترجمہ صاف اور سلیس ہے اور امید کی جاتی ہے کہ صحیح بھی ہوگا.(صحت کی ذمہ داری صرف اسی وقت لی جاسکتی ہے جب تبصرہ نگار اصل سے پورا مقابلہ کر کے دیکھ سکا ہو ) کتاب کی
تاریخ احمدیت 550 جلد ۲۰ دقیق اور فلسفیانہ بخشیں مترجم نے بہ قول خود عمداً ترک کر دی ہیں.مترجم نے ترجمہ کے علاوہ حاشیے بھی اپنی طرف سے بڑی تعداد میں دیئے ہیں جن سے توضیح مطالب میں بڑی مددمل جاتی ہے اور شروع میں ۲۵ صفحہ سے زائد کا ایک مفصل پیش لفظ خود ابن رشد اور فقہ اور فقہاء پر دیا ہے.مگر حیرت ہے کہ مترجم کا نام کہیں بھی درج نہیں.شروع میں فہرست مضامین بھی اچھی ہے.پیش لفظ ہی کی بعض عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ترجمہ کی یہ صرف پہلی جلد ہے اور شاید ایک آدھ جلد ابھی اور شائع ہو اس کی پوری تصریح سرورق اور دیباچہ میں ضروری تھی.کتاب اپنے مرتبہ اور اپنی نافعیت کے لحاظ سے اس کی مستحق ہے کہ اردو میں پوری منتقل کر کے لائی جائے.(۲) المسند للامام احمد بن حنبل ( عربی ) الجزء الاول ۱۶+۲۲۲ صفحه مجلد.قیمت ۱۰ آنے پتہ ادارۃ المصنفین ربوہ.ضلع جھنگ (پاکستان) امام احمد بن حنبل البغدادی (۱۶۴ھ تا ۲۴۱ ھ ) کی مسند حدیث نبوی کی تختیم ترین ہی نہیں بلکہ مشہور و مقبول ترین کتابوں میں سے ہے اور کہا جاتا ہے کہ چالیس ہزار حدیثوں کی جامع ہے.کتاب پڑھے لکھوں کے سامنے کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن چونکہ اس کی ترتیب موضوع وار نہیں بلکہ روایت کرنے والے صحابیوں کے نام کے حساب سے ہے اس لئے کسی خاص مضمون کی حدیث اس میں تلاش کرنا بڑے جگر کا کام ہمیشہ رہا ہے اور طلبہ فن کی یہ آرز وصدیوں سے چلی آرہی تھی کہ کاش کوئی صاحب ہمت اس ضخیم و بیش بہا مجموعہ کو مضمون کے اعتبار سے از سر نو مرتب کر کے انہیں ابواب میں تقسیم کر دے.جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ ہیں.بڑی خوشی اور دلی مسرت کا مقام ہے کہ یہ سعادت ادارۃ المصنفین ربوہ کے حصہ میں آئی اور اس نے اسی جدید ترتیب کے ساتھ اس قدیم و ضخیم مجموعہ کو شائع کرنا شروع کر دیا ہے.پیش نظر اس کی صرف جلد اول ہے.یہ حسب ذیل بابوں پر مشتمل ہے :- (۱) کتاب ذات اللہ تعالیٰ وصفاتہ (ابواب نمبر ا فی ذات اللہ.ابواب نمبر ۲ فی صفات اللہ ).(۲) کتاب بدء الخلق (۳) کتاب القدر (۴) کتاب الملائکہ.(۵) کتاب الوحی والرؤیا ( ابواب الوحی.ابواب الرؤیا.النبی و مکاشفتہ ) (۶) کتاب الانبیاء كلمة الادارة کے زیر عنوان جو سات صفحہ کا عربی پیش لفظ ہے اس کے اور مفصل فہرست مضامین کے علاوہ آخر میں مسند کے سابق ایڈیشن کے حوالے موجود ہیں.ہر صفحہ کے نیچے حاشیئے خاص طور پر قیمتی ہیں.ان میں نہ صرف ہر حدیث کے ضعف وصحت کی تصریح ہے بلکہ ان حدیثوں
تاریخ احمدیت 551 جلد ۲۰ کی تخریج بخاری، مسلم وغیرہ صحاح کی دوسری کتابوں سے درج ہے اور یہ تصریح بھی کہ کون کون سی روایتیں خود امام احمد کی ہیں اور کون سی آپ کے صاحبزادے ابوعبدالرحمن اور ان کے شاگرد ابوبکر القطیعی کی شامل ہوئیں.یہ ترتیب و تبویب جدید یوں بھی کچھ کم قابل قدر نہ تھی اور ان معلومات کے اضافہ نے تو اس خدمت کو اور زیادہ قیمتی بنا دیا ہے اور ادارہ اس دینی خدمت پر سارے طلبہ حدیث کی طرف سے شکر گذاری کا مستحق ہے.ایک خوشی اس کی بھی ہے کہ یہ بد نام فرقہ احمد یہ اپنی تنگ و محدود ” فرقہ واری نکل کر عام اسلامی و دینی خدمات کی طرف قدم برابر بڑھانے لگا ہے.چنانچہ بدایۃ المجتہد کا ترجمہ اور مسند امام احمد کی ترتیب و تبویب یہ دونوں خدمتیں اسی قبیل سے ہیں.
تاریخ احمدیت 552 جلد ۲۰ سیّد نا حضرت مصلح موعود کا خصوصی پیغام برادران ( دینِ حق ) کے نام سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے سال ۱۹۵۹ء کے آخری دن برادران ( دینِ حق ) کے نام حسب ذیل بصیرت افروز پیغام دیا : - بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم هوال هو النـ وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اے برادران ( دین حق ) السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ اصر آج ۱۹۵۹ء یعنی بیسویں صدی آدھی سے زیادہ گزرگئی ہے.اسلامی صدی اس سے بھی زیادہ گذر گئی ہے مگر آپ کو ابھی تک انتظار ہے کہ مسیح آئے گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ خدا تعالیٰ ہر صدی کے آخر میں ایک مجدد بھیجے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہر حال صادق و مصدوق ہیں اور آپ کی طرف کوئی جھوٹ کسی صورت میں منسوب نہیں ہوسکتا.پس میں خدا تعالیٰ کی ہر بات پر ایمان لاتے ہوئے کہتا ہوں کہ آپ لوگ خدا تعالیٰ کی بات مان لیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے آئیں.اسی میں آپ کا بھلا، اسی میں آپ کے لئے برکت ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے عمل اور اپنی بشارت سے بتادیا ہے کہ احمدیت کی برکت سے ( دین حق ) یورپ میں پھیل رہا ہے.پس اب بھی وقت ہے کہ مان لیں اور خدا کے قرب کا موقع ضائع نہ کریں.مرنے کے بعد ایمان فائدہ نہ دے گا.پس دوڑیں اور خدا تعالیٰ کی رسی کو پکڑ لیں اور اپنا دونوں جہان میں بھلا کریں.خدا تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی امت بنیں اور آپ کے اقوال کی پیروی کریں ورنہ خدا تعالیٰ غنی ہے، اسے بندوں کی پرواہ نہیں.محتاج انسان ہے وہ محتاج نہیں.پس دوڑیں اور خدا کے بھیجے ہوئے مامور پر ایمان لائیں.یاد رکھیں کہ آپ کی بھلائی اُسی میں ہے.اگر آپ ایمان نہ لائیں گے تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا.خدا زمین کے ہر ذرہ سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو ( دین حق ) کا بول بالا کریں گے.اپنی عمر ضائع نہ کریں.آپ کا دین کی بات کو نہ ماننا اور مسیح موعود علیہ السلام کو نہ ماننا آپ کے اپنے لئے نقصان دہ ہے.دن تھوڑے رہ گئے ہیں، جلد سے جلد ایمان لاکر اپنا بھلا کریں.
تاریخ احمدیت 553 جلد ۲۰ خدا تعالیٰ آپ کو ایمان عطا فرمائے اور دین و دنیا میں ایمان بخشے.میں بیمار اور بوڑھا ہوں مگر آپ کے لئے دعاؤں میں مشغول ہوں.آپ میرے ماں کی طرف سے اور باپ کی طرف سے کوئی رشتہ دار نہیں مگر مجھے آپ سے ایسی محبت ہے جیسی اپنے عزیزوں سے.میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ آپ کو دین و دنیا میں نوازے اور ایمان عطا فرمائے.اگر آپ ایمان لے آئے تو آپ کا مقام ثریا سے بلند ہوگا.مجھے یقین ہے کہ خدا کے فضل سے قادیان کا رستہ جلد کھل جائے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مرکز ہے.وہ لوگ جو ایمان اس وقت تک لاچکے ہوں گے ان پر اس کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں گی اور وہ جو بعد میں ایمان لانے کی کوشش کریں گے ان کو یہ مقام حاصل نہیں ہوگا.امتحان لینا خدا کا کام ہے آپ کا کام نہیں.پس آپ خدا کا امتحان نہ لیں کہ یہ سخت محرومی کا رستہ ہے.شکر کریں تا کہ خدا تعالیٰ آپ کو کامیاب کر دے.میں دعا کرتا ہوں خدا آپ کو جلد ایمان لانے کی توفیق دے.آپ کے رکے رہنے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت میں فرق نہیں پڑے گا بلکہ آپ کی اپنی ہی بدنصیبی ہوگی.خدا آپ کی مدد کرے.آپ کو ابتلاؤں اور ٹھوکروں سے بچائے اور میں اپنی زندگی میں دیکھ لوں کہ آپ کو ایمان عطا ہو گیا.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قل ان کنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله.آپ منہ سے محبوب سبحانی کرتے ہیں مگر تعجب ہے کہ ایک نہر آپ کے سامنے رواں دواں ہے اور آپ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے.آپ خود ہی اس سے فیض اٹھا کر محبوب سبحانی بن سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر موسیٰ اور عیسی علیہما السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے بغیر چارہ نہ تھا.اپنے آپ کو خواہ مخواہ حقیر نہ سمجھو، خدا نے آپ کو بڑا بنایا ہے حقیر نہیں بنایا.جلد آؤ کہ میرا خدا آپ کا انتظار کر رہا ہے، آپ کے لئے زمین اور آسمان اپنے خزانے اگلنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.آپ اگر اس سے فائدہ نہ اٹھائیں گے تو اس میں آپ کی اپنی ہی محرومی ہے.خدا آپ کے ساتھ ہو.آمین.مرزا محمود احمد امام جماعت احمد یہ ربوہ 229.12.1959
تاریخ احمدیت -1 554 جلد ۲۰ حواشی الفضل ۱۰رفروری ، ۶، ۷ اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحہ ا.”مبارک نسل کی ماں“ ( از سید سجاد احمد صاحب ) صفحہ ۱۲۶، ۱۲۸.ناشر فیض پبلیکیشنز ربوہ مطبوعہ اپریل ۱۹۸۰ء الفضل ۵/ مارچ ۱۹۵۹ء صفحه ۲ الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۵۹ ، صفحها الفضل ۲۵ /جنوری ۱۹۵۹ء صفحه ۶ الفضل ۴ / جنوری ۱۹۵۹ ء صفحه ا الفضل ۱۵ رفروری ۱۹۵۹ صفحه ۱ الفضل ۵/ مارچ ۱۹۵۹ء صفحه ۱ -^ -9 - 1+ -11 - ۱۲ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۵۹ ، صفحه ا الفضل ۶ / مارچ ۱۹۵۹، صفحه ۶ الفضل ۸ مارچ ۱۹۵۹ء صفحه ا الفضل یکم اپریل ۱۹۵۹ ، صفحہ ۱ الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۵۹ صفحه ۱ ۱۳ - الفضل ۱۹ رمئی ۱۹۵۹ ء صفحه ۱ ۱۴ - الفضل ۲۳ رمئی ۱۹۵۹ ء صفحه ۱ الفضل ۲۱؍ جولائی ۱۹۵۹ء صفحه ا الفضل ۲۳؍ جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ -10 -17 -IA -19 ۲۰ - ۲۱ ۲۲ -۲۳ الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ ۱ الفضل ۲ / اگست ۱۹۵۹ء صفحه ا الفضل ۵ اگست ۱۹۵۹ ، صفحه ۱ الفضل ۸/اگست ۱۹۵۹ء صفحها الفضل ۹ راگست ۱۹۵۹ءصفحها الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۵۹ ء صفحها الفضل ۲ رستمبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۶ ۲۴- الفضل ۱۶ رستمبر ۱۹۵۹ء صفحه ا ۲۵ - الفضل ۷/اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحها ۲۶- الفضل ۴ رنومبر ۱۹۵۹ء صفحها ۲۷ - الفضل ۵/نومبر ۱۹۵۹ء صفحها الفضل ۶ رنومبر ۱۹۵۹ ء صفحها -۲۸ ۲۹- الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۵۹ء صفحه ۱ -۳۱ الفضل ۵/ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۴ الفضل ۲۴ ؍ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ا الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۵۹ ء صفحه ۱
تاریخ احمدیت ۳۳ - الفضل ۵/جنوری ۱۹۶۰ ء صفحه ا ۳۴ - اخبار بدر قادیان ۵ فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۱ - 555 جلد ۲۰ ۳۵ اخبار بدر قادیان ۱۹، ۲۶ فروری ۱۲ر مارچ ۱۹۵۹ء میں مفصل روداد شائع شدہ ہے.جن جماعتوں کا دورہ کیا گیا یاد گیر، تیما پور، اونکور ، را پچجور، دیودرگ، چنته کنید ، کرنول ، ہیلی ، بانده، ساونت واڑی، دھارواڑ ، شموگہ، ساگر ، سرب.- الفضل ۲۵ / اپریل ۱۹۵۹ء صفهیم ۳۷ - الفضل ۵رمئی ۱۹۵۹ء صفحه ۱ و آخر الفضل ۲۳ را پریل ۱۹۵۹ء صفحه ۱ و الفضل ۲۵ / مارچ ۱۹۵۹ء صفحه ۲ ۴۰ - الفضل ۱/۸ کتوبر ۱۹۵۹ء صفحه ا اخبار نوائے وقت لاہور ۵/اگست ۱۹۵۹ء ( بحواله الفضل ۷ اگست ۱۹۵۹ صفحه۱) ۲۲ - ( ترجمہ ) بحوالہ الفضل ۱۶؍ جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ ۸ ۴۳- بدر قادیان ۱۷ ستمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۲ ۴۴ - الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۱، ۸.۵۴ - الفضل ۹ جنوری ۱۹۶۰ء صفحه ۳ ۴۶ - الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۸،۱ ۴۷ - الفضل ۶ / مارچ ۱۹۶۰ ، صفحہ ۴،۳.الفضل ۲۹ / اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحها - الفضل ۲۲ / دسمبر ۱۹۰۴ ، صفحه ۶،۴،۳ ۴۹.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت سینز دہم صفحہ ۱۵۲٬۱۵۱ ۵۰- ایک مخلص جرمن احمدی -۵۱ الفضل ا رمئی ۶ راگست ، ۶، ۷، ۸، ۱۰ نومبر ۱۹۵۹ء - ۱۵ / مارچ ۱۹۶۰ء صفحه ۳ ۵۲ - الفضل یکم اپریل و ۱۰ جولائی ۱۹۵۹ء ۵۳ - الفضل ۱۵ رمئی ، ۲۵ / جولائی ۱۹۵۹ء.۱۸ مارچ ۱۹۶۰ء صفحه ۳ ۵۴ الفضل ۷، ۸، ۹ / اپریل ۱۱ رمئی، ۵/ جولائی ، ۱/۸ اگست ۳۰ / نومبر ۱۹۵۹ء -۱۴،۱۳ / فروری ۱۹۶۰ء ۵۵ اسلام کا اقتصادی نظام، صفحہ ۱۰۵ طبع دوم ناشر دفتر تحریک جدید قادیان ۱۹۴۵ء ۵۶ - الفضل ۱۴، ۲۸ را پریل ،۲۳ رمئی، ۱۷ رجون، ۲۱ / جولائی ۱۹۵۹ء ۵۷ الفضل ۱۵ / اپریل ۲۲ رمئی ۱۹۵۹ء ۵۸ - انہی میں مسٹر NORMAN تھے جن کا اسلامی نام نعمان رکھا گیا.۵۹ تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحه ۲۶۶ طبع اول -Y.-71 دو اخبارات کے لئے اشتہارات کے حصول میں شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ نے خصوصی دلچسپی لی اور آپ عبد العزیز صاحب بٹ آف نیروبی کو لے کر کئی تاجروں کے پاس تشریف لے گئے اور اشتہارات حاصل کئے.ولادت ۱۹۲۲ء یونین کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور اسی کے پلیٹ فارم سے آزادی وطن کے لئے کامیاب جدو جہد کی.۱۹۶۲ء میں ٹا نگانیکا جمہوریہ کے پہلے صدر بنے.اسی طرح ۱۹۶۵ء میں بھی ۱۹۷۰ ء ، ۱۹۷۵ء اور ۱۹۸۰ء کے عام انتخابات میں بلا مقابلہ تنزانیہ کے صدر چن لئے گئے.نومبر ۱۹۸۵ء تک اس عہدے پر فائز رہے.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا) ۶۲ الفضل ۱۲ ۱۴۰ ، ۱۹ مئی ، ۴ جون ، ۹ ، ۱۰ار جولائی ، ۵، ۸ ستمبر، ۱۲۰۱۱؍ دسمبر ۱۹۵۹ء ۸، ۹ جنوری ، ۶ رفروری ، ۱۱،۱۰، ۱۲ مارچ ١٩٦٠ء الفضل ۲۳ جنوری تا یکم ستمبر ۱۹۵۹ء
تاریخ احمدیت 556 ۶۴ - الفضل ۳، ۴، ۵/ مارچ ، ۱۲ را پریل ۱۲ رمئی ۲ ستمبر ۱۹۵۹ء.۵ فروری ۱۹۶۰ء صفحه ۳ ۶۵ - ۲۰۱ ،۳ / جنوری ۲ فروری، ۲۸ تا ۳۰ را پریل ۲ رمئی ۱۹۶۰ء ۶۶ - الفضل ۲ را گست ، ۱۱، ۲۵ رستمبر ۱۹۵۹ء -72 -YA میاں عبدالحئی صاحب مجاہد انڈو نیشیا مقیم جو گجا کرتا کی رپورٹ مطبوعہ الفضل (۶ تا ۹ را کتوبر ۱۹۵۹ء) کا خلاصہ ریکارڈ وکالت تبشیر تحریک جدید ربوہ ۶۹ - الفضل ۱۵/جنوری ۱۹۶۰ء صفحه ا ۷۰- صدق جدید اا رستمبر ۱۹۵۹ء بحوالہ الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۴ -21 آل عمران : ۳۲ ۷۲ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 557 جلد ۲۰ چھٹا باب افریقہ کے معرکہ حق و باطل سے لیکر علامہ نیاز فتوری مدیر نگار کے سفر قادیان تک فصل اوّل ڈاکٹر بلی گراہم کا دورہ افریقہ مغربی اور مشرقی افریقہ کے مجاہدین احمدیت کی دعوت مقابلہ اور دین حق کی فتح عظیم خلافت ثانیہ کا چھیالیسواں سال ۱۳۳۹ هش / ۱۹۶۰ء بر اعظم افریقہ میں احمدیہ مشن کے قیام کے بعد ھلال وصلیب اور حق و باطل کے درمیان جو عظیم معرکہ فروری ۱۹۲۱ء سے جاری تھا وہ ۱۹۶۰ء کے آغاز میں ایک نئے اور فیصلہ کن دور میں داخل ہو گیا جبکہ امریکہ کے شہرہ آفاق مسیحی منا داور شعلہ بیان لیکچرار ڈاکٹر بلی گراہم (BILLY GRAHAM) نے اس سال کے شروع میں افریقن ممالک کا وسیع پیمانہ پر دورہ کیا.انہوں نے عیسائیت کی منادی کے لئے چو میں پبلک جلسوں سے خطاب کیا اس دورہ کی تیاریاں ۱۹۵۵ء سے کی جا رہی تھیں.
تاریخ احمدیت 558 جلد ۲۰ لائبیریا نائیجیریا اور مشرقی افریقہ کے مبشرین احمدیت نے جو نہایت بے تابی سے اس دورہ کے منتظر تھے اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اسے ایک جنگ مقدس کی صورت دے دی اور اس عالمی شہرت کے حامل منا د کو پوری قوت سے للکارا اور تبلیغی مقابلہ کرنے کی دعوت عام دی مگر تثلیث کا یہ مایہ ناز نمائندہ کا سر صلیب کے شاگردوں کے سامنے سرا سرعا جز بے بس بلکہ دم بخود ہو کے رہ گیا جسے افریقہ کی مذہبی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا.لا نبیر یا :- ڈاکٹر بلی گراہم اپنے طے شدہ پروگرام کے پہلے مرحلہ پر جنوری ۱۹۶۰ء میں امریکہ سے سیدھے لائبیریا کے دارالسلطنت منر دو یا میں پہنچے جہاں انہوں نے اپنی پلک تقریر میں بائبل کا دیگر مذہبی کتب سے موازنہ کرتے ہوئے یہ چیلنج کیا کہ :.میں نے قرآن شریف کو شروع سے آخر تک پڑھا ہے اس میں کہیں انسان یا دنیا کے مستقبل وغیرہ کے متعلق کوئی پیشگوئی نہیں اور نہ بعد الموت زندگی پر اس سے کوئی تسلی بخش روشنی پڑتی ہے درانحالیکہ بائبل کچی پیشگوئیوں سے بھری پڑی ہے اور انسان کی دنیوی اور اخروی دونوں زندگیوں کا معقول حل پیش کرتی ہے.یہ جلسہ لائبیریا کے صدر ڈاکٹر ولیم ٹب مین کی صدارت میں ہوا.اس تقریر کے معاً بعد مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری انچارج احمد یہ مشن لائبیریا پریذیڈنٹ ٹب مین کی موجودگی میں ڈاکٹر بلی گراہم سے ملے اور انہیں بتایا کہ قرآن کریم کے متعلق آپ نے ابھی جو دعویٰ کیا ہے وہ بالکل غلط ہے.آپ مجھے وقت دیں آپ جب چاہیں میں یہ ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں کہ قرآن کریم دنیا کے مستقبل کے متعلق پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے جن میں سے بے شمار پوری بھی ہو چکی ہیں.اسی طرح میں ثابت کروں گا کہ آخرت کے متعلق قرآن کریم کی تعلیم اور CONCEPTION بائبل کے بیانات سے بہت زیادہ معقول اور اکمل ہے.اس پر ڈاکٹر بلی گراہم نے اگلی صبح گورنمنٹ ہاؤس میں قیامگاہ پر آنے اور بات چیت کرنے کی دعوت دی.اس دوران مولانا محمد صدیق صاحب نے راتوں رات ایک تبلیغی مکتوب اُن کے نام لکھا جس میں انہیں قرآن کریم کا سچے دل سے مطالعہ کرنے کی تحریک کی اور عیسائیت کے موجودہ عقائد کا بطلان ثابت کر کے آخر میں انہیں مناظرہ کا کھلا چیلنج دیا.اگلے روز آپ نے اُن سے ملاقات کی.ڈاکٹر گراہم کے ساتھ اُن کے رپورٹر اور آٹھ امریکن پادری بھی موجود تھے.آپ نے موصوف کو ٹائپ شدہ کھلی چھٹی کے ساتھ قرآن
تاریخ احمدیت 559 جلد ۲۰ کریم انگریزی، ٹیچنگ آف اسلام، مسیح کہاں فوت ہوئے ؟ اور دیگر پمفلٹ تحفہ پیش کئے.یہ لٹریچر تو اُنہوں نے رسمی شکر یہ کیسا تھ قبول کر لیا مگر مناظرہ سے بالکل انکار کر دیا اور اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور وقت نہ ہونے کا عذر کر کے دوسرے کمرے کی طرف چل دئے _ نائیجیر یا ڈاکٹر بلی گراہم کے اس ریز پر لائبیر یا پولیس نے کوئی نوٹس نہ لیا اور وہ نائیجیر یا آ گئے.جہاں قدم رکھتے ہی احمد یہ مشن نائیجیریا کی دعوت مناظرہ کا اخبارات میں غیر معمولی چر چا شروع ہو گیا.اگر چہ مسیحی کلیسیا کے منتظمین قبل از میں اس چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کر چکے تھے تا ہم عوام اور خصوصاً مسلمانوں کو اُن کی آمد پر خاصی دلچسپی پیدا ہو گئی اور امید بندھی کہ اس علمی مقابلہ کی کوئی صورت نکل آئے گی لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا.ڈاکٹر بلی گراہم سے آبادان کے اخبار نویس نے دریافت کیا کہ کیا وہ اسلام اور عیسائیت کے متعلق اس اہم چیلنج کو قبول کریں گے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اس سوال کا جواب دینے کیلئے تیار نہیں.یہ الفاظ انکی بے بسی اور بے چارگی کی منہ بولتی تصویر تھے.اس اجمال کی ایمان افروز تفصیل مولانا نسیم سیفی صاحب مبلغ نائیجیریا کے قلم.درج ذیل ہے :.۱۹۵۵ء ہی کے جولائی اگست میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز نے یورپ امریکہ اور افریقہ کے مبلغین کی لندن میں کا نفرنس بلا کی تھی اور حضور نے فرمایا تھا کہ میں قضیہ زمین بر سر زمین ہی طے کر دینا چاہتا ہوں.یہ کہ ڈاکٹر گراہم نے اس کا نفرنس کے دو تین ماہ بعد ہی دورہ افریقہ کے ارادے کا اظہار کیا.یا یہ کہ نائیجیریا کی کرسچین کونسل نے اس کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لینے کی پیش کش کی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مبلغین کی لندن والی کانفرنس فی الواقعہ قضیہ زمین بر سرزمین ہی چکا دینے والی بات تھی.بہر حال کسی نا معلوم وجہ کی بناء پر ڈاکٹر بلی گراہم مزید چار سال تک افریقہ کا دورہ نہ کر سکے.جنوری ۱۹۶۰ء میں ان کی آمد کا ایک دفعہ پھر چرچا ہو ا.بڑے بڑے شہروں میں قد آدم پوسٹر لگائے گئے.اخبارات میں موٹر کاروں کے اشتہارات کی طرح اشتہار دیے گئے.اور آخر کار ان کا ہر اول دستہ آ پہنچا اور لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اب تو وہ ضرور ہی آئیں گے.
تاریخ احمدیت 560 جلد ۲۰ یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جب یہ دستہ فری ٹاؤن پہنچا تو خاکسار کے ایک پمفلٹ جس کا عنوان ہے یا درکھنے کے قابل پانچ نکات کی تلاش میں اس دستہ کے چند ایک افراد بو (BO) بھی پہنچے اور وہاں سے اس پمفلٹ کی ایک کاپی لے کر پھر آگے روانہ ہوئے.بہر حال جب یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر بلی گراہم نائیجیریا کا ضرور دورہ کریں گے.تو خاکسار نے کرسچین کونسل کو مندرجہ ذیل خط لکھا :.” مجھے اخبارات اور ریڈیو سے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ مشہور عالم عیسائی منا د بلی گراہم جنوری ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا آر ہے.کیا یہ ممکن ہے کہ کرسچین کونسل اس بات کے امکان پر غور کرے کہ بلی گراہم اور ملک کے مسلمان لیڈروں اور خاص طور پر لیگوس کے مسلمان لیڈروں کی ملاقات کا انتظام کیا جائے.مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے سے اسلام اور عیسائیت جو کہ نایجیریا میں دوا ہم مذہب ہیں کے پیروکاروں کے آپس میں تعلقات بہت حد تک خوشگوار ہو جائیں گے.اور اس بات میں کسے شک ہوسکتا ہے کہ اس وقت نائیجیریا کی سب سے بڑی ضرورت بلکہ ساری دنیا کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے آپس میں تعلقات زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنائے جائیں.اگر تبادلہ خیال کے لئے بلی گراہم اور مسلمان مبلغین کی میٹنگ کا انتظام کیا جا سکے تو یہ امر بھی نہایت ہی قابل تعریف سمجھا جائے گا.مجھے امید ہے کہ آپ عنقریب ہی میرے اس خط کا جواب دیں گے.“ مندرجہ بالا خط ۲ / نومبر ۱۹۵۹ ء کو لکھا گیا تھا.اس خط کے جواب میں کرسچن کونسل کے سیکرٹری صاحب نے مجھے لکھا کہ انہیں افسوس ہے کہ بلی گراہم کے دورے کے انتظامات ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں لیکن تا ہم وہ میرا خط اس کے وہ میرا خط اس کمیٹی کے سپر د کر دیں گے.جو اس دورے کے انتظامات کر رہی ہے.نومبر کو مجھے ایک صاحب JHON.E.MILLS کی طرف سے مندرجہ ذیل خط ملا :.و کرسچین کونسل آف نائیجیریا کے سیکرٹری صاحب نے مجھے آپ کا وہ خط ارسال کیا ہے جس میں آپ نے بلی گراہم اور مسلمان لیڈروں کی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے.میں آپ کا یہ خط بلی گراہم مہم ( CAMPAIGN) کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کو جس کی میٹنگ سوموار (۹ / نومبر ) کے روز منعقد ہو رہی ہے دے دوں گا.میٹنگ کے بعد میں پھر آپ کو خط لکھونگا.“ وو
تاریخ احمدیت 561 اس کے بعد ۱۵/جنوری کو انہوں نے پھر مجھے لکھا :.جلد ۲۰ ” میں نے ڈاکٹر بلی گراہم سے آپ کی ملاقات کے بارے میں ڈاکٹر جیری بیون (JERRY BEAVEN) سے جو کہ ڈاکٹر گراہم کی آمد کے سلسلہ میں جملہ انتظامات کو آخری شکل دینے کے ذمہ دار ہیں، سے گفتگو کی ہے وہ مجھ سے اس بات میں اتفاق رکھتے ہیں کہ آپ کی تجویز نہایت قابل قدر ہے لیکن انہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میں آپ تک ان کی خلوص دل سے معذوری کا اظہار کر دوں کہ جس قسم کی میٹنگ کی آپ نے تجویز پیش کی ہے اس کا انعقاد ناممکن ہے.ڈاکٹر گراہم ان ڈاکٹری ہدایات کے ماتحت جو گزشتہ اٹھارہ ماہ سے ان کے ڈاکٹر نے انہیں دے رکھی ہیں.افریقہ کے دورے کو نہایت مختصر کرنے پر مجبور ہیں ان کا وقت بڑے بڑے جلسوں میں تقاریر کرنے اور اپنے مشنریوں سے گفت و شنید میں ہی صرف ہو گا.اگر آپ ڈاکٹر گراہم کے عقائد کے متعلق واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ ان جلسوں میں شمولیت کریں جن میں کہ وہ تقاریر کریں گے.وہ نہ تو کوئی عالم دین ہیں اور نہ ہی ادبیات کے ماہر.بلکہ وہ ایک عیسائی مبلغ ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف یسوع مسیح کی انجیل کو پیش کرتے ہیں.اگر آپ عیسائیت کے متعلق مزید واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی یہ خواہش ہے کہ آپ اس سلسلہ میں طویل و مفصل گفت و شنید کریں تو میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ آپ لوکل عیسائی مبلغین سے بات چیت کریں جو کہ ایسی بات چیت کرنے کے لئے ہر وقت بخوشی تیار ہیں.میں ایک دفعہ پھر آپ کی دلچسپی کی داد دیتا ہوں.جب خاکسار نے دیکھا کہ ڈاکٹر بلی گراہم سے ملاقات اور مناظرہ کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر نہیں آتی تو خاکسار نے ایک خط ان کے نام لکھا جس کا متن درج ذیل ہے میں احمد یہ جماعت کے جملہ احباب کی طرف سے جن کا مشنری انچارج ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے.آپ کو نائیجیریا میں آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں.میری خواہش ہے کہ جب آپ یہاں سے کسی اور جگہ جائیں تو آپ یہاں کی بہترین یاد میں اپنے ساتھ لے کر جا ئیں.اس ملک میں دو بڑے اور اہم مذہب ہیں.اور وہ ہیں اسلام اور عیسائیت اور ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کیلئے یہ بات از حد اہم ہے کہ ان کے تعلقات استوار رہیں.اور تعلقات کی یہ استواری جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے ان کے لیڈروں کے رویہ پر منحصر ہے.
تاریخ احمدیت 562 جلد ۲۰ وو میں نے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کرسچین کونسل آف نائیجیریا کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ آپ کی اور مسلمان لیڈروں کی ملاقات کا انتظام کیا جائے میری یہ تجویز ” بلی گراہم مہم کمیٹی جو کہ آپ کی آمد کے سلسلہ میں جملہ انتظام کر رہی ہے کے سامنے رکھ دی گئی تھی.لیکن میری اس تجویز کو کمیٹی نے اس عذر کے ساتھ رد کر دیا تھا کہ آپ اپنے دورہ کو نہایت مختصر کرنے پر مجبور ہیں اور اسکی وجہ ڈاکٹری ہدایات ہیں مجھے اس بات کا پورا پوار احساس ہے کہ آپ کا کام زیادہ تر عیسائیوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے.لیکن یہ بات تو میرے خیال میں بھی نہیں آ سکتی کہ آپ کسی ایسے موقع کو ضائع ہونے دینا چاہیں گے.جو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لئے مہیا کیا جا رہا ہو.خصوصا جب کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات کی خوشگواری کا سوال پیدا ہوتا ہو.66 بہر حال آپ کی مذہبی پوزیشن کے پیش نظر میں نے آپ کی خدمت میں چند ایک کتابیں ارسال کی ہیں جو مجھے امید ہے کہ آپ ضرور پڑھیں گے.“ یہ خط میں نے ستائیس جنوری کو لکھا تھا.یکم فروری کو ویسٹ افریقین احمد یہ نیوز ایجنسی نے اپنے ایک نمائندہ خصوصی کے حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کیا جس میں اس تمام خط و کتابت کا ذکر کیا گیا تھا اور خاکسار کے ان مضامین کا متن بھی درج کیا گیا.جو اس دوران خاکسار نے اپنے ہفتہ واری کالموں میں لکھے تھے ان میں سے ایک مضمون جو اخبار ڈیلی سروس میں چھپا تھا.اس مضمون کا حامل تھا کہ حضرت مسیح ناصری کی انجیل دراصل حضرت رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی آمد ہی کی خبر تھی.اور وہ اسی بات کی منادی کرنے کیلئے دنیا میں تشریف لائے تھے.اس موقع پر خاکسار نے ڈاکٹر بلی گراہم کی ایک کتاب کا حوالہ دے کر ایک مختصرسی عبارت کے ساتھ ایک پوسٹر شائع کیا.پوسٹر کا مضمون یہ تھا : - ڈاکٹر بلی گراہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو شروع سے آخر تک پڑھ جائیے اس میں کہیں بھی کسی پیشگوئی کا ذکر نہیں ہے اگر ڈاکٹر بلی گراہم کو اس بات کا یقین ہے کہ جو بات انہوں نے کہی ہے وہ درست ہے تو وہ ہم سے پہلک مناظرہ کر لیں.“ اس پوسٹر سے تو گویا یہ سارا معاملہ بھڑک اٹھا بیرونی اخبارات کے کثیر التعداد نمائندے احمد یہ مشن آئے اور سارے حالات سُن کر انہوں نے دنیا بھر کے اخباروں میں ہمارے چیلنج کی خبر میں شائع کروا ئیں.اس چیلنج کا سب سے زیادہ پرو پیگنڈہ امریکہ میں
تاریخ احمدیت 563 جلد ۲۰ ہو ا.وہاں کے اخباروں اور رسالوں نے نہ صرف اس خبر کو جلی حروف میں شائع کیا بلکہ اس پر ایڈیٹوریل بھی لکھے اور کھلم کھلا اس بات کا اظہار کیا کہ اگر عیسائی مشنری کسی بات کو کہہ کر اس بات پر قائم نہیں رہ سکتے تو ایسی بات کہتے ہی کیوں ہیں.دنیا کے سب سے زیادہ اشاعت والے ہفتہ وار ٹائم (TIME) نے جو امریکہ سے شائع ہوتا ہے اس خبر کو دو کالموں میں لکھا.اور یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ہمارے ایک پمفلٹ کی تقسیم اور اس کے نفس مضمون کا نمایاں طور پر ذکر کیا.ٹائم میں شائع شدہ خبر کا ترجمہ درج ذیل ہے :.مسلمان اور بلی“ گزشتہ ہفتہ سفید فام بلی گراہم نے جن کے متعلق نائیجیریا کے بعض باشندوں کا یہ کہنا تھا کہ ان کی کھال اڑی ہوئی ہوتی ہے اپنے افریقی مذہبی جہاد کو جاری رکھا جہاں کہیں بھی وہ گئے بہت بڑے ہجوموں نے ان کی تقاریر کو سنا اور مسیح کے لئے فیصلے کئے.لیگوس میں جو کہ نائیجیریا کا درار الخلافہ ہے گراہم نے ایک لاکھ آدمیوں سے خطاب کیا.جس میں سے کم از کم دو ہزار اشخاص نے مسیح کیلئے فیصلہ کیا.اس فیصلہ کا اظہار مکمل خاموشی میں کیا جا تا رہا.یہ خاموشی نائیجیریا میں جہاں کہ حد سے زیادہ شور و شغب ہوتا ہے.ایک نہایت عجیب چیز تھی ان کی تقریر سننے کے لئے مسلمان بھی کافی تعداد میں میدان تقریر میں پہنچے.کیونکہ یہ تمام ان مقررین سے مختلف تھے جن کو افریقیوں نے پہلے سنا ہوا ہے.ایک مسلمان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا یہ شخص تو بالکل ہم جیسا ہی معمولی انسان ہے.اس کو ہرگز یہ دعوی نہیں کہ یہ کسی غیر معمولی طاقت کا مالک ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسا طریق بتاتا ہے جو عیسی (علیہ السلام ) کے نقش قدم پر چلنے میں آسانی پیدا کرتا ہو.“ لیکن مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اور مسلمان جو کہ کل آبادی یعنی ساڑھے تین کروڑ کے نصف کے قریب ہیں.گراہم کی آمد سے خوش نہیں تھے.بلی گراہم کے نائیجیر یا پہنچنے سے قبل مسلمانوں کے لیڈروں نے ان کے ساتھ ملاقات کی تجویز پیش کی تھی.لیکن ان کے ہراول دستہ نے اس تجویز کو رد کر دیا تھا اور رد کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ ( گراہم ) بہت مصروف ہیں جواب یہ دیا گیا تھا :.ڈاکٹر گراہم کے متعلق آپ ان کی تقاریر سُن کر واقفیت حاصل کر سکتے ہیں.“ نائیجیریا کے مسلمان جو اس بات پر مغرور ہیں کہ دسمبر کے الیکشن میں ان کا مسلمان وزیر اعظم اپنے عہدے پر قائم رہا.اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ دورہ اس لئے کروایا گیا ہے تا کہ عیسائیوں کو
تاریخ احمدیت 564 جلد ۲۰ سیاسی طاقت حاصل کرنے میں مدد ملے (حالانکہ یہ دورہ کافی عرصہ سے زیر تجویز تھا ) گراہم کے جلسوں میں مسلمانوں کی طرف سے ایسے پمفلٹ تقسیم کئے گئے جن میں پانچ نکات پیش کئے گئے تھے.وہ پانچ نکات یہ ہیں :..۴.عیسی علیہ السلام خدا کے بیٹے نہیں تھے.انہوں نے صلیب پر وفات نہیں پائی تھی.وہ مردوں سے جی نہیں اٹھے تھے.وہ آسمان پر اٹھائے نہیں گئے تھے.وہ بذات خود واپس دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے.بلی نے کوئی جواب نہ دیا.لیکن کچھ عرصہ کے لئے دونوں طرف طبائع کا پارہ چڑھتا رہا.اور دونوں طرفوں سے بیانات جاری ہوتے رہے.اس ہفتہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا.کیونکہ عیسائی مناد گراہم آرام کرنے کے لئے اور ڈاکٹر البرٹ شویٹزر ALBERT) (SHWEITZER سے ملاقات کرنے کے لئے لمبا رینے (LAMBA RENE) گئے.لائف (LIFE) جو امریکہ کا مشہور ترین رسالہ ہے اس میں ڈاکٹر گراہم کے دورہ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو واضح الفاظ میں پیش کیا گیا کہ افریقہ کے سارے دورے میں ان کی سب سے زیادہ مؤثر مخالفت نائیجیریا میں ہوئی.نائیجیرین اخبارات نے توقع سے زیادہ ہمارے چیلنج کی طرف توجہ دی اور اس کے حق میں اور اس کے خلاف دل کھول کر اظہار رائے کیا.سب سے پہلے تو ہمارے چیلنج کو چھاپا پھر اس پر قارئین کے خطوط چھاپے گئے اور ایڈیٹوریل لکھے گئے.ایک اخبار نے پہلے صفحہ پر مسلم اور عیسائیت کے جلی عنوان سے ویسٹ افریقن احمد یہ نیوز ایجنسی کا پریس ریلیز سارے صفحہ پر چھاپا اور اس کے ساتھ ہی ایڈیٹوریل بھی لکھا جس میں نہ صرف قارئین کو وہ پریس ریلیز توجہ کے ساتھ پڑھنے کی تلقین کی.بلکہ ایک زخم خوردہ شیرنی کی طرح اس چیلنج کے خلاف دھاڑا بھی.ایڈیٹوریل کا ترجمہ درج ذیل ہے :.ہم اپنے قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ وقت نکال کر ضرور بالضرور ہماری لیڈنگ سٹوری کو جو احمد یہ مشن سے لی گئی ہے پڑھیں ہم نے ارادہ اس خبر کو اس قدر
تاریخ احمدیت - 565 جلد ۲۰ نمایاں جگہ دی ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے پڑھ سکیں.اور اس پر غور کر سکیں.ہم نے خود سے نہایت غور سے پڑھا ہے اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نائیجیریا میں احمد یہ مشن کے لیڈر مسٹر سیفی ہر حال میں اس بات کے فیصلہ کے لئے مناظرہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں مذاہب (اسلام اور عیسائیت ) میں سے کون سا مذ ہب دوسرے سے بہتر ہے.ہم نہیں سمجھتے کہ ایسے مناظرہ سے لوگوں کے تعلقات خوشگوار ہوسکیں گے.یہ بات غیر صحت مندانہ ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں ایک ختم نہ ہونے والی اور بدمزہ بحث چھڑ جائے گی.ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات اتنی ہی بُری ہے جتنی کہ ایک ایسی بحث جس کا مقصد یہ ہو کہ یہ ثابت کیا جائے کہ یوربا (YORUBA) اور ابو (IBO) میں سے کونسا قبیلہ اچھا ہے یا ھاؤسا (HAUSA) اور ابو (180) میں سے کس قبیلہ کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے.اس سے بھی زیادہ خطر ناک بات یہ ہے کہ احمدی لیڈر نے بھی گرا ہم کی آمد سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کی آمد ایسے وقت میں رکھی گئی ہے جب کہ مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہوا ہے اور الحاج ابو بکر تا فاوا با لیوا پرائم منسٹر بن گئے ہیں.یہ بات نہایت ہی خطر ناک ہے اور اس سے عیسائیوں کے دلوں پر ایک کاری زخم لگا ہے.نہ صرف نائیجیریا کے عیسائیوں کے دلوں پر بلکہ ساری دنیا کے عیسائیوں کے دلوں پر زخم لگا ہے.ہم مذہبی اختلافات کے بارے میں اپنا موقف دوبارہ پیش کر دینا چاہتے ہیں.نائیجیر یا ایک ایسا خوش قسمت ملک ہے جہاں لوگوں کے مذہبی اختلافات ان کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالتے.ہم ایک ایسے ملک کی تعمیر کر رہے جہاں مذہبی اختلافات لوگوں کے آپس کے تعلقات پر ہر گز اثر انداز نہ ہوں گے.ہمارا یقین ہے کہ تمام نائیجیرین چاہے وہ کس ہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں باہم مل کر کام کر سکتے ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہر اس شخص یا اس گروہ کی مخالفت کرتے ہیں جو کہ مذہبی آگ کو ہوا دے.ہم نے دیگر ممالک میں ان باتوں کے بُرے نتیجے نکلتے دیکھے ہیں.“ (NORTERN STAR) ایک اور اخبار نائیجیرین ٹربیون (NIGERIAN TRIBUNE) نے اپنے 9 فروری کے شمارے میں مندرجہ ذیل ایڈیٹوریل لکھا :." غصہ دلانے والی حرکات وو 6 دوسرے ممالک کی طرح نائیجیر یا بھی بعض مشکلات سے دو چار ہے لیکن برعکس دوسرے ممالک کے یہاں کی مشکلات بہت زیادہ ہیں اور بہت پیچیدہ ہیں، اقتصادی مشکلات
تاریخ احمدیت 566 جلد ۲۰ ہیں، اقلیتوں کی مشکلات ہیں، قبیلوں کی مشکلات ہیں اور پھر زبان کی بھی مشکلات ہیں.اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں جس قدر قبیلے ہیں اور جس قدر زبانیں بولی جاتی ہیں.اتنی ہی تعداد میں مشکلات بھی درپیش ہیں.دراصل یہ مشکلات بے شمار ہیں اور ہماری امید صرف اس بات پر قائم ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈر اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لیڈر بھی نفس پرستی سے بالا ہو کر نا نیجیریا کے مفاد کے لئے زندگیاں بسر کریں.لیکن اگر چہ یہ مشکلات پیچیدہ ہیں نائیجیریا کے لوگ اپنے آپ کو اس لحاظ سے خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ یہاں نسلی اور مذہبی قسم کی ا مشکلات کالعدم ہیں.اور اس کے پیش نظر ہم ایسے شخص کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھ سکتے.جو نائیجیریا کی مشکلات میں اضافہ کا باعث ہو.اور اس طرح ہماری پریشانیوں میں اضافہ کرے ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے ہی نایجیریا اتنی مشکلات سے دو چار ہے کہ اس کے لیڈ ر آئندہ پچاس سیال تک انہی کو حل کرنے میں مصروف رہیں گے اور اس لئے ہم مغربی افریقہ کے رئیس التبلیغ کے اس رد عمل کو نا پسندیدہ سمجھتے ہیں جس کا انہوں نے ڈاکٹر گراہم کے نائیجیریا کے دورے کے سلسلے میں اظہار کیا ہے.یہ مسلمان مبلغ ڈاکٹر گراہم نہی کی طرح اگر سیاسی زبان میں بات کی جائے تو غیر ملکی ہیں یہ پاکستانی ہیں.جب کہ مشہور ڈاکٹر ) گراہم امریکن ہیں.لیکن ان دونوں کو نائیجیریا میں آنے کی دعوت نائیجیریا کے لوگوں نے دی ہے اور اسی وجہ سے ان کو صرف اس وقت تک خوش آمدید کہا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ اپنے مذہبی حلقہ کے اندر رہ کر اپنا مذہبی کام کریں.لیکن مولوی نیم سیفی صاحب اس تمثیلی بر تن کیطرح ہیں جو گرا ہم کیتلی کو کا لا کہتے ہیں.مولوی سیفی صاحب کے ساتھیوں نے کیوں ڈاکٹر گراہم کے جلسوں میں شور و شر پیدا کرنے کی ضرورت سمجھی اور کیوں وہاں گراہم کے خلاف پمفلٹ تقسیم کئے.سیفی صاحب کو گرا ہم کے ساتھ مناظرہ کرنے میں بھلا کیا خوشی حاصل ہو سکتی تھی.ہم یہ بات کہنے کی جرات کرتے ہیں کہ اس احمدی کی حرکات غصہ دلانے والی ہیں.اور سراسر نا جائز ہیں.سیفی صاحب غیر معمولی طور پر جوش کا اظہار کرتے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ غیر معمولی جوش اختلافات کو برداشت نہ کر سکنے کے مترادف ہے.ہمیں اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے.ہم اس بات سے نفرت کرتے ہیں.اس بات کو یہاں ہرگز پیدا نہ ہونے دینا چاہیئے.نائیجیرین ٹربیون.نائیجیرین اتحاد کے پیش نظر تمام احمد یوں کی توجہ اس بات کی
تاریخ احمدیت 567 جلد ۲۰ (ALFA طرف مبذول کراتا ہے کہ وہ مولوی سیفی صاحب کو مشورہ دیں کہ وہ بے وجہ نائیجیرین عیسائیوں کے عمائدین پر حملے نہ کریں.سیفی صاحب جو کہ اتنے ہی زیادہ مناظر ہیں ان کے لئے نائیجیریا کوئی مناسب زمین نہیں الفابسر یوا پالا را BISRIYU (APALARA) کی یاد بھی تازہ ہے ( یہ صاحب ایک مسلمان مبلغ تھے جن کو تبلیغی لیکچر دیتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش کو لیگون (LAGOON) میں پھینک دیا گیا تھا اس قتل کے نتیجہ میں گیارہ اشخاص کو پھانسی ملی تھی (نسیم) ہمارا خیال ہے کہ مولوی سیفی صاحب کیسا تھ تعلق رکھنے والے بعض احمدیوں کی حرکات ایسی ہیں کہ ان کے نتیجہ میں ملک میں مناقشت پیدا ہونے کے امکانات ہیں اور اس کا نقصان نائیجیر یا ہی کو ہو گا.“ اس ایڈیٹوریل کی صحیح پوزیشن بالکل وہی ہے جسے تمثیلی طور پر یوں بیان کیا جا تا ہے کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے یہاں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ یہ خاکسار نے اور نہ ہی کسی اور احمدی دوست نے ڈاکٹر بلی گراہم کے جلسوں میں کو ئی پمفلٹ تقسیم کئے تھے ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ ان ایام میں اندرون شہر جماعت نے ایک پمفلٹ یا درکھنے کے قابل پانچ نکات ، جس کا ذکر امریکہ کے ہفتہ وار اخبار ٹائم (TIME) نے بھی کیا تھا.ضرور تقسیم کیا تھا.لیکن یہ محض غلط بیانی تھی کہ ہم نے کوئی پمفلٹ گراہم کے جلسوں میں تقسیم کئے تھے یا ان جلسوں میں کسی قسم کا شور وشر پیدا کرنے کی کوشش کی تھی.66 مشرقی نائیجیریا کے گورنر سر فرانس ابیام (SIR FRANCIS IBIAM) جوان دنوں سنٹرل بورڈ آف مشنز آف دی پریس بائٹیرین چرچ PRESS BYTERIAN) (CHURCH آف کینیڈا کے مہمان کے طور پر ٹورنٹو کا دورہ کر رہے تھے ان سے جب مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات اور کام کے متعلق سوالات کئے گئے تو انھوں نے پر لیس کو بتایا کہ اگر چہ نائیجیریا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان لوگوں کو اپنے اپنے مذہب میں داخل کرنے کے سلسلہ میں ایک بہت بڑا مقابلہ جاری ہے لیکن ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں آپس میں کوئی مناقشت نہیں ہے.ان سے یہ سوالات اس خبر کے سلسلہ میں کئے گئے تھے جو کہ وہاں کے مقامی اخباروں نے بلی گراہم کے دورے کے تعلق میں شائع کی تھی اور جس کا ملخص یہ تھا کہ مسلمان بلی گراہم کے دورے کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں.نائیجیریا میں اخبار بین حضرات میں سے بعض کا خیال تھا کہ بلی گراہم کو چیلنج نہ دینا چاہیئے تھا.(اور یہ لوگ سب کے سب عیسائی تھے ) اور بعض کا خیال تھا کہ چونکہ تبلیغ کا
تاریخ احمدیت 568 جلد ۲۰ مطلب واضح الفاظ میں یہ ہے کہ اپنے مذہب کی برتری ثابت کر کے لوگوں کو اس میں داخل کرنے کی کوشش کی جائے.اس لئے ہر وہ شخص جو تبلیغ کے میدان میں نکلتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے عقائد کی صحت کو ثابت کرنے کے لئے اور اپنے مخالف لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینے کیلئے تیار رہے چنانچہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلی گرا ہم کا فرض یہ تھا کہ وہ خاکسار کے چیلنج کو قبول کرتے..یلی سروس (SERVICE DAILY) میں ایک صاحب نے سیفی صاحب چپ رہیئے' کے عنوان سے ایک خط شائع کر وایا.جس میں ان کا موضوع سخن یہ تھا کہ خاکسار نے اپنے ہفتہ واری کالم میں جو مضمون ” گراہم کے لئے کتا ہیں“ کے عنوان سے لکھا ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ مجھے عیسائیت سے کہ ہے.انہوں نے اس خط میں یہ بھی کہا کہ سیفی صاحب کو یہ بھی خیال ہے کہ نبی دنیا میں لوگوں کی اصلاح کے لئے آتے ہیں نہ کہ اپنی جان دے کر لوگوں کے گناہوں کو اپنے سر پر اٹھانے کیلئے.اور کہ سیفی صاحب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی وفات عام انسانوں کی سی وفات ہونے کی وجہ سے ان کو کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی.وو جب اخبارات کے نمائندوں نے ڈاکٹر بلی گراہم سے خاکسار کے چیلنج کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر میں اس پر کوئی تبصرہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں“ اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کی.نائیجیرین ٹربیون نے اس خبر کو مندرجہ ذیل طریق پر شائع کیا.خبر کا عنوان تھا مسلمانوں کے چیلنج پر میں اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کرتا.ڈاکٹر بلی گراہم کہتا ہے.اور خبر کا متن تھا :.ڈاکٹر بلی گراہم جو مشہور عالم عیسائی مناد ہیں اور جو سوموار کے روز ابادان (IBADAN) میں مذہبی مہم کے لئے وارد ہوئے ، انہوں نے مسلمانوں کے ایک گروہ کے مناظرہ کے چینج کے متعلق کسی رائے کا اظہار کرنے سے انکار کر دیا.جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اس چیلنج کو قبول کر لیں گے یا نہیں تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ میں اس پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا.مغربی افریقہ میں احمد یہ موومنٹ کے لیڈر مولوی نسیم سیفی صاحب نے ان عیسائی منا د کو پبلک مناظرہ کا چیلنج دیا تھا.کیونکہ سیفی صاحب کا خیال ہے کہ اگر کسی مذہب کی تبلیغ کرنے والا حقیقی طور پر جانتا ہے کہ وہ کن عقائد کی تبلیغ کر رہا ہے تو ان عقائد کے متعلق پبلک
تاریخ احمدیت 569 جلد ۲۰ " مناظرہ ایک مفید مطلب چیز ہو سکتی ہے.ناردرن سٹار ( روزنامہ ) میں ایک صاحب نے لکھا کہ ”مذہبی مناظرہ کسی طرح بھی غیر مفید نہیں ہو سکتا اس عنوان سے انہوں نے لکھا کہ میں نے اخبار کی لیڈنگ سٹوری جس کا عنوان مسلمان اور عیسائیت ہے بڑے شوق سے پڑھی ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ کا ایڈیٹوریل بھی شوق سے پڑھا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک نہایت سرعت کے ساتھ ترقی پذیر ہے اور یہ ترقی خاص طور پر سیاسی، معاشی اور اقتصادی شعبوں میں ہو رہی ہے.لیکن کیا روحانیت کی طرف بھی کوئی توجہ دی جا رہی ہے یا نہیں.اس میں کیا شک ہے کہ اس وقت دو بڑے اور اہم مذہب اسلام اور عیسائیت ہیں.جس طرح ہم سیاسی، معاشی اور اقتصادی ترقی کے خواہاں ہیں اس طرح ہمیں اس بات کی بھی لگن ہونی چاہیئے کہ ہم سب سے اچھے روحانی نظام کے ساتھ منسلک ہوں اور اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مختلف مذاہب کے لیڈ رتبادلہ خیالات کریں اور اپنے اپنے مذہب کے اچھے نکات سے لوگوں کو آگاہ کریں.اور اس سلسلہ میں وہ اپنی مقدس کتابوں کے حوالے بھی دیں.میں آپ (ایڈیٹر ) سے اس بات پر متفق نہیں ہوں کہ ایسی مذہبی مجلس ایک نہ ختم ہونے والی بحث کا آغاز کر دے گی.اور یہ بحث بدمزگی پیدا کر دے گی.“ اس خط کے لکھنے والے صاحب نے خاکسار کے ایک خط کا حوالہ دیکر یہ ثابت کیا کہ اس ملاقات کا مقصد لوگوں کے تعلقات کو خوشگوار بنانا تھا نہ کہ ان کے درمیان مناقشت کی خلیج وسیع کرنا اور اپنے خط کو اس بات پر ختم کیا کہ ” میرا خیال تو یہ ہے کہ تمام سنجیدہ مسلمان میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ جس طرح مولوی سیفی صاحب نے تجویز کیا ہے عیسائی مناد اور مسلمان لیڈروں کی ملاقات کا انتظام ضرور ہونا چاہیئے.ایڈیٹر نے اس بات پر نوٹ دیا :." قارئین کے خیالات کو خوش آمدید کہا جائے گا “.ایک اور صاحب نے ڈیلی سروس میں لکھا ” اب اس غم و غصہ کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے، خط کا مضمون یہ تھا آپ کے اخبار میں ایک صاحب نے لکھا ہے کہ مولوی نسیم سیفی صاحب اسلام کا دفاع کرنا چھوڑ دیں.یہ تجویز نہایت غیر ضروری ہے.جب انگلستان میں مقیم نائیجیریا کے کمشنر مسٹر مبو ( MBU) نے عیسائیت کے متعلق نہایت حسین پیرائے میں ذکر کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی اسلام کے متعلق ناروا الفاظ استعمال کئے تھے ہم مسلمان بالکل خاموش
تاریخ احمدیت 570 جلد ۲۰ رہے تھے.جب سر فرانس ایام جو یو نیورسٹی کالج سے تعلق رکھتے ہیں نے وسطی افریقہ میں عیسائیت کے متعلق تقریر کی تھی.ہم نے ان کو کسی رنگ میں بھی ملامت نہ کی تھی.جب اینگلی کن سناؤ (ANGLICAN SYNOD) نے اسلام کے خلاف خطرہ کی گھنٹی بجائی تھی.مسلمانوں نے کسی شور و غوغا سے آسمان سر پر نہ اٹھا لیا تھا.لیکن جب مولوی نسیم سیفی صاحب نے اپنے عقائد کے متعلق چند ایک باتیں کہیں تو عیسائیوں کا غضب بھڑک اٹھا.ہم مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عبادت اور تقریر کی آزادی ہر شخص کا پیدائشی حق ہے.ویسٹ افریقن پائلٹ (WEST AFRICAN PILOT) روز نامہ میں ایک صاحب نے لکھا ” مولوی نسیم سیفی صاحب ایک ہندوستانی ( پاکستانی ) مسلم مشنری ہیں.جو کہ نائیجیریا میں اپنے مذہب یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقائد کی تبلیغ کے لئے آئے ہوئے ہیں اور یہ ان کا جائز حق ہے.خصوصا ایک ایسے ملک میں جہاں جمہوری نظام کا دور دورہ ہے مجھے اس بات کا یقین ہے کہ قرآن کریم میں علم اور حکمت کا ایک خزانہ موجود ہے جس کے متعلق یہ صاحب لوگوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں.بجائے اس کے کہ بائیبل کے ایسے حوالوں پر زور دیا جائے جو متنازعہ فیہ ہیں اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے خداوند یسوع مسیح کے متعلق ایسے کلمات کہے جائیں جو ہتک آمیز ہیں اور عیسائیت کو بھی رگیدا جائے.قرآن کریم اور بائیل کا موازنہ جو مبلغ اسلام کی طرف سے گاہے گا ہے پیش کیا جاتا ہے وہ ایسا ہے کہ اس سے کسی وقت بھی جھگڑے کی بنیا دکھڑی کی جا سکتی ہے.خصوصا ایسی صورت میں کہ ان کی باتوں کا جواب دینے کی کوشش کی جائے.مسلمان اور عیسائی ایک لمبے عرصہ سے نہایت امن وسکون کے ساتھ اس ملک نائیجیریا میں زندگی گزار رہے ہیں.اور مذہب ان کے آپس کے تعلقات میں کبھی حائل نہیں ہو ا.دوسرے مذہب کے متعلق باتیں کہنے کی بجائے ان صاحب کے پاس کافی مواد ہے جن کو وہ استعمال کر سکتے ہیں.میں مولوی نسیم سیفی صاحب سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی پبلک تقاریر بیانات اور تحریروں کو قرآن کریم ہی کے دائرے میں محدود رکھیں.اسی طرح میں اینگلی کن چرچ کے بشپ کو بھی اپیل کرتا ہوں اور میتھوڈسٹ چرچ کے چیئر مین اور عیسائیوں کی دیگر منظم جماعتوں کو بھی کہ وہ اس مبلغ اسلام کے عیسائیت پر حملوں کی روک تھام کریں“.ناردرن سٹار نے اپنے پہلے صفحہ پر ویسٹ افریقن احمد یہ نیوز ایجنسی کے پریس
تاریخ احمدیت 571 جلد ۲۰ ریلیز کے متعلق جو ایڈیٹوریل لکھا تھا.خاکسار نے اس کا جواب دیا جو اس پر چہ میں چھپا.اخبار والوں نے اس خبر پر یہ سرخی جمائی :.احمد یہ جماعت کے لیڈر کہتے ہیں کہ سٹار کی دلیل ایک ایسی منطق ہے جس کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا.“ اور خبر یوں لکھی :.مولوی نسیم سیفی صاحب جو مغربی افریقہ میں احمد یہ مشن کے لیڈر ہیں نے ناردرن سٹار کی ایڈیٹوریل تنقید کا جواب لکھا ہے.یہ ایڈیٹوریل احمد یہ مشن کے اس پریس ریلیز کے جواب میں تھا جس میں ڈاکٹر بلی گراہم سے ملاقات کے سلسلہ میں احمد یہ جماعت کے لیڈر کی کوششوں کا ذکر تھا.جس روز ہم نے یہ پریس ریلیز چھاپا تھا اُسی روز ہم نے اس پر تنقید بھی چھاپ دی تھی.ہمارا خیال ہے کہ نیم سیفی صاحب کی یہ کوشش کہ ڈاکٹر بلی گراہم سے پبلک مناظرہ کیا جائے.غیر صحت مندانہ اقدام ہے.ہم نے اس بات کا انتباہ بھی کیا تھا کہ کوئی شخص مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش نہ کرے.ہم ذیل میں احمد یہ لیڈ ر کا جواب شائع کر رہے ہیں.میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہمارا پریس ریلیز شائع کر دیا اور اس بات کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس پر تنقید بھی کی.مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ آپ نے اپنی تنقید پریس ریلیز کی مکمل اشاعت سے قبل ہی شائع کر دی دراصل پریس ریلیز دو اشاعتوں میں چھپا تھا اور تنقیدی ایڈیٹوریل پہلی ہی اشاعت میں شائع کر دیا گیا تھا لیکن بہر حال یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے جس پر مجھے خاص طور پر زور ینے کی ضرورت محسوس ہو.مجھے امید ہے کہ آپ میری اس بات سے ناراض نہ ہوں گے کہ آپ کی تنقید.اگر چہ یہ تنقید خلوص دل سے کی گئی ہے.نہایت ہی غیر منطقی ہے.آپ کو اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ ابو IBO) اور یوروبا (YORUBA) اور اسلام اور عیسائیت والی مثال ایسی ہے جس کا ایک دوسرے سے دور کا بھی تعلق نہیں.قبائل کا تعلق وراثت سے ہے اور ہم ان کو کسی رنگ میں تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی ایک قبیلہ کے لوگ یہ تبلیغ کرتے پھرتے ہیں کہ دوسرے قبیلوں کے لوگ بھی اس قبیلہ کے لوگ بن جائیں لیکن مذہب کا معاملہ بالکل مختلف ہے.ہم اس بات کا انتخاب کرتے ہیں.لوگ مذہب کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں اور یہی چیز ہے جسے مذہب کی منادی کرنا کہتے ہیں.ڈاکٹر بلی گراہم کا نائیجیر یا آنے کا مقصد
تاریخ احمدیت بھی یہی تھا.572 جلد ۲۰ " سر فرانس ابیام نے حال ہی میں کینیڈا میں کہا تھا کہ اپنے اپنے مذہب میں شامل کرنے کے لئے یقیناً مختلف مذاہب ( خصوصا اسلام اور عیسائیت ) میں مقابلہ کی ایک خاص روح پائی جاتی ہے.آپ عیسائی کیوں ہیں؟ اس لئے کہ آپ کے خیال میں عیسائیت ہر دوسرے مذہب سے اچھی ہے.میں مسلمان کیوں ہوں ؟ اس لئے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام تمام مذاہب سے اچھا ہے.عیسائی یہ کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کو یہ بات سمجھا ئیں کہ عیسائیت سب مذاہب سے اچھی ہے.ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام سب سے زیادہ اچھا مذہب ہے.مجھے امید ہے کہ اب آپ ضرور مجھ سے کلی اتفاق کریں گے کہ مذہب کی تبلیغ ضروری ہے.صرف ایسے لوگ جو اچھے عیسائی نہیں ہیں مذہب کی تبلیغ کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور پھر یہ بھی تو سوچئے کہ میرا بلی گراہم سے کیا مطالبہ تھا ؟ صرف یہ کہ وہ مسلمانوں سے ملیں.میں نے جو خط ان کو لکھا تھا اس کا آخری فقرہ یہ تھا ایک ایسے شخص کے لئے جو کہ بہت بڑا مذہبی لیڈر ہے محبت اور تکریم کے جذبات کے ساتھ میں چند ایک کتا ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں مجھے امید ہے کہ آپ ان کتب کا ضرور مطالعہ کریں گے کیا اب بھی آپ اس بات کو غیر صحت مندانہ کہتے ہیں ؟ ۵ ڈاکٹر بلی گراہم مغربی افریقہ میں شکست فاش اٹھانے کے بعد مارچ مشرقی افریقہ کے اوائل میں مشرقی افریقہ کے شہر نیروبی پہنچے اور انہوں نے بڑے بڑے عظیم الشان جلسوں سے خطاب کیا تو مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے رئیس التبليغ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے اسلام کی طرف سے انہیں ایک چیلنج دیا.انہوں نے ڈاکٹر گراہم کے نام جو خط لکھا اور جو وہاں کے اخبارات میں بھی شائع ہوا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے :.نیر و بی ۳.مارچ ۱۹۶۰ء ڈیئر ڈاکٹر گراہم ! میں احمدیہ مسلم مشن مشرقی افریقہ کے رئیس التبلیغ کی حیثیت سے نیروبی میں آپ کی آمد پر بڑی مسرت اور گرمجوشی کے ساتھ آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں.عیسائیت کی تبلیغ کو اپنا سے نظر قرار دینے میں آپ نے جس رُوح اور جذبے کا اظہار کیا ہے وہ واقعی قابلِ قدر ہے اور میں آپ کے اس جذبہ اور رُوح کو سراہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا جس مقصد کے
تاریخ احمدیت 573 جلد ۲۰ تحت آپ نے یہاں تشریف لانے کی زحمت اٹھائی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے میرے لئے یہ اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ میں آپ کو دین حق کو طرف دعوت دوں اور اس کی بے نظیر تعلیم کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلاؤں.(۲) بلا شبہ آپ بخوبی واقف ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ انجیل کے بیان کے مطابق یسوع مسیح کا اپنا فرمان یہ ہے کہ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.اسی طرح یسوع مسیح نے یہ بھی کہا ہے کہ :.اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا.اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہو گی پھر یہ بھی اسی کا فرمان ہے کہ :.وو جو کچھ تو خدا سے مانگے گا وہ تجھے دے گا.66 مسیح کے یہ اقوال ایک ایسے معیار کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی مدد سے کسی مذہب کی صداقت کو بآسانی پر کھا جا سکتا ہے.اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا اس معیار مذاہب کی صداقت کو پر کھنے کا اس سے بڑھ کر اور کوئی موقع ہو گا جبکہ آپ مشرقی افریقہ کے لوگوں کی بھلائی کی خاطر خود یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں.آپ نے بڑے بڑے شاندار مقالے رقم فرمائے ہیں اور مروجہ عیسائیت کی تائید میں بڑی زور دار اور گرما گرم تقاریر کی ہیں لیکن اگر خود یسوع مسیح کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق آپ کے اپنے مذہب کی صداقت عملاً دنیا پر ظاہر ہونے کی صورت نکل آئے تو یہ بات آپ کی ان تمام مساعی پر جو اب تک آپ کر رہے ہیں سبقت لیجائیگی.(۳) اس کے بالمقابل میرا دعویٰ یہ ہے کہ آج روئے زمین پر صرف اور صرف اسلام ہی وہ ایک زندہ مذہب ہے جس پر عمل کر کے لوگ نجات یافتہ قرار پا سکتے ہیں.اور یہ کہ مروجہ عیسائیت آسمانی تائید و نصرت اور انسانوں کی حقیقی رہنمائی کے وصف سے یکسر بے بہرہ ہے.لہذا میں عوام کی بھلائی کی خاطر پوری عاجزی اور اخلاق کے ساتھ آپ کو ایک ایسے مقابلے کی دعوت دیتا ہوں جس کے ذریعہ ہم اپنے اپنے مذہب کی صداقت کو آشکار کر سکتے ہیں..(۴) مقابلے کا ایک طریق یہ ہے کہ تمیں ایسے مریض لے لئے جائیں کہ جو میڈیکل
تاریخ احمدیت 574 جلد ۲۰ سروسز کینیا کے ڈاکٹر صاحب کے نزدیک لا علاج ہوں.ان تمیں مریضوں میں سے دس یورپین، دس ایشیائی اور دس افریقن ہوں.انہیں قرعہ کے ذریعہ میرے اور آپ کے درمیان مساوی تعداد میں بانٹ لیا جائے.پھر دونوں مذاہب کے پیروؤں میں سے چھ چھ آدمی ہمارے ساتھ اور آ شامل ہوں اور ہم اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے مریضوں کی صحت یابی کے لئے خدا کے حضور دُعا کریں تا کہ اس امر کا فیصلہ ہو سکے کہ کس کو خدا کی تائید و نصرت حاصل ہے اور کس پر آسمان کے دروازے بند ہیں.(۵) مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ تجویز قبول کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا.کیونکہ یہ عین اُن اصولوں کے مطابق ہے جو یسوع مسیح نے خود بیان فرمائے ہیں لیکن اگر آپ نے اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کیا تو دنیا پر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں اور دو اور دو چار کی طرح ثابت ہو جائے گی کہ صرف اور صرف اسلام ہی وہ زندہ مذہب ہے جو خدا کے ساتھ تعلق قائم کر نیکی صلاحیت سے بہرہ ور ہے.آپ کا مخلص ( دستخط ) شیخ مبارک احمد رئیس التبليغ احمد یہ مسلم مشن مشرقی افریقہ ( نیروبی ) اگر چہ ڈاکٹر گراہم نے شیخ مبارک احمد صاحب کے اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دیا.لیکن جب وہاں کے اخبارات میں اس چیلنج کا خوب چرچا ہو ااور اخبارات نے شیخ صاحب کا فوٹو شائع کر کے آپ کے چیلنج کو اہمیت دی تو ایک شخص نے اس چیلنج سے متاثر ہو کر ڈاکٹر گراہم کے ایک پبلک لیکچر کے بعد ان سے سوال کیا کہ کیا وہ کوئی ایسی مجلس بھی منعقد کریں گے جس میں وہ بیماروں کو چنگا کرنے کے لئے خدا سے استمداد کریں.اس پر اُنہوں نے سراسر عجز کا اظہار کرتے ہوئے کہا.میرا کام محض وعظ کرنا ہے مریضوں کو چنگا کرنا نہیں.اس جواب پر نیروبی کے نامور اخبار دی سنڈے پوسٹ نے اپنی ۶ / مارچ ۱۹۶۰ء کی اشاعت کے صفحہ ۲۶ پر لکھا :.دو اسلام کا چیلنج جلسے کے بعد ڈاکٹر گراہم نے بالواسطہ طور پر اس چیلنج کا جواب دیا جو انہیں اس امر کے فیصلے کیلئے دیا گیا تھا کہ اسلام اور عیسائیت میں سے کونسا مذ ہب سچا ہے.یہ چیلنج احمد یہ مسلم مشن کے رئیس نے گزشتہ جمعہ کے روز دیا تھا.“ وو شیخ مبارک احمد نے تجویز پیش کی تھی کہ تمہیں لاعلاج مریض منتخب کئے جا ئیں ان
تاریخ احمدیت 575 جلد ۲۰ میں سے دس افریقن ہوں.دس یورپین اور دس ایشیائی.ان مریضوں کے بارہ میں ڈائرکٹر آف میڈیکل سروسز کینیا با قاعدہ یہ تصدیق کریں کہ فی الواقع یہ لاعلاج ہیں.ان مریضوں کو پھر مبلغ اسلام اور ڈاکٹر گراہم کے درمیان قرعہ کے ذریعہ تقسیم کر دیا جائے.شیخ مبارک احمد نے لکھا تھا کہ اس کے بعد دونوں مذاہب کے پیروؤں میں سے چھ چھ آدمی اور شامل ہوں گے.پھر ہم اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے مریضوں کی صحت یابی کے لئے خدا کے حضور دُعا کریں گے تا کہ اس امر کا فیصلہ ہو سکے کہ دونوں میں کس کو خدائی تائید ونصرت حاصل ہے اور کس پر آسمان کے دروازے بند ہیں.“ وو د کسی کو چنگا نہیں کیا جائے گا“ جلسے کے اختتام پر ایک ایشیائی ڈاکٹر گراہم کے پاس آیا اور اس نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کوئی ایسی مجلس بھی منعقد کریں گے کہ جس میں مریضوں کو چنگا کرنے کا انتظام کیا جائے.“ ڈاکٹر گراہم نے جواب دیا.” میرا منصب وعظ کرنا ہے چنگا کرنا نہیں.میں صرف وعظ کرتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ خد کی مرضی پوری ہو قبل ازیں شیخ مبارک احمد نے دعوی کیا تھا کہ اگر ڈاکٹر گراہم نے چیلنج قبول کرنے سے انکار کیا تو اس سے دُنیا پر ثابت ہو جائیگا کہ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو بندے کا خدا سے تعلق قائم کرنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے.“ شیخ مبارک احمد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود ذاتی طور پر دُعا کے ذریعے لوگوں کا علاج کیا ہے اور وہ شفایاب ہوئے ہیں.انہوں نے مزید کہا کہ مشرقی افریقہ میں ڈاکٹر گراہم عیسائیت کو فائدہ پہنچانے کی بجائے الٹا نقصان پہنچا رہے ہیں.یہاں عیسائی ہونے والے مسلمانوں کے مقابلہ میں خود عیسائی بہت زیادہ تعداد میں اسلام قبول کر رہے ہیں.انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ٹانگا نیکا میں تقریباً پچاس لاکھ مسلمان ہیں.دنیائے عیسائیت میں زبر دست اضطراب و تشویش ڈاکٹر بلی گراہم نے قاہرہ پہنچ کر کہا کہ انہوں نے افریقہ میں عیسائی لیڈرشپ کو بہت مضبوط پایا اور کہ تعلیمیافتہ لوگوں کی اکثریت عیسائی مشن سکولوں کی فارغ التحصیل ہے اور کہ یہ بات نہایت حوصلہ افزا ہے لیکن اسلام بھی بڑی سرعت کے ساتھ ترقی کر رہا ہے.وا پس امریکہ پہنچ کر ڈاکٹر موصوف نے اسلام کی ترقی پر فکر مندی کا ظہار کیا اور اس بات کی
تاریخ احمدیت 576 جلد ۲۰ خواہش ظاہر کی کہ نئے خطوط پر افریقہ میں عیسائیت کی تبلیغ کے انتظامات کیئے جائیں انہی خیالات کا اظہار انہوں نے صد ر ا مریکہ جان ایف کینیڈی سے بھی کیا اس زبر دست اضطراب کی بازگشت یورپ میں بھی سنائی دی گئی چنانچہ لنڈن کے بشپ نے افریقہ میں اسلام کی پیشقدمی پر سخت غم و غصہ کا اظہار کیا اور عیسائیوں سے اسلام کے خلاف ایک متحدہ عیسائی محاذ قائم کرنے کی اپیل کی.چنانچہ انہی دنوں روز نامہ ” نئی روشنی کراچی نے برطانوی نامہ نگار کے حوالہ سے حسب ذیل خبر شائع کی.لندن یکم اپریل ( سمیع الدین نمائندہ نئی روشنی ) لندن کے بشپ نے یہ شرانگیز تجویز پیش کی ہے کہ چونکہ افریقہ میں اسلامی مبلغین اور عیسائی مشنریوں کے درمیان لوگوں کو مشرف بہ اسلام کرنے اور عیسائی بنانے کی مہم میں زبر دست مقابلہ ہو رہا ہے اور اسلام بڑی سرعت سے پھیل رہا ہے اس لئے ایک ادارہ اینٹی اسلام پروجیکٹ (یعنی ادارہ مخالفین اسلام ) قائم کیا جائے بشپ مذکور بی بی ایس ریڈیو پر اسلام اور عیسائیت کے مقابلہ کے عنوان سے ایک پروگرام میں حصہ لے رہے تھے بشپ مذکور نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ” در حقیقت پہلی بار اب عیسائیت اور اسلام کا مقابلہ ہو رہا ہے اور پاکستان کے مذہبی رہنما مغربی افریقہ میں بسنے والے افراد کو وسیع پیمانے پر مشرف بہ اسلام کر رہے ہیں حالانکہ عیسائی مشنری عرصہ سے اس علاقہ میں سرگرم ہیں لیکن ان کو نا کامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے اور ان میں سخت مایوسی پھیلی ہوئی ہے عیسائی مشنریوں کو مایوسیوں اور نا کامیوں سے بچنے کے لئے آرک بشپ نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ عیسائی مشنری اسلام کی اشاعت کو ( نعوذ باللہ ) روکنے کیلئے اسلام دشمن پر و جیکٹ بنایا جائے چنانچہ اس اسکیم کو عملی جامعہ پہنا دیا گیا اور اینٹی اسلام پروجیکٹ کے نام سے ایک ادارہ بنا دیا گیا ہے واضح رہے کہ ہر سال عیسائی مشنریوں کے ذریعہ کروڑوں روپیہ عیسائیت کی نشر و اشاعت پر خرچ ہوتا ہے.لندن کے بشپ نے افریقہ کے جنگلوں میں بسنے والے افراد کی امداد کے لئے چار لاکھ روپیہ کی رقم کا عطیہ دیا ہے لندن کے آرک بشپ کی طرف سے یہ شر انگیز اور اسلام دشمن مہم کوئی نئی بات نہیں ہے.آئے دن عیسائی مشنری مسلمانوں اور اسلام کو زک پہنچانے کے لئے طرح طرح کے دل آزار اور شرانگیز فتنے چھوڑتے رہتے ہیں " اینٹی اسلام پروجیکٹ بھی اس فتنہ کی ایک کڑی ہے اور دین برحق پر پیسہ کے زور سے فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ راست بازی کے ذریعے تو افریقی عوام کا دل جیت نہیں سکے اب نقر کی وطلا ئی تھیلوں کا منہ کھول کر اسلام کے خلاف صف
تاریخ احمدیت 577 جلد ۲۰ آراء ہو رہے ہیں.جس میں انہیں نا کا می یقینی ہے کیونکہ اسلام کی سادہ تعلیمات صداقت پر مبنی ہیں اور اس میں رنگ ونسل کی تمیز ختم اور مساوات و عدل و انصاف کو اولیت دی گئی ہے.چنانچہ خود افریقی باشندے سفید فام عیسائی حکمرانوں کے تشدد و امتیاز نسلی کے مقابلہ میں جب اسلامی اخوت و مساوت کو پر کھتے ہیں تو ان کا دل حقانیت اسلام کا شیدا ہو جاتا ہے.بشپ صاحب کی اس اپیل کے بعد ایک مسیحی محقق مسٹر والراڈ پرائس WILLRAD) (PRICE نے اپنی کتاب "INCREDIABLE AFRICA" میں لکھا کہ ڈاکٹر بلی گراہم نے دورہ افریقہ سے واپسی پر یہ پیشگوئی کی ہے کہ یہ اعظم افریقہ میں عیسائیت کا اثر ونفوذ کم ہوتا چلا جائے گا اور عیسائیوں کو اپنی جانوں کے محفوظ رکھنے کے لئے غاروں میں چھپنا پڑے گا.پراکس نے مزید لکھا کہ افریقہ میں اسلام کی ترقی عیسائیت کی نسبت تین گنا ہے جو افریقن کسی بیرونی ملک کے مذہب کو اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ اسلام کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کے پیش نظر افریقنوں کی جائدادوں پر قبضہ کرنا نہیں ہے اس کے مقابلہ میں یورپین عیسائیوں کے متعلق افریقن کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں بائبل دے کر ہماری زمینیں ہم سے ۱۳ چھین لی ہیں.ڈاکٹر بلی گراہم کے دورہ کے کچھ عرصہ بعد مسٹر لز لے را مزے(MR LISLE RAMSEY) نے امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سرپرستی میں افریقہ کے تیرہ ملکوں کا دورہ کرنے کے بعد یہ بیان دیا کہ اگر عیسائیوں نے غیر معمولی فراست کا ثبوت نہ دیا تو افریقہ سے عیسائیت ختم ہو جائے گی کیونکہ مسلمان عیسائیوں سے زیادہ کامیابی کے ساتھ تبلیغ کر رہے ہیں اور لوگ عیسائیت کے مقابل اسلام میں زیادہ تیزی کے ساتھ داخل ہورہے ہیں.روزنامہ نوائے وقت لاہور کے نمائندہ خصوصی متعین امریکہ کے تاثرات ڈاکٹر بلی گراہم کی پشت پر چرچ کا عالمی اثر و رسوخ اور امریکہ کی بے پناہ سیاسی قوت وشوکت اور سرمایہ تھا جس کے سامنے غریب اور کمزور افریقن مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجاہدین احمدیت نے مسلمانوں کی طرف سے ایسی کامیاب نمائندگی کی کہ صلیب پرستوں کا ناطقہ بند ہو گیا اور دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے اس فقید المثال کارنامہ کی دھاک بیٹھ گئی اور مسلمان عش عش کر اُٹھے.چنانچہ لاہور کے مؤقر اور کثیر الاشاعت روزنامہ نوائے وقت“ کے نمائندہ خصوصی متعین امریکہ.مسٹر حفیظ ملک.نے خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا:.
تاریخ احمدیت امر : 578 جلد ۲۰ افریقہ کے آزاد ہونے پر افریقی عوام ایک انتہائی مشکل نفسیاتی مصیبت میں پھنس رہے ہیں.افریقہ کے اکثر حصوں میں اب بھی انسان دھات اور پتھر کے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور جو زیادہ ترقی کر چکے ہیں.ایک شدید جذباتی ایمان اور روحانی بحران میں مبتلا ہیں.افریقہ کے عوام میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے.کہ کبھی کوئی پیغمبر نازل نہیں ہوا.اب تک افریقہ ایام جہالت کا بہترین نمونہ ہے سوال یہ ہے کہ افریقہ میں عوام کا مذہب کیا ہو گا.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ امریکی پادری اس پر بڑی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں.حال ہی میں امریکہ کے مشہور و معروف پادری بلی گراہم نے افریقہ کا دورہ کیا گذشتہ ہفتے انہوں نے صدر آئزن ہاور سے وائٹ ہاؤس میں ۴۰ منٹ کے لئے تبادلہ خیالات کیا اور صدر آئزن ہاور کو یہ مشورہ دیا کہ نائیجیریا کا دورہ کریں کیونکہ اکتوبر میں نائیجیر یا انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا.پادری بلی گراہم نے رپورٹروں کو ملاقات کے بعد بتایا کہ ریکہ کیلئے لازم ہے کہ وہ افریقہ کے عوام کے نیشنلزم کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کرے.صدر آئزن ہاور کے رد عمل پر بحث کرتے ہوئے بلی گراہم نے کہا کہ صدر آئزن ہاور نے نائیجیریا کے دورے کے مسئلہ پر غور کرنے کا وعدہ کیا ہے.اس خیر سگالی کے دورہ سے امریکہ کو جو فائدہ پہنچے گا وہ محتاج بیان نہیں.لیکن پادری بلی گراہم کو جو غم ہے.وہ کسی اور مسئلہ سے ہے.انہوں نے رپورٹروں کو بتایا کہ مسلمان مشنری افریقہ میں جب سات حبشیوں کو مسلمان بناتے ہیں تو عیسائی مشنری کہیں مشکل سے تین حبشیوں کو عیسائی بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں.اسلام کی ترقی کو روکنے کیلئے بلی گراہم ایک مشنری پروگرام وضع کر رہے ہیں.ان کا خیال یہ ہے کہ امریکی حبشیوں کو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے مشنوں میں بھرتی کرنا چاہئے جو اپنے افریقی بھائی بندوں کو آسانی سے عیسائی بنا سکیں گے.اس کے علاوہ بلی گراہم نے کہا کہ وہ ان مشنریوں کو اپنے مشن میں بھرتی کریں گے.جو علم نسلیات اور جناب رسالت مآب کی تعلیمات سے آگاہ ہوں گے.تا کہ وہ اسلام کی کمزوریوں کو افریقی عوام پر واضح کرسکیں.اب سوال یہ ہے کہ افریقہ میں تہذیب اور علم و ہنر اور مذہب پھیلانے کی ذمہ داری کس حد تک پاکستانیوں پر عائد ہوتی ہے جہاں تک کہ ہمارے عرب بھائیوں کا تعلق ہے.وہ تو عرب نیشنلزم کے سوا بات نہیں کرتے.اسلام ان کے لئے ثانوی اہمیت رکھتا ہے.بھارت کے پاس کوئی ایسا مذہب نہیں جس کی تبلیغ کی جا سکے.لیکن اس کے باوجود
جلد ۲۰ تاریخ احمدیت 579 بھارت افریقہ میں ثقافتی تبلیغ کر رہا ہے.ہر سال افریقہ سے طلباء کی ایک خاص تعداد بھارتی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آتی ہے.صرف مشرقی افریقہ کو لے لیجئے.اب تک ۱۳۵۰ فریقی طلبہ بھارتی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں.۲۰۰ طلبہ واپس جا چکے ہیں.نیروبی کے ایسٹ افریقن ٹائمنر ( جو احمد یہ جماعت کا اخبار ہے ) کے بیان کے مطابق ۱۹۵۹ ء میں بھارت نے ۸ وظیفے یوگنڈا کے حبشی طلبہ کو دیئے.۱۰ کنیا کے طلبہ کو ۴ ٹا نگا نیکا کے طلبہ کو اور ایک زنجبار کے طالب علم کو دیے گئے.بھارت میں انڈین کلچرل کونسل ان طلبہ کو تمام سہولتیں مہیا کرتی ہے.جہاں تک افریقی ممالک کا تعلق ہے افسوس ہے کہ ان کے متعلق مکمل فہرست حاصل نہ ہوسکی.لیکن اندازہ کیا جاتا ہے.کہ اس سال سینکڑوں طلبہ افریقہ سے بھارت میں تعلیم کی غرض سے آئے ہیں.یہی جو ان طلبہ کل ان افریقی ممالک کے لیڈر ہونگے اور ان کے توسط سے بھارت کو جو سیاسی فائدہ پہنچے گا.اس کا آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے.افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی مذہبی مشنری کام کر رہی ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہے.مشرقی افریقہ میں مسلمانوں کی آبادی ۱۵ فیصد ہے جس میں ایسٹ افریقن ٹائمز کے بیان کے مطابق ۱۰۰۰۰ افریقی لوگ احمدی ہیں.پرتگیزی مشرقی افریقہ میں تقریباً دس لاکھ افریقی مسلمان ہو چکے ہیں.جن میں سے غالب اکثریت احمدیوں کی ہے.کینیا کے سرحدی صوبوں میں اسلام کو فروغ ہو رہا ہے اور یہاں بھی غالب اکثریت احمدیوں کی ہے.نیروبی میں تو خیر احمدیوں نے ایک بہت بڑا مذہبی تبلیغی مرکز قائم کر رکھا ہے جو روزانہ انگریزی اخبار بھی شائع کرتا ہے.اور اس کے علاوہ تعلیم کے لئے اس سینٹر نے کالج وغیرہ بھی قائم کر رکھے ہیں.ہمیں احمدیت سے شدید اختلافات ہیں اور ہم قادیانی فرقہ کے تصورات کو بالکل باطل اور گمراہ سمجھتے ہیں اور سواد اعظم کی طرح ان تصورات سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرتے ہیں.لیکن اس کے باوجود ہمیں ان کی مساعی کی داد دینی پڑتی ہے بلی گراہم جب اپنے حالیہ دورہ میں نیروبی گئے تو اسلام کی طرف سے اگر کسی جماعت نے انہیں مباحثہ کی دعوت دی تو وہ جماعت احمد یہ تھی.کینیا ، یوگنڈا اور ٹانگا نیکا میں اس وقت ۲۵۰۰۱۰۰۰ مسلمان آباد ہیں لیکن ان کی تعلیمی حالت بہت ہی کمزور ہے.عیسائی مشنری سکولوں اور کالجوں کے ذریعہ سے طلبا کو عیسائیت کی طرف راغب کر رہے ہیں.اب سوال پیدا ہوتا ہے
تاریخ احمدیت 580 جلد ۲۰ کہ کیا جماعت احمدیہ کے سوا پاکستان میں اور کوئی مذہبی جماعت موجود نہیں جو افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کے کام کو انجام دے سکے پاکستان میں جماعتِ اسلامی بہت ہی با اثر جماعت ہے.مولانا مودودی کے سیاسی خیالات سے ہمیں بہت زیادہ اختلافات ہیں.لیکن ہمیں اس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ اگر وہ افریقہ میں مشنری کام کا بیڑہ اٹھائیں.تو اس سے صرف اسلام کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے علاوہ انسانیت کی خدمت بھی ہو گی.حقیقت یہ ہے کہ آج تک غیر ممالک میں جتنا بھی اسلامی مشنری کام ہوا ہے وہ علماء نے اپنی ذاتی حیثیت میں ادا کیا ہے اب ضرورت ہے کہ تبلیغی کام کو منظم کیا جائے.اگر جماعت اسلامی سیاسی خواہشوں اور دفاتر کے خواب سے علیحدہ ہو کر افریقہ میں اسلامی تہذیب و تمدن پھیلانے کی کوشش کرے تو ہمیں توقع ہے کہ فروغ اسلام میں رکاوٹ ڈالنے سے متعلق بلی گراہم کے تمام ارادے نا کام ہو کر رہ جائینگے اسلئے کہ جماعت اسلامی میں جو علماء ممبر کی حیثیت سے شامل ہیں.وہ بیچ معنوں میں اسلام کے عالم ہیں اور ان کے توسط سے جو اسلام پھیلے گا.وہ افریقی صحیح لوگوں کو روحانیت کے سرچشموں سے فیضیاب کریگا.دراصل یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس پر حکومتِ پاکستان کو تبلیغی کام کر نیوالی جماعتوں کی اعانت کرنی چاہیئے.کیا ہم مولانا مودودی سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ افریقہ میں تبلیغی کام کا بیڑا اٹھا ئیں گے ؟ ہماری رائے میں تو ان سے بہتر انسان پاکستان میں اس کام کیلئے موجود نہیں.“ ۱۴ ، اخبار رضا کار لاہور کا حقیقت افروز تبصرہ پاکستان کے مشہور شیعہ ہفت روزہ رضا کار نے نہ صرف اپنی یکم مئی ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں مندرجہ بالا مضمون شائع کیا بلکہ ۸ رمئی ۱۹۶۰ء کے پرچہ میں اس پر درج ذیل تبصرہ بھی سپر دا شاعت کیا :.گزشتہ شمارہ میں ہم نے جناب حفیظ ملک صاحب نمائندہ روز نامہ ” نوائے وقت لا ہور مقیم واشنگٹن (امریکہ) کا ایک مراسلہ افریقہ میں تبلیغ اسلام“ کے عنوان سے نوائے وقت لاہور سے نقل کیا تھا.محترم حفیظ ملک صاحب نے اپنے اس مراسلہ میں احمدی مبلغین اور عیسائی مشنریوں کی افریقہ میں تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے.اور اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ احمدی مبلغین کس طرح عیسائی مشنریوں کا سر توڑ مقابلہ کر کے لاکھوں افریقیوں کو احمدی بنا رہے ہیں اختلاف عقائد کے باوجود حفیظ ملک نے احمدی مبلغین کی تبلیغی کوششوں کو سراہا ہے.اور انہیں
تاریخ احمدیت 581 جلد ۲۰ خراج تحسین ادا کیا ہے“.افریقہ آزاد ہو رہا ہے.لہذا مغربی ممالک اب افریقیوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کے لئے مذہب کو سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں.اور افریقہ میں وسیع پیمانے پر عیسائیت کی تبلیغ کر کے افریقیوں کے ساتھ روحانی اور نظریاتی رشتے استوار کر رہے ہیں.چنانچہ اس وقت پورے براعظم افریقہ میں عیسائی مشنری پھیلے ہوئے ہیں.اور عیسائیت کی تبلیغ پورے زور شور کے ساتھ جاری ہے.اندریں حالات اس وقت افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک وسیع میدان موجود ہے.محترم حفیظ ملک صاحب نے اسلامیان پاکستان کی توجہ اسی طرف مبذول کرائی ہے اور اس ذیل میں جماعت اسلامی کو خصوصی دعوت دی ہے.کہ اس کے مبلغین افریقہ میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں.تو انہیں شاندار کامیابی حاصل ہے.ہماری آنکھیں تلاش کرتی رہیں کہ محترم حفیظ ملک کے مذکورہ مراسلہ میں اثنا عشری مبلغین کی تبلیغی خدمات کا بھی کہیں ضرور ذکر آئیگا.لیکن ہمیں یہ دیکھ کر بے انتہا مایوسی ہوئی.کہ اس سلسلہ میں اثنا عشری مبلغین کا کہیں نام تک نہیں آیا.و سکتی ہماری جماعت کے مایہ ناز مبلغ مولانا خواجہ محمد لطیف صاحب قبلہ انصاری گزشتہ دو سال سے افریقہ میں مقیم ہیں اور موصوف نے رضا کار میں متعدد اقساط میں افریقہ میں مذہب اثنا عشری کا مقام کے عنوان سے افریقہ کے خوجہ اثنا عشری شیعوں کے حالات پر بالتفصیل روشنی ڈالی ہے.محترم خواجہ صاحب کے ان مراسلات سے تو ہم نے یہ اندازہ لگایا تھا.کہ افریقہ میں شیعہ ہر لحاظ سے صف اول میں شمار ہوتے ہیں.کیونکہ وہ پورے ملک کی صنعت و تجارت پر چھائے ہوئے ہیں.ہر مقام پر ان کی مساجد اور امام باڑے موجود ہیں.اور انہوں نے ہر جگہ تبلیغ دین کیلئے علماء کا انتظام کر رکھا ہے با وجو د صاحبان ثروت ہونے کے ان کا دینی شغف قابل داد ہے.چنانچہ خود خواجہ صاحب نے یہ تحریر فرمایا تھا کہ افریقہ میں یہ مشہور ہے کہ افریقہ میں اسلام تو عرب لائے تھے.مگر اس ملک میں اسلام کو قائم رکھنے والے خوجہ اثنا عشری حضرات ہیں.افریقہ میں بسنے والے خوجہ اثنا عشری حضرات لاکھوں روپے سالانہ اپنے عبادت خانوں، مساجد اور امام باڑوں پر خرچ کرتے ہیں.پاک و بھارت سے بڑی بڑی تنخواہیں دے کر علماء کرام کو اپنے مذہبی مرکز میں تعینات کرتے ہیں.چنانچہ اس وقت افریقہ کے تمام قابل ذکر شہروں میں شیعہ مبلغین موجود ہیں.لیکن جب ہم اپنے ان مبلغین کی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں مایوسی کا سا منا کرنا پڑتا ہے اور
تاریخ احمدیت 582 جلد ۲۰ جب ہم ان کا مقابلہ احمدی مبلغین سے کرتے ہیں.تو ندامت سے ہمارا سر جھک جاتا ہے.تبلیغی میدان میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے...کیونکہ ان مبلغین کی پشت پر حکومتیں ہیں.جو لاکھوں اور کروڑوں روپے سے ان کی امداد کر رہی ہیں.لیکن احمدی مبلغین کی پشت پر نہ ہی کوئی حکومت ہے.اور نہ ہی کوئی سرمایہ دار طبقہ.ان کی پشت پر صرف ان کی جماعت ہے.جو انہیں معمولی تنخواہیں دیتی ہے.اور ایک محمد و دسرمایہ سے ان کی تبلیغی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتی ہے.ان حالات میں احمدی مبلغین کا عیسائی مبلغین سے مقابلہ کرنا اور اس مقابلہ میں ان سے بازی لے جانا یقیناً خراج تحسین کا مستحق ہے.اور ہمارے مبلغین حضرات کے لئے تازیانہ عبرت ہے.جن کو افریقہ میں ایک سرمایہ دار طبقہ کی سر پرستی حاصل ہے.اور تبلیغ دین کے سلسلہ میں انہی ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں.کاش ہمارے مبلغین حضرات بھی اپنے میں مشنری سپرٹ پیدا کرتے.یعنی آرام و آرائش کی زندگی کو خیر باد کہتے اور محنت و مشقت اپنا نصب العین بناتے.تو آج ان کا ذکر بھی تبلیغی مشن کے سلسلہ میں سر فہرست ہوتا.ہمیں اس تلخ نوائی سے معاف رکھنا چاہیئے ہمارے مبلغین آرام و آسائش کی زندگی گزارنے کے عادی بن چکے ہیں.کیونکہ ہمارے دینی مدارس کا ماحول ہی کچھ ایسا ہے.کہ انہیں آرام طلب بنا دیتا ہے.اور ان میں مشنری سپرٹ یدا ہی نہیں ہوتی ہمارے چھوٹے دینی مدارس سے لے کر نجف اشرف کے دینی مدارس تک کی یہ حالت ہے کہ وہاں کوئی باقاعدگی اور نظام نہیں جب طلباء ایسے ماحول میں پروان چڑھیں گے.تو واضح ہے.کہ وہ آرام و آسائش کے عادی ہی بنیں گے.لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ ایک مبلغ اور مشنری اس وقت تک با احسن وجوہ خدمات انجام نہیں دے سکتا.جب تک وہ محنت و مشقت کو اپنا نصب العین نہ بنائے.اس سلسلہ میں اپنے مبلغین حضرات کی خدمت میں کچھ عرض کرنا ہے تو گستاخی لیکن ہم یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتے.کہ ہمارے مبلغین نے مذہب کی تبلیغ بس یہی سمجھ رکھی ہے.کہ اپنے مکان پر عزت اور آرام کم و بیش آسودگی کی زندگی بسر کریں.کبھی کبھی نماز پڑھا دیا کریں کوئی مسئلہ پوچھے تو فتویٰ دے دیں اور کہیں سے دعوت آئے تو مجلس پڑھ آئیں.“ حالانکہ مبلغین حضرات کو چاہیئے.کہ وہ اپنے مقام معزز کو چھوڑ کر اٹھیں.خدا کی دنیا اور خدا کے بندوں میں گھو میں پھریں.ان سے ملیں جلیں.افلاس.جہالت.تو ہم پرستی.بیماری اور ظلم و نا انصافی کے درد ناک مناظر کو دیکھیں اور انہیں دور کرنے کے لئے
تاریخ احمدیت 583 جلد ۲۰ اپنا پسینہ بہائیں، لباس، انداز گفتگو اور شانِ علم میں عزت نہیں، عزت تو خدمت میں ہے.لیکن خدمت سے ہمارے مبلغین کو واسطہ نہیں.حالانکہ مشنری اور خدمت لازم وملزوم ہیں.کیا ہمارے ہادیان دین نے اشاعت دین اور اعلائے کلمتہ الحق کا فرض اس طرح انجام دیا تھا.جس طرح ہمارے آج کل کے علماء کرام اور مبلغین حضرات انجام دے رہے ہیں.؟ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہادیان دین نے بے غرضی اور بے نفسی کے ساتھ لوگوں کی خدمت کی.غریبوں مزدوروں.مظلوموں.بیماروں محتاجوں اور بیکسوں کی دادرسی کی.ہر طرح کے خطروں اور آزمائشوں کو جھیل کر خدا کا پیغام سنایا اور ہر جگہ پہنچایا.اور اس فرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں جس قدر تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھانا پڑیں.اُن سب کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا.ہمارے مبلغین حضرات کے لئے بھی یہی اسوۂ حسنہ قابل تقلید ہے لہذا ہم اپنے واجب التعظيم مبلغین کی خدمت میں یہ مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ تبلیغ دین، ایسی اہم اور مقدس خدمت انجام دینا چاہتے ہیں تو آرام و آسائش کی زندگی کو خیر باد کہہ دیں اور محنت و مشقت کو اپنا نصب العین بنا ئیں.اس وقت افریقہ میں تبلیغ کا میدان بڑا وسیع ہے اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ افریقہ میں ہمیں اس سلسلہ میں ہر قسم کے وسائل بھی میسر ہیں.ضرورت صرف اتنی ہے کہ افریقہ میں مقیم ہمارے مبلغین حضرات اپنے میں صحیح مشنری سپرٹ پیدا کریں اور یا علی کہہ کر اٹھ کھڑے ہوں.تو ہمیں یقین کامل ہے کہ ہمارے مبلغین دیکھتے ہی دیکھتے احمدی اور عیسائی مبلغین سے سبقت لے جائیں گے کیونکہ اسلام حقیقی کی نشر واشاعت کا جو بہترین ذریعہ ہمارے پاس ہے وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں ہے حسین مظلوم کا درد بھرا قصہ ایسا ہے.جو اپنوں بیگانوں.گوروں.کالوں.پڑھے لکھے جاہلوں سب کو اپنی طرف کھینچنے کی پوری پوری اہلیت رکھتا ہے اور یہی قصہ اسلام کی نشر واشاعت کا بہترین ذریعہ ہے.سید الشہداء حضرت امام حسین نے تبلیغ مذہب اور حفاظت دین کے لئے جو بے بہا قربانیاں میدان کربلا میں پیش فرما ئیں کیا اُن کا ذکر صرف اس لئے ہے کہ ہم چند آنسو بہا کر اپنے حسینی ہونے کا دعویٰ کرنے لگیں؟ یا اُن قربانیوں کا تذکرہ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم بھی اسوۂ حسینی کو اپنا ئیں اور سید الشہداء حضرت امام حسین کے نقش قدم پر چل کر حفاظت دین اور تبلیغ اسلام کے لئے اپنا تن من دھن نچھاور کریں.اور اس راہ میں جو مصائب و تکالیف پیش آئیں انہیں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر کے اپنے سچا حسینی ہونے
تاریخ احمدیت 584 جلد ۲۰ کا ثبوت فرا ہم کر یں.اگر ہم آج بھی گوش حق نیوش سے سنیں تو ہمیں امام مظلوم کے استغاثہ کی وہ آواز صاف سنائی دے رہی ہے جو آج سے چودہ سو سال قبل حضور سید الشہداء نے میدان کربلا میں بلند فرمائی تھی اور ہم آج بھی سید الشہداء کے اس استغاثہ کی آواز پر حسینیت یعنی اسلام حقیقی کی نشر و اشاعت کر کے لبیک کہہ سکتے ہیں.آخر میں ہم مجاہد ملت مولانا خواجہ محمد لطیف صاحب قبلہ انصاری کی خدمت میں یہ گذارش کریں گے کہ جہاں انہوں نے شیعیان افریقہ کی تنظیم کے سلسلہ میں اہم اور زریں خدمات انجام دی ہیں اب وہ افریقہ میں تبلیغی مہم کا بھی آغاز فرما ئیں اور اس سلسلہ میں پوری سوچ بچار کے بعد ایک ایسا ٹھوس پروگرام مرتب فرمائیں کہ ہم بہت جلد حفیظ ملک نمائندہ نوائے وقت ہی کی زبان سے خوشخبری سنیں کہ افریقہ میں اثنا عشری مبلغین تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں نہایت ہی اہم اور شاندار خدمات انجام دے رہے ہیں.افریقہ کے اس معرکہ صلیب و ہلال کی گونج بھارت کے مسلم پریس میں چرچا بھارت میں بھی سنائی دی چنانچہ بمبئی کے مشہور اخبار انقلاب نے جولائی ۱۹۶۰ ء کی اشاعت میں حسب ذیل مقالہ افتتا حیہ لکھا :.” اگر مسلمانوں کو تبلیغ کی وہی سہولتیں حاصل ہوتیں جو عیسائیوں کو ہیں اور اگر وو مسلمان مبلغوں کو اسی سطح پر تربیت دی جاتی جس سطح پر عیسائی مبلغوں کو دی جاتی ہے تو افریقہ میں مسلمانوں کی آبادی کہیں زیادہ ہوتی اور افریقہ مسلم براعظم کے نام سے یاد کیا جاتا بدقسمتی سے مولویوں اور ملاؤں کی بہت بڑی اکثریت اس قابل نہیں کہ نئے ڈھنگ سے اسلام کی تبلیغ کر سکے شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نام نہاد مولویوں اور ملاؤں کی وجہ سے اسلام کو فائدہ سے زیادہ نقصان پہونچ رہا ہے.اس وقت افریقہ میں تبلیغ کی خدمات صرف ایک احمد یہ مشن انجام دے رہا اگر مسلمانوں کے دوسرے تبلیغی مشن بھی افریقہ پہنچیں تو وہاں زیادہ تیزی کے ساتھ اسلام کی روشنی پھیلائی جاسکتی ہے.امریکہ کے ایک مشہور عیسائی مبلغ ڈاکٹر بلی گراہم نے حال ہی میں افریقہ کا دورہ کرنے کے بعد نیو یارک ٹائمر کے ایک نمائندے کو ایک بیان دیا ہے جس کے دوران میں اُنہوں نے کہا کہ افریقہ میں اسلام اور عیسائیت کے مابین سخت مقابلہ ہو رہا ہے اور ایک دن ایسا آ سکتا ہے کہ جب سارا افریقہ حلقہ بگوش اسلام ہو جائے.“
تاریخ احمدیت 585 جلد ۲۰ کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے ایک پادری نے لندن ریڈیو سے ایک تقریر نشر کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ افریقہ میں اگر چار بت پرست عیسائی مذہب اختیار کرتے ہیں تو ان کے مقابلے میں سات بت پرست حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں....ایک بت پرست کو مسلمان بننے میں صرف چار منٹ لگتے ہیں.اس کے برعکس عیسائی بننے میں چار سال لگ جاتے ہیں.یہ ایک طرح سے عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کی سادگی کا اعتراف ہے اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ افریقہ کس طرف جا رہا ہے.
تاریخ احمدیت 586 جلد ۲۰ فصل دوم اکٹر پروفیسر عبدالسلام صاحب ۷/جنوری ۱۹۶۰ء کو بھارت کے شہر بمبئی میں ۴۷ ویں آل انڈیا سائنس کانگرس منعقد ہو رہی تھی.کا یاد گار دورہ بھارت مشہور عالم پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر محمد عبد السلام سے درخواست کی گئی کہ وہ اس بین الاقوامی کانگرس سے خطاب فرمائیں نیز بھارت کی یو نیو رسٹیوں کو بھی اپنے علمی لیکچروں سے نوازیں.ڈاکٹر صاحب نے یہ درخواست قبول کر لی آپ لنڈن سے ۲۱ / دسمبر ۱۹۵۹ء کو بذریعہ ہوائی جہاز دہلی پہنچے اور اگلے روز ۲۲ / دسمبر کو دہلی یو نیورسٹی میں لیکچر دیا جو ایک گھنٹہ تک جاری رہا.اس موقع پر بھارت کے ممتاز سائنسدان، ماہرین طبعیات، ممتاز سکالر اور دانشور موجود تھے.آپ کا تجر علمی، خود اعتمادی اور موثر انداز بیان اُن سے خراج تحسین وصول کئے بغیر نہ رہا.موضوع خالص علمی تھا اور سائنسی سوالات کی بوچھاڑ تھی مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنے مدلل، بر جستہ اور معلومات افروز جوابات سے سامعین کو مسحور کر دیا.۲ جنوری ۱۹۶۰ء کو آپ بمبئی تشریف لے گئے اور ۷/جنوری کو آپ نے آل انڈیا سائنس کانگرس میں معرکہ آرا لیکچر دیا.کانفرنس میں تین ہزار مند وب شامل ہوئے جن میں ستر سے زیادہ غیر ملکی نامور سائنسدان تھے.آپ کا انداز فاضلانہ اور طرز ادا بہت دلکش تھی.آپ نے حیرت انگیز ایمانی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا لیکچر قرآن مجید کی مبارک آیات پر ختم کیا.اسٹیج سے اترتے ہی آپ کو ایک جم غفیر نے گھیر لیا.حاضرین اس عظیم سائنسدان کی یہ مقبولیت دیکھ کر دنگ رہ گئے.بھارتی پریس نے بھی اگر کسی سائنسدان کا خصوصی ذکر کیا تو وہ آپ ہی تھے.چنانچہ اخبار ٹائمز آف انڈیا (بمبئی) نے ۸/جنوری ۱۹۶۰ء کو صفحہ اول کے چوکھٹا میں نوٹ لکھا کہ " سائنسدان عوام میں غیر مقبول ہوتے ہیں مگر رات جب پر و فیسر عبد السلام صاحب تقریر کر کے سائنس کانگرس کے پنڈال سے اترے تو یہ بات غلط ثابت ہو گئی.سامعین نے آپ کی شخصیت سے گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور دیر تک
تاریخ احمدیت 587 جلد ۲۰ آپ کو گھیرے رہے ہر شخص آٹو گراف لینا چاہتا تھا.آپ نے کسی کو مایوس نہیں کیا.( ترجمہ ) ڈاکٹر صاحب سائنس کانگرس میں شرکت کے بعد ۱۱/جنوری کو پہلے مدراس پھر ۱۳ / جنوری کو مدراس سے حیدر آباد دکن پہنچے اور اسی روز ۳ سے ۵ بجے شام تک عثمانیہ یو نیورسٹی سے پُر از علم خطاب فرمایا اور سوالوں کے جوابات دئے ڈاکٹر صاحب نے وسطی و جنوبی ہند کے اس طویل سفر کے دوران مقامی احمدی جماعتوں سے مثالی رابطہ رکھا اور جماعتوں نے بھی آپ کے شایان شان اور پُر جوش استقبال میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی علاوہ ازیں آپ کے اعزاز میں تقاریب منعقد کیں جو تبلیغی، تربیتی اور تعلیمی اعتبار سے بہت مفید ثابت ہوئیں اور سلسلہ احمدیہ کی آواز ملک کے بااثر اور چوٹی کے علمی طبقوں تک پہنچی.دار اسلطنت دہلی (۲۳ / دسمبر ۱۹۵۹ ء ) بمبئی (۷ / جنوری ۱۹۶۰ ء ) مدراس (۱۲/جنوری ۱۹۶۰ ء ) اور حیدر آباد دکن (۱۳ / جنوری ۱۹۶۰ء) کی تقاریب کی مفصل رپورٹیں اخبار بدر قادیان میں بالترتیب مولانا محمد سلیم صاحب، مولوی سمیع اللہ صاحب قیصر مولوی شریف احمد صاحب امتی اور محمد عبد اللہ صاحب بی.ایس سی.ایل.ایل.بی حیدر آباد دکن کے قلم سے شائع شدہ ہیں.ان تقاریب میں احمد یہ مسلم مشن بمبئی کی شاندار تقریب سب سے کامیاب رہی جسمیں آپ نے مغرب میں اسلام کا حال“ کے عنوان پر ایک پُر جوش لیکچر دیا نیز سوالوں پر جوابات دئے.اس تقریب کا پریس میں بہت چرچا ہوا مثلاً روز نامہ الجمعیت، دہلی نے ۱۳ / جنوری ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں ” برطانیہ کے مسلمان ڈیلیگیٹ ڈاکٹر " وو عبد السلام کی تقریر کے زیر عنوان لکھا :.سائنس کی ترقی اسلام کے اصولوں کے قطعاً خلاف نہیں.چنانچہ پندرھویں صدی عیسوی تک سائنسی غور و فکر پر مسلمانوں کا قبضہ رہا.اور وہ دنیا پر چھائے رہے.جب انہوں نے سائنس کو چھوڑ دیا تو یورپ کی قوموں نے اسے اپنا لیا اور ترقی کرتے رہے جس کے نتیجہ میں وہ آج تک دنیا پر اور عالمی فکر و خیال پر چھائے ہوئے ہیں.یہ باتیں امپیریل کالج لندن کے شعبہ ریاضیات کے صدر اور رائل سوسائٹی آف لندن کے پہلے پاکستانی مسلمان ممبر ڈاکٹر عبدالسلام نے جو ہندوستانی سائنس کانگریس کے اجلاس کے سلسلہ میں آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں احمد یہ مسلم مشن لائبریری کلب بیک روڈ میں ایک ضیافتی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہیں.جلسہ کی صدارت احمد یہ مسلم مشن کے انچارج جناب سمیع اللہ صاحب
تاریخ احمدیت 588 جلد ۲۰ نے کی.اسلام اور سائنس کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد السلام نے کہا کہ سائنس ایک زمانہ میں مسلمانوں کا فن تھا.انہوں نے یونانیوں سے بہت کچھ لیا تھا اور اس میں خود بھی بہت کچھ اضافہ کیا تھا.ترکوں کے دور میں بھی مسلمان اپنے وقت کے بڑے سائنس دان اور ٹیکنالوجی ایٹ تھے جنکی مدد سے وہ اپنے سمندری بیڑے اور گولہ باری میں نت نئی جدتیں کیا کرتے تھے اور یورپ کی قو میں ان سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں.آج اس کے برعکس یورپ سائنس پر پوری طرح چھایا ہوا ہے اور مسلمان پیچھے ہیں.انہوں نے اپنے انگلستان اور پاکستان کے درس و تدریس کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے پورے وثوق کے ساتھ کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے طلباء کی صلاحیتوں اور انگلستان کے طلبہ کی صلاحیتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور بتایا کے اگر پوری قوم نے وقت کی اس ضرورت پر توجہ کی تو وہ دن دور نہیں کہ جب مسلمان بھی پہلے کی طرح سائنس کے میدان میں نہ صرف زمانہ سے پیچھے نہیں رہیں گے بلکہ باقی دنیا کی رہنمائی کے قابل ہو جائیں گے.باقی دنیا میں سائنس کی ترقی اور ہندوستان و پاکستان میں اس کی موجودہ صورت حال کا تقابل کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ سائنس میں کام دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک نظریاتی اور دوسرے عملی.نظریاتی کام ایک مقررہ راستے پر ہوتے ہیں اور آدمی غور وفکر سے نئے خیالات پیش کرتا ہے جو خدا کی دین ہوتے ہیں.یہ ایک طرح کا الہام ہے اور فرانس کے ایک مشہور سائنسدان کا قول ہے کہ " قسمت کی دیوی انہیں لوگوں پر مہربان ہوتی ہے جو پہلے سے تیار ہوتے ہیں“.ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ خدا کی دین جب یہودی اور عیسائی سائنسدانوں کو نصیب ہوتی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ مسلمانوں کو نصیب نہ ہو انہوں نے بتایا کہ نظریاتی سائنس میں ہندوستان اور پاکستان میں اچھے سائنسدان موجود ہیں.البتہ عملی سائنس میں سوائے شری دی رامن اور کرشن کے کسی بھی سائنسدان نے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے.پھر بھی امید ہے کہ آئندہ ہیں سال میں اس میدان میں ہمارے ملکوں کی حالت بہتر ہو جائے گی.۱۵/جنوری ۱۹۶۰ء کا دن مشرقی افریقہ کی شیخ امری عبیدی صاحب احمدی جماعتوں کے اثر ونفوذ میں ایک نئے باب کے اضافہ کا موجب ثابت ہوا کیونکہ اس روز احمد یہ من مشن کا بطور میئر انتخاب دار السلام کے مبلغ انچارج شیخ امری عبیدی صاحب
تاریخ احمدیت 589 جلد ۲۰ ۲۳ دار السلام کے میئر منتخب ہوئے آپ پہلے افریقن تھے جو اس عہدہ پر فائز ہوئے.دار السلام ہی وہ شہر تھا جہاں ایک زمانہ میں احمد یہ مشن کو شدید مخالفت سے دو چار ہونا پڑا چنانچہ جب شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے یہاں بیت الذکر بنانے کا فیصلہ کیا تو مقامی حکام کی طرف سے بار بار انتباہ کیا گیا اور بالخصوص دار السلام کے میئر نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ احمدیوں کو زمین ہی نہ مل سکے تا یہاں اُن کے قدم ہی نہ جم سکیں.اس نا موافق ماحول میں خدا تعالیٰ نے نہایت با موقعہ زمین دی.شیخ صاحب نے نہایت خاموشی اور سادگی سے چند مبشرین اور حل سے چند مبشرین اور مخلصین جماعت کی موجودگی میں متضر عانہ دعاؤں کے ساتھ بنیا درکھی اور پھر سب خاموشی سے اپنی اپنی جگہوں پر چلے گئے.خدا تعالیٰ کا ایسا فضل شامل حال ہوا کہ خدا کا یہ گھر مع مشن ہاؤس کے پایہ تکمیل کو پہنچا اور اس کا شاندار افتتاح ہوا شیخ امری عبیدی صاحب اسی مشن ہاؤس میں مقیم تھے کہ آپ میئر منتخب ہوئے اور اسی میں میونسپلٹی کے کاغذات دستخطوں کے لئے آپ کی خدمت میں پیش ہونے شروع ہوئے اور پورے شہر سے مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا.صداقت احمدیت کا یہ ایک چمکتا ہوا نشان تھا جو سر زمین مشرقی افریقہ میں ظاہر ہوا جس سے حضرت مسیح موعود کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی کہ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے.سبحان اللہ ! اس ربانی وعدہ کے موافق افریقہ کی چھوٹی اقوام کے بڑے بنے کا عمل جاری ہو چکا تھا اور جن کو ادنی خیال ۲۴ - کیا جاتا تھا وہ عزت کے تخت پر بیٹھ رہے تھے اور جن کو روندا گیا وہ سرفراز ہو رہے تھے.نئے میئر کے انتخاب کے بعد دار السلام میں افریقن نمائندوں کی ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ ہو رہی تھی.شیخ امری صاحب جو نہی وہاں تشریف لے گئے افریقنوں کا ہزا ر ہا کا مجمع اُن کے احترام میں فرط عقیدت سے کھڑا ہو گیا اور اُن کو کندھوں پر اٹھا لیا.اس انتخاب پر ہر طرف افریقن عوام میں خوشی کی زبر دست لہر دوڑ گئی اور اسے ملک کی مکمل آزادی کا پیش خیمہ سمجھا جانے لگا.انگریزی اور سواحیلی پریس نے اس خبر کو نمایاں رنگ میں شائع کیا.شیخ امری صاحب کا فوٹو دیا اور آپ کی تعلیمی، تبلیغی اور علمی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا ان اخبارات میں دار السلام کا ہفت روزہ سنڈے نیوز (SUNDAY NEWS) خاص طور پر قابل ذکر ہے.اس اخبار نے ۲۴ / جنوری ۱۹۶۰ء کے پرچہ میں شیخ امری عبیدی صاحب کے فوٹو ۲۶ کے ساتھ اس ہفتہ کی شخصیت کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ سپر دا شاعت کیا.
تاریخ احمدیت " 590 جلد ۲۰ دار السلام کا پہلا شہری : شاعر اور سیاست دان، ماہرالسنہ اور مذہبی.لیڈر.یہ ہیں چند خصوصیات جن کے حامل ہمارے دارالسلام کے پہلے افریقن میئر ہیں.ہر دور شپ شیخ کلوٹا امری عبیدی ان دو کونسلروں سے ایک ہیں جنہیں تھوڑا عرصہ ہوا کہ یا کور وارڈ سے بلا مقابلہ میونسپل کونسل کے لئے انتخاب کیا گیا تھا اور میونسپل کونسل کے ایک خاص اجلاس میں بہت سے ووٹوں کی کثرت سے میئر انتخاب کیا گیا.اس شہری عہدہ پر فائز ہونے والے یہ صاحب ایک باہمت انسان اور وسیع علم اور تجربے کے مالک ہیں.خوش مزاج انسان :.چھوٹے قد اور مضبوط جسم کے ساتھ وہ ایک خوش طبع انسان ہیں.جن کی زندگی کے تمام پہلو خواہ ذاتی ہوں یا مجلسی اور سیاسی ان کے مذہب اسلام سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں وہ ٹانگانیکا کے مغربی صوبہ کے ایک قصبہ انیجی (UJIJI) میں ۱۹۲۴ء میں پیدا ہوئے اور اپنے دیہاتی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرتے رہے ۱۹۲۷ء میں وہ ٹیور اسکول میں داخل ہوئے اور ٹانگا نیکا افریقن یونین کے صدر (MR.NYRERE) کے ہم جماعت تھے.۱۹۴۱ء میں وہ دار السلام کے پوسٹل ٹریننگ سکول میں داخل ہوئے لیکن دو ہی سال کے بعد اسے ترک کر کے طبو را میں بطور مبلغ اسلام کام کرنا شروع کر دیا.( مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے خاکسار کو بتایا ہے کہ محکمہ ڈاک خانہ جات دو سال کے عرصہ میں برادرم امری صاحب کو کام سکھاتا اور وظیفہ بھی دیتا رہا.اس عرصہ میں انہوں نے امری صاحب کو احمد یہ مشن میں اپنے ساتھ کام کرنے کو کہا.ان کی رضا مندی حاصل کرنے کے بعد مکرم شیخ صاحب نے محکمہ متعلقہ کو لکھا.انہوں نے بغیر کسی قسم کے خرچ کا مطالبہ کرنے کے انہیں فارغ کر دینے کا وعدہ کیا بشرطیکہ خود امری صاحب بھی اسکے خواہشمند ہوں.امری صاحب تو پہلے ہی تیار تھے.انہوں نے بھی لکھدیا اور اس طرح یہ دنیوی حکومت کی ملازمت سے دستبردار ہو کر آسمانی حکومت کے کا رندے بن گئے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانی کا انہیں یہ صلہ دیا ہے کہ اب انہیں وہ اعزاز حاصل ہو ا جو سابقہ ملازمت کے دوران انہیں کبھی حاصل نہیں ہو سکتا تھا اور ان کے انتخاب پر بہت سے جاہ و دولت رکھنے والے رشک کر رہے ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس سے بھی بلند عہدوں پر فائز کرے اور ان کی دنیوی ترقی ان کے لئے اور قوم و ملک اور اسلام واحمدیت کے لئے فخر کا باعث ہو.آمین.اگلے دس سال میں انہوں نے ایک مشہور مسلمان عالم مولانا شیخ مبارک احمد
تاریخ احمدیت 591 جلد ۲۰ صاحب سے مکمل طور پر دینی تربیت حاصل کی اور ۱۹۵۳ء میں وہ ربوہ مشنری ٹریننگ کالج.مغربی پاکستان میں داخل ہوئے.جہاں سے انہوں نے دینیات کی ڈگری حاصل کی ٹانگا نیکا واپس آنے پر شیخ امری صاحب کو ۱۹۵۶ء میں احمد یہ مسلم مشن ( دار السلام ) کا انچارج مقرر کیا گیا.اور وہ تمام مشرقی صوبہ اور ساحلی علاقہ کے نگران رہے.اس فرقہ میں ایشیائی بھی شامل ہیں.اور افریقن بھی.شاعر : - ۵۳-۱۹۵۰ ء تک کے عرصہ میں اس بورڈ کے اکیلے افریقن ممبر رہے جس نے قرآن مجید کا سواحیلی میں ترجمہ کیا ہے یہ ترجمہ جو ۱۹۵۳ء میں طبع ہوا معیاری سواحیلی زبان میں کیا گیا ہے.شیخ امری صاحب اردو سواحیلی ، انگریزی اور عربی زبان بولتے ہیں سواحیلی میں یہ اٹھارہ سال کی عمر سے نظمیں لکھتے چلے آ رہے ہیں.جن میں سیاست.مذہب اور سوشل معاملات پر طبع آزمائی کی گئی ہے.ان کی نظموں کا مجموعہ ایک دیوان کی.شکل میں چھپ چکا ہے.اور ایک دوسری تصنیف میں انہوں نے شاعری کے عام موضوع پر قلم کی روانی دکھائی ہے.مجلس شعرائے سواحیلی کے قابل ترین ممبران بورڈ میں سے ایک ہونے کے علا وہ وہ اس مجلس کے نائب صدر بھی ہیں اور ان کی نظمیں اور مضامین مقامی پریس میں با قاعدگی سے چھپتے رہتے ہیں.ان کا اہم ترین مشغلہ تعلیم ہے.افریقن نو جوانوں کو جو ٹا نگا نیکا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتے ہیں تبلیغی تربیت دینے کے علاوہ وہ شام کو انہیں تعلیم دیتے ہیں.ان کلاسوں میں انگریزی عربی اور سواحیلی پڑھائی جاتی ہے.ان کا خیال ہے کہ دار السلام میں ایک سیکنڈری سکول کا ہونا لازمی امر ہے.اور امید رکھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں اس کی بنیاد رکھی جا سکے گی.ذمہ داری : صبح پانچ بجے سے لے کر رات کے دس بجے تک کام کرنا ان کا معمول ہے درمیان میں دو تین گھنٹے کا وقفہ بھی ہوتا ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ بطور میئر کے ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ان کے مذہبی کام میں حارج نہیں ہو سکتی.انہوں نے کہا.ایک مذہبی آدمی کا فرض ہے کہ وہ شہری اور سیاسی کاموں میں حصہ لے اور یہ بات خود قرآن مجید سے مستنبط ہوتی ہے.اسلام نے سیاسیات اور دوسرے قابل عمل اصولوں کی تعلیم دی ہے.“
تاریخ احمدیت 592 جلد ۲۰ یہی وجہ ہے کہ انہیں مذہبی لیڈر ہونے اور ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین کی مرکزی کمیٹی کا ممبر رہنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی.وہ فرماتے ہیں کہ انسان خواہ کسی سیاسی یا سوشل تنظیم میں شامل ہوا ہے اس میں بھی اپنے مذہب کی پیروی کرنی چاہیئے.دار السلام کے کونسلروں نے ایک ایسے انسان جو اس کردار ” ہمت اور قابلیت کا جامع ہے بطور میئر انتخاب کر کے ایک نہایت مستحسن کا م کیا ہے.“ سنڈے نیوز مورخه ۲۴ / جنوری ۱۹۶۰ء ۲۷ میئر منتخب ہونے کے بعد شیخ امری عبیدی شیخ امری عبیدی صاحب کا صاحب نے اپنے ایک مفصل اور ایمان افروز مکتوب میں تحریر فرمایا :.ایک ایمان افروز مکتوب ۱۵/۱/۶۰ کو میں دارالسلام کا میئر منتخب ہوا.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس انتخاب کی ہر طرف سے داد دی گئی.مسٹر نریرے جیسے قومی لیڈر نے قریبا بتیس ہزار کے ایک عظیم اجتماع میں میرے انتخاب کو سراہا اور ٹا نگانیکا افریقن نیشنل یونین کے اراکین نے مجھے دلی مبارک باد پیش کی اور نہایت گرمجوشی سے میرا استقبال کیا.میرے میئر بننے کی وجہ سے مشن کو علاوہ دوسرے فوائد کے یہ فائدہ بھی حاصل ہوا ہے کہ جو لوگ میری ملاقات کے لئے میرے پاس آتے ہیں.ان سے عمو ماً مشن کے دفتر میں ہی ملاقات کی جاتی ہے اور اس طرح تبلیغ کا ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے.لوگ احمد بیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہ ہونے کی کوشش کرنے لگے ہیں.لوگوں نے اپنے بچوں کو اسلامی اور دینی تعلیم کی خاطر ہمارے سکول میں بھجوانا شروع کر دیا ہے.چنانچہ اس وقت تک آٹھ بچے داخل ہو چکے ہیں اور مزید درخواستیں وصول ہو رہی ہیں.مقامی اخبارات مجھ سے مذہبی امور کے متعلق پوچھتے ہیں اور مضامین لکھنے کے لئے کہتے ہیں.چنانچہ روزوں کے متعلق میرے دو مضامین اخبار میں شائع ہو چکے ہیں.میرے میئر منتخب ہونے کی وجہ سے امریکہ.یونائیٹڈ کنگڈم، اسرائیل اور بعض دوسرے ممالک کے ممتاز نمائندگان بھی میری ملاقات کے لئے آتے رہے ہیں انہیں عموماً مشن کے دفتر میں اور کبھی کبھی میئر کے ملاقات کے کمرے میں ملتا ہوں اور اس ذریعہ سے ان تک تبلیغ اسلام پہنچانے کا نا در موقعہ ہاتھ آتا ہے.
تاریخ احمدیت 593 جلد ۲۰ گو بعض لوگ اعتراضات بھی کرتے ہیں چنانچہ مس مرجوالی برہام نے جو یونائیٹڈ کنگڈم میں ایک یو نیورسٹی کی پروفیسر ہیں مجھے یہ کہا کہ یہ نا مناسب ہے کہ ایک دینی ادارہ اور گروہ کا امیر میئر ہو کیونکہ اس میں تعصب کی جھلک ہو گی لیکن میرے اس جواب پر وہ خاموش ہو گئی کہ اگر یہ یوں ہی ہوتا تو کونسلرز کی اکثریت میرے حق میں ووٹ نہ دیتی.حالانکہ ان میں مسلمان ہندو اور عیسائی سب موجود تھے.میں نے اس سے مذہب کے متعلق بھی بات چیت کی اور بتایا کہ عیسائیت افریقہ میں نا کام ہو رہی ہے.میں نے اس ا سے یہ بھی کہا کہ برطانیہ کی نو آبادیاتی پالیسی مناسب نہیں ہے.کیونکہ اس ذریعہ سے وہ لوگوں کی مختلف جماعتوں میں انتشار اور افتراق پیدا کر رہے ہی.مس مرجوالی نے مجھ سے دریافت کیا کہ آیا میں نے قاہرہ میں تعلیم حاصل کی ہے ( بعد میں ایک امریکن اخبار نویس نے بھی مجھ سے ایسا ہی سوال کیا) میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ سوال انہوں نے بعض سیاسی مصلحتوں کی بناء پر مجھ سے کیا تھا لیکن میں نے انہیں بتایا کہ میں نے پہلے تو مقامی طور پر تعلیم وپر حاصل کی تھی اور بعد میں احمدیت کے مرکز پاکستان گیا.میں نے وہاں احمد یہ ادارہ جات سے تعلیم حاصل کی.میرے میئر منتخب ہونے سے احمدیت کے مخالفوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے عبدالکریم جی جیسے انسان بھی دوستی پر آمادہ نظر آ رہے ہیں.جو اپنے میئر ہونے کے زمانہ میں جماعت احمدیہ کو دار السلام میں مسجد بنانے کی اجازت نہ دیئے جانے کی انتہائی کوشش میں مصروف رہے.۲۲/۱/۶۰ کو میں ٹیونس میں آل افریقن پیپلز کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے دار السلام سے ٹیونس گیا.اس میٹنگ میں تمام افریقہ کے نمائندگان شامل تھے.میں نے ٹیونس میں مشن قائم کرنے کی بھی کوشش کی اور اس سلسلہ میں صد رحبیب بورقیہ کو ملنے کی کوشش کی.لیکن سیاسی مصروفیات کی وجہ سے مجھے افسوس ہے یہ موقع میسر نہ آیا.البتہ مجھے یہ خوشی ہے کہ مجھے وہاں بھی تبلیغ کا موقعہ میسر آیا.وہاں مجالس میں عموماً عام شربتوں کے علاوہ شراب کے جام بھی گردش میں تھے.اس پر میں نے ٹیونس کے بعض آدمیوں کو قرآن کریم کی ان آیات کی طرف توجہ منعطف کرائی جن میں شراب کی ممانعت کا ذکر ہے تو وہ بہت شرمندہ ہوئے اور حسن اتفاق سے اس کے بعد جس کا نفرنس میں بھی میں نے شمولیت کی اس میں شراب نہ رکھی گئی.
تاریخ احمدیت 594 جلد ۲۰ اس کے علاوہ بھی کئی مواقع ایسے میسر آئے کہ میں اپنے فریضہ تبلیغ کو صحیح طور پر سرانجام دینے اور ایسے مواقع حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا.چنانچہ برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ایک نمائندہ نے مجھ سے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں دریافت کیا کہ کیا ایک مبلغ ہونے کے لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ٹانگانیکا میں برطانوی حکومت کے بعد اسلام زیادہ ترقی کرے گا.میں نے کہا.برطانوی راج میں جب کہ نو آبادیاتی حکومتیں کھلے بندوں عیسائیت کی مدد کر رہی ہیں.اسلام میں ایک کے مقابل دس آ دمی شامل ہور ہے ہیں.تو جب یہ حکومتیں اور ان کی واضح مددختم ہو جائیگی.تو یقیناً اسلام انتہائی تیزی سے ترقی کرے گا.ٹیونس جاتے ہوئے راستے میں میں نے تین سیاسی لیڈروں کو سواحیلی ترجمہ قرآن کے نسخے پیش کئے ان میں دو ٹا نگانیکا کے تھے اور ایک زنجبار کا.مجھے راستے میں دیکھ کر بہت تعجب اور افسوس ہوا.کہ ٹانگانیکا اور زنجبار کے مسلمان دوست ایسا گوشت استعمال کر رہے ہیں جو میچ طور پر ذبح نہیں کیا گیا.یہ وہی گوشت تھا جو بچھپیں یورپین ممالک میں اور ہوائی جہاز میں مہیا کیا جاتا تھا.جب میں نے ان کو اس امر کے متعلق بتلایا تو انہوں نے اس کی کچھ بھی پرواہ نہ کی.میں نے اس عرصہ میں سبزیوں پر ہی اکتفا کیا.ایک اور اعزاز : جولائی کے آخر میں شیخ امری عبیدی کو ایک اور اعزاز ملا اور وہ یہ کہ میئر آف دار السلام کے ممتاز عہدے پر فائز ہونے کے بعد آپ مغربی صوبے کے ضلع کیگا ما کیطرف سے ٹانگا نیکا کونسل کے بلا مقابلہ رکن منتخب ہو گئے.۲۹
تاریخ احمدیت 595 جلسہ سالانہ ربوہ منعقد ۲۲۰ ۲۳ ۲۴ /جنوری ۱۹۶۰ء) جلد ۲۰ جلسہ سالانہ ۱۹۵۹ ء سیدنا حضرت مصلح موعود کے فیصلہ کے مطابق ۲۲ ۲۳ ۲۴ جنوری ۱۹۶۰ء کو ہونا قرار پایا تھا.چنانچہ انہی تاریخوں میں یہ عظیم الشان روحانی اجتماع سرزمین ربوہ میں منعقد ہوا جس میں ستر ہزار عشاق خلافت نے شرکت فرمائی.یہ جلسہ بھی سلسلہ احمدیہ کی روز افزوں ترقی اور وسعت کا آئینہ دار تھا اور حضرت مسیح موعود کے مندرجہ ذیل الہام کا عملی ظہور تھا." خدا تجھے بنگلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مراد میں تجھے دے گا میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور اُن کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا.“ حضرت مصلح موعود کا افتتاحی خطاب سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے روح پرور افتتاحی خطاب میں دنیا پھر کے احمدیوں کو خاص طور پر تلقین فرمائی کہ وہ اپنی نسلوں کے اندر دین حق اور احمدیت کی محبت پیدا کرتے چلے جائیں.یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر لہرانے لگے.حضور کا یہ خطاب قریباً پون گھنٹہ تک جاری رہا جسے نہایت توجہ گہرے انہاک اور کمال درجہ کے اشتیاق اور انہماک کے ساتھ سنا گیا.پہلے دن کی بقیہ کارروائی حضور کی تقریر کے بعد مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ سابق صوبہ پنجاب کی زیر صدارت بالترتیب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور مولانا قاضی محمد نذیر صاحب نے فاضلانہ تقاریر فرمائیں ازاں بعد خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے خطبہ جمعہ دیا بعد ازاں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی صدارت میں میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت راوالپنڈی اور مولوی عبدالمالک خاں صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کراچی نے تقاریر فرمائیں.دوسرے دن کا اجلاس حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس نے خطاب دوسرادن
تاریخ احمدیت 596 جلد ۲۰ فرمایا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی سیرت طیبہ سے متعلق تھی اور بہت ایمان افروز واقعات پر مشتمل تھی آپ کی پُر اثر اور پُر شکوہ آواز نے دلوں کو چلا اور روحوں کو ایک نئی زندگی بخشی.آپ کی یہ تقریر بہت مقبول ہوئی اور جلد ہی پہلے الفضل میں پھر کتابی شکل میں شائع کر دی گئی.اجلاس دوم میں شیخ بشیر احمد صاحب حج ہائیکورٹ لاہور صدر تھے جس میں پہلے خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری صاحب نے ایک پُر مغز اور مبسوط تقریر فرمائی پھر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے سورہ فاتحہ کی نہایت لطیف اور پُر معارف تفسیر فرمائی.جو قرآنی حقائق و دقائق سے لبریز تھی.شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مصلح موعود کی شفایابی کے لئے نهایت در دانگیز انداز میں تحریک دعا کی آپ کی آواز میں ایسا سوز اور اثر تھا کہ ایک ایک فقرہ احباب کے دلوں میں اُترتا گیا.آپ کی درخواست پر حضرت مولانا راجیکی صاحب نے اجتماعی دعا کرائی یہ دعا اس درد و کرب سے مانگی گئی کہ جلسہ گاہ میں آہ و بکا اور گریہ و زاری سے ایک حشر بپا ہو گیا ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل تڑپ رہا تھا.سوز و گداز کا یہ عالم ہیں منٹ تک جاری رہا جس کے بعد حضرت مولانا صاحب نے بلند آواز سے آمین کہہ کر دعا کوختم کیا اور صاحب صدر نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اجلاس کے اختتام کا اعلان فرمایا.تیسرا دن جلسہ کے تیسرے روز کا پہلا اجلاس بھی شیخ بشیر احمد صاحب کی زیر صدارت ہوا جس میں ڈاکٹر چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر ایم اے پی ایچ ڈی امریکہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نا ئب صدر عالمی عدالت انصاف ہیگ اور مولانا ابو العطاء صاحب نے فکر انگیز تقاریر فرمائیں.نماز ظہر و عصر مولانا جلال الدین صاحب شمس نے جمع کر کے پڑھا ئیں.حضرت مصلح موعود کی متوقع آمد اور تقریر کے پیش نظر احباب کا اشتیاق عروج پر تھا.جلسہ گاہ وقت سے بہت پہلے بھر گئی اور ہر طرف ہجوم خلائق کا منظر دکھائی دیتا تھا اور تل دھر نے کو جگہ نہ رہی امام عالی مقام کی تشریف آوری سے قبل منتظمین جلسہ نے حضور کی جلسہ سالانہ ۱۹۵۳ء کے موقع کی پر معارف تقریر کے ابتدائی حصہ کا ریکارڈ سنانے کا انتظام کیا جس سے پورے مجمع پر رقت طاری ہو گئی.حضور سوا دو بجے کے قریب بذریعہ کا رجلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے اور جلسہ گاہ پُر جوش نعروں سے گونج اٹھا.
تاریخ احمدیت 597 جلد ۲۰ حضرت مصلح موعود کا بصیرت افروز اختتامی خطاب حضور کے کرسی پر تشریف فرما ہونے کے بعد حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے تلاوت فرمائی پھر جناب ثاقب صاحب زیر وی مدیر لا ہور نے اپنی ایک دعائیہ نظم نہایت پُر در دلب ولہجہ میں پڑھ کر سنائی یہ نظم دعاؤں کی مزید تحریک کا موقر ذریعہ بنی.تلاوت ونظم کے بعد حضور انور نے ایک نہایت بصیرت افروز خطاب فرمایا جو پون گھنٹہ تک جاری رہا.یہ تقریر ایک خاص رنگ کی حامل تھی اور جوش ولولہ اور غیرت دینی کے جذبات سے پر تھی جس کا خلاصہ حضور کے مبارک الفاظ میں یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اس غرض کے لئے قائم کیا ہے کہ دنیا میں ( دین حق ) اور احمدیت کی اشاعت کی جائے.یہی ہمارے تمام کاموں کا نقطہ مرکزی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کو ہمیشہ جاری رکھیں یہانتک کہ دنیا کا کوئی ملک اور کوئی گوشہ ایسا نہ ہو جہاں ( دین حق ) اور محمد رسول اللہ کی آواز نہ پہنچ جائے.“ اس ضمن میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان اور جملہ احباب جماعت سے عہد لیا کہ وہ قیامت تک خدمت دین کا سلسلہ جاری رکھیں گے چنانچہ فرمایا میں اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام اولا د کو خواہ وہ آپ کے بیٹے ہیں یا پوتے اور نوا سے یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میرے سامنے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو خدمت دین میں لگائے رکھیں گے اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی احمدیت کی تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے رہیں گے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سچے دل سے ایمان لانے والے تمام احمدی بھی خواہ کسی جگہ کے رہنے والے ہوں آپ کے روحانی بیٹے ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ کے تمام دوستوں کو چاہیئے کہ وہ بھی اس عہد میں شامل ہوں.میں اس وقت عہد کے الفاظ دہراؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے تمام افراد اور آپ کے روحانی بیٹے کھڑے ہو جائیں اور اس عہد کو دہرائیں.اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمدا عبده و رسوله ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم ( دین حق ) اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے
تاریخ احمدیت 598 جلد ۲۰ اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک ( دین حق ) کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اُونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جد و جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ ( دین حق ) کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما - الهم آميـــن الهـــم آمین.الھم آمین.یہ اقرار جو اس وقت آپ لوگوں نے کیا ہے اگر اس کے مطابق قیامت تک حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی جسمانی اور روحانی اولا د اشاعت دین کے کام میں مشغول رہے تو یقیناً احمدیت تمام دنیا پر چھا جائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے گا.نیز آئیندہ خلفا ء کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا آئندہ خلفاء کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ جب تک دُنیا کے چپہ چپہ میں دین حق نہ پھیل جائے.اور دنیا کے تمام لوگ قبول نہ کر لیں.اُس وقت تک دین حق کی تبلیغ میں وہ کبھی کو تا ہی سے کام نہ لیں خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک دین حق کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے چلے جائیں.کہ انہوں نے ( دین حق کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا.اور مرتے دم تک دین حق کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے.اسی مقصد کو پورا کرنے اور ( دین حق ) کے نام کو پھیلانے کے لئے میں نے تحریک جدید جاری کی ہے.جو پچیس سال سے جاری ہے.اور جس کے ماتحت آج دُنیا بھر کے تمام اہم ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مشن قائم ہیں.اور لاکھوں لوگوں تک خدا اور اس کے رسول کا نام پہنچایا جا رہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغی مراکز کو وسیع کرنے اور مبلغین کا جال پھیلانے میں
تاریخ احمدیت 599 جلد ۲۰ ہمیں خدا تعالیٰ نے بڑی بھاری کامیابی عطا کی ہے مگر ابھی اس میں مزید ترقی کی بڑی گنجائش ہے.اور ابھی ہمیں ہزاروں واقفین زندگی کی ضرورت ہے جو دنیا کے چپہ چپہ پر دین حق کی اشاعت کر یں.ہماری جماعت اب خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں ساٹھ ہزار واقفین زندگی کا میسر آنا کوئی مشکل امر نہیں.اور اگر ایک آدمی سو احمدی بنائے تو ساٹھ ہزار واقفین زندگی کے ذریعہ سات لاکھ احمدی ہو سکتا ہے.پھر سات لاکھ میں سے چار پانچ لاکھ مبلغ بن سکتا ہے.اور چار پانچ لاکھ مربی چار پانچ کروڑ احمدی بنا سکتا ہے اور چار پانچ کروڑ احمدی اگر زور لگائے تو وہ اپنی تعداد کو چار پانچ ارب تک پہنچا سکتا ہے جو ساری دنیا کی آبادی سے بھی زیادہ ہے.“ 66 ازاں بعد حضرت مسیح موعود کے الہام ہے کرشن رڈ رگو پال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہند وستان میں اشاعت دین کو وسیع کرنا ہمارے لئے ضروری ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ہندوستان میں دین حق کی تبلیغ پر زور دیں.اس ملک کی ترقی اور عظمت کے قیام کے لئے مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک کوشش کی ہے اور ہندوستان کے چپہ چپہ پر اُن محبان وطن کی لاشیں مدفون ہیں جنہوں نے اس کی ترقی کے لئے اپنی عمر میں خرچ کر دیں تھیں پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دین حق کے خوبصورت اصول پیش کر کے ہندؤوں اور سکھوں کو بھی اپنا جز و بنانے کی کوشش کریں جب تک ہم ہندؤوں میں تبلیغ نہیں کریں گے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کرشن ثابت نہیں ہو سکتے.اپریل ۱۹۰۲ ء میں حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ وو دو دفعہ ہم نے رویاء میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں.ا حضرت مصلح موعودؓ نے یہ رویاء بیان کرنے کے بعد اپنے روح پرور خطاب کے آخر میں فرمایا اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہندوؤں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت قائم ہو جائے گی اور سارا ہندوستان آپ کے کرشن ہونے کے لحاظ سے اور ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہونے کے لحاظ سے آپ کے تابع ہو جائے گی.اسی غرض کے لئے میں نے جماعت میں تحریک جدید کے علاوہ وقف جدید کی تحریک بھی جاری کی ہوئی
تاریخ احمدیت 600 جلد ۲۰ ہے تا کہ سارے پاکستان میں ایسے معلمین کا جال بچھ جائے جو لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں.اور انہیں دین حق اور احمدیت کی تعلیم سے روشناس کر یں مگر یہ کام صحیح طور پر تبھی ہو سکتا ہے جب کم از کم ایک ہزار معلم ہوں اور ان کے لئے اخراجات کا اندازہ بارہ لاکھ روپے ہے.بارہ لاکھ روپیہ کی رقم مہیا کرنا جماعت کے لئے کوئی مشکل امر نہیں.کیونکہ اگر دو لاکھ افراد جماعت چھ روپے سالانہ فی کس کے لحاظ سے چندہ دیں بارہ لاکھ بن جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہماری جماعت تو اس سے کہیں زیادہ ہے.پچھلے سال جماعت کی طرف سے صرف ستر ہزار روپے کے وعدے ہوئے تھے اور اس سال بھی اتنے ہی وعدے ہوئے جس سے صرف نوے معلمین رکھے جا سکے.اس سال پچھلے سال سے زیادہ اچھا کام ہوا ہے.چنانچہ مشرقی پاکستان میں بھی کام شروع ہو گیا ہے اور وہاں بھی ایک انسپکٹر اور چار معلم مقرر کئے جا چکے ہیں.پچھلے سال ان معلمین کی تعلیم و تربیت اور خدمت خلق کا جذبہ دیکھ کر پانچ سو نئے افراد نے بیعت کی تھی اس سال چھ سو اٹھائیس افراد نے بیعت کی ہے.پس میں احباب جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی طرف پوری توجہ کریں اور اس کو کامیاب بنانے میں پورا زور لگائیں اور کوشش کریں کہ کوئی فردِ جماعت ایسا نہ رہے جو صاحب استطاعت ہوتے ہوئے اس چندہ میں حصہ نہ لے.یہ امر یا درکھو کہ قوم کی عمر انسان کی عمر سے بہت زیادہ ہوتی ہے پس آپ لوگ ایسی کوشش کریں کہ آپ کے زمانہ میں تمام دنیا میں احمدیت پھیل جائے.ابھی تو ایک نسل بھی نہیں گزری کہ ہندوستان میں ہمارے سلسلہ کے شدید ترین مخالف بھی احمدیت کی خوبیوں کے قائل ہوتے جا ر ہے ہیں اور میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ادنیٰ خادم ہوں میری تفسیر کی وہ بہت تعریف کرتے ہیں.یہ انقلاب جو پیدا ہو رہا ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی وجہ سے ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کی تھی کہ ۳۵ ع پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار اور اللہ تعالیٰ نے احمدیت کیطرف لوگوں کی توجہ پھیرنی شروع کر دی اور ہمیں یقین ہے کہ اس دعا کے مطابق ایک دن ساری دنیا احمدیت میں داخل ہو جائے گی.دنیا کی آبادی اس وقت دو ارب سے زیادہ ہے اور اگلے ہیں چھپیں سال میں وہ تین ارب ہو جائیگی اور پھر
تاریخ احمدیت 601 جلد ۲۰ تعجب نہیں کہ کئی سال میں وہ اس سے بھی زیادہ ہو جائے.مگر دنیا کی آبادی خواہ کتنی بڑھ جائے.اللہ تعالے کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ احمدیت کو ترقی دے گا اور اسے بڑھائے گا.یہاں تک کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی.بشرطیکہ جماعت اپنی تبلیغی سرگرمیاں ہندوستان میں بھی اور یورپ میں بھی جاری رکھے اور وکالت تبشیر اور اصلاح وارشاد کے محکموں کے ساتھ پورا تعاون کرے.اس ولولہ انگیز خطاب کے بعد حضور نے ایک پُرسوز دعا کرائی جس کے بعد احباب جماعت تک یہ خصوصی پیغام پہنچانے کی ہدایت فرمائی کہ ” دوستوں کو چاہیئے کہ وہ کثرت کے ساتھ الفضل کا مطالعہ کیا کریں.“ جلسہ سے متعلق ایک مخلص دعاؤں کے اس تاریخی جلسہ کی نسبت لا ہور کے ایک مخلص احمدی جناب عبدالجلیل صاحب عشرت (بی اے آنرز ) وو ۳۷ احمدی کے تاثرات ( برادر مولانا عبدالمجید سالک مرحوم ) نے حسب ذیل وو تاثرات قلمبند کئے.جلسہ کے شروع ہونے سے ایک دن پہلے جب ہم ربوہ پہنچے تو ایک ہلکا سا احساس ہوا کہ شاید جلسہ کی تاریخوں کے التواء کی وجہ سے اس دفعہ شامل ہونے والوں کی تعداد کم ہو لیکن جلسہ کے پہلے اور پھر دوسرے دن دیکھتے ہی دیکھتے خدا کے نیک بندے جوق در جوق گذشتہ سالوں کی طرح آ پہنچے.اللهم زدفرد ۲۲ / جنوری کو جلسہ کے افتتاح سے پہلے ہزاروں احباب اپنے محبوب آقا کی زیارت کے لئے چشم براہ تھے حضور تشریف لائے لیکن حضور کی نقاہت اور ضعف کو دیکھ کر عشاق کی آنکھیں پرنم اور دل غمزدہ ہو گئے حضور نے زندگی بھر میں پہلی دفعہ لکھی ہوئی افتتاحی تقریر پڑھی حضور کی آواز میں رقت تھی.حاضرین جلسہ بھی زار و قطار رو رہے تھے حضور کی تقریر کا موضوع وہی تھا جو ہمیشہ حضور کی زندگی کا نصب العین رہا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے نام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو دنیا کے کونے کونے میں جلد از جلد پہنچانے کا عزم بالخیر.اللہ اللہ جسمانی کمزوری کا یہ حال اور عزم اتنا بلند ! ! دوسرے دن حضور طبی مشورہ کے مطابق جلسہ میں تشریف نہ لائے.یہ بھی حضور کی زندگی میں پہلا موقعہ تھا.عشاق تڑپ رہے تھے برادرم ثاقب زیروی نے حضور کی صحت کے متعلق اشعار سوز میں ڈوبی ہوئی آواز میں سنائے انہوں نے تڑپا دیا.
تاریخ احمدیت 602 جلد ۲۰ پھر خدا جزائے خیر دے مکر می شیخ بشیر احمد صاحب حج ہائی کورٹ کو کہ انہوں نے نہایت مبارک ساعت میں اور نہایت مؤثر الفاظ میں حضور کی صحت کے لئے اجتماعی دعا کرنے کے لئے تحریک کی.جب حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی اقتدا ہا میں دعا ہوئی.تو ہر آنکھ پُر نم تھی.اور دعا کرنے والوں کی آہ بکا کا یہ عالم تھا کہ دلدوز چیخوں کی آواز میں دور دور تک جاتی تھیں.تیسرے دن کے اجلاس اول میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ نے پہلی دفعہ تقریر فرمائی موضوع ” ذکر حبیب تھا.تحریر کے تو آپ بادشاہ ہیں.لیکن تقریر نے بھی وہ لطف دیا.کہ لفظ لفظ پر حاضرین سر دھنتے تھے.آپ نے ایسے دلکش اور پُر کیف واقعات بیان کئے کہ دل کہتا تھا.کہ واقعی ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے.تیسرے دن حضرت اقدس وقت پر تشریف لائے.ضعف و نقاہت کا وہی عالم تھا.حاضرین کے دل بھرے ہوئے تھے تقریر پھر لکھی ہوئی تھی.موضوع وہی تھا کہ خدا کے دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچا ؤ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دین کا جھنڈا ساری دنیا میں بلند کر و.تقریر کے بعد مختصر لیکن پر درد دعا ہوئی.میرا احساس ہے کہ حضور کی صحت کی کمزوری بہت تشویش کا موجب ہے.جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائے اور اس سے حضور کی صحت عاجل و کامل کے لئے انتہائی درد و الحاج سے دعائیں کرے اور کرتا چلا جائے یہاں تک کہ ع اجابت از در حق بهر استقبال می آید اس وقت کہ حضور بیمار ہیں.حضور کی بھر پور زندگی کے بڑے بڑے واقعات یاد آتے ہیں تو دل غم سے بھر جاتا ہے.حضور کی عمر 19 سال کی تھی جب آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عہد کیا تھا.کہ اگر ساری جماعت اور سب لوگ حضور کو چھوڑ جائیں تب بھی میں وفاداری کے ساتھ حضور کے مشن کی اشاعت کرتا چلا جاؤ نگا پھر ۲۵ سال کی عمر میں خلافت کا بارگراں آپ کے کندھوں پر رکھا گیا.جماعت کے ا کا بر جماعت اور مرکز سے علیحدہ ہو گئے خزانے میں چند آ نے رہ گئے لیکن اس اولوالعزم انسان کو ذرہ بھر گھبراہٹ نہ ہوئی.بڑے بڑے فتنے اٹھے.لیکن اس خدا کے شیر کے پائے استقلال متزلزل نہ ہوئے.جلسوں میں مسلسل چھ چھ گھنٹے بڑے بڑے علمی مسائل پر وہ وہ نکات بیان کئے کہ اپنے تو خیر.غیر بھی عش عش کر اٹھے.قرآن کریم کے علوم کے دریا بہا دئے.
تاریخ احمدیت 603 جلد ۲۰ تفسیر میں لکھیں درس دیئے.جماعت کی تربیت کی.نگرانی کی.ہزار ہا تقرریں اور خطبے دئے.کتابیں لکھیں.شعر لکھے.ساری دنیا میں تبلیغ ( دین حق ) کیلئے مبلغ بھیجے.جماعت کا مرکزی نظام قائم کیا.سکول کالج اور کئی علمی ادارے قائم کئے سیاست کے میدان میں بھی مسلمانانِ ہند کی رہنمائی فرمائی.کشمیر کی آزادی کے جہاد میں حصہ لیا.۱۹۴۷ء کے قتل و غارت کے ایام میں قادیان سے جماعت کے ہزاروں افراد کو صحیح و سالم پاکستان پہنچایا.ربوہ شہر دیکھتے دیکھتے آباد کرا دیا.پھر دین کی خاطر اپنا قیمتی خون بھی دیا.جاننے والے جانتے ہیں کہ حضور کو اپنی جماعت کے تمام افراد کے ساتھ ایک دلی لگا ؤ اور ذاتی تعلق ہے.ہر ایک کے خاندان نجی حالات اور ذاتی معاملات کو جانتے ہیں.اور ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے حضور کو سب سے زیادہ تعلق اور محبت ہے.ہم میں سے کون ہے.جس پر حضور کے ذاتی احسان اور نوازشات نہیں.ایسے قیمتی وجود کو آج بیمار دیکھ کر کون ہے جس کا دل بھر نہ آئے.آج ہم اس مقدس وجود کے گونا گوں فیوض سے محروم ہیں اور یہ ان وجودوں میں سے ایک وجود ہے.جو صدیوں کے بعد پیدا ہوئے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ دعائیں کریں.صدقے دیں اور اپنی سجدہ گا ہوں کو رو رو کر تر کر دیں تا کہ خدا اپنے خاص اور بے پایاں رحم سے حضور کو دوبارہ صحت دے اور لمبی زندگی عطا کرے.رب اشف امامنا انت الشافي.آمین
تاریخ احمدیت 604 جلد ۲۰ فصل سوم کلکتہ عالمی کانفرنس میں کلکتہ میں مجلس ادیان عالم کے زیرا ہتمام ۲ فروری سے ۹ فروری ۱۹۶۰ء احمدی نمائندہ کی پُر اثر تقریر تک ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مذہبی نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب کے نقطہ نگاہ سے مسئلہ قیام امن پر روشنی ڈالی.اس موقع پر مولوی بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ نے نہایت موثر لیکچر دیا.آپ نے بتایا کہ تمام گذشتہ مذاہب علاقائی تھے.عصر جدید کا سب سے اہم تقاضا عالمگیر امن کا قیام ہے اور اسے وہی مذہب پورا کر سکتا ہے جو عالمگیر تعلیم پیش کرتا ہوا ور جس کے اندر تمام قوموں کو یکجا کرنے کی صلاحیت موجود ہو.اسلام کا دعوی ہے کہ اُس کی ہمہ گیر تعلیم تمام شعبہ ہائے حیات پر حاوی ہے اور بالخصوص صلح و امن کے مسئلہ پر دوسروں کے مقابل پر اس کی تعلیم ممتاز ہے.آپ نے آیت لا نفرق بيــن احـد مـنهـم و نـحـن لــه مسلمون (البقره: ۱۳۷) کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن مسلمانوں کو تا کیدی حکم فرماتا ہے کہ تمام نبیوں پر ایمان لاؤ.قرآن کے نزدیک ہر ایک قوم و ملک میں نبی گزرے ہیں اور سب کے سب واجب الاحترام ہیں یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جس کے صحیح استعمال سے قوموں کے درمیان پیدا شدہ منافرت دور ہو سکتی ہے.لیکچر کے دوران جب مولانا صاحب نے ویدا ور گیتا کی شھرتیاں پڑھنا شروع کیں تو ہندوؤں پر وجد کی ایک کیفیت طاری ہو گئی.اکثر دوست ان شلوکوں کو دھیمی دھیمی آواز سے دہراتے جاتے تھے.بہت تھے جو اس لئے جُھوم رہے تھے کہ ابھی ان میں جو قرآنی آیات کو مجازی کے سے پڑھ رہا تھا اب وہ آریہ ورت کے آکاش اُپدیشوں کو ہندی سُر میں سُنا رہا ہے.سامعین کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو زبان سے عدم واقفیت کے سبب خاموش تھا.لیکن جب پروفیسر چوپڑہ صاحب ایم.اے.پی.ایچ.ڈی نے آپ کی تقریر کا انگریزی ترجمہ پیش کیا تو خاموش طبقہ بھی اُس وجدانی کیفیت سے حصہ پا کر داد سخن دینے لگا.اس اثر انگیز تقریر کے بعد لوگوں کے دلوں میں احمد یہ لڑ پچر پڑھنے کا غیر معمولی
تاریخ احمدیت 605 جلد ۲۰ اشتیاق پیدا ہو گیا.احمدی نوجوانوں نے اس موقعہ پر نہ صرف چودہ قسم کے انگریزی ٹریکٹ ڈیڑھ ہزار کی تعداد میں تقسیم کیئے بلکہ اردو، ہندی، بنگلہ اور گورمکھی زبانوں کا لڑ پچر بھی تقسیم کیا.اسٹیج پر نمائندگان مذاہب کے علاوہ مدترین مفکرین واکابر شہر تشریف فرما تھے.یہ وہ مقام تھا جہاں دوسروں کا گذر محال تھا.لیکن خدا تعالیٰ کا خاص فضل و کرم یہ ہوا کہ مستعد احمدی نوجوانوں نے اُسی حلقہ خاص میں پہنچ کر منا سب ٹریکٹ تقسیم کئے، جہاں دوسرے فرقوں کی اکثر کتابوں کی تقسیم کو حکما روک دیا گیا مگر خدام احمدیت کے لئے کوئی امتناعی حکم صادر نہ ہوا ممالک غیر کے نمائیندگان اور ہندو پاک کے مشاہیر کو ضخیم اور قیمتی کتب پیش کی نہ ہو گئیں.کا نفرنس میں جناب محمد نور عالم صاحب ایم اے نے جماعت احمدیہ کلکتہ کی طرف سے پریس رپورٹر کے فرائض انجام دیئے.آپ کی مطبوعہ رپورٹ کے آخر میں لکھا ہے جلسہ کے اختتام پر مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری کوتاہ عملی و تغافل کیشی کو نظر انداز کر کے اور ہماری شکست سامانی پر ترس کھاتے ہوئے اس عالمی کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام تو غیروں کے سپرد کیا اور اس کے مقاصد کو ہمارے حق میں کر دیا.اور اس طرح یہ کانفرنس کافی حد تک اسلام واحمدیت کی تبلیغ کا ذریعہ بنی رہی.سر دارد یوان سنگھ مفتون ایڈیٹر اس سال فروری کے تیسرے ہفتہ میں دہلی کے ۱۳۹۱ مشہور ہفت روزہ ”ریاست“ کے نامور ایڈیٹر سردار ”ریاست“ دہلی ربوہ میں دیوان سنگھ صاحب مفتون پاکستان تشریف لائے.۲۱ فروری کو دہلی سے لاہور پہنچے اور چند روزہ قیام کراچی کے بعد ٢ / مارچ ۱۹۶۰ء کی شام کو بذریعہ چناب ایکسپریس وار در بوہ ہوئے اور تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس میں مقیم ہوئے.اگلے روز صبح کو آپ نے سید نا حضرت مصلح موعود سے شرف ملاقات حاصل کیا اور پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے.بعد ازاں فضل عمر ہسپتال اخبار الفضل اور تحریک جدید اور صد رانجمن احمدیہ پاکستان کے مرکزی دفاتر دیکھنے کے علاوہ جامعہ احمدیہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج میں بھی گئے.کالج میں آپ نے ایک مختصر سی تقریر بھی کی.سوا تین بجے کے
تاریخ احمدیت 606 جلد ۲۰ قریب آپ بذریعہ موٹر کاراپنے آبائی وطن حافظ آباد ( ضلع گوجرانوالہ ) کی طرف روانہ ہو گئے.سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے ہندوستان پہنچتے ہی اپنے اس اہم سفر کے دلچسپ حالات قلمبند کر کے ایڈیٹر صاحب اخبار بد ر قا دیان کو ارسال فرما دیے.جو درج ذیل کئے جاتے ہیں.: وو احمدی جماعت کے مرکز ربوہ میں چند گھنٹے“ ” جب ”ریاست“ جاری ہوا تو اس وقت میں نہ تو احمدی جماعت کے کسی شخص سے واقف تھا اور نہ اس جماعت کے متعلق کوئی کسی قسم کی واقفیت ہی تھی ریاست جاری ہونے کے پہلے سال میں ہی افغانستان میں احمدی جماعت کے ایک مبلغ کو افغان گورنمنٹ کے حکم سے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا.اور اس بیجارے کا جرم صرف یہ تھا کہ یہ احمدی خیالات کی تبلیغ کرتا تھا.میں نے جب یہ اطلاع روزانہ اخبارات میں پڑھی تو میرے جسم میں ایک کپکپی سی پیدا ہوئی.کیونکہ میں جب بھی ظلم ہوتا دیکھتا ہوں تو میرا خون کھولنے لگ جاتا.اس اطلاع کو سن کر میں نے افغان گورنمنٹ اور کنگ امان اللہ کے خلاف ایک سخت ایڈیٹوریل لکھا.اس ایڈیٹوریل لکھنے کا نتیجہ یہ ہوا.کہ چند احمدی حضرات مجھے اصل واقعات بتانے کے لئے میرے دفتر میں آئے.اور ادھر افغانستان کے قونصل جنرل مسٹر اکبر خاں آئے تا کہ وہ اپنی گورنمنٹ کی پوزیشن صاف کر سکیں یہ پہلا موقعہ تھا.جب مجھے معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی احمدی جماعت بھی ہے.جس کا شعار اپنے خیال کے مطابق اسلام کی تبلیغ ہے اور اس کا ہیڈ کوارٹر قادیان میں ہے کیونکہ میں زندگی بھر ہی مذہبی حلقوں سے قطعی بے تعلق رہا.اس واقعہ کے بعد مجھے کبھی کبھی احمدی جماعت کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا اور اس جماعت کے کئی بزرگوں مثلاً محمد ظفر اللہ خان ڈاکٹر محمد اقبال صاحب مرحوم کے حقیقی بھتیجے مسٹر اعجاز احمد جو ایک زمانہ میں دہلی میں سب جج تھے.اور میاں محمد صادق جو دہلی میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے سے دوستانہ تعلقات بھی رہے احمدی جماعت کے لوگ جب کبھی ملتے ان کی تبلیغی باتیں میرے لیئے نا قابل برداشت حد تک ذہنی کوفت کا باعث ہوا کرتیں کیونکہ میں فطر تا مذہبی دنیا سے قطعی الگ رہنا پسند کرتا ہوں مگر ان لوگوں کے ذاتی کیریکٹر اور بلندی کا بہت ہی مداح ہوں اور یہ واقعہ ہے کہ آج سے چند برس پہلے مجھے اپنے دفتر کیلئے جب کبھی کسی ایماندار شخص کی ضرورت ہوتی تو میں قادیان کے کسی دوست کو لکھتا کہ وہ اپنے
تاریخ احمدیت 607 جلد ۲۰ وو ہاں سے کسی دیانتدار شخص کو ملازمت کے لئے بھیج دیں.کیونکہ میرا تجربہ تھا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ تو خدا سے ڈرتے ہیں.مگر احمدی جماعت کے لوگ خدا سے اس طرح بد کتے ہیں.جیسے گھوڑ اسا یہ سے بد کتا ہے.اور خدا سے خوفزدہ ہونے کے باعث یہ بد دیانت ہو ہی نہیں سکتے.چنانچہ میں نے دفتر ریاست میں کئی احمدی مقرر کئے اور دفتر کے ان احمدی حضرات میں سے دو اصحاب کی زندگی کے واقعات تو مجھے اب تک یاد ہیں.ایک صاحب انشاء اللہ خان اکو نٹنٹ مقرر کئے گئے جو کئی برس دفتر ریاست میں رہے اور آج کل یہ پاکستان کی کسی بہت بڑی فرم میں آڈیٹر ہیں.یہ مسٹر انشاء اللہ خان کبھی دفتر کا بغیر ٹکٹ کے پوسٹ کارڈ بھی استعمال نہ کرتے.اور اگر کوئی ضرورت ہوتی تو ڈاکخانہ سے پوسٹ کارڈ منگا کر لکھتے اور دوسرے صاحب کا نام یاد نہیں.یہ لڑکا بہت ہی شریف اور نیک تھا.یہ دفتر سے کچھ روپیہ ایڈوانس لیتا رہا.اس کے ذمہ کچھ روپیہ باقی تھا تو یہ دفتر سے غائب ہو گیا.کچھ پتہ نہ تھا کہ یہ کہاں ہے چھ ماہ کے بعد اس کا منی آرڈر اور خط پہنچا.جس میں اس نے لکھا کہ وہ ذاتی حالات سے مجبور ہو کر چلا آیا اور وہ رقم واپس کی جاتی ہے جو اس کے ذمہ ما ہوار ایڈوانس تھی.اس کا ایسا کرنا اس کے بلند کریکٹر ہونے کا ثبوت تھا.ورنہ راقم الحروف کو نہ تو رقم یا دتھی اور نہ ہی اس کا کوئی پتہ ہی معلوم تھا.احمد یوں اور راقم الحروف کے تعلقات صرف اس حد تک جاری تھے.کیونکہ مجھے آج تک کبھی قادیان جانے کا اتفاق نہیں ہوا حالانکہ یہ میری ہمیشہ خواہش رہی کہ میں ان کے ہیڈ کوارٹر کے حالات ا پنی آنکھوں سے دیکھوں.ان معمولی تعلقات کی موجودگی میں احمدی حضرات کئی بار ظلم کا شکار ہوئے.اور ”ریاست“ نے ظلم کے خلاف آواز پیدا کرنا اپنا فرض اور ایمان سمجھا کیونکہ ریاست، ظلم کے خلاف آواز پیدا کرنے کے لئے عالم وجود میں آیا تھا اور خدا کا شکر ہے کہ وہ اپنے آخری لمحوں تک اپنے اس شعار پر قائم رہا چنانچہ جوں جوں ان پر کئے جا رہے مظالم کے خلاف ریاست میں آواز پیدا کی جاتی میرے اور ان کے درمیان اخلاص کے تعلقات زیادہ ہوتے چلے گئے ان کے بعض لیڈروں سے خط و کتابت بھی ہوا کرتی.اور میری خواہش تھی کہ اگر میں کبھی پاکستان جاؤں تو اس نئی آبادی ربوہ کو بھی دیکھوں جہاں کہ یہ لوگ قادیان سے تباہ ہو کر بطور مہاجر آباد ہوئے ہیں.میں نے جب پاکستان جانے کا قصد کیا تو دوسرے دوستوں کے علاوہ ایک احمدی بزرگ گیانی عباداللہ ( جو سکھ مذہب اور سکھ تاریخ پر ایک اتھارٹی تسلیم کئے جاتے ہیں ) کو بھی لکھا کہ اگر ممکن ہوا اور میں گوجرانوالہ اور اپنے
تاریخ احمدیت 608 جلد ۲۰ سابق وطن حافظ آباد گیا.تو دو تین گھنٹہ کے لئے ربوہ بھی آؤں گا.کیونکہ پنڈی بھٹیاں کے راستہ حافظ آباد سے ربوہ زیادہ دور نہیں.میں ۲۰ فروری ۱۹۶۰ء کی رات کو پاکستان کے لئے دہلی سے روانہ ہوا.اور ۲۱ / کی دو پہر کو لاہور پہنچا.تو ۲۳ / فروری کو گیانی عباد اللہ مجھ سے ملنے کے لئے لا ہور نیڈوز ہوٹل میں آئے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ میں ان کے ساتھ ربوہ چلوں.مگر میں نے کہا کہ میں کل کراچی جا رہا ہوں.وہاں سے واپس ہونے کے بعد ربوہ ضرور آؤں گا.میرے پاکستان کے دورہ کے حالات بہت ہی طویل اور دلچسپ ہیں.جو اس اخبار کے دس پندرہ صفحات سے کم جگہ میں نہیں آ سکتے اس لئے میں ان حالات میں سے اب صرف وہ لکھتا ہوں جس کا تعلق احمدی جماعت کے دوستوں سے ہے.میں جب کبھی بمبئی، کلکتہ یا کسی دوسرے شہر میں جا تا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ میری موجودگی کا میرے دوستوں کو علم نہ ہو اور میں آخری روز تمام دوستوں سے مل لیا کرتا ہوں چنانچہ میں جب کراچی پہنچا تو میں نے انتظام کیا تھا کہ میں ایسی جگہ قیام کروں جس کا کسی کو علم نہ ہو حالانکہ وہاں سے حضرت جوش ملیح آبادی و غیره در جنوں نے زور دیا تھا کہ میں جب کبھی وہاں جاؤں تو ان کے ہاں قیام کروں کراچی میں ایک پوشیدہ جگہ پر قیام کرنے کے بعد میں پہلے روز حضرت جوش ملیح آبادی صاحب اور بھیا احسان الحق سے ملا.کیونکہ ان سے نہ ملنے کی صورت میں مجھے ذہنی کوفت محسوس ہوتی ان سے ملنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ اور لوگوں کو بھی کراچی میں میری موجودگی کا علم ہو گیا جمعہ کے روز کراچی کی احمدیوں کی مسجد میں جب نماز ہو چکی تو ایک احمدی نے دوسرے احمدی سے ذکر کر دیا کہ دیوان سنگھ کراچی میں ہے یہ بات چیت شیخ اعجاز احمد ( جو آج کل وہاں غالباً یونائٹڈ نیشنز کے فور ڈیپارٹمنٹ میں کسی اعلیٰ عہدہ پر ہیں اور دو ہزار روپیہ کے قریب تنخواہ پاتے ہیں ) نے بھی سُن لی انہوں نے پوچھا کہ دیوان سنگھ کہاں ہے تو اطلاع دینے والے نے کہا کہ اس کا اسے کچھ علم نہیں شیخ اعجاز احمد اور ان کے دو تین دوستوں نے کار میں میری تلاش شروع کی.یہ دو گھنٹہ کے قریب مختلف جگہوں سے دریافت کرتے رہے اور آخر ان کو غالباً مسٹر ظفر احمد ( جو پاکستان کے تمام دورہ میں میرے ساتھ تھے ) کے گھر سے علم ہوا.کہ میں فلاں بلڈنگ میں مقیم ہوں.چنانچہ یہ حضرات وہاں پہنچ گئے اور کچھ عرصہ بات چیت کرنے کے بعد انہوں نے خواہش کی کہ میں احمدی جماعت کے ہیڈ کوارٹر میں ان کے ساتھ چائے پیئوں.میں نے بہت کوشش کی اور بار بار کہا
تاریخ احمدیت 609 جلد ۲۰ کہ میں دن کے وقت کچھ نہیں کھایا کرتا مگر یہ نہ مانے اور شام کو مسٹر نذیر مجھے اپنی کار میں وہاں لے گئے.اس پارٹی میں پاکستان کی مرکزی گورنمنٹ کے ایک درجن کے قریب بڑے بڑے حکام موجود تھے کیونکہ احمدیوں میں آپس میں بہت ہی محبت اور اخلاص ہے.چائے کی میز پر مختلف باتیں ہوتی رہیں اور یہ پُر لطف صحبت ایک گھنٹہ کے قریب جاری رہی اور اس کے بعد میں جتنے روز کراچی میں رہا مسٹر نذیر کی کار میرے لئے وقف رہی.اس کے اگلے روز میں اپنے ایک مرحوم احمدی دوست سید انعام اللہ شاہ ایڈیٹر دور جدید کے گھر گیا.وہاں مرحوم کی بیوی اور ایک لڑکی طلعت موجود تھیں.یہ لڑ کی ایم اے میں پڑھتی ہیں.میرا وہاں خلاف توقع پہنچنا ان کے لئے انتہائی حیرانی اور مسرت کا باعث ہوا.کیونکہ ان کو علم نہ تھا کہ میں کراچی میں ہوں.مرحوم سید انعام اللہ شاہ کی یہ لڑ کی بہت ہی ذہین ہے مرحوم کی دولڑکیاں شادی شدہ ہیں.وہ اپنے سسرال میں تھیں اور لڑکا محمود انعام سرکاری ملازم ہے وہ اپنے دفتر تھا.یہ ماں بیٹی ایسی مسرت محسوس کر رہی تھیں جیسے ان کو کوئی گمشدہ شے مل گئی ہو مجھے وہاں بیٹھے ابھی دو تین منٹ ہوئے تھے اور مرحوم انعام اللہ شاہ کے اخلاص اور محبت کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں.تو طلعت دوسرے کمرہ میں گئی اور وہاں پھلوں کا رس اور خشک اور تازہ پھل جمع کرنے میں مصروف ہو گئی اور یہ تمام سامان ایک چھوٹی میز پر لے آئی میں دن کو کچھ نہیں کھایا کرتا.اس روز یکم رمضان تھی اور پہلا روزہ تھا میں نے مذاقاً کہا ” تم روزہ داروں کے روزہ توڑنے کے گناہ کی مرتکب اور معاون ہو رہی ہو“.لڑ کی کھل کھلا کر ہنس پڑی.میں نے پھلوں کا رس پی لیا اور تھوڑی دیر بیٹھ کر اور باتیں کر کے واپس چلا آیا.رات کو جب دوستوں سے ملنے کے بعد اپنی قیام گاہ پر پہنچا تو مجھے ظفر صاحب نے بتایا کہ شام کو محمود انعام اپنے گھر پہنچے اور ان کو میرے آنے کا علم ہوا تو وہ اپنی دوسری بہنوں کے ساتھ قیام گاہ پر ملنے آئے تھے اور یہ بغیر ملے واپس جانا نہ چاہتے تھے مگر ظفر صاحب سے اس حلفیہ وعدہ پر کہ یہ مجھے ان کے مکان پر پھر لائیں گے وہ واپس چلے گئے.میں اگلے روز مغرب کے بعد پھر ان کے مکان پر گیا.ظفر میرے ساتھ تھے میں نے اطلاع کر نے کے لئے ظفر صاحب کو اوپر بھیجا.تو تینوں لڑکیاں اور محمود بھاگ کر نیچے آگئے یہ مجھے اپنے ساتھ اوپر لے گئے وہاں ایک لڑکی کے شوہر بھی موجود تھے ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب دلچسپ باتیں ہوئیں.ان لوگوں نے جس اخلاص اور محبت کا سلوک کیا.اسے میں زندگی میں کبھی بھول نہ سکوں گا.۲۸ را در ۲۹ فروری کو دوستوں سے ملتا رہا اور یکم مارچ کی شام کو چناب 66
تاریخ احمدیت 610 جلد ۲۰ ایکسپریس میں ربوہ کے لئے روانہ ہوا.کیونکہ یہٹر بینکراچی سے سیدھی ربوہ جاتی ہے.یہ گاڑی شام کے وقت لائکپور پہنچی.وہاں گیانی عباد اللہ موجود تھے میں ان کے اور ظفر صاحب کے ہمراہ مغرب کے وقت ربوہ ٹیشن پر پہنچا وہاں دوسو کے قریب طلباء اور دوسرے دوست اور معترف موجود تھے یہ مجمع میرے لئے خلاف تو قع تھا.کیونکہ میں ایسے مجمع کا عادی نہیں ہوں اور میں تمام زندگی ہی تنہائی میں لطف محسوس کرتا رہا ہوں.سٹیشن سے کار میں گیسٹ ہاؤس پہنچا.وہاں احمدی جماعت کی کئی اہم شخصیتیں میری منتظر تھیں.ان سے ملا.ان تمام دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا.کھانے کے بعد چند طلباء آئے.اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ کل میں ان کے سامنے تقریر کروں میں نے ان سے کہا کہ میں لیڈ ر کلاس میں سے نہیں ہوں نہ تو کبھی تقریر سننے جاتا ہوں اور نہ زندگی میں کبھی کوئی تقریر کی.اور میں تو صرف ایک جر نلسٹ ہوں.مگر آپ لوگوں سے ملنے آپ کے کالج ضرور آؤں گا.رات کو آرام سے سو یا.صبح پانچ چھ بجے کے قریب اذان ہوئی میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی ایسی خوش الحانی کے ساتھ اذان نہ سنی تھی.چنانچہ میں نے صبح ایک دوست سے یہ دریافت کیا.کہ کیا اذان دینے والا عرب تھا.یا پاکستانی.تو معلوم ہوا کہ مؤذن ربوہ کا ہی ایک پاکستانی ہے نو بجے تک غسل وغیرہ سے فارغ ہوا.تو کا رآ گئی.اور مجھے بتایا گیا کہ مجھے مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں ناشتہ پر جانا ہے اس کار میں ان کے ہاں گیا.وہاں ایک درجن کے قریب احمدی لیڈر موجود تھے اور سب کے سب روزہ میں تھے اور صرف میں ہی روزہ سے محروم تھا.ناشتہ کے لئے کئی اقسام کی اشیاء موجود تھیں.مگر میں دن کے وقت کچھ نہیں کھایا کرتا.صرف ایک پیالی چائے پی.یہ لوگ محبت اور اخلاص کے مجسمہ ہیں مختلف باتیں ہوتی رہیں.میں نے ان سے مذاقاً کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی جماعت کے لوگوں نے میرے خلاف ایک سازش کر رکھی ہے.اور آپ لوگوں نے فیصلہ کیا ہے.کہ آپ مجھے بغیر احمدیت کا کلمہ پڑھا نیکے واپس دہلی نہ جانے دیں گے کیونکہ لاہور کراچی میں احمدیوں کی محبت اور اخلاص کا شکار رہا.اور اب یہاں بھی یہی کیفیت ہے.یہاں باتیں کرنے اور ان کی محبت کا شکار ہونے کے بعد دوستوں کے ساتھ احمدی جماعت کے پیشوا حضرت صاحب کے مکان پر گیا.کیونکہ وہاں ساڑھے نو بجے کا وقت ملاقات کے لئے مقرر تھا.پرائیویٹ سیکرٹری کے کمرہ میں چند منٹ بیٹھنے کے بعد اوپر کی منزل میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.وہ لیٹے ہوئے تھے اور بیمار تھے.انہوں نے انتہائی اخلاص اور محبت کے جذبات سے میرے
تاریخ احمدیت 611 جلد ۲۰ وہاں جانے پر مسرت کا اظہار کیا.اور میں نے کہا کہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں آپ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی.یہاں چند منٹ حاضری دینے کے بعد جب میں زینہ سے اُتر رہا تھا.تو ایک صاحب ایک تحفہ لائے جو پیکٹ کی صورت میں تھا.اور اس پیکٹ میں ایک رومال جرابوں کا ایک جوڑہ اور عطر کی ایک شیشی تھی یہ تحفہ میجر حبیب اللہ شاہ صاحب کی بھتیجی کی طرف سے مجھے بھجوایا گیا تھا.جو میجر صاحب موصوف کے ساتھ میرے در بینہ اور مخلصانہ مراسم کی بناء پر تھا.اس ملاقات سے فارغ ہونے کے بعد ہم لوگ کالجوں میں گئے کیونکہ وہاں طلباء منتظر تھے سب سے پہلے تبلیغی کالج کے ہال میں پہنچے مائیکر وفون پر میرا تعارف کرایا گیا.جس کیلئے میں نے شکر یہ ادا کیا.اس کالج میں غیر ممالک میں بھیجنے کیلئے مبلغ تیار کئے جاتے ہیں اور طلباء میں کئی غیر ممالک مثلاً افریقہ اور جرمنی کے نوجوان بھی ہیں جو بے تکلف اردو بول سکتے تھے.ان طلباء نے مختلف قسم کے سوالات شروع کر دئیے.مثلاً میں نے اخبار کیوں بند کر دیا.کتنے برس اخبار جاری رہا.پاکستان کے متعلق کیا رائے ہے.کتنے روز پاکستان میں قیام ہوگا.ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے.ہندوستان میں اردو زبان کا مستقبل کیسا ہے وغیرہ.میں ان سوالات کا جواب دیتا رہا تو ایک طالب علم نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ احمدی مذہب کیوں قبول نہیں کرتے اس سوال کا جواب تو میں نے یہ دیا کہ میں نے اس مسئلہ پر آج تک کبھی غور نہیں کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میری تو دعا ہے کہ خدا آپ کو بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں کامیابی نصیب نہ کرے اور اس دعا کی وجہ یہ ہے کہ احمدی جماعت میں جتنے نیک اور مخلص لوگ ملتے ہیں.دوسرے کسی مذہب میں نہیں مل سکتے اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ اس جماعت کا حلقہ محدود ہے اور میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کی تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجہ کے طور پر جب اس جماعت کو بھی بہت زیادہ وسعت نصیب ہوگی تو اس میں بھی بُرے لوگ شامل ہو جائیں گے.جیسے دوسرے بڑے مذاہب میں شامل ہیں.یعنی زیادہ کپوتوں کے مقابلہ پر چند سپوت زیادہ قابل قدر ہیں یا دوسری مثال یہ ہے کہ جب میں کسی چھوٹے سے خوبصورت اور معصوم بچہ کو دیکھتا ہوں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ یہ بچہ کبھی بھی بڑا نہ ہو.کیونکہ بڑا ہونے کی صورت میں یہ اپنے حسن اور اپنی معصومیت سے محروم ہو جائے گا.میرے اس جواب کو سن کر تمام لڑکے ہنس پڑے...اس تبلیغی کا لج کے بعد میں دوسرے کالجوں میں گیا کیونکہ وہاں کے طلباء بھی میرے منتظر تھے وہاں اسی قسم کے
تاریخ احمدیت 612 جلد ۲۰ سوالات ہوتے رہے اور میں جواب دیتا رہا.ایک بجے تک ان کا لجوں میں رہا.ان سے فارغ ہونے کے بعد روز نامہ اخبار الفضل کے دفتر میں گیا کیونکہ اپنی صحافتی برادری کی حاضری بھی ضروری تھی ڈیڑھ بجے کے قریب ہم لوگ واپس گیسٹ ہاؤس پہنچے.وہاں کھانا تیار تھا.میں نے اور ظفر صاحب نے کھانا کھایا کیونکہ انکار کرنا مناسب نہ تھا.تین بجے کے قریب ہم لوگ ربوہ سے روانہ ہوئے.کار میں گیانی عباد اللہ کے علاوہ ربوہ کے ایک دوسرے احمدی اور حافظ آباد کے ایک زمیندار احمدی تھے جو مجھے لینے کیلئے میرے وطن حافظ آباد سے ربوہ آئے تھے راستہ میں بہت دلچسپ باتیں ہوتی رہیں شام کو چھ بجے کے قریب ہم لوگ حافظ آباد پہنچے وہاں دو گھنٹے کے قریب قیام کیا اور پاسپورٹ کی خانہ پوری کرائی.نو بجے کے قریب ہم گوجرانوالہ پہنچے اور گیارہ بجے نیڈوز ہوٹل چھوڑ نے کے بعد گیانی صاحب وغیرہ واپس ربوہ چلے گئے.ربوہ بہت وسیع علاقہ میں تعمیر کیا جا چکا ہے اور صرف دس برس کے عرصہ میں اتنے بڑے قصبہ یا شہر کا آباد ہونا ایک تعجب خیز امر ہے.کیونکہ احمدی جماعت کے لوگ عام طور پر غریب یا درمیانہ حیثیت کے ہیں جو آنی ضروریات کی پروا نہ کرتے ہوئے بھی اپنی فدا ہونے والی قابل قدر سپرت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی جماعت کی خدمت کرنا اپنا ایمان اور فرص سمجھتے ہیں اور یہی سپرٹ احمدیت کے مذہبی جھنڈے کو ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ اکثر ممالک میں بھی بلند کرنے کا باعث ہے“.اس سال رمضان کے آخری تین سورتوں کی پر معارف دعائیہ تفسیر با برکت ایام میں بیت مبارک ربوہ میں حسب سابق پورے قرآن مجید کے جس خصوصی درس کا اہتمام کیا گیا تھا اس میں سورہ احقاف سے سورۃ الناس تک درس حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے (آکسن ) نے دیا.28 / مارچ 1960 ء مطابق 29 /رمضان المبارک 1379ھ کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے قرآن مجید کی آخری تین سورتوں یعنی سورة الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی ایسی پُر معارف دعائیہ تفسیر بیان فرمائی کہ جسے سنکر سامعین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی.حضرت صاحبزادہ صاحب کی بیان فرمودہ یہ تفسیر اُن جامع دعاؤں پر مشتمل تھی جوان سورتوں سے مستنبط ہوتی ہیں.قرآن مجید روحانی علوم و معارف کے ایک
تاریخ احمدیت 613 جلد ۲۰ بحر نا پیدا کنار کی حیثیت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان تین سورتوں میں جو دعائیں سکھائی ہیں.ایک ہی وقت میں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے.تا ہم یہ دعائیہ تفسیر مختصر ہونے کے با وجود اپنی ذات میں اس قدر لطیف اور جامع ہے کہ اس میں قریب قریب وہ تمام جماعتی دعا ئیں آجاتی ہیں جن سے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے افراد کو ان سورتوں میں بیان کردہ مضامین کے پیش نظر اپنی زبانوں کو ہر وقت کر رکھنا چاہیئے.تا خدائی افضال اور رحمتوں کے وہ مورد بنے رہیں اور وہ روحانی انقلاب جس کا خدا نے وعدہ فرمایا ہے جلد دنیا میں ظاہر ہو کر دین حق کو پورے کرہ ارض پر غالب کر دے.یہ دعائیہ تفسیر درج ذیل الفاظ میں تھی.”اے ہمارے اللہ ! اے ہمارے ربّ! تُو ازلی ابدی خدا ہے خالق و مالک اور حی و قیوم ہے.تو اپنی ذات میں اکیلا اور منفرد ہے.ذات اور صفات میں کوئی تیرا ہمتا اور ہمسر نہیں.حقیقی محسن تو ہی ہے اور تو ہی سب تعریفوں کا حقیقی مستحق ہے.تو بلند درجات والا اور غیر محدود ہے.تیری غیر محدود نعمتیں تیری اَن گنت مخلوق پر ہر آن اور ہر لحظہ جاری ہیں.تیرے قُرب کے دروازے غیر محدود ہیں.کوئی مقام قرب ایسا نہیں جس سے آگے قرب کا کوئی اور مقام نہ ہو.اے صد خدا ! تو کسی کا محتاج نہیں اور سب مخلوق تیری محتاج ہے.ہم بھی تیرے ہی محتاج ہیں اور تیرے ہی سامنے اپنی ضرورتوں اور احتیا جوں کو پیش کرتے ہیں.اے لم یلد خدا !اے لم يولد خدا ! تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.تو نے اپنی صفات کسی سے ورثہ میں حاصل نہیں کیں اور نہ کوئی اور ان صفات کو تجھ سے ورثہ میں حاصل کر یگا.کوئی ہستی اور کوئی وجود تیرا مماثل اور مشابہ نہیں.اپنی ذات اور اپنی صفات میں تو یکتا ہے.اے ہمارے خدا ! جو واحد ویگا نہ ہے اے ہمارے ربّ جو از لی اور ابدی ہے تُو نے ہی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو ایک کامل اور مکمل شریعت دیگر دنیا کی طرف بھیجا ہے.تو نے ہی آپکو روحانی دُنیا کے لئے سورج بنایا ہے.ہم تیرا واسطہ دے کر تجھ سے ہی یہ دعا کرتے ہیں کہ تو ہمیں اپنی اس روشنی کی سب برکتوں سے مالا مال کر.اے خدا روحانی علوم کے یہ دریا اور دنیوی ترقیات کی یہ فراوانی ہمیں خود پسندی کی طرف نہ لے جائے اور عیش وعشرت میں نہ ڈبو دے.اے خدا ! ہم پر ایسا فضل کر کہ جس طرح تو اپنے سورج کو آہستہ آہستہ اور تبد ریج نصف النہار تک لے جا رہا ہے.ہم بھی تیری صفت ربوبیت کے
614 جلد ۲۰ تاریخ احمدیت ما تحت آہستہ آہستہ اور بتدریج روحانی کمالات تک پہنچتے رہیں.اے خالق خدا خیر و برکات کے جو سامان تو نے پیدا کئے ہیں انسان اپنی غفلت اور ستی کی وجہ سے ان میں سے اپنے لئے کبھی شر کے سامان بھی پیدا کر لیتا ہے.اے خدا تو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے فضل اور تیری ہی رحمت سے ہر شر سے محفوظ رہیں اے خالق و مالک خدا دنیا والے آج دنیوی سہاروں اور دنیا وی سامانوں پر بھروسہ کر رہے ہیں.اے ہمارے رب تو ہماری پناہ بن چا تو ہمارا ملجا ہو جا، ہمارا بھروسہ تیرے سوا اور کسی پر نہیں.اے خدا تو نے اپنے قرآن میں نفع کی ہر بات اور ترقی کا ہر اصول رکھا ہے.تو ہی ہمیں توفیق دے کہ ہم قرآنی تعلیم کو کبھی نہ چھوڑیں، تا ایسا نہ ہو کہ یہ دونوں جہان ہمارے لئے جہنم بن جائیں.ء اے ہمارے رب ! تیرا مسیح ثریا سے ہمارے لئے علوم قرآنی لے کر آیا اور تیرے خلیفہ اول نے ہمیں ان علوم کے سکھانے میں اپنی زندگی بسر کی.اے خدا تیرے ہزاروں ہزا ر صلوٰۃ اور سلام ہوں ان پر.اور اے خدا تیرے خلیفہ ء ثانی نے تجھ سے الہام پا کر تیرے قرآن کے علوم کو سیکھا اور دن رات ایک کر کے اور اپنے آرام کی گھڑیوں کو قربان کر کے علوم قرآنی کے ان خزانوں سے ہماری جھولیاں بھر میں اور ہمارے دل کو ان سے منور کیا.اے خدا آج وہ بیمار ہیں اور ہم بے بس، مگر تو تو شافی اور کافی خُدا ہے، تجھے تیرے ہی منہ کا واسطہ تو ہمارے پیارے امام کو شفا دے اور بیماری کا کوئی حصہ باقی نہ رہنے دے.آپ کی زندگی میں برکت ڈال اور آپ کی قیادت اور رہنمائی میں دنیا کے کناروں تک اپنے دین کی اشاعت کی ہمیں توفیق بخش اور ہم میں سے جو افراد اس وقت آپ کی خدمت کر رہے ہیں ان پر بھی اپنا فضل اور رحمت نازل فرما.اے محسن خدا ! تو نے ہی افراط و تفریط کی دو پہاڑیوں کے درمیان ( دین حق ) جیسا خوبصورت میدان بنایا ہے.اے خدا ایسا کر کہ ہم ( دین حق ) کی تعلیم سے کبھی منحرف نہ ہوں، ہمارا قدم اس میدان سے کبھی باہر نہ نکلے.اے ہمارے رب ! روحانی فیوض تو نے ہم پر موسلا دھار بارش کی طرح برسائے ہیں.ایسا نہ ہو کہ یہی روحانیت ہم میں کبر ونخوت کے جذبات پیدا کر کے ہمارے لئے ہلاکت کا باعث بن جائے.اے خُدا تو نے آسمان سے دودھ اتارا ہے.اے خُدا ہمارے پیالے اس دودھ سے ہمیشہ بھرے ہی رہیں.اے ہمارے رب أن وعدوں کے مطابق جو تو نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے کئے تھے تو نے اپنی تقدیر کی تاروں کو ہلانا شروع کیا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ ( دین حق ) کی لائی
تاریخ احمدیت 615 جلد ۲۰ ہو ئی تعلیم ساری دنیا میں پھیل جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلّم وسط آسمان میں سورج کی طرح چمک کر ساری دنیا کو منور کر دیں.اے خُدا ہمیں اعمالِ صالحہ کی توفیق دے، ہماری دستگیری فرما اور اس روشنی سے زیادہ سے زیادہ متمتع فرما اور ہمارے اُن بھائیوں کو جو تیری تعلیم کو پھیلا نے کیلئے دُنیا کے کونے کونے اور ملک ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اپنی رحمتوں سے نوازان کے تقویٰ میں برکت دے.ان کی قلموں اور ان کی زبانوں پر اپنے انوار نازل کر اور ان کی کوششوں کو دجال کے ہر دجبل اور شر سے محفوظ رکھ.اے خدا ایسا کر کہ تیرے یہ کمزور بندے ہر فرد بشر کے دل میں تیری توحید کی شیخ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیں.اے خدا اپنے فضل سے تو ایسے سامان پیدا کر کہ یہ انوار جو تیری طرف سے بنی نوع انسان کی ترقیات کے لئے نازل ہوئے ہیں دُنیا کی نظر سے کبھی اوجھل نہ ہوں اور تا ابد دُنیا کے ہر گھرا اور ان گھروں کے سب مکینوں کے دلوں سے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کا نعرہ بلند ہوتا ر ہے.اے قدیر وحکیم خُدا جس طرح تو نے اپنے مسیح کے لئے چاند اور سورج کو گرہن لگایا ہے ایسا ہو کہ اسی طرح تمام مذاہب باطلہ کے نقلی سورجوں اور چاندوں کو بھی گرہن لگ جائے.اے ہمارے رب ! تو ہمیں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مددگاروں میں سے بنا اور اُن آفات اور عذابوں سے ہمیں ہمیشہ بچا جو آپ کے مخالفوں کے لئے مقدر ہو چکے ہیں.اور شرک اور بدعت اور ظلم کی ہر قید و بند سے ہمیں ہمیشہ محفوظ رکھ.اے خدا ہمیں نیکی اور تقویٰ پر ہمیشہ قائم رکھ اور بد خصلت وساوس پیدا کرنے والوں سے ہمیں ہمیشہ پناہ دے تا ہما را بیعت کا تعلق اور غلامی کا رشتہ جو ہم نے تیرے رسول، تیرے مسیح اور تیرے خلفا ء سے باندھا ہے وہ ہمیشہ مضبوطی سے قائم رہے.اے خدا! ہمارے بیماروں کو شفا دے، ہمارے کمزوروں کو طاقت بخش، ہمارے غریبوں کو مالدار بنا ہمارے ضرورتمندوں کی ہر ضرورت کو پورا کر اور ہمارے جاہلوں کی جھولیاں دینی اور دنیوی علوم سے بھر دے.اے خُد ا ا بتلاؤں میں ہمیں ثابت قدم رکھ اور کامیابیوں میں ہمیں مزاج کے منکسر اور طبیعت کے غریب بنا اے خدا تیرے اور تیرے رسُول کے خلاف نہایت گندہ اور مکروہ اور نا قابل برداشت لٹریچر شائع ہو رہا ہے ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس فتنہ سے محفوظ رکھ اور اس کے خلاف قلمی اور لسانی جہاد کی ہمیں توفیق دے اور اس میں ہمیں کامیاب فرما.اے خدا ایسا نہ ہو کہ حاسدوں کی کوششیں ہمارے قومی
تاریخ احمدیت 616 جلد ۲۰ شیرازہ کو بکھیر دیں اور ہم میں لا مرکزیت آ جائے.اے خدا حاسد اپنے حسد میں جلتے ہی رہیں.ہمارا قومی شیرازہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے اور ہما را مرکز تا ابد بنی نوع انسان کی بھلائی اور خدمت کا مرکز بنا رہے.اے خدا ہما را قادیان ہمیں جلد کامیابی و کامرانی کے ساتھ واپس دلا.اے ہمارے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم تیرے ہی آستانہ پر جھکتے ہیں، تجھ پر ہی ہمارا تو کل ہے تو ہی ہمارا سہارا ہے، ہمیں بے سہارا نہ چھوڑ یو یارب العالمين“.۴۲
تاریخ احمدیت فصل چهارم 617 جلد ۲۰ جماعت احمدیہ کوحقیقی عید منانے کی تحریک ماری ۱۹۲۰ء کو حضرت مصلح ۲۹ / دنیائے احمدیت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.موعود نے خطبہ عید الفطر کے دوران احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم عید کے موقعہ پر عید گاہ میں آتے اور جاتے ہوئے اور پھر عید گاہ میں تشریف رکھتے وقت بھی بڑی کثرت کے ساتھ تکبیر پڑھا کرتے تھے کہ الله اكبر.الله اكبر.لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت بتاتی ہے کہ مومنوں کی حقیقی عید اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کی عظمت کے بیان کرنے میں ہی ہے.پس اگر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عظمت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں.اس کے نام کو پھیلا دیں.اس کی بڑائی کو ثابت کر دیں.اور اپنی تمام کوششیں اور مساعی اس غرض کے لئے وقف کر دیں.کہ خدا تعالے کا نام بلند ہو.تو یقیناً ہماری عید حقیقی عید کہلا سکتی ہے.لیکن اگر ہمیں اپنے فرائض کا احساس نہ ہو.اور خدا تعالیٰ کی توحید کی اشاعت اور اس کی عظمت کے قیام کے لئے اسلام جن قربانیوں کا ہم سے تقاضا کرتا ہے.ان قربانیوں کے میدان میں ہمارا قدم سُست ہو تو پھر ہماری عید صحیح معنوں میں عید نہیں کہلا سکتی.پس آج میں اپنی جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اس عید کو حقیقی رنگ میں منانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اس ظاہری عید کو اُس عظیم الشان روحانی عید کے حصول کا ایک ذریعہ بنانا چاہیئے جس میں ساری دنیا خدا تعالیٰ کی بڑائی کی قائل ہو جائے اور ( دین حق ) کے نیچے جمع ہو جائے اگر دنیا میں خدا تعالیٰ کی بڑائی قائم نہ ہو.تو ہماری عید کوئی عید نہیں.لیکن اگر اس کی بڑائی قائم ہو جائے.اور دنیا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو جائے.تو اسی میں ہماری حقیقی عید ہے.
تاریخ احمدیت 618 جلد ۲۰ جامعہ احمدیہ کی نئی جامعہ احمدیہ کا مرکزی ادارہ عرصہ سے ایک ایسی وسیع اور شایان شان عمارت سے محروم تھا جو اُس کی عمارت کا سنگ بنیاد ضروریات کو صحیح رنگ میں پورا کر سکے ۲۹/ مارچ ۱۹۶۰ء کو عید الفطر کی پُر مسرت تقریب کے موقع پر ہی ۵ بجے شام اس عظیم الشان درسگاہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا.جس میں رفقائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر بزرگان سلسلہ کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے ناظر و وکلاء صاحبان.افسران صیغہ جات، ربوہ کے تعلیمی اداروں کے ممبران.اسٹاف اور بہت سے دیگر مقامی احباب شامل تھے.سب سے پہلے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے قادیان کے مقامات مقدسہ کی ایک اینٹ اپنے ہاتھ میں لے کر اس پر دیر تک دعا کی.دعا کے دوران آپ کی زبان پر یہ شعر جاری ہوا.ما غریباں خاک بوسان حرم این چنیں برکات کے یا بدامم دعا سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے اس اینٹ کو بنیاد میں اپنے ہاتھ سے نصب فرمایا آپ کے بعد بعض اور ممتاز رفقاء اور دیگر بزرگان سلسلہ نے اینٹیں نصب کیں.ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے (آکسن ) پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ، حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب شامل تھے.ان اصحاب کے علا وہ میاں عبدالرحیم احمد صاحب وکیل التعلیم، سید میر داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ اور اساتذہ جامعہ میں سے ماسٹر عطا محمد صاحب اور صاحبزادہ ابوالحسن صاحب قدسی ابن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے بھی ایک ایک اینٹ رکھی.مزید براں جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبہ کو بھی بنیاد میں اینٹیں رکھنے کا موقع دیا گیا.چنانچہ جن طلباء کے حصہ میں یہ سعادت آئی ان میں غانا مغربی افریقہ کے عبد الوہاب بن آدم صاحب ابراہیم محمد مینو صاحب اور مشرقی افریقہ کے یوسف عثمان صاحب.ابو طالب صاحب.عمر جمعہ صاحب.احمد قادری صاحب اور چین کے محمد عثمان صاحب شامل تھے.بعد ازاں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیلی نے اجتماعی دعا کرائی.جس میں جملہ حاضرین شامل ہوئے دعا سے فارغ ہونے کے بعد جامعہ کی طرف سے تمام حاضرین کی خدمت میں
تاریخ احمدیت ۴۴ 619 جلد ۲۰ شیرینی پیش کی گئی.سنگ بنیاد کے ایک ماہ بعد اساتذہ جامعہ کا ایک وفد کوئٹہ بھجوایا گیا تا اس عمارت کے لئے عطیات کی تحریک کرے.کوئٹہ کے مخلصین نے اس پر نہایت گرمجوشی سے لبیک کہا علا وہ ازیں مرزا محمد امین صاحب آف کوئٹہ نے بعد میں ایک گرانقدر رقم بھجوائی جس کا خصوصی ذکر پرنسپل جامعہ احمدیہ سید داؤ د احمد صاحب نے الفضل ۳۰ / اکتو بر ۱۹۶۰ ء میں فرمایا صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا ۳۰ مارچ ۱۹۶۰ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے تق خطبہ صدارت جلسہ تقسیم انعامات میں جلسہ تقسیم انعامات کی ایک پُر وقار تقریب شام چار بجے سکول کی عمارت میں منعقد ہوئی.جس میں سکول کے طلبہ اور اسٹاف کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظر و وکلاء صاحبان افسران صیغہ جات اور ربوہ کے تعلیمی اداروں کے ممبران اسٹاف نے بھی شرکت فرمائی علاوہ ازیں کی تحصیل چنیوٹ کے مقامی افسران اور دور و نزدیک کے متعدد ہائی سکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان بھی تشریف لائے ہوئے تھے.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ایڈیشنل چیف سیکرٹری حکومت مغربی پاکستان تشریف لائے اور کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے.تلاوت ونظم کے بعد سکول کے ہیڈ ماسٹرمیاں محمد ابراہیم صاحب نے سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ہر میدان میں سکول کی روز افزوں ترقی پر روشنی ڈالی.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے اپنے خطاب میں سکول کی رفتار ترقی پر اظہار اطمینان کے رنگ میں فرمایا.میں تین باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.پہلی بات یہ ہے کہ اس سکول کے قیام اور اجراء سے قبل اور بہت سے ہائی سکول موجود تھے ہم دیکھتے ہیں اس کے باوجود اس سکول کا قیام عمل میں لایا گیا.اس کی وجہ یہی تھی کہ اس سکول کے قیام کی ایک خاص غرض اور ایک خاص مقصد تھا.وہ غرض یہ تھی کہ اس سکول میں طلبہ کو دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جائے تا کہ وہ صحیح معنوں میں دیندار بنیں اور اچھے شہری ثابت ہوں.ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ یہ غرض کما حقہ پوری ہوتی رہے اور اسے ہمیشہ ہی عام تعلیمی مقاصد پر نمایاں فوقیت حاصل رہے.اس غرض کو پورا کرنے سے ہی سکول اپنے خصوصی امتیاز کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکتا ہے.
تاریخ احمدیت 620 جلد ۲۰ دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ سکول کے قیام کی بنیادی غرض کو مقدم رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ عام تعلیمی مقاصد کو وہ اہمیت حاصل نہ ہو.جو انہیں لازمی طور پر حاصل ہونی چاہیئے.جس بنیادی غرض کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے.اس کا لازمی ا ہے.اس کا لازمی اقتضا اور نتیجہ یہ ہونا چاہیئے کہ عام تعلیمی مقاصد کے حصول میں بھی تمام دوسرے سکولوں سے اس کا قدم آگے ہو.یعنی جن تعلیمی مقاصد کا حصول بلا استثناء تمام سکولوں کے درمیان باہم مشترک ہے ان میں بھی یہ سکول دوسروں کے بالمقابل ہر لحاظ سے فضیلت حاصل کرے اور اپنی اس فضیلت کو برقرار رکھے.تیسری بات یہ ہے کہ موجود زمانے میں سائنس کی بے انداز ترقی کے باعث انسانی زندگی جس نہج پر استوار ہو رہی ہے اور جو نئے مسائل ابھرا بھر کر سامنے آ رہے ہیں ان کے پیش نظر یہ بات ناگزیر ہوتی جا رہی ہے کہ تمام سکولوں میں درسی علوم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کو بھی رائج کیا جائے اور طلبہ کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کارلا کر نہ صرف اچھے تعلیم یافتہ بنیں بلکہ اچھے فن کا ر بھی ثابت ہوں.مثال کے طور پر سکولوں میں زراعت اور کارپینٹری وغیرہ کے شعبے بآسانی قائم کئے جا سکتے ہیں.اور طلبہ کو ان فنوں کی عملی تربیت دی جا سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ فنی تعلیم کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر حکومت نے گزشتہ چند سال سے فتنی تعلیم کا ایک علیحدہ ڈائریکٹر مقرر کیا ہوا ہے.پس ہمارے سکولوں کو وقت کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرتے ہوئے فتنی تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہیئے.ان اہم صدارتی ارشادات کے بعد جناب صاحبزادہ صاحب موصوف نے سکول کے طلبہ میں انعامات تقسیم فرمائے.جناب جمال عبدالناصر صدر جمہوریہ جناب جمال عبدالناصر دورہ بھارت کے دوران ۵ اپریل ۱۹۶۰ء کو متحدہ عرب کی خدمت میں پیغام حق مدراس تشریف لائے.جماعت احمد یہ مدر اس نے انہیں خوش آمد یہ کہا اور اُن کی خدمت میں تبلیغی مکتوب اور سلسلہ کی طرف سے شائع شدہ عربی انگریزی لٹریچر ارسال کیا.مکتوب انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.مولا نا شریف احمد صاحب امینی ان دنوں احمدیہ مسلم مشن مدر اس کے انچارج تھے.
تاریخ احمدیت احمد یہ مسلم مشن اسلامک سنٹر مدراس نمبر 14 5 اپریل 1960 ء دد بر اور اسلام ! 621 بسم اللہ الرحمن الرحیم عزت مآب جمال عبد الناصر صدر جمہوریہ متحدہ عرب نزیل راج بھون.مدراس السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ جلد ۲۰ عالیجناب کی شہر مدراس میں تشریف آوری پر ہم جماعت احمدیہ کی طرف سے خوش 66 66 آمدید کہتے ہوئے آپ کی خدمت میں اھلا و سھلا مرحبا کا تحفہ پیش کرتے ہیں.صدر محترم ! احمدیہ تحریک آپ کے لئے کوئی عجیب وانوکھی چیز نہیں.اس کی شاخیں اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہیں.اور آپ کے وطن عزیز جمہور یہ متحدہ عرب میں بھی قائم ہیں.آئمکرم کی ہمارے وطن ہندوستان میں تشریف آوری اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتی ہے.اس سے قطع نظر کرتے اور اُفق سیاسیات سے بالا ہوتے ہوئے ہماری نظریں اُس د گرانبها خدمت پر پڑ رہی ہیں.جو دنیائے عرب نے مذہب اسلام کے ذریعہ انسانیت اور تہذیب کی انجام دی ہے.باقی دنیا تو آپ کی شخصیت میں صرف مصر کی سیاسی آزادی.جمہور یہ عرب میں اصلاحات ملکی.اور معرکہ سویز کی فتحیابی کو دیکھ رہی ہے.مگر ہماری نگاہیں آپ کی ذات میں مستقبل میں اسلام کی سربلندی اور دنیائے عرب کی ترقی کو دیکھ رہی ہیں.مگر ہماے اس ” مقصد اعلے“ کا حصول اُس جذبے اور ولولہ پر منحصر ہے جس کو لے کر ترقی کی شاہراہ پر چلیں گے.اور ہم دیانتداری سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے صرف سیاسی بیداری ہی کافی نہیں.بلکہ جب تک اللہ تعالے کی حکومت انسانی قلوب پر قائم نہ ہو جائے دنیا کو امن وسکون نہیں ہو سکتا.اس لئے ہم آئمکرم کی خدمت میں خلوص قلب سے عرض کرتے ہیں کہ ہندوستان اور دنیائے عرب کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے.صرف سیاسی حیثیت سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ پھر ہم اپنے ”خدا“ کو پالیں.اس زمانہ میں جب کہ مادی طاقتیں اپنے عروج پر ہیں.یہ ایک فطرتی تمنا ہے کہ ہم جمہور یہ متحدہ عرب سے توقع رکھیں کہ وہ دنیا کی گمشدہ کڑی کو واپس لائے.وہ گمشدہ کڑی جو بندے اور اُس کے خالق و مالک سے تعلقات محبت کو از سر نو قائم کر دے.اور حقیقت میں یہی وہ عربی روایات ہیں جنہوں نے عربی نسل کو دنیا میں ایک اتحاد پیدا کر نے والی طاقت بنا
تاریخ احمدیت دیا تھا.622 جلد ۲۰ صدر محترم ! آپ نے علیگڑھ میں خطاب فرماتے ہوئے یہ امر بالکل بجا فر مایا تھا کہ آئندہ سائنس کی اجارہ داری سرمایہ داری کی ایک نئی قسم ہو گی“ سرمایہ داری کیا بلکہ مادیت کی نئی شکل وصورت ہوگی.ہم سرمایہ داری یا مادیت کی اس نئی شکل وصورت پر قابو نہیں پا سکتے جب تک کہ انسان کی سرمایہ دارانہ ذہنیت یا مادیت کی رگوں میں مذہب روحانیت کا ٹیکہ نہ لگا ئیں.پس اس الحاد و مادیت کے قلع قمع اور روحانیت وانسانیت کے اُجاگر کرنے کے لئے ہی تحریک احمدیت خدا تعالے کی طرف سے قائم کی گئی ہے.احمدیت کوئی انسانی تحریک نہیں.خالص خدا کی قائم کردہ ہے.اور اس کا قیام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اُن پیشگوئیوں کے عین مطابق عمل میں آیا ہے.جو اسلام کی نشاة ثانیہ غلبہ دین کے لئے ظہور مہدی ومسیح موعود کی ذات سے وابستہ تھیں اور اشاعت اسلام کی جو شاندارخدمات اس جماعت نے ابتک انجام دی ہیں.وہ اظہر من الشمس ہیں.ہم آپ کی خدمت میں اسلامی اصول کی فلاسفی ( جو کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور مہدی و معہود کی تالیف تصنیف ہے ) کا عربی ترجمہ الخطاب الجلیل“ اور دوسرے لڑ پچر کا تحفہ“ ارسال کرنے میں خوشی محسوس کر رہے ہیں.بظاہر یہ معمولی چیز ہے مگر حقیقت میں قیمتی موتی اور جواہر ہیں.امید ہے آپ ان کتب کا کا مطالعہ فرما ئینگے.خدا آپ کا اور ہمارا ہادی اور حامی و ناصر ہو.آمین.آپکا خیر اندیش محمد کریم اللہ نو جوان سیکرٹری جماعت احمد یہ مدراس اس سال مجلس شوری تقوی دعوت الی اللہ اور وقف کی پُر زور تحریک ۹-۸ را پریل ۱۹۶۰ء کو گذشته سال کی طرح تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے وسیع و عریض ہال میں ہی منعقد ہوئی.سید نا حضرت مصلح موعود کی طبیعت ایک عرصہ سے نا ساز چلی آ رہی تھی مگر حضور نے خدام کی دلجوئی کے لئے اس سال بھی شمولیت فرمائی اور نمائندگان کی آراء سن کر ان کے بارے میں اپنے فیصلوں کا اعلان فرمایا.حضور کے ارشاد پر مشاورت کے اکثر اجلاسوں کی کارروائی شیخ بشیر احمد
تاریخ احمدیت 623 صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی زیر صدارت ہوئی.جلد ۲۰ سید نا حضرت مصلح موعود نے مشاورت کے اختتامی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے احباب جماعت کو پُر زور تحریک فرمائی کہ وہ تقومی دعوت الی اللہ اور وقف کی طرف خصوصی توجہ دیں چنانچہ فرمایا : وو حقیقت یہ ہے.کہ تقویٰ کے بغیر انسان کا کوئی عمل اُسے اللہ تعالیٰ کا مقرب نہیں بنا سکتا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر نماز میں بلکہ نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے کہ اھدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی الہام ہے کہ ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے اگر جڑ رہی سب کچھ رہا ہے پس دوستوں کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.اور بار بار قا دیان جانے کی کوشش کرنی چاہیئے.پس تقویٰ اللہ کے حصول کی کوشش کرو.اپنی آئندہ نسلوں میں دین کی محبت پیدا کرو.انہیں اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے وقف کرو.اشاعت احمدیہ کے لئے ہر قسم کی مالی اور جانی قربانیوں میں حصہ لو.اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو.کہ وہ ہماری نا چیز کوششوں میں برکت ڈالے.اور ہمارے کاموں کو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ نتیجہ خیز ثابت کرے.تا کہ ہم نے یہاں جو وقت صرف کیا ہے.وہ ضائع نہ ہو.اور ہم خدا تعالے کے نزدیک جھگڑالو قرار نہ پائیں.تاکہ اس کے دین کے خدمت گذار اور اس کے احکام کی اطاعت کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایمان.اخلاص.اور تقویٰ پیدا کرے.اور ہمارے قلوب میں ایسی محبت اور عشق بھر دے کہ بغیر اس کے مل جانے کے ہماری سوزش میں کمی واقع نہ ہو.ہماری گھبراہٹ دور نہ ہو.ہما را جوش کم نہ ہو.اور ہماری راحت اور ہما را چین سوائے اس کے کسی اور چیز میں نہ ہو.کہ ہمیں اس کا قرب حاصل ہو جائے.اور ہم اس کے وصال سے لطف اندوز ہوں ہماری ہر قسم کی خوشی اور امید اس سے وابستہ ہو.اور ہماری محبت اور چین اس کے رسولوں خصوصاً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستگی اور ان کی تعلیموں اور منشاء کے مطابق چلنے میں ہو.اور ہم ان کے نام کو دنیا میں پھیلا نے والے ہوں اللہ تعالیٰ
تاریخ احمدیت 624 جلد ۲۰ ہماری مدد کرے.اور ہماری زبانوں میں برکت ڈالے.تا کہ ہم دوسرے لوگوں کو بھی خدائے واحد کے کلام کی طرف کھینچ سکیں.اور اللہ تعالے ہمیں توفیق دے.کہ ہم خدا تعالے کے کلام سے محبت کرنے والے.اس کی تعلیم سے پیار کرنے والے.اس کے حکموں کو پھیلانے والے.اور اس کے بندوں سے محبت کرنے والے ہوں...حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک ایک سال میں تمیں تمہیں ہزار احمدی ہوتا تھا.اب تو ۳۰ ۴۰-۳۰ ۲۰ لاکھ سالانہ احمدی ہونے چاہئیں.حضرت مسیح ناصری کی امت نے ۱۹۰۰ سال کی عمر پائی ہے.ہم دعا کرتے ہیں.اور امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو ۱۹۰۰۰ سال سے بھی زیادہ عمر دے گا.اور دنیا کے چپہ چپہ پر کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئیگی جہاں احمدیت اور ( دین حق ) کا نام نہ لیا جاتا ہو.شاہ حسین اردن کا جماعت احمدیہ اسلامی مملکت اردن کے جلالہ الملک شاہ حسین نے اس سال نائیجیریا کی طرف سے شاندار استقبال ایران ترکی اور سپین کے دورہ سے واپسی پر ۹ رمئی ۱۹۶۰ء کو لیگوس میں ایک روز قیام فرمایا.شاہ کی آمد اگر چہ غیر رسمی حیثیت کی تھی، پھر بھی یہ موقعہ اس اعتبار سے بہت اہم تھا.کہ نائیجیر یا جیسے اسلامی علاقہ میں پہلی دفعہ ایک عرب مسلمان بادشاہ وارد ہوا تھا شاہ کی آمد کا اعلان صرف ایک روز پہلے کیا گیا تھا.اس کے با وجو د احمدی احباب کو استقبالیہ کے لئے فوراً منظم کیا گیا.ایک سبز جھنڈے پر عربی میں اهلا و سهلا و مرحبا اور انگریزی میں خوش آمدید شاہ حسین لکھا ہوا تھا لیگوس کے احمدی احباب چودہ میل سفر کر کے لیگوس کے ہوائی اڈے پر پہنچے جملہ احباب نے احمدیہ مشن کیطغرے (BADGES) لگا رکھے تھے.اس طرح استقبال کرنے والوں میں یہ ممتاز گر وہ اخباری نمائیند وں، غیر ملکی اور ملکی پریس فوٹوگرافرز کے لیئے بالخصوص ایک خاص کشش کا موجب ہوا انہوں نے اس منظر کی متعد تصاویر لیں.جس وقت شاہ حسین کا طیارہ پہنچا احمدی احباب نے نعرہ تکبیر.اللہ اکبر اسلام زندہ با د جلالۃ الملک یعیش الملک حسین یعیش کے نعرے بلند کئے نائیجیریا کے قائم مقام گورنر جنرل اور استقبال کرنے والے دوسرے افسر مشرقی انداز کے اس استقبال سے بہت متاثر ہوئے.ہوائی اڈے پر جمع ہونے والے دوسرے لبنانی شامی اور دوسرے مسلمانوں نے
تاریخ احمدیت 625 جلد ۲۰ بھی اس استقبال کو بہت سراہا اور ان میں سے بعض نعرے بلند کرنے میں وہ احمد یوں کے ساتھ شامل بھی ہوئے.شاہ اردن کا لیگوس میں قیام صرف سولہ گھنٹے تھا.احمد یہ مشن کی طرف سے ایک روز قبل منعقد ہونے والی مسلم فیسٹول کمیٹی MOSLIM) (FESTIVAL COMMITTEE میں دوسری مسلمان جمعیتوں کے زعماء کو شاہ سے وفد کی صورت میں ملاقات کی تحریک کی گئی.اسی طرح گورنمنٹ ہاؤس سے ٹیلیفون پر ملاقات کی اجازت حاصل کرنے کی کوشس بھی کی گئی.لیکن اس وقت شاہ کا پروگرام معین طور پر معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اطلاع حاصل نہ ہو سکی.لیگوس کے مقامی حاکم (OBA) مسلمان تھے.جن کو جناب مولا نانیم سیفی صاحب رئیس تبلیغ مغربی افریقہ نے ٹیلیفون پر تحریک کی کہ وہ ملاقات کی کوشش کریں ان کی طرف سے کوشش کرنے پر صرف چار اصحاب کے لئے ملاقات کی اجازت حاصل ہو سکی چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے لیگوس کے مقامی حاکم ان کے ایک وزیر احمد یہ مشن کے رئیس التبلیغ مغربی افریقہ اور لیگوس شہر کے چیف امام پر مشتمل وفد نے گورنمنٹ ہاؤس میں شاہ سے ملاقات کی، جناب رئیس التبلیغ صاحب نے شاہ کو ہد یہ پیش کرنے کے لئے حسب ذیل کتب منتخب کی تھیں جو آپ نے شاہ کو پیس کیں.(1) اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ الخطاب الجلیل مصنفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ.(۲) لائف آف محمد تصنیف منیف حضرت مصلح موعود.(۳) ہمارے بیرونی مشن.انگریزی مصنفہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ربوہ.شاہ حسین نے یہ تحفہ بہت خوشی سے قبول کیا.پریس کے نمائندوں نے اس موقعہ پر متعدد تصاویر لیں.لیگوس کے ممتاز ڈیلی ٹائمنز اور پائلاٹ نے شاہ حسین کے کتب کا تحفہ قبول کرنے کی تصویر شائع کی.شاہ حسین نے اپنے قیام کے دوران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں جناب نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر اخبار ٹروتھ کی حیثیت سے شامل ہوئے.شاہ حسین کو مذکورہ کتب کے تحفہ کے ہمراہ احمد یہ مشن کی طرف سے جو مکتوب لکھا گیا
تاریخ احمدیت 626 جلد ۲۰ تھا.اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے.جلالتہ الملک شاہ حسین السلام عليكم اهلا و سهلا و مرحباً میں بصد ادب و احترام ملک نائیجیریا کے احمدیوں کی طرف سے اعلیٰ حضرت کو ہمارے ملک میں قدم رنجہ فرمانے پر دلی خوش آمدید عرض کرتا ہوں.ہر چند آ پکی یہ زیارت مختصر حیثیت کی ہے.ہم آپ کے نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس میں ورود کے بہت قدرمند ہیں.جلالۃ الملک کے لئے ہمارے دلوں میں جو محبت جاگزیں ہے.اس کی ایک علامت کے طور پر آپ کی خدمت میں لائف آف محمد کا تحفہ بھی پیش کر رہا ہوں.جو ہماری جماعت کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی کی تصنیف ہے.( الخطاب الجلیل اور ہمارے بیرونی مشن کتب بعد میں شامل کی گئیں تھیں ) اس امر کا ذکر یہاں بے تعلق نہ ہوگا کہ جلالتہ الملک کے مرحوم دادا امیر عبداللہ ہماری جماعت حیفا کے حق میں ہمیشہ مروت کا سلوک فرماتے رہے ہیں.جس کے لئے ہم ان کے احسان مند رہیں گے بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکات نازل فرما تا رہے آمین.والسلام نسیم سیفی رئیس التبلیغ مغربی افریقہ برائے جماعت احمد یہ نائیجیریا - علامہ نیاز فتحپوری کے تاثرات علامہ نیا داتیو ری ۲۱ رعی ۱۹۲۰ ء کو مارن فضل عمر ڈسپنسریوں سے متعلق روڈ اور گولیمار کراچی کی احمدیہ ڈسپنسریوں کی رفاہی خدمات کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور حسب ذیل الفاظ میں اپنے قلبی تاثرات قلمبند کیئے.: عکس تحریر علامہ نیاز ا گلے صفحہ پر
جلد ۲۰ 627 found.تاریخ احمدیت
تاریخ احمدیت 628 جلد ۲۰ فضل عمر ڈسپنسری دیکھنے کے بعد کسی کا صرف یہ کہہ دینا کہ اسے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی.بڑا ناقص اعتراف ہے.اس عظیم خدمت انسانی کا جو یہ ڈسپنسری انجام دے رہی ہے.مارٹن روڈ اور گولیمار کے دونوں شفا خانے جنہیں خدام جماعت احمدیہ نے واقعتاً اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا ہے جذبہ خیر جوش عمل اور جسم و روح کی بیداریوں کی ایسی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن سے غض بصر ممکن نہیں.ان شفا خانوں کا اصل مقصود خالصتاً للہ انسانی در دو دکھ میں شریک ہونا ہے اور اسی لئے دواؤں کے علاوہ یہاں تیمار دارا نہ غذا ئیں بھی مفت تقسیم کی جاتی ہیں اور دماغی محنت کے لئے دار المطالعہ بھی قائم کر دیا گیا ہے اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے اس دور بے عملی میں جماعت احمدیہ کا یہ اقدام نوع انسانی کی اتنی بڑی خدمت ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور جس جماعت کی تعمیر اس بنیان مرصوص‘ پر قائم ہو وہ کبھی فنا نہیں ہوسکتی.نیاز فتحپوری.۲۱ رمئی ۱۹۶۰ء ہز ملایا کے وزیر اعظم منکو عبدالرحمن ۲۶ می ۱۹۹۰ء کو برا یکسی لینسی نکو عبد الرحمن وزیر اعظم ملا یا ہیگ کی بیت احمد یہ میں تشریف بیت احمد یہ ہیگ میں لائے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نائب صدر عالمی عدالت اور انچارج ہالینڈ مشن حافظ قدرت اللہ صاحب نے آپ کا استقبال کیا.میٹنگ ہال میں آپ کا تعارف معززین سے کروایا گیا جو خاص طور پر اس تقریب میں شمولیت کے لیے تشریف لائے تھے.ان معززین میں عرب جمہوریہ کے سفیر عالمی عدالت کے جج جناب بیضاوی (BADAWI) پاکستانی ایمبیسی کے کونسلر اور حکومت انڈونیشیا کا نمائندہ شامل تھے.چند ایک مقامی احمدی بھی اس موقعہ پر موجود تھے.جن میں ڈاکٹر ملا ما آف ٹراپیکل انسٹی ٹیوٹ ایمسرڈم خاص طور پر قابل ذکر ہیں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے معززمہمان کا استقبال کرتے ہوئے مختصر طور پر ان شاندار خدمات کا تذکرہ کیا جو ٹنکو عبد الرحمن نے اپنے ملک کی ترقی اور بہبود کے سلسلہ میں آزادی حاصل کرنے سے قبل کیں اور اب تک سرانجام دے رہے تھے.حافظ قدرت اللہ صاحب نے احمد یہ مشن کی طرف سے معززمہمان کی تشریف آوری کا شکر یہ ادا کیا اور اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم بیت احمد یہ میں تشریف لائے.نیز کہا کہ آج کی محفل میں
تاریخ احمدیت 629 جلد ۲۰ شریک ہونے والے اگر چہ مختلف ملکوں اور قوموں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اخوت دینی کا رشتہ انہیں یکجا کرنے کا باعث ہے.یہ درس اخوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو سکھایا تھا اور اسی کے باعث وہ آج بھی ممتاز ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی دعوت کا دائرہ دنیا کی تمام قوموں تک وسیع ہے.یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے عہد حاضر میں تمام دنیا میں اشاعت دین کا نظام قائم کر رکھا ہے.تقریر کے بعد آخر میں آپ نے عزت مآب وزیر اعظم ملا یا کی خدمت میں انگریزی ترجمہ قرآن پیش کیا جسے موصوف نے نہایت مسرت سے قبول فرمایا.انہوں نے امام بیت ہالینڈ کا شکر یہ ادا کیا اور حاضرین سے ملاقات پر بہت خوشی کا اظہا ر کیا.
تاریخ احمدیت 630 جلد ۲۰ فصل پنجم وزیر اعظم روس کا چیلنج اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا حقیقت افروز تبصره اُن دنوں پوری دنیا روسی اور اینگلو امریکن بلاک میں بٹی ہوئی تھی.اور روس اور اسکی اشترا کی تحریک کا ایسا رعب تھا کہ امریکہ اور برطانیہ جیسی حکومتیں بھی لرزہ براندام تھیں.اس ماحول میں روس کے وزیر اعظم نکیتا سر گیوچ خروشیف NIKITA) (SERGEYEVICH KHURUSHCHEV نے اعلان کیا کہ عنقریب گل جہان اشترا کی پر چم کے نیچے جمع ہو جائے گا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی غیرت ملی نے اس موقع پر خاموش رہنا گوارا نہ فرمایا اور اس کے جواب میں ایک نہایت پُر قوت وشوکت مضمون سپر و قلم کیا.جس میں واضح طور پر بتایا کہ آخری عالمی غلبہ اشتراکیت کیلئے نہیں دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدر ہے چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا.: آجکل اشترا کی روس کے وزیر اعظم مسٹر خر وشیف خاص طور پر جوش میں آ کر گرج اور برس رہے ہیں ہمیں ان کے سیاسی نعروں سے کوئی سروکارنہیں وہ جانیں اور ان کے مغربی حریف برطانیہ اور امریکہ.گو طبعا ہمیں مغربی ممالک سے زیاہ ہمدردی ہے کیونکہ ایک تو وہ ہمارے اپنے ملک پاکستان کے حلیف ہیں اور دوسرے جہاں برطانیہ اور امریکہ کم از کم خدا کی ہستی کے قائل ہیں وہاں روس نہ صرف کفر قسم کا دہر یہ ہے بلکہ نعوذ باللہ خدا پر ہنسی اڑاتا اور مذہب کے نام ونشان تک کو دنیا سے مٹانا چاہتا ہے.لیکن اس وقت جو خاص بات میرے سامنے ہے وہ مسٹر خر وشیف کا وہ اعلان ہے
تاریخ احمدیت 631 جلد ۲۰ جو ے جولائی ۱۹۶۰ ء کے اخباروں میں شائع ہوا ہے.اس اعلان میں مسٹر خروشیف اپنے مخصوص انداز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ بہت جلد اشترا کی جھنڈا ساری دنیا پر لہرانے لگے گا اور اشتراکیت عالمگیر غلبہ حاصل کرے گی.چنانچہ اس بارے میں اخباری رپورٹ کے الفاظ درج ذیل کئے جاتے ہیں.: آسٹریلیا ۶ جولائی.روسی وزیر اعظم مسٹر خروشیف نے منگل کے دن یہاں کہا کہ مجھے کمیونسٹ ملک کے سوا کسی دوسرے ملک میں جا کر کوئی خوشی نہیں ہوتی.آپ نے مزید کہا کہ میں ساری دُنیا پر اشترا کی جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور مجھے اُسوقت تک زندہ رہنے کی خواہش ہے.مجھے توقع ہے کہ میری اس خواہش کی تکمیل کا دن دور نہیں وو (نوائے وقت لاہورے جولائی ۱۹۶۰ء) خواہش کرنے کا ہر شخص کو حق ہے مگر ہم مسٹر خر وشیف کو گھلے الفاظ میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی.مسٹر خر وشیف ضرور تاریخ دان ہونگے اور انہوں نے لازماً تاریخ عالم کا مطالعہ کیا ہوگا کیا وہ ایک مثال بھی ایسی پیش کر سکتے ہیں کہ دنیا کے کسی حصہ میں اور تاریخ عالم کے کسی زمانہ میں توحید کے مقابلہ پر شرک یا دہریت نے غلبہ پایا ہو؟ وقتی اور عارضی غلبہ کا معاملہ جدا گانہ ہے ( کیونکہ وہ نہر کے پانی کی اس ٹھوکر کا رنگ رکھتا ہے.جس کے بعد پانی اور بھی زیادہ تیزی سے چلنے لگتا ہے ) جیسا کہ حضرت سرور کائنات فخر رسل صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جنگ اُحد میں ہوا مگر لمبا یا مستقل غلبہ کبھی بھی تو حید کے سچے علمبرداروں کے مقابل پر دہریت اور شرک کی طاقتوں کو حاصل نہیں ہوا اور نہ انشاء اللہ کبھی ہوگا قرآن واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ - : كتب الله لا غلبن انا و رسلی یعنی خدا نے یہ بات لکھ رکھی ہے کہ شرک اور دہریت کے مقابلہ پر اس کی توحید کے علمبر دار رسول ہمیشہ غالب رہیں گے.زیادہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں حضرت موسی کی طرف دیکھو کہ وہ کس کمزوری کی حالت میں اُٹھے اور ان کے سامنے فرعون کی کتنی زبر دست طاغوتی طاقتیں صف آرا تھیں مگر انجام کیا ہوا اس کے لئے لنڈن کے عجائب خانہ میں فرعون کی نعش ملا حظہ کر و.حضرت عیسی کا یہ حال تھا کہ ایلی ایلی لما سبتقنی کہتے کہتے بظاہر رخصت ہو گئے مگر آج ان کے نام لیوا ساری دنیا پرسیل عظیم کی طرح چھائے ہوئے ہیں.حضرت فخر
تاریخ احمدیت 632 جلد ۲۰ رسل صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھاؤ کہ عرب کے بے آب و گیاہ ریگستان میں ایک یتیم الطرفین بچہ خدا کا نام لے کر اٹھتا ہے اور سارا عرب اس پر یوں ٹوٹ پڑتا ہے کہ ابھی بھسم کر ڈالے گا مگر دس سال کے قلیل عرصہ میں اس دُر یتیم نے ملک کی کایا پلٹ کر رکھدی اور سارا عرب تو حید کے دائمی نعروں سے گونج اٹھا.مگر ہمیں اس معاملہ میں گزشتہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں.مسٹر خروشیف نے ایک بول بولا ہے اور یہ بہت بڑا بول ہے ہم اس کے مقابل پر اس زمانہ کے مامور اور نا ئب رسول اور خادم ( دین حق ) حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک پیشگوئی درج کرتے ہیں جو آپ نے خدا سے الہام پا کر آج سے پچپن سال پہلے شائع فرمائی اور اس میں اپنے ذریعہ ہونے والے عالمگیر اسلامی غلبہ کا زور دار الفاظ میں اعلان فرمایا.آپ فرماتے ہیں :.” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھا ئیگا اور میرے سلسلہ ( یعنی اسلام اور احمدیت ) کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کر دے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جا دیگا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آ ئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.“ ،، ( تجلیات الهیه صفحه ۴ ) دوسری جگہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں :.”اے تمام لوگوسُن رکھو کہ یہ اس خدا کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنا یا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب (اسلام ) اور اس سلسلہ میں فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مراد ر کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ ساتھ
633 جلد ۲۰ تاریخ احمدیت رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائیگی.دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا ( یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم ) میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تختم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے، ( تذکرۃ الشہا دتین صفحه ۶۴ ) اور تیسری جگہ روس کے مخصوص تعلق میں اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.میں نے دیکھا کہ زار روس کا سونٹا ( عصا ) میرے ہاتھ میں آ گیا ہے.اس میں ( تذکرہ بحواله البد ر۲ /فروری ۱۹۰۳ء) پوشیدہ نالیاں بھی ہیں، اس لطیف رؤیا میں روس کے متعلق یہ عظیم الشان بشارت دی گئی ہے کہ وہ خدا کے فضل سے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کی روحانی توجہ کے نتیجہ میں ( دین حق ) قبول کرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا جوا برضا و رغبت اپنی گردن پر رکھے گا اور اس طرح انشاء اللہ اشتراکیت کے موجودہ گڑھ میں بھی دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ دین حق کا جھنڈا لہرائے گا اور یہ جو اس کشف میں پوشیدہ نالیوں“ کے الفاظ آتے ہیں ان میں اشترا کی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اس کشف کے سولہ سترہ سال بعد عالم وجود میں آیا اور اس کی پالیسی کی بنیاد آئرن کرٹن اور مخفی کا رروائیوں پر رکھی گئی.اب مسٹر خر و شیف کو چاہیئے کہ اپنے بلند و بالا بولوں کے ساتھ ان خدائی پیشگوئیوں کو بھی نوٹ کر لے.انسانی زندگی محدود ہے مسٹر خروشیف نے ایک دن مرنا ہے اور میں بھی اس دنیوی زندگی کے خاتمہ پر خدا کی ابدی رحمت کا امیدوار ہوں مگر دنیا دیکھے گی اور ہم دونوں کی نسلیں دیکھیں گی کہ آخری فتح کس کے مقدر میں لکھی ہے.روس کا ملک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی دیکھ چکا ہے جو ان ہیبت ناک الفاظ میں کی گئی تھی " زار بھی ہوگا تو ہو گا اُس گھڑی با حال زار ( براھین احمدیہ حصہ پنجم ) اب ( دین حق کے دائمی غلبہ اور توحید کی سربلندی کا وقت آ رہا ہے اور دُنیا خود دیکھ لے گی کہ مسٹر خر وشیف کا بول پورا ہوتا ہے یا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ،، کے مطابق ( دین حق ) کی فتح کا ڈنکا بجتا ہے.۵۲ خدا کی قدرت دیکھئے.ساری دنیا میں اشترکیت کے تسلط کا خواب دیکھنے والا یہ
تاریخ احمدیت 634 جلد ۲۰ ۵۳ شخص جو سٹالن کے بعد روس کا مسلمہ رہنما تھا.۱۵ / اکتو بر ۱۹۶۴ء کو کمیونسٹ پارٹی کے عدم اعتماد کی بناء پر معزول کر دیا گیا اور سات سال تک گوشہ گمنامی میں رہنے کے بعد 11 ستمبر ۱۹۷۱ ء کو چل بسا اور کریملن میں ماسکو کے ایک عام قبرستان میں دفن کیا گیا.اٹھارہ سال بعد ۹ / نومبر ۱۹۸۹ ء کو برلن دیوار کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور نہ صرف مشرقی جرمنی بلکہ مشرقی یورپ کے سب اشترا کی ممالک روس کی استبدادی زنجیروں کو تو ڑ کر آزاد ہوئے.روسی صدر گوربا چوف ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء کو کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے.روسی کمیونسٹ پارٹی توڑ دی گئی اور ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۱ ء کو ماسکو شہر کی کونسل نے شہر سے اشترا کی انقلاب کے بانی لینن کا مجسمہ ہٹانے کا اعلان کر دیا.علامہ نیا فیچوری کا سفر پاکستان اور علامہ نیا تیموری صاحب ایڈیٹر ماہنامہ فتحپوری نگار لکھنو امسال مئی کے اوائل میں جماعت احمدیہ کا قریبی مطالعہ پاکستان تشریف لائے.جہاں آپ نے وسط جون تک قیام فرمایا اُس دوران میں آپ با وجود خواہش کے ربوہ تشریف نہ لا سکے.لیکن لاہور اور کراچی میں آپ کو احمدی احباب سے ملنے اور جماعت احمدیہ کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا.آپ نے واپس جا کر نگار بابت جولائی ۱۹۶۰ء میں اپنے سفر پاکستان کے حالات سپرد قلم فرمائے.جس میں آپ نے احمدی جماعت کا قریب تر مطالعہ“ کے ذیلی عنوان کے تحت جماعت کی عظمتِ کردار اور بلندی اخلاق کے بارہ میں اپنے قلبی تاثرات کا بھی ذکر فرمایا جو درج ذیل کئے جاتے ہیں.وو دد لکھنو سے چلتے وقت ایک ذہنی یا جذباتی احمدی جماعت کا قریب تر مطالعہ پروگرام میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس سفر کے دوران میں اگر قادیان نہیں تو ربوہ ضرور دیکھونگا جو سنا ہے کسی وقت وادی غیر ذی زرع تھا اور اب احمدی مجاہدین نے اسے ایک متمدن شہر بنا دیا ہے.قادیان کا سوال اس لئے سامنے نہ تھا کہ پورا خاندان میرے ساتھ تھا اور ربوہ تو خیر میں کراچی سے تنہا بھی آ سکتا تھا لیکن افسوس ہے کہ میرا یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا.اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ میرے ویزا میں ربوہ درج نہ تھا.دوسرے یہ کہ میری صحت اس کی متقاضی نہ تھی کہ موسم گرما میں سفر ریگستان کی جرات کرسکوں لیکن میری اس پست ہمتی کی تلافی کسی نہ کسی حد تک اس طرح ہو گئی کہ بعض مخلصین سے امرتسر سٹیشن پر تبادلۂ نگاہ ہو گیا بعض سے لاہور میں یا داللہ ہو گئی اور جب کراچی
تاریخ احمدیت 635 جلد ۲۰ پہونچا تو ایک سے زائد بار مجھے ان کو زیادہ قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ مل گیا.سب سے پہلی چیز جسے میں نے تین طور پر محسوس کیا ان کی متانت وسنجید گی تھی ان کے ہنتے ہوئے چہرے ان کے بشاش قیافے اور ان کی بوئے خوشد لی تھی.دوسری بات جسنے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا یہ تھی کہ انہوں نے دوران گفتگو میں مجھ سے کوئی تبلیغی گفتگو نہیں کی.کبھی کوئی ذکر تعلیم احمدیت کا نہیں چھیڑا.جو یقیناً مجھے پسند نہ آتا.میرا مقصود ایک خاموش نفسیاتی مطالعہ کرنا تھا.اور یہ آج کی انتہائی ادا شناسی تھی کہ دعوتوں، عصرانوں میں انہوں نے مجھے اس مطالعہ کا پورا موقعہ دیا.اور کوئی بات ایسی نہیں چھیڑی کہ معاملہ نگاہ سے ہٹ کر زبان تک پہو نچتا اور میر از اویہ نظر بدل جاتا.اس کا علم تو مجھے تھا کہ احمدی جماعت بڑی با عمل جماعت ہے لیکن یہ علم زیادہ سماعی و کتابی تھا.اور میں کبھی اس کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ اُن کی زندگی کی بنیاد ہی سعی و عمل پر قائم ہے.اور جد و جہد ان کا قومی شعار بن گیا ہے.اس سے ہر شخص واقف ہے کہ وہ ایک مشنری جماعت ہے اور ایک خاص مقصد کو سامنے رکھ کر آگے بڑھتی ہے اور ایسے ناقابل شکست عزم وحوصلہ کے ساتھ کہ تاریخ اسلام میں اس کی مثال قرون اولیٰ کے بعد کہیں نہیں ملتی.میں حیران رہ گیا یہ معلوم کر کے کہ ان کے دو شفا خانے جو انہوں نے یہیں کراچی کی دو غریب آبادیوں میں قائم کئے ہیں.محض ان کے چند نوجوان افراد کی کوشش کا نتیجہ ہیں.جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کی بنیاد کھو دی.ان کی دیواریں اٹھا ئیں.ان کی چھتیں استوار کیں.ان کا فرنیچر تیار کیا.اور اب صورت حال یہ ہے کہ ان شفاخانوں سے روزانہ سینکڑوں غرباء کو نہ صرف دوا ئیں بلکہ طبی غذا ئیں بھی مفت تقسیم کی جاتی ہیں اور عوام کی ذہنی تربیت کے لئے ریڈنگ روم اور کتب خانے بھی قائم ہیں.دل شکسته دران کوچه می کنند درست چنانکه خود نشناسی که از کجا بشکست کراچی اور لاہور میں اس جماعت کے افراد پانچ پانچ ہزار سے زیادہ نہیں لیکن اپنی گراں مانگی مستقبل کے لحاظ سے وہ ایک بنیان مرصوص‘ نا قابل تزلزل ایک حصار آہنی ہیں نا قابل تسخیر ! اور کھلی ہوئی نشانیاں ہیں اس اسوۂ حسنہ“ کی جس کا ذکر محراب و منبر پر تو اکثر سنا جاتا ہے لیکن دیکھا کہیں نہیں جاتا.
تاریخ احمدیت 636 جلد ۲۰ پھر سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے وہ کیا بات ہے جس نے انہیں یہ سوجھ بوجھ عطا کی اس کا جواب ابھری ہوئی جماعتوں کی تاریخ میں ہم کو صرف ایک ہی ملتا ہے.اور وہ عظمتِ کردار! بلندی اخلاق ! اس وقت مسلمانوں میں ان کو کا فرو بے دین کہنے والے تو بہت ہیں لیکن مجھے تو آج ان مدعیانِ اسلام کی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آتی جو اپنی پاکیزہ معاشرت اپنے اسلامی رکھ رکھاؤ اپنی تاب مقاومت اور خوئے صبر و استقامت میں احمدیوں کے خاک پا کو بھی پہونچتی ہو! ع این آتش نیرنگ ته سوز و همه کس را یہ امر مخفی نہیں کہ تحریک احمدیت کی تاریخ ۱۸۸۹ ء سے شروع ہوتی ہے.جس کو کم و بیش ستر سال سے زیادہ زمانہ نہیں گذرا، لیکن اسی قلیل مدت میں اس نے اتنی وسعت اختیار کر لی کہ آج لاکھوں نفوس اس سے وابستہ نظر آتے ہیں.اور دنیا کا کوئی دور و دراز گوشہ ایسا نہیں جہاں یہ مردانِ خدا اسلام کی صحیح تعلیم انسانیت پرستی کی نشر واشاعت میں مصروف نہ ہوں.آپ کو یہ سُن کر حیرت ہو گی کہ جب بانی احمدیت کی رحلت کے بعد ۱۹۳۴ء میں موجودہ امیر جماعت نے تحریک جدید کا آغا ز کیا تو اس کا بجٹ صرف ۲۷ ہزار کا تھا لیکن ۲۵ سال کے بعد وہ ہیں لاکھ ۸۰ ہزار تک پہونچ گیا.جو انتہائی احتیاط ونظم کیسا تھ ، تعلیمات اسلامی پر صرف ہورہا ہے اور جب قادیان در بوہ میں صدائے اللہ اکبر بلند ہوتی ہے تو ٹھیک اسی وقت یورپ، افریقہ وایشیا کے ان بعید و تاریک گوشوں کی مسجدوں سے بھی یہی آواز بلند ہوتی ہے، جہاں سینکڑوں غریب الدیار احمدی خدا کی راہ میں دلیرا نہ آگے قدم بڑھائے ہوئے چلے جا ر ہے ہیں.باور کیجئے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ با وجود ان عظیم خدمات کے بھی اس بے ہمہ و با ہمہ جماعت کو بُرا کہا جاتا ہے تو مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے اور مسلمانوں کی اس بے بصری پر حیرت ہوتی ہے.مہیں حقیر گدایان عشق را کاین قوم شہانِ بے کر و خسرو ان بے گلہ اند جب سے میں نے طریق احمدیت پر اظہار خیال شروع کیا ہے.عجیب و غریب
637 جلد ۲۰ تاریخ احمدیت سوالات مجھ سے کئے جا رہے ہیں.بعض حضرات اس جماعت کے معتقدات کے بارے میں استفسار فرماتے ہیں.بعض براہ راست بانی احمدیت کے دعوائے مہدویت و نبوت کے متعلق سوال کرتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو ان کے اخلاق کو داغدار ظاہر کر کے مجھے ان کی طرف سے متنفر کرنا چاہتے ہیں اور بعض تو صاف صاف مجھ سے یہی پوچھ بیٹھتے ہیں” کیا میں احمدی ہو گیا ہوں یہ سب سنتا ہوں.اور خاموش ہو جاتا ہوں.کیونکہ وہ یہ تمام سوالات اس لئے کرتے ہیں کہ وہ مجھے بھی اپنا ہی جیسا مسلمان سمجھتے ہیں اور اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ :.ہم کعبه و هم بتکده سنگ رو ما بود وفتیم و صنم برسر مہراب پر تتبر مذہب و اخلاق در اصل ایک ہی چیز ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ احمدی جماعت کی بنیا داسی احساس پر قائم ہے اور اسی لئے وہ مذہبی عصبیت سے کوسوں دور رہیں وہ تمام اخلاقی مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور جس حد تک خدمت خلق کا تعلق ہے، رنگ ونسل اور مسلک و ملت کا امتیاز ان کے یہاں کوئی چیز نہیں وہ ہمیشہ سادہ غذا استعمال کرتے سادے کپڑے پہنتے ہیں سگریٹ وسے نوشی وغیرہ کی مزموم عادتوں سے مبرا ہیں، نہ تھیٹر وسنیما سے انہیں کوئی واسطہ نہ کسی اور لہو ولعب سے دلچسپی.انہوں نے اپنی زندگی کی ایک شاہرہ قائم کر لی ہے اور اسی پر نہایت متانت وسلامت روی کے ساتھ چلے جا رہے ہیں یہی حال ان کی عورتوں کا ہے اور اسی فضا میں ان کے بچے پرورش پا رہے ہیں مجھے مطلق اس سے بحث نہیں کہ ان کے معتقدات کیا ہیں.میں تو صرف انسان کی حیثیت سے ان کا مطالعہ کرتا ہوں اور ایک معیاری انسان کی حیثیت سے انکا احترام میرے دل میں ہے.اس وقت تک بانی احمدیت کا مطالعہ جو کچھ میں نے کیا ہے اور میں کیا جو کوئی خلوص و صداقت کے ساتھ ان کے حالات و کردار کا مطالعہ کرے گا اسے تسلیم کرنا پڑیگا کہ وہ صحیح معنی میں عاشق رسول تھے اور اسلام کا بڑا مخلصانہ درد اپنے دل میں رکھتے تھے.انہوں نے جو کچھ کہا یا کیا وہ نتیجہ تھا محض انکے بے اختیارانہ جذبہ خلوص اور داعیات حق وصداقت کا.اس لئے سوال اُن کی نیت کا باقی نہیں رہتا.البتہ گفتگو اس میں ہو سکتی ہے کہ انہوں نے کن معتقدات کی طرف لوگوں کو دعوت دی، سو اس پر روایتاً و در ایتاً دونوں طرح غور و تامل ہو سکتا ہے، لیکن بے سود کیونکہ اس کا تعلق صرف ان کے ایہال وعواطف سے ہوگا نہ کہ عمل وکردار سے اور اصل چیز عمل وکردار ہے.اب رہا سوال میرے احمدی ہونے یا نہ ہونے کا سو ا سکے متعلق میں اسکے سوا کیا کہہ سکتا ہوں کہ
تاریخ احمدیت 638 جلد ۲۰ سرے سے میرا مسلمان ہونا ہی مشکوک ہے.چہ جائیکہ احمدی ہونا.یہاں تو چیز صرف عمل ہے اور اس حیثیت سے میں اپنے آپ کو اور زیادہ نا اہل پا تا ہوں.برہمن می شدم گراں قدر زنار می بستم اس لئے مناسب یہی ہے کہ مجھ سے اس قسم کا کوئی ذاتی سوال نہ کیا جائے نہ اس لحاظ سے کہ یہ بالکل بے نتیجہ سی بات ہے بلکہ اس خیال سے بھی کہ دریغا آبروئے دیر گر غالب مسلماں شد اس سلسلہ میں مجھے ایک بات اور عرض کرنا ہے وہ یہ کہ آج یا کل یقیناً وہ وقت بھی آئے گا جب میں احمدی جماعت کے مذہبی لٹریچر پر ناقدانہ تبصرہ کرونگا کیونکہ بغیر سمجھے ہوئے کسی بات کو مان لینا میرے فطری رجحان کے خلاف ہے اور احمدی جماعت کے معتقدات میں کئی باتیں مجھے ایسی بھی نظر آتی ہیں جو اب تک میری سمجھ میں نہیں آئیں.لیکن اس کا تعلق صرف میرے ذاتی وانفردی رڈ و قبول سے ہوگا نہ کہ احمدی جماعت کے وجو د اجتماعی سے جس کی افادیت سے انکار کرنا گویا دن کو رات کہنا ہے اور دن کو رات میں نے کبھی نہیں کہا.۵۵ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اس سال میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم تعلیم وقف کا دورہ مغربی پاکستان و آزاد کشمیر جدید نے مغربی پاکستان اور آزاد کشمیر کا نہایت کامیاب ،اصلاحی تبلیغی و تربیتی دورہ فرمایا.آپ کی تشریف آوری پر احمدی جماعتوں نے پُر جوش خیر مقدم کیا، خاص تقاریب کا انعقاد کر کے غیر از جماعت معززین کو بھی مدعو کیا.آپ کے پُر اثر خطابات نے اپنوں اور بیگانوں کو بہت متاثر کیا اس دورہ میں مندرجہ ذیل مقامات پر آپ کی تقاریر ہوئیں :.۱.قاضی احمد ضلع نواب شاہ - ( مقامی جماعت کی طرف سے رئیس علی نواز خاں صاحب کے باغ میں دعوت عصرانہ کا انتظام مورخہ ۲ / جون ) وضع موبلنکی ضلع گوجرانوالہ ( جلسہ عام میں شرکت مورخہ ۱۴ / اکتوبر ) ۳.وزیر آباد ( مقامی جماعت کے دعوت عصرانہ او ر ا جلاس عام سے موثر ۴.کھاریاں ) مورخہ ۱۹ - ۲۰ / اکتوبر ۵ - مانسہرہ ( مورخه ۲۸ / اکتو ۶ - مظفر آباد (مورخه ۲۹ / اکتوبر ۷.باغ شہر ( فاریسٹ ۵۷ خطا ۵۸ (
تاریخ احمدیت 639 جلد ۲۰ ریسٹ ہاؤس میں قیام اور ڈاکٹر امام دین صاحب کے مکان پر احباب جماعت کو قیمتی نصائح سے نوازا ) ۸.میر پور آزاد کشمیر ( تقریر اور مجلس سوال و جواب) | و جہلم ۱۶۴ ۲۸ ۲۹ جولائی ۱۹۶۰ء کو علامہ نیاز فتحپوری نے علامہ نیا فتوری قادیان میں زیارت قادیان کا شرف حاصل کیا اور مرکز احمدیت کی روحانی فضا اور جماعت کی دینی خدمات سے بے حد متاثر ہوئے جس کا اظہارانہوں نے واپسی پر اپنے رسالہ ” نگار ( ستمبر ۱۹۶۰ ء ) کے ذریعہ درج ذیل الفاظ میں فرمایا :.۲۸ - ۲۹ جولائی کی وہ چند ساعتیں جو میں نے قادیان بسر کیں، میری زندگی کی وہ گھڑیاں تھیں، جن کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا.حیات انسانی کا ہر لمحہ زندگی کا ایک نیا درس ایک نیا تجربہ اپنے ساتھ لاتا ہے.اگر زندگی نام صرف سانس کی آمد و شد کا نہیں بلکہ آنکھ کھول کر دیکھنے اور سمجھنے کا بھی ہے...اور ان چند ساعتوں میں جو کچھ میں نے یہیں دیکھا وہ میری زندگی کا اتنا دلچسپ تجربہ تھا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں ۵۰ سال پیچھے ہٹ کر وہی زندگی شروع کرتا جو قادیان کی احمدی جماعت میں مجھے نظر آئی.لیکن ع حیف صد حیف که مادیر خبردار شدیم میں انفرادی حیثیت سے ہمیشہ بے عمل انسان رہا ہوں، لیکن مسائل حیات کو ( جن میں مذہب بھی شامل ہے ) میں ہمیشہ اجتماعی نقطہ نظر سے دیکھتا ہوں اور یہ نقطۂ نظر میرے ذہن میں حرکت و عمل کے سوا کچھ نہیں...پھر یہ داستان بہت طویل ہے کہ پچھلی نصف صدی میں کتنی خانقا ہیں، کتنے خانوادے کتنے ادارے کتنی در سگا ہیں کتنے جلو ہائے منبر و محراب میری نگاہ سے گزرے اور میں کس طرح ان سے بے نیا ز ا نہ گزر گیا.لیکن اب زندگی میں سب سے پہلی مرتبہ احمدی جماعت کی جیتی جاگتی تنظیم عمل دیکھ کر میں ایک جگہ ٹھٹک کر رہ گیا ہوں اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی زندگی کے اس نئے تجربہ و احساس کو کن الفاظ میں ظاہر کروں.میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور علماء اسلام کی بے عملی کی طرف سے اس قدر مایوس ہو چکا ہوں کہ میں اس کا تصوربھی نہیں کر سکتا کہ ان میں کبھی آثار حیات پیدا ہو سکتے ہیں لیکن
تاریخ احمدیت 640 اب احمدی جماعت کی جیتی جاگتی تنظیم عمل کو دیکھ کے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا دل پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دا خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا کیونکہ عالم اسلامی میں آج یہی ایک ادارہ ایسا ہے جو جلد ۲۰ ع دعوت پر گے و نوائے کند اور اسلام کا مفہوم میرے ذہن میں دعوتِ برگ و نوا کے سوا اور کچھ نہیں.لوگ منزل تک پہنچنے کے لئے راہیں ڈھونڈھتے ہیں.برسوں سرگرداں رہتے ہیں اور ان میں صرف چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو منزل کو پا لیتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اُنہیں میں سے ایک مرزا غلام احمد قادیانی بھی تھے.سو اب یہ فکر و جستجو کہ وہ کن راہوں سے گزر کر منزل تک پہنچے بالکل بے سود ہے.اصل چیز راہ پیمائی نہیں بلکہ منزل تک پہنچ جانا ہے.اور اگر میں احمدی جماعت کو پسند کرتا ہوں تو صرف اسی لئے کہ اس نے اپنی منزل پالی ہے اور یہ منزل وہی ہے جس کی بانی اسلام نے نشاندہی کی تھی.اس سے ہٹ کر میں اور کچھ نہیں سوچتا اور نہ سوچنے کی ضرورت.میرا قادیان آنا بھی اسی سلسلہ کی چیز تھی یعنی جس کی عملی زندگی کا ذکر میں سنتا چلا آ رہا تھا اسے آنکھوں سے بھی دیکھنا چاہتا تھا.ہر چند میں بہت کم وقت لے کر یہاں آیا ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نتیجہ تک پہنچنے کے لئے یہ قلیل فرصت بھی کم نہ تھی.کیونکہ اس جماعت کی زندگی ایک ایسا گھلا ہوا صحیفہ حیات ہے جس کے مطالعہ کیلئے نہ زیادہ وقت کی ضرورت ہے نہ کسی چون و چرا کی.اسی طرح ان کی دفتر می تنظیم بھی گویا ایک شفاف آئینہ ہے جس میں زنگ کا نام تک نہیں.یکسر خلوص و اخلاق یکسر حرکت و عمل.قادیان میں احمدی جماعت کے افراد جو درویشان قادیان کہلاتے ہیں، دوسو سے زیادہ نہیں.جو قصبہ کے ایک گوشہ میں نہایت اطمینان وسکون کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور ان کو دیکھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یک چراغ ست دریں خانہ که از پر تو آں ہر کجا می نگری، انجمنے ساختہ اند
تاریخ احمدیت 641 جلد ۲۰ یہی وہ مختصر سی جماعت ہے جس نے ۴۷ ء کے خونیں دور میں اپنے آپکو ذبح وقتل کے لئے پیش کر دیا اور اپنے ہادی و مرشد کے مسقط الراس کو ایک لمحہ کے لئے چھوڑ نا گوارا نہ کیا.موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے آستان یار سے اُٹھ جائیں کیا ؟ 66 یہی وہ جماعت ہے جس نے محض اخلاق سے ہزاروں دشمنوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور اُن سے بھی قادیان کو دارالامان تسلیم کرا لیا.یہی وہ جماعت ہے جو ہندوستان کے تمام احمدی اداروں کا سررشتہ تنظیم اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اور یہی وہ دُور افتادہ مقام ہے جہاں سے تمام اکناف ہند میں اسلام و انسانیت کی عظیم خدمت انجام دی جا رہی ہے.آپ کو یہ سُن کر حیرت ہو گی کہ صرف پچھلے تین سال کے عرصہ میں انہوں نے تعلیم اسلامی، سیرت نبوی، ضرورت مذہب خصوصیات قرآن وغیرہ متعد د مباحث پر ۴۳ کتابیں ہندی، اُردو انگریزی اور گورمکھی زبان میں شائع کیں اور ان کی ۴۴۰۵۰۰ کا پیاں تقریباً مفت تقسیم کیں.اسی طرح تعلیمی وظائف پر جن میں مسلم و غیر مسلم طلبہ دونوں برابر کے شریک ہیں۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء میں اس جماعت نے ۳۱ ہزار روپیہ صرف کیا.خود قادیان میں ان کے تین مدر سے قائم ہیں.دو مڈل اسکول لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے اور تیسر ا مولوی فاضل کے نصاب تک.ان کے علاوہ تیرہ مدر سے ان کے ہندوستان کے مختلف مقامات میں ہیں جن پر جماعت کا ہزاروں روپیہ صرف ہو رہا ہے.اسی سلسلہ میں ایک اور بڑی خدمت جو صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہے وہ قادیان کا شفا خانہ ہے اس میں ۱۹۴۸ء سے اس وقت تک ۳۴۶۳۰۰۰ مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں ۳۰ فی صدی مسلمان اور ۷۰ فیصدی غیر مسلم تھے.یہ ہیں وہ چند خدمات جماعت احمدیہ قادیان کی جن سے متاثر ہوکر ۱۹۴۸ء سے لے کر اس وقت تک قریب قریب ڈیڑھ لاکھ آدمیوں نے یہاں کے حالات کا مطالعہ کرنے کی تکلیف گوارا کی.یہاں میں نے کالج اور دارالاقامہ کی ان عظیم الشان عمارتوں کو بھی دیکھا جنہیں بانی تحریک احمدیت نے بڑے اہتمام سے طیار کروایا تھا.تقسیم ہند کے بعد ان پر جائیداد
تاریخ احمدیت 642 جلد ۲۰ متروکہ کی حیثیت سے حکومت نے قبضہ کر لیا تھا.لیکن اب یہ عمارتیں جماعت احمدیہ کے حق میں واگزاشت کر دی گئی ہیں.جس وقت میں نے حضرت میرزا صاحب کے بیت الفکر بیت الدعاء بیت الریاضت مسجد نور مسجد اقصیٰ اور منارۃ المسیح کو دیکھا تو ان کی وہ تمام خدمات سامنے آ گئیں جو تحفظ اسلام کے سلسلہ میں ایک غیر منقطع جد و جہد کے ساتھ ہزاروں مصائب جھیل کر انہوں نے انجام دی تھیں اور جن کے فیوض اس وقت بھی دنیا کے دور دراز گوشوں میں جاری ہیں.جس وقت میں قادیان پہنچا اتفاق سے ایک جرمن احمدی و کیم ناصر بھی یہاں مقیم یہ ایک درویش صفت انسان ہیں جو مہینوں سے احمد یہ جماعت کے مختلف مرکزوں اور اداروں کے سیاحانہ مطالعہ میں مصروف ہیں.میں ان کو دیکھتا تھا اور حیرت کرتا تھا کہ جرمنی ایسے سرد ملک کا باشندہ ہندوستان کی شدید گرمی کو کس طرح خوش دلی سے برداشت کر رہا ہے.لیکن جب میں نے ان سے گفتگو کی تو معلوم ہو ا کہ ان کو شدائد سفر کا احساس تک نہیں، سچ ہے.ع عشق ہر جامی برد ما را به سامان می برد میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے عیسوی مذہب چھوڑ کر اسلام کیوں قبول کیا ؟ تو اس کا سبب انہوں نے اسلام کی بلند اخلاقی تعلیم ظاہر کیا جس کا علم انہیں سب سے پہلے جرمنی کی جماعت احمدیہ کو دیکھ کر ہوا تھا.یہ بلا د مغرب و افریقہ میں جس جوش و انہماک کے ساتھ خدمتِ اسلام میں مصروف ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن پاک کے تراجم حد درجہ سلیقہ واہتمام کے ساتھ شائع کر رہے ہیں.چنانچہ انگریزی جرمنی اور ان کے اس عزم و ولولہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا.میں نے یہاں سے رخصت ہوتے وقت اس قطعہ زمین کو بھی دیکھا جہاں حضرت میرزا غلام احمد صاحب آسودہ خواب ہیں اور ان کی وہ تمام مجاہدانہ زندگی سامنے آ گئی جس کی کوئی دوسری نظیر مجھے اس دور میں تو کہیں نظر نہیں آتی.کیست کز کوشش فرہاد نشاں باز و ہد مگر آں نقش که از تیشه بخارا ماند
تاریخ احمدیت 643 جلد ۲۰ وو ایک معز ز غیر احمدی دوست کا خط اور مدیر نگار علامہ نیاز فتچوری کے احمدیت سے متعلق مسلسل تائیدی علامہ صاحب کا خیال افروز جواب اٹھانے سے جہاں احمد یہ جماعت میں اُن کے لئے جذبات تشکر پیدا ہوئے اور ہر طرف خوشی کی ایک لہر دور گئی وہاں غیر از جماعت حلقوں میں دوز بر دست رد عمل پیدا ہوئے.ایک طبقہ احمدیت کی نسبت گہرا مطالعہ کرنے لگا مگر ایک طبقہ میں بے چینی کے آثار ظاہر ہو گئے.جناب سید نصیر حسین صاحب سہارنپوری دوسرے طبقہ میں شامل تھے جنہوں نے یہ مضامین پڑھ کر آپ کو ایک تنقیدی خط لکھا جس میں پروفیسر الیاس برنی صاحب کی ایک کتاب پڑھنے کا مشورہ بھی دیا.علامہ موصوف نے اکتوبر ۱۹۶۰ ء کے پرچہ میں یہ خط اور اس کا جواب شائع کر دیا جو نہایت خیال افروز تھا ذیل میں خط اور جواب دونوں کو بجنسہ درج کیا جاتا ہے.سید نصیر حسین سہارنپور احمدی جماعت اور الیاس برنی کچھ زمانہ سے آپ احمدی جماعت کی طرفداری میں اظہار خیال کر رہے ہیں اور اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان سے بہت متاثر ہیں لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں کہ وہ غیر احمدی مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں.وہ اس حد تک متعصب ہیں کہ تمام مسلمانوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات بھی نا جائز سمجھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.وہ اپنے سوا سب کو کافر کہتے ہیں اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اب رہا میرزا غلام احمد صاحب کا دعویٰ مہدویت و مسیحیت و نبوت.سو اس کی بابت میں مشورہ دونگا کہ آپ جناب الیاس برنی کی کتاب ” فتنہ قادیانیت کا مطالعہ فرمائیے.اس کے پڑھنے پر آپکو معلوم ہو جائے گا کہ مرزا صاحب کے دعوے کتنے لغو و باطل تھے.نگار اس میں شک نہیں میں احمدی جماعت سے کافی متاثر ہوں اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ اس وقت ان تمام جماعتوں میں جو اپنے آپکو مسلمان کہتے ہیں صرف احمدی جماعت ہی ایک ایسی جماعت ہے.جس نے صحیح معنی میں اسلام کی حقیقت کو سمجھا ہے.لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کیا ساری دنیا نے اسلام کو مخصوص عقائد میں محدود کر دیا ہے.اور اس سے ہٹ کر کبھی یہ غور کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی کہ اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کے عروج کا تعلق صرف عقیدہ سے نہ تھا بلکہ انوار وکردار اور حرکت و عمل سے تھا.محض یہ عقیدہ کہ اللہ ایک ہے اور رسول برحق اپنی جگہ بالکل بے معنی بات ہے اگر
تاریخ احمدیت 644 جلد ۲۰ ہماری اجتماعی زندگی متاثر نہیں ہوتی.اسی طرح مخصوص جہت میں مخصوص انداز سے عبادت کر لینا بھی بے سود ہے.اگر وہ ہماری ہئیت پر اثر انداز نہیں ہوتا.تاریخ و عقل دونوں کا فیصلہ یہی ہے.پھر غور کیجئے کہ اس وقت احمدی جماعت کے علاوہ مسلمانوں کی وہ کونسی دوسری جماعت ایسی ہے جو زندگی کے صرف عملی پہلو کو اسلام سمجھتی ہو.اور محض عقائد کو مذہب کی بنیاد قرار نہ دیتی ہو.میں نے جب سے آنکھ کھولی مسلمانوں کو باہم دست وگریبان ہی دیکھا.سنی.شیعی.اہلِ قرآن.اہل حدیث دیوبندی.غیر دیو بندی.وہابی.بدعتی اور خدا جانے کتنے ٹکڑے مسلمانوں کے ہو گئے.جن میں سے ہر ایک دوسرے کو کافر کہتا تھا.اور کوئی ایک شخص ایسا نہ تھا.جس کے مسلمان ہونے پر سب کو اتفاق ہو.ایک طرف خود مسلمانوں کے اندر اختلاف و تضاد کا یہ عالم تھا.اور دوسری طرف آریائی و عیسوی جماعتوں کا حملہ اسلامی لٹریچر اور ا کا بر اسلام پر کہ اسی زمانہ میں میرزا غلام احمد صاحب سامنے آئے اور انہوں نے تمام اختلافات سے بلند ہو کر دنیا کے سامنے اسلام کا وہ صحیح مفہوم پیش کیا جسے لوگوں نے بھلا دیا تھا یا غلط سمجھا تھا یہاں نہ ابو بکر و علی کا جھگڑا تھا نہ رفع یدین و آمین بالجہر کا اختلاف یہاں نہ عمل بالقرآن کی بحث تھی نہ استناد بالحدیث کی.اور صرف ایک نظریہ سامنے تھا اور وہ یہ کہ اسلام نام ہے.صرف اسوۂ رسول کی پابندی کا.اور اس عملی زندگی کا.اُس ایثار و قربانی کا.اس محبت و رافت کا.اس اخوت و ہمدردی کا اور اس حرکت و عمل کا جو رسول اللہ کے کردار کی تنہا خصوصیت اور اسلام کی تنہا اساس و بنیا دتھی.میرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی مدافعت کی اور اس وقت کی.جب کوئی بڑے سے بڑا عالم دین بھی دشمنوں کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا.انہوں نے سوتے ہوئے مسلمانوں کو جگایا اٹھایا اور چلایا یہاں تک کہ وہ چل پڑے.اور ایسا چل پڑے کہ آج روئے زمین کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ان کے نشانات قدم سے خالی ہو.اور جہاں وہ اسلام کی صحیح تعلیم نہ پیش کر رہے ہوں.پھر ہو سکتا ہے کہ آپ ان حالات سے متاثر نہ ہوں.لیکن میں تو یہ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں.کہ یقیناً بہت بڑا انسان تھا وہ جس نے ایسے سخت وقت میں اسلام کی جانبازانہ مدافعت کی اور قرونِ اولیٰ کی اس تعلیم کو زندہ کیا.جس کو دنیا بالکل فراموش کر چکی تھی.رہا یہ امر کہ مرزا صاحب نے خود اپنے آپ کو کیا ظاہر کیا.سو یہ چنداں قابل لحاظ
تاریخ احمدیت 645 جلد ۲۰ نہیں کیونکہ اصل سوال یہ نہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو کیا کہا بلکہ صرف یہ کہ کیا کیا.اور یہ اتنی بڑی بات ہے.کہ اس کے پیش نظر ( قطع نظر روایات واصطلاحات سے ) میرزا صاحب کو حق پہنچتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو مہدی کہیں کیونکہ وہ ہدایت یافتہ تھے، مثیل مسیح کہیں.کیونکہ وہ روحانی امراض کے معالج تھے، اور ظل بنی کہیں کیونکہ وہ رسول کے قدم بہ قدم چلتے تھے..اب رہا یہ امر کہ غیر احمدی لوگوں میں وہ رشتہ مصاہرت قائم نہیں کرتے اور ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے.تو اس پر کسی کو کیوں اعتراض ہو.کیا آپ کسی ایسے خاندان میں شادی کرنا گوارا کریں گے جس کے افراد آپ کے مسلک کے مخالف ہیں اور کیا آپ ان ۲:.لوگوں کی اقتداء کریں گے جو اپنے کردار کے لحاظ سے مقتدا بننے کے اہل نہیں ہیں.احمدی جماعت کا ایک خاص اُصولِ زندگی ہے.جس پر ان کے مردان کے بچے اور ان کی عورتیں سب یکساں کار بند ہیں.اس لئے اگر وہ کسی غیر احمدی مرد یا عورت سے رشتہ زدواج قائم کریں گے تو ان کی اجتماعیت یقیناً اس سے متاثر ہوگی اور وہ یکرنگی و ہم آہنگی جو اس جماعت کی خصوصیت کا خاصہ ہے ختم ہو جائے گی.آپ اس کو تعصب کہتے ہیں اور میں اس کو اعتصام وفر است تدبیر.رہی برقی صاحب کی کتاب.سو اس کے متعلق اس سے زیادہ کیا کہوں کہ جس حد تک بائی احمدیت کی زندگی و تعلیم احمدیت کا تعلق ہے وہ تلبیس و کتمان حقیقت کے سوا کچھ نہیں.اور مجھے سخت افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ احمدیت کے مخالفین میرزاغلام احمد صاحب سے بہت سی ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو انہوں نے کبھی نہیں کہیں.خصوصیت کے ساتھ مسئلہ ختم نبوت کہ عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ میرزا صاحب رسول اللہ کو خاتم النبیین نہیں سمجھتے تھے، حالانکہ وہ شدت سے اس کے قائل تھے کہ شرعی نبوت ہمیشہ کے لئے رسول اللہ پر ختم ہو گئی.اور شریعت اسلام دنیا کی آخری شریعت ہے.
تاریخ احمدیت 646 جلد ۲۰ ۲.٣.۵.ے._^ و.۱۲.۱۳.ܬܙ܂ ۱۶.حواشی افریقہ کے اولین احمدی مبلغ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیز ۱۹ / فروری ۱۹۲۱ء کو سیرالیون میں پہنچے اور ۲۸ فروری کو آپ نے گولڈ کوسٹ (غانا) کے ساحل پر قدم رکھا تھا ( تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۲۷۶ طبع اول) ے نومبر ۱۹۱۸ء کو امریکہ میں پیدا ہوئے.۱۹۴۳ء میں "WHEATEN COLLEGE ILLINOIS" سے گر یجو یٹ ہوئے ۱۹۴۶ء میں "YOUTH FOR CHRIST INTERNATIONAL" کے وائس پریذیڈنٹ منتخب ہوئے جس کے بعد انہوں نے دنیا بھر میں اشاعت عیسائیت کیلئے دورے شروع کر دئے ۱۹۴۹ء تک وہ ( روس کے علاوہ ) قریباً تمام مشہو ر ممالک میں کامیاب لیکچر دے چکے تھے.عیسائی دنیا میں ان کی دھوم مچی ہوئی تھی اور اُن کا شمار صف اول کے ممتاز عالمی منا دوں میں ہوتا تھا.الفضل ۳ / ستمبر ۱۹۶۴ ، صفحه ۴ - ۵ ) مضمون مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری ) اُس نے لکھا کہ مسٹر نسیم سیفی نے جو لیکس میں جماعت احمدیہ کے بڑے سرگرم مبلغ ہیں ڈاکٹر گراہم کی بیان کردہ ایک بات سے اختلاف کیا اور انہیں اس بارہ میں چیلنج کے رنگ میں پبلک مناظرہ کے لئے للکارا مسٹر گر اہم اس دعوت کو پی گے ( دی مسلم ورلڈ جولائی ۱۹۶۰ء بحوالہ انصار اللہ فروری ۱۹۶۱ء صفحه ۴۲ ) میدان عمل، صفحہ ۳۰ - ۳۱ ( از مولانا نسیم سیفی صاحب ) ایضاً الفضل ۲۸ تا ۳۰ جولائی ۱۹۶۴ء متی باب ۱۷ آیت ۲۰ یوحنا باب ۱۱ آیت ۲۲ الفرقان ربوہ مئی ۱۹۶۰ ، صفحہ ۷ - ۸ - ۲۸-۲۹ الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۶۴ء صفحه ۴ روزنامہ نئی روشنی کراچی ۲ را پریل ۱۹۶۰ ء بحوالہ الفضل ۷ / اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ ۲ الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۶۴ء صفحریم صدر ریجس ہیری ٹیج آف امریکہ (RELIGIOUS HERITAGE OF AMERICA) بحوالہ مضمون مولا نانسیم سیفی صاحب مطبوعہ الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۶۴ء صفریم اخبار ” نوائے وقت‘ لا ہو ر ۱۲ اپریل ۱۹۶۰ء بحواله الفضل ۲۶ / اپریل ۱۹۶۰ء صفحه ۵ اخبار رضا کار ۸ / مئی ۱۹۶۰ ء بحوالہ الفضل ۲۶ رمئی ۱۹۶۰ء صفحہ ۳ - ۴ بحوالہ اخبار بد ر قادیان ۲۸ / جولائی ۱۹۶۰، صفحہ ۹ اخبار بدر قادیان ۲۱ جنوری ۱۹۶۰ ، صفحه ۲ ۱۷.۱۸.ايضاً ٣ / مارچ ١٩٦٠ء وا.۲۰.اخبار بدر قادیان ۲۱ - ۲۸ / جنوری - ۲۵ / فروری - ۳ / مارچ ۱۹۶۰ء اس سلسلہ میں اخبار ہندوستان ۸ / جنوری ۱۹۶۰ء کے متن کے لئے ملاحظہ ہو بدر ۲۸ / جنوری ۱۹۶۰، صفحه ۱۰
تاریخ احمدیت 647 جلد ۲۰ ۲۱.۲۲.۲۳.۲۴.۲۵.٢٦.۲۷.۲۹.اخبار بدر قادیان ۲۱ جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۴ ) اس رپورٹ کا بیشتر حصہ اخبار " دعوت دہلی مورخہ ۱۶ جنوری ۱۹۶۰ ء نے بھی شائع کیا ) تنزانیہ ( سابق ٹا نگانیکا ) کا دارالسلطنت.اُن دنوں اس کی آبادی ایک لاکھ تمیں ہزار افراد پر مشتمل تھی سب سے زیادہ یورپین اور ایشیائی باشندے یہیں آباد تھے اور تجارتی مرکز ہونے کے باعث ان دونوں قوموں کا سب سے زیادہ سرمایہ اسی شہر میں لگا ہوا تھا.الفضل ۲۱ ؍ جولائی ۱۹۶۰ ، صفحہ ۲ الفضل ۶ رفروری ۱۹۶۰ ، صفحه ۵ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۷ ۸ طبع اول تالیف ۱۹۰۵ء الفضل ۶ رفروری ۱۹۶۰ ، صفحه یم الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۰ء صفحه ۵ ( ترجمه مولوی محمد منور صاحب سیکر ٹری احمد یہ مسلم مشن نیروبی ) الفضل ۷ جولائی ۱۹۶۰ ، صفحہ ۴ / الفضل ۲۳ ؍ جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۱ ۳۰ اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء از مقام ہوشیار پور مشمولہ ضمیمه اخبار ریاض ہند امرتسر یکم مارچ ۱۸۸۶ ء صفحه ۱۴۸ ۳۱.الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۶۰ صفحه ۸ الفضل ۲ فروری ۱۹۶۰، صفحه ۵-۸ ۳۳.لیکچر سیالکوٹ صفحه ۳۴، طبع اول ۱۹۰۴ء.تذکرہ طبع چہارم صفحه۰ ۳۸ ۱۳۴ محکم ۲۴ / اپریل ۱۹۰۲ ، صفحه ۸ تذکر طبع چہارم صفحه ۴۲۰ ۳۵.براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۷ ( طبع اوّل) ۳۶.الفضل ۱۶.۱۷ فروری ۱۹۶۰ء ۳۷.الفضل ۴ فروری ۱۹۶۰ء صفحه م الفضل ۵ فروری ۱۹۶۰ء صفحه ۵ ۳۹.لده اخبار بدر قادیان ۱۰ مارچ ۱۹۶۰ ء صفحه ۱۰.۱۱ الفضل ۶ / مارچ ۱۹۶۰ء صفحه ا بدر ۱۳ مارچ ۱۹۶۰ ء صفحہ ۱.۱۰.الفضل ۱۲ ۱۳ راپریل ۱۹۶۰ء الفضل یکم مئی ۱۹۶۰، صفحه ۳-۴ ۴۱.۴۲.الفضل ۵ اپریل ۱۹۶۰ء صفحه ۳ ۴۴.الفضل یکم اپریل ۱۹۶۰ ، صفحہ ۱.۸ الفضل ۳۰ /اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحه م ۴۶.الفضل یکم را پریل ۱۹۶۰ء صفحہ ۱.۵ ۴۷.۵۱.۵۲ ۵۳.اخبار بدر قادیان ۲۱ / اپریل ۱۹۶۰ ء صفحه ۶ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۰ء صفحہ ۵۹.۶۰ الفضل ۷ ارجون ۱۹۶۰ء صفحہ ۳ سود نیز مجلس خدام الاحمدیہ کراچی ۱۹۶۰ء الفضل اار جون ۱۹۶۰ء صفحریم الفرقان ربوه اگست ۱۹۶۰، صفحه ۶ تا ۸ اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول زیر لفظ خروشیف صفحه ۵۷۱ - ناشر غلام علی اینڈ سنز لا ہور اشاعت ۱۹۸۷ء عالمی واقفیت عامه صفحه ۴۳۲ تا ۴۴۱- از طارق محمود ڈوگر ایم اے ایل ایل بی.ناشر ڈوگرسنز سنت نگر ڈوگر آبا دلا ہور۱۹۹۲ء
تاریخ احمدیت ۵۹.بحوالہ الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۰ ، صفحیم الفضل ۶ ؍ جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۵ الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحه ۵ الفضل ۲۳ را کتوبر ۱۹۶۰، صفحه ۶ الفضل ۶ نومبر ۱۹۶۰ءصفحہ ۶ الفضل ۱۹۶۰/۳۰ صفحه ۶ الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۶۰ صفحه ۶ الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۶۰صفحه ۶ الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۶۰ صفحه ۶ ۶۴.الفضل اار دسمبر ۱۹۶۰ صفحه ۶ 648 رسالہ نگار لکھنو بابت ماہ تمبر ۱۹۶۰ء بحوالہ ” الفرقان اکتوبر۱۹۶۰ء صفحه ۴۱ ۴۳ رسالہ نگار لکھنو اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحه ۴۴ ۴۵ بحوالہ الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۰ ، صفحه ۴۰۳ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 649 جلد ۲۰ ساتواں باب احمد یہ مشن نبی کا قیام اور اس کی عظیم الشان خدمات فصل اوّل جغرافیائی حالات تھی ۳۲۰ جزیروں پر مشتمل ایک مجمع الجزائر اور پارلیمانی ریاست ہے جو بحر الکاہل کے جنوب مغربی جزائر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے.اور اس شاہراہ پر واقع ہے جو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ امریکہ اور کینیڈا کو ملاتی ہے.نجی کا سب سے بڑا جزیرہ وی ٹی لیو و ( VITILEVU) ہے اور اسی میں دار الحکومت صوا (SUVA) ہے جو بلحاظ آبادی ملک کا سب سے اس شہر سب سے بڑی بندرگاہ اور بین الاقوامی ڈیٹ لائن کے عین مغربی کنارہ پر واقع ہے.نجی کا دوسرا بڑا مقام نا ندی (NANDI) ہے جو وی ٹی لیو و (VITILEVU) کے مغربی کنارے پر بین الاقوامی فضائی مستقر ہے.آبادی ۱۹۷۴ ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبائی پانچ لاکھ ساٹھ ہزار تھی جو ۱۹۸۹ ء میں سات لاکھ ستائیس ہزار نو سود و تک پہنچ گئی.تقریباً نصف آبادی اُن مسلم و غیر مسلم ہندوستانیوں پر مشتمل ہے جن کے آباء واجداد کو بیسویں صدی کے وسط میں گنے کے کھیتوں کے مالکان نے یہاں لا کر آبا د کیا.ہند وستانیوں کی اکثریت ہندو ہے.مقامی باشندے تمام تر مسیحی (میتھوڈسٹ ) ہیں اور میلانیشین اور پولی نیشین نسل سے تعلق رکھتے ہیں ان کے علاوہ پندرہ ہزار کے لگ بھگ یورپی اور چھ ہزار کے قریب چینی بھی آباد ہیں :.نجی میں پہلی یورپی نو آبادی ۱۸۰۴ء میں قائم ہوئی.انگریز
تاریخ احمدیت 650 جلد ۲۰ حاکموں کے پیچھے پیچھے پادری آئے جنہوں نے پوری مقامی آبادی کو عیسائی بنا دیا.۱۸۷۴ء میں یہ مجمع الجزائر سلطنت برطانیہ کے زیر تسلط آ گیا.۱۹۶۵ء میں نجی کو حکومت خود اختیاری ملی اور ۱۰ / اکتوبر ۱۹۷۲ ء کو یہ ایک آزاد مملکت کی حیثیت میں ابھر آیا.ہندو کہہ اور نجی مسلم لیگ کی بنیاد ابتداء میں پردیس اور ومسلم کشمکش اور منجی غریب الوطنی نے ہندو اور مسلمانوں کو شیر و شکر کر رکھا تھا.حتی کہ انتہائی محبت و مروت میں وہ بعض مذہبی قیود کو بھی خیر باد تھے.ہند و عورتوں نے مسلمان مردوں سے اور مسلمان عورتوں نے ہندو مردوں سے با قاعدہ شادیاں کر لی تھیں.دونوں ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کر کے امداد کرتے تھے اور ان میں کسی قسم کا فساد نہ تھا.کہ یکا یک نجی کے آریوں نے ہندوستان سے پنڈت سری کرشن اور ٹھا کر کندن سنگھ جی کو بلو ا کر ملک کی پُرسکون فضا مکۃ رکر دی.سب سے پہلے سناتن دھرمیوں اور پھر عیسائیوں پر بر سے بعد ازاں مسلمانوں کو آنکھیں دکھانا شروع کیں اور آریہ سماج تحریک ایک سیلاب کی طرح پھیلنے لگی جس کی زد میں بہت جلد مسلمان بھی آنے لگے.آر یہ پنڈتوں نے مسلمانوں کو چیلنج پر چیلنج کرنا شروع کیئے جس پر ۱۹۲۶ء میں نجی مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی اور وائس پریذیڈنٹ عبدالغفور سا ہو خاں تھے.نجی میں مسلمانوں کی یہ پہلی نمائندہ تنظیم تھی.جمعیت العماء ہند کو لکھا گیا کہ کوئی ایسے عالم بھیجے جو اسلام کے علاوہ آریہ مذہب سے بھی واقف ہوں تمام اخراجات نجی کے مسلمان برداشت کریں گے.مگر جمعیت العلماء مسلمان نبی کے دکھ کا کوئی مداوا نہ کر سکی.اس مایوسی کے عالم میں مسلمانان نبی نے جناب سید غلام بھیک صاحب نیرنگ کو انبالہ لکھا.انہوں نے ایک صاحب مولوی تراب علی صاحب کو تیار بھی کیا مگر یہ صاحب مسلمانان نبی کے پچپیس پونڈ وصول کرنے کے باوجود نہ خود نجی پہنچے نہ روپیہ واپس کیا.ابتک نبی کے مولوی عبد الکریم صاحب بانی اسلامیہ سکول نا صوری آریوں اور عیسائیوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی خدمات سے متاثر تھے.انہیں مسلم سکول کے لیئے ٹیچر کی ضرورت تھی انہوں نے انجمن مذکور سے رابطہ کر کے ایک صاحب ماسٹر محمد عبد اللہ کو نجی منگوا لیا.ماسٹر صاحب ۲۶ / مارچ ۱۹۳۱ ء - کو بمبئی سے بذریعہ بر طانوی جہاز روانہ ہو کر وسط اپریل ۱۹۳۱ء میں نجی پہنچ گئے.ماسٹر صاحب کی تحریک پر مبنی مسلم لیگ کی طرف سے احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے رابطہ کیا گیا اور متواتر ڈیڑھ سال تک انجمن کے ایک
تاریخ احمدیت 651 جلد ۲۰ ممتاز عالم مرزا مظفر بیگ صاحب ساطع کو درجنوں تاریں اور بہت سے خطوط پہنچے کہ نبی آ کر آریہ سماج اور عیسائیت کا مقابلہ کر کے مسلمانوں کی مدد کریں.جس پر جنا.صاحب ۱۷اپریل ۱۹۳۳ء کی شب کو بذریعہ فرنٹیر میل لاہور سے روانہ ہوئے.مسلم لیگ نبی نے تمام اخراجات سفر بی اینڈ اور کمپنی بمبئی کے پاس جمع کروا دیئے تھے اور کمپنی نے اطلاع دے دی تھی کہ نبی کے لیئے جہاز کولمبو سے ملے گا.۱۵ / اپریل کو آپ کولمبو سے جہاز پر بیٹھے اور ۱۲ رمئی ۱۹۳۳ء کو آپ بھی پہنچ گئے.جناب ساطع صاحب کو نجی میں قدم رکھے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ نبی مسلم لیگ نے احمدیت کی آڑ لے کر آپ کو جامع مسجد میں نما ز جمعہ پڑھنے سے روک دیا.آپ نے سا ہو خانصاحب کے ہاں نماز پڑھنی شروع کر دی جہاں جا مع مسجد کی نسبت کئی گنا حاضری ہوتی تھی.مرزا صاحب پہلے آٹھ ماہ صوا میں رہے پھر ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۳ء کو ناندی آگئے.اس دوران ۱/۸ کتو بر ۱۹۳۳ء کو آپ کا پادری سموئیل شرن سے کامیاب مناظرہ ہوا.پادری صاحب نے بے اختیار ساطع صاحب کی نسبت کہا کہ واقعی آپ شیر ہیں مگر انہوں نے جواب دیا کہ میں تو اسلام کا ایک ادنی سپاہی ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بڑا فوٹو دکھاتے ہوئے کہا یہ ہے شیر جسکو خدا تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کے واسطے بھیجا ہے محمدؐ کے شیروں کے آگے مسیح کی بھیڑیں نہیں ٹھہر سکتیں !! یہ سنتے ہی مسلمانوں نے تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا.اس مناظرے نے احمدیت کے بعض شیدائی پیدا کر دیئے چنانچہ ۲۶ / جنوری ۱۹۳۴ ء کو جب کئی مفسدین نے آپ کی قیام گاہ پر حملہ کیا تو انہی لوگوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا.اسوقت جناب ساطع صاحب نے تحریک کی کہ اب تک آپ سب لوگ اپنے آپ کو فخر سے احمدی کہلانے اور احمدیت کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن جب تک با قاعدہ بیعت کر کے آپ حضرات جماعت احمدیہ میں شریک نہ ہو جائیں آپ کی حیثیت صرف معاونین کی ہے احمدی کی نہیں.انہوں نے یہ الفاظ اس جذ بے سے کہے کہ اس مجلس میں موجود چھ حضرات نے انجمن اشاعت اسلام کے امیر مولا نا محمد علی صاحب کے نام بیعت نامہ لکھ کر دستخط کر دیئے.جن میں ضلع ناندی کے محمد رمضان خان صاحب اور ان کے بھائی عبد اللطیف خاں صاحب اور محمد حکیم خاں صاحب ( پسر محمد رمضان خاں صاحب ) بھی تھے." مرزا مظفر بیگ صاحب ساطع نے لکھا :.ضلع ناندی کے محمد اسحق خانصاحب و محمد رمضان خانصاحب نے استقلال اور آہنی
تاریخ احمدیت 652 جلد ۲۰ عزم کا وہ نمونہ پیش کیا کہ اس زمانے میں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے، ان کی سپرٹ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سپرٹ سے رنگین تھی.خطر ناک سے خطرناک حالات میں بھی احمدیت کو کامیاب بنانا ان کا ہی کام تھا.معاندین سلسلہ کا ہر رنگ میں مقابلہ کرنے والے یہی دو شیر مرد تھے خدا تعالیٰ نے انہیں جسمانی قوت بھی شیروں کی سی دی ہے اور سینوں میں دل بھی شیروں کے سے دے.مرزا صاحب موصوف کم و بیش ساڑھے تین برس تک تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد ۱۶ جنوری ۱۹۳۷ء کو کلکتہ اور ۳۱ / جنوری ۱۹۳۷ء کو لاہور پہنچ گئے.۱۳
تاریخ احمدیت فصل دوم 653 جلد ۲۰ مستقل احمد یہ مشن کی بنیاد سیدنا حضرت مصلح موعود کی دیرینہ خواہش تھی کہ تبھی میں جماعت مبائعین کی طرف سے احمد یہ مشن کھولا جائے - - 17 چنانچہ حضور نے ۱۹۵۶ء میں شیخ عبدالواحد صاحب سابق مبلغ چین و ایران کو ارشا د فر مایا کہ جزائر فجی کے لئے تیاری کریں اور کچھ ہندی پڑھ لیں.ان جزائر میں پہلی بار احمدیت کا نام ۱۹۲۵ء کے قریب پہنچا تھا جبکہ (حضرت چوہدری غلام احمد خان صاحب آف کر یام کے نسبتی بھائی ) چوہدری کا کے خانصاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے چوہدری عبدالحکیم صاحب - جنرل مرچنٹ کا روبار کے سلسلہ میں جالندھر اور ہوشیار پور کے دوستوں کے ساتھ نجی تشریف لے گئے اور ناندی میں قیام کیا.ان کی خط و کتابت حضرت مصلح موعود سے ہوتی رہی اور اُن کا چندہ پہلے قادیان اور پھر ربوہ میں براہ راست پہنچتا رہا اور’ الفضل اور دوسرا مختصر لٹریچر انہیں ملتا رہا جس سے نہایت محدود حلقہ میں سلسلسہ احمدیہ کے صحیح حالات پہنچا سکے اور گونجی میں کوئی جماعت اُن کے ذریعہ قائم نہ ہوسکی.تا ہم وہ اخلاص سے جماعتی لٹریچر اور اخبار الفضل دوسروں کو دیتے رہتے تھے.اس ماحول میں نجی کے لئے شیخ عبدالواحد صاحب کو انٹری پرمٹ ملنا قریباً ناممکن تھا.کیونکہ قانونی طور پر کوئی رجسٹرڈ جماعت مبائعین ایسی نہ تھی جو ضمانت دے سکے.ان سرا سر مخالف حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ موعود کی قلبی آرزو کو پورا کرنے کا یہ سامان فرما یا کہ محمد رمضان خاں صاحب رئیس ناند و جو انجمن اشاعت اسلام کے پُر جوش اور سرکردہ ممبر تھے اور ان دنوں نجی کی انجمن کے پریذیڈیٹ تھے حج بیت اللہ شریف اور زیارتِ مدینہ منورہ سے مشرف ہو کر ۱۵/ جولائی ۱۹۵۹ء کو مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے قادیان گئے ان کے ہمراہ اُن کی بیگم صاحبہ اور پوتا عقیب خاں بھی تھا ۱۸ / جولائی کو دیار حبیب کی برکات سے فیضیاب ہونے کے بعد لاہور پہنچے.اور اپنے داماد انوار رسول صاحب ( سپرنٹنڈنٹ سیکرٹریٹ ) کے ہاں قیام پذیر ہوئے.محترم انوار رسول صاحب کے بیان کے مطابق اُن کے رشتہ کی منظوری حضرت مصلح موعود نے دی اور فرمایا کہ شاید اس طرح اُس جگہ ( یعنی جزائر فجی میں ) حقیقی احمدیت پھیل جائے ( مکتوب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۵۴ء نمبر ۲۵۷۰).عظ
تاریخ احمدیت 654 جلد ۲۰ الحاج محمد رمضان صاحب ۱۴ / اگست کو اپنی صاحبزادی اور پوتے کے ساتھ ربوہ میں تشریف لائے اور تحقیق کی غرض سے ایک ہفتہ تک مرکز احمدیت میں قیام فرما ر ہے.آپ نے حضرت مصلح موعود کی ملاقات بھی کی اور جلد ہی خلیفہ موعود کی بیعت کا شرف حاصل کر لیا اسی طرح آپ کی بیگم صاحبہ اور محمد عقیب خاں صاحب بھی انوار خلافت سے مالا مال ہوئے.وکالت تبشیر ربوہ کی طرف سے ۲۹ /اکتوبر ۱۹۵۹ء کو چوہدری عبد الحکیم صاحب کے نام اطلاع دی گئی کہ الحاج محمد رمضان صاحب نے بیعت خلافت کر لی ہے.محترم حاجی محمد رمضان صاحب نے اپنے پوتے کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل کرا دیا اور خود ۱۹۶۰ ء میں واپس وطن تشریف لائے اور چوہدری عبد الحکیم صا حب کے ساتھ مل کر زور شور سے حق کی منادی شروع کر دی لوگوں کے سامنے مرکز احمدیت ربوہ اور خلافت کی برکات سے متعلق اپنے ذاتی مشاہدات بیان فرمائے اور ہم خیال دوستوں سے بیعت خلافت کرانے کا آغاز کیا چنانچہ ۱۳ رمئی ۱۹۶۰ ء تک ۱۵ بیعتیں مرکز کو بھجوائیں ۱۹ ر ا پریل ۱۹۹۰ ء تک ۳۰ افراد پر مشتمل ایک جماعت تیار ہو گئی اس کے ساتھ ہی آپ نے مولانا شیخ عبدالواحد صاحب کے لیئے جولائی ۱۹۶۰ ء میں پرمٹ ربوہ پہنچا دیا جس پر شیخ صاحب موصوف ۶ را کتوبر ۱۹۶۰ ء کو مرکز احمدیت ربوہ سے.عازم منجی ہوئے اور ۱۲ ؎ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو بوقت دس بجے شب ناندی ایئر پورٹ پر قدم رکھا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندے حضرت مصلح موعود کی دلی خواہش کی تکمیل کا غیبی سامان فرمایا اور اس کے فضل خاص سے احمد پہ مشن نجی کی بنیا د رکھی گئی.نجی کے بعض ابتدائی احمدیوں نبی کے اولین احمدی چوہدری عبد الحکیم صاحب الحاج محمد رمضان خانصاحب ( جو نجی مشن کے کے ایمان افروز کوائف قیام کا موجب بنے ) کا ذکر اوپر آ چکا ہے ان کے علاوہ بعض دیگر ابتدائی احمدیوں کا تفصیلی تذکرہ جناب شیخ عبدالواحد صاحب کے مکتوب مورخہ ۲۲؍ فروری ۱۹۶۸ء میں ملتا ہے فرماتے ہیں.حاجی محمد رمضان خانصاحب کے زیر اثر حاجی صاحب کی والدہ کا خاندان اور حاجی صاحب کے والد کا خاندان انکے زیر تبلیغ تھا چنانچہ میرے پرمٹ کے ساتھ ہی حاجی صاحب نے بھائی محمد جان خان کی بیعت اور ان کے بھائیوں کی مردوں عورتوں کی بیعت ربوہ بھیج
تاریخ احمدیت 655 جلد ۲۰ دی.حاجی صاحب کا خاندان بنگالی ہے اور انکی والدہ کا خاندان افغانی ہے میرے نجی پہنچنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے یہ ایک مختصر جماعت قائم کر دی اور مجھے بشارت دی کہ نجی میں ایک چھوٹی سی معمولی چھپر کی سی مسجد میں ایک چھوٹی سی جماعت جو بنگالی رنگ اور افغانی رنگ کے افراد پر مشتمل ہے میرا استقبال کر رہی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل ایسے ہی رنگ میں دکھایا اور میرے آنے پر جماعت کے ممبروں کا چناؤ ہوا اور ناندی کی جماعت کے سب سے پہلے پریذیڈنٹ بھائی محمد جان خان چنے گئے اور اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو اس خدمت کا موقع مل رہا ہے.۲.حاجی محمد رمضان خانصاحب کے اثر اور تعلقات کا روباری و رشتہ داری کی برکت سے ماسٹر محمد شمس الدین صاحب جو ۱۹۶۰ ء میں ناندی سے ۱۸ میل آگے کو تو کا ٹاؤن میں رہتے تھے بیعت میں شامل ہو گئے.چونکہ سمجھدار اور پڑھے لکھے تھے اور کام کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے.دوستوں نے متفقہ طور پر اُن کو جنرل سیکرٹری منتخب کر لیا.اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل میں تبلیغ کا بہت شوق پیدا کر دیا.انہوں نے دور و نزدیک بہت سے دورے کئے.بہت ނ متعلقین نے بیعت کی..مولوی محمد قاسم خان صاحب آف ما رو ( ھنڈ ر ونگا ).مولوی صاحب موصوف نا ندی سے ۳۴ میل کے فاصلہ پر مارو میں گنے کی کھیتی کرتے ہیں.نومبر ۱۹۶۰ء میں جب میں ناندی پہنچ چکا تھا اپنے صاحبزادہ جسکا نام انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی ہی رکھ دیا تھا نا ندی مارکیٹ میں مجھ سے ملا جبکہ میں مکرم حاجی رمضان خانصاحب کے ساتھ اسی غرض کے لیئے مارکیٹ میں گھومنے کے لیئے آیا تھا کہ لوگوں سے تعارف ہوالحمد اللہ کہ ان سے تعارف اور مختصر گفتگو ہوئی حاجی صاحب کے یہ چھوٹے بھائی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا حسب توفیق واستطاعت مطالعہ رکھتے ہیں.وہاں سے فارغ ہو کر دو پہر کو حاجی صاحب کے گھر پر آ کے خدا تعالیٰ کے فضل سے دونوں باپ بیٹے نے بیعت خلافت کر لی نہایت پر جوش جذ بہ تبلیغ رکھتے ہیں اپنے گاؤں مجھے دو سال تک بلاتے رہے لوگوں کو دعوتیں دیتے خرچ کرتے لیکن نہ غیر احمدی اور نہ لاہوری خیال کے احباب بات سننے آتے بظاہر ان کی دعوت کی تیاری اور کھانا اور محنت ضائع ہی جاتی.آخر خدا تعالیٰ نے ان کے صبر اور دعاؤں پر رحم کیا ان دونوں بھائیوں کی متواتر تبلیغ سے ان کے عزیز رشتہ دار مار و رحمت اللہ خان میموریل سکول کے ہیڈ ماسٹر ماسٹر محمد حسین صاحب نے بیعت کر لی اور ان کے ساتھ مل کر
تاریخ احمدیت 656 جلد ۲۰.تبلیغ کرنی شروع کی اور اپنے اثر و رسوخ سے اپنے متعلقین کو ہماری باتیں سننے کیلئے تیار کیا اور تین سال سے بویا ہوا بیچ ایک ایک دو دو پانچ پانچ دس دس کر کے اگنے لگا.، الحمد لله کہ اب مارو میں جماعت احمد یہ ہی قابل ذکر جماعت ہے جہاں ایک ۴۰×۵۰ فٹ لمبی چوڑی بلڈ نگ بیت محمود کے نام سے تیار ہو گئی ہے جسکی بنیا د حضرت بزرگوار چوہدری سر ظفر اللہ خانصاحب نے ۶۵.۱۱.ے کو رکھی تھی.مولوی محمد قاسم خانصاحب موصوف جو ہماری جماعت مارو کے امام الصلوۃ ہیں بہت جوشیلی اور پر اخلاص طبعیت رکھتے ہیں لیکن ایک نرالی اور قابل رشک بات ہے کہ جماعت کے مبلغ کے لیئے اتنی محبت اتنی غیرت اپنے دل میں رکھتے ہیں کہ اسکی طرف سے فیصلہ ہو جانے پر اپنے تمام خیالات چھوڑ دیتے ہیں دوسرے اگر کچھ دیر کیلئے اختلاف کے وقت میں دل میں تنگد لی اور کشیدگی بھی یا شکر نجی بھی رکھیں اور بعد میں سمجھانے پر ٹھیک ہو جائیں گے ان میں ایسا مقابلہ نہیں پایا بلکہ معاون اور اطاعت کرنے والا.اللھم زدفرد.-4 محمد صدیق خانصاحب ( جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ نبی ) نہایت سمجھدار اور نیک آدمی ہیں علم دین اور لڑ پچر احمدیت سے واقفیت رکھتے ہیں ۱۹۶۰ ء میں ہی میرے ساتھ نا ندی میں ملاقات ہوئی پھر لوتو کا میں ان کے مکان پر پہنچ کر تبلیغ کرتا رہا.پہلے لا ہوری پیغامی خیالات کو ہی ٹھیک سمجھتے تھے دسمبر ۱۹۶۰ء میں ان کی بیگم صاحبہ جو بہت نیک عقلمند اور تبلیغ تربیت کرنے کا جوش رکھنے والی خاتون ہیں انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے مکان کے دراز ہ پر گلوب (بلب ) تو لگا ہے لیکن جلتا نہیں خاکسار ( شیخ عبدالواحد ) نے ہاتھ سے اسکو پھیر دیا ہے تو جلنے لگ گیا ہے دونوں میاں بیوی میرے پاس ملنے آئے اور خواب سنایا میں نے تعبیر بتائی کہ پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو پہنچ چکا ہے صرف منہ اس طرف پھیرنا باقی ہے چنانچہ دونوں نے بیعت کر لی چنانچہ اس وقت سے نہایت توجہ محنت اور اخلاص سے خدمت دین میں لگے رہتے ہیں.گذشتہ سال تک آپ لوتو کا جماعت کے پریذیڈنٹ ر ہے اب گذشتہ سال سے ساری نجی جماعت کے جنرل پریذیڈنٹ چنے گئے ہیں ان کی بیگم صاحبہ لجنہ اماء اللہ لوٹو کا کی پریذیڈنٹ ہیں اور دین کی خدمت کے شوق میں بڑھاپے میں اردو پڑھنا سیکھا ہے.ان کے بچے بھی دین کے کاموں میں جوش و شوق سے حصہ لیتے ہیں.فجزاهم الله خيراً.ان کی تبلیغ و کوشش نیک اثر و نمونہ سے بہت سے متعلقین داخل سلسلہ ہوئے ہیں جن میں سے حاجی محمد حنیف.شاہ محمد صاحبان ما لک پاپولر فرنیچر شاپ بھی ہیں جن
تاریخ احمدیت 657 جلد ۲۰ آ کے متعلق مولوی احمد یا ر صاحب لاہوری مبلغ نے لکھا تھا کہ لوٹو کا کے بہت بڑے امیر گھرانہ کے پیغامی جماعت میں شامل ہونے کی امید ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ ایک ہفتہ پیغا می مبلغ کو اپنے گھر پر رکھنے انکی مہمان نوازی کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ خلافت کی بیعت سے ہی روحانی زندگی سے ہم بہرہ ور ہو سکتے ہیں.دو ہفتہ کے بعد اٹھارہ افراد خاندان کے ساتھ بیعت میں شامل ہو گئے.(الحمد لله على ذالك ) بیعت کے بعد جماعت احمد یہ لوٹو کا کے پریزیڈنٹ منتخب ہوئے.کوشش کر کے احمدیوں کی ایک ایجو کیشن کمیٹی بنائی.پ اس ایجوکیشن سوسائٹی کے چیئر مین ہیں مکرم ڈاکٹر شوکت علی صاحب احمدی ایم.اے.پی.ایچ.ڈی اس کالج کے پرنسپل ہیں جو کہ کمیٹی ناندی میں چلاتی ہے.مکرم ڈاکٹر شوکت علی صاحب ۱۹۶۱ء کے آخر میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے پھر آپ کاٹھیا وار گجرات ہندوستان ڈاکٹریٹ کرنے گئے واپس آ کر اسلامیہ سیکنڈری سکول لوٹو کا کے پرنسپل مقرر ہوئے.احمدیت کی مخالفت میں انکو ہمیشہ مقابلہ کرنا پڑا.بالآ خر محترم بزرگوار چو ہدری سرمحمد ظفر اللہ خانصاحب کے نومبر ۱۹۶۵ء میں منجی آنے پر ڈاکٹر صاحب کی احمدیت کی بہت مخالفت ہوئی جس کے نتیجہ میں وہاں سے نوکری چھوڑنی پڑی.اللہ تعالے نے اچھا ہی کیا کہ اس تکلیف کے بدلہ اپنا کالج قائم ہو گیا.۲۱
تاریخ احمدیت 658 جلد ۲۰ فصل سوم فنجی کی پہلی اور مرکزی بیت فضل عمر کی تعمیر جب اللہ تعالے نے ناندی اور لوٹو کا جیسے اہم شہروں میں مخلص جماعتیں قائم فرما دیں تو شیخ عبد الواحد صاحب نے نبی کے دارالحکومت سو دا شہر کا رُخ کیا.یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور جون ۱۹۶۱ء میں ایک ہی دن ۱۲ افراد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے اور پھر آہستہ آہستہ وہاں ایک مخلص، جوشیلی اور فعال جماعت قائم ہو گئی جس کے بعد علاقہ ساما بولد میں ایک مکان کرایہ پر لے کر با قاعدہ مرکز قائم کر دیا گیا یہ مرکز ۸۲ کنگز روڈ میں کھولا گیا ) اسی مرکز میں دسمبر ۱۹۶۲ء میں جزائر فجی کے احمدیوں کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں ۱۲۵ افراد شامل ہوئے ).اگلی عید الفطر کے موقع پر جماعت بڑھ جانے کی وجہ سے یہمکان اتنا نا کافی ثابت ہوا.نہ جماعت کے احباب وہاں سما سکے اور نہ ان کی موٹریں وغیرہ کھڑی کرنے کیلئے کوئی جگہ تھی.عید الفطر کے خطبہ میں شیخ عبد الواحد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام وسع مكانك كا حوالہ دیگر تحریک کی کہ صودا ( SUVA) شہر میں جماعتی مرکز کے لیئے کوئی وسیع مکان تلاش کر کے خریدنے کا انتظام کیا جائے.چنانچہ احباب جماعت نے مناسب جگہ کی تلاش شروع کر دی.اس دوران معلوم ہوا کہ ساتھ والا پلاٹ مع مکان قابل فروخت ہے جس کی بیوہ مالکہ تین ہزار پونڈ طلب کرتی ہے جماعت کی طرف سے دو ہزار پونڈ کی پیش کش کی گئی مگر وہ تین ہزار پونڈ سے کم فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئی.چونکہ وہ قطعہ زمین جماعت کے مرکز اور مسجد کے لیئے نہایت موزوں اور با موقعہ تھا اس لیئے جماعت نے اس عورت کے بعض رشتہ داروں کے ذریعہ اسے سمجھایا کہ اس کی زمین کسی تجارتی غرض کے لیئے نہیں بلکہ محض خانہ خدا کی تعمیر اور تبلیغ اسلام کے مرکز کے لیئے لی جا رہی ہے چنانچہ آخر کار دو ہزار پونڈ قیمت پر اس قطعہ زمین اور مکان کو فروخت کرنے پر رضا مند ہو گئی جس کے بعد وکیل کے ذریعہ تحریری معاہدہ کے علاوہ اسے بیعانہ بھی ادا کر دیا گیا یہ وسط ۱۹۶۲ ء کی بات ہے.اس کے بعد جب اس عورت کے رشتہ داروں اور بعض لوکل تنظیموں کے سر برا ہوں اور کارندوں کو جو جماعت
تاریخ احمدیت 659 جلد ۲۰ احمدیہ کے مخالفین میں سے تھے اس سودے کا پتہ چلا تو اُن سب نے مل کر اسکو ورغلایا کہ وہ اس سودا کو یہ کہہ کر فتح کر دے کہ اس پر نا جائز دباؤ ڈال کر متعلقہ معاہدہ پر دستخط کرائے گئے ہیں حالانکہ یہ محض جھوٹ اور افتراء تھا تا ہم اگر چہ وہ قانونی طور پر اس سودے کو کالعدم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی پھر بھی عرصہ تک جماعت کو پریشان کئے رکھا.اور جب اُسے اپنا کوئی حربہ کارگر ہوتا نظر نہ آیا اور وکیل کی معرفت ہماری جماعت نے اُسے حسب معاہدہ تین ماہ کے اندر اندر پوری رقم بھی ادا کر دی تو مخالفین کے اُکسانے پر وہ اس مکان میں بطور کرایہ دار رہنے پر اصرار کرنے لگی اور مکان خالی کرنے سے انکار کر دیا.ادھر شہر میں مخالفین یہ غلط اور جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے لگے کہ احمدی ایک کمزور بیوہ عورت کو قانونی پیچیدگیوں میں پھنسا کر اس کی جائیداد سے اُسے بے دخل کر رہے ہیں حالانکہ اس عورت نے ہماری جماعت سے بات شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی وہ زمین اور مکان فروخت کرنے کا اعلان کر رکھا تھا اور ایک شراب خانے کا مالک اسے اس زمین و مکان کے لیئے تین ہزار پونڈ پیش کر چکا تھا مگر محلہ کے شرفا کی مخالفت کی وجہ سے وہ زمین شراب خانہ کے لیئے فروخت نہ کی گئی.آخر ما لکہ زمین کو وکیل کے ذریعہ جماعت کی طرف سے ایک ماہ کے اندر اندر وہاں سے نکل جانے کا آخری نوٹس دیا گیا جس کے اختتام پر اس نے مجبور ہو کر عمارت بکلی خالی کر دی اور اپنے بعض احمدی عزیزوں کے ہاں چلی گئی.چنانچہ پھر مزید تین صد پونڈ لگا کر اس عمارت کی مرمت کی گئی ایک حصہ کو تبدیل کر کے اور باقاعدہ محراب وغیرہ بنا کر اُسے مسجد کی شکل دے دی گئی اور اس کا نام ” بیت فضل عمر رکھا گیا.ایک حصہ احمدیہ لائبریری اور ریڈنگ روم اور آفس کے لیے استعمال کے قابل بنا لیا گیا اور باقی حصہ میں کچھ تبدیلیاں کر کے اُسے مبلغین اور مہمانوں کے استعمال کے قابل بنایا گیا.اس مقصد کے لیئے احمدی مخلصین نے کئی بار وقار عمل کیا اور سارا سارا دن کام کرتے رہے.جماعتی مرکز اور دفاتر یکم اکتوبر ۱۹۶۰ ء کو اسمیں منتقل کر دیئے گئے.۲۲ پہلا مناظرہ اور رسالہ الاسلام کا اجراء جناب شیخ عبدالواحد صاحب فاضل تحریر فرماتے ہیں :.پہلا مناظرہ جس میں لاہوری جماعت اور اہل سنت متفق ہو کر مقابلہ پر آئے ڈاکٹر محمد یوسف کی ڈسپنسری با میں لوٹو کا سے ۲۴ میل کے فاصلہ پر ہوا.ناندی اور 6 لوٹو کا (LAUTOKA) سے چار بڑی موٹر میں بھر کر چوہیں اور چوالیس میل کا سفر کر کے
تاریخ احمدیت 660 جلد ۲۰ احمدی وہاں جوش و خروش سے پہنچے خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کی صداقت پر حقیقۃ الوحی سے دلائل پیش کئے پھر وفات مسیح پر مناظرہ ہوا خدا تعالیٰ کے فضل سے لیکچر اور مناظرہ کا بہت ہی اچھا اثر ہوا اور غیر مبائعین اور غیر احمدی مناظر مبہوت ہو گئے.کوئی بات نہ بن آتی تھی.ناندی اور لوٹو کا کے احمدی بھائی رات 11 بجے بڑی خوشی اور کامیابی سے لوٹے.با سے لوٹتے ہوئے بھائی محمد شمس الدین صاحب پر ایک وجد اور سرشاری کی کیفیت تھی حاضرین سے کہتے تھے کہ دین کی خدمت اور اسکی راہ میں جہاد بھی شراب کی سی مستی کی کیفیت رکھتا ہے آج ایک کیف اور وجد آ گیا ہے.( فـالـحـمـد لِلہ علیٰ ذالك ).دوسرا انتظام اللہ تعالے نے بھائی محمد شمس الدین صاحب کے دل میں یہ ڈالا کہ دلائل سے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات و ملفوظات کی برکت سے معمور اور بھر پور ہیں لیکن غیر ہمارے خلاف اخبار اور اشتہارات کے ذریعہ بے بنیاد پرو پیگنڈہ کرتا ہے ہم بھی ایک اردو و انگریزی میں ماہوار اخبار نکالیں خوب جواب دیں اور تبلیغ کا حق ادا کر دیں.ہم قرض لے کر اقساط پر ایک سیکنڈ ہینڈ گیٹیٹر مشین لیکر اپنا پر لیس چلا دیں.اگر چہ سرمایہ نہ تھا لیکن عشق کی دیوانگی میں یہ قدم اٹھا لیا گیا اور مبائعین اور ہمدردوں نے قربانی کی دو دو چار چار پونڈ کر کے چندہ جمع کر کے آرم سٹرونگ سپرنگ ہال کمپنی سے گیسٹر مشین اس کا سٹینڈ اور ایک ٹائپ رائٹر خرید کرمئی ۱۹۶۱ ء میں نماز کی کتاب عربی اردو انگریزی ترجمہ کے ساتھ چھاپ کر تبلیغ و تربیت کی ابتداء اور بسم اللہ کر دی اور جون ۱۹۶۱ ء میں ماہوار الاسلام کا پہلا پرچہ اردو اور انگریزی میں گورنمنٹ سے اجازت لیکر نکال دیا جس سے ایک انقلاب شروع ہو گیا.اخبار تنظیم ( اہلحدیث ) اور اخبار’ آذان‘‘ اہلسنت دنگ ہو گئے.انکی ہر غلط پیش کی گئی بات کا جواب ملنے لگا اور غلطیوں کی وضاحت ہونے لگی.اہلحدیث کے اخبار نے لکھا مسلمانو ! بیدار ہو یہ کیا انقلاب آ رہا ہے؟ چنانچہ ہمارے اخبار الاسلام کے مقابلہ پر دونوں اخبار بند ہو گئے اور مسلمانوں نے یہ کہہ کر کہ تمہیں اخبار نہیں نکالنا آ تا اسمیں کوئی قیمتی اور وزنی بات نہیں ہوتی.انہوں نے دلچسپی لینی چھوڑ دی.دوسرا ان اخبارں کے لیے قربانی کرنے والے نہ تھے اور خریداروں کو دلچسپی نہ تھی.لیکن ہمارے اخبار کے لیے احمد یہ جماعت کے افراد قربانی کرتے اور خریداروں کیلئے دلچسپی کا سامان اور قیمتی مضامین لکھتے اخبار میں اسلام کی ترقی نظر آتی تھی.۲۳
تاریخ احمدیت 661 جلد ۲۰ ٹریکٹوں کا ابتدائی سلسلہ محترم شیخ صاحب نے ابتداء ہی میں اشاعت حق کا یہ مؤثر ذریعہ اختیار فرمایا کہ ٹریکٹوں کی اشاعت کا با قاعدہ سلسلہ جاری کر دیا.چنانچہ ۱۹۶۳ ء تک آپ نے حسب ذیل ٹریکٹ ہزاروں کی تعداد میں شائع کر کے نجی میں پھیلا دیئے.۱.حضرت مسیح کشمیر میں ۲.بائیل میں اختلافات اور قرآن مجید کی محفوظ حیثیت ۳.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بائیبل کی پیشگوئیاں.۴.خدا اور رسول کی محبت ۵.پرائمر آف اسلام 6.مسلمان اور عیسائی کی گفتگو ۲۴
تاریخ احمدیت 662 جلد ۲۰ فصل چهارم حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نبی میں نومبر ۱۹۶۵ء کے ادائل میں چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب امریکہ سے نیوزی لینڈ تشریف لے جاتے ہوئے جزائر نجی میں ٹھہرے.نجی کے احمدی دوست آپ سے ملاقات کر کے از حد خوش ہوئے اور آپ کی موجودگی سے کما حقہ استفادہ کیا چودھری صاحب " تحدیث نعمت میں لکھتے ہیں :.اکتوبر ۱۹۶۵ء میں مجھے بعض امور کی سرانجام دہی کے لیے امریکہ جانا ہوا وہاں سے فراغت پا کر میں سان فرانسکو سے نیوزی لینڈ کے سفر پر روانہ ہوا.ہوائی جہاز دوسری صبح قبل فجر جزائر فجی کے بین الاقوامی مطار ناندی پہنچا میرا ارادہ چند دن جزائر فجی میں ٹھہر نے کا تھا.ہم سان فرانسسکو سے جمعرات کے دن روانہ ہوئے تھے دوسرے دن ناندی وو پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ہفتے کا دن ہے درمیان میں سے جمعہ کا دن غائب ہو گیا مطار پر عبد الواحد صاحب مبشر سلسلہ احمدیہ اور ناندی کے چند احباب تشریف لائے ہوئے تھے میں ان کے ہمراہ شہر چلا گیا اور آئندہ چھ دن یعنی ۵ / نومبر سے جمعہ ۱۱/ نومبر تک ان کے تجویز کردہ پروگرام کے مطابق ان کی خدمت میں حاضر و مشغول رہا.اس عرصہ میں مختلف مقامات پر حاضری کا موقع ملا لیکن زیادہ وقت جزائر کے صدر مقام سووا (SUVA ) میں گذرا.۱۹۶۵ء میں جزائر جی کی مجموعی آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ تھی جن سے نصف سے کچھ زائد ہندوستانی اور پاکستانی نژاد تھے.اور نصف سے کچھ کم جزائر کے اصل باشندے تھے اول الذکر عنصر میں مسلمان، ہندو سکھ شامل تھے اس عنصر میں مسلمانوں کی نسبت ۲۰ فی صد تھی.جزائر فجی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مخلص اور مستعد جماعت احمد یہ سرگرم عمل ہے جو جزائر کی آبادی میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے.
تاریخ احمدیت ข 663 جلد ۲۰ ۳۰ رمئی ۱۹۶۶ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا حضرت خلیفہ مسح الثالث و جماعت نبی کے نام ایک ٹیپ شدہ روح پرور پیغام مكرم عبد القدوس صاحب آف نبی آئی لینڈ کے کا روح پرور پیغام ذریعہ پہنچا جس میں حضور نے نہایت لطیف اور وجد آفریں پیرا یہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی منصب کی وضاحت فرمائی اور احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف پرزور طریق سے توجہ دلائی.رسالہ دی مسلم ہار پنجر کا اجراء مولوی نورالحق صاحب انور کی کوششوں سے جون ۱۹۶۷ء سے ایک سم ماہی رسالہ دی مسلم با رینجر ( منادی اسلام ) جاری ہوا جو انگریزی، نجیئن اور ہندی زبانوں پر مشتمل تھا رسالہ کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا.افسوس یہ مفید رسالہ چند سال بعد بند ہو گیا.مولوی نور الحق انور صاحب کی آمد محترم شیخ صاحب نبی کی سر زمین میں پوری دلجمعی سے اعلاء کلمۃ اللہ کے فریضہ میں مصروف تھے کہ ۲۶ فروری ۱۹۶۷ء کو مرکز سے مولوی نور الحق صاحب انور سابق مجاہد مشرقی افریقہ وامریکہ بھی نجی تشریف لے آئے.۶ / مارچ کو نبی ریڈیو سے آپ کا اردو اور انگریزی زبان میں انٹرویو نشر ہوا اور آپ کے استقبالیہ جلسوں میں شامل غیر احمدی معززین شدت سے محسوس کرنے لگے کہ آج دنیا میں اسلام کی خاطر صحیح قربانی دینے والی جماعت صرف جماعت احمد یہ ہے.6 ۲۸ بیت محمود کی تعمیر مارو کی اکثریت احمدی نفوس پر مشتمل تھی حضرت چو ہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب نے اپنے قیام نجی کے دوران ۷/نومبر ۱۹۶۵ء کو یہاں بیت محمود کی بنیا درکھی اور شیخ عبد الواحد صاحب اور مولوی نور الحق صاحب انور کی نگرانی میں دو سال تک صودا اور ناندی کے مخلصین نے مزدوروں کی طرح کام کر کے خدا تعالیٰ کے اس گھر کو مکمل کیا اس تاریخی بیت الذکر کا افتتاح یکم جنوری ۱۹۶۸ء کو ہوا.بیت ناندی کی بنیاد اور تکمیل ۱۴ جنوری ۱۹۶۸ء کو مولوی نورالحق صاحب انور نے بیت ناندی کا سنگ بنیا د رکھا یہ بیت آخر ۱۹۷۱ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی.اور اس کا افتتاح یکم جنوری ۱۹۷۲ء کو جلسہ سالانہ کی تقریب کے ساتھ عمل میں آیا.۲۹
تاریخ احمدیت 664 جلد ۲۰ پادری عبدالحق صاحب ۶-۷ - ۸ی ۱۹۲۸ء کو مبلغ اسلام مولوی نور الحق رمئی صاحب نے مشہور عیسائی مناد پادری عبد الحق صاحب کو سے کامیاب مباحثہ شکست فاش دی جس سے اسلام کو شاندار فتح نصیب ہوئی.مولانا شیخ عبدالواحد صاحب اس ایمان افروز واقعہ کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے وو ہوئے تحریر فرماتے ہیں.وسط اپریل ۱۹۶۸ء میں ہندوستان سے عیسائیوں کے مشہور پادری عبدالحق صاحب نجی کونسل اور چرچز کی دعوت پر جزائر فجی میں تشریف لائے اور یہاں لیکچروں اور پبلک تقریروں کا سلسلہ شروع کیا اس سلسلہ میں وہ جزیرہ ویتی لیوو کے مغربی علاقہ کے اہم قصبات میں گئے اور اپنی تقریروں میں جملہ مذاہب میں خصوصیت سے اسلام کے خلاف تقریر میں کیں.اس پر غیر از جماعت اسلامی غیرت والے دوستوں نے برادرم مولانا نور الحق صاحب انور سے جو حسن اتفاق سے انہیں ایام میں با کے دورہ پر تشریف لے گئے تھے مل کر پُر زور درخواست کی کہ اس مخالف اسلام پرو پیگنڈا کا دفاع ضروری ہے اور یہ کہ یہ کام بفضل خدا احمدی ہی کر سکتے ہیں.پادری عبد الحق صاحب اس دوران میں لوتو کا میں مقیم تھے.اور حسن اتفاق سے انہوں نے خود ہی جماعت احمد یہ لوتو کا کے ایک دوست سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ نجی کے احمدیوں سے ملنا چاہتے ہیں جس پر ہمارے دو تین دوست جب اُن سے ملنے گئے تو پادری صاحب نے ابتداء ملاقات میں ہی چیلنج دے دیا کہ وہ ہر قسم کے بحث و مباحثہ کے لیئے تیار ہیں ہر وقت ہر مقام پر اور ہر شخص سے خواہ وہ سنی ہو یا احمدی ہو.ہمارے دوستوں نے ان کے چیلنج کو قبول کیا.بایں ہمہ گفت وشنید کے بعد یہ طے پایا کہ مندرجہ ذیل آٹھ مضامین پر تحریری مناظرہ نورالحق صاحب انور اور پادری عبد الحق صاحب عیسائی منا د کے درمیان ہو.۱.توحید ۲.کیا مسیح ناصری الہا مجسم ہے؟ ۳.کیا بائیبل خدا کا کلام ہے؟ ۴.کیا قرآن شریف کامل الہامی کتاب ہے ؟ ۵.کیا مسیح ناصری صلیب پر فوت ہوئے ؟ ۶.کیا حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود ہیں ؟.کیا مسیح ناصری نجات دہندہ تھے ؟ ۸.کیا اسلام میں نجات ہے؟ یہ بھی طے پایا کہ ہر مضمون پر سات سات پرچے ایک ایک گھنٹہ کے ہوں.بالآ خر صووا ڈڈلی ہاؤس سکول میں ۶ رمئی ۱۹۶۸ء کی صبح سے مباحثہ شروع ہو گیا جس کا اعلان نجی ریڈیو اور اخبار نجی ٹائمنز نے با قاعدہ طور پر کیا........
تاریخ احمدیت ۶ 665 جلد ۲۰ طریق کار یہ تھا کہ فریقین صبح ساڑھے آٹھ بجے سے لے کر شام چھ بجے تک متواتر سوائے دو پہر کے مختصر وقفہ کے آمنے سامنے بیٹھ کر مقررہ مضمون پر پر چے لکھتے اور شام کو ساڑھے سات بجے ڈڈلی سکول کے ہال میں ہی یہ پر چیچا ضرین کو جنگی تعداد ایک سو تک محدود کر دی گئی تھی سُنا دیئے جاتے.شرائط کے مطابق دونوں مناظروں کو کسی مددگار کے رکھنے کی اجازت نہ تھی بوقت تحریر مناظرہ صرف فریقین کی طرف سے ایک ایک نگران مقرر تھا.اہل اسلام کی طرف سے خاکسار ( شیخ عبد الواحد ) فاضل نگران رہا عیسائیوں کی طرف سے گو بیشتر وقت پادری سمر ول جونا گپور ہندوستان میں چار پانچ سال رہ چکے ہیں اور اردو پر عبور رکھتے ہیں اور بڑی مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک ہیں بطور نگران رہے لیکن ان کی مصروفیات کے باعث بعض دوسرے عیسائی حضرات بھی اس ڈیوٹی کو سرانجام دیتے رہے.رمئی کی شام کو پہلے دن کے مباحثہ کی تحریر بخیر و خوبی ختم ہوئی موضوع مباحثہ تھے نمبرا توحید نمبر ۲ بائیبل کا الہام الہی ہونا.پادری عبدالحق صاحب نے توحید کے مضمون میں حسب معمول اپنی ساحرانہ فریب کاری سے کام لیا اور اپنی منطقیانہ ادق اصطلاحوں کی بھر مار سے حاضرین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گویا وہ بہت بڑے فلاسفر اور علا مہ د ہر ہیں گو حاضرین ان کی باتوں کو ذرہ بھی مجھتے تھے لیکن کسی حد تک ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پادری صاحب کا سحر سامری نا واقف پبلک پر چھا رہا ہے ہمارے مناظر نیائیل سے یہ پیش کیا کہ جس حکمت و فلسفہ پر تم اتنا ناز کرتے ہوا سے تو انجیل میں بیوقوفی.چالا کی.باطل خیالات لا حاصل فریب اور دنیوی ابتدائی باتیں کہا گیا ہے ( عہد نامہ جدید کی کتب کرنتھیوں اور کلسیوں ) تا ہم اس روز بعض پادری صاحب کی چالاکی کا کسی حد تک شکار معلوم ہوتے تھے.لیکن دوسرے دن اللہ تعالے نے اس پر فریب جادو کو محض اپنے فصل سے دھوئیں کی طرح اُڑا دیا.ے رمئی کو مباحثہ کے لیے دو مضمون مقرر تھے نمبرا کیا مسیح ناصری الہ مجسم ہے؟ نمبر ۲ کیا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود ہیں؟ چونکہ معلوم ہوتا ہے پادری صاحب کی کا پیوں میں محفوظ شدہ منطقیانہ نوٹ ختم ہو گئے تھے وہ کوئی خاص ٹھوس بات کرنے کی بجائے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے لگے.گو بوقت تحریر بھی ان کا حال دیکھنے والا تھا جبکہ بلا مبالغہ ان کو ہوش نہ تھی کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں اور کسطرح لکھ رہے ہیں مگر شام کے اجلاس میں پر چے سناتے ہوئے تو نظارہ قابل دید تھا پادری صاحب کے واسطے اپنے ہاتھوں کا لکھا بھی پڑھنا مشکل تھا وہ شکستہ ا دل کھڑے ہوئے ان کی زبان لڑکھڑاتی اور آواز لرزتی تھی.یہ مباحثہ بفضل خدا ایک خاص -
تاریخ احمدیت 666 جلد ۲۰ کامیابی اور فتح کا دن تھا.اسکی خاص الخاص خصوصیت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی حضور کے اپنے ہی مبارک الفاظ میں پیش کرنے کا موقع بلیغ احمدی مناظر کو اللہ تعالے نے عطا فرمایا.اسکی زبان میں برکت عطا فرمائی اور آواز میں شوکت دی جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پُر شوکت عبارت پڑھتے تو حاضرین پر ایک کیف طاری ہو جاتا.بہر حال الحمد لله ثم الحمد للہ کہ دوسرے دن کے مباحثہ میں پادری صاحب کا سا را طلسم ٹوٹ گیا اور حاضرین پر جو ان کے علم کا اثر پڑا تھا وہ زائل ہو گیا.اختتام مباحثہ پر غیر مسلم حاضرین نے بھی اسلام اور احمدیت کے متعلق بہت اچھا اثر لینے کا اقرار کیا اور بوقت رخصت بلا تفریق مذہب و ملت سب احمدی مناظر سے ہاتھ ملانے کیلئے ٹوٹ پڑتے تھے.اس ہجوم میں جب بعض غیر مسلم عورتوں نے بھی خراج تحسین کے طور پر احمدی مناظر محترم برادرم مولانا نور الحق صاحب انور سے مصافحہ کی کوشش کی تو برادرم موصوف نے نہایت ملا طفت اور محبت سے یہ مسئلہ سمجھایا کہ اسلام میں عورتوں سے مصافحہ کی اجازت نہیں اور نہایت با اخلاق طور پر ہاتھ اٹھا کر ان کے سلام کا جواب دے دیا.۸ رمئی ۱۹۶۸ء کو حسب معمول مباحثہ کا تیسرا دن شروع ہوا.اُس دن کے لیئے مضمون نمبرا کیا مسیح ناصری صلیب پر فوت ہوئے ؟ نمبر ۲ کیا قرآن شریف کامل الہامی کتاب ہے؟ قبل از دو پہر فریقین اطمینان سے پرچے لکھتے رہے گوگذشتہ دن کی شکست کا اثر پادری صاحب کو مضطرب کیئے ہوئے تھا جس کا اظہار ان کی حرکات وسکنات سے نمایاں ہو ر ہا تھا لیکن قبل از دو پہر کے آخری پرچہ میں جب احمدی مناظر نے قرآن شریف سے یہ نا قابل تردید ثبوت پیش کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کی لعنتی موت کی بجائے اللہ تعالیٰ کے وعدہ انسی متوفيكَ وَرَافعكَ إِلى ( آل عمران : ۵۶ ) یعنی طبیعی معجزانہ موت کے وعدہ الہی کے مطابق دم واپسیں نہایت عزت اور احترام سے کشمیر میں فوت ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان الحق من ربك فلا تكونَنَّ مِن الممترين (البقره: ۱۴۸) کے مطابق یہ نا قابل تردید حقیقت ہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ کے اس ارشاد پر کہ نبتهل فـنـجـعـل لـعـنـة الله على الكاذبين ( آل عمران : ۶۲ )....ہمارے مناظر نے بڑی تحدّی سے یہ لکھا کہ خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق میں پادری عبد الحق صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اگر بچے ہیں تو نہایت تضرع سے اپنے ساتھیوں سمیت میدان مباہلہ میں آئیں اور ہم سے مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ اللہ تعالے سچ اور جھوٹ کو ظاہر کر دے.پادری صاحب اب پیرانہ سالی
تاریخ احمدیت 667 جلد ۲۰ میں ہیں اور میں بھی اب پچاس سال کی عمر کو پہنچنے والا ہوں.پادری صاحب مخلوق خدا پر رحم کریں وہ کہتے ہیں کہ اس پیرانہ سالی میں وہ آرام سے گھر بیٹھنے کی بجائے خدا کی خاطر ملک ملک گھوم رہے ہیں وہ اس خدا کی خاطر جس کے لیے وہ آرام سے بے آرام ہو رہے ہیں آئیں اور اس انصاف والے یقینی رستہ کو اختیار کریں جس سے سچ اور جھوٹ میں امتیاز ہوسکتا ہے آئیں اور ہم دونوں اپنے اپنے ساتھیوں سمیت یہ دُعا کریں کہ اے اللہ ہم دونوں فریق میں سے جو جھوٹ اختیار کر رہا ہے اسکو عبرتناک سزا دے اور ا سپر لعنت ڈال اور اے خدا جو سچا ہے اس کا حامی ہو اس کو عزت دے.تو اسے پڑھتے ہی پادری صاحب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے میں خو د عینی گواہ ہوں اور اس نظارہ کو نہیں بھول سکتا کہ ان الفاظ کے پڑھتے ہی پادری صاحب کے چہرہ پر موت کی سی زردی چھائی معلوم ہونے لگی اور ہاتھ پاؤں کانپنے لگے.
تاریخ احمدیت فصل پنجم 668 جلد ۲۰ فریضہ دعوت حق بجالا نیوالے با نیمشن مکرم شیخ عبدالواحد صاحب جی میں قریباً پونے نو سال تک احمدیت کا پیغام حق پہنچانے دوسرے مجاہدین احمدیت کے بعد ۱۷ جولائی ۱۹۶۸ء کو واپس مرکز میں تشریف لائے.آپ کی موجودگی یا آپ کے بعد جن مجاہدین احمدیت نے اس سر زمین میں فریضہ تبلیغ بجالانے کی سعادت حاصل کی ہے اور جماعت احمدیہ کے اثر و نفوذ میں غیر معمولی اضافہ کا موجب بنے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں.مولوی نور الحق انور صاحب ( تاریخ روانگی ) ۲۶ فروری ۱۹۶۷ء ) تاریخ واپسی ) ۲ / جون ۱۹۶۸ء.V- ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب ( تاریخ روانگی ) ۲۳ /جنوری ۱۹۶۸ء تاریخ واپسی ) ۸/ نومبر ۱۹۷۰ء مولانا غلام احمد صاحب فاضل بد و ملهوی ) تاریخ روانگی ) ۱۰ ؍ جولائی ۱۹۷۰ء ( تاریخ واپسی ) ۳۰ / مارچ ۱۹۷۲ء مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ) تاریخ روانگی ) ۱۰ ر جولائی ۱۹۷۰ء تاریخ واپسی ) ۲ نومبر ۱۹۷۳ء مولوی غلام احمد فرخ صاحب ( تاریخ روانگی ) ۴ / جون ۱۹۷۲ء تاریخ واپسی) ۲۹ اپریل ۱۹۷۶ء مولوی عبدالرشید صاحب را ز کی ( تاریخ روانگی ) ۲۰ نومبر ۱۹۷۳ء تاریخ واپسی ) ۲۲ / جون ۷ ۱۹۷ ء مولوی دین محمد صاحب شاہد ( تاریخ روانگی ) ۴ رمئی ۱۹۷۷ء تاریخ واپسی ) ۱۳ / نومبر ۱۹۷۹ء مکرم شیخ سجا د احمد صاحب خالد ( تاریخ روانگی ) ۴ رمئی ۱۹۷۷ء تاریخ وا پسی ) ۲۹ / اپریل ۱۹۸۴ء
تاریخ احمدیت 669 جلد ۲۰ -11 مکرم حافظ عبد الحفیظ صاحب شہید ) تاریخ روانگی ) ۲۵ فروری ۱۹۸۰ء آپ ۶ / اگست ۱۹۸۱ ء کو کار کے ایک حادثہ میں جاں بحق ہو گئے انا للہ و انا الیهِ راجعون - مکرم مولوی عبد العزیز صاحب و نفیس شاہد مع فیملی ۱۰ رمئی ۱۹۸۴ کو روانہ ہوئے تا حال میدان عمل میں ہیں اور خدمات دینیہ بجالا رہے ہیں.مکرم حافظ جبرائیل سعید صاحب غانین نے ۷ ۸ - ۱۹۸۶ء میں ایک سال کام کیا اور پھر ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ ء کو طوا لو منتقل ہو گئے.ان مرکزی مبلغین کے علاوہ ۱۳ / اکتو بر ۱۹۸۳ء سے ماسٹر محمد حسین صاحب مقامی مبلغ مقرر ہیں.لوٹو کا میں پرائمری سکول کی بنیاد ۲۷ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو سید ظہور احمد شاہ صاحب مبلغ نجی نے جماعت احمدیہ نجی کے 66 پرائمری سکول کی بنیا د لوٹو کا (LAUTOKA) شہر میں رکھی اس موقع پر ملک کے قدیم اخبار نجی ٹائمنز کے رپورٹر اور محکمہ تعلیم کے افسران بھی موجود تھے یہ سکول مکرمی ماسٹر محمد حسین صاحب صدر حلقہ لوٹو کا کی زیر نگرانی قائم ہوا.اس سکول کا نام ''تحریک جدید انجمن احمدیہ اور سیز نجی" رکھا گیا.اس کے علاوہ لوٹو کا میں جماعت نے ''تعلیم الاسلام کنڈرگارٹن ، سکول بھی قائم کیا.سکول بہت جلد ترقی کی منازل طے کرنے لگا اور چند سالوں میں ہی اس کے طلبہ کی تعداد ساڑھے تین سو سے زائد ہو گئی اور سٹاف میں دس اسا تذہ خدمات بجالانے لگے.سکول کمیٹی نے مزید دو کمرے دومنزلہ عمارت کی صورت میں تعمیر کئے جنگی افتتاحی تقریب ۱۵ / مارچ ۱۹۷۵ ء کو منعقد ہوئی جس میں طلبہ کے والدین، مارو ناندی اور لوٹو کا کے احمدیوں کے علاوہ محکمہ تعلیم کے ایجوکیشن آفیسر وی نائر صاحب (V.NAIR) نے شرکت فرمائی.مولوی غلام احمد صاحب فرخ نے دُعا کر کے نئے کمرے کا تالا کھول کے افتتاح کیا.سکول کی بنیاد اور افتتاح کی با تصویر رپورٹیں اخبار نجی ٹائمن نے نمایاں طور پر شائع کیں.اب یہ سکول روز افزوں ترقی کر رہا ہے.ناندی میں بیت اقصی کی تعمیر ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب کا ایک اور ۳۴ کا رنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے زمانہ قیام میں نا ندی میں بیت اور مشنری کواٹر کی بنیا د رکھی.اس وقت جماعت نبی ابتدائی دور میں سے گذر رہی تھی اور مالی حالت ہرگز ایسی مضبوط نہ تھی کہ ہزاروں ڈالر خرچ کر کے کوئی شاندار
تاریخ احمدیت 670 جلد ۲۰ عمارت تعمیر کی جا سکتی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا عظیم الشان نشاں دکھلایا اور مسجد اور مشنری کواٹرز کی شاندار عمارت تعمیر ہو گئی جسکا نام بیت اقضی رکھا گیا اور اس کا افتتاح یکم جنوری ۱۹۷۲ء کو سالانہ تبلیغی کا نفرنس کے موقع پر مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری فاضل انچارج مشن جزائر فجی نے فرمایا اس افتتاحی تقریب کے لیئے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے حسب ذیل برقیہ پیغام ارسال فرمایا.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.میری طرف سے آپ سبکو بیت اقصٰی ناندی کا افتتاح کرنا بہت بہت مبارک ہو.اللہ تعالیٰ اس بیت کو اس علاقہ میں اسلام کی ترقی اور اشاعت کا کامیاب مرکز بنائے.خلافت سے وابستگی اور نظام جماعت کی پابندی اپنا شعار بناؤ.۱۳۵ تائید الہی کے ایک قہری نشان کا ظہور مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری وو فرماتے ہیں :." جماعت احمدیہ نے نجی کے مشہور شہر با (BA) میں احمد یہ مشن کی برانچ کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے ایک مناسب حال مکان بھی خرید لیا تو اس شہر میں ہماری شدید مخالفت شروع ہو گئی.مخالفین کوشش کرنے لگے کہ جیسے بھی ہو تبلیغ اسلام کا یہ مشن با “ شہر میں کا میاب نہ ہونے پائے اور ہمارے قدم وہاں نہ جمیں.اس وقت وہاں ہمارے مخالفین کا سرغنہ وہاں کا ایک صاحب اقتدار شخص ابو بکر کو یا نامی تھا.چنانچہ اس نے اور دیگر مخالفین نے شہر میں یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ احمدیوں کے با مشن کی عمارت کو جلا دیں گے.چنانچہ جس قدر ممکن ہو سکا ہم نے حفاظتی انتظامات کر لیئے اس عمارت کے سامنے پولیس اسٹیشن تھا انہیں بھی توجہ دلائی گئی پولیس نے ہمیں مشن ہاؤس کی حفاظت کا یقین بھی دلایا پھر بھی ایک رات کسی نہ کسی طرح مخالفین کو نقصان پہنچانے کا موقعہ مل گیا اور ان میں سے کسی نے ہمارے مشن ہاؤس کے ایکھہ پر تیل ڈال کر آگ لگا دی اور یہ یقین کر کے کہ اب آگ ہر طرف پھیل جائے گی اور مشن ہاؤس کو خاک سیاہ کر دے گی.آگ لگاتے ہی آگ لگانے والا فوراً بھاگ گیا.لیکن خدا تعالے کا کرنا ایسا ہو کہ افراد جماعت کو پتہ لگنے سے پہلے ہی وہ آگ بغیر کوئی خاص نقصان کئے خود ہی بجھ گئی یا بجھا دی گئی.مخالفین نے عمارت کی اس طرف جہاں عمارت کا اکثر حصہ لکڑی کا تھا آگ لگائی تھی جس سے چند لکڑی کے تختے جل گئے مگر وہ آگ آگے بڑھنے سے قبل ہی بجھ گئی.چنانچہ اسی روز اس کی مرمت کروا
تاریخ احمدیت 671 جلد ۲۰ دی گئی.مگر آگ کے نقصان کا موقعہ پر جائزہ لیتے ہوئے اس وقت کے مبلغ انچارج نے اس جلے ہوئے کمرے پر کھڑے ہو کر بڑے دکھ بھرے انداز میں آہ بھر کر جو یہ کہا کہ جس نے خدا تعالیٰ کے دین اسلام کی اشاعت کا یہ مرکز جلانے کی کوشش کی ہے خدا تعالے اس کے اپنے گھر کو راکھ کر دے.تو خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کے چند روز بعد اچانک با میں جماعت کے مخالفین کے سرغنہ ابو بکر کو یا کے گھر کو آگ لگ گئی اور با وجود بجھانے کی ہر کوشش کے وہ رہائشی مکان سارے کا سارا جل کر راکھ ہو گیا.فاعتبروا یاا ولی الابصار جناب مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کا جزائر ٹونگا کے بادشاہ کو تبلیغ اسلام بیان ہے کہ نومبر ۱۹۷۱ء میں مجھے ” اخبارات کے ذریعہ علم ہوا کہ جزائر ٹونگا اور قرآن کریم کی پیشکش کے بادشاہ جو بھی میں قائم شدہ جنوبی ,, بحراوقیانوس کے جزائر کی واحد یونیورسٹی کے اعزازی چانسلر بھی ہیں عنقریب بھی آ رہے ہیں.....جماعت کے ایک مخیر دوست برادرم محمد شمس الدین صاحب.....نے محض خیریت دریافت کرنے کے لیئے مجھے مغرب کے بعد فون کیا میں نے ضمنی طور پر ان سے ذکر کیا کہ جزائر ٹونگا کے بادشاہ اپنے شاہی قافلہ کے ساتھ نجی کے دارالحکومت میں اپنے چچا کے ہاں مقیم ہیں تا ہم اُن سے تبلیغی ملاقات کے لیے ہماری کوشش کا رگر نہ ہوئی.انہوں نے بتایا کہ شاہ ٹونگا کے چا سر ایڈورڈ ڈا کمبا ؤ نائب وزیر اعظم نجی تو میرے سکول فیلو اور کرکٹ فیلو بھی رہے ہیں اور تجویز کیا کہ کل صبح ہی ان سے دفتر میں ملیں گے.چنانچہ اگلے روز ہم دونوں اُن سے ملے.وہ بڑی خوش خلقی سے پیش آئے اور ہماری خواہش کے مطابق اسی وقت فون پر ہماری طرف سے شاہ ٹونگا سے ملاقات کی درخواست کر دی جو شاہ نے منظور کر لی چنانچہ اسی وقت سر ایڈورڈ نے ہمیں بتایا کہ آج ہی شام کے پانچ بجے ہر میجسٹی نے ہمیں ملاقات کے لیئے آدھ گھنٹہ دیا ہے اور ہماری خواہش کے مطابق دوسرے سب شاہی مہمان موجود ہوں گے.چنانچہ اسی روز تین افراد پر مشتمل جماعت احمدیہ نجی کے تبلیغی وفد کی پریس فوٹوگرافرز اور اخباروں کے نمائندوں کی موجودگی میں شاہ ٹونگا سے ملاقات ہو گئی خاکسار نے انہیں جماعت کی طرف سے ایڈریس پیش کیا جس میں انہیں خوشآمدید کہنے کے علاوہ اسلام کی تعلیم سے آگاہ کیا گیا اور آخر میں قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی کتابیں بطور
تاریخ احمدیت 672 جلد ۲۰ تحفہ پیش کی گئیں.شاہ ٹونگا نے کھڑے ہو کر قرآن کریم مجھ سے وصول کرنے کے بعد ہمارے ایڈریس کے جواب میں شکریہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ” میرا ملک صد فی صد عیسائی ہے میں بھی پیدائشی عیسائی ہوں میں نے اس سے پہلے کبھی قرآن کریم دیکھا تک نہیں تھا نہ اسلام سے مجھے تعارف تھا.آپ نے یہ تقریب پیدا کر کے مجھے اس مذہب سے متعارف کروایا ہے جو میری والدہ کی قوم کا صدیوں سے مذہب چلا آتا ہے.میری والدہ انڈونیشین نسل سے ہیں آپ کی طرف سے پیش کردہ قرآن کریم اور کتب کا ضرور مطالعہ کروں گا آپ نے ایک عظیم روحانی خزانہ مجھے عطا کیا ہے آپ لوگ بڑے شکریہ کے مستحق ہیں“ دوسرے روز لوکل اخباروں میں اس تقریب کی تصاویر کے علاوہ تمام روداد بھی شائع ہوئی اور ریڈیو پر بھی یہ خبر نشر کی گئی.اس واقعہ کی رپورٹ جب میں نے سیدنا حضرت خلیفۃ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھیجی تو حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور دُعا کے ساتھ یہ ہدایت بھی فرمائی کہ ” بادشاہ سے لے کر ادنیٰ سے ادنی انسان تک دن رات اسلام کا پیغام پہنچا ئیں چنانچہ اگر چہ پہلے یہی حتی الوسع ہر موقع پر ادنیٰ و اعلیٰ سبکو تبلیغ کی جاتی تھی لیکن حضور کے اس تازہ ارشاد کے بعد ایک خاص تبلیغی مہم جاری کی گئی اور تقسیم کے لئے اپنا لٹریچر ٹیکسیوں اور بسوں میں رکھوایا گیا.نیز مارکیٹ میں تین چار احمدی سٹالوں پر بھی لٹریچر رکھوا دیا.حتی کہ بیت اور مشن ہاؤس کے فلش پٹ اور کمپاؤنڈ کی صفائی کے لیے آنے والے مزدوروں کی بھی چائے سے تواضع کر کے انہیں تبلیغ کی جاتی رہی اور اسلام کے متعلق لٹریچر پیش کیا جاتا رہا یہاں تک کہ بعد میں وہ غریب محین باشندے ہما را محین زبان میں شائع شدہ لٹریچر ہم سے خود طلب کر نے لگے.جزیرہ واٹو الیوو اور مولانا غلام احمد صاحب بد وملہی کونجی میں قریباً دو سال تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی آپ نے زیادہ وقت.وٹی لیوو میں تبلیغی جہاد جزیرہ والوالیوں میں گزارا اور جماعتی تعلیم و تربیت کے علاوہ مختلف شہروں اور قصبوں میں سوال و جواب کی محفلیں منعقد کر کے تبلیغ کی راہ ہموار کی ان دنوں اس جزیرہ میں مخالفت زوروں پر تھی مخالفین احمدیت نے وٹی لیو و سے ایک دوسرے جزیرہ کا رخ کیا مگر وہاں بھی انہیں شکست ہوئی اور
تاریخ احمدیت 673 جلد ۲۰ مولانا صاحب اس جزیرہ میں ان کا تعاقب کرنے کے لیئے پہنچ گئے.مگر وہ مبلغ احمدیت کی علمی قابلیت اور ایمانی جرات کی وجہ سے گفتگو کی جرات نہ کر سکے اور بالآ خر ایک شدید مخالف مولوی عبد الرحمان صاحب بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.صوا سے اس جزیرہ میں پانچ علماء کا ایک وفد پہنچا اور لیکچر دیئے مگر احمدیوں سے بات چیت پر آمادہ نہ ہوئے ۱۹۷۰ء کے آخر میں لمباسہ کے مشہور وکیل ممتاز مقبول صاحب نے بیعت کر لی اور جماعتی کاموں میں بڑی دلچسپی لینے لگے.نور احمد یہ پریس ۱۹۷۱ء میں جماعت احمد یہ نبی کو اللہ تعالیٰ نے ایک پرنٹنگ مشین اور اسکے دیگر لوازمات خرید کر اپنا پر لیس قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی جس پر انگریزی اور ہندی زبانوں میں بڑی کثرت سے لٹریچر شائع ہونے لگا.ابتداء میں رضا کارانہ طور پر پریس کا کام محترم ماسٹر محمد حسین صاحب ہیڈ ماسٹر احمد یہ سکول لٹو کا سرانجام دیتے تھے.جماعت بھی کی ملی خدمت ۲۴ ۱ کتو بر۱۹۷۲ء کو نجی میں ایک ہولناک سمندری طوفان آیا جس کی مثال نجی کی تاریخ میں نہیں ملتی.طوفان سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نبی کے احمدی احباب بڑی حد تک محفوظ رہے نجی کے احمدیوں نے اس موقع پر اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کی ہر طرح امداد کی ان کو کھانا کھلایا اور سامان بھی پیش کیا.علاوہ ازیں نجی کے ریلیف فنڈ میں نہ صرف حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے چار سوف جیسن ڈالر ارسال فرمائے بلکہ مقامی جماعت احمدیہ نے بھی چندہ دیا.۴۲
تاریخ احمدیت 674 جلد ۲۰ فصل ششم حضرت خلیفہ امسح الثالث" کا روح پرور حضرت علیہ اسیح الثالث پیغام جماعت احمدیہ نجی کے نام کے آخر میں بجھی کے احمدیوں رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۷۲ء کے نام ایک روح پرور پیغام ریکارڈ کرا کے ارسال فرمایا جسے نبی کی جماعتوں کے عام جلسوں اور دیگر تقاریب پر کئی با را حباب نے سُنا اور اپنے ایمانوں کو تازہ اور روح کو زندہ کیا.یہ پیغام حسب ذیل الفاظ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ میں تھا حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد فرمایا:.ونجی میں بسنے والے احمدی بھائیو! مرکز احمدیت سے آپ کے جزائر کا فاصلہ ہزاروں میل کا ہے لیکن صرف آپ ہی مرکز سے اتنے فاصلے پر نہیں مغربی افریقہ میں بسنے والے احمدی بھی ہزاروں میل کے فاصلہ پر ہیں.اسی طرح امریکہ میں بسنے والے احمدی آپ سے بھی زیادہ فاصلہ پر بستے ہیں پس محض مرکز سے دوری اخلاص کی کمی اور ایثار اور قربانی سے بے پروا ہی پر منتج نہیں ہوتی بلکہ فاصلے محبت اور پیار سے اخلاص اور ایثار سے سکڑ جاتے اور زائل ہو جاتے ہیں جو محبت جو ایثار اور غلبہ اسلام کیلئے جو جو میں نے مغربی افریقہ کے افریقن احمدیوں میں پایا ہے اگر ویسا ہی اخلاص اور جوش ساری دنیا کے احمدیوں میں ہو جائے.آ پس میں پیار کر نے لگیں بنی نوع انسان کی خدمت پر کمر بستہ ہو جائیں.اور اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق کو بھی اسی طرح ادا کریں جس طرح انہیں اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین اور وصیت کی گئی ہے تو غلبہ اسلام کی مہم جو اللہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جاری کی ہے اس کے اور بھی زیادہ خوشکن نتائج بہت جلدی ہماری آنکھوں کے سامنے آجائیں اور اپنی زندگیوں میں ہم غلبہ اسلام کی آخری فتح اور آخری غلبہ کے ایام اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگیں ہماری روح انہیں محسوس کرنے لگے اور ہماری خوشیوں کی کوئی انتہاء نہ رہے کیونکہ اسی میں ہماری خوشی اور مسرت ہے.یہ دنیا اور اس دنیا کے اموال اور دنیا کی مسرتیں اور لذتیں حقیقی نہیں.
تاریخ احمدیت 675 جلد ۲۰ ابدی بھی نہیں ہیں.ابدی اور حقیقی مسرت تو اللہ تعالیٰ کے پیار میں انسان کو ملتی ہے اور اسی کی طرف رجوع کر کے اس کے پیار کو ہمیں حاصل کرنا چاہیئے.آج اس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کر کے ہمیں یہ وعدہ دیا ہے کہ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس موعود عظیم روحانی فرزند کی باتوں کو سنو اور غلبہ اسلام کی جو مہم اس نے جاری کی ہے.اس میں حصہ لو معمولی حصہ نہیں بلکہ انتہائی حصہ ساری دنیا کی لذتوں اور دولتوں کو بھول کر اس حقیقی لذت اور حقیقی دولت کی تلاش کرو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.پس اگر تم حقیقی معنی میں پورے اخلاص کے ساتھ خدا کے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف رجوع کرو گے اور تو حید حقیقی پر پوری طرح قائم ہو جاؤ گے اور بے نفس محبت اسلام سے کرو گے اور قرآن کریم کی عظمت کو دلوں میں بٹھا ؤ گے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے متلاشی رہو گے اور خدا تعالیٰ کے لیئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ساری دنیا کے دل میں بٹھانے کی کوشش کرو گے تو اپنے لیئے اللہ تعالے کے پیار کو حاصل کر لو گے.اگر نہیں کرو گے تو دنیا تو تباہی کی طرف جا رہی ہے تم اس قافلہ کے ساتھ کیوں شامل ہونا چاہتے ہو جس کے لیئے ہلاکت مقدر ہو چکی ہے تم اس جماعت میں پوری طرح اور اخلاص سے کیوں رہنا نہیں چاہتے کہ جس کے لیئے دنیا کی عزتیں اور آخرت کی عزت مقدر ہو چکی ہیں اور جو پیدا ہی اس لیئے کئے گئے ہیں کہ اللہ تعالے انہیں اپنی رحمتوں سے اپنے فضلوں اور پیار سے نوازے..خدا تعالے آپ کو بھی اور ہمیں بھی اور دنیا میں ہر جگہ بسنے والے احمد یوں کو بھی یہ توفیق عطا کرے کہ سب احمدی انفرادی طور پر بھی اور جماعتی لحاظ سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں اور جو کام اللہ تعالیٰ نے ان کے سپر د کیا ہے خدا تعالیٰ کی رضا کے لیو ہ اس کام میں ہمہ تن مشغول رہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کو پائیں اور ابدی جنتوں کے وہ وارث ہوں آمین اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.السلام علیکم “ جزائر نجی کا دوسرا بڑا جزیرہ وینوالیوو ( VANUALEVU) ہے جس ۴۳ 6 - بیت مبارک کی بنیاد تھا ہیڈ کوارٹر کہا سہ شہر ہے.۲۶ نومبر ۱۹۷۲ء کو اس شہر لمباسہ / میں مسجد مبارک کی بنیا د رکھی گئی.اس روز جزیزہ میں واقع تمام احمدی جماعتوں نے پر جوش وقار عمل منا یا اجتماعی وقار عمل کا دلکش نظارہ ملکی شاہراہ پر آنے جانے والے ہر شخص کو متاثر کرتا تھا.پہلی اینٹ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے اور دوسری مولوی غلام
تاریخ احمدیت 676 جلد ۲۰ احمد صاحب فریج نے رکھی.نم نم جزائر مشرقی بحرالکاہل میں حضرت خلیفہ المسح الثالث کی تحریک خاص کے مطابق جہاں دنیا بھر کے دوسرے احمدی مشنوں قرآن کریم کی وسیع اشاعت میں وسیع پیمانہ پر قرآن کریم کی اشاعت ہوئی وہاں نجی مشن کی طرف سے ۱۹۷۲ء سے بڑی تعداد میں چھوٹے بڑے سائز کے قرآن کریم سادہ اور مترجم اردو انگریزی میں مع تفسیر اور مقامی زبان میں بھی مفت اور برائے نام ھدیہ پر بکثرت تقسیم کئے گئے.نجی کے پانچ مشہور ہوٹلوں میں قرآن کریم انگریزی کے جو نسخے رکھوائے گئے ان کی تعداد ایک ہزار تھی.چنانچہ مولوی محمد صدیق صاحب نے اپنی ایک رپورٹ میں اطلاع دی کہ آسٹریلیا.نیوزی لینڈ.جی.جزائر ٹونگا.پاپوا نیو گنی.جزائر کوک (COOK) مغربی اور مشرقی ساموا (SAMOA) جزائر نیو ہر برڈیز اور ہو نیا را وغیرہ ان سب مما لک بحر الکاہل کی یو نیورسٹیوں، کالجوں، پبلک لائبریریوں، سکولوں، ہوٹلوں، مختلف سوسائیٹیوں، سوشل کلبوں اور نادیوں وغیرہ کی لائبریریوں کو قرآن کریم کے مختلف بڑے چھوٹے انگریزی ایڈیشن مفت پیش کئے گئے ہیں جو کہ شکریہ کے ساتھ قبول کئے گئے اور اب ان لائبریریوں کی الماریوں میں رکھے ہوئے ہیں اور پبلک ان سے فائدہ اٹھاتی ہے.اس کے علاوہ بیسیوں نادار طالب علموں، یونیورسٹی کے پروفیسروں، ٹیچروں وغیرہ نے ہم سے خود بھی قرآن کریم طلب کئے اور کرتے رہتے ہیں اور بعض کو مفت پیش کیے گئے اور بعض نے خود پیشگی قیمتیں ادا کیں بعض خود آ کر لے جاتے ہیں.جزائر فجی میں باہر سے آنے والے بڑے بڑے شاہی اور معزز مہمانوں ، بادشاہوں چیفوں، گورنروں ، وزرائے اعلیٰ اور پارلیمنٹوں کے مختلف ممبروں، ہائی کمشنروں، ملکی سفیروں میں سے اکثر کو خود بطور نمائندہ جماعت یا تبلیغی وفد کی صورت میں مل کر تبلیغ اسلام کی گئی جس کے بعد انہیں قرآن کریم انگریزی سوانح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی اصول کی فلاسفی اور دیگر اسلامی کتب پیش کی جاتی رہیں جو کہ ہر ایک نے شکریہ کے ساتھ قبول کیں اور بعض نے اپنے ملک واپس جا کر شکریہ کے خطوط بھی لکھے ایسے اکثر اسلامی لٹریچر اور قرآن کریم کا مالی ہدیہ یا قیمت جماعت احمد یہ نجی کے بعض مخلص اور مخیر احباب حصول ثواب کی خاطر اپنی جیب سے مشن کو ادا فرماتے رہے ۴۵
تاریخ احمدیت 677 جلد ۲۰ گورنر جنرل نجی کو اسلامی لٹریچر سمینار فروری ۱۹۷۳ء کو مولانا محمد صدیق صاحب انچارج مبلغ نجی کی قیادت میں ایک احمدیہ تبلیغی وفد نے گورنر جنرل سے ملاقات کی اس گفتگو کے بعد تبلیغی ایڈریس پڑھا اور ان کو قرآن کریم اور دیگر اسلامی لٹریچر کی پیش کش کی جس کا انہوں نے بہت شکر یہ ادا کیا اور اس شدید خواہش کا اظہار بھی کیا کہ قرآن کریم کا فجین زبان میں ترجمہ جلد از جلد شائع کیا جائے.تا کہ ملک کے اصلی باشندے اسے خود بلا واسطہ پڑھ کر معلوم کر سکیں کہ اس میں کیا لکھا ہے.یہ تقریب بخیر و خوبی ختم ہوئی جس کے بعد مقامی اخبارات میں اسکی خبر میں اور فوٹو بھی ۴۶ ۴۷ شائع ہوئے.۲۲ /اپریل ۱۹۷۳ ء کو احمد یہ بیت لوٹو کا کا افتتاح عمل میں آیا.اس بیت کی تعمیر میں ماسٹر محمد حسین صاحب نے بڑی محنت سے دن رات کام کیا تھا.مولانا غلام احمد صاحب فرخ نے اس تقریب پر احباب کو تعمیر بیت کے بعد انکی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ۳ / ا گست ۱۹۷۴ء کو لمباسہ شہر کی نئی بیت احمد یہ بیت ناصر‘ کا افتتاح عمل میں آیا.اس موقع پر نجی کے تمام احمدی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی.ریڈ یونجی نے اس کے افتتاح کے بارہ میں اعلانات کئے اور روزنامہ نبی نے اس کے افتتا حکے دلکش فوٹو شائع کئے.۴۸ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ اکتوبر ۱۹۷۴ کو حکومت نجی کی طرف سے آزادی کا رسالہ اور حکومت برطانیہ سے الحاق کا سو سالہ جشن منایا گیا.اس موقعہ پر تقریبات میں حصہ لینے کے لیئے ملکہ برطانیہ نے اپنے فرزند پرنس چارلس کو بھیجا جو پرنس آف ویلز ہیں.مولوی غلام احمد صاحب فرخ نے جماعت احمد یہ نجی کی طرف سے انہیں ایک تبلیغی مکتوب لکھا نیز قرآن کریم کی انگریزی تفسیر کا تحفہ ارسال کیا جس کو انہوں نے جذبات تشکر کے ساتھ قبول کیا چنانچہ ان کی سینئر لیڈی سیکرٹری نے ان کی طرف سے بکنگھم پیلس سے شکریہ کا خط لکھا.ریڈ یوجی سے احمدیت کا چرچا حکومت نجی نے مذہبی رواداری کی سنہری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیشہ پُرامن مذہبی اداروں کی حوصلہ افزائی کی ہے.مولوی غلام احمد صاحب فرخ نے نومبر ۱۹۷۳ء میں ریڈ یونجی کے ڈائریکٹر سے ملاقات کر کے ریڈیو پر دوسرے فرقوں کے برابر وقت دیئے جانے کی درخواست کی جو انہوں نے فراخدلی سے منظور کر لی اور ۱۹۷۴ء سے احمد یہ مشن کو
تاریخ احمدیت 678 جلد ۲۰.دوسرے فرقوں کے برابر صبح کے مذہبی پروگراموں اور دوسرے یادگاری مواقع پر تقاریر نشر کرنے کے مواقع دیئے جانے لگے اور یوم مسیح موعود یوم مصلح موعود یوم خلافت، جلسہ سالانہ جماعت نبی، یوم سیرت النبی، رمضان المبارک اور عیدین کے موقع پر مبلغین احمدیت کی تقریر میں خبروں کے بعد نشر ہونے لگیں.اس طرح پورے ملک میں احمدیت کیا واز گونجنے لگی.بیت مبارک کا افتتاح اگست ۱۹۷۴ء کو جزیره وینوالیوا (VANUALEVU) کے دارالحکومت لمباسہ میں مولانا غلام احمد صاحب فرخ نے بیت مبارک کا افتتاح کیا.اس موقع پر سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے بذریعہ ٹیلیگرام حسب ذیل پیغام عطا فر ما یا A نبی میں اس احمد یہ بیت الذکر کے افتتاح کے موقعہ پر میری طرف سے تہ دل سے مبارکباد.خدا تعالیٰ اس مسجد کو اس علاقہ میں اسلام کی عظمت و شان اور مسلمانوں کی مضبوطی کا موجب بنائے.اسلام اور احمدیت کی خدمت بے نفس ہو کر اخلاص کے ساتھ بجا لائیں اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کریں.میری طرف سے جملہ احباب کو جو اس تقریب میں شامل ہیں اور اسکی کامیابی کے لئے کوشاں ہیں السلام علیکم.اللہ تعالیٰ آپ سب کو کامیاب فرمائے.“ یا سا وا گروپ کے جزائر کا تبلیغی دورہ مولوی عبدالرشید صاحب رازی نے ماه نومبر ۱۹۷۴ء میں یا سا وا گروپ کے جزائر کا وسیع تبلیغی دورہ کیا اور انفرادی ملاقاتوں اور پبلک جلسہ کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا.۵۲
تاریخ احمدیت فصل بافتم 679 جلد ۲۰ بیت فضل عمر کی بنیاد اور ۸ رونمبر ۱۹۷۴ء کو وا میں جماعت احمدیہ کی بہت فضل اور مشن ہاؤس کے سنگ بنیاد کی تقریب عمل میں آئی.امام همام کا پیغام اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے حسب ذیل ایمان افروز پیغام ارسال فرمایا : - بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود خدا کے فضل اور رحم کیسا تھ جان سے عزیز بھائیو ! ھوالناصر السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے یہ معلوم کر کے از حد مسرت ہوئی کہ آپ نے بیت فضل عمر کی بنیا دوں کی کھدائی کا کام اپنے ہاتھ سے خود کیا ہے.آج آپ اس کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ یہ دن نہ صرف جماعت ہائے احمد یہ نجی بلکہ جزائر فجی کے جملہ اہالیان کے لیئے ہر طرح با برکت ثابت کرے.اس علاقہ میں اس بیت الذکر کو اعلاء کلمہ اسلام کے لیئے مرکز ثابت کرے اس طرح کہ اہالیان نجی کے دلوں میں انابت الی اللہ اور خشیت اللہ پیدا ہو جائے اور وہ اپنے دلوں کو پاک اور صاف کر کے خدائے واحد کے حضور جھک جائیں اور اس کے بندے بن جائیں.اے خدا ! تو ایسا ہی کر.اس کے ساتھ میں احباب جماعت کو یہ نصیحت کروں گا کہ ہماری بیوت ذکر الہی سے معمور رہنی چاہیں.نہ صرف پنجوقتہ نمازوں کے اوقات میں بلکہ دیگر اوقات میں بھی ہماری مساجد دعاؤں، نوافل، تعلیم و تعلیم قرآن، تبلیغ حق اور تربیت نفوس کے مراکز بنی رہنی چاہیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.اور جملہ احباب کو بیوت کے فیوض و برکات سے پوری طرح متمتع ہونے کی سعادت نصیب کرے.آمین
تاریخ احمدیت 680 جلد ۲۰ یہ دور ابتلا ؤں اور آزمائشوں کا دور ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ اپنے فضل سے احباب جماعت کو ایمان پر استقامت بخشے ثابت قدم رکھے.اور اس راہ میں ہر قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے قبول کرے.آمین مرزا ناصر احمد ۵۳ خلیفة المسیح الثالث ( ۳ / دسمبر ۱۹۷۴ء -۳۵۳اهش ) جماعت احمد یہ نبی نے جنوری ۱۹۷۵ء میں مسلم سن رائز“ کے نام سے ایک سہ ما ہی رسالہ جاری کیا.اقوام متحدہ کی ایک اہم مسلمان وسط ۱۹۷۷ء میں جنوبی بحرالکاہل میں واقع COOK ISLAND میں اقوام متحدہ کی شخصیت کی طرفسے مبارک باد طرف سے متعین CENSUS ADVISER مسٹر محمد سراج الاسلام دارلحکومت صوا میں تشریف لائے اور اس کیمشہور ہوٹل PACIFIC HOTEL میں قرآن مجید کا وہ انگریزی ترجمہ دیکھا جو جماعت احمدیہ نجی نے اشاعت قرآن کی مہم کے دوران دوسرے مقامات کے علاوہ یہاں بھی رکھوایا تھا.وہ اس ترجمہ سے از حد متاثر ہوئے اور واپس COOK ISLAND میں آکر احمد یہ مشن نبی کو قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر بھجوانے کی فرمائش کی جو انہیں ارسال کر دیا گیا.جسے پڑھکر انہوں نے جماعت احمدیہ کو مبارک باد پیش کی.چنانچہ انہوں نے مولوی دین محمد صاحب انچارج نجی مشن کے نام حسب ذیل مکتوب لکھا.(ترجمہ) ” قرآن مجید کا ایک نسخہ اور دیگر اسلامی مطبوعات کو پا کر میں بہت خوش ہوا ہوں.مجھے یہ معلوم کر کے بھی بہت خوشی ہوئی ہے کہ احمدیہ مشن اسلام کے حسین پیغام کی تبلیغ واشاعت کا اہم فریضہ سر انجام دینے میں مصروف ہے.قرون اولیٰ میں مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ہے.اور اُن کی ناقابل تسخیر قوت اس بات میں تھی کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرتے رہے.مگر افسوس کہ اب مسلمان اسلام کی تبلیغ واشاعت کو نظر انداز کر رہے ہیں.اور اسی وجہ سے وہ غریب، پسماندہ، شکست خوردہ اور نا پسندیدہ عنصر ہو کر رہ گئے ہیں.میں جماعت احمدیہ کو تبلیغ اسلام کی اہم خدمت کے سرانجام دینے پر مبارک باد کہتا ہوں“.آپکا دلی دوست - محمد سراج الاسلام
تاریخ احمدیت 681 جلد ۲۰ حضرت خلیفة المسیح الثالث جناب مولوی شیخ سجاد احمد صاحب خالد تحریر فرماتے ہیں کہ کی دعا سے بارانِ رحمت جب ۱۹۷۷ء میں خاکسار نجی پہنچا تو مجھے معلوم ہوا.کہ اس ملک کے باشندے اس سال بارش کی بڑی شدت سے کمی محسوس کر رہے ہیں اور خشک سالی سے سخت پریشان ہیں.ملک کے مولوی صاحبان بارش کے لئے دُعائیں کر چکے تھے.اور ہندو پنڈت کھلے میدانوں میں آگ جلا جلا کر بارش برسانے والے دیوتاؤں سے بارش کے لئے التجا ئیں کر چکے تھے.اس ملک کے ہندوؤں میں یہ رسم ہے کہ اگر حسب ضرورت بارش نہ ہو اور قحط سالی کا خطرہ ہو تو میدانوں میں نکل کر آگ جلاتے اور ڈھول بجا بجا کر اپنے دیوتاؤں کو بارش کی کمی کا احساس دلاتے ہیں.تا ہم اس وقت ان کی سب رسمیں اور دیوتا بیکار اور بے جان ثابت ہوئے اور بارش نہ ہوئی.جس سے حکومتی حلقوں میں بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا کیونکہ یہ خشک سالی تقریباً سال بھر لمبی ہو گئی تھی.جو ملک کے لئے سخت نقصان دہ تھی.اس دوران ایک روز قصبہ مارو میں خاکسار برادرم مکرم ماسٹر محمد یونس خانصاحب کے مکان پر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خط لکھ رہا تھا مکرم ماسٹر یونس صاحب کو جب یہ معلوم ہوا تو کہنے لگے کہ ابھی ابھی اسی وقت حضور کی خدمت میں خصوصی طور پر لکھیں کہ سال بھر سے سارے ملک منی میں بارش کا فقدان اور خشک سالی تباہی کا موجب ہو رہی ہے اور ملک کے لوگوں کی اور ہماری دعائیں اور دیگر رسوم بھی سب بے کار ثابت ہو چکی ہیں.حضور اس ملک کے باشندوں پر رحم فرماتے ہوئے متواتر خاص دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد اس سرزمین کو حسب ضرورت بارش سے سیراب فرمائے نیز میری طرف سے یہ بھی خاص التجا کریں کہ اپنے ایک ادنی مرید ماسٹر محمد یونس خان کیلئے دعا فرما ئیں کہ اللہ تعالیٰ اسے ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف سے شفا عطا فرمائے.خاکسار نے اسی وقت ان دونوں اہم امور کے لئے حضور کی خدمت میں خاص دعا کی درخواست لکھ کر روانہ کر دی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سلسلہ میں حضور کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور خط کا جواب آنے سے پہلے پہلے سارے ملک میں اتنی شدید بارشیں ہوئیں کہ ہر طرف ہر یالا اور سبزی ہی سبزی ہو گئی اور ہر شخص کی زبان پر بلکہ لوکل اخباروں میں اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ کئی سالوں کے بعد ملک میں اتنی اچھی اور وسیع پیمانے پر بارشیں ہوئی ہیں.لیکن یہ بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ پاکستان کے دریائے چناب کے
تاریخ احمدیت 682 جلد ۲۰ کنارے بسنے والے ایک مرد با خدا حضرت امام جماعت احمد بخلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالے کی مخلصانہ اور دردمندانہ دعا ئیں نجی میں اس بارانِ رحمت کے نزول کا موجب ہوئی ہیں.مکرم ماسٹر محمد یونس خانصاحب کی صحت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا وہ خدا کے فضل سے اب صحت یاب ہیں اور جماعتی خدمات میں بڑھ چڑھ حصہ لینے والے مخلص جو ان ہیں.فالحمد الله تعالی.خوابوں کے ذریعہ رہنمائی دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح جزائر فجی میں بھی بہت سے ایسے مخلص احمدی دوست موجود ہیں جن پر اور قبولت احمدیت اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کے نتیجہ میں بذریعہ خواب احمدیت کی صداقت کا انکشاف فرما کر انہیں جماعت احمد یہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.اس سلسلہ میں بطور نمونہ صرف ایک خواب کا تذکرہ کیا جاتا ہے.مارو کے مکرم محمد بشیر خاں صاحب تحریر کرتے ہیں کہ.جزائر جی میں احمدیت کے چرچا اور احمدیہ مشن کے قیام سے پہلے وہاں عیسائیت کا بہت زور تھا.اور حضرت عیسیکی آسمان سے آمد کے عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح منتظر تھے جس کی وجہ سے یہ خیال میرے دل میں گھر کرنے لگا.کہ عیسائیت کچی ہے اور عیسائی ہو جانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.میں ابھی عیسائی نہیں ہوا تھا بلکہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے خواب میں ایک نہایت بزرگ انسان ملے.انہوں نے بڑے جلال سے مجھے فرمایا.محمد بشیر ہوش کرو.جس شخص کی تمہیں تلاش ہے وہ عیسی یا مسیح ناصرئی نہیں ہے بلکہ وہ کوئی اور ہے اور دنیا میں ظاہر ہو چکا ہے.اس وقت جزائر فجی کے پہلے مبلغ جناب شیخ عبدالواحد صاحب فاضل نجی میں آچکے تھے اور میرے والد محترم مولوی محمد قاسم صاحب بھی بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کر چکے تھے.لیکن میرا اس طرف رجحان نہیں تھا.تا ہم مذکورہ بالا خواب دیکھنے کے بعد میرارجمان احمدیت کی مبانعجماعت کی طرف ہو گیا اور میں نے بھی اپنے والد صاحب کی طرح شرح صدر سے بیعت کر لی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی...کی بیعت کر لینے کے بعد مجھے سلام سے ایسی محبت اور لگاؤ پیدا ہو گیا اور ایسے فہم و فراست سے اللہ تعالیٰ نے سرفراز فرمایا کہ میں عیسائیوں کے سامنے نہایت جرات اور یقین سے اسلام کی حقانیت اور عیسائیت کے موجودہ عقائد کا بطلان ثابت کرنے لگ گیا اور میں نے اللہ کا تہہ دل سے شکر ادا کیا کہ صداقت مجھ پر کھل گئی اور میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اور حقیقی غلاموں میں شامل ہو گیا ہوں.“ ۵۷
تاریخ احمدیت فصل هشتم 683 جلد ۲۰ جلسہ سالانہ 1977 ء اور بیت ۲۵ - ۲۶ دسمبر ۱۹۷۷ء کو سوا (SUVA ) کی بیت فضل عمر میں جماعت احمد یہ جزائر فجی کا فضل عمر اور لائبریری کا افتتاح نہایت کامیاب سالانہ جلسہ منعقد ہوا.ملک بھر سے احباب جماعت ہوائی جہازوں، کاروں اور سپیشل بسوں سے سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے 500 کی تعداد میں شامل ہوئے.جلسہ میں شامل مہمانوں اور زائرین کے قیام و طعام کا انتظام جلسہ سالانہ ربوہ کی طرز پر نہایت منظم رنگ میں کیا گیا.حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا حسب ذیل پیغام اس موقع پر مولوی دین محمد صاحب شاھد ایم اے نے پڑھ کر سنایا.اللہ تعالیٰ آپ کے جلسہ سالانہ کو با برکت کرے.متحد ر ہوا اور خلافت کے تقدس کو ہمیشہ ملحوظ رکھو اور اسکی عزت کرو.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دُعاؤں سے عاجزی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اور پوری فرمانبرداری اور اطاعت سے حاصل کرو.خلیفة اصبح الثالث اس موقع پر پندرہ ہزار فجین ڈالر کے خرچ سے تعمیر ہونے والی پُر شکوہ بہیت فضل عمر اور اس سے ملحق احمد یہ لائبریری کا افتتاح بھی عمل میں آیا.حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے حسب ذیل مبارک پیغام احمد یہ لائبریری کی افتتاحی تقریب پر ارسال فرمایا تھا.خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران عزیز ھوالناصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ ' مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ بیت فضل عمر ( کے پہلے مرحلہ کی تکمیل پر ) اور اس کے ساتھ ملحق لائبریری اور دار المطالعہ کے افتتاح کی تقریب منعقد کر رہے ہیں.دین حق میں بیت الذکر ایک مقدس جگہ ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا گھر کہلاتا ہے.اور یہ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیئے مخصوص ہے.یہ مقدس جگہ لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ
تاریخ احمدیت 684 جلد ۲۰ کی محبت پیدا کرنے کے لیئے اور ان کی توجہ کو مذہب کی طرف بلانے کے لیے ہے.جو دنیا میں امن اور خوشحالی پیدا کرنے کا واحد ذریعہ اور ضمانت ہے.جب یہ صورت حال ہے تو اس بیت کے دروازے ہر اُس شخص کے لیئے گھلے رہیں گے جو خدائے واحد و یگانہ سے دعا مانگنا اور اسکی عبادت کرنا جس طریق پر چاہے کر سکتا ہے بشرطیکہ ا.وہ ان لوگوں کی عبادت میں مخل نہ ہو جنہوں نے اس بیت کو اپنی دینی ضروریات کے لئے بنایا ہے.۲.وہ اس بیت الذکر کے قواعد و قوانین کی یا بندی کرے جو اس کے ٹرسٹیوں کی طرف سے بنائے گئے ہوں.مجھے امید ہے کہ اس طریق سے رواداری کی جو فضا پیدا ہوگی وہ آگے چل کر مختلف طبقوں کے درمیان باہمی نفرت جھگڑوں کو فسادوں کو دُور کر کے اُن کے درمیان خیر خواہی اور اچھے تعلقات اور محبت کی فضا پیدا کرنے کا موجب ہو گی.مجھے امید ہے.وہ دن دور نہیں جبکہ لوگ لڑائی اور فساد کے طریق کو نفرت سے دیکھیں گے اور دوسرے کے ساتھ امن اور سلامتی اور محبت سے رہنے کا سبق سیکھ لیں گے.میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ان تمام مردوں اور عورتوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے جنہوں نے اس بیت کی تعمیر کے لئے عطایا دیئے.میں دُعا کرتا ہوں کہ یہ بیت حضرت محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جلیل القدر متبع حضرت مسیح موعود و مهدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر ہونے والی ہدایت اور روشنی کو پھیلانے کا مرکز اور ذریعہ بنے.“ والسلام آپ کا دلی دوست مرزا ناصر احمد خلیفہ المسیح الثالث مورخہ ۷۷.۱۱.۵۱۰ ایک خاندان کے قبول جناب شیخ سجاد احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.جزائر فجی میں تبلیغ کے دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و احمدیت کی دلچسپ روداد نصرت کے بے شمار جلوے دیکھنے کا مجھے شرف حاصل ہوا.۱۹۷۷ء کے آخر میں ایک مرتبہ اس ملک کے جزیرہ لمباسہ کے تبلیغی دورے پر گیا.جس کے دوران قصبہ نصر وانگا کے ایک مخلص احمدی بھائی نور شاہ صاحب نے پروگرام بنایا کہ وہاں سے ۴۰ میل دور BUA ڈسٹرکٹ میں اُن
تاریخ احمدیت 685 جلد ۲۰ کو کے خسر عبدالغفور صاحب کے گھر پہنچ کر اُن کو تبلیغ کی جائے.وہ عرصہ سے زیر تبلیغ تھے.اور احمدیت کی سچائی کا اقرار کرنے کے باوجود جماعت میں شمولیت سے گریز کر رہے تھے.چنانچه نور شاہ صاحب مکرم حامد حسین صاحب مکرم محمود شاہ صاحب مکرم محمود شاہد صاحب اور خاکسار پر مشتمل تبلیغی وفد ایک روز عبد الغفور صاحب کے گھر پہنچا.انکی بیگم صاحبہ کو ہما را اس غرض کے لیئیا ناسخت ناگوار گزرا اور دیکھتے ہی کچن سے نکل کر ہمیں ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی اور کہنے لگیں کہ ان کے گھر میں احمدیت کے بارہ میں کوئی بات نہ کی جائے اور کچن میں واپس چلی گئیں.ہم مکرم عبد الغفور صاحب کو تقریباً ایک گھنٹہ تبلیغ کرتے رہے.چنا نچہ انہوں نے شرح صدر ہونے پر بخوشی بیعت فارم پُر کر دیا.دُعا کے بعد جب ان کی بیگم پتہ لگا کہ اُن کے خاوند نے بیعت کر لی ہے.تو بہت مجز بُز ہوئیں اور کمرے میں آتے ہی شور ڈالدیا کہ آپ نے ہمارے گھر میں فتنہ ڈالدیا ہے.میری بیٹی اور داماد پہلے ہی احمدی ہیں.اب آپ لوگوں نے میرے خاوند کو بھی احمدی بنا لیا ہے ابھی آپ فوراً یہاں سے چلے جائیں.اس پر خاکسار نے اُن کو بڑی نرمی اور عاجزی سے سمجھایا کہ ہم نے کوئی بُرا کام تو نہیں کیا.اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ اور امام وقت کی بیعت ہی کرائی ہے.اور اب با قاعدہ الہی جماعت میں شمولیت سے ان کے اسلام کو چار چاند لگ گئے ہیں.اس پر وہ سنجیدہ ہو کر سوالات کرنے لگیں.جن کے خاکسار جواب دیتا رہا.حتی کہ ان کے شکوک و شبہات بھی سب دور ہو گئے اور انہوں نے بھی اسی وقت بیعت کر لی.اس وقت کا ماحول روحانی لحاظ سے اتنا پیارا اور خوشگوار ہو گیا.کہ بیگم عبد الغفور صاحب خود ہی کہنے لگیں.کہ اگر بیعت کرنا اور امام وقت کی جماعت میں شامل ہونا نیکی کا کام ہے تو آپ میرے بیٹے محمد تقی کو بھی ضرور اس میں شامل کریں.تا کہ ہمارے کنبے میں کوئی اختلاف نہ رہے اس پر ہم سب ان کے بیٹے محمد تقی صاحب کے گھر گئے میں نے انہیں کہا.کہ ہم آپ کے لیئے پاکستان سے ایک تحفہ لے کر آئے ہیں.وہ ہم اس شرط پر آپکو پیش کریں گے کہ آپ اسے رڈ نہ کریں چنا نچہ دو گھنٹہ کی بحث کے بعد ان کی تسلی ہو گئی اور انہوں نے بھی بیعت کر لی اور یوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سارا خاندان ہدایت پا گیا.۵۹
تاریخ احمدیت 686 جلد ۲۰ کسر صلیب کانفرنس بین الاقوامی کسر صلیب کانفرنس لنڈن ( منعقدہ ۲.۳.۴ / جون ۱۹۷۸ ء ) کی بازگشت نجی کے طول و عرض کی بازگشت نجی میں میں بھی سنی گئی.چنا نچہ ریڈ یونجی میں اس کا نفرنس کی تفصیل نشر ہوئی.اور نجی کے کثیر الاشاعت اور بااثر انگریزی اخبارات نجی ٹائمنز“ اور ” بھی سن نے نہ صرف کا نفرنس کی تفصیلات دیں بلکہ حضرت مسیح ناصری کی صلیبی موت سے نجات اور قبر کشمیر کے بارہ میں نہایت دلچسپ ایمان افروز اور مبسوط با تصویر مضامین سپر داشاعت کیئے.جس سے نجی کے علمی حلقوں پر انکشافات جدیدہ کی روشنی میں حضرت مسیح موعود کے جدید علم کلام کی عظمت و برتری کا سکہ بیٹھ گیا.جلسہ سالانہ ۱۹۷۸ ء کیلئے حضرت ۲۵-۲۶ دسمبر ۱۹۷۸ء کو جماعت احمد یہ جزائر فجی کا سالانہ جلسہ ملک کے خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام دارالحکومت سوا (SUVA ) میں منعقد حسب ذیل پیغام بذریعہ کیبل گرام ارسال فرمایا.ہوا.اس جلسے کیلئے حضرت خلیفہ اسیح نے May Allah bless your 9th annual convention.Seek His help through humble prayers, submissions and prayers and set a high standard in the prctical life.Hold fast to the rope of Allah and make your lives living proof of the teachings of Islam.My thoughts and prayers are always with you, your ever loving KHALIFATUL MASIH" ترجمہ :.اللہ تعالیٰ آپ کے نویں سالانہ جلسہ کو با برکت فرمائے عاجزانہ دعاؤں سے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اور پھر دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت کو حاصل کر و عملی زندگی میں کردار کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کرو.اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کا زندہ نمونہ بناؤ.میری توجہ اور دعا ئیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں.آپ سے ہمیشہ پیار کرنے والا س خليفة اح 1 بیت بلال کا افتتاح ۳ دسمبر ۱۹۷۸ء کو صبح دس بجے نساوا کا کی” بیت بلال“ کا افتتاح جناب مولوی دین محمد صاحب نے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے مندرجہ ذیل مبارک پیغام سے کیا.
تاریخ احمدیت وو 687 جلد ۲۰ " خدا تعالیٰ کے اس گھر سے ہمیشہ پیار کریں اور آباد رکھیں اللہ تعالیٰ آپکو اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی اس گھر میں مقبول دعاؤں کی تو فیق عطا فرما تار ہے“.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مجلس خدام الاحمدیہ جزائر فجی کا پہلا سالانہ تربیتی اجتماع ۱۱ فروری ۱۹۷۹ء کو مارو میں پیغام خدام الاحمدیہ نبی کے نام منعقد ہوں جزائری کی تاریخ میں نو جوانوں کا ایسا بڑا خالص دینی اور اسلامی اجتماع پہلی دفعہ منعقد ہوا.جس پر احمدی احباب بہت خوش تھے اس کا میاب افتتاح کا آغا ز سید نا حضرت خلیفہ الثالث کے درج ذیل ایمان افروز پیغام سے ہوا جو مولوی دین محمد صاحب شاهد ایم اے نے پڑھکر سنایا.پیارے بھائیو! اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر اراکین خدام الاحمدیہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ فروری کے دوسرے ہفتہ میں اپنا عام اجلاس منعقد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو با برکت اور کامیاب بنائے (آمین ) اس موقع پر میں آپکو یاد دلاتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے ممبر ہونے کی حیثیت سے آپ کے کندھوں پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آپ جانتے ہیں.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا بنیادی مقصد ایک عالمی اسلامی نظام قائم کرنا تھا.اور یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا.جب تک ہم اپنی سوچ اور اپنے کاموں میں ایک مکمل تبدیلی نہ پیدا کر لیں.لہذا ہمارے خدام کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سادہ زندگی اچھے اخلاق واطوار اسلامی اصول و نظریات کو اپنا سمح نظر بنانے کی کوشش اور بلا امتیا ز قوم ونسل انسان کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کی ایک مثال قائم کر دیں.لوگوں کے دلوں کو جیتنے کے لئے ہمیں گولیوں اور تلواروں کی ضرورت نہیں ہمارا اسلحہ خانہ تو تقویٰ دعاؤں نظم و ضبط اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے آگے سرتسلیم خم کرنا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دوبارہ قائم کرے.یہ بہت بڑا کام ہے.اس کام کو کرنے کے لئے ہمیں
تاریخ احمدیت 688 جلد ۲۰ ذاتی آرام کا خیال کیئے بغیر دیوانہ وار دن اور رات کام کرنا ہوگا.یہ بات واضح ہے کہ ہم احمدیت اور قرآن کریم کا پیغام اس وقت تک دوسروں تک نہیں پہنچا سکتے جب تک ہمیں خود ان کا پورا علم نہ ہو.اس لیے خدام الاحمدیہ کو اپنا فرض قرار دے لینا چاہیے کہ وہ قرآن کریم کو اتنا اچھے طور پر سیکھیں جتنا اچھے طور پر وہ سیکھ سکتے ہیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب جو دین حق کی صحیح تصویر پیش کرتی ہیں کا مطالعہ بھی کرنا ہے اور یہ بھی دیکھیں کہ کوئی احمدی ( مرد ہو یا عورت ) ان پڑھ نہ رہے.آپ کو اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا امتی نبی اور مہدی مبعوث کر کے اور خلافت کو دوبارہ قائم کر کے تمہارے دلوں کو متحد کر دیا ہے اور تم میں باہمی محبت پیدا کر دی ہے تمہیں نظام خلافت کے تقدس کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے تمہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہونی چاہئے کہ امام وقت سے جو ہر وقت تمہاری بھلائی کے لئے کوشاں رہتا ہے اور متواتر تمہارے لئے دُعا کرتا ہے تمہارا ذاتی تعلق قائم ہو.اللہ تعالے تمہیں عزم اور ہمت عطا کرے تا تم ایک چے....کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکو.آمین خلیفۃ المسیح الثالث ۷۹ - ۱-۲۲ ۶۳
جلد ۲۰ 689 تاریخ احمدیت فصل نهم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا روح حالیہ سالانہ جماعت احمد یہ بچی کے موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث پرور پیغام جلسہ سالانہ بنی ۱۹۷۹ء پر نے مندرجہ ایل پیغام مرحت فرمایا.Message of Hazrat Khalifatul Masih III To The Ahmadies of Fiji Islands I am glad to hear that the Jamaats in Fiji Islands are holding their annual Jalsa on 25th and 26th December, 1979, May Allah bless this Jalsa and its participants.May it prove to be a step towards the realization of our goal the propagation of Islam in the world.On the occasion of this Jalsa, I wish to draw your attention to the fact that in 1889 the Promised Messiah, under Divine guidance, established this Jammaat for the sole purpose of spreading Islam in the world and gathering togather under the banner of Islam, the peoples of all nations, of all countries and of all faiths.Ninety years have passed since then and the world of religion has undergone a lot of change in these ninety years.The message of Islam has now reached the four corners of the world and people of all countries and all nations are realizing the truth and are joining the Jamaat in large numbers.I have told you on many occasions that the next century of our life as a Jamaat beginning in 1989 is the century of Only ten years are victory and triumph of Islam over all other faiths.now left.In these ten years we must prepare ourselves and our children to be able to welcome this century of the triumph of Islam in a befitting manner.And this lays a great responsibility on our shoulders.We must be able not only to understand the Islamic
جلد ۲۰ 690 تاریخ احمدیت teaching but also to practise it in our own lives.So that when in the next century, people join the Jamaat in hosts, as foretold by the Promised Messiah, we and our children may be able to act as their guides and teachers in the Islamic faith and tradition.It is for this reason that I placed before you the Ahmadiyya Centenary Jubilee Plan in my lecture on the last day of 1973 Annual Jalsa of Ahmadiyya Movement held at Rabwah.And in my Friday Sermon on February 8, 1974, referring to the proposed plan, I told you that the real thing is that this plan may find approval in the sight of Allah, the Almighty.For this purpose I called upon the members of the Jamaat to pray earnestly to bless this plan.I also put forth a special programme of prayers and worship to be followed by all Ahmadies for their spiritual betterment.1.In the last week of every month a day should be fixed by the members of the local Jamaat in which all the members should keep fast.2.Every member should daily offer two Rakaahs of Nafal (non-obligatory) prayers.These Nawafil should be offered after Zohar prayer or during the night, after the Isha prayer till the Fajar prayer.3.Every Ahmadi should recite Sura Faiha seven times a day.4.Every Ahmadi should glorify Allah and invoke His blessings on the Holy Prophet of Islam by reciting the following prayer thirty-three times a day.سبحان الله و بحمده سبحان الله العظيم - اللهم صل على محمد و آل daxs Glory be to Allah and His is the prasie! Glory be to Allah the great.O Allah bless Muhammad and his progeny.5.Every Ahmadi should ask forgiveness for his sins and shortcomings from Allah the Almighty be repeating the following prayer thirty-three times a day: استغفر الله ربى من كل ذنب و اتوب اليه I ask forgiveness from Allah my Lord for all sins and
جلد ۲۰ 691 I incline to Him.تاریخ احمدیت 6.Every member of the Jamaat should repeat the following prayers at least eleven times daily: ربنا افرغ علينا صبراً و ثبت اقدامنا و انصرنا على القوم الكافرين (A) Our Lord! put forth on us steadfastness and make our steps firm and help us against the disbeliving enemy.اللهم انا نجعلك في نحور هم ونعوذ بك من شرورهم (B) O Allah, we make thee a shield against their design and seek refuge with thee from their mischief.I also called upon you that in addition to these prayers and Nawafil, you should also frequently pray to the Almighty in your own language to grant His approval to the proposed plan and to bless our efforts in the path of Allah and His Messenger, the Holy Prophet of Islam, peace and blessings of Allah be upon him.I hope that you must be acting upon this programme of prayers and worship.I pray to Allah to grant you the strength and the energy required to carry out the plan according to the wishes of our Lord.I pray to Allah that he may grant you all that is good in this world and the next.I love you dearly and pray for you daily.May Allah bless you! May Allah be with you always and help you in all your endeavours.Ameen ! Rabwah : 16-12-1979 Yours sincerely, Mirza Nasir Ahmad Khalifatul Masih III ترجمتہ القرآن بزبان کیویتی مولانا شیخ عبدالواحد صاحب نے اپنے زمانہ قیام میں ایک عظیم الشان کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ ایک کیوتی دوست سے کیویتی زبان میں پورے قرآن مجید کا ترجمہ کروایا جس کا سارا خرج مکرم حاجی محمد لطیف صاحب نے برداشت کیا ۱۹۸۰ء میں اس ترجمہ کی نظر ثانی کیسے لیئے مرکزی ہدایت کے مطابق امیر و مشنری انچارج بھی اور جماعت کے مخلص بزرگ ماسٹر محمد حسین صاحب آف لٹو کا پر مشتمل قرآن بورڈ قائم کیا گیا.
تاریخ احمدیت 692 اب یہ ترجمہ قرآن ماسٹر صاحب کی مساعی سے منظر عام پر آچکا ہے.جلد ۲۰ جلسہ سالانہ ۱۹۸۰ء پر حضرت جماعت احمد یہ نبی کا جلسہ سالانہ ۱۹۸۰ء صوا میں جماعت احمدیہ کی سب سے بڑی اور نئی خلیفہ اسیح الثالث کا اہم پیغام مرکزی بیت میں منطقہ ہوا یہ بیت اور اس کی.متصل شاندار عمارت نبی احمدیوں کے ایثار و قربانی اور مالی جہاد کی ایک دائمی یادگار ہے.جلسہ سالانہ کی اس تقریب پر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا : - " مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنا جلسہ سالانہ منعقد کر رہے ہیں اور یہ جلسہ آپ کی نئی تعمیر شدہ بیت میں ہو رہا ہے.میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس جلسہ کو اور نئی تعمیر شدہ بیت کو ہر اعتبار سے آپ کے اور دین حق کے لیئے مبارک ثابت کرے یہ نئی بیت نجی میں جماعت احمدیہ کی ترقی اور دین حق کی تبلیغ واشاعت کا ایک مرکز بنے ایمان و اخلاص میں اضافہ کا موجب بنے اب ہم پندرھویں صدی ہجری میں قدم رکھ چکے ہیں یہ صدی انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ حق کی صدی ہو گی یہ صدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دی ہوئی بشارت کو پورا کرنے والی صدی ہو گی.یقیناً سمجھو کہ اب زمانہ دین حق کی روحانی تلوار کا ہے.عنقریب اس لڑائی میں دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہو گا.اور دین حق فتح پائے گا.میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں.( آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۵۴ - ۲۵۵) لیکن ہر بشارت اپنے ساتھ نئی ذمہ داریاں بھی لاتی ہے اور نئی قربانیوں کا تقاضا بھی کرتی ہے پس میرا پیغام آپ کے لیئے یہ ہے کہ آپ لا اله الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے نئے عزم کے ساتھ اس صدی کے آغاز میں دین حق کے لیئے اپنی قربانیوں میں نمایاں اضافہ کر دیں اور اپنی اولادوں میں بھی یہی جذبہ پیدا کریں کہ ہمارا قادر و توانا خدا بڑی قدرتوں کا مالک ہے.وہ ہماری حقیر مساعی کو اپنی برکتوں سے نوازتے ہوئے ضرور دین حق کو غلبہ عطا فرمائے گا.“ ۶۶
تاریخ احمدیت 693 جلد ۲۰ تجارتی میلہ میں سال ہا سال کے دستور کے مطابق نجی کے مشہور شہر اور انٹرنیشنل ایئر پورٹ ناندی ۱۱ تا ۱۸ / جولائی ۱۹۸۱ء کو وسیع پیمانہ پر ایک کامیاب تبلیغی مہم تجارتی میلہ لگا.یہ ایام رمضان المبارک کے تھے.اس لیئے جماعت احمدیہ نجی میلے میں اپنا سٹال تو نہ لگا سکی البتہ میلہ کے آخری روز جلوس میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا گیا.امیر صاحب نجی کی اجازت سے مبلغ نجی حافظ ملک عبد الحفیظ صاحب نے اس جلوس میں شرکت کی اس غرض کیلئے ایک دوست کی وین حاصل کی گئی جس پر لکڑی کا بڑا سا فریم لگایا گیا.فریم کے او پر جلی حروف سے لکھا تھا کہ "THE PROMISED MESSIAH HAS COME" نیچے دوسرے رنگ میں ان الفاظ کا مقامی کائیویتی زبان میں ترجمہ درج تھا جسکو کیویتی نو جوان بڑے زور کے ساتھ اونچی آواز میں پڑھتے تھے فریم میں مندرجہ ذیل الفاظ بھی درج تھے.۱۶۸ "TEACHING OF PEACE THE HOLY QUARAN" "TEACHING OF PEACE MASTER PROPHET MOHAMMAD, PEACE AND BLESSINGS ON HIM" ۶۷ علاوہ ازیں ایک لمبے بینر پر کلمه طيبه لا اله الا الله محمد رسول اللہ کے مبارک الفاظ مع انگریزی ترجمہ کے لکھے تھے.دین کی دوسری طرف بھی متعدد پرکشش تبلیغی فقرات سے مزین تھی.جماعت احمدیہ کی اس وین کو ماسٹر محمد حسین صاحب آف لوتو کا چلا رہے تھے...یہ روحانی الفاظ ہزاروں افراد نے دیکھے جن میں سینکڑوں سیاح بھی تھے جنہوں نے گہری توجہ سے ان کو پڑھا بعض کی یہ حالت تھی کہ حیرانی کے عالم میں مبہوت ہو کر کھڑے تھے.حافظ ملک عبد الحفیظ صاحب وین کے ساتھ شیروانی ، شلوار اور ٹوپی میں ملبوس ساتھ ساتھ دُعا کرتے ہوئے پیدل چلتے رہے.آپ کے ہمراہ چند خدام اور اطفال بھی تھے جو فٹ پاتھ پر کھڑے لوگوں میں لٹریچر تقسیم کرتے جاتے تھے اس طرح قریباً دو ہزار افراد کو لٹریچر تقسیم کیا گیا.یہ جلوس ایک سکول سے شروع ہوا اور شہر کی درمیانی بڑی سڑک سے ہوتا ہوا شہر کے دوسرے سرے تک جا پہنچا اور ایک بڑے وسیع میدان” پرنس چارلس گراؤنڈ میں آ کر ختم ہو گیا ایک میل کا یہ راستہ لوگوں سے پوری طرح اٹا پڑا تھا بعض جگہ اتنا ہجوم تھا کہ پولیس کو
تاریخ احمدیت 694 جلد ۲۰ لوگ پیچھے ہٹانے پڑے.گراؤنڈ میں اختقامی کارروائی ہوئی انعامات تقسیم کئے گئے نیز جلوس میں شرکت کرنے والی جماعت احمدیہ کی وین کو بھی سرٹیفکیٹ دیا گیا اور جلوس میں جماعت احمدیہ کی شمولیت پر خوشی کا اظہار کیا گیا قریباً سبھی حلقوں کی طرف سے حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات دیکھنے میں آئے.حافظ ملک عبد الحفیظ صاحب نے اس کامیاب تبلیغی مہم کی مفصل رپورٹ مرکز میں بھجوائی جو الفضل ۹ رستمبر ۱۹۸۱ ء کے صفحہ نمبر ۸۱ میں دین کی تصویر کے ساتھ اشاعت پذیر ہوئی اس رپورٹ کے آخر میں آپ نے لکھا : - ” خاکسار پیدل چلتے ہوئے اپنے پیارے رب کریم کے حضور دعا گو تھا کہ ہمارے پیارے اللہ ! یہ لوگ تیری مخلوق ہیں لیکن یہ آج تجھے نہیں پہچانتے اور ہلاکت کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اپنی رحمت سے ان کی ہدایت کے سامان پیدا کر اور آسمان سے فرشتوں کی فوجیں اُتار جو ان کے دلوں میں دین حق کی محبت بھر دیں تا تیرا دین ساری دنیا پر غالب آئے اور تیری توحید کا علم اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا پر لہرائے.“ حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب ۱۶ ر ا گست ۱۹۸۱ ء کا واقعہ ہے کہ مبلغ نجی محترم حافظ ملک عبد الحفیظ صاحب ایک جماعتی دورے پر کی المناک شہادت لمباسہ تشریف لے جارہے تھے کہ ہائی وے پر ایک ٹرک سے آپ کی کا ر ٹکرا گئی.جس کے نتیجہ میں آپ شدید زخمی ہو گئے.آپ کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں آپ نے اپنی جان مولائے حقیقی کے سپرد کی ـ انا لله و إنا اليه راجعون - سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے ارشاد پر مرحوم کا جسد خا کی نجی سے پاکستان لانے کا خصوصی انتظام کیا گیا چنا نچہ جماعت نجی کے ایک نہایت مخلص نمائندہ جناب ظفر اللہ خاں صاحب آپ کی نعش لے کر ۲۱ / اگست کی صبح کو بذریعہ ہوئی جہاز کراچی اور کراچی سے بوقت ۲ بجے دوپہر ربوہ پہنچے اسی روز ساڑھے چھ بجے شام مولا نا عبد المالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے بہشتی مقبرہ کے وسیع احاطہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں مقامی احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی.قبر تیار ہونے پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے دُعا کرائی.حافظ صاحب مرحوم حضرت مولوی نظام الدین صاحب ( یکے از رفقاء احمد ) کے پوتے مکرم کریم بخش صاحب آف بہاول پور کے صاحبزادے اور محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب دیال گڑھی مربی سلسلہ احمدیہ ( انچارج
تاریخ احمدیت 695 جلد ۲۰ رشتہ ناطہ ) کے داماد تھے.آپ ۱۹۴۳ء میں پیدا ہوئے جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کر کے ۱۹۷۴ ء کے دوران میدان عمل میں قدم رکھا اور سب سے پہلے تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں ازاں بعد رحیم یارخاں اور مردان میں پیغام حق پہنچایا.۲۵ رفروری ۱۹۸۰ء کو آپ نجی تشریف لائے جہاں آپ تبلیغی جہاد میں ہمہ تن مصروف تھے کہ ایک طویل تبلیغی دورے پر جاتے ہوئے کا ر کے حادثہ میں شہید ہو گئے.۶۹ مجلس انصار الله ومجلس جزائر فجی میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی مجالس کے پہلے سالانہ اجتماع ۱۸ نومبر ۱۹۸۰ء کو لٹو کا میں خدام الاحمدیہ کا پہلا اجتماع منعقد ہوئے.صدارت کے فرائض مولوی سجا د احمد صاحب خالد نے انجام دیئے اس موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے حسب ذیل پیغام دیا.” میں یہ سن کر بہت خوش ہوا ہوں کہ جزائر فجی کی مجلس انصار اللہ اور مجلس خدام الاحمد یہ اپنے سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہیں.اللہ تعالے جزائر فجی کے انصار اور خدام کو طاقت اور جرات عطا کرے تا وہ اپنے فرائض کو دین حق کی تعلیم کے مطابق سرانجام دے سکیں.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور وہی اپنی برکات سے تمہیں نواز ئے“.ا - پہلی سالانہ تربیتی کلاس جماعت احمد یہ نبی کی پہلی سالا نہ تر بیتی کلاس ۲۶ را پر پل تا یکم مئی ۱۹۸۱ء نجی کے دارالحکومت صووا کی بیت الذکر فضل عمر میں منعقد ہوئی جس میں پانچ جماعتوں کے ۶۳ خدام واطفال نے شرکت کی.حضرت خلیفۃ اصبح الثالث نے اپنے پیغام میں کلاس کے طلبہ کو نصیحت فرمائی کہ " جو کچھ آپ کو پڑھایا سکھایا جائے اُسے توجہ اور غور سے سنیں اور اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیئے اپنے تئیں تیار کریں خدا کی باتیں پوری ہو کر رہیں گی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے مدد کے طالب بنیں.نگران اعلیٰ کے فرائض ماسٹر محمد حسین صاحب لٹو کا نے اور کھانے کے جملہ فرائض مکرم امتیاز احمد مقبول صاحب قائد صودا اور ان کی بیگم صاحبہ نے بڑی خندہ پیشانی سے ادا کئے.ریڈ یونجی نے اس سلسلہ میں ملک حافظ عبد الحفیظ صاحب.ماسٹر محمد حسین صاحب اور بعض طلبہ کا انٹرویو بھی نشر کیا.
تاریخ احمدیت 696 جلد ۲۰ فصل دہم حضرت خلیفہ امسح الثالث کا جماعت نماعت احمدیانی کا بارھواں سالانہ کا جلسہ ۲۷٬۲۶ / دسمبر ۱۹۸۱ء کو منعقد ہوا جس کے لیئے حضرت خلیفہ امسیح احمدیہ نجی کے نام آخری پیغام الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل روح پرور پیغام دیا جو جماعت احمد یہ بھی کے نام حضور کا آخری پیغام تھا.وو برادران جماعت احمد یہ بھی ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنی نئی تعمیر شدہ بیت الذکر کی عظیم الشان عمارت میں یہ جلسہ منعقد کر رہے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ یہ نئی تعمیر شدہ بیت الذکر اور یہ جلسہ آپ سب کیلئے اور دین حق کے لئے مبارک ہو.یہ مقام ادین حق کی اشاعت کا مرکز بنے.اور یہ جلسہ دین حق اور احمدیت کی تازگی کا موجب بنے.آمین.ہمیں یہ امر یا درکھنا چاہیئے کہ ہم پندرھویں صدی ہجری میں داخل ہو چکے ہیں اور یہ صدی اسلامی فتوحات کی صدی ہے.یہ صدی حضرت اقدس...ناقل ) کی صداقت کو قائم اور مستحکم کرنے والی ہے...حضور نے اپنے پیغام میں مزید بتا یا کہ تمام پیشگوئیاں اپنے ساتھ کچھ ذمہ داریاں اور قربانیوں کا مطالبہ رکھتی ہیں اور میرا پیغام تمہارے لئے یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ اور دعاؤں کے ساتھ دین حق کی بہتری کے لئے ترقی کی منازل طے کرتے چلے جاؤ.علاوہ ازیں اپنے بچوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگین کرتے ہوئے ایسی عمدہ تربیت دو کہ وہ صبر اور آزمائش کے وقت تمہارے ساتھ رہیں.خدا کی راہ میں تمہارے قدم ثابت رہیں.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہماری قربانیاں قبول فرمائے اور ہم اپنے ہی دور میں دین حق کی عظیم فتح مبین کو مستقبل قریب میں اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں.“ (الفضل ۲۹ جون ۱۹۸۲ صفحہ۱)
تاریخ احمدیت 697 جلد ۲۰ عہد خلافت ثالثہ میں نجی مشن کی مطبوعات قرآن مجید کا تخمین ترجمہ کا ذکر پہلے آ چکا ہے.نجی مشن کی طرف سے دسمبر 1982 ء تک مندرجہ ذیل اسلامی لٹریچر شائع کیا گیا.( انگریزی ) 1.What is Ahmadiyyat? 2.Islam and its message.3.Promised messiah has come.4.What is Islam? 5.Message of peace and word of warning.6.Muslim prayer book.7.General knowledge Q.A.8.Jesus in Kashmir.9.We are Muslims.10.Welcome to Fiji Islands.11.Manzoom Kalam Hazrat Massihe Maood in Roman English.12.LA-ELAHA ILLALAHO (in six Languages) ٹونگا.رومن.ہندی.کائیویتی.انگلش.وَانُو وَاتُو 13.A Report on London Conference.14.The proposed Century Ahmadiyya Juiblee (in1989) 1.NA CAVE NA AHMADIYYAT.کائیویتی (KAIVITI) زبان میں ( احمدیت کیا ہے ) ( ترجمہ امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ ) 2.NA I TUKUTUKU NI YEIVINAKATI KE NA VOSA VAKARO.( مسیح کشمیر میں ) 3.JISU NA KASHMIR.4.NA PAROFISAI NAI VOCA TABU VOU.( محمد رسول اللہ عہد نامہ جدید میں ) 5.NA PAROFISAI KA VOLAI E NAI VAKARUA " JOVA, KA TUCAKE ULE-NVANUA KO PERANA".باب استثناء کی پیشگوئی خداوندا خدا کا فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہونا ) فجیشن زبان میں اسلامی اصول کی فلاسفی" 6.Teaching of Islam.7.The Holy Quran Part I and II (with Fijian Translation)
تاریخ احمدیت 698 جلد ۲۰ مسیح موعود آگئے نجی میں رہنے والے اور ملک میں آنے والوں کو ماننے کی دعوت ( خوش آمدید ) ) ہندی زبان میں.- بابا نانک اور اسلام ۱۷۳ مجھی کے نیشنل پریذیڈنٹ حاجی عبد اللطیف صاحب واجد کمال الدین صاحب محمد صادق خاں صاحب عبد اللطیف مقبول صاحب فجی کے نیشنل جنرل سیکرٹری امام کمال الدین صاحب محبوب یوسف خاں صاحب 1964-1962 1965-1964 1967-1966 1986-1983 1966-1962 1967 ۷۴ صداقت احمدیت کا چمکتا ہوا نشان اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا کو ۱۸۹۸ء میں بشارت دی تھی کہ :.میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا 1 نجی بین الاقوامی ڈیٹ لائن کے عین مغربی کنارے پر واقع ہے اس سرزمین میں جماعت احمدیہ کے مشن کا قیام اور اس کے طول و عرض میں احمدیت کی شاندار ترقیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا چمکتا ہوا نشان ہیں.حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں.و اوحی الی ربی و و عدنی انه سینصرنی حتی یبلغ امری مشارق الارض و مغاربها.وتتموج بحور الحق حتى يعجب الناس حباب غوار بها.(لجة النُّور صفحه ۶۷) ترجمہ.میرے رب نے میری طرف وحی بھیجی اور وعدہ فرمایا کہ وہ مجھے مدد دے گا.یہاں تک کہ میرا کلام مشرق و مغرب میں پہنچ جائے گا اور راستی کے دریا موج میں آئیں گے یہاں تک کہ اس کی موجوں کے حباب لوگوں کو تعجب میں ڈالیں گے.ع ہے یہ تقدیر خداوند کی تقدیروں سے خلافت رابعہ کے عہد مبارک سے نجی مشن کا نیا انقلابی دور شروع ہوتا ہے جس کی تفصیل اپنے مقام پر آگے آ رہی ہے.
تاریخ احمدیت 699 جلد ۲۰ حواشی کتاب - LANDS AND PEOPOLES" GROLIER INCORPORATED" AMERICA ١٩٨٩ء - فیروز سنز اردو انسائیکلو پیڈیا مطبوعہ لاہور ۱۹۸۰ ء زیر لفظ نبی (FIJI) جلد ۲ صفحه ۵۳۱ اخبار پیغام صلح لا ہور ۱۷ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۴۵ ۴ ۱۹۱۵ء میں مولوی صاحب نے ایک انجمن ہدایت الاسلام کی بنیاد رکھی جس کے تحت یہ پرائمری سکول جاری کیا د پیغام صلح ۳ رمئی ۱۹۳۱ ، صفحه ۷ اخبار پیغام صلح ۱۷؍ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۴۵ اخبار پیغام صبح ۳ جون ۱۹۳۳ ، صفحہ ۷۱۰ جون ۱۹۳۳ء صفحه ۱۱۴۲ / جون ۱۹۳۳ ، صفحہ ۷ ۱۷ار دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۴۵ اخبار پیغام صبح ۱۱ جنوری ۱۹۳۲، صفحریم و.اخبار پیغام صلح ۱۹ رمئی ۱۹۳۴ء ۱۰ اخبار پیغام صبح ۳ / جنوری ۱۹۳۴ صفحه ۱۳ اخبار پیغام صلح ۱۹ مئی ۱۹۳۴ء صفحه ۲-۳) اخبار پیغام صبح ۱۷ر دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۴۵ ۱۲.۱۳ اخبار پیغام صبح ۲۳ / جنوری ۱۹۳۷ء صفحه ۳-۳ فروری ۱۹۳۷ء صفحه ۲ ۱۴.آپ کے والد چھو خاں صاحب حضرت حاجی غلام احمد صاحب کر یام کی قبولیت دعا کا نشان دیکھ کر احمدی ہوئے تھے ( اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۱۰۶.مؤلفہ ملک صلاح الدین ایم اے ۱۵.آپ کے تین اور بھائی تھے عبدالمجید خان عبد الحمید خاں طفیل محمد خاں.چاروں بھائیوں میں سے صرف عبد الحمید خاں ( رٹیائرڈ محکمہ پولیس ) چک ۳۰۳ گ - ب ٹو بہ ٹیک سنگھ ( پاکستان ) بقید حیات ہیں -۱۲.غیر مطبوعہ مکتوب مولانا شیخ عبدالواحد صاحب ( بنام مؤرخ احمدیت ) مورخه ۲۲ فروری ۱۹۶۸ ء از نجی ۱۷ اخبار بدر قادیان ۲۳ جولائی ۱۹۵۹، صفحه ۱ پیغام صلح ۲۲ / جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ ۱.یادر ہے آپ کی صاحبزاری بدر النساء خانم صاحب ۱۹۵۳ء سے حضرت مصلح موعود کی بیعت میں تھیں.اور انہوں نے ہی اپنے والد ماجد کو تحریک کی کہ وہ پاکستان میں آ کر حقیقی احمدیت کی تحقیق فرمائیں چنانچہ انہوں نے حج بیت اللہ کے بعد اسی غرض سے پاکستان آنے کا وعدہ کیا تھا ( غیر مطبوعہ مکتوب جناب شیخ انوار رسول صاحب ۹ جنوری ۱۹۸۰ء 19.الفضل ۲۷ / اگست ۱۹۵۹ء صفحه ۲ الفضل ۹ اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحه ۱ ۲۱.غیر مطبوعہ مکتوب مولانا شیخ عبدالواحد صاحب ۲۲ فروری ۱۹۶۸ء بنام مورخ احمدیت ۲۲.ماہنامہ خالد ربوہ جنوری ۱۹۸۴ء صفحه ۹۳۷۳ الفضل ۲۹ / مارچ ۱۹۶۳ء یکم مارچ ۱۹۶۴ء ۲۳.غیر مطبوعہ مکتوب مولانا شیخ عبدالواحد صاحب ۲۲ فروری ۱۹۶۸ء -۲۴ الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۶۳ء د یکم مارچ ۱۹۶۴ء ۲۵ - تحدیث نعمت ، صفحہ ۷ ۶۸ - ۶۸۸ طبع اول ستمبر ۱۹۷۱ء
تاریخ احمدیت لفضل ۲۷ اگست ۱۹۶۶ صفحه ا ۲۷ الفضل ۱۴ /اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۳ الفضل ۱۳ را کتوبر ۱۹۶۷، صفحه ۳ الفضل ۷ جنوری ۱۹۷۲ء ۳۰.بدر ۳۰ رمئی ۱۹۶۸ء ۲۹.الفضل ۲۴ / اگست ۱۹۸۱ ، صفحه ۱ ۳۲.ریکارڈ وکالت تبشیر الفضل ۲ فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۴ الفضل ۱۲ را بریل ۱۹۷۵ ، صفحه ۶ ۳۵.الفضل ۶ جون ۱۹۷۶ء صفحه ۳ ۳۶.یہ ۱۹۶۸ء کا واقعہ ہے ۳۷.غالباً سید ظہور احمد شاہ صاحب مراد ہیں ۳۸.رسالہ خالد جنوری ۱۹۸۴ ء صفحہ ۷۹ ۳۹.یا دیں صفحہ ۶۶۳-۶۶۶ 700 ۴۰ ریکارڈ وکالت تبشیر ر بوه الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۷۱ء تحریک جدید جنوری ۱۹۷۲ء صفحه ۳۶ ۴۱.۴۳ - الفضل ۱۰ر فروری ۱۹۷۲ ، صفحہ ۳ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴ را گست ۱۹۷۳ ، صفحه ۴۴۳.۴۳ - الفضل ۸/ نومبر ۱۹۷۲ء صفحه ۳ -۴۴ الفضل.ار فروری ۱۹۷۳ء صفحه ۶ ۴۵ الفضل ۱۱/ اگست ۱۹۷۳ صفحه ۳ الفضل ۲۲ / اپریل ۱۹۷۳ء صفحه ۳-۴ ۴۷.الفضل ۲۲ جون ۱۹۷۳ء صفحه ۴۳ الفضل ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۴ء صفحه ۳ و الفضل ۱۰ر دسمبر ۱۹۷۴ء صفحه ۳ ) ۵۰ پیکار ڈ وکالت تبشیر ربوہ ۵۱ - الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۷۴ء صفحریم ۵۲ الفضل ۱۹ر فروری ۱۹۷۵ء صفحه ۳-۴ ۵۳ الفضل ۹ جنوری ۱۹۷۵ء صفحه ۶ ۵۴ الفضل ۲۲ اگست ۱۹۷۵ء صفحه ۵ / ۵۵ الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۷۸ء صفحه ۳ ۵۶.یادیں ۱۳۹-۱۴۲ ۵۷.یادیں ۱۳۹-۱۴۲ ۵۸ الفضل ۱۶ رفروری ۱۹۷۸ صفحه ۳-۴ ۵۹.یا دیں صفحہ ۱۳۷ جلد ۲۰ ۲۰.ان دونوں اخبارات کی مندرجہ ذیل اشاعتیں ملاحظہ ۱۵ - ۱۹ جون ۱۸ - ۳۰.اگست ۳-۴-۱۱-۱۲-۱۴ر ستمبر ١٩٧٨ء الفضل ۵ / مارچ ۱۹۷۹ء صفحه ۵
تاریخ احمدیت 701 الفضل ۴ فروری ۱۹۷۹ ء صفحه ۵ الفضل ۱۲ / اپریل ۱۹۷۹ صفحه ۳ ۶۴ - The Review of Religions Rabwah, Pakistan اپریل ۱۹۸۰ صفحه ۴۳ ۶۵ - الفضل ۱۰ اگست ۱۹۸۰ صفحهیم الفضل ۱۵ / فروری ۱۹۸۱ء صفحه ۴ ۶۷.قرآن اس کی تعلیم دیتا ہے -2 • صلح کے معلم نبیوں کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں الفضل ۲۴ / اگست ۱۹۸۱ء صفحه ۸٬۱ الفضل ۱۱ فروری ۱۹۸۱ ، صفحه ۵ ا.رسالہ تحریک جدید جولائی ۱۹۸۱ ء صفحہ ۱۰ ۷۲.۷۳.الفضل ۲۴ / جون ۱۹۸۱ء صفحه ۴۱۳ الفضل ۱۸؍جنوری ۱۹۷۴ء History of AHMADIYYAT in Fiji"( غیر مطبوعہ مرتبہ جماعت احمدیہ بنی ۷۵ - الحکم ۲۷٬۲۰ / اگست ۱۸۹۸ء صفحه ۲۷٬۱۴ / مارچ ۶ را پریل ۱۸۹۸ء صفحه ۱۳ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 702 جلد ۲۰ آٹھواں باب ماہنامہ انصار اللہ کے اجراء سے جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۶۰ء تک فصل اول سکھوں کی نمائندہ تنظیم شرومنی جماعت احمدیہ کی کامیابیاں رسالہ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے ماہوار گورمت پر کاش امرتسر کی نظر رسالہ " گورمت پرکاش نے ستمبر ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں لکھا کہ ,, یعنی ” میری یہ گذارش ہے کہ شرومنی کمیٹی کی طرف سے مقرر کردہ پر چار کمیٹی دنیا کے مشہور مذاہب کی طرف سے استعمال کئے جانے والے طریق تبلیغ کو سمجھے اور ان کی حیران کن کامیابی کے راز معلوم کرے.اور گہری نظر سے مطالعہ کرے کہ کل کا پیدا شدہ اسلامی فرقہ احمد یہ غیر ممالک میں گیارہ اخبار چلا سکتا ہے اور ۴۳۶ مراکز قائم کرسکتا ہے اور لاکھوں عظمندوں کو اسلام کے دائرے میں لا سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم ساٹھ لاکھ سکھ شرومنی کمیٹی ایسی مرکزی جماعت کی موجودگی میں ابھی تک ایک درجن مغربی لوگوں کو بھی سکھ نہیں بنا سکے ہمارا ایک بھی اخبار غیر ممالک میں ان کی زبان میں شائع نہیں ہو رہا.اگر صرف امریکہ ہی کو لے لو تو وہاں آپ کو ہزاروں لوگ اسلام کے پیروکار اور...پر جاری ملیں گے لیکن سکھ مذہب کے عقیدت مند نہیں ہیں.“ ( ترجمه از گورمت پر کاش ستمبر ۱۹۶۰ء ) ایک اور سکھ و دوان نے اسی رسالہ گورمت پر کاش امرت سر میں سکھ مذہب کی تبلیغی ناکامیوں اور احمد یہ جماعت کی کامیابیوں کا موازنہ کرتے ہوئے اس کا سبب مندرجہ ذیل
تاریخ احمدیت 703 جلد ۲۰ الفاظ میں بیان کیا کہ :.یعنی مضمون میں بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ایک چھوٹا سا احمدی فرقہ ہم سے کہیں زیادہ غیر ممالک میں تبلیغ کر رہا ہے.اور دریافت کیا گیا کہ ہم غیر ممالک میں پر چار کیوں نہیں کر سکتے.جواب میں سبب عرض ہے کہ انہیں اپنے مذہب کی ترقی کا لگن ہے.جو ہمیں نہیں.وہ غیروں کو حیران کن محبت سے اپنا بنا لیتے ہیں.اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنوں سے نفرت کرتے ہیں.اور انہیں دھتکارتے ہیں.“ ( ترجمه از گورمت پر کاش ستمبر ۱۹۶۰ء) جرمنی میں احمد یہ مشن کے کارناموں اور خدمات احمدیت کا ذکر جرمن فیڈرل کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی اور جرمن حکومت کے بلیٹن میں پریس میں اب اشاعت اسلام سے متعلق مضامین بکثرت شائع ہو رہے تھے چنانچہ اسی سال جرمن کے ایک بااثر اور کثیر الاشاعت اخبار ” نیو رہین زیٹنگ‘ NEUE RHEIN) (ZEITUNG میں ایک خاص مضمون مسجد همبرگ و مسجد فرینکفورٹ پر شائع ہوا جو ایک جرمن احمدی جرنلسٹ مسٹر عبد اللہ نے لکھا تھا.یہ مضمون دوبارہ جرمن فیڈ رل حکومت کے پر لیس اور انفارمیشن کے بلیٹن (اار اکتوبر ۱۹۶۰ ء ) نے حسب ذیل نوٹ کے ساتھ سپر دا شاعت کیا ( ترجمہ ) آزادی عقیدہ اور آزادی ضمیر نا قابل انفاخ ہیں.ہر ایک کو بلا مداخلت مذہبی اعمال بجالانے کی ضمانت دی جاتی ہے.“ اوپر کے الفاظ مغربی جرمنی کے بنیادی قانون کی دفعہ چار سے لئے گئے ہیں.یہ الفاظ آج مغربی جرمنی کے مذہبی معاملات میں عالمگیر سلوک کے گویا کونے کا پتھر ہیں.خاص دار الحکومت اور بڑے شہروں میں جہاں دیگر ممالک کے لوگ موجود ہوتے ہیں.جرمن عوام دوسروں کے مذاہب میں گہری دلچسپی لیتے ہیں.اس کی زندہ مثال وہ مہمان نوازانہ خیر مقدم ہے جو مغربی جرمنی نے دوسری عالمگیر جنگ کے بعد اسلام کا کیا ہے.ذیل کا مضمون جو محمد عبد اللہ رکن اسلامیہ جرمنی مشن کا لکھا ہوا ہے حال ہی میں جرمنی کے اخبار نیو ر ہین زیٹنگ میں شائع ہوا ہے.جو کافی وسیع اشاعت رکھتا ہے.تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ آرچ بشپ رک آف کولون کے اخبار میں بیان کیا گیا تھا کہ ۸۰۰ جرمنوں نے اسلام اختیار کر لیا ہے اور وہ جماعت احمدیہ کے ارکان بن گئے ہیں
تاریخ احمدیت 704 جلد ۲۰ اس قسم کی خبروں سے یہ جستجو قدرتی ہے کہ آیا جرمنی میں کوئی منظم اسلامی جماعت کام کر رہی ہے.مغربی جرمنی میں اسلام کی نمائندگی تین طریقوں سے ہو رہی ہے.اوّل مسلم سفارتی عملہ جو جرمنی میں اسلامی ممالک کی طرف سے مقرر ہے.اس گروپ میں جو سب سے بڑا ہے اسلامی ممالک کے طلبہ اور تجارت پیشہ اصحاب بھی شامل ہیں.اگر چہ ہمبرگ اور ایشین میں مساجد تعمیر کی گئی ہیں تاہم اس طبقہ کے مسلمانوں کو اسلامی تحریک کا نام نہیں دیا جا سکتا.انکی بنیا دی غرض مذہبی ثقافتی اور قومی روایات کو قائم رکھنا ہے نہ کہ اشاعت اسلام.گروپ ان مسلم مہاجرین کا ہے جنہوں نے دوسری عالمگیر جنگ کے بعد جرمنی کو اپنا نیا گھر بنا لیا ہے.ان کا ثقافتی مرکز باویریا کا دارالحکومت میونخ ہے.جہاں دونوں با دیرین اور وفاقی حکومتیں مسجد کی تعمیر میں مدد دے رہی ہیں.مذہب کے علاوہ ان دونوں گروپوں میں ایک اور بھی اشتراک ہے وہ دونوں گویا راہ گذروں کی حیثیت رکھتے ہیں.سفارتی عملہ اور طلبہ آتے ہیں اور جاتے ہیں اور مہاجرین آرزور کھتے ہیں کہ ایک دن اپنے وطن مالوف کولوٹ جائیں گے.احمد یہ تحریک آخری اور تیسرے گروپ یعنی جماعت احمدیہ کا معاملہ ان دونوں سے جدا گا نہ ہے.یہ جماعت اسی نام کی جماعت کے سامنے جواب دہ ہے جس کا ہیڈ کوارٹر ربوہ پاکستان میں ہے.جماعت احمد یہ جس کے مشن تمام دنیا پر پھیلے ہوئے ہیں تقریباً ۶۰ سال ہوئے حضرت مرزا غلام احمد صاحب ( قادیانی علیہ السلام ) نے قائم کی تھی یہ فرقہ اسلام سے فراری نہیں بلکہ اسکے برخلاف اس کا مقصد تجدید و احیائے اسلام ہے.اس اصلاحی تحریک کا کام دو گونہ ہے.اول یہ سراسر اسلامی فوق الفرق تحریک ہے.اور دوم اس نے وسیع پیمانہ پر اشاعت دین حق کا کام شروع کر رکھا ہے.۱۹۳۶ء میں امام جماعت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے جماعت احمدیہ کے پاکستانی نوجوانوں کو اپیل کی کہ وہ اشاعتِ اسلام کیلئے اپنی زندگیاں وقف کر یں.اس اپیل کی کامیابی کا عظیم ثبوت یہ ہے کہ اس وقت عیسائی اور غیر عیسائی ممالک میں، ۴۴ مشنوں کا قیام ۲۵۴ مساجد کی تعمیر اور ۳۰ درسگاہوں کا قیام عمل میں آچکا ہے.دس سال ہوئے پہلے احمدی مشنری مکرم عبد الطیف جرمنی میں داخل ہوئے.وہ آ کر ہمبرگ میں اقامت پذیر ہوئے تھے اور اس وقت سے یہ شہر آہستہ آہستہ جرمنی اور تمام شمالی یورپ کیلئے اسلامی مرکز بنتا چلا گیا.ڈنمارک ناروے اور سویڈن کے
تاریخ احمدیت 705 جلد ۲۰ مشن ہمبرگ کے امام کے ماتحت ہیں دوسری عالمگیر جنگ سے پہلے جرمنی میں صرف دو عبادت گا ہیں تھیں مگر دونوں ہی پرائیویٹ ملکیت تھیں.برلن کی مسجد جو جنگ میں بدقسمتی سے بُری طرح شکستہ ہوئی ایک پاکستانی شہری کی ملکیت ہے.ابتداء میں یہ بھی احمد یہ تحریک کی ملکیت تھی.ہیڈن برگ کی مسجد جو بد قسمتی سے سویز شکاریوں کی جنت بن گئی ہے قصبہ شوئز نگٹن میں واقعہ ہے اس مسجد میں نما زنہیں ہوتی کم سے کم اس میں کوئی مسلم امام نہیں ہے.اس طرح جنگ کے بعد اہل اسلام کے لئے کوئی پبلک عبادت گاہ جرمنی میں نہیں تھی.۱۹۵۵ء میں حضرت امام جماعت احمد یہ ہمبرگ تشریف لائے جہاں آپکا استقبال بلد یہ اور مغربی جرمنی کے دوسرے اسلامی مراکز کے طریقہ سے کیا گیا اس تشریف آوری کے نتیجہ میں جرمنی میں اسلامی مشن کی توسیع کیلئے تجاویز کی گئیں.۱۹۵۷ء اسلام کیلئے جرمنی میں مبارک سال تھا ان تجاویز کا نتیجہ عملی طور پر یہ نکلا کہ ہمبرگ سیلنجن میں جماعت کی پہلی بیت الذکر تعمیر ہوئی.اس کے بعد فرینکفورٹ آن مین میں ۱۲ ستمبر ۱۹۵۹ء کوایکیبیت الذکر تعمیر ہوئی یہ دو بیوت الذکر جو جرمنی میں پہلی پبلک عبادت گاہیں ہیں احمدی مستورات کی کوشش کا نتیجہ ہیں.پاکستانی مستورات نے اپنے زیورات اور سنگار کو قربان کر دیا تا کہ انکے جرمن بھائی اور بہنیں نماز کیلئے دو بیوت الذکر حاصل کر سکیں.اسلامی مشنری سرگرمیوں کا مقصد ان تمام اسلامی سرگرمیوں کو دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغربی جرمنی میں تبلیغی سرگرمیوں کا مقصد کیا ہے اور اس سے کیا توقعات وابستہ ہیں.اس سوال کا جواب آسانی سے دیا جا سکتا ہے تحریک احمدیہ کی منزل مقصود یہ ہے کہ تفہیم با ہمی کو تقویت دی جائے حق کی خدمت کی جائے اور دوستی اور انصاف کے میدان کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے یورپ نے اسلامی ممالک کو اور اسلام کو مادی ترقیات سے فیضیاب کیا ہے.اسلام اس کے عوض میں یورپ میں مذہب کی صحیح روح کو زندہ رکھنا چاہتا ہے.اسلام یورپ میں باغیوں کیلئے کشش اور مغربی مایوسوں کیلئے مرکز مہیا کرنے کی تلاش میں نہیں ہے بلکہ ان تمام نیک بندوں کا ماویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کے متلاشی ہیں.عیسائی ہمارے دشمن نہیں ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے یقینا تم ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ ہم عیسائی ہیں مومنوں کے ساتھ محبت میں زیادہ قریب پاؤ گے.
تاریخ احمدیت 706 جلد ۲۰ مجلس خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع اس سال مجلس خدام الاحمدیہ کا انیسواں سالانہ اجتماع اپنی مخصوص روایات کے ساتھ دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے احاطہ میں ۲۳٬۲۲٬۲۱ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو منعقد ہوا جس میں افتتاحی اور اختتامی دونوں خطابات نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے کئے.سیدنا حضرت مصلح موعود چونکہ اپنی علالت اور نا سازی طبع کے باعث اس اجتماع میں تشریف نہیں لا سکے تھے اور نو جوانانِ احمدیت کو حضور کے زندگی بخش اور رُوح پرور تازہ ارشادات سے مستفید ہونے کی سعادت سے محروم رہنا پڑا تھا اس لئے صاحبزادہ صاحب نے اجتماع میں حضور کا وہ ولولہ انگیز اور پُر جوش خطاب پڑھ کر سنایا جو حضور نے ۲۹ ستمبر ۱۹۴۶ء کو مجلس خدام الاحمدیہ دتی کے ارکان سے بعد نماز ظہر بمقام نمبر ۸ پارک روڈ دہلی میں ارشاد فرمایا تھا ( اور جو چند دن قبل اخبار الفضل میں چھپ چکا تھا ) پڑھ کر سنایا جس پر مجمع میں دعا اور انابت الی اللہ کی خاص کیفیت پیدا ہوگئی اور خدام اُسے ہمہ تن گوش ہو کر سننے کے ساتھ ساتھ اپنے محبوب آقا کی صحت یابی اور درازی عمر کیلئے زیر لب دعائیں کرتے رہے.سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنے اس پُر جوش خطاب میں واضح لفظوں میں بتا یا کہ ’باتوں کا زمانہ گذر گیا اور اب باتوں کا زمانہ نہیں بلکہ عمل کرنے کا زمانہ ہے.اللہ تعالیٰ اب دیکھنا چاہتا ہے کہ ان بڑے بڑے دعووں کے بعد تم کتنے قطرے خون دل کے اس کے حضور میں پیش کرتے ہو.دنیا کے بادشاہ موتیوں اور ہیروں کی نذریں قبول کرتے ہیں مگر زمین و آسمان کا مالک سب بادشاہوں کا بادشاہ یہ دیکھتا ہے کہ کتنے قطرے خون دل کے کوئی شخص ہمارے حضور پیش کرتا ہے.ہمارے خدا کے دربار میں ہیروں اور موتیوں کی بجائے خون دل کے قطرے قبول کئے جاتے ہیں.نیز نہایت پُر شوکت انداز میں پیشگوئی فرمائی.تم اس لئے اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو کہ ہم ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر قربانیاں کریں گے اور اسلام کی حکومت کو دنیا بھر میں از سر نو قائم کر دیں گے.پس اپنے اس عہد کو ہمیشہ مد نظر رکھو اگر تم اپنے عہد کو پورا کرتے جاؤ تو دنیا کی کوئی طاقت بلکہ دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی تمہارے راستے میں روک نہیں بن سکتیں کیونکہ جب تم اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ گے تو پھر خدا تعالیٰ خود تمہارے لئے کامیابی کے سامان پیدا کرے گا اور تمہارے لئے کامیابی کے راستے کھول دے گا.
تاریخ احمدیت 707 جلد ۲۰ اس پر شوکت خطاب کے پڑھنے کے بعد صاحبزادہ صاحب نے مجلس عالمگیر کی طرف سے پیش کردہ الوداعی ایڈریس کا جواب دیا.اور مجلس خدام الاحمدیہ سے اپنی طویل وابستگی کا بہت گہرے اور پُر اثر انداز میں تذکرہ فرمایا اور خدام کو پورے اخلاص جذبہ اور جوش سے کام کرنے اور اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین کی.نیز اعلان کیا کہ ایک روز قبل نائب صدر کے عہدہ کیلئے جو انتخاب عمل میں آیا تھا اس کے ضمن میں سید نا حضرت مصلح موعود نے سید میر داؤ د احمد صاحب کو آئندہ دو سال کیلئے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا نائب صد رمقرر فرمایا ہے.پیغام امام همام لجنہ اماءاللہ کے نام لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ کا سالانہ اجتماع ۲۱ ۲۲ ۲۳ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو انعقاد پذیر ہوا.سید نا حضرت مصلح موعود نے اس موقعہ کیلئے حسب ذیل ولولہ انگیز پیغام عطا فر ما یا جس کو حضرت سیدہ ام امتہ المتین صاحبہ صد ر لجنہ مرکزیہ نے پڑھ کر سنایا :.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم ط بسم الله الرحمن الرحيم ط نحمده و نصلى على رسوله الكريم ط خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ممبرات لجنہ اماءاللہ ! هُوَ النَّاصِرُ السلام عليكم و رحمة الله و بركاته ہمیں قادیان سے آئے ہوئے تیرہ سال ہو چکے ہیں اور اب وہاں جانے کے دن ا قریب معلوم ہوتے ہیں تمہیں بھی چاہیے کہ اپنے اخلاص اور قوت عمل کو بڑھاؤ.تا کہ جب بھی قادیان میں تمہارا جانا مقدر ہے.وہ بابرکت ثابت ہو.قادیان ہمارا اصل مرکز ہے اور وہی برکت پائے گا جو قادیان سے روحانی رنگ میں اتصال رکھے گا.عیسائیوں کو انیس سو سال گزر چکے ہیں مگر اب تک وہ ہمت کر رہے ہیں اور ساری نیا پر چھائے ہوئے ہیں.تم کو تو انیس ہزار سال تک دُنیا پر روحانی رنگ میں قبضہ رکھنا چاہیے کیونکہ مسیح محمد ہی اپنی ساری شان میں مسیح ناصری سے بڑھ کر ہے.خدا تعالیٰ تم کو تو فیق دے اور تمہاری ہمتوں میں برکت دے اور تم ہمیشہ خدا تعالیٰ کے قرب میں جگہ پاؤ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوکان موسیٰ و عیسى حيين لـمـا وسعهما الا اتباعی - یعنی اگر موسیٰ اور عیسی بھی زندہ ہوتے تو اُن کے لئے میری اتباع کے.
تاریخ احمدیت 708 جلد ۲۰ بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا پس تمہارا آقا تو عیسی اور موسیٰ سے بھی بڑھ کر ہے.تمہیں چاہیئے کہ جب تم قادیان جاؤ تو اس وقت تک کروڑوں احمدی ہو چکا ہو.اور اپنی نسلوں کو سکھاؤ کہ وہ احمدیت کو بڑھائیں اور ترقی دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پاؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہوتی ہے اس کے یہی معنے ہیں کہ ماں اگر چاہے تو اپنے بچوں کو جنتی بنا سکتی ہے.سواے احمدی عور تو ! اپنی اولاد کو جنتی بنانے کی کوشش کرو اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ احمدیت کو دُنیا میں پُر امن طریق پر پھیلا کر دم لیں.صرف پنجاب میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں.تمہیں قادیان سے آئے ہوئے تیرہ سال ہو رہے ہیں.چاہیئے تھا کہ اس تیرہ سال کے عرصہ میں تم جماعت کو کئی گنا بڑھا دیتیں.بیشک عورت مردوں کی طرح کام نہیں کر سکتی مگر اپنے خاوندوں اور بیٹوں کو ترغیب دے سکتی ہے.عیسائی عورتیں اپنی زندگی وقف کر کے ساری عمر دین کا کام کرتی ہیں تم کو بہر حال عیسائیوں سے بڑھ کر نمونہ دکھانا چاہیئے اور قیامت تک اسلام اور احمدیت کے جھنڈے کو بلند رکھنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ تمہارے اور وہ تمہیں اپنے فرائض کو بیچ رنگ میں ادا کرنے کی توفیق بخشے، تمہیں احمدیت کا سچا خادم بنائے اور تمہیں اپنی برکات سے ہمیشہ بہرہ ور فرما تا ر ہے.“ مارے ساتھ ہو
تاریخ احمدیت 709 جلد ۲۰ فصل دوم ماہنامہ انصار اللہ کا اجراء اس سال نو مبر ۱۹۶۰ء سے مرکزی جرائد و رسائل میں ماہنامہ انصار اللہ کا اضافہ ہوا جو مجلس انصار اللہ " مرکز یہ کا ترجمان تھا اور ہے.یہ نام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا تجویز فرمودہ تھا.یہ نہایت مفید اور معیاری رسالہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس کی خصوصی توجہ گہری دلچسپی اور تفصیلی ہدایات و رہنمائی سے جاری ہوا اور آپ ہی نے اس کی ادارت کے اہم فرائض مولانا مسعود احمد خاں صاحب دہلوی کے سپر دفرمائے جنہیں آپ مسلسل تیرہ برس تک کمال فرص شناسی، عرقریزی اور ولولہ شوق کے ساتھ بجالاتے رہے.آپ کے بعد دسمبر ۱۹۸۴ء یعنی رسالہ کے جبری التوا تک مندرجہ ذیل اہل قلم اصحاب اس کے ایڈیٹر ر ہے :.مولانا غلام باری صاحب سیف صاحب ( جنوری ۱۹۷۴ ء تا مارچ ۱۹۷۷ء ) جناب سید عبدالحی صاحب شاهد ایم اے ( اپریل ۱۹۷۷ء تا دسمبر ۱۹۷۹ء ) نوٹ :.نومبر دسمبر ۱۹۷۹ء کا شمارہ سید عبد ا کی صاحب و جناب کمال یوسف صاحب مبلغ سویڈن کی زیر ادارت چھپا..۴.وفیسر ناصر احمد صاحب پروازی ) جنوری ۱۹۸۰ء تا اپریل ۱۹۸۰ء ) جناب کمال یوسف صاحب ( مئی ۱۹۸۰ء ) جناب مرزا غلام احمد صاحب ایم اے ( جون ۱۹۸۰ ء وجولائی ۱۹۸۰ء) اگست ۱۹۸۰ء سے دوبارہ مولانا سیف صاحب نے زمام ادارت سنبھالی اور دسمبر ۱۹۸۴ء تک کے تمام شمارے آپ ہی کی نگرانی میں شائع ہوئے.رسالہ انصار اللہ کے اس پورے دور میں چودھری محمد ابراھیم صاحب ایم اے انچارج دفتر انصار اللہ ) اس کے پبلشر رہے.رسالہ کے اولین کا تب منشی نورالدین صاحب خوشنویس تھے.ماہنامہ انصار اللہ " کی غرض و غایت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس کے جامع اور پُر تاثیر الفاظ میں یہ تھی :-
تاریخ احمدیت 710 جلد ۲۰ اس کا بنیادی مقصد تربیت نفس کا فریضہ ادا کرنے میں انصار کی مدد کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے اسی مقصد کو سامنے رکھ کر اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے رسولوں کے فرائض میں سے ایک فرض یہ بھی قرار دیتا ہے ویزکیھم رسول لوگوں کے دلوں کو پاک اور صاف کرتے ہیں تا کہ ان پر انوار الہی نازل ہوں.اپنے نفس کی تربیت اہل و عیال کی تربیت اپنے شہراور ملک کی تربیت تمام بنی نوع انسان کی اور کل دنیا کی تربیت ایک اہم فرض ہے جو ہم پر عائد ہوتا ہے.اسی مقصد کے پیش نظر انصار کا ترجمان انصار اللہ کے نام سے شائع ہو رہا ہے وو 66 ادارہ انصار اللہ نے اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے جو اقدامات تجویز کئے اس کی تفصیل رسالہ کے پہلے پرچہ میں مولانا مسعود احمد خاں صاحب نے درج ذیل الفاظ میں بیان کی :.یہ مجلس انصار اللہ کا ترجمان ہو گا اس میں ہم انشاء اللہ التزام کے ساتھ امام الزمان سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایسے روح پرور ملفوظات اور پر معارف تحریرات ( نظم و نثر عربی فارسی و اردو ) شائع کرنے کا اہتمام کریں گے کہ جو جذب و تا شیر کے شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں، جن کے بار بار کے مطالعہ سے دلوں کے زنگ ڈھل کر سب کثافتیں دُور ہو جاتی ہیں اور قلوب واذہان کی ایسی تطہیر ہوتی ہے کہ انسانوں کے سینے اور دماغ آسمانی نور سے منور ہو جاتے ہیں اور وہ دنیا میں زندگی بسر کرتے ہوئے عالم بالا کی مخلوق نظر آنے لگتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ کے رفقاء کے حالات ان کے قبول حق کے واقعات قربانی وایثار اور فدائیت کے نمونے اور ان کی ایمان افروز روایات بھی التزام کے ساتھ ہدیہ ناظرین کی جائیں گی تا ہمیں احساس ہو کہ ہم کیسے عظیم الشان اسلاف کی اولاد ہیں، ہمارا اصلی ورثہ کیا ہے، اور اسے بحفاظت تمام نئی نسلوں کے اندر منتقل کرنے کے ضمن میں ہم پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے.پھر تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت کے چیدہ چیدہ واقعات بھی قارئین کی خدمت میں پیش کئے جائیں گے تا ایمان و یقین اور خدمت اسلام کے عزم صمیم کو ایک نئی پختگی اور نیا استحکام حاصل ہو.اسی طرح اہل علم اور اہل قلم اصحاب کے بلند پایہ علمی اور تربیتی مضامین سے ہر شمارے کو مزین کرنے کی کوشش کی جائے گی.الغرض ہماری پوری کوشش ہو گی کہ ماہنامہ انصار اللہ کا ہر شمارہ روحانی نعمتوں کا ایک خوانِ یغما ثابت ہو.
تاریخ احمدیت 711 جلد ۲۰ چنانچہ ہم بسم الله مجرها و مرسها کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اس کا آغاز کرتے ہیں.ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فر مائے اور ہمیں اس مقصد عظیم میں اپنے فضل سے کامیاب کرے اور ہماری اس سعی کو قبول فرماتے ہوئے اسے نصرت دین کا ایک مؤثر ذریعہ بنا دے کیونکہ نصرت دین ہی ہم سب کی زندگی کا مقصد وحید اور نصب العین ہے.امین یا ارحم الراحمین.پرا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس رسالہ کے اجراء پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے حسب ذیل پیغام دیا جو پہلے شمارہ کے صفحہ ۷ - ۸ میں رسالہ ”انصار اللہ کا خیر مقدم کے عنوان سے سپر دا شاعت ہوا.وو " مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک ماہوار رسالہ انصار اللہ کے نام سے جاری کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے جو مجلس انصاراللہ مرکز یہ کا ترجمان ہو گا.مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں اس رسالہ کے پہلے نمبر کیلئے کوئی پیغام لکھ کر ارسال کروں.پہلے تو میں حیران ہوا کہ جب کہ میں خود بھی مجلس انصار اللہ کا ممبر ہوں تو میری طرف سے کسی پیغام کے کیا معنے ہیں.لیکن پھر میں نے سوچا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ لنفسك عليك حق یعنی اے انسان تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے.تو میں نے اس خدمت کیلئے اپنے آپ کو تیا ر پایا.جیسا کہ اکثر ناظرین کو معلوم ہے انصار اللہ کا لفظ خو د قرآن مجید نے استعمال کیا ہے اور استعمال بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے تعلق میں کیا ہے اسلئے اس لفظ کو ہماری جماعت کے ساتھ خاص نسبت ہے کیونکہ ہماری جماعت کے مقدس بانی کا مثیل مسیح ہونے کا خصوصی دعوی تھا.پس رسالہ انصار اللہ کیلئے میرا پیغام بھی انصار اللہ ہی کے لفظ میں مرکوز ہے.اس رسالہ کے ایڈیٹروں کو چاہیئے کہ خود بھی انصار اللہ یعنی خدا کے مددگار بنیں اور رسالہ کے نامہ نگاروں کو بھی تلقین کریں کہ وہ اپنے تمام مضامین کو اسی مرکزی محور کے ارد گرد چکر دیں.اس وقت دنیا نے موجودہ زمانہ کی مادی تہذیب و تمدن کے اثر کے ماتحت خدا کو گو یا اکیلا چھوڑا ہوا ہے.انصار اللہ کو چاہیئے کہ سب سے پہلے قرآن وحدیث کا مطالعہ کر کے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لڑریجر کو گہری نظر سے دیکھ کر خدا کا منشاء معلوم کریں کہ وہ اس بارہ میں کیا چاہتا ہے.یعنی وہ کن خرابیوں کو مٹانا چاہتا ہے اور کن خوبیوں کو قائم کرنا چاہتا ہے اور پھر اس مطالعہ کے بعد اپنی تمام قوتوں اور تمام ذرائع کے ساتھ خدا کی
تاریخ احمدیت 712 جلد ۲۰ خدمت میں لگ جائیں اس کے بغیر نہ تو مجلس انصار اللہ حقیقی معنی میں انصار اللہ کہلا سکتی ہے او نہ یہ رسالہ بیچ طور پر خدا تعالیٰ کا ناصر و مددگار سمجھا جا سکتا ہے.ہے رسالہ انصار اللہ کے مضامین اعلیٰ درجہ کے علمی اور تحقیقی ہونے چاہیئیں اور اس رسالہ کو اپنے بلند معیار سے ثابت کر دنیا چاہیے کہ حقیقتہ مذہب اور اور سائنس میں کوئی ٹکراؤ کرد اور تضاد نہیں کیونکہ وہ دونوں ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں.سچا مذہب خدا کا قول جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس دنیا پر نازل ہوا اور پھر آپ کے خادم اور ظل حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ذریعہ اس نے اس زمانہ میں نئی روشنی پائی.اور سچی سائنس خدا کا فعل ہے جو خدا کی پیدا کی ہوئی نیچر کے پردوں میں مستور رہ کر زمانہ کی ضرورت کے مطابق ظاہر ہوتی رہتی ہے.اگر ان دونوں میں کوئی ٹکر ا ؤ سمجھا جاتا ہے تو وہ یقیناً نظر کا دھوکا ہے یعنی یا تو کسی معاملہ میں مذہب کو ٹھیک طرح نہیں سمجھا گیا اور یا سائنس کی کسی تحقیق کرنے والوں کو ٹھوکر لگی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء اور آپ سے تربیت یا فتہ اصحاب کے لٹریچر نے اس نام نہا د تضاد کو بیشتر صورتوں میں صاف کر دیا ہے اور اگر کوئی ظاہری تضاد باقی ہے تو وہ بھی انشاء اللہ جلد صاف ہو جائے گا.رسالہ انصار اللہ کو اس کام میں خاص حصہ لینا چاہیئے.یا د رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کیلئے بڑے بڑے عظیم الشان کارنامے مقدر ہیں.حضرت مسیح موعود نے ایک جگہ خدا سے علم پا کر لکھا ہے کہ :.” میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے ٹور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمے سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھو لے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جائیگا." ( تجلیات الہیہ صفحہ ۱۷) پس اے میرے عزیز و اور دوستو اور بزرگو یہی میرا پیغام ہے اور اسی مقصد و منتہا کیلئے آپ سب کو کوشش کرنی چاہیئے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین خاکسار مرزا بشیر احمد حال لاہور ۲۰ را کتوبر ۱۹۶۰ء اس پیغام کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے بھارت کے احمدیوں کو اس کی خریداری کی پر زور تحریک بھی فرمائی چنانچہ آپ نے مولا نا عبدالرحمن صاحب جٹ فاضل ناظر اعلیٰ کے نام مکتوب لکھا کہ :.
تاریخ احمدیت 713 جلد ۲۰ مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے ربوہ سے ایک ماہنامہ انصار اللہ نومبر ۱۹۶۰ء سے جاری کیا ہے جو مجلس انصار اللہ مرکز یہ کا ترجمان ہے اس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روح پرور ملفوظات اور پر معارف تحریرات شائع کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حضور کے رفقاء کے دلچسپ حالات، قبول حق کے ایمان افروز واقعات اور روایات، قربانی وایثار اور فدائیت کے نمونے شائع کرنے کا التزام ہے اور پھر تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت کے چیدہ چیدہ واقعات بھی پیش کئے جانے کا پروگرام ہے.اسی طرح اہل علم بزرگان کے تربیتی مضامین اور اہل قلم حضرات کے بلند پایہ علمی مقالے بھی اس رسالہ کے ذریعہ پیش کئے جائیں گے.الغرض یہ ماہنامہ انصار اللہ ایک معلم اور مربی کا کام دے گا.میں اس خط کے ذریعہ بھارت کی مجالس انصار اللہ کو تحریک کرتا ہوں کہ اس کے ممبران اس رسالہ کو اپنے نام جاری کرائیں اور اس سے استفادہ کر یں اور جو اصحاب اپنے طور پر خرید کر نے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں وہ مل کر اپنی اپنی مجالس ہی کیلئے کم از کم ایک رسالہ تو ضرور جاری کروا لیں.اس رسالہ کا سالانہ چندہ صرف پانچ روپے ہے جو رسالہ کی خوبیوں کے بالمقابل معمولی رقم ہے.والسلام مرزا بشیر احمد ر بوه اس کے علاوہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکز یہ منعقده ۱۳۴۱ هش (۱۹۶۲ء) کے موقعہ پر اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ :.میں اس جگہ رسالہ انصار اللہ کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں یہ رسالہ خدا کے فضل سے بڑی قابلیت کے ساتھ لکھا جاتا اور ترتیب دیا جاتا ہے اور اس کے اکثر مضامین بہت دلچسپ اور دماغ میں چلا پیدا کرنے اور روح کو روشنی عطاء کرنے میں بڑا اثر رکھتے ہیں پس انصار اللہ کو چاہئے کہ اس رسالہ کو ہر جہت سے ترقی دینے کی کوشش کریں، اس کی اشاعت کا حلقہ وسیع کریں اور اس کیلئے مختلف علمی موضوع پر اچھے اچھے مضامین لکھ کر بھجوائیں تا کہ اس کی افادیت میں ترقی ہو اور جماعت میں اس کے متعلق دلچسپی بڑھتی چلی جائے.“ عہد حاضر میں تربیت و اصلاح نفس کا مسئلہ پوری دنیا کیلئے خاص اہمیت رکھتا ہے.لیکن جماعت احمدیہ کے لئے جو دین حق کی علمبر دار ہے اس کی اہمیت وضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہی واحد ذریعہ ہے جس کے نتیجہ میں اسلامی معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو
تاریخ احمدیت 714 جلد ۲۰ سکتا ہے اور جیسے کہ اوپر ذکر آچکا ہے یہ نیا رسالہ اس بنیادی مقصد کی تکمیل کیلئے جاری کیا گیا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ماہنامہ ربع صدی سے نہایت خوبی اور مثالی رنگ میں بیش بہا علمی خدمات انجام دے رہا ہے.اس رسالہ کی اہم خصوصیات یہ تھیں :.اول.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کے جد آفریں زندگی بخش اور روح پرور کلام ( نثر و نظم ) کا نہایت موزوں انتخاب مسحور کن عنوانوں کیسا تھ اس کی زینت ہوتا تھا.یہی وہ معرفت کا لازوال خزانہ ہے جس کے نتیجہ میں قلوب کی آلائشیں دور ہوتی ہیں اور انسان اپنے اندر ایک پاک تبدیلی محسوس کرتا ہے.دوم.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد قیمتی مکتوبات کے عکس اس میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوئے.یہ مکتوبات حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب، حجۃ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب، حضرت مولوی محمد دین صاحب، حضرت صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس، غضنفر احمدیت حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب، حضرت سیٹھ غلام نبی صاحب هلمی، حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل رحمهم الله ، جیسے اکا بر رفقاء احمد کے نام ہیں اور بیش.قیمت ارشادات پر مشتمل ہیں.سوم.مولانا عبدالرحمن صاحب انور کی مساعی سے متعدد بزرگ رفقاء کی غیر مطبوعہ روایات ریکاردڈ ہوئیں.چہارم.خلفا ء احمدیت کے ایمان افروز خطابات سپر دا شاعت ہوئے.پنجم.اس زمانہ میں جماعت احمد یہ جس شاندار طریق سے عالمی سطح پر تبلیغ دین حق کر رہی ہے اور اس کے انقلاب انگیز نتائج پیدا ہور ہے ہیں.اس کا جائزہ ایک مبصر کی حیثیت سے لیا جاتا رہا اور غیروں کے اعتراضات کو اس میں خاص طور پر شامل اشاعت کیا گیا.یہ رسالہ دین حق واحمدیت کی تاریخ ، صحابہ کی سیرت اور بہت سے تربیتی تبلیغی اور اصلاحی مضامین کے اعتبار سے ایک مختصر سے انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے جسے سلسلہ کے بہت سے مقتدر بزرگوں اور دیگر مشہور اہل علم اصحاب کی علمی اور فکری کا وشوں کا نچوڑ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا.نومبر ۱۹۶۰ء سے دسمبر ۱۹۸۴ء تک جن مشہور و ممتاز اہل قلم نے اپنے رشحات قلم سے اس رسالہ کو مزین کیا ان کے نام یہ ہیں.
تاریخ احمدیت 715 جلد ۲۰ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ - حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب.مولانا جلال الدین صاحب شمس.مولانا ابوالعطاء صاحب.محمد اسمعیل صاحب پانی پتی.شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ.شیخ عبد القادر صاحب محقق عیسائیت.صوفی بشارت الرحمن صاحب.شیخ محبوب عالم صاحب خالد.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ.مرزا عبدالحق صاحب.صاحبزادہ مرزا منوراحمد صاحب.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.مولانا غلام احمد صاحب فرسخ.مولانا شیخ مبارک احمد صاحب.مولانا عبدالمالک خاں صاحب.پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب.مولانا محمد صادق صاحب سماٹری.محترم ڈاکٹر شاہنواز خاں صاحب.مولانا نسیم سیفی صاحب.شیخ محمد حنیف صاحب کوئٹہ.اخوند فیاض احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب.چوہدری ظہور احمد صاحب.ڈاکٹر نصیر احمد خاں صاحب.چوہدری محمد علی صاحب.مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری - شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی.سید احمد علی شاہ صاحب.ملک سیف الرحمن صاحب.شیخ نور احمد صاحب منیر.مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر.مولوی فضل الہی صاحب بشیر.قاضی محمد صاحب.صوفی محمد اسحاق صاحب.پروفیسر سعود احمد خاں صاحب دہلوی.جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مولف ” اصحاب احمد.جناب بشیر احمد رفیق صاحب.مولوی فضل الہی صاحب انور کی.ابو قیصر آدم خاں صاحب مردان.جناب مسعود احمد صاحب جہلمی.حسن محمد خاں عارف صاحب محترم خالد سیف اللہ صاحب مولوی بشیر احمد صاحب زاھد.ریٹائر ڈ بریگیڈیر جناب وقیع الزمان خاں صاحب.مولوی محمد احمد صاحب جلیل.ہفتم.انصار اللہ کی عالمی تنظیم کے سالانہ اور علاقائی اجتماعات اور مختلف تقاریب اور تبادلوں کی رپورٹیں اس میں خاص اہتمام اور باقاعدگی کے ساتھ چھپتی تھیں.ہشتم.ایک صفحہ بچوں کیلئے مخصوص تھا.نہم.رسالہ نہ صرف مضامین و معلومات کے اعتبار سے بلند پایہ اور معیاری تھا بلکہ ظاہری محاسن سے بھی آراستہ و پیراستہ تھا.دہم.جنوری ۱۹۷۶ ء سے یہ رسالہ مصور ہو گیا جس کے بعد گا ہے گا ہے اس میں ا ہم تصاویر بھی چھپنے لگیں.
تاریخ احمدیت 716 جلد ۲۰ فصل سوم خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ سالانہ اجتماع مجلس انصار مرکزیہ سے کا میاب اجتماعات کے بعد مجلس انصار اللہ مرکز یہ کا چھٹا سا لا نہ اجتماع ۳۰٬۲۹٬۲۸ را کتوبر ۱۹۶۰ء کو انعقاد پذیر ہوا جو اپنی مثال آپ تھا.اس اجتماع کا افتتاح قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے پُر اثر اور پُر درد خطاب اور پُر سوز دعا سے کیا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا :.انصار اللہ کے اجتماع کیلئے کسی پیغام کا انتخاب کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ یہ پیغام بصورت احسن انصار اللہ کے لفظ میں مرکوز ہے جس کے معنی خدائی خدمت گار کے ہیں.قرآن مجید نے انصار اللہ کی اصطلاح اولاً حضرت مسیح ناصری کے مشن کے تعلق میں استعمال کی ہے.جہاں یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے من انصاری الی اللہ کہہ کر اپنے حواریوں سے اپنے خدا داد مشن میں مددگار بننے کا مطالبہ کیا اور اس کے جواب میں حواریوں نے عرض کیا نحسن انصار الله یعنی اے خدا کے مسیح ہم خدا کے کام میں آپ کے معاون و مددگار بننے کا وعدہ کرتے ہیں.اس کے بعد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ گو بعض حواریوں سے کچھ کمزوریاں اور فروگزاشتیں بھی ہوئیں مگر انہوں نے بحیثیت مجموعی خدا کے رستہ میں تکلیفوں اور مصیبتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے اور اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق حضرت مسیح ناصری کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں بڑی جانفشانی اور بڑے صبر و استقلال اور قربانی سے کام لیا.بلکہ وہ اپنے تبلیغی جوش میں اور بعض بعد میں آنے والے لوگوں کی غلط تشریحات کے نتیجہ میں حضرت مسیح ناصری کے منشاء سے بھی آگے نکل گئے.کیونکہ گو مسیح کا مشن صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں تک محدود تھا مگر مسیحی مشنری اس حد بندی کو تو ڑ کر دوسری قوموں تک بھی جا.اور اس تجاوز میں خطر ناک ٹھو کر کھائی مگر اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن ساری قوموں اور سارے ملکوں اور سارے زمانوں تک وسیع ہے اور پھر محمدی نیابت کی وجہ سے آپ کا مقام بھی مسیح ناصری کی نسبت زیادہ بلند اور زیادہ ارفع ہے.چنانچہ حضرت مسیح.
تاریخ احمدیت موعود خو دفرماتے ہیں کہ.717 جلد ۲۰ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑ و اُس سے بڑھ کر غلام احمد ہے پس ایک طرف میدان عمل کی غیر معمولی وسعت اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود کے پیغام کی غیر معمولی رفعت آپ صاحبان سے غیر معمولی جد و جہد اور غیر معمولی قربانی کا مطالبہ کرتی ہے.یا د رکھو کہ محض انصار اللہ کہلانے سے کچھ نہیں بنتا.اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے اور اپنے بندوں کو ان کے دل کے تقویٰ اور ان کے اعمال کے پیمانے سے ناپتا ہے.آپ کی منزل ابھی دُور ہے بہت دور.پس اپنے قدموں کو تیز کرو بہت تیز بلکہ پرواز کے پر پیدا کرو.کیونکہ یہ ہوائی اُڑان کا زمانہ ہے اور حضرت مسیح موعود کو حضور کے ایک کشف میں ہوا میں اُڑنے کا نظارہ بھی دکھایا گیا تھا جس میں یہی اشارہ تھا کہ جماعت کو اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ ہوا میں اُڑ نا ہوگا.پھر آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس وقت جماعت کا امام جس نے سینکڑوں کٹھن منزلوں اور خاردار جھاڑیوں میں سے جماعت کو کامیابی کے ساتھ گزارا ہے اور اس وقت تک خدا کے فضل سے ہمارے امام کی قیادت میں جماعت کا ہر قدم ترقی کی طرف اُٹھتا چلا آیا ہے.وہ ایک لمبے عرصہ سے بستر علالت میں پڑا ہے اور آپ لوگ اس وقت حضرت خلیفۃ اصیح ایده اللہ بنصرہ کے روح پرور خطابات اور آپ کی زندگی بخش ہدایات اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں آپ کے زریں ارشادات سے بڑی حد سے محروم ہیں اور حضور کی یہ بیماری بشری لوازمات کا ایک طبعی خاصہ ہے.مگر اس حالت میں آپ لوگوں پر یہ بھاری فرض عائد ہوتا ہے کہ جس طرح باپ کی بیماری میں فرص شناس بچے اپنے کاموں میں زیادہ بیدار اور زیادہ چوکس ہو کر لگ جاتے ہیں.اسی طرح آپ بھی اس وقت کے نازک حالات میں اپنے غیر معمولی فرض کو پہچانیں اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ امام کی بیماری میں آپ کا قدم شست نہیں ہوا بلکہ تیز سے تیز تر ہو گیا.اور اس کے ساتھ ہی حضرت خلیفہ امسیح کی صحت اور شفایابی اور حضور کی فعال زندگی کی بحالی کیلئے بھی بیش از پیش دُعائیں کریں تا ہمارا یہ امتحان جلد ختم ہو.اور یہ خدائی برات اپنے دولہا کے ساتھ تیز قدم اُٹھاتے ہوئے آگے بڑھتی چلی جائے.علاوہ ازیں ان ایام میں آپ لوگوں کو جماعت کے اتحاد کا بھی خاص بلکہ خاص الخاص خیال رکھنا چاہیئے.قرآن مجید نے رسول پاک علیہ کے صحابہ کو بنیان مرصوص کے
تاریخ احمدیت 718 جلد ۲۰ امتیازی نام سے یاد کیا ہے.اور بنیان مرصوص وہ ہوتی ہے جو آپس میں اس طرح پیوست ہو کہ کوئی چیز اس میں رخنہ نہ پیدا کر سکے اور یہ بات قربانی کی روح کے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی.اگر ہر شخص کو یہ خیال ہو کہ ہر حال میں میری ہی بات مانی جائے اور میری ہی رائے کو قبول کیا جائے تو یہ بد ترین قسم کا تکبر ہے جو جماعت کے اتحاد کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ نیچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذکل اختیار کرو اس میں یہی نکتہ مد نظر ہے کہ بعض اوقات انسان کو اتحاد کی خاطر اپنے آپ کو حق پر سجھتے ہوئے بھی اپنی رائے کو چھوڑنا پڑتا ہے دوستوں کو چاہیئے کہ اس نکتہ کو ہمیشہ یا درکھیں.دو جہاد فی سبیل اللہ کے تعلق میں آپ کا کام دو میدانوں سے تعلق رکھتا ہے.ایک میدان تبلیغ کا میدان ہے.یعنی غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانا اور اپنے مسلمان بھائیوں کے دلوں سے احمدیت کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنا.یہ ایک بڑا نا زک اور اہم کام ہے جس کیلئے آپ صاحبان کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.بے اصول لوگوں نے اسلام اور احمدیت کے متعلق غلط فہمیوں کا ایک وسیع جال پھیلا رکھا ہے.اس جال کے کانٹوں کو اپنے رستہ سے ہٹا نا آپ لوگوں کا فرض ہے.مگر اس تعلق میں اس قرآنی آیت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ :.ادع الى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة و جادلهم بالتي هي احسن یعنی لوگوں کو نیکی کے رستہ کی طرف محبت اور حکمت اور نصیحت کے رنگ میں بلا ؤ اور ایسا طریق اختیار نہ کرو جس سے دوسروں کے دل میں نفرت اور دُوری کے خیالات پیدا ہوں بلکہ اپنے اندر ایک ایسے روحانی مقناطیس کی صفت پیدا کر وجس سے سعید لوگ خود بخود آپ کی طرف کھچے چلے آئیں.دوسرا میدان تربیت سے تعلق رکھتا ہے یعنی اپنے آپ کو اور اپنے دوستوں کو اور سب سے بڑھ کر اپنے اہل وعیال کو اسلام اور احمدیت کی دلکش تعلیم پر قائم کرنا.یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے بلکہ بعض لحاظ سے تبلیغ سے بھی زیادہ نازک اور اہم ہے.جماعت جوں جوں تعداد میں بڑھتی جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے بعد ہوتا جاتا ہے اس کام کی اہمیت بھی بہت بڑھتی جاتی ہے.آپ لوگوں کو عہد کرنا چاہیئے کہ آپ پوری توجہ کے ساتھ اس بات کی کوشش کریں گے کہ اپنی عورتوں کو خلاف شریعت رسموں سے باز رکھیں اور اپنی اولا دکو نیکی کے رستہ پر چلائیں اور اپنے بچوں میں سے کم از کم ایک بچہ کوعلم اور عمل میں اپنے
تاریخ احمدیت 719 جلد ۲۰ سے بہتر بنانے اور اپنے پیچھے بہتر حالت میں چھوڑنے کی تدبیر کریں.ہمارے سامنے یہ تلخ حقیقت موجود ہے کہ جماعت میں بعض اعلیٰ پائے کے اصحاب جو علم وفضل میں بہت اعلیٰ مقام رکھتے تھے جب وہ فوت ہوئے تو ان کے ساتھ ہی ان کا علمی اور روحانی ورثہ بھی ختم ہو گیا ترقی کرنے والی جماعتوں کیلئے یہ صورت حال بڑی تشویشناک ہے پس انصار اللہ کو چاہیئے کہ اس بات کا محاسبہ کرتے رہیں اور مسلسل نگرانی رکھیں کہ ان کے پیچھے ان کی اولاد میں دین کا ورثہ ضائع نہ ہو.یہ وہ بات ہے جس کا حضرت مسیح موعود کو بھی اپنی اولاد کے متعلق بے حد خیال تھا چنا نچہ آپ اپنی ایک نظم میں اپنے بچوں کے متعلق فرماتے ہیں.ے یہ ہو میں دیکھ لوں تقوی سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا اس دھو کہ میں نہیں رہنا چاہیئے کہ چونکہ ہم خود نیک اور دیندار ہیں اس لئے ہماری اولا د بھی لازماً نیک ہوگی.قرآن مجید فرماتا ہے.يخرج الحي من الميت ويخرج الميت من الحي یعنی خدا کا یہ قانون ہے کہ مُردہ لوگوں میں سے زندہ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں اور 66 زندہ لوگوں کے گھر مُردہ بچے جنم لیتے ہیں.“ چنانچہ حضرت سلیمان کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ :.القينا على كرسيه جسدا " یعنی جب سلیمان جو خدا کا ایک عظیم الشان نبی تھا فوت ہوا تو اس کے تخت پر ایک گوشت کا لوتھڑا تھا.انسان نہیں تھا.“ پس یہ مقام خوف ہے اور اس کی طرف انصار اللہ کو خاص توجہ دینی چاہیئے.دوستو اور عزیز و ! اپنے گھروں میں علم اور دین اور تقویٰ کی شمع روشن رکھو.تا ایسا نہ ہو کہ آپ کے بعد یہ روشنی ختم ہو جائے اور صرف اندھیرا ہی اندھیرا رہ جائے.مجھے اس وقت حضرت خلیفہ : اصیح ایدہ اللہ بنصرہ کا یہ دردناک شعر یاد آ رہا ہے کہ :.ے ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی المصلح موعود نے اس خصوصی اجتماع کیلئے ایک نہا یت روح پرور پیغام عطا فرمایا جسے صدر مجلس انصار اللہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے آخری اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور تحریک جدید کی اہمیت پر ایک پُر جوش اور ایمان افروز
تاریخ احمدیت 720 جلد ۲۰ تقریر فرمائی.حضور کے پیغام کا متن حسب ذیل تھا.بسم الله الرحمن الرحيم ط صلى الله اعوذ بالله من الشيطن الرجيم ط ا نحمده و نصلی علی رسوله الكريم ط خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادران جماعت احمدیہ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں تحریک جدید کے نئے مالی سال کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے دوستوں کو اس تحریک میں زیادہ سے زیادہ جوش اور اخلاص کیسا تھ حصہ لینے اور اپنے وعدوں کو پچھلے سالوں سے بڑھا کر پیش کرنے کی طرف توجہ دلاؤں.تحریک جدید کوئی نئی یا عارضی چیز نہیں بلکہ قیامت تک قائم رہنے والی چیز ہے.اس لئے مجھے ہر سال اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن چونکہ مجھے کہا گیا ہے کہ اس بارہ میں اعلان کروں اس لئے میں تحریک جدید کے نئے مالی سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کا نمونہ دکھا ئیں تا کہ تبلیغ کا کام قیامت تک جاری رہے.یہ امر یا درکھو کہ ہماری جماعت محمد رسول اللہ ﷺ کی جماعت ہے.اور محمد رسول اللہ ﷺ کا کام قیامت تک جاری رہے گا.پس ہمیں سمجھ لینا چاہیئے کہ ہمارے سپر د اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشاعت اسلام کا جو کام کیا گیا ہے وہ قیامت تک جاری رہنے والا ہے اور ہمیں قیامت تک آپ کے جھنڈے کو بلند رکھنے کیلئے ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینا پڑیگا.بے شک رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت اشرار الناس پر آئے گی لیکن اگر لوگ نیکی پر قائم رہیں تو خدا تعالیٰ اس کو بدل بھی سکتا ہے اور بالکل ممکن ہے کہ قیامت اشرار الناس پر نہیں اختیار الناس پر آئے.یہ تو امت کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسا اچھا بنائے کہ خدا تعالیٰ اپنی تقدیر کو بدل دے اور قیامت آنے کے وقت بھی دنیا میں اچھے لوگ ہی ہوں بُرے نہ ہوں اور چونکہ اس زمانہ میں دنیا کی ہدایت کیلئے خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو کھڑا کیا ہے اور ہماری جماعت نے قیامت تک اسلام اور احمدیت کو پھیلاتے چلے جانا ہے.اس لئے ہماری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرے کہ قیامت اچھے لوگوں پر ہی آئے اور ہماری جماعت کے افراد کبھی بگڑیں نہیں بلکہ ہمیشہ نیکی اور تقویٰ پر قائم رہیں.سلسلہ سے پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رہیں.اسلام
تاریخ احمدیت 721 جلد ۲۰ اور احمدیت کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرتے رہیں.اور اپنے نیک نمونہ سے دوسروں کی ہدایت کا موجب بنیں.مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ لوگ بھی اپنا اچھا نمونہ دکھائیں اور دوسروں کو بھی اپنے عملی نمونہ اور جد و جہد سے نیک بنانے کی کوشش کریں تا کہ قیامت اشرار الناس پر نہیں بلکہ اخیار الناس پر آئے اور ہمیشہ آپ لوگ دین کی خدمت میں لگے رہیں.جو خدا تقدیریں بناتا ہے وہ اپنی تقدیروں کو بدل بھی سکتا ہے.اگر آپ لوگ اپنے اندر ہمیشہ نیکی کی روح قائم رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے فعل کے ساتھ اپنی تقدیر کو بھی بدل دیگا.اور قیامت تک نیک لوگ دنیا میں قائم رہیں گے.جو خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرتے رہیں گے.پس کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو قیامت تک لئے چلا جائے اور اخیار کی صورت میں لے جائے نہ کہ اشرار کی صورت میں اور ہر سال جو ہماری جماعت پر آئے وہ زیادہ سے زیادہ نیک لوگوں کی تعداد ہمارے اندر پیدا کرے اور ہماری قربانیوں کے معیار کو اور بھی اونچا کر دے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ آپ کو اس تحریک میں پورے جوش اور اخلاص کیسا تھ حصہ لینے کی توفیق بخشے اور ہمیشہ آپکو خدمت دین کی تو فیق عطا فرما تا ر ہے.اللهم آمین اس عظیم الشان اجتماع کے پُر کیف لمحات کا کسی قدر اندازہ کرنے کیلئے درج ذیل رپورٹ پیش کی جاتی ہے جو مسعود احمد خاں صاحب دہلوی مدیر انصار اللہ کے قلم سے نکلی ہے فرماتے ہیں :.اجتماع کا آغاز ۲۸ / اکتوبر ۱۹۶۰ء کو دفتر مجلس انصار اللہ مرکز یہ کے احاطہ میں خوبصورت شامیانوں سے تیار کردہ وسیع و عریض پنڈال میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مد ظلہ العالی کے رُوح پرور اور ولولہ انگیز خطاب سے ہوا.یہ خطاب اس درجہ پُر درد و پر سوز اور اثر انگیز تھا کہ اس کا لفظ لفظ دلوں میں اُترتا چلا گیا.اس سے ایمان کو ایک نئی تازگی یقین کو ایک نئی پختگی، قلوب کو ایک نئی جلاء اور ذہنوں کو ایک نئی بصیرت حاصل ہوئی.اجتماع کے اس پر اثر افتتاح کے بعد ۳۰ /اکتوبر کے ۱۲ بجے دوپہر تک نمازوں اور کھانے وغیرہ کے درمیانی وقفوں کو چھوڑ کر مختلف اوقات میں آٹھ اجلاس منعقد ہوئے.ان آٹھ اجلاسوں میں آٹھ مرتبہ تلاوت قرآن مجید کے چھ درس، اسی طرح احادیث نبوی ﷺ اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار چار درس یعنی کل چودہ درس ہوئے جو حقائق و معارف اور علوم
تاریخ احمدیت 722 جلد ۲۰ و ظاہری و باطنی کا خزینہ تھے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا کہ ان درسوں میں جس پر ایمان افروز پیرائے میں روشنی نہ ڈالی گئی ہو اور کوئی دل ایسا نہ تھا جو حسب استطاعت اس کے نتیجہ میں آسمانی نور سے منور نہ ہوا ہو.علی الخصوص ۲۸ تا ۳۰ /اکتوبر کی دو درمیانی را تئیں جذب و تاثیر کا ایک شاہکا رتھیں جبکہ دو تہائی حصہ رات گزرنے کے بعد چار بجے علی صبح خاص التزام کے ساتھ نماز تہجد ادا کی گئی اور دُنیا میں غلبہ اسلام اور سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اطال الله بقاء کی صحت کاملہ عاجلہ اور درازی عمر کیلئے انتہائی درد اور خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں مانگی گئیں سجدوں میں کی جانے والی دعا ئیں اثر و جذب میں ڈوبا ہوا ایک ایسا منظر پیش کر رہی تھیں جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر صادق آتا تھا.ے شور کیسا ہے ترے کوچے میں لے جلدی خبر خون نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا پھر دونوں روز نماز تہجد اور نماز فجر کے بعد علی الصبح ذکر حبیب علیہ السلام کی جو مجلسیں منعقد ہوئیں وہ جذب و تاثیر اور روحانی کیف و سرور کے لحاظ سے ایک خاص شان کی حامل تھیں ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء میں سے حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب، حضرت مرزا برکت علی صاحب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولوی عبدالواحد صاحب میر تھی نے عشق الہی ، عشق رسول اور عشق مسیح موعود سے سرشار ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ کے چشم دید واقعات سے متعلق اپنی نہایت ایمان افروز روایات ایک خاص جذبے کے ساتھ سُنا ئیں.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل بوجہ نا سازی طبع تشریف نہ لا سکے تھے اس لئے اُن کی تحریر کردہ روایات پڑھ کر سُنائی گئیں.اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مد ظلہ العالی اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہانپوری اور حضرت خدا بخش صاحب مومن کی روایات کے ریکارڈ خود انہی کی آواز میں سُنائے گئے.خوش بخت رفقاء مسیح موعود کی ایمان افروز روایات سن کر سامعین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ بھی علی قدر مراتب عشق الہی، عشق رسول اور عشق مسیح موعود کی لگن سے سرشار ہو کر فرط مسرت میں جھوم اُٹھے.نماز تہجد اور نماز فجر میں آہ وزاری اور پھر معاً بعد خود رفقاء حضرت مسیح موعود کی زبانی حضور علیہ السلام کے معمولات اور روح پرور مجالس کے تذکار مقدس اور ان کا اثر و جذب میں ڈوبا ہوا بیان وہ رنگ لایا کہ یوں محسوس ہونے لگا کہ کثافتیں دُور ہو رہی ہیں، سینے ڈھل رہے ہیں اور رحانی
تاریخ احمدیت 723 جلد ۲۰ انبساط تحلیل ہو ہو کر رگ و پے میں سرایت کر رہا ہے.الغرض تزکیۂ نفوس اور تطہیر قلوب کا یہ ایک ایسا منظر تھا جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں.ذکر حبیب علیہ السلام کی ان ہر دو مخصوص مجالس کے علاوہ حضرت مسیح موعود کے قدیمی اور مخلص رفیق خاص ) حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب مد ظلہ نے بھی جنہیں حضور علیہ السلام کے ۳۱۳ رفقاء کبار میں شمولیت کا شرف حاصل ہے ایک علیحدہ اجلاس میں اپنی ایمان افروز روایات بیان کر کے کیف و سرور کا وہ سامان بہم پہنچایا کہ جس سے ہر دل تڑپ اُٹھا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ ہم خود اسی مبارک دور میں سے گزر رہے ہیں اور اُن روح پرور مجالس میں شرف باریابی سے بہرہ اندوز و فائز لمرام ہیں.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود کے بعض قدیمی، مخلص اور جلیل القدر رفقاء کی سیرۃ پر بھی دو نہایت ایمان افروز تقاریر ہوئیں جو جذب و تاثیر کی کیفیت کو اور بھی زیادہ بڑھانے اور اس میں اضافہ کا موجب بنیں.پھر اہم علمی اور تربیتی موضوعات ( خدا تعالیٰ کو پانے کا طریق انابت الی اللہ کا مفہوم، قبولیت دعا کی ذاتی مثالیں، حضرت رسول کریم سے حضرت مسیح موعود کی بے پایاں محبت تربیت اولاد کی اہمیت ) پر رفقاء حضرت مسیح موعود اور علماء سلسلہ نے مختلف اوقات میں حاضرین سے خطاب فرمایا جو بہت از دیاد علم اور از دیاد ایمان کا باعث بنا.سوال و جواب کا نہایت مفید دلچسپ اور مسحور کن سلسلہ اس پر مستزاد تھا جس کے تحت انصار نے بعض دینی اور علمی سوالات استفسار کے رنگ میں پیش کئے جن کے علماء سلسلہ نے اُسی وقت نہایت عالمانہ رنگ میں جواب دیکر تعلیم و تدریس کا فریضہ نہایت مہتم بالشان طریق پر ادا کیا اور اس طرح انصار کو اپنے علمی ذوق کی تسکین کا نادر موقعہ میسر آیا.اجتماع کے سب سے زیادہ مسحور کن اور کیف آور و کیف پر ورلمحات وہ تھے کہ جب آخری اجلاس میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے تحریک جدید کے نئے سال کے آغاز سے متعلق سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا وہ رُوح پرور پیغام پڑھ کر سنایا جو حضور ایدہ اللہ نے خاص انصار کے نام ارسال فرمایا تھا.یوں تو محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اجتماع کے متعددا جلاسوں نیز سوال و جواب کی مجلس کے دوران صدارت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے انصار سے با رہا خطاب فرمایا اور انہیں بیش بہا نصائح اور ہدایات سے نوازا لیکن حضور ایدہ اللہ کا پیغام سنانے سے قبل آپ نے تحریک جدید کی اہمیت پر جو معرکۃ الآراء تقریر ارشاد فرمائی اور حضور ایدہ اللہ کی قیادت اور رہنمائی میں زمین کے کناروں تک تبلیغ اسلام کی وسعت اور اس کے
تاریخ احمدیت 724 جلد ۲۰ نتیجے میں رونما ہونے والے عظیم الشان انقلاب کی اہمیت کو جس ولولہ انگیز پیرائے میں واضح فرمایا اور دلوں کو ہلا کر روحوں کو بیدار کرنے والے جس جذبہ و جوش کے ساتھ احمدی مجاہدین اسلام کے محیر العقول کارناموں پر روشنی ڈالی اس کی یاد دلوں سے کبھی محو نہیں ہو سکتی.تقریر کیا تھی زور خطاب کا ایک شاہکا رتھیں جذب واثر کا ایک مرقع تھی، قربانی وایثار کے جذبے کو ابھارنے کا ایک انتہائی مؤثر ذریعہ تھی.سچ یہ ہے کہ وہ ایک آسمانی قر نا تھی جو اس زور اور شان سے پھونکی گئی کہ قلوب انسانی کی اقلیم اور اس کے در و دیوار لرز اُٹھے خفتہ سے خفتہ دل بھی بیدار ہوئے بغیر نہ رہے انسان تو انسان ماحول کا ذرہ ذرہ ایک نئی زندگی سے معمور ہو کر متحرک نظر آنے لگا.بشاشت انشراح اور کیف و سرور نیز قربانی وایثار اور جوش عمل کے اس نادر ماحول میں محترم صاحبزادہ صاحب موصوف نے جب نہایت پُر جوش و پر شوکت لہجہ کے ساتھ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا زندگی بخش وروح پرور پیغام پڑھا جو تحریک جدید کے نئے سال کے واسطے مالی قربانی کے مطالبہ پر مشتمل تھا تو سامعین کی حالت ہی کچھ اور ہو گئی.محترم صاحبزادہ صاحب موصوف کے پُر زور خطاب کے نتیجے میں زندگی کی جو لہر پیدا ہوئی تھی وہ یم بے کراں کی صورت میں ٹھاٹھیں مارتی ہوئی دکھائی دینے لگی اور سامعین چندہ تحریک جدید کے نئے سال کے وعدے لکھوانے کے لئے یوں بے تاب نظر آنے لگے کہ گویا وہ اذنِ عام کے منتظر ہیں یعنی یہ کہ اجتماع میں ہی وعدے پیش کرنے کی اجازت مل جائے.اگر اس وقت اس کی اجازت دیدی جاتی تو ایک دوسرے پر سبقت لے جانی کا وہ پر کیف منظر دیکھنے میں آتا جو اپنی مثال آپ ہوتا.وعدوں ہی کی بھر مار نہ ہوتی بلکہ اسٹیج پر نوٹوں اور نقدی کے انبار لگ جاتے اور انہیں سنبھالنا اور اسم وار محسوب کرنا مشکل ہو جا تا.بہر حال یہ بات مقصود نہ تھی اور نہ پروگرام میں اس کیلئے کوئی گنجائش ہی موجود تھی اس لئے آخری اجلاس کی بقیہ کا رروائی حسب پروگرام جاری رہی.ہر چند کہ روح پرور دینی نظموں اور مختلف درسوں اور تقریروں کا سلسلہ جاری تھا تا ہم احباب ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کے انتہائی قابلِ رشک و قابل قدر جذبے سے کام لیتے ہوئے چھوٹے چھوٹے رقعوں پر اپنے وعدوں کی رقوم لکھ لکھ کر اسٹیج پر مکرم وکیل المال صاحب کو برا بر پہنچا رہے تھے.کیسے پر کیف تھے وہ لمحات جن میں احباب کو محترم صدر صاحب مجلس مرکز یہ کے ایسے ایمان افروز خطاب اور حضور ایدہ اللہ کے جاں بخش و روح پرور پیغام سے مستفید ہونے کا موقع ملا ! اور کیسا پُر لطف تھا وہ منظر جو وعدہ جات کے رُفعے اولین فرصت میں وکیل المال صاحب تک
تاریخ احمدیت 725 جلد ۲۰ تا نہ بخشد خدائے بخشده ! پہنچانے کی خاموش دوڑ دھوپ کے ضمن میں دیکھنے میں آیا ! اور کیا ہی خوش نصیب ہیں وہ احباب جنہیں ایسے مقدس ترین لمحات اور ان کی گونا گوں روحانی کیفیات میں سے گزرنے اور ان سے بے حساب طور پر فیضیاب ہو کر فائز المرام ہو نیکا انمول موقع نصیب ہوا.این سعادت بزور بازو نیست اجتماع کی بقیہ کارروائی کے آخر میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدا مجلس مرکز یہ کا حسب معمول اختتامی خطاب بھی ایک خاص شان کا حامل تھا جس میں آپ نے حصول قرب الہی کی اہمیت پر نہایت عمدہ پیرائے میں روشنی ڈالی.بعد ہ آپ نے ایک پُر سوز اجتماعی دعا کے بعد چھٹے سالانہ اجتماع کی کارروائی مکمل ہو نیکا اعلان فرمایا اور احباب کو اپنے اپنے گھر واپس جانے کی اجازت دی.الغرض انصار اللہ کا اجتماع دُعاؤں، ذکر الہی اور انابت الی اللہ کے ایک ایسے رُوح پرور ماحول میں منعقد ہوا اور اول سے آخر تک فضا میں ایک ایسا روحانی کیف چھایا رہا اور طبیعتوں میں ایک نئے آسمان کے نیچے اور ایک نئی زمین پر زندگی بسر کر نے کا احساس اس قدر غالب رہا اور ہر آن روحانی کیف و سرور کے ایسے تجرعے پینے کی سعادت نصیب ہوتی رہی کہ جن کی صحیح کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے.بلا مبالغہ یہی تاثر ہر اُس شخص کا ہے جسے امسال اجتماع کی برکات سے بہرہ اندوز ہونے کی سعادت ملی چنانچہ بہت سے احباب نے اجتماع سے واپس جانے کے بعد خطوط کے ذریعے اپنے تاثرات کا اظہار کیا جن میں سے مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر ایسے خطوط کے بعض اقتباسات ذیل میں درج ہیں.(۱) محترم جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجه صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ تحریر فرماتے ہیں.دو تین دن اکثر تقریروں کے دوران ایک ایسا روحانی سماں بندھا رہا کہ گویا حضرت مسیح موعود ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہماری روحوں سے مخاطب ہیں.لاہور میں بھی بعض دوستوں نے میرے اس تاثر کی تصدیق کی اور بتایا کہ دوسرے دوستوں نے بھی بعینہ اسی کیفیت کا اظہار کیا ہے.ایک صاحب نے تو یہ تجویز پیش کی کہ ایسے اجتماع سال میں چار دفعہ منعقد ہونے چاہئیں تا پژمردہ دل زندہ ہو جائیں اور زنگ ڈھل دُھل کر دلوں کے آئینے صیقل ہوتے رہیں.“
تاریخ احمدیت 726 جلد ۲۰ (۲) مکرم قریشی عبد الرحمن صاحب ناظم مجالس انصار اللہ خیر پور ڈویثرن سکھر سے تحریر فرماتے ہیں.اجتماع میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ میں خالصہ ایک روحانی ماحول میں ہوں اور روحانی ہستیوں کی پاک صحبت سے مستفید ہو رہا ہوں الغرض تمام وقت ایسا روحانی سرور حاصل ہوتا رہا جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے.“ وو (۳) مکرم جناب ماسٹر محمد ابراہیم صاحب صدر جماعت احمد یہ حلقہ دہلی گیٹ لا ہور اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں.بلا شبہ ہمارا یہ اجتماع دنیوی آلائشوں کو صاف کر کے روحانی حسن کو نکھارنے کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کے مبشر پوتے کو کام کرنے والی لمبی زندگی عطا فرمائے جن کے وجود اور رہنمائی کی برکت سے ایسا روح 66 پرور اجتماع منعقد ہوتا ہے.(۴) مکرم جناب میرا لہ بخش صاحب تسنیم تلونڈی را ہوالی ضلع گوجرانوالہ اپنے وو مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں.زندگی میں ایسے ایام بہت قابلِ قدر ہوتے ہیں کہ جن میں انسان دنیوی افکار سے فارغ ہو کر کمال درجہ اشتیاق کے ساتھ روحانی نعمتوں سے لذت اندوز ہو سکے.اجتماع انصار اللہ کے ایام بلا شبہ اسی قسم کے مبارک ایام میں سے تھے.اجتماع کیا تھا ایک روحانی مائدہ تھا جس سے ہر شخص حسب استعداد متمتع ہوا.رفقاء حضرت مسیح موعود کے رُوح پرور حالات اور خود حضرت مسیح موعود کی حیات طیبہ کے چشم دید واقعات کا تذکرہ خود حضور علیہ السلام کے رفقاء کی زبان سے ایک ایسی نعمت غیر مترقبہ کا درجہ رکھتا تھا کہ جس کی لذت ہمیشہ اپنا اثر دکھاتی رہے گی.یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا ہم خود حضرت مسیح موعود کے زمانے میں جا موجود 66 ہوئے ہیں اور حضور علیہ السلام کو اپنے احباب کے درمیان چلتا پھرتا دیکھ رہے ہیں.“ مشرقی پاکستان کے طوفان اس سال اکتوبر کے آخر میں مشرقی پاکستان ہولناک سمندری طوفان کی زد میں آ گیا زدگان کی گراں قدر امداد جس میں تقریبا دس ہزار قیمتی جانیں تلف ہوئیں.جماعت احمدیہ نے اپنی روایات کے مطابق اس موقعہ پر بھی مصیبت زدگان کی
تاریخ احمدیت 727 جلد ۲۰ امداد کا قابل تقلید نمونہ دکھلایا چنانچہ صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے اپنے اجلاس ( اجلاس (۷/ نومبر ۱۹۶۰ ء ) میں اس غرض کیلئے پانچ ہزار کی رقم منظور کی اور اس کا چیک جناب لیفٹیننٹ جنرل محمد اعظم خاں صاحب گورنر مشرقی پاکستان کے نام ارسال کر دیا اس بر وقت امداد پر انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے حسب ذیل مکتوب لکھا.(ترجمه) ڈھا کہ 850.D.O.O.O No گورنر مشرقی پاکستان گورنمنٹ ہاؤس ۱۸ نومبر ۱۹۶۰ء بخدمت ناظر صاحب بیت المال صدرانجمن احمد یہ ربوہ آپ نے صدر انجمن احمد یہ ربوہ ( پاکستان ) کی طرف سے پانچ ہزار روپے کی رقم کا جو عطیہ مشرقی پاکستان کے طوفان زدگان کی امداد کے لئے ارسال فرمایا ہے اس کیلئے تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.آپ کی بروقت امداد صحیح معنوں میں قابل تعریف ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ ممبران صدر انجمن احمدیہ کے قلوب میں اپنے ہم وطن بھائیوں کیلئے حقیقی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبات موجود ہیں.دستخط ایم اعظم خاں ایم اعظم خاں لیفٹینٹ جنرل گورنر مشرقی پاکستان صد را انجمن احمد یہ پاکستان کے علاوہ شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت کراچی نے بھی فوری طور پر ایک ہزار روپیہ کی رقم جماعت کراچی کی طرف سے بھجوادی.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی اہم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب قیام پاکستان تقاریر ضلع شیخو پوره وضلع سیالکوٹ میں نے کی ماحول کا دیان کی تالیفی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیتے تھے لیکن ہجرت کے بعد دوسری نئی ذمہ داریوں اور بدلے ہوئے حالات کے باعث اس میں تعطل واقع ہو گیا.اس سال دعوت الی اللہ کا یہ سلسلہ آپ نے دوبارہ شروع فرما دیا چنانچہ آپ نے ۱۳/ نومبر کو جماعت احمد یہ بہوڑ و چک ۱۸ ( ضلع شیخو پورہ ) میں اور ۲۴ ۲۵ /نومبر کو موسیٰ والا اور رلیو کے ( ضلع سیالکوٹ ) کے جلسوں میں تشریف لے گئے اور اپنے ایمان افروز خطابات سے نوازا اور بتایا کہ احمدیت ایک زندہ خدا اور زندہ رسول اور ایک زندہ
تاریخ احمدیت 728 جلد ۲۰ مذہب کو پیش کرتی ہے.حضرت مسیح موعود کو ماننے والے اسلام کے فیضان کے نتیجہ میں آج بھی زندہ خدا کے زندہ معجزات دیکھ رہے ہیں.اس سلسلہ میں آپ نے بعض روح پرور واقعات بھی بیان کئے اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ آج بھی ہماری دعاؤں کو سُنتا ہے اور ہر احمدی خدا تعالیٰ کی صفت تکلم کا مظہر بن سکتا ہے.“ مغربی افریقہ میں اسلام کی ۱۹۶۰ء کے آغاز میں افریقہ کے احمدی مجاہدین کے مقابل مشہور عالم شاندار ترقیات کا واضح اعتراف میائی مادو ڈاکٹر بلی گراہم کو جس طرح لا جواب اور بے بس ہونا پڑا اس کی بازگشت کسی نہ کسی رنگ میں اس سال کے آخر تک یورپین اہل قلم کے ذریعہ سنائی دیتی رہی اور اسلام کو افریقہ میں جو شاندار ترقیات ہو رہی تھیں اُن کا چرچا جاری رہا جس کا ایک واضح ثبوت مسٹر سیل نارتھ کاٹ کا حسبِ ذیل مضمون بھی ہے جو لاہور کے با اثر انگریزی روز نامہ پاکستان ٹائمنز کی اار دسمبر ۱۹۶۰ ء کی اشاعت میں چھپا اور جس کا عنوان تھا.MARCH OF ISLAM IN WEST AFRICA.Progresses ten times more rapidly than christianity.مغربی افریقہ میں اسلام کی پیش قدمی.اسلام عیسائیت کے مقابلہ پر دس گنا ترقی کر رہا ہے مسٹر نارتھ سیل کاٹ کے اس مضمون کا اردو تر جمہ درج ذیل کیا جاتا ہے :.مغربی افریقہ کے ممالک کی آزادی نے ساحلی علاقوں میں اسلام کے حق میں ترقی کی ایک نئی رو پیدا کر دی ہے.اسلام افریقنوں کیلئے ایک پیغام ہے کیونکہ افریقہ میں یہ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ گویا یہ افریقہ کی کالی اقوام کا ہی مذہب ہے.عیسائیت کے برخلاف اسلام انسانی کمزوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر نئے آنے والے کو بسہولت اپنے اندر سمو لیتا ہے.کیونکہ اسلام کی سادہ تعلیم کے پیش نظر اس کو رسمی قباحتوں سے دوچار نہیں ہونا پڑتا.اس ضمن میں سیرالیون اور مغربی افریقہ نائیجیر یا دوا ہم علاقے ہیں.سیرالیون بھی اگلے اپریل میں آزاد ملکوں کی برادری میں شامل ہو جائیگا.مغربی نائیجیر یا وہ علاقہ ہے جہاں عیسائیت کا ماضی نہایت شاندار روایات کا حامل رہا ہے.لیکن اب انہی دو علاقوں میں سلام کو نمایاں ترقی حاصل ہو رہی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ سیرالیون تو احمدی مسلمانوں کی منتخب سرزمین ہے جہاں وہ پاکستان سے آئے ہوئے منظم مشنوں کے ماتحت نہایت مضبوط
تاریخ احمدیت 729 جلد ۲۰ حیثیت میں سرگرم عمل ہیں.احمد یہ جماعت اس مقصد کولیکر کھڑی ہوئی ہے کہ اسلام کو عیسائیت کے مقابلہ میں موجودہ دنیا کی راہنمائی کیلئے پیش کرے اور یہ عیسائیت کیلئے ایک چیلنج ہے.اور اب تو انہوں نے سیرالیون میں باقاعدہ ڈاکٹری مشن کھولنے کا بھی عزم کر لیا ہے اور وہاں احمد یہ سکولوں کی تعداد بھی بتدریج بڑھ رہی ہے.باوثوق ذرائع سے آمدہ اطلاعات کے مطابق مغربی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں اسلام عیسائیت کے مقابلہ میں دس گنا زیادہ ترقی کر رہا ہے.نائیجیریا کا وسیع شمالی علاقہ اسلام کا گڑھ بن چکا ہے جو با وجو د عیسائی مشنوں کی سالہا سال کی کوششوں کے مذہبی اعتبار سے نا قابل تسخیر اسلامی ملک ثابت ہوا ہے.خود جنوب کے جنگلاتی علاقہ میں جہاں عیسائی مشنز نہایت مضبوط ہیں وفود بھیج کر اسلامی اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے.اور اب نائیجیریا کے آزاد ہو جانے پر ان دونوں بڑے مذاہب کے ایسے تصادم کا امکان ہے جو اب تک کہیں اور رونما نہیں ہوا ہے.کیونکہ یہاں اسلام اور عیسائیت نہایت جوش و خروش کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کمر بستہ ہیں.تا کہ ان قبائل کو اپنے زیر اثر لائیں.جو کسی مذہب سے وابستہ نہیں بلکہ تو ہماتی شرک میں مبتلا ہیں.اس مقابلہ کے نتیجہ پر ہی افریقہ کے مستقبل کا انحصار ہے..بلکہ مغربی افریقہ کے ساحل پرسینگال کے شہر ڈکار سے نائیجیریا میں پورٹ ہار کوٹ تک قومی آزادی کے حصول کے ساتھ ساتھ قبائلی رسم و رواج اور روایتی ٹو نے ٹوٹکوں کی اہمیت بھی بڑھتی جا رہی ہے.غرضیکہ جذبہ قومیت کا اظہار دوطرفہ ہوا ہے.ایک طرف تو مغربی اقوام کے اقتدار کے ختم ہونیکے ساتھ ساتھ ان کے طور وطریق بھی اپنائے گئے اور دوسری طرف مغربی روایات بھی از سر نو زندہ ہوتی رہی ہیں مثلا گھانا میں صد رکوائی نکر و ما کو ASAGYEFO ’’ اسے جیفو‘ کے خطاب سے پکارا جاتا ہے جس کے معنے گھانا کی قومی زبان چوئی میں جنگجو فاتح کے ہیں.لیکن یہی لفظ بطور نجات دہندہ کے عیسائی حلقوں میں مسیح کیلئے استعمال ہوتا ہے.اسی طرح گھانا کے پڑھے لکھے عیسائی بھی دیہاتی علاقوں میں ان تقریبات میں شامل ہوتے رہتے ہیں.جن میں نہایت مشرکانہ روایاتی رسومات ادا کی جاتی ہیں.حالانکہ ان میں شمولیت کے خلاف عیسائی پادری بر ملا اظہار ملامت کرتے ہیں.قومی جذبہ نے تو ہماتی ٹونوں ٹوٹکوں کو ایسی اہمیت دے دی ہے کہ وہ آج ابا واجداد کے ورثہ کے طور پر سمجھے جاتے ہیں حالانکہ آج کی دنیا میں ان کی وقعت کم ہو جانی چاہیئے تھی.ہر وہ چیز جو آبائی یا تاریخی حیثیت کی حامل ہے وہ قومی جذ بہ کی ترقی میں بے حد ممد
تاریخ احمدیت ثابت ہوتی.ہے.ا 730 جلد ۲۰ جبکہ جدید آزاد قومیت خود مختاری کو ماضی کی شاندار روایات سے بھی مفتخر کرنا چاہتی ہو.اس لئے آج آزادی کی حمایت میں قدیم رسومات اور سفید فام لوگوں کے ساتھ مغربی ساحل پر آئی ہوئی عیسائیت میں ایک واضح تصادم پیدا ہو چکا ہے.میں کچھ عرصہ ہوا کہ مشرقی نائیجیریا کے ایبو (180) کے قبائلی شہر اونٹنیشا (ONITSHA) سے آیا ہوں.یہ وہ شہر ہے جہاں آج سے سو سال پہلے لنڈن کی چرچ مشن سوسائٹی نے عیسائیت کی بنیاد ڈالی تھی.اور آج دریائے نائیجیریا کے کنارے دو بڑے عظیم گرجے کھڑے دکھائی دیتے ہیں.ایک رومن کیتھولک گر جا اور دوسرا انگلش چرچ کا گر جا ہے.مشرقی نائیجیریا کے اس صوبہ میں نوے فیصدی سکول عیسائی مشنوں کے ہیں.اور یہ صوبہ انگلش مشن کی تنظیم وغیرہ کے لحاظ سے خود مختار ہے.لیکن بہت سے مبصرین اس خطرے کا اظہار کرتے ہیں کہ مغربی افریقہ میں عیسائیت کا مستقبل اب خطرے سے خالی نہیں.پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایک عیسائی سکول میں پڑھے لکھے آدمی کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ خود بھی پادری بن جائے لیکن آج حکومت اور تجارتی اداروں میں اس قدر ترقیات کے راستے کھلے ہوئے ہیں کہ ہر پڑھا لکھا عیسائی گرجے کے پاس سے اس جذ بہ سے سرشار گزر جاتا ہے کہ وہ حکومت کے کسی دفتر میں بڑا افسر بن جائے یا اس کا بھی سیاسی راہ نماؤں میں شمار ہونے لگ جائے.اگر چہ آزاد ملکوں میں ابھی چرچ اور حکومت کے درمیان کسی قسم کی رسہ کشی شروع نہیں ہوئی.لیکن زمانہ کے ساتھ ساتھ گھانا کی طرز پر آمرانہ حکومتوں کے قیام کے بعد یہ سوال خود بخود اٹھ سکتا ہے کہ آیا وفاداری حکومت کا حق ہے یا انسانی ضمیر کا.ایک وقت تھا کہ انگریزی اقتدار کے زمانہ میں عیسائی مشنز کو حکومت کی حمایت حاصل رہتی تھی.لیکن اب قومی حکومتوں کے قیام کے بعد عیسائی مشنز آپ اپنے سہارے کھڑے ہونے پر مجبور ہو نگے اور اس بدلی ہوئی ہوا کے رخ کا مقابلہ بغیر کسی نو آبادیاتی طاقت کی حمایت کے کرنا ہو گا.“
تاریخ احمدیت فصل چهارم 731 جلد ۲۰ جلسہ سالان قادیان ۱۹۶۰ ء کے لئے اس سال ۱۶ ۱۷ ۱۸ / دسمبر ۱۹۶۰ء کو قادیان کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس : مقدس اجتماع کیلئے ایک روح پرور اور ولولہ انگیز پیغام دیا جو پاکستانی قافلہ کے امیر حافظ عبد السلام صاحب نے جلسہ کے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا.اس خصوصی پیغام کا متن درج کیا جاتا ہے.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم ط بسم الله الرحمن الرحيم ط نحمده و نصلى على رسوله الكريم ط برادران بھارت ! خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام علیکم و رحمتہ اللہ برکاتہ b ہمیں قادیان سے گئے ہوئے تیرہ سال ہو گئے ہیں.اور تیرہ سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا.یہ زمانہ اپنی صعوبتوں اور مشکلات کے لحاظ سے ایک بڑا لمبا اور پُرفتن دور تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو اس امر کی تو فیق عطا فرمائی کہ آپ نے ہر قسم کی مشکلات کے باوجود اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھا.اور حضرت مسیح موعود کے لائے ہوئے پیغام کو لوگوں کے کانوں تک پہنچایا.مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ آئندہ بھی آپ لوگوں کیلئے ہمیشہ خیر و برکت کے سامان پیدا کرتا چلا جائیگا.اور وہ مشکلات جو ابھی پائی جاتی ہیں ان کو بھی دور فرما دیگا.یہ امر یا د رکھو کہ قادیان ہما را مرکز اور خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے اور مرکز میں رہنے والوں اور مقدس مقامات کی زیارت کی غرض سے باہر سے آنے والوں پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اسلام کا عملی نمونہ بنیں.اور اپنی عبادتوں اور دعاؤں اور بلند اخلاق کے ذریعہ دوسروں کیلئے بھی ہدایت اور رہنمائی کا موجب بنیں.اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو کسی کمزور انسان کیلئے ٹھوکر کا موجب ہو.پس
تاریخ احمدیت 732 جلد ۲۰ اپنی ان تمام ذمہ داریوں کو احسن طریق پر ادا کرو جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے تم پر عاید ہیں.اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر یقین رکھو.یہودی قوم اسلام کی شدید دشمن ہے مگر میں اسے داد دیتا ہوں کہ اس نے ۲۳ سو سال صبر کیا اور آخر اپنا مقدس مرکز پا لیا.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے افراد کو بھی اس امر کی تو فیق عطا فرمائے کہ وہ دعاؤں سے کبھی غافل نہ ہوں.اور ہمیشہ اپنے روحانی مرکز میں روحانی اور علمی برکات کیلئے جمع ہوتے رہیں.ہما را خدا قادر مطلق خدا ہے اور وہ جو چاہے کر سکتا ہے.اور ہم اس سے خیر و برکت کی امید رکھتے ہیں.ہم محمد رسول اللہ یا اللہ کی امت اور حضرت مسیح موعود کی جماعت ہیں.ہما را حق یہودیوں سے بہت زیادہ ہے بشرطیکہ ہم استقلال دکھائیں اور اپنے نیک اخلاق سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو کھینچنے والے بنیں.سو دعائیں کرو اور پھر دعائیں کرو.اور پھر دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ قادیان کے دروازے تمام احمد یوں کیلئے کھول دے اور جو روکیں پائی جاتی ہیں ان کو دور فرما دے اور ہماری عمروں کو اتنا بڑھا دے کہ ہم اپنی زندگی میں قادیان میں آباد ہو جائیں اور نہ صرف قادیان کے درودیوار کو دیکھیں بلکہ وہاں کے انوار اور برکات سے بھی فائدہ اٹھائیں اور ساری جماعت کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری جماعت دعاؤں میں لگ جائے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لائے.وہ جو چاہے کر سکتا ہے اس کے راستہ میں کوئی چیز روک نہیں بن سکتی.جو روک بنے گا خود اپنا نقصان کرے گا.سو دعائیں کرو اور پھر دعائیں کرو.اور پھر دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ہم کو پھر اکٹھا کر دے اور اپنے فضل سے ہماری جھولی بھر دے.وہ احکم الحاکمین بھی ہے اور ارحم الراحمین بھی ہے.اس کے رحم کی کوئی انتہا نہیں اور نہ اس کی طاقت کی کوئی انتہا ہے صرف انسان کی اپنی غلطی ہوتی ہے کہ وہ اس سے مونہہ موڑ لیتا اور اس کے فضل نا امید ہو جاتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ ایک جنگ کے بعد رسول اللہ اللہ نے دیکھا کہ ایک عورت جس کا بچہ کھویا گیا تھا دیوانہ وار ادھر اُدھر پھر رہی ہے وہ ایک ایک بچہ کو اٹھاتی اور سینہ سے لگاتی اور پیار کرتی اور پھر اسے چھوڑ کر اپنے بچے کی تلاش میں دوڑ پڑتی.وہ اسی حالت میں تھی کہ اسے اپنا بچہ مل گیا.اور وہ نہایت اطمینان اور آرام کے ساتھ اس کو لے کر بیٹھ گئی.رسول کریم نے صحابہ کو مخاطب کیا اور فرمایا.کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر اس عورت سے یہ کہا جائے کہ اپنے بچہ کو آگ میں ڈال دے تو یہ عورت اسے آگ میں ڈالنے کیلئے بیتار ہو جائے گی ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا.آپ نے فرمایا تم نے ނ
تاریخ احمدیت 733 جلد ۲۰ اس عورت کی محبت کا جو نظارہ دیکھا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے اور جب اس کا کوئی کھویا ہوا بندہ اسے واپس مل جاتا ہے تو اسے اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی اس عورت کو اپنے بچہ کے ملنے سے ہوئی ہے.پس اس ارحم الراحمین خدا پر امید رکھو.وہ عمریں بھی بڑھا سکتا ہے اور زمانہ کی طنا میں بھی کھینچ سکتا ہے.وہ اپنی قدرت اور رحمت سے ہمیں قادیان میں بسا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں.ہماری دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ قادیان کو ہمیشہ اس شعر کا مصداق رکھے اور جلد ہی وہ وقت لائے کہ ہم سب کے سب کہہ اٹھیں.زمین قادیان اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارضِ حرم ہے وہ خدا جس نے یہودیوں پر رحم کیا اور انہیں فلسطین میں لا کر بسا دیا وہ ہم پر بھی رحم کر سکتا ہے.ہم غریب اور کمزور ہیں.ہم ۲۳ سو سال تک صبر نہیں کر سکتے.ہمارے لئے ۱۳ - ۱۴ سال بھی بہت ہیں اس کے بعد امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس تفرقہ کو مٹا دے گا اور دونوں ملکوں کو صلح اور محبت اور پیار کے ساتھ رہنے کی توفیق بخشے گا.ہماری تو خواہش ہے کہ خدا تعالیٰ قادیان کو اتنا بڑھائے کہ وہ بیاس تک پھیل جائے.اور ہماری عارضی جدائی دور ہو جائے اور ہما را چہرہ خوشی سے پُر نور ہو جائے.ابھی قادیان نے بہت ترقی کرنی ہے مگر اس کیلئے خدا ہی سامان کر سکتا ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے.اس لئے آؤ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرے اور ہمیں اسلام اور احمدیت کے پھیلانے کیلئے آخر دم تک جد و جہد کرنے کی توفیق بخشے وہ احکم الحاکمین بھی ہے اور ارحم الراحمین بھی.اس سے بعید نہیں کہ وہ ہماری تمام مشکلات کا خاتمہ کر دے.ایک غزوہ میں صحابہ کے اونٹ بلک گئے تھے تو رسول کریم نے صحابہ سے فرمایا : - مرفقا بالقوارير.یعنی شیشوں کا بھی خیال رکھو.اور عورتوں کی طرف توجہ کرو تا کہ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے.مگر ہم تو اس وقت عورتوں سے بھی کمزور تر ہیں.اگر صحابہ سے یہ کہا گیا تھا کہ عورتوں کا خیال رکھیں تو خدا تعالیٰ سے یہ کیوں عرض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ عورتوں سے بھی کمزور تر لوگوں کا خیال رکھے اور ان کا حقیقی اور دائمی مرکز ان کو پھر دلا دے اور سینکڑوں سال کے لئے ان کو وہاں بسا دے.اور پُرامن اور روحانی ذرائع سے تمام دنیا کے احمدیوں کو وہاں بھینچ کھینچ کر لائے اور ایک لمبے عرصہ تک ان کو خوشیاں دکھائے.اُس کی طاقت میں سب کچھ ہے.لیکن ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ایسا ہی
تاریخ احمدیت 734 جلد ۲۰ کرے اور آپ لوگوں کو نیکی اور تقوے کے ساتھ اپنی تمام زندگی بسر کرنے کی توفیق بخشے.خدا تعالیٰ کا فضل جذب کرنے اور اس کی رحمت کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ضرورت ہے کہ آپ لوگ نیکی پر ثبات اختیار کریں.اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں اور گریہ وزاری سے کام لیں.خدا تعالیٰ ہر ایک کی سنتا ہے.بعض دفعہ چھوٹے بچوں کی دعاسنی جاتی ہے بعض دفعہ عورتوں کی دعاسنی جاتی ہے اور بعض دفعہ مردوں کی دعاسنی جاتی ہے.نیوہ کے لوگوں پر جب عذاب آیا اور انہوں نے اس کے آثار دیکھے تو ان کے مرد اور عورتیں اور بچے سب میدان میں جمع ہو گئے.اور انہوں نے بلبلا بلبلا کر دعائیں کرنی شروع کر دیں.مردوں نے ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے اور عورتوں نے اپنے دودھ پیتے بچوں کو الگ پھینک دیا اور انہیں دودھ پلانا بند کر دیا اور اس قدر دعائیں کیں کہ آخر اللہ تعالیٰ کا فضل جوش میں آ گیا.اور اس نے آنے والا عذاب ان سے دور کر دیا.اگر قادیان کی عورتیں بھی اپنے بچے پھینک کر دعاؤں میں لگ جائیں اور مرد بھی دعاؤں اور گریہ وزاری سے کام لیں تو ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل نازل فرما دیگا.اور ہماری تمام مشکلات کو دور کر دیگا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ ہمیشہ آپ کو اسلام اور احمدیت کا جھنڈا بلند رکھنے کی توفیق بخشے.نیکی اور تقویٰ میں دوسروں کیلئے نمونہ بنائے اور احمدیت کا سچا اور مخلص خادم بننے کی توفیق عطا کرے.آمین اللہم آمین ما مرزا محموداحمد خلیفة المسیح الثانی ۱۸ زائرین قادیان کے پاکستانی اس مبارک عالمی اجتماع میں تقریبا دوسو پاکستانی احمدیوں نے شرکت کی.قافلہ کا مبارک سفر زیارت مرکز اور جلسہ کی روحانی برکات سے متمتع ہوئے.پاکستانی قافلہ کے اس مبارک سفر کے کوائف مشاہدات اور تاثرات الفضل کے نامہ نگار خصوصی کے قلم سے درج ذیل ہیں :.” پاکستان کے احمدی احباب کے قلوب میں قادیان جا کر اپنے مقامات مقدسہ کی زیارت کرنے کی جو شدید خواہش اور تڑپ پائی جاتی ہے اس کے پیش نظر ہر سال
تاریخ احمدیت 735 جلد ۲۰ یہ کوشش کی گئی تھی کہ کم از کم پانچ سو احمدی زائرین کو قافلہ کی صورت میں وہاں جانے کا موقعہ مل جائے لیکن افسوس ہے کہ صرف دوسو ا فراد کے قافلہ کی اجازت مل سکی جس کی وجہ سے باقی احباب کو محروم رہنا پڑا دوسری دقت اب کے یہ ہوئی کہ قافلہ کو حسب سابق بسوں کے ذریعہ قادیان جانے کی اجازت نہ ملی مجبوراً ریل کے ذریعہ سفر کرنا پڑا جو ہمارے لئے ایک نیا تجربہ تھا.اور جس میں بسوں والا آرام اور سہولت میسر نہ تھی بلکہ کئی ایک لحاظ سے دقت اور تکلیف کا احتمال تھا بہر حال جو افراد بھی اس قافلہ کیلئے منتخب ہوئے وہ اپنے آپ کو نہایت خوش قسمت تصور کرتے تھے اور نہایت ذوق و شوق سے سفر کی تیاری میں مصروف تھے.دفتر خدمت درویشاں ربوہ نے خطوط کے ذریعہ قافلہ میں شامل ہو نے والے تمام افراد کو جو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے اطلاع دے دی تھی کہ و ہ ۱۴؍ دسمبر کو قافلہ میں شمولیت کیلئے لاہور پہنچ جائیں اور اس سلسلہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کی تحریر فرمودہ ہدایات سے بھی مطلع کر دیا تھا چنانچہ ۱۴ار دسمبر کی شام تک قافلہ میں شامل ہونے والے بیشتر اصحاب جو دھامل بلڈ نگ لاہور میں پہنچ گئے جہاں پر شعبہ خدمت درویشاں کا دفتر عارضی طور پر کھول دیا گیا تھا اور زائرین کی رہائش اور خوراک کا انتظام بھی موجود تھا.مکرم مختار احمد صاحب ہاشمی اور عبد القدیر صاحب اس دفتر میں نہات محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کر رہے تھے جماعت احمد یہ لا ہور اور خدام الاحمدیہ لا ہور کے نمائندگان بھی ان کی مدد کیلئے موجود تھے.ربوہ سے اس قافلہ میں شامل ہونے والے احباب کی بیشتر تعدا د بس کے ذریعہ لاہور پہنچی اور روانگی سے قبل مقامی احباب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کی اقتداء میں اجتماعی دعا کے ساتھ انہیں رخصت کیا.لاہور پہنچ کر اراکین قافلہ نے اس اطلاع کو بہت ہی افسوس کے ساتھ سنا کہ محترم چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر قافلہ اچانک فالج کے عارضہ کی وجہ سے بیمار ہو گئے ہیں ( اللہ تعالیٰ انہیں شفاء کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے ) جب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے محترم حافظ عبد السلام صاحب کو ا میر قافلہ مقر ر فر مایا.قافلہ کے نائب امیر سردار بشیر احمد صاحب ایگزیکٹو انجنیئر مقرر ہوئے اور سیکرٹری کے فرائض چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے سپرد ہوئے اگلے روز (۱۵ / دسمبر ) صبح جو دھامل بلڈنگ کے سامنے ممبران قافلہ اور انہیں الوداع کہنے والے احباب کثیر تعداد میں جمع ہو گئے.اس جگہ طارق ٹرانسپورٹ کی تین بسیں زائرین کوٹیشن تک
تاریخ احمدیت 736 جلد ۲۰ پہنچانے کیلئے کھڑی تھیں.ان بسوں کا انتظام طارق ٹرانسپورٹ کے منتظمین نے بلا معاوضہ کیا تھا.جزاھم اللہ احسن الجزاء.ممبران قافلہ کے پانچ حزب ( گروپ ) بنا دئے گئے اور ہر حزب پر ایک ایک سائق (لیڈ ر ) مقرر کیا گیا.چنانچہ حزب نمبرا کے سائق چوہدری احمد جان صاحب وکیل المال مقرر ہوئے.لیکن بیماری کی وجہ سے آپ کی بجائے آپ کے نائب محمد حنیف صاحب قمر نے سائق کے فرائض سرانجام دیئے.حزب نمبر ۲ سائق با بو شمس الدین خان صاحب امیر جماعت احمد یہ پشاور.حزب نمبر ۳ کے چوہدری غلام احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ پاک پتن اور حزب نمبر ۴ کے مولانا عبدالمالک صاحب فاضل مربی سلسلہ احمدیہ کراچی مقرر ہوئے.حزب نمبر ۵ کے لیڈر مکرم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ را ولپنڈی اور نائب مولوی عبد الباسط صاحب مربی سلسلہ مقیم کراچی مقرر ہوئے.اس جگہ تمام ممبران قافلہ کو مفصل ہدایات دی گئیں اور سامان کا جائزہ لیا گیا.پونے 9 بجے کے قریب محترم شیخ بشیر احمد صاحب حج ہائی کورٹ نے تشریف لا کر اہل قافلہ سے مختصر أخطاب فرمایا.آپ نے بڑے مؤثر رنگ میں اس پاک اور مبارک سفر کے دوران زیادہ سے زیادہ ذکر الہی اور دعائیں کرنے کی تلقین فرمائی.اس کے بعد اجتماعی دعا ہوئی اور پھر اہل قافلہ بسوں میں سوار ہونے شروع ہو گئے.روانگی کے وقت عجیب ایمان افروز منظر تھا اہل قافلہ زیر لب دعاؤں میں مصروف تھے کہ اللہ تعالیٰ اس سفر کو زیادہ سے زیادہ با برکت کرے اور الوداع کہنے والے دوست اراکین قافلہ کو ان کی خوش بختی پر مبارکباد دے رہے تھے.اور انفرادی طور پر دعاؤں کی درخواستیں اور التجائیں کر رہے نو بجے یہ قافلہ جو ۱۹۶ افراد پر مشتمل تھا.اور جس میں ۲۴ خواتین اور ۲ بچے بھی شامل تھے.دعائیں کرتے ہوئے سٹیشن کو روانہ ہو گیا.بسوں سے سامان اتارا گیا اور اس پلیٹ فارم پر پہنچایا گیا جہاں سے گاڑی امرتسر روانہ ہوئی تھی.چونکہ اس جگہ ضوابط کے مطابق پاسپورٹوں کے اندراجات وغیرہ پر خاصہ وقت صرف ہوتا تھا اس لئے کارکنان نے اہلِ قافلہ کیلئے کھانے کا انتظام بھی کر رکھا تھا.ربوہ اور لاہور کی جماعتوں کے کئی ایک کا رکن اور بزرگ بھی الوداع کہنے کیلئے تشریف لائے ہوئے تھے.ضوابط کی جملہ کا رروائیوں کی تکمیل کے بعد ایک بجے کے قریب اہل قافلہ پلیٹ فارم کے اس حصہ میں پہنچ گئے جہاں سے
تاریخ احمدیت 737 جلد ۲۰ انہوں نے گاڑی پر سوار ہونا تھا.یہاں پر مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب کی اقتداء میں نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھی گئیں.جس کے بعد اہلِ قافلہ دعائیں کرتے ہوئے گاڑی میں سوار ہونا شروع ہو گئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے اس مبارک سفر میں ممبران قافلہ کی دینی اور روحانی راہ نمائی کیلئے بعض نہایت قیمتی اور زریں ہدایات تحریر فرما کر ارسال فرمائی تھیں.یہ ہدایات دفتر خدمت درویشاں نے چھپوا کر گاڑی کے روانہ ہونے سے پہلے تمام ممبران قافلہ میں تقسیم کر دیں ان ہدایات کا خلاصہ یہ تھا کہ :.ممبران قافلہ اپنے قلوب کی نیت اور ارادے کو پاک وصاف کر کے دعاؤں کے ساتھ اس مقدس سفر کو شروع کریں راستہ میں بھی دعائیں کرتے ہوئے جائیں.قادیان کے قیام میں بھی دعاؤں پر خاص زور دیں اور واپسی پر بھی دُعا کرتے ہوئے آئیں تا کہ اس سفر کو اللہ تعالیٰ نہ صرف ممبران قافلہ اور اہل قادیان کیلئے بلکہ تمام جماعت کیلئے اور اسلام کیلئے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے.“ ان ہدایات نے ممبران قافلہ کے قلوب میں پہلے سے بھی زیادہ رقت اور سوز و گداز کے ساتھ دعائیں کرنے کی تحریک پیدا کر دی.چنانچہ گاڑی کی روانگی کے وقت اہلِ قافلہ نے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی اقتداء میں جو قافلہ کو الوداع کہنے کیلئے تشریف لائے ہوئے تھے بڑی دردمندی اور سوز کے ساتھ اجتماعی دعا کی.ٹھیک تین بجے گاڑی روانہ ہو گئی جبکہ تمام اہلِ قافلہ کے قلوب پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی اور وہ خاموشی کے ساتھ اپنے مولا کے حضور دعاؤں میں مصروف تھے کہ وہ اس مقدس سفر کو ان کیلئے اور سلسلہ کیلئے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور انہیں زیادہ سے زیادہ روحانی برکات کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.گاڑی لاہور سے روانہ ہو کر راستے کے تمام سٹیشنوں کو چھوڑتی ہوئی سرحد پر آ کر تھوڑی دیر کے لئے رکی.یہاں پر پاکستان پولیس کا حفاظتی دستہ اتر گیا اور اس کی جگہ انڈین پولیس کا حفاظتی دستہ گاڑی میں سوار ہو گیا جس کے بعد گاڑی ہندوستان کی حدود میں داخل ہو گئی.سوا چار بجے گاڑی امرتسر کے سٹیشن پر پہنچ گئی.پولیس کسٹم اور ریلوے کی طرف سے گہرا تعاون.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ دونوں ملکوں میں پولیس کسٹم اور ریلوے کے محکموں نے قافلہ کو ہر ممکن سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی جس کیلئے ہم ان کے تہ دل سے شکر گزار ہیں.اہل قافلہ نے امرتسر پہنچ کر گاڑی
تاریخ احمدیت 738 جلد ۲۰ تبدیل کرنا تھی اور گاڑی کے لاہور سے امرتسر پہنچنے اور وہاں سے بٹالہ جانے والی ٹرین کی روانگی میں اتنا کم وقفہ تھا کہ اگر ذرا بھی چیکنگ اور ضوابط کی دیگر کاروائیوں میں دیر ہو جاتی تو اہلِ قافلہ کو اگلی گاڑی نہ مل سکتی اور اس طرح انہیں مجبور أرات امرتسر سٹیشن پر گزارنا پڑتی لیکن دونوں ملکوں کی پولیس کسٹم اور ریلوے کے محکموں کے تعاون اور مدد کی وجہ سے قافلہ کو امرتسر کے سٹیشن پر گاڑی تبدیل کرنے کا موقع مل گیا.لاہور میں پولیس اور کسٹم کے محکموں نے ضوابط کی تمام کا روائیاں یہ سرعت مکمل کرلیں اور محکمہ ریلوے کے تعاون کی وجہ سے گاڑی عین وقت پر روانہ ہو گئی.علاوہ ازیں ریلوے کے محکمہ نے دو زائد بوگیوں کا بھی انتظام کر رکھا تھا جو اہل قافلہ کیلئے مخصوص تھیں یہ انتظام بھی مزید آرام کا موجب بنا.جب گاڑی ہندوستان کی حدود میں داخل ہو گئی اور اٹاری کے سٹیشن پر پہنچی تو ہندوستان کے محکمہ کسٹم کے ارکان اور پولیس کے نمائندگان گاڑی میں سوار ہو گئے اور انہوں نے امرتسر کے سٹیشن پر پہنچنے سے پہلے پہلے چیکنگ اور پاسپورٹ اکٹھے کرنے کے کام کی قریبا تکمیل کر لی حالانکہ عام حالات میں یہ چیکنگ امرتسر کے سٹیشن پر ہوتی ہے.لیکن انہوں نے قافلہ کی سہولت کیلئے اور انہیں بر وقت اگلی گاڑی میں سوار ہونے کا موقع دینے کیلئے یہ چیکنگ راستہ میں ہی مکمل کر لی جس کے لئے وہ خاص طور پر شکریہ کے مستحق ہیں..امرتسر کے سٹیشن پر متعدد درویش حضرات قافلہ کے استقبال اور ان کے لئے ضروری سہولتیں بہم پہنچانے کیلئے موجود تھے.یہاں پر پاسپورٹوں کے اندراج اور ان کی واپسی میں کچھ وقت لگا.جس کے بعد اہلِ قافلہ امرتسر سے بٹالہ جانیوالی ٹرین میں سوار ہو گئے.اس ٹرین میں بھی اہل قافلہ کیلئے دو بوگیاں مخصوص تھیں.جس کیلئے وہاں کے ریلوے حکام شکریہ کے مستحق ہیں.یہاں سے روانہ ہو کر گاڑی دیر کا کتھو منگل اور جنتی پور میں ٹھہرتی ہوئی بٹالہ کے سٹیشن پر پہنچی.جنتی پور کے سٹیشن پر درویشان قادیان اہلِ قافلہ کیلئے کھانا لے کر آئے ہوئے تھے.جزاھم اللہ احسن الجزاء.بٹالہ سے گاڑی پھر تبدیل کرنا تھی.لیکن ریلوے کے حکام نے اہلِ قافلہ کی بوگیوں کو ہی قادیان جانے والی ٹرین کے ساتھ لگانے کا انتظام کر دیا جس کی وجہ سے اہلِ قافلہ رات کے وقت گاڑی تبدیل کرنے اور سامان اتار نے اور نئی گاڑی میں چڑھانے وغیرہ کی پریشانیوں سے بچے رہے جب گاڑی بٹالہ سے قادیان روانہ ہوئی اور وڈالہ گرنتھیاں کے
تاریخ احمدیت 739 جلد ۲۰ سٹیشن سے آگے پہنچی تو جذبات میں ایک عجیب اور نا قابل بیان کیفیت پیدا ہو گئی.قلوب رقت اور سوز و گداز کے ساتھ دعاؤں میں مصروف ہو گئے اور آنکھیں بے تابانہ طور پر رات کی تاریکی میں منارة امسیح کی تیز اور بلند و بالا روشنی کو ڈھونڈھنے لگیں.جو نہی یہ روشنی نظر آئی بے ساختہ طور پر ہاتھ دعاؤں کیلئے اُٹھ گئے اور آنکھوں سے رقت کے عالم میں آنسو رواں ہو گئے ابھی یہ کیفیت جاری تھی کہ گاڑی سید نا حضرت مسیح موعود کے مولد ومسکن اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے دائگی مرکز....قادیان دارالامان کے سٹیشن پر آ کر رک گئی.سٹیشن پر درویشان قادیان نے محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی قیادت میں اھلاً وسهلاً و مرحبا کہہ کر اہلِ قافلہ کا پر تپاک خیر مقدم کیا قادیان کے بہت سے سکھ اور ہند و معززین بھی استقبال کیلئے موجود تھے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے امیر قافلہ محترم حافظ عبد السلام صاحب سے مصافحہ اور معانقہ فرمایا.جس کے بعد درویشوں کے ساتھ نہایت اخلاص اور محبت کے جذبات سے پُر مصافحوں اور معانقوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.سٹیشن سے باہر اہالیان قادیان کی طرف سے اہلِ قافلہ کیلئے بسوں کا اور ان کے سامان کیلئے ٹرک کا انتظام کیا گیا تھا.جس کی وجہ سے بڑے آرام اور سہولت کے ساتھ اہلِ قافلہ اور اُن کا سامان دارا مسیح قادیان میں پہنچ گیا بسیں دار الفتوح سے اس پختہ سڑک کی طرف مڑ گئیں جو مشرق کی طرف سے ہوتی ہوئی محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر کے قریب دار الانوار میں سے گذرتی ہے.بزرگان قادیان سے ملاقاتیں.یہاں سے اہل قافلہ پیدل دار المسیح میں داخل ہوئے.اس جگہ سب سے پہلچس جلیل القدر بزرگ سے اہلِ قافلہ کی ملاقات ہوئی وہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی تھے جو آج ہم سے رخصت ہو چکے ہیں.آپ با وجو دضعیف العمری، بیماری اور ضعف و نقاہت کے شدید سردی کے عالم میں اپنے مکان کے سامنے سڑک پر ایک عصا کے سہارے کھڑے تھے اور بڑی ہی گرم جوشی کے ساتھ آنیوالے مہمان کا خیر مقدم فرما رہے تھے.ہر مہمان کو پہچانتے ، مصافحہ کرتے، معالقہ فرماتے اور پھر رقت کے عالم میں دعائیں کرنا شروع کر دیتے.اللہ تعالیٰ حضرت بھائی جی کو جنت الفردوس میں بلند سے بلند مدارج عطا فرمائے.اگلے چوک میں حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان متعد درویشوں کی معیت میں مہمانوں کے استقبال کیلئے تشریف فرما تھے.احمد یہ چوک میں آ.
تاریخ احمدیت 740 جلد ۲۰ کر تو یہ کیفیت تھی کہ جس طرف بھی دیکھیں مصافحوں، معانقوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا اور ہر طرف سے السلام علیکم اور وعلیکم السلام کی پر خلوص آواز میں آ رہی تھیں.الہی آوازوں کے درمیان قافلہ کا سفر لا ہورتا قا دیان بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.دعاؤں اور ذکر الہی کا ذوق و شوق.قافلہ قادیان نے یہ مقدس سفر صرف دعاؤں، ذکر الہی اور شعائر اللہ کی زیارت کیلئے اختیار کیا تھا.ممبران قافلہ نے اس مقصد کو ہر وقت پہیں نظر رکھا.چنانچہ دارا صیح قادیان میں پہنچتے ہی بہت سے اصحاب جن میں متعدد ضعیف العمر بزرگ بھی شامل تھے.پورے دن کے سفر کی کوفت اور تھکان کے با وجو دسب سے پہلے اس مقدس اور بابرکت مسجد میں نوافل کی ادائیگی کیلئے جا حاضر ہوئے.جہاں سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام نمازیں پڑھا کرتے تھے.اور جو مسجد مبارک کے نام سے موسوم ہے اور جن اصحاب کو وہاں پہنچتے ہی بیت الدعا میں جا کر نوافل ادا کر نے اور دعائیں کرنے کا موقعہ میسر آ گیا.وہ تو اپنی خوش بختی پر بجا طور پر نازاں تھے.الغرض وہاں جاتے ہی احباب شعائر اللہ کی زیارت کرنے اور دعاؤں میں مصروف ہو گئے.انہوں نے اس امر کی پرواہ نہ کی کہ ان کا سامان بحفاظت پہنچ چکا ہے یا نہیں یا یہ کہ ان کی رہائش کا انتظام کس جگہ کیا گیا ہے؟ یا کھانے کا کیا انتظام ہے.انہوں نے ان سب امور کو نظر انداز کر دیا اور عاشقانہ انداز میں ان مقدس مقامات کی زیارت کے لئے کشاں کشاں جا ر ہے تھے.جو قادیان کی روحانی برکتوں کی جان ہیں گو اُن کے جسم سفر کی کوفت کی وجہ سے مضمحل تھے لیکن ان کی روحوں پر اور ان کے قلوب پر اضمحلال کا مطلقاً اثر نہ تھا اور اثر ہوتا بھی کیوں جبکہ دیار حبیب کی جگہوں کی ایک ایک اینٹ انہیں خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اس سے اسلام اور احمدیت کی سر بلندی کیلئے انتہائی سوز و گداز کے ساتھ دعائیں کرنے کی دعوت دے رہی تھی.نوافل کی ادائیگی، کھانا کھانے اور دیگر حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد پھر ملاقاتوں کا سلسلسہ شروع ہو گیا.ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے برسوں کے بچھڑے ہوئے دوست آپس میں مل رہے ہیں یہ تھی رات کے ابتدائی اور درمیانی حصہ کی کیفیت.اس کے تھوڑی دیر بعد ہی مسجد مبارک میں باجماعت نماز تہجد شروع ہو گئی اور اہل وفائے قادیان جن میں ممبران قافلہ کے علاوہ درویشان کرام اور ہندوستان کے طول و عرض سے آئے ہوئے احمدی احباب بھی شامل تھے.جوق در جوق والہانہ اور عاشقانہ انداز میں مسجد مبارک میں جمع ہونے شروع ہو گئے.پرسوز دعاؤں التجاؤں اور مناجاتوں کا وہ اجتماعی سلسلہ شروع ہو
تاریخ احمدیت 741 جلد ۲۰ گیا جو جلسہ کے ان ایام کی سب سے بڑی بابرکت اور سب سے نمایاں خصوصیت تھی.ہر احمدی اس یقین سے معمور تھا کہ یہ دعائیں اور مناجاتیں انشاء اللہ جلد یا بدیر ضر و ر ا پنا عظیم الشان اور ہمہ گیر اثر دکھلا کر رہیں گی.نماز تہجد، نماز فجر اور درس کے بعد مقبرہ بہشتی جانے والی سڑک پر عاشقان احمدیت کا ایک تانتا لگ گیا.یہ نظارہ قبل از تقسیم کے جلسہ سالانہ کی یا دکو تازہ کر رہا تھا.احباب گروہ در گروہ اپنے آقا اور اپنے حبیب سید نا حضرت مسیح موعود کے مزار مقدس پر حاضر ہو رہے تھے.اور بڑی رقت اور سوز کے ساتھ دعاؤں میں مصروف تھے.مقبرہ بہشتی کے علاوہ دیگر مقامات مقدسہ مثلاً مسجد اقصیٰ، منارۃ المسیح اور دار حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جلسہ کے اوقات کے علاوہ قریباً ہر وقت ہی زائرین کی آماجگاہ بنے رہے.جیسا کہ ایک گذشتہ مضمون میں عرض کیا جا چکا ہے.درویشان کرام نے نہایت اخلاص محنت اور جانفشانی کے ساتھ اہل قافلہ کی مہمان نوازی کا حق ادا کیا.اور انہیں آرام و سہولت بہم پہنچانے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کی جزاھم اللہ احسن الجزاء.اجتماعی رنگ میں مہمانوں کے قیام کا حسب سابق امسال بھی مدرسہ احمدیہ اور اس کے بورڈنگ میں انتظام کیا گیا تھا.کمروں کا ایک حصہ پاکستان سے جانے والے مہمانوں کیلئے اور ایک حصہ ہندوستان سے تشریف لانے والے احباب کیلئے مخصوص تھا جو دوست معہ اہل و عیال تشریف لائے ان کی رہائش کیلئے درویشوں کے مختلف مکانات کے علاوہ مرز اگل محمد صاحب مرحوم کے دیوان خانہ میں ( جہاں آج کل نصرت گرلز سکول ہے ) انتظام کیا گیا تھا.قافلہ کے بہت سے ارکان اپنے اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہاں بھی ٹھہرے.دار حضرت مسیح موعود کے ایک بڑے حصہ میں بھی مہمانوں کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا تا کہ احباب ان مبارک اور مقدس مقامات کی برکات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہوسکیں.قافلہ کے قادیان جانے کی ایک اہم اور خاص غرض اس مقدس سا لا نہ جلسہ میں شرکت تھی.جس کی بنیا د حضرت مسیح موعود نے رکھی.جسے حضور نے ایک بہت بڑا نشانِ الہی قرار دیا.اور جس کی روحانی برکات کو ہر احمدی محسوس کرتا ہے.قادیان کا سالانہ جلسہ اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے یقیناً ایک منفرد اور نرالی شان رکھتا ہے.یہی وجہ ہے کہ روئے زمین کا ہر احمدی اس جلسہ میں شامل ہونے کی تڑپ اور تمنا رکھتا ہے.اور جو احمدی اس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرتے ہیں.وہ یقیناً اپنے آپکو خوش قسمت تصور کرتے ہیں.اس جلسہ میں شمولیت کیلئے پاکستان اور دیگر بیرونی ممالک کے علاوہ خود ہندوستان کے طول و
تاریخ احمدیت 742 جلد ۲۰ عرض سے بھی کثرت کے ساتھ احمدی دوست تشریف لائے ہوئے تھے.ان دوستوں میں حضرت مسیح موعود کے رفیق حضرت سید وزارت حسین صاحب بھی شامل تھے.جو صو بہ بہار سے اپنے دو لائق اور ہونہار فرزندوں یعنی ڈاکٹر سید اختر احمد صاحب اور نیوی پر وفیسر پٹنہ کالج اور سید فضل احمد صاحب ایس پی کے ہمراہ تشریف لائے.کلکتہ سے سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی اور چنتہ کنٹه ( سابق ریاست حیدر آباد دکن ) سے سیٹھ معین الدین صاحب بھی دیگر متعد د احمدی دوستوں کے ہمراہ آئے ہوئے تھے.علاوہ ازیں بمبئی، بنگال، بہار، اڑیسہ آندھرا میسورہ کیرالہ ، یو پی سی پی جموں کشمیر اور پونچھ سے بھی سینکڑوں کی تعداد میں احمدی احباب اپنی اپنی جماعتوں کے امرا پریذیڈنٹوں اور دیگر عہدہ داروں کے ہمراہ تشریف لائے ہوئے تھے.جو احمدی علماء اور مبلغین ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کر رہے ہیں وہ بھی اس مقدس جلسہ میں شرکت کرنے کے لئے اپنے روحانی مرکز میں آئے ہوئے تھے.مثلاً مولا نا شریف احمد صاحب امینی مدراس سے.مولانا محمد سلیم صاحب فاضل دہلی سے.مولانا بشیر احمد صاحب کلکتہ سے.اور مولانا سمیع اللہ صاحب بمبئی سے تشریف لائے ہوئے تھے.آئر لینڈ کے ایک سعید الفطرت نو مسلم مسٹر ولیم ظفر احمد بھی اس جلسہ میں شامل ہوئے.یہ نوجوان ان دنوں ہندوستان میں مقیم ہیں اور یہیں انہیں مسلمان اور احمدی ہو نیکی سعادت حاصل ہوئی.مورخہ ۱۶ / دسمبر کی صبح کو جماعت احمدیہ کا یہ انہترواں جلسہ سالا نہ اپنی روائتی شان سے ایک لمبی اور پُرسوز اجتماعی دعا کے ساتھ شروع ہوا.یہ جلسہ گذشتہ سالوں کی طرح اس دفعہ بھی محلہ باب الانوار کے ایک وسیع احاطہ میں منعقد ہوا جس میں پارٹیشن سے قبل احمدی - خواتین کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا کرتا تھا.صبح سوا دس بجے جلسہ کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا گیا.جس کے بعد سٹیج کی بائیں جانب حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت قادیان نے اللہ اکبر اسلام زندہ باد رسول عربی زنده باد حضرت مسیح موعود زندہ باد اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی زندہ باد کے نعروں کے درمیان لوائے احمدیت لہرایا ( جلسہ کے تینوں دن یہ لہراتا رہا اور خدام و انصار اس کا پہرہ دیتے رہے ) بعد ازاں آپ نے ایک مختصر تقریر فرمائی اور اختتامی دعا کے ساتھ جلسہ کا افتتاح فرمایا.افتتاح کے بعد پاکستانی قافلہ کے امیر محترم حافظ عبد السلام صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا وہ بصیرت افروز
تاریخ احمدیت 743 جلد ۲۰ اور روح پرور پیغام پڑھ کر سنایا جو حضور نے اس جلسہ کیلئے ارسال فرمایا تھا اور محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ کا تحریر فرموده ایمان افروز پیغام پڑھا.یہ دونوں پیغام سامعین نے کن جذبات واحساسات کے ساتھ سنے؟ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا.پیغامات کا ہر لفظ دل کی گہرائیوں میں اترتا جا رہا تھا.ایمان اور معرفت کو ترقی دے رہا تھا.اور روحوں کو جلا بخشنے کا موجب بن رہا تھا.ان پیغامات نے رقت کا ایک خاص عالم طاری کر دیا جس کی وجہ سے ہر احمدی کا دل گریہ وزاری کے ساتھ دعاؤں میں مصروف تھا.تقاریر ان روح پرور پیغامات کے بعد پروگرام کے مطابق تقاریر کا سلسلہ شرع ہوا جس میں ہندوستان و پاکستان کے احمدی علماء اور مبلغین و مبشرین نے حصہ لیا.تقاریر کا پروگرام حالات اور زمانہ کے تقاضوں کے مطابق بڑی عمدگی اور جامعیت کے ساتھ مرتب کیا گیا تھا.پروگرام کی افادیت کا کسی قدر انداز ہ مندرجہ ذیل موضوعات سے لگایا جا سکتا ہے جن پر بزرگانِ سلسلہ و علماء اور مبلغین جماعت نے نہایت مبسوط، مدلل اور جامع تقاریر فرما ئیں اسلام میں توحید کامل کا نظریہ ذکر حبیب، ضرورت مذہب، خصوصیات اسلام اسلام اور اشتراکیت اتحاد بین الاقوام کے متعلق اسلامی تعلیم دنیا کا نجات دہندہ یعنی رسول عربی، رسول کریم ﷺ کی بعض پیشگوئیاں، عقیدہ حیات آخرت، حضرت مسیح موعود کی چند پیشگوئیاں، موعود اقوام عالم وغیرہ ان موضوعات سے ظاہر ہے کہ ہمارے مقررین نے مشرقی پنجاب کے موجود ماحول میں جو اسلام اور رسول عربی کے وابستگان دامن سے یکسر خالی نظر آتا ہے.نہایت واضح پر جوش اور واشگاف انداز میں تبلیغ اسلام کا حق ادا کیا اور رسول عربی کے فضائل و مناقب کو واضح کیا.یوں تو بھارت کے مختلف حصوں میں وقتاً فوقتاً جلسوں اور عرسوں کے موقع پر مسلمانوں کے اجتماع ہوتے ہی رہتے ہیں اور ان میں پاکستانی مسلمانوں کے قافلے بھی بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ شامل ہوتے ہیں لیکن کسی اجتماع ، کسی جلسہ اور کسی عرس کے موقع پر اہتمام والتزام کے ساتھ اور واضح مگر دل نشین پیرا یہ میں غیر مسلموں کو دعوت اسلام پہنچانے کی کوششس نہیں کی جاتی.وو یہ شرف آج ہندوستان کے وسیع و عریض ملک میں صرف قادیان کی مقدس بستی ہی کو حاصل ہے.جہاں پر جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ کے موقع پر ہر سال فضاء اللہ اکبر اسلام زندہ باد اور رسول عربی زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھتی ہے.اور جہاں
تاریخ احمدیت 744 جلد ۲۰ بڑے کھلے اور پُر جوش انداز میں اسلام کی مدلل تبلیغ کی جاتی ہے اور رسول عربی کی اعلیٰ و ارفع شان کو غیر مسلم اصحاب پر واضح کر کے انہیں حضور ﷺ کی غلامی میں داخل ہو نیکی دعوت دی جاتی ہے.اس طرح عملی طور پر یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ آج دنیا میں تبلیغ اسلام کرنے کی عزت وسعادت صرف جماعت احمد یہ ہی کے حصہ میں آئی ہے.“ قافلہ قادیان ۱۹۶۰ء کے ذیل میں ان خوش نصیب ۲۰۰ اصحاب کی فہرست دی جاتی ہے جو قافلہ قادیان میں شامل ہو کر خوش نصیب اصحاب دیار حبیب کی برکتوں سے فیض یاب ہوئے.یہ فہرست حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم.ހނ الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۶۰ء صفحه ۵ - ۶ والفضل ۳ / دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ۲ پر اشاعت پذیر ہوئی.چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر ایٹ لاء نمبر۳۲ ایلکن روڈ لاہور چھاؤنی خواجہ جمیل احمد صاحب ولد خواجہ عبد الحمید صاحب ربوہ ۳.لد.2 _^ و.- 1 + -11 ۱۲.میاں اللہ بخش صاحب مکان نمبر ۱/۱۵۵ چھا چھی محله را ولپنڈی امتہ الحمید فردوس صاحبہ بنت سردار محمد صاحب جسونت بلڈنگ جو دھامل روڈ لاہور حاجی اللہ دتہ صاحب شیڈ مین.لوکو شیڈ ملکوال ضلع گجرات مہر اللہ دتہ صاحب گلی نمبر اے محلہ سنت پورہ لائل پور چوہدری احمد جان صاحب وکیل المال اول تحریک جدید ربوہ ضلع جھنگ احمد علی صاحب ولد پا جو خان صاحب محله مسلم گنج شیخو پوره آمنہ بیگم صاحبہ معرفت ایم غلام محمد صاحب مسلم ٹیلرنگ ہاؤس بلاک نمبر ۱۸ سرگودہا پیرا نوارالدین صاحب ۱۲۹.H مری روڈ راولپنڈی ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب ڈینٹل سرجن دی مونٹ مورنسی ہسپتال لاہور امتہ القیوم صاحبه زوجہ غلام احمد صاحب بر مکان حضرت مفتی محمد صادق صاحب ربوہ خواجہ احمد صاحب ۱۰۹ - ۸ سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ ڈاکٹر احمد علی صاحب ۱۱۵۲.F اعظم ما رکیٹ لاہور ۱۵.ڈاکٹر اعظم علی خان صاحب نئی منڈی گجرات مستری بشیر احمد صاحب مسجد احمدیه منشی محله لائل پور ۱۷- بدرمحی الدین صاحب سالٹ ڈیلر گندم منڈی سیالکوٹ ۱۴.-17
جلد ۲۰ تاریخ احمدیت - 745 -۱۸ سردار بشیر احمد صاحب ایگزیکٹو انجنیئر نمبر ۲۵۰ر یہ نگر پونچھ روڈ لا ہور نمبر ۴ بشیر احمد صاحب کا ٹھ گڑھی سیکرٹری سرگودھا بھیرہ بس سروس سرگودھا ڈاکٹر بشیر احمد صاحب انچارج لیاقت میموریل ہسپتال کو ہاٹ وا.۲۱.ز بیدہ ناہید صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب لیاقت میموریل ہسپتال کو ہاٹ ۲۲.ملک برکت علی صاحب سیکرٹری مال جماعت احمد یہ پوسٹ بکس نمبر ۱۵ لائل پور ۲۳- فیروزہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک برکت علی صاحب سیکرٹری مال جماعت احمد یہ پوسٹ بکس نمبر ۱۵ لائل پور ۲۴.جلال الدین صاحب شا د ولد میاں محمد اقبال صاحب محلہ حکیم الدین صاحب سیالکوٹ شہر ۲۵ - استانی حمیده صابرہ صاحبہ معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ ۲۶.شیخ حسن دین صاحب ولد حاجی محمد اسماعیل صاحب معرفت حکیم فضل الرحمن صاحب سنوری لال حویلی اکبر منڈی لاہور ۲۷.سید جمال یوسف صاحب دارالصدر شرقی ربوه ۲۸.حسن محمد خان صاحب عارف نائب وکیل التبشیر تحریک جدید ر بوه ضلع جھنگ ۲۹.چوہدری حمید اللہ صاحب معرفت مسجد احمدیہ کوئٹہ خالد سیف اللہ خان صاحب اسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر الیکٹرک سٹی سیالکوٹ شہر خواجہ حفیظ احمد صاحب ٹیکسٹائل انجینئر P.O.W.T ملز لمیٹڈ لارنس پور ۳۰.ضلع کیمل پور ۳۲.شیخ خورشید احمد صاحب اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ربوہ ۳۳.رشید احمد صاحب ارشد ولد سردار محمد صاحب سلک ملز غلہ منڈی قائد آباد ۴ دل محمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ چک نمبر ۶۱ ج.ب ڈاکخانہ خاص ضلع لائل پور ۳۵.چوہدری رحمت علی صاحب نیشنل فین فیکٹری شاہدرہ لاہور ۳۶ رشیدہ فاروق صاحبہ اہلیہ عبداللہ خان صاحب پر و پراکٹر افغان سٹور نمک منڈی را ولپنڈی ۳۷.صفیہ بیگم صاحبہ زوجہ محمد عبد اللہ صاحب مہا ر لا ہور چھاؤنی
تاریخ احمدیت 746 جلد ۲۰ ۳۸.ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب میڈیکل پریکٹیشنر قلعه صو با سنگھ تحصیل پسرور براسته بد وملهی ضلع سیالکوٹ ۳۹.رشید احمد خاں صاحب ولد قاضی محبوب عالم صاحب ضلعد ارشیخ چو ہڑ معرفت تا ر با بو ضعدار با ۴۰ لدا صاحب دفتر نہر جھنگ روڑی صاحبہ بیوہ علی محمد صاحب معرفت لال دین صاحب موچی وارڈ نمبر ۵ بد و ملی ضلع سیالکوٹ بدو ۴۱.سراج دین صاحب برٹش موٹر ورکس وائی.ایم ہی.اے بلڈنگ دی مال لا ہور ۴۲.شیخ سبحان علی صاحب چک نمبر ۴۱۶ ج.ب سوڈی ڈاکخانہ مہدی آباد براستہ گوجرہ ضلع لائل پور ۴۳ با بوشمس الدین صاحب مکان نمبر ۲۶۵۵ محله کیکر علاقہ ڈبگری پشاور شہر ۴۴.چوہدری شیر محمد صاحب انسپکٹر کو آپریٹو بنک بمبانوالہ ڈاکخانہ خاص ضلع سیالکوٹ ۴۵.سعید احمد خان صاحب کمرشل کول کا رپوریشن پوسٹ بکس نمبر ۷۲ کوئٹہ ۴۶.چوہدری حاجی شریف احمد صاحب دارالصدر غربی ربوه ۴۷.سعد اللہ خاں صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ترنگز کی تحصیل چارسدہ ضلع پشاور سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد ظہور خاں صاحب احمد نگر متصل ربوہ ضلع جھنگ ۴۹.چوہدری سراج دین صاحب با جوه منیجر ظفر آبا دلا بینی ڈاکخانہ ظفر آبا د لو طلہ ضلع حید ر آ با دسندھ ۵۰- چوہدری سلطان علی صاحب مکان نمبر ۲ گلی نمبر ۲۰ سلطان پورہ لاہور رحیم بی بی صاحبہ والدہ چوہدری سلطان علی صاحب سلطان پورہ لاہور ۵۲ - شریف احمد صاحب معرفت اڈہ طارق ٹرانسپورٹ کمپنی بل روڈ لاہور ۵۳ - صدق المرسلین صاحب خادم معرفت مسجد احمد یہ کوئٹہ ۵۴ - مولوی صدرالدین صاحب 4/5-C ماڈرن کالونی منگو پیر روڈ کراچی نمبر ۱۶ شیخ ظہور احمد صاحب ولد شیخ اللہ بخش صاحب دکاندار کوٹ مومن تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا ۵۶.چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صد رانجمن احمد یہ ربوہ اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمد یہ ربوہ
تاریخ احمدیت 747 جلد ۲۰ ۵۸ - عبد العزیز صاحب صادق مربی سلسله دفتر اصلاح وارشاد ربوه شیخ عبد القادر صاحب اکو نٹنٹ کا لونی ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ نمبر ۱۱۰ چو بر جی پارک لاہور ۶۰.قاضی عبد الرحمان صاحب امیر جماعت احمد یہ دوالمیال ضلع جہلم عبد الحمید صاحب مکان نمبر 55- 5 ڈی.44 کناره دریا باغ محله جهلم شهر - ۶۲.مرزا عبد الغنی صاحب مکان نمبر ۲ اگلی نمبر ۸ بھارت نگر چمڑہ منڈی لاہور ۶۳ - اہلیہ صاحبہ مرزا عبد الغنی صاحب مکان نمبر ۱۲ گلی نمبر ۸ بھارت نگر چمڑہ منڈی لاہور ۶۴- عبدالعزیز صاحب چک بہوڑو نمبر ۱۸ ڈاکخانہ خاص براستہ ڈھا ہاں سنگھ ضلع شیخو پوره مرزا عطاء اللہ صاحب مکان نمبر ۶۳۲ شام گنج مردان ۶۶.مسٹر عطاء اللہ صاحب سیکشن آفیسر منڈی آف کامرس کراچی ۶۷.حافظ عبد السلام صاحب وکیل المال تحریک جدید ر بوه شیخ عزیز احمد صاحب کہکشاں پر فیومری متصل بیت احمد یہ لائل پور ۹ - عبد الرحمان صاحب انسپکٹر وقف جدید بمقام جمال پور ڈاکخانہ دریا خاں مری ضلع نواب شاہ سندھ عبدالحمید صاحب ولد غلام بھیک صاحب چک نمبر ۱۳۲ رگ.ب ڈاکخانہ خاص ضلع لائل پور ا.مولوی عبد الطیف صاحب ٹھیکیدار بھٹہ ربوہ عزیزہ بیگم صاحبہ لیڈی ویلفیئر ورکر چیچیاں با ہواں تحصیل وضلع گجرات ۷۳.مولوی عبد القدیر صاحب شاہد معرفت وکیل التبشیر صاحب ر بوه ضلع جھنگ ۷۴.عبدالمجید خاں صاحب ولد محمد ظہور خاں صاحب دفتر اصلاح وارشا در بوه ۷۵ حافظ عزیز احمد صاحب ولد شیخ محمد حسین صاحب کو چرا میرالدین چنیوٹ ضلع جھنگ ۷۶.عبدالرحمان صاحب رحمان پنساری سٹور سبزی منڈی گوجر خاں ضلع را ولپنڈی ۷۷.چوہدری عبد الطیف صاحب اور سیئر محله دارالرحمت غربی ربوه عبدالحمید صاحب ولد اختر حسین صاحب سالٹ ڈیلر سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ ۷۹.عبد السلام صاحب ولد محمد الیاس صاحب 11 -ST کوارٹر کو ہاٹ روڈ پشاور عبدالرشید صاحب سیکرٹری مال جماعت احمد یہ حلقہ چابک سواراں لا ہور
تاریخ احمدیت 748 جلد ۲۰ ۱- عبدالمجید صاحب ولد چوہدری محمد حسین صاحب 73/100 مارٹن روڈ کراچی نمبر ۵ ۸۲ - ملک عبد السلام صاحب پیرو چک ڈاکخانہ خاص تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ ۸۳ - عبد الواحد صاحب مکان نمبر ۴ گلی نمبر ۵۶ نیا دھرم پورہ لاہور ۸۴ مولوی عطاء الرحمن صاحب چغتا ئی سی بلاک ( مارکیٹ ) ماڈل ٹاؤن لاہور ۸۵ علی احمد صاحب ٹھیکیدار محلہ دارالرحمت فیکٹری ایریار بوہ ۸۶.نوابزادہ میاں عباس احمد خاں صاحب مکان نمبر ۵ ڈیوس روڈ لاہور ۸۷.ملک عبد الرب صاحب معرفت ایشیوا فریقن کمپنی پوسٹ بکس نمبر ۱۵۸ کراچی ۸۸.مولوی عبد المالک خاں صاحب احمد یہ ہال میگزین لین کراچی نمبر ۳ ۸۹ - گیانی عباداللہ صاحب منیجر روز نامه الفضل ربوه ۹۰ - عزیز احمد صاحب ایزنگ فوٹوگرافر نمبر ۲ ایبٹ روڈ لاہور سید غلام مرتضے صاحب کنسلٹنگ انجنیئر نمبر ۱۰ رائٹرز چمبرس ڈنو لی روڈ کراچی ۹۱.۹۲.غلام محمد صاحب خادمبیت احمد یہ امین پور بازار لائل پور ۹۳ - چوہدری غلام احمد خاں صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ پاکپٹن ضلع منٹگمری ۹۴ - ترنگز غلام اکبر خان صاحب تر گلر کی تحصیل چارسد و ضلع پشاور ۹۵ - چوہدری فضل احمد صاحب نائب نا ظر تعلیم ربوہ -۹۶ فرزند علی صاحب چک نمبر 1 - 12/11 ڈاکخانہ خاص براستہ چیچہ وطنی ضلع منٹگمری ۹۷.فضل احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ بشیر آبا دا سٹیٹ ضلع حیدر آباد (سندھ) ۹۸ ملک فضل احمد صاحب معرفت ملک فضل الدین صاحب کا رکن دفتر خدام الاحمدیہ ربوه ۹۹ - راجہ فضل الہی خان صاحب مکان نمبر 31/1 دار الصدر غربی ربوه ۱۰۰.شیخ فتح محمد صاحب قلعہ صوبہ سنگھ براستہ بد و ملی ضلع سیالکوٹ ۱۰۱.چوہدری فضل الرحمن صاحب منیجر خیبر ٹیکسٹائل اینڈ ہوزری ملز نمبر 4 دیال سنگھ منشن دی مال روڈ لاہور شیخ فضل حق صاحب معرفت شیخ فضل حق اینڈ سنز ستی ( بلوچستان ) ۱۰۳.لطیف احمد صاحب اسٹنٹ ایگزیکٹو انجنیئر تربیلا ڈیم پروجیکٹ ڈاکخانہ غازی خاں
تاریخ احمدیت ضلع ہزارہ 749 ۱۰۴ - محمد الدین صاحب مکان نمبر ۱۳۹۱ گلی نمبر ۱۵ آر.اے بازار لاہور چھاؤنی ۱۰۵.ایس ایم عبداللہ صاحب ہا گورہ.ہا گوره ورکس وزیر آباد گوجرانوالہ ۱۰۶.چوہدری محمد اسماعیل صاحب خالد مینجر احمد آبا دا سٹیٹ ڈاکخانہ نبی سر روڈ ضلع تھر پارکر سندھ ۱۰۷.مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح وکالت دیوان تحریک جدید ر بوه ۱۰۸ - محمد حمید اللہ صاحب قریشی...P سیکشن آفیسر دفتر کنٹرولر پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف لاہور ۱۹ - مبارک احمد صاحب بک سیلر محله لوہاراں والا بھیرہ ضلع شاہ پور ۱۱۰.محمد اسلم صاحب مجاہد کلاتھ ہاؤس چوک بازار ملتان ۱۱۱.ملک محمد خاں صاحب سالٹ ڈیلر گندم منڈی سیالکوٹ جلد ۲۰ ۱۱۲.ڈاکٹر محمد شفیع صاحب وٹرنری اسسٹنٹ سرجن انچارج وٹرنری ہسپتال نوشہرہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ ۱۱۳ - محمد رشید صاحب ٹکٹ کلکٹر ریلوے اسٹیشن لاہور ۱۱۴.مولوی محمد اکبر افضل صاحب معرفت مولوی عبد الرحمن صاحب انور دار الصدر شرقی ربوه ۱۱۵.محمد شفیع صاحب ہیڈ کلرک نمبر ۲۲ ایچی سن کالج لاہور ۱۱.محمد صدیق صاحب پر نامی محله مکان نمبر ۵۹۶ کر بلا روڈ منٹگمری ۱۱۷.صوفی محمد اسحاق صاحب سابق مبلغ لائبیریار بوہ ۱۱۸ شیخ مهر دین صاحب ولد شیخ فصل البی صاحب محلہ اسلام پورہ ( بھنگہ ) سیالکوٹ ۱۱۹.حاجی مسعود احمد صاحب خورشید ایران ٹریڈ سنٹر فاطمہ بلڈنگ کھوڑی گارڈن کراچی نمبر ۲ - ۱۲۰ ممتاز فقیر اللہ صاحب نوازش بلڈنگ شیخ فیروز الدین سٹریٹ نمبر ۴۵ فلیمنگ روڈ لاہور ۱۲۱ - محمد ظفر اللہ صاحب مکان نمبر 879-B کمبواڑہ اہل اسلام میدان بھائیاں اندرون بھاٹی گیٹ لاہور
تاریخ احمدیت 750 جلد ۲۰ ۱۲۲.مجیب الرحمن صاحب پراچہ معرفت یو نائیٹڈ ٹرانسپورٹ کمپنی سرگودھا ۱۲۳.مستعلی خاں صاحب ولد عمر بخش صاحب مرالہ ڈاکخانہ خاص تحصیل پھالیہ ضلع گجرات ۱۲۴.صوفی محمد ابراہیم صاحب سابق ہید ماسٹر ر بوه ضلع جھنگ ۱۲۵- محمود احمد صاحب بشیر مکان نمبر 89/1 صاحب سنگھ بلڈ نگ صد ر روڈ پشا ور چھاؤنی ۱۲۶.حمیدہ عارفہ بیگم صاحبہ بنت مرزا حسین بیگ صاحب 12/20 -3 یاٹ روڈ کوئٹہ ۱۲۷- محمد اقبال صاحب چک اے.ج ڈاکخانہ خاص ضلع سرگودھا - ۱۲۸ مولوی محمد سعید صاحب انصاری وکالت تبشیر تحریک جدید ر بوه ضلع جھنگ ۱۲۹ - محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد سعید صاحب انصاری وکالت تبشیر تحریک جدید ر بوه ۱۳۰ - محمد امین صاحب قلعہ صو با سنگھ براستہ بد وملہی ضلع سیالکوٹ ۱۳۱.چوہدری محمد صادق صاحب بی.اے سیکرٹری ہاؤس بلڈنگ فائنانس کارپوریشن نمبر ۲۱ اسلام آباد کراچی نمبر ۵ ۱۳۲.ایم محمد صادق صاحب امریکن کٹ پیس مرچنٹ چوک گھاس منڈی سیا لکوٹ شہر ۱۳۳ - محمد اسلم صاحب معرفت محمد حیات صاحب احمدی محلہ طلبہ جالیاں گلی رنگریزاں سیالکوٹ ۱۳۴- محمد سلیم صاحب معرفت میکو ٹیکسٹائل ورکس نمبر ۱۸ کرشن نگر جی.ٹی روڈ گوجرانوالہ ۱۳۵- شیخ محمد حسین صاحب ڈھینگرہ مکان نمبرا اکرم روڈ نمبر ا کا چھوپورہ لاہور ۱۳۶ - محمد رمضان صاحب معرفت میاں مولا بخش صاحب احمدی ریٹائر ڈ پوسٹ ماسٹرگلی مولوی سراج دین گوجرانوالہ ۱۳۷.مرزا منظور احمد صاحب معرفت چوہدری محمد شریف صاحب احمدی نشاط کمیشن شاپ غلہ منڈی صادق آبا دضلع رحیم یار خاں ۱۳۸ - شیخ محمد الدین صاحب سابق مختار عام صد را مجمن احمد یہ ربوہ ۱۳۹.سردار سردار بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد الدین صاحب سابق مختار عام صد را انجمن احمد مدر بوه ۱۴۰.چوہدری مقبول احمد صاحب اکو نٹنٹ ظفر آبا د لا بنی.ڈاکخانہ ظفر آبا دلو طکہ ضلع حیدر آباد (سندھ) ۱۴۱ محمد حسین صاحب بل کلرک دفتر ڈپٹی کمشنر گجرات ۱۴۲.حکیم مرغوب اللہ صاحب معرفت جلیل دواخانہ مین بازار شیخو پوره
تاریخ احمدیت 751 جلد ۲۰ ۱۴۳.مسعود احمد صاحب عاطف لیکچر ارتعلیم الاسلام کا لج ربوہ ۱۴۴ - محمد شفیع خان صاحب 8/9 E-11 ناظم آباد کراچی نمبر ۱۸ -۱۴۵.مرزا محمد اسلم صاحب ولد مرزا محمد حیات صاحب معرفت شفا خانہ رفیق حیات ٹرنک بازار سیالکوٹ ۱۴۶ - محمد شریف صاحب ولد حسین بخش صاحب محلہ دارالرحمت شرقی ربوہ ۱۴۷.حاجی محمد اسماعیل صاحب مکان نمبر ۱۳۷ نیو روڈ دھرم پورہ لاہور ۱۴۸.شیخ مبارک احمد صا حب نائب نا ظر تعلیم ربوہ ۱۴۹.چوہدری مقبول احمد صاحب ڈسٹرکٹ انجینئر شیخو پورہ ۱۵۰.صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب جو دھامل بلڈ نگ لاہور ۱۵۱ - مرزا مقصود احمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر نمبر ۶۰ دی مال پشاور کینٹ ۱۵۲ - نظام الدین صاحب کا رکن وکالت تبشیر تحریک جد یدر بوه ۱۵۳.نعیم اللہ صاحب خالد ولد ڈاکٹر جید اللہ خاں صاحب کو چہ اسماعیل حسین گوالمنڈی لا ہور نمبرے ۱۵۴ - راجہ ناصر احمد صاحب معرفت بشیر احمد صاحب شاہد گلی نمبرے بلاک F چنیوٹ بازار لائل پور ۱۵۵.حافظ نیا ز احمد صاحب کوٹھی نمبر ۹ چیر جی روڈ پیسہ اخبار لاہور ۱۵۶ - ملک نصر اللہ خان صاحب کلانکس انجینئر نگ کمپنی لمیٹڈ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ ۱۵۷.ناصر احمد صاحب عباسی فضل منزل آبادی حاکم رائے گلی سلطان احمد گوجرانوالہ ۱۵۸.شیخ نصیر الحق صاحب N/146 سمن آبا د لا ہور ۱۵۹.مرزا نثار احمد صاحب فاروقی مکان نمبر ۲۰۳۴ کوچه رسالدا رقصہ خوانی بازار پشاور شہر ۱۲۰.چوہدری نذرمحمد صاحب نذیر اسٹنٹ چارج مین لوکو شیڈ روہڑی سکھر ۱۶۱.مولوی نور الحق صاحب انور سابق مبلغ امریکہ کوارٹرز تحریک جدید ر بوه ۱۶۲.سلطان احمد صاحب ولد چراغدین صاحب چک نمبر R.B/69 گھسیٹ پورہ ضلع لائکپور - شیخ شریف احمد صاحب ولد شیخ نثا را حمد صا حب بلاک نمبر ۲ سرگودہا
تاریخ احمدیت 752 جلد ۲۰ ۱۶۴.ڈاکٹر عمر دین صاحب ایم.بی.بی.ایس اینٹی ملیر یا آفیسر مری روڈ راولپنڈی ۱۶۵.ملک عبد الغنی صاحب ولد ملک عبد القادر صاحب نمبر ۹ چوہدری بلڈ نگ نز د جو بلی سینما کراچی ۱۲۲.شیخ عباد الرحمان صاحب ولد منشی حبیب الرحمان صاحب مرحوم لا ہور ۱۶۷.سید لال شاہ صاحب امیر جماعت احمد یہ وار برٹن ضلع شیخو پوره ۱۲ - سید محمد حسین شاہ صاحب ولد عطا محمد صاحب ملتان ۱۶۹ مولوی محمد علی صاحب ولد میاں نور علی صاحب دارالصدر غربی ربوہ ۱۷۰.مسعود احمد صاحب جہلمی ولد میاں عبد الرحیم صاحب وکالت دیوان ربوه ۱۷۱.نصیر الرحمان صاحب ناصر ابن حکیم حفیظ الرحمان صاحب اکبری منڈی لاہور ۱۷۲.مرزا واحد حسین صاحب دار الصدر ( ج ) ربوہ ضلع جھنگ ۱۷۳.حمید احمد صاحب اختر ولد میاں عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلوی.ربوہ ۱۷۴.خالقداد خانصاحب ولد خدا داد خان صاحب راشن شاپ نمبر ۵۹۱ ٹو نیشیا لائن کراچی ۱۷۵.صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب ربوه ۱۷۶ - سلیمہ بیگم صاحبہ بنت مرز ا معظم بیگ صاحب کوئٹہ ۱۷۷.سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ فضل قا در صاحب ربوه ۱۷۸.خان ضیاء الحق خانصاحب کو ئٹہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ خان ضیاء الحق خانصاحب کوئٹہ ۱۸۰.عبد الغفور صاحب ولد چوہدری چراغدین صاحب مکان نمبر ۱۷۲۴ موٹومل گارڈن کراچی ۱۸۱.علم دین صاحب ولد بوٹا چک نمبر R.B/69 گھسیٹ پورہ لائل پور ۱۸۲.حکیم عبدالرشید صاحب ارشدر بوه ضلع جھنگ کرم الہی صاحب ولد میراں بخش صاحب.سیالکوٹ.۱۸۴ - لعل دین صاحب ولد علی محمد صاحب وارڈ نمبر ۵ بد وملہی ضلع سیالکوٹ ۱۸۵.مشتاق احمد صاحب برادر مولوی محمد احمد صاحب در ولیش قادیان ۱۸۶ - محمد لطیف صاحب ولد عالم خانصاحب چک نمبر R.B/69 گھسیٹ پورہ ضلع لائکپور
تاریخ احمدیت 753 ۱۸۷.شیخ محمد عمر ا نو ر صاحب مکان نمبر ۹۱ بلاک نمبر ۲ سرگود با ۱۸.ایم عبد الواحد خانصاحب احمد یہ ہال میگزین لین کراچی نمبر ۳ ۱۸۹ - ماسٹر نذیر حسین صاحب نمبر اے گوال منڈی روڈ لاہور ۱۹۰ - نوردین صاحب ولد بها در علی صاحب دار الرحمت ربوہ ضلع جھنگ ۱۹۱ - محمد رمضان صاحب کا رکن وکالت تبشیر ربوہ ۱۹۲ - سعیدہ وزیر صاحبہ اہلیہ رشید خان صاحب ضلعد ار شیخ چوہڑ.حکیم ظفر الدین صاحب معرفت ملک ظفر ایند کمپنی مین بازار شیخو پوره ۱۹۳.۱۹۴.مولوی محمد صدیق صاحب لائبریرین ربوہ ضلع جھنگ ۱۹۵ - محمد عیسے صاحب سیکرٹری مال راجہ جنگ ضلع لاہور جلد ۲۰ ۱۹۶.ڈاکٹر نذیر احمد صاحب بھٹی یونائیٹڈ میڈیکل اینڈا ویٹیکل ہال گھاس منڈی ۱۹۷.ملک منور احمد صاحب ولد ملک حبیب الرحمان صاحب فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ر بوه ضلع جھنگ ۱۹۸ - مبارک احمد صاحب ولد چوہدری محمد بوٹا صا حب کراچی ۱۹۹ - امتہ الرحیم صاحبہ اہلیہ مبارک احمد صاحب کراچی ۲۰۰.میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا بصیرت افروز ۲۳٬۲۲ دسمبر ۱۹۶۰ء کو مجلس مذاکرہ علمیہ جامعہ صدارتی خطاب مجلس مذاکرہ علمیہ میں احمد یہ ربوہ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس میں خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، مفتی سلسلہ مکرم ملک سیف الرحمن صاحب اور دوسرے ممتاز علماء نے پُر مغز، ٹھوس اور فاضلانہ مقالے پڑھے.اجلاس کی نشست حضرت صاحبزاہ مرزا بشیر احمد صاحب کی صدارت میں ہوئی.حضرت میاں صاحب نے اپنے بصیرت افروز صدارتی خطاب میں احمدی نو جوانوں کو تلقین فرمائی کہ وہ ہمیشہ حضرت مسیح موعود کے اس شعر کو مد نظر رکھیں کہ اے بے خبر بخدمت فرقاں کمر ببند زاں پیشتر که با نگ بر آید فلاں نماند حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا حضرت مسیح موعود نے قرآن مجید کو اس دنیوی عالم سے
تاریخ احمدیت 754 جلد ۲۰ تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ قرآن مجید بھی اپنی ذات میں ایک عالم ہے، جس طرح دنیوی عالم کے مخفی عجائبات زمانے کے ساتھ ساتھ کھلتے آرہے ہیں اور جدید اکتشافات کے ذریعے اس کے مخفی خزانے با ہر نکل رہے ہیں اور بے شمار اکتشافات کے با وجو د انسان ابھی تک اس کے اسرار کا احاطہ نہیں کر سکا ہے.اسی طرح قرآن مجید جو خدا تعالیٰ کا قول ہے اپنی ذات میں ایک عالم ہے جس کے مخفی خزانوں اور علوم و معارف کی کوئی انتہا نہیں.احمدی نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن میں زیادہ سے زیادہ تدبر سے کام لیں اور نئے نئے خزانے نکال کر انہیں دنیا کیلئے عام کریں اور ان سے اُن علوم جدیدہ کا مقابلہ کریں جو مذہب کے مخالف ہیں اور دنیا کو دہریت کی طرف لے جانے والے ہیں یہی حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد ہے حضرت میاں صاحب نے اس موقع پر یہ نصیحت بھی فرمائی کہ تحقیق اور وضاحت کیلئے سوال کرنا اور اشکال پیش کر کے ان کی وضاحت چاہنا یا خود اس کا حل تلاش کرنا بہت اچھی چیز ہے لیکن اس میں یہ احتیاط مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ ادب کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جائے.سوالات استفسارات کے رنگ میں ہونے چاہیں.ایسے اعتراضات کے رنگ میں نہیں جن سے مسلمہ یا طے شدہ اصولوں یا عقائد کے کما حقہ احترام میں کوئی فرق آ سکے، بعض اوقات اس قسم کی بحثوں میں ہر چند کہ وہ تحقیق اور وہ از دیا دعلم کی نیت سے ہوں، لوگ اس احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا کرتے.لیکن ہمارے نو جوانوں کو جو بفصلہ تعالیٰ اس فرق کو سمجھتے ہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے.
تاریخ احمدیت فصل پنجم 755 جلد ۲۰ جلسہ سالانہ ربوہ اور حضرت مصلح موعود اس سال ۲۶ تا ۲۸ دسمبر جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر کے ایمان افروز خطابات ربوہ کی مبارک سر زمین میں احمدیت کے ۷۵ ہزار فدائیوں کا عظیم الشان اجتماع ہوا جو دعاؤں، ذکر الہی انابت الی اللہ ذوق وشوق اور ولولہ عشق کے ایمان افروز مناظر کا مرقع تھا اور اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے متعد دممالک کے مخلصین جماعت نے شرکت کی سعادت حاصل کی.اس مقدس تقریب میں سیدنا محمود المصلح الموعود نے دو روح پرور خطابات ارشاد فرمائے :.حضور نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا :.۲۳ افتتاحی خطاب اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ اس نے ہماری جماعت کے افراد کو ایک بار پھر اپنے ذکر کو بلند کرنے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کیلئے یہاں جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان احسان کو دیکھتے ہوئے اس کے حضور جس قدر بھی سجدات شکر بجالائیں کم ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے با برکت بنائے اور اس میں شمولیت اختیار کرنے والے تمام مردوں اور عورتوں کو ان کے اخلاص اور محبت کی جزائے خیر عطا فرمائے اور انہیں اس امر کی توفیق بخشے کہ وہ اس جلسہ سے پوری طرح فائدہ اٹھا ئیں اور اپنے اندر ایک نیک اور پاک تبدیلی پیدا کریں تا کہ جب وہ واپس جائیں تو دنیا ان کے نیک عزائم اور اعلیٰ اخلاق اور اسلام کیلئے فدائیت اور جاں شاری کے جذبات کو دیکھ کر پکا راٹھے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اس دنیا کیلئے حقیقی امن اور سلامتی کا موجب ہیں اور انکے دلوں میں بھی یہ تڑپ پیدا ہو جائے کہ وہ جماعت احمدیہ کے مرکز میں آئیں اور ان غلط فہمیوں کو دور کریں جو ہمارے متعلق ان میں پائی جاتی ہیں.دوستوں کو ! یہ امر ا چھی طرح یا درکھنا چاہیئے کہ ہمارا یہ جلسہ تمام مر وجہ جلسوں اور اجتماعوں
جلد ۲۰ تاریخ احمدیت 756 سے بالکل مختلف رنگ رکھتا ہے.آپ لوگ یہاں کسی نمائش کیلئے اکٹھے نہیں ہوئے.کوئی کھیل یا تماشہ دیکھنے کیلئے نہیں آئے بلکہ صرف اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ایک مناد کی آواز آپ لوگوں نے سنی اور اس پر دوڑتے اور لبیک کہتے ہوئے آپ زمین کے چاروں اطراف سے اس کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے.گویا آپ لوگ وہ روحانی پرندے ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا کہ انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دو اور پھر انہیں آواز دو تو وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ اڑتے چلے آئیں گے آپ لوگ بھی اس زمانہ کے مامور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں جمع ہوئے ہیں.اور آپ ہی وہ خوش قسمت وجود ہیں جنھیں فضائے آسمانی کی بلندیوں میں پرواز کر نے کیلئے پیدا کیا گیا ہے پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور ان ایام کو ضائع مت کرو.یہ جلسہ کوئی دنیوی میلہ نہیں بلکہ یہ کو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ تمہارا ملاپ پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے تمہارے لئے تجویز کیا ہے.پس اس امر کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہ ہونے دو اور دعاؤں اور ذکر الہی میں ہر وقت مشغول رہو.اور اپنے اوقات کا حج استعمال کرو.اگر آپ لوگ اسلامی اجتماعات پر غور کریں تو آپ کو نہایت آسانی سے یہ امر معلوم ہوسکتا ہے کہ تمام اسلامی اجتماعات کی رُوح رواں صرف ذکر الہی اور دُعا اور انابت الی اللہ ہی ہے.نماز ہے تو وہ دعا اور ذکر الہی پر مشتمل ہے.جمعہ ہے تو وہ بھی وعظ ونصیحت اور دعا اور ذکر پر مشتمل ہے.عیدین کی نماز میں ہیں تو ان میں بھی اٹھتے بیٹھتے ذکر الہی کی تاکید ہے.یہی نسخہ ہے جو ہر اجتماع کو با برکت بناتا ہے پس اس نسخہ کو کبھی مت بھولو اور اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے اور اسی طرح اسلام اور احمدیت کی ترقی کیلئے رات دن دعا ئیں کرتے رہو اور پھر یہ بھی دعا ئیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان مقصد کو جلد سے جلد پورا فرمائے جس کیلئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے اور خدا تعالیٰ ہمیں اپنی موت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور پھر ہماری اولاد در اولاد کو بھی یہ توفیق بخشے کہ وہ قیامت تک اس جھنڈے کو اونچا رکھتی چلی جائے یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے.احادیث میں آتا ہے کہ جنگِ اُحد کے موقع پر ایک صحابی شدید زخمی ہوئے وہ نزع کی حالت میں تھے کہ ایک اور صحابی انکے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ اگر آپ نے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کے نام کوئی پیغام دینا ہو تو مجھے دیدیں وہ کہنے لگے میرے عزیزوں کو میری طرف سے اسلام علیکم کہنا اور انہیں یہ پیغام دے دینا کہ جب تک ہم زندہ رہے ہم اپنی جانیں الی
تاریخ احمدیت 757 جلد ۲۰ قربان کر کے محمد رسول ﷺ کی حفاظت کرتے رہے اب ہم اس دنیا سے جا رہے ہیں اور یہ امانت تمہارے سپرد کر رہے ہیں.اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم اپنی جانیں قربان کر دو مگر محمد رسول اللہ ﷺ پر کوئی آنچ نہ آنے دو.آج محمد رسول اللہ علیہ اپنے جسد عصری کے ساتھ اس دنیا میں موجود نہیں مگر ان کا لایا ہوا دین آج بھی زندہ ہے.اُن کا لایا ہوا قرآن آج بھی موجود ہے.اور وہ دین ہم سے انہی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے جن قربانیوں کا صلى الله صحابہ سے مطالبہ کیا گیا تھا.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اپنی جانیں دیں مگر اسلام کے جھنڈے کو کبھی نیچا نہ ہونے دیں اور ہم اپنی اولاد در اولاد سے بھی یہ کہتے چلے جائیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو مت بھولنا ورنہ خدا کے حضور تم جواب دہ ہو گے.حقیقت یہ ہے کہ سلسلہ کی عظمت کو قائم رکھنا اور سلسلہ کی اشاعت میں حصہ لینا کسی ایک فرد کا کام نہیں بلکہ یہ نسلاً بعد نسل ایک لمبے زمانہ سے تعلق رکھنے والا کام ہے اسی وجہ سے میں نے جماعت کو توجہ دلا ئی تھی پنے اپنے خاندانوں میں سے کم سے کم ایک ایک فرد کو دین کیلئے وقف کرو تا کہ تمہارا خاندان اس نیکی سے محروم نہ رہے اور تم سب اس ثواب میں دائمی طور پر شریک ہو جاؤ.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی حالانکہ یہ ایک نہایت ہی ضروری امر ہے جس پر ہماری جماعتی اور مذہبی حیات کا انحصار ہے میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ صرف اپنے اندر ہی ایمان پیدا کر نیکی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اگلی نسل کو بھی دین کا جاں نثار خادم بنانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے.دنیا میں کوئی شخص یہ پسند نہیں کر سکتا ہے وہ تو عالم بن جائے مگر اس کا بیٹا جاہل رہے یا وہ تو امیر بن جائے مگر اس کا لڑکا کنگال رہے.پھر نہ معلوم لوگ اپنی اگلی نسل کو دین کے راستہ پر قائم رکھنے کیلئے کیوں مضطرب نہیں ہوتے اور کیوں وہ دیوانہ وار اس کیلئے جد و جہد نہیں کرتے.یہ امر یا د رکھو کہ ہمارے سپر د خدا تعالیٰ نے ایک بہت بڑی امانت کی ہے اس زمانہ میں جبکہ ایمان ثریا پر جا چکا تھا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ پھر اسلام کو زندہ کیا اور اس نے آپ لوگوں کے ذریعہ اسے دنیا کے کناروں تک پہنچایا بلکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرایا.اب آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اپنی اگلی نسل کو بھی اس امانت کا اہل بنا ئیں.اور اس کے اندر دین سے شغف اور محبت پیدا کریں تا کہ وہ بھی نمازوں اور دعاؤں اور ذکر الہی کی پابند ہو اور دین کیلئے ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینے والی ہو.یہ کام ہم اپنے زور سے نہیں کر سکتے صرف خدا ہی ہے جو اصلاح نفس کے سامان پیدا کیا کرتا ہے.پس اپنے لئے بھی دعا ئیں کرو اور اپنی
تاریخ احمدیت 758 جلد ۲۰ اولادوں کیلئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں سچا ایمان پیدا کرے اور انہیں دین کی ایسی محبت عطا کرے کہ کوئی دنیوی تعلق اُس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے تا کہ ہماری زندگی ہی پُر مسرت نہ ہو بلکہ ہماری موت بھی خوشی کی موت ہو.ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے اب بہتر سال (۷۲) کا طویل عرصہ ہو چکا ہے اور یہ صدی اب ختم ہونے کے قریب پہنچ رہی ہے.مگر ابھی تک ہماری جماعت کی تعداد بہت کم ہے.بے شک اللہ تعالیٰ کے فضل سے صدر انجمن احمدیہ کے مربیوں، تحریک جدید کے مبلغوں اور وقف جدید کے معلموں اور پھر انفرادی جد و جہد کے ذریعہ ہر سال بیعتوں میں اصافہ ہوتا رہتا ہے مگر پھر بھی دنیا کی آبادی کو دیکھتے ہوئے ہماری تعداد ا بھی ایسی نہیں جس پر اطمینان کا اظہار کیا جا سکے.اس لئے ہمیں بہت زیادہ فکر اور توجہ کے ساتھ اپنی کوششوں کا جائزہ لینا چاہیے.اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری زندگیوں میں ہی دنیا میں احمدیت پھیل جائے.بے شک ہم کمزور اور بے سامان ہیں مگر ہمارا خدا بڑا طاقتور ہے اس لئے ہمیں اُسی سے دعا ئیں کرنی چاہیں کہ الہی ! تیری مدد آسمان سے کب نازل ہو گی.تو آسمان سے اپنے ملائکہ کی فوج نازل فرما تا کہ وہ سعید دلوں پر اتریں اور انہیں اسلام اور احمدیت کا والہ وشیدا بنا دیں اور ہم اپنی زندگیوں میں ہی وہ دن دیکھ لیں جبکہ اسلام دنیا پر غالب آ جائے.اور یورپ اور امریکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں داخل ہو جائے.بے شک آج عیسائیت کی ترقی کو دیکھ کر انسان حیران ہوتا ہے اور اس کے واہمہ میں بھی نہیں آ سکتا کہ اسلام ایکدن دنیا پر غالب آئے گا مگر دعا اور صرف دعا ہی وہ ہتھیار ہے جس سے یہ مہم ایک دن کامیاب ہو گی.اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام دنیا پر غالب آئے گا اور کفر میدان میں دم توڑ رہا ہو گا.میں دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انہیں اپنی دعاؤں میں قادیان کو بھی یاد رکھنا چاہیئے.قادیان ہمارا مقدس مذہبی مرکز ہے جہاں بار بار جانا ہماری جماعت کے تمام افراد کیلئے ضروری ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں بھی کریں کہ وہ اپنے فضل سے قادیان کے راستے تمام احمد یوں کیلئے کھولے اور ہمیشہ کیلئے کھولے.اور وہ مشکلات جو اس وقت ہماری راہ میں حائل ہیں اُن کو دور فرمائے اور اپنی برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال کرے.ان چند کلمات کے ساتھ میں جلسہ سالانہ کا افتتاح کرتا ہوں اور آپ لوگوں کیلئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو خیریت کے ساتھ رکھے اور ان با برکت ایام سے بیچ طور پر فائدہ اٹھانے اور اپنے اندر نیک اور پاک تبدیلی
تاریخ احمدیت 759 جلد ۲۰ پیدا کر نیکی تو فیق عطا فرمائے.اب میں دعا کروں گا سب دوست میرے ساتھ مل کر دعا کر لیں.۲۴ اختتامی خطاب حضور نا سازی طبع کے باعث ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۶۰ء کی اختتامی تقریر / کیلئے بنفس نفیس تشریف نہ لا سکے.اس لئے حضور کی مندرجہ ذیل ایمان افروز تقریر حضور کی زیر ہدایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی صدارت میں خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھ کر سنائی.وا.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کو پھر اس مقدس اجتماع میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.جو اعلائے کلمتہ اللہ کی غرض سے ۱۸۹۱ ء میں حضرت مسیح موعود نے قائم فرمایا تھا.سب سے پہلا جلسہ جو حضرت سیح موعود کے زمانہ میں ہوا اس میں صرف ۷۵ آدمی شریک ہوئے تھے.اور آخری جلسہ جو ۱۹۰۷ ء میں حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہوا اس میں ۷۰۰ افراد شریک ہوئے تھے.لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعدا دستر استی ہزار تک پہنچ چکی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ تعداد انشاء اللہ بڑھتی چلی جائے گی اور قیامت تک اسلام اور احمدیت کا جھنڈا ہماری جماعت کے افراد کے ذریعہ دنیا کے تمام ملکوں میں بلند ہوتا رہے گا.یہ امر یا درکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے سپر د ایک بہت بڑا کام کیا ہے.ہم نے ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کرنی اور محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم پھیلانی ہے اور ہم نے ساری دنیا میں اور ہمیشہ کیلئے نیکی اور تقویٰ کی روح کو قائم کرنا ہے اور یہ کام بغیر ایک لمبی اور مستقل جد و جہد کے انجام نہیں دیا جا سکتا.پس ضروری ہے کہ ہمارا ہر فرد اپنی ان ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اس پر عائد ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے.اور اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت میں صرف کرے.تا کہ جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو اس کا سر اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کی بنا پر ندامت اور شرمندگی سے نیچا نہ ہو بلکہ وہ فخر کے ساتھ کہہ سکے کہ میں نے.اپنے اس فرض کو ادا کر دیا ہے جو مجھ پر اپنے رب کی طرف سے عائد کیا گیا تھا.ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام اپنے فرائض کو ادا کرنے کا اپنے اندر اس قدرا حساس رکھتے تھے کہ ایک دفعہ جب رسول کریم نے عیسائیوں کے مقابلہ کیلئے شام کی طرف اپنا لشکر روانہ فرمایا تو آپ نے فرمایا کہ میں زید بن حارثہؓ کو اس لشکر کا کمانڈر مقرر کرتا ہوں.لیکن
تاریخ احمدیت 760 ย جلد ۲۰ اگر زید اس جنگ میں شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمانڈر ہونگے اور اگر جعفر بھی شہید ہو جا ئیں تو عبد اللہ بن رواحہ کما نڈر ہونگے.اور اگر عبداللہ بن رواحہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر مسلمان خود کسی کو منتخب کر کے اپنا افسر بنا لیں.جب آپ یہ ہدایات دے رہے تھے تو اس وقت ایک یہودی بھی بیٹھا آپ کی باتیں سن رہا تھا.آپ جب اپنی بات ختم کر چکے تو وہ یہودی وہاں سے اُٹھا اور سیدھا حضرت زیڈ کے پاس پہنچا اور ان سے کہنے لگا کہ اگر محمد بچے نبی ہیں تو تم اس جنگ سے کبھی زندہ واپس نہیں آؤ گے.کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر زید جنگ میں مارے جائیں تو جعفر کو کمانڈر بنا لینا اور اگر جعفر بھی مارے جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ کو کمانڈر بنا لینا اور اگر عبداللہ بن رواحہ بھی مارے جائیں تو پھر کسی اور کو اپنا افسر بنا لینا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تم تینوں مارے جاؤ گے.حضرت زید نے جواب دیا کہ ہم مارے جائیں یا زندہ رہیں محمد رسول اللہ ﷺ بہر حال بچے نبی ہیں.آخر واقعہ بھی اسی طرح ہوا کہ جب لڑائی ہوئی تو یہ تینوں صحا بہ یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے.حضرت عبد اللہ بن رواحہ کے متعلق ذکر آتا ہے کہ جب وہ کمانڈر مقرر ہوئے تو انہوں نے اسلامی جھنڈا اپنے ہاتھوں میں لے لیا.اس وقت میدان جنگ کی یہ حالت تھی کہ دشمن کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی اور مسلمان صرف تین ہزار تھے.جب عبد اللہ بن رواحہ دشمن کے مقابلہ کیلئے آگے بڑھے تو لڑتے لڑتے ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا.اس پر انہوں نے جھٹ اپنے دوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا.اور جب دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈے کو اپنی رانوں میں دبا لیا.اس کے بعد کفار نے ان کی ایک ٹانگ بھی کاٹ دی.اس وقت کیونکہ وہ مجبور تھے اور جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں وہ جھنڈے کو سنبھال کر رکھ سکتے.اس لئے انہوں نے زور سے آواز دی کہ اب میں جھنڈے کو نہیں سنبھال سکتا اس لئے دیکھنا اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہ ہونے پائے.یہ سن کر حضرت خالد بن ولید آگے بڑھے اور انہوں نے جھنڈا اپنے ہاتھوں میں لے لیا.یہ لشکر ابھی مدینہ نہیں پہنچا تھا کہ رسول کریم کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ ان تمام واقعات کی خبر دیدی اور آپ نے صحابہ کو بتا یا کہ جب اسلامی لشکر کفار کے مقابلہ میں کھڑا ہوا اور زیڈ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے تو زیڈ کی جگہ جعفر کو کمانڈر مقرر کیا گیا.اور جب جعفر شہید ہو گئے تو عبد اللہ بن رواحہ کو کمانڈر مقرر کیا گیا.اور جب عبد اللہ بن رواحہ بھی شہید ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ اب وہ جھنڈا سیف من سيوف اللہ یعنی حضرت خالد بن ولیڈ کے ہاتھ میں آ گیا ہے اور وہ اسلامی لشکر کو حفاظت کے ساتھ
تاریخ احمدیت 761 جلد ۲۰ واپس لا ر ہے ہیں.اب دیکھو حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی قربانی کس قدر عظیم الشان تھی.عام طور پر کسی شخص کے پاؤں میں کانٹا بھی کچھ جائے یا اس کی ایک انگلی پر بھی زخم آ جائے تو وہ بے چین ہو جا تا ہے.مگر ان کا پہلے ایک بازو کٹ گیا تو انہوں نے اپنے دوسرے بازو میں جھنڈے کو پکڑ لیا اور جب دوسرا باز و بھی کٹ گیا تو اسے رانوں میں تھام لیا.اور جب ایک ٹانگ بھی کٹ گئی تو اس وقت انہوں نے آواز دی کہ دیکھنا اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہ ہونے پائے اس فدائیت اور جاں نثاری کی کیا وجہ تھی ؟ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے دلوں میں یہ یقین رکھتے تھے کہ خدا نے ہمیں ایک عظیم الشان کام کیلئے پیدا کیا ہے.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے لئے اپنی موت تک جد و جہد کرتے چلے جائیں، جب یہ یقین اور ایمان کسی جماعت کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ خدا تعالیٰ کیلئے ہر قسم کی مشکلات کو دیوانہ وار برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی غیرت بھی یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ تو خدا تعالیٰ کیلئے اپنی جانیں قربان کریں اور خدا تعالیٰ ان کی تائید نہ کرے.کونٹ ٹالسٹائی جو روس کا مشہور مصنف گذرا ہے اس کے ایک دادا کے متعلق ذکر آتا ہے کہ وہ شہنشاہ روس کی ڈیوڑھی کا دربان تھا.ایک روز بادشاہ نے ملکی حالات پر غور کرنے کیلئے قلعہ کے دروازہ پر ٹالسٹائی کو کھڑا کیا اور کہا کہ آج خواہ کوئی شخص آئے اس کو اندر نہ آنے دیا جائے.کیونکہ آج میں ملک کیلئے ایک بہت بڑی سکیم سوچ رہا ہوں.ٹالسٹائی پہرے پر کھڑا ہو گیا اور بادشاہ ایک بالا خانہ پر بیٹھ کر سکیم سوچنے لگ گیا.ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ بادشاہ کو شور کی آواز سنائی دی اور وہ ادھر متوجہ ہو گیا.واقعہ یہ ہوا کہ شاہی خاندان کا ایک شہزادہ کسی کام کیلئے بادشاہ سے ملنے گیا مگر دربان نے اسے اندر جانے سے روک دیا اور کہا کہ بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ آج کوئی شخص اندر نہ آئے.دربان کا یہ کہنا تھا کہ شہزادہ طیش میں آ گیا اور اس نے خیال کیا کہ ایک معمولی نوکر کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اتنی گستاخی کرے اور مجھے اندر جانے سے روکے.اس نے کوڑا اُٹھایا اور دربان کو مارنا شروع کر دیا.دربان بیچارہ سر جھکا کر مار کھاتا رہا.جب شہزادے نے سمجھا کہ اب اسے کافی سزا مل چکی ہے تو اس نے پھر اندر جانا چاہا.مگر دربان پھر سامنے آ گیا اور کہنے لگا میں آپ کو اندر نہیں جانے دوں گا.شہزادے کو خیال آیا کہ شاید یہ دربان مجھے پہچان نہیں سکا.اس لئے اس نے دربان سے کہا تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ دربان نے کہا ہاں میں جانتا ہوں آپ شاہی خاندان کے فلاں شہزادہ ہیں.یہ سن کر شہزادے کو اور غصہ آیا کہ با وجود جاننے کے کہ میں شہزادہ ہوں پھر بھی
تاریخ احمدیت 762 جلد ۲۰ یہ مجھے روکنے کی جرات کر رہا ہے چنانچہ اس نے پھر اسے مارنا شروع کیا.بادشاہ یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا.آخر بادشاہ نے زور سے آواز دی کہ ٹالسٹائی ادھر آؤ! یہ سن کر ٹالسٹائی بادشاہ کے پاس پہنچا اور اس کے پیچھے پیچھے شہزادہ بھی غصے سے بھرا ہوا بادشاہ کے پاس پہنچ گیا اور جاتے ہی کہا اس نالائق نے آج مجھے اندر آنے سے روکا ہے.بادشاہ نے ٹالسٹائی سے پوچھا کیا تو نے شہزادے کو اندر آنے سے روکا تھا.اس نے جواب دیا ہاں حضور میں نے روکا تھا.بادشاہ نے کہا کیا تم جانتے تھے کہ یہ شہزادہ ہے؟ ٹالسٹائی نے کہا ہاں حضور مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ شہزادہ ہیں.بادشاہ نے کہا پھر تم نے اسے کیوں روکا.ٹالسٹائی نے کہا چونکہ حضور کا حکم تھا اس لئے میں نے انہیں اندر داخل نہیں ہونے دیا.اس کے بعد بادشاہ نے شہزادے سے پوچھا کہ کیا تم کو اس دربان نے بتایا تھا کہ یہ بادشاہ کا حکم ہے کہ کوئی شخص اندر نہ آئے.شہزادے نے کہا ہاں حضور بتایا تھا.یہ سن کر بادشاہ غصے میں آ گیا اور اس نے کہا ٹالسٹائی یہ لو کوڑا اور اس شہزادے کو اتنے ہی کوڑے مار و جتنے اس نے تم کو مارے تھے.شہزادے نے کہا اے بادشاہ روس کے قانون کے مطابق یہ مجھے نہیں مارسکتا کیونکہ میں فوجی افسر ہوں اور کوئی غیر فوجی فوجی کو نہیں مار سکتا.بادشاہ نے کہا ٹالسٹائی میں تم کو بھی فوجی افسر بنا تا ہوں.تم کوڑا لو اور اس کو سزا دو.شہزادے نے کہا روس کے قانون کے مطابق یہ اب بھی مجھے نہیں مارسکتا.کیونکہ میں جرنیل ہوں اور یہ جرنیل نہیں.بادشاہ نے کہا ٹالسٹائی میں تم کو بھی جرنیل بنا تا ہوں.شہزادے نے کہا بادشاہ قانون روس کے مطابق یہ اب بھی مجھے نہیں مارسکتا کیونکہ میں شاہی خاندان کا شہزادہ ہوں بادشاہ نے کہا ٹالسٹائی میں تم کو بھی کونٹ بنا تا ہوں تم اس کو سزا دو.چنانچہ اسی وقت ٹالسٹائی کونٹ ٹالسٹائی بن گیا.اور بادشاہ نے اس کے ہاتھوں سے شہزادہ کو سزا دلوائی.اب دیکھو بادشاہ نے ٹالسٹائی کو ایک حکم دیا اور جب ٹالسٹائی نے اس کی بجا آوری کیلئے مار کھائی تو بادشاہ کی غیرت جوش میں آ گئی اور اس نے نہ صرف ٹالسٹائی کا بدلہ لیا بلکہ اسے ایک عام آدمی سے کونٹ بنا دیا.اسی طرح جو لوگ خدا تعالیٰ کیلئے قربانیاں کرتے ہیں اور اس کے احکام کی بجا آوری کیلئے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے متعلق بھی اپنی غیرت کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے، اے غریبو! کمزورو اور مفلسو ! تم نے چونکہ میری خاطر ماریں کھائی تھیں.اور میری خاطر صعوبتیں برداشت کی تھیں.اس لئے اب میں بھی تمہیں دنیا پر غلبہ دوں گا اور تمہیں ان انعامات سے حصہ دوں گا جو تمہارے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آ سکتے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ
تاریخ احمدیت 763 جلد ۲۰ اپنے اندر ایمان اور اخلاص پیدا کیا جائے.جب کسی جماعت کے قلوب میں حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو دنیا کی کوئی مخالفت ان کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی.وہ بے شک دنیوی لحاظ کمزور ہوتے ہیں مگر انہیں آسمان سے ایک بہت بڑی طاقت عطا کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان کے روحانی مقاصد میں کامیاب کر دیتا ہے.ہماری جماعت کے افراد کو بھی یہ عہد کر لینا چاہیئے کہ خواہ ہم پر کتنی بڑی مشکلات آئیں اور خواہ ہمیں مالی اور جانی لحاظ سے کتنی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں.پھر بھی جو کام ہمارے آسمانی آقا نے ہمارے سپرد کیا ہے.ہم اس کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کریں گے اور خدائی امانت میں کوئی خیانت نہیں کریں گے.ہمارے سپر د اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہے کہ ہم اس کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کریں اور یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس سے عاجزانہ طور پر عرض کریں کہ اے ہمارے آقا دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ موجود تھے، بڑے بڑے سیاستدان موجود تھے، بڑے بڑے مد بر موجود تھے بڑے بڑے نواب اور رؤسا موجود تھے، بڑے بڑے فلاسفر اور بڑے بڑے حکماء اور علماء موجود تھے.مگر تو نے ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم غریبوں اور بے کسوں کو چنا اور اپنی بیش بہا امانت ہمارے سپر د کر دی.اے ہمارے آقا ہم تیرے اس احسان کو کبھی بھلا نہیں سکتے اور تیری اس امانت میں کبھی خیانت نہیں کر سکتے ہم تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے شہروں اور ویرانوں میں پھریں گے.ہم تیرے نام کو بلند کرنے کیلئے دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے.اور ہر دکھ اور مصیبت کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جائیں گے اگر ہم یہ عزم کر لیں اور دین کیلئے متواتر قربانیاں کرتے چلے جائیں تو یقینا اللہ تعالی ہمیں ضائع نہیں کرے گا.اور اسلام اور احمدیت کو دنیا میں غالب کر دے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم سخت کمزور اور نا طاقت ہیں.مگر ہمارے خدا میں بہت بڑی طاقت ہے.اور خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب اس کے بندے اس کی راہ میں خوشی سے موت قبول کر لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ انہیں دائمی حیات عطا کر دیتا ہے.اور لوگوں کے قلوب ان کی قربانیوں کو دیکھ کر صاف ہونا شروع ہو جاتے ہیں.گویا ان کا خون جماعت کی روئیدگی کیلئے کھا د کا کام دیتا ہے.جس سے وہ بڑھتی اور ترقی کرتی ہے.پس ہماری جماعت کے ہر بچے ہر نو جوان ہر عورت اور ہر مرد کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کے ہمارے سپر د اللہ تعالیٰ نے اپنی با دشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کا جو اہم کام کیا ہے اس سے بڑھ کر دنیا کی اور کوئی امانت
تاریخ احمدیت 764 جلد ۲۰ نہیں ہو سکتی.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے گھروں کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں.بعض لوگ بھیڑوں بکریوں کے گلے کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں.بعض لوگ گورنمنٹ کے خزانہ کا پہرہ دیتے ہوئے مارے جاتے ہیں اور بعض لوگ فوجوں میں بھرتی ہو کر اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں لیکن جو چیز اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کی ہے اس کے مقابلہ میں دنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں...بلکہ ان کو اس سے اتنی بھی نسبت نہیں جتنی ایک معمولی کنکر کو ہیرے سے ہوسکتی ہے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں سرگرمی سے حصہ لو اور اس غرض کیلئے زیادہ سے زیادہ نو جوانوں کو خدمت دین کیلئے وقف کرو تا کہ ایک کے بعد دوسری نسل اور دوسری کے بعد تیسری نسل اس بوجھ کو اُٹھاتی چلی جائے اور قیامت تک اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہراتا رہے.اس عظیم الشان مقصد کی سرانجام دہی کیلئے میں نے بیرونی ممالک کیلئے تحریک جدید اور اندرون ملک کیلئے صد را مجمن احمد یہ اور وقف جدید کے ادارے قائم کئے ہوئے ہیں.دوستوں کو ان اداروں کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنا چاہیئے اور نوجوانوں کو سلسلہ کی خدمت کیلئے آگے آنے کی تحریک کرنی چاہیئے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں سا دھوا اور بھکاری تک بھی اپنے ساتھی تلاش کر لیتے ہیں.پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر تم اس عظیم الشان کام کیلئے دوسروں کو تحریک کرو تو تمہارا کوئی اثر نہ ہو.اس وقت اسلام کی کشتی بھنور میں ہے اور اس کو سلامتی کے ساتھ کنارے تک پہنچانا ہمارا کام ہے.اگر ہم اس کی اہمیت کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں تو ہزاروں نوجوان خدمت دین کیلئے آگے آ سکتے ہیں.ہمیں اس وقت ہر قسم کے واقفین کی ضرورت ہے.ہمیں گریجوایٹوں کی بھی ضرورت ہے اور کم تعلیم والوں کی بھی ضرروت ہے تا کہ ہم ہر طبقہ تک اسلام کی آواز پہنچا سکیں اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ لو گے.تو یقیناً اس کشتی کو سلامتی کے ساتھ نکال کر لے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں ابدی حیات عطا فرمائے گا.تمہارے بعد بڑے بڑے فلاسفر پیدا ہوں گے، بڑے بڑے علماء پیدا ہونگے، بڑے بڑے صوفیاء پیدا ہونگے بڑے بڑے بادشاہ آئیں گے.مگر یا درکھو اللہ تعالیٰ نے جو شرف تمہیں عطا فرمایا ہے بعد میں آنیوالوں کو وہ میسر نہیں آ سکتا جیسے عالم اسلام میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر جو مرتبہ رسول کریم ﷺ کے ایک چھوٹے سے چھوٹے صحابی کو بھی ملا.وہ ان بادشاہوں کو نصیب نہیں ہوا.ان بادشاہوں اور نوجوانوں کو بیشک دنیوی دولت ملی مگر اصل چیز تو صحابہ ہی
تاریخ احمدیت 765 جلد ۲۰ کے حصہ میں آئی.باقی لوگوں کو صرف چھلکا ہی ملا.یہ تقسیم بالکل ویسی ہی تھی جیسے غزوہ حنین کے بعد رسول کریم اللہ نے مکہ والوں میں اموال غنیمت تقسیم کئے تو ایک انصاری نوجوان نے بیوقوفی سے یہ فقرہ کہہ دیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال مکہ والوں کو دیدیا گیا ہے.رسول کریم ﷺ کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے تمام انصار کو جمع کیا اور فرمایا اے انصار ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے ایک نو جوان نے یہ کہا ہے کہ خون تو ہماری صلى الله تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال غنیمت محمد رسول اللہ اللہ نے مکہ والوں کو دیدیا ہے.انصار نہایت مخلص اور فدائی انسان تھے رسول کریم کی یہ بات سن کر ان کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے کہا.یا رسول اللہ ہم ایسا نہیں کہتے ہم میں سے ایک بیوقوف نو جوان نے غلطی سے یہ بات کہہ دی ہے.رسول کریم نے فرمایا اے انصار ! اگر تم چاہتے تو تم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے فتح و کامرانی بخشی اور اسے عزت کے ساتھ اپنے وطن میں واپس لایا.مگر جب جنگ ختم ہو گئی اور مکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے قبضہ میں آ گیا تو مکہ والے تو بکریوں اور بھیڑوں کے گلے ہانک کر اپنے گھروں میں لے گئے اور انصار خدا کے رسول کو اپنے گھر میں لے آئے.اس طرح بیشک صحابہ کے بعد آنیوالوں کو بڑی بڑی دولتیں ملیں.حکومتوں پر انہیں قبضہ ملا.مگر جو روحانی دولت صحابہ کے حصہ میں آئی وہ بعد میں آنیوالوں کو نہیں ملی.پس خدمت دین کے اس اہم موقعہ کو جو تمہیں صدیوں کے بعد نصیب ہوا ہے ضائع مت کرو اور اپنے گھروں کو خدا تعالیٰ کی برکتوں سے بھر لو.میں نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں جب کام شروع کیا تھا تو میرے ساتھ صرف چند ہی نو جوان رہ گئے تھے اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو قابل اور ہوشیار سمجھتے تھے سب لا ہور چلے گئے تھے اور ہمارے متعلق خیال کرتے تھے کہ یہ کم علم اور نا تجربہ کار لوگ ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ وہی لوگ جن کو وہ نا تجربہ کار سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے انہی سے ایسا کام لیا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے.اس وقت میری عمر چھبیس سال تھی، میاں بشیر احمد صاحب کی عمر اکیس ساڑھے اکیس سال تھی.اسی طرح ہمارے سارے آدمی ہیں اور تمہیں سال کے درمیان تھے مگر ہم سب نے کوشش کی اور محنت سے کام کیا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے جماعت کے کام کو سنبھال لیا.اسی طرح اب بھی نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ سلسلہ کی خدمت کا تہیہ کر لیں اور دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کریں اگر کسی نے صرف بی.اے یا ایم.اے کر لیا اور دینی تعلیم سے کو را رہا.تو ہمیں اس کی دنیوی تعلیم کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے.
تاریخ احمدیت 766 جلد ۲۰ غیر مبائعین کے الگ ہونے کے بعد میرے ساتھ جتنے نو جوان رہ گئے تھے وہ کالجوں میں بھی پڑھتے تھے مگر وقت نکال کر دینی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے.چنانچہ چوہدری فتح محمد صا.سیال اور صوفی غلام محمد صاحب اپنے پرائیویٹ اوقات میں دینی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ایم.اے اور بی.اے بھی کر لیا اور دینی تعلیم بھی مکمل کر لی.میں سمجھتا ہوں اگر اب بھی ہم پوری طرح اس طرف توجہ دیں تو چند سال کے بعد ہی ہمیں ایسے مخلص نوجوان ملنے شروع ہو جائینگے جو انجمن اور تحریک کے کاموں کو سنبھال سکیں گے.پس سلسلہ کی ضروریات اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے حوصلوں کو بلند کرو اگر انسان کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے ہی اپنے حوصلہ کو گرا دے اور سمجھے کہ میں کچھ نہیں کر سکتا تو یہ اسکی غلطی ہوتی ہے.بیشک ایک انسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ دنیا کو ہلا سکے لیکن وہ ہلانے کا ارادہ تو کر سکتا ہے.اگر تم اپنے حوصلوں کو بلند کرو گے اور ستی اور غفلت کو چھوڑ کر اپنے اندر چستی پیدا کرو گے تو تھوڑے عرصہ میں ہی تم میں سے کئی نوجوان ایسے نکلیں گے جو پہلوں کی جگہ لے سکیں گے.میں نے تحریک جدید میں نو جوانوں کو لگا کر دیکھا ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں بلکہ شروع میں میں جن کے متعلق سمجھتا تھا کہ ممکن ہے وہ اس کام کے اہل ثابت نہ ہو سکیں انہوں نے بھی جب محنت کی تو اپنے کام کو سنبھال لیا اور اب وہ خوب کام کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر عزم تھا اور انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہر ممکن کوشش کے ساتھ دین کی خدمت کریں گے.آئندہ بھی ہماری جماعت کے نو جوانوں کو اپنی زندگیاں وقف کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے، کیونکہ ہمیں اب سلسلہ کی ضروریات کیلئے بہت سے نئے آدمیوں کی ضرورت ہے.اور یہ ضرورت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے.اس وقت ہمیں ایسے نو جوان درکار ہیں جن کو ہم انگلستان، امریکہ اور دوسرے یورپین ممالک میں بھیج سکیں اسطرح افریقہ وغیرہ کے لئے ہمیں سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت ہے.اس کے بعد ان کی جگہ نئے آدمی بھیجنے اور انہیں واپس بلانے کیلئے ہمیں اور آدمیوں کی ضرورت ہوگی اور یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتا چلا جائیگا.پس نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ خدمت دین کیلئے آگے آئیں اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں بھی وقف کی تحریک کو مضبوط کریں.ہمارے کاموں نے بہر حال بڑھنا ہے لیکن انہیں تکمیل تک اسی صورت میں پہنچایا جا سکتا ہے جب زیادہ سے زیادہ نو جوان خدمت دین کیلئے آگے آئیں.ان نصائح کے ساتھ میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ
تاریخ احمدیت 767 جلد ۲۰ وہ اپنے فضل سے ہمارے کاموں میں برکت ڈالے اور وہ بوجھ جسے ہمارے کمزور اور نا تواں کندھے نہیں اُٹھا سکتے اسے خود اُٹھا لے اور ہمیں اپنی موت تک اسلام اور احمدیت کی خدمت کی تو فیق عطا کرتا چلا جائے.ہم کمزور اور بے بس ہیں لیکن ہمارا خدا بڑا طاقتور ہے.اس کے صرف گن کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ زمین و آسمان میں تغیرات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اس لئے آؤ ہم اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کریں کہ وہ ہم پر اپنا فضل نازل فرمائے.ہمیں اپنی رضا اور محبت کی راہوں پر چلائے اور ہمارے مردوں اور عورتوں اور بچوں کو اس امر کی توفیق بخشے کہ وہ دین کی خدمت کیلئے زیادہ سے زیادہ قربانیوں سے کام لیں اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ انہیں منافقت سے بچائے.اُن کے ایمانوں کو مضبوط کرے.ان کے دلوں میں اپنا سچا عشق پیدا کرے اور انہیں دین کی بے لوث خدمت کی اس رنگ میں تو فیق بخشے جس رنگ میں صحابہ کرام کو ملی.اور اللہ تعالیٰ اُنکی آئندہ نسلوں کو بھی دین کا سچا خادم اور اسلام کا بہادر سپاہی بنائے اور انہیں ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ۱۲۵
تاریخ احمدیت 768.ے.-^ و.حواشی ترجمہ از گیانی عباد اللہ صاحب ریسرچ سکالر سکھ مذہب الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۵ الفضل ۲۳ / دسمبر ۱۹۶۰ ء صفحہ ۱.۴ الفضل ۱۹ را کتوبر ۱۹۶۰ ، صفحه یم الفضل ۲۵٬۲۳ /اکتوبر ۱۹۶۰ء رساله مصباح ربوہ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۲-۳ تاریخ انصار الله ، صفحہ ۱۳۸ از پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب قائد تعلیم مجلس انصاراللہ مرکز یہ ۱۹۷۸ء رسالہ انصار اللہ نومبر ۱۹۶۰ ء سر ورق صفحه ۴ بدر ۹ر فروری ۱۹۶۱ صفحه ۱ ماہنامہ انصار اللہ نومبر ۱۹۶۲ء ماہنامہ الفرقان ربوہ نومبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۴ - ۷ الفضل یکم نومبر ۱۹۶۰ ءصفحہ ۱ رسالہ انصار اللہ ربوہ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۴ - ۸ الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۶۰ ء صفحه ۱ ۱۴ الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۶۰ ، صفحه ۱ -۱۵ الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۶۰ ، صفحہ ۱ ۱۶.الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۶۰ء صفحه ۴ - الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۵ ۱۷ بحوالہ الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۳ _IA بدر قادیان ۲۹ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۳-۴ ۱۹.الفضل ۲۱٬۱۹ / جنوری ۱۹۶۱ء ۲۰.۲۱.موضوع ” قرآن مجید بمقابله دیگر الہامی کتب موضوع ” اجتہاد کی ضرورت الفضل ۲۴؍ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۱.۴ الفضل ۳۱ ؍ دسمبر ۱۹۶۰ ، صفحه ۱ ۲۴ الفضل ۳۱ / دسمبر ۱۹۶۰ ء صفحہ ۱.۴ ۲۵ - الفضل ۷ جنوری ۱۹۶۱ء صفحه ۳ - ۵ جلد ۲۰
تاریخ احمدیت 769 جلد ۲۰ نواں باب ۱۹۶۰ء میں وفات پانے والے بعض جلیل القدر اصحاب مسیح موعود اور دیگر مخلصین جماعت فصل اول حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے بانی احمد یہ مشن انگلستان ( ولادت ۱۸۸۷ء بیعت ۱۸۹۹ء وفات ۲۸ فروری ۱۹۶۰ء) حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سلسلہ احمدیہ کے ان ممتاز اور نامور بزرگوں کی صفِ اوّل میں شامل تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قریباً نصف صدی تک ایسی شاندار اور نمایاں دینی خدمات کی توفیق بخشی کہ آنے والی نسلیں قیامت تک آپ پر فخر کرتی چلی جائیں گی.حضرت چوہدری صاحب ۱۸۸۷ء میں اپنے آبائی وطن جوڑا کلاں تحصیل قصور میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی یہیں پائی.آپ کے والد حضرت چوہدر ی نظام الدین صاحب نے ۱۸۹۷ ء میں بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ کا بیان ہے وو والد صاحب کی بیعت کے بعد علاقہ اور گاؤں میں بہت شور اٹھا.اس گاؤں میں میرا ایک کلاس فیلو بھی تھا ہم دونوں نے مشورہ کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو حق ہے وہ ہم پر واضح کر دے.چنانچہ ہم دعا کرتے رہے میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک عظیم الشان پہاڑ ہے جیسا کہ ہمالیہ کے پہاڑ ہیں اس میں سے کھود کر ایک تخت بنایا گیا
تاریخ احمدیت 770 جلد ۲۰ ہے اور اس کے سامنے ایک بہت بڑا چشمہ نہایت ہی شفاف پانی کا بہہ رہا ہے جو اتنی تیزی سے بہہ رہا ہے کہ تیزی کی وجہ سے اس میں لہر اور تموج پیدا کرتا ہے اور حضوڑ اس تخت پر چوکڑی مار کر بیٹھے ہیں...حضور نہایت ہی رقت سے اور وجد کی حالت میں فارسی کے کچھ اشعار پڑھ رہے ہیں جن میں یہ شعر بھی ہے.ایں چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم یک قطره زبحر کمال محمد است.....اس وقت میرے دل میں گویا یہ احساس ہے کہ حضور اللہ تعالیٰ اور رسول کریم کے عشق میں یہ شعر پڑھ رہے ہیں اور آپ سچے ہیں.چہرہ نہایت نورانی ہے پھر ایسا ہوا کہ میں نے جون ۱۸۹۹ء میں قادیان جا کر بیعت کی.میرے والد صاحبنے مجھے بھیجا تھا اس موقعہ پر حضرت مرزا مبارک احمد صاحب کا عقیقہ بھی تھا.قادیان میں میں کئی دن رہا اور حضور کے ساتھ کھانا کھایا اور مجھے ایسا موقعہ مل گیا کہ گول کمرہ میں حضور مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے.ایک دن میں ایسی جگہ بیٹھا کہ میرے اور حضور کے درمیان کوئی اور شخص نہیں تھا مستقل طور پر میں ۱۹۰۰ ء کے دسمبر میں قادیان چلا گیا تھا اور وہاں سکول میں داخل ہو گیا تھا.“ آپ اُن دنوں پانچویں جماعت میں تھے.آپ نے میٹرک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے کیا بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پھر علیگڑھ سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی.ابھی آپ ایف اے میں تھے کہ سید نا حضرت مسیح موعود نے ستمبر ۱۹۰۷ ء میں وقف زندگی کی تحریک فرمائی.اس تحریک پر جن خوش نصیب جوانوں کو لبیک کہنے کی توفیق ملی ان میں آپ بھی شامل تھے.جب آپ کی درخواست حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوئی تو حضور نے آپ کا وقف قبول فرما لیا.اور آپ ایم اے پاس کرنے کے بعد قادیان میں مستقل طور پر ہجرت کر کے آ گئے.وسط ۱۹۱۳ء میں حضرت خلیفہ امسیح الاوّل نے آپ کو خواجہ کمال الدین صاحب کی امداد کیلئے دو کنگ (انگلستان ) بھجوایا آپ ۲۵ / جولائی ۱۹۱۳ء کو لنڈن پہنچے اور خواجہ صاحب کے ساتھ تبلیغی جد و جہد کا آغاز کر دیا.جناب خواجہ صاحب غیر احمدیوں کے چندہ اور امداد کے طلب گار تھے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود کے ذکر کو سم قاتل قرار دے
تاریخ احمدیت 771 جلد ۲۰ رکھا تھا یہ نظریہ آپ کی طر ز تبلیغ میں سب سے بڑی روک بننے لگا کہ اسی دوران سید نا حضرت خلیفہ اول مولانا نورالدین کا وصال ہو گیا اور آپ جماعت مبائعین میں شامل ہو گئے اور اس سلسلہ میں و و کنگ سے ۲۷ / مارچ ۱۹۱۴ ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا " بسم اللہ الرحمن الرحیم جناب حضرت میا نصا حب محمدہ ونصلی ( علی رسولہ الکریم ) السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ مولوی شیر علی صاحب کی ایک تار میرے نام آئی تھی.کہ جناب کو جماعت احمد یہ نے خلیفہ اصبح تجویز کیا ہے.اللہ تعالیٰ اس انتخاب کو مبارک کرے اور تمام جماعت کے لئے بھی مبارک کرے.میں بھی جناب کو خلیفہ مانتا ہوں.اور یہ خط اس لئے لکھتا ہوں کہ اپنی عقیدت دلی کا اظہار کروں.میری اپنی حالت یہ ہے کہ مہینہ کے قریب بالکل آرام رہا.ایک ہفتہ سے نیوریلجیہ سے تکلیف ہے.اور اس سے آنکھوں کو بھی تکلیف ہو گئی ہے.تا ہم میرا اپنا یہی خیال ہے کہ عارضی بات ہے.اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جائیگا.لیکن حضور کی طرف سے میرے خطوط کا کوئی جواب نہیں آیا.اس لئے حیران ہوں.مجھے افسوس ہے کہ جناب کو میری وجہ سے تکلیف ہوئی.آئندہ میں جناب کے لئے.تکلیف کا باعث نہیں ہونا چاہتا.جہاں تک روپے کا معاملہ یا خرچ کا سوال ہے.میں خواجہ صاحب سے کسی قسم کا تعلق رکھنا پسند نہیں کرتا ہوں.اور نہ ہی میں ان کی نوکری کرنا چاہتا ہوں.اس لئے میرا اپنا خیال یہی ہے کہ اپریل یا مئی میں یہاں سے واپس آ جاؤں.غالب امید ہے کہ خواجہ صاحب واپسی کے لئے روپیہ بطور قرضہ دیدینگے.اس لئے جناب تکلیف نہ فرما ئیں.پادری وا ئینوسخٹ نے یہاں دو کنگ میں پہنچ کر ہمارے برخلاف لیکچر دئے تھے.اس کے لیکچروں کے جواب میں میں نے دو خط یہاں کے دو لوکل اخبارات میں شائع کروائے ہیں.ان میں ایک اس خط کے ساتھ بند کرتا ہوں.دعا کی سخت ضرورت ہے خاص کر آنکھوں کی صحت کے لئے.والسلام را قم خاکسار فتح محمد از و و کنگ مورخہ ۲۷ / مارچ ۱۹۱۴ء ازاں بعد تحریر کیا کہ
تاریخ احمدیت پر 772 جلد ۲۰ " حضرت مسیح موعود کے نام کو چھپانے سے مجھے سخت نفرت تھی اور واقعہ میں اس طریق تبلیغ میں مشکلات ہیں.خواجہ صاحب بھی مخالفت کریں گے اور دوسرے مسلمان عام طور پر مخالفت کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے میں کام شروع کرنا چاہتا ہوں کامیابی اور نا کامی اللہ کے ہاتھ میں ہے“.بہر کیف آپ اس بے سروسامانی میں و و کنگ کو چھوڑ کر لنڈن تشریف لے آئے اور.ہیریڈل روڈ پاپلر واک کے اندر کرایہ کے ایک مکان میں جماعت احمدیہ کے انگلستان مشن کی بنیا د رکھی.اس وقت جماعت احمد یہ لنڈن آپ کے علاوہ صرف چار ممبروں مشتمل بھی ا.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب.۲.چوہدری عبد اللہ خاں صاحب..عبد العزیز صاحب سیالکوٹی.۴.لیلی زینب ایک نومسلمہ لیڈی.ان دنوں جماعت کے انگریزی لٹریچر کی سخت قلت تھی.آپ کے پاس دی ٹیچنگز آف اسلام اسلامی اصول کی فلاسفی ) اور دی میسج آف پیس ( پیغام صلح ) کی صرف چند کا پیاں تھیں جو آپ نے مختلف انگریزوں کو پڑھنے کے لئے دیں.بعد ازاں قادیان سے رساله ریویو آف ریلیجنز‘ انگریزی کی چند کا پیاں بھی آنی شروع ہو گئیں جن سے علمی طبقہ تک آہستہ آہستہ احمدیت کی آواز پہنچنے لگی.تبلیغ کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ آپ کے وہ فاضلا نہ لیکچر تھے جو آپ نے انگلستان کی مختلف سوسائیٹیوں اور کلبوں میں ان کے اخراجات پر انہی کے مراکز میں جا کر دئے.اس سلسلہ میں آپ نے بڑی محنت سے ۱۴ لیکچر تیار کئے جن میں سے بعض کے عنوانات یہ تھے ا.اسلام ۲.سلسلہ احمدیہ اور اسلام ۳.الہام ۴.ایمانی ترقی کے مدارج ۵.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات ۶.قرآن شریف کی عبارت اور تعلیم پر بحث اور چند آیتوں کی تفسیرے مسیح ہندوستان میں ۸.یہودیوں کی گم شدہ اقوام وغیرہ 1.یہ سب لیکچر آپ نے طبع کرا کے ملک بھر کی مشہو رسوسائیٹیوں کو بھجوا دئے.پہلی جنگ کے باعث ہر طرف ابتری سی پھیلی ہوئی تھی بایں ہمہ ملک کی متعد دسوسائیٹیوں نے غیر معمولی دلچسپی کا ثبوت دیا اور آپ کو اپنے پلیٹ فارم پر تبلیغ کے بہترین مواقع فراہم کئے.آپ کا سب سے پہلا کامیاب لیکچر الہام پر فوکسٹن میں ہوا جسے خدا نے بہت قبولیت بخشی جس کے بعد آپ نے فلہم لائبریری، تھیو سافی ہال ایسٹ پیریڈ تھیو سافیکل سو سائیٹی کے مرکز اور ساؤتھ ہی اور برمنگھم میں لیکچر دئے اور ان کی خبریں اخبار
تاریخ احمدیت ۴ 773 جلد ۲۰ دی ہیروگیٹ ( GATE THE HERO) اور دی ایوننگ نیوز THE ) (EVENING NEWS میں شائع ہوئیں اسی دوران حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ۵/اکتوبر ۱۹۱۵ء کو دوسرے مشنری کی حیثیت سے لنڈن تشریف لے آئے اور آپ کا ہاتھ بٹانے لگے.آپ نے مقررہ لیکچر بھی دیئے اور حضرت قاضی صاحب کی معیت میں سکاٹ لینڈ کا کامیاب دورہ بھی کیا.آپ کی تبلیغی کوششوں کا پہلا پھل مسٹر کو ریو (MR.CORIO) ایک جرنلسٹ تھے جو اسلام لائے اور جن کا اسلامی نام بشیر کو ریو رکھا گیا.ان کے بعد قریباً ایک درجن انگریز مسلمان ہوئے.حضرت چوہدری صاحب کم و بیش ڈھائی سال تک تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد ۲۹ / مارچ ۱۹۱۶ ء کو قادیان واپس تشریف لائے..۱۴ آپ نے انگلستان مشن کے قیام اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ” جب میں نے یہاں سے روانہ ہونے کا قصد کیا تو میری راہ میں بہت سی مشکلات ڈالی گئیں.مگر اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی اور میں اپنی دلی خواہش کو پورا کر سکا.سب سے بڑی روک جو بیان کی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ ایک نوجوان کیلئے انگلستان میں جانا بہت سے ابتلاؤں کا موجب ہوسکتا ہے اسکے لئے بمبئی پہنچ کر میرے دل میں ڈالا گیا کہ سورہ یوسف کا وظیفہ کروں.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ میں بارہ بارہ بار ایک دن میں یہ سورۃ تلاوت کرتا اس سے مجھے بہت ہی فائدہ ہوا.اس پر تدبر کرنے کا خوب موقعہ ملا اور وظیفہ کی غرض بھی یہی تھی.میں نے دیکھا کہ یوسف علیہ اسلام کے قومی مجھ سے زیادہ مضبوط تھے وہ شادی شدہ بھی نہ تھے.ایک شہزادی اُنکو اپنی طرف بلاتی ہے.وہ اُنکی مالکہ ہے.محسنہ ہے.انکو سزا بھی دلا سکتی ہے.مجبوراً اس کے پاس بھی ہر وقت رہنا پڑتا ہے پھر با وجودا سکے یوسف علیہ السلام ہر طرح محفوظ رہے تو میں جو کہ شادی شدہ اور دو بیویاں رکھتا ہوں.اور ان مشکلات میں بھی نہیں.جو حضرت یوسف کو تھیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ میں محفوظ نہ رہوں.یہ بات میخ آهنی کی طرح میرے دل میں گڑ گئی.اور میں خدا کے فضل سے بڑی جرات کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ مجھے جن باتوں سے ڈرایا جاتا تھا.ایک بھی مجھے پیش نہ آئی اور کبھی خیال تک بھی نہیں آیا.نہ صرف خود گناہ سے بچا.بلکہ میں نے کئی روحوں کو احمدیت کی رہنمائی کی.وہاں پہلے پہلے مجھے خواجہ کمال الدین صاحب کے ساتھ کام کرنا پڑا...میں اپنی ذات کے متعلق ہر ایک تکلیف برداشت کر سکتا تھا مگر ایک اصولی اختلاف جو طر ز تبلیغ میں پیش آ رہا
تاریخ احمدیت 774 جلد ۲۰ تھا اس کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا وہ حضرت مسیح موعود کا ذکر ضرورت کے وقت کرنا بھی غیر احمد یوں کیطرف سے حصول چندہ میں مانع سمجھتے تھے اور یہ خوف بھی تھا کہ اس پر ہنسی ہو گی اور میں اس کو بہت ضروری سمجھتا تھا.دوسری مجھے یہ شکایت تھی کہکسی سے اختلاف ہے تو ہو.اس کی تردید بھی ہو اس سے علیحد گی بھی ہوتی ہے تو ہو.مگر کم از کم میرے سامنے اسے گالیاں تو نہ دی جائیں.آخری بات بھی ایک حد تک قابل برداشت ہو سکتی تھی مگر پہلی بات بہت مشکلات میں ڈالنے والی تھی.کیونکہ اس قدر بھی منظور نہیں کیا جاتا تھا کہ میں وہ کنگ سے باہر اپنے طور پر اپنے ذاتی رسوخ و کوشش سے کام لیکر اگر کہیں لیکچر دوں تو اس میں مسیح موعود کا ذکر کر دوں پھر اس کے ساتھ ہی خلافت کا جھگڑا بھی پیش آ گیا میں کہتا تھا کہ قیام خلافت سے مطلقاً انکار احمدی جماعت کی ترقی میں سخت حارج ہے.کیونکہ بغیر ایک شخص کی ماتحتی کے نظام وحدت قائم نہیں رہ سکتا.اور جب تک کوئی قوم نظام کے نیچے کام نہیں کرتی.وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی...آخر میں الگ ہوا اور میری مضطرا نہ دعاؤں کے جواب میں ایک صبح اللہ نے کشف کی حالت کہو یا الہام سے ممتاز کیا اور میں نے عالم بیداری میں یہ آواز زور سے سنی کہ میاں محمود کی بیعت پشاور سے لیکر بہار تک کے لوگ کر لیں گے اور پھر آواز آئی.اللہ اکبر.اللہ اکبر میں اس کے معنی نہیں سمجھا مگر اس کے بعد میں نے دیکھا کہ غیر معمولی طور پر مجھ پر علوم کا انکشاف ہوا اور لیکچر دینے کے لئے میرا سینہ کھول دیا گیا ورنہ میرے لئے یہ بات بہت ہی مشکل بات تھی.چار ماہ تو مجھے خط و کتابت اور رسوخ پیدا کر نے میں لگ گئے.باقی ایک سال مجھے کام کرنے کا موقعہ ملا اور وہاں کے لوگ کام کرنے میں ایسا انہاک رکھتے ہیں کہ اتوار ہی کو کوئی لیکچر ہو سکتا ہے.اس طرحپر ۴۸ لیکچر ہو سکتے ہیں مگر میرے ۵۴ لیکچر ہوئے کیونکہ بعض سوسائیلیوں نے مجھے لکھا کہ آپ ایک لیکچر ہفتہ کی شام کو دیں اور ایک اتوار کو.ایک لیکچر قابل ذکر ہے جو مسئلہ الہام و وحی پر تھا جسے سنکر ایک دہریہ نے پہلے مجھے پر کچھ ٹھٹھا کیا.مگر تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا اور وہ کہنے لگا کہ آپ کے دلائل نہایت معقول اور زبردست ہیں.میں خدا کو نہیں مانتا تھا.اب مانتا ہوں.پھر اس کی استدعا پر میں نے اسے حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی بتائی.جو ابھی پوری نہیں ہوئی تھی.جب جنگ شروع ہوئی اور اخبارات میں بعینہ وہی فقرات چھپنے لگے جو میں نے حضرت اقدس کی نظم اور عبارت سے بتائے تھے تو وہ احمد پر ایمان لایا.اور اب مخلص احمدی ہے اور پر جوش مبلغ.پھر ایک اور لیکچر قابل ذکر ہے جس کے خاتمہ پر بوڑھا پریذیڈنٹ جو عیسائی تھا بول
تاریخ احمدیت 775 جلد ۲۰ اُٹھا کہ اگر اسلام یہ ہے جو تم نے بیان کیا تو وہ عیسائیت سے بہت ہی اعلیٰ ہے.پھر ایک یہودی تھا جس کو میں نے ٹیچنگز آف اسلام دی اس کے پڑھنے پر وہ احمدی ہو گیا.بعض لوگ ایسے بھی احمدی ہوئے.جو خدا تعالیٰ کی ہدایت سے میرے پاس پہنچے.ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا مجھے دوبار رویاء میں کہا گیا ہے کہ ایک ہندوستانی یہاں لیکچر دے گا.جو مذہب وہ بتائے وہی حق ہے اُسے قبول کرنا.چنانچہ یہ شخص بھی احمدی ہو گیا.ایک خاتون نے اپنا رویا ء سنایا کہ میں ایک مشرقی ملک میں گئی ہوں اور ایک دربار ہے جس کے تین حلقے ہیں اور میں تیسرے حلقے میں بیٹھی ہوں میں نے اُسے کہا کہ مسیح موعود خلیفہ اول کے بعد اب خلیفہ ثانی ہیں ان کی بیعت میں داخل ہو گی.یہ خاتون بھی احمدی ہے اور حضرت اقدس سے اس کی محبت کا یہ حال ہے کہ تقریباً ہر وقت یہی ذکر کرتی رہتی ہے.ان احمدیوں میں سے جو خدا کے فضل سے میرے تعلق کے سبب ہوئے.تین ایسے مرد ہیں جو رائٹر ہیں.جن کا پیشہ ہی یہی ہے کہ بذریعہ تحریر و تصنیف وجہ معاشپید ا کرنا وہ سلسلہ احمدیہ کے لئے بہت مفید کام دے سکتے ہیں اور عمر میں بھی جوان نہیں بلکہ پختہ کار ہیں.حضرت چوہدری صاحب دوبارہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ۱۵؍ جولائی ۱۹۱۹ ء کو انگلستان کے لئے روانہ ہوئے.اور دو برس تک قیام فرما ر ہے.اس عرصہ میں آپ نے نجی ملاقاتوں، خط و کتابت لیکچر، تقسیم لٹریچر اور دیگر ممکن ذرائع سے اسلام واحمدیت کے 14 وو ۱۸ 66 نور کو پھیلانے کی بھر پور کوششیں کیں.ملک کے بعض رسائل مثلاً '' برٹش امپائر یونین میں مضامین لکھے.مشہور صحافیوں سے رابطہ قائم کیا.ہائیڈ پارک میں سوال و جواب کا سلسلہ برابر جاری رکھا نیز سپر پچولسٹ سوسائیٹی کے زیر اہتمام کامیاب لیکچر دئے.دوران قیام آپ نے فرانس کا ایک تبلیغی سفر بھی کیا اور فرانس میں مقیم مسلمانوں تک پیغام احمدیت پہنچایا اور تبلیغی لٹریچر دیا.آپ کے ہمراہ ایک انگریز نو مسلم ڈاکٹر عباد اللہ بر نیڈن ( پی.ایچ.ڈی.بی.ڈی ) بھی تھے جنہوں نے فرانسیسی ترجمان کے فرائص انجام دئے.جنوری ۱۹۲۰ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے لنڈن میں خانہ خدا کی تعمیر کے لئے تحریک فرمائی جس پر جماعت نے پُر جوش رنگ میں لبیک کہا اور چوہدری صاحب نے حضور کی زیر ہدایت اگست ۱۹۲۰ ء میں لنڈن کے محلہ پینٹی ساؤتھ فیلڈ میں ایک قطعہ زمین مع ایک مکان کے ۲۲۲۳ پونڈ میں خریدا جو قریباً ایک ایکڑ پر مشتمل تھا.اس عمارت کی مرمت اور ۲۲
تاریخ احمدیت 776 جلد ۲۰ ۲۴ فرنیچر وغیرہ پر قریباً ایک ہزار پونڈ صرف ہوا.۲۹ دسمبر ۱۹۲۰ء کو آپ رہائشی مکان واقع سٹار سٹریٹ نمبر ۴ سے اس عمارت میں منتقل ہو گئے.۶ رفروری ۱۹۲۱ء کو اس نئے دار التبلیغ کا شاندار افتتاح عمل میں آیا.اس موقع پر ہندوستانی ، ایرانی ، نائیجیرین اور یورپین مسلمانوں کے علاوہ مشہور اخباروں کے نمائندے اور بعض سوسائیٹیوں کے سیکرٹری بھی موجود تھے اسی طرح پر سچنگ آف اسلام کے مصنف سرٹی ڈبلیو آرنلڈ بھی.چوہدری ' صاحب کی کوشش سے دار التبلیغ لنڈن کے تار کا پتہ "ISLAM ABAD LONDON" الفاظ میں رجسٹرڈ ہوا.الغرض بہت سی دینی خدمات بجا لانے کے بعد آپ واپس ہندوستان کے لئے روانہ ہوئے اور حج بیت اللہ سے مشرف ہونے اور شریف مکہ سے ملاقات کے بعد ۱۶ ستمبر ۱۹۲۱ء کو قادیان پہنچے جہاں ایک جم غفیر نے آپ کا استقبال کیا.۱۹۲۲ء میں مجلس شوری کا آغاز ہوا.اس پہلی تاریخی مجلس شوری میں آپ ناظر ۲۵ ۲۷ اشاعت و تربیت کی حیثیت سے شامل ہوئے.۱۹۲۳ء میں ملکا نہ قوم میں آریوں کی طرف سے شدھی کی تحریک زور شور سے اٹھ کھڑی ہوئی.حضرت مصلح موعود نے مسلمانوں کو ارتداد کے اس طوفان سے بچانے کے لئے تبلیغی جہاد کا اعلان کیا اور آپ کو امیر المجاہدین" مقرر فر مایا.مخلصین جماعت نے اس فتنہ کے خلاف وسیع پیمانہ پر مورچہ بندی کی نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد آریوں کا منصوبہ نا کام ہوا اور ہزاروں ملکانے جو اندرونی اور بیرونی دباؤ کی تاب نہ لا کر مرتد ہو گئے تھے دوبارہ داخل اسلام ہو گئے جس پر ہندوستان کے مسلم پریس نے زبر دست خراج تحسین ادا کیا اور اخبار زمیندار (لاہور) اخبار وکیل (امرتسر) اخبار ہمدم ( لکھنؤ ) اخبار مشرق ( گورکھپور ) اور اخبار نجات ( بجنور ) نے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارناموں پر شاندار نوٹ لکھے.یہی وہ معرکہ تھا جس کے دوران آریوں کو پہلی بار جماعت احمدیہ کی تبلیغی قوت و طاقت کا احساس ہوا اور انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ بلا مبالغہ احمدیہ تحریک ایک خوفناک آتش فشاں پہاڑ ہے.تحریک شدھی کے خلاف چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے بحیثیت امیر المجاہدین کس جذ بہ ایمانی اور جوش و خروش کے ساتھ جہاد کیا ؟ اس کی تفصیل جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر کپور تھلوی کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے فرماتے ہیں.۱۹۲۳ میں تحریک شدھی زوروں پر تھی ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں ایک کھلبلی مچی ہوئی تھی اور ہر طرف سے جماعت احمدیہ کو پکارا جاتا تھا.اس پکار میں زمیندار ایسا ۲۸
تاریخ احمدیت 777 جلد ۲۰ مخالف سلسلہ اخبار بھی شامل تھا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس فتنے کے خلاف مہم شروع کی تو چوہدری فتح محمد صاحب مرحوم اس کے جرنیل مقرر ہوئے.کام نہایت مشکل تھا.ہزاروں مسلمان کہلانے والے اسلام سے منحرف ہو کر آریوں کی آغوش میں جا چکے تھے اور لاکھوں جانے والے تھے.مجلس مشاورت قادیان میں ہوئی اور ہمارے اولو العزم امام نے یہاں تک تہیہ کیا کہ میری کل جماعت کی جائیداد تخمیناً دو کروڑ روپیہ کی ہو گی.اگر ضرورت پڑی تو یہ سب املاک و اموال خدا کی راہ میں وقف کرنے سے میں اور میری جماعت دریغ نہ کریں گے.شہر آگرہ میں ایک کرایہ کی کوٹھی میں دار التبلیغ قائم ہوا.اس کے ایک حصے میں چوہدری صاحب معه اهل و عیال مقیم تھے.دوسرے حصے میں مبلغین جماعت آ کر ٹھہر تے اور اپنے اپنے مقررہ مقام پر روانہ ہو جاتے.سرکاری ملازم.تاجر ٹھیکیدار.وکیل.عہد یدار.علماء ہر طبقے کے احمدی والہا نہ خدمت دین حق ) میں مصروف تھے.خاکسار نے دیکھا کہ چوہدری صاحب مرحوم اپنے بچے صالح محمد کو گود میں لئے معمولی سے معمولی ملکانے کے ساتھ کھڑے ہوئے.گھنٹوں گفتگو فرما رہے ہیں.یہ دلداری ایسی تھی کہ ملکا نے چوہدری صاحب سے ملکر ہی تسلی اور اطمینان پاتے تھے.چوہدری صاحب مرحوم کا تعہد حال ہمارے لئے خوشی اور تعجب کا موجب ہوتا تھا.تمام علاقے میں ہنگا مے بر پا تھے.ہر طرف رواروی اور ہما ہمی تھی.اگر آج چوہدری صاحب موضع پر کھم میں ایک مسجد کی بنیا درکھ رہے ہیں تو کل موضع اسہار میں مرتد ملکانوں کی اسلام میں واپسی کی تقریب پر شاداں و فرحاں احباب سمیت جا رہے ہیں.اور اس طرح شب و روز فرائضِ منصبی میں بشاشت سے منہمک ہیں.اور اس مشکل ترین مہم کے فرائض کا ایک پہاڑ سر پر اُٹھایا ہوا ہے اور امام کے اشارات و ہدایت کے مطابق چلے جا رہے ہیں اور الامام جنة يقاتل من و رائہ کا منظر ہے.بعض اور انجمنیں بھی علاقہ ارتداد میں کام کر رہی تھیں یا کام بگاڑ رہی تھیں اور کبھی کبھی بلا وجہ محض حسد کی راہ سے ہمارے کام میں روک بن جاتی تھیں.اسی قسم کا ایک واقعہ خاکسار کے روبرو پیش آیا.انجمن نمائندگان تبلیغ نے بذریعہ ایک کا رکن ہمارے کام میں دراندازی کی.چوہدری صاحب مرحوم کو علم ہوا تو بھرے ہوئے شیر کی مانند اس انجمن کے دفتر میں آئے خاکسار ہمراہ تھا.پھر وہاں جو واقعہ پیش آیا سننے اور سمجھنے کے قابل ہے اور میرے روز نامچے میں یہ الفاظ ذیل درج ہے.
تاریخ احمدیت 778 جلد ۲۰ اگست ۱۹۲۳ ء ا میر صاحب کی معیت میں نمائندگان تبلیغ کے دفتر میں گئے.قریب سوا آٹھ بجے ( شب ) انکے دفتر میں پہنچے.نذیر احمد خاں وکیل جے پوری جو فتنہ ارتداد کے دوران میں معروف ہو چکے ہیں وہاں موجود تھے اور آج ہی مہا سبھا بنارس سے واپس آئے تھے.اس کے متعلق اپنے دفتر کے کلرک کو کچھ مضمون وہاں کی کارروائی کے متعلق لکھوا ر ہے تھے.بدیں پیرا یہ کہ والیان ریاست کی طرف سے ایک ہزار نمائندے شریک تھے.پنڈت مالویہ نے پر زور تحریک شدھی کے حق میں کی.کہ خواہ کھان پان نہ ہو لیکن بھنگیوں چماروں تک کو کنوؤں سے پانی بھرنے مندروں میں درشن وغیرہ کی اجازت ضرور دی جائے.پنڈت لوگوں نے مخالفت بھی کی لیکن مالویہ کے آگے انکی پیش نہ گئی اور بالآخر یہ پاس ہو گیا.مارواڑی کروڑ پتی اور دور دراز 6 کے نمائیندے شریک تھے.راجہ بھر تپور کی حسن کا ر کر دگی کا خصوصاً اعتراف کیا گیا.اسکے بعد وکیل صاحب موصوف نے نوٹ لکھوایا کہ میرا یہ خیال ہے کہ اگر ہندوستان کی کل جماعتیں ایک شخص کے ماتحت کام نہ کریں لگی تو ۱۹۲۳ء ہی میں دو کروڑ نفوس مرتد ہو جائیں گے اور ہمیں مخاطب کر کے کہا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو اجمل خاں ، محمد علی شوکت علی، کچلو وغیرہ تمام مسلمان لیڈروں کو کہتا کہ لیڈری کو چھوڑ و شکاری شکا رکھیلتا ہے اور تم لوگ اس کی بندوق و تیر اُٹھائے پھرتے ہو.وغیرہ.اتنا عرصہ ہم خاموش بیٹھے رہے اور مضمون کے ختم ہونے پر امیر صاحب نے حرفِ مطلب یوں شروع کیا.ہمیں نمائندگان تبلیغ سے سخت شکایت ہے ہم چھ ماہ سے یہاں پڑے ہیں.ہماری جماعت کے بہترین آدمی بر سر کار ہیں.ہم دو ماہ میں شدھی وغیرہ سب کو پورے طور پر رفع دفع کر گئے ہوتے لیکن یہ مولوی لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے.ہم جان تو ڑ کر مسلسل کوشش سے ایک دیہہ کو فتح کرنے والے ہوتے ہیں کہ آپ کا آدمی پہنچتا ہے اور کام خراب کر دیتا ہے.ہمیں کا فر ٹھہرا کر ملکانوں کو بہلا پھسلا کر.کنور عبدالوہاب صاحب وغیرہ یہاں نہیں رہتے ہم شکایت اُن سے کیسے کریں دین میں اعزازی عہدے نہیں ہوا کرتے کام کرنا ہوتا ہے ہم اب یہ برداشت نہیں کر سکتے یا تو مولوی کو...دو دن کے اندر اندر نکال دیا جائے ورنہ ہم اس انجمن کے خلاف جو چاہیں گے کریں گے.آریہ مسلمانوں سے بڑی قوم ہے.انگریز اتنی بڑی قوم ہے ہم نے ان سے
تاریخ احمدیت 779 جلد ۲۰ نے مقابلہ ٹھانا ہوا ہے تو پھر یہ مولوی وغیرہ کیا چیز ہیں.یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ تمام جماعت احمد یہ کہہ رہی ہے.نذیر احمد خاں.آپ پندرہ دن اور ٹھہر جائیں.یہ مولوی ملا نے بوریا بستر باندھ کر خود چل دیں گے.امیر صاحب.ہم نے چھ مہینے انتظار کیا ہے لیکن کوئی اصلاح نہیں ہوئی کنور عبد الوہاب صاحب کے سامنے ملکانوں نے ذکر کیا کہ آپ کے ایک مولوی نے احمدیوں کو ان کے گاؤں میں نہ رہنے دیا.ورنہ وہ لوگ ان کے زیر اثر پنجوقتہ نماز پڑھنے لگ گئے تھے.حتی کہ بعض تہجد بھی پڑھتے تھے.نمائندگان کا آدمی گیا.انہیں ورغلایا اور احمد یوں کو کا فرقرار دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ احمدی وہاں سے لوٹ آئے اور وہ مولوی ایک دن بھی نہ ٹھہرا سے نماز چھوڑ دی ویسے کے ویسے رہ گئے.امیر صاحب نے فرمایا کہ ان لوگوں کی تحریر میرے پاس موجود ہے اور انہوں نے کہا کہ ہم قادیان بیعت کرتے ہیں لیکن ہم خاموش رہے.اب بتاؤ ہم نے انہیں کہا تھا کہ بیعت کرو.اسی طرح آئے دن واقعات پیش آتے رہتے ہیں مولوی چاہتے ہیں کہ کام نہ خو دکر میں نہ کرنے دیں.آنور ایک بڑا گاؤں ہے.چھ سو ملکا نے وہاں آباد ہیں اگر وہ واپس ہو تو بھر تیپور پر اس کا اثر ضرور پڑتا ہے.دیگر دیہات متھرا پر بھی اس کا اثر ضرور پڑتا ہے.وہاں ہمارے تین آدمی مقرر ہیں شیخ فضل حق صاحب جو بٹالہ کے رئیس ہیں اور دو اور تقع یافته آدمی اب چوتھا آدمی نمائندگان کا وہاں کیوں جائے لیکن نواب خاں وہاں گیا کہ عبدالحی صاحب نے اُسے حکم دیا کہ تم نوکر ہو وہاں ضرور جانا ہوگا.اس نے جا کر انہیں بگاڑ اور نہ وہ واپسی کے لئے آمادہ تھے.اس شرط پر کہ آریوں سے جو دوسو ر و پیہ مرمت چاہ کے لئے وہ لے چکے ہیں انہیں واپس دیگر رسید ہم لے لیں اور اگر وہ کوئی مقدمہ کریں تو ہم انکی امداد کریں ہم تیار تھے کہ یہ آدمی پہنچا.ملکا نے ایک ہوشیار قوم ہے.انہوں نے جب دیکھا کہ دو خریدار ہیں تو اب کہتے ہیں کہ ۸۰۰ دلاؤ.ہما را چندہ صرف ہندوستان پر ہی نہیں بلکہ دیگر تمام ممالک یورپ.امریکہ.افریقہ پر بھی صرف ہوتا ہے میں بجٹ سے ایک پیسہ زیادہ نہیں کر سکتا.اگر ہمارا مقابلہ ہی کرنا ہے تو جاؤ پنجاب میں، بنگال میں، تمام ہندوستان میں ہما را مقابلہ کرو یہ علاقہ اسلام پر ایک مصیبت ہے.یہاں ہی ہمارے ساتھ دشمنی کرنی ہے.اگر اتحاد نہیں ہوسکتا تو دشمنی تو نہ ہو.اگر ہم آپ کے خیال میں مسلمان نہیں تو ہم ہر دو کم از کم
تاریخ احمدیت 780 جلد ۲۰ تعلیم یا فتہ تو ہیں ملکا نے ہم دونوں کو پریشان کر رہے ہیں اس کا تو خیال ہو.اگر آپ کہیں تو ہم آپ کے حسب مرضی جو جو گاؤں آپ چاہیں چھوڑ دیں لیکن باقیوں پر ہما را کامل تسلط ہوگا اور آپ کی طرف سے کوئی دراندازی نہ ہوگی.اگر یہ بھی نہ ہو تو ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں لیکن ایک سو چالیس گاؤں ہیں.ان میں کم از کم دو سو اسی آدمی مبلغ درکار ہو نگے.آپ کو اس کا انتظام کرنا ہو گا.غرض کوئی معاہدہ بھی ہو لیکن استوار ہو.خدا جانتا ہے کہ ہمیں یہاں آنے سے کوئی خاص غرض نہیں اور یہ شکایت محض جامبین کی بہتری کیلئے ہے انتھی کلامہ.یہ تمام گفتگو نذیر احمد خاں صاحب اور عبدالحی صاحب نائب ناظم مجلس نمائیندگان کے روبرو ہوئی.آخر نذیر احمد خاں صاحب عبد الحی صاحب کو اُٹھا کر ایک طرف لے گئے.اور واپس آ کر عبدالحی صاحب نے کہا کہ آپ اپنے دیہات کی ایک فہرست ہمارے پاس بھیجد میں اس کے بعد ہم اُن نامزدہ دیہات میں کوئی مداخلت نہ کریں گے کہا گیا کہ چھ ماہ ہوئے ہیں آپ کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ ہم کہاں کہاں ہیں.بہر حال فہرست مطلوبہ ارسال کر دی جائے گی.یہ تقریر میں نے واپسی پر رات کو ہی قلمبند کر لی تھی.چوہدری صاحب مرحوم نصف صدی سے زیادہ اسی جوش، جوانمردی اور ہمت سے تبلیغ کا کام کرتے رہے بیماری میں بھی کام نہ چھوڑ ا مرحوم کا یہ نمونہ ہم سب کے لئے قابل عمل ہے در محبت مے نداند سوختن از ساختن ایں سعادت قسمت پروانہ شد اے ہمنشیں بے خطر بر شعله شمع حرم خود را فگند ہم زجاں پروانه را پروانہ شد اے ہمنشیں ۱۹۲۴ء میں سید نا حضرت مصلح موعود پہلی بار یورپ تشریف لے گئے اس تاریخی سفر میں آپ کو بھی حضور کی معیت کا شرف حاصل ہوا اس سفر سے مراجعت کے بعد حضرت چوہدری صاحب سالہا سال تک ناظر دعوت و تبلیغ اور ناظر اعلیٰ کے ممتاز عہدوں پر فائز ر ہے.۱۹۴۶ ء میں آپ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اس حیثیت سے بھی آپ کو مسلمانوں کی نمایاں خدمات بجالانے کا موقعہ ملا.ملکی تقسیم کے وقت ۱۳ ستمبر ۱۹۴۷ء کو آپ قادیان میں گرفتار کر لئے گے اور
تاریخ احمدیت 781 جلد ۲۰ گورداسپور اور جالندھر جیل میں اپنے دوسرے قیدی ساتھیوں کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور بالآ خر ۱۰ را پریل ۱۹۴۸ء کو جالندھر جیل سے لا ہور سنٹرل جیل میں منتقل ہوئے اور یہیں سے رہا کئے گئے.یکم راکتو بر ۱۹۵۰ء کو آپ ریٹائر ہوئے.جس پر صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے با قاعدہ ایک ریز و لیوشن کے ذریعہ آپ کی نمایاں اور شاندار خدمات کا اعتراف کیا.۱۹۵۵ء میں آپ ناظر اصلاح و ارشاد اور نگران اعلی مقامی اصلاح و ارشاد مقرر ہوئے اس سال پہلے سال کی نسبت بیعتوں میں بہت خوشکن اضافہ ہوا اور پھر آہستہ آہستہ تبلیغ میں مزید وسعت اور تیزی پیدا ہوتی گئی.آپ آخر دم تک تبلیغ دین کے جہاد میں سرگرم عمل رہے حتی کہ وفات سے قبل جس روز آپ کو دل کا دورہ ہوا اس روز بھی آپ نے با قاعدہ دفتر میں کام کیا.اس طرح جوانی سے لیکر زندگی کے آخری سانس تک آپ کی عمر سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں گذری اور آپ خدمت دین کا فریضہ نہایت کامیابی سے بجا لاتے ہوئے اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہوئے.حضرت چوہدری صاحب ایک مثالی داعی الی اللہ تھے اور آپ کو حق تعالیٰ نے تبلیغ حق کا بے پناہ جذ بہ عطا فر مایا تھا.آپ کے ذریعہ ہزاروں افراد نے احمدیت قبول کی.مولا نا احمد خاں صاحب نسیم کو قریباً اٹھارہ برس تک میدان تبلیغ میں آپ کی رفاقت کا شرف حاصل رہا.گورداسپور اور جالندھر کی جیل میں آپ کے ساتھ رہے اور ایک ساتھ رہا ہوئے.آپ کا چشمد ید بیان ہے کہ دو تبلیغی کا موں میں صرف مبلغین پر انحصار نہیں فرماتے تھے بلکہ خود ہر وقت تیار رہتے تھے اور ہر مبلغ کے حلقے میں خود پہنچتے تھے اور موقعہ پر حالات دیکھ کر ہدایات دیتے تھے.ضلع گورداسپور میں تو احمدی زمینداروں کے ساتھ آپ کا پروگرام ہمیشہ طے رہتا تھا.کہ ہر احمدی زمیندار سے دریافت فرماتے رہتے تھے کہ تمہاری کس کس گاؤں میں رشتہ داری ہے.پھر ان کو فرماتے کہ تم میرے ساتھ میری موٹر میں بیٹھ جاؤ.اس کو اپنی موٹر میں بیٹھا کر اس کے رشتہ داروں کے پاس پہنچ جاتے پھر ان کو پیغام حق پہنچاتے.اس طور پر ایسی موثر تبلیغ ان کو ہو جاتی کہ بعض دفعہ ایک ملاقات میں اور بعض دفعہ ایک سے زائد ملاقاتوں میں وہ لوگ احمدی ہو جاتے.پھر جن دیہات میں احمدیت میں شامل ہونے والے احباب اکثریت میں ہو جاتے
تاریخ احمدیت 782 جلد ۲۰ وہاں یہ کوشش فرماتے کہ اس گاؤں میں ایک بھی دوست ایسا نہ رہ جائے جو جماعت میں شامل نہ ہو.اس کی مثال جماعت احمد یہ اٹھوال اور جماعت احمد یہ سٹھیالی ہے اور بعض دوسرے گاؤں بھی ہیں.ایک دفعہ مجھے کلوسوہل بھجوایا گیا اور فرمایا کہ ایسے رنگ میں کام کرو کہ گاؤں کے لوگ جماعت میں شامل ہو جائیں.چنانچہ میں نے کلوسوہل میں کام کیا.اور ۱۲۲ را فراد کی بیعت ایک دن میں ہوئی تو بہت ہی خوش ہوئے.حضرت چوہدری صاحب نے زمانہ اسیری ( ستمبر ۱۹۴۷ء تا اپریل ۱۹۴۸ء ) میں بھی تبلیغ کا سلسلہ بڑے زور شور سے جاری رکھا.چنانچہ مولانا احمد خاں صاحب نیم تحریر فرماتے ہیں.تبلیغ کے متعلق جیل کے دو واقعات بیان کرنا چاہتا ہوں.ایک دفعہ ایک آدمی کے متعلق ہم سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ چونکہ ہر موقعہ پر کوئی نہ کوئی شرارت ہمارے خلاف کھڑی کرتا رہتا ہے اس کو چھوڑ دو اس کو کوئی بھی منہ نہ لگائے.مکرم چوہدری صاحب نے ہم سب کو فرمایا کہ ایک کام تم سب اپنے ذمہ لے لو یا تم دعا کرو.اور میں اس کو تبلیغ کرتا ہوں یا تم اس کو تبلیغ کرو.میں اس کیلئے دعا کرتا ہوں.اس طرح اس کو چھوڑ دینا ٹھیک نہیں اس پر اتمام حجت کر کے اس کو چھوڑو.عصر کی نماز کے بعد جیل میں کچھ وقت ٹہلنے کے لئے مل جاتا تھا.میں اور برادرم مکرم میجر شریف احمد صاحب باجوہ دونوں مل کر ٹہل رہے تھے.ہم نے دیکھا کہ چودھری صاحب محترم چند قیدیوں کے ایک ٹولہ کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں جیل کے اندر تمیں چالیس افراد خارش کی وجہ سے بیمار تھے.ان کو ایک علیحدہ بیرک میں رکھا ہو ا تھا.ان کے ساتھ کسی کو ملنے کی اجازت نہ تھی.تا یہ متعدی بیماری اور قید یوں میں نہ پھیل جائے.باجوہ صاحب نے جب چودھری صاحب کو ان میں بیٹھا ہو ا دیکھا تو فرمانے لگے چودھری صاحب کیا غضب کر رہے ہیں کہ ان متعدی بیماری والوں کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں.ان کو روکنا چاہیئے.جب چودھری صاحب وہاں سے اُٹھ کر واپس تشریف لائے.تو ہم نے چودھری صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ یہ لوگ خارش کی وجہ سے بیمار ہیں.آپ وہاں نہ جایا کریں.چوہدری صاحب نے فرمایا کہ میں نے سوچا کہ یہ لوگ بہت تکلیف میں ہیں.ان
تاریخ احمدیت 783 جلد ۲۰ بیچاروں کو کوئی بھی اپنے پاس نہیں آنے دیتا.ایسے وقت میں آدمی کا دل نرم ہوتا ہے.میں ان کے پاس گیا تھا تا میں اس سے فائدہ اٹھا کر ان کو تبلیغ کروں ممکن ہے کہ کسی کا دل احمدیت کی طرف مائل ہو جائے.اللهم صلى على محمد و علی آل محمد سبحان اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رفیق کو کس قدر تبلیغ کی اپنے دل میں لگن تھی.اور کوئی موقع بھی تبلیغ کا ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.ہمیں مسکرا کر فرمانے لگے کہ میں تو اس نیت سے ان کے اندر جا کر بیٹھا تھا کہ ممکن ہے کوئی مسیح پاک پر ایمان لے آئے.تو کیا اللہ تعالے مجھے اس بیماری میں مبتلا کر دے گا.یہ ناممکن ہے.آپ لوگ بے فکر ر ہیں.جیل میں قیام کے دوران میں قریباً پچاس اور ساٹھ کے درمیان دوست جماعت میں شامل ہوئے.اور اس کام کے مکرم چودھری صاحب موصوف روح رواں تھے جب کسی کو تبلیغ شروع فرماتے تو ہم سب کو اکٹھا کر کے فرماتے کہ میں فلاں آدمی کو تبلیغ کرنے لگا ہوں.تم سب مل کر اس کے لئے دعا کرو.میں بھی دعا کر رہا ہوں.بٹالے کے ایک دوست جیل میں تھے انہوں نے چودھری صاحب سے ایک دفعہ پوچھا کہ آپ اس قدر مطمئن کس طرح ہیں.آپ پر اس قید اور مصیبت کا ذرا بھی اثر نہیں ہے.آپ نے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اتنی دفعہ بشارت دی ہے.کہ تم بخیر و عافیت جیل سے رہا ہو کر چلے جاؤ گے.کہ اب مجھے یہ دعا کرتے ہوئے بھی اللہ تعالے سے شرم محسوس ہوتی ہے کہ میں اب مزید اپنی رہائی کی دعا کروں.اس نے کہا کہ آپ میری رہائی کے لئے بھی دعا فرما دیں آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں آپ کے لئے دعا کروں.اگر آپ احمدی ہو جا ئیں تو آپ کے لئے دعا کروں گا.اس دوست نے فرمایا کہ جس طرح آپ کو خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ رہا ہو جائیں گے آپ دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی کوئی ایسا اطمینان بخش نظارہ دکھا دے تا میں بھی مطمئن ہو جاؤں.آپ نے یہ وعدہ فرما لیا.کہ میں یہ دعا کروں گا.چنانچہ چند دن کے بعد ہی اس دوست نے بھی ایک واضح رویاء دیکھی.جس میں اس نے دیکھا کہ ہم پاکستان چلے گئے.اور جیل کے دروازے کھل گئے ہیں.اور ہم سب کو اپنے اپنے رشتہ دار لینے کے لئے آئے ہوئے ہیں.اور مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں وغیرہ.اس کے بعد وہ دوست بھی جماعت میں شامل ہو گئے.یہ دوست غلام محمد صاحب عرف ( گاماں
تاریخ احمدیت 784 66 جلد ۲۰ پہلوان ) صاحب ابھی زندہ ہیں اور ضلع شیخو پورہ میں موجود ہیں.“ حضرت چوہدری صاحب نہ صرف جسم تبلیغ دین تھے اور اعلاء کلمہ ( دین حق ) کا خیال آپ کے جملہ تصورات پر غالب تھا بلکہ ہر لمحہ دوسرے مبلغین احمدیت میں بھی اس خیال اور جوش کو منتقل کر نیکی فکر میں رہتے تھے اور انہیں اپنے تجارب کی روشنی میں ہر ممکن رہنمائی فرمایا کرتے تھے.۱۹۳۱ء کا واقعہ ہے کہ مولانا ابو العطاء صاحب بلا دعر بیہ کے لئے روانگی سے قبل آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک نوٹ بک پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ وہ اپنی قیمتی نصائح تحریر فرما دیں.اس پر آپ نے اپنے قلم سے حسب ذیل الفاظ رقم فرمائے.الذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا میرا یہ تجربہ ہے کہ جب انسان محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی مغفرت حاصل کرنے کے لئے اپنے وطن اور اہل وعیال کو ترک کر کے اور دنہ دنیا کی تمام خوشیوں اور لذتوں سے علیحدہ ہو کر تبلیغ دین حقکی غرض سے اللہ تعالیٰ کے راستہ پر گامزن ہوتا ہے اور دور دراز کے ممالک کا سفر اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالے اس کے بہت قریب ہو جاتا ہے اور اس پر علم و عرفان الہی کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کا محض اپنے فضل و کرم سے اس طرح ظاہر طور پر حامی و ناصر ہوتا ہے کہ انسان کو حیرت ہوتی ہے.اور ہر ایک کام میں اللہ تعالے کا طاقتو ر ہا تھ اس کی امداد کرتا ہوا صاف طور پر نظر آتا ہے جس سے انسان کا رسمی ایمان اور کامل اطمینان مکمل یقین سے بدل جاتا ہے اور یہ ایسا موقعہ ہوتا ہے کہ اگر انسان اس عظیم الشان کام کے اداب کو ملحوظ رکھے تو رضوان اللہ کا مرتبہ حاصل کرنا بہت ہی آسان اور قریب ہو جاتا ہے آپ کو اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے ایسا موقع ہاتھ آیا ہے اس سے پورا فائدہ روحانی اٹھانے کی کوشش کریں آپ میرے لئے دعا کریں کیونکہ میرے دل میں سخت حسرت ہے کہ اس قسم کا موقعہ اب شاید مجھے نہ ملے.اگر کسی اور رنگ میں اللہ تعالیٰ پھر اپنے افضال کی بارش برسائے تو اس کی رحمت سے یہ بات بعید نہیں ہے.ہم اس امید پر زندہ ہیں.دوسری بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ایک نو جوان آدمی کے لئے یہ بہت بڑا مجاہدہ ہے کہ اپنے اہل و عیال سے علیحدہ رہ کر اپنی عفت کو صحیح معنوں میں قائم رکھ سکے یہ کافی نہیں ہے کہ انسان صرف ارتکاب زنا سے محفوظ رہے.بلکہ اس کے دل کے خیالات اُس کی نظر اس کے ہاتھ پاؤں بلکہ تمام اعضاء اس قسم کے تاثرات سے محفوظ رہنے
تاریخ احمدیت 785 جلد ۲۰ ۳۵ ضروری ہیں ڈالا کامیابی ناممکن ہو جاتی ہے.میں چونکہ ایک ایسے ملک میں جا رہا تھا.جہاں اباحت کا دریا بہتا ہے اس لئے مجھے لوگوں نے اس قسم کے ابتلاء سے سخت ڈرایا.اس سے مجھے سخت فکر لاحق ہوئی.تو مجھے القاء بتلایا گیا کہ سورۃ یوسف کو بار بار پڑھنا چاہیے.اس کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل سے گھبراہٹ کو دور فرما دیا اور مجھے اطمینان ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قسم کے ابتلاء سے محفوظ رکھے گا.بلکہ میں نے اپنے اندر اس قسم کی طاقت محسوس کی جس سے میرا تمام ڈر اور گھبراہٹ دور ہو گئی.دوسری دفعہ انگلستان میں جا کر میں نے شادی کی لیکن وہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اس احساس کے ماتحت تھی کہ میری پہلی بیوی کی صحت کمزور ہے اور مجھے ان کے ساتھ اکیلا رہنے سے اُن کی زندگی ضائع ہو جانے کا خطرہ تھا اور یہ بھی خیال تھا کہ عورت کی مدد سے کام میں سہولت پیدا ہوگی والا کسی جسمانی جذبہ کے ماتحت نہ تھی.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو حضرت چوہدری صاحب اسلامی تعلیم کا چلتا پھرتا نمونہ تھے.طبیعت میں سادگی تھی، پیچ در پیچ طبیعت رکھنے والوں کو پسند نہ فرماتے صاف گو تھے جو بات حق خیال کرتے وہ بر ملا کہہ دیتے.نہایت بلند عزائم کے حامل بزرگ تھے.سلسلہ کے وقار کے لئے بے مثال غیرت رکھتے تھے.سلسلہ کے جملہ خدام کو انتہائی عزت، محبت اور حترام سے دیکھتے تھے اور ان کے جذبات واحساسات کا خیال رکھتے تھے.ظاہری ٹیپ ٹاپ سے کلیتہ عاری تھے اور سلسلہ کے تمام حلقوں میں یکساں طور پر بہت محبوب و مقبول تھے اپنے ماتحت کارکنوں کا خیال رکھنا تو آپ کا ایک نمایاں وصف تھا آپ بہت ہی وسیع القلب اور اعلیٰ خوبیوں کے مالک تھے اپنے ساتھیوں کی تکلیف سے انہیں سخت صدمہ ہوتا تھا آپ مظلوم کی امداد ایسے رنگ میں فرماتے کہ مظلوم کا ایک پیسہ بھی خرچ نہ ہو بعض دفعہ ہند و یا بعض سکھ اپنے گاؤں کیغریب لوگوں پر ظلم کرتے تو آپ اس کے سد باب کے لئے خود تشریف لے جاتے.اکثر اوقات وہ ہند و یا سکھ زمیندار آپ کی بات مان لیتے تھے لیکن اگر وہ باز نہ آتے تو آپ پورے زور سے غرباء کی مد دفرماتے اور بعض دفعہ دن رات ایک کر دیتے اور اس امداد میں مذہب وملت کی کوئی قید نہ ہوتی تھی.آپ کا مکان اور دفتر مظلوموں کا گو یا پناہ گاہ ہوتا تھا.حضرت چوہدری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت بہا در دل عطا فرمایا تھا اور مسلمانوں کی خدمت اور ہمدردی کا جذبہ تو آپ کے رگ و ریشہ میں رچا ہوا تھا.جناب مولوی احمد
تاریخ احمدیت 786 جلد ۲۰ خاں صاحب نسیم کا بیان ہے کہ وو ۱۹۴۷ء کے شروع میں ہی بعض جگہوں میں فسادات شروع ہو گئے تھے.آپ نے اپنے علاقے میں دورے کر کے تمام مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ حالات جلد جلد بدل رہے ہیں تم لوگ تیاری کر لو تا آخر وقت میں نقصان نہ اٹھا ئیں.خطر ناک سے خطر ناک مقامات میں جانے سے آپ دریغ نہ فرماتے تھے.ایک واقعہ آپ نے مجھ سے کئی دفعہ بیان فرمایا کہ میں ( قادیان کے ماحول میں ایک گاؤں ) چوہدری والے کی طرف سے آ رہا تھا تو پنجگرائیں میں ایک قافلہ مسلمانوں کا جو موضع کو ہالی کی طرف سے آ رہا تھا اس پر سکھوں نے حملہ کر دیا.اس وقت ادھر سے میں عین موقعہ پر پہنچ گیا.میری کار دیکھ کر حملہ آور بھاگ گئے.قافلہ والے مسلمان میرے ارد گرد جمع ہو گئے.میں نے ان کو تسلی دی ایک آدمی نے مجھے آ کر کہا کہ ہماری ایک لڑکی کو کچھ سکھ ٹانگے میں بٹھا کر ہم سے زبر دستی چھین کر لے گئے ہیں.انہوں نے مجھے سمت بتائی.میں نے ڈرائیور کو کہا کہ موٹر کو ان کے پیچھے جلد دوڑا ؤ.جب ہم گاؤں سے نکلے تو وہ تانگہ ہم نے دیکھ لیا.چنانچہ تھوڑی دیر میں ہم نے اُن کو جالیا.وہ لڑکی کو چھوڑ کر بھاگ گئے.چنانچہ لڑکی لا کر اس کے والدین کے سپر د کر دی اور خود اس قافلہ کے ساتھ بٹالہ تک گیا اور ان کو کیمپ میں چھوڑ کر واپس آیا.حضرت چوہدری صاحب نہ صرف ” نظام الوصیت“ سے وابستہ تھے بلکہ تحریک جدید کے پانچبزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے.وو ۳۶ سید نا حضرت مصلح موعود نے آپ کے انتقال پر حسب ذیل نوٹ سپر د قلم فر ما یا چوہدری فتح محمد صاحب سیال فوت ہو گئے ہیں انا لله و انا اليه راجعون.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان سے بہت محبت کرتے تھے.رات کے وقت تار دینے کی ضرورت پڑتی تو ان کو ہی بٹالہ بھجوایا کرتے تھے.جب خواجہ صاحب کو انگلستان میں مشکلات پیش آئیں تو حضرت خلیفہ اول نے ان کو ان کی مدد کے لئے بھجوایا تھا ڈاکٹر عبید اللہ صاحب امرتسری نے واپس آ کر ان کی بڑی تعریف کی کہ بہت صالح آدمی ہیں.جب میں نے تفخیذ الاذھان جاری کیا تو جن لوگوں نے ابتدا میں میری مدد کی.ان میں یہ بھی شامل تھے.ملکا نہ تحریک ساری انہوں نے چلا ئی تھی.حضرت خلیفہ اول کے داماد بھی تھے.پٹی اور قصور کے بڑے زمیندار خاندان میں سے تھے.بچپن سے میرے ساتھ کام کیا مجھے افسوس ہے......
تاریخ احمدیت 787 جلد ۲۰ کہ وفات کے وقت مجھے پتہ بھی نہ لگا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور اس کے فرشتے ان کو لینے کے لئے آگے آئیں.اور خدا تعالے کی برکتیں ہمیشہ ان پر اور ان کے خاندان پر نازل ہوتی رہیں.میری ایک بیٹی بھی اُن کی بہو ہے.خدا اس کو بھی اپنے خاوند کی خدمت اور اپنے خسر کے لئے دُعا کی توفیق دے امین جوانی سے چوہدری صاحب نے سلسلہ کی خدمت کی.قادیان جہاں سے وہ ہجرت کر کے آئے تھے اللہ تعالے ان کو دائمی طور پر وہیں لے جائے.اور جس طرح زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ساتھ دیا تھا.اب وفات کے بعد دائمی طور پر ان کا قرب نصیب ہو آمین.وو ۳ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تحریر فرمایا چوہدری صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رفیق ابن رفیق تھے اور ان کے داماد چوہدری عبداللہ خاں مرحوم بھی گویا پیدائشی لحاظ سے رفیق تھے اس طرح چودھری فتح محمد صاحب سیال نے گویا اوپر اور نیچے ہر دو جانب سے برکت کا ورثہ پایا تھا.چوہدری صاحب مرحوم کو یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ جماعت کی طرف سے پہلے مبلغ کے طور پر انگلستان میں تبلیغ ( دین حق کے لئے بھجوائے گئے اور نہ صرف ایک دفعہ بھجوائے گئے بلکہ انہیں متعد د مر تبہ تبلیغ کی غرض سے باہر جانے کا شرف حاصل ہوا.انہیں دراصل تبلیغ کا غیر معمولی عشق تھا اور انہیں خدا نے تبلیغ کا ملکہ بھی ایسا عطا کیا تھا کہ بہت جلد اپنی دوسرے کا دل صداقت کے حق میں جیت لیتے تھے اور زمینداروں پر تو گویا اُن کا جادو و چلتا تھا پھر ملکا نہ کے علاقہ میں بھی وہ سالہا سال جماعت کی تبلیغی مہم کے نگران اور قائد رہے اور انہوں نے ایک بہت لمبے عرصہ تک مرکزی دعوت و تبلیغ اور ناظر اعلیٰ کے فرائض بھی بڑی کامیابی کے ساتھ ادا کئے اور مقامی تبلیغ کے تو وہ گویا ہیرو تھے.جن کے ہاتھ پر بے شمار لوگوں نے صداقت کو قبول کیا.گفتگو چوہدری صاحب بڑے سادہ مزاج اور بہت بے تکلف طبیعت کے بزرگ تھے اور گو وہ کام کی تفصیلات کو بعض اوقات بھول جاتے تھے.مگر اصولی امور میں وہ حقیقۂ غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے.اور ان امور میں ان کی نظر بعض اوقات اتنی گہری جاتی تھی کہ حیرت ہوتی تھی کہ ایسی سادہ طبیعت کا انسان اصولی امور میں اتنا ذہین اور اتنا دور رس ہے.چوہدری صاحب کو ملکی تقسیم کے ایام میں ہند و سیاست کا شکار بنکر قید بھی ہونا پڑا.مگر اس قید کا
تاریخ احمدیت 788 جلد ۲۰ زمانہ بھی انہوں نے کمال صبر اور بشاشت سے برداشت کیا.بلا جیل خانہ میں بھی کئی لوگوں کو ( جن میں بعض کا فی مخالف تھے ) اپنی مخلصانہ تبلیغ سے رام کر لیا.گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں چوہدری صاحب بالکل نو عمر بلکہ طالب علم تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ انہیں ذاتی تعارف کا شرف حاصل تھا.اور حضور ان کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے.ایک دفعہ کسی سفر میں مصاحبت کا سوال تھا تو ساتھ جانے والوں کی فہرست دیکھ کر حضرت مسیح موعود نے خود کہہ کر چوہدری صاحب کا نام لکھایا بلکہ نام لکھنے والوں سے کہا کہ شائد آپ لوگوں نے فتح محمد کا نام اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ وہ تو بہر حال پہونچ ہی جائے گا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے ساتھ بھی چوہدری صاحب کا بچپن کا ساتھ تھا.چنانچہ رسالہ تحیذ الاذہان کے اجراء میں اور پھر جلس انصار اللہ کے قیام میں وہ شروع سے حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہے.در اصل وہ حضور کے فراتی دوستوں میں سے تھے.اور حضور کے ساتھ بے حد عقیدت رکھتے تھے.اور حضرت خلیفہ اسیح اول کے ساتھ تو ان کا جسمانی رشتہ بھی تھا.یعنی زوجہ اول کے بطن سے حضور کی نواسی ( ہاجرہ بیگم مرحومہ ) جو میری رضاعی بہن تھیں چوہدری صاحب کے عقد میں آئیں اور چوہدری صاحب کی زیادہ اولاد انہی کے بطن سے ہوئی اور بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے ساتھ بھی چوہدری صاحب کا رشتہ قائم ہو گیا.کیونکہ حضور کی چھوٹی صاحبزادی عزیزہ امتہ الجمیل سلمها چوہدری صاحب کے فرزند عزیز ناصر محمد سیال واقف زندگی کے ساتھ بیاہی گئی.چوہدری صاحب مرحوم ایک بڑے مجاہد اور نڈر.اور بہادر مبلغ ہونے کے علاوہ تہجد گزار اور نوافل کے پابند اور دعاؤں میں بہت شغف رکھنے والے بزرگ تھے اور صاحب کشف و رویاء بھی تھے.میں جن دوستوں اور بزرگوں کو عموماً دعا کے لئے لکھا کرتا تھا.ان میں چوہدری صاحب مرحوم کا نام بھی شامل تھا.مجھے اس مخلص اور بے ریا اور وفادار بھائی کی وفات کا بڑا صدمہ ہے مگر بلا نیوالا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور جماعت کو ان کا بدل عطا فرمائے.اور ان کی اولاد اور بیوی اور دیگر لواحقین کا دین و دنیا میں حافظ و
تاریخ احمدیت 789 نا صر ہو.امین یا ارحم الراحمين تالیفات (کتب اور پمفلٹ) ☆ ہے ۳۸ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات ( دسمبر ۱۹۲۷ء ) اظہار حق ( رد عیسائیت ) ہندوستانی مسلمانوں کے لئے راہ عمل اولاد WHAT SHOULD THE MUSLIM DO اچھوت اقوام کی نازک حالت اللہ تعالیٰ کا کلام زمانہ حال کی اقوام کے متعلق مسلمانوں کی موجودہ مشکلات کا حل اسلامی تنظیم کے پانچ ارکان محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ کے بطن سے ) نواسی حضرت خلیفہ اول آمنہ بیگم صاحبہ چوہدری ناصر محمد صاحب سیال ( داماد حضرت مصلح موعود ) ۲.عا ئشہ بیگم صاحبہ ۳.چوہدری صالح محمد صاحب ۴.منیرہ بیگم صاحبہ سلمہ بیگم صاحبہ محترمه سیده رقیه بیگم صاحبہ دختر سیدمحمود اللہ شاہ صاحب کے بطن سے ) امتہ الحی بیگم صاحبہ _^ و.1.محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ کے بطن سے ) چوہدری منصور احمد صاحب سیال امتہ الشافی صاحبہ چوہدری مظفر احمد صاحب سیال محتر مہ صفیہ بیگم صاحبہ کے بطن سے ) جلد ۲۰
تاریخ احمدیت -11 ۱۲.بشری بیگم صاحبہ طاہر عبداللہ صاحب ۱۳ - امتہ السلام بیگم صاحبہ 790 حضرت مولوی خیر الدین صاحب آف نارووال جلد ۲۰ ولادت اندازاً ۱۸۸۹ء ۱۹۰۳ء وفات ۱۹ رمئی ۱۹۶۰ء بعمر اے سال) حد درجہ خلیق اور ملنسار اور تہجد گزار بزرگ تھے.دنیا وی اعتبار سے آپ کی تعلیم تیسری جماعت تک تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی توجہ روحانی نے آپ کے سینہ کو علم سے معمور کر دیا تھا.عموماً پنجابی میں تقریر فرماتے اور قوت بیانی سے مجمع کو مسحور کر دیتے تھے.تبلیغ کا شوق آپ کی زندگی کے ہر کام میں نمایاں نظر آتا تھا.عمر بھر دعوت الی اللہ کے کام میں مصروف رہے اور بہت سی سعید روحوں کو آپ کے ذریعہ قبول حق کی سعادت حاصل ہوئی آپ جماعت احمدیہ کے آنریری مبلغ تھے اگر کہیں سُن پاتے کہ جماعت کا جلسہ منعقد ہو رہا ہے تو اکثر اپنے خرچ پر یا پیدل سفر کر کے جلسہ میں شرکت کرتے.حضرت مسیح موعود اور آپ کے خاندان سے دلی انس و محبت تھی.خدمت خلق سے خاص قلبی بشاشت محسوس کرتے تھے.حضرت چوہدری برکت علی خان صاحب وکیل المال ( پنشنر ) ولادت ۷ - ۱۸۸۶ء اندازاً.بیعت و زیارت ۱۹۰۲ء وفات ۷/اپریل ۱۹۶۰ء) حضرت چوہدری برکت علی صاحب گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور کے ایک راجپوت خاندان کے چشم و چراغ تھے.آپ کو احمدیت کا تعارف حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب آف گوڑیانی کے ذریعہ ہوا.آپ نے ۱۹۰۰ ء میں ور نیکر مڈل کا امتحان دیا.امتحان کے بعد آپ حضرت ڈاکٹر صاحب کے پاس جاتے اور اخبار ” الحکم“ کا مطالعہ کیا کرتے تھے.الحکم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلمات طیبات در بار شام سیر کے کوائف اور تازہ الہامات باقاعدہ شائع ہوتے تھے جن کے پڑھنے سے آپ کا دل اطمینان اور تسلی سے لبریز ہو جاتا اور آپ کا جی چاہتا کہ ایسے شخص پر تو اپنا سب کچھ قربان کر دنیا چاہئے.علاوہ ازیں گڑھ شنکر میں حضرت مسیح موعود کے فدائیوں کی ایک مخلص جماعت قائم ہو چکی تھی جس میں حضرت چوہدری امیر خاں صاحب حضرت شیخ برکت علی صاحب، حضرت حکیم
تاریخ احمدیت 791 جلد ۲۰ چوہدری الہی بخش صاحب چوہدری غلام بنی صاحب جیسے متدین اور عاشق رسول بزرگ شامل تھے.ان بزرگوں کے مثالی نمونہ کو دیکھ کر آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ جس شخص کے پیرو ( دین حق ) کے ایسے شیدائی اور تقوی شعار ہیں وہ خود کس پایہ کا ہو گا یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کا ایک برگزیدہ اور رسول ہے اور اخبار الحکم میں حضور کے ملفوظات پڑھ کر تو آپ بے اختیار ہو گئے اور فوراً بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیا اس وقت تک آپکے خاندان میں کوئی احمدی نہ ہوا تھا.حضرت چوہدری صاحب اپنی بیعت اور زیارت حضرت مسیح موعود کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ” میں نے اس زمانہ میں ان لوگوں کا نیک نمونہ دیکھا اور اخبار ” الحکم“ پڑھا تو میرے دل نے کہا کہ مجھے جس پیشوا کی ضرورت ہے اور جس کے لئے میں طالب علمی کے زمانہ میں دل میں دعا کرتا تھا وہ یہی شخص ہے جس کی مجھے بیعت کرنا چاہیے.چنانچہ ۱۹۰۲ء میں ایک دن میں نے حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم سے عرض کیا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں آپ میری بیعت کا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھ دیں ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ تمہاری راجپوتوں کی قوم بہت سخت ہے شاید وہ تمہیں روکیں اور تکالیف دیگر چاہیں کہ تم بیعت چھوڑ دو.میں نے اسی وقت کہا کہ مجھے اپنی قوم کی پروا نہیں اور نہ میں ان کی تکلیف دہی سے ڈرتا ہوں.اگر وہ اس راہ میں مجھے جان سے بھی مار دیں تو میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے میری بیعت کا خط لکھ دیا اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے دستخط سے بیعت کی منظوری کی اطلاع ملی.خط ملنے پر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی.الحمد لِلهِ ثُمَّ الحمد لله.بیعت کی منظوری آنے کے ایک مہینے کے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ میں قادیان جا کر دستی بیعت بھی کرنا چاہتا ہوں مگر میں کبھی گڑھ منکر سے باہر نہیں گیا، نہ ریل کبھی دیکھی.مجھے قادیان کا راستہ بتا دیں.آپ نے کہا کہ یہاں سے بنگہ پہنچے وہاں میاں رحمت اللہ صاحب مرحوم باغانوالہ کی دکان پر جا کر ان سے کہنا کہ پھگواڑہ ریلوے سٹیشن تک کا یکہ کرا دیں اور ریل میں سوار ہو کر امرتسر گاڑی بدل کر بٹالہ دس بجے رات پہنچ جاؤ گے.بٹالہ میں ٹھہرنے کی معین جگہ تو ہے نہیں سٹیشن پر یا کسی اور جگہ ٹھہر جانا.بٹالہ سے قادیان کو کچی سڑک جاتی ہے.نماز فجر کے بعد قادیان چلے جانا.“ ” میں روانہ ہوا اور جب بٹالہ سٹیشن سے نکلا تو سڑک پر ایک چھوٹی سی مسجد پر نظر
تاریخ احمدیت 792 جلد ۲۰ پڑی.میں نے کہا کہ مسجد میں ہی رات کا بقیہ وقت گزار کر صبح قادیان کی طرف جانا چاہیے.مسجد میں گئے ابھی تھوڑا وقت ہی ہوا تھا کہ ایک صاحب نے آ کر کہا کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا.میں مسافر ہوں قادیان جانا ہے.اس نے گالی دیتے ہوئے سختی سے کہا کہ خبیث مرزائی آ کر مسجد کو خراب کر جاتے ہیں.صبح مسجد دھونی پڑے گی.تم یہاں سے نکل جاؤ.میں نے کہا میں تو کبھی یہاں آیا نہیں.نہ کسی کو جانتا ہوں خدا کے گھر سے کیوں نکالتے ہو؟ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا.اس پر وہ گالیاں دیتا اور سخت سست کہتا بڑ بڑا تا ہوا چلا گیا.میں صبح فجر کی نماز پہلے وقت پڑھ کر قادیان کے لئے روانہ ہوا اور یہ مسافت پیدل طے کی 66 ” مجھے معلوم نہ تھا کہ قادیان میں حضرت اقدس کے مکان کدھر ہیں.میں محلہ کمہاراں میں پہنچا اور ایک گلی کی طرف گیا جو سیدوں کے مکانات کی طرف جاتی ہے تو مجھے محسوس ہوا کہ ان میں تو کوئی روحانیت نہیں اور یہ مکان حضرت صاحب کے نہیں.میں نے ایک لڑکے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اس راستہ سے سیدھا جاؤ.آگے مہمان خانہ آ جائے گا تب میری جان میں جان آئی اور میں مہمان خانہ پہنچا.اس وقت میاں اللہ دین صاحب فلاسفر مرحوم مہمان خانہ میں داخل ہوتے ہی ملے.انہوں نے پوچھا لڑ کے کہاں سے آئے ہو ؟ میں نے ڈاکٹر صاحب کا ذکر کر کے کہا کہ انہوں نے مجھے بیعت کرنے کے لئے بھیجا ہے.وہ بہت خوش ہوئے.ایک چار پائی دی اور کہا کہ اس پر آرام کرو.تھوڑی دیر بعد کہا کہ چلو لنگر خانہ میں روٹی کھا لو.پھر نماز ظہر کے لئے مسجد مبارک میں جانا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائیں گے.“ مسجد مبارک میں پہنچنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک کھڑکی میں سے مسجد مبارک میں تشریف لائے.میں نے جب حضور کو دیکھا تو بے اختیار میری زبان سے نکلا کہ یہ تو سراپا نور ہی نور ہے.یہ تو بچوں اور راستبازوں کا سا چہرہ ہے.یہ وہی شخص ہے جس کی بابت اخبار الحکم میں کلمات طیبات حضرت امام الزماں سلمہ الرحمن پڑھا کرتا تھا اور جس مقدس وجود باجود کی مجھے تلاش تھی الحمد للہ مغرب کی نماز کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام شہ نشین پر جلوہ فرما ہوئے تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے میرا بازو پکڑ کر حضور کے پیش کیا اور فرمایا کہ حضور یہ لڑکا بیعت کرنا چاہتا ہے.حضور نے نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا.کل بیعت کر لینا.میں نے اس وقت دیکھا کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب م عرفانی ایڈیٹر الحکم ایک ٹمٹاتے چراغ کی بہت مدہم سی روشنی میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی
دو تاریخ احمدیت 793 جلد ۲۰ زبان مبارک سے جو کلمہ نکلتا ہے کھڑے کھڑے پنسل سے نوٹ کر رہے ہیں.دوسرے دن جب نماز مغرب کے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے تو تھوڑی دیر بعد فرمایا بیعت کرنے والے آگے آجائیں“ پ شہ نشین سے اُتر کر مسجد کے فرش پر تشریف فرما ہوئے اور بیعت ہوئی.میرے ساتھ دو اور دوست بیعت کرنے والے تھے بیعت کے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے مع جماعت دعا فرمائی اور حضرت ایڈیٹر صاحب الحکم نے اپنی نوٹ بک میں ہر سہ کے نام لکھ لئے قادیان سے واپسی کے بعد آپ کے دل میں یہ شدید تمنا پیدا ہوئی کہ کاش آپ کو قادیان میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں رہنے کا موقعہ ملتا.آپ نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میں قادیان میں رہوں گا خواہ وہاں فاقہ کرنا پڑے یا محنت مزدوری کر کے گزارہ کروں مگر رہوں گا قادیان میں.چنانچہ ۱۹۰۴ ء میں آپ ہجرت کر کیقا دیان آ گئے اور دفتر الحکم میں پانچ روپے ماہوار پر ملازم ہو گئے.اخبار کی دستی لکھنا، چٹیں بنانا اور ان کو اخبار پر لگانا اور پھر ٹکٹیں چسپاں کر کے ڈاک خانہ تک پہنچا نا آپ کا کام تھا.اس طرح مرکز میں سلسلہ احمدیہ کی خدمت کا آغاز ہوا.اس زمانہ میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نشان کا گواہ بننے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.حضرت اقدس علیہ السلام کو ۲۸ فروری ۱۹۰۷ ء کو الہام ہوا کہ سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہو گی.خوش آمدی نیک آمدی چنانچہ یہ پیشگوئی صبح کو ہی قبل از وقوع تمام جماعت کو سنائی گئی اور جب یہ پیشگوئی سنائی گئی.بارش کا نام ونشان نہ تھا اور آسمان پر ایک ناخن کے برابر بھی بادل نہ تھا اور آفتاب اپنی تیزی دکھلا رہا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج بارش ہو گی اور پھر بارش کے بعد زلزلہ کی خبر دی گئی تھی.پھر ظہر کی نماز کے بعد یک دفعہ بادل آیا اور بارش ہوئی اور رات کو بھی کچھ برسا اور اس رات کو جس کی صبح میں ۳ / مارچ ۱۹۰۷ ء کی تاریخ تھی زلزلہ آیا زلزلہ کی خبر اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور (۵ / مارچ ۱۹۰۷ء) اور اخبار عام لاہور ۲ مارچ ۱۹۰۷ ء ) میں شائع ہوئی.اس پیشگوئی کے قبل از وقوع سننے والوں میں چوہدری برکت علی خاں صاحب بھی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۵۷ پر آپ کا نام درج فرمایا ہے.
تاریخ احمدیت 794 جلد ۲۰ چوہدری صاحب موصوف نے ۱۹۰۴ء سے آخر ۱۹۰۸ ء تک دفتر الحکم میں کام کیا ازاں بعد آپ دفتر محاسب صد را انجمن احمدیہ میں بطور محر رسوم تعینات ہوئے.دس ماہ بعد آپ کو ترقی دے کر دفتر تعمیر میں منتقل کر دیا گیا ان دنوں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی وسیع عمارت زیر تعمیر تھی اور ہائی سکول کے بورڈنگ کے سامنے کا حصہ اور کوارٹرز بھی بن رہے تھے.صدر انجمن احمدیہ کا اپنا بھٹہ بھی جاری ہو چکا تھا اور پندرہ ہیں ہزار روپے ماہوار کا خرچ تھا آپ کے سپر د اس خرچ کی تقسیم اور حسابات کا کام ہوا جسے آپ نے اس محنت مستعدی اور انتہائی عرقریزی کے ساتھ انجام دیا کہ آپ کی حسن کارکردگی پر صدر انجمن نے سولہ ماہ کے اندر بارہ روپے ماہوار سے آپ کی تنخواہ میں روپے ماہوار کر دی اور آپ محر رسوم کے گریڈ سے ترقی دے کر محرر دوم کے گریڈ میں آگئے اور دوبارہ دفتر محاسب میں تبدیل کر دئے گئے جہاں آپ نے اپنے فرض منصبی کے علاوہ محرر اول حضرت منشی مرزا محمد اشرف صاحب سے خزانہ کا کام بھی سیکھا جس پر آپ کو محر ر ا ول کر دیا گیا اور حضرت منشی صاحب محاسب کے عہدے پر مقرر کر دئے گئے.۱۹۲۳ء میں آپ کو نظارت بیت المال میں تبدیل کر دیا گیا.۱۹۲۹ء میں صدر انجمن احمدیہ کی مالی حالت بہت نازک ہو گئی.حضرت مصلح موعود نے ۱۵ جون ۱۹۲۹ء کو چندہ خاص کی تحریک فرمائی جو خدا کے فضل و کرم کامیاب ہوئی اور اسمیں آپ کی کوششوں کا بھاری عمل دخل تھا.۴۲ ۱۹۳۱ء میں حضور نے آپ کو کشمیر ریلیف فنڈ“ کا فنانشل سیکرٹری مقرر فر ما یا آپ نے حضور کی ہدایات کی روشنی میں کام شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت بخشی کہ ہزاروں ہزار روپیہ اس فنڈ میں جمع ہو کر مسلمانان کشمیر کی بہبود میں خرچ ہوا.۱۹۳۲ء میں آپ کو صدرانجمن احمدیہ کے آڈیٹر کے فرائض سپر د کر دئے گئے.یکم فروری ۱۹۳۳ء کو آپ دارالا نوار کمیٹی قادیان کے سیکرٹری مقر ہوئے.آپ نے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد سے چارج لیا جو ۲ رفروری ۱۹۳۳ء کو اعلائے کلمہ حق کے لئے لنڈن تشریف لے جا رہے تھے.اس طرح آپ کے ذمے تین کام ہو گئے.جنہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاندار رنگ میں نبھانے کی توفیق بخشی چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۱۱/ جون ۱۹۳۴ء کو آپ کی بڑی بیٹی حمیدہ بیگم صاحبہ کا خطبہ نکاح پڑھتے ہوئے آپ کی مساعی پر خوشنودی کا اظہار کیا چنانچہ فرمایا
تاریخ احمدیت ، 795 جلد ۲۰ چوہدری برکت علی خاں....ان چند اشخاص میں سے ہیں جو محنت، کوشش اور اخلاص سے کام کرنے والے ہیں اور جن کے سپر د کوئی کام کر کے پھر انہیں یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی ، اسی زمانہ میں حضرت مصلح موعود نے احباب جماعت کی صحیح آمد کی تشخیص کے مطابق جماعتوں کے چندوں کا بجٹ تیار کرانے کے لئے مختلف جائنٹ ناظر بیت المال مقرر فرمائے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت سید محمد الحق صاحب کے ساتھ چوہدری برکت علی خاں صاحب کو بھی اس عہدہ پر ممتاز فرمایا آپ کا حلقہ دہلی 'شملہ انبالہ رہتک حصار گوڑ گاؤں اور علاقہ کشمیر تھا.۲۳ / نومبر ۱۹۳۴ء کو حضرت مصلح موعود نے ایک خطبہ کے ذریعہ تحریک جدید کی بنیاد رکھی اور اس کے مالی شعبہ کا انچارج یعنی فنانشل سیکرٹری آپ کو نا مز دفرمایا.آپ نے اپنی گذشتہ روایات کے عین مطابق اس عظیم الشان خدمت کے لئے اپنے جسم کی پوری توانائیاں وقف کر دیں اور تحریک جدید کے مالی نظام کو مستحکم کرنے میں گویا سر دھڑ کی بازی لگا دی.آپ کی محنت شاقہ انتھک جد و جہد اور غیر معمولی شغف کا اندازہ سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی المصلح الموعود کے مندرجہ ذیل الفاظ سے لگ سکتا ہے حضور نے مجلس مشاورت منعقدہ ۱۹۳۵ء میں فرمایا :.وو ” یہ زمانہ ہمارے لئے نہایت نازک ہے مجھ پر بیسیوں راتیں ایسی آتی ہیں کہ لیے لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنون ہونے لگا ہے اور میں اُٹھ کر ٹہلنے لگ جا تا ہوں غرض یہی نہیں کہ واقعات نہایت خطرناک پیش آ رہے ہیں بلکہ بعض باتیں ایسی ہیں جو ہم بیان نہیں کر سکتے مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول یاد آتا ہے کسی نے اُن سے کہا.خالد کو آپ نے کیوں معزول کر دیا آپ نے فرمایا تم اس کی وجہ پوچھتے ہو اگر میرے دامن کو بھی پتہ لگ جائے کہ میں نے اسے کیوں ہٹایا تو میں دامن کو پھاڑ دوں تو سلسلہ کے خلاف ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ جو میری ذات کے سوا کسی کو معلوم نہیں اور جو کچھ میں بتا تا ہوں وہ بھی بہت بڑا ہے اور اس سے بھی نیند حرام ہو جاتی ہے اور میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی نیند حرام کر دیا کرتا ہوں...پرسوں میں یہاں سے کام کر کے گیا تو رات کے ساڑھے بارہ ایک بجے تک ڈاک پڑھی اور پھر صبح سویرے سے کام شروع کر دیا تو ہمارے ذمہ اتنے کام ہیں کہ انہیں چھوڑ ہی نہیں سکتے.کل رات کو جب میں یہاں سے گیا تو جسم مضمحل تھا اور صبح کو بخار بھی تھا.معلوم نہیں اب ہے یا نہیں گو جسم کوفت محسوس کرتا ہے مگر وقت نہیں کہ اسکا خیال رکھیں.
تاریخ احمدیت 796 جلد ۲۰ شریعت کہتی ہے کہ اپنے جسم کا بھی خیال رکھو مگر پھر بھی مصروفیت ایسی ہے کہ جسمانی تکلیف کی کوئی پروانہیں کی جاسکتی اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی یہی حالت ہوتی ہے.چوہدری برکت علی صاحب کو مہینوں رات کے ۱۲ بجے تک تحریک جدید کا کام کرنا پڑا.اسی طرح تحریک جدید کے دفتر کے کام کرنے کا وقت ۱۲ گھنٹے مقرر ہے اس سے زیادہ ہو جائے تو ہو جائے کم نہیں کیونکہ یہ اقل مقدار ہے ۴۵ چوہدری برکت علی صاحب تحریر فرماتے ہیں :.آڈیٹر تحریک جدید کا کام خاکسارا کیلا ہی کر رہا تھا.حضور کی خدمت میں روزانہ رپورٹ پیش کرنے کے لئے حسابات بنانے اور خطوط کی منظوری کی روزانہ اطلاع دینے اور تحریک جدید کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد مزید تکمیل کے لئے دفتر کی پابندی کا سوال ہی نہ رہا اور نہ ہی میں نے ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۸ ء اور پھر ۱۹۰۹ ء سے اب تک اس کا خیال کیا کہ اء سے ۱۹۰۸ ء اور پھر ۰۹ دفتر کا وقت ختم ہو گیا چلو گھر چلیں.بلکہ یہ بات کھٹی میں پڑی ہوئی تھی کہ جب تک روزانہ کا کام ختم نہ ہو دفتر بند نہ ہو.اگر ضرورت پڑے تو گھر لے جا کر روزانہ کام ختم کر و.پس میں نے دفتر کے وقت کا خیال نہیں رکھا بلکہ روزانہ کام ختم کرنا اصول بنایا“ اتفاق کی بات ہے کہ تحریک جدید کا دفتر حضور کے قصر خلافت میں تھا.خاکسار تو رات کے دس بجے یا کبھی بارہ بجے تک کام کرتا.مگر حضور ایک دو بجے تک عموماً اور بعض دفعہ ساری رات بھی کام کرتے اور نماز فجر پڑھانے کیلئے تشریف لے جاتے.جب خاکسار کا آقا ساری ساری رات کام کرتا تھا تو میرے لئے کیا عذر تھا کہ زیادہ وقت لگا کر کام پورا نہ کروں ۴۶ قریشی عبدالرشید صاحب آڈیر تحریک جدید کا چشمد ید بیان ہے کہ ” حضرت چوہدری صاحب مرحوم و مغفور سے میرا تعارف قادیان میں ۱۹۴۶ء میں ہوا جبکہ مجھے آپ کے ساتھ ایک لمبا عرصہ کام کر نیکی سعادت ملی اس اثناء میں مجھے آپ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا.حضرت چوہدری صاحب مرحوم بلا شبہ ایک بے لوث اور مسلسل سترہ سترہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے والے بزرگ تھے.آپ کے کام کا طریق دو اصولوں پر مبنی تھا.اول یہ کہ تحریک جدید کے ہر وعدہ کرنے والے دوست سے ایک ذاتی تعلق پیدا کرنے کی کوشش
تاریخ احمدیت 797 جلد ۲۰ فرماتے اور اس وجہ سے روزانہ ڈاک کا جواب خود اپنے ہاتھ سے ہر دوست کو تحریر فرماتے اور خط کو ایک ایسا ذاتی رنگ دیتے کہ قاری گہرا اثر لئے بغیر نہ رہ سکتا تھا.دوم روز کا کام روز ختم کرنا ضروری سمجھتے تھے اور روزانہ ڈاک کا جواب شام کو لکھ کر فارغ ہوتے تھے اس وجہ سے دفتری اوقات آپ کے لئے ناکافی تھے وعدہ جات کی تحریک کے دنوں میں میں نے آپ کو دفتر سے رات کے نو دس بجے سے قبل گھر جاتے ہوئے شاذ ہی دیکھا تھا.سب سے آخر میں وعدوں کی مکمل رپورٹ اور دن بھر کے کام کا خلاصہ ۹.۱۰ بجے رات کے قریب حضرت اقدس کے حضور بھجواتے اور کچھ دیر تک انتظار فرماتے کہ حضور کی طرف سے رپورٹ کے ملا حظہ کے بعد کوئی استفسار نہ آجائے اس کے بعد گھر تشریف لے جاتے.با وجود تعلیم کی کمی کے آپکو اخبار کے لئے نوٹ لکھنے کا ایک خاص ملکہ حاصل ہو گیا تھا اور آپ کا اسلوب تحریر منفر د رنگ اختیار کر گیا تھا جو بعد میں کسی سے نقل نہ ہو سکا.آپ کے نوٹ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ باوجود اپنی سادگی کے وہ کس قدر گہرے اثر کے حامل ہوتے تھے اور چندہ تھا کہ اس کے نتیجہ میں اُمڈا چلا آتا تھا.چندہ جمع کرنے میں آپ کو ایک خاص مہارت تھی دو چار لاکھ روپیہ کسی تحریک کے لئے جمع کرنا آپ بہت معمولی بات سمجھتے تھے.ریٹائرمنٹ کے بعد بقایا جات کی وصولی کا کام آپ کے سپر د کیا گیا.جن دوستوں کو چندہ جمع کرنے کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ بقایا جات بالخصوص طوعی چندوں کے بقائے وصول کرنا خاصہ مشکل کام ہے لیکن اس میں بھی مکرم چوہدری صاحب کو نمایاں کامیابی ہوئی اور آپ نے اس مد میں ایک کثیر رقم جمع کر کے تحریک جدید کو دی ۱۹۴۷ء کے قیامت خیز ہنگامہ میں ہجرت کے وقت خدا کے اس مخلص بندہ کو اگر فکر تھا تو صرف اس بات کا کہ مخلصین جماعت کے چندوں کے حساب کا ریکارڈ کسی طرح پاکستان محفوظ پہونچ جائے.چنانچہ اس غرض کے لئے متعدد بار فرمایا کہ اگر پیدل قافلہ جانے کی صورت ہو تو ایک ایک کھانہ ایک ایک کارکن کے سپر د کر دیا جائے.تقسیم ( ملک ) کے بعد جو دھا مل بلڈنگ کے اسی کمرہ میں جو دفتر کے لئے الاٹ ہوا فروکش ہوئے ان کے ساتھ رہنے والوں کا بیان ہے کہ رات جب کبھی ان کی آنکھ کھلتی تو وہ اکثر مرحوم کو چندہ جات کا کھاتہ لئے ہوئے کام کرتے ہوئے پاتے غرضیکہ محترم چوہدری صاحب کی زندگی کام.کام.کام پر مشتمل تھی اور اسی دُھن میں آپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپر د کر دی
تاریخ احمدیت 798 جلد ۲۰ حضرت چوہدری صاحب صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی نہایت قا بل قد راور نا قابل فراموش خدمات انجام دینے کے بعد ۱۹۵۷ء میں وکیل المال کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے.رہٹا ئر منٹ کے بعد آپ کی تمام تر توجہ حضرت مصلح موعود کے ارشاد کی تعمیل میں پانچ ہزاری مجاہدین تحریک جدید کے انیس سالہ حساب پر مشتمل کتاب کی تدوین کی طرف رہی.آپ کی شبانہ روز محنت و کاوش جناب الہی میں مقبول ہوئی اور کتاب جون ۱۹۵۹ء میں چھپ کر شائع بھی ہو گئی.یہ کتاب جو آپ کی زندگی کا آخری یادگار کارنامہ ہے ۴۸۶ وو ۴۸ صفحات پر محیط ہے اور خوبصورت ٹائپ پر نصرت آرٹ پر لیس ربوہ میں طبع ہوئی ہے.الغرض حضرت چوہدری صاحب تمام عمر خدمت سلسلہ میں مصروف رہے اور آپ نے قربانی وایثار انتھک محنت اور سلسلہ احمدیہ اور خلافت کے ساتھ والہا نہ عقیدت کی شاندار مثال قائم کر دکھائی.قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر تحریر فرمایا :.' چوہدری صاحب مرحوم جو غالبا گڑھ شنکر ( ضلع ہوشیار پور ) کے رہنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رفیق تھے اولاً انہوں نے قادیان میں آ کر کچھ عرصہ اخبار الحکم میں کام کیا اور پھر صد را منجمن احمد یہ کے عملہ میں شامل ہو کر ہمیشہ کے لئے نوکر شاہی بن گئے اور اس خدائی نوکری کو انہوں نے زائد از پچاس سال اس اخلاص اور جان شاری اور وفاداری اور محنت سے نبھایا جو ہر احمدی کے لئے قابل رشک ہے میں نے ایسے بے ریا اور جانفشانی سے کام کرنے والے بہت کم لوگ دیکھے ہیں.مجھے امید ہے کہ خدا انہیں اس پاک گروہ میں داخل فرمائے گا جن کے متعلق وہ فرماتا ہے کہ مِنهم من قضى نحبه، وہ انتہائی عمر تک جب کہ وہ قریباً ۸۰ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اس والہا نہ جذبہ کے ساتھ کام کرتے تھے کہ دل سے دعا نکلتی ہے.ان کا آخری خاص کا رنامہ پانچ ہزار مجاہدین تحریک جدید کی کتاب کی تیاری اور اشاعت تھی ابھی چار پانچ دن کی بات ہے جب کہ وہ بے حد کمزور ہو چکے تھے اور گویا ان کے آخری سانس تھے.انہوں نے میاں عزیز احمد صاحب ایم.اے ناظر اعلی کی زبانی مجھے یہ پیغام بھجوایا کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی وفات سے جو خلا تبلیغ کے میدان میں پیدا ہوا ہے اسے جس طرح بھی ممکن ہو پورا کر نیکی کوشش کی جائے تاکہ سلسلہ کے تبلیغی کام میں روک نہ پیدا ہو.میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ چوہدری برکت علی خاں صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کی اولا د کو اپنے
تاریخ احمدیت 799 جلد ۲۰ فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور جماعت کو ان کا بدل عنایت کرے آمین یا ارحم الراحمین چوہدری صاحب کو جنازہ بھی ایسا نصیب ہوا جو بہت کم لوگوں کو میسر آتا ہے کیونکہ ایک تو جمعہ تھا اور دوسرے مشاورت کی وجہ سے بیرونی مہمان بھی بڑی کثرت سے آئے ہوئے تھے.اولاد ا.محتر مہ رحیمن بی بی صاحبہ کے بطن سے ).حمیدہ بیگم صاحبہ ( زوجہ چوہدری محمد اسمعیل خاں صاحب کا ٹھ گڑھی یکے از رفقاء مسیح موعود ) ( محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ کے بطن سے ) سروری بیگم صاحبہ ۳.۴.._^ چوہدری مبارک احمد خاں صاحب چوہدری کرامت احمد خاں صاحب چوہدری بشات احمد خاں صاحب چوہدری سعادت احمد خاں صاحب امتہ الحفیظ صاحبہ چوہدری رفاقت احمد صاحب.چوہدری دولت خان صاحب کا ٹھ گڑھی ولادت تقریب ۱۸۷۰ ء بیعت ۱۹۰۵ ء وفات ۱۲.اپریل ۱۹۶۰ء) چودھری دولت خان صاحب کا ٹھ گڑ ھضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے آپ محکمہ جنگلات میں ملازم تھے.آپ جب احمدی ہوئے تو آپ کا افسر ناراض ہو گیا اور کہا دولت خاں اب میں دیکھوں گا کہ تمہیں کون ترقی دلاتا ہے؟ آپ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ ترقی دینا ہے گا تو کوئی روک نہیں سکتا.جب موقع آیا اور آپ کے افسر کو بالا افسر کا حکم پہنچا کہ اپنے ماتحتوں کی ترقی کے لئے سفارش کرو تو آپ کے افسر نے آپ کی بجائے کسی دوسرے آدمی کی سفارش کر دی.بالا افسر کیطرف سے منظوری کے کاغذات آئے تو اُن میں لکھا تھا کہ ترقی
تاریخ احمدیت 800 جلد ۲۰ دولت خاں کو دی جاتی ہے.آپ کا افسر حیران رہ گیا.اس نے دوبارہ لکھا تو بالا افسر کا حکم آیا کہ ہمارے پہلے حکم کی تکمیل کر وترقی دولت خاں ہی کو دی جاتی ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے جو افضال آپ پر ہوئے ہمیشہ ان کا ذکر کرتے تھے.تبلیغ کا آپ کو بہت جوش تھا دعوت الی اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.ہر چھوٹے بڑے کو پیغام حق پہنچاتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میرا بھائی مجھے مولوی ثناء اللہ صاحب کے پاس امرتسر لے گیا.جب مولوی صاحب سے آپ کی گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پتہ نہیں مرزا صاحب اپنے ماننے والوں کو کیا پڑھا دیتے ہیں.ہر سوال کا جواب اُن کے پاس پہلے سے موجود ہوتا ہے.۱۹۲۳ء میں ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ قیام پاکستان تک جماعت احمدیہ کا ٹھ گڑھ کے سیکرٹری مال رہے اور اس کام کو نہایت محنت اور خوش اسلوبی سے ادا کیا.۱۹۴۷ء میں کا ٹھ گڑھ سے ہجرت کر کے چک ۴۹۷ / ج - ب تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ میں آباد ہو گئے اور ۱۹۵۹ ء تک مسلسل سیکرٹری مال اور پریزیڈنٹ جماعت کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.چندہ با قاعدہ ادا فرماتے اور دوسروں سے بھی وصول کر کے مرکز کو بر وقت ارسال کرتے تھے.سلسلہ کے کارکنوں کی خصوصیت سے بہت مہمان نوازی کرتے اور با وجود بوڑھے اور کمزور ہونے کے خود کھانا لا کر مہمان کے آگے پیش کرتے.آپ مجاہد مشرقی افریقہ مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل کے حقیقی چچا تھے.اولاد چوہدری علی محمد صاحب چوہدری محمد علی صاحب لطیفہ بیگم صاحبہ چوہدری محمد علی خاں صاحب اشرف ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ولادت ۱۶ / اکتوبر ۱۸۸۳ء بیعت ۱۹۰۳ ء وفات ۱۶ جون ۱۹۶۰) چوہدری محمد علی صاحب اشرف اپنی سوانح میں لکھتے ہیں." خاکسار ۱۶ اکتوبر ۱۸۸۳ ء میں پیدا ہوا اور سوا چار سال کی عمر میں تعلیم شروع کی.ورنیکلر مڈل پاس کر کے محکمہ پٹوار میں داخل ہو کر ہوشیار پور پہنچا مگر وہاں سے دل برداشتہ ہو کر اسلامیہ ہائی سکول ہوشیار پور میں انگریزی تعلیم حاصل کر نے لگا.اور چند مہینوں میں اینگلو مڈل بڑی شان و شوکت سے پاس کیا.اوائلِ زندگی قبر پرستی میں گذری مگر
تاریخ احمدیت 801 جلد ۲۰ ہوشیار پور میں میرے خیالات آریہ سماج میں جانے کی وجہ سے دہریت اور پھر آریہ مت کی طرف منتقل ہو گئے اور اینگلو مڈل بڑی تزک و احتشام سے پاس کرنے کی وجہ سے آریہ سماج میری عاشق ہوگئی اور اس نے مجھے اپنی طرف راغب کرنے کے لئے اور اپنے سکول میں لے لینے کی خاطر بے حد جد و جہد شروع کر دی اسی دوران میں میاں اکبر علی مرحوم تاجر کتب ہوشیار پورسیمیری جان پہچان ہو گئی وہ خفیہ احمدی تھے.انہوں نے دریافت کیا اب کیا ارادہ ہے؟ میں نے آریہ مت قبول کرنے کا ارادہ ظاہر کیا وہ کہنے لگے کہ کیوں میں نے جواب دیا کہ اسلام میں کیا رکھا ہے.سماج میں تو مزے ہی مزے ہیں خوب بھجن ہوتے ہیں.راگ رنگ اور طرح طرح کے نظاروں سے طبیعت خوب بہلتی ہے.انہوں نے اصرار کیا کہ قبل اس کے تم آریہ مت اختیار کرو.پہلے اسلام کی چھان بین کر لو.میں نے پوچھا کہ کہاں کروں ؟ مولوی لوگ تو برائے نام مسلمان ہیں.قلا عوذ ئیے.جمعراتیئے اور ختم وغیرہ پڑھ کر روٹی کھانے والے ہیں.یوں ہی بگلا بھگت دکھائی دیتے ہیں.بسم اللہ کے معنی پوچھو تو بتلاتے نہیں.لمبی لمبی تسبیجیں پھیر کر گنڈے تعویذوں سے مسلمانوں کا مال ڈکارتے ہیں یوں ہی تقدس مآب بنے ہوئے ہیں اور واعظاں کیں جلو ہ بر محراب و منبر می کند چوں بخلوت شامیر وند آن کار دیگر می کند کے مصداق ہیں.خیر انہوں نے باصرار کہا کہ میں جگہ بتلاتا ہوں وہاں پہنچ کر اسلام کی تحقیقات کرنے کے بعد جو چاہو کرنا.مگر پہلے وعدہ کرو کہ کسی کو بتلائے بغیر وہاں چلے جاؤ گے میں نے کہا ہاں.وہاں ضرور جاؤں گا.انہوں نے مجھے قادیان مغلاں کی طرف رہنمائی کی.وہاں سے چھوٹتے ہی اپنے والد بزرگوار سے رشتہ داروں سے ملنے کا بہانہ کر کے سیدھا پیدل قادیان پہنچ گیا.اور حضرت حکیم الامہ کے درس مبارک میں داخل ہوا.جو کہ آپ اپنے عمر رسیدہ شاگردوں کو اپنے مطب میں حدیث و فقہ اور طب وغیرہ کا درس دیتے تھے.آپ نے درس میں شامل کر کے مجھ غریب سے دریافت فرمایا بچے کہاں سے آئے ہو؟ کیا مطلب ہے؟ میں نے اپنا مدعا ظاہر کیا.پھر فرمایا کچھ پڑھے لکھے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اینگلوور نیکر مڈل پاس ہوں.آپ نے نہایت پیار سے مجھے مولوی قاضی یا رمحمد صاحب وکیل نور پور ) کے سپر د کر کے فرمایا کہ مفتی صاحب ( حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) کے پاس لے جاؤ اس کی دینی و دنیوی تعلیم کا انتظام کریں گے.حضرت مفتی صاحب نے مجھے مہتم
تاریخ احمدیت 802 جلد ۲۰ لنگر خانہ و مہما نخانہ کے سپر د کر کے فرمایا کہ صبح کو سکول حاضر ہو جاؤ.سب بند و بست ہو جائے گا.اگر چہ میرے خیالات پراگندہ تھے.مگر پنجگانہ نمازی تھا.مسجد میں آمد ورفت کے باعث معلوم ہوا کہ ہم سنی ہیں اور یہاں کے باشندے وہابی دکھائی دیتے ہیں.چنانچہ ایک روز نماز ظہر یا عصر پڑھ کر نکلنے لگا تو جماعت کی صف بندی شروع ہو گئی.مجھے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے زبر دستی جماعت کے ساتھ شامل ہونے کے لئے کہا.میں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے کہ بابا میں نماز پڑھ چکا ہوں مگر نقار خانہ میں طوطی کی صدا کون سنتا ہے.مجھے جبراً شامل کیا گیا.مرتا کیا نہ کرتا طوعاً و گڑھا کھڑا ہو گیا.مگر دل میں یہی دعا کرتا رہا کہ الہی میرا گناہ بخشیو میں دیدہ و دانستہ ان کے ساتھ شامل نہیں ہوا.بعد ازاں قادیان سے بھاگ نکلنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور حضرت مفتی صاحب سے اجازت چاہی.آپ نے بے حد محبت و پیار سے مجھے روکنا چاہا.مگر بدگمانی کا بھوت مجھے کہاں ٹکنے دیتا تھا.میں بے تحاشا بھا گا اور دریائے بیاس سے پار ہو کر اپنے رشتہ داروں کے پاس پہونچ گیا وہاں میری تلاش میں والد بھی پہونچے ہوئے تھے وہ آپس میں چہ میگوئیوں میں مصروف تھے.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا قادیان سے.شامت اعمال دیکھیئے کہ چند حقہ باز ملا نے بھی موجود تھے.بس پھر کیا تھا.کہرام مچ گیا ہر طرف سے مجھ پر بھر پڑے.کہ تم وہاں کیوں گئے وہاں تو ایک شخص اپنے آپ کو خدا بتاتا ہے.کبھی کہتا ہے کہ میں عیسی ہوں.اور امام مہدی ہوں.غرضیکہ سب کے سب حضرت اقدس مرزا صاحب کی شانِ مبارک میں بکواس کر نے لگ گئے.میں نے کہا کہ اللہ گواہ ہے کہ جتنے دن بھی قادیان رہا ایک دن بھی میں نے نہ سنا کہ یہاں کوئی شخص اپنے آپ کو خدا کہتا یا عیسی بنتا ہے.میں نے ہر چند اُن لوگوں سے کہا کہ ایسا وہاں کوئی شخص نہیں.مگر میری ایک نہ سنی گئی.آخر مجھے یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ اچھا بھئی اگر وہاں کوئی شخص ایسا ہے جو خدا بنتا اور مہدی وعیسی بنتا ہے تو میں تو پہلے ہی خدا کا متلاشی ہوں اور اسی دھن میں لگا پھرتا ہوں اور اگر چہ وہاں سے میں بے حد اداسی میں اور قادیان کے باشندوں کو وہابی پا کر اور اُن سے متنفر ہو کر آیا ہوں مگر اب میں دوبارہ ضرور وہاں اُس خدا کو دیکھنے جاؤں گا.خواہ تم مجھے کتنا ہی تنگ کرو.میں ہٹ دھرمی اور ضدی مشہور تھا.مجھے طرح طرح سے ورغلاتے کہ تم علیگڑھ.دیو بند یا دہلی لکھنؤ چلے جاؤ.جتنا خرچ ما ہوا ر مانگو گے دیا جائے گا.مگر قادیان مت جاؤ مگر ع زمین جنبد نہ جنبد گل محمد
تاریخ احمدیت 803 جلد ۲۰ میں ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہوا اور بس دہراتا رہا کہ اس خدا کو ضرور دیکھنے جاؤں گا.دوسرے دن علی الصباح اپنے والد صاحب بزرگوار کو ہمراہ لیکر قادیان پہنچ گیا.وہ میرے ساتھ اس لئے گئے کہ میں کہیں اور جگہ نہ چلا جاؤں.قادیان پہنچتے ہی حضرت مفتی صاحب سے ملا کہ مفتی صاحب آپ مجھے خدا دکھا دیں.وہ کہاں ہے.حضرت مفتی صاحب مجھے دیکھ کر حیران تھے کہ کل تو یہاں سے ایسا بھا گا تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ.آج پھر یہاں کیسے برا جمان ہو گیا.مگر میں بار بار دوہراتا رہا کہ مجھے وہ خدا دکھا دو.میں تو اُسے دیکھنے آیا ہوں.کیونکہ کل راستہ میں مجھے لوگوں نے متفقہ طور پر یہ بات بتلائی ہے کہ قادیان میں ایک شخص خدا اور عیسی بنتا ہے.حضرت مفتی صاحب تاڑ گئے کہ اسے خدا د یکھنے کا جنون ہے فرمانے لگے کہ اچھا ہمارے پاس ٹھہر و.ہم سب کچھ دکھا دیں گے مگر یہ کام جلد نہ ہوگا.ذرا دھیرے دھیرے ہوگا.آپ نے اپنی کمال روشن ضمیری اور دوراندیشی سے مجھے سنبھال لیا اور چند دن کی رڈ وکر کے بعد مجھے اصلی معنوں میں دیندار بنا کر سچ سچ خدا دکھا دیا اور حضرت امام صادق مسیح موعود و مہدی مسعود سے ملا دیا.جب اچھی طرح میری تسلی ہو گئی تو میں نے حضرت مفتی صاحب سے عرض کیا کہ میں بیعت کروں گا غالبا مئی ۱۹۰۳ء کا آخر تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے دست مبارک پر بیعت سے مشرف ہوا.مجھے یہ بھی شرف حاصل ہے کہ میرے ہم کلاس حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے جیسے بزرگ و محترم ہستیاں تھیں.اور حضرت خلیفہ اوّل کا درس سننے اور قرآن کریم کے معارف و نکات سے مستفید ہونے کا سنہری موقع مل گیا.حضرت مولانا مولوی شیر علی صاحب فرشتہ خصلت اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب ہفت زبان.علامہ زماں حضرت مولوی سرور شاہ صاحب اور حضرت قاضی امیرحسین صاحب جیسے مفسر قرآن اور شاعر بے بدل فردوسی ثانی ملک الشعراء حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بسمل جیسی بزرگ و یکتا ہستیوں کے شاگرد بنے کا فخر حاصل ہوا.۱۹۰۶ء کا ذکر ہے جبکہ خاکسار ریلوے ڈیپارٹمنٹ لاہور میں ملازم تھا کہ پرائیویٹ امتحان انٹریس دینے کا ارادہ کر کے ملا زمت ترک کرنا چا ہی.میرے متعلق میرے اکثر اساتذہ اور پھر حضرت خلیفہ اصیح ثانی ( جو ان دنوں صاحبزادگی کی حالت میں خاکسار کے ہم جماعت تھے ) کا خیال تھا.کہ خاکسار خواہ نو سال تک کسی گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل ہو کر امتحان میٹرک پاس کرنا چاہے تو ایسا ہر گز نہ ہوگا.میں ایسا خیال رکھنے
تاریخ احمدیت 804 جلد ۲۰ 66 والے تمام اصحاب کو کہا کرتا تھا کہ خدا کی ذات اس بات پر قادر ہے کہ بجائے نو سال محنت اُٹھانے کے پہلی دفعہ ہی پاس کر دے.چنانچہ خاکسار نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت مقدسہ میں ایک عریضہ تحریر کر کے امتحان دینے اور ملا زمت ترک کرنے کی اجازت چاہی حضرت نے فوراً باہر دروازے پر تشریف فرما ہو کر مجھے غریب کو سمجھانا چاہا کہ ملازمت کیوں چھوڑتے ہو ملا زمت چھوڑنا اچھا نہیں ہوتا خاکسار نے عرض کیا کہ حضرت اگر میں انٹرنس پاس کرلوں تو ملازمت میں مجھے خاصی ترقی مل سکتی ہے.والا میں معمولی درجہ پرڑ کا رہوں گا.حضرت نے مجھ سے یہ عرض سننے پر اظہار مسرت فرما کر مجھے پیار کر کے فرمایا.اچھا جا ؤ ا جازت ہے.میں دعا کروں گا پاس ہو جاؤ گے.چنانچہ میں نے پرائیویٹ طور پر محنت کر کے امتحان دے دیا اور پاس ہو گیا.6 ۵۵ ۵۶ پھر قادیان میں اپنے اساتذہ اور حضرت صاحبزادہ صاحب سے مل کر خوشخبری سنائی تو سب حیران رہ گئے اور میری بات پر یقین نہ کرتے تھے.مگر جب میں نے حضرت اقدس سے اجازت اور دعا کرنے کا واقعہ سنا کر یو نیورسٹی پنجاب کا مطبوعہ کارڈ دکھایا تو سب فرمانے لگے کہ تم مجزا نہ رنگ میں پاس ہوئے ہوالحمد للہ.چودھری صاحب نہایت منکسر المزاج، سلسلہ کے فدائی اور مخلص بزرگ تھے ۱۹۱۳ء میں اخبار ” بدر قادیان کے جائنٹ ایڈیٹر ر ہے کچھ عرصہ اخبار الاسلام‘ ( لاہور ) کی ایڈیٹری کے فرائض انجام دئے مگر عمر کا کثیر حصہ محکمہ تعلیم کی ملازمت میں بسر کیا.آپ کی قابلیت انتظامی کا اتنا شہرہ ہوا کہ کئی سکولوں کے ہیڈ ماسٹر بنے.آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.کئی مباحثات پیش آئے سب میں فتحمند رہے مد مقابل پر چھا جاتے تھے.تقسیم ملک سے قبل اپنے وطن بیرم پور میں سلسلہ احمدیہ کی خدمات بجالاتے رہے ہجرت کے بعد قصبہ چنیوٹ ضلع جھنگ کے محلہ گڑھا گلی کتیال مکان نمبر ۷ ۳۱۸ میں پناہ گزین ہوئے اور تا دم واپسی اپنے اکلوتے بیٹے احمد علی صاحب پٹواری کے پاس رہے اور یہیں انتقال کیا.چودھری صاحب کا مذاق شعر و سخن بھی بہت پاکیزہ تھا.آپ کی شاعری کا آغاز حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں ہوا چنانچہ آپ کی بعض نظمیں اُس دور کے بدر میں چھپی ہوئی ہیں.آپ کی اردو اور پنجابی منظومات ” ترانہ اشرف ریاض النور“ تائید حق“ سہ حرفیاں بارہ ماہ اور دیوانِ اشرف کے نام سے آپ کی زندگی میں ہی چھپ گئی وو وو 99.66 ۵۷
تاریخ احمدیت 805 جلد ۲۰ میاں شیخ محمد صاحب قریشی زیارت ۱۸۹۳ء بیعت ۱۹۰۳ ء وفات ۶ / جون ۱۹۶۰ء ) آپ قادیان کے قدیمی باشندوں میں سے تھے.آپ کی والدہ محترمہ عالم بی بی صاحبه حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں داخل سلسلہ عالیہ احمد یہ ہوئیں.اس اعتبار سے آپ پیدائشی احمدی تھے.آپ نے اپنی ملازمت کا طویل عرصہ جو تقریباً تمیں سال تک ممتد ہے قادیان میں بحیثیت پوسٹ مین گذارا.ہجرت کے بعد کچھ عرصہ ربوہ اور لاہور میں رہے.اولاد قریشی محمد عبد اللہ صاحب ربوہ قریشی عطاء اللہ صاحب ربوہ.قریشی عبد الغنی صاحب لاہور 09 میاں بدرالدین صاحب مالیر کوٹلوی ولادت ۱۸۸۲ ء اندازاً بیعت و زیارت ۱۹۰۰ء وفات ۳ / جولائی ۱۹۶۰ء ) میاں بدرالدین صاحب سادہ طبیعت رکھنے والے نہایت مخلص بزرگ تھے آپ کے والد میاں گل محمد صاحب حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے ملازموں میں سے تھے جو آپ کی معیت میں ۱۹۰۰ء میں مالیر کوٹلہ سے مستقل طور پر قادیان آ گئے تھے.آپ اپنے والد کے ساتھ عرصہ تک الدار میں پانی پہنچانے کی خدمت بجا لاتے رہے بلکہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں مقدمہ کے دوران تشریف فرما تھے تو پانی بھرنے کی غرض سے آپ کو قادیان سے بلایا گیا حضور کو آپ کے پہنچنے کی اطلاع ہوئی تو شیخ حامد علی صاحب کو ارشاد فرمایا کہ دیکھو اس لڑکے کو اعلیٰ کھانا کھلایا کرو.اس پر آپ نے عرض کیا کہ
تاریخ احمدیت 806 جلد ۲۰ حضور میرے لئے تو حضور کے دستر خوان کا بچا کھچا کھانا ہی اعلیٰ ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی شادی ہوئی تو الدار کے جن خادموں کو انعام دیا گیا اُن میں آپ بھی تھے اس موقع پر حضور نے اپنے دست مبارک سے آپ کو سرخ رنگ کی ایک لنگی اور مبلغ ۵ روپے عطا فرمائے.آپ نے لنگی لے لی اور روپے واپس حضور کے ہاتھ پر رکھ کر کہا کہ حضور یہ میری طرف سے چندہ ہے جسے حضور نے قبول فرما لیا.آپ کی بیوی کو صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب مرحوم ابن حضرت مصلح موعود کو دودھ پلانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی چنانچہ آپ کی روایات میں یہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ یہ عاجزاندر والے کنویں پر سے پانی بھر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے اور فرمایا.میاں بدرالدین ہمارے بچے کی والدہ بیمار ہے اور بچے کو دودھ پلانا ہے.( بچے سے مراد صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب مرحوم حضور کے پوتے ہیں ) اور معلوم ہوا ہے کہ آپ کی بچی فوت ہو گئی ہے اور آپ کی بیوی کا دودھ ابھی تازہ ہے.اس پر میں نے عرض کی کہ حضور میری بیوی نے تو ابھی منسل وغیرہ ( جسے عام طور پر چھلہ کہتے ہیں ) بھی کرنا ہے.اور لوگ ایسی حالت میں عورت کا دوسروں کو دودھ پلانا بہت بڑا منحوس کہتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ نہیں نہیں یہ سب با تیں شرک ہیں.اگر آپ منظور کرتے ہیں تو اپنی بیوی کو ہمراہ لے آئیں.اس پر عاجز نے آ کر اپنی بیوی سے کہا اور پھر اُسے اپنے ہمراہ لے گیا.اور جا کر حضور کو اپنے آنے کی اطلاع کر دی حضور باہر تشریف لائے اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سے فرمانے لگے کہ ڈاکٹر صاحب ان کے دودھ کا معائنہ کریں“ اس پر ڈاکٹر صاحب نے میری بیوی کے دودھ کو دیکھا اور حضور سے کہنے لگے کہ حضور دودھ بالکل صاف ہے.پھر حضور نے بچے کو منگوایا اور اُسے دودھ پلانے کو کہا تو میری بیوی نے بچے کو اُٹھا کر دودھ پلانا شروع کر دیا اور بچے نے بھی دودھ پینا شروع کر دیا.ہجرت قادیان سے قبل آپ ریتی چھلہ میں سبزی فروشی کا کام کرتے تھے.ہجرت کے بعد ربوہ میں رہائش اختیار کر لی بعد ازاں دو سال تک سندھ میں رہے اور وفات سے ہفتہ عشرہ قبل بیماری کی حالت میں ربوہ واپس آئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فضل عمر ہسپتال میں آپ کے علاج معالجے کا اہتمام کر دیا اور مجلس خدام الاحمدیہ حلقہ گولبا زار نے آپ کی تیمارداری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن آپ اس بیماری سے صحت یاب نہ ہو سکے اور ۳ / جولائی ۱۹۶۰ ء کو اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.وو ۱۶۳.۶۴
تاریخ احمدیت 807 جلد ۲۰ محترم سردار کرم داد خان صاحب افسر حفاظت ( ولد ولی داد خاں صاحب) ۶۵ ولادت ۱۸۷۵ء بیعت و زیارت ۱۹۰۲ ء وفات ۲۸ /اگست ۱۹۶۰ء) محترم سردار کرم داد خاں صاحب فرماتے ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بیعت کرنے سے پہلے خواب میں دیکھا.وہ اس طرح کہ ایک سڑک ہے.اس پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مل کر ٹہلتے آ رہے ہیں.بندہ سامنے سے آ رہا ہے.حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) بندہ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.( انگلی کا اشارہ کر کے ) کہ یہ خدا کی طرف سے ہے.یہ خدا کی طرف سے ہے.یعنی تین دفعہ حضور نے فرمایا.جب میں نے ۱۹۰۲ء میں بمقام قادیان دارلامان میں جبکہ چھوٹی مسجد ہوا کرتی تھی.بیعت کی تو اسی حلیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پایا پھر بیعت کے وقت میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی.کہ میری برادری سب شیعہ ہے.حضور دعا فرمائیں.حضور نے فرمایا.میں نے دعا کر دی ہے.اب ہمارے سب رشتہ دار جو شیعہ تھے احمد کی ہو چکے ہیں ) پھر میں نے حضور کا خطبہ مسجد اقصیٰ میں سنا.حضور نے ” یا تون من كل فج عمیق فرمایا.اور فرمایا.کہ کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اور فرمایا.تمہارے درمیان وہی مسیح بول رہا ہے.جس کی خبر خدا نے دی تھی اور اس کے رسول نے دی تھی.اس کے بعد پھر میں نے حضور کی زیارت ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور کی تھی.جب حضور پر کرم دین بھین والے نے مقدمہ کر رکھا تھا.اتنے دن ٹھہرا رہا ہوں.جب تک مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہو گیا.جب مجسٹریٹ نے پانچ صد روپیہ جرمانہ کیا.خواجہ کمال الدین نے فوراً روپیہ آگے رکھدیا.بندہ عدالت میں موجود تھا.اس کے بعد بندہ ملازم ہو کر ہمقام شب قدر علاقہ پشاور میں تھا.کہ حضور کے وصال کی خبر پہنچی.بندہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کی.درمیانی جھگڑوں کا بھی علم ہوتا رہا.چنانچہ جب ایک مجلس بیت مبارک میں منعقد کی گئی.بندہ اس میں حاضر تھا.مولوی محمد علی صاحب صدر الدین صاحب، خواجہ کمال الدین وغیرہ چاہتے تھے کہ مدرسہ احمدیہ قائم نہ ہو.جو حضرت مسیح موعود
تاریخ احمدیت 808 جلد ۲۰ علیہ السلام کا تجویز کردہ تھا.بہت جوش کے ساتھ تقریریں کرتے رہے.اور کہتے تھے.ہم نے کوئی ملاں پیدا کرنے ہیں.جنہوں نے آگے دین کا ستیا ناس کیا ہے.جب خواجہ صاحب کا لیکچر ختم ہوا.تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی تشریف لائے ہوئے تھے.جب حضور نے صدر کی اجازت لے کر لیکچر شروع فرمایا.تو خواجہ صاحب کا جو اثر مجلس کے اکثر افراد پر تھا.کا فور ہو گیا.بلکہ جب حضور نے یہ فرمایا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنکھیں بند کرنے کے بعد ہی حضور کے ارادوں پر پانی پھیرنا شروع کر دیا گیا ہے.تو لوگوں کی چھینیں نکل گئیں، اور مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی زار و قطار روئے اور سب نے حضور کے ساتھ اتفاق کیا کہ مدرسہ احمدیہ ضرور ہونا چاہیئے.پھر جب حضرت صاحب خود خلافت کے منصب پر متمکن ہوئے بندہ چھاؤنی لاہور میں موجود تھا.ادھر حضرت مولوی صاحب کی وفات ہوئی.ادھر ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب وغیرہ فوراً ہمارے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ بیعت میں جلدی نہ کرنی چاہیئے.میں نے کہا.جب خلیفہ خدا بنا تا ہے.تو اس میں جلدی یا نہ جلدی کے کیا معنے ہوئے.جس کو خدا خلیفہ بنائے گا.ہم بیعت کر لینگے.مگر آپ کے یہاں آنے سے معلوم ہوتا ہے.کہ اگر حضرت محمود خلیفہ ہوئے.تو آپ لوگ بیعت نہیں کرینگے.ہاں اگر محمد علی خلیفہ ہوئے.تو ضرور بیعت کر لینگے.بس میرا اتنا کہنا تھا.کہ محمد حسین شاہ صاحب سخت غصہ میں بھر گئے.اور اٹھ کھڑے ہوئے.کہنے لگے کہ تم لوگ اپنے بھائیوں پر بدظنی کرتے ہو.تم کو کیا معلوم ہے.کہ ہم بیعت کر لیں گے.کہ نہیں.میں نے کہا.یہاں آپ کے آنے کا کیا مطلب تھا.بندہ ہر جلسہ پر حاضر ہوتا رہا ہے.سوائے دو سال کے جب مجھے ملا زم ہونے کی حالت میں عدن بھیجا گیا.بندہ نے ۱۹۳۱ء میں پنشن لے لی.قادیان دار الامان میں مستقل طور پر آ گیا.کیونکہ مکان ہم نے ۱۹۱۹ء میں یہاں بنا لیئے تھے.بندہ نے آتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھ بھیجا.کہ میں اپنی زندگی سلسلہ کے کاموں کے لیئے وقف کرتا ہوں.بندہ کو یہاں آتے ہی محلوں سے چندہ وصول کرنے پر لگایا گیا.پھر سیکرٹری وصا یا مقرر کیا گیا.پھر انسپکٹر وصایا بنایا گیا.بعد میں با قاعدہ دفتر بہشتی مقبرہ میں کام کرنا شروع کیا.اور دفتر والوں نے مجھے کہا.کہ حضور نے آپ کی وقف زندگی پر خوشی کا اظہار فرمایا ہے.آپ یہاں ہی کام کرتے رہیں.اس کے بعد ۱۹۳۴ ء تک میں دفتر میں ہی کام کرتا رہا.جب ۱۹۳۴ ء میں احرار کا جلسہ ہوا.تو حضرت میاں شریف احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دفتر بہشتی مقبرہ سے نکال کر حضرت خلیفہ المسیح
تاریخ احمدیت 809 جلد ۲۰ الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حفاظت کا افسر انچارج مقرر فرمایا.اس وقت سے بندہ ۶۶ اسی کام پر مقرر ہے.خاکسار کرم داد خاں پنشنر قادیان دار الامان ۳۸ - ۱ - ۲۷ محترم سردار صا حب ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۷ء تک پہرے کے انچارج کی حیثیت سے نہایت خوش اسلوبی اور مستعدی اور فرض شناسی سے خدمات بجا لاتے رہے.آپ سلسلہ احمدیہ کے بچے اور مخلص فدائی تھے اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کو بے حد محبت تھی.سلسلہ کی مالی تحریکات میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.آپ موصی تھے اور جائیداد کے ۱٫۳ اور آمدنی کے ۱۱۹ حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی.اسی طرح تحریک جدید کے مالی جہاد میں بھی آپ برابر حصہ لیتے رہے آپ کو حضرت پیر منظور محمد صاحب اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب ہلال پوری کی دامادی کا شرف حاصل تھا.اولاد ( محتر مہ حامدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت پیر منظور احمد صاحب کے بطن سے ) ۱.محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ (اہلیہ چودھری مظفر الدین صاحب بنگالی ۲.سابق ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز ) امینہ فرحت صاحبہ (اہلیہ چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی سابق ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول و مبلغ امریکہ ) حضرت با بوافضل خاں صاحب بٹالوی ) ولادت اند از ا۱۸۸۰ء بیعت اند از ۲۴ - ۱۹۰۱ء وفات ۲۸ ستمبر ۱۹۶۰ء.) آپ کے بزرگوں کا اصل وطن دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور تھا.آپ کے دا دا بٹالہ میں اٹھ آئے اور ککے زئیوں کی گلی میں مقیم ہو گئے.آپ کے والد میاں میر محمد کی ساری عمر تعلیم و تدریس میں گزری.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل سے ان کے پرانے مراسم تھے.مگر قبول احمدیت کی توفیق اُن کی بجائے آپ کو نصیب ہوئی.آپ اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدی تھے.آپ نے اپنے بڑے بھائی شیخ غلام قادر خاں صاحب والد مولانا عبد المجید خاں سالک مدیر انقلاب) کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں بھیجیں اور اخبار بدر جاری کرایا.وہ سید نا حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ملاقات کا شرف حاصل کیا بعد ازاں بیعت حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے عہد میں بذریعہ
تاریخ احمدیت 810 جلد ۲۰ خط کی اور پھر اپنے نمونہ دعا اور تبلیغ سے پٹھانکوٹ میں ایک مخلص جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے اس طرح حضرت با بوافضل خاں صاحب کا وجود نہ صرف اپنے خاندان کو وو بلکہ علاقہ پٹھانکوٹ کو احمدیت سے منور کرنے کا ذریعہ ثابت ہوا.شیخ غلام قادر خاں صاحب کے صاحبزادے محترم عبدالجلیل خاں صاحب عشرت ( بی اے آنرز ) حضرت با بوصاحب کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں مرحوم حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے مخلص رفقاء میں سے تھے.بڑے عابد و زاہد اور تہجد گزار بزرگ تھے.غالباً ۱۹۰۱ ء یا ۱۹۰۲ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بیعت کی.ہمارے خاندان میں اُنہی کی بدولت احمدیت آئی ان کے بیعت کرنے کے بعد میرے والد حضرت شیخ غلام قادر صاحب پٹھانکوٹی نے احمدیت قبول کی اور اسی طرح یہ نعمت ہمارے خاندان کے حصہ میں آئی.الحمد اللہ علی ذالک.چچا صاحب مرحوم ریذیڈنٹ وزیرستان کے دفتر سے بحیثیت سپرنٹنڈنٹ ریٹائر ہوئے اور پھر اپنے وطن مالوف بٹالہ میں قیام پذیر ہو گئے.پاکستان بننے کے بعد لاہور میں آ گئے.سوئے اتفاق سے یہاں کوئی ڈھب کا مکان رہائش کے لئے نہ ملا.اس لئے کچھ تکلیف ہی میں رہے.۶ سال ہوئے ان کی جوان بیٹی بیوہ ہو گئیں.قدرتی طور پر انہیں بے حد صدمہ پہنچا.پھر بے سروسامانی کی حالت میں یہ صدمہ اور بھی زیادہ رُوح فرسا تھا.لیکن مرحوم نے صبر و رضا کا ایسا نمونہ دکھایا کہ جس کی مثال کم ہو گی.کبھی اُف تک نہ کی.اپنی موجودہ حالت کے متعلق بھی کبھی حرف شکایت لب تک نہ آنے دیا.نہایت نیک اور پاکباز انسان تھے.روپیہ پیسہ کے معاملہ میں بہت محتاط اور کھیرے تھے.دیانتداری اور راستبازی ان کی خاص صفتیں تھیں.بڑی با رعب شخصیت تھی.ذاتی وجاہت اور تقویٰ و طہارت کی وجہ سے ہر شخص ان کا احترام کرتا تھا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بہت محبت تھی.آپ کے خلیفہ منتخب ہونے پر بلا تامل بیعت کی.حضور ڈلہوزی جاتے ہوئے اکثر پٹھان کوٹ میں قیام فرمایا کرتے تھے.اور میرے والد مرحوم کو حضور سے ملاقات کا موقعہ ملتا رہتا تھا.ایک دفعہ حضور معه دیگر افراد خاندان از راہ نوازش ہمارے غریب خانہ بھی تشریف لائے.والد مرحوم نے چچا صاحب کے نام ایک خط میں حضور کی ملاقات اور غریب خانہ پر تشریف آوری کا ذکر کیا.چا صاحب کو والد صاحب کے بعد میں احمدیت قبول کرنے کے باوجود حضور سے اس درجہ قرب حاصل کرنے پر
تاریخ احمدیت 811 جلد ۲۰ بہت رشک آیا اور انہوں نے اپنے جوابی خط میں اس کا ذکر کرتے ہوئے بڑی حسرت سے یہ شعر لکھا کہ یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم محو نالہ جرس کارواں رہے چا صاحب اپنی ملازمت کے زمانہ میں سلسلہ کی مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.چنانچہ منارة اصبح قادیان کی تعمیر کے سلسلہ میں آپ نے چندہ دیا اور آپ کا نام منا رہ پر کندہ ہے.خاندانی روایات کے مطابق مرحوم کو شعر و سخن سے بھی شغف تھا.اس سلسلہ میں میرے بڑے بھائی مکرم و محترم مولانا عبدالمجید سالک صاحب مرحوم اپنی کتاب سرگذشت صفحہ ۱۷ میں لکھتے ہیں کہ ” چا محمد افضل خان کو اوائل عمر میں چند سال حیدر آباد دکن میں رہنے کا اتفاق ہو ا تھا اس لئے اساتذہ کی صحبت میں ان کی شاعری خاصی منجھ گئی تھی.یہ وہ زمانہ تھا.جب دکن میں داغ کا طوطی بولتا تھا.لیکن چچا داغ کو پسند نہ کرتے تھے اور ملک الشعرا حبیب کشوری سے اصلاح لیا کرے تھے.ایک دفعہ ایک طرح ہوئی.عمر دعائے وصل شپ ہجر تا سحر مانگوں.اس پر چچا نے غزل لکھی.دو تین شعر یا د آ گئے.بڑا گناہ ہے جو بحر سے گہر مانگوں بڑی خطا ہے جو معدن سے سیم و زر مانگوں کسی سے مانگنے کی ہے مجھے ضرورت کیا ستجھی سے کیوں نہ عنایت کی اک نظر مانگوں اوائل عمر کے اس نمونہ کلام ہی سے معلوم ہو جاتا کہ آپ کے خیالات شروع ہی سے کتنے پاکیزہ تھے.1 اولاد ۲.با بوفضل الرحمن خاں صاحب ( وفات ۱۹۷۵ء ) عطاء الرحمن خاں صاحب ریٹائر ڈ اسٹنٹ محکمہ خوراک پنجاب ( علامہ اقبال ٹاؤن لاہور ) اقبال بیگم ریحانه صاحبہ (وفات ۱۹۷۳ء )
تاریخ احمدیت 812 میاں صدر الدین صاحب در ولیش قادیان زیارت و بیعت ۱۸۹۴ء ۷۴ وفات ۴ /دسمبر ۱۹۶۰ء بعمر قریباً ا کا نوے سال ) 20 جلد ۲۰ " حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر لکھا ” قادیان کی مقامی کے آبادی میں سے احمدی ہونے والوں میں وہ ابتدائی مخلصین میں شامل تھے غالباً وفات وقت عمر نوے اور سو سال کے درمیان ہوگی با وجود ناخواندہ ہونے کے بہت نیک اور متقی بزرگ تھے، میاں صدرالدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بزرگان سلسلہ سے بہت اخلاص و عقیدت رکھتے تھے.آپ تقسیم ملک کے بعد دیا رحبیب میں ہی دھونی رما کر بیٹھ گئے اور پیرانہ سالی کے باوجود کمال محبت و وفا سے اپنا عہد درویشی نبھایا.آپ امانت و دیانت میں قادیان اور اس کے ماحول میں بہت مشہور تھے اور اپنے اور غیر سبھی آپ کے مداح تھے اس سلسلہ میں چودھری فیض احمد صاحب گجراتی رقمطراز ہیں دو حضرت بابا صاحب شروع ایام میں تو اپنے پیشے ( یعنی گھمار ناقل ) کا کام ہی کرتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے ریتی چھلہ میں ایک دکان آئے اور دالوں کی کھول لی تھی اور ان کی امانت و دیانت کی وجہ سے یہ کاروبار خوب چلا.چنانچہ تقسیم ملک سے کچھ قبل کاروبار میں نقصان ہو گیا تھا.بابا جی نے کوئی جنس خرید کی، بھاؤ اچانک گر گئے.ابھی اس جنس کی قیمت ادا کرنی تھی چنانچہ مقروض ہو گئے.اسی اثناء میں ملک تقسیم ہو گیا اور کاروبار جاتا رہا اور بابا جی محض درویشی وظیفہ پر گزارہ کرنے لگے لیکن آفرین اس اسی سالہ بوڑھے کی جواں ہستی پر کہ اُس نے زمانہ درویشی ہی میں وہ قرض بے باق کیا.اس طرح کہ انہوں نے لنگر خانہ کو آئے اور دالوں کی تقسیم شروع کر دی.ساری اجناس وہ اپنے بوڑھے کمزور ہاتھوں سے صاف کرتے اور خود چکی چلا کر دالیں بناتے اور یوں اس اسی سالہ پیر فرتوت نے اپنی جھریوں والی کمزور بانہوں کے بل پر سارا قرض اتار دیا.بعض قرض خواہ کہتے تھے کہ آپ کے حالات تبدیل ہو گئے ہیں اس لئے قرض معاف کیا جا سکتا ہے.لیکن مرحوم کی غیرت نے اسے گوارا نہ کیا اور سب کو یہی جواب دیا کہ میں قرض کا بوجھ سر پر لئے قبر میں نہیں جانا چاہتا چنانچہ یہی عزم تھا جو قرض سے سبکدوشی کا باعث ہوا“ مرحوم نے اپنے پیچھے دو بیٹے یاد گار چھوڑے.۱.میاں عبد الرحمن صاحب (ربوہ) ۲.میاں محمد عبد اللہ ( قادیان )
تاریخ احمدیت 813 حضرت چوہدری غلام محمد صاحب پو ہلا مہاراں امیر حلقہ پو بلا مہاراں ضلع سیالکوٹ جلد ۲۰ ولادت ۱۸۷۵ء بیعت اگست ۱۹۰۴ ء وفات ۳۱ / دسمبر ۱۹۶۰ء) ضلع سیالکوٹ کے رفقاء مسیح موعود میں ایک ممتاز اور دعا گو اور صاحب الہام بز رگ ۱۹۰۳ء میں آپ کے خسر چوہدری عمر الدین صا حب ساکن قلعہ صو با سنگھ قادیان سے واپس آئے اور آپ کو بتایا کہ جس نیا نا تھا آ گیا اور اپنے ساتھ ازالہ اوہام کتاب بھی لائے دو تین ماہ بعد آپ نے کسی جگہ سے اس کا ایک صفحہ پڑھا اور ایسے متاثر ہوئے کہ ۱۹۰۴ء میں لاہور پہنچ کر حضرت مسیح موعود کے دستِ مبارک پر بیعت کر لی.آپ اپنے واقعہ بیعت پر روشنی ڈاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں دو " جب ہم لاہور آئے تو ایک نانبائی سے ( جو کہ دہلی دروازہ کے قریب ہے ) اور چونکہ ہمیں زیادہ واقفیت نہ تھی میں نے کہا کہ حضور کہاں تشریف رکھتے ہیں.اس نے حضور علیہ السلام کو بھی گالیاں دیں اور مجھے بھی سخت گالیاں سنائیں اور کہا.کہ حضور چار روز کے بعد جیل خانہ میں ہو نگے اور بان بٹا کریں گے اور مخالفت کے غصہ میں آ کر کہا کہ آپ شاہ محمد غوث تشریف رکھتے ہیں جب میں اور بھائی کریم بخش صاحب ( ٹھیکیدار محلہ دار الرحمت قادیان ) ملنے گئے.تو حضرت مولوی نورالدین صاحب اُٹھ کر نیارے اخلاق سے ملے اور مولوی برہان الدین صاحب پہلی بھی وہیں تھے اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی آنکھیں دکھ رہی تھیں.اگلے دن صبح ہمارا مصافحہ ہوا اور میاں چراغ الدین صاحب مرحوم بھی حضوڑ کے پاس بیٹھے تھے یہ پہلی دفعہ مصافحہ حضوڑ سے ہوا اور جلسہ کے ایام تھے.ہم اسی غرض سے لاہور آئے تھے.بعد دو پہر چار بجے کے قریب میں نے بیعت کی...حضور علیہ السلام کے راس مبارک پر سفید پگڑی تھی اور سفید لباس تھا.اور بان کی چار پائی تھی.اور کوئی تکیہ یا بستر نہ تھا.حضور رونق افروز تھے.بیعت کے بعد حضور نے دعا کی اور ہم پر قدرتی ہیبت و رعب آپ کا اس قد ر تھا کہ سرنگوں بیٹھے رہے کہ کسی بات کی جرات نہ ہوئی.فرمایا کرتے تھے کہ جب لاہور پہنچ کر پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو حضور نے میری طرف اپنی پاک اور مطہر نظر اٹھا کر دیکھا مجھے یوں محسوس ہوا کہ تمام گناہ اور
تاریخ احمدیت 814 جلد ۲۰ آلائشیں سر سے پاؤں تک میرے جسم سے نکل گئی ہیں اور وہ روحانیت اور عشق الہی میں مخمور آنکھیں مجھے آج تک اسی طرح یاد ہیں جیسے کہ میں نے پہلی بار دیکھی تھیں.1 جماعت میں نظام امارت قائم ہوا تو آپ کو حلقہ پوہلہ مہاراں کا امیر مقرر کیا گیا.وفات تک آپ کو ضلع سیالکوٹ کی قریباً چوتھائی جماعتوں کے فرائض امارت کمال خوش اسلوبی سے سنبھالنے کی سعادت نصیب ہوئی مظلوم کی مدد کے لئے شمشیر بر ہنہ تھے اور ہر حال میں سچائی پر قائم رہنا اُن کا وصف تھا.ایک قتل کے مقدمہ میں آپ کے دو عزیز ماخوذ تھے.ان کے خلاف موقعہ کی کوئی شہادت نہ تھی لیکن انہوں نے آپ کو آ کر بتا دیا تھا کہ ہم قتل کر آئے ہیں.مخالفین نے عدالت میں آپ کا نام بطور گواہ لکھوا دیا.عدالت نے آپ کو بطور گواہ طلب کر لیا وہاں زار زار روتے بھی تھے اور سچی گواہی بھی دے رہے تھے جس کے نتیجہ میں ان دونوں رشتہ داروں کو پھانسی کی سزا ہوگئی.فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد اور اشراق اور نوافل کے باقاعدگی سے پابند تھے.اٹھتے بیٹھتے ، لیٹتے ، چلتے پھرتے غرض ہر حالت میں دعاؤں میں لگے رہتے تھے.قرآن مجید پڑھنے پڑھانے میں انتہائی راحت محسوس کرتے تھے.مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپر د قلم فرمایا.ضلع سیالکوٹ کی جماعتوں کے چند بزرگ رفقاء میں سے ایک نمایاں بزرگ چودھری صاحب موصوف تھے.آپ کو زمینداروں میں تبلیغ کا سلیقہ بھی آتا تھا اور اس کے لئے طبیعت میں جوش بھی تھا.جلسوں کے بہت شوقین تھے.خود مرکز سلسلہ قادیان میں جا کر مبلغین لا یا کرتے تھے اور جب تک حالات سازگار رہے با قاعدہ سالانہ جلسہ کراتے تھے.مہمان نوازی آپ کا خاص وصف تھا ان کے گاؤں سے مبلغین کی واپسی ان کو بہت شاق گذرتی تھی وہ ہر ممکن طریق سے اسے زیادہ سے زیادہ ملتوی کر نیکی کوشش فرماتے تھے اپنی اولا د کو خد خدمت سلسلہ کے جذبہ سے سرشار کرنا اُن کا خاص مقصد تھا بے تکلف دوست، تہجد گذار اور نہایت دعا گوا اور صاحب الہام بزرگ تھے.“ حضرت با بو قاسم دین صاحب (امیر جماعت احمد یہ ضلع سیالکوٹ ) نے تحریر فرمایا :.وو چوہدری صاحب ضلع سیالکوٹ کی ایک ممتاز قوم مہار سے تعلق رکھتے تھے آپ نے
تاریخ احمدیت 815 جلد ۲۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت ۱۹۰۴ء میں کی.خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت مخلص رفقاء میں سے تھے میرے گذشتہ ۴۰ سال سے ان کے ساتھ تعلقات تھے.صاحب الہام اور اہل کشف تھے اپنے علاقہ میں احمدیت کا ایک ستون تھے.وہ زمین پر چلتے پھرتے فرشتہ تھے.ان کی زندگی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی تعلیم کی ایک زندہ مثال تھی وہ حقوق العباد اور حقوق اللہ کے بجالانے میں حتی المقدور کوشاں رہتے ایک نہایت با وقار با عزت، فرض شناس، راست گومهمان نواز بزرگ تھے ان کا دستر خوان بہت وسیع ہوتا.ہر روز کوئی نہ کوئی مہمان ان کے ہاں ضرور ہوتا ان کی یہ عادت تھی کہ مہمان کو کھانا پہلے کھلاتے اور پھر آپ کھاتے.روزانہ اپنے گاؤں کی مسجد میں بچوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے نماز اشراق نماز تہجد با قاعدگی سے ادا کرتے اپنے زمانہ کے یقیناً ولی اللہ تھے.خلیفہ وقت کے وہ عاشق تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت سے ان کو خاص تعلق اور محبت تھی.جب سے ضلع سیالکوٹ میں ضلع وار نظام قائم ہوا ہے وہ اپنے حلقہ میں ۲۱٬۲۰ جماعتوں کے امیر رہے.آپ نے اپنی زندگی میں اپنے حلقہ امارت میں خلیفہ وقت کی نمائندگی کا حق پورے طور پر ادا کیا ہے.اس فرض کی ادائیگی میں انہوں نے نہ کبھی دن دیکھا اور نہ رات.اس وجہ سے احباب اُن کا بہت احترام کیا کرتے.باوجود اس بات کے کہ مجھ سے عمر میں بہت زیادہ تھے مگر حفظ مراتب کو انہوں نے ہمیشہ ملحوظ رکھا میں جب کبھی بھی ان کے حلقہ میں گیا وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہتے فرمایا کرتے تھے ” حفظ مراتب نہ گئی زندیقی، کاش که احمدیت کے ہونہار فرزند حفظ مراتب کے مقام کو کبھی فراموش نہ کریں.اس میں ہر ایک قسم کی برکت ہے.اور کامیابی کا راز مضمر ہے.تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں کی بنیاد رکھنے والی بزرگ ہستیوں میں سے وہ ایک نمایاں حصہ لینے والے بزرگ تھے.آپ اس سکول کی میجنگ کمیٹی کے سرگرم ممبر تھے.جب سکول کو کالج بنانے کے لئے چندہ کی تحریک ہوئی تو آپ نے اس میں بھی نمایاں حصہ لیا اور اور اپنا چندہ ادا کرنے میں سبقت کی اور ایک نمونہ قائم کیا.اولاد چوہدری فیض احمد صاحب چو ہدری فضل الرحمن صاحب بی ایس سی چوہدری غلام اللہ صاحب ( بیگم میجر مہا ر صاحب ) ۸۲
تاریخ احمدیت 816 جلد ۲۰ فصل دوم بعض ممتاز اور بزرگ خواتین کی وفات ۱۹۶۰ء میں سلسلہ احمدیہ کی مندرجہ ذیل ممتاز اور بزرگ خواتین نے بھی وفات پائی.ان سب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں بیعت کرنے کی ۸۳ سعادت حاصل تھی.محترمہ بشیرن صاحبه ( زوجہ حضرت ما سٹر قا در بخش صاحب لدھیا نوی والدہ حضرت مولا نا عبد الرحیم صاحب درد ) ( ولادت ۱۸۶۹ ء.بیعت ۱۹۰۵ ء.وفات ۱۱؍ جنوری ۱۹۶۰ء) صوم وصلوٰۃ کی حد درجہ پا بند تھیں.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ احمدیہ سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی.دیگر اوصاف کے ساتھ ساتھ اکرام حنیف اور مہمان نوازی کی صفت خاص طور پر نمایاں تھیں.اوائل زمانہ میں جبکہ لدھیانہ میں قادیان کے احباب آتے رہتے تھے ہر ایک کی خاطر تواضع کا خاص اہتمام کرتیں اور اس میں ایک خاص ۲.۸۴ راحت محسوس کرتی تھیں.محترمه حسین بی بی صاحبہ زوجہ حضرت منشی محبوب عالم صاحب نیلہ گنبد لاہور ( ولادت ۷ ۱۸۸ ء.بیعت ۱۹۰۶ ء.وفات ۲۵ رفر وری ۱۹۶۰ء ) محترمہ بھابی زنیب صاحبہ بیوہ حضرت پیر مظہر قیوم صاحب.( ولادت ۱۸۸۸ء.بیعت ۱۹۰۶ ء.وفات ۱۳ مارچ ۱۹۶۰ء ) شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے اپنی کتاب " مرکز احمدیت.قادیان کے صفحہ ۳۶۱ پر آپ کی نسبت لکھا آنکھوں سے معذور ہیں.مگر نہایت ذہین نہایت زیرک خدمت سلسلہ کا بے پناہ شوق ہے.باوجود معذوری کے سال بھر میں سینکڑوں روپیہ چندہ جمع کر دیتی ہیں.عورتوں میں جو تحریکیں کامیاب ہوتی ہیں ان میں بھابی صاحبہ کا بڑا حصہ ہوتا ہے“.
تاریخ احمدیت لد 817 جلد ۲۰ محترمه استانی صفیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی ولادت ۱۸۸۶ ء.بیعت ۱۹۰۰ ء.وفات ۱۳/ مارچ ۱۹۶۰ء نہایت محنتی دیندار، تہجد گزار اور صاحب کشف و رؤیا خا تو ن تھیں آپ کے شوہر شادی کے ایک عرصہ بعد احمدیت سے الگ ہو گئے تھے مگر آپ نہ صرف خود بھی احمدیت پر مضبوطی سے قائم رہیں بلکہ ایمان و استقلال کا ایسا شاندار نمونہ دکھلایا کہ آپ کی ساری اولا د احمدیت کے رنگ میں رنگین ہو گئی فیروز پور سے ہر سال جلسہ سالانہ پر بڑے اہتمام سے تمام بچوں کو ساتھ لے کر قادیان آتی تھیں.شادی کے بعد آپ فیروز پور گرلز سکول میں بطور نا ئب معلمہ ملازم ہو گئیں ۱۹۳۲ء میں مرکز سلسلہ کی ضرورت کے پیش نظر اپنی دس سالہ سروس کو خیر باد کہہ کر نصرت گرلز سکول قادیان میں تعلیمی خدمات بجا لانے لگی ۱۹۴۵ء میں ریٹائر ہوئیں اور بچوں کو قرآن شریف ناظره و با ترجمہ پڑھانا اپنا معمول بنا لیا.بہت سے بچوں کو آپ نے قرآن کریم پڑھایا اور مسائل احمدیت از برکرائے.شیخ محمود احمد صاحب عرفاتی نے آپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا ۸۵ لجنہ اماءاللہ کے کاموں میں بڑا حصہ لینے والی خاتون ہیں نصرت گرلز ہائی سکول میں عربی اور دینیات کی استانی ہیں.عمدہ تقریر کر سکتی ہیں.سلسلہ کی سچی روح پیدا کرنے کے ۸۶ لئے لڑکیوں میں شاندار کام کر رہی ہیں.محترمہ سیدہ بدر النساء صاحبہ اہلیہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ وفات ♡- ۱۸۷ ۳۰ ۳۱ رمئی ۱۹۶۰ء ) آپ شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ فیصل آباد کی والدہ ماجد ہ تھیں.آپ کے خلوص اور بے لوث قربانی کا ایک یادگار اور نہایت ایمان افروز واقعہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے ایک دفعہ حضور لدھیانہ میں تھے کہ میں حاضر خدمت ہوا.حضور نے فرمایا کہ آپ کی جماعت ساٹھ روپے ایک اشتہار کے صرف برداشت کر لے گی میں نے اثبات میں جواب دیا اور کپورتھلہ واپس آ کر اپنی اہلیہ کی سونے کی تلڑی فروخت کر دی اور احباب جماعت میں سے کسی سے ذکر نہ کیا اور ساٹھ روپے لے کر میں اُڑ گیا اور لدھیانہ جا کر پیش
تاریخ احمدیت 818 جلد ۲۰ خدمت کئے.چند روز بعد منشی روڑ ا صاحب بھی لدھیا نہ آگئے میں وہیں تھا.ان سے حضور نے ذکر فر ما یا کہ آپ کی جماعت نے بڑے اچھے موقعہ پر امداد کی منشی روڑ ا صاحب نے عرض کی کہ جماعت کو یا مجھے تو پتہ بھی نہیں اس وقت منشی صاحب مرحوم کو معلوم ہوا کہ میں اپنی طرف سے آپ ہی روپیہ دے آیا ہوں“.محترمه ایمنہ بیگم صاحب زوجہ حضرت چوہدری محمد عبد اللہ خاں صاحب بہلول پور.۸۸ ولادت ۱۸۷۵ء.بیعت ۱۹۰۲ ء.وفات ۴ جون ۱۹۶۰ء ) ے.محترمه سردار بیگم صاحبہ زوجہ حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب ( ولادت ۱۸۸۹ء.بیعت ۱۹۰۱ ء.وفات ۱۰ ستمبر ۱۹۶۰ء) نہایت نیک طبع ، نیک سیرت اور مخیر خاتون تھیں.کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتیں حتی الوسع ضر ور امداد کر تیں.خلافت ثانیہ سے انہیں ہمیشہ ہی پوری وابستگی رہی.محترمہ کلثوم صغریٰ صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر وفات.١٩٠ ۱۱ - ۱۲ / ستمبر ۱۹۶۰ء.محترمه حسین بی بی صاحبہ زوجہ حضرت میاں امام دین صاحب سیکھوانی ( ولادت ۱۸۷۰ ء.بیعت ۱۸۹۱ ء.وفات ۱۹ ستمبر ۱۹۶۰ ء ) مرحومہ کو۳۱۳ رفقاء کبار کی فہرست میں بھی شمولیت کا شرف حاصل تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود نے ان کے میاں کو اس فہرست میں معہ اہل خانہ شامل فرمایا تھا.و ذالك فضل الله يوتيه من يشاء آپ تہجد گذار اور دعا گو خاتون تھیں اور سلسلہ احمدیہ کی خاطر ہر قربانی پیش کرنے کے لئے ہر دم تیار رہتی تھیں..۹۲
تاریخ احمدیت 819 جلد ۲۰ فصل سوم پاکستان، مصر اور سیرالیون کے بغض مخلصین احمدیت کا ذکر خیر ان بزرگ ہستیوں کے علاوہ ۱۹۶۰ء میں کئی اور مخلصین احمدیت بھی داغ مفارقت دے گئے جن میں سے بعض کا تذکرہ مختصر اذیل میں کیا جاتا ہے.چوہدری فیض احمد بھٹی صاحب ( وفات یکم را پریل ۱۹۶۰ء ) حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب ( آف قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ ) کے نواسے تھے.۱۹۰۴ء میں بعمر چھ سال حضرت مسیح موعود کی زیارت کی ۱۹۲۵ء کے قریب مستقل طور پر قادیان آگئے اور کم و بیش اٹھارہ سال تک الفضل کی کتابت کا کام کیا.حضرت مسیح موعود کی کتب کے والہ وشیدا تھے.تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین میں سے تھے ہجرت کے بعد کنری ( سندھ ) میں مقیم ہو گئے تھے.سید بدر الحسن صاحب کلیم ( وفات ۱۲ را پریل ۱۹۶۰ء ) ۲.۹۳ اخبار ” فاروق الحکم “ اور الفضل ، میں ۳۰-۳۲ سال تک خوشنویسی کی.سلسلہ کی کئی کتب آپ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی طبع ہوئیں.تحریک شدھی کے زمانے میں عرصہ چھ ماہ تک متھر آگرہ اجمیر بہار اور بند را بن میں تبلیغی فرائض انجام دئے.قیام قادیان کے زمانہ میں ہر سال دو ایک ماہ اپنے وطن جھنجھا نہ ضلع مظفر نگر جاتے اور پیغام احمدیت پہنچاتے..۹۴ - السید جلال الدین عبد الحمید خورشید صاحب ( وفات یکم مئی ۱۹۶۰ء) مصر کے ایک نہایت مخلص احمدی نوجوان جو حضرت مصلح موعود کی دُعا سے پیدا ہوئے اور خدا تعالیٰ کے ایک نشان تھے.خدام الاحمدیہ قاہرہ کے سیکرٹری تھے.جماعتی کاموں میں
تاریخ احمدیت 820 جلد ۲۰ بڑی محنت اور سرگرمی دکھاتے تھے.اور تبلیغ سلسلہ کا بہت شوق تھا.۴.۱۹۵ حکیم چراغ الدین صاحب والد ماجد مولوی غلام باری صاحب سیف استاذ الجامعه ) ( وفات ۲۴ / جون ۱۹۶۰ء ).اصل وطن قصبہ کا ہنوان نزد قادیان جہاں صرف تین احمدی گھرانے تھے احمدیت کے عاشق صادق تھے.ایک بار قصبہ کے لوگ مسلح ہو کر آپ کے گھر پر حملہ آور ہوئے.اللہ تعالیٰ نے ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور وہ ناکام رہے.کئی دفعہ آپ کا بائیکاٹ ہوا مگر یہ حوادث و مصائب آپ کے پائے استقامت میں ذرا برابر لغزش پیدا نہ کر سکے.ایک شب قصبہ کے ایک شخص کو نفخ شروع ہوا اور حالت غیر ہونے لگی.اقرباء اسے آپ کے پاس بغرض علاج لائے آپ نے فرمایا بھائی میرا بائیکاٹ ہے میرے بڑے بھائی کے پاس جائیے وہ احمدی نہ تھے لیکن بہت بڑے حکیم تھے ) انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں نہیں اور ہم آپ کا بائیکاٹ توڑتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے بائیکاٹ کے خاتمہ کی خود تد بیر فرمائی.بہت مضبوط ہمت اور بلند حوصلہ کے مالک تھے.داخل احمدیت ہونے کے بعد ہر جلسہ سالا نہ میں شرکت کی.شروع وقت میں جلسہ گاہ میں پہنچتے اور پوری کا رروائی نہایت دلجمعی سے سنتے اور صرف نماز کے وقت باہر آتے ساری عمر سختی سے اس پر عمل پیرا ر ہے اور اسی کی تلقین اپنے عزیزوں کو کیا کرتے تھے.کا ہنو ان کے ارد گرد جہاں کہیں مقامی جماعتوں کے جلسے ہوتے نہایت ذوق و شوق سے ان میں شامل ہوتے اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے.چندوں کا خاص اہتمام فرماتے تھے ہجرت کے بعد چک نمبر ۶۹ / ر.ب گھیسٹ پور ضلع لائل پور (فیصل آباد ) میں آباد ہو گئے آپ کے حُسن خلق کا غیر احمدی دوستوں پر بھی ایسا گہرا اثر تھا کہ آپ کی وفات کے ذکر پر وہ اشکبار ہو جاتے تھے.السید امین خلیل شامی ( وفات ۱۲-۱۳ ستمبر ۱۹۶۰ء) سیرالیون کے ایک نہایت مخلص فدائی اور جان نثار احمدی تھے.بانی مشن سیرالیون مولوی نذیر احمد علی صاحب کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ سے دلی محبت و عقیدت پیدا ہوئی اور وقتاً فوقتاً احمد یہ مشن کی اعانت فرماتے رہے مگر سلسلہ سے با قاعدہ طور پر دسمبر ۱۹۴۶ء میں منسلک ہوئے اور اس کے بعد اخلاص اور قربانی وایثار کا ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا جس کی نظیر پورے سیرالیون میں نہیں ملتی قبول حق کے بعد آپ کو کئی ابتلاؤں میں سے گذرنا پڑا مگر آپ نے انتہائی صبر و تحمل اور خندہ پیشانی کے ساتھ تمام شدائد و تکالیف برداشت کیں.مخالفیں نے
تاریخ احمدیت 821 جلد ۲۰ آپ کو احمدیت سے منحرف کرنے کے بہت جتن کئے مگر آپ کے استقلال و استقامت کے سامنے انہیں بالآ خر شرمندہ ہونا پڑا.صوفی محمد اسحق صاحب سابق مبلغ سیرالیون کا بیان ہے کہ آپ سارے سیرالیون میں مشن کی مالی امداد کے لحاظ سے تمام احمد یوں میں ممتاز تھے.اپنا چندہ با قاعدگی سے دیا کرتے تھے اس کے علاوہ ہر سال اپنی ہر قسم کی آمد کا حساب لگا کر اپنی تمام سال کی زکواۃ بھی مشن کو با قاعدگی سے دیتے تھے اغلباً ۱۹۵۱ء میں جب آپ کو تحریک جدید کے چندہ کی طرف توجہ دلائی گئی تو...آپ نے تحریک جدید کا تمام چندہ یکمشت ادا کر دیا اور پھر ہر سال با قاعدگی سے اسے ادا کرتے رہے.جس بات کے لئے سیرالیون کا مشن ہمیشہ آپ کا ممنون تھا وہ یہ ہے کہ آپ نے مشن کو کہہ دیا تھا کہ جس وقت بھی مشن کو کوئی مالی امداد درکار ہو اور اس وقت مشن میں پیسہ نہ ہو تو..اتنی رقوم ان سے بطور قرضہ حسنہ لے لی جائے.چنانچہ اس قسم کے بیسیوں مواقع پر آپ نے ہزار ہا روپیہ سے سیرالیون مشن کی مدد کی اور اگر یہ بعض رقوم آپ کو بر وقت واپس نہ مل سکیں اور بعض کسی غلطی کے باعث میرے سے ادا ہی نہ ہو سکیں لیکن اس کے باوجود آپ نے اس وعدہ کو آخری دم تک نبا ہا“ السید امین خلیل کو مبلغین سے بے پناہ محبت تھی فرمایا کرتے تھے میرا گھر مجاہدین احمدیت کے لئے وقف ہے اور اُن کی خدمت میرے لئے عین سعادت.شروع میں آپ کی اہلیہ احمدی نہیں تھیں تا ہم وہ انہیں متواتر تبلیغ کرتے اور سمجھاتے رہے اس دوران اُن کا بیٹا علی امین سخت بیمار ہو گیا اُن کی اہلیہ ۵۰ میل دور ایک شہر مکینی (MAKENI) لے گئیں مگر وہاں بھی ڈاکٹری علاج میسر نہ آ سکا اور اس کی حالت زیادہ خراب ہو گئی اس حالت میں اُن کی اہلیہ نے دعا کی کہ اگر سید نا احمد بچے ہیں اور آپ ہی اس زمانے کے موعود مسیح ہیں تو میرے بچے کو بغیر کسی ڈاکٹر کے شفا عطا فرما دے رات کو یہ دعا کی صبح بیماری میں خاصہ افاقہ ہو گیا اور دو تین روز میں کامل صحت ہو گئی جس پر ان کی اہلیہ نے بھی بیعت کر لی یہی وہ علی امین ہیں جنہیں آپ نے ۱۹۵۲ء میں دینی تربیت کے لئے ربوہ بھجوایا تھا اور وہ کئی سال تک مرکز کی دینی برکات سے فیضیاب ہو کر وطن لوٹے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود کے ذکر پر فرط محبت سے
تاریخ احمدیت 822 جلد ۲۰ بے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے بلا شبہ آپ حضرت اقدس علیہ ۱۹۸ السلام کے الہام يُصلّون علك ابدال الشام“ کے مصداق تھے.محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ ) بنت خالد احمدیت مولانا ابو العطاء صاحب ) مدیره.مصباح ( وفات ۲۶ / ستمبر ۱۹۶۰ء ) وو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صد ر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے مرحومہ کی وفات پر لکھا ” مرحومہ نہایت سادہ طبیعت رکھتی تھیں.لجنہ اماء اللہ کی مخلص اور سرگرم کارکن تھیں.۱۹۴۵ ء سے وہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی ایک رکن کی حیثیت سے با قاعدہ کام کر رہی تھیں.سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری رشد و اصلاح کے عہدہ پر بھی فائز رہیں.۱۹۴۷ء میں لجنہ اما ء اللہ مرکزیہ نے فیصلہ کیا.کہ ماہنامہ مصباح کا انتظام کلی طور پر لجنہ اماء اللہ لے لے تو میری نظر انتخاب سب سے پہلے امتہ اللہ پر ہی پڑی اور چندہ دنوں میں ہی امتہ اللہ خورشید نے ماہنامہ کا سارا انتظام سنبھال کر میرا بوجھ ہلکا کر دیا.۱۹۴۷ء میں ملکی تقسیم کی وجہ سے جب ہمیں اپنا مقدس مرکز چھوڑنا پڑا تو کچھ عرصہ تک مصباح بھی بند رہا.لیکن تھوڑا عرصہ بعد ہی پھر اسے جاری کر دیا گیا.اور اس وقت سے تا وفات امتہ اللہ خورشید ہی اس کی مدیرہ رہیں.مرحومه خدمت دین کو ایک فضل الہی سمجھتے ہوئے با وجو دصحت کمزور ہونے کے کام کا انتہائی شوق رکھتی تھیں اور جو کام بھی ان کے سپرد کیا جاتا.احسن طریق پر اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتیں.علاوہ ماہنامہ کے کام کے بار ہا مختلف کاموں کے لئے میں نے ان کو بلوایا.اور ان کے سپرد کئے.کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ طبیعت ٹھیک نہ ہوتی تھی لیکن کبھی انکار نہ کیا.اور جو کام لیا اس کو مکمل کیا.ان کی زندگی ہماری بچیوں کیلئے ایک نمونہ ہے.پنجاب یو نیورسٹی کی کوئی خاص ڈگری سوائے ادیب عالم کے انہوں نے حاصل نہ کی ہوئی تھی.لیکن دینی علم اچھا خاصا رکھتی تھیں.فرض کا احساس تھا.اپنی تمام ذمہ واریوں پر مقدم سلسلہ کی خدمت تھی.اور خدمت کو بجالاتے ہی جان جان آفرین کے سپر د کر دی.سیٹھ خیرالدین صاحب ( وفات ۲۲ / دسمبر ۱۹۶۰ء) مرزا کبیر الدین صاحب لکھنوی جیسے پُر جوش داعی الی اللہ کے ذریعہ اندازاً ۱۹۱۰ ء میں احمدی ہوئے اور پھر حضرت مسیح موعود کی کتب کے بکثرت مطالعہ سے میدان مناظرہ کے شہسوار بن گے.مولوی عبد الشکور صاحب امام اہلسنت لکھنؤ اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے آپ نے جو.۷ ١٩٩
تاریخ احمدیت 823 جلد ۲۰ مناظرے کئے وہ ہمیشہ یادگار رہیں گے.آریوں کے مشہور مناظر پنڈت بھوجدت اور مها تمامنشی رام ( شردھانند ) سے بھی آپ کے کامیاب مباحثے ہوئے.شردھانند نے ایک مباحثہ کے اختتام پر کہا ” میں اس نوجوان کی قدر کرتا ہوں اس نے ہمارے لٹریچر کا خوب مطالعہ کیا ہے اصلاح وارشاد کے کام کا از حد شوق تھا اور تبلیغ اور مہمان نوازی اُن کا پیشہ تھا.مخیر و متوکل آدمی تھے نادار بھائیوں کی اعانت ایسے طریق سے کرتے تھے کہ اُن کے اعزا تک کو خبر نہ ہوتی تھی.سیر چشمی، قناعت، سنجیدگی، بردباری اور غرض بصر آپ کا فطری جو ہر تھا.1++
تاریخ احمدیت 824 جلد ۲۰ حواشی فائل ” قبولیت احمدیت کی دلچسپ سرگذشت‘ صفحہ ایہ فائل شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ میں محفوظ ہے الفضل ار مارچ ۱۹۶۰ ءصفحہ ۸ تاریخ احمدیت جلد سوم ۵۱۰ آپ کی درخواست اور حضور کے مبارک الفاظ کا عکس تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحه ۴۹۵-۴۹۶ الفضل ۱۰ جون ۱۹۱۴ ء صفحه ۲۱ الفضل ۲۶ جولا ئی ۱۹۱۴ ء صفحہ ۸ 9 HAREDALE ROAD PAPLAR WALK HERNE HILL London.S.E.الفضل ۷ جولائی ۱۹۱۴ء صفحه ۲ ( یہ مخلص خاتون ۱۹۱۶ء کے شروع میں فوت ہو گئیں الفضل ۱۵ فروری ۱۹۱۶، صفحہ ۱) × < ° ÷ 5 = - ا.۱۳.۱۴.ܬܙ܂ ۱۶.THE TEACHINGS OF ISLAM THE MESSAGE OF PEACE الفضل ۲۵ اگست ۱۹۱۴ء الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۱۴ ء صفحه ۶ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۶ / دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ - ۸ - الفضل ۲۳ فروری ۱۹۱۵ء صفحه ۲ الفضل ۲۷ را پریل ۱۹۱۵ء صفحه ۸ - الفضل ۲۸ رنومبر ۱۹۱۵ء صفحه ۹ الفضل کے نومبر ۱۹۱۵ ء صفحہ ۸ الفضل ۲ رفروری ۱۹۱۶ء صفحه ۱۰ تاریخ مسجد فضل لنڈن از حضرت سید محمد اسمعیل صاحب الفضل ۸٬۴ را پریل ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۹.۲۰ ۱۷.آپ کے ساتھ حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیز بھی تھے الفضل ۱۹.۲۲ جولائی ۱۹۱۹ء صفحہ ۱ ا._IA ایک مضمون جون ۱۹۲۰ء کے شمارہ میں چھپا الفضل ۵ - ۹ راگست ۱۹۲۰ء وا.۲۰.۲۱.الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۲۰ء الفضل ۲۶ /اگست ۱۹۲۰ء صفحه ۲ ۲۲.S.W.18 LONDON 63 ROAD MELROSE ۲۳ تاریخ مسجد فضل لنڈن از حضرت سید میرا ساعیل صاحب ۲۴.۲۵.٢٦.الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۲۱ء صفحه ۸ الفضل ۳۱ / مارچ ۱۹۲۱ء صفحه ۲ الفضل ۱۹ ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۱
تاریخ احمدیت ۲۷.۲۸.۲۹.۳۱.۳۲.825 مطبوعہ رپورٹ میں آپ کا نام مرکزی نمائندگان کی فہرست میں نمبر ۲۶ پر درج ہے اخبار تیج (دہلی) تفصیل تاریخ احمدیت جلد ۵ میں گزر چکی جلد ۲۰ یہ حصہ اگر چہ جلد پنجم صفحہ ۳۵۶ تا ۳۵۹ میں چھپ چکا ہے حضرت چودھری صاحب کے تبلیغی کارنامہ کی تفصیلات واضح کرنے کے لئے دوبارہ درج کیا جا رہا ہے ماہنامہ خالد اگست ۱۹۶۰ ء صفحہ ۷ تا ۹ رپورٹ سالانہ صد را مجمن احمد یه پاکستان ۵۶ - ۱۹۵۵ء صفحه ۱۰۸ الفضل یکم مارچ ۱۹۶۰ ، صفحه ۸ مزید تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو د تعلیم الاسلام میگزین' قادیان چلدم نمبر ۱ (۱۹۳۳) صفحه ۶ تا ۸ ۳۴.الفضل ۲۶ / مارچ ۱۹۶۰ صفحه ۳ ۳۵.الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۶۰ء صفحه ۴ الفضل ۱۹؍ مارچ ۱۹۶۰ء صفحه ۵ ۳۷.الفضل ٢ / مارچ ۱۹۶۰، صفحه ۱ الفضل ار مارچ ۱۹۶۰ صفحه ا ۳۹ ۴۱.الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۰ء صفحہ ۶.۳۰ / جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۶ الحکم ۲۴ را گست ۱۹۰۲ ، صفحہ ۱۶ کالم پر آپ کی بیعت کا اندراج بایں الفاظ موجود ہے میاں برکت علی خاں صاحب گڑھ شنکر ہوشیار پور“ اصحاب احمد جلد ہفتم صفحه ۶ ۲۲ تا ۲۲۸ مولفه ملک صاح الدین صاحب مطبوعہ الفضل ۲۱ / جون ۱۹۲۹ء صفہ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ر پورٹ مجلس مشاورت‘ ۱۹۳۰ ءصفحہ ۳۱۷ تا ۳۲۶ ( مطبوعه ۱۶ / دسمبر ۱۹۳۰ء ۴۳ - الفضل ۱۷؍ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۴۴ الفضل ۱۹/ جون ۱۹۳۴ ء صفحه ۱۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۰-۹۱.اصحاب احمد جلد ہفتم صفحه ۲۳۴ (از جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان الفضل ۱۲ را پریل ۱۹۶۰ ء صفحه ۴ فصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب اصحاب احمد جلد ہفتم ۲۱۸ تا ۶ ۲۵ (از جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے.ناثر احمد یہ بک ڈپور بوہ اگست ۱۹۶۰ء الفضل ۱۲ را پریل ۱۹۶۰ء صفحه ۳ ۵۰- اصحاب احمد جلد ہفتم صفحه ۲۴۴ الفضل ۲۶ را پریل ۱۹۶۰ء صفحه ۴ 107 ۵۳.الفضل ۲۰ / اپریل ۱۹۶۰ء صفحه ۴ ( مضمون مولوی عبدالرحیم صاحب عارف مربی جھنگ ) الفضل ۱۹؍ جون ۱۹۶۰ ء صفحه ۵ ۵۴ - الحکم قا دیان ۷ نومبر ۱۹۳۴ء صفحه ۱۲-۱۳ ۵۵ الحکم ۸۲/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحه ۳ دیوان اشراف، صفحه ۲ مطبوعه ۱۹۵۲ء ویسٹ پنجاب پر لیس لاہور
تاریخ احمدیت ۵۹.۶۴ بدر ۳۰ / جون ۱۹۶۰ء صفحه ۱۰ 826 رجسٹر اصحاب مشمولہ تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۵۱ ضمیمه الفضل ۱۸ جون ۱۹۶۰ء صفحه ۸ ریکارڈ بہشتی مقبرہ رجسٹر روایات جلدے صفحہ ۷۰ بہشتی مقبرہ کے ریکارڈ میں آپکا سال بیعت ۱۸۹۱ء درج ہے الفضل در جولائی ۱۹۶۰ ء صفحہ ۱ رجسٹر روایات نمبرے صفحہ ۱۷۱ الفضل ۵/ جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۸ ۶۵.روایات غیر مطبوعہ نمبر ۵ صفحه ۱ ۶۶.رجسٹر روایات نمبر ۵ صفحه ۱-۲-۳ الفضل ۳۰ / اگست ۱۹۶۰ء صفحه ۸ سرگذشت صفحه ۱۳-۱۵ ( از مولانا عبدالمجید سالک ) طبع دوم نا شر قو می کتب خانہ لاہور جلد ۲۰ ۶۹.ولادت ۱۸۷۲ء وفات ۵/ جولائی ۱۹۳۶ء پر پذیڈنٹ جماعت احمد یہ پٹھانکوٹ.۱۷.۱۸ برس کی عمر میں بٹالہ سے پٹھانکوٹ آ گئے.۱۹۳۲ء میں میونسپلٹی کے سیکرٹری کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے اپنے مفوضہ فرائض طویل عرصہ تک اس خوش اسلوبی سے انجام دئے کہ افسر خوش تھے اور ملازمین مداح.سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ( صادق تھے حضور کا نام مبارک زبان پر آتا تو بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے اور ایک وجد کی کیفیت ان پر طاری ہو جاتی.(الفضل ۲ ستمبر ۱۹۳۶ء مضمون جناب عبدا جلیل خاں صاحب عشرت ) ۷.سرگذشت صفحه ۱۸ ا الفضل ۱/۸ کتوبر ۱۹۶۰، صفحه ۵ ۷۲.مکتوب جناب عبد الجلیل صاحب عشرت (۱۶/ ۳۷ ٹاؤن شپ لاہور ) مورخہ ۲ رمئی ۱۹۸۶ء بنام مولف سے ماخوذ ۷۳.رجسٹر رفقاء قادیان مشموله تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۴۳ ضمیمه ۷۴.اخبار بدر ۸/ دسمبر ۱۹۶۰ ، صفحه ۱ -20- الفضل ۹؍ دسمبر ۱۹۶۰ ، صفحه ۴ ۷۶.وہ پھول جو مرجھا گئے ، صفحہ ۵۹ چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی در ولیش ناظر بیت المال آمد مطبوعه فضل عمر پر نٹنگ پریس محلہ احمدیہ قادیان.دسمبر ۱۹۷۶ء ۷۷.الحکم ۷ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحه ۳ ( خودنوشت روایات ۷۸.الحکم ۷ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحه ۳ وے.الفضل ۹ جنوری ۱۹۶۱ء صفحه یم ايضاً الفرقان“ جنوری ۱۹۶۱ء صفحه ۵۰ ۲.الفضل ۱۳ / جنوری ۱۹۶۱ ء صفحه ۵
تاریخ احمدیت 827 ۸.ولادت بیعت اور وفات کی تواریخ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ سے ماخوذ ہیں ۸۵.الفضل ۱۳؍ جنوری ۱۹۶۰ء صفحه ۱ الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۶۰ ء صفحه ۵ تفصیلی حالات مصباح ربوه مئی ۱۹۶۰ ء میں ان کے بیٹے محمد امین خاں صاحب نے شائع کرا دئے تھے.مرکز احمدیت قادیان صفحه ۳۶۱ الفضل ارجون ۱۹۶۰ء صفحه ا اصحاب احمد جلد چهارم صفحه ۹۲ طبع اول از ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ۸۹ - الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۸ و الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۶۰ ء صفحہ نمبرا ۹۱ - ضمیمه انجام آنتم صفحه ۴۱ نمبر ۳۲ ۹۲ - الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۶۰ء صفحه ا الفضل ۳۱ رمئی ۱۹۶۰ء صفحه ۵ ۹۳.۹۴ - الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۶۰، صفحه ۵ مضمون منعم الحسن صاحب ربوه کاله ۹۵- الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۰، صفحه ۳ الفضل ۲۰ / جون ۱۹۶۰ء صفحه ۵ ۹۷.الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ نمبر ۵ مضمون مولوی غلام باری صاحب سیف الفضل اارا کتوبر ۱۹۶۰ء صفحه ۵-۹/ دسمبر ۱۹۶۰ ء صفحه ۵ ۹۹ مصباح اکتوبر ۱۹۶۰ صفحه ا الفضل ۳ ر فروری ۱۹۶۱ء صفحہ ۵ مضمون سید ارشد علی صاحب لکھنوی جلد ۲۰
اشاریہ جلد ۲۰ مرتبہ: ریاض محمود باجوہ شاہد شخصیات.مقامات کتابیات حافظ انوار رسول شاہد ۲۳ ۳۳
اسماء ابوالمنیر نورالحق، مولوی ۶۶،۴۲٬۳۰،۲۰،۱۹ احمد شاہ ،سید.مجاہد سیرالیون ۲۹۶ حضرت آدم علیہ السلام آؤنگ حمید.انڈونیشیا 119 ۳۳۸ ابوبکر.مشرقی افریقہ ابوبکر العظیمی ۱۸۸ ۵۵۱ احمد شاہ ابدالی احمد شفیع ، قریشی.میانوالی ۲۱۳ آرنلڈ سرٹی ڈبلیو ابوبکرایوب ،مولانا ۵۴۷ ابوبکر کو یا.نبی ۶۷۱،۶۷۰ احمد علی پٹواری.چنیوٹ احمد علی شاہ مولانا ۴۸۶، ۷۱۵،۴۸۷ ۸۰۴ (مصنف پر پیچنگ آف اسلام) ۷۷۶ آرلنگٹن ،ڈاکٹر ابوطالب.مشرقی افریقہ ۶۱۸،۱۸۸ احمد قادری.مشرقی افریقہ ۶۱۸،۱۸۸ ۲۹۴۱۵۵ ابوعبدالرحمن ۵۵۱ احمد مختار، چوہدری ۴۷۵،۴۷۰۷۸ آصفہ بیگم، سیده LL احمد نور کاہلی، سعید ۴۲۵،۴۲۴ ابو قیصر آدم خاں.مردان آغا خاں ، سر ۴۵۹ ابن رشد ۷۱۵ ۵۴۹ احمد یا ر لا ہوری اختر احمد ، ماسٹر جمشید پور ۴۶۹ آمنه بیگم زوجه سلیم شاہ ۴۲۸ اختر احمد اور نیوری،سید ۷۴۲،۲۸ ۴۷۴،۴۷۳ ۲۶۴ 1 اختر حسین.سابق گورنر ۲۶۲ احسان الحق.کراچی آمنہ بیگم بنت چوہدری فتح محمد سیال ۷۸۹ آئزن ہاور امریکی صدر ۵۱۲-۵۷۸ اجمل خاں ابوالکلام آزاد کے پی ایس) ۲۵۴ اختر انصاری اجیت کمار گوہا، پروفیسر حضرت ابراہیم علیہ السلام ۸۹،۴، ۳۲۹ احسان الحق خاں ایڈووکیٹ ابراہیم، مولوی.مجاہد انلی ابراہیم محمد مینو.غانا ابرخت،مسٹر ابوالحسن قدی ، صاحبزاده ۶۰۸ ۴۵۸ اختر علی خاں ابن ظفر علی خاں ۳۷۲ اور میں مسٹر نائیجیریا ۵۴۳ ۱۸۷ احسان الہی.معلم وقف جدید ۲۱-۲۸ اور میں نصر اللہ خاں ایڈووکیٹ ۴۸۴ ۶۱۸ ۸۲۶ ۶۱۸ احمد بن حنبل، امام ادیب سہارنپوری ۴۷۳ احمد جاں، چوہدری.راولپنڈی ۴۵۳ ارجمند خاں، مولوی.ربوہ ۳۱۳٬۳۰۶ ۷۳۶،۴۵۸ ارشد علی لکھنوی ۸۲۷ ابوالعطاء جالندھری، مولانا ۸۵،۴۲،۲۱ احمد جواہر روز ہل ماریشس ۲۴۱ ارشد محمود ابن قاضی محمد اسحق بسمل ۸۰۶ ،۳۷۰ ،۳۶۴ ،۳۴۵ ، ۳۱۳،۲۵۵،۲۰۸ ۸۱۴،۷۵۳ ،۷۳۷ ،۷۱۵ ، ۵۹۶ ،۴۸۹ احمد خاں ایاز حاجی ۱۸۷ اروڑا خاں منشی احمد خان نسیم ، مولانا ۷۸۱ ۷۸۲ اسامه فلپائن احمد دین ، ڈاکٹر.حیدر آبادسندھ ۷۹ اسد اللہ خاں ، چوہدری ΔΙΑ ۱۸۳ ۴۰۲ ،۲۶۰ ابوالکلام آزاد، مولانا ۲۵۴
۴ ۴۰۶ تا ۷۳۵۰۴۷۵۰۴۰۸ الفاعباس دیفان اسد ملتانی.شاعر ۹۲ ۱۷۵ 290 الف کبوا.نائیجیریا ۵۴۳ امته الشافی بنت چو ہدری فتح محمد سیال ۷۸۹ اسماء ( عہدیداران سود نیئر کراچی ) اله بخش تسنیم، میر ۷۲۶ امتہ الکبیر بینی ، صاحبزادی ۱۵۰ تا ۱۵۲ اللہ بخش صادق، چوہدری ۲۸ امتہ الکریم بیگم اللہ دین، میاں ۷۹۲ امتہ اللہ بنت شیخ محمد نصیب اسماء ( جن بزرگان سلسلہ نے اپنے حالات محفوظ کروائے ) ۳۹۶ تا ۴۰۰ اللہ یار، حافظ.معلم وقف جدید ۲۹ اسماء ( قافله قادیان ۱۹۵۹ء) ۴۰۹ تا ۴۱۵ الہ دین فلاسفر، میاں اسماء ( قافله قادیان ۱۹۶۰ء) ۷۴۴ تا ۷۵۳ الہی بخش حکیم چوہدری حضرت اسماعیل علیہ السلام اسماعیل شہید، حضرت شاہ اشرف مسز انگلستان اعجاز احمد شیخ ۸۹ ۴ الیاس برفی امام الدین.رجوعہ امتہ اللہ خورشید ۴۲۱ امتہ المتین صاحبزادی ۷۹۱ امتہ المجید جلیل ۶۴۵۰۶۴۳ امته الوحید بیگم صاحبزادی ۲۱۹ امته الوکیل صاحبزادی ۲۵۱ ۴۲۷ ۴۲۳ ۸۲۲ LL ۵۰۷ ۲۵۱ ۵۰۴ ۵۲۱ ۶۰۸ ،۴۷۳ امام الدین، مولوی.انڈونیشیا ۲۹۵ امتیاز احمد مقبول نجی امان اللہ خاں.افغانستان ۶۰۶ امر سنگھ ، سردار ۶۹۵ ۳۳۱،۳۴،۳۳ اعجازی احمد ، مولوی سید.ڈھاکہ ۲۶۴ لمتة الباسط بیگم اہلیہ منیر احمد سیفی ۴۲۸ امری عبیدی پشیخ ۵۸۸،۵۳۸ تا ۵۹۵ اعجاز احمد شاہ، سید انسپکٹر بیت المال ۲۲۹ امة الجمیل، صاحبزادی LL اقبال احمد ناصر معلم وقف جدید ۲۹ لعة الحفیظ بنت چوہدری برکت علی خاں ۷۹۹ ام متین ( مریم صدیقہ ) صاحبزادی امیرالدین عرف ملا میرو امتہ الحمید بنت میاں عبدالرحیم درویش امیر حسین ، قاضی سید اقبال بیگم بنت شیخ محمد حسین ۱۹۷ ۱۹۷ امتہ الحفیظ بنت قریشی مطیع الله اقبال بیگم ریحانه اقبال سنگھ ولد ہری سنگھ ۳۰۰ ۸۲۲،۷۰۷ ،۱۳۴ ۵۰۷ امیر خاں، چوہدری.گڑھ شنکر اکبر خاں، جنرل.افغانستان ۶۰۶ امتہ الکی بیگم بنت چوہدری فتح محمد سیال امین خلیل شامی السید اکبر علی ،میاں.ہوشیار پور ۸۰۱ اکبر علی بی.اے، پیر.فیروز پور ۴۴۹ امة الرحمن بنت شیخ محمد نصیب اکرم خاں، ڈاکٹر میجر ۳۴۶، ۳۴۷ امۃ الرشید زوجه سید لال شاہ البرٹ شوٹیز ر، ڈاکٹر الزبتھ دوم ، ملکہ الزبتھ ہکسلے الطاف احمد مرزا.ربوہ ۷۸۹ ۴۲۳ ۴۲۸ امینہ فرحت بنت سردار کرم دار اندرا گاندھی انشاء اللہ خاں ۵۶۴ امۃ الرشید غنی بنت عبدالغنی بی اے ۵۰۷ ۵۰۷ انعام اللہ شاہ سید ۲۵۸ امته الرفیق بنت سید میر محمد اسحاق ۲۵۱ انوارالدین، پیر امته الرؤف صاحبزادی ۵۰۴ انوار احمد سامانوی ٣٠٣ امتہ السلام بیگم بنت چوہدری فتح محمد سیال انوار حسین ، حکیم.خانیوال ۴۲۶ ،۴۲۵ ۸۰۳ 290 ۸۲۱،۸۲۰ ۸۰۹ ۵۱۲ ۶۰۷ ۶۰۹ ۱۲۲ ۲۹ ۴۲
انوار رسول.لاہور انور احمد.صاحبزادہ مرزا ایڈورڈ ڈاکمباؤ،سرنجی ایس کے منڈل.بشپ دہلی ای شیریان ، مسٹر ایم آفریدی ۶۵۳ بدر النساء، سیدہ اہلیہ منشی ظفر احمد نجی ۸۱۷ بشیر احمد ایم.اے، صاحبزادہ مرزا ۸۲۰۲۱ ۶۷۱ ۲۵۳ ۵۰۸ ۲۶۸ بڑھے خاں ، چوہدری.رجوعہ ۲۱۸ تا ۲۲۳ تا ۱۷۰،۱۳۵،۱۳۲،۱۲۹،۱۱۳،۱۱۱،۸۶، برکات احمد را جیکی ،مولوی ۲۵۳٬۲۸، ،۲۵۲،۲۰۵،۲۰۱،۱۹۹ ،۱۷۹ ، ۱۷۶ ،۱۷ ۴۰۲،۳۹۲،۳۹۰،۳۱۹،۳۱۸،۲۵۸ ۴۹۷ ،۴۱۶،۳۰۴ برکت علی ،شیخ.گڑھ شنکر برکت علی مرزا.عراق ، ۵۱۲،۴۸۰،۴۷۵ ،۴۵۰،۴۰۵،۴۰۳ ۷۹۰ ۷۲۲،۲۴۸ ۶۰۵،۵۹۵،۵۴۸، ۷۰۹،۳۰، ۷۱۱ تا ایما میولز، ایس ڈی.سورینام ۵۳۳ برکت علی خاں، چوہدری.وکیل المال ایمنہ بیگم زوجہ چوہدری محمد عبد اللہ خاں پہلو پور این ایم خاں.کراچی ۷۹۰،۲۵۹ تا ۸۲۵،۷۹۹ ۸۱۸ برکت علی شملوی، خاں منشی ۵۱۰ ،۷۵۷،۷۳۵،۷۲۲ ،۷۲۱ ،۷۱۶ ،۷۱۳ ،۷۹۵،۷۵۹،۷۵۳ ۷ ۴۴ ،۷۴۳ ۸۱۲،۸۰۶،۷۹۸ ۲۰۰ تا ۴۶۰،۴۵۴،۲۰۶ بشیر احمد خاں، خان.کپورتھلہ ۴۸۵ این دی گیڈیکل، سابق گورنر پنجاب ۳۴۲ برہان الدین جہلمی ، مولوی اے وحید، اسٹنٹ سیکرٹری صدر مملکت ۵۰۸ بشری بیگم - دمشق بشری بشیر.ربوہ ۸۱۳ بشیر احمد خاں ابن شیخ علی احمد خان ΛΥ ۲۵۲ ایڈووکیٹ ۱۹۱ ایولیس بی ایس سی ، جے ای بشیر احمد خاں رفیق، خان - لندن بشری بیگم بنت چوہدری فتح محمد سیال ۷۹۰ ۷۱۵،۵۴۷،۵۱۵،۵۱۴،۳۴۷ با رطولینی ، پروفیسر.اٹلی ۱۷۴ بشارت احمد.اسلام آباد بشیر احمد زاہد ، مولوی ۷۱۵ باقی باللہ ، حضرت بشارت احمد بشیر، مولوی ۳۹۴، ۷۱۵ بشیر احمد طاہر ابن محمد مغل ۲۳۱،۲۲۷ بانڈ ،مسٹر ۵۲۴،۵۲۳ بشارت احمد خاں ، چوہدری ۷۹۹ ۲۳۵،۲۳۴ بختیار کاکی ، حضرت ۱۷۱ بشارت الرحمن ، صوفی بدر الحسن کلیم، سید ۸۱۹ بشیر احمد آرچرڈ ۷۱۵،۳۱۳ ۵۳۳،۲۹۶،۳۹ بشیر احمد علی، میاں جھنگ ۴۴۰ ۴۴۵،۴۴۴ بشیر احمد فاضل مولانا ۷۴۲۶۰۴۱۷۱ بدر الدین، ڈاکٹر ۱۸۲ ۱۸۳ ،۴۹۴۴۵۰ بشیر احمد ڈاکٹر.ربوہ ۸۲ بشیر الدین، حافظ ۵۴۸ ۵۳۸،۵۰۱،۴۹۵ بدرالدین ، میاں.مالیر کوٹلوی بدرالدین سید.قادیان ۲۹،۲۸ بشیر احمد ایڈووکیٹ ، شیخ ۸۰۶،۸۰۵ بشیر احمد ایڈووکیٹ، چوہدری.شیخو پورہ ۴۲ مرزا خلیفۃالمسیح الثانی بدرالنساء خانم ۶۹۹ بشیر احمد ، سردار بشیر احمد ، ماسٹر معلم وقف جدید ۷۳۵ بشیر الدین احمد ، راجہ ٣٠٢ ۲۹ بشیر الدین محمود احمد ،حضرت صاحبزادہ ۲۰،۱۹ ،۸ ،۷ ،۱ ،۷۶،۴۶،۳۷ ،۳۶ ،۳۱ ،۳۰،۲۷ ،۲۳ ۵۹۶،۴۸۰ ۷۳۲،۶۲۲۶۰۲ ۰۱۱۳،۱۱۲،۱۰۷ ،۱۰۶ ، ۹۳،۸۶،۸۲،۷۷
۱۱۸، ۱۲۱ تا ۱۳۱، ۱۳۷، ۱۴۳، ۱۴۴، ۱۴۸، پیچ ،مسٹر کمشنر سیرالیون ۱۶۸،۱۶۵،۱۵۶، ۱۷۴،۱۶۹، ۱۸۰،۱۷۵، پی سی بسواس، ڈاکٹر ۲۲۴،۲۰۴،۲۰۳، ۲۴۵،۲۲۸، ۲۵۱، ۲۵۵ | تراب علی مولوی ۳۲۲ ،۳۲۱ ،۳۱۵ ،۳۱۳ ،۲۶۳ ۲۶۰ ۳۳۳ ،۳۳۲ ۳۲۷ ،۳۲۵،۳۲۳ ۳۷۴،۳۶۷ ،۳۶۴،۳۶۱،۳۵۰،۳۴۹ ۳۸۱۳۷۵، ۳۸۹ تا ۳۹۱، ۳۹۵، ۴۰۰ ، ،۵۹۵،۵۵۲،۵۱۹ ،۴۴۹ ،۴۴۸ ، ۴۰۲ ،۷۰ ،۷۰۴ ،۶۱۷ ،۶۱۰ ،۶۰۲ ،۵۹۷ ،۷۹۴،۷۷۱ ،۷۳۱ ۷۷۳ واے، بشیر کور یو.نواحمدی بشیرن صاحبه زوجہ ماسٹر قادر بخش لدھیانوی بلال نٹل ۸۱۶ ۵۲۴،۵۲۳ تاج محمود، شیخ.چنیوٹ تقی الدین احمد، کرنل ڈاکٹر ٹ.ت ٹالسٹائی،کونٹ ٹریسی سٹرانگ مسٹر ،۵۲۰،۵۱۸ ،۳۲۲،۳۱۷ ،۳۱۳،۲۴۷ ۲۸۸ ۷۵۹،۷۱۵،۵۹۶،۵۹۵ ۴۶۹ ۸۱۹ ۲۲۷ ۱۲۸ ۷۶۲۷۶۱ جلال الدین عبدالحمید خورشید جمال الدین ، چوہدری.معلم وقف جدید ۲۲ جمال عبد الناصر ۱۰۲،۱۰۱، ۶۲۰ تا ۶۲۲ جمیل الرحمن جمیل الرحمن رفیق جنجر خاں.رجوعہ شنکو عبدالرحمن وزیر اعظم ملایا ۶۲۸ ٹورے.صدر گنی ٹیپو سلطان ثاقب زیروی ۵۴۴ ۹۵ ۶۰۱،۵۹۷ جواد، شیخ.شام جواہر لال نہرو، پنڈت جو بین فورڈ.غانا ۳۲۶ ۳۱۲ ۲۱۹ ۲۸۹ ۲۵۴ ۱۱۵ تا ۱۱۷ جوزف سمتھ.بانی مار من تحریک ۲۷۶ ثناء اللہ امرتسری، مولوی ۴۴۹،۴۴۳، ۸۲۲،۴۶۸،۴۵۷ جوش ملیح آبادی خانی ایم.اے جارج پنجم ۲۹۱ 8-2 ۴۳۱ جون راڈ یڈو، مسٹر جہانگیر گاندھی ،سر جے بو نیارڈ، مسٹر جیری بیون، ڈاکٹر ۶۰۸ ۵۳۴ ۴۶۹ ۵۴۴،۵۴۳ ۵۶۱ جان ایف کینیڈی جے سنگھ، سردار.راولپنڈی ۳۰۰ جان ای ملز ۵۶۰ جیکب، مسٹر.روسی سفیر ۲۷۰ جاوید احمد.ربوہ جے کے فریرے مسٹر جبرائیل چیف ۵۴۰ جیمس را برٹسن گورنر جنرل جبرائیل سعید ، حافظ.غانا ۶۶۹ جھنڈے خاں، شیخ ۵۳۷ ۵۴۳ ۱۹۱ جبرائیل سیسے ، الحاج سیرالیوان ۲۸۹ چراغ الدین حکیم.والد جعفر بن ابی طالب ۷۶۰ مولانا غلام باری سیف ۸۲۰ جلال الدین، چوہدری چراغ الدین ، میاں.لاہور ۸۱۳ جلال الدین شمس، مولانا ۴۲،۲۱، ۲۰۷ چراغ دین فاضل ،مولوی ۱۸۸ بلی گراہم ، ڈاکٹر ۵۵۷ تا ۷۲۸،۵۸۰ ۱۴۵ ۸۱۵ بہادر شاہ ظفر بیگم میجر مہار.پوہلا مہاراں بینٹ ، ایم.جی.برطانوی سائنسدان ۸۰ ۸۲۳ ۴۳۸ ۲۶۶ ۲۹۰ ۳۸۵ ۴۸۵ بھوجدت، پنڈت پرت پارساں بیگم پاول سی ایف.پروفیسر پائنل، این.اے.برطانیہ پطرس پناہ خاں ، راجہ.ڈلوال
L چوپڑہ، پروفیسر چھو خاں، چوہدری فنی ۶۰۴ ۶۹۹ خخ حاکم علی، رسالدار چوہدری ۴۳۱ حامد احمد ، نواب زادہ میاں ۲۵۱ حامد حسین نجی ۶۸۵ حامد علی، شیخ ۸۰۵ حامدہ بیگم بنت پیر منظور محمد ۸۰۹ حامیم، ریٹائر ڈ سب انسپکٹر ۴۳۶ حشمت اللہ خاں، ڈاکٹر ۳۰۰،۸۲،۷۷ | خلیل احمد ناصر ابن محمد مغل ۷۲۲۶۱۸،۶۰۷ ، ۴۳۴،۳۲۷ خلیل احمد ناصر ، چوہدری.مجاہد امریکہ ۵۹۶،۵۴۸،۲۸۶،۲۴۸ حضرت اللہ پاشا ، سید ۹۷ حفیظ الرحمن سلیم حفیظ الرحمن سہاروی، مولوی ۵۱۲ ۲۵۴ خلیل الرحمن ، ملک.انگلستان خورشید احمد، معلم وقف جدید حفیظ ملک ،مسٹر ۵۸۱،۵۸۰،۵۷۷ حفیظ ہوشیار پوری ۴۷۳ خورشید احمد، چوہدری.بہاولپور ۷۹ خورشید احمد، شیخ خورشید بیگم اہلیہ میاں محمد لطیف ۴۳۸ حلیمہ بی بی ۴۴۵ خیر الدین سیٹھ حمیدہ بیگم اہلیہ خاں بہادر خلیفہ اسد اللہ ۱۲۸ خیر الدین،مولوی.نارووال ۲۳۱ ۵۲۰ ۲۹ ۴۵۱ ۸۲۲ 29.ب ،سید.ایڈیٹر سیاست ۳۷۴،۳۶۷ ۷۹۹ ،۷۹۴ حبیب اللہ خاں، پروفیسر ۷۱۵، ۶۶ حمید احمد ، صاحبزادہ مرزا ۱۲۷ حمیدہ بیگم بنت چوہدری برکت علی خاں خیر الدین ،میاں فیض اللہ چک (غیر از جماعت) ۴۳۶ تا ۴۳۸ دے ڈز حبیب بورقیه حبیب.معلم ۵۹۳ ۵۴۳ حمید نصر اللہ خاں ایڈووکیٹ، چوہدری ۴۸۴ داغ.دکن All حنیف احمد ، صاحبزادہ مرزا حبیب کشوری All خالد براؤن، مسٹر حسن آراء منیر خالد بن ولید حسن الاعظمی ۳۱۲ خالد سیف اللہ ۳۱۳۸۱ ۲۸۲ ۷۹۵،۷۶۰ ۷۱۵ دانشمند خاں ، خان.پی ۳۴۵ تا ۳۴۸ داؤ د احمد.اسلام آباد داؤ داحمد، سید میر ،۱۲۹ ،۱۲۷ ۷۰۷ ،۶۱۹،۶۱۸،۳۱۲۲۳۵ داؤ د احمد عرفانی شیخ حسن محمد.رجوعہ ۲۲۱ خاں، ڈاکٹر.سرحدی لیڈر ۲۶۲،۲۶۱ داؤ د مظفر شاہ ،سید حسن محمد ، بابا حسن محمد خاں عارف ۲۰۹،۲۰۸،۲۰۶ ۴۲۵ حسن محمد سمبر یا لوی حسین علیہ السلام، امام حسین بخش، شیخ.ایبٹ آباد ۷۱۵،۱۸۷ ۴۲۱،۴۲۰ 12.17 ۱۹۲ ۲۲۱ ۶۶،۲۲ ۷۲۲ ۳۱۲ حسین بی بی زوجه منشی محبوب عالم ۸۱۶ حسین بی بی زوجہ میاں امام الدین سیکھوانی ΔΙΑ خاں بادشاہ سید ، ملک خدا بخش.رجوعہ خدا بخش عبد ز میروی ، صوفی خدا بخش مومن خلیل احمد ، ڈاکٹر.امریکہ خلیل احمد اختر ، ملک دیوان سنگ مفتون ، سردار ۶۰۵ تا ۶۱۲ ۵۴۸،۵۴۱،۵۴۰،۲۹۱ دین محمد شاہد ، مولوی خلیل احمد خالد.معلم وقف جدید ۲۸،۲۲ ۶۶۸،۱۸۷ ۶۸۷،۶۸۳۶۸۰ در یوس، پروفیسر ڈاکٹر د مودھر داس.ڈپٹی کمشنر گورداسپور دولت خاں ، چوہدری کا ٹھگڑھ ۷۹۹ دیوا سنگھ، سردار.راولپنڈی ۱۷۳ ۷۹ ۲۷۴ ۳۴۲ ۳۰۰
۵۲۸ ۲۶۵ ۶۸۱،۶۶۸ ۶۹۵،۶۸۴ ۵۳۲ ۴۵۳ ۲۹ ΔΙΑ ڈبلیو کے بنس ڈگلس جیمز، مسٹر ۵۱۳ ۲۶۸ رفیع احمد ، صاحبزادہ مرزا ٣١٣ سٹوک ،مسٹر رفیق احمد، صاحبزادہ مرزا ۱۳۳ ۳۰۰،۱۳۴ سٹوکس، سر جی جی ڈی ایس اڈگ بیز ، الحاج ۵۲۸ رقیه بیگم سیده ۷۸۹ سجاد احمد خالد شیخ پہنچ مین ، ڈاکٹر سراج الحق ، حاجی سردار احمد شاہ، سید سردار بیگم زوجہ ماسٹر فقیر الله ۴۴۳ ۱۹۱ ڈیوک آف اڈنبرا ۲۶۶ رگھبیر چند، ماسٹر پنڈت ذوالفقار علی خاں، گوہر ۱۸۱ رلیا رام رز روشن دین، مولوی - مجاهد مسقط ۴۲۲،۴۲۰ رابعہ بی بی چک سے اچھو ر مغلیاں ۴۴۶ روشن علی ، حافظ بی.۴۴۸ ۲۵۲ سردار خان ولد خوشی محمد رجوعه ۲۱۹ ریورنڈ یسلی براؤن ، بشپ ۲۹۴۱۵۵ سروری بیگم بنت چوہدری برکت علی خاں را جنس، پروفیسر ڈاکٹر ۵۲۷ ریحانه بیگم، صاحبزادی بیگم،صاحبزادی راڈن ہدایت.انڈونیشیا 119 راغب مراد آبادی رحمت اللہ، شیخ.کراچی ۷۷ ،۴۲ زین بن حارثہ ۴۷۳ زکیه ثروت بنت چوہدری محمد اسماعیل ۵۰۶ ۷۶۰۷۵۹ رحمت علی ، مولوی.مجاہد انڈونیشیا ۲۰۶ تا ۲۱۲ زینب بی بی اہلیہ مولوی محمد شہزادہ خان ۴۲۷ رحیمن بی بی اہلیہ چوہدری برکت علی خاں زینب بی بی والدہ مولوی محمد صدیق سرین سنگھ ، سردار سعادت احمد خاں، چوہدری ۷۹۹ ۴۰۷ ۷۹۹ سعد اللہ خاں ابن ڈاکٹر خان سرحد ۲۶۲ سعداللہ لدھیانوی ۱۹۳ ۴۴۵ ΔΙ 12:17 ۷۹۹ امرتسری رشید احمد - معلم وقف جدید ۲۹ زینب بیوہ پیر مظہر قیوم رشید احمد ارشد - مجاہد انگلستان ۲۳۱ زین العابدین ، امام رشید احمد اسحق ، شیخ ۵۳۲ رشید احمد طارق - معلم وقف جدید ۲۸ ۷۳۷،۷۲۵،۷۲۲،۶۱۸ ،۴۳۴ سعود احمد خاں دہلوی سعید احمد ، مولانا.بھارت سعید عبداللہ.سمالی لینڈ ۱۱۵ تا ۱۱۷ زین العابدین ولی اللہ شاہ ، سید ۳۱۳ سعیدہ بیگم بنت خاں بشیر احمد خاں.کپورتھلہ سکندر خاں، چوہدری رشید احمد طیب - معلم وقف جدید ۲۸ زینت جہاں آراء بنت ملک محمد مستقیم.۲۵۴ ۱۸۸ ۴۸۵ ۸۶ سکندر خاں راں، چوہدری.رجوعہ ۲۱۹ ۲۶۲ ۱۲۱ سکندر مرزا، صدر پاکستان سکینہ بی بی (خادمہ) سکینہ بیگم اہلیہ میجر مصلح الدین سعید ۴۲۷ سکھانند، دیوان سلام مسنر ڈاکٹر.انگلستان ۴۳۸،۴۳۷ ۵۲۱ ۲۶۹ ۲۴۱ ۵۲۴،۵۲۳ رشید الدین، ڈاکٹر خلیفہ ۸۰۶،۱۳۳ ایڈووکیٹ رشید و بی بی (خادمه) ۱۲۱ سیش رشیدہ بیگم بنت سردار کرم داد خاں ۸۰۹ سافوا جیسے ، مسٹر.غانا رشیده خانم بنت شیخ محمد حسین ۱۹۷ سبحان علی کاتب سٹن ہسٹر ۷۹۹ رفاقت احمد خاں، چوہدری
۹ سلطان احمد ، مرزا.ابن مرزا فتح محمد بیگ سیسل نارتھ کاٹ ۷۲۸ ۱۹۸ سیش ورڈ مسٹر شمس الدین خاں.بابو پشاور ۷۳۶ ۲۶۸ شمس الرحمن بنگالی ۵۲۵ سلطان احمد ، مرزا.رجوعہ ۲۱۹ سیف الاسلام محمود ۵۲۷ شمیم احمد میجر M22.27 سلطان عالم، چوہدری گولڑیالہ ۴۲۸ سیف الرحمن ملک ۴۲ ۳۵۰،۳۱۳ ،۳۵۱، شمیم ناصر بنت چوہدری خوشی محمد ۲۵۱ سلطان علی، چوہدری ۴۶۱ ۷۵۳۷۱۵ شوکت تھانوی ۴۷۳ سلطان محمود بیگ، مرزا ۱۹۹،۱۹۸ | سیف الرحمن قیصرانی ۴۰۰ شوکت علی ڈاکٹر نجی ۲۵۴ ALAY ۴۶،۲ ۸۰۳۷۷۱ ۱۸۸ ۳۴۶ شوکت علی ، مولانا ۲۶۷ شہاب الدین خواجہ سیف علی خاں.یہی ۵۲۵،۵۱۵ سلطان محمود شاہد، ڈاکٹر سلمہ بیگم بنت چوہدری فتح محمد سیال ۷۸۹ سیلے ڈبلیو بیرل شاد بخت، قاضی.قادیان ۸۲ شہاب الدین سہروردی شاہ حسین.اردن ۶۲۴ تا ۶۲۶ شیرعلی،مولانا شاہدہ خاتون ،صاحبزادی ۵۰۴ شاہ محمد ، سید ۹۳، ۱۱۹، ۲۹۵، ۲۹۶، ۵۴۵، صیض ۵۴۷ صالح حبیبی.انڈونیشیا ۵۴۰ ۵۲۳ ۴۶۹ ۶۵۱ سلیم الدین.چنیوٹ سلیمان ، مسٹر.سیرالیون سمرز، مسٹر سمرن سنگھ جی ، سردار سموئل شرن ، پادری سمیع اللہ قیصر ، مولوی ۵۸۷،۵۰۷،۱۷۱، شاه محمد نجی سمیع اللہ، ماسٹر.ربوہ سمیع اللہ ، میاں.سرگودھا ۷۴۲ شاہ نواز خاں، ڈاکٹر ۷۱۵ صالح محمد ابن چوہدری فتح محمد سیال ۷۸۹،۷۷۷ ۴۹۸ شبیر احمد، چوہدری.وکیل المال اول ۳۱۳ صالحہ بی بی بنت مولانا محمد یعقوب طاہر ۵۰۵ ۴۳۴ شرافت احمد خاں معلم وقف جدید ۲۹ صادقہ بیگم اہلیہ چوہدری فتح محمد سیال سناریو، ڈاکٹر.سفیرانڈونیشیا ۲۷۰ شردھانند، پنڈت ۷۸۹ ،۱۹۹ ۸۰۷ ۸۱۲ ۴۵۴ ۲۵۸ صدرالدین، مولوی صدرالدین درولیش، میاں صریح الدین حکیم میاں صفدر علی خاں ۸۲۳ ۲۶۴ ۷۹۵،۳۹۶۹۵ شریف احمد ،صاحبزادہ مرزا شریف احمد امینی ۷۴۲ ،۶۲۱ ،۵۸۷ ،۵۰، ۱۷۲ ۱۷۱ ۵۴۶ ۱۲۶ م سوکارنو.صدرانڈونیشیا سوئی ہسٹر.ٹا نگا نکا سید احمد ، سید سید احمد بریلوی سی پی علی کوئی.بھارت ۲۸ شریف احمد باجوہ، چوہدری ۷۸۲ صفیہ بیگم ، استانی سید احمد خاں پسر سید احمد سر ہندیؒ ۳۶۸ شریف احمد علی ۱۷۱،۴ شعیب احمد میمی ،سید سید بیگم اہلیہ قریشی عبدالرحیم.پسرور شمس الدین - کلکتہ ۸۱۷ ۴۳۵ صفیہ بیگم اہلیہ چوہدری فتح محمد سیال ۷۸۹ ۲۵۱ ۲۵۳ صلاح الدین، چوہدری صلاح الدین، خلیفہ ۲۵۵،۱۲۶ ۳۱۳،۳۰۰،۱۲۸،۱۲۷ ۲۱۳ ۲۱۲ شمس الدین، شیخ.مڈ رانجھا ۴۳۳
۲۹ ۴۲ عبد الحق - معلم وقف جدید عبد الحق منشی.ربوہ ۵۳۸ ا.صلاح الدین ایم.اے ملک ۲۵۳٬۲۸ ظفر محمود، ڈاکٹر.ٹیورا ۷۱۵،۴۴۳۰۴۱۲۰۴۰۷ ظہور احمد، چوہدری.آڈیٹر صدر انجمن ظہور احمد باجوہ، چوہدری ظہور احمد شاہ،ڈاکٹرسید ۷۳۵ ۷۱۵ عبدالحق رامہ، میاں عبد الحکیم چوہدری ابن چوہدری کا کے خاں ۶۶۸ تا ۷۰۰ عبدالحکیم ، چوہدری.نجی ۹۷ ۶۵۳ ۶۵۴ ظہور احمد ناصر معلم وقف جدید ۲۹،۲۱ عبدالحکیم اکمل، مولوی ۲۸۲،۲۷۶، ۵۲۸ ظہور حسین ، مولوی مجاہد بخارا ۱۸۷ عبدالحکیم پٹیالوی، ڈاکٹر عبدالحمید ، ڈاکٹر.کراچی عاشق حسین بٹالوی ۴۵۹ | عبدالحمید ،سلطان.ٹرکی ۱۱۵ ۷۹ ۹۴۹۳ عائشہ بی بی بنت ملاں عبد الغفار ۴۲۶، ۴۲۷ عبدالحمید ، قاضی - کورووال ۲۱۸ عائشہ بیگم بنت چوہدری فتح محمد سیال عائشہ صدیقہ 11+ ۱۴۵ ۲۴۱ ۴۷۴۴۷۳ ۵۰۴ ۴۷۳ ۵۲۶ ۶۷ صلاح الدین ایوبی صمصام علی سونگھڑ وی ،سید صہبا اختر.شاعر صہیب احمد شاہ،سید.ربوہ ضمیر جعفری رسید ضیاء الدین، میاں ضیاءالرحمن بی.اے، حکیم b-b طاہر احمد ، سید ۵۰۴ طاہر احمد، حضرت صاحبزادہ مرز اخلیفہ لمسیح الرابع ۴۴ ۴۳ ۴۲،۳۷ ، ۳۱،۲۱ طاہر عبداللہ ابن چوہدری فتح محمد سیال ۷۹۰ طفیل احمد ڈار، ڈاکٹر طفیل محمد خاں ۵۳۸ ۶۹۹ طینت جواد علی رسیده ۲۴۸ تا ۲۵۰ ظریف جبل پوری ظفر احمد ، مسٹر ظفر احمد ،صاحبزادہ مرزا ظفر احمد کپور تھلوی بنشی ظفر اللہ خاں نجی ۴۷۳ ۶۱۲،۶۱۰،۶۰۸ ۴۲۷ ۱۱۲ ۲۹۴ ۷۸۹ عبدالحمید ایم.اے، پروفیسر ۲۵۵ تا ۲۵۷ عالم بی بی والدہ میاں شیخ محمد قریشی عبدالحمید خاں ابن چوہدری چھجو خاں ۶۹۹ 1+0 ۷۷۵ ۲۹۲ عبدالحمید عاجز ۴۱۶ ،۱۹۷ ، ۱۹۲ عبدالحمید قریشی ، حکیم.گوجرانوالہ ۶۵ عبدالحی.جے پور ۷۸۰۷۷۹ ۷۰۹،۱۸۸ ۵۵۶ عباداللہ ،ڈاکٹر.انگریز نواحمدی عباس، الحاج امام عباداللہ ، گیانی ۶۱۰،۶۰۸،۶۰۷ ،۳۳ عبدالحی ،سید عبدالباسط مربی سلسلہ کراچی ۷۳۶ عبدالحی ، میاں عبدالجلیل عشرت ۸۲۶،۸۱۰،۶۰۱،۳۷۲ عبدالحفیظ ، حافظ مینی ۶۹۳۶۶۹ ۲۵۸ عبدالرحمن، چوہدری انگلستان ۵۱۴ عبدالحی ، گروپ کیپٹن ۶۹۵،۶۹۴ | عبدالرحمن، چوہدری.ملتان ۲۶۰ عبد الحفیظ ایڈوکیٹ، چوہدری ۳۵۱ عبد الرحمن، چوہدری.راولپنڈی ۴۵۸ ۷۹ ۲۸ عبدالرحمن، حاجی.باندھی عبدالرحمن، حکیم.بھارت عبدالرحمن ،صوبیدار شیخ خانقاه ۴۳۴۲ عبدالحق، یا دری عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا ۷۱۵،۵۹۵،۴۶۲ ۵۲۶ ٣٣،٣٦٦ ظفر اللہ کناک ظفر علی خاں، مولوی ظفر محمد، مولوی.معلم وقف جدید ۲۱
۸۲۲ ۴۰۸ ،۴۰۷ ۲۹،۲۱ ۱۹۷ ۹۰،۸۶ ۴۳۹ ۵۵۵،۵۳۸ ۲۹۶ 11 ڈوگراں ۴۲۳ عبدالرحیم نیر مولانا ۶۴۶،۱۱۴ عبدالشکور ،مولوی لکھنو عبد الرحمن قریشی سکھر ۷۲۶،۴۳۳ عبدالرزاق قریشی.دولت پور ۴۳۳ عبد العزیز شیخ عبدالرحمن، عبدالعزیز، عبد العزیز - معلم وقف جدید عبدالعزیز، ملک.ضلعدار عبدالعزیز ابن سعود عبدالعزیز او جلوی منشی عبدالعزیز بٹ عبد العزیز جمن بخش ۵۰۱ ۲۵۲ عبدالرزاق سیالکوٹی ، میاں عبدالرشید.ربوہ ۲۹ ۶۷۳ عبدالرحمن - معلم وقف جدید عبدالرحمن، مولوی نجی عبدالرشید، سید.ابن سید محمد اسماعیل ۴۲ عبدالرحمن، مولوی ۵۱۵ تا ۵۲۵،۵۲۲٬۵۱۷ عبدالرشید قریشی.وکیل المال ۵۰۶ ۷۹۶ ۵۴۵ ۴۲۳ عبدالرشید، قریشی.آڈیٹر عبدالرشید ابراہیم، السيد عبدالرشید ایڈووکیٹ قاضی عبدالرشید بھٹی.ربوہ عبدالعزیز دین ۵۲۵،۵۲۳٬۵۲۲٬۵۱۸٬۵۱۵ عبد الرشید رازی، مولوی ۵۴۱،۵۴۰ عبدالعزیز سیالکوٹی.لندن ۷۷۲ عبدالعزیز و بنیس شاہد ، مولوی ۶۶۹ عبد العلی ملک، جنرل اسلام آباد ۶۵ عبد الغفار، مثلا ۴۲۵ ۶۷۸،۶۶۸،۵۴۸ ۱۴۹ ۱۸۸ ۸۱۲ عبدالرحمن، میاں.ربوہ عبدالرحمن انور ، مولوی ۷۱۴۱۴۳٬۴۲٬۲۱ 1+9 ۱۷۴ ،۱۷۱ عبدالرحمن بنگالی، چوہدری عبدالرحمن جٹ، مولانا ۴۰۳،۳۹۳ ، ۴۰۷ تا ۷۴۲۷۳۹،۴۰۹ عبدالرحمن شاکر.ربوہ ۴۹۲ عبدالرحمن شاہد قریشی ۲۹۴ عبدالرشید سماٹری.کراچی عبدالرشید شریف_فلسطین عبد الرحمن صدیقی، ڈاکٹر وے عبدالرشید عابد - معلم وقف جدید ۲۹،۲۱ عبد الغفار جراح ، خواجہ - امرتسر ۴۲۸.عبدالرحمن قادیانی، بھائی ۴۰۸،۴۰۷ عبدالستار کابلی مهاجر ۴۲۴ تا ۴۲۶ عبدالغفار خاں خاں.سرحد ۲۶۲۲۶۱ عبدالستار ناصر معلم وقف جدید ۲۹ عبدالغفار خاں کا بلی مہاجر ، میاں ۴۲۵ عبد السلام ، حافظ.وکیل اعلیٰ ۲۵۹، عبد الغفور ، صوفی.مجاہدین IAZ ۷۴۲۷۳۹،۷۳۵،۷۳۱ عبدالغفور زاہد راجپوت عبد السلام ، سید.معلم وقف جدید ۲۱، ۲۹ عبدالغفور منجی ۶۸۵ عبد السلام، میر ۵۲۳ عبدالغفور ساہوخاں نجی ۶۵۱،۶۵۰ عبد السلام اختر ، چوہدری ۲۹۶ ۱۲۱ ۴۳۹ ۱۴۸ ۴۰۸ ۲۴۱ ۷۳۹ ۲۶۰ ۲۴۳ ۴۵۱ ۵۲۲ عبدالرحمن مبشر ، مولوی عبدالرحمن موگا، ڈاکٹر عبدالرحیم ، بھائی چوہدری عبدالرحیم.ماریشس عبدالرحیم احمد.میاں ۶۱۸ عبد الرحیم بیگ، مرزا ۵۱۰،۴۷۹،۲۶۳ عبدالسلام خورشید، ڈاکٹر ۳۶۹،۳۱۳،۵۹ ۳۶۹ عبدالرحیم پراچہ ، میاں.اسلام آباد ۲۵ عبدالسلام ظافر.مجاہد سیرالیون ۳۰۳ عبدالرحیم درد، مولانا عبدالرحیم راٹھور بی.اے عبدالرحیم عارف ، مولوی ۷۹۴،۵۱۸ ۶۷ ۸۲۵ عبدالسلام، معلم.نائیجیریا عبدالسمیع.ربوہ عبد الشکور - مالابار ۵۴۳ ۱۸۷ عبد الغفور ، ڈاکٹر.جاوا عبدالغفور ، صوبیدار.ٹوپی عبدالغنی ، حضرت منشی او جلہ عبد الغنی رشدی عبدالغنی کڑک ، ڈاکٹر عبدالقادر ، اخوند
۶۲۳،۶۶۱،۶۵۹۰۶۵۸۰۶۵۶،۶۵۴ ۷۰۰،۶۹۱۶۸۲،۶۶۸ ،۶۶۴ ۱۲ عبدالقادر، شیخ محقق عیسائیت ۷۱۵ عبداللہ بن علی شرقی السید ۵۲۷ عبد القادر ضیغم ،مولوی ۲۹۶ عبداللہ خاں، چوہدری ۴۶۱ تا ۴۸۴ عبدالقادر قصوری ، مولانا ۳۷۲ عبدالقدوس.نجی عبد القدیر.لاہور ۷۷۲،۵۰۲ عبدالواحد میں تھی ، مولوی ۲۶۳ عبداللہ خاں، چوہدری کراچی ۷۷،۲۳ عبدالواحد و دیا تھی، چوہدری ۷۳۵ ۳۴۹ ،۳۴۸،۲۶۲،۲۶۰۷۹ ۲۷۹ عبدالقدیر، چوہدری.قادیان ۴۱۶،۲۸ عبداللہ خاں اونک عبدالوحید.معلم وقف جدید ۷۲۲ ۱۸۸ ٢٩،٢٢ عبدالوہاب بن آدم.غانا ۳۱۳٬۱۸۸ ۶۱۸ ۱۸۸ عبداللہ شبوطی ۴۲۸ عبدالقیوم ، حاجی سید.ربوہ عبدالکریم.مشرقی افریقہ ۱۸۸ عبد الله علی ابن با بو فقیر علی عبدالکریم ، مولوی انگلستان ۵۲۲۵۱۷ عبدالله فید دیکر ٹا نگانیکا عبداللہ ولد ملا عبد الغفار عبدالکریم،مولوی.نجی عبدالکریم خاں مولوی افغان ۴۲۷ عبداللہ ہارون عبدالکریم سیالکوٹی ۲۰۳،۱۱۰،۱۰۹ ،۸۱۳،۷۹۲،۷۹۱۲۱۳ ۴۴۵ ۵۳۶ ۴۲۶،۴۲۵ ۳۷۳ عبدالوہاب خاں.لاہور عبدالوہاب عزام عبید اللہ بسمل ، مولانا عثمان غنی عبد الماجد دریابادی ، مولانا ۱۸۸،۱۱۷ عزیز احمد، صاحبزادہ مرزا ۳۵۷ ،۳۴۱،۳۲۱،۲۶۳ عبد الکریم شر ما، مولوی ۵۳۵،۵۳۴ عبد المالک خاں ، مولانا ۶۹۴۵۹۵ عبد اللطیف، چوہدری ، مجاہد.جرمنی ۱۸۴ ۵۲۵،۲۸۵،۲۸۴۲۷۹ تا ۵۲۷ | عبدالمتین، چوہدری کلکتہ ۷۳۶،۷۱۵ ۱۸۸ عبداللطیف، شیخ.اسلام آباد عبدالمجید خاں ابن چوہدری چھجو خاں ۶۹۹ عبداللطیف ،صاحبزادہ سید ۳۱۸ ۹۱ ۸۰۳،۳۶۴ ۱۸۲ ۶۱۸،۱۲۹ عزیز احمد ، ملک.مجاہد انڈونیشیا ۹۳ ۵۴۷،۵۴۶،۲۹۶ عزیزہ بیگم بنت منشی مولی بخش عزیزہ بیگم اہلیہ نشی برکت علی خاں ٣٠٢ ۲۰۳ عصمت اللہ، چوہدری.بہلولپور ۲۵۵ عبدالمجید زرگر.معلم وقف جدید ۲۹ عطاء الرحمن حکیم معلم وقف جدید ۲۸،۲۲ ۴۲۳ تا ۴۲۵ عبدالمجید سالک، مولانا ۳۷۶،۳۶۴ عطاء الرحمن، ڈاکٹر.ساہیوال ۴۳۳، ۵۰۰،۴۳۸ عطاء الرحمن خاں سیا بو All عطاء اللہ ایڈووکیٹ،میاں.راولپنڈی ۷۳۶،۵۹۵،۱۴۸،۱۰۴ عطاء اللہ ایم.اے ایڈووکیٹ ۲۱۲ عطاء اللہ درویش، مولوی ۲۱۳ All ۴۳۴،۱۷۲ ۴۶۷ ۳۴۸ ۵۴۰ ۲۹ ۵۴۷ عبد المغنی ، مولوی عبدالمنان ،ملاں.لاہور عبدالمنان عمر ،میاں عبدالواحد اشانی عبدالواحد معلم وقف جدید عبدالواحد، مولوی انڈونیشیا ۵۴۷ ۶۵۱ ۶۹۸ عبداللطیف شاہد پریمی عبداللطیف خاں نجی عبداللطیف مقبول.فنجی عبداللہ، مسٹر.جرمن جرنلسٹ ۷۰۳،۵۲۶ ۲۴۸ عبداللہ آرسکاٹ عبداللہ ابوبکر عبد اللہ بن رواحہ ۷۶۰ ۷۶۱ عبدالواحد شیخ مجاہد ایران ۶۵۳٬۱۸۷ عطاء اللہ شاہ بخاری ، سید ۳۵۰ تا ۳۵۶
عطاء اللہ کلیم ، مولوی عطاء محمد ، ماسٹر عطیہ صقر - مصر عظیم اللہ ، میاں علی احمد حکیم.رجوعہ علی احمد خاں، شیخ.وکیل علی امین رسید علی صالح - مشرقی افریقہ علی صالح نیر.مشرقی افریقہ علی محمد ، چوہدری ۷۱۵،۵۴۷ ۶۱۸ ۱۳ ۷۰۸،۶۸۶،۳۳۷ ،۲۸۶،۲۸۵ ۷۲۲۶۱۸،۶۰۲۵۹۶،۴۶۹ ،۴۲۹ 1..: غ غالب احمد، راجہ ۴۳۳ تا ۴۳۸ ۲۱۹ ۴۸۵ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ا، ۸۶، ۹۳، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۹۲،۱۹۱ ،۲۵۵،۲۰۳،۱۶۷ ، ۱۴۲ ، ۱۳۷ ، ۱۲۷ ،۱۱۳ ۸۲۱ ،۴۰۴،۳۸۴،۳۸۲،۳۵۷ ،۳۴۴ ،۳۲۹ ۵۴۷ ۷۹۳،۷۰۴۶۴۵ ،۶۴۴ ،۵۹۹ ،۴۵۶ ۱۸۸ ۱۹۲ ^•• غلام احمد ، شیخ.ایبٹ آباد غلام رسول مہر ، مولانا ۳۶۷،۳۶۶ ۳۷۲ تا ۴۵۳،۳۷۴ ۴۹۰ غلام قادر ، ملک غلام قادر خاں منشی.پٹھانکوٹ ۳۶۴ ۸۱۰،۸۰۹ ،۴۱۷ غلام قادر ایم پی اے.ڈھاکہ ۲۶۴ غلام محمد، چوہدری پو ہلا مہاراں ۸۱۳ تا ۸۱۵ علی محمد ، راجہ علیم الدین، خلیفہ ۴۸۵،۴۸۴ غلام احمد، قریشی.ربوہ ۱۲۸ ۳۱۳ غلام احمد ایڈووکیٹ، چوہدری ۷۳۶ غلام محمد ، حافظ صوفی.مجاہد ماریشس ۷۶۶،۱۸۶ عمر الدین، چوہدری قلع صو با سنگھ ۸۱۳ غلام احمد ایم.اے ،صاحبزادہ مرزا غلام محمد اختر ، میاں ۱۲۹،۷۷، ۳۲۷ عمر الدین، کیپٹن ڈاکٹر عمر الدین ، مولوی ۴۹۴ ۲۰۲ عمر الدین والد مولوی فرزند علی خاں ۴۴۸ عمر بن الخطاب عمر جمعہ.مشرقی افریقہ عمر دین.رجوعہ عمر علی بنگالی ، مولوی عنایت اللہ.راولپنڈی ۴۵۷ ، ۴۵۴ ۷۹۵ ۶۱۸ ۲۱۹ ۲۵۳ 2.9 غلام احمد بد و ملهوی ، مولانا ۶۶۸،۶۷۲ غلام محمد حق.معلم وقف جدید ۲۹،۲۲ غلام احمد رجوعہ ۲۱۹ غلام محمد وزیر ملا، مولوی ۴۲۵ غلام احمد فرخ ، مولانا ۴۹۰ ، ۶۶۸ غلام محی الدین حافظ معلم وقف جدید ۲۹ ۷۱۵۰۶۷۸،۶۷۷،۶۷۵۰۶۶۹ غلام محی الدین، قریشی دولت پور ۴۳۲ ۴۳۳۰ غلام اللہ ، چوہدری.پوہلا مہاراں ۸۱۵ غلام محی الدین ابن حکیم میاں خدا بخش غلام باری سیف، مولانا ۳۲۵ تا ۳۲۷ ۸۲۷،۷۰۹،۳۵۱،۳۵۰ غلام بھیک نیرنگ،سید غلام مرتضی ،سید ۵۴۵ ۵۱۰ ۲۵۷ ۴۸۹ تا ۴۹۶ غلام حسین ایاز ، مولانا عنایت اللہ، چوہدری مجاہد افریقہ ۵۳۶ غلام رسول، حاجی خواجہ.امرتسر ۴۲۸ عنایت اللہ، ڈاکٹر.کوردوال ۲۱۷ عنایت اللہ خلیل ۸۰۰،۵۳۵،۵۳۴ غلام رسول افغان، مولوی ۴۲۳ تا ۴۲۸ عنایت علی ، میر حضرت عیسی علیہ السلام ۱۰۴۱۰۳ غلام رسول تمیم ، میاں غلام رسول را جیکی ،مولا نا ۴۴۸ ۲۱۹ ،۸۲،۲۱ ،۴۲۸ ،۲۳۶ ،۲۳۵ ،۲۳۰ ،۲۲۹ ،۲۲۲ غلام مهدی ناصر ،سید ۲۴۲ غلام نبی، چوہدری.گڑھ شنکر ۷۹۱ غلام نبی ، ملک.ڈسکہ غلام نبی شاہد ، ملک ف فاطمہ بیگم ، سیدہ فتح پور ۴۲۱ ۲۸۸،۱۷۵ ۴۳۲۴۲۹
۱۴ فاطمہ بیگم اہلیہ چوہدری برکت علی خاں فضل داد، راجہ.ڈلوال ۴۸۴ تا ۴۸۹ قدرت اللہ سنوری ، مولوی ۲۶۰، ۴۰۷ ۷۲۲،۵۲۸ ،۴۰۸ قطب الدین ، حافظ مولوی.چک میانہ ۲۲۱،۲۲۰ ۴۲۱ فضل دین.رجوعہ فضل کریم ،ملک.فیض اللہ چک ۲۱۹ ۴۳۶ فقیر اللہ ، ماسٹر ۵۹۷ ،۸۲ فقیر علی، با بواسٹیشن ماسٹر ۴۳۹ تا ۴۴۵ قطب الدین والد شیخ محمد نصیب فقیر محمد خاں فلا دیو ، الحاج فوزی حسن خلیل، ڈاکٹر فهد الفيصل ، پرنس فیاض احمد ، اخوند فیروز خاں نون فیروز محی الدین قریشی فیروزه فائزہ ہاشمی فیصل، امیر ۵۳۸ ۵۴۳ ۳۹۵،۳۹ ۲۸۳ ۷۱۵ ۲۶۲ ۴۰۷ ،۱۸۸ ۹۱،۸۷ گ میگ کا کرافٹ، سرجان کامل دین، قریشی کانڈے بورے، چیف کبیر الدین لکھنوی،مرزا ۲۶۶ ۲۱۳ ۵۳۹ ۸۲۲ کرامت احمد خاں، چوہدری ۷۹۹ کرامر، پروفیسر کرسٹوفر،سر کرشن ، پنڈت سری فیض احمد ، چوہدری.پوہلا مہاراں ۸۱۵ فیض احمد ، مولوی فیض احمد بھٹی، چوہدری فیض احمد گجراتی ، چوہدری فیض الحق خاں فیض قادر، شیخ.کراچی ۲۸۲ ۲۹۳،۱۵۴ ۵۰۷ کرم الہی ظفر ، چوہدری ۲۸۵،۲۷۹ ۸۱۹ ۸۱۲ ۵۳۲،۵۳۰ کرم داد خاں، سردار ۸۰۷ تا ۸۰۹ ۴۵۸ کریم اللہ ، قاضی - فیض اللہ چک ۴۳۶ ZA کریم بخش.بہاولپور فیض محمد ، مستری.کمال ڈیرہ سندھ کریم بخش صوفی معلم وقف جدید ۲۴۴ ۶۹۴ ٢٩،٢٢ کریم بخش شیخ کوئٹہ ۲۴۴ تا ۲۴۷ ق قاسم دین، با بوسیالکوٹ ۸۱۴ کریم بخش رند - معلم وقف جدید ۲۹.قاسم کمانڈا، الحاج ۱۷۵ قدرت اللہ ، حافظ.مجاہد ہالینڈ کعب بن مالک کلثوم صغری ۳۰۰ ΔΙΑ ۶۲۸ ،۵۲۹،۲۸۳،۲۸۲۲۷۶،۲۷۴ کمال الدین، امام ۶۹۸ ۷۹۹ فاطمہ جناح ۲۴۵ فتح دین، چوہدری ۴۲ فتح دین بنشی.ربوہ 22 فتح محمد بیگ، مرزا.قصور ۱۹۸ فتح محمد سیال ، چوہدری ۴۳۳،۱۹۸ ۷۶۶۰۵۹۵ تا ۸۰۳۷۹۸،۷۹۰ فرانس ابیام ، سر ۵۷۰،۵۶۷ فرزند علی خاں، خاں مولوی ۲۰۵،۲۰۲ ۵۲۴،۵۰۱۰ ۴۶۱،۴۴۷ ، ۴۳۴ ۳۴۳،۳۴۲ ۲۹ ۷۴۲ All فرید الدین شکر گنج فرید بخش، ڈاکٹر فضل احمد معلم وقف جدید فضل احمد ،سیدا بن سید وزارت حسین فضل الرحمن، با بو فضل الرحمن، چوہدری.پوہلا مہارا ۸۱۵ فضل الرحمن نعيم ۲۰ ١٩٩ ۲۹۲،۶۶ ۷۱۵،۵۴۰ ۷۱۵ ۷۱۶ ۱۴۳ ۷۷۹ فضل النساء (مبارکه بیگم ) فضل الہی انوری ،مولوی فضل الہی بشیر ، مولوی فضل الہی خاں فضل حق شیخ.سی فضل حق ، شیخ.رئیس بٹالہ
۱۵ کمال الدین ، خواجہ ۷۷۰ تا ۷۷۲ لطیف احمد شاد ۲۳۱ ۲۳۴٬۲۳۳ مبارک علی ، چوہدری.مجاہد بنگلور ۱۷۱ ۸۰۸۸۰۷ لطیفہ بیگم بنت چوہدری دولت خاں ۸۰۰ مبارک علی شاہ ،سید لیلی زینب - لندن کمال یوسف.مجاہد سکنڈے نیویا ۷۰۹،۲۷۹ لینن لیونڈ سیڈوف ۴۶۷ ،۴۶۵ ۱۳۳،۱۳۲ ۷۱۵،۳۷۸،۱۹۹،۱۳۵ ۷۷۲ مبارکہ بیگم ،سیدہ نواب ۳۳۷ ۸۲،۸۱،۸۰ مبشر احمد، قاضی ۲۱۴ ۵۶۹ ۲۹۷ C2A میو مسٹر نائیجیریا مجید احمد ، صاحبزادہ مرزا مجید لاہوری ۱۱۴ 227 مالک امام مالویہ، پنڈت ۵۴۱ ۷۷۹،۷۷۸ کندن سنگھ جی ، ٹھا کر کنگ، پروفیسر کنور عبدالوہاب کوامے نکروما، ڈاکٹر ۵۴۵،۵۴۴ کلیج عرف میم صاحبہ کینٹ ول سمتھ.مانٹریال مبارک احمد ، مولانا شیخ ۱۷۱۰۹۳۷۷ محبوب عالم خالد ایم.اے ۴۵۱،۴۵۰ ۳۰۰ ،۳۰۳ ،۲۹۷ ،۲۹۲،۲۴۵ ،۱۸۸ ، ۱۷۳ ۳۱۲ ۵۵۵،۵۴۷ ،۵۳۸ ،۵۳۴،۵۳۳،۳۷۶ گلزاراحمد - معلم وقف جدید بھارت ۲۸ ۷۱۵،۵۹۱،۵۸۹ ،۵۷۵ ،۵۷۴،۵۷۲ محبوب یوسف خاں.نجی محکم الدین منشی ۷۱۵ ۶۹۸ ۲۴۴ گل محمد ، مرزا ۱۷۳ گل محمد ، میاں.ملازم نواب محمد علی خاں مبارک احمد قریشی ۸۰۵ حضرت محمد رسول الله علل مبارک احمد - معلم وقف جدید ۲۱، ۲۹ ۵۰۰ ۹۲،۹۰ ، ۹۵ تا ۹۷ ۱۴۲،۱۴۰،۱۳۹،۱۱۶ ۱۵۷ تا ۳۳۵،۱۶۷،۱۵۹ تا ۳۸۶،۳۳۷ مبارک احمد صاحبزادہ مرزا ۳۹۲،۱۹۰، گورند چندراد یو، ڈاکٹر ۲۶۴ ۷۰۸ ،۷۰۷،۵۹۹ ۷۱۵،۵۹۵،۳۹۴ گولڈ تھرون، پروفیسر ۱۵۳ گیلانی حسنی پیرسید.رانی پور ۴۴۲ مبارک احمد ،صاحبزادہ مرزا ابن محمد ، مولوی مشرقی پاکستان محمد ابراہیم حضرت مسیح موعود 22.۴۲ ۲۶۴ ل محمد ابراہیم حکیم.مجاہد افریقہ ۲۹۳،۱۵۴ مبارک احمد ، مرزا.ابن لار ئنس را بنس ۲۶۷ لال حسین اختر ۴۸۷ لزلے رامزے ۵۷۷ مرز اسلطان محمود بیگ ۲۰۰ مبارک احمد بی اے، شیخ ۴۵۰ مبارک احمد خاں، چوہدری ۷۹۹ مبارک احمد ساقی ، مولوی ۲۹۰،۱۷۵ محمد ابراہیم ، صوفی محمد ابراہیم، ماسٹر.لاہور ۴۰۰ ۷۲۶ لطیف الرحمن، مرزا.جرمنی ۶۴۷ لطف الرحمن محمود لطف المنان ۲۱۲ لطیف احمد ، ڈاکٹر ۵۴۳،۵۳۹،۲۹۶ مبارک احمد شاہد، قاضی ۲۸۸، ۲۹۷ مبارک احمد ہاشمی.اسلام آباد محمد ابراہیم ایم.اے، چوہدری ۶۶ محمد ابراہیم بھا مڑی ، چوہدری ۶۶ محمد ابراہیم جمونی ، میاں ۴۶۰،۴۵۱، ۶۱۹ محمد ابراہیم سیالکوٹی ، مولوی ۴۸۸، ۴۵۷ محمد اجمل شاہد ایم.اے محمد اجمل غوری ۴۱۷ ۲۳۱
۱۶ ۷۹۱ محمد اسماعیل دیا لگڑھی، مولانا ۶۹۴ محمد بشیر شاد.مجاہد سیرالیون ۲۹۶،۲۸۸ ۵۴۱ تا ۵۴۳ محمد اسماعیل منیر ، مولانا ۲۹۴۱۸۷ محمد تقی نجی ۶۸۵ ۵۴۷،۵۳۶ محمد جمیل ، حکیم معلم وقف جدید ۲۹،۲۲ ۲۵۳ ۳۲۷،۸۲،۷۷ محمد احسن حکیم کراچی محمد احمد ، ڈاکٹر محمد احمد مرزا.ابن ۲۰۰ ۷۱۵ مرز اسلطان محمود بیگ محمد احمد پانی پتی ، شیخ محمد احمد جلیل، مولوی محمد احمد مظهر، شیخ ۷۱۵ ۶۶۴۳،۴۲،۲۰ محمد احمد نسیم - معلم وقف جدید محمد اشرف چوہدری ۵۱۸،۵۱۷،۵۱۵ محمد جلیل سید فتح پور گجرات محمد اشرف منشی مرزا محمد اشرف ناصر ،مولوی.۷۹۴ محمد جان خاں.نجی ۱۲۱ محمد جعفر سولنگی مولوی محمد حسن خاں درانی ۷۲۷ محمد حسین ، چوہدری.جھنگ ۸۱۷،۷۷۶،۱۸۶ محمد اعظم بی ایس سی.گھٹیالیاں ۱۹ ۲۱ محمد اعظم خاں ، جنرل محمد الحق، چوہدری.مجاہد ہانگ کانگ محمد اقبال، پیر ۱۸۷ ۴۳۲ ۲۴۳ ۳۴۵ ۳۴۳ ۴۴۴ محمد حسین ، حکیم قاضی - کورد وال ۲۱۴.محمد اقبال، ڈاکٹر علامہ سر ۳۶۷،۹۱ محمد حسین ، شیخ دھرم کوٹ.رندھاوا محمد الحق ، سید میر محمد الحق ، صوفی محمد اسلم ، قاضی محمد اسلم ، قریشی ۳۱۹،۳۱۸،۲۳۵ ۷۹۵،۴۳۴ ۸۲۱،۷۱۵،۵۴۸ محمد اقبال، شیخ.کوئٹہ محمد افضل.ربوہ ۶۰۶،۴۵۹،۳۷۳ ۳۰۳،۲۴۷ محمد حسین ، ماسٹر.نبی ۱۹۷ ،۱۹۱ ۶۶۹،۶۵۵ ۶۹۱۰۶۷۷،۶۷۳ تا ۶۹۵،۶۹۳ ۷۱۵ ،.محمد افضل قریشی - مجاہد سیرالیون ۱۷۵ محمد حسین ، مولوی.سبز پگڑی والے ۴۸۶ ۳۲۶ ۲۹۶،۲۸۹ محمد حسین بٹالوی ، مولوی محمد اسماعیل، ڈاکٹر سید میر ا۴۶۲۰۱۱۲۱۱۱ محمد افضل خاں بٹالوی ، بابو ۸۰۹ تا ۸۱۲ محمد افضل خاں بٹالوی ، بابو ۸۰۹ تا ۸۱۲ محمد حسین خادم - معلم وقف جدید محمد اسماعیل ،سید.برادر ڈاکٹر سید غلام غوث محمد اسحق خاں نجی محمد الحق خلیل مولوی ۴۲۸ ۶۵۱ ۲۹۶ ،۲۸۸ محمد الدین نواب محمد الدین.رجوعہ محمد الدین، شیخ مختار عام محمد الدین منشی ۴۳۴ ۲۲۱ ۲۴۶ ۴۲۹،۴۲۸ محمد حسین شاہ، ڈاکٹر ۲۱۲ ۲۸ ۸۰۸ محمد حسین ولد شیخ غلام قادر ایبٹ آباد ۳۰۱ محمد حکیم خاں.فنی ۴۱۶ ۳۰۳،۲۴۷ ۷۱۵،۴۷۲ ۷۳۶،۱۸۷ ۴۳۲ محمد الحق شاہد، حافظ ۵۴۱ تا ۵۴۳ محمد امیر ، با بو.فیروز پور محمد اسحاق عابد محمد اسلم سیال محمد اسلم خاں.پچھی محمد اسماعیل پانی پتی ، شیخ ۴۵۸ محمد امین ، مرزا.کوئٹہ ۲۵۲ محمد ایوب خاں.صدر پاکستان ۳۴۶ ۷۱۵،۳۷۱ ۴۴۹ محمد حفیظ ، مولوی محمد حفیظ بقا پوری،مولوی ۶۱۹ محمد حنیف،حاجی.نجی ۵۱۳،۵۰۹،۵۰۸ محمد حنیف، شیخ.کوئٹہ محمد بشیر، ڈاکٹر قاضی.کورووال ۲۱۶ محمد حنیف قمر، قریشی محمد اسماعیل خاں گوڑیانی ، ڈاکٹر ۷۹۰ محمد بشیر خاں.نجی ۶۸۲ محمد خلیل ، سید.فتح پور گجرات
۱۷ محمد خورشید پٹواری، شیخ محمد دین، مولوی ۱۹۷ ۷۱۴ محمد دین حکیم مولوی.قادیان ۵۰۷ محمد دین سفری.معلم وقف جدید ۲۹ ۴۲۸ تا ۴۳۲ محمد صدیق امرتسری ، مولوی ۲۸۸،۱۷۵ محمد شریف، چوہدری.مجاہد بلاد عریبہ ۲۱ محمد شریف، شیخ کوئٹہ ۲۴۶، ۳۰۳،۲۴۷ ۶۷۰،۶۶۸،۵۵۸،۵۴۵،۵۴۳،۵۳۹ ۶۷۵۰۶۷۱ تا ۷۱۵۰۶۷۷ محمد شریف ، ملک معلم وقف جدید ۲۹ محمد صدیق بانی ، میاں ۲۳۶ ۷۴۲ ۵۴۷ محمد صدیق خاں.نجی محمد صدیق شاہد گورداسپوری محمد طفیل معلم وقف جدید ۲۸،۲۲ محمد ظفر اللہ خاں، سر چوہدری ۶۵،۱۹،۱۴ ۸۳ تا ۲۵۸،۲۵۳،۱۸۶،۱۴۳٬۸۶، ۲۷۴ تا ۲۸۳، ۳۰۷، ۳۰۹ تا ۳۱۳ محمد دین فوق، منشی محمد رشید ، قاضی محمد رفیع.خیر پور محمد رفیق، قاضی.لاہور ۳۷۴،۳۶۷ ۴۵۸ ۷۹،۴۲ محمد رمضان خاں، الحاج.ناندی.نجی ۴۲ ۶۵۳۶۵۱ تا ۶۵۵ محمد زبیر خاں ابن محمد یعقوب خاں ۵۰۶ محمد شریف کھوکھر محمد شفیع بھیروی قریشی محمد شفیع عابد.قادیان محمد شفیع ولد خدا بخش مغل ، میاں محمد شفیق.معلم وقف جدید محمد شفیق قیصر محمد زہدی، مولوی.انڈونیشیا ۲۹۵، ۵۴۷ محمد شمس الدین.کلکتہ ۴۰ ۲۱۳ ۲۸ ۳۰۰ ۲۹ ۳۲۵،۳۲۳،۳۲۲ محمد زمان خاں.معلم وقف جدید ۲۲ ۲۹ محمد شمس الدین، ماسٹر ۶۷۱،۶۶۰،۶۵۵ محمد سراج الاسلام ۲۹،۲۲ ۶۸۰ محمد شمیم ، مولوی_سیلون محمد سرور شاہ، مولانا ۴۵۱ ۸۰۳۰۷۱۴۰ محمد شہباز خاں ، سردار.قصور ۴۵۳،۴۳۴،۳۹۴ ،۳۷۷ ، ۳۴۹، ۳۴۸ ،۵۲۵ ،۵۱۱ ،۴۸۱،۴۷۷ ، ۴۷۵ ، ۴۵۹ ۶۰۶،۵۹۶،۵۹۵،۵۳۷ ، ۵۲۹ ،۵۲۶ ۲۵۳ ۲۹۴ ۷۷۲،۷۱۵،۶۶۲۰۶۵۷ ،۶۵۶ ، ۶۲۸ محمد ظہور الدین اکمل ، قاضی ۷۲۲۷۱۴،۳۶۴ محمد عباس - معلم وقف جدید ۲۹،۲۱ محمد عبدالسلام، پروفیسر ڈاکٹر ۲۶۵،۲۵۷ ،۵۸۶،۵۱۹،۵۰۹ ،۳۴۳،۳۴۲،۲۶۶ ۵۸۸ ۴۳۸ ۷۷۳۷۲۳۷۱۴۶۱۸ ۳۱۱ ۴۲۱ ۴۲۵ ۳۱۹،۳۱۸،۲۰۳ ۸۰۳۸۰۱ ۲۹،۲۱ محمد سعید.کیپٹن ۱۲۱ ،۲۴ محمد سعید ابن فیروز الدین محمد شہزادہ خاں ، مولوی ۳۷ محمد صادق مفتی محمد سعید البانی الدمشقی ۳۱۱ محمد سعید انصاری.مجاہد بورنیو ۵۴۸،۱۸۳ محمد صادق ، ملک معلم وقف جدید محمد صادق خاں نجی ۶۹۸ محمد صادق سماٹری ، مولانا محمد عبد الله محمد عبداللہ، قاضی ۷۱۵،۲۹۷ ،۲۰۹ محمد صادق علی ، خلیفہ ۴۴۲ محمد عبد اللہ، ڈاکٹر قاضی عبداللہ، محمد صدیق.معلم وقف جدید ۲۹ محمد عبداللہ، ماسٹر نجی.محمد صدیق، مولوی لائیبریرین ۱۲۹ محمد عبداللہ ، ملک ۲۵۲ ۳۲۶ محمد سلطان اکبر.ربوہ محمد سلیم مرزا محمد سلیم ،مولانا مجاہد کلکتہ ۱۷۳۱۷۱ ۷۴۲،۵۸۷ محمد سلیمان، حافظ - مجاہد افریقہ ۵۴۷ ۳۱۱ ۱۴۵ محمد سلیمان، قاضی الشیخ محمد شاہ رنگیلا محمد شاہ ، سید معین الدین پوره
۱۸ ۶۸۲۶۵۶ محمد یعقوب ، حکیم ۲۴۳ محمد قاسم نانوتوی ، مولانا ۴۰۳، ۳۶۸ محمد یوسف، بابو.معلم وقف جدید بھارت ۵۸۷،۱۷۳ | محمد قریشی ، میاں شیخ ۸۰۵ محمد کریم اللہ ، مدیر آزاد نو جوان ۲۸ محمد یوسف، ڈاکٹر نجی محمد عبداللہ، میاں.قادیان محمد عبد اللہ بی ایس سی.بھارت ۸۱۲ محمد عبد اللہ سنوری منشی ۲۳۱،۱۱۱ محمد عبد اللہ مالا باری ۱۷۳،۱۷۲،۲۸ محمد عبده ۳۱۱ محمد عثمان.حیدر آباد انڈیا ۱۷۳ محمد لطیف، شیخ کوئٹہ محمد عثمان.مجاہد چین ۱۸۸ ۶۲۲،۵۰۷ محمد یوسف ، میاں.راولپنڈی محمد لطیف، حاجی.مینی ۶۹۱، ۶۹۸ | محمد یونس خاں ، ماسٹر نجی ٣٠٣ محمد یوسف خاں ، جنرل محمد لطیف انصاری، خواجہ ۵۸۴٬۵۸۱ محمد یوسف ڈار محمد عثمان ، مولوی.ڈیرہ عازیخاں ۴۲ محمد محسن ،سید.معلم وقف جدید بھارت محمود احمد عرفانی ، شیخ ۲۹،۲۸،۲۱ ۲۵۹ ۳۰۰ ۶۸۲،۲۸۱ ۵۱۴ < ۲۸ ۸۱۷،۸۱۶ ۴۴۵ ۱۸۸ ۳۱۳۷۷ ۲۹ ۲۸ محمود احمد علی ابن با بو فقیر علی ۳۱۲ محمود احمد مختار شاہد محمد مصطفى المراغى، شیخ الجامع ۶۱۸،۲۳۱ ۶۵۴۶۵۳ محمد عثمان چینی محمد عقیب خاں محمد عقیل ، حکیم - معلم وقف جدید ۲۸، ۶۵ محمد مغل عرف مغلا کوٹ محمد یار محمود احمد ناصر ،سید محمد علی ، چوہدری ابن دولت خاں ۸۰۰ محمد علی.ایم.اے ، مولوی ۱۱۵،۱۱۳ ۸۰۸۰۸۰۷،۶۵۱ محمد منور ، مولوی محمد منیر ، قاضی.کور ووال ۲۲۴ تا ۲۴۰ محمود احمد نسیم محمود العام ۵۳۵ ۲۱۸ محمودالیس محمود احمد چیمہ ، مولوی محمد علی جالندھری، مولوی ۳۵۳٬۳۵۲ محمد موبیل، حکیم - کمال ڈیرہ ، ۲۴۳ ۴۲۲،۲۴۵ محمد نذیر حکیم منگریل ۴۹۲ تا ۴۹۶ محمود شاه نجی محمودشاہ.محمد علی جناح ، قائد اعظم محمد علی خاں، نواب.مالیر کوٹلہ ۷۱۴ ۴۵۹، ۵۱۸ محمد نذیر لائل پوری ، قاضی ۲۱۴، ۲۱۵، ۲۱۸ محمود شاہ ،سید - فتح پور محمود عودہ، السید.مصر محمد علی خاں اشرف ، چوہدری ۸۰۰ محمد علی مضطر ، چوہدری ۷۱۵،۵۰۲ ۳۹۵،۳۱۳،۳۰۲ محمد نصیب، شیخ ۱۹۲، ۴۲۱ ، تا ۴۲۳ محمود کونٹے.سیرالیون محمد نصر اللہ خاں ۱۸۸ محمد نصیر، شیخ.خانقاہ ڈوگراں ۴۸۴۲۵۱ ۴۲۳ محمودہ،ڈاکٹر ۲۹۷،۲۸۸ ۶۸۵ ۴۳۰ ۳۹۴ ۱۸۸ ۵۱۰ محمودہ بیگم ،سیدہ.ام ناصر ۱۲۰ تا ۱۳۷ ۵۰۷ ۱۰۲ محمد نور عالم ایم.اے.کلکتہ ۶۰۵ محی الدین محمد ولی الدین.قادیان محمد یا ر عارف ،مولانا ۵۰۷ ،۲۵۲ ۴۸۷ محی الدین ابن عربی ۱۸۸ ۴۲ محمد عمر ، مہاشہ محمد عمر سندھی محمد فاضل، حاجی محمد فیاض عباسی ۲۵۷ مختار احمد شاہجہانپوری، حافظ ۷۲۲۶۰۵ محمد فیض الدین، حافظ مولوی ۴۶۱ محمد یحی حکیم مولوی.ایبٹ آباد مختار احمد ہاشمی محمد قاسم خاں ، مولوی نجی ۱۹۳،۱۹۲ مختار بیگم ۷۳۵
۱۲۷ ۲۳۱ ۲۱،۲۰ ۲۸،۲۱ ۱۶۱،۱۰۲،۱۰۱ ۷۸۹ ۵۳۹ ۵۰۵،۲۸۸ ۷۰۸ ۵۴۳ ۲۲۷ منیر احمد ، صاحبزادہ مرزا ۶۵۲،۶۵۱ ۲۶۲ | منیر احمد ابن محمد مغل منیر احمد با ہری.مجاہد برما منیر احمد عطاء اللہ ۴۲۱ ۷۴۲ ۱۹ مظفر بیگ ساطع ، مرزا مظفر علی قزلباش معراج الدین عمر ، میاں معین الدین سیٹھ ۴۴۸ ۳۶۷ ۵۹۳ مدثر شاہ، میر مرتضی حسن میکش مرجوالی بر بام مس مرزا خاں، چوہدری رجوعه ۲۱۹، ۲۲۱ ۲۲۲ معین الدین چشتی خواجه ۱۷۱،۴۶،۳۲ منیر احمد محمود حضرت مریم علیه السلام ۲۸۶،۲۸۵،۱۳۸ مریم بی بی.سیالکوٹ ۴۴۵ ملاما، ڈاکٹر ملسن مسٹر آر ۶۲۸ ۵۳۲ منیر احصنی ، سید منیرہ بیگم موسیٰ، چیف مورس این ڈور مین ،سر حضرت موسیٰ علیہ السلام موسی محمد.نائیجیریا مولا بخش چنیوٹ مولود احمد خاں.مجاہد انگلستان ۱۸۵،۱۸۴ ۵۲۳،۵۱۴،۵۰۳،۲۷۹،۲۷۰،۲۶۹،۲۶۷ ۱۷۴ ۱۲۱ ۲۰۱،۲۰۰ ۲۶۹ 1+9 ۵۵۵ مومن حسین.حیدر آباد دکن مبر آیا ، سیده مہر علی شد گولڑوی، پیر میرٹن ڈنکسن میر محمد ،میاں ن نارمین مسٹر ( نعمان ) متصم باللہ مسعود، خواجہ مسعود احمد ، سید میر مسعود احمد ، قریشی.کراچی مسعود احمد جہلمی مسعود احمد خالد ، ملک ۱۴۵ ۴۵۸ ۱۱۲ ممتاز علی ،سید.سونگھڑہ ممتاز مقبول ، وکیل فنی ۷۱۵،۳۲۶ بی اے بی ٹی ۶۶ مسعود احمد خاں دہلوی ۷۲۱،۷۰۹٬۵۰۸ مسعود احمد خورشید سنوری مسعود احمد قریشی مشتاق احمد سید مشتاق احمد باجوہ، چوہدری ۲۶۰ ٢٩،٢٢ ۷۱۵ ۲۴۱ منصور احمد ،صاحبزادہ مرزا منصور احمد.انڈونیشیا ۳۱۳،۱۲۷ ۳۹۴،۱۸۸ منصور احمد ابن چوہدری علی محمد ۵۲۲۵۱۴ منصور احمد سیال، چوہدری منصور احمد شر ما ۷۸۹ ۵۰۴ منصور محمودہ.ربوہ منظور احمد معلم وقف جدید ۲۱ منظور احمد.ملتان ۳۵۱ منظور احمد انور ۲۳۵،۲۳۳،۲۳۱،۲۲۷ منظور احمد ساجد ۲۹ ۸۲۷ مصدق احمد سید معلم وقف جدید ۲۹ منعم الحسن.ربوہ منور احمد.ربوہ منور احمد ، صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا ۱۲۰،۸۲ ناصر احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۵۹،۵۵، ۷۱۵،۷۰۶،۳۸۱،۲۳۵ ،۱۴۸ ،۱۳۳،۱۲۹،۱۲۳،۱۲۰،۹۷ ،۶۰ ۲۵۱ ،۳۱۰،۳۰۷ ،۲۵۷ ، ۲۵۵ ،۲۵۳،۱۶۳ ۵۱۳ ،۶۰۵ ،۵۹۵ ،۵۱۹،۵۱۲،۳۹۴ ،۳۹۳ ۵۴۰ منور احمد ،مرزا.مجاہد امریکہ منور احمد ، ملک منیر احمد.غانا مصطفی سنوسی - سیرالیون ۲۸۹ مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا ۶۱۹،۲۵۸،۱۴۹ مظفر احمد سیال، چوہدری ۷۸۹ مظفر احمد ظفر ایڈووکیٹ ۶۶ مظفر الدین بنگالی، چوہدری ۸۰۹
۶۷۶۶۷۴،۶۷۳،۶۱۸،۶۱۲، ۶۷۹ نذیراحمد خاں وکیل جے پور تا ۶۸۴، ۶۸۶، ۶۸۷، ۶۸۹، ۶۹۶، ۷۷۸ تا ۷۸۰ نواب خاں.جے پور ۸۰ تا ۸۲ ۷۷۹ ۷۱۵،۷۰۹، ۷۲۳،۷۱۹، تا ۷۲۷،۷۲۵ نذیر احمد رحمانی ، ماسٹر ۴۹۶ تا ۴۹۹ حضرت نوح علیہ السلام ۳۸۳٬۳۸۲ نذیر احمد علی ، مولوی ۱۱۴، ۸۲۰،۴۴۵ نور احمد شیخ.ایبٹ آباد ناصر احمد، شیخ.مجاہد سوئزرلینڈ ۵۲۷ ،۲۷۹،۲۷۲،۲۷۱ ،۱۸۵ ناصر احمد پرویز پروازی ناصر احمد خالد، شیخ ناصر احمد شاہ ،سید ناصر احمد ظفر نذیر احمد مبشر ، مولوی ۵۴۱،۵۴۰،۲۹۱ ۵۰۹،۵۰۷ نسیم ،مسٹر ڈاکٹر.انگلستان ۴۵۴ نصر اللہ خاں، پروفیسر راجہ ۱۷۲ نصر اللہ خاں، چوہدری ملک.ڈسکہ ۱۸۷ نصر اللہ خاں، ملک.ڈسکہ ناصر احمد قریشی.بھاگلپور ۵۰۶ نصرت جہاں بیگم سیدہ نوراحمد ، مرزا.رجوعہ ١٩٣،١٩٢ ۲۱۹ ۵۲۰ نوراحمد منیر، شیخ مجاہد.لبنان ۷۱۵،۱۸۷ ۴۸۴ نور الحق انور مولوی نورالحق ۴۰۷ ۴۲۱ ۱۹۹،۱۲۰،۱۱۲،۱۱۰،۱۰۹ ۶۶۸،۶۶۴،۶۶۳۲۹۷ ،۱۶۱ نورالدین، حضرت حکیم الحاج مولانا خلیفہ المسیح الاول ۱۱۵،۱۱۲،۱۱۰،۱۰۹ ۲۸۵،۲۲۸ ،۲۲۴ ۲۱۳،۲۰۳،۱۴۱،۱۳۳ ناصر الدین کنیو انگامانگا ناصر الدین گا مانگا، چیف ناصر علی ، مرزا ۱۷۵ نصیر احمد ، صاحبزادہ مرزا ۸۰۶،۴۲۲ ۳۱۳ ۴۴۹ ناصر محمد سیال، چوہدری ۷۸۹،۷۸۸ نصیر احمد شاد معلم وقف جدید ۲۸،۲۲ ۴۲ نصیر احمد شاہد ناصر نواب سید میر م م م نصیر احمد خاں ناصرہ بیگم ، صاحبزادی ۱۳۱،۱۲۰ نصیر احمد خاں، پروفیسر نپولین شار احمد، چوہدری.خوشاب ۳۸۵ ۱۲۵ نصیر احمد خاں.خانپور شما را حمد راٹھور، ڈاکٹر نجم الدین ، قاضی شیخ ۶۲ ،۳۹،۳۸ ۲۱۴ ، ۴۴۸ ، ۴۴۷ ، ۴۲۶ ،۴۲۴ ،۳۲۹ ،۳۲۶ ۸۱۳،۸۰۱،۷۷۱،۷۷۰ ، ۴۵۷ 2.9 ۵۴۸،۵۳۵ ۶۸۵،۶۸۴ نورالدین خوشنویس نور الدین منیر ، مولوی نورشاہ ، بھائی.نجی ۳۱۱،۲۴۱،۸۱،۸۰، ۷۱۵ نور محمد ، میاں فیض اللہ چک ۵۰۰ ۷۹ نور محمد نسیم سیفی ۵۴۱،۵۴۰،۲۹۰،۲۸۹ نصیر الدین ایم.اے شیخ ۴۵۱،۲۹۱ نصیر حسین سہارنپوری، سید منجم الدین شیخ.امرتسر ۴۵۶، ۴۵۷ نظام الدین، چوہدری.جوڑا نذیر احمد ، جنرل.دوالمیال نذیر احمد ، ڈاکٹر.افریقہ نذیر احمد.کراچی نذیر احمد ، ملک.سیالکوٹ نذیر احمد ایم ایس سی، چوہدری نذیر احمد خاں.یہی ۴۸۴ ۶۴۳ ۵۷۱،۵۷۰،۵۶۸،۵۶۷،۵۵۹،۵۴۳ ۷۱۵،۶۴۶،۶۲۶۰۶۲۵ ۵۵۷،۳۵۷ ۷۶۹ نیاز فتح پوری ، علامہ ۶۹۴ ۶۲۶ تا ۶۳۴۰۶۲۸ تا ۶۴۵ و.ہی ۵۳۸ ۵۱۰ ۴۲۳ نظام الدین ، مولوی نظام الدین اولیاء،خواجہ نعمت اللہ خاں ، خان بہادر ۲۲۷ واجد کمال الدین بینی نعیم الدین ، قاضی ۵۴۷ نکتیا سر گیوچ خروشیف ۳۱۲ واحد حسین ، گیانی ۶۳۱،۶۳۰ وار لی ، مسز ۳۴۷۳۴۶ نکتیان، پروفیسر، روسی سائنسدان و انگلی امری ، ڈاکٹر ۶۹۶ ۱۸۸ ۵۳۲ ۲۸۷
۲۱ ۳۰۱ ۸۹ ۲۳۵ یاسمین بنت چوہدری فتح محمد سیال ۵۰۴ کی.گاروت انڈونیشیا یحیی بن الحسین، پرنس والٹر ہمرمان والراڈ پر اس مسیحی محقق غلام فاطمہ ، لیڈی ڈاکٹر ۲۷۴ ودھائیاں - کتاب امرتسر ۵۷۷ ہاجرہ، حضرت ۱۲۱ ہاجرہ بی بی اہلیہ محد مغل وانڈی کالوں و تلف خالد ۵۴۰ ۱۸۸ ہاجرہ بیگم ۷۸۹،۷۸۸ | یکی افضل ہارون لگوشمہ، چیف وحید احمد ، صاحبزادہ مرزا ۵۰۴ باشم خان ، مخدوم خاں، وزارت حسین ،سید ۷۴۲ باه سعید و ینگورا وسیم احمد، صاحبزادہ مرزا ۱۶۸،۲۸،۲۷ ہری سنگھ ، رائے بہادر سردار ۲۵۵،۱۷۲،۱۷۱، ۳۴۲،۳۳۹، ۴۰۶ ، ہری کشن مہتاب ۷۴۳،۷۳۹،۵۱۲،۴۱۶ ہلاکو خاں وقیع الزمان خاں، بریگیڈئیر ۷۱۵ ہنفری جان فشر ۵۳۷ سیر ما بالا ۱۸۸ یعقوب بیگ، ڈاکٹر مرزا ۲۹۵ ۵۲۷ ۱۸۸ ۵۰۷ ۱۱۲ ۲۸۸ یعقوب علی عرفانی، شیخ ۱۹۱،۱۷۳، ۳۱۸ ۳۰۰ ۲۴۳ یعقوب یمنی ۱۴۴، ۱۴۵ یوزیڈ تا شیر.کراچی ۲۹۱ یوسف، ڈاکٹر سید.برسٹل ۷۹۲،۳۱۹ ۵۴۰ ۵۰۲ ۲۶۸ ۲۸ ۶۱۸ ۱۷۳ ۴۱۶ ولی اللہ شاہ - محدث دہلوی ولیم ٹب مین ۵۵۸،۵۴۴ ھیڈ لے، لارڈ ہیرلڈ شوبرٹ ونو با بھاوے، آچاریہ ۳۳۹ تا ۳۴۱ ھیں ، ڈاکٹر ۳۹۴،۳۹۳ یار محمد قاضی.قادیان ۱۱۴ ۲۶۹ یوسف الہ دین ، سیٹھ یوسف عثمان.مشرقی افریقہ ۵۰۷ یوسف علی عرفانی ، شیخ ۸۰۱ یونس احمد بریلوی
امریکہ ۱۳۹،۱۰۴۹۰،۳۳ تا ۱۴۱ ۱۵۹ تا ۱۶۱ ۱۶۳ ۱۶۴، ۱۸۴،۱۸۲، ۲۴۸ ۲۳ مقامات ۳۴۳،۲۸ V7 ۲۸۶ ،۲۸۴ ،۲۷۸ ،۲۷۶ ۲۷۴ ،۲۴۹ ، ۳۲۱ ،۳۱۴ ،۲۹۷ ،۲۹۶ ،۲۸۹ ،۲۸۷ ،۳۸۳،۳۸۲،۳۷۶ ،۳۵۵ ،۳۳۱۳۲۲ ۵۹۲،۳۷۶ ،۵۶۲،۵۵۹ ،۵۵۷ ،۵۴۸ ،۵۳۲۵۱۲ 777 67 ،۵۷۸ ،۵۷۷ ،۵۷۵ ،۴۶۷،۵۶۴ ۵۴۱،۵۴۰ ،۶۶۲،۶۴۹ ،۶۴۶ ، ۶۳۰ ،۵۹۲،۵۸۴ ۳۴۱ ۶۷۴۶۶۳ اڑیسہ ازرق اسرائیل اسلام آباد اسماعیل آباد اسہار اشانٹی ۵۶۸،۵۵۹،۵۴۲ ۵۲۵ ۶۷۶،۶۴۹،۶۳۱،۱۶۲ ۲۸ ٢٩،٢٢ ۲۷۵ آبادان آسٹریا آسٹریلیا آدم واحن آدھی کوٹ آرتیم آگره ۳۶۶،۱۳۳،۱۳۰، ۴۵۷ ،۷۷۷ اعظم گڑھ افریقہ ،۱۶۲،۱۶۰،۱۱۸ ،۹۳،۳۳،۵ امرتسر ۱۹۵،۱۰۹،۷۴،۳۳، ۳۰۱، ۳۳۱ ۱۰۰،۱۶۴ تا ۱۸۸،۱۸۷،۱۸۵،۱۸۱،۱۰۴، ۲۸۴،۲۷۶،۲۴۵، ۲۸۹ تا ۲۹۳، ۲۹۷، الجزائر ۶۳۸ ،۷۳۷ ،۶۳۴ ، ۴۶۸ ، ۴۴۴ ، ۴۴۱ ۵۴۵ ۳۴۴،۳۳۲،۳۲۲،۳۲۱،۳۱۷ ،۳۱۴ ،۵۲۵،۵۱۸،۵۰۸ ، ۴۵۰ ، ۴۰۵ ،۳۷۶ الہ آباد الده ۴۳۲،۱۹۳ 677 لدم ۲۹۲ آنور آئرلینڈ آئیوری کوسٹ اٹاری لدلدا اٹلی 7VI انبالہ ۵۳۳،۵۳۲، ۵۴۷،۵۴۵،۵۳۸،۵۳۷ | اندلس الده والده اٹھوال ۷۸۲ انیچی احمد آباد (اسٹیٹ) 7167 ۵۹۰ ،۶۳۸،۶۱۸،۶۱۱،۵۹۳،۵۸۹ ،۵۸۸ ۵۴۸ ، ۵۵۷ تا ۵۶۸،۵۶۶،۵۶۴،۵۵۹، انڈونیشیا ۵۷۰ تا ۵۷۶۰۵۷۵۰۵۷۲ تا ۰۵۸۵ ۱۸۸،۱۶۴،۱۱۹،۱۸۸،۹۳ ۲۹۴،۲۷۱ ،۲۶۹ ،۲۱۰ ،۲۰۹ ،۲۰۷ ،۲۰۶ تا ۲۹۶، ۵۴۵،۵۰۸،۴۰۸،۳۷۶،۳۱۷ ۵۴۶ احمد نگر ۴۴۵ ، ۴۴۴ ۴۴۲۱۲۶ ۷۲۸،۶۷۴۶۶۳ اور حمہ ۲۹ افغانستان ۶۰۶،۴۲۵ ،۲۷۴ اڈنبرا ۲۶۶ اکرا ۵۴۱ ،۵۴۰،۲۹۹،۲۹۲،۲۹۱ انڈیانا پولس انگلستان (برطانیہ) ۲۸۷ ۱۰۴۹۳۸۶ ۱۸۳ تا ۱۸۵، ۲۶۶ ۲۶۷، ۲۷۲، ۲۸۲ اربیل ۲۴۸ اکروکری ۵۴۵ اردن ۶۲۴۳۱۱ اگنیاں ۴۸۰ ، ۴۵۹ ،۴۵۸ ،۳۸۲ ،۳۷۶،۳۴۳ ۵۳۴
۲۴ ۵۱۴،۵۰۴، ۵۱۵، ۵۱۷ تا ۵۲۴،۵۲۱، باغ ۵۹۳،۵۹۲،۵۸۸،۵۸۵،۵۶۹،۵۴۷ | بالٹی مور ۶۳۸ ۷۴۲،۶۵۱۶۵۰،۶۰۸ ۲۸۷ ،۲۴۹ ۷۸۵ ،۷۷۳ ،۶۷۷ ،۶۵۰۶۳۰ باؤ کا ہوں ۵۳۹ انگلینڈ ۱۶۲،۱۱۶،۳۳ تا ۱۸۲،۱۶۴ بانده ۵۳۹،۵۳۰ باندھی انور آباد اوشکور اوچ شریف اودھ اوسلو اوکاڑہ ابا فو ایبٹ آباد اليسوكورا ۲۹،۲۱ بانڈہ محبّ باویریا ۷۹،۲۹،۱۴ ۳۴۵ ۷۰۴ بنارس بنگال بنگلور بنگلہ بوچھڑ ولا ۴۶۸ ۲۰۷ ،۲۶ ۲۹ بو ( سیرالیون ) ۲۸۹،۲۸۸،۱۷۵، ۵۰۵ ہوا ۵۶۰،۵۳۹ ۶۸۴ بٹالہ ۱۹۲ ۱۹۴ تا ۳۰۱،۲۲۱،۲۲۰،۱۹۶ بورنیو ۱۶۴ ،۴۵۰،۱۸۳، ۴۸۹، ۵۴۸ ۲۹،۲۱ ۷۳۸ ،۵۱۲،۴۲۶ ،۴۱۷ ،۳۷۲،۳۶۴ ۳۴۱ بوسٹن ۲۸۷ ۸۲۶ بوکلیت تالمکی ۲۰۹ ۱۸۵ ۲۴ ۵۴۱ ۳۰۱،۱۹۲،۲۴،۲۳ ۲۹۱ ایشیا ۲۸۴۱۸۷،۱۸۶، ۳۲۱، ۳۳۶، ایمسٹرڈم اینز برگ ۴۱۷ ،۲۸۲،۲۸۱ ۲۸۷ بخارا بدین برٹش گی آنا برجی بابل برشل بر صغیر برلن برن بریڈ فورڈ بوکو( سیرالیون) ۲۸۹ بون ۱۶۴ بہاولپور ۲۲ بہلول پور ۵۶۲،۲۷۲ ۲۴۱ ،۷۹ ،۴۲،۲۵،۲۳،۲۱ ۲۵۵،۲۹ ۲۶۸ بہوڑ و چک نمبر ۱۸ ۷۲۷،۷۴ ۲۹۷ بیٹ ۴۴۳ ۷۰۵،۶۳۴ ۲۷۲ بیجنگ ۲۰۹ بیروت ۲۹۱،۸۷،۸۵،۸۳ ۵۱۴ بیکانیر ۲۲۵ با (نجی) ۶۷۱،۶۷۰،۶۶۴۶۶۰،۶۵۹ بشیر آباد (اسٹیٹ )۳۲۷،۷۹،۷۸،۱۷ بھا کا بھٹیاں ۲۹ بھدرک ۵۰۵،۳۲۸ با تو راجا ( جنوبی سماٹرا ) با تو منکر با جوڑ باڈہ (سندھ) بازل بھر تیپور ۲۴۱ ۷۷۹،۷۷۸ ۵۴۶ بغداد ۱۳۹ ۱۴۴ تا ۵۲۹،۱۴۶ بھوانہ ۲۹ ۲۰۹ ۱۹۱ 422 ۵۳۸،۱۸۵ بھیرہ ۲۱۳ ۲۴۴ بلوچستان ۴۴۰ ، ۴۳۹ ۲۷۲ بمبئی ا۵۸۷،۵۸۶،۵۸۴،۲۴۳،۱۷ ).
۵۹۴،۵۹۱،۵۹۰ تیما پور 222 ۲۰۹ ۲۵ یا ڈنگ ۲۰۷، ۲۰۹ تا ۲۱۱ پر هم پاکستان ۳۱،۲۷،۱۲ تا ۳۳، ۳۷ پمپافگن ،۱۵۳ ،۱۴۳ ،۱۲۸ ۱۱۸ ، ۱۰۴ ،۹۱،۸۷ ،۱۸۲،۱۷۴،۱۷۲،۱۷۰،۱۶۴،۱۶۰،۱۵۶ ۲۰۵ تا ۲۰۷، ۲۶۲،۲۶۱،۲۵۸،۲۵۲،۲۴۵ ۳۰۶ ،۳۰۰،۲۷۴ ،۲۶۹ ، ۲۶۶ ۲۶۵ ،۳۶۳،۳۵۵،۳۵۴ ،۳۴۴ ، ۳۳۷ ، ۳۰۹ ،۳۸۳ ،۳۷۴ ،۳۷۳ ،۳۶۸ ،۳۶۷ ،۴۵۵ ،۴۳۵ ، ۴۲۳ ،۴۰۴ ،۳۹۴،۳۸۸ ،۵۱۴،۵۱۳،۵۰۸ ،۵۰۷ ، ۴۸۹ ،۴۷۰ پونچھ پوہلا مہاراں پھالیہ ۸۱۹،۷۵۵،۷۲۹،۷۲۶،۶۹۴،۶۸۵ پھگواڑہ پتی ۳۴۵ پھولپوره پشمرگ ۲۴۸ تا ۲۵۰، ۲۸۷ ۳۳۹ تا ۵۱۲،۳۴۱ پنجاب ( انڈیا ) ۴۲ تا ۴۴ ، ۴۷، ۵۱، ۶۹، ۷۰، ۸۶،۷۷ تھر پارکر تصہ غلام نبی پنجاب (پاکستان) ۴۲،۳۳۹،۷ ۱۰۴ ۴۹۰،۴۳۹ ،۳۵۵،۳۵۰،۳۰۳،۳۰۰،۲۵۲،۱۹۱،۱۱۴ ٹائٹا ۵۳۴ ۴۲۲،۳۶۹ ٹائیں منکوٹ ۲۸ پنجگرائیں ۷۸۶،۲۹ ٹورا ۵۳۴ تا ۵۹۰،۵۳۶ پنڈ دادنخان ۲۴۴ لڑکی ۵۲۴۵۲۲۹۴۹۳ پنڈی بھٹیاں پنسلود مینیا پنی گاڑی ۶۰۸ ترینٹن ۲۸۷ ۲۸۷ ٹرینیڈاڈ ۵۳۳،۲۹۶ ۱۸۷ ٹو بہ ٹیک سنگھ 22 ۲۸ ٹورنٹو ۵۶۷ ،۵۸۸،۵۸۱،۵۸۰،۵۷۶ ، ۵۳۸ ،۵۲۰ ۶۸۱،۶۳۸ ،۶۱۲،۶۱۰ ،۶۰۷ ،۶۰۵ ، ۶۰۰ ۸۱۴،۸۱۳ ۲۲۳ ۲۲۲،۲۱۹ ۷۹۱ ۶۲۴۰،۳۹ ٹونگا ( جزائر ) ۶۷۶۶۷۱ ٹنڈوالہ یار ٹیچی مان (غانا) ۳۲۷ ٹیکساس ٹیونس ۲۳۱ ۹۱،۹۰ ۵۹۴،۵۹۳،۵۴۵ ۲۴۲،۲۸ تانی والا ۲۹ ۱۴۱۰ مینی ۲۶۹،۲۶۸ تبلیغ پوره وے ٹھٹھر ۲۹ پٹی ١٩٨، ١٩٩ تخت ہزارہ ۶۹۵ مشقی غربی ۲۹ پٹیالہ پٹھانکوٹ ۵۰۷،۵۰۲ ۴۱۷ ،۳۹۴،۳۶۴،۳۳۹ ۸۲۶،۸۱۰ ترنگز کی و تر ناب ۲۹ تریٹ ۱۲۴ تلوک بتونگ ۲۹۶ جابه جاکر نہ ۱۲۱ ،۱۲۰،۹۸،۲۹ ۵۴۵،۳۷۸ پرتگال پرتگیز ۱۸۲ تلہ گنگ ۱۲۲،۱۲۱ جالندھر ۶۵۳،۳۵۵،۳۰۰،۳۳، ۷۸۱ ۵۳۸ تلینگ پشاور ۶ تا ۲۳،۱۰ تا ۱۲۵،۱۲۲،۳۰،۲۶ تنزانیہ ( ٹانگانیکا) ۵۴۱ ۵۰۷ ،۱۱۳،۱۰۴ جاوا ۲۹۴۲۱۲،۲۰۹،۲۰۶ ۴۹۶،۴۹۲،۲۹۶ جده ۸۳ تا ۹۳٬۹۰،۸۶ ۰۵۷۹،۵۷۵،۵۵۵،۵۳۸ ،۵۳۷ ۴۴۹،۳۴۶
۲۶ جرانجا ۲۸۵ چک ۱۱۷.چہور مغلیاں جرمنی ۱۸۵،۱۸۴۱۶۴،۱۶۲۱۰۴:۳۳ | چک ۱۲۶ رب (فیصل آباد ) ۱۸۸، ۲۶۹،۲۶۶، ۲۷۲، ۲۷۶، ۲۸۲ تا چک ۴۷ ارب ( فیصل آباد ) ۲۸۴، ۳۱۷، ۳۷۶، ۵۲۵،۵۱۹،۳۸۲ تا چک ۲۲۳.فورٹ عباس ۲۵۵ ۲۵۵ ۲۵۵ ۲۹،۲۲ حجاز ۳۶۶ حیدرآباد (دکن) ۵۸۷،۲۵۲،۱۷۴۱۷۳ حیدر آباد (سندھ) ۷۹،۷۸،۲۳٬۱۰ ۵۲۷ ، ۷۰۳،۶۴۲،۶۳۴،۶۱۱،۵۴۷ تا چک ۳۰۳ گ.ب (ٹوبہ ٹیک سنگھ ) ۶۹۹ حیفا ۷۰۵ ۵۰۶،۲۴۸ چک ۴۹۷ ج - ب ( شورکوٹ ) ۸۰۰ خانپور ۲۲۰ ۴۷۴،۴۰۶ ،۳۲۱،۲۹۹،۲۶۳ ۶۲۶ ۷۹ ۴۲۳،۴۲۲ خانقاہ ڈوگراں خانیوال خلیل آباد ۷۷ ،۴۲ ۷۹ خوست (افعانستان) خوشاب خیر پور ۴۲۵ ۱۲۶،۱۲۵،۱۲۱ ۷۹،۴۲،۲۳ وڈ دارالسلام در گنی ۴۹۳،۵۹۲،۵۹۰۰۵۸۹ ۴۲۵ ۳۴۱ دریاباد مشق ۱۰۲،۱۰۱،۸۶،۸۵،۸۳ دوالمیال ۴۸۵،۴۸۴ دوگی ۴۲۵ دولت پور ۴۱۷ دہران ۸۷ ۳۰۳،۲۳۷،۲۲۴ ۱۲۴،۱۲۱ ۲۹۶ ۵۳۰ ۳۴۲ چک میانه چک جھمره چکوال چلکوں چتی چنته کنه چندی گڑھ چنیوٹ ۲۳۶،۲۳۳،۲۳۲۲۲۷ ۶۱۹،۵۱۳،۵۰۶،۳۰۳،۲۳۸ ۴۸۵ ZAY ۴۳۵ ۲۳۴ ۲۴ ۵۴۶ چوآسیدن شاه چوہدری والا چوہڑ کا نہ چیچو کی ملیاں چیچہ وطنی چی لیگون ۲۹ ۴۶۹ ۳۶۲۲۸ ۵۲۹،۲۸۳ ۱۸۵ ۸۳ ۵۲۰ ۷۶۹ ۵۴۶،۵۴۵ ۲۲۱،۲۱۸ ،۱۲۴ ۴۴۰ ، ۴۳۹ ۸۱۹ ۳۴۳،۲۵۷،۲۲۴ ۲۳ ۳۹ چ جڑانوالہ جمال پور جمشید پور جموں جمہوریہ عرب جوالہ آباد جوڑ اکلاں جو گجا کرتا جہلم جھنجھانہ چیرن بون چک ۳۲ جنوبی (سرگودھا) چک ۶۲ ( جڑانوالہ ) چک ۶۲ ٹی ڈی اے بھکر چک ۲۹ ر.بگھیسٹ پور ۲۹۶ چین ۲۱۹ چهره پانی ۲۹،۲۱ ۲۹ ۸۲۰ حافظه آباد حبشه ۶۱۸،۲۷۴،۱۸۸،۱۸۷،۱۵ ۱۲۲ تا ۱۲۴ دہلی ۱۴۶، ۵۱۲،۳۶۶،۲۵۳،۲۰۴،۱۷۱ ۷۲۴۶۱۰،۶۰۸،۶۰۶،۶۰۵،۵۸۷ دھارواڑ ح - خ دھار یوال ۶۱۲۶۰۸،۶۰۶ ۵۴۵ ۴۳۶،۳۹۳ دھرم کوٹ رندھاوا ۸۰۹،۱۹۴۱۹۲،۱۹۱
۲۴۱ ۲۹۶ ۲۷ ۵۶، ۶۴،۶۱، ۷۴،۶۶ تا ۱۲۰،۸۲، ۱۲۱، سیش ،۱۶۵،۱۴۸ ،۱۴۲،۱۲۹، ۱۲۸ ،۱۲۶ ،۱۲۵ ۲۰۵،۱۹۷،۱۸۸،۱۸۳،۱۸۰،۱۷۴ سار چو تا ۲۳۳،۲۱۳،۲۰۷، ۲۵۲،۲۴۶ تا ۲۵۴ ساگر ،۳۰۷ ،۲۹۶،۲۹۴ ،۲۷۵ ،۲۷۲۴ ،۲۵۷ ،۳۳۲،۳۲۷،۳۲۳،۳۲۱،۳۱۷ ، ۳۱۵ سالا تیگا سالٹ پانڈ ۳۴۴، ۳۶۹،۳۶۸،۳۶۴،۳۴۵تا ساما بولد ،۴۸۹،۴۵۵ ،۴۵۰،۳۹۴،۳۷۵،۳۷۱ ۴۰۵ ساموا ۵۴۱،۵۴۰،۳۷۷ ۶۷۶ ۶۶۲ ۲۳۶ ۲۵۵ ۵۵۵ ۴۳۶،۲۴ ۵۲۲ ۱۴۳ سان فرانسسکو ۶۰۵،۵۹۵،۵۵۰،۵۴۹،۵۱۳،۵۱۲ تا ،۷۰۴۶۹۴،۶۵۴،۶۳۶،۶۳۴،۶۱۲ ۸۰۶،۷۵۵،۷۵۳،۷۱۳ رجوعه رحیم یارخاں رڈ کی ۲۲۳،۲۲۱،۲۱۹،۲۱۸ سانگراں سانگلہ ہل ساونت واڑی ۶۹۵ ساہیوال ( منٹگمری) ١٣٣،١٣٠ ۷۲۷ ،۲۸ ،۲۲ سائپرس ،۲۷۹،۲۷۲،۱۸۲،۱۶۴ ۱۶۳ ۶۲۴،۵۳۰،۳۲۲۲۸۵ ۷۸۲ ۴۰۷ ۳۴۵،۲۵،۲۳ ۴۳۴۳۲۹،۲۵۲،۲۱۲ ۷۹ ۳۶۱،۱۰۴ سبی سپین ۲۹۶ دیوبند ۴،۳ دیودرگ ڈارو ڈرچ گی آنا ڈسکہ ۵۴۰ ۵۳۲،۲۹۶،۱۶۴ ۴۵۴۲۵۳،۲۸،۲۲ ڈکار ۷۲۹ ڈگری گھمناں ۲۹ ڈلوال ۴۸۴ تا ۴۸۸ ڈلہ ڈلہوزی ۴۹۶،۴۹۵ ڈنمارک ڈوکین ۲۸۷ ڈوگو ۲۰۹ ڈھاکہ ڈیٹن ۷۲۷ ،۲۶۴،۲۰۷ ، ۲۸۷ ،۲۴۹ ڈیٹرائٹ ڈیرہ غازی خاں را جپوره رادهن رانچی رانی پور رز رلیو کے ۲۸۷،۲۴۹ رنکس بتونگ ۲۶۰ ۹۹ ۲۴۴ ۲۸ ۴۴۲ روا ۳۷۷ رو پڑ روڈیشیا روز ہل ۴۶۶،۴۶۲ ۵۳۸ ۲۴۱ سٹھیالی سرائے خاص سرب روس ۱۳۹٬۸۰ تا ۱۴۱، ۳۸۲،۲۷۴،۱۸۵ سرحد ۷۶۱،۶۳۴۶۳۳،۶۳۰ سرگودھا سرور آباد سری نگر سعودی عرب ۵۲۰،۲۸۳،۲۵۵،۱۶۲،۸۷ سکاٹ لینڈ والد ۲۸ سکندر آباد ۳۸۲،۱۳۹٬۸۳ ۷۹ ۲۸۳ ،۹۱،۹۰،۸۶ ۵۹۴،۵۳۸،۵۳۵،۱۵۴ ۲۷۲ روم ۱۰۵،۱۰۴،۲۴،۲۳،۶ راولپنڈی روہڑی ۱۲۰ تا ۱۲۲ ۱۲۴ ۱۴۸ ، ۱۴۹، ۲۲۹، ۲۵۷ ۴۵۰،۴۴۷ ،۳۰۰،۲۹۸ ریاض را بخور زنجبار ریوه ۳ ،۲۱، ۳۲ تا ۴۳،۴۲،۳۵،۳۳،۲۵ زیورک
۶۳۲،۳۹۴،۳۸۲،۱۴۰ +77 ۲۸ ۵۳۸ تا ۷۲۹،۷۲۸،۶۴۶۰۵۴۷،۵۴۱ سکنڈے نیویا ۵۲۷،۳۷۶،۲۷۹،۱۶۴ ٠٠ لدله الله علی گڑھ ۸۱۹ تا ۸۲۱ سیلیون ۳۷۶،۲۹۷،۲۹۴۱۸۷،۱۸۶،۱۶۴ غانا ۲۹۱،۲۶۹،۱۸۸،۱۱۷ ،۱۱۵،۱۰۰ ۵۳۸ ،۳۴۴ ،۳۳۱ ،۲۹۹ ،۲۹۷ ،۲۹۲ ۲۸۷ ،۲۴۹ ۶۱۸،۵۴۸،۵۴۷ ، ۵۴۵ ،۵۴۱ ،۵۴۰ ۳۱۱ ،۲۷۶،۲۷۴۱۶۲ ۱۰۱ ۷۲۹،۶۴۶.24• ۱۶۴ ۳۸۲ 6.،۴۳۲،۴۳۰،۴۲۹ غرب الہند غسان فارس فتح پور ۶۶۸ تا ۷ ۶۹۳،۶۸تا۶۹۹ فنجی ۴۰۵، ۶۴۹ تا ۶۵۷ ، ۶۶۱ تا ۶۹۹ ۲۸۵،۳۳ فرانس فرینکفورٹ ۷۰۵٬۵۲۶،۵۲۵،۱۸۴ ۲۰۹ ۵۳۸،۲۹۰،۲۸۹،۱۷۵ ۵۶۰،۵۳۹ فریامن فری ٹاؤن فرید آباد (چک ۳۳۳) ۳۴۳٬۳۴۲ ۱۸۳،۱۸۲،۱۶۲،۱۶۰ VVI فلپائن فلسطین ۲۸۷ ،۲۴۹ احاله سینٹ لوئیس شام ۲۸ ۹۵ ،۶۵،۶۲،۳۷ ،۲۵،۱۷ ۷۷ تا ۱۰۱۷۹ شکاگو ،۴۸۹،۲۹۷،۱۸۸،۱۶۴ شکر گڑھ ۴۹۱ تا ۴۹۶،۴۹۳ شمله ۲۰۰ تا ۳۶۶،۲۵۵،۲۰۵، ۴۴۷ 01377 ۷۸۴،۷۲۷ ، ۱۹۷ ،۲۹ ۵۳۹ صطظ ۴۵۴ ۴۴۷ ، ۲۰۲ ۶۶۳،۶۶۲،۶۵۸۰۶۵۱،۶۴۹ ۶۸۶،۶۸۳،۶۸۰،۶۷۹،۶۷۳ ۶۹۵،۶۹۲ 67 ۶۶۹ ۴۳۸،۴۳۶ شموگہ شورکوٹ شیخوپوره هینگی صریح صووا طاہر آباد طوالو ظفروال ۱۳۵ ۲۹۲ ۲۹۶ ۲۹۲ ،۲۸۴۲۷۶،۲۷۲،۱۸۵ ۷۰۴،۲۸۵ ۲۴۳ ۱۲۱ ،۲۳۱،۲۲۷،۱۸۵،۱۶۴ سماٹرا سمبڑیال سمرنا سندھ مو سوات سوڈان سورا بانیا سویڈرو سویڈن سونا منڈی سوہاوا سوئٹرز لینڈ ۲۷۱،۲۶۶ تا ۳۷۶،۲۷۹،۲۷۶ ۱۴۵ ۵۳۸،۵۳۵،۱۸۸ سہارنپور سہالی لینڈ سیالکوٹ ۱۹۳، ۲۴۹،۲۴۸، ۲۴۵، ۴۶۱ ۸۱۵ ،۸۱۴ ،۷۲۷ ، ۵۰۵ ، ۴۹۳، ۴۶۸ سیدگاه سیدو شریف ۴۲۵ عبدالکریم ۱۳۵ | عجمان سیرالیون ۲۸۹،۲۸۸،۱۸۸،۱۷۵،۱۷۴ فن لینڈ ع غ 77 ۲۱۴ ۴۰۵،۳۱۷،۱۸۸ ۱۸۵ ۴۴۷ تا ۴۵۳ ، ۴۹۶،۴۵۷ فیروز پور فیصل آباد (لائلپور ) Th'hh' 77' ۶۱۰،۳۱۵،۲۹۹،۲۵۵،۲۳۷ ،۱۸۶ ۴۳۷ تا ۴۹۰،۴۴۳ فیض اللہ چک VJJ عدن عراق ۵۰۵ ،۳۷۸،۳۷۷ ، ۲۹ ، ۲۹۶ ،۲۹۰
67 ۲۴۵ 67 ۲۹،۲۱ ۴۸۵ ۲۹،۲۲،۲۱ لداه ها ۴۴۱ ۲۲۷ ،۲۲۴ ۱۹۳ ۲۱۶،۲۱۴ 1+9 ۶۸۰،۶۷۶ ۶۸۶ ۲۹ قادیان ، ۱۰۱۱۰۰،۸۲،۷۴،۵۶،۴۲،۳۳،۳ ،۱۷۰،۱۶۹،۱۶۸ ، ۱۴۳ ، ۱۳۷ ، ۱۱۰ ،۱۰۶ ۱۷۲، ۱۷۴ ، ۱۹۲،۱۸۶،۱۸۱ تا ۱۹۹، ۲۰۴ ۲۲۲ ،۲۲۰ ،۲۱۹ ، ۲۱۳ ، ۲۱۲ ،۲۰۹ ،۲۰۵ ۲۳۶ ،۲۳۳ ،۲۳۰ ۲۲۹،۲۲۷ ۲۲۴ کانگو کانو کبو میں کبیر والا کپورتھلہ کٹک کراچی ۵۳۸ ۵۴۲ ۵۴۶،۲۹۶ الد ۵۰۰،۴۸۵ کنجیجی کندیاں کنری کوٹ احمدیاں کوٹ راجگان ۲۴۲ کوٹ فتح خان ۵ تا ۳۰،۲۶،۲۴،۲۳۱۰ کوٹلہ ضلع گورداسپور تا ۲۳۸، ۲۴۲،۲۴۱، ۲۵۲ تا ۲۵۴، ۲۹۷ ۴۲، ۶۱، ۷۴،۶۵، ۷۷ تا ۷۹، ۸۷، کوٹ لکھپت ۲۳۱،۱۵۶،۱۵۵،۱۵۰ ، ۱۴۹ ، ۱۲۸ ،۸۸ ۳۲۷ ،۲۶۳ ،۲۶۲ ،۲۶۰۲۵۳،۲۳۴ ،۳۶۰ ،۳۴۲ ،۳۳۱ ،۳۳۰ ،۳۰۷ ،۳۰۱ ۴۰۲،۳۹۳،۳۷۵،۳۶۸،۳۶۵،۳۶۴ تا ۴۰۴، ۴۰۶، ۲۴۲۱ ، ۴۲۴، ۴۲۶، ۴۳۱، ولد ۷ 7 دل د 7٧ ولها الدلده الله ولد له الدله ولد لدلله ولد له ولد لد دلدلله ولد البلد ،۶۱۶،۶۰۶ ،۵۵۷ ، ۵۵۳ ،۵۱۲ ،۴۹۴ کوٹ محمد یار چنیوٹ کوٹھا شریف کور ووال ۳۲۸، ۴۷۰، ۴۷۳ تا ۷ ۴۷، ۵۰۳ کوفہ ،۶۱۰ ،۶۰۸ ،۶۰۵ ،۵۴۷ ، ۵۲۹ ،۵۰۹ ۶۹۴۶۳۵،۶۳۴۶۲۶ کرنچی کیمپ ۶۳۴،۶۱۸، ۶۳۶، ۶۳۹، ۶۴۰ تا ۶۴۲ ۴۹۲ کوک (جزائر ) کو بالی ،۷۳۴ ،۷۳۱ ،۷۸ ۷۷ ،۶۵۳ ،۸۱۳،۸۰۵،۷۹۲۷۸۰ ، ۷۷۰۷۳۹ قاضی احمد ( ضلع نواب شاہ ) قاضی کوٹ الد Voth ۸۱۹ کرنول کریم نگر کشمیر کلر کبار ۷۹ ۳۶۱،۳۳۹،۱۹۵،۱۰۴،۲ ۶۳۸،۶۰۳۳۶۷ ،۳۶۶،۳۶۲ ۲۹ کلکتہ ۱۴۶، ۲۵۳،۲۴۲،۲۴۱،۱۸۸،۱۷۱ قصور ۴۶۶،۴۶۴،۱۹۹،۱۹۸، ۴۶۷ قاهره ۴۳۴،۱۰۲، ۵۹۳،۵۷۵،۵۲۹ ک میگ کالووالی (گجرات) کا ٹھگڑھ کان پور ۸۱۹ 667 ۲۹ ۱۴۵ ۷۴۲،۶۰۸ ،۶۰۴۴۴۷ ۶۵۱،۲۹۴ ۷۸۲ کولمبو کلوسوہل کلیولینڈ کماسی کمال ڈیرہ (سندھ) کمپالہ کوئٹہ ۲۹، ۲۴۴ تا ۴۷۲،۳۶۴،۲۴۷، ۶۱۹ کویت کاہلواں (نزد قادیان) کاہنوان ۹۱،۹۰ لد 6 ۸۲۰ کھاریاں کھیوڑہ کیرالہ کیرنگ کیگاما ۲۸۷،۲۴۹ کیلی فورنیا کیمبرج ۳۷۷ ،۲۹۲،۲۹۱،۱۱۷ ،۱۱۵ ۲۴۴ ۲۴۳ ۱۵۴ کینال زون كينما ۶۳۸،۴۲۸ ۲۹ ۱۷۲،۲۸ له لدله ۵۹۴ 7VA 7VA 7hd ۵۳۹
۶۶۳،۶۵۶،۶۵۵ ۶۸۱،۶۶۹ مارو ( ہنڈرونگا) ماریشس ۱۱۰ ۱۸۸،۱۸۶،۱۸۵،۱۶۴ ۵۲۲۶۰۵ ۶۳۴ ۱۷۳ ۵۳۵ ۸۰۵ ۴۳۵ ۲۸۷ ۲۸۸ ۲۸۸ ماسکو مالا بار مالنڈی مالیر کوٹلہ مانانوالہ مانٹ کلیر ما گولو مانگے والا ( سیرالیون) ۲۵۳ ۲۵۲،۲۳۷ ،۲۳۴،۲۳۳،۲۳۱ کینیا ۶۴۹،۵۷۹،۵۷۴،۵۳۴،۱۰۴ ۳۳۰،۳۲۷،۲۵۷ ،۲۶۱،۲۶۰،۲۵۷ ۴۴۹ ،۴۲۶،۴۲۴ ،۴۲۲،۳۷۲،۳۶۶ ۵۷۲،۵۶۷ ،۲۸۷ ،۱۸۴ ۲۹۵،۲۹۴۱۱۸ ۵۰۱،۴۸۲،۴۶۷ ، ۴۵۳،۴۵۲، ۴۵۰ ۳۲۹،۲۲۱،۲۱۹ ،۴۲ ۶۰۸،۶۰۵،۶۰۱،۵۸۰، ۵۷۷ ، ۵۱۲ ۷۸۱،۷۷۰۷۳۵،۶۳۵،۶۳۴،۶۱۰ ۲۹،۲۱ ۷۹۱ ،۷۹۰ لائبیریا ۵۴۴،۵۴۳،۵۴۱،۵۲۰،۳۷۸ ۵۱۴ ۵۴۸،۵۴۵ ۲۷۶،۲۴۸،۱۸۷ ۵۲۰ ۸۱۸ ،۸۱۷ ۵۴۴ ۶۳۴،۳۰۱،۳۰۰ ۵۶۴ ۵۴۵،۵۴۴ کینیڈا گاروت گجرات گر مولاں درکاں گڑھ شنکر گلاسگو گئی گورداسپور ۱۳۷،۱۳۶،۳۳،۲۸ لبنان ۱۹۱ تا ۱۹۴، ۷۸۱،۴۴۰،۲۲۵،۱۹۶ گوٹھ کوئی وسیری لبيا ۶۲،۳۹ لدھیانہ گور دست ستلانی گوجرانوالہ گوجرخان گوجرہ امم لسانو کو بے ۶۱۲،۳۴۵،۱۹۷،۶۵ لکھنو ۲۹ ۹۹ ،۷۷ لمبارینے لمباسه ۶۷۷،۶۷۵،۶۷۳ مانس لور لنڈن ۱۱۳،۱۰۳، ۲۶۶،۲۶۵،۲۰۲،۱۱۶ گھٹیالیاں ۳۵۳،۲۴۱،۲۱۶، ۸۱۵،۴۹۶ مانوره گیمبیا ل ۵۴۵،۵۲۰،۳۴۴ ۲۶۷ تا ۲۷۱، ۴۵۳،۴۵۰،۲۷۹،۲۷۷، مبارک آباد ۵۲۳،۵۲۲،۵۱۹ ،۵۱۸،۵۱۵ ، ۴۶۰ ۶۳۱،۵۸۷،۵۸۵،۵۷۶،۵۵۹ ۴۸۹ متحدہ عرب جمہور لا بون ( شمالی بور نیو ) لامینی (ضلع حیدرآباد ) ۱۸،۱۵،۱۴، ۲۸ ۲۸ لاکھا روڈ لیگوس ۳۷۶،۲۹۰،۲۸۸،۱۱۸ تا ۳۷۸ ۲۱ محمد آباد (اسٹیٹ) ۲۹۹،۷۹،۲۲،۱۷ لوٹو کا ۶۵۵ تا ۶۷۳۶۶۹۰۶۶۴۶۶۰ مهرا ۲۹۶ ۶۳۶،۱۹۳ ۷۹ ۶۲۱،۶۲۰،۱۰۱ ۷۷۹ ۷۷۳۷۷۲ مٹھ ٹوانہ ۵۴۲ ، ۶۲۴،۵۶۳،۵۶۰،۵۴۴ تا ۶۲۶ ۶۴۶ لالیاں ۲۲۷ لاہور ۵، ۴۲۶، ۶۱ ، ۸۰،۷۵،۶۶،۶۵ ۲۲۴،۲۰۷ ،۱۷۴۱۶۵،۱۲۴،۱۱۰،۸۲ لودھراں لوئی ول لیڈز لیورپول لیہ ۶۹۵،۶۹۱۰۶۷۷ ۲۲۰،۲۹،۲۲ ۲۸۷ محمود آباد (اسٹیٹ )۳۲۸،۳۲۷،۷۹،۱۷ مدراس ۱۷۱،۲ ، ۷۴۲،۶۲۱،۶۲۰،۵۸۷ مدرال ۱۲۵ ۵۱۴ مدینہ ( داما ریاست سیرالیون) ۲۸۸ ۵۱۵ مدینه ۸۳ تا ۹۲،۹۱٬۸۶ ۹۶ تا ۱۴۰،۹۷ ۲۸،۲۱ ۶۵۳،۴۵۷
۴۲۸ ۶۵،۶۳ ۲۸ ۷۹،۲۴،۲۳ ۵۱۴ ۴۲۸ ۳۴۶،۲۴،۲۳ ۴۳۳ ۳۸ ۵۳۸ ۵۳۴ ۲۶۹ ۳۱ مڈھ رانجھاں مراکش ۲۱۳ ۲۱۲ ۵۴۵ منگر دیل منور آباد ۴۹۲ نصیرا وے نگر پارکر مردان ۲۳،۲۱، ۶۹۵،۱۹۳،۱۲۵،۲۹،۲۴ مہت پور مکیریاں مری ۲۴، ۱۱۳۹۸، ۱۲۰،۱۱۸ تا ۱۳۲،۱۲۴ موبلنکی (گوجرانوالہ ) نند گڑھ میسو ۶۳۸ نواب شاہ ۴۲۲،۴۲۰ IAZ ۱۶۴ ۱۷۹،۱۶۱،۱۴۶،۱۴۵،۱۰۰،۹۱ ۸۱۹ ،۶۲۱ میانوالی مسقط مشرق بعید مشرق وسطی مصر میڈرڈ میرٹھ میر پور آزاد کشمیر میر پور خاص ۵۴۵،۳۹۴،۳۶۶،۳۱۱،۲۹۲،۲۷۶،۲۷۴ میونخ ن ناروے ۷۰۴،۲۷۶،۲۸۵،۱۸۵ ۲۱۳ ۵۳۲،۵۳۱،۵۳۰،۲۸۵ ۱۴۵ ۶۳۹ نورنگ نوشہرہ نوشہرہ (ضلع سیالکوٹ ) ۳۲۷،۷۹ ۷۰۴ نوکوٹ نیا سالینڈ نیانزا نیپال مظفر آباد ۶۳۸ مظفر گڑھ 11 ناصر آباد (اسٹیٹ) ۹۹،۷۹،۱۷، نیروبی ۵۳۸،۵۳۶،۳۷۸،۳۷۶ معین الدین پور ۴۳۰ ۳۲۸ ،۳۲۷ مکه ۸۳،۳ تا ۹۰ ناگپور مکیریاں ۴۲۰ نخله ۱۲۲،۱۳۲ ٹیکس ٹاؤن نیوآرک ۵۷۹،۵۷۴،۵۷۲ ۲۴۹ ۲۸۷ ملینی - سیرالیون ۸۲۱ ندوه ( حیدر آباد دکن) نیوزی لینڈ ۲۹۱،۱۶۲، ۶۷۶،۶۶۲،۶۴۹ ممباسه ۵۳۶،۵۳۵ نارووال 49° نیوگنی ۶۷۶ ۲۸۷ ،۲۸۶،۲۴۹ ،۱۸۴ ۶۷۲ ۲۴۹،۱۴۳ ۷۴ ۶۳۸ ۵۳۹ ۲۸۷ ملایا ۵۱۵،۴۹۱،۳۷۶،۱۸۳،۱۶۴،۳۳ ناندی ۶۵۱،۶۴۹ تا ۶۶۳۶۶۲۰۶۶۰ نیو ہر برڈیز (جزائر ) ۶۲۸ ملتان ۳۰،۲۴،۲۳،۱۵،۶ ، ۷۹،۷۷ نانو ڈوگر شیخوپورہ ۶۹۳،۶۶۹ ۲۹ ،۵۲۸،۵۰۷ ،۲۹۱،۲۹۰ نائیجیریا ۱۵۶۰،۵۵۹،۵۵۸،۵۴۴، ۵۴۳،۵۳۸۵۲۹ نیویارک واٹوالیوود واشنگٹن ڈی سی واہ کینٹ وزیر آباد لنگٹن نسٹن ٹاؤن ۳۵۵،۳۵۱،۲۶۰،۲۳۰ ، ۱۹۳،۱۴۷ ،۱۴۴ ZAZ ۶۲۴۵۷۸،۵۷۱ ،۵۶۹،۵۶۷،۵۶۳ ۲۸۷ ۷۳۰ ،۷۲۹،۶۲۶ ۲۱۹ ۶۸۶ ۶۸۴ نساوا کا نصر وانگا ۵۵۸،۵۴۵،۵۴۳ ۷۲۷ ملکانه ملور کی منڈی بہاؤالدین منروویا موسیٰ والا
۳۲ 7 ۱۷۰،۱۶۹،۱۴۵ تا ۲۵۶،۲۵۴،۲۳۹،۱۷۲ ہیگ ۴،۸۴،۸۳،۶۵ ۲۷۹،۲۷۸،۲۷ ۶۲۸،۵۲۹،۵۲۸ ،۴۸۳،۳۴۸ ،۲۸۲ ۵۵۵ ۶۷۸ ۳۷۸ ۵۲۷ ۳۳۹،۳۰۶،۳۰۵،۲۷۶،۲۷۵،۲۶۹ ۳۵۴،۳۴۲،۳۴۰، ۳۶۰،۳۵۷ تا ۳۶۳ ۳۸۲،۳۷۳ تا ۳۸۳، ۳۸۹٬۳۸۸،۳۸۷ | یاد گیر ۴۰۳ تا ۴۰۴، ۴۶۱، ۴۸۸،۴۶۸، ۵۰۷ یا ساوا ۵۸۸،۵۸۶،۵۸۴،۵۸۱،۵۷۹،۵۲۲ | یروشلم یمن ۶۱۱۰۶۰۶۰۶۰۱،۵۹۹ تا ۶۲۱،۶۲۰،۶۱۲ یورپ ،۱۸۰،۱۶۳،۱۱۴۹۸،۹۴،۷۹ ۱۸۶،۱۸۲ ، ۲۷۲،۱۸۷، ۲۷۸ تا ۳۱۱،۲۸۴،۲۸۱ ۳۸۵،۳۸۳،۳۳۸ ،۳۳۶،۳۳۰،۳۲۹ ۵۲۶،۴۰۸، ۵۲۸ تا ۵۵۹،۵۵۲،۵۲۹ ۵۷۶ ، ۵۸۷ تا ۶۳۶،۶۰۱،۵۸۸ یونان ۹۴ ۶۶۴۶۵۰،۶۴۱ ،۶۵۳،۶۴۷ ،۱۹۸ ،۱۹۳ ۸۰۱،۸۸۰ ۲۶۸ ۷۷۲،۷۷۰ ۵۲۹،۵۲۷ ۶۷۲۶۶۴۶۴۹ ۶۷۸،۶۷۵ دو کنگ وی آنا وی ٹی لیوو وینوالیود ہالینڈ ۱۱، ۲۷۴،۲۷۲،۱۸۵،۱۰۴۶۸، ،۲۸۳،۲۸۲،۲۸۰،۲۷۹،۲۷۶،۲۷۵ ۶۲۹،۶۲۸،۵۲۹،۵۲۸،۵۲۵،۳۷ ہانگ کانگ ہیلی ہزارہ 112 ہنگری ہوشیار پور ۱۹۲۶ ہمبرگ ۷۰۴،۵۲۵،۲۸۵،۲۷۹،۱۸۴ ہوٹل ۷۰۵ ہندوستان ۳، ۹۵،۳۲،۲۸،۲۷، ۱۱۸،۱۰۹ ہونیارا
۳۳ قرآن کتابیات کتب خلفاء احمدیت وقف جدید ایک کامیاب الہی تحریک المنتشر قون وترجمة القرآن الكريم ۴۱۶ آیت خاتم انہین اور جماعت احمدیہ کا وقف جدید کی سالانہ رپورٹ مسلک حادث الاحداث في الاقدام علی ترجمہ آیت خاتم النبین کا مفہوم القرآن (مصنف الشیخ محمد سلیمان مصری) ابن مریم کا انجام حدیث ۳۳۱ احمدیت کا پیغام اسلام کا اقتصادی نظام حديقة الصالحین (ملک سیف الرحمن ) ۷۲ اسلام میں اختلافات کا آغاز ۷۲ ۷۲ ۷۲ ۷۳ ۷۲ ۷۳ ۷۲ ۷۲ ۷۲ سال ۱۹۶۶ء ۷۵،۷۲ مصنفین سلسله آور فارن مشنز (صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ) ۶۲۵،۳۷۶،۲۹۷ اچھوت اقوام کی نازک حالت ( چوہدری فتح محمد سیال) ۷۸۹ انقلاب حقیقی ۲۹۹ الواح الہدی ( ترجمہ ریاض الصالحین ) حضرت مسیح موعود کے کارنامے ۷۲ احمدیت کا مستقبل ۳۰۶ ۲۷۹ دعوت الامیر ۷۲ احمدیت کی صداقت کے نشانات ۷۳ کتب حضرت مسیح موعود سیرت حضرت مسیح موعود ۷۲ احمدیت مشرقی پاکستان میں (مولوی محمد ۱۸۶ ۶۲۶،۶۲۵،۲۶۳ ازالہ اوہام ۸۱۳ سیر روحانی لائف آف محمد اسلامی اصول کی فلاسفی ۲۹۹،۷۳،۷۱ مذہب کے نام پر خون ۷۲،۷۳،۷۱،۵۲ اعجاز مسیح ۲۰۱ الوصية حقیقۃ الوحی ۴۱۸ ۴۴۸ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب ۷۲ ہماری تعلیم ۷۱ تا ۳۰۶،۷۳ مودودی اسلام ۷۲ صاحب) ۷۳ ارجح المطالب ( عبید اللہ بسمل ) ۳۶۴ اسلام میں نکاح و شادی کے احکام (غلام ۲۹۷ اسلامی تنظیم کے پانچ ارکان ( چوہدری فتح محمد سیال) ۷۸۹ میں ( دین حق ) کو کیوں مانتا ہوں (ڈینش باری سیف) ترجمه) نصاب معلمین وصال ابن مریم ۵۲۷ ۷۲ وقف جدید انجمن احمد یہ ایک مختصر جائزہ ۷۲ ۷۵،۷۲ اشاعت دین حق ) اور ہماری ذمہ داریاں (صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ) ۲۹۷
۳۴ اصحاب احمد ملک صلاح الدین ایم ایم اے).اے) سیال ۲۹۷ ۲۰۵ ۷۸۹ ۳۰۳،۳۰۰ حکم درشن (بنگالی) تاریخ بیت فضل لنڈن (سید میر محمد حیات طیبہ (بنگالی) اسماعیل) ۸۲۴ تائید حق ( منظومات ) ماسٹر محمد علی اشرف ۸،۴ ۷۳،۵۲ ۵۲ حیات فیض ( عبدالمالک خال) ۵۰۱ حیات قدی ( غلام رسول را جیکی ) خلافت کا منصب اور مقاصد ۵۰۲ ۴۲۸ ۷۲ ذکر حبیب (صاحبزادہ مرزا شریف احمد ) اصول قرآن منهمی (منشی برکت علی خاں) اظہار حق ( ردعیسائیت ) چوہدری فتح محمد الحجة البالغة (صاحبزادہ مرزا بشیر احمد (برکات احمد را جیکی) ایم اے) ۷۳ اللہ تعالیٰ کا کلام زمانہ حال کی اقوام کے ایم.اے) ۲۹۷ ۷۲،۵۲ متعلق ( چوہدری فتح محمد سیال) ۷۸۹ تحدیث نعمت ( چوہدری محمد ظفر اللہ خاں ) ۲۹۷ ۷۲ دیوان اشرف ( ماسٹر محمد علی اشرف ) ۸۰۴ ۸۲۵ تبلیغ دین زمین کے کناروں تک تبلیغ ہدایت (صاحبزادہ مرزا بشیر احمد دو مسئلے ( عزیز الرحمن منگلا ) امن عالم اور اسلامی تعلیم ( قاضی محمد اسلم ) ۲۹۷ تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج انتخاب خلافت ( منشی برکت علی خاں) تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ ۲۰۵ ۵۰۱ ۴۳۳ ۳۰۰ راه ایمان (بنگالی) ریاض النور ( منظومات ) ماسٹر محمد علی اشرف ۵۲ ۸۰۴ باره ماه (منظومات ) ماسٹر محمد علی اشرف تحریف بائبل ( ملک فضل حسین مهاجر ) سکھ مسلم اتحاد کا گلدستہ ( گیانی عباداللہ ) ۸۰۴ ۵۲ ۲۹۷ بائیل کے الہامی ہونے کے متعلق پانچ تحریف بائبل اور مسیحی علماء حصہ اول ( ملک سکھ مسلم تاریخ ( گیانی عباداللہ ) ۲۹۷ سوال ۵۲ فضل حسین مهاجر ) ائیل کے الہامی ہونے کے بارے میں ترانہ اشرف (منظومات) پچاس سوال ( ملک فضل حسین مہاجر ) اے بھیرہ کی تاریخ احمدیت (فضل الرحمن بمل) ٣٠٢ پگوان کرشن جو اوتار.سندی (مہاشہ محمد عمر ) ۷۲ تیسنی اما را کرشنا(بنگالی) اے سہ حرفیاں ( منظومات ) ماسٹر محمد علی اشرف ۸۰۴ ۷۳۵۲ جماعت احمدیہ کا غیر مسلموں کے ساتھ سلوک ۲۹۷ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق ( جلال (چوہدری فتح محمد سیال) ۷۸۹ سیرت المہدی حصہ چہارم، پنجم (صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے) شهادات فریدی ( عبد المنان شاہد ) ۸۰۴ ۱۱۲ ۱۱۱ ۷۱۱ ،۵۲ ضرورت نبی (منشی برکت علی خاں) ۲۰۵ ۲۹۸ جماعت اسلامی پر تبصرہ ( دوست محمد شاہد عبداللہ (ملک صلاح الدین ایم اے) الدین شمس) تابعین اصحاب احمد ( ملک صلاح الدین ۳۰۶،۲۹۸ ۵۰۱
۳۵ عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام کے نقصانات میدان عمل (نور محمد نسیم سیفی ) ۲۹۸ (میاں عطاء اللہ ایڈووکیٹ ) علمی تبصره ( قاضی محمد نذیر لائکوری) ۵۲ عیسائیوں سے اپیل (بنگالی) ۶۴۶ میری والدہ (چوہدری محمد ظفر اللہ خاں) ۵۰۱ ۷۱ ۷۳ نشکلنک اوتار ( مورانی شار احمد ) ۷۲ ۵۲ مسلم ثقافت ہندوستان میں (عبدالمجید سالک) ۳۷۱ مقصد زندگی حصہ اول (منشی حسین بخش دبیر) ہندوستان میں اسلامی تمدن (عبدالمجید نصاب برائے آنریری معلمین (ابوالعطاء سالک) فیضان نبوت محمدیہ ( قاضی محمد نذیر جالندھری) لائلپوری) قدامت روح و ماده ( منشی برکت علی خاں) کامیابی کی راہیں ۷۲ ۲۹۷ نماز با ترجمه ( ملک سیف الرحمن ) ۷۲ ۲۰۵ ۷۳ ۳۶۸ یاران کهن ( عبدالمجید سالک) ۳۶۸ کتب مخالفین سلسله نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں ۶۴۳ (صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے) ۲۹۷ فتنہ قادیانیت (الیاس برنی) صحافت.واقفیت عامہ وقف جدید کی عظیم الشان تحریک اور اس کا کچھ باتیں کچھ یادیں (عبدالحمید عاجز) نصب العین کفارہ کی حقیقت ۳۰۱ ۳۰۶ کفارہ کے متعلق پانچ سوال ( ملک فضل حسین مهاجر ) ۷۱،۲۵ کیا اسلام بذریعہ شمشیر پھیلا ( منشی برکت علی خاں) گوشت خوری (منشی برکت علی خاں) ۲۰۵ ۲۰۵ مرکز احمدیت.قادیان (شیخ محمود احمد عرفانی) ۸۱۶ ۷۴۷۲ وہ پھول جو مرجھا گئے (چوہدری فیض پاکستان و ہند میں مسلم صحافت کی مختصر احمدی گجراتی) ۸۲۶ ترین تاریخ ( مسکین علی حجازی) ۵۰۲ ہدایتہ المقتصد ( محمد احمد ثاقب) ۲۹۸ صحافت پاکستان و ہند میں ہندوستانی مسلمانوں کے لئے راہ عمل ( ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ) (چوہدری فتح محمد سیال) ۷۸۹ ΓΙΑ قائد اعظم اور صحافت ( سید اشتیاق اظہر ) یادر کھنے کی باتیں (صاحبزادہ مرزا بشیر احمد عالمی واقفیت عامہ ( طارق محمود ڈوگر ) ایم اے) ۷۳ یادرکھنے کے قابل پانچ نکات ( نور محمد سیفی) ۵۶۷،۵۶۰ سیرت و تاریخ مسلمان کون ہے (مولوی محمد شمیم ) ۲۹۴ آزاد مصر (حسن الاعظمی مصری) ۴۱۶ مسلمانوں کی موجودہ مشکلات کا حل ( چوہدری فتح محمد سیال) ۷۸۹ ملاحظات نیاز ( محمد اجمل شاہد ) ۴۱۷ ذکر اقبال (عبدالمجید سالک) ۴۱۷ ،۳۶۸ مودودی شہہ پارے ( دوست محمد شاہد سرگزشت (عبدالمجید سالک) ۳۶۸ ۷۲ کتب اہل کتاب ۵۰۲ ۶۴۷ آؤٹ لائن آف ایسٹ افریقہ سوسائٹی ( پروفیسر گولڈ تھرون) ۱۵۳ احمد یہ اے سٹڈی ان کنٹر میری اسلام اان دی ویسٹ افریقن کاسٹ (ہنفری جان فشر) اسلام ان ماڈرن ہسٹری ۳۷۳،۳۷۲، ۸۱۱،۴۱۷ ( پروفیسر کینٹ ول سمتھ ) ۳۰۵ ۳۱۲
An Interpretation of Islam ۳۶ { اخبار اہلحدیث.امرتسر ۴۶۸ اخبار دعوت.دہلی ۶۴۷ ،۳۴۱ (ڈاکٹر واگلی امری ) Incredeable Africa (والراڈ پرائس) ۲۸۷ ۵۷۷ رسالہ انصار اللہ ربوہ ۷۰۹ تا ۷۱۵ اخبار دی ٹروتھ.لیگوس اخبار انقلاب.لاہور ۳۶۶ تا ۳۶۸ اخبار دی مسلم بار یجر مینی بک آف مارمن ( جوزف سمتھ ) ۲۷۶ اخبار انقلاب بمبئی ۳۷۱ تا ۵۸۴٬۳۷۴ اخبار ڈان کراچی ۵۸۴ اخبار ڈیلی ٹائمنر لیگوس ۱۱۸ ۶۶۳ ۲۶۵ پریچنگ آف اسلام ( سرٹی ڈبلیو آرنلڈ ) اخبار ایسٹ افریقن ٹائمنر.نیروبی اخبارایسٹ ۱۸۸ اخبار ڈیلی سروس - نائیجیریا ۵۶۹،۵۶۸ ۳۴۷۴ اخبار ڈیلی میل.فری ٹاؤن تھر اپریل ہانجین (جے ای ایولس ) رسالہ ایکٹو اسلام.سکنڈے نیویا ۵۲۷ اخبار ڈیلی نیوز سیلون 112.117.۲۸۹ ۲۹۴ ۵۸۱،۵۸۰ اخبار ایشر نیوز ایڈورٹائزر.انگلستان اخبار رضا کار.لاہور ۲۶۷ اخبار ریاست - دیلی اخبار بدر.قادیان ۸۰۴ رساله ریویو آف ریلیجنز (اردو) ربوه ۱۸۸ اخبارات ورسائل رساله برٹش امپائر یونین انگلستان رساله ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) ۲۰۳ دنیائے اسلام کی ایک مقدس زیارت (ٹریسی سٹرانگ ) ۳۷۶ اخبار آذان ( اہلسنت ) نجی ۶۶۰ اخبار آزاد ہند کلکتہ ۴۱۷ اخبار آفاق.لاہور ۳۶۸ رسالہ اپنا گھر.کراچی ۵۰۲ رسالہ اسلام.سوئٹزرلینڈ ۲۷۲ اخبارا کالی پیتر کا.جالندھر ۳۳ اخبار اسلام.لاہور اخبار اسلام.نجی رسالہ البشری.ربوہ ۸۰۴ ۷۷۵ اخبار زمیندار.لاہور ۳۷۲،۳۷۱،۳۶۶ اخبار پاکستان ٹائمنر.لاہور ۷۲۸،۲۶۹ اخبار ساتھی.پٹنہ ۳۰۶ اخبار پاک کشمیر.راولپنڈی ۲۵۷ اخبار سنڈے ٹائمنر.لنڈن ۱۰۳ اخبار پرتاپ.جالندھر ۳۵۵، ۵۱۲،۴۱۶ اخبار سنڈے نیوز.دار السلام ۵۸۹ اخبار پائلٹ.لیگوس ۶۲۵ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ.لاہور ۷۹۳ اخبار تسنیم.لاہور میگزین تعلیم السلام - قادیان ۸۲۵ ۱۴۹ تا ۱۵۳ رساله سوونیئر.کراچی مجلہ مینار اسلام.جاوه اخبار صدق جدید لکھنو ۱۱۵، ۱۸۸،۱۱۷ ۲۱۲ اخبار تنظیم اہلحدیث مینی اخبار الجمعیہ.دہلی رسالہ افرقان.ربوہ ۴۱۸ ۵۸۷،۳۰۶ ۳۷۰،۳۶۴ اخبار تیج.دہلی اخبار ٹائم.امریکہ اخبار ٹائمز آف انڈیا.بمبئی اخبار ٹروتھ.لیگوس اخبار الفضل.ربوہ ۲۵۲،۲۶۱،۲۴۱ ۸۲۵ ۵۶۷ ،۵۶۳ ۵۸۶ ۶۲۵،۳۱۸ ۳۴۱،۳۲۱،۳۰۱،۳۰۰،۲۶۳ اخبار صوت العرب.شام اخبار عام.لاہور 1+1 ۷۹۳ رسالہ فانوس خیال.پٹھان کوٹ ۳۶۴ ۶۰۱،۳۷۶،۳۶۹ اخبار چراغ سحر رسالہ اصلح - کراچی رسالہ المنار ربوہ رساله خادم پٹیالہ ۵۰۲ ۳۵۵ اخبار نجی ٹائمنر اخبار منجی سن ۶۸۶،۶۶۹ ۶۸۶ ۴۱۸،۳۷۰ اخبار خالصه سماچار امرتسر ۳۳۱ اخبار کو ہستان.لاہور ۳۵۵،۲۵۷
۳۷ اخبار گڈول.کراچی ۵۰۹ رسالہ نوائے پاکستان.لاہور ۲۵۷ ایمسٹرڈیم ۲۸۱ اخبار گنی ٹائمنر ۱۱۵ تا ۲۹۹،۱۱۷ رسالہ نوائے وقت.لاہور ۳۴۳ اخبار Begedort جرمنی ۲۸۵ رسالہ گورمت پر کاش.امرتسر اخبار مانچسٹر گارڈین مجلہ الازہر.مصر رسالہ مسرت.کراچی اخبار مسلم سن رائز رساله مسلم سن رائز منجی رسالہ لائف.امریکہ ۵۸۰،۵۷۷ اخبار Frankpurter Rundshu ۷۰۳،۷۰۲ رسالہ نئی روشنی.کراچی فرینکفرٹ ۵۲۵ ۳۴۴ رسالہ نیوروٹرڈم ۲۸۰ اخبار ہیگ Het Vij Nolk ۲۸۱ ۳۱۱،۱۰۰ رسالہ نیورسین زیٹنگ.جرمنی ۷۰۳ اخبار ہیگ Het Binnenhor ۲۸۱ ۵۰۲ رسالہ نیویارک ٹائمنر ۵۸۴ اخبار Net newe Dagblad ۳۱۲ رسالہ ہماری زبان.علی گڑھ ۳۰۶ روٹرڈم ۲۸۰ ۶۸۰ اخبار ہندوستان ۶۴۶ اخبار Ni Ewe haagsch Caurant ۵۶۴ رسالہ ہیگ کرنٹ.ہالینڈ ۲۷۵ ہالینڈ ۲۸۱ اخبار لی راگرس اسلامک ماریشس ۱۰۰ رسالہ وائس آف اسلام.یوگنڈا ۱۵۴ اخبار Retomientes Volksblatt اخبار ناردرن سٹار ۵۷۰،۵۶۹ ۲۹۳ اخبار نائیجیرین ٹربیون ۵۶۶،۵۶۵ اخبار ویسٹ افریقن پائلاث ۵۷۰ سوئٹزرلینڈ ۲۷۱ اخبار Tidens Tecken سویڈن ۲۸۴ اخبار یوگنڈ ا آرگن کمپالہ ۱۵۴ ۳۰۵،۲۹۳،۱۵۵ اخبار Wieuwe Hrug She Courantt ۵۲۹ ☆☆☆☆☆ ۴۱۷ ،۳۵۷ ۶۳۹،۶۳۴ ۴۱۸ ،۴۱۷ اخبار Algemeen Handeisblad ہالینڈ رسالہ نگار لکھنؤ رسالہ نقوش.لاہور