Language: UR
(پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 19)
تاریخ احمدیت جلد ۱۹ تفسیر صغیر کی اشاعت سے لے کر ۱۹۵۷ء میں جماعت کی عالمی سرگرمیوں تک 19.# مؤلفة دوست محمد شاہد
تاریخ احمدیت جلد ہشتد ہم مولانا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر : : نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد ISBN-181-7912-125-9 شائع کردہ مطبع TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-18(Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-125-9
بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ تاریخ احمدیت کی تدوین کا آغاز حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود کی خصوصی تحریک سے پر تک میں سے ہوا.پہلے جلد ثا ء میں منظر عام پر آئی تجھے اس کے بعد سے اب تک اس کے اٹھارہ جلدی سے شائع ہو چکھ میںھے جو شراء تک کے حالاتے پرمشتمل ہیں.موجودہ جلد نمبر 19 ہے جو شائر اور نشہ کے حالاتے پرمشتمل ہے.یہ جلد فتنہ منافقین نشاء کی تفصیل اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی الصلح موعود کی معرکة الآراء تصنیف تفسیر صغیر کی تدین و اشاعت کے علاوہ دیگر جماعتی حالات پر شتمل ہے.احبا ہے جماعت کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ نظارت تے اشاعت تاریخ احمدیت کا نظر ثانی شد ایڈیشن نے عنقر ی ہے شائع کرنے والی ہے.نیا پیشن نے کمپیوٹرپر کیون کروایا گیا ہے قارئین کی سہولت کے لئے ان کے مرحلہ کا تفصیلی انڈیکیسے (اشاریہ بھی شامل اشاعت ہوگا.احباجے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی شعبہ تاریخ کے حملہ کر کنارے کی موت کو قبول فرمائے.والسلام ناظر اشاعت
بسم الله الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے البی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مدنظر ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلد میں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے
اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۱۹ کوجلد نمبر ۱۸ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فر مایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد ہشتند ہم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور با برکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)
عنوان ہلا باب فهرست تاریخ احمدیت جلد ۱۹ عنوان فتنہ کے متعلق شاہ کا ایک اہم رویا سبائی تحریک اور اس کے ہولناک نتائج سے فتند منافقین حضرت معسل موعود کی حیرت انگیز سبق حاصل کرنے کی تحریک راہنمائی اور نظام آسمانی کا استحکام فصل اول پس منتظر میاں عبد الوہاب قمر صاحب کا خط اور اس کا حقیقت افروز جواب جناب صاحبزادہ عبد الواسع قمر صاحب کی بزرگان عکس مکتوب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور سلسلہ سے خط و کتابت اور ملاقات شیخ نصیرالحق صاحب آف لاہور کا حقیقت افروز بزرگان سلسلہ کو فتنہ میں ملوث کرنے کی بیان - ناپاک کوشش حضرت خلیفہ اسی الاول کے دست مبارک کا لکھا حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاهجها نوری ہوا ایک خطہ فصل دوم ۱۵ کا مکتوب گرامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا تار اور مکتوب حضرت مصلح موعود کا انقلاب آفرین پیغام اور اس کا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا پہلا اخلاص نامہ زیر دست رد عمل پلا رد عمل YA اور حضرت مصلح موعود کا پیغام عکس مکتوب چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب ممبران مجماعت احمدیہ مصر کا اخلاص نامہ ممبران جماعت احمدیہ شام کا اخلاص نامہ جماعت احمدیہ عدن کا اخلاص نامہ ۳۱ ٣٢ ۳۴ د و مرا اخلاص نامہ اور حضرت مصلح موعود کا پیغام ملک عبد الرحمن صاحب خادم ایڈوکیٹ کا پر خلوص مکتوب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا تار اور دوسرا رد گل ۳۵ حضرت مصلح موعود کے دوسرے بصیرت افروز پیغامات ۲۰۰۳۷ ممتور } ۷۲ A - Ar
عنوان صفحہ نوان صفحه مسئلہ خلافت کے ایک اہم پہلو کی وضاحت ارشاد - انتخاب خلافت کے نظام عمل کا اعلان ، قرآن مجید کی رو سے فتنوں پہ ترتبہ کرنے کی تحریک ختنہ پر دانوں کی عبرتناک ناکامی فتصل سوم مخالفین احمدیت کا متحدہ محاذ یوم خلافت سنانے کا ارشاد ایک احمدی نوجوان کے تأثرات قلمی جہاد اور علمی لٹریچر کی اشاعت انتخاب خلافت سے متعلق تاریخی ریزولیوشن جناب چونکی عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کی شہادت ہفت روزہ لاہور کا حقیقت افروزہ اداریہ اخبار ریاست دہلی کی دلچسپ تجویز مفتر یانہ پراپیگینڈا اور تھوٹی اور دل زار خبریں حضرت مصلح موعود پر آسمانی انکشاف ۹۳ 44 4.^ غیر سائین کی طرف سے فتنہ پر دانوں کو سٹیج انتخاب خلافت کے متعلق ایک ضروری کی پیشکش اور حضرت مصلح موعود ریزولیوشن دو ممتاز صحافیوں کے سفارشی خطوط اور حضرت مجلس انتخاب خلافت کے اراکین میں اضافہ مصلح موعوداً.فصل چهارم I-A مولوی عبد المنان صاحب قمر کا افسوسناک رویہ 111 مجلس انتخاب خلافت کا دستور العمل بنیادی قانون فیصد ۱۱۸ فهرست اراکین مجلس انتخاب خلافت جماعت احمدی ་ཝ། 145 IMA 14 ۱۷۹ اتمام حجت دنیا بھر کی احمدی جماعتوں اور صدر انجمن احمدید نفوس و اموال میں برکت کا چمکتا ہوا نشان ۱۹۹ پاکستان کی تارہ وادیں میاں عبد المنان صاحب قمر کا مکتوب کو بستان میں اظهار حقیقت مولوی عبد المنان صاحب قمر کے کیس کی اجمانی تقصیرات ۱۲۲ نظام خلافت کے باغیوں کا انجام غیر مبایعین کی عبرتناک ناکامی دوسرا باب ۲۰۴ مولوی عبد المنان صاحب قمر کے متعلق اخراج اتر جماعت احمدیہ کا اعلان ناظر صاحب امور عامہ کا مکتوب متوج اصلاح احوال کی آخری کوشیش فصل پنجم مسئول خلافت پر اہم خطاب، یومیہ خلافت سنانے کا ۱۳۵ سید نا حضرت مصلح موعود کے سفر ابیٹ آباد و بال کوٹ سے سے کو تفسیر صغیر کی اشاعت تک فصل اوّل فر ابیٹ آباد و بالا کوٹ
عنوان صفحه ج عنوان صفر کتاب مذہبی راہنماؤں کی سوانح عمریاں“ کی حضرت مصلح موعود کی طرف سے خالد کا خطاب ۲۷۹ اشاعت اور حضرت مصلح موعود کی بر وقت رہنمائی امریکی فرم کی طرف سے معذرت نامہ مسئله از تارا و پر ایک لطیف خطبه سید نا حضرت مصلح موعود کا پیغام جنوبی ہند کے احمدیوں کے نام جلسه سالانه قادیان ۶۱۹۹۶ ۲۱۳ بھارتی احمدیوں کی دینی سرگرمیاں ۲۱۷ ملکی کا نفرنسوں میں تقاریر کانگریس کا اجلاس امرتسر احمدی مبلغین کا دورہ جنوبی ہند ۲۲۱ ۲۲۸ ۲۳۱ ۲۰۰ PAI PAI ۲۸۲ کالی کٹ اور قادیان کا جلسه پیشوایان مناسب ۲۸۴ کیرزنگ تبلیغی کا نفرنس احمد تیر انٹرنیشنل پریس ایسوسی ایشن کی ایک اشاعت الٹر بیچر کی مہم اہم تقریب انصار اللہ کو حضر مصلح موعود کی قیمتی نصائح اہم شخصیات کو لٹریچر کا تحفہ فصل دوم FAD YAD YAY نائب صدر علی انصار الله مرکزی کی ایمان فروز تقریر ۲۲۲ حضرت مسیح موعود کے جلیل القدر رفقاء کا انتقال مصر یہ تعداد جماعت احمدیہ کا جال عبد الناصر کے حضرت حاجی محمد صدیق صاحب پٹیالاتی وبد الله بخش منا والد وانا رامین فر مبلغ سپین) نام برقی پیغام احمدیہ انٹرنیشنل پریس ایسوسی ایشن کی قرار داد حضرت ڈاکٹر پیر بخش صاحب مستوطن دیره دین پناه مدقت.۲۵۴ ضلع مظفر گڑھ YAL ۲۰۰ YAA TAQ ۲۹۰ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کا پیغام ہمدردی اور حضرت مولوی غلام نبی صاحب (مصری) صدر جمال عبد الناصر کی طرف سے پر خلوص شکریہ.حضرت منشی میر محمد اکرم صاحب دا توی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ترکی کے ایک فاضل با با بهناگ ساحب امرتسری درویش قادیان ۲۹۹ خان بها در حضرت مولودی غلام محمد صاحب آن YOY محقق کا مکتوب عقیدت اور قبول احمدیت ترک احمدی بزرگ محکیم شناسی حسن سی تبر صاحب ۲۵۹ احمدی نوجوانوں کیلئے اشاعت حق کی خصوصی تحریک ایک الہامی دُعا پڑھنے کی تحریک حضرت مصلح موعود کا رقم فرمود : پیش لفظ جلسه سالانه ریوہ اور حضرت مسیح موعود کے درج پر خطابات 744 744 حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب راجپوت سائیکل در کس نیله گنبد لاہور ۲۹۹ ٣٠٠ حضرت مستری نظام الدین حیات آف سیالکوٹ ۳۰۱ حضرت میر غلام حسن من عمله اراضی یعقوب سیا لکوٹ چوبدی نعمت خانصاحب آف کریام
عنوان صفحہ عنوان نوابزاد: میاں عبد الرحمن خالص حسب ما میر کوٹلہ ۳۱۵ مولانا عبدالمجید سالک کا لیکچر حضرت میاں فضل محمد صاحب بر سیاں والے ه نعمت خان صاحب آف کریام شیخ اللہ بخش صاحب سردار شیر بہادر صاحب قیصرانی فصل سوم دیگر مخلصین جماعت کی وفات بابو محمد عمر صاحب بریلوی بابو عبد الغنی صاحب انبانوی صاحبزادہ میاں عبد السلام صاحب عمر ایک دعوت مسالہ اور المنیر کاحیرت انگیر مرد و عمل ۲۰ سیٹو کا نفرنس کے مندوبین کو دعوت اسلام نصرت انڈسٹریل سکول ربوہ کا قیام ۲۲۱ ۳۲۱ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا مکتوب لندن ۳۲۲ حضرت منسن موعود کے ایک قدیم دوست الشيخ عبد القادر المغربی کی ترفاست ۳۲۲ ایک انڈونیشین وند کاربوہ میں ورود ۳۲۲ YYA صفحہ ۳۴ ٣٥٠ ۳۵۴ احمدیہ وفد کی انجزائری لیڈروں سے ملاقات ۳۵۵ ملنگ بہادر خانصاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر خوشاب رویا و کشوٹ کے ذریعہ صداقت احمدیت کا انکشاف ۲۵۵ rra ایک احمدی نوجوان کا مشانی کارنامہ شجاعت 334 خواجہ غلام نبی صاحب بلا نوی سابق ایڈیٹر الفضل میاں عبد الکریم صاحب سابق سیکرٹری مال لاہور ۳۲۳ ربوہ میں انڈونیشیا کے سول حکام کے وفد کی آمد ۳۶۱ سیٹھ محمد علی صاحب صدر جماعت حمدیه او کور (دکن) ۳۳۳ الامان پریس کی غیر مشروط معافی شاه تی محمد کریم خان صاحب رئیس زنگ زئی پشاور ۳۳۳ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام اولڈ بوائز خانصاحب محمد یسین خاں صاحب آف فیروز پور چھاؤنی مولوی محمد علی صاحب بلند فیروز پوری دوست محمد خاں صاحب حجانه ۳۳۳ الیسوسی ایشن کے نام ۳۲۱ ۲۳ موادی ظفر علی خان صاحب کی عبرتناک ونات ۲۶۴ لام همسر اختباره ریاست دہلی کا ایک قابل قدر نوٹ راجہ غلام حید ر صاحب بجکه مضلع سرگودھا اہ کے متفرق مگر اہم واقعات Pra مقدمہ کنج بہاری لال درویشان قادیان کے متعلق خاندان حضرت مسیح موعود میں اضافہ اور تقریب کاج حضرت مصلح موعود کی اہم نصائح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا یہ خیام پروفیسر ستیار عبد القادر صاحب کی وفات احمدی طلباء کی شاندار کامیابیاں روسی اور امریکی سائنسدان ربوہ میں ۳۴۰ ایک دردناک حادثہ ڈاکٹر عبد السلام صاحب کا نیا اعزاز ۳۲۱ ربوہ میں ٹیلی فون ایکسچینج کا قیام وزیر اعظم چین کو قرآن مجید کا تحفہ ۳۷۹ For
عنوان صفحہ عنوان ۱۹۵۶ء میں بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں گورنر صاحب کیرالہ سٹیٹ و جنوبی ہند کا 1404.۲۰۵ جماعت احمدیہ کو خراج تحسین.لنڈن مشن ہالینڈ مشن سپین مشن امریکہ مشن (مشرق افریقی مشن ) کینسیا ٣٨١ PAP گولڈ کوسٹ کی آزادی اور حضرت موعود کا پیغام مجلس مشاورت شر اختتامی تقریه پسیل یوم جمہوریہ پاکستان اور احمدی نمائندوں کی قرارداد صفح ۴۴۷ ۴۵۰ ۴۵ ٹانگا نیکا یوگنڈا (مغربی افریقہ) نائیجیر پیامشن گولڈ کوسٹ مشن سیرالیون مشن احمدیت.غیروں کی نظر میں جزائر غرب الهند سیاون مشن سنگاپور و ملا یا مشن انڈر ونیشیا مشن ٣٨٥ ۳۸۹ ۳۹۸ ۳۹۹ جستہ عبدالخالق صاحب پاکستان کے مشیر معدنیات کے عہدہ پر عید الفطر کا پیر معارف خطبہ ربوہ میں پہلا یوم خلافت ۴۵۸ ۴۲۲ ۲۰۶ ایک مکتوب اور حضرت مصلح موعود کا مختصر جواب ۴۶۶ ۲۰۷ بیت الذکر ہیمبرگ کا انستان اور حضرت مصلح موعود کا پیغام ۴۷ ۳۰۹ مولوی محمد احمد صاحب کی دردناک شہادت ۲۲۸ ۳۱۴ فصل پنجم ستین حمیت کی سرز سے روانگی اور ایسی ا ن ا ایی های ایرانی اور بدی کی کی سکیم نئی مطبوعات فصل چهارم الام حضرت سلم مور کی تاریخی تقاریر کا جماعتی استحان ۴۷۶ خلافت ثانیہ کا تینتالیسواں سال حضرت مصلح موعود کا پیغام جماعت احمدیہ امریکہ کے نام صاحبزادہ مرزا ندیم احمد صاحب کا دورہ جنوبی بند ۴۲۲ قادیان میں جلسہ سیرت پیشوایان مذاہب طلباء سے حضرت مصلح موعود کا خطاب ۲۲۶ ربوہ میں سفیر انڈونیشیا کی آمد سید نا حضرت مصلح موعود کا سفر سندھ ۲۲۷ مرکز میں ہجوم خلائق کا شاندار منتظر پیلاطوس ثانی ڈگلس کی وفات ۲۳۸ || خدام احدیت سے روح پرور خطاب ۲۲۴ صاجزادہ مرزا مظفر احمدیت کی زیارت حرمین شریفین ۲۰۰ ۴۵۶
عنوان لجنات سے ایمان افروز خطاب انصار اللہ سے اثر انگیز خطاب میجر جنرل محمد اکبر خان کی تصانیف پر تبصرہ ایک جعلی خط اور عدالتی فیصلہ حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کا سفر سیالکوٹ انصار اللہ سے خطاب پورہ مہاریاں میں آمد ادارۃ المصنفین کا قیام ادارۃ المصنفین کا پہلا بجٹ پہلا اجلاس ادارۃ المصنفین کا شائع کردہ لٹریچر 0.0 ۵۰۷ عنوان سید نا حضرت خلیفتہ آیے انسانی کی طرف سے کارکنان کو تفسیر غیر کے انعامات اور اظہار خوشنودی - تفسیر صغیر کی طباعت کا دور ثانی تفسیر صغیر کسی کی طباعت پر کارکنوں کے لئے اظہار خوشنودی ۵۰۹ تفسیر صغیر کی غیر معمولی مقبولیت ۵۱۲ ۵۱۲ ۵۱۴ صفحه ۵۳۴ ۵۳۴ orq المه الي تفسیر صغیر دوسروں کی نظر میں فصل دوم الم الله قاریان اور رجود کے بابرکت سالانہ جلسے ۵۴۵ جلاس لانه قادیان داد سالانه ریوه ۵۴۵ ۵۴۸ ៖ فصل سوم تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تیسرا باب فصل اوّل 19 رفقاء حسرت مسیح موعود کا انتقال ۵۲۲ میاں غلام رسول صاحب آف ڈیرہ غازی خان حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیروی بانی احمدیہ مشن امر یکیه تضی غیرت تکمیل و اشاعت اور حیرت انگیز مقبولیت ۵۲۲ حضرت سید سیف اللہ شاہ صاحب پہلا نوٹ دوسرا نوٹ ترجمہ پر نظرثانی رجمه پر نظر ثالث تفسیر صغیر کی کتابت اور طباعت کواپنی ریڈنگ اور پروف ریڈنگ وطباعت تفسیر صغیر اور مضامین قرآنی کا انڈیکیس تفسیر صغیر کی فروخت ۵۲۳ ۵۲۴ ۵۲۷ Arc or ۵۲۹ ۵۳۱ Arr حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ویٹری اسسٹنٹ ڈاکٹر محمد مر صاحب کندوی پر ایم ایس تقسیم جے پور حضرت ماسٹر خیر الدین صاحب ریٹائرڈ پی - ای - ایس حضرت چوہدری احمد دین صاحب وکیل گجرات مرزا مولا بخش صاحب ده 004 ۵۷۴ ده DAY ود
عنوان صفحه عنوان صفح حضرت مولوی رحمت علی صاحب آف بھیرو پیچی خاندان حضرت مسیح موعود میں تقاریب سترت ۵۹۲ ضلع گو واسپور حضرت پروفیسر علی احمد صاحب ایم.اسے بھاگلپوری م شد حضرت مولوی غلام رسول صاحب چانگریاں ضلع سیالکوٹ حضرت چوہدری بھائی عبد الرحیم صاحب نومسلم سابق جگت سنگھ حضرت مولوی فضل الہی صاحب بھیروی دود 24A 4.4 نمایاں کامیابی اسلام لاء کانچ کو لمبو کے طلباء قادیان اور ربوہ میں مصدر شام شکری القوتلی کو تحفرت آن ربوہ میں ایک احتجاجی جلسہ انڈو نیشین تو نصل قادیان میں گورنر مغربی بنگال کو تحفہ قر آن کریم حضرت چوہدری اللہ بخش صاحب مالک اللہ بخش کلکتہ میں جلسہ پیشوایان مذاہب ستیم پریس قادیان میاں عبد الرحیم صاحب عرف پولا حضرت ملک عطاء اللہ صاحب گجرات 414 4+6 دو نئی احمدی بستیاں قادر انور آباد حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم ۶۳۱ رسال لتحمید الاذہان کا احیاء حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحب آف بیبی لم جامعہ احمدیہ کے نئے پرنسپل حضرت شیخ عبد الحق صاحب سابق معاون ناظر حضرت مصلح موعود کا خصوصی پیغام ضیافت قادیان دوسرے مخلصین سلسلہ کا ذکر خیر 416 را ۷۲۰ ۷۲۴ ۷۲۴ ۷۲۵ ۷۲۵ ۲۷ ۷۲ 476 امام سلطان محمد شاہ آغا خان ثالث کا انتقال ۷۲۹ بہائیوں سے کامیاب مناظرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرضی تصویر پر احتجات صاحبزادہ عبداللطیف صاحب آف ٹوپی مردان 467 حضرت نواب اکبر یار جنگ صاحب سابق جج اہل ربوہ کا مثالی و قاره عمل ہائیکورٹ حیدر آباد دکن مولوی سید عبد السلام صاحب مرحوم داریس ۲۷۳ رانچی مین جلسه سیرت النبی ديد ربوہ سے رسالہ البشری کا اجراء خالد احمدیت ملک عبد الرحمن صاحب خادم گجراتی انگلستان سے وایسی کی وفات 466 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کے اعزازہ فصل چهارم میں استقبالیہ ہ کے بعض متفرق مگر اہم واقعات : بیرونی مشنوں کی سرگرمیاں ۷۲۵ ۱۳۸
انگلستان مشن ہالینڈ مشن سوئٹزر لینڈیشن سپین شن امریکہ مشن عنوان مشرقی افریقیه مشن گولڈ کوسٹ (غانا) مشن 4FF ۷۲۲ سیرالیون مشن عنوان مبلغین احمدیت کی آمد و روانگی نئی مطبوعات ضمیمه حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الاسدی کی تصانیف اور آپ کا کام نائیجیریا مشن 400 (مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل یادگیر) نفر 404 440 640 44A
ا.جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کا ایک منظر فهرست تصاویر سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی چوہدری عبد الجلیل خاں صاحب ایبٹ آباد کے مکان پر ۲۱ ستمبر ۱۹۵۷ء بعد از نماز جمعہ سنتیں ادا فرما رہے ہیں..حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی سمبر ۱۹۵۶ء ایبٹ آباد میں ڈاکٹر غلام اللہ صاحب سے محو گفتگو.۴.حضرت مصلح موعود ایبٹ آباد میں ایک مجلس سے محو گفتگو.سالانہ اجتماع انصار اللہ ۱۹۵۶ء.- اراکین مجلس انصار اللہ ۱۹۵۶ء.نے.جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت مصلح موعود خطاب فرما رہے ہیں.۸ جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء حضرت مصلح موعود سیج پر تشریف فرما ہیں.۹ جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت مصلح موعود دعا کر رہے ہیں.۱۰ جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب خطاب فرما رہے ہیں.-11 جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت صاحبزاہ مرزا ناصر احمد صاحب خطاب فرما رہے ہیں.۱۲.جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب خطاب فرما رہے ہیں.۱۳ جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء - حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب خطاب فرما رہے ہیں.ما جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء مولانا جلال الدین صاحب شمس خطاب فرما رہے ہیں.۱۵- جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.قاضی محمد اسلم صاحب خطاب فرما رہے ہیں.
سفیرانڈونیشیا الحاج محمد رشیدی صاحب کی حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی سے ملاقات ے.سفیر انڈونیشیا الحاج محمد رشیدی صاحب کی حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی سے ملاقات ۱۸ حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید سفیر انڈونیشیا الحاج محمد رشیدی صاحب سے محو گفتگو.۱۹ - الحاج محمد رشیدی صاحب سفیر انڈونیشیا کا ورود ربوہ.مؤرخہ ۲۲ ستمبر۱۹۵۷ء کو دفاتر صد را انجمن احمدیہ کا معائنہ.لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کی تقریب میں سفیر انڈو نیشیا الحاج محمد رشیدی صاحب تقریر فرمار ہے ہیں.۲۱.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب روسی سائنسدانوں کے ساتھ.حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی قصر خلافت کے دروازہ پر میاں غلام محمد اختر صاحب سے گفتگو فرما رہے ہیں.مکرم ملک عبد الرحمن خادم صاحب ایڈووکیٹ گجرات.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی محترم میر محمود احمد صاحب ناصر کے ہمراہ بر موقع شادی.-۲۵ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی محترم میر محمود احمد صاحب ناصر کے ہمراہ بر موقع شادی.۲۶.حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری پرنسپل جامعہ احمدیہ ۱۹۵۷ء میں طلباء جامعہ احمدیہ کے ساتھ.
مهلاماب فتنہ منافقین حضرت مصلح موعود کی حیرت انگیز رہنمائی اور نظام آسمانی کا استحکام
فصل اوّل پس منظر سید نا حضرت مصلح موعود کی عظیم اور موعود شخصیت کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے بعد جماعت میں سب سے زیادہ بصیرت اور فراست جس مبارک اور مقدس وجود کو حاصل تھی.وہ حاجی اطرمین سید نا حضرت مولانا حکیم نور الدین بھیروی خلیفہ مسیح الاول چنانچہ جناب میاں عبدالوہاب صاحب عمر کا ابن حضرت خلیفہ المسیح الا قول کا بیان ہے کہ :- ایک دفعہ سید نا حضرت خلیفہ البیع الاول کے پاس حضرت خلیفہ ایسیح الثانی ایدہ الہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کوئی شکایت کی گئی.والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.ک محمود کی کوئی کتنی شکایتیں ہمارے پاس کرے ہمیں اس کی پروا نہیں.ہمیں تو اس میں وہ چیز نظر آتی ہے جو ان کو نظر نہیں آئی.یہ لڑکا بہت بڑا بنے گا.اور اس سے خدا تعالے عظیم الشان کام لے گا.ہمارے ہاں حضرت خلیفہ البیع الاول کی ایک کاپی ہے.مکرم منشی غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل کے پاس اس کی نقل بھی موجود ہے.یہ کاپی حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لیے بنائی تھی.اس میں حضرت خلیفہ مسیح الاول نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو نصیحتیں فرمائی ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ موعود لڑکے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اشتہارات مع سبز اشتہار کے آپ نے اس کاپی کے ساتھ لگا کر جلد کروائے ہوئے ہیں.کیا اس سے صاف پتہ
نہیں لگا کہ حضرت خلیفہ البیع الاول پسر وعود والی تمام پیشنگوئیوں کا مصداق حضرت خلیفہ ربیع الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو ہی جانتے تھے کالے 19 افسوس منکرین خلافت نے ۱۹۱۳ء میں حضرت خلیفہ اسمع الاول ہی کے گھر کو حضرت مصلح موعود کی مخالفت کا مرکز بنانے کا فیصلہ کر لیا.چنانچہ جناب میاں عبدالوہاب صا حدیے نے بروایت مولوی عبد الباقی صاحب بہاری ایم.اے یہ حقیقت افروز بیان شائع کیا: - حضرت خلیفہ المسیح الا ان کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کے زمانہ میں خلافت کے چند دشمن حضرت مولوی عبدالحی صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے.مولوی عبدالحئی صاحب نے باوجود بچپن کے ان کی جو جواب دیادہ اس قابل ہے کہ سلسلہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے.انہوں نے فرمایا یا تو آپ کو آپ کے نفس دھوکہ دے رہے ہیں یا آپ جھوٹ بول رہے ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتا تب بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے.اطاعت کرنا آسان کام نہیں.ہمیں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہرگنہ نہ مانو.اس پر ان میں سے ایک نے کہا کہ آپ نہیں حکم دیں.پھر دیکھیں کہ ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں یا نہیں.مولوی عبدالحی صاحب نے کہا.اگر تم اپنے دعوئی میں بچتے ہو.تو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جاؤ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی بیعت کر لو یہ بات سنکہ وہ لوگ بغلیں جھانکنے لگے اور کہنے لگے یہ تو نہیں ہو سکتا ہے یہ لوگ اگر چه حضرت مولوی عبدالحئی صاحب کی زندگی میں بری طرح ناکام رہے.گائیوں نے ان کی وفات (نومبر شاملہ) کے بعد اپنے مزموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز سے تیز تر کر دیں.حتی کہ دو سال کے بعد حضرت مصلح موعود کو اتاں جی رحرم محترم سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الاول) کے گھر میں حضور کی درست کر کے زہر دینے کی له الفضل به راگست ۳۶ه ملت حضرت خلیفہ اول کے صاحبزادے الفضل ۲ اگست ۱۹۳۶ر مریم
بھی ناکام کوشش کی لیہ اسی دور کا واقعہ ہے کہ جناب میاں عبد السلام صاحب بے عمر شملہ میں مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین سے ملے.ان کی گھر نہ میں بیٹھے اور اُن سے نذرانہ دول کیا.جماعت احمدیہ شملہ کے سیکرٹری حضرت خان برکت علی خان صاحب کو علم ہوا تو آپ نے اُن کو تنبیہ کی جس پر وہ غضبناک ہو گئے.اور کہا کہ آپ کو ہمارے کسی قسم کے ذاتی تعلقات پر گرفت کرنے کا حق نہیں.نیز مولوی مولوی عمر دین صاحب شلوی کے سامنے تسلیم کیا کہ میں نے خلیفہ المسیح الثانی کے بعض دستی خطوط اُڈالئے ہیں تو اسی نوعیت کی افسوسناک حرکت جناب میاں عبدالوہاب صاحب نے احمدیہ ہوسٹل لاہور کے زمانہ قیام میں کی.اس زمانے میں ہوسٹل نواب صاحب بہاولپور کی کو بھی میں متضا.اور میاں فضل کریم صاحب پراچہ بی.اے.ایل.ایل.بی سپر نٹنڈنٹ ہوسٹل تھے.حضور لاہور تشریف لے گئے تو اسی ہوسٹل میں قیام فرمایا.اسی اثناء میں ایک دن حضور با سہر تشریف لے گئے.جناب مولوی عبد الوہاب صاحب کمرے کو خالی پا کہ اندر گئے.اور حضور کے ذاتی کاغذات دیکھنے لگ گئے.میاں فضل کریم صاحب کے بھائی شیخ عبدالرحیم پراچہ بھی اس وقت ہوسٹل میں تھے میاں فضل کریم صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے عبدالوہاب صاحب کی سخنت بے عزتی کی.اور بتایا کہ ان کا پیغامیوں سے تعلق ہے.اور وہ اسی ضمن میں تلاشی لے رہے تھے لیکہ دسمبر : ۱۹ء میں حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں نے اپنے بھانجے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی امرتسری کے ساتھ مل کر یہ غزل خلافت کا ایک شرمناک خفیہ منصوبہ باندھا - مگر خلیفہ صلاح الدین صاحب رابن مکرم کی اکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب) کے ذریعہ حضرت مصلح موعود کو اس کی بر وقت رپورٹ پہنچ گئی.حضور نے فوری طور پر حضرت شیخ را شہادت مولای برکت علی صاحب لائق له معیبانوی منقولہ " نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر صفحه ۲۲ ۴۲۳۰ تقریر سید نا حضرت مصلح موعود ۲۷ دسمبر ۱۹۵۶ء الناشر الشركة الاسلامیہ ربوده است محتر خلیفہ ربیع الاول کے صاحبزادہ : سے گواہی فضل حمد خانصاحب مشموی رانظام آسانی کی مخالف اور اسکا پیش نظر مرا (باقی صرت پر حاشیہ)
یعقوب علی صاحب عرفانی ردی الحکم اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو مزید تحقیق کے لیے مقرر فرمایا دیا.جنہوں نے مخبر کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر اُن کی سکیم کی تفصیلات تک کا پتہ چلا لیا.اور اس طرح یہ سازش بھی پیوند خاک ہو گئی یہ کوئی اور ہوتا تو اس ناپاک اور ظالمانہ کارہ والی کی تشہیر کر کے ان کی رسوائی الہ ابر ٹی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتا لیکن سید نا حضرت مصلح موعود کو خدائے ذو العرش نے یوسف اور سول کا حلیم " قرار دیا تھا.اس لیے آپ نے لا تُشْرِيْبَ عَلَيْكُمْ انیومد کا شاندار نمونہ دکھاتے ہوئے ان لوگوں کو صمیم قلب سے معاف فرما دیا اور اپنے لوح قلب سے اُن کے اس رویہ کے نقوش و اثرات تک محور کمر دیئے.لیکن خدا کے محبوب و موعود خلیفہ کی اس شان یوسفی اور دل کی حلیمی کے اس عظیم جلوہ کا ان ظالموں پر الٹا اثر ہوا.وہ غیر مبالغین کے آلہ کار تو تھے ہی، اب انہوں نے احمدیت کو مٹانے کے لیے احرار جیسے دشمنوں سے بھی سانہ بانہ کرلی.جس کا ایک واضح دستاویزی ثبوت شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کا مندرجہ ذیل مکتوب ہے.جو انہوں نے سات اپریل ۱۹۳۶ء کو لاہور سے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھیجوایا.بسم الله الله حمن الرحیم SH.BASHIR AHMAD ADVOCATE 12 TEMPLE ROAD LAHORE DATED 7 TH apoll 1936 اسیدی و آقائی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کانه حضور کا مکرمت نامہ ملا.اس سے پہلے مجھے تبھی ایک اطلاع موصول ہوئی مفتی لیکن مجھے." یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کون سالہ کا ہے.اطلاع یہ تھی کہ مولوی عبدالوہاب صاحب عمر بقیه باشید ، العض براکت به ۱۹۵۶ دست بر همه مولوی عبدالواحد صاحب غزنوی کے بیٹے جو سیتی است خلیفہ اول کی پہلی صاجزادی امامہ کے سین تھے : سال نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر من
دفتر اقرار میں تشریف لے گئے.خان کا بلی سے باتیں ہوتی رہیں.چوہدری افضل حق بھی وہیں موجود تھے اور خان کا بلی سے کافی عرصہ اُن کی ملاقات رہی.دوسری بات جو مجھے معلوم ہوئی یہ بھی کہ خان کا ہی کوئی مسودہ لے کر گیا اور چو ہدری افضل حق کو کہا کہ وہ لڑکا تو یہ کہتا ہے، یا یہ کہ اس کا بیان تو یہ ہے لیکن سننے والے نے دلچسپی نہ نہ لی اور تفاصیل کا اُسے علم نہ ہو سکا.میں آج ہی شفیع کو بلوانے کی کوشش کروں گا.اور تادیب بھی کردوں گا لیکن کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ سب دوست میں اسے نوکر رکھ لوں، اور پھر یہ معلوم ہو سکے گا کہ دشمن نے کیا کچھ سکھایا ہے اور کس طرح اسے استعمال کرنا چاہتا ہے.بہر کیف حضور کے حکم کے مطابق عمل درآمد کروں گا.انشاء اللہ حضور کی دعاؤں کا اشد محتاج ہوں.اپنی دعاؤں سے میری مدد فرمائیں.والسلام خاکسار - حضور کا غلام شیخ بشیر احمد نے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ :." میں نے ایک بار بہت سی باتیں سن کر مجبور ہو کر لکھا کہ اب تو یہ (ایک روصاحبزادگان حضرت خلیفة المسیح اول) بہت حد سے بڑھ چلے.باتیں سن سن کر کان پک گئے ، دل جل اٹھا ، اب تو کچھ کرنا چاہیئے آپ کو ، اس کا جواب مجھے دیا کہ اکبر نے اپنے کو تھا کی شکایت سن کر کہا تھا کہ اس کے اور میرے درمیان دودھ کا دریا بہتا ہے تو ان کے اور میرے درمیان سات دودھ کے دریا بہتے ہیں.جب تک مجھ میں طاقت ہے صبر ہی کرتا جاؤں گا.یہانتک کہ حالات مجھے مجبور نہ کر دیں کوئی قدم اُن کے خلاف نہ اٹھاؤں گا یا سے * ه (غیر مطبوعه) ریکاره 3 شعبه تاریخ احمدیت کے دودھ پلانے والی عورت کا لڑکا (ہندی) له رساله خالد دیسمبر ۱۹۶۴ء ص ۱۲ به
کس مکتوب شيخ بشیر احمد ایڈوکیٹ لاہور SH.BASHIR AHMAD.ADVOGATE.Dated...12.TEMPLE LAMORE ROAD: الاسرية 1 سیدی رافاتی اسلام یکم ورحمه راته وبرکاته حضور کا کرمت نام اولاد اس کے پتے میں ہی ایک الروح موصول چینی کی لیکن پھر یہ سے ہے این ایک ام تا پا سکا کہ وہ کون سا ٹرکار انلویج پی آئی کی مولوی سید الباب صاحب عمر دفتر دار بود این تشریف مذاکره های کابلی سر بازی روتی رہیں ، جو میری امان من این براین موجودش خودش میان کشته شد اور خان کابل مرگانی فرمه ان کی ملاقات رہی دوسری بات جو میں معلوم وتی به خان کا بیل کوئی مورد پیکر گیا انفر منی کو گیا کہ دو ٹرکا تو یہ گستا را یا یہ کہ اس کا بیان توبہ عمر کی سنتی والی نے دل چسپی نہ لی اور تفصیل کا ثمر عالم نہ ہو سکا.میں آج میں شفیع کو بلوا نے کی کوشش کر دئیے کم ہوں اور اور بی کرسی کار کن یا به برتر هر جا که می دست می دیم از کرد یک مکان اور پیر به علوم می شد تا که پشن نے کیا کر سکی ہیں اور کسی طرف اس ایمان کیا جانیار بر یک نوار کے کے حکم کے مطابق عمل درآمد کروں گا.انتشار الم حضور کی دلائل کا اور احکام ہیں.اپنی دعاؤں سر سیری در فرمانی خیام خاک
A ۱۹۳۷ء سے ۱۹۳۰ء کے دوران شیخ فضل کریم صاحب پراچہ کے چھوٹے بھائی ایشیخ عبد الرحیم صاحب پر اچہ قالین کا کاروبار کرتے تھے.اس سلسلے میں انہیں شملہ میں مسلم ہوٹل میں بھی قیام کرتا پڑا جہاں قالین کے ایرانی بیو پاری ٹھہرتے تھے.ایک دن کا ذکر ہے کہ پراچہ صاحب ہوشی کے کھانے کے کمرے میں بیٹھے تھے کہ وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ جناب مولوی عبد الوہاب صاحب احراری لیڈر مولومی حبیب الرحمان لدھیانوی کے والد مولوی محمد ذکریا سے محو گفتگو ہیں اور ملاقات کر رہے ہیں.مولوی عبدالوہاب صاحب فارغ ہو کر چلے گئے تو مولوی محمد ذکریا نے پراچہ صاحب کی موجودگی میں ہوٹل کے مینجر کو بتایا کہ یہ قادیان کے مولوی عبدالوہاب صاحب ہیں.جو ہمارے جاسوس ہیں.اور ہمیں خبریں دیتے ہیں.اپنی لوگوں سے مرزائیوں کے راز ہمیں معلوم ہو رہے ہیں.اور آج یا کل وہ شملہ میں چوہدری افضل مفکر احرار ) کے پاس آئے تھے سے مولوی عبدالوہاب صاحب کی خفیہ ریشہ دوانیوں کی تصدیق شیخ محمد اقبال صاحب آن کوئٹہ کے چشمدید واقعہ سے ہوتی ہے.غالباً ۹۳۳یر کی گرمیوں کا ذکر ہے.کہ مجلس احرار کے ایک سرگرم رکن اور مکتبہ اردو اور ماہنامہ ادب لطیف لاہور کے مالک چوہدری برکت علی صاحب گرمیاں گزار نے کوئٹہ میں محکمہ ریلوے کے ایک غیر احمدی افسر کے ہاں مقیم تھے.یہیں شیخ محمد اقبال صاحب سے اُن کی مذہبی گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا تھا.اُن کے لہجے میں ہمیشہ طنز کا پہلو نمایاں ہوتا اور بار بار کہتے ہیں کیا بتاتے ہو ہم تو آپ کی جماعت کے اندرون سے اچھی طرح واقف ہیں.اس ضمن میں انہوں نے دوران گفتگو طنزاً کہا کہ تم بھی بیچتے ہو.تمہیں ابھی اپنی جماعت کے مخفی حالات کا علم نہیں.تمہاری جماعت کے سر کہ وہ لوگ ہم سے پوشیدہ ملتے رہتے ہیں.اور اہلِ قادیان کے اندرونی حالات ہم کو بتاتے رہتے ہیں جس سے " مرزائیت کی سچائی " ہم پر خوب واضح ہو چکی ہے.شیخ محمد اقبال صاحب نے ه منظور حسین یا منظور احمد سے حلفیہ بیان شیخ عبدالرحیم صاحب پر اچه روزنامه الفضل ۲ اکتوبر ۹۵۶ منہ کالم ۲۱
9 ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اُن سرکردہ احمدیوں کے نام بتائیں.بنو ان کو پوشیدہ ملتے ہیں.لیکن انہوں نے اس سوال سے کتراتے ہوئے صرف یہ کہا کہ وہ لوگ تمہاری جماعت میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.لیکن اُن سے بہت بے انصافی کا برتاؤ ہوا ہے.وہ قادیان میں بہت تنگ ہیں اُن کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے.اور اپنی تنگ دستی اور پریشانیوں کی ہم سے شکایت کرتے ہیں اور ہم سے مالی امداد بھی طلب کرتے رہتے ہیں پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگے کہ وہی ہمیں بتاتے ہیں کہ قادیان بھر میں دو شخص بھی ایسے نہیں ملیں گے.جو دل سے موجودہ خلیفہ سے خوش ہوں.ڈر کے مارے کو ظاہر طور پر اب تک مخالفت نہیں ہوئی.لیکن جہاں بھی موقع ملتا ہے.لوگ خفیہ مجالس کر کے موجودہ خلیفہ صاحب کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں.اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حال ہی میں قادیان میں ایک جلسہ عام ہوا ہے جس میں اہلِ قادیان نے متفقہ طور پر خلیفہ صاحب کی اقتداء کے خلاف نکتہ چینی کی ہے.اور صدائے احتجاج بلند کی ہے.اس کے بعد کہا کہ تمہاری جماعت کے بزرگوں کے ذاتی کریکٹر کے متعلق بھی ہمیں اطلاعات ملتی رہتی ہیں اور پھر سلسلہ کے بزرگوں کے خلاف بعض الزامات بھی لگائے.اس مرحلہ پر شیخ مد اقبال صاحب کی ایمانی غیرت نے خاموش رہنا گوارا نہ کیا.اور نہایت پر خوش اب ولہجہ میں اُن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اپنا مکان قادیان میں ہے.اور میں اور میرا خاندان ایک لمبے عرصہ تک وہاں مقیم رہے ہیں.ہم بھی وہاں کے تمام حالات سے واقف ہیں.لیکن میں عینی شاہد ہونے کی حیثیت سے ان تمام الزامات اور غلط واقعات کی تردیدہ کرتا ہوں.لعنتہ اللہ علی الکا زمین اور کہتا ہوں کہ اگر چو ہدری صاحب ان نام نہا د سر کردہ احمدیوں کا نام نہیں بتا ئیں گے جو نہ صرف منافق ہیں.اور خفیہ طور پر احرار سے ملتے ہیں بلکہ اپنے گذب اور جھوٹ کو راز کی باتیں بتا کہ اُن کے عوضی جماعت کے شدید دشمنوں کے سامنے کائٹہ گدائی لئے پھرتے ہیں تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ یہ سب کذب و افتراء چوہدری صاحب اور ان جیسے دیگر دشمنانِ احمدیت کی اختراع ہے.اس پر سچو ہدری برکت علی صاحب نے احرار کے گماشتوں اور مخبروں کے چہرہ سے نقاب اٹھاتے ہوئے صاف صاف بتا دیا کہ وہ آپ
کے خلیفہ اول کے صاحبزادے مولوی عبد الوہاب ہیں لیے یہ تو مولوی عبد الوہاب صاحب کا حال تھا.جہاں تک ان کے چھوٹے بھائی مولوی عبد المنان صاحب عمر کا تعلق ہے.وہ حضرت مصلح موعود کے خلاف معاندانہ پراپیگنڈا کرنے کا کوئی موقع نہ تھے سے جانے نہیں دیتے تھے.محمد عبد اللہ صاحب ظفر واں کو اُن کے ایک غیر احمد می دوست نے (جو علاقہ مجسٹریٹ کے ریڈر تھے بتایا کہ مولوی عبد المنان صاحب عمر کے پاس میں پارٹیشن سے پہلے جب کبھی جاتا تھا.وہ حضور کے خلاف سخت غیظ و غضب کا اظہار کرتے اور کہا کرتے تھے یہ دیکھو جی کھائی ہمارے باپ کی اور کھا یہ رہے ہیں.ہمیں کوئی پوچھتا بھی نہیں اور ان کے محل بن رہے ہیں کیا حالانکہ یہ سراسر خلاف واقعہ اور خلاف تقویٰ بات تھی.سیدنا حضرت مصلح موعود کو حضرت خلیفہ اول اور آپ کے خاندان کے ساتھ ایک مثالی محبتت مفتی.حضور نے اراضی سندھ میں حضرت خلیفہ اول کی یادگار کے طور پر نور نگر کے نام سے ایک بستی آباد کی.حضرت خلیفہ اول اور آپ کے اہل خانہ اور صاحبزادوں خصوصا میاں عبد الوہاب صاحب اور مولوی عبد المنان صاحب پہ تو حضرت مصلح موعود کے ان گنت احسانات تھے اُن کی تعلیم اور دنیا وی ترقی سید نا حضرت مصلح موعود اور جماعت کے رہین منت تھی.اور اُن کی سازستوں منصوبوں اور مخالفانہ اور بغض و عناد سے بھری ہوئی کارروائیوں کے باوجود بھی حضور ہمیشہ ایک مشفق باپ کی طرح ان کی سر پرستی فرماتے آرہے تھے.اور اُن کا ہر دکھ در و حضور کو بے قرار اور مضطرب کر دیا کرتا تھا.د میں حضور حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کی بیماری کے دوران شیخ بشیر احم صاحب ایڈووکیٹ لاہور کے ہاں قیام فرما تھے.انہی ایام میں حضور نے پانچ ہزار کا چیک میاں عبدالمنان صاحب کو دیا اور ارشاد فرمایا کہ اس سے کوئی کام کریں.خود بھی فائدہ اٹھائیں اور والدہ کی بھی مدد کریں.چنانچہ انہوں نے اسی رقم سے قادیان میں اپنا ذاتی پریس لگا یا میلہ به روز نامه الفضل ، راکتو بر وارد صدا کالم اتمام حیفه شهادت شیخ محمد اقبال صاحب ابن حضرت شیخ کریم بخش صاحب آف کوئی اسے " نظام آسمانی کی مخالفت مشلار مشت (بقیہ ماشہ ملا پر)
حضرت مصلح موعود کی ان مسلسل نوازشات اور عنایات کے باوجود ان لوگوں کے سینے بغض و عناد کی آگ سے بھرے رہتے تھے.چنانچہ قبل از تقسیم قادیان کے دور ہی کا واقعہ ہے کہ محمد عیسی صحاب بھاگلپوری کی اہلیہ صاحبہ ایک شادی کے سلسلے میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بغرض من تات جاسه نگی تو خیال آیا کہ میاں عبد الوہاب صاحب اور میاں عبد المنان صاحب سے بھی ملتی میچوں.چنا نچہ وہ ملاقات سے پہلے انہیں سلام کرنے کے لیے اُن کے پاس گئیں.اس پر میاں عبدالوہاب صاحب یا میاں عبد المنان صاحب نے فرمایا جب تم خلیفہ ہوں گے تو سلام کرنا یہ قیام پاکستان کے بعد مولوی عبد الوہاب صاحب صاحبزادہ مرزا د سیم احمد صاحب کے شہراہ خاندان سیح موعود کے نمائندے کے طور پر تاریان بھجوائے گئے لیکن تھوڑے ہی عرصے میں اُن سے ایسی حرکات سرزد ہونی شروع ہوئیں.جو سلسلہ احمدیہ اور در ویٹوں کے مفاد کے منافی تھیں.وہ غیر مسلموں سے ایسی نا گفتنی با تیں کہ جاتے کہ اگر ان کا ساتھ ساتھ فوری تدارک نہ کیا جاتا تو خدا معلوم غریب درویشوں پر مصائب کے کیا کیا پہاڑ ٹوٹ جاتے.وہ عہد درویشی کا ابتدائی دور تھا.اور بڑا نازک اور خطرناک دور تھا.یہ ایسے متمتر داور سرکش تھے کہ با وجود بار بار منع کر نے کے شام کو ضرور غیر مسلموں کے محلے میں دور تک نکل جاتے اور کبھی کسی سے اور کبھی کسی اوٹ پٹانگ اور مفاد سلسلہ کے خلاف باتیں کرتے رہتے تھے.ایک دن حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ امیر جماعت قادیان کو یہ شکایت پہنچی کہ ایک شخص نے درویشوں سے کہا ہے کہ تم یہاں مفت کی روٹیاں کھا رہے ہو جاؤ جا کہ کوئی کام کرو یہاں پہ کیا رکھا ہے.حضرت مولوی صاحب نے بیت المبارک میں نماز مغرب کے وقت ایک تقریر فرمائی جس میں اس قابل اعتراض اور اخلاق سوز حرکت کا ذکر کیا اور جواب طلبی کرتے ہوئے بقیہ حاشیہ سے مکتوب حضرت مصلح موعود بنام مرزا عبدالقدیر صاحبه مورخه ۱۹ار اگست ۱۹۵۶ ۶ ریکار ڈخلافت لائبریری ربوہ) سے اصل بیان جو ۲ نومبر ۱۹۵۶ء کا ہے شبہ تاریخ احمدیت کے ندیم ریکا رڈمیں موجود ہے اور اس پر مندرجہ ذیل گواہوں کے دستخطہ میں شکیل احمدیر صاحب - محمد اختر صاحب.سر در سلطانہ صاحبہ ر گیم مولانا عبدالمالک خان صاحب مربی سلسلہ کراچی)
پوچھا کہ یہ شخص کی کارروائی ہے ؟ حضرت مولوی صاحب اپنی تقریر ختم کر کے بیٹھ گئے تو میاں عبدالوہاب صاحب نے جھٹ اُٹھ کر معافی مانگ لی.اور اعتراف کر لیا.کہ میں شخص نے یہ بات کی ہے وہ میں ہی ہوں.میاں عبد الوہاب صاحب نے درویشی کے اس دور میں سلسلہ کے اموال کو خوردبرد کرتے ہوئے ہندوؤں کے پاس جماعتی سٹور کے برتن بھی بیچنے شروع کر دیئے.امیر الدین صاحب سٹور کیپر نے تین بار انہیں برتن بیچتے پکڑا اور انہوں نے تینوں بار بیت المبارک میں ہی حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ کے سامنے معافی مانگی.حضرت مولوی صاحب نے اُن سے کہا کہ اگر یہاں برتن ہی بیچتے ہیں تو آپ پاکستان ہی تشریف لے جائیں.اس پر میاں صاحب امیر دین صاحب کو اپنے گھرلے گئے اور کہا کہ تو نے بڑا کیا.اگر میری شکایات نہ کرتا تو کیا ہوتا.یا درکھو قادیان حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وجہ سے آباد تھا.ہم تو پاکستان چلے جائیں گے اور برتن بھی پک کر رہیں گے لیکن قادیان اب آباد نہ ہو سکے گا.ان مذبوحی حرکات کی بناء پر قادیان کی مقامی تنظیم نے مشورہ کیا کہ ان کو جلد از جلد واپس پاکستان بھیج دیا جائے.چنانچہ اس بارہ میں شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو قادیان سے فون کیا گیا اور اُن کے ذریعہ.بوہ سے اجازت حاصل کر کے اُن کو پاکستان واپس بھیج دیا گیا ہے میاں عبدالوہاب صاحب کے پاکستان میں پہنچنے کے بعد حضرت خلیفہ اول کے صاحبزادوں نے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کے ساتھ مل کر دوبارہ نظام خلافت کے خلاف محاذ قائم کر لیا.اور عبد اللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں کی طرح جنہوں خلیفہ رسول حضرت عثمان عنی کے خلاف پورے عالم اسلام میں ایجی ٹیشن بر پا کر دیا اور انہیں شہید کر دیا.ایسے آوارہ مزاج نو جوانوں سے اپنے خصوصی مراسم وروابط تیزی سے بڑھانے شروع کر دیتے جو نام نہاد احمدی تھے.اور نظام جماعت کی مخالفت و تضحیک اُن کا شیوہ تھا.ان میں خاص.سے خط ڈاکٹر بشیر احمد صاحب در دلیش قادیان مورخه ۱۲۸ جولائی ۱۹۵۶ و ، بیان احمد دین صاب آن کوئٹہ سابق در دیش تا دبیان ، بیان امیرالدین صاحب سیمنٹ بلڈنگ رتن باغ لاہور سابق در ویش تا دیان - بیان مرقومه ۱۴ را گست ۶۱۹۵۶ د ریکارڈ خلافت لا مهریه ی ره بوه)
طور پر ایسے عناصر شامل تھے جن سے سلسلہ کے مرکزی نظام کو پہلے ہی شکایات تھیں.اور جو یا تو وقف زندگی کے عہد کو توڑ کر غداری کے مرتکب ہو چکے تھے یا وقف زندگی ہونے کے باد جود وقف سے بھاگنا چاہتے تھے.اور جماعتی نظام سے تنخواہیں اور بھاری بل وصول کرنے کے باوجود مرکز احمدیت میں بیٹھ کر تحریک وقف زندگی کے خلاف پراپیگینڈا کیا کرتے تھے.اور ربوہ کی ابتدائی اور خام تعمیرات کا نہایت بے شرمی سے مذاق اڑایا کرتے تھے.سلسلہ احمدیہ کے مرکزی ریکار و ۱۹۵۶ء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ۹۵لہ کے آخر کا واقعہ ہے.ربوہ میں بعض ایسے فتنہ پردازوں کی باقاعدہ بانی پرس کی گئی تو وقیع اور چشمدید گواہوں سے ان کا جرم ثابت ہو گیا.جب یہ معاملہ تحقیقات کے بعد حضرت مصلح موعود کی خدمت پیش کیا گیا تو حضور انور نے فرمایا کہ میں اپنی ذات کے بارے میں تو معاف کر سکتا ہوں سلسلہ کے معاطے میں معاف نہیں کروں گا.یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ربوہ سے چلے جانے کے بعد ۲۳ نسبت روڈ لاہور میں اپنا اڈا قائم کرلیا.اب ابنائے حضرت خلیفہ اول جو آئندہ خلافت کے خواب دیکھ رہے تھے، اپنی سکیم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی اور ان نام نہا د احمدیوں کے ذریعہ جماعت میں شدومد کے ساتھ باغیانہ خیالات پھیلانے لگے.جس کے ثبوت میں دو واقعات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے.اول : ۱۹۵۵ء میں سید منور شاہ صاحب دلد سید فضل شاہ صاحب رساکت نواں پینڈ ا حمد آبا ومتقتل قادیان) حضرت مرزا اشریف احمد صاحب کی بندوقوں کی دکان واقع لاہور میں ملازم تھے.وہ ربوہ میں اپنی خالہ زاد بین عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صادق صاحب مربی سلسلہ سیرالیون کے پاس ملنے کو آئے اور ایک دن باتوں باتوں میں یہ ذکر کیا.کہ ایک گروہ نوجوانوں کا ایسا ہے جو کہتا ہے کہ موجودہ خلیفہ کے بعد اگر خلافت پر مرزا ناصر احمد صاحب کو جماعت نے بٹھایا تو ہماری پارٹی میں سے کوئی بھی ن * لہ ریکار ڈ خلافت لائبریری ۵۶ ۱۹۵۶ء : سلے یہ کو بھی سیحر نصر اللہ صاحب پسر چو ہدری نعمت الله خان صاحب بیگم پوری کے تمام مات تھی.
۱۴ اسے نہیں مانے گا.ہم تو میاں عبدالمنان عمر کو خلیفہ تسلیم کریں گے.عزیزہ بیگم صاحبہ نے جھڑک کر کہا کہ وہ خبیث کون ہیں.اس پر انہوں نے جواب دیا کہ دیکھنا اس وقت تم لوگوں کا ایمان بھی قائم نہیں رہے گا.اور یہ کہہ کہ وہ اسی وقت گھر سے باہر مل رہئے لے دومر : - 1902ء کا واقعہ ہے کہ ڈاکٹر محمد شفیع صاحب نثار پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ طالب آباد کے سامنے گوٹھ رحمت علی متصل بر اینچ میں مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کے ایک پر درد ہ شخص بشیر احمد نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی خلافت کا حق مولوی نورالدین صاحب کے بعد اُن کی اولاد کا تھا.لیکن میاں محمود احمد صاحب نے (نعوذ باللہ) ظلم سے ان کا حق غصب کرکے خلافت پر قبضہ کر لیا ہے.اب ہم لوگ عینی خاندان حضرت خلیفہ اول اور ان کے غیر احمد میں رشتہ داری اس کوشش میں ہیں کہ خلافت کی گندی مولوی صاحب کی اولاد کو ملے.اور اب حق بحقدار رسید" کے مطابق جلد ہی یہ معاملہ طے ہو کر رہیگا لیے حضرت خلیفہ اول کے بیٹے اپنے خاندان میں خلافت کو منتقل کرنے کے لیے کسی خاص موفقے کی تلاش میں تھے.یہ موقع انہیں حضرت مصلح موعود کی بیماری اور سفر یورپ شاہ کے دوران میتر آگیا.اس زمانے میں انکی سرگرمیاں یکا یک بڑھ گئیں.اور میاں عبد الوہاب نے کھلے لفظوں میں یہ ناپاک پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ خلیفہ وقت بوڑھا ہو چکا ہے.کسی اور کو خلیفہ منتخب کر لینا جائے نیے شیخ نصیر الحق صاحب آف لاہور کا حقیقت افروزمیان شیخ نصیر الحق صاحب آف لاہور کا بیان ہے کہ سفر یورپ کے سلسلہ میں جب حضور لاہور سے بخیریت کراچی پہنچ گئے تو جو دھامل بلڈ نگ لاہور میں نماز مغرب کے بعد مجھے سید بہاول شاہ صاحب نے تار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ الحمدللہ حضور بخیریت کراچی پہنچ گئے ہیں.جب له الفضل ۲۲ اگست ۱۹۵۶ ، ص د بیان عزیز بیگم صاحبه دخترمحبوب علی مرحوم آف مالیر کومله) له الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۷ء ص : سے مکتوب چوہدری اسد اللہ خانصاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور ۲۵٫۲۴ سیولائی ریکارو د خلافت لائبریری بوده - ایمنا الفضل ۶۱۹۵۶ ۳/۲۰
حضرت خلیفہ بیع الاول کے دست مبارک کالکی ہوا انط حضرت خلیفہ المسیح الاول کے اپنے دست مبارک سے لکھے ہوئے ایک خط کا چربہ جو آپ نے ۲۴ اپر یل سوار کو مردان کے ایک معز نہ رہیں خان محمد اسلم خانصاحب آفریدی کے نام تحریر فرمایا تھا.اس خط میں حضرت خلیفہ اول نے تحریر فرمایا ہے کہ :- میں اب ضعیف.بیمارا اور بہت بڑھا ہوں موت قریب ہے " میه ای موقت بات البت بها انا موت اتراتا اور سیاسی آکو سعت در این مفید ہو تارت اور سنگی با روی یا آہ ترا اب تر است بداند رسید مالیہ سے ایک متر است و با این امر کر بوت چند تدابیر از کان مقررین در آن تحمید مترجم حرفات نفط ہے آپ مشیریه اور اور حجاب پروین نواز کی اینہ کرنا وقت ہوگی.کسی کی پیروانی من شکر یک نوں دوا ہو اور الیه درد و الحمد شریف بہت پراکرین توایم شه روزنامه الفضل ربوه مورخه ۳ ار ستمبر ۶۱۹۵۶ صفحه ۲
1 میں واپس رتن باغ کو لوٹنے لگاتا اپنی بیوی کو ساتھ لے کر گھر سمن آباد چلا جاؤں.تو مولوی عبدالوہاب صاحب نے مجھے آوانہ دی.کہ حاجی صاحب ! ابھر جائیں.میں بھی چلتا ہوں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ حاجی صاحب آپ نے دیکھا کہ قوم کا کتنا روپیہ خرچ ہو رہا ہے.میں نے عرض کیا.مولوی صاحب! حضرت صاحب تو فرما چکے ہیں کہ میں اپنا خرچ خود برداشت کر وں گا.پھر اعتراض کیسا ؟ فرمانے لگے آگے تو سنو نہ میں نے کہا فرمائیے کہنے لگے کہ دیکھو اب خلیفہ تو ر نعوذ باللہ من ذالک) اپنا دماغ کھو چکا ہے.وہ اس قابل نہیں کہ خلیفہ رکھی جا سکے.میں بجبر خاموش رہا تا سارا ماجرا سن سکوں.اور جو گفتگو یہ کرنا چاہتے ہیں.وہ رہ نہ جائے.میں نے کہا مولوی صاحب پھیلا یہ تو بتائیے کہ اب اور کون خلیفہ ہو سکتا ہے ؟ کہنے لگے کہ میاں بشیر احمد صاحب اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کیا کم ہیں.اب میں نہیں رہ سکا.تو میں نے کہا مولوی صاحب آپ تو ایک بزرگ ہستی کے فرزند ہیں.آپ کو اتنا بھی علم نہیں.کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ بنانا تو کجا خیال کرنا بھی گناہ ہے.چہ جائیکہ آپ ایسی باتیں کر رہے ہیں.اور میرے لیے لیٹر نهایت تکلیف دہ ہو گیا ہے.پھر فرمانے لگے سنو سنو ! میں نے عرض کیا کہ چونکہ میں نے سمن آباد جا تا ہے اور نیلا گنبد سے بیس لینی ہے.اس لیے کچھ اور کہنا ہے تو چلتے چلتے بات کیجئے.کہنے لگے دیکھو یہ جو مضا مین آجکل چھپ رہے ہیں.انہیں میاں بشیر احمد صاحب درست کر کے پریس کو بھیجتے ہیں.وہ خود تو لکھ نہیں سکتے.پھر یہ عجیب بات ہے کہ انہی میاں صاحب کو حضرت صاحب اپنے کمرہ میں سلاتے ہیں.میں اس معمہ کو نہیں سمجھ سکا.اس کے علاوہ بھی اور کئی باتیں کیں جو میں بھول گیا...........میں نے اگلے دن سارا واقعہ چوہدری اسد اللہ خان صاحب کو ہائیکورٹ میں جاکرہ سنا یا انہوں نے فرمایا لکھ دو.میں نے وہیں بیٹھ کر لکھ دیا.جو مجھے اس وقت یاد تھا.چو ہدری صاحب نے فرمایا کہ آپ مولوی صاحب کے سامنے بھی یہی بیان دیں گے.لیک نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو لکھ دیا ہے آپ میرے ساتھ جو دھامل بلڈنگ چلیں اور انہیں میری موجودگی میں پڑھا دیں.چنانچہ ہم دونوں گئے مولوی صاحب اپنی دوکان میں موجود نہ تھے.ہم انتظار کرتے رہے.کچھ دیر کے بعد مولوی صاحب تشریعیت لے آئے.میرا خط
16 چو ہدری صاحب نے سواری بنا کو پڑھایا.مولوی صاحب کا رنگ زرد ہو گیا.کچھ سکتے کے بعد فرمانے لگے.نہیں میں نے نہیں کہا.چوہدری صاحب نے فرمایا لکھ دیجیے کہنے لگے.اچھالکھ دیتا 6 ہوں.چنانچہ ان کے دفتر کا کاغذے کہ مولوی صاحب نے لکھا کہ میں نے ہر گنہ کوئی ایسی بات نہیں کی.جس کے متعلق حاجی صاحب نے لکھا ہے.چوہدری صاحب فرمانے لگے.کیا آپ اب بھی مصر ہیں.میں نے کہا.ہاں ! اور مجھے یہ کا غذات دیجیے ہمیں اس پر مزید لکھتا ہوں.چنانچہ میں نے یہ الفاظ لکھے کہ مجھے سخت صدمہ ہوا کہ مولوی صاحب ایک بزرگ ہستی کی اولاد ہیں جو ہمارے خلیفہ اول رہ چکے ہیں.انہوں نے صریح جھوٹ بول کر مجھے ہی نہیں بلکہ حضرت خلیفہ اول کی روح کو بھی تکلیف پہنچائی ہے مجھے ان سے یہ توقع نہ تھی.کہ انکار کریں گے.مجھے معا خیال ہوا کہ اگر احمدیت کا یہی نمونہ ہے.تو غیر از جماعت لوگوں پر اس کا کیا اثر ہو گا.چنانچہ یہ دونوں تحریریں جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب اپنے ساتھ لے گئے بلے سید نا حضرت مصلح موعود بھی کراچی میں ہی تھے کہ میاں عبد المنان عمر صاحب اور اُن کے ساتھیوں نے پراپیگنڈا مشروع کر دیا کہ خلیفہ کس کو بنایا جائے.اسی زمانہ میں مولوی عبدالونا، صاحب نے حضرت مصلح موعود کی تفسیر کبیر کے درس کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے کہا تفسیر کبیر کا درس نہیں ہونا چاہیے.کیونکہ یہ ایک فرد کی رائے ہے.خلیفہ غلطی کرسکتا ہے.بنیادی مسائل میں خلیفہ سے اختلاف رکھنا جائز ہے.اور اس اختلاف کے رکھتے ہوئے خلیفہ کی بیعت کر لینا بھی جائز ہے.حضرت مصلح موعود کی سفر یورپ سے کامیاب وکامران اور بخیر میت والسی کے بعد اگلے سال ۹۵۶ہ کے شروع میں میاں عبد المنان صاحب کی ہمنوا پارٹی کے ایک ممبر نے یہ شاخسانہ کھڑا کر دیا.کہ ربوہ کا مرکز ی ہسپتال حضرت خلیفہ امسیح اول کے نام سے منسوب کیا جانا سے نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر ص : کے ریکارڈ خلافت لائبریری بیان مولوی خورشید احمد شاد صاحب سے ایضاً
JA چاہیئے یہ وہی شخص تھا.جو قبل ازیں برما کہ چکا تھا کہ ہم تو آئندہ مولوی عبد المنان صاحب عمر کی بیعت کریں گے.تم دیکھو گے کہ آج سے دو سال بعد میں ربوہ جاؤں گا.اور اس وقت میرے ہاتھ میں اتنی طاقت ہو گی.کہ میں مرزا ناصر احمد (صاحب کو بازو سے پکڑ کہ ربوہ سے نکال دوں گا ہیں یہ نیا شوشہ فتنہ و فساد کی گویا پہلی چنگاری تھی.میں کا مقصد پوری جماعت میں بے چینی پیدا کر کے سیدنا حضرت خلیفہ اول کے خاندان کی مظلومیت جتلانا اور حضرت مصلح موعود سے باطن کرنا تھا.ان ایام میں میاں عبد المنان صاحب کے غیظ و غضب کا پارہ عروج پر پہنچ چکا تھا.اور وہ امید وار خلافت کی حیثیت سے پوری جماعت کو ڈنڈے سے سیدھا کرنے کے خواب.دیکھ رہے تھے.چنانچہ میاں غلام غوث صاحب سابق ہیڈ کلرک میونسپل کمیٹی.بوہ کی چشمدید شہادت ہے :.حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صا حب آزیری سیکرٹری میونسپل کمیٹی ربوہ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں مکرم مولوی عبد المنان صاحب انچار ج صیغه تالیف و تصنیف تحریک جدید ربوہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت میاں منور احمد صاحب کے دستخطوں کی شناخت کروں جو انہوں نے کسی غلط تعمیر کے سلسلہ میں کمیٹی کے قواعد کے تحت مولومی عبد المنان صاحب کو دیئے تھے.چنانچہ ندوی وہاں گیا.اور مولوی عبد المنان صاحب نے فرمایا کہ دیکھو.یہ دونوں نوٹس موجود ہیں.اور دستخط میاں منور احمد صاحب کے ہیں.ان دونوں میں کتنا تفاوت ہے.ان میں سے کون سا صحیح ہے.اور کون سا غلط ؟ راس وقت میرے ساتھ والی کرسی پہ چوہدری شبیر احمد صاحب نائب وکیل المال تحریک جدید بھی تشریف فرما تھے.اور ہم دونوں مولوی عبد المنان صاحبت سه بیان بشارت احمد صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ چک نمبر ۸ ۹ شمالی ضلع سرگھر یا مورخه ۲۵ جولائی ۹۵ درپیکار ڈ ۱۹۵۶ خلافت لائبریری ره بوه)
19 ر کے سامنے بیٹھے تھے بندہ نے عرض کیا کہ چونکہ میں شروع سے کمیٹی میں حضرت میاں منور احمد شاہ صاحب کے ماتحت کام کر رہا ہوں.مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں دستخط حضرت میاں منور احمد صاحب کے ہیں.گو ایک چھوتا ہے اور ایک بڑا لیکن وسخط انہی کے ہیں.چونکہ اس کا مضمون زیرا مطابق قواعد مقرر الفاظ میں تھا.اور زیادہ تربیت مولوی عبد المنان صاحب کے مضمون پر بھی غصہ سے بھرے ہوئے الفاظ میں آپ تقریر فرماتے رہے.آخر میں اُن کے منہ سے حسب ذیل الفاظ ظاہر ہوئے " مد میاں منور احمد وغیرہ اس لئے سختی کرتے ہیں.اور نا جائز کرتے ہیں کہ وہ حضرت صاحب کے لڑکے نہیں.یعنی خلیفہ صاحب کے.جس وقت ڈنڈ امیر نے ہاتھ میں آیا ، میں شب کو سیدھا کر دوں گا.یا دیکھونگا کا اس وقت بندہ خاموش ہو کر واپس چلا آیا.کیونکہ میاں صاحب بہت غصے میں تھے بندہ نے اسے SERIOUS نہیں لیا.البتہ جب دفتر کمیٹی میں پہنچا تو وہاں چوہدری عبد اللطیف صاحب او در سیر اور چوہدری عنایت احمد صاحب اکو نٹنٹ و محمد الیاس چھیڑ اسی موجود تھے.میں نے ہنسی کے طور پر چوہدری عبداللطیف صاحب اور سمیر نے کہا کہ آپ نے میاں عبد المنان صاحب سے ٹکر لی ہے.اب خبر دار ہو جاؤ.وہ آپ سب کو سیدھا کر دیں گے.کیونکہ وہ خلافت کا.خواب دیکھ رہے ہیں ہے یہ تعلی اور دھونس بے وجہ نہ تھی.کیونکہ جیسا کہ چند ماہ بعد ہی یہ سازش پوری طرح بے نقاب ہوگئی کہ یہ ناخدا ترس نوگ شہد کے شروع میں ہی نظام خلافت کے خلاف بغاوت پھیلانے اور اس کا تختہ الٹنے کی تیاریاں مکمل کر چکے تھے.اور میاں عبد المنان صاحب کی خلافت کی سے " نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر » صفحه ۱۱۲ - ۱۱۵ - الفضل راکتورست
راہ ہموار کرنے کی خاطر ایک غیر مبائع ایجنٹ خفیہ طور پر ملک بھر کی احمدی جماعتوں کے طوفانی دور سے کے لیے مقرر کیا جا چکا تھا.یہ ایجنٹ اللہ ر کھا نانی تھا.جو گھٹیا میاں ضلع سیالکوٹ کا باشندہ تھا.اور 20ء سے احمدیہ بلڈنگس لاہور میں ملازم تھا.جیسا کہ روز نامہ امروز ۲۱ مئی ۱۹ء کے صہ پر اُس کے شائع شدہ مکتوب کے درج ذیل الفاظ سے واضح ہے.میں شاہ سے امیر مرحوم مولانا محمد علی) کے ارشاد کے مطابق احمدیہ بلڈنگیں لا ہور میں مقیم ہوا.اور لٹریچر تقسیم کرنے کا کام شروع کیا.کھانا کام دو..اور رہائش کا انتظام لنگر خانے سے تھا.لہ تھا قیام پاکستان سے قبل لنگر خانہ قادیان میں ملازمت کر چکا تھا.وہ دار الشیوخ کے لیے آٹا اکٹھا کیا کرتا تھا.اور ساتھ ہی نظام سلسلہ کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرنے کا بھی خوگر تھا.جس پر حضرت مصلح موعود کی طرف سے الفضل ۳۰ مئی ۱۹۴۵ ء م پر یہ اعلان شائع کیا گیا."..یہ صاحب ہر شخص پر الزام لگاتے ہیں.ان کے نزدیک ناظر اگر دورہ پر جاتے ہیں تو کسی کے ہاں جاکر ان کے حق میں رپورٹ کر دیتے ہیں چندہ یہ دیتے ہیں.تو دفتر کے لوگ کھا جاتے ہیں سیکریڑی اُن کے دشمن ہیں.الفضل ان صاحب کا دشمن ہے.اور ہمارے نزدیک یہ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں.یا ان کے دماغ میں نقص ہے.چونکہ یہ پراپیگنڈا بھی کرتے ہیں.اس لیے اس بارہ میں اعلان کیا جاتا ہے کہ میں جہاں تک انسانی علم ہے ان کو غلطی پر سمجھتا ہوں کا اللہ رکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے ساتھ گستاخی سے پیش آتا تھا.ایک بار پٹنہ سے ایک مہمان تشریف لائے.یہ ظالم اُن کے ساتھ نہ صرف گستاخی سے پیش آیا.بلکہ انہیں زدو کوب کر کے نہ خمی کر دیا.تحقیق ہوں تو الزام ثابت ہو گیا جس پر مخدوم محمد ایوب صاب معاون ناظر امور عامہ قادیان نے اُسے بید زنی کی سزا دی.اور پھر ا سے ملازمت سے برخاست کہ دیا گیا بله ا مراسله مخودم محمد ایوب هاب مرضه ۲۰ اگست ۱۹۴۹ و مراسله دفاتر امور عامه قادیان مورخه ۳ استمبر ۶۱۹۴۹
تقسیم ہند کے بعد شاہ کے ابتداء میں یہ شخص کسی نہ کسی طرح قادیان پہنچ گیا.اور میاں عبد الوہاب صاحب کا دست راست بن گیا.چنانچہ عبد الکریم صاحب خالد سابق در دگیش قادیان فرماتے ہیں." صدر انجمن احمدیہ کے سٹور سے میاں عبدالوہاب صاحب نے سامان نکلوایا اور انہیں ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھ فروخت کیا.اس وقت بھی اللہ کیا رکھا ہی تھا.جو اس معاملے میں اُن کا معاون مھا گئی یه شخص دو سال تک درویشان قادیان کے لئے فتنہ بنارہا.ایک طرف اس نے حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جیٹ اور صدر انجین احمدیہ قادیان کے ناظر صاحبان سے جنگ شروع کردی اور دوسری طرف غیر مسلموں سے رابطہ پیدا کر کے در ولیوں کا قافیہ حیات تنگ کر دیا.اور ان کا سا را آرام اور میں حرام کر دیا.ساری ساری رات یہ درویشوں کو گالیاں دیتا.اور بالکل نہ تھکتا تھا.نہ اس کو نیند آتی تھی.ڈاکٹر میجر بشیر احمد صاحب نے اس کو کچھ دن کے لیے ایک کمرے میں بند کر کے اس پر پہرا لگا دیا.لیکن پریداروں کی غفلت سے یہ بھاگ نکلا اور پولیس اور عید مسلموں کے پاس پہنچ گیا.اور بہت سے در ولیتوں پر مقدمہ دائر کر دیا.جس میں بے گناہ اور معصوم در ولیوں کو سزا ہوئی اور مشکل ضمانتیں ہوئیں.اللہ رکھا کو قادیان میں غیر مبائعین کی چٹھیاں برابر پہنچتی تھیں کیے خصوصاً مولوی محمد علی صاحب سے اس کی باقاعدہ خط و کتابت جاری رہی.اور غیر مبالعین کے جوائنٹ سیکرٹری شیخ حمد طفیل صاحب نے مولوی صاحب کا نوٹو بھی بھجوایا.اور اُن کے رسالے بھی.جن کا ریکارڈ دفتر نظارت امور عامہ قادیان میں محفوظ کر دیا گیا.لہ آپ ۱۹۴۷ء سے جون ۱۹۵۲ ء تک بحیثیت درویش قادیان میں مقیم رہے.سه مکتوب عبدالکریم صاحب خالد جولائی ۱۹۵۷ و از راولپنڈی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں یہ خط پہنچا تو حضور نے اس پہ اپنے قلم سے تحریہ فرمایا کہ یہ خط میاں عبدالوہاب اور اللہ رکھا کے متعلق نہایت ضروری ہے.محفوظ ہے.ریکارڈ خلافت لامیریری ربوہ ) سے مکتوب ڈاکٹر بشیر احمد صاحب مورخہ ۲۸ جولائی ۱۹۵۶ عر ریکارڈ خلافت کا مہر یر ی ربوہ )
۲۲ ہ اللہ رکھانے مین درویشوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا.ان میں عبد الکریم صاحب خالد بھی تھے آپ اپنے مکتوب جولائی 1907 میں تحریر فرماتے ہیں :- مد قادیان میں اللہ رکھانے جو فتنہ برپا کیا.اور جس کے باعث وہاں کی جماعیت کون ہے جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا.اس کا حضور کو بخوبی علم ہے.قادیان میں اللہ رکھنا نے جن لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا.ان میں سے ایک خاک بھی تھا.اس دوزمان میں جہاں جماعت کو کافی اخراجات کہ نے پڑے.وہاں جماعت کو کافی پریشانیان کا یہ بھی اٹھانی پڑیں.مقدمہ کے دوران میں اللہ یہ کھا لگا تار اس مکان کی چھت پر چڑھ کر عشاء کی نمانے کے جالب بعد تقریریں کرتا رہا.جو انجمن نے اسے رہنے کے لیے دیا تھا..یہ مکان قاریان ما علام حکم صاحب مرحوم کا تھا.جو ڈھاب کے نزدیک اور سڑک کے کنانہ نے پرا تھا.وہ عام گزرگاہ تھی.جہاں سے ہر ہندو سکھ گزرنے والا اس کی خرافا سنتان رہا.اور اس تقریر میں گالیوں کے سوا اور کچھ نہ تھا.اس کے علاوہ جب وہ بہت.مبارک اور بہت اقصٰی میں نماز کے وقت آتا تو وہاں بھی وہ گالیاں نکالتا زستان اور ہمیں سوائے صبر کے اور کوئی چارہ نہ تھا.پھر جب متعصب مجسٹریٹ نے ہم ہو یا آدمیوں کے خلاف فیصلہ دے دیا.اور ہم سے ایک ایک سال کیلئے نیک چلنی ہے کی ضمانتیں لے لیں.تو اس کی شرار نہیں بڑھ گئیں.آخر حضور نے بھی اسے ہان را سے منگوانے کا انتظام فرما کہ ہمیں اس کے فتنہ سے سنجات درمی یام اللہ رکھا ابھی قادیان میں ہی تھا.کہ اس کے باغیانہ طرز عمل پر حضرت مصلح موعود نے اُسے اگست ۱۹۲۹ء کو جماعت سے خارج کر دیا.نیز اُسی کی ایک چھٹی مرقومہ اور اگست ۱۹۴۷ کے لفافے پر تحریر فرمایا.یہ شخص جھوٹا اور کذاب ہے.اور اس کے اخراج کے متعلق پہلے لکھا.جاچکا ہے.جماعت کے دوستوں کو اس سے ملنے سے بہو کا جائے یہاں الغرض یہ شخص ہو سال تک قادیان میں امن کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا رہا.اور بڑی مشکل سے
۲۳ قادیان سے نکالاگیا.اور پاکستان پہنچے کہ اپنے باغی مشن کو جاری رکھنے کے لئے احمد یہ بلڈنگس لاہور میں پہنچ گیا.گھر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ہیا اللہ رکھا کی ان احمدیت دشمن سرگرمیوں پرایک نظر ڈالنے کے بعد دوبارہ ہم اصل مضمون کی طرف آتھے ہوئے بتاتے ہیں کہ ابنائے حضرت خلیفہ اول اور منکرین خلافت کا یہ پروردہ اور ایجنٹ تاریخ ت میں ایک سوچی سبھی سکیم اور سازش کے تحت احمدی جماعتوں میں فتنہ پھیلانے اور میاں عبد المنان صاحب کی نام نہاد خلافت کی راہ ہموار کرنے کے لئے صوبہ پنجاب ، صوبہ سرحد اور آزادکشمیر کے طوفانی دورے پر نکل کھڑا ہوا.اور سر گو وہی بھیرہ، بھلوال، ملکوال، پنڈ دادنخاں چکوال، جہلم ، کھیوڑہ ، چوہا سیدن شاہ ، بہاولپور ، ڈیرہ غاری خان اور مری میں منافرت انگیز پراپیگنڈا کرنے میں سرگرم عمل رہا پانچ ناہ کے اس دورہ کے دوران یہ شخص خدا کی پیاری جماعت میں زہریلے خیالات پھیلا تا ر یاسین مظفر آباد میں اس نے کہا کہ حضرت صاحب کی صحت خرا ہے.بات بہت بڑھ گئی ہے اور دہ اب خلافت کے قابل نہیں ہیں یہ سر گو ریا کی بہت احمدیہ میں امیر صوبائی مرزا عبدالحق صاحب کے خلاف اس نے سمنت بد زبانی کا مظاہرہ کیا.اور کہا کہ احمدیوں کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے سیتے کوھاٹ میں اس نے مربی تسلسلہ مولوی عبد المالک صاحب سے کہا کہ ایک بہت بڑا انقلاب اور عذاب آنے والا ہے.اور اگر اس کے بعد میاں ناصر احمد صاحب خلیفہ بن گئے.تو میں قطعاً اُن کی بیعت نہیں کروں گا.نیز غیر مبائعین کے صدر میاں محمد لائلپوری کی.بہت تعریف کی ہے ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ سے بیان مختار احمد صاحب بٹ کشمیری مظفر آباد.آزاد کشمیر مورخه ۱۶ را اگست ۵ه : سه بیان میاں عطا محمد صاحب ننگلی مقیم سر گود نا.که بیان مولوی عبد المالک انشا بر سر بی جماعت احمدیہ کو ہاٹ ۲۶ جولائی ۱۹۵۶
۲۴ راولپنڈی میں اس نے واضح لفظوں میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ اگر اس وقت خلیفہ عبد المنان ما خلافت کا اعلان کر دیں تو سینکڑوں ہزاروں احمد ہی ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہیں.اور تلواریں چل سکتی ہیں.میاں ناصر احمد کے بہت دشمن ہیں.اور موت تو سر یک کو آتی ہے.آخر خلیفہ صاحب نے بھی مرنا ہے.اس لئے دیکھنا دو سال کے اندر اندر کیا ہوتا ہے.خلیفہ صاحب ، عبد الوہاب صا عمر اور خلیفہ عبد المنان صاحب یعنی خلیفاؤں کی اولاد کے سخت دشمن ہیں.کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ کسی وقت یہ لوگ بر سر اقتدار آ سکتے ہیں.نیز کہا میں نے تمام پاکستان کا دورہ کیا ہے.اس لئے میرے ساتھ مکتر لینا آسان کام نہیں ہے.اُدھر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے بیٹے اور اُن کے ہمنوا در پردہ پراپیگنڈا کہ رہے تھے.اور ادھر لطف و کرم کا ایک دریا موجزن تھا اور حضرت مصلح موعور ان کے امید وار خلافت یعنی میاں عبد المنان عمر صاحب کو اپنی عنایات سے مسلسل نواز رہے تھے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے انہیں نائب وکیل التصنیف کے عہدے پر فائز فرما دیا جو ایک بہت بڑا اعزانہ تھا.۱۹۵۶ کی مجلس شوری میں وہ اس کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے.ه ارجون ستاد کو انہیں ربوہ سے انٹر نیشنل سیمینار کارورڈ یونیورسٹی امریکہ میں لیکچر کے لیے روانہ ہونا تھا.اس لیکچر کی دعوت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خصوصی سفارش پر ہاورڈ یونیورسٹی نے دی تھی.پروگرام کے مطابق یہ بین الا قوامی مذاکرہ علمیہ ۱۲ جولائی سے ۲۲ اگست ۱۹۵۶ تک مقدر تھا یہ میاں عبد المنان صاحب روانگی سے قبل مری میں حضور کی خدمت میں بغرض اجازت نہ دعا حاضر ہوئے.تو حضرت مصلح موعود نے انہیں کمال شفقت سے اجازت دی اور دعاؤں سے رخصت کیا.نیز زبانی ہدایات دینے کے علاوہ تحریری طور پر یہ ارشاد فرمایا ا خلفیه بیان چو ہدری بشیراحمد ولد چوہدری شاہ محمد صاحب ساکن اے ، اے ۱۴۸۶ اکال گڑ ھے راولپنڈی مؤرخہ ۲۸ جولائی ۶۱۹۵۶: له الفضل و ارجون ۱۹۵۶ء صل
۲۵ در جزاکم الله - ام اجازت ہے.بہت اچھی بات ہے.اپنے پیچھے کوئی قائمقام تحریک سے مشورہ کر کے (مقرر کر جائیں) ایسا نہ ہو کہ کام کو نقصان پہنچ جائے میرے خیال میں تحریک سے یہ اختیار بھی لے جائیں.کہ واشنگٹن مشن کا جائزہ لے سکیں ، پنا چہ مجلس تحریک جدید نے اس ارشاد مبارک کی تعمیل میں ارجون ست کو با قاعدہ ایک ره بیزولیوشن زیر نمبر ۵۸ - الفت اس غرض کے لئے پاس کیا.وکالت تبعثیر اور وکالت مال کی طرف سے اُن کو مشن کے جائزہ کے لئے تفصیلی مواد مہیا کر دیا گیا اور امریکہ مشن کے مبلغ انچارج کو اس کی اطلاع بذریعہ نقل دے دی گئی.انہاں بعد ہم ارجون شاہ کو تحریک جدید نے اُن کے اعزاز میں نہایت وسیع پیمانے پر الوداعی تقریب منعقد کی جس کے بعد وہ سفیر امریکہ پر روانہ ہو گئے ہے میاں عبد المتان صاحب عمر امریکہ پہنچے.اور یہاں پاکستان میں اللہ رکھا نہ دور شور سے مختلف جماعتوں میں اشتعال پھیلاتے اور بناوت کا بیج بوتے ہوئے جولائی 19 کے تیرے ہفتے کے شروع میں مرسی پہنچ گیا.اور غیر مبائعین کی عبادت گاہ میں مقیم ہو گیا.اور میاں محمید صاحب لائلپوری کے ہاں کھانا کھاتا رہا.اس نے لوگوں کو بتایا کہ میاں صاحب نے مجھے بجانے دے رکھی ہے کہ جب چاہو میرے ہاں آجایا کرو.میں رات کے گیارہ بجے تک اپنا دروازہ تمہارے لئے کھلا رکھوں گا.چند روز بعد جبکہ اپنی سیکیم کو بروئے کار لانے کے انتظامات اس نے مکمل کر لئے.تو وہ احمدیہ بیت الذکر گلہ نہ میں آگیا.جہاں اس نے مولوی محمد صدیق صاحب نگلی مبلغ را ولپنڈی سے ملاقات کی.اور ان کی اجازت سے وہیں ٹھہر گیا.سید نا حضرت مصلح موعود ان دنوں خیر راج مری میں رونق افروز تھے.لیکن عید الا ضحیہ کی تقریب پر چند روز کے لئے ربوہ تشریف لا چکے تھے.اس لئے دار جولائی کو بہت الذکر گلونہ میں اعلان کیا گیا کہ نمازہ عید کل ساڑھے آٹھ بجے خیبر لاج مری میں ہوگی.اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پڑھائیں گے.اللہ کا ل الفضل ۱۶ جون ۱۹۵۶ء
۲۶ نے کہا کہ " میں میاں ناصر صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا.کیونکہ رتین باغ میں ایک دفعہ ئیں اُن سے لڑ چکا ہوں.اس لئے میں تو سیغا میوں کی مسجد میں نماز پڑھوں گا.جس پر مولوی محمد صدیق صاحب مربی سلسلہ نے کہا کہ اگر تم نے حضرت میاں صاحب کے پیچھے نماز عید نہیں پڑھتی تو آج سے تمہارا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو گا.یہ سن کر وہ غیر لاج میں عید پڑھنے کے لئے تیار ہو گیا.دوسرے روز مولوی محمد صدیق صاحب اُسے خیبر لارج کلائے اور اپنے ہمراہ نماز کی ادائیگی کے لئے کہا.مگر اس نے انکار کر دیا.اور کہا کہ وہ لاہوریوں کی مسجد میں نما نہ پڑھے گا.ایک روز اس نے خیبر لاج میں اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکر ٹری کیساتھ حضور سے مطلاقات کے لئے سخت جھگڑا کیا.مگہ اُسے خیبر لاج سے نکال دیا گیا.جس کے بعد رات کو وہ بیت الذکر گلونہ میں واپس آگیا.اور اس نے کہا کہ یہ میری پیشگوئی ہے کہ جس طرح پہلے خلافت کا جھگڑا ہوا تھا.اب پھر ہونے والا ہے.اور آپ لوگ ایک ڈیڑھ سال دیکھ لیں گے.نیز کہا ڈیڑھ سال کے عرصہ میں مجھے دھتکارنے والوں پر عذاب و تبا ہی آجائے گی.جس طرح ۱۹۵۳ ء میں ہوا تھا.اسی طرح ہوگا.اللہ رکھتا ۲۳ جولائی شاہ کو مری سے راولپنڈی چلا آیا.اور مری سے جاتے ہوئے بعض احمدیوں کو یہ بھی کہا گیا کہ اب تولا موریوں کی نظر خلیفہ اول کی اولاد پر زیادہ پڑتی ہے.اور وہ میاں عبد المنان صاحب کی بہت تعریف کر رہے تھے اور ان کے نزدیک وہ زیادہ قابل میں لیے مرضی میں اس شخص کی فتنہ انگیزیاں پورے جوبن پر تھیں کہ اور جولائی 19ء کو حضرت مصلح موعود بھی ربوہ میں تین روز قیام کے بعد واپس مرکی تشریف لے آئے اور حسب دستور خیبر لاج میں قیام فرما ہوئے.حضور کو اللہ رکھا کے بیت الذکر گل منہ میں ٹھہرنے کی اطلاع ملی.له بیان مولوی محمد صدیق صاحب ننگی مربی سلسلہ مورخه ۲۶٫۲۳ جولائی ۱۹۵۶ئر دبیات قصور القرصاحب ابن ہری داس صاحب متعلم جامعتہ المبشرین ابر عظیم بیت احمدیه کلا نہ مورخه ۲ ۱۵ جولائی ۱۹۵۷ء رالفضل ۲۸ / ۲۹ جولائی ۱۹۵۶ء)
۲ حضور نے ۲۳۳ جولائی ۱۹۵۶ء کو مولوی محمد صدیق صاحب شاہد سے رپورٹ طلب فرمائی میمولوی صاحب نے اللہ رکھا کے متعلق بعض اہم معلومات بذریعہ خط عرض کیں.جس میں اس کے وسیع دوروں کے ذکر کے علاوہ یہ انکشاف بھی کیا.کہ اس نے ایک خط میاں عبدالوہاب صاحب عمر کا مجھے دکھایا ہے.جس میں محبت بھرے الفاظ میں اللہ رکھا سے تعلقات کا اظہار کیا گیا تھا.کہ ہم تو بھائیوں کی طرح ہیں.اور امی جان تم کو بیٹوں کی طرح سمجھتی تھیں.انہوں نے عرض کیا کہ یہ خط میں نے خود پڑھا تھا.اور اس سے میری تسلی ہو گئی تھی.اور میں نے اس کو احمدی خیال کر کے مہمانخانہ میں رہنے کی اجازت دے دی تھی سیلہ بند اسم الفضل اور جولائی ۹۵ صدا
فصل دوم حضر مصلح موعود کا انقلاب آفریں پیغام اوراسکا زبردست رد عمل سیدنا حضرت مصلح موعود نے مولوی محمد صدیق صاحب کا خط موصول ہوتے ہی جماعت احمدیہ کے نام ایک فوری پیغام لکھوایا.جو الفضل ۱۲۵ جولائی ۱۹۵۶ء کے صفحہ اوّل وصت پر مع مولوی صاحب مومون کے خط کے شائع کیا گیا.یہ پیغام ایک مصور اسرافیل تھا جس نے دنیا بھر کی احمدی جماعتوں میں ایک مستر بپا کر دیا.اور دوسری طرف یکایک فتنہ منافقین کے چہرہ.نقاب سیرک گیا.اور منکرین خلافت کی منافقانہ اور باغیانہ سرگرمیوں کے اثرات کی دھجیاں فضا آسمانی میں بھر کر رہ گئیں.حضور کے اس حقیقت افروز اور انقلاب آخرین پیغام کا متن یہ تھا اللہ رکھا شخص ہے جس نے قادیان کی جماعت کے بیان کے مطابق قادیان میں فساد مچایا تھا.اور بقول ان کے قادیان کے درویشوں کو تباہ کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی اور جب قادیان کی انجمن نے اس کو وہاں سے نکالا تو ان کے بیان کے مطابق اس نے بھارتی پولیس اور سکھوں اور مہندوؤں سے جوڑ ملایا اور قادیان کے درویشوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی.جتنا وہ اس کو قادیان سے نکالنے کے لئے کوشش کرتے رہے اتنا ہی یہ بھارتی پولیس کی مدد سے قادیان میں رہنے کی کوشش کرتا رہا.کوہاٹ کی جماعت کے نمائندوں نے ابھی دو دن ہوئے مجھے بتایا کہ پیشخص کو ہاٹ آیا تھا.اور وہاں اس نے ہم سے کہا تھا کہ جب خلیفہ المسیح الثانی مر جائیں گے تو اگر جماعت نے مرنا ناصر احمد کو خلیفہ بنایا.تو میں ان کی بیعت نہیں کروں گا.ہم نے جوابا کہا کہ مرزا ناصر احمد کی خلافت کا سوال نہیں.تو ہمارے زندہ خلیفہ کی موت کا متمنی ہے.اس لئے تو ہمارے نز دیک جنیت آدمی ہے یہاں سے چلا جا ہم تجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا
۲۹ چاہتے.مولوی محمد صدیق صاحب نے جو اس کا بتایا ہوا پتہ لکھا ہے.کوہاٹ کی جماعت نے دفتر کو بتایا کہ اسی جگہ کے رہنے والے چند نام نہاد احمدیوں کا اس نے نام لیا اور کہا کہ انہوں نے مجھے کرایہ دے کر جماعتوں کے دورے کے لئے بھجوایا ہے.مولوی محمد صدیق صاحب کے بیان سے ظاہر ہے کہ وہ مزید دوروں کے لئے پھر رہا ہے.چوہدری فضل احمد صاحب جو نواب محمد دین صاحب مرحوم کے رشتہ کے بھائی ہیں اور نہایت مخلص اور نیک آدمی ہیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے بھی ایک دن روک کر کھڑا ہو گیا تھا اور کہتا تھا میں ملک بھر میں بھر رہا ہوں.سربی را ولپنڈی کے بیان کے مطابق میاں عبدالوہاب صاحب نے اس کو ایک خط دیا تھا جس میں لکھا تھا کہ تم ہمارے بھائیوں کی طرح ہو اور ہماری والدہ بھی تم سے بہت محبت کرتی تھیں.اگر ایسا کوئی خط منتھا تو به بیان با لکل جھوٹ اور افتراء ہے.کیونکہ میاں عبد الوہاب کی والدہ اس شخص کو جانتی بھی نہ تھیں.کیونکہ وہ ربوہ میں رہتی تھیں اور یہ شخص قادیان میں تھا اور جماعت کی پریشانی کا موجب بن رہا تھا.نیز وہ تو وفات سے قبل ذیا بیطس کے شدید حملہ کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی رہتی تھیں.اور ان کی اولاد ان کو پو چھنتی تک نہ تھی.اور میں ان کو ماہوار رستم محاسب کے ذریعہ سے علاوہ انجمن کے حضرت خلیفہ اول کی محبت اور ادب کی وجہ سے دیا کر تا تھا.بلکہ جب میں بیمار ہوا.اور یورپ گیا تو ان کی نواسیوں کو تاکید کر گیا تھا.کہ ان کی خدمت کے لئے نوکر رکھو جو خرچ ہو گا ہمیں ادا کروں گا.بہر حال ایک طرف تو جماعت مجھے یہ خط لکھتی ہے کہ ہم آپ کی زندگی کے لئے رات دن دعائیں کرتے ہیں.چنانچہ ایک شخص کا خط مجھے آج ملا کریں تئیس سال سے آپ کی زندگی کے لئے دعا کر رہا ہوں.دوسری طرف جماعت اس شخص کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے جو میری موت کا متمنی ہے آخر یہ منافقت کیوں ہے.کیا میاں عبدالوہاب کا بھائی ہونا محض اس وجہ سے ہے کہ.وہ شخص میری موت کا معملتی ہے ؟ا کوئی تعجب نہیں کہ وہ مری میں صرف اس نیت سے آیا ہو کہ مجھ پہ حملہ کر رہے.جماعت کے دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ جب ہم نے اس کو گھر سے نکالا کہ یہ پرائیویٹ گھر ہے تمہیں اس میں آنے کا کوئی حق نہیں.تو اس نے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر مشور بجانا شروع کر دیا.تاکہ اردگرد کے غیر احمدیوں کی ہمدردی حاصل کرے.اب جماعت خود ہی فیصلہ کرے کہ میری موت
کا متمنی آپ کا بھائی ہے یا آپ کا دشن.آپ کو دوٹوک فیصلہ کرنا ہوگا.اور یہ بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ جو اس کے دوست ہیں وہ بھی آپ کے دوست ہیں یادشمن.اگر آپ نے فوراً دوٹوک فیصلہ نہ کیا تو مجھے آپ کی بیعت کے متعلق دو ٹوک فیصلہ کرنا پڑے گا.اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد جس جماعت اور جماعت کے افراد کی طرف سے اس دشمن احمدیت اور اس کے ساتھیوں کے متعلق برأت کی چھٹیاں مجھے نہ ملیں تو میں ان کے خط پھاڑ کر پھینک دیا کروں گا.اور ان کی درخواست دعا یہ توجہ نہ کروں گا.یہ کتنی بے شرمی ہے کہ ایک طرف میری موت کے متمنی اور اس کے ساتھیوں کو اپنا دوست سمجھنا اور دوسری طرف مجھ سے دعاؤں کی درخواست کرنا.........جماعت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ تذکرہ میں پسر موعود کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات شائع ہوئے ہیں ان الہامات کے خاص خاص حصے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پرائیویٹ طور پر حضرت خلیفہ اول کو کیوں لکھے ؟ آخر مستقبل سے کچھ تو اس کا تعلق تھا.کیوں نہ حضرت صاحب نے سب باتیں سبز اشتہانہ میں لکھ دیں اور کیا وجہ ہے کہ پر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ میسر نا القرآن نے جو حضرت خلیفہ اول کے سالے بھی تھے.جب حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں پسر موعود سپر ایک رسالہ لکھا تو اسپر حضرت خلیفہ اول نے یوں ریویو کہا کہ میں اس مضمون سے متفق ہوں.کیا آپ نہیں دیکھتے کہ میں مرزا محمود احمد کا بچپن سے کتنا ادب کرتا ہوں.اس تبصرہ کی بھی کوئی حکمت تھی.اس کی کا پیاں اب تک موجود ہیں اور غالباً حضرت خلیفہ اول کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ریویو کا چربہ بھی اب تک موجود ہے ، خدا کے برحق اور موعود خلیفہ کے اس پیغام نے پوری جماعت کو تڑپا دیا.جس کے نتیجہ میں مشتاق خلافت کی طرف سے واضح طور پر دو زبر دست رد عمل رونما ہوئے.پہلا تو عمل یہ ہوا کہ جماعت کے ہر فرد میں نظام خلافت سے محبت والفت پہلا ر و عمل اور منافقین سے بیزاری کے شدید جذبات ابھر آئے اور پوربہ ہی دنیا ئے.ن روزنامه الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۵۶ء صداوه.
۳۱ احمدیت حضرت مصلح موعود سے عقیدت و فدائیت اور وفاداری اور وابستگی کے روح پرور نعروں سے گونج اٹھی.اور نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک کی احمدی جماعتوں نے بھی منافقین سے مکمل طور پر براعت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پیارے امام کے ساتھ بے مثال محبت و اخلاص کا ثبوت دیا.اور اپنے عہد بیعت کی شاندار رنگ میں تجدید کی.ذیل میں بطور نمونہ مصر، شام اور عدن کی جماعتوں کے اخلاص ناموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ممبران جماعت احمدیہ مصر کا اخلاص نامہ بسم الله الرحمن الرحيم وعلى عبيد والسيح الموعود محمد کا ولفصلى على رسوله الكريم سیدنا و مولانا ! امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کچھ عرصہ ہوا ہمیں اس فتنہ کے بارہ میں خبر لی جسے بعض جماعت کی طرف منسوب ہونے والے اشخاص نے اٹھایا ہے.حالانکہ ان لوگوں نے اپنے ان بد ارادوں کی وجہ سے جن کا انہوں نے.اظہار کیا ہے خود بخود ہی اپنے آپ کو جماعت سے الگ کر لیا ہے.تم نمیران جماعت احمدیہ مصراس موقعہ پر جبکہ منافقین حضور کی ذات بابرکات پر انتہام لگا رہے ہیں.اور حضور کے بلند مقام کو گرانا چاہتے ہیں.ہم اپنے اس عہد بیعت کو دوبارہ پختہ کرتے ہیں.جسے تم قبل ازیں اپنے اوپر فرض کر چکے ہیں.اور ہم پورے شرح صدر کے ساتھ اس محبت اور اخلاص کا اعلان کرتے ہیں جو نہیں حضور کی ذات سے حاصل ہے اور ہم اس مضبوط روحانی تعلق کی مزید برکات کو حاصل کرنے کا عزم کیسے ہوتے ہیں.انشاء اللہ تعالے : ان منافقین نے ماضی کے واقعات سے سبق حاصل نہیں کیا اگر وہ ایسا کرتے تو بغیر کسی مزید غور و فکر کے انہیں اس خلافت کی اہمیت معلوم ہوتی.جسے اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے مفاد کے لئے قائم کیا ہے.اس فتنہ کے بارے میں مرکز کے قریب رہنے والے اور باہر کے احمدیوں نے جس نفرت
۳۲ کا خہار کیا ہے.وہ ہر معمولی عقل والے انسان کو بھی اس بات کا یقین کروانے کے لئے کافی ہے.کہ ان منافقین نے جو طریقے استعمال کئے ہیں.وہ خوارج کے طریقوں سے ذرہ بھر بھی مختلف نہیں.ہر زمانہ میں منافق اسی طریق پر چلتے رہے ہیں.اسی وجہ سے ہم بغیر کسی دقت کے اُس بہت بڑے نقصان کا اندازہ کر سکتے ہیں جو منافقین جماعت کو پہنچانا چاہتے ہیں : منافقین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جماعت کے بارے میں اللہ تعالے کی نصرت کا وعدہ ضرور پورا ہو کر رہے گا.ہمیں اس کے پورا ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں.ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس نصرت و مدد کو روکنے کی کوئی بھی کوشش خواہ وہ سازش اور فتنہ ہی کیوں نہ ہو.کبھی کامیاب نہیں ہوگی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ قول کہ میری جماعت میں بھی یزیدی پیدا ہوں گے.بالکل حق ہے اور اس کی سچائی بالکل واضح ہو چکی ہے پس حضور اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد سے اپنا کام کرتے چلے جائیں اللہ تعالے ہی حضور کا بہترین محافظ ہے.اور وہ سب رحم کرنے والوں میں سے زیادہ رسم کرنے والا ہے.آخر میں ہم حضور سے دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے.اور اس دنیا میں اور آخرت میں بھی اپنی رضا حاصل کرنے کا موقعہ ہم پہنچائے آمین خاکسار : محمد بسیونی جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ صرے -۲ ممبران جماعت احمدیہ شام کا اخلاص نامہ بسم الله ارحمن الرحيم محمده و تصلى على رسوله الكريم ول عبد ال مسیح الموعود سیدنا و مولانا و امامنا ؛ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفہ ثانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام - ه الفضل (۱۸ اکتوبر ۱۹۵۶ ص ۳ (ترجمه)
السلام السلام السلام عليكم ورحمة الله وبرکاتها ہم ممبران جماعت احمدیہ شام اپنے محبوب امام و آقا مصلح موعود ایدہ اللہ منصرہ العزیز سے اپنے عہد وفاداری کی تجدید کرتے ہیں.اور ہم ہر فتنہ سے جسے کمزور ایمان اور کم عقل اشخاص خلافت اور منصب خلافت عالیہ کے خلات پر پاکرتے ہیں.نفرت کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ خلافت ہی وہ نعمت ہے.جسے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو دنیا میں استحکام بخشنے اور اسلام کی عزت وعظمت و کرامت قائم کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اور ساری دنیا میں امن وسلامتی پھیلانے کے لئے قائم فرمایا ہے.ہمیں یہ اچھی طرح یاد ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستر سفر یورپ پر روانہ ہونے سے پہلے اور اپنی بیماری کے ایام میں بھی جماعت کو منافقوں کے فتنہ سے خبر دار اور ہوشیار کر دیا تھا.اور فرمایا کہ سچا مومن تو اگر اسے اپنے عقائد حقہ کی حفاظت کے لئے اپنے باپ سے بھی لڑنا پڑے تو اس کی بھی پرواہ نہیں کرتا.اور اس کا بھی مقابلہ کرتا ہے.اور آپ نے ابی ابن ابی سلول کی مثال بیان فرمائی تھی کہ دیکھو اس کے بیٹے نے اپنے باپ سے کیسا سلوک کیا اور اسے مجبور کر دیا کہ وہ خود اپنی زبان سے اقرارہ کرے کہ وہ خود ہی ذلیل ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ معززہ ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ منافقوں کی تدابیر اور سیمیں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اپنے مرکنہ سے باہر ہونے اور سفر یورپ کے ایام میں کارگر نہیں ہو سکیں.اور نہ ہی حضور کے سفر یورپ سے واپس آجانے کے بعد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے بلکہ وہ بری خرت ، اپنے مقصد میں ناکام ونامراد ہوئے.جیسے ان سے پہلے آج تک جو شخص بھی خلافت کے خلاف اٹھا نا کام رہا.مکر را گرم ہے کہ ہم ہر ایک فتنہ کو جو حضور کی خلافت مقدسہ اور منصب خلافت کیخلاف اٹھایا جائے سخت نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں.اور اپنے امام اور آقا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے اپنے عہد وفاداری اور اطاعت کی تجدید کرتے ہیں اور حضور سے اپنے لئے دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں.اور دعا کرتے ہیں اللہ تعالے حضور کو عزت پر عزت عطا فرمائے اور مدد پر مدد فرمائے اور کامل شفا بخشتے اور ہر شخص جو حضور کا دشمن ہو اسے بے یارو
۳۴ مددگار بنائے.اور اسے اس کے مقصد میں ناکام رکھے.والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ہم ہیں حضور کے خادم دستخط حمله ممبران جماعت احمدیہ شام له جماعت احمدیہ عدان کا اخلاص نامہ بسم الله ارحمن الرحیم وعلى عبد المسيح الموجود نحمده ونصلی علی رسولہ الکریم ہمارے آقا حضرت خلیفہ مسیح الموعود بشير الدين محمود احمد ايده الله بصره العزيز السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاته جماعت احمدیہ عدن منافقین کے اس فتنے پر جس میں وہ اپنی بدقسمتی سے مبتلا ہو گئے ہیں افسوس کا اظہا کرتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرتی ہے کہ اس نے ان کے بدارا دوں کو بہ وقت ظاہر کر دیا.- اور اس طرح انہیں نا کام کیا اور حضور کو نہ صرف اس فتنے سے محفوظ رکھا.بلکہ حضور کو اپنی نصرت ومدد سے خاص طور پہ توانا.للہ تعالیٰ نے حضور کو صلح موعود کا شرف عطافرمایا ہے، ہو ضروری تھا کہ حضور کے عہد میں بھی فتنے پیدا ہوں ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں.کہ وہ حضور کو ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا فرمائے.اور حضور کولمبی عمر بخشے اوراللہ تعالی اپنا جلال حضور کے ذریعہ ظاہر فرمائے تاکہ جاہل اور منافقین یہ ان لیں.کہ اللہ تعالے نے جس طرح پہلے حضور کی مدد و نصرت فرمائی.اسی طرح اب بھی حضور کو اپنی تائید و نصرت سے نوازے گا.یہ منافق روحانی بصیرت سے عاری ہیں.اور اس وجہ سے وہ حضور کے بلند مقام اور خارق عادت علوم کو نہیں دیکھ سکتے.اسلام کی خدمت کے لحاظ سے اس وقت دنیا میں حضور کا کوئی نظیر نہیں.ہم حضور کے ساتھ اپنے فہد بیعت کی تجدید کرتے ہیں.اور ہم دوبارہ حضور سے اسلام کی خدمت کو پختہ عہد کرتے ہیں.له الفضل ۱۲۵ اکتو به ۱۹۵۰ء ص ترجمه :
۳۵ کیونکہ حضور ہی ہمارے بچے امام اور خلیفہ ہیں.اللہ تعالی منافقین کے شر سے جماعت کو محفوظ رکھے.اور حضور اللہ تعالٰی کی نصرت ومدد سے اپنے بلند مقاصد کی طرف بڑھتے چلے جائیں.والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.ممبران جماعت احمدیہ خدا دوسرار قول اس پیغام کا یہ ہوا کہ مخلصین نے اس فتنہ سے متعلق بعض ضروری شہار میں اور معلومات حضور کی خدمت اقدس میں بھجوائیں.جن سے فتنہ کے بہت سے پر اسرار پہلو نمایاں ہو کر سامنے آگئے.اس سلسلہ میں ربوہ ، راولپنڈی اور لاہور کی جماعتوں نے غیر معمولی طور پر فرض شناسی کا ثبوت دیا.جس پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے اعلان فرمایا.منافقوں کے متعلق بعض نہایت ہی اہم راز اور ظاہر ہوئے ہیں جن میں سے بعض راولپنڈی کی جماعت نے مہیا کئے ہیں بعض ربوہ کی جماعت نے.بعض لاہور کی جماعت نے جزا ہم اللہ خیرا.تھوڑے دنوں میں ترتیب دے کر شائع کئے جائیں گے.دوسرا رد عمل اور کی میں جن پیغامیوں کے متعلق نہایت معتبر رپورٹ ملی ہے کہ مقابلہ کی تیاریاں کر رہے ہیں جن کا نام وہ حضرت خلیفۂ اول کی اولاد کی محبت رکھیں گے مگر ان کے پاس ہمارا پر انا لٹریچر موجود ہے.وہ اس طرح صرف ہمیں یہ موقع مہیا کر کے دیں گے کہ حضرت خلیفہ اول کو گالیاں دینے والے ان کی اولاد کے دوست ہیں.پس وہ حملہ کریں ہم خوشی سے اس کا خوش آمدید کریں گے وہ صرف اپنا گند ظاہر کرنے کا ایک اور موقعہ ہم کو دیں گے اور کچھ نہیں.آخر دنیا اس بات سے نا واقف نہیں کہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم جن کے ذریعہ یہ جماعت بینی ہے یہ وصیت کی تھی کہ ایک خاص شخص ان کے جنازہ میں شامل نہ ہو نہیں وہ بے شک آئیں اور حملہ کریں اور سو دفعہ حملہ کریں.ہمارے پاس بھی وہ سامان موجود ہے جس سے انشاء امر ان کے پول کھل جائیں گے.اس عرصہ میں مختلف جماعتوں کے پاس جو معلومات ہوں وہ ہمیں مہیا کر دیں “ و السلام خاکسار - مرزا محمود احمد ۳۰/۵۶ له الفضل در نومبر ۱۹۸۶ وقت ترجمید من روزنامه الفضل ربوہ یکم اگست ۱۹۵۶ء صلا
اس اعلان پر احباب جماعت نے نہایت کثرت اور تواتر سے اپنی بیش قیمت معلومات حضور کی خدمت میں بھجوائیں جنکو حضور کے حکم سے انہی دنوں الفضل میں ہمیشہ کے لئے ریکار ڈ کر دیا گیا.حضرت مصلح موعود نے مخلصین حضرت مصلح موعود کے دوسری بصیرت افروز پیغامات جماعت کے پیغامات و شہادات نہی کو آنے والی نسلوں کے لئے ریکار ڈ نہیں کرایا بلکہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ولولہ انگیز پیغامات بھی دیئے جو اس دور کی تاریخ احمدیت کا قیمتی سرمایہ ہیں.حضور بیماری اور پیرانہ سالی کے باد تو خدا کے شیروں کی طرح میدان میں آگئے اور شمشیر بے نیام بن کر منکرین خلافت کے منصوبوں کا وسیع جال پاش پاش کر دیا اور خدا کی مظلوم جماعت قیامت تک ایک نہایت خطرناک اور ہلاکت آفرین فتنہ سے محفوظ ہوگئی جو حضور کے عہد خلافت کا ایک ایسا زندہ و تابندہ کارنامہ ہے جو ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا.ذیل میں ان تابی یخنی پیغامات میں سے بعض نہایت اہم اور ضروری پیغامات کا تذکرہ کیا جاتا ہے.الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۵۶ء میں امیر جماعت لاہور چوہدری اسد اللہ خان نیز لاہور کے اول بعض دوسرے اصحاب شیخ نصیر الحق صاحب ، عبدالمی صاحب، لطف الرحمن صاحب درد اور مسعود احمد صاحب خورشید اور سید بہاول شاہ صاحب کی نہایت اہم شہادتیں اشاعت پذیر ہوئیں جن سے مولوی عبد الوہاب صاحب عمر کی منافقت اور باغیانہ خیالات پر واضح روشنی پڑتی تھی.ان شہادتوں پر حضرت مصلح موعود نے جو پیغام دیا اس میں علاوہ دوسرے امور کے یہ بھی تحریر فرمایا کہ " میں جماعت کو یہ بھی اطلاع دیتا ہوں کہ امیر جماعت لاہور کی تحقیقاتوں کے تیجہ میں دشمن کے کیمپ میں کھلبلی مچ گئی ہے اور انہوں نے چاروں طرف دوڑ دھوپ شروع کر دی ہے..........پس جماعت سمجھ لے کہ مضدوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے.اب مومنوں کو بھی اپنے دفاع اور دشمن کے فتنہ کو مٹانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ عمارت جو پچاس سال میں اپنا خون بہا کہ ہم نے کھڑی کی تھی اس میں کوئی رخنہ پیدا نہ ہو ؟ اسی پر چہ میں ظہور القمر صاحب ولد سری داس متعلم جامعتہ المبشرين ربوه مقیم بہت احمدیة دوم شحن سری کی مفصل شہادت شائع کی گئی جس میں اللہ رکھا کا صاحبزادہ مرزا ناصر احمد
کے پیچھے نماز پڑھنے کی بجائے غیر مبایعین کی مسجد میں نماز پڑھنے کا ذکر تھا.حضرت مصلح موعود نے اس پر حسب ذیل الفاظ میں تبصرہ فرمایا : ے اس شہادت کو پڑھ کر دوستوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب سازش پیغامیوں کی ہے اور ار رکھا انہیں کا آدمی ہے وہ مولوی صدر الدین غیر مبائع منکر نبوت مسیح موعود کے پیچھے نماز جائز سمجھتا ہے لیکن مرزا ناصر احمد جو حضرت مسیح موعود کا پوتا ہے اور ان کی نبوت کا قائل ہے اس کے پیچھے نمازہ جائز نہیں سمجھتا اور پیشنگوئی کہتا ہے کہ ایک دو سال میں پھر خلافت کا جھگڑا شروع ہو جائے گا.موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے مگر یہ فقرہ بتاتا ہے کہ یہ جماعت ایک دو سال میں مجھے فقتل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تبھی اسے یقین ہے کہ ایک دو سال میں تیری خلافت کا سوال پیدا ہو جائے گا اور ہم لوگ خلافت کے مثانے کو کھڑے ہو جائیں گے.اور جب کوخلافت قائم کرنے سے روک دیں گے.خلافت نہ خلیفہ اول کی بھی نہ پیغامیوں کی.نہ وہ پہلی دفعہ خلافت کے مٹانے میں کامیاب ہو سکے نہ اب کامیاب ہوں گے.اس وقت بھی حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے چند افراد پیغامیوں کے ساتھ مل کر خلافت کو مٹانے کے لئے کوشاں تھے.مجھے خود ایک دفعہ میاں عبدالوہاب کی والدہ نے کہا تھا.ہمیں قادیان میں رہنے سے کیا فائدہ میرے پاس لاہور سے وفد آیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اگر حضرت خلیفہ اول کے بیٹے عبدالھی کو خلیفہ بنا دیا جاتا تو ہم اس کی بیعت کر لیتے.مگر یہ مرزامحمود کہاں سے آگیا ہم اس کی بیعت نہیں کر سکتے وہی جوش پھر پیدا ہوا.عبدائی تو فوت ہو چکا ہے اب شاید کوئی اور لڑ کا ذہن میں ہو گا جس کو خلیفہ بنانے کی تجویز ہو گی.خلیفہ خدا تعالیٰ بنایا کرتا ہے اگر ساری دنیا مل کر خلافت کو توڑنا چاہیے اور کسی ایسے شخص کو خلیفہ بنانا چاہے میں پر خدا راضی نہیں تو وہ مزار خلیفہ اول کی اولاد مواس سے نوح کے بیٹوں کا سا سلوک ہوگا.اور اللہ تعالیٰ اس کو اور اس کے سارے خاندان کو اس طرح پیس ڈالے گا جس طرح چیچکی میں دانے میں ڈالے جاتے ہیں.خداتعالی نے نوج" جیسے نبی کی اولاد کی پر واہ نہیں کی.یہ معلوم یہ لوگ خلیفہ اول کو کیا سمجھے
۳۸ بیٹھے ہیں آخر وہ حضرت مسیح موعود کے غلام اور ان کے طفیل خلیفہ اقول بنے تھے.ان کی عزت قیامت تک محض مسیح موعود کی غلامی میں ہے بے شک وہ بہت بڑے آدمی تھے مگر مسیح موعود کے غلام ہو کہ نہ اُن کے مقابل میں کھڑے ہو کہ.قیامت تک اگر ان کو حضرت مسیح موعود کا غلام قرار دیا جائے گا تو ان کا نام روشن رہے گا لیکن اگر اسکے خلاف کسی نے کرنے کی جرات کی تو وہ دیکھے گا کہ خدا تعالی کا غضب اس پر پھڑ کے گا اور اس کو ملیامیٹ کر دیا جائے گا یہ خدا کی بات ہے جو پوری ہو کر رہے گی.یہ لوگ تو سال ڈیڑھ سال میں مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن آسمانوں کا خدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ فرماتا ہے.سو مجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.....جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ریعنی کلام ) ڈالیں گے (میرے الہاموں کا زیر دست طور پر پورا ہونا حاجات پچاس سال سے دیکھ رہی ہے اور جس کو شبہ ہو اب بھی اس کے سامنے مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اخباروں میں چھپی ہوئی کشوف اور رویاء کے ذریعہ سے بھی اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب جیسے آدمیوں کی شہادت سے بھی کیا پھر خدا نے آپ سے فرمایا.” وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائیگا ر یہ شہرت کس نے پائی ؟) اور قومیں اس سے برکت پائیں گے رقوموں نے برکت کسی سے پائی ؟) پھر فرمایا ور تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا دعان امراً مقضیا ، پر میری موت کو خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور فرماتا ہے کہ جب وہ اپنا کام کرنے گا در اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے گا تب میں اس کو دعوت دوں گا.پس اس قسم کے چوہے محض لاف زنی کر رہے ہیں.ایک شخص نے مجھ پر چاقو سے حملہ کیا تھا مگر اس وقت بھی خدا نے مجھے بچایا.پھر جماعت کی خدمت کرتے کرتے مجھ پہ فالج کا حملہ ہوا اور یور کے سب ڈاکٹروں نے یک زبان کہا کہ آپ کا اس طرح جلدی سے اچھا ہو جانا معجزہ تھا.پھر فرمایا تیری نسل بہت ہوگی رحیں پیشگوئی کے مطابق ناصر احمد پیدا ہوا.پھر فرمایا اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور یہ کت دوں گا مگر عبدالوہاب کے اس پیارے بھائی کے نزدیک اس
۳۹ پیشگوئی کے مصداق ناصر احمد کے پیچھے نماز پڑھتی ناجائز ہے.مگر مولوی صدر دین کے پڑھنی جائز ہے.پس خود ہی سمجھ لو کہ اس فتنہ کے پیچھے کون لوگ ہیں ؟ اور آیا یہ فتنہ میرے خلاف ہے یا مسیح موعود کے خلاف مسیح موعود فوت ہو چکے ہیں جب وہ زندہ تھے تب بھی ان کو تم پر کوئی اختیار نہیں تھا.قرآن مجید میں خدائفالے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق بھی فرمانا ہے کہ تو داروغہ نہیں.اب بھی تم آزاد ہو.چاہو تو لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو جاؤ خدا تعالی سٹی کے نیچے دبلے ہوئے مسیح موعود کی پھر بھی مدد کرے گا اور ان لوگوں کو جو آپ کے خادموں کی طرف منسوب ہو کہ آپ کے مشن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ذلیل وخوار کا پہلا اختیار ہے خواروی اولیا اوران کی وحی کو قبول کرد باز اور منافقوں کو قبول کرو.میں اس اختیار کو تم سے نہیں چھین سکتا.مگر خدا کی تلوار کو بھی اس سے ہا تھ سے نہیں چھین سکتا ہے ۱۳۹۱ جولائی استاد کو ملبس خدام الاحمدیہ کراچی کے پہلے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر حضرت سوم السلع ذیل گیا.مصلح موعود کا حسب ذیل روح پر در پیغام پڑھ کر سنایاگیا.خیبر لاج مری ۲۴/۷/۵۶ خدام الاحمدیہ کراچی عزیزان ! السلام عليكم ورحمة الله و برکانه آپ کے افسران نے خدام الاحمدیہ کراچی کے جلسہ کے لئے پیغام مانگا ہے.میں اس کے سوا پیغام کیا دے سکتا ہوں کہ 19ء میں جب میں خلیفہ ہوا اور جب میری صرف ۲۶ سال کی عمر بھی خدام الاحمدیہ کی بنیاد ابھی نہیں پڑی تھی.مگر ہر احمدی نوجوان اپنے آپ کو خادم احمدیت سمجھتا تھا مجھے یاد ہے کہ جس دن انتخاب خلافت ہونا تھا مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے ایک ٹریکٹ شائع ہوا کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہیئے.صدر انجمن احمدیہ ہی حاکم ہونی چاہیئے.اس وقت چند نوجوانوں نے مل کر ایک مضمون لکھا اور اس کی دوستی کا پہیاں کیں.اس کا مضمون یہ تھا کہ ہم سب احمد می حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت فیصلہ ست روزنامه الفضل ربوه ۲۰ جولائی ۱۹۵۶ء صفحه ۶٫۵
کر چکے ہیں کہ جماعت کا ایک خلیفہ ہونا چاہیئے اس فیصلہ پر تم قائم ہیں اور تا زندگی قائم رہیں گے اور خلیفہ کا انتخاب ضرور کرا کے چھوڑیں گے.سکول کے درجنوں طالب علم پیدل اور سائیکلوں پر چڑھ کے بٹالہ کی مسڑک پر چلے گئے اور ہر نو دار و مہمان کو دکھا کہ اس سے درخواست کی کہ اگر آپ اس سے متفق ہیں تو اس پر دستخط کر دیں.جماعت احمدیہ میں خلافت کی بنیاد کا وہ پہلا دن تھا اور اس بنیاد کی اینٹی رکھنے والے سکول کے لڑکے تھے.مولوی صدر دین صاحب اس وقت ہیڈ ماسٹر تھے ان کو پتہ لگا تو وہ بھی بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ سکول کا ایک لڑکا نو دار و مہمانوں کو وہ مضمون پڑھوا کر دستخط کردا رہا ہے انہوں نے وہ کا غذاس سے چھین کر پھاڑ دیا اور کہا چلے جاؤ وہ لڑ کا مومن تھا اس نے کہا مولوی صاحب ! آپ ہیڈ ماسٹر ہیں اور مجھے مار بھی سکتے مگر یہ مذہبی سوال ہے.میں اپنے عقیدت کو آپ کی خاطر نہیں چھوڑ سکتا.فوراً جھک کروہ کا غذ اٹھایا اور اسی وقت پنسل سے اس کی نقل کرنی شروع کر دی اور مولوی صاحب کے سامنے ہی دوسرے مہمانوں سے اس پر دستخط کمر دانے شروع کر دیئے.اس پر ۴۲ سال گزر گئے ہیں اس وقت جوان تھا اور اب ۶۸ سال کی عمر کا ہوں اور فالج کی بیماری کا شکار ہوں اس وقت آپ لوگوں کی گردنیں پیغامیوں کے ہاتھ میں تھیں اور خزانہ میں صرف ۱۸ آنے کے پیسے تھے میں نے خالی خزانہ کو لے کر احمدیت کی کر خاطر ان لوگوں سے لڑائی کی جو کہ اس وقت جماعت کے حاکم تھے اور جن کے پاس روپیہ تھا لیکن خدا تعالیٰ نے میری مدد کی اور جماعت کے نوجوانوں کو خدمت کرنے کی توفیق دی.ہم کمزور جیت گئے اور طاقت ور دشمن ہار گیا آج ہم ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور جن لوگوں کو ایک تفسیر پر ناز تھا اُنکے مقابلہ میں اتنی بڑی تفسیر ہمارے پاس ہے کہ ان کی تغییر اس کا تیسرا حصہ بھی نہیں.جو ایک انگریزی ترجمہ پیش کرتے تھے اس کے مقابلہ میں ہم چھ زبانوں کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں لیکن ناشکری کا برا حال ہو کہ وہی شخص جس کو پیغا می سترا بہتر اقرار دے کر معزول کرنے کا فتویٰ دیتے تھے اور جس کے آگے اور دائیں اور بائیں لڑ کرئیں نے سے مراد حضرت خلیفہ اول
اس کی خلافت کو مضبوط کیا اس سے تعلق رکھنے والے چند بے دین نوجوان جماعتوں میں آدمی بھجوا رہے ہیں کہ خلیفہ بڑھا ہو گیا -.سے اسے معزول کرنا چاہیئے اگر واقع میں میں کام کے قابل نہیں ہوں تو آپ لوگ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے قابل آدمی کو خلیفہ مقرر کر سکتے ہیں اور اس سے تفسیر قرآن لکھوا سکتے ہیں میری تغیر میں مجھے پس کردیئے اور اپنے روپے لے لیجیے اور مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر یا اور جس تغییر کو آپ پسند کریں اسے پڑھا کریں اور جونئی تفسیر میری چھپ رہی ہے اس کو بھی نہ چھوئیں.یہ اول درجہ کی بے حیائی ہے کہ ایک شخص کی تفسیروں اور قرآن کو دنیا کے سامنے پیش کر کے تعریفیں اور شہرت حاصل کرنی.اور اسی کو نکھا اور ناکارہ قرار دینا.مجھے آج ہی اللہ تعالیٰ نے الہام سے سمجھایا کہ آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں " یعنے جماعت سے پھر کہو کہ یا تم مجھے چھوڑ دو اور میری تصنیفات سے فائدہ نہ اٹھاؤ نہیں تو میرے ساتھ وفاداری کا دیسا ہی معاہدہ کرو جیسا کہ مدینہ کے لوگوں نے مکہ کی عقبی جگہ پر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کیا تھا اور پھر بدر کی جنگ میں کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! یہ نہ سمجھیں کہ خطرہ کے وقت میں ہم موسیٰ کی قوم کی طرح آپ سے کہیں گے کہ جا تو اور تیرا خدا لڑتے پھر وہم یہیں بیٹھے ہیں سیارسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اس وقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاستوں کو روندتا ہوا آگے نہ آئے.سوگو میرا حافظ خدا ہے اور اس کے دیئے ہوئے علم سے آج بھی میں ساری دنیا پر غالب ہوں.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی جماعت کا امتحان لے اور اس سے کہدے کہ آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں.سو تم میں سے جو شخص خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم کھا کہ معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آخری سانس تک وفاداری دکھائے گا.وہ آگے بڑھے وہ میرے ساتھ ہے.اور میں اور میرا خدا اس کے ساتھ ہے.لیکن جو شخص دنیومی خیالات کی وجہ سے اور منافقوں کے پروپیگنڈا کی وجہ سے بزدلی دکھانا چاہتا ہے اس کو میرا آخری سلام.میں کمزور اور بوڑھا ہوں.لیکن میرا خدا کمزور اور بوڑھا نہیں وہ اپنی قمری تلوار سے ان لوگوں کو تباہ کر دے گا جو کہ اس منافقانہ پر دیگنڈا کا شکارہوں گے.اس پروپیگنڈا کا کچھ
۴۲ ذکر الفضل میں چھاپ دیا گیا ہے چاہیے کہ قائد خدام اس مضمون کو بھی پڑھ کر سنادیں اللہ تعالیٰ جماعت کا حافظ و ناصر ہو پہلے بھی اس کی مدد مجھے حاصل تھی.اب بھی اس کی مدد مجھے حاصل رہے گی.میں به پیغام صرف اس لئے آپ کو بھجو رہا ہوں تا کہ آپ لوگ تباہی سے بیچے جائیں ورنہ حقیقت میں آپ کی مدد کا محتاج نہیں.ایک ایک مرد کے مقابلہ میں خداتعالئے ہزاروں آدمی مجھے دے گا.اور مجھے توفیق بخشے گا کہ میرے ذریعے سے پھر سے جماعت جواں سال ہو جائے آپ میں سے ہر مخلص کے لئے دعا اور کمزور کے لئے رخصتی سلام.خاکسار مرز امحمود احمد خلیفة المسیح الثانی - ۵۶ d حضرت مصلح موعود کا درج ذیل پیغام روزنامه الفضل ۳۰ جولائی ۵۷ کے چہارم صفحہ اول پر شائع ہوا.تم میں سے ہر ایک ہوشیار ہونا چاہیئے و تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ اللہ رکھا نے میاں بشیر احمد صاحب پر جھوٹ بولا وہ بیٹی جو یہ میاں بشیر احمد صاحب کی بتاتا ہے وہ ہمیں مل گئی ہے اور اس میں ، اپنے کسی مالخت کو یہ حکم دیا گیا کہ سفارشی خط دینا با کل غلط ہے.یہ تمہارا اپنا کام ہے کہ احمدیوں پر اپنا اچھا اثر پیدا کرو خلیفہ امیج کو اس بارے میں تنگ کرنا درست نہیں.اس سے ثابت ہے کہ حسب دستور اس کذاب نے ہر معاملہ میں جھوٹ بولا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی جھوٹ بولا ہے نہ میاں بیشتر احمد صاحب کو یہ اختیار تھا کہ بغیر میرے پوچھے پوری معافی دیتے نہ انہوں نے ایسا کیا.بلکہ اس شخص نے ایسے ہی دجل سے کام لیا ہے جیسا کہ حضرت عثمان کے قتل کے مرتکب مسلمانوں کو دھوکا دیا کرتے تھے.کبھی کہتے تھے علی ہمارے ساتھ ہیں کبھی دوسرے صحابہ کا نام لیتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں کم از کم اتنا او ثابت ہو گیا کہ اس فتنہ کے بانی اچھی طرح حضرت عثمان " کے قائمون کی سکیم کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ان کی سکیم پر چلنا چاہتے ہیں.اس ه روزنامه الفضل ربوه ۴ راگست ۹۵۶ارد صفحه ۴٫۳
۴۳ کے بعد بھی اگر کوئی احمد می ان لوگوں سے دھو کا کھاتا ہے تو وہ یقینا احمدی نہیں.اگر شیطان ہرسل کے بھیس میں بھی آئے تو مومن اس سے دھوکہ نہیں کھا سکتا.پس تم میں سے ہر شخص کو ایسا ہی ہوشیار ہونا چاہیے، کہ کوئی شخص اپنی نسل کے سلسلے کو خواہ کہیں تک پہنچا تا ہو اور کون شخص خواہ کتنے ہی بڑے آدمی کو اپنا موید قرار دیتا ہو آپ اس پر لعنت ڈالیں.اور اپنے گھر سے نکال دیں.اور ساری جماعت کو اس سے ہوشیار کر دیں.ایک دفعہ جماعت پیغامی فتنہ کا مقابلہ ا کہ چکی ہے.کوئی وجہ نہیں کہ اب اس سے دوسو گنے زیادہ ہوکر پیغامی فتنہ کا مقابلہ نہ کی جا سکے ) مرز امحمود احمد ضمیمه روزنامه العضل ۳۰ جولائی 90ء کے مرالف پر حضور کا درج ذیل پنجم پیغام سپر و اشاعت ہوا.حضرت عثمان کے وقت میں ذرا سی غفلت نے اتحاد اسلام کو برباد کر دیا تھا بعض کز در طبع احمدی کہتے ہیں کہ کیا چھوٹی سی بات کو بڑھا دیا گیا ہے.لاہور کا ہر شخص جانتا ہے.کہ عبد الوہاب نائر العقل ہے.پھر ایسے شخص کی بات پر اتنے مضامین اور اتنے شور کی ضرورت کیا تھی ؟.حضرت عثمان کے وقت میں جن لوگوں نے شور کیا تھا.ان کے متعلق بھی صحابہ یہی کہتے تھے.کہ ایسے نیل آدمیوں کی بات کی پر واہ کیوں کی جاتی ہے ؟ حال میں ہی مری پر عیسائیوں نے حملہ کیا تھا اور ایک یہ اعتراض کیا تھا.کہ تبوک کے موقعہ پر تمہارے رسول ہزار دل آدمیوں کو لے کہ جلتی دھوتے میں اور بغیر سامان کے سینکروں میں چلے گئے جب وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ معاملہ کچھ بھی نہیں کوئی رومی لشکر وہاں جمع نہیں تھے.اگر وہ رسول تھے تو اتنی بڑی غلطی انہوں نے کیوں کی.کیوں نہ خدا تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ یہ خبر جو رومی لشکر کے جمع ہو نے کی آئی ہے غلط ہے.تبوک کا واقعہ یوں ہے کہ پہلے ایک عیسائی پادری فکر میں آیا.اور ملکہ سے اس نے مدینہ کے منافقوں سے سانہ بانہ کیا.اور ان کو تجویہ بتائی کہ اس کے رہنے اور تبلیغ کرنے کے لئے وہاں ایک نئی مسجد بنائیں چنانچہ انہوں نے قبا نامی گاؤں میں ایک نئی مسجد بنادی.وہ شخص چھپ کر وہاں آیا.اور ان کو یہ کہ کے روم با روزنامه الفضل ربوه ۱۳۰ جولائی 12 ص
۴۴ کی طرف چلا گیا.کہ میں رومی حکومت کو اکساتا ہوں تم اوپر نیمشہور کرد که رومی لشکر مردوں پر جمیع ہو گیا ہے جب محمد رسول اللہ اسلامی لشکر سمیت اس طرف جائیں گے.تو میں کسی کو نہ پائیں گے اور سخت مایوس ہو کر لوٹیں گے.تو تم مدینہ میں مشہور کر دینا کہ یہ دیکھو لمانوں کا رسول.بات کچھ بھی نہ تھی.مگر اس نے اس کو اتنی اہمیت دے دی.مگر الہ تعالی نے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے مقفل کی تائید کی.اور صرف تین آدمی جو سینکڑوں کے لشکریہ میں سے پیچھے رہ گئے تھے ان کو سخت علامت کی.اور ان میں سے ایک کا بائیکاٹ کر دیا.حالانکہ جب رومی لشکر تھا ہی نہیں تو تین چھوڑ کے تین ہزارہ آدمی بھی نہ جاتا تو اسلام کا کیا نقصان تھا.قرآن کو تو یہ کہنا چاہیئے تھا کہ یہ پیچھے رہنے والے بڑے عقلمند تھے.اور جو لوگ اپنی فصلیں تباہ کر کے گرمی میں محمد رسول اللہ صلعم کے ساتھ گئے وہ بڑے احمق تھے.اس واقعہ میں ہم کو یہ بتایا گیا ہے.کہ واقعہ خواہ کچھ بھی نہ ہو.اگر مسلمانوں کو بہتر لگ جائے کہ منافق دین کے لئے کوئی خطرہ ظاہر کر رہے ہیں.تو ساری امت مسلمہ کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جانا چاہیئے.اور جو کوئی اس میں سستی کرے گا.ہ مسلمانوں میں سے نہیں سمجھا جائے گا.اور مسلمانوں کو اس سے مقاطعہ کرنا ہو گا.اب تبوک کے واقعہ کو دیکھو جو قرآن میں تفصیل کے ساتھ بیان ہے اور دیکھو کہ احمدیوں میں سے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اتنی چھوٹی سی باتکو اتنا کیوں بڑھایا جارہا ہے اور ان کیساتھ بون چانا احمدیوں کیلئے جائز ہے اگر وہ احمدی کہلا سکتے ہیں اور ان کے ساتھ بولنا چاہنا جائز ہے تو پھر قرآن اورمحمد رسول اللہ نے تبوک کے موقعہ پر غلطی کی ہے جس وقت کہ مال چھوٹا ہی نہیں تھا بلکہ تھا ہی نہیں اور پھر وہ لوگ بتائیں کہ حضر عثمان کے وقت میں شرارت کرنیوالے لوگوں کو حقیر قرار دینے والے لوگ کیا بعد میں اسلام کو جوڑ سکے اگر وہ اس وقت منافقوں کا مقابلہ کرتے تو نہ ان کا کوئی نقصان تھا.اور نہ اسلام کا کوئی نقصان تھا.مگر اس وقت کی غفلت نے اسلام کو بھی تباہ کر دیا.اور انتحار سلام کو بھی برباد کر دیا.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد ۲۷۷/۵ شد چوہدری بشارت احمد صاحب ولد چوہدری محمد شریف صاحب چک نمبر ۸ ۹ شمالی سرگودیا شم نے یہ تحریری نے کہ میں نے یہ تحریر می اطلاع دی کہ اللہ ر کھا نے کہا ہے کہ میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو یہ لکھا ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی وفات ہوگئی تو ہم آپ کی بیعت کریں گے.مرزا ناصر احمد صاب
کی بعیت کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں.حضرت مصلح موعود کی طرف سے الفضل کے اسی پر چہ ہیں.یہ نئی شہادت بھی تھی اور حضور کا مندرجہ ذیل پیغام بھی کہ : ناصر احمد کے خلیفہ ہونے کا کوئی سوال نہیں خلیفے خدا بنایا کرتا ہے جب اس نے مجھے خلیفہ بنایا تھا تو جماعت کے بڑے بڑے آدمیوں کی گردنیں پکڑوا کہ میری بیعت کروادی تھی جن میں ایک میرے نانا.دو میرے ماموں ایک میری والدہ ایک میری نانی ایک میری تائی اور ایک میرے بڑے بھائی بھی شامل تھے.اگر خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ ناصر احمد خلیفہ ہو تو ایک میاں بشیر کیا ہزار میاں بشیر کو بھی اس کی بیعت کرنی پڑے گی.اور غلام رسول جیسے ہزاروں آدمیوں کے سروں پر جوتیاں مار کر خدا ان سے بیعت کروائی گا لیکن ایک خلیفہ کی زندگی میں کسی دوسرے خلیفہ کا خواہ وہ پسندیدہ ہو یا ناپسندید و نام لینا خلاف اسلام یا بے شرمی ہے صرف خلیفہ ہی اپنی زندگی میں دوسرے خلیفہ کو خلافت کے لیے نامزد کر سکتا ہے.جیسا کہ حضرت خلیفہ اول نے نشہ میں مجھے نامزد کیا تھا مگر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ بیماری سے بچ گئے اور خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے فیصلہ سے مجھے خلیفہ بنوایا اگر خدانخواستہ اس وقت خلیفہ اول فوت ہو جاتے تو ان کی اولاد بڑھارتی کہ یہ خلافت ہمارے باپ کی دی ہوئی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لعنت سے بچا لیا اور سورۃ نور کے حکم کے مطابق مجھے خود خلیفہ چنا اور بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ میں خدا تعالی کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق کہ میرے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا میں ایک دفعہ نہیں داد دفعہ اپنی خلافت کے زمانہ میں دمشق گیا ہوں اور اب میں دلیری سے کہہ سکتا ہوں کہ میں کسی انسان کی دی ہوئی خلافت پر خواہ وہ کتنا بڑا انسان کیوں نہ ہو لعنت بھیجتا ہوں یا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی تردید کرنی ہو گی جنہوں نے کہا کہ مسیح دمشق جائے گا یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تردید کرنی ہوگی جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ اس حدیث کے یہ معنے ہیں کہ میرے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا یا ریقیہ بیان ) اللہ رکھا کی اس بات کو سن کر کہ میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو لکھا ہے کہ ہم تو موجودہ خلیفہ کے مرنے پر آپ کی بیعت کریں گے.غلام رسول نمبر ۳۵ نے کہا.نہیں ہم تو میاں
۴۶ عبدالمنان صاحب عمر کی بیعت کریں گے.راگر عبد المنان بھی اس سازش میں شریک ہے تو تم یا درکھو کہ عبد المنان اور اس کی اولا د قیامت تک خلافت کو حاصل نہیں کرے گی خواہ کروڑوں غلام رسول ان کے لئے کوششیں کرتے ہوئے اور ان کے لئے دعائیں کرتے ہوئے مر جائیں اور اپنے پیر گھسا دیں اور اپنے ناک رگڑ دیں) پھر غلام رسول نے کہا کہ وہ دو سال کے بعد اتنی طاقت پکڑ جائے گا کہ ربوہ آکر ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر ربوہ سے نکال دے گا.دو سال کے بعد کی بات تو خدا ہی جانتا ہے.یہی بڑ عبد اللہ ابن ابی ابن سلول نے رسول اللہ کے خلات ماری تھی اور جب اس کا ہی بیٹا اس کے سامنے تلوار ہے کہ کھڑا ہو گیا.تو اس نے کہا کہ میں مدینہ کا سب سے ذلیل انسان ہوں اور محمد رسول اللہ طرینہ کے سب سے معز نہ انسان ہیں اس کا دعوی کرنا تو کذاب ہونے کی علامت ہے وہ اب ریوہ اگر دکھا دے بلکہ اپنے گاؤں جا کہ دکھا دے.مگر ایسی باتیں تو حیا دار لوگوں سے کہی جاتی ہیں.بلے جیالوگوں پر ایسی باتوں کا کیا اثر ہوتا ہے.وہ پھر یہی کہ دے گا کہ یہ طاقت تو مجھے دو سال کے بعد حاصل ہوگی.جیسا کہ مسیلمہ نے کہا تھا کہ اگر محمد رسول اللہ نے مجھے اپنے بعد وارث نہ بنا یا تو میری فوج حملہ کر کے مدینہ کو تباہ کر دے گی.اب وہ مسیلمہ خبیث کہاں ہے کہ ہم اس سے پوچھیں اور یا دو سال کے بعد غلام رسول بے دین کہاں ہو گا جو ہم اس سے پوچھیں گے) چوھدری بشارت احمد صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد حیات تاثیر نے جیدا اپنے آپ کو مرزا کہتا ہے یہ بھی کہا کہ اگر حمید ڈاڈھے سے خطوط کا جواب چاہتے ہو تو اس کو اس قسم کے خطوط لکھا کرو کہ میاں ناصر محمد کو مارنے اور میاں بشیر احمد کے متعلق جو سکیم تھی وہ کہاں تک کامیاب ہے.اس پر وہ فوراً تڑپ کر جواب دے گا (دیکھئے ان جیلوں کو جو ایک طرف تو اپنے خیال میں اپنی طاقت کے بڑھانے کے لئے میاں بشیر احمد کو خلافت کا لالچ دے رہے ہیں.دوسری طرف ان کے قتل کر نے کے منصوبے بھی کر ر ہے ہیں.کیا ایسے لوگ ایماندار یا انسان کہلا سکتے ہیں ؟ یہ خبیث اور ان کے ساتھی منافقوں کی طرح تھا میں کرتے رہیں گے.لیکن سوائے ناکامی اور نامرادی کے ان کو کچھ نصیب نہیں ہوگا یہ آسمان پر خدا تعالے کی تلوار کھیچ چکی ہے.اب ان لوگوں سے دوستی کا اظہار کرنے والے لوگ خواہ کسی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں اپنے آپ کو سچا کر دیکھیں.خدا تعالے
है ان کو دنیا کے ہر گوشہ میں پڑے گا اور ان کو ان کی بے ایمانی کی سزا دے گا ) مرزا محمود احمده ڈاکٹرشاہ نواز خان صاحب نے ۲۵ جولائی ۱۹۵۶ء کو حضور کی خدمت اقدس میں ایک خط لکھا جس پر حضور نے تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : -....میں صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ پسر موعود بھی ہوں.میرے ساتھ معاملات الہام کے مطابق ہوں گے نہ کہ تاریخ کے مطابق.گو ممکن ہے آپس میں تھوڑی بہت مشابہت باقی رہے.میرے دل میں بھی کبھی کبھی یہ خیال آتا رہا ہے کہ میری خلافت کے لمبا ہونے کی وجہ سے بعض بے دین نوجوان یہ خیال کریں کہ نہیں اور ہمارے خاندانوں کو اس شخص کی عمر کی لمبائی نے اس عہدہ سے محروم کر دیا.مگر میں جانتا ہوں کہ ان ادگوں کو آسمانی محنت تو ملے گی لیکن خدائی عزت نہیں ملے گی." اشتم مرز المحمود الحمد لله الفضل ۳۱ر بولانی ۹۵ صفحه اول پر حضرت مصلح موعود کے قلم مبارک سے حسب ذیل پیغام سپر د اشاعت ہو ا جس سے منافقوں کی مزید پردہ دری ہوئی.احباب جماعت احمدیہ ! السلام علیکم ورحمته الله و به کاندا آج ایک خدا میری بیوی اہم مشین کے نام آیا ہے جس کو لکھنے والا اپنے آپ کو عورت ظاہر کرتا ہے لیکن ربوہ کے لوگوں سے واقف ضرور ہے.کیوں کہ اس نے پتہ پر آپیا مریم صدیقہ وہر آیا، لکھا ہے.اس اپنے آپ کو عورت ظاہر کرنے والے مرد نے ہوں ائی اس ایڈ کے ور مباہلہ کے پرچہ کا ایک کٹنگ بھی بھیجا ہے خط لکھنے والے کا خط اتنا خراب ہے اور اس نے بگاڑ کر پینسل سے اس طرح لکھا ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے مباہلہ اختبار وہی ہے جو کسی زمانہ میں جھوٹے خط بنا کہ اپنے اخبار میں شائع کرتا رہتا له الفضل سور جولائی ۱۹۵۶ء صت
MA تھا اور ان خطوں پر لکھا ہوتا تھا کہ ایک معصوم عورت کا خط لیکن ہر خط گمنام ہوتا تھا اوراد پر لکھا ہوتا تھا نقل مطابق اصل کہ میں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے که گنام شخص سے مباہلہ کون کر سکتا ہے یہ فقرہ صرف اس لئے بڑھایا جانا تھا کہ احمق لوگ اس سے متاثرہ ہو جائیں اس بات کو نبی پر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی وہ کون سی عورت ہے جو ۷ سالہ پہلے مباہلہ کے کٹنگ کو محفوظ رکھے گی.صاف ظاہر ہے کہ وہ بدبخت جو مباہلہ والوں کی پارٹی میں شامل تھے یا تو انہوں نے یہ کٹنگ چھپا رکھے تھے کہ کسی وقت ان کو شائع کریں گے یا آج پھر مباہلہ والوں کے دوست مباہلہ والوں سے ان کے پرانے اخباروں کے کٹنگ سے کہ جماعت میں پھیلا ر ہے ہیں اس سے جماعت سمجھ سکتی ہے کہ موجودہ فتنہ کے پیچھے وہی پرانے سانپ ہیں.جنہوں نے ایک وقت احمدیت پر حملہ کیا تھا.ہمارے ایک دوست نے عراق سے لکھا تھا کہ مباہلہ کے پرچے پیغام بلڈنگ سے اشاعت کے لیے عراق بھیجے جاتے ہیں پس یہ ایک مزید ثبوت پیغامیوں کی شراکت کا ہے.ہمارے ایک دوست جو اس وقت آبادان کمپنی میں نوکر تھے اور بھیرہ کے رہنے والے ہیں.ان کا ایک لڑکا ایسٹ پاکستان میں نوکر ہوتا تھا.اُن سے یہ اطلاع ہم کو لی تھی.ان کے نام میں حمل کا لفظ بھی آتا ہے.اس وقت مجھے یہ نام بھول گی.اگر ان کویہ واقعہ یاد ہو تو ایک دفعہ مجھے پھر لکھیں جب ایک پیغامی لیڈر نے مجھے یہ کہا تھا کہ ہم نے کوئی ایسا پروپیگنڈا عراق میں نہیں کیا.تو ان کے ایک رشتہ دار نے یہ کہا تھا کہ یہ جھوٹ ہے میرے پاس اس پیغامی لیڈر نے ان الزامات کی تصدیق لکھ کر بھیجی ہے.یہ صاحب کسی وقت کراچی میں رہتے تھے." مرند امحمود احمد ۲۹/۷/۵۶ ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب نے نواب شاہ سندھ سے ۳۰ جولائی تم کو حسب ہم بیل مکتوب حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ارسال کیا.سیدی عرض ہے کہ عاجز دسمبر ۱۹۵۷ء کے قافلہ کے ساتھ جو کہ جلسہ سالانہ قادیان جانیوال لے یہ احمد گل صاحب پراچہ تھے : سہ روزنامہ الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۵۶ء صلہ سے آپ ۲۸ ستمبر ۱۹۸۸ء کو شہید کر دیئے گئے رالفضل حکیم اکتوبر ۱۹۸۹ ء صدا
۴۹ متا بندہ لاہور جو درحال بلڈنگ گیا.رات جو دعامل میں گزاری صبح نمازہ بنجر باجماعت پڑھنے کے بعد بیٹھے تھے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب آگئے اور پوچھا کہ جماعت ہو گئی ہے ؟ بتانے پیکہ جات ہو چکی ہے انہوں نے خود اکیلے ہی نماز پڑھ لی اور وہیں بیٹھ گئے اس جگہ مختلف علاقہ جات سے آئے ہوئے دوسرے احمدی احباب بھی بیٹھے تھے.مولوی عبد الوہاب صاحب کہنے لگے.ر جیسے کہ درس دیا جاتا ہے) کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیاوی ترقیات کے لئے دعا فرمائی.جیسے " وے اُن کو عمر و دولت لیکن حضرت خلیفہ اول نے اپنی اولاد کے لئے دنیا کے لئے دعا نہیں فرمائی بلکہ خدا کے سپرد کر دیا.اب دیکھیں کہ حضور کی اولا د دنیا کے پیچھے لگ گئی کہ پریشانیوں تکلیفوں میں مبتلا ہے.کیوں کہ دنیا کے پیچھے لگ کر انسان سکون قلب حاصل نہیں کر سکتا را غلباً اس میں حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کا بھی نام لیا تھا).اسی قسم کی اور باتیں بھی انہوں نے کہی تھیں جو کہ مشکوک ہونے کی وجہ سے درج کرنے سے قاصر ہوں لیکن تمام گفتگو کا ر معصوم تھا وہ وہی تھا جو کہ خاکسار نے اوپر درج کر دیا مندرجہ بالا مفہوم کے متعلق میں اپنے پالنے والے خدا کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہوں کہ وہ بالکل درست ہے اور اس سے ذرہ بھر شک نہیں الفاظ کم و زیادہ ہو سکتے ہیں لیکن مفہوم ہی نکلتا ہے جو عاجز نے اور تخریہ کہ دیا ہے لائے سید نا حضرت مصلح موعود نے اس خط پر مندرجہ ذیل پیغام احباب جماعت کے نام دیا." برادران - السلام علیکم ورحمته الله وبركاته حضرت خلیفہ اول کی ناخلف اولماداب حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بڑائی دینے کے لئے سازش پکڑ رہی ہے.چنانچہ ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب نواب شاہ سندھ جو میاں عبدالسلام صاحب مرحوم کے ساتھ زمین کے ٹھیکہ میں شریک رہے ہیں لکھتے ہیں کہ ه روزنامه الفضل ربوه و ر ا گست ۱۹۵۶ء صفحه ۴
200ء میں جو قافلہ قادیان گیا میں بھی اس میں شامل ہونے کے لئے لا ہو کہ آیا وہاں صبح کی نماز کے بعد میں میں میاں عبدالوہاب صاحب شریک نہیں ہوئے وہ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے لوگوں کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے اس طرح بولے جیسے درس دیتے ہیں اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا ملنے کی دعا کی تھی میں سے سکون قلب حاصل نہیں ہوتا لیکن حضرت خلیفہ اول نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا لعنت اللہ علی الکاذبین) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک الہامی دعا ہے جو وفات کے قریب ہوئی جس میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش باسله یعنی اے خدا میں اپنی ساری پونچی تیرے سپرد کرتا ہوں تو آگے اس میں کمی بیشی کرنے کا اختیار رکھتا ہے.حضرت خلیفہ اول کے متعلق تو کہیں ثابت نہیں کہ انہوں نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا تھا ان کی وصیت میں تو یہ لکھا ہے کہ میری اولاد کی تعلیم کا انتظام جماعت کرے اور میری لائبریری بیچ کران کا خروج پورا کیا جائے اس کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد پر ایک پلیہ خرچ کرنے کی جماعت کو نصیحت نہیں کی اور عملاً بھی حضرت خلیفہ اول کے خاندان پر جماعت کو اس سے بہت زیادہ شریح کرنا پڑا ہے جتنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اول او پر کرنا پڑا علاوہ ازیں میں ایک لاکھ چالیس ہزارہ کی زمین صدر انجمن حمدیہ کو اس وقت تک دے چکا ہوں اور اس کے علاوہ نہیں تیس ہزار پچھلے سالوں میں چندہ کے طور پر دیا ہے اور ایک لاکھ نہیں ہزارہ تحریک جدید میں دے چکا ہوں.ان رقیمتوں کو ملا لیا جائے تو جماعت نے جو رسم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام کے خاندان پہ خرچ کی ہے یہ رقم اس سے چالیس پچاس گئے زیادہ ہے اور پھر حضرت خلیفہ اول کی اولاد جب کہ دنیوی کاموں میں مشغول تھی اس وقت میں قرآن کریم کی تفسیریں لکھ لکھ جماعت کو دے رہا تھا.اور له منصب خلافت طبع اول منه برکات خلافت م۲۲ - تذکره طبع چهارم را
۵۱ رہا اکثر حصوں کی طباعت کا خرچ بھی اپنے پاس سے دے رہا تھا یہ وہ دنیا ہے جو نشہ اس با خلف بیٹے کے قول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے میٹیوں کے لئے مانگی تھی اور اولاد کو خدا کے سیر کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ حضرت خلیفہ اول کا خاندان جماعت کے روپے پر چلتا رہا اور دنیا کے کاموں میں مشغول رہا لیکن حضرت پر مسیح موعود علیہ السلام کا بڑا بیٹا جماعت سے ایک پیسہ لئے بغیر اس کے اندر قرآن کریم کے خزانے لٹاتا رہا.یہ فرق ہے آقا کی دعا کا اور غلام کی دعا گیا.جس کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ دنیا میں بہت سے تخت اترے پہ تیرا تخت سب سے اونچا رہا یا اور کسی کو خدا تعالیٰ نے کہا.کہ یہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رونا اور آپ کا شاگرد ہے“.اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا جَرِى اللهِ فِي مُلَلِ الْأَنْبِيَاء له اللَّه کا بہادر تمام نبیوں کے لباس میں.اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا دنیا میں ایک نذیہ آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا سے قبول کرے گا اور بڑے زور اور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ہے اور حبس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم سے لے کر آخر تک تمام انبیاء اس کی خبر دیتے آئے ہیں اس کی نظر تو اپنی کوتاہ تھی کہ اس نے اپنی اولاد کے لئے صرف دنیا کی دعا کی جس سے تسکین قلب حاصل نہیں ہوتی لیکن اس کا شاگرد ہیں کا منہ غلامی کا دعوی کرتے کرتے خشک ہوتا تھا اس بلند یا یہ کا تھا اور خدا تعالی کا ایسا مقرب تھا کہ اس نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا یہی وہ سازش ہے جو حضرت خلیفہ اول کی دفات پنجابیوں نے شروع کی تھی چنانچہ مرزا خدا بخش صاحب نے اپنی کتاب عسل مصفی ، میں لکھا تھا کہ بے مثل تھا وہ شاگرد ریعنی خلیفہ اول جو تقویٰ اور طہارت میں ، اپنے استاد یعنی مسیح موعود علیہ السلام سے جا رہ گیا راستہ العلی الکاذبین چنانچہ اس کے انعام میں پیغامیوں نے اسکو کر رکھ لیا اور اس کی کتاب عسل مصفح اخوب بکوائی اور گو اس نے عبد الوہاب کی طرح فوراً معافی مانگنی شروع کر دی مگر نفاق کیا سلہ الہام کے اصل الفاظ " آسمان سے کئی تخت اتر ے پر تیرا تخت سبب اوپر بچھایا گیا یا حقیقة الوحی" مراه طبع اول - تذکره طبع چهارم م۶۴۳ سے تذکره طبع چهارم ست الهام ۰۳ ۲۱۸ : که استنهار ایک غلطی کا از لو صر تذکرہ طبع چهارم تا بقیه :(
۵۲ کا معاف کرنا ایک خطر ناک غلطی ہوتی ہے چنانچہ باوجود اس کے کہ اس نے کتاب میں کچھ اصلاح کی میں نے اس کو معاف نہیں کیا.اور جماعت نے اس کی کتاب کو ماتھے نہیں لگایا.باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق کہا ع ہے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا اس حضرت خلیفہ اول کے جاہل بیٹے کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آیا کہ کر دور ہر اندھیرا ایک بڑی دینی دعا ہے اور سورۃ والناس کا خلاصہ ہے اور چاہیئے تھا کہ اس دعا کی وجہ سے میاں عبدالوہاب اور ان کے ساتھی اپنے انجام سے ڈر جاتے جس کی خبر اس دعا میں دی گئی تھی.ذیل میں کچھ اور دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شائع کی جاتی ہیں.ان کو پڑھ کر دوست دیکھ لیں کہ آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا مانگی ہے یا دین مانگا ہے اور میاں عبد الوہاب صاحب اپنے دعوی ہیں راستباز ہیں یا کذاب ؟ - سے کر ان کو نیک قسمت دے انکو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پر تیری رحمت دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یه روز که مبارک سبحان من یرانی تو ہے ہمارا مہر تیرا نہیں ہے ہمہر یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی شیطاں سے دور رکھیو.اپنے حضور رکھیں جہاں پر نہ نور رکھیو.دل پر سرور رکھیو ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیں یہ روز کر مبارک سبحان من پیرانی کر فضل سب پر کیسر رحمت سے کہ معطر یہ روز کر مبارک سبحان من بیرانی یہ تینوں تیرے بند سے رکھیو نہ ان کو گندے کے دوران سے یارب دنیا کے ساری مچھند سے چنگے ہیں ہمیشہ کہ یو نہ ان کو مندر سے یہ مرد نہ کر مبارک سبحان من میرانی یہ فضل کہ کہ ہوویں نیکو گہر یہ سارے یہ روز کر مبارک سبحان من بیرانی سه اصل عبارت " تاریخ دنیا میں ایسی نظیریں بہت کم ہی ملتی ہیں کہ کوئی جانشین اپنے پیشی متنوع کے برابر یا اس سے بڑھ کر ہوا ہو.مگر میں انسان کا ہم ذکر کرنے لگے ہیں وہ اپنی شخصیت میں این خصوصیت رکھتا ہے کہ با مبالغہ ہم کہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے پیشوا اپنے معتقدا سے بہت سی باتوں میں سبقت رکھتا ہے و معسل مصفی جلد دوم ۶۶۳ مطبوعه ۱۹۱۴ ، قادیان) بقیہ حاشیہ ماہ سے آگے
۵۳ اے میرے جان کے جانی اے شاہ دو جہانی کہ ایسی مہربانی ان کا نہ ہو وے ثانی و بخت جاودانی اور فیض آسمان یہ روز کر مبارک سبحان من بیرانی اسے واحد یگانہ اے خالق زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ تیرے میر د تینوں دین کے نشر بنانا یہ روز کر مبارک سبحان من پیرانی امیاں عبد الوہاب صاحب کے نزدیک یہ دنیا کی دعا ہے اور حضرت خلیفہ اول نے اپنی اولاد کے متعلق اس سے بالا دعا مانگی ہے.) و السلام خاکسار مرزا محمود احمد ۸/۵۶/ ه ه فت کے متعلقت ، کو ایک ہم رویا اس فتنہ کا ظہور بھی خلافت ثانیہ کی حقانیت کا ایک چپکتا نشان تھا.وجہ یہ کہ اس کے ظہور ساڑھے چھ سال قبل حضرت مصلح موعود کو بذریعہ رویا اس کی قبل از وقت خبر دے دی گئی تھی اور ۱۲۰ جون کو حضور نے احباب جماعت کے سامنے حسب ذیل الفاظ میں اسے پوری شرح وسط سے بیان بھی فرما دیا تھا کہ :- یں نے دیکھا کہ ایک اشتہار ہے جو کسی شخص نے لکھا ہے جو شخص مجھے خواب کے بعد یا د رہا ہے مگر میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اشتہار ہمارے کسی رشتہ دار نے دیا ہے.مگر اس کی رشتہ داری میری بیویوں کے ذریعہ سے ہے.اس اشتہار میں میرے بعض بچوں کے متعلق تعریقی الفاظ ہیں.اور ان کی بڑائی کا اس میں ذکر کیا گیا ہے میں رویا میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض ایک چالا کی ہے.در حقیقت اس کی عرض جماعت میں فتنہ پیدا کرنا ہے اگر کوئی غیر کی تعریف کرے تو مخاطب سمجھتا ہے کہ جماعت میں فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے.اور اس میں به روزنامه الفضل ریوه ور اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۴٫۳ نه....
۵۴ اس کو روکنے کی کوشش کرونگا.لیکن اگر میرے بعض بچوں کا نام لے کر ان کی تعریف کی جائے تو تعریف کرنے والا یہ سجھتا کہ اس طرح میری توجہ اس کے فتنہ کی طرف نہیں پھرے گی.اور میں یہ کہوں گا کہ اس میں تو میرے بیٹوں کی تعریف کی گئی ہے اس میں فتنہ کی کونسی بات ہے اسی نقطہ نگاہ سے اس نے اشتہار میں میرے بعض بیٹوں کی تعریف کی ہے لیکن رویا میں میں کہتا ہوں کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا.چاہے تم کتنے ہی چکر دے کہ بات کرو.ظاہر ہے کہ تم جماعت میں اس سے فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہو اور تمہاری عرض یہ ہے کہ میں بھی دنیا داروں ہوا کی طرح اپنے بیٹوں کی تعریف سن کر خوش ہو جاؤں گا اور اصل بات کی طرف میر می توجہ نہیں پھرے گی.پس رڈیا میں میں نے اس اشتہار پر اظہار نفرت کیا.اور میں نے کہا کہ میں اس قسم کی باتوں کو پسند نہیں کرتا.مجھے وہ بیٹے بھی معلوم ہیں جن کا نام لے کر اس نے تعریف کی ہے اور مجھے لکھنے والا بھی معلوم ہے.لیکن میں کسی کا نام نہیں لیتا.اس رڈیا سے کچھ عرصہ پہلے مجھے اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ ایک طبقہ جماعت میں اس قسم کی حرکات کر رہا ہے.گو خواب کے دنوں میں اس طرف کبھی خیال نہ گیا تھا.لیکن بعض واقعات سے قریباً سال بھر سے میرے اندر یہ احساس منھا کہ جوں جوں میری عمر نہ یاد ہ ہوتی جارہی ہے جماعت کا منافق طبقہ یہ سمجھنے لگا ہے.کہ اب تو ان کی زندگی کے تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں.آئندہ کے لئے ابھی سے اپنے قدم جانے کی کوشش کرو.گویا وہی پیغامیوں والا فتنہ جوس میں پیدا ہوا.اسی کو ایک اور رنگ میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور قرآن کریم سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جب کوئی بادشاہت بدلتی ہے نچلے طبقہ کے لئے ابھرنے کا موقعہ نکل آتا ہے.پس بعض لوگ جن کے اندر اخلاص نہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں اس پر کس وقت موت آجائے انہوں نے ابھی سے اپنے قدم جانے کی کوشش شروع کر دی ہے اور قریباً سال بھر سے مجھے یہ بات نظر آرہی محتی.مگر وہ تو قیاسی بات تھی.اب اللہ تعالیٰ نے رڈیا میں بھی مجھے بتایا ہے کہ بعض لوگ اس قسم کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ اپنا تعلق بتاکر اور اپنی صحت کا اظہار کرکے مختلف ناموں سے اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں جو جماعت میں فتنہ پیدا کر نیوالی ہیں.لیکن یہ ظاہر بات ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے اس لیے کہ اول تو خدا تعالیٰ کی طرف سے جب وہ یہ انت
دنیا میں آتی ہے وہ جب تک پوری طرح قائم نہ ہو جائے اس وقت تک اسے کوئی مٹا نہیں سکتا.ایک موٹا اصول ہے.جس کے خلاف دنیا میں کبھی نہیں ہوا.دوسرے خدا تعالیٰ نے مجھے حضرت سیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض میں شامل کیا ہے.اور گزشتہ انبیاء کی پیش گوئیاں اس بات کا ثبوت ہیں بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے.آپ نے جہاں یہ فرمایا ہے کہ لو كَانَ الإِيْمَانُ مُعلِقاً بالثريَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ هولاء بخاری کتاب التفسير سورہ جمعہ) وہاں آپ نے رجال کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے.جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ در حقیقت ایک سے زیادہ آدمی ہوں گے جن کے ہاتھ سے یہ پیشگوئی پوری ہوگی.اس لئے وہ میرے نام کو تبھی مٹا سکتے ہیں جب اس کے ساتھ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام بھی مٹا دیں.ایک غیر احمدی کے لئے تو یہ کیساں بات ہے وہ کہے گا ان کا نام بھی مٹ جائے.مگر کم سے کم جو ہماری جماعت میں داخل ہو.اسے یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام مٹ نہیں سکتا.اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام مٹ نہیں سکتا.تو اس قسم کا فتنہ میرے نام کے متعلق بھی پیدا نہیں کیا جا سکتا.بہر حال یہ ایک اہم رڈیا ہے جو جماعت سے بہت زیادہ تعلق رکھتی ہے اس یہ ایک نہایت پر اصرار اور حقیقت افروز خواب تھی جس کے لفظ لفظ پر شہر کے واقعات نے مہر تصدیق ثبت کردی.میاں عبدالوہاب صاحب نے اللہ رکھا کے ذریعہ پر ویگنڈا کی جو مہم چلائی اسے علم متغیر کے مطابق اشتہار دینا ہی کہا جائے گا.اس مہم میں کہا گیا کہ چو ہدری لطف الله خالصاحب یا مرزا بشیر احمد صاحب کو خلیفہ بنا دیا جائے.اور حضور کے ایک خواب مطبوعہ الفضل ٢٢ مئی ۱۹۳ ، صفحہ میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خالصاحب کے متعلق بنایا گیا کہ دہ روحانی طور پر آپ کے بیٹے ہیں اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مصلح موعود کے چھوٹے بھائی تھے اور چھوٹا بھائی بھی بیٹے کے برابر سمجھا جاتا ہے.خواب کے اس فقرہ کی تشریح میں کہ اس کی رشتہ داری میری بیویوں کے ذریعہ سے ہے مولوی عبد الرحمن صاحب انور کرا ٹویٹ سیکر ٹی نے پر وفیسر مرزا منظور احمد صاحب ایم.ایں.سی.لیکچرار گورنمنٹ کالج ابیٹ آباد کا ایک اہم بیان شائع کیا جو پڑھنے کے لائق ہے یہ بیان ۲۷ جولائی ۱۹۵۶ء کو مرزا عبدالله جان ماله الفضل ۱۲ جولائی ۱۱۹۵۰ ۲۰
۵۶ صاحب سینٹر سب زج ایبٹ آباد کا مصدقہ متھا یہ سائی تحرک اور اس کے بولنا نتا ئج سے سبق حاصل کرنے کی تحریک سیدنا حضرت مصلح موعود نے جماعت کو فتنہ رمنافقین سے آگاہ کرنے کے بعد ۲۰ جولائی 10 کو تحریک فرمائی.کہ وہ حضرت عثمان کے خلاف اٹھنے والی عبد اللہ بن سباء کی تحریک، اس کی شورشوں اور اس کے ہولناک نتائج سے سبق حاصل کریں.چنانچہ حضور نے خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا :- تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن پھر بھی ان واقعات کو ہم نظر اندازہ نہیں کر سکتے.حضرت عثمان منہ کے زمانہ میں لوگوں سے یہی غلطی ہوئی کہ بعض صحابہ نے سمجھ لیا کہ پونی ایک معمولی سا ختنہ ہے اس کا کیا مقابلہ کرنا ہے جب حضرت عثمان پر تلوار اٹھائی گئی تو آپ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ کمبخت.میں تو اسی سال کا بڑھا ہوں میں نے ایک دن مرنا ہی تھا لیکن اب جو تم مجھ تلوار اٹھا رہے ہو تو یاد رکھو میرے قتل کے بعد قیامت تک مسلمان ان دو انگلیوں کی طرح پھٹے رہیں گے.اور وہ کبھی اکھتے نہیں ہوں گے تمہارے اتحاد کا واحد ذریعہ یہ تھا کہ تم خلافت کو مضبوطی کیساتھ پکڑے رہتے.میں نے تو مرجا نا تھا اسی سال میری عمر ہو چکی تھی اب میں اور کفتا زندہ رہتا.مگرمیرے قتل کے بعد تم کبھی اتحاد سے نہیں رہو گے چنا نچہ دیکھ لو حضرت عثمان کو قتل کرنے والے زیادہ تو حضرت علی سے اپنا تعلق جتاتے تھے مگر حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی نے ان سے کیا سکھ پایا پہلے جنگ جمل ہوئی جس میں ہزاروں مسلمان مارے گئے.پھر معادیہ نے حملہ کر دیا اور پھر وہی لوگ جو حضرت عثمان کے قتل کے بعد حضرت علی کے ساتھ جا ملے تھے اپنی میں سے ایک جماعت حضرت عسل لہ سے الگ ہو گئی اور اس نے حضرت علی کو کافر کہنا شروع کر دیا تا مرحضرت ملی نہ نے ان پر تلوار اٹھائی اور ایک ہی دن میں دس ہزار خارجی قتل کر کے رکھ دیا وہ لوگ جنہوں نے عثمان کو علی کے نام سے مارا تھا انہوں نے پھر عملی " کے خلاف بغاوت کردی اور آخر لله الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۵۰۴
حضرت علی نہ بھی اپنی کے ہا تھوں شہید ہو گئے اس کے بعد یہ اختلاف بڑھنا گیا اور مسلمان کبھی ایک ہاتھ پر جمع نہ ہوئے.اب تیرہ سو سال کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو پھر ایک ہاتھ پر جمع کیا جائے اور ان کے اندر اتحاد اور کیمیتی پیدا کی جائے ** " گر اب پھر بعض خبیث اور بد باطن چاہتے ہیں کہ اس اتحاد کو توڑ دیں اور جماعت میں افتراق اور انتشار پیدا کر دیں.مگر ان کی ان کارروائیوں کا سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ اللہ تعالی کی لعنت ان پر یہ سے گی خدا تعالیٰ کے نزدیک سلسلہ کا اتحاد دس ہزار نور الدین سے بھی زیادہ قیمتی ہے اور گدھے ہیں وہ جو ان کا نام لے کر فتنہ پھیلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ خلیفہ اول تھے.اگر وہ خلیفہ اول تھے تو نظام سلسلہ کے قائم کرنے کے لئے.نہ کہ اس کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اگر کوئی شخص ان کا نام لے کر اس نظام کو توڑتا ہے تو وہ خود نور الدین پر قاتلانہ حمد کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے اسے نور الدین ہرگز بچا نہیں سکے گا.خدا تعالیٰ ان سے کہے گا کہ میں نے تجھے اس لئے عزت نہیں دی کہ تیرا نام لے کر یہ لوگ میرے سلسلہ اور نظام پر حملہ کریں..........بے شک بہانے بنانے والے ہزاروں بہانے بنائیں گے مگر جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے.ولات حین مناص اب ان کے بہانے ختم ہو چکے ہیں اور ان کے لئے بھاگنے کا کوئی رستہ باقی نہیں رہا.سلسلہ کی خدمت کا اب ایک ہی طریق ہے کہ وہ خلافت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے یکھیں اگر وہ اپنی خفتہ پہ دانیوں سے باز نہیں آئیں گے تو ایک نورالدین کیا نوح اور موسی اور عیلی بھی مل کہ انہیں خدا کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے بلکہ دیکھ لو خود سادات میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دین میں تفرقہ انداز می کرتے اور خدا تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں.مگر کیا اس لئے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل میں سے ہیں ان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جب مخالفین کو مباہلہ کے لئے چیلنج دیئے تو ان میں کئی سادات سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے پس محض کسی بڑے آدمی کی نسل میں سے ہونا اسے خدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا.میں نے دیکھا ہے کہ کئی احمقوں ص:۳۹
۵۸ نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کی اولاد کو ایسا کیوں کہا جاتا ہے میں ان سے کہتا ہوں کہ کیا تم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ادھر تو لکھتے ہیں کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں اور ادھر آپ کی اولاد کو مباہلہ کا چیلنچ دیتے ہیں یہ مباہلہ کا بیلیم آپ نے اس لئے دیا کہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اسلام اور مسلمانوں کی تنظیم اور ان کی تقویت کے لئے کھڑے ہوئے تھے اگر آپ کی اولاد میں سے کوئی شخص اس تنظیم کو توڑنا چاہتا ہے تو وہ ہرگز کسی ہمدردی کا ستحق نہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام الله تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے دوبارہ احباء اور مسلمانوں کی تنظیم اور اُن کے اتحاد کے لئے سبوت ہوئے تھے اور یہی ایک قیمتی یادگار ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے اگر تم اس اتحاد کو توڑنے لگے تو تمہاری خدا تعالیٰ کو کیا پرواہ ہو سکتی ہے احمدیت نے دنیا میں پھیل کر رہنا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے تین سو سال میں احمدیت ساری دنیا میں پھیل جائے گی.لیکن اگر احمدیت کی تنظیم ٹوٹ جائے تو تین سو سال چھوڑ کیا تین ہزار سال میں بھی احمدیت غالب آسکتی ہے ؟ کیا تین لاکھ سال میں بھی احمدیت غالب آ سکتی ہے ؟ حمدیت کی تنظیم ٹوٹ جائے تو چند دنوں میں ہیں احمدیت ختم ہو جائے گی اور عیسائی مصنف اپنی کتابوں میں لکھیں گے کہ قادیان میں (نعوذ باللہ) ایک کذاب پیدا ہو ا تھا جو بڑے بڑے دعوے سے کر کھڑا ہوا مگر تھوڑے دنوں میں ہی اس کا بیڑا غرق ہو گیا.اور اس کی جماعت کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا یہ بد نیست نے ایسے ہی لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نے انہیں دنوں بتایا کہ :." حب ناریان پر مہندوؤں نے حملہ کیا تھا یہ اس وقت پہنچیں مار رہے تھے اور پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ خلیفہ کی ڈبائی ہے ہمیں یہاں سے جلد نکالو اب یہاں امن سے لیس گئے تو وہی لوگ اس خلیفہ کے خلاف ہو گئے وہ یہ بھول گئے کہ میں ان میں سے ایک ایک آدمی کو لاریوں میں بٹھا کر ہنڈوں سے بجالایا تھا اور ان میں سے کسی کو میں نے پیدل نہیں پہلے دیا تھا.بلکہ میں نے حکم دے دیا تھا کہ کوئی شخص پیدل چل کر نہ آئے چنانچہ جن لوگوں نے میری بات مان لی وہ لاریوں میں مجھ کہ لاہور پہنچ گئے اور جنہوں نے میری بات
۵۹ چاہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو ناکام ونامراد کیا جائے کیا ایسے جینوں کا ہم ادب کریں گے یا ان کا مقابلہ کریں گے ہم نے ان کے باپ کو اس لئے مانا تھا کہ وہ مسیح موعود کا غلام تھا اگر وہ مرزا صاحب کے غلام نہ ہوتے اور اگر مرزا صاحب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام نہ ہوتے تو ہم نہ نورالدین کو مانتے اور نہ سیح موعود کو مانتے.نور الدین کو ہم نے اس لئے مانا کہ وہ مسیح موعود کا غلام تھا اور مسیح موعود کو ہم نے اس لئے مانا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا اگر اس زنجیر کو توڑ دو تو پھر ایمان لانے کا کوئی سوال ہیں باقی نہیں رہتا خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اگر میری وحی قرآن کے خلاف ہو تو میں اسے بھوک کی طرح پھینک دوں نے ر آئینہ کمالات اسلام" صفحه ۲۱) پس آپ نے جب اپنی وحی کے متعلق یہ الفاظ لکھ دیئے تو اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ محض کسی بڑے آدمی کی طرف منسوب ہونا کوئی حقیقت نہیں رکھتا اصل بات جو دیکھنے والی ہوتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ بڑا آدمی میں راستہ پر چلا تھا آباد ہی راستہ چھوٹے نے بھی اختیار کیا ہے یا نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی دیکھ لو آپ ایک طرف تو یہ لکھتے ہیں کہ خدا کی قسم مجھے اپنی وحی کی صداقت اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر ویسا ہی یقین ہے جیسے قرآن کی مقت اللہ ! پر یقین ہے مگر دوسری طرف آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر میر می دمی قرآن کے خلاف ہو تو اسے بھوک کی طرح پھینک دوں اسی طرح اگر کسی بڑے آدمی کی اولاد مسیح موعود کے مشن کو توڑنا چاہیے یا (بقیہ حاشیہ مفردہ سے آگے) نہیں مانی ان میں سے اکثر فتح گڑھ چوڑیاں اور بقالہ کے پاس قتل کر دیئے گئے پھر لاہور میں میں نے اُن کے کھانے اور رہنے کا انتظام کیا اس کے بعد ربوہ کی زمین خریدی اور انہیں یہاں سے آیا پہلے انہیں کچھ مکانات بنا کر دیئے گئے پھر پختہ مکانات بنائے گئے.اور ربوہ کو شہر کی حیثیت حاصل ہو گئی جب یہ سب کچھ ہوگیا اور انہیں امن میسر آ گیا تو ان میں سے بعض منافق میرے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں.د روزنامه الفضل ربوه ، اور جولائی ۹۵۶ ارمت
مسیح موعود کی اولاد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کو توڑنا چاہے تو ہم بغیر ڈر کے اس پر لعنت کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ یہ بد بجنت میں درخت کے سائے میں بیٹھا ہوا ہے اسی درخت کی جڑ پر تبر رکھنا چاہتا ہے اور اسے کاٹ کر پھینک دینا چاہتا ہے میں سمجھتا ہوں اگر یہ خبیث کامیاب ہو جائیں تو کسی کو کوئی فائدہ ہویانہ ہو مرنہ صاحب نعوذ باللہ ضرور کذاب ثابت اور دنیا کہے گی کہ ہی مشن کے لئے وہ کھڑے ہوئے تھے اس میں وہ نا کام ہو گئے پس نہیں کم از کم تین سو سال تک تو اکٹھا رہنا ہے تاکہ ہم عیسائیت کا مقابلہ کر سکیں اور اسلام کو دنیا کے کو نہ کو نہ ہیں پھیلا سکیں.ہم حضرت خلیفہ اول کا بڑا ادب کرتے ہیں مگر یہ لوگ بتائیں تو سہی کہ وہ کون سے ملک ہیں جن میں مولوی نور الدین صاحب نے اسلام کی تبلیغ کی یورپ.امریکہ.افریقہ اور ایشیامیں وہ کوئی ایک ملک ہی دکھا دیں جس میں انہوں نے اسلام پھیلایا ہو سر ملک میں میں نے مبلغ سمجھوائے یورپ کی ہر مسجد میں نے بنوائی اور بیرونی ممالک میں ہر مشن میں نے قائم کیا.اگر اس کو ہٹا دیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعویٰ میں بالکل ناکام ثابت ہوتے ہیں پس میری موت اور میری ناکامی میری موت اور میری ناکامی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی موت اور نا کامی ہے کیا میاں عبدالوہاب صاحب کا خطا اور اس کا حقیقت افروز جواب حضرت مصلح موعود کے باطل شکن پیغام کے منظر عام پر آنے سے اگر چہ میاں عبدالوہاب صاحب کے ساتھیوں میں زبر دست کھیل بچ گئی.مگر وہ خود اسی خوش فہمی میں مبتلا رہے.کہ انہیں اب بھی سید نا حضرت خلیفہ اول کی اولاد ہونے کے باعث کھل چھٹی دے دی جائے گی.اور ان کی باغیانہ سرگرمیوں پر بدستور پر وہ پڑا رہے گا.اسی خیال کے ماتحت اُنہوں نے حضرت مصلح موعود کے حضور یہ عرضداشت پیش کی.کمر : - ر نہایت ہی پیارے آقا ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبیر کا انڈ الفضل میں اللہ رکھا کے منغلقی ایک مضمون پڑھا.اس سلسلہ میں بد قسمتی سے میرا نام بھی آگیا ہے ا روزنامه الفضل ، راگست ۱۱۹۵۶ صفحه ۵٫۳
- اور حضور نے عاجزہ پر اظہار ناراضگی بھی فرمایا ہے جس سے صدمہ ہوا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اس سلسلہ میں ایک میٹی بذریعہ عام ڈاک ندمت عالی میں بھیج چکا ہوں معاملہ کی نزاکت کے پیش نظر اس کی نقل بذریعہ رہبری بھیج رہا ہوں.اس سلسلہ میں ایک صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ میں خاموش ہو جاتا اور اس معاملہ کو خدا تعالے کے سپرد کر دیا.مگر چونکہ آپ میرے پیار سے امام اور آتا ہیں اور مجھے آپ سے بچپن سے دلی آتش رہا ہے یقین رکھتا ہوں کہ آپ بھی اس تعلق کو جانتے ہیں.اس لئے اللہ رکھا کے نام اس خط کی حقیقت خدمت عالی میں لکھتا ہوں.اللہ رکھا کے نام یہ خط غالباً حضرت اماں جی کی تعربیت کے جواب میں لکھا گیا ہے.اللہ رکھا حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی زندگی میں قادیان آیا تھا اور دار الشیوخ میں ملازم تھا بعض دفعہ اماں جی کے گھر کا کام بھی کرتا اور اماں جی اس کو روٹی بھی دیا کرتی تھیں.جس طرح سب احمدیوں کے ساتھ ان کا بیٹوں جیسا سلوک تھا، اللہ رکھا کے ساتھ بھی تھا.یہ کبھی بیمار ہوتا تو میں اس کا علاج بھی کرتا.اگر آپ الفضل میں مضمون لکھنے سے پہلے اور میرا ذکر کرنے سے پہلے مجھ سے دریافت کر لیتے تو شاید اس قدر غلط فہمی پیدا نہ ہوتی.میرے علم میں اللہ رکھا کو قادیان میں حماقتوں کی معافی مل چکی تھی.اس لئے تعزیت کے خط کا جواب دیتے وقت قطعاً میرے ذہن میں نہیں آسکتا تھا کہ اس کو خط کا جواب نہ کھنا چاہیئے ماشا و کلا میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ نہیں آیا کہ میں کسی ایسے شخص کو خط لکھ رہا ہوں جو حضور کا بدخواہ ہے.اللہ رکھا کے متعلق کو ہاٹ کی جماعت نے جو بات کہی ہے وہ تو بہت بعد کی ہے نہ میں نے یہ بات اس سے گنی نہ مجھے علم تھا کہ آپ کے خیالات اس کے متعلق یہ ہیں.میں سمجھتا ہوں اللہ ریکھانے میرے خط کا ناجائز استعمال کیا ہے." ہمارا تو فرض ہے کہ آپ کو خوش رکھیں خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ آپ بیمار بھی ہیں.ایسے حالات میں نادانستہ میرا ایک خط آپ کے لئے تکلیف کا باعث بنا جس سے طبعا مجھے بھی اذیت پہنچی.میں نے پچپن میں فیصلہ کیا تھا کہ اپنی قسمت آپ کے ساتھ وابستہ رکھوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے علاوہ حضرت خلیفہ اول کا منشاء بھی یہ تھا کہ ان کے بعد آپ جماعت کے امام ہوں.
میں ان سے زیادہ عالم ہوں نہ عارف دینی نہ دنیوی نقطۂ نگاہ سے کوئی بات میرے ذہن میں آہی نہیں سکتی.آپ کے ہاتھ سے ساری عمر میٹھی قاشیں کھا میں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ ایک کڑوی قاش کھانے سے انکار کروں آپ کی پہلی مہربانیوں کو بھی انعام ہی سمجھتا رہا ہوں اور آپ کی اس تحریر کو بھی انعام ہی سمجھیوں گیا شائد اس سے نفس کے گناہوں کی تلافی ہو جائے.شکر گزار ہوں گا اگر حضور میری یہ تحریہ شائع کر دیں.دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ مجھے تا موت خلافت کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق دے.آپ کا عبد الوہاب عمر الله حضرت مصلح موعود نے یہ پورا خط الفضل ۱۳۰ جولائی است شاہ کے صفحہ اول پر شائع کرا دیا اور پھر حسب ذیل جواب رقم فرمایا : - دو میاں عبد الوہاب صاحب ! آپ کا خط ملا.ساری بجیش الفضل میں آرہی ہیں.مجھے آپ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی.میوں احمدیوں کی حلفیہ شہادتیں جو عنقریب شائع ہو جائیں گی ان کے بعد پوچھنے کا سوال نہیں رہتا.خصوصاً جب کہ ۱۹۲۶ء میں مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں نے آپ کا اور آپ کے ایک مولوی دوست کا خط پکڑ کر مجھے بھجوا دیا تھا.جوزاہد کے نام تھا اور جس میں لکھا ہوا تھا.کہ تمہاری مخالفت مرزا محمود سے ہے.ان کے متعلق جو چاہو مقابلہ میں لکھو.مگر ہمارے اور ہمارے دوستوں کے متعلق کچھ نہ لکھو.اور اس خط کے ساتھ ایک اور شخص کا خط بھی تھا.جو آپ کے ایک دوست نے ایک عورت کے نام لکھا تھا.اور میں کے واپس لینے کے لئے آپ اور وہ مولوی صاحب مقبرہ بہشتی جانے والی سڑک پر پیپل کے درخت کے نیچے کھڑے ہوئے ایک لڑکے کے ذریعے سے زاہد سے خط وکتابت کر رہے تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ لڑکا مخلص احمد میں ہے.وہ لڑکا وہ خط لے کر سیدھا میرے پاس پہنچا.جس میں آپ دونوں اور میرے دوست کے خطوط بھی تھے اور زاہد کا وعدہ بھی تھا کہ اس دوست کو ہم بدنام نہیں کریں گے.اب ان واقعات کے بعد جب کہ میں نے حضرت خلیفہ اول کی محبت کی وجہ سے اتنی مدت چھپانے له الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ء صدا کالم ۲
۶۳ رکھا بجھے تحقیق کی کیا ضرورت تھی.اس کے علاوہ اور بھی ثبوت ہیں جو منصہ ظہور پر آجائیں گے قادیان کی باتیں قادیان کے ساتھ ختم نہیں ہو گئیں.کھار پر آپہنچی ہیں.کچھ پہنچ جائیں گی لاہور کی باتیں تو مزید بر آں ہیں.آپ جو کام کر رہے ہیں.اگر خلیفہ اول زندہ ہوتے.تو اس سے بھی بڑھ کہ آپ سے سلوک کرتے ہو میں کر رہا ہوں.ان کی تو یہ کہتے ہوئے وہ زبان خشک ہوتی تھی.کہ میاں میں تمہارا عاشق ہوں..اور میں مرزا صاحب کا ادنی خادم ہوں کہ جب وہ آپ لوگوں کی یہ کاروائیاں دیکھتے تو اس کے سوا کیا کر سکتے تھے.کہ آپ پر ابدی لعنت ڈالتے.آخر وہ ایک نیک انسان تھے.کیا ان کو نظر نہیں آتا تھا.اور اب پرانے ریکارڈ دیکھ کر جماعت کو نظر نہیں آئے گا.کہ جب ان کے لئے غیرت دکھانے والے اپنی ماؤں کے گھٹنوں کے ساتھ لگے ہوئے ریں ریں کر رہے تھے.اس وقت میں ہیا تھا.جو تن من دھن کے ساتھ غیر مبائعین کے ساتھ انکی خاطر لڑ رہا تھا.جنہوں نے ان کی زندگی میں ہی ظاہر اور پوشیدہ ان کی مخالفت شروع کر دی تھی.اور جیسا کہ حوالوں سے ثابت ہے کہ کہتے تھے کہ مولوی صاحب سترے بہترے ہو گئے ہیں.اب ان کی عقل ماری گئی ہے.اب ان کو معزول کر دینا چاہیے یہ سب باتیں نیز صاحب مرحوم نے سنہیں جب کہ پیغامی مقبرہ بہشتی میں گئے ہوئے تھے.نیز صاحب نوت ہو چکے ہیں.لیکن اور کئی لوگ زندہ ہیں.اور اس زمانے کے لٹریچر میں بھی کہیں کہیں یہ حوالے مل جاتے ہیں مجھے تو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی بتا رہا تھا.جیسا کہ الفضل میں وہ خواب چھپ چکی ہے کہ حضرت مسیح موعود کی حفاظت کے لئے میرے بچوں کو اپنی جانیں دینی پڑیں گی.میرے لئے اس.ے لئے اس سے بڑھ کہ کوئی سعادت نہیں ہو سکتی.خواہ یہ جانیں دینا لفظی ہو یا معنوی مجھے حضرت مسیح موعود کے الہام نے اسمعیل قرار دیا ہے.اور بائیبل میں لکھا ہے کہ اس کے بھائیوں کی تلوار اس کے مقابلہ میں کھینچی رہے گی.پہلے اسمعیل کا تو مجھے معلوم نہیں لیکن میں اپنے متعلق جانتا ہوں.کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کا سوال پیدا ہوا.جیسا کہ لاہوریوں کے کیس میں ہوا تھا.تو میری تلوار بھی تمام دنیا کے مقابلہ میں کھینچی رہے گی.اور عزیز ترین وجودوں کو بھی معنوی طور پر کڑے ٹکڑے کرنے میں دریغ نہیں کروں گا.کیونکہ ظاہری تلوار چلانے سے ہم کو اور حضرت مسیح موعود کو روکا گیا ہے اور نہیں بہت رت تعلیم دے گئی ہے خواہ تمہیں کتنی ہی تکلیف دی جائے.کسی دشمن کا جسمانی مقابلہ نہ کرنا.ہاں دعاؤں اور تدبیروں سے
ان کے گند ظاہر کرنے کی جتنی کوشش کر سکتے ہو کر د مجھے تو خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ کارروائیاں کروائیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا نھیں کو حضرت اماں جان نہیں کبھی تھیں اور گھبرا گئی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھ کر ان کے ہاتھ حضرت خلیفا ول کے پاس بھجوایا تھا.اور حضرت خلیفہ اول نے ان کو تسلی دی تھی کہ یہ الہام آپ کے لئے برا نہیں ہے.اس الہام کا مضمون یہ متھا.کہ جب تک حضرت خلیفہ المسیح الاول اور ان کی بیوی زندہ رہیں گے.ان کی اولاد سے نیک سلوک کیا جاتا رہے گا.لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ ان کو ایسا پڑے گا.کہ ان سے پہلے کسی کو نہیں پکڑا ہو گا.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ پچھلے ۴۲ سال میں ہزاروں موقعے آپ کو مخالفت کے ملے لیکن اماں جی کی وفات تک کبھی بھی ننگے ہو کر آپ کو مقابلہ کرنے کا موقعہ نہیں ملا لیکن چونتی دہ فوت ہوئیں خدائی الہام پورا ہونے لگ گیا.اور اگر خدا کی مشیت ہوئی تو اور بھی پورا ہوگا.آپ نے لکھا ہے.کہ آپ کے ہاتھوں ساری میٹھی میٹھی قاشیں کھائی ہیں.ایک کڑوی بھی سہی.مگراب چونکہ مسیح موعود کے کلام اور سلسلہ احمدیہ کی حفاظت اور وقار کا سوال تھا.مجھے بھی جواب دینا پڑا اگر وہ کڑوا لگتا ہے.تو اپنے آپ کو طاعت کریں یا موت کے بعد حضرت خلیفہ اول کی زبان سے علامت سن لیں کہ میاں عبدالوہاب صاحب کا خط جو انہوں نے اللہ رکھا کے نام لکھا تھا شائع کیا جاتا ہے برادرم - وعلیکم السلام درحمة الله و برکاته گرامی نامه مشتمل بر تعزیت ملا.جزاکم الله واحسن الجزاء - آپ کے ساتھ تو ہم لوگوں کا بھائیوں کا تعلق ہے.اس لئے آپ کو صدمہ لازمی تھا.اس قسم کے حادثات زندگی کی بنیادوں کو ہلا دینے والے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنی خاص مدد کرے آپ کا خط بہت تسلی آمیز ہے.آپ بعافیت ہوں گے کوہ مری ضرور دیکھئے.آپ کا بھائی عبدالواب ۱۳۵۶ اس خط کی عبارت سے ظاہر ہے کہ اصل عرض کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے.کیونکہ یہ خط ۱۳ اپریل ۱۹۵۶ء کا ہے اور اماں جی جولائی یا آخر اگست کے شروع میں فوت ہوئیں.اس بات کو اه امان جی 4 اور اگست ء کی درمیانی رات کو فوت ہوئی تھیں.(ادارہ)
۶۵ کون مان سکتا ہے کہ اللہ رکھا جیسا زنبیل آدمی جس کے سپرد کوئی اہم کام نہیں سوائے اس کے کہ بعض گھرانوں میں چپڑاسی یا باور چا کا کام کرتا ہے اس نے باوجود اس عشق و محبت کے جو اسے حضرت خلیفہ اول کے خاندان سے معنی اماں جی جو جولائی یا اگست میں فوت ہوئی نھیں ان کی تعزیت کا خط مولوی عبد الوہاب کو مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں لکھا اور مولوی عبدالوہاب صاحب نے اس کا جواب ۱۳ اپریل کو دیا اور تعزیت کے مضمون سے بالکل بے تعلق خط کے آخر میں یہ بھی لکھ گئے کہ کوہ مری ضرور دیکھئے.احباب کو معلوم ہے کہ ۱۲۲ اپریل کو میں مری آیا تھا لیکن اس سے پہلے دس یا گیارہ اپریل کو میں نے.کو کو بھی تلاش کرنے کے لئے مری بھیجا تھا اور اس نے بارہ اپریل کے قریب ربوہ پہنچ کر کو بھٹی اطلاع دی تھی جسے ہم نے پسند کر لیا تھا اور.....میاں عبدالمنان کا یار غار ہے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے سُن کر اپنے بھائی کو اطلاع دے دی کہ خلیفہ مسیح مری جانے والے ہیں اور عبد الوہاب کو فوراً یاد آ گیا کہ نو مہینے پہلے آئے ہوئے تعزیت کے خط کا جواب اللہ رکھا کو فوراً دینا چاہیئے اور یہ بات بھی اُن کے دماغ میں آگئی کہ یہ بھی لکھ دیا جائے کہ کوہ مری ضرور دیکھئے کیونکہ اس وقت میرے مری آنے کا فیصلہ ہوگیا تھا اور پہاڑوں پر چونکہ عام طور پر صحت کے لئے لوگ باہر جاتے ہیں اور پیرہ کا انتظام پورا نہیں ہو سکتا اس لئے اللہ رکھا کو تعزیت کے خط کے جواب میں تاکید کردی کہ کوہ مری ضرور دیکھنے اتنے مہینوں کے بعد تعربیت کا جواب دینا اور اس وقت دینا جب کہ میرے مری جانے کا فیصلہ ہو چکا تھا.خط کے آخر میں یہ بے جوڑ نقرہ لکھ دینا ایک عجیب اتفاق ہے جس کے معنے ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے.اوّل تو تعزیت کے جواب میں مرمی دیکھنے کا ذکر ہی عجیب ہے پھر ضرور" اور بھی عجیب ہے اور پھر اس وقت یہ تحریک جب میں مری آرہا تھا اور بھی زیادہ عجیب ہے.مرز امحمود احمد له " سه روزنامه الفضل ربوه ۱۲۰ جولائی ۱۹۵۶ ۶ ص۳۲
۶۶ جناب صاحبزادہ عبدالواسع عمر صاحب کی اسیدنا حضرت خلیفہ ایسی الاول کے پوتے اور المسیح ا بزرگان سلسلہ سے خط و کتابت اور ملاقات مولوی عبد السلام صاحب عمر مرحوم کے بڑے صاحبزادے میاں عبدالواسع صاحب عمرا اپنے سب بھائیوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور اچھی گہری طبیعت کے مالک تھے.آپنے حضرت مصلح موعود کے ابتدائی پیغامات پڑھ کر ۲۰ جولائی تہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کو الگ الگ مکتوبات لکھے جن میں اپنے چچا میاں عبدالوہاب صاحب ر " عمر کی بریت پر زور دیا.بعد ازاں ۳ اگست شراء کو خود ربوہ تشریف لائے اور صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے ساتھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں پہنچے.صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے کہا کہ انہیں میں نے بھی سمجھایا ہے.آپ بھی سمجھائیے تا شاید مولوی عبد السلام صاحب عمر کی اولاد ہی بچ جائے حضرت میاں صاحب نے انہیں کسی پیار اور محبت سے سمجھانے کی کوشش فرمائی اس کی تفصیل آپ کے ہی قلم سے درج کی جاتی ہے.جب میں نے عبدالواسع سے بات کی رہیں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ اس کا خط میر سے پاس پہنچ چکا ہے) تو اس نے اپنے چچا عبد الوہاب کی طرف سے بریت شروع کر دی.میں نے اسے کہا کہ پورے علم کے بغیر تمہارا اپنے چچاؤں کی طرف سے از خود بریت کا اظہار کرنا ایک غلط طریق اور ناواجب پاسداری ہے.عبدالواسع نے کہا میرے سامنے چھا عبد الوہاب تے کوئی بات حضرت صاحب کے خلاف نہیں کی.میں نے کہا یہ کوئی دلیل نہیں.کیا تمہارے چچا کے سارے اقوال اور سارے افعال تمہارے سامنے ہیں کہ تم اس کی بریت کرنے لگے ہو ؟ تم اپنے چچا کے معاملہ کو چھوڑو اور خود اپنی بات لو.اگر تمہارا اپنا دل صاف ہے اور تم پیچھے دل سے خلافت پر ایمان لاتے ہو اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بعیت میں نیک نیتی سے شامل ہو تو تم اپنی برتیت پیش کرو.یا زیادہ سے زیادہ تم اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے بول سکتے ہو.اس کے بعد عبدالواسع نے حضور سے ملنے کی غرض سے حضور کی خدمت میں کوئی خط لکھا اور حب میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے کیا لکھا ہے تو اس نے پھر اپنے چچا کی بریت کا ذکر شروع کر دیا.میں نے اسے پھر سمجھایا کہ یہ طریق بالکل غلط اور ناواجب ہے.تمہارے چچاؤں کا
46 معاملہ ان کے ساتھ ہے.تم صرف اپنی طرف سے بات کر سکتے ہو.اگر تمہارا دل صاف ہے اور تم نیک نیتی سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو خلیفہ بر حق سمجھتے اور ان کی بیعت میں شامل ہو تو تمہیں اپنی بریت کا حق حاصل ہے.چھپا کی طرف سے بولنے کا کوئی حق نہیں.اور میں نے ہر رنگ میں اسے سمجھانے اور نصیحت کرنے کی کوشش کی اس پر وہ کچھ آبدیدہ بھی ہوگیا.گرکچھ وقت خاموش رہنے کے بعد کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ پہلے مجھے حضرت صاحب سے بہت پیار اور اخلاص تھا.مگر اب مجھے ان سے عقیدت نہیں رہی.اور ساتھ ہی کہا کہ میں نے اپنے ابا جان مرحوم (مولوی عبدالسلام صاحب عمر ) کے سامنے بھی اپنا یہ خیال ظاہر کر دیا تھا.میں نے پوچھا کہ پھر تمہارے ابا نے کیا جواب دیا تھا عبدالواسع نے کہا کہ ابا جان نے یہ جواب دیا تھا کہ اگر تم نے کوئی ایسی بات کی یا کوئی ایسا قدم اٹھایا تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں رہے گا.میں نے کہا جب تم نے اپنے ابا کی نصیحت نہیں مانی تو پھر بات ہی ختم ہے.اور عقیدت نہ رہنے کے بعد کوئی سوال باقی نہیں رہتا اس صورت میں تم غور کرو کہ تمہارے ابا اور دادا کی رومیں تمہیں کیا کہتی ہوں گی اس کے بعد وہ کچھ افسردگی کی حالت میں رخصت ہوگیا یہ ہے میاں عبدالواسع عمر صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب سے رخصت ہو کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں آئے اور حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عریضیہ بھیجا جس کا خلاصہ یہ متھا کہ میرے علم کے مطابق خاندان حضرت خلیفہ اول کا کوئی فرد موجودہ فتنہ و سازش میں شریک نہیں.حضرت مصلح موعود کی طرفے اس کے جواب میں انہیں حسب ذیل مکتوب موصول ہوا.عزیزم عبد السمع صاحب السلام علیکم درحمہ اللہ آپ کا خط طلا، کوئی فصل اب کے بیان پر نہیں کیا گیا.اس لئے یہ کہنا کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں سنی اس سے کوئی فائدہ نہیں.آپ کی گواہی NEGATIVE ہے اور NEGATIVE گواہی کوئی گواہی نہیں ہوتی.میرے پاس حلفیہ گواہیاں چند لوگوں کی موجود ہیں له خط حضرت مرزا بشیر احمد.ریکارڈ خلافت لائبریری ریبوه 51909
۶۸ جن کو عنقریب شائع کیا جائے گا.جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مولوی عبد المنان صاحب نے ان کو کہا کہ خلافت کا ڈنڈا میرے ہاتھ میں آنے دو پھر یک اس خاندان کو سیدھا کر دوں گا.پھر میں خود حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ آپ کی دادی نے مجھ سے کہا تھا کہ پیغامی دوند میرے پاس آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ اگر عبد الحی و خلیفہ بنا دیا جاتا تو ہم مان لیتے پیچی در کہاں سے آیا ہے.میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ کو کوئی عزت ملتی ہے تو شوق سے لے لیں میں نے آپ کو بیاں قید کر کے تو نہیں رکھا ہو ا.آپ کے نانا نے مجھے چھٹی لکھی اور آپ کی والدہ کی بنگالی چھٹی اس میں ڈال کر مجھے بھیجی جس کا خلاصہ انہوں نے یہ لکھا کہ آپ نے تو اپنی طرف سے میرے ساتھ نیکی کی تھی مگر آپ نے میرا بیڑا غرق کہ دیا ہے.اس گھر میں ہر وقت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برائیاں اور خلافت سے بغارت کی باتیں ہوتی ہیں.خان بہادر ابوالہاشم خان نے لکھا کہ میں نے تو دین میں ترقی کے لئے یہ رشتہ ہیں تھا مگر افسوس کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا.میری اور دوسرے دوستوں کی گواہیاں POSITIVE ہیں اور آپ کی گواہی NEGATIVE اب بتایئے کہ میں آپ کی دادی کی گواہی کو مانوں آپ کے نانا کی گواہی کو مانوں جو POSITIVE متھیں یا NEGATIVE گواہی مانوں.آپ تعلیم یافتہ ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ POSITIVE کے مقابلہ میں NEGATIVE مانی نہیں جاتی.کل ہی ایک پر وفیسر کی گواہی ملی ہے کہ چند لوگوں کی مجلس میں مجھے جانے کا موقع ملا وہ یہ باتیں کرتے تھے کہ مسیح موعود کا تو ذکر الفضل میں بار بار ہوتا ہے خلیفہ اول کا نہیں ہوتا اور خلیفہ ثانی کا فوٹو چھپا اور خلیفہ اول کا نو ٹو نہیں چھپا.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے مامویہ تھے اور حضرت خلیفہ اول ان کے ادنی خادم تھے دونوں میں مقابلہ کا کوئی سوال ہی نہیں.سارے پورپ اور امریکہ میں با حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی یا ان کی تعلیم کا ذکر ہوتا ہے نکسی جگہ یہ خلیفہ اول کے دعوی کا ذکر ہوتا ہے نہ ان کی تعلیم کا نہیں الفضل جو کچھ کر رہا ہے وہی کہ رہا ہے جس کا خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے اور مخالف دنیا بھی جس طرف متوجہ ہے.باقی رہی میری تصویر تو اس کی دلیل موجود تھی میں خطر ناک بیماری کے بعد یورپ سے واپس آیا تھا اگر حضرت خلیفہ اول بھی دوبارہ زندہ ہو کر آجاتے تو ان کی تصویر مجھ سے اونچی شائع کی جاتی.دوسرے یہ کہ الفضل میرے ذاتی روپے سے جاری ہوا اور سنہ تک میں نے اس کو چلا کے اس کی خریداری بڑھائی
49 جب چل گیا اور ایک بڑا اختبر بن گیا تومیں نے مفت بغیر معاوضہ کے وہ آئین کو تحفہ دیدیا پس چونکہ دہ میری ملکیت تھا لازما یورپ سے واپسی پر اس کے عملہ کو میری تصویر شائع کرنے کا خیال پیدا ہوا اور حضرت خلیفہ اول کی تصویر شائع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا.کیونکہ حضرت خلیفہ اول نے اس پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا تھا.آپ سے ملنے میں مجھے کوئی عذر نہیں آپ کے دادا اور نانا دونوں سے میرے تعلقات تھے لیکن اس جواب کو پڑھ کہ اگر آپ سمجھیں کہ آپ کا ملنا مفید ہو سکتا ہے تو بے شک میں.مرزا الحم واحد ۳/۸/۵۶ اس مکتوب پر انہوں نے حضور کی خدمت میں نہایت ادب وعقیدت کے ساتھ شکریہ کا خطہ لکھا اور عرض کیا " اس وقت میں خود ایک جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوں اور ایک کرب اور اضطرار میں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ آپ سے مل کر میں آپ کو کیا کہوں میں گبھراہٹ اور بے چینی میں ربوہ آیا تھا اور اسی اضطرار میں واپس جا رہا ہوں ایسے چنانچہ اس کے بعد وہ لاہور واپس چلے گئے.اگست کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بذریعہ خط انہیں یہ نصیحت فرمائی کہ آپ حضرت خلیفہ اول کے ہوتے ہیں جن کے ساتھ ساری جماعت کو طبعا عقیدت اور محبت ہے آپ ان کے مسلک کو نہ چھوڑیں اور خلافت کی رستی کے ساتھ خلوص نیت کے ساتھ چھے نہ ہیں اور خدا کے حضور پاک دل سے دعا بھی کریں تا وہ آپ کی ہدایت کے لئے روشنی پیدا کر دے سے میاں عبدالواسع صاحب نے اس نصیحت آمیز چھٹی سے متاثر ہو کر حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جو اخلاص نامہ ارسال کیا اس میں لکھا کہ : در بین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعا دی پر ایمان رکھتا ہوں.خلافت کی INSTITUTION پر یقین رکھتا ہوں اور ر دیانتداری کے ساتھ) آپ کی بیعت میں شامل ہوں بیعت پر اس لئے شرح صدر ہے کہ جو نیک کام آپ بتلائیں گے، انہیں بجا لانے پر شرح صدر ہے رات ۲-۳-۱ ریکارڈ خلافت لا بٹر برمی ربوہ نہ
اس طرح خاندان حضرت خلیفہ اول کی ایک شاخ دوبارہ شجر خلافت سے وابستہ ہو کر پھر سے ہری بھری ہو گئی.فالحمد للہ علی احسانہ اس معرکہ حق و باطل میں منافقین نظامِ بزرگان سلسلہ کو فتنہ میں تو کرنیکی ناپاک کوشش خلافت کو تہ و بالا کرنے کے لئے طلاق وانسانیت کے منافی نہایت گھٹیا ہتھکنڈوں پر اُتر آئے.ملک میں جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانا ان کا عام معمول اور دورخی پالیسی اختیار کرنا ان کا شیوہ تھا.ایک طرف وہ حضرت مصلح موعود کو خطوط کے ذریعہ و ناداری کا یقین دلاتے.دوسری طرف خلافت کے بدترین دشمنوں سے مل کر منصوبے باندھتے تھے.اللہ رکھا اور اس کے ساتھیوں نے بزرگان سلسلہ میں سے بعض نہایت اہم شخصیات سے اپنی ہمدردیاں ظاہر کرتے ہوئے انہیں بھی اس فتنہ میں ملوث کرنے کی ناپاک کوشش کی میں میں انہیں پہلے قدم پر ہی نا کامی اور نامرادی کا منہ دیکھنا پڑا.اور ان کی کذب بیانیوں کا پردہ چاک ہو گیا.ان خدا نا تریس لوگوں نے جن عشاقی خلافت کا نام استعمال کیا ان میں حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہا پوری اور حضرت چو پرسی محمد ظفر اللہ خاں صاحب جیسے بزرگ صحابہ اور حضرت ملک عبدالرحمن صاحب خادم جیسے ممتاز عالم دین بھی شامل تھے.ان چاروں بزرگوں نے عدیم النظیر غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے ادلین فرصت میں حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں خلافت سے والہانہ تعلق سے لبریز اخلاص نامے بھیجے.چنانچہ حضرت سید حافظ مختار احمد شاہ صاحب حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب اینجا پیوری کا مکتوب گرامی شار جہانپوری نے ۲۶ جولائی تارا کو حسب ہیم القرار من الرحیم ہو وہامل بلڈنگ لاہور ۲۶۶۵۷ ذیل مکتوب حضرت خلیفہ ثانی کے حضور لکھا :- حمده ونصلی علی رسوله الكريم سیدی و مطاعی مرشدی و مولائی.ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزبية السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ
حضور عالی.ہاتھ کی انگلی ماڈٹ ہونے کی وجہ سے فی الحال جلد لکھنا میرے لئے ممکن نہیں.اس لئے اس استضار کے متعلق کہ اللہ رکھا اسے میرا تعلق تھا انشاء اللہ تعالیٰ اس معروضہ کے بعد ہی لاحظہ سے گزرے گا.اس وقت صرف اتنا ہی عرض کرتا ہوں کہ میں حضرت (....) کے خلاف کسی قسم کا وسوسہ رکھنے والوں اور ان کے ساتھیوں سے قطعاً بیزار ہوں.اور ہمیشہ سے اسی پر کار بند بھی.میرا عقیدہ ہے کہ حضور عالی خلیفہ اسیح بھی ہیں اور مثیل مسیح بھی اور مصلح موعود بھی.اور اسلام کی ترقیاں الہاما حضور عالی سے وابستہ ہیں.دل و جان حضور کے قدموں پہ نثار.میں اسی عقیدہ پر ہوں اور اسی پرختم ہو جانے کا متمنی.اللہ تعالیٰ حضور کو صحت وعافیت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے اور ہم سب احمد میں حضور کی فرمانبردار می اور اطاعت شعاری کی توفیق پائیں.والسلام مع الاکرام خادم تقدیم خاک مختار احمد عفا الله شا و جهان پور ی داده ا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت مرز البشیراحمد صاحب کا تارا و مکتوب حضرت مصلح موعود کی خدمت میں مری کے پستہ پر حسب ذیل تار مھجوایا : - الفضل کی اشاعت مورخہ ۳۰ رتبہ لائی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ر کھا یا اس کے بعض ساتھیوں نے مجھے اس مضمون کے خطوط لکھے تھے.جس میں مجھے آئندہ خلافت کی پیش کش کی گئی معنی.یہ ایک خطر ناک افترا اور گندہ بہتان ہے.مجھے کبھی ایسا کوئی خط نہیں ملا.اگر کوئی شخص مجھے ایسا کوئی خط لکھنا تو اسے میری طرف سے منہ توڑ جواب ملتا.میرا ہمیشہ سے یہ ایمان رہا ہے جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ مد اسلامی خلافت کا مسیح نظریہ میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ خلیفہ کا نفرر گفتہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اور صرف وہی شخص خلیفہ بن سکتا ہے جسے خدا اس منصب کیلئے پسند فرمائے.میں اس ناپاک انتہام سے ہاتھ دھوتا ہوں.خاکسار مرزا بشیر احمد : سله الفضل صور اگست ۱۹۵۶ ۶ صل و سه الفضل دراگست ۹۵۶ار مسل
اس تار کے بعد حضرت میاں صاحب نے اپنے ایک مکتوب میں عرض کیا : - => حضور ایک بے عرصہ سے حضرت خلیفہ اول کے اہل وعیال کے بعض افراد کی طرف سے ناگوار باتیں سنتے آئے ہیں.اور پھر بھی حضور نے حضرت خلیفہ اول کی اعلیٰ درجہ کی نیکی اور اُن کے روحانی مقام کے پیش نظر ہمیشہ ان کے اہل وعیال سے چشم پوشی اور نرمی اور عفو کا سلوک کیا ہے.جیسا کہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبد اللہ بن ابی ابن سلول رأس المنافقین اور اشتد الماندین اور خطرناک سازشی دشمن کے ساتھ اس کے نیک اور صالح بیٹے کی وجہ سے ترقی اور عفو کا سلوک فرماتے تھے یہ چوہدری محمد ظفراله خان صاحب کا پہلا اخلاص نامه حضرت چو بوری امور راشد خان صاحب ان دنوں چوہدری ظفراللہ سیگ رہالینڈ میں فروکش تھے اور بین الاقوامی اور حضرت مصلح موعود کا پیغام عدالت انصاف میں نجی کے فرائض انجام دے رہے تھے جہاں الفضل کے پرچے فضائی ڈاک سے ہفتہ میں ایک بارہ پہنچتے تھے اسی طرح ہیگ سے خطوط پاکستان میں آنے پر بھی خاصہ وقت صرف ہوتا تھا.اس مجبوری سے منافقین نے خوب فائدہ اٹھایا اور ان کے نام پر چھوٹ بولنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی دشمن کی طرف سے و ھو کہ دہی کی ہم پورے جوش و خروش سے جاری تھی کہ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جو ہندسی صنا موصوف کا اپنے قلم سے لکھا ہوا اخلاص نام پہنچ گیا میں نے ان لوگوں کی ساری خوشیاں خاک میں ما دیں.حضرت مصلح موعود نے اس مکتوب کی نقل مندرجہ ذیل پیغام کی صورت میں شائع فرمائی.برادران السلام علیکم ورحمه الله وبرکا تها ا.فته پر دانه لو عزیزم چو ہدری ظفراللہ خاں صاحب پر اور ان کے خاندان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں.مگر چو ہدری صاحب کی خصوصاً اور ان کے خاندان کی عموماً خدمات ایسی شاندار ہیں کہ مجھے یا کسی اور کو اس بارے میں لکھنے کی ضرورت نہ ملی لیکن ہر احمدی چونکہ نہ چو دھری صاحب را مکتوب ۱۲ اگست ۱۹۵۶ در ریکار ڈ خلافت لائبر بر می ربوده)
خطا سے پوری طرح واقف ہے نہ ان کے خاندان سے اور چونکہ ایک مخلص دوست نے کراچی سے لکھا ہے که بچه بدری صاحب کے بارے میں جلدی اعلان ہونا چاہیئے تھا.دیر ہو جانے کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو رہے ہیں.اس لئے میں عزیزم چو ہدری صاحب کا خط بادل نخواستہ اس لئے کہ چو ہدری صاحب اور ان کے والد صاحب مرحوم کی قربانیاں خلافت کے بارے میں ایسی ہیں کہ ان کی برات کا اعلان خواہ انہی کی فلم سے ہی ہو بھر پر گراں گزرتا تھا لیکن دشمن چونکہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر آیا ہے اور جھوٹے اور بیچ میں تمیز کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں اس لئے میں چودھری صاحب کا الفضل میں شائع کرواتا ہوں جن لوگوں کے دل میں منافقوں کے جھوٹے پروپیگینڈے کی وجہ سے چه بدری صاحب کے بارے میں کوئی شک یا تر در پیدا ہوا تھا وہ استغفار کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں چودھری صاحب کا یہ شکوہ بجا ہے کہ کیوں نہ میں نے عبید وفاداری کے طلب کرتے ہی خود اپنی طرف سے لکھ دیا کہ میں چوہدری صاحب کے پوچھے بغیر ہی ان کی وفاداری کا اعلان کرتا ہوں بے شک ان کا حق یہی تھا کہ میں ان کی طرف سے ایسا اعلان کر دیتا لیکن منافق دشمن س پر پیر پگنڈا اس کرتا کہ دیکھو چوہدری صاحب اتنی دور میٹھے ہیں پھر بھی پیشخص جھوٹ بول کہ انکے منہ میں الفاظ ڈال رہا ہے اور ہم لوگ اس جھوٹ کا جواب دینے کی شکل میں مبتلا ہو جاتے ہیں.چوہدری صاحب دور بیٹے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ اس وقت میں دشمن سے ہمارا واسطہ پڑا ہے وہ کتنا جھوٹا ہے ہزاروں جس.ہزار آدمیوں کی طرف سے وفاداری کا اعلان ہو رہا ہے مگر اخبار نوائے پاکستان لاہور یہی لکھے جارہا ہے کہ ہمیں معتبر ذرائع سے خبر ملی ہے کہ مرزا محمود کی جماعت زیادہ زیادہ متحد ہوتی جارہی ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کا روٹ پیش کرے.پس چوہدری صاحب کا اپنا خط چھینا ہی مناسب تھا.اس خط سے جتنے دشمن کے دانت کھٹے ہوں گے میرے اعلان سے اتنے کھٹے نہ ہوتے.بلکہ وہ یہ شور مچاتا کہ اپنے پاس سے بنا کہ جھوٹے اعلان کر ر ہے ہیں.خاکسار مرز المحمود احمد خلیفة المسیح الثانی 2/44/4/04 با روزنامه المفضل ربوه ۲۶ اگست ۹۵۶ ر اصل
۷۴ نقل خط چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب بسم اللہ الرحمن الرحيم سیگار اگست ۹۵۶ اید سیدنا وامامنا السلام علیکم ورحمة الله و بركاته یہاں الفضل کے پرچھے ہوائی ڈاک سے ہفتہ میں ایک بار پہنچتے ہیں.ابھی ابھی اس جولائی کفائت ۵ اگست کے پرچے ملے.۴ راگست کے پرچہ میں حضور کا اعلان پڑھا.اسکے پڑھنے پر اکسا رہ گزارش کرتا ہے.اندرین دیں آمده از مادریم و اندرسن از دار دنیا بگذریم انشاء الله باران سال ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک چہرہ پر نظر پڑنے کی خوش نہیں کی تھے ہی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل ورحم اور ذرہ نوازی سے یہ حقیقت ایک بچے کے دل میں راسخ کر دی کہ یہ چہرہ راستیانہ پہلوان کا چہرہ ہے.پھر جذبات کے ساتھ دلائل.براہین بینات کا پے سلسلہ شامل ہو گیا اور جاری ہے.حضور کا وجود یوم پیدائش بلکہ اس سے بھی قبل سے اس سلسلہ کا ایک اہم جزو ہے.بھی خاکسار کو یا د ہے کہ اللہ میں لنڈن میں جس دن وہ ڈاک ملی جس میں اختلاف کے متعلق مواد آیا تھا تو وہی دن ڈاک کے واپس جانے کا تھا بس اتنا معلوم ہونے پر کہ اختلاف کیا ہے خاکسار نے بیعیت کا خط لکھ کر ڈاک میں ڈال دیا اور باقی حصہ ڈاک بعد میں پڑھا جاتا رہا.اس دن سے آج تک پھر محض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم اور ذرہ نوازی سے با وجود اپنی کو تا ہیوں.کمزوریوں اور فضلتوں کے دو عہد جو اس دن باندھا تھا مضبوط سے مضبوط تر ہو گیا آیات اور بنیات العام اور نوازشات نے اس تعلق کو وہ رنگ دے دیا ہے کہ خود دل جو اس کی لذات سے تو متواتر بہرہ ور ہوتا ہے اس کی حقیقت کی تہ نہیں پہنچ پاتا چہ جائیکہ قلم اسے احاطہ اسخریہ میں لاسکے.اب جو عہد حضور نے طلب فرمایا ہے دل و جان اس کے مصدق ہیں.جو کچھ پہلے حوالہ کر چکے ہیں وہ اب بھی حوالہ ہے ظاہری فاصلہ ہونے کی وجہ سے خاکسار یہ التجا کرنے پر مجبور ہے کہ ایسے اعلان کے ساتھ حضور یہ اعلان فرما دیا کریں کہ ہم اپنے فلاں دور افتادہ غلام کی طرف سے "
اس پر بیک کا اعلان کرتے ہیں تا یہ خاکسار کسی موقعہ پر ثواب میں پیچھے ندرہ جائے محضور کو اس وجہ حسن نکن رہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی کمال ستاری اور ذرہ نواز می سے خاتمہ بالخیر کی ہوس کو جو ہر مومن کی آخری ہوس ہوتی ہے پورا کرتے ہوئے فادخلی فی عبادی کی بشارت کے ساتھ اپنے ہاں طلب فرمائے گا.بابی انت ورامی طالب دعا حضور کا غلام ظفر اللہ خاں نے عکس مکتوب چو ہدری محمد ظفراللہ خانصاحب بینگ ر اگست ۱۹۵۶ و بسم اسمر الرامین الرحيم سید نا دا مانا - اریم علیکم در رفته اند و بر اما درسته الاوبرا ہے در k الفضل نے پر جیسے ہوائی ڈاک سے ہفتہ میں ایک بار نیچتے ہیں.ابھی ابھی اس چوں کی نفاقت ها را گشت کے پرچھے ہے.ام راگست کے پرچے میں حضور کا اعلان پڑھا.اس کے پڑھنے پر یہ خاک ارگذارش کرتا ہے دو اندریں دین آمده از مادریم و اندریس از وارد نیا بگذریم - انشا الله - باول سال ہوئے حضرت مسیح موعود عليه الصلوة و اسلام کے مبارک چہرہ پر نظر پڑنے کی خوش نصیبی کے ساتھ بھی السد تعالی نے محض اپنے فضل و رحم اور ذرہ نوازی سے یہ حقیقت ایک بچے کے دل میں ساتھ راسخ کردی که یہ چہو اس کے انتہاز پہلوان نام ہے.پھر جو د توسل پر ہیں.بنیات اللہ شامل ہو گیا.اور جاری ہے.حضور کا وجود یوم پیدائش جبکہ اس سے بھی قبیل سے اس سلسلہ کا ایک اہم به روز نامه الفضل ربوه ۲۶ اگست ۱۹۵۶ م ص ۱۲۰
64 جزو ہے.خاک کو یاد ھے کہ 1910 میں لندن میں جس دن وہ ڈاک ملی جس میں اختلاف کے متعلق مواد آیا تھا تو ابھی دن ڈارک کے واپس جانے کا تھا.بس اتنا معلوم ہونے پر کہ اختلاف کیا ھے ذاکرتے بیعت کا خط لکھ کر ڈاک میں ڈال دیا اور باقی حصہ ڈاک بعد میں پڑ جا جاتا تھا اس دن سے آج تک پھر محض اللہ تعالیٰ کے فضل ورحم اور ذرہ نوازی سے با وجود اپنی کوتا ہوں.کمزوریوں اور غفلتوں کے وہ عہد جو اس دن باندھا تھا مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا.آیات اور بنیات - انعامات اور نوازشان نے اس تعلق کو وہ یک دیدیا ھے کو قرد دل جو اس کی لذات سے تو متواتر بہرہ ور ہوتا ہے اس کی حقیقت کی نہ کو نہیں پہنچ پاتا چہ جائیکہ قلم اسے احاطہ تحریر میں لا سکے.اب جو عہد حضور نے طلب فرمایا ہے دل و جان اس کے تصدق ہیں.جو کچھ پہلے حوالہ اچھے ہیں وہ اب بھی حوالہ ھے.ظا ہریانا ہونے کی وجہ سے فا ریہ التجا کرنے پر مجبور ہے کہ ایسے اعلان کے ساتھ حضور یہ اعلان بھی فرما دیا کریں کہ ہم اپنے فلان دور افتادہ علم کی طرف سے اس پر لبیک کا اعلان کرتے ہیں تا یہ خاک کسی موقعہ پر تو اب میں پیچھے نہ رہ جائے.حضور کو اس در مو من نطق رہیگا تو الہ تعالٰی بھی اپنی کمال ساری اور ذرہ نوازی کے خاتم بالخیر کی ہوس کو جو ہر مومن کی آخری ہوس تولی سے پورا کرتے ہوئے فارقلی فی عبادی کی بشارت کیا تھ اپنے جان طلب فرما لیگا بابی انت والی طالب دعا فاک حضور کا علی اسلام بخور النکان 7
،، چوہدری محمد ظفرامند خانصاحب دوسرا اخلاص نامہ اور حضرت مصلح موعود کا پیغام کی طرف سے چند ہفتہ بعد حضرت امام مہام کی خدمت اقدس میں ایک اور مکتوب پہنچا ہے اپنی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر حضور انور نے مندرجہ ذیل ارشادات کے ساتھ سپر واشاعت فرما دیا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا ایک ضروری خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے.اس خط سے دو اہم امور کا فیصلہ ہو جاتا ہے ایک امر وہ پروپیگینڈا ہے جو مولوی عبد المنان صاحب کے ساتھی جماعت میں کر رہے ہیں کہ گویا مولوی عبد المنان کی علمی تحقیقاتوں اور کارروائیوں کا شہرہ امریکہ تک پہنچا جس پر امریکہ نے ان کو اپنے ملک میں تقریہ کی دعوت دی اور پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ دعوت چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی سفارش پر ہوئی تھی.نہ ان کی عالمی شہرت کی وجہ سے جیسا کہ تھوڑے دنوں میں تحقیقی طور پر ثابت ہو جائے گا مولوی عبد المنان صاحب کی مسند احمد کی تبویب نہ کوئی نیا کارنامہ ہے نہ کوئی علمی تحقیق ہے.یہ کام کوئی چالیس سال سے مسلمانوں میں ہو رہا ہے اور مصر اور ہندوستان کے علماء اس میں لگے ہوئے ہیں.بلکہ بعض کتابوں سے پتہ لگتا ہے کہ سجن لوگ اس کو مکمل بھی کر چکے ہیں اس میں کوئی است بہ نہیں کہ یہ محنت کا کام ہے ، جیسے ڈکشنری میں سے لفظ نکالنے کا کام محنت کا کام ہوتا ہے.مگر علمی وسعت نظر کا کام نہیں.مدرسہ احمدیہ کے بعض پرانے اساتذہ کہتے ہیں کہ جب مولوی عبد المنان صاحب اسکول میں انجمن کے تنخواہ دار ملایم تھے تو خود بھی اپنا وقت اس کام پر صرف کرتے تھے.اور بعض طلباء سے بھی مدد لیتے تھے.واللہ اعلم بالصواب بہر حال کوئی نہ کوئی دوست کچھ دنوں تک اس مسئلہ پر تفصیلی اور مکمل روشنی ڈالی دیں گے.مصر کے ایک عالم نے اس کتاب کی تبویب کی چودہ جلدیں شائع کی ہیں جو کہتے ہیں کراچی اور لاہور میں مل سکتی ہیں.گو شبہ ہے کہ ابھی کچھ جلدیں شائع ہوئی باقی ہیں.ان جلدوں میں سے بہت سی ہماری جامعتہ المبشرین کی لائبریری میں موجود ہیں.اور کچھ جلدیں قادیان کے زمانہ سے میری لائبریری میں موجود تھیں جواب یہاں آگئی ہیں.ہے بے شک حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایسی کوئی کتاب شائع لہ یہ کتاب الفتح الربانی کے نام سے ۲۱ جلدوں میں کمل طور پر چھپ چکی ہے.بقیہ صہ
نہیں ہوئی تھی.یہ جلدیں غالبا مرزا ناصر احمد کی ولایت سے واپسی پر میں نے اس کے ذریعہ سے مصر سے منگوائی تھیں.اس خط سے اس شبہ کا بھی ازالہ ہوجاتا ہے جو بعض دوستوں نے اپنے خطوں میں ظاہر کیا ہے جو یہ ہے کہ مولوی عبد المنان کو امریکہ بھجواکر چو ہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے فتنہ کا دروازہ کھولا.اور ان کے دوستوں کو جھوٹے پروپیگنڈا کا موقعہ دیا.مگر جیسا کہ چو ہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے خطہ سے ظاہر ہے انہوں نے موجودہ حالات کے علم سے پہلے یہ کوشش کی مفتی اور اس خیال سے کی تھی کہ حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں میں سے ایک ہی بیٹے کو کچھ علمی شغف ہے اور وہ علمی مجالس میں آجائے تو اس طرح شاید سلسلہ کو کچھ فائدہ پہنچ جائے گا.چونکہ عبد المنان صاحب تحریک جدید کے ایک عہدہ پر مقرر تھے اس لئے چوہدری صاحب کا یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ یاران کے گہرے دوست کوئی بات سلسلہ کے خلاف کریں گے.انہیں کیا معلوم تھا کہ چو ہدری غلام رسول ۳۵۶ ختم کے لوگ اخباروں میں ان کو حضرت مولانا عبد المنان کر کے لکھیں گے چوہدری صاحب نے مولوی عبد المنان وکیل التصنیف کی سفارش کی.انہوں نے حضرت مولانا عبدالمنان کی سفارش نہیں کی تھی.اس لئے ان پر الزام لگانا درست نہیں اور جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے الاعمال بالنیات پر ان کی نیت کو دیکھنا چاہیے جو ظاہر ہے عمل کو نہیں دیکھنا چا ہیے.ہاں لوگ واقعات کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی ایسے لوگوں میں گھتے ہیں وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دے دیتے ہیں کہ ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَى مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ واخر دعوما ان الحمد لله رب العالمين دیقیہ حاشیہ منٹ سے آگے) اور خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے اس کے مرتب نامور مصری عالم احمد عبد الرحمن النباء الساعاتی - اناشر مطبعة الاخوان المسلمين سن اشاعت جلد ۲۱ ۱۳۷ مطابق شفت ۱۹۵۷ء : له الشعراء ۲۲۸ ه روزنامه الفضل ربوه سر اکتوبر ۱۹۹۶ء صفحه على
69 محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا خط بیگ نار ستمبر ۱۹۵۶ سید نا وامامنا ! السلام علیکم ورحمة الله وبركاته حضور کے ارشاد کے ماتحت پرائیویٹ سیکر ٹری صاحب نے خاکسار کو محترمہ عائشہ صاحبہ جنہیں خاکسار تو ذاتی طور پر نہیں جانتا) کے خط کی نقل ارسال کی ہے جو محترمہ مذکورہ نے حضور کی خدمت اقدس میں لکھا ہے.ان بچوں نے اگر ایسی کوئی بات بھی کہی ہے تو بہت دکھ دینے والی بات ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - خاکسار نے کریمی مولوی عبد المنان عمر صاحب کے امریکہ جانے کے متعلق جو کوشش کی اس میں خاکسار کی نیت اپنے علم کے مطابق سلسلہ کے ایک عالم اور مخلص خادم کے لئے ایک موقع بہم پہنچا نا تھا جس سے وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکیں اور سلسلہ کی خدمت کا اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کر سکیں.خاکسار کا ان کے متعلق بوجہ ان کے سلسلہ میں وکیل کے عہدہ پر فائز ہونے ، بوجہ حضرت خلیفہ انیس لاقول کا فرزند ہونے اور بوجہ اس کے کہ اپنے بھائیوں میں صرف اکیلے وہی علمی مذاق رکھتے ہیں اور علم کا اکتساب کر سکتے ہیں.یہی اندازہ اور اور یہی محسن ظن تھا جو خاکسار نے لکھا ہے ان امور کا جو ان کے چھوٹے بھائی کے متعلق جو بعد میں ظاہر ہوئے ہیں یا جن کا ذکر محترمہ عائشہ صاحبہ کے خط میں ہے خاک رکو نہ علم متھانہ اندازہ.ممکن ہے کہ مگر می مولوی عبد المنان عمر صاحب بھی ان امور میں ملوث ہوں خاکسار کو اس کا بھی کوئی علم اس سے زائد نہیں.جو اشارہ حضور نے کوہ مری سے ارسال کر وہ اپنے والا نا مے میں فرمایا تھا بوجہ مرکز سے باہر ہونے کے موجودہ فتنہ کے متعلق خاکسار کا علم انہیں امور تک محدود ہے جو الفضل میں شائع ہوئے ہیں ان امور کی تفتیش حضور کے ہاتھ میں اور حضور کے ارشاد کے ماتحت اور حضور کی ہدایات کے مطابق حضور کے خدام کے ہاتھوں میں ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل درسم سے حضور کی ذات مبارک اور سلسلہ عالیہ کو ہر قسم کے خطرہ پریشانی اور ابتلا سے محفوظ رکھے آمین.جو امر حضور کے نزدیک پایہ ثبوت کو پہنچ جائے اس کے مطابق حضور کے خدام کا عمل پیرا ہونا بھی عین سعادت اور تقاضائے عہد و اطاعت وفرماں برداری ہے لیکن جب تک کسی امر کا انکشاف نہیں ہوا تھا اور کوئی ایسی بات ظہور میں نہیں آئی تھی اس وقت جن خدام کا عمل
حسین ملن کے مطابق رہا وہ الاعمال بالنیات کے حکم کے تابع تھا.والاصدق و اخلاص اور اطاعت و وفا کا عہد وہیں ہے.جہاں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور اس کی عطا کردہ توفیق سے انشاء اللہ پورا ہوتا چلا جائے گا.دما توفيقي إلا بالله العلى العظيم - اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے حضور کو جلد صحت کاملہ عطا فرمائے.اور اپنے مبارک انداروں کی نکیل کی توفیق عطافرماتا جائے اور ہم سب خدام کو ان برکات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے.جن کے نزول کا حضور کا وجود باجود ذریعہ ہے اور جو حضور کی ذات مبارک کے ساتھ وابستہ ہیں.اور حضور کو ہر پریشانی اور خون سے محفوظ رکھے آمین.والسلام حضور کا غلام طالب دعا خاک.ظفر اللہ خان کے ملک عبد الرحمن صاحب خادم ملک عبد الرحمن صاحب خادم ایڈووکیٹ کا پر خلوص مکتوب امیر جماعت احد بہ گجرات عبدالرحمن نے 4 اگست ۱۹۵۶ء کو حضور کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا : - گجرات 4 بسم الله ارحمن الرحیم محمد کو نصلی علی ریوالہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جان سے پیارے آقا.اید کم اللہ بصرہ العزیز حضور آج کی ڈاک میں مجھے اخبار سفینہ لاہور کا یہ چہ مورخہ 4 ہ موصول ہوا ہے.جو میرے نهایت ہی پیارے دوست ملک مبارک احمد صاحت کے امین آبادی نے مجھے بھیجا ہے اس کے پہلے صفحہ کے کالم نبر، پرفتنہ یہ وازوں کی فہرست میں خاکسار کا نام بھی ازرا و شرارت درج کیا گیا ہے.ه روز نامہ الفضل سور اکتوبر ۱۹۹۶ء صفحه ۱ و ۸ : مدیر رفتار زمانه +
M جس وقت یہ اخبار مجھے ملا.اس وقت میرے پاس الحاج مرزا اللہ دتہ اور الحاج میاں برکت علی صاحب مینجنگ ڈائریکٹر گجرات پنجاب بس سروس (غیر احمدیاں) اور برادرم ملک عزیز احمد صاحب مبلغ جاوا کے والد محترم ملک محمد شفیع صاحب تشریف فرما تھے اور اخبار موصول ہونے سے ایک منٹ پہلے مرزا احداثہ صاحب نے برسبیل تذکرہ مجھ سے پوچھا کہ آجکل اخبارات میں آپ کی جماعت کے کسی اندرونی انتشار کا ذکر آرہا ہے یہ کیا معامہ ہے تو میں نے ان سے کہا کہ اخبارات خواہ مخواہ اس بارے میں جھوٹی خبریں شائع کر رہے ہیں اور یہی ان کا ہمارے خلاف پرانا شیوہ ہے اتنے میں اخبار سفینہ آگیا تو میں نے اسی وقت مرزا صاحب موصوف کو یہ اخبارہ دیکھا کر کہا که به تازہ بتازہ اور زندہ مثال دیکھ لیجے میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں اور ان تمام آدمیوں پر جو اس فتنہ میں شریک ہیں لعنت بھیجتا ہوں اور سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده ال تعالی بنصرہ العزیز پہ دل و جان سے فدا ہوں اور حضور کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہی اپنی سنجات سمجھتا ہوں لیکن اخبار مذکور کی خباثت ملاحظہ ہو کہ میرا نام بھی اس نے ان لعنتیوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے اس سے بڑھ کر اور ثبوت آپ کیا چاہتے ہیں حضور! میں یہ سطور حضور کی خدمت میں اس لئے نہیں لکھ رہا کہ مجھے یہ رسم ہے کہ شاید حضور اخبار مذکور کی اس شرارت آمیز خبر کی وجہ سے میرے بارے میں کوئی گمان فرما ئیں.کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ میرے بارے میں حضور کو کبھی کوئی شبہ نہیں ہو سکتا بلکہ اس غرض سے لکھ رہا ہوں کہ خاکسار کا یہ عریضہ " الفضل میں شائع کر دیا جائے تاکہ مخالف اخبارات اور فتنہ پر دانوں کی کذب آفرینی متعلیم یافتہ اور انصاف پسند غیر احمدی شرفاء پہ اچھی طرح واضح ہو جائے اور وہ ان کے جھوٹے پر دیگنڈے سے متاثر نہ ہوں.حضور کے بارے میں میرا ایمان علی وجہ البصیرت ہے اور حضورہ کی ذات سے مجھے عقیدت نہیں بلکہ عشق ہے اور میں حضور کو اس وقت سے مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق یقین کرتا ہوں جبکہ ابھی تک حضور نے اللہ تعالی سے علم پاکر مصلح موعود ہونے کا دعوی بھی نہیں فرمایا تھا.اس بارے میں سلسلہ کا لٹریچر اور میری تحریر ات گواہ ہیں پھر جب حضور نے علم الہی کی بنا پر مصلح موعود ہونے کا دعوی فرمایا تو وہ ایمان جو علم الیقین کے رنگ میں مقا حق الیقین بن گیا.اور اب تک خدا
AY کے فضل سے قائم ہے اور انشاء اللہ العزیز قبر میں ساتھ جائے گا.تَبْدِي عِظَامِي رَفِيْهَا مِنْ مَوَدَّتِكُمْ هَدَى مُقِيمٌ وَشَوْق مَيْرُ مُنْصَوم مجھے ان معترمنین کی جہالت پر تعجب آتا ہے کہ ان لوگوں کو کچھ بھی علم نہیں مگر اخبارات کے کالم کے کالم سیاہ کر رہے ہیں.............اس طرح ایک دو دن ہوئے " پاکستان کالمز میں ایک صاحب کا خطہ چھپا تھا جس میں محترمی چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے مطبوعہ خط کے اس فقرہ پر اعتراض کیا گیا تھا کہ حضور تو حضور کی ولادت با سعادت سے بھی پہلے احمدیت کا ایک ضروری جز تھے.ظاہر ہے کہ محترم چو ہدری صاحب کا اشارہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی بار مصلح موعود کی طرف تھا.جو حضور کی ولادت سے تین برس پہلے ۲۰ فروری ستشملہ کے اشتہار میں شائع کی گئی تھی.اور جس کے عین مطابق حضور ۱۲ جنوری شملہ کو پیدا ہوئے.پھر چوہدری صاحب محترم کا اشارہ و سرور کائنات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیش گوئی کی طرف تھا کہ مسیح موعود جب دنیا میں آئے گا تو اس کے ہاں ایک عظیم الشان بیٹا پیدا ہو گا ، پھر چو ہدری صاحب محترم کا اشارہ حضرت نعمت اللہ ولی کی اس مشہور و معروف پیشگوئی کی طرف تھا عمر پسرش یادگار می بینم یعنی امام مہدی کے بعد اس کا ایک بیٹا اس کا جانشین اور خلیفہ ہو گا.ان تینوں پیشگوئیوں میں حضور کے وجود باجود کی واضح طور پر خبر دی گئی تھی.اور بتایا گیا تھا کہ اسلام کی جو فتح آخری زمانہ ہی مسیح موعود کی بعثت کے ساتھ مقدر ہے اس کی تکمیل میں حضور کی ذات کا بھی بہت بڑا حصہ ہے اس پیشگوئی کو ہم گزشتہ ۴۲ سال سے پورا ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں پس تو کچھ چو ہدری ظفر اللہ خانصاحب نے لکھا وہ بالکل درست تھا.لیکن پاکستان ٹائمز کے مکتوب نگار نے اپنی ناواقفیت اور جہالت کے باعث اس پر مذاق اڑا کر اہل علم کی نظروں میں خود اپنے آپ کو مضحکہ خیز بنا لیا ہے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل سلیم عطا کرے اور حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین والسلام.ه ر ترجمہ میری ہڈیاں بوسیدہ ہو گئیں مگر تمہاری محبت کے باعث ان میں بھی محبت قائم کر دائم ہے جو کبھی اُن سے جدا نہیں ہو گی.-
حضور کا اونی اترین غلام ملک عبدالرحمن خادم ایڈووکیٹ امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع گجرات 0 حضرت مرزا طاہر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا تار اور مکتوب ان دنوں بغرض تعلیم لندن میں قیام فرما تھے آپ نے اس فتنے کی اطلاع پاتے ہی حسب ذیل تار دیا.L.T.London Khalifatul Masih Rabwah.I assure you all my unstinting loyalty to you till death Inshallah.Tahir Ahmad یعنی میں اپنی غیر متزلزل وفاداری کا دم مرگ آپ کو یقین دلاتا ہوں.طاہر احمد اس تار کے بعد آپ نے 4 راگست ۱۹۵۶ء کو یہ مکتوب لکھا : - میرے پیار سے ابا جان.السلام علیکم ورحمه الل و برکاته پاکستان میں جو مولوی عبد الوہاب اور ان کے ساتھیوں نے فتنہ برپا کیا ہوا ہے.اس سے بہت تشویش ہوئی.ہم سب دعا کر رہے ہیں.اللہ تعالے فتنہ پردازوں کامنہ کالا کرے.جیسا کہ ہمیشہ کر تا رہا ہے.روتین ہفتے ہوئے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا.کہ میں ربوہ میں سچی سڑک کی طرف سے داخل ہورہا ہوں.سامنے میں ربوہ کے مرکز میں منارہ المسیح نظر آتا ہے.جو نہایت اونچا اور شاندار ہے اور مجھے یہ دوسم بھی نہیں آتا.کہ یہ پہلے قادیان میں تھا.اچانک میری نظر محلہ دارالصدر شرقی کے کوار لنز کے حصہ کی طرف پڑتی ہے.وہاں مجھے ایک نیا مکان نظر آتا ہے جس کی چھت پر ایک چھوٹا سا منارہ بنا ہوا ہے جس کی شکل منارة المسیح کی سی ہے.اس کو دیکھ کر میری طبیعت میں سخت کہ اہت پیدا ہوتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ اس سے لوگوں کو دھو کہ ہوگا.میں اس گھر کی طرف جا کر اس کے رہنے والوں سے بات کر تاہوں بیج جہلم یا چکوال کی طرف کے مستری ٹائپ لوگ ہیں.وہ کہتے ہیں ہم نے تو محض سجاوٹ شه روزنامه الفضل ربوه الرستمبر ۹۵ مد ص ۲
AM کے لئے بنایا ہے.دھوکہ دہی یا فتنہ کی نیت سے نہیں.میں قریب سے جب اس منارہ کو دیکھتا ہوں.تو اصل منارہ پر جہاں منارة المسیح لکھا ہوا ہے.اس کی وہ جگہ خالی پڑی ہے اس پر مجھے یہ تو نشستی ہوتی ہے کہ احمدیوں کو دھوکا نہیں ہوگا.مگر پھر میں سمجھتا ہوں.کہ مٹرک پر سے گزرنے والے ناواقف غیر احدی دھوکے میں پڑھائیں گے.باچھی داؤد کو میں نے صبح اٹھتے ہیں یہ خواب سنا دی تھی.اور ہم سب کا یہ خیال تھا.کہ خدانخواستہ کوئی فتنہ اٹھنے والا ہے.والسلام مرزا طاہر احمد سے مسئلہ خلافت کے ایک اہم پہلو کی وضاحت 1984 مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے شروع اگست تہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت میں کتاب "برکات خلافت کے مندرجہ ذیل فقرات بغرض تشریح پیش کئے.وہ نادان جو کہتا ہے کہ گرمی بن گئی ہے.اسکوئی قسم کھا کہ کہتا ہوں کہ میں تو یہ جائز ہی نہیں سمجھتا کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو.ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے مامور کر دے تو یہ الگ " بات ہے.اور حضرت عمر کی طرح میرا بھی یہی عقیدہ ہے.کہ باپ کے بعد بیٹیا خلیفہ نہیں ہونا چاہیئے.برکات خلافت ص۲۲ تقریر ۹۱۳له) د را گست سوار کو حضور نے اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل الفاظ میں اس کی تشریح فرمائی.مد یعنی باپ کو بیٹے کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کرنا چاہیے.جس طرح حضرت عمر نے منع فرمایا کیونکہ جو پانچ آدمی انہوں نے خود نامزد کئے تھے نہ کہ جماعت نے ان میں ان کا بیٹا بھی تھا.اس لئے آپ نے فرمایا اسے مشورہ میں شامل کر د خلیفہ مت بنا نا پس معلوم ہوا کہ حضرت عمر کے نزدیک باپ اپنے بعد بیٹے کو خلیفہ نامزد نہیں کر سکتا.مگر حضرت علی نے اس کے خلاف کیا اور اپنے بعد حضرت حسن کو خلیفہ نامزد کیا.میرا رحجان حضرت علی مر کی سجائے حضرت عمر کے فیصلہ کی طرف ہے خود حضرت جس بھی مجھ سے متفق نظر آتے ہیں.کیونکہ انہوں نے بعد میں حضرت معاویہ ان کے حق میں دست برداری دے دی.اگر وہ یہ سمجھتے کہ باپ بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ بنا الفضل ۱۳ را ستمبر ۱۹۵۶ ء ص ۵۲
سکتا ہے تو کبھی دست بردارنہ ہوتے کیونکہ خلافت حقہ کا چھوڑنا ارشاد نبوی کے مطابق منع ہے.مگر حضرت علی نے بھی غلطی نہیں کی.اس وقت حالات نہایت نازک تھے.کیونکہ خوارج نے بغاوت کی ہوئی تھی.اور دوسری طرف معاویہ اپنے لشکروں سمیت کھڑے تھے.انہوں نے ایک چھوٹی سی تبدیلی کو بڑے نامہ پر ترجیح دی کیونکہ حضرت حسن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئیاں موجود نھیں ممکن ہے کہ حضرت علی نے اور احتیاطیں بھی کی ہوں جن سے جمہور مسلمانوں کے حق محفوظ کہ دیا ہو.گروہ مجھے اس وقت یاد نہیں.مرز الحمود احمد - ۹۲ ۸ رات قرآن مجید کی رو سے فتنوں پر تند تر کرنے کی تحریک اگست تششدر کو حضور نے جماعت کو تحریک فرمائی کہ قرآن کریم پر غور اور تربیہ کرتے رہو کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی چالوں کو کھول کر بیان کر دیا ہے.چنانچہ حضور نے اس روز جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس کے ابتدائی حصہ میں بتایا کہ : در آجکل ہماری جماعت ہیں منافقین کا فتنہ شروع ہے.چونکہ قرآن کریم میں بھی فتنوں کا ذکر آتا ہے اور اُن کی ساری چالیں بیان ہوئی ہیں.اس لئے جماعت کے دوست علاوہ صحابہ کے حالات کے، اگر قرآن کریم کی ان آیات کو بھی غور سے پڑھیں تو انہیں ان کی ساری باتوں کا پتہ لگ جائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ جب منافقوں کو ان کی باتیں سنائی جاتی ہیں.تو وہ قسمیں کھاتے ہیں اور کہتے ہیں.ہم نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی.اللہ تعالی فرماتا ہے.ان کی قسمیں کھانا ہی ان کی منافقت کا ثبوت ہے.کیونکہ قسم ضرورت کے وقت کھائی جاتی ہے.اور جو شخص بلا ضرورت قسمیں کھاتا ہے.وہ منافق ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَّهِين کہ تو ہر قسم کھانے والے ذلیل انسان کی اطاعت نہ کر یعنی اگر کوئی شخص تمہارے پاس آکر قسمیں کھاتا ہے تو تو اس کی قسموں پر اعتبا نہ کرتے ہوئے اس باستہ کو نہ مان الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۵۶ ء م : سه سوره قلم : ۱)
AY لے بلکہ تو اس کے اعمال کی طرف دیکھ اگر اس کے اعمال ذلیل نظر آئیں تو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اگر کوئی شخص تمہارے پاس اگر قسمیں کھاتا ہے اور اس کے متعلق یہ معلوم ہو جائے کہ اس کے اعمال ناقص ہیں وہ نما نہ روزہ میں شکست ہے نیکی اور تقویٰ سے عاری ہے تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا تمہیں کھانا اس کی منافقت کی دلیل ہے........اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِن أَفْوَاهِهِمْ ان کے منہ سے بعض بعض کی باتیں نکلی ہیں جن سے ان کی دشمنی ظاہر ہوگئی ہے دما تُخْفِي صُدُورُهم اكبر اور جو کچھ ان کے دلوں میں ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے.گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ اگر کسی کی منافقت کی بعض باتیں معلوم ہو جائیں تو اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس کی دوسری باتیں ثابت نہیں ہوئیں درست نہیں ہوتا.اگر اس کی بعض منافقانہ باتیں ثابت ہو چکی ہیں تو ماننا پڑے گا کہ باقی باتیں بھی اس کے اندر پائی جاتی ہیں.پھر ہر چیز کا میلان ہوتا ہے ایمان کا بھی میلان ہوتا ہے نفاق کا بھی میلان ہوتا ہے اور کفر کا بھی میلان ہوتا ہے.اگر کوئی شخص ایک بنی کی کسی پیشگوئی کے متعلق یہ کہتا ہے کہ جھوٹی نکلی ہے تو اگر اس کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ گل باقی پیشنگوئیوں کو بھی درست تسلیم نہیں کرتا تو ہمیں اس کے ماننے میں کوئی دریغ نہیں ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ آپ نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا فقد لَبِثْتُ نِيَكُمْ عُمَرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تعتقدون سے کہ دعوی نبوت سے پہلے میں تم میں ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں کیا تم میں عقل نہیں کہ میری اس زندگی پر غور کرے.اب اگر کوئی شخص کہہ دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نعوذ باللہ فلاں برائی تھی.تو اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے صرف یہ کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں فلاں بُرائی ہے.باقیسے له ال عمران : آیت ۱۱۹ : سه یونس : 16
AL برائیوں کا تو اس نے ذکر نہیں کیا.بلکہ اگر وہ آپ کی طرف ایک جھوٹ منسوب کرتا ہے.تو وہ آپ کی طرف لاکھوں اور کروڑوں جھوٹ بھی منسوب کر سکتا ہے بہر حال جو بات اس کے متعلق معلوم ہو چکی ہے وہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاهِهِمْ میں آجائے گی اور جو بات معلوم نہیں لیکن اس کے متعلق کہی جاتی ہے وہ دما تُخفي صُدُورُهُم البروت میں آجائے گی یعنی اگر کسی کے اندر مفتی را سا گند پایا جانا ثابت ہو جائے تو اس کے اندر زیادہ گند کا پایا جانا بھی ماننا پڑے گا.پس دوستوں کو صرف ان باتوں کی طرف ہی نہیں دیکھنا چاہیئے جو منافق کہتا ہے بلکہ " انہیں ان باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے جو اس کے اندر مخفی ہوتی ہیں.کیونکہ وہ ان سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں اپنی منافقوں کو دیکھ لو جنہوں نے اب فتنہ برپا کیا ہے ان کے جھوٹ ثابت ہو رہے ہیں.ایک منافق نے میاں بشیر احمد صاحب کے متعلق ایک بات بیان کی تھی.جب ہم نے راولپنڈی کے مربی سے دریافت کیا کہ اس نے فلاں شخص کو اپنے ہاں کیوں ٹھرایا تو اس نے بیان کیا کہ اس منافق نے میاں بشیر احمد صاحب کے متعلق فلاں بات بیان کی منفی جس کی وجہ سے میں نے اسے اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت دے دی.لیکن میاں بشیر احمد صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے بہر حال جب کوئی شخص ایک جھوٹ بولتا ہے تو وہ ہزار جھوٹ بھی بول سکتا ہے.صرف ایک جھوٹ ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اگر ایک جھوٹ ثابت ہو جائے تو باقی سارے جھوٹ خود بخود ثابت ہو جاتے...بہر حال اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا تُخْفِي ہیں مدور ھذہ اکبر کہ جو کچھ ان کے دلوں میں ہے وہ بہت بڑا ہے اور چونکہ هم دلوں کی صفائی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لئے صرف بریز دلیوشن پاس کہ کے بھجوادینے سے کچھ نہیں بنتا.کیونکہ منافق جو منصوبہ سوچتا ہے وہ دل میں سوچتا ہے.میں نے سفر ۳-۲-۱- آل عمران : ۱۱۹ :
سے واپس آتے ہی دوستوں کو اپنی ایک رویا سنائی تھی.اس رڈیا میں بھی بعض لوگوں کی منافقت کی طرف ہی اشارہ تھا.میں نے خواب میں ایک عورت سے متعلق دیکھا کہ اس نے مجھ پر سمریزم کا عمل کیا ہے اور اس کا اثر مجھ پر ہوگیا ہے لیکن جب میں اس کی اس حرکت سے واقف ہو جاتا ہوں.تو میں اسے کہتا ہوں کہ تو نے میری بے خبری کے عالم میں مجھ پر سمریزم کا عمل کیا تھا.اب مجھے خبر ہو چکی ہے.اور اب میں تیرا مقابلہ کر دل گا.اب تو مجھ پر عمل کر کے دیکھ لے.پھر میں اسے خواب میں ہی کہتا ہوں.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں.آپ کھانا کھاتے اور بھول جاتے کہ آپ نے کھانا کھایا ہے یا نماز پڑھتے تو بھول جاتے ایا کہ آپ نے نماز پڑھی ہے.یا نہیں پڑھی حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس جادو کا اثر تھا جود یہودیوں نے آپ پر کیا تھا.ہم جادو کے تو قائل نہیں ہاں یہ ایک تدبیر تھی جو کی گئی اور مکر الیہ بھی ایک قسم کا جادو ہی ہوتا ہے.خواب میں میں نے اس عورت سے یہی کہا کہ تو مجھ پہ اب جادو کرے تو جانوں.چنانچہ اس نے مجھ پر توجہ کی تو اس کا کوئی اثر نہ ہو ا.اس کے بعد میں نے اس کی انگل پہ توجہ کی.تو وہ اکٹر گئی.پھر ایک مرد آیا اور اس نے اس کی اس انگلی کو ٹھیک کرنا چاہا.لیکن وہ ٹھیک نہ ہوئی.میں نے اس مرد سے خواب میں کہا کہ اب یہ انگلی ٹھیک نہیں ہوگی.اس عورت نے بے خبری کے الم میں مجھ پر توجہ کرلی تھی.اب مجھے علم ہو گیا ہے.اب میں نے بھی اس پر توجہ کی ہے اور تم میں یہ طاقت نہیں کہ میری توجہ کے اللہ کو نہال کر سکو سو ان لوگوں نے بھی میرے ولایت جانے کو غنیمت جانا اور خیال کیا کہ اب خلیفہ با ہر ہے.ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں لیکن ان بے وقوفوں نے یہ نہ جانا کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے یہ لوگ باوجود ارادہ کے میری غیر حاضری میں کچھ ذکر سکے بلکہ ان کی مشرارت کا وقت کھسکتے کھسکتے میری واپسی تک آگیا چنانچہ جو گواہ یاں ملی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ بات دراصل اس وقت شروع ہو گئی تھی جب میں ولایت گیا نائیکی و انکل اس وقت جب میں واپس آگیا تے اگر کوئی کارروائی کی جائے تو میرا وجود اور میری دعائیں بھی اس کے ساتھ شامل ہوں.
٨٩ اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت ہے کہ جتنی گواہیاں ملی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ یہ فقہ اس وقت اٹھایا گیا تھا.جب مجھ پر بیماری کا حملہ ہوا تھا ۲۶ فروری 1900 ء کو مجھ سپہ بیماری کا حملہ ہو اتھا اور یہ باتیں مارچ 1900 ء کی ہیں.لیکن ظاہر ہو میں 1904 ء میں آکر اور اب میں ان کا ہر طرح مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں.گویا وہی رؤیا والی بات ہوئی.ہجو میں نے اس عورت سے کہی تھی کہ تم نے بے خبری میں مجھے پر حملہ کر لیا تھا.اب میں باخبر ہو چکا ہوں.اگر اب تم مجھ پر حملہ کرو تو جانوں.یہ کتنا بڑا نشان جو ظاہر ہو اپنے حضور نے خطبہ کے دوسرے حصہ میں احباب جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ : انہیں اس موقعہ پر ہوشیار رہنا چاہیے، اور چونکہ یہ معاملہ آسمانی ہے اس لئے انہیں دعاؤں میں لگے رہنا چاہیے کیونکہ منافق کا علاج سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں کر سکتا.تمہارے بریز دیشن صرف اس کو ہوشیار کر دیتے ہیں.مگر اللہ تعالی جو دلوں کا واقف ہے.جانتا ہے کہ اس کی اصلاح کیسے کی جا سکتی ہے.چنانچہ دیکھ لو.جماعت کے متقی لوگ اب قسمیں کھا کھا کہ منافقوں کے متعلق شہار نہیں دے رہے ہیں.لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ وہ سال یا چھ ماہ تک کیوں خاموش رہے تھے.؟ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ کوئی لکھتا ہے سال ہوا میں نے یہ بات دیکھیں معنی اب میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اسے ظاہر کر دوں.کوئی لکھتا ہے چھے ماہ ہوئے ہیں تے یہ واقعہ دیکھا تھا.اب میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اسے ظاہر کر دوں.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس وقت تک خدا تعالے کا منشا یہ تھا کہ یہ معاملہ مخفی رہے.اب اللہ تعالے نے ارادہ کیا ہے کہ اسے ظاہر کر دیا جائے.گویا جب خدا تعالیٰ نے چاہا کہ پر سے " الفضل ، راگست ۶۱۹۵۶ ص۳۱۲
پھاڑ دیئے جائیں.اور ان منافقوں کو ننگا کر دیا جائے.تو وہی لوگ جو ایک ایک سال تک بزدلی دکھاتے رہے تھے دلیر ہو گئے اور جو چھ ماہ تک ان باتوں کو چھپاتے رہے.اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا اب بزدلی دور کر دو اور مجید ظاہر کر دو.بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ جلسہ کے موقعہ پر یہ بات سنی تھی.بعض نے کہا ہے کہ شوری کے دنوں میں یہ بات ہوئی تھی اور ایک شخص نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ۵۳ راہیں یہ بات ہوئی.اب دیکھ لو 19ء والے نے دو سال یا اس سے زائد عرصہ تک ایک بات کو چھپائے رکھا شہر والے نے ایک سال تک بات کو مخفی رکھا جلسہ سالانہ والے نے سات ماہ تک بزدلی دکھائی شوری والا پانچ ماہ تک چپ رہا اب اگر یہ سب لوگ بہاور بن گئے اور انہوں نے سمجھا کہ حقیقت ظاہر کر دینی چاہیے به چیز بتاتی ہے کہ اس کے پیچھے خدا تعالی کا ہا تھ ہے جب اس نے کہا منہ بند رکھو تو منہ رہے اور جب اس نے منہ کھولنے کے لئے کہا تو وہ کھل گئے اسلیے تم اس خفتہ کو دور کرنے کے لیے خدا تعالیٰ سے ہی کہو.پھر دیکھو گے کہ منافقت کی یہ سب باتیں یا سنی ہو جائیں گی اور اللہ تعالے اپنی رحمت تم پر نازل کر دے گا بشرطیکہ تم اپنے دلوں میں نیکی قائم کرو.میں تمہیں ایک چھوٹی سی بات کہتا ہوں کہ تم ایک ایک دو دو کر کے غور کرو اور سوچو کہ اگر خلافت مٹ جائے تو کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا کوئی بھی امکان ہوسکتا ہے کہ تین سو سال میںے احمدیت ساری دنیا میں غالب آجائے گی.چاہے کوئی شخص کتنا ہی بے وقوف ہو.اگر وہ پندرہ منٹ کے لئے بھی اس بات پر غور کہ سے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اگر تین سو سال میں احمدیت ساری دنیا پہ غالب نہ آئی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت دنیا میں ہرگزنہ قائم نہیں ہوسکتی.سیدھی بات ہے کہ لمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو دیس نکالا ابھی سے مل جائے گا.کیونکہ یہ خدا لقائے کا آخری حد یہ تھا کہ اس نے موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ ایک نئی جماعت کو قائم کیا تا کہ وہ اسلام کو دنیا میں غالب کرے.اگر ان منافقین
91 کی شرارتوں اور منصوبوں کے ذریعہ اس جماعت کو نا کام کر دیا گیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت ختم ہو جائے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام اپنے دعوی میں یقینا نا کام ہو جائیں گے.پھر اس کے بعد اللہ تعالے اور مامور بھیجے تو بھیجے.احمدیت کے ذریعہ اسلام دنیا میں غالب نہیں آسکتا اب جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہے اور ان کی ناکامی کا متمنی ہے وہ تو اس بات کو بہ داشت کرے گا لیکن جو سچا مومن ہے وہ اپنی موت تک دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت قائم کرنے کے لئے تیار رہے گا.اور اس کے لئے وہ کسی بڑی سے بڑی قربانی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا یا ہے الفضل" در اگست ۱۹۵۶ء مت
۹۲ فصل سوم مخالفین احمدیت کا متحدہ محاذ اس فتنہ کی آگ اگر یہ الہی پیغام نے بھڑکانا تھی مگر اس کو مجھا دینے کے لیے پاکستان کی احمدیت دشمن طاقتیں دیکھتے ہی دیکھتے متحد ہو گئیں اور پاکستانی اخبارات میں سے پیغام صلح کے علاوہ آفاق تسنیم، سفینه" - " کوہستان - " احسان.نوائے وقت.امروز " چٹان.دی ٹائمز." آن کراچی اور پاکستان ٹائمز نے منافقین کی خبروں کو خوب پبلسٹی دی.ڈھاکہ کے اخبار پاسبان نے برستمبر ۱۹۵۷ ء کے پرچہ میں یہ خبر شائع کی جس کا عنوان مقا" جانشینی کے سوال پر جماعت احمدیہ میں پھو ہیں پھوٹ پڑ گئی یہ نیز لکھا جماعت احمدیہ سنے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد کی " زندگی ہی میں ان کی جانشینی کا مسئلہ تا دیا نیوں میں زبر دست جنگ کا موضوع بن گیا ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد اپنے جانشین کو نامزد کر نا چاہتے ہیں.اخبار کو بستان لا ہو.(۲۹ اگست ۹۵۶ہ) نے مرزائی جماعت کا انتشار کے زیر عنوان لکھا: موجود و مرزا صاحب کے خلاف یہ بغاوت ایک تاریخی عمل کی حیثیت رکھتی ہے.ان کے خلاف زمانے کے انکار اور سائنس نے مسلم بغاوت بلند کیا ہے.وقت کی دانش اور خدا کی غیرت نے انہیں للکارا ہے.......ہمارے نزدیک قادیانی جماعت کا یہ انتشار......رقت اور تاریخ کی وہ توں کا طبعی تقاضا ہے اس کے محرکات سائینٹفک ہیں.نفسیاتی ہیں، ارتقائی ہیں.ذہنی غلاموں پر سے پارسائی اور آقائی کی طلسم انو رہا ہے.عصری تقاضے خود اس فراڈ کے تانے بانے اُدھیڑ کر رکھ دیں گے.جبس فراڈ کو تاریخ بے نقاب کرنے پر تلی ہوئی ہے اس کو اب رسوا ہونے سے روکا نہیں جا سکتا ہے.اخبار المنیر (لا ملہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اب اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ جماعت اندرون
۹۳ ملک اور بیرون پاکستان اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے گی.چنانچہ اس نے لکھا.ہم قادیانی جماعت کے حالات سے جتنی بھی واقفیت رکھتے ہیں.اس کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ قادربانی جماعت پوری کی پور می سازش اور نفاق کا مرکز ہے مرزا محمود المعانی گوناگوں شخصیت اور ان کی ناقابل تصویر آمریت کا آپہنی جال جب تک مضبوط تنا ہوا موجود ہے اس وقت تک یہ سازش کامیاب تو شاید نہ ہو سکے لیکن اس کا دائرہ اثر وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا اور مرزامحمود جب تک ذہنی اعتبار سے بالکل مفلوج اور جسمانی حیثیت سے معطل نہ ہو جائیں یادہ تقاضا ئے عمر طبعی اپنے پیش رو کے ساتھ عالم برزخ محاسب حقیقی کے روبرو پیش نہ ہو جائیں اس وقت تک یہ سازش پوری طرح دنیا کوا پنے لحاظ میں نہیں لے سکتی.البتہ بظاہر اس امرکا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ان کے جانشین خواہ مرزا ناصر ہوں یا ظفراللہ، عبدالمنان ہوں یا کوئی دوسری شخصیت قادیانی جماعت کا اس پر متحد ہونا اور منظم رہ کر جوں کا توں پاکستان میں ربوہ کی ریاست قائم رکھنا اور بیرون پاکستان اپنے کام کو وسیع کرتے چلے جانے کا سلسلہ حسب سابق باقی رہے گا الا کہ یہ قادیانیوں کی مخالفت کرنے والی بعض جماعتیں حسب سابق اسی حماقتوں اور غلط قاریوں کو نہ اپنا لیں تو قادیانیوں کو منظم ہونے پر مجبور کر دیں اسے احمدیت کی مخالف قوتوں کا اس طرح کا ایک ہفت روزہ لاہور کا حقیقت افروز اداری ساختیں کی پشت پناہی میں جمع ہو جاتا بے مقصد نہیں تھا بلکہ اس سے مجھے وہی خطرناک عوامل کار فرما تھے نبوت وارد میں ملک میں مفادات کے شعلے بلند کرنے کا موجب دھرک بنے تھے.چنانچہ ہفت روزہ لاہور نے ۳ ستمبر ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں لکھا.گزشتہ چند ہفتوں سے خلافتِ احمدیہ سے متعلق جماعت کے دو حصوں کے جرائد الفضل اور پیغام مصلح میں ایک خالصتہ واخلی نوعیت کی بحث چل رہی تھی.جس میں دخل اندازی ہم نے لاہور کی بنیا دی پالیسی را ہفت روزه " المنير الالپور ۳ ستمبر ۱۹۵۶ء ص۳
۹۴ کے منافی جانا.ویسے بھی اگر دیانتدارانہ غیر جانبداریت کے ساتھ کر کیا جائے تو جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کے سلسہ میں کسی قسم کی بحث و تشخیص کا حق صرت انہی لوگوں کو پہنچتا ہے جنہیں احمدیت کی تعلیم مرعوب ہوں جو اس پر ایمان لائے اور اس کے حلقہ بگوش ہوئے.لیکن ہم دیکھ رہے ہیں.کہ دو ایک ہفتوں سے بعض سیاسی ڈاکوؤں صحافیوں ابن الوفتوں اور نیم مذہبی طالع آزماؤں نے بھی جماعت مذکور کی اس داخلی کش مکش کو خواہ مخواہ مجرمانہ سیاسی رنگ دے کر امن عامہ کو انہ سر تو خاکستر بنا دینے کی ہم شروع کر دی ہے.جس سے ہمارے بعض اچھے بھلے غیر جانبدار صحافی احباب بھی کسی قدر غلط طور پر متاثر ہوئے نظر آتے ہیں.سٹر کے مفادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی سپورٹ میں متذکرہ احراری بیچنے کے ان نئے سر پرستوں نے اپنی اس تازہ دخل در معقولات کی بعض عجیب و غریب اور مضحکہ خیزہ ناقابل اعتبار تو جس کی ہیں :- اول - امام جماعت احمدیہ اپنے مخالفین کو قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں.دوم : جماعت کے ہیڈ کوارٹر میں ان کے مخالفین کا قافیہ تنگ ہے.سوم : جماعت کے ہیڈ کوارٹر کی نظم و نسق " ریاست در ریاست نوعیت کا ہے.! چهارم: مظلوم احمدیوں نے اکابر جماعت سے رجوع کرنے کی بجائے خفیہ خطوط کے ذریعہ ہم سے درخواست اعانت کی ہے.!! وعلی ہذا القیاس! وہ لوگ ہوس شاہ کے مذہبی نما سیاسی فسادات کے حقیقی پس منظر سے آگاہ ہیں.انہیں خوب یاد ہو گا کہ انہی سیاسی طالع آزماؤں نے رجواب نہ جانے اقتدار کے کسی مہرے سے ساجھے کی شہ پا کر پھر میدان فتنہ انگیز می میں در آئے ہیں شاہ کے آخر میں کس کس طرح جعلی خطوں فرضی 19 بیانوں اور خود ساختہ مکاتیب کہ ہوا دمی تھی.کس کس طرح اپنی مذموم خواہشات کو خبروں کا رنگ دے کر یہ صرف شائع کیا.بلکہ بے بنیاد اور ہو موم حادثات پر چسپاں کیا گیا.کس طرح سابق وزیر خارجہ کے گھر یلو خطوط کے عکس چھاپ کر اُن میں من مانے سیاسی - معانی مٹھونس گرفتنہ آرائی کی گئی.القصہ سیاق وسباق سے بے نیاز فقروں کی غیر دیانتدارانہ تراش خراش کر کے معصوم اور سادہ لوح عوام کو اس قبر بر انگیخہ کیا گیا.کہ یہ آگ شعلوں میں بھڑک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھا ملک
۹۵ ملک اس کی پیٹ میں آگیا.سول نظم و نسق عملاً معطل ہوگیا.مرکزی حکومت کو طوعا یا کریا مارشل لا دنا فتد کرنا پڑا.سیاسی ڈا کو چندوں کے رجسٹر خرد برد کر کے پھر اپنے اپنے گھروں اور قبوں میں جا گئے اور بے لوث مسلمانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی ہو گئے.ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعینہ اس قسم کی افترا پردازیوں کی مہم اور فتنہ آسمانی کی انہیں اب پھر جارہی ہیں.چنانچہ سے کہیں گنام دبے حیثیت آدمیوں کی طرف سے امام جماعت احمدیہ پر مقدمات کی جعلی جریں چھاپی جا رہی ہیں.ہ کہیں سابق وزیر خارجہ پاکستان کو دان کے واشگاف اظہار والہیت کے باوجود) اپنے امام کے مد مقابل دیکھا کہ ان کی طرف سے جعلی پراپیگنڈے کے تیر چھوڑ جار ہے ہیں.سے اور کہیں بعض لوگوں کی طرف سے رجماعت اسلامی کی خط و کتابتی مہموں کی طرح) اپنے نام تجعلی خطوط لکھو اگر اور انہیں نظام ربوہ کا مقہور جتا کر ان سے ہمدردی کے طور پر پولیس اور حکومت کو تلقین کا رروائی کی جار ہی ہے.- حالانکہ مذہب سے اُنس رکھنے والے دل اور دماغ خوب جانتے ہیں.کہ آقا در مرید کا تعلق در حقیقت باپ اور بیٹے سے بھی کہیں گہرا ہوتا ہے اور ایک باپ اپنے بیٹوں کی تربیت و اصلاح کے لئے رجب تک وہ اس کے بیٹے کہلائیں) ہر طریق اختیار کرنے کا مجاز و مختار ہوتا ہے پیالہ کا.محبت کا.تلقین کا.خوف یا مقاطعہ کا.لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک باپ نے اپنے بیٹے کو اس کی کسی لغزش پر ڈانٹ پلائی ہو.اور وہ بیٹا بھاگ کر اپنے باپ اور خاندان کے جانی دشمنوں کے قدموں میں جا پڑا ہو کہ.میری امداد کیجئے.میرا باپ میرے خلاف ہو گیا ہے.اور اگر کوئی بیٹا ایسا کرتا ہے تو ہمیں کوئی باپ دیانتداری سے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ وہ اپنے اس بیٹے کو کس نام سے یاد کرے گا.ہم صدق دل سے اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ کوئی ایسا مذہبی بیٹا جس کی شریانوں میں خالص خون دوڑ رہا ہو رہماری مراد اپنے آقا سے عقیدت دو الہیت کے سچے خون سے ہے، کبھی اپنے باپ کی سرزنش سے اس قدر غلط طور پر متا ثر نہیں ہو سکتا کہ اپنے باپ اور اپنے خاندان کے جانی دشمنوں ہی کی پناہ میں چلا جائے..
۹۶ ہاں وہ اس گھر یلو مقاطعہ سے متاثر ہو کر راس وقت تک کے لئے جب تک کہ غلط فہمیوں کے تمام بادل چھٹ نہ جائیں اور گھر والے اُسے درباره خندہ پیشانی سے قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو جائیں ) بے تعلقی نما خاموشی تو اختیار کر سکتا ہے لیکن یہ کہ وہ اپنے باپ اور اپنے کنبہ کے خون کے پیاسوں ہی سے ساجھا کر لے.ہم تو اس بے غیرتی کا تصور بھی نہیں کر سکتے.یا در ہے ہم نے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں کا لفظ تکرار کے ساتھ دانستہ استعمال کیا ہے.اس لئے کہ جس جماعت کے داخلی نظام کو ہمارے بعض دوستوں نے ریاست در ریاست کے خطرناک الزام سے موسوم کیا ہے.ہم یہ اس کی بے نہیں اور الزام دینے والوں کی خوب آشامی خوب آشکارا ہے اور اس لئے بھی کہ اس قدر جاہ و قاہر نظام کی تہمت کے باوجود ہم نے -.اکابر نظام کی زبان بندیاں بھی ہوتی دیکھی ہیں.ان کی معاشی ناکہ بندیوں کا نظارہ بھی کیا ہے.معمولی معمولی چا تو اور نشتر رکھنے کی پاداش میں دس دس سال کے لئے قید ہوتے بھی دیکھنا اور تو اور ہم نے تو یہ بھی دیکھا ہے.کہ ایک دن اپنی سیاسی طالع آزماؤں کا ایک نمائندہ لائلپور کے مضافات سے چل کر اسی ریاست در ریاست کے ہیڈ کوارٹر پر پہنچا.اور دن دہاڑے اس مبینہ ریاست کے سب سے بڑے رئیس کی گردن میں خنجر گھونپ کے چلتا ہوا.آپ ہی بتا ہے کہ اس دانشگان بے بسی پر مذکورۃ الصدرہ تشدد کی تہمت لگانا.اگر حقائق سے غیر دیانتدا پہلو تہی اور جانبدارانہ چشم پوشی نہیں تو اور کیا ہے.ستم بالائے ستم یہ ہے کہ.بے بسی کی انتہا پر بھی امن عامہ کے جن دعویداروں کو اس وقت اس سفاک کے مذموم فصل کی مدحت کی توفیق نہیں ملی تھی.اور میں غیر جانبدار صحافت کو رسمی طور پر بھی ان سیاسی ڈاکوؤں پر قدغن بٹھانے کی تلقین دتخریک کی سعادت نصیب نہیں ہو سکی تھی.ان کا نام نہا د جذیہ اخترت اور جوش حریت آج چند بے نام خطوں اور بے عنوان افواہوں پر خواہ مخواہ کھولا ہوا ہے بتا یے.اسے ایک غیر با نهار مبصر جذبہ ہمدردی سے تعبیر کرے گا یا نیتوں کے فتور سے ! ۱۹۵ کے منادات کی تحقیقاتی عدالت نے اپنی رپورٹ میں ایک جگہ احراریوں کی اس سیاسی فتنہ انگیزی کا
96 کما حقہ التجزیہ کرتے ہوئے یہ فقرہ لکھا تھا کہ یہ بچہ ابھی زندہ ہے اور راہ دیکھ رہا ہے کہ کوئی آئے.اور اُسے اٹھا کر گود میں لے لے اور ہم آج متذکرہ بالا حقائق و شواہد کی بنا پر امن عامہ کے تحفظ کے داعیوں اور رشتہ داروں کو خبر دار کرتے ہیں کہ اُس بچے کو پھر گود میں لے لیا گیا ہے.چنانچہ حسب سابق اس کی نشو ونما اور تشہیر کے لئے ایک طرف علماء نے فتنہ انگیزی سے بھرے ہوئے حلقہ اور قصبہ وارلیکچروں کی اور دوسری طرف بعض نامراد اخباروں نے انگارے اُگلتے ہوئے صحافتی کالموں کی مہم پھر تیز کر دی ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ذمہ دارانہ فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے ابھی سے کھنے کا اہتمام کرتی ہے یا ملک قسم کی بے پر دائی اور بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانی کے سروں سے گزرنے کا انتظار کرتی ہے.دومین نشین رہے کہ بھڑک کر بے قابوادر اپنے پرائے کی تمیز سے بے گانہ ہو جانا آگ کی حضرت اوّلین ہے.ذمہ داریت کا تقاضا یہی ہے کہ اسے بھڑکنے ہی نہ دیا جائے.بھارت کے مشہور صحافی سردار دیوان سنگھ اخبار یاست، دہلی کی دلچسپ تجویز مفتون نے اپنے انبارہ ریاست میں فقہ منافقین کو احمدیوں کی خلافت کے متعلق خانہ جنگی سے تعبیر کیا اور اپنے سکھ مذہب کی تاریخ کے پیش نظر یہ دلچسپ تجویز پیش کی کہ جماعت کے موجودہ امام وخلیفہ یا تو اپنی زندگی میں آئندہ خلیفہ کا اعلان کر دیں یا ایک خفیہ وصیت کے ذریعہ نامزد کر دیں جس پر انتقال کے بعد عمل ہو چنانچہ لکھا :.احمدیوں کی خلافت کے متعلق خانہ جنگی.ایک عرصہ سے احمدی حضرات کے آئندہ خلیفہ کے مسئلہ کو بعض اخبارات میں زیر بحث لایا جارہا ہے جسے یقیناً جماعت احمدیہ کی خانہ جنگی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس فرقہ کے بانی مرزا غلام احمد تھے جنہوں نبوت کا دعویٰ کیا.ان کے بعد اس جماعت کے خلیفہ اول کی پوزیشن مرحوم حکیم نور الدین کو حاصل ہوئی جو نہ صرف مذہبی حیثیت سے بلکہ طبی لحاظ سے بھی ملک کی ایک اہم ترین شخصیت تھے اور آپ کے انتقال کے بعد موجودہ خلیفہ حضرت بشیر الدین محمود مقرر ہوئے جو اس جماعت
کے پیشوا ہیں اور اب چونکہ آپ کی صحت اچھی نہیں بعض اصحاب اس کوشش میں ہیں کہ احمد می جماعت کے آئندہ خلیفہ ان کی پسندیدہ شخصیت ہوں.احمدی جماعت میں آئندہ کے خلیفہ کے متعلق یہ خانہ جنگی خلاف توقع نہیں کیونکہ شاید ہی کوئی مذہب ایسا ہو گا جو جانشین کے متعلق خانہ جنگی کا شکار نہ ہوا.چنانچہ سکھوں میں گورو نانک کے انتقال کے بعد آپ کے ایک صاحبزادہ نے گورو ہونے کا دعویٰ کیا اور وہ ناکام رہے اور پھر اس کے بعد ایک دوسرے گرو صاحب کے صاحبزاد ہے رام سرائے نے گورد ہونے کا دعوی کیا.اور آپ نے حکومت وقت کی امداد سے ڈیرہ دون میں اپنا مذہب چلانا چاہا مگر آپ کو بھی کامیابی نصیب نہ ہوئی.اور سکھوں کے بعد رادھا سوامی فرقہ میں بھی ان کے گور و صاحب جی مہاراج کے بعد ایک تو ان کے بڑے صاحبزادے نے گورو ہونے کا اعلان کیا اور ان کے ٹائپسٹ نے بھی گوررہونے کا اڈہ جہانا چاہا نگران کو کامیابی نہ ہوئی.چنانچہ احمد می جماعت کی اس خانہ جنگی کے متعلق ہماری رائے یہ ہے کہ آئندہ کی خلافت کا مسئلہ موجودہ خلیفہ حضرت بشیر الدین محمود پر چھوڑ دیا جانا چاہیے کیونکہ اس مسئلہ میں وہی سب سے بڑی امتھارٹی ہیں جن کے خلیفہ ہونے کا دنیا کے تمام احمدی اقرار کر چکے اور اس کی صورت یہ ہے کہ یا تو موجودہ خلیفہ اپنی حیات میں ہی آئندہ کے خلیفہ کا اعلان کر دیں اور یا ایک وصیت کے ذریعہ آپ اس کا فیصلہ کر دیں اور اس وصیت کو راز میں محفوظ رکھا جائے جس پر آپ کے انتقال کے بعد عمل ہوتا کہ یہ جماعت خانہ جنگی کا شکار نہ ہو اور تمام احمدی اس وصیت پر عمل کرنا اپنا ایمان اور فرمن سمجھیں راستے اس دورمیں پاکستانی اخبارات نے جس طرح مغربیانہ پراپیگنڈا مفتیانہ پراپگینڈا اورجھوٹی اور دل آزار خبریں کی اور جھوٹی خبریں جھیل میں ان کے دین نے ملاخطہ ہوں.مرز امحمود کے قریبی حلقے اس بات پر مصر ہیں کہ مرز امحمود کے بعد ان کے صاحبزادے مرزا ناصر یا کسی دوسرے کو خلیفہ منتخب کر لیا جائے کچھ لوگ اس پہ مصر ہیں کہ چو دھری ظفر اللہ ره بیفتند دارد که یاست دہلی ، استمبر ۱۹۵۶ ر مت کالم ۴۳ یم
وو خان کو خلیفہ منتخب کیا جائے.مرزائیوں کے اس باہمی خلفشار سے تنگ آکر بہت سے قادیانی ترک مرزائیت کر کے اسلام (4) قبول کر رہے ہیں یا ر نوائے پاکستان لاہور ۱۲ اگست ۹۵۷، ما) قادیانی خلافت کشمکش سے تنگ آکر اکثر قادیانی اب ربوہ چھوڑ رہے ہیں.چنانچہ انہوں نے ربوہ کی کو پھٹیوں، مکانات وغیرہ کی فروختگی کے سلسلہ میں چنیوٹ کے مشہور و معروف سوداگروں سے بات چیت شروع کر دی ہے......مرزا محمود نے انجمن احمدیہ کی گرانقدر رقوم ڈرامائی اندازہ میں اپنے نام پر منتقل کر دی میں اور بیت المال کا کا فی سرمایہ خورد برد کیا جارہا ر نوائے پاکستان ۲۸ اگست ۱۹۵۶ء ص ) ہے یار ۳ - " مرزا صاحب کے باغیوں میں روند افزوں اضافہ ہورہا ہے ایک لاکھ افراد کی اس قوم میں باغیوں کی تعداد کافی بنائی جاتی ہے " د کوهستان ۲ ستمبر ۱۹۵۶ء زیر عنوان " نشیب وفراد).لاہور کے ایک اخبار نے ، اکتوبر شاہ کو یہ بے بنیاد خبر شائع کی کہ مشرقی پاکستان کے قادیانیوں نے بھی مرزا محمود کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا.اخبار" الفضل" (۱۴ اکتوبر ۱۹۵۶ ) نے اس کے جواب میں حسب ذیل نوٹ شائع کیا.لاہور کے ایک اخبار نے ان دنوں جماعت احمدیہ کے خلاف جھوٹی خبروں کی ایک مہم جاری کر رکھی ہے.اصولاً ہم اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھتے اس کا جواب تو یہی عالم الغیب ہستی ہی دے گی جس کے سامنے بعض مذہب کا لبادہ اوڑھنے والے ان اخلاقی اور روحانی اقدار کی بیج کنی کہ ر ہے ہیں جن کو اس نے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے احمد مجتبے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں قائم فرمایا تھا.لہذا ہمار ا ر نہ عمل ابتداء ہی سے قرآن مجید کی اس ہدایت ور سنمائی کے مطابق رہا ہے کہ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِدُونَ قَالُوا سَلَا مَّا رسوره فرقان ہمارا خیال تھا کہ ہما را به قطعی موقف بھی خبر سازی کی اس مہم کو ٹھنڈا کر دے گا.اور کذب اور مله آیت : ۶۴
☑ افتراء کا یہ کھیل آپ ہی ختم ہو جائے گا.مگر افسوس حق و صداقت کے اس خاموش احتجاج کا نتیجہ یہ بر آمد ہو بر ہا ہے کہ نہایت دلیری کے ساتھ اب مزید غلط بیانیوں کو سہارا لیا جانے لگا ہے جس کی تازہ ترین مثال وہ خبر ہے جو اس نے جماعت احمدیہ میں بنگال اور پنجابی کشمکش پیدا کر نے اور منافرت پھیلانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ، اکتوبر شاہ کی اشاعت میں وصنع کی ہے.د مشرقی پاکستان کے قادیانیوں نے بھی مرزا محمود کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ؟ یہ مضحکہ خیز سرخی جھانے کے بعد اس اخبار نے خبر تراشی کے کمالات دکھاتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ در بر مین بڑیہ کے قادیانی مبلغ مولوی ظل الرحمن کو ان کی تیس سالہ ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا ہے.مرزا محمود نے وہاں عام بغاوت کے پیش نظر اپنے خاص نمائندے مولوی جلال الدین شمس اور مولوی عبدالرحیم درو کودهاں حالات معلوم کرنے کی غرض سے ایک وسیع دورے پر بھجوایا تھا.اور ان کی واپسی پر اب اپنے ربوہ کے خاص مبلغین مولوی محمد اجمل شاہد اور ماشہ محمد عمر اور مولوی رحمت علی کو اپنے خاص مشن کے لیے تقریر کیا ہے.لطف یہ ہے کہ یہ تینوں آدمی مشرقی پاکستان کی اہم زبان بنگلہ بولنے تک کی بھی استعداد نہیں رکھتے.اس سے ظاہر ہے کہ وہ صرف معاملہ کی نزاکت کے پیش نظر کامل نگرانی کے لئے وہاں مامور کئے گئے ہیں.یہ مینوں اصحا پورے مشرقی پاکستان میں وسیع پیمانے پر دورے کر کے حالات پر قابو پانے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں یا مذکورہ خبر میں حقیقت پسندی کا جو نیا ریکارڈ قائم کیا ہے اس پر گوئبلز کی روح بھی کھڑک اٹھی ہوگی.کیونکہ ایک مختصر سی عبارت میں نہایت خوبصورتی سے متعدد جھوٹ اور افترا دین کریمینے کا سلیقہ ایسا ہے جس میں ان کا آج تک کوئی حریف پیدا نہیں ہو سکا.حقیقت حال یہ ہے کہ : - اول : مولوی ظل الرحمن صاحب - 4 سال کی عمر پالینے پر صدر انجین احمدیہ کے قواعد کے مطابق یکم دسمبر 120 سے ریٹائر ڈ ہیں اور آج تک انہیں باقاعدہ پینشن مل رہی ہے.سلسلہ کے اس دیرہ بینہ اور مخلص خادم کو پیشکش کی گئی ہے کہ اگر وہ کام کر سکتے ہیں تو انہیں دوبارہ کام پر لگایا جا سکتا ہے مگر انہوں نے اپنی بیماری اور عمر کے پیش نظر معذوری کا اظہار فرمایا ہے.کیا معطل ہو نا اسی کو کہتے ہیں.¡
دوهر : - جناب مولانا مولوی جلال الدین صاحب شمسی مہینوں صاحب فراش رہے ہیں آپ کافی عرصہ میو اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد تبدیلی آب وہوا کی غرض سے گزشتہ چار ماہ کوئنٹ میں فروکش رہے اور اب دو ہفتے ہوئے ہیں کہ کوئٹہ سے واپس ربوہ تشریف لائے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس اخبار کے نامہ نگار کو یہ بھی علم نہیں کہ کوئٹہ اور برمین بڑیہ دو الگ الگ علاقوں کے شہر ہیں.ایک مغربی پاکستان میں ہے تو دوسرا مشرقی پاکستان میں یعنی ایک مشرق میں ہے تو دوسرا مغرب ہیں.سود : حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد جنہیں مفروضہ وفد کا دوسرا نمبر دکھایا گیا ہے.دس.ماہ قبل رو بر شواہ) میں انتقال فرما چکے ہیں.خدا جانے وہ کون سے مولوی عبدالرحیم درد ہیں جن کی زیارت حال ہی میں اس اخبار کے نامہ نگار نے کی ہے.* چهارم : خاص مبلغین میں سے ایک مبلغ مکرم جناب مولوی رحمت علی صاحب ہیں جو دسمبر شر سے میو اسپتال میں زیر علاج ہیں اور دوسرے (مولوی محمد اجل شانہ ) تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں پڑھاتے ہیں مگر اس اختبار کی فین خبر سازی کا کمال ملاخطہ ہو.کس طمطراق سے منادی کر رہے ہیں کہ:.یہ تینوں اصحاب پورے مشرقی پاکستان میں رسیع پیمانہ پر دورے کر کے حالات پہ قابو پانے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں " پنجم :.خدا کے فضل سے اس وقت مشرقی پاکستان میں سلسلہ احمدیہ کے چھ مرتبی فریضہ اصلاح دارشاد سرانجام دے رہے ہیں.جن میں پانچ مشرقی پاکستان کے باشندے اور صرف ایک مغربی پاکستان کے رہنے والے ہیں اور ان سب کے انچارج اور نگران ایک بنگلہ جاننے والے بنگالی ہیں.ان را منع حقائق کی موجودگی میں بنگلہ نہ جاننے والوں کو نگران کے لیے مقرر کرنے کا تاریک میال اسی اخبار کے ظلمت خانوں کی پیداوار نہیں تو اور کیا ہے ہے.سه روز نامه الفضل ربده ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۶ صفحه ۲
١٠٢ حضرت مصلح موعود پر بذریعہ رڈیا ء یہ آسمانی انگشت حضرت مصلح موعود پر آسمانی انکشاف ہوا کہ غیر مبالدین اگر چہ آج اس فتنہ سے علیدگی کا ادعا کر رہے ہیں مگر وہ عنقریب ان کی پشت پناہی کو کھلم کھلا اعلان کر دیں گے چنانچہ فرمایا : - یں نے دیکھا کہ اماں جی بھی اس دنیا میں آئی ہوئی ہیں اور فرشتے سار سے جو میں وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنارہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لیے آئی ہیں.اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے.اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے.لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کیساتھ مل کہ مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے یہ دونوں جھوٹے دعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لیے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لیے ہیں.اس آخری حصہ پر فرشتے زیادہ زور دیتے ہیں یا مرز المحمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۹/۵۶/اس غیر مبالعین کی طرف سے فتنہ پردازوں بنا گیا امام میر ی طور پر پوری ہوگی.بہ خواب ہی حیرت تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ شروع میں تو غیر کو سیٹیج کی پیشکش اور حضرت مصلح موعود مبائع اختبار او ران کے صدر میاں محمد صاحب لائلپوری اس فتنہ کے بارہ میں اظہار بے تعلقی کرتے رہے مگر جلد ہی حقیقت بے نقاب ہو گئی اور وہ لوگ جو دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکنے اور اپنا دامن پاک ثابت کرنے کے لئے اس کو ناپاک سازش ہے کہہ رہے تھے اب دعائیں کرنے لگے کہ " اللہ تعالیٰ ان منافقین کو ہمت اور طاقت دے ہے در پھر چند ماہ بعد انہوں نے خلافت احمدیہ کے با عبوں اور فتنہ پر دانوں کو اپنے سٹیج اور سه روز نامه الفضل ، رستمبر ۱۹۵۶ء سے پیغام مصلح " لاہور یکم اگست ۱۱۹۵۶ صاب سے ایضاً در اگست ۱۹۵۶ء مگ
١٠٣ تک کی پیشکش کر دی چنانچہ ایک غیر مبالغ لیڈر حافظ حمد حسن صاحب چیمہ نے لکھا : - محمودیت نے اپنے پیروؤں میں سے آزادی رائے مسلوب کر رکھی ہے استبدادیت کی زنجیریں دن بدن محکم سے محکم تر کی جارہی ہیں.جب نور دستم حالہ سے زیادہ بڑھ جائیں تو اس کا ایک زبر دست رد عمل ہوتا ہے.اب خود ربوہ میں ایک نہ بہ دست تحریک آزادی اُٹھتی ہے میں کا علمبردار نوجوانوں کا ایک ترقی پسند طبقہ ہے بنو شاید اس طلسم کو توڑ کر رکھ دے.اس تحریک سے خلیفہ بوکھلا اُٹھا ہے اس کا دماغی توازن قائم نہیں رہا.وہ اپنوں اور بیگانوں سے بدظن ہوگیا ہے وہ سب کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اس کی بدظنی کا دائرہ بہت وسیع ہے.اس کی لپیٹ میں خود اس کے بھائی تک آگئے ہیں.یہاں تک کہ ظفر اللہ خاں کو بھی اپنی صفائی میں ایک بیان دینا پڑا.یہ حالات آنے والے واقعات کے نشان ہیں.ہماری جماعت کا رویہ فسادات پنجاب سے لے کر اب تک اہل ریوہ کے متعلق نہایت دوستانه و مربیانہ رہا ہے.مگر بیکا یک نہیں نا ملائم الفاظ سے مخاطب کرنا شروع کر دیا گیا اور ایک قسم کی دعوت مبارزت دے دی گئی ہے ہمیں خطبوں میں پیغامی کہ کہ اشتعال دلایا گیا ہے.ہم پر یہ گھناؤنا الزام لگا یا گیا ہے کہ ہم محمود کی جماعت میں گھس کر سازشوں کے جال بچھا رہے ہیں جو سراسر کذب افتراء ہے اور دیدہ دانستہ خدا کے خون سے بے پردا : ہو کہ جماعت کی اجتماعی توجہ کو اپنی استبدادی کارروائیوں سے ہٹانے کے لیے اور اپنے پیروؤں کو ہمارے خلاف بھڑ کانے کے لیے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا کہ ہم خلافت محمود کے خلاف خفیہ منصو بے کر رہے ہیں.ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم خفیہ طور پر نہیں بلکہ کھلا کھلا خلافت محمودیہ کا خاتمہ چاہتے ہیں.اس کی استبدادی زنجیروں سے قادیانی حضرات کو آزاد کرانا چاہتے ہیں جن مفاسد نے طوق سلاسل میں قوم کو جکڑا ہوا ہے انہیں ہم ریزہ ریزہ کر دینا چاہتے ہیں.ہم ربوہ میں نئی تحریک آزادی کے علمبرداروں کو علی الاعلان یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ اصلاح کے اس کام کو جاری رکھیں اور استقلال عزم.اخلاص اور جوش ایمانی سے باطل کے اثر وہا کو کچلنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں.ختم نبوت کے تم قائل ہو.تکفیر سے تم بانہ آچکے ہو.تمہارے اور ہمارے درمیان اب صرف محمودیت ہی کا پردہ ہے اس کو بھی چاک چاک کر دو.ہم ربوہ کے آزادی پسند عناصر کا خیر مقدم کرتے ہیں.اس تحریک آزادی
۱۰۴ میں جو علماء مبلغین حصہ لے رہے ہیں.وہ جو نہی محمودیت کے حصار سے آزاد ہوں وہ ہمارے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں.ہمارے ہاں ان کے لیے عزت کی جگہ ہے.تبلیغ کے لیے مواقع ہیں تقریر کے لیے اسٹیج ہے.تبلیغ کے لیے تنظیم سے پانے ہے " اس اعلان پر حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا : - پیغامی جماعت پہلے تو یہ کہا کرتی تھی کہ ہمارا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں.لیکن اب انگریزی کی یہ مشل کہ دریبلی تھیلے سے باہر گئی ہے ، ان پر پوری طرح صادق آگئی ہے.چنانچہ پیغام صلح کے ایک تازہ پر چہ میں گجرات کے ایک پیغامی وکیل کو ایک مضمون چھپا ہے میں میں انہوں نے لکھا کہ ہم ربوہ میں نئی تحریک آزادی کے علمبرداروں کوعلی الاعلان یہ تلقین کرتے ہیں.کہ وہ اصلاح کے اس کام کو جاری رکھیں اور استقلال، عزم.اخلاص اور جوش ایمان سے باطل کے اثر دھا کو کچلنے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہ کریں.ختم نبوت کے تم قائل ہو تکفیر سے تم بانہ آ چکے ہو.تمہارے اور ہمارے درمیان اب صرف محمودیت کا پردہ ہے اس کو بھی چاک چاک کر دو.ہم ربوہ کے آزادی پسند عناصر کا خیر مقدم کرتے ہیں اس تحریک آزادی میں جو علماء ومبلغین ہیں.وہ جو نہی محمود دیت کے حصار سے آزاد ہوں ہمارے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں ہمارے ہاں ان کے لیے عزت کی جگہ ہے.تبلیغ کے لیے مواقع ہیں.تقریر کے لیے اسی ہے تبلیغ کے لیے تنظیم ہے.آؤ ہم سب تنفر نہ کو مٹاکر ایک ہو جائیں یہ پیغام صلح ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۶) اس مضمون نے بتا دیا ہے کہ پیغامیوں کی پہلی بات کہ ہمارا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں بالکل جھوٹ تھی.کیونکہ اب انہوں نے صاف طور پر لکھ دیا ہے کہ ہم ربوہ کے باغیوں کو پوری طرح مدد دینے کے لیے تیار ہیں ہمارا نظام ان کے لیے حاضر ہے ہمارا روپیہ اُن کے لیے حاضر ہے اور ہم اپنا اسٹیج انہیں تقریریں کرنے کے لیے دیں گے.لیکن میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اسے بہادر و تمہارے مولوی محمد علی صاحب بڑے تھے یا عبد المنان بڑا ہے.تم نے مولوی محمد علی صاحب کی کتنی مدد کی تھی.تمہاری تنظیم اور تمہارا رویہ ان کے کس کام آیا تھا نے پیغام صلح اور اکتوبر ۹۵ مت کالم نمبر ۴۰۳
۱۰۵ تمہاری تنظیم اور رویہ ان کے اتنا ہی کام آیا کہ انہوں نے مرتے وقت وصیت کی کہ تمہارے اکا یہ اُن کے جنازہ کو بھی ہاتھ نہ لگائیں اور آج تم ان باغیوں سے کہہ رہے ہو کہ تم ہمارے نظام میں شامل ہو جاؤ.ہماری تنظیم ہمارا روپیہ اور ہمارا اسٹیج تمہارے لیے وقف ہے اگر تم اتنے بہادر تھے تو تم نے خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی کیوں مدد نہیں کی تھی ؟ مولوی محمد علی صاحب نے خود لکھا ہے کہ میں نے ساری عمر جماعت کی خدمت کی ہے لیکن اب جبکہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں مجھ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ میں جماعت کا ۱۶ ہزار روپیہ کھا گیا ہوں اور مرند ہو گیا ہوں کیا ہی مدد بھی جو تم نے اپنی تنظیم اور روپیہ سے اپنے امام کی کی.کہ اب تم منان اور اور اس کی پارٹی کی اس سے بھی زیادہ مدد کرد گئے ہیں کے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ اس سے زیادہ گند سے الزام ان پر لگاؤ گے اگر مولوی محمد علی صاحب سے تم نے یہ کہا تھا کہ وہ سولہ ہزار روپیہ کھا گئے ہیں تو تھوڑ بے دنوں ہی میں مولوی صدر الدین صاحب مولوی عبد المنان اور مولوی عبد الوہاب کے متعلق یہ کہو گے کہ یہ نہیں بتیس ہزار روپیہ کھا گئے ہیں ان کے احسانات خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے زیادہ نہیں.پھر ان کی قابلیت بھی ان جیسی نہیں وہ دونوں علام رسول ۲۵ اور عبدالمنان سے زیادہ عالم تھے اور تم پر ان کے احسانات تھے ان میں ایک نے انگلینڈ میں مشن قائم کیا اور دوسرے نے قرآن کریم کا ترجمہ انگریزی زبان میں کہا.لیکن تمہاری تنظیم اور تمہارا روپیہ ان کے کسی کام نہ آیا تم نے ان کی زندگی ہی میں ان کی مخالفت کی.انہیں مرتد قرار دیا ان میں سے ایک پر یہ الزام لگایا کہ اس نے جماعت کا سولہ ہزار روپیہ کھا لیا ہے اور تم نے اسے اتنا دکھ دیا کہ اس نے مجبور ہو کہ مرتے وقت وصیت کی کہ فلاں فلاں شخص میرے جنازہ کو با محفظ لگائیں.بس تمہاری تو یہ حالت ہے کہ تم نے اپنے محسن اور جماعت کے بانی مولوی محمد علی صاحب کو بھی دکھ دیا.اور انہیں مرتد قرار دیا.تم نے خواجہ کمال الدین صاحب کی بھی مخالفت کی اور انہیں مرتد قرار دیا.اور اب مولوی صدر الدین صاحب، مولوی عبد المنان صاحب مولوی عبد الوہاب صاب اور ان کے سنا تھیوں کی بھی کسی دن باری آجائے گی اور مغفو ڑے دنوں میں تم دیکھ لو گے کہ انہیں بھی مرتد قرار دیا جا رہا ہے فرق صرف یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب
کی باری پہلے آگئی تھی.اور ان کی بار می بعد میں آئے گی، بہر حال اس مضمون نے بنا دیا کہ لوگ جب کہتے تھے کہ ہمارا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں تو جھوٹ بولتے تھے.کیونکہ اگر ان کا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں بجھا تو اب انہوں نے اپنا نظام اور اپنا روپیہ اور اپنا اسٹیج ان لوگوں کے لیے کیوں وقف کرنے کا اعلان کیا ہے.یہ بات بتاتی ہے کہ پہلے جھوٹ بول کر انہوں نے اپنے فعل پر پردہ ڈالن چاہا مگر آخر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس پر دہ کو چاک کر دیا.اور بتا دیا کہ ان کے اندرونی عزائم کیا ہیں جیسا کہ خدا تعالے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ : - قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ اَخْوَاهِهِمْ وَمَا تخفي صدور ھم اکبر ان کا غصہ ان کے مونہوں سے نکل آیا ہے.لیکن جو غصہ ان کے تُخْفى ولوں میں چھپا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے مگر اس کے علاوہ ان کا یہ مضمون میری سچائی کی بھی ایک واضح دلیل ہے.کیونکہ تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں اس کے متعلق ایک رڈیا الفصل میں شائع کروا چکا ہوں جو ان کے اس اعلان سے لفظاً لفظاً پورا ہو گیا ہے.انہوں نے اپنے مضمون میں مجھے یہ طعنہ بھی دیا ہے کہ میں اپنے رویا رکشوں اور الہامات کو وحی نبوت کا درجہ دے رہا ہوں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اگر کسی رڈیا کے پورا ہونے پر کوئی اعتراض ہو تو ان کا حق ہے کہ وہ اسے پیش کریں لیکن اگر کوئی کر ڈ یا پوری ہو جائے تو اس کے متعلق یہ کہنا کہ اُسے دھی نبوت کا مقام دیا جا رہا ہے.اس بزدل فوجی کی سی حماقت ہےجو بھاگا جارہا تھا اور اپنے زخم پر ہاتھ لگاکر کہا جاتا تھا کہ یا اللہ یہ خواب ہی ہو یہ لوگ بھی دیکھتے ہیں کہ فلاں رویاء یا کشف پورا ہوگیا ہے لیکن چونکہ ان کا دل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس لئے کہ دیتے ہیں کہ یا اللہ یہ جھوٹ ہی ہو.حالانکہ جو بات پوری جائے اسے جھوٹا کون کہ سکتا ہے جو بات واقعہ میں پوری ہو جائے اسے جھوٹا کہنے والا پاگل ہی ہو سکتا ہے اگر ہم ایک خواب کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ پوری ہو گئی تو تم اس کے متعلق یہ تو کہ سکتے ہو کہ تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے وہ خواب پوری نہیں ہوئی لیکن جو خواب پوری ہو گئی ہے اس کے متعلق یہ کیوں کہتے ہو کہ اسے وحی نبوت کا مقام دیا جا رہا ہے.یہ تو دیسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ تم سورج کو سورج کیوں کہتے ہو.تم زمین کو زمین کیوں کہتے ہو.له ال عمران آیت : ۱۱۹
16 تم دریا کو دریا کیوں کہتے ہو تم لوگ بے شک سورج کو چھچھوندر کہد.دریا کو پیشاب کہدو پہاڑ کو کنگ کہدو یہ تمہاری مرضی ہے.ہم لوگ پیچ و بیچ کہیں گے.سورج کو سورج کہیں گے دریا کو دریا کہیں گے اور پہاڑ کو پہاڑ کہیں گے.میں نے بنایا ہے کہ میں نے ایک رڈیا دیکھی تھی اور دہ روڈیا الفضل میں بھی چھپ چکی ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ پیغام صلح، کا یہ لکھنا کہ اسے ربوہ کے پتہ باغیوں ہمارا نظام ہمارا روپیہ اور ہمارا اسٹیج تمہارے لیے حاضر ہے ہم تمہاری پوری پوری مدد کر ینگے اس رڈیا کی صداقت کو ظاہر کر رہا ہے.میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائکہ ربوہ کے اوپر سارے بوئیں وہ آئیں پڑھ پڑھ کر سنار ہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لیے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہار سے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کرمسلمانوں سے لڑائی کریں گے.لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے یہ دونوں جھوٹے وعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لیے ہیں چنانچہ دیکھ لو پہلے تو سیخامیوں نے کہا کہ ہمارا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن اب وہ منافقوں کو ہر ممکن مدد دینے کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا روپیہ اور ہماری تنظیم اور ہمارا اسٹیج سب کچھ تمہارے لیے وقف ہے دہی کچھ کر رہے ہیں ہو خواب میں بتایا گیا تھا.لیکن ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ وہ اس مدد کے اعلان سے پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان لوگوں سے بے تعلق ہو جائیں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی منشاء - و ہے کسی بڑے آدمی کی طرف منسوب ہونا.ان باغیوں کو کوئی فائدہ نہ دے گا.اور پیغام صلح والے اپنے وعدے جھوٹے ثابت کرینگے.اور کبھی وقت پر ان کی مدد نہیں کریں گے عرض ر پیغام صلح کا یہ ضمون اس بات کی شہادت ہے کہ میری یہ روڈ یا پوری ہو گئی ہے اور اس کا یہ کہا کہ میںاپنی خوابوں کو وحی نبوت کا مقام دیتا ہوں جھوٹ ہے صرف ایک سچی بات کو سچا کہا گیا ہے اور اگر کوئی شخص کسی سچی بات کو جھوٹ کہتا ہے تو وہ خود کذاب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة السلام کے الہامات کو بھی دنیا جھوٹا کہتی تھی.لیکن دیکھ لوکس طرح خدا تعالیٰ ایک جماعت کو آپ کے پاس کھینچ لایا.اور دنیا نے مان لیا کہ آپ کے الہامات کو جھوٹا کہنے والے خود جھوٹے تھے.
۱۰۸ ابھی مجھے ایک انگریز نوسلم نے لکھا ہے کہ آپ کے وہ رڈیا کشون جواب تک پورے ہو چکے ہیں انہیں ایک رسالہ کی صورت میں شائع کرائیں تاکہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ خدا تعالیٰ اب بھی کلام کرتا ہے اور اپنے بندوں کو غیب پر آگاہ کرتا ہے.چنانچہ میں نے مولوی دوست محمد صاحب کو کہا پر ہے کہ وہ ایسی خوابوں اور الہامات کو جمع کریں تا کہ انہیں شائع کیا جا سکے اور دنیا کو بتایا جائے کرد می و کشون کا سلسلہ بند نہیں ہو گیا بلکہ وہ اب بھی جاری ہے اور خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب پر اطلاع دیتا ہے اب دیکھو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ غیر مبالعین تو کہتے ہیں کہ میں اپنے الهامات اور خوابوں کو وحی نبوت کا درجہ دے رہا ہوں.لیکن دو ہزار میل سے ایک انگریز نو سلم مجھے لکھتا ہے کہ آپ اپنی خوابوں اور انعامات کو جلد شالح کر امیل.تاکہ ہم دنیا کے سامنے نہیں حجت کے طور پر پیش کر سکیں اور اسے بتا سکیں کہ خدا تعالیٰ اب بھی اپنے بندوں کو غیب پر اطلاع دیتا ہے لیے دو ممتاز صحافیوں ک سفارشی خطوط اور حضرت مصلح موعود پاکستان کے ممتاز صحافیوں میں سے جناب میاں محمد شفیع صاحب مدیرہ اقدام اور مولانا عبد المجید سالک سابق ایڈیٹر انقلاب نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں سفارشی خطوط لکھے کہ میاں عبدالوہاب صاحب عمر کو معاف کر دیا جائے.ان حضرات کے حضرت مصلح موعود کیساتھ دیرینہ ذاتی تعلقات تھے.گر معاملہ چونکہ جماعتی نظام کا تھا.اس لیے حضور نے اپنے ذاتی روابط و مراسم پر خدا کے سلسلہ کو مقدم رکھا اور حضور کی ہدایت پر مندرجہ ذیل مکتوبات پرائیویٹ سیکرٹری عبد الرحمن صاحب انور کی طرف سے بھجوائے گئے.میاں محمد شفیع صاحب.مالک رسالہ اقدام لاہور.یہ مجموعه المبشرات" کے نام سے شائع ہو چکا ہے زنا قلم ه روزنامه الفضل ربوده ۱۶ به نومبر ۱۹۵۶مه صفحه ۴/۳ 14
1.9 آپ کی چھٹی ہو آپ نے مولوی عبد الوہاب صاحب کے متعلق لکھی محتی حضور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیہ پیش کر دی گئی.محاورہ ہے کہ اھلُ الْبَيْتِ ادْرَع بِمَا في البيت" یعنی گھر والے لوگ، دوسروں سے اپنے گھر کا مال زیادہ جانتے ہیں اس لیے آپ کی ناپسندیدگی.اور ان کی پسندیدگی کو ہم زیادہ جانتے ہیں.بہر حال آپ کے خط کا شکر یہ مگر آپ کا خط ہمارے خیالات کو بدل نہیں سکتا کیونکہ جس طرح آپ جماعت سے متعلق نہیں اور آپ کو جماعت کی باتوں سے دلچسپی نہیں اسی طرح ہم کو آپ کے مذہبی خیالات سے اتفاق نہیں.اس وجہ سے ہمیں بھی آپ کے تاثرات سے کوئی زیادہ دیسی نہیں.خاکسار عبد الرحمن النور ۹/۸/۵۶ محترم عبد المجید صاحب سالک آپ کی بھٹی محررہ یکم اکتو به ۵۶ و حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کے ملاحظہ میں آئی.حضور نے فرمایا.عبد الوہاب کو پتہ ہے آپ تیسرے آدمی ہیں عبدالوہاب کے متعلق ثابت شدہ ہے کہ وہ احراریوں سے ملتے رہے ہیں.ابھی تازہ رپورٹ بھی کوئٹہ سے آئی ہے کہ وہ احراریوں سے بھی ملتے رہے ہیں.احراریوں سے ملنے والی خبر اخبار میں بھی شائع ہو چکی ہے.اور یہ لوگ تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح اس وقت پردہ پڑ جائے اور پھر فساد اٹھائیں میرے پاس با قاعدہ اطلاعیں آرہی ہیں کہ عبد الوہاب کے پاس غیر مبائع ، غلام رسول نمبر ۳۵ اور بہت سے مخالف لوگ آتے ہیں مشکل یہ ہے کہ میں بیا نہ ہوں اور کام بھی بہت ہے اس لیے ہر رپورٹ کی نقل آپ کو نہیں بھجوا سکتا.آپ کو صرف اتنا ہی پتہ لگتا ہے جو الفضل میں چھپتا ہے اور اپنی کم فرصتی کی وجہ سے آپ الفضل بھی سارا نہیں پڑھتے.اگر پڑھتے تو آپ کو بہت ساری باتیں پتہ لگ جاتیں.ابھی کوئی نہیں خطہ میں نے دبا کر رکھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک خلط کو بیت کے ڈائر یکٹر آن امپورٹ ایکسپورٹ کا ہے.جو اپنی تائید میں ڈاکٹر ریاض قدیر اور پروفیسر اقبال صاحب کا نام بھی لکھتا ہے.اسی طرح ایک شہادت مسلم کانفرنس کشمیر کی ورکنگ کمیٹی کے ایک ممبر کی بھی ہے.پھر آپ تو اخبامہ نویس بھی ہیں.کبھی کبھی پیغام صلح بھی پڑھتے ہو نگے.کیا اس میں نہیں آپ دیکھتے کہ کس طرح متواتر جھوٹ عبد الوہاب صاحب کے والد مرحوم مغفور
کے متعلق بولا جاتا ہے.مگر وہاب صاحب کو اس کی تردید کی توفیق نہیں ملی.جو شخص اپنے باپ پر افتراء کی تردید نہیں کر سکتا.اس پر اور کوئی شخص کسی طرح اعتبار کر سکتا ہے.پھر سفینہ میں چھپا ہے ہمارے پاس امتہ الحی مرحومہ کے خط ہیں جو اپنے خاوند کے خلاف ہیں امتہ الھی مرحومہ وہاب کی بہن بھی میں نص نے اپنی وفات یافتہ بہن کی ذلت کو اس لیے برداشت کیا ہے تاکہ میں بہ نام ہو جاؤں.آپ کہتے ہیں میں اس پر اعتبار کروں یہ کیسی عجیب بات ہے.یقیناً سفینہ کا وہ بیان دیا.یاد باب کے دوستوں کی طرف سے ہے ورنہ ایک نہیں سالہ وفات یافتہ عورت کے متعلق بہتان طرازی کی جرات کوئی اخبارہ کر ہی کس طرح سکتا ہے ؟.اگر رشتہ دار سا تھ ملے ہوئے ہوں اور وعدہ کرتے ہوں کہ وہ خط شناخت کے متعلق تائید کریں گے تب اور صرف تب کسی اخبار کو جرات ہو سکتی ہے.والسلام
فصل چهارم فتنہ منافقین سے متعلق حضرت مولوی عبد المنان صاحب عمر کا افسوس ناک رویہ اعلی موجود کے ابدان مینیات پشتل اخبار الفضل کے پرچے بذریعہ ڈاک امریکہ پہنچے توجو بدری خلیل احمد صاحب ناصر انچارج احمدیه مسلم مشن امریکہ نے مبلغ نیو یارک مکرم مولوی نور الحق صاحانے کو ہدایت کی وہ فوراً بوسٹن پہنچیں جہاں مولوی عبد المنان صاحب عمر ۲۱ را گست ۹۵۶ یک تھے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف نیویارک سے ، راگست ۱۹۵۶ء کی شام کو بوسٹن پہنچے اور انہیں اخبار الفضل کے تازہ پرچے پڑھنے کے لیے دیئے.مولوی نور الحق صاحب انور کا بیان ہے کہ :.پڑھ کر انہوں نے بجائے اظہارہ ندامت کے کچھ اظہار ناراضنگی سا کیا اُن کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ بات دراصل کچھ بھی نہیں چو ہدری اسد اللہ خالصا حب کی مولوی عبدالوہاب حنا عمر سے ناراضگی ہے جس کا بدلہ چو ہدری صاحب نے اس صورت میں لیا ہے.میں نے انہیں کہا کہ یہاں تو چو ہدری صاحب کا سوال نہیں اصل گواہی تو حاجی نصیر الحق صاحب کی ہے.کہنے لگے ہو سکتا ہے کہ مولوی عبد الوہاب صاحب نے بات بے احتیاطی سے کی ہو بہر حال وہ میرے بھائی ہیں.میں انہیں جانتا ہوں وہ بے احتیاطی سے بات تو کر سکتے ہیں لیکن پیغامیوں یا منافقوں کے آلہ کار نہیں ہو سکتے.ان کی کسی چھوٹی سی بات لہ مولوی نور الحق صاحب انور نے ۲۵ اگست ۱۹۵۶ء کے مراسلہ میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جولائی ۱۹۵۰ء کے اس واقعہ کی اطلاع دی کہ بالٹی میں باتوں باتوں میں مولوی صاحب نے مجھے کہا کہ پیغامی اکابرین ان کے ساتھ خاص تعلق رکھتے ہیں ایسا تعلق جماعت کے لوگ بھی نہیں رکھتے اور یہ کہ بودہ میں بھی پیغا میوں نے یہ تعلیم نہیں توڑا اور بعض اوقات پشاور سے ربوہ تک کا سفر پیغامی محض میری لاقات کی خاطر کہتے تھے (ریکا نہ ڈخلافت لائبریری)
کولے کر بتنگڑ بنالیا گیا ہے.ان کی باتوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ رکھا کے تعلقات ان سے اور مولوی عبدالوہاب سے دیرینہ ہمیں چنانچہ قادیان سے آکر ربوہ میں اللہ رکھا مولوی عبد المنان صاحب کو ملا اور انہیں کہا کہ وہ اسے کوئی نوکری تلاش کردیں نیز ان کی باتوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مولوی عبد الوہاب صاحب عمران کے ساتھ بھی اس قسم کی گفتگو کرتے رہے ہیں لیکن مولوی عبد المنان صاحب کہنے لگے کہ میرے ساتھ جو گفتگو ہوئی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ حضور بیمار ہیں اور حضور پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے اس لیے حضور کسی کو اپنا قائم مقام بنا دیں جو کام سنبھالے اسی طرح تفسیر کبیر کے درس کے متعلق کہنے لگے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب عمر کہا کرتے تھے کہ بہت سے لوگ اسے سمجھ نہیں سکتے کیونکہ یہ بہت گہری علمی باتوں پشتمل ہے اس کی بجائے عام درس ہو نا چاہیئے بہر حال مولوی عبد المنان صاحب عمر کی گفتگو سے ظاہر تھا کہ وہ بجائے اپنے بھائی کے فعل پر اظہار ندامت کرنے کے ان کی طرف لے رہے ہیں لائے مولوی عبد المنان صاحب امریکہ سے ستمبر ۱۹۵۶ء کے پہلے ہفتہ میں ربوہ پہنچے.حضرت مصلح موعود نے ہم استبراء کے خطبہ جمعہ میں نہایت واضح لفظوں میں ان کی راہ نمائی فرمائی کہ فتنہ میں ملوث افراد کے لیے معافی اور توبہ کا رستہ کھلا تھا وہ کھلم کھلا لکھتے کہ میں ایک خلیفہ کی موجودگی میں غفلت امید دار پر لعنت بھیجتا ہوں اور اس کو اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے بالکل خلاف سمجھتا ہوں اسی طرح اور باتیں جو سلسلہ کے خلاف لکھی ہیں ان کی تردید کرتے اور اگر دوسرے اخبار نہ چھاپتے تو اخبار الفضل میں بھجواتے اور اگر الفضل نہ چھاپتا تو میرے پاس شکایت کرتے کہ اب ہمارے لیے کون سا رستہ کھلا ہے لیئے یہ خطبہ الفضل میں چھپا تو چو ہدری محمدظفر اللہ خاں صاحب نے ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو ہیگ سے حضور کی خدمت میں لکھا کہ.-: به مکتوب مولوی نور الحق صاحب انور از نیجه بارک ار اگست ۱۹۵۶ء ریکار ڈ خلافت ۱۰ بریری : ۳- الفصل ۱۲ ستمبر ۱۹۵۶ ، صفحه ۶٫۵
١١٣ ور مولوی عبدالمنان صاحب کا دوسرا خط خاکسار کے نام آیا ہے اس خط میں انہوں نے اس عریضیہ کی تقل بھیجی ہے جو انہوں نے حضور کی خدمت اقدس میں ربوہ پہنچنے کے بعد گزارش کیا.حضور کے اعلان سے بو الفضل میں چھپا تھا خاکسار نے اخذ کیا کہ اس میں ان کی طرف بھی اشارہ ہے.اس سے فائدہ اٹھا کر مولوی عبد المنان صاحب کو خاکسار نے لکھا ہے کہ حضور کے اعلان نے ایک بہت صاف اور سیدھی راہ دکھا دی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ انہوں نے فوراً اس اعلان کے مطابق ان سب امور کی تردید شائع کرادی ہو گی جو ان کے یا ان کے عزیزوں کے متعلق کہے گئے ہیں یا جن کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے.خاکسار نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے خلافت کے بنیادی مسائل مثلاً خلیفہ خدا بناتا ہے.انجمن یا افراد نہیں بناتے.خلیفہ معزول نہیں ہو سکتا.ایک خلیفہ کی زندگی میں اُسی کے جانشین کے متعلق بحث یا تذکرہ موجب فساد اور بغاوت کی راہ ہے وغیرہ اس قدر وضاحت سے بیان فرما دیئے تھے کہ اس وضاحت کے ہوتے ہوئے انہیں پھر نہ یہ بحث لانا موجب حیرت اور افسوس ہے.یہ بھی لکھا ہے کہ اگر انہوں نے امریکہ میں کہا کہ مولوی عبدالوہاب صاحب کی مراد فقط یہ تھی کہ حضور کو دو معاون دیدئے جائیں تو انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ کہنا پڑتا ہے جماعت کے تمام مخلصین حضور کے خادم ہیں.پھر انجمن.تحریک مختلف ادارات نظار نہیں.وکالتیں.مفتی قاضی.امیر.کارکن سب حضور نے کام لینے کے لیے جاری فرمائی ہوئی ہیں تو معادن دیدئیے جائیں" لغو اور بے معنی ہے پھر کون معاون دیدے ؟ اور کیا دیدے ؟.جب سب ہی حضور کے فرمان کے تابع ہیں تو دینے والا کون اور جو چیز پہلے ہی حضور کے تابع فرمان ہے اُسے دینا کیا معنی ؟.خاکسار نے ان کے دونوں خطوں کا جواب پہلے تو نہیں دیا تھا لیکن حضور کا اعلان پڑھنے کے بعد اور پھر حضور کا وال نامہ پہنچنے پر خیال ہوا کہ ممکن ہے انہیں فائدہ پہنچ سکے اس لیے خاکسار نے انہیں لکھ دیا.اطلاعاً گزارش خدمت اقدس ہے.والسلام حضور کا غلام طالب دعا خاکسار ظفر اللہ خان “ 66 جناب میاں عبدالمستان صاحب عمر نے پاکستان پہنچنے کے بعد اولین قدم یہ اٹھایا کہ بجائے منافقین اور غیر مبالغین سے اظہار بیزاری کے اخبار پیغام صلح و راکتوبر ۱۹۵۶ء میں ایک مضمون شائع
۱۱۴ را و یا بز خالطہ انگیزی کا شاہکار تھا.جس میں حضرت مصلح موعود کی خلافت حقہ سے واضح طور پر اظہار فاداری کرنے کی بجائے اپنا عقیدہ ایسے پر پیچ الفاظ میں لکھا جس پر ہر غیر مبالغ اور ہر غیر احمدی بآسانی دستخط کر سکتا ہے چنانچہ لکھا.:.را میرا یہ عقیدہ ہے کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے متعلق تجویز خواہ وہ اس کی وفات کے بعد کے لیے ہی کیوں نہ ہو ختم نا جائز ہے.خلافت حقہ اپنے ساتھ بے انتہا برکتیں رکھتی ہے اللہ تعالی کا ہاتھ اس کے اوپر ہوتا ہے وہ جماعتی اتحاد و ائتلاف کے قیام اور الہی نور کے اظہار کا ذریعہ ہے.لیکن جو خلافت منصوبوں، سازشوں ، چالبازیو اورظاہر یا مخفی تر بیروں سے قائم کی جائے وہ پنی ساری برکتیں کھو دیتی ہے.اسے اقتدار اور حکومت کا نام تو دیا جا سکتا ہے.اسے یزیدی خلافت تو کہا جا سکتا ہے لیکن وہ خلافت رادہ نہیں ہو سکتی نہ اس کی برکات سے اسے حصہ ملتا ہے.ایام مسلم راکوزی ۱۹۵۶ ۶ ص۲) اس مضمون کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے :- دیوه - مؤرخہ ۲۱ صفر ۱۳۶ مطابق ۲۷ ستمبر ۱۹ بخدمت جناب ایڈیٹر صاحب پیغام صلح السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکانه مہربانی فرماکر منسلکم بیان اپنے اخبار کی قریبی اشاعت میں درج کرکے ممنون فرمائیں.والسلام خاکسار عبد المنان عمر انٹر نیشنل سیمینار ہاروڈ یونیورسٹی امریکہ میں شرکت کے بعد یہ عاجزہ ابھی حال ہی میں واپس آیا ہے.اخبار الفضل کے کچھ پرچھے کیمبرج میں ملے تھے.بقیہ میں نے یہاں آکر دیکھے اسی طرح مجھے یہاں آکر ہی ٹائمز آف کراچی پاکستان ٹائمز " " پیغام صلح ” نوائے پاکستان اور چٹان" وغیرہ اختبارات دیکھنے کا موقع ملا.مجھے یہ معلوم کر کے بہت ہی دکھ ہوا کہ جماعت احمدیہ میں مسئلہ خلافت کے متعلق کچھ فقہ اور خلفشار پیدا ہوا ہے.یہ امر بھی میرے رنج والم کا موجیہ ہوا کہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ گویا میرا بھی اس فتنہ میں کچھ ہاتھ ہے.بعض لوگوں کی بد طینیوں.قیاس آرائیوں مفروضات اور غلط بیانیوں
کے علاوہ اس سراسر افتراء اور جھوٹ کو ہوا دینے کا موجب یہ امر بھی ہوا ہے کہ کہا گیا ہے کہ آئندہ خلافت کے لیے ایک امیدوار اور سحق میں بھی ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے میرا نام لیا.ہرگز میرے حقیقی واقف اور دوست نہیں.اگر وہ مجھ سے پورے طور پر آگاہ ہوتے اور میری کمزوریوں، کوتاہیوں، غلطیوں ، بے عملیوں ، بے خبریوں ،غفلتوں اور جہالتوں پر ان کی نظر ہوتی تو وہ ہر گزنہ میرا نام نہ لیتے.میں تو ایک حقیر اور کمزور انسان ہوں.میرا یہ عقیدہ ہے کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے متعلق بتجویز خواہ وہ اس کی وفات کے بعد کے لیے ہی کیوں نہ ہو جتما نا جائز ہے.خلافت حقہ اپنے ساتھ بے انتہا برکتیں رکھتی ہے.اللہ تعالی کا ہاتھہ اس کے اوپر ہوتا ہے وہ جماعتی استحاد و ائتلات کے قیام اور الہی نور کے اظہار کا ذریعہ ہے.لیکن جو خلافت منصوبوں، سازشوں ، چالبازیوں اور ظاہر یا مخفی تدبیروں سے قائم کی جائے وہ اپنی ساری برکتیں کھو دیتی ہے.اسے اقتدار اور حکورت کا نام تو دیا جاسکتا ہے اسے یزیدی خلافت تو کہا جاسکتا ہے لیکن وہ خلافت راشدہ نہیں ہو سکتی.نہ اس کی برکات.اسے حصہ ملتا ہے.پس میں صاف صاف اور واشگاف الفاظ میں اس حقیقت کو بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ایسی کسی سازش اور منصوبہ بندی سے میرا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں.نہ میں خلافت کا متمنی ہوں اور نہ اس کے لیے میں نے کسی فرد ، پارٹی یا جماعت کے ساتھ کوئی سازش اور منصوبہ بنا یا.نہ اس عرض کے لیے کسی پارٹی تر تشکیل دی اور نہ ایسی باتوں کو جائز کھتا ہوں.مجھے امید ہے کہ اس صاف اور واضح بیان کے بعد اب کسی خدا ترس انسان کے دل میں میں کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں جس کا دل انصاف کر سکتا اور جن کی عقل سوپا سکتی ہے.یہ غلط فہمی نہیں رہے گی کہ موجودہ جھگڑے کیسا تھ میرا بھی کوئی تعلق ہے.میں اپنے اس یقین کا اظہار بھی ضرور می کجھتا ہوں کہ الہ تعالی حضرت مسیح موجود کے نام کو اس رونہ تک جودنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور آپ کی دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.اور یہ کہ آپ اپنے تمام دعا دی میں پہنچے تھے.آخر میں میں اپنے مولیٰ ہی کو بچارہتا ہوں کہ وہ ہم پر اپنا جسم نازل کرے.بہارے گناہوں کو
117 بخش دے.ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے، آلودگیوں اور آلائشوں کے ہر دھبہ کو ہم سے دور کر دے.اپنے قرب کی راہیں عطا کرے ہر طرح ہمارا حافظ و ناصر ہوں، اور ہر قسم کے فتوں اور ابتلاؤں کے بڑے انجام سے بچائے.وہ ہم سے اور ہم اُس سے راضی ہوں.وہ اپنی رحمت کا ہاتھ بڑھا کر ہماری جان میں اپنی گہری طلب پیدا کر دے.علم وعمل کی طاقتیں بخشے اور ایسا پانی نازل کرے جو دلوں کی کدورتوں کو دھو دے.اور اسلام.قرآن مجید اور پاک محمد مصطفے - لی اللہ علیہ وسلم جو اپنی قوت قدسیہ اور تکمیل حلق میں اکمل داستم نہیں ہمارا جان ومال اس وجودِ اقدس پر قربان) کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے.کہ ہم اسی راہ کی خاک ہیں.خاکساره عبد المنان عمر مورخہ ۲۱ صفر ۱۳۷۷۶ ھ مطابق ۲ ستمبر ۱۱۹۵۶ اس پہلو وار اور مہم بیان نے جماعت کے تمام حلقوں کی آنکھیں کھول دیں.اور ان پر روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ حضرت خلیفہ اول کے اس صاحبزادے کی تمام تر ہمدردیاں بھی غیر مبائع اصحاب سے ہیں جو ساری عمر اُن کے مقدس والد اور اُن کی خلافت کے خلاف نبرد آنہ مار ہے.یہ سوال بھی پیدا ہوا.کہ جو لوگ عداوت محمود میں یہاں تک بڑھ چکے ہیں کہ حضرت مصلح موعود کی ذات والا صفات کے بارے میں کوئی کلمہ خیر لکھنا برداشت نہیں کر سکتے تھے ، مولوی عبد المنان صاحب کے بیان کو نہایت طمطراق کے ساتھ ملی حروف میں شائع کرنے پر آمادہ کیسے ہو گئے جبکہ مولوی صاحب کا عقیدہ اُن کے ذاتی نظریات سے ہم آہنگ نہیں تھا.حضرت مصلح موعود نے مولوی صاحب کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا :- عبد المنان کو ہی دیکھ لو حبیب رہ امریکہ سے واپس آیا تو میں نے سرمی میں خطبہ پڑھا اور اس میں میں نے وضاحت کر دی کہ اتنے امور ہیں وہ ان کی صفائی کر دے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا.وہ یہاں تین ہفتے بیٹھا رہا لیکن اس کو اپنی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ لی صرف اتنا لکھ دیا کہ میں تو آپ کا وفادار ہوں.ہم نے کہا ہم نے تجھ سے وفاداری کا عہد نے پیغام صلح ۳ اکتوبر ۱۹۵۶ء صت
116 کرنے کا مطالبہ نہیں کیا.ہمیں معلوم ہے کہ پیغامی تمہارے باپ کو غاصب کا خطاب دیتے تھے وہ انہیں جماعت کا نال کھانے والا اور حرام خور قرار دیتے تھے تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں ان پیغامیوں کو جانتا ہوں یہ میرے باپ کو گالیاں دیتے تھے یہ آپ کو غاصب اور منافق کہنے تھے میں ان کو قطعی اور یقینی طور پر باطل پر سمجھتا ہوں.مگر اس بات کا اعلان کرنے کی اسے توفیق نہ کی پھر اس نے لکھا کہ ہمیں خلافت حقہ کا قائل ہوں اسے یہ جواب دیا گیا کہ اس کے تو پیغامی بھی قائل ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ خلافت حقہ کے قائل ہیں لیکن ان کے نزدیک خلافت حضہ اس نبی کے بعد ہوتی ہے جو بادشاہ ورسول کریم صل اللہ علیہ سلم چونکہ بادشاہ بھی تھے ایسے ان کے نزدیک آپ کے بعد خلافت خطہ جاری ہوئی اور حضرت ابو بکرہ حضرت عمر یہ حضرت عثمان اور حضرت علی خلیفہ ہوئے لیکن مرزا صاحب چونکہ بادشاہ نہیں تھے اس لیے آپ کے بعد وہ خلافت تسلیم نہیں کرتے.پس یہ بات و پیغامی بھی کہتے ہیں کہ وہ خلافت حقہ کے قائل ہیں تم اگر واقعی جماعت احمدیہ میں خلافت حقہ کے قائل ہو تو پھر یہ کیوں نہیں لکھتے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے جد خلافت کرتا ہوں اور جو آپ کے بعد خلافت کے قائل نہیں انہیں لعنتی سمجھتا ہوں ، پھر تم یہ کیوں نہیں لکھتے کہ خلافت حقہ صرف اُسی نبی کے بعد نہیں ہے جسے نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی مل جائے بلکہ اگر کوئی نبی غیر بادشاہ بھی ہو تب بھی اس کے بعد خلافت حقہ قائم ہوتی ہے تمہارا صرف یہ لکھنا کہ میں خلافت حفضہ کا قائل ہوں ہمارے مطالبہ کو پورا نہیں کہتا.ممکن ہے تمہاری مراد خلافت حصہ سے یہ ہو کہ جب میں خلیفہ بنوں گا تو میری خلافت خلافت حقہ ہوگی یا خلافت حقہ سے تمہاری یہ مراد ہو کہ میں تو اپنے باپ حضرت خلیفہ المسیح اول کی خلافت کا قائل ہوں، یا تمہاری یہ مراد ہو کہ میں حضرت ابو بکر ہے اور حضرت عمررضہ کی خلافت کا قائل ہوں.بہر حال عبد المنان کو امریکہ سے واپس آنے کے بعد ان امور کی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ لکھ دیتا کہ پیغامی لوگ میرے باپ کو غاصب، منافق اور جماعت کا مال کھانے والے کہتے ہیں میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں تو پیغامی اس سے ناراض ہو جاتے اور اس نے یہ امیدیں لگائی ہوئی تھیں کہ وہ اُن کی مدد سے خلیفہ بن جائے گا اور اگر وہ لکھ دیتا کہ مین لوگوں نے خلافت ثانیہ کا انکار کیا ہے میں انہیں لعنتی سمجھتا ہوں تو اس کے وہ
دوست جو اس کی خلافت کا پراپیگنڈا کرتے رہے ہیں اس سے قطع تعلق کرتے اور وہ ان سے قطع تعلقی پسند نہیں کرتا تھا اس لیے اُس نے ایسا جواب دیا ہے پیغام صلح نے بڑے شوق سے شائع کردیا اگر وہ بیان خلافت ثانیہ کی تائید میں ہوتا تو پیغام صلح اسے کیوں شائع کرتا ؟ اس نے بھلا گزشتہ ۴۲ سال میں کبھی میری تائید کی ہے.انہوں نے سمجھا کہ اس نے جو مضمون لکھا ہے وہ ہمارے ہی خیالات کا آئینہ دار ہے اس لیے اسے شائع کرنے میں کیا حرج ہے ؛ چنانچہ جماعت کے بڑے لوگ جو سمجھدار ہیں وہ تو الگ رہے مجھے کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے لکھا کہ پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ شاید کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے.لیکن ایک دن میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کر مجھے پتہ لگا کہ پیغام مصلح میں میاں عبد المنان کا کوئی پیغام چھپا ہے تو میں نے ایک دوست سے کہا میاں ذرا ایک پرچہ لانا وہ ایک پرچہ لے آیا ئیں نے وہ بیان پڑھا اور اسے پڑھتے ہی کہا کہ کوئی پنجا می ایسا نہیں جو یہ بات نہ کہ دے یہ تردید تو نہیں اور نہ ہی میاں عبدالمنان نے یہ بیان شائع کر کے اپنی بریت کی ہے اس پر ہر ایک پیغامی دستخط کر سکتا ہے کیونکہ اس کا سر فقرہ پیچیدہ طور پہ لکھا ہوا ہے اور اسے پڑھ کر ہر پیغامی اور خلافت کا مخالف یہ کہے گا کہ میرا بھی یہی خیال ہے راستے اتمام حجت ) حضرت علی موجود جو کو دل سے چاہتے تھے کہ مولوی عبدالمنان صاحب کسی چونکہ اتمام حجت طرح اس فتنہ سے بچ جائیں اس لیے آپ نے اتمام محبت کی کوئی کسر نہیں چھوڑی حضور نے نظارت امور عامہ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ذریعہ ان کو بار بار ان امور کی طرف متوجہ کیا جن کی واضح تردید ہونی ضروری ہے ایک صورت حضور نے یہ اختیار فرمائی کہ شیخ بیشر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کو اجازت دی کہ ان سے ملاقات کر کے اصلاح احوال کی کوشش کریں اس سلسلہ میں حضور کا ایک اہم مکتوب درج ذیل کیا جاتا ہے.له الفضل ۱۲۴ اپریل ۱۹۵۷ و مت
19 کریمی شیخ صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ آپ کو میرا خط مل گیا ہو گا کہ آپ کو منان سے ملنے کی اجازت ہے.اب میں.ایک غلط فہمی دور کر دینا چاہتا ہوں.چونکہ منان صاحب ایک مہینہ سے زائد ہوا کہ امریکہ سے واپس آچکے ہیں اور اس عرصہ میں میاں بشیر احمد صاحب کیونکہ ان کو لکھ چکے ہیں کہ کون کونسے امور کی صفائی انکے ذمہ ہے گر باوجود اس کے انہوں نے صفائی نہیں کی اور انجمن کے رہبرات اس پر گواہ ہیں که وہ سلسلہ کے جس جس کام پر مقرر ہوئے ہیں اس کی بہت سی رقوم ابھی تک قابل تشریح ہیں اور بہت سی رقوم پر میاں عبد المنان کے دستخط اب تک موجود ہیں اور میاں غلام غوث صاحب جھونی اور چوہدری انور حسین صاحب شیخو پورہ کی معین گواہیاں موجود رہیں کہ انہوں نے خلافت کی امید داری کا اظہار کر دیا اور یہ کہا کہ خلیفہ ثانی ناصر احمد کو اپنا ولی عہد بنا رہے ہیں.ان حالات کے بعد وہ تو یہ بھی کہیں اور ہمیں ان کی تو بہ کے الفاظ سے اتفاق بھی ہو تو بھی انہیں اس طرح ہر گنہ نہیں معات کیا جا سکتا کہ آئندہ وہ کسی جماعت کے نمبر ہو سکیں یا جماعت کے کسی عہدہ پر فائز ہوسکیں اس وقت کہ عشاء کے بعد کا وقت ہے میجر عارف الزمان لاہور سے آئے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ میاں منان با قاعدہ مولوی صدر دین سے مل رہے ہیں اور ایک دن تو ملاقات رات کے دو بجے تک رہی اور لاہور کے کسی وکیل فضل علی غنی اور امیر احمد قدوائی سے قانونی مشورے لے رہے ہیں غالباً یہ امیر احمد قدوائی رہی ہے جس کی آپ نے ایک دفعہ میرے ساتھ دعوت تھی کیونکہ وہ بھی وکیل اور سوال کہلاتا تھا.یہ مال میری اور ر کی رائے کو اور بھی کیا کرتے ہیں.رجبرات اور میاں عبدالمنان کے دستخط ہمارے پاس موجود ہیں شیخ محمد احمد صاحب گر آپ کے پائے کے کیل تو نہیں مگر بڑے پائے کے وکیل ہیں انہوں نے سب کا غذات دیکھتے ہیں اور یہ قطعی رائے دی ہے کہ گو بعض معاملات میں انجمن کے بعض افسروں کی سہل انگاری کی وجہ سے وہ فوجداری مقدمہ سے تو بچ گئے ہیں مگر عبرات میں ان کے اپنے دستخطوں سے اتنا مواد موجود ہے کہ دنیا کے سامنے ان کی امانت کو مخدوش کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے بعض واقعات میں کل کے خطہ میں لکھ چکا ہوں.بہر حال میں نے آپ کو اس لیے •
١٢٠ وقت پر اطلاع دے دی ہے تاکہ آپ غلطی سے کوئی PROPOSAL با کر نہ بھجوا دیں اور پھر اس کے رو کرنے کی وجہ سے آپ کی دل شکنی نہ ہو بہر حال سلسلہ کے مفاد اور امانت اور دیانت کو حضرت خلیفہ اول کی اولاد پر مقدم رکھا جائے گا اور صرف اتنی رعایت ان کے ساتھ ہو سکتی ہے کہ وہ دلیری کے ساتھ پیغام صلح کے افتراء کو ظاہر کریں اور اسی طرح اپنے دوستوں اور غیر احمدی اخباروں کے افترا کو.تو جماعت سے اخراج میں نرمی کر دی جائے.منان میں تو اتنا بھی ایمان نہیں پایا جاتا کہ وہ اجمیری کے اس جھوٹ کی تردید کر تا کہ میں نے کبھی وکلاء کے کمیشن مقرر کرنے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ اس نے اس بات کا اظہار کیا کہ غلام رسول ۲۵ جومیری خلافت کا پروپیگنڈا کر رہا ہے اس کو میں نے شاہ میں سلسلہ کے روپے میںسے پچاس روپے دیئے تھے اور اس طرح کچھ رقم اجمیر ی کو دی تھی اور اس کے لیے ناصر احمد سنی دشمنی کی یہ وجہ ہے کہ ناصر احمد نے یہ ساری بے ضابطگیاں انجمن کے سامنے رکھی تھیں.مرز المحمود احمد ۲ ۱۹ دنیابھر کی حمدی جماعتوں اور انجین امینی دنیا سے امری کی بہت سی جماعتوں مثلاً احمدیت احمدیہ جماعت ربوده ، لاہور، راولپنڈی منٹگمری پاکستان کی قرار دادیں ر(ساہیوال) کراچی.لائلپور فضل آبا د سرگودہا تادین حیدر آباد دکن، مصر، وغیرہ نے فتنہ منافقین میں ملوث افراد کے متعلق قرار دادیں پاس کیں کہ انہیں، جماعت احمدیہ کا فر تسلیم نہ کیا جائے.یہ قرار دادیں جب بغر من منظوری حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی خدمت میں ارسال کی تھیں تو حضور نے ان کو منظور فرما لیا.جس پر صدر انجمن احمدیہ ریدہ نے بھی اپنے خصوصی اجلاس مورخہ ۲۰ اکتوبر شاٹ میں یہ قرار داد پاس کی کہ فتنہ میں ملوث ۳ در افراد کو تسلیم نہ کیا جائے اور اگر کوئی جماعت اس کو اپنا مبر سمجھے تو اس انجمن کا الحاق صدر انجمن احمد یہ ربوہ سے لوٹا ہوا سمجھا جائے اور اگر کوئی شخص نئی جماعت ایسی بنائے جو ان افراد کو اپنا ممر تسلیم کرے ه - فهرست و (۱) میاں عبد المنان صاحب عمر (۲) میاں عبد الوہاب صاحب عمر (۳) چونڈی غلام رسول صاب (سم) بلک فیض الرحمن صاحب نینی (۵) بلک عزیز الرحمن صاحب (4) ملک عطاء الرحمن صاحب راحت چو ہدری عبدالحمید صاحب ڈیڈا (۸) راجہ بشیر احمد صاحب راز کی (۹) اللہ رکھا صاب رباقی ص ۱۳۱)
۱۲۱ یا جو افراد ایسے نکل آئیں جن کا تعلق مذکورہ بالا لوگوں میں سے کسی کے ساتھ ثابت ہو.اور وہ بھی فتنہ میں ملوث پائے جائیں تو صدر انجمن احمدیہ کے اس فیصلہ کے مطابق ایسی انجمن بھی صدر انجین احمدیہ کی شارخ نہیں بن سکے گی.اور جو حقوق صدر انجمن نے اپنی شاخوں کو دیئے ہیں.وہ ان سے محروم رہے گی.اور ایسے افراد بھی کسی ایسی جماعت کے نمبر نہیں سمجھے جائیں گے جس کا الحاق صدا نجون احمدیہ کے ساتھ ہو : نیز فیصلہ ہوا کہ صیغہ نظارت علیا اس معاملے کی سختی سے نگرانی کرے کہ صدر انجینی، احمدیہ کی کوئی شاخ یا مقامی جماعت کا کوئی فرد فیصلہ ہذا کی خلاف ورزی نہ کرے.اور اس فیصلہ میں رخنہ اندازی کا موجب نہ بنے.یہ بھی فیصلہ ہوا کہ مندرجہ بالا فیصلہ جات آخرمی منظوری کے لیے سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کیے جائیں.اور حضور کی منظوری حاصل کرنے کے بعد مجلس شوری میں بھی پیش کیا جائے.تاکہ ساری جماعت کی رائے براہ راست معلوم خاکساران ہو سکے کا مرزاع دین احمد (ناظر علی غلام محمد اختر ناظر علی ثانی عبدالحق رامه رنا ظر بیت المال، فتح محمد سیال رنا ظفر اصلاح دار شاد) محمد الدین ناظر تعلیم) خادم حسین ناظر امور عامه و خارجه) مرزا داد و احمد ر ناظر حفاظت) جلال الدین شمس ( مبر) اسد اللہ خان (بیر سٹرایٹ لا ضمیر مرزا نوراحمد درنا فرشبان سیف الرحمن امبر) عبد السلام روکیل الامل تحریک جدید میں ور اب اللہ تعالی نے مندرجہ بالا قرار داد ملاخطہ فرمانے کے بعد فرمایا : د منظور ہے سلہ میاں عبدالمنان من عمر کا مکتوب کو ستان میں اپنا مال کے بعد ابا کوہستان صلح میں بھی مولوی عبد المنان صاحب عمر کا ایک خط چھپا جس کا عنوان تھا ” قادیانی خلافت سے دستبرداری ربطیه حاشیه ) (۱۰) محمد یونس صاحب مولوی فاضل را چوہدری عبد الطیف صاحب بیگم پوری (۲) مولوی محمد حیات صاحب تاثیر (۱۳) مولوی علی محمد صاحب اجمیری لے سے وزنامه الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۶ء م
۱۲۲ اس خط میں بھی انہوں نے اگر چہ بظا ہر حضرت مصلح موعود دسے عقیدت را خلاص کا اظہارہ کیا مگریہ اپنے پر عائد شده الزامات کی وضاحت بھی نہ غیر مبائعین کے اعتراضات کا جواب تھا اور نہ ان منافقوں سے بیزاری کا اظہارہ تھا جو ان کو ساتھی قرار دیکر اُن کی خلافت کے حق میں پراپیگنڈا کر رہے تھے امی ہوائی پنجاب کے قلم سے اجمالی تفصیل اس مکتوب و اقعہ جو دراصل اپنی خویت اس کا مقصد چونکہ محض مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنا اور احمدیوں کو مغالطہ دے کر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنا تھا اس لیے مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ سر گور دلا میر صوبائی پنجاب کی طرف مولوی عبد المنان صاحب کے کیس کی اجمالی تفصیلات کے عنوان سے حسب ذیل مضمون بصورت ٹریکٹ شائع کیا گیا تا احباب جماعت پر یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے کہ مولوی عبد المنان صاحب عمر اب تک معافی کے اس صحیح اور مومنانہ طریق معانی سے گریزاں ہیں جن کی نشاندہی حضرت مصلح موعود اپنے خطبہ جمعہ ۱۴ ستمبر ۱۹۵۶ء میں فرما چکے تھے.بسم الله الرحمن الرحیم محمده وتفضلى على رسوله الكريم مولوی عبد المنان منانے ابتک اپنی صفائی کیلئے صحیح راہ اختیار نہیں کی اجنا جماعت کی آگاہی کیلئے- مولوی عبد المنان حنا کے کیس کی اجمالی تفصیت مولوی عبد المنان صاحب عمر کا ایک خط بعنوان " قام بانی خلافت سے دستبرداری حال ہی میں ایک مخالف اخبار کو بستان را ولپنڈی اور کوہستان لاہور میں شائع ہوا ہے.اس خط میں مولومی صاحب نے بظا ہر اپنے پہلے رویہ کے بر عکس سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے عقیدت کا اظہارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ میں حضور کو مصلح موعود اور خلیفہ بر حق یقین کرتا ہوں.ہیونکہ یہ خط لحمض ایک مخالف اخبار میں ہی شائع ہوا ہے اور حصوبہ کی خدرست ہیں یا کم از کم نظارت امور عامہ میں انہوں نے نہیں لکھا.اس لیے مرکز کی طرف سے ایک مرکز لیٹر کے ذریعہ
احباب جماعت پر اس خط کی حقیقت واضح کر دی گئی تھی.لیکن پور پر بھی جماعت کا کوئی ایسا فرد جسے حالات کی پوری واقفیت نہ ہو مولوی عبد المنان صاحب کے اس خط سے کسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے اس لیے میں نے بحیثیت صوبائی امیر خالصتاً اس نقطہ نگاہ سے مولوی عبد المنان صاحب کے کیس کو پڑھا ہے کہ تا میں اجمالی رنگ میں تمام واقعات احباب جماعت کی خدمت میں پیش کر سکوں اور انہیں صحیح صورت حال سے آگاہ کروں.سو ذیل میں چند امور بالترتیب لکھ رہا ہوں:.ا فتنہ منافقین کا انکشاف جولائی کے آخری ہفتہ میں ہوا.ان دنوں موادی عبد المنان تھا.پاکستان سے باہر تھے.۲.ان کی عدم موجودگی میں کئی ایسی شہار نہیں مل چکی تھیں اور بعض اخبار میں بھی شائع ہو چکی ن تھیں کہ 1 - اُن کے بھائی عبد الوہاب صاحب کہتے ہیں کہ اب خلیفہ بوڑھا اور کمزور ہو چکا ہے.اس لیے انہیں معزول کر کے کسی اور کو خلیفہ مقرر کرنا چاہیئے.ب بعض منافقین نے علی الاعلان کہا کہ وہ مولوی عبد المنان صاحب کے سوا آئندہ کسی اور کو خلیفہ ماننے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہوں گے.ج.بعض منافقین نے کہا کہ نعوذ باللہ سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصره العزیز صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی خلافت کے لیے رستہ صاف کر رہے ہیں.اور اس عراض سے مولوی عبد المنان صاحب کو جو خلافت کے مستحق اور امیدوار ہیں نظر اندازہ کیا جارہا ہے اور جماعت میں اُن کو آگے آنے نہیں دیا جاتا.وغیرہ وغیرہ یہ امورا ایسے ہیں جو صرف شہادتوں کے ذریعہ الفضل میں ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد خود منافقین کی طرف سے بھی مخالف اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں.- مولوی عبد المنان صاحب ستمبر کے پہلے ہفتہ میں ربوہ میں واپس آگئے.انہوں نے آکر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں معافی کی درخواست کی اور کہا کہ ان کا کسی سازش پا پارٹی سے تعلق نہیں ہے.۴.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ان کو جواب دیا گیا کہ چونکہ وہ اتنا عرصہ
۱۲۴ باہر رہے ہیں.انہیں یہاں کے حالات کا پورا علم نہیں ہے آٹے پہلے وہ تمام اخبارات دیکھ لیں جن میں انکا بھی نام لیا گیا ہے.اور منافقین نے ان کو اپنا سا تھی ظاہر کر کے سلسلہ کے خلاف پر دیسیگنڈا کیا ہے.پہلے ان امور کی تردید کریں اور پھر معانی کی درخواست کریں.اب اگر انہیں معافی دے دی گئی تو منافقین بوئن کو اپنا ساتھی ظاہر کر رہے ہیں حسب سابق کذب بیانی اور بہتان طرازی کرتے رہیں گے.۵ - اسی دوران میں ۱۴ ستمبر کو سیدنا حضرت...خليفة اسم الثاني ايده ال تعالى بصره العزيز نے مری میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے اور زیادہ وضاحت اور تفصیل کے ساتھ ایسے لوگوں کو جو فتنہ میں ملوث تھے معافی اور صفائی کا طریق بتایا.اور فرمایا کہ اگر وہ دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ اخبارات میں ان کے متعلق جھوٹ لکھا گیا ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ ان اخباروں کی تردید کریں.نیز جو لوگ ان کو اپنا ساتھی ظاہر کر رہے ہیں اُن سے بیزاری اور لا تعلقی کا اعلان کریں.یہ خطبہ الفضل" مورخہ ۲۲ ستمبر میں شائع ہو چکا ہے.ے.اس عرصہ میں مولوی عبد المنان صاحب قریب تین ہفتہ تک بالکل خاموش رہے.انہوں نے نہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں کوئی خط لکھا اور نہ ہی نظارت امور عامہ سے کسی قسم کی مراسلت ' کی..آخر انہوں نے ۲۴ ستمبر کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں خط لکھا کہ میرا کسی سازش سے کوئی تعلق نہیں ہے بخارات کے متعلق انہوں نے لکھا کہ گویا انہوں نے کوشش بھی کی تھی ، لیکن انہیں بیاں سے اختبارات نہیں ھے ، باہر سے بھی منگوائے گئے لیکن ابھی تک نہیں پہنچے.وہ دوبارہ کوشش کریں گے.- مولوی عبد المنان صاحب نے ۲۷ دسمبر کو ایک مضمون لکھا توبعد میں پیغام صلح ، مورخ ۳ ، اکتوبر میں شائع ہوا ہے.اس مضمون کی ایک نقل انہوں نے “ الفضل کو بھی بھجوائی.لیکن چونکہ مضمون ان کی بریت کے متعلق تھا.اس لیے " الفضل" والوں نے کہا کہ یہ مضمون نظارت امور عالمہ کی معرفت آنا چاہیئے.چنانچہ بعد میں یہ مضمون مولوی عبد المنان صاحب نے نظارت امور عامہ کو
بھجوا دیا.۹.اس مضمون میں مولوی عبد المنان صاحب نے خلافت ثانیہ کے ساتھ کہیں عقیدت اور درستگی کا اظہار نہیں کیا تھا.نہ ہی ان الزامات کا جواب یا تھا ہوا اخبار میں اُن کے خلاف آچکے تھے بلکہ اس مضمون سے جیسا کہ کئی دوستوں نے محسوس کیا، مولوی صاحب کی پوزیشن اور زیادہ مشتبہ ہوگئی.نظارت امور عامہ نے ۲۹ ستمبر کو مولوی عبد المنان صاحب کو خط لکھا جس کے بعض اقتباسات ذیل میں درج ہیں.آپ کا خط محرره ۲۲۰ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پہنچا.اس کے جواب میں لکھتا ہوں کہ افسوس ہے کہ آپ نے اس اہم اور سنگین نوعیت کے معاملہ میں اس ایمانی غیرت اور اخلاص کا اظہار نہیں کیا جو ایک بچے اور بے لوث مومن سے متوقع ہے.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ اٹھارہ (۱۸) دنوں سے امریکہ وغیرہ کے سفر سے واپس آچکے ہیں.اور آپ کو واپس آنے کے دوسرے دن ہی کہ دیا گیا تھا کہ آپ کو وہ اخبارات پڑھنے چاہیں جن میں منافقین اور غیر مالین اور دیگر غیر احمدیوں نے موجودہ فتنہ میں آپ کو آڑ بنا کر مختلف قسم کی شرانگیز باتیں کی ہیں.مگر آپ کا اپنا اقرار ہے کہ آپ نے اس وقت تک ان اخبارات کا مطالعہ نہیں کیا.حالانکہ یہ ایک سچے مومن کے لیے گویا زندگی اور موت کا سوال تھا.آپ کا یہ عذر کہ آپ کو ابھی تک اخبارات نہیں مل سکے ایک بالکل بہانہ بھوئی کا عذر ہے.کیا اگر آپ کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہو تو آپ اس قسم کے عذرات رنگ اختیار کر کے اس آگ کے سمجھانے سے غفلت برتیں گے ؟ اگر آپ میں اپنی بریت کی کھی تڑپ ہوتی تو آپ ایک دفعہ نہیں دس دفعہ لاہور کا سفر اختیار کر کے یا اپنے کسی آدمی کو لاہور بھجواکر یہ اخبارات، حاصل کر سکتے تھے.یا اتنے دنوں کی بجائے اس وقت خاکسار کو لکھ دیتے.مگر آپ اس طرح سوئے رہ ہے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں.حالانکہ آپ کو اخبارات کے حوالہ جات کی فہرست بھی بنا کر دے دی گئی محتی.
۱۲۶ کیا آپ کا دل اس بات پر ستی پاتا ہے کہ آپ کا یہ رویہ کہ سترہ دن سے اختبارتا کی تلاش کر رہا ہوں بیچے ایمان کی علامت ہے.آپ کا ایک نوٹ مورخہ ۲۷ ایڈیٹر صاحب الفضل " کے نام لکھا ہوا خاکسار کو بذریعہ رجسٹری ملا.اس سخط میں آپ نے عام اصول کے رنگ میں تو لکھا کہ یک لفافات حقہ کو مانتا ہوں.مگر اس بات کی صراحت نہیں کی کہ میں حضرت مرزا البشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی کی خلافت پر ایمان لانا اور اسے خلافت حقہ یقین کرتا ہوں.معلوم نہیں کہ آپ نے جہاں خلافت حقہ لکھتا ہے.اس سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خلافت مراد لی ہے یا کہ اپنی متوقع خلافت کے متعلق اشارہ کر دیا ہے.“ ا یکم اکتوبر کو مولوی عبد المنان صاحب نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کمندت میں ایک اور خط لکھا کہ حضور کے ارشاد کے مطابق اب تک باہر کے مندرجہ ذیل اخبارات دیکھ چکا ہوں.اس کے بعد انہوں نے مختلف اخبارات کی فہرست دیدی ہے اور لیں.میرے نزدیک یہ خط محض ایک مذاق نظر آتا ہے.کیونکہ ان اخبارات میں بھی جو کچھ تھا.اس کی تردید نہ بذریعہ اخبارات اور نہ بذریعہ خط انہوں نے کی.۱۲ - ۱۲ اکتوبر کو مولوی صاحب نے ناظر صاحب امور عامہ کے خط محرره ۲۹ ستمبر کا جواب لکھا.لیکن اس میں بھی معین اور واضح رنگ میں کسی اہم پہلو کا جواب انہوں نے نہیں دیا بلکہ الزامی اور منطقیانہ رنگ میں بات کو ٹالنے کی کوشش کی ہے.اور اصل مقصد یعنی الزامات کی تردید وغیرہ کی طرف نہیں آئے.چنانچہ اس کے جواب میں ۳ اکتوبر کو ناظر صاحب امور عامہ نے مولوی صاحب کے نام ایک اور خط لکھا جس کے بعض اقتباسات حسب ذیل ہیں :- " میرے رجسٹر ڈ خط محرره په ۲۹ کے جواب میں آپ کا خط محررہ پیزا ۲ دستی موصول ہوا.مجھے افسوس ہے کہ آپ نے صاف اور سیدھے مؤمنانہ طریق کو چھوڑ کر ایسا دفع الوقتی کا رنگ اختیار کیا ہے جو معاملہ کو سلجھانے اور آپ
۱۲۷ کے ایمان و اخلاص کی پوزیشن کو صاف کرنے کی بجائے مزید پیچیدگی پیدا کرتا ہے اور بدگمانی کا راستہ کھولتا ہے.میں نے اپنے خط محررہ پر ۲۹ میں آپ کی جملہ سابقہ تحریرات کو سامنے رکھ کر چند معتین باتیں پیش کی تھیں.اور آپ کو بتایا تھا کہ آپ پر ان ان امور میں واضح تردیدی اعلان کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.مگر آپ نے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی بجائے دفع الوقتی کے رنگ میں مجبل باتیں لکھ دی ہیں.اور نہ تو کسی بات کا معین صورت میں جوابت دیا ہے.اور نہ حسب تحریر کوئی تردیدی اعلان شائع کیا ہے.“ علاوہ ازیں اس سخط میں پھر اُن تمام امور کو دوہرا یا گیا کہ اب بھی اگر مولوی صا ان کی تردید کر دیں تو کافی ہو جائے.چنانچہ خط کے آخری الفاظ حسب ذیل ہیں.ائیں اس بات کے لکھنے سے بھی رُک نہیں سکتا.کیونکہ جماعتی مفاد اس کا متقاضی ہے کہ ہم آپ کے معاملہ میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتے.اگر آپ نے فوری طور پر صحیح جواب نہ دیا.اور ایمان اور اخلاص کے طریق پر مطلوبہ تردیدی اعلانات نہ کیے تو ہمیں مجبوراً یہ تحریر " الفضل ، میں شائع کرنی پڑے گی.اور جو منٹورے جماعت کی طرف سے آرہے ہیں اُن کو قبول کر کے آپ کے متعلق کوئی اعلان کرنا پڑے گا.کیونکہ آپ کے موجودہ رویہ کو دیکھتے ہوئے جماعت کو تسلی دلانے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس باقی نہیں رہا.اس دوران میں پھر مولوی صاحب اور نظارت امور عامہ کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی.جس سے مولوی صاحب کے حق میں کوئی مفید بات نہیں نکلتی.اس ساری خط وکتابت سے یہ اثر ہے کہ مولوی صاحب نے بحث کے رنگ میں خطوط کا جواب دینے کی کوشش کی ہے.اور معین اور واضح رنگ میں عائد شدہ الزامات کی تردید کی طرف توجہ بھی نہیں دی.۱۴ - "کومستان را ولپنڈ ی مورخه بهر نومبر اور کوہستان لا ہور مورخہ ۱۳ نومبر میں قادیانی خلافت سے دستبرداری کے عنوان سے مولوی عبد المنان صاحب کا ایک خط شائع ہوا ہے.جیس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں.اور میں پر مرکز کی طرف سے ایک سرکر لیٹ بھی جماعتوں کو بھیجا گیا ہے.
۱۲۸ اس خط میں مولوی عبد المنان صاحب نے حضرت خلیفة اسم الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے عقیدت اور اخلاص کا اظہار کیا ہے.لیکن سب سے زیادہ حیرانگی کی بات ہے کہ یہ خط انہوں نے نہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھیجا ہے اور نہ ہی نظارت امور عامہ میں.بلکہ سلسلہ کے ایک شدید معاند اخبار میں انہوں نے اسے شائع کروایا ہے." الفضل " جو سلسلہ کا اخبار ہے اور اس غرض کے لیے باقی تمام اخبارات سے زیادہ موز دوں اور اہم تھا اُسے بھی کو منان میں شائع ہونے کے دو ہفتے بعد 19 نومبر کو یہ مضمون بھجوایا گیا.۱۵ - الفضل" کے نام مولوی صاحب کا جو خط وصول ہوا وہ " الفضل " نے نظارت امور عامہ کو بھیجوایا.نظارت امور عامہ نے اس کے جواب میں مولوی صاحب کو جو خط لکھا اُس کے چند اقتباسات یہ ہیں ہے آپ اس امر کو بخوبی سمجھتے ہوں گے.کہ اگر آپ اپنی عقیدت اور اخلاص کے اظہار کے لیے ایسے خطوط لکھ رہے ہیں تو اس کے اولین مخاطب خود سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذات ہونی چاہیے.لیکن یہ امرمیر ے لیے حیرانگی کا موجب ہے کہ آپ نے تادم تحریر یہ خط یا اس کی کوئی نقل حضور کی خدمت میں نہیں بھجوائی.آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر اس خط کے نتیجے میں آپ نظام سلسلہ کی طرف سے کسی کا رروالی کی توقع رکھتے ہیں تو تب بھی ایسا کرنا ضروری تھا کہ حضور کوسب سے پہلے یہ خط لکھا جاتا یاکم از کم نظارت امور عامہ کو لکھا جاتا.لیکن اس کے برعکس آپ نے سلسلہ کے ایک شدید دشمن اخبار میں یہ خط شائع کر دیا.اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نیت اپنی برأت کرنا نہیں.بلکہ خلیفہ اسیح کے خلاف پر ویکنڈا کرنا ہے اب بھی آپ نے جو خط لکھا ہے وہ الفضل" کو لکھا ہے.اور ظاہر ہے کہ آپ کے ایسے مظاہرہ کے بعد" الفضل " آپ کا خط شائع نہیں کر سکتا جب تک آپ یہ نہ بتائیں.کہ آپ نے کیوں حضرت خلیفہ اسیح کو خط نہیں لکھا.اور کیوں سلسلہ کے شدید دشمن اخبار میں دو دفعہ اس خطہ کو شائع
۱۲۹ کر لیا.جب تک آپ کا مضمون آپ کے دستخط سے حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت ہیں.یا امور عامہ میں نہیں آتا سلسلہ کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی الفضل“ اُسے چھا پہلے گا." ** ۱۹ - آج کی تاریخ ۲۶ ۱۱/۵/ ۲۵) تک مولوی عبد المن: " صاحب کے کیس کی یہ پروگریسی رہی ہے جس کا اجمالی نقشہ میں نے احباب کے سامنے پیش کر دیا ہے.مولوی عبد المنان صاحب کا آخری خط جو بظاہر عقیدت کا حفظ ہے اُن کے پہلے خط کی طرح اُن کی پوزیشن کو صاف نہیں کرتا.اس میں بھی انہوں نے نہ اپنے اور یہ عامد شدہ الزامات کی کوئی وضاحت کی ہے.نہ پیغامیوں کے اعتراضات کا جواب دیا ہے.نہ اُن لوگوں سے واضح رنگ میں بیزاری کا اظہار کیا ہے جنہوں نے ان کو اپنا ساتھی ظاہر کر کے حضور اور جماعت کے خلاف اسقدر پر دیگنڈا کیا ہے.بلکہ جہاں تک مرکز کی اطلاعات کا تعلق ہے وہ اب بھی ان لوگوں سے با قاعدہ رابطہ رکھ رہے ہیں اور تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں.ان حالات میں جماعت کے دوست سمجھ سکتے ہیں کہ مولوی عبد المنان صاحب کا یہ خط بھی کوئی معنے نہیں رکھتا.بلکہ اگر کوئی شخص یہ قیاس کرے کہ انہوں نے یہ بھی ایک چال چلی ہے اور اسطرح حالات سے نا واقف افراد کے دلوں میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ تو معافی مانگ رہے ہیں لیکن خلیفہ اسے ان کو معاف نہیں کرتے.اور اس طرح سے حضور کے خلاف بھی پردیسگنڈا کیا جا رہا ہے.تو اُسے بھی غلط نہیں کیا جا سکتا.جماعت کے دوستوں کو ان کو الفت کی روشنی میں سمجھ لینا چاہیئے کہ مولوی عبد المنان صاحب نے آج تک اپنی صفائی اور بہ بیت کے لیے صحیح راہ اختیار نہیں کی اور خصوصاً اس طریق کے مطابق ایک دفعہ بھی حضور سے معافی کی درخواست نہیں کی جس کا ذکر آج سے بہت پہلے حضور اپنے خطبہ میں فرما چکے ہیں.والسلام خاکسار عبد الحق صوبائی امیر
۱۳۰ حضرت مصلح موعود کی دلی تمنا تھی کہ کسی طرح میاں | اخراج از جماعت کا مفصل علمان عبدالمان صاحب بی رنگ میں معنی نامه جیمیں تو اس پر غور کیا جائے مگر ڈھائی تین ماہ کی مہلت کے باوجود جب اُن کی روش میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہ ہوئی تو حضور نے احمدی جماعتوں اور صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی ان قرار دادوں کو منظور فرما لیا ہو فتنہ میں ملوث افراد کو جماعت میں شامل تصور نہ کرنے سے متعلق تھیں بعد انہاں ۲۹ نومبر ۱۹۵۶ء کے الفضل میں مندرجہ ذیل مفصل اعلان جاری فرمایا : مولوی عبدالمنان متعلق اخراج از جماعت احمدیہ کا اعلان مولوی عبد المنان جب امریکہ میں تھے تو اُن کے بعض ساتھیوں نے یہ کہا تھا خلیفہ ثانی کی دقات کے بعد وہ خلیفہ ہوں گے.اور پھر پیغام صلح نے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی تائید شروع کردی تھی.جس سے پتہ لگتا تھا کہ پیغامیوں کے ساتھ ان کی پارٹی کا جوڑ ہے.اور پیغام صلح نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ میں نے نعوذ باللہ حضرت خلیفہ اول.........کی مہتک کی ہے میں نے مولوی عبد المنان کے متعلق کوئی قدم اس لیے نہ اٹھایا کہ وہ باہر ہیں جب واپس آئیں اور ان کو ان باتوں کی تردید کا کا موقعہ ملے.تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے.بیچنا نچہ جب وہ واپس آئے.تو انہوں نے ایک مبہم سامعانی نام لکھ کر بھجوا دیا.میں نے وہ میاں بشیر احمد صاحب کو دیا کہ وہ اس پر جرح کریں کریں مگر میاں بشیر احمد صاحب کے خطوں کے جواب سے انہوں نے گریہ کرنا شروع کیا.اس کے بعد ایک مضمون جو ظاہر معافی نامہ تھا لیکن اس میں ، پیغام صلح" کے اس الزام کی کوئی تمدید نہیں تھی کہ خلیفہ ثانی یا جماعت احمدیہ نے حضرت خلیفہ اول کی گستاخی کی ہے.انہوں نے اپنام صلح میں شائع کرایا.یہ بیان ایسا تھا کہ جماعت کے بہت سے آدمیوں نے لکھا کہ اس بیان کا ہر فقرہ وہ ہے جس کے نیچے ہر پیغامی دستخط کر سکتا ہے.اس لیے اس بیان کو جماعت نے قبول نہ کیا.اس دوران میں چوہدری محمد حسین میجر ایڈووکیٹ نے ایک مضمون پیغام صلح میں لکھا جس میں یہ بھی لکھا گیا.کہ مرزا محمود کی خلافت کی مخالفت کرنے والوں کو دلیری اور استقلال -
ان کا مقابلہ کرنا چاہیئے.اور ڈرنا نہیں چاہیئے.ہمارا روپیہ اور ہماری تنظیم اور ہماری سیٹھ ان کی تائید میں ہے.مولوی عبد المنان اور مولوی عبد الوہاب نے اس مضمون کی بھی جو جماعت احمدیہ کی سخنت ہتک کرنے والا تھا کوئی تردید نہ کی اس کے بعد مولوی عبد المنان نے بجائے اس کے کہ تمام مروی ن دیدوں کے ساتھ معافی نامہ میرے پاس بھیجتے ایک بظاہر معافی نامہ لیکن در حقیقت اقرا به جرم سلسلہ احمدیہ کے شدید مخالف روز نامہ " کوہستان میں چھپوا دیا جس کا ہیڈ نگ یہ تھا کہ ر قادیانی خلافت سے دستبرداری" یہ دوسرے لفظوں میں اقرار تھا اس بات کا کہ عبد المنان صنا قادیانی خلافت کے امیدوار ہیں کیونکہ جو شخص امید دار نہیں وہ دستبردار کی طرح ہو سکتا ہے مگر بہر حال یہ مضمون جیسا بھی تھا میرے پاس نہیں بھیجا گیا.ملکہ کو ہستان میں چھپوایا گیا.اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ.جس کا مطلب یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کو بد نام کرنے کے لیے ایک تدبیر نکالی جا رہی ہے پس میں مولوی عبد المنان کو اس وجہ سے کہ وجہ شکوہ مجھے پیدا ہوئی تھی لیکن انہوں نے اس کے جواب میں ایک ملمع سازی کا مضمون کو ہستان میں چھپوا دیا.جو احمدیت کا دشمن ہے اور میرے پاس صحیح طور پر کوئی معافی نامہ نہیں بھجوایا.پس میں مولوی عبدالستان کو جو یا تو اپنا مضمون "پیغام صلح، میں چھپواتے ہیں.جو جماعت مبالعین کا سخت دشمن اخبار ہے یا در کوہستان میں چھپواتے ہیں جو سلسلہ احمدیہ کا شدید دشمن ہے.اور پھر چوہدری ظہور حسین چیمہ کے شدید دل زار مضمون کی تردید نہیں کرتے اور اپنی خاموشی سے اس کی اس دعوت کو منظور کرتے ہیں کہ شاباش خلافت ثانیہ کی مخالفت کرتے رہو اور ہمارا روپیہ اور ہمارا پلیٹ فارم اور ہماری تنظیم تمہارے ساتھ ہے تم خلافت محمودیہ کی مخالفت کرتے رہوا اور اس کے پردے چاک کر دو.جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں اسی طرح مذکورہ بالا الزامات کی بناء پر میاں عبد الوہاب کو بھی.پس آج سے وہ جماعت احمدیہ کا حصہ نہیں ہیں اور اس سے خارج ہیں.مجھے کچھ عرصہ سے برا بہ جماعت کے خطوط موصول ہو رہے تھے کہ یہ لوگ جب جماعت سے عملاً خارج ہو رہے ہیں.تو ان کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا.گر میں پہلے اس لیے کارٹا کہ شاید وہ صیح طور پر معافی مانگ لیں اور الزاموں کا ازالہ کر دیں.مگر ان لوگوں نے نہ مجھ سے معافی مانگی نہ آن الزامات کا ازالہ کیا جو ان پر لگائے گئے تھے پس اب میں زیادہ -
انتظار کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا.اور مولوی عبد المنان اور میاں عبد الوہاب دونوں کو جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں.تمام جماعتیں اس بات کو نوٹ کر لیں.اگر وہ صحیح طور پر براہ راست مجھ سے ربری با خذ رسید معافی طلب کریں گے نہ کہ کسی پیغامی یا غیر احمد می اخبار میں مضمون چھپوا کر تو اس پر غور کیا جائے گا.سر دست ان کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے.بعض اور لوگ بھی انکے ہمنوا ہیں مگر ان کے متعلق مجھے اعلان کرنے کی ضرورت نہیں.امور عامہ ان کے متعلق ساری باتوں پر غور کر رہا ہے.وہ جب کسی نتیجہ پر پہنچے گا خو دا علان کر دے گا.خاکسار مد المسعود احمد خلیفة المسیح الثانی مرا ۲۵ میاں عبد المنان صاحب حضرت مصلح موعود کے ناظر صاحب امور عامہ کا مکتوب مفتوح اس مفصل بیان کی اشاعت کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا ہے اور صحیح راہ سے کھلم کھلا گریز کر کے ناظر صاحب امور عامہ کی خدمت میں ایک مراسلہ بھیجا جس کے جواب میں ناظر صاحب کی طرف سے حسب ذیل مکتوب مفتوح الفضل ر دسمبر ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا.بسم الله الرحمن الرحیم حمد وصال على رسوله الكريم وعلى عبده السيح الموعود میاں عبد المنان صاحب ! السلام عليكم آپ کا ایک خط حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حضور پہنچا جس میں آپ نے کوہستان میں چھپنے والے خط کی نقل بھجوائی ہے اور یہ شکایت کی ہے کہ الفضل کو بھی میں نے یہ مضمون بھجوایا تھا.مگر الفضل نے شائع نہیں کیا.آپ کا یہ خط حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمارے دفتر میں جواب کے لیے بھجوایا ہے سو آپ کو تجوا با تحریر ہے کہ اس خطہ میں بھی بہت دجل سے کام لیا گیا ہے.جیسا کہ پہلے خطوں میں لیا گیا تھا.مثلاً اس خط کے اوپر تاریخ ۲۰ لکھی ہے.حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے.اصل بات یہ ہے کہ آپ کے اخراج از جماعت کا جو اعلان الفضل میں چھپا تھا اس میں حضرت خلیفہ
١٣٣ " المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مضمون کی تحریہ کی تاریخ کا ، لکھی تھی.لیکن مضمون چھپا ۲۹ کے الفضل میں تھا.اور لاہور بھی ۲۹ کو پہنچ گیا تھا.آپ نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ گویا معافی نامہ اس مضمون کے چھینے سے پہلے کا ہے.اپنے خط پر بھی عام کی تاریخ ڈال دی اور یہ بھول گئے کہ میں وقت آپ اس خط کو ڈاک خانہ میں ریبری کروائیں گے و ڈاکخانہ بھی کوئی تاریخ ڈالے گا.چنانچہ آپ کے رہبری خط کا لفافہ ہمارے پاس موجو د ہے.اور اس پر ڈاکٹیا نہ نے لکھا ہے کہ ۳۰ر نومبر کو یہ خط ربوہ سے ڈالا گیا.ہمارے آدمیوں کی رپورٹ سے یہ ثابت ہے کہ آپ ۲۹ نومبر کو لاہور سے ربوہ آگئے تھے.اور ۳۰ کی صبح کو لاری نے ذریعہ کہیں باہر گئے تھے پس آپ نے یہ خط ۳۰ تاریخ کو ربوہ سے روانہ کیا.اور ۲۷ تاریخ اس پر محض اس لیے ڈالی ہے.تاکہ جماعت احمدیہ یہ دھوکہ کھائے.کہ اخراج از جماعت سے پہلے ہی آپ نے معافی مانگ لی تھی.مگر پھر بھی آپ کو معاف نہیں کیا گیا.تب ہے کہ ایک راستباز.انسان کا بیٹا ہوتے ہوئے آپ عبد اللہ بن سبا کے طریق پر چل رہے ہیں ہ۱ یہ شکایت بھی کہ الفضل نے آپ کا مضمون نہیں چھاپا تھا.حالانکہ کو ہستان نے چھاپے دیا اپنی ذات میں ایک دجل ہے.آپ کا یہ مضمون پہلے چار نومبر کے کوہستان میں چھپا تھا پھر ۳ ار نومبر کے کو بہتان ہیں.اور الفضل کو آپ کا مضمون 19 نومبر کو پہنچا تھا.الفضل کو کیا ضرورت پیش آئی تھی.کہ وہ مضمون جو پہلی دفعہ پندرہ دن پہلے اور دوسری دفرسات دن پہلے آپ سلسلہ کے ایک شدید دشمن اخبار میں چھپوا چکے تھے اس کو چھاپتا جبکہ الفضل کا اس معاملہ سے تعلق بھی کوئی نہیں.یہ معاملہ یا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے تعلق رکھتا ممھا یا ہمارے دفتر سے.مگر آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو یہ مضمون نہیں بھجوایا بلکہ کو ہستان کو بھجوایا اور تیسری دفعہ الفضل کو بھجوایا پھر بھی حضرت خلیفہ ایسیح الثانی یدہ اللہ تعالیٰ کو ہیں مجھ ایا جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ آپ کی نیت صرف پروپیگنڈا تھی.خلافت کے حصول کی خواہش نے آپ کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا.آپ نے موجودہ خط میں لکھا ہے کہ کوہستان میں جو سیڈ نگ چھپا ہے وہ میرا نہیں اور آپ ایسی حرکات کر رہے ہیں جو کوئی بے وقوف سے بے وقوت انسان بھی نہیں کر سکتا تھا وہ ہیٹنگ یہ مقامہ قادیانی خلافت سے دستبرداری اس ہیڈ نگ کو کوہستان کے ایڈیٹر
۱۳۴ کے سر تھوپنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ جماعت راجہ نے آج سے قریباً پندرہ دن پہلے آپ کو یہ بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ خلافت سے دستبرداری کے یہ معنے ہیں کہ پہلے کبھی خلافت کا دعوی کیا تھا.پس یہ ہیڈ نگ خود آپ کے گزشتہ اعلانات کی تردید کرتا ہے.آپ نے سمجھا کہ چلو گے ہاتھوں اس سیڈ نگ کی بھی صفائی کر دو.حالانکہ اگر آپ کا یہ دعویٰ صحیح ہے.کہ یہ میٹنگ کو ہستان کے ایڈیٹر نے بد دیانتی سے خود دیا تھا.تو سوال یہ ہے کہ کو ہستان کو یہ مضمون بھیجنے کیلئے مشورہ آپ کو کیا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دیا تھا.یا جماعت احمدیہ نے.آپ نے یہ مضمون براہ راست حضرت خلیفۃ المسیح الثانی یا امور عامہ کوکیوں نہ بھیجا.تا کہ اس وقت اس کی حقیقت کھل جاتی.پھر جب یہ نومبر کے پرچہ میں آپ کے قول کے مطابق کوہستان نے آپ پر جھوٹ بولتے ہوئے ایک غلط ہیڈ نگ اس مضمون پر لگا دیا تھا.تو آپ نے بارہ نومبر کو یہی مضمون اس کو دوبارہ چھاپنے کے لیے کیوں بھیجا.اور کیوں ۱۴ نومبر کے پرچے کے فوراً بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی یا امور عامہ کو نہ لکھا کہ یہ مہیڈ نگ میں نے نہیں دیا سلسلہ کے دشمن ایڈیٹر نے اپنے پاس سے لکھدیا ہے.اور کیوں اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ پہلے ریوہ کا ریزولیوشن الفضل میں چھپ جائے.تو پھر اس کی تردید کریں.یہ بات نبھی آپ کی دیانت کے خلاف دلیل ہے.کہ آپ نے یہ مضمون چار تاریخ کے کوہستان میں چھپوایا.پھر بارہ تاریخ کے کوہستان میں چھپوایا.پھر تیرہ تاریخ کو یہ مضمون پروفیسر تا منی محمد اسلم صاحب کو کراچی بھجوایا.اور ان پر یہ اثر ڈالنے کی کو ستنش کی کہ مجھ پر ظلم کیا جارہا ہے.اور لکھا کہ آپ کو غلط واقعات سے مسموم کیا جارہا ہے.آپ کے بھائی قاضی عطاء اللہ صاحب ایم اے نے واقعات کی چھان بین کی اور وہ اصل بات سمجھ گئے.چنانچہ مجھ سے ملاقات کے وقت انہوں نے نفرت کا اظہار نہیں کیا قاضی صاحب نے اپنا بیان اور آپ کا خطہ ہمیں بھجوا دیا ہے اور ہمارے پاس موجود ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ کوشش کر رہے ہیں کہ جماعت پر ظاہر کریں کہ آپ پر ظلم کیا جارھا ہے.یہ کوشش خود اپنی ذات میں آپ کی سلسلہ سے دوری کا ثبوت ہے اور ہم خدا قالے کا شکر کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے وقت پر آپ کو جماعت سے خارج کر دیا.گو آپ کے طریق معمل کے مطابق یہ کانی متھا کہ ہم الفضل میں چھپوا دیتے.لیکن ہم براہ راست
۱۳۵ آپ کے نام بھی یہ جواب ربڑی کر ر ہے ہیں.تاکہ پہلے واقعات کی طرح آپ کو یہ بہانہ نہ ملے کہ آپ نے اخبار نہیں پڑھا تھا.(ناظر امور عامه ۳/۱۲/۵۰) جناب مولوی عبدالمنان صاحب کو نظام خلافت سے اصلاح احوال کی آخری کوشش اب کرنے کی اک آخری مرزنان کوسش گر جو روان | ذاتی گو جرانوالے کے ایک مخلص بزرگ حضرت شیخ صاحب دین صاحب کی جانب سے ہوئی مگر افسوس صد افسوس اُن کی مخلصانہ مساعی صدابصحرا ثابت ہوئیں.اور اُن کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا.حضرت مصلح موعود نے اُن کے ذریعہ بھی مولوی صاحب کو دا صبح رہنمائی فرمائی کہ امام وقت سے معافی حاصل کرنے کا مجمع طریق کیا ہے.اس سلسلہ میں شیخ صاحب موصوف کو دفتر پرائیویٹ سیکر لڑی کی طرف سے حسب ذیل دو خطوط لکھے گئے.ہیں.ا سجد ست مکرم شیخ صاحب دین صاحب گوجرانواله السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ کا رجسٹری خط سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العربیہ کی خدمت میں پہنچا حضور تے بعد ملاحظہ فرمایا کہ مولوی عبد المنان صاحب کی معافی کا سوال تب ہی پیدا ہوسکتا ہے جبکہ وہ صحیح طریق پر فتنہ پر دانوں منافقین اور غیر مبائعین سے بیزاری اور لاتعلقی کا اظہار کریں.مگر ابھی تک انہوں نے با وجو د مطالبہ کے ایسا نہیں کیا.اس لیے یہ سوال پیدا نہیں ہوتا.اگر وہ حقیقی رنگ میں ایسا کر دیں تو ان کی معافی کے بارے میں غور کیا جا سکتا ہے مواد می عبد المنان سے صاف طور پر کہا گیا تھا کہ بعض فتنہ پر داروں نے آئندہ خلافت کے امید واروں میں آپ کا نام دیا ہے.بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ ہم مولوی عبداستان عمرہ کے سوا کسی کی خلافت پر راضی نہ ہوں گے.ان فتنہ پردازوں کا یہ طریق اسلامی شریعت کے صریح خلاف اور جماعت میں سخت فتنہ پیدا کرنے والا تھا.مولوی عبد المنان سے کہا گیا کہ وہ واضح اور معین طور پر ان فتنہ پر دانوں سے بیزاری اور لا تعلقی کا اظہار کریں اور ان کے اس فتنہ پر دانت از طریق پر لعنت بھیجیں مگر انہوں نے اب تک ایسا نہیں کیا.
پھر مولوی عبدالمنان صاحب سے کہا گیا کہ آپ کے بھائی مولوی عبد الوہاب کے متعلق بار بار شائع ہو چکا ہے کہ وہ منافقین اور مخالفین سلسلہ سے ملتا ہے اور ان کی طرفداری کرتا ہے.آپ مولوی عبد الوہاب سے بیزاری کا اعلان کریں اور لکھیں کہ میں ان سے تعلق نہیں رکھوں گا گر انہوں نے ایسا نہیں کیا.پھر غیر مبایعین کے متعلق مولوی عبد المنان سے کہا گیا تھا کہ یہ لوگ حضرت خلیفہ حاول.......کی خلافت کے زمانہ میں آپ کے باغی اور مناعت تھے اور آپ کے عزل کی کوشش کرتے رہے.لیکن اب اس فتنہ کے موقعہ پر وہ منافقانہ رنگ میں اپنی مطلب برابری کے لیے اور حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے حضرت خلیفہ اول کی تعریفیں کر رہے ہیں.مولوی عبد المنان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اعلان کریں کہ غیر میائیلین کا یہ رویہ منافقانہ ہے.اور ان کی یہ تعریفیں جھوٹی ہیں یہ لوگ حضرت خلیفہ اول کی ز ندگی میں برا نہ ان کے خلاف لکھتے رہے ہیں.اور حضرت خلیفہ اول ان لوگوں کے خلاف اعلان فرماتے رہے ہیں.اس مطالبہ کے باوجود آج تک مولوی عبد المنان نے غیر مبالعین کے اس طریق سے بھی بیزاری کا اعلان نہیں کیا.ان امور کے متعلق جب تک واضح اعلان نہ کریں.ان کا محض لفظی طور پر معافی مانگنا فضول ہے.اگر وہ صاف طور پر ایسے اعلانات کر دیں تو پھر اس کے بعد ان کی معافی کے بارہ میں غور کیا جاسکتا ہے.19/86 خاکسا رخادم حسین پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ المسیح الثانی شیخ صاحب دین صاحب گوجرانوالہ آپ کا خط مورخہ راہ مولوی عبد المنان صاحب کی معافی کے متعلق حضور کے ملاحظہ میں آیا.فرمایا." آپ کا خط ملا آپ نے لکھا ہے کہ منان کی معافی کی اشاعت نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ اصل عرمن اصلاح سے ہے.اور رسول اللہ نے بھی لا تخریب علیکم الیوم کہا تھا تو کوئی اعلان نہیں کر وایا تھا.آپ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اعلان بھی اصلاح کی غرض سے ہوتا ہے.اگر کوئی واقعہ میں تو بہ کرتا ہے تو پھر اس کو اعلان سے کیا ڈر.جبب پیغامیوں نے حضرت
۱۳۷ خلیفہ اول پر بدظنیاں کی تھیں تو انہوں نے بہت مبارک میں سب کو جمع کر کے تقریر کی تھی اور مولوی مسند میں سے دوبارہ بیعت لی ہھتی.کیا یہ اعلان ہے یا نہیں.سوجی چیز کو منان کے باپ نے جائز سمجھا تھا.جو اس سے ہزاروں گنا بڑا تھا اس پر مستان کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ والسلام ۵/۲/۵۸ پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ المسیح الثانی
۱۳۸ مع رجيم مسئلہ خلافت پر اہم خطاب، یوم خلافت منانے کا ارشاد انتخاب خلافت کے نظام عمل کا اعلان، فتنہ پردازوں کی عبرتناک ناکامی حضرت مصلح موعود نے فتنہ منافقین کی پھلیاں توڑنے کے لیے خدام دانصار کے مرکز می اجتماعات منعقدہ اکتوبر میں بھی مسئلہ خلافت ہی کو اپنے خطاب کا نقطہ مرکز یہ بنایا.اور منافقین کی ایسی قلعی کھولی کہ سُننے والے حیران و ششدر رہ گئے.حضور نے اس موقع پر جو بصیرت افروز تقاریر فرمائی.ان کے بعض ایمان پر د را قتباسات در ج ذیل کیسے جانتے ہیں.ا " یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ تبلیغ اسلام کا وہ کام جو اس وقت دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں کر رہی صرف جماعت احمدیہ کہ رہی ہے.مصر کا ایک اخبار الفتح ہے ہے وہ ہماری جماعت کا سخت مخالف ہے.مگر اس نے ایک دفعہ لکھا کہ جماعت احمدیہ کو بے شک ہم اسلام کا دشمن خیال کرتے ہیں.لیکن اس وقت وہ تبلیغ اسلام کا جو کام کر رہی ہے گزشتہ تیرہ سو سال میں وہ کام بڑے بڑے اسلامی بادشاہوں کو بھی کرنے کی توفیق نہیں کی.جماعت کا یہ کارنامہ محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اور تمہارے ایمانوں کی وجہ سے ہے.آپ کی پیشنگوئیاں تھیں اور تمہارا ایمان تھا.جب یہ دونوں مل گئے تو خدا تعالے کی برکتیں نازل ہونی شروع ہوئیں.اور را مد الفتح ، قاہره ۲۰ جمادی الآخر مطابق ۲۲ اکتوبر ۱۳۳ رتفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلاد، مشرب
۱۳۹ جماعت نے وہ کام کیا جس کی توفیق مخالفت ترین اخبار الفتح کے قول کے مطابق کسی بڑے سے بڑے اسلامی با دشاہ کو بھی آجتک نہیں مل سکی.اب تم روزانہ پڑھتے ہو.کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے.اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم اور بھی ترقی کرد گئے.اور اس وقت تمہار چندہ ۲۰ ,۲۵ لاکھ سالانہ نہیں ہو گا.بلکہ کروڑ دو کروڑ پانچ کروڑ دس کروڑ.بیس کروڑ پچاس کروڑ - ارب ، کھرب ، پدم بلکہ اس سے بھی بڑھ جائے گا.اور پھر تم دنیا کے چپہ چپہ ہمیں اپنے مبلغ رکھ سکو گے.انفرادی لحاظ سے تم اس وقت بھی غریب ہو گے لیکن اپنے فرض ادا کرنے کی وجہ سے ایک قوم ہونے کے لحاظ سے تم امریکہ سے بھی زیادہ مالدار ہو گئے.دنیا میں ہر جگہ تمہارے مبلغ ہوں گے.اور جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے.اتنے افسر دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کے بھی نہیں ہوں گے.امریکہ کی فوج کے بھی اتنے افسر نہیں ہوں گے.جیتنے تمہارے مبلغ ہوں گے.اور یہ محض تمہارے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ہوگا.اگر تم اپنے ایمان کو قائم رکھو گے تو تم اس دن کو دیکھ لو گے لے پچھلے مہینہ میں ہی میں نے ایک رڈیا دیکھا تھا کہ کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جود قفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اس کی عرض یہ ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کسی طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے یا جب آپ کسی خاص طرف نڑیں تو کسی سرعت کے ساتھ آپ کے ساتھ مڑتی ہے یا جب آپ اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزل مقصود کو اختیار کر لیتی ہے " " الفضل در ستمبر ۱۹۵۶ء صل ) اب دیکھو یہ فتہ بھی جماعت کے لیے ایک آزمائش معنی لیکن بعض لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے تھی کہ اس میں حصہ لینے والے حضرت خلیفہ اول کے لڑکے ہیں.انہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی آپ کا انکار کیا تھا اور اس انکار کی وجہ سے وہ عذاب الہی سے بچ نہیں سکا.پھر حضرت خلیفہ ایسیج اول کی اولاد کے اس فتنہ میں ملوث ہونے له الفضل ۲۴ ۱ اپریل ۱۹۵۷ دمت کالم ۲٫۱ را اجتماع خدام الاحمدیہ مرکز بیدم
۱۴۰ کی وجہ سے نہیں کس بات کا خوف ہے.اگر وہ فتنہ میں ملوث ہیں تو خدا تعالیٰ ان کی کوئی پرواہ نہیں کریگا.شروع شروع میں جب فتنہ اٹھا تو چند دنوں تک بعض دوستوں کے گھبراہٹ کے خطوط آئے اور انہوں نے لکھا کہ ایک چھوٹی سی بات کو بڑا بنا دیا گیا ہے.اللہ رکھا کی مھبلا حیثیت ہی کیا ہے.لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ساری جماعت اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ان لوگوں سے نفرت کرنے لگ گئی.اور مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کے اور بھی بہت سے کارنامے ہیں.مگر اس بڑھاپے کی عمر میں اور ضعف کی حالت میں جو یہ کارنامہ آپ نے انجام دیا ہے.یہ اپنی شان میں دوسرے کارناموں سے بڑھ گیا ہے.آپ نے بڑی جرات اور ہمہت کے ساتھ ان لوگوں کو ننگا کر دیا ہے جو بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور سلسلہ کو نقصان پہنچانے کے در پہلے تھے اس طرح آپ نے جماعت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا ہے.مری میں مجھے ایک غیر احمدی کرنیل ملے.انہوں نے کہا کہ جو الفات اء میں احمدیوں پر گزرے تھے وہ اب پھر ان پر گزرنے والے ہیں اس لیے آ ابھی سے تیاری کرلیں اور میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ ۱۹۵۳ء میں تو پولیس اور ملڈی نے آپ کی حفاظت کی تھی لیکن اب وہ آپ کی حفاظت نہیں کرے گی کیونکہ اس وقت جو واقعات پیش آئے تھے ان کی وجہ سے وہ ڈرگئی ہے.جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا.کہ تل صاحب مچھلی دفعہ میں نے کونسا تیر مارا تھا جو اب ماروں گا.پچھلی دفعہ بھی خدا تعالیٰ نے ہی جماعت کی حفاظت کے سامان کیسے تھے اور اب بھی وہی اس کی حفاظت کرے گا.جب میرا خدا زندہ ہے تو مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے.میری اس بات کا کرنل صاحب پر گہرا اثر ہوا.چنا نچہ عرب میں ان کے پاس سے اٹھا اور دہلیز سے باہر نکلنے لگا تو وہ کہنے لگے فیتھ از بلائنڈ (FAT THIS BLIND) یعنی یقین اور ایمان اندھا ہوتا ہے وہ خطرات کی پرواہ نہیں کرتا جب کسی شخص میں ایمان پا یا جاتا ہو تو اسے آڑے آنے رائے مصائب کا کوئی فکر نہیں ہوتا.جب منافقین کا فتنہ اٹھا تو انہی کہ نل صاحب نے ایک احمدی افسر کو جوان کے قریب ہی رہتے تھے بلایا اور کہا کہ میری طرت سے مرزا صاحب کو کہ دینا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے.اللہ ر کھا کی پھلا حیثیت ہی کیا تھی.اس مضمون سے اُسے بلا ضرورت شہرت مل جاے
۱۴۱ گی.میں نے اس احمد می دوست کو خط لکھا کہ میری طرف سے کرنل صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ جماعت پر سر والے واقعات دوبارہ آنے والے ہیں.آپ ابھی سے تیاری کر لیں اب جبکہ میں نے اس بارہ ہیں کا رروائی کی ہے تو آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ آپ خواہ مخواہ فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں.جب میں دوبارہ مری گیا تو میں نے اس احمدی دوست سے پوچھا کہ کیا میرا خط آپ کو مل گیا تھا اور آپ نے کرنل صاحب کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا.انہوں نے کہا ہاں میں نے پیغام دے دیا تھا اور انہوں نے بتایا تھا کہ اب میری تسلی ہو گئی ہے شروع میں ہیں ہی سمجھتا تھا کہ یہ معمولی بات ہے.لیکن اب جبکہ پیغامی اور غیر احمدی دونوں فتنہ پردازوں کے ساتھ مل گئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ عقلمندی اور کوئی نہیں تھی کہ آپ نے وقت پر اس فتنہ کو بھانپ لیا اور شرارت کو بے نقاب کر دیا.عرض خدا تعالیٰ ہر فتنہ اور مصیبت کے وقت جماعت کی خود حفاظت فرماتا ہے.چنانچہ فتنہ تو اب کھڑا کیا گیا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے 192 ء میں ہی کوئٹہ کے مقام پر مجھے بتا دیا تھا کہ بعض ایسے لوگوں کی طرف سے فتنہ اُٹھایا جانے والا ہے جنکی رشتہ داری میری بیویوں کی طرف سے ہے چنا نچہ دیکھ لو عبد الوہاب میری ایک بیوی کی طرف سے رشتہ دار ہے.میری اس سے جیدی رشتہ داری نہیں.پھر میری ایک خواب جنوری ۹۳۵لہ میں الفضل میں شائع ہو چکی ہے.اس میں بتایا گیا تھا کہ میں کسی پہاڑ پر ہوں کہ خلافت کے خلاف جماعت میں ایک فتنہ ظاہر ہوا.اس وقت میں مری میں ہی تھا پھر اس خواب میں میں نے سیالکوٹ کے لوگوں کو دیکھا جو موقع کی نزاکت سمجھ کر جمع ہو گئے تھے.اور ان کے ساتھ کچھ ان لوگوں کو بھی دیکھا جو باغی تھے.یہ خواب بھی بڑے شاندار طور پر پوری ہوئی چنانچہ اللہ رکھا سیالکوٹ کا ہی رہنے والا ہے.جب میں نے اس کے متعلق الفضل میں مضمون لکھا تو خود اس کے حقیقی بھائیوں نے مجھے لکھا کہ پہلے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ شاید اس پر ظلم ہو رہا ہے لیکن اب ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ وہ پیغامی ہے.اس نے ہمیں جو خطوط لکھے ہیں وہ پیغا میوں کے پستہ سے لکھے ہیں میں ہما را اس سے کوئی تعلق نہیں ہم خلافت سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں.اب دیکھ لو ۱۹۳۳ء میں مجھے ہمارا اس فتنہ کا خیال کیسے آ سکتا تھا.پھر شاہ والی خواب بھی مجھے یاد نہیں تھی بنارہ میں میں سب
۱۴۲ سندھ سے کوئٹہ گیا تو اپنی ایک لڑکی کو جو پیار تھی ساتھ لے کیا.اس نے اب مجھے یاد کرایا کہ نہار میں آپ نے ایک خواب دیکھی تھی جس میں یہ ذکر تھا کہ آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی نے خلافت کے خلاف فتنہ اٹھایا ہے میں نے مولوی محمد یعقوب صاحب کو وہ خواب تلاش کرنے پر مقرر کیا.چنانچہ وہ الفضل سے خواب تلاش کر کے لے آئے.اب دیکھو خدا تعالیٰ نے کتنی دیر پیٹے مجھے اس فتنہ سے آگا ہ کر دیا تھا اور پھر کس طرح یہ خواب حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا.ہماری جماعت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ منافقت کی جڑ کو کاٹنا نہایت ضروری ہوتا ہے اگر اس کی جڑ کو نہ کاٹا جائے تو وعد الله الذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ يَسْتَلِفتُهُمْ في الاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم ے میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جماعت سے جو وعدہ فرمایا ہے اس کے پورا ہونے میں شیطان کئی قسم کی روکا دیتیں حائل کر سکتا ہے.دیکھو خداتعالی کا یہ کہنا شا ندار و عدہ تھا ہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پورا ہو ا.حضرت ابو بکریہ کی خلافت صرف اڑھائی سال کی تھی لیکن اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے جو تائید و نصرت کے نظارے دکھائے وہ کتنے ایمان افزا تھے حضرت ابو بکر یہ محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنی غلام تھے لیکن انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں رومی فوجوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا.آخر آڈھائی سال کے عرصہ میں لاکھوں مسلمان تو نہیں ہو گئے تھے.اس وقت قریباً قریبا رہی مسلمان تھے.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنوں کا ده مقابلہ کرتے رہے تھے لیکن خلافت کی برکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں و شان اور امنگ اور جرات پیدا کی کہ انہوں نے اپنے مقابل پر بعض اوقات دو دو ہزار گنا تعداد کے لشکر کو بڑی طرح شکست کھانے پر مجبور کر دیا.اس کے بعد حضرت عیہ کا زمانہ آیا تو آپ نے ایک طرف رومی سلطنت کو شکست دی تو دوسری طرف ایران کی طاقت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر کے رکھ دیا.پھر حضرت عثمان کی خلافت کا دور آیا.اس و در میں اسلامی فوج نے آذربائجان تک کا ے مراد مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم انچارج شعبہ زود نویسی - شاه سورة النور : ۵۲
١٤٣ 1907 ا علاقہ فتح کر لیا.اور پھر بعض مسلمان افغانستان اور ہندوستان آئے.اور بعض افریقہ چلے گئے اور ان ممالک میں انہوں نے اسلام کی اشاعت کی یہ سب خلافت کی ہی برکات مفتیں ہے حضرت مسیح ناصری کے انصار کی وہ نشان نہیں تھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انصار کی تھی لیکن پھر بھی وہ اس وقت تک آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور ان کی ایک وقت تک آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہ ان کی ایک بہت بڑی خوبی ہے مگر تم پیغامیوں کی مدد کے لالچ میں آگئے اور انہوں نے خلافت کو مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ ان لوگوں میں اس عظیم ایشان باپ کی اولاد بھی شامل ہے جس کو ہم بڑی بڑی قدر اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.حضرت خلیفہ مسیح اقول کی وفات پر ۴۲ سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر میں ہر قربانی کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں.تحریک جدید ۱۹۳۳ سے شروع ہے اور اب یہ ہے گویا اس پہ ۲۲ سال کا عرصہ گزر گیا ہے.شاید حضرت خلیفہ المسیح اول کی اولا د خود بھی اس میں حصہ نہ لیتی ہو.لیکن میں ہر سال آپ کی طرف سے اس میں چندہ دیتا ہوں تاکہ آپ کی روح کو بھی ثواب پہنچے.پھر جب میں حج پر گیا تو اس وقت بھی میں نے تو آپ کی طرف سے قربانی کی تھی.اور اب تک ہر عید کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا چلا آیا ہوں.غرض ہمارے دل میں حضرت خلیفہ المسیح اول کی بڑی قدر اور عظمت ہے لیکن آپ کی اولاد نے جو نمونہ دکھا یادہ تمہارے سامنے ہے اس کے مقابلہ میں تم حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو دیکھو کہ وہ آج تک آپ کی خلافت کو سنبھالتے چلے آتے ہیں ہم تو اس میسج کے صحابہ اور انفار ہیں جس کو میسیج ناصری پر فضیلت دی گئی ہے.مگر ہم جو افضل باپ کے روحانی بیٹے ہیں ہم میں بعض لوگ چند روپوں کے لالچ میں آگئے شاید اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی یہ مماثلت بھی پوری ہونی تھی کہ جیسے آپ کے ایک حواری ہو را اسکر یوطی نے رویوں سے تیس روپے لے کہ آپ کو بیچے دیا تھا اور اس طرح اس له الفضل ۱۲۰ اپریل ۱۹۵۷ و دره کالم ۲ تام - حتہ کالم علا الفصل یکم مئی 1986 ء سے کالم ۲۱ ر اجتماع خدام الاحمدیه مرکه بید)
۱۴/۴ میسیج کی جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہوئے تھے جنہوں نے پیغامیوں سے مدد لے کر جماعت میں فتنہ کھڑا کرنا تھا.لیکن ہمیں عیسائیوں کے صرف عیب ہی نہیں دیکھنی چاہئیں جہاں ان میں ہمیں یہ عیب نظر آتا ہے کہ ان میں سے ایک نے تمہیں روپے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام کو بیچ دیا وہاں ان میں یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ آجتک جب کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر دو ہزار سال کے قریب عرصہ گزر چکا ہے وہ آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں چنانچہ آج جب میں نے اس بات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس چیز کا وعدہ بھی حواریوں نے کیا تھا چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب کہا مَنْ انصاری الی الله کہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں میری کون مدد کرے گا تو حواریوں نے کہا نَحْنُ أَنْضَارُ اللہ ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں آپ کی مدد کریں گئے.انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.پس اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم وہ انصار ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے اس لیے جب تک خدا تعالیٰ زندہ ہے اس وقت تک ہم بھی اس کی مدد کرتے رہیں گے چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر قریبا دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عیسائی لوگ برابر عیسائیت کی تبلیغ کرتے چلے جار ہے ہیں اور اب تک ان میں خلافت قائم ملی آتی ہے اب بھی ہماری زیادہ تر فکر عیسائیوں سے ہورہی ہے جو مسیح علیہ السلام کے متبع اور سائن کے ماننے والے ہیں اور جن کا نام رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال رکھتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالے کے سارے نبی اس فتنہ کی خبر دیتے چلے آئے ہیں عز من وہ مسیح ناصری جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ان پر فضیلت عطا فرمائی ہے.ان کے انصار نے اتنا جذبہ اخلاص دکھایا کہ انہوں نے دو ہزار سال تک آپ کی خلافت کو مٹنے نہیں دیا کیونکہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر مسیح علیہ السلام کی خلافت مٹی تو مسیح علیہ السلام کا خود اپنا نام بھی دنیا سے مٹ جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مشروع عیسائیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ایک حواری نے آپ کو تیس روپے کے بدلہ میں دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا.لیکن اب عیسائیت میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو سیعیت کی اشاعت اور حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا منوانے کے لئے کروڑوں کروڑ روپیہ دیتے ہیں اس طرح اس بات میں بھی
۱۴۵ کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ نے اپنے زمانے میں بڑی قربانی کی ہے لیکن آپ کی وفات پر ابھی صرف بہم سال ہی ہوئے کہ جماعت میں سے بعض ڈانوا ڈول ہونے لگے ہیں اور پیغامیوں سے چند روپہلے لے کہ ایمان کو بیچنے لگے ہیں حالانکہ ان میں سے بعض پر سلسلہ نے ہزار ہا روپے خرچ کئے ہیں میں پچھلے حسابات نکلوار رہا ہوں اور میں نے دفتر والوں سے کہا ہے کہ وہ بتائیں کہ صدر انجن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فوت ہوئے ۴۸ سال ہو چکے ہیں.اور حضرت خلیفہ المسیح اول کی وفات کہ ۴۲ سال کا عرصہ گزرچکا ہے گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا فاصلہ زیادہ ہے اور پھر آپ کی اولاد بھی زیادہ ہے لیکن اس کے با وجود میں نے حسابات نکلوائے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفہ المسیح اول کے خاندان کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خاندان پر کم خرچ کیا ہے لیکن پھر بھی حضرت خلیفہ المسیح اول کی اولاد میں یہ لالچ پیدا ہوئی کہ خلافت کو سنبھا نو یہ ہمارے باپ کا حق تھا جو ہمیں ملنا چاہیئے تھا چنانچہ سندھ سے ایک آدمی نے مجھے لکھا کہ میاں عبد المنان کے بھانجے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا ایک پر دردہ شخصی بشیر احمد آیا اور اس نے کہا کہ خلافت تو حضرت خلیفہ اسی اوّل کا مال تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد کو ملنا چاہیئے تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اولا د نے اسے غصب کر لیا اب ہم سب نے مل کہ یہ کوشش کرنی ہے کہ اس حق کو دوبارہ حاصل کریں پھر یکں نے میاں عبد السلام صاحب کی پہلی بیوی کے سوتیلے بھائی کا ایک خط پڑھا جس میں اس نے اپنے سوتیلے ماموں کو لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ مشرقی بنگال کی جماعت نے ایک دیرینہ دلیوشن پاس کر کے اس فتنہ سے نفرت کا اظہار کیا ہے ہمیں تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا.ہمارے لیے تو موقعہ تھا کہ ہم کوشش کر کے اپنے خاندان کی وجاہت کو دوبارہ قائم کرتے یہ ویسی ہی نا معقول حرکت ہے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وفات پر لاہور کے بعض مخالفین نے کی تھی.انہوں نے آپ کے نقلی جنازے نکالے اور آپ کی وفات پر خوشی کے شادیانے بجائے وہ تو دشمن تھے لیکن یہ لوگ احمدی کہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس موقع
سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے خاندان کی وجاہت کو قائم کر نا چاہیے حالانکہ حضرت خلیفہ اول کو ہو عزت اور درجہ ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسّلام کے طفیل ملا ہے اب جو چیز آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طفیل ملی تھی وہ ان لوگوں کے نزدیک ان کے خاندان کی جائیداد بن گئی ہے یہ اب آپ لوگوں کا کام ہے.کہ اپنی ساری زندگی آپ کے لائے ہوئے پیغام کی خدمت میں لگا دیں.اور کوشش کریں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد پھر اس کی اولاد اور پھر اس کی اولاد بلکہ آپ کی آئندہ ہزاروں سال کی نسلیں اس کی خدمت میں لگی رہیں.اور حضرت مسیح موعود علی السلام کی خلافت کو قائم رکھیں مجھ پر یہ بہتان لگا یا گیا ہے کہ.گویا میں اپنے بعد اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں.یہ بالکل غلط ہے.اگر میرا کوئی بیٹا ایسا خیال بھی دل میں لائے گا تو وہ اسی وقت احمدیت سے نکل جائے گا.بلکہ میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ میری اولاد کو اس قسم کے وسوسوں سے پاک رکھے ایسا نہ ہو کہ اس پروپیگنڈا کی وجہ سے میرے کسی کمزور بچے کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہو جائے.حضرت خلیفہ المسیح اوّل تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے ہیں سمجھتا ہوں کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام جوآ قا تھے اگر ان کی اولاد میں بھی کسی وقت یہ خیال پیدا ہو.کہ وہ خلافت کو حاصل کریں.تو وہ بھی تباہ ہو جائے گی.کیونکہ یہ چیز منذ العالے نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی ہے.اور جو خدا تعالیٰ کے مال کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے.وہ چاہے کسی نبی کی اولاد ہو یا کسی خلیفہ کی.وہ تباہ و برباد ہو جائے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کے گھر میں چوری نہیں ہو سکتی.چوری اونی لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے.اور قرآن کریم کہتا ہے :.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْخَلِفَتَهُمْ فِي الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ر سورۃ النور آیت : ۵۶) سه روز نامه الفضل ربوه ۲۱ مارچ ۱۹۵۶ء مره را جتماع مجلس انصار الله مرکز بیه)
۱۴۷ کہ مومنوں سے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے.کہ وہ انہیں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جیسے اس نے اس سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.گو یا خلافت خدا فعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور اس نے خود دینی ہے.جو اسے لینا چاہتا ہے.چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہو یا حضرت خلیفہ البیع الاول کا دہ یقینا سزا پائے گا.پس یہ مت سمجھو کہ یہ فتنہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے.لیکن پھر بھی تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اس کا مقابلہ کرو اور سلسلہ احمدیہ کو اس سے بچاؤ.دیکھو اللہ تعالی نے رسول کریم سے وعدہ کیا تھا کہ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.وہ آپ کو لوگوں کے حملوں سے بچائے گا اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ سے زیادہ سچا اور کس کا وعدہ ہو سکتا ہے.مگر کیا صحابہ نے کبھی آپ کی حفاظت کا خیال چھوڑا بلکہ صحابہ نے ہر موقعہ پر آپ کی حفاظت کی.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے باہر ہتھیاروں کی آوانہ شمنی تو آپ باہر نکلے.اور دریافت کیا کہ یہ کیسی آوازہ ہے صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ہم انصار ہیں.چونکہ ارد گرد دشمن جمع ہے اس لیے ہم ہتھیار لگا کہ آپ کا پہرہ دینے آئے ہیں.اس طرح جنگ احزاب میں جب دشمن حملہ کرتا تھا.تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف جاتا تھا.آپ کے ساتھ اس وقت صرف سات سو صحابہ تھے.کیونکہ پانچ سوصحابہ کو آپ نے عورتوں کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا تھا.اور روشن کی تعداد اس وقت سولہ ہزار سے زیادہ تھی.لیکن اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی.اور دشمن ناکام و نامراد رہا.میور جیسا دشمن اسلام لکھتا ہے ، کہ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح اور کفار کے شکست کھانے کی توجہ تھی کہ کفار نے مسلمانوں کی اس محبت کا جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھی.غلط اندازہ لگایا تھا.وہ خندق سے گزر کر سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کا رخ کرتے تھے.جس کی وجہ سے مسلمان مرد عورتیں اور بچے سب مل کر ان پر حملہ کرتے اور الیسا دیوانہ وار مقابلہ کرتے کہ کفار کو بھاگ جانے پر مجبور کر دیتے.وہ کہتا ہے کہ اگر کفار یہ غلطی نہ کہتے اور رسول کریم صلی الہ علی وسلمکے خیمہ کی بجائے کسی اور جہت میں حملہ کرتے تو وہ کامیاب ہوتے.لیکن وہ سیدھے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کا رخ کرتے تھے.اور مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علی وسلم سے نہایت ه المائده : ۶۸
۱۴۸ محبت تھی.وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے.کہ دشمن آپ کی ذات پر حملہ آور ہو.اس لیے وہ بے بیگرمی سے حملہ کرتے.اور کفار کا منہ توڑ دیتے.ان کے اندر شیر کی سی طاقت پیدا ہو جاتی تھی اور وہ اپنی جات کی کوئی پر واہ نہیں کرتے تھے.یہ وہ کچھی محبت تھی.جو صحابہ کو رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم سے تھی آپ لوگ بھی ان جیسی محبت اپنے اندر پیدا کریں.جب آپ نے انصار کا نام قبول کیا ہے ، تهران جیسی محبت بھی پیدا کر یں.آپ کے نام کی نسبت خدا تعالیٰ سے ہم اور خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے.اس لیے تمہیں بھی چاہیے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھو.اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو.کیونکہ اگر خلافت قائم رہیئے گی ، تو اس کو انصار کی بھی ضرورت ہوگی.مدام کی بھی ضرورت ہوگی.اور اطفال کی بھی ضرورت ہو گی.ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا.دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دیئے ہوئے تھے.اور رسول کریم لی اللّہ علیہ وسلم کوبھی للہ تعالی نے صحابہ کی جماعت دی.اسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی.تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ خدام الاحمدیہ انصار اللہ بھی قائم رہیں.اور جب یہ ساری تنظیمیں جاری اور قائم رہیں گی.تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی.کیونکہ جب دنیا دیکھے گی کہ جماعت کے لاکھوں لاکھ آدمی خلافت کے لیے جان دینے پر تیار ہیں تو جیسا کہ میور کے قول کے مطابق جنگ احزاب کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پر حملہ کرنے کی وجہ سے حملہ آور بھاگ جانے پر مجبور ہو جاتے تھے.اسی طرح دشمن اُدھر رخ کرنے کی جرات نہیں کرے گا وہ سمجھے گا کہ اس کے لیے لاکھوں اطفال الاحمدیہ.خدام الاحمدیہ اور النضار جانیں دینے کے تیار ہیں اس لیے اگر اس نے حملہ کیا.تو وہ تباہ دبرباد ہو جائیں گے.مورمن وشن کسی رنگ میں بھی آئے جماعت اس سے دھوکا نہیں کھائے گی.کسی شاعر نے کہا ہے سے بہر دینگے کہ خواہی جامہ مے پرسش - من اندازه قدرت را می شناسم تو کسی رنگ کا کپڑا پہن کہ آجائے.تو گوئی بھیس بدل لے.میں تیرے دھوکہ میں نہیں آسکتا.کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں.اسی طرح چاہے خلافت کا دشمن حضرت خلیفہ قول کی اولاد کی شکل میں آئے.اور چاہے وہ کسی بڑے اور مقرب صحابی کی اولاد کی شکل میں آئے ایک مخلص آدمی
۱۴۹ اسے دیکھ کر یہی کہے گا.بہر رنگے کہ خواہی جامہ ہے پوسش من اندازه قدت را می شناسم تو کسی سرنگ میں بھی آ اور کسی بھیس میں بھی آ.میں تیرے دھوکہ میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیر می چال اور قد کو پہچانتا ہوں.تو چاہے مولوی محمد سل کا جیبتہ بہن نے چاہے انجمن احمد یہ اشاعت اسلام کا جبہ پہن لے یا حضرت خلیفہ اول کی اولاد کا جبتہ یہیں سے میں تمہیں پہچان لونگا اور تیرے دھو کہ میں نہیں آؤں گا.مجھے راولپنڈی کے ایک خادم نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ شروع شروع میں اندر کھا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مری کے امیر کے نام مجھے ایک تعارفی خط لکھدو میں نے کہا کہ میں کیا لکھوں مری جا کہ پوچھ لو کہ وہاں کی جماعت کا کون امیر ہے.مجھے اس وقت فوراً خیال آیا کہ یہ کوئی منافق ہے.چنانچہ میں لاحول پڑھنا شروع کر دیا.اور آدھ گھنٹہ تک پڑھتا رہا.اور سمجھا کہ شاید مجھ میں بھی کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے یہ منافق میرے پاس آیا ہے.تو احمدی عقلمند ہوتے ہیں.وہ منافقوں کے غریب میں نہیں آتے.کوئی کمز در احمدی ان کے فریب میں آجائے تو اور بات ہے.ورنہ اکثر احمدی انہیں خوب جانتے ہیں.اب انہوں نے لاہور میں اشتہارات چھاپنے شروع کیے ہیں جب مجھے بعض لوگوں نے یہ اطلاع دی.تو میں نے کہا گھبراؤ نہیں.پیسے ختم ہو جائیں گے تو خود بخود اشتہارات بند ہو جائیں گے.مجھے لاہور سے ایک دوست نے لکھا.کہ اب ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ وہ اخباروں میں شور مچائیں.اور اشتہارات شائع کریں.وہ دوست نہایت مخلص ہیں.اور منافقوں کا بڑے جونٹی سے مقابلہ کر رہے ہیں.گر منافق اسے کذاب کا خطاب دیتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ یہ شخص یونہی ہمارے متعلق خبریں اڑاتا رہتا ہے.لیکن ہم اسے جھوٹا کیونکہ کہیں.اوپر ہمارے پاس یہ خبریں پہنچی کہ ن لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ اشتہارات شائع کیے جائیں.اور اور پر لاہور کی جماعت نے ہمیں ایک انتہار بھیج دیا.جو ان منافقین نے شائع کیا تھا.اور جب بات پوری ہو گئی.تو ہم نے سمجھ لیا.کہ اس دوست نے جو خبر بھیجی تھی وہ سچی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو حقیقی انصار بنائے.چونکہ تمہاری نسبت اس کے نام سے ہے.اس لیے جس طرح وہ ہمیشہ زندہ رہے گا.اس طرح وہ آپ لوگوں کی تنظیم کو بھی تا قیامت زندہ نہ رکھے.اور جماعت میں خلافت معھی قائم رہے اور
کی سپاہ بھی قائم رہے.لیکن ہماری فوج تلواروں والی نہیں.ان انصار میں تو بعض ایسے ضعیف ہیں کہ ان سے ایک ڈنڈا بھی نہیں اٹھایا جاسکتا.لیکن پھر بھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج ہیں اور ان کی وجہ سے احمدیت پھیلی ہے ایسے " آج ہی مجھے میرے نائی نے ایک لطیفہ سنایا کہ اس نے بتایا کہ میں میاں عبد المناں صاحب کی حجامت بنا نے گیا.تو انہوں نے کہا کیا تم ڈر گئے تھے کہ حجامت بنانے نہ آئے یا تمہیں کسی نے روکا تھا ئیں نے کہا مجھے تو کوئی ڈر نہیں اور نہ کسی نے مجھے روکا ہے حجامت بنانا تو انسانی حق ہے اس سے مجھے کوئی نہیں روکتا اس لیے میں آگیا ہوں پھر میں نے کہا میاں صاحب میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں.کہ پشاور سے ایک احمدی قادیان آیا اور وہ میاں شریف احمد صاحب سے ملنے کے لیے اُن کے مکان پر گیا.اتفافا میں بھی اس وقت حجامت نہانے کے لیے ان کے دروازہ پر کھڑا تھا ہمیں معلوم ہوا کہ میاں صاحب اس وقت سو رہے ہیں اس پر میں نے کہا میں تو حجامت بنانے کے لیے آیا ہوں انہیں اطلاع دے دی جائے لیکن وہ دوست مجھے بڑے اصرار سے کہنے لگے کہ ان کی نیند خراب نہ کریں لیکن میں نے نہ مانا اور میاں صاحب کو بھجوا دی.جس پر انہوں نے مجھے بھی اور اس دوست کو بھی اندر بلا لیا.وہاں ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی.میں نے انہیں کہا کہ اس پر بیٹھ جائیے.کہنے لگے میں نہیں بیٹھتا میں نے سمجھا شاید یہ چارپائی پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے اس لیے میں ان کے لیے کرسی اٹھالایا.لیکن وہ کرسی پر بھی نہ بیٹھے اور دروازہ کے سامنے جہاں جوتیاں رکھی جاتی ہیں وہاں پائیدان پر جا کر بیٹھ گئے.میں نے ان سے کہا کہ آپ نے کیا کیا میں نے چار پائی دی لیکن آپ نہ بیٹھے پھر کہ سی دی تب بھی آپ نہ بیٹھے اور ایک ایسی جگہ جا کہ بیٹھ گئے جہاں بوٹ وغیرہ رکھے جاتے ہیں کہنے لگے میں تمہیں ایک قصہ سناؤں.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا رفیق ہوں میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو ملنے کے لیے آیا آپ مسجد مبارک میں بیٹھے تھے.اور دروازہ کے پاس جوتیاں پڑی تھیں ایک آدمی سید ھے.سادھے کپڑوں والا آ گیا.اور اگر جوتیوں میں بیٹھ گیا.میں نے سمجھا یہ کوئی له الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۵۷ ء ص ۵-۶ (اجتماع مجلس انصار الله مرکز به)
۱۵۱ جوتی پور ہے چنانچہ میں نے اپنی جونیوں کی نگرانی شروع کر دی کہ کہیں وہ لے کر بھاگ نہ جائے کہنے لگے اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فوت ہو گئے اور میں نے سنا کہ آپ کی جگہ کوئی اور شخص خلیفہ بن گیا ہے اس پر میں بیعت کرنے کے لیے آیا.جب میں نے بیعت کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ وہی شخص تھا میں کو میں نے اپنی بے وقوفی سے جوتی پور سمجھا تھا یعنی حضرت خلیفہ اول.اور میں اپنے دل میں سخت شرمندہ ہوا آپ کی عادت تھی کہ آپ جو نتیوں میں آکر بیٹھ جاتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام آواز دیتے تو آپ ذرا آگے آجاتے.پھر جب کہتے مولوی نور الدین صاحب نہیں آئے تو پھر کچھ اور آگے آجاتے.اس طرح بار بار کہنے کے بعد کہیں وہ آگے آتے تھے.یہ قصہ سنا کہ میں نے انہیں کہا میاں آپ کے باپ نے جو نیوں میں بیٹھ بیٹھ کر خلافت کی تھی.لیکن تم زور سے لینا چاہتے ہو اس طرح کام نہیں بنے گا.تم اپنے باپ کی طرح جونیوں میں بیٹھو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اس پر وہ چپ کر گیا.اور میری اس بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا.ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے آپ.......بڑی مسکنت سے میٹھا کر تے تھے.ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہورہا تھا.ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کے رفیق ہیں سناتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے یعنی آپ نے اپنے لگی اٹھائے ہوئے تھے اور سر جھکا کہ گھٹنوں میں رکھا ہوا تھا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرت اولاد بھی ہے اس لیے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے.حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سے سراٹھایا.اور فرمایا حضور میں توہ تو آپ کا حکم ماننے کے لیے تیار ہوں لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام ہنس پڑے تو دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رتبہ ملا اب باوجود اس کے کہ آپ کی جماعت میں فتنہ پیدا کیا ہے لیکن اب بھی جماعت آپ کا احترام کرنے پر مجبور ہے اور آپ کے لیے دعائیں کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں اس انکار اور محبت
۱۵۲ کی جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے بھی وہ عظمت ڈالی ہے کہ باد جو اس کے کہ آپ کے بیٹوں نے مخالفت کی ہے پھر بھی ان کے باپ کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں جاتی.پھر بھی ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بند کرے کیونکہ انہوں نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو مانا جب ساری دنیا آپ کی مخالف تھی.اسی طرح آجکل ضلع جھنگ کے بعض نئے احمدی ہوئے ہیں اُن میں ایک مولوی عزیز الرحمن صاحب ہیں جو عربی کے بڑے عالم ہیں اور ان کا ایک عربی قصیدہ الفضل میں بھی چھپ چکا ہے.ان کے والد جو اپنے بیٹے کیطرح عالم نہیں وہ یہاں آئے وہ کہیں جارہے تھے تو کسی نے میاں عبد الستان کو آتا دیکھ کہ انہیں بتایا کہ وہ میاں عبد المسان ہیں.اس پر وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس پہنچے اور کہنے لگے میاں تیرے باپ کو اس در سے خلافت علی معھی اب سمجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو بھاگ رہا ہے پھر پنجابی میں کہا کہ جا اور جا کہ معافی مانگ.عبد المنان نے کہا بابا جی ! میں نے تو معافی مانگی تھی وہ کہنے لگے اس طرح نہیں تو جا کہ ان کی دہلیز پر بیٹھ جا اور دیاں سے ہل نہیں تجھے دھکے مار کر بھی وہاں سے نکالنا چاہیں تو اس وقت تک نہ اٹھ جب تک کہ تجھے معافی نہ مل جائے.مگر عبد المنان نے اس تو احمدی کی بات بھی نہ مانی پھر ایک نے بھی مری میں خطبہ دیا اور معانی کا طریق بتایا لیکن اس نے نہ تو اس طریق پر عمل کیا جو میں نے خطبہ میں بیان کیا تھا نہ اس طریق پر عمل کیا جو اس نے احمدی نے اسے بنا یا تھا اور اخباروں میں شور مچایا جارہا ہے بے شک وہ اور اس کے ساتھی اخباروں میں جلنا چاہیں شور مچالیں وہ اتنا شور تو نہیں بچا سکتے جتنا ۱۹۵۳ء میں جماعت کے خلاف مچایا گیا تھا مگر جو خدا ۵۳ور میں میری مدد کے لیے روڑا ہوا آیا تھا وہ خدا اب بڑھا نہیں ہو گیا کہ وہ ۱۵۳ میں دوڑ سکتا تھا اور اب نہیں دوڑ سکتا.بلکہ وہ اُس وقت بھی دوڑ سکتا تھا اور اب بھی دوڑ سکتا ہے.اور قیامت تک دوڑ سکے گا.جب بھی کوئی شخص احمدیت کو چکنے کے لے آگے آئے گا میرا خدا دوڑتا ہوا آجائے گا اور جو شخص احمدیت کو مٹانے کے لیے نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا.میرا خدا اپنی چھائی اس کے سامنے کر دے گا.اور تم یہ جانتے ہی ہو کہ میرے خدا کو نیزہ نہیں لگتا.جو شخص میرے خدا کے سینہ میں نیزہ مارنے
۱۵۳ کی کوشش کرے گا وہ نیزہ الٹ کر خود اس کے اپنے سینہ میں جاگے گا.اور جماعت خدا تعالے کے فضل سے اپنے ایمان کی وجہ سےمحفوظ رہتی چلی جائے گی.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ لوگ اپنے ایمان کو قائم رکھیں حضرت خلیفہ ایسی اول سنایا کرتے تھے جب میں بھوپال میں پڑھا کرتا تھا تو وہاں ایک بزرگ تھے جنہیں میں اکثر ملنے جایا کرتا تھا.نیک آدمی تھے اور مجھ پر انہیں اعتماد تھا ایک دن کچھ وقفہ کے بعد میں انہیں ملنے کے لیے گیا تو کہنے لگے میاں تم سے ہم محبت کرتے ہیں جانتے ہو کیوں محبت کرتے ہیں ہم اس لیے تم سے محبت کر تے ہیں کہ کبھی کبھی تم آ جاتے ہو تو خدا تعالیٰ کی باتیں کر لیتے ہیں اس کے بعد پھر دنیا کی با تیں شروع ہو جاتی ہیں.لیکن تم بھی کچھ عرصہ سے میرے پاس نہیں آئے تم نے کبھی قصاب کی دکان دیکھی ہے ؟ میں نے کہا ہاں دیکھی ہے اس بزرگ نے کہا تم نے دیکھا نہیں کہ قصاب کچھ دیر گوشت کاٹنے کے بعد دو چھریوں کو آپس میں رگڑ لیتا ہے پتہ ہے وہ کیوں اس طرح کرتا ہے وہ اس لیے ایسا کرتا ہے کہ گوشت کاشتے کاٹتے چھری پر چربی جم جاتی ہے اور وہ کند ہو جاتی ہے جب وہ اسے دوسری چھری سے رگڑتا ہے تو چہ بی صاف ہو جاتی ہے.اسی طرح یتیم بھی مجھ سے خدا تعالی کی باتیں کرتے ہو اس طرح وہ چہر بی جو دنیوی باتوں کی وجہ سے جم جاتی ہے دور ہو جاتی ہے اس لیے نامہ نہ کیا کرو یہاں آتے رہا کرو آپ لوگ بھی اپنے بیوی بچوں کو خدا تعالے کی باتیں سناتے رہا کریں اور اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتے رہا کریں تاکہ خدا تعالے ہمارے دلوں میں ہمیشہ ہمیش رہے.اور اس کی محبت ہمارے دل میں اتنی تیز ہو جائے که نه صرف ہم اس کے عاشق ہوں بلکہ وہ بھی ہمارا عاشق ہو.اور یاد رکھو کہ کوئی شخص اپنے محبوب کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا اگر تم خدا تعالیٰ کے محبوب ہو جاؤ گے تو خداتعالے بھی تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.بلکہ ابھی دشمن اپنے گھر سے نہیں نکلا ہو گا کہ تم دیکھو گے کہ خدا تعالی عرش سے.بھی نیچے اتر آیا ہے اور وہ خود تمہارے گھروں کا پہرہ دے گا، لے ۲۱ اکتو بر شاید کو حضرت مصلح موعود نے ہدایت فرمائی کہ یوم خلافت منانے کا ارشاد ] جماعت احمد یہ نظام خلافت کی اہمیت اور برکات کو له الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۵۷ د ص ۴-۶ ( اجتماع الضار الله مرکه بی)
۱۵۴ تازہ رکھنے کے لیے ہمیشہ مدیوم خلافت منایا جائے.چنانچہ حضور نے اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے موقع پر ارشاد فرمایا : در خلافت کی برکات کو یادرکھیں اور کسی چیز کو یاد رکھنے کے لیے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اس کے لیے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں.مثلاً شیعوں کو دیکھ لودہ سال میں ایک وقعہ تعزیہ نکال لیتے ہیں تا قوم کو شہادت حسین کا واقعہ یاد رہے.اسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں.اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالے کا شکر ادا کریں اور پرانی تاریخ کو دہرایا کریں.پرانے اخبارات کا ملنا تو مشکل ہے.لیکن الفضل نے پچھلے دنوں ساری تاریخ کو از سرنو بیان کر دیا ہے.اس میں وہ گالیاں بھی آگئی ہیں.جو پیغامی لوگ حضرت خلیفہ اول کو دیا کر تے تھے.اور خلافت کی تائید میں حضرت خلیفہ المسیح اوّل نے جو دعوے کیے ہیں وہ بھی نقل کر بیٹھ گئے ہیں.تم اس موقعہ یہ اخبارات سے یہ توالے پڑھ کر سناؤ اگر سال میں ایک دفعہ خلافت ڈے منا لیا جایا کرے تو ہر سال چھوٹی عمر کے بچوں کو پرانے واقعات یار ہو جایا کریں گے.پھر تم یہ جلسے قیامت تک کرتے چلے جاؤ تا جماعت میں خلافت کا ادب اور اس کی اہمیت قائم رہے حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت ۱۹۰۰ سال سے برابر قائم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو درجہ میں ان سے بڑے ہیں.خدا کرے ان کی خلافت دس ہزار سال تک قائم رہے.مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے.کہ تم سال میں ایک دن اس غرض کے لیے خاص طور پر منانے کی کوشش کرو.میں مرکز کو بھی ہدایت کرتا ہوں.کہ وہ بھی ہر سال میرت النبی کے جلسوں کی طرح خلافت ڈے منایا کرے اور ہر سال یہ بتایا کرے.کہ جلسہ میں ان مضامین پر تقاریر کی جایں الفضل سے مضامین پڑھے کہ نو جوانوں کوبتایا جائے کہ حضرت خلیفہ امسیح اول نے خلافت احمدیہ کی تائید میں کیا کچھ فرمایا ہے اور پیغامیوں نے اس کے رہو میں کیا کچھ لکھا ہے.اسی طرح وہ رڈیا و کشوف بیان کیے جایا کریں جو وقت سے پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھائے اور جن کو پورا کر کے خدا تعالیٰ نے
۱۵۵ ثابت کر دیا کہ اس کی برکات اب بھی خلافت سے وابستہ ہیں پہلے حضور کے اس ارشاد پہ نظارت اصلاح و ارشاد نے احباب جماعت کے مشورہ سے الفضل سے الفضل اور نومبر ۱۹۵۶ء میں یہ اعلان کیا کہ ۲۷ مٹی کو یوم خلافت، مقرر کیا جاتا ہے.چنانچہ ۱۹۵۶ء سے دنیا بھر کی احمدی جماعتیں اس تاریخ کو نہایت جوش و خروش اور باقاعدگی سے یوم خلافت منارہی ہیں.ایک احمدی نوجوان کے تاثرات ان اجتماعات نے احمدیوں کے قلبی خیالات و جذبات کی کا یا پلٹ دی.خصوصاً وہ نوجوان جو ہنوز اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ معمول بات کو خواہ عنواء طول دے دیا گیا ہے کھلے بندوں اپنی کم فکری اور حضرت مصلح موعود کی اولوالعزمی کا اقرارہ کر نے لگے.مثلاً اُن دنوں چوہدری صلاح الدین صاحب کے ساتھ ناء کالج لاہور میں چک 4، ضلع سرگودہا کے ایک احمدی نوجوان پڑھا کرتے تھے.یہ نوجوان جذبانی قسم کے تھے اور ان اجتماعات سے قبل اسی نہج پہ چوہدری صاحب سے بحث کیا کرتے تھے کہ مگر اجتماع خدام الاحمدیہ نے ان کے دل ودماغ پر ایک انقلابی اثر ڈالا چنانچہ انہوں نے چوہدری صلاح الدین صاحب کو بذریعہ مکتوب لکھا کہ : جہاں تک جلسہ راجتماع خدام الاحمدیہ - ناقل) سے استفادہ کا تعلق ہے میرے ذہن میں موجودہ فتنہ ہو کر سے متعلق مکمل تبدیلی ہو چکی ہے.پہلے میں سمجھنا تھا کہ اگر حضور کو غلط نہی رسوذ باللہ بھی بنائی گئی ہے تو بھی قیام و استحکام نظام کے لیے خواہ آدمی جماعت بھی کھیلی جائے تو ہر حال شجر تو قائم ہی کے اس لیے نئی کونپلیں پھوٹ پڑیں گی اور بالآ خر فائدہ ہی ہوگا کیونکہ اصل اور جڑھ تو نظام ہے جن سے جماعت کی زندگی اور ترقی وابستہ ہے.لیکن اب میں نے حضور کی تقریر سنی علمائے سلسلہ کے خیالات کئے.اُن سے ملا.ایک ماہ سابقہ کی اخبارات پڑھیں خالد پڑھا اور غور کیا تو خود کو تاریخی میں پایا.اور کامل یقین ہوگیا کہ یہ احمدیت میں " وہابیت " احراریت کا مضبوط اور مؤثر حملہ تھا جس کو اس فضل عمر نے...بنگہ جماعت کو آئندہ کے لیے ایک مستحکم بنیاد نے الفصل یکم مئی ۱۹۵۷ ء کر کے یہ نوجوان انتقال کر چکے ہیں.
- پر کھڑا کر دیا ریا ہے.میں سمجھتا ہوں سابقہ جملہ کام سے یہ کارنامہ اعلیٰ شان رکھتا ہے....میں سمجھتا ہوں اگر یہ کام نہ ہوتا تو اس شخص کی زندگی میں تو شاید عیاں طور پر فتنہ نہ اٹھتا.لیکن بعد ازاں عثمانی دور اور علومی و در بیک وقت آکر بر بہ بیت کی فضاء میں تحریک کو ختم کر دیتے.اندھے اور احمق ہیں وہ جو اس شخص کی پیروی نہیں کرتے.اس کی اندھی تقلید یقیناً دور اندیشی اور عقل کی انتہا ہے آپ لوگ ہی خوش قسمت ہیں یہ جماعت احمدیہ کا مرکزی پریس ان دنوں فتنہ منافقین قلمی جہا اور ملی لٹریچر کی اشاعت کے رات کو زائل کرتے اور ان کے مینوالوں کے زہریلے پراپیگنڈہ کا جواب دینے کے لیے وقف رہا.جماعت کے من متانہ اہل علم اصحاب نے اس قلمی جہاد میں بھر پور حصہ لیا ان میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال رنا ظر اصلاح و ارشاد) ملک عبدالرحمن صاحب خادم امیر جماعت احمد یہ گجرات - مولانا جلال الدین صاحب شمسی خاص طور پر قابل ذکر میں جین کی سعی وجد وجہد سے مندرجہ ذیل رسائی یا کتابیں چھپ کر سلسلہ کے لٹریچر میں مفید اضافہ کا موجب بنیں.قرار ۱- میاں محمد صاحب مل اور لائلپور کی کھلی چھٹی کے نام سید نا حضرت خلیفہ اسیع الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ امام جماعت احمدیہ کا جواب را نہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اصلاح دار شاد.میاں محمد صاحب کی کھلی چھٹی کے جواب کا تسمہ رہ ایضاً = ) - چوہدری محمد حسن چیمہ کی افتراء پر وازیوں کا جواب ( از قلم جناب ملک عبدالرحمن صاحب خادم ایڈووکیٹ گجرات).امیر منکرین خلافت کی مغالطہ انگیز بوں کا جواب (از قلم حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) خلافت کی تائید اور فتنہ منافقین کی تردید میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت سید زین العابدين ولی اللہ شاہ صاحب.ڈاکٹر حضرت حشمت اللہ خاں صاحب مولانا ابو العطاء صاحب شیخ خورشیدا محمد صاحب اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل، شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی ، مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی کا ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ سے مطبوعہ پیغام صلح و ور اگست ۱۹۵۶ء ص ۷ - ۹
106 سلسلہ سید احمد علی صاحب مربی سلسلہ مولوی عبد المالک خان صاحب مربی سلسلہ، ڈاکٹر شاہنواز خانصاب چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت کراچی امولوی محمد احمد صاحب ثاقب پر وفیسر جامعه المبشرين اور دوسرے مخلصین سلسلہ کے معلومات افروز مضامین الفضل میں سپر د اشاعت ہوئے.فتنہ منافقین کے انسداد و استیصال کے لیے حضرت مصلح موعود کا مندرجہ ذیل لٹریچر بھی دوبارہ شائع کیا گیا میں کے مطالعہ سے احمدیوں کو علم و معرفت کی نئی روشنی حاصل ہوئی.ا.لیکچر اسلام میں اختلافات کا آغازہ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات" (کتاب آئینہ صداقت کا ابتدائی حصہ) ۳.خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک رخطبه جمعه مطبوعه الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۴۰ء ) امام همام سیدنا حضرت خلیفة السیح الثانی انتخاب خلافت کے نظام عمل کا اعلان المصلح الموعود نے جلسہ سالا دستہ کے موقع پر ۲۷ دسمبر کواپنی معرکہ آراد تقریر میں متعدد مستند اور وقیع شہادتوں کی رو سے ابنائے حضرت خلیفہ اول کے دیر بنہ اور محقی منصوبوں اور خلاف احمدیت سرگرمیوں پر ایسے طبیغ رنگ میں روشنی ڈالی.کہ سلسلہ احمدیہ کی بائیس سالہ تاریخ کے بہت سے مخفی گوشے بے نقاب ہو گئے نیز اگلے روز (۲۸ دسمبر) کو آئندہ کے لیے انتخاب خلافت کے نظام عمل کا دور رح ذیل الفاظ میں اعلان فرمایا : چونکہ اس وقت حضرت خلیفہ اول........کے خاندان میں سے بعض نے اور ان کے دوستوں نے خلافت احمدیہ کا سوال پھر اٹھایا ہے اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ اس مضمون کے متعلق پھر کچھ روشنی ڈالوں اور جماعت کے سامنے ایسی تجاویز پیش کروں جن سے خلافت احمدیہ شرارتوں سے محفوظ ہو جائے.میں نے اس سے پہلے جماعت کے دوستوں کے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ خلیفہ وقت اہے یہ تقریر اور میں " نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر کے نام سے شائع کر دی گئی.
IDA کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کی مجلس شوری دو سرا خلیفہ چنے مگر موجودہ فتنہ نے بنا دیا ہے کہ یہ طریق درست نہیں کیونکہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہم خلیفہ ثانی کے مرنے کے بعد مبیعت میاں عبدالستان کا کریں گے اور کسی کی نہیں کریں گے اس سے پتہ لگا کہ ان لوگوں نے یہ سمجھا کہ صرف دو تین آدمی ہیں اگر کسی کی بیعت کر لیں تو وہ فلسفہ ہو جاتا ہے اور پھر اس سے یہ بھی پتہ لگا کہ جماعت میں خلفشار پیدا ہو سکتا ہے چاہے وہ خلفشار پیدا کرنے والا غلام رسول نمبر ۲۵ جیسا آدمی ہی ہو اور خواہ وہ ڈاہڈا جیسا گمنام آدمی ہی ہودہ دعومی تو یہی کریں گے کہ خلیفہ چنا گیا ہے سو جماعت احمدیہ میں پریشانی پیدا ہو گی اس لیے وہ پرانا طریق جو طول عمل والا ہے میں اس کو منسوخ کرتا ہوں اور اس کی بجائے اس سے زیادہ قریبی طریقہ پیش کرتا ہوں بیشک ہمارا دعوی ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے مگر اس کے با وجود تاریخ کی اس شہادت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خلیفے شہید بھی ہو سکتے ہیں میں طرح حضرت عمر - حضرت عثمان - حضرت علی شہید ہوئے اور خلافت ختم بھی کی جاسکتی ہے.جس طرح حضرت حسن کے بعد خلافت ختم ہوگئی جو آیت میں نے اس وقت پڑھی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں خلافت قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ مشروط ہے کیونکہ مندرجہ بالا آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی خلافت پر ایمان لانے والوں اور اس کے قیام کے لیے مناسب حال عمل کرنے والے لوگوں سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان میں خلافت کو قائم رکھے گا پس خلافت کا ہونا ایک انعام ہے پیشگوئی نہیں اگر پیشگوئی ہوتا تو حضرت امام حسین کے بعد خلافت کا ختم ہونا نعوذ باللہ قرآن کریم کو جھوٹا قرار دیتا لیکن چونکہ قرآن کریم نے اس کو ایک مشروط العام قرار دیا ہے اس لیے اب ہم یہ کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت امام حسین کے زمانہ میں عام مسلمان کامل مومن نہیں رہے تھے اور خلافت کے قائم رکھنے کے لیے صحیح کوشش انہوں نے چھوڑ دی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو واپس لے لیا اور با وجود خلافت کے ختم ہو جانے کے قرآن سچا رہا جھوٹا نہیں ہوا وہی صورت اب بھی ہوگی.اگر جماعت احمدیہ خلافت کے ایمان پر قائم رہیا اور اس کے قیام کے لیے سمیع صدر جہد کرتی رہی تو اس میں بھی خلافت قیامت تک قائم رہے گی جس طرح عیسائیوں میں پوپ کی شکل میں اب تک قائم ہے گو وہ بگڑ گئی ہے میں نے بتا دیا ہے کہ اس کے بگڑنے کا احمدیت پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا گر بہر حال اس فساد سے اتنا پتہ لگ جاتا ہے کہ شیطان ابھی مایوس نہیں ہوا پہلے تو شیطان کے مخامیوں
109 کی جماعت بنائی لیکن بیالیس سال کے انتظار کے بعد اسی باسی کڑھی میں پھر ابال آیا اور وہ بھی لگے مولوی عبد المنان اور عبد الوہاب کی تائید میں مضمون لکھنے اور ان میں سے ایک شخص محمد حسن چیمہ نے بھی ایک مضمون شائع کیا کہ ہمارا نظام اور ہمارا سٹیج اور ہماری جماعت تمہاری مدد کے لیے تیار ہے شنا باش ہمت کر کے کھڑے رہو مرزا محمود سے دینا نہیں اس کی خلافت کے پردے چاک کر کے رکھ دو ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے کوئی اس سے پوچھے کہ تم نے مولوی محمد علی صاحب کو کیا مدد مے لی تھی آخر مولوی محمدعلی صاحب بھی تو تمہارے لیڈر تھے خواجہ کمال الدین صاحب بھی لیڈر تھے ان کی تم نے کیا مد کر لی تھی جو آج عبد المنان اور عبد الوہاب کی کر لو گے پس یہ باتیں محض ڈھکوسلے ہیں ان سے " صرف ہم کو ہوشیار کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مطمئن نہ ہو جانا اور یہ نہ سمجھنا خدا تعالیٰ چونکہ خلافت قائم کیا کرتا ہے اس لیے کوئی ڈر کی بات نہیں ہے.تمہارے زمانہ میں بھی تفتے کھڑے ہورہے ہیں اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی نئے کھڑے ہوئے تھے اس لیے خلافت کو ایسی طرز پہ چلاؤ جو زیادہ آسان ہوا اور کوئی ایک دو لفنگے اٹھ کر اور کسی کے ہاتھ پر بیعت کر کے یہ نہ کہدیں کہ چلو خلیفہ مقرر ہو گیا ہے پس اسلامی طریق پر جو کہ میں آگے بیان کر دوں گا آئندہ خلافت کے لیے میں یہ قاعدہ منسوخ کرتا ہوں کہ شوری انتخاب کرے بلکہ میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں کہ آئندہ جب بھی خلافت کے انتخاب کا وقت آئے تو صدر انجمن احمدیہ کے ناظر اور ممبر اور تحریک جدید کے وکلاء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خاندان کے زندہ افراد اور اب نظر ثانی کرتے وقت میں یہ بات بھی بعض دوستوں کے مشورہ سے زائد کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کے رفقاء بھی جن کو فوراً بعد تحقیقات صدر انجمن احمدیہ کو چاہیے کہ صحابیت کا سرٹیفکیٹ دیدے اور جامعتہ المبشرین کے پرنسپل اور جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ اور تمام جماعتہائے پنجاب اور سندھ کے ضلعوں کے امیر اور مغربی پاکستان اور کراچی کا امیر اور مشرقی پاکستان کا امیر مل کر اس کا انتخاب کریں.اسی طرح نظر ثانی کرتے وقت میں یہ امر بھی بڑھاتا ہوں کہ ایسے سابق اسراء جودو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہے ہوں گو انتخاب کے وقت بوجہ معذوری امیرنہ رہے ہوں وہ بھی لسٹ میں شامل کیے جائیں اسی طرح ایسے تمام مبلغ جو ایک سال تک غیر ملک میں کام کہ آئے ہیں اور
14.بعد میں سلسلہ کی طرف سے ان پر کوئی الزام نہ آیا ہوا لیے مبلغوں کی لیسٹ شائع کر نا مجلس تحریک کا کام ہو گا اسی طرح ایسے مبلغ جنہوں نے پاکستان کے کسی ضلع یا صوبہ میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کام کیا ہو ان کی فہرست بنا نا صد را نمین احمدیہ کے دفتہ ہو گا.گر شرط یہ ہو گی کہ اگر وہ موقعہ پر پہنچ جائیں سیکرٹری شوری تمام ملک میں اطلاع دیدے کہ فوراً پہنچ جاؤ.اس کے بعد جو نہ پہنچے اس کا اپنا قصور ہو گا اور اس کی غیر حاضری خلافت کے انتخاب پہ اثر اندازہ نہیں ہوگی نہ یہ عذر سُنا جائے گا کہ وقت پر اطلاع شائع نہیں ہوئی یہ ان کا اپنا کام ہے کہ وہ پہنچیں سیکر ٹڈی شوری کا کام ان کو لانا نہیں اس کا کام صرف یہ ہوگا کہ وہ ایک اعلان کہ دے اور اگر سیکر ٹری شوری کہے کہ میں نے اعلان کر دیا تھا تو وہ انتخاب جائزہ سمجھا جائے گا ان لوگوں کا یہ کہ دینا ان میں سے کسی کا یہ کہ دینا کہ مجھے اطلاع نہیں پہنچ سکی اس کی کوئی وقعت نہیں ہو گی نہ قانوناً نہ شرعاً.یہ سب لوگ مل کہ تو فیصلہ کر یں گے وہ تمام جماعت کے لیے قابل قبول ہوگا.اور جماعت میں سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گاوہ باغی ہو گا.اور جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اس کو ابھی سے یہ بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہو گا.اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہو گا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا.کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لیے کھڑا ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیه الصلاة والسلام اور محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو پورا کرے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم کر ہے پس چونکہ وہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کو پورا کرنے کے لیے کھڑا ہو گا اس لیے اُسے ڈرنا نہیں چاہیئے.جب مجھے خلیفہ چنا گیا تھا تو سلسلہ کے بڑے بڑے لیڈر سارے مخالف ہو گئے تھے اور خزانہ میں نگل اٹھارہ آنے تھے اب تم بتاؤ اٹھارہ آنے میں ہم تم کو ایک ناشتہ بھی دے سکتے ہیں؟ پھر خدا تعالیٰ نے تم کو کھینچ کر لے آیا اور یا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کی وفات پر صرف بارہ سو آدمی جمع ہوئے تھے اور یا آج کی رپورٹ یہ ہے کہ ربوہ کے آدمیوں کو ملا کہ اس وقت طلبہ مردانہ اور زنانہ میں پچپن ہزار تعداد ہے.آج رات ۴۳ ہزار مہمانوں کو
141 کھانا کھلایا گیا ہے بارہ ہزار ربوہ والے ملائے جائیں تو پچپن ہزار ہو جاتا ہے.پس عورتوں اور مردوں کو ملا کہ اس وقت ہماری تعداد ۵۵ ہزار ہے اس وقت بارہ سو بھی یہ پچپن ہزار کہاں سے آئے ؟ خدا ہی لایا.پس میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالے خلیفہ ثالث بنائے ابھی بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالے پر ایمان لاکر کھڑا ہو جائے گا تو منان وہاب اور پیغامی کیا چیز ہی اگر دنیا کی حکومتیں تبھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.الغرویائے تجیر، جماعت احمدیہ کو حضرت خلیفہ اول کی اولاد سے ہر گنہ کوئی تعلق نہیں جماعت احمدیہ کو خدا کی خلافت سے تعلق ہے اور وہ خدا کی خلافت کے آگے اور پیچھے لڑے گی اور دنیا میں کسی شریر کو جو کہ خلافت کے خلاف ہے خلافت کے قریب بھی نہیں آنے دے گیا ہے.انتخاب خلافت سے متعلق تاریخی ریزولیوشن حضرت مصلح موعود نے اپنی خدا داد بصیرت و فراست سے جس نظام عمل کا اعلان جلسہ سالانہ ۹۵ کے موقع پر فرمایا تھا.اس کو حضور ہی کی اجازت سے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندہبری نے اور مارچ ۱۹۵۷ء کو مجلس مشاورت کے پہلے اجلاس میں ایک قرار داد کی صورت میں پیش کیا.جسے ملک کے گوشے گوشے سے آنے والے تین سو اکتالیس (۳۴۱) نمائندگان جماعت نے دل کی گہرائیوں سے قبول کیا اور اس کے منظور کیے جانے کی سفارش کی.اور حضور نے بھی اسی نشست میں اس سفارش کی منظوری کا اعلان فرمایا.اس طرح یہ نیا فتنہ جو قریباً آٹھ ماہ قبل ایک مہیب اور خوفناک طوفان بن کر ظاہر ہوا تھا.خدا کے موعود خلیفہ کے بروقت اور فیصلہ کن اقدام کی برکت سے خلافت کے روحانی مینار کو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور بلند کرنے کا موجب ہوا.ذیل میں مجلس مشاورت 19 ء کے اس پہلے اجلاس کی مکمل کارروائی درج کی جاتی ہے :- لہ خلافت حقہ اسلامیہ تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ناشر الشركة الاسلامیہ طبع اول ۱۹۵۷ء
۱۶۲ حضرت مصلح موعود نے سب سے پہلے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.اور پھر ارشاد فرمایا : - اب میں باقی ایجنڈا شروع کرنے سے پہلے مولوی ابوالعطاء صاحب کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ ریزولیوشن جو میری ہدایت کے مطابق بنایا گیا ہے اور جلسہ سالانہ یا نتخاب خلافت کے سلسلہ میں میں نے اس کا ذکر کیا تھا پڑھ کر سنائیں.اس پر مولوی ابو العطاء صاحب سیج پر تشریف لائے اور آپ نے مندرجہ ذیل تقریر کیا:- مسئلہ خلافت اسلام کا ایک اہم مسئلہ ہے اور جماعت احمدیہ نصف صدی سے پوری دصات اور یقین کے ساتھ اس پر قائم ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اسیح اقول کا انتخاب ہوا تو جماعت نے بالاتفاق اس بات کا اظہارہ کیا کہ یہ مسئلہ جماعت کے لیے نیز اسلام کی حفاظت اور ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے.حضرت خلیفہ اسیح اول......کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کا دور شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر یہ امر ثابت کر دیا کہ جماعت کے انتظام اس کی ترقی اور اشاعت کے لیے خلافت کا وجود نہایت ضروری ہے پچھلے ۳۵ سال کا دور ہماری نظر کے سامنے سے گزرا ہے اور ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح خلافت کے افضال اور برکات جماعت پر نازل ہوئی ہیں.می و قیوم صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے.ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوا ہے اُس نے ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام کو لمبی اور صحت والی زندگی عطا فرمائے.لیکن یہ مسئلہ جماعت کے لیے انتہائی قابل توجہ ہے تا آئندہ جماعت میں تشتت اور تفرقہ کی کوئی صورت پیدا نہ ہو.جماعت کے احباب کو علم ہے کہ بعض فتنہ پر دانوں نے ایک گروہ بنا کر فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.اور اللہ تعالے کا بڑا احسان ہے کہ اُس نے 197 ء میں حضرت خلیفتہ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پر منکشف فرمایا کہ بعض لوگ جاہ طلبی کی وجہ سے جماعت کے انتظام کو توڑنے اور اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.حضور نے بیماری کے باوجود نہایت ہمت اور محنت سے اس فتنہ کی سرکوبی فرمائی.اور آپ سب لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کس قدر آپ کی مدد اور نصرت فرمائی.حضور نے واضح فرمایا ہے کہ خلیفہ خدا
۱۶۳ ہی مقرر فرماتا ہے.اس کے لیے کوشش کرنا نا جائز ہے.خلافت ایک مقدس امانت ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ وقت آنے پر نئے خلیفہ کا انتخاب کرے.لیکن ان جاہ طلب اور فتنہ پرداز لوگوں کو مایوس کرنے اور جماعت میں اتحاد کومستحکم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ابھی سے خلافت کے انتخاب کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ کرے.مکرم مولوی صاحب نے اپنی تقریہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا :- تازہ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین خلافت احمدیہ ابھی تک اپنی کوششوں میں سرگرم ہیں اور ہر رنگ میں جماعت میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اس لیے جماعت کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ ہر وقت بیدار رہے.تاکہ دشمن اپنے منصوبہ اور سازش میں کامینا نہ ہوں.اب یکی اس بات کے ثبوت میں کہ خلافت کے مخالفت ابھی تک اپنی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں بعض شہادتیں پیش کرتا ہوں.مکرم جناب نویدی عبداللدخان امیر جماعت احمدیہ کراچی کی شاد کریم چو ہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کا چھا فرماتے ہیں: غالباً فروری یا مارچ تشار کی بات ہے کہ مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی مجھ سے کراچی میں دو تین دفعہ ملنے کے لیے آئے.اتفاق ایسا ہوا کہ میں انہیں مل نہ سکا.اس کے بعد انہوں نے مجھے پیغام بھجوایا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں.مجھے کچھ وقت دیا جائے.میں نے یہ محسوس کر کے کہ وہ دو تین دفعہ مجھ سے پہلے بھی ملنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر میں انہیں ملا نہیں حسین اخلاق کے ماتحت مناسب سمجھا کہ انہیں خود جا کر مل لوں کیونکہ وہ میری بیوی کے رشتہ دار ہیں.چنانچہ میں نے پیغامبر سے کہا کہ میں آج شام خود اس جگہ حاضر ہو جاؤں گا جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں.ان کا قیام اس وقت احمد غزنوی صاحب سپیشل جج کے ہاں متھا.شام کو میں حسب وعدہ اُن کے ہاں گیا.دوران گفتگو میں انہوں نے حضرت.......اللہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ذکر شروع کر دیا.اور مجھے کہا کہ میں نے حضور کی بیعت کرلی ہے اور کہا ئیں صحیح کہ رہا ہوں کہ میں نے بیعت کرلی ہے.اور اس کے بیان کرنے میں میری کوئی ذاتی غرض نہیں.دوسرے
ן دن میں اور ملک ان کے پاس گئے.میں منصور ملک کو اُن کے پاس چھوڑ کر چلا گیا.بعد میں منصور ملک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ نے تو مجھے بتایا نہیں.یہ بزرگ تو احمدی ہیں.میں نے کہا.یہ مجھ سے بھی یہی بات کہتے تھے.لیکن اس بزرگ کا اعتبار نہیں.یونہی منافقت کرد ل رہے ہیں.احمدی نہیں ہیں.-۲ دسمبر 2 کے تیسرے ہفتہ کا واقعہ ہے کہ عبد الرحمن غزنوی جو مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی کا بھانجا ہے ایک شادی کے سلسلہ میں مجھے میٹرو پول ہوٹل میں ملا اور اُس نے کوئی گفتگو چھیڑ کر مجھے کہا کہ آپ لوگوں نے ہمارے ماموؤں کو جماعت سے نکال دیا ہے لیکن ہم کوشش کر یہ ہے ہیں کہ ہمارہ تا نا کی خلافت ہمارے ماموؤں کو مل جائے.آپ بھی ہمارے ماموڈں کے ساتھ مل جائیں.میں نے کہا.مجھ سے تو مار کھائے گا.کہنے لگا.اگر آپ نہیں تو آپ کی اولاد ہمارے قابو آجائے گی.میں نے کہا اس اولاد کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ سے دعائیں شروع کر دی تھیں کہ اللہ تعالیٰ اسے شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھے.اس لیے میری اولاد آپ لوگوں کے قابو نہیں آسکتی.دوسرے خلافت خدا تعالی کے ہاتھ میں ہے.وہ جس کو چاہے دے.آپ کو ہمار می خلافت کی اتنی فکر کیوں ہے.پھر اپنے ماموؤں کے متعلق تو آپ کو اتنی گھبراہٹ ہے کم سے کم آپ نے اپنے نانا کی بیعت تو کرلی ہوتی کہنے لگا آپ لوگوں نے ہمارے ماموؤں کو جماعت سے نکال دیا ہے وہ خلیفہ ہوں یا نہ ہوں آپ لوگوں میں ہم نے اختلاف ضرور پیدا کر دیا ہے.میں نے کہا شیطان کی جانشینی بھی تو کسی نے کرنی تھی.دوران گفتگو میں اُس نے یہ بھی کہا کہ میں الہ رکھا کو پچاس روپے ماہوار دیتا رہا ہوں.یا یہ کہا کہ اب بھی بھی دے رہا ہوں.بہر حال اس کا مفہوم یہی تھا.میں نے اُسے کہا کہ میرے گھر آکہ ذرا اپنی بہن کو بھی مل لو.کہنے لگا.میں گیا تو اُس نے بات تو سننی نہیں جوتیاں مارنی شروع کر دینی ہیں.میں نے کہا.تمہارا علاج یہی ہے خاکسار عبد اللہ خان امیر جماعت احمدیہ کراچی اس شہادت سے جو دسمبر 1997ء کے واقعات پر مشتمل ہے ثابت ہے کہ محترمین کا خاص مقصد خلافت کا حصول یاکم از کم جماعت احمدیہ میں تفرقہ پیدا کرنا ہے جس کا میاں
عبد المنان صاحب کے رشتہ دار یہ ما اظہار کرتے ہیں.اس ناپاک سکیم کے لیے یہ لوگ اللہ رکھا جیسے انسان کو رقمیں دے کر بھی کام لے رہے ہیں.پس احباب جماعت کا فرض ہے کہ وہ محتر جین کے فتنہ سے ہوشیار رہیں اور انہیں جماعت میں تفرقہ پیدا کرنے کے منصوبہ میں کامیاب نہ ہونے دیں.مکرم مولوی صاحب نے مزید فرمایا کہ : - مارچ علیہ کی بات ہے کہ عزیزم عطاء الرحیم حامد کو گو لبازار میں سے گزرتے ہوئے ایک خط کا ایک ورق ملا.جو وہ اٹھا کر گھرے آیا.وہ ورق میں آپ کو سناتا ہوں.بسم الله الرحمن الرحیم پیارے ماموں صاحب : خدا تعالے آپ کو عمر دراز دے.السلام علیکم ورحمة الله و به کانتر صبح کا ایک بجنے کو ہے.میں ابھی ابھی منہ لپیٹ کر رضائی اوڑھے پڑا تھا.خیال آیا کرکاموں جان نے کوئی خبر اپنے ہاتھ سے نہیں بھیجی.دل یا دماغ دونوں میں سے کسی ایک نے کچھ گلا شکوہ بھی تجویز کیا.پھر ما خیال آیا کہ آپ بھی تو کہ سکتے ہیں کہ بھلے مانس تم نے کیا ہماری خبر لی جو ہم پہ روش دیتے ہو.ماموں جان اس بات نے مجھے اس وقت چراغ جلا کر لکھنے کو مجبور کیا ہے وہ یہ ہے کہ جناب کو تو صدمہ جماعت کی ناراضگی سے پہنچا ہے وہ علم وعصہ میں تبدیل ہو کہ اللہ تعالیٰ نہ کرے کہ آپ کے ایمان کو ضائع کر دے.پیارے ناموں ! اگر چہ ظاہر میں آپ کی ریوہ سے ہجرت بڑی نظر آتی ہے مگر اس سے بخوبی جنم لیتی ہے.یہ موقعہ آپ کے ایمان کو اجاگر کرنے کے لیے بڑا ہی مبارک ہو سکتا ہے.اگر آپ زیادہ تبلیغ اسلام کی اپنے قلم سے کر سکیں.پیارے ماموں خدا تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ لاہور کے ہر اخبار میں آپ کے ہدایت سے بھر پور مضمون نظر آنے لگیں اور احباب مجبور ہو کر یہ کہ انھیں کہ یہ صاحب احمدی ہیں.آپ صرف کربستہ ہو جائیں.اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا.پیار سے ماموں ایہی ایک طریقہ ہے جو آپ کو پریشانیوں سے نجات دلا سکتا ہے : یہ خط ظاہر کرتا ہے کہ یہ میاں عبد المنان صاحب کے نام لکھا گیا ہے.اور ان کی جیب سے
144 گرا ہے.وہ ان دنوں ربوہ آئے ہوئے تھے.اس خط میں انہیں یہ مشورہ دیا جا رہا ہے.کہ وہ اختبارات میں مضامین شائع کر کے بی اثر قائم کریں کہ وہ احمدی ہیں تا کہ اپنی سکیم کو بروئے کار لا سکیں.ان منصوبوں کے ہوتے ہوئے جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ انتخاب خلافت کے لیے کوئی مبین طریق تجویز کرے.جماعت پر یہ امر واضح ہے کہ انتخاب کے وقت جماعت کے ہر فرد کا حاضر ہونا ضروری نہیں.ارباب حل و عقد کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک نہایت موزوں اور متقی شخص کو خلیفہ منتخب کر لیں اور باقی جماعتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کی وفاداری کا حلف اٹھائیں.علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں.(ترجمہ) " جب یہ طے ہو گیا کہ امام کا مقدر کہ نا اجتماعی طور پر واجب ہے تو یہ امر فرمن کفا به قرار پایا.اب ارباب حل وعقد کے ذمہ ہو گا کہ وہ خلیفہ کا تقرر کریں اور بانی جماعت پرواجب ہو تھا کہ سب کے سب خلیفہ کی اطاعت کریں کیونکہ اللہ تعالے نے فرمایا ہے اطیعوا الله واطیعوا الرسول داولی الامر منكم ر مقدمه ابن خلدون صدا ۱۶ مطبوعہ مصر) شیخ رشید رضا صاحب ایڈیٹ المنارہ مصر نے اپنی کتاب" الخلافہ میں اس بات پر سجست کی ہے.آپ لکھتے ہیں :- (ترجمہ) اہلِ سنت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ خلیفہ مقرر کرنا فرض کفایہ ہے اور امت کے ارباب حل و عقد اس تقریر کے ذمہ دار ہیں.معتزلہ اور خوارج بھی اس پر متفق ہیں کہ ارباب حل و عقد کی بیعت کے ساتھ خلافت قائم ہو جاتی ہے.یہاں بعض علماء نے اس بارے میں اختلات کیا ہے کہ ارباب حل و عقد کون ہیں ؟ آیا ان سب کی بیعت ضروری ہے یا معین تعداد کی بیعت سے خلافت قائم ہو جاتی ہے یا یہ کہ اس بارے میں تعداد کی کوئی مشرط نہیں.حالانکہ چاہیئے تھا کہ ان کا ارباب حل و عقد قرانہ دیا جا نا ہر قسم کے اختلاف سے خالی ہو.کیونکہ اس لفظ کے ظاہری معنے یہ ہیں کہ وہ امت کے لیڈر ہیں اور امت کی اکثریت ان پر اعتماد رکھتی ہے اور ان کے مقام کو ایسے طور پر مانتی ہے کہ جس کو وہ خلیفہ مقرر کریں گے انت اس کی
176.اطاعت کرنے میں اُن کی پیروی کرے گی تاکہ امت کا نظام قائم رہے اور مقرر ہونے والے خلیفہ کی نافرمانی اور بغاوت کا سوال پیدا ہی نہ ہو.علامہ سعد الدین تفتازانی شرح المقاصد میں دوسرے مشکلمین اور فقہاء کے ہم نوا ہو کر لکھتے ہیں کہ ارباب حل و عقد سے مراد علماء اور قوم کے سردار اور بڑے لوگ ہیں.امام نووی المنہاج میں فرماتے ہیں کہ اُن میں سے جن کا حاضر ہونا دقت پر ممکن ہو وہ منتخب کریں گے.امام ابوالحسن الماوردی جنہیں سب سے بڑا قاضی سمجھا جاتا تھا اپنی کتاب الاحکام السلطانیہ (ص) میں لکھتے ہیں :.ترجمه آن است دو طرح سے منعقد ہوتی ہے.اول یہ کہ جماعت مسلمین کے ارباب بسط و کشاو کسی شخص کو منتخب کریں.ہم اس طرح کہ سابق خلیفہ کسی کو نامز دکرے.علماء کا اس بارہ میں اختان ہوا ہے کہ ارباب بسط رکشا کی کتنی تعداد انتخاب کرنے والی ہونی چاہیئے.ایک گروہ کا خیال ہے کہ ہر ملک کے عمومی ارباب حل و عقدہ کا اجتماع ہونا چاہیئے تاکہ سب کی رضا مندی ہو.اور سب منتخب ہونے والے خلیفہ کی خلافت کو اجتماعی طور پرتسلیم کرلیں.مگر یہ رائے حضرت ابو بکر نے کی خلافت کے مسئلہ سے نا درست قرار پاتی ہے کیونکہ وہاں پہ جو لوگ اس موقعہ پر حاضر تھے ان کے انتخاب سے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا تھا.اور غیر حاضر لوگوں کے آنے کے انتظار میں بیعت کو ملتوی نہیں کیا گیا تھا علماء کی ایک دوسری جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ کا انتخاب ارباب حل و عقد میں سے کم از کم پانچ افراد کے انتخاب سے بھیج ہو جاتا ہے خواہ وہ پانچوں ہی اسس خلافت کے بارے میں اجتماعی طور پر انتخاب کرنے والے ہوں.یا ان میں سے ایک مقرر کرے اور باقی چار رضا مندی کا اظہار کرنے والے ہوں.علماء کی اس جماعت کا استند لال دو باتوں پر ہے.(1) حضرت ابو بحریہ کی خلافت پانچ اصحاب کے اجتماع سے ہوئی تھی.باقی لوگوں نے ان پانچ کی اس بارے میں اشباع کی تھی.وہ پانچ حضرات عمر ابن الخطاب ابو عبیدہ بن الجراح - اسيد بن حضير - لبشر من سعد اور سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہم تھے (۲) حضرت عمر ہو نے اپنے بعد خلافت کے انتخاب کے لیے چھ آدمیوں کی مجلس شوری مقرر کیا تھا اور فرمایا تھا کہ پانچ کی رضا مندی سے ان میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کیا جائے.خلافت
14A کے انتخاب کے لیے ارپ حل وعقد کی مقدار پانچ ہونے کے متعلق ہی اہل بصرہ کے اکثر فقہاء اور متکلمین کا مذہب ہے " (الاحکام السلطانيه منم) جناب ڈاکٹر سید محمد یوسف صاحب پی.ایچ.ڈی لیکچرار عربی علی گڑھ یونیورسٹی لکھتے ہیں.الف تاریخ میں مذکور ہے کہ حضرت عمرہ کو اس بنا پر کافی تشویش رہتی تھی کہ امت مسلمہ کے باقی ماندہ اعیان ملت میں کوئی شخص ایسانہ متھا جس کو جانشینی کے لیے تجویز کیا جاسکے.......حضرت عمر نے انتخاب را در یہ حقیقی معنوں میں انتخاب تھا) کا معاملہ چھ اشخاص کی ایک مجلس کے سپرد کر دیا.فیصلہ کثرت رائے سے ہونا تھا.اور آراء کی مساوات کی حالت میں حضرت عبداللہ بن عمرہ کو حکم بنایا جانا تھا بٹر ٹیکہ مجلس کے اراکین اس پر متفق ہوں.بصورت دیگر حضرت عبد الرحمن بن عوف کو اختیار دیا گیا کہ اپنی فیصد کن رائے (CASTING YOTE) سے کسی اور امیدوار کے حق میں فیصلہ کردیں.اس میں ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ اعیان طحت کا فیصلہ ہمیشہ قطعی سمجھا جائے گا اور عامتہ المسلمین اس فیصلہ کی تصدیق ملعب و ناداری سے کریں گے......الماوردی کا بیان اس بارے میں نہایت واضح ہے کہ اعیانِ ملت کا انتخاب عامتہ الناس کے لیے قبول کرنا لازمی ہے.در سالہ" اسلام میں خلیفہ کا انتخاب" ص۲۳ (۲) مولوی ابو العطاء صاحب نے اس تقریر کے بعد فرمایا.اب میں وہ قرار داد پڑھتا ہوں جو شریعیت اسلامیہ اور پرانے علماء کی تحقیقات کی روشنی میں مجلس علماء سلسلہ احمدیہ نے مرتب کی ہے.قرارداد کا متن یہ ہے :.بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم انتخاب خلافت کے متعلق ایک ضروری پریزولیوشن تمہیں سیدنا حضرت........خليفة اسم الشان ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ
179 کے موقعہ پر آئندہ خلافت کے انتخاب کے متعلق یہ بیان فرمایا تھا کہ پہلے یہ قانون تھا کہ مجلس شوری کے ممبران جمع ہو کہ خلافت کا انتخاب کریں.لیکن آجکل کے فتنہ کے حالات نے ادھر توجہ ولائی ہے کہ تمام ممبران شوری کا جمع ہونا بڑا المیا کام ہے.ہو سکتا ہے کہ اس سے فائڈ اٹھاکر منافق کو فتنہ کھڑا کر دیں.اس لیے اب میں یہ تجویز کر تا ہوں جو اسلامی شریعت کے عین مطابق ہے کہ آئندہ خلافت کے انتخاب میں مجلس شوری کے جملہ ممبران کی سجائے صرف ناظران صدر انجمن احمدیہ ممبران صدر انجین احمدیہ - وکلاء تحریک جدید خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زندہ افراد جن کی تعداد اس غرض کے لیے اس وقت تین ہے.یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا البشير احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب میاں عبد اللہ خان صاحب) جامعتہ المبشرین کا پرنسپل.جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ مل کر فیصلہ کیا کریں.مجلس انتخاب خلافت کے اراکین میں اضافہ جلسہ سالانہ تشہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے علماء سلسلہ اور دیگر بعض صاحبان کے مشورہ کے مطابق مجلس انتخاب خلافت میں مندرجہ ذیل اراکین کا اضافہ فرمایا.۱.مغربی پاکستان کا امیر.اور اگر مغربی پاکستان کا ایک امیر مقرر نہ ہو تو علاقہ جات مغربی پاکستان کے امرا ء جو اس وقت چار ہیں.مشرقی پاکستان کا امیر - ۳.کراچی کا امیر - ۴.تمام اضلاع کے امرا ء.۵.تمام سابق امرا ء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں.گو انتخاب خلافت کے وقت امیر نہ ہوں.ران کے اسماء کا اعلان صدر انجمن احمدیہ کرے گی).امیر جماعت احمدیہ قادیان - ، - ممبران صدر انجمن احمد یہ قادیان - ۸ - تمام زنده رفقاء کرام کو بھی انتخاب خلافت میں رائے دینے کا حق ہو گا.راس غرض کے لیے رفیق وہ ہو گا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو دیکھا ہو اور حضور کی باتیں سنی ہوں اور ار میں حضور علیہ السلام کی وفات کے وقت اس کی عمر کم از کم بارہ سال کی ہو.صدر
16.انجمن احمدیہ تحقیقات کے بعد رفقاء کرام کے لیے سرٹیفیکیٹ جاری کرے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے اولین رفقاء میں سے ہر ایک کو بٹالہ کا انتخاب میں برائے دینے کا حقدار ہو گا بشرطیکہ وہ مبایعین میں شامل ہو..اس جگہ رفقاء اولین سے مُراد وہ احمدی ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سات ماہ سے پہلے کی کتب میں مایا ہے دان کے ناموں کا اعلان بھی صدر انجمن احمدیہ کرے گی ۱۰.ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کا کام کیا ہوا اور بعد میں تحریک جدید نے کسی الزام کے ماتحت انہیں فارغ کر دیا ہو.ران کو تحریک جدید سرٹیفیکیٹ دے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی )..ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے پاکستان کے کسی صوبہ یا ضلع میں رہمیں التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کام کیا ہو اور بعدمیں ان کو دی انہی احمدیہ نے کسی الزام کے ماتحت فارغ نہ کر دیا ہو.رانہیں صدر انجمن احمدیہ سرٹیفیکیٹ دے گی اور اُن کے ناموں کا اعلان کرے گی.مجلس انتخاب خلافت کا دستورالعمل - سیدنا حضرت....خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مندرجہ بالا جملہ اراکین مجلس انتخاب خلافت کے کام کے لیے حسب ذیل دستور العمل منظور فرمایا ہے :.مجلس انتخاب خلافت کے جو اراکین مقرر کیے گئے ہیں.ان میں سے بوقت انتخاب حاضر افراد انتخاب کرنے کے مجاز ہوں گے.غیر حاضر افراد کی غیر حاضری اثراندازہ نہ ہوگی اور انتخاب جائز ہوگا.ب : - انتخاب خلافت کے وقت اور مقام کا اعلان کرنا مجلس سٹوری کے سیکرٹری اور ناظر علی کے ذمہ ہو گا.ان کا فرض ہو گا کہ موقع پیش آنے پر فوراً مقامی اراکین مجلس انتخاب کو اطلاع دیں بیرونی جماعتوں کو تاروں کے ذریعہ اطلاع دی جائے.اخبار الفضل میں بھی اعلان
کر دیا جائے.ج.نئے خلیفہ کا انتخاب مناسب انتظار کے بعد چو میں گھنٹے کے اندراندر ہونا چاہیئے مجبوری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ تین دن کے اندر انتخاب ہونا لازمی ہے.اس درمیانی عرصہ میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان جماعت کے مجلہ کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ دار ہوگی.اگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں نئے خلیفہ کے انتخاب کا سوال اٹھے تو مجلس انتخاب خلافت کے اجلاس کے وہ پریذیڈنٹ ہوں گے.اوہ صدر انجین احمدیہ اور تحریک جدیک اس وقت کے سینیٹر ناظر یا وکیل اجلاس کے پریذیڈنٹ ہوں گے.(ضروری ہے کہ صدر انجین احمدیہ اور تحریک جدید فوری طور پر مشترکہ اجلاس کر کے ناظروں اور وکلاء کی سینیارٹی فہرست مرتب کرے.هه - مبلی انتخاب خلافت کا ہر رکن انتخاب سے پہلے یہ حلف اٹھائے گا کہ : - " میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کہ اعلان کرتا ہوں کہ میں خلافتِ احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دونگا جو جماعت مبائعین میں سے خارج کیا گیا ہو یا اس کا تعلق احمدیت یا خلافت احمدیہ کے مخالفین سے ثابت ہویا جب خلافت کا انتخاب عمل میں آجائے تو منتخب شدہ خلیفہ کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ لوگوں سے بیعت لینے سے پہلے کھڑے ہو کہ قسم کھائے کہ : " میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف نہیں باطل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لیے پوری کوشش کرونگا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا.اور میں سر غریب اور امیر احمدمی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی تشریح کے لیے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا“ می.اورہ کے قواعد کے مطابق رفقاء اور نمائندگان جماعت جن میں امراء اضلاع سابق وحال "
۱۷۲ بھی شامل ہیں کی تعداد ڈیڑھ صد سے زیادہ ہو جائے گی.ان میں خاندان حضرت مسیح موجود علیہ السلام کے افراد کی تعداد اتنی قلیل رہ جاتی ہے کہ منتخب شدہ ممبروں کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی.ہاں خلیفہ وقت کا انتخاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خاندان کے افراد اور جماعت کے ایسے مخلصین میں سے ہو سکے گا جو مبایعین ہوں اور جن کا کوئی تعلق غیر مبایعین با اتمرار و غیره در شمنان سلسلہ احمدیہ سے نہ ہوریہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس وقت تک ایسے مخلصین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے) بنیادی قانون ضروری نوٹ سید نا حضرت......خلیفہ اسیح الثانی امید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزبية نے آئندہ کے لیے انتخاب خلافت کے لیے مذکورہ بالا اراکین اور قواعد کی منظوری کے ساتھ بطور بنیادی قانون کے فیصلہ فرمایا کہ :- آئندہ خلافت کے انتخاب کے لیے یہی قانون جاری رہے گا سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے مشوری میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوری کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے.مجلس علماء کی یہ تجویز درست ہے (دستخط) مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی مجلس علماء سلسلہ احمدیہ 10/7/06 اس کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نمائندگان مجلس شور می کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : - شاید مولوی صاحب کو یہ بات یاد نہیں رہی یا پھر انہیں بتائی نہیں گئی کہ یہ خط جو انہوں نے پڑھا ہے اور اس میں عبد المنان سے کہا گیا ہے کہ بعض ایسے مضامین لکھو جو اسلام کی تائید میں ہوں تا اس سے جماعت احمدیہ کو جو تم سے نفرت ہے دُور ہو جائے.اس کے اوپر لکھا ہے ماموں جان اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ " ماموں جان کے الفاظ سے کیسے پتہ لگا کہ یہ
خط عبدالمنان کو لکھا گیا ہے.سو اس کا پتہ اس طرح لگتا ہے کہ میں دن یہ خط ملا اور مولوی صاحب نے مجھے بھیجا اور کہا کہ یہ میرے بیٹے کو بازار سے ملا ہے تو اس دن نانی میری حجامت بنانے آیا ہوا تھا.پہلے جب بھی وہ آیا کرتا تھا مجھے بتایا کرتا تھا کہ آج میاں عبد المنان نے مجھے حجامت بنوانے کے لیے بلوایا.اور وہاں مجھ سے یہ یہ باتیں کیں لیکن اُس دن اُس نے کوئی بات نہ کی.میں نے اس سے دریافت کیا کہ آج تو نے میاں عبدالمنان کی کوئی بات نہیں بتائی.اس پر اس نے کہا کہ میاں عبد المنان تو بڑی مدت سے میری دکان پر نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے مجھے اپنے گھر بلایا ہے.آج اتفاقا گول بازار میں رجہاں سے یہ خط ملا ہے ) وہ خود اور اُن کے بیٹے پھر رہے تھے.وہاں میں نے دیکھا کہ ایک دکاندار جوان کا کرایہ دار تھا آ گئے آیا اور کہنے لگا.میاں صاحب میں بڑی دیر سے آپ کو تلاش کر رہا ہوں.دفتروں میں میں کہاں کہاں جاتا.میں نے آپ کو کرایہ دینا تھا آپ ملتے ہی نہیں.میں نے اس دوکاندار کو کہا کہ تم کیوں تکلیف کرتے ہو.میاں صاحب کو ضرورت ہوگی تو وہ اگر کرایہ مانگ لیں گے.تو یہ واقع اور اس خط کا وہاں سے ملنا بتاتا ہے.کہ ممکن ہے جیب سے رومال نکالتے ہوئے یہ خط میاں عبد المنان سے نیچے گر گیا ہو.پھر میں نے گھر میں بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ شائد آپ کو معلوم نہیں.حضرت خلیفہ اول........کے خاندان کے ساتھ جو تعلق رکھنے والے لوگ ہیں وہ سارے کے سارے میاں عبد المنان کو ماموں جان ہی کہتے ہیں.اس لیے انہوں نے کہا.ماموں جان کے الفاظ کی وجہ سے آپ ان کے کسی بھانجے یا بھانجی کو تلاش نہ کریں کیونکہ ہیں یوں ایسے آدمی ہیں جن کے ساتھ اُن کے تعلقات ہیں اور وہ سب اُن کو عادتا ماموں کہتے ہیں.بہر حال میاں عبداللہ صاحب حجام کی گواہی سے پتہ لگ گیا کہ یہ خط فی الواقعہ عبدالمنان کا ہے کیونکہ اُس نے اُسی جگہ جہاں سے یہ خط ملا ہے اور اسی دن میں دن خط ملا ربوہ میں انہیں دیکھا تھا.اس کے بعد ریزولیوشن کے متعلق ووٹ لینے سے پہلے میں یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ اس ری ایویں کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے.بعض جماعتوں نے اپنے نمائندوں سے قسمیں لی ہیں کہ وہ شوری میں اس ریزولیوشن کی تائید کریں.اور اس کے خلاف ووٹ نہ دیں.بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ ہم نے تو اپنے ایمان کی بنا پر اور یہ بتانے کے لیے کہ ہمیں
۱۷۴ خلافت کے ساتھ وابستگی ہے اور ہم خلافت احمدیہ کو کسی صورت میں بھی تباہ نہیں ہونے دیں گے کہ ہم ضرور اس پریز دلیوشن کی تائید کرنی تھی.لیکن ہوا یہ کہ جماعتوں نے ہم سے اس بات کے متعلق حلف لی ہے کہ ہم ضرور اس ریزولیوشن کی تائید کریں.اس طرح جو بات ہم نے اپنے ایمان کے ثابت کرنے ے لیے کرنی تھی وہ حلف کے ذریعہ سے کر دائی جائے گی.اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس شخص میں ایمان تو کوئی نہیں صرف جماعت سے وعدہ کی بناء پر یہ ایسا کہ رہا ہے.اس طرح گویا ہمارے ثواب کا راستہ بند ہوتا ہے اور ہم اپنے اخلاص کا اظہار نہیں کہ سکتے.ان کی یہ بات چونکہ معقول ہے اس لیے جو دوست باہر سے جماعت کے نمائندہ بن کے آئے ہیں اور ان سے جماعتوں نے اس بات کے لیے حلت لیا ہے کہ وہ ضرور اس ریزولیوشن کی تائید کریں.میں انہیں اس ملعت سے آزاد کرتا ہوں.خلافت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے قائم کرنا ہے.اگر کوئی شخص اپنے ایمان میں کمزور ہے اور وہ کوئی ایسا راستہ کھولتا ہے جس کی وجہ سے خلافت احمد یہ خطرہ میں پڑ جاتی ہے یا دشمنوں کے ہاتھ میں ملی جاتی ہے تو اس کے ووٹ کی نہ خلافت احمدیہ کو ضرورت ہے اور نہ خدا کو ضرورت ہے.یہاں جماعتیں کچھ نہیں کر سکتیں.اگلے جہان میں خدا تعالی خود اس کو سیدھا کر سکتا ہے.اس لیے مجھے اس بات کی کوئی ضرورت نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے نمائندگان کو تائید کا پابندکرنے کی مجھے ضرورت نہیں.وہ ووٹ دیں تو اپنے ایمان کی بناء پر دیں.یہ سمجھ کر نہ دیں کہ وہ کسی جماعت کے حلف کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں بلکہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ریزولیوشن جماعت احمدیہ کی خلافت کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ سے آئندہ فتنوں کا سد باب ہوتا ہے تو وہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے ووٹ دیں نہ کہ اپنی جماعت کو خوش کرنے کے لیے.اور اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ اس ریزولیوشن سے شرارت بڑھتی ہے اور فتنہ کا دروازہ کھلتا ہے تو وہ دوٹ نہ دے.ہمیں اس کے ووٹ کی ضرورت نہیں.اور نہ خدا تعالیٰ کو اس کے ووٹ کی ضرورت سے.خدا تعالیٰ نے جب مجھے خلیفہ بنایا تھا اس وقت اس قسم کا کوئی قانون نہیں تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے فتنہ پر دانوں کی کوششوں کو نا کام کر دیا.پس ہم خدا تعالے پر تو قتل کرتے ہیں.جو شخص روٹ دے وہ اس بات کو سمجھ کر دے کہ اس ریز دلیوشن کی وجہ سے جماعت میں شرارت کا سدباب ہوتا ہے.لیکن اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس ریز ولیوشن سے شرارت کا سدباب نہیں ہوتا بلکہ اس سے
ILD شرارت کا دروازہ کھلتا ہے تو وہ ووٹ نہ دے.آگے اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے خدا تعالیٰ جس طرح چاہے گا اُس کے ساتھ برتاؤ کرے گا.وہ اپنی جماعت سے نہ ڈرے کراچی کا نمائندہ کراچی کی جماعت سے نہ ڈرے.لاہور کا نمائندہ لاہور کی جماعت سے نہ ڈرے.سرگودہا کا نمائندہ سرگودہا کی جماعت سے نہ ڈرے.وہ ووٹ دے تو خدا تعالیٰ سے ڈر کر دے اور پھر اس کے بعد ہمارا اور اس کا جو معاملہ ہے وہ خدا تعالیٰ خود طے کرے گا.ہمیں اس کے دوٹ کی ضرورت نہیں.ہمیں صرف اس شخص کے ووٹ کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت رکھنے والا ہے.اسلام سے محبت رکھنے والا ہے اور خلافت سے محبت رکھنے والا ہے.پس اگر وہ خدا تعالی اسلام اور خلافت کی خاطر ووٹ دیتا ہے تو دے اور اگر وہ اپنی جماعت کی خاطر ووٹ دیتا ہے تو ہمیں اس کے ووٹ کی ضرورت نہیں.یہ تحریک کرنے کے بعد میں جماعت کے دوستوں کی رائے اس بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں.مگر میں یہ کہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس ریزولیوشن کے بعض حصے ایسے ہیں جن پر آئندہ زمانوں میں دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہوگی.لیکن بہر حال جب تک کوئی دوسرا ریز ولیوشن پاس نہ ہو گا اس وقت تک یہ ریزولیوشن قائم رہے گا جیسا کہ خود اس ریزولیوشن میں بھی یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ آئندہ خلافت کے انتخاب کیلئے ہی قانون جاری ہیگا سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوری میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے.اور شوری کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے.پس یہ ریزولیوشن دوبارہ بھی مزید غور کے لیے پیش ہو سکتا ہے اور آئندہ پیدا ہونے والی مشکلات کو دور کیا جا اور " سکتا ہے.مجھے خود اس میں بعض ایسی باتیں نظر آتی ہیں جن میں بعد میں تبدیل کی ضرورت محسوس ہوگی مثال کچھ عرصہ کے بعد رفقاء نہیں رہیں گے.پھر میں یہ کرنا پڑے گا کہ انتخاب کی مجلس میں تابعی لیسے جائیں یا وہ لوگ لیے جائیں جنہوں نے ۱۹۱۴ء سے پہلے بیعت کی ہے.پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ قانون بنانا پڑے گا کہ وہ لوگ لیے جائیں جنہوں نے ا سے پہلے بیعت کی ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ قانون بنا نا پڑے گا کہ وہ لوگ لیے جائیں جنہوں نے 1997 سے پہلے
164 بیعت کی ہوئی ہے.بہر حال یہ درستیاں حالات کے بدلنے کے ساتھ ہوتی رہیں گی اور ریزولیوشن بار بار مجلس شوری کے سامنے آتا رہے گا.سر دست به به از دلیوشن شرارت کے نوری سد باب کے لیے ہے.ورنہ آئندہ زمانہ کے لحاظ سے دوبارہ بریزولیوشن ہوتے رہیں گے اور پھر دوبارہ غور کرنے کا لوگوں کو موقع ملتا ر ہے گا.اس کے بعد میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی رائے دیں.جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں اور خدا تعالے سے ڈرتے ہوئے اور اسلام سے محبت رکھتے ہوئے بڑائے رکھتے ہوں کہ اس ریزولیوشن کو پاس کیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.جماعتوں کی طرف سے جو پابندی عائد کی گئی تھی اور نمائندگان سے دینگ لیے گئے تھے اُن کو میں نے ختم کر دیا ہے.اب صرف اس وعدہ کو پورا کرو جو تمہارا خدا کے ساتھ تھا.ر حضور کے اس ارشاد پر تمام نمائندگان کھڑے ہو گئے) رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا.ا للہ دوستوں کی رائے ہے کہ اس ریزولیوشن کو منظور کر لیا جائے.گھر میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی نمائندہ اس تجویز کے مخالف ہو اور اس کی رائے یہ ہو کہ اس پر یہ دیویشن کو منظور نہ کیا جائے تو وہ بھی کھڑا ہو جائے لیکن یہ یادر ہے که من دوستوں نے اس ریزولیوشن کے موافق رائے دی ہے ان کو دوبارہ کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں ہاں اگر کوئی نمائندہ ایسا ہو جو اس کے مخالف رائے رکھتا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے.(اس پر کوئی دوست کھڑے نہ ہوئے) فیصلہ گنتی میں سہولت کے لیے اس وقت آٹھ حلقے بنائے گئے ہیں.ان آٹھ حلقوں میں کوئی نمائندہ بھی اس زینہ ولیوشن کے خلاف کھڑا نہیں ہوا اور اس کے بالمقابل ۳۴۱ دوست اس ریزولیوشن را سیکریڑی مجلس مشاورت کی طرف سے ۲۴۴ ٹکٹ تقسیم کیے گئے تھے مگر رائے شماری کے موقعہ پر تین نمائندے مال میں موجود نہیں تھے
166 کی تائید میں ہے.اس طرح دوستوں نے واضح کر دیا ہے کہ انہوں نے اس وقت اپنی مرضی سے یہ نہ دریویشن کے حق میں رائے دی ہے.جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا.سوئیں اس ریزولیوشن کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.اور اسے منظور کرتا ہوں.خدا تعالیٰ اس کو مبارک کرے.میں جانتا ہوں کہ اس ریزہ دلیوشن کے بعض معنے ایسے ہیں جن پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہو گی جیسا کہ مولوی ابوالعطاء صاحب نے کہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے اس بات کو رسالہ الوصیة میں اٹھایا ہے کہ جو بھی اس دنیا میں پیدا ہوا ہے اس نے ضرور مرنا ہے چاہے وہ آج مریں یا کل مریں اس لیے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی خلیفہ قیامت تک زندہ رہے یا اس کا کوئی ماننے والا قیامت تک زندگی پائے.پس ہم نے جو کچھ کہنا ہے اس دنیا کی زندگی کے متعلق کرتا ہے.اگلی دنیا کا خدا خود ذمہ دار ہے.اس جہان میں خدا تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کا اختیار دیا ہے.اگلے جہان کا کام وہ خود کرے گا.پس چونکہ صرف اس دنیا کا کام چلانا انسان کے اختیار میں ہے اس لیے ہماری کوشش اس حد تک ہونی چاہیئے کہ ہم اس دنیا کے نظام کو اچھا کرنے کی کوشش کرتے رہیں.اگلے جہان کا نظام خدا تعالیٰ نے خود اپنے اختیار میں رکھا ہے.اور وہ اسے آپ ہی ٹھیک کر دے گا.ہماری اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ نظام خلافت حقہ کو احمدیت میں ہمیشہ کے لیے قائم رکھے اور اس نظام کے ذریعہ سے جماعت ہمیشہ ہمیش منتظم صورت میں اپنے مال و جان کی قربانی اسلام اور احمدیت کے لیے کرتی رہے.اور اس طرح خدا تعالیٰ ان کی مدد اور نصرت کرتا رہے کہ آہستہ آہستہ دنیا کے چپہ چپہ پر سجدیں بن جائیں اور دنیا کے چپہ چہیتہ پر مبلغ ہو جائیں اور وہ دن آجائے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ دنیا کے دیگر مذاہب اسلام اور احمدیت کے مقابلہ میں ایسے رہ جائیں جیسے اوٹی اقوام کے لوگ ہیں.دنیا میں ہر کہیں لا الہ الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ کے پڑھنے والے نظر آئیں اور روس امریکہ بر طانیہ اور فرانس کے لوگ جو آج اسلام پر سہنسی اڑا ر ہے ہیں وہ سب کے سب احمدی ہو جائیں.وہ اسلام کو قبول کرلیں اور انہیں اپنی ترقی کے لیے اسلام اور مسلمانوں کا دست نگر وا
ہونا پڑے.ہم ان ممالک کے دشمن نہیں.ہماری دعاہے کہ یہ ملک ترقی کریں اسلام اور مسلمانوں کی مدد سے.آج تو دمشق اور مصر کہ میں کے ہاتھوں کے طرف دیکھ رہا ہے کہ کسی طرح اس سے کچھ مدد مل جائے.لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اللّہ تعالیٰ دمشق اور مصر کے مسلمانوں کو کیا مسلمان بھی بنائے اور پھر دنیوی طاقت بھی اتنی دے کہ دمشق اور مصر کہ دس سے مدونہ مانگے بلکہ روس دمشق اور مصر کو تاریں دے کہ ہمیں سامان جنگ بھیجو.اسی طرح امریکہ ان سے یہ نہ کہے کہ ہم تمہیں مدد دیں گے.بلکہ امریکہ شام مصر عراق ایران پاکستان اور دوسری اسلامی سلطنتوں سے کہے کہ ہمیں اتنے ڈالر بھیجو ہمیں ضرورت ہے ورنہ ہم تو خالص دین کے بندے ہیں اور دُنیا سے ہیں کوئی غرض نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی جو چیز ہے وہی ہمیں پیاری ہے.پس اللہ تعالی اسلام کے غلبہ کی کوئی صورت پید اکر ہے.اور خلافت کی اصل عرض بھی یہی ہے کہ مسلمان نیک رہیں.اور اسلام کی اشاعت میں لگے رہیں یہاں تک کہ اسلام کی اشاعت دنیا کے چپہ چپہ پہ ہو جائے.اور کوئی غیر لم باقی نہ رہے.اگر یہ ہو جائے تو ہماری غرض پوری ہوگئی.اور اگر یہ نہ ہو تو محض نام کی خلافت نہ ہمارے کسی کام کی ہے اور نہ اس خلافت کے ماننے والے ہمارے کسی کام کے ہیں.ہمارا دوست وہی ہے جو اللہ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے.وہ خلیفہ ہمارے سر آنکھوں پر جو خدا تعالیٰ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلاتا ہے وہ مبالغ ہمارے سر آنکھوں پر جو خدائے واحد کے نام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں.جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی صداقت کو دنیا پر ظاہر کرتے ہیں.ہمارے دل اُن کے لیے دعائیں کرتے ہیں.چاہے وہ ہزار سال بعد آئیں.اور ہمارے دماغ بھی اُن کے لیے دُعا کرتے ہیں چاہیے وہ سینکڑوں نہیں ہزاروں سال ہم سے بعد آئیں.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو.اور ان کی مدد کرے اور ہمیشہ ان کو راہ راست پر قائم رکھے.اور اسلام کی ترقی کے سامان پیدا کرتا ر ہے کالے نے سپورٹ مجلس مشاورت " ۱۹۵۷ ص ۳ - ۱۸
169 فہرست اراکین مجلس انتخاب خلافت کی اشاعت حضرت مصلح موعود کے فیصلہ کی تعمیل حضرت مرزا صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ نے جلد ہی اراکین علی انتخاب خلافت کی مفصل فہرست مرتب کرا کے جاری کر دی.اس اہم دستاویز کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.بسم الله الرحمن الرحیم محمدہ و نصلی علی رسوله الكريم وصل العيدة المسيح الموعود فہرست اراکین مجلس انتخاب خلافت جماعت احمدیہ مجلس شوری کے متفقہ مشورہ کے ماتحت جس کی منظوری سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی ابعده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی فرما دی تھی.اراکین مجلس انتخاب خلافت کے متعلق فیصلے ہوئے تھے بعض شقوں کے ماتحت جو اراکین آتے تھے اُن کے متعلق حضور کا فیصلہ تھا کہ اسماء کا اعلان صدر انجمن احمد یہ کرے.سو یہ مکمل فہرست شائع کی جاتی ہے.ضلع دار نظام کے امراء کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے ضلع میں رہنے والے اراکین کے نام ریکارڈ میں درج فرمالیں یہ فہرست آپ کے پاس ہر وقت محفوظ رہے گی.شق نمبر یہ تھی یہ ناظران صدر انجمن احمدیه - ممبران صدر انجمن احمدیه ، وکلا و تحریک جدید..........اور جامعہ البیشترین کا پرنسپل.جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ مل کر فیصل کیا کریں کے شمار ناظران صدر انجمن احمدید صدر صدر انجمن احمدیه و ناظر خدمت درویشان ناظر اعلیٰ صدر الخمین احمدیہ نالد تسلیم
14.ناظر دیوان دستجارت و صنعت نا ظر بیت المال (آمد) ناظر امور خارجه ناظر زراعت ناظر اصلاح وارشاد ناظر امور عامه ناظر بیت المال تخمیرچ ناظر شبان ممبران صدر انجمن احمدیہ.ربوہ وکیل اعلئے سختر یک جدید مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا چوہدری اسد اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء.لاہور شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ ملک سیف الر حمن صاحب ربوه و کلاء تحریک جدید وکیل اعلیٰ' وكيل الديوان وكيل التبشير وکیل الزراعت وکیل القانون وكيل الصنعت A 11: Im 10 ۲۱
۱۸/ ۲۴ وکیل تسلیم وکیل المال اول و وکیل المال ثانی ۲۶ ۲۷ ۲۰۱۱ | جامعتہ المبشرین کا پرنسپل.جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ عالیہ نو ہے : - جامعتہ المبشرین جامعہ احمدیہ میں مدغم ہو چکا ہے ۲۸ ۲۹ : ٣٣ مشق علا الف یہ تھی.مغربی پاکستان کا امیر اور اگر مغربی پاکستان کا ایک امیر مقرہ ہو تو علاقہ جات مغربی پاکستان کے امراء جو اس وقت چار ہیں.موجودہ صورت میں یہ تعداد چھ ہے.مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودرہا.ایر علاقائی سابق پنجاب و بہا ولپور صوفی محمد رفیع صاحب سکھر امیر علاقائی خیر پور ڈویژن ڈاکٹر عبد الرحمن صدیقی میر پور امیر علاقائی حیدر آباد ڈویژن خان شمس الدین خان صاحب پشا ور امیر علاقائی پشاور ڈویژن شیخ محمد حنیف صاحب کوئٹہ امیر علاقائی کوئٹہ و قلات ڈویژن حاجی امیر عالم صاحب کو مل امیر علاقائی آزاد کشمیر شق علی یہ تھی در مشرقی پاکستان کا امیر ۳۲ || مولوی محمد صاحب ڈھا کہ امیر صوبائی مشرقی پاکستان I شق سے یہ تھی کراچی کا امیر چو باری احمد الخمار صاحب کراچی عل شق ملک یہ معنی در تمام اضلاع کے امراء" چوہدری بشیر احمد صاحب گجرات امیر ضلع گجرات چوہدری اسد اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء لا ہور امیر ضلع لاہور
JAP ۳۹ ۴۰ A ۴۳ ۴۴ 23 مام ۴۸ ۴۹ ☑ 3 }} ۱۲ ṛ شیخ محمد احمد صاحب منظر ایڈووکیٹ لائلپور امیر ضلع کا کلیون چوہدری فضل احمد صاحب رحیم یارخاں امیر ضلع رحیم یار خاں حاجی عبدالرحمن صاحب رحمن آباد امیر ضلع نواب شاہ میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ امیر ضلع گوجرانوالہ چوہدری محمد شریعت صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری امیر ضلع منٹگمری چوہدری محمد انور حسین صاحب ایڈووکیٹ شیخو پوره امیر ضلع شیخو پورت چوہدری عطاء اله صاحب چک TD-A / ۲۷ ضلع مظفر گڑھ امیر ضلع مظفر گاه الحاج محمد بشیر احمد صاحب جھنگ صدر امیر ضلع جھنگ ڈاکٹر مرزا عبداللات صاحب کیمبل پور - امیر ضلع کیمبل پور مولوی عبد المغنی خاں صاحب جہلم - امیر ضلع جہلم ڈاکٹر عبدالکریم صاحب ملتان شہر امیر ضلع ملتان ۱۴ منشی آدم خان صاحب مردان - امیر ضلع مردان بالبو قاسم الدین صاحب سیالکوٹ امیر ضلع سیالکوٹ رانا محمد خاں صاحب ایڈووکیٹ بہاد لنگر امیر ضلع بہاولنگر مولوی محمد عرفان صاحب مانسہرہ ضلع ہزارہ امیر ضلع ہزارہ قریشی عبد الرحمن صاحب میانوالی امیر ضلع میانوالی چوہدری عزیز احمد صاحب ظفر آباد ادینی امیر ضلع حیدر آباد مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگو و یا امیر ضلع سرگودہا 16 ۵۲ IA ۵۳ 19 چوہدری احمد جان صاحب امیر ضلع راولپنڈی حق مه به ستی " تمام سابق امراء جود و دفع کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں گو انتخاب کے وقت امیر نہ ہوں، رصد رانجمن احمدیہ کے ریکارڈ کے مطابق یہ فہرست درج ذیل ہے:.
۱۸۳ ۴ AA ۵۹ པ་ } 46 61 میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ، سابق میر ضلع راولپنڈی حال کینیڈا شیخ نبشیر احمد صاحب سینٹر ایڈ درکیسٹ سپریم کورٹ سابق ضلع امیر لاہور.نا پور چو ہدری عبد الرحمن صاحب (سابق امیر ضلع ملتان) ملتان کیپیٹی ڈاکٹر اقبال احمد خان صاحب رسابق امیر مضلع مظفر گڑھ) مظفر گڑھ مولوی عبد الرحمن صاحب بیشر ر سابق امیر مضلع ڈیرہ غازہ یہاں ڈیرہ غازیخان شیخ اقبال الدین صاحب رسابق امیر ضلع بہاولنگر) بہا دلنگر چوہدری خورشید احمد صاحب (سابق امیر ضلع بهاوشگری، گوجرانوالہ مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ رسابق امیر ضلع سرگودہا ، سرگودہا شق نمبر 4 یہ متقی و امیر جماعت احمدیہ - قادیان || مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل - قادیان شق نمبر، یہ مخفی در ممبران صدر انجمن احمدیه - قادیان ناظر اعلی - قادیان ناظر دعوت در تبلیغ و ناظر تعلیم ناظر بیت المال ایڈ یشمل ناظر امور عامه " ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان میمبر مولوی محمد ابراہیم صاحب فاضل قادیان - ممبر سید وزارت حسین صاحب ادرین مطلع مونگھیر.نمبر سید محی الدین صاحب ایڈووکیٹ رانچی.نمبر سینٹ محمد معین الدین صاحب چنته کنه ضلع محبوب نگری، مبر قریشی عطاء الرحمن صاحب نامل قادیان - ممبر
۱۸۴ ۱۲ 64 ،، LA 69 Al ۴ AY مولوی بی.عبد اللہ صاحب فاضل بنگاڈی ضلع کنانور.نمبر سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی کلکتہ کا ممبر سیٹھ محمد عمر صاحب سہگل - کلکتہ ۱۳۷ نمبر شق بمیره یه تی و تمام زنده مهتاب کرام کو بھی انتخاب خلافت میں رائے دینے کا حق ہو گا ر اس غرض کے لیے زمین وہ ہو گا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہوا اور حضور کی باتیں سنی ہوں اور منشور میں حضور کی وفات کے اس کی عمر کم از کم بارہ سال کی ہو.صدر انجمن احمد یہ تحقیقات کے بعد رفقاء کرام کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کرے گی اور ان ناموں کا اعلان کرے گا نہ یہ فہرست ذیل میں درج ہے ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب کپور معلوی - ریدہ حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری.ربوہ پیر مظہر الحق صاحبه ربوه م حافظ ملک محمد صاحب.ربوہ مہر قطب الدین صاحب.ربوہ محمد بخش صاحب - ربوه میاں محمد شریف صاحب.ربوہ حافظ عبدالسمیع صاحب امروہی.ریوہ و قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل - ربوه مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری.ربوہ شیخ محب الرحمن صاحب ربوه ۱۲ = 15 9.منشی عبد الحق صاحب خوشنویس ربوه ۱۳ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ربوہ
۱۸۵ ۹۱ ۹۲ ۹۴ • T ۱۴ ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی.ربوہ ۱۵ قاضی عبداللہ صاحب بی اے بی ٹی.ربوہ ۱۶ مرزا برکت علی صاحب - ریوه ۱۷ میاں حبیب الدین صاحب - راده ۱۸ مولوی فضل دین صاحب - ریده 19 خدا بخش صاحب عرف مومن ہی.ریوہ چوہدری محمد شفیع صاحب انجینڈر.ربوہ ۲۱ مرزا محمد حسین صاحب - ربوه 94 ۹۸ ۲۲ : 1.* محمد اله وا و صاحب - ربوه ۲۳ مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم.ربوہ ۲۴ ٹھیکیدار علی احمد صاحب - ریوه ۲۵ ماسٹر عطاء محمد صاحب ربوه ۲۶ مولوی محمد حیا صاحب ، ربوه ۲۷ محمد عبد اللہ صاحب جلد ساز ربوہ ١٠٣ ۱۰۴ ۲۸ 1.0 مولوی محمد حسین صاحب مبلغ - ریوه ۲۹ حاجی محمد فاضل صاحب فیروز پوری.ربوده ۳۰ ڈاکٹر حکیم دین محمد صاحب - ریوه ۲۱ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب.ربوہ ۳۲ بابو عبدالحمید ریٹائر ڈ ریو سے آڈیٹر.ربوہ ۳۳ دین محمد صاحب مالی - ده بوه ۳۴ شیخ تنظیم الرحمن صاحب ربوه 1.4 1.6 ۱۰۸ 1-9 11
JAY ١١٢ ۱۱۳ ۱۱۴ 118 119 116 119 ۳۵ خواجہ عبید اللہ صاحب.ربوہ ۳۶ شیخ فضل احمد صاحب.ربوہ خواجہ عبد القیوم صاحب بی.اے.ربوہ چوہدری اسمعیل صاحب کا ٹھگڑھی.ریوہ ۳۹ علی گوہر صاحب.ربوہ م سید محمود عالم صاحب - ریوہ ام محمد فقیر اللہ صاحب.ربوہ ۴۲ ماسٹر علی محمد صاحب بی اے بی ٹی ربوہ حکیم عبید اللہ صاحب رانجھا - ریوه ۴۴ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد ربوه 눈을 ۴۵ متری عبد العزیز صاحب ریوه ۴۶ حکیم رحمت اللہ صاحب.ربوہ ۴۹ مستری علم دین صاحب ٹال والے ربوہ محمد بوٹے خان صاحب سابق موزن بیت الا قصیٰ ربوہ حکیم قریشی عبد الرحمن صاحب لدھیانوی.ربوہ ۵۰ مرز اسلام اللہ صاحب دیوه شیخ محمد حسین صاحب چنیوٹ ۵۲ محمد ظہور خاں صاحب پٹیالوی - احمد نگه ۵۲ شیخ مہر دین صاحب سیالکوٹ غلام محمد صاحب زندگے.سیالکوٹ چوہدری رحیم بخش صاحب چونڈہ ضلع سیالکوٹ ۱۳۴ ۱۲۵ iry £ ۱۲۹ ۱۳۱
JAL ۱۳۳ ۱۳۴ ۱۲۵ I 2 ۱۳۸ ١٣٩ ۱۴۰ خیر دین صاحب زرگر سیالکوٹ میاں کریم بخش صاحب چونڈہ سیالکوٹ سید امجد علی شاہ صاحب سیالکوٹ ۵۹ منشی محمد عبد اللہ صاحب سیالکوٹ مولوی عبد الحق صاحب قلعہ صوبہ سنگر سیالکوٹ ڈاکٹر فضل کریم صاحب بڑھن شکر گڑھ ضلع سیالکوٹ چوہدری محمد علی صاحب چونڈہ سیالکوٹ چوہدری فتح علی صاحب چونڈہ سیالکوٹ ۶۴۱۴۱ لال دین صاحب چونڈہ سیالکوٹ ۱۴۲ ۱۴۴ ۱۴۷ ۱۴۹ 10.F ۶۶ بابو قاسم الدین صاحب سیالکوٹ ملک شادی خاں صاحب سیالکوٹ میاں اللہ و نا صاحب نقیب سیالکوٹ قریشی نور الحسن صاحب کو ٹلی ہر زائن سیالکوٹ حکیم سید پیر احمد شاہ صاحب سیالکوٹ محمد دین صاحب دار هر اکرم سنگھ سیالکوٹ ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب قلعہ صوبہ سنگھ سیالکوٹ چوہدری عنایت اللہ صاحب پہلو پور سیالکوٹ چو ہدری محمد مینو اب گھٹیا لیاں سیالکوٹے ۲۱۵۱ میاں محمد حسین صاحب کوٹے ڈسکہ سیالکوٹ ۱۵۲ ۱۵۳ د میر مسعود احمد صاحب سیالکوٹ مولوی برکت علی صاحب سیالکوٹ
، چوہدری ولی داد صاحب مراڑہ سیالکوٹ دولت خان صاحب کالا کے ناگرے سیالکوٹ مستری رحمت علی صاحب وانا زید کا سیالکوٹ مستری محمد عبد اللہ صاحب دانا زید کا سیالکوٹ ا میاں محمد حسین صاحب مالو کے بھگت سیالکوٹ مرزا نذیر حسین صاحب لاہور ماسٹر فقیر اللہ صاحب لاہور شیخ عبدالکریم صاحب گنج مغلپورہ لاہور میاں عبدالرشید صاحب لاہور خان صاحب میاں محمد یوسف صاحب لاہور 100 ۱۵۶ 106 109 14 ۱۶۳ ۱۶۴ 140 144 ۹۱ 197 16 چوہدری سر بلند خان صاحب لاہور ڈاکٹر عبد الحمید چغتائی لاز زور منشی محمد ابراہیم صاحب لاہور چوہدری مختار احمد صاحب گنج مغلپورہ لاہور لیفٹیننٹ ملک مظفر خاں صاحب لاہور ۹۲ شیخ محمد حسین صاحب سمن آباد لاہور ۹۳ شیخ محمد حسین صاحب عزیز روڈ لاہور شیخ نصیر الحق صاحب سمن آباد لاہور میاں احمد دین صاحب لاہور حافظ ڈاکٹر عبدالجلیل صاحب لاہور عزیز الدین صاحب زرگر لاہور ۹۵ 14 96 IGN 추수
١٨٩ 160 164 166 16A 169 محمد صادق صاحب فاروقی قصور لاہور ۹۹ نور محمد مستری صاحب گنج مغلپورہ لاہور محمد افضل صاحب او علومی دھرمپورہ لاہور میاں دین محمد صاحب گنج مغلپورہ لاہور ۱۰ شیخ غلام حسین صاحب لاہور ۱۰ شیخ محمد حسین صاحب لاہور ۱۴ چوہدری عمر الدین صاحب لاہور ۱۵ بابو عبدالحمید صاحب مشملوی.لاہور ۱۰۶ مستری عباس محمد صاحب گنج مغلپورہ لاہور I'M A IAN ۱۳ ۱۰۷۱۸۴ ملک محمد شفیع صاحب محمد نگر لاہور ۱۰۸ چوہدری بشیر الدین حقانی صاحب لاہور ۱۰۹ غلام قادر صاحب لاہور 11.مولوی عبد الواحد خاں صاحب میر بھی کراچی (AY In 131 JAA ۱۱۲ (Ag م شیخ رحمت اللہ صاحب کا مگر اهلی کراچی شیخ جلال الدین صاحب که اچی نمبر ۳ ۱۹۰ ۱۱۳ مولوی عبد المغنی صاحب جہلم ۱۹۱ ۱۱۲ منشی احمد علی صاحب دوالمیال جہلم 110 ملک علی حیدر صاحب دوالمیال مسلم ۱۹۳ ۱۹) چوہدری غلام تما در صاحب نمبر دار اوکاڑہ ۱۹ ۱۱۷ مرزا احمد بیگ صاحب منٹگمری LIA 190 مک نیا نه محمد صاحب چک نمبر 119 منٹگمری
19.194 196 197 ۱۹۹ ۲۰۰ ٢٠١ ۲۰۲ ۱۱9 غلام محمد صاحب کا ٹھگڑ ھی بڑ یہ منٹگمری ۱۲۰ چوہدری ظهر مشریف صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری ۱۲۱ فقیر اللہ صاحب مشگیری ۱۲۲ چوہدری عبد القادر صاحب پیشتر منان ۱۲۳ چوہدری ولی محمد صاحب خانیوال ضلع ملتان ۱۲۲ حکیم محمد اسماعیل صاحب پیر کوسٹ گوجرانوالہ ۱۲۵ پیر محمد صاحب پیز کوٹ نانی گوجرانوالہ ۱۲ چوہدری اللہ دونہ صاحب تگڑی گوجر انوالہ ۱۲۷ خواجہ محمد تشریف صاحب گوجر انوالہ ۲۰۴ ۲۰۵ ١٢٩ ٢٠٦ ۲۰۸ محمد یعقوب خان صاحب قندھاری لگھڑ ضلع گوجرانوالہ حکیم نور محمد صاحب ٹنڈو غلام علی حیدر آباد ۱۳۰ محمد ابراہیم صاحب بشیر آباد اسٹیٹ حیدر آباد حکیم نور محمد صاحب ٹنڈو غلام علی حید آباد ۲۰۹ ۱۳۲ محمد ابراہیم صاحب بشیر آباد اسٹیٹ حیدر آباد ۱۳۳ قریشی غلام محی الدین صاحب آدم شاہ کا لونی صوفی محمد رفیع صاحب سکھر ۲۱۰ ۱۳۴ ۲۱۱ ۲۱۲ ۱۳۵ بابو عبد الرزاق صاحب لائلپور ۲۱۳ ۱۲۶ نبی بخش صاحب چک ۸۹ ج ب لائلپور ۱۳۷۲۱۴ سردار علیخاں صاحب چک ۶۸ ج ب لائلپور ۱۳۸۲۱۵ عمر علی صاحب چک ۶۸ جب لائلپور ۱۳۹ رحمت خاں صاحب چک ۶۸ ج ب لائلپور
۱۹۱ ۲۱۷ ۱۴۰ غلام محمد صاحب چک نمبر ۱۹۵ ج ب لائلپور ۲۱۸ ۱۲۱ سید فخر الاسلام صاحب پنشنز ا در سیر تاندلیانوالہ ۲۱۹ ۱۴۲ میاں احمد دین صاحب چک نمبر ۸۹ ج ب لالپور ۲۲۰ ۱۲۳ عبد العزیز صاحب آڑھتی منڈی گوجرہ لائلپور ۲۲۱ ۱۴۴ عطاء محمد صاحب بنگری جڑانوالہ ضلع لائلپور ۱۳۵۲۲۲ ڈاکٹر عطر دین صاحب درویشی قادیان ۱۴۶۲۲۳ مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل قادیان ۲۲۴ ۱۴۷ بھائی شیر محمد صاحب قادیان ۲۲۵ ۱۲۸ با با غلام محمد صاحب قادیان ۲۲۶ | ۱۴۹ الہ دین صاحب قادیان ۲۲۷ ۱۵۰ ڈاکٹر عبدالمجید خاں صاحب قلات ۲۲۸ ۱۵۱ سید سردار علیشاه صاحب شاه مسکین شیخو پوره ۲۲۹ ۱۵۲ حکیم مولوی نظام الدین صاحب بیگم کوٹ ضلع شیخوپورہ ۲۳۰ ۱۵۳ سید علی ہاشمی صاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر چک نمبر ۱۱۷ چپور ضلع شیخو پورہ ۲۳۱ ۱۵۴ مولوی کرم الہی صاحب شاہدرہ شیخوپورہ حکیم عبد العزیز صاحب شرق پور ضلع شیخو پورہ ۲۳۳ ۱۵۷ ۲۳۴ ۱۵۰ ۲۳۵ ۲۳۶ شیخ مسعود الرحمن صاحب نارنگ منڈی شیخوپورہ پ پیر فیض احمد صاحب کیمبل پور ڈاکٹر مرزا عبدالکریم صاحب کیمبل پور 109 بھائی محمود احمد صاحب سرگودہا ۱۶۰۲۲۷ چوہدری علی محمد صاحب گوندل چک...سرگودہا
١٩٢ ۲۳۸ ڈاکٹر محمد دین صاحب کریم منڈی بھلوال سرگودہا ۲۳۹ ۱۶۲ حکیم حشمت اللہ خاں صاحب میانی ضلع سرگودہا سیانی ۲۴۰ (۶۳) چوہدری غلام حسین صاحب چک ۹۸ ضلع سرگودها ۲۴۱ ۱۶۴ میاں خدا بخش صاحب.....بمیره ضلع سرگودہا ۲۲۲ ۱۶۵ چو ہدری عبدالحق صاحب چک ۲/ ۲.۵.۸ ضلع سرگودیا ۱۶۶۲۴۳ غلام محمد صاحب راجپوت چک هر ضلع سرگودہا ۲۲۴ ۱۶۷ ملک غلام نبی معنا ھو گھیا تے ۲۲۵ ۱۶۸ حکیم محمد صدیق صاحب D.B در ۲۲۶ ۱۲۹ چو ہدری عبدالحمید خان صاحب کا ٹھڑی چمک ہے.ضلع سرگودہا 16 ۲۴۷ چو ہدری فتح دین صاحب پکٹ ضلع خیر پور ۱۷ منشی احمد دین چوکنانوالی ضلع گجرات ۱۷۲۲۴۹ چوہدری محمد افضل چٹیا لوی علی پور ضلع مظفر گڑھ ۱۷۳۲۵۰ حافظ مراد بخش صاحب واہ کینٹ ۲۵۱ ۱۷۴ چوہدری عبد المنان صاحب کا ٹھگڑی چک ، ۴۰۹ مضلع جھنگ ۱۵ سید حسن شاہ صاحب لنگھیا نہ ضلع جھنگ 160 por ۲۵۳ ۱۷۶ ملک رسول بخش صاحب ریٹائرڈ اور سیٹر ڈیرہ غازی خاں ۲۵۴ ۱۰۰ محمد مسعود خان صاحب بستی مندرانی ضلع ڈیرہ غاندی خاں ۲۵۵ ۱۷۸ مولوی عطاء محمد صاحب جمال پور نواب شاہ سندھ ۲۵۶ ۱۷۹ محمد پریل صاحب کنڈیارو ضلع نواب شاہ سندھ 169 POC مولوی عطا محمد صاحب را ولپنڈی ۱۸۰۲۵۸ اکبر علی صاحب محمود آباد اسٹیٹ مضلع متھر پارکر
۱۹۳ ۲۵۹ ۱ احمد دین صاحب کمری ضلع متھر پار کر ۱۸۲۲۶۰ رسالدار ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب بگٹ منیج مردان ۱۸۳ مولوی عبد الحق صاحب اپیل تو میں ایبٹ آباد ضلع ہزارہ ۲۶۲ ۱۸۴ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نج عالمی عدالت ہیگ ہالینڈ ۲۶۳ ۱۸۵ سید محمد علی شاہ صاحب ۸ ضلع میانوالی ۱۸۶۲۶۲ مستری مہر دین صاحب جڑانوالہ ضلع لائلپور ۱۸۷۲۶۵ مہر عطاء اللہ صاحب قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ چوہدری عبد اللہ خاں صاحب قلہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ IAA ۲۶۶ شق نمبر و یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین رفقاء میں سے ہر ایک کا بڑا لڑکا شامل ہو راس جگہ رفقاء اولین سے مراد وہ احمدی ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود I علیہ السلام نے ۱۹۰۱ ء سے پہلے کی کتب میں فرمایا ہے ، ان کے ناموں کی فہرست یہ ہے:.صوفی غلام محمد صاحب بیا ایس سی ربوده پسر منشی محمد دین صاحب مولوی قمرالدین صاحب سیکھوانی پسر میاں غیر دین صاحب سیکھوانی قریشی عطاء الرحمن صاحب قادیان پسر محمد امین بزانه چکوال ضلع راولپنڈی ۴۲۷۰ مخدوم محمد ایوب صاحب گھو گھیاٹ سرگو د یا سپر مخدوم محمد صدیق صاحب حکیم محمد اسماعیل صاحب سرگرد با پسر میان جمال الدین صاحب سیکھوانی ۲۶۸ ۲۶۹ ٢٢ ۲۷۴ ۹ چوہدری نثار احمد صاحب ترگو را پسر منشی امام الدین صاحب چوہدری مبارک احمد صاحب چک نمبر ۳۸ جنوبی ضلع سرگود با پسر چو ہدری عطاء المنی صاحب غوث گڑھی قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی راولپنڈی پسر قاضی عبدالرحیم صاحب شیخ اعجاز احمد صاحب کراچی غیر هم پسر شیخ عطاء محمد صاحب
۱۹۴ ۲۷۶ ۲۸۰ ۱۰ حافظ مبارک احمد صاحب مولوی فاضل پر مولوی عبد الرحمن صاحب کھیوال چوہدری بارون رشید صاحب حافظ آباد پسر چو ہدری محمد حیات صاحب مقیم ۱۲ چوہدری عزیز الدین صاحب گجرات پسر چو ہدری کریم الدین صاحب ۱۳ بابو حمد عبد الله صاحب سانگلہ ہل ضلع شیخوپوره پسر شیخ برکت علی صاحب ۱۴ میاں محمد لطیف صاحب نمبر دار چکاہے ضلع منٹگمری پسر میاں فضل الہی صاحب چوہدری عبد المالک صاحب لاہور لیسر حافظ عبد العلی صاحب فیض اللہ چک ۱۶ سردار بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ پر شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی 17 ۲۸۲ ۲۸۳ ۲۸۶ ۲۸۸ ۱۷ ڈاکٹر شریف احمد صاحب پر میاں عبد العزیز صاحب لاہور ڈاکٹر کٹر سید نذیر حسین صاحب پسر قاضی سید احمد حسین صاحب ہنگری منه ضلع حیدر آباد سندھ مولوی عبد الکریم صاحب جہلمی پسر علی محمد صاحب جب علم ۲۰ عبد الحی صاحب پسر مولوی عبدالمغنی صاحب جہلم ۲۲ سیٹھی خلیل الرحمن صاحب پسر میاں محمد ابراہیم صاحب جہلم ملک محمد سلیم صاحب جہلم پسر حافظ محمد امین صاحب ۲۳۲۸۹ مرزا صالح محمد پسر مرزا صفدر علی صاحب ۲۹۰ ۲۲ سید محمد احمد صاحب پر حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ۲۹۱ ۲۵ ماسٹر محمد مبارک اسماعیل لامپور پر شیخ مولا بخش صاحب ۲۹ ۲۹۲ نعمت اللہ صاحب پسر ماسٹر فقیر اللہ صاحب کرا چکا شق نمبر یہ تھی ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونی ممالک میں کام کیا ہو اور بعد میں تحریک جدید نے کسی النام کے ماتحت انہیں فارغ نہ کر دیا ہو ران کو تحریک جدید سرٹیفیکیٹ دے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کہ سے گیا)
I ۲۹۳ ۲۹۴ ٢٩٥ ۴۹۹ ۲۹۷ ۲۹۹ ^ ۹ ٣٠١ ۳۳ ۱۲ ۳۰۴ ۳۰۵ 1 P.A 16 ۳۰۹ IA ٣١٠ 19 ۲۰ ۱۹۵ ملک احسان اللہ صاحب مولوی امام الدین صاحب سید احمد شاہ صاحب اقبال احمد شاہد صاحب بشارت احمد صاحب بیشتر حافظ بشیر الدین صاحب بشارت احمد صاحب نسیم بشیر احمد خان صاحب بشیر احمد صاحب شمس جلال الدین صاحب قمر سید جواد علی صاحب جمیل الرحمن صاحب رفیق سید وارد احمد انور صاحب روشن الدین صاحب صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب چوہدری رشید الدین صاحب رشید احمد صاحب سرور صلاح الدین خاں صاحب چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه چوہدری عبد اللطیف صاحب عنایت اللہ صاحب خلیل
194 ٢١ ۳۱۴ ۳۱۵ ۲۳ عبد الخالق صاحب عطاء اللہ صاحب کلیم چوہدری عنایت اللہ صاحب عبد الرشید رازی صاحب عبد الحکیم صاحب المل ۲۶ میاں عبد الحئی صاحب ۲۵ ٣١٨ ۳۱۹ Y ۳۲۰ ۳۲۱ ۳۲۲ ۳۲۳ ۳۲۴ ۳۲۵ عبد الکریم صاحب شرما ۲۸ چوہدری غلام یاسین صاحب ۲۹ ملک غلام نبی صاحب ۳۰ غلام احمد صاحب نستیم ۳۱ فضل الہی صاحب بشير ۳۲ قریشی فیروز محی الدین صاحب ۳۳ فضل اللي صاحب النوري ۳۴ حافظ قدرت اللہ صاحب ۳۵ کرم اللي صاحب ظفر ۳۲۹ ۳۳۰ ۲۶ کمال یوسف صاحب مرز الطف الرحمن صاحب محمد صدیق صاحب امرتسری صوفی محمد اسحاق صاحب ۴۰ قریشی محمد افضل صاحب ۳۹ ۳۳۲ ۳۳۳ ۳۳۴ الم مولوی محمد منور صاحب
196 ۴۲ حکیم محمد ابرا نسیم صاحب ۳۳۶ ۳۳ قریشی مقبول احمد صاحب ۳۳۷ ۴۴ چوہدری محمد شریف صاحب ۳۳۸ ۴۵ محمد سعید صاحب الضاری ۳۳۹ ۴۶ محمد اسماعیل صاحب میر ۳۲۰ ۴۷ محمد صدیق صاحب شاہ ۳۲۱ ۳۸ مبارک احمد صاحب ساقی ۴۹۳۴۲ ۳۴۳ مرز امحمد ادریس صاحب ۵۰ محمود احمد صاحب سرگودهی میمیه احمد اه مبارک احمد صاحب قامنی ۵۲۳۴۵ ۵۳۳۴۶ ۵۴۳۴۷ ۵۵ ۱۳۴۸ ۵۹۳۵۲ 4.۳۵۳ पा ۳۵۴ } ۳۵۵ چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه میر احمد صاحب عادت محمد بشیر صاحب شاد حافظ محمد سلیمان صاحب منیر الدین صاحب مسعود احمد صاحب جہلمی سید مسعود احمد صاحب مقبول احمد صاحب ذبیح نور محمد صاحب سیفی شیخ نور احمد صاحب منیر نور الحق انور صاحب
۶۳۳۵۶ 19^ مولوی نذه بر احمد صاحب مبشر نور الدین صاحب منیر شیخ نصیر الدین صاحب نصیر احمد خاں صاحب ۳۶۰ ۶۷ قاضی منعیم الدین صاحب چو ہدری رحمت خان صاحب ۳۶۲ ۶۹ ماجد عبد الحمید صاحب مولوی عبدالمجید صاحب کراچی مولوی غلام احمد صاحب بد و ملهومی صوفی عبد الغفور صاحب خان عبدالرحمن خاں صاحب مولوی عبد المالک خان صاحب ٣٣ ۳۵ เ ام سید محمود احمد صاحب مولوی احمد خاں صاحب نسیم مولوی جلال الدین صاحب سمس مولوی ابوالعطاء صاحب محمدا به ابسیم صاحب ناصر سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ملک غلام فرید صاحب حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب محمد یا ر صاحب عارف
۱۹۹ شیخ مبارکہ احمد صاحب مولوی محمد صادق صاحب سنگاپوری دستخط (حضرت مرزا عزیز احمد صاحب) ایر) ناظر السل صدر انجمن احمدیہ پاکستان مراوه نقل درست ہے ۱۲۳/۶ نفوس و اموال میں برکت کا چمکتا ہو انسشان خدائے ذو العرش نے سورہ نور میں تمکنت دین کو خلافت کے مبارک نظام سے وابستہ فرمایا ہے.یہ الہی وعدہ فتنہ منافقین کے دوران بھی نہایت شان و شوکت سے پورا ہوا.اور جماعت احمدیہ کے نفوس واموال میں برکت بخشی گئی.مرکزی اجتماعات اور سالانہ جلسہ پر شمع خلافت کے پر دانے کثیر تعداد میں اپنے آقا کے حضور جمع ہوئے.نیز پاکستان اور بیرونی ممالک میں کئی سعید رو میں داخل احمدیت ہوئیں.جس وقت اس فتنہ نے سراٹھایا اس وقت صدر انجمن احمدیہ کا سال ۱۹۵۶۵۶ء کا بجٹ منظور ہو چکا تھا.چونکہ آمد کا بجٹ ہمیشہ بڑھا چڑھا کر بنایا جاتا ہے.تا جماعت کو قربانی کی طرف زیادہ رغبت ہو اس لیے بے شک آمد میں زیادتی تو ہر سال ہوتی ہے لیکن بعض دفعہ وہ زیادتی متوقع آمد یعنی منظور شدہ بجٹ کو نہیں پہنچتی.لیکن اس سال حب بہ فتنہ زوروں پر تھا.حضور نے جماعت کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا :- چاہیے سال کے آخر میں چندے کی مقدار میں ایک جیسیہ کی بھی کمی ہو.دشمن کو شور مچانے کا موقعہ ملے گا اور وہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے گا کہ اس نے جو کہا تھا کہ جماعت میں بغاوت پیدا ہو رہی ہے وہ ٹھیک ثابت ہوا ہے لیکن بات وہی ٹھیک سکے گی جو میں نے قرآن کریم سے بیان کی تھی کہ جب واقعی طور پر سچی جماعتوں میں سے کوئی مشخص نکلتا ہے تو اسیر تعالی اس کے بدلہ اور سبت سے آدمی دیتا ہے.(خطبہ جمعہ فرموده ۲۳ نومبر ۱۹۵۶ء) مطبوعہ الفضل یکم دسمبر ۱۹۵۶ء صلہ
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب خلیفہ کے مبارک منہ سے نکلی ہوئی باتوں کو غیر معمولی طور پر سچے کہ دکھلایا.اور نہ صرف اس سال کا بجٹ پورا ہو گیا.بلکہ مجوزہ بجٹ سے بھی بہتر ہزار پانچ سو بہنیں روپے زیادہ وصول ہوئے.حالانکہ یہ مجوزہ بجٹ بھی پچھلے سال کی سجٹ آمد سے بقدر ایک لاکھ چودہ ہزار چھ سو میں رو پہلے زیا دہ تھائیے خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے اس چمکتے ہوئے نشان کی عظمت واہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں.کہ حضرت مصلح موعود نے فتنہ منافقین کے خروج سے بھی پہلے ایک خطبہ جمعہ میں یہ پیشگوئی فرما دی تھی کہ : اب میں بیمار ہو گیا ہوں تو جو ہے اپنے بلوں سے باہر نکل آتے ہیں اور انہوں نے خیال کر لیا ہے کہ بیماری کی وجہ سے میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکوں گا اور وہ میری ٹانگیں آسانی سے کھینچ سکیں گے لیکن وہ بے وقوت یہ نہیں جانتے کہ میں آج سے نہیں شملہ سے خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوں.اور خدا تعالیٰ نے اس وقت سے لے کر اب تک ہر جگہ میری مدد کی ہے.تم جانتے ہو کہ میں جب خلیفہ ہوا تو مولوی محمد علی صاحب کا جماعت میں بہت زیادہ اثر تھا اور مالدار طبقہ ان کے ساتھ تھا.حضرت خلیفہ امسیح الاول حبب فوت ہوئے اور مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی لاہور چلے گئے تو جماعت کے خزانہ میں صرف ۱۸ روپے تھے.اور اب خدا کے فضل سے ہمارا سالانہ بجٹ اٹھارہ لاکھ کے قریب ہے اگر میں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو تم مجھے منشاء میں مار دیتے اور اگر اس وقت میں کسی وجہ سے پیسے گیا تھا تو تم مجھے ۱۹ء میں مار دیتے جب جماعت کا با اثر اور مالدار طبقہ اک طرف تھا اور میں دوسری طرف تھا خداتعالے میرے ساتھ ہمیشہ رہا ہے.اس نے اس وقت بھی میری مدد کی حب میں جولان تھا اور طاقتور اور تندرست تھا اور اب بھی میری مدد کرے گا جبکہ میں بوڑھا اور بیمار ہوں نظام خلافت کے باغیوں کا انجام خدا تعالے کی جماعت تو اپنے مقدس آقا اور موعود امام کی بابرکت قیادت میں نئے دلوے ، نئی له الفضل سوار مئی ١٩٥٧ ء م : له الفضل ۲۷ جولائی ۲۳۶۱۹۵۷
۲۰۱ قوت اور نئے جوش کے ساتھ جلد جلد فتوحات و ترقیات کی منازل طے کرنے لگی.مگر نظام خلافت کے باغی ہو مخالفین احمدیت کی آغوش میں پناہ لیے ہوئے تھے.اور اپنی کامیابی کے خواب دیکھ رہے تھے بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ گئے چنانچہ لاہور کے اعداد سی اخبار نوائے پاکستان کر ۱۷ جنوری ۱۹۵۷ء) نے لکھا.: 1 حزب مخالف نے اگر یہ حقیقت پسند مارٹی کے نام سے اپنی جماعت الگ بنانے کا اعلان کر دیا ہے مگر ہیں وہ بڑے پریشان کیونکہ قادیانی خلافت نے تو منافق غدار - ملحد.اور دونوں جہان میں خائب و خاسر کا الزام دے کر اپنے سے ان کو عضو فاسد کی طرح کاٹ دیا ہے ".ب " لاہوری حضرات ان کو دوسرے قادیانیوں ہی کی طرح سمجھتے ہیں ان میں یا تہمی عقیدہ وخیال کا کوئی فرق نہیں ہے صرف تھوڑا سا خلافتی اختلاف ہے اس بنا پر پھر وہ ان کو اپنے قریب تک نہیں پھٹکنے دیتے.ج : " مرزائیت کی حالت میں مسلمانوں کا ان سے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکر یہ اسلام کے ایک بنیادی و اساسی عقیدہ کے منکر ہیں اور اسلام کے نزدیک یہ مرتد ہیں.مسلمان کا فر کی ذمی ہونے کی حیثیت سے حفاظت و صیانت تو کر سکتا ہے گر مرتد کا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے بلکہ مرتد کی سزا اسلام میں نہایت ہی سنگین ہے اس اعتبار سے یہ معاشرہ سے بالکل کٹ چکے ہیں.و ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْض بما رحبت کا ساران کا حال ہے سر زمین پاکستان با وجودا اپنے وسعت د فراخی کے ان پر تنگ ہو گئی ہے.کیا وہ ملک بدر ہو جائیں آخر جائیں تو کہاں جائیں فرض کہ لیجئے کہ ان میں سے ایک آدمی کسی مکان پر صرف اکیلا ہی رہتا ہے زندگی میں ہزاروں حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں اگر وہ بھی کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو ان سے کون انس و مروت کرے گا.کیا وہ سسک سسک کر نہیں مر جائے گا بالفرض وہ فوت بھی ہو جاتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی تمیز وتکلفی کون کرے گا.اس کا جنازہ کون پڑھائے گا.اور کس کے قبرستان میں وہ دفن کیا جائے
٢٠٢ ستا با ا گا.یا اس کی لاش کو چیلوں اور درندوں کے سپرد کر دیا جائے گا.حقیقت پسند پارٹی کو ان بھیانک اور خوفناک نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیئے اس پارٹی کے ایک رکن نے کچھ اس قسم کا اپنا دکھڑا گذشتہ دنوں مدیر الاعتصام مولا نا محمد اسحاق صاحب کو یہی واقعہ ان سطور کے لکھنے کا محرک اور باعث بنا ان خوفناک اور ممکن نتائج سے محفوظ ہونے کی خاطر ہم اس پارٹی کے تمام حضرات کو مخلصانہ مشورہ دیں گے.کہ یوں اپنے کو ذلیل وخوار نہ کرو.اور نہ ہی اپنے جنازوں کو خراب کرد.بلکہ حقیقی حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کی آغوش میں آجاؤ.اسلام کے دروازے آپ کے لیے ہر وقت کھلے ہیں.ہم آپ کا پر تپاک خیر مقدم کریں گے.نیز مجلس التحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے آپ اپنے مخالفین کو بھی شکست دے سکتے ہیں لیے پیغامی ایجنٹ کا حشر غیرمالین اور ابنائےحضرت خلیفہ اول کے ایجنٹ کی بے آبروئی اور رسوائی کا سامان کسی طرح خدا تعالیٰ نے غیر مبالعین ہی کے ہاتھوں کیا ؟ اُس کی تفضیل اللہ رکھا کے مندرجہ ذیل مکتوب سے ملتی ہے جو اُس نے ایڈیٹر اخبار" امروز کے نام لکھا.اظهار حقیقت کرمی تسلیم میں منشاء سے امیر مرحوم کے ارشاد کے مطابق احمد یہ بلڈنگس لاہور میں مقیم ہوا اور لٹریچر تقسیم کرنے کا کام شروع کیا.کھانا اور رہائش کا انتظام لنگر خانہ سے تھا ان کی وفات کے بعد کام جاری رکھا.را پر میل اس کو مجلس منتظر نے فیصلہ کیا کہ مجھے ۳۵ روپے مہنگائی الاوانی دیا جائے لیکن ساتھ ہی رہائش، کھانا اور دیگر سہولتوں سے محروم کر دیا جائے.یہ فیصلہ ایک سازش اور سے نوائے پاکستان لاہور ، ار جنوری ۱۹۵۷ بجواله روزنامه الفضل ربوه ۲۷ جنوری ۷ ۱۹۵ درصد
منصوبہ کے مطابق کیا گیا ہو قرآن وسنت کے بھی منافی ہے.اگر احمدیہ انجمن ، احمد یہ بلڈنگس رفاہی ادارے ہیں تو یہ فیصلہ ایک منظوم احمدی کے لیے بالکل ناروا ، کھلم کھلا بربریت اور ظلم کے برابر ہے میں نے ۲۴ سال احمد یہ جادو نگس میں مقیم ہو کرہ اشاعت اسلام اور اسلام کی عرض سے زندگی وقف کرد می جوانی گزار دی.اس عرصہ میں مجھ پر طرح طرح کے ظلم کیے گئے حقوق انسانیت سلب کیے گئے مجھے خواہ مخواہ ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا.سوائے زخموں ، امیوں کے مجھے احمدیت کی خدمت کر کے اور کیا ملا ہے.احمدیہ بلڈنگس میری پناہ گاہ ہے.اس کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں.آپ کو بخوبی علم ہے کہ فریق ثانی نے مجھ پر صرف اس لیے ظلم وستم کیے کیونکہ میں احمدیہ بلڈ جس میں مقیم تھا اور احمدیہ انین لاہور کا ٹر پر تقسیم کرتا تھا.انہوں نے عام اخباروں، الفضل میں میرے خلاف پراپیگنڈا کر کے مجھے ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کی اور جان سے مار دینے کی دھمکی دی گئی غریب اور امیر کے چندہ سے ہمیت المال جاری کیا گیا.اس بیت المال سے امیر، جنرل سیکرٹری ، کارکنان ، ایڈیٹر ان سب ڈبل تنخواہیں لیتے ہیں.مگر میں نے نشہ سے سات دیر تک محض اعزازی کام کیا ہے.ہ میں حج بیت اللہ کی داسی کے بعد معمولی وظیفہ لینا شروع کیا کھانا تو ڈاکٹر مرحوم صاحب سابقہ صدر کے زمانہ سے ملتا تھا اور اب تک جاری ہے اور وظیفہ بھی.ایک سال سے حکومت نے مہنگائی الا ڈلن کا عام اعلان کیا ہے میں نے بھی اپنی چند مجبوریوں کی بناء پر مطالبہ کیا کہ مجھے بھی ۳۵ روپے ملنے چاہیئیں.میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ میں لوگوں کو آپ نے مہنگائی الاؤنس دیا ، کیا ان لوگوں کو گھروں سے نکال دیا گیا.پھر میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں ؟.یہ انسانیت کے خلاف فیصلہ ہے اگر آپ نے اس فیصلہ پر نظر ثانی نہ کی تو میں راست اقدام کروں گا.ظالموں کو بے نقاب کروں گا اور انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا.پھر نہ کہنا خبرنہ ہوئی اتے لہ اس اصطلاح سے یہاں مراد عملاً عداوت محمود ہے که در روزنامه امروز رہا ہوں اور مئی ۱۹۷۴ء صفحہ ۴ کالم ۳ - ۴ رناقل)
۲۰۴ جہاں تک غیر مبالعین کا تعلق ہے فتنہ منافقین کی | غیر مبایعین کی عبرت ناک ناکامی پشت پناہی کے بعد نہ صرف یہ کہ ان کا سب سازشیں دھری کی دھری رہ گئیں بلکہ وہ ہر محاذ پر بری طرح ناکام رہے حتی کہ انہیں یقین ہوگیا کہ ان کی حیثیت لاشہ بے جان سے زیادہ نہیں چنانچہ اخبار و پیغام صلح اور مٹی سر) نے اپنے اداریہ میں نہایت افسوس کے ساتھ یہ اعتراف کیا :- ہماری اس جماعت احمد یہ لاہور کا وجود پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے “ اسی اخبار نے دوبارہ ۲۵ مٹی عملہ کے ادارتی نوٹ میں انجمن اشاعت اسلام لاہور کی حالت زار کا نقشہ در ج ذیل الفاظ میں کھینچیا : - ہمیں اپنے ہر شعبہ زندگی میں یہی نظر آتا ہے کہ ہم نے دین کو دنیا پر نہیں دنیا کو دین پر مقدم رکھا ہے مامور وقت نے مامور وقت نے اپنے نور بصیرت سے انجمن کے اراکین کی نسبت اسی لیے فرمایا تھا کہ جب انجمن کے اراکین یہ دیکھیں کہ اسکے کسی رکن کے دل میں دنیا کی طونی ہے تو انجمن کا فرض ہوگا کہ اُسے نکال دے کیونکہ ایسا شخص دنیا کا ذلیل ترین کیڑا ہوتا ہے جو اندر ہی اندر سے جماعت کو کھوکھلا کر دیتا ہے........ہمارے سارے مسائل اور الجھنوں کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے اس راستہ سے بھٹک گئے ہیں جس پر حضرت مسیح موعود ہمیں ڈال گئے ہم نے حضرت مسیح موعود کو پس پشت ڈال کر اپنے لیے نئے راستے تلاش کرنے شروع کر دیئے ہیں.بیرونی سیاست گری نے ہمارے معاملات میں مداخلت شروع کر دی ہے.ہم سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی اسے روکنے کی جرات سے محروم ہیں.جو مصلحتیں پہلے بگاڑ پیدا کر چکی ہیں وہ اب بھی ہمارے مد نظر ہیں.ہم شرافت کے پردے میں بزدلی کا شکار ہیں.قول سدید سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں اگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں حضرت مسیح موعود سے کیسے گئے اس عہد کی طرف کر یں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.واپس لوٹنا ہوگا اور آپ کی وصیت کو سینے سے لگا کر دنیا کی مونٹی کو باہر نکال پھینکنا ہو گا.پہلے JA ه پیغام صلح و یا مئی 1966ء ملک را دارید)
۲۰۵ تشار میں ایک غیر مبائی خواجہ محمدنصیر اللہ صاحب ممبر مجلس معتمدین سیکر ٹری جماعت را ولپنڈی نے ایک ٹریکٹ میں اپنے موجودہ امیر کی خفیہ پالیسی پر زبردست تنقید کرتے ہوئے لکھا : - در هم حیران درست شد به این که خداوندا یہ جماعت کب سے فرقہ باطنیہ بن گئی ہے جس کی عقیدہ در سے لے کر سیادت وسیاست تک ہر چیز پر اسرار ہوتی تھی.نیز لکھا ور ہم علمی سطح پر دوسری جماعتوں سے مار کھا چکے ہیں.ہمارے ہاں علماے دین کا فقدان ہے.اہل قلم نا پید ہیں.فصاحت و بلاغت اور حسین خطاب کی رمق تک باقی نہیں رہی زمانہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور نئے سے نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اُن پر کوئی بولنے والا اور لکھنے والا ہمارے ہاں کوئی دکھائی نہیں دیتا ر ہیں آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے کی باتیں بے ڈھنگے پن سے بار بار بیان کی جاتی ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے قلعے سر کر لیتے ہیں پھر انفرادی اور اجتماعی صورت میں جماعت کی عملی حالت ہمارے تنزل اور الحطاط کی دھائی دے رہی ہے لہ را مد مجلس معتمدین جناب ڈاکٹر سعید احمد صاحب کے خطاب پر ایک نظر ملا د ص ۱۳
T دوسرا باب سیدنا حضرت مصلح موعود کے سفر ابیٹ آباد و بالا کوٹے سے لیکر تفسیر صغیر کی شاعت تک.
۲۰۷ فصل اوّل 1922ء کے فتنہ منافقین ، اس کی عبرتناک ناکامی اور کارنامه استحکام خلافت کا تفصیلی تذکرہ کرنے کے بعد اب 19 کے بقیہ واقعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے.سید نا حضرت مصلح موعود وسط ۱۹۵۶ء میں مری میں سفر ابیٹ آباد و بالا کوٹ تشریف فرماتھے کہ اگر جو میری نام انت صاحب پی ڈاکٹر چو اللہ ایچ.ڈی.پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ ایبٹ آباد کی طرف سے حضور کی خدمت اقدس میں یہ درخواست پہنچی کہ ہمیں عرصہ سے شوق ہے کہ حضور ایبٹ آباد تشریعیت لاویں تا کہ اس خطہ اور اس کے باشندوں کے لیے خیر و برکت کا موجب ہو.یہ درخواست جو یملیاں کے دو و مخلص احمدایوں صوبیدار غلام رسول صاحب اور چوہدری غلام حسین صاحب نے پیش کی.حضور نے از راہ کرم اسے شرف قبولیت بخشا اور ، اس نمبر کو مع بیگمات و خدام کے مری سے ایبٹ آباد تشریف لے گئے اور اس علاقہ کو اپنے انفاس قدسیہ، ایمان افروز خطابات اور پر سوز دعاؤں سے برکت عطا کرنے کے بعد ۲۲ ستمبر 2ء کی صبح کو ایبٹ آباد سے روانہ ہو کر جا بہ آگئے لے اس علاقہ میں حضور نے قریباً ایک ہفتہ قیام فرمایا اور اس کے دوران تیرھویں صدی کے مجدد حضرت سید احمد صاحب شہید بریلوی کے مزار مقدس واقع بالا کوٹ پیپر دعا کے لیے بھی تشریف لے گئے ابیٹ آباد میں مختصر سی جماعت تھی جس نے مہمان نوازی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا حضور کی رہائش چوہدری عبد الجلیل خاں صاحب ایگزیکٹو انجینیر کی وسیع ، با موقعہ اور خوشنما کو بھٹی میں بھی ماحول ہر طرح پر امن رہا اور کئی سعید اور نیک فطرت غیر ان جماعت معززین حضور کی ملاقات کے لیے حاضر ہوئے اور انہیں حضور کی زبان مبارک سے مبارک کلمات سنے اور زیادہ سے زیادہ له الفضل ۲۳ رستمبر ۱۹۵۶ء صلا و الفضل ۲۲ اگست ۱۹۶۵ مرد
Y-A فیض حاصل کرنے کا قیمتی موقع میتر آیا.19 ستمبر کو حضور سیر کے لیے مانسہرہ تشریف لے گئے.جہاں پیر نه مان شاہ صاحب نے حضور کے اعزاز میں دعوت کا انتظام کیا جس میں گردو نواح کی جماعتوں کے دوست بھی مدعو متے پھگلا کے ایک احمد می بزرگ سید عبدالرحیم شاہ صاحب بھی اس تقریب میں چند غیر احمدی معززین کے ساتھ حاضر تھے.انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں عرض کی کہ حضور بالا کوٹ تشریف لے جاتے ہوئے ہمارے گاؤں چھ گاہ کو بھی برکت بخشیں اور ہماری طرف سے چائے قبول فرمائیں.حضور نے از راہ شفقت یہ دعوت منظور فرمانی اور ارشاد فرمایا کہ بالاکوٹ سے واپسی پر بھنگلہ بھی آئیں گے اس پر انہوں نے واپس آتے ہی مع اپنے صاحبزادوں کے حضور کے استقبال کی زور شور سے تیاری شروع کر دی.پکی سڑک سے گاؤں تک دو تین فرلانگ کی کچی سڑک کو مرمت کرایا.جگہ جگہ چونے کا چھڑ کا ڈکیا.اور مختلف مقامات پر أَهْلاً و سهلاً و مرحبا کے قطعات آویزاں کیئے اور مختلف جگہوں کو عمدہ طریق پر آراستہ کر کے ایک ہی دن میں تمام تیاری مکمل کر لی.اگلے روز ۲۰ ستمبر بروز جمعرات حضور معہ قافلہ کے بالاکوٹ تشریف لے گئے حضور کے ساتھ کار میں ڈاکٹر چوہدری عسلام اللہ صاحب اسے اور مرزا عبد اللہ جان صاحب کو بھی رفاقت کا شرف حاصل ہوا حضور کے اہل و عیال دوسری گاڑی میں سوار تھے.راستے میں ایک کے کار سبھی شامل ہو گئی جس میں حضرت راه ولادت ۶۱۹۰۱.آپ اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شا ہیما پوری دونوں حضرت پیر با با مساب بیر سوات کی اولاد میں سے تھے ۲۴ - ۱۹۲۲ء میں احمدیت قبول کی اور اس علاقہ تک پیغام حق پہنچانے حب میں آخری دم تک سرگرم عمل یہ ہے.۱۲ جولائی ۱۹۷۴ء کو انتقال کیا.اولاد - سیدمحمد بشیر شاہ صا- سید میر صادق صاحب سید عبدالرزاق شاه همان سید لقمان شاه ما - سیداقبال شاه مان سید نذیر شاه ما خورشید بیگم صاحبه امید سخاوت شاه مات کرا چی ر بریان بدایت جلد دوم مر ۴۱ مواقفه مولوی عبدالرحمن صاحب بیشتر طبع اول دسمبر ۱۹۷۹ء) ہ یہ گاؤں اس علاقہ میں احمدیت کا ایک مرکز سمجھا جاتارہا ہے اور مانسہرہ سے کشمیر کا غان روڈ پر قریباً گیارہ میل کے فاصلہ پر بڑ اسی جنگل کے دامن میں واقع ہے اور ایبٹ آباد سے قریباً ۲۵ میل دور ہے.
قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی امیر صوبہ سرحد تھے، جن کو دیکھ کر حضور بہت خوش ہوئے.حضرت سید الم صاحب شہید بریلوی کے مزار پر حضور نے ایک لمبی اور سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی دعا کرائی.دعا کے موقع پر ڈاکٹر غلام اللہ صاحب نے چند ایک فوٹو کھینچے.دعا کے بعد حضور نے اپنا دست مبارک کتبہ پر رکھا ڈاکٹر صاحب نے اس موقع کا فوٹو بھی لے لیا.یہ کتبہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی نے کئی سال قبل تیار کرا کے نصب کر دیا تھا یے اس تاریخی سفر کے مفصل حالات مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی کے قلم سے درج ذیل کیے جاتے ہیں.آپ نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت سید احمد صاحب بریلو مٹی کے مرد اور مقدس پیر" کے عنوان سے الفضل میں لکھا.: بر ۱۹۵۶ء میں جب سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تبدیلی آب و " ہوا کی عزمن سے مری سے ایبٹ آباد تشریف لے گئے.تو حضور نے ایک روز حضرت سید احمد بریلوی کے مزار اقدس پردعا کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا.اور اس عزم کے لیے ہمسفر اصحاب کو تیاری کا حکم دے دیا.چنانچہ انتظامات کی تعمیل کے بعد حضور ۲۰ ستمبر بروز جمعرات بالا کوٹ تشریف لے گئے.جو ایبٹ آباد سے ۵۰ میل کے فاصلہ پر ہے حضور ے بجے صبح ایبٹ آباد سے روانہ ہوئے اور سیدھے بالا کوٹ پہنچے.چونکہ حضرت سید محمد اسمعیل صاحب شہید کا مزار بھی قریب ہی ہے اس لیے حضور نے پہلے ان کے مزار یہ دعا کرنے کا ارادہ فرمایا لیکن ابھی محفوڑا فاصلہ ہی حضور نے طے فرمایا تھا کہ بعض دوستوں نے عرض کیا کہ اگلا راستہ پہاڑی اور کٹھن ہے اور حضور کے لیے وہاں تک چل کر جا نامشکل ہو گا.اس لیے مناسب ہے کہ ان کے مزار پر کسی اور وقت تشریعت سے جائیں حضور نے اس مشورہ کو قبول فرماتے ہوئے وہاں جانے کا ارادہ ترک فرما دیا.اور راستہ بدل کر حضرت سیار احمد صاحب بریلوی کے مزار پر تشریف لے گئے.وہاں پہنچنے پر خادم قبرستان نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ چونکہ حضرت سید صاحب کی قبر کے گرد قرآن خوانی کے لیے جگہ صاف کی گئی ہے اس لیے احباب جوتے اتار کر اندر تشریف لائیں.چنانچہ قبر کے قریب پہنچکر تمام احباب نے جوتے له الفضل ۲۲ اگست ۱۹۶۵ ء مره
۲۱۰ اتار دیئے اور پھر حضور نے ان کے مزار پر کھڑے ہو کر یہی دعا فرمائی.یہ وعاد بن ابجکر ہم منٹ سے لے کہ گیارہ بجکر بیس منٹ تک جاری رہی.دعا سے فارغ ہونے کے بعد ایک دوست کی خواہش پر حضور نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے کتبہ کے پاس کھڑے ہو کر فوٹو کھوایا.یہ قر بعض دوسری قبروں کے ساتھ درختوں کے ایک جھنڈ میں واقع ہے اس موقع پر حضور کی طرف سے جادور کو کچھ ہدیہ بھی دیا گیا، واپسی پر بالا کوٹ کے دوستوں نے حضور کی خدمت میں چائے پیش کی.اور حضور چند منٹ وہاں تشریف فرما ر ہے.راستہ میں بھگہ میں مقامی جماعت نے بشیر احمد صاحب کے مکان پر حضور کی خدمت میں دوپہر کا کھانا پیش کیا.نصف گھنٹڈ کے قریب حضور وہاں پر تشریف فرما ر ہے اس کے بعد حضور موڑ کے ذریعہ پانچ بجے ایبٹ آباد تشریف لے آئے.اس سفر میں حضور کے ساتھ جانے کی مندرجہ ذیل احباب کو سعادت حاصل ہوئی.۱ - حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبه ۲۳۰۰۰۰) حضرت سیدہ ام متین صاحبہ (۳۱) حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ (۳) امتہ المتین صاحبہ بیگم مکرم میرمحمود احمد صاحب (۵) مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب (4) کرم میاں غلام محمد صاحب اختر ناظر علی ثانی (لا) مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور (۸) مکرم ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب (۹) خاکسار محمد یعقوب انچارج شعبه زود نویسی (۱۰) مکرم کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ (۱) مکرم کیپٹن شیر ولی خان صاحب (۱۲) مکرم عبد اللطیف خاں صاحب (۳) مکرم ڈاکٹر غلام اللہ صاحب (۱۲) مکرم قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ سر حد (۱۵) مکرم مرزا عبداللہ جان صاحب سینر اسب حج ان کے علاوہ حسب ذیل اصحاب راستہ میں شامل ہو گئے تھے.رای مکرم غلام سرور خان صاحب درانی ساکن مردان رو مکرم مولوی خمد عرفان صاحب مانسہرہ (۳) مکرم سیدلیٹر احمد صاحب بھنگلہ (۴) کرم مرزا عبدالمجید صاحب پیشاور ریٹائرڈ ڈی ایس پی (۵) مکرم صو بیدار غلام رسول صاحب (4) کرم صوبیدار عبد القیوم صاحب (۷) مریم محمد زمان خان صاحب بالا کوٹ (۸) مکرم غلام سرور خان صاحب بالا کوٹ (۹) مکرم بدر سلطان صاحب اختر انسپکٹر خدام الاحمدیہ مرکزیہ - ه صحیح نام سید محمد بشیر شاہ ہے (ناقل )
۲۱۱ اس سفر میں حضور کے ڈرائیوروں میں سے مکرم نذیر احمد صاحب - مکرم مرزا انور بیگ صاحب کرم شیخ عبدالحق صاحب اور باڈی گارڈوں میں سے مریم غلام محمد صاحب اور مکرم حسین بحر صاحب اور نوکروں میں سے داؤد احمد صاحب حضور کے ہر کاب تھے اسی طرح خادمات میں سے ساجدہ صاحبہ اس قافلہ میں شامل تھیں.الحمد للہ کہ اس سفر میں حضور کی طبیعت بہت اچھی رہی.اور پختہ سڑک کی وجہ سے راستہ بہت آسانی سے کٹا صرف گڑھی حبیب اللہ سے دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ کچی سڑک تھی یہ بہت اونیکی نیکی اور گرد و غبار سے آئی ہوئی تھی.چونکہ حضور کے اس تاریخی سفر کا سلسلہ کے کسی اخبار میں اس سے پہلے ذکر نہیں ہوا اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ احباب کے ان دیاد معلومات اور سلسلہ کی تاریخ میں محفوظ ر کھنے کی غرض سے اسے شائع کر دیا جائے " جماعت احمدیہ بالا کوٹ نے اپنے آقا کے آرام اور چائے وغیرہ کا نہایت عمدہ بند دست کہ رکھا تھا.سید نا حضرت المصلح الموعود مزار پر دعا کے بعد محمد زمان خان صاحب آن پوڑ می رسید ۱۹۷۴ء) کی درخواست پر اُن کے گھر بھی تشریف لے گئے اُن کا مکان بالا کوٹ سے ایک میل پیچھے کی سڑک سے ذرا بلندی پر واقع تھا.حضور کار سے اتر کر مکان کی طرف روانہ ہوئے یہ تو میاں غلام محمد صاحب اختر ناظرثانی نے آواز دی کہ کوئی پیاری دوست آگے آئیں.جس پر سید محمد بشیر شاہ صاحب فوراً آگے پڑھے حضور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اور سہارا لیے ہوئے ، محمد زمان خان کے مکان تک پہنچے اور چند منٹ کے لیے تشریف فرمار ہے.انہوں نے حضور کی خدمت بابرکت میں شہد ، اخروٹ اور غیر پیش کیے.اس کے بعد حضور بھی گلہ کے لیے روانہ ہوئے.اور گیارہ بجے مع قافلہ اس له الفضل جلسه سالانه نمبر ۱۹۶۰ء مر ۲۱ افر نهند اکبر سید عبد الرحیم شاہ صاحب ہوڑے کہ مانسہرہ گئے اور وہاں سے حضور کے ساتھ بطور خادم سارے سفر میں ساتھ رہے
۲۱۲ خوش قسمت گاؤں میں پہنچے.یہاں ایک وسیع و عریض بیٹھک میں دعوت کا انتظام تھا اور بہت سے معززین علاقہ بھی موجود تھے.جنہوں نے پُر تپاک طریق پر استقبال کیا.یہاں حضور ایک گھنٹ رونق افروز رہے اور مختلف موضوعات پر انتہائی دلچسپ اور روح پرور گفتگو فرمائی.حضور نے مکئی کی روٹی بہت پسند فرمائی اور بھنگہ کے محل وقوع اور خوبصورتی سے بہت محظوظ ہوئے اور فرمایا کہ یہ جگہ تو گلو وادی کی طرح ہے.یہاں سے فارغ ہو کر حضور قافلہ سمیت واپس ایبٹ آباد تشریف لائے.اور شام کو ایک ٹی پارٹی میں شرکت فرمائی.جو جماعت ایبٹ آباد کی طرف سے حضور کی قیام گاہ پر دی گئی تھی اور میں میں علاقہ کے احمدی احباب اور مقامی منتظمین کے علاوہ ایبٹ آباد کے غیر انہ جماعت معززین بھی شامل تھے.اس موقع پر حضور نے لاؤڈ اسپیکر پر ایک مختصر خطاب بھی فرمایا جو بہت موثر تھا.اور ستمبر کو جمعہ تھا.صبح کے وقت چند صحافی حضور کی ملاقات کے لیے تشریف لائے.جمعہ کے لیے مضافات اور پشاور سے کئی مخلصین جماعت تشریعت لائے.نماز کے بعد ڈاکٹر غلام اللہ صاحب نے حضور کی خدمت میں معذرت کی کہ ہماری مقامی جماعت چھوٹی سی ہے.سب نے مہمان نوازی کے لیے حتی المقدر کوشش کی ہے مگر اس میں بہت ہی کسی اور کو تا ہی رہ گئی ہوگی.اگر حضور کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو معاف فرما دیں.حضور نے نہایت پیار بھرے الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ مومن کی نگاہ ہمیشہ اچھی باتوں پر ہوتی ہے.میں اپنے اس سفر سے بہت خوش ہوں.۲۲ ستمبر ۵اد کو حضور کی روانگی کا دن تھا.حضور نے علی الصبح اجتماعی دعا کرائی اور سب موجود ا حباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر ایبٹ آباد سے جابہ کے لیے روانہ ہو گئے.رستہ میں تھوڑی " دیر کے لیے حضور چو ہدری غلام حسین صاحب کے اصرالہ پہ حویلیاں میں بھی ٹھہرنے لیے له الفضل ۲۲ را گست ۱۹۶۵ رصده مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو کتاب سوانح حیات حضرت چوہدری غلام محمد خان صاحب ص ۸۹ - ۹۱ مولفہ ڈاکٹر غلام اللہ صاحب منہ قائد اعظم تاریخ اشاعت مارچ ۱۹۸۶ء - - ای - ماڈل ٹاؤن لاہور ۱۳
۲۱۳ کتاب مذہبی راہنماؤں کی سوانح عمریاں کی مینی بار کا ایک فرم نے میری را بنادی کی سوانح عمریاں" کے نام سے ایک کتاب اشاعت اور حضرت مصلح موعود کی برقت سینمائی سے لئے کی.ہندوستان میں اس کا اردو ترجمہ بھارت کے ایک صوبہ کے گورنہ سر منشی بیٹی نے کیا.ترجمہ کی اشاعت پر معلوم ہوا.کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہتک کی گئی ہے.جس پر بھارت میں زبر دست شورش ہوئی.اور سخت فساد برپا ہوا.سینکڑوں مسلمان شہید کر دیئے گئے.اور ہزاروں کو جیل خانوں میں ڈال دیا گیا.چن کے خلاف عرصہ تک مقدمے چلتے رہے اور ان کو گرفتاریوں کی سزا بھگتنا پڑی.یہ مشورش دیکھ کہ پہلے پاکستان گورنمنٹ نے اور بعد انہاں سہندوستان گورنمنٹ نے بھی یہ کتاب ضبط کرلی.اس پر حضرت مصلح موجود نے د راکتور برش کو ایک پر جلال خطبہ دیا.اور فرمایا کہ یہ ضبط کرنے والا طریقہ ٹھیک نہیں.نب تو ان لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہو گا.کہ ہماری باتوں کا جواب کوئی نہیں.واقعہ میں معاذ اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی ہوں گے.تبھی تو کتاب ضبط کرتے ہیں.اس کا جواب نہیں دیتے ، اصل طریق یہ تھا کہ اس کا جواب امریکہ میں اور اس کا ترجمہ ہندوستان میں شائع کیا جاتا.چنانچہ حضور نے فرمایا : - " " کہا جاتا ہے کہ مہندومسلمانوں کے احتجاج کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب تو ۲۹ سال ہوئے امریکہ میں چھپی تھی.گویا اس کتاب کا لکھنے والا کوئی عیسائی ہے.ہندو نہیں.اگر یہ درست ہے.تو اس صورت میں زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس کتاب کا جواب امریکہ میں شائع کیا جائے اور اس کا ترجمہ ہندوستان میں پھیلا یا جائے.رسول ریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم کوئی ایسی بات دکھو جونا پسندیدہ ہو تو اگر تمہارے ہاتھ میں طاقت ہو تو تم اسے ہاتھ سے مٹا دو اور اگر تمہارے ہاتھ میں طاقت نہ ہو لیکن تم زبان سے اس کی بڑائی کا اظہار کر سکتے ہو تو زبان سے اس کی بڑائی ظاہر کرو اور اگر تم میں زبان سے اظہار کرنے کی بھی طاقت نہ ہو تو تم دل ہی میں اسے برا سمجھو.یہ نکتہ بہت لطیف ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان گورنمنٹ چونکہ پروٹسٹ کر سکتی ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کی حکومت پر سے پروٹسٹ کرے کہ اس نے ہمارے آقا کی ہتک کہ دائی ہے اور مہندوستانی مسلمان جو منظوم ہیں اور وہ اس کے متعلق کوئی آزادانہ کروائی
۲۱۴.کارروائی نہیں کر سکتے اُن کے متعلق بہت کم ہے کہ وہ دل میں ہی اس پر برا منائیں اور چونکہ پاکستانی گورنمنٹ نے اس کتاب کو ضبط کر لیا ہے.اس لیے پاکستان سے باہر کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس کتاب کا جواب لکھیں اور اسے امریکہ اور مہندوستان میں شائع کروائیں اگر یہ جواب امریکہ میں شائع کیا جائے تو وہاں کے رہنے والے لوگوں کے سامنے بھی کتاب کے مصنف کا جھوٹ ظاہر ہو جائے گا پھر اس کا ترجمہ مہند دوستان میں شائع کیا جائے تو سہندو بھی ڈر جائیں گے اڈوہ آئندہ مسلمانوں پر حملہ نہیں کہ یں گے اور سمجھ لیں گے کہ اگر انہوں نے مسلمانوں کی طرف کنکر پھینکا تو اس کے جواب میں پتھر پڑے گا اس سے نہ صرف مہندوستانی مسلمان خوش ہو جائیں گے بلکہ قرآنی آیت " وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) کی صداقت بھی واضح ہو جائے گی.اختبارات سے پتہ لگتا ہے کہ جب سعودی عرب کے بادشاہ سے پنڈت نہرہ وطنے گئے اور اس کتاب کے متعلق باتیں ہور میں تو انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ایسا اقدام کریں گے کہ اس قسم کی کوئی ولازار کتاب شائع نہ ہو لیکن مجھے یقین نہیں کہ پنڈت نہرو اپنے وعدہ پر عمل کریں وہ صرف سعودی عرب کے بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے یہ باتیں کہہ آئے ہیں کیونکہ خواہ پنڈت نہرو کے دل میں نیکی ہو ان کے ارد گرد جو لوگ ہیں وہ کٹر ہندو ہیں انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق کوئی عمل کیا تو ان کے ساتھیوں نے سٹور مچا دینا ہے کہ تم کون ہو تو ہمیں اس بات سے روکتے ہو پس میرے نز دیک اصل طریق یہ ہے کہ چونکہ اس کتاب کا مصنف عیسائی ہے اور امریکہ کا رہنے والا ہے اس لیے اس کے جواب میں جو کتاب لکھی جائے اس کا ایک ایڈیشن انگریزی میں ہوں جو امریکہ میں شائع کیا جائے اس میں ایک طرف تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع ہو.یعنی ان اعتراضات کا جواب ہو جو اس کتاب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے گئے ہیں اور دوسری طرف عیسائیوں کو الزامی جواب دیا جائے اور پھر اس کا دوسرا ایڈیشن ہندوستان میں شائع کیا جائے اس میں ایک طرف تو محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا دفاع ہو لینی ان اعتراضات کا جواب ہو جو آپ کی ذات پھر اس کتاب میں کیسے گئے ہیں اور دوسری طرف ہندو مذہب کو مد نظر رکھتے ہوئے الزامی ن المائده:
۲۱۵ جواب ہوتا ہندوؤں کو بھی ہوش آ جائے اور آئندہ وہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے میں احتیاط سے کام لیں پھر اگر اس کتاب کا مصنف زندہ ہور شکی ہے وہ مرگیا ہو کیونکہ اس کتاب کو شائع ہوئے ۲۹ سال کا عرصہ گزرچکا ہے) تو ہمارے مبلغ اسے مباہلہ کا چیلنج دیں اور کہیں کہ اگر وہ سچا ہے اور عیسائی اس کے ساتھ ہیں تو وہ پچاس عیسائی اپنے ساتھ لے آئے ہم بھی اپنے ساتھ پیچاس نو مسلم لے آتے ہیں اور پھر وہ ہم سے مباہلہ کرے اگر حضرت عیسی علیہ السلام میں طاقت ہوئی تو وہ انہیں بچا لیں گے اور اگر ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجنے والے خدا میں طاقت ہوئی تو وہ انہیں تباہ کر دے گا.اس مباہلہ کے بعد جب عیسائیوں پر خدائی عذاب نازل ہوا تو ثابت ہو جائے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام میں کوئی خدائی طاقت نہیں اور متد رسول اللہ صل اللہ علی وسلم کا بھیجنے والا خدا اب بھی زندہ ہے گو آپ کی وفات پر ۱۳۰۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر وہ اب بھی آپ کی حفاظت کرتا ہے.اور اگر وہ لوگ مباہلہ کیلئے میں تو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈوٹی کے متعلق پر دیگنڈا کیا تھا.اس کے متعلق بھی ملک بھر میں پردیسیگنڈا کیا جائے اسلام کی عظمت ظاہر ہوگی اور لوگوں پر واضح ہو جائے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرنے والے جھوٹے ہیں مباہلہ کا ہتھیار عیسائیت میں موجود نہیں لیکن اسلام میں موجو د ہے اور اس موقعہ پر اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں ڈرٹی کے اعلان کیوجہ سے امریکہ بھر میں شور پڑ گیا تھا اور بیسیوں اخباروں اور رسالوں نے ان خبروں کو شالئے کیا تھا کو اب بھی اس طرح اس کتاب کے مصنف کو مباہلہ کا چیلنج دیا جائے تو ملک میں پھر زندگی پیدا ہو جائے گی اور وَاللهُ يَعْصِمُ مِنَ النَّاسِ کی صداقت کا ایک اور ثبوت مل جائے گا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفاظت کا وعدہ کیا ہوا ہے اس لیے عیسائیوں سے کہو کہ ہم قرآن کریم کا یہ دعوی تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں تم پہلے ہم سے مباحثہ کر لو اور اپنے اعتراضات پیش کر دہم ان باتوں کا رد کریں گے اور بتائیں گے کہ ان سے بھی بدتر با تیں تمہارے ہاں موجود ہیں پھر تم ان کا جواب دے لینا اور اگر مباحثہ کے بعد بھی تم اپنے دعومی پر قائم رہو تو ہم سے مباہلہ کر لو خدا تعالیٰ خود بھوٹے کو تباہ کر دے گا اور دوسرے فریق کی
۲۱۶ سچائی کو ظاہر کر دے گا یہ طریق ایسا ہے کہ اس سے امریکہ اور مہندوؤں دونوں پر اسلام کا رعب قائم ہو جائے گا مہندوؤں کو اس الزامی جواب دینے کے لیے میں نے اس لیے کہا ہے کہ انہوں نے اس امریکین کی کتاب کو شائع کیا ہے اور رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو تیر مارے اور وہ تیرا سے زخمی نہ کرے لیکن ایک دوسرا آدمی جو تیرا اٹھا لائے اور اسے دوسرے کے سینہ میں پیوست کر دے تو زیادہ ظالم وہ ہے میں نے گرا ہوا تیر اٹھایا اور دوسرے کے سینہ میں چھو دیا.یہ کتاب بھی امریکہ کے کسی عیسائی نے شائع کی تھی مگر امریکہ کی کتاب تو امریکہ میں رہ گئی ہندوؤں نے اس کا ترجمہ کر کے مسلمانوں تک پہنچایا اور اس طرح اُن کی تکلیف کا موجب ہوئے پس یہ گالیاں ہندوؤں نے مسلمانوں تک پہنچا کہ اپنے ذمہ لے لی ہیں.اس لیے ضروری ہے کہ اس کتاب کے ایک ایڈیشن میں جو ہندوستان میں شائع ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے ساتھ ساتھ ہندو مذہب کے پول بھی کھولے جائیں اور دوسرے ایڈیشن میں دفاع کے ساتھ ساتھ عیسائیت کے پول کھولے جائیں کیونکہ اس کتاب کا اصل مصنف عیسائی ہے.اس کے بعد اس کتاب کے لکھنے والوں اور شائع کرنے والوں کو چیلنج کیا جائے کہ وہ ہمارے ساتھ بحث کر لیں اور اس کے بعد اگر ان میں طاقت ہو تو ہم سے مباہلہ کر لیں تاکہ خدا تعالٰی کی طاقت انہیں نظر آجائے اگر یہ طریق اختیار کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یوروپ ، امریکہ اور مہند دستان نینوں کے لیے یہ طریق ہدایت کا موجب ہو گا.مہند دوستان بے شک آزاد ہو گیا ہے مگر اب بھی وہ یورپ کی طرف میلان رکھتا ہے اگر یورپ اور امریکہ میں شور مچ گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے والوں کو احمدیوں نے خوب لتاڑا ہے اور انہیں مباحثہ اور مباہلہ کا چیلنج دیا ہے تو سہندوستان کے اخبارات بھی شور مچانے لگ جائیں گے اور وہ بھی وہی باتیں شائع کرنے لگ جائیں گے جو یوروپ اور امریکہ کے اخبارات میں شائع ہو رہی ہوں گی.اور اس سے ہندوؤں کے کان کھڑے ہو جائیں گے اور وہ سمجھ لیں گے کہ احمد می پیچھا نہیں چھوڑا کرتے اگر ان کے رسول پر حملہ کیا گیا تو اس وقت تک حملہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑتے جب تک انہیں گھر پہنچا ہیں.اس طرح آئندہ کے لیے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹنگ کرنے اور مسلمانوں پر حملہ کرنے میں احتیاط سے کام نہیں کے لیے لے روز نامہ الفضل ربوه ۲۲ نومبر ۱۹۵۶ ص ۶/۵
Pi اس خطبہ جمعہ کے بعد حضور کی ہدایت کیمطابق امریکی فرم کی طرف سے معذرت نامہ ایک تو آنحضرت ملالہ علیہ وسلم کی ذات مقدس ر مغرب کے اس نئے جملے کا علمی جواب لکھا گیا.دوسرے امریکی فرم کو بھی اس کی اطلاع دی گئی.اس پر وقت اور دانش مندانہ اقدام کا نور می ر د حل یہ ہوا کہ امریکی فرم نے اپنی غلطی پر سخریہ کی معانی انگ لی سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے اس اہم واقعہ کی تفصیل حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں درج کی جاتی ہے.حضور نے اس کتاب کے بارے میں اپنے خطبہ جمعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میر نے اس خطبہ کے بعد سند دوستان سے خصوصاً بمبئی سے رپورٹ آئی کہ ترجمہ کرانے کی ضرورت نہیں یہاں زیادہ تر انگریزی پڑھے ہوئے لوگوں میں اس کا چہر چاہے اس لیے جو انگریزی کتاب امریکہ کے لیے چھپے رہی ہندوستان میں بھیج دی جائے.اور وہ انگریزی داں طبقہ میں تقسیم کی جائے.اگر ضرورت سمجھی جائے تو بعد میں اس کا اردو ترجمہ بھی ہو جائے.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اب امریکہ سے آئے ہیں وہ کہتے ہیں میں نے کتاب پڑھی ہے اس کے متعلق کئی غلط فہمیاں ہیں وہ کتاب در حقیقت ایک تحقیقی رنگ میں لکھی ہوئی کتاب ہے وہ شخص اسلام کا دشمن نہیں ہے اس لیے جو میری تجویز تھی کہ اسکا تحقیقی جواب بھی دیا جائے.اور پھر الزامی جواب بھی دیا جائے.عیسائیوں کو بھی اور مندروں کو بھی.ان کی رائے یہ ہے کہ نرمی کے ساتھ تحقیقی جواب دیا جائے لیکن الزامی جواب نہ دیا جائے.کیونکہ لکھنے والے کے دل میں بدنیتی کوئی نہ تھی اور چونکہ مہندوستان میں بھی دوستوں نے کہا ہے کہ اردو کی ضرورت نہیں انگریزی کی ہے اس لیے ایک ہی کتاب کافی ہو جائے گی.جس میں تحقیقی جواب ہوں گے تحقیقی جو آجیسے عیسائیوں کے لیے کافی ہوتے ہیں.اسی طرح ہندوؤں کے لئے.اسی طرح زرتشتیوں کے لئے اور اسی طرح یہودیوں کے لئے بھی کافی ہوتے ہیں.پس تحقیقی جواب کے ساتھ وہ کتاب شائع ہو گی اور مجھے اطلاع آچکی ہے کہ وہ لکھی جاچکی ہے گھر خدا تعالیٰ کا ہمارے ساتھ وہی معاملہ ہے جو ایک بڑے الہانی کا ہوا تھا.ایک بڑھا ایرانی ایک دفعہ ایک درخت لگا رہا تھا.ساٹھ سال میں کہیں وہ پھل دیتا تھا.بادشاہ وہاں سے گزرا.بادشاہ نے اس درخت کو لگاتے جو دیکھا تو کہا اس
۲۱۸ بڑھے کو بلاؤ جب وہ بڑھا پاس آیا تو کہا میاں بڑھے تم یہ درخت لگارہے ہو بیتہ ہے یہ ساٹھ سال کے بعد پھل دیتا ہے.تم تو اس وقت تک مرجاؤ گے تمہیں اس درخت کے لگانے کی کیا ضرورت ہے.بڑھے نے کہا بادشاہ سلامت آپ بھی عجیب ہیں.میرے باپ دادا بھی اگر یہی سوچتے تو میں کہاں سے پھیل کھاتا.میرے باپ داداؤں نے درخت لگایا تو میں نے میل کھایا میں لگاؤں گا تو میرے پوتے پیڑ پوتے کھائیں گے بادشاہ کو بات پسند آگئی اس نے کہا نہ ہ.بادشاہ نے وز یہ خزانہ کو حکم دیا ہوا تھا کہ جب میں کسی بات پر یہ کہوں تو فوراً تین ہزار اشرفی کی متیل اس کے آگے رکھ دیا کر د بادشاہ نے کہا یہ.وزیر نے فوراً تین ہزار کی تھیلی اس کے آگے رکھ دی جب اس کے آگے تین ہزار اشرفی کی مخیلی رکھی گئی تو اس نے کہا بادشاہ سلامت اب بتائیے آپ تو کہتے تھے کہ تو ساٹھ سال کے بعد کہاں پھل کھائے گا.چھوٹے چھوٹے درخت ہوں تو وہ بھی اگر جلدی پھل دینے والے ہوں تو کم سے کم چار پانچ سال بعد پھل دیتے ہیں مگر مجھے تو دیکھئے ایک منٹ کے اندر پھل مل گیا.بادشاہ کو یہ بات اور بھی پسند آئی اور اس نے پھر کہا نہ.اور وزیر خزانہ نے پھر تین ہزار کی تحصیلی اس کے سامنے رکھ دی جب وہ دوسری متیل رکھی گئی تو کہنے لگا بادشاہ سلامت دیکھئے آپ کی کتنی غلطی تھی آپ کہہ رہے تھے کہ ساٹھ سال کے بعد اس نے پھل دینا ہے اور اس وقت تک تو بچے گا کہاں.مگر دیکھئے لوگوں کو تو سال میں ایک دفعہ پھل لتا ہے اور میرے درخت نے ایک منٹ میں دو دفعہ پھل دے دیئے.بادشاہ نے کہا زہ.وزیر نے پھر تیری تھیلی رکھ دی.بادشاہ کہنے لگا کہ چلو ورنہ یہ بڑھا خزانہ لوٹ لے گا.تو اللہ تعالے کا بھی ہمارے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا ہے ہندوستانی گورنمنٹ نے وہ کتاب ضبط کی اور مہندوستان میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید محمد رسول اللہ کی ذات کمزور ہے.ان پر ایک امریکن نے حملہ کیا اور مسلمان جواب نہیں دے سکے آخر شور مچایا اور گورنمنٹ کو کتاب ضبط کرنی پڑی اور پاکستان گورنمنٹ نے کتاب ضبط کی پاکستان کے عیسائی خوش ہوئے کہ دیکھو محمد رسول اللہ کی ذات کمزور ہے.ان پر ایک امریکن نے حملہ کیا اور مسلمان جواب نہیں دے سکے آخر شور مچایا اور گورنمنٹ کو کتاب منبط کرنی پڑی اور پاکستان گورنمنٹ نے کتاب منبط کی پاکستان کے عیسائی بڑے خوش ہو ئے پاکستان کے سند در خوش ہوئے کہ دیکھو محمد رسول اللہ کی ذات کمزور
719 ہے ان کے حملوں کا جواب کوئی نہیں کتاب ضبط کر کے جواب دے رہے ہیں لیکن جو میں نے تدبیر کی تھی وہ ایسی کارگہ نکلی کہ ہماری کتاب ابھی چھپی نہیں اور کتاب کو چھاپنے والی فرم کا معافی نامہ پہلے آ گیا ہے اور وہ یہ ہے:.Henry and Danna Thomas C/O Hanover House Publishers, 575 Madison Avenue New York, N.Y.December 6, 1956.We have just received your letter from our publishers.With regard to the statements made about the Prophet Mohammed in the living Biographies of Religious leaders, We were terribly Shocked and saddened that there have been misunderstanding of our attitude and feeling about Mohammed.We have always believed that the teachings of the Prophet are one of the world's basic manifestation of democracy and that the tenets of the Muslim Faith are a direct Progenitor of the philosophy of Abraham Lincoln.Despite the fact that the book was written fifteen years ago under the direction of a book editor who conceived of the project as a humanized, romanticized approach to biography for a westernized audiance we have not had the slightest intention of decracting from the philosophical stature of Mohammad and that is why we have been so distressed over any misunderstanding that might have arisen.We wish you God speed on your new work on the Prophet Mohammad and if you mention our book would you please convey to your readers how saddened we have been over any adverse reaction and would you convey that we are the last people in the world who are critical of the very great contributions of the Muslim Faith.Sincerely (Signed) Henry and Danna Thomas
٣٢٠ اس کا ترجمہ یہ ہے منجانب (مسٹر ہنری تھامس در سن ڈانا تھامس - معرفت مینو د ر ہاؤس پبلیشرز ۵۷۵ میڈیسن ایونیو نیویارک - ۶ ردسمبر ۶۱۹۵۶ ہمیں اپنی کتاب کے ناشرین کی معرفت آپ کا خط ملا ریعنی ہمارے میلے کا نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کتاب "مذہبی راہنماؤں کی سوانح عمریاں، میں ہمارے مضمون کے متعلق عرض ہے کہ یہ معلوم کرکے کہ نبی اکرم کے متعلق ہمارے انداز تحریر د احساسات کے متعلق بعض غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ہمیں بہت رنج اور افسوس ہوا.ہمارا ہمیشہ سے یہ اعتقاد رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم دنیا میں جمہوریت کی بنیادی مظہر ہے اور کہ مذہب اسلام کے اصول امریکی سابق پریذیڈنٹ ریس کو ہ تقریبا نیوں کی طرح سمجھتے ہیں) ابراہیم لنکن کی فلاسفی کا براہ راست منبع و ماخذ ہیں ریعنی ہم ابراہیم لنکن کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں اور بڑا بزرگ سمجھتے ہیں مگر ہمارا یقین ہے کہ ابراہیم لنکن نے جو ان کی تعلیم پھیلائی مھتی وہ براہ راست اس نے محمد رسول اللہ ﷺ سے حاصل کی متقی خود نہیں بنائی تھی) اس امر کے با وجود کہ ہمارے مضمون کو جسے ہم نے کتاب کے ایڈیٹر کی زیر ہدایت تحریر کیا تھا لکھے پندرہ سال ہو گئے اور کتاب لکھوانے میں مرتب کا منشاء و مقصد سوائخ عمری کی تحریر میں مغربی تہذیب میں رنگین ہو کہ قارئین وناظرین کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانیت کی پہنچ پر افسانوی رنگ دینا تھا ر یعنی ہم نے قصے کے رنگ میں لکھی تھی میں سے میں یورپ کے لوگ زیادہ فائدہ اٹھا سکیں) یہ امر بھی ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم کسی صورت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی عالمانہ مقام کی بے قدری یا تخفیف کر یں اس وجہ سے ان غلط فہمیوں پر جن کا واقعہ ہونا ہمیں بتایا جارہا ہے ہمیں نہایت درجہ علم اور افسردگی ہے.بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو کتاب آپ تقریہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس میں ہم آپ کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں.اگر آپ ہماری کتاب کا ذکر فرما دیں تو ہم ممنون ہوں گے آپ اپنے ناظرین تک ہمارا یہ پیغام بھی پہنچا دیں کہ ہماری کتاب کے متعلق نا رافق اور مخالفت رو عمل پر ہمیں کتنا السوس ہوا ہے اور کیا آپ یہ بھی انہیں پہنچا دیں گے کہ مذہب اسلام سے دنیا کو جو بڑی نعمت عطا ہوتی ہے اس کی عیب جوئی یا تنقید میں آپ ہمیں تمام دنیا کے لوگوں سے آخری فرد پائیں
۲۲۱ • آپ کے بہی خواہ ہنری اینڈ ڈانا تھا مس پس دیکھو ان کی ضبطی کا نتیجہ تو جبر نہیں کب نکلے گا ہمارے جواب کا نتیجہ خدا نے نور انکال دیا اور کتا ہے تھا پہنی والی فرم کی طرف سے معذرت آگئی.اور نہ صرف معذرت آئی بلکہ یہ بھی آئی کہ اپنی کتاب میں بھی ہماری معذرت چھاپ دیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے.بلکہ ہم سب سے آخر میں وہ لوگ ہوں گے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بات سُن سکیں یا برداشت کر سکیں پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے میری ایک حقیر کوشش کو اتنی جلدی کامیابی بخشی.سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور پاکستان کے مسلمانوں کے شور سے ان کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی لیکن میرے اس خطبہ کے نتیجے نہیں جب ان کو پستہ لگا کہ کتاب لکھی جارہی ہے تو انہوں نے فوراً معذرت کر دی اور لکھوایا کہ ہماری معذرت کتابوں میں بھی چھاپ دی جائے.اور اپنی جماعت کو بتایا جائے کہ ہمارے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے.بلکہ ابراہیم لنکن جس کو ہم نبیوں کا مقام دیتے ہیں.ہم سمجھتے کہ وہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا شاگرد تھا.اور اس نے جو کچھ سیکھا ہے محمد رسول اللہ سے سیکھا سے ریاست ہے مسئله امتداد پر ایک لطیف خطبہ این اجرت کے بد نظر می جی بی یک سال نے جنم فج عہد مظلمہ جن بھیانک لیا.ان میں قتل مرند کا مسئلہ سر فہرست ہے.جس پر صدیوں تک قتل و غارت کا بازار گرم رہا.اور بہت سے عارف اور اہل اللہ اور مقربان درسگاہ الہی کا مقدس خون بہایا گیا.حضرت منصور حلاج ہے.حضرت شہاب الدین سهروردی حضرت شمس تبرز حضرت شیخ علالی اور حضرت سرند تم جیسے مقربان الہی اسی تیغ بے نیام کے شہید ہیں.به روز نامه الفضل ربوده ۱۲ / مارچ ۱۵ه مه ره : ۶۸۵۸۲ - ۶۹۲۲ اوراء : که شهادت ۶۴۵/ ۶۱۲۴۸ ۶۱۱۵۴ - شه شهادت ٥٩٥٥ / ۲۶۱۵۴٨ ۶۱۶۱۸ - ۶۱۶۵۸
۲۲۲ حضرت مصلح موعود نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۶ کو قرآنی زاویہ نگاہ سے اس نازک مسئلے کا ایک فیصلہ کن حل پیش فرمایا.جو دنیائے تفسیر میں ایک شاندار اضافہ ہے.حضور نے یہ حل خطبہ جمعہ کے دوران بیان فرمایا.جس کے دو اقتباسات درج ذیل کیے جاتے ہیں.فرمایا :- (۱) ہر نظام اپنے ساتھ اپنے نمبروں کے لیے کچھ سہولتیں رکھتا ہے.اگر وہ نظام دین ہو تو اس نظام کو چھوڑنے والا ان تمام سہولتوں سے جو اس نظام میں دینی تر تی اور اس کی اشاعت کے لیے رکھی گئی ہوں.محروم ہو جاتا ہے.اور اگر اس نظام دینی پر چلنے والے بچے ہوں تو اللہ تعالیٰ باہر سے اور آدمی لے آتا ہے.جو پہلوں کے قائمقام ہو جاتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي الله يقوم يحبهم وَيُحِبُّونَةٌ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ (المائده : ۵۵) على الكفرين.یعنی اسے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی ایک شخص بھی تمہارے نظام دینی سے الگ ہو جائے تو اللہ تعالے اس کے بدلہ میں تمہیں ایک قوم دے گا.جو مومنوں کے ساتھ نہایت انکسار کا تعلق رکھنے والی اور کفارہ کی شرارتوں کا نہایت دلیری سے مقابلہ کرنے والی ہوگی.اس آیت میں اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ نظام دینی سے الگ ہونے والوں کے مقابلہ میں ہمارا کیا سلوک ہوتا ہے ، گرافسوس ہے کہ آجکل بعض مسلمان علماء نے لفظ ارتداد کو الیسا بھیانک بنا دیا ہے کہ وہ بالکل ایک نئی چیز بن گیا ہے.حالانکہ ارتداد کے صرف یہ معنے ہیں کہ انسان ایک نظام کو چھوڑ کر کسی اور نظام میں شامل ہو جائے.خدا تعالٰی نے یہ کہیں نہیں کہا کہ ایسے آدمی کو قتل کر دیا جائے.جیسا کہ بعض مسلمان علماء غلطی سے ایسا سمجھتے ہیں.بلکہ اس نے یہ اعلان کیا کہ اگر واقعہ میں تم مومن ہو تو جو تمہارے نظام کو چھوڑے گیا.اس کے متعلق تم کو کچھ کرنے کا حکم نہیں.بلکہ اس کے متعلق ہم ایک ذمہ داری اپنے اوپر لیتے ہیں اور وہ یہ کہ ایک ایک شخص جو تمہارے نظام کو چھوڑے گا.اس کے بدلہ میں ہم ایک ایک نوم کفار میں سے لا کر تمہارے اندر داخل کر دیں گے.جن سے خدا محبت کرے گا اور جو خدا سے محبت کریں گے.لیکن مسلمان علماء یہ سمجھتے ہیں کہ نظام دینی سے الگ ہونے والے کی گردن کاٹ دینی چاہیئے.حالانکہ
۲۲۳ اس کی گردن کاٹ دینے سے اسلام کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے.اسلام کو تو اس وقت فائدہ ہوگا.کہ جب اللہ تعالى نَسَوْنَ يَأتى الله بقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ کے ماتحت اس کی جگہ ایک قوم لے آئے اور مسلمانوں کو زیادہ کر دے.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمائی ہے ، کہ ہم ایک کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں.اور وہ یہ کہ ہم نظام سے بھاگنے والے ایک شخص کی جگہ ایک قوم لے آئیں گے اب دیکھو قرآن کریم کے بیان اور اس زمانہ کے علماء کی تفسیر میں کتنا عظیم الشان فرق ہے.آجکل کے علماء کہتے ہیں.کہ اگر کوئی شخص نظام دینی سے نکل جائے.تو اس کے متعلق خداتعالی پر کوئی فرفض عائد نہیں ہوتا ہم پر یہ فرض عائد ہے کہ ہم اسے قتل کر دیں.حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے.ہیکہ اگر نظام دینی کی طرف منسوب ہونے والے لوگ سچے مومن ہیں اور کوئی شخص اُن میں سے واقعی طور پر مرند ہو جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ایک نئی قوم مسلمانوں میں داخل کر دیتا ہے.مثلاً کہا جاتا ہے کہ احمد می مرتد ہیں اس لیے واجب القتل ہیں.لیکن سوچنے والی بات یہ ہے.کہ اگر وہ واقعہ میں مرتد ہیں اور غیر احمدی واقعہ میں سچے مومن ہیں تو اس قرآنی وعدہ کے مطابق ضروری تھا کہ اگر مسلمانوں میں پانچ لاکھ احمدی مرند ہوئے ہیں.تو کم سے کم پچاس لاکھ عیسائی یا سہندو مسلمان ہو کہ ان غیر احمدیوں میں مل جا تا اگر ایسا نہیں ہوا تو معلوم ہوا.کہ احمدی مرتد نہیں اور غیر احمدی سچے مومن نہیں اور یا پھر خدا عالے اپنے وعدے کو پورا نہیں کر سکا.اگر دس افراد کی بھی ایک قوم سمجھ لی جائے.اور پانچ لاکھ احمدی ان کے خیال میں مرتد ہو گئے تھے.تو پچاس لاکھ غیر مذاہب کے لوگ اسلام میں داخل ہو جانے چاہیئے تھے.اور اگر پانچ لاکھ احمدیوں کی بجائے پچاس لاکھ غیر مذاہب والے اسلام میں داخل ہو جاتے تو مسلمانوں کو کتنا فائدہ ہوتا.اس صورت میں تو انہیں پانچ لاکھ افراد کے احمدی ہو جانے سے ذرہ بھر نقصان نہ ہوتا بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہوتا.اور یہی وہ بشارت ہے جو اس آیت میں مسلمانوں کو دی گئی ہے.اور اُن کے حوصلوں کو بند کیا گیا ہے.پھر قوم کا لفظ دین ہے ممکن ہے اس سے موسو افراد کا گردہ مراد ہو اگر سو سو مراد لیا جائے تو چاہیے تھا پانچ اکھاحمدیوں کے بدلہ میں قرآنی وعدہ کے مطابق پانچ کروڑ ہند ویا نیسان مسلمان ہو جاتے اور اُن پانچ کروڑ کا آنا یقینا مسلمانوں میں سے پانچ لاکھ غریب زمینداروں کے نکل جانے سے بہتر ہوتا.بہر حال
۲۲۴ خدا تعالی نے یہ کہا ہے کہ گر ایک شخص نظام دینی سے الگ ہو جائے تو وہ اس کے بدلہ میں ایک قوم لایا کرتا ہے.اب یہ قوم یا تو منڈوں میں سے آتی یا عیسائیوں میں سے آتی دونوں صورتوں میں موجودہ احمدیوں سے بہتر ہوتی.کیونکہ یہ دونوں تو میں احمدیوں سے زیادہ مالدار اور طاقتور ہیں.اگر خدا تعالی ایک ایک احمدی کے بدلہ میں دس دس مہندو بھی اسلام میں لاتا تو پچاس لاکھ ہندو اسلام میں داخل ہو جاتے.تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ اس سے مسلمانوں میں کتنی طاقت بڑھ جاتی.یا اگر امریکہ اور یورپ سے پچاس لاکھ افراد اسلام میں داخل ہو جاتے تو مسلمانوں کو پانچ لاکھ احمدیوں کا نکلنا جو ان کے خیال میں مرتد ہو گئے ہیں ، اتنا بھی برا معلوم نہ ہوتا جتنا ایک مچھر کا مرجانا برا معلوم ہوتا ہے.اور جس طرح لوگ فلٹ سے مچھر مارنے پر خوش ہوتے ہیں اسی طرح دوسرے مسلمان احمدیوں کے نکل جانے پر خوش ہوتے.کیونکہ ادھر ایک احمدی ہونا.اور ادھر انہیں ایک تار آجاتی کہ امریکہ یا یورپ میں دس عیسائی مسلمان ہو گئے ہیں.اب یا تو علماء کا احمدیوں کو مرتد کہنا جھوٹ ہے اور یا نفوذ با اللہ قرآنی وعدہ پورا نہیں ہو رہا.(۲) در عرض اس قرآنی آیت نے مسئلہ ارتداد کو بالکل حل کر دیا ہے کہ مرتد کس کو کہتے ہیں اور اور سچا مومن کس کو کہتے ہیں کیونکہ اس آیت میں اعلان کیا گیا ہے کہ اگر جماعت مسلمہ سچے مومنوں پر مشتمل ہو اور کوئی شخص واقعی ان میں سے مرتد ہو جائے تو فورا اللہ تعالیٰ اس کی جگہ ایک نئی قوم مسلمانوں میں داخل کر دے گا اگر کسی جماعت میں سے کوئی شخص سخطة لدینہ نکل جائے اور جماعت میں پھر بھی تبلیغ کا جوش پیدا نہ ہو تو در حقیقت وہ قوم یا جماعت بھی مومن نہیں کہلائے گی.کہ ایک مرتد کو دیکھنے کے بعد بھی اس کے اندر دینی غیرت پیدا نہ ہوئی.مگر چونکہ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ علیحدہ ہونے والے سخطر لدینہ نہیں نکلے اس لیے ان میں تبلیغ کا جوش بھی پیدا نہیں ہوتا چنانچہ دیکھ لو مولوی تو کہتے ہیں احمدی مرند ہیں مگر عوام الناس کو احمدیوںمیں تبلیغ کرنے کا جوش پیدا نہیں ہوتا.اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ہم سے زیادہ اچھے مسلمان ہو گئے ہیں.اگر عوام الناس کو واقعہ میں یہ یقین ہوتا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں رہے تو وہ سارے کے سارے تبلیغ میں لگ جاتے اور احمدیوں سے زیادہ عیسائیوں اور مہندوؤں میں سے کھینچ کرلے آتے.لیکن ان کا جوش میں نہ آنا صاف بتاتا ہے.کہ وہ ہم کو مرتد نہیں سمجھتے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو اسلام پر زیادہ
۲۲۵ کے ہو گئے ہیں جیسے پچھلی صفر سنٹر میں جب مار مار کر بعضی احمدیوں سے کہنایا گیا کیا حمدیت جھوٹی ہے تو ایک بوڑھے احمدی سے بھی ڈرا دھمکا کہ یہ کہلوا دیاگیا کہ میں تو بہ کرتا ہوں وہ لوگ اپنے " " مولوی کے پاس گئے اور کہنے لگے مبارک ہو ایک احمدی کو پھر سے ہم نے مسلمان کر لیا ہے وہ کہنے لگا تم بڑے بے وقوف ہو تم نے کچھ نہیں کیا.وہ اسی طرح احمدی ہے.جیسے پہلے تھا کہنے لگے نہیں ہم نے اس سے کہا تو یہ کہ تو اس نے فورا توبہ کرلی کہنے لگا گیا احمدی تو یہ نہیں کرتے وہ نور روزانہ تو بہ کرتے ہیں اس لیے اگر اس نے توبہ کی تو اپنے مذہب کے مطابق کی اگرتم سے ہوتو اسکو جاکر کہو کہ میرے پیچھے آکر نماز پڑھے تب سمجھا جائے گا کہ اس نے احمدیت سے توبہ کی ہے وہ لوگ پھر اس کے پاس گئے تھا تو وہ کمزور اور بوڑھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایمانی عقل اسے دی ہوئی تھی جب دوبارہ لوگ اس کے پاس گئے تو اس نے کہا تو بہ تو میں نے کہ لی تھی پھر اب تم کیوں آئے ہو کہنے لگے ہمارے مولوی نے کہا ہے کہ تم میرے پیچھے آکر نماز پڑھو تب ہم مانیں گے کہ تم نے تو بہ کی ہے.کہنے لگا یہ غلط بات ہے دیکھو نماز پڑھنے کے ستعلیق تو مرزا صاحب بھی کہا کرتے تھے.وہ بھی یہی کہتے تھے کہ نمانہ پڑھو روزہ رکھو.حج کرو.زکواۃ رو - شراب نہ پیور - پوری نہ کرو.جھوٹ نہ بولو.میں نے سمجھا منھا اب تمہارے کہنے سے میں نے تو بہ کر لی ہے تو اب سب ممنوع کام جائز ہو گئے ہیں.اب آئندہ شراب بھی پیئیں گے.کنجریوں کا ناچ بھی کرائیں گے.جھوٹ بھی بولیں گے.بچوریاں بھی کریں گے.لوگوں کا مال بھی کھائیں گے.زکواۃ بالکل نہیں دیں گے.نماز کے قریب نہیں جائیں گے لیکن تم پھر آگئے ہو نماز پڑھوانے اس کا کیا مطلب ہے پھر تو یہ کس بات سے تھی.یہ بات جو اب تم مجھ سے کر دانا چاہتے ہو یہ تو مرزا صاحب بھی کرواتے تھے وہ لوگ مایوس ہو کر اپنے مولوی کے پاس گئے ادرا سے سارا قصہ سنایا.اس نے کہا ئیں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ یہ لوگ بڑے چالاک ہوتے ہیں اس نے تمہیں دھوکہ دیا ہے تو بات یہی ہے کہ اگر واقع میں احمدی ہونے سے ارتداد ہوتا ہو تو خدا تعالیٰ ایک ایک شخص کے بدلہ میں ایک ایک قوم لے آئے لیکن لوگ جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص احمدی ہو جا تا ہے تو وہ اور بھی پکات مسلمان ہو جاتا ہے میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ اس علاقہ کا ایک غریب سا احمدی ہے اس کا سارا خاندان کثر غیر احمدی تھا جب وہ احمدی ہوا تو انہوں نے اُسے خوب مارا اور کہا تم کا فر ہو گئے ہو.لیکن احمدی ہو جانے کے بعد اس میں پہنے ہونے کی عادت پیدا ہوگئی اور آہستہ آہستہ اس کے
متعلق سارے علاقہ میں مشہور ہو گیا کہ یہ شخص سچ بولتا ہے اس علاقہ میں چوریاں بہت ہوتی ہیں اس کے بھائی بند جانور چرا لایا کرتے تھے جس شخص کی چوری ہوتی وہ وہاں آگرہ کہتا کہ اگر یہی شخص کہہ دے کہ تم نے چوری نہیں کی تو ہم مان لیں گے.ورنہ ہم نہیں مانیں گے.ایک دفعہ اس کے بھائی ایک بھینس چرا کر لائے سارے لوگ اکھٹے ہو گئے اور کہنے لگے کھڑا تمہارے ہاں نکلتا ہے.بھینس تم چرا کر لائے ہو.اس لیے بھینس دے دو.انہوں نے کہا خدا کی قسم ہم نے بھینس چوری نہیں کی.کہنے لگے تمہاری کون مانتا ہے تم جھوٹے اور دھو کے باز ہو فلاں شخص کو لاؤ وہ کہہ دے کہ تم نے چوری نہیں کی تو ہم مان لیں گے.انہوں نے کہا اس کو ہم کیسے لائیں وہ تو ہمارے ساتھ ہی نہیں.انہوں نے کہا کہ جب تک تم اسے نہیں لا ڈگے بات نہیں بنے گی.چنانچہ وہ گئے اور اس احمدی کو خوب مارا.اور کہنے لگے چل اور گواہی دے.جب وہ باہر آیا تو کہنے لگے بتاؤ کیا ہم نے بھینس چرائی ہے وہ کہنے لگے چرائی تو ہے انہوں نے اُسے پہلے تو گھورا پھر واپس آکر خوب مارا اور کہنے لگے تم نے سچی گواہی کیوں دی وہ کہنے لگا جب بھینس مجھے نظر آرہی تھی تو ہیں کیسے کہتا کہ تم نے چوری نہیں کی آخر تنگ آکہ وہ باہر آئے اور کہنے لگے یہ تومرزائی کا فر ہے اس کی گواہی کا کیا اعتبار ہے تم ہماری بات سنو ہم قسم کھا جاتے ہیں انہوں نے کہا تم ہزار قسمیں کھاؤ ہمیں اعتبار نہیں یہ ہے تو کافر لیکن بولتا سچ ہے تو ساری دنیا مانتی ہے کہ یہ کافر بڑے بچے ہیں.یہ کا فر بڑے نیک ہیں.یہ جو بات کہیں گے صحیح کہیں گے.پس حقیقت یہی ہے کہ عام مسلمان تو تو ہمیں پکے مسلمان سمجھتے ہیں صرف کچھ مولوی ہیں جو ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے اور ان مولویوں کی عوام کے مقابلہ میں تعداد کے لحاظ سے نسبت ہی کیا ہے مولویوی کی تعداد پاکستان میں پانچ چھ سو ہو گی جو احمدیوں سے بھی کئی حصے تھوڑے ہیں اگر عام مسلمان ہمیں مرتد سمجھتے تو ان میں تبلیغ کا جوش پیدا ہو.جاتا اور وہ ہم میں سے کئی افراد کو واپس لے جاتے.اور پھر دوسری اقوام سے بھی ایک بڑی تعداد کو اسلام میں داخل کر لیتے.لیکن ان لوگوں میں اسلام کی تبلیغ کا وہ جوش ہی پیدا نہیں ہوائیں کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہمیں پہلے مسلمان خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے انہیں احمدیت سے مرتد کہ والیا تو یہ خراب ہو جائیں گے اور احمدیت کے قبول کرنے کی وجہ سے جو خوبیاں ان میں پیدا ہو چکی ہیں وہ بھی جاتی رہیں گی.لاہور میں میرے پاس ایک دفعہ ایک غیر احمدمی مولودی
۲۲۷ رات کے دس بجے آیا اور اس نے مجھے کہا کہ آپ نے یہ درست نہیں کیا کہ اپنی جماعت کے لوگوں کو ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے منع کر دیا ہے اگر آپ انہیں ہمارے پیچھے نمازہ پڑھنے کی اجازت دے دیں تو مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو جائے گا.اور ان کی طاقت بڑھ جائے گی.میں نے کہا مولوی صاحب یہ فرمائیے کہ آپ رات کے دس بجے میرے پاس آئے ہیں اس لیے کہ میں اگر احمدیوں کو آپ لوگوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے کی اجازت دے دونگا تو ان کی طاقت بڑھ جائے گی ہم تو تھوڑے سے ہیں پھر ہمارے شامل ہونے سے آپ کی طاقت کیسے بڑھے گی بتائیے ہم تھوڑے ہیں یا نہیں.کہنے لگا ہیں تو تھوڑے لیکن آپ تبلیغ بہت کرتے ہیں آپ اگر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں تو ان کی طاقت بڑھ جائے گی میں نے کہا اگر ہم تبلیغ کرتے رہے اور وہ مسلمان دیے کے ویسے رہے تو اس سے مسلمانوں کو کیا تر قی مل جائے گی.اور اگر ہم تھوڑے سے لوگوں نے ان کے اثر کو قبول کر لیا اور تبلیغ ترک کر دی تو جو فائدہ اس وقت اسلام کو پہنچ رہا ہے وہ بھی جاتا ہے گا آپ یہ دیکھیں کہ ہم بھی اپنی میں شامل تھے حضرت مرزا صاحب کے ماننے سے ہمارے اندر جوش پیدا ہوا اور ہم نے تبلیغ شروع کر دی ان کے اندر مل گئے تو ہمارا بھی جوش جاتا رہے گا.اور اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اس پر وہ بے ساختہ کہنے لگا میں اپنی بات واپس لیتا ہوں.آپ اپنے لوگوں کو ہمارے پیچھے بالکل نماز نہ پڑھنے دیں کیونکہ اگر انہوں نے عام مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھی تو وہ واقعہ میں خراب ہو جائیں گے اور ان کا اثر قبول کر لیں گے غرض قرآن کریم بتاتا ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے ایک شخص بھی نظام دینی سے الگ ہو جائے تو سیم اس کے بدلہ میں مسلمانوں کو ایک قوم دیا کرتے ہیں اس آیت کے مطابق اگر واقعہ میں احمدی مرتد ہیں تو پانچ لاکھ احمدیوں کے مقابلہ میں ایک ارب غیر مسلم مسلمانوں میں شامل ہونا چاہیئے تھا.یاکم از کم پچاس لاکھ غیر مسلم ان میں شامل ہونا چاہیئے تھا گر پچاس لاکھ تو جانے دو ان میں پانچ ہزار بھی نہیں آیا.اور جو آیا ہے وہ بھی ہمارے ہاتھوں سے آیا ہے یعنی عیسائیوں اور مہندؤں میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے ہیں وہ بھی ہم مرتدوں کے ذریعے ہی ہوئے ہیں حالانکہ خدا تعالے نے یہ کہا تھا کہ ہم ان کے بدلہ میں لائیں گے یہ نہیں کہا تھا کہ ان کے ہاتھوں سے لائیں گے لیکن واقعہ یہ ہوا کہ ان مرتدوں کے ذریعہ ہی اللہ تعالٰی دوسری قوموں سے لوگوں کو اسلام کی طرف لارہا ہے اور اگر جماعت احمدیہ کے افراد اپنے ایمانوں پر مضبوطی سے قائم رہے
اور خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت ان کے شامل حال رہی تو برا یہ آتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ وہ دن آجائے گیا کہ دنیا میں ایک ہی خدا ہو گا اور ایک ہیں رسول محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کی رسالت نہیں ہوگی.اور خدائے واحد کے سوا کسی کو خدا کے نام سے یا دنہیں کیا جائے گا.اور غیر مذا ہب والے بالکل ادنی قوموں کی سی حیثیت اختیار کر لیں گے یہ جنوبی ہند کے خوش نصیب خطہ میں حضرت سیٹھ سید نا حضرت مصلح موعود کا پیغام جنوبی | عبدالر حمن صاحب مدراسی جیسے مخلص اور ایثار ہند کے احمدیوں کے نام پیشہ بزرگ پیدا ہوئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کر کے اخلاص ، قربانی اور اشاعت حق میں ایسا تے قابل رشک نمونہ دکھایا کہ اس کی تعریف حضرت امام الزمان نے نہایت محبت بھرے الفاظ میں فرمائی.سید نا حضرت مصلح موعود نے اس سال جنوبی ہند کے احمدیوں کو اپنی اس امتیازی خصوصیت سے باخبر رکھنے اور اپنی قدیم روایات کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے ایک خصوصی پیغام دیا جو مدراس کے اختبار در آزاد نوجوان ملک لانہ نمبر یں اشاعت پذیر ہوا.اس پیغام کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے برادران ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته ہمارے عزیہ دوست محمد کریم اللہ نوجوان نے خواہش کی ہے کہ نوجوانہ کے جنوبی ہند نمبر کے لیے میں کوئی پیغام لکھ کر سمجھو اؤں ان کی اس خواہش کے احترام میں یہ چند سطور لکھ کر بھجواتا ہوں.احباب کو یہ بات معلوم ہو گی کہ جماعت احمدیہ کی جب بنیا د رکھی گئی تو پہلے اس کا شانداز جواب جنوبی ہند سے ہی ملا تھا.مدر اس کے سیٹھ عبد الرحمن صاحب اللہ رکھا ان ابتدائی مخلصین میں سے تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر بڑی سر گرمی سے احمد بیت اور اسلام کی خدمت میں لگ گئے.اسی طرح مولوی محمد سعید صاحب سه روزنامه الفضل ربوه ۲۴ اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحه ۵٫۴ سے مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود " جلد سوم صفحه ۱۵۸
۲۲۹ حیدر آبادی بھی نہایت ہی ابتدائی مخلص احمدیوں میں سے تھے جن کی تربیت سے حیدرآباد اور تیما پور میں جماعتیں قائم ہوئیں.سیٹھ عبد الرحمن صاحب کے ایک دوست سیٹھ لال جی دال جی تھے وہ باقاعدہ احمدی تو نہیں ہوئے تھے لیکن سلسلہ کی بہت مدد کرتے رہتے تھے.اسی طرح سیٹھ عبد الرحمن صاحب اللہ رکھا کے بعض رشتہ دار مینگلور میں احمدیت کی تبلیغ کرتے تھے.جس کی وجہ ان علاقوں میں کچھ جماعت پھیلی.پس جنوبی ہندا احمدیت میں ایک خاص مقام رکھتا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ اب جبکہ موجودہ تغیرات میں شمالی ہند میں جماعت کے دور ہو گئی ہے جنوبی ہندا اپنے کھوئے ہوئے نظام کو پھر حاصل کرلے گا.اور پھر آسمانی فوج میں اس کے رہنے والے جوق در جوق شامل ہوں گے اور لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں اسلام کا جھنڈا اونچا رکھنے کے لیے آگے آئیں گے اور نہ صرف جنوبی ہند میں اسلام کی جڑیں مضبوط کریں گے بلکہ شمالی ہند کا کھویا ہوا وقار بھی واپس لائیں گے.اور قادیان کی مضبوطی کی فکر سے ہم کو آزاد کر دیں گے.کیونکہ اس وقت ہمارے اور قادیان کے در میان سیاست کا ایک بڑا دریا حائل ہے اور ہم آزادی سے قادیان کی مدد نہیں کر سکتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ وہ دن لائے جس کا کھلا کھلا وعدہ اس کی وحی میں موجود ہے.لیکن جب تک وہ دن نہ آئے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جنوبی ہند کو اسلام کا جھنڈا اونچا رکھنے کا فخر عطا کرے.کے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیب مبعوث ہوئے اس وقت بھی رہی ہوا تھا.آپ مکہ میں پیدا ہوئے لیکن پھر آپ کو شمالی کی طرف ہجرت کر کے جانا پڑا.اس کے بعد آپ کے آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ نے جنوب میں یمین کے ملک کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی.اور جب آپ کی وفات کے بعد ارتداد کا سلسلہ شروع ہوا تو گوئین میں بھی کچھ گڑ بڑ ہوئی مگر جنوبی عرب کے مسلمانوں نے جلد ہی اسلامی جھنڈے کے گرد گھیرا ڈال دیا.اور سارا عرب پھر خلافت اولیٰ کے خدام میں شامل ہو گیا اور اسلام کے لیے قربانیاں کرنے لگ گیا.انڈونیشیا جانے والے لوگ جانتے ہیں کہ انڈونیشیا میں زیادہ تر اسلام حضرموت کے لوگوں کے ذریعہ پھیلا ہے جو کہ جنوبی عرب کے لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں وہاں پائے جاتے ہیں اور اسلام کی طرف لوگوں کو مائل کر رہے ہیں.ہمارے پاس جو لوگ
۲۳۰ انڈونیشیا سے مسلم کے لیے آتے ہیں ان میں بھی حضر موت عرب شامل ہیں.برما میں احمدیت کی تعلیم پھیلانے والے بھی جنوبی ہند کے لوگ ہیں.پس جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہمانہ میں ہوا تھا.اسی طرح اب بھی ہو رہا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت عرب کا ملک تھا اب ہندوستان ہے اس وقت اسلام سمٹ کر جنوبی عرب میں آگیا تھا.اب اسلام اور احمدیت سمٹ کر جنوبی ہند میں آگئے ہیں.پرانے زمانہ میں تو بے لوگوں نے مشرقی افریقہ میں اسلام پھیلا دیا تھا اب امید ہے کہ جنوبی ہند کے لوگ برما ملایا اور انڈنیشیا میں اور اگر چاہے تو جنوبی افریقہ میں احمدیت کو مضبوط کریں گے کیونکہ جنوبی افریقہ میں اس وقت زیادہ آبادی ملائی لوگوں کی ہے جس کی جڑ جنوبی ہند سے گئی ہے.پس اگر جنوبی ہند کے احمدی اپنی ذمہ داری کو مجھیں تو انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ نہ مانے کی تاریخ میں ان کے لیے بڑ کی جگہ محفوظ رکھی گئی ہے.وہ نہ صرف اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے بلکہ اپنے ملک.کے لیے بھی عزتوں کا بے انتہا ذخیرہ جمع کریں گے اور تاریخ میں ان کا نام ایسی گہری سیاسی سے لکھا جائے گا جس کو کوئی مٹا نہ سکے گا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اور میری یہ نیک فنی جو جنوبی ہند کے لوگوں پر مجھے ہے.اور جسے میں الہی تدبیر کا ایک حصہ سمجھتا ہوں پوری ہو جائے اور میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں کہ اسلام کے جھنڈے کو سنوبی ہند کے مسلمانوں نے اسی طرح کھڑا کر دیا ہے بس طرح اسلام کے جھنڈے کو پرانے زمانہ میں جنوبی عرب کے لوگوں نے کھڑا کیا تھا.اور جس طرح عرب حملہ آور دن کے زمانہ میں شمالی میں ہندو مذہب کے جھنڈے کے سرنگوں ہونے کے بعد جنوبی ہند کے لوگوں نے کھڑا رکھا تھا.پس اے دوستو ! اٹھو اخلاص ، ایمان ، عمل اور علم میں نرتی کرو.اپنا حصہ جو خدا کی طرف سے آپ کے لیے مقدر ہے حاصل کرنے کوشش کرو کام بہت ہے اور ثواب بھی بہت ہے لیکن کام کرنے والے تھوڑے ہیں.مگر دل کو اس بات سے مسلی ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كمْ مِن فِئَةٍ قليلةٍ غُلبَتْ فِعَةً كَثِيرَام بِإِذْنِ اللهِ له له البقره : آیت نمبر ۲۵۰
۲۳۱ بہت سی چھوٹی جماعتیں ایسی گزری ہیں جو بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آتی ہیں پس اپنی تعداد کو نہ دیکھو اپنے ایمان اور خدا کے ارادے کو دیکھو مومن کا ایمان اور خدا کا ارادہ لاکھوں گئی تعداد پر غالب آجاتا ہے.فتح آپ کے لیے مقدر ہے.عزت آپ کے گھر کی لونڈی بننے والی ہے لڑائی جھگڑے اور بزدلیوں کو چھوڑ دو.دلیری سے آگے بڑھو اور خدا کے مامور کو قبول کرو.اور پھر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایک دوسرے کے دوش بدوش کھڑے ہو جاؤ.نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کرتے ہوئے دنیا پر چھا جاؤ.یا شہادت کا میام پیا کہ خداتعالی کی گودمیں جا بیٹھو کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی صرف کرنے سے بہتر کوئی عزت کی چیز نہیں.خدا تعالیٰ آپکے ساتھ ہو اور میری آرزوؤں سے بڑھ کر آپ کو کام کرنے کا موقع عطا فرمائے آمین لے فتنہ منافقین کے باوجود اس سال کا ملبسہ سالانہ منعقدہ (۱۲ جلسه سالانه قادیان ۱۹۵۶ء اکتوبر) نہایت کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اس جلسہ کے لیے بھی حضرت مصلح موعودؓ نے حسب ذیل روح پر در پیغام دیا جو مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل پرنسپل جامعتہ المبشرين ربوہ نے جلسہ کے افتتاح کے موقعہ پر پڑھ کر سنایا.بسم الله الرحمن الرحیم برادران جماعت احمدیہ سند دستان! تحدة وفضل على رسوله الكريم السلام علیکم درحمتہ اللہ وبہ کا تره صدر انجمن احمدیہ قادیان کی اور ناظر دعوت و تبلیغ قادیان کی ناسنجر بہ کاری کی وجہ سے اس دفع چلیہ میں بہت گڑ بڑ ہوگئی ورنہ امید تھی کہ پانچ ساڑھے پانچ سو آدمی اس دفعہ جلسہ پر ضرور پہنچ جاتا مگر اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے دو سو سے کچھ اوپر پہنچ جائیں گے.اگلے سالوں میں انشاء اللہ اگر صدر انجمن احمدیہ اور ناظر دعوت و تبلیغ نے اس تجربہ سے فائدہ اٹھایا تو یہ تعداد بڑھتی چلی جائے گی اس جلسہ پر ایک منافق بھی آرہا ہے آپ ہوشیار پر میں مومن کو منافق گراہ نہیں کر سکتا مگر اس کی ایمانی ه اختبار بدر اور اکتوبر ۱۹۵۶ء صلا
غیرت کو ضائع کر سکتا ہے.پس آپ لوگوں کو ایمانی غیرت دکھانی چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة و السلام ہندوستان میں پیدا ہوئے اور سند دستان میں ہی فوت ہوئے اور وہیں آپ مدفون بھی ہیں.اور حضرت خلیفہ اول...بھی.آجکل حضرت خلیفہ اول کی اولا د نے پاکستان میں ایک بڑا فتنہ اٹھایا ہوا ہے.مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو خود دور کر دے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ میری اور سلسلہ کی مدد کر تا رہا ہے.لیکن چونکہ فتنے انسان اٹھاتے ہیں.انسانوں کا بھی فرض ہوتا ہے کہ درہ اپنی تدبیروں سے فتنوں کو دور کریں اور سب سے زیادہ یہ فرض قادیان کے لوگوں پر ہے.میری خلافت کے لیے جب جماعت نے رائے دی تو اس وقت سب سے زیادہ افراد قادیان کے تھے اور اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے الہام کیا کہ اسے قادیان کی جماعت مبارک ہو سب سے پہلے برکات خلافت تم پر ہی اترتی ہیں ، اب گوئیں دور ہوں مگر مجھے یقین ہے کہ اب برکات خلافت سب سے پہلے قادیان ہی کی جماعت پر اترتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے سارے ہندوستان کی جماعتوں پر.آج سے پہلے بھی جماعت میں فتنے اٹھے اور بعض قادیان کے آدمی بھی ملوث ہوئے مگر ایک بہت بڑی اکثریت ہمیشہ فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑی ہو گئی.قادیان کے محلوں کو آباد کرنے کا ثواب بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے ہی دیا اور ربوہ کے تو ایک ایک انچ کے آباد کرنے کا ثواب مجھے دیا.گور بوہ کی اکثریت ایمان پر قائم ہے مگر با وجود اس کے کہ ربوہ والوں پر میرا زیادہ احسان تھا میں نے تین سال کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس شہر کو آباد کیا جب کہ گورنمنٹ آف انڈیا دس سال ہیں چند می گڑھ آبا د نہیں کر سکی.اور اس وقت ربوہ میں تین کالج اور تین سکول ہیں مگر پھر بھی ربوہ کے مومن اس نسبت سے نہیں ہیں میں نسبت میں قادیان کے مومن ہوا کرتے تھے.عبد الرحمن مصری کے فتنہ کے وقت تین سال میں ایک یا دو آدمی کے متعلق شکایت تھی کہ اس کو ملنے گئے ہیں.مگر اس وقت تک تین یا چار کے متعلق شکایت آچکی ہے کہ عبد المنان سے ملے ہیں.تین چار کی تعداد بہت ہی کم ہے.مگر قادیان کے کمزوروں کی نسبت زیادہ ہے.اب میں آپ لوگوں سے اور تمام ہندوستان کے احمدی له الفضل - ۲رجون ۱۹۱۴ ء مرا
۲۳۳ افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے دائرہ تبلیغ کو وسیع کریں اور مہند دوستان کے کونے کونے میں احمدیت کو پھیلا دیں.اور اس سال میں کم از کم پندرہ مولوی طیار کر کے اطلاع دیں.اور آئندہ ہر سال میں یہ تعداد بڑھتی چلی جائے یہاں تک کہ سینکڑوں تک جا پہنچے.یہ تعداد گومشکل ہے مگر ناممکن نہیں.صرف ضرورت ہے نیک نمونہ کی.اور متواتر عزم کی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کیساتھ ہو.اور مجھے جلد اطلاع ہے کہ شمال وسطی اور جنوبی ہند میں لاکھوں لاکھ احمدی ہو چکا ہے.آمین مرز امحمود احمد خلیفہ اسیح الثانی ربوده ۱۹۵۶ ۱۰ راست..اس جلسہ کے کو الفت کی تفصیل صاحبزادہ مرزا رحیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ قادیان کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے مرکز قادیان کا ۶۵ واں سالانہ جلسہ بخیر و خوبی انجام پذیہ ہوگیا ہے.جلسہ کا پہلا دن بادلوں سے گھرا ہوا تھا.اور موسم کی خرابی کی وجہ سے جلسہ مسجد اقصی میں کہنا پڑا.موسم کی خرابی اور کچھ شارع عام پیر جلسہ کا انعقاد نہو سکنے کی وجہ سے پہلے دن غیر مسلم متھوڑی تعداد میں.تشریف لائے لیکن دوسرے اور تیرے دن خدا کے فضل سے چار پانچ سو کی تعداد میں غیرمسلم جلسہ سنتے رہے بوجہ دسہرا کے تہوار کے اس دفعہ ہند و نسبتاً کم تعداد میں شامل ہو سکے لیکن سکھوں نے کافی دلچسپی لی.شہر کے معززین مردار گور دیال سنگھ صاحب با تجوه با را بلونت سنگھ صحاب صوبیداریٹھا کر سنگھ صاحب.سردار چن سنگھ صاحب.سردار پورن سنگھ اور پنڈت ملک راج وغیر ہم شمایل جلسہ ہوئے اور توجہ کے ساتھہ اسلام کی تبلیغ سنتے رہے ہمارے نواحمدی سردار در ثہ سنگھ ڈیر یوالہ سے نوا آدمی ساتھ لائے.اور جلسہ سنتے رہے.اسی طرح موضع بھٹیاں سے چھ دوست آئے ملحقہ دیہات سے اور بھی متفرق اصحاب آئے.لدھیانہ سے مسٹر کانشی رام صاحب چاولہ جو مشہور مصنف ہیں اور ۲، مذہبی اور اخلاقی کتابوں کے مصنف ہیں تشریف لائے اپنی کتابوں کے نمونہ بھی ساتھ لائے.سرکاری افسران میں سے سردار جھنڈا سنگھ صاحب D.M.5 بٹالہ تحصیلدار صاحب بٹالہ اور پولیس افسران بالہ و قادیان تشریف لاتے رہے.اور سب نے اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو سه بندر ۱۲۰ اکتویه ۶۱۹۵۶
۲۳۴ سکون اور توجہ سے منا چوک اور جلسہ گاہ کے ارد گرد پولیس کے پہرہ کا انتظام بہت تسلی بخش تھا.جلسہ کی تقاریہ شائع شدہ پروگرام کے مطابق نہ ہو سکیں کیوں کہ مکرم مولوی محمد سلیم صاحب - مکرم گیانی واحد سین صاحب گیانی عباداللہ صاحب اور مکرم پرو فیسر اختر احمد صاحب تشریف دلا سکے گیانی واحد حسین صاحب کی غیر حاضری غیر مسلم دوستوں نے خاص طور پر محسوس کی.ان کی پنجابی تقریر بہت مقبول ہوتی ہے.جلسہ کی تقاریر خدا کے فضل سے مجموعی طور پر اچھی رہیں.اور ان کا اچھا اثر پڑا.کریم مولوی ابوالعطاء صاحب اور مکرم مولوی امینی صاحب کی تقاریہ خاص طور پر موثر اور مفید ثابت ہوئیں.کریم میشیخ بشیر احمد صاحب کی رات کے تربیتی اجلاس میں بہت اچھی تقریر ہوئی.مریم سلیم الحجابی صاحب (جو ملک شام سے تشریف لائے ہیں) نے جلسہ کے اختتام کے موقع پر اردو میں بہت مؤثر تقریر کی جس میں دعاؤں کی قبولیت کا ذکر بہت عمدہ پیرا یہ میں کیا.ان کے مخصوص جوشیلے انداز کا غیر مسلموں پر بھی بہت انٹر ہوا فالحمد لله.حضرت اقدس ایدہ اللہ کا پیغام مکرم مولوی ابو العطاء صاحب نے پڑھ کر سنایا.اور اس کی نقول سائیکو شامل کر کے احباب میں تقسیم کی گئیں مستورات کے جلسہ کا پہلے دن بیت المبارک اور ملحقہ مکان حضرت.....(اماں جان - ناقل) میں اور دوسرے دو دنوں میں جلسہ گاہ کے پاس مولوی عبد المغنی صاحب مجوم کے مکان کے لان میں انتظام کیا گیا.مردانہ جلسہ کی تقاریر بذریعہ لاؤڈ سپیکر سنی جاتی رہیں گو افسوس ہے کہ ایک دفعہ لاؤڈ سپیکر کی خرابی کی وجہ سے مستورات کو تکلیف ہوئی.اختامی تقریر مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی نے فرمائی جس میں دعاؤں وغیرہ کے اعلانات اور حکام اور غیر مسلم حضرات کا شکریہ ادا کیا گیا اس سے پہلے میں نے بھی چند فقرات میں دوستوں کو برکات خلافت سے متمتع ہونے اور دیگر ضروری امور کی طرف توجہ دلائی.اکٹر نظمیں ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم اور اُن کے لڑکے یونس احمد صاحب اسلم درویش نے خوش الحانی سے پڑھیں نظموں میں حضرت ایدہ اللہ تعالیٰ کی نظم..........میں دنیا میں سب کا بھلاپ ہتا ہوں
۲۳۵ اور حضرت نواب مبارک بیگم صاحبہ کی نظم درویشان قادیان سے متعلق خاص طور پر موثر ثابت ہوئی.غیر مسلموں نے بھی اس نظموں کو پسند کیا ایک اجلاس کی صدارت ختر می صاحبزادہ مرزا نور احمد صاحب نے فرمائی اور خدا کے فضل سے اس فریضہ کو باحسن ادا کیا.محترم خانصاحب محمد یوسف صاحب سابق پرائیویٹ سیکرٹری نے بھی ایک اجلاس کی صدارت فرمائی.رات کے تربیتی اجلاس کی صدارت کرم سید محمد سلمان صاحب پراونشل امیر صوبہ بہار نے کی.جلسہ کے پہلے دن بارشوں کی وجہ سے بٹالہ قادیان کی گاڑی بند ہوگئی لیکن آخری دن جب کے مہمانوں نے واپس جانا تھا خدا تعالیٰ کے فضل سے گاڑی کا راستہ درست ہو گیا اور سفر کی سہولت پیدا ہو گئی.جلسہ کے دوران میں بارش کے رکنے اور پھر جلسہ کے بعد گاڑی کے جاری ہو جانے کا غیر طموں پر بھی خاص اثر ہوا اور وہ خود ہی نشان رحمت کا ذکر کرنے لگے.آخری دعا خدا کے فضل سے بہت بہت سونہ و گدانا دیگر یہ دیکا سے ہوئی.جلسہ کے آغاز میں مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب امیر مقامی نے بوائے احمدیت لہرایا اور ہندوستانی اور پاکستانی جماعتوں کے احباب نے انتظام کے ماتحت اس کا پہرہ دیا.جلسہ میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور خلافت حقہ کے ساتھ عقیدت اور اطاعت کا حسب ذیل یہ دینه و لبوشن متفقہ طور پر پاس کیا گیا.ہم افراد جماعت ہائے احمدیہ ہند دوستان و پاکستان جو جلسہ سالانہ قادیان کے مقدس اجتماع میں جمع ہوئے ہیں اپنے مقدس اولو العزم اور برحق امام سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ولی خلوص اور عقیدت کا ایک مرتبہ پھر اظہار کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم آپ کو آیت استخلاف کے مالحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقر کردہ خلیفہ یقین کرتے ہیں حضرت خلیفہ اول کی اولاد اور بعض دوسرے منافقین نے خلافت حقہ ثانیہ کے خلاف جو شرارت انگیز فتنہ اٹھایا ہوا ہے.اس کے خلات انتہائی نفرت کا اظہارہ کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں.کہ خلافت ثانیہ بر حق اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور خدا تعالیٰ کے مقرر کہ وہ خلیفہ کو کوئی معزول نہیں کر سکتا جو لوگ خلافت حضہ کے خلاف فتنہ انگیزی کر ر ہے ہیں وہ اپنے پیش رو منافقین کی طرح خائب و خاسر اور نامراد ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کے نور کو اپنے وعدہ کے مطابق پھیلاتا چلا جائے گا اور سلسلہ حقہ کو خلافت کی برکت سے دنیا پر غالب
کرے گا سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام میں قادیان کی آبادی ترقی.وسعت اور برکت کا جو تعلق اپنے پاک وجود سے بتایا ہے ہم سب عملی طور پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ان برکات و فیوض کا قادیان کے متعلق مشاہدہ کر چکے ہیں.ملکی تقسیم کے وقت اور بعد میں بھی ان خاص آسمانی بر کاست و تائیدات کو جو خلافت حقہ ثانیہ کے طفیل ہم پر نازل ہو رہی ہیں ہم روز و شب دیکھ رہے ہیں.ہمارا عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور وہی بناتا رہے گا.خلیفہ بننے کے لیے سازشیں اور منصوبے کرنا اسلام کی رو سے لعنتی کام ہے اور ایسے لوگ ضرور ناکام و نامراد ریں گے ملے اس موقع پر اردو انگریزی ہندی اور گور سکھی لٹریچر تقریباً ایک ہزار کی تعداد میں غیر مسلموں میں تقسیم کیا گیا.احباب جماعت ہائے ہندوستان کے لیے بھی پہلے سے لٹریچر تیار کر رکھا تھا جو تمام جماعتوں کے نمائندوں کو درستی طور پر دے دیا گیا.ہندوستان سے ۵۳ ار احباب اور پاکستان سے ۴۳ ۴ زائرین شریک جلسہ ہوئے.........کشمیر سے اس دفعہ دو تین سو کی تعداد میں احباب جلسہ پر آنے کے لیے تیار تھے.لیکن بین وقت پر سخت طوفان باراں کی وجہ سے رستے مسدود ہو گئے اور آٹھ دس افراد جو یہاں پہنچے وہ بھی معجزانہ طور پہ چکر آئے اسے مرکز میں احمدیہ انٹر نیشنل پریس حمدی انٹرنیشنل پیس لیوسی ایشن کی ایک اہم تقریب ) ایسوسی ایشن کے نام سے بری احمدی صحافیوں کی ایک تنظیم قائم تھی.حسین کے صدر مولانا ابو العطا صاحب ایڈیٹر ماہنامہ الفرقان تھے.۱۸ کی اکتوریوں کو اس ایسوسی ایشن کی طرف سے حضرت سیٹہ عبداللہ الہ دین صاحب اور کرم محمدکریم نشد صاحب ایڈیٹر آنزا دلو جوان مدیری اس کے اعزاز میں ایک اہم تقریب منعقد ہوئی.جس میں ا روزنامه العقل ربوه ۱۲۰ اکتوبر ۵۶ مادمت صر شه روزنامه الفضل ربوه ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۶ ص مزید تفصیل کے لیے ملاخطہ ہجہ اخبار "بدر" "قادیان سر اکتوبر ۹۵۶
از راه شفقت سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے بھی شرکت فرمائی.اس تقریب میں ممبران ایسوسی ایشن کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب - مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر ناظر اعلیٰ مکرم حافظ عبد السلام صاحب وکیل اعلیٰ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اصلاح و ارشاد مکرم صاحبزادہ میاں داؤ د احمد صاحب ناظر حفاظت مکرم سیٹھ علی محمد الہ دین صاحب کرم سیٹھ یوسف الہ دین صاحب اور بعض دیگر احباب بھی شریک ہوئے.تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو جامعتہ المبشرین کے اندر معینی طالبعلم راڈن جوانوں صاحب نے کی بعدہ مولانا ابو العطاء صاحب ایڈیٹر ماہنامہ الفرقان“ نے تقریب کی غرض نمایت بیان کرتے ہوئے اس امر پہ انتہائی خوشی دوسرت کا اظہار کیا کہ سیدنا حضرت........ایدہ اللہ تعالے نے اس تقریب میں شمولیت فرما کہ احمدیہ انٹر نیشنل پریس ایسوسی ایشن کو سر فرانہ فرمایا ہے اور از راہ نواز ش عمران ایسوسی ایشن کو یہ موقعہ عطا فرمایا ہے کہ وہ حضور کی زریں ہدایات اور روح پر در ارشادات سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل کریں.بعدہ مکرم محمد کریم اللہ صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے انہیں سیدنا حضرت مصلح موعود سے ملاقات اور ربوہ کی زیارت کا شرف عطا فرمایا اس کے بعد آپ نے اس امر پہ روشنی ڈالی کہ صحافت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جنون کی ضرورت ہے آپ نے کہا ضروری ہے کہ یہ جنون ایک خاص نظر یہ پر مبنی ہو اور وہ نظریہ صحافی کے لیے مقصد حیات کا درجہ رکھتا ہو جب تک کسی صحافی میں یہ جنونی کیفیت اور تڑپ پیدا نہ ہوگی وہ ان مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکے گا.سیو ایک اختیار کو کامیابی سے چلانے میں ابتدا پیش آتی ہیں.اس ضمن میں آپ نے ان مشکلات پر روشنی ڈالی جن سے ابتدائی مراحل میں ہفت روزہ " آزاد نوجوان کو دوچار ہونا پڑا.آخر میں حضرت امام ہمام المصلح الموعود نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے محمد کریم اللہ صاحب کے اس نظریہ کی تائید فرمائی کہ صحافت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایک جنون کی ضرورت ہے حضور نے فرمایا میں اس بات کی تائید محض عقلی دلیل کی بناء پر نہیں بلکہ عملی تجربہ کی بنا پر کرتا ہوں کیونکہ میری زندگی بھی صحافت سے ہی شروع ہوئی ہے.میں ابھی چودہ پندرہ سال کا تھا کہ میں نے
۲۳۸ تشیة الاقتان تنکالا.اور پھر تو میں پچیس سال کی عمر میں الفضل " جاری کیا.حضور نے ان ہردو اخباروں کو نکالنے میں ابتدائی مشکلات اور محنت و مشقت پر روشنی ڈالنے کے بعد ان ہر دو کی افادیت بلند معیار اور غیروں تک میں بھی ان کی مقبولیت کے متعدد واقعات بیان فرمائے.اور نوجوانوں کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے نوجوان بھی اس قسم کے شعف اور عزم و استقلال کی بدولت آج صحافت کے میدان میں ترقی کر کے دین کی خدمت کا فریضہ ادا نہ کرسکیں.دو دوران تقریر میں حضور نے ٹھوس مضامین اور ہلکے پھلکے شذرات کی علیحدہ علیحد اہمیت بیان کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ دونوں قسم کے مضامین موقع اور عمل کے لحاظ سے اپنی اپنی جگہ خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں.حضور نے نہایت لطیف مثالیں دے دے کر ان کے بعض فنی پہلوؤں کی بھی وضاحت فرمائی " واذ الف نبوت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موجودہ زمانہ میں صحافت کی اہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس امر پر خاص زور دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں پر جنہیں اللہ تعالیٰ نے "سلطان القلم قرار دیا ہے اس ضمن میں کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان ذمہ داریوں کو کما حقہ کس طرح ادا کیا جا سکتا ہے.آخر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اجتماعی دعا کرائی اور یہ با برکت تقریب اختتام پذیر ہوئی اپنے انصار اللہ کوحضرت صلح موعود کی قیمتی نصائح اساس سال اور میں اعلی انصار الشر مجلس الله مرکز یہ کا دوسرا سالانہ اجتماع ۲۸/۲۰ اکتوبر کو منعقد ہوا.جس میں حضور نے انصارہ کو پیش قیمت نصائح سے نوازا.اور خاص طور پر نظام خلافت کی عظیم برکات پر روشنی ڈالی.جیسا کہ پہلے باب میں ذکر آچکا ہے.اس کے علاوہ حضور نے جن ضروری امور کی طرف احباب جماعت کو متوجہ فرمایا.ان کا خلاصہ حضور ہی کے مبارک الفاظ میں سیر و قرطاس کیا جاتا ہے.حضور نے لفظ انصار اللہ کی تاریخی عظمت و اہمیت واضح له روزنامه الفضل ریوه ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۵۸ در صفحه او ۸
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- " آپ لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے یہ نام قرآنی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے قرآنی تاریخ نہیں ایک دفعہ تو حضرت علی علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں چنانچہ جب آپ نے فرمايا مَنْ أَنْصَارِ إِلَى اللهِ تو آپ کے حواریوں نے کہا نَحْنُ انصار الله کہ ہم اللہ تعالے کے انصار ہیں.دوسری جگہ اللہ تعالی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ مہاجرین کا تھا اور ایک گروہ انصار کا تھا گویا یہ نام قرآنی تاریخ میں دو دفعہ آیا ہے ایک جگہ پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق آیا ہے اور ایک جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نہ کے ایک حصہ کو انصار کہا گیا ہے جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی انصار کا دو جگہ ذکر آیا ہے.ایک دفعہ جب حضرت خلیفہ اول رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ کی پیغامیوں نے مخالفت کی تو میں نے انصار اللہ کی ایک جماعت قائم کی اور دوسری دفعہ حیب جماعت کے بچوں نوجوانوں بوڑھوں اور عورتوں کی تنظیم کی گئی تو چالیس سال سے اوپر کے مردوں کی جماعت کا نام انصار رکھا گیا گویا جس طرح قرآن کریم میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اس طرح جماعت احمدیہ میں بھی دو جماعتوں کا نام الضار اللہ رکھا گیا.پہلے جن لوگوں کا نام الضار اللہ رکھا گیا اُن میں سے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رفقاء تھے.کیونکہ جماعت ۱۹۱۳-۱ء میں بنائی گئی تھی.اور اس.تت اکثر رفقاء زندہ تھے.اور اس جماعت میں بھی اکثر وہی شامل تھے.اسی طرح قرآن کریم میں بھی جن انصار کا ذکر آتا ہے اُن میں زیادہ ترمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے صحابہ شامل تھے.دوسری دفعہ جماعت احمدیہ میں آپ لوگوں کا نام اسی طرح انصار رکھا گیا.جس طرح قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونی نبی حضرت مسیح ناصری کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے آپ لوگوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کم ہیں اور زیادہ حصہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے میری بیعت کی ہے.اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام والی بات بھی پوری ہوگئی یعنی جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا تھا اسی طرح مثیل مسیح موعود کے ساتھیوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے.گویا قرآنی تاریخ میں بھی دو زمانوں میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا.اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں تھی
۲۴۰ دو گروہ ہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء اب بھی زندہ میں مگر اب ان کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے صحابی اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو نبی کی زندگی میں اس کے سامنے آگیا ہو گو یا ز یادہ تر یہ لفظ انہی لوگوں پر اطلاق پاتا ہے جنہوں نے کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ہو.اور اس کی باتیں سنی ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نشر میں فوت ہوئے ہیں.اس لیے کہ شخص بھی آپ کا صحابی کہلا سکتا ہے میں نے خواہ آپ کی صحبت سے فائدہ نہ اٹھایا ہو لیکن آپ کے زمانہ میں پیدا ہوا ہو اور اس کا باپ اسے استھا کہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے سامنے سے گیا ہو لیکن یہ ادنی درجہ کا رفیق ہوگا.اعلی درجہ کار نین وہی ہے جس نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں اور جن لوگوں نے آپ کی صحبت سے فائدہ ا ا یا اور آپ کی باتیں سنیں ان کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے اب صرف تین چار آدمی ہی ایسے رہ گئے ہیں جن کے متعلق مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح علیہ الصلواۃ و السلام کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنی ہی ممکن ہے اگر زیادہ تلائم کیا جائے تو ان کی تعداد تیں چالیس تک پہنچ جائے اب ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں اگر ایسے میں چالیس رفقاء بھی ہوں تب بھی یہ تعداد بہت کم ہے.اس وقت جماعت میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسے شخص کی بیعت کی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا متبع تھا.اور ان کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا تھا حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تو كَانَ مُوسَی وَ عِيْى حَيَّيْنِ سَمَاوَسِعَهُمَا إِلا إِتْبَاعِی اگر موسیٰ اور علیمی علیہما السلام میرے زمانہ میں نہ مندہ ہوئے تو وہ میرے متبع ہوتے.غرض اس وقت جماعت کے انصار اللہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ایک متبع اور میل کے ذریعہ اسلام کی خدمت کا موقع ملا اور وہ آپ لوگ ہیں.گویا حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال ا تفسیر ابن کثیر از حافظ عما والدین ابی الفداء اسمعیل بن عمرو بن كثير الفقرشی برحاشیه فتح البیان جلد ۲ ۳۲۶ مطبوعه المطبع الكبرى الميرية بولاق مصر الحمية سند ۱۳۰۰ حد الطبعة الاولى
۲۴۱ آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے.میں طرح اُن کے حواریوں کو انصار اللہ کہا گیا تھا.اسی طرح مثیل مسیح موعود کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے.پھر آپ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے انصار کی بات بھی پائی جاتی ہے.یعنے جس طرح انصار اللہ میں وہی لوگ شامل تھے جو آپ کے صحابہ تھے.اسی طرح آپ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رفیق شامل ہیں.گویا آپ لوگوں میں دونوں مثالیں پائی جاتی ہیں.آپ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے رفیق بھی ہیں جنہیں انصار الله کہا جاتا ہے.جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو انصارہ کہا گیا.پھر جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عیسی علیہ السّلام کو اپنا متبع قرار دیا ہے اور ان کے صحابہ کو بھی انصاراللہ کہا گیا ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے ایک متبع کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے.شاید بعض لوگ یہ سمجھیں کہ یہ درجہ کم ہے لیکن اگر چالیس سال اور گزر گئے تو اس زمانہ کے لوگ تمہارے زمانہ کے لوگوں کو بھی تلاش کریں گے اسلامی تاریخ میں صحابہ سے ملنے والوں کو تابعی کہا گیا ہے کیونکہ وہ صحابہ کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو گئے تھے.اور ایک تبع تابعی کا درجہ ہے یعنی وہ لوگ جو تابعین کے ذریعے صحابہ کے ذریعہ ہوئے اور آگے صحابہ کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوئے اس طرح تین درجے بن گئے ایک صحابی دوسرے تابعی اور تیرے تبع تابعی.صحابی وہ جنہوں نے محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت سے فائدہ اٹھایا.اور آپ کی باتیں سنیں.تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کو دیکھا اور تبع تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا دیوی عاشق تو بہت کم حوصلہ ہوتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے.تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں مرا دل پھیر دے مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا یہ گر مسلمانوں کی محبت رسول دیکھو جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ فوت ہوئے تو انہوں نے آپ سے قریب ہونے کے لیے تابعی کا درجہ نکال لیا اور جب تابعی ختم ہو گئے تو انہوں نے تبع تابعین کا درجہ نکال لیا.اس شاعر نے تو کہا تھا.تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں.میرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
۲۴۲ گرمیاں یہ محدت ہوگئی ہے کہ تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر ان کے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر تیرہ سوسال تک برابر چاہتا چلا جاؤں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا بلکہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ کے چاہنے والوں کو چاہتے ہیں چاہے وہ صحابی ہوں تابعی ہوں.تبع تابعی ہوں ا تبر تبع تابعی ہوں اور ان کے بعد یہ سلسلہ خواہ کہاں تک چلا جائے ہم کو وہ سب لوگ پیارے لگتے ہیں کہ ان کے ذریعہ ہم کسی نہ کسی طرح رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو جاتے ہیں.محدثین کو اس بات پر بڑا فخر ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی سی سندات سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچے گئے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ میں گیارہ بارہ رسا دیوں کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک جا پہنچتا ہوں.آپ کو بعض ایسے اساتذہ مل گئے تھے وہ آپ کو گیارہ بارہ رادیوں کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے تھے اور آپ اس بات پر بڑا فخر کیا کرتے تھے.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع نے آپ کی صحابیت کو بارہ تیرہ درجوں تک پہنچا دیا ہے اور اس پر فخر کیا ہے.تو آپ لوگ یا رفیق ہیں یا تابعی ہیں ابھی تبع تابعین کا وقت نہیں آیا.ان دونوں دریوں کے ذریعہ اللہ تعالے نے آپ کو عزت بخشی ہے اس عزت کا میں کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انصار کا ذکر فرمایا ہے اور پھر ان کی قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند تھیں چنا نچہ جب ہم انصاری کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں کہ اگر آپ لوگ جو انصار اللہ ہیں ان کے نقش قدم پر چلیں تو یقیناً اسلام اور احمدیت دور نہ در تک پھیل جائے.اور اتنی طاقت پکڑے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ پہ نہ ٹھہر سکے" ہے یاد رکھو تمہارا نام انصار اللہ ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار.گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے.اور اللہ تعالیٰ از لی اور ابدی ہے.اس لیے تم کو بھی کوشش کرنے چاہیے کہ اہدیت کے مظہر ہو جاؤ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لیے قائم رکھتے چلے جاؤ اه روزنامه الفضل ریوه ۲۱ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۳۲
۲۴۳ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسل چلتا چلا جادے.اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے.اس لیے میں الطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی.اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا.یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں.اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو اگلی نسل انصار اللہ کی اعلیٰ ہوگی.میں نے سیڑھیاں بنا دی ہیں آگے کام کہ نا تمہارا کام ہے.پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے.دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ نا ہے.تیسری سیڑھی انصار اللہ ہے.اور جو بھی سیڑھی خدا تعا نے ہے.تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرد اور دوسری طرف خدا تعالی سے دعائیں مانگو تو چاروں سیڑھیاں مکمل ہو جائیں گی اگر یہات اطفال اور خدام ٹھیک ہو جائیں اور پھر تم بھی دعائیں کرو.اور خدا تعالی سے تعلق پیدا کرو.تو پھر تمہارے لیے خوش سے نیچے کوئی جگہ نہیں اور جو عرش پر چلا جائے وہ بالکل محفوظ ہوجاتا ہے.دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو زیادہ سے زیادہ سو دو سوفٹ پر حملہ کرسکتی ہے.وہ عرش پر حملہ نہیں کر سکتی.پس اگر تم اپنی اصلاح کر لو گے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو گے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے متعلق قائم ہو جائے گا اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طو رپر رہے گی.اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی.عیسائیوں کی تعداد تو تمام کوششوں کے بعد مسلمانوں سے قریباً دگنی ہوئی ہے مگر تمہارے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہے.کہ اللہ تعالی تمہاری تعداد کو اتنا بڑھا دے گا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دوسرے تمام مذاہب ہندو ازم - بدھ مت - عیسائیت اور شنگوازم وغیرہ کے پیر و تمہارے مقابلہ میں بالکل ادنی اقوام کی طرح رہ جائیں گے.یعنی ان کی تعداد تمہارے مقابلہ میں ویسی ہی بے حقیقت ہوگی جیسے آجکل ادنی اقوام کی دوسرے مقابلہ میں ہے وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.یقیناً آئے گا لیکن جب آئے گا تو اس ذریعہ سے آئے گا کہ خلافت کو قائم کھا جائے تبلیغ اسلام کو قائم رکھا جائے تحریک جدید کو مضبوط کیا جائے.اشاعت اسلام کے لیے جماعت میں شغف زیادہ ہو اور دنیا کے کسی کونہ کو بھی بغیر مبلغ کے نہ چھوڑا جائے " سے با روزنامه الفضل ربوده ۲۴ مارچ ۱۹۵۷ء ص ۳
۲۴۴ انصار اللہ کے اس دوسرے سالانہ نائب صدر علی انصار الله مرکزیہ کی ایمان افروز تقریر اجتماع کے موقع پر حضرت صاحت لودہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے جو تقریر فرمائی وہ جماعتی تربیت کے اعتبار سے خاص اہمیت رکھتی تھی میں میں آپ نے نہایت پر شوکت الفاظ میں تین بنیادی نکات پر روشنی ڈالی.اول نہ کتب حضرت مسیح موعود کی اہمیت : - دوم : نه ناره خدا پر ایمان :- سوم : شیطانی علیہ سے بیچنے کا طریق :- ان بنیادی نکات کی تفصیل آپ ہی کے ظلم سے در ج ذیل کی جاتی ہیں:.پہلا نکتہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی کتب میں تو کچھ ہے قرآن کریم کی تفسیر ہی ہے ان کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو قرآن کریم کی تفسیر نہ ہو.اور قرآن کریم وہ نور ہے جو اللہ تعالی نے قیمت تک انسانی روحانی پیاس بجھانے کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة و السلام کی کتب دور حاضر کے مطابق قرآن کریم کی صحیح تفسیر ہیں.اگر ہم ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے اور انہیں بند رکھتے ہیں.تو گویا ہم قرآن کریم کو مہجور کے طور پر چھوڑ دیتے ہیں.بے شک گزشتہ زمانہ میں قرآن کریم کی متعدد تفاسیر لکھی گئی ہیں.اور بعض اپنے زمانہ کے لحاظ سے بہت اچھی تھیں.لیکن اب ان تفاسیر کا نہ مانہ گزر گیا ہے.لیکن قرآن کریم کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور کبھی ختم نہیں ہو سکتا.اس لیے زمانے کے لیے اس وقت تفسیر کا ایک نیا دروازہ کھولا گیا ہے اور اس دروازہ کر کھو لنے والا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مبارک وجو د ہے.اگر اس کیطرف سے غفلت برتیں گے تو نہ صرف ہم خود ایک بڑے گناہ کے مرتکب ہوں گے بلکہ اپنی اولادوں پر بھی سخت ظلم کریں گے.بہار ایک نہایت مخلص دوست ہیں ہمیں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ دین کے لیے بڑی قربانی کرنے والے ہیں ان کا ایک بچہ ہمارے کالج میں پڑھتا ہے.ایک دن مجھے اس کے
۲۴۵ متعلق معلوم ہوا کہ اس کے منہ سے بعض ایسے فقرے نکلے ہیں جو ایک احمدی کے منہ سے نہیں نکلنے چاہئیں ایک سیکنڈ کے لیے میری طبیعت میں سخنت عفتہ پیدا ہوا کہ اس نے یہ بیہودگی گیوں کی ہے.لیکن فوراً ہی میرا خیال اس طرف گیا کہ شاید اس میں اس کا کوئی قصور نہ ہو بلکہ کسی اور جگہ کمزوری ہو.جو ان حضرات کا موجب ہوئی ہو.اس خیال کے آنے پر میں نے اسے اپنے پاس بلایا اور بڑے پیار سے دریافت کیا کہ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب میں سے کون کونسی کتب پڑھی ہیں وہ بڑے آرام سے کہنے لگا.کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی کوئی کتاب نہیں پڑھی.حالانکہ دو سیکنڈ یا تھرڈ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا.اس پر نہیں نے سمجھا کہ جو فقرے اس کے منہ سے نکلے ہیں وہ اس بات کا نتیجہ تھے کہ وہ اس تعلیم سے ناواقف ہے جو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام لائے ہیں.پس اگر ہم اپنی اولاد میں صحیح روحانیت پیدا کرنے کی طرف بے توجہ ہو جائیں تو ہم بڑے ظالم ہیں خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ ان حالات میں ہماری اولاد سے کیا سلوک کرے گا لیکن اگر وہ اس صحیح روحانیت سے گورے ہیں تو ہمارا ظلم ثابت ہے.اور ہم خدا تعالیٰ کے مواخذہ سے پہنچ نہیں سکتے.یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں وہ خزانہ ملا ہے میں کو ہم اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے اور دوسری طرف ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اولا و کہ اس خزانہ کی ضرورت نہیں یا تو وہ خزانہ خزانہ نہیں یا ہمارا یہ خیال غلط ہے کہ ہمیں اس خزانہ کی ضرورت نہیں.اگر ہماری اولاد کو اس خزانہ کی ضرورت ہیں تو ہمیں بھی اس کی ضرورت نہیں.اور ہم اس دعوی میں منافق ہیں کہ ہمیں اس خزانہ کی ضرورت سے کیونکہ اگر اس خنداند کی ہمیں ضرورت ہے تو ہماری اولاد کو بھی اس کی ضرورت ہے.اور اگر ہماری اولاد کو اس خزانہ کی ضرورت ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ اس خزانہ سے فائدہ اٹھاتی ہے یا نہیں.یعنی وہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا مطالعہ کرتی ہے یا نہیں.اگر جماعت کے دوست حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی کتب کا مطالعہ کریں تو لازمی بات ہے کہ ان میں ہر ایک شخص اپنی عقل سمجھ اور علم کیمطابق ان کتب سے منزور کچھ نہ کچھ اخذ کرے گا.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی کتب بار بار پڑھی ہیں اور ہمارا تجربہ ہے جب بھی کوئی کتاب دربارہ پڑھی اس کی وجہ سے کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ ل ہو یا کوئی نہ کوئی نیا عقدہ کھلا یا کوئی نہ کوئی نئی دلیل سامنے آگئی.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ
اصلاۃ والسلام کی تمام کتب معادت کا ایک خزانہ اپنے اندر رکھتی ہیں اس کا ایک حصہ تو ایسا ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ اپنے اندر بڑے اہم اور قیمتی مضامین کو لیے ہوئے ہے اور جب بھی حالات آپ کی توجہ اس طرف پھیر دیں یا اللہ تعالیٰ کا منشاء ہو کہ آپ کی توجہ اس طرف پھر جائے تو آپ کو نئے نئے مضامین سو جھیں گے دوسرا نکتہ ۲- قرآن کریم میں شیطان کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ ، علَيْهِ سُلْطَانُ میرے جو بندے ہوں گے اُن پر تو غلبہ نہیں پا سکتا.گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی طرف شیطان کو یہ مسلنج دیا ہے کہ وہ ان پہ کبھی غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا.اس پر ملنے کو دیکھ کر انسان جو ضعیف اور کمزور ہے یہ خیال کرتا ہے کہ یہ چیلنج کیسے پورا ہو گا.اس کو پورا کرنے کے لیے خدا تعالی کی طرف سے کسی ہدایت کا ملنا بھی ضروری ہے.اور وہ ہدایت لا حولَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ KOUNG GALANGANم ہے.یہ ایک دیوار ہے جو شیطان اور خدا تعا کے بندوں کے درمیان کھڑی کر دی گئی ہے.اگر خدا تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو تو شیطان انسان کے مقابلہ میں بہت طاقتور ہستی ہے جو خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ میں تیرے بندوں میں دائیں سے بائیں سے آگے سے پیچھے سے گھسوں گا اور انہیں گمراہ کر کے چھوڑوں گا.اس پر اگر انسان غلبہ حاصل کر سکتا ہے تو محض خدا تعالے کے فضل کے نتیجہ میں ہی کر سکتا ہے اور لَا حَوْلَ وَلَا تُوَ إِلَّا بِاللَّهِ العلي العظيم وہ ہتھیار ہے جو شیطان کے مقابلہ کے لیے خدا تعالیٰ نے انسان کو دیا ہے.لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِي الْعَظِيہ کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ کوئی منتر یا ٹونہ نہیں کہ صرف منہ سے یہ فقرہ وہرا کر شیطان کا مقابلہ کیا جا سکے.اگر ایک کرو نہ دفعہ بھی لا حول ولا قوة الا باللهِ الْعَلِي الْعَظِيمِ پڑھا جائے تو قطعا یہ نہیں ہو سکتا کہ شیطان بھائی جائے اور نہ ہی یہ کوئی تعویز ہے جس سے ہاتھ پر باندھ لیا.یا کاغذ پر لکھ کر اسے گھوٹ کر پایا ے سورۃ بنی اسرائیل : ۶۶
۲۴۷ جائے تو اس سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.بلکہ شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک خاص ذہنیت کی ضرورت ہے جس کو لا حول ولا قوة الا باللهِ الْعَلِي الْعَظِيمِ بنارے کے اندر پیدا کر دیتا ہے اور جب یہ ذہنیت پیدا ہو جائے تو شیطان انسان کے قریب نہیں آسکتا اور وہ ذہنیت یہ ہے کہ بے شک انسان بڑا کمزور اور ناتواں ہے لیکن خدا تعالی بڑی طاقتوں والا ہے اس کے اندر یہ طاقت ہے کہ وہ ہم سے نیکیاں کرائے اور اس کے اندر یہ طاقت بھی ہے کہ وہ ہمیں بدیوں سے محفوظ رکھے.جب یہ ذہنیت انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے تو خدا تعالیٰ اسے اپنی گود میں اٹھا لیتا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی گود میں بیٹھا ہو شیطان کا اس پر حملہ کامیاب نہیں ہو سکتا اور اس طرح وہ اس ذہنیت کے پیدا ہونے کے نتیجہ میں شیطان کے حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے تو لا حول ولا قوة الا باللہ ایک بڑی اہم اور قیمتی دعا ہے جو آپ کے کام آئے گی.جب فرقان بٹالین کشمیر کے محاذ یہ کام کر رہی تھی اس وقت مجھے ایک ضروری کام کے سلسلے میں محاذ یہ جانا پڑا.جب میرا قیام ختم ہو گیا تو میں نے واپس آنے کا زیادہ کیا سڑک ٹوٹی ہوئی تھی.مگر ان دنوں چونکہ لڑائی کا کام تھا اور لڑائی کے دنوں میں انسان کی ذہینت تیر ہو جاتی ہے فوراً یہ خیال آیا کہ مڑک ٹوٹی ہوئی ہے تو کیا ہوا نہر کی پڑی تو ہے سرکاری نقشہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ نہر کی پڑی سڑک کے ٹوٹے ہوئے حصہ سے پرے جا کر ٹرک سے مل جاتی ہے چنانچہ ہم سڑک کی بجائے نہر کے راستے واپس ہوئے رسول ہیڈ کے قریب گیٹ بند تھا لہذا ہمیں موٹر کھڑا کرنا پڑا جب گیٹ کھلا تو موٹر فیل ہو گئی وہ سٹارٹ نہیں ہوتی تھی.ہمارے پاس نہ اوزار تھے اور نہ پڑی پر ٹریفک تھی کہ کسی آنے جانے والے کی مدد لی جاسکے.کاربوریٹر میں میل جم گئی تھی میں کی وجہ سے وہ کام نہیں کر رہا تھا.اس وقت میرے ذہن میں یہ دعا آئی بسم الله تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ لا حول ولا قوة الا باللهِ الْعَلِي الْعَظِيمِ.اور میں نے خیال کیا کہ بے شک اس وقت موٹر فیل ہو گئی ہے اور ہم میں طاقت نہیں کہ اسے سفر کے قابل بنا سکیں گر اللہ تعالے میں تو طاقت ہے کہ اس سے کام سے سو ہمیں اس کی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اسی سے مدد مانگنی چاہیے.کہ وہ نہیں مصیبت سے نکالے چنانچہ میں نے اپنے سامنیوں سے کہا کہ
مجھ سے کوئی بات نہ کریں اور میں نے پوری توجہ کے ساتھ اس دعا کو پڑھنا شروع کیا اس کے بعد موٹر کو دھکا دیا گیا تو وہ سٹارٹ ہوگئی.میں تمام راستہ یہی دعا پڑھتا رہا اور کسی سے کوئی بات نہ کی.اور موٹر سارا راستہ چلتی رہی.کہیں نہ رکی.یہاں تک کہ ہم دین باغ لاہور پہنچ گئے اور موٹر وگیراج میں کھڑا کر دیا بعد میں وہ موٹر اس وقت تک گیراج سے نہ نکلی سب تک کہ ایک ماہرمستری نے اسے چنے کے قابل نہ بنا دیا.اب دیکھو اس دعا کی برکت ملی کہ ہم با وجود با سر بے کس دبلے نہیں ہوتے کے رسول ہیڑے لاہور تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ورنہ موٹر کام کرنے کے قابل نہ تھی.سو یہ دعا بڑی برکت والی ہے.مجھے خیال آیا کہ میں دعا آپ کو بتا دوں تا آپ بھی روزانہ زندگی میں اس سے فائدہ حاصل کریں “ تیسرا نکتہ خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے طفیل جہاں ہمیں ہی مو قع دیا ہے کہ ہم اس کے ساتھ تعلق پیدا کر سکیں وہاں نہیں یہ سبق بھی دیا ہے کہ بنی نوع انسان کی اتنی مدد کرو کہ اور کسی انسان نے نہ کی ہو.آنحضرت صلعم کی سیرت کا ایک واقعہ اس پر وضاحت سے روشنی ڈالتا ہے.بدر کی جنگ کو خدا تعالیٰ نے فرقان سے تعبیر کیا ہے.اور کہا ہے کہ وہ کفر اور ایمان میں فرق کرنے والا دن ہے اور یہ نام اسے قرآن کریم میں خدا تعالے نے دیا ہے اس دن اللہ تعالیٰ نے کفر کی طاقت کو توڑ دیا اور اسلام کے نام کو امتیاز کے ساتھ قائم کیا.ایک طرف کفار اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ اور اپنے لاڈ ولشکر کی مدد سے مسلمانوں کو جو قلیل تعداد میں تھے اپنے زعم میں صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے لیے آئے تھے.اور دوسری طرف وہ صحابہ تھے جو کمز ور نانواں تھے.تعداد میں کم تھے.اور ان کے پاس کفار کے مقابلہ میں جنگی سامان بھی نہیں تھا.ان میں سے اکثر کو کفار نے طرح طرح کی تکلیفیں دی تھیں عرض بدر کے روز صحابہ کی حالت کفار کے مقابلہ میں بہت زیادہ کر دور تھی اور بظا ہر حالات ان میں مقابلہ کی سکت نہیں تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتوں کے شکر نازل کیے اور انہیں کہا کہ اس قوم کی مدد کرو.اور مقابل شکر پر اسے فتح اور کامرانی حاصل کرنے میں مدد دو.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی مددسے اس دن مسلمانوں
۲۴۹ نے باوجود قلیل التعداداور ظاہری اسباب سے محروم ہونے کے کفار پر فتح حاصل کی.اور خوشی سے مسلمان بھولے نہ سمائے ، لیکن اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کونہ میں دعائیں مصروف تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے.ایک صحابی نے دیکھا تو عرض کیا یارسول اللہ یہ دن تو خوشی کا ہے رونے کا نہیں اور آپ رو رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے آج اپنے وعدوں کو پورا کر دیا ہے اور رؤساء مکہ کے سروں کو آپ کے قدموں میں لارکھا.اس پر آپ نے فرمایا بے شک خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے اور ہمیں کفار کے مقابلہ میں عظیم الشان فتح نصیب کی ہے.لیکن کاش یہ لوگ اس دن سے پہلے ایمان لے آتے اور ان کا یہ حشر نہ ہوتا یہ کیفیت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کی جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے بھی آپ کو فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ الا يَكُونُوا مُوْمِنِينَ " کہ شاید تو اس وجہ سے کہ کفار ایمان نہیں لائے اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے یہی محبت اور جذبہ بنی انسان کے لیے ہر مسلمان اور ہر احمدی میں پیدا ہونا چاہیے.اس کے بغیر احمدیت کا کوئی فائدہ نہیں.جہاں کہیں تبھی ہم ہوں ہمارا دل اس وجہ سے کڑھتا رہنا چاہیئے کہ یہ لوگ سچائی پر ایمان کیوں نہیں لائے.کیوں اس سے دور چلے گئے وہ کیوں اس ہستی کو نہیں دیکھ.ہے جس کو اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی برکت کے نتیجہ میں ہم دیکھ رہے ہیں.اگر ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو دنیا ہماری باتیں سننے پر مجبور ہو جائے گی.اور اس کے بغیر انہیں کوئی چارہ نہیں ہو گا سو آپ بنی نوع انسان کی مدد کا سچا جذ بہ اپنے اندر پیدا کریں اور اس جذبہ کے ماتحت انہیں احمدیت کے قریب لانے کی کوشش کریں اگر آپ اس جذبہ کے ماتحت تبلیغ کریں گے اور جب تک وہ ایمان نہ لائیں آپ کا دل کڑھتا رہے گا تو خدا تعالیٰ آپ کی کوشش میں برکت دے گا اور ایسے حالات پیدا کر کر دے گا کہ دوسرے لوگ آپ کی باتوں کو سنیں گے اور احمدیت کے نور سے منور ہونے کے لیے اپنے آپ کو اس جماعت سے وابستہ کر لیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے قائم کی ہے اور اسی میں شامل ہو نے میں نجات ہے ، له الشعراء : ٢ : له روزنامه الفضل ربوه ۲۶؍ دسمبر ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۶۱۴
۲۵۰ یکم نومبر تیر کو عالم اسلام ایک دردناک صورتحال سے مصر پر حملہ اور جماعت احمدیہ کا دو چار ہو گیا جبکہ بر طانیہ اور فرانس نے مصر پر متحدہ سحری اور جمال عبد الناصر کے نام برقی پیغام فضائی حملہ کر دیا.اور قاہرہ اسماعیلیہ - پورٹ سعید ا در دوسرے بڑے بڑے شہروں پر بمباری کی جس سے کئی شہری ہلاک ہوئے.اور جائیدادوں کو بھاری نقصان پہنچا.اس نازک موقع پر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجہ نے مصر کے صدر جمال عبد الناصر کے نام حسب ذیل بر تی پیغام ارسال کیا : - (ترجمه) موجودہ نازک وقت میں جماعت احمدیہ اور اس کے مقدس امام کی دلی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں.برطانیہ اور فرانس نے مصر پر حملہ کر کے ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے چہروں کو داغدار کر لیا ہے خدا تعالیٰ ضرور ان کو اس کی سزا دے گا یہ امر ہمارے لیے حیرت کا باعث ہے کہ جبکہ موجودہ اسرائیلی حملہ اس بناء پر ظہور میں آیا ہے کہ آپ عربوں اور خصوصیت سے اردن کے مفادات کی علمبرداری کا فرض ادا کر رہے ہیں یہ ممالک کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور صرف زبانی ہمدردی پر اکتفا کر رہے ہیں خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے ہماری دعا ہے کہ موجودہ جنگ میں اللہ تعالیٰ اہل مصر کی مدد فرمائے.ناظر امور خارجه صدر انجمن احمد به پاکستان ربوده آمین - ۲ نومبر ۱۹۹۶ اس پیغام کے جواب میں صدرجمال عبد الناصر نے حسب ذیل جوابی تامه ارسال فرمایا : - I have received with sincere appreciation the gracious message expressing the good wishes and fervent prayers of Ahmadiyya Community and its head for the victory of Egypt in its struggle against the aggressors.We thank you all for these kind feelings and noble sentiments.May God help and grant us prosperity.Jamal Abdul Nasir
۲۵۱ (ترجمہ) میں نے آپ کا مقدر پیغام قدر دانی کے بر خلوص جذبات کے ساتھ وصول کیاست جس نہیں حملہ آوروں کے خلاف اہل مصر کی جد و جہد میں مصر کی کامیابی اور فتح کے لیے جماعت حمدیہ اور امام جماعت احمدیہ کی طرف سے نیک خواہشات اور دلی دعاؤں کا اظہار کیا گیا ہے ہم ایسے اعلی اختیارات }; اور نیک جذبات پر آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں خدا تعالی ہماری مدد فرمائے اور ہمیں خوشحالی عطا کرے.مورخه ۱۹ران میر ۹۵ 1904 جمال عبد الناصرت اس برقبہ کے موصول ہونے پر حضرت سبد ولی اللہ شاہ صاحب نے جو عربی مکتوب لکھا اس کا متن یہ ہے ور ریوه بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم نخامة السيد جمال عبد الناصر رئيس الجمهورية المصرية السلام عليكم ورحمة الله وبركاته وبعد فقد تلقيت برقية فخامتكم المورخة في ١١/١٩/ ١٩٥٧ ء المعبرة عن عواطف الشكر والامتنان فكان لها الصدى الحسن لدى الامام الجماعة الاحمدية الذى اثلجت صدره اخبار وقف العدوان الانكليزى الافرنسي والاسرائيلي وفشل المؤامرة التي حاكها الاستعمار مند مصر العزيزة وهو يدعوه تعالى ان يكلا كم يدعوه تعالى ان يكلأ كم والشعب المصرى بعنايته لتكونوا الدرع القوى الغربي الكعبة الاسلام صدا عدائه - الا ان حضرة امام الجماعة الاحمدية لا زال مهما اهتماما عظيما الخطر الصيهونى " الذى يهدد البيت الحرام مباشرة حتى روزنامه الفضل ربوده ۲۴ نومبر ۶۱۹۵۶ صفحه ۱
۲۵۲ رأيناه يقترح منذ ثماني سنوات على الشعب الباكستاني بغرض ضريبه تساوى الواحد بالمائة من املاك كل باكستاني تخصص المساعدة عرب فلسطين ضد اسرائيل وسواها من اعداء الاسلام والعروبية يومئذ ان تقدم أوّل الناس الضريبة المشاء ايما في سبيل الغايه المذكورة - وهنالك خطب عديدة القاها حضرته في هذا الموضوع مقترحا فيها الخطوات العملية الممكنة.فالمهم أن حضرته لا زال مهما اهتما ما عظيما بقضية الخطر الصيهونى وما فتى وافراد جماعة داعيا الله عز وجل ان يحفظ البيت الحرام ويجمع المسلمين على حبل الله وتقواه ويلهمهم سبيل الرشاد صان الله مصر و حفظكم أمين والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته ناظر الامور الخارجيه للجماعة الأحمديه سید زین العابدین ولی اللہ شاہ خط کا ترجمہ بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم بخدمت گرامی ہز ایکسی لمسی جمال عبد الناصر رئیس جمہور یہ مصر السلام عليكم ورحمه الله وبركاته جناب کا شکر و امتنان کا تار مورخہ ۱۹۵۶ در ۱۱/ ۱۹ کو مجھے ملاحیس کا حضرت امام جماعت احمدیہ پرگہرا اثر ہوا اور اطمینان قلب ہوا کہ انگریزوں فرانسیسیوں اور اسرائیلوں کا جور وظلم رک گیا اور امپر ملزم نے جو منصوبہ مصر کے متعلق باندھا تھا وہ ناکام رہا.حضرت امام جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو اور مصری قوم کو اپنے خاص فضل سے مدد کرے تاکہ آپ دشمنوں کے مقابلے میں کعبہ اسلام کے رکن حصیں بنیں.
۲۵۳ حضرت امام جماعت احمدیہ کو صیہونی خطرہ کے متعلق ہمیشہ فکر رہا ہے کیونکہ اس کا زیر دست اللہ بیت اللہ پر پڑتا ہے یہ فکر اس حد تک ہے کہ آٹھ سال ہوئے آپ نے یہ تجویز کی تھی کہ ہر پاکستانی اپنے املاک پر ایک فیصدی چندہ دے تا کہ فلسطین عربوں کو اسرائیلی اور دیگر دشمنان اسلام عرب کے خلاف اپنی جد و جہد میں اس روپے سے مدد حاصل ہو اس تجویز پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہماری جماعت کی طرف سے اتفاق کا اظہار کیا گیا.مزید یہ آن حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس موضوع پر کئی تقاریر بھی فرمائی تاکہ عملی قدم اٹھانے کے لیے تحریک ہو.الغرض حضرت امام جماعت احمدیہ کو یہودی خطرہ کا پورا احساس و فکر ہے اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ بیت اللہ کی حفاظت فرمائے اور مسلمانوں کو تفو می پر اکٹھا کرے اور انہیں نیکی کے راستہ پر چلنے کی تحریک فرمائے اللہ تعالے مصر کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور اس کا حامی وناصر ہو.صدر جمہوریہ مصر جمال عبد الناصر کی طرف سے اس خطہ کا حسب ذیل جواب موصول ہوا.رياسة جمهوريه مكتب الرئيس تحية طيبة بسم اللہ الرحمن الرحیم سيادة زين العابدين ولی الله شاه باکستان وبعد فا شكريك رسالتك الكريمة التي اعربت فيها عن الشعر الطيب السيادة امام الجماعة الاحمدية نحو مصر في كفاحها ضد الاستعمار متحالفا مع الصيهونة كما اشكر لسيادته اهتمامه بالقضية الفلسطينة والعمل على درع الخطر الصيهونى الجاثم فى اسرائيل والمسائدین تھا.والله يوفقنا - وليسدد خطايا ويثبت اقدامنا ويجمعنا على كلمة والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته سوار
۲۵۴ القاهرة ۱۱۹۵۶/۱۲/۱۷ رئيس الجمهورية جمال عبد الناصر رئیس جمہوریہ مصر کا جواب بخدمت ناظر امور خارجہ آپ کے نیک پیغام کا شکر گزار ہوں میں میں امام جماعت احمدیہ کی طرف سے مصر کی اس جد و جہد کے بارے میں پاکیزہ جذبات کا اظہار کیا گیا ہے جو اس نے مغربی استعمار اور یہودی خطرہ کے خلاف جاری کر رکھی ہے.میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مسئلہ فلسطین اور یہودی خطرہ کے بارے میں جو اسرائیل اور اس کے مددگاروں کی طرف سے رونما ہوا ہے اتنا فکر فرمایا ہے اور دعائیں کیں.اللہ تعالے ہمیں توفیق دے اور ہمارے پائے ثبات کو تقویت بخشتے اور مومنوں کو صحیح راستہ پر چلائے اور کلمہ اسی پر سب کو تبع کرے.والسلام علیکم ورحمتہ اللہ.ر میں جمہور بصر - جمال عبد الناصر سله اسرائیل برطانیہ اور فرانس کی اس شرمناک ا ا ا ا احمدیہ نر فیش پریس ایوی ایشن کی قرارداد مذمت ماریت پر احمدی از نیشنل پریس الیوسی ایشن نے حسب ذیل قرار داد مذمت پاس کی." احمدیہ انٹر نیشنل پریس ایسوسی ایشن کا یہ خصوصی اجلاس - اسرائیل.برطانیہ اور فرانس کے مصر پر جارحانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے.اور اسے یو.این.اور.کے چارٹر کی صریح خلاف درزمی سمجھتا ہے.اس قسم کے تشدد آمیز رویہ سے دنیا بھر میں امن قائم ہونے کی بجائے جنگ اور فساد کے شعلے بھڑک اٹھیں گے.برطانیہ اور فرانس جو کل تک امن اور ضلع کے علمبردار ہونیکے مدعی تھے.ان کا یہ فعل یقیناً نہایت ظالمانہ بلکہ وحشیانہ ہے.اور مصر اس معاملہ میں صریح طور پر مظلوم ہے اور ہماری ساری ہمدردیاں مظلوم کے ساتھ ہیں.ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ برطانیہ فرانس اور اسرائیل اپنی فوجوں کو مصر کی حدود سے نکال لیں اور جنرل اسمبلی کے حالیہ ریزولیشن متعلقہ امتناع جنگ کی به روزه نامه الفضل ریوده ۱۲ جنوری ۱۹۵۷ء صفحه ۳
۲۵۵ کی فوری اور غیر مشروط تعمیل کرتے ہوئے تمام معاملات کو باہمی مفاہمت کے بین الا قوامی اصولوں کے مطابق طے کریں اور آئندہ کے لیے اپنے جارحانہ عزائم سے بالکل دستکش ہو جائیں.موجودہ حالات میں تمام امن پسند ممالک بالخصوص پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کا فرض ہے کہ مظلوم مصر کی ہر ممکن امداد کرس ہے تعلیم الاسلام کا ری یونین کے وائس پریذیڈنٹ مکرم عطاء الکریم صاحب شاہ نے مصر پر برطانیہ فرانس اور اسرائیل کے جارحانہ حملہ کی پہندو مذمت کرتے ہوئے یونین کے جملہ اراکین کی طرف سے ر نومبر ۱۹ ء کو سفیر مصر مقیم کراچی کے نام ایک خط لکھا.خط میں اہل مصر کی پرنہ در تائید وحمایت کا یقین دلایا گیا اس خط کے جواب میں سفیر مصر نے لکھا.1934 مصر پر برطانیہ فرانس اور اسرائیل کے جارحانہ حملہ کی مذمت میں آپ کا خط محرره ۸ نومبر 19ء موصول ہوا.آپ کے جملہ اراکین نے موجودہ نازک وقت میں مصر کے ساتھ جن ہمدردانہ جذبات کا اظہار کیا ہے اور پر زور طور پر تائید وحمایت کا یقین دلایا ہے اس پر ہماری طرف سے انتہائی پر خلوص شکر یہ قبول فرمائیں اور ہمارے جذبات تشکر کو تمام اراکین تک پہنچائیں ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ خیر سگالی کے جذبات ظاہر کرنے پر مصر کی حکومت اور عوام اپنے پاکستانی بجھا بیٹوں کے ممنون ہیں اور بنوایا نہایت پر خلوص طور پر وہ بھی خیر سگالی کے ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہیں.“ آپ کو مخلصی دریای عمار عبدالحسیب فرسٹ سیکر ڈی سفارت خا ی مصر کا حیات جماعت احمدیہ انڈونیشیا کا پیغام ہمدردی اور مصر پر استعاری طاقتوں کے دوستیان حملہ کے معاہد راڈین ہدایت صاحب جا کر تا صدر جما عنہا ئے احمدیہ صد جمال عبد الناصر کی طرف سے پیر خلوص شکر یہ انڈونیشا نے بھی اندر نشیں احمدیوں کی طرف سے انڈونیشین جمال عبد الناصر کے نام ہمدردی اور دعا کا ایک خصوصی پیغام ارسال کیا جس میں ان طاقتوں کے جارھا جملہ کے به روزنامه الفضل به نومبر ۱۹۵۶ ءرصت با سه سابق انچارج لا نبیر یا مشن حال رکن شعبه تاریخ احمدیت ربوہ کے روز نامه الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۵۶ء مت
۲۵۶ خلاف نفرت کا اظہار کرنے کے علاوہ اہل مصر کے ساتھ گہری ہمدردی ظاہر کی گئی اور دعا کی گئی کرحملہ آوروں کا مقابلہ کرنے میں اہل مصر تو سر توڑ جد وجہد کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس میں انہیں کامیاب فرمائے اور اپنی خاص امید ونضرت سے نوازے.نیز انڈونیشیا کے تمام سلمان بھائیوں سے استدعا کی وہ بھی مر کی کامیابی کیلئے اللہ تانی کے حضور دعائیں کریں تاریں مزید لکھا گیا ہم یقین رکھے ہیں کہ اگر روئے زمین کے مسلمان پورے خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان حملہ اور اقوام بنے انگریز وں.یہودیوں اور فرانسیسیوں پر عذاب نازل کرے گا.نیز انڈونیشیا کی حکومت سے پر زور درخواست کی گئی تھی کہ وہ اہل مصر کی امداد کر نیکے لئے بر وقت اور فوری قدم اٹھائے.بالخصوص ایسے بھی تم پہ اس اسلامی ملکی امداد کرنا ضروری اور لازمی ہے کہ ۱۹۴۶ء میں جمہوریہ انڈونیشیا کے قیام پر سب سے پہلے مصر نے ہی ہماری مملکت کو تسلیم کیا تھا اور انڈو نیشیا کی جدوجہد آزادی میں مصر نے ہمیں ہر قسم کی اخلاقی اور مادی امداد بہم پہنچائی تھی.تار کے آخر میں مزید لکھا گیا که بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہمیت مسلمہ کی خود ہی حفاظت فرمائے.اور اہل مصر کے دلوں کو مضبوط اور طاقتور کرے.آمین ہمدردی اور دعا کے ساتھ اس مخلصانہ پیغام کے جواب میں جمہوریہ مصر کے صدر جناب جمال عبد الناصر کی طرف سے حسب ذیل برقی پیغام موصول ہوا " جناب را دین ہدایت صدر جماعت احمدیہ انڈونیشیا ، آپ کے مشفقانہ پیغام نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے میری طرف سے دلی اور پر خلوص شکریہ قبول فرمائیں.جمال عبد الناصر سے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ترکی کے ایک اساس سال کا اہم واقعہ یہ ہے کہ جمہوریہ ترک کے ایک فاضل محقق جناب شناسی حسن سی بیه فاضل ملحق کو مکتوب عقیدت اور قبول حمیت صاحب کو حضرت مصلح موعود کی معرکہ آمادہ رو تالیف " دیباچہ تفسیر القرآن (انگریزی) کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا.جناب شناسی صاحب نے اس کتاب سے متاثر ہو کہ حضور کی خدمت میں انقرہ سے ایک مفصل مکتوب لکھا جس کا اردو تر جمہ یہ ہے مه روزنامه الفضل ٢٠ نومبر ١٩٥٦ ء مرا
۲۵۷ انقره ۲۰ نومبر ۱۹۵۶ء سید نا حضرت خلیفة السيح ! السلام علیکم در هفته باشد و به کا تها یہ میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ میاں حال ہی میں میری ملاقات مہندوستان کے ایک لائق مسلمان عالم سے ہوئی ہے.جس نے مجھے احمدیت اور آپ کی اسلامی خدمات سے آگاہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے.کہ وہ آپ کی عمر میں برکت ڈالے.اور آپ عرصہ دراز تک اس کے دین کی خدمت کا فریسینہ ادا کرتے چلے جائیں.میں ندامت کے ساتھ اس امر کا اعتراف کرتا ہوں.کہ اس مہندوستانی دوست کے ساتھ ملنے سے قبل تک احمدیت کے متعلق مجھے کچھ زیادہ علم نہ تھا.میں یقین رکھتا ہوں.کہ احمدیت ہی وہ محقیقی اسلام ہے جو ترقی کا علمبردار ہوتے ہوئے بیسویں صدی کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے.آپ دنیا کے سامنے جو پیغام پیش کر رہے ہیں.وہ آپ کی تصنیف " دیباچہ انگریزی ترجمہ القرآن کے ذریعہ مجھ تک پہنچا ہے.یہ دیباچہ ایک نہایت عالمانہ کتاب ہے جو خاص خدائی تائید کے ماتحت لکھی گئی ہے.اس کا مطالعہ بہت سے امور کے متعلق شبہات دور کرنے کا موجب ہوا.آپ کی اجازت سے میں ترکی کی مذہبی حالت جیسا کہ ماضی اور حال کے آئینہ میں اُسے میں دیکھتا ہوں.آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.اب ترک عوام میں مذہبی بیداری کے آثار نمایاں ہوتے جارہے ہیں تاہم اعلی تعلیم یافتہ لوگ ابھی تک مذہب میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے.کیونکہ وہ اسلام کو بہت سی ایسی برائیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں.کہ جو اُن کے ملک کی ترقی میں مردک ثابت ہوتی رہی ہیں.حالانکہ اس کا سارا الزام ان ملاؤں پر عائد ہوتا ہے.کہ جو تا وقتیکہ اتا ترک کے ہاتھوں رونما ہونے والے انقلاب نے اُن کے اللہ کو زائل نہ کر دیا.رجعت پسندانہ ذہنیت کے آلہ کار بنے رہے.اسلام کے متعلق تعلیم یافتہ طبقہ کی معلومات لاطینی رسم الخط را سچ ہونے کے بعد سے دن بدن کم ہوتی چلی گئیں.حتی کہ اب نہ ہونے کے برابہ ہیں.یہی وجہ ہے کہ اس طبقہ کی نگاہ میں اسلام اور ملاں ہم محنے الفاظ ہیں.ملاؤں سے انتہائی طور پر نفرت کرنے میں ترکی کی تعلیم یافتہ طبقہ کو معذور سمجھنا چاہیئے کیونکہ یہ ملاں ہی تھے.جنہوں نے گزشتہ صدی کے نصف اواخر میں مغربی علوم کی ترویج کے لیے استنبول یونیورسٹی کے
۲۵۸ در واندوں کو تیس سال تک بند کیے رکھا.ان کے بڑے اثر کی وجہ سے ملک میں چالیس سال تک ریلیوں کا نظام محض اس لغو غذر کی بناء پر قائم نہ ہوسکا کہ یہد کا نزوں کی ایجاد ہے، مختصر یہ کہ ہر مفید اور کار آمد چیز کو کا فروں کی ایجاد کہ کر رد کیا جاتا رہا.حالانکہ یہ لوگ خود بہت سے مواقع پر روس اور مغرب کی دوسری شہنشا بیت پسند طاقتوں کے آلہ کار بنے یہ ہے.یہی وجہ ہے کہ ایک عام تعلیم یافتہ ترک کے ذہن میں ماں کے خلاف عدم اعتماد کا جو جذبہ پایا جاتا ہے.اس کی جڑیں بہت گہری ہیں.ایک عام تعلیم یافتہ ترک کمیونزم سے نفرت کرتا ہے.لیکن دوسرے مسلم ممالک کے تعلیم یافتہ طبقہ کے برخلاف وہ مغربی طرز زندگی کا عموماً اور امریکی طرز زندگی کا خصوصاً پر جوش مداح اور نقل ہے.میں ترک عوام میں مذہبی بیداری کا اوپر ذکر کر چکا ہوں.ملاؤں کے سابقہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے باقی ماندہ چند جاہل لوگ موجودہ مذہبی بیداری کی قابل قدر خریک کے لیڈر بننے کی کوشش میں ہیں.اسی طرح ترک عوام کے دلوں میں اسلام خواہ کتنا ہی راسخ کیوں نہ ہو.وہ گر کر اس سطح پر آپ کا ہے.کہ بعض کلمات طوطے کی طرح رطے کر دہرا دیئے جاتے ہیں.اور عبادت کے طور پرشینوں کی طرح بعض بے روح حرکات کا مظاہرہ کیا جاتا ہے.حالانکہ اسلام کی تعلیم اور اس کے پیش کردہ مطمح نظر کا صحیح علم حاصل کیے بغیر حقیقی اسلام ہرگز قائم نہیں ہو سکتا.اسی لیے میں بڑی شدت اس بات کا قائل ہوں کہ ٹیم کے تمام اسلامی ممالک میں قرآن مجید اور احادیث کی کتب وہاں کی اپنی زبانوں میں سستے داموں دستیاب ہونی چاہئیں.انتیمی سال کے عرصہ میں ترکی زبان میں قرآن مجید کے تین تراجم شائع ہو چکے ہیں.اور اب مذہبی امور کے ڈائرکٹر جنرل قرآن مجید کا ایک معیاری ایڈیشن مرتب کرنے میں مصروف ہیں.ادھر مشکل یہ ہے کہ ترک امام اور مؤذن مجموعی لحاظ سے اتنے تربیت یافتہ نہیں ہیں.کہ وہ اپنے فرائض کو کیا حقہ ادا کر سکیں.ان میں سے ایسے افراد جو قرآن مجید کے عربی متن کے معنے سمجھ سکیں نہ ہونے کے برابر ہیں.یہ امر اور بھی زیادہ افسوسناک ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت کے لیے ادارے مفقود ہیں.ملک بھر میں دینیات کی تعلیم کاجو واحد شعبہ ہے وہ اس کام کے لیے میسر نا کافی ہے.اسے عظیم استاد ان امور کو بیان کرنے میں میں نے آپ کا بہت سا وقت لے لیا ہے.اس
۲۵۹ پر میں معافی کا خواستگار ہوں لیکن ایسا کرنے میں میرے مدنظر یہ امر تھا کہ ماضی اور حال کی روشنی میں شاید ایک نامور اسلامی ملک کی روحانی حالت کا تذکرہ آپ کے لیے دلچسپی اور توجہ کا موجب ہو سکے.یہ میری دلی خواہش ہے کہ احمدیت نے جو قابل تعریف مثال قائم کی ہے.لیکن دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے دیکھوں.ہاں اسی احمدیت کی جو صحیح معنوں میں اسلام کی ایک روشن اور درخشندہ صورت ہے.اور موجودہ ترقی یافتہ دنیا کی ضروریات کو بخوبی پر راکر سکتی ہے.آخر میں ئیں آپ کے مقدس ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے آپ سے التجا کرتا ہوں کہ آپ مجھے اپنی دعاؤں بوسہ دیتے ہو.میں یا درکھیں.آپ کا ادنی خادم شناسی میرا نفرہ.ترکی لے اس مکتوب کے چند سال بعد 11ء میں محترم شناسی میر صاحب بیعت کر کے داخل احمدیت ہو گئے.آپ جمہوریہ تمہ کی کے پہلے احمدی ہیں.ڈاکٹر محمد حلال شمس صاحب انچار ج ترکش شناسی حسن سی بر صاحب کے مختصر حالات اور خدمات ہیں کہ :.ڈیسک اسلام آبا د دلندن کے تحریر فرماتے ہمارے ترک احمدی بزرگ مکرم شناسی حسن سی بر صاحب ترکی میں اس وقت جماعت احمدیہ کے معمر ترین بزرگ کا نام مکرم و فرم شناسی حسن سی پر صاحب (SINASI HASAN SIBER) ہے آپ قبرصی ترکوں سے تعلق رکھتے ہیں.وہ یا ناہ میں قبرص کے شہر ماغوسہ ( FAMA YUST A) میں پیدا ہوئے.آپ نے پرائمری تعلیم ماغوسہ میں حاصل کی.اس کے بعد آپ تعلیم کی عرض سے استنبول چلے گئے اور قابا طائش KABAT E S) سیکنڈری سکول سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا.یونیورسٹی کی تعلیم آپ الفضل یکم دسمبر ۶ ماه (ترجمہ) بے حال مبلغ مہمبرگ (رتین اور پولیش اقوام میں تبلیغ کے انچا رج )
تے رہے.نے انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ لسانیات و السنہ شرقیہ میں حاصل کی.یونیورسٹی میں مسٹر عبد الرب یلغار نامی ایک ہندوستانی آپ کے زبان فارسی کے استاد تھے.۱۹۲۷ء میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے.تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے وزارت خارجہ حکومت ترکی میں ترجمان کے طور پر کام کیا.بعدازاں وزارت تعلیم میں بھی خدمات سرانجام دینے کا موقع میسر آیا.آپ نے کچھ عرصہ مری سکول میں انگلش ٹیچر کے طور پر بھی فرائض سر انجام دیئے.اسی طرح جنگ آن انوسٹمنٹ (BANK OF INVESTMENT ) میں بھی مصروف کار رہے.۹۲ء میں آپ ایک اعلی سطحی سرکاری وند کے ساتھ بطور ترجمان امریکہ گئے اور سان فرانسسکو میں قیام فرمایا.علاوہ ازیں آپ کو مختلف فرائض کی انجام وھی کی خاطر دو مرتبہ انگلستان جائے اور لمبا عرصہ وہاں قیام کرنے کا موقع بھی ملا.اسی طرح آپ سوئٹزر لینڈ بھی تشریعت لے گئے اور کافی عرصہ تک وہاں مقیم رہے.آپ کی عمر کا زیادہ حصہ وزارت خارجہ کے شعبہ مطبوعات و ترجمہ میں سیر ہوا.چنانچہ آپ ۱۹۳۳ء سے لے کر 1907 ء تک مسلسل وزارت خارجہ میں سرکاری ترجمان کے طور پر فرائض سرانجام ایک موقع پر آپ نے ڈاکٹرز کی ولیدی طوگان DRZEKT) VELID TOGAN کی ایک کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا.یہ صاحب استنبول یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں پر وفیسر تھے.انہوں نے آپ کو یونیورسٹی میں لیکچر شپ کی پیشکش کی لیکن آپ نے خرابی صحت نیز بعض اور وجوہات کی بناء پر معذرت کر دی.مکرم شناسی صاحب کے چار بہن بھائیوں میں سے ایک بھائی مکرم حمدی صاحب وفات پا چکے ہیں.حمدی صاحب ڈاکٹر تھے.1979ء میں ان کی وفات ہوئی.دوسرے بھائی مکرم محمود صاب انقرہ میں مقیم ہیں اور اس وقت دیوان محاسبات ) Audit Department) میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں.تیسرے بھائی مکرم کمال صاحب ۱۰۸۰۴۰ د انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ) سے ریٹائر ہونے کے بعد اس وقت ورلڈ بینک World Bank میں کام کر رہے ہیں اور فلپائن میں مقیم ہیں.مکرم شناسی حسن صاحب کی ہمشیرہ محترمہ مودیم خانم ( SEYIM HANIM) ما بہ انقرہ میں ہیں.مکرم شناسی حسن صاحب کو قبول احمدیت کی توفیق مکرم سید برکات احمد صاحب کے ذریعہ نصیب ہوئی.تجبر ۴۹ - ۱۹۴۸ ء میں انقرہ میں سہندوستان کے پریس تاشن تھے
٢٩١ بعد میں آپ نے سوئٹزر لینڈ، ٹرینیڈاڈ ، پورٹ آف سپین اور دیگر کئی ملکوں میں انڈین ہائی کمشنر کے طور پر خدمات سرانجام دیں.محرم شناسی صاحب کو شروع سے مطالعہ اور تحقیق کا شوق تھا.اسی غرض سے آپ برٹش قونصل بھی جایا کر تے تھے اور ان کے کتب خانہ سے استفادہ کیا کرتے تھے.عیسائیوں کے ساتھ دینی مسائل پر گفتگو بھی ہوتی رہتی تھی.مکرم شناسی صاحب کہتے ہیں کہ ایک طرف تو میں اپنے علماء کی کم علی اور کھوکھلی باتوں سے نالاں تھا اور دوسری طرف عیسائی اقوام کی حیرت انگیز ترقی اور علمی بزنیری مجھے اثر اندا نہ کر رہی تھی اور مکن تھا کہ میں عیسائیت کو قبول کر کے پروتستان (PROTESTENT ) ہو جاتا.عیسائی اسلام پر سخت حملے کر رہے تھے.وہ مجھے کہتے کہ نعوذ باللہ تمہارا دین حقیقت سے خالی ہے.وہ ہمارے مقدس دین پر ایسے اعتراضات کرتے تھے کہ جن کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا.ہمارے علماء دین پنے سفلی علم کی بناء پر عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب دینے سے عاری تھے.اس پر یشانی کی حالت میں میری ملاقات مکرم برکات احمد صاحب کے ساتھ ہوئی.آپ انگریزی کے علاوہ عربی اور فارسی کے بھی ماہر تھے.آپ نے بالکل نئے انداز میں عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات مجھے سمجھائے.آپ روائتی طور پر کسی دینی مدرسہ کے فارغ التحصیل تو نہ تھے پھر بھی آپ کا دینی علم اتنا وسیع تھا کہ آپ عام ملاؤں کو سبق پڑھا سکتے تھے.میرے نزدیک مکرم برکات احمد صاحب کا علم شنتی علماء سے زیادہ تھا.آپ نے حضرت سید نا مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود” کی تفسیر کے انگریزی ترجمہ کا ایک نسخہ مجھے دیا.یہ کتاب پڑھ کر میری عقل دنگ رہ گئی.میں حیران تھا کہ کیا یہ تفسیر کسی ایک ہی شخص کی لکھی ہوئی ہے.مجھے یوں لگتا تھا کہ تمام علوم کے چوٹی کے ماہرین کے ایک بورڈ نے علماء دین کی ایک جماعت کے ساتھ مل کر یہ تفسیر لکھی ہے.اس تفسیر میں اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے اور دنیا کے چوٹی کے سائنس دانوں اور فلسفیوں کے نظریات پر بحث کر کے ان کی غلطیوں کی نشاندھی کی گئی ہے اور تاریخ ، جغرافیہ، منطق، فلسفہ ، سائنس غرضیکہ ہر نکتہ نظر سے قرآن کریم کی
۲۶۲ ایسی تفسیر بیان کی گئی ہے جو کہ ہر اہل علم کے دل در ماغ کو سنا کر کیے بغیر نہیں رہ سکتی.اس تغیر کو پڑھنے سے میرے وہ شکوک زائل ہو گئے ہو کہ عیسائی محققین کی گفتگو سے میرے ذہن میں پیدا ہو گئے تھے.میں نے تحقیق اور مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ جماعت احمدیہ فی الواقع الہی جماعت ہے.اس جماعت میں صحابہ کرام کا سارنگ ہے اور یہ جماعت حقیقی معنوں میں نقومی شعار جماعت ہے اس جماعت کے افراد بلند ہمت اور اولو العزم ہیں.اور موجودہ زمانہ میں اسلام کی خاطر طرح طرح کی تکالیف برداشت کرتے ہیں لیکن پھر بھی صبر در ضنا اور توکل علی اللہ سے کام لیتے ہیں.یہ جماعت بظا ہر چھوٹی سی ہے لیکن فولاد کی طرح مضبوط ہے.اسلام کی راہ میں مال جان عزت وقت ہر چیز قربان کرنے کہ تیار رہتے ہیں.اس جماعت نے اشاعت اسلام کی خاطر دنیا کے بیشتر ملکوں میں مراکز قائم کر رکھے ہیں.اور یہ جماعت مبلغین بھیج کر دنیا میں اسلام کو سر بلند کرنے میں مصروف ہے.تکلیف اور اذیت کے مقابلہ میں صبر سے کام لینا اس جماعت کی خصوصیت ہے.سیدنا حضرت مرزا غلام احمد سیح موعود - اور امام مہدی علیہ السلام نے فی الواقع ایک جدید علم کلام کی بنیاد ڈالی ہے.آپ نے اسلام کی سیو تصویر پیش کی ہے اور روح، جنت، جہنم ، ملائکہ، حیات بعد الموت وغیرہ کی جو حکمت بیان فرمائی ہے دہ موجودہ زمانہ کے حالات کے عین مطابق ہے اور ہر ماڈرن اہلِ علم کو اپیل کرتی ہے.آپ اتنے عید معمولی علم کے مالک ہیں کہ ایک عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.ان باتوں کو دیکھ کہ ہمیں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا.بالخصوص مسلمان فرقہ احمدیہ کے تقویٰ اور صحابہ کرام جیسے عزم صمیم نے مجھے سب سے زیادہ متناثر کیا.1929ء میں مجھے فری میسن ہونے کی پیش کش کی گئی ہجو کہ عام طور پر بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے.لیکن میں نے انکار کر دیا اور مسلمان فرقہ احمدیہ میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا.۱۹۶۰ء کے لگ بھگ میں نے بیعت کرلی.میں نے مختلف انگریزی تراجم قرآن کا مطالعہ کیا ہے.میرے نزدیک محمد مارما ڈیوک پکٹ صال کا انگریزی ترجمہ قرآن بھی اچھا ہے.Mohammad Marmaduke Pickthall لیکن حضرت مولانا شیر علی صاحب کا ترجمہ اس سے بہتر ہے اور بہت عمدہ ہے.لیکن حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی کی تفسیر مشتمل ترجمہ قرآن سب سے نرالا ہے.میرے نزدیک حضرت خلیفہ ثانی پیغمبر
۲۶۳ کی طرح انسان ہیں.آپ صرف علوم دینیہ میں ہی نہیں دنیوی علوم میں بھی ماہر ہیں.آپ کی تفسیر پڑھکر عقل دنگ رہ جاتی ہے.آپ نے بڑے بڑے مغربی مفکرین کے نظریات پر بحث کی ہے.اور فرائڈ جیسے مشہور مفکر کے نظریہ کو علمی طریق سے غلط ثابت کیا ہے.میں ان کی تفسیر پڑھ کر اور عیسائیوں کے اعتراضنا کے جوابات کا مطالعہ کر کے حیران ہوں کہ اتنا ظلم ایک شخص کے ذہن میں سما کیسے گیا ؟ میں نے قبول احمدیت سے قبل ہی سید نا حضرت مصلح موعود.......کی بعض کتابوں کا انگریزی سے ترکی میں ترجمہ کیا تھا.سب سے پہلی کتاب جس کا میں نے ترجمہ کیا وہ انٹرو ڈکشن ٹوری سٹڈی آن دی (Introduction to the Study of The Holy Quran) ہے ہولی قرآن ) مر توفیق ارسن (MRUM FRKETSERS EN) ڈائریکٹر پبلیکیشنز محکمہ اوقات اور امور دینیہ حکومت ترکی نے مجھ سے اس کتاب کا ترجمہ کرنے کو کہا تھا.میں نے اٹھارہ دن ترجمہ کا کام مکمل کر لیا تھا به ترجمه وزارت اوقات اور امور دینیہ حکومت تہ کی کی طرف سے دس ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا تھا لیکن جلد سی نایاب ہو گیا.جب یہ کتاب شائع ہوئی تو چوٹی کے علماء نے ایک میٹنگ کی اور مجھے بھی میٹنگ میں شمولیت کی دعوت دی.اور مجھ سے سوال کیا کہ یہ کتاب کس کی ہے ؟ میں نے کہا کہ یہ کتاب ایک مہندوستانی مسلمان کی لکھی ہوئی ہے.اس پر سب نے یک زبان ہو کہ کہا کہ یہ شخص بہت بڑا عالم دین معلوم ہوتا ہے.ایسی علمی اور مدل کتاب ہم نے آج تک کہیں اور نہیں دیکھی.اس کتاب کے ذریعہ اس شخص نے دین اسلام کی بڑی خدمت کی ہے.اس کتاب کی اشاعت کے بعد میں نے در نظام نور کا بھی انگیر یندی سے ترکی میں ترجمہ کیا.یہ ترجمہ بھی محکمہ امور دینیہ حکومت تہ کی کی طرف سے شائع کیا گیا تھا.اب یہ بھی نایاب ہے.جاد 1901ء میں مسجد محمود سوئٹزر لینڈ کے امام صاحب کا مجھے خطہ آیا تھا کہ اس کتاب کے کچھ نسخے بھجوائے جائیں.چنانچہ میں نے ان کو تیس کتب ارسال کی تھیں.خاکسار راقم عرض کرتا ہے کہ مردم شناسی حسن صاحب کے ساتھ متعدد مرتبہ از میر میں ان کے مکان پر ان سے میری ملاقات ہوئی.آپ ریٹائر ہونے کے بعد از میر میں آباد ہو گئے تھے.آپ کا اپنا ذاتی مکان نہیں اس لیے کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہیں.آپ کی اولاد بھی کوئی نہیں.آپ کی اہلیہ محترمہ صبیحہ خانم SABIHA KHANI M) کی وفات سواء میں ہوئی.آپ نہایت ہی نیک دل اور مہمان نواز خانون
۲۶۴ تھیں.مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی دفعہ مکرم شناسی حسن صاحب کے ہاں حاضر ہوا تو ان کی اہلیہ صاحبہ نے ایک ماں کی طرح عاجز کے ساتھ شفقت اور محبت کا سلوک فرمایا.آخری عمر میں علالت طبع کے باعث - چل پھر نہ سکتی تھیں تاہم مجھے یا د ہے کہ ایک بار جب میں ان کے ہاں حاضر ہوا تو کرم شناسی صاحب کو آواز دے کر کہنے لگیں کہ شمس کو دودھ والا قہوہ تیار کرکے ہیں.ان کی اس مہمان نوازی کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا.علالت طبع کے باعث مہمان کا اس قدر خیال رکھنا یہ بتا تا ہے کہ مرحومہ کن اوصاف حمیدہ کی مالک تھیں.آپ نے بھی بیعت کی ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے آمین.خاکسار جب بھی از میر مکرم شناسی حسن کے مکان پر حاضر ہوا ان کو قرآن مجید کے مطالعہ میں مصروف پایا.ایک بڑے میز پر چھ سات تراجم رکھے ہوتے ہیں اور درمیان میں حضرت مصلح موعود.....کی تفسیر کے انگریزی ترجمہ پر مشتمل ترجمہ قرآن رکھا ہوا ہوتا ہے اور ہروقت تقابلی مطالعہ میں مصروف رہتے ہیں.بہت اعلی درجہ کی انگریزی جانتے ہیں.اور مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان مرحوم کی انگریزی میں مہارت کے معترت ہیں.آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ مکرم بچوہدری صاحب کی انگریزی اتنی اعلیٰ ہے کہ انگریزوں کو سبق دے سکیں.مکرم شناسی صاحب کا علم بہت وسیع ہے.تبلیغ کا بے حد شوق ہے.ایک بارخاکسار ماریشس کے ایک غیر از جماعت طالب علم کو ساتھ لے کر مکرم شناسی صاحب کے ہاں گیا.آپ نے ماریشس کا نام سنتے ہی بتا دی کہ فلاں جگہ پر ایک خوشنما جزیرہ ہے اور براعظم افریقہ میں شامل ہے.اور اس کے ساتھ ہی تبلیغ شروع کر دی اور بتایا کہ اسلام کی صحیح جوش اور جذبہ کے ساتھ کوئی جماعت خدمت کر رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے.اس طالب علم دوست نے بعد میں حیرت کے ساتھ مجھے بتایا کہ ماریشس کا اکثر لوگ نام تک نہیں جانتے لیکن مکرم شناسی صاحب کی معلومات اس چھوٹے سے ملک کے بارہ میں بے حد وسیع ہیں.کرم شناسی صاحب انگریزی کے علاوہ فارسی بھی بہت عمدہ جانتے ہیں اور کسی حد تک عربی زبان سے بھی آشنا ہیں.آپ کو فارسی اور ترکی (عثمانی) زبان کے سینکڑوں اشعار آج بھی زبانی یاد ہیں.سیدنا حضرت مصلح موجود کے تجر علی پر انگشت بدنداں ہیں اور خلافت احمدیہ کے خدائی اور عاشق ہیں.....آپ نے
Pyo متعدد بار خیال ظاہر کیا ہے کہ ترک وہ قوم ہے میں نے ماضی میں اسلام کی زیہ دست خدمات سرانجام دی ہیں اور اس قوم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ترک من حیث القوم دنیا کے اموال سے پیار نہیں کرتے اور بہادر ہیں.اس لیے انشاء اللہ العزیز ترک قوم ایک دن یقینا حضرت امام مہدی علیہ السلام کو شناخت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو جائے گی.انشاء اللہ العزیز مکرم شناسی صاحب اب تک سلسلہ کی متعدد کتب کا انگریزی سے ترکی میں ترجمہ کہ چکے ہیں اور یہ تراجم جماعت کی طرف سے شائع ہو چکے ہیں.یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ نے خاکسار کو ایک قرآن مجید دیا تھا کہ اسے خلافت لائبریری میں رکھوا دوں.یہ قرآن کریم آپ کی والدہ مرحومہ نے اپنی تمام اولاد کو اس وصیت کے ساتھ دیا تھا کہ وہ اس پر عمل کریں.تکریم دمحترم مرزا مبارک احمد صاحب نے ایک بار ذکر فرمایا کہ آپ ایک موقع پر ترکی گئے ہوئے تھے.مکرم جنرل اختر حسین ملک صاحب نے آپ کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام فرمایا جس میں سول اور فوجی افسروں نے شرکت کی.ایک بہت بڑے افسر نے باتوں باتوں میں مکرم میاں صاحب سے ذکر کیا که شناسی حسن صاحب اتنے قابل آدمی ہیں کہ اگر آپ سیاست میں حصہ لیتے اور کوشش کرتے تو آج جمہوریہ ترکی کے صدر ہوتے.لیکن انہوں نے گوشہ گنامی میں رہنا پسند کیا اور خدمت دین کو سیاسی اقتدار پر تر جیح دی یا ڈاکٹرمحمد جلال شمس انچار ج ٹرکش ڈیک - ۱۹۸۶ / ۱ / ۱۵ بروزبدھ
احمدی نوجوانوں کے لیے اشاعت حق کی خصوصی تحریک ۲۱ نومبر تا کو جامعة المبشرین کی ربوہ کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی عبد القدیر صاحب شاہد مبلغ افریقہ کے اعزاز میں ایک تقریب دریائے چناب کے کنارے منعقد کی گئی.حضرت شاہ صاحب دمشق میں اور شاہ صاحب غانا میں اعلائے کلمتہ اللہ کا فریضہ کامیابی سے سجا لانے کے بعد واپس ربوہ تشریف لائے تھے حضرت مصلح موعود نے بھی اس تقریب میں شمولیت فرمائی اور نوجوانان احمدیت کو تلقین فرمائی کہ آج دنیا دین حق کا پیغام سننے کے لیے بیتاب ہے اُن کا فرض ہے کہ وہ اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں.چنانچہ حضور نے فرمایا :- اس میں شک نہیں مبلغین کا کئی کئی سال تک ممالک غیر میں تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد واپس آنا بھی ہمارے لیے خوشی کا موجب ہے لیکن ہمارے لیے اور زیادہ خوشی کا موجب یہ امر ہے کہ مبلغ باہر جائیں کیونکہ آج دنیا اسلام کا پیغام سننے کے لیے بے تاب ہے وہ روحانیت کی پیاسی ہے اور اس امر کی محتاج ہے کہ کوئی آئے اور اس کی پیاس سمجھائے خود غیر ممالک کے لوگوں کی طرف سے بکثرت خطوط موصول ہو رہے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی سے بھجوتا کہ وہ ہم تک اسلام کا پیغام پہنچائے اور ہم اپنی روحانی تشنگی بجھا سکیں اس زمانہ میں خداتعالی نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے اور نہیں اس بات کا ذمہ دار بھرا یاہے کہ ہم اپنے گھروں سے نکلیں اور دنیا کی اربوں ارب آبادی تک اسلام کا پیغام پہنچائیں اور اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل کریں.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا یہ عظیم انسان کام اللہ تعالی نے ایک ایسی قوم کے سپرد کیا ہے جو تعداد میں بہت تھوڑی ہے وہ دنیا کی ہر جماعت اور ہر قوم ، کے مقابلہ میں چھوٹی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس چھوٹی سی جماعت سے ہی یہ خدمت لینا چاہتا ہے اور تمام دنیا کے لوگوں کو اس میں داخل کر کے اسے ساری دنیا پر محیط ے حال کینیڈا
کرنا چاہتا ہے پس نہیں یہ فکر نہیں کہ دنیا میں اسلام کیسے پھیلے گا اسلام تو جلد یا بدیر ہر حال پھیل کر رہے گا ہمیں فکر ہے تو اس بات کا ہے کہ اسلام کو پھیلانے والے کہاں سے آئیں گے آج دنیا کا اربوں ارب انسان اسلام کا محتاج ہے اور ان کی اس احتیاج کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منتخب کیا ہے ہم اس فرض سے اسی صورت میں عہدہ برآ ہو سکتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں خدمت دین اور تبلیغ اسلام کا جوش پیدا ہو وہ صوفیائے کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خدمت اسلام کے لیے باہر نکلیں اور دور دراز علاقوں میں پھیل جائیں یہاں تک کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہے جہاں اسلام کی تبلیغ نہ ہورہی ہو اگر یہ بند ہ ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہو جائے تو پھر اربوں لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے اور دنیا میں اسلام پورے طور پر غالب آجائے گا.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا دنیا کی عربیت کوئی عزت نہیں اصلی اور حقیقی عزت دین کی خدمت میں مضمر ہے جو شخص بھی قدرت دین کو اپنا مطمع نظر بناتے ہوئے دنیا کے دور دراز علاقوں تک اسلام کا پیغام پہنچائے گا اور اپنی زندگی اس فریضے کی ادائیگی کے لیے وقف کیے رکھے گا اس کا نام قیامت تک زندہ رہے گا اس عزت کے آگے دنیوی شہرت یا عزت کوئی حقیقت نہیں رکھتی.حضور نے مزید فرما با دین ایک بادشاہت ہے جو زور سے حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کا ملنا الله تعالیٰ کے فضل پر مصر ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا ہے اسے یہ بادشاہت مل گئی ہے سینے.حضرت مصلح موعود کو نومبر ۱۹۵۶ ء کے آغاز میں بذریعہ خواب ] ایک ابہامی دعا پڑھنے کی تحریک سند یہ ذیل دفتر التقاء ہوئے ہم قدم قدم پر خدا مندرجہ پہ تعالٰی کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں ، حضور نے ۶ ارنومبر ۱۹۵۶ء کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو تحریک فرمائی کہ دوست اپنی دعاؤں میں یہ فقرے کثرت سے پڑھیں ان کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.چنانچہ فرمایا :- سه روز نامه الفضل یوه ۲۵ نومبر ۱۹۵۶ء صفحه ۸
PYA مجھے بتایاگیا ہے کہ اگر یہ فقرے ہماری جماعت کے درست پڑھیں گے تو اُن کی دعائیں زیادہ قبول ہونگی میں نے بعد میں ان پر غور کیا اور سمجھ لیا کہ اس میں واقعہ میں دعائیں قبول کرنے کا ایک گڑ بتا یا گیا ہے.ہم قدم قدم پر خدا تعالے کی طرف توجہ کرتے ہیں" >> کے معنے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر فعل کے وقت خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارا یہ فعل مبارک ہو جائے اب یہ سیدھی بات ہے کہ جو شخص اپنے ہر فعل کے وقت خدا تعالے سے دعائیں کرتا چلا جائے گالا زنا اس کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.کیونکہ قدم قدم سے مراد چلنا تو نہیں ہو سکتا اس سے یہی مراد ہے کہ ہماری ز زندگی میں جو بھی نیا کام آتا ہے اس میں ہم خدا تعالے کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ اے خدا تو ہم پر اپنی رحمت اور فقتل نازل کرا در جو شخص اپنی زندگی کے ہر نئے کام میں خدا تعالیٰ سے دعا کرے گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کھانا کھاؤ توسیم اللہ کہہ تو کپڑا پہنے لگو تو بسم اللہ کہو کھانا کھا لو توالحمدلله کہو.نیا کپڑا پہن لو تو الحمد للہ کہو کہ خدا تعالے نے یہ کپڑا مجھے پہنایا ہے.گویا آپ نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم خدا تعالے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا موجب ہے اور برنی نعمت کے ملنے پر الحمد للہ کہنا بھی خدا تعالیٰ کو متوجہ کرنے کے مترادف ہے گویا ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کیطرف توجہ کرتے ہیں اور جب ہم اپنے ہر کام میں خدا تعالے کی طرف توجہ کریں گے تو لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کہے گا کہ میرا یہ بندہ تو کوئی کام میری مدد کے بغیر نہیں کرنا چاہتا اور وہ لازماً اس کی مددکرے گا پھر دوسرا فقرہ ہے " اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں اس کو پہلے فقرے کے ساتھ ملائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم ہر کام میں دیکھ لیتے ہیں کہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے یا نہیں اور اگر ہر کام کے کرتے وقت انسان خدا تعالیٰ سے دعا کرے اور ہر کام کے متعلق سوچے کہ اس میں خدا تعالیٰ ہے یا نہیں تو سیدھی بات ہے کہ اس کی کامیابی اور اس کی دعاؤں کی قبولیت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کیونکہ بجو شخص خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے کوئی کام کرے گا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے وہ تو خدا تعالے کا کام ہوگیا بندے کا کام ہو تو خدا تعالیٰ کہ بھی سکتا ہے کہ یہ تیرا کام ہے.تو آپ کر.مگر جب وہ کام خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کرنا چاہتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ یہ تیرا کام ہے تو آپ کہ بلکہ وہ کہے گا کہ یہ تو میرا کام ہے اسے میں ہی کروں گا.باقی رہا یہ کہ یہ تو دو دھرے ہیں ان کا دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ اس کا
جواب یہ ہے کہ ان فقروں سے پہلے دعا کے بعد کیونکہ کا لفظ محذوف سمجھا جائے گا اور مطلب یہ ہو گا کہ اے خدا فلاں کام کر دے.کیونکہ میں تو ہر کام تیری مدد مانگ کر کیا کرتا ہوں اور ہر کام میں تیری جنا کو مدنظر رکھتا ہوں اور پھر جو شخص دعا کے وقت کہے گا کہ ہم قدم قدم پر خدانخانی کی طرف توجہ کرتے ہیں، وہ عمل بھی یہی کوشش کرے گا کہ اپنے ہر کام میں خدا تعالیٰ سے دعا کرے.جو شخص دعا کے وقت یہ کہے گا اور ہم اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں اور عملہ بھی جب کوئی کام کرے گا تو دیکھے گا کہ اس میں خدا تعالی کی رضا سے یا نہیں، اور جب یہ دور بانہیں کوئی انسان کرے گا تو یقینی بات ہے کہ اس کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.لیس یہ صرف دعا نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کو ایک راستہ بھی بتایا گیا ہے کہ تم اپنے چال چلن کو اس رنگ میں ڈھالو کہ ایک تو اپنے ہر کام میں خدا تعالیٰ سے دعا کیا کہ :.دوسرے ہر کام کے کرنے سے پہلے سوچا کرو کہ خدا تعالیٰ اس سے راضی ہوگا یا نہیں.اگر تم ہر کام میں خداتعالی سے دعا کرو گے اور اگر تم ہر کام کے وقت یہ سوچو گے کہ اس میں خدا تعالیٰ کی رمنا ہے یا نہیں تو ان ما تو کچھ خدا تعالٰی سے مانگو گے وہ تم کو مل جائے گا پس یہ صرف دعاہی نہیں بلکہ اس میں دعا کی قبولیت کا گڑ بھی بنایا گیا ہے اور مجھے خدا تعالیٰ نے یہ فقرے اس لیے بنائے ہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ اگر اپنی دعاؤں میں یہ فقرے کہیں گے تو ان کی دعائیں زیادہ قبول ہوا کریں گی.گویا یہ دعا کی قبولیت کا ایک القالمی نسخہ ہے.یعنی ایسا نسخہ جو بندہ نے ایجاد نہیں کیا بلکہ خدا تعالیٰ نے اسے ظاہر کیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جو نسخہ خدا تعالیٰ خود بتائے وہ بندہ کے ایجاد کردہ نسخہ سے بہت زیادہ قیمتی ہوتا ہے لیے ۱۹۵۶ میں مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر لامیرد د کارتسم حضرت مصلح موعود کا رستم فرموده پیش لفظ جسم مصلی جماعت نے امتی جزیره خاری خال) احمدیہ ڈیرہ نے اپنی کتاب "بشارت رحمانیہ کی دوسری جلد شائع کی جس پر سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل پیش لفظ تحریر فرمایا :- اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جو لوگ اس کی خاص خدمت کے لیے مامور ہوتے ہیں به روزنامه الفضل ربوه ۲۳ نومبر ۱۹۵۶ء صفحه ۳-۴
۲۷۰ اُن کے لئے پہلے بزرگوں سے بشارات دلواتا ہے.چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء نے ان کے متعلق بشارات دیں جن کا ذکر متعد دیگہ قرآن کریم میں آتا ہے.پھر آپ نے اپنے بعد آنے والے مہدی اور مسیح کی بشارت دی جس طرح مسیح ناصری نے دی اور صالحین محمد دین سابق نے آنے والے مہدی کی علامات بتائیں اور اس کے زمانہ میں ظاہر ہونے والے نشانات کا ذکر کیا پیس ایسی بشارات کو یاد کر تا ایمان کو تانہ ہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرت پر یقین بڑھاتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہے اور وقت کا مامور سچا ہے اور اس کے مخالف محض معاند ہیں.و السلام خاکسانه میرن المحمود احمد خلیفة المسیح - ۲۸ سید نا حضرت مصلح موعود کے عہد مبارک کا یہ جلسہ اس اعتبار جلسہ سالانہ ربوہ اور حضرت مصلح موعود سے ایک خاص یاد گارشان کا حامل تھا کیونکہ یہ جلسہ کے روح پہ در خطابات ایسے حالات میں ہوا کہ دشمنان احمدیت نے خوب خوشیاں منائیل اور بغلیں بجائیں کہ اب احمدیت کا خاتمہ ہو جائے گا.اور پولیس نے منتظم پراپیگنڈا کیا کہ جماعت نے اپنے خلیفہ کے خلاف علم بغاوت بند کر دیا ہے.گر علما یہ ہواکہ جماعت احمدیہ کے ہر طبقہ میں پہلے سے بڑھ کر اخلاص اور قربانی کی روح پیدا ہوگئی اور اس جلسہ سالانہ پیر احمدی عورتوں بچوں نه اور احمدی مردوں نے نہایت جوش اور ولولہ کے ساتھ اس بات کا عملی مظاہرہ کیا کہ خلافت زندہ ہے اور زندہ رہے گی.اور وہ ہمیشہ ہی اس کی خاطر پر دانوں کی طرح قربانیاں پیش کرتے رہیں گے.اور مخالفت کی آمد معیوں میں بھی احمدیت اور اسلام کا جھنڈا اونچار کھیں گے.یہ طلبہ حضرت مصلح موعود کی ایک بے مثال جلالی شان کا بھی منظہر متھا جس میں حضور نے متعدد بصیرت افروز اور علمی نقار پر فرمائیں.(1) افتتاحی تقریر بہت پر جوش تھی.حضور نے اس تقریر میں پیش گوئی فرمائی." تم خدا کا لگایا ہوا نه بشارات جلد دوم ص مؤلفہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر لاہور آرٹ پر لیں انار کلی لاہور
۲۷۱ پودا ہو تم بڑھتے چلے جاؤ گے اور پھیلتے چلے جاؤ گے اور جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے تمہاری جرای زمین میں مضبوط ہوتی جائیں گی اور تمہاری شاخیں آسمان پر پھیلتی چلی جائیں گی.یہاں تک کہ تم میں لگنے والوں پھلوں کو جبرئیل آسمان پر بیٹھا ہو اکھائے گا.اور اس کے ماتحت فرشتے بھی آسمان پر سے کھائیں گے اور خدا تعالی عرش پر تعریف کرے گا.کہ میرا لگایا ہو ا پو دا کتنا شاندار نکلا ہے ادھر زمین پر میں اس کی جڑیں پھیل گئی ہیں اور ادھر آسمان میں میرے عرش کے پاس اس کی شاخیں ہل رہی ہیں.اندھا ثابِتُ وَنَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ اس کی جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی ہوں گی.اور اس کی شاخیں آسماں میں پھیلی ہوئی ہوں گی.تو ادھر تو تم خدا تعالیٰ کے فضل سے زمین میں اس طرح پھیلو گے کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایک دن وہ آئے گا کہ دنیا میں میرے ماننے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی اور دوسرے لوگ میں طرح چھوٹی تو میں تھوڑی تھوڑی ہوتی ہیں اسی طرح وہ بھی چھوٹی قومیں بن کر رہ جائیں گی.اور منرعُها في السماء کے معنے یہ ہیں کہ تم صرف زمین میں پھیلو گے ہی نہیں بلکہ ذکر الہی اتنا بند کرو گے کہ آسمان کے فرشتے اس کو سُن کر ناچنے لگ جائیں گے اور خوش ہوں گے کہ ہمارے خدا کا ذکر زمین پر اس طرح ہونے لگ گیا ہے جس طرح کہ ہم آسمان پر کرتے ہیں.تب آسمان پر بھی فرشتے ہوں گے آسمان کے فرشتوں کا نام جبرئیل اور اسرافیل وغیرہ ہو گا اور زمین کے فرشتوں کا نام احمدی ہوگا کیونکہ وہ نہ مین کو بھی خدا کے ذکر سے بھر دیں گے اور میں طرح آسمان کو فرشتوں نے خدا کے ذکر سے بھرا ہوا ہے پس یہ تو ہونے والا ہے اور ہو کر ر ہے گا.انشاء اللہ تعالیٰ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ایمانوں کو سلامت رکھیں اور اپنی اولادوں کے دلوں میں ایمان پختہ کرتے چلے جائیں اگر اس تربیت کے کام کو ہم جاری رکھیں تو یقیناً دنیا میں اسلام اور احمدیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا.یہ عیسائی حکومتیں جو آج نازا در سنخرے کیساتھ اپنے سر اٹھا اٹھا کر چل رہی ہیں اور چھاتیاں نکال نکال کر چل رہی ہیں.یہ اسلام کے آگے مرجب کے ہیں گی.یہی سنگوئی پوش احمدی اور دھوتی پوش احمدی جو یہاں بیٹے ہیں اُن کے آگے امریکہ کے کروڑ بنتی آکر سر تھے کا میں گے اور کہیں گے کہ ہم ادب سے ن : له سورة ابراهیم : ۲۵
۲۷۲ تم کو سلام کی تے ہیں کہ تم تمہارے روحانی باپ ہورنعرہ تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو نہ صرف ہمارا باپ تھا بلکہ ہمارے خدا کے بیٹے کسی کا بھی باپ تھا تم اس کے فرزند ہو.اور ہم تمہارے بیٹے ہیں پس تم نے ہمیں اپنے باپ سے روشناس تم کرایا ہے.اس لیے تم ہم کو خاندان الوہیت میں واپس لانے والے ہو.تم ہم آوارہ گردوں کو پھر گھر پہنچانے والے ہو اس لیے ہم تمہارے آگے سرجھے کالے ہیں.کیونکہ تمہارے ذریعے سے اسلام ہم تک پہنچا ہے.سو یہ دن آنے والے ہیں.انشاء اللہ قالت ۲- تقریر زیر عنوان نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر مل اس کا ذکر پیچھے باب میں گزر چکا ہے).م به مندرجہ بالا عنوان پر تقریر کرنے کے علاوہ حضور نے بعض متفرق نگر اہم جماعتی امور پر روشنی ڈالی بیرونی ممالک کے احمدی مبلغین اور اُن کی شبانہ روز مساعی کے شاندار عثرات بیان فرمائے اور جماعت کو ایسی ایسی خوشخبریاں سنائیں کہ حاضرین کے دل خوشی سے بھر گئے اور زبانیں حمد و تشکر کے جذبات سے برینہ ہو گئی.چنانچہ فرمایا :- اس سال سلسلہ نے منگور کا میں جو سیرالیون میں ایک جگہ ہے ایک شاندار بیت تعمیر کی ہے جس پر پانچ سو پونڈ خرچ ہو چکا ہے یعنی سات ہزار روپیہ اور ابھی تین سو پونڈ اور خرچ ہو گا.اور اس طرح دس ہزار روپیہ خرچ ہو جائے گا.مشرقی افریقہ میں دار السلام میں ایک عالی شان بیت تعمیر ہو رہی ہے اور دار التبلیغ تعمیر ہو رہا ہے.انڈو نیب میں.پا ڈانگ میں ایک بہت تیار ہو رہی ہے.جس میں ڈھائی تین لاکھ روپیہ خرچ کا اندازہ ہے.اسی طرح جا دا.سماٹرا.سولا دلیسی (سلیبس میں چار نئی بیوت قائم کی گئی ہیں.جرمنی میں ہمبرگ کے مقام میں بہت کے لیے زمین خریدی جاچکی ہے.چنان کی منظوری آ جائے.تو کام شروع ہو جائے گا.لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی گورنمنٹ ہم کو ایلینچ دئے.ابھی تک انہوں نے منظور نہیں کیا جب وہ منظور ہو جائے گا.تو رہ کام بھی نہ د ع ہو جائے گا اس مسجد پہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے قریب خرچ ہو گا.رجس میں ۲۴ ہزار روزنامه الفضل ربوہ ۱۷ مارچ ۱۹۵۷ ۶ صفحه ۳
جمع ہو چکا ہے) سوالاکھ کے قریب ابھی اور روپیہ چاہیئے عورتوں نے ہالینڈ کی بہیت کا چندہ اپنے ذمر کیا تھا.مگر اس پر بجائے ایک لاکھ کے جو میرا اندازہ تھا ایک لاکھ چوہتر ہزار روپیہ خرچ ہوا.۷۸ ہزار اُن کی طرف سے چندہ آیا تھا.گویا ابھی 94 ہزار باقی ہے.پس عورتوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ ده ۹۶ ہزار روپیہ جلد جمع کہ ہیں.تاکہ میت ہالینڈ ان کی ہو جائے.بیت ہالینڈ کا نقشہ بن کر آگیا ہے جس میں بجلی بھی لگی ہوئی ہے اور بہت خوب نظر آجاتی ہے.لجنہ اماءاللہ نے اس کا بھی چندہ رکھا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ دو آنے کا ٹکٹ ضرور لیں.زیادہ کی توفیق ہو تو زیادہ کا ٹکٹ لے کر بہت دیکھ لیں.جس کا نقشہ بن کر آیا ہے.اور انہوں نے اس کے اندر بجلی کا بھی انتظام کیا ہوا ہے بجلی سے اندر روشنی ہو جاتی ہے اور پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیسی شاندار بیت ہے.مگر ہمارے پروفیسر ٹلٹاک جو جرمنی کے ایک پروفیسر ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ تمبرگ کی بیت کا جو ہمارے ذہن میں نقشہ ہے وہ ہالینڈ کی بہت سے زیادہ شاندار ہو گا.نٹے مشن بھی ہم خدا کے فضل سے کھول رہے ہیں اور ان کے ساتھ مبلغ بھی بڑھیں گے مثل مشرقی افریقہ سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ جنوبی رو دیشیار یہ افریقہ کے ساحل پر بہت بڑا علاقہ ہے) اور نیا سالینڈ اور بلجین کانگو میں ہمارے سوا خیلی اخبار در سواحیل ترجمہ قرآن مجید بھجوائے گئے تھے وہاں لوگ کثرت احمدیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور بلین کانگو کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں سینکڑوں احمدی ہو چکے ہیں.اور ان ملکوں کے لوگوں نے مبلغین کا مطالبہ کیا ہے.فلپائن جو امریکہ کے ماتحت ایک علاقہ ہے اور نہایت اہم ہے پہلے یہاں مسلمان آبادی تھی سارا علاقہ مسلمان تھا.اور ترکوں اور عربوں کے ماتحت تھا راب آزاد ہو چکا ہے) سپین نے اس کو فتح کیا اور جس طرح سپین نے اپنے ملک سے مسلمانوں کو نکال دیا تھا.اسی طرح فلپائن پر حملہ کر کے اس نے اسکو فتح کیا اور تلوار کے نیچے گردنیں رکھ کر سب سے اقرار کروایا کہ ہم مسلمان نہیں عیسائی ہیں تمہاری غیرت کا تقاضا تھا کہ تم وہاں جاؤ سپین کے متعلق بھی تمہاری غیرت کا تقاضا تھا ہم نے دہاں مبلغ سمھجوایا لیکن پاکستانی گورنمنٹ زور دے رہی ہے کہ اس مبلغ کو واپس بلالو.کیونکہ سپینش (SPANISH) گورنمنٹ کہتی ہے کہ ہم یہاں تبلیغ کی اجازت لو.نہیں دے سکتے.حالانکہ ان کو چاہیئے تھا کہ وہ سپین گورنمنٹ کو کہتے کہ تم کو یہ کوئی حق نہیں کہ تم ہمارے مبلغ کو نکالو مہارت تک میں بیسیوں عیسائی مبلغ ہیں اگر تم اسے نکالو گے تو ہم بھی تمہارے مبلغ کو
۲۷۴ نکال دیں گے لیکن بجائے اس کے انہوں نے مغربی پاکستان کی گورنمنٹ کو لکھا اور مغربی پاکستان کی گورنمنٹ نے مجھے لکھا.کہ اس مبلغ کو واپس بلالو سپینش (SPANISH) گورنمنٹ پسند نہیں کرتی.ادھر فلپائن کے جو لوگ ہیں وہ بھی چونکہ نئے عیسائی ہیں.پہلے مسلمان تھے ان میں بھی تعصب نہ یادہ ہے.ان کے ہاں بڑی کوشش کی گئی کہ کسی طرح وہاں مبلغ جائے لیکن وہاں سے اجازت نہیں مل سکی.جب کبھی ویزا کے لیے کوشش کی جاتی ہے وہ انکار کر دیتے ہیں.مگر ہمارا خدا حکومتوں سے بڑا خدا ہے.فلپائن گورنمنٹ یا امریکن گورنمنٹ اگر وہاں جانے سے روکے گی.تو بتا کیا ہے.اللہ نے ایسا سامان کر دیا کہ پچھلے سال جاپان میں ایک مذہبی انجمن بنی.اس نے مجھے چھٹی لکھی کہ اپنا کوئی مبلغ بھجوائیں میں نے خلیل ناصر صاحب جو داشنگٹن کے مبلغ ہیں ان کو وہاں بھجوایا وہ وہاں گئے تو وہاں سے ان کو موقع لگا کہ واپسی میں کچھ دیر فلپائن ٹھہر جائیں.جب وہ فلپائن ٹھہرے تو فلپائن کے کئی لوگ اُن سے آکر ملے.اور انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بھی بعض جگہوں پہ اسلام کا نام باقی ہے اور مسلمان جنگلوں میں رہتے ہیں.آپ ہمارے ہاں مبلغ بھیجیں تو ہم آپ کی مدد کریں گے.اور اسلام پھیلائیں گے.انہوں نے مجھے لکھا ہم نے کوشش شروع کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا گورمنٹ ریزا دینے سے انکار کرتی رہی مگر اللہ تعالیٰ نے سامان کیا وہ لوگ جو خلیل ناصر صاحب سے ملے تھے.ان میں سے ایک پراثر بہت زیادہ ہو گیا تھا اس نے خط لکھا کہ میں زندگی وقف کر کے اسلام پھیلانا چاہتا ہوں اور ربوہ آنا چاہتا ہوں ہم نے اسے فوراً لکھ دیا کہ بڑی خوشی سے آؤ یہ تو ہماری دلی خواہش ہے چنانچہ جس ملک میں سے تلوار کے زور سے محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو نکالا گیا تھا.ہم اس ملک کو دلائل کے ذریعہ سے پھر محمدرسول اللہ لیہ وسلم اور قرآن کی گود میں لاکر دم لیں گے.دنعرہ ہائے تمہیں وہ جس نے ہمیں لکھا تھا اس کو کوئی مشکل پیش آئی اس لیے وہ تو نہ آسکا مگر اس کے ذریعے ایک اور احمدی تہوا وہ احمدی کسی فرم میں ملازم تھا.وہ وہاں سے بور نبوہ آگیا وہاں ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب جو خانصاحب فرنہ ند علی صاحب کے بیٹے ہیں اور مفت تبلیغ کر رہے ہیں.ڈاکٹری بھی کرتے ہیں اور تبلیغ بھی کرتے ہیں ان سے ملا اور وہاں اس نے اسلام سیکھنا شروع کیا.اب اس کا خط آیا کہ میں بڑی کوشش کر رہا ہوں کہ فرم مجھے چھوڑ دے تو میں آ جاؤں پھر اس کے کہنے پر کچھ اور لٹریچر فلپائن بھیجا گیا پہلے وہاں سے سوالہ بیعتیں آئی منتھیں.اس ضمن میں ایک کالچ کا ایک اسٹوڈنٹ نے وہاں کے مسلمانوں کی جو انجمن منھی اسے تبلیغ شروع کر دی.ان میں
۲۷۵ سے کسی کو لٹریچر پسند آگیا.اور اس نے آگے تبلیغ شروع کر دی.پہلے سوال بیعتوں کی اطلاع آئی تھی اس کے بعد ستائیں بیعتیں آئیں گویا ہم ہو گئیں.اس کے بعد پھرا ٹھا نہ بیعتیں آئیں.یہ سارے مل کر 41 ہو گئے.اور اب اطلاع آئی ہے کہ اور لوگ بھی تیار ہیں.بلکہ انہوں نے لکھا ہے کہ جتنے کالج کے لڑکے ہیں یہ سارے مسلمان ہو جائیں گے اور احمدی بن جائیں گے.تو فلپائن گورنمنٹ نے ہمارا رستہ روکا تھا.لیکن خدا نے کھول دیا ہے اور جہاں ایک مسلمان کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی.وہاں 4 آدمی بیعت کر چکا ہے اور کالج کے باقی سٹوڈنٹ کہتے ہیں کہ ہمیں جلدی بیعت فارم بھیجو.ابھی انہوں نے منو بیت فارم کے متعلق لکھا ہے.کہ جلدی بھیجو سب لڑکے تیار ہو چکے ہیں اب حسن ملک کے کالج کے لڑکے مسلمان ہو جائیں گے سیدھی بات ہے کہ وہ بڑے بڑے عہدوں پر مقرر ہوں گے.اور جہاں جائیں گے اسلام کی تبلیغ کریں گے کیونکہ اسلام چیز ہی ایسی ہے کہ جو ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیتا ہے پھر وہ چپ نہیں رہ سکتا میرے دوست پر وفیسر ٹاک اس وقت یہاں بیٹھے ہیں جب میں بیماری میں علاج کرانے گیا تھا.تو ہمبرگ بھی گیا.مولوی عبد اللطیف صاحب جو ہمارے مبلغ ہیں وہ ان کو لائے اور کہنے لگے یہ پروفیسر ملٹاک ہیں ان کو اسلام کا بیڑا شغف ہے یہ کیل میں یونیورسٹی کے پر دنیسر ہیں.آپ کا ذکر سنکر کیل سے آئے ہیں.مگر کہتے ہیں میں نے الگ بات کرنی ہے میں نے کہا بڑی خوشی سے بلالو اور لوگ چلے جائیں.چنانچہ وہ آگئے انہوں نے تھوڑی دلیہ بات کی اور پھر کہنے لگے میں نے بیعت کرنی ہے میں نے کہا بہت اچھا کر لیجیے.میں نے پوچھا اسلام سمجھ لیا ہے کہنے لگے ہاں میں نے سمجھ لیا ہے.گر کسی کو پتہ نہ لگے میں بڑا مشہور آدمی ہوں میں نے کہا بہت اچھی بات ہے تمہیں آپ کو مشہور کرنے کا کیا شوق ہے.آپ کی خدا سے صلح ہوگئی.کافی ہے.چنانچہ اس کے بعد پاس کے کمرہ میں کچھ حجر من دوست نماز پڑھنے کے لیے آئے تھے.میں نمازہ پڑھانے کے لیے اس کمرہ میں گیا جب نماز پڑھ کے میں نے سلام پھیرا.تو دیکھا.کہ صف کے آخر میں وہ پر دفیسر ٹمٹاک بیٹے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ میرا کسی کو پتہ نہ لگے.میں نے مولوی عبد اللطیف صاحب سے ہا کہ پروفیسر صاحب سے ذرا پوچھو کہ آپ تو کتنے تھے کہ میرے اسلام کا کسی کو پتہ نہ لگے اور آپ تو سلے جرمنوں کے سامنے نما ز پڑھ رہے ہیں تو اب تو پتہ لگ گیا.کہنے لگے میں نے پوچھا تھا یہ کہنے لگے ہیں نے سمجھا کہ یہاں ان کے آنے کا کیا واسطہ تھا خدا انہیں میری خاطر لایا ہے.تو اب خلیفہ کے پیچھے
۲۷۶ نماز پڑھنے کا موقع جوخدا نے مجھے میسر کیا ہے یہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے.چنانچہ نماز پڑھ لی اب یا تو وہ دہاں کہتے تھے کہ میرا اسلام ظاہر نہ ہو یا یہاں آ کے بیٹھے ہوئے ہیں.(اس موقعہ پر دوستوں نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ پر دفیسر مٹاک صاحب انہیں دیکھا دیئے جائیں چنانچہ پر دغیر صاحب سٹیج پر تشریف لے آئے.اور حضور نے فرمایا یہ پر دفیسر ملک صاحب ہیں تو جرمنی سے آپ لوگوں کو دیکھنے آئے ہیں اور آپ ان کو دیکھنے آئے ہیں.اس پر دوستوں نے خوشی سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے.دوسری خوشخبری یہ ہے کہ پر وفیسر ٹلناک صاحب یہ خبر لائے ہیں کہ جرمنی میں چار شہروں میں جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.ایک بیعت پیچھے الفضل میں شائع ہوئی ہے.تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ اس نو مسلم کی بیوی نے بھی بیعت کر لی ہے سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ پیغامیوں نے منافقین کو کہا تھا کہ ہمارا سٹیج تمہارے لیے ہے ہماری تنظیم تمہارے لیے ہے.آج ہی جس وقت میں چلنے لگا ہوں تو مولوی عبد اللطیف صاحب کی چھٹی پہنچی کہ ایک جرمن جو پیغامیوں کے ذریعہ سے مسلمان ہوا تھا وہ میرے پاس آیا اور میں نے اس کو تبلیغ کی اور وہ بیعت کا خط آپ کو بھجوا رہا ہے.توان کی وہ تنظیم خدا نے ہمیں دے دی.جس طرح ابوجہل کا بیٹا عکرمہ محمدرسول اللہ صل للہ وسلم کو مل گیا تھا.اسی طرح پیغامیوں کا کیا ہوا نومسلم ہمیں مل چکا ہے.آج ہی اس کی بیعت کا خطہ آگیا ہے یہ حضور نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ : ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاکستان میں لوگوں کو ایک بڑی مصیبت پڑی ہوئی ہے اور وہ کشمیر کا مسلہ ہے.کشمیر کے مسئلہ میں آج تک پاکستان حیران بیٹا ہے اور پاکستانی گورنمنٹ سے بھی زیادہ حیران بیٹھے ہیں.یہ سب کو نظر آرہا ہے کہ جب تک کشمیر نہ ملا پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا اور یہ بھی سب کو نظر آرہا ہے کہ کہنا کرانا کسی نے کچھ نہیں.سب حیران ہیں پاکستان کی نظر مر یکہ پر ہے اور امریکہ کی نظریہ میں پر ہے.اور اگر کسی وقت پاکستان نے ادھر پھیل کی تو روس اپنی نو میں افغانستان ه روزنامه الفضل ریوه ۱۹ مارچ ۱۹۵۷ء ص ۳ - ۴ - ۵ i
میں داخل کر دے گا یا گلگت میں داخل کر دے گا اس حیرت میں پاکستان گورنمنٹ کچھ نہیں کرتی.ہیں اپنی جماعت کو ایک تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج جب دعائیں ہوں گی تو کشمیر کے متعلق بھی دعائیں کریں.دوسرے میں ان کو تسلی بھی دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سامان نرالے ہوتے ہیں میں جب پارٹیشن کے بعد آیا تھا تو اس وقت بھی میں نے تقریہ دن میں اس کی طرف اشارہ کیا تھا مگر گورنمنٹ نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا اسب نظر آرہا ہے کہ وہی باتیں جن کو میں نے ظاہر کیا تھا وہ پوری ہو رہی ہیں.یعنی پاکستان کو جنوب اور مشرق کی طرف سے خطرہ ہے.لیکن ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ ہندوستان کو شمال اور مشرق کی طرف سے شدید خطرہ پیدا ہونے والا ہے اور وہ خطرہ ایسا ہو گا کہ باوجود طاقت اور قوت کے ہندوستان اس کا مقابلہ نہیں کریگا اور روس کی ہمدردی بھی اس سے جاتی رہے گی سو دعائیں کرو اور یہ نہ سمجھو کہ ہماری گورمنٹ کمزور ہے یا ہم کمزور ہیں خدا کی انگلی اشارے کر رہی ہے اور میں اسے دیکھ رہا ہوں نعرہ ہائے تمہیں) للہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا کہ روسی اور اس کے دوست ہندوستان سے الگ ہو جائینگے اس تقریر کے بعد جو حالت یو.این.اد کو پیش آئے ان سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے بہت سے دوست پاکستان کو دے دیئے ہیں.مرتب) اوراللہ تعالی ایسے سامان پیدا کرے گا کہ امریکہ یہ محسوس کرے گا کہ اگر میں نے جلد ہی قدم نہ اٹھایا تو میرے قدم نہ اٹھانے کی وجہ سے روس اور اس کے دوست پیج میں گھس آئیں گے.انعرہ تکبیر) پس مایوس نہ ہوا اور خدا تعالیٰ پر توکل رکھو اللہ تعالی کچھ عرصہ کے اندر ایسے سامان پیدا کردے گا.آخر دیکھو یہودیوں نے تیرہ سو سال انتظار کیا اور پھر فلسطین میں آگئے مگر آپ لوگوں کو تیرہ سو سال انتظار نہیں کرنا پڑے گا ممکن ہے تیرہ بھی نہ کرنا پڑے ممکن ہے دس بھی نہ کہنا پڑے اور اللہ تعالیٰ اپنے برکتوں کے نمونے تمہیں دکھائے گا.(نعرہ ہائے تکبیر ) سلہ ۴ تقریر زیر عنوان خلافت حقه اسلامی گورنر اور دسمبر ۱۹۵۶ء اس کا ذکر پچھلے باب رضہ میں آچکا ہے.به روزنامه الفضل ریوه ۱۵ مارچ ۱۹۵۷ء ص ۳ - ۴ : سے اس کا پہلا ایڈیشن الشركة الاسلامیہ ربوہ نے اور دوسرا نظارت اشاعت لیچر و تصنیف ربوہ نے شائع کیا.
PLA - تقریر سیر روحانی ( قرآنی باغات) حضرت مصلح موعود نے اپنی اس پر معارت نظریہ کا آغا نہ اس نکنہ معرفت سے کیا کہ اسلام کی بنیاد توحید خالص ہے اور سورہ اخلاص اس توحید کا معیار ہے.اس کے بعد حضور نے قرآن کریم کے اس بے مثال انکشاف کی تفصیلات بیان فرمائی کہ صرف خدا ہی احد ہے باقی ہر چیز خواہ پھل ہوں یا زمین در آسمان یا باغات سبھی کا جوڑا ہے.مادی اعتبار سے بھی اور روحانی اعتبار سے اس مضمون کو بیان کرنے کے بعد حضور نے محمدی باغات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا.امحمدی باغوں میں سے ایک پوداحسن بصر کی گا لگا.ایک جنید بغدادی کا لگا.ایک سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ لیہ کا گلہ ایک شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.یک ابراہیم ادھم رحمہ اللہ علیہ نگاہ ایک محی الدین ابن عربی صاحب رحمہ اللہ علیہ کا لگا.ایک امام غزالی رحمہ اللہ علیہ کا گا.ایک ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ لگا.ایک شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا.ایک بہا الدین صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک معین الدین صاحب چشتی رحمہ اللہ علیہ کا لگا.ایک سلیم چشتی رحمہ اللہ علیہ کا گا.ایک قطب الدین صاحب بختیار کا کی حمہ اللہ علیہ کا گا.ایک فرید الدین صاحب گنج شکر رحمہ اللہ لیہ کا لگا.ایک نظام الدین صاحب اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کالگا.ایک حضرت باقی باللہ رحمہ للہ علیہ کالگا.ایک داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک مستند صاحب سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا.ایک شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کا لگا.ایک خواجہ میر ناصر رحمتہ اللہ علیہ کا لگا.ایک خواجہ میر درد رحمتہ اللہ علیہ کا لگا.ایک سید احمد صاحب بریلوی رحمتہ للہ علیہ کا لگا.اور سب سے آخر میں باغ محمدی کی حفاظت کرنے والے درخت حضرت کیسے ہو ٹوڑ کا پودا لگا ب کو خود مسلمانوں نے بدقسمتی سے کاٹ کر چاہا کہ محمدی باغ میں لوگ گھس جائیں، بکریاں اور سر بھیڑیں گھس جائیں.اور محمدی باغ کو تباہ کر دیں مگر وہ پور، اس نشان کو تھا کہ اس نے کہا اے اسے آنکہ سوئے من بدر وبدری بصد بہتر انه با عتبان بترس که من شارخ مترم له اس شخص جو کہ کلہاڑے لے کر میرے کاٹنے کے لیے دوڑا آرہا ہے.میرے باغبان خدا سے یا محمد رسول اللہ سے ڈر کہ میں وہ شاخ ہوں جس کو پھل لگے ہوئے ہیں اگر تو مجھے کاٹے گا تو محمد رسول اللہ کا پھل کٹ جائے گا اور نتیجہ یہ ہو گا کہ محمد رسول اللہ کا باغ بے شریرہ جائیگا.پس تو مجھے له الا الہ اوہام حصہ اقول (طبع اقول ص ۱۶۲ ! !
نہیں کاٹ رہا تو محمد رسول الہ سے بات کو اجاڑ رہا ہے اور خدا کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ محمد رسول اللہ کا باغ اکبرے وہ ضرور اس کی حفاظت کرے گا یہ ہے اس معرکہ اراء نظریہ سے قبل حضور نے بعض اہم حضرت مصلح موعود کی طرف سے خالد کا خطاب اور متفرق امور پر روشنی ڈالتے ہوئے مندرجہ ذیل ممتاز علماء سلسلہ کو خالد کے خطاب سے نوازا.- - مولانا جلال الدین صاحب سمس سابق مجاہد بلاد اسلامیه دانگلستان ، اولانا ابوالعطاء صاحب سابق مجاہد بلا عربیہ پرنسپل جامعہ احمدیہ.- ملک عبد الرحمن صاحب خادم امیر جماعت احمدیہ گجرات.اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا کہ : رو حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے خلاف جب جملے ہوئے تو حضرت خلیفہ اقول نے فرمایا تھا کہ مغرور مت ہو.میرے پاس خالدہ ہیں جو تمہارا سر توڑ دیں گے مگر اس وقت سوائے میرے کوئی خالد نہیں تھا صرف میں ایک شخص تھا جس نے آپ کی طرف سے دفاع کیا.چنانچہ پرانی تاریخ نکال کر دیکھ لو صرف میں ہی ایک شخص متھا جس نے آپ کی طرف سے دفاع کیا اور پیغامیوں کا مقابلہ کیا اور ان سے چالیس سال گالیاں سنیں لیکن با وجود اس کے کہ ایک شخص اُن کی طرف سے دفاع کرنے والا تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان میں برکت دی اور ہزاروں ہزار آدمی مبایعین میں آکر شامل ہو گئے جیسا کہ آج کا جلسہ ظاہر کر رہا ہے مگر یہ نہ سمجھو کہ اب وہ خالہ نہیں ہیں.اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں.چنانچہ شمس صاحب ہیں مولوی ابوالعطاء ہیں.عبد الرحمن صاحب خادم ہیں.یہ لوگ ایسے ہیں کہ جو دشمنکا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور دیں گے انشاء اللہ اور اللہ تعالیٰ ان کی قلم ہیں اور ان کے کلام میں زیادہ سے زیادہ برکت دیگا.یہاں تک کہ یہ اس بت خانہ کو جو پیغامیوں نے تیار کیا ہے سے سیر روحانی جلد سوم ما و صنا
۲۸۰ چکنا چور کر کے رکھدیں گے پلے سید نا حضرت مصلح موعود نے ۹۵۵اء کے جلسہ سالانہ قادیان کے بھارتی حمدیوں کی دینی سرگرمیاں کے موقع پر بنا دیا.اس میں بھارت کے طول و عرض پیغام میں اشاعت دین کے لیے سرگرم عمل ہونے کی پر نہ در تحریک فرمائی تھی کی اس پیغام نے بھارتی احمدیوں میں غیر معمولی بیداری پیدا کر دی.اس اعتبار سے یہ سال ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.ان دنوں بھارت میں مندرجہ ذیل مبلغین سلسلہ تبلیغی خدمات بجالا ر ہے تھے :- مولوی سمیع اللہ صا حب انچارج دار التبلیغ بیٹی ۲- مولوی مبارک علی صاحب ( انچارج دار التبلیغ سبیل و دھار واڈ کرناٹنگ) ۳ - مولوی محمد صادق صاحب ناقد کا انچارج دیا تبلیغ بنگلور ) ۲ - حکیم محمد الدین صاحب رانچارج مبلغ حیدر آباد دکن) ه - مولوی سراج الحق صاحب ( مبلغ نند گڑھ بعد ازاں نیما پور) 4 مولوی فیض احمد A صاحب ( مبلغ تیما پور ، مولانا عبد اللہ صاحب فاضل انچار ج مبلغ مالا بار) ۸ : ولوی محمد ابوالوفاء صاحب ( مبلغ کالی کٹ) ۹ - مولوی احمد رشید صاحب ( مبلغ کرنا گاپی) ۱۰ میوادی شریف احمد صاحب امنیتی رانچا.ج دار التبلیغ بمبئی بعد ازاں انچارج دار التبليغ مدراس ۱۱ - مولانامحمد سلیم صاحب سابق مبلغ بلاد عر بیہ انچارج دار التبلیغ کلکتہ بنگال داریه) ۲- مولوی سید صمصام الدین احمد صاحب د مبلغ کیندره پاره اثر یہ بعدازان رانچی) ۱۳- مولوی سید غلام مهدی صاحب ناقر د بلخ چود دار کشک) - ۱۴- مولوی سید فضل عمر صاحب مبلغ کوٹ پلہ.اڑیسہ ) ۱۵ - مولوی سید محمد موسیٰ صاحب رمبلغ سونگڑہ) ۱۶.مولوی محسن خالصا حب دکمرنگ اڈلیس) ۱۷- مولوی فضل دین صاحب موسی بن مایه بهار ۱۸ مولوی سید نفیر الدین احمد صاحب ( پیشنه) ۱۹ - مولوی بشیر احمد صاحب فاضل ( مبلغ دہلی ویوپی) ۲۰ - مولوی سید منظور احمد صاحب عامل رسانده من یوپی ) ۲۱ - مولوی خورشید احمد صاحب پر بھاکر رشاہجہا نور) ۲۲ - مولوی غلام نبی صاحب را بنیڈ).-->> - ۲- مولوی عبید الرحمن صاحب خانی ابھرت پور) ۲۴- مولوی منظور احمد صاحب مسکرا یو پی) ۲۵ مولوی فتح محمدرضا استم درکشن گڑھ.راجستان) ۲۶ حکیم محمد سعید صاحب المبلغ انچار ج سرینگر) ۲۰ میولوی غلام احمد شاہ صاحب سه روز نا م الفضل ۵ ارمان ، ۶۱۹۵ ص : بل اخبار بدر ، جنوری ۱۹۵۶ و صدا ( پیغام کا متن) : سته به نیا مشن ، راگست ۱۹۹۶ کو قائم ہوا اور کے پہلے انچارج مولوی صامو مینو مقر ہوئے ربدر ۲۱ ۱ اگست ۱۹۵۶ رست کے اسی سال ریٹائرڈ ہو ئے."
۲۸۱ ماند دین کشمیر) ۲۸- مولوی عبد اللطیف صاحب (کنده براڑی) ۲۹ مولوی محمد ایوب صاحب (بھدرواہ کشمیر ) شیخ حمید الہ صاحب رکن پور بعدازاں پونچھ) ۳۱.مولوی بشیر احمدصاحب خادم را بر کوله ۲۳۲- مولوی عبد الحق صاحب (رحمه الله مبلغین سلسلہ نے احمدی جماعتوں کے تعاون سے اس سال کئی اہم شخصیات تک خصوصاً اور عوامی حلقوں تک عموما وسیع پیمانہ پر پیغام احمدیت پہنچایا، ملی کا نفرنسوں کے پلیٹ فارم پر اسلام اور احمدیت کی آواز بلند کی، سالانہ جلسوں اور پیشوایان مذاہب کے جلسوں کا اہتمام کیا.ایک مرکزی وفد نے آٹھ ہزار میل سے زائد سفر کر کے جنوبی ہند کے گوشہ گوشت نمک پیغام حق پہنچایا.جنوبی ہند کی تمام مخلص اور فعال جماعتوں نے نہ صرف جلسے منعقد کیے بلکہ بڑے پیمانے پر دعوتوں کا انتظام بھی کیا.اس طویل تبلیغی دورہ کے اکثر و بیشتر اخراجات جنوبی ہند کی جماعتوں اور مخیر اور مخلص احمدیوں نے خود برداشت کئے اور اس میں سیٹھ محمد معین الدین صاحب رخینہ کنٹہ) اور ان کے بھائی سیٹھ محمد اسماعیل صاب نیز سیٹھ محمد عبد الحی صاحب یادگیر کا نمایاں حصہ تھا.ضروری ہے.کی تبلیغی مساعی کی یہ اجمال جھلک ہے میں کے بعض پودوں کو ذکر بطور خاص کرنا بھی ملکی کا نفرنسوں میں تقاریر اس سال کے آغاز میں بھٹی میں ایک مذہبی کا نفرنس ویدانت سنگھ کے نام سے (۲۸ جنوری تا ۲ فروری منعقد ہوئی اسی طرح (۲۰ جنوری تا یکم فروری) کمیٹی کی ایک سوسائٹی " SOCIETY OF SERVENTS OF GOD کاسالانہ اجلاس پونا میں ہوا.ان کا نفرنسوں میں مولوی شریف احمد صاحب فاضل امینی نے " اسلام اور امن کے مومنوع پر فاضلانہ پیکچر دیئے کے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس امرتسر سے ۱۲ فروری تاریک کانگریس کا اجلاس امرت اریانا اس موقع پر نفرت دعوت وتبلیغ کی طرف سے اردو، ہندی سه بدر ۱۳۶ اکتوبر - ۲۴ ر نومبر - ۱۵ - ۲۲ دسمبر ۱۹۵۷ ایف که بدر ۱۴ فروری ۹۵۳ار مه
۲۸۲ گورمکھی اور انگریز کی ٹریکٹ اور کتا ہے ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں شائع اور تقسیم کیے گئے.شرعیتی املا کا ندھی شری و هیبر، گیانی گور مکو سنگه مسافر رصدر پنجاب پر دیش کانگریس پنجاب، دہلی اور مدھیہ مھارت کے وزراء اور بہت سے ایم ایل اے ممبران پارلیمنٹ پولیس افسران ، پر وفیسران اور دکاء کو خاص طور پر یہ لڑکپچر دیا گیا قریباً ایک درجن در دیش ہر روز صبح سے قریبا نصف شب تک لڑکیر تقسیم کرتے رہے.نمائش میں اسلام سے متعلق واحد سٹال نظارت دعوت وتبلیغ کا تھا جسے لاکھوں نے دیکھا اور ہزاروں نے اسلام داحمدیت سے متعلق معلومات حاصل کیں بعض غیر مسلم معززین نے قرآن مجید کے انگریزی اور گورمکھی تراجم اور دوسری اسلامی کتب بھی خریدیں کثیر تعداد ایسے غیر مسلموں کی تھی جو سلسلہ کے لٹریچر کی بدولت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت رکھتے تھے اور درویشان قادیان کے جذبہ فدا کاری اور دلوار تبلیغ سے بہت متاثر تھے.لڑیچر کی طباعت واشاعت کا کام ناظردعوت و تبلیغ صاحبزادہ مرزا سیم احمد صاحب کی زیب نگرانی ہوا ، اس سلسلہ میں مولوی برکات احمد صاحب را جی کی ایڈیشنل ناظر دعوت و تبلیغ اور مک صلاح الدین صاحب ایم اے مدیر بدرا کی معیت میں آٹھ روز تک امرتسر میں قیام فرمارہ ہے مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری ناظر تعلیم و تربیت شیخ عبدالحمید صاحب عاجز ناظر بیت المال اور مولوی محمد ابراہیم صاحب " فاضل میڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ نے بھی چند دن اجلاس کانگریس کے موقعہ پر تقسیم لٹریچر کی خدمت انجام دی لیا اس سال مرکزی مبلغین کے رند نے جنوبی ہند کا نہایت احمدی مبلغین کا دورہ جنوبی ہند درسی پیمانہ پر کامیاب دورہ کیا ہند میں شامل مرکزی اور مقامی مستلخین اور مخلصین کے نام یہ ہیں مولانا محمد سلیم صاحب ، مولوی بشیر احمد صاحب موادی شریعت احمد صاحب الیتی.مولانا عبد اللہ صاحب مالا باری.حکیم مولوی محمد الدین صاحب - مولودی مبارک علی صاحب مولوی فضل الدین صاحب، مولوی سراج الحق صاحب جناب مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل یا دیگر کریم محمد کریم اللہ صاحب ایڈیٹر آزاد نوجوان رند سے احمدی جماعتوں نے خوب فائدہ اٹھایا.۱ - یادگیر (۳-۴ (ماریا) به مخلص جماعت گزشتہ ستاون سال سے باقاعدہ سالانہ جیسے کہ تی ه باید ۲۱ فروری ۱۹۵۶ء صا
۲۸۳ آرہی تھی اس سال بھی اس نے اپنی روایات کے شایانِ شان جلسہ کیا جس کے پہلے روز ایک صاحب شیخ لاڑے صاحب آن مشول پور علاقہ میں حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.۲- تیما پور دکن (۱۶ مارچ ، ایک صاحب محمد پیران نے بیعت کی جو طلبہ کا ایک شہیر بن پھل تھا.۳- شورا پور دکن رد ر ماریچ) طلبہ کے علاوہ غیر از جماعت دوستوں سے مفید تبلیغی گفتگھر ہوئی.انگور دکن را با ی مسلمان اور مسند و معرزین یکساں دلچسپات شریک جلسہ ہوئے.- میلاد درگ (۱۲۱ با پرهام جلسه مین غیر مسلم اصحاب ، دکل ما در کانگریس دیکھ دوں نے خاصی در پیس لیں.-- حیدر آباد دکن را ار مار مار یع) جلسه احمدیه جوبلی بل واقع افضل گنج میں ہوا.مقامی اخبارات نے نے جلسہ کی کارروائی بھی شائع کی شہر کے ہر طبقہ نے جلسہ میں شمولیت کی علماء سلسلہ (۱۳ تا ۲۳ مارچ) حیدرآباد میں رہے اور شہر کے مختلف حلقوں سے رابطہ کر کے ان تک پیغام حق پہنچا یا ہے میلی (۳۰ را ۲ ماریچ) جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب رہائیے کوسی ضلع گرگ شریف (۲ مارچ، جلسہ کے بعد ایک غیر از جماعت عالم دین سے تین گھنڈنک اختلافی مسائل پر تبادلہ خیالات ہوا.جس سے سامعین نے گہرا اثر لیا.۹ - چنتہ کنٹڈ ( ۲۴ ۲۵ مارچ) حاضرین کی تعداد پانچسو کے قریب تھی.۰۱ آلتا کوروکن (۲۸، ماریچ جلسہ کا انتظام در اتمام چنینہ کنٹر کے خدام وانصار نے کیا تھا.عوام جماعت کے نظم وضبط سے بہت متاثر ہوئے.مینگاری شمالی این بار در رود را پریل ، میاں آن کیرالہ کا نفرنس منعقد ہوئی.اور اس میں کیرالہ مھر کے احمدی انتہائی زرق وشوق سے شامل ہوئے.کانفرنس کی مجلس انتظامیہ کے صدر مولوی ابوالوفاء صاحب اور سیکرٹری عبدالرحیم صاحب این مولانا مولوی عبداللہ صاحب ناضل) کی مساعی خاص طور پر قابل ذکر تھیں بے کانفرنس کے بعد علماء سلسلہ کا دند مادر اس پہنچا.جہاں ۱۲ اپریل تالار کو ایک سنی عالم دین سے ے پایہ ، مئی ۱۹۵۶ وصلت ۲ : بدر ۱۴ را پریل ۱۹۵۶ء م : له علیه ۲۸/۲ را پریل ۱۹۵۶ دست سه بالهرم ارجون ۱۹۵۶ء متر
۲۸۴ کامیاب مباحثہ ہوا.جس کے نتیجہ میں سید امیر الدین صاحب ریٹائرڈ ڈی.ڈی سی دھار واٹ علاقہ کمیٹی ) بیعت کر کے آغوش احمدیت میں آگئے موصوف ایک عرصہ سے زیر تبلیغ تھے.قادیان کی زیارت بھی کر چکے تھے.اور یہ مباحثہ انہی کی تحریک پر عمل میں آیا تھا یہ بھارت کی احمدی جماعتوں میں اس سال میشواریان مذاب جن کالی کٹ اور قادیان کا جس میشوایان مذاہب کے خاص اہتمام سے جلسے منعقد ہوئے ہیں میں کال کٹ اور قادیان - خاص طور پر قابل ذکر ہیں کالی کٹ کا جلسہ مولانامحمد عبد اللہ صاحب مالا باری کی صدارت میں ہوا.مقررین میں مسٹرہ یورنڈ کے ایم ما تفتن صاحب بی اے ، مسٹر کے دی کریشن، صاحب بی اسے ایل ایل بی مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ سلسلہ، اور مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل یاد گیر تھے لیے جلسہ قادیان میں مندرجہ ذیل اصحاب نے تقاریہ فرمائیں.لالہ پشاور کی بل صاحب ایڈووکیٹ گورداسپور (سوانح رامچندر جی کرم گیانی عباد اللہ صاحب یسرچ سکالر سکھ مذہب (گورونانک صاحب کے بیون) مولوی محمد حفیظ صاحب فاضل بقا پوری اسسٹنٹ ایڈیٹر پدر (سوانح حضرت موسی و عیسی علیها السلام) خالد احمد بیت مولانا ابوالعطاء صاحب دسیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) صاحبزادہ مرزا د سیم احمد صاحب (سیرت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ) سردار زائن سنگھ صاحب رسیرت النبی) مولوی بشیر احمد صاحب (خادم) سری کرشن جی مہاراج) حضرت مولوی خلیل احمد صاحب مونگیری رمہاتما بدھ کی زندگی).سردارگور دیال سنگھ نے اپنی صدارتی تقریر میں اعتراف کیا کہ منڈا مہب عالم کے پیشواؤں کی عزت واحترام کے بغیر دنیا کی ترقی اور نجات ممکن نہیں.جلسہ کے لیے گورنر صاحب پنجاب سری سی پی این سنگھ ، شہری بھیم سین سیر صاحب سابق چیف منسٹر پنجاب ، سردار زنجن سنگھ صاحب پرنسپل گورو نیغ بہادر خالصہ کالج دلی اور مسٹر ڈی سی دور یا ڈائر کیر تعلقات عامہ پنجاب کی طرف سے پیغامات بھی موصول ہوئے.سامعین کی تعداد ۲ ہزار کے قریب تھی سے له الفضل ۱۸ مئی ۱۹۵۶ ء م : له الفضل ۱۸ مئی ۱۹۵۶ء صفحہ ۵ داس جلسہ میں اردو تقاریہ کا ملیالم میں ترجمہ کے فرائض مولوی محمد ابوالوفا ر صاحب نے انجام دیئے) له الفضل ۲ مئی ۹۵۶اء صفحہ ٥
۲۸۵ کینگ تبلیغی کا نفرنس جنوبی ہندکے بعد ترقی ہند میں بھی احدیت کی پر شوکت آواز سنائی دینے گی جہاں کیرنگ رو اولین میں ۲۰ ۲۱ رسمی نستان کو اڑیسہ کا اشارہ جماعتوں کی عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد ہوا.جناب محمد کریم اللہ صاحب آزاد نوجوان مولوی محمداسماعیل صاحب فاضل وکیل یا گیر، مولانا موسلیم صاحب اور مولوی بشیر احمد صاحب جیسے فاضل مقرروں نے خطاب فرمایا.اس موقعہ پر پانچ ہزار کی تعداد میں لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.۱۲۳ ر مٹی کو مولوی محمد سلیم صاحب نے مولوی محمد اسمعیل صاحب کٹکی سے مناظرہ کیا.جناب کشکی صاحب بالکل لاجواب ہو گئے.احمدیت کے علم کلام کی برتری کا یہ نظارہ قابل دید تھا میں سے احمدیوں کے ایمان میں بہت اضافہ ہوا لیے اس سال تبلیغی لٹریچر کی اشاعت کی طرف صیغہ نشر و اشاعت قادیان کے اشاعت لٹریچر کی مہم اور بھارت کی احمدی جماعتوں مثلاً بنگلور ، کانپورا در مبلی نے خصوصی توجہ دی.حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب نے پوری جماعت میں تنہا اشاعت لڑکپر کا جو عظیم کار اور پر انجام دیا.وہ تاریکی احمدیت کا ایک کھلا ورق ہے.آپ نے اس سال بھی سینکڑوں روہ ہے کا لٹریچر طبع کرا کے ہندوستان اور بیرونی ممالک میں مفت تقسیم فرمایا.آپ کے نیک انو نہ سکے اثرات یاد گیر اور چفته کند پر بھی ہوئے اور ان جماعتوں میں حضرت سیٹھ معین الدین صاحب اور سیٹھ عمر عبد الحی صاحب یادگیر ہزاروں کا لٹریچر سالانہ شائع کرنے لگے.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی ایک رپورٹ (۱۹۵۶ء) میں لکھا ہے کہ :.مر لکھا : مالا بار کی تمام جماعتیں جو خدا کے فضل سے بہت اخلاص اور قربانی کا جذبہ رکھتی ہیں ہمارے مبلغین کے ساتھ بہت تعاون کرتی ہیں.اس تعاون کا نتیجہ ہے کہ مالا بار میں علاقائی زبان میں بہت سالٹریچر شائع ہوتا رہتا ہے.اور اس کا سارا خرچ مقامی جماعتیں خود بہ داشت کرتی ہیں.اشاعت لٹریچر کے سلسلہ میں اول نمبر حیدر آباد دکن کی جماعتوں بالخصوص سکندر آباد اور چینت کنڈ کا ہے.لیکن اگر مالی پوزیشن کو ملحوظ رکھا جائے تو مالابار کی جماعتیں بھی اشاعت لٹریچر میں پہلا درجہ رکھتی ہیں.چنانچہ گزشتہ تھے چنا نچہ مالابار کی جماعتوں نے گنہ شتہ تھوڑے سے عرصہ میں مختلف قسم کے مفید ٹریکٹ اور ترجمے ۳۳ له بدر ارجون ۱۹۵۶ء مرات : سے تفصیل کے لیے طاط ہو اجبارہ ماست پر اکتوبر ، ۲۷ اکتوبر ، ۱۵ دسمبر ۱۹۵۶ء بدر ۱۲ جنوری ۱۹۵۷ اومت (فهرست) با سه باره جون ۱۹۵۶ء مده....
۲۸۶ ! ہزار کی تعداد میں شائع کیے ہیں اسی طرح بنگلور کی جماعت نے بھی قریباً دس ہزار کی تعداد میں مختلف ٹریکٹ شائع کئے ہیں بدلے اس سال کلکتہ ہیٹی ، رہی اور مدراس کے مبلغین اور احمدی جماعتوں ہم شخصیات کولٹریچر کا تحفہ کی طرف سے جن اہم شخصیات کو مذہبی لٹریچر پیش کیا گیا.ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں :- ۱- ڈاکٹر الیں.این سمین - یوائس چانسلم وعلی یونیورسٹی.- مشری گلزاری لال نندا وزیر حکومت مهند.۳.شرمی کیند گل مبر پارلیمنٹ و مہاراشٹر لیڈر.صدر مارا شرو کانگریس کمیٹی..گاڈبیٹی -2- ڈاکٹر شاہ مہتہ صدر سوسائیٹی آن کا ڈیبیٹی " SOCIETY OF GOD" سردار رگبیر سنگھ جا بیرا ایڈیٹر ہفت روزہ آتم سائنس پینجر روزنامہ" ولیش درین برائے سکے کچرل سنٹر ہونگی کلکتہ ڈاکٹر سینتی کمار جیر جی صدر لیجسلیٹو کونسل مغربی بنگال - ڈاکٹر رادھا کرشنی وائس پر بلیڈنٹ جمہوریہ ہند.آنریل چیف جسٹس سند شمری ایس آند داس.۱۰.وزیر اعظم چنین مسٹر چو این لائی.میرا ہے.جے.جان گورنر مدباس سے له الفضل ۱۸ مئی ۶۱۹۵۷ مرد رمالا بار اور بنگلور کے شائع کردہ لٹریچر کی فہرست اخبار بدر ۱۳ مئی 1904 ء مثہ پر شائع ہوئی ) : سے مدد ۲۸ر جنوبی ۲۳۱۴۲ فروری ۲۸ را پریل ۲۱ مئی ، ۲۲ دسمبر ۱۹۵۶ء الفضل ۳ جنوری ۱۹۵۷ء ؍ i i i
۲۸۷ فصل دوم حضرت مسیح موعود کے جلیل القدر رفقاء کا انتقال..اس سال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کئی ممتاز اصحاب اور بزرگان سلسلہ خلایق حقیقی کو جا ملے بہن کا تذ کرہ ذیل میں کیا جاتا ہے.حضرت حاجی محمد صدیق صاحب پیٹیالوی ولادت قریباً ! - بیعت وفات ۲۹ جنوری ۱۹۵۶ء نهایت عابد و زاہدا در صاحب الرؤیا و کشون بزرگ تھے.باجماعت نما نہ اور تہجد کا خاص التزام فرماتے اور ہر آن ذکر و فکر میں مشغول رہتے.سلسلہ احمدیہ اور خاندان حضرت مسیح موعود سے محبت عشق کی حد تک پہنچی ہوئی تھی.۸۰ سال کی عمر میں آپ نے فریضہ حج ادا کیا اور حرمین شریفین کی زبات سے مشرف ہوئے.اللہ سے یہ تک سلسلہ ملازمت دلی میں مقیم رہے سینہ آپ کی خود نوشت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرت شہید مرتوم صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی قادیان سے واپسی کے وقت قادیان میں موجود تھے.اور منارة امسیح قادیان کی بنیاد کے وقت بھی | ولاد شیخ حفیظ الہی صاحب - ۲ - شیخ عبد الرحمان صاحب " شیخ محمد رمضان صاحب - ۲ - شیخ احمد دین صاحب م بیٹیوں کے نام : 5 0 - له الفضل ۱۲ فروری ۶۱۹۵۶ مرات ۵ : ۲۲
PAA چوہدری اللہ بخش صاحب (والد مولانا کرم الہی ظفر مبلغ سپین) د (51906 (ولادت ۶۱۸۵۷ قریباً - بیعت ۶۱۹۰۶ - وفات ۶٫۱۵ ۱ مارچ ۱۹۵۷ء) آپ کے بیٹے کرم ایم اے ناصر نے آپ کی وفات پر لکھا.میرے والد محترم چو ہدری اللہ بخش صاحب مرحوم شہداء میں ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے آپ کے آباؤ اجداد اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھتے تھے.سہ میں آپ کی ملاقات مولوی کریم بخش صاحب مرحوم بنگوی سے ہوئی جو کہ وہاں امام تھے انہوں نے والد صاحب کو بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان میں مہدی موعود ہونے کا دعوی کیا ہے.آپ نے تحقیق مشروع کر دی با تا خر سال تک حضور کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اطمینان ہونے پر آپ نے 197ء میں بیعت کی.بیعت کے بعد آپ نے رڈیا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے ہاں تشریف لائے ہیں بہت سے لوگ بے معنی سے گھر کے سامنے کھڑے ہیں کہ حضور کی تقریر سنیں.والد صاحب نے انہیں کہا کہ آرام سے بیٹھ جاؤ.تقر یہ سب کو سنائی دے گا.چنانچہ سب لوگ آرام سے بیٹھ گئے.حضور نے ایک چھوٹے لڑکے کو اشارہ کیا تقریر کر داور وہ چھوٹا لڑکا ایک اونچی جگہ کھڑا ہو کر نظر یہ کرنے لگا جو تمام لوگوں نے دلچسپی سے سنی.اسی رڈیا کی بناء پر آپ نے اپنے بیٹے عزیزہ کرم اپنی ظفر کو خدمت دین کے لیے وقف کر دیا.حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ کرم انہیں سپین کے لیے منتخب فرمایا.چنانچه وه ۱۸ر دسمبر ۱۹۳۵ء کو والد صاحب کے سامنے رخصت ہوئے اور ما شاء اللہ ۱۲ سالی سے حضور انور کی زریں ہدایت کے مطابق سپین جیسے اہم ملک میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں.خود سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مختلف اداروں.مثلاً سمال ٹاؤن کمیٹی قادیان میں کلرک اور احمدیہ گرلز سکول دھر سکوٹ بنگا میں ہیڈ ماسٹر کے فرائض ادا کرتے رہے.نیز احمد یہ سکول بنگہ میںبھی کام کرنے کا موقع ملا.تبلیغ کا بہت شوق تھا.اپنے مخاطب کو نرم اور محبت بھرے لہجہ میں احمدیت کا پیغام پہنچاتے تھے.اپنے بچوں سے بہت محبت تھی.سب کی تربیت احمدیت کے زریں اصولوں کے مطابق کی.اور سارے خاندان کو ہر وقت نماز میں مداومت.قرآن مجید سے پیار اور صحیح اسلام پر چلنے کی تلقین فرماتے تھے.تقسیم ملک کے موقع پر تمام مسلمانوں نے گاؤں خالی کر دیا.مگر والد صاحب کو احمدیت نے ایسا
۲۸۹ توکل عطا کیا ہوا تھا کہ اللہ تعالی کے سہارے پر اپنا مکان خالی نہ کیا.اور والدہ کے ساتھ وہیں دوماہ مقیم رہے.سکھوں کے جتنے آتے تھے مگر گاؤں والوں کو آپ کی ہر دلعزیزی اور نیکی کی وجہ سے اتنی محبت تھی کہ کسی نے ہمارے گھر کا رخ نہ کیا.بالآخر ایک دن کشف میں آپ نے دیکھا کہ ان کا لڑکا با ہر دانہ دے کر کہتا ہے تیار ہو جاؤ چنانچہ دوسرے دن ہی ہمارے چھوٹے بھائی فضل کریم صاحب اور ایک بھتیجے مڑی کے قافلہ میں اُن کو بخیریت لاہور لے آئے.ء میں والد صاحب کی درخواست پر حضرت........خلیفة المسیح الثانی ایده الله تعالی والد صاحب کے ہاں تشریف لے گئے.اس واقعہ کا آپ اکثر ذکر فرما کر حضور کی ذرہ نوازی کا شکر یہ ادا کیا کرتے تھے.والد صاحب جلسہ سالانہ پر جانے کے لیے کئی ماہ قبل تیاری شروع کر دیتے تھے آخری ایام میں نمازوں کا یہ عالم تھا کہ رات دو بجے ہی نماز تہجد شروع کر دیتے تھے.بالاخر ۱۶٫۱۵ مارچ ء کی درمیانی رات اپنے بڑے لڑکے ماسٹر غلام محمد صا حب کے ہاں ننکانہ صاحب میں اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.اور قریباً سو سال کی عمر پائی ہے حضرت ڈاکٹر پیر بخش صاحب متوطن ڈیرہ دین پناہ ضلع مظفر گڑھ ر ولادت حشاد - بیعت نشده - وفات ۳۱ مارچ ۱۹۵۲ که پچپن میں ہیں آپ کے والدین انتقال کر گئے تھے آپ نے ذاتی کوشش اور جدوجہد سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئے اور کلاس " میں ا قول پوزیشن حاصل کرتے یہ ہے انہی دنوں آپ نے احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان ایک مباحثہ سُنا جس سے متاثر ہو کر آپ لاہور سے قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی.آپ نے ریاست بہا ولپور میں ۴۶ سال تک مختلف مقامات میں سرکاری نوکر ہی کی اور ریاست له روزنامه الفضل ربوه ۳ را پریل ۷ ۹۵ عومه :: سے الفضل یکم جون ۱۹۵۶ء مث
بہاولپور می تشخیص بیماری اور علاج کے سلسلے میں بہت مشہور تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصبح المطور کی لکھی ہوئی تغیر القرآن اکثر نہ یہ مطالعہ رکھتے.اختبار الفضل کے پڑا نے خریدار تھے.آپ کے گاؤں میں شہنشاہ اکبر کے زمانہ کی تعمیر شدہ ایک خانقاد ہے جو ایک ولی اللہ کی ہے جن کا نام حضرت دین پناہ صاحب تھا.یہ گاؤں انہیں کے نام سے آباد ہے آپ کے آباؤ اجداد پیری مرید می کرتے تھے مگر آپ کو اس کام سے بہت نفرت تھی.جسے چھوڑ کر احدیت میں داخل ہو گئے ہے اولادیے.ڈاکٹر کیپٹن پیرزادہ گل حسن صاحب ایم بی بی ایں.پیرزادہ مظفر من صاحب ریٹائرڈ تحصیلدار ہالپور پیر زادہ منظور الحسن صاحب بھی اسے بی ٹی ہیڈ ماسٹر خانپور.پیر زادہ ڈاکٹر اظہار الحسن صاحب ایم بی بی ایس حال لیبیا.مہر النساء صاحبه - زیب النساء صاحبه حضرت مولوی غلام نبی صاحب (مصری) د ولادت شاه بیعت شما - وفات ۲۷ را پریل ۱۹۵۶ ۶) حضرت مولانا غلام بنی صاحب بہت خاموش طبیعت.بے لغنس.اور یکرنگ بزرگ تھے.جن کی ساری زندگی سلسلہ کی تعلیمی خدمات سجانا نے میں وقف رہی.آپ کی ولادت چھا ڈڈیاں کلاں تفصیل سرہند ضلع یسی ریاست پٹیالہ میں ہوئی.والدہ بچپن میں فوت ہو گئی تھیں.اپنے والد ماجد محکم دین صاحب کا ذکر کرتے وقت خاص طور پر فرما یا کرتے تھے کہ انہوں نے مجھ پر ایک بڑا احسان یہ کیا کہ ایک مولوی صاحب رکھ کہ مجھے قرآن پڑھا دیا.ان مولوی صاحب کو زمین کا ایک ٹکڑا اس خدمت پر مدینہ پیش کیا.والد صاحب کی وفات کے بعد آپ بغر من العسلیم لدھیا نہ آگئے.کچھ عرصہ دہلی میں طب کی تعلیم حاصل کی.جہاں سے آپ کو انعامی تحفہ بھی ملا.بعد ازاں آپ امرتسر پہنچے اور پھر ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے.له الفضل یکم جون ۱۹۵۶ء مره
حضرت مولوی نور الدین خلیفہ ایسی اول کو کتا ہیں جمع کرنے کا ایک عشق تھا.اس سلسلہ میں آپ کی نظر انتخاب آپ پر پڑی اور آپ نے انہیں نایاب اور قدیم کتابوں اور قلی نسوں کی نقل کرنے کے لیے بھوپال بھجوا دیا.قیام بھوپال کے دوران آپ نے کمال محنت در فریزی سے کام لیا.مگر کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا.بھوپال میں ان دنوں مسجد میں بخاری شریف کا درس ہوتا تھا.آپ بھی اس میں شامل ہو گئے.اس درس سے سنو لوگ استفادہ کرتے تھے ،ان کو وظیفہ مل کرتا تھا.چنانچہ آپ کا وظیفہ بھی جاری ہو گیا.مگر یہ تم بہت معمولی تھی.خداتعالی نے کھانے کا یہ انتظام فرمایا.کہ حضرت مولانا نور الدین صاحب کے کسی شاگرد کے ایک عزیز سے آپ کی ملاقات ہوگئی میں نے کہا کہ کھانا آپ ہمارے ہاں کھا یا کریں.اس زمانہ میں آپ نے مولوی فضل الدین جناب (وکیل) کو احمدیت سے روشناس کرایا وہ اپنے استاد کے پاس بھوپال اُٹھ آئے تھے.ان کا آپس میں میل جول بڑھا.حضرت مولوی غلام نبی صاحب کو کتب نقل کرتے تھے ہفتہ کے بعد مولوی فضل الدین صاحب ساتھ بیٹھ کر مقابلہ کرا دیا کرتے تھے.آپ کو بھوپال کے کتب خانہ سے بھی بعض کتب نہ مل سکیں.اور معلوم ہوا کہ مصر سے دستیاب ہو سکیں گی.اس پہ آپ بھوپال سے مصر کے لیے روانہ ہو گئے.اُس وقت آپ کے پاس چند ایک روپئے اور ایک کمبل تھا کراچی آکر اسے فروخت کیا اور کرا یہ بناکر بصرہ جا پہنچے.بصرہ سے آگے معرک کا سفر پیدل گیا.اگر کوئی قافلہ مل جاتا تو اس کے ساتھ شامل ہو جاتے.اور اگر کوئی ساتھی نہ ہوتا تو اکیلے روانہ ہو جاتے.آخر مصر پہنچے.فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بھوپال سے چلتے وقت بھی حضرت مولوی نور الدین صاحب کو کوئی اطلاع نہ دی تھی.اب مصر پہنچے کہ لکھا کہ میں مصر پہنچ گیا ہوں اور کہا میں نقل کر رہا ہوں.وہاں کی لائبریری میں وہ کتب موجود تھیں.لائیر یہ ہی میں چونکہ سیاہی ساتھ لے جانے کی اجازت نہ تھی.اس لیے پنسل لے جاتے اور نقل کرتے ، گھر پہنچ کر اس کو سیاہی سے لکھتے.اس کے علاوہ ازھر کے درس میں بھی شریک ہوئے اور باقی وقت گذر اوقات کے لیے مچھیری کا کام کرتے.اس بے بضاعتی کے باوجود آپ نے مصر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی عربی کتابوں کی اشاعت کی چنانچہ اختبار البدر ر نومبررت شراء ماہ سے پتہ چلتا ہے کہ نومبر ستاد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں بھی آپ کی تبلیغی خدمات کا ذکر آیا تھا چنانچہ لکھا ہے.دہ مولوی غلام نبی صاحب احمدی کا خط مصر سے حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب کے نام آیا تھا.۱۴
٢٩٢ دہ حضرت اقدس کی کتابوں کی خوب اشاعت کر رہے ہیں.حضرت مولوی صاحب مصر میں تین سال تک قیام کرنے کے بعد اپریل شاہ میں واپس اپنے طنز پہنچے.اختبار بدنه ۲۰ را پریلی سلامت کالم م پر ان کی آمد کی خبر ان الفاظ میں شائع ہوئی کہ ملک مصر سے مولومی غلام نبی صاحب احمد می واپس ہندوستان کو تشریف لائے ہیں.قریبا تین سال تک انہوں نے اس ملک میں قیام کیا اور نیز سلسلہ احمدیہ کی اشاعت میں مصروف رہے ہیں " اس جگہ مولوی صاحب نے چند مخالفوں کے ساتھ مباحثات بھی کیے.چنانچہ ایک مباحثه در باره حیات و وفات مسیح ناصری (بمعہ چند دیگر مفید رسائل کے) ملک مصرمیں اپنے خرچ پر طبع کر دیا تھا جس کی بہت سی دہ کا پہیاں اس جگہ لائے ہیں اس کا نام ہدیہ سعدیہ رکھا ہے کہ مصر سے واپسی کے بعد آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول نادیان کے استاد مقرر ہوئے اور ساتھ ہی آپ کو حضرت مولانا نورالدین خلیفہ المسیح الاوّل کے مطب میں کام کرنے اور آپ کی شاگردی میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا.چنانچہ اختبار بذار ۱۲ جنوری شاہ منہ سے معلوم ہوتا ہے.کہ شکار میں جن خوش نصیب اصحاب ے نے آپ سے دینیات کی تعلیم حاصل کی ان میں حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب ، سید عبدالحی صاحب عرب ابر سعید صاحب عرب.اور حضرت مولوی محمد جی صاحب داتوی کے علاوہ آپ بھی شامل تھے.حضرت خلیفہ اسیح اول آپ سے بہت الفت رکھتے تھے.مطلب میں ہوتے تو آپ بھی ساتھ ہوتے لا بر یر ی میں ہوتے تو یہ ہو نہار شاگرد وہاں بھی ساتھ رہتا.حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کی روایت ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے ایک بار حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری اور مولوی غلام محمد صاحب کے متعلق فرمایا.ہم ان کی محبت اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے.۲۵ جنوری سنہ سے آپ کا تقریر مدرسہ احمدیہ کے استاد کی حیثیت سے ہوا.اس وقت حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تھے حضرت نے مولوی صاحب قریب پینتش سال تک اس مرکزی درسگاہ میں پڑھاتے رہے اور ش۹۲ میں ریٹائرڈ ہوئے سینے آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے.سلسلہ کے اکثر ندیم مبلغوںاور ممتاز علماء کو آپ کی له روزنامه الفضل و مئی 1904 ء مث : سے روزنامه الفضل 9 مئی ۱۹۵۶ دمہ
۲۹۳ شناگر دی کا فخر حاصل ہے.آپ نے مدرسہ احمدیہ کی تدریس کے دوران میں حضرت مسیح موعود کی کتب میں سے برا همین احمدیہ رچاروں حصے فتح اسلام - توضیح مرام از الداد عام کا ترجمہ کیا.حضرت مولوی صاحب کی پہلی شادی حضرت منشی حبیب احمد صاحب کی صاحبزادی سکینہ بیگم صاحبہ سے ہوئی.اس شادی کا واقعہ عجیب ہے.چنانچہ شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کی روایت ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے پاس ہماری موجودگی میں منشی حبیب احمد صاحب تشریف لائے.اور عرض کی حضور میری دو بیٹیاں ہیں میں چاہتا ہوں کہ ان کی ایسی جگہ شادی ہو کہ دو بھائی ایک گھر میں ہوں.تاکہ دونوں بیٹیاں اکٹھی رہ سکیں.حضرت مولوی صاحب نے حضرت ولوی غلام نبی صاحب مصری اور مولوی غلام محمد صاحب امرتسری کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا.وہ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں ان سے شادی کر دیں یا چنا نچہ استانی میمونہ بیگم صاحبہ کی مولوی غلام احمد صاحب سے شادی ہوئی اور محترمہ سکنہ بیگم صاحبہ کی مولانا ہے.اس پہلی بی بی کی وفات کے بعد مولانا احمد خان صاحب نسیم کی ہمشیرہ محترمہ بیگم میں صاحبہ آپ کے عقد میں آئیں.مگر اولاد کسی بیانی سے نہیں ہوئی ہے تقسیم ملک کے بعد آپ ربوہ میں مولانا احمد خان صاحب نسیم کے ہاں رہائش پذیر رہے ہیں شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے الحکم ۲۱ ستمبر ۱۹۲۳ ء میں آپ کی سیرت د شمائل پر حسب ذیل نوٹ سپرد قلم کیا.د مولوی غلام نبی صاحب قادریان میں با شکل جوانی کے ایام میں آئے.اس زمانے میں آپ طالب علم تھے.قادیان میں بسی سامی تعلیم مکمل کی اور یا پھر کچھ عرصہ مصر میں رہے.قادیان میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پھر قادیان میں ہی مدرسہ احمدیہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا.اس سے پہلے مدرسہ سے باہر بھی طالب علموں کو درس دیتے رہے.مولوی صاحب کی زندگی نو کی اہلی کا ایک زندہ نمونہ ہے اور اگر کسی شخص نے غور سے ان کی زندگی کا مطالع کیا ہو تو اس کو معلوم ہو جائے گا یہ شخص تو کل کے کس مقام پر بیٹھا ہے.باوجود اس کے کہ انکر ابتداء میں بہت تھوڑ میں تنخواہ ملتی تھی گھر کبھی انہوں نے اس کی شکایت نہ کی اور اس پر بعض اوقات تنخواہ کئی ماہ بعد ملتی تو بھی ان کو گھبراتے ہوئے کبھی نہ دیکھا گیا.له الفضل و رسٹی ۱۹۵۶ء م : له الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۵۶ در مشه
۲۹۴ ان کے اہلی تو کل کی میں ایک مثال پیش کرتا ہوں ایک دفعہ وہ بیمار تھے.اور ان کے لیے طبیب کی رائے تھی.کہ وہ کسی پہاڑ پر چلے جاویں.روپیہ ان کے پاس نہ تھا ادھر وہ عزم کر چکے تھے کہ کل میں چلا جاؤں گا.میں چونکہ ان کا شاگرد تھا اور پھر وہ مجھ سے ہمیشہ سے اس طرح محبت کرتے چلے آئے جیسے شفیق باپ یا مہر بان استناد انہوں نے مجھ سے ان لفظوں میں ذکر کیا.شیخ صاحب کوئی روپیہ تو نہیں ہوگا ؟ میں کل علاج کے لیے پہاڑ پر جانا چاہتا ہوں اور اس وقت روپیہ میرے پاس نہیں.تنخواہ صرف ایک ماہ کی لی تھی وہ دکانداروں کو دیدی ہے.میں اس وقت الحکم کو چلاتا تھا.مگر افسوس اس رفت روپیہ میرے پاس نہ تھا.دوسرے دن معلوم ہواکہ مولوی صاحب نے قرآن کریم لے کر اور غائباً مجربات نورالدین اور انجیل اور ایک کیل لے کر ٹھیک اس دقت صفر اختیار کیا جس کا عزام تھا.اس سے جہاں مولانا کے تو کل کا پتہ گنا ہے وہں عزیم کا بھی پتہ چلتاہے.روپیہ یا پیسہ مولانا کے عزم کے راستے میں کبھی روک نہ ہوا.اس سے ممکن ہے کسی کی طبیعت اس طرف چلی جائے.کہ مولانا نے پھر سفر میں کس طرح گزارہ کیا.جبکہ پیسہ نہیں تھا.کیا انہوں نے مانگ کر گزارہ کیا یہ فکر بالکل باطل ہے.میں نے خوب بار یک نگاہ سے دیکھا ہے کہ مولانا سوال سے اسقدر گھبراتے ہیں جس کی حد نہیں.قادیان میں رہتے ہوئے جہاں ہر طرف ان کے دوستوں کی ایک جماعت ہے وہ سوال نہیں کرتے.دکانداروں سے ان کے کھلے حساب نہیں ہیں.جہاں تک میر اعلم ہے مولوی محمد عارف صاحب رجو کہ مولوی صاحب کی طرح در دیشانہ زندگی گزارنے کے لیے خلیفہ اول کے شاگردوں کی صف میں شمار ہیں) سے کبھی کوئی چیز لے لیتے.یا مولوی غلام رسول صاحب افغان سے کیونکہ وہ بھی حضرت خلیفہ اول کے شاگرد ہیں.اسی طرح ہوں انا کے کلاس فیلو یا دوست ہیں وہ بھی ، مولانا کا ادھار اس احتیاط سے ہوتا کہ جس کو تنخواہ پر فوراً اد اکر دیں وہ تقاضا کرنے دانے شخص سے نہ حساب رکھتے اور نہ اتنا حساب بھی لمبا رکھتے کہ تقاضا ہو.ہمیشہ وہ اپنی آمد کے حساب سے چلنے اور اسی کے موافق خرچ کرتے.میں نے دیکھا کہ مولانا نے بارہا میرے سامنے ایک روپیہ کا بکری کا دودھ خریدا.اس لیے کہ وہ بیمار تھے اور دہ درد ان کے لیے لازمی تھا.اور انہوں نے دیکھا کہ میں قلیل تنخواہ پاتا ہوں.اگر ہیں دودھ پیوں تو پھر کھانے وغیرہ کا گزارہ نہیں ہو سکتا.تو مولانا نے ایسا کرنا کہ دودھ میں ایک پیسے کے میٹھے چنے جن پر کھانڈ لگی ہوئی ہوتی ہے لیکہ ڈال لیتے اس طرح سے دو دھر بھی میٹھا ہو جاتا اور دودھ کے
۲۹۵ ساتھ اپنے بچالیتے اور تھوڑی دیر بعد پانی پی لینا.اس طرح سے میں نے ان کو مدتوں کرتے ہوئے دیکھا، در کبھی ان کو قلت آمد کا شاکی نہ پایا.مولانا فرائض منصبی کی ادائیگی کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں.مدرسہ میں تعلیم دیتے ہیں آندھی ہو بارش ہو سردی ہو گرمی ہو ، مولانا مدرسہ میں موجود رہتے بلکہ آدھ گھنٹہ سکول کے وقت سے پہلے ہی موجود ہو جاتے مولوی صاحب پر بعض سخت ترین بیماریاں حملہ کرتی رہیں اور ان بیماریوں میں بھی کبھی مولانا کو رخصتین لیتے ہوئے ہیں دیکھا.ایک دفعہ گھٹے پر پھوڑا نکل آیا اور مولا نا چل نہیں سکتے تھے.مدرسہ کے ایک کمرے میں بیٹھے رہتے ، وہاں جماعتیں آجاتیں.یہ کرہ احمدیہ بازار میں صدر انجمن کے دفتر کی سیڑھیوں کے نیچے ہے جس میں حافظ حامد علی صاحب دکان کرتے تھے.کرسی پر بیٹھے رہتے اور وہیں بیٹھے بیٹھے درس دیتے اور کرسی پر ہی نماز پڑھتے.میں نے ان کو سخت تکلیف میں بھی وضو سے نماز پڑھتے پایا.اسی طرح ایک دفعہ مولانا حضرت خلیفہ اول...کے مکتب کے پاس ایک چھوٹا سا مکان ہے اس میں بیمار تھے.جگر کی بیماری تھی سخت بدبودار و والی جس کے تعفن سے میرا دماع متقبل جاتا تھا چھاتی پر لگائے ہوئے نہایت صبر سے پڑے رہتے اور باقاعدہ طالب علموں کو درس دیتے - ان بیماریوںمیں میں نے کبھی خدا کا شاکی نہ پا یا جگہ ہمیشہ تین لفظ ان کے منہ سے سنے.رحم کرم.فضل.ان کی اس قدر تکرار کرتے کہ پڑھاتے پڑھاتے ان کے منہ سے بے اختیار یہ لفظ نکل جاتے.اسی طرح کی پھر ایک دفعہ پیار ہوئے تو مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں لیٹ کر پڑھاتے.مگر میں نے نہیں دیکھا.کہ کبھی انہوں نے رخصتوں کے لیے درخواست دی ہو.اور اسی طرح پر بھی نہیں دیکھا کہ ان کو تکلیف ہے تو انہوں نے درس میں کوتا ہی کی ہو.بلکہ صحت اور بیماری میں یکساں درس دیتے.طالب علموں سے کام کرانے کا عادت قطعاً ان میں نہیں ملتی بوجہ غربت کے ابتداء میں مولانا کے پاس برتن نہ تھے ایک چائے بنانے والی کمیٹی تھی.اس میں دال یا چا دل الگ اُبال لیتے یا کھچڑی پکا لیتے.اور کبھی کسی طالب علموں کو نہ کہا کہ تم پکا دو.یا یہ کہ د اورده کرد - اپنے کپڑے اکثر اوقات خود دھو لیتے.اب جبکہ مولانا نے دارالعضل میں ایک مکان بنایا تو آتا وغیرہ خرید کر اور خود ہی اٹھا کر لے جاتے اور کبھی کسی طالب علم کو یہ نہیں کہا کہ تم اٹھا کرے چلو.طالب علموں کو مارنے کی مولانا کو بہت کہ عادت ہے.اور اگر کبھی کسی کو مارا بھی تو منہ پڑھا اپنے کومارا
۲۹۶ نہیں مارتے.کیونکہ حدیث نبوی میں اس کے خلاف ہے.اور اگر کسی طالب علم کو نارامن ہوتے تو فوراً استغفار اور لاحول پڑھتے.کبھی طالب علموں کو گالی نہیں دی اور اگر دیتے توصرف اتنا کہتے اور وہ آدمی ہے یا کیا ہے ؟.یا بہت ناراض ہوتے تو کہدیتے اگر ھے.اس پر بھی فورا استغفار کرتے.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے اساتذہ سے طالب علم ڈرتے نہیں.مگر میں نے خوب دیکھا کہ مولانا کا ضبط جماعت پر ہمیشہ اسلی درجے کا رہا.اور طالب علم ڈرتے رہتے.مولانا کو قرآن کریم سے از حد محبت ہے.بلکہ ایک عشق ہے.خالی وقت میں قرآن کریم پر تہ تہ کرتے ہیں.مولانا نے بعض قرآنوں پر ہزاروں مرتبہ پڑھا ہوگا.اگر حصہ قرآن کریم کا حفظ ہے.بیماریوں کی وجہ سے سارا قرآن حفظ نہ کر سکے.تاہم بہت حد تک حافظ ہیں.مولانا اکثر طالبعلموں کو قرآن کریم حفظ کرانے کی کوشش کرتے اور بلکہ بارہا فرماتے کہ قرآن کریم حفظ کرنا مشکل ہی نہیں.ہر روز دو تین آیت حفظ کر لیں اور ان کوشن اور نوافل میں اور ونزوں میں پڑھتے رہے.حبب خوب حفظ ہوگئیں پھر آگے کی آیتیں حفظ کرلیں اور حقیقت میں یہ طریق نہایت ہی عمدہ ہے.اس سے مولانا کی محبت قرآنی کا پتہ چلتا ہے.مولانا نے جب پہلی شادی کی تو حضرت خلیفہ اول....کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے.میں اس وقت ان سے سلسلیۃ القراۃ العربیہ کا پہلا حصہ پڑھتا تھا.مولانا کے گھر میں چلا جایا کرتا تھا کیونکہ میں اس وقت بچہ تھا.میں نے دیکھا کہ مولانا کی شادی کو ابھی دو تین دن ہی ہوئے تھے.مگر مولانا اپنی بیوی کو روزانہ با قاعدہ قرآن کریم ترجمے سے پڑھاتے تھے.میں با ان کی اندرون خانہ زندگی پہ اس سے زیادہ بحث نہیں کر سکتا کیونکہ اس وقت مجھکو زیادہ شعور نہ تھا.تاہم مجھ کو خوب یاد ہے کہ مولانا نے شادی کے بعد معا ہی اپنی مرحومہ ہودی کو قرآن کریم پڑھانے لگ گئے تھے اور اگر ان کے گھر میں کوئی بات ہوتی تو قرآن کی.ان کا گھر نہایت ہی مختصر اشیاء کا مجموعہ تھا.چند مٹی کے برتن اور ایک رولکڑی کے صندوق تھے مگر اس میں میں نے دیکھا کہ میاں ہوتی میں ازحد اخلاص تھا میں مختلف در قنوں میں مولانا کے ہاں گیا.میں نے کبھی نہ دیکھا مگر دونوں کو علمی اور دینی مشغل ہیں.نئی شادی عجیب امنگوں کو لے کر آتی ہے مگر قادیان کی زندگی جو کہ ملکوتی زندگی ہے اگر ایک نوجوان دولہا اور دلہن کو کوئی بات سکھلاتی ہے تو وہ قرآن کریم ہے.مولوی صاحب کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ قادیان میں مکان بنایا.اس کا اکثر حصہ مولوی صاحب نے خود ہی بنایا.مکان کیا ہے ایک جھونپڑا ہے.سامنے اس کے نہایت بے ترتیب ایک درختوں کی
۲۹۷ بانیچی ہے مولوی صاحب نے مکان بنایا اور مکان کے لیے کھڑکیاں اور دروازے ہوا کے اسلوب پر نہیں بلکہ اذان کی آوانہ کی سمت پر رکھے.ہر وقت اللہ کی یا د ہے بے عفرض بے لوث زندگی گزارنی یہ مولانا کی زندگی کا فوٹو ہے.میرے نزدیک دنیا پر کوئی مخلص نہ ہوگا جس کو مولانا کے ہاتھوں تکلیف پہنچی ہو.مولانا کا اگر رفض دنیا کی خانی زندگی بسر کرنے کے لیے ایک سرائے ہے.ایک دفعہ مولنا ایک سخت بیماری کے حملے کے نیچے تھے میں نے سوال کیا کہ کیسی طبیعت ہے فرمایا کہ میں تو کبھی اللہ تعالی سے مایوس نہیں ہوا پہلے مجھی اس نے میرے پر فضل کیا اور اب بھی کرے گا.میں اس کی رضا پر راضی ہوں مولینا کور دعاؤں کی از حمد عادت ہے لوگوں کو ہمیشہ وعظ کرتے رہنا اور نماز کی تاکید کرتے رہنا.اکثر مولانا صبح کو یا شام کو سیر کے لیے جاتے ہیں.گریس میں میں تنہائی کو پسند کرتے ہیں.الغر من مولینا نہایت صادی اور پاکیزہ زندگی بسر کرتے ہیں.میں نے کبھی ان کی پیشانی پر شکن اور غصہ کے آثار نہیں دیکھے.میں نے جب مولانا سے پڑھنا چھوڑا تھا مولینا کو ہمیشہ دیکھا کہ جب کبھی مجھ کو دیکھتے تو دور سے دیکھے کر مسکرانے لگ جانا اور پہلے سلام علیکم فرمانا.بہت زیادہ باتوں کو مولانا پسند نہیں کرتے اور اپنے آپ کو مجلسوں میں ظاہر کرنے کی عادت نہیں.سلسلہ کی ادنیٰ سے ادنی خدمت کو بھی فخر جانتے ہیں.چنانچہ بار ہا سالانہ جلسہ میں میں نے دیکھا ہے کہ سالن کا پیپا با بالٹی اٹھائی ہوئی بڑی سرعت سے مہمانوں کی طرف سے جار ہے ہیں.الغرض مولوی غلام نبی صاحب اسلام کی ایک خوبصورت تصویر کا نام ہے ہے آپ کی وفات پر حضرت مصلح موعود نے مرتی سے حسب ذیل تعزیتی پیغام ارسال فرمایا.مولوی غلام نبی صاحب مصری کی وفات کی خبر پر بہت صدمہ ہوا.میری طرف سے ان کے رشتہ داروں سے دلی ہمدردی کا اظہار کریں.اللہ تعالے مرحوم کی روح کو رفعت اور بلندی عطا کر ہے.خليفة المسيح لي الحکم بر ستمبر ۱۹۲۳ء مث۶ : له الفضل بیکم مئی ۹۵۶ صل
۲۹۸ د حضرت منشی میر محمد اکرم صاحب دا توی له ولادت امشه ، بیعت قبل از شر ، وفات پراسی ۱۹۵۲) ، در آپ کا اصل وطن دانہ ضلع ہزارہ تھا.اس گاؤں کے بارہ بزرگوں نے حضرت مسیح موعود و مہدی موعود کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا تھا.جن میں آپ کو ایک ممتاز حیثیت حاصل تھی حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اس بستی کے ان بزرگوں کا ذکر اپنے سفر نامہ میں بھی فرمایا ہے.حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزار دہلی نے آپ کی وفات پر ایک مختصر نوٹ میں لکھا :.رو منظور عین عنفوان شباب میں شاہ سے کچھ قبل حلقہ بگوش احمدیت ہوئے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضر ہونے کا شرف اکثر حاصل کرتے رہے.۱۹۰۲ء کے ماہ جولائی میں کئی روز حضرت اقدس کی مجلس میں گزارے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایت کی روشنی میں اسلام کے احکام کی ثابت قدمی سے پیر دی کرتے رہے.پانچوں اوقات نماز باجماعت پڑھتے تھے اور نصف شب کے بعد نہایت خوش الحانی سے شوق انگیز لہجہ میں قرآت تہجد کی نمازہ میں پڑھا کرتے تھے.سنجیدہ خصلت کے تھے کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتے تھے.جو بات سمجھانی چاہتے تھے نرمی اور محبت سے کھاتے تھے.دیانت وامانت میں آپ مشہور تھے.ہزاروں کی نقدی لوگ آپ کی تحویل میں رکھتے تھے.آپ کی عمدہ مثال اور اچھے تعامل کے باعث لوگ آپ پر بھروسہ رکھتے تھے.احمدیت کی تعلیم کا نمونہ تھے.موضع دانہ میں بارہ زمیندار ایسے تھے.جو ہفتوں ، مہینوں قادیان میں رہ کر فیومن حاصل کرتے اور پھر وطن واپس ہو کر تبلیغ میں لگ جاتے تھے.انہی کے اثر سے شمال مغربی کشمیر کا خان.بنگل تناول یا عتمان ہزارہ میں احمدیت کا آفتاب چپ کا مفتی سلسلہ احمدیہ حضرت مولوی سید سر در شاه صاحب جامع مسجد ایبٹ آباد کی امامت چھوڑ کہ احمدی ہوئے.اور شام زادہ سنجارہ عبد المالک صاحب نے اپنا فرزند قاربان بھیجا.جو اب باپ کے پہلو میں سویا ہو اہے.شر میں باغ میں سجادہ نشین عبدالرحمن صاحب ساکن چھو ہر نے حاضر ہو کر بیعت کی.حضرت مسیح موعود کے ان بارہ رفقاء میں سے ایک جرگہ کے نمبر بھی تھے له روزنامه الفضل ۲۰ مئی ۱۹۵۶ ء صفحه من آبائی وطن کو کھنگ منلع ایبٹ آباد
۲۹۹ حکام وقت ان کی ہی بات درست مانا کرتے تھے.مجرموں کے اقربا د نے اہل جرگہ کو ایک موقع پر نقدی دینی چاہی مگر جب پتہ لگا کہ ان میں سے دانا کا ایک احمدی بھی ہے تو دوسرے نمبروں کو بھی نقدی نہ دی کہ احمدی نے کسی کی رو رعایت نہیں کرنی اور نہ اس نے نقد می لینی ہے اور فیصلہ بھی اس کی تخریہ یہ ہوگا اس لیے دوسروں کو رشوت دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے با با بھاگ صاحب امرتسری در دیش قادیان رولادت : غالباً ۱۱۸۵۶ بیعت دستی : ۱۷ : وفات ۱۸ جون ۱۹۵۶) مرحوم راجپوت جنڈیال قوم سے تعلق رکھتے تھے اصل وطن موضع سمجھگتر دی ڈاکخانہ مکیر بیاں ضلع ہوشیار پور تھا.۱۹۲۷ء میں وصیت کی.اور ہجرت کر کے قادیان آگئے کیے اور آخر دم تک نہایت خاموشی، تنہائی اور دعاؤں سے درویشانہ زندگی بسر کی ہے خانبها در حضرت مولوی غلام محمد صاحب آن گلگت نگه ز ولادت ۶۱۸۷۱ : بیعت : ۲۰ جنوری ۱۸۹۲ء : وفات ۲۶ جون ۱۹۵۶ ۶ ) آپ کا اصل وطن بھیرہ تھا.ملازمت کے دوران آپ گلگت.لداخ اور کشمیر میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائزہ ہے.ایک دن گلگت کے انچارج گورنر بھی رہے آپ کی شکل و شباہت حضرت صاجزادہ عبداللطیف صاحب سے بہت مٹی تھی.نہایت سادہ مزاج.مخلص اور متوکل بزرگ تھے.ملازمت سے ریٹائرڈ ہو کر قادیان تشریف لے آئے.اور تقسیم ملک کے بعد بھیرہ میں ہی رہائش اختیار کر لی اور یہیں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ بہلوہ میں سپرد خاک کئے گئے یہ کتاب گلگت کے تہوار اور عوامی روایات سه العمل - رستی ۱۹۵۷ ء م اور من و ته بدر تاریان اور تون ۱۹۵۶ دستہ ہم سے وہ بچوں جو مرجھا گئے ؟ ܀ حصہ اول من از چودری فیض احمد صاحب گجراتی در دین - ناظر بیت المال آمد قادیان پر الفضل ۱۲۹ جون ۱۹۵۶ اول نہ رجسٹر بیت اولی بہت بھیرہ کی تاریخ حدیث نگار ما مولا فضل الرحمن صاحب بسمل ربوہ سابق امیر جماعت احمدیہ بھیرہ - شہادت حضرت سید احمد نور کا بی صاحب ( حضرت شہزادہ عبد اللطیف شہید می ۱۱۵ و ۳۵) مرتبه دوست محمد شاہد - طبع دوم ۱۸۸۹ (۶) (باقی منت ۳ ماشیہ یہ
(FESTIVALS AND FOLKLORE OF GILGIT) آپ کی علمی یادگار ہے.آپ تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں شامل تھے.حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب راجیو سائیکل درکس نبیلہ گنبد لاہور " ولادت شاه قریباً ، بیعت شما ، وفات ۱۹ جولائی ۹۵۶ ء الله آپ نے کن حالات میں قبول احمدیت کی ؟.اس کی تفصیل آپ ہی کے فلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.د میں حسب طالب علم تھا.آٹھویں جماعت میں تو حنفی اور وہابی لوگوں کی یہاں لاہور میں بہت بحث ہوا کرتی تھی.میں حنفی المذہب تھا.مجھے شوق پیدا ہوا کہ رہا ہوں کی مسجد میں بھی جاؤں.چنانچہ میں نے چینیانوالی مسجد میں جانا شروع کیا.جب میں ان کی مجلس میں بیٹھا تو مجھے معلوم ہوا کہ دہ قال اللہ اور قال الرسول کے سوا کچھ نہیں کہتے.میری طبیعت کا رجحان پھر اہلحدیث کی طرف ہو گیا.بعض وقت وہابیوں کی مجلس میں حضرت صاحب کا بھی ذکر آجایا کرتا تھا.کہ وہ کافر ہیں.اور ان کا دعوئے مسیحیت اسلام کے خلاف ہے.طبعاً مجھے پھر اس طرف توجہ ہوئی.چنانچہ ایک شخص حضرت ولی اللہ صاحب ولد با با هدایت اللہ صاحب ، کوچه چابک سواران احمد می تھے.میں ان کی خدمت میں جانے لگا اور ان سے حضرت صاحب کے متعلق کچھ معلومات حاصل کیں.انہوں نے بھی استخارہ کرنے کے واسطے توجہ دلائی.چنانچہ ان سے میں نے طریق استخارہ سیکھ کہ اور دعائے استخارہ یاد کر کے استخارہ کیا.رات کے دو بجے.دوسرے روز میں ابھی استخارہ کی دعا پڑھ کر سو یا ہی تھا.کہ رڈیا میں مجھے کسی شخص نے کہا کہ آپ اٹھ کر دو زانو بیٹھیں کیونکہ آپ کے پاس حضرت رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے بقیه حاشیہ ۲۹۹ سے آگے) شہ اس کا دوسرا ایڈیشن حسب ذیل ادارہ نے شائع کیا ہے."NATIONAL INSTITUTE OF FOLK, HERITAGE ISLAMABAD (PAKISTAN) ل الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۵۶ ء ما
E ہیں.اور مجھے مجھی زینے سے کسی آدمی کے چڑھنے کی آوازہ آئی.چنانچہ میں سڑیا ہی میں روزانو بیٹھ گیا.اتنے میں میں نے دیکھا کہ ایک نہایت متبرک سفید لباس میں انسان آیا ہے.اور انہوں نے ایک بازو سے حضرت مرزا صاحب کو پکڑ کر میرے سامنے کھڑا کر دیا ہے اور فرمایا "هذا الرجل خليفة الله واسمعوا و اطیعوا " پھر وہ واپس تشریف لے گئے.اور حضرت صاحب میرے پاس کھڑے ہو گئے اور اپنی ایک انگلی اپنی چھاتی پر مارکہ کہا.ایہو رب خلیفہ کیتا ایہو مہدی خانو؟ پھر ایک اور نظم کی رباعی بھی پڑھی.لیکن میں بھول گیا ہوں.اس کا مطلب بھو یہی تھا.کہ میں مسیح موعود ہوں.میں پھر بیدار ہو گیا.صبح میں بجائے سکول جانے کے قادیان روانہ ہو گیا گاڑی بٹالہ تک تھی.اور قریباً شام کے وقت وہاں پہنچی تھی.میں بٹالہ کی مسجد میں ہوا ڈے کے سامنے چھوٹی سی ہے.نماز پڑھنے کے لیے گیا.مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا.کہ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں کا ارادہ ہے.میں نے کہا لاہور سے آیا ہوں اور قادیان جانے کا ارادہ ہے.انہوں نے حضرت صاحب کو بہت گالیاں دیں اور مجھے وہاں جانے سے روکا.جب میں نے اپنا عصم ارادہ ہی ظاہر کیا تو انہوں نے مجھے مسجد سے نکال دیا.میں اڈے میں آگیا مگر کچھ لوگ، اڈے پر بھی میرے پیچھے آئے.اور مجھے هر چند قادیان جانے سے روکا.اور کہا کہ اگر تم طالب علم ہو تو ہم تمہیں یہاں بڑے میاں کے پاس بٹھا دیں گے.اور تمہاری رہائش اور لباس کا بھی انتظام کر دیں گے مگر میں نے عرض کیا میں پہلے ہی لاہور میں پڑھتا ہوں.اس لیے مجھے یہاں پڑھنے کی ضرورت نہیں.میں قادیان میں حضرت صاحب کی زیارت کے لیے جارہا ہوں.اس پر انہوں نے زیادہ مخالفت مشروع کی.مگر میں نے پرواہ نہ کی.اور قادیان کی طرف شام کے بعد ہی چل پڑا.اندھیرا بہت تھا.رات کا کافی حصہ گزر چکا تھا.اور راستہ پہلے دیکھا ہوا نہیں تھا.میں غلطی سے چراغ کی طرف دیکھ کر جو دور جل رہا تھا.میسانیاں چلا گیا.وہاں نماز عشاء ہو چکی ہوئی تھی.ایک آدمی مسجد میں میٹھا ذکر الہی کر رہا تھا.اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے.اور کہاں سے آئے ہیں.میں نے کہا لاہور سے آیا ہوں.اور حضرت مرزا صاحب کو ملنا چاہتا ہوں.اس نے جواباً کہا کہ یہ مسانیاں ہے قادیان نہیں ہے.قادیان یہاں سے دور ہے اور تم یہاں سو جاؤ صبح کے وقت جانا.رستہ مخدوش ہے.چنانچہ میں وہاں مسجد میں لیٹ گیا.اور چار
٣٠٢ بجے کے قریب جب چاند پر رہا تو میں نے اس شخص کو کہا کہ مجھے رستہ دکھا دو.وہ مجھے و ڈالر تک چھوڑ گیا.اور مجھے مڑک دکھا گیا.چنانچہ میں نے صبح کی نماز نہر پر پڑھی.اور سورج نکلنے پر قریبا ایک گھنٹ بعد قادیان پہنچ گیا.قادیان کے چوک میں جا کہ میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ بڑے مرزا صاحب کہاں ہیں.اُس نے مجھے کہا کہ وہاں نہا کر سامنے مکان کی حویلی میں تخت پوش پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں.میں سنتے ہی آگے بڑھا.توئیں نے دیکھا کہ ایک معمر شخص نہا کر تخت پوشش پر بیٹھا ہے.اور بدن بھی ابھی اس کا گیلا ہی ہے.اور حقہ پی رہا ہے.مجھے بہت نفرت ہوئی.اور قادیان آنے کا افسوس ہوا.میں مایوس ہو کر واپس ہوا.موڑ پر مجھے ایک شخص شیخ حامد مسل صاحب ملے انہوں نے مجھے پوچھا.کہ آپ کس جگہ سے تشریف لائے ہیں.اور کس کو ملنا چاہتے ہیں.میں نے کہا میں نے جس کو ملنا تھا.اس کو میں نے دیکھ لیا ہے.اور اب میں واپس لاہور جارہا ہوں.میرے اس کہنے پر انہوں نے مجھے فرمایا کہ کیا آپ مرزا صاحب کو ملنے کے لیے آئے ہیں.تو وہ یہ مرزا نہیں ہیں وہ اور ہیں.اور میں آپ کو ان سے ملا دیتا ہوں.تب میری جان میں جان آئی.اور میں کسی قدر تسکین پذیرہ ہوا.حامد علی صاحب نے مجھے فرمایا کہ آپ ایک رقعہ لکھدیں.میں اندر پہنچا تا ہوں.چنانچہ میں نے ایک رقعہ پر پنسل کے ساتھ ایک خط لکھا جس میں میں نے مختصراً یہ لکھا.کہ میں طالب علم ہوں.لاہور سے آیا ہوں.زیارت چاہتا ہوں.اور آج ہی واپس جانے کا ارادہ ہے.حضور نے اس کے جواب میں کہلا بھیجا کہ مہمان خانہ میں تھر میں اور کھانا کھائیں.اور ظہر کی نماز کے وقت علاقات ہو گی.اس وقت میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں اور اس کا مضمون میرے ذہن میں ہے.اگر میں اس وقت ملاقات کے لیے آیا.تو ممکن ہے کہ وہ مضمون میرے ذہن سے اتر جائے اس واسطے آپ ظہر کی نمانہ تک انتظار کریں.مگر مجھے اس جواب سے کچھ نسلی نہ ہوئی.میں نے دوبارہ حضرت کو لکھا.کہ میں تمام رات مصیبت سے یہاں پہنچا ہوں.اور زیارت کا خواہشمند ہوں.اللہ مجھے کوئی وقت شرت زیارت سے سرفرزانہ فرمائیں.تب حضور نے مائی دادی کو کہا کہ ان کو مبارک مسجد میں بٹھاؤ اور میں ان کی ملاقات کے لیے آتا ہوں.مجھے وہاں کوئی پندرہ منٹ بیٹھنا پڑا.اس کے بعد حضور نے مائی دادی کو بھیجا کہ ان کو اس طرف بلاؤ.حضرت صاحب اپنے مکان سے گلی میں آگئے.اور میں بھی اس گلی میں آگیا.دور سے میری نظر جو حضرت صاحب پر پڑی.تو وہی رڈیا میں سنو شخص مجھے دکھا یا گیا تھا.بعینہ وہی طلبہ تھا.حضرت صاحب کے ہاتھ میں عصا بھی تھا پگڑی
٣٠٣ بھی تھی گویا تمام وہی حلیہ تھا.اس سے قبل دادی کی معرفت معلوم ہوا تھا.حضرت کپڑے اتار کر تشریف فرما ہیں ده مگر چونکہ اللہ تعالی کو مجھے رو یاد الانظارہ دیکھا نا منظور تھا.اس لیے حضور نے جو لباس زیب تن فرمایا با لکل وہی تھا جو میں نے رویا میں دیکھا تھا.میں حضرت صاحب کی طرف چل رہا تھا.اور حضرت صاحب میری طرف اگر ہے تھے.گول کمرہ کے دروازہ سے ذرا آگے میری اور حضرت صاحب کی ملاقات ہوئی.میں نے حضرت صاحب کو دیکھتے ہی پہچان لیا.کہ یہ خواب دالے ہی بزرگ ہیں.اور بچے ہیں.چنانچہ میں حضور سے بغل گیر ہوگیا.اور زار زار رونے لگا.میں نہیں سمجھتا کہ وہ ردنا مجھے کہاں سے آیا.اور کیوں آیا.مگر میں کئی منٹ روتا ہی رہا.حضور مجھے فرماتے تھے.صبر کریں صبر کریں.جب مجھے ذرا رد نا تھم گیا.اور مجھے ہوش قائم ہوئی.تو حضور نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں میں نے عرض کیا لاہور سے با حضور نے فرمایا.کیوں آئے ہیں.میں نے کہا.زیارت کے لیے حضور نے فرمایا.کوئی خاص کام ہے.میں نے پھر عرض کیا.کہ صرت زیارت ہی مقصد ہے.حضور نے فرمایا بعض لوگ دعا کرانے کے لیے آتے ہیں.اپنے مقاصد کے لیے.کیا آپ کو بھی کوئی ایسی ضرورت درپیش ہے میں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی ضرورت در پیش نہیں.تب حضور نے فرمایا کہ مبارک ہو.اہل اللہ کے پاس پیغر من آنا بہت مفید ہوتا ہے (یہ غالباً حضرت صاحب نے مجھ سے اس لیے دریافت فرمایا تھا کہ ان ایام میں حضور نے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا.جس میں لکھا تھا.کہ بعض لوگ میرے پاس اس لیے آتے ہیں.کہ اپنے مقاصد کے لیے دعا کرائیں) اس کے بعد حضور نے مجھے فرمایا.کہ آپ حامد علی کیسا تھے مہمان خانہ میں جائیں.اور ظہر کے وقت پھر ملاقات کروں گا.یکس مہمان خانہ میں چلا گیا.وہاں کھانا کھایا ذرا آرام کیا.ظہر کی اذان ہوئی مجھے پہلے ہی حامد علی صاحب نے فرمایا تھا.کہ آپ پہلی صف میں جا کہ بیٹھ جائیں.چنانچہ میں اس ہدایت کے ماتحت پہلی صف میں ہی قبل از وقت جا بیٹھا.حضور تشریف لائے نماز فرمایاکر نما نہ پڑھی گئی.نمازنہ کے بعد حضور میری طرف مخاطب ہوئے.اور فرمایا کہ آپ کب جانا چاہتے ہیں.میں نے کہا حضور ایک دو روز پھروں گا.حضور نے فرمایا.کم از کم تین دن ٹھہرنا چاہیے.دوسرے روز ظہر کے وقت میں نے بیعت کے لیے عرض کیا.حضور نے فرمایا کہ ابھی نہیں.کم از کم کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں.ہمارے حالات سے آپ واقف ہوں.اس کے بعد بیعت کریں.مگر مجھے پہلی رات ہی مصالحانہ میں ایک رڈیا ہوئی.جو یہ بہتی.میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک نور نازل ہوا اور وہ میرے ایک کان
۳۰۴ سے داخل ہوا.اور دوسرے کان سے تمام جسم سے ہو کر نکلتا ہے.اور آسمان کی طرف جاتا ہے اور پھر ایک طرف آتا ہے.اور اس میں کئی قسم کے رنگ ہیں.سبز ہے سرخ ہے.نیل گوں ہے.اتنے ہیں کہ گنے نہیں جاتے تھے.قوس قزح کی طرح تھے.اور ایسا معلوم ہوتا تھا.کہ تمام دنیا روشن ہے اور اس کے اندر اس قدر مرور اور راحت تھی.کہ میں اس کو پہچان نہیں سکتا تھا.مجھے صبح اٹھتے ہی یہ معلوم ہوا.کہ اس رڈیا کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی برکات سے مجھے را فرحصہ لے گا.اور مجھے بیعت کر لینی چاہیے.اس رڈیا کی بنیاد پر میں نے حضرت صاحب سے دوسرے روز ظہر کے وقت بہیت کے لیے عرض کیا.مگر حضور نے منظور نہ فرمایا.اور تین دن کی شرط کو بر قرار رکھا.چنانچہ میرے روز ظہر کے وقت میں نے عرض کیا.کہ حضور مجھے انشرح صدر ہو گیا ہے اور یہ میری بیعت قبول کریں.چنانچہ حضور نے میری اپنے دست مبارک پر بیعت لی اور میں رخصت ہو کہ لاہور آگیا.چوتھے روز میں سکول گیا.تو مجھے ایک شخص مرزا رحمت علی صاحب آن ڈسکہ ہو انجمن حمایت اسلام میں ملازم تھے ، نے اپنے پاس بلایا.اور فرمایا کہ تم چارہ دن کہاں تھے.میں نے صاف صاف اُن سے عرض کر دیا.کہ میں قادیان گیا تھا.انہوں نے کہا بیعت کر آئے ہو.میں نے کہا ہاں.انہوں نے فرمایا کہ یہاں مت ذکر کرنا.میں بھی احمدی ہوں.اور میں نے بھی بیعت کی ہوئی ہے.مگر میں یہاں کسی کو نہیں بتاتا.تاکہ لوگ تنگ نہ کریں.مگر میں نے ان سے عرض کیا.کہ میں تو اس کو پوشیدہ نہیں رکھونگا.چاہے کچھ ہو.چنانچہ ہمارے استاد مولوی زین العابدین صاحب جو مولوی غلام رسول قلعہ والوں کے بھانجے تھے.اور ہمارے قرآن ، حدیث کے استاد تھے.اُن سے میں نے ذکر کیا کہ میں احمدی ہو گیا ہوں.اس پر انہوں نے بہت بُرا منایا.اور دن بدن میرے ساتھ سختی کرنی شروع کر دی حتی کر دہ فرماتے تھے.کہ جو مرزا صاحب کو مانے.سب نبیوں کا منکر ہوتا ہے اور اکثر مجھے وہ کہتے تھے.کہ تو بہ کرد - اور بیعت فسخ کرد.مگر میں ان سے ہمیشہ قرآن شریف کے ذریعہ حیات وفات مسیح پر گفتگو کرتا.جس کا وہ کچھ جواب نہ دیتے.اور مخالفت میں اس قدر بڑھ گئے کہ جب ان کی گھنٹی آتی.تو وہ مجھے مخاطب کرتے تھے.او مرزائی.پہنچ پر کھڑا ہو ا.میں اُن کے حکم کے مطابق پنچ پر کھڑا ہو جاتا.اور پوچھتا کہ میرا قصور کیا ہے.وہ کہتے.کہ یہی کافی قصور ہے کہ تم مرزائی ہو.اور کافر ہو.کچھ عرصہ میں نے اُن کی اس تکلیف دہی برداشت کیا.پھر مجھے خیال آیا.کہ میں پرنسپل کو ، جو نو مسلم تھے اور ان کا نام حکم علی تھا.کیوں نہ جاکر شکایت کروں کہ بعض استاد مجھے اس وجہ سے مارتے ہیں کہ ہیں احمدی
کیوں ہو گیا ہوں.اس پر انہوں نے ایک سرکلر جاری کر دیا کہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کوئی مدرس کسی لڑکے کو کوئی سزا نہ دے.چنانچہ اس آرڈر کے آنے کے بعد مولوی زین العابدین صاحب اور ان کے ہم خیال استاد ڈھیلے پڑ گئے.اور مجھ پر جو سختی کرتے تھے.اس میں کمی ہو گئی.خدا کے فضل سے میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اپنی تکالیف کا ذکر کرتا.حضور نسلی دیتے اور فرماتے کہ کوئی بات نہیں خدا تعالے فضل کرے گا " ہے حضرت قاضی صاحب سیدنا حضرت مسیح موعود کی قبولیت دعا کا نشان تھے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۲۰ جولائی ۱۹۵۶ ء کے خطبہ جمعہ کے آخر میں ارشاد فرمایا :- دو نماز کے بعد میں ایک جنازہ پڑھاؤں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک پرانے رفیق قاضی محبوب عالم صاحب لاہور کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زندگی میں یہ ان کی عادت تھی کہ وہ آپ کو ہر روز دعا کے لیے خط لکھا کرتے تھے.اور اس کی وجہ یہ تھی کردہ ایک جگہ یہ شادی کرنا چاہتے تھے.لیکن فریق ثانی رضا مند نہیں تھا.اس لیے وہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کو لکھتے کہ حضور دعا فرما دیں یا تو لڑکی مجھے مل جائے یا اللہ تعالیٰ میرا دل اس سے پھیر دے اب مجھے یاد نہیں رہا کہ آیا ان کا دل پھیر گیا تھا.یا ان کی اس لڑکی سے شادی ہو گئی تھی.بہر حال دونوں میں سے ایک بات ضرور ہو گئی تھی.پھر نہ صرف وہ خود اس نشان کے حامل تھے بلکہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور شخص کو بھی اپنے نشان کا حامل بنایا.ہمارے ایک دوست نماسٹر عبد العزیز صاحب تھے.جنہوں نے قادیان میں طبیہ عجائب گھر کھولا ہوا تھا.اس وقت ان کا لڑکا مبارک احمد دواخانہ چلا رہا ہے اور ان کی دوائیاں بہت مقبول ہیں.انہوں نے قاضی محبوب عالم صاحب کے متعلق سنا کہ وہ ہر روز حضرت مسیح موعود عليه الصلواۃ والسلام کو اس قسم کا خط لکھا کرتے ہیں.تو انہوں نے بھی روزانہ خط لکھنا شروع کر دیا.انہیں بھی ایک ذیلدار کی لڑکی سے جو ان کے ماموں یا پھوپھا تھے محبت تھی.وہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو لکھتے اور کہتے حضور دعا فرمائیں.کہ قاضی محبوب عالم صاحب کی طرح یا تو میرا دل اس ه روایات جلد مث من ۱۲ تا ۱۲۹ : نه ملک مبارک احمد خاں صاحب مرحوم امین آبادی ص ر دفات ۱۸ر دسمبر تا ، مدیر تریاق و رفتار زمانہ مراد ہیں جو سلس د احمدیہ کے ایک مخلص خادم بنے.
لڑکی سے پھر جائے.اور یا پھر میری اس سے شادی ہو جائے.چنانچہ ان کی دہاں شادی ہو گئی.اور مبارک احمد اسی بیوی میں سے ہے.گویا قاضی صاحب نہ صرف خود ایک نشان کے حامل تھے بلکہ ایک دو سرے نشان کے محرک بھی تھے.انہوں نے اپنی زندگی میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا.کہ میں ان کا جنازہ پڑھاؤں حضرت قاضی محبوب عالم صاحب تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے.اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کیے گئے.اولاد : ۱- قاضی محمود احمد صاحب ۲۰ - قاضی مسعود احمد صاحب مرحوم - - - - ۲ - قاضی رشید احمد صاحب - قاضی ناصر احمد صاحب.ه - امتد العزیز بیگم صاحبہ (اہلیہ مولوی محب الرحمن صاحب ) آمنه صديقة صاحبہ - (ہیوہ مرزا مولا بخش صاحب مرحوم) صفیہ بیگم صاحبہ (اہلیہ شیخ احمد حسن صاحب ) به را رضیہ بیگم صاحبہ (اہلیہ ملک محمد حسان صاحب) - حضرت جہاں بیگم صاحبہ (اہلیہ ملک سعادت احمد صاحب نے مولوی محمد صادق صاحب مبلغ سیرالیون تحریہ فرماتے ہیں :- میرے دادا قاضی محبوب عالم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت پرانے رفقاء میں سے تھے.حضرت مستری محمد موسیٰ صاحب ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے.فرمایا حضور مجھے ایک نیک نوجوان کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قاضی محبوب عالم صاحب مرحوم کا ہاتھ پکڑ کر حضرت مستری صاحب کے ہاتھ میں پکڑوا دیا.اور دادا صاحب مرحوم ایک مدت مدید تک بطور منشی کے حضرت مستری صاحب کے ہاں لازم رہے.بعد میں آپ نے اپنی دکان کھول لی.آپ ایک قابل تاجر تھے شام کو جب آپ مله الفضل ۲۷ اپریل ۱۹۵۶ ء مره : سے لاہور تاریخ احمدیت مولفه مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسله من ۲۴ "
دکان بند کر کے گھر آیا کرتے.تو راستے میں اندر دن دہلی دروازے کے تاجروں کو تبلیغ کر نا شروع کر دیتے تھے.بعض اوقات رات کے گیارہ بارہ بج جاتے.لیکن آپ ہمہ تن تبلیغ میں مشغول ہیں.اور ایک بہت بڑا مجمع لگ جایا کرتا تھا.اس مجمع میں لوگ آپ کو مارتے پیٹتے تھے.لیکن آپ نے ہرگزہ کبھی اس کی پرواہ نہیں کی تھی.آپ کو حضرت میں موعود علیہ السلام سے عشق تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واقعات جب سنایا کرتے تھے تو آپ پر ایک رقت کا عالم طاری ہو جانا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بھی آپ کو عشق تھا.جلسہ سالانہ کے آخری دن حضور ایدہ اللہ تعالیٰ حیب علمی تقریر فرما ر ہے ہوتے تھے.تو آپ کے آنسو جاری ہو جاتے تھے.اور منہ سے دعائیہ فقرات نکلتے تھے کہ اسے خدا خلیفہ وقت کی عمر لبی فرما.اس کو صحت عطا فرما.تاکہ آپ کے مبارک وجود سے ہم مستفید.ہوتے رہیں.آپ نہایت ہی رقیق القلب تھے.بیٹھے بیٹھے سجدے میں گر جاتے تھے.اور اسقدر بلند آواز سے گریہ وزاری کرتے تھے کہ ارد گرد بیٹھنے والوں پر بھی رقت کا عالم طاری ہو جاتا تھا ، نہایت ہی متقی پرہیز گار عالم با عمل تھے.آپ کی زندگی سادہ تھی.اپنی باطنی پاکیزگی کے ساتھ آپ کی ظاہری شکل وصورت بھی نہایت رعب والی تھی.اور دیکھنے والوں پر ایک رعب طاری ہو جا تا تھا.آپ مستجاب الدعوات تھے ایک دفعہ گردے کی درد ہوئی.یہ درد اتنی شدید تھی کہ گھر والوں نے سمجھا کہ آپ چند گھنٹوں کے مہمان ہیں.اس درد و الم کی شدید حالت میں آپ خدا تعالیٰ سے یوں مخاطب ہوئے کہ اے میرے پیارے محسن میں تیرا نہایت ہی عاجز و ضعیف بندہ ہوں.اس درد کی برداشت نہیں کہ سکتا اے میرے حسن تو اس درد کے بغیر بھی مجھے موت دے سکتا ہے.اگر میرے لیے موت ہی مقدر ہے.تو اس درد کو کم کر کے مجھے موت دیدے.کیونکہ میں اس درد کو برداشت نہیں کر سکتا.اسی حالت میں آپ کی آنکھ لگ گئی.کیا دیکھا کہ دو فرشتے دائیں اور بائیں کھڑے ہیں.بائیں طرف والے فرشتے نے دائیں طرف والے فرشتے کو کہا کہ وقت تھوڑا ہے.اپنے کام کو جلد ختم کر لو.تب دائیں طرف والے فرشتے نے گردے والے مقام کو چیر دیا.پھر گردے کو ہاتھ ڈال کر صاف کر دیا.پھر اس زخم پر اپنا ہا تھ پھیر کر مقام کو متوازی کر دیا.تب بائیں جانب والے فرشتے نے دائیں جانب دالے فرشتے کو مخاطب ہو کر کہا مبارک کہ تم نے اپنے کام کو وقت پر ختم کر لیا.بعد ازاں آپ کی آنکھ کھل گئی.فرمایا کرتے تھے کہ بائیں سال کا عرصہ گزر چکا ہے.لیکن فرشتے کے ہاتھ سے شفایافتہ گردے میں کبھی در دمحسوس نہیں ہوئی.
اسی طرح آپ فرمایا کرتے تھے.کہ آپ ایک فتنہ گوجرانوالہ گئے وہاں ایک مسجد میں آپ نماز کے لیے تشریف لے گئے.دیکھا کہ ایک آدمی مسجد کی سیڑھیوں سے باہر خدا تعالی کے متعلق نہایت ہی دل آزار کلمات کہہ رہا ہے.جو گالیوں سے بھر پور ہیں.آپ نے اس سے وجہ پوچھی.کہ تو کیوں خدا تعالیٰ کو گالیاں دے رہا ہے اس نے جواب دیا کہ اگر کوئی خدا ہوتا.تو مجھ سے ایسا سلوک نہ کرتا.کہ میرے ہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی.لڑکا طاعون سے مر گیا ہے.اور اب لڑکی کو بھی پھوڑا نکل آیا ہے.اور اس کی نزرع لڑکی کی حالت ہے.میں لڑکی کی اس حالت کو بہ داشت نہ کر کے گھر سے بھاگ آیا ہوں.آپ نے فرمایا.خدا کو گالیاں مت در آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا.اور اس کو دور کرنے کے لیے کہا.اور آپ نے بھی دھو گیا.دو وضو سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا کہ میں نے اس کو اپنے دائیں گھڑا کر لیا.اور دو رکعت نماز کی نیت کی جب میں سجدہ میں گیا تو میری اور اس شخص کی چیخیں نکل گئیں.میں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.کہ میرے پیارے خدا دیکھ یہ تیرا ایک ضعیف بندہ ہے.اور تو قادر مطلق خدا ہے.ایک نہایت ہی معمولی سی بات کی وجہ سے یہ تیرا بندہ تیری راہ سے گمراہ ہو رہا ہے.اے میرے پیارے خدا تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں.تو اپنے فضل سے اپنے اس بندے کو گمراہی سے بچا.آدھ گھنٹہ تک سجدے میں دعا کی.فرمایا کہ سجدے میں ہی خدا تعالٰی نے بتایا.کہ لڑکی کو صحت ہو گئی.آپ نے فرمایا ، کہیں سجدے سے اٹھا.اور اس آدمی کو کہا کہ گھر جاؤ.تمہاری لڑکی کو صحت ہو گئی ہے.اس شخص نے جواب دیا کہ حضرت میں تو لڑکی کو نزع کی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں.اور اس پر اتنا سخت بخار ہے.جس کا اندازہ ہی نہیں.میں کسی طرح گھر جاؤں.اگر میں گھر گیا تو یہی خبر سنوں گا.کہ لڑکی مر چکی ہے.اور یہ خبر میں کشن نہیں سکتا.آپ نے رمایا کہ میں نے اس کو بہت مجبور کیا.کہ گھر جاکر لڑکی کو دیکھو.آخر چار و نا چار ڈرتے ڈرتے اس نے گھر کی طرف قدم اٹھا ئے.جب وہ گھر پہنچا تو دیکھا کہ لڑکی چارپائی پر کھیل رہی ہے نہ بخار ہے اور نہ ہی پھوڑے کا کوئی الہ.الغرض آپ کا وجود ہمارے لیے نیک با برکت بھارت ه الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۵۷ ء مره
٣٠٩ حضرت مستری نظام الدین صا آن سیالکوٹ د ولادت سیاه - بیعت آخر دسمبر ۹۶ راد به وفات ۱۸ اگست ۱۵۶/ حضرت مستری نظام الدین صاحب جماعت احمدیہ سیالکوٹ کے قدیم بزرگوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان عشاق میں سے تھے جنہیں ایک لمبا عرصہ تک اہم جماعتی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی.آپ نے حضرت اقدس کی پہلی بار زیارت ضروری سماء میں کی جبکہ حضور مسجد حکیم حسام الدین سیالکوٹ میں دنی افروز تھے آپ ان دنوں پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے.بعد ازاں آپ کو سیالکوٹ میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کے درس قرآن میں شمولیت کے مواقعے سے اور پھر ان کی نہ بان سے لاہور میں لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی کوشن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کرلی جیسا کہ آپ خود تخریہ فرماتے ہیں :.در خاکسار شہر سیالکوٹ کا رہنے والا ہے.کام سپورٹ کا کرتا ہوں شا میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم و مغفور کا درس قرآن سنا کرتا تھا.ان کی صحبت سے متاثر ہو کر کے ماہ دسمبر میں جلسہ د حرم مہوتسو میں بہمراہی مولوی صاحب مرحوم لاہور گیا.اور وہ جلسہ تمام کا تمام بغور سنتا رہا.دن کو جلسہ ہوتا تھا تو رات کو شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کی کو بھی پر تمام رہتا تھا.وہاں پر شیخ صاحب کی پر سبز گاری اور دین داری یعنی نماز کی پابندی اور تہجد گزاری بھی دیکھنے میں آتی تھی.جلسہ ہو تو میں میرے پاس بیٹھنے والوں میں سے ایک جج صاحب تھے ان کا رنگ سانولہ سا تھا ان کو غالباً ملک خدا بخش یا ملک اللہ بخش کہتے تھے دہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی تقریب کے پڑھے جانے کے دوران میں زار زارو تے تھے.میں سینے پر مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے.انہوں نے غالباً سبنر جو نہ پہنا ہوا تھا.اور فل بوٹ پاؤں ہیں رکھتے تھے.ان کی شکل وہاں پہلے دیکھنے میں آئی تھی.جلسہ کا اثر سب پر تھا ، اور سب پر ایک سناٹا چھا یا ہوا تھا.اور اللہ کی قدرت دحیرت کا ایک نظارہ تھا.جلسہ کے اختتام کے بعد مولوی صاحب سے آپ کا نام سفر جہلم ۱۹۰۳ء کے مبالغین میں درج ہے (البدر ۲۳ - ۳۰ جنوری ۱۹۰۳ ء م ) معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر آپ نے دوبارہ بہجت کا شرف حاصل کیا.
۳۱۰ کے تہراہ قادیان پہنچ گئے وہاں حضرت اقدس کی زیارت کی جو نہایت پر نور شکل تھی.دیکھنے والے پر بغیر اثر کیے نہ رہتی تھی.اُن دنوں بہت مبارک کے مشرق میں جو چھوٹی کو ٹھڑی ہے وہاں پانی کے گھڑے اور وضو کا سامان ہوتا تھا.ظہر کی نماز سے پہلے حضرت اقدس تشریف لے آئے.اور کسی نے کہہ دیا که دو آدمی بیعت کریں گے.چنانچہ بندہ اس وقت وضوخانہ میں دم کر رہا تھا.تو حضور نے آواز دی کہ آؤ میاں نظام الدین بیعت کر لو.بندہ آگے بڑھا اور حضور کے دست مبارک پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی ہے ششماہ میں آپ مستری حسن دین صاحب احمدی ساکن میانہ پور کے ہمراہ قادیان گئے اور اُن کے ساتھ حضرت اقدس کے پرانے گھر کی مرمت اور ریخت میں حصہ لیا اور مہمان خانہ کی پہلی کو ٹھڑی کی چھت وغیرہ ڈالی اُن دنوں آپ کو حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر رہتے کا بہت موقعہ ملا.دو وقت کا کھانا حضور کے ہمراہ کھانے کی سعادت علی.اور حضور کے ساتھ شانہ بشانہ نماز پڑھنے کی بھی.فرمایا کرتے تھے ان دنوں بیت المبارک بہت چھوٹی تھی اور بڑی تنگی سے نمازیں ادا ہوتی تھیں.نمازوں میں گریہ وزاری اور سوز وگداز کا ایک عجیب عالم تھا.آپ تین ماہ تک حضرت میر ناصر نواب صاحب کی نگرانی میں تعمیر کی دیمت بجالاتے رہے.قادیان سے روانگی کے وقت حضرت اقدس نے اُن کی درخواست پر اپنی بعض کتا ہیں اور اپنی پگڑی بطور تبرک عنایت فرمائی.قیام قادیان کے دوران مئی ، ۱۸۹ء میں حسین کا فی سفیر ترکی تاریان آئے اور حضرت مسیح موعود سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے حضور انہیں الوداع کہنے کے لیے جب ان کے یکے تک باہر میدان میں تشریف لے گئے تو اتفاق سے اس موقع پر آپ بھی موجود تھے.اسی طرح حضرت سید نا محمود کی تقریب آمین رجون شاہ) میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام اگست شہداء میں گورداسپور کے مقدمہ مارٹن کلارک کی ایک پیٹی بھگت کہ واپس قادیان تشریف لائے اس سفر میں بھی آپ قدرت بجا لانے کے لیے ہمراہ تھے.اس کے بعد عبد الحمید ستحیث نے جب معافی مانگ لی اور صحیح صحیح بیان دے رہا.تو حضرت چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر گورداسپور نے یہ خوشخبری سنانے کے لیے آپکے قادیان بھیجا.چنانچہ آپ حضور کی خدمت میں قادیان حاضر ہوئے.اور به روایات جلد ۳ مشار م۱۹ "
٣١١ یہ خوش کن خبر پہنچائی.سماء سے لے کر نشہ تک آپ باقاعدہ جلسہ سالانہ میں شامل ہوتے رہے.اپریل تشار کے تاریخی خطبہ الہامیہ کے سننے کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا.۹۰۳اء سل کے دوران آپ ایک خطر ناک مقدر میں ماخور ہوئے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی دعائے خاص کی برکت سے با عزت طور پر بری کر دیئے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں اس نشان کا درج ذیل الفاظ میں خصوصی ذکر فرمایا ہے.۱۳۹ نشان.ایک مرتبہ مستری نظام الدین نام ایک ہماری جماعت کے شخص نے سیالکوٹ اپنی جائے سکونت سے میری در خط لکھا کہ ایک خطر ناک مقدمہ فوجداری کا میرے پر دائر ہوگیا ہے اور کوئی سبیل رہا ئی معلوم نہیں ہوتی.سخت خوف دامنگیر ہے اور دشمن چاہتے ہیں کہ میں اس میں پھنس جاؤں اور بہت خوش ہو رہے ہیں اور میں نے اس وقت ظاہری اسباب سے نومید ہو کہ یہ خط لکھا ہے اور میں نے اپنے دھ میں نذر کی ہے کہ اگر میں اس مقدمہ سے نجات پا جاؤں تو مبلغ پچاس روپے خدا تعالیٰ کے شکریہ کے طور پر آپ کی خدمت ارسال کروں گا.تب وہ خط اس کا کئی لوگوں کو دکھلایا گیا اور بہت دعا کی گئی اور اس کو اطلاع دی گئی.چند دن گزرنے کے بعد اس کا پھر خط مع پچاس روپے کے آیا اور لکھا کہ خدا نے مجھے اس بلا سے نجات دی.پھر چند ہفتہ کے بعد ایک اور خطہ آیا جس میں لکھا تھا کہ سرکاری وکیل نے پھر وہ مقدمہ اٹھایا ہے.اس بنیاد پر کہ فیصلہ میں غلطی ہے.اور صاحب ڈپٹی کمشنر نے ایڈووکیٹ کی بات قبول کر کے فیصلہ کو انگریزی میں ترجمہ کر کمر اور سفارش لکھ کہ صاحب کمشنر بہادر کی خدمت میں بھیج دیا ہے.اس لیے یہ حملہ پہلے سے زیادہ خطر ناک اور بہت تشویش وہ ہے.اور میں نے اس حالت بے قراری میں پھر اپنے ذمہ یہ نذر مقرر کی ہے.کہ اگر اب کی دفعہ میں اس حملہ سے بچ جاؤں تو مبلغ پچاس روپے پھر بطور شکریہ ادا کر دوں گا.میرے لیے بہت دعا کی جائے.یہ خلاصہ دو نوں خطوں کا ہے جن کے بعد دعاکی گئی.بعد اس کے شاید ایک دو ہفتہ ہی گزرے تھے کہ پھر مستری نظام الدین کا خط آیا جو بینہ ذیل میں لکھا جاتا ہے :.بسم الله الرحمن الرحیم محمده ولنقل على رسوله الكريم سیمنا و بهدينا حضرت حجۃ اللہ علی الارض - السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ
۳۱۲ اللہ تعالیٰ نے حضور کی خاطر پھر دوبارہ خاکسار پر رحم فرمایا اور اپیل فریق مخالفت کی کمشنر صاحب لاہور نے نامنظور کر کے کل واپس کردی فالحمد اللہ والمنہ خاکسار دو ہفتہ کے اندر حضور کی قدم بوسی کے لیے حضور کی خدمت میں پچاس روپے نذرانہ جو پہلے مانا ہوا ہے.لے کر حاضر ہوگا.حضور کا نا کارہ غلام خاکسار نظام الدین مستری شہر سیالکوٹ متصل ڈاکخانہ اپنے جنور می نشاء کے سفر جہلم میں جن بزرگوں کو ہر کا بی کا شرف حاصل ہوا.ان میں آپ بھی شامل تھے آپ کا بیان ہے :.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام جب جہلم تشریف لے گئے تھے.تو بندہ بھی حضور کی غلامی میں تھا.حضرت اقدس کو بھٹی کے ایک کمرہ میں فارسی تقریر فرما ر ہے تھے.بندہ اس وقت حضرت مرحوم شہید حضرت سید عبد اللطیف صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا.بندہ تو اتنی فارسی اس وقت جاننا ہی نہ تھا.کہ حضرت اقدس کے کلمات طیبات کو سمجھ سکے.مگر شہید مرحوم زار زار ہو رہے تھے.اور فرماتے تھے من نز دیک تو ذرہ ہے مقدارم تھوڑی دیر کے بعد حضور علیہ السلام کو کوئی صاحبت پیدا ہوئی تو حضور اندر تشریف لے گئے تو مرحوم سید صاحب بھی اٹھنے لگے جونہی آپ اُٹھنے کو تھے تو مفتی محمد صادق صاحب نے فارسی میں کہا صا حبزادہ صاحب آپ تشریف رکھیں حضرت اقدس ابھی پھر واپس آنے والے ہیں.تو انہوں نے فرمایا ہزار سال کی عبادت سے یہاں بیٹھنے کو بہتر جانتا ہوں.یہ ان کی فارسی گفتگو کا معلوم تھا جو اپنے کانوں سے سنا تھا.والسلام کات ۲۱ مامیچ منتشر کو قادیان میں سر جیمز ولسن فنانشل کمشنر تشریف لائے :.اس موقع پر حضرت اقدس نے اپنی جماعت کے سرکردہ اور سنتول اور صاحب وجاہت اصحاب و بلا بھیجا تھا.سیالکوٹ سے جو وفد آیا اس میں حضرت ہچو ہدری نصر اللہ خانصاحب ، منشی عبد اللہ صاحب ریڈر سیشن ج اور آپ بھی شامل تھے.ضروری ۱۹۱۳ء میں دریہ آباد کی بیت کا انتقای عمل میں آیا.اور اس غرمن کے لیے حضرت خلیفہ اول نے اپنی طرف سے حضرت سید نا محمود کو بطور نمائندہ وزیر آباد بھیجا اس سفر میں سید نا محمود کے ساتھ گاڑی میں آپ حقیقة الوحی صفحه ۳۲۴,۳۷۳ : ۳ جرار ہدایات جلد نمبر ا ص ۱۵۶
٣١٣ بھی ہم رکاب تھے.اور اختار بیت کی تقریب میں میں شرکت کی.اپریل ۱۵ء میں منظر جو مہدی نفر امد خالصا حب سے ہجرت کر کے قادیان تشریف لے گئے.اور ہار نومبر سال کو حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوئی انتقال فرما گئے.اور جماعت میں ایک خلاء پیدا ہوگیا جین کو اسلامی اعتبار سے پر کرنے کی توفیق جن بزرگوں کو ملی اُن میں آپ سر فہرست تھے.آپ نے تقریباً پندرہ برس اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدہ پر کام کیا.پریذیڈنٹ کے فرائض بھی انجام دیئے نیز ہر قسم کی خدمت کی یہاں تک کے چپڑاسی اور نقیب بھی بنے.اور آٹا اکٹھا کرنے کی ڈیوٹی تک بجا لاتے رہے حالانکہ آر خود سپورٹ کے سامان کے تین کارخانوں کے مالک تھے جن کی شاخیں پونا ، کو ہاٹ ، بنوں ، کراچی ایبٹ آباد میں قائم تھیں.نیز آپ کے ماتحت قریباً چالیس کار می گرا دور ملازم کام کرتے تھے.جن میں ایک انگریز میٹر ہنٹر بھی تھا.اس سلسلہ میں آپ کے سپرد آخری خدمت سیکرٹڑی دھمایا کی سپرد کی گئی.۱۹۲۷ء کی پہلی اور تاریخی مجلس مشاورت میں آپ سیا لکوٹ سے بطور نمائندہ شامل ہوئے آپ کا نام مطبوعہ رپورٹے صفحہ ۲ پر موجود ہے.علاوہ ازیں ۱۹ء سے ۱۹۳۶ء تک کے دوران اکثر سالوں میں بھی آپ کی شمولیت ثابت ہے یہ آپ اپنے بڑے لڑکے میجر آفتاب احمد صاحب نظام کے ہاں کرشن نگر لاہور میں مقیم تھے کہ آخری بلاوا آگیا.آپ خدا کے فضل سے موصی تھے مگر ماننا لا ہور میں سپرد خاک کیسے گئے.شہ اولاد ہے محترمہ احمد بی بی صاحبہ را علیه با بوحکم دین صاحب مرحوم) ٹرانسمین ایم ای ایس سیالکوٹ.حتر مہ آمنہ بیگم صاحبہ راہلیہ ڈاکٹر میاں محمد اشرف صاحب مرحوم گجرات ) محترمہ صالح بیگم صاحبہ راہلیہ محمد اسلم صاحب رکھی.کوہاٹ) ۴- محترمہ علیمہ بیگم صاحبہ ر اہلیہ میاں عبد الکریم صاحب ٹمبر مرچنٹ جہلم) - مکرم میجر آفتاب احمد صاحب نظام (ریٹائرڈ) لاہور چھاؤنی کریم بیشتر احد صاحب نظام ربوه - - کریم محمد احمد صاحب نظام مرحوم ربوہ کے اولین فوٹو گرافر ) مندرجہ بالاحالات آپ کی بھی ہوئی قلمی یاد داشتوں سے مرتب کیے گئے ہیں جو غیر مطبوعہ ہیں در شنت تاریخ احمدیت میں محفوظ ہیں.ہ سے الفصل ۲۴ اگست ۱۹۸۶ء مہ
۳۱۴ حضرت مہر غلام حسن حنا محلہ اراضی یعقوب سیالکوٹ ولادت قریبا ۶۱۸۷۲ - بیعت می رفات ، سمبر ۹۵ ۱ ۱۰ رات آپ مولانا نذیر احمد صاحب میٹر سابق مبلغ غانا کے والد ماجد تھے.خواب کے ذریعے سے احمدیت قبول کی.فرماتے تھے.کہ ہم دو دو گھنٹے حضرت صاحب کو دبایا کرتے تھے سے آپ کی ایک مینیجی کی آنکھیں بچپن سے ہی خراب رہتی تھیں.حضرت اقدس نے فرمایا.کہ مولوی صاحب سے جا کہ کہو کہ اس لڑکی کی آنکھوں میں کچھ ڈال دیں.چنانچہ حضرت مولانا نور الدین خلیفہ قتل نے کوئی چیز ڈال دی خدا کی قدرت اس کے بعد عمر بھر اس لڑکی کی نظر خراب نہیں ہوئی ہے اولاد مولوی نذیر احمد صاحب بیشر سابق مبلغ غانا ربوده - ۲ - ڈاکٹر رشید احمد صاحب سیالکوٹ : رشیداحمد p - خلیل احمد صاحب العام - ۴- مریم بی بی صاحبہ - مبارکہ بیگم صاحبہ (اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب راده ) چوہدری نعمت خانصاحب آف کر یام ر ولادت قریباً ۶۱۸۷۸ : بیعت ۶۱۹۰۳ ۱ وفات در نومبر ۱۹۵۶ء) آپ سلسلہ احمدیہ کے معروف بزرگ حضرت حاجی غلام احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کر یام کے برادر نسبتی تھے.ارکان دین کے سختی سے پابند اور تہجد گزار.احادیث نبوی سے خاص شغف تھا اور اور حضرت مصلح موعود سے گہری عقیدت رکھتے تھے.دعوت الی اللہ میں عمر بھر کوشاں رہے علاقہ مگیر یاں مضلع ہوشیار پور میں آپ نے مسلسل ایک ماہ تک تبلیغ کی اور پا پیادہ سفر کر کے پیغام حق پہنچایا.آپ ایک لمبے عرصہ تک جماعت احمدیہ کر یام کے سیکریٹری تعلیم اور مربی اطفال رہے اور درس د تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.ه الحکم - ارمٹی ۱۹۰۱ ء ص ۱۵ پر فرست میبائعین میں آپ کا نام بایں الفاظ در سنا ہے، امام حسن داد میاں تھو صاحب نہر دار سیالکوٹ ۲-۲ الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۵۲ ۶ صلت ۴ ! } ļ
۳۱۵ عمر کے آخری ایام ربوہ سے متصل گاؤں احمدنگر میں گذارے اور یہیں انتقال کیا.اپنے پیچھے آپ نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی نے نوابزادہ میاں عبد الرحمن خانصاحب مالیر کوٹلہ ولادت ۱۹ اکتوبر شارات...وفات ، اکتوبر ۹۵ ) آپ حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی پہلی ہیومی محترمہ مہر النساء بیگم صاحبہ کے بطن سے بڑے صاحبزادے تھے.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے آپ کی المناک وفات پر ایک مختصر نوٹ میں تحریر فرمایا." مجھے عزیز مرحوم کی وفات سے خاص صدمہ پہنچا ہے.ہم سب کا بچپن کا ساتھ تھا.بہن بھائی کی مانند اکٹھے رہے ، اکٹھے پڑھے اور کھیلے.پھر جب حضرت نواب محمد علی خان).صاحب....سے میری شادی ہو گئی.تو اس خاندان سے عمر بھر کا ساتھ ہو گیا.میرے ساتھ عزیز مرحوم کو بہت محبت تھی.دلی تعلق اور احترام کا سلوک کرتے تھے.خصو صا حب میرے شوہر محترم حضرت نواب صاحب مرحوم فوت ہو گئے تو وہ میرا بہت زیادہ خیال رکھنے لگے مرحوم نہایت مخلص احمدی تھے.نماز تہجد باقاعدہ ادا کرتے تھے کہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خانصاحب نے آپ کو مندرجہ ذیل شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا.بھائی صاحب مرحوم نہایت نیک سیرت انسان تھے.خلوت پسند تھے مطالعہ کا بہت شوق تھا.حضرت مسیح موعود عليه الصلواۃ والسلام سے عشق.لکھتے تھے.جب صاحبزادگان کی آمین ہوئی.تو اس تقریب پر بھی حضرت والد صاحب کے ساتھ قادیان میں تھے.اکثر اس واقعہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے.اس کے علاوہ بھی حضرت له الفضل ۱۶ جنوری ، ۱۹۵ ء م ه ر مضمون چوہدری احمد الدین صاحب بی اسے خلف الرشید حضرت چوہدری غلام احمد صاحب که یام ) : کے اصحاب احمد، حصہ دوم ، مشوار مؤلفه ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش (قادیان سے الفصل ۳۰ اکتوبه له ما العضل ۱۵/ نومبر ۱۹۵۶ ء ما
مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانہ کے بہت سے واقعات ان کو یاد تھے.رات کو عام طور پر نماز عشاء دیر سے ادا کرتے تھے.اکثر گیارہ ساڑھے گیارہ بج جاتے.لیکن کبھی یہ نہیں ہوا کہ تلاوت قرآن شریف کیے بغیر سوئے ہوں.نمازیں بہت لمبی اور خشوع خضوع سے ادا کر تے تھے.یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی فیض صحبت کا اثر تھا.افسوس ہے کہ ایسے ماحول میں جکڑ کر رہ گئے.کہ عملی خدمت دین نہیں کر سکے.سب سے زیادہ افسوس اس امر کا ہے.کہ ان کی میت کو تابوت میں دفن نہیں کیا گیا.اور جنازہ بھی احمدی نہ پڑھ سکے.وفات کے وقت صرف ایک احمدی پرانا ملازم تھا.وہ بھی پاکستان سے مالیر کوٹلہ گیا ہوا تھا.دریں حالات وہ احباب کی دعاؤں کے بہت زیادہ محتاج ہیں.تاکہ جو کی جنازہ نہ ادا کرنے میں رہ گئی ہے.آپ کی پر خلوص دعاؤں سے پوری ہو جائے.ان کا سیم ایک کو ریتی ہیں مدفون ہے.شاید کسی احمدی کو دوہاں جا کہ دعا کا موقع ہے.غیر احمدیوں کو قبور پر جا کہ دعا کرنے کی عادت نہیں.اس لیے جو احباب اُنسے محبت رکھتے ہیں.وہ اس قدر دعا کریں کہ یہ کسر پوری ہو جائے.پہلے حضرت میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے و ولادت له : بیعت شده در بمطابق روایت حضرت مصلح موعود وفات نوبر ۱۹ آپ کا اصل وطن قادیان کے ماحول میں واقع ہر سیاں کا گاؤں ہے.جو لکھوں سے قریب ہے.له الفضل ۲۳ نومبر ۹۵۶ مت بنا ت الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۹۹ ۲۳ آپ کا نام الحکم ۲ اگست ۱۹۰۳ء کے ملا کی فہرست مبالکین میں بھی شائع شدہ ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی بیعت کی تقریب میں موجود تھے اور ڈائری نویس بزرگ نے آپ کا نام بھی شامل کر لیا.تاریخ احمدیت جلد دوم م۳۱ پر آپ کے بیان (مندرجہ رجبر روایات جلد نمبر ۱۳ ۲۵ ، من ۲ ) کی روشنی میں آپ کا سال بعیت ۱۸۹۶ د لکھا گیا ہے.مر تحقیق سے یہ امر صحیح ثابت نہیں ہوا.وجہ یہ کہ حضرت میاں فضل میر صاحب کے بیان میں جلسہ ۶۱۸۹ پر بیعت کا ذکر ہے حالانکہ اس سال جلسہ.عظم مذاہب لاہور کے باعث قاریان میں کوئی جلسہ سالانہ نہیں ہوا تھا.اس جہان میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے جلسہ ۱۸۹۶ء کے معا بعد جب دربارہ ربیعت کی تو حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب دیر اسی ایک
آپ کے گاؤں میں بعض اور بزرگ بھی مثل منشی نور محمد صاحب دمیاں محمد غوث صاحب د غیر داخل احمدیت ہوئے.مگ اکثریت بیگانوں کی تھی.ہو مخالف علماء کے زیر اثر تھے.اللہ تعالیٰ کی قدرت نمائی دیکھیے کہ اس نے علماء کے عنادا در دشمنی کو کئی سعید روحوں کے لیے شناخت حق کا موجب بنا دیا.چنانچہ حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی روالد ماجد مولوی ثمر الدین صاحب) کی روایت ہے کہ :.ایک دفعہ حضور علیہ السّلام نے مباحثات ومناظرات حكماً بند کر دیئے.اُن دنوں مولوی اللہ دتہ و علی محمد سوهلوی و عبدالسبحان ساکن مسانیاں وغیرہ یکا یک نو صنع سر سیاں میں آگئے.اُس وقت بھائی فضل محمد صاحب والد مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ و منشی نور محمد صاحب وغیرہ ہر سیاں والے احمدی برادران نے مولوی فتح الدین صاحب کو دھر مکوٹ سے بلالیا اور سیکھواں میں ہماری طرف بھی بلانے کیلئے آدمی آگیا.چونکہ حضور نے مناظرات وغیرہ مکلما بند کر دیئے تھے.اس لیے ہیں اور میرے بھائی امام الدین صاحب برسیاں روانہ ہو گئے.اور اپنے بڑے بھائی جمال الدین صاحب مرحوم کو حضور کی خدمت مبارک ہیں روانہ کر دیا.برائے حصول اجازت مناظرہ اور وہاں پر ہم جا کہ مع احمدی دوستوں کے حضور کی اجازت کا انتظار کرنے لگے اُدھر فریق مخالف نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا.اور بہت سے پیغام بھیج رہے تھے.کہ جلدی ہمارے ساتھ مناظرہ کرلیں.لیکن ہم نے جواب دیا کہ جب تک قادیان سے اجازت نہ دئے ہم قطعاً مناظرہ نہیں کریں گے.اس پر مخالفین نے خوشی کے ترانے گانے شروع کر دیئے اور وہاں کا نمبر دار ان رمخالفوں کی طرف سے آیا اور مجھے الگ لیجا کر کہنے لگا کہ اگر آپ میں طاقت نہیں ہے مباحثہ کی تو آپ مجھے کہ دیں.ہیں ان کو یہاں سے روانہ کر دیتا ہوں میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم میں مباحثہ کرنیکی بقیہ حاشیہ ۳۱ سے آگے دن قبل قادیان میں پہنچ چکے تھے.اور حضرت مولانا حسن علی صاحب کی کتاب د تائید حق مل سے ثابت ہے کہ کہ یہ واقعہ ۲ جنوری ۹ہ کا ہے.اس اعتبار سے آپ کی بیعت کا دن سر جنوری ۹۳ قرار پاتا ہے.مگر اس میں ایک اور الجھن پیدا ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ آپ نے ۹۳شاء کے جلسہ سالانہ پر پہلی بیعت کا شرف حاصل کیا.مگر یہ غلط ہے ۱۸۹۳ء کا جلسہ بھی نہیں ہواته الفضل - ارنومبر ۱۹۵۶ء ملام ل بیت ، ۱۸۹ ء وفات ہر نومبر ۱۹۴۳ در تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو الفضل دار مینوری ۱۹۵۶ء مره رست )
۳۱۸ طاقت ہے اور فریق مخالف ہماری طاقت کو جانتا ہے.لیکن ہم اپنے پیشوا کے حکم کے تابع ہیں.قادیان ہمارا آدمی حصول اجازت مباحثہ کے لیے گیا ہوا ہے.ہم منتظر ہیں اگر اجازت آگئی تو مناظرہ کر لیں گے درنہ نہیں.پھر جو دل چاہے قیاس کر لینا تھوڑی دیر کے بعد میرے بھائی جمال الدین صاحب آگئے.اور کہا کہ حضور نے اجازت نہیں دی.جیب مخالفین کو علم ہو گیا کہ مباحثہ نہیں ہوگا تب اُن میں طوفان بے تمیزی بر پا ہوا.اور ہو کچھ ان سے ہو سکتا تھا.بکو اس کیا تمسخر اڑایا استھرا کی کوئی حد نہ رہی.چھوٹے چھوٹے بچے بھی خوشی کے شادیانے گاتے تھے.اور ہم خاموش تھے.فریق مخالف بظاہر فتح و کامیابی کی حالت ہیں اور ہم ناکامی اور شکست کی حالت میں ہر سیاں سے نکلے لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ دیکھیں کہ جمعہ کے روز ہر سیاں سے ایک جماعت قادیان پہنچ گئی کہ ہم میدت کرنے کے لیے آئے ہیں.ہم حیرات ہوئے اور ہم نے پوچھا.بظاہر تو ہماری شکست ہوئی تھی.آپ کو کونسی دلیل مل گئی.انہوں نے جوابا کہا کہ آپ لوگوں کے چہروں پر نہیں صداقت نظر آگئی اور ان (مخالفوں کے چہروں سے گذب اور بیہودہ پن نظر آیا.یہی بات ہمکو قادیان کھینچ لائی یا کتے اور محلہ حضرت میاں فضل محمد صاحب خلافت ثانیہ کے عہد میں قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے.اور دار الفضل میں رہائش اختیار کرلی تھی.تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستان تشریف لے آئے اور ربوہ میں مقیم ہوئے.آپ موصی تھے.اور تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے یکے آپ کا جنازہ حضرت مصلح موعود نے پڑھایا اور پھر اگلے روز 19 نومبر تولہ کے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ :.د میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے فوت ہوئے ہیں.انہوں نے شملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.میں یہ اب 41 سال گزر چکے ہیں.گویا شفاء کے بعد انہوں نے اکا سٹھ ملے دیکھے.ان کے ایک لڑکے نے بتایا کہ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ میں نے میں دقت بیعت کی اس کے قریب زمانہ میں ہی میں نے ایک کے جبر ر دایات نمبر ۱۴ ص ۲ و ص ۲ ایضاً الفضل ۲۳ مئی ۱۹۴۱ء ص ۳ الفضل - ارنومبر ۱۹۵۶ مردادم
۳۱۹ خواب دیکھا جس میں مجھے اپنی عمر ۴۵ سال بتائی گئی.میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور روپڑا اور میں نے کہا حضور ! بیعت کے بعد تو میرا خیال تھا کہ حضور کے الہاموں اور مینگوئیوں کیمطابق احمدیت کو جو ترقیات نصیب ہونے والی ہیں انہیں دیکھوں گا.مگر مجھے تو خواب آئی ہے کہ میری عمر صرف ۲۵ سال ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ کے طریق نرالے ہوتے ہیں شاید وہ ۲۵ کو ۹۰ کر دے.چنانچہ کل جو وہ فوت ہوئے تو ان کی عمر پورے ۹۰ سال کی تھی.اس طرح احمدیت کی جو ترقیات میں وہ بھی انہوں نے دیکھیں اور جلسے بھی دیکھے.ان کے چار بچے ہیں.جو دین کی خدمت کر رہے ہیں.ایک قادیان میں درویش ہو کہ بیٹھا ہے.ایک افریقہ میں مبلغ ہے.ایک یہاں مبلغ کام کرتا ہے.اور چوتھا لڑ کا مبلغ تو نہیں ، مگر وہ اب ربوہ آگیا ہے.اور یہیں کام کرتا ہے.پہلے قادیان میں کام کرتا تھا.لیکن اگر کوئی شخص مرکز میں رہے.اور اس کی ترقی کا موجب ہو تو وہ بھی ایک رنگ میں خدمت دین ہی کرتا ہے.پھر ان کی ایک بیٹی بھی ایک واقف زندگی سے بیاہی ہوئی ہے باقی بیٹوں کا مجھے علم نہیں ہر حال انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک خدا تعالیٰ کا نشان دیکھا.حبیب ۴۵ سال کے بعد ۴۶ واں سال گزرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے.میں نے خدا تعالیٰ کا ایک نشان دیکھ لیا ہے.میں نے تو پینتالیس سال کی عمر میں مر جانا تھا.اب ایک سال جو بڑھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھا ہے.جب چھیالیسویں کے بعد سنتالیسواں سال گزرا ہو گا.تو وہ کہتے ہوں گے کہ میں نے خدا تعالیٰ کا ایک اور نشان دیکھ لیا ہے.میں نے پنتالیس سال کی عمر میں مرا نا تھا.مگر اب دو سال جو بڑھے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھے ہیں.جب سنتالیسویں سال کے بعد اڑتالیسواں سال گزرا ہو گا.تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا ایک اور نشان دیکھ لیا ہے.میں نے پنتالیس سال کی عمرمیں مرجانا تھا.مگر اب تین سال جو بڑھتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشنگوئی کے مطابق بڑھے ہیں...بگو یا وہ پنتالیس سال تک برابر ہر سال یہ کہتے ہوں گے کہ میں نے خدا تعالٰے کا نشان دیکھ لیا اور مرسال جلسہ سالانہ پر ہزاروں ہزار احمدیوں کو آتا دیکھ کہ ان کا ایمان بڑھتا ہوگا ہم سے له الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۵۹ م ۳ تا ۲۰
رسیلی ہیوی محترمہ برکت بی بی صاحبہ کے بطن سے) اولاد : ۱- رحیم بی بی صاحبہ مرحومہ راہلیہ حضرت ماسٹر عطامحمد صاحب.والدہ مولانا نسیم سیفی صاحب) کریم بی بی صاحبہ مرحومہ - ۳ - عبد الرحمن صاحب مرحوم - ۴ - ابو البشارت مولانا عبد الغفور صا -۲- مرحوم مبلغ سلسلہ احمدیہ - ۵ - احمد بجایی صاحبہ مرحومه - ۶ - محترم عبدالرحیم صاحب مرحوم مالک دیانت سوڈا واٹر فیکٹری در دلیش تاریان - ، مولوی صالح محمد صا حب ردا قف زندگی) سابق مبلغ مغربی افریقہ - - - صالح فاطمہ صاحبہ اہلیہ ماسٹر غلام محمد صاحب مرحوم - ۹ - محمد عبد اللہ صاحب لیمہ بیگم صاحبہ المیہ شیخ محمد حسن صاحب لنڈن د دوسری یومی ظفر یہ صوبہ بیگم صاحبہ مرحومہ سے) 11 - صادقہ بیگم صاحبہ راہلیہ الحاج مولوی محمد شریف صاحب واقف زندگی) H عبدالحمید صاحب (نیویارک) ه الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۵۷ ء م ر مضمون چوہدری احمد الدین صاحب بی اے ) 1 I : ! |
۳۲۱ ر ولادت حضرت شیخ اللہ بخش صاحب بیعت ۶۱۹۰۵ وفات ۲۲ دسمبر ۶۱۹۵۶ آپ بنوں میں پیدا ہوئے محکمہ آبکاری کے انسپکٹر رہے.۱۹۳۶ء میں ریٹائرڈ ہو کر قادیان گئے ہ کچھ عرصہ معادن ناظر امور عامہ رہے.محلہ دارالرحمت کے پریذیڈنٹ تھے تقسیم کے بعد پھر بنوں آگئے.نماز جمعہ آپ کی بیٹھک میں ہوتی تھی اور مرکز سے آنے والے احباب آپ کے ہاں بھڑتے تھے آپ نے دو بیوائیں چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں یادگار چھوڑ دیں لیے زار شیر بہادر صاحب قیصرانی و ولادت قریبا ۶۱۸۷۶ : بیعت احمدیت سے پہلے شیعہ خیالات سے تعلق رکھتے تھے.و فات ۲۸ دسمبر ۶۱۹۵۶ ) احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک عشق تھا.تبلیغ کا شوق جنون کی حدتک پہنچا ہوا تھا.بہت رقیق القلب بزرگ تھے.نماز اس قدر خشوع وخضوع سے پڑھتے کہ دیکھ کر حیرت آتی تھی.نماز میں آنسوؤں کا سیلاب رواں ہو جاتا.اور سینہ ابلتی منڈیا کی طرح جوش مارتا تھا- دفات سے چند روز پہلے بذریعہ رڈیا آپ کو بتایا گیا کہ اللہ تعالی کو آپ کی گریہ وزاری بہت پسند آئی ہے اور اُس ذات مقدس نے آپ کے گناہ معاف کر دیتے ہیں.آپ قیصرانی چیف فیملی کے رکن تھے.پہلے صوبیدار بنے.اور بالآخر رسالدار بی ایم پی کے عہدے پر ترقی کر کے پینشن پر ریٹائر ڈ ہوئے ہے سط الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۵۷ء م۲ : ۲ الفضل ۶ فروری ۱۹۵۷ء م۵
فصل سوم دیگر مخلصین جماعت کی وفات اس سال حضرت مسیح موعود کے رفقاء خاص کے علاوہ مندرجہ ذیل مخلصین جماعت بھی داغ مفارقت دے گئے.-۱ بابو محمد عمر صاحب بریلوی ( وفات ۲۰ جنوری ۶۱۹۵۶ مرحوم نہایت پرجوش اور مخلص احمدی تھے.تقسیم ملک سے قبل عرصہ دراز تک سلسلہ کا روبار دہلی میں رہے اور وہاں بڑھ چڑھ کر جماعتی خدمات بجالاتے رہے - الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۵۶ء مث ) ۲ بابو عبد الغنی صاحب انبالوی (وفات ۱۳/ ماریچ ۱۹۵۵) اپنے منشاء میں حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت کا مشرف حاصل کیا.احمدیت کا چلتا پھرتا نمونہ اور متوکل انسان تھے.سالہا سال تک میکر بڑی تبلیغ رہے اور ہر سال ایک ماہ تبلیغ کے لیے وقف کرتے تھے.درجنوں افراد آپ کے ذریعہ داخل احمدیت ہوئے.ایک بار پادری عبد الحق صاحب کو مباحثہ میں لاجواب کر دیا.آپ جماعت انبالہ کے روح رواں تھے.قرآن مجید کی تلاوت نہایت استغراق سے کیا کرتے تھے.بہت صدمے اٹھائے مگر ہمیشہ راضی برضا ر ہے.پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب ایم ایس سی مؤلف کتاب اسلام کا دراشتی نظام " آپ ہی کے صاحبزادے ہیں.الفضل در مارچ ۱۹۵۶ ء - العضل پر اپریل ۱۹۵۶ رمت - الفضل ۲۷ مئی ۱۹۵۶ء ص 2) ۳ - صاحبزادہ میاں عبد السّلام صاحب عمر ( فرزند اکبر حضرت خلیفة المسیح اوّل) (11909 روفات ۲۴/۲۵ مارچ ۱۹۵۶) / آپ ۲۵ دکبر 199 ء کو پیدا ہوئے.حضرت با موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عبدالسلام نام تجویز |
فرمایا.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح اول نے اپنی (غیر مطبوعہ) ڈائری میں تحریر فرمایا :- ۲۵ دسمبر نہ سعیدہ نے اطلاع دی.لڑکا پیدا ہوا ہے.جلسہ بڑی جامع مسجد میں تھا وہاں اطلاع ہوئی تو سب نے یکدم مبارکباد کی صدا بلند کی.الحمد للہ الحمد للہ.الحمد لشد رب العالمین.امام نے عبد السلام نام رکھا والحمدللہ ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی اور ایل ایل بی علی گڑھ یونیورسٹی سے کیا.الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۵۶ عرصه : الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۵۶ ( ص ۳ ) مولوی صاحب کی طبیعت بچپن سے ہی نیکی کی طرف مائل مفتی تین سال کے تھے کہ حضرت خلیفہ اول کو کہا.ابا میرے لیے دعا کرد حضرت خلیفہ ایسی اول نے دعا کی تو کہا ہا تھ اٹھا کر دعا کرو پھر دعا ہا تھ اٹھا کر کی تو کہا نمانہ پڑھ کر ہا عقد اٹھا کر دعا کرو.ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو روپیہ بھی دیا اور بہت کثرت سے دیا مگر آپ نے ہمیشہ درویشانہ زندگی بسر کی.20 ء جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ایک شخص نے کہا مولوی صاحب آپ نے اتنا سستا ٹھا پہنا ہے.اتنی سادگی بھی اچھی نہیں کہنے لگے میاں جسم ہی ڈھانکنا ہے تھوڑی دیر کے بعد ایک غریب احمدی ملے اُن سے پوچھا جلسہ سالانہ پر جا رہے ہو انہوں نے جواب دیا نہیں پوچھا کیوں.کہنے لگے.کر یہ نہیں ہے مولوی صاحب نے جیب میں ہاتھہ ڈال کران کو کچھ رقم دے دی انہوں نے بغیر گئے جیب میں ڈال لی بعد میں دیکھا تو پچیس روپے تھے.قادیان کے بعض قدیم احباب مولوی صاحب سے امداد لینے ان کے گاؤں نور پور متصل نا کھا روڈ ضلع نواب شاہ سندھ میں پہنچ جایا کرتے مولوی صاحب ان کی آمد سے بہت خوش ہوتے ان کو آمد درخت کا کرایہ بھی دیتے اور امداد بھی کرتے اور کہا کرتے بھائی تم بہت با ہمت ہو کہ اس دور افتادہ گاؤں میں پہنچ گئے.حضرت اماں جی نے بتایا کہ مولوی صاحب بچے تھے کہ نواب محمد علی خاں صاحب کی کو بھی تشریفت لے گئے اور نوا صاحب سے ایک پیسے کی بھینس مانگی.نواب صاحب نے تورا وہ بھینس مولوی عبد السلام صاحب کے ساتھ ان کے گھر بھجوادی.ایک دفعہ ڈر کی جانے کا اراہ کیا.پاسپورٹ بنوایا سامان بندھا ہوا تھا ٹانگہ کھڑا تھا سیدنا حضرت
خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اجازت لینے اور ملنے کے لئے گئے حضور نے فرمایا آپ طالب علمی کے زمانہ میں نہ جائیں.آپ نے اسی وقت ارادہ نسخ کر دیا.زمانہ طالب علمی سے شیخ بشیر احمد صاحب سے دوستی تھی اس زمانہ میں ہر روز ایک خط شیخ صاحب لکھتے اور ایک خط مولوی صاحب ان خطوں میں بہت اعلی درجہ کی علمی بسیں ہوتیں کبھی بے ثباتی دنیا زیر بحث ہوتی کبھی غالب کے کسی شعر پر تنقید.دونوں دوست ایک دوسرے کو بڑی پیاری نصیحتیں کرتے.نهایت اعلیٰ درجہ کے مقرر تھے ایک دفعہ اسلامیہ کالج لاہور کی طرف سے آل انڈیا نفر یری مقابلہ میں حصہ لینے کے لیے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بھیجے گئے.اول آئے ایک بہت بڑا کپ سونے اور چاندی کے تمغے انعام میں لے کر آئے.مولوی صاحب نے بی اے ایل ایل بی کرنے کے بعد حیدر آباد دکن میں دو سال وکالت کی ایک دفعہ اعظم صاحب نے آپ سے ایک قانونی مشورہ کیا اس کے بعد اعظم صاحب نواب اکبر جنگ صاحب کے پاس پہنچے نواب صاحب نے فرمایا ہماری فیس پانچ سوروپیہ ہو گی اعظم صاحب نے مولوی صاحب کی رائے پیش کی نواب صاحب نے فرمایا رائے بالکل درست ہے.عبدالخالق صاحب مہتہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے میٹرک پاس کیا میرے والد حضرت بھائی عبد الرحمن نصاب قادیانی پریشان تھے کہ اب لڑکے کو کسی لائن میں ڈالیں.مولوی عبدالسلام صاحب مل گئے کہنے لگے بھائی جی عبد الخالق میرا بھائی ہے آپ بالکل پریشان نہ ہوں میں اس کو علی گڑھ سے جاؤں گا اور سلم یونیورسٹی میں داخل کرا دوں گا.چنانچہ مولوی صاحب نے ایسا ہی کیا عبد الخالق صاحب مہتہ نے بیان کیا کہ مسلم یونیورسٹی کی تعلیم کی وجہ سے پھر اللہ تعالی نے مجھے اعلی تعلیم کے لیے امریکہ جانے کی توفیق بخشی اگر مولوی صاحب میری رہنمائی اور دستگیری نہ کرتے تو شاید میں کہیں چھوٹی موٹی کلر کی کر لیتا اور ان ترقیات سے محروم رہ جاتا جو خداتعالے نے مجھے بعد میں عطا کیں.سندھ کے ایک بڑے زمیندار اور تروں کے سردار میاں عبدالو کامیاب عمر کے پاس آئے کہنے لگے ہیں اپنے بیٹے کی بیعت کرانی چاہتا ہوں انہوں نے کہا آپ کو احمدیت کی طرف توجہ کیسے ہوئی ؟ کہنے لگے مولوی عبدالسلام صاحب کو دیکھ کہ میں نے کہا وہ کیسے کہنے لگے ان کو خدا تعالیٰ پر بڑا تو کل ہے بعض دفعہ ان کو زمین کی قسطیں ادا کرتی ہوئیں ان کے پاس کوئی روپیہ نہ ہوتا مگروہ کبھی نہیں گھر میں نے کہا
۳۲۵ مولوی صاحب میں روپیہ دے دیتا ہوں مگر وہ کبھی قبول نہ کرتے اور میں نے دیکھا آخری وقت اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی انتظام کر دیتا.چنانچہ میاں عبدالوہاب نے ان کے لڑکے کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں بیعت کے لیے بھجوا دیا موادی عبد السلام کے ذریعہ سندھ کے کئی معزز زمیندار سلسلہ میں داخل ہوئے ان کی زندگیاں جو لہو و لعب میں گزر رہی تھیں اعلائے کلمتہ الاسلام میں خرچ ہونے لگ گئیں.روزنامه الفضل ربوه ۸ را بپریل ۱۹۵۶ ء م د مه ر مضمون میاں عبدالوہاب صاحب عمر ) میاں عبد السلام صاحب عمر کی شخصیت گونا گوں خصوصیات کے باعث بہت ہی قابل احترام تھی.اللہ تعالیٰ نے ان کو تحریر و تقریر کا غیر معمولی ملکہ عطا کیا تھا نہ صرف یہ کہ آپ فصیح اللسان خطیب تھے بلکہ صاحب طرز انشا پر داز بھی تھے.اور دونوں میں آپ کو یکساں مہارت تھی نہایت بہ جستہ اور دلپذیر تقریر کرتے تھے.زمانہ طالب علمی میں کالجوں کے متعدد آل انڈیا مباحثوں میں شریک ہوئے اور اس دوران کئی طلائی کپ اور بڑا فیاں جیتیں.ان میں یہ وصف نمایاں تھا کہ وہ ہر ایک کو گرویدہ کر لیتے اُن کی ذات خدا پرستی غیرت دینی اور حمیت اسلامی کا نمونہ تھی.وہ ایک باد صنع انسان اور با مردت دوست تھے.سادہ اور در دیشا نہ طبیعت رکھتے تھے.اور ساتھ ساتھ نہایت شگفتہ مزاج بھی تھے.ملکی تقسیم کے بعد آپ اکثر نواب شاہ دسندھ) اپنی زمینوں کے انتظام وانصرام میں منہمک رہتے لیکن جب کبھی جلسہ سالانہ یہ باگھر میں کسی تقریب پر ربوہ تشریف لاتے تو اپنے دوستوں سے اس قدر خلوص سے بغلگیر ہوتے جیسے کوئی دلی غمگسار مدتوں بچھڑنے کے بعد ملا ہے.پھر نہایت پیار و محبت سے تمام حالات دریافت فرماتے.آپ میں یہ بھی خصوصیت تھی کہ کبھی کسی کی دل آزاری یا تکلیف دہی پسند نہ کرتے تھے بلکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کا بے لوث جذ بہ ہر وقت آپ کو بے قرار رکھنا تھا.قادیان جانے کی تڑپ ہمیشہ دامنگیر رہی کمزوری و بیماری کے باوجود یہی شوق آپ کو دو دفعہ قادیان کی زیارت کے لیے کشاں کشاں لے گیا آخری مرتبہ اس سالانہ جلسہ پر تشریف لے گئے تھے.اور اس موقعہ پہ آپ کی ایک نہایت کامیاب نظریہ ہوئی جو غیر سلام طبقہ میں بھی بے حد پسند کی گئی.19ء میں آپ کی عزیز ترین خواہش کہ وہ دیار جیب میں حاضر ہو کر حج بیت اللہ شریعت
۳۲۶ سے مسرت ہوں لیکن افسوس اس جذبہ کی تکمیل ہیں موت حائل ہو کر رہ گئی.در روزنامه الفضل ربوده ۳۱ مارچ ۵۶ مره ( مضمون ملک نذیر احمد صاحب ریاض) ۱۵۶، حضرت مصلح موعود نے آپ کی نمازہ جنازہ پڑھائی.جس میں ربوہ اور دوسرے شہروں کے ہزاروں افراد نے شرکت کی.ادرس آپ کو حضرت اماں جی کے مزار کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا.غلاف کعبہ کا ٹکڑا آپ کے کفن میں بھی شامل تھا.المفضل ۲۷ مارچ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صا حب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپر و قلم فرمایا :- اس دلی محبت اور قدر و منزلت کی وجہ سے جو میرے دل میں حضرت خلیفہ امسیح الا دل کی ذات والا صفات کے ساتھ تھی اور ہے اس جگہ صرف ایک دافعہ تو مولوی عبدالسلام صاحب کی بچپن کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے بیان کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ اس سے حضرت خلیفہ اول کی اس بے پناہ محبت پر بھی روشنی پڑتی ہے جو آپ کو حضرت مسیح موخور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات کیساتھ تھی.ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں.کہ ابھی مولوی عبد السلام مرحوم غالبا چار سال کے تھے اور خود ہمشیرہ مبارکہ بیگم بھی ابھی چھوٹی تھیں کہ ایک دفعہ وہ حضرت خلیفہ اول کے مکان پر قرآن و حدیث کا سبق پڑھنے کے لیے گئیں اس وقت اتفاق سے ہمشیرہ کے پاس بچپن کی عمر کے مطابق کچھ دانے اخروٹ کے تھے مولوی عبد السلام صاحب عمر نے نور و سالی کی بے تکلفی میں ہمشیرہ سے کچھ اخروٹ مانگے اور ساتھ ہی سادگی اور محبت کے رنگ میں کہا " میں تو آپ کا نوکر ہوں ہمشیرہ بیان کرتی ہیں کہ اس وقت اتفاق سے مولوی عبد السلام صاحب کے بڑے بھائی مولوی عبد الحی صاحب مرحوم بھی قریب بہی کھڑے تھے انہوں نے مولوی عبد السلام صاحب کے یہ الفاظ رکہ میں آپ کا نوکر ہوں) سنے تو خوداری کے رنگ میں مولوی عبد السلام صاحب کو ڈانٹا کہ یہ الفاظ مت کہو مولوی عبدالحی صاحب مرحوم کے یہ الفاظ کسی طرح حضرت خلیفہ اول کے کانوں تک پہنچ گئے اور حضور نے اسی وقت مولوی عبدالحی صاحب کو بلا کر فرمایا کہ تم عبد السلام کو ان الفاظ کے کہنے سے کیوں روکتے ہو ؟ اور ساتھ ہی مولوی عبدالسلام صاحب کو تا کیدا فرمایا عبد السلام ! ہم لوگ واقعی حضرت مسیح موعود کے نوکر ہیں تم میرے سامنے اپنے منہ سے کہو کہ میں آپ کا نوکر ہوں چنانچہ مولوی عبد السلام صاب ¦
۳۲۷ کے منہ سے یہ الفاظ اہلی کے بعد آپ وہاں سے گئے.بظاہر یہ معمولی سا واقعہ ہے.مگر اس سے محبت کے اس انتفاء سمندر پر کتنی روشنی پڑتی ہے جو اس مرد خدا اور مرد مومن حضرت خلیفہ اول کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خاندان کے لیے موجزن تھا.اور مشیرہ مبارکہ میگیم کے لیے باہمارے لیے مولوی عبد السلام صاحب عمر یا کسی اور مخلص کا اس قسم کے الفاظ کہنا ہر گنہ کسی مخر کی بات نہیں.دکن ہے بلکہ ذاتی لحاظ سے میں کر سکتا ہوں کہ خدا کی نظر میں ان کے اعمال ہم میں سے بعض کے اعمال سے بہتر ہوں) مگر یقینا ہمارے لیے اور ساری جماعت کے لیے حضرت خلیفہ اول اور دیگر مخلصین کی وہ محبت موجب صد فخر ہے جو ان کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خاندان کے لیے تھی.اور ہے یہ محبت حضرت مسیح موعود کا عظیم الشان معجزہ ہے.جس کی قدر و قیمت دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہے اللہ تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ہے.لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا اتَّفَتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ الله الف بينهم رانفال آیت : (۶۴) میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور کر کے ہمیں اس مقدس محبت کا اہل بنائے اور ہمیں جماعت کے لیے ہر رنگ میں اچھا نمونہ بننے کی توفیق دے.آمین یا ارحم الراحمین.دعا کی عرض سے اس جگہ اس بات کا ذکر نامناسب نہ ہوگا کہ جب جو دھامل بلڈنگ لاہور میں یہ خاکسار مولوی عبد السلام صاحب عمر کا جنازہ پڑھانے لگا تو ابھی میں نے پہلی تکبیر کے لیے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ مجھ پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور میں نے دیکھا کہ میری دائیں جانب سے حضرت خلیفہ اول تشریف لائے ہیں اس وقت آپ کا قد اپنے اصل قد سے کافی لمبا نظر آتا ہے مگر غالباً اپنے بڑے صاحبزادے کی بظا ہر بے وقت وفات کی وجہ سے آپ کا ہم کچھ مجھے کا ہوا اور آپ کا چہرہ کچھ افسردہ تھا.اس نظارہ کے بعد یہ حالت جاتی رہی.میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے حضرت خلیفہ اول کی ردح کو جنت الفردوس میں تسکین عطا کرے اور عزیز مولوی عبد السلام صاحب مرحوم کو غریق رحمت فرمائے ادران کے اہل وعیال اور حضرت خلیفہ اول کی دیگر اولاد کا دین د دنیا میں حافظ و ناصر ہوں دروز نامه الفضل ربوه ۲۴ اپریل ۱۱۹۵۶ ۳۰-۴
۳۲۸ اولاد : - رسیلی بی بی محمودہ بیگم صاحبه بنت خان بہا در چوہدری ابوالہاشم خان صاحب سے) ا.میاں عبدالواسع عمر صاحب ایم ایس سی.دوسری بی بی، سعیده میگم صاحبہ - بنت حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے) ۲.میاں عثمان عمر صاحب - ۳ - فاروق عمر صاحب - ۴ رقمیری بجانی میشرہ بیگم صاحبہ - بنت حضرت میر محمد سعید صاحب مبر مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ حیدر آباد دکن سے) وفات کے وقت صرت تیسری بی بی ہی زندہ تھیں.الفضل دار ا پریل ۱۹۵۶ء صه) ۴ مک بہادر خانصاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر خوشاب (وفات 9 اپریل ۱۹۹۲ء) آپ نے بذریعہ خواب احمدیت قبول کی.موضع گروٹ ضلع سرگودہا کے گردونواح میں آپ کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچا اور روڈا علاقہ متقل میں ایک مخلص جماعت قائم ہوئی.شب بیدار بزرگ تھے.خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.سیکرٹری مال کا عہدہ ہمیشہ آپ نے سنبھالا.تین سال تک جناب مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر دپنجاب کے ماتحت کلرک رصوبائی نظام کے فرائض سر انجام دیئے اپنے پی پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں یادگار چھوڑیں.را لفضل ۲۳ مئی (۱۹۵۴ء (صت نه خواجہ غلام نبی صاحب بلا نوی سابق ایڈیٹر الفضل (وفات ۸ ا ر ا پریل ۱۹۵۶ ۶ ) ( الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۵۶ ء ص ۵) آپ کے خود نوشت حالات نہ ندگی سے معلوم ہوتا ہے.کہ آپ دسمبر شام میں پیدا ہوئے اور میں آپ نے در نیگلر مدل امتحان پاس کیا اور اسی سال ارجون کو تاریان تشریف لے گئے.احمدیت سے ان بچپن سے ہی تھا قادیان آگر آپ کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ مشکلات صرف اس لیے پیش آئیں کہ آپ عمر کے لحاظ سے بہت چھوٹے تھے تعلیم بھی کوئی خاص نہ تھی پھر آپ کا کوئی عزیز رشتہ دار بھی قادیان میں موجود نہ تھا جو پر دلی میں آپ کی دلجوئی کرتا مگر آپ ان مشکلات سے بالکل نہ گھبرائے اور ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے آپ کو تعلیم اور مضمون نویسی کا بچپن سے سنوق تھا جن مقدس اور بزرگ ہستیوں کے زیر سایہ آپ نے تعلیم اور مضمون نویسی کا کاسیکھا ان میں حضرت خلیفہ اول حضرت مصلح موعود، حضرت میر محمد الحق صاحب ، حضرت حافظ به وشن علی صاحب
۳۲۹ اور مرزا محمد الشرف صاحب مرحوم بھی شامل تھے.سب سے پہلے آپ دفتر کا کام کرنے کا موقعہ دفتر تنشمیر میں ملا.آپ نے سب سے پہلا مضمون اس وقت لکھا جب کہ آپ نے مہا بھارت کا اردو ترجمہ پڑھا اس کتاب کی بناء پر آپ نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا مہا بھارت کا ایک ورق “.چونکہ مضمون نویسی کے لیے آپ کی یہ بالکل پہلی کوشش تھی اس لیے آپ نے اس خیال سے کہ مضمون کو نظر انداز نہ کیا جائے مضمون کے ساتھ اپنا نام نہ لکھا بلکہ صرف غ.ن لکھا.آپ کی یہ پہلی کوشش خدا تعالی کے فضل سے کامیاب ہوئی اور حضرت سردار محمد یوسف صاحب مرحوم نے اپنے اخبار نور میں شائع کر دیا.اس کے بعد آپ نے دو مضمون اور بھی لکھے ہوا جبار نور میں چھپ گئے ان مضامین کے شائع ہونے کہ آپ کا حوصلہ بڑ ھو گیا اور آپ نے اس طرف زیادہ توجہ دینی شروع کر دی.آپ کا ایک مضمون کشمیری میگزین میں بھی چھپا اور دو مضامین افغان اخبار پیشاور میں شائع ہوئے جن کے عنوان تھے اء مسلمان کیونکر ترقی کر سکتے ہیں دو تین مضامین اخبار پیغام صلح میں بھی چھپے.۱۳ مارچ ۱۹۱۷ء بروز جمعہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد آپ کو دفتر الفضل میں چٹیں بنانے کے کام پر لگایا گیا اس کام کے چند روز بعد محترم حضرت قاضی اکمل صاحب نے آپ کو حضرت مصلح موعود کا درس قرآن کریم لکھنے کے کام پر لگا دیا سب سے پہلے جو درس قرآن کریم آپ نے لکھا اس کی پہلے حضرت قاضی صاحب نے تصحیح کی اور پھر حضور نے خود اس کی اصلاح فرمائی.ایک دن حضور نے دس قرآن کریم کے نوٹوں والی کاپی حافظ کرنے کے بعد ارشاد فرمایا آئندہ نوٹ نہیں جگہ مفصل درس قرآن کریم لکھا کر یں حضور کے اس ارشاد کے بعد آپ نے ۲۸ - ۹ ۲۹ - ۳۰ تین پاروں کا مفصل درس لکھا جو " الفضل“ میں شائع ہوا.آپ نے اپنی ذمہ واری پر سورۃ نور کے مکمل اور مفصل نوٹ حقائق القرآن کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیے اور خدا کے فضل اور رسم سے کسی خاص غلطی سے محفوظ رہے حضور کا خطبہ جمعہ لکھنے کا کام بھی آپ کے سپرد کیا گیا الفضل کے دفتر میں آنے کے بعد جو پہلا جلسہ سالانہ ہوا اس موقعہ پر حضور کی کئی تقریر یں آپ نے لکھیں جن میں بعض کا نی لبی منتیں ندود نویسی کے سلسلہ میں آپ نے اپنے لیے وقتاً فوقتاً کئی آسانیاں ایجاد کیں اور نئے نئے طریق وضع کیے جن کی وجہ سے آپ حضور اقدس کی تقر یہ دن کو زیادہ عمد گی اور مکمل صورت میں نوٹ کرنے لگے پانچ چھ گھنٹے تک حضور
۳۳۰ کی تقریر نہایت عمدگی کے ساتھ نوٹ کرتے چلے جاتے ہیں.جس کی بناء پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بارہا پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور تعریف کی.ایک دفعہ آپ نے حضرت حافظ روشن علی صاحب کی تقریر لکھی جو وہ فات مسیح علیہ السلام پر بھتی یہ تقریبہ جب آپ نے مرتب کر کے حضرت حافظ صاحب کو سُنائی تو آپ نے بڑی خوشی اور مسرت کا اظہار فرمایا اور آپ پر ان کی نوازشات پہلے سے بھی بڑھ گئیں اور ساری نظریہ سن کر فرمایا یہ تقریہ تو میری ہی ہے مگر مجھے یاد نہیں کہ میں نے اتنی مفصل اور ایسے تسلسل سے یہ تقریر کی تھی.اسی موقع پر حضرت حافظ روشن علی صاحب نے بہت دعا آپ کے حق میں کی سب سے مبارک واقعہ جو آپ کی زندگی میں ہوا وہ یہ ہے کہ ایک دن حضرت میر محمد اسحاق صاحب حسب معمول مسجد اقصی میں لڑکوں کی کلاس کو پڑھارہے تھے اس کلاس میں آپ بھی شامل تھے.اتنے میں ایک شخص نے حضرت پیر صاحب کے ہاتھ میں ایک رقعہ دیلہ آپ نے لے کر پڑھا اور آپ کی طرف بڑھا دیا اور بڑی ہی شفقت سے مسکراتے ہوئے ایک لفظ پر انگلی رکھ کر فرمایا یہ پڑھو.آپ نے وہ لفظ پڑھا جس پر حضرت میر صاحب کی انگلی تھی تو آپ کی خوشی اور مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی.وہ لفظ یہ تھا.عزیزم غلام نبی “ یہ تخریہ حضرت مصلح موعود کی تھی جو درج ذیل کی جاتی ہے :.السلام عليكم عزیزم غلام نبی چونکہ خدا تعالیٰ نے میرے سپرد بہت بڑا کام کیا ہے اور میں اب الفضل کو ایڈٹ کرنے کے لیے وقت نہیں نکال سکتا اس لیے چاہتا ہوں کہ کچھ نو جوانوں کو اس کام کے لیے تیار کردوں اور ان کے سپرد یہ کام کر دوں جوئیں خود کیا کرتا تھا.لیکن قبل اس کے کہ میں کسی اور کو اس کے لیے منتخب کریں تم کو اور نیانہ احمد کو موقع دیتا ہوں کہ اگر تم اپنے آپ کو اس قابل بنا سکو اور اپنی زندگی اس کام کے لیے وقف کر سکو.اس کے لیے حسب ذیل باتیں ضروری ہیں ۱- کم از کم قرآن کریم کا تر جمہ آنا ضروری ہے اور صحاح ستہ پر عبور ہونا چاہیئے.-۲- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پر عبور ہونا چاہیئے.غیر مذاہب کی مذہبی کتب کی واقفیت ہونی چاہیئے.خلیفہ وقت کی اطاعت اور اس سے وابستگی لازمی چیز ہے.| !
.حکومت وقت کی اطاعت ضروری ہے.۶- احمدیت کے لیے اخلاص اور ہر قسم کی قربانی کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے مگر ہیں دیکھتا ہوں کہ تم میں ان کے متعلق بہت کی ہے اگر تم کچھ سیکھ سکو محنت اور کوشش کر سکو تو میں تم دونوں کو موقع دینا چاہتا ہوں تم سوچ کر مجھے اس کے متعلق جواب روی اس خط کی جو نقل آپ کی وفات کے بعد کا غذات میں سے ملی اس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں.نوٹ.الفاظ میں کچھ کمی بیشی ضرور ہوگی مگر مفہوم یقینا ہی تھا.اس تحریہ کا جواب جو آپ نے حضور اقدس کی خدمت میں ارسال کیا تھا وہ یہ ہے : سیدی و آقائی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کا نہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وساطت سے حضور کا نور قعہ مجھے ملا ہے اس کے متعلق نہایت موقہ بانہ عرض ہے کہ یں تو اپنے آپ میں کوئی ایسی بات نہیں پاتا کہ ہمیں اس کام کے قابل بن سکوں گا لیکن یقین رکھتا ہوں کہ اگر حضور ایک تنکے سے بھی کوئی کام لینا چاہیں تو خدا تعالیٰ اس میں بھی اس کام کی اہلیت پیدا کر دے گا.میں ایک تنکے کی حیثیت سے یہ کہتے ہوئے اپنے آپ کو حضور کے قدموں میں پیش کرتا ہوں.سپردم بتو ما یه خویش را تو دانی حساب کم در بیش را طالب دعا.غلام نبی اس کے بعد جلد ہی آپ ادارہ الفضل کے ساتھ منسلک ہو گئے کیم در بیش تئیس برس تک نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ آپ نے الفضل ایسے اہم اخبارہ کی ادارت کے فرائض سر انجام دیے.بالآخر ۱۹۲۶ء میں ریٹائر ہو گئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی خود آپ کو پڑھاتے رہے اور آپ روز بروزہ یہ محسوس کرنے لگے کہ حضور اقدس مجھ پر خاص شفقت اور ذرہ نوازی کی نظر فرماتے جارہے ہیں اور آپ کے مضمونوں کی اصلاح بھی حضور اقدس خود بڑی نوازش سے فرماتے.جولائی ستارہ کو اخبار الفضل کی ایڈیٹری کی ذمہ داری پوری طرح آپ کو سونپ دی گئی.
www سے لیکر ۱۹۳۷ ء تک یعنی صدی کے تہائی حصہ سے بھی زیادہ عرصہ آپ نے یہ ذمہ داری ادا کی.آپ اس لیے عرصہ میں نہایت خوش اسلوبی سے الفضل کی ادارت کا نازک کام سر انجام دیتے رہے.سید نا حضرت مصلح موعود نے ۲۰ اپریل ۱۹۵۶ کے خطبہ جمعہ میں آپ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھانے سے پہلے ارشاد فرمایا:.الفضل کے ابتدائی اسسٹنٹ ایڈیٹر در حقیقت رہی تھے.ایڈیٹر میں خود ہوا کرتا تھا.اور اسسٹنٹ ایڈیٹر وہ تھے.ان کی تعلیم زیادہ نہیں تھی صرف مڈل پاس تھے مگر بہت ذہین اور ہوشیار تھے میری جس قدر پہلی تقریر یں ہیں وہ ساری کی ساری انہی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں وہ بڑے اچھے زود نویں تھے اور ان کے لکھے ہوئے لیکچروں اور خطبات میں مجھے بہت کم اصلاح کرنی پڑتی تھی پھر وہ اخبار کے ایڈیٹر ہوئے اور ایسے زبر دست ایڈیٹر ثابت ہوئے کہ در حقیقت پیغامیوں سے زیادہ تر حکمر انہوں نے ہی لی ہے.پیغام صلح کے وہ اکثر جوابات لکھا کرتے تھے اسی طرح وہ میرے ابتدائی خطبات وغیرہ بھی لکھتے رہے جو انہی کی وجہ سے محفوظ ہوئے.میں سمجھتا ہوں کہ ان کا جماعت پر ایک بہت بڑا احسان ہے اور جماعت ان کے لیے منتی بھی دعائیں کرے اس کے وہ مستحق ہیں " الفضل دارمئی ۱۹۵۶ ص۲) تصانیف : -1- ایک کشف پر ملف ( حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کا حلف برخی کے چھینٹوں کے متعلق ہے.پنڈت لیکھرام کا واقعہ قتل.۳.ایک نئی تحقیقات - ۴ - امت محمدیہ میں محمد - چھتیس سال قادیان میں رسوانح حیات) اولاد : - دسپلی بی بی سے - کنیز احمد صاحبہ ۲۰ - خواجہ حمید احمد صاحب - ۳ - خواجہ مجید احمد صاب خواجہ شبیر احمد صاحب - ه - خواجہ میر احمد صاحب - ۶ - خواجه تنویر احمد صاحب مرحوم ردوسری بجایی رسیده صاحبه - ۸ نیمه صاحبه - ۹ - نسیم احمد صاحب مرحوم - ۱۰- نعیم احمد صاحب مرحوم.۱۱ - کلیم احمد صاحب - ۱۲ - ریاض النبی صاحب - ۱۳ - مبارکه صاحبه - ۱۴ بلغمیہ صاحبہ ۱۵ - برای صاحبہ -..ر چھتیس سال قادیان میں مؤلفہ منشی غلام نبی صا حب بلا نومی سابق ایڈیٹا الفضل ) ! į
۳۳۳ -4 - میاں عبد الکریم صاحب سابق سیکرٹری مال لاہور.(وفات ۲۳ اگست ۶۱۹۵۶) حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیں لاہور کے نواسے اور ریلوے میں آفیسر ان سپیشل ڈیوٹی کے عہدہ پر فائز تھے تقومی شعاری.اخلاص.ہمدردی اور خندہ پیشانی اور پختگی اصول آپ کے نمایاں ارمان العضل ار ستمبر ۱۹۵۶ء ص ) تھے.سیٹھ محمد علی صاحب صدر جماعت احمدیہ اد شکور (دکن) (وفات ۲٫۲ ستمبر ۲۱۹۵۶۲) آپ سلسلہ احمدیہ کے پرانے خادم تھے اور حضرت سیٹھ شیخ محسن صاحب مرحوم امیر جماعت یادگیر وکرم سیٹھ محمد معین الدین صاحب امیر جماعت چنتہ کنڈ (دکن) کے اقارب میں سے تھے.بیری کے کارخانے کے مالک تھے.ٹرین کے حادثہ میں شہید ہوئے اور احمد یہ قبرستان حیدر آباد دکن میں تدفین عمل میں آئی.الفضل دار ستمبر ۱۹۵۶ (مت) - شاہ جی محمد اکرم خالصاحب رئیس ترنگ زئی پشاور روفات استمبر ۱۹۵۶ ۶) نہایت مخلص اور اعلیٰ اخلاص کے حامل تھے.اور اپنے علاقہ میں جماعتی تنظیم کے اعتبار سے ستون کی حیثیت رکھتے تھے.اور سلسلہ کے مالی جہاد میں بھی پیش پیش رہتے تھے.+ الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۵۷ وصل ، الفضل ۹ اکتو به ۹۵ رت) " محمد یسین خان صاحب آف فیروز پور چھاؤنی رونات ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۶ء) ۱۹۲۳ یا ۱۹۲۲ ء میں قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا.اور با وجود تمام رشتے داروں کے سوشل بائیکاٹ کے تادم واپسیں احمدیت پر پوری قوت ایمانی کے ساتھ قائم رہے تبلیغ کا جنون تھا.صاحب کشف بزرگ تھے.اور تحریک جدید کے دورہ اقول کے مجاہدین میں سے تھے.عمر بھر اپنی اولاد کو یہ نصیحت فرماتے رہے کہ شجر احمدیت سے ہمیشہ منسلک رہیں.آپ کی ایک بیٹی محترمہ سر در سلطانہ صاحبہ مولانا عبد المالک خانصاحب کے عقد میں آئی.الفضل 14 فروری ۱۹۵۷ء مث ) ۱۰ مولوی محمد علی صاحب مبلغ فیروز پوری - روفات ، ، اکتو به ۶۱۹۵۶) تداء میں احمدی ہوئے.جس پر انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.مگر ان کے نیک ہونے کو دیکھ کر ان کو دوسرے بھائی بھی احمدیت میں شامل ہو گئے.
۳۳۴ پہلی بار آپ نے اخبار الفضل کو روزنامہ بنانے کی تحریک فرمائی.تبلیغ کرنے کا بہت شوق تھا.کئی بار غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ٹیکٹ چھپوائے.یوم تبلیغ کے موقع پر میلوں میل پیدل دیہات میں جاتے اور پیغام حق پہنچاتے.ان خدمات کے پیش نظر آپ کو مبلغ صاحب کے نام سے.الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۵۶ و مث ) پکارا جاتا تھا.الا - دوست محمد خانصاحب حجانه - روفات ۲ نومبر ۱۹۵۶ء) ڈھورہ جانہ تحصیل جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں ششماء میں پیدا ہوئے.حضرت خلیفہ ادل کے دست مبارک پر بیعت کی.انگریزی مڈل اور نارمل پاس کر کے سہ تک ٹیچر رہے.پھر دس سال تک لغاری اذاب کی اسٹیٹ پر مشیر مال رہ کر اپنی محنت.دیانت اور قابلیت سے اس وسیع رقبہ کو آباد کر کے اور نہریں بنوا کر اپنی یادگار کے انمٹ نقوش چھوڑے.اپنے پسماندہ ضلع کے کے مسائل کے حل کے لیے ایک اخبار " ڈیرہ غازی خان رپورٹر نکالتے رہے.بعد میں عرائض نویسی کرتے ا رہے.اور اپنی قانونی قابلیت سے مظلوموں کی امداد کرتے رہے.۱۹ء سے ۱۹۲۷ء تک سیکرٹری ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رہے.اور تعلیم کو فروغ دیا.نہایت ہی سادگی پسند پابند صوم وصلاة و تجد تھے.ادر احمدیت اور خلیفہ وقت کے شیدائی تھے.اپنے دولڑکوں کو قادیان دارالامان میں تعلیم دلوائی.غریب طلباء اور بیواؤں کی مالی امداد کرتے.لڑکوں کو نصیحت کرتے کہ رزقی حلال کو مقدم رکھیں.حضرت امام الانبیاء کے ارشاد کی تعلیم کے مطابق آپ کے نیک نمونہ کی درجہ سے اپنی برادری اور باہر کئی گھرانے آغوش احمدیت میں آگئے.آپ ۲ نومبر ۱۹۵۶ء کو فوت ہوئے اور ۱۶ار نومبر ۱۹۵۶ء کو حضرت مصلح موعود نے جنازہ غائب پڑھا اور خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا :- ایک جنازہ تو دوست محمد خاں صاحب حجا نہ کا ہے جو ۲ نومبر کو فوت ہو گئے ہیں انہوں نے ہ میں یعنی حضرت خلیفہ اول کے عہد خلافت میں احمدیت قبول کی تھی نہایت مخلص جوشیلے احمدی تھے انہیں تبلیغ کا جنون کی حد تک ہوش تھا.ان کے بیٹے نے مجھے لکھا ہے کہ والد صاحب کی خواہش محتی کہ حضور ان کا جنازہ پڑھائیں اور اپنی زندگی میں بھی جب وہ مجھے ملتے تھے اسس خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے کہ ہمیں ان کا جنازہ پڑھاؤں جیسے احمدیت کے سلسلہ میں وہ
۳۳۵ جوشیلے واقع ہوئے تھے ویسے ہی طبیعت کے لحاظ سے بھی بڑے جوشیلے تھے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ شوری ہو رہی تھی.ایجنڈا میں یہ تجویز تھی کہ سب احمدی ڈاڑھی رکھا کریں اور جو ڈاڑھی نہ رکھیں ان کی وصیت منسوخ کر دی جائے.مجھے یاد نہیں کہ یہ تجویز پاس ہوئی تھی یا نہیں بہر حال جب یہ تجویز پیش ہوئی تو دوست محمد حجانہ بڑے جوش سے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میں اپنی ڈاڑھی منڈوا دوں گا کیونکہ اس بارہ میں ببر بر داشت نہیں کر سکتا.میں نے تو صرف اس لیے ڈاڑھی رکھی تھی کہ خدا اور اس کا رسول اس کی ہدایت دیتا ہے کسی کے جبر کی وجہ سے نہیں رکھی تھی.اب اگر کوئی شخص مجھے اس بات پر مجبور کرنا چاہتا ہے تو میں اسے برداشت نہیں کر سکتا ہیں نے کہا آپ ڈاڑھی چھوڑ کر سر بھی منڈدا دیں ہمیں اس کی کیا پر داہ ہو سکتی ہے.اس پر وہ رو پڑے اور کہنے لگے مجھے معاف کر دیا جائے مجھ سے غلطی ہو گئی ہے.اس طرح ان کی طبیعت اتنی ہو شیلی تھی کہ اپنے بیٹے کی ذراسی غلطی پر کہ دیتے کہ میں اسے عاق کرتا ہوں کیونکہ یہ احمدیت کے کاموں میں پورے جوش سے حصہ نہیں لیتا.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور انہیں اگلے جہان میں بھی بڑی عزت بخشے.وہ خود ایک معمولی زمیندار تھے لیکن بڑے بڑے نوابوں اور ہر ڈساء سے ان کے تعلقات تھے جب میں پچھلے سال یورپ کے سفر پر گیا تو ان کے علاقہ کا ایک رہیں جو گورنمنٹ کا سیکرٹری تھا اس نے مجھے نوٹس دیا کہ آپ کی جماعت تبلیغ کر رہی ہے میں سے فساد کا ڈر ہے ، انہیں دنوں اس سیکرٹری سے کوئی غلطی ہوئی تھی جس پر وزیر اعظم نے اسے معطل کر دیا تھا.چونکہ اس افسر کا میرے ساتھ اور میرے بچوں کے ساتھ پرانا تعلق تھا.دوست محمد صاحب لاہور آئے ہوئے تھے مجھے ملے تو میں نے ان سے کہا کہ اپنے دوست کے بیٹے کو کہہ دیں کہ اس نے اس نوٹس کے دینے میں غلطی کی ہے شاید یہ کھو کر جو اس کو لگی ہے اس وجہ سے لگی ہے.اب وہ تو بہ کرے تا کہ اللہ تعالٰی اس کے حصو کہ معاف کرے.مجھے علم نہیں کہ انہوں نے میرا یہ پیغام اسے پہنچا یا یا نہیں کیونکہ بعد میں وہ خود مجھے نہیں ملے لیکن دہ سیکر روی خود مجھے یہاں ملنے کے لیے آئے پہلے لاہور میں وہ ہمارے خاندان کے ایک فرد کے پاس گئے اور کہنے لگے میں ربوہ جانا چاہتا ہوں اگر آپ اپنا کوئی آدمی میرے ساتھ بھیج دیں تو اچھا ہے پچنا نچہ وہ دائر و احمد کے ساتھ یہاں آئے ملاقات کے دوران میں حبس خلوص کا انہوں نے اظہار کیا اس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کے دل کی صفائی ہو گئی ہے.ممکن ہے وہ خود سی نادم ہوئے ہوں اور ندامت
۳۳۶ کی وجہ سے یوں آگئے ہوں لیکن دوست محمد خاں صاحب حجامہ نے اپنی زندگی میں مجھے کہا تھا کہ میں س کے پاس جائے گا اور کہوں گا کہ ہم پہ جو یہ عتاب ہوا ہے وہ اس نوٹس کی وجہ سے ہوا ہے جو تم نے بلا وجہ امام جماعت احمدیہ کر دیا تھا اس لیے اس پر خدا تعالیٰ کے سامنے ندامت کا اظہار کر د.ممکن ہے انہوں نے اسے کہا ہو اور اس وجہ سے وہ ملاقات کے لیے آیا ہو.بہر حال وہ ملاقات کے لیے آیا اور اپنے نائب کو بھی ساتھ لایا.ملاقات کے وقت میں دوسری یا تیں ہوتی رہیں.اس بات کے متعلق اس نے کوئی ذکر نہیں کیا.لیکن ممکن ہے شرمندگی کی وجہ سے اس نے ذکر نہ کیا ہو.بہر حال دوست محمد خاں صاحب حجانہ با وجود اس کے کہ ایک معمولی زمیندار تھے ان کے تعلقات نوابوں ریلیوں سے تھے اور وہ انہیں بڑے دھڑلے سے تبلیغ کیا کرتے تھے.الیکشن کے موقع پر بڑے بڑے درد سا انہیں بلاتے اور کہتے ہماری مد کریں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ علاقہ میں اُن کا اثر ہے اور اُن کے ادنی سے اشارہ پر لوگ ان کی امداد کرنے کے لیے آجائیں گے ایک دفعہ اُن کے ضلع میں ایک ای اے سی نے تنظیم اہل سنت والجماعت شروع کی اور اس کا ایک اختبار جاری کیا وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے حضور ان کا مقابلہ کیجیے میں نے کہا خانصاحب گھر ایسے نہیں تنظیم سنو سنو لوٹ جائے گی.آپ کو اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا.در روز نامه الفضل ربوده ۲۳ اکتو بر ۱۹۵۰ ء ص ۴ - ۵) ۱۲ را جه غلام نید ر صاحب ہجگہ مضلع سرگودہا (دنات نومبر ۱۹۵۶ ۶) حضرت مصلح موعود نے ۲۳ نومبر وارد کے خطبہ جمعہ میں ان کی نمازہ جنازہ پڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا : - ہجکہ کی جماعت بڑی پرانی جماعت ہے اور راجہ غلام حیدر صاحب بڑے مخلص احمدی تھے.کہیں انہیں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں.بڑے تبلیغ کرنے والے تھے.ان کا لڑکا بھی بڑا ہو شیلا ہے.مولوی فاضل ہے اور آج کل مسلمان نہیں کام کرتا ہے.پہلے ہمارے اخبار المصلح کراچی کا نائب ایڈیٹر ہوتا تھا.د (الفضل یکم دسمبر ۱۹۵۶ ء ص ۴)) اثر را رحمان نے ناظم کیوٹیو بی این کمپنی ربوہ ) مراد ہیں.
جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کا ایک منظر
سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی چوہدری عبدالجلیل خاں صاحب ایبٹ آباد کے مکان پر ۲۱ ستمبر ۱۹۵۶۲ء بعد از نماز جمعہ سنتیں ادا فرما رہے ہیں.حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی ستمبر ۱۹۵۷ء ایبٹ آباد میں ڈاکٹر غلام اللہ صاحب سے محو گفتگو.
حضرت مصلح موعود ایبٹ آباد میں ایک مجلس سے محو گفتگو.سالانہ اجتماع انصار اللہ ۱۹۵۶ء.
Co اراکین مجلس انصار اللہ ۱۹۵۶ء.
جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت مصلح موعود خطاب فرما رہے ہیں.
جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت مصلح موعود سیج پر تشریف فرما ہیں.جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت مصلح موعود دعا کر رہے ہیں.
جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب خطاب فرما رہے ہیں.D جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت صاحبزاہ مرزا ناصر احمد صاحب خطاب فرما رہے ہیں.
جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب خطاب فرما رہے ہیں.RADIO جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب خطاب فرما رہے ہیں.
D AT جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.مولانا جلال الدین صاحب شمس خطاب فرما رہے ہیں.جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء.قاضی محمد اسلم صاحب خطاب فرما رہے ہیں.
بغیر انڈو نیشیا الحاج محمد رشیدی صاحب کی حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی سے ملاقات سفیر انڈونیشیا الحاج محمد رشیدی صاحب کی حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی سے ملاقات.
حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید سفیر انڈو نیشیا الحاج محمد رشیدی صاحب سے محو گفتگو.الحاج محمد رشیدی صاحب سفیر انڈونیشیا کا ورود ربوہ.مؤرخہ ۲۲ ستمبر۱۹۵۷ء کو دفاتر صد را نجمن احمدیہ کا معائنہ.
لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کی تقریب میں سفیر انڈونیشیا الحاج محمد رشیدی صاحب تقریر فرما رہے ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب روی سائنسدانوں کے ساتھ.
حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی قصر خلافت کے دروازہ پر میاں غلام محمد اختر صاحب سے گفتگو فرما رہے ہیں.مکرم ملک عبد الرحمن خادم صاحب ایڈووکیٹ گجرات.
سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی محترم میر محمود احمد صاحب ناصر کے ہمراہ بر موقع شادی.سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی محترم میر محمود احمد صاحب ناصر کے ہمراہ بر موقع شادی.
حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری پرنسپل جامعہ احمدیہ ۱۹۵۷ء میں طلباء جامعہ احمدیہ کے ساتھ.
۳۳۷ محترم راجہ نذیر احمد صاحب اپنے والد جناب راجہ غلام حید ر صاحب آن مکہ مصلح مرگور را کی سوانحے کے بارے میں تخریہ فرماتے ہیں.آپ کی پیدائش اندازاً ستشملہ میں اور وفات ۲۴ اکتوبر ستشملہ میں ہجکہ میں قریباً ، 4 سال کی عمر میں ہوئی.آپ کے والد صاحب متوسط درجہ کے زمیندار تھے.آپ نے ہائی سکول کی تعلیم کے دوران میٹرک پاس کرنے سے پہلے ہی مطالعہ کر کے احمدیت قبول کر لی تھی.آپ کے والد صاحب اور منجھلے بھائی راجہ عبدالحمید صاحب نے شدید مخالفت کی لیکن آپ کی استقامت، دعاؤں اور کوشش اور تبلیغ سے بفضلہ تعالیٰ آپ کے والد صاحب ، دونوں بھائی اور زوری کے متعدد افراد احمدیت میں داخل ہو گئے.حالانکہ گھر رایگان میں سے بوجہ ہدا یت پسندی تا حالی بہت کم لوگوں نے احمدیت قبول کی ہے.خود بڑے زرت رسوق سے تبلیغ کیا کرتے تھے.اور سلسلہ کے مبلغین اور مربیان کے ساتھ دینی مہمات میں بڑے جذبہ سے شامل ہوتے تھے.حضرت مصلح موعود کیسا تھ بڑی محبت اور عقیدت رکھتے تھے.مرکز سلسلہ کے ساتھ بھی بڑی وابستگی تھی چنانچہ اپنے دونوں بڑے بیٹوں راجہ بشیر احمد صاحب مظفر اور خاکسار دراجه نذیر احمد ظفر کو قادیان اور ربوہ میں تعلیم دلوائی.اسی طرح پورے خاندان کو خلافت اور مرکز سے قریب تر رکھنے کی کوشش کرتے رہے.آپ کے تیرے بیٹے راجہ منیر احم میجر اسکو سرگودہا، اور چوتھے لیے مکرم راجہ نصیر احم مادر کے مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ حال مقیم یوگنڈا مشرقی افریقہ ہیں.چار بیٹوں کے علاوہ آپ کے چار بیٹیاں بھی یادگار چھوڑ ہیں.بفضلہ تعالیٰ سب اولاد اور اولاد در اولاد احمدی ہیں." فالحمد للہ علی ذالک.اگر چہ آپ محکمہ نہر سندھ میں ملازم تھے لیکن ۵۳۴ کے قریب ہماری والدہ صاحبہ محترمہ کے علاج کے سلسلہ میں ہو میو پیتھی سے متعارف ہوئے.اس کے بعد ہومیو پیتھی کا مطالعہ اور پریکٹس جاری رکھی.آخری عربی سکھر اور پھر بھیرہ میں باقا عدہ ہومیں متلک کلینک چلاتے رہے.ونات سے پہلے آپ نے یہ وصیت فرمائی کہ میری اولاد میں سے کوئی ہو میو پیتھک کلینک کو سنبھا نے چنانچہ خاندان نے اس ذمہ داری کا اعزانہ اس عاجز کو بخشا.اور اب کیور ٹیو میڈلین کمپنی رجسٹرڈ پاکستان ، ہیڈ آفس ربوہ) کے نام سے جو ادارہ دنیا کی خدمت کر رہا ہے.یہ دراصل آپ ہی کے لگائے ہوئے پودے
کا نام ہے یہ فصل سوم 90ء کے متفرق مگر اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود میں اضافہ اور تقریب نکاح طاہرہ بیگم صاحبہ بنت ملک عمر علی صاحب.(ولادت یکم فروری ۵۶ه) ولادت | سیر قمر سلمان احمد صاحب ابن سید داؤ د احمد صاحب (ولادت ۲۵ جولائی ۱۹۵۶) 1904 سید ہارون احمد صاحب ابن سید محمد احمد صاحب رنگ کمانڈر (ولادت ۱۶ اگست ۱۹۵۷) سید معزز احمد صاحب تسنیم احمد خالد صاحب ابن مرزا مبارک احمد صاحب ولادت ۲ اکتو به ۲ اکتوبر ستار ( کوکب السته الکریم صاحبہ بنت مرزا وسیم احمد صاحب ( ۲۳ دسمبر ۲۵۶ نکاح حضرت مصلح موعود نے در مارچ ست را کو صاجزادہ مرزا اظہراحمد صاحب کا نکاح کرنل ارمات علی خان صاحب کی پوتی اور خان سعید احمد خاں صاحب کی بیٹی سے پڑھاتے اور اپنے پر معارف خطبہ میں بتایا کہ کسی طرح آپ کے وجود میں پیشنگوئی وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا ان کا عمل ظہور ہوا اور آپ کو خدا کے فضل سے عمر بھر اپنی آمد کے اکثر حصہ کو اشاعت دین کے لیے خرچ کرنے کی توفیق عطا ہوتی رہی شد نه مؤلف کتاب کے نام غیر مطبوعہ مکتوب مورخہ ۴ ارجون ۹۸۳ه بن له الفضل، راگست ۲۰ ر اکتوبر ۱۲۵ دسمبر شاه شجره مبشره مرتبه نسیم احمد خان صاحب بیسیم سٹیل فکسر، ٹرینگ سنٹر اندرون موچی گیٹ لاہور : له الفضل - ارماری ۱۹۵۶ د منیر اخبار یان مند برتر مطبوع کیم مارچ ۱۸۸۶ء ما راشتہار ۲۰ فروری ۱۱۸۸۶) همه الفضل ۱۲۳ نومبر ۱۹۶۰ و ص ۴ خطبات محمود جلد سوم ص۲۲۶ رم ۳ ۶ ( ناشر فضل عمر فاؤنڈیشن رابره - اشاعت مارچ ۱۹۷۹ء)
٣٣٩ ۱۵ جنوری ۱۵ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام صاحب نے چو ہدری انور احمد صاحب کا ہوں امیر دھاگہ مشرقی پاکستان کی خواہش پر سب ذیل پیغام اُن کی ریکارڈنگ مشین میں محفوظ کر ایا.اس اہم پیغام کا متن یہ متھا.: -- برادران کرام ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ چوہدری انور احمد صاحب نے خواہش کی ہے کہ میں ان کی مشین پر اپنے چند الفاظ ریکارڈ کروں.انکی اس خواہش کے احترام میں میں نے مناسب خیال کیا ہے کہ گو آواز میری ہو مگر الفاظ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے ہوں تاشکنے والے اصحاب ان مبارک الفاظ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور میں اور میری نس میں بھی ان الفاظ کی برکات سے متمتع ہوں سو اس جگہ میں اسلام اور احمد بیت کی آئندہ ترقی اور غلبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعض پیشنگوئیاں سناتا ہوں تا دنیا کے لیے یہ ایک نشان ہو حضور فرماتے ہیں: اے تمام لو گوئن رکھو کہ یہ اس خدا کی پیشگوئی ہے میں نے زمین و آسمان بنا بل وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور محبت اور بڑ ھان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بنے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا.جو عزت کے ساتھ دیکھا جائے گا.خدا اس مذہب اور سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور ہر ایک کو جو اس کو معدوم کرنے کا فکر رکھنا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک قیامت آجائے گی.......میں تو ایک تخم ریزی کرنے کو آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تختم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے وہ پھر فرماتے ہیں کہ :.در خدا نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلے کو تمام زمین پر پھیلائے گا.اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے کے حال لندن ر آپ سالہا سال تک امیر جماعت احمدیہ انگلستان کے فرائض بجا لاتے رہے) سة تذكرة الشهادتين ص ۶۴ - ۶۵ (طبع اوّل)
۳۴۰ فرقہ کے لوگ اس قدر علم ومعرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی مرد نے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر اک قوم اس چشمہ سے پانی بیٹے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھیگا اور پھولے گا یہاں تک زمین پر محیط ہو جائے گا بہت سی رودکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے.مگر خدا ان سب کو درمیان سے اٹھا دے گا.اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دونگا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.سُننے والو ان باتوں کو یا د رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو.کہ یہ خدا کا کلام ہے.جو سواے ایک دن پورا ہو گا.پھر اس عالمگیر غلبہ کا نتیجہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ :.یں دیکھتا ہوں کہ اک بڑا ہجر زرقار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح بل پیچ کھانا ہوا مغرب سے مشرق کو جارہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کی طرف اللہ بہنے لگتا ہے پہلے اس پیشگوئی میں یہ عظیم الشان خبر دی گئی کہ اب جو یورپ دامریکہ کی عیسائی تو میں اور یا جوج اور ماجوج کی عظیم الشان طاقتیں دنیا پر غلبہ پاک اسلام کو ہر جہت اور جانب سے دباتی چلی جاری ہیں گوریا کہ ایک مٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا ہے جو مغرب سے مشرق کی طرف بہتا اور ہر چیز کو بہا تا چلا آرہا ہے ایک دن آئے گا کہ اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے نتیجے میں موجودہ مغربی اقوام با لآخر اس طرح مغلوب ہو جائیں گی کہ یہ بحر مواج اپنا رخ بدل کر بڑے زور کے ساتھ مشرق سے مغرب کی طرف بہنے لگے گا اور اس کے تیز دھارے کو کوئی چیز روک نہیں سکے گی.یہ دن اسلام کے دائمی غلبہ اور حضور سرور کائنات حضرت خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی علمگیر سربلندی کا دن ہو گا اور اس وقت دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا.اور ایک ہی پیشوا - وذالك تقدير العزيز العليم ولا حول ولا قوة إلا بالله العظيم - خاکسار - مرز البشیر احمد میوه - ۱۵ / جنوری ۱۵رجبور می ۹۵ دسته ۱۹۵۶ " پروفیسر سید عبدالقادر صاحب کی وفات ۱ ۲۳ جنوری شداد کو برصغیر پاک وہند کے مشہور مورخ مصنف اور اسلامیہ کالج لاہور کے پر دفنیر سے تجلیات اللہ سے الحسكم ، در اپریل ۱۹۰۳ ء ص ، - تذکره ۲۲۰ طبقه چهارم ۱۷: سه روز نامه الفضل ربوه ۲۴ جنوری ۶۱۹۵۶ ص ۳
۳۴۱ سید عبدالقادر صاحب ایم اے ۶ سال کی عمر میں وفات پا گئے یہ ۲۶ فروری 19ء کو حضرت مصلح موعود 7 کا معرکۃ الآراء علیکچر د اسلام میں اختلافات کا آغاز " آپ ہی کی صدارت میں ہوا تھا اور آپ نے شاندار الفاظ میں حضور کو فراری تقسیسی ادا کیا یہ پروفیسر صاحب موصوف حضرت مصلح موعود سے ذاتی مراسم رکھتے تھے.اور عمر بھر جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کے مداح رہے یہ احمدی طلباء کی شاندار کامیابیاں احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے نائب چیز ہیں اور این ای ڈی انجینئر نگ کا یہ کراچی پورس کے طالب لم حمیداللہ خانصاحب نے اپنے کان کی سالانہ کھیلوں میں انٹرپول دار کے کالج کا ریکارڈ توڑ دیا.اس طرح پانچ فٹ دس اپنے ہائی جمپ کرکے سندھ اور کراچی کی یونیورسٹیوں میں نیا ریکار ڈ قائم کیا ھے تعلیم الاسلام کا یا بیوہ کی کشتی رانی کی ٹیم نے گذشتہ پانچ سال کی طرح اس سال میں یونیورسٹی پینگ پوسٹ چیمپین شپ جیت کہ اپنا اعزازہ بر قرار رکھا.کالج ریسٹ پاکستان رو ٹنگ ٹورنا منٹ میں سیکنڈ رہا.اس کے ایک طالبعلم لطیف احمد صاحب غزنوی رابن نیک محمد خا لصاحب غزنوی نے یونیورسٹی سپورٹس میں.۲۲۰ گنہ کی دوڑ میں دوسری پوزیشن حاصل کی شیہ امتہ الحفیظ صاحہ (بنت قریشی محمد مطیع اللہ صاحب آن قادیان) سٹوڈنٹ لیڈی انڈرسن گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سیالکوٹ وظیفہ کے امتحان میں ضلع بھر میں اول آئیں یکے - مجیدہ طاہرہ صاحبہ امینت ملک عنایت اللہ صاحب سلیم لاہور) ۶۲۳۵۰ نمبرے کر مڈل سٹنڈرڈ کے امتحان میں لاہور کے تمام سکولوں میں اول آئیں ہے له الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۵۶ء ص : سه تاریخ احمدیت جلد پنجم ص ۲۴۴ - ۲۲۵ ه رنجدد اعظم جلد ۳ ص ۳۲۲ موقفہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اشاعت جنوری ۱۶۱۹۴۴، که ۱۹۷۷ سے یہ کا لج یونیورسٹی بن چکا ہے.رپاکستان کے ادارے ص ۵۶۱ زاہدین امر را نشر نو یک پلیس اردو بازاریا بودی شه الفضل ، فروری ۱۹۵۶ء ملا :: له الفضل (۲۹ فروری ۱۹۵۶ نوصل : کے الفضل ۲۷ ر ا پریل 16 ١٩٥٢ء مت به شو الفضل ۱۷ رمٹی ۶۱۹۵۶ ص۲
۳۴۲ طاہرہ نسرین صاحبه ربنت مرزا نثار احمد صاحب ناروتی) پشاور یونیورسٹی میں میٹرک کے امتحان میں انول آئیں.جس پر حضرت مصلح موعود نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا نہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پشا در یو نیورسٹی کے امتحان میٹرک میں ایک احمدی کچی ر طاہرہ نسرین بنت مرزا نثار احمد صاحب فاریہ تی) اول آئی ہے کالے ۴ - عبد الماجد خان صاحب را بن عبد المالک صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ لاہور ) ( ME ) میکینیکل انجینرنگ کے فائنل امتحان میں ۴۰ نمبر لے کر پنجاب بھر میں دوم رہے یہ ۵ - ریاض احمد صا حب را این چوہدری سلطان علی صاحب گھر منڈی میٹرک میں ۶۹۲ نمبرے کر مضلع گوجرانوالہ میں دل آئے سینہ غیرہ اختر صاحبہ رہنت ملک بشیر احمد صاحب ارشد آف لاہور ) ایف اے کے امتحان میں ۴۲۴ نمبرے کہ یونیورسٹی میں سوم رہیں ؟ سیدہ امتہ الباری صاحبہ بنت ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب رہائیڈرو مک آفیسر اریگیشن دسیر لاہور پنجاب یونیورسٹی کے بی.اے کے امتحان میں ۲۳۳ نمبرلے کر لڑکیوں میں اول اور یونیورسٹی مھر میں روم آئیں ریشے جامعہ احمدیہ ربوہ کے طالب علم منیر الدین احمد صاحب نے پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مولوی فاضل میں اول پوزیشن حاصل کی تھے.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے ناصر احمد صاحب پر دینہ پردازی ایف اے کے امتحان میں یونیورسٹی میں اول رہے شیه میاں عبد الحئی صاحب مبلغ انڈونیشیا ایف اے انگلشن میں ۱۰۵ نمبر لے کر یونیورسٹی میں اول رہے.شے سلام له الفضل ٢٠ جون ۱۹۵۶ ء صل : سله الفضل در سجون ۱۹۵۶ء ص :: سه الفضل ۶ جون ١٩٥٦ ء ص : له الفضل ٤ ١ جولائی ۱۹۵۶ ء صدره : شه الفضل ۲۸ جون ۱۹۵۶ء ص :: توشه الفضل هم اگست ۱۹۵۶ وسله :: شه الفضل ۱۰ اگست ۱۹۵۷ ء مره
۳۴۳ شیخ امیر صادق صاحب این کرم شیخ محمد عبد اللہ صاحب سیالکوٹ) پوسٹ مینڈک کلیریکل بینڈ کر شل امتحان میں صوبہ پنجاب میں اول آئے لیے روسی اور امریکی سائنسدان ربوہ ہیں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی یو نین کی علمی سرگرمیاں اس دور میں عروج پر منتیں جس کے نتیجہ میں اس کے آغاز میں کالج یونین کے صدر پر و غیر نصیر احمد خان صاحب کی دعوت پر امریکہ دروس کے مندرجہ ذیل تین ممتاز سائنسدان ربوہ تشریف لائے.وہ ڈھاکہ میں منعقد ہونے والی آٹھویں سائنس کا نفرنس میں شامل ہونے کے لیے پاکستان تشریف لائے تھے.ا پر وفیسر برونو لین گرا یونورسٹی روس (PROF BARANAUV LENINGRAD UNIVERSITY) - پردفیر شیکمین زراعتی مشیر راک فیلر نانو نداین امریکہ PROF-STAKMAN AGRICULTURE OF) له الفضل ۲۵ اگست ۱۹۵۶ مت AND (CLINICAL پر دنیسر وی جی بردنون (V-G BARANAUV لینن گراڈ LENINGRAD وفیسروی - ) کے قریب واقع گیٹ گلینا (G AT CLINA) نامی گاؤں میں پیدا ہوئے.آپ نے ۱۹۲۳ء میں اکیڈمی آف میڈیسن اینڈ سائنس ) ACADEMY OF MEDICINE AND SCIENCE) سے گریجوایشن کیا.اور کلینکل انڈا کیسر مینٹل اینڈو کر نولوجی (EXPERIMENTAL ENDOCRINOLOGY میں خدمات بجالاتے رہے.آپ سوویت یونین کے شہرہ آفاق اینڈو کر یو لوجسٹ (ENDOCRINOLOGIST) تھے.آپ روس کی اکیڈمی آف میڈیکل سائنز ACADEMY OF MEDICAL) (SCIENCES کے کارسپانڈنٹ ممبر CORRESPONDENT MEMBER) اور انسٹیٹوٹ آف فزیالوجی (INSTIUTE OF PHYSIOLOGY) کے ڈائریکٹر تھے اسی طرح آپ لیبارٹری آف فزیالوجی اینڈ پیتھالوجی (PHYSIOLOGY AND PATHOLOGY کے اینڈو کرینولوجی کلینک رباتی م ۳۲۲ (پر) OF (LABORATORY
۳۴۴ ROCKFELLER Foundation U-5-A-) پرو فیسر امیر اٹش آن مبینا سونا یونیورسٹی PROF.EMERITUS OF MINESOTA) UNIVERSITY) پر وفیسر پر دونوں نے ۳۰ جنوری ۱۹۵۶ء کو کالج یونین سے خطاب کیا جس میں پاکستانی طلبہ کے علمی ذوق ر شوق کی بہت تعریف کی.یہ تقریر روسی زبان میں تھی جس کا ترجمہ ان کے سیکر ٹری مسٹرا سے جی مارگنوں نے انگریزی میں کیا.تقریر کے بعد خاصی دبیر تک سوالات کا سلسلہ جاری رہا.جو زیادہ تر سائنسی امور سے متعلق تھے لے ر تنوری سمت کو امریکی سائنسدان امی.سی سٹیکین نے اور زراعت اور سائنس کے موضوع پر تقریر کی.اور بتایا کہ سائنس کی موجودہ ترقی کی وجہ سے اگر چہ بہت سی مہلک اشیاء معرض وجود میں آئیں سائنس کے بل پر سی اسم اس قابل ہوئے ہیں.کہ ان پر پوری طرح قابو پا سکیں.نیز اس دور میں جبکہ انسانی آبادی ہر سال دس کروڑ کی تعداد میں بڑھ رہی ہے.ہمارے لیے غذائی صورت حال سے پیٹنا بہت مشکل امر ہتھا.لیکن سائنس نے اس مشکل کا حل بھی ہمیں بتا دیا ہے.اور ہم اس قابل ہو گئے ہیں.کہ سائنسی تحقیقات کے نتیجہ میں تھوڑی زمین سے زیادہ غلہ حاصل کر سکیں.آپ کی تقریب کے بعد صدر مجلس پر دھیر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب.ایم.ایس سی نے فرمایا کہ اکثر لوگ موجوده یا آئندہ رونما ہونے والی متوقع صورت حال کا حل یہ بناتے ہیں کہ بر منھ کنٹرول ، BIRTH ) (CONTROL کیا جائے تاکہ آبادی میں ترقی کی روک تھام کی جا سکے.ہمیں خوشی ہے کہ پر وفیسر صاحب نے اس منفی حل کی بجائے ایک صحیح اور قابل عمل حل پیش کیا ہے.اس تقریب کے بعد ان سائنسدانوں نے حضرت مصلح موعود کی زیارت کا شرف حاصل کیا.اور دونوں کو قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ پیش کیا گیا.جسے انہوں نے خوشی سے قبول کرتے ہوئے کہا کہ دہ اسکا مطالعہ کر کے قرآنی علوم سے استفادہ کریں گے یہ بقیه حاشیه) ENDOCRINOLOGY CLINIC کے سربراہ بھی رہے (THE REVIEW OF RELIGIONS, FEBRUARY, 1956 PAGE: 108) له الفضل اور جنوری ۱۹۵۶ء صات : ان الفضل بیکم فروری ۱۹۵۶ء مدارم
۳۴۵ حضرت خلیفہ ایسیح الثالث نے ایک بار فرمایا : - ایک دفعہ ربوہ میں ایک بڑا کٹر دہر یہ ر روسی سائنسدان آیا تھا.میں نے اپنے رنگ میں اس کے کانوں میں یہ بات ڈال کہ دیکھو ابھی لیتی کے دماغ میں یہ سکیم نہیں آئی تھی کہ وہ ہیں میں ایک اشتراکی انقلاب بپا کر دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی نے الہا کا بتا دیا تھا کہ زار روس کی حکومت بدل جائے گی.اور اس کی جگہ دوسری حکومت قائم ہو گی.چنانچہ لین کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سر جوڑنے اور مشورہ کرنے سے چند ہفتے پہلے حضرت مسیح موعود کو الماما بتایا گیا تھاکہ عمر زار بھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی با حال زائر اس ضمن میں بعض اور باتیں بھی میں اس کے کان میں ڈالتا رہا اور اس پر بہت اثر ہوا.میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر بے احتیاطی سے اللہ تعالیٰ کے حق میں کوئی بات اس کے منہ سے نکلی تو وہ تکلیف میں پڑھائے گا.اور بعض قرائن بتاتے ہیں کہ یہاں سے جانے کے بعد اس پر سختی کی گئی کیونکہ بعد میں اس کا ذکر سنتے ہیں نہیں آیا اتے سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ روس اور امریکہ کے چوٹی کے سائنسدان ریوہ آئے.جو ایک غیر معمولی بات تھی جس پر ہفت روزہ المنیرا (لالیور نے ۱۳؍ فروری ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں لکھا.: و ان کے کام کا یہ حال ہے......کہ روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر ا نہوا ہے سائنسدان ربوہ آتے ہیں.گذشتہ ہفتہ روس اور امریکہ کے دو سائنسدان ریوہ وارد ہوئے نا سکے سا برا این احمدیہ حصہ پنجم ۱۵ اتصنیف شارات المصابح م۵ ۲۵ مرتبه حضرت سیده مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء الله مرکز به - رنا شر وامته اللطیف خورشید صاحبہ سیکرٹری اشاعت لجنہ اماءاللہ مرکز به ریوه تاریخ طبیع ستمبر ۱۹۷۹ء): سه المنیر لائلپور (فیصل آباد ۱۳ / فروری ۱۹ ، صا زیر عنوان " ربوہ کی سیر
۳۴۶ کا مولاناعبدالمجید سالک کا لیکچر ضروری استاد کے دوسرے ہفتے میں علم الاسلام والی کے زیر اہتمام کالج میں نظری می مقابلے ہوئے جن میں بنتا.کے مختلف کا لجوں کی ٹیموں نے حصہ لیا.اس موقع پر ملک کے نامور ادیبوں اور صحافیوں میں سے جناب نازش منوی صاحب ، مکرم چوہدری عبدالرشید صاحب تبسم اور مولانا عبدالمجید صاحب سالک بھی یہ بوہ تشریف لائے اور منصفی کے فرائض سرانجام دیئے یہ مولانا سالک صاحب نے اور فروری کو تعلیم الاسلام کالج میں " میری شاعری کا ارتقاء کے موضوع پر خطاب کیا جس میں نوجوان ادباء و شعراء کواپنی تحریہ اور کلام میں منگلنگی پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی.مولانا نے حاضرین کو اپنے کلام سے محفوظ کیا ہے دیوبندی تحریک کی شارخ خیلی است اگر ایک سابق حجزل کھے ایک دعوت مبالا اور المنیر کا حیرت انگیز رد عمل سیکرٹری سیلی کو میری نے ست 19ء میں منفی بیات دیا کہ :." خدائے واحد لا نشریک کی قسم کھا کہ نہیں کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے، قطعی اور یقینی طور پر کہتا ہوں کہ مجلس احرار کی مرزائیت یا تا ریا نیت کے خلاف تمام تر جدو جہد اور قادیان کے خلاف بہ سب پراپیگنڈ ا محض مسلمانوں سے چندہ وصول کرنے اور کونسل کی ممبری کے لیے اُن سے دوسٹ حاصل کرنے کے لیے ہے.......میں نے خود احرار کے بڑے بڑے لیڈروں کو بار ہا یہ کہتے سنا کہ حصولِ مقصد کے لیے قادیا نیوں کے خلاف پراپیگنڈا ایک ایسا ہتھیار ہمارے ہاتھ میں ہے.جس سے ہم تمام مخالفتوں کو دور کر سکتے ہیں.اور ہر قسم کی مالی یا انتخابی مشکل اس سے حل ہو سکتی ہے، اسے ربوہ سے متصل شہر چنیوٹ کا ایک طالب سلم منظور احمد ٹنڈو الہ یار (سندھ) کے دیوبندی مدرسہ دار العلوم میں پڑھنے کے لیے گیا.شور میں فارغ التحصیل ہوا.190 میں اس نے جامعہ عربیہ کے نام سے چنیوٹ میں ایک مدرسہ کھولا.اور اسی سال سے حصولِ مقصد کے لیے احرار کے قدیم تر بے له الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۵۶ ۶ صبا : له الفضل ۱۴ فروری ۱۹۵۶ء ص : سے زمیندار ۲۸ اگست ۱۹۳۷ ۶ بحواله الفضل ۳۰ راگست ۱۹۳۶ء ، تاریخ احمدیت جلدی ست ۲ و ۴۲۵
کے استعمال کا فیصلہ کر کے ملک کے مختلف حصوں میں احمدیت کے خلاف تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا.اور ۱۹۵۶ء کے شروع میں حضرت مصلح موعود کو دعوت مبالہ دی.اور اسے پبلسٹی دینے کے لیے لائلپور کے مہفت روزہ المنیر کو یہ دعوت سیجوا دی.اور ایڈیٹر سے اُسے شائع کرنے کی عاجزانہ درخواست کی.THE DOUBLE DEALER PAGE:19 BY MANZOOR AHMAD PUBLISHERS: ADARA MARKAZIA DAWAT-O-IRSHAD CHINIOT PAKISTAN 1981 کہ اگرت ۱۹۳۵ء کا واقعہ سے یعنی اس زمانے کا جبکہ منظور اہم نوٹی کی عمر چار سال تھی اگر این اخت مام سعود نے احریری لیڈروں کو مباہلے کیلئے للکارا.چنانچہ جنرل سیکریٹری احترام میر مظہر علی اظہر نے چنیوٹ میں نظریہ کرتے ہوئے کہا : ع یں نے قادیان جا کر کہا تھا کہ مسالہ قادیان میں ہونا چاہیے اور مرزا صاحب کی صداقت پر ہونا چاہیے اور مرزا محمود نے تسلیم کر لیا ہے.رابلد مجاہد الامور اور نومبر ۱۹۳۵در من لحواله الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۳۵ء مت) اسی طرح سید فیض الحسن صاحب سجادہ نشیں آلو بہار شریف صدر مجلس احرار پنجاب نے بھی اپنی نفسہ یہ چنیوٹ میں کہا کہ حن مرزا محمو نے مجلس احرار کو اس لیے دیا ہے کہ ا مجرت مرزا کی نبوت پر قادیان اگر مسالہ کردہ علمائے احرار نے محمود کے اس میسیلینج کو قبول کر لیا ہے ؛ رایضا) لیکن احراری لیڈروں نے حیلوں بہانوں سے مباہلہ سے راہ فرار اختیار کر لی.جس پر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :.م افزاری اب کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ قادیانی گردہ کے ساتھ مسائل کا فیضا.علماء کی طرف سے ہو چکا.ہمارا مقابلہ ان کے ساتھ سیاسی رنگ میں ہے........مگر ہم دیکھتے ہیں کو احرار قادیان کے دھوکے میں آجاتے ہیں.اگر ایسا نہ ہوتا تو مباہلے کی دعوت قبول نہ کرتے.خیر گذشته را صلوات آئنده را احتیاط راہل حدیث ۲۹ نومبر ۱۹۳۵ء ص ۱۳) اخبار احسان ریکم نومبر ۱۹۳۵ ء نے لکھا :.مباللہ کا نام منکر را پنجابیان احرار کے بدن پہ رعشہ طاری ہو جاتا ہے.
۳۴۸ خبار مذکور نے ، ا فروری ستر کی اشاعت میں مباہلہ سے متلی خودتو چھاپ دیا.مگر اگے پرچہ میں انا رائے یہ ظاہر کی کہ :.- جہانتک ہم نے ان دنوں اس مسلہ پر غور کیا ہے کہ مباہلہ شرعی حیثیت کیا ہے ؟ ہمارے نزدیک حسب ذیل نکات حل طلب ہیں :- کیا مباطلہ کا چیلیچ پرانتی دے سکتا ہے ؟ - کیا مباہلہ مشر عا معیار حق وباطل ہے ؟ کیا مباہلہ کے بعد ضروری ہے کہ خرقتی عادت کے طور پر کوئی ایسا نشان ظاہر ہو جس کے ذریعہ زیر بحث مسئلہ کے بارے میں عوام کو قطعی رائے قائم کرنے کی سہولت میسر آئے " المیز نے یہ بنیادی اور اہم نکات اٹھانے کے بعد چند تاریخی شہادتیں جماعت احمدیہ کے استحکام اور روز افزوں ترقیات پر پیش کیں اور چنیوٹی صاحب اور ان کے ہم نوا علما ءکو عبرت دلانے کیلئے یہ حیرت انگیز اعتراف کیا کہ : - نہ ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا.لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی.مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا اُن میں سے اکثر تقویمی ، تعلق باشد دیانت، خلوص، علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے.سید نذیر حسین صاحب دہلوی، مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی ، مولانا قاضی سید سلیمان منصور پوری مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی ، مولانا عبد الجبار غزنوی ، مولانا ثناء اللہ صاحب امر شهری اور دوسرے اکا بر رحم الله وغفر لہم کے بارے میں ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ متھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو اُن کے ہم پایہ ہوں اگر چہ یہ الفاظ سننے اور پڑھنے والوں کے لیے تکلیف دہ ہوں گے اور قادیانی اخبارات در مسائل بھی چند دن اپنی تائید میں پیش کر کے خوش ہوتے رہیں گے لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکا بر نور الله مر قدیم و برضا جہم کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضا ہوا ہے یہ (حاشیہ مت پر)
۳۴۹ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ انہیں دنوں مباہلہ کا چیلیچ مولوی سید ابوالاعلی مودودی صاحب کو بھی دیا گیا.جس پر انہوں نے جواب دیا کہ : ر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں مباہلہ کا صرف.........ایک واقعہ ملتا ہے.اس سے ظاہر ہوتا ہے.کہ اسلام نے مباہلے کو نزاعی امور کے فیصلے کا مستقل طریقہ قرار نہیں دیا ہے.کہ جب کبھی کسی کا فر با مسلمان سے کسی قسم کا اختلاف ہو تو فوراً مباہلے کی دعوت دے ڈالی جائے.ہمیشہ در مناظرین نے آجکل مسا مے کر کشتی کے داؤں میں باضابطہ طور پر شامل کر لیا ہے لیکن پوری تا به یخ اسلام میں سیا حملے کی دعوت دینے اور اسے قبول کرنے کی مثالیں مشکل ہی سے مل سکیں گی سے یڈ کانفرنس اور مارچ سے د مارچ تانک کا سیٹو کا نفرنس کے مندوبین کو دعوت اسلام) کراہی میں جاری رہی.جماعت احمدیہ کراچی کے بقیہ حاشیہ مت ۳۴ سے آگے) لہ المنیر ۲۳ فروری ۱۹۵۶ء منا لے منظور احمد چینوٹی کا بیان ہے کہ : - سیری د استاذی محدث العصر حضرت علامہ بنوری رحمتہ اللہ علیہ ایک حج کے موقعہ پر مدرسہ صدیقہ مکہ مکرمہ حضرت شیخ قدس سرہ کی ملاقات کے لیے تشریف لے گئے.راقم آثم بطور خادم حضرت کے ساتھ تھا.حضرت بنوری رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت شیخ سے فرمایا کہ آپ سے تنہائی میں ایک اہم مسئلہ پر بات کرنی ہے.حضرت نے تمام حاضرین اور خدام کو اٹھا دیا.ایک حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب اور ان کا ایک فارم ایک حضرت شیخ الحدیث خود تھے.چوتھے حضرت مولانا یوری اور پانچواں ان کا یہ خادم را قم آئم دیاں موجود رہ گئے.حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے مودودی صاحب کی تقریبات کے فتنہ انگیز پہلوؤں پر بات چیت شروع کی.آپ نے فرمایا.مودودی صاحب کے الحادی نظریات کا فتنہ اور اس کا خطرناک زہر مہر جگہ پھیلتا جارہا ہے اور اسب غرب مالک بھی اس کی لپیٹ میں آنے لگے ہیں.اور وہ مودودی کے خلاف کسی کی بات نہیں سنتے سے ر دینی نگر من یه نا شهر اداره مرکز یه دعوت دار شاد چنیوٹ پاکستان مطبوعہ جولائی ۱۹۸۳د) کے ترجمان القرآن اگست ۱۹۵۶ء بحواله رسائل ومسائل حصہ چہارم ص ۳۲ ناشر اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ لاہور
۳۵۰ متعدد وفود نے فرانس ، نیوزی لینڈ، فلپائن، تھائی لینڈ، انگلستان اور امریکہ کے چالیس سر بر آوردہ مندوبین کو انگریزی ترجمہ القرآن اور دیگر دینی کتب تحفہ پیش کیں اور انہیں دین حق کا محبت بھرا پیغام پہنچایا.شوند و میں نے یہ لٹریچر شکریہ کے ساتھ قبول کیا ہے حضرت مصلح موعود کی زیر ہدایت ربوہ میں نفرت انڈسٹریل نصرت انڈسٹریل سکول راجوہ کا قیام وای ای ان میں امام ہوا اور تر برابر بیگم صاحبہ بنت چودھری عبد الرحمن صاحب راولپنڈی اس سکول کی پہلی ہیڈ مسٹرس مقرر ہوئیں.حضرت مصلح موعود نے سکول کے اجراء پر ایک مشین خریدنے کے لیے ساڑھے چار صد روپے کا عطیہ دیا.علاوہ ازیں منہ مرکز یہ کراچی ضلع گجرات مضلع لاہور، راولپنڈی ، سیالکوٹ ، حیدر آباد ، اوکاڑہ اور نبرد بی کی لجنات نے مشینیں خرید کر دیں.اسی طرح شیخ محمد محسن صاحب لائلپور اور مظفر حسن صاحب کی اہلیہ نے بھی اس کار خیر میں حصہ لیا.سانید کے اجتماع پر پہلی بار سکول کی طرف سے صنعتی نمائش لگائی گئی 1900ء میں سرکاری طور پر یہ سکول منظور ہوا اور پہلی مرتبہ ۹۶ء میں 9 طالبات نے ڈپلوما کا امتحان دیا جوسب کامیاب رہیں.اس کے بعد اب تک خواتین اور بچیوں کی ایک بھاری تعداد اس سکول سے دستکاری کا ڈپلوما حاصل کرنیکی ہے ہے ۱۹۵۶ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہراحمد صاحب کا مکتوب لندن اسم المصاب بخرین تعلیم اندی طاہر میں مقیم تھے.آپ اپنی تعلیمی مصروفیات کے باوجود نہ صرف لنڈن مشن کی تقریبات میں پر جوش حصہ لیتے تھے بلکہ انفرادی طور پر بھی دعوت الی اللہ میں سرگرم عمل رہتے تھے جس کا کسی قدر اندازہ درج ذیل مکتوب سے لگ سکتا ہے جو آپ نے ۱۶ رمئی ۱۹۵۷ء کو لنڈن سے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں تحریر فرمایا :- له الفضل مار مارچ ء ما : تفصیل کے لیے دیکھیں تاریخ لجنہ جلد دوم من تا ملا مؤلفہ محترمہ امر اللطیف صاحبہ سیکر ٹری شعبہ اشاعت لجنه مرکز به ربوہ.اشاعت جنوری ۱۹۷۲ ء
۳۵۱ بسم الله الرحمن الرحیم 21 WELL WALK HAMPS TENEL LONDON_W.3 16-5-56 میرے پیارے ابا جان السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاننه اُمید ہے آپ خدا کے فضل سے صحت وعافیت کے ساتھ ہوں گے.کچھ دن ہوئے مہر آپا کے خط سے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ ربوہ کی نسبت آپ کی صحت بہت بہتر ہے الحمد للہ.رمضان کے مہینہ میں دو تین مرتبہ آپ کو خواب میں دیکھا ہے اور ہمیشہ بہت اچھی صحت میں نظر آئے ہیں.اس دفعہ عید کے موقعہ پر آپ بہت یاد آئے آپ کی ہدایات کے مطابق مسجد اور ملحقہ عمارت اور باغ پر جوخرچ کیا گیا ہے اس کی وجہ سے یہ تمام جگہ بہت جاذب نظر ہوگئی ہے.عید کے موقع پر خصوصاً بہت اچھی لگ رہی تھی.کچھ اس وجہ سے اور کچھ اس لیے کہ اس دفعہ ہمارے سکول کے کئی پروفیسر اور میرے بہت سے طلباء دوست آئے ہوئے تھے آپ بہت زیادہ یاد آئے.اگر آپ یہاں ہوتے تو اُن پر کتنا گہرا ار ہوتا.خدا کرے کہ آئندہ سال آپ یہاں تشریف لا سکیں اور میں ان لوگوں کا فخر کے ساتھ آپ سے تعارف کر دا سکوں.سوڈان کے ایک عربی کے پروفیسر مسٹر مجدوب بھی آئے ہوئے تھے یہ اچھے سمجھدار آدمی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو ان کا احمدیت کی طرف کھینچنا کچھ بعید نہیں.ان کو میں تفسیر کبیر کا انگریزی ترجمہ تحفتہ پیش کر رہا ہوں اسی طرح یہاں عراق کے ایک پر وفیسر مسٹر دوری عارضی طور پر آئے ہوئے ہیں.لنڈن یونیورسٹی کے اسلامک مسٹری کے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر ٹو میں چونکہ امریکہ گئے ہوئے ہیں اس لیے یونیورسٹی نے انہیں ایک سال کے لیے یہ کرسی پیش کی ہے ان کی بیوی فلرے ساتھ بی اے کر رہی ہیں جن کے واسطے سے ان سے بہت تعلقات ہو گئے ہیں.ان کے ہاں چائے پر بھی گیا تھا اور انہیں باچھی کے ہاں بلا رہا ہوں عزیز صاحب نے مجھے ایک تفسیر کبیر کسی دوست کو دینے صله یعنی انگریزی ترجمہ قرآن (ناقل)
۳۵۲ کے لیے دی ہے جو میں ان کو دے رہا ہوں.حسب توفیق محمود اور میں تبلیغی لر بچر دینے کی کوشش رتے ہیں مگر بعض کتب کی کمی کی وجہ سے سخت تکلیف ہوتی ہے.کل ہی کی بات ہے کہ اسلامی تار یخ کے متعلق طلباء سے گفتگو ہورہی تھی.جمع دند دین حدیث کے متعلق اگر چہ زبانی ان کی غلط فہمیاں بہت حدتک دور کر نیکی توفیق مل گئی گر تمام حوالہ جات تو آدمی زبانی یاد نہیں رکھ سکتا.اس کے متعلق مسجد مں کوئی بھی انگریزی کتاب نہیں.اسی طرح فارسی کے پر وفیسر کو دعوت الامیر فارسی دینے کا خیال تھا مگر وہ بھی ناباب ہے رو ر حقانی کو تبلیغ کے دوران میں یہ کتاب سب سے زیادہ محمد ثابت ہوئی سختی ) ہندووں کے لیے تبلیغی لٹریچر بھی یہاں نہیں ضرورت کے وقت سخنت بے لیبی کا احساس اور دکھ ہوتا ہے آخر پہ دعا کے بعد اجازت چاہتا ہوں.ایک مہینہ تک ہمارے انگریزی اور فارسی کے پہلے سال کے امتحان ہوں گے انگریزی کا کورس بہت زیادہ ہے اور دعاؤں کی سخت ضرورت ہے ہماری انگریزی کی کلاس میں صرف ہم دو ہی غیر ملکی ہیں اور باقی سب انگریز ہیں.دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نمایاں کامیابی عطاد فرمائے.آمین ثم آمین.والسلام خاکستار مرزا طاہر احمد ہے حضرت مصلح موعود کے ایک قدیم دوست اس سال دنیائے عرب کے ایک مشہور عالم دین الشيخ عبد القادر بن مصطفنا المغربي الشيخ عبد القادر المغربی کی وفات انتقال کر گئے یہ آپ فرائیس رشام میں پیدا ہوئے مگر تحصیل علم کے بعد مستقل طور پر دمشق میں بود و باش اختیار کر لی.الشيخ المغربی نہایت بلند پایہ عالم مجمع العلمی العربی" کے نائب ریمیں اور جامعہ سوریہ میں ادب عربی کے استاذ تھے آپ نے درج ذیل تصانیف یادگار چھوڑیں."الاشتقاق والتعريب" ، الاخلاق والواجبات البيئات في الدين والاجتماع تغير جزء تبارك مرات سان والتعاااااااااااااااااااان نا سید میر حمود احمد صاحب ناقر مراد ہیں (سابق مبلغ امریکہ دسپین حال پر نسپل جامعہ احمدیه ربوه) نے ریکارڈ منصبہ تاریخ احمدیت ریوه : ۲/۳ ولادت ۱۲۸۴ ۶ وفات ۲۰ شوال ۱۳۷۵ ھ ، رجون ۵۶ دسحجم المؤلفین از عمر رضا کحاله جلد ۵ صت مطبعه الزرقی بدمشق (۶۱۹۵۸
۳۵۳ ۱۹۲ء میں جب حضرت مصلح موعود ودمشق تشریف لے گئے تو آپ بڑے ادب اور احترام سے لے.اس کے بعد حضور نے متعد بار ان کی ملاقات کا ذکر فرمایا اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کو دمشق روانہ کرتے وقت ہدایت فرمائی کر: مغربی میرا قابل قدر قدیم دوست ہے ان سے مجھے اپنے تعلقات کو استوار رکھنا ہو گا یا حضرت سید زین العابدین دلی اللہ شاہ صاحب سے بھی آپ کے گہرے تعلقات تھے.آپ کی پہلی ملاقات ان سے 1911ء میں ہوئی.ایک دفعہ آپ نے حضرت شاہ صاحب کو سیر کے دوران فرمایا.ب آئیے ہم دونوں تصویر کھچوائیں اور دوستی کا اقرار قرآن مجید پر ہاتھ رکھتے ہوئے کریں کہ ہم دونوں قرآن مجید کی خدمت کریں گے.چنانچہ دونوں نے یہ عہد کیا ۱۹۲۵ء میں حضرت شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین شمس ان سے ملے تو انہوں نے تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا " المغربی اب تک اس عہد یہ قائم ہے.اس عہد کو نبھاتے ہوئے موصوف نے اپنی آخری عمر میں قرآن کریم کے آخرمی پارہ کی تغیر شائع کی شور میں آپ نے ایک اخبار میں حضرت شاہ صاب کا ذکر عمدہ رنگ میں گیا.آپ نے ایک رسالہ " الحقائق من الاحمدیہ " کے عنوان سے شائع کیا تو شیخ مغربی مرحوم نے اس کا جواب لکھنا چاہا مگر نہ کھ سکے اور دل سے صداقت احمدیت کے قائل ہو گئے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے حضرت شاہ صاحب کو بتایا " تفسیریں اور حدیثیں اپنی لائبریری سے اس نیت سے میز پر لا کر رکھیں کہ اس رسالہ کی تردید کل شائع کر دوں گا.چنانچہ پڑھنے کے بعد رد لکھنے بیٹھا کبھی لکھتا اور یہ دیکھ کر کہ وہ درست نہیں اسے پھاڑ دیتا اسی طرح پھٹے ہوئے کاغذوں کا ایک انبار جمع ہو گیا تھرانوں نے انگیٹھی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا دہ ڈھیر دیکھو ! ساری رات کوشش کی کبھی حقائق احمدیہ کو دیکھنا کبھی حدیثوں کو اور کبھی تفسیروں کو میری بیوی مجھ سے کہنے لگی کیا پاگل ہو گئے ہو.آرام کر دلیکن مجھے نیند کہاں آتی آخر جب صبح کی اذان ہوئی اور اَشْهَدُ أن لا إله إلا الله کے الفاظ گونجے تومیرے دل نے کہا کہ صداقت کا مقابلہ باطل سے کرنا درست نہیں میرے دوست ترین العابدین نے جو کچھ لکھا ہے ٹھیک لکھا ہے.دل میں یہ کہ کہ نماز پڑھی اور اطمینان سے سو گیا.اس واقعہ کے بعد انہوں نے فرمایا ” تبلیغ کا کام آزادی سے کہیں یا اگر چہ اپنی زندگی میں آپ کھلے طور پر احمدیت کے ساتھ وابستگی کا اعلان نہیں مگر یہ حقیقت ہے
۳۵۴ کہ اُن کے دل میں احمدیت کی صداقت رچ گئی تھی سے حکومت انڈونیشیا کے افسران کا ایک دند کولمبو پلان کے ایک انڈو نیشین وفد کاربوہ میں درود تحت نامی منصوبوں کا مالک نے پاکستان آیا ہوا تھا اس رند کے بعض ارکان جماعت احمدیہ کے مرکز می ادارے دیکھنے کی غرض سے در جولائی ۱۹۵۶ ناملپور سے ربوہ تشریف لائے وند کا یہ گروپ جن اہم شخصیتوں پرمشتمل تھا اُن کے نام یہ ہیں.جناب محمد ہارون صاحب - ۲ - جناب سوتن ہارون الرشید صاحب - ۳ - جناب گومینوں یہ تینوں حضرات انڈونیشیا کے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے وفد کے اعزاز میں تحریک جدید کے کمیٹی روم میں چو ہدری مشتاق احمد صاحب با جوه وكيل الزراعت کی زیر صدارت استقبالیہ منعقد ہوا.مولوی بشارت احمد میر صاحب نے انگریزی زبان میں ایڈریس پیش کرتے ہوئے مہمانوں کو جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات سے آگاہ کیا اس ضمن میں آپ نے دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم اور تبلیغ اسلام کے وسیع نظام پر بھی روشنی ڈالی.نیز انڈونیشین احمدی احباب کی ان خدمات کا ذکر کیا جو وہ اپنے وطن اور قوم کے لیے کر رہے ہیں.ایڈریس کے بعد وند کے رکن جناب محمد ہارون صاحب نے انڈونیشین زبان میں تقریہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر میرے لیے باعث مسرت ہے کہ جماعت احمدیہ مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کر رہی ہے انہوں نے جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہا.انہوں نے کہا کہ میری ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ جماعت احمدیہ کا مرکز دیکھوں جہاں سے تبلیغ اسلام کے ایک وسیع نظام کو کامیابی کے ساتھ چلایا جارہا ہے.سو الحمد للہ میری یہ خواہش پوری ہوئی.رند نے صدر انجمن اور تحریک جدید کے دفاتر دیکھے.ممبران کو قرآن مجید انگریزی اور دلندیزی تراجم کے نسخے بطور تحفہ پیش کیے گئے.دند نے تعلیمی ادارے بھی دیکھے اور تعلیم الاسلام کالج کی عمارت اور انتظام سے بہت متاثر ہوئے کہ له الفضل و رتبہ لائی ۱۹۵۶ء ص ۴/۳ رخلاصہ مضمون حضرت سید زین العابدین شاہ صاحب) الفضل.ار جولائی ۱۹۵۶ ء صار
۳۵۵ احمدیہ وفدکی الجزائری لیڈروں سے ملا قا ۳ جو ان ستار کا حمد با من نیشنل پریس ایسوسی ایشن کے ایک نمائندہ وند نے الجزائر کے لیڈر علامہ بشیر الابراہیمی اور احمد بودہ صاحب سے لائلپورہ میں ملاقات کی اور الجزائر کے مجاہدین سے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا.یہ وفد مولانا ابو العطار صاحب جالندھری (مدیر الفرقان) عبد الوہاب صاحب (نمائندہ مرو تخذ) قریشی عبد الرحمن صاحب ر(نمائندہ میسیجی اور ملک سیف الرحمن صاحب رمفتی سلسلہ احمدیہ پر مشتمل تھا تے رڈ یا وکشون کے ذریعہ صداقت احمدیت کا انکا مارچ درد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما بتایا گیا.يَنْصُرُكَ رِجالٌ نُوحِيَ إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاء الله یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے.خدا کی باتوں کو کوئی حال نہیں سکتا اس پاک وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے الہامات ، کشون اور رڈیا کے ذریعہ بہت سی سعید روحوں کو قبول احمدیت کی سعادت عطا فرمائی.جس کا ذکر سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۳ ار جولائی ۹۵۶ار کو حسب ذیل الفاظ میں فرمایا : آج ہی ایک غیر احمدی کا خط آیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے لیے پھانسی کی سزا تجویز ہوئی ہے اور ایک گڑھا کھودا گیا ہے جس میں میں کھڑا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہیں مجھے مچھالنی دی جائے گی اور لوگ مجھ پر مٹی ڈال کر چلے جائیں گے.میں خواب میں سخت ڈر رہا ہوں کہ اب کیا کروں اتنے میں مجھے دو گردہ نظر آئے ایک غیر احمدیوں کا تھا اور ایک احمدیوں کا تھا.پہلے غیر احمدیوں کی طرف سے میرے پاس ایک آدمی آیا اور اُس نے کہا ہم تمہارے لیے دعا کرتے ہیں بشر طیکہ تم اس بات پر راضی ہو جاؤ کہ احمدیت کی طرف ے فیصل آباد - اس الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۵۶ء صد دمت سے براہین احمدیہ حصہ سوم مر ا ۲۲ حاشیه در حاشیه عل
۳۵۶ توبہ کرنا بھی چھوڑ دو گے اس پر میرے دل میں کمزوری پیدا ہوئی اور میں نے کہا اچھا تم دعا کرد چنا نچہ انہوں نے بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور میں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے مگر لمبے عرصے تک دعا کرنے کے باوجود سمجھتا رہا کہ میری سزا اب تک قائم ہے اس کے بعد میں نے دیکھا کہ احمدی گروہ میں سے ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ ہم تمہارے لیے دعا کریں کہ خدا تمہیں اس مصیبت سے بچائے میں نے کہا ضرور کریں.چنانچہ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے وہ کہتے ہیں ابھی احمدیوں کو دعا کرتے ہوئے پانچ منٹ بھی نہیں گذرے تھے کہ میں نے دیکھا ایک سائیکل سوار دوڑا چلا آرہا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے جب وہ قریب پہنچا تو اس نے آکر کہا کہ تمہیں بری کر دیا گیا ہے.خدا کا کیسا تصرف ہے کہ اس نے ایک غیر احمدی کو رڈیا کے ذریعہ بتا دیا کہ احمدیت سچی ہے اب خواہ وہ کمز دری دکھا کر احمدیت کو قبول کرنے سے ہچکچائے اللہ تعالیٰ نے اس پر حقیقت کھول دی ہے اس سے وہ انکار نہیں کر سکتا.یہاں ایک بڑا فوجی افسر ہے ایک دن اس کے ایک ماتحت افسر نے اس سے کہا کہ میں نے خواب دیکھی ہے کہ احمدیت بیچتی ہے اس بڑے افسر نے یہ بات سن کر کہا کہ تم تو خواب دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے اور میں نے تو کوئی خواب بھی نہیں دیکھی.پھر تم مجھے کس طرح کہتے ہو کہ میں احمدیت کو قبول کر لوں تو حقیقت یہی ہے کہ جب کوئی شخص احمدیت کی صداقت کے متعلق خواب دیکھ لیتا ہے اس کے بعد خواہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بیعت نہ کرے وہ احمدیت کی صداقت کا اپنی ذات میں ثبوت بن جاتا ہے.اور حبیب بھی وہ کسی کے سامنے اپنی خواب بیان کرتا ہے.دوسرا ا سے مٹرمندہ کرتا ہے کہ تو بڑا بزدل ہے کہ اتنی واضح خواب دیکھنے کے بعد بھی تو ایمان نہیں لایا.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کے تصرفات ہیں اور انہی ذرائع سے وہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت مہیا کرتا رہتا ہے اور جب تک لوگ خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم رکھیں گے یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا.اور احمدیت دن رونی اور رات چوگنی ترتی کرتی جائے گی.ابھی آپ لوگوں نے " الفضل " میں پڑھی ہو گا کہ افریقہ کے وہ حبشی جین کے متعلق عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں عبادت کرنی بھی نہیں آتی وہ نتجہ تک
۳۵۷ باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں چنانچہ اس میں ذکر آتا ہے کہ فلاں دوست نماز تہجد کے بعد کچھ دیر کے لیے لیٹ گئے تو انہوں نے یہ نظارہ دیکھا جس سے معلوم ہوتا ہے وہ باقاعدگی سے تہجد کی نماز پڑھتے ہیں.پھر انہوں نے ایسی ایسی بھی خواہیں دیکھی ہیں کہ پڑھ کر حیرت آتی ہے ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ ایک رات جب کہ میں نماز تہجد کے بعد کچھ دیر کے لیے لیٹ گیا میں نے رڈیا میں دیکھا کہ دو شخص جنہوں نے لمبے لمبے چونے پہنے ہوئے ہیں آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مشرق سے آئے ہیں اور تمہیں بشارت دیتے ہیں کہ جبس مہدی کا دیر سے انتظار کیا جارہا تھا وہ آچکا ہے چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد ہمارے شہید مولوی نذیر احمد صاحب علی رہو اس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں اس کی دین کی خدمت کرتے ہوئے فوت ہوئے ہیں یقیناً شہید ہیں) وہاں آئے انہوں نے اس وقت دلیسا ہی لباس پہنا ہوا تھا جیسا خواب میں انہیں دکھایا گیا تھا.چنانچہ ان کی تبلیغ پر اس دوست نے بیعت کر لی اس طرح ایک اور دوست لکھتے ہیں کہ ان کے پیر نے انہیں بنایا ہوا تھا کہ مہد می ظاہر ہو چکا ہے سیکن بیاں نہیں کسی اور ملک میں ظاہر ہوا ہے عنقریب اس کے ظہور کی خبر اس ملک میں بھی پہنچنے والی ہے اس کے چند سال بعد مولوی نذیر احمد صاحب مسلی رہاں گئے جنہوں نے احمدیت کی تبلیغ کی اور وہ ایمان سے آیا.ایک اور دوست نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسجد کے ارد گرد سے گھاس اکھیڑ رہا ہوں پھر کچھ دیر آرام کرنے کے لیے میں ایک درخت کے نیچے کھڑا ہوگی اتنے میں میں نے کیا دیکھا کہ ایک اجنبی شخص قرآن کریم اور بائبل ہاتھ میں پکڑے ہوئے میری طرف آیا اور اس نے مجھ سے باتیں شروع کر دیں اس خواب کے ایک ہفتہ بعد ٹھیک اس طرح میں کدال ہاتھ میں لے کر مسجد کی صفائی کر رہا تھا کہ میں نے منھ کان محسوس کی اور ایک درخت کے نیچے چلا گیا ابھی چند منٹ ہی گذرے تھے کہ سامنے سے مولوی نذیر احمد صاحب علی آگئے اور انہوں نے مجھ سے رہائش وغیرہ کے لیے جگہ دریافت کی میں نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہی وہ شخص تھے جو مجھے خواب میں دکھائی دیئے تھے چنانچہ میں نے انہیں اپنا گھر رہائش کے لیے پیش کر دیا اس کے بعد میں نے اور لوگوں کو بتایا کہ "
۳۵۸ میں نے جو خواب دیکھا متضادہ پورا ہو گیا ہے اور اب وہی دوست جنہیں میں نے رڈیا میں دیکھا تھا میرے گھر میں رہتے ہیں.چنانچہ ان کی تبلیغ پہ اکثر لوگوں نے احمدیت قبول کرلی.غرض وہ ممالک جہاں خوابوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کھڑا کر رہا ہے جو سلسلہ کے لئے بڑی بڑی قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.چنانچہ ان خوا ہیں دیکھنے والوں میں سے بعض ایسے ہیں جو ہمارے سلسلہ کے مستقل مبلغ ہمیں اسی طرح ایک اور افریقت نوجوان کا میں نے ذکر کیا تھا کہ اس نے یہ الفاظ کہے تھے کہ یہ تو ممکن ہے کہ دریا اپنا رستہ چھوڑ دے اور جس طرف بہہ رہا ہے اس طرف کی بجائے الٹا بہنا شروع ہو جائے گر یہ ممکن نہیں کہ میں احمدی ہو سکوں.مگر پھر دہی شخص احمدی ہوا اور اس نے ایسا اخلاص دکھایا کہ جب ایک عیسائی اخبار نے اعلان کیا کہ ہم تمہارا اخبار اپنے پر لیں میں چھاپنے کے لیے تیار نہیں اگر تمہارے خدا میں ہمارے خدا سے بڑھ کر طاقت ہے تو اپنی طاقت کا کوئی کرشمہ دکھائے تو باوجود اس کے وہ پانچ سو پونڈ پہلے دے چکا تھا اس چیلنج پہ اس کی غیرت بھڑک اٹھی اور اس نے ہمارے مبلغ سے کہا کہ آپ نہیں سمجھیں میں ابھی واپس آتا ہوں چنا نچہ وہ اپنے گاؤں میں گیا اور اسی وقت پانچ سو پونڈ لا کہ دے دیا.اب ہمارے مبلغ کے تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے زندہ ہونے کا ایک اور ثبوت بھی دے دیا اور وہ یہ کہ دہی پر لیں والا جس نے ہمارے مبلغ کو لکھا تھا کہ ہم تمہارا اخبار اپنے پریس میں چھاپنے کے لیے تیار نہیں اسی پریس دالے کا ہمارے مبلغ کو خط آیا ہے کہ آپ ہمارے پہلے خط کو منسوخ سمجھیں اور اسی پریس میں اپنا اختبا چھپوا لیا کریں غرض اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہمیشہ مددکرتا چلا آیا ہے اور مدد کرتا چلا جائے گا دوستوں کو چاہیے کہ وہ دعائیں کرنے در ددیہ نے اور ذکیہ الہی کرنے کی عادت ڈالیں اور تقوی طہارت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں وہ خدا جو حیشیوں کو سچی خوا ہیں دکھا سکتا اور ان پر الہام نازل کر سکتا ہے جن کے متعلق انگریزی کتابوں میں یہاں تک لکھا ہے کہ بعض میشی ایسے کند ذہن ہوتے ہیں کہ پندرہ پندرہ ہیں
۳۵۹ ہیں سال تک انہیں پڑھایا جاتا ہے مگر جب وہ پچیس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو سب کچھ بھول جائے.وہ تمہیں کیوں سچی خوا ہیں نہیں دکھائے گا.اور تم پر اپنا الہام کیوں نازل نہیں کرے گا مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے جب تم بھی تہجد یں پڑھو اور درود پر زور دو اور دعاؤں اور ذکر الہی کی عادت ڈالوئیں نے پچھلے دنوں جماعت کے نو جوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی جس پر میں نے دیکھا کہ بیسیوں نوجوان کے مجھے خط آنے شروع ہو گئے کہ ہم نے فلاں خواب دیکھی.یا فلاں کشف دیکھا ہے یا فلاں الہام ہم پر نازل ہوا ہے.پس اگر آپ لوگ نقومی وطہارت اپنے اندر پیدا کریں اور دعاؤں اور ذکر ا ہلی کی عادت ڈالیں اور تہجد اور دورد پر التزام رکھیں تواللہ تعالیٰ یقینا آپ لوگوں کو بھی رویائے صادقہ اور کشف سے حصہ دے گا اور اپنے الہام اور کلام سے مسرت کرے گا یہ ایک احمدی نوجوان کا مثالی کارنا مر شجاعت و جوانی کی بیع کو راولپنڈی میں تیز رجعود بارش ہوئی جھنگی محلہ کے ایک احمدی نوجوان حفیظ احمد صاحب پسر چو ہدری ابراہیم صاحب ہو COD را د سینڈی میں ملازم تھے حسب معمول اپنے گھر سے تیار ہو کہ اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے رات بھر بارش سے وہ ایک گھنٹہ دفتر سے لیٹ ہو گئے تھے مگر 2.0.2 کے گیٹ پر پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ وہ ایک گھنٹڈ سے بھی زیادہ لیٹ ہو گئے تھے اس لیے ان کو اندر جانے کی اجازت نہ مل سکی.چنانچہ حفیظ صاحب واپس آگئے.واپسی پر انہوں نے نالہ لئی کے قریب پانی کے تماشائیوں کا ہجوم دیکھا آپ بھی دہاں ایک طرف چلے گئے اسی دوران میں ایک طرف سے شور و غل اٹھا کہ دیکھو یہ لڑکا پانی میں گر گیا اور ڈوب رہا ہے تماشائی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے گھر کسی نے جرات نہ کی کہ وہ ڈوبتے کو بچا سکیں.حفیظ احمد صاحب نے انسانی ہمدردی کے جوش میں کہا کہ میں لڑکے کو بچاؤں گا.تب اس نے ایک رسہ کمر میں باندھا اور لوگوں سے کہا کہ وہ رسہ پکڑے رکھیں یہ کہہ کہ حفیظ نے اس خوفناک پانی میں چھلانگ لگا دی وہ کافی دیر طوفانی روز نامه الفضل ربوه ۲۲ جولائی ١٩٥۶ ء م ومش - رايضا يكم نومبر
لہروں کا مقابلہ کرتا رہا اور آخر کار اس لڑکے کو کنارے پر لگانے میں کامیاب ہو گیا اب اس کا اپنے آپ کو بچانا باقی تھا پانی کا چڑھاد یکدم تیز ہو گیا اور طوفانی لہریں شدت اختیار کرتی گئیں.رسہ پکڑنے والے پانی کے چڑھاؤ سے ڈر گئے اور رسہ چھوڑ کر پیچھے بہت گئے حفیظ ان طوفانی لہروں اور پانی کے تھپیڑوں کا کافی دیر مقابلہ کرتا رہا مگر شومئی قسمت سے رسہ ایک بجلی کے کھمبے سے لپٹ گیا اور حفیظ کی زندگی ا اور موت کے درمیان حائل ہو گیا.اس نے بڑے زور سے رسے کو جھٹکے مارے اور دہ اس میں کامیاب ہو گیا مگر متواتہ دو گھنٹے اس خطر ناک پانی کا مقابلہ کرتے کرتے اس کے ہاتھ پاؤں ہار گئے آخر ایک شدید طوفانی لہرا سے ساتھ بہا کر لے گئی اور اس طرح اس خونی ندی نے ایک با ہمت احمدی نوجوان کی جان لے لی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا رَلِيْهِ رَاجِعُونَ - تماشائی دور کھڑے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے.مگر کسی نے ہمت نہ کی کہ وہ اس بہادر نوجوان کی کچھ مددکر سکیں.جب یہ احمدی نوجوان اپنے آپ کو لہروں کے حوالے کر چکا تب چند خدا ترس لوگوں نے اس کی لاش کا تعاقب کیا اور تین گھنٹے کی مسلسل کوشش سے لاش کو پانی سے نکالا.حفیظ احمد صاحب کے ڈوبنے کی اطلاع ان کے گھر 9 بجے صبح پہنچا دی گئی ان کے والد ڈیوٹی پر گئے ہوئے تھے.محلہ کے دو احمد می نوجوان موقعہ پر جلدی پہنچ گئے.جنہوں نے دو غیر احمدی احباب کی مدد سے لاش کو گھر پہنچایا.اس اچانک اندوہناک حادثہ سے گھر میں کہرام مچ گیا.شہر اور صدر کی مستورات حفیظ کے گھر ٹوٹ پڑیں.اور کوئی آنکھ نہ تھی جو پریتم نہ ہو.اور کوئی دل نہ تھا جو اس جواناں موت کو دیکھ کر خون کے اور نہ بہا رہا ہو.حفیظ کی لاش دیکھ کہ ایسے معلوم ہوتا تھا.جیسے وہ کوئی کار نمایاں انجام دے کہ سیٹی نیند سو رہا ہے.اس نے بلا شبہ ایک بہت بڑا کام انجام دیا.اس نے اپنی عزیز جان کی قربانی دے کر ایک انسانی جان بچائی.اس مثالی قربانی کی خبر را ولپنڈی کے اخبارات میں شائع ہوئی یے له الفضل ۸ راگست ۱۹۵۶ء ملت
د راگست شد، کو انڈونیشین سول حکام ربوہ میں نڈونیشیا کے سول حکام کے وفد کی آمد کا ایک دن جوچھہ افراد پشت من انڈو نیشین ڈپٹی گورنر سٹر اے ایس پیلو کی زیر قیادت ربوہ آیا.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے وفد کا استقبال کیا وفد نے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفا تر دیکھے.اس کے بعد ایک تقریب میں میاں عبداطی صاحب مبلغ انڈونیشیا نے ان کی خدمت نہیں جماعت احمدیہ کی انڈونیشیا میں تبلیغی مساعی اور تراجم قرآن مجید کے سلسلہ میں جماعت کی کوششوں کا ذکرہ کیا.قائد دندر نے جواب میں کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ نہیں ربوہ دیکھنے کا موقع ملا.اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے اور یہ امر میرے لیے باعث مسرت ہے کہ آپ لوگ بھی دنیا میں امن و سلامتی کے خواہاں ہیں.رند کے سب اسکان کو ڈچ ترجمہ قرآن دیا گیا.ازاں بعد رند نے جماعتی ادارہ جات دیکھے پلے روزنامه « کوہستان لاہور نے اپنی بار ستمبر ۱۹۵۶ء کی اشاعت الامان پریس کی غیر مشروط معانی میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اسے آکسن پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج وصدر صدر انجمن حمدیہ پاکستان (ربوہ) کی طرف منسوب کر کے ایک خط شائع کیا.اس پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے اس خط کو سرا مر جعلی قرار دیتے ہوئے روزنامہ کو ہستان لاہور کے پرنٹ پیسٹر اور المامان پریس لاہور کو نوٹس دیا کہ وہ اس مبینہ جعلی خط کی اشاعت پر صاحبزادہ صاحب سے ایک ہفتہ کے اندر اندر غیر مشروط معافی مانگیں.چنانچہ الامان پریس لاہور نے میں میرے کوہستان چھپتا تھا شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے نام درج ذیل خط میں مبینہ جعلی خط طبع کرنے یہ غیر مشروط معذرت کی 108-A.P.P ما مور یکم اکتوبر بنام شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان ۱۳۰ ٹیل روڈ.لاہور بجناب عالی! آپ نے اپنے رجسٹر ڈ مکتوب مورخہ ۲۰ ستمبر ۱۹۵۲ تو میں روزنامہ کو بستان لاہور کے بستر له الفضل و راگست ۱۹۵۶ء مارث
Pyp " کے پرچہ جلد نمبر ۱۶ کا ذکر کیا ہے میں میں ایک خط شائع ہوا ہے.آپ نے اس خط کو اپنے موکل مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا حامل قرار دیا ہے کہ جو بینہ طور پر غیر ذمہ دارانہ در بدمینی پر مبنی ہوتے ہوئے ان کی شہرت اور عزت کو نقصان پہنچانے والا ہے.اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اگر یہ ہم مذکورہ بالا اخبار اپنے پولیس میں کچھ عرصہ چھاپتے رہے ہیں تاہم ہم نے کہ تاہم ہم ۵ استمبر ۱۹۵۶ ء سے اس اخبار کو محض اس وجہ سے چھاپنا ترک کر دیا ہے کہ یہ اخبار احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز - طنز تمسخر اور بہتان آمیز بائیں شائع کرتا تھا.لہذا التماس ہے کہ آپ اس بارے میں ہمیں درمیان میں لائے بغیر کو ہستان والوں کو براہ راست مخاطب کریں.اس کے پرنٹر نہ ہونے کی حیثیت سے جہاں تک ہمارا تعلق تھا ہم شہرت کو نقصان پہنچانے والے مبینہ خطہ کی طباعت کے لیے غیر مشروط طور پر معذرت خواہ ہیں آپ کا مخلص برائے الامان پر ہیں.دستخط محمد (اظہر الدین ).مالک سے ۲۲ ستمبر ۱۹۵۶ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی اولڈ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام بوائز الیسوسی ایشن کا اجلاس منعقد ہوا.جس میں حضرت اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے نام مرزا بشیر احمد صاحب کا مندرجہ ذیل پیغام سنایا گیا.مرزابشیراحمد : دیگر می دختری بینڈ ماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی اسکول سے یوہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ آپ کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ ۲۳ رستمبر ۱۹۵۶ء بروز اتوار شام کے بارہ بجے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ( OLD BOYS) کا اجلاس ہو گا.اور آپ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ اس موقع پر میں بھی ایک مختصر سا پیغام ارسال کر کے اس اجلاس کی غائبانہ شرکت کی سعادت حاصل کروں.جیسا کہ میں پہلے بھی آپ کو لکھ چکا ہوں.درس گاہوں کے اولڈ بوائزہ کی ایسوسی ایشن درسگاہوں کی ترقی اور ان کے روایات کو زندہ رکھنے کے لیے ایک مفید نظام ہے.اولڈ بوائز کے لفظی معنی تو عمر رسیده سابق طلباء کے ہیں مگر دراصل اس کے ایسے پختہ کار سابق طلبا ء مراد ہیں جو اپنی درس گاہ کے له روزنامه الفضل ربوه ۱۹ اکتوبر ١٩٥٦ د مل
ساتھ وفاداری کے جذبات کے مانخت درس گاہ کی تہ تی اور اس کی نیک روایات کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں.تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیاد حضرت مسیح موجود علیہ السلام کے منشاء کے ماتحت آج سے زاید از نصف صدی قبل قادیان میں رکھی گئی تھی.اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے اس کی عرض و نایت اسلام کی تعلیم کو پھیلانا اور جماعت احمدیہ کے نوجوانوں میں اس تعلیم کو راسخ کرنا تھی.جو احمدیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ظاہر اور قائم فرمائی ہے.مسلمان عملاً ایک مردہ قوم بن چکے تھے.اور اسلام بہت سی غلط روایات اور غلط تشریحات کی وجہ سے گویا ایک سویا ہوا مذہب بن گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام نے خدا سے الہام پا کر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے روشنی حاصل کر کے اسلام کو دوبارہ زندہ کیا.تا کہ اس کا کھویا ہوا وقار اور کھوئی ہوئی طاقت وربارہ عود کر آئے اور یہ قرآنی وعدہ اپنی شان کے ساتھ تکمیل کو پہنچے کہ ھو الذی ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله.اس مقصد کے ماتحت تعلیم الاسلام ہائی سکول کی غرض یہ تھی کہ احمدی نوجوانوں کو سچا مسلمان بنائیں.اور ان کے اندر اسلامی زندگی کی روح پھونکیں.اور پھر ان کے ذریعہ سے دنیا بھر میں اس نور کی اشاعت کریں.اور جوا ولڈ بوائز ایسوسی ایشن تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سابق طلباء کی قائم ہو.اس کا بھی اولین فرض یہ ہے کہ اپنی لائنوں پر اپنے سکول کی روایات کو زندہ کر کے دنیا میں ہدایت اور روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنیں.ہر کیرکٹر بر درسگاہ کا ایک نمایاں کمر کر ہوتا ہے ہماری اس درسگاہ کا کیرکٹر حضرت مسیح موعود علی الصلوة والسلام کے عہد میں مذکور ہے.جو آپ بیعت کے وقت لیا کرتے تھے.یعنی میں دین کو دُنیا پر مقدم کروں گا" اس مقدس عہد کے الفاظ نہایت درجہ پر حکمت ہیں اور ان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میں دنیا کو چھوڑ کر راہب اور تارک الدنیا بن جاؤں گا.بلکہ یہ حکیمانہ فلسفہ بیان کیا گیا ہے کہ میں دنیا میں رہتے ہوئے اور دنیا کے کاموں میں حصہ لیتے ہوئے اور دنیا میں اپنے لیے اور اپنی جماعت کے لیے ترقیات کا راستہ کھولتے ہوئے ایسی زندگی اختیار کروں گا کہ جہاں بھی دین اور دنیا کے مفاد کرائیں گے وہاں میں دین کو مقدم کروں گا.اور دین کی خدمت کو اپنا اولین فرض سمجھوں گا.پس اسکول کے اولڈ بوائز سے
۳۶۴ جن میں سے ایک اولڈ بوائے ہونے کا مجھے بھی فخر حاصل ہے میری یہی نصیحت ہے اور یہی پیغام ہے کہ دہ ہر جہت سے دنیا میں ترقی کریں.اور دین میں بھی ترقی کریں.اور ہمیشہ دی کو دنیا پر مقدم رکھیں.اور اپنی درسگاہوں کو مضبوط بنانے اور اسے ترقی دینے اور اسے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں ایک مثالی درسگاہ بنا دینے کے لیے پوری جد وجہد سے کام لیں.میرا دل ہمیشہ اس خواہش سے معمور رہا ہے کہ ہماری یہ درسگاہ ایک آئیڈئیل یعنی مالی درسگاہ ہو جس کے نتائج دین درنیا کے لحاظ سے چوٹی کے نتائج شمار کیے جائیں اور اس میں تعلیم پانے والے بچوں کے متعلق اپنے اور بیگانے دونوں گواہی دیں کہ یہ دین و دنیا میں غیر معمولی ترقی کرنے والے اور اسلام اور احمدیت کا سچا نمونہ پیش کرنے والے اور متلی کاموں کے ہر میدان کے بہادر سپوت ہیں.اللہ تعالیٰ سب کے ساتھ ہو.آپ کو اپنی رضا کے ماتحت کام کرنے کی توفیق دے.اور آپ کا حافظ و ناصر رہے.آمین و السلام خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۲۶ ۲۷ نومبر ۱۹۵۶ ء کو بر صغیر کے مولانا ظفر علی خاں صاحب کی عبرتناک وفات مشہور اور معانی مولانا ظفر ال علی خالصاحب ایڈیٹر "زمیندار" انتقال کر گئے.آپ کے والد ماجد مولانا سراج الدین صاحب کو حضرت مسیح موعود کی زیارت کا شرف حضور کے عہد شباب میں حاصل ہوا.اور آپ عمر بھر حضور کی پارسائی اور تقومی شعاری کے معترف رہے.اور حضورہ کی وفات پر نہایت عمدہ ریویو اپنے قلم سے لکھا ہے مولانا ظفر علی خاں صاحب بھی اوائل میں جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کو تنظر استحسان دیکھتے تھے.جس پہ اخبار " زمیندار کے پڑانے فائل گواہ ہیں.مگر پھر آپ مخالفین سلسلہ کی صعف اول میں شامل ہو گئے.بایں ہر ۱۹۳۵ ء میں جب آپ کو آل انڈیا مسلم لیگ نے ملک کے مرکزی انتخاب میں اپنا ٹکٹ دیا.تو صدیوں نے تحریک پاکستان سے والہا نہ تعلق کی بناء پہ قیام پاکستان کے لیے اپنی کو درش ویا ۱۹۵۳ء کی ایجی ٹیشن میں سرگرم حصہ لینے کے بعد آپ فاریح کی بیماری میں مبتلا ہو گئے.اور نہایت ہو.به روزنامه الفضل ربوه ۲۶ ستمبر ۱۵۶ء سے متن کے لیے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم ماه
۳۶۵ کسمپرسی کے عالم میں اپنی زندگی کے آخری دن گذارے.حضرت مصلح موعود کو علم ہوا.تو آپ برداشت کر سکے اور ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب کو بغرض علامنا ہوا یا.اور ادویہ کے لیے اپنی جیب خاص سے رقم مرحمت فرمائی.اس سلسلہ میں جناب عبد الحکیم صاحب عامر کا بیان ہے کہ ایک سال پیشتر جب آ فا صاحب ( شورش کا شمیری صاحب مدیر جنان - ناقل) سخت علیل تھے قادیانیوں کے روحانی پیشوا نے ایک پیغام کے ذریعے آپ کو غیر ملکی دوائیوں کی پیشکش کی.........مولانا ظفر علی نان کی علالت کے دنوں میں، جب کہ وہ ترکی میں مقیم تھے ، قادیانیوں کے روحانی پیشوا سے مولانا کو بھی اس قسم کی پیشکش کی گئی تمھتی ہے جناب محمد اشرف خاں عطاء صاحب نے مولانا ظفر علی خاں صاحب کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:- یہ دنیا کتنی ہے وفا ہے جس ملک کو حاصل کرنے کے لیے اس نے اپنی زندگی کی تمام متاع عزیز داد پر لگادی.جن مسلمانوں کی خاطر اس نے ہر قسم کے سو روزیاں سے بے نیاز ہو کہ قربانی دی جب وہ ملک بنا اور آزاد ہوا.جن لوگوں کی آزادی کی خاطر اس نے مسلسل اور لگا تار مصیبتوں ، صعوبتوں اور مشکلوں کا سامنا کیا تھا.جب وہ مسلمان آزاد ہوئے.انہوں نے کبھی بھول کر بھی دریافت نہ کیا.آزادی کا بیاک سپاسی نڈر علم بر دار ظفر علی خاں کہاں ہے اور کس حال میں ہے.ظفر علی خاں جو زندگی میں طوفان تھا.برسے پاؤں تک ہنگامہ تھا مسلسل حرکت تھا.۱۹۴۸ء سے لیکر ۲۷ نومبر ۱۹۵۶ د تک لگا تارہ آٹھ سال زندگی اور موت کی کشمکش میں چار پائی پر پڑا رہا.ارباب اقتدار کے موٹر فراٹے بھرتے ہوا سے باتیں کرتے ، خاک اُڑاتے اس کے مکان کے سامنے سے گزرتے رہنے لیکن جن لوگوں کو ظفر علی خاں اور اس کے ساتھیوں کی قربانیوں کی بدولت آزادی کے بعد مسند اقتدار ملی تھی انہوں نے کبھی پھوٹے منہ سے بھی اس مرد بیمار سے اظہار ہمدردی نہ کیا.اُن کے ایوانوں میں رقص و سرور عیش و نشاط رباب دمشراب کے ڈرامے کھیلے جاتے رہے لیکن ظفر علی خاں کا گھر آزاد ہونے کے بعد بھی ظلمت کدہ رہا.تف اسے فلک ناہنجار - لف اے خود غرضوں اور ابن الوقتوں کی دنیا.تف ہے تیری له مراد حضرت خلیفة المسیح الثالث : کہ نوائے وقت ۳۰ اکتوبر ۱۹۷۵ ءمت کام ۳
"" اس حالت پہیہ.ظفر علی خاں سات آٹھ سال مختلف امراض میں مبتلاء رہنے کے بعد ۲۷ نومبر ۱۹۵۶ء کو صبح کے وقت اس احسان فراموش اور بے وفاؤں کی دنیا سے اپنے ابدی وطن کی طرف روضت ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُونَ.آه ظفر علی خاں جو وقت کا سب سے بڑا صحافی صاحب طرز ادیب آتش نوا مقرر - مغله بیان شاعر اور ہنگامہ پہ در سیاست دان تھا.اپنے آبائی گاؤں کرم آباد میں نہایت خاموشی سے چند عزیزوں کے درمیان اپنی اہلیہ کے پہلو میں دفنا دیا گیا.ظفر علی خاں جس کی گاڑی ہزاروں مسلمانوں نے اپنے ہاتھوں سے کھینچی تھی.جس کے جلوسوں میں میں ہزاروں فرزندان اسلام اس کے استقبال کے لیے دیدہ و دل فرش راہ بنا دیا کرتے تھے.جب اس کا جنازہ اٹھایا گیا تو اس میں گنتی کے چند آدمی تھے اور جب اُسے لحد میں اُتارا گیا تو اُس کے عزیزوں کے ماسوا اور کوئی دوسرا نہ تھا.آہ ! ہنگاموں اور گھر کیوں کو جنم دینے والا ظفر علی خان کسی بے بسی اور بے کسی کے عالم میں رخصت ہوا عفر علی خان زندہ باد کے نعرے لگانے والوں میں سے کوئی بھی اُسے آخری الوداع کہنے کے لیے اس کے جنازہ پر موجود نہیں تھا.اس کی موت پر نہ کوئی مہنگامہ ہوا نہ ہڑتال نہ جلسہ منعقد کیا گیا نہ اس کی جدائی میں کسی کی آنکھ نمناک ہوئی.نہ سرکاری دفاتر بند ہوئے نہ سرکاری عمارت پر تھنڈے سرنگوں ہوئے.نہ آپ کی یاد گار کو قائم رکھنے کے لیے کسی ہسپتال، کسی لائبریری.کسی دانش گاہ کا قیام عمل میں لایا گیا.اور نہ اُسے زندہ وجاوید رکھنے کے لیے اس کی کتب کی اشاعت و طباعت کا کوئی سرکای یا غیر سرکاری طور پہ انتظام کیا گیا.نہ مرہ قومیں اپنے بہادروں اور مجاہدوں کو کبھی فراموش نہیں کہ ہیں اور انہیں زندہ رکھنے کے لیے ایسی یادگاریں قائم کرتی ہیں کہ جو آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں.لیکن ظفر علی خاں سے اُس کے ہم وطنوں نے جو سلوک کیا وہ احسان فراموشی کی ایسی گھناون مثال ہے کہ جس پر آنے والی نسلیں ہمیشہ اظہار نفرین کر تی رہیں گی ہے له مولانا ظفر علی خان - مؤلفہ جناب محمد شرف خان عطاء مکتبہ کا اردوان کچہری روڈ لاہور.جنوری ۱۹۶۲ رم ۲۸ ناصر ۲۹ - مطبع اردو پریس لاہور - -
.میں فت روزہ خدام الدین لاہور نے دار اپریل ۱۹۰۰ ء کی اشاعت میں مصر پر مولانا ظفر علی خان کی دفات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:.ہماری یہ دیانتدارانہ رائے ہے کہ پاکستان میں آج کوئی ادیب، خطیب اور بدیہہ گو شاعر مولانا ظفر علی خان کا ہم پلہ موجود نہیں.مولانا ظفر علی خان کے اختبار "زمیندار" کا صرف ایک پہلوا در اس کی صرف ایک خدمت کا اعتراف بنظر استحسان دیکھا جاتا ہے اور اس کے لیے آنکھیں جھک جاتی ہے.جو اس نے امت مرزائیہ کے تعاقب اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلہ میں انجام دی تھی.اس کے علاوہ مختلف شخصیات اور جماعتوں کے خلاف مولانا ظفر علی خان اور ان کے اختبار زمیندار کی بو محاذ آرائی اور نام بندی رہی ہے آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں اور نہ ہی زمیندار سمیت ڈھو بڑے سے ان کا نہیں سراغ اور نشان ملتا ہے آخر یہ کیوں ہوا.فاعتبروا یا اولی الابصار.“ شورش کا شمیری صاحب نے اپنے رسالہ چٹان ۲۶ دسمبر ۶۱۹۶۰ صر۳ کالم ۲ پر مولانا ظفر علی خان کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا : - دور مولانا ظفر علی خان کی اندوہ مناک موت بھی ہم نے دیکھی ہے جنازہ میں ایک بیٹا ، ۲ پوتے ، ہمین نوکر اور چار نیاز مند تھے کل دس آدمی اس وقت کی وزارتوں کے بیٹوں نے جو سلوک قلم و زبان کے اس دھنی سے کیا وہ کیسے بھول سکتا ہے " قادیان کے درویشوں کو پاسپورٹ کے سلسلہ میں اس اختبار ریاست وہلی کا ایک قابل قدر سال بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.جس پر سردار دیوان نوٹ درویشان قادیان کے متعلق سنگھ صاحب مفتون نے اپنے اخبارہ ریاست میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے حسب ذیل نوٹ سپر د قلم کیا.کیا قادیان کے احمدی غیر وفا شعار ہیں.مرحوم حضرت مرزا غلام احمد آف قادیان کے مقلد یعنی احمدی مذ ہیگا اور اصول اسر حکومت وقت کے وفا شعار ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق ہر مسلمان کا فرض ہونا چاہیئے کہ وہ بر سر اقتدار حکومت کے دفا شعار ہوں.چنانچہ اپنے اس مذہبی اصول کے مطابق ہی انہوں نے ہندوستان کی سیاسی سختریوں میں کبھی حصہ نہ لیا اور یہ انگر یزدی سے بھی ہمیشہ تعاون کرتے رہے اور انگریزوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد اب ان کی پاکستان ہیں
تو پوزیشن یہ ہے کہ پاکستان کے احمدی پاکستان گورنمنٹ کے وفادار ہیں اور ہندوستان کے احمدی ہندوستان کی قومی گورنمنٹ کے اخلاص کے ساتھ وفا شعار ہیں.مگر ان بیچاروں کی پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہ نازک پوزیشن ہے.پاکستان میں تو یہ وہاں کے مسلمانوں کے مظالم کا شکا بہ ہوتے رہتے ہیں کیونکہ پاکستان کے مسلمان احمدیوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے.اور ابھی حال میں چو ہدری محمد علی سابق وزیر اعظم پاکستان کی نئی سیاسی پارٹی سے بعض اصحاب نے صرف اس وجہ سے استعفیٰ دے دیا کہ یہ پار ٹی احمدیوں کو بھی مسلمان سمجھتی ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ غیر احمدی مسلمانوں کا نذدہی مالیخولیا کب دریاں کے احمدیوں کے خلاف پہلے کی طرح پھر بہار شروع کر دے اور ہندوستان میں احمدیوں کی پوزیشن یہ ہے کہ ان کا مسلمان ہونا اور مسلمان ہوتے ہوئے مشرقی پنجاب رجہاں گنتی کے صرف چند مسلمان اب باقی رہ گئے ہیں) میں رہنا ہی ہندووں اور سکھوں کی نگاہ میں اتنا بڑا جرم ہے جسے قابل معافی قرار نہیں دیا جاتا اور یہ واقعہ افسوسناک ہے کہ مشرقی پنجاب کا قریب قریب ہر سرکاری افسران کو ٹیڑھی نظروں سے دیکھتا ہے اور اگر کبھی موقع ملے تو نیش زنی سے باز نہیں آتا.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان بیچاروں کے لیے ہر روز کوئی نہ کوئی نئی مصیبت پیدا ہوتی رہتی ہے چنانچہ اس سلسلے کے چند واقعات سن لیجیے.قادیان کے احمدی حضرات کے کچھ عزیز تو قادیان اور مہند دستان کے دوسرے مقامات میں ہیں اور کچھ رشتہ دار پاکستان میں ہیں اور سب سے بڑھ کہ یہ کہ ان کے مذہبی پیشوا یعنی موجود ہ لیفہ پاکستان کے مقام ربوہ (ضلع جھنگ) میں ہیں اور مذہبی اعتبار سے قادیان کے احمدیوں کا یہ فرض اور ایمان ہونا چاہیئے کہ وہ اپنے پیٹوا کے ساتھ روحانی تعلق قائم رکھیں اور وہ وہاں کے مذہبی جلسوں وغیرہ میں شامل ہوں مگر گورنمنٹ ہند ان کو پاسپورٹ دینے سے انکار کرتی رہی جس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے حبیب کبھی پاسپورٹ کے لیے درخواست دی اور یہ درخواست ضلع گورداسپور کے حکام کے پاس رپورٹ کے لیے بھیجی گئی تو مقامی پولیس کے چھوٹے افسروں نے ان کو پاسپورٹ دینے کے حق میں رائے نہ دی کیونکہ ان کے مسلمان ہونے کے باعث ان کو ہندو اور سکھ جرائم پیشہ قوم میں سے سمجھتے تھے اور ایسی رپورٹوں کی بنیادوں پر ہی ان کو پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا جاتا.چنانچہ چند برس ہوئے ان کے بعض لیڈر جب دہلی آئے اور انہوں نے حالات بتائے تو نہ صرف ان پر کیے جا رہے اس ظلم کے خلاف ریاست میں لکھا گیا بلکہ ایڈیٹر اور ریاست نے سردار پرتاب سنگھ کیبردن وزیر اعلی پنجاب !
۳۶۹ سے زبانی بھی کہا جب کہ وہ دفتر ریاست میں تشریف لائے میں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں کو پاسپورٹ دیئے گئے اور یہ لوگ اپنے عزیزوں اور مذہبی رفیقوں سے ملنے کے لیے ربوہ (پاکستان) گئے.اس سلسلہ کی اب تازہ اطلاع ہے کہ قادیان کے ایک احمدی لیڈر ملک صلاح الدین ایم اے کے حقیقی چھوٹے بھائی پانچ چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر ربوہ میں انتقال کر گئے اور ان کی والدہ بیمار ہیں اور ان کا فرمن تھا کہ یہ اس موقع پر وہاں پہنچنے گھر آپ نے جب پاسپورٹ کی تجدید کے لیے درخواست کی تو ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا گیا اور یہی سلوک دوسرے احمدی اصحاب کے ساتھ کیا جارہا ہے جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پاسپورٹ کا غذی کا رہ والی اور مقامی ملازموں کی رپورٹ کے بعد دیا جاتا ہے اور چونکہ یہ لوگ مسلمان ہیں کوئی سکھ یا بند و لازم نہیں چاہتا کہ ان کے لیے سہولت بہم پہنچائی جائے اور کانفی ڈنشل رپورٹیں ان کے خلاف کر دی جاتی ہیں.اگر کسی بھی احمدی کے خلاف کوئی سیاسی شکایت ہو تو اس کو پاسپورٹ نہ دیا جانا چاہیے مگر یہی صورت میں کہ یہ لوگ سیاسیات سے قطعی بے تعلق ہیں اور احمدی خالص مذہبی جماعت اور مہند دستان کی وفا شعار ہے اس جماعت کی اس پوزیشن میں احمدیوں کو پاسپورٹوں کا نہ دیا جانا النضات فرار نہیں دیا جا سکتا اور ہمار می خواہش ہے کہ پنجاب گورنمنٹ احمدی حضرات کی اس تکلیف پر ہمدردی کے ساتھ غور کرے اور اگر کسی بھی احمدی کے خلاف پولیس یا مقامی افسروں کو شکایت ہو تو یہ معاملہ کسی جوڈیشل افسر کے سپرد کر دیا جائے تا کہ یہ معصوم اور بے گناہ لوگ کا نفی ڈنشل رپورٹوں کا شکار نہ ہوں اے ۱۹۵ء میں کانگریس کے اجلاس امرتسر کے موقع پر جماعت احمدیہ قادریان مقدمه کنج بهاری الان الی ان سے ایک ریکی و آسانی تحفہ کےنام سے شائع کیا گیا.اس کے جواب میں ایک معاند سلسلہ کنج بہاری لال نے ایک نہایت دل زار ٹریکٹ دور زمین کی پکارہ شائع کیا.اس پر حکومت کی طرف سے اس کے خلاف زیر دفعہ ۲۹۵ الف مقدمہ دائر کیا گیا.اس مقدمہ میں مولوی برکات احمد صاحب را جیکی ناظر امور عامہ اور ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کی طویل شہادتیں استخانہ کی طرف سے ہوئیں.اور یہ مقدمہ تقریبا اڑھائی سال تک جاری رہا.مقدمہ میں کنج بہاری لال نے سیدنا ره هفت روزه ریاست دہلی ۱۶ار دسمبر ۱۹۵۶ دسته کانم ۲ تا ۴
٣٠ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بہت کچھ زبان درازی اور تلخ کلامی کی.ایک دن جب عدالت برخواست ہوئی.تو اس نے از راہ شرارت بہت سی دل اگزار باتیں عدالت کے عملہ کے سامنے جماعت احمدیہ اور اس کے مقدس باتی علیہ السلام کے خلاف کہیں اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتاب " سلسلہ احمدیہ کھول کر اس میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا فوٹو لوگوں کو دکھایا.جونہی اس فوٹو پر حاضرین کی نظر پڑی تو سب نے ایک از بیان ہوکر کہا کہ تم مرزا صاحب پر اعتراض کرتے ہو.لیکن فوٹو سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ بہت بڑے جہا پرش اور سنت آدمی تھے.یہ ریمارکس سن کر کنج بہار میلال کو بہت شرمندگی ہوئی.اسی مقدمہ کے دوران اس نے " ذکر حبیب ( مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے سیشن بحج کو حضور اقدس کا ایک فوٹو دکھایا.اس پر جچ صاحب بے ساختہ کہہ اٹھے کہ نوٹو سے تو مرزا صاحب بہت نورانی معلوم ہوتے ہیں سید حضرت مصلح موعود کی اہم نصائح 1 سید نا حضرت مصلح موعود نے ۴ ار دسمبر ۱۹۵۶ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :- اور دوستوں کو یا د رکھنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں ہر انسان کے قریب ہوں اور یہ کہ میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں.اور بیس کے قریب ضد تعالی ہودہ اکیلا نہیں ہو سکتا.بے شک حضرت مسیح موعود نے کتفی حالت میں اپنے باز پر یہ تحریہ فرمایا کہ # ☑ میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اکیلے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی نظروں میں تو میں اکیلا ہوں لیکن حقیقتہ خدا میرے ساتھ ہے.اگر خدا کے ساتھ ہونے بھی کوئی شخص اپنے آپ کو اکیلا کہتا ہے تو اس کی مثال اس ! بے وقوف کی سی ہوگی جو اپنے باپ کے ساتھ سفر کر رہا تھا.کہ رستہ میں ڈاکہ پڑا اور چور ائن کا مال لوٹ کرلے گئے.جب کسی نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تو اس نے کہا چور تے لاٹھی دو جنے میں نے باپو کھلے.پس جو خدا کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی کہتا ہو کہ میں اکیلا ہوں تو یہ اس کی ہیں تو نی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان له الفرقان ربود در ویشان قادیان نمبر مهر ماه
۳۷۱ الفاظ کے معنے ہیں کہ دنیا کی نظروں میں تو میں اکیلا ہوں لیکن خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکرینہ سے فرمایا تھا.لا تحزن ان الله معنا بو کر یہ گھرانے کی کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور حب اللہ تعالٰی ہمارے ساتھ ہے تو دس بارہ لفنگوں کی کیا طاقت ہے کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچا سکیں.خدا تعالیٰ انہیں خود تباہ کر دے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشف میں جو کہا گیا ہے کہ میں اکیلا ہوں اس کا یہی مطلب ہے کہ دنیا کو تو نظر نہیں آتا کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی ہے لیکن خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر وہ مجھ پر کلک کریں گے تو وہ دیکھ لیں کے کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے میں کامیاب وکامران ہوگا.اور وہ ناکام و ذلیل ہوں گے.بہرحال قرآن کریم بتاتا ہے کہ ہر شخص جو خدا تعالیٰ کے سامنے جھکے اور اس سے مدد مانگے وہ اس کی مدد کے لیے تیار ہے اور اس کے بالکل قریب ہے صرف اتنا فرق ہے کہ درجہ کے لحاظ سے وہ کسی کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور اس کی جلدی مدد کرتا ہے ورینہ وہ ہے سب کے قریب صرف وہ اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ کوئی اسے پکارے اور جب کوئی اسے پکارتا ہے تو وہ کہتا ہے میں تیری مدد کے لیے تیار ہوں اب بتاؤ جس کے پاس اتنا بڑا نسخہ موجود ہو اسے بھلا دنیا کا کیا ڈر ہو سکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت اکیلی ہے باقی سب لوگ ایک طرف ہیں اور ہم دوسری طرف لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اس لیے گو ہم دنیا کی نظر میں اکیلے ہیں مگر در حقیقت ہم اکیلے نہیں.خدا تعالے ہمارے ساتھ ہے اور اگر کوئی ہم پر حملہ کرے گا تو وہ نہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا کیونکہ ہمارے اور دشمن کے درمیان خدا تعالیٰ احائل ہو جائے گا اور یہ ظاہر ہے کہ اس کی پیچوٹ خدا تعالی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی بلکہ چوٹ لگانے والے کا راستہ خود مفلوج ہو جائے گا اور اس کی چوٹ الٹ کہ اسی پر پڑے گی.پس اس گڑ کو یاد رکھو اور قیامت تک اسے یاد رکھتے چلے جاؤ کہ ہر مصیبت پہ خداتعالی کو پکارو.اگر تم ایسا کر دو گے تو دنیا میں تم پر کوئی مصیبت ایسی نہیں آسکتی میں میں خدات
۳۷۲ تمہاری مدد نہ کرے اور دشمن کا خطر ناک حملہ بھی خدا تعالیٰ کی مدد کی وجہ سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا.بنشر طیکہ تم حرام خور می نہ کرد - بے ایمانی نہ کرو.بد دیانتی نه کرد - خدا تعالی کا خوف کرد - نقوی کرد - ظلم نہ کرو کسی پر تعدی نه کرد - کسی کی قرات اور بدنامی نہ کرو.منافقت نہ دیکھاؤ.فساد نہ کرو.اگر تم ایسے ہو جاؤ گے تو ہر قدم پر اور ہر میدان میں خدا تعالیٰ تمہارا ساتھی ہوگا یہ قرآن کریم کا وعدہ ہے جو اصدق الصادقین ہے اور خداتعالی کا کلام جھوٹا نہیں ہو سکتا اگر تم اس پر عمل کرو گے تو تم ہمیشہ کامیابی اور با مرادی دیکھو گے لے انہی دنوں سیالکوٹ میں ایک دردناک حادثہ پیش آیا جن میں یک مخلص اور ایک دردناک حادثہ قدیم مصری خاندان کےبہت سے افراد زنی ہوگئے اور بعض خواتین دفات پا گئیں جن میں سید ناصر شاہ صاحب کی اہلیہ بھی تمھیں بین کا جنازہ حضرت مصلح موعود نے مار دسمبر ۱۹۵۶ء کو نمازہ جمعہ کے بعد پڑھا اور خطبہ جمعہ میں بتلایا کہ :- باہر ایک جنازہ پڑا ہے.یہ جنازہ سیالکوٹ سے آیا ہے.چند دن ہوئے دیاں ایک خطرناک حادثہ ہوا.اور میں خاندان میں یہ حادثہ ہوا.وہ احمدیت قبول کرنے کے لحاظ سے ضلع سیالکوٹ میں اول نمبر پر تھا.یعنی میر حامد شاہ صاحب مرحوم کا خاندان.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حب سیالکوٹ تشریف لے گئے.تو اس وقت بھی اس خاندان میں ہی ٹھہرے تھے.سید ناصر شاہ صاحب.مرحوم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیقوں میں سے تھے.ان کے ایک لڑکے کی دہاں شادی مفتی.ہمارے ملک میں رواج ہے.کہ عورتیں دولہا کو اندر بلا لیتی ہیں.اور اسے تحفے وغیرہ دیتی ہیں.چنانچہ اسی دستور کے مطابق عورتوں نے دولہا کو مکان کی دوسری منزل پہ بلایا.ابھی عورتیں دولہا کو مخالف ہی دے رہی تھی کہ اوپر کی چھت نیچے آگری.اور پھر اس چھت کے بوجھ کی وجہ سے نیچے کی چھت بھی گر گئی.پیچھے مرد تھے.ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی.اور اوپر کی چھت پر جو عورتیں تھیں ان میں سے بھی کچھ زخمی ہوئیں.اور کچھ فوت ہو گئیں.چنانچہ در جنازے پہلے آئے تھے.شه روزنامه الفضل ریبون یکم مارچ ۱۹۵۷ ، منه !
اور ایک نعش آج آئی ہے.یہ نعش سید ناصر شاہ صاحب کی اہلیہ کی ہے.ان کے لڑکے کی شادی تھی اور اسی سلسلہ میں یہ وہاں گئی تھیں.چھت گرنے کی وجہ سے زخمی ہوئیں اور بعد میں فوت ہوگئیں نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھاؤں گا یال ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ایم اسے دریامنی فزکس) پی ایچ | ڈاکٹر عبد السلام صاحب کا نیا اعزانہ ہی کتب جو میرا یونیوسٹ میں سیکیور کے والی ڈی کنٹب، کیمبرج سرانجام دے رہے تھے.اس سال امپر ٹیل کا لج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لنڈن میں پروفیسر مقرر ہوئے.آپ کے اس نئے اعزاز میں سائنس کے مشہور رسالے NATURE میں NEWS AND VIEWS کے سخت جو نوٹ شائع ہوا.اس کا ترجمہ ذیل میں درج ہے یہ ڈاکٹر عبد السلام لیکچرار کیمبرج یونیورسٹی کو حال ہی میں امپر ٹیل کا لج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لنڈن میں یونیورسٹی پر دنیسر کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ہے.ڈاکٹر سلام ایک بیدار مغز عالم ریاضیات ہیں اور انہیں نظریاتی نرکس کے میدان میں بین الا قوامی شہرت حاصل ہے.حال ہی میں جو بنیادی ذرات دریافت ہوئے ہیں ان کی ماہیت سے متعلق سائنسی نظریوں کی تشکیل میں انہوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے ان میدانوں میں سائنس کے ان خصوصی شعبوں میں ان کی سرگرمیوں کو وہاں اور بھی زیادہ شرت قبول حاصل ہوگا.وہاں انہیں ایسے ساتھی سائنسدانوں کی رفاقت میسر آئے گی.جو ایسی تحقیقات کے تجرباتی حصہ میں گہری چسپی رکھتے ہیں.ڈاکٹر سلام کی ابتدائی تعلیم پنجاب یونیورسٹی میں پایہ تکمیل کو پہنچی.جہاں سے ۱۹۲۷ء میں آپ نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۱۹۳۰ء میں آپ نے کیمبرج یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری لی اور وہیں سے ار میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اسی سال وہ سینٹ جانہ کالج کیمبرج میں سائنس کی ایک خصوصی تحقیقات کے لیے منتخب کیے گئے.ڈاکٹر سلام ریاضی کے شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پہ فائز رہے ہیں.میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور ۱۹۵۳ء میں انہیں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ریاضیات کا صدر مقر کیا گیا.22 سے وہ کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچرار کے طور پر کام کر رہے تھے.1922ء میں جنیوا کے مقام پر ایٹمی طاقت کے پرامن استعمال سے متعلق جو کانفرنس له الفضل یکم مارچ ، ١٩٥ ء مت
۳۷۴ منعقد ہوئی تھی.اس میں آپ نے سائنسی سیکرٹری کے طور پر کام کیا.پر وفیسر سلام کے تقریر کے بعد اب امپر نیل کا لج میں پر وفیسروں کی تعداد چار ہوگئی ہے.ا پر وفیسر اینچ جونز جو متعلقہ مشکعبہ کے صدر ہیں.۲ - پر وفیسر جی.اسے برناڈ جو اعداد و شمار کے پر دنیسر ہیں.بہ دفیسر ڈبلیو کے ہے مین جو PURE MATHEMATICS کے پروفیسر ہیں اور پر دینیر عبد السلام آپ کا تعلق کلی طور پر APPLIED MATHEMATICS اور ریاضیاتی فرکس سے ہو گائیے ر دکبرستا کو ربوہ ٹیون کی چین کا قیام عمل میں آیا ربوہ میں ٹیلیفون یک پینچ کا قیام دفاتر صدر انجمن احمدیہ د تحریک جدید اور رہائشی مکانات میں ٹیلیفون لگ گئے.اس طرح تمام دنیا سے مرکز احمدیت کا براہ راست رابطہ قائم ہو گیا یہ در پیر اعظم مین کو قرآنمجید کا تنا سال کے آخری ایام میں وزیر اعلسم میں سر سال کے آخری ایام میں تحفہ بچو این لائی ڈھاکہ تشریف لائے.آپ کو مولوی علی انور صاحب نے انگریزی ترجمہ قرآن کا تحفہ پیش کیا.اس موقع پر جماعت احمدیہ کی طرف سے جناب چو این لائی کو ایڈریس پیش کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ جماعت احمد یہ ساری دنیا میں عالمگیر امن اور انسانی اخوت کے قیام کے لیے کوشاں ہے.مشرق و مغرب کے اکثر ممالک میں اس کی شاخیں قائم ہیں دنیا کی مختلف زبانوں میں جماعت کی طرف سے قرآن کے تراجم شائع کیے جارہے ہیں.قرآن مجید کا تحفہ چینی عوام سے انتہائی محبت و خلوص کے اظہار کے طور پر پیش کیا گیا ہے.یہ تحفہ عالمگیر امن اور انسانی اخوت کے انتہائی ارفع و اعلیٰ اصولوں کی وضاحت پر مشتمل ہے.ہماری دلی خواہش ہے کہ پاک میں دوستی مستحکم رہے ہے به روزنامه الفضلى ربوه ر جنوری ۱۹۵۰ء صلب له الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۵۶ر سنگ الفضل سور جنوری ، ١٩٥ء
۳۷۵ شور میں بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں جماعت احمدیہ کے بیرونی مشنوں نے اس سال اپنی تبلیغی سرگرمیاں تیز تر کر دیں جیسا کہ آئندہ تفصیل سے عیاں ہوگا.لنڈن شن ا سیدنا حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر ستمبر 90 سے جماعت احمدیہ لنڈن نے برا توار کو با قاعدہ اجلاس شرو ع کر دیئے تھے جن میں غیر مذاہب کے بعض نمائندوں کو تقریہ کے لیے دعوت دی جاتی تھی.چنانچہ پادریوں ، پارلیمنٹ کے مہروں اور یونیورسٹیوں کے پر دینیروں کو لیکچر " کے لیے مدعو کیا گیا.یہ مفید تبلیغی سلسلہ ۱۹۵۶ء میں بھی زور شور سے جاری رہا.چنانچہ لنڈن مشن نے متقد و تقاریب کا اہتمام کر کے کئی اہم شخصیتوں تک پیغام حق پہنچا یا.بعض اجلاسوں کا تذکرہ دلچسپی سے خال نہ ہوگا..۱ - ۲۹ جنوری کو MR.DRISKELL چائے پر مدعو تھے.ان کے ہمراہ پانچ افراد بھی تھے انہوں نے SONSHIP OF JESUS CHRIST OF GOD پر اپنا نقطہ نگاہ میں کی.مواد احمد خاں صاحب امام بیت الفضل لنڈن نے قرآن کریم کی رو سے واضح کیا کہ یہ نقطہ نظر غلط ہے.میر عبدالسلام صاحب نے ثابت کیا کہ بائبل کی صحت مشکوک ہے اس لیے اس پر کسی دعومی کی پہیل ٹھہرانا غلط ہے ۲ - ۱۲ فروری کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے پر وفیسر اور برطانیہ کے مشہور قانون دان MEHART نے سزائے موت کے موضوع پر اظہار خیال کیا.آپ کے لیکچر کے بعد امام بیت الفضل لنڈن نے اسلامی قانون میں سزائے موت اور اس کی پیر حکمت شرائط اور اسلامی قصاص کے مختلف پہلو ڈنی پر روشنی ڈالی.۲۶-۳ فروری کو احمدیہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں سٹر COMMONT JORDINE دو تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ان کا تعارف کرایا جس کے بعد صاحب موصوف نے عیسائیت کے تین عظیم تہواروں پر اپنا مذہبی نقطہ نگاہ پیش
کیا جس کے جواب میں صدر محلی محترم سید عبد السلام صاحب نے اسلامی تعلیم سے منقارت کرایا.اور ماریا کو سٹر کر لنڈن رجنرل سیکر ڈی انٹر یونیورسٹی فیلوشپ آف لندن) مختلف کو بلوں کے طلباء سمیت مشن ہا ؤس تشریف لائے اور میسج سنجات دہندہ کے موضوع پر لیکچر دیا.مولو احمد النصاحب نے اپنی جوابی تقریر میں جماعت احمدیہ کے مسلک کی ایسی عمدہ ترجمانی کی کہ فامتل مقرر نے کہا.اگر فی الواقعہ سے صلیب پر فوت نہیں ہوا تو پھر عیسائی مذہب کی بنیاد ختم ہو جاتی ہے اور اس کی تمام عمارت کا ا منہدم ہونا یقینی ہے لے ۵ - ۲ را پریل کو DR.FAI RBRAIN نے سائنسی اور عیسائیت کے موضوع پرلیکچر دیا.بعد ازاں علمی مذاکرہ ہوا.نہیں میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، سید محمود احمد صاحب ناصر ملک عطاء الرحمن صاحب سابق مبلغ فرانس اور سید داؤد احمد صاحب نے نمایاں حصہ لیا.پروفیسر انڈرسن ( ANDERSON) دلندن یونیورسٹی میں شعبہ قوانین شرق کے صدر) نے ایک کتاب " AFRICA“ ISLAMIC LAW IN EAST AFRICA لکھی نہیں میں قتل مرتد کے عقیدہ اسلام کی طرف منسوب کیا.۸ را اپریل کو امام بہت الفضل لنڈن نے اس غلطی کے بارہ میں مفصل تبادلہ خیالات کیا میں پر پر وفیسر صاحب نے کہا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ احمدیت اسلام کی نہایت معقول مشکل ہے.-۳ ، جون کو مسٹر گنگ ریونیسکو کی تعلیمی کمیٹی کے صدر) مدعو تھے.آپ نے مشرقی اور مغربی اقتدار کی نوعیت پر سکر دیا.اس موقعہ پر محترم مولود احمدخاں صاحب نے بین الاقوامی امن سے متعلق اسلامی نظریہ پیش کیا.۲۲ر جون کو برطانیہ کے ایک در پیسٹر ایک پادل کے اعزاز میں ڈر دیا گیا ، آپ برطانوی پاپینٹ کے ممتاز رکن رہے تھے.جنگ عظیم کے دوران فوج میں بریگیڈیر تھے اُردو خوب جانتے تھے مولانا حالی سے متاثر بھی تھے اوران کے مداح بھی اس تقریب کا آغازہ مولود احمد خان صاحب کے خطاب سے ہوا جس میں آپ نے واضح کیا کہ دنیا میں اسلام پر امن جدوجہد اور تبلیغی مساعی کے ذریعہ پھیلا ہے له الفضل دار تاریخ ۲۷ نومبر ۱۹۵۶ء
426 اور اپنے ارفع و اعلیٰ روحانی نظام کے بل پر ہی دنیا میں قائم و دائم چلا آرہا ہے اور روحانی طاقتوں کی بد دولت آئندہ بھی دنیا میں ایک مرتبہ پھر عروج پکڑے گا.اس کے بعد مسٹر بینک پاول نے ایک تقریہ کی میں میں انہوں نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو نہایت شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ مستقبل قریب میں اسلام کے دوبارہ ابھرنے اور عروج پکڑنے کے آثار ابھی سے نمایاں میں یہ ۱ - ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو شام کے ، بجے ہیگ کی مشہور بلڈنگ ڈیون ٹاوان ھالینڈ مشن میں لانڈن کے ایک قابل مستشرق پروفیسر ڈاکٹر ڈریس کی صدارت میں جلدی بیرت النبی کی اہم اور مبارک تقریب منعقد ہوئی جس سے حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ مقیم ہالینڈ مولودی ابو بکر ایوب صاحب ، ڈاکٹر ہڈنگ (لائڈن کے ایک مستشرق) اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے خطاب فرمایا.حضرت ہود ہری صاحب کا فاضلانہ بیچر سامعین نے بڑی دلچسپی اور توجیہ سے سنایی.جماعت احمدیہ ہالینڈ کے ایک وفد نے ، جو حافظ قدرت اللہ صاحب اور مولوی ابوبکر الوب صاحب پرمشتمل تھا، ۲۳ اکتو بہ کو انگریزی ترجمہ قرآن کا ایک تحفہ پریذیڈنٹ آن لائیبر با سرولیم ٹب میں WILLIAMS TUBMAN کو پیش کیا.پریذیڈنٹ موصوف نے سختہ کو قبول کرتے ہوئے بڑی مسرت کا اظہار کیا اور جماعت احمدیہ کا ذکر بڑی قدر دانی کے جذبات سے کیا.یہ خبر مقامی پریس میں بھی شائع ہوئی ہے.ماہ نومبر ۱۹۵۶ء میں ہالینڈ کے ایک منظم کیتھولک گروپ کی طرف سے احمد بہ مشن ہالینڈ کہ یہ دعوت موصول ہوئی کہ مارطہ دار دسمبر کو وہ اُن کے ہاں اگر اس موضوع پر تبادلہ خیال کریں.ہم سیح کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ اس موقع کے لیے انہوں نے تجویز کیا کہ ہ نمائندگان کیتھولک گروپ کی طرف سے اور پانچ ہی احمدیہ له الفضل ٢٠ نومبر ١٩٥٦ء ٢/٣ والفضل ۲۸ جون ۱۹۵۶ء سل : له الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص : الفضل لم اوبر ١٩٥٦ وما 4190
مسلم مشن کی طرف سے اس بحث میں حصہ لیں گے.اور بحث کا طریق یہ ہو گا کہ پہلے احمدی اسلامی نقطہ نگاہ سے مقررہ موضوع پر 10 منٹ تقریہ کریں گے.اور پھر کیتھولک گروپ کا نمائندہ اس بارے میں اپنے خیات حاضرین کے سامنے پیش کرے گا.اس کے بعد یہ دونوں گروپ ایک دوسرے سے وضاحت طلب امور کے مطابق اگہ کچھ پوچھنا ہو تو استفسار کریں گے.اور پھر وقفہ کے بعد ملک کو سوالات کا موقع دیا جائیگا.احد پر کشن کے لیے ایسی دعوت طبعی طور پر بڑی مسرت کا موجب بھی.چنانچہ اسے قبول کر لیا گیا.اور اس کے لیے تیاری شروع کر دی گئی.عالینڈ کے مذہبی ماحول میں ایسے مباحثات اور تبادلہ خیالات کے واقع ہمیشہ ہی بڑی دلچسپی کا موجب ہوتے ہیں.خصوصاً جب کہ ایک فریق اسلام کا حامی ہوا اور دوسرا عیسائیت کا اور کوئی مشہور مقررہ ایسے مباحثات میں حصہ لے رہا ہو تو پبلک کی دلچسپی اور بھی بڑھ جاتی ہے.جیسا کہ اس مباحثہ میں ہوا.کیونکہ لیتھولک گروپ کے ایک مشہور اور قابل باوری یا تھا اس میں حصہ لے رہے تھے.جن کی تاہمیت پورے ملک میں مسلم تھی.جماعت احمدیہ کی طرف سے جو ہ افراد تجو یہ ہوئے ان کے نام یہ ہیں.مولانا ابو بکر البوب صاحب سماڑی.حافظ قدرت اللہ صاحب.میں ناصرہ نرمان مسٹر عبد اللہ خان اونگ.مسٹر عبد اللطیف دی میدان.ابتدائی تقریر کے لیے مسلمہ مکرم عبد اللطیف دی میدان کا نام تجویہ کیاگیا.جنہوں نے اس کام اور اس کی ذمہ داری کو خوشی سے قبول کیا.اور نہایت احسن رنگ میں اسے سرانجام دیا.مباحثہ کے لیے دریچے شام کا وقت مقرر تھا.مگر لوگ اس خیال سے کہ ہال کی جگہ کہیں پہ نہ ہو جائے ساڑھے سات بجے ہی آنا شروع ہو گئے.اور وقت سے پہلے ہی بال کھچا کھچے بھر گیا.اور بعد میں آنے والوں کو کھڑا رہنے کے سوا چارہ نہ رہا.آخر وہ وقت جسکا پبلک بڑی بے تابی سے انتظار کر رہی منفی آن پہنچا.اور احمد می نمائندہ نے اپنی تقریر شروع کی.انہوں نے یہ امر واضح کیا کہ مسیح کا وجود ہمارے لیے کوئی غیر محور نہیں.بلکہ مسیح پر ایمان لانا اور اس کا ویسے ہی احترام کرنا جسے ہم دوسرے انبیاء کا احترام کرتے ہیں ہمارے عقاید اور ایمانیات کا جزو ہے.اور ہم اسے قرآنی تعلیم کی رو سے اعلی روحانی صفات سے متصف قرار دیتے ہیں اس کے بن باپ ولادت کے قائل ہیں.اور آپ کی والدہ کو نہایت پاکباز اور اعلیٰ روحانی صفات سے متصف یقین کرتے ہیں.مگر ان کی الوہیت کے بارے میں ہم آپ کی ہمنوائی کرنے سے قاصر ہیں.کیونکہ یہ چیز نہ عقل سے ثابت ہے نہ نقل سے اس طرح ہم مسیح کی صلیبی موت کے بھی قائل نہیں.جو بائبل کی رو سے اس کے لعنتی اور اس
٣٧٩ کے جھوٹا ہونے کی دلیل بن جاتی ہے.بہر حال انہوں نے اپنے نظریہ کو اس درجہ معقولیت نرمی اور محبت کے جذبہ کے ساتھ پیش کیا کہ حاضرین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.اس تقریب کے بعد پادری پاسما نے انٹھ کہ پہلے بڑی لمبی چوڑی تمہید باندھی.اور پھر خالص فلسفیانہ انداز میں ادھر اُدھر کے چکر دے کر کسی قدر مہم سے پیرائے میں الوہیت مسیح اور تثلیت کے تو ان میں بائبل کی چند ایک عبارات پیش کی.اور اس طرح اپنا وقت ختم کر دیا.پادری موصوف کی تقریہ سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ الوہیت مسیح کے دعوی کو واضح طور پر پیش کرنے اور اس کا صاف صاف اقرار کرنے میں تامل کر رہے ہیں.کیونکہ اس دعوی کو پیش کر کے اس کے دلائل کے میدان میں پیش آمدہ مشکل سے عہدہ بسا ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا.یا دری صاحب موصوف کی اس تقریہ سے حاضرین کو مایوسی ہوئی.مگر اصل بحث کا میدان آگے آیا.جبکہ احمدیہ وفد کیطرت سے پادری صاحب موصوف پر جرح شروع ہوئی جس میں مولانا ابو بکر الیوب صاحب اور مسٹر عبد اللہ خانصاحب ارنک نے خاص طور پر حصہ لیا.پادری صاحب موصوف نے اپنی تقر یہ ہیں گو بڑی ہو شہاری سے براہ راست سحبت کے موضوع پر بولنے سے گر ینہ کی راہ اختیار کی.اور کوئی دعوی بھی معین طور پر پیش نہ کیا تھا تم احمدی مقررین کی طرف سے ان کی ہر بات کا اور ہر اشارے کا ایسا مدل جواب دیا گیا.کہ ان کا تمام بیان بے حقیقت ہو کہ رہ گیا.نمائندگان کی باہمی بحث اگر چہ بہت دلچسپ معلی مگر اس نے خاصہ دقت سے لیا.حتیٰ کہ پیلک کے لیے سوالات کا موقعہ بہت کم رہ گیا.تاہم انہیں محرم رکھنا بھی مناسب نہ سمجھا گیا.اس لیے کوئی نصف گھنٹ کے قریب وقت دیا جا سکا.اس مباحثہ کے موقع پر بھاری اکثریت عیسائیوں کی تھی جن میں صرف چند گنتی کے احمدی تھے.مگر خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ سارا وقت احمدی ہی مباحثہ پر چھائے رہے.رہے.عیسائی نمائندے کی ہے لہسن کا یہ عالم تھا کہ اس نے صاف کہ دیا کہ مذہبی عقائد میں عقل کا دخل نہیں.اس پر احمدی و مد نے ان پر زبر دست تنقید کی اور یہ کہ کر انہیں بالکل خاموش کرا دیا کہ اگر آپ لوگ دلائل سے کسی حقیقت کو ثابت کرنے کے قائل نہیں تو تبادلہ خیالات اور مشنریوں اور پادریوں کو باہر بھجوانے کے کیا معنے.آپ لوگ اپنے عقائد کو لے کر اپنے گھروں میں کیوں نہیں بیٹھ جاتے.یہ ایسی معقول بات تھی کہ کیتھولک نمائندہ کو مباحثہ کے آخر میں یہ اعتراف کرنا پڑا.کہ دراصل الوہیت اور تثلیث
۳۸۰ جیسے باریک مسائل واضح کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں.آپ ہمیں معد در سمجھیں یہ اعتراف عیسائت کی کھلی شکست اور اسلام کی واضح کامیابی کا منہ بولنا ثبوت تھا.یہ کامیاب مباحثہ سعوا گیارہ بجے شب بخیر و خوبی ختم ہواس ۴- ایک جلسہ میں ایک عیسائی فاضل ڈاکٹر بری جنگ نے صرف چار انا جیل کیوں ہا کے موضوع پر تقریر کی جس میں اناجیل کو دلائل کی رو سے غیر مستند قرار دیا گیا.ان دلائل کو سنکر مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک پادری صاحب نے سوالات کے ذریعہ تقریرہ کے اثر کو زائل کرنے کی ناکام کوشش کی پھر کہا کہ وہ ایک بڑے پادری کو احمدیہ مشن ہاؤس میں تقریر کرنے کے لیے آمادہ کرے گا.جماعت نے اس پیشکش کو خوشی سے قبول کیا مگر کوئی پادری صاحب سامنے آنے کی جرات نہ کر سکے.ه - حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب حج عالمی عدالت انصاف ان دنوں ہیگ میں ہی قیام فرماتے ہالینڈ مشن کو دینی سرگرمیوں میں آپ کا خصوصی اور مشفقانہ تعاون حاصل رہا.مثلاً ملک کے بلند پایہ مجلہ انٹر نیشنل سپیکر کی درخواست پر آپ نے " اسلام اور بین الا قوامی تعلقات" کے موضوع پر ایک فاضلانہ مضمون سپر دو قلم فرمایا جسے ادارہ نے الگ پمفلٹ کی صورت میں بھی شائع کیا.اگست ۱۹۵۶ء کو جرمنی، فرانس، انگلینڈ، امریکہ ، ایران ، ڈنمارک، ترکی ، پولینڈ اور ہالینڈ کے متعدد طلبا ر مشن ہاؤس میں آئے.آپ نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کا تعارف کرایا.اتحاد اور امن کے بارہ میں اسلامی نقطہ نگاہ واضح فرمایا اور ان کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دینے کا ہے مبلغ سپین مولوی کریم اپنی صاحب ظفر کی تبلیغی مساعی سے اس سال دس ہسپانوی افراد سین مشن نے قبول احمدیت کی توفیق پائی.عوام میں اسلام کے متعلق ایسی بچی پیدا ہوگئی کہ روزانہ چار بجے شام کے بعد نہیں چالیس افراد طاقات کے لیے پہنچ جاتے تھے.آپ ان سے خطاب فرماتے سپین کے نو مسلم احمدی بھائی ان کے سوالات کا ره به وزنامه الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۵۶ء ص ۴/۳ از سه روز نامه الفضل در دسمبر ۹۵۶ اوست درپورٹ حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ ہالینڈ نو سے الفصل 19 دسمبر ١٩٥٦ء.
۳۱ جواب دیتے اور یہ سلسلہ گفتگو رات گیارہ بجے تک جاری رہتا.مشن کے ذریعہ اس سال ڈور میٹکی رہی پینگ، امریکہ ، اگوائ اور فلپائن کے سفرا در غرناطہ کالج کے یعنی طباع اور خواتین تک بھی پیغام حق پہنچا ہے اس سال ڈیڈائٹ میں ایک نیا مشن کھولاگی، درسیع پیمانے پر لڑ یچر کی اشاعت کی گئی اور امریکہ مشن ازمائیں افراد حق گویا احمدیت موئے علاوہ ازیں اناری یا امریکی پوری علی احمد صاحب ناظر نے فروری ۱۹۵۶ ء میں ملک کا ایک کامیاب تبلیغی دورہ کیا جو دو ہزار میل پر مشتمل تھا.در دوران سفر آپ کو کئی ایک اہم اداروں میں تقاریہ کرنے اور ریڈیو اور پریس کے نمائندوں کو انٹرویو دینے کے مواقع میسر آئے.اس سفر کی ابتداء ہیو نورڈ ہنسو لونیا سے ہوئی.جہاں آپ نے ایک عیسائی فرقہ کے مرکز می کالج میں اسلام کی روحانی قوت اور قیام امن " کے موضوع پر تقریہ فرمائی.اس کے بعد گھنٹہ بھر سوالات کے جوابات دیئے.ایک اور کالج میں ۱۲ سو طلباء کے سامنے آپ نے امن عالم میں اسلامی تعلیم کی اہمیت کے موضوع پر دوبار خطاب کیا.ایک تقریر ALBION RADIO سے نشر کی گئی جس کی وجہ سے کالج کے علاوہ مقامی ہائی سکول بلکہ جونیر سکوں کی طرف سے بھی طلبہ میں الگ لیکچرز دینے کی تاکیدی دعوت موصول ہوئی.اگر چہ آپ کو کالج میں روزانہ چھ چھ سات سات تقاریہ کرنا پڑیں آپ نے ان کی خواہش کی بھی تعمیل کی.اور ان طلبہ کے سوالوں کے ایسے موثر رنگ میں جواب دیئے کہ کئی طلبہ نے اس اسلامی نقطہ نگاہ کے ساتھ پر زور اتفاق کیا.تین دنوں میں آپ کی پندرہ تقاریر ہوئیں جن میں سے بعض کے عناوین یہ تھے :.ا اسلام میں اسرائیل انبیاء کا مقام (۲) قرآن کا بحیثیت روحانی صحیفہ بائیں سے مقابلہ.قرآن کا اسلوب بیان (ہم) اسلامی فتوحات کی تاریخ اور ان کا پس منظر.کے (۵) اشاعت دین اور متعلیم اسلام (ہ) اسلام میں شادی اور طلاق کے مسائل.مسلمانوں کی اہلی زندگی پر تعلیم اسلام کا اللہ (۸) امریکہ میں اسلام - (۹) جماعت احمدیہ مخصوص عقائد اور کارنامے (۱۰) را تعہ صلیب قرآن اور بائبل ، العز من به تبلیغی دورہ ہر اعتبار سے له الفضل در جولائی دا را پریل ۱۹۵۶ ءر
۳۸۲ کامیاب رہا.اس طویل سفر کے علاوہ آپ واشنگٹن سے میں چالیس میل دور ہر ماہ تبلیغی دورہ پر تشریف لے جاتے رہے.اور پندرہ افراد نے احمدیت قبول کی آپ نے کلیولینڈ کی ایک تقریب شادی میں دوسو افراد کو پیغام حق پہنچا یا.اخبارات نے اس تقریب کی خبر شائع کی.چوہدری صاحب نے نیویارک اور میں برگ کا بھی دورہ کیا.پٹس برگ میں بجٹ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں آپ کے علاوہ مولوی نورالحق صاحب انور اور مقامی ممبران بھی شامل ہوئے.آپ تین دفعہ نیو یارک تشریف لے گئے.آپ نے ہارورڈ یونیورسٹی سر ITY HARWARD UNIVERSITY) کے پروفیسروں سے ملاقات کی اور دینی لٹریچر پیش کیا.آپ کے ساتھ سید جواد عسلی صاحب سیکریڑی امریکہ مشن بھی تھے.افریقہ ہاؤس کے تحت ایک دلچسپ مناظرہ ہوا.جس میں آپ اور لیشیر الدین اسامہ صاحب شامل ہوئے.امسال داشنگٹن کے مرکز سے.ہم ہزار کی تعداد میں چار نئے پمفلٹ شائع کیے گئے جس پر بیسیوں خطوط مشن کو مزید معلومات دینے کے لیے موصول ہوئے.ایک پمفلٹ HOW JESUS" پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا.مشن کی طرف سے سید جواد علی صاحب نے جاپان ، انڈونیشیا، فلپائن ، سنگاپور، مشرق وسطی ممالک عربیہ اور افریقہ کو لٹریچر ارسال کیا.آپ نے ڈیٹرائٹ ، کلیولینڈ ، ٹیکس ٹاؤن ، پیٹس برگ اور ڈیٹن کا CRUCIFIXION کا دورہ بھی گیا.SURVIVED سہ امریکہ کی مشہور یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کے لیے کیمبرج ، میسا چوسٹس میں ۱۶۳۶ د میں کان کی حیثیت سے قائم کیا گیا.بعد ازاں اس کے لیے جان ھارورڈ JOHN) (HARVARD نے عطیہ کے طور پر کتابیں اور کچھ رقم بھی دی.۸۲ ۱۷ ء میں اس میں ایک طبی مدرسہ بھی شامل تھا.بیسیوں صدی عیسوی میں اس کا شمار امریکہ کی مشہور یو نیورسٹی میں ہونے لگا.دارد و جامع انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ نام ورڈ یونیوسٹی مدیر علی مولانا مدعلی خان ناشر شیخ نیازاحمد را پودر سطو به دادم i ! I |
۳۸۳ مولوی نورالحق صاحب انور نے فلاڈلفیا اور باکسٹی کے تبلیغی سفر کئے عبدالشکور صاحب کنز سے ملوا کی سینٹ لائیں اور انڈیا نہ ملی تشریف لے گئے.جہاں آپ نے چار سو کے قریب غیرمسلم معززین کو آخر کے متعلق اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا نیز انگلش اسپیکینگ یونین کے صدر اور فرینچ قونسلیٹ کے افسرا علی سے انفرادی ملاقاتیں کر کے پیغام حق پہنچایا.اس سال جماعت احمدیہ امریکہ کی نویں سالانہ کانفرنس یکم ستمبر ۱۹۵۶ء کو منعقد ہوئی جس میں دو سو مندوبین نے شرکت کی اور خلافت سے وابستگی اور اس کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کا عہد کیا.کانفرنس میں جماعت کی توسیع وترتی مالی وتعلیمی معاملات کے متعلق پروگرام کی تدوین کے لیے متعدد سب کمیٹیوں کی تشکیل کی گئی.لجنہ ، قدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کے اجلاس بھی ہوئے.عام اجلاس میں نہایت ایمان افروز تقاریہ ہوائیں.مقامی اخبارات نے کانفرنس کی کارروائی شائع کی لہ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ کی زیر نگرانی مبلغین مشرقی افریقہ مشن احمدیت فریضہ تبلیغ کی بجا آوری میں دن رات مصررت رہے.3: (1) مولوی محمد منور صاحب نے نیرو نی ریڈیو اسٹیشن سے رمضان ، عید الفطر اخلاق حسنہ اور عید الاضحیہ کے موضوع پر تقریریں کی جو مسلم اور غیر مسلم دونوں حلقوں میں پسند کی گئیں مشتق کے شائع کردہ موامیلی ترجمہ قرآن کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا.چنا نچہ کینیا کے ایک تاجر نے لکھا : جب سے میں نے ترجمۃ القرآن سواحیلی خریدا ہے اسے دن رات پڑھتا رہتا ہوں اور مجھے ہرگز تھکان محسوس نہیں ہوتی.اس قرآن مجید کے ذریعہ میں اسلام اور قرآن کی خوبیوں کو اچھی طرح سمجھنے لگا ہوں.جو شخص اس کا مطالعہ نہیں کرتا وہ اسلام کی بہت سی خوبیوں سے ناواقف رہتا ہے.ناسالینڈ کے ایک شیشیخ نے یہ تبصرہ کیا کہ :- اس صدی میں مسلمانوں کی ایک بیدار کرنے والی جماعت میدان میں آئی ہے جس نے قرآن مجید کی تعلیم اور اسلام کی خوبیاں پھیلانے کا بیڑا اٹھایا ہے انہوں نے جو قرآن مجید شائع کیا ہے اسے له الفضل ٢٩ / مارچ ۲۰ ستمبر ستمبر ، ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۶مه والفضل
۳۸۴ 1 ! پڑھنے سے انسان کی جہالتیں دور ہو جاتی ہیں....عیسائی ان کے حملوں سے خوفزدہ ہیں اوران ا کے دھوکے اور غریب بھوسے کی طرح اُڑتے ہوئے نظر آتے ہیں.مسلمانان مشرقی افریقہ تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے تھے جس کا اصل موجب شیوخ تھے ہو مسلمان بچوں کو سکول میں پڑھنے سے روکتے تھے کیونکہ ان کے قریب ایسا کہ نا ایمان کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف تھا اس کے بر عکس احمدیہ مشن بڑی جواں مردی اور استقلال سے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کا بیڑا اٹھائے ہوئے تھا چنانچہ اس سال جماعت احمدیہ کی کانفرنس میں خاص طور پر ایک قرار داد پاس کی گئی میں میں نا مانیکا کی حکومت کو پر زور الفاظ میں توجہ دلائی گئی کہ وہ مسلمانوں کی تعلیم کا انتظام کرے به خبر انگریزی اور سواحیلی اخبارات میں چھپی اس کے بعد حکومت کا جواب بھی چھپا کہ وہ مسلمانوں کی امداد کے لیے تیار ہے اس سے مسلمانوں میں قدرے بیداری پیدا ہوئی.کینیا اور یوگنڈا کی حکومتوں پر بھی اس کا اچھا اثر ہوا اور انہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی حالت بہتر بنانے کی سیکیمیں بنائیں.جون ۱۹۵۶ء میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور مولوی محمد منور صاحب کسوموں کے علاقہ میں تشریف لے گئے اور احمدی احباب کے مشورہ سے احمدی بچوں کے لیے ایک سکول جاری کرنے کا فیصلہ کیا.مولوی محمد منور صاحب نے اخبار احمدیہ کے ۴ صفحات سائیکلو سٹائل کر کے جماعتوں میں بھجوائے آپ نے خدام الاحمدیہ نیر دنیا کے زیر انتظام تبلیغی کلاس جاری کر کے نو جوانوں کو مسائل سے آگاہ کیا.نیز ترجمہ القرآن اور دوسرے بڑیچر کے ۵۸۰ پیکٹ بھجوائے.ایسے سینیا میں ایک احمدی سے ظالمانہ سلوک کیا گیا.اس کے بارہ میں آپ نے انگریزی پریس کو خطوط لکھے.ٹانگا نی کا پریس نے اس خبر کو نمایاں شائع کیا جس سے جماعت کا چرچا ہوا لے مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل نے دوران سال ۲۰۰۱ میل تبلیغی سفر کیا.۲۰ دورے کیے.تین ہزار افراد کو زبانی تبلیغ کی.چار ہزار سے زائد اشتہارات تقسیم کیسے اور ۱۵۷ افراد بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے.اس سال آپ کے حلقہ میں مخلص احمدیوں نے مالی جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور راه الفضل ۲۱ و ۲۱ مارچ ۱۹۵۷ء والفضل ۲۳ جون ۱۹۵۷ء
۳۸۵ پچھلے سال سے دگنا چندہ ادا کیا سے - مولوی نور الدین صاحب میر نے بھی افریقن مسلمانوں کی علمی ترقی و یہود کے لیے گرانقدر صدمات انجام دیں.چنانچہ انہوں نے حکومت کو توجہ دلائی کہ وہ افریقن مسلمانوں کی تعلیم کے لیے مناسب کار بدائی کرے اسی طرح آپ نے افریقین مسلمانوں کو منظم ہونے اور بچوں کو تعلیم دلانے کی طرف توجہ دلائی نیز پر انشل ایجوکیشن افسر مباسہ کو افریقن مسلمانوں کے تعلیمی حالات پرمشتمل عرضداشت پیش کی گئی جسکے بجواب میں انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت عنقریب ڈسٹرکٹ ایجو کیشن سکول جاری کرے گی.اس سلسلہ میں ممباسہ ٹائمز اور بعض دوسرے اخبارات میں آپ کے بیانات بھی شائع ہوئے.دوران سال آپ نے مولانا مبارک احمد صاحب اور مولوی محمد منور صاحب کے ساتھ بعض علاقوں کا تبلیغی دورہ بھی کیا.افریقین مسلم سوسائٹی ، یک حق کی آمرانہ پہنچائی ہے ا.مقامی معلمین میں سے احمد سالسنہ صاحب اور ری یا صالح صاحب سرگرم عمل رہے.۲ - ٹانگا نیکا | - احمدی چیف عمر کو فیا صاحب کو ان کے رشتہ داروں نے رات کو رسیوں سے باندھا.ان کا سامان نقدی اور بندوق پولیس کے حوالہ کیا.انہیں پاگل ثابت کر کے چین کے عہدے سے الگ کرنا چاہا لیکن خدا کی نصرت سے بد اندیش اپنے ارادوں میں ناکام رہے سیتے - جماعت احمد یہ بٹورا کا جلسہ سالانہ ۱۲۶ دسمبر ۱۹۵۶ ء کو منعقد ہوا باوجود شدید بارش کے بعض دوست گیارہ میل پیدل سفر کر کے جلسہ میں شامل ہوئے.اس اجتماع کی رپورٹ انگریزی روزنامہ در مانگانی کا سٹنڈرڈ میں شائع ہوئی.جلسہ کے بعد کئی روز تک شہر تبلیغ احمدیت کا خصوصی مرکز بنارہا کیونکہ ہر دن احمدی چند دن کے لیے ٹھہر گئے تھے اور انہوں نے پر خوش رنگ میں حق وصداقت کا پیغام پہنچایا ہے ه الفضل ۱۶ مئی ۱۹۵۷ء ص : ٣ الفضل ۲۱ جون ۱۹۵۷ء مریم 14 ه الفضل ۲۷ جون بوه وار د ۴ درپورٹ چوہدری عنایت اللہ صاحب) سے الفصلی دار نومبر ۱۹۵۷ء "
1- کمپالہ کے ذیلی مرکز نے یکم اپریل ۱۹۵۶ء سے فروری ۱۹۵۷ تک جو تبلیغی خدمات سرانجام دیں ان کی تفصیل مولوی محمد ابراہیم صاحب مبلغ کمپالہ کے الفاظ میں یوگنڈا درج ذیل کی جاتی ہے.اس سال تبلیغ کا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بہت زیادہ وسیع ہو گیا.اور اہل یوگنڈا جہاں ہماری تبلیغ سے متاثر ہوئے وہاں مخالفین بھی پہلے سے زیادہ مخالفت پر اُتر آئے.لیکن خدا تعالیٰ نے یوگنڈا کے احمدیوں کو استقامت اور جرات سے مقابلہ کرنے کی توفیق دی.اس سال لو گنڈی زبان میں احمد یہ مشن کی طرف سے قرآن کریم کے ایک پارہ کا ترجمہ شائع کیا گیا.عام مسلمانوں نے اسے پسند کیا اور جماعت اور مشن کے کام کی تعریف کی.البتہ شیوخ نے اپنے فتروں سے مخالفت کی چنگاری اور زیادہ لگانے کی کوشش کی.لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں اس غلط پر دپیگینڈے کو دور کرنے اور تردید کرنے کی خوب توفیق دی اور ہماری تبلیغ پہلے سے بہت وسیع ہوئی.دوران سال متعدد اشتہارات شائع ہوئے جن میں شیخ شعیب کے متعدد اشتہارات کا جواب دیا گیا.وہ اشتہارات چار چار صفحے کے الگ چھپوائے گئے جن کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی میں سے شیخ شعیب عاجز آگیا اور مسلہ کا چیلنج دیا.بغیر مشرائط طے کرنے کے اس نے ۱۸/۱۲/۱۵۹ تاریخ مقرر کر دی اور اس کا خوب چہ چا گیا.مقامی جماعت کے نمائندوں نے اسے مناظرہ کے لیے بلایا 3 اور شرائط طے کرنے کی طرف توجہ دلائی.اس نے شرائط طے نہ کیں.اور ایک اجتماع کا جماعت کے خلات اعلان کر دیا.ہم نے بھی بذریعہ ریڈیو ا علان کر دا دیا کہ شیخ پونکہ شرائط طے نہیں کرتا.اس لیے کوئی احمدی ان کے اجتماع میں شریک نہ ہو اچانک شیخ علی کو سہا کا لڑکا ہو کہ جوان تھا ہلاک ہوگیا.جس سے انہیں مباہلہ کرنے کی جرات نہ ہوئی اور ان پر ایک رعب طاری ہوگیا.اور اسنوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مرزائیوں نے جادو کر دیا ہے.۲.انہیں دنوں ایک احمدی کو ہو بہت علم ہمیں پیٹا گیا اس نے جیسا کہ اسے ہدایت تھی آرام سے اس تکلیف کو برداشت کیا جس کا تمام مسلمانوں پر اچھا اثر پڑا.۳.ایک احمدی دوست کی بیوی کمر اس کا باپ اس وجہ سے اس کے گھر سے لے گیا کہ شیوخ نے
PAL فتویٰ دے دیا کہ جو افریقی احمدی ہو گیا اس کی عورت کا نکاح باطل ہو گیا ہے اسے صبر کی تلقین کی گئی ایک ماه بعد وہ خود ہی اس کے گھر پر چھوڑ گئے.اور معافی مانگی کہ یہ ہماری غلطی تھی آپ اپنے بیچے کو سنبھا لئے.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے تیرہ کے قریب ہمارے معلمین ہیں جو رات دن تبلیغ میں مشغول رہتے ہیں اور تمام کے تمام آزیر می کام کرتے ہیں یہ قربانی کی ایک عظیم مثال ہے یہ خود چندہ بھی دیتے ہیں اور تکالیف بھی برداشت کرتے ہیں نجز اھم اللہ احسن الجزاء - اس سال یوگنڈا کے اعلی تعلیم یافتہ اور با اثر لوگوں کے درمیان انگریزی سواحیل، اور لوگنڈی پارہ طور تحفہ دیا اور فروخت کیا گیا.جنہیں تحفہ دیا گیا ان کی تعداد ۵۰ سے تجاوز کر تی ہے اس میں گورنر آف یوگنڈا سر انڈریو کوسن COMENT - لیڈی کوین، افریقن بادشاہ آن کو نگر.افریقی بادشاہ آن یوگنڈا پرنس بدرد ، پرنس معاندا ، مسٹر قاسم.مالے ہیلتھ منسٹر ، مسٹر KAVANA فانیس منسٹر آن کہا کا.گورنمنٹ پرائم منسٹر آف BUNJORO........اور یوگنڈا کے شیوخ کو بھی یوگنڈی پارہ بطور تحفہ دیا گیا جس کا بہت اچھا اثر ہوا.افریقین بادشاہ آت کو نگو کا اختبارات اور ریڈیو نے بہت عمدہ پیرا یہ میں ذکر کیا اور فوٹو بھی شائع کیے گورنر آن یوگنڈا اور لیڈی کو ہن کا بھی اختبارات میں ذکر ہوا سب نے نہایت خوشی اور شکریہ کے ساتھ ان مخالفت کو قبول کیا.لوگنڈی پاره اور انگریزی قرآن کی فروخت میں جماعت کمپالہ کے قریبا تمام احباب نے محنت اور شوق سے حصہ لیا.فجزاهم الله - یوگنڈا کے انگریزی اخبار ارگی اور لوگنڈی کے متعدد اخبارات میں ذکرہ آتا رہا اور احمدیت کے متعلق کئی آرٹیکل شائع ہوئے لو گنڈا ریڈیو پر بھی احمدیت کا ذکر کئی مرتبہ آیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سالوں کی کی طرح اس سال بھی جماعت احمدیہ یوگنڈا کا سالانہ جلسہ ہوا جو SET A میں منعقد کیا گیا.اس میں معالہ، جنجہ ، کمپالہ - SETA کسانخہ BU30 مکو تو اور دیگر جگہوں سے احمدیوں کے علاوہ غیر احمدی اور عیسائی بھی شامل ہوئے.مکر پرے کا لج کے ایک طالب لم نے تو کہ غیر مسلم ہیں ، اسلامی فضائل پرلیکچر دیا.حاجی ابراہیم صاحب ڈاکٹر احمد صاحب غلام احمد صاحب حفیظ نے تقاریر کیہی سوالات کا موقعہ دیا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ جلسہ بہت کامیاب ہوا جلسہ میں کھانے کا انتظام جماعت SETO اور کمپالہ نے کیا.جو بہت عمدہ تھا.
۳۸۸ کبر برے کالی مسلم و بیشتر سکول مردوئی مسلم سکول، پکولو مسلم اسکول BNGHHE-NABAGEREHA مسلم اسکول سینٹر سکول اور دیگر متعد د سکولوں میں لیکچررز نے اساتذہ اور طلباء کو تبلیغ کی اور لٹریچر تقسیم کیا.سنڈل میں اور کہا کا کی جیل میں متعد د رتبہ گیا لیکچر دیئے.تبلیغ کی اور لٹریچر دیا.محترم بھائی فضل اپنی صاحب بھی خاکسار کے ساہمن جیلوں میں جاتے رہے COMBI میں اسلام کے فضائل پر لیکچر دیا جس میں تمام اقوام کے لوگ شامل تھے بینڈی میں جلسہ میلاد النبی کے موقعہ پر ایک ہی دن میں دو دفعہ لیکچر دیا.وہاں کی جماعت کے امام نے ہر طرح سے تعاون کیا اور خود بھی افریقن میں لٹریچر تقسیم کیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے یوگنڈا میں با وجود و ذرائع کی کمی کے ہماری تبلیغ بہت وسیع ہوگئی ہے سکولوں کا مطالبہ کیا جارہا ہے.افریقن کا اعلیٰ اور تعلیم یافتہ طبقہ احمدیت کی طرف مائل ہے.جماعت کی ہر طرح سے امداد کرتا ہے.معلم ذکر یا صاحب معلم موسیٰ صاحب متعدد مرتبہ میرے ساتھ افریقن ریزرو میں دورہ پر جاتے رہے ڈاکٹر احمد صاحب ، بھائی فضل الہی صاحب، ڈاکٹر احمد دین صاحب بھی افریقی ریز رد میں تبلیغ کرنے کے لیے گئے جس نے بہت اچھا اثر ہوا.علاقہ MUTANHURA اور مساکہ اور YOGUR کا متعدد مرتبہ خاکسار نے دورہ کیا.خلاصہ ۱۲۰۰ شہر دن اور دبیات کا دورہ گیا...امیل کے قریب سفر کیا.۱۶ پبلک ٹیچر دیئے جن کی مجموعی حاضری ۳۰۰۰ کے قریب تھی ۴۰۰ کے قریب معززین سے ملاقات کر کے تبلیغ کی.۵۰۰ افراد کو انفرادی تبلیغ کی.یکصد کے قریب خطوط لکھے.۱۲ مضامین لکھے.جو لوگنڈی اخبارات میں شائع ہوئے.۲۰۰۰ پمفلٹ انگریزی.سواحیلی اور لو گنڈی میں تقسیم کئے ۱۴ افراد بیعت کر کے داخل سلسلہ ہوئے.جن میں سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور با اثر و رسوخ لوگ ہیں.جماعتی کاموں میں نہایت جانفشانی سے حصہ لیتے ہیں.یوگنڈا کے دوست ڈاکٹر احمد صاحب بھائی فضل اپنی صاحب، معلم موسی ذکریا ، شعبان کر دنڈے، شیخ زید جنجہ بھٹو کو کیا کا ممنون ہوں.بوت تبلیغی اور نہ ہی کاموں میں کوشاں رہے، یہ له روزنامه الفضل داده و رمئی ۵ را مورد
۳۸۹ ".یوگنڈا کے ذیلی مرکز نجہ کے انچارج مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب تھے.آپ نے ساڑھے چار ہزار میل سے زیادہ تبلیغی سفر کیے.ایک ہزار سے زائد افراد سے براہِ راست رابطہ قائم کر کے پیغام حق پہنچایا.۱۴۰۰ سے زیادہ افراد کو انگریزی، اردو ، گجراتی ، سواحیلی ، اور یوگنڈی جو فرمان میں لڑیچر دیا.نکی سانحہ دینیہ) کے مقام پر بیت الذکر تعمیر ہوئی ہے ۱۹۵۱ نائجیریامنا استان مسلمانوں کی ایک مذہبی تنظیم در اسلامک کانگریس ، سر میں حج کے موقع پر پاکستان، سعودی عرب اور مصر کے حکومتی نمائندگان کے ذریعہ وجود میں آئی.اس تنظیم کا ایک وند اس سال نائجیریا کے دورہ پر آیا جس سے مولا تانسیم سلیفی صاحب ریمیں التبلیغ مغربی افریقہ نے بھی خطاب کیا جماعت الصحہبہ نائیجیریا کی طرف سے دفد کو قرآن مجید انگریزی کا نسخہ بطور ہدیہ پیش کیا گیا.الجبرا کے شر شر انتی MATTHEW مقیم لنڈن نے ایک نظریہ میں حضرت رسول اکرم صلی الہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ لہجہ اختیار کیا تھا.اس پر مکرم مولانا سیم سیتی صاحب نے گورنر جنرل کے نام ایک خط میں احتجاج کرتے ہوئے لکھا مسٹر ما تھیو کو اجازت ہے کہ جو مذہب وہ چاہیں اختیار کریں لیکن یہ یقینی امر ہے کہ انہیں کبھی یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے مذہبی لیڈر کی شان میں اس قدرہ جنگ آمیز الفاظ استعمال کریں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس صورت حالات کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے جلد از جلد اس بارہ میں کوئی کارروائی کریں گے.اس خط کو نائجیریا کے اخبارات نے ملی سرخیوں سے شائع کیا.اور اس پر زور دار تبصرے لکھے.چنانچہ اخبار ایوننگ ٹائمز (EVENING TIMES) نے اپنی ۲۸ مارچ ۵۶ کی اشاعت میں لکھا : - Mbu's Talk on Mohammed's 'fanaticism' is not welcome Mr.Matthew Mbu, Commissioner for Nigeria in the United Kingdom, has been accused of violating his office.ه الفضل ۱۷ مئی ۱۹۵۷ ف ص ۳
٣٩٠ This accusation was made in a letter addressed to the Governor-General of the Federation, Sir James Robertson, by the Chief Ahmadiyya missionary for West Africa, Maulvi Naseem Saifi.Maulvi Saifi claimed in his letter that in a statement alleged to have been made in London by Mr.Mbu, he spoke of 'fanaticism' of Mohammed.This reference to fanaticism, he said, has injured to the feelings of a vast majority of the Moslem population of Nigeria.He also said in his letter that Moslems have always given due respect to freedom of speech and worship and added that Mr.Mbu should not be allowed to 'go to the length of using derisive and abusive language against the greatest of the religious leaders.' The letter adds: 'Mr.Mbu is To indulge in wishful thinking about his religion' (Mr.Mbu had closed his speech under reference with these words: 'In the next fifty years Africa will become a Christian Continent') (Evening Times- March 28, 1956) ترتبہ : مسٹر ناوپر یہ الزام عا م کیا گیا ہے کہ اس نے اپنے فرائض سے بطور کمشنر متعین دولت مشترکہ روگردانی کی ہے.یہ الزام مولوی نسیم سیتی صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے گورنر جزل فیڈریشن کے نام اپنے ایک خط میں لگایا ہے.مولوی نسیم سلیقی صاحب نے اپنے خط میں لنڈن میں ماہو کی ایک تقریر کا حوالہ دیا ہے جس میں ماہو نے مقدس نبی حضرت محمدؐ کی طرف ہٹ دھرمی کا حامل ہونا منسوب کیا ہے جس سے مسلمانان نائجیریا کے دل سخت مجروح ہوئے ہیں انہوں نے لکھا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ دوسرے مذا ہب کی آزادی تقریہ دعبادت کا احترام کیا ہے لیکن وہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ مابو ہمارے عظیم مقدس را ہنما ؤں کے EVENING TIMES MARCH 28, 1956 سے روز نامه الفضل اور نومبر ١٩٥٧ء
کے بارے میں گندہ دہنی اور دشنام طرازی سے کام ہے.انہوں نے مزید لکھا کہ مسٹر مالو اپنے مذہب کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہیں رمسٹر ماہو نے کہا تھا کہ آئندہ پچاس برس میں سارا افریقہ عیسائی مملکت بن جائے گا.اسی طرح اخبار ڈیلی مردوس (DAILY SERVICE) میں ۳ در اپریل ۵۶ٹر کے پرچہ میں یہ نوٹ شائع ہوا.Another Trouble for Mbu Mr.Matthew Mbu, the Federal Commissioner in the United Kingdom is in trouble again.Already, he or the Federal Government has yet to justifiy his further stay in the united Kingdom as Commissioner, since his enrolment as a law student.The Chief Secretary to the Federation has promised the House of Representatives that government would investigate the allegation of a commissioner becoming a Law student.Maybe, before the next session of the house, the Government would able to 'confirm' what the commissioner himself had publicly admitted to a Lagos newspaper's representative in London! Then, of course, the world would know what appropriate measures the government would have to take.Although the latest trouble, however, developed from an entirely different angle.Yet, it all ends to show that Mr.Mbu is not devoting full time to the job for which he is so well paid.Apart from being a law student, Mr.Mbu is now very much engaged as a religious worker, a.propagandist for Christian Catholicism.It would appear that it is in that latter role that Mr.Mbu, unguardedly of course, knocked his small head against Nigerian Muslims.He was alleged to have made a disparging refference to the Holy Prophet of Muslims in the course of a lecture he gave in London on the Catholic faith and the spread of Christianity in Nigeria.
۳۹۲ Recall Demanded The first to take the Against Mr.Mbu's indiscretion was Maulvi Saifi, the Nigeria's head of the Ahmadiyya Anjuman community who sent a strong petition to Sir James Robertson, the Governor-General.But the United Muslim Party has been rather blunt in its reactions.Adapting the same form of protest, the two vocal leaders of the party in a six- paged petition forwarded to the Governor General as will, asked for the recall of Mr.Mbu back to Nigeria.The appointment of Mr.Mbu as the Federal Commissioner was the act of the NCNC Parliamentary Party in spite of reasoned opposition from many responsible political quarters who believe that gentleman could not make that special grade.The Muslim United Party which, is in some unholy alliance with the NCNC would not care to see the NCNC Parliamentary leader about Mbu's assault on their Prophet.They protested straight to the Governor- General.Apparently, they have no confidence in the leadership and are prepared to break away if need be.The private activities of Mr.Mbu in London points to one fact.He knows little about his responsibility as Commissioner and in consequence, has too much time on his hand to pursue his private interest as best he could.(Daily Service 13 April 1956)
۳۹۳ سٹر ما تھیو مابو ( MATTHEW MBU) فیڈرل کمشنر متعین دولت مشترکہ دوبارہ مشکل میں پھنس گئے ہیں.ابھی ان کا بطور کشتر دولت مشترکہ میں مقیم رہنے کا ہواز تصفیہ طلب ہے کیونکہ قانون کے طالب علم کی حیثیت سے داخلہ لے لیا ہے فیڈرل حکومت کے چیف سیکرٹری نے نمائندگان ہاؤس کو یقین دلایا ہے کہ حکومت یہ تحقیقات کرے گی کہ آیا ایک کمشنر مطور لا سٹوڈنٹ داخلہ لینے کا مجاز ہے یا نہیں.ممکن ہے کہ حکومت اپنے آئندہ کے اجلاس میں اس بیان کی تصدیق کر دے جو کہ کمشنر ماہونے لنڈن میں لیگوس کے نمائندہ کو دیا ہے.اس وقت تمام دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حکومت اس بارے میں کیا قدم اٹھا ر ہی ہے.اگر چہ موجودہ گڑ بڑ کا نشا نسا نہ کسی دوسری وجہ سے بنا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ ما بو MBO کو جس کام کی تنخواہ دی جارہی ہے وہ اس کا حق ادا نہیں کر رہے.لا سٹوڈنٹ ہونے کے علاوہ مسٹر MB بطور کیتھولک مبلغ کے عیسائیت کا پر چار بھی کر رہے ہیں.یہ ظاہر ہے کہ MBV نے اپنی تنگ نظری سے نائیجیرین مسلمانوں کے خلاف غیر محتاط رویہ اختیار کر رکھا ہے.ان پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ لندن میں نائیجیریا میں عیسائیت کے موضوع پر لیکچر دیتے دقت انہوں نے مسلمانوں کے مقدس نبی کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے.سب سے پہلا قدم اس بیان کے خلاف نائیجیریا کے احمد یہ جماعت کے چیف مشتری مولوی سیتی صاحب نے اٹھایا ہے.انہوں نے ایک پر زور احتجاجی مراسلہ گورنر جنرل کو بھیجا ہے لیکن دیگر مسلمانوں کی یونائیٹیڈ مسلم پارٹی نے اس بارے میں مکمل سکوت اختیار کر رکھا ہے.جماعت احمدیہ کی تقلید میں دو لوکل لیڈروں نے بھی اس لائن پر گورنر جنرل سے درخواست کی ہے کہ MBV کو فوری طور پر واپس بلا لیا جائے.لنڈن میں مابو MB کی ذاتی مصروفیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ بطور کمتر اپنے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں بہت کم علم رکھتے ہیں اس وجہ سے ان کے پاس بہت سا فارغ وقت ہے جس کو دہ ذاتی اغراض کے لیے صرف کرتے ہیں.مابو (MBV) کی تقرری بھی وجہ نزاع بنی تھی سب ہی پارٹیوں کا یہ خیال تھا کہ وہ اس عہد سے کے اہل نہیں لیکن CNC پارلیمنٹری نے اپنی من مانی کی اور اس کی تقرری بطور کمشنر کرا دی مسلم یونائیٹڈ پارٹی جس کا ناپسند بادہ تعلق CNC پارلیمنٹری پارٹی سے ہے اس نے مقدس 16
۳۹۴ نبی کے خلات بابو کے ریمارکس کا کوئی نوٹس نہیں لیا.ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگر چہ انہوں نے گورنہ جنرل سے احتجاج کیا لیکن انہوں نے N CNC کے لیڈر سے کوئی بات نہیں کی (ترجمہ) یونیورسٹی کالج گولڈ کوسٹ کے لیکچرار J.H.PRICE نے دو اسلام مغربی افریقہ میں کے زیر عنوان ایک مضمون لکھا جس میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی فتوحات کا خاص طور پر ذکر کیا.یہ مضمون ڈیلی ٹائمز کر نائیجیریا) نے اپنی ۱۳ بولائی تار کی اشاعت میں بھی دیا انہوں نے لکھا : - مد مالکیوں کے علاوہ مسلمانوں کا ایک اور فرقہ جماعت احمد یہ بھی ہے جو اپنی تبلیغی مساعی کے لحاظ سے مشہور ہے اس کا مرکزہ پاکستان میں ہے جماعت احمدیہ کا نفوذ امریکہ میں میں ہوا.به جماعت تیزی کے ساتھ ترقی کے راستہ پر گامزن ہے.عیسائی اور مشرکین دونوں میں سے لوگ جوق در جوق اس میں داخل ہو رہے ہیں.اس جماعت کی ترقی کی کہ فتار کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ۱۹۳۱ء میں اس کے ممبروں کی تعداد ۱۱۰ ۳ محھتی.جب کہ ۱۹۲۶ء میں یہ تعداد ۲، ۲۲٫۵ تک پہنچ چکی تھی.احمدیہ مشن کی نمایاں کامیابی میں اس کی تعلیمی سرگرمیوں کا بھی دخل ہے جس میں ثانوی تعلیم بھی شامل ہے.اس تعلیمی مساعی کو مغربی افریقہ کے تمام علاقوں میں محسوس کیا جا رہا ہے البتہ گیمبیا میں ان کا اثر نہیں پہنچا.کیونکہ گیمبیا نے احمدی مبلغ کے داخلہ کی درخواست یا ضابطہ سرکاری طور پر یہ کہ کہ ہر د کر دی ہے کہ گیمبیا میں پہلے ہی کانی مذاہب موجود ہیں.جماعت احمد یہ حیرت انگیز طور پر ترقی کر رہی ہے وہ تبلیغ کا جوش رکھتی ہے اس کے پاس اپنے مبروں کی سماجی ترقی کے لیے ٹھوس پر دگرام ہے.یہ جماعت ملکی سیاسیات میں دخل نہیں دیتی.بشرطیکہ مذہبی آزادی ہو.اور اس صورت میں حکومت وقت کی خواہ کسی مذہب وملت سے تعلق رکھتی ہو.حمایت کرتی ہے افراد کے سیاسی عقاید کو اس کی ضمیر پر چھوڑتی ہے سے شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے ملک کے متعدد مقامات کے دورے کیے.ابادان کے سات روزہ قیام کے دوران پلک تقاریر کیں ، بعض سکولوں کا معائنہ کیا اور اخبارات کے ایڈیٹروں سے ملاقات 21 به روزنامه الفضل ربوده ۶ر دسمبر ۱۹۵۶مه صفحه ۴/۳
۳۹۵ کی.اخبارات نے صفحہ اول پر آپ کی شہر میں آمد کی نبر شائع کی.الارو میں آپ نے سکول در مشن ہاؤس کا معائنہ کیا.آپ ایک ماہ کے لیے A TELU اور E PE کی طرف تشریف لے گئے اور پانچ مراکز میں باری باری قیام کیا اور جماعت کی تربیت کے علاوہ ہر جگہ پبلک تبلیغی جلسے کئے اور لٹریچر کی اشاعت کی بسفر الارو میں آپ کے تہراہ مولوی مبارک احمد صاحب ساتی بھی تھے.تبلیغ احمدیت کے رد عمل کے طور پر میبود لج (HABEBU VILLAGEی مخالفت کی آگ بھڑک کھٹی اور حق کے مخالف احمدیوں پر حملہ آور ہو گئے.تمام احمدی ایک جگہ محصور ہو گئے جماعت کی طرف سے علاقہ سے کمشنر اور مقامی حاکم کو تار بھیجے گئے.چنانچہ حکام کی زیر ہدایت پولیس نے علماء سے اقرار کرایا کہ وہ آئندہ حملہ اور قتل کا ارادہ نہ کریں گے.مولوی مبارک احمد صاحب ساتی اور مولوی نصیر الدین صاحب وہاں بھی تشریف لے گئے اور علاقہ کے کمشنر صاحب سے ملاقات کی کمیشنر صاحب کی ہدایت پر فتنہ پر دانوں کے لیڈر کو نوٹس جاری کر دیئے گئے جس پر یہ فتنہ دب گیا ہے - اس سال مولومی مبارک احمد صاحب ساقی نے شمالی نائیجیریا کا تبلیغی دورہ کیا.آپ یہاں تین ماہ رہے زائر یار Z ARIA) کانور KANO ) اور جوس (305) کی تنظیم و مضبوطی کے لیے کوشاں رہے آپ نے " احمدیہ بوائے کلب" جاری کیا.آپ کے ذریعہ خاصی تعداد میں لٹریچر فروخت ہوا.آپ نے ایک انگریزی پمفلٹ کا ترجمہ کرا کے مقامی زبان میں شائع کرایا آپ کے قلم سے علاقہ کے با اثر اخبار COMET میں تعارف احمدیت کے متعلق ایک اہم مضمون دو قسطوں میں شائع ہوا.آپ ایپی (EPE بھی تشریف لے گئے آپ کے دورہ کا جماعتوں پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ مشن کا چندہ چار گنا ہوگیا ہے.مرکزی مبلغین کے علاوہ مقامی افراد نے بھی جماعتی سرگرمیوں میں حصہ لیا مثلاً - ا - ایک نوجوان اسماعیل نے موسمی تعطیلات کے دوران ایک ماہ تبلیغ کے لیے وقف کیا.۲.جماعت کے سیکرٹری تبلیغ حاجی فلادیو صاحب کی کوششوں سے ۴۵ لیکچر ہوئے.له الفضل ارنومبر ۱۹۵۷ دوم سری۴ درپورٹ مبارک احمد صاحب ساتی : کے الفضل دار مٹی ، ۱۹۵ ء ه الفضل در رمئی ۱۹۵۷ء مست خلاصہ رپورٹ مولوی نصیر الدین صاحب ایم.اسے بھائی نائیجیر یا
.ایک لوکل مبلغ الفاڈ نمالہ صاحب ابادان اور اس سے ملحقہ مشنوں کے دورہ کے لیے تشریف لے گئے.اجیبوڑے AG BEDE کے احمدیوں کو عرصہ سے تنگ کیا جارہا تھا اس سال یہاں کے احمدی سکول ٹیچر اور مشن کے چیر مین مالموجیوں کی تبلیغی کوششوں سے تعلیم یافتہ طبقہ احمدیت میں شامل ہوگیا انہوں نے احمدیوں کے لیے ایک الگ گاؤں بھی آباد کیا جس کا نام HABEBU VILLAGE گیا.اس گاؤں کے لوگوں نے علماء سے مباحثے اور مذاکرے بھی کیسے لیے رکھا LIBERIA RADIO.اس سال امریکہ کے ایک عیسائی مشنری جن کی تقریر یں لائیبر بار یڈیو خاص اہتمام سے نشر ہوتی تھیں.دسمبر 120 کو لیگوس ( 5 L AGO ) میں آئے ان کی آمد کا پر درگرام اشتہار کی صورت میں نائیجیریا کے مشہور اخبار ڈیل ٹائمز (DAILYTIMES) میں شائع ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے اس موقع پہ ایک پریس ریلیز تمام اخبارات کو بھیجا گیا کہ اب امریکہ دالوں کو اس بات کا احساس زیادہ سے زیادہ ہوتا جارہا ہے کہ عیسائیت مغربی افریقہ میں دم توڑ رہی ہے لہذا انہوں نے اسلام کی مقبولیت کو روکنے کے لیے اس خطہ میں اپنی تبلیغی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور امریکہ کے رسالہ " لائف (LIFE) کا حوالہ دیا جس میں یہ لکھا تھا کہ افریقہ میں ایک عیسائی کے مقابلہ میں دس آدمی اسلام میں داخل ہو رہے ہیں.گالف ہمیں اس آرٹیکل کے چھپنے کے بعد سے ہی امریکہ کے عیسائی مشنوں کو مغربی افریقہ کی طرف زیادہ توجیہ ہوئی ہے.اسی پریس ریلیز میں مشتری صاحب کو مباحثہ کی بھی دعوت دی گئی یہ خبر وانا نیوز ایجنسی کے حوالے سے لیگوس کے ایک مشہور اخبار میں جلی حروف سے شائع ہوئی.بعد ازاں احباب جماعت کی تجاویز کے مطابق فوری طور پر ایک پمفلٹ شائع کرنے کا فیصلہ ہوا اور اسی روز جماعت کے بعض نوجوانوں کو ایک پہلے سے شائع شدہ پمفلٹ THE دے کر بھیجا گیا تا کہ شائع شدہ پروگرام کے مطابق جس چہر ے میں مشتری صاحب نے تقریر کرنی تھی اس کے پاس پہنچ کہ پمفلٹ لوگوں میں تقسیم کریں اس پمفلٹ میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ پیدائش بن باپ کوئی ایسا محال اور غیر متوقع امر نہیں جس کی بناء پر حضرت علی علیہ السلام کی VIRGIN BIRTH" الفضل درمئی ۱۹۵۷ء ص :
طرف الوہیت منسوب کی جاسکے کیونکہ اس کی متعدد مثالیں خود بائبل میں آئے دن ملتی رہتی ہیں.حبیب یہ احمد می نوجوان چرچ کے باہر یہ پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے تو لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ عیسائی مشن ہی کی طرف سے تقسیم کیا جارہا ہے لیکن اسے پڑھتے پڑھتے جب وہ گر جا میں داخل ہوئے تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو احمد یشن کی طرف سے شائع شدہ ہے یہ معلوم کر کے چرچ سے ایک شخص باہر چرچ کے گیٹ پر آیا اور ان نوجوانوں کو اس پمفلٹ کے تقسیم کرنے سے منع کیا.انہوں نے جواب دیا کہ ہم چرچ سے باہر سڑک پر کھڑے ہیں آپ کو منع کرنے کا کوئی حق نہیں.آخر اس نے لاجواب ہو کر لوگوں کو منع کرنا شروع کیا کہ وہ ان سے یہ پمفلٹ حاصل نہ کریں مگر انہوں نے کہا کہ مفت پمفلٹ سے کہ پڑھنے میں کیا حرج ہے اور وہ بدستور یہ پمفلٹ حاصل کرتے رہے اور احمدی نوجوان تمام پمفلٹ تقسیم کر کے واپس آگئے.ازاں بعد جماعت احمدیہ کا دوسرا تازہ پمفلٹ بھی چھپ کہ تیار ہو گیا جس کا عنوان یہ تھا (SECOND ADVENT OF JESUS CHRIST " یعنی مسیح کی آمد ثانی" اس میں حضرت علی علیہ السلام کی قبر کی تصویہ دی گئی تھی یہ اشتاد مختلف جگہوں پر نمایاں طور پر چسپاں کرا دیا گیا اور کثرت تقسیم ہوا جس کی وجہ سے عیسائی طبقہ میں ہلچل مچ گئی بیٹھ جماعت احمدیہ نائیجیریا کی آٹھویں سالانہ کانفرنس ۱۲۵ در ۲۶ دسمبر ۱۹۵۶ء کو لیگوس میں منعقد ہوئی جس میں نائیجیریا کے ہیں احمد می مشنوں کے پانچ سو نمائندوں نے شرکت کی.افتتاح مولانا نسیم احمدی سیفی صاحب نے ایک مختصر سی تقریر اور لمبی اجتماعی دعا سے کیا.پہلے اجلاس کی صدارت جناب اے آمر با کارے صاحب مجسٹریٹ نے کی جس میں اگر یہل ایما.سانی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے احمدیوں کو ان کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.دوسرے امور کے علاوہ انہوں نے اس امر پر خاص طور پر زور دیا کہ وہ آزاد نائیجیریا میں مثال شہرت کا نمونہ قائم کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں تاکہ وہ اس بارے میں اہل نائیجیریا کی قیادت کا فرض ادا کہ سکیں جناب اے آریا کارے نے عالمی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ جماعت احمدیہ کی کوششوں کے نتیجہ میں مسلمان اپنے فرائض کو سمجھنے اور ان کے شایانِ شان خدمات بجالانے کے لیے تیار ہو رہے ہیں.الفضل ۲۲ مئی ۱۹۵۷ء ص ۳
٣٩٨ اس موقعہ پر مشاورتی کونسل کے بھی اجلاس منعقد ہوئے ہیں میں تعلیمی ترقی کی رفتار کا جائزہ لیا گیا اور اس میدان میں ترقی کی طرف مزید قدم اٹھانے کے لیے ضروری فیصلے کیے گئے بیلے ا.جماعت احمدیہ گولڈ کوسٹ کا جلسہ سالانہ اس سال ۴٫۱۳٫۱۳ ار جنوری گولڈ کوسٹ مشن ۱۹۵۷ء کو منعقد ہوا.اس جلسہ سے درج ذیل مقررین نے خطاب فرمایا.مولوی نسیم سیفی ما نیز لینی محمد افضل صاحب ، چیف رہیں جبرائیل کو معنی مرکٹ.مولوی صالح محمد صاحب.مولوی خلیل احمد صاحب اختر - مولوی عبد اللطیف صاحب پر نیمی.مکرم احمد بن عبدا للہ صاحب چیف رئیس سرکٹ مولوی عبد القدیر صاحب شاہد.مسٹر محمد صاحب چیف ریمیں اڈانی سرکٹ اشانٹی.مکرم بیرالدین صاحب سیکرٹری تبلیغ.مسٹر جبرائیل آدم صاحب.مسٹر ابراہیم بن محمد صاحب مسٹر یعقوب بن علی صاحب (افریقن مشنزین) دوران اجلاس سال قربانی کی تحریک کی گئی جس پر مخلصین جماعت نے پانچ صد پونڈ کی رتم پینا ہی اخبار گریفک میں اس جلسہ کے فوٹو شائع ہوئے.۲ - مولوی خلیل احمد صاحب اختر نے بار جنوری ۱۹۵۶ء کو اشانتی کا چارج لیا اور پھر ۱۲۹ مقامات کا دورہ کیا.عیسائیوں کے ایک فرقہ سے کامیاب مناظرہ کیا اور احباب جماعت کے ہمراہ ۸۰۰ میل د در جا کہ چار پبلک جلسے کیے.مولانا ندیا احد صاحب مہتر انچارج میشن گولڈ کوسٹ نے اس سال کے بندو میں قریباً سوا دو ہزار میل کا سفر کر کے پیغام حق پہنچایا - ۱۹۰، افراد سے تبلیغی ملاقاتیں کیں سکولوں کا معائنہ کیا اور تمام وزراء حکومت اور افسران کو لٹریچر فراہم کیا ہم - احمد یہ سیکنڈری سکول کے وائس پرنسپل سعود احمد صاحب دہلوی نے کماسی کالج آف ٹکنالوجی کے آٹھ اساتذہ ، اسشانٹی کے چیف کمشنر کے سیکرٹری MP RARISO کے ڈپٹی کمشنر.دو ایجو کیشن آفیسرز نہیں پیرامونٹہ چین اور طلبا و یونیورسٹی کا مٹی گولڈ کوسٹ کو بند بیعہ طاقات تبلیغ کی اور لڑیچر دیا.نیز میتھوڈسٹ کیتھولک پور مین اور افریقی مشنریوں سے تبادلہ خیالات کیا ہے له الفضل - ار جنوری ۱۹۵۰ ، صدا : له الفضل ۲۸ فروری ۱۹۵۶ء ص ۲ سلم الفضل یکم جون ۱۹۵۶ء سے الفصل یکم جون ۱۹۵۶ء م۴۱۳ :
۳۹۹ گولڈ کوسٹ مشن کے اہم واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ اس دفعہ لیجسلیٹو اسمبلی میں جماعت کے تین مقتدر احمد می بطور ممبر منتخب ہوئے.یہ ، انشانٹی کے احمدی نوجوانوں کا ۲۳ ۲۴ ۲۵ نومبر کو کماسی میں پہلا اجتماع منعقد ہوا جس میں مقررین نے مختلف علمی تربیتی و دینی موضوعات پر تقاریر کیں مقررین کے اسمائے گرامی یہ ہیں.ا صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب.(۳) مسٹر محمود پیناس - ۳ - مولوی خلیل احمد صاحب - اختر ۲ - سعود احمد خان صاحب - ۵ - ابراہیم بن محمد صاحب.4.مسٹر جمنا سیکر ٹری احمد پیشن کماسی - ، - چیف رئیس صالح صاحب - ۸ - عبد الکریم صاحب معلم - ۹ سکول ٹیچر حکیم مرادن هاست ۱۰.مسٹر اسماعیل طالب کم ٹکنالوجی.11 مسٹر اسماعیل آرو اجتماع کو مفید اور کامیاب بنانے میں محمود کا کری صاحب اور عائشہ صاحبہ کی مخلصانہ کوششیں قابل ذکر ہیں سیہ اس مشن کے ذریعہ عرصہ سے میں ذہنی اور اخلاقی انقلاب کی بنیادیں استوارہ کی جا سیرالیون شن رہی تھی اُس کے اثرات اب دوسروں کے سامنے بھی نمایاں ہونے لگے چنانچہ فروری ۱۹۵۶ء کا ذکر ہے کہ:.فری ٹاؤن کے چیف مسٹر کا نڈے بورے ، مگبور کا تشریف لائے اور بتایا.: جب سے میں نے چیف کا عہدہ سنبھالا ہے آج تک کسی احمدی نوجوان کے خلاف میں نے کسی مقدمہ کی سماعت نہیں کی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ احمدی مبلغین کے زیر اثر رہنے والے نوجوان ہمیشہ اعلیٰ اخلاق اور اچھی عادات کے مالک ہوتے ہیں احمدیوں کا یہ نمونہ ثبوت ہے اس بات کا کہ احمد می حق پر ہیں سینے اسی طرح اقوام متحدہ کے ڈائر یکٹر برائے مغربی افریقہ ڈاکٹر لائٹ گیر (DR.LIGHT GIBER) له الفضل ۲۹ اگست ۱۹۵۶ء صدا : له الفضل ۲ ر جنوری ۱۹۵۷ء مث خلاصہ پر پورٹ خلیل احمد اختر + سے الفضل ۱۸ و ۱۹ مئی ۱۹۵۶ء (خلاصہ رپورٹ مولوی محمد صدیق صاحب شاہد )
سیرالیوں تشریف لائے تو بواحمدیہ سکول سے نظم وضبط سے بہت متاثر ہوئے اور سکول کی لاگ بنگ پر یہ ریمارکس دیئے کہ : - میں اس تعلیمی ادارے کے افسران اور منتظمین کے لیے جو ملکی اور علی فلاح وبہبود کی خاطر ہر قسم کی کوشش بروئے کار لا رہے ہیں نیک جذبات رکھتا ہوں اور انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے یقین دلاتا ہوں کہ ان کی جدوجہد اور کوششیں ضرور کامیاب رہیں گی یا ڈائریکٹر صاحب کے اس معائنہ کا یہ خوشگوار نتیجه بر آمد ہوا کہ مشن کا رابطه براه راست اقوام متحدہ سے قائم ہو گیا اور یہ حقیقت بھی نمایاں ہوگئی کہ اس ملک میں جماعت احمد یہ سجادہ فعال جماعت ہے ہو اس وقت بلا تفریق مذہب وملت خدمت خلق میں مصروف ہے یہ در سیرالیون مشن کے انچارج مولوی محمد صدیق صاحب امرتسرمی تھے.آپ کی قلمی، لسانی اور ٹی و دینی خدمات اس سال بھی بدستور جاری رہیں آپ نہ صرف احمدیہ مشن کے انگریزی ترجمان " افریقین کر لینٹ کی اشاعت میں مصروف عمل رہے بلکہ ماہ مارچ ۱۹۵۶ ء میں ایک نیا عربی رسالہ الہلال الا فریقین کے نام سے جاری فرمایا علاوہ انہیں آپ کی طرف سے بوشہر کے مسلمان علماء دیگر سرکردہ اصحاب کو ایک خاص دعوت دی گئی کہ ہم سب اسلامی فرقے متحدہ کو نسل قائم کریں جس کا مقصد مسلمانوں کی عام فلاح وبہبود کے علاوہ ان کی دینی ، ثقافتی ، مدنی، معاشرتی اور علمی حالت کو سدھارنا اور تبلیغ اسلام کرتا ہو نیز مشتر کرکے سیکنڈری سکول قائم کیا جائے اس دعوت پر سر کہ وہ مسلمانوں نے خاص غور کرنے کا وعدہ کیا.آپ نے احمدی پیرا ماؤنٹ چیٹ کے تعاون سے باجے بواحمدیہ دارالتبلیغ اور احمد یہ سکول کے لیے شہر کے وسط میں قطعہ زمین مخصوص کرایا یے سیرالیون کے مغربی صوبہ میں کوئی پبلک مسلم لائیبریری موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے احمدی اور غیر احمد می حلقوں کو سخت دقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا.مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری نے اس دینی اور قومی ضرورت کی طرف اس سال خاص توجہ دی اور فیصلہ کیا کہ بو " شہر میں اس کا قیام عمل میں لایا جائے.له الفضل ، رنومبر ۱۹۵۶ء ۳۰ : ۲ الفضل ، ارمٹی ۱۹۵۶ء صدر : سم الفضل ۱۲۴ جولائی ۱۹۵۶ دمت ۴.خلاصہ رپورٹ مولوی محمد صدیق صاحب شاہد مبلغ سیرالیون - !
3 اس سلسلہ میں آپ نے نہ صرت مقامی ذی اثر اور علم دوستوں اور اخبارات کو تحریک کی کہ وہ لائبریری کے لیے کتب پیش کریں بلکہ امریکہ ، مہندوستان، پاکستان مشرقی افریقہ اور عرب ممالک کے ممتاز اخبارات سے بذریعہ خطوط رابطہ قائم کیا اور انہیں لائبریری کے لیے مفت اختبارات در سائل مھجوانے کی تلقین کی جیں پر ایک ہزار سے زائد عربی انگریزی اور اردو کتب کا قیمتی ذخیرہ جمع ہوگیا.اردو لٹریچر کا اکثر حصہ وکالت تبشیر کی طرف سے مہیا کیا گیا.ایک حصہ حضرت الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب کی وقف شدہ کتابوں پرمشتمل تھا.کتب کے علاوہ روزانہ ہفتہ وار اور ماہوار جرا مدد رسائل بھی لائبریری کے نام جاری ہو گئے.۲۳ ستمبر ۱۹۵۶ء کو اس لائیبریری کا افتتاح معمل آیا جس میں ۲۰۰ سے زائد معززین شہر در سرکاری افسران نے شرکت کی.آنہ میں پیرا ماؤنٹ چیت کو کہ رضلع ہو کی طرف سے لیجسٹیو کونسل کے مبر نے تقریب کرتے ہوئے کہا کہ میں احمدیہ مشن کو اس غیر معمولی اور بے مثل کام پر مبارکباد پیش کرتا ہوں آن پیل چیف کے بعد پیرا ماؤنٹ چیف نے خطاب کیا.اور جماعت کی لائبریری کے بارہ میں کہا.میں اس لائبریری کے قیام سے بہت خوش ہوا ہوں.احمد یہ مشن کا یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو ہمیں ہمیشہ یا در سے گا اور جسے ہم میں سے ہر ایک کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے.ان تقاریہ کے بعد مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے لائبریری کے باہر کے دروازے کی چابی پیرامونٹ چیف ٹوڈے کالے پر ندیدن ڈسٹرکٹ کونسل بو کو دی جنہوں نے مکان کا باہر کا دروازہ کھولا پھر کتب کی جملہ الماریوں کی چابیاں آنریل میرا نوٹ پیف کو کر کے حوالہ کیں.جنہوں نے تمام الماریوں کے دروازے کھوئے اور بعد میں تمام حاضرین کا جم غفیر نائبر یہ ہی ہال میں داخل ہوا اور کافی دیر تک کتب سے مستفید ہوتا رہا.افتتاح کا اعلان سیرالیون براڈ کاسٹنگ سروس نے ریڈیو سے ان الفاظ میں کی.اب بوشہرمیں بھی ایک پلک سلم لائبریری قائم ہوگئی ہے جو سارے مغربی صوبہ میں پہلی نامبر یہی ہے اور اس کے قائم کرنے کا سہر اجماعت احمدیہ کے سر ہے.امید ہے گر اہل صوبہ اس سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کی یادگار کے طور پہ لائبریر ی کا نام نہ کیا حمدیہ سلم کا شہر یہ ہیں رکھا گیا.اس لائبر یہ ہی کو بہت جلد غیر معمولی مقبولیت حاصل ہو گئی ہیں چنانچہ اقوام متحدہ کے ڈائر کیر را الفضل - ارنومبر ۱۹۵۶ء صور : له الفضل ۱۴ار ماریا ۱۹۵۷ رصد
برائے مغربی افریقہ" ہو نے ان تاثرات کا اظہا ر کیا.(ترجمہ) یہ لائبریری جس کو دیکھنے کا مجھے آج فخر حاصل ہوا ہے تنوع اور مجموعہ کتب کے لحاظ سے ایک قابل قدر ذخیرہ ہے اور میں صفائی اور میں حسن انتظام کے ساتھ کتب در سائل کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے وہ بہت مفید اور قابل تعریف ہے اور اس سے کہیں بہت متاثر ہوا ہوں میلہ صحافیوں کی ایک پارٹی زمانی تجربہ گاہ دیکھنے کے لیے رد گو یہ آئی مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے ان سے ملاقات کی اور سٹریچر دیا.آپ نے باجے ہو.بلاما - باما اور کینما کی جماعتوں کا دورہ کیا اور دعوت حق پہنچائی.بلاما کے پیرا مونٹ چیف سے مل کر ان کی ریاست میں سلم سکول اور دارالتبلیغ قائم کرنے کے لیے جگہ طلب کی جس پر انہوں نے رضا مندی کا اظہار کیا.لائبریری کی کتب داخبارات در سائل کے لیے دنیا کے پچاس بڑے بڑے اخبار دل اور رسالوں کے ایڈیٹروں کو بذریعہ خطوط پر زور تحریک کی کردہ مفت اخبارات ارسال کریں جس کا بہت اچھا اثر ہوا لیے مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے علاوہ سلسلہ کے دوسرے مرکزی مبلغین بھی سرگرم عمل مثلاً مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری نے سال کی تیسری سہ ماہی میں وزیر اعلیٰ سیرالیون ، نائب وزیر اعلی ، وزیر مواصلات، وزیر صنعت ، پیرا اونٹ چیفس ، لیلیو کونسل کے مبران اور دیگر اکابرین شہر سے تبادلہ خیالات کیا.باما نڈو میں تین دن قیام کرکے پیغام حق پہنچایا.دس افراد نے بیعت کی.یا ما نڈو سے واپسی پر مگور کا مکالی سنگی اور پہلے کا سفر کیا اور سلسلہ کے اہم امور سر انجام دیئے.سفر سے واپسی پر تو میں رہ کر مقامی جماعت کی تربیت کے فرائض سرانجام دیئے اور مرکزی امور میں انچارج صاحب سیرالیون کا ہاتھ بٹایا ہے ل الفضل ، نومبر ١٩٥٦ء مس کالم سے ن له الفضل بورد تمبر ۱۹۵۶ دسته و خلاصه رپورٹ کریم محمدصدیق صاحب گورداسپوری) به سد الفضل ۵ دسمبر ۱۹۵۶ء مت
۴۰۳..چوہدری مسعود احمد صاحب شاد نے پہلی سہ ماہی میں ۲۲۰ میں سفر کر کے پیغام حق پہنچایا.آپ نے آٹھ پونڈ کا لٹریچر فروخت کیا اور آپ کی تحریک پر مسٹر قاسم نے مسلم پریس کے لیے ۵۰۰ پونڈ کی رقم پیش کی الہ آپ نے باجے بو کے حلقہ کی سات جماعتوں کا بھی دورہ کیا.لیکچر دیئے اور لٹریچر تقسیم کیا.آپ نے ماہ جون ۱۹۵۶ ء میں مگبور کا.کے حلقہ کا چارج لیا نیز خدا کے ایک نئے گھر کی تعمیر کے لیے سو ، پونڈ کی رقم جمع ہوئی اور آپ کی نگرانی میں تعمیر کا کام ہوا تے آپ لکو ابائی ، روچین ، گانڈا، یونی با نا، ماٹوٹو کا ، ما سابو لگو بھی تشریف لے گئے.یونی بانا میں آپ کے ذریعہ ۱۲ر افراد نے بیعت کی.مگبور کا میں ۲۷ را فراد کو سلسلہ کا لٹریچر دیا جن میں شمالی صوبہ کے ایجو کیشی بسیار بڑی میں شامل تھے کہیے قاضی مبارک احمد صاحب انچارج طلقہ ہونے ۲۵۰ میل کا سفر کر کے ما ہو.او بانڈا.ماکوما نانیا میں لیکچروں کے ذریعہ بغام حق پہنچایا.اس دوران پانچ افراد نے بیعت کی.انفرادی طور پر تامنی صاحب نے ایک سو بیس افراد سے تبادلہ خیالات کیا جن میں ریاستوں کے پیرا مونٹ چیف، وزراء اور فرم ایجنٹس ، ہیلتھ آفیسر، ڈائریکٹر تعلیم نیز کالجوں اور سکولوں کے طلباء شامل تھے.اس سال سیرالیون کے ایک مخلص اور مخیر احمدی مسٹر علی رد میر نہ صاحب نے اپنا شاندار مکان جو ایک ہزار پونڈ سے بھی زیادہ مالیت کا متھا سلسلہ احمدیہ کے لیے وقف کیا شے جماعت احمد یہ سیرالیون کا آٹھواں سالانہ اجتماع اس سال ۲۱ ۲۲ ۲۳ رودسمبر ۱۹۵۶ رکو ہوا.جلسہ میں غیر احمدی معززین بھی تشریف لائے.جلسہ کے دوسرے روز ۴.احباب نے بیعت کی.مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری انچارج مبلغ سیرالیون نے اختتامی خطاب میں فرمایا کہ کہ دنیا اس دقت اسلام کے خلاف بر سر یہ کار ہے لیکن خداتعالی اس کی اسیمائی ظاہر کہ رہا ہے.اس غرمن کے لیے خدا تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو بھیجا.حضور کی وفات کے بعد اشاعت دین کی له الفضل ۱۸ مئی ۱۹۵۶ء مست کالم ۲ : الفضل ۲۶٫۲۵ جولائی ۱۹۵۶ ء الفضل ٢ دسمبر ۱۹۵۶ د م : " الفضل ۱۸/۱۰ مئی ۱۹۵۶ء الفضل ۶ ستمبر ۹۵۶ او ما
۴۰۴ خرمہ داری آپ کی جماعت پر ہے.جماعت کا فرمن ہے کہ اس ذمہ داری کو نبھانے اور اس کے لیے عاجزانہ دعائیں کرے.جلسہ میں آپ کے علاوہ ان مقررین نے بھی انفار یہ کیں : - ا ۱- سید علی رو میر نہ صاحب - ۲ - محمد بشیر صاحب - ۳ - چیف قاسم صاحب - ۴ - موسی ہوئی - صاحب - - محمد ہونگے صاحب سابق ہیڈ ماسٹر رہ کو پر احمد یہ سکول - ۶ - قامنی مبارک احمد...مسٹر علی مانسہری سیکہ بڑی جماعت - ۸ - الحاج محمد توڑنے صاحب - ۹ - چوہدری محمود احمد صاحب شاد.پرا دنشغل ایجو کیشن سیکر ٹری مکرم حاشر الدین صاحب الغامی نے نظریہ میں کہا."آج اگر کوئی جماعت دین حق کی حقیقی خدمت میں مصروف ہے تو وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہے یا اسی طرح بوشہر اور ریاست کے عیسائی پیرامونٹ چیف ہوٹا گوا نے بھی جماعت کی مساعی کو سراہا." دوران جلسہ مشن کی زمین کے لیے ۲۰ پونڈ کے زعدے ا حباب جماعت کی طرف سے ہوئے اور پچاس پونڈ کی ادائیگی ہوئی.ایک ماہ وقف کرنے کی تحریک بھی کی گئی میں یہ ۱۹ ازاد نے لبیک کہا.اس موقعہ پر شوری کا اجلاس بھی ہوائیے افریقہ کے احمدیہ مشنوں کی سالانہ سرگرمیوں پر طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد یہ بتانا ضرور می ہے کہ افریقہ میں تحریک احمدیت کی ابھرتی ہوئی قوت و شوکت کو عالمی پر لیں نے اس سال خاص طور پر محسوس کرنا شروع کر دیا.چنانچہ اخبار " ڈیلی میل" فری ٹاؤن کی ۲۶ جولائی ۶ - ۱۹ ء کی اشاعت میں انگلستان کے مانچسٹر گارڈین کا حسب ذیل نوٹ شائع ہوا Ahmadiyyat in the Sight of Others In addition to the orthodox Maliki Muslims there is another and smaller group of Muslims in British West Africa, the followers of the Ahmadiyya Movement, a missionary organisation with its الفضل ۳۱ جنوری ۲۰۱۹۵۷ فروری ، ۶۱۹۵
۴۰۵ Headquarters in Pakistan, which penetrated to West Africa in the late 1920s.The Movement is rapidly growing, gaining converts from Christianity and paganism, the rate of growth being demonstrated on the Gold Coast, where in 1931, 3,110 adherent were shown, while on 1948 the figure was 22,572..Similar growth stimulated by the snowball effect of a visibly successful mission, which offers good educational facilities up to Secondary School level, has been recorded through the whole of B.W.Africa with the exception of the Gambia, where the application of an Ahmadi missionary for an entry permit has recently been refused on the officially stated ground that there are already enough different religions in Gambia.'The Ahmadiyya Movement has much to its credit, displaying ardent missionary activity and a positive and concrete social development programme in its limited communities.'To the orthodox Muslims, however, the Ahmadis are Kafir (unbelievers), lower than Christian or Jews and on the same level as pagans, since they claim that their founder, Mirza Ghulam Ahmad, was the threefold reincarnation of Muhammad, Jesus Christ, and Krishna.'Politically, the Ahmadiyya Movement is non-partisan; provided there is freedom to preach.The Ahmadis are willing to support the powers -that- be, whoever they are, while regarding individual political beliefs as a matter of personal conscience.There is no sign of any political direction from the Movement's Headquarters at Rabwah in Pakistan, nor does there seem to be any likelihood of its development.(Culled from the Manchester Guardian, Published in the Daily Mail, from Freetown, B.W.Africa, dated July 26, 1956.With the reference of 'The Review of Religions, February, 1948)
احمدیت.غیروں کی نظر میں برطانوی مغربی افریقہ میں کشتر مالی مسلمانوں کے علاوہ مسلمانوں کا ایک اور نسبتا چھوٹا گردہ ہے.سجو احمدیہ تحریک کے پیروکار ہیں.مغربی افریقہ میں یہ تحریک بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخری سالوں میں داخل ہوئی.اور تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے.اور عیسائیت اور لا مذہبیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنے اندر سمور رہی ہے.اس کی رفتا بہ تر تی گولڈ کوسٹ میں بہت نمایاں ہے جہاں ۱۹۳۱ میں اس کے پیرو کاروں کی تعداد ۱۰ار تھی.جبکہ ۱۹۴۸ ء میں یہ تعداد ۵۷۲ ۲۲ ہوگئی.ایسا ہی اضافہ جس میں بعض اوقات پر خانی اولوں کی سی شدت پیدا ہو جاتی ہے ، پورے برطانوی مغربی افریقہ میںدیکھا جاسکتا ہے.جو ایک نمایاں طور پر کامیاب بشن کی مرہون منت ہے.ایک ایسا مشن جو نانفری سکول کے معیار یک نہایت شاندار تعلیمی سہولتیں فراہم کرتا ہے.سوائے گیمبیا کے ، جہاں ملک میں داخلہ کی اجازت سے متعلق ایک حمد می مشنری کی درخواست حال ہی میں سرکاری طور پر یہ کہ کر رد کر دی گئی ہے کہ پہلے ہی گیمبیا میں مختلف مذاہب کافی تعداد میں موجود ہیں.احمدیہ تحریک کو اس کی پر جوش تبلیغی مساعی اور اپنی محمد در تنظیموں میں مثبت اور مربوط سما مجاز تی کے پروگرام کے باعث بہت زیادہ عزت اور وقار حاصل ہوا ہے.تاہم گڑ مسلمانوں کے نزدیک احمدی کا فر (بے دین ہیں.اور عیسائیوں اور یہودیوں سے کمتر ہیں.بلکہ بے دینوں ہی کی طرح میں کیونکہ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے بانی ، مرزا غلام احمد کی تین چینیں ہیں.اور آپ محمد، یسوع مسیح اور کرشن کے برونز ہیں.سیاسی نقطۂ نظر سے احمد یہ تحریک کسی پارٹی کا بھی ساتھ نہیں دیتی.بنشر طیکہ تبلیغ کی آزادی ہو.احمدی بر سر اقتدار طاقت کا ساتھ دینا پسند کرتے ہیں.خواہ وہ کوئی بھی ہو.جبکہ انفرادی یزد کلڈ.مانچسٹر گارڈین سے اخذ کہ وہ جو فری ٹاؤن برطانوی مغربی افریقہ کے ڈیل سیل کے شماره مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا.:
سیاسی عقائد کو وہ فرد کے اپنے صغیر پر چھوڑ دیتے ہیں.اس تحریک کے ربوہ پاکستان میں موجود صدر دفاتر کی طرف سے ملنے والی ہدایات میں کسی سیاسی ہدایت کا شائبہ تک بھی نہیں پایا جاتا.اور نہ ہی اس کا آئندہ کوئی امکان نظر آتا ہے.اس کے علاوہ مشہور مستشرق الفریڈ گوئیلام نے اس سال کتاب ISLAM " SS LAM“ شائع کی جس کے مت ۱۲ پر جماعت احمدیہ کی تبلیغی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا یہ لوگ اپنے عقائد کو پھیلانے اور ان کی تبلیغ کرنے میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہے ہیں.جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ میں انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اسلام میں داخل کیا ہے.ان کے اس دعوی کو کہ اب ان کی تعداد دس لاکھ تک پہ پہنچ چکی ہے مبالغہ پر محمول نہیں کیا جا سکتا ہے (ترجمہ) جناب بشیر احمد صاحب آرچرڈ شب در روز جزائر غرب الہند میں اعلائے جزائر غرب الہند کلیه اثر میں مصروف رہے.آپ نے اشتہارات و منٹوں کے ذریعہ اللہ پیغام حق پہنچایا.اور مارکیٹ سکوٹر کے ایک بڑے مجمع میں تقریمہ کی جس کا موضوع تھا " میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ؟.اس تقریر سے لوگوں میں اسلام کے متعلق مزید دلچسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے معلومات حاصل کیں.بعض پادریوں سے بھی آپ کی اثر انگیز گفتگو ہوئی جس سے لوگ متاثر ہوئے یہ حضرت مصلح موعود کو ۱۹۵۲ء میں بذریعہ خواب بتا یا گیا کہ سیلون مشن | ر ہمارے سلسلہ کا لٹریچر سنہالی زبان میں بھی شائع ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس سے نا کا اچھے بجلیں گے یکے اس رڈیا کا پہلا شاندار ظهور اس سال سر اکتریہ ۱۹۵۶ ء کو ہوا جبکہ جماعت احمدیہ سیلون کیطرات سے حضرت ہائی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود کی کتاب " اسلامی اصول کی فلاسفی کا سنہالی ترجمہ پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا جو مولوی محمد اسماعیل صاحب میر مبلغ سیلون کی مساعی کا نتیجہ تھا اس موقع پر جماعت ہے له الفضل ۱۹؍ فروری ، ۱۹۵ اصلا کالم ۲ : له الفضل ۲۹ فروری ۱۹۵۶ء مث س الفضل ٢٢ور دسمبر ۱۹۵۲ عرصہ: کے الفضل ۱۴ر نومبر ۳۶۱۹۵۶.
احمدیہ سیلون نے ایک خصوصی تقریب منعقد کی.اگر چہ سیلون ریڈیو نے چند ماہ پہلے جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت کی تھی مگر اس تقریب سے چار دن قبل اس نے متواتہ اپنی خبروں میں اس کے انعقاد کا اعلان کیا اور کتاب کی اہمیت بیان کی اور جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمت کی تعریقت کی یہی نہیں تقریب کے ختم ہونے کے بعد رات نو بجے کی خبروں میں انگریزی، تامل ہستہلی سب زبانوں میں اس واقعہ کی نمایاں خیر تھی.ریڈیو کے علاوہ سیلون پریس نے بھی اس تقریب کی غیر معمولی اشاعت کی لیے سیلون کے بدھسٹ وزیر اعظم نے اس کتاب کے بارہ میں پیغام دیا کہ :- باد شفٹ اور سنہلی ہونے کے لحاظ سے میں اس کتاب YSLAM DHARMA" کے لیے مختصر سا پیغام بھیجنے میں فخر محسوس کرتا ہوں.اس ملک کی تاریخ کے اس اہم دور میں سہلی زبان میں اسلامی کتاب کا شائع ہونا باعث اطمینان ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ایک دوسرے سے تعلقات بڑھیں گے.یہ کتاب جو عام فہم زبان میں تیار کی گئی ہے.یقیناً سہلی زبان میں اسلامی لٹریچر کی ضرورت کو پورا کرنے والی ہوگی اور مجھے امید ہے کہ یہ بہت سے لوگوں تک پہنچے گی.کہ اسلامی اصول کی فلاسفی کے سنہلی ترجمہ کے علاوہ مشن کی طرف سے درج ذیل لٹریچر بھی شائع ہوا.ا ترجمہ سورۃ فاتحہ عربی.انگریزی، تامل، سنبلی زبان میں) یہ ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیا گیا.اس کی تصاوہ یہ کئی روز ناموں میں شائع ہوئیں.- ترجمہ سورۃ لیکن رسنیلی - انگریزی).ترجمہ چہل احادیث رسہلی.انگریزی) ۴.آنحضرت کی سیرت پر کتاب رسنلی) ۱۹۵۶ء کے آخر میں جماعت کے ایک وفد جناب عبد القادر صاحب صدر جماعت احمد به سیلون له الفضل راکتوریه ۱۹۵۶ء صار له الفضل ۲۰ ز اکتوبر ۱۹۵۶ء مساه الفضل ۱۴ نومبر ۱۹۵۶ء صل
۴۰۹ کی زیر قیادت گورنر جنرل سیلون سے ملا اور ان کی خدمت میں سلسلہ احمدیہ کا انگریزی در نہی لٹریچر پیش کیا.گورنر جنرل صاحب نے جماعت کی کوششوں کو سراہا جس کا ذکر پریس میں بھی ہو ا.اسی طرح سیلون کے وزیر اعظم مسٹر بندر نائیکے کو بھی قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا گیا انہوں نے کہا کہ جماعت احمدیہ سرکاری زبان میں لٹریچر شائع کر کے بہت بڑی خدمت سر انجام دے رہی ہے.اس واقعہ کی بھی اخبارات میں اشاعت ہوئی.علاوہ ازیں سیلون کے وزیر تعلیم ، وزیر امور داخلہ، وزیر صنعت وزیر مواصلات، وزیر صحت ، وزیر محنت ، وزیر اراضیات ، وزیر ڈاک خانہ جات ، وزیر امور متعلقہ ثقافت اور درس اعلیٰ افسروں کو بھی لٹریچر دیا گیا ہے ریاست بو ہور ملایا کے محکمہ شرعیہ کے افسر اعلی ارونکو اسما عیل بن عبدالرحمن سنگا پور د ملایا مشن اسکندر شاہی خاندان کے سپوت تھے اور مالی ، انگریزی دو باربی زبانوں میں خاص دسترس رکھتے تھے.آپ تک پیغام احمدیت مولانا محمد صادق صاحب سماٹری کے ذریعہ پہنچا اور آپ چار سال یک تحقیق کرنے کے بعد اس سال داخل احمدیت ہو گئے اور مایا کی احمدیہ جماعت کے لیے تقویت کا موجب بنے.مولانا محمد صادقی صاحب سماٹر ی تخریہ فرماتے ہیں.چونکہ ریاست جوہور کی سر حد سنگا پور سے ملتی ہے او اور یہ ہے ملایا کی ریاستوں میں سے سب سے بڑی اور دولت مند ریاست اس لیے میں نے اسے کبھی فراموش نہیں کیا تھا.خصوصاً اس لیے بھی کہ ریاست جو مہور کے مفتی صاحب علوی بن طاہر بن الحداد اور چیف قامتی اسماعیل بن عبد العزیز احمدیت کے سخت مخالف تھے.چنانچہ ۱۹۵۲ ء کے وسط میں میں نے مکرم عبدالمجید سالکین صاحب سے مشورہ کیا.کہ کب جو ہور جانا مناسب ہوگا ؟.تاکہ محکمہ شرعیہ جو مور کے افسرا علی اونکو اسماعیل صاحب سے ملاقات کی جاسکے.آخر ایک دن ہم نے مقرر کیا اور اکھٹے بذریعہ میں مغرب کے بعد سنگا پور سے جو ہور روانہ ہو گئے چونکہ ہمیں انکو اسماعیل صاحب کے مکان کا علم نہ تھا اس لیے ہم ے پبلک لائبریری میں پہنچ کہ اونکو صاحب کا پتہ پوچھا اور وہیں سے ٹیلیفون ڈائریکٹری دیکھ کران کے ٹیلیفون نمبر کا پتہ کیا.میں نے برادرم عبد الحمید سالکین صاحب سے کہا کہ آپ خود محترم اور نکو صاحب کو ٹیلیفون ل الفصل ۱۸ دسمبر ۱۹۵۶ء صله
کریں تاکہ اگر وہ پونچھی کہ تم کون ہو تو آپ اپنا نام بناسکیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں کہ میرے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے اگر ہیں انہیں ٹیلیفون کروں گا تو مکن ہے میرا نام سن کہ وہ ملنے کا موقع نہ دیں چنانچہ برادرم موصوف نے ٹیلیفون کیا اور کہا کہ ہم آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں.محترم اونکو صاحب نے کہا کہ بے شک آجائیں نگر میں صرف پانچ منٹ دے سکوں گا.کیونکہ مجھے زیادہ فرصت نہیں ہے عبدالحمید سالکین نے مجھے کہا کہ ہم ڈیڑھ روپیہ جانے کا اور ڈیڑھ روپیہ آنے کا کرایہ ادا کریں گے لیکن دقت صرت پانچ منٹ ملے گا بظاہر جانے کا کوئی فائدہ نہیں میں نے کہا نہیں ضرور جانا چاہیئے کم از کم محترم اونکو صاحب سے تعارف تو حاصل ہو جائے گا اس پر ہم پبلک لائیبریری سے باہر نکلے ٹیکسی لی اور اذکور صاحب کے گھر پہنچے مکان دومنزلہ تھا اونکو صاحب کا لڑکا نیچے دروازہ پر کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا حب ہم اس سے ملے تو اس نے کہا ابا جان کو مصروفیت بہت ہے جب پانچ منٹ ختم ہو جائیں تو خود بخود ہی اجازت لے کر چلے جائیں ہم نے کہا بہت اچھا وہ یہ کہ کر اوپر چلا گیا اور جاکر د نکونا کو اطلاع دی اور ایک دو منٹ کے بعد ہی ہم نے دیکھا کہ ایک خوبصورت معمر بزرگ شریف طبع ہنتے ہوئے چلے آرہے ہیں اور ان کے ساتھ ہی نوکر چائے لا رہا ہے.ע سلام اور مصافحہ کے بعد اونکو صاحب نے ہمیں بیٹھنے کے لیے کہا ہم بیٹھ گئے اونکو صاحب نے برادرم عبد الحمید صاحب سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے اور کام کیا ہے.جو انہوں نے بتایا.اس کے بعدیر می طرف متوجہ ہو کر مجھ سے دریافت کیا میں نے کہا.میرا نام محمد صادق ہے اور میں احمدیہ جماعت کا مبلغ ہوں “ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہنے لگے ” میں نے آپ کی کتاب کبزان (صداقت) پڑھی ہے اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ پڑھی ہے بعض امور کے متعلق میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا تھا.اچھا ہوا کہ آپ خود آگئے.یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی.ایک رومنٹ باقی تھے انہوں نے چائے پینے کے لیے فرمایا اور ہم نے چائے پینا شروع کر دی وہ روسٹ بھی ختم ہوئے تو ہم اکٹھے کھڑے ہوئے تاکہ اجازت لے کر واپس چلیں مگر دن کو صاحب نے فرمایا نہیں آپ بیٹھیں ہیں سمجھا تھا کہ کسی اخبار کے رو نمائندے آر ہے ہیں.میرے پاس عام طور پر اخباروں کے نمائندے آتے رہتے ہیں اور کرید کریدہ کہ ریاست کے حالات پوچھتے ہیں اور پھر جا کہ اخباروں میں شائع کر دیتے ہیں.اس لیے میں نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ اخبار کے نمائندوں کو پانچ منٹ سے
زیادہ وقت نہیں دیتا کیونکہ میرے کام بہت اہم اور زیادہ ہیں لیکن آپ سے منا ان سب سے اہم ہے اس لیے آپ بیٹھیں.یہ سن کر ہمیں بے حد خوشی ہوئی اور ہم اطمینان سے باتیں کرنے لگے.قریباً پون گھنٹے کے بعد کہنے لگے آپ کی کتاب کبزان بہت اچھی ہے مختصر بھی ہے اور واضح بھی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی وکیل نے لکھی ہے پہلے میں سمجھتا تھا کہ آپ نے یہ کتاب ارد دیا انگریزی میں لکھی ہو گی اور کسی ملایا کے باشندے نے اس کا ملایا زبان میں ترجمہ کیا ہوگا.مگر اب بات چیت کر کے معلوم ہوا کہ یہ کتاب آپ نے خود لکھی ہے پھر احمدیت کے عقایدا در دوسرے مسلمان بھائیوں سے ہمارے اختلاف کے متعلق وہ بعض باتیں پوچھتے رہے اور یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام کے حالات دریافت فرماتے رہے حتی کہ رات دس بجنے کو آئے.جو ہور سے آخری بس سنگا پور کے لیے پورے دس بجے روانہ ہوئی تھی مگر او کو صاحب نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ کا نہ نکالو کہ ان دونوں کو بس اڈے پر چھوڑ آئیں چنانچہ ا ونکو صاحب نے ہمیں کار میں بیٹھنے کا ارشاد فرمایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئے اور دس پندرہ منٹ جو ہم کارمیں اکٹھے رہے وہ مجھے بار بار تاکید فرماتے رہے کہ میرے دفتر میں کل صبح ضرور آئے بھولنا نہیں میں اور کئی یا میں جماعت کے متعلق آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں.ہم بس اڈے پر پہنچے ، اور لین میں سوار ہونے کے لیے قدم رکھا ہی تھا کہ میں روانہ ہو گئی چنانچہ خدا تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے اور ان کو صاحب کے لیے دعائیں کرتے ہوئے تقریبا ہر 1 بجے شب ہم گھر پہنچ گئے.جو مہور میں ریاست کے دفاتر عموماً ، بجے کھلتے تھے.اس لیے خاکسارہ بجے سنگا پور سے روانہ ہوا اور قریباً 10 بجے محترم اونکو صاحب کے دفتر میں پہنچ گیا وہاں پہنچنے پر میں نے دو اور بزرگوں کو موجود پایا.ایک محترم عبد اللہ بن عیسی تھے جنہیں ریاست کی طرف سے عورت افزائی کا خطاب داتور DAT SK) دیا گیا تھا اور ایک اور بزرگ جن کا نام عبدالرحمان بن یا بین تھا جو بعد میں پارلیمنٹ آن ملایا کے چیر مین منتخب ہوئے محترم ان کو صاحب نے انہیں مخاطب ہو کہ فرمایا کہ میں نے آپ دونوں کو اس وجہ سے بلایا ہے کہ آپ احمد یہ عقاید خود ان کی زبانی سنیں اور دوسرے اس وجہ سے بلایا ہے کہ آپ ان کی ملائی نہ بان بھی سنیں کہ کیسی فصیح اور بلیغ ہے پھر ہم دہاں بیٹھ گئے بارہ بجے سے اوپر تک گفتگو ہوتی رہی ماحول نہایت خوشگوار منھا اور خاکسار کی
باتوں کو غور سے سنتا جارہا تھا وہ قرآنی آیات اور احادیث سنکر بہت حیران ہوئے اور کہا کہ ہم اسکے متعلق پوری تحقیق کرنا چاہتے ہیں.پھر محترم اونکو صاحب نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ محکمہ شرعیہ جو سور کے لیے جماعت احمدیہ کا لٹریچر خریدا جائے میں نے کہا بہت اچھی بات ہے اس کے بعد اونکو صاحب نے احمدیت کے متعلق مزید تحقیقات شروع کردی اور سلسلہ 1904 کے لٹریچر کا وسیع مطالعہ شروع کر دیا.یعنی کہ آپہنچا ان پر لائف آف احمد (مصنفہ مولانا درد مرحوم) کا بہت اثر تھا اس کی بڑی تعریف کرتے رہے.محترم اونکو صاحب نے لٹریچر کا مطالعہ برابہ جاری رکھا اور آخرت املاء کے ابتداء میں مجھے ایک دفعہ کہا کہ میں جب آپ کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ آپ صحیح اور سچی بات کہہ رہے ہیں لیکن جب میں مفتی صاحب رعلومی بن طاہر الحداء) کے پاس جاتا ہوں تو وہ کوئی نہ کوئی شبہ پیدا کر دیتے ہیں.اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اور ان کو اپنے سامنے بٹھا کر گفتگو کراؤں اور دو چار آدمی بھی بلائے جائیں آپ کا کیا خیال ہے کیا آپ گفتگو کے لیے تیار نہیں ؟ میں نے جواب دیا کہ میں تیار ہوں بے شک آپ مفتی صاحب موصوف سے وقت اور دن مقرر کروالیں اور مجھے اطلاع کر دیں.چنانچہ انہوں نے مفتی صاحب سے مل کر انہیں تبادلہ خیال کے لیے تیار کر لیا اور دن اور وقت مقرر کر کے دو تین دن پہلے مجھے اطلاع کر دی.اونکو صاحب محترم کے لیے بھی اور میرے لیے بھی یہ نازک موقعہ متھا اس لیے میں نے اپنے مولیٰ سے دعا کرنی شروع کی کہ الہی تو میری مدد کرنا اور میری راہنمائی فرما نا تا کہ مجھ سے ایسی کوئی غلطی یا کمزوری سرزد نہ ہو جو محترم اونکو صاحب کو صحیح راستہ سے دور لے جائے.میں مین گیارہ بجے دن کے رمقررہ وقت پر سنگا پور سے جو ہورہ پہنچ کر اونکو صاحب محترم کے دفتر میں پہنچ گیا.انہوں نے گھنٹی بجائی.اور دفتر کا کلرک آیا اور دونکو صاحب نے فرمایا جاؤ اور جاکر مفتی صاحب سے کہو کہ محمد صادق احمدی مبلغ آگئے ہیں آپ بھی تشریف لے آئیں.اس وقت تین اور معزز آدمی بھی اس گفتگو کو سننے کے لیے وہاں پہنچ چکے تھے.کلرک گیا اور واپس آگہ کہنے لگا کہ مفتی صاحب تو سنگا پور تشریف لے گئے ہیں اور کہ تمھتے ہیں کہ آپ کی خدمت میں اطلاع کہ دی جائے.یہ خبر سن کہ محترم اور نکو صاحب کو بہت رنج ہوا اور بار بار کہتے رہے کہ وعدہ
۴۱۳ مجھے یاد ہے اور آج صبح بھی میں نے بذریعہ ٹیلیفون انہیں اطلاع کی مگر انہوں نے وعدہ پورا نہ کیا افسوس ہے پھرا انہوں نے کہا نائب مفتی تو آن عبد الجلیل حسن کو بلا جائے.چنانچہ وہ آ گئے اور ہم پانچ چھ آدمی اکٹھے دفتر میں بیٹھ گئے اور آپس میں بات چیت شروع ہو گئی اور کہا جا سکتا ہے کہ قریبا ہے رتین چوتھائی) وقت میں نے لے لیا.ہر ۱۲ بجے محترم اونکو صاحب کہنے لگے کہ آئی گھر چلیں کیونکہ ہم سب کیلئے کھانا تیار ہے.اس پر ہم سب آپ کے ساتھ ہو لیے.گھر پہنچ کر کھانا کھایا اور پھر گفتگو شروع ہوئی میں نے نائب مفتی صاحب سے باربار کہا کہ اگر میری کسی بات پر آپ کو کوئی اعتراض ہو تو ابھی میرے سامنے پیش کر دیں ایسانہ ہو کہ میں چلا جاؤں تو اس کے بعد اونکو صا حب سے کہیں کہ یہ بات غلط ہے اور دہ بات غلط ہے.اونکو صاحب محترم نے میری تائید فرمائی مگر نائب مفتی صاحب آخر وقت تک خاموش رہے اس پر دوسرے لوگ تو چلے گئے مگر ہیں اور اونکو صاحب رہ گئے اونکو صاحب نے مجھے کہا کہ آج سے آپ مجھے احمدی سمجھیں اور خدمت اسلام کے لیے ۲۰ ڈالر یعنی ۳۰/۰ روپے ماہوار جماعت کو دیتار ہونگا.پھر مرحوم نے میری امامت میں نماز ظہر اور عصر ادا کی میں نے اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے الحمد للہ علی ذالکٹ کہا اور ان کے لیے اور زیادہ دعا شروع کر دی.گو محترم اونکو صاحب نے یہ تو کہدیا کہ مجھے احمدی سمجھا جائے.مجھے ڈر پیدا ہوا کہ ممکن ہے که اگر اونکو صاحب کو بیعت کے لیے کہا جائے تو وہ بیعت کرنے سے انکار کر دیں اس لیے ان کے لیے خود بھی دعا کرتا رہا اور سید نا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھی دعا کی درخواست کی.حضور پر نور نے خود بھی ان کے لیے دعا کی اور دوسرے بزرگوں کو بھی دعا کے لیے تحریک فرمائی.پھر میں نے اونکو صاحب محترم سے کہا کہ آپ استخارہ کر لیں تاکہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی اطلاع مل جائے.چنانچہ انہوں نے استخارہ کیا اور ایک دن مجھے ٹیلیفون پر فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ وہ سجدے سجد سے میں ہیں اور ان پر بارش کے چھینٹے پڑ رہے ہیں.ان دنوں خوابوں کی وجہ سے انہیں یقین ہو گیا کہ احمدیت سچا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام مدا کے سچے مامور میں چونکہ انہیں ہر طرح اطمینان اور نسلی ہو چکی ملی اور انہیں احمدیت کی سچائی سے متعلق یقین ہو چکا تھا اس لیے ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ء کو انہوں نے فارم بیعت پڑ کر دیئے.آپ پہلے ۱۴ برس تک مجسٹریٹ رہے پھر محکمہ شرعیہ ریاست جو ہور کے ہیڈ آفیسر)
رہے پھر ریٹائر ہو گئے اس کے بعد انہیں پبلک سروس کمیشن کا چیر مین مقر کیا گیا اور اسی دوران انہوں نے بیعت کا شرف حاصل کیا.ان کا یہ نظریہ دو سال کے لیے متھا جب دو سال ختم ہو گئے تو فارغ کر دیا گیا ہیں نے دیکھا کہ انہیں اس بات کی ذرہ بھر پر واہ نہ تھی چونکہ وہ بڑے قابل اور معزز انسان تھے اس لیے ملایا کی سنٹرل حکومت نے لے لیا اور آپ دوبارہ مرکز می حکومت کی طرف سے اسی اپنی ریاست میں مجسٹریٹ درجہ اول مقرر ہو گئے.اور کچھ عرصہ بعد اپنی کمزوری اور کام کی کثرت کی وجہ سے انہوں نے استعفیٰ دے دیا.اور مجھے لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ زندگی کے بقیہ ایام خدا کی عبادت اور تبلیغ کے لیے وقف کر دوں بعض لوگوں نے انہیں مختلف طریق سے تکلیف دینے کی کوشش کی اور احمدیت کی وجہ سے ان کی بہنگ کرنے کی بھی کوشش کی مگر انہوں نے کبھی کوئی پرواہ نہ کی.آپ کی ایک بہن جن کا نام اونکو فاطمہ ہے یہ بھی بڑی تشریف الطبع سلیم الفطرت عبادت گزار اور متقی خاتون ہیں اونکو صاحب نے انہیں کہا کہ میں تو احمد می ہو چکا ہوں میں نہیں چاہتا کہ ہم دونوں دیا جدا ہوں اپنے بھائی کے کہنے پر انہوں نے بھی استخارہ کیا ایک دفعہ نہیں دو دفعہ اور دونوں دفعہ ام نے دیکھا کہ ایک دیوار پر اشهد ان لا إلهَ إِلَّا اللَّهُ وَاشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّد رسُولُ اللہ لکھا ہے.ان الفاظ میں لفظ اللہ بڑے نمایاں کردن میں ہے اور دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس لفظ اللہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ایسا نظارہ انہوں نے دو دفعہ دیکھا چنانچہ انہیں یقین ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بہتے ہیں اس لیے مبر ۱۹۵۶ ء میں انہوں نے بھی بیعت کر لی اس طرح چند ماہ کے بعد ان کی دوسری بیوی سعدیہ صاحبہ نے بھی بیعت کر لیتے ۱ - جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی ساتویں سالانہ کانفرنس انڈو نیشیا کے انڈونیشیا مشن دار الحکومت جاکر تنہ کے ایک وسیع ہال میں ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۱۲۱ فروردی ۱۹۵۶ء کو کامیابی سے منعقد ہوئی جس میں انڈونیشیا کی ۲۱ جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی.سه وفات ۶۱۹۶۹
۴۱۵ کانفرنس کے لیے حضرت مصلح موعود نے ایک خاص پیغام ارسال فرمایا.کانفرنس شروع ہونے سے پہلے تین دفعہ جاکرتہ کے روزانہ اخبارات اور ریڈیو پر اس کی خبر نشر کی گئی انڈینشیا کے صدر اور نائب صدر نے اس موقع پر مبارکباد کا پیغام بھیجا.کانفرنس میں غیر احمدی معززین بھی تشریف لائے.جن میں جاکر تہ شہر کے لارڈ میٹر مسٹر سوڈیرو اور وزارت مذہب کے جنرل سیکریڑی اور پارلیمنٹ کے ممبران خاص طور پہ قابل ذکر ہیں.کانفرنس سے درج ذیل مبلغین نے خطاب فرمایا سید شاه محمد رضا رئیس التبلیغ انڈونیشیا.مولوی عبدالاحد صاحب (جماعت احمدیہ کی جد وجہد ) ملک عزیز احمد صاحب رامن عالم) مولوی محمد زهدی صاحب (محمد خاتم النبيين بشیر شاہ صاحب ( مذہب کامل) صاحبزاده مرزا رفیع احمد صاحب (احمدیت کی دعوت) اس کے علاوہ چالیس مختلف اصحاب نے کانفرنس سے اپنے خیالات کا اظہار کیا.ملک پریس اور ریڈیونے کا نفرنس کی مفصل خبری ملک کے کونے کونے تک پہنچا دیں ہے ۲ - سید شاہ حمد صاحب ریمیں التبلیغ انڈونیشیا نے ۲۰ راکتو یہ ۱۹۵۶ کو پا ڈانگ میں خدا کے گھر کا سنگ بنیا درکھا.آپ کے بعد مولوی امام الدین صاحب اور مقامی جماعت کے بعض مخلصین نے بھی باری باری اینٹیں رکھیں.اس تقریب میں جماعت احمدیہ یا ڈانگ کے بوڑھے ، نوجوان ، اور خواتین شامل ہوئے ہے جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے اعلیٰ عہدیداروں کا ایک وفد ر میں التبلیغ انڈونیشیا کی زیر قیادت انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر احمد سو کار لو اور ان کے نائب ڈاکٹر محمد علی صاحب سے ملا.انہوں نے نہایت رئیسی سے جماعت کے حالات دریافت کیے.صدر سو کار نو نے حضرت مصلح موعود کی صحت کے متعلق استفسار فرمایا.اور تازہ لٹریچر کی فرمائش کی ہر درد کو تفسیر قرآن انگریزی کی ایک ایک کالی دی گئی.- تم.مولوی عبد الواحد صاحب جو کرتا ہیں ، مکرم مولوی امام دین صاحب پاڈانگ میں، مولوی محمد ایوب صاحب جنوبی سماٹرا میں ، مولوی ذینی دحصلان صاحب دوسلی سماٹرا میں خدمت دینیہ له الفضل محکم و ۲ مئی ۱۹۵۶ء : الفضل ارنومبر ۱۹۵۶ء صل
میں مصرورت رہے.انہوں نے ہزارہ یا کلو میٹر کا سفر کرکے لیکچروں، ملاقاتوں اور تقسیم لٹریچر کے ذریعہ پیغام حسن پہنچایا.اس سال خدا کا ایک گھر مکمل ہوائے.اس سال انڈونیشین احمدیوں نے مالی جہاد کا نہایت عمدہ نمونہ پیش کیا چنانچہ ۳۵ اصحاب نے وصیت کی تحریک جدید کے وعدے ایک لاکھ اٹھا دن ہزار پیش کیے گئے.قادیان کے مقدس مقامات کی تعمیر کے لیے سات آٹھ ہزارہ کی رقم دی.ذیلی تنظیمیں بھی اپنے چندہ جات با قا عدہ ادا کرتی رہیں.ہونہار احمدی بچوں کی تعلیم کے لیے بھی دس ہزار روپے جمع ہوئے.مغربی جاوا کے خوبصورت شہر گا روت میں خدام دناصرات کے پندرہ روزہ تربیتی کیمپ لگائے گئے جو بہت مفید ثابت ہوئے.اس سال بعض مخالفین جماعت نے سیاسی رنگ میں جماعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن فرض شناس حکام کے تعاون سے دشمن ناکام رہے.سیلون ریڈیو سے ایک مولوی نے امام جماعت کے خلاف زہر اگلا.جماعت احمدیہ انڈونیشیا نے سیلون کی حکومت کے پاس اس تقریر کے خلاف احتجاج کیا.حکومت نے معذرت کا خط لکھا اور یقین دلایا کہ آئندہ اس قسم کی حرکت نہ ہو گی لیے - 14 دسمبر ۱۹۵۶ ء کو انڈونیشیا کے دارالحکومت جاکہ نہ میں جماعت انڈونیشیا کی ایک تبلیغی کانفرنس منعقد کی گئی.کانفرنس کا آغاز پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب ایک مشہور ہال میں ہر 9 بجے تلاوت قرآن کریم سے ہوا.جماعت جا کہ نہ کے پریذیڈنٹ جناب شافعی با توہ صاحب نے مختصر تقریر میں جلسہ کی غرض وغایت بیان کی.اس کے بعد میاں عبد الحی صاحب نے " اسلام ایک عالمگیر تہذیب کی حیثیت میں" کے موضوع پر مولوی محمد زندی صاحب نے سوسائٹی کو تباہی سے کیسے بچایا جائے " کے موضوع پر ملک عزیز احمد نے حکومت کے متعلق اسلامی تعلیم کے موضوع پر تقریریں کیں اور سید شاہ محمد صاب ل الفضل يكم دسمبر ١٩٥٧ ء مره : له الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۵۶ ء ص والفضل ۱۰۹ ر اپریل ۱۹۵۷ ، خلاصہ رپورٹ میاں عبد الحی صاحب
کا موضوع خطاب تھا " امت مسلمہ میں کس طرح سے ہوش اور حرکت عمل پیدا ہوسکتی ہے ؟ حاضرین کی تعداد چھ سو کے قریب تھی سیہ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی سالانہ کا نفرنس کئی مشکلات کی وجہ سے صرف ایک دن کے لیے ہوئی.سالانہ کانفرنس کی کارروائی پراہ بجے بعد نماز مغرب و عشاء شروع ہوئی.تلادت A قرآن کریم کے بعد سید شاہ محمد صاحب نے دعا کرائی.چونکہ کانفرنس کی تیاری کے سلسلہ میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس لیے دعا کے دوران احباب جماعت پر رقت طاری رہی.دعا کے بعد راڈین ہدایت صاحب صدر جماعت احمدیہ انڈونیشیا نے تقریر کی.اس کے بعد جناب شاہ محمد صاحب نے حضرت اقدس مصلح موعود کا پیغام پڑھ کر سنایا جس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے.انڈو نیشین بھائیو.پاکستان میں دو ہفتہ کے اندر سالانہ جلسہ ہو رہا ہے.آپ لوگ بھی اپنی کانفرنس منعقد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اسے بابر کت کرتے ہوئے سارے ملک میں سچائی کے پھیلانے کا ذریعہ بنا دے.آپ کا ملک بڑا ہے لیکن جماعت ابھی چھوٹی ہے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ترقی اور طاقت دے کہ تقویٰ کے راستوں پر چلائے تا کہ یہ خود منور ہو کر دوسرے ممالک کو بھی منور کر دے.اللہ تعالیٰ آپ کے سیاسی اور روحانی لیڈروں کی اس رنگ میں رہنمائی فرمائے کہ وہ سچائی اور انصاف کے راستوں کو بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں.اللہ تعالٰی آپ کا مدد گاسو ہو.آپ لوگ اس پہ بھروسہ رکھتے ہوئے ہمیشہ دعاؤں میں لگے رہیں وہ بھی آپ کو کبھی نہیں چھو گا حضور کے پیغام کے بعد مکرم جناب سید شاہ محمد صاحب نے خطاب کیا جس میں خلافت سے والہانہ تعلق کی تحریک کی.بیچوں اور نوجوانوں کی تربیت پر زور دیا اور چندہ جات کی ادائیگی کی مؤثر تلقین کی نیز فرمایا کہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ خدمت دین کے لیے زندگی وقف کر یں.اس کے بعد آپ نے جماعت کی سالِ رواں کی مساعی پیش کی.جماعت کو اختلاف سے بچنے کی تعین کی پھر حضور کا پیغام جماعت کے نمائندوں میں تقسیم کرایا.بعدازاں خلافت سے د بستگی کا پر دلبستن سله الفضل - در فروری ۱۹۵۷ء صت خلاصہ رپورٹ میاں عبد الحی صاحب الفضل ، اراپریل ۱۹۵۷ء (ترجمه از انگریزی)
MIA پیش کیا جو بالاتفاق منظور ہو گیا.اس کے بعد شوری کا اجلاس ہوا سٹوری کے اجلاس کے بعد آئندہ کا نفرنس کے متعلق فیصلہ ہوا.پھر میاں عبدالحی صاحب نے احباب کو حضور کے اس ارشاد سے آگاہ کیا کہ.انڈونیشا میں تبلیغ کی مسائل کو تیز تر کر دیا جائے ، اس کے بعد صاحب صدر نے احباب کا شکریہ ادا کیا اور شاہ محمد صاد نے دعا کرائی.۱۹۵۶ء میں درج ذیل مبتنین بیرون مبلغین احمدیت کی مرکز سے روانگی اور واپسی مالک می اعلائے کلمی رتق کے لیے ] روانہ ہوئے.ا.حافظ قدرت اللہ صاحب (برائے ہالینڈ ۳۰, جنوری) - مولوی فضل اللي صاحب النور کی دہرائے : غانا مغربی افریقہ.، مار چاہتے سید کمال یوسف صاحب (۱۲ را پریل سکنڈے نیویا ، ہتے مولوی نور الحق صاحب تنویر (۱۲) اپریل - مصر ہے - امری عبیدی صاحب (برائے مشرقی افریقہ - ۲۲ اپریل سے 4 - حضرت سید زین العابدین دلی اللہ شاہ صاحب ربرائے دمشق اور جولائی اتے.مولوی غلام حسین صاحب ایانہ (برائے سنگا پور - د راکتوریه ای - مولوی عبد الرشید صاحب شاہد ربرائے مغربی افریقہ ۲۲؍ دسمبر اے A ۹ - مولوی غلام نبی صاحب شاہدہ کر برائے مغربی افریقہ ۲۳ دسمبر تا اس طرح مندرجہ ذیل میلین فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کے بعد اس سال واپس پاکستان تشریف لائے.ا حافظ قدرت اللہ صاحب (۱۹ جنوری کو انڈونیشیا سے ہے ۲ قریشی محمد افضل صاحب (۲۸ فروری کو گولڈ کوسٹ سے ہے له الفضل ۳۱ ر جنوری ۱۹۵۶ء ص : ست الفضل مه ر مارچ ۱۹۵۶ء صدا کالم ہم الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۵۶ وصل به شه الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۵۶ء ص : له الفضل در جولائی 1907 ء ص :: شه الفضل ١٠ اکتوبر ٩٥٦ ۱۹۵۶ء ص نباشه الفضل ۲۵ دسمبر ۹۵۶اوسط :: شه (ایضاً) : شطه الفضل ۲۰ جنوری ۹۵۶ اوسط کالم آخرون له الفضل و ۲ فروری اور عام آخر
۴۱۹ قریشی فیروز محی الدین صاحب شاہد (۲۱ مارچ کو سنگا پور سے ہے ۲ - صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ( ۲۹ مارچ کو انڈونیشیا سے ات - مولوی عبد القدیر صاحب شاہد اور نومبر کو نانا سے سے - مولوی عبد الکریم صاحب شر ما ریکم دسمبر کو مشرقی افریقہ سے ہے مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل (۲۲ دسمبر کو سیرالیون سے شے مولوی محمد صدیق صفات بد گورداسپوری ۲۲ دسمبر کو سیرالیون سے تھے سواری عبد اللطیف کا شاہد پر ہیں (۲۲ دسمبر کو گولڈ کوسٹ سے اٹے اس سال بھی خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے لڑیچر میں مفید اضافہ ہوا.نئی مطبوعات بیرونی مشنوں کی نئی کتب اور فتنہ منافقین کے رد میں جھیلنے والی گنب کتب کا بھی ذکر کیا جا چکا ہے.ان کے علاوہ جو اہم کتب شائع ہوئیں ان کی تفصیل یہ ہے ا.جماعتی تربیت اور اس کے اصول - حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ۲ - حیات احمد طبیب نجم - حالات ۱۹۰۱ - ۱۹۰۲ حالات ۱۹۰۱ - ۱۹۰۲ د حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی - حیدر آباد ۳ - حیات بقاپوری جلد سوم ، چهارم و نجم - حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری.-۴- شرح القصيده - حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس و مبلغ بلاد تربیه و انگلستان.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (سندھی زبان میں) - از مولانا غلام احمد فرج مربی سلسلہ ناشر احمد یہ منزل سکھر.المودودی فی المیزان (المينثر الاسلامي الاحمدی منبر الحصنی میشن) - قضا و قدر - مولوی ابوالمنیر وز الحق صاحب پر دنیس راستہ المبترین ناشر الشركة الاسلامی میڈ ربوہ وصل له العقل ۲۵ رما - ۱۹۵۶ء مرا کالم آخر له الفضل ۱۲۰ مارچ ۱۹۵۶ دست من الفضل اراد مبر ۱۹۵۶ دست : کے الفضل ۲ دسمبر ۱۹۵۶ ء ص آخر : ۶۵ الفضل ۲۵۰۲۳ دسمبر ۱۹۵۷ رمان که الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۵۷ ء ما والفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۵۷ دست
- اربعین - سید احمد علی صاحب سیالکوئی مر با سلسلہ احمدیہ ناترسید محمد بازار - و منظم جماعت کا منظم کام - تبلیغ اسلام مکتب ابراهیمی میدا وا د رکن مولوی محمد اسماعیل صاحب یادگیری.انڈیلیس خطبات جمعہ و عیدین (حضرت مصلح موعود ) (۶۱۹۱۴ - ۱۹۵۴ء) مرتبہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل ہائی کورٹ یادگیر.بھارے - دیوان خادم - کیپٹن ملک خادم حسین صاحب ربوه - ۱۲- بشارات رحمانیہ جلد دوم - مولوی ابو ظفر عبدالرحمن میتر صاحب مولوی فاضل ڈیرہ غازیخاں لاہور آرٹ پر لیس انار کلی بالمقابل گنپت روڈ.لاہور ).۱۳ - خالد سیف الله (ابوزید شلبی ) مترجم شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی ناشر مکتب جدیدانار کلی لاہور) -۱۴ پیام احمدیت (فارسی ترجمہ احمدیت کا پیغام ).۱۵ - تذکرہ طبع دوم - 14 - " تحریک جدید کے بیرونی مشن" (صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) 16 GLORIE USE DEJESUS بشیر مبلغ ماریشس - LA MORT مولوی فضل الہی صاحب ۱۸- اخلاق اور ان کی ضرورت رخالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب) ۱۹.بچوں کے لیے اخلاقی مضامین رمیاں محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول ربوہ).
۴۲۱ فصل چهارم خلافت ثانیہ کا تینتالیسواں سال از ماه صلح ۳۳۶ مش تا ماه جنوری 1986ء فتح دسمبر ۶۱۹۵۷ میش) ٹھیک سو سال قبل شاہ کا معدہ پیش آیا.جس کے نتیجہ میں ملک ہندے مسلم سلطنت کے آثار باقیہ بھی معدوم ہو گئے اور صنعف اسلام کا درد ناک زمانہ شروع ہوگیا.یہاں شہداء کا سال مسلمانان برصغیر کے لیے ایک قیامت بن کر آیا جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو تڑپا دیا وہاں ۱۹۵۷ء کا سال دنیا ئے اسلام کے لیے بہت مبارک اور مسرتوں کا پیغام ثابت ہوا جیسا کہ آئندہ تفصیل سے عیاں ہوگا.صاحبزادہ مرزا دسیم احمد صاحب رناظر صاحبزادہ مرزا وسیم احدصاحب کے دورہ جنوبی ہند دعوت تبلیغ قاریان نے ، را بوسی سے ۲۱ مارچ ۱۹۵۷ء تک جنوبی ہند کی احمدی جماعتوں کا کامیاب دورہ کیا.مختلف اوقات میں درج ذیل علماء کرام آپ کے ہمسفر رہے.مولوی محمد سلیم صاحب زودی بیشتر احمد صاحب مولوی شریعت احمد صاحب امینی ، مولوی ظهر اسماعیل صاحب یا دگیر ، مولوی سمیع الله صاحب، مولوی مبارک علی صاحب، حکیم محمد الدین صاحب، محمد کریم اللہ صاحب ایڈیٹر اخبار آزاد نوجوان صاحبزادہ صاحب ہ صوبوں کی چالیں احمدی جماعتوں میں تشریف لے گئے 4 ہزار میل سفر
۴۲۲ کیا اور خطبات جمعہ ، تقاریر ملہوں کے ذریعہ جماعت کی تربیت فرمائی دس ہزار سے زا مدل زیر تقسیم کا گیا اور چھینیں مقامات پر جلسے منعقد کیے گئے یہ اس تبلیغی دورہ کا چرچا جنوبی ہند کے پریس میں بھی ہوا.چنانچہ اخبار انگارے حیدر آباد نے لکھا :.فروری آج ساڑھے چار بجے بلڈنگی سکندر آباد میں محترم حضرت صاحبزادہ مرزا دیم احمد صاب فرنه اند امام جماعت احمدیہ کے اعزاز میں جماعت ہائے احمدیہ حیدر آباد دسکندرآباد کی طرف سے بوت عصرانہ ترتیب دی گئی تھی.دعوت میں کثیر تعداد میں شہر حید ر ابا دا دور سکندر آباد کے معززین نے شرکت کی جس میں نواب اکبر یار جنگ بہادر، نواب ناظر یار جنگ، بهادر ، مولوی مرتضی خان صاحب خانصاحب دوست محمد علا والدین ہیٹھ نور محمد علاء الدین صاحب مردار فضل حق خال صاحب اور دیگر مذاہب کے معززین نے شرکت کی جس میں جماعت احمدیہ کی جانب سے پیش کیے ہوئے سپاسنامے کا جواب دیتے ہوئے صاحبزادہ صاحب موصوت نے فرمایا کہ حضرت مسیح علیہ السّلام کا معروف قول ہے کہ درخت اپنے پھیل سے پہچانا جاتا ہے.ایڈریس میں جو نسبت بانی جماعت حمدیہ سے بیان کی گئی ہے اس خصوص سے ہم جائزہ لے سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو آپ نے کس کام پر لگایا.آپ قا دیان کی گمنام بستی میں پیدا ہوئے.آپ کے دل میں اسلام اور قرآن کا در دو تھا.اسی اشاعت اسلام کے کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو معبوث فرمایا اور اکنان عالم میں آپ کے مشن کے ذریعہ اس تعلیم کو پہنچا دیا.آج غیر اقوام کے لوگ معترف ہیں کہ تبلیغ اسلام اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت کے کام میں جماعت احمدیہ کی برایم می کرنے والی کوئی جماعت نہیں ہے.مزید آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے بانی جماعت احمدیہ سے اپنے وعدوں کے مطابق سلوک فرمایا.یعنی اس کا وعدہ تھا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دوں گا.اور میں تجھے برکت پر برکت دونگا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے بر کتنے ڈھونڈیں گے" چنانچہ ان وعدوں کے مطابق آج آپ کی جماعت اشاعت احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں سرگرم عمل ہے.اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ میں درخت کا یہ شہرہ ہے وہ کیسا شاندار ہے آپ نے را تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ا ختیار بدر قادیان در فروری تا ۲ رمئی ۱۹۵۷ء
۴۲۳ دوران تقریر میں جماعت کے تعمیری اور دینی کارناموں کا وضاحت سے ذکر فرماتے ہوئے اس امر کا تفصیل سے جائزہ لیا کہ جماعت احمدیہ نے مغرب کے ممالک اور افریقہ کے غیر ترقی یافتہ علاقوں میں کس طرح اسلام کا بول بالا کیا ہے اور کس طرح ان علاقوں میں بیت الذکر کی تعمیر اور دنیا کے مختلف بڑی بڑی نہ بانوں میں قرآن کریم کی اشاعت کا کام جماعت احمدیہ نے انجام دیا ہے.اور کسی طرح اپنے کارناموں اور اسلام کی سچائی کو دیگر اور ان پر ثابت کر رہی ہے.پہلے اسی طرح کیرالہ کے مشہور اختبار ماتہ بھولی کا الیکٹ نے ۲۰ مارچ ۱۹۵۷ ء کی اشاعت میں کیرالہ کا نفرنس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا سن آل کیرالہ احمدیہ کا نفرنس کا چوتھا اجتماع کا لیکٹ ٹاؤن ہال نہیں ۱۶ ۷ار مارچ ، ۱۹۵ د کو منعقد ہوا.بانی جماعت احمدیہ کے پوتے اور موجوده امام جماعت احمد به (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کے صاحبزادہ مرزا د سیم احمد (صاحب) مشرقی پنجاب) نے 14 مارچ ۱۹۵۷ء کے جلسہ کی صدارت فرمائی.صدر صاحب کی خدمت میں آل کیرالہ احمدی مسلمانوں کی طرف سے ایک سپاسنامہ پیش کیا گیا جس کے جواب میں مرزا دسیم احمد (صاحب) نے جو تقریہ فرمائی اس میں سپاسنامہ پیش کر نیکا شکریہ ادا کیا اور جماعت احمدیہ کی غرض و غایت بیان کی اور اس کے حصول کی کوشش کرنے کی تلقین کی.نظریہ کرتے ہوئے آپ نے بنایا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عوام الناس کی یہ حالت تھی کہ وہ جاہل اور جانوروں کی طرح تھے مگر حضرت رسول اللہ صل اللہ علی وسلم نے اُن کی اچھی تربیت کر کے ان کو عالم با اخلاق اور باخدا انسان بنا دیا.- احمدیت کی غرض وغایت تجدید اسلام ہے ، رواداری ، امانت پسچ بولنا ، اخوت وغیره جیسے اسلام کے اخلاقی قوانین کی آجکل ایسی پابندی نہیں کی جاتی.میں طرح اس کی پابندی کی جانی چاہیئے.یہ اخلاقی گراوٹ ایک بہت بڑی مصیبت بنی ہوئی ہے اس کو بدلنا ضروری اور لابدی ہے.ہماری عزم نہ غایت صحیح اسلامی تعلیم کو قائم کرنا ہے اگر یہ ذمہ داری بنا ہی گئی.تو ایک امن کی فضا قائم ہو جائے گی اس غرض وغایت کو پورا کرنے کیلئے سب کا دلی تعاون ضروری ہے.اخبار انگارے حیدرآباد دکن.بحوالہ بدر ۱۸ار اپریل ۱۹۵۷ء مرے.
۴۲۳ انٹر نیشنل کورٹ کے حج چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے نیو یارک سے اس اجتماع کے لیے جور پیغام بھجوایا ہے وہ اس میں پڑھ کر سنایا گیا.اور سلسلہ احمدیہ کے موجودہ روحانی لیڈر (حضرت) مرزا بشیرالدین محمود احمد (صاحب) کا پیغام بھی سنایا گیا جو آپ نے پاکستان سے بھجوایا تھا.پیغام کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندوستان میں سب سے پہلے مسلمان مالا بار میں آباد ہوئے اس لیے آپ لوگوں کو چاہیئے کہ آپ کبھی بھی ہمت نہ ہاریں اور ایک دفعہ پھر اپنے ملک میں اسلام کا جھنڈا لہرا دیں.مسٹر محمد کریم الہ ایڈ یر - آزا د لو جوان اور مولوی محمد سلیم (صاحب) فاضل مبلغ کلکتہ نے علی الترتیب انگلش اور اردو میں ایک ایک تقریر کی.۷ ار مارچ کے اجتماع میں مولوی عبداللہ (صاحب) اپنے اسے احمد یہ مشنری نے بھی صدارت کی مسٹر محمد کریم اللہ صاحب مولوی محمد اسماعیل رفاضل وکیل با نیکوٹ یادگیر ) اور حضرت صاحبزادہ مرزا سیم احمد صاحب نے تقریریں کیں.لوگ کثیر تعداد میں اس اجتماع میں شامل ہوئے پہلے فروری ۱۹۵۷ ء کو قادیان میں جلسہ سیرت قادیان میں جلسہ سیرت پیشوایان مذاہب پیشوایان مذاہب منقد ہوا.صدارت سردار د هر مانند سنگھ صاحب پر نسپل سکھ مشتری کالج امرتسر نے کی اور درج ذیل مقررین نے طلبہ خطاب کیا.۱- ولی الدین احمد صاحب حیدر آبادی میتعلم مدرسہ احمدیہ (سیرت ناتمه بدهد) - ۲ - سردار رام سنگھ صاحب ایم اے بھائی رشتری گورو نانک کی سیرت) نے اپنی تقریر میں ۱۹۴۷ء کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ " اس وقت بھی قادیان کی پوتر دھرتی میں انسانیت کو قائم رکھا گیا اور اس جماعت نے قتل وغارت اور لوٹ کھسوٹ میں حصہ نہ لیا " ۲ - پنڈت گورکھ نا تو صاحب صدر گورداسپور ضلع کانگریس - ۲ - مردار مرین سنگر صاحب ۴ نے اپنی تقریر میں حضرت بانی رسول اکرم اور بانی سلسلہ احمدیہ کے بارہ میں تعریفی کلمات کہے.که بحواله بدر قادیان ۲۵ اپریل ۱۹۵۷ء ص ۶
- مولوی بشیر احمد صاحب فاضل مبلغ دلی - سیرت آنحضرت - سیرت حضرت مسیح موعود - - پادری ماسٹر طفیل مسیح صاحب.بہرت حضرت مسیح علیہ السلام - ، - سردار دهر مانند سنگر مصاب پرنسپل سکو مشنری کالج امر قمر - مر گیانی لابر سنگھ صاحب فخر (سیرت حضرت بابا نانک) - کریم الدین صاحب متعلم مدرسہ احمدیہ (سیرت حضرت نداشت) - صدر اجلاس نے اپنی تقریر میں کہا یہ خوشی کا مقام ہے کہ ہم لوگوں گلوان چنیدہ لوگوں میں شامل ہونے کا موقع ملا جو خدا کی باتوں کے لیے اکھٹے ہوئے یا اس جلسہ کے لیے معززین نے حسب ذیل پیغامات بیجے.گورنہ اثر ر یہ شرمی میم سین صاحب کچر نے لکھا.یہ کانفرنس پنجاب میں مذہبی رواداری کو ترقی دینے میں محمد ثابت ہوگی : سردار پرتاپ سنگھ کیروں وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا مجھے یقین ہے کہ آپ کا اس جلسہ میں غور و فکر سچائی کی تلاش میں بہت مدد دے گا اور ہم سب میں جو مختلف مذاہب کے پیرو لیکن ایک ہی خدا کے پہر تو ہیں.رواداری اور مفاہمت کا باعث ہو گا..جناب ڈاکٹر شنکر داس مہرہ دہلی نے کہا اور مجھے تحریک احمدیت سے اس لیے عقیدت ہے کہ اس نے بطور ایک مذہبی جماعت کے تاریخ میں پہلی بار عملا بنی نوع انسان کو دعوت دی کہ وہ اپنے مذہبی پیشواؤں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے مذہبی پیشواؤں اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کریں.یہ نیک کام جماعت احمدیہ کر رہی ہے ضرورت ہے کہ دوسری نما یہی جماعتیں اس کی تقلید کریں.مسٹر بشیر الدین ڈپٹی چیر مین پنجاب لیجیسٹو کونسل و صدر سیمی سنگت پنجاب نے لکھا " خدا تعالیٰ نے ہر زمانے میں دنیا کو تباہی اور بربادی سے بچانے کے لیے اپنے مقدس افرادا اور مصلحین کو ناندک اوقات میں مبعوث کیا.آجکل اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اپنی توجہ انکی تعلیمات کی طرف پھیریں اور ان کی پیروی کریں تاکہ امن میں آسکیں.جناب برش بھان وزیر پرا جیکٹس نے لکھا " میری دلی تمنا ہے کہ یہ جلسہ اپنے اعلیٰ اور عمدہ مقصد میں کامیاب ہو تے جناب سردار گور دیال سنگھ ڈھلوں سپیکر پنجاب اسمبل نے تمنا ظاہر کی کہ اس جلسہ میں جو امن رواداری ، اور مفاہمت اور قومی اتحاد کی کوشش کی گئی ہے اس میں پوری کامیابی ہو.
۴۲۶ فر دار اجل سنگھ سابق فنانس منسٹریٹری یونت رائے ڈپٹی منسٹر تعلیم پنجاب.جی آر سیٹی صاحب جرنلسٹ نمائندہ پریس امرتسر نے پیغام دیا کہ : - مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ پیشوایان مذاہب کا جلسہ منعقد کر رہے ہیں اس وقت جبکہ باہمی شبہات اور غلط فہمیاں مختلف مذاہب کے پیرووں کے درمیان پائی جاتی ہیں یہ ضروری ہے کہ وہ مذہب کی اہمیت کو سمجھیں جس سے ایک دوسرے کو زیادہ مجھنے کا موقعہ ملے اور انسانیت کی عزت داحترام قائم ہو.میں اس عمدہ کام میں ہر طرح کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں پلے مار فروری ۱۹۵۷ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوده | طلباء سے حضرت مصلح موعود کا خطاب کے طلبا عر جماعت نہم کی طرف سے طلبا جماعت دہم کے اعزاز میں دعوت عصرانہ کا اہتمام کیا گیا.میں میں دیگر بزرگان سلسلہ واحباب کے علان حضرت مصلح موعود نے بھی شرکت فرمائی، اور طلباء کو زرین نصائح سے نوازا.حضور نے اپنی تقریر کے آغازہ میں ایڈریشن اور جواب ایڈریس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.ایڈریس نہیں طلباء وہم کے اچھے نمونہ کا ذکر کیا گیا ہے.اور جواب ایڈریس میں اساتذہ کا شکریہ ادا کیا گیا ہے اہے.اور جو زاید وقت دے کر بلا معاوضہ طلباء کو پڑھاتے رہے در حقیقت یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو آنے والوں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہیں.اور انہیں مد نظر رکھ کہ ہمارے سکول کے طلبہ سینکڑوں سال کے لیے اپنی قوم ملک بلکہ دنیا کے لیے ایک نمونہ بن سکتے ہیں.حضور نے یورپ کے ایک ڈاکٹر کی مثال دیتے ہوئے جس نے عمر بھر اپنے آپ کو اپنے سکول سے وابستہ رکھا طلباء کو نصیحت فرمائی کہ طلباء اگر واقعی اپنے سکول سے اور اپنے اساتذہ سے محبت اور اخلاص رکھتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ عمر بھر اس تعلق کو قائم رکھیں اپنے سکول کی نیک روایات کو زندہ رکھتے ہوئے ہمیشہ اس کے ساتھ گہری وابستگی کا ثبوت دیں.حضور نے تحریک وقف زندگی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا : آپ کے ہیڈ ماسٹر صاب لے بدر قادیان و فروری ۱۹۵۷ ء ما تا ۱۲ : کے ناصر احمد صاحب نے ایڈریس پڑھا : کہ جواب ایڈریس مجیب الرحمن صاحب درد نے پیش کیا.
۴۲۷ نے مجھے یقین دلایا ہے کہ بہت سے لڑ کے دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.بعض لوگ سلسلہ کی آمد کو دیکھتے ہوئے یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید سلسلہ زیادہ واقفین کے اخراجات برداشت نہ کر سکے.لیکن یہ ہرگز صحیح نہیں ہے.در حقیقت دین کو ابھی لاکھوں واقفین - زندگی کی ضرورت ہے.باقی رہے ان کے اخراجات سو یہ اخراجات نہ قوم دے گیا اور نہ ملک اور حکومت بلکہ خدا خود مہیا کرے گا.ایسی جگہوں سے مہیا کرے گا جس کا تم گمان بھی نہیں کر سکتے ہماری عمر میر کا یہ تجربہ ہے کہ اگر انسان خدا کا ہو جائے اور مجھے معنوں میں اس پر توکل کرے تو وہ آپ کی ساری ضروریات کا کفیل ہو جاتا ہے اور ہر موقعہ پر اس کی غیب سے اس کی مدد اور نفرت کے سامان مہیا فرما دیتا ہے - اس ضمن میں حضور نے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے اور خود اپنی زندگی کے متعدد واقعات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کبھی مت خیال کرو کہ روپیہ کہاں سے آئے گا.اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو حضرت مسیح کے قول کے مطابق خدا تمہارے لیے آسمان سے اتارے گا.اور زمین سے لگائے گا.پس تم اخراجات اور تنخواہوں کا خیال نہ کردے.بلکہ خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنے آپ کو دین کے کی قدرت کے لیے لگا دو اور تبلیغ دین کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جاؤ.پھر جماعت ہوں جوں بڑھے گی تمہارے گزارے بھی بڑہیں گے.مگر نیت کبھی یہ نہ کرو کہ تمہارے گزارے بڑھیں نیست ہمیشہ ہی رکھو کہ تم نے تنخواہوں در گزاروں کا خیال کیسے بغیر معنی خدا کے لیے کام کرنا ہے.پھر تم خود مشاہدہ کرو گے کہ کس طرح خدا تمہاری مدد کرتا ہے لیے حضرت خلیفة أسبح الثاني المصلح الموعود قريباً ہر سال نا حضرت مصلح موعود کا سفر سندھ اراضی کے معائنے کے لیے سندھ تشریف لے جایا کرتے تھے.مگر ۱۹۵۴ء کے حملہ اور ۱۹۵۵ ء کی علالت کے باعث حضور تقریبا تین سال تک سندھ نہ جا سکے.اس سال کے شروع میں حضور نے سفر سندھ اختیار کر کے ہزاروں بے تاب دلوں کوسرت و شادمانی سے ہمکنار فرمایا.راه روزنامه الفضل ربوه ۹ر فروری ۱۹۵۷ء صفحه ما
۴۲۸ حضور 9 فروری ۱۹۵۷ء کو صبح نو بجے ربوہ سے بذریعہ کار لاہور تشریف لے گئے حضور کا پروگرام تیز گام کے ذریعے سفر کرنے کا تھا.حضرت سیدہ ام معین صاحبه سیده امستر النصير صاحبه، سیده امنه الباسط صاحبہ ، سیدہ امته الجمیل صاحبہ - صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور محرم پیر معین الدین منا بھی حضور کے ہمرکاب تھے.لاہور میں حضور نے صاحبزادہ مرزا منظفر احمد صاحب کی کو بھٹی پر تھوڑی دیر قیام فرمایا.گاڑی نے تین بجگہ پچپن منٹ پر سود نہ ہونا تھا.حضور گاڑی کی روانگی سے تھوڑی دیر قبل اسٹیشن پر تشریف لے آئے.جماعت احمدیہ لاہور کے مخلص احباب بھی کثیر تعداد سٹیشن پر الواع کہتے کے لیے موجود تھے.راستہ میں اوکاڑہ.منٹگمری (ساہیوال) اور خانیوال کے سٹیشنوں پر جماعت کے بہت سے دوست تشریف لائے ہوئے تھے.جنہیں حضور نے شرف مصافحہ بخشا.منٹگمری کے اسٹیشن پر مکرم چوہدری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ مشگیری نے حضور اور حضور کے تمام خدام کے لیے رات کا کھانا پیش کی.جو ہم اللہ احسن الجزاء - ار فروری ساڑھے آٹھ بجے صبح گاڑی حیدر آباد پہنچی.جہاں جماعت احمدیہ حیدر آباد اور ان کے ڈویژنل امیر ڈاکٹر احمد دین صاحب کے علاوہ کراچی سے کریم چوہدری عبد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی معہ دیگر مخلصین جماعت اور کرم چوہدری عزیز احمد صاحب معہ احباب ظفر آباد سے اور مکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب ناصر آباد سے تشریف لائے ہوئے تھے.اس موقع پر جماعت احمدیہ حیدر آباد نے ناشتہ پیش کیا.اور حضور بذریعہ جیپ کار بشیر آباد تشریف لے گئے.قافلہ کا کچھ حصہ سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے ساتھ ناصر آباد روانہ ہو گیا.بشیر آباد کے کثیر احساب حضور کے استقبال کے لیے اسٹیٹ میں موجود تھے.مکرم چو بادی عزیز احمد صاحب معہ احباب ظفر آباد بھی سارا وقت موجود رہے دوپہر کا کھانا جماعت کی طرف سے پیش کیا گیا.رات حضور نے کنال ریسٹ ہاؤس میں ہی قیام فرمایا.دوسرے دن دہاں سے ناصر آباد کے لیے روانہ ہوئے.بشیر آباد سے حضور معہ اہل بیعت بذریعہ جیپ کار ۱۱ فروری کو چار بجے دو پر روانہ ہوئے.ساستہ میں حضور نے میر پور خاص میں ایک رات قیام فرمایا.اس قیام کے دوران میں مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی نے اس مبارک قافلہ کی خدمت کا شرف حاصل كيا اور دعوتِ طعام کی ۱۲۰؍ فروری ساڑھے نو بجے صبح میر پور خاص سے بذریعہ ٹرین ناصر آباد
روانہ ہوئے.اور بارہ بجے کنجی سیشی پر پہنچے.مقامی اور کنٹری کی جماعت کے تمام دوست سٹیش پر تشریف لائے ہوئے تھے.جنہوں نے اَهْلاً وَ سَهْلاً وَ مَرْحَبًا کہا بعد ازاں حضور ناصر آباد رونق افروز ہوئے.سید داؤ د مظفر صاحب نے حضور کے اعزاز میں دعوت کی.۱۴٫۱۳ فروری کو حضور نے ناصر آباد اسٹیٹ کی فصلوں اور باغ کا معائنہ فرمایا ۵ ار فروری حضور نے خطبہ جمعہ میں جماعت کے دوستوں کو تلقین فرمائی.کہ انہیں اپنی سستی دور کرنی چاہیے.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ان پر اشاعت دین کا فرمن عائد کیا گیا ہے اس کی ادائیگی میں پوری تن دہی سے کام لینا چاہیئے یہ حضور ۱۷ فروری کو احمد آبا د تشریف لائے اس موقع پر احمد آباد محمد آبا د اور بنی سر روڈ کی جماعتوں نے حضور کا پر تپاک خیر مقدم کیا.اور دل سے خوش آمدید کہنے کی سعادت حاصل کی.اسی روز سہ پہر کو تحریک جدید اسٹیٹس کے جلب تقسیم انعامات کا انعقاد عمل میں آیا.حین میں حضور نے اپنے دست مبارک سے حسب ذیل کارکنان کو انعامات عطا فرمائے.ا.اسٹنٹ ایجنٹ.مکریم غلام احمد صاحب عطاء -۲- مینجران : پیر زاده صلاح الدین صاحب د محمد اسماعیل صاحب خالد - منشیان - بشیر احمد صاحب - نذیر احمد صاحب - محمد بوٹا صاحب - نذیر احمد صادر محمد موسیٰ صاحب - محمد عبد اللہ صاحب - محمد صادق صاحب ہے.۱۹ فروری کو حضور ناصر آباد سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے.ناصر آباد محمود آباد اور کری کے بہت سے دوست حضور کے الوداع کے لیے کنجیجی اسٹیشن پر موجود تھے.ان تینوں جماعتوں نے حضور کے دوران قیام نہایت مخلصانہ خدمات سر انجام دیں.گاڑی نہ دانہ ہونے پر اسٹیشن کی فضاء نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اُٹھی.پانچ بجے کے قریب گاڑی میر پور خاص پہنچی.ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی نے حضور اور حضور کے تمام قافلہ له الفضل ۲۶ فروری ۷ ۹۵ درصد خطہ میجر روزنامه الفضل ۲۶ فروری ۱۹۵۷ و ۲۷ پر شائع شدہ ہے که روزنامه الفصل ۲۴ فروری ۱۹۵۷ سنگ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الفضل در ماست ۱۹۵۷ دست
۴۳۰ کے لیے عمران کا انتظام فرمایا.گاڑی ساڑھے آٹھ بجے شب حیدر آباد پہنچی.جہاں جماعت احمدیہ حیدرآباد کے تمام دوست اپنے پریذیڈنٹ کرم عبد الغفار صاحب کے ساتھ استقبال اور قافلہ کی خدمت کے لیے موجود تھے، ان کے علاوہ کرم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب اور خدام کا حمدیہ کراچی کے کچھ نمبر بھی انتظامات کے سلسلہ میں پہنچ چکے تھے.حضور نے رات گاڑی میں ہی آرام فرمایا.فضیح کی چائے ڈاکٹر عبدالحمید صاحب نے پیش کی.گاڑی صبح ساڑھے چار بجے حیدر آباد سے بہ روانہ ہو کہ ۲۰ فروری کو برا بجے صبح کراچی ر پہنچی.اسٹیش پہ جماعت احمدیہ کراچی کے بہت سےمخلصین امیر کراچی چو ہدری عبد اللہ خانصاحب کی قیادت میں استقبال کے لیے صف بستہ کھڑے تھے.حضورہ گاڑی سے اترنے کے بعد صدر انجین احمدیہ پاکستان کی کو بھی "دار الصدہ میں تشریف لے گئے.جہاں حضور کے قیام کا انتظام تھا.کراچی میں حضور کا قیام تیرہ روز رہا.اس دوران میں جماعت احمدیہ کراچی نے بے مثال اخلاص محبت اور ندائیت کا نمونہ دکھایا.حضور کی حفاظت خاص کے انتظامات میں نہایت پر خوشی اور سرگرم حصہ لیا.اور سات دن قابل رشک خدمات سرانجام دیں.کوبھی دارالصدور پرمہمان نوازی کے فرائض انجام دینے کی سعادت مکرم منیجر شمیم احمد صاحب ، بابو عبد الحمید صاحب اور شیخ خلیل الرحمن صاب کے حصہ میں آئی.جنہوں نے جماعت کراچی کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا.حضرت مصلح موعورا در حضور کے قافلہ کی مہمان نوازی کا انتظام کلینہ جماعت احمدیہ کرا چانے کیا.تاہم انفرادی طور پہ مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب اور ڈاکٹر عبدالحمید صاحب نے مختلف اوقات میں حضور کو دعوت طعام دی.اسی طرح میجر شعیم احمد صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب نائب امیر کراچی عبد الحی صاحب دنگ کمانڈر ماڑی پور اور احمد یہ انٹر کالجیٹ الیسوسی ایشن نے حضور کی خدمت میں عصرانہ پیش کیا ہے سید نا حضرت مصلح موعود نے کراچی میں تیرہ روز قیام کے دوران علاوہ روزانہ ملاقاتوں کے درد خطبات جمعہ پڑھے.اور چار لیکچر دیئے.سله الفضل و ر مارچ ۱۹۵۷ ۶ صت
ایک لیکچر یوم مصلح موعود کی تقریب میں احمدیہ ہال میں دوسرا بیج لگثری ہوٹل میں تیسرا مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے اجلاس میں.اور جو متھا ماڑی پور میں دیا.یوم مصلح موعود کی تقریب په ۲۰ فروری ۱۹۵۷ دکو سو اسات بجے شام احمد یہ ہال میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں مقامی جماعت کے علاوہ سینکڑوں غیر احمدی معززین نے شرکت کی.حضرت مصلح موعود نے اپنی بصیرت افروز تقریہ میں اس امر پہ خاص طور پہ نہ در دیا.کہ اگر احمدی خدا تعالی کی زور مدد پر کامل یقین اور بھروسہ رکھیں گے تو اُس کے فرشتے اُن کی مدد کریں گے.اور انہیں غیر معمولی برکتیں عطا ہوں گی چنانچہ فرمایا : - وہ یہی چاہتا ہے کہ میری عظمت اور میری توحید اور میری تفرید دنیا میں قائم ہو اور اس غرض کو پورا کرنے کے لیے سوائے جماعت احمدیہ کے دنیا میں کوئی جماعت کام نہیں کر رہی لوگوں کے پاس مال بھی ہے ان کے پاس طاقت بھی ہے اُن کے پاس ذرائع اور اسباب بھی ہیں ان کے پاس حکومت بھی ہے لیکن کوئی نہیں جو خدا کے نام کو بلند کر رہا ہو اور اس کے دین کی اشاعت کے لیے کوشش کر رہا ہو.صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جیس کے افراد غریب ہوتے ہوئے کنگال ہوتے ہوئے مز در اور نا طاقت ہوتے ہوئے جو کچھ بچتا ہے خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لیے دے دیتے ہیں یہاں تک کہ اپنے بچوں کے بچے ہوئے ٹکڑے بھی وہ خدا تعالیٰ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں اگر کمز در اور نا طاقت اور غریب اور کنگال ہوتے ہوئے وہ خدا کے لیے ایسی قربانی کرتے ہیں تو کیا خدا ہی نعوذ باللہ ایسا بے غیرت ہے جو انہیں ذلت میں چھوڑ کر اپنے عرش پر جا بیٹھے گا.کیا کسی انسان کے عقل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ خدا بے غیرت ہو.جس طرح یہ بات کسی انسانی عقل میں نہیں سکتی کہ خدا بے غیرت ہو اسی طرح یہ بھی کسی انسانی عقل میں نہیں آسکتا کہ دین کی خدمت کرنے والے لوگوں کو چھوڑ کر دہ آسمان پر چلا جائے گا اور وہ اس وقت تک آسمان پہ نہیں جائے گا جب تک وہ ان کو سخت پہ نہ بٹھا دے..حب ده دقت آئے گا کہ احمدیت دنیا میں چاروں طرف پھیل جائے گی.......اور اس وقت ممکن ہے کہ خدا ہے کہ ہند روز تم بھی کھیل کھیل لو لیکن جب تک دہ وقت نہیں آتا اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ رہے گا اور وہ تمہیں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں چھوڑے گا.میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایسا ہی سلوک ہے جیسا
ماں باپ کا اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے ماں باپ بعض دفعہ میز یا کوئی چیز اٹھانا چاہتے ہیں تو بچے کو کہتے ہیں تم بھی نیز اٹھاؤ اور وہ بھی پنا ہاتھ میز کے نیچے رکھ دیتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ میں کام کہ رہا ہوں.اسی طرح ہمارے سب کام خدا کہ رہا ہے مگر بچے کی طرح ہم بھی ادنی اور حقیر قربانیاں کر کے خوش ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہم کام کر رہے ہیں.حالانکہ ہم نہیں کر رہے ہمارا خدا سب کچھ کر رہا ہے.لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس وقت میز اٹھائی جارہی ہوتی ہے تو یہ ہی خوش نہیں ہوتا ماں باپ بھی خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہمارے کام میں شریک ہے اس طرح جب تم خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لیے کھڑے ہوتے ہو تو صرف تم ہی خوش نہیں ہوتے بلکہ خدا بھی تمہارے کام پر خوش ہوتا ہے پس یقین رکھو کہ جب تک تم ان باتوں پر قائم رہو گے اور دین کے لیے قربانیاں کرتے چلے جاؤ گے کوئی شخص نما را بال بھی بینگا نہیں کر سکے گا.اور اگر کوئی شخص تم پر حملہ کر تے کے لیے آگے بڑھے گا تو خدا کے فرشتے تمہارے دائیں بھی ہوں گے اور بائیں بھی ہوں گے جو کچھ مدینہ کے انصار نے بدر کے موقعہ پر کہا تھا ہ ہی خدا کے فرشتے تم سے کہیں گے میں طرح انہوں نے کہا تھا کہ یارسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور مجھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے اس طرح جبرئیل اور اس کے ساتھی تم سے کہیں گے کہ اسے خدا کے دین کی خدمت کرنے والو ہم تمہارے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن تمر تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.اور یہ ظاہر ہے کہ فرشتے کبھی مرنہیں سکتے اس لیے دیش بھی کبھی تم تک نہیں پہنچ سکتا صحابہ مرسکتے ہیں اور وہ دشمن کے حملہ سے غافل بھی ہو سکتے ہیں چنانچہ احمد کی جنگ میں دشمن ان کو نقصان پہنچاتے ہوئے آگے نکل آیا گھر تمہارے لیے دہ زمانہ نہیں آ سکتا.تم ہمیشہ خدا تعالیٰ کی گورنہ میں رہو گے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے تمہاری حفاظت کرتے رہیں گے.......اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا اور ترقی کرتا چلا جائیگا اور تمہاری طاقت اور عزت اور شہرت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جائے گا.یہاں تک کہ تم ساری دنیا میں پھیل جاؤ گے.اور وہ لوگ جو آج تم پر اعتراض کرتے ہیں اور تمہیں حقیر اور ذلیل قرار دیتے ہیں وہ اس وقت جب کہ تم دنیا میں غالب ہو گے تم سے کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنی عزت اور شہرت
میں سے کچھ معتہ دو.اس وقت نہیں ذلیل لکھنے والا تہاری گدا گرمی کرے گا اور تم پر ظلم کرنے والا تمہارے رسم کا طالب ہوگا اور تمہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھنے والا تمہاری عزت کا اقرار کرے گا.اور اپنے گذشتہ فعل پر شرمندہ اور نادم ہوگا.یہ خدا کی تقدیر ہے جو پوری ہو کہ رہ ہے گی.قضا نے آسمان است این بهر حالت شود پیدا پس خدا تعالی پر ایمان رکھو.اور یقین رکھو تم دنیا پر غالب آنے والے ہو بے شک تم اس وقت کمز در ادرنا طاقت سمجھے جاتے ہو مگر وہ دن زیادہ دور نہیں کہ خدا کی رحمت نئی نئی شکلوں میں ظاہر ہوگی اور تمہیں اس کی قدرت کے وہ نمونے دکھائے گی جو تمہارے دہم اور گمان میں بھی نہیں ہیں.بد قسمت ہے وہ انسان جو مایوس ہو جاتا اور مشکلات کے وقت ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے ایسا ہی انسان خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی حصہ نہیں پا سکتا اس کی رحمت سے حصہ پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالی کی مدد پر کامل یقین اور بھروسہ رکھے بے شک تمام کام خدا تعالی کی مدد سے ہی سر انجام پاتے ہیں مگر وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ میرا بندہ کتنا صبر کرتا ہے پھر یکدم اس کی رحمت کے ایسے دروازے کھلتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ رحمتیں اور برکتیں تو میرے وہم اور گمان میں بھی نہیں تھیں.پس اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور اس کی رحمتیں آرہی ہیں تم ان دونوں کا انتظامہ کہ وہ اللہ تعالیٰ تمہاری مصیبتوں کی رستیاں کاٹ ڈالے گا اور وہ چیزیں جن کو تم حاصل نہیں کر سکتے ان کو خدا آپ تمہارے لیے مہیا کہ دے گا میں یہ نہیں کہتا کہ ابھی ایسا ہو جائے گا.یا ایک گھنٹہ کے بعد یا ایک دن کے بعد یا ایک ہفتہ کے بعد یا دو ہفتہ کے بعد یا ایک مہینہ کے بعد یا دو مہینہ کے بعد ایسا ہو جائے گا مگر ئیں یہ کہ سکتا ہوں کہ آسمان مل سکتا ہے.زمین مل سکتی ہے.سورج مل سکتا ہے.ستارے مل سکتے ہیں دنیا، دھر سے اُدھر ہوسکتی ہے مگر خدا کا یہ وعدہ کبھی نہیں مل سکتا کہ وہ تمہیں ایسی برکتیں دے گا اور تم پر اپنے ایسے انعام نازل کرے گا کہ دشمن سے دشمن بھی یہ اقرار کرنے پر میور ہوگا کہ تم یک مبارک وجود ہو" ت ۱۲۴ فروری کو حضور نے بیج لگثری ہوٹل میں جماعت کراچی کی استقبالیہ دعوت میں شرکت کی ه روزنامه الفضل در ماریا ۱۹۵۷ و ص ۵۰۴۰
اورد م ۳ اور کثیر استعداد معزز مہمانوں سے قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک خطاب فرمایا میں میں بیداری کی تحریک اور اہل کشمیر کی حالت کو بہتر بنانے کی جد و جہد سے اپنی ذاتی تعلق کو واضح کرتے ہوئے اُن مساعی پر روشنی ڈالی جو حضور نے اہل کشمیر کو آزادی کے قریب ترلانے کے سلسلہ میں فرمائیں.حضور نے اہل پاکستان کو صحت فرمان کرده اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں اور خدا پر مجرد سہ رکھیں یہ ۲۴ فروری ۱۹۵۶ء کو ڈارا نصد یہ واقعہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک اہم اجتماع منعقد ہوا.اس موقعہ پر حضور نے مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کراچی کے ممبران کو خصوصی شرت ملاقات بخشا اور اور انہیں نصیحت فرمائی کہ اُن کو عبادت اور تعلق باللہ کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.ہزاروں نوجوان ایسے پیدا ہونے چاہیے جن کو سچی خوا ہیں اور الہام ہوں.قائد کراچی چوہدری عبدالمجید صاحب کی درخواست پر حضور نے اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل تحریہ مجلس کراچی کو عنایت فرمائی کے اپنے فرائض کو سمجھو، اور اپنی زندگی پر غور کرتے رہو کہ وہ نہایت محدود ہے ، لیکن کام جو آپ لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے ، ہزاروں سال کا ہے، لیکن اسے ستر استی سال میں ختم نہ کیا گیا تو اس کا پورا ہونا باتو ناممکن ہو جائے گا یا جتنی بھی فتح حاصل کی گئی بیکار اور ضائع ہو جائے گی ، للہ تعالی ہم کو اس دن سے محفوظ رکھے.آمین و السلام - خاکسار مرز المحمود احمد سے :: الفضل ۲۶ فروری ۱۹۵۷ء ص سعد الفضل ۲۲ مارح ۶۱۹۵۷ ۱۳ - : محترم بشیر الدین احمد سامی صاحب سابق معتمد خدام الاحمدیہ کراچی حال مدیر " اختبار احمد یہ " لنڈن " کا بیان ہے کہ یہ مبارک تحریر مجلس خدام الاحمدیہ کے تبرکات میں محفوظ کر دی گئی.مکتوب لنڈن مورخه ۶ دسمبر ۶۱۹۸۵ )
۴۳۵ انتمائع کی کارروائی تلاوت قرآن کریم سے ہوئی جس کے بعد قائد ملس کراچی نے مجلس کی کارگزاری سے متعلق رپورٹ پڑھ کر سنائی جس کے بعد حضور نے اپنے پر اثر خطاب میں ارشاد فرمایا کہ خدام اپنے اندر دین کی خدمت کا ایسا جذبہ پیدا کرد کہ تم میں سے کوئی شخص بھی تحریک جدید میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے.کمز در نوجوانوں کی اصلاح کے لیے اجتماعی دعاؤں سے کام لوٹے اسی روز حضور نے ملبس خدام الاحمدیہ حلقہ مارٹن روڈ کے دفتر کا معائنہ فرمایا اور مرزا نذیر احمد صاحب زعیم حلقہ کی درخواست پر حسب ذیل تحریه رستم فرمائی مجھے بنایا گیا ہے کہ اس حلقہ کے خدام نے عزباء کی خدمت میں بہت حصہ لیا ہے.ہمیں نے بھی سامان خصومنا گھی چھلاتے ہوئے دیکھا ہے جو بعد میں تقسیم کیا جائے گا محنت اور نفاست قابل تعریف ہے.اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ خدمت کی توفیق دے اویر اخلاص اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی تڑپ دل میں پیدا کر دے خاکسا مرزا محمود احمد ما در ۲۳ اس کے بعد آپ طلقہ لالو کھیت میں تشریف لے گئے اور خدام الاحمدیہ کو گھی دو رو از باز می تقسیم کرتے ہوئے ملاحظہ فرمایا یہ یکم مارچ کو حضور ڈرگ روڈ کے احمد می احباب کو شرف طاقات عطافرمایا.نیز ملک غلام محمد صاحب مرحوم سابق گورنر جنرل پاکستان کی تعزیت کے لیے جناب حسین ملک صاحب کے ہاں تشریف لے گئے اور قریبا ایک گھنٹہ تک تشریف فرما ر ہے ہے رنا یہ روح کو محضور نے اپنی قیام گاہ دارالصدر میں محترم شیخ عبدالوہاب صاحب مرکزی سیکرٹری مال جماعت احمدیہ کراچی اور دوسرے کارکنان کو شرت ملاقات عطا فرمایا اس مبارک موقع پر حضور نے اندرا و شفقت کارکنان کی درخواست پر حسب ذیل پیغام بھی تحریر فرمایا."2 برادران.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کا.له الفضل ۱۳ مارچ ، ۱۹۵ ء مبت ۳ : ۰۲ روزنامه الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۵۷ دست الفضل ۵ ر مارچ ١٩٥٠ ء ما
آپ جب تاریخ میں حضرت خالدہ اور معدہ اور عمران بن معدی کرب اور مزار کے حالات پڑھتے ہوں گے تو آپ کے دل میں خواہش ہوتی ہو گی.کہ کاش ہم بھی اس زمانہ میں ہوتے.اور خدمت کرتے گر اس وقت آپ کو بھول جاتا ہے.کہ ہر سُخنے دیتے دیر نکتہ مقامے دارو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے نے جہاد بالسیف کی جگہ جہاد تبلیغ اور بہادر بالنفس کا دروازہ کھوں ہے.اور تبلیغ ہو نہیں سکتی جب تک روپیہ نہ ہو.کیونکہ تبلیغ بر رومہ کے نہیں ہوسکتی.نہیں آپ لوگ اس زمانہ کے مجاہد ہیں.اور وہی ثواب ہو سہلوں کو ملا.آپ کو مل سکتا ہے.اوریل رہا ہے پس اپنے کام کو خوش اسلوبی سے کریں.اور دوسروں کو سمجھائیں تا کہ آپ سب لوگ مجاہد فی سبیل اللہ ہو جائیں.آمین والسلام ناکر مرزا محمود احمدی ۳ مارچ کو حضور نے جماعت احمدیہ کراچی کی لی عاملہ کو یہ دیس ہے اور اس کے بعد جماعت کے تمام افراد کو شرت مصافحہ عطا کیا.اسی روز کراچی کے مختلف حلقوں سے نو افراد نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کی.اس سے پہلے بھی کئی سعید یہ وھیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں.قیام کراچی کے دوران حضور ظہر و عصر کی نمازوں کے بعد بالعموم مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے اور اپنے کلمات طیبات سے احباب کے ایمان دعرفان میں اضافہ فرماتے.خلاصہ یہ ہے کہ کراچی کی مخلص جماعت نے اپنے پیارے آقا کی برکات سے فیضیاب ہونے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا انہوں نے نہ صرف اپنے سینوں کو انوارہ خلافت سے منور کیا بلکہ غیر از جماعت دوستوں اور معززین شہر اور اعلیٰ افسران کی ایک کثیر تعداد کو حضور کی خدمت میں لانے کے مواقع پیدا کیے اور اس طرح کراچی تیرہ روز تک علم در عرفان کی بارش کا مرکز بنا رہا اور کراچی کے مختلف حلقوں میں احمدیت کا چھہ چا رہا ہے ۴ مارچ کو حضرت مصلح موعود کا پر دگرام چنا ایکپریس کے ذریعہ کراچی سے.دانگی کا تھا جس سے گھنٹہ بھر قبل ہی جماعت احمدیہ کراچی کے تمام مخلصین جوق در جوق سٹیشن پر جمع ہونے مشروع لم الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۵۷ء ص :: له الفضل و مارچ ۹۵۷اء ما
۴۳۷ ہوئے.اور تھوڑی دیر میں ہی ایک بہت بڑا اجتماع ریلوے پلیٹ فارم پر جمع ہو گیا گاڑی کی دردانگی سے قبل حضور نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرائی.تمام دوستوں نے بھی ہاتھ اٹھائے اور دیر تک اپنے پیارے آتا کی صحت و سلامتی اور درازی عمر کے لیے دعائیں کی جاتی رہیں.، بجے شام حسب گاڑی حرکت میں آئی تو تمام پلیٹ فارم نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھا.کئی مخلصین گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے نعرہ ہائے تکبیر بلند کر تے جاتے تھے یہاں تک کہ گاڑی پلیٹ فارم کی حدود سے باہر نکل گئی.اور دوست اپنے گھروں کو واپس تشریف لے گئے.کراچی کینٹ - ڈرگ روڈ اور مالیر میں بھی سینکڑوں دوست الوداع کہنے کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے.جنہوں نے اپنے اخلاص اور محبت کا قابل رشک مظاہرہ کیا.کچھ ہدری عبداللہ خالص حسب معہ اپنی بیگم صاحبہ کے ڈرگ روڈ تک تشریف لائے.اور حیدر آباد رات کو گیارہ بجے گاڑی پہنچی.وہاں بھی تمام دوست حضور کے استقبال کے لیے موجود تھے.احمد یہ اسٹیٹس سے بھی کئی معززین حضور کی زیارت سے مشرف ہونے کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ خدام الاحمدیہ حیدر آباد نے مکرم سید حضرت اللہ پاشا صاحب کی قیادت میں حضور کے دونوں طرف کے سفر میں راتوں کو جاگ کہ غیر معمولی خدمات سرانجام دی تھیں اور کراچی ! صادق آباد تک پہرہ کا انتظام کیا.خانپور صبح آٹھ بجے گاڑی پہنچی جہاں مقامی جماعت حضور کے استقبال کے لیئے مو جود تھی.نصیر احمد خالصا حب نے اس مبارک قافلہ کے لیے ناشتہ کا انتظام فرمایا.راستہ میں لیاقت پور ، ڈیرہ نواب سمہ سٹہ.بہاولپور.لودھراں.ملتان خانیوال عبدالعلیم شور کوٹ.ٹوبہ ٹیک سنگھ ، گوجرہ اور لائل پور (فیصل آباد) کے سٹیشنوں پر دور دور سے جماعتیں استقبال کے لیے موجود تھیں.دوپہر کا کھانا جماعت احمدیہ ملتان نے اور شام کا جماعت احمدیہ فیصل آباد کی طرف سے پیش کیا گیا ہے F گاڑی رات کو کراچی سے بخیریت.اوہ پہنچی.ربوہ کے مخلصین اپنی جان سے پیارے اور مقدس آقا کے خیر مقدم کی سعادت حاصل کرنے کے لیے پہلے سے اسٹیشن پر موجود تھے.گاڑی ایک گھنٹہ له الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۵۷ء ص 2
۴۳۸ لیٹ تھی.لیکن احباب شوق انتظار میں ایک خاص نظام کے ماتحت قطار دار اسٹیشن پر کھڑے رہے جونہی گاڑی اسٹیشن پر پہنچی تمام فضا نعرہ ہائے تکبیر کے پرجوش نعروں سے گونج امھٹی.امیر مقامی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مولانا جلال الدین شمس اور دیگر بزرگان سلسلہ حضور سجے استقبال کے لیے آگے بڑھے.جس ڈبے میں حضور تشریف فرما تھے اس کے ساتھ لکڑی کا ایک زمینہ لگا دیا گیا تھا.تاکہ حضور بسہولت نیچے تشریف لا سکیں حضور نے دروازہ کھولتے ہی زمین بنانے کی ہدایت فرمائی چنانچہ حضور گاڑی کے پائیدانوں پر قدم رکھتے ہوئے نیچے اُترے.حضرت صاحبزادہ مرزا بیر احمد صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس نے آگے بڑھ کہ شرف مصالحہ حاصل کیا.بعدہ حضور ان کی معیت میں احباب جماعت کی قطاروں میں سے گذرتے ہوئے اسٹیشن کے باہر تشریف لائے اور موٹر میں سوار ہونے کے بعد قصر خلافت تشریف لے گئے.اس دوران میں عشاق خلافت پر جوش بفرے لگا کہ اپنے اخلاص و عقیدت اور والہانہ محبت کا اظہار کرتے رہے.حضور کے ہمراہ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منتونہ احمد صاحب، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ، میاں غلام محمد صاحب اختر ناظر علی ثانی اور کپیٹن شیر ولی صاحب (افسر حفاظت بھی واپس ربوہ پہنچے بیٹے اس سال کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ کرنل ایم ڈبلیو ڈگلس پیلاطوس ثانی ڈگلس کی وفات (Co...DouGLUS) سی.انہیں آئی.سی.آئی.ای ریٹائرڈ چیف کمشنر جزائر انڈیمان و سابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور مورخہ ۲۵ فردی ۱۹۵۷ء کو لنڈن میں وفات پا گئے اس سلسلہ میں مرکز میں جو تار موصول ہوا اُس کا ترجمہ حسب ذیل ہے لنڈن ۲۵ فروری ۱۹۵۷ء کرنل ڈگلس جنہوں نے عیسائی پادریوں کے جھوٹے مقدمے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بری قرار دیا تھا.آج یہاں ۹۳ سال کی عمر میں وفات پا گئے.امام بہت فضل لنڈن کرنل ڈگلس مومون بہت شریف نیک دل اور نہایت انصاف پسند انسان تھے.ان کا یہ انصاف کبھی نہیں بھولایا ه روزنامه الفضل ربوده ، ر مارچ ۱۹۵۷ء الفضل ۲۸ فروری ۱۹۵۷ء صار ۸
۴۳۹ جا سکتا کہ جب وہ ضلع گورداسپور کے ڈسٹرکٹ ٹھریٹ تھے اور جب عیسائی پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ کھڑا کیا.تو باوجود اس کے کہ یہ مقدمہ ایک عیسائی پادری کی طرف سے تھا اور با وجود اس کے کہ یہ مقدمہ ایک ایسے شخص کے خلاف تھا جو عیسائیت کے مقابل پر کسر صلیب کا مشن لے کر میدان میں نکلا ہوا تھا.اور جس کا لٹر پھر سیحریت اور دجالیت کے خلات بھرا پڑا ہے.اور پھر با وجود اس کے کہ کرنل ڈگلس موصوف خود بھی ایک سجی تھے.اور یہ ان کی جوانی اور جوش کا زمانہ تھا.انہوں نے حق و صداقت کی خاطر انصاف سے کام لیا.اور حقیقت کو پا جانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بری کرتے ہوئے عیسائی پادری کا دعوی خارج کر دیا.جب بھی لندن میں کوئی احمدی دوست کرنل ڈگلس سے جا کہ ملا کرتے تھے تو کرنل موصوف از خود اس مقدمے کا ذکر شروع کر دیتے تھے.اور جوش کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ میں نے مرزا صاحب کو دیکھ کر یہ یقین کر لیا تھا کہ یہ شخص جھوٹا نظر نہیں آتا.اور ان کے خلاف نیاڈلی مقدمہ کھڑا کیا گیا ہے.اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیمی عقاید کی شدید مخالفت کے باوجود کرنل ڈگلس کی اس منصفانہ فعل کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ان کی تعریف فرمائی اور کشتی نوحے میں تقریبہ فرمایا.مدیہ پہلا طوس مسیح ابن مریم کے پیلاطوس کی نسبت زیادہ با اخلاق ثابت ہوا کیونکہ عدالت کا با پند رہا.اور بالائی سفارشتوں کی اس نے کچھ بھی پرواہ نہ کی.اور قومی اور مذہبی خیال نے بھی اس میں کچھ تغیر پیدا نہ کیا.اور اس نے عدالت پر پورا قدم مارنے سے ایسا عمدہ نمونہ دکھایا کہ اگر اس کے وجود کو قوم کا فخر اور حکام کے لیے نمونہ سمجھا جائے تو بے جا نہ ہوگا.عدالت ایک مشکل امر ہے جب تک انسان تمام تعلقات سے علیحدہ ہو کہ عدالت کی کرنسی پر نہ بیٹھے تب تک اس فرم کو عمدہ طور پر ادا نہیں کر سکتا مگر ہم اس سچی گواہی کو ادا کرتے ہیں کہ اس پیلاطوس نے اس فرمن کو پورے طور پر ادا کیا اگر چہ پہلا پہلا طوس جو رومی تھا اس فرمن کو اچھے طور پر ادا نہیں کر سکا.اور اس کی یہ دلی نے مسیح کو بڑی بڑی تکالیف کا نشانہ بنایا.یہ فرق ہماری جماعت میں ہمیشہ تذکرہ کے لائق ہے جب له صفحه ۵۱ ۵۲ طبع اول مطبع ضیاء الاسلام قادیان - ۵ / اکتوبر ۶۱۹۰۲
تک کہ دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں کروڑوں افراد تک پہنچے گی ویسی دیسی تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کا تذکرہ رہے گا.اور یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے اس کام کے لیے اُسی کو ٹینا.ایک حاکم کے لیے کس قدر یہ امتحان کا موقع ہے کہ دو فریق اس کے پاس آدیں کہ ایک ان میں سے اس کے مذہب کا مشنری ہے اور دوسرا فریق وہ ہے جو اس کے مذہب کا مخالف ہے اور اس کے پاس بیان کیا گیا ہے کہ وہ اس کے مذہب کا سخت مخالفت ہے.لیکن اس بہا در پیلاطوس نے اس امتحان کو بڑے استقلال کے ساتھ برداشت کر لیا اور اسکی ان کتابوں کے مقام دکھلائے گئے.جن میں کم انہی سے عیسائی مذہب کی نسبت سخت الفاظ سمجھے گئے تھے اور ایک مخالفانہ تحریک کی گئی تھی.مگر اس کے چہرے پر کچھ تغیر پیدا نہ ہو کیونکہ وہ اپنی روش کانشنس کی وجہ سے حقیقت تک پہنچ گیا تھا اور چونکہ اس نے مقدمہ کی اصلیت کو سچے دل سے تلاش کیا اس لیے خدا نے اس کی مدد کی اور اس کے دل پر سچائی کا الہام کیا اور اس پر واقعی حقیقت کھولی گئی اور وہ اس سے بہت خوش ہوا کہ عدل کی راہ نظر آگئی.کرنل ایم ڈبلیو ڈگلس کی وفات پر جماعت احمدیہ کی طرت سے امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا کم نے امام بیت الفضل لنڈن کے نام حسب ذیل تعزیتی تار ارسال فرمایا : - کرنل ڈگلس کی وفات کی اطلاع پہونچی.ان کے خاندان کو دلی ہمدردی کا پیغام پہنچا دیں.ان کا رہ دلیرانہ اور دیانتدارانہ رویہ جو انہوں نے اس مقدمہ میں اختیار کیا.جو آج سے ساٹھ سال قبل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف ایک مسیحی پادری کی طرف سے جھوٹے طور پر کھڑا کیا گیا ہماری یاد میں ہمیشہ تازہ رہے گا بیٹے کرنل ڈگلس کی وفات جماعت احمدیہ کے لیے ایک المیہ تھا اور اس امر کی ضرورت تھی کہ موجودہ اور آئندہ نسلوں میں اس عظیم اور ناقابل فراموش شخصیت کی یاد ہمیشہ تازہ رکھی جائے یہی وجہ ہے کہ کستید نا له الفضل یکم مارچ 1966ء ما
۴۴۱ حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ میں اُن کا مفصل تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :.ابھی حال ہی میں سر ڈگلس فوت ہوئے ہیں.جو جزائر انڈمان میں کمشنر تھے.اور ایک زمانہ میں ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر تھے.انہوں نے ایک دفعہ کہا.کہ ایک شخص قادیان بیٹھا کھتا ہے کہ میں مسیح ہوں.اور اس طرح وہ ہمارے خدا کی ہتک کر رہا ہے.آج تک اس شخص کو کسی نے پکڑا کیوں نہیں.اتفاقاً ایک منافق احمدی نے ایک پادری سے کچھ پیسے لیے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام پر الزام لگایا کہ آپ نے اسے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لیے بھیجا ہے.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور اس کے ساتھیوں نے ڈپٹی کمشنر ضلع امرتسر کے پاس نالش کر دی.اور انہوں نے آپ کے نام وارنٹ جاری کر دیا.لیکن اتفاقاً وہ وارنٹ کسی کاپی میں پڑا رہا.کچھ عرصہ کے بعد جب ان لوگوں نے ڈپٹی کمشنر کو تو یہ دلائی کہ اتنی دیر سے مقدمہ پیش ہے.آپ نے ایکشن کیوں نہیں لیا تو اس نے ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کو لکھا کہ میں نے اتنا عرصہ ہوا.فلاں شخص کے نام دارنٹ جاری کیا تھا.لیکن مجھے اس کا جواب نہیں آیا.اس پر ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور (سر ڈگلس) نے جواب دیا کہ میرے پاس دارنٹ آیا ہی نہیں.دوسرے میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں.کہ ملزم مذکور کے نام وارنٹ جاری کرنے کا اختیار آپ کو حاصل نہیں.وہ میرے علاقہ میں رہتا ہے.اس لیے اگر اس کے نام وارنٹ جاری کر سکتا تھا.تو میں کر سکتا تھا.اس پر ڈپٹی کمشنر ضلع امرتسر نے ساری مثل اس کے پاس بھیج دی.یہ شخص جیسا کہ میں نے بتایا ہے اتنا متعصب تھا.کہ اس مقدمہ سے چند دن پہلے اس نے کہا تھا کہ قادیان میں ایک شخص نے میسج کا دعوی کیا ہے اور اس طرح وہ ہمارے خدا کی ہتک کر رہا ہے اس کو آج تک کسی نے پکڑا کیوں نہیں.جب مسل آئی تو مسل خواں نے کہا جناب والا یہ کہیں وارنٹ کا نہیں بلکہ سمن کا کیس ہے اس وارنٹ جاری نہیں کیا جا سکتا.سمن بھیجا جا سکتا ہے ان دنوں جلال الدین ایک انسپکٹر پولیس تھے جو احمدی تو نہیں تھے لیکن بڑے ہمدردانسان تھے انہوں نے بھی ڈپٹی کمشنر کو توجہ دلان کہ بڑے ظلم کی بات ہے کہ دارنٹ جاری کیا جا رہا ہے یہ وارنٹ کا کیس نہیں سمن کا کیس ہے.لہذا دارنٹ کی بجائے سمن بھیجنا چاہیئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سمن جاری کیا گیا اور اپنی جلال الدین صاحب کو اس کی تعمیل کرنے کے لیے قادیان بھیجا گیا.چنانچہ بعد میں مقررہ تاریخ پہ آپ بنالہ حاضر ہوئے جہاں ڈپٹی کمشنر صاحب دورہ پہ آئے ہوئے تھے.
جب آپ عدالت میں پہنچے تو وہی ڈپٹی کمشنر میں نے چند دن پہلے کہا تھا کہ شخص خداوند یسوع کی ہتک کر رہا ہے اس کوکوئی پکڑتا کیوں نہیں.اس نے آپ کا بہت اعزاز کیا اور عدالت میں کرسی پیش کی اور کہا آپ بیٹھے بیٹھے میری بات کا جواب دیں.اس مقدمہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب بھی بطور گواہ مدعی کی طرف سے پیش ہوئے.عدالت کے باہر ایک بڑا ہجوم تھا اور لوگ بڑے شوق سے مقدمہ سننے کے لیے آئے ہوئے تھے جب مولوی محمد حسین صاحب عدالت میں پہنچے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کرسی پر بیٹھے دیکھا تو انہیں آگ لگ گئی.وہ سمجھتے تھے کہ میں جاؤنگا تو عدالت میں مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی اور بڑی ذلت کی حالت میں وہ پولیس کے قبضہ میں ہوں گے اب دیکھو یہ مقدمہ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہوا تھا اور مدعی بھی ایک انگر یز یا دری تھار ڈاکٹر مارٹن کلارک کے متعلق مشہور تھا کہ وہ انگریز ہے لیکن در حقیقت وہ کسی پٹھانی کی نسل میں سے تھا جس نے ایک انگریر سے شادی کی ہوئی تھی) اور مولوی محمد حسین صاحب جیسے مشہور عالم بطور گواہ پیش ہورہے تھے.مگر پھر بھی دشمن ناکام و نامراد رہا اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا اعزانہ کیا گیا وہاں آپ کے مخالفین کو ذلت در موائی کا منہ دیکھنا پڑا.مولوی محمد حسین صاحب نے جب دیکھا کہ آپ کو کرسی پیش کی گئی ہے تو انہوں نے کہا بڑی عجیب بات ہے کہ میں گواہ ہوں مگر مجھے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے اور مرزا صاحب ملزم ہیں مگر نہیں کر سی دی گئی ہے اور اس طرح ان کا اعزازہ کیا گیا ہے.ڈپٹی کمشنر کو یہ بات بڑی لگی.اس وقت انگریز مولویوں کو بہت ذلیل سمجھتے تھے.وہ کہنے لگا.ہماری مرضی ہے ہم جسے چاہیں کرسی پر بٹھائیں اور جسے چاہیں کرسی نہ دیں.ان کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ ان کا خاندان کرسی نشین ہے اس لیے میں نے انہیں کرسی دی ہے.تمہاری حیثیت کیا ہے.مولوی محمد حسین صاحب کہنے لگے کہ میں اہل حدیث کا ایڈووکیٹ ہوں.اور میں گورنر کے پاس جاتا ہوں تو رہ بھی مجھے کرسی دیتے ہیں.ڈپٹی کمشتر کہنے لگا تو بڑا جاہل آدمی ہے.ملنے جاتے اور گواہ کے طور پر عدالت میں پیش ہونے میں بہت فرق ہے.ملنے کو تو کوئی چوڑھا بھی آئے تو ہم اس کو کرسی دیتے ہیں اور تو تو اس وقت عدالت میں پیش ہے اس پر بھی مولوی محمد حسین صاحب کو نسلی نہ ہوئی.وہ کچھ آگے بڑھے اور کہنے لگے نہیں نہیں مجھے کرسی دینی چاہیئے.ڈپٹی کمشنر کو غصہ آگیا اور اس نے کہا بک بک مت کہ مجھے بہٹ اور جوتیوں میں کھڑا ہو جا.چڑ سی و یکھتے ہیں ہی کر ڈپٹی کمتر صاحب کی نظر کی طرف ہے چپڑاسی نے جب پٹی کمشنر صاحبے الفاظ سنے تو اسی ولوی مد میں نا کو باند
سے پکڑ کہ جوتیوں میں لاکھڑا کیا جب مولوی صاحب نے دیکھا کہ میری ذلت ہوئی ہے باہر ہزاروں آدمی کھڑے ہیں اگر انہیں میری اس ذلت کا علم ہوا تو وہ کیا کہیں گے تو کمرہ عدالت سے باہر نکلے.برآمدہ میں ایک کرسی پڑی تھی.مولوی صاحب نے سمجھا کہ ذلت کو چھپانے کا بہترین موقع ہے جھٹ کرسی کھینچی اور اس بیٹھ گئے اور خیال کر لیا کہ لوگ کرسی پر بیٹھے دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ مجھے اندر بھی کرسی لی تھی.چپراسی نے دیکھ لیا.وہ ڈپٹی کمشنر صاحب کا انداز دیکھ چکا تھا اس نے مولوی محمد حسین صاحب کو کرسی پر لے دیکھ کر خیال کیا کہ اگر ڈپٹی کمشنر صاحب نے انہیں یہاں بیٹھا دیکھ لیا وہ مجھ پہ ناراض ہوں گے اس خیال کے آنے پر اس نے مولوی صاحب کو رہاں سے بھی اٹھا دیا.اور کہا کہ کرسی خالی کر دیں.چنانچہ بر آمدہ والی کرسی بھی چھوٹ گئی.باہر آگئے.تو لوگ چادریں بچھائے انتظار میں بیٹھے تھے کہ مقدمہ کا کیا فیصلہ ہوتا ہے.ایک چادر پر کچھ جگہ خالی دیکھی تو وہاں جا کر بیٹھ گئے یہ چادر میاں محمد بخش صاحب مرحوم بنا نوی کی تھی جو مولوی محمد حسین صاحب مربی سلسلہ کے والد تھے اور اس وقت غیر احمدی تھے بعد وہ احمدی ہو گئے.انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب کو اپنی چادر پر بیٹھے دیکھا تو قصہ میں آگئے.اور کہنے لگے.میری چادر چھوڑ تو نے میری چادر پلید کر دی ہے تو مولوی ہو کہ عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے آیا ہے چنانچہ اس چادر سے بھی انہیں اٹھنا پڑا اور اس طرح ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کیا.تو دیکھو یہ آیات بنیات ہیں.کہ کس طرح خدا تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ و السلام کو ایک دشمن کے ہاتھوں سے برسی فرمایا.پھر اس پہ ہی بس نہیں.سر ڈگلس کو خدا تعالیٰ نے اور نشانات بھی دکھائے جو مرتے دم تک انہیں یادر ہے اور انہوں نے خود مجھ سے بھی بیان کیے.۱۹۲۳ء میں جب میں انگلینڈ گیا تو انہوں نے یہ سارا قصہ مجھ سے بیان کیا.سر ڈگلس کے ایک ہیڈ کلرک تھے جن کا نام غلام حیدر تھا وہ راولپنڈی کے رہنے والے تھے بعد میں وہ تحصیلدار ہو گئے تھے.معلوم نہیں وہ اب زندہ ہیں یا نہیں اور زندہ ہیں تو کہاں ہیں.پہلے وہ سرگودہا میں ہوتے تھے انہوں نے خود مجھے یہ قصہ سنایا اور کہا.سب ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک دالا مقدمہ ہوا تو میں ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کا ہیڈ کلرک تھا.جب عالت ختم ہوئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا ہم فریبا گورداسپور جانا چاہتے ہیں تم ابھی جا کہ ہمارے لیے ریل کے کمرہ کا انتظام کرو.چنانچہ میں مناسب انتظامات کرنے کے لیے ریلوے اسٹیش پر گیا.میں اسٹیشن سے باہر نکل کہ بہ آمدہ میں کھڑا تھا تو میں نے دیکھا کہ سر ڈگلس سڑک پر ٹہل رہے
لدلم تم ہیں وہ کبھی ادھر جاتے ہیلی کبھی ادھر.ان کا سہرہ پریشان ہے.میں ان کے پاس گیا اور کہا صاحب آپ باہر پھر رہے ہیں.میں نے ویٹنگ روم میں کرسیاں سمجھائی ہوئی ہیں آپ وہاں تشریعت رکھیں.وہ کہنے لگے منشی صاحب آپ مجھے کچھ نہ کہیں میری طبیعت خراب ہے.میں نے کہا کچھ بتائیں توسہی آخر آپ کی طبیعت کیوں خراب ہوگئی ہے تاکہ اس کا مناسب علاج کیا جا سکے.اس پر وہ کہنے لگے.جب سے میں نے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ کر کے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گنہگار نہیں ان کا کوئی قصور نہیں.پھر میں نے عدالت کو ختم کر دیا اور یہاں آیا تو اب ٹہلتا ٹہلتا جب اس کنارے کی طرف نکل جاتا ہوں تو وہاں مجھے مرزا صاب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں ہیں نے یہ کام نہیں کیا یہ سب جھوٹے ہے.پھر میں دوسری طرف جاتا ہوں تو یہاں بھی مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ سرب جھوٹ ہے.میں نے یہ کام نہیں کیا.اگر میری یہی حالت رہی تو میں پاگل ہو جاؤں گا.میں نے کہا صاحب آپ چل کر دیٹنگ روم میں بیٹھے.سپرنٹنڈنٹ پولین بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی انگریز ہیں.ان کو بلا لیتے ہیں شاید ان کی باتیں سن کر آپ شکتی پا جائیں.سپر نٹنڈنٹ صاحب پولیس کا نام لیمار چنڈ تھا.سر ڈگلس نے کہا انہیں بلوا بھر چنا نچہ میں انہیں بلا لایا.جب وہ آئے تو سر ڈگلس نے ان سے کہا دیکھو یہ حالات ہیں میری جنون کی سی حالت ہو رہی ہے.میں اسٹیشن پر ٹہلتا ہوں اور گھیرا کہ اس طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مرزا صاحب گھڑے نظر آتے ہیں، اور ان کی شکل مجھے کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں مجھ پر جھوٹا مقدمہ کیا گیا ہے پھر دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں یہ سب کچھ جھوٹ ہے جو کیا جارہا ہے.میری یہ حالت پاگلوں کی سی ہے اگر تم اس سلسلہ میں کچھ کہ سکتے ہو تو کر و دورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا.بیمار چنڈ نے کہا اس میں کسی اور کا تصور نہیں آپ کا اپنا قصور ہے.آپ نے گواہ کو پادریوں کے حوالہ کیا ہوا ہے.وہ لوگ جو کچھ اسے سکھاتے ہیں ده عدالت میں آکر بیان کر دیتا ہے آپ اسے پولیس کے حوالہ کریں.اور پھر دیکھیں کہ وہ کیا بیان دیتا ہے.چنانچہ اسی وقت سر ڈگلس نے کا غذ قلم منگوایا اور حکم دے دیا کہ عبد الحمید کو پولیس کے حوالہ کیا جائے اور حکم کے مطابق عبد الحمید کو پادریوں سے نے لیا گیا.اور پولیس کے حوالہ کر دیا گیا دوسرے دن یا اسی دن اس نے فوراً اقرار کر لیا کہ میں جھوٹ بولتا رہا ہوں.
۴۴۵ یم چند کا بیان ہے کہ میں نے اسے بچے بچے بیان دینے کے لیے کہا.تو اس نے پہلے تو اصرار کیا.کہ واقعہ بالکل سچا ہے.مرزا صاحب نے مجھے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا.لیکن میں نے سمجھ لیا کہ شخص پادریوں سے ڈرتا ہے چنانچہ میں نے کہا.میں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے حکم لے لیا ہے کہ اب تمہیں پادریوں کے پاس نہیں جانے دیا جائے گا.اب تم پولیس کی حوالات میں ہی رہو گے.تو وہ میرے پاؤں پر گر گیا.اور کہنے لگا.صاحب مجھے بچالو.میں اب تک جھوٹ بولتارہا ہوں.اس نے مجھے بتایا.کہ صاحب آپ دیکھتے نہیں تھے کہ جب میں گواہی کے لیے عدالت میں پیش ہوتا تھا.تو میں ہمیشہ ہاتھ کی طرف دیکھتا تھا اس کی وجہ یہ تھی.کہ جب پادریوں نے مجھے کہا.کہ جاؤا ور عدالت میں بیان دو کہ مجھے مرزا صاحب نے ہنری مارٹن کلارک کے قتل کے لیے بھیجا تھا.اور امرتسر میں مجھے فلاں مستری کے گھر میں جانے کے لیے ہدایت دی تھی یہ دوست مستری قطب الدین صاحب تھے.جن کا ایک پوتا اس وقت جامعہ احمدیہ میں پڑھنا ہے) تو میں نے کہا.میں تو وہاں کے احمدیوں کو جا نتا بھی نہیں.مجھے اس کا نام یاد نہیں رہے گا راس پر مستری صاحب کا نام کو ٹلہ کے ساتھ میری ہتھیلی پر لکھ دیتے تھے.جب میں گواہی دیتے آتا تھا اور ڈپٹی کمشنر صاحب مجھ سے دریافت کرتے تھے کہ تمہیں امرتسر میں کسی کے گھر بھیجا گیا تھا.تو میں ہاتھ اٹھانا تھا.اور اس پر سے نام دیکھ کر کہ وہ نیا تھا کہ مرزا صاحب نے مجھے فلاں احمدی کے پاس بھیجا تھا.عرض اس نے ساری باتیں بتا دیں اور سرڈگلس نے انگلی پیشی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو بری کر دیا.تو دیکھو یہ سب واقعات ہمارے لیے آیات بینات ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے سرڈگلس کے لیے اور آیات بینات بھی پیدا کیں.ایک آیت بنیہ یہ تھی کہ انہیں ٹہلتے ہلتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نظر آتی تھی.اور وہ تصویہ کہتی تھی کہ میں بے گناہ ہوں.میرا کوئی قصور نہیں پھر انہوں نے خود مجھے سنایا.کہ ایک دن میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا اور ایک ہندوستانی آئی سی ایس آیا ہوا تھا.اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ اپنی زندگی کے عجیب حالات میں سے کوئی ایک واقعہ بنائیں.تو میں نے اسے یہی مرزا صاحب والا واقعہ سنایا.میں یہ واقعہ سنارہا تھا کہ بہرے نے ایک کارڈ لا کر دیا.اور کہا باہر ایک آدمی کھڑا ہے جو آپ سے ملنا چاہتا ہے.میں نے کہا اس کو اندر بلا لو.جب وہ شخص اندر آیا.توئیں نے کہا.نوجوان ہیں آپ کو جانتا نہیں.آپ کون ہیں.اس نوجوان نے کہا.آپ میرے والد
۴۴۶ ره کو جانتے ہیں.آپ ان کے واقف ہیں ان کا نام پادری دارت دین تھا.میں نے کہا ئیں ابھی ان کا ذکر کر رہا تھا نوجوان کہنے لگا ابھی تار آئی ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں.دارت دین ایک پادری تھا.میں نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو خوش کرنے کے لیے اس کی طرف سے یہ ساری کارروائی کی مفتی مگر خدا تعالیٰ نے بیٹی کشتر صاحب پر حق کھول دیا.اور خود تو گواہ تھا.اس نے بھی اقرار کر لیا کہ جو کچھ کیا جارہا ہے.یہ سب جھوٹ ہے.مگر بین اس وقت جب سر ڈگلس دارث دین کا ذکر کر رہے تھے.اس کے بیٹے کا دیاں آنا اور اپنے والد کی وفات کی خیر دینا عجیب اتفاق تھا ، سر ڈاکس اپنی موت تک جس احمدی کو بھی ملتے رہے ا سے یہ واقعہ بناتے رہے.انہوں نے مجھے بھی یہ دافعه شنایا چوہدری فتح حمد صانعوب اور جو بدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی یہ واقعہ سنایا.۱۹۲۷ء میں جب میں دہاں گیا تھا.تو ان کی صحت اچھی تھی.یہ ۳۲ سال قبل کی بات ہے اب وہ ۹۳ سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں.اس لحاظ سے ہی میں ان کی عمر 4 سال تھی.اس دفعہ جب میں انگلینڈ گیا تو میں نے انہیں بلایا تو انہوں نے معذرت کر دی F اور کہا.میں اب پڑھا ہو گیا ہوں.اور بہت کمزور ہوں.اب میرے لیے چلنا پھرنا مشکل ہے.اب سُنا ہے اور کہ وہ فوت ہو گئے ہیں.تو مجھے افسوس ہوا کہ موٹر ہمارے پاس تھی.ہم موٹر میں انہیں منگوا لیتے یا ان کے گھر چلے جاتے تو یہ آیات بینات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دینا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتا رہتا ہے مومن کو چاہیے کہ وہ بچے معنوں میں مومن بننے کی کوشش کرے اگر وہ حقیقی ہیں.....بنے تو اللہ تعالیٰ ضرور غیب سے ایسے حالات پیدا کرتا ہے جس سے اس کا ایمان تازہ ہوتا رہتا ہے اور در حقیقت ایسے ایمان کے بغیر کوئی مزہ بھی نہیں میں ایمان نے آنکھیں نہ کھولیں اور انسان کو اندھیرے میں رکھا اس کا کیا فائدہ.جو اس جہاں میں اندھا رہے گا وہ دوسرے جہاں میں بھی اندھا ر ہے گا اور جیسے اس جہان میں آیات بنیات نظر نہیں آئیں اس کو اگلے جہان میں بھی آیات بنیات نظر نہیں آئیں گی.اس دنیا میں آیات بنیات نظر آئیں تو دوسری دنیا میں بھی آیات بنیات نظر آتی ہیں.پس مومن کو ہمیشہ دعاوں اور ذکر الہی میں لگے رہنا چاہیئے کہ وہ دن اسے نصیب ہو.جب اللہ تعالی اسلام اور اپنی ذات کی سچائی اس کے لیے کھول دے اور اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سنور چہرہ اور خدا تعالیٰ کا نورانی چہرہ نظر آجائے.جب یہ ہو جائے تو پھر رات اور دن اور سال تکلیف کے سال ہوں یا خوشی کے سال ہوں.اس کے لیے برابر ہو جاتے ہیں اور چاہے کچھ بھی ہو ایسا
آدمی ہمیشہ خوش رہتا ہے.اور مطمئن رہتا ہے وہ کسی سے ڈرتا نہیں ؛ ) روزنامه الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۵۶ء) کیرالہ سٹیٹ کے گورنر جناب شری بی رام کرشنا را ڈنے گورنی صاحب کیرالہ سٹیٹ و جنوبی ہند کا ناظر صاحب امور عامہ قادیان کے نام ایک خط میں لکھنا جماعت احمدیہ کو خراج تحی یکین احمدیہ جماعت کے کارناموں کو ایک عرصہ سے دیکھ رہا ہوں اور بہت سے احمدی میرے دوست ہیں.مجھے خوشی ہے کہ یہ اس جماعت کی متواتر اور مستقل پالیسی ہے کہ ملک کی حکومت کے ساتھ وفا داری کی جائے.حب الوطنی اسلامی تعلیم کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور مجھے یقین ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم مہند دوستان کے تمام مسلمانوں کی طرف سے عمل میں لائی جائے گی ہم اس وقت بہت نازک دور سے گزر رہے ہیں اور مہندوستان امید کرتا ہے کہ اس میں بسنے والے سب مرد اور عورتیں وفاداری سے حب الوطنی کے طریق پر چلیں گے اور جو بھی حالت پیدا ہوں ملک کے متعلق اپنے قومی فرائض ادا کریں.زیادہ آداب آپ کا مخلص ہے.مغربی افریقہ کا مشہور ملک گولڈ کوسٹ گوانڈ کوسٹ کی آزادی اور حضرت صلح موعود کا پیغام جون سے برطانوی نو آبادیات ۷۴ م کا حصہ تھا ، اس سال غلامی کی زنجیریں تو ہ کر 4 مارچ 190 ء کو دنیا کی آزاد قوموں کی صف میں داخل ہو گیا.آزادی کے بعد ٹو گو لینڈ کو منسلک کر کے اس کا نام غانا (GHANA) سے کھا گیا.مغربی افریقہ کے چارہ بر طانوی مقبوضات میں سے گولڈ کوسٹ ہی ایک ایسا ملک تھا جس کے باشندوں نے اسیروں کے رستگار حضرت مصلح موعود کے بھیجے ہوئے مبلغین کا بہت گر خوشی سے خیر مقدم کیا اور سب سے زیادہ تعداد میں احمدیت قبول کی اور خدا تعالیٰ کی بھی عجیب شان کریمی ہے کہ اس نے افریقہ کی برطانوی نو آبادیات میں سب سے پہلے آزادی و خود مختاری کی نعمت سے نوازنے کے لیے اسی خوش قسمت ملک کو چنا.نیز یہ اعزاز بھی بخشا کہ اس کی بدولت دوسرے مقبوضہ افریقی ملکوں میں سه اخبار بدر قادیان در مارچ ۱۹۵۷ د صت "NO" COLLIER'S ENCYCLOPEDIA"
۴۴۸ آزادی کی ایسی زبر دست تحریک اٹھی کہ ستاد تک سترہ ممالک آزاد ہو گئے اور اس میں غانا کی کوششوں کا بھاری عمل دخل تھا کیونکہ اس کی اصل بنیاد افریقی ممالک کی اس پہلی کانفرنس میں پڑی جو دو میں غانا کے دارالسلطنت مکرا میں منعقد ہوئی.ایک روسی مصنف ایم - براگنسکی (M - BRAGINSKY) لکھتے ہیں :.'The achievement of independence by Ghana and Guinea made the Africans more confident than ever that there was a possibility of putting an end to colonialism within a few years.The struggle against imperialist rule transcended the national frontiers and grew into an organised all-African movement.The countries which have already achieved political independence consider it their sacred duty to help those fighting against the colonial regime, for their own safety remains in jeopardy as long as the imperialist dominate a considerable part of the continent.Ghana's freedom would be meaningless if it was not linked with the total liberation of the entire continent of Africa, Dr.Nkrumah told the first All-African people's conference.' (Africa Wins Freedom by M.Braginsky Page 69)
۴۳۹ یعنی نا نا اور گنی کی آزادی نے افریقنوں میں اتنی زبر دست خود اعتمادی پیدا کردی که نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ چند برسوں کے اندر ہی ممکن ہو گیا.سامراجیت کے خلاف اس جدوجہد سے افریقی قومیت کی سرحدیں ابھر آئیں اور افریقی تحریکات منظم ہوگئیں.قبل ازیں جو مالک آزادی سے ممکنار ہو چکے تھے وہ بھی نو آبادیاتی نظام کے خلاف برسر پیکار لوگوں کی مدد کرنا اپنا مقدس فریضہ سمجھنے لگے کیونکہ ان کی اپنی حفاظت اس وقت تک خطرے میں مفتی حبیب تک کہ پورا براعظم سامراجیت کے تسلط سے آزاد نہ ہو جاتا.چنانچہ غانا کے ڈاکٹر نکرد مانے پہلی ٹیل افریقن کا نفرنس میں کہا کہ نانا کی آزادی بے سود ہے جب تک کہ اسے پورے براعظم کی تحریک آزادی سے وابستہ نہیں کیا جانا.۱۹۵۷ ء میں غانا کی کل آبادی ۴۵ لاکھ تھی جس میں مالکی فرقہ کے مسلمانوں کے علاوہ ۳۰ ہزارہ و سے زائد افراد احمدی تھے اور یہ تعداد اس تیزی سے بڑھ رہی تھی کہ عیسائی حلقوں میں تشویش اضطراب کے واضح اثرات نمایاں ہو چکے تھے اور عمائدین حکومت اور ملک کے اونچے طبقوں میں بھی تحریک احمدیت کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہو رہا تھا.چنانچہ وزیر اعظم ڈاکٹر کو امی نکرد ما (KWAME NKRUMAH) جن کی قیادت میں تحریک آزادی کامیابی سے ہمکنار ہوئی، ایک بار احمدیہ سیکنڈری سکول میں تشریف لائے اور اپنی تقریر میں احمدیت کو سراہا اور طلبہ کو اسلام کا مطالعہ کرنے کی تلقین کی اسی طرح "کفرد ڈوا" نامی شہر میں دوران تقریہ کہا کہ صحیح رنگ تو احمد ی ہی مسلمان ہیں اور وہ جس انداز میں اسلام کی تہ جمانی کرتے ہیں وہ ہمارے لیے قابل قبول اور مفید ہے.ان کے علاوہ گولڈ کوسٹ کی دستور ساز اسمبلی کے صدر سرایمینوٹیل کیسٹ نے اکرا کیونٹی سینیٹر میں جماعت احمدیہ کے ایک جلسہ کی صدارت کی اور اپنے صدارتی ریمارکس میں احمدیہ مشن کی خدمات کو خراج تحسین ادا کیا اور اسے تحمل، امن اور رواداری کا مکمل نمونہ قرار دیتے ہوئے دوسرے مشغوں کو اس کی تقلید کرنے کی نصیحت کی یہ بنانا کی آنراد مملکت کے قیام پرہ المصلح الموعود نے اپنی اور جماعت احمدیہ کی طرف سے اور مار پرچ له الفضل ، مارچ ، ۱۹۵ متر مضمون مکرم مولوی عبد القدیر صاحب شاہد سابق مبلغ ما نا حال کینیڈا)
۴۵۰ اد کو وزیر اعظم ڈاکٹر کور می کرد ما کے نام مبارکباد اور دعا کا حسب ذیل پیغام بذریعہ تا ر ارسال فرمایا :- در میں اپنی اور جماعت احمدیہ کی طرف سے جو تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.آپ کو اور آپ کے ملک کے عوام کو حصول آزادی کی تقریب پر مبارک باد دیتا ہوں اور آپ کے ملک کی مسلسل اور ہر آن بڑھنے والی خوشحالی اور ترقی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں.آپ کے ملک کے سا تھ میرا لگاڈ اور دیسی محض رسمی نہیں ہے بلکہ خلوص پر مبنی ہے کیوں کہ آپ کے ملک کے قریبا ایک لاکھ باشندے احمدی ہیں اور وہاں کے بہت سے طلباء سلسلہ احمدیہ کے مرکز میں تعلیم پار ہے ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ مستقبل قریب میں جماعت احمدیہ آپ کے ملک کے طول و عرض میں اور بھی سرعت کے ساتھ پھیلے گی.اور ہر شعبہ زندگی ہیں اس ملک کو آگے بڑھانے اور ترقی دینے میں نمایاں حصہ لے گی انشاء الله - میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اور آپ کے ملک کی مدد فرمائے آمین.مجلس مشاورت دارد امام جماعت احمدیہ - ربوہ (ترجمہ) اس سال کی اثر تیسویں مجلس مشاورت جو تعلیم الاسلام کا لی کے نال میں ۲۱ سے ۲۳ مارچ ۱۹۵۷ ء تک منعقد ہوئی ایک غیر معمولی تاریخی اہمیت کی حامل تھی.کیونکہ اس میں مجلس انتخاب خلافت کے اصول تشکیل اور اس کے دستور العمل اور بنیادی قانون پر مشتمل ایک نہایت ضروری اور اہم قرار داد پیش کی گئی جسے حضرت مصلح موعود نے منظور فرما کہ مستقبل کے ہر قسم کے فتنوں کی جڑھ اکھیڑ کر رکھ دی.اور نظام خلافت کو مستحکم اور دائی بنیادوں پر قائم کر دیا.دفترار داد کی تفصیل پہلے باب میں دی جاچکی ہے) چار سال کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت مصلح موعود مشاورت کے سب اجلاسوں میں رونق سه روز نامه الفضل یوه ۲۲ مارچ ۱۹۵۷ ء ما
۴۵۱ افروز رہے اور پوری کارروائی حضور کی نگرانی میں ہوئی جس کے ہر مرحلہ پر آپ نے راہنمائی فرمائی اور ضروری اور اہم ہدایات سے نوازا جسے ہمیشہ ہی مشتعل راہ کی حیثیت حاصل رہے گی.حضور نے نفیس مشاورت میں اپنی بیماری کی نوعیت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ : 19ء میں میں نے مجلس شوری میں کچھ کام کیا تھا.آج شہد میں چار سال کے بعد پھر خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی ہے کہ ہمیں شوری کے تمام اجلاسوں میں شریک ہوا ہوں اور کام بھی کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میری صحت میں ترقی ہوئی اور ہو رہی ہے لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں کہ ٹی نمایاں فرق نہیں پڑا.مثلاً با محتوں میں جو بے حستی تھی وہ ابھی تک دور نہیں ہوئی اس لیے بعض اوقات بڑی گھر ہٹ ہو جاتی ہے پیر کی انگلیاں اندر کو کچھتی ہیں.اور ہاتھ ہے جس ہو جاتا ہے.ہوتی تو یہ مذاق کی بات ہے لیکن گھر میں میرا کوئی چھوٹا پوتا یا نواسہ آ جائے تو وہ بیمار نہیں سمجھتا وہ میرا ہاتھ پکڑے تو میں فوراً گھبرا جاتا ہوں کہ کیا ہو گیا ہے اور میرا ہاتھ کدھر چلا گیا ہے.غرض ان چیزوں کو کوئی نمایاں فائدہ نہیں ہوا.پس جب تک مجھے یقیں نہ ہو جائے کہ یوروپ میں کوئی نیا علاج نکل آیا ہے، اس وقت تک میرا وہاں جانا مشکل ہے......اگر یہ پتہ لگ جائے کہ وہاں علاج ہے جس سے مجھے فائدہ ہو سکتا ہے تو ہیں وہاں امریکہ بھی جانے کو تیار ہو گیا تھا.مگر پھر وہاں سے پتہ لگا کہ امریکہ میں جو علاج ہے وہ وہی ہے جو یوروپ میں ہے اور اس سے کوئی فائدہ آپ کو نہیں ہو سکتا.اس لیے میں سوئٹزر لینڈ میلا گیا.اور دہاں دوبارہ ڈاکٹروں سے اپنا معائنہ کرایا.انہوں نے بھی بتایا آپ کو امریکہ میں علاج سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے.امریکہ میں پوسٹن بڑی بھاری یونیورسٹی ہے وہی ڈاکٹر جس سے میں علاج کرا رہا تھا اس نے مجھے بتایا کہ میں وہ ہیں سے آرہا ہوں اور میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کو دہاں کوئی امدہ نہیں ہو گا.آپ کو خود زور لگانا چاہیئے.کہ آپ اچھے ہو جائیں.آپ جب تک یہ خیال نہ کریں کہ میں اچھا ہوں اس وقت تک آپ کو کوئی دوائی فائدہ نہیں دے سکتی.میں نے کہا جب مجھے نظر آتا ہے کہ میں بیمار ہوں تو میں اپنے آپ کو تندرست کیسے خیال کرلوں.وہ کہنے لگا چاہے آپ کو یہی نظر آتا ہے کہ آپ بیمار ہیں لیکن جب تک آپ یہ خیال نہیں کر یں گے کہ آپ تندرست ہیں اس وقت تک آپ تندرست نہیں ہو سکتے.میں نے کہا اچھا پھر آپ مجھے ایسی دوائیں دیں میں کہ استعمال سے میں بھول جاؤں کہ میں بیمار ہوں.تو وہ کہنے لگا یہی بات تو میں کہہ رہا ہوں کہ اس کا ہمیں پتہ نہیں.اصل بات یہ ہے کہ اگر تو کوئی
۴۵۲ فائدہ نظر آتا ہو پھر تو میں وہاں جانے کی کوشش بھی کروں ورنہ خواہ مخواہ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے جدا بھی ہوں اور کوئی فائدہ بھی نہ ہو تو وہاں جانے کا فائدہ ہی کیا ہے میں اسی ٹوہ میں لگا رہتا ہوں کہ اس بسیاری کا کوئی علاج نکل آئے تو میں اس سے فائدہ اٹھاؤں رسالوں اخباروں میں اس بیماری کے متعلق جو مضامین چھپتے ہیں ہیں ان کا خیال رکھتا ہوں........بہر حال اگر حقیقی طور پر یورپ جانے سے فائدہ ہو تو مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے اللہ تعالی کا حکم ہے کہ ہماری کا علاج کراؤ.لیکن مجھے بھی تو نظر آنا چاہیئے کہ کوئی فائدہ ہو سکتا ہے وہاں میں نے جتنے ڈاکٹروں سے پوچھا ہے اُن کا یہی جواب آیا ہے کہ آپ کو اپنی دواؤں سے فائدہ ہوگا جو آپ اس وقت استعمال کر رہے ہیں پس اگر بیماری کا کچھ حصہ باقی ہے تو وہ دعاؤں کے ساتھ دور ہو گا اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا اور سلسلہ کی خدمت کی توفیق دینا اس کے مد نظر ہو گا تو وہ توفیق دے دیگا......تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد جب اخبار میں چھپتا ہے کہ طبیعت اچھی نہیں تو جماعت میں بیداری پیدا ہوتی ہے.تو انہیں میری بیماری کا احساس ہوتا ہے.ادھر کچھ دعائیں ہوتی ہیں اور کچھ منافقوں کی منافقت ظاہر ہوتی ہے.اب مثلاً ہماری جماعت کو اس قسم کے اخلاص دکھانے کا جو موقع ملا ہے.اور کل جو خلافت کے استحکام کے لیے ریزولیوشن پیش کیے گئے دراصل یہ دہی بات تھی کہ خدا تعالیٰ نے جماعت سے ریس دور کیا اور جماعت کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ ہم نے خلافت کا جھنڈا ہمیشہ کھڑا رکھا ہے اگر یہ بیمار نہ ہوتی تو یہ باتیں بھی پیدانہ ہوتیں.پس میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ بیماری محض تطہیر کے لیے ہے.یہ بیماری اس لیے ہے ہمیں خداتعالی سے بھی دعائیں کرنی چاہئیں.کوئی تعجب نہیں کہ خدا تعالیٰ موجودہ عارضوں کو بھی دور کہ ہے.پرسوں میں نے رڈیا میں دیکھا کہ :- کوئی شخص بیٹھا ہے جس کو میں پہچانتا نہیں ، میں اسے ایک نسخہ دے رہا ہوں اور کہ رہا ہوں کہ ڈاکٹر فضل نے یہ لکھ کر دیا ہے.اس کے اوپر پیڈ پر اس کا مونوگراف بھی چھپا ہوا ہے جو نہایت اعلیٰ اور خوبصورت ہے.یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک ڈاکٹر فضل کو میں جانتا ہوں.میں کوٹ گیا تو وھاں مجھے گاؤٹ کا دورہ ہوا ڈاکٹروں نے کہا دانت دکھائیں جب ایک ڈاکٹر کو میں دانت دکھانے گیا تو اس کے مکان پر بورڈ لگا ہوا تھا " ڈاکٹر فضل" جب ہم فیس دینے لگے تو انہوں نے کہا.میں تو سید محمود اللہ شاہ صاحب کا شاگرد ہوں انہوں نے مجھے بچوں کی طرح پالا ہے اس لیے میں آپ سے
۴۵۴ نہیں نہیں لے سکتا تو میں ایک ڈاکٹر فضل کو جانتا ہوں جو ڈینٹسٹ (DENTIST) تھا لیکن خواب میں جو ہیں نے دیکھا کہ ڈاکٹر فضل نسخہ دیتا ہے در حقیقت اس کے معنے صحت کے آثار کے تھے چنانچہ میں نے یہ خواب پر سوں دیکھی تھی.اس کے بعد کل بھی میں نے سارا دن کام کیا اور آج بھی کام کیا.یہ دہ فضل ہے جو چل رہا ہے اور یہی خدا تعالیٰ نے میری پیدائش کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کو کہا تھا کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.تو ہمارے کام خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہوتے ہیں اگر ولایت جانا مفید ہو گا تو خدا تعالیٰ یہاں جانے کے سامان کردے گا اور اگر دلایت جانا مفید نہیں تو اللہ تعالیٰ میرے دل میں انقباض رکھے گا اور ڈاکٹروں کو بھی اس طرف متوجہ نہیں کرے گا : سحضرت مصلح موعود نے مشاورت میں تحریک جدید کے میزانیہ ۵۷ - ۱۹۵۰ء سے متعلق سب کمیٹی کی رپورٹ پیش ہونے پر تحریک جدید کی آمد کے پس منظر پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا : دور ا دل والوں نے اتنی جلدی ترقی کی تھی کہ بعض ایسے سال بھی آئے کہ اُن کا چندہ دس لاکھ تک پہنچ گیا.مگر دور ثانی کے نوجوانوں کا چندہ دولاکھ پر پہنچ کر گرا اور پھر اس کے بعد پڑھنا شروع ہوا.اب وہ اپنی کی پوری کر رہے ہیں لیکن ابھی ایسی وہ نہیں جو قابل ذکر ہے.حالانکہ نو جوانوں میں کام کرنے کی روح بوڑھوں سے زیادہ ہونی چاہیئے.بوڑھے فوت ہو رہے ہیں اور جو زندہ ہیں.دانتوں یہ ریٹائر ہو جائیں گے.اس طرح ان کے چندوں میں بھی کی آجائے گی اور یہ کسی دوسر ثانی نے پوری کرنی ہے.یا ہمارے محکمہ زراعت نے پوری کرتی ہے.کئی سکیمیں انہوں نے بنائی ہیں جو معقول ہیں اور کئی سکیمیں میں نے بھی ان کو بتائی ہیں.اور کئی سجادیہ محکمہ زراعت نے پیش کی ہیں.اگر وہ اُن پر عمل کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ تحریک جدید کا نام غیر ملکوں میں اور بھی بڑھ جائے گا اور وہاں جماعت پھیل جائے گی.مثلاً انڈونیشیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ سے زیادہ جماعت ہو گئی ہے.اسی طرح دلیٹ افریقہ میں کوئی ایک لاکھ کے قریب جماعت ہے.آج سے بیس سال پہلے مولوی نذیر احمد علی صاحب مرحوم نے لکھا تھا کہ ہماری جماعت یہاں میں ہزار ہے.اس وقت انہوں نے لکھا تھا کہ سالانہ جلسہ پر ہمارے تین ہزار نمائندے آئے وہ ملک بڑا وسیع ہے.اگر مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں کو ملا لیا جائے تو وہ اس سے بھی دُگنا ہے اتنی دور سے لوگوں کا آنا بہت مشکل ہوتا ہے.پھر وہاں اپنے سامان سفر
۴۵۴ بھی نہیں جتنے ہمارے ملک میں ہیں.مگر پھر بھی تین ہزار نمائندہ آگیا.تین ہزار نمائندوں کے متعلق میں نے یہ اندازہ لگا یا تھا کہ دس آدمیوں میں سے ایک آدمی آیا ہے.اس لیے ہماری تعداد وہاں تیس ہزار ہے مگر اس سال جو رپورٹ ملک کے دو حصوں کی آئی ہے اُس میں مبلغ انچار ج نے لکھا ہے کہ اس سال جلسہ سالانہ ہ پانچ ہزار آدمی آیا ہے اور ایک ملک نے لکھا ہے کہ بارہ سو آیا ہے اگر اس کو دس سے ضرب دیں تو به ۱۰۰۰ ۶۲ کے قریب بن جاتا ہے لیکن در حقیقت ہماری جماعت اس سے زیادہ ہے.اور گولڈ کوسٹ سیرالیون اور نائیجیریا وغیرہ کو ملاکر وہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہماری جماعت کے افراد پائے جاتے ہیں بہر حال جوں جوں جماعت بڑھے گی.وہاں کے چندے بھی انشاء اللہ بڑھتے جائیں گے لیکن ابھی تک ہم ان کے چندوں کو سوائے خاص موقعوں کے ادھر نہیں لاتے مثلاً پیچھلے دنوں پونڈ ختم ہو گئے تھے تو ہم نے ان جماعتوں کو کہا کہ تم اپنے پونڈ فلاں ملک میں بجھوا دو.چنانچہ انہوں نے پونڈ وہاں بھیج دیئے.ان لوگوں کے چندہ اور عطیہ میں حکومت پاکستان کا کوئی قانون روک نہیں اس لیے کہ وہ غیر ملک ہیں.اور آزاد ہیں.وہ جاں چاہیں اپنا روپیہ خرچ کرسکتے ہیں.چنانچہ ہم آتی دفعہ ایک موڑ اپنے ساتھ لائے.گورنمنٹ نے ہم سے کہا تم یہ کار اپنے ایجنے سے نہیں خرید سکتے تھے.لیکن جب ہم نے ان پر ثابت کر دیا کہ یہ موٹر ملک کے زر مبادلہ سے نہیں خریدی گئی بلکہ بنک کی رسید پیش کر دی.کہ یہ روپیہ غیر ممالک سے آیا تھا.تو حکومت پاکستان نے کہا کہ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.یوں بھی ایک دفعہ ہم نے گورنمنٹ سے اپنی بیرونی آمد کے متعلق دریافت کیا تھا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض تو نہیں تو اس نے کہا تھا کہ جو مدد آپ کو کسی باہر کے ملک سے آئے اُس پر ملک کے الپینے کا کوئی قانون حاوی نہیں.کیونکہ ان کے پونڈ اپنے ہیں.شلاً سیرالیون اب تک انگریزوں کے ماتحت ہے.گولڈ کوسٹ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے آزاد ہو گیا ہے اور سب سے زیادہ ہماری جماعت گولڈ کوسٹ میں ہی ہے.خیال ہے کہ دوسرے نمبر پر سیرالیون آنا ہوگا پھر نائیجیریا آنا ہوگا لایبیریا میں بھی اب نئی جماعت قائم ہوئی ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے.وہ پہلے سے آزاد ہے کوئی تعجب نہیں کہ سیرالیون اور نائیجیریا بھی چند سال میں آزاد ہو جائیں ان سب ممالک میں ہماری جماعت کی تعداد کافی ہے.یوں تو پاکستان میں بھی ہماری جماعت باقی ممالک یہ تعداد میں زیادہ ہے لیکن پاکستان اسمبلی میں ہمارا ایک بھی ممبر نہیں.اور وہاں ہمارے پانچ چھ ممبر اسمبلی میں ہیں.گھر یا اُس جگہ پر جماعت.
۴۵۵ کا اثر بڑھ رہا ہے.اور جوں جوں وہ تک آزاد ہو تے جائیں گے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کی تعداد بھی پڑھتی جائے گی.یہاں یہ ہوتا ہے کہ ڈپٹی کٹر بھی ہمارے ہاں آجائے تو وہ ڈرتا ہے کہ ملک والے کیا کہیں گے.لیکن وہاں یہ حالت ہے کہ ہماری بہت الذکر کے افتتاح کے موقع پر خود وزیر اعظم جو عیسائی تھا آیا.اور اُس نے کہا.آپ لوگ جو کام اس ملک میں کر رہے ہیں وہ بے نظیر ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں.آپ نے ہمارے ملک کو بہت اونچا کیا ہے.اس لیے میں یہاں افتتاح کے لیے آیا ہوں اسی طرح نبوده این.اد کے نمائندے اور یونائیٹڈ سٹیٹس کے نمائندے بھی گئے.امریکہ کا ایک مشہور رسالہ الا الف ہے جو چالیس لاکھ کی لفظ میں چھپتا ہے اس رسالہ میں ایک مضمون چھپتا تھا.جس میں لکھا تھا کہ افریقہ میں احمدیت کثرت کے ساتھ پھیل رہی ہے.اور وہیں.4 لاکھ احمد می ہو گیا ہے.حالانکہ اندازہ صرف ایک لاکھ سے اوپر کا ہے.پھر الفضل میں شائع ہو چکا ہے کہ ایک عیسائی پر وفیسر نے اپنی ایک کتاب میں لکھاکہ آئندہ افریقہ کا مذہب اسلام ہوگا یا عیسائیت.پھر وہ لکھتا ہے کہ پہلے یہ خیال تھا کہ افریقہ کا آئندہ مذہب ، سائیت ہوگا مگر اب یہ بات غلط ہوگئی ہے.احمد یہ جماعت نے ملک میں بجوشن کھولے ہوئے ہیں ان کی وجہ سے یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ یہاں کا آئندہ مذہب عیسائیت ہوگا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ اس ملک کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں جماعت بڑھ رہی ہے اور جب جماعت کی تعداد زیادہ ہو جائے گی تو ہماری پونڈوں کی وقت بھی دور ہو جائے گی.ہمارا دوسو کے قریب مبلغ گولڈ کوسٹ میں کام کر رہا ہے اُن سب کے اخراجات مقامی جماعت خود دیتی ہے.آنے جانے کے کرائے بھی دہی دیتے ہیں.تو پھر میں خود شائع کرتے ہیں.ہم بھی ان کو گرانٹ دیتے ہیں.مگر اس لیے کہ قول نو د مالگ بھی تہذیب میں بہت پیچھے ہیں.اور تمہارا فرض ہے کہ اُن کی مدد کریں.دوسرے وہ تعداد میں ہم سے کم ہونے کے باوجود اس قدر قربانی کر رہے ہیں کہ سارے مبلغوں کو وہ خریچ دے رہے ہیں حالانکہ وہاں تخوا ہیں زیادہ ہیں.مثلاً میرا بھتیجا مرزا مجید احمد جو کالج کا پرنسپل ہو کہ وہاں گیا ہے اُسے گورنمنٹ با حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے صاحبزادے
نے ۱۶۰۰ روپے تنخواہ دی ہے حالانکہ ہم یہاں پرنسپل کو ۵۰۰ روپے دیتے ہیں بہر حال وہاں پر جو ترقی ہو گی اُس کے ذریعہ جماعت کی حالت پھر مضبوط ہوگی.چنانچہ جب سیرالیون میں ایک پریس لگانے کی تجہ بیہ ہوئی تو جیسا کہ میں ایک خطبہ میں بیان کر چکا ہوں وہاں ایک دوست نے جو نیا نیا احمدی ہوا تھا ایک ہزار پونڈ چندہ دیا اور ایک اور آیا اُس نے پندرہ سو پونڈ دیا اور پندرہ سو پونڈ کے منے یہ ہیں کہ گویا اس نے بائیں ہزار روپیہ بطور چندہ دیا اور تین چار مہینہ کے اندر اندر پچیس سو پونڈ تک جمع ہو گیا گویا چند ماہ کے اندر اندر جماعت نے ۳۳ ہزار روپیہ دیا.سیرالیون کی جماعت ابھی بہت تھوڑی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہ جماعت بھی بڑھے گی اور ترقی کرے گی.مگر اس وقت تک یہ بوجھ میں ہی اٹھانا پڑھے گا وہاں کا ایک لڑکا بھی یہاں آیا ہوا ہے.ہم کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جماعت کا مبلغ بن سکے اُس کی تعلیم کا بوجھ بھی ہم برداشت کر رہے ہیں.اسی طرح جو مبلغ وہاں جاتے ہیں اُن کے کرائے وغیرہ بھی ہمیں ادا کرنے پڑتے ہیں.اللہ کا فضل ہے کہ ابھی ان لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ پاکستانی ہم پر حکومت کر رہے ہیں.صرف ایک دفعہ نائیجیریا سے یہ آواز آئی تھی میں نے انہیں کہا کہ اگر تمہیں یہ بات نا پسند ہے تو میں سارے پاکستانی مبلغین واپس بلا لیتا ہوں میری اس دھمکی کے بعد فوراً ان کی مجلس شور کی ہوئی.اور اُس نے فیصلہ کیا کہ ہم اس شخص کے سخت خلاف ہیں جس نے یہ بات کہی ہے.ہمارا امیر پاکستانی مبلغ ہی مقرر کیا جائے ہم اس کے پیچھے چلیں گے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اگر ان میں یہ روح قائم رہی بلکہ ترقی کرتی ر ہی تو شائد اس ملک کے چندے ہمارے ملک سے بھی بڑھ جائیں.لیکن ابھی ان ملکوں کی موجودہ آبادی کے لحاظ سے ان کے چند سے کم ہیں.جیسا کہ نہیں نے بتایا ہے اگر گولڈ کوسٹ نائیجیریا سیرالیون اور لائیبر یا ملایا جائے تو ان کی دست پاکستان سے نہیں گئے ہے.لیکن آبادی تھوڑی ہے صرف تین کروڑ کے قریب ہے زیادہ تہ جنگلات ہی ہیں.پھر الیٹ افریقہ میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت چھیل رہی ہے اس کا علاقہ بھی پاکستان سے دس پندرہ گناہ زیادہ ہے لیکن آبادی تھوڑی ہے یعنی تین چار کروڑ کے قریب ہے.پس ان علاقوں میں احمدیت کے بڑھنے سے جماعت کی آمد پر اثر پڑے گا.لیکن ابھی نہیں مصلحتا اور ان کے ایمان کی تقویت کے لیے ان کی آمدہ انہیں پچہ پا کرنی پڑے گی اور کہنا پڑے گا کہ مبلغ ہم بھیجیں گے خرپا تم دیا کرو.اس !
۴۵۷ سے بھی فائدہ ہو جاتا ہے.کہ جو خرچ ہم نے وہاں بھیجنا ہو تا ہے وہ پنچ جاتا ہے اور ہم اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں.تا یہ اعتراض نہ ہو کہ چندہ ہم دیتے ہیں اور پاکستانی کھا جاتے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایمان میں اتنے مضبوط ہو جائیں کہ پاکستانیوں سے کہیں کہ ایک پیسہ چندہ بھی نہ دو ہم وہاں روپیہ بھیجیں گے اُس دن کا جب خود ان کی طرف سے یہ تحریک ہو.ہم انتظار کر رہے ہیں.مگر جب تک وہ دن نہیں آتا ہمیں خوشی سے یہ خرچ برداشت کرنا پڑے گا.اور نہیں خوشی سے یہ بات منظور کرنا پڑے گی.که مبلغ ہم بھیجتے رہیں اور اُن کا خرچ وہ دیں.پس یہ پس منظر ہے تحریک جدید کی آمد کا پیالے مشاورت کے اختتام پر حضور نے فرما یا :- اختتامی تقریر و چونکہ ایجنڈا ختم ہو گیا ہے اس لیے اب میں دعا کے ساتھ دوستوں کو رخصت کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو دعائیں کرنے اور قرآن کریم اور اسلام پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کا جو عہد آپ نے کیا ہے اس کے پورا کرنے کی آپ کو اور آپ کی اولاد کو ہمیشہ توفیق ملتی ر ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے خلقی طور پر ملتا ہے اصل میں یہ سب کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامال ہے انہی کے مال کی حفاظت کے لیے ہم لڑ ہے ہیں ورنہ ہمیں اپنی کسی عربیت کی ضرورت نہیں اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح ہو جائے تو ہمیں دنیا کے تمام دکھ اٹھا نے منظور ہیں.خواہش ہے تو صرف اتنی کہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم ہو.پس یہ دعا کرتے جائیں اور واپس جا کہ کوشش کریں کہ جو بجٹ آپ نے منظور کیے ہیں وہ پورے بھی ہوں ہم میں کوشش کریں گے کہ میں طرح ہو سکے بجٹ کے اندر کام کریں لیکن آپ بھی کوشش کریں که آمد اتنی زیادہ ہو کہ آئندہ فراغت کے ساتھ ہم لوکل جماعت کی ضرورتوں کو بھی پورا کر سکیں مرکز کی ضرورتوں کو بھی پورا کر سکیں اور دنیا کو جو اسلام کی پیاسی ہے اس کی پیاس کو بھی سمجھا سکیں سیہ کے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ ء ملنا تا ۱۰۵ ک رپورٹ مجلس مشاورت منعقده رانه ۲۲/۲۱ ۲۳۰ مارچ ۱۱۹۵۷ صفحه ۱۷ / ۱۲۱
۴۵۸ ۲۳ مارچ ۱۹۵۷ء کو تمام پہلا یوم جمہوریہ پاکستان ا احمدی نمائندوں کی قرارداد پاکستان میں سے جو وہ اسلامیہ بنے کی پہلی سالگرہ منائی گئی.یہ تقریب احمدیوں کے لیے دوسری خوشی کا موجب تھی.ایک تو اس لیے که ۲۳ ماریت کی قرار داد عمل شکل اختیار کر گئی اور پاکستان کی سب سے بڑی مسلمان حکومت معرض وجود میں آگئی.جس کے قیام میں جماعت احمدیہ نے ہندوستان کی دیگر تمام مذہبی جماعتوں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.دوسرے ۱۳۳ را سرچ کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جماعت کی بنیا د رکھی.۲۳ مارچ ۱۹۵۷ء کو ربوہ میں مجلس شوری کے میرے اجلاس جماعت احمدیہ پاکستان اور ممالک بیرون کے نمائندگان نے متفقہ طور پر حسب ذیل قرار داد پاس کی.جسے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے پیش کیا..در جماعتہائے احمدیہ پاکستان اور بیرونی ممالک کے نمائندوں کا یہ عمومی اجلاس جو اپنے مرکز میں ہورہا ہے.آج ۲۳ مار پتا یوم جمہوریہ اسلامیہ کیا پُر مسرت تقریب کے موقعہ پر تمام پاکستانیوں کو مبارک باد پیش کرتا ہے.اور اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا کرتا ہے کہ وہ ہمارے آزاد ملک کو ہر قسم کی ترقی سے نواز سے اور اس کے باشندوں میں کامل اتحادیگا نگت اور وحدت پیدا کرے.پاکستان کی ترقی کے راستہ میں جو مشکلات اندرونی اور بیرونی طور پر پیدا کی جارہی ہیں ہماری اللہ تعالے دعا ہے کہ وہ ان سب مشکلات کو اپنے خاص فضل سے جلد دور فرمائے.اور حکومت کو عوام کی صحیح خدمت کی توفیق بخشے.آمین یا رب العالمین نیوز بہ قرار پا یا کہ اس قرار داد کی نقول اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر.وزیر اعظم گور نرمغربی پاکستان اور گورز مشرقی پاکستان کی خدمت میں ارسال کی جائیں.اس موقع پر حضرت مصلح موعود نے فرمایا.آج پاکستان کی آزادی کا دن ہے.اور جیسا کہ میں کل بتا چکا ہوں اس کو ہمیں دنیوی بات نہیں سمجھنا چاہیئے بلکہ چونکہ پاکستان کی ترقی اور طاقت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کی تر قی کا بڑا گہرا تعلق ہے.اس لیے ہمیں اس کو دین کا ہی ایک حصہ سمجھنا چاہیئے مثلاً پچھلے دنوں سپین کی حکومت نے ہمارے مبلغ کو نوٹس دیا کہ وہ وہاں سے چلا جائے.کیونکہ سپین میں اسلام کی تبلیغ منع ہے.ظاہر ہے کہ یہ جرات
* ان کو اس لیے ہوئی کہ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستانی مزدور ہے اور وہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا.میں نے کئی دفعہ یہ واقعہ سنایا کہ جب صلیبی جنگوں کے زمانہ میں عیسائیوں نے ملکہ کے قریب مسلمانوں کو شکست دے کر اپنی نو میں فلسطین میں داخل کر دیں اور فلسطین کا وہ حصہ جو مکہ اور حیفہ کے پاس ہے اس کو فتح کر لیا اور تھوڑا سا حصہ مسلمانوں کے پاس رہ گیا تو اس وقت ایک قافلہ بغداد سے شام اور فلسطین میں تجارت کے لیے آیا ہوا تھا.جب وہ قافلہ شام کی حدود میں سے گزر رہا تھا تو انہوں نے ایک عورت کی آداز شنی جو چلا چلا کہ کہ رہی تھی.اسے امیر المومنین میری فریاد کو پہنچو ده کوئی عورت تھی جس کو عیسائی پکڑ کر لے جارہے تھے پاس ہی مسلمانوں کی بستیاں تھیں.عیسائی لنض اوقات ان بستیوں پر ڈاکہ مارتے تھے اور مسلمانوں کو پکڑ لیتے تھے.چنانچہ عیسائی لوگ اس عورت کو پکڑ کر لے جا رہے تھے اس بے جاری کو پتہ نہیں تھا کہ آج کل امیر المومنین کی کوئی طاقت نہیں ہے بغداد کے قلعہ سے باہر اسے کوئی پوچھتا بھی نہیں.مگر اس کی پرانی شہرت ابھی باقی تھی.اس کی وجہ سے اس نے یہ آواز دی کہ اسے امیر المومنین میری فریاد کو پہنچیں.قافلہ والے پاس سے گزر گئے اور کسی نے اس کی مدد نہ کی.وہ آپس میں یہ باتیں کرنے لگے کہ عجیب بے وقوف عورت ہے اس کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ اب امیر المومنین کی کوئی طاقت نہیں.حبیب قافلہ بغداد پہنچا تو کچھ لوگ سودا د غیرہ خریدنے کے لیے آئے.تو انہوں نے دریافت کیا کہ کوئی عجیب واقعہ آپ کے ساتھ گزرا ہو تو بتاؤ.اس پر قافلہ کے بعض لوگوں نے بتایا کہ ہم نے واپسی پر یہ عجیب واقعہ دیکھا کہ ایک عورت کو عیسائی کپڑے لیے جا رہے تھے یا امیر المومنین کے نعرے لگا رہی تھی شاید اس کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ ہمارے خلیفہ کی آج کل کوئی طاقت نہیں.کسی درباری نے بھی یہ بات سُن لی.وہ دربار میں گیا تو اس نے عباسی خلیفہ سے کہا امیر المومنین! آج ایک قافلہ شام سے واپس آیا ہے اور اس نے یہ خبر سنائی ہے کہ اس اس طرح شام کی ایک مسلمان عورت کو عیسائی پکڑ کر لیے جارہے تھے.اور اس نے یہ نعرہ لگایا کہ اسے امیر المومنین میری فریاد کو پہنچیو.حضور اس کو اتنا بھی پتہ نہیں تھا کہ بغدادی حکومت اب اتنی کمزور ہو چکی ہے.جیب خلیفہ نے یہ بات سنی تو گو اس کے پاس کوئی فوج نہیں مفتی سارے علاقے باغی ہو چکے تھے اور ہر صوبہ میں الگ حکومت قائم ہو چکی تھی.وہ اسی وقت تخت سے نیچے آتہ آیا اور کہنے لگا خدا کی تم جب تک میں اس مسلمان عورت کو چھڑا کہ نہیں لاؤ نگا اس وقت تک میں تخت پر نہیں میٹوں گا.
یہ کہ کردہ اُٹھا.تھا تو وہ ایک دکھا دے کا حکمران لیکن یہ خبر بجلی کی طرح سارے علاقوں میں پھیل گئی اور جس میں صوبہ میں گئی وہاں سے نور نیم بادشاہ اپنی فوجیں ہے کہ اسلامی خلافت کے ماتحت چل پڑے کہ جدھر خلیفہ جائے گا اُدھر ہی ہم جائیں گے اور آنا نا نا ایک بہت بڑا لشکر بغداد کے ارد گرد جمع ہو گیا.یه شکر خلیفہ کی کمان میں آگے بڑھا اور اس نے عیسائیوں کو شکست دی اور اس طرح خلیفہ اس عورت کو چھڑا کر واپس لے آنے میں کامیاب ہو گیا.تو یہ اس وقت کی بات تھی گو اس وقت مسلمانوں کی حالت نہایت ناگفتہ بہ متی پھر بھی اس کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہتے ہیں ہاتھی زندہ لاکھ کا مردہ سوالاکھ کا اگر اس وقت مسلمان رہ چکے تھے لیکن پھر بھی ان میں اتنی طاقت تھی کہ یورپ کی فوج میں کا پیتی ہو میں ان کے آگے سے بھاگ جاتی تھیں کیسپین تو یورپ کا ایک حصہ ہے.مگر اس وقت عکہ میں سارہ سے یورپ کی فوجیں تھیں جنہیں مسلمانوں نے شکست دی.تو یہ صرف طاقت کی بات ہوتی ہے.اگراللہ تعالیٰ مسلمانوں کو طاقت اور ساتھ ہی ایمان بھی بنتے تو سپین کیا یورپ کی ساری طاقتیں مل کر بھی مسلمانوں کے مبلغوں کو نہیں نکال سکتیں.اگر وہ نکالیں گی.تو ان کو ایسی مشکلات کا سامنا پیش آئے گا اور مسلمان حکومتیں اتنی جلدی ان کا مقابلہ کریں گی کہ ان کو فوراً اپنی شکست تسلیم کرنا پڑیگی چنانچہ حکومت پاکستان تو الگ رہی ہماری جماعت اگر چہ ایک غریب جماعت ہے گر یوں کہ منظم اس لیے ہماری جماعت کے ڈر کے مارے ہی سپین کے سفیر متعینہ پاکستان نے یہ اعلان کر دیا کہ میری حکومت اسلامی مبلغ کو ملک سے باہر نکالنا نہیں چاہتی.یہ خبر جو مشہور کی گئی ہے جھوٹ ہے.لیکن ہمارا مبلغ اس بات پر مصر ہے کہ اسے ملک سے باہر نکلنے کا نوٹس دیا گیا ہے.مگر سپین کے سفیر نے کہا ہے کہ آپ ہمیں خواہ مخواہ بد نام کر رہے ہیں ہم نے آپ کے مبلغ کو باہر نہیں نکالا.یہ اثر صرف چند لاکھ غریب فقیروں کی جماعت کی تنظیم کی وجہ سے تھا.مگر اللہ تعالی اسلامی حکومتوں کو طاقت بختے تو پھر لازمی بات ہے کہ ان چند لاکھ فقیروں کی جماعت سے بہت زیادہ یوروپین حکومتیں اسلامی حکومتوں سے ڈریں گی.کیونکہ ان کے پاس تو طاقت بھی ہو گی اور ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں.اسلامی حکومتیں اگر آزاد ہوں اور ترقی کریں تو ان کے پاس میرے بھی ہوں گے.تو ہاں بھی ہوں گی اور ہوائی جہانہ بھی ہوں گے ہمارے پاس تو سوٹیاں بھی مشکل سے ہوتی ہیں.اس لیے ہم سے کسی حکومت نے کیوں ڈرتا ہے.مگر اسلامی حکومتیں اگر طاقت پکڑ جائیں تو دوسری حکومتیں اُن سے یقیناً ڈریں گی.پس اپنی دعاؤں میں نہیں ملک کی آزادی اور ترقی کی دعا بھی شامل کرنی چاہیئے مجھے معلوم
ہوا ہے کہ یوم آزادی کے لحاظ سے صدر انجین احمدیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہاں شام کو روشنی بھی کرا دیں اور غربا ر میں کھانا بھی تقسیم کریں.اُن کا یہ فعل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اتباع میں ہے جب ملکہ وکٹوریہ کی جو بلی ہوئی تھی.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے فرمایا تھا کہ خوب خوشی منائی جائے.چنانچہ قادیان میں منارة المسیح اور مکانوں کی چھتوں پر روشنی کا انتظام کیا گیا.اگر ایک عیسائی ملکہ کی جو بی پی اتنی خوشی منائی جائزہ ہو سکتی ہے تو ایک اسلامی ملک کی آزادی پر اس سے ہزار گنے خوشی منائی جائزہ ہو سکتی ہے.پس اُن کا یہ اقدام نہایت سخن ہے اور ہماری جماعتوں کو بھی چاہیئے کہ جہاں جہاں وہ ہیں اس دن جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو آزادی بخشتی ہے اور اسلامی حکومتوں میں ایک اسلامی حکومت کا اضافہ ہوا ہے خوشی منائیں چرا نا کریں اور عزباء میں کھانا تقسیم کریں.پاکستان گو چھوٹا ملک ہے لیکن اپنے جائے وقوعہ اور آبادی کے لحاظ سے باقی تمام اسلامی ملکوں سے طاقتور ہے اس کی آپاندی ، کروڑ سے زیادہ ہے.اور پھر اسے ایسے سامان میسر ہیں کہ کوئی تعجب نہیں کہ دس پندرہ سال کے اندر ہمارے ملک کی آبادی بارہ تیرہ کر دوڑ ہو جائے اور اگر اللہ تعالی کشمیر کو ادھر سے آیا اور مذاکرے کہ ایسا ہی ہو تو ایک دن میں ہی آبادی میں ایک کروڑ کی زیادتی ہو جائے گی اور کئی سامان ترقی کے پیدا ہو جائیں گے.بہر حال ہمارا ملک جو اس وقت سارے اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ آباد ہے : در سب سے زیادہ ذرائع ترقی کے رکھتا ہے اگر ترقی کرے تو یقیناً دو مری اسلامی حکومتیں بھی اس کے ساتھ ساتھ ترقی کریں گی.اور اس کو اپنا لیڈر تسلیم کہ میں گی.انھی ہندوستان سے بعض جھگڑوں کی وجہ سے بعض ہما یہ اسلامی حکومتیں اپنے آپ کو پاکستان سے زیادہ طاقت در سمجھتی ہیں مگر جس دن پاکستان اپنی مشکلات سے آزاد ہوا.اس کی صنعت و حرفت نے ترقی کی اور اس کی طاقت بڑھ گئی تو اردگرد کی اسلامی حکومتیں اس بات پر مجبور ہوں گی کہ اسے اپنا لیڈر تسلیم کریں.پس احمدیوں کو اس تقریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ وقار کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں.دعائیں کریں اور بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس دن کو منائیں تا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پاکستان کی طاقت کو بڑھانے اور پھر اسلامی روح کو بھی پڑھائے.کیونکہ خالی پاکستان کی ترقی اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتی جب تک که اسلامی روح بھی ترقی نہ کرے تاکہ ہم صرف اسی پر خوش نہ ہوں کہ ہمیں ایک حکومت حاصل ہے
بکہ ہیں وہ حکومت حاصل ہوتیں میں محمد رسول اله صل اللہ علیہ سلم کا بھی حصہ ہو کیونکہ پھر صرف چھلکا ہی نہیں روح بھی ہمیں مل جائے گی یہ سیدنا حضرت مصلح موعود نے ستمبر ۱۹۴۵ ء میں بہتہ مہتہ عبدالخالق صاحب پاکستان کے عبد الخالق صاحب کی نسبت رویاء میں دیکھا کہ مشیر معدنیات کے عہدہ پر وہ نہایت بیش بہا لباس میں ملبوس ہیں.الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۴۵ ء م ) یہ خواب مارچ ۱۹۵۷ ء میں پورا ہوا جبکہ آپ کو حکومت مشرقی پاکستان کی طرف مشیر معدنیات (MINERAL ADVISER) مقرر کیا گیا ہے رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمدیه منعقد نه بوه ۲۲/۲۱ ۲۳ مارچ ۱۹۵۷، مقر ۵۶۵۲ کے مہتہ صاحب قیام پاکستان کے ابتدائی دس سالوں میں بھی پاکستان کی ترقی کے لیے شب وروز مصروف عمل رہے چنانچہ انہوں نے تحقیقات کی کہ قلات کی ریاست عظیم معدنی دولت سے مالامال ہے جو حیران کن حد تک متنوع ہے چنانچہ روزنامہ مغربی پاکستان لاہور را اراپریل ۱۹۴۸ء) نے اس خبر کو نمایاں شہ سرخی کیساتھ شائع کیا اور لکھا سر عبد الخالق مہندر باست قلات کے چیف جیالوجیٹ و مبدر محکمہ ارمنیات ہیں آپ کو بین الاقوامی پٹرولیم کا انگرس نے ۵ ارمئی ۱۹۴۸ء کو منعقد ہونے والی سلور جوبلی میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے...انٹرنیشنل پٹرولیم کا نگر س مسٹر مہتہ کا خاص احترام کرتی ہے اس کے علاوہ پٹرولیم ٹیکنالوجی اینڈ جیا فزکس کی امریکہ انہیں سر ہتہ کے فنی مشورہ کی ہمیشہ خواہشمند رہتی ہیں مسٹر مہتہ نے ریاست قلات کے مدنی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے خان قلات کو ایک وسیع پر وگرام پیش کیا ہے.اگر اسے عملی جامہ پہنا دیا گیا و درصورت دریاست کے عام باشندوں کو بلکہ پاکستان کو بے پناہ فائدہ پہنچے گا مٹر مہتہ اس سے پہلے اعلان کر چکے ہیں کہ اگر مجھے پانچ برس کی مہلت مل جائے تو ریاست قلات کو معدنی لحاظ سے پاکستان کی ہمت نہ کریں بیبات بنادوں گا.مسٹر مہتہ امریکہ کی بہت سی انجمنوں اور کانگرسوں کے رکن ہیں".(مزید معلو بات کیلئے ملاحظہ ہو ۴۵۷ AND WHATP - who knows (باقی صفحہ ۲۶۳ پر )
اس زمانہ میں مشرقی پاکستان میں سیمنٹ کا صرف ایک کارخانہ تھا جو اپنے خام مال یعنی چونے کے پتر (LIME STONE) کے لیے بھارت کا دست نگر تھا ان سنگین حالات میں جب مہتہ عبد الخالق صاحب کی جناب حسین شہید سہروردی وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات ہوئی تو جناب سہروردی صاحب نے بہتہ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.اگر آپ مجھے مشرقی پاکستان میں کہیں بھی لائم اس ڈون تلاش کر دیں تو یہ آپ کا عظیم کارنامہ ہو گا چنانچہ خدا کے فضل سے چند ماہ کے اندر ہی مہتہ صاحب مشرقی پاکستان کی حدود میں چونے کا پتھر دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے.جناب سہر وردی صاحب کی خدمت میں حب اس انگشت کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے مبارکباد دی.آپ نے مراسلہ دینام مہتہ صاحب نمبر 57 PM - 630 کراچی مورخہ ہار اپریل 1906ء میں) لکھا کہ سلمٹ اور مین سنگھ میں آپ کی طرف سے لائم اسٹون کے انکشافات سے مجھے بہت ہی دلچسپی ہوئی اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اگر واقعی حقیقت میں لائم اسٹون مل جائے تو یہ مشرقی پاکستان کی قسمت کو بدل دے گا.اس کے بعد انہوں نے بہت سی تحقیق و تفتیش کے بعد جناب عطاء الرحمن صاحب وزیرا علی مشرقی پاکستان کو ایک جیالوجیکل ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کی تجویز پیش کی چنانچہ لکھا کہ مہتہ عبدالخالق صاحب نے لائم اسٹون کی تلاش اور موجودگی سے سلسلہ میں جو رپورٹ پیش کی ہے میں نے اس کی بہت ہی باریک چھان بین کی ہے اور میرے نزدیک اُن کی دریافت جو کہ سیمنٹ بنانے میں بہت کارآمد ہوسکتی ہے ہمارے لیے بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل ہے.مہتہ صاحب نے اعلیٰ قسم کے ٹائم اسٹون کی دریافت کے علاوہ اعلیٰ قسم کے کثیر المقدا کوٹلہ کے ذخائر کی بھی نشاندہی کی اول الذکر سے حکومت مشرقی پاکستان اور پھر بنگلہ دیں حکومت نے بھر پور فائدہ اٹھایا جبکہ کوٹلہ کے ذخائہ کا جائزہ لیا جا رہا ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت مشرقی پاکستان کے عہد میں مشیر معدنیات کا عہدہ صرف مہتہ صاحب تک محدود رہا.(بقیہ حلیہ میں سے آگے نارا کی پلیٹ بلڈنگ شکاگو در یونانی سیٹی امریکی نظرثانی شده ی این ۶۱۹۵۴
۲۶۴ مہتہ صاحب کو مغربی پاکستان میں بھی بیش بہا معد نیات کی دریافت نہیں کامیابی ہوئی جن میں ایک بیر علیم (BERYLLIUM) ہے جو کہ نیو کلائی (Neuclear) دھات ہے جس کی تلاش اور تقرت میں دنیا بھر کی حکومتیں مصروف کار ہیں اسی طرح زیرکونیم (ZIR CORIUM) بھی دفاعی اور نیو کلائی صنعتوں کے لیے بہت اہم اور دنیا کا ایک کمیاب اور قیمتی جوہر ہے.مہتہ صاحب نے ملک میں اس کے ذخائر کا سراغ لگایا اور اس کی موجودگی اور اس کے درجہ کی طرف پاکستان اتابک کمیشن کی توجہ بھی مبذول کرائی مہتہ صاحب بہت وثوق سے کہتے ہیں کہ پاکستان میں بر علیم اور زیرکونیم کے حصول کے قومی امکانات ہیں اور یہ کام بہت کم لاگت سے کیا جا سکتا ہے سلے ۲ رمئی ۱۹۵۷ء کو عید الفظر متھی.حضرت مصلح موعود نے اس تقریب پر خطبہ عید الفطر کا پر معارف خطبہ پر ایک منتر گر کر معارف منکہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا.| میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری عید دراصل وہی ہو سکتی ہے.جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید ہو.اگر ہم تو عید منائیں.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید نہ منائیں تو ہماری عید قطعاً عید نہیں کہلا سکتی.بلکہ وہ ماتم ہو گا.جیسے کسی گھر میں کوئی لاش پڑی ہوئی ہو.ان کا کوئی بڑا آدمی فوت ہو گیا ہو.تو لاکھ عید کا چاند نکلے ان کے لیے عید کا دن ماتم کا ہی دن ہو گا.اس طرح ایک مسلمان کے لیے چاہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پہ ۳۰۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.اگر اس کی عید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیں اور اگر وہ اس ظاہری عید یہ مطمئن ہو جاتا ہے تو اس کی عید کسی کام کی نہیں.بے شک اس دن خدا تعالیٰ نے ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا ہے اور ہم خوشی منانے پر مجبور ہوتے ہیں.لیکن پھر بھی ہمارے داد) کو چاہیئے.کہ وہ روتے رہیں.کہ ابھی مستند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی عید نہیں آئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی عید سویاں کھانے سے نہیں آتی.نہ شیر فرما کھانے سے آتی ہے.بلکہ ان کی عید قرآن اور اسلام کے پھیلنے سے آتی ہے.اگر قرآن VIEWPOINT, OCTOBER 15., 1987 P:27-31 (RAWAL PIN Dijd
۴۶۵ اور اسلام پھیل جائیں تو ہماری عید میں محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہو جائیں گے......پس کوشش یہی کرد - کہ اسلام کی اشاعت ہو.قرآن کی اشاعت ہو.تا کہ ہماری عید این محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوں ہے ۲۷ رمئی ۱۹۵۷ ء کو جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا بھر میں پورے ربوہ میں پہلا یوم خلافت جوش و خروش کے ساتھ یوم خلافت منایا گیا.مرکز احمدیت بود و میں اس روز بیت المبارک میں مولانا ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعتہ المبہترین کی زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جو صبح ، بجے سے گیارہ بجے قبل دو پر تک جاری رہا.فاضل مقررین نے اپنی تقاریر میں خلافت کے ہر پہل کو قرآن مجید، احادیث نبوی حضرمسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی تخریبات اور مضر نیند اول کی تصریحات کی روشنی میں نہایت خوبی سے واضح کیا اور بتایا کہ انوار نبوت کو جاری رکھنے کے لیے خلافت کو قائم رکھنا اور اس کے شایانِ شان اعمال بجالانا نہایت ضروری ہے.مقررین نے حسب وصیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خلافت احمدیہ کے قیام داستحکام اور اس کے بالمقابل منکرین خلافت کی ریشہ دوانیوں اور ان کے حسرت ناک انجام پر بھی روشنی ڈالی.نیز حضرت خلیفہ اسیح الاول نے جس عزیمت اور جلالت شان کے ساتھ جماعت میں خلافت کے نظام کی بنیاد رکھی.اس کو بھی واضح کیا.اور مچھر سیدناحضرت المصلح الموعود الودود کی خلافت کے دور میں نظام خلافت کے طفیل جو عظیم انشان برکات نازل ہوئیں اور اطراف و جوانب عالم میں دین کو تمکنت نصیب ہوئی اور اسلام کی سر بلندی کے سامان پیدا ہوئے اور جنہیں حضور کے وجود یا جود کی برکات سے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے.اُن کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا.حاضرین نے نظام خلافت کی ضرورت د اہمیت اور اس کی عظیم الشان برکات کے موضوعات پر علماء سلسلہ کی ایمان افروز تقاریرہ سکنے کے بعد ایک نئے جوش اور نئے مریم کے ساتھ اپنے اس مقدس عہد کو دہرایا کہ وہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے خلافت حقہ کے آسمانی نظام کے ساتھ ہمیشہ والبستہ رہیں گے اور نسلاً بعد نسل اس نظام کو قیامت تک جاری رکھتے چلے جائیں گئے تا تائید و نصرت را خطبات محمود عبدا مش ۳۲ ، ناشر فضل عمر فاؤنڈیشن ریوہ.نوائے وقت پرنٹر لمیٹڈ لاہور
MYY الی مرکز بیت، باہمی اتحاد و اخوت اور اسلام کی سربلندی کی شکل میں خلافت کی جن عظیم الشان برکات کا انہوں نے قدم قدم پر مشاہدہ کیا ہے ان کا سلسلہ ہمیشہ ہمیش جاری رہے گا.صاحب صدر کی اقتداء میں شمع خلافت کے پروانوں نے عہد کے الفاظ دہرا کر اپنے عزم کا اظہار کیا خلافت کے ساتھ والہانہ محبت و عقیدت کا یہ منظر دیکھنے کے لائق تھا.بہت مبارک ہزاروں قلوب کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی نیچر سبورش آدانہ وں سے گونج رہی تھی لیے ۲۹ رمئی ۱۹۵۷ء کو مومن پورہ راولپنڈی ایک مکتوب اور حضرت مصلح موعود کا مختصر جو کے ایک غیر احمدی دوست چوہدری حمد اسماعیل صاحب نے حضور کے معرکہ آراء تالیف اسلام اور ملکیت زمین سے متعلق چند استفسارات کیسے لگے سیدناحضرت مصلح موعود کی علالت اور گوناگوں مصروفیات تفصیلی جواب میں مانع نہیں البتہ یہ ممکن تھا کہ مختصر مگر اصولی رنگ میں صاحب مکتوب کے شبہات کا ازالہ کر دیا جائے چنانچہ حضور نے اسی نقطہ نگاہ سے حسب ذیل جواب ارشاد فرمایا جو اختصار اور جامعیت کا مرقع تھا اور ایک طالب حق کی تسلی کے لیے کافی تھا :.یں نے اپنی کتاب میں روائتیں لکھ دی ہیں آپ اصل کتا میں دیکھ لیں.اگر وہ روائتیں جھوٹی ہیں تو ان کو رد کر دیں اور اگر سچی ہیں تو جن لوگوں نے وہ باتیں کہی ہیں اُن کا انکار کر دیں.لیکن آپ میرا مطلب نہیں سمجھے میں نے تو صاف لکھا ہے کہ جاگیر داری اسلام میں جائزہ نہیں باقی رہا یہ کہ گورنمنٹ نے جو زمین کسی وقت بیچی ہو اس کو بلا معاوضہ یا کم معاوضہ پر لینا فریب یا دھوکہ دہی ہے.اگر زمین کی دوسی قیمت تھی جس پر گورنمنٹ واپس لینا چاہتی ہے تو اس نے بیچتے وقت اس کی قیمت زیادہ کیوں دی ؟ مگر اس کی قیمت جیب گورنمنٹ بیچ رہی تھی زیادہ تھی تو اب کس طرح جائزہ ہو گیا کہ ان کو تھوڑی قیمت پر واپس لے لیں.اس کتاب سے تو میرا مطلب صرف یہ تھا کہ اگر گورنمنٹ کسی شخص کو زیادہ مقدار میں له الفضل ، ۲ مئی ۱۹۵۷ء ص : سے (مطبوعہ) خط و کتابت (منجانب چوہدری محمد اسماعیل صاحب) صفحه ۱۹ - ۲۴
زمین دے تو اس کا رکھنا اس کے لیے جائز ہے.وہاں اگر کوئی شخص کسی کی زمین چھین لے تو اس کا واپس لینا گورنمنٹ کے لیے جائز ہے پہلے ۲۲ جون ۱۹۵۷ء کو بیگ کی عالمی عدالت انضاف بیت الذکر برگ کا فتشان درحضرت موعود کا بنایا ان کے در جناب جوردی امان الله خان صاحب نے ہمبرگ (جرمنی) میں خدا کے پہلے گھر کا افتتاح فرمایا جس میں جرمنی کے علاوہ انگلینڈ ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور سویڈن کے بہت سے معزز مہمانوں ، صحافیوں اور پرپس اور ٹیلیویژن کے نمائندوں نے شرکت کی.اس تقریب پر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے عزت مصلح موعود کا حسب ذیل خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا." بر او بر ان اہل جرمنی ! السلام عليكم ورحمة الله وبرکاته میں ہیمبرگ کی ربیت الذکر ناقل) کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت کے لیے اپنے بیٹے مرزا مبارک احمد کو بھجوا رہا ہوں.افتتاح کی تقریب تو انشاء الله عزیزم چوہدری محمد ظفراللہ خانصاحب ادا کریں گے.مگر مرزا مبارک احمد میرے نمائندے کے طور پر اس میں شامل ہوں گے.میرا ارادہ ہے کہ اللہ تعالی مدد کرے تو یکے بعد دیگرے جرمنی کے بعض اور شہروں میں بھی رہبوت الذکر.ناقل) کا افتتاح کیا جائے.امید ہے کہ مرزا مبارک احمد مولوی عبد اللطیف صاحب سے مل کر ضروری کیں اس کے لیے بنا کر لائیں گے تا کہ جلدی ریبوت الذکر - ناقل) بنائی جاسکیں.ندا کرے کہ جرمن قوم جند اسلام قبول کرے.اور اپنی اندرونی طالتوں کے مطابق جس طرح وہ یورپ میں مادیات کی لیڈر ہے روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائے.فی الحال اتنی بات تو ہے کہ ایک جرمن نومسلم زندگی وقف کر کے امریکہ میں تبلیغ اسلام کر رہا ہے مگر ہم ایک مبلغ یا درجنوں نومسلموں پر مطمئن نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں مبلغ جرمنی سے پیدا ہوں.اور کروڑوں جرمن باشندے اسلام کو قبول کریں.تاکہ اسلام کی اشاعت کے کام میں یورپ کی لیڈری جرمن قوم کے ہا تھ میں ہو.اللهم آمین به امروز ۲۴ جون ۱۹۵۷ ۶ ص۲
خاکسار مرز امحموداحمد خلیفه امسیح الثانی کے اس بصیرت افروز پیغام کا جرمن ترجمہ چو ہدری عبد اللطیف صاحب مبلغ جر مستی نے کیا یے مولوی محمد احمد صاحب مولوی فاضل بہت مخلص انیک مولوی محمداحمد صاحب کی دردناک شہادت اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے نوجوان تھے جو سید نا حضرت مصلح موجود کے محافظ خاص مکرم خان میر صاحب افغان کے بڑے بیٹے تھے.نہایت درجہ خلیق ، ملنسار اور منکسر المزاج اور درویش طبع آپ ضلع کوہاٹ کے علاقہ تل میں میڈیکل پریکٹیشنر کی حیثیت میں مسلسل پندرہ سال سے عوام کی طبی خدمات سر انجام دے رہے تھے اور یہ جاننے کے باوجود کہ آپ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں باوقار اور سنجیدہ طبقہ میں انہیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.۱۹۵۶ء کا واقعہ ہے کہ ایک سرحدی ملاں نے کوہاٹ میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے اور فضا کو مکدر کرنے کے لیے اشتعال انگیز تقریر میں کیں اور عوام کو مولوی محمد احمد مرحوم کے خلاف اکسایا.جب حکام بالا تک اس شر انگیزی کی رپورٹ پہنچی تو ان کی طرف سے مناسب کارروائی کی گئی اور گو وقتی طور پر به فتنه وب گیا مگر آتشین بغض و عناد اندر ہی اندر سلگتی رہی اور آزاد علاقے بعض شعلہ مزاج معاند اپنی خوفناک سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کر کے موقع کی تلاش میں لگے رہے.یہاں تک کہ اس سال ۲۹ جون ۷ ۱۹۵ ء کا وہ منحوس دن آیا جبکہ عمل، ضلع کوہاٹ سے ۵ ۶ میل کے فاصلہ پر آزاد علاقہ کے ایک ملاں نے اپنے بعض عزیز وں کو مولوی محمد احمد مرحوم کے پاس بھیجا کہ وہ ایک مریض کے علاج کے بہانہ سے ان کو اپنے ٹانگہ پر بٹھا کہ اپنے گاؤں میں لے آئیں.چنانچہ یہ ظالم جب مولوی محمد احمد صاحب کے پاس گاؤں آنے کی درخواست لے کر پہنچے تو انہوں نے بلا تامل کشادہ پیشانی سے ان کی درخواست منظور کرلی.اور تانگے پر بیٹھ کر ان کے گاؤں کی جانب روانہ ہو گئے.ایک سچے مسلمان کے دل میں ایک مریض بھائی کی خدمت کے جو محبت آمیز ه روزنامه الفضل بریوه ۲۶ جون ۱۹۵۰ ء ما :: له الفضل ۲۷ رجون ١٩٥٠ ء ما
جذبات ہوتے ہیں وہ بھی مولوی صاحب مرحوم کے دل و دماغ میں موجزن تھے.مگر نہیں کیا معلوم تھاکہ دہ کسی علاج کی غرض سے نہیں جارہے تانگہ میں بیٹھ کر آخرت کا سفر طے کر رہے ہیں اور یہ کہ ان کی ہمدردی کا بدلہ تشکر وامتنان کے الفاظ سے نہیں بلکہ رائفل کی گولی سے دیا جانے والا ہے.بہر حال مولومی صاحب ۵ ۶ میل تک سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے جونہی اس گاؤں میں پہنچے.ملائے مذکور نے غضب ناک ہو کر کہا.یہ قادیانی ڈاکٹر ہے.میں اسے نہیں چھوڑوں گا.چنانچہ یہ کہتے ہیں اس نے آپ پر رائفل کا فائر کر دیا اور ایک لمحہ میں انسانیت کی جیتی جاگتی تصویر تڑپتی لاش میں تبدیل ہو گئی سا در احمدیت کا ندائی دین وملت کی آبیاری کے لیے اپنا مقدس خون پیش کر کے اپنے مولائے قیقی کے دربار میں حاضر ہو گیا اإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یکم جولائی ۱۹۵۷ء کو بعد نماز فجر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں ایل بلو نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور آپ کو بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کیا گیا.شہید مرحوم نے ایک ہیوہ اور چار بچے یادگار چھوڑ ہے جن کے نام یہ ہیں :- بی بی.مریم سلطانہ صاحبہ (بنت عنایت اللہ خان صاحب افغان مرحوم ) اولاد : ۱- آصفہ بیگم صاحبہ (اہلیہ محمد رفیع خان صاحب ابن مریم مولانا محمد شہزادہ خالصا دب مرحوم مولوی فاضل استاذ مدرسہ احمدیہ قادیان) - حمید احمد خان صاحب ( ملازم پاکستان ائیر فورس حال رسالپور ) - مبشر احمد خاں صاحب (پاکستان سے باہر ملازم ہیں) آنسه بیگم صاحبه دہلی کے اخبار "ریاست نے در جولائی ۱۹۵۷ ء کی اشاعت میں اس حادثہ کی نسبت حسب ذیل نوٹ لکھا.: ایک اور احمدی مذہبی تعصب کا شکار.اُس سے پہلے پاکستان.افغانستان اور دوسرے مالک میں سینکڑوں احمدی مذہبی اختلاف رائے کے باعث ہلاک کیسے جاچکے ہیں اور اب تازہ اطلاع ا الفضل ستمبر ١٩٥٧ وحث : س الفضل ۳ جولائی ۱۹۵۷ ء صفحه عنا
ہے کہ حل و ضلع کوہاٹ.پاکستان) کے مقام پر ایک احمدی ڈاکٹر محمد احمد کو مذہبی اختلاف کے باعث بندوق کا نشانہ بنا دیا گیا.موجودہ جمہوری دور میں جبکہ اصولاً ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ مذہبی یا سیاسی ) عنبر سے اپنے جو خیالات چاہے رکھے.پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ کیا جا رہا یہ سلوک انتہائی افسوسناک ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کا مستقبل بہت تاریک ہے.بند دستان میں گو سلمان احساس کمتری میں مبتلا میں ہی کی ذمہ داری پاکستان کے قیام پر ہے مگریہ واقعہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر شخص کو مذہبی اعتبار سے مکمل آزادی حاصل ہے.کوئی شخص کسی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا اور احمدیوں کو بھی ہمارے ملک میں اپنی مذہبی تبلیغ کی پوری آزادی حاصل ہے مگر پاکستان میں نہ مہند و محفوظ ہیں نہ سکھ اور نہ عیسائی اور احمدی تو مسلمان ہوتے ہوئے بھی واجب قتل قرار دیئے جاتے ہیں.پاکستان کے احمدیوں کا مسئلہ اس قابل نہیں کہ اس کو نظر انداز کیا جاسکے.چنانچہ احمدیوں کے ان حالات میں پاکستان گورنمنٹ کے لیے صرف دو صورتیں ہیں یا تو احمدیوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر ان کو اپنی ایک الگ اسٹیٹ دی جائے جہاں کہ یہ امن اور اطمینان کے ساتھ رہ سکیں.ان کا مذہبی تعصب کا شکار ہوتے چلے جانا انسانیت پرست حلقوں میں برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے " حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے اپنے خطبہ جمعہ ۱۳۰ اپریل ۱۹۹ ء میں ان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی بیوی نے کس طرح کمال شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکی نعش علاقہ غیر سے حاصل کی اور ربوہ لے آئیں“.سے ہفت روزہ ریاست دیلی در جولائی ۱۹۵۷ء صبا کالم ۴۳
امام تاریخی خطہ عیدالاضحی اور وقف جدید کی نئی سکیم کا ذکر جولائی ۱۹۵۷ء کا دن سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا کیونکہ اس روز سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنے دلولہ انگیز خطہ عید الاضحیہ میں وقف جدید کی ایک نئی سکیم پیش کی.چنانچہ فرمایا.حضرت اسمیل علیہ السلام کی قربانی یہ نہیں تھی جیساکہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انہیں ذبح کرنے کے لیے حضرت ابراہیم نے زمین پر لٹا دیا تھا.لیکن بعد میں خدا تعالیٰ سے الہام پا کہ آپ نے ذبح کرنے کا ارادہ ترک کر دیا.اور الہی اشارہ کی بناء پر ان کی جگہ ایک بکرا ذبح کر دیا.میں بارہا بتا چکا ہوں کہ در حقیقت محضر براہیم علیہ السلام کو حضرت اسمعیل علیہ السلام کو وادی مکہ میں چھوڑ آنے کے متعلق یہ ریڈ یا دکھائی گئی تھی.کیونکہ ایک بے آب و گیاہ وادی میں بیٹھ جانا بھی بہت بڑی قربانی ہے.جیسے شروع شروع میں ربوہ میں چند آدمی خیمے لگا کر بیٹھ گئے تھے.تاکہ اسے آباد کیا جائے.وہ آدمی در حقیقت اس وقت اسمعیلی سنت کو پورا کر رہے تھے وہ صرف اس لیے یہاں بیٹھ گئے تھے کہ آئندہ یہاں ربوہ آبا د کیا جائے.اگر وہ قربانی ہ کرتے.اور یہ بوہ میں آکر خیمے لگا کرنہ بیٹھ جاتے تونہ یہ شہر بتانہ سڑکیں بنتیں نہ بازار بنتے.نہ مکانات بنتے.اور یہ جگہ پہلے کی طرح چٹیل میدان ہی رہتی.امریکہ میں جوفری تھنکنگ FREE THINKING) کی تحریک پیدا ہوئی ہے.اس کا بانی ایک فرانسیسی شخص ہے.اس نے اپنا فقہ یہی لکھا ہے کہ میں ایک دن اپنے باپ کے ساتھ ایک پادری کا وعظ سنے گیا تو وہاں اس نے یہ کہا کہ ابراہیم بڑا نیک انسان تھا.اس نے خدا کی خاطر اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر دی وہ لکھتا ہے کہ اتفاق کی بات ہے میں بھی اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا ہی تھا میں یہا سے نکل کے بھاگا.میرے دل میں یہ خون پیدا ہوا کہ اگر میرے باپ کو یہ خطبہ پسند آگیا تو وہ کہیں میری گردن یہ بھی چھڑی نہ پھیر دے.میں سمندر بہ گیاوان یک امریکہ جانے والا جہانہ کھڑا تھا.میں اس میں گھس گیا کہ
کسی کونہ میں چھپ کر بیٹھ گیا اور اسطرح امریکہ پہنچ گیا.یہاں اگر میں نے یہ دہریوں والی تحریک جاری کی ہر نیکہ حضرت ابراہیم ، در حضرت اسماعیل علیہما السلام کی قربانی کو غلط شکل میں پیش کیا جاتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رؤیا کا یہ مطلب تھا کہ آپ اپنی مرضی سے اور یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ دادی مکہ ایکے آپ گیاہ جنگل ہے اور وہاں کھانے پینے کو کچھ نہیں ملتا.اپنی بیوی اور بچے کو وہاں چھوڑ آئیں.چنانچہ آپنے ایسا ہی کیا.یجب حضرت اسماعیل علیہ السلام بڑے ہوئے تو آپ نے اپنی نیکی اور تقومی کے ساتھ اپنے گرد لوگوں کا ایک گروہ جمع کر لیا اور انہیں نماز اور زکواۃ اور صدقہ و خیرات کی تحریک کر کے اور اس طرح عمرہ اور حج کے طریق کو جاری کر کے آپ نے ملکہ کو آباد کرنا شروع کیا.چنانچہ ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں صدیوں سے نکہ آباد چلا آتا ہے.قریبا تین ہزار سال سے برا یہ خانہ کعبہ آبا د ہے اور اس کا طواعت اور حج کیا جاتا ہے پس عیدالا صفحہ کی قربانی بے شک اس قربانی کی یاد دلاتی ہے.مگر اس قربانی کی یا دنہیں دلائی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ظاہری شکل میں حضرت اسمعیل علیہ السّلام کی گردن پر چھری پھیر دی.در حقیقت قربانیوں کی عید ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم خدا کی خاطر اور اس کے بعد دین کے لیے جنگلوں میں جائیں اور وہاں جا کر خدا تعالیٰ کے نام کو بند کریں اور لوگوں سے اس کے رسول کا کلمہ پڑھوائیں جیسا کہ ہمارے صوفیاء کرام کرتے چلے آئے ہیں.اگر ہم ایسا کریں تویقینا ہماری قربانی حضرت اسمعیل کی قربانی کے مشابہ ہو گی.ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ قربانی با کل حضرت اسمعیل کی قربانی کی طرح ہو جائے گی کیونکہ دلوں کی کیفیت مختلف ہوتی ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے دل کی حالت اور بھی اور ہمارے زمانہ کے لوگوں کی دلوں کی حالت اور ہے.مگر بہر حال وہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کے مشابہ ضرور ہو جائے گا.پس تم اپنے آپ کو اس قربانی کے لیے پیش کر د میرے نزدیک اس زمانہ میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کے مثلا به قربانی وہ مبلغ کہ رہے ہیں جو مشرقی اور مغربی افریقہ میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.وہ غیر آباد ملک ہیں جن میں کوئی شخص خدا تعالٰی اور اس کے رسول کا نام نہیں جانتا تھا.لیکن ان لوگوں نے وہاں پہنچ کر انہیں خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام بتایا........خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے نوجوان افریقہ کے جنگلات میں بھی کام کر رہے ہیں مگر میرا خیال یہ ہے کہ اس ملک میں بھی اس طریق کو جاری " کیا جا سکتا ہے چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں مین کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی کے نقش قدم پر چلیں تو جس
طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں تا کہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ سلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کر سکیں.وہ مجھ سے ہرا نہیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں.ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں ہے لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت دلیران ہو چکا ہے اور آج بھی اس میں چشتیوں کی ضرورت ہے.سہر وردیوں کی ضرورت ہے اور نقشبندیوں کی ضرورت ہے.اگر یہ لوگ آگے نہ آئے اور حضرت معین الدین صاحب چشتی حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی اور حضرت فرید الدین صاحب شکر گنجے جیسے لوگ پیدا نہ ہوئے تو یہ ملک روحانیت کے لحاظ سے اور بھی ویران ہو جائے گا بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ دیران ہو جائے گا جتنا مکہ مکرمہ کسی زمانہ میں آبادی کے لحاظ سے ویران تھا.پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان بہت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لیے وقف کریں.وہ صدر انجمن احمدیہ یا تحریک جدید کے ملازم نہ ہوں بلکہ اپنے گزارہ کے لیے وہ طریق اختیارہ کریں جو میں انہیں بتاؤنگا.اور اس طرح آہستہ آہستہ دنیا میں نئی آبادیاں قائم کریں.اور طریق آبادی کا یہ ہوگا کہ وہ حقیقی طور پر تو نہیں ہاں معنوی طور پر ربوہ اور قادیان کی محبت اپنے دل سے نکال دیں اور باہر جا کہ نئے رہوے اور نئے قادیان بسائیں ابھی اس ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں میلوں میل تک کوئی بڑا قصبہ نہیں وہ جاکر کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں اور حسب ہدایت وہاں تبلیغ بھی کریں اور لوگوں کو تعلیم بھی دیں.لوگوں کو قرآن کریم اور حدیث پڑھائیں.اور اپنے شاگر تیار کریں جو آگے اور جگہوں پر پھیل جائیں.اس طرح سارے ملک میں وہ نہ مانہ دوبارہ آ جائے گا جو پرانے صوفیاء کے زمانہ میں تھا.دیکھو ہمت والے لوگوں نے پچھلے زمانہ میں بھی کوئی کمی نہیں کی.یہ دیو بند جو ہے یہ ایسے ہی لوگوں کا قائم کیا ہوا ہے.مولانامحمد قاسم صاحب نانو نومی نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی کی ہدایت کے ما سخت یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا.اور آج سارا مہند وستان ان کے علم سے منور ہو رہا ہے حالانکہ وہ زمانہ حضرت معین الدین صاحب چشتی کے زمانہ سے کئی سو سال بعد کا تھا.لیکن پھر بھی روحانی لحاظ سے وہ اس سے کم نہیں تھا جب کہ ان کے زمانہ میں اسلام ہندوستان میں ایک مسافر کی شکل میں تھا.اس زمانہ میں بھی وہ ہند دوستان میں ایک مسافر کی شکل میں ہی تھا.حضرت سید احمد صاحب بریلوی نے اپنے شاگردوں کو ملک کے مختلف حصوں میں بھجوا با جن میں ایک ندوہ کی طرف بھی آیا.پھر
ان کے ساتھ اور لوگ مل گئے.اور ان سب نے اس ملک میں دین اسلام کی بنیا دیں مضبوط کیں.اب چاہے ان کی اولاد خراب ہو گئی ہے (اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو بچائے کہ وہ خراب نہ ہوں) لیکن ان کی اولادوں کی خرابی ان کے اختیار میں نہیں تھی.انہوں نے تو جس حد تک ہو سکا دین کی خدمت کی.بلکہ جہاں تک ملی اولاد کا تعلق ہے مولانا محمد قاسم صاحب کی اولا د پھر بھی دوسروں سے بہت بہتر ہے......ہماری جماعت کے لیے اس ٹک میں بھی ابھی صوفیاء کے طریق پر کام کرنے کا موقعہ ہے.جیسا کہ دیو بند کے قیام کے زمانہ میں ظاہر ی آبادی تو بہت تھی.لیکن روحانی آبادی کم ہو گئی تھی روحانی آبادی کی کمی کی وجہ سے مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے دیکھ لیا تھا کہ یہاں اب روحانی نسل جار ی کرنی چاہیئے تاکہ یہ علاقہ اسلام اور روحانیت کے نور سے منور ہو جائے.چنانچہ انہوں نے بڑا کام کیا.جیسے ان کے پیر حضرت سید احمد صاحب بریلوی نے بڑا کام کیا تھا اور جیسے ان کے ساتھی حضرت اسماعیل صاحب شہید کے بزرگ اعلی حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے بڑا کام کیا تھا.یہ سارے کے سارے لوگ اپنے زمانہ کے لیے اسوۂ حسنہ ہیں.درحقیقت ہر زمانہ کا فرستادہ اور خدا تعالیٰ کا مقرب بندہ اپنے زمانہ کے لیے اسوہ حسنہ ہوتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانہ کے لیے اسوئہ حسنہ تھے ابھائی انبیاء اپنے زمانہ کے لیے اسوہ حسنہ تھے.سید احمد صاحب مر مہندی اپنے زمانہ کے لیے اسوۂ حسنہ تھے.حضرت شاہ ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی اپنے زمانہ کے لیے اسوہ حسنہ تھے.اور حضرت سید احمد صاحب بریلوی اپنے زمانہ کے لیے اسوۂ حسنہ تھے.پھر دیو بند کے جو بزرگ تھے.وہ اپنے زمانہ کے لیے اسوۂ حسنہ تھے.انہوں نے اپنے پیچھے ایک نیک ذکر دنیا میں چھوڑا ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اسے یادر رکھنا چاہیئے اور اس کی نقل کرنی چاہیئے.سوہ آج بھی زمانہ ہے ہمارے وہ نوجوان جن میں اس قربانی کا مادہ ہو کہ وہ اپنے گھر بار سے علیحدہ رہ سکیں.بے وطنی میں ایک نیا وطن بنائیں اور پھر آہستہ آہستہ اس کے ذریعہ سے تمام علاقہ میں نور اسلام اور نور ایمان پھیلائیں اپنے آپ کو اس غرض کے لیے وقف کریں.میرے نزدیک یہ کام بالکل ناممکن نہیں.بلکہ ایک سکیم میرے ذہن میں آرہی ہے.اگر ایسے نوجوان تیار ہوں.جو اپنی زندگیاں تحریک جدید کو نہیں بلکہ میرے سامنے وقف کریں اور میری ہدایت کے ماتحت کام کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ
۴۷۵ خدمت اسلام کا ایک بہت بڑا موقعہ اس زمانہ میں ہے.جیسا کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے زمانہ میں تھا.یا جیسا کہ حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور دوسرے صو نیار اولیاء کے زمانہ میں تھا بلے اس ولولہ انگیز خطبہ جمعہ کے بعد مندرجہ ذیل سات اصحاب کی طرف سے حضور انور کی خدمت میں وقف کی درخواستیں موصول ہوئیں :.- ١ شیخ جلال الدین احمد صاحب دار البرکات ربوہ ) ۱۰ جولائی ۱۹۵۷ء) -۲- عبدالسمیع صاحب کپور معلومی محله رامپوره پشاور شهر (۱۰ اگست ۶۱۹۵۷ ) اللہ بخش صاحب ضیاء ناظم آباد کراچی ( ۲ اگست۱۹۵۷ء) چوہدری جان محمد صاحب معرفت نشتر میڈیکل کالج ملتان - مکرم طاہر احمد صاحب ہاشمی لالوکھیت کراچی (۱۲۰ اگست ۱۹۵۷ء) مولوی غلام احمد صاحب فاضل بد و مہوی لالیاں متصل ربوه (و راگست ۱۹۵۷ء) ما - سید محمد محسن صاحب الریسہ بھارت - (۱۶ستمبر ۱۹۵۷ء) دفتر پرائیویٹ سیکرڑی کی طرف سے حضور کی ہدایت پر ان اصحاب کو اطلاع دی گئی کہ اس نئی کے تفصیلات کے اعلان کا انتظار کریں علاوہ ازیں ۲۵ ستمبر ۱۹۵۷ء کو ملک خادم حسین صاحب پرائیویٹ سیکرٹڑی سے فرمایا کہ : ہ اس سکیم کی تفصیل جلسہ سالانہ پر بتائی جائے گی.مختصر یہ ہے کہ ایسے واقفین زندگی اپنا اپنا کام کریں گے اور اس طرح اپنا ذریعہ معاش پیدا کریں گے.ان کے لیے حلقے مقرر کر دیئے جائیں گے.وہاں اپنے سکول کھولیں گے.بچوں سے فیس وصول کریں گے زمین کا شت کرائیں گے.ہماری طرف سے ان کو اتنی مدد ہو گی کہ علاقہ کے احمدی احباب ان سے تعاون کریں اور ایک ایک دو دو کنال زمین کا بند وبست کرا دیں یا اور مناسب امداد کریں.ایسے واقفین گویا اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے اور بزرگ فقراء کی طرح.....تبلیغ کریں گے اور جہاں مقرر کیا جائے گا مستقل طور پر اپنا ڈیرہ ڈال دیں گے.گویا سند پر بوجھ ڈالے بغیر تبلیغ کا کام ہوتا ہے گا.ہے له الفضل یکم اگست ۱۹۵۷ د مستان سے ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء پر یہ کا حضرت مصلح موعود کی تاریخی تقاری کا جماعتی امتحان علان فرمایا تھا کہ خان سے متقی عضو کی تازہ تقاریہ کا انتان لیا جائے گا.چنانچہ اس سال اپریل ۱۹۵۷ء میں یہ معرکہ آراء لیکچر الشرکة الاسلامیہ ربوده نے شائع کر دیئے جس کے بعد حضور کی منظوری سے مورخہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۵۷ء کو حضور کی جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کی ہر دو تقاریر یعنی (1) خلافت حقہ اسلامیہ (۲) نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر کا امتحان لیا گیا.کامیابی کا معیارہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے لیے کم از کم چالیس نمبر ہستورات الحسینہ اماء اللہ) کے لیے پینتیس نمبر اور لڑکیوں (ناصرات الاحمدیہ) اور اطفال کے لیے تین نمبر مقرر تھا.گل ۲۷۴۶ را افراد نے امتحان میں حصہ لیا.جن میں سے ۲۰۶۲ کامیاب ہوئے.مولانا ابو العطار صاحب جالندھری نے ۲۶ ستمبر ۱۹۵۷ء کو بذریعہ الفضل اس امتحان کا تفصیلی نتیجہ شائع فرمایا اور اس کے شروع میں اعلان فرمایا کہ اس امتحان میں انعامات کے سخت مندرجہ ذیل حضرات قرار پائے.مرزا برکت علی صاحب آن قادیان پشاور ۹۰ اول انصار الله شیخ عبدالقادر صاحب مربی لاہور ڈاکٹر محمد الدین صاحب.چکوال خدام الاحمدية ۹۴ دوم ۹۲ سوم چوہدری نذیر احمد صاحب سیالکوٹی حال لاہور چھاؤنی ۹۷/۰ اول مولوی محمد سلطان صاحب اکبر چک ۳۵ جنوبی ضلع سرگو دیا ۹۲ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب.ربوہ محمودہ بیگم احمد صاحب کراچی لجنہ اماء الله عائشہ محمودہ بیگم کیمپور ۹۰ 94..۹۱ مبارکہ شوکت اہلیہ حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ ہالینڈ ر باوه قدیمیہ صاحبہ بنت چوہدری عبد الحمید روہڑی ناصرا الاحمدیہ امة الحميد بنت چو ہندی احمد جان صاحب را ولپنڈی طاہرہ نسرین صاحبه فاروقی جماعت دوازدهم پشاور مرکزہ کی طرف سے ان حضرات کو انعامات بھی دیئے گئے 95%/6.AA ۸۰ (حاشیہ اگلے صفحہ پر ) دوم سوم اقل دوم سوم اول دوم سوم
VLL سید نا حضرت مصلح موعود نے ۲۳ اگست ۱۹۴۷ء کو سالانہ امریکی کونیشی حضرت مصلح موعود کا پیغام نے موقد پر جماعت احمدیہ کے نام حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا.جماعت احمدیہ امریکہ کے نام و برا در این جماعت احمدیہ امریکہ السلام علیکم ورحمته الله وبركاته سید جواد علی صاحب نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ سالانہ امریکن کنونشن کے موقعہ پر میں جماعتِ ہائے احمدیہ امریکہ کے نام پیغام بھیجواؤں.اس سال جماعت امریکہ میں کچھ فتنے اٹھے ہیں خصوصا نیو یارک میں لیکن وہاں جماعت نے نہایت اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے.عزیزم محمد صادق صاحب کے ذریعہ جماعت کے ہر فرد نے اپنے دستخطوں سے وفاداری کا یقین دلایا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ بھی یقین کے ساتھ اس بات پر قائم ہوں گے کہ آپ نے خلیفہ کی بیعت کی ہے کسی مبلغ کے ہاتھ پر نہیں خواہ کوئی حالات پیش آئیں آپ احمدیت کے ساتھ وفاداری پر قائم ہیں گے.امریکہ میں جماعت احمدیہ ۱۹۲۰ ء سے قائم ہے گویا ۲۶ سال اس کو قائم ہوئے ہو گئے ہیں.اتنا ہی عرصہ اسے ویسٹ افریقہ میں قائم ہوئے ہو گیا.ویسٹ افریقہ کے مختلف ملکوں میں حجابات ایک لاکھ ہو گئی ہے لیکن امریکہ کے متعلق جب آپ کے مبلغوں سے رپورٹ لی جاتی ہے وہ حد سے عد تمام امریکہ میں پانصد کی اطلاع دیتے ہیں حالانکہ مفتی صاحب کے زمانہ میں میں کو ۳۶ سال گزر چکے ہیں یہ جماعت سات ہزار تک پہنچ گئی تھی.اس قسم کا تنزل حیرت انگیز ہے اس وقت امریکہ کی جماعت کم از کم پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک ہونی چاہیئے تھی اور اس کا چندہ وہاں کی آمدن کے لحاظ سے کوئی آٹھ لاکھ ڈالر سالانہ ہونا چاہیے تھا لیکن چندہ بمشکل چھ سات ہزار ڈالر ہوتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یا تو جماعت مرتد ہورہی ہے یا چندے اپنی آمد کے مطابق نہیں دیتی.حال میں ایک مبلغ کا خط مجھے ملا کہ ایک عورت یہاں سے بدل گئی ہے اس کا ۲۰ فالسہ ماہوار چندہ تھا.اگر ایک عورت ۶۰ ڈالر ماہوار دے سکتی ہے تو اوسط ۲۰ ڈالر ماہوار کا اندازہ کرنا مشکل نہیں.اگر جماعت کے افراد رحاشیہ بقیہ مت سے آگے) روز نامہ الفضل ربوه ۲۶ دسمبر ۱۹۵۷ و ۲۶ تبوک - صفوت
۴۷۸ پچاس ہزار ہوں تو پندر دولاکھ ڈالر ماہوار ہوں گے.اگر جماعت کے ایک لاکھ آدمی ہو تو تمہیں لاکھ ڈالر کی آمدنی ہونی چاہیے.اگر اتنی آمد ہو تو ہم خدا کے فضل سے امریکہ کو چالیس پچاس مبلغ بھجوا سکتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں امریکہ کی جماعت نہایت منظم ہو سکتی ہے.آپ کا ملک ایک اہم ملک ہے آپ کی ہی قوم کے لوگ ویسٹ افریقہ میں جماعت احمدیہ میں داخل ہو رہے ہیں جن کی تعدا د سارے ملکوں کو ملاکہ ایک لاکھ سے زیادہ ہے.میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خلیفہ سے تعلق رکھنا مبلغ سے تعلق رکھنے سے بہت اعلیٰ ہے ہر احمدی کو دوسرے تیسرے مہینے براہ راست خلیفہ کے نام خط لکھنا چاہیئے جواب نہیں لکھا جاتا اور جو احمدی دوسرے مہینے بھی خط نہیں لکھتے ہیں سمجھتا ہوں کہ وہ احمدیت میں کمزور ہیں.سب دوست اگر براہ راست خط لکھیں گے تو یں بھی ان کو جواب دوں گا.درمیانی واسطوں کا تعلق کبھی مضبوط نہیں ہوتا ہمارے ملک میں مثل ہے کہ خط آدھی ملاقات ہوتا ہے.آپ پاکستان سے ہزاروں میلوں پر رہتے ہوئے اور جماعت احمدیہ کا نمبر ہوتے ہوئے اگر دو مہینے ہیں ایک دفعہ اپنے خلیفہ سے آدھی طاقات کی خواہش نہیں رکھتے تو آپ کی احمدیت کس کام کی ہے.ایسی عقیدت سے تو دنیا کی کمزور سے کمزور جماعت بھی کوئی خوشی محسوس نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے فرائض کو سمجھنے کی توفیق دے دے مرز المحمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۲۳/۸/۵۷ اس سال صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب را بن حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحب کو مرکز اسلام بینی مکه معظمه کی زیارت حرمین شریفین اور مدینہ منورہ کی زیارت نصیب ہوئی.اس مبارک سفر میں آپ کی بیگم صاحبزادی امتہ القیوم بھی مہرارہ تھیں.آپ اور اگست کو بذریعہ طیارہ کراچی سے روانہ ہوئے اور ظہران اور بیروت سے ہوتے ہو ئے اور اگست کو نزیل جدہ ہوئے اور پھر ۲۰ له الفضل ۲۴ اگست ۱۹۵۷ و ملا
۴۷۹ ۲۷ ۲۸ اگست کو حرمین شریفین کی برکات سے مستفید ہوئے اور پھر جدہ سے بذریعہ ہوائی جہاز بیروت تشریف لے آئے جہاں سے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق مغربی مالک کے دورہ پر روانہ ہو گئے صاحبزادہ صاحب نے بیروت پہنچ کر حضرت مرزا بشیر احمد کی خدمت میں ایک مفصل مکتوب ارسال فرمایا جس سے اس سفر کی ایمان افروزہ تفصیلات کے علاوہ بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی کی ردح پر در فضا اور اس میں کی جانے والی دردمندانہ التجاؤں اور دعاؤں کی کیفیت پر بھی تیز روشنی پڑتی ہے.نیز اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ ان مقدس ترین مقامات کی پہلی جھلک ایک سچے عاشق رسول کو تڑپا دیتی ہے اور اس کے جذبات میں زبر دست تلاطم پیدا ہو جاتا ہے.اس مکتوب کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے از بیروت لبنان پیارے ابا جان ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ الحمد للہ کہ آج ہم دونوں عمرہ اور زیارت مدینہ کی تکمیل کر سکے.طہران سے ایک پوسٹ کارڈ آپ کو بھیجا تھا جو اُمید ہے مل گیا ہو گا.طہران سے ۲۳ اگست کی رات کو ہم بخیریت بیروت پہنچ گئے تھے.یہاں بیروت میں میاں نسیم حسین صاحب سفیر پاکستان سے ملے تھے.بڑی محبت سے پیش آئے ہم دونوں کو کھانے پر بھی بلایا اور اپنی کار برائے میر وغیرہ بھی دی.بیروت بہت خوبصورت شہر ہے اور مشرق وسطیٰ (مڈل ایسٹ) کے سارے متمول لوگ یہاں کی پہاڑیوں پر موسم گرما گزارنے آتے ہیں اس میں یہ خصوصیت ہے کہ سمندر پر واقع ہے اور صاف ستھرا شہر ہے اور ۲۰ منٹ میں مختلف پہاڑی مقامات پر جایا جا سکتا ہے.جہاں موسم بہت خوش گوار ہے.بیروت پہنچ کر یہ پتہ چلا کہ ۲۴ تاریخ کو جدہ کے لیے سعودی عرب کی ایٹہ لائن کا کوئی جہاز نہیں جارہا.البتہ ۲۵ کو جائے گا.اس وجہ سے ایک روز ہمیں بیروت میں زائد ٹھہرنا پڑا.سعودی عریبیا ایر لائن کی انتظامی حالت خراب ہے.جہانہ پر جب ہم چڑھے تو اندر سے بوسیدہ اور سینوں کی مرمت معمولی دنیاتی کام کی سی تھی.کھانا گتے کے ڈبوں میں بند کر کے دیا اور
راستہ میں اور کوئی خبر گیری وغیرہ نہیں کی مسافر اپنے حال میں تھے اور شاید جہاز میں ہوا کے دباؤ کے کنٹرول کا انتظام بھی نہ تھا.کیونکہ مجھے تو کانوں میں تکلیف بھی ہو گئی جہانہ راستہ میں ڈولتا بھی بہت رہا اور اکثر وقت ہم نے بیٹی باندھ کر رکھی.غیر شکر کیا کہ یہ پراہم گھنٹے کا سفر ختم ہوا.ہوائی اڈہ پر بھی کام اناڑیوں کے ہاتھوں میں تھا خدا کرے کہ آئندہ اس سروس میں بہتری کی صورت پیدا ہو کیونکہ عالم اسلامی کا مرکز ہے اور ہماری نیک خواہشات اور دلی دعائیں اس کے ساتھ ہیں.شام کے پانچ بجے جدہ پہنچے.یہاں کے حالات کے مد نظر یاں کے ایک بہترین ہوٹل میں بھڑے.ہوٹل بہت شاندار تھا لیکن غفلت کی حالت میں چھوڑا ہوا نظر آتا تھا گو غیر ضروری طور پر قیمتی سامان سے آراستہ تھا.سُنا ہے کہ اس پر دس لاکھ پونڈر ڈیڈ کروڑ روپیہ خرچ کیا گیا ہے اور سارا سامان فرینچر تک غیر ملکوں سے منگوایا گیا ہے.حج کے دنوں میں بہت رش ہوتا ہے.اس وقت تو ہم گنتی کے دن یا پنڈدارہ مہمان ہوں گے.یہاں کی سفارت پاکستان سے ضروری اعداد ملتی رہی.کیونکہ پولیس رجبر کر وانے کے علاوہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے لیے علیحدہ راہ داری لینی پڑتی ہے.محترم خواجہ شہاب الدین صاحب سفیر پاکستان مقیم جدہ سے بھی جا کہ ملا.اچھی طرح پیش آئے اور اپنے ماتحت کو انتظامات کرانے کے لیے ہدایات دیں.مجھے کھانے پر بھی بلایا.لیکن چونکہ اس روز میں نے مکہ مکرمہ جانا تھا لیکں نے شکریہ کے ساتھ معذوری کا اظہار کر دیا.۲۰ کا سارا دن میرا انتظامات کی تکمیل میں لگ گیا.موسم بے حد خراب تھا.....اور بلا کی گرمی پڑتی ہے جس کے ساتھ میں بھی ایسا کہ الاماں اور گھٹاؤ بہت رہتا تھا اور کچھ سعودی عریبیا کے ہوائی سروسز کے تجربہ کے بعد اور کچھ مزید برآں کہ ۲۹ کی واپسی کا وہ ذمہ نہیں اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ دینگ لسٹ پر رہو اس لیے مجبوراً ۲۰ کو لبنان کی ایر سروس سے واپسی کا انتظام کیا میں کی وجہ سے خرچ بھی زائد ہوا کیونکہ اس سروس میں صرف فرسٹ کلاس کے ٹکٹ ملتے تھے اس لیے زائد کرا یہ دینا پڑا.ابھی تک سعودی عرب آنے میں آسانی سے جگہ ملتی ہے لیکن حاجیوں کے لیے ایش کی وجہ سے نکلنے میں تنگی بدستور ہے.ان انتظامات کی تکمیل کے بعد ۲۶ کو نمازہ مغرب کے بعد ہم ٹیکسی میں جدہ سے مکہ معظمہ کے لیے روانہ ہوئے.احرام میں نے ہوٹل سے ہی باندھ لیا تھا.جدہ سے مکہ معظمہ ۷۳ کلومیٹر کے فاصلہ
پر ہے.پوری ٹیکسی کوئی پندرہ ہیں ریال میں ہو جاتی ہے اور ایک پونڈ کے بدلہ کوئی پر ۱۴ ریال مل جاتے ہیں.شام کو ، بجے ہم روانہ ہوئے سڑک بہت اچھی ہے اور قریبا ۲۰ فٹ چوڑی ہو گی.پر سجے ہم مکہ معظمہ میں پہنچ گئے.راستہ میں دس بارہ میل کے فاصلہ پر پولیس کی چوکیاں ہیں جو چیک کرتی رہتی ہیں کہ پہنچ کر سیدھے ہوٹل میں گئے ہوٹل مصر میں جو خانہ کعبہ سے قریب ترین ہے یعنی دو فرلانگ سے بھی کچھ کم ہو گا قیام کیا.جلدی سے کھانے سے فارغ ہو کر کوئی نو بجے کے قریب ہم خانہ کعبہ میں پہنچے اور طواف شروع کیا یہاں جدہ سے پاکستان نیشنل بنک کے مینجر نے جسے کراچی سے تارہ دلوا دی تھی ہمارے ساتھ اپنا ایک آدمی کہ دیا تھا وہ ہمارے ساتھ تھے ایک مقامی آدمی کو بھی لے لیا جس نے ہمیں طواف کروایا.اس وقت دل کی عجیب کیفیت تھی دعائیں پڑھتے جاتے تھے اور اس طرح ہم نے سات چکر مکمل کیے.اس کے بعد مقام ابراہیم پر میں نے دو رکعت نفل پڑھے.امتہ القیوم بیگم نے زرا ہٹے کو پڑھے.کیونکہ عورتوں کو اس کے بالکل قریب نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے.الحمد للہ کہ یہ نقل بڑے رقت سے پڑھنے کی توفیق ملی اور میں نے اسلام اور احمدیت اس کے مبلغین اور پھر حضرت صاحب آپ کے لیے.اماں کے لیے چھا جان ، کے لیے دونوں پھر بھی جان کے لیے اور اپنے بھائی بہنوں کے لیے نام سے لیکر دعا کی کہ میں نے یہ بھی دعا کی کہ اے اللہ یہ میری انتہائی خوش قسمتی ہے کہ مجھے تو نے اس عبادت کا موقع دیا لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے والد کی خواہش مجھ سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے.لیکن حالات کی مجبوری سے وہ اس کی ادائیگی پوری نہیں کر سکتے لیکن ان کی خواہش کے خیال سے میری اس عبادت میں ان کو بھی شامل کجھیو اپنے لیے اور قیوم کے لیے بھی میں نے بہت دعائیں کیں اللہ تعالٰی سب کو قبول فرمائے آمین.- یں نے انفرادی دعائیں بھی کیں اور باقی رشتہ داروں کے لیے بھی بھائی جان مرزا عزیز احمد.باموں جان کے خاندانوں.حضرت خلیفہ اول کی اولاد کی ہدایت اور اپنے دوستوں کے لیے غرضیکہ سب کے لیے جن کا اس وقت مجھے خیال آسکا دعا کی.لیکن انفرادی دعاؤں کے علاوہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لیے دل میں خاص جوش پیدا ہوتا رہا.دو نفل کی ادائیگی کے بعد کعبہ کے ملحق حصہ میں دو نفل اور پڑھے اور پھر اس کے معاً بعد مغامردہ
MAY میں سعی کے لیے گئے یہ حصہ اب گورنمنٹ نے پختہ کر دیا ہے سیمنٹ کا فرش اور اوپر سیمنٹ کے بہت بلند گرڈرز کی چھت.پہاڑیاں تو برائے نام ہیں اور چند گز سے زیادہ اونچی نہیں.اس کے سات چکر لگائے اور دعائیں ساتھ ساتھ کرتے رہے.معلم ساتھ تھا.بعض لوگ کار میں بھی بیٹھ کر یہ چکر گا رہے تھے وہ غالباً معذور ہوں گے اس کے بعد بال کالے اور عمرہ کیا عبادت کی تکمیل کے بعد کوئی رات کے بارہ بجے کے قریب ہم واپس لوٹے.صبح کی نمانہ پر ۳ بجے خانہ کعبہ میں ادا کی اور دوبارہ طواف کیا اس کے بعد موٹر میں مٹی اور مزدلفہ اور عرفات کے مقامات دیکھنے گئے اور عرفات کے میدان کے ایک میلہ پر جو جبل رحمت کہلاتا ہے دو رکت نفل بھی پڑھے ان تمام مقامات کو دیکھ کر ۹ ۰ ابجے کے قریب مکہ معظمہ سے واپسی جدہ کے لیے چل پڑے.· دو پہر جدہ گزار کر شام کے پانچ بجے مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے.ٹکٹ تو ہوائی جہانہ کا تھا.لیکن اس میں جگہ نہ لی اس لیے ٹیکسی کر دائی یہ لمبا سفر تھا ۲۲۷ کیلو میٹر کا ٹیکسی میں ڈرائیو کے علاوہ صرف ہم دونوں تھے رات کا سفر وحشت و الاضرور تھا.لیکن یہاں گرمی کی شدت کی وجہ سے صرف علی الصبح بارات کا سفر ہی ہو سکتا ہے ورنہ نہیں.کوئی پانچ بجے روانہ ہو کر رات کے پڑا 1 بجے مدینہ منورہ پہنچے سڑک یہ بھی اب پختہ ہے اور اچھی قریبا ، انفٹ چوڑی ہو گی.مکہ معظمہ والی مشرک سے کچھ کم چوڑی ہے ڈیفک بہت کم تھا.۲۶ کے سفر اور عبادت اور پھر اس لیے سفر اور گرمی کی شدت کی وجہ سے ہم دونوں بہت تھک گئے تھے.اور نیم بیا بھی.الحمد للہ سفربخیریت گزرگیا اور راستے ہو ٹل اسلام میں ٹھہرے جو مسجد نبوی کے بالکل ملحق ہے یعنی کوئی.اگنہ کا فاصلہ ہوگا.مدینہ منورہ میں صبح گائیڈ لے کر سب سے پہلے مسجد نبوی میں گئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مصلے پر میں نے دو نفل پڑھے الحمد للہ کہ اس موقعہ پر بھی دعا کی اچھی توفیق نصیب ہوئی اور میں نے لمبی دعائیں کیں دو نفل سے فارغ ہو کر مسجد کے اندر ہی اور مصلی کے بالکل قریب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضہ مبارک پر لمبی دعاکی.اس دعا میں میں نے حضرت صاحب اور آپ کی طرف سے اور اجمالاً خاندان کے تمام افراد کی طرف سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام پیش کیا.اس موقع پر مستند رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مصلیٰ پر نفل ادا کرتے ہوئے طبیعت میں ہیجان اور
MAF اضطراب بہت تھا جسے میں بیان نہیں کر سکتا.میں نے خدا کے حضورہ میں یہ عرض کی کہ اللہ ! تو نے اپنا سب سے بزرگ ترین نبی مبعوث کیا اور ایسا شان والا نبی کہ جس کے بارے میں یہ کہا کہ اگر وہ نہ ہوتا تو دنیا و مافیہا پیدا نہ کی جاتی.لیکن آج اس کی امت انتہائی کسی میرسی کی حالت میں پڑی ہے اور اسے کوئی عزت کا مقام حاصل نہیں وہ نہ صرف یہ نیادی وجاہت سے عاری ہے بلکہ دینی اور اخلاقی طور پر بہت گر چکی ہے اور جو چند افراد اس کے احیاء کے لیے کھڑے ہوئے ہیں دوسرے مسلمان اُن کی دینی کوششوں میں حائل ہوتے ہیں.اور انہیں ہر طرح گرانے اور نا کام کرنے کے درپے ہیں تو اپنے فضل سے موجودہ تکلیف دہ کیفیت کو جلد تر بذل دے اور اپنے رسول اکرم کی تعلیم اور ان کے دین کو دنیا میں عزت اور وقار کا مقام بخش.غیر مسلموں کی ظاہری شان و شوکت اور ظاہری اخلاقی برتری کا اندازہ کرتے ہوئے اور مسلمانوں کی موجودہ ابتر حالت سامنے رکھتے ہوئے میں نے بڑے درد اور سوز سے یہ دعا کی اور اس وقت اپنی طبیعت میں پورا پورا جوش پا یا اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر کے ملحقہ روضہ مبارک پر بھی دعا کی.پشت پر وہ مکان کا حصہ تھا جس نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کی رہائش رہی تھی.یہ تمام حصہ ایک جنگلے کے اندر ہے جس میں سوراخ ہیں میں سے وہ دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں اس کے بعد ہم موٹر میں بیٹھ کر مندرجہ ذیل مقامات دیکھنے گئے.- جبل احد اور حضرت امیر حمزہ کی قبر.یہ مقام مدینہ سے کوئی تین میل کے قریب ہو گا.دوسرے شہداء کی بھی یہاں قبریں میں اور گائیڈ کے بیان کے مطابق شہادت کے مقام پر ہی یہ سب مدفون ہیں.مسجد قبلتین.جہاں قبلہ کی تبدیلی پر ایک ہی مسجد میں ایک دن کی نمازیں مختلف جہت میں پڑھی گئی تھیں.- مقام غزوہ خندق.یہ بھی کوئی مدینہ سے دو میل کے فاصلہ پر ہو گا.وہ پہلی مسجد جو مدینہ منورہ میں تعمیر ہوئی تھی مسجد نبوی تو اب بہت عالی شان بن چکی ہے اور پہلے ترکوں نے اور اب سعودی حکومت نے اس کی توسیع کی ہے لیکن یہ مسجد زیادہ تر پرانی شکل اور اسی رنگ میں رکھی گئی ہے.۵ - جنت البقیع.جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعض قریبی عزیز اور صحابہ مدونون ہیں.یہ چار دیواری کے اندر ہے اور مسجد نبوی کے ساتھ ہے.بدقسمتی سے یہ اس وقت بند تھی
۴۸۴ اور محافظوں نے باوجود ہمارے اصرار کے نہیں کھولی صرف معین وقت پر کھلتی ہے مجبوراً چار دیواری کے باسر سے دعا کر کے ہم لوٹ آئے.گے...آج ان تمام زیا دتوں سے فارغ ہو کر بذریعہ ہوائی جہاز ہم پر ۲ بجے جدہ واپس پہنچ گئے.ہوائی نماز سے قریباً ایک گھنٹہ کا سفر ہے اب کل انشاء اللہ لبنان میں دوبارہ داخلہ کا ویزا اور سعودی عرب سے باہر نکلنے کا اجازت نامہ لینا ہے.اور انشاء اللہ ۳۰ کی صبح کو 4 بجے لبنان کی ایٹر سر دس سے بیرت نہ جائیں کوشش یہ ہے کہ اس کو سیدھے زیورچ سوئٹزرلینڈ چلے جائیں یہاں پر دگرام کیمطابق کو واپسی نہیں ہو سکی اس لیے ایتھنز کا پروگرام مجبورا چھوڑ دیا اس کے لیے سروس بھی نہیں مل رہی تھی.اب انشاء اللہ بیروت سے سیدھے سوٹزر لینڈ جانے کا پروگرام ہے ارادہ ہے کہ انشاء اللہ ایک غیریت کی تارہ آپ کو بیروت سے بھی بھجوا دوں تا کہ عمرہ اور زیارت مدینہ کی خوش کنی اطلاع آپ کو مل سکے.امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے.طبیعت میں فکریہ ہتا ہے اللہ تعالیٰ سب کو اپنی امان اور حفاظت میں رکھے.قیوم سلام کہتی ہیں.اماں کو ایک پوسٹ کارڈ میں نے طہران سے لکھا تھا.انہیں ہماری خیریت کی اطلاع دے دیں لیے مرزا مظفر احمد ستمبر ۱۹۵۷ ء کے تیسرے ہفتہ میں انڈونیشیا کے سفیر الحاج ڈاکٹر ربوہ میں سفر انڈونیشیا کی آمد محمد شیدی ربوہ تشریف لائے.آپ بیرونی ممالک کے پہلے سفیر تھے جو مرکز احمدیت کی زیارت کے لیے آئے.سفیر انڈونیشیا کا قیام ربوہ بہت مختصر مھاجس کے دوران انہوں نے حضرت امام جماعت احمدیہ سے مشرف طاقات حاصل کیا.سلسلہ احمدیہ کے انتظامی اور تعلیمی ادارے دیکھے اور اہل ربوہ اور وکالت تبشیر کی استقبالیہ تقاریب سے خطاب فرمایا.آپ ۲۱ ستمبر کو پا 4 بجے شام اپنی بیگم اور بچوں کے ہمراہ لاہور سے بذریعہ کارہ ربوہ پہنچے.مکرم وہ بدر می اسد اللہ خان صاحب بیرسٹرا در جماعت احمدیہ لاہور کے چند دوسرے ارکان اور مکرم مولوی ابو یہ به روزنامه الفضل در بوه ۷ ار ستمبر ۶۱۹۵۷ صفحه ۵٫۴٫۳
۴۸۵ ایوب صاحب سماٹری مبلغ سلسلہ بھی آپ کے ساتھ تھے.اہلِ ربوہ سے جو کثیر تعداد میں اڈر پہ موجود تھے آپ کا گرمجوشی سے استقبال کیا.استقبال کرنے والوں میں بزرگان سلسلہ اور منانہ کارکنان بھی تھے.پختہ سڑک سے ربوہ میں داخل ہوتے ہی ایک نہایت شاندار آرائشی محراب تھی.جس پر سنہری حروف میں اهلاً و سهلاً و مَرْحَبًا لکھا ہوا تھا.اس طرح لجنہ اماءاللہ کے ہال اور صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی کو بھٹی کے پاس بھی ایسی ہی شاندار محراب بنی ہوئی تھیں بھڑک کے دونوں طرف انڈونیشیا اور پاکستان کی مملکتوں کے جھنڈے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر گاڑھے ہوئے تھے بیٹڑک پر دونوں طرف اہالیان ربوہ اپنی محلہ وار نظیم کے ماتحت اپنے اپنے صدر تنظیم کے ماتحت اپنے اپنے صدر اور عہدہ داران کی نگرانی میں نہایت وقار اور سکون سے کھڑے تھے اس کے لیے قبل از وقت جگہیں مخصوص کر دی گئی تھیں.اپنے معزز مہمان کے استقبال کے لیے یہ تمام احباب پختہ مڑک سے ے کہ آپ کی قیام گاہ کو بھی حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خالصاحب) تک ہاتھوں میں انڈونیشیا اور پاکستان کے جھنڈے لیے ایستادہ تھے.جو نہی سفیر محترم کار سے اُترے " أَهْلاً وَسَهْلاً وَ مَرْحَبًا انڈونیشیا زندہ باد ، پاکستان زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اُٹھی سفیر محترم کار سے اُترے تو وکالت تبشیر کی طرف سے مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نائب وکیل التبشیر اور سید شاہ محمد صاحب رمين التبلیغ انڈونیشیا نے ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں زری کا ہار پہنایا.اور پھر جماعت کے چیده بزرگوں اور کارکنوں کا جو اس وقت وہاں موجود تھے فردا فردا آپ سے تعارت کہ ایا گیا.اس کے بعد سفیر محترم راستہ مجرا تالیبان ربوہ کے نعروں اور السلام علیکم کی محبت آمیز صداؤں کا جواب دیتے ہوئے پیدل اپنی قیام گاہ تک تشریف لے گئے.جس وقت وہ اپنی قیام گاہ میں داخل ہوئے تو باہر سینکڑوں افراد کا ہجوم - اسلام زندہ باد انڈونیشیا اور سفیر انڈونیشیا زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا آپ کے ساتھ آپ کی بیگم صاحبہ محترمہ اور آپ کا ایک صاحبزادہ اور ایک چھوٹی صاحبزادی بھی تھیں.جواڑہ سے کار میں ہی اپنی قیام گاہ تک گئیں.جہاں بجنہ اماء اللہ کی بعض ممتازه کارکنوں نے ان کا استقبال کیا.۲۲ ستمبر کو صبح پا ۸ بجے سفیر معظم جماعت احمدیہ کے مرکزی دفاتر دیکھنے تشریف لے گئے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر آپ کے ساتھ تھے.صدر انجمن احمدیہ کے دفاتہ ناظر
۴۸۶ اعلیٰ اول حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب اور ناظر علی شانی میاں غلام محمد صاحب اختر نے دکھلائے سفیر محترم کی خدمت میں ہر دفتر اور شعبہ کے متعلق ضروری تفصیلات ہم پہنچائیں.بیر محترم جماعت احمدیہ کے دفاتر کو دیکھ کر از حد مسرور ہوئے آپ نے بعض شعبوں کے متعلق خود بھی دریافت فرمایا.چنانچہ ان کو معلومات بہم پہنچائی گئیں.آپ پہلے صدر انجمن حمدیہ کے بعد انواں تحریک جدید کے دفاتر میں تشریف لے گئے.اور بیرونی تبلیغ کے مختلف شعبوں میں خاص وسپی کا اظہار فرمایا.و بجے صبح اہل ربوہ نے پروگرام کے تحت لجنہ اماء اللہ کے ہال میں اپنے معزز سمان کی دمت میں تہنیت نامہ پیش کرنے کی غرض سے مجلس استقبالیہ منعقد کی.احباب جوق در جوق اس میں شرکت کے لیے تشریف لائے.جو اس امر کا آئینہ دار تھا کہ ربوہ کے رہنے والوں کو ایک اسلامی مملکت کے معزز سفیر کی تشریف آوری سے کس قدر خوشی اور مسرت ہے.لجنہ اماء اللہ کے ہال کے اندر کوئی چار سو سے زائد کرسیوں کا انتظام تھا.جس کے لیے ربوہ کے چیدہ شہریوں اور بیر ونجات کے معزز احباب کے لیے باقاعدہ دعوت نامے جاری کیے گئے تھے.کرسیوں کے علاوہ ہال کے باہر کی طرف باقی جگہ کے لیے کوئی پابندی نہیں تھی.اور ہر شخص وہاں پہنچ کر اپنے معزز مہمان کے استقبال میں شریک ہو سکتا تھا.ہال کے اندر سٹیج اور دوسرا انتظام نظارت امور عامہ کی نگرانی میں تھا جسے نظارت کے کارکنوں نے نہایت خوش سلیقی سے سر انجام دیا.وہ جگہ ابھی چند منٹ ہوئے تھے کہ ہال کے عقبی دروازہ سے کریم مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کی معیت میں سفیر محترم سیٹھ پر تشریف لائے.جہاں ان کی خدمت میں لو کل جنرل پریذیڈنٹ جناب مولوی محمد صدیق صاحب نے اہالیان ربوہ کی طرف سے ایڈریس پڑھا.اور پھر ایک نہایت خوبصورت نقرئی کشتی میں سفیر محترم کی خدمت میں پیش کیا.اس تقریب کی صدارت مرزا عبد الحق صاحب پراونشل امیر نے فرمائی.ایڈریس پیش کرنے سے قبل انہیں شام سے آئے ہوئے احمدی نوجوان السید سلیم الجانبی صاحب نے نہایت خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کی اور آپ کے بعد مکرم مافظ عزیز الر حمن صاحب منگلا نے عربی زبان میں لکھا ہوا خیر مقدمی قصیدہ پیش کیا.اہل ربوہ کی طرف سے حسب ذیل ایڈریس پیش کیا گیا.فضیلت تاب! اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کا نہ.
جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ میں آپ کی تشریف آوری کے موقع پر ہم اہل ربوہ نہایت خلوص ومحبت اور خوشی کے ساتھ آپ کی خدمت میں پر یہ مبارک پیش کرتے ہوئے آپ کا دلی خیر مقدم کرتے ہیں.جناب عالی ! ہمارے لیے یہ امر نہایت مسرت کا باعث ہے کہ آپ کی ذات گرامی ہمارے درمیان ایک ایسی تقریب میں رونق افروز ہے.جو انڈونیشیا اور پاکستان جیسی دو عظیم الشان اور با و قارا سلامی مملکتوں کے باشندوں کے درمیان محبت اور دوستی کا بہت بڑا نشان اور اس کے آئندہ قیام اور مضبوطی کا ایک کامیاب ذریعہ ہے.جناب والا ! آپ کی خدمت میں یہ مومن کر دینا یقینا مناسب ہوگا.کہ آپ کی تشریف آوری ہمارے لیے انڈو نیشیا مینی مضبوط اور اس پسند سلطنت اور اس کے عوام کے لیے محبت کے ان جذبات کو اور زیادہ بڑھانے کا موجب ہوگی.جو ہمارے دلوں میں پہلے سے موجود ہیں.جناب والا کو علم ہوگا ه در بیدہ جماعت احمدیہ کا مرکز ہے.جسے ہم جماعت احمدیہ کے افراد نے قیام پاکستان کے بعد اپنے مقدس امام کی نگرانی میں رضا کارانہ بنیادوں پر اپنی ہمت اور کوشش سے تعمیر کیا ہے.اور اب سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ہر قسم کی روحانی دینی علمی اور سماجی سہولتوں سے متمتع ہو رہے ہیں اس وقت ہمارے درمیان ہمارے وہ بھائی ہیں جو انڈونیشیا کے علاوہ دوسرے ممالک مثلاً چین سیلون - بھارت - افغانستان - مشرقی و مغربی افریقہ.سعودی عرب شام عدن - ترکی.فلسطین.ڈچ - گی آنا.ٹرینی ڈاڈ.امریکہ.جرمنی.اور یورپ کے کئی دوسرے علاقوں کے رہنے والے ہیں.اور اب ہمارا حصہ اور جُز ہیں.انڈو نیشیا سے ہمارے بیسیوں بھائی پہلے ہمارے مرکز قادیان میں اور اب نہ بوہ میں تعلیم دین کی عرض سے آتے ہیں.اور ہمارے درمیان رہتے ہیں.اور اب بھی موجود ہیں.اسی طرح درجنوں افراد یہاں سے انڈو نیشیار گئے.اور ابھی دہاں قیام پذیر ہیں.اسلام کے گہرے مضبوط اور مقدس رشتہ کے علاوہ آپس کے یہ ذاتی تعلقات یقینا ایک ایسی کڑی ہے جو ہمیں ہمیشہ محبت اور اخوت کے انتہائی قیمتی اور قابل قدر رشتہ میں باندہ سے رکھے گی.ہم ایک بار پھر آنجناب کا دلی خیر مقدم کرتے ہوئے آپ کے قابل تعظیم ملک.آپ کے قابل احترام عوام اور آپ کی قابل احترام شخصیت کے لیے دعا کرتے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ
NAA سب کا حامی و ناصر ہے.اور آپ کا قدم ہمیشہ کہتی اور یہود کی طرف اٹھتار ہے.اور ہم سب کو یہ توفیق ملتی رہے.کہ ہم اپنے اپنے دائرہ کار میں دین حق کی اشاعت دنیا میں امن کے قیام بنی نوع انسان کی بہتری اور فلاح کے لیے متحد اور مجمع ہو کہ کام کرتے رہیں.آمین اللہم آمین ہم آپ کے دلی خیر خواہ اہل ربوہ " سفیر محترم نے اس کے جواب میں نہایت بر جستہ تقریبہ فرمائی جس میں جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کا خاص طور پر اعتراف کیا اور پاکستان اور انڈینیشیا کے باشندوں کے درمیان دوستی یگانگت اور محبت پر نہ دور دیا لیے ۲۲ ستمبر کو صبح نو بجے اہل ربوہ کی طرف سے استقبالیہ کی تقریب میں شرکت کے بعد انڈونیشیا کے سفیر الحاج جناب ڈاکٹر محمد رشیدی صاحب - صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل البشیر کی معیت میں ربوہ کے تعلیمی ادارے دیکھنے تشریف لے گئے.سفیر محترم نے جامعة المبشرین، تعلیم الاسلام ہائی سکول ، تعلیم الاسلام کا لج اور فضل عمر رسیرپ انسٹی ٹیوٹ کی عمارات کا معائنہ کیا اور اُن میں سے جو ادارے اس وقت تعطیلات کے بعد کھل چکے ہیں ان کے انسان سے ملے معزز مہمان تعلیم الاسلام کالج کی وسیع وعریض عمارت اور اس کے تعمیراتی پس منظر کو معلوم کر کے بہت مسرور ہوئے اسی طرح فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو اس کے کام کی نوعیت اور انفرادیت کے لحاظ سے بہت پسند کیا.گیارہ بجے طے شدہ پروگرام کے مطابق سفیر انڈونیشیا سید نا حضرت خلیفہ ایسیح الثانی امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں تشریف لے گئے جہاں آپ نے قریبا پون گھنٹہ تک حضور سے ملاقات کی نہ اس موقعہ پر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا بھی موجود تھے.پانچ بجے شام وکالت تبشیر نے تحریک جدید کے گیسٹ ہائرس کی موزوں اور خوبصورت عمارت میں سفیر انڈونیشیا کے اعترانہ میں ایک شاندار عصرانہ کا اہتمام کیا جس میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بھی بنفس نفیس تشریف لائے.اسی طرح صحابہ کرام ، صدر انجمن احمدیہ کے ناظران اور صیغہ جات کے سه روز نامه الفضل ۲۶ ستمبر ۶۱۹۵۷ ۲۳
NAQ افسران تحریک جدید کے وکلاء اور اداروں کے افسر دوسرے ملکوں سے آئے مبلغین اور غیر ملکی طلباء کے علاوہ کریم چو ہدری اسد اللہ خالصا حب امیر جماعت احمدیہ جو سفیر انڈونیشیا کیسا تھ ہی ربوہ تشریف لائے تھے جی احمدیہ لاہور کے نائب امیر ڈاکٹر عبد الحق اور ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب بھی شریک تھے.پانچ بجکہ پانچ منٹ پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی تشریف لائے اور اس کے چند منٹوں کے بعد ہی معزز مہمان آگئے.معزز مہمان کی تشریف آوری پر حاضرین نے کھڑے ہو کر محبت اور خلوص کے خاموش مظاہرہ کے ساتھ آپ کا استقبال کیا.عصرانہ کی اس شاندار تقریب کا آغازہ مولوی بشارت احمد صاحب بیشتر نائب وکیل التبشیر کی نمادت سے ہوا اور اس کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے انگریزی زبان میں سفیر محترم کی خدمت میں انگریزی ایڈریس پیش کیا.اس ایڈریس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ امر ہمارے لیے عزت اور فخر کا موجب ہے کہ ہمیں ان محترم کو ربوہ میں خوش آمدید کہنے اور آن محترم کا دلی خیر مقدم کرنے کا موقع ملا ہے.ربوہ ایک نیا شہر ہے جو جلد جلد بڑھ رہا ہے.یہ اگر چہ ظاہری زیب وزہ بہت سے محترمی ہے تاہم اسے یہ امتیانہ کی مشرف حاصل ہے کہ یہ ایک ایسا شہر ہے.جسے ایمان واخلاص کے ایک عظیم اور یادگار معجزہ کی حیثیت حاصل ہے.یہ اس روحانی در شہ سے مالا مال ہے جو نسیم اور روح کی ہر مزورت اور احتیاج کو بدرجہ اتم پورا کرنے کی ہر صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے.اور جین کی بدولت وہ اقتدار میسر آتی ہیں جو صحت مند ، خوشحال، اور ترقی پذیہ نہ زندگی میں نظم وضبط بر قرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں.یہ بستی اس عالمی تحریک کا مرکز ہے جو جماعت احمدیہ کے نام سے موسوم ہے اور جس کی بنیا د امام الزمان مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلواۃ و السلام نے خدائی منشاء کے تحت اپنے ہاتھ سے رکھی تھی.اگر چہ آپ کی آوانہ ایک تنہا انسان کی آوازہ تھی جو آج سے تقریباً ستر سال قبل خادیان کی بستی سے بلند ہوئی اور جس کا انبیاء ما سبق کے زمانوں میں پہلے سے قائم شدہ روایات کے مطابق لوگوں نے حقارت اور تمسخر کے ساتھ خیر مقدم کیا.تاہم آہستہ آہستہ غریب اور پاکبان انسانوں کے دل مائل ہونے شروع ہوئے اور اُن سے بھیک بیک کی صدائیں بلند ہونے لگیں.ان مخلصین نے میسیج پاک کے ہاتھ پر عہد کیا کہ وہ دنیا پر دین کو ہر حال مقدم رکھیں گے.گنا می اور تنہا نی کے اس عالم میں جس کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو الہام پاک کے ذریعہ خبر دی.
يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيق اس دن کے بعد سے کہ جب خدا نے مسیح پاک کو یہ خوش خبری سنائی کوئی دن ایسا نہیں طلوع ہوا کہ جس میں چشم فلک نے اس خوش خبری کا بڑھ چڑھ کر پورا ہونا مشاہدہ نہ کیا ہو اور آج آنمحترم کا یہاں تشریف لانا خود اس امر پر گواہ ہے کہ یہ مینگو نامہ روزہ ایک نئے رنگ اور نئے طور پر پوری ہوتی چلی آ رہا ہے پیشگوئی اسی لیے آپ کا آنا علیم و خبیر اور ہمہ قدرت خدا پر ہمارے ایمان کو اور زیادہ تقویت پہنچانے کا موجب ہوا ہے.ہم ۱۹ ء میں جب ہند و پاکستان کے بر صغیر کو سیاسی غلامی سے نجات ملی اور یہاں اس کے ساتھ ساتھ ایک قیامت صغری بہ پا ہوئی تو اس وقت ہمیں قادیان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا.وہاں سے آنے کے بعد حضرت امام جماعت احمدیہ نے جو مسیح پاک علیہ السلام کے فرزند موعود ہیں ہر قسم کے اثاثہ اور وسائل سے محروم ہو جانے کے باوجود محض خداوند قدوس کی ذات سمر بیزل پر بھروسہ کرتے ہوئے اس بنجر در بے آب و گیاہ قطعہ زمین کو اس لیے منتخب فرمایا کہ آپ مسیح پاک کی منتشر بھیڑوں کو یہاں پھر جمع کریں اور دین حق کی عظمت کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنے کے لیے اپنی انتھک مساعی کو یہاں سے پھر جاری فرمائیں آپ کی اس جدو جہد کا تمام تر مقصد یہ تھا کہ دنیا میں سلمانوں پر انتشار وانحطاط کی جو کیفیت طاری ہے اسے موثر طور پر روکا جاسکے اور اللہ تعالیٰ نے دنیا کی رہنمائی کے بیسے تو دین خالص عطا فرمایا ہے اسے عزت و عظمت کا پھر دہی بلند مقام میسر آ سکے جس کا وہ صحیح معنوں میں واحد حقدار ہے.چنانچہ آپ کی انتھک مساعی کے نتیجے میں آج یہاں دس سال کے مختصر عرصہ میں ہر قسم کے رفاہی اداروں کا قیام عمل میں آچکا ہے چنانچہ آج اسی بنجر قطعه زمین پر جماعت کے گوناگوں فرائض کی سر انجام دہی کے لیے مرکزی دفاتہ بھی قائم ہیں اور نو نہال بچوں اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے متعدد اسکول اور کالج بھی معرض وجود میں آچکے ہیں.پھر یہاں ایسے کتب خانے بھی موجود ہیں جن کے ذریعہ ایسی دانش پر دان چڑھ رہی ہے کہ جس میں نئی اور سائنسی علوم قرآن مجید کی زندگی بخش حکمت سے جلا د پانے کے باعث انسان زندگی میں ایک نو لنگوار تبدیلی پر ختم ہوئے خیر نہیں رہتے.علوم وفنون کے میدان میں اس جدو جہد اور کاوش سے مدعا یہ ہے کہ عملاً اطلاقی نظام نه برا این احمدیہ حصہ سوم ما ۱۲ حاشیه در حاشیه منه مطبوعه سفیر ہند پریس ۶۱۸۸۰
کا ایک اعلی معیار دنیا کے سامنے پیش کیا جائے.آج یہاں سے وہ عظیم الشان سوتے پھوٹ رہے ہیں کہ جن سے دنیا کا کونہ کو نہ سیراب ہورہا ہے.مبلغین کی آمد ورفت کا ایک سلسلہ جاری ہے جو دور دراز ممالک میں جا جا کہ دین حق کا پیغام پھیلانے میں ہمہ تن مصروف ہیں چنانچہ مشرقی و مغربی افریقہ کے دور دراز علاقوں مشرق وسطی کے ممالک نیز سنگا پور اور انڈو نیشیا کے علاوہ انگلستان، ہالینڈ، مغربی جرمنی، سوئٹزر لینڈ، سکنڈے نیویا ، سپین ، اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھی ہمارے باقاعدہ تبلیغی مشن قائم ہیں ان ممالک کے نو مسلموں میں ایک خاصی تعداد ایسے دردمند نوجوانوں کی ہے جنہوں نے خدمت اسلام کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر کھی ہیں.اور وہ ربوہ میں تعلیم حاصل کرنیکے بد آجکل خود اپنے ملکوں اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں با قاعدہ مبلغین کی حیثیت سے تبلیغ کا فریضہ ادا کہ رہے ہیں.افریقہ میں ہمارے اپنے اسکول اور مدارس ہیں.لندن بیگ بہیمبرگ ، ڈیٹن ، اور اسی طرح مشرقی اور مغربی افریقہ کے اہم شہروں میں ہوت الذکرہ تعمیر کرنے کی سعادت ہمارے حصے میں آچکی ہے.اور ان میں سے اکثر مشنوں کی طرف سے باقاعدہ رسائل و اختبارات بھی شائع ہوتے ہیں.جن کے ذریعہ مختلف ممالک کے لوگوں کو اسلام کی بیش بہا اور لازوال تعلیمات سے آگاہ کیا جاتا ہے.خود انڈونیشیا کے احمدی مشن کی طرف سے بھی اس وقت سینار اسلام کے نام سے ایک اخبار شائع ہو رہا ہے.ہم نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم بھی شائع کیسے ہیں.اب تک انگریزی دلندیزی ، جرمن اور سواحیلی زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں.علاوہ ازیں بہت سی دیگر زبانوں میں تراجم شائع کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے.خود انڈو نیشی زبان میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ ہو چکا ہے اور آج کل اس پر نظرثانی کی جارہی ہے امید ہے نظر ثانی کا کام عنقریب مکمل ہو جائے گا.ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ انڈو نیشیا میں ہمارے مبلغین نے صحیح دینی روح کے مطابق ہمیشہ اپنے آپ کو اہل انڈونیشیا اور ان کی قسمت کے ساتھ وابستہ کیے رکھا.انڈونیشیا پر جاپانیوں کے قبضے کے دوران دہ اپنے انڈونیشی بھائیوں کے ساتھ ہر دکھ اور ہر تکلیف میں برابہ کے مشریک رہے.اور انہوں نے بڑی جرات اور جواں مردی سے ان کے دوش بدوش ہر مشکل کا مقابلہ کیا اس قبضہ کے ساتھ ساتھ ہی جدوجہد آزادی کا دور شروع ہوا جس کا مقصد استعماری طاقتوں کی واپسی کو ناکام بنانا تھا.اس وقت بھی بنا رہے مبلغوں نے دل و جان سے آپ لوگوں کا ساتھ دیا اور اس طرح کہ آپ لوگ اپنی قسمت کے خود مالک جو اس
۴۹۳ اور اپنے معاملات کو خود ہی طے کرنے میں کئی خود مختار ہوں انہوں نے آپ لوگوں کا پورا پورا ہاتھ بنایا.ان محترم ہمارے لیے یہ امر باعث مسرت ہے کہ انڈونیشیا میں ہمارے رئیس التبلیغ سید شاہ محمد صاحب بھی مختصر قیام کے لیے آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں اور وہ اس وقت ہمارے درمیاں موجود ہیں.انڈونیشیا کی جدوجہد آزادی میں مکرم شاہ صاحب نے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ہمیشہ یاد گار رہیں گی.اور مستقبل کا مؤرخ ان کی خدمات کو کسی صورت فراموش نہ کرتے ہوئے اعتراف سے پیچھے اور پر خلوص جد ہے کے ساتھ ان کا ذکر نے میں ایک خوشی محسوس کرے گا.مکرم شاہ صاحب نے اہل انڈونیشیا کے پر تعظیم اور بیت بھر سے دلوں میں ہمیشہ ہمیش کے لیے گھر کر لیا ہے.جدوجہد آزادی کے تارین کے ساتھ ان کے گہرے اور قریبی تعلقات تھے اور کیوں نہ ہوتے جب کہ یہ ان کی قومی امنگوں میں برابر کے شریک تھے دیگر احمدی احباب کی مدد سے انہوں نے جمہوریہ انڈونیشیا کے مؤقف کے برحق اور مبنی یہ انصاف ہونے کے حق میں عالمی رائے عامہ کو استوار کرنے میں نمایاں خدمات سر انجام دیں.اور خدمات کے اس سلسلہ کو ولندیزیوں کی واپسی اور دوبارہ قبضہ کے پر آشوب زمانے میں بھی منقطع ہونے نہیں دیا مکریم شاہ صاحب اس کمیٹی کے رکن تھے جو اقوام متحدہ کے فیصلے کی تعمیل میں ولندیزی نوجوں کی واپسی کے بعد جمہوریہ کے از سر تو قیام کے لیے بنائی گئی تھی.اسی طرح یہ اس استقبالیہ کمیٹی کے بھی رکن تھے جو ولندیزیوں کے قبضہ کے دوران صدر سوئیکارنو کی رہائی کے وقت ان کے شایان شان استقبال کے لیے تشکیل دی گئی تھی.اس وقت یہ اکیلے ہی وہ غیر انڈونیشی فرد تھے.جنہیں انتقال اقتدار کے وقت جمہور یہ ریاست ہائے متحدہ انڈونیشیا کے نئے دارالحکومت جکارنہ تک صدر سوئیکارنو کی ہمرکابی کا امتیاز حاصل ہوا.حصول آزادی کی تاریخی بدرجہد میں ان تمام کارناموں کے ساتھ ساتھ مکریم شاہ صاحب موصوف نے ایک اور اہم خدمت بھی سر انجام دی اور وہ یہ معنی کہ یہ انڈو نیشیا کے احمدی احباب میں جو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں برا یہ یہ جذبہ پیدا کرنے میں مصروف رہے کہ وہ اسلامی نظریہ حیات کو جسے ہر شعبہ زندگی میں نظم وضبط کے اساسی معیار کی حیثیت حاصل ہے ملک میں زیادہ سے زیادہ پھیلائیں اس کے زیہ اٹلہ عالمی اداروں میں انڈونیشیاء زیادہ در قیع اور زیادہ مؤخر کر دار ادا کرنے میں کامیاب ہو سکے.اسی طرح ہماری جماعت کے دوسرے ممبران نے بھی انڈو نیشیار کی حکومت اور اس کے ابنائے وطن کی بیش بہا خدمات سر انجام دی ہیں.عزت تاب! ہم آپ کی تشریف آوری پر آپ کے بے حد ممنون ہیں اور آپ سے پر خلوص طور پر التجا
کرتے ہیں کہ آپ اپنے ہم وطنوں تک ہمارا محبت بھر اسلام اور ہماری مخلصانہ اور نیک تمنا میں پہنچا کر ہمیں مزید شکریہ کا موقع دیں لیے صاحبزادہ صاحب کے بعد ربوہ میں مقیم انڈونیشی طلبہ کی طرف سے حسب ذیل یہ ایڈریس پیش کیا گیا.عالی جناب محترم سفیر صاحب حکومت انڈونیشیار السلام علیکم ورحمته الله وایر کاندا ہم انڈو نیشین طلباء ہجور بوہ کے مختلف اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں خوش آمدید عرض کرتے ہیں.اس طرح آپ کی اہلیہ محترمہ صاحبزادے اور صاحبزادی اور عملہ کی خدمت میں بھی خوش آمدید عرض کرتے ہیں.آپ کی تشریف آوری ہم انڈونیشین طلباء کے لیے انتہائی خوشی و مسرت کا باعث ہے.بلکہ ہم اسے عین فخر اور اپنی خوش قسمتی تصور کرتے ہیں.اور آں جناب کی ملاقات اس وجہ سے زیادہ خوشی کا موجب ہے کہ آپ کسی ایک رشتہ دار با خاندان یا گاؤں یا شہر کے نمائندہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑے ملک کے نمائندہ ہیں.جو تین ہزار ہزا ر پر مشتمل ہے.اور جس کی آباد می سات کروڑ کے لگ بھگ ہے.اس وجہ سے ہمارا یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ آپ کا آنا ہمارے لیے اور قوم انڈونیشیاء کے لیے باعث فخر ہے.کیونکہ اس ریوہ شہر میں ہوا بھی ابھی آباد ہوا ہے اگر چہ تمام اکنان عالم سے ہر قوم دملک کے افراد آتے رہے ہیں لیکن سفیروں میں سب سے پہلے آپ نے تشریف لا کہ اس شہر کی عزت افزائی فرمائی ہے.عالیجاہ شہر یہ بوہ بجو ابھی آباد ہو رہا ہے اور جہاں کی آب و ہوا کو برداشت کرنا بھی آسان بات نہیں اور دوسرے شہروں کی طرح اس میں کوئی خوشی اور تفریح کے سامان نہیں ہیں.طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی شے ہے کہ میں سے نوجوانان انڈونیشیا کے دلوں میں یہاں آنے کا خیال پیدا ہوا.کر منا!! ہم سے پہلے بھی بیسیوں انڈونیشین طلباء اس جگہ اور اس سے پہلے قادیان میں کمیل علم کر کے مختلف جگہوں اور ملکوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو شے ہمارے قلوب کے لیے موجب کشمش بنی ہے یہ ہے کہ اس جگہ نہ صرت علوم دنیا دی کو حاصل کرنے کا ہمارے لیے انتظام ہے کہ جس سے ہم دنیا دی ترقیات حاصل کر کے قوم کی خدمت کے قابل ہو سکتے ہیں جبکہ اس سے بڑھ کر یہاں ہمارے لیے خصوصی دینی تعلیم کا بھی به روزنامه الفضل ربوه ۲۹ ستمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۵٫۴
۴۹۴ خاطر خواہ انتظام ہے.کہ جس کے ذریعہ سے ہم اللہ تعالی کو پا سکیں.اور تمام دنیا کو دین حق کی دعوت دے سکیں اور بتلا سکیں کہ یہی وہ مذہب ہے جو سب سے زیادہ مکمل ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہی معزز ترین بنی ہیں اور قرآن مجید ہی پاکیزہ ترین اور مکمل ترین سند میں کتاب ہے.اور پھر تعلیم کے علاوہ اس سنگ میں ہماری تربیت کی جاتی ہے کہ جس سے ہم دین حق کے صحیح خادم بن سکیں اور پھر نہ صرف علم سے بجا دین کی خدمت کر سکیں بلکہ ہر قسم کی جانی ومالی قربانیوں کو بھی دین کی خاطر پیش کرنے کے قابل بن سکیں بالآخر ہم آپ سے دعا کے ملتجی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے کیونکہ اتنے بڑے مقصد کو تجو نہایت ہی نیک اور پاکیزہ ہے.حاصل کرنا از حد مشکل ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ہمیں رہنمائی کے طور پر کوئی نہ کوئی نصیحت فرمائیں گے کہ جو ہمارے مقصد کے حاصل کرنے میں محمد ثابت ہو سکے.بالاخر دعا ہے کہ اللہ تعالی آن مکرم کو تمام عزیز ان سمیت اپنی پناہ میں رکھے لمبی عمر عطا فرمائے دنیا دی و اخر دی زیات رہم ہیں طلبائے انڈونیشیا ہے عطا فرمائے.وکالت تبشیر اور انڈو نیشی طلبہ سے تہنیت ناموں کے جواب میں الحاج ڈاکٹر محمد رشیدی سفیر انڈو نیشیا نے قریبا پچیس منٹ تک انڈو نیشی زبان میں تقریر فرمائی جس کا ترجمہ انڈینشیا سے آئے ہوئے مبلغ کریم ملک عزیز احمد صاحب نے حاضرین کو سُنایا.سفیر محترم نے نہایت موزوں الفاظ میں سید نا حضرت خلیفہ المیہ الثانی ، وکالت التبشیر اور جماعت کے تمام دوسرے افراد کا شکریہ ادا کیا اور ربوہ کے دورہ کے متعلق اپنے نہایت اچھے اور اعلی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ان خدمات کو سراہا جو جماعت احمد به دین حق کی تبلیغ واشاعت اور مسلمانوں کی بہبود کے لیے سرانجام دے رہی ہے.آپ کی تقریب کے ترجمہ کے بعد سید نا حضرت مصلح موعود نے انڈونیشیا سے آئے ہو معزز مہمان کا جو اسلام کے گہرے مضبوط اور مقدس تعلق کی وجہ سے ہم سب کے لیے قابل عزت و تکریم کے قابل تھے.ربوہ میں ان کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ جماعت احمدیہ کے دلوں میں انڈونیشیا کے مسلمان بھائیوں کے لیے ہمیشہ محبت اور یگانگت سے گہرے اور نیک جذبات کار فرما ر ہیں گے.سواچھے بجے تک یہ تقریب جاری رہی جو اپنے تاثرات اور کوائف کے اعتبار سے سفیر محترم کے دورہ ربوہ کی باقی تقریبات سے اہم اور موثر تھی.تقریب کے خاتمہ به روزنامه اخبار" الفضل ربوہ ۲۷ ستمبر ١٩٥٧ ء مٹ
۴۹۵ پر آپ ربوہ میں مقیم انڈو نیشی اور دوسرے غیر ملکی طلباء سے تو عصرانہ میں موجود تھے ملے اور اُن سے مصافحہ فرمایا.رات نو بجے سید نا حضرت مصلح موعود کی طرف سے معزز مہمان کے اعزاز میں ڈنر دیا گیا.جس میں بعض اور اصحاب کے علاوہ انڈونیشیات آئے ہوئے مبلغین بھی شریک ہوئے.اسی رات ربوہ کی مجلس تجار کا ایک وند سفیر انڈونیشیا سے ملا یہ وفد مجلس سنجارہ کے صدر چوہدری عبد العزیز صاحب واقف زندگی ، سیکر ٹری ملک سعادت احمد صاحب اور خزانچی مکرم محمد احمد صاحب نظام پشتمل تھا.اس وفد نے آپ کی خدمت میں ربوہ کی مصنوعات کے چند نمونے بھی پیش کیے.جنہیں سفیر محترم نے بڑی خوشی سے قبول فرمایا.اور یوں ربوہ کی بڑھتی ہوئی ترقی کا صنعتی پہلو بھی آپ کے سامنے آگیا :- ستمبر کی صبح کو سفیر محترم کی روانگی سے قبل وکالت التبشیر کی طرف سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے معز نہ مہمان کی خدمت میں قرآن پاک کے انگریزی ترجمہ کا مقدس و مطر تحفہ پیش کیا.قرآن مجید کا یہ انگریزی ترجمہ نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب جلد کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا.جسے بڑ می محبت اور عقیدت کے ساتھ آپ نے قبول فرمایا اور در حقیقت یہی اہلِ ربوہ کا وہ بہترین تحفہ تھا جسے وہ +4 اپنے جان د دل سے زیادہ عزیز جان کہ اپنے معزز مہمان کے لیے پیش کر سکتے تھے.۲۳ ستمبر کو صبح ساڑھے چھے بجے پروگرام کے مطابق سفیر محترم عازم لاہور ہونے والے تھے.ابھی چھ نہیں بجے تھے کہ سفیر محترم کی قیام گاہ کے ارد گر دا ہالیان ربوہ جوق در جوق جمع ہو چکے تھے.اور سڑک پر دور میں کھڑے ہو کر معزز مہمان کی روانگی کے منتظر تھے.ساڑھے چھ بجے حضرت چو ہدری ظفر اللہ خانصاحب کی کو بھٹی میں جہاں آپ قیام پذیر تھے آپ نے ایک بار پھر تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کے نمائندوں اور ربوہ کے پیدہ احباب سے الوداعی ملاقات فرمائی.اس موقع پر جن احباب نے آپ کو الوداع کہا ان میں چو ہدری احمدعیان صاحب وکیل المال میاں غلام احمد صاحب اختز ناظرا علی ثانی.میاں عبد الحق صاحب رامه ناظر بیت المال - چوہدری اسد اللہ خانصاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور.سید شاہ محمد صاحب رئیس التبليغ انڈو نیشیا.ملک عزیز احمد صاحب - مکرم ابوبکر ایوب صاحب - صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب سابق مبلغ انڈونیشیا.حسن محمد خان صاحب عارف نائب وکیل التبشير - مولانا جلال الدین صاحب شمس مکرم مولانا ابو العطاء صاحب بچو ہدری ظہور احمد صاحب با جوه نائب ناظر اصلاح و ارشاد - تکریم مولوی محمد صدیق صاحب جنرل پریذیڈنٹ ربوہ شامل تھے.سفیر محترم کی کار جونہی گیٹ سے سڑک پر آئی.اہلِ
۴۹۶ ربوہ نے نعرہ ہائے تکبیر.اسلام زندہ باد انڈونیشیا اور پاکستان پائندہ باد کے پر جوش نعروں کے ساتھ آپ کو الوداع کہا.اور جوں جوں ہجوم میں سے کار گزرتی گئی.یہ مغرے اور زیادہ بلند ہوتے گئے.سفیر محترم اور ان کی بیگم صاحبہ ہاتھ ہلا ہلا کہ جواب دیتے رہے.بالاآخر پونے سات بجے سفیر محترم خیر سگالی و خلوص کے نیک اثرات سے کہ ربوہ سے لاہور روانہ ہو گئے لیلے اکتولی ۱۹۵۷ ء میں مرکز احمدیت ربوہ کے اندر جوم خلائق کا مرکز من نجوم خلائق کا شاندار قرار دیتے ہیں یا کیونکہ اس کے دوران تینوں مرکزی تنظیموں کے کامیاب اجتماعات منعقد ہوئے.اجتماع خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ (۱ تا ۱۳ اکتوبیر) اجتماع لجنہ اماء الهند ۱ تا ۳ اکتوبی ) اجتماع انصار الله (۲۶٫۲۵ اکتوبر) - اجتماع خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ میں ایک سو چودہ مجالس کے ۱۷۴۴ را اطفال و خدام نے شرکت کی یہ اجتماع لجنہ اماءاللہ میں ربوہ کی مقامی خواتین کے علاوہ پاکستان اور بیرون پاکستان کی تیس کے قریب لجنات کی متعد در نمبرات شامل ہوئیں لیے اور انصار الله کے اجتماع میں ۱۴: مجالس کے ۲۶۰ نمائندے ۵۰۲ ارکان اور ۱۰۱۰ زائرین شامل ہوئے لیکے ستبرنا حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی نے علالت طبع کے باوجود تینوں اجتماعات سے خطاب فرمایا :- سید نا حضرت مصلح موعود نے خدام احمدیت کو مخاطب کرتے خدام احمدیت روح پرور خطاب ہوئے ارشاد فرمایا کہ الہ تعالی نے اس زمانہ میں دین کی خدمت کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد کیا ہے اور یہ کام اتناعظیم الشان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی امانت آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سپرد کرنی چاہی مگر انہوں نے اس کے اٹھانے سے بڑی گھراہٹ کا اظہار کیا (احزاب ع ۹) اس جگہ "امین" کے معنی محض انکار کے نہیں بلکہ ایسی گھیرا ہٹ کے ہیں جس میں اگر انسان کی اپنی مرضی کا دخل ہو تو وہ ضرور انکار کردے غرض وہی چیز جس کے اُٹھا نے سے زمین و آسمان اور پہاڑوں نے بڑی گھبراہٹ کا اظہار له اختبار النفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۵۷د مرد : له الفضل دار اكتوبر ۱۹۵۷ء طب له الفضل ، اکتوبر ما به الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۵۷ توصله
کیا تھا اب اللہ تعالی کے فیصلہ کے ماتحت آپ کے سپرد کی گئی ہے.میں طرح دنیا کی حالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی اسی طرح اس زمانہ میں بھی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی زمین و آسمان اور پہاڑوں نے آپ کی تعلیم کا حامل بننے سے بڑی گھرا ہٹ کا اظہارہ کیا تھا اور اس زمانہ میں بھی ہو جو مجھ آپ لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے اس کے متعلق کوئی بیوقوف ہی دھومی کے ساتھ کہ سکتا ہے کہ کہیں اسے اٹھاؤں گا.ہاں سمجھدار اور عقلمند انسان انشاء اند کہ کہا اور ڈرتے ہوئے دل کے ساتھ کہتا ہے کہ میں اسے اٹھاتا ہوں کیونکہ بغیر اس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس بوجھ کے اٹھانے کی توفیق دے اور مدد کرے میں خود اسے نہیں اٹھا سکتا.زمین و آسمان کے باشندے اپنی طاقت سے نہ تو اس بوجھ کو پہلے اٹھا سکتے تھے اور نہ اپنی طاقت سے اب اٹھا سکتے ہیں.دیکھ لو مسلمانوں نے کچھ عرصہ کی جدوجہد کے بعد کس طرح اس بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش کی اس حالت کا خطرہ اب آپ لوگوں کے لیے بھی ہے.یا د رکھو دلہن ہمیشہ دولہا کے گھر ہی لیا کرتی ہے ہمسایہ کے گھر نہیں بسا کر تی یا یوں کہو کہ دولہا کے گھر دلہن ہیں بسا کرتی ہے بہائی نہیں بس کرتی.بیوت الذکر کا کام تمہاری دلہن ہے اور اس نے ہمارے ہی گھر آنا ہے کیسی اور کے گھر نہیں جانا.یہ ہماری بے غیرتی ہوئی کہ یہ کام کسی اور کے گھر چلا جائے حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل میں آسمانی بادشاہت کو دلہن سے تشبیہ دی ہے.رمتی باب ۳۵) مگر عیسائیوں نے تو غفلت سے کام اور چرچ کو شیطان کے سپرد کر دیا.یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ دلہن کو دولہا کے سوا کسی اور کے سپر د کر دیا.لیکن سہارا کام یہ ہے کہ ہم بیوت الذکر کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کے لیے آباد رکھیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے مشن کو آپ ۱۹۰۰ ء سال تک لے جائیں تو کم سے کم اتناتو ہو سکتا ہے کہ آپ عیسائیوں کے سامنے مراٹھا سکیں لیکن فخر اس بات میں ہے کہ آپ تبلیغ کے کام کو قیامت تک جاری رکھیں اس میں کوئی کمزوری نہ آنے دیں ہیں آپ لوگ اپنی ذمہ دار می کرد سمجھیں محنت کریں اور اپنے خرمن کو پوری طرح ادا کریں اور یاد رکھیں کہ اس فرض کا ادرا کر نا مصیبت نہیں بلکہ سلہ اصل نظریہ میں مساجد کا لفظ ہے
٤٩٨ آپ لوگوں کے لیے فخر کا موجب ہے........رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگِ اُحد کے لیے تشریف لے گئے تو ابتداء میں اسلامی لشکر کو فتح حاصل ہو گئی تھی لیکن بعد میں مسلمانوں سے غلطی ہوئی جس کے نتیجہ میں کفار نے مسلمانوں پر پشت کی طرف سے حملہ کر دیا اور تناسخت حملہ کیا کہ ان کے قدم اکھڑ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میں گر گئے اور لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں احد مدینہ سے قریب ہی واقع ہے اس لیے وہاں سے بھاگ کر لوگ مدینہ پہنچے انہوں نے وہاں یہ خبر پھیلا دی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں یہ خبر سن کر مدینہ کے مرد عورتیں اور بچے دیوانہ دار احمد کی طرف بھاگے تاکہ آپ کی آخری بار زیارت کر سکیں لیکن اکثر لوگوں کو آپ کی سلامتی کی خبر راستہ میں ہی مل گئی اور وہ رک گئے مگر ایک عورت دیوانہ دار آگے بڑھتے ہوئے احد مقام تک پہنچ گئی اُحد کی جنگ میں اس عورت کا باپ خاوند اور بھائی تینوں مار سے گئے تھے اور بعض روائیوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا.جب وہ دیوانہ وار احمد کی طرف جا رہی تھی تو لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کا علم ہو چکا تھا اور شکر کے تمام افراد نے آپ کو زندہ دیکھ لیا تھا اس لیے صحابہؓ آپ کی ذات سے متعلق مطمئن تھے.لیکن اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی علم نہ تھاوہ دوڑ کر اندہ سماجی کے پاس پہنچی اور پوچھا کہ بناد معتمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے کیونکہ وہ صحابی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھے اس لیے انہوں نے کہا بی بی مجھے بڑا انہیں ہے کہ تیرا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے اس عورت نے کہا کہ میں تجھ سے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھتی مجھے یہ بتاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے اس پہ اس صحابی تھے کہا کہ بی بی مجھے بڑا افسوس ہے کہ تیرا خاوند بھی اس جنگ میں مارا گیا اس عورت نے کہا تم بھی عجیب آدمی ہو میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کرتی ہوں اور تم مجھے میرے باپ اور میرے خاوند کی موت کی خبر دیتے ہو.اس نے کہا بی بی مجھے بڑا افسوس ہے کہ تیرا بھائی بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے اس نے کہا خدا کے لیے تم مجھے یہ بتاؤ کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے اس نے کہا رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خیر سے ہیں اس عورت نے کہا الحمد اللہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو مجھے اپنے باپ اور بھائی اور خاوند کی موت کی کوئی پرواہ نہیں پھر اس نے کہا مجھے بتاؤ کہ رسول اللہ صل علیہ وسلم ہیں کہاں اس پر صحابی نے آپ کی طرف انگلی کا اشارہ کیا.اور کہا آپ وہ ہیں.اس پر وہ عورت آپ کی طرف
٤٩٩ بھاگ کر گئی اور اس نے آپ کے دامن کو پکڑ لیا اور کہا یا رسول اللہ آپ نے یہ کیا گیا یہ فقرہ بظاہر بے معنی تھا لیکن در حقیقت یہ غلط نہیں تھا بلکہ عورتوں کے محاورہ کے مطابق باسکل درست تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یا رسول اللہ آپ جیسا و نادار انسان ہم کو یہ صدمہ پہنچانے پر کس طرح راضی ہو گیا پھر اس عورت نے کہا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں جب آپ سلامت ہیں تو کسی اور کی موت کی ہمیں کیا پر واہ ہو سکتی ہے تو دیکھو ان لوگوں میں اس قدر اخلاص خوش اور ایمان تھا کہ ہر خدمت جو اسلام اور محمد رسول ل علی اللہ علیہ وسلم کی کرتے تھے اس میں اپنی عزت اور رتبہ محسوس کرتے تھے چنانچہ اسی قسم کی غذائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخ سے ملتی ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ شہداء کو دفن کر کے مدینہ لوٹے تو عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لیے نکل آئے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ حضرت سعد بن معاذ نے پکڑی ہوئی تھی اُحد میں انکا ایک بھائی بھی مارا گیا تھا مشہر کے پاس انہیں اپنی بوڑھی ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی ملی تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ میری ماں یارسول اللہ میری ماں آپ نے فرمایا.خدا تعالی کی برکتوں کے ساتھ آئے بُڑھیا آگے بڑھی اور اس نے اپنی کمزور اور پھٹی ہوئی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نظر آ جا ئے آخر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہو گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا مائی مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے اس پر اس عورت.عورت نے کہا یا رسول اللہ میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا ہے تو گویا میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا.ایسے موقع پر ہر عورت چاہتی ہے کہ کوئی شخص آئے اور اس سے ہمدردی کرے لیکن اس عورت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمدردی کا اظہار کیا تو اس نے کہا یا رسول الله آپ میرے بیٹے کا کیا ذکر کرتے ہیں آپ سلامت واپس آگئے ہیں تو مجھے کسی چیز کی پر داد نہیں آپ یوں مجھیں کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا ہے.تو صحابہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جانیں دینا اپنی خوش قسمتی خیال کرتے تھے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو کسی کام کے لیے باہر بھیجا.بعد میں جنگ تبوک کا واقعہ پیش آگیا.یہ جنگ نہایت خطر ناک تھی.رومی حکومت اس وقت ایسی ہی طاقتور تھی جیسے آجکل امریکہ اور روس کی حکومتیں ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ سلم کو ایک چھوٹی سی فوج ہے کہ اتنی بڑی حکومت کے مقابلہ میں جانا پڑا.مدینہ میں بہت تھوڑے مسلمان تھے اور اردگرد کے لوگ بھی اکٹھے نہیں تھے لیکن اگر وہ اکٹھے ہوتے بھی تو قیصر روما کے مقابلہ میں اُن کی کوئی حیثیت نہ تھی.اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ تمام لوگ جنگ کے لیے ملیں جب اسلامی لشکر روانہ ہو گیا تو وہ صحابی جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر کام کے لیے بھیجا ہوا تھا واپس آئے بنوان آدمی تھے نئی نئی شادی ہوئی تھی ایک عرصہ کی جدائی کے بعد جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنی بیوی کو صحن میں بیٹھے ہوئے دیکھا وہ سید ھے اس کی طرف گئے اور اس سے بغل گیر ہونا چاہا مگر بیوی نے ان کی محبت کا جواب دینے کی بجائے ان کے سینہ پر زور سے دو ہتھڑ مارا اور پیچھے دھکا دے کر کہا خدا کا رسول تو میدانِ جنگ میں گیا ہوا ہے اور تمہیں اپنی بیوی سے پیار سوجھ رہا ہے خدا کی قسم جب تک محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بخیریت واپس نہیں آجاتے میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھوں گی وہ صحابی اسی وقت گھرتے نکل کھڑے ہوئے اور مدینہ سے تین منزل کے فاصلے پر اسلامی شکر سے جاملے اور پھر اسی وقت گھر واپس آئے جب رسول کریم ملی اللہ علیہ وسلم اپنے دوسرے صحابہ کے ساتھ مدینہ واپس لوٹے غرض یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہر خطرہ کے مو قع پر اپنی جان کو بلا دریغ خطرہ میں ڈال دیا کوئی تکلیف اور دکھ انہیں نہیں پہنچا جسے انہوں نے تکلیف اور دکھ جانا ہو بلکہ جب بھی کوئی خدمت کا موقع آتا وہ جان بخوشی پیش کر دیتے.حضرت عثمان بن مظعون کے متعلق تاریخ میں آتا ہے کہ ان کے باپ ایک بہت بڑے رئیس تھے وہ مکہ سے حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے وہاں جب یہ افواہ پہنچی کہ مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں تو وہ واپس آگئے واپسی پر ان کے باپ کے ایک دوست رئمیں نے انہیں پناہ دے دی جب انہوں نے مسلمانوں کو مظالم سہتے دیکھا تو انہوں نے اس پناہ کو واپس کر دیا اس رئمیں نے کہا دیکھو تم میری پناہ واپس نہ کرو.اگر تم میری پناہ واپس کرد گے تو مکہ والے تمہیں تنگ کریں.عثمان بن مظعون نے کہا جب میرے سامنے مسلمان غلاموں اور غریب مسلمانوں کو مار پڑتی ہے تو انہیں دیکھ کر مجھے بڑی شرم آتی ہے اور میرا دل مجھے ملامت کرتا ہے کہ تیرا بڑا ہو تیرے بھائی تو اسلام کی وجہ سے تکلیف اٹھارہے ہیں اور تم کسی ہمیں کی بنیاد میں رہ کر مزے کر رہے ہو تم اپنی پناہ واپس لے لو میرا دل آئندہ کے لیے ملامت نہ کر سے اس رئیس نے جواب دیا اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو میں واپس لے لیتا ہوں.چنانچہ اس رئمیں نے خانہ کعبہ میں جا کہ اعلان کہ دیا کہ آج میں عثمان بن مظعون کی پنا ہ واپس لیتا ہوں کہ میں یہ قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی کو پناہ دیتا تھا تو اس شخص کو تو بھی تکلیف دیتا اسے پناہ دینے والے قبیلے سے لڑنا پڑتا تھا.لیکن جب وہ اپنی پناہ واپس لے لیتا تو یہ قید اٹھ جاتی.عرب کا ایک مشہور شاعر سید گزرا ہے وہ بعد میں اسلام بھی لے آیا اس نے ۱۷۰
ال عمر پائی رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی وہ ایک لیے عرصہ تک زندہ رہا رسول کریم مل الہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اس سے شعر سنا کرتے تھے اور صحابہ میں سے میں کسی کو کوئی رتبہ ملتا وہ اسے بلاتے اس سے شعر سنتے اور اسے انعام دیتے.جب حضرت عثمان بن مظعون نے پناہ واپس کردی تو ایک دن لبید ملکہ آیا اور اس نے ایک محفل میں شہر سُنانے شروع کیسے حضرت عثمان بن مظعون بھی وہاں پہنچ گئے محفل میں بڑے بڑے روڈ سا بیٹھے تھے.اور سب لوگ لبید کو داد دے رہے تھے شعر پڑھتے پڑھتے لبید نے یہ مصرع پڑھا الا كُلِّ شَيْ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ یعنی اے لوگو ! اچھی طرح سن لو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز تباہ ہونے والی ہے اس پر حضرت عثمان بن مظعون کہنے لگے " صدقت " بید تو نے سچ کہا ہے.لبید کو یہ بات بہت بڑی لگی کہ وہ اتنا بڑا شاعر ہے اور یہ نوکر نوجوان اسے واد دے رہا ہے.لیکن اس نے زبان سے کچھ نہ کہا اور یہ دوسرا مصرع پڑھ دیا وَكُلِّ نَعِيهِ لَا مَحالَةٌ زَائِلُ یعنی ہر نعمت آخر تباہ ہوجانے والی ہے حضرت عثمان بن مظعون بھی بول پڑے اور کہنے لگے گذشت تو نے جھوٹ بولا ہے جنت کی نعمتیں کبھی تباہ نہیں ہوں گی لبید کو اس بات سے آگ لگ گئی اور راسن نے کہا کہ کہ دالو تم کب سے بداخلاق ہو گئے ہو پہلے تو اس نوجوان نے مجھے داد دی اور پھر اس نے مجھے جھوٹا کہا میں اس کے باپ کے برابر ہوں اس کے لیے تو مجھے جھوٹا کہنا جائز نہیں تھا کیا تم اپنے بڑوں کی ہتک کرنے لگ گئے ہو مکہ والوں نے چونکہ اسے خود بلایا ہوا تھا اس لیے اسکی اس تقریر سے اشتعال پیدا ہو گیا.اور ایک نوجوان نے غصہ میں حضرت عثمان بن مظعون کی آنکھ پر مکہ مارا جس سے ان کی آنکھ پھوٹ گئی انہیں پناہ دینے والا شخص وہیں موجود تھا اس نے یہ نظارہ دیکھا تو کہنے لگا عثمان کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میری پناہ واپس نہ کرد مکہ والے تمہیں تنگ کریں گے لیکن تم نے میری بات نہ مانی اور پناہ واپس کر دی اب تم نے اس کا نتیجہ دیکھ لیا کہ تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی ہے حضرت عثمان بن مظعون نے کہا آخر کیا ہوا خدا کی قسم میری دوسری آنکھ بھی چلا چلا کر کہ رہی ہے کہ خدائے تعالیٰ کے رستے میں مجھے بھی چھوڑ دو.یہ ان لوگوں کی کیفیت تھی جو اسلام کی راہ میں ڈکھ
۵۰۲ اٹھانے میں ایک فخر اور لذت محسوس کرتے تھے یہی طریق آپ لوگوں کا ہونا چاہیے اگر آپ لوگوں کو کوئی کھ پہنچے تو رویا چلنا یا نہ کریں جماعت کے بعض دوست ایسے ہیں کہ اگر کوئی ان کو گالی بھی دے دے تو وہ مجھے لکھنا شرو نا کر دیتے ہیں کہ ہم بہت سے مصائب میں مبتلا ہیں اور تحقیق پرمعلوم ہوتا ہے کہ وہ کہیں جار ہے تھے کہ راستہ میں آوانہ آئی کہ مرزائی بڑے کا فر ہیں لیکن حضرت عثمان بن مظعون کی آنکھ نکل جاتی ہے تکلیف سے وہ نڈھال ہو رہے ہوتے ہیں لیکن کہتے ہیں خدا کی قسم ! میری تو دوسری آنکھ بھی اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ کوئی دشمن اسے بھی چھوڑ دے.حضرت عثمان بن مظعون کے اس شاندار نقرہ کا یہ اثر تھا کہ جب آپ فوت ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم فوت ہوئے تو آپ نے فرمایا جا اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے پاس.گویا آپ نے حضرت عثمان بن مظعون کو اپنا بیٹا قرار دیا اور ان کی یاد کو ایک لمبے عرصہ تک قائم رکھا تو دین کی راہ میں جو مصائب آئیں ان کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ لوگ ہمت ہار کر بیٹھ جائیں بلکہ ان کا نتیجہ ہیں اور زیادہ زور سے کام کرنا چاہیے سورت نازعات کی چند آیات میں نے ابھی پڑھی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہی بیان فرمایا ہے کہ مومن وہی ہوتا ہے کہ تو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا سارا زور لگا دیتا ہے اور بس کام میں وہ لگا ہوا ہوتا ہے اس میں وہ غرق ہو جاتا ہے اگر واقعہ میں کوئی ایسی جماعت ہو تو اس کو کیا پتہ لگ سکتا ہے کہ اس کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے دنیا میں ہمیں کئی لوگ ایسے نظر آتے ہیں کہ جن کے سامنے ان کے گھردن کو آگ لگ جاتی ہے تو انہیں اس کا علم تک نہیں ہوتا.اور دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوگیا اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی اور کام میں اتنے محو ہوتے ہیں کہ انہیں کسی دوسری چیز کا علم ہی نہیں ہوتا.یہ حویت مختلف لوگوں میں مختلف رنگوں میں دکھائی دیتی ہے.ڈاکٹر ڈانسن جنہوں نے انگریزی میں لفت لکھنی شروع کی تھی ان کے متعلق ان کے ایک دوست جو مشہور مصنف ہیں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اس جگہ گیا جو ڈاکٹر ڈانسن کو بہت پسند بھی اور میں نے دیکھا کہ بارش ہو رہی ہے اور ڈاکٹر ڈانسن اپنا ہاتھ باہر نکا لے کھڑا ہے میں نے اس سے کہا ڈاکٹر یہ تم کیا کہ رہے ہو اس نے جواب دیا کہ میں شام کے بعد سے یہاں کھڑا ہوں اور روزانہ یہاں آکر کھڑا ہوتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ کوئی غلطی کی تو میرے باپ نے مجھے سزا کے طور پر یہاں کھڑا کیا تھا میں نے اس منزا
۵۰۳ کو بہت برا محسوس کیا اور سزا قبول کرنے کی بجائے میں کہیں باہر چلا گیا.اب جب میں بڑھا ہو گیا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ اگر میں اپنے باپ کی بات مان لیتا تو اچھا تھا ئیں اس غلطی کا کفارہ ادا کر نے کے لیے روزانہ یہاں آتا ہوں تو دیکھو جن لوگوں کے دلوں میں احساس ہوتا ہے انہوں نے کوئی غلطی کی ہے یا یہ کہ ان کا کوئی فعل خدا تعالیٰ کے مقابلے میں غلطی کہلائے گا.تو وہ اس کا کفارہ ادا کرتے ہیں آپ لوگوں کو بھی اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو خدا تعالے سے دعا کیا کریں کہ وہ اسے دور کرے لیکن اس تکلیف کے وقت دوسروں کو جانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو مار ہے تو وہ محلہ والوں کو بلانا شروع کر دے.اگر وہ بچہ ماں کے مارنے کی وجہ سے روتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر دہ کہتا ہے محلہ والو دوڑو اور مجھے میری ماں سے بچاؤ یہ درست نہیں ہوتا اس طرح اگر تمہیں کوئی بات تکلیف دیتی ہے تو خدا تعالیٰ کے آگے گڑ گڑاؤ اور اس سے دعا کرو لیکن اگر کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور دہ دوسروں کے آگے واویلا شروع کر دیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ لوگوں میں خدا تعالیٰ کا شکوہ کرتا ہے اور اس کی رضا پر راضی رہنا پسند نہیں کرتا صحیح طریق یہی ہوتا ہے کہ وہ اس تکلیف کو برداشت کرے اور خیر انتعالیٰ کے سامنے اس کے ازالہ کے لیے دعا کرتا رہے غر مین مورہ نازعات میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مومن وہی ہے جو اپنے کام میں اس طرح محو ہو جائے کہ اسے اپنے گرد و پیش کا بھی علم نہ ر ہے گھر دو پیش سے ہٹ کر اپنے کام میں محو ہو جانے والا ہی سچا مومن اور اصل صداقت کو کھینچ لانے والا ہوتا ہے ہے حضرت مسیح موعود نے بجنات کے اجتماع میں سورہ کوثر کی لجنات سے ایمان افروز خطاب ایمان افروز تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن آنحضرت صلی | علیہ و سلم کو جسمانی اولاد تر یہ نہ ہونے کی وجہ سے ابتر قرار دیتا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہم نے محمد رسول اللہ کو اس اولا د سے بڑھ کرہ کو نہ روحانی اولاد) عطا کی ہے اور واقعات بتاتے ہیں کہ ابتر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دشمن ہوئے جن کا کوئی نام لیوا نہ رہا، حتی کہ ان کی اولاد بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد میں شریک ه ره وز نامه الفضل ریوه ۲۴ دسمبر ۱۹۵۷ء م۸۳
۵۰۴ ہوگئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی روحانی اولا ولی جو تا ایہ آپ کا نام روشن رکھے گی.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد ہے اور یہ دہی کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا پس تمہا را فرمن ہے کہ تم حقیقی معنوں میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی روحانی اولاد بنویلے حضرت مصلح موعود نے ۱۲۶ اکتوبر ۱۹۵۷ء کو انصار اللہ مرکز یہ کے انصار اللہ سے اثر انگیز خطاب اجتماع سے ایمان پر در خطاب فرمایا جس میں سورہ والنازعات کی ابتدائی آیات کی نہایت لطیف تفسیر بیان کی اور احمدیوں اور ان کے مبلغین کی قربانیوں اور یورپ میں سان کی اثر کے نفی فر کی مثالیں دیتے ہوئے فرمایا : - اللہ تعالی دنیا میں چاروں طرف اسلام کی اشاعت کے لیے راستے کھول رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمار ی جماعت قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ آگے ہی آگے اپنا قدم بڑھاتی چلی جائے تاکہ ہر جگہ اسلام کو کامیابی کے ساتھ پھیلایا جا سکے بے شک دنیا ہماری مخالفت ہے مگر کامیابی الہی سلسلہ کے لیے ہی مقدر ہوتی ہے.مخالفانہ تدبیریں سب خاک میں مل جاتی ہیں اور اللہ تعالی کی تدبیر دنیا میں غالب آگر رہتی بنے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْر أَنَا كوين کہ انسانوں نے بھی اسلام کو شکست دینے کی بڑی تدبیریں کیں اور ان کے مقابلہ میں اللہ تعالٰی نے بھی اسلام کو فتح دینے کی تدبیریں کیں.لیکن واللہ خیر الماکرین.اللہ تعالی کو بڑی تدبیریں کہ نی آتی ہیں اور آخر اللہ تعالی کی تدبیریں ہی جیتی ہیں دیکھ نو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دشمن نے کتنی تدابیر کیں لیکن بالآخر اسلام فاتح ہوا.تو میں خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نشان دکھائے تھے.وہ خدا ہمارے زمانے میں بھی موجود ہے وہ بڑھا نہیں ہو گیا.وہ ویسا ہی جوان اور طاقت در ہے جیسے پہلے تھا صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے ه الفضل ، در اکتوبر ۱۹۵۷ء مدار ہے : آل عمران : ۵۵
۵۰۵ اندر ایمان ہوا ہے حضرت مصلح موعود نے پاکستان کے مشہور تنزل اور مستانہ میجر جنرل محمداکبر خان کی تصانیف پر تیرہ مصنف محمد اکبر خان کی کتاب حدیث دفاع پر جب ذیل تبصرہ سپرد قلم فرمایا :- یہ چند سطور میجر جنرل محمد اکبر خاں صاحب کی کتابوں پر اظہار رائے کے طور پر لکھی جاتی ہیں.میجر جنرل محمد اکبر خان صاحب کرنل کمانڈینٹ رائل پاکستان آرمی سروس کو ر پاکستان کی مخصوص شخصیتوں میں سے ہیں کیونکہ وہ صرف پاکستانی جرنیل ہی نہیں بلکہ علمی مذاق بھی رکھتے ہیں اور خصوصاً ایسا علمی مذاق جو اسلام کی ایسی تعلیمات کے متعلق نیستی رکھتا ہے.جو فوجی ٹیکٹس (TACTics) کے متعلق ہوتی ہیں.سب سے پہلے ان کی کتاب " حدیث دفاع میرے دیکھنے میں آئی اس کے بعد کرنل الہی بخش صاحب جو لاہور کے مشہور فریشن (PHYSICIAN ) ہیں ان سے طبی مشورہ لینے کے لیے میں گیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ صرف ایک کتاب کا ذکر کراتے ہیں مگر وہ اس وقت کئی کتابیں لکھ چکے ہیں.جو اپنی ذات میں نہایت مفید ہیں تب مجھے جنرل صاحب موصوف کی دوسری کتابوں کا نشینی پیدا ہوا اور آج میں اُن کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں " حدیث دفاع جو غالباً جرنیل صاحب کی پہلی کتاب ہے فوجی امور سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے معلومات کا ایک گراں قدر ذخیرہ ہے کیونکہ اس میں انہوں نے جنگ کے متعلق اسلامی احکام اور صحابہ کے اعمال کو روشن کیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہر مسلمان جس کو اسلام کی خوبیوں کو معلوم کرنے کا شوق ہو گا وہ اس کتاب کو پڑھ کر نہ صرف اسلام کے متعلق اپنی معلومات کو بڑھائے گا بلکہ اسلام کی عظمت کا پہلے سے بھی زیادہ قائل ہو جائے گا.میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب تبلیغ اسلام میں بھی کام آ سکتی ہے.اور اگر اس کتاب له الفضل ، نومبر ١٩٥٧ء ص که دلادت ۱۸۹۵ء وفات ۱۲ جنوری ۴۴ ۱۹ - پاکستانی فوج کے پہلے میجر جنرل اور قائد اعظم سه کے فوجی مشیر تھے.انہوں نے اسلام، پیغمبر اسلام عظیم مسلمان سپہ سالاروں اور عربی طریقوں پر کم و بیش چار درجن کتابیں لکھیں.
۵۰۶ کا انگریزی میں ترجمہ ہو جائے تو انگریزی جاننے والے ملکوں میں غیر مسلموں کو اسلام سے روشناس کرانے میں ایک نہایت اعلیٰ ذریعہ ثابت ہو گی..دوسری کتاب یا کم از کم وہ دوسری کتاب ہو مجھے ملی ہے منزلی صاحب کی تصنیف اسلم جنگ ہے.یہ کتاب " حدیث دفاع کی طرح براہ راست تو اسلام پر کوئی روشنی نہیں ڈالتی لیکن فوج کے ساتھ تعلق رکھنے والے زمانہ حال کے ہتھیاروں سے پبلک کو بہت عمدہ طور پر روشناس کراتی ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ پرانے زمانے میں جنگ کے جیتنے کے لیے ہو آلات ایجا د ہوئے تھے موجودہ زمانہ میں ان کو ترقی دے کر ایک ایسی شکل مل گئی ہے کہ دونوں میں موازنہ کرنا مشکل ہو گیا ہے.پہلے ایشیا جنگی ہتھیانوں میں ترقی کر رہا تھا مگر اب یورپ کی توجہ اس طرف ہو گئی ہے.بلکہ امریکہ بھی اس دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اس ضمن میں انہوں نے جرمنی کی ان کوششوں کا بھی ذکر کیا ہے جو پچھلی جنگ کے جیتنے کے لیے اس نے کی تھیں اور ایسی باتیں لکھی ہیں مین سے پاکستان کی حکومت فائدہ اٹھا سکتی ہے.چونکہ جرنیل صاحب دوسری عالمگیر جنگ میں بھی شامل رہے ہیں اس لیے ان کو نئے ہتھیاروں کا بھی خاص علم ہے.یہیں سے فائدہ اٹھانا ان کی قوم اور ان کی حکورت کا فرمن ہے.انہوں نے اس کتاب میں نئے ہتھیاروں کے متعلق بڑی بحث کی ہے غالب اپنے ہم اور ایٹم بم کے متعلق وہ کچھ نہیں لکھ سکے اس لیے کہ یہ دونوں ہم آج تک امریکہ کے فوجی محکمے کا راز رہے ہیں اور امریکہ نے آج تک حلیفوں کو بھی اس راز سے آگاہ نہیں کیا لیکن آہستہ آہستہ وہ راز پھیل رہا ہے اور اب شاید چند سال کی دریچہ لگے گی جس میں یہ راز عالمگیر سائنس بن جائے گا اور سب دنیا اس سائنس سے فائدہ اٹھانے لگ جائے گی.خدا کرے میں طرح ایٹمی ہتھیاروں سے امن کے زمانے میں فائدہ اٹھانے کے لیے یو انجین بنائی گئی ہے اس میں عزیزم پر و فیسر عبد السلام کو جو پاکستان میں کام کرنے کا موقعہ ملا ہے اس طرح جنگی کاموں میں ایٹمی طاقت کے استعمال کرنے کے متعلق جو انجمنیں بنائی جائیں ان میں مزید پاکستانی سائنسدانوں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے اور پاکستان بھی ایسا ہی مضبوط ہو جائے جیسا کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں.میں ان مختصر الفاظ پر اپنے ریویو کو ختم کرتاہوں اور پھر کہتا ہوں کہ ہمارے اہل ملک کو علمی امور سے تغافل کرنا چھوڑ دینا چاہیے.بلکہ ان علوم سے واقفیت پیدا کرنے کے لیے ہر چھوٹے بڑے
کو اپنے مطالعہ کو وسیع کرنا چاہیئے میں میں میجر تنزل محمد اکبر خان کی کتابیں " حدیث دفاع اور اسلحہ جنگ " بہت محمد ثابت ہوں گی یہ دستخط مرز امحمود احمد اخبارہ پاک کشمیر راولپنڈی نے اپنی ایک اشاعت میں حضرت صاجزادہ ایک جعلی خط اور عدالتی فیصلہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسل تعلیم الاسلام کالی ربوہ کے نام سے ایک مجمل خط شائع کیا یہ اس جھوٹے اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کی ایک کڑی تھا جو ان دنوں مخالف پریس جماعت احمدیہ کے خلاف کر رہا تھا اس وضعی خط کی اشاعت پر اخبار تسنیم (لا ہور) نوائے پاکستان (لاہور) اور کوہستان (لاہور، راولپنڈی) نے بہت زہر اگا.اس جھوٹے پراپیگنڈہ کے نتائج چونکہ سلسلہ احمدیہ کے لیے سخت نقصان دہ ہو سکتے تھے اس لیے عدالت کی طرف رجوع کیا گیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب نے اخبار مذکور کے ایڈمیر اور پرنٹر ویلینٹر کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا دعوی کر دیا جس پر ایڈ منسٹریٹو سول جج صاحب جھنگ نے مقدمہ کا فیصلہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے تی میں دیا اور اخبار پاک کشمیر درا ولپنڈی) پر ۵۲۵۰ رو پہلے کی ڈگری دی اور قرار دیا کہ مدعی اس رقم سے بھی زیادہ ہرجانہ طلب کر سکتا تھا اس منصفانہ فیصلہ کے انگریزی متن کے چند اقتباسات کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.مرزا ناصر احمد ایم.اسے آکسن پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ.مدعی بنام مسٹر محمد فیاض عباسی ایڈیٹر و پرنٹر و پیشر اخبار پاک کشمیر را ولپنڈی و مسٹر عنایت الله مدعا علیہم ولد محبوب عالم پر و پر انٹر کو مستان پریس راولپنڈی.پر دعونی وصولی / ۵۲۵۰ روپیه بابت حرجانہ ازالہ حیثیت عرفی - عوضنی دعوئی اور اخبار پاک کشمیر میں مطبوعہ خط اور اس کے متعلق اخبار مذکور کی مخالفانہ تنقید اور الزامات کا ذکر کر کے عدالت کی مندرجہ ذیل قرار دادیں واضح اور روشن ہیں :.بیانات مذکور سے ظاہر ہے کہ مدعا علیہم نے مدعی کی تحقیر تو ہین اور تضحیک کی کوشش انتہائی طور ه روزنامه الفضل ، بوه ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۷ء مر۳
یہ کی ہے جس سے وہ سوسائٹی میں قابل نفرت سمجھا جائے.پس انتہا درجہ کی مہتک عزت کی جاتی ظاہر ہے “.شہادت مدعی سے پورے طور پر ثابت ہے کہ جو خبر اخبار نے شائع کی وہ جھوٹ تھی اور کینہ اور بدنیتی پر مبنی تھی.اور یہ خبر دوسرے اخبارات میں بھی درج کی گئی.جہاں تک ہرجانہ کی تعداد اور ذمہ داری کا سوال ہے قانون صاف ہے کہ تمام وہ اشخاص جو ایسی خبر کے چھاپنے میں ممد و معاون ہو گیا چھاپنے کی اجازت دیں وہ اس کی اشاعت کے پورے طور پہ ذمہ دار ہوتے ہیں اور انہیں ایسی ڈیفنس دینے کا حق نہیں ہے کہ وہ مضمون کے ہتک آمیز ہونے سے بے خبر تھے یا یہ کہ ان کا ہدیہ معقول اور احتیاط آمیز تھا.ہرجانہ کی تعداد کے متعلق مسٹر یو لک کی کتاب میں درج ہے.کہ شریعت آدمی کے لیے اس کی عزت اور شہرت جسمانی سلامتی اور آزادی سے کم قیمت نہیں رکھتی.جبکہ بعض حالات میں یہ عزت اور شہرت زندگی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہے اس لیے ہرجانہ کی مقدار اس اصول کو مدنظر رکھ کر مقرر ہونی چاہیئے.گو حالات ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو ہرجانہ کو کم کرنے والے یا زیادہ کرنے والے ا ہوں.مقدمہ ہذا میں ہرجانہ کو کم کرنے والے حالات مفقود ہیں اور اس کو زیادہ کرنے والے حالات کثیر ہیں ردندا دمیں کوئی بات نہیں پائی جاتی جس سے ثابت ہو کہ مدعاعلیہم کے لیے کوئی دحیہ جواز تھی ان کی بدنیتی نہیں تھی یا انہوں نے کوئی معذرت پیش کی.یا یہ کہ مدعی کی طرف سے کسی قسم کا سبب پیدا کیا گیا.بلکہ اس کے بر عکس ظاہر ہے کہ مدعی کے متعلق بدزبانی اختیار کی گئی اور شدید قسم کے الزام لگائے گئے اور دیدہ و دانستہ بدنیتی سے اعلانیہ مدعی کی ہنگ کی گئی.شہادت سے ثابت ہے کہ مدعی ایک اعلی رتبہ کا آدمی ہے اور ایک با حیثیت گھرانے کا فرد ہے ہتک عزت ایک اخبار کے ذریعہ کی گئی جس کی وسیع اشاعت ہوئی اور یہ اشاعت مستقل قسم کی ہے کہ لائن آف ٹارے مصنفہ رتین لال ص ۱۳ پر حسب ذیل اصول بیان کیے گئے ہیں.اخبارات پر دہی قاعدہ سے حادی ہیں جو دوسرے تنقید کرنے والوں پر عائد ہوتے ہیں.اور گو اخبارات کو قدرے وسعت بیان مال ہے خاص حقوقی حاصل نہیں خواہ ان کو کچھ آزادی بھی دی گئی ہو اخبارات کو کوئی حق نہیں کہ غیر موزوں پیارک دیں یا کس شخص کے چلی پر الزامات لگائیں یا اس کے پیٹے پر کوئی الزام عائد کریں.اخباری تنقید کا دائرہ اسی قدر وسیع ہے جیسا کہ کسی اور مضمون کا اس سے زیادہ نہیں.گو اخبارات کا فرض ہے کہ وہ اپنے ناظرین کی دلچسپی کے لیے ہرقسم کی خبر شائع کریں.لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جو پبلک کی دلیپسی کا موجب
اور وہ قانون کی نہر سے باہر ہو.جو صحافی ہتک آمیز اور جھوٹی شکایات شائع کرتا ہے وہ قانون کی زد سے باہر نہیں بلکہ اس پر اس بات کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غلط بیانیوں سے اجتناب کرے.اس کی وجہ صاحت ہے.کہ اخبار کے مندرجات کی اشاعت ایک شخص کے اقوال کی اشاعت سے بہت زیادہ ہوتی ہے.اور چونکہ ایسی خبر چھپ جاتی ہے اس لیے ناداقت آدمی اکثر اس کی تردید نہیں کرتے.اگر ہتک آمیز مضمون کسی اخبار میں چھپے تو پر دپرائٹر ایڈیٹر پرنٹر پیٹر سب پر یکجا یا علیحدہ علیدہ دعونی ہو سکتا ہے اور مشتر کہ اشاعت کی صورت میں ہر ایک مدعاعلیہ تمام ہرجانہ کا ذمہ دار ہوتا ہے.یہ ویرا اسٹر ہتک آمیز مضمون کا ذمہ دار ہوتا ہے جو اخبار میں چھپے خواہ یہ اشاعت اس کی غیر حاضری اور بے خبری میں ہوئی ہو یا اس کے منشاء کے خلاف ہوئی ہو.اس مقدمہ میں ہتک آمیز مضمون کی نوعیت اور وسعت اشاعت کے پیش نظر اور نیز فریقین کی حیثیت مقدمہ کے ماحول کو دیکھتے ہوئے میں قرار دیتا ہوں کہ مبلغ ۲۵۰ ۵ روپے منصفها نه طریق جگہ زم طریق پر مدعی کا حق ہے.مندرجہ بالا قرار دادوں کی روشنی میں دعومی مدعی کی ڈگری معدہ خرچہ دی جاتی ہے : ۱۱/۵۷/ ۲۸ سے 6 ء حضرت ماتزاده محافظ مرزا ناصر حنا کا سفرسیالکوٹ ۱۵،۱۳۲، نومبر ۱۹۵۷ نو کو حضرت صاحب زاده مرزا ناصر احمد صاحب سیالکوٹ تشریف نے گئے بجھے حضرت مسیح موعود نے اپنا دوسرا وطن قرار دیا ہے.اس مختصر مگر نہایت بابرکت سفر میں اپنوں اور پیر گانوں نے ہر جگہ آپ کا پر جوش اور شاندار استقبال کیا.آپ نے ڈسکہ، سیالکوٹ گھٹیائیاں اور دانہ زید کا میں بہت موثر تقاریہ فرمائیں جس سے اس علاقہ میں بیداری کی ایک نئی لہر دوڑ گئی.اختبار الفضل" کے خصوصی نامہ نگار کے قلم سے اس یادگار سفر کے حالات درج ذیل کیے جاتے ہیں.ایک عرصہ سے جماعتہائے احمدیہ سیالکوٹ کی یہ دلی خواہش تھی.کہ محترم صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاب ایم.اے (آکسن) ان کے ہاں تشریعت لائیں.لیکن محترم صاحبزادہ صاحب اپنی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے ان کی دعوت کو منظور نہ فرما سکے.آخر مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر سیالکوٹ کے له الفضل ۸ را بپریل ۱۹۵۸ دص
۵۱۰ نمائندگان نے اپنے امیر ضلع مکرم بابو قاسم الدین صاحب کی سرکردگی میں محترم صاحبزادہ صاحب سے مل کر اپنی درخواست کو دوہرایا جسے آپ نے منظور فرماتے ہوئے ۱۴ اور ۱۵ نومبر ۱۹۵۷ء کی تابی بخیں مقر فرمائیں.محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ۱۴ نومبر کو صبح پونے چھ بجے بذریعہ کار سیالکوٹ کے لیے روانہ ہوئے آپ کے ساتھ حضرت مولوی محمد الدین صاحب ناظر تعلیم مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب قائد مال انصا ساله مرکز بی اور کرم چوہدری فضل احمد صاحب نائب ناظر تعلیم بھی تھے.آپ کا یہ قافلہ سوا نو بجے ڈسکہ پہنچے.جہاں شہر سے باہر خواجہ محمد امین صاحب کے ساتھ جماعت نے آپ کا شاندار طریق پر استقبال کیا.ڈسکہ کی ساری جماعت کے علاوہ علاقہ کی جماعتوں کے نمائندگان بھی موجود تھے.سیالکوٹ شہر سے امیر ضلع مکرم بابر قاسم الدین صاحب بھی ایک جماعت کے ساتھ پہنچے ہوئے تھے.محترم صاحبزادہ صاحب نے سب احباب کو مصافحہ کا شرف عطاور فرمایا.اور پھر اس جگہ تشریف لے گئے.جہاں ناشتہ کا انتظام تھا.یہاں شہر کے غیر احمد می اور غیر مسلم معززین بھی موجود تھے جنہوں نے صاحبزادہ صاحب کا خیر مقدم کیا.دوستوں کی خواہش پر صاحبزادہ صاحب نے مجمع کو خطاب فرمایا اور اس امر پر زور دیا.کہ اگر ہمارے ملک میں دیانت اور صداقت پیدا ہو جائے تو ہم بہت ترقی کر سکتے ہیں.اس ضمن میں آپ نے غیر ملکوں کی مثالیں دے کر بتایا ہے.کہ وہ لوگ باوجود اس کے کہ دین کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہیں.اپنے کاموں میں کس طرح دیانت داری سے کام لیتے ہیں اور ہمیشہ سچ بولتے ہیں.آپ کی اس تقریر کو سب نے ہی بہت سراہا.جس کے بعد ایک غیر احمد می دوست نے فارسی زبان میں اپنے چند اشعار خوانہوں نے رات ہی محترم صاحبزادہ صاحب کی آمد کا علم ہونے پر ان کی شان میں کہے تھے سنائے.اس تقریب کے ختم ہونے پر آپ ساری جماعت کے ساتھ پیدل ہی بہت احمدیہ میں تشریف لے گئے.جو حال ہی میں تعمیر ہوئی ہے اور نسب کی تکمیل ہو رہی ہے.اس بیت کی تعمیر کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ اس کا سارا خریچ محترم چو ہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے دیا ہے.یہاں محترم صاحبزادہ صاحب نے لمبی دعا فرمائی.میاں ابراہیم صاحب عابد اور میاں نذیر احمد صاحب اور خواجہ محمد امین صاحب امیر حلقہ اور دوسرے احباب نے تمام انتظامات بہت عمدگی سے کیے.ڈسکہ سے روانہ ہوکر محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اپنے قافلہ کے ہمراہ ساڑھے بارہ بجے کے قریب سیا لکوٹ پہنچے جہاں دوپہر کے کھانے کا انتظام خواہ عبد الرحمن صاحب ٹھیکیدار نے
نے کیا ہوا تھا.اس تقریب میں شہر کے بعض معززہ وکلاء ایم.ایل.اسے اور دیگر معززین بھی شریک ہوئے کھانے کے بعد تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ تک مختلف مضوعات پر گفتگو ہوتی رہی.شام کا ناشتہ کرم سید امجد علی شاہ صاحب نے H پیش کیا.مغرب اور عشاء کی نماز میں جامعہ بیت احمد یہ میں ہوئیں تو حضرت مولوی محمد الدین صاحب نے پڑھائیں.نماز عشاء کے بعد مجلس انصار اللہ کا اجلاس زیر صدارت مقامی نعیم اعلیٰ سید انصار اللہ سے خطاب امجد علی شاہ صاحب منعقد ہوا نہیں میں سیالکوٹ کے انصار اللہ کے علاوہ خدام اور اطفال بھی شریک ہوئے محترم صاحبزادہ صاحب نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے ایک ایمان پره در تقریر فرمائی اور آخر میں دعا فرمائی.دعا کے وقت جو سوز و گداز کا نظارہ تھا.وہ تحریر میں نہیں آسکتا.- اس موقع پر کسی چندہ و غیرہ کی تحریک نہ کی گئی تھی.تاہم ضلع کے امیر کرم بالبوقاسم الدین صاحب نے اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے بعض انصار الل کو عمیر فنڈ میں حصہ لینے کیلئے کہا جس پر مندرجہ ذیل پیشکش انصار اللہ نے اپنے نائب صدر محترم کے سامنے کی پیش کی.٠٢ - - مجلس شہر سیالکوٹ : کوئی ڈسکہ - مجالس امارت پر ہلا مہاران دانه زید کا کل :.جلسہ کے اختتام پر دوستوں کی خواہش پر صاحبزادہ صاحب نے تمام دوستوں کو مصافحہ کا شرف عطا فرمایا.رات کے کھانے پر مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری انجمن احمدیہ نے دین کے مکان پر صاحبزادہ صاحب اور ان کے ساتھی فروکش تھے، مقامی کالجوں کے پرنسپل اور بعض پر وفیسر اور وکلا ء و دیگر معززین شہر کو بھی مدعو کیا ہوا تھا.کھانے کے بعد سب سے مختلف موضوعات پر گفتگوہوتی رہی.اور یہ سلسلہ رات گیارہ بجے تک جاری رہا.فجر کی نمانہ کے بعد محترم سا جزادہ صاحب نے بابو فضل الدین صاحب کے مکان پر ناشتہ کیا جس کے بعد آپ حلقہ امارت پورا نہاری اور دانہ زید کا کے دورہ 110
۵۱۲ کے لیے روانہ ہوئے.جس وقت محترم صاحبزادہ صاحب پوہلا مہاراں سے ڈیڑھ میل دور رہ گئے.تو پوہلا مہاراں میں آمد | سب سے پہلے نہر کی پٹڑی پر دو نو امارتوں کے نمائندگان نے آپ کا استقبال کیا یہ سب لوگ گھوڑوں پر سوار تھے.اور موڑ کے ساتھ ساتھ گاؤں تک گئے گاؤں سے باہر اس امارات کے تمام دوست اپنے امیر چو ہدری غلام محمد صاحب جو حضرت مسیح موعود کے رفیقوں میں سے ہیں.کچھ مر کر دگی میں استقبال کے لیے جمع تھے.جنہوں نے نہایت پرجوش نعروں سے آپ کا استقبال کیا.کچھ عرصہ چوہدری غلام محمد صاحب کے ہاں ٹھہرنے کے بعد دوپہر کا کھانا حاجی اللہ بخش صاحب کے ھاں منگوے میں تناول فرمایا اور وہاں سے گھٹیالیاں تشریف لے گئے.ہائی سکول کے وسیع میدان میں نماز جمعہ کا انتظام تھا.مستورات کے لیے پردہ کا اور آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ سپیکر کا تسلی بخش انتظام تھا یہاں کئی ہزار کا مجمع تھا.جس میں غیر احمدی نثر ناء بھی تھے.تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیا بیاں کا تمام عملہ اور طلباء اپنے ہیڈ ماسٹر چوہدری غلام حید ر صاحب بی.اے.بی ٹی کی سرکردگی میں استقبال کے لیے موجود تھے.جنہوں نے پر بجوش نعرے لگائے اور خوشی اور مسرت کا اظہار کیا.اس کے بعد سب مجمع استقبال میں شریک ہوا.نماز جمعه محترم صاحبزادہ صاحب نے پڑھائی.اور ایک لطیف خطبہ ارشاد فرمایا نما نہ عصر کے بعد سکول کے مینجر کرم بابو قاسم الدین صاحب نے آپ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا.یہیں کا نواب صاحبزادہ صاحب نے دیا.اور کارکنان سکول کو زریں ہدایات سے نوازا اور سکول کو ہر لحاظ سے ترقی کی اعلیٰ منازل پہنچانے کی تلقین کی صاحبزادہ صاحب کی تقریرہ سے متاثر ہو کہ بہت سے دوستوں نے سکول کی امداد کے وعدے ان تشریا ت کے بعد محترم صاحبزادہ صاحب دات زید کا تشریف لے گئے.گاؤں سے آدھ میل باہر نہ.اس امارات کے احباب اپنے امیر چو ہدری بشیر احمد صاحب کی سرکردگی میں اهلا و سهلا دمر حيا - کہنے کے لیے بیتاب تھے.صاحبزادہ صاحب کے موٹر سے اترتے ہی تمام فضاء نعروں سے گونج اٹھی.سارا مجمع آپ کی معیت میں نعرے لگا تا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنار گاتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں پڑھنا پیدل ایک جلوس کی صورت میں گاؤں میں آیا.چوہدری بشیر احمد صاحب امیر جماعت نے عصرانہ پیش
۵۱۳ کیا جس کے بعد ربوہ کے لیے واپسی ہوئی.تمام جماعت دور تک چھوڑنے کے لیے آئی.اس دو دن کے مختصر دورہ میں احباب جماعت نے جس اخلاص، محبت اور عقیدت کا اظہار کیا وہ اپنی مثال آپ ہے.ہر جگہ دوستوں نے نہایت مسرت کا اظہار کیا اور بڑی بڑی دور سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پوتے کی ملاقات کے لیے آئے نہیں کا ذکر خدا تعالیٰ کی وحی لے میں بھی ہے.محترم صاحبزادہ صاحب کے اس دورہ میں مکرم بابو قاسم الدین صاحب ہر وقت آپ کے ساتھ رہے.بچہ ہدری نذیر احمد صاحب باجوہ، چوہدری اشفاق احمد صاحب، باب فضل الدین صاحب ، خواهیه عبد الرحمن صاحب اور مرزا محمد حیات صاحب بھی قریبا ہر وقت ساتھ رہے اور صا حبزادہ صاحب کی ضلع سیالکوٹ سے روانگی کے بعد واپس سیا لکوٹ آئے اسی طرح چوہدری بشیر احمد صاحب دانه زید کا، ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب ، میاں محمد امین صاحب اور چوہدری محمد عبد اللہ صاحب نے بھی انتظامات میں بہت امداد کی جزاھم اللہ احسن الجزاء اسے ادارۃ سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود نے دار الحجرت ربوہ میں جہاں رة المصنفین کا قیام اسد ک اردو لٹریچر کی اشاعت کے لیے المرکز الاسلامیہ اور انگریزی سلسلہ کے کے لیے ٹریچر کی اشاعت کے لیے اور میٹل کمپنی کا قیام فرمایا.وہاں قرآن مجید.اس کے ترجمہ اور تفسیر، حدیث، تاریخ احمدیت اور اسلامی لٹریچر کی وسیع اشاعت کے لیے ۲۴ نومبر ۱۹۵۷ء کو ادارۃ المصنفین کا قیام فرمایا.حضور نے پہلے سال کے نئے مندرجہ ذیل میران مقرر فرمائے.ا قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے پر و فیسر آف فلاسفی کراچی یو نیورسٹی (صدر) ۲ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحب ایم اے پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ لا نا نُشِرُكَ بِغُلَامٍ نَا فِلَةً تَكَ (ترجمہ ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو تیرا ہوتا ہو گا" (حقیقۃ الوحی طبع اول م۹۵ ساعت ۱۵ مئی ۱۹۰۷ ۶ بدر ۵ ار ا پریل ۱۹۰۶ ۶ ص۲ تذکرہ طبع چهارم من ناثر الشركة الاسلامیہ ربوہ اشاعت،، ۱۹ء ل الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۵۷ء م٥
۵۱۴ شیخ بیراحمد صاحب سینٹر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ لاہور ۴.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تحریک جدید ربود - مولوی جلال الدین صاحب شمس مینجنگ ڈائریکٹر الشركة الاسلامیہ ربوہ.مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری پروفیسر دینیات تعلیم الاسلام کالج ربوده ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ ربوہ مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب پر وفیسر جامعہ احمدیہ (مینجنگ ڈان کیرالہ حضور نے پہلے سال کے لیے مکرم قاضی محمد اسلم ایم اے کو ادارہ کا صدر اور مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب کو مینجنگ ڈائریکٹر مقر فرمایا.ادارہ کے بنیادی قواعد و ضوابط کے متعلق حضرت مصلح موعود نے خود ہدایات ارشاد فرمائیں.جنہیں مردم شیخ بشیر احمد صاحب نے انگریزی زبان میں مرتب کیا.قواعد و ضوابط تیار ہونے کے بعد ۲ دسمبر ۱۹۵۷ء کو سوسائیٹر رجسٹریشن ایکٹ 1 x x 1880 کے تحت ادارہ لاہور میں جبرار کے دفترمیں رجسٹرڈ ہوا.ادارہ کے دفتر کے لیے ایک کمرہ حضور نے خلافت لائبریہی واقعہ قصر خلافت میں ادارہ کے قیام سے پہلے ہی تیار کروا دیا تھا.جس کی جگہ کی تعیین خود حضور نے موقعہ پر تشریف لاکر مکرم سید سردار حسین صاحب اور میر صدر انجن احمدیہ کو کروائی.اور کرہ تیار ہونے پر حضور نے دوبارہ اس کا معائنہ فرمایا.به اداره چونکہ حضرت مصلح موعود ہی کے ارشاد مبارک پر معرض وجود میں ادارۃ المصنفین کا پہلا سیٹ آیا تھا اس لیے اسے شروع ہی سے حضور کی سر پرستی اور رہنمائی کی شرف حاصل را 10 دسمبر ۱۹۵۷ء کو حضور نے اس کا پہلا بجٹ منظور فرمایا جو دو ماہ کا تھا اور گیارہ ہزار اٹھائیس روپے تیرہ آنے پر شتمل تھا یے له الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۵۸ ء مٹہ : کے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل دو یادداشتوں سے مزید تفصیلات کا پتہ مل سکے گا : (بقیہ حاشیہ ماہ پر)
۵۱۵ ادارۃ المصنفین کا پہلا اجلاس ۲۹ دسمبر ۱۹۵۷ ء کو اس کے دفتر میں منعقد ہوا.اور سیدنا پہلا اجلاس حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشادات ریکارڈ کیے گئے.ادارہ المصنفین کے قیام سے پہلے تغیر صغیر کا ایڈیشن اول تیار ہو چکا تھا.فیصلہ یہ ہوا کہ اس کی آمد کو بنیاد بنا کر آئندہ کتب کی اشاعت کا پروگرام بنایا جائے.چنانچہ مئی ۱۹۵۸ ء کے اجلاس میں ادارہ کا بجٹ آمد / ۲۹۳۵۰ روپے اور پھلی یادداشت : ۱- مولوی نور الحق صاحب رکرم ابوالمنیر نورالحق صاحب مینجنگ ڈائریکٹر مراد ہیں) کی تنخواه گرانی ۱۳۰ P.F : ۱۲ / ۲۰۳ - مصدقه حافظ عبد السلام صاحب - مولوی نور الحق صاحب کی تنخواہ دستخطی مقریہ اصل کا غذات ۳- ۲۶/۴/۵ کلرک کی تنخواہ رکھنے کی منظوری ۲۰۵۰ به را ۵ / ۱۲ / ۱۲ مع دستخط حضور -۴- بجٹ ادارۃ المصنفین فرنیچر ۱۰۰ ڈاک سٹیشنری ۳ ماه / ۱۰۰ متفرق ۵۰ 11 / - سائیکل ۲۵۰ - هردگار کارکن ۳۰+۲۰ : ۵۰ مع دستخط حضور ۵۸ را مر۱۱ منظوری برائے طباعت تاریخ احمدیت کی - ب منظوری تقریر آڈیٹر الاؤنس / ۱۵ با تاریخ - تیویب کا بجٹ مع چھ معاونین عملہ /۱۳/ ۱۹۵۸ - الاولسن / ۱۱۷۰ ساله خرچ / ۶۰۰ خرچ پہاڑ چار ماه /۱۳۰۰ د دستخط حضور منظور ہے 1071906 کل /۱۳/ ۱۱۰۲۸ ثاقب صاحب (مولوی محمد احمد صاحب ثاقب پروفیسر جامعہ احمدیہ ناقل) کا معاوضہ /۳۹۰ برائے دو ماہ." دوسری یاد داشت - مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری معرفت کرم پر ائیو یٹ سیکرٹری صاحب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے (آپ کی رپورٹ پر) کہ چوہدری ظہوراحمد صاحب آڈیٹر کو بھی شامل کر کے ادارۃ المصنفین کے حسابات اور بجٹ کو تیار کیا جائے نیز فرمایا ہے کہ فی الحال جس بجٹ پر میرے دستخط ہیں دوماہ کے لیے منظور کرتا ہوں اتنے میں آپ چیک کر لیں.یہ عارضی منظوری ہوگی.(بقیہ ماہ پر)
014 خرچ - / ۲۳۹۵۸ روپے تجویز ہوا.ادارہ کے قانون کے مطابق ہر سال ممبران کی منظوری حضرت خلیفہ ایسیح سے لی جانی ضرور کی تھی.چنانچہ مختلف اوقات میں منظوری کے وقت ادارہ کے ممبران میں تبدیلی ہوتی رہی تاہم مولوی ابوالمیز نور الحق صاحب ۱۹۵۷ء سے لے کہ ۱۹۸۴ ء کے آغاز تک مینجنگ ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز رہے اور آپ کی خدمات مسلسل ربع صدی تک ادارہ کے لیے وقف رہیں.اور اس عرصہ میں آپ کی نگرانی میں نہایت قیمتی لٹریچر تیار ہو کر شائع ہوا جس کی تفصیل آئندہ آرہی ہے.۱۹۸۴ء کے اوائل میں مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کو حضرت خليفة السيح الرابع نے تغیر کے کام کے لیے مخصوص فرما دیا.اور آپ کی جگہ پر مکرم چو ہدری رشید الدین صاحب سابق مبلغ لائبیریا کو ادارہ کا مینجنگ ڈائر یکٹر مقر کیا گیا.محترم قاضی محمد اسلم صاحب کے بعد بالترتیب مندرجہ ذیل اصحاب نے ادارہ کی صدارت کے فرائض سر انجام دیئے.مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور (۱۹۷۳ء) شه ۲.مکرم میاں عبدالسمیع صاحب نون ایڈووکیٹ سرگودہا (۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۸ء) حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۴ - صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (۱۹۷۸ تا ۶۱۹۸۲ (۱۱۹۸۲ ) ۱۹۸۳ ء میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم ملک سیف الرحمن صاحب کو صدر مقرر فرمایا.۱۹۸۴ء میں جبکہ آپ بیرون پاکستان تھے.آپ کے قائمقام کی حیثیت سے محترم سید عبدالی صاحب ناظر اشاعت نے ادارہ کا چارج سنبھالا.بعد ازاں یہ ادارہ نظارت اشاعت میں مدغم کر دیا گیا ملہ آپ ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء تک ادارہ کے نائب صدر رہے نیز فرمایا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص اس عہدہ پر ہے وہ مستقل مقرر ہو جائے.نیز فرمایا اس دوماہ میں مولوی نور الحق صاحب کے دستخطوں سے بل آڈیٹر صاحب منظور کریں ( دستخط مرز امحمود احمد) لہذا اب حضور کے اس ارشاد کی وجہ سے ماہ اپریل ۱۹۵۴ء کا بل جو قابل دستخط ہے اور جو اصل کا غذات مولوی نور الحق صاحب نے منظوری کے لیے حضور کو دیئے تھے وہ بھی واپس ارسال ہیں ان کو بجٹ پیش کرتے وقت پھر ساتھ ہی واپس کر دیں فی الحال ارسال ہیں تا کہ ادائیگی رقوم میں وقت نہ ہو.خاکسار عبد الرحمن النور" ۳۰/۴/۶۱۹۵۸
014 ادارہ کے مذکورہ بالا امیران کے علاوہ جو حضرات خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں مختلف اوقات میں ادارہ کے ممبر رہے ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں.ا.صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ایم 1 - اے صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم اے چوہدری محمد علی صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ م مولوی غلام باری صاحب سیف پر و فیسر جامعہ احمدیہ ریود ۵- سید محمود احمد صاحب ناصر - ملک مبارک احمد صا حب N مولوی نذیر احمد صاحب بیشتر ناظم دار القضاء ربوه (51976) (519.46) (۹۷۱-۷۲) (41964-66) (>1969 651969 - خلافت راجعہ کے آغازہ میں صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب ( نائب صدر خدام الاحمدیه مرکز بی) د مکرم سید عبدالحی صاحب رنا ظر اشاعت) اور ۱۹۸۳ء میں مکرم مولوی نورمحمد صاحب نسیم سیفی روکیل الصنیف) انجمن احمد یہ تحریک جدید ممبر نامزد ہوئے.۸۵ ۱۹۸۴ ء کے ممبران ادارہ کی تفصیل یہ ہے.- -۱ ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیه احمدیه ربوه - صدر.میاں عبد السمیع صاحب نون ایڈووکیٹ سرگودہا نور محمد صاحب نسیم سیفی وکیل التصنیف تحریک جدید ربوه -۴- سید عبد الحی صاحب ناظر اشاعت ربوه - صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب نائب صدر خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ - مولوی ابوالمیز نور الحق صاحب ربوه چوہدری رشید الدین صاحب مینجنگ ڈائریکٹر ربوہ ادارة المصنفین کی طرف سے ۱۹۸۰ء تک حسب ذیل لٹریچر ادارۃ المصنفین کا شائع کردہ لڑکی شائع ہوا.بغیر صغیر لیتھو ایڈیشن دسمبر ۱۹۵۷ ، پانچ ہزار عکسی ایڈیشن ۲۵ مار په ۱۹۹۶ و داخست
۱۹۷۷ء انیس ہزار.کل چو بیس ہزار ۲- نبویب مسند احمد بن حنبل جلد اول.مسند احمد میں ہر صحابی کی مسند الگ الگ ہے جس کی وجہ سے اس کی احادیث انسانی استفادہ نہیں کیا جا سکتا تھا سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ارشاد فرمایا.کہ مسند احمد کی احادیث کو باب دار کر دیا جائے.تاکہ استفادہ میں آسانی پیدا ہو جائے.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں کرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی زیر ہدایت سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ممتاز علماء نے نوماہ تک مسلسل کام کر کے مسند کی جملہ احادیث کو باب وار جمع کیا.ان میں سے صرف ایک جملہ شائع ہو سکی.باقی مسودہ دفتر ادارۃ المصنفین میں محفوظ ہے.اندازہ اس کی انیس جلدیں ہوں گی.بداية المقتصد اردو ترجمہ ہدایت المجتهد مصنفہ علامہ ابن رشد.(مترجم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب) صرف ایک جلد ۵ اراپریل ۱۹۵۸ء کو شائع ہوئی.جو نکاح.طلاق اور ضلع کے مسائل پرمشتمل ہے.اس کتاب کو اونچے علمی طبقہ میں بہت پسند کیا گیا.چنانچہ محترم ایس اے رحمن صاحب حج سپریم کورٹ پاکستان نے اس کے مطالعہ کے بعد تحریہ فرمایا :- میں نے علامہ ابن رشد کی کتاب ہدایتہ المجتہد کا اردو ترجمہ ہدایتہ المقتصد دیکھا ہے.اصل کتاب میرے پاس نہیں.اس لیے ترجمہ کے متعلق رائے نہیں قائم کر سکتا کہ کسی حد تک اصل سے ہم آہنگ ہے لیکن نفس مضمون اور اسباب وصل کی بحث کے لحاظ سے یہ کتاب بے حد مفید ہے.اور فقہی ادب میں گراں قدر اضافہ ہے.۱۹۵۳-۴ء کے فسادات کا پس منظر.یہ کتابچہ مکرم ماشہ فضل حسین صاحب نے مرتب فرمایا تھا.جو ۱۹۵۸ ء میں شائع ہوا.۵ تاریخ احمدیت جلد ا ما جلد ۱۸ : ( مؤلفه دوست محمد شاہد ) المبشرات - (مؤلفه دوست محمد دست بند ) سید نا حضرت مصلح موعود کے پورے ہونے والے رڈیا د کشون اور الہامات کا مجموعہ ادارہ نے اسے ابتدائر ایک ہزارہ کی تعداد میں شائع کیا.اور پھر اس کا دوسر! ایڈیشن بھی شائع کیا.شرح مسند بخاری جلد ۳ تا ۱۵ - ۱۹۲۶ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بخاری شریف کی شرح کا اہم کام حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت سے
ضروری کام ہیں.ہو کرنے کے ہیں.مگران کی طرف توجہ نہیں.مثلاً صحیح بخاری کے ترجمہ اور اس کی شرح کا کام بھی نہایت ضرور ی اور اہم ہے ، اگر ہم نے نہ کیا.تو ان لوگوں سے کیا توقع ہوسکتی ہے.جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہنے کا موقعہ نہیں ملا.اور جو آپ کے فیضان سے برا و را است مستفیض نہیں ہوئے.غیروں کے تراجم اور خواشنی رہ جائیں گے اور جو اناپ شاپ لکھا ہوا ہو گا.اس پر وار و مدار ہو گا.اور پھر بعد از وقت اعتراضوں کو دیکھ کر ادھر اُدھر کے جواب کی سوجھے گی.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے سپر د سلسلہ کے بہت سے اہم کام تھے.تاہم آپ نے دیگر کاموں کی سر انجام دہی کے ساتھ ساتھ ۱۹۶۲ ء تک مسند سبخاری کے انہیں پاروں کی شرح د تر جمہ مکمل کر لیا اس سال آپ بیمار ہوئے اور آپ اس قابل نہ رہے.کہ مزید کام کر سکیں.چنانچہ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ وہ حضور کی ہدایت کے مطابق بخاری کی شرح کا کام کرتے رہے ہیں.اب تک جو کام ہو چکا ہے.اس کو حضور کسی کے سپرد فرمائیں.تاکہ اس پر نظر ثانی ہو کر اور حوالہ جات کی تصیح ہوکر شائع ہو سکے.اور باقی کام بھی مکمل کیا جاسکے.چنانچہ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی نے ابوالمنیر مولوی نور الحق صاب مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین کو قصر خلافت میں یا د فرمایا ، اور ارشاد فرمایا شرح بخاری کا کہ جس قدر مستوده تیار ہو چکا ہے اس کو محفوظ کر لیا جائے.اور اس کے طبع کرنے کا انتظام کیا جائے.اور شرح بخاری کا کام مکمل کیا جائے.چنانچہ مولانا ابوالمنیر صاحب نے نہایت محنت تے بخاری کی شرح کو پندرہ اجزاء تک طبع کروا دیا.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کے تیار کردہ مضمون سے چارجز طبع ہونے باقی ہیں اور دفتر اداراۃ المصنفین میں محفوظ ہیں.خدا کرے کہ وہ جلد شائع ہو کہ احباب کے علم میں اب صرف اضافہ کا موجب ہوں.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۱۹۶۹ ء میں سیدنا تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت می رود علی اسلام کی قرآن مجید کا بیان فرموده موعود کی تغیر کو جمع کرنے کا ارشاد مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کو فرمایا.چنانچہ حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے تغییر قرآن مجید کو جمع کیا گیا.اس کے بعد اس بات کی پوری قتل کر لی گئی کہ کوئی حوالہ رہ تونہیں گی.پھر اس کی اشاعت کا کام شروع ہوا.چونکہ کوشش یہ کی گئی تھی کہ
۵۲۰ تضورعلیہ السلام کی عربی کتابوں کے سارے حوالہ جات مکل طور پر آجائیں اور ن کا ترجمہ بھی حاشیہ میں درج کر دیا جائے تا کہ مکمل صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر سے احباب فائدہ اٹھا سکیں اس لیے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کے حوالہ جات کے اردو ترجمہ کے لیے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مندرجہ ذیل ارکان پرمشتمل ایک کمیٹی مقرر فرما دی.مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، مولانا قاضی محمد نذیر صاحب، مولوی ابو المنیر نورالحق صاحب مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین اس کمیٹی نے بڑی محنت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب میں بیان شده تفسیر آیات قرآنی کا اردو میں ترجمہ کیا جس کی تعریف حضرت خلیفۃ المسیح نے اس رنگ میں فرمائی کہ یہ ترجمہ ایسا ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ عربی سے ترجمہ کیا گیا ہے بلکہ یوں لگتا ہے کہ اردو عبارت ہی ابتدا ء میں ایسی ہی لکھی گئی تھی.یہ پر معارف تغیر آٹھ جلدوں میں شائع ہوئی.الحمد اللہ نہیں مقصد کے پیش نظر ادارۃ المصنفین کا قیام عمل میں آیا تھا.وہ ربع صدی میں احسن طور پر پورا ہوا.ادارۃ المصنفین کے ذمہ سب سے اہم کام تاریخ احمدیت کی تدوین اور اشاعت کا لگایا گیا تھا.خدا کے فضل وکرم سے نومبر ۱۹۹۱ دو تک ستر کا جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور بقیہ زیر کتابت یا تریر ہوچکی یا ترتیب نہیں.i ! ! :
۵۲۱ تغییر اباب
فصل اوّل تغیر صغیر کی تکمیل و اشاعت اور حیرت انگیز مقبولیت و کی عظیم الشان علمی و دینی برکات میں سر فہرست تغیر صغیر جیسی معرکہ آرا تغیر کی تکمیل دا شاعت ہے.یہ تغیر سیدنا و امامنا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کے زندہ جاوید کار ناموں میں ایک خاص شان رکھتی ہے.جو رہتی دنیا تک یادگار رہے گی اور اقوام عالم کے ذریعہ ہمیشہ ہی قرآن مجید کے علوم و حقائق اور امرار و معارف کے نا پیدا کنار سمندر سے فیضیاب ہوتے رہیں گے.اور جب ساری دنیا پر قرآنی حکومت کا پرچم لہرا رہا ہو گا تو تغیر کبیر کی طرح تفی مغیرہ بھی عشاق قرآن کے لیے مشعل راہ کا کام دے گی اور کلام اللہ کے مشرف اور مرتبہ کے شاندار ظہور کا موجب بنتی رہے گی.سید نا حضرت مصلح موعود کو اپنی عمر کے آخری دور میں سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ حضور کی زندگی میں آپ کے ذریعہ پورے قرآن مجید کا ایک معیاری اور با محاورہ اردو ترجمہ مع مختصر مگر جامع نوٹوں کے شائع ہو جائے.سفر یورپ 1900 ء سے واپسی کے بعد اگر منہ حضور کی طبیعت اکثر ناسانہ رہتی تھی مگر اللہ تعالی نے اپنے خلیفہ موعود کی روح القدس سے ایسی زبر دست تائید فرمائی کہ آپ نے جون ۱۹۵۶ء میں مری کے پھاڑوں پر ترجمہ قرآن املاء کرانا شروع کیا جو خدا کے فضل سے ۲۵ ر اگست ۱۹۵۶ء کی عصر تک نخلہ میں مکمل ہو گیا.چنانچہ ڈاکر حشمت اللہ خان صاحب خصوصی معالج سید نا حضرت خلیفۃ المسیح جن کو حضور کی تہمراہی کا اعزاز له الفضل ار ستمبر ۱۹۵۶ امت میں کہ پہلے ذکر آچکا ہے نخلہ وہ ہستی ہے جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خوشاب سے ۲۵ میل آگے پہاڑی سلسلہ میں آباد کی تھی.
۵۲۳ حاصل را بیان فرماتے ہیں یہ الحمد للہ کہ ۲۵ اگست کو ترجمہ قرآن مجد ختم ہو گیا اسی روز جب ترجمہ ختم ہونے کے بعد نماز عصر کے لیے بیت الذکر میں حضور آئے تو حضور کے چہرہ پر خوشی کے آثار نمایاں تھے اور خوشی کے جذبہ کے ساتھ فرمایا ڈاکٹر صاحب ! آج ترجمہ ختم ہو گیا ہے.اس پر خاکسار نے کہا الحمد للہ مبارک صد مبارک اللہ تعالیٰ حضور کی عمر میں برکت دے.اس وقت تمام اہلِ قافلہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اکثر نے کہا کہ آج مٹھائی تقسیم ہونی چاہیئے.جس پر چندہ جمع کیا گیا اور جب رقم جمع ہوئی جس میں حضور کے اہلِ بیت کا بھی حصہ تھا تو ایک کمرہ صدقہ ذبح کر دیا گیا یہ تکمیل تجمہ کا ابتدائی مرحلہ جو علالت طبع کے باوجود تین ماہ کی نہایت مختصر مدت میں طے ہوا آسمانی قوت و طاقت اور اپنی نفرت کا واضح نشان تھا جس کی عظمت واہمیت حضرت مصلح موعود کے حسب ذیل دو نوٹوں سے بخوبی نمایاں ہوتی ہے جو حضور نے انہی دنوں اختبار الفضل کو ارسال فرمائے اور جن سے اس کشن اور صبر نہ ماعلمی جہاد کی مشکلات پر بھی روشنی پڑتی ہے.فرمایا :- پہلا نوٹ برادران السلام علیکم ورحمته لله و بر کا شد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے مری میں آکر شروع میں میری طبیعت کچھ خراب رہی پھر طبیعت اچھی ہوگئی اور قرآن شریعت کے ترجمہ اور نوٹوں کا کام شروع کر دیا قریباً ایک ماہ تک طبیعت اچھی رہی اور خدا کے فضل سے بہت سا کام ہو گیا اس کے بعد کوئی ڈیڑھ ہفتہ ہوا ایک دن شدید دورہ ہوا پھر اس کے بعد ایک دانت میں درد شروع ہوگئی جو نکلوانا پڑا دورہ کے بعد پانچ سات دن ایسا صنف رہا کہ قطعاً کسی قسم کا کام کرنے کے قابل نہیں رہا مگر جوں جوں دانت کی تکلیف کم ہوتی گئی اور زخم مندمل ہوتا گیا طبیعت پھر سکون پر آگئی چنا نچہ پانچ چھ دن کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے پھر بڑے زور سے کام ہونے لگا.آن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سورۃ اعراف کا ترجمہ ختم ہوگیا ہے سورۃ فاتحہ سے سورۃ العام تک کا ترجمہ پہلے سے ہوا ہو ا تھا اب یہاں سورۃ انعام کے کچھ حصہ کا اور سورۃ مائدہ کے کچھ حصہ کا اور سورۃ سه العقل الرستمبر ١٩٥٢ ء صفحہ ، : سہ حضور نے ترجمہ کا یہ حصہ ۱۹۳۸ء میں کیا تھا رالفضل ۳۱ رمئی ۶۱۹۵۷ (۲۰)
۵۲۴ اعرات کا ترجمہ ہوا ہے سورۃ انفال اور سورۃ تو یہ باقی ہیں.اللہ تعالیٰ نے چاہا اور صحت رہی تو مہفتہ ڈیڑھ ہفتہ میں وہ بھی ہو جائے گا.سورۃ یونس سے سورۃ کہف تک کا ترجمہ ہو چکا ہے.پس سورۃ انفال اور سورۃ تو یہ کا ترجمہ ہونے کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے بائیں سپاؤں کا مکمل ترجمہ ہو جائے گا.آخری پارہ کا بھی ترجمہ ہو چکا ہے اس کو ملا کہ تئیس پاروں کا ترجمہ ہو جائے گا.سات پاروں کا اور ترجمہ ہو نے سے خدا کے فضل سے پورے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ ہو جائے گا بیچ میں انشاء الہ و تفسیر کے ٹکڑے رہ گئے ہیں ان کو بھی مکمل کرنے کا ارادہ ہے.گو بیماری میں بہت سا فاقہ نظر آتا ہے لیکن پھر بھی ٹہلتے وقت یہ معلوم ہوتا ہے گویا کوئی شخص کمر پر ہاتھ رکھ کر مجھے آگے کی طرف دھکا دے رہا ہے اسی طرح ذراسی بات کرنے پریا سوچنے پر دماغ بالکل تلک جاتا ہے اور بعض دفعہ تو کام کے بالکل نا قابل ہو جاتا ہوں.پس دوست دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالی سارے کام کے پورا کرنے کی توفیق دے اور پھر اس میں برکت ڈالے تاکہ دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ کرانے میں محمد ہو اور قرآن کے نور کو دنیا میں پھیلا دے باقی زبانوں کے ترجمہ میں کئی جگہ اردو کا ترجمہ انگریزی کے ترجمہ سے زیادہ مفید ہوگا کیونکہ بعض ترجمہ کرنے والے اگر دو بھی جانتے ہیں اور یہ ترجمہ خدا تعالیٰ کے فضل سے زیادہ علمی اور واضح ہے اور اسی طرح کیا گیا ہے کہ تغییر کی ضرورت بہت کم رہ جاتی ہے چھوٹے چھوٹے نوٹوں سے مشکل جگہوں کو حل کر دیا گیا ہے اور اکثر جگہ پر ترجمہ ہی ترتیب قرآن پر دلالت کر دیتا ہے.ہاں ایک بات یہ گئی کہ سورہ عمر کی تفسیر کی آخری جلد میں یہیں ختم کی گئی ہے اور اب و در بود میں چھپ رہی ہے گویا مری میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دو کام ہو گئے ایک سورہ غم کی تفسیر کی آخری جلد ختم ہو گئی اور ایک قرآن شریف کے چار پانچ پاروں کا ترجمہ ہوگیا.اللہ تعالی چاہے تو صرف اس کی مدد سے یہ کام مکمل ہو سکتا ہے اور نہ بیماری اور کمزوری کی حالت میں تو اس کام کا پورا کرنا نا مکن نظر آتا ہے.خاکسار - مرز المحمود احمد سله دوسرا نوٹ : اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج ہم اٹھائیسویں پارے کے آخر میں ہیں رچنا نچہ ۲۵ اگست کی ه الفضل ۲۴ جون ۱۹۵۶ء ص
۵۲۵ شام تک خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآن کا سارا ترجمہ ختم ہو گیا ہے) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض نوٹوں اور بعض سوالوں کے لیے ابھی اور بھی کچھ وقت لگے گا مگر تین چار مہینے کے اندر اندر سارے قرآن شریف کا ترجمہ ہونا اہلی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا.مجھے یاد ہے جب ۱۹۰۵ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام دہلی گئے توخوا جہ کمال الدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب ڈپٹی نذیر احمد صاحب مترجم قرآن کو بھی لنے گئے انہوں نے آکر حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کو منایا کہ ڈپٹی صاحب نے اپنے اردگرد کا غزوں کا ایک بڑا ڈھیر لگا رکھا تھا ایک مولومی بھی انہوں نے ملازم رکھا ہوا تھا اور خود بھی انہیں عربی زبان سے کچھ واقفیت تھی پھر وہ کہنے لگے میں نے بڑی کتابیں لکھی ہیں.مگر ساری کتابیں ملا کر بھی مجھے اتنی مشکل پیش نہیں آئی مقنی مشکل مجھے قرآن کریم کے ترجمہ میں پیش آئی ہے.چنانچہ دیکھنے میں نے روی کاغذوں کا ڈھیر لگا رکھا ہے لکھنا ہوں اور پچھاڑتا ہوں اور لکھتا ہوں اور پھاڑتا ہوں.چنانچہ سات سال انہیں اس ترجمہ کے مکمل کرنے میں لگے گھر میں نے یہ ترجمہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت تھوڑے عرصہ میں کر لیا پہلے آٹھ پاروں یعنی سورۃ العام کے آخر تک کا ترجمہ پہلے ہو چکا تھا اور سورۃ یونس سے کہف تک کا ترجمہ ۳۹ - ۱۹۲۰ء میں ہوا اور آخری پارے کا ترجمہ پچھلے آٹھ دس سالوں میں ہوتا رہا پہلے آٹھ سیپاروں میں سے سورۃ مائدہ کی چند آیتیں رہتی تھیں اسی طرح سورۃ اعراف، انفال اور سورۃ توبہ کا ترجمہ اور آخری چودہ پارے باقی تھے گویا قریبا سترہ پاروں کا ترجمہ انھی رہتا تھا.ہم ۲۳ اپریل ۱۹۵۶ ء کو ربوہ سے مری گئے تھے پہلے آخر میں پارہ کی چند سورتیں باقی تھیں ان کی ہم تفسیر کرتے رہے اس کے بعد ترجمہ کا کام جون میں شروع ہوا اور اب اگست کا آخر ہے بیچ میں دس دن بخار بھی چڑھتا رہا اور قریبا دس دن مری سے جابہ اور پھر جابہ سے مری اور پھر مری سے ربوہ اور ربوہ سے مری آنے جانے میں لگے اور اس طرح دو مہینے اور کچھ دن رہ جاتے ہیں.جن میں سارے قرآن کریم کے ترجمے کا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے ختم ہو گیا اس ترجمہ کے متعلق لوگوں کی رائے کا اُس وقت پتہ لگے گا جب یہ ترجمہ چھپے گا لیکن میری رائے یہ ہے کہ اس وقت تک قرآن کریم کے جتنے ترجمے ہو چکے ہیں.ان میں سے کسی ترجمہ میں بھی اردو محادر سے اور عربی محاورے کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا جتنا اس میں رکھا گیا ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے اتنے تھوڑے عرصہ را مشمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد دہلوی ولادت ۱۸۳۶ و وفات ۶۱۹۱۲
سے میں ایسا عظیم الشان کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرما دی........اللہ تعالیٰ نے اس بڑھے اور کمزور انسان ، وہ عظیم الشان کام کہ دالیا جوبڑے بڑے طاقتور بھی نہ کر سکے گذشتہ تیرہ سو سال میں بڑے بڑے قومی نوجوان گزرے ہیں مگر جو کام اللہ تعالیٰ نے مجھے سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے اس کی ان میں سے کسی کو بھی توفیق نہیں ملی در حقیقت یہ کام خدا کا ہے اور وہ میں سے چاہتا ہے کروالیتا ہے پہلے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ (حرم حضرت مصلح موعودؓ فرماتی ہیں کہ : - قرآن مجید سے آپ کو جو عشق تھا اور میں طرح آپ نے اس کی تفسیریں لکھ کہ اس کی اشاعت کی رہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے.خداتعالی کی آپ کے متعلق پیشگوئی کہ کلام اللہ ک مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو، اپنی پوری شان کے ساتھ پور میں ہوں میں دنوں تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کا نہ کھانے کا.بس ایک دھن بھی کہ کام ختم ہو جائے.رات کہ عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھے ہیں توکئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہوگئی اور لکھتے چلے گئے.تغیر صغیر تو لکھی ہی آپ نے بیماری کے پہلے حملہ کے بعد یعنی ۱۹۵۶ء میں طبیعت کافی کمزور ہو چکی تھی.گو یورپ سے واپسی کے بعد صحت ایک حد تک بحال ہو چکی تھی.مگر پھر بھی کمزوری بہاتی تھی.ڈاکٹر کہتے تھے.آرام کریں فکر نہ کریں.زیادہ محنت نہ کریں لیکن آپ کو ایک دھن بھی کہ قرآن نے ترجمہ کا کام ختم ہو جائے.بعض دن صبح سے شام ہو جاتی اور لکھواتے رہتے.کبھی مجھ سے املاء کرواتے.مجھے گھر کا کام ہوتا تو مولوی محمد یعقوب صاحب مرحوم کو ترجمہ لکھواتے رہتے.آخری سورتیں لکھوارہے تھے غالباً انیسواں پارہ تھا یا آخری شروع ہو چکا تھا ہم لوگ نخلہ میں تھے و میں تغیر صغیر مکمل ہوئی تھی کہ مجھے تیز بخار ہو گیا.میرا دل چاہتا تھا کہ متواتر کئی دن سے مجھے ہی ترجمہ لکھوار ہے ہیں.میرے ہاتھوں ہی یہ مقدس کام ختم ہو.میں بخار سے مجبور متی ان سے کہا ئیں نے دوا کھالی ہے آج بالکل بخار اتر جائے گا دو دن آپ بھی آرام کر لیں آخری حصہ مجھوت ہی لکھوائیں تا میں ثواب حاصل کر سکوں نہیں مانے کہ له الفضل ۳۱ اگست ۱۹۵۶ دصت :.
۵۲۷ میری زندگی کا کیا اختبار.تمہارے بخار اترنے کے انتظار میں اگر مجھے موت آجائے تو ؟؟ سارا دن ترجمہ اور نوٹ لکھواتے رہے اور شام کے قریب تفسیر صغیر کا کام ختم ہو گیا ہے ترجمہ پر نظرثانی مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب رجنہیں تغییر کبیر کے کام کے ضمن میں نعت اور تفاسیر کے مطلوبہ حوالہ جات پیش کرتے نیز تغیر صغیر کی کتابت اور طباعت کا کام کروانے کی سعادت نصیب ہوئی) تحریہ فرماتے ہیں کہ :- حب سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی قرآن مجید کا ترجمہ اور مختصر نوٹ املاء کر دا چکے.تو حضور کی خدمت میں سارا ترجمہ خوشخط لکھوا کہ پیش کر دیا گیا.تو آپ نے اس کا جائزہ لینے کے بعد اس پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ فرمایا.چنانچہ سید نا حضور نے خاکار (ابوالمنیر نورالحق اور مکرم مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زرد ڈنویس کو ارشاد فرمایا.کہ آپ دونوں اصحاب مع ممزدور می کتب لعنت و تفاسیر کے قصر خلافت میں روزانہ صبح ساڑھے آٹھ بجے حاضر ہو جایا کریں.یکم رمضان المبارک ۱۹۵۷ ءور بمطابق اپریل ۱۹۵۷ء) کو حضور نے ترجمہ پر نظرثانی کا کام شروع کیا.آپ روزانہ اپنے دفتر میں کسی دن ایک پارہ کے ترجمہ پر اور کسی دن ڈیڑھ پارہ کے ترجمہ کی نظرثانی فرماتے.صبح ساڑھے آٹھ بجے کام مشروع ہوتا جو عام طور پر ظہر تک اور بعض ایام میں عصر تک جاری رہتا اور آٹھ آٹھ نو نو گھنٹے نظر ثانی پر لگ جاتے چنانچہ حضور ایدہ اللہ نے صحت کی پر واہ کیے بغیر سخت محنت کرتے ہوئے رمضان المبارک میں نظر ثانی کا کام ختم کر بیاید.نظر ثانی کے اس کٹھن مرحلہ کے بعد سیدنا حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ کی خدمت میں ستودہ ترجمہ پر نظر ثالث حسان لکھا کر پیش کی گی.توحضور نے اس پر ایک اور دفعہ نظرڈالنے کا فیصد فرمایا.کہ.نے اور اس کام کو پر سکون ماحول میں کرنے کے لیے محلہ رجانہ الیستی میں تشریف لے گئے.اور ۱۳ مئی ۱۹۵۷ ء ۱۹ء تک تیری بار مسودہ کو ملاخطہ فرمایا.روزانہ صبح آٹھ بجے کام شروع ہوتا اور ڈیڑھ سله الفضل ۲۵ ماریچ ۱۹۶۶ ۶/ ۲۵ / امان ۱۳۴۵ مش صفحه ۵ له الفضل اسرمئی ۱۹۵۷ء م
۵۲۸ دو بجے دو پتر تک مسلسل جاری رہتا.اس طرح روزانہ ایک پارہ کا ترجمہ حضور ملاحظہ فرما کہ اس کی تصیح فرماتے اور تغیر می نوٹوں میں مناسب اضافہ فرماتے.ترجمہ پر نظر ثالث کے دوران اکثر چھ چھ گھنٹے اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ وقت صرف ہوتا.کئی واقعہ کام کے دوران کھانے کا وقت آجاتا اور باوجود ڈاکٹری ہدایات کے کہ حضور کے لیے بروقت کھانا تناول کرنا ضروری ہے پھر بھی آپ کام میں مشغول رہتے.یہاں تک کہ مقررہ کام ختم ہو جاتا.بعض اوقات حضور کی طبیعت ناساز ہوئی.لیکن پھر بھی خدمت قرآن کی یہ بے نظیر مهم با قاعدہ جاری رہتی.بعض اوقات حضور کو سخت تھکان ہو جاتی.اور حضور کو یوں محسوس ہوتا.کہ حضور گرنے لگتے ہیں اس حالت کو دیکھ کر مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب اور مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر، عرض کرتے.کہ حضور کام بہت زیادہ ہو گیا.اس.لیے اب بس کر دیں.لیکن حضور کا یہی جواب ہوتا.کہ جب تک مغفرہ کام ختم نہ ہو.اس وقت تک کام جاری رہے گا.خواہ رات کے بارہ بج جائیں لیے الغرض قرآن مجید کے ترجمہ اور مختصر تفسیری نوٹوں کا کام جس کے لیے کئی سال درکار تھے محض خدا کے فضل سے چار ماہ میں سر انجام پا گیا.فالحمد لہ علی ذالک - قرآن مجید کا ترجمہ اور منظر تغیر کا مسودہ تیار ہو جانے کے بعد حضور تغیر صغیر کی کتابت اور طباعت کی خواہش تھی.کہ اس کی کتابت اور طباعت تین ماہ میں مکمل ہو جائے ایه علمی خزانہ دنیا کے کونوں تک جتنی جلدی ہو سکے.پہنچ جائے.لیکن بظاہر یہ کام ناممکن نظر آتا تھا.کیونکہ عام اندازہ کے مطابق قرآن مجید کا متن ، اس کا ترجمہ اور تغیری نوٹس کا تہوں سے لکھوانے اور بعد ازاں طیع کر وانے کے لیے کم از کم چھ ماہ کی مدت د کار تھی.اس سے کم عرصہ میں کام ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی.لیکن حضور کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کا آغاز کر دیا گیا.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے قرآن مجید کے عربی متن کی کتابت کے لیے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق خاص حضرت منشی عبد الحق صاحب روالد بزرگوار مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب) کو اور اردو ترجمہ اور نوٹس کے لکھنے کے لیے قریشی محمد اسماعیل صاحب کا انتخاب فرمایا اور ہر دو کا تہوں کو نخد پہنچنے کا ارشاد فرمایا تم اس پر سکون بستی میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا وقت مل سکے.چنانچہ دونوں کا توں له الفضل ۳ مئی ۱۹۵۷ء ص۳
۵۲۹ نے نہ پہنچ کر سورہ کی کتابت کا کام شروع کر دیا.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح کی اس طرف بہت زیادہ تو میہ تھی کہ تفسیر صغیر جلدی سے جلدی طبع ہو.چنانچہ حضور تے ، رسٹی کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: - چاہیئے کہ کیا کا تب اور کیا چھاپنے والے اور کیا منتظم اور پھر کیا وہ لوگ جن کو میں ترجمہ ڈکٹیٹ کرواتا ہوں.وہ رات دن ایک کر کے اس کام کو ایک دفعہ پورا کر دیں.تا لوگ اس سے فائدہ اٹھا نا شروع کر دیں.اور ان کے لیے ثواب کا ایک رستہ کھل جائے.زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.اگر ترجمہ چھپ جانے سے پہلے کوئی ہم میں سے مرگیا.تو وہ تو اب سے مردم ہو جائے گا.اگر ترجمہ مکمل ہو جائے اور وہ چھپے نہیں ، تو چھاپنے والا ثواب سے محروم رہ جائے گا.اور اگر وہ چھپ جائے.اور لوگ اسے پڑھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں.تو ! قیامت تک ہم لوگوں کے لیے یعنی ترجمہ کرنے والے کے لیے ، ترجمہ لکھنے والوں کے لیے چھاپنے اور چھپوانے والوں کے لیے ثواب جارہی رہے گا تھوڑی سی اور چند ماہ کی محنت کا سوال ہے.اس کے بعد قیامت تک نواب کا رستہ کھلا رہے گا.ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ثواب کا وہ رستہ ضائع نہ ہو ا ہے سید نا حضور نے تفسیر صغیر کے مسودہ کی کتابت کے لیے جن دو کا تبوں کا انتخاب فرمایا تھا.ان میں سے ایک کا تب حضرت منشی عبد الحق صاحب کا تب کی عمر اس وقت اسی سال کے لگ بھگ تھی.اور آپ جوانوں کی طرح محنت نہیں کر سکتے تھے.لیکن چونکہ حضور کو ان کا خط پسند تھا.اس لیے حضور نے اپنی سے عربی متن لکھوانے کا فیصلہ کیا.سید نا حضور کی قوت قدسیہ، توجہ اور دعا کی برکت سے یہ معجزہ دیکھنے میں آیا.کہ اللہ تعالیٰ نے ہر درد کاتبوں کو غیر معمولی توت عطا کر دی اور انہوں نے نہایت سرعت سے تین ماہ کی مختصر مدت میں کتابت کا کام ختم کر لیا.کتابت شدہ کا پہیاں اور پر دن پڑھنے کی سعادت بھی مولانا کاپی ریڈنگ اور پروف ریڈنگ وطباعت ابو المنير نور الحق صاحب اور مولوی محمد یعقوب صاحب ظاہر کو حاصل ہوئی.اور طباعت کا کام مکرم خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے سپرد ہوا.کیونکہ له الفضل اور مئی ۱۹۵۷ء ص ۲
آپ اس وقت مینجنگ ڈائریکٹر الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ تھے اور ضیاء الاسلام پریس آپ کے زیر انتظام تھا.جو نبی کاتب صاحبان کوئی کاپی مکمل کر لیتے.تو اسکو پڑھ کر بعد صحیح اغلاط مکرم مولانا شمس صاحب کے پاس ربوہ بھجوا دی جاتی.اور آپ پر دن نکلوا کر واپس نخلہ بھجوا دیتے.جے کارکنان ابتدائی طور پر دیکھے کہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیتے.بعد ازاں سید نا خود بنفس نفیس سارے پر دت کو پڑھتے اور بعض مقامات پر مفید اضافے فرماتے.زیادہ اضافہ انیسویں اور تیسویں پارے کے نوٹوں میں ہوا.اس کام پہ حضور کا روزانہ ایک گھنٹہ سے زائد وقت صرف ہو جاتا.اس صورت میں جو نوٹس نہائڈ ہوئے وہ منیبہ کی صورت میں تغیر صغیر کے آخر میں لگا دیئے گئے.پروف ریڈنگ کا اہم کام ۲ اکتوبر کو ختم ہو گیا.توحضرت خلیفہ اسیج الثاني المصلح الموعود کی طرف سے درج ذیل اعلان احباب جماعت کی اطلاع کے لیے در اکتوبر کے الفضل میں شائع ہوا.اللہ تعالی کے فضل و رحم سے آن ۲ اکتوبر کو قرآن شریعت کا سار تر جمہ ملک ہوگیا یعنی احمد د سے والناس تک مع تغیر صغیر کے میں کے متعلق تغییر کبیر نے مقابلہ کرنے سے یہ پتہ لگا ہے کہ گئی مضامین اختصاراً اس میں ایسے آئے ہیں کہ تغیر کبیر میں بھی نہیں.امید ہے کہ تغییر صغیر کی پہلی کھیپ ۱۵ اکتوبر تک تیار ہو جائے گی اور طلبہ سالانہ تک دو ہزار جلد کے تقسیم کرنے کے ہم قابل ہو جائیں گے.گو خرید اروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر جو تین ہزار سے اوپر نکل چکی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقعہ تک پانچ ساڑھے پانچ ہزار ہو جائے گی ہم نے پانچ ہزار جلد چھپوانے کا آرڈ دے دیا ہے اور یہ بھی سوچا جارہا ہے کہ کثرت سے چھپوانے اور کئی اقتصادی باتوں کے مد نظر رکھنے کی وجہ سے کتاب سمستی پڑے گی.اور بڑے خریداروں کے لیے قیمت میں بھی کچھ کمی کر دی جائے گی.بشر طیکہ خریدار مقررہ مدتک لیں.مثلاً ڈیڑھ صد خرید نے والوں کے لیے اور قیمت دو ستو خریدنے والوں کے لیے اور قیمت سواتین سوخریدنے والوں کے لیے اور قیمت اور پانچو خریدنے والوں کے لیے اور قیمت.امید ہے کہ اس طرح زیادہ تعداد میں خریدنے والی جماعتوں کو مقامی طور پر بھی کچھ نفع مل جائے گا مثلاً سوا تین سو کی تعداد میں فرید نے دالوں کو ساڑھے گیارہ روپے فی جلد مل جائے.اور کچھ رقم وہ آگے خریداروں کو دے دیں.اور سستی لہ یعنی پروف ریڈنگ وغیرہ مکمل ہوگئی ہے.
۵۳۱ کر کے کتاب بھیج دیں تو خیال ہے کہ اس طرح ان کو ہزار گیارہ سوکا نفع ہو جائے گا.اور پانچ سو والوں کو اس سے بھی زیادہ.سواتین سو تعداد اس وقت تک صرف ربوہ والوں نے لی ہے اور امید ہے کہ اکتوبر تک ان کی خریداری کی تعداد چار پانچ سو تک جا پہنچے گی.دوسرے نمبر پر کراچی ہے جنہوں نے تین سو جلد خریدی ہے اس کے بعد لاہور ہے جن کی سو کی درخواست تو آپی کی مگر دوسری درخواست ملی ہے کہ ۶۴ خریدار ہوچکے ہیں اور ابھی اور ہورہے ہیں.پس اگر امور کو دو تو سمجھا جائے اور کراچی کو تین سو اور ربوہ کو پانچ سو تو یہ ہزار کی تعداد ہو جاتی ہے اور بقیہ جماعت کو ملا کہ اکتیں بنتیں سو کی تعداد ہے.اور ابھی چار مہینے باقی ہیں.من میں کتاب کی خریداری مکمل ہو جائے گی.لیکن جلسہ تک مشکل تین ہزار آدمیوں کو کتاب مل سکے گی.ہاتی لوگوں کو جنوری فروری کا انتظار کرنا پڑے گا اور ممکن ہے کہ اس عرصہ میں خریداری اور بھی بڑھ جائے اور کئی ہزار خریدار کو اگلے سال کے مٹی جون تک انتظار کرنا پڑے مرزا محمود احمد (خلیفة المسیح الثانی اله اس اعلان میں حضور نے جو اندازہ لکھا تھا.اس کے مطابق تفسیر صغیر اور مضامین قرآنی کا انڈیکیس | اللہ تعالیٰ کے فضل سے 10 اکتو بہ تک تغیر مخیر کی طبابات کا کام مکمل ہو گیا.حضور کی خدمت میں حبیب نمونہ کی کتاب پیش کی گئی.تو حضور نے مولوی ابوالمنیر نورالحق صاب کوارشاد فرمایا کہ تغیر صغیر کانی نسیم ہوگئی ہے.اس لیے اس کے ابتداء میں انڈیکیس کا ہونا ضروری ہے.تا قار میں اس سے باآسانی استفادہ کر سکیں.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں مولوی ابوالنمیر نور الحق صاحب نے صفحات کا انڈیکیں جو تغیر مصغیر کے مضامین اور مضامین قرآنی پرمشتمل تھا.پندرہ دن کے اندر اندر مرتب کہ رہا.جو بعد کتابت طبع ہو کہ تغیر غیر کے ابتداء میں شامل ہوا اور یوں ۱۵ نومبر تک ۱۴۶۶ صفحات کی تفسیر مع انڈیکس ایک ہزار کی تعداد میں طبع ہو کر مکمل طور پر تیار ہوگئی.جلد بندی کا کام مکرم محمد عبد اللہ صاحب جلد سانہ ریدہ نے کیا اس کام کی تکمیل پر سید نا حضور نے درج ذیل اعلان اخبار الفضل کو اشاعت کے لیے بھجوایا : عد میں قرآن کریم کے ترجمہ کے ختم ہونے پر پہلے ایک اعلات الفضل میں شائع کرا چکا ہوں.اس لے روز نامه العضل ریوه در اکتوبر ۱۹۵۷ ء صفحہ ۳ : سے یہ انڈیکس اپنی افادیت کے پیش نظر علیحدہ کتا بچہ کی صورت میں بھی ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا.
۵۳۲ کے بعد جب اس کا پہلا ہزار چھپ گیا تو اس کا بھی جماعت میں اعلان کیا جاچکا ہے اس کے بعد خیال ہوا کہ تفسیر سے پہلے انڈکس یعنے فہرست مضامین قرآنی بھی لگا دی جائے تاکہ اس کے مطالعہ کے بعد ہراحمدی کی آنکھوں کے سامنے قرآن کریم کے سارے مطالب آجائیں اس طرح سے یہ کتاب جو ۱۲۰۰ صفحات میں چھینی تھی وہ ۴۶۶ صفحات میں چھپی ہے.نیز جا بہ میں رہ کر کام کرنے کی وجہ سے اس کے اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں.اس وجہ سے سولہ روپے فی جلد کی بجائے قیمت اٹھارہ روپے فی جلد کر دی گئی.مگر جن کے نام پہلے ہزار میں آئے ہیں.اُن کو بہر حال کتاب 14 روپے فی جلد کے حساب سے ملے گی.بعض لوگ بڑی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے فائدہ اٹھارہے ہیں کیونکہ جن کی جماعت نے زیادہ تعداد کا آرڈر بھجوایا ہو گا اس جماعت کو بہت ساکیشن ملے گا وہ اپنے کمیشن میں سے کچھ حصہ اگر خریداروں کو دیدیں تو امید ہے ۱۶/۵۰ روپے یا ۱۷/۵۰ روپے تک وہ بھی قرآن کریم کو اپنی جما عت کے لوگوں میں تقسیم کر سکیں گے.اب صرف یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم سارے کا سارا معہ ترجمہ و تفسیر صغیر نیز ۱۱۲ مقدمات کی فہرست مضامین جلد سمیت خدا تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو چکی ہے اور مجھے مل چکی ہے.لیکن میرا ارادہ ہے کہ تقسیم انشاء احتد تعالی جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ہی کی جائے.اس وقت تک غالباً دو ہزار کتاب تیار ہوچکی ہوگی باقی جوں جوں تیار ہوتی جائے گی جماعتوں کو ان کے آرڈروں کی ترتیب کے لحاظ سے تقسیم ہوتی رہے گی.لیکن چونکہ لوگوں میں گھبرا ہٹ پائی جاتی ہے اس لیے ان کے دلوں کے اطمینان کے لیے ابھی سے یہ اعلان شائع کیا جاتا ہے.جماعت میں شوق تو اتنا ہے کہ بعض لوگ دور دور سے آکر ربوہ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے تعلق کی وجہ سے پریس میں جا کہ تغیر پڑھ لیتے ہیں.اور اس طرح اپنے دل کو تسکین دے لیتے ہیں.خلیفة المسیح الثانی ۱۳/۱۱/۵۷ روزنامه الفضل ربوه ۱۵ نومبر ۱۹۵۷ رند صف
۵۳۳ سید نا حضرت خلیفہ ایسی ثانی المصلح الموعود نے تفسیر صغیر کی فروخت اور آئندہ تغیر صغیر کی فروخت طباعت کا کام اداراة المصنفین ربوہ کے سپر د فر مایا.یہ ادارہ نومبر دار کو معرض وجود میں آیا تھا.اور اس کے قیام کی اعراض میں سے ایک اہم عرض یہ بھی تھی.کہ وہ تفسیر صغیر کی اشاعت کا وسیع پیمانہ پر انتظام کرتا رہے.چنانچہ ۱۹۵۷ء سے ۱۹۸۴ء تک تفسیر صغیر کی طباعت و اشاعت کا کام یہی ادارہ سر انجام دیتا رہا.پہلا ایڈیشن جو منظر عام پہ آیا.اتنا مقبول ہوا کہ ہاتھوں ہاتھہ پک گیا اور صرف دو ہزار کی تعداد میں شائع ہونے کی وجہ سے جماعتوں کی بھاری تعداد بے پناہ شوق و زوق کے باوجود اسے جلسہ سالانہ کے موقع پہ حاصل نہ کر سکی.احباب کے اشتیاق کے پیش نظر ۱۹۵۸ء میں تین بار ایک ایک ہزار کی تعداد میں تغیر صغیر کو چھپوایا گیا.لیکن جلد ہی یہ کتاب نایاب ہو گئی.اور اور مارچ ۱۹۶۶ء میں اس کا پانچواں ایڈیشن عکسی اعلیٰ کتابت اور نفیس طباعت کے ساتھ چھپوایا گیا جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آرہی ہے سید نا حضرت مصلح موعود دید و فعالیٰ بنصرہ العزیز سیدناحضرت خلیفہ ربیع الثانی کی طر بے کارکنان کو نے آغا نے خلافت میں اللہ تعالیٰ کے تفر صفیہ کے انعامات اور اظہار خوشنودی حضور یہ دعائی تھی.کر اپنے فضل سے تو میرے ہم سفر پیدا کہ اس دیار میں اسے جان میں غریب ہوں میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیار سے بندہ محمود المصلح الموعود کی یہ دعا اس شان سے قبول فرمائی.کہ حضور کا پورا عہد خلافت اس کا منہ بولتا نشان بن گیا.تغییر صغیر کی تیاری - کتابت اور طباعت کے کام کو آپ کے منشاء کے مطابق سر انجام دینے کے لیے ایسے مخلص خدام عطا فرمائے.جنہوں نے دن رات ایک کر کے انتھک محنت اور جانفشانی ایسا ایک مظاہرہ کیا کہ وہ کام جس کے مکمل کرنے کے لیے سالوں درکار تھے.تین ماہ میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا.اور اپنے پیارے آقا کی دعاؤں اور خوشنوری پایہ اور کو حاصل کیا.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کارکنان تغیر صغیر کے لیے اپنی خوشنودی کا اظہار اس رنگ میں فرمایا کہ جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ ء کے دوسرے روز اپنی تقریر کے شروع کرنے سے قبل کارکنان کو سٹیج پر بلا کر اپنے دست مبارک سے انعامات کی تھیلیاں عطا فرمائیں.مین خوش نصیب اصحاب کو یہ فخر حاصل ہوا
۵۳۴ ان کے اسماء یہ ہیں :.1 ا - مولوی ابوالمنير نور الحق صاحب - مولانا جلال الدین صاحب شمس - مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر زه رد نویس منشی عبد الحق صاحب کا تب دیکے از رفقاء ) حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ ) ه - قریشی محمد اسماعیل صاحب کا تب - انوار احمد صاحب سنگ از منیاء الاسلام پریس 10- " 10° 10- " " جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے.کہ تفسیر صغیر پہلی بار ۱۹۵۷ء تغیر صغیر کی طباعت کا دور ثانی | میں نہایت عجلت میں چھپی تھی.اس وقت جلدی کی وجہ سے کتابت اور پر وقت ریڈنگ کی کچھ اخلاط رہ گئی تھیں.تارین میں سے میں کسی کو تغییر کے مطالعہ کے دوران الیں ملی کو علم ہوا.اس نے سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کو اطلاع دی.یہیں پر حضور نے ۱۹۶۵ء میں مندرجہ ذیل تین ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرمائی.۱ - حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین - ۲- مولانا جلال الدین صاحب شمس - مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین رسیکر ڈی) حضور نے ارشاد فرمایا کہ کمیٹی کے ارکان تغییر صغیر کے ترجمہ اور نوٹوں کو اچھی طرح دیکھ لیں.اور جہاں کہیں طباعت کی غلطی رہ گئی ہو.اسے درست کر دیا جائے.تاکہ آئندہ تفسیر صغیر صحت کے ساتھ چھپ سکے.تے کمیٹی کے ارکان نے فیصلہ کیا.کہ مولا نا شمس ایک دفعہ ساری تغییر چیک کریں.اور قابل اصلاح امور کی فہرست بنا کر سیکرٹری کو دیدیں.اور پھر مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف له الفضل ۲ جنوری ۱۹۵۸ء ص : سے ریکار ڈ ادارۃ المصنفین
۵۳۵ کو شروع سے آخر تک لفظاً لفظاً تغیر صغیر کا ترجمہ اور تفسیری نوٹ پڑھ کر سنائیں اور قابل اصلاح امور کی اصلاح کر دی جائے.چنانچہ انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کو شروع سے لے کر سورۃ نور کے چودہویں رکوع تک لفظاً لفظاً ترجمہ اور تغیری نوٹ سُنائے جس کے لیے حضرت صاحبزادہ صاحب موصور نے باوجود عدیم الفرصتی کے نہایت بشاشت کے ساتھ ایک لمبا عرصہ وقت دیا.کبھی رات کو نو بجے کے نبند بارہ بجے رات تک اور کبھی دن کو پہلے حصہ میں اور کبھی آخری حصہ میں.آپ دوسرے کاموں سے تھکے ہوئے آتے.لیکن مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ تغیر صغیر کا ترجمہ کتنے.اور قابل اصلاح امور پر غور فرما کہ فیصلہ فرماتے.جب سورۃ نور کی آیت استخلاف کے اس ترجمہ پر پہنچے کہ اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا.تو اس دن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مصلح موعود کا وصال ہوگیا.اور خدائی تقدیر کے مطابق حضرت صاجزادہ صاحب وصوت خلیفہ المسیح الثالث منتخب ہو گئے.خلافت کی عظیم ذمہ داریاں حیب آپ کے کندھوں پر پڑیں تو آپ کے لیے تفسیر کے کام کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو گیا.اس پہ آپ نے فیصلہ فرمایا کہ مولوی ابو المنیر نورالحق صاحب کو بقیہ کام سرانجام دینا چاہیئے.اور جو امر قابل استفسار ہو.وہ آپ سے پوچھ لیا جائے.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل کی گئی.اور یہ تسلی کر لینے کے بعد کہ قابل اصلاح امور کی درستگی ہو گئی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے تفسیر صغیر کو دوبارہ لکھوانے اور بلاکوں پر چھپوانے کی اجازت ادارۃ المصنفین کو مرحمت فرما دی یه ادارہ نے تغیر کو بلاکوں پر چھپوانے کے لیے اس کی دوبارہ کتابت کا انتظام کیا.اور یہ فیصلہ کیا کہ جو تفسیری حواشی تغیر صغیر کے آخر میں بطور ضمیمہ درج ہوئے ہیں.ان کو آیات متعلقہ کے نیچے درج کیا جائے.معیاری کتابت کے لیے احمدی خوشنویس جناب منشی غلام جیلانی صاحب ساکن ننکانہ صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں.جنہوں نے نہایت محنت ، خلوص اور مہارت سے کتابت کو دیدہ زیب بنا رہا.بلاکس اینگر یوں ہور نہ خالد اپریل ۱۹۸۳ء مثانہ سے شیخ غلام جیلانی صاحب خوشنویس ولد شیخ محمد یعقوب صاحب مہاجر قصبہ تلون مضلع جالندھر (بھارت) حال ننکانہ صاحب ضلع شیخو پور.آپ ۱۹۳۳ ء میں دا خل احمدیت ہوئے آپ سے جب مولوی ابو الیز فنا کی وساطات تفسیر صغیر کی انسٹ کتابت کا معاملہ طے ہوا اسوقت حضرت مصلح موعود بیمار تھے اور حضرت سیدنا مرزا ناصر احمد صاحب صدر انجمن احمدیہ (باقی اگلے مانی
۵۳۶ نے نہایت پیار اور محبت سے تیار کیے.اور طباعت کا انتظام مکرم جناب محمد طفیل صاحب مدیر نقوش لاہور نے اپنے نقوش پر لیں میں کمال درجہ عقیدت کے ساتھ کیا.اور خوبصورت پائیدار اور مضبوط جلد بندی کا اعزازہ لاہور کے مشہور جلد سازہ کو حاصل ہوا.اس دفعہ تفسیر صغیر آرٹ پیپر پر شائع ہوئی.اور جلد پرخوبصورت بلا شک کو بھی پڑھایا گیا تھا.جس نے کتاب کو نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب بنا دیا تھا.پہلی کھیپ میں ستر نسخے میں اس وقت ربوہ پہنچے جب خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کی پہلی مجلس مشاورت ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء کو شہر درج ہو رہی تھی.چونکہ تغیر صغیر کے اس عکسی ایڈیشن کی کتابت اور بلاکوں کے بنوانے اور طباعت کا انتظام براه راست حضور کی نگرانی میں ہو رہا تھا.اور حضور قدم قدم بہ کارکنان کی ہدایات و رہنمائی فرماتے رہے.آپ کی توجہ اور دعا سے یہ ایڈیشن اتنا خوبصورت اورا علی شائع ہوا.کہ حضور کو بہت ہی پسند آیا.اور حسن نے اسے دیکھا وہ اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا.حضور نے مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب مینیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین کو ارشاد فرمایا کہ مشاورت کے آغاز سے قبل ہال میں تغیر کے چند نسخے احباب جماعت کو دکھانے کے لیے مناسب مقام پر رکھ دیئے جائیں.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں سٹیج کے سامنے ایک ریک (RACK) پر ان کو اپنی جگہ پر رکھدیا گیا.حضرت خلیفہ ایسیج کی اجتماعی دعا کے ساتھ مشاورت کا افتتاح عمل میں آیا.جس کے معا بعد حضور نے افتتاحی خطاب کے شروع میں تفسیر صغیر کے شاندار نے عکسی ایڈیشن کی خوشخبری احباب کو دی اور جملہ مراحل طباعت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا.یں احباب کو یہ بشارت دیتا ہوں کہ تفسیر صغیر جو نایاب تھی اور میں کے حصول کے لیے احباب کے دل تڑپتے تھے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے شائع ہو گئی ہے اور اس وقت اس کے کچھ نمونے ہمارے سامنے ہیں چونکہ سب دوستوں کو اس کا دکھایا جانا اس وقت وقت بقیہ حاشیہ ۵۲ سے آگے) کے فرائض سرانجام دے رہے تھے.چنانچہ آپ کی منظور می اور نمونہ جات کی پسندیدگی پر تغیر کی کتابت شروع ہوئی اور خلافت ثالثہ کے ابتدائی مبارک دور میں اختتام پذیہ ہوئی.
۵۳۷ طلب ہو گا.اس لیے نمائندہ کراچی ،نمائندہ لاہور.امیر صاحب علاقائی پنجاب اور بہاولپور ڈویژن اور سابق صوبہ سرحد کے امیر صاحب آگے تشریف لے آئیں وہ اسے خود بھی دیکھ لیں اور اپنے حلقہ میں بھی اسے دیکھا دیں.ایک ایک کاپی اٹھا لیں اور دیکھ کر اس جگہ واپس رکھ دیں اور اس عرصہ میں لیکن اس کے متعلق بعض باتیں بتا دیتا ہوں.بہ تغیر بلاک پر شائع ہوئی ہے کوشش یہ کی گئی ہے کہ اس میں کوئی غلطی باقی نہ رہ ہے لیکن انسان انسان ہی ہوتا ہے.جو سکتا ہے کچھ غلطیاں اس میں رہ گئی ہوں.چونکہ یہ بلاک پر چھپی ہے اور فی الحال آرٹ پیپر پر صرف دو ہزار چھپی ہے.بقیہ تین ہزار چھپنے والی رہتی ہے جو اگلے ہینہ میں چھپ جائے گی انشاء اللہ.اس لیے اگر کسی دوست کی نظر میں کوئی غلطی آئے تو ہمیں فوراً اطلاع دیں.تا بعد میں جو تین ہزار چھپنی ہے اس میں سے یہ غلطی دور کر دی جائے : تغیر صغیر پر نظرثانی بھی کی گئی ہے.لیکن نظر ثانی اس اصل کے ماتحت کی گئی ہے کہ جو ترجمہ حضرت مصلح موعود نے بڑی محنت اور توجہ سے کیا تھا وہ قائم رہے جب یہ پہلے شائع ہوئی تھی اس وقت حضور کو بہت جلدی تھی اور آپ کی خواہش تھی کہ کسی طرح یہ شائع ہو جائے.اس لیے اس کی پروف ریڈنگ صحیح طور پر نہیں کی جا سکتی تھی.اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں.ہمارے ملک کے کا تب اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ جہاں مرضی ہو تبدیلی کر دیں یا کوئی چیز چھوڑنا چاہیں تو چھوڑ دیں.چنانچہ تغیر صغیر کے پرانے ایڈیشنوں میں بعض آیات کے فقرات کا ترجمہ بھی رہ گیا تھا.اب نظر ثانی کے بعد وہ ترجمہ بھی آگیا ہے.اور یہ ترجمہ کرتے وقت اس بات کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ اگر حضور کا اپنا ترجمہ اس حصہ کا مل جائے تو وہی رکھا جائے.یادہ فقرے جو قرآن کریم کی دوسری آیات میں آتے ہوں ان کے ترجمہ کو بے لیا جائے اور اپنی طرت سے کوئی بات زائد نہ کی جائے.یا کا تب صاحب نے کہیں غلطی کی ہو تو اس کو دور کر دیا جائے یا اگر اس نے اپنی طرف سے کچھ زائد لکھ دیا ہو تو وہ زائد حصہ نہ رہے.مثلاً قرآن کریم میں بے شمار جگہ خدا تعالیٰ کا اسم ذات اللہ آیا ہے ، اب جب ہم ترجمہ کریں گے تو اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی کوئی اور صفت نہیں نائیں گے.مثلاً " تعالیٰ کا لفظ اس
۵۳۸ کے ساتھ نہیں لگے گا.لیکن تغییر صغیر کے پہلے ایڈیشن میں بہت جگہ جہاں اللہ کا لفظ تھا وہاں کا تب نے اس کے ساتھ تعالیٰ کا لفظ بھی لکھ دیا ہے.اب شروع سے لے کر آخر تک ترجمہ ایک جیسا کر دیا گیا ہے.پس اس قسم کی جو غلطیاں تھیں ان کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے.پھر تغیر صغیر کے پہلے ایڈیشنوں کے آخر میں کچھ نوٹ بطور منیجر کے تھے اس لیے ان کے پڑھنے میں بڑی دقت ہوتی تھی.اب وہ سارے نوٹ آیات کے نیچے آ گئے ہیں.تغیر صغیر کی نظر ثانی میں مکرم مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب نے بڑا حصہ لیا ہے.کرم شمس صاحب نے بھی کام کیا ہے.حکیم ابوالعطاء صاحب نے بھی ایک حد تک کام کیا ہے.اور پر دن ریڈنگ کے وقت کرم میاں عبدالحق صاحب رامہ نے بھی کام کیا ہے.رامہ صاحب پر دن اچھی طرح دیکھتے ہیں.چنانچہ ان کے سامنے سبب بھی کوئی چیز آئی.انہوں نے نہیں اس کی طرف توجہ دلائی اور خاکسار بھی اللہ تعالی کے فضل سے شروع سے آخر تک اس کام میں شریک رہا.اس کے علاوہ اللہ کی حکمت اور ارادہ سے ان دوستوں نے بھی جنہوں نے اس کے بلاک بنائے بانہوں نے اسے چھاپا اتنی محبت اور پیار سے یہ کام کیا ہے کہ حیرت آتی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر عطا کرے.با وجود اس کے کہ تفسیر صغیر یہ بہت خرپا آیا ہے اور اس پر ایک پلاسٹک کور بھی ہے اس کی قیمت صرف ۲۵ روپے رکھی گئی ہے.لاہور کے بہت سے دوکاندار بھی مطالبہ کرتے تھے کہ ان کے پاس تغیر صغیر رکھی جائے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس کی ہجر میں بہت ہو گی.لیکن ان کی شرط یہ تھی کہ پانچ روپے فی نسخہ وہ کمیشن لیں گے.ہمارا خیال تھا کہ اس پر نفع لینے کی بجائے اسے زیادہ سے زیادہ ہاتھوں میں پہنچایا جائے.اور جماعت کے دوست بھی اور غیر انہ جماعت دوست بھی تو اس میں دلچسپی رکھتے ہوں.اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں.اور اس کا حل ہم نے یہ سوچا ہے کہ پہلے تین ماہ کے لیے اس کی رعایتی قیمت بنیں روپے ہو گی.احباب اس قیمت پر ا سے حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس عرصہ کے گزرنے کے بعد یہ اصل قیمت پر طے گی.جو دکانداروں سے خریدیں گے وہ تو بہر حال
۵۳۹ غیر اسے ۲۵ روپے میں ہی خریدیں گے.تین ماہ کے لیے قیمت میں جو رعایت دی گئی ہے.اس میں یہ شرط ہو گی کہ تم تین ماہ کے اندر اندر داخل کرا دی جائے.خالی وعدہ ہی نہ ہو.جھے یہ بھی خیال آیا کہ عید بھی قریب ہے اور عید کے موقعہ پر بعض بچوں کی عیدی کم و بیش ہیں ر و پلے ہو جاتی ہے.اور بچے اس رسم کو کھلونوں اور دوسری قسم کی لغویات پر خرچ کر دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں ہماری عیدی ہے جاں پر ہم چاہیں خریچ کریں.اگر احمدی بچے جن کی عیدی کم و بیش ہیں روپے ہو اپنی عیدی کی رسم سے یہ کتاب خریدیں تو ہر ایسے بچے کو میری طرف سے ایک روپیہ بطور عیدی کے دیا جائے گا.دوستوں کو چاہیئے کہ حسب ضرورت زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہ تفسیر خریدیں.لیکن یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ ان کے پاس فالتو پڑی رہے.اس تغیر کی مانگ غیروں میں بہت ہے اگر یہ تفسیر ان کی نظر میں آجائے تو وہ بڑے شوق سے اسے لیں گے بلکہ بہت سے دوکانداروں نے تو یہ کہا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کا ترجمہ معہ تفسیری نوٹ ہم فروخت کرتے ہیں.اگر آپ یہ تغیر ہمارے پاس رکھوا دیں تو لوگ اسے زیادہ شوق سے خریدیں چونکہ تفسیر صغیر کی اشاعت کی ذمہ داری بغیر عکسی کی طباعت پر کارکنوں کیلئے اظہار خوشنودی عکس ک ادارۃ المصنفین کے ذمہ تھی.اس لیے عکس ایڈیٹ کا اہتمام بھی ادارۃ المصنفین نے کیا تھا.حملہ کارکنان ادارہ نے نہایت محنت اور جانفشانی سے کام کر کے اس عکسی ایڈیشن کو بہت ہی خوبصورت اور دیدہ زیب بنا دیا.لکھائی.بلاکس.طباعت اور جلد بندی اتنی اعلیٰ تھی.کہ عکسی ایڈیشن کی طباعت کو چار چاند لگ گئے.سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالت نے کارکنوں کی محنت کی قدر فرماتے ہوئے ان کو انعامات اور خوشنودی سے نوازا اور درج ذیل کارکنوں کو حضور کے دست مبارک سے قصر خلافت میں حاضر ہو کر انعامات لینے کی سعادت حاصل ہوئی.مولوی ابوالمیز نور الحق صاحب مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ ۵۰۰ روپے کی تھیلی للہ نہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ ء مشتا۱۰
۵ ۲- قاضی منیر احمد صاحب کارکن ادارة المصنفين ربوه لطیف احمد صاحب -- روپے کی تھیلی علاوہ ازیں حضور نے مولوی ابوالمنیر نوراحقی صاحب کو اپنے دستخطوں سے مندرجہ ذیل الفاظ پرمشتمل ایک تعریفی سرٹیفکیٹ بھی عطا فرمایا.ريسم الله الرحمن الرحيم عمل ما احلى على رسوله الكريمي امام جماعت احمدی مکرمی الو المنير نورالحق صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ نے جس محنت اور اخلاص سے تفسیر صغیر کا عکسی انڈیشن چھپوانے کا انتظام کیا ہے.میں اس کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کی اس محنت کو قبول فرمائے اور قرآن مجید کی خدمت کے ساتھ جس قدر برکات وابستہ ہیں وہ آپ کو عطا کرے ، اور آپ کو اور آپ کی اولاد کو بہت برکت دے ، امین السلام خلیفة المسیح الثالث ۱۶ اپریل ۶۱۹۶۶
OM تغیر صغیر کی اشاعت سے دنیائے ترجمہ قرآن مجید میں ایک انقلاب تفیہ صغیر کی غیر معمولی مقبولیت معمولی مقبولیت راتیں آگیا.کیونکہ یہ ترجمہ ایساسلیس با محاورہ اور آسان تھا کہ ہر شخص قرآن مجید کے بیان کردہ مفہوم کو بآسانی اخذ کر سکتا تھا.عشاق قرآن شمع قرآن کے حصول کے لیے پروانہ دار پہنچے اور ہر احمد می خاندان نے کوشش کی کہ اس کا ہر فرد اپنا علیحدہ نسخہ حاصل کرے تا قرآن مجید کے مفہوم و علوم سے ہر وقت جہاں کہیں ہو.بہر در ہوتار ہے.اسی طرح ہر جماعت میں قرآن مجید کا درس دیا جانا اس سے بہت آسان ہو گیا.اور ہر چھوٹے بڑے نے اس سے استفادہ کیا.غیر از جماعت احباب نے بھی سے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا.اور اس کے مطالعہ کے بعد اس کا گردیدہ ہو گیا.تفسیر صغیر کے پہلے ایڈیشن کے شائع ہونے سے لیکر اب تک اس کی اس قدر مانگ رہی ہے کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بھارت میں بھی متعدد ایڈیشن شائع ہوئے.اور اس کی نا یا بی کو ایک نقصان عظیم سمجھایا.تغیر صغیر کو اپنوں کے علاوہ دوسروں اور بیگانوں میں غیر معمولی مقبولیت تغیر صغیر دوسروں کی نظر میں حاصل ہوئی جس کا زمانہ حسب ذیل تاثرات سے بآسانی لگایا جاسکت ہے :.ا - اخبار امروز (لاہور) نے ۳۰ رمئی ۱۹۶۶ ء کی اشاعت میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:.مضمر: الحاج مرز البشیر الدین محمود مرحوم - ضخامت : - ۵۳ صفحات - ہدیہ پچیس روپے.ناشر ادارة المصنفى ربوہ ضلع جھنگ.قرآن حکیم پوری بنی نوع انسان کے لیے رشد و ہدایت کا منبع دوست پیشہ ہے.انزل سے رہتی دنیا تک، به کتاب مبین انسانوں کو دینی اور دنیوی معاملات میں عدل کا راستہ دکھاتی رہے گی اور بھوئے میشکوں کو صراط مستقیم پر لاتی رہے گی.قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے.زندگی کا کوئی سا شعب کوئی سا گوشہ اور کوئی سامرحلہ ایسا نہیں ہے جہاں ہم قرآن سے استمداد نہ کر سکتے ہوں.لیکن ظاہر ہے کہ اس کے لیے مطالب قرآن پر حاوی ہونا لازم ہے.جب تک قرآن میں منضبط احکام خداوندی کے مفاہیم کا انشراح ہی نہ ہو گا.رشد و ہدایت کا سلسلہ کیسے شروع ہوگا.اسی ضرورت کے پیش نظر قرآنی مطالب کی تشریح و تفسیر کا سلسلہ شروع ہوا اور نزول قرآن سے لے کہ اب تک اور پھر اب تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا.جن لوگوں نے قرآنی فہمی عام کرنے کے سلسلہ میں کوئی سا حصہ بنایا ہو
۵۴۴ یقینا ، تشکر کے مزادار ہیں معترین نے اپنے اپنے دور میں قرآنی بصیرت کو عام کرنے ہیں جو کا وشیں کیں وہ اس لحاظ سے بھی ستحسن قرار پائیں گی کہ اس طرح تفسیر قرآن نے ایک باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کرلی اور مطالب در معانی کے ابلاغ کے باب میں تشخص کی ایک پختہ روایت قائم ہوگی.محمد اللہ یہ سلسلہ جاری ہے اور رہے گا.اس وقت تغیر صغیر پیش نظر ہے یہ تفسیر احمدیہ جماعت کے پیشوا الحاج مرزا بشیر الدین محمود مرحوم کی کا وش فکر کا نتیجہ ہے.قرآن کے عربی متن کے اردو ترجمے کے ساتھ کئی مقامات کی تشریح کے لیے حواشی اور تغییری نوٹ دیئے گئے ہیں.رجمے اور توانی کی زبان نہایت سادہ اور آسان فہم ہے.تغیر میر حسن کتابت اور حسن طباعت کا مرقع ہے.ہدیہ صرف ۲۵ روپے ہے جو لاگت سے بھی کہیں کم ہے.لاہور کے مشہور ہفت روزه قندیل (۱۹ جون ۱۹۶۶ء) نے تفسیر صغیر پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا.قرآن مجید کا بالمحاوره اردو ترجمہ مع مختصر نفيس ادارة المصنعين ربوہ سائز ۳۲ ۲۰ ملا انت ۳۵۴ صفحات بدیہ ( عکسی اعلیٰ کا غزہ پچیس روپے.انجمن حمایت اسلام لاہور اور تاج کمپنی لمیٹڈ کی طرف سے قرآن حکیم کی طباعت میں جو خوش ذوقی کا ثبوت دیا جاتارہا ہے وہ قابل تحسین ہے.تفسیر صغیر کی اشاعت سے اس ردح آفرین سعی میں اضافہ ہوا ہے قرآن پاک کا یہ نسخہ اول سے آخر یک اعلی ترین آرٹ پیپر پر شائع کیا گیا ہے نسخ و نستعلیق دونوں خط فن کتابت کے عمدہ ترین نمونے پیش کر رہے ہیں.آفسٹ کی طباعت کے باعث طباعت صاں اور.دیدہ زیب ہے.جلد عمدہ اور مضبوط اور اس پر پلاسٹک کا جاذب نظر غلاف ہے." غیر میر میں ترجمہ اور تغیر امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی کا وش کا نتیجہ ہے.ترجمرا در حواشی کی زبان عام فہم ہے تاکہ ہر علمی استعداد کا آدمی اس سے مستفید ہو سکے.ترجمہ اور تفیرمیں یہ التزام بھی ہے کہ جملہ تفاسیر منتقد میں آخر تک پیش نظر رکھی گئی ہیں.ابتداء میں حروف تہجی کے اعتبار سے مضامین و مفاہیم کے تین معلومات آخرین انڈکس بھی شامل کیے گئے ہیں جس سے قاری کو مختلف آیات تلاش کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے.قرآن مجید کو اس خوبصورتی سے طبع کرا کے شائع کرنا ایک بہت بڑی خدمت اسلام ہے.پھر قیمت سه امروز (لاہور) ۳۰/مئی ۱۹۶۶ء ص۳
۵۴۲ اس لاگت کے مقابلے میں بہت کم رکھی گئی ہے سیلہ - رسالہ سیارہ ڈائجسٹ "کراچی قرآن نمبر" نے قرآن مجید کے اردو تراجم و تغییر" کی فہرست شائع کی جس کے چالیسویں نمبر پر تغیر صغیر کی نسبت حسب ذیل الفاظ میں نوٹ دیا : - نام مترجم یا منتر نام ترجمه یا تغیر مقام اشاعت | مطبع سن طباعت فنی ۹۵۴ ۶۱۹۶۶ نم بشیر الدین محمود احمد مرزا ترجمہ قرآن مع لا ہور نقوش پریس نقوش پریس ۶۱۹۶۶ ر خلیفہ ثانی جماعت احمدیہ تفسیر صغیر کیفیت - ۱۹۶۶ء میں بہترین ایڈیشن آرٹ پیپر پر بڑی نفاست سے چھپا.صفحہ دو کالی ہے ایک میں تمن اور دوسرے میں ترجمہ حاشیہ میں تغییری نوٹ دیئے گئے ہیں.پہلا ایڈیشن ۱۹۵۶ء میں ربوہ سے شائع ہوا ہے ۴ - سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ریاست دہلی نے تغیر صغیر کے متعلق ہی گیانی عباد اللہ دلیر سالہ سکھ ازم کے نام دو مکتوب لکھے جن کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے :.DEHRADUN (INDIA) 25,7,1966 محترم! ابھی تفسیر صغیر بذریعہ پارسل ملی.گیٹ اپ کو دیکھ کر دلی مسرت نصیب ہوئی.بہت بہت شکریہ میر می ایمانداری کی رائے یہ ہے کہ تبلیغ واشاعت کے اعتبار سے آپ کی جماعت نے جتنا کام پچھلے پچاس ساٹھ برس کیا اتنا کام دنیا کے مسلمانوں نے پچھلے تیرہ سو برس میں نہ کیا ہو گا.اسلام کی اس عظیم الشان خدمت کی موجودگی میں احمدی جماعت کو اسلام کے لیے نقصان رساں کہنا انتہائی کذب بیانی ہے میں اپنے ان خیالات کا اکثر غیر احمدی حضرات سے اظہار کیا کرتا ہوں.Diwan Singh, MaftOPN (Editoy The Rivasat Dehra Dun و نیازمند دستخط ( دیوان سنگھ مفتون) ل بجواله الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۶ء صفحہ ۲:۵ صفحه ۸۶۴
DIWAN SINGH MAFTOON ۵۴۴ Dehra DN (INDIA) Aug, 11th 1966 مانی دیر گیانی صاحب آپ کا خط ملا.تفسیر صغیر لی گئی تھی.نہیں اس سے پہلے پہنچنے کی اطلاع دے چکا ہوں.اور خط بھی لکھا تھا.میری رائے یہ ہے کہ آپ کی جماعت نے اسلام کے متعلق مینی تبلیغ پچھلے پچاس ساٹھ برس میں کی اتنی تبلیغ دنیا کے مسلمانوں نے پچھلے تیرہ سو برس میں نہ کی.تفسیر کی چھپوائی وغیرہ لاجواب ہے نیاز مند (دیوان سنگھ ) -
۵۴۵ فصل دوم قادیان اور ربوہ کے بابرکت سالانہ جلسے جلسه قادیان ۷٫۶ ۸۰ را کتوبه ۱۹۵۷ء کو اپنی سابقہ روایات کے مطابق منعقد ہوا.اس بابرکت روحانی اجتماع میں بھارت کے دور دراز صوبوں کے علاوہ پاکستان اور انڈونیشیاء سے بھی بعضی احمد می تشریف لائے.حضرت مصلح موعود نے اس مقدس تقریب پر حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا.جو صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے پڑھ کے سنایا.مد قادیان کو رجماعت احمدیہ) کا مرکز بنانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا تھا.اور مہندوستان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالٰی نے بھیجا تھا.خدا تعالیٰ جب کسی ملک میں مامور بھجواتا ہے.تو اس کے منے یہ ہوتے ہیں کہ اس کام کے چلانے کی ذمہ داری اس ملک والوں پر ہوتی ہے.میرا پیغام تو یہی ہے کہ مہند دوستان کے اصحاب ربوہ اور پاکستان کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کی عادت چھوڑ دیں اور اس بات کو پوری طرح ذہن نشین کرین که مرکز احمدیت خدائی فیصلہ کے مطابق ہندوستان ہے اور شہروں کے لحاظ سے قادیان ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید لڑائی کے سوا پاکستان اور سند دستان آپس میں جمع نہیں ہو سکتے.لیکن یہ محض مایوسانہ خیالات ہیں.اگر اسلام مشرقی پنجاب اور اس کے ساتھ ملتے صوبوں میں پھیل جائے تو پاکستان اور مہند وستان کے دل فوراً مل جائیں گے اور بغیر لڑائی کے متحد ہو جائیں گے.پس خدائی ذرائع کو اختیار کرو تا کہ انسانی وحشی خیالات کے پھیلنے کا موقعہ نہ
۵۴۶ ہے.خدائی ہتھیار یہی ہوتا ہے کہ دلوں کی صفائی ہو اور انسانی متخیار یہ ہوتا ہے کہ سر کا ٹا جائے پس خدائی ہتھیاروں کی طرف توجہ کرو تا کہ انسانی تہتھیاروں کی ضرورت نہ رہے یا جلسہ سالانہ سے بھارت کے شہد ہوراحمدی علماء کے علاوہ سید اختر احمد صاحب اور نیوی پر و فیسر ا سر براہ شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی نے اور احمد نور صاحب انڈو نیشین نے بھی خطاب فرمایا یہ اس موقعہ پر مصر، انڈونیشیا، افریقہ، امریکہ وغیرہ جماعتوں کی طرف سے متعد د بر غیر پیغامات موصول ہوئے.بھارت کی ممتاز مسلم شخصیات میں سے جناب ڈاکٹر سید محمود احمد صاحب سابق وزیر خارجہ کورت ہند نئی دہلی اور جنا خواجہ حسن نظامی صاحب ثانی رگدی نشین درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نئی دہلی ) کے پیغامات موصول ہوئے جن میں جماعت احمدیہ کی دینی خدمات پر خراج تحسین ادا کیا گیا تھا.ڈاکٹر سید محمود احمد صاحب کا پیغام حسب ذیل الفاظ میں تھا : - آپ کے دعوت نامہ کا بہت بہت شکریہ.افسوس ہے کہ میں بوجہ مصروفیات جلسہ میں شامل نہیں ہو سکوں گا.میں اگر چہ احمدی نہیں ہوں لیکن میرے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح اور احمد یہ جماعت کے متعلق انتہائی طور پر احترام کے جذبات ہیں بوجہ اس کے کہ وہ اسلام کے لیے بے لوث خدمات اور بے غرضانہ کام سرانجام دے رہے ہیں : خواجہ حسن نظامی صاحب ثانی نے اپنے پیغام میں تحریر فرمایا کہ : - آپ لوگ ایسی عمدگی اور مستقل مزاجی سے تبلیغ کرتے ہیں کہ مجھے رشک آتا ہے.....مجھے آپ کی جماعت کے بہت سے عقائد سے اختلاف ہے.لیکن یہ اختلافات اپنی جگہ اور آپ لوگوں کی مستعدی اور اپنی جماعت کی خدمتوں کا اعتراف اپنی جگہ ہے.کوئی بھی انصاف پسند آدمی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ قادیانی مبلغوں جیسے دھن کے پکتے مبلغ بہت کم جماعتوں کو میتر ہیں؟ بعض غیر سلم معز ز ی نے بھی اپنے دلی جذبات خلوص پر مشتمل پیغامات بھیجے مثلا مشتری پنڈت نوسین لال - له بده را کنتر به ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۷ ء میں تفصیلی روداد درج ہے
۵۴۷ سے فنانس سنٹر مشرقی پنجاب مسٹر آر.ایل کپور صاحب انجینر میرٹھ.مسٹرا ہے.ایم ڈاکٹر پنجاب نیشنل بنگ دہلی.کیپیٹی جگت سنگھ صاحب اسسٹنٹ ریکروٹنگ آفیسر امرتسر محترمہ من التفسیلین دیلیس صاحبہ چنڈی گڑھ لیے بھارت کے بااللہ انگریزی روز نامه" ہندوستان ٹائمز (HINDUSTAN TIMES) نے اپنی ۲۵ اکتوبر ، ۱۹۵ ء کی اشاعت میں لکھا :- احمدیوں کا قادیان میں اجتماع دین اسلام کو پھیلانے کی ترغیب.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح امام جماعت احمدیہ نے اپنے خاص پیغام میں ہو آپ نے ہندوستانی احمدیوں کے لیے جلسہ سالانہ پر بھجوایا اور جو جلسہ قادیان کے افتتاحی اجلاس میں پڑھو کرشنا یا گیا فرمایا.اسلام کی تبلیغ کو مشرقی پنجاب اور قریب کے صوبہ جات میں پھیلاؤ.یہی ایک ذریعہ ہے جس سے پاکستان اور ہندوستان کے دل مل سکتے ہیں.جلسہ کے موقعہ پر انڈونیشیار ، مصر، مغربی دمشرقی افریقہ سیلون - صوبجات متحدہ امریکہ اسپین اور پاکستان کے مشہور احمد یوں کی طرف سے بھی پیغامات موصول ہوئے جو اجلاس میں پڑھے گئے.اس تقریب میں تقریبا بارہ صد احمد می اور ایک ہزار سکھ اور ہندو شال ہوئے پاکستان سے صرف میں احمد ہیں جن میں پانچ مستورات بھی شامل تھیں آئیں ڈاکٹر سیدمحمود احمد صاحب رسابق وزیر خارجہ ہندوستان) نے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ احمدیہ جماعت میں شامل نہیں.لیکن خلیفہ صاحب اور جماعت احمدیہ کو بہت عزت واحترام کے جذبات سے دیکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اسلام کی بے غرضانہ خدمت میں وقف کیا ہے جلسہ میں مندرجہ ذیل مشہور احمد می شامل ہوئے :- ڈاکٹر سید اختر صاحب آن پٹنہ یونیورسٹی پروفیسر عبد السلام بنارس یو نیورسٹی.مسٹر محمد ایوب.اے ڈی له بدر ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۷ء ص ۱۲ : سے یہ صحیح نہیں.اگر چہ اس سال اند پاکستان کی باقاعدہ اجازت نہیں مل سکی.پھر بھی ۳۵۰ پاکستانی احمدی دیزا سے شامل جلسہ ہوئے ( بدر، ا ر اکتوبر ۱۹۵۷ عصر)
۵۴۸ انیم جوبه بهار مولوی محمد اسمعیل صاحب وکیل یاد گیر (دکن) اور مسٹر شرافت خاں اڑیسہ.تین دن تک حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے پیروؤں سے روحانی اسماجی ، ثقافتی اور جماعت احمدیہ کے انتظامی امور پہ تقاریر کیں مستورات کا جلسہ علیحدہ ہوا (ترجمہ) روز نامہ ٹائمز آف انڈیا مورخہ ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۷ ء میں اس مبارک جلسہ کی حسب ذیل خبر چھپی :- اسلامی تعلیمات کو پھیلاؤ.احمدیت کا پیغام حضرت خلیفہ المسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے اپنے خصوصی پیغام میں جو آپ نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر سمند دستان احمدیوں کے نام بھجوایا فرمایا اسلامی پیغام کو مشرقی پنجاب اور قریب کے صوبوں میں پھیلاؤ یہی ایک طریق ہے جس سے ہندوستان اور پاکستان کے دل متحد ہو سکتے ہیں اور وہ بغیر جنگ کے اکٹھے ہو سکتے ہیں.آپ نے ہندوستانی احمدیوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ پاکستان یار بوہ راحمدیہ جماعت کے پاکستانی مرکزہ) کی طرف نظرنہ اٹھائیں کیونکہ خدا تعالی کے منشاء کے ماتحت ملکوں میں سے مہند دوستان اور شہروں میں سے قادیان احمدیہ جماعت کے روحانی مراکز ریں کیونکہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مع موجود بالی سلسلہ احمدیہ قادیان کی ولادت قادیان میں ہوئی اتر جیا جلسہ سالانہ ریوه - ۲۸/۲۷/۲۶ دسمبر کو شمع احمدیت کے ستر ہزار پر دانوں کا ربوہ میں عدیم المثال اجتماع ہوا اور دنیا نے ایک بار پھر دیکھا کہ تحریک احمدیت کو مخالفتوں اور عداوتوں کے طوفانوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کی خارق عادت تائید و نصرت حاصل ہے.اس کامیاب جلسہ میں پاکستان کے علاوہ ہالینڈ ، انگلستان، جرمنی مشرقی افریقہ اور ہندوستان سے بھی بعض مخلصین نے شرکت فرمائی اور امام ہمام سیدناحضرت مصلح موعود کے روح پر در خطاب اور سلسلہ کے دیگر بزرگوں اور علماء عظام کی فاضلانہ تقاریر سے مستفید ہوئے ہے حضور نے اپنی افتتاحی تقریرہ میں تغیر ضیغر ، تبویب مسند احمد بن منبل جلدا کی اشاعت اور تاریخ نه سجواله "بدر" قادیان ۱۴/ نومبر ۶۱۹۵۷ ۹ له الفضل بیکم جنوری ۵۸ مات
۵۴۹ احمدیت کی تدوین کے آغاز کا ذکر کرنے کے بعد بتایا کہ یہ جماعت احمدیہ کا ، 4 واں جلسہ ہے.اس عرصہ میں ہم اتنی دشمنیوں سے گزرے ہیں کہ گو یا ہم نے تلواروں کے نیچے اپنا سر رکھا اور اس طرح ، ۶ سال گزار دیئے اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ایمانوں میں روز افزوں زیادتی ہوئی اور ہوتی چلی جارہی ہے.چنانچہ آج سے ایک سال قبل ایک احمدی میں جتنی طاقت متی آج اس سے دس گناہ زیادہ طاقت اس میں موجود ہے......بلکہ اب تو ہماری عور تیں بھی ایسی ہیں جو مردوں سے زیادہ دلیر ہیں.حضور نے چھنڈ بھروانہ (ضلع جھنگ) اور منگلہ (ضلع سرگودہا ) کی مخلص اور نئی احمد می جماعتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک احمدی خانوں کے جوش تبلیغ کی خاص طور پر مثال دی اور اس کے دلچسپ تبلیغی وافتقات سنائے اور دنیا بھر کے احمدیوں کو پُر زور تلقین فرمائی کہ عہد کریں کہ ہر احمدی سال میں کم از کم ایک سو آدمیوں " کو سلسلہ کا لٹریچر مزور پڑھائے گا.تقریب کے آخر میں حضور نے ایک خواب کی بناء پر فرمایا کہ :- خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ دن جلد آنے والا ہے جب ہما را چندہ ساٹھ لاکھ ہو جائے گا اور اگر صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ کے ساتھ تحریک جدید کے بجٹ کو بھی لایا جائے تو جماعت کا کل بجٹ ایک کروڑ ہیں لاکھ ہو جاتا ہے اور اگر ایسا ہو جائے تو بہاولپور اور خیر پور کی آمد سے بھی ہمارا سالانہ بجٹ بڑھ جائے گا اور اگر خدا تعالیٰ نے مزید ترقی دی تو پاکستان کی آمد سے بھی صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی آمد زیادہ ہو جائیگی بلکہ ہم تو اس امید میں ہیں کہ امریکہ، روس ، انگلینڈ ، جرمنی اور فرانس کی آمد کو اگر ملالیا جائے تب بھی صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی آمد اس سے زیادہ ہوتا کہ یورپ اور امریکہ میں ہم پانچ ہزار....(خدا کے گھر ) سالانہ تعمیر کر سکیں ہے حضور کی دوسری نظر یہ حسب معمول سال گذشتہ کے کام پر تبصرہ اور نئے سال کے پروگرام سے متعلق مفتی.سب سے قبل حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی اور مجلس النصار اللہ ملتان کو اپنے دست مبارک سے علم انعامی عطا فرمائے پھر کریم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسله مولوی جلال الدین منا شمس ، مولوی البوالمنیر نور الحق صاحب ، مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی انٹی عبدالحق له الفضل در جنوری ۱۹۵۸ اومت داصل تقریر میں خدا کا گھر کی بجائے مساجد کا لفظ ہے
صاحب کا تب منشی محمد اسماعیل صاحب کا تب اور منشی انوار احمد صاحب سنگ ساز کو اظہار خوشنودی کے طور پھر انعامی تھیلیاں عطا فرمائیں محترم ملک صاحب موصوف کی زیر نگرانی مسند احمد بن حنبل کی تبویب کا جو عظیم الشان کام ہوا یہ انعام اس سلسلہ میں تھا اور باقی اصحاب تغیر صغیر میسی شاندار تالیف کی یہ وقت اشاعت کے مثالی کارنامہ کے باعث مستحق انعام فرار پائے تھے.حضور نے پچھلے سال رسائل خلافت کے امتحانات میں اول، دوم، سوم آنے والوں کو انعام دینے کا اعلان فرمایا.اس کے مطابق حضور نے اس موقع پر مندرجہ ذیل اصحاب کو انعامات عطا فرمائے.: ا.مرزا برکت علی صاحب آف قادیان (انصار اللہ میں اول) -۲- مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ لاہور (دوم) - ڈاکٹر محمد الدین صاحب چکوال رسوم ) -۴- چوہدری نذیر احمد صاحب سیالکوٹی لاہور چھاؤنی (خدام الاحمدیہ میں اول) ه - مولوی محمد سلطان اکبر صاحب بی اے ضلع سرگودہا (دوم) " مرزا منور احمد صاحب ریوه ۷ - مکرم عبدالمنان صاحب ناہید کیمبل پور رسوم ) رسوم ) لجنہ اماءاللہ میں محترم حمودہ بیگم احد صاحب کراچی نے اول ، محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ بنت چوھدری عبدالحمید صاحب روہڑی نے دو اورمحترمہ عائشہ بیگم صاحبہ نے سوم پوزیشن حاصل کی تھی.حضور کے ارشاد پر جلسہ خواتین میں انکو انعامات تقسیم کر دیئے گئے.تقسیم انعامات کے بعد حضور نے تغیر صغیر کی اشاعت اور فلپائن میں رونگو نفوس کے قبول احمدیت کی خوشخبری سنائی چنانچہ فرمایا : اس سال خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک تو تغیر صغیر یعنی قرآن کریم کا اردو ترجمہ اور منفر تغیر شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے یہ اس سال کا کارنامہ ہے جو دوست اس تغییر کو پڑھیں گے وہ انشاء اللہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے یہ کام صرف 3 ماہ میں ہوا ہے یعنی مٹی کے آخر میں یہ کام مشروع ہوا تھا اور اگست کے شروع میں یہ کام مکمل ہو گیا تھا دوسرے علماء جو ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے وہ اس کا مقابلہ اگر دوسری تغیر دں سے کریں.خواہ وہ انگریزی میں ہوں یا عربی زبان میں تو ان کو پتہ لگے گا کہ
۵۵۱ به تغیر خدا تعالیٰ کے فضل سے ان پر سر لحاظ سے غالب ہے اور گو یہ تغیر صغیر ہے مگر اس میں بعض معنا مین ایسے آگئے ہیں جو تفسیر کبیر میں بھی نہیں.ملک غلام فرید صاحب جو انگریز می تفسیر القرآن لکھ رہے ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے ایک نسخہ تغیر صغیر کا جلد مھجوا دیا جائے تاکہ میں انگریزی تفسیر القرآن کے مسودہ میں مناسب جگہوں پر اصلاح کرلوں یا اضافہ کرنے کی ضرورت ہو تو اضافہ کردوں چنانچہ ان کو کتاب بھجوا دی گئی ہے.گو شروع میں صرف ایک ہزار کی اشاعت کا اعلان ہوا تھا مگر اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے تین ہزار چھ سو کی درخواستیں آچکی ہے مگر پیپس اتنی تعداد میں تغییر چھاپ نہیں سکا اس لیے جن لوگوں کی خریداری کے لیے درخواستیں آئی ہوئی ہیں انہیں باری باری اور آہستہ آہستہ تفسیر دیدی جائینگی.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تفسیر میں اکثر مضامین آگئے ہیں پہلے خیال تھا کہ اس کے بارہ سو صفحات ہوں گے گر بعد میں مضمون لیا ہو گیا.چنانچہ آپ اصلی تفسیر کے تیرہ سو بیس صفحات میں اور ہم صفحات صمیمہ کے ہیں جو نوٹ بلے ہو گئے ہیں انہیں تغیر کے آخر میں بطور ضمیمہ لگا دیا گیا ہے.پھر ۱۲ صفحات کی فہرست مضامین بھی جسے انگریزی میں انٹریس ) کہتے ہیں کتاب کے شروع میں لگا دی گئی ہے یہ انڈیکس ( INDEX تناد سیخ ہے کہ پہلے تمام انڈیکسوں سے اعلیٰ ہے اور ہے اور ان سے بہت زیادہ مضامین اس میں آگئے ہیں.، ترجمہ کے متعلق یہ خیال رکھا گیا ہے کردد با محاورہ ہو اس سے پہلے تمام تراجم قریباً تحت اللفظ ہوتے تھے یعنی عربی زبان میں میں لفظ کا جو مقام ہوتا تھا اس کو بیان کر دیا جاتا تھا لیکن اس میں یہ نقص ہوتا تھا کہ اردو جاننے والا جس کو قرآن کریم سمجھانا مقصود ہوتا تھا اس کے معنی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا لیکن بامحاورہ ترجمہ سے ہر اردو جاننے والا قرآن کریم کا مفہوم آسانی سے سمجھ سکتا ہے اس لیے ہم نے با محاورہ ترجمہ کیا ہے اور عربی زبان کے لحاظ سے جو مقام میں لفظ کا تھا اسے ترجمہ کے نیچے نوٹ میں ظاہر کر دیا ہے اس کے علاوہ قرآن کریم کے مختصر مضامین بھی درج کر دیئے ہیں.اس طرح ترجمہ با محاورہ بھی ہوگیا ہے تحت اللفظ بھی ہو گیا ہے اور تغیر بھی ساتھ آگئی ہے.غرض یہ کہ تغیر کو مختصر ہے مگر ایسی مکمل ہے کہ بعض مضامین اس میں ایسے آگئے ہیں کہ وہ تغیر کبیر میں بھی نہیں آئے.اب جو شخص تغیر کبیر کی طرح ان نوٹوں کو پھیلانا چا.گا وہ انہیں پھیلا سکے گا.اور جو شخص انہیں پھیلانے کی قابلیت نہیں رکھتا وہ قرآن کریم کے مفہوم سے واقف ہو جائے گا.
۵۵۲ دوسری چیز جو خدا تعالیٰ نے نہیں دی ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے سال میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک پر تقریر میں کہا تھا کہ گوتم نے اب تک خائن میں اپنا کونی مبل نہیں بھیجا مگر تاہم وہاں تک کے افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے ہیں اب اطلار ہیں اب اطلاع آئی ہے کہ وہاں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے والوں کی تعداد ۲۰۰ تک پہنچ گئی ہے.ان لوگوں میں سکولوں اور کاہلوں کے طالب علم اور گورنمنٹ کے بعض بڑے بڑے افسر جیسے محکمہ تعلیم کے افسران اور اس طرح بعض دوسرے محکموں کے افسر شامل میں بعض سکول اور کالج ایسے ہیں جن کے طلباء کی ایک بڑی تعدا د احمدیت میں داخل ہو چکی ہے پس کیا لحاظ کمیت اور کیا بلحاظ کیفیت دونوں لحاظ سے اللہ تعالی نے ہمیں فلپائن میں فتح عظیم بخشی ہے فلپائن کوئی معمولی مک نہیں بلکہ بڑا اہم ملک ہے اس کو ابتداء میں سلمانوں نے فتح کیا تھا بہت قدیم زمانہ میں مسلمان سیلون آئے سیلون سے انڈونیش گئے اور انڈونیشیا سے جا کہ انہوں نے فلپائن فتح کیا.بعد میں اس پر سپین نے قبضہ کر لیا اور پھر سپین سے یہ ملک امریکہ نے چھین لیا اور سپین والوں نے مسلمانوں کو بالجبر عیسائی بنایا.چنانچہ ایک جگہ پر تلوار شکاوی گئی اور اعلان کر دیا گیا کہ ہومسلمان اس کے نیچے سے گزرتے ہوئے عیسائیت کا اقرار کرے گا اس کو جائے گا لیکن جو عیسائیت کا اقرار نہیں کرے گا اس کی گردن اسی تلوار سے اڑا دی جائے گی.اس طرح فلپائن کے سارے مسلمان باشندوں کو ایک ہی دن میں عیسائی بنا لیا گیا پس فلپائن کوئی معمولی ملک نہیں بلکہ اس کی حیثیت اسپین سے دوسرے نمبر پر ہے اس جگہ ہمارے سلسلہ کا پھیل جانا بڑی برکت کا موجب ہے.خصوصاً اس لیے بھی کہ اس ملک کی رومن کیتھولک حکومت ہمارے مبلغوں کو نہ صرف وہاں جانے نہیں دیتی بلکہ وہاں کے نومسلموں کو پڑھنے کے لیے ربوہ نہیں آنے دیتی.اب خبر آئی ہے کہ برابر تین سال کے جھگڑے کے بعد حکومت نے ایک نو مسلم کو ربوہ آنے کی اجازت دیدی ہے اور اس کے متعلق یہ بھی یقین نہیں کہ وہ یہاں آبھی سکے گا یا نہیں بہر حال اس ملک کی یہ کیفیت ہے کہ ہمارے آدمیوں کو ادھر جانے بھی نہیں دیا جاتا اور اُدھر کے آدمیوں کو ادھر نہیں آنے دیا جاتا.تاکہ کہیں عیسائیت میں رختہ پیدا نہ ہو جائے.پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فلپائن کے ایسے علاقے کے لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں جو سارے فلپائن پر غالب ہیں.پچھلی جنگ عظیم میں جاپانیوں کا مقابلہ انہیں لوگوں کی مدد سے کیا گیا تھا یہ لوگ جنگل میں رہتے ہیں اور ہم تو اس فعل کو نا جائزہ سمجھتے ہیں مگر چونکہ وہ اپنے پہلے مذہب کے پیر د ہیں اس لیے وہ رائفلیں لے کر جنگل سے نکل آتے ہیں اور جو عیسائی انہیں نظر آئے اسے
۵۵۳ گولی مار دیتے ہیں گویا ان کی مثال قبائلی پٹھانوں کی طرح ہے جو نہی انہیں کوئی عیسائی نظر آتا ہے وہ اسے گولی مار دیتے ہیں اور پھر جنگل میں چھپ جاتے ہیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس علاقہ میں احمدیت پھیل بل رہی ہے پہلے حضرت مصلح موعود کی تیسری معرکہ آراء تقریر سیر روحانی کے موضوع پر لنگر خانوں سے متعلق تھی جسے علم و معرفت کے آسمانی مائدہ سے تعبیر کیا جانا چاہیئے لیتے اس اہم علمی تقریرہ سے قبل حضور نے مصلح موعود کی پیشگوئی کے بارے میں نہایت ایمان افروز واقعات بیان فرمائے جن سے قطعی اور یا لہذاہت طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ ربانی تقدیریں اس طرف اشارہ کر رہی تھی کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں.اس ضمن میں حضور نے تین آسمانی نشانوں کا خصوصی ذکر فرمایا :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش مبارک کے سامنے عہد کہ " میں بچہ ہوں پر اُسے میرے خدا میکں تیری قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اگر ساری دنیا نے اس سے منہ موڑ لیا تو میں اس سے منہ نہیں موڑوں گا.اور میں اس وقت تک چین نہیں لوں گا جب تک کہ ساری دنیا کو اس کے قدموں میں لاکر ڈال نہ دوں.۲- ۱۹۱۳ ء میں تشملہ کے مقام پر ایک رڈیا میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ منزل مقصود تک پہنچنے کی راہ میں بڑی بڑی ہلائیں آئیں گی مگر تم یہ کہتے چلے جانا.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.چنانچہ اس کے بعد آپ نے زندگی بھر جو مضمون لکھے یا تقریر کے نوٹ تیار کیسے اُن کے اوپر یہ الفاظ ضرور تحریر فرمائے اور یہ عجیب بات ہے کہ آپ کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بالکل یہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ جب اس پیشگوئی کی شہرت کامل درجہ پر پہنچ گئی.تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو مطابق 9 جمادی الاول ۱۳۰۶ ھ میں بروز شنبه محمود پیدا ہوا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے خدا کے فضل اور جسم کے ساتھ کے الفاظ کے سا تھے ۱۹۱۳ء میں ہی آپ کے مصلح موعود ہونے کی طرف توجہ دلا دی.ه العقل ۴ از فروری ۱۹۵۸ء تا ۵٫۴ : سے مکمل تقریر میں روحانی جلد ما ۱۳ میں شائع شدہ ہے : سه تریاق القلوب طبع اول ص ۲۲ -
.حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی وفات پر آپ نے فیصلہ فرمایا کہ جماعت کی وحدت و اتحاد کے لیے آپ مولوی محمد علی صاحب کا نام انتخاب خلافت کے موقع پر پیش کر دیں گے مگر خدا کے ازلی نوشتے پورے ہوئے اور قبل اس کے کہ آپ دوستوں کو مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی تحریک فرماتے آپ کو دیکھتے ہی مولوی محمد احسن صاحب امر ہی مرحوم نے کہا کہ ہاتھ بڑھایئے اور بیعت لیجئے آپ کو بیعت کے الفاظ یا دنہیں تھے مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب آگے بڑھے اور کہا کہ لفظ مجھے یاد ہیں میں کہتا جاؤں گا آپ دہراتے جائیے اس پر مولوی محمد علی صاحب نے تقریر کرنا چاہی گر تمام احمدیوں نے بیک زبان کہا کہ ہم نہیں سننا چاہتے جس پر مولوی صاحب موصوف کو بیٹھ جانا پڑا اور جماعت احمدیہ آپ کے ذریعہ دوبارہ خلافت کے جھنڈے نے جمع ہو گئی.حضور نے اپنی روح پر در تقریر میں یہ سب واقعات پوری شرح وبسط سے بتلانے کے بعد بڑے جلال کے ساتھ فرمایا.میں اگر کہ دیتا کہ مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کر لی جائے تو سب لوگ مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کر لیتے گر خدا تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ یہ کام ان سے نہ لے بلکہ مجھ سے لے سو خدا تعالیٰ نے مجھ کو ہی کھڑا کیا اور وہ ناکام رہے یہ تیسری مثال ہے اس بات کی کہ مصلح موعود کے لیے خدا تعالیٰ نے متواتر نشان دکھائے اور اس کی انگلی بار بار اس طرف اٹھتی تھی کہ میں ہی و شخص ہوں جس سے خدا تعالیٰ یہ کام لینا چاہتا ہے " نیز فرمایا.پھر میرے عمل نے بھی اس بات کو ثابت کر دیا.آج مولوی محمد علی صاحب کی تغییر قرآن بھی موجود ہے اور میری بھی.اُن کی تفسیر نہیں جلدوں میں ہے اور اس کے ۱۹۹۵ صفحات ہیں اور میری تغییر قرآن اب تک ۳۳۶۶ صفحاتک مکمل ہو چکی ہے اور ۱۳۵۴ صفحہ کی اب تغیر صغیر چھپی ہے اگر یہ تغیر کبیر مکمل ہو جائے تو میرا خیال ہے کہ وہ سات ہزار صفحہ کی کتاب ہو جائے گی اور مولوی صاحب کی اس کے مقابلہ میں صرف ہیں سو صفحہ کی کتاب ہو گی پھر اگر دوسری کتابیں دیکھی جائیں جیسے دعوت الا میبر و غیرہ ہیں اور ان کے صفحات بھی اس میں شامل کیے جائیں تو میری تفسیر کے غالباً میں ہزار سے زیادہ صفحے ہو جائیں گے اور مولوی صاحب کی کتابیں ان کے مقابلہ میں رکھی جائیں تو وہ بالکل پہنچے نظر آئیں گی.پر مبلغی کو دیکھ والہ اعمال نے مجھے یورپ میں تبلیغ اسلام کی ایسی توفیق دی کہ شیخ هم می تاب لہ فوت ہو چکے ہیں.
۵۵۵ مونم جو غیر مسائلین کے مبلغ ہیں اور آج کل ایمسٹرڈم رہیگ میں کام کر رہے ہیں انہوں نے ایک دفعہ پیغام مسلح " میں مضمون لکھا کہ اس وقت مغربی دنیا میں ہالینڈ ، جرمنی اسپین اور سوئٹزر لینڈ میں مبائین کے مبلغ کام کر رہے ہیں اور سب ہی پڑھے لکھے مخلص نوجوان ہیں اور سات آٹھ سال ان ممالک میں رہنے کی وجہ سے مغربی نہ بانوں سے بھی کا حقہ واقف ہو چکے ہیں اور ان میں تقریر و تحریر کی کافی مہارت پیدا کر چکے ہیں.اس کے علاوہ ڈرح ، جرمن اور انگریزی زبان میں ان کے پاس لڑی پر بھی اچھا خاصہ موجود ہے" رپیغام صلح ۲۱ جولائی ۶۱۹۵۴ ).......بغرض ان کی کتابوں سے زیادہ کتابیں لکھنے کی مجھے توفیق ملی اور پھر ان کتابوں کے ساتھ سلئے بھیجنے کی ضرورت تھی، جن کے بغیر کتابیں کوئی کام نہیں دے سکتیں خدا تعالیٰ نے مجھے اس کو پورا کر نے کی توفیق رکھے کیونکہ یور میں لوگ اسلام سے ناواقف ہیں جب تک ان کو سجھانے والانہ ہو صرحت کتاب اُن کے آگے رکھ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا اسے له الفضل ۲۰ فروری ۶۱۹۵۸ ص۲
004 فصل سوم رفت و حضرت مسیح موعود کا انتقال یہ سال عام الحزن کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ اس میں حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود کے متعدد قدیم اور نہایت جلیل القدر رفقائے خاص داغ مفارقت دے گئے اور یہ مقدس گردہ جو حضرت اقدس کے عہد مبارک میں لاکھوں پر مشتمل تھا اب صرف چند سو کی تعداد میں رہ گیا ا میاں غلام رسول صاحب آف ڈیرہ غازیخان ولادت اندازاً ۱۸۷۸ ء - بیوت ۱۹۰۴ ء وفات کم جنوری ۱۹۵۷ء) چوغطہ خاندان کے ایک معزز فرد تھے.آپ شہر ڈیرہ غازیخان کے سب سے پہلے فرد تھے جن کو احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی اپنی وسیع برادری دالدین رشتہ داروں دوستوں کی ناراضگی کی کچھ پر داہ نہ کی.یہ وہ زمانہ تھا جب شہر ڈیرہ غازیخان میں حضرت اقدس مسیح پاک کی مخالفت شدت اختیار کر چکی تھی.تکفیر اور بائیکاٹ کا حربہ زوروں پر تھا آپ کو اس زمانہ کی سب مشکلات و مصائب میں سے گزرنا پڑا اور ان سب تکالیف کو بعد ذوق وشوق مبر کے ساتھ یہ داشت کیا اور ثابت قدم رہے.آپ ڈپٹی کمشنر صاحب ڈیرہ غازی خان کے دفتر میں بطور کلرک ملازم تھے اور ۱۹۲۴ ء میں ریٹائر ہو کہ پینشن یاب ہوئے.ملازمت کا سارا زمانہ نہایت دیانتداری سے گزارا.آپ کی تنخواہ قلیل تھی.جس سے گذر اوقات مشکل سے ہوتی تھی.مگر آپ نے ہمیشہ صبر و رضا کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.تقومی طہارت کی یہ حالت متی کہ تھوڑے دن ہوئے کہ آپ حسن خان ننا مجانہ کے پاس ضلع کچہری میں اپنے کام کے سلسلہ میں آئے اور اونچی آواز میں کچھ فرمانے لگے اور ان کے ذمہ ایک کام لگا کر چلے گئے کچھ فاصلہ پر ایک معزز
غیر احمدی جو شہر ڈیرہ غازیخاں کے میونسپل کمشنر بھی ہیں اپنے کام میں مصروف تھے.انہوں نے اپنا کام چھوڑ کہ تھانہ صاحب کو بلایا اور کہا کہ میاں غلام رسول صاحب کیوں ناراض ہو رہے تھے.اور کہنے لگا کہ بر بزرگ خدارسیدہ انسان اور اللہ کا پیارا ہے مجھے اس کی دعاؤں پر یقین کامل اور اس کی نارا منگی سے سخت خوف لگتا ہے.آئندہ احتیاط کیا کہ و ہ کہ دوا دینی آواز سے بھی مخاطب نہ ہو.صوم وصلواۃ کی بڑی سختی سے پابند تھے.عمرو بیسر میں روزے بڑی تاکید کے ساتھ رکھا کرتے تھے.اور یہ پرواہ نہیں کیا کرتے تھے کہ سحری کے لیے کچھ ہے بھی یا نہیں.بلانا نہ نماز تہجد پڑھا کرتے اور اپنے رب کے حضور حضرت اسلام غلبه احمدیت ، سید نا خلیفہ المسیح الثانی المصلح موعود کی درازی عمر صحت و سلامتی و خاندان مسیح موعود اور بزرگان اور مبلغین اور مجاہدین سلسلہ کے لیے نہایت انکساری کے ساتھ دعائیں مانگا کرتے تھے.شب بیدار تھے.گر کبھی تہجد کے وقت اٹھنے میں دیرہ ہو جاتی تو کہتے تھے کہ فرشتہ مجھے کہا تھا کہ اٹھ غلام رسول تجد کا وقت ہو گیا ہے.ہومی تھے اور چندہ وصیت ہمیشہ وقت پر ادا کرتے اور دوسرے چندوں اور تحریکات سلسلہ عالیہ میں بھی حسب توفیق حصہ لیا کرتے.دست سوال درانہ کر نا موت کے برابر سمجھتے تھے اور عجیب شان این دی ہے کہ خدا وند کریم سب مشکلات وقت پر دور کرنے کے سامان مہیا کر دیا کرتا تھا یہ ۲ - حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیر دی بانی احمدیہ مشن امریکہ رولادت اور جنوری ۶۱۸۷۲ - بیعت اور جنوری ۱۹۱ ء - وفات ۱۳ جنوری ۱۹۵۷ء ) حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے آپ کے بزرگ عرب سے ایران آئے پھر سلطان محمود غزنوی کے زمانہ میں پنجاب پہنچے اور ملتان اور پاک پٹی میں مقیم ہوئے اور عموماً کورت وقت کی طرف سے قاضی کے عہدہ پر سر فرانہ رہے.حضرت اور تنگ زیب کے زمانہ میں اس خاندان کے ایک عالم دین بھیرہ کے مفتی بنے اور یہیں آباد ہو گئے.له الفضل ، فروری ، ۱۹۵ ء م ر مضمون حسن خانصاحب جانہ سیکر نرمی امور عامه ڈیرہ غازیخان) العضل ۲۹ جنوری ۱۹۵۷ ء صلہ : سے رجسٹر بیعت اصلی غیر مطبوعه : سله الفضل ۵ار جنوری ۱۹۵۷ منا ه مفصل شجرہ نسب مہینہ اخبار بعدہ ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ ء میں درج ہے.نہ یہ قصبہ پہلے ضلع شاہ پور میں متھا اب ضلع سرگھر دیا میں ہے.-
02A حضرت مفتی صاحب کے والد ماجد کا نام مفتی عنایت اللہ اور والدہ کا نام فیض بی بی تھے.آپ بھیرہ میں معیتوں کے محلہ میں پیدا ہوئے.اور انٹرفیس تک بھیرہ میں ہیں تعلیم پائی.بعد ازاں حضرت مولانا نور الدین ما پھیر دی رخلیفتہ البیع الاول) کی وساطت سے جموں ہائی سکول میں انگلش ٹیچر مقرر ہوئے یہ ۱۸۹۰ ء کا واقعہ ہے اسی سال کے آخر میں آپ نے قادیان دارالامان کا پہلا سفر کیا اور بیعت سے مشرف ہوئے.چنا نچہ آپ تحر یہ فرماتے ہیں :- ۱۸۹۰ ء میں یہ عاجز استان انٹرنس پاس کر کے جموں گی.اور وہاں مدرسہ میں ملازم ہو گیا.ایک اور مدرس جو میرے ہم نام تھے (مولوی فاضل محمد صادق صاحب مرحوم میں کے ساتھ اکٹھے رہتے تھے.اس وقت حضرت مسیح موعود کی کتاب فتح اسلام جموں میں پہنچی رغالبا وہ پر دن کے اوراق تھے جو قبل اشاعت حضرت مولوی نور الدین صاحب کو بھیجدیئے گئے تھے) اس کتاب میں حضرت صاحب نے پہلی دفعہ بالوضاحت میٹی ناصری کی وفات اور اپنے دعوے مسیحیت کا ذکر کیا.وہ کتاب میں نے اور مولوی محمد صادق صاحب نے مل کر پڑھی.اور میں نے اس پر چند سوالات لکھ کر حضرت مسیح موعود کو بھیجے.جن کے جواب کے متعلق حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے جو اُن دنوں جموں تھے مجھے بزبانی فرمایا کہ عنقریب ایک کتاب شائع ہو گی.اس میں ان سب سوالوں کے جواب آجائیں گے.اس کے بعد اسکول میں کسی رخصت کی تقریب پریں قا دیان چلا آیا.غالباً دسمبر ۱۸۹۰ء تھا.سردی کا موسم تھا.بٹالہ سے میں اکیلا ہی کہ میں سوار ہو کر آیا.اور بارہ آنہ کرا یہ دیا.حضرت مولینا صاحب مولوی نور الدين.نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام ایک سفارشی لے آپ کے والد حضرت مسیح موعود کے دعوئی سے قبل وفات پا گئے تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ ۹۷ - ۱۸۹۶ ء میں داخل احمدیت ہوئیں.بیعت کے بعد جب قادیان سے واپس بھیرہ جانے لگیں تو حضرت اقدس علیہ السلام ، مفتی صاحب اور آپ کی والدہ کو الوداع کہنے کے لیے بلکہ والی جگر تک تشریف لے گئے اور کھا مہنگا یا.کھانا کسی کپڑے میں نہیں تھا اس لیے حضور نے اپنے عمامہ مبارک ہے ایک گز ایسا کپڑا پھاڑا اور اس میں باندھ دیا.رز که حبیب مشاه از حضرت مفتی محمد صادق صاحب - ناشر بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان)
۵۵۹ خط دیا تھا.حضرت کے مکان پر پہنچ کر وہ خط میں نے اُسی وقت اندر بھیجا.حضرت صاحب فوراً باہر تشریف لائے فرمایا.مولوی صاحب نے اپنے خط میں آپ کی بہت تعریف کی ہے.مجھ سے پوچھا کیا آپ کھانا کھا چکے ہیں.تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر اندرون خانہ تشریف لے گئے.اُس وقت مجھ سے پہلے صرف ایک اور مہمان تھا.رسید فضل شاہ صاحب مرحوم ) اور حافظ شیخ حامد علی صاحب مہمانوں کی خدمت کرتے تھے.اور گول کمرہ مہمان خانہ تھا.اس کے آگے جو تین دیواری بنی ہوئی ہے ، اُس وقت نہ تھی.رات کے وقت اس گول کمرہ میں عاجز راقم اور سید فضل شاہ صاحب سوائے نماز کے وقت حضرت صاحب بیت مبارک میں جس کو عموٹا چھوٹی بیت الذکر کہا جاتا ہے تشریف لائے.آپ کی ریش مبارک مہندی.سے رنگی ہوئی تھی.چہرہ بھی سُرخ اور چمکیلا.سر پر سفید بھاری عمامہ.ہاتھ میں عصاء تھا.دوسری صبح حضرت صاحب زمانہ سے باہر آئے.باہر آ کر فرمایا کہ سیر کو چلیں سید فضل شاہ صاحب (مرحوم) حافظ حامد علی صاحب (مرحوم) اور عاجزہ راقم ہمراہ ہوئے کھیتوں میں سے اور بیرونی راستوں میں سے سیر کرتے ہوئے گاؤں کے شرقی جانب چلے گئے.اس پہلی سیر میں میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ گناہوں میں گرفتاری سے بچنے کا کیا علاج ہے.فرمایا : موت کو یا درکھنا.جب آدمی اس بات کو بھول جاتا ہے.کہ اُس نے آخر ایک دن مر جاتا ہے.تو اس میں طول امل پیدا ہوتا ہے.لمبی لمبی اُمیدیں کرتا ہے.کہ میں یہ کر لوں گا اور وہ کمر لوں گا.اور گناہوں میں دلیری اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے.سید فضل شاہ صاحب مرحوم نے سوال کیا.کہ یہ جو لکھتا ہے.کہ مسیح موعود اُس وقت آئے گا.جبکہ سورج مغرب سے نکلے گا.اس کا کیا مطلب ہے.فرمایا.یہ تو ایک طبعی طریق ہے ، کہ سُورج مشرق سے نکلتا ہے.مغرب میں عیوب ہوتا ہے.اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی.مراد اس سے یہ ہے کہ مغربی ممالک کے لوگ اس زمانہ میں دین اسلام کو قبول کرنے لگ جائیں گے.چنانچہ شنگی ہے کہ اور پوں میں چند ایک انگریز مسلمان ہوگئے ہیں.جو کچھ باتیں ہیں سفر میں ہوئیں، اُن میں سے یہی دو باتیں مجھے یاد ہیں.میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز بھی ہیں نے مجھے حضرت صاحب کی صداقت کو قبول کرنے اور آپ کی بیعت کر لینے کی طرف کشش کی.سوائے اس کے کہ آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا.جس پر یہ امان نہ ہو سکتا تھا.کہ وہ جھوٹا ہو.دوسرے یا تیسرے دن میں نے حافظ حامد علی صاحب سے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں یہ
- حضرت صاحب مجھے ایک علیحدہ مکان میں لے گئے.میں حصہ زمین پر نواب محمد علی خانصاحب کا شہر وال مکان ہے.اور جس کے نیچے کے حصہ میں مرکزی لائبریہ ہی رہ چکی ہے.جس کے بالاخانہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رہ چکے ہیں (آجکل اگست ۱۹۳۵ء میں وہ بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا ہے) اس نہ مین پر اُن دنوں حضرت صاحب کا مویشی خانہ تھا.گائے ، میں اُس میں باندھے جاتے تھے اس کا دراسته کوچه بندی میں سے تھا.حضرت صاحبت کے اندرونی ادارے کے سامنے مویشی خانہ کی ڈیوڑھی کا دروازہ تھا.یہ ڈیوڑھی اُس جگہ تھی جہاں آجکل لائبریری کے دفتر کا بڑا کرہ ہے.اس ڈیوڑھی میں حضرت صاحب مجھے لے گئے اور اندر سے دروازہ بند کر دیا.اُن ایام میں ہر شخص کی بیعت علیحدہ علیحدہ لیجاتی تھی.ایک چارپائی بچھی تھی.اس پر مجھے بیٹھنے کو فرمایا.حضرت صاحب بھی اس پر بیٹھے میں بھی بیٹھ گیا.میرا دایاں ہا تھ حضرت صاحب نے اپنے ہاتھ میں لیا.اور دس شرائط کی پابندی کی مجھ سے بیعت لی.دس شرائط ایک ایک کر کے نہیں دہرائیں.بلکہ صرف لفظ دس شرائط کہ دیا.جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا.جو کہ غالبا دسمبر تکلیہ کے آخر میں تھا.اس وقت میں اُس کرتے ہیں ٹھہرایا گیا ، جسے گول کمرہ کہتے ہیں.اس کے آگے وہ تین دیواری نہ تھی جو اب ہے.اس وقت یہی مہمان خان تھا.اور حضرت مسیح موعود یہیں بیٹھ کر مہمانوں سے ملتے تھے.یا اس کے دروازے پر میدان میں چار پائیوں پر بیٹھا کرتے تھے.اس کے بعد بھی وہ تین سال تک وہی مہمان خانہ رہا.اس کے بعد شہر کی فصیل جب فروخت ہوئی.تو اس کو صاف کر کے اس پہ مکانات بنے کا سلسلہ جاری ہوا.اور وہ جگہ بنائی گئی جہاں حضرت خلیفہ اول کا مطلب اور موٹر خانہ ہے اور اس کے بعد وہ مکان بنا یا گی جہاں اب مہمان خانہ ہے.پہلے اس میں حضرت خلیفہ ایسیح الاوّل رہا کرتے تھے.جب حضرت خلیفہ اصبح الاول نے دوسری طرف مکان بنا لیے تو یہ مکان مہمانوں کے استعمال میں آنے لگا.اس مہمان خانہ میں بھی میں مقیم ہوتا رہا.پھر جب مولوی محمد علی صاحب کے واسطے بیت المبارک کے متصل اپنے مکان کی تیسری منزل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کمرہ بنوایا.تو جب تک کہ مولوی محمد علی صاحب کی شادی نہیں ہوئی مجھے بھی اُسی کمرے میں حضرت صاحب ٹھہرایا کرتے اہلے " ذکر حبیب صفر به نام راز حضرت مفتی محمد صادق صاحب) مطبوعہ ۶۱۹۳۶
041 حضرت مفتی صاحب جبوں میں پانچ سال ملازم رہے اگست ستمبشنید میں لاہور آگئے جہاں اسلامیہ بائی سکول لاہور میں مدرس ریاضی کے فرائض انجام دیتے رہے پھر دفترا کا ڈنٹنٹ جنرل پنجاب لاہور میں کلرک ہو کہ جنوری ۱۹۰۱ء تک لاہور میں رہے میلہ قیام جوں کے دوران آپ نے بی اے کی تیاری انگریزی عربی اور عبرانی مضامین میں جاری رکھی بیعت کے بعد آپ کو حضرت مسیح موعود سے ایسا عاشقانہ اور والہا نہ تعلق پیدا ہو گیا کہ جب تک ہوں میں رہے ہر سال موسمی تعطیلات میں تا دیان پہنچ جاتے اور لاہور آنے کے بعد تو آپ کا اکثر یہ معمول ہو گیا کہ عموماً ہر اتوار کو حضرت مسیح موعود کے قدموں میں حاضر ہو جاتے تھے اور اپنی نوٹ بک میں حضور کے شیریں کلمات خاص اہتمام سے درج کر لیتے اور واپس جاکر دیگر احباب لاہور کو سنا تھے بلکہ بیرونی مالک کے احمدیوں کو بھی بھجوا دیتے میں سے اُن کے نور ایمان میں بے پناہ ترقی ہوتی تھی.حضرت مفتی صاحب کا بیان ہے کہ : - ، جب سے مجھے حضرت اقدس مسیح موعود کے دست بیعت ہونے اور آپ کی غلامی میں شامل ہوتے کا فخر حاصل ہے تب سے ہمیشہ میری یہ عادت رہی ہے کہ آپ کے مقدس کلمات کو نوٹ کرتا اور لکھ لیتا اور اپنی پاکٹ بکوں میں جمع کرتا اور اپنے مہربانوں اور دوستوں کو کشمیر کپور تھلہ ، انبالہ، لاہور ، سیالکوٹ ، افریقہ ، لندن روانہ کرتا جس سے احباب کے ایمان میں تازگی آتی اور میرے لیے موجب حصول ثواب ہوتا.مدتوں لاہور یا یہ حانت رہی کہ جبب احباب من پاتے کہ یہ عاجز دارالامان سے ہو کہ آیا تو بڑے شوق اور التزام کے ساتھ ایک جگہ اکٹھے ہوتے اور میرے گرد جمع ہو جاتے جیسا کہ شمع کے گرد پر دانے.تب میں انہیں وہ روحانی غذا دیا جو کہ میں اپنے امام کے پاس سے جمع کر کے لے جاتا اور ان کی پیاسی روحوں کو اس آپ زلال کے ساتھ ایسا سیر کر دینا کہ اُن کی نشستگی اور بھی بڑھ جاتی اور ان کی عاشقانہ رو میں اپنے محبوب کی محبت میں اچھلنے لگتیں.یہی حال ہر جگہ کے محبان کا تقات حضرت مونانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے اور جنوری ۱۹۰۰ ء کے ایک مضمون میں حضرت مفتی صات کی محبت و عشق کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ :.له ذکر جیب مت سے مضمون حضرت مفتی صاحب ستمبر ۱۹۰۲ د رذکر جیب م۱۳ )
۵۶۲ ایک مفتی محمد صادق کو دیکھتا ہوں رسلمہ اللہ وبارک و علیہ وفیہ) کوئی چھٹی مل جائے یہاں موجود میفتی صاحب تو عقاب کی طرح اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب زمانہ کے زور آور ہاتھوں سے کوئی فرصت عضب کریں اور محبوب اور مولی کی زیارت کا شرف حاصل کریں.اسے عزیز برادر خدا تیری ہمت میں استقامت اور کوشش میں برکت رکھے اور تجھے ہماری جماعت میں قابل اقتدار اور قابل فخر کارنامہ بنائے.حضرت صاحب نے بھی فرمایا کہ لاہور سے ہمارے حصہ میں مفتی صادق صاحب ہی آئے ہیں.میں حیران ہوں کہ کیا مفتی صاحب کو کوئی بڑی آمدنی ہے ؟ اور کیا مفتی صاحب کی جیب میں کسی متعلق کی درخواست کا ہا تھہ نہیں پڑتا اور مفتی صاحب تو مہنوز تو عمر ہیں اور اس عمر میں کیا کیا امنگیں نہیں ہوا کہ تھیں پھر مفتی صاحب کی یہ سیرت اگر عشق کامل کی دلیل نہیں تو اور کیا وجہ ہے کہ وہ ساری زینجیروں کو توڑ کر دیوانہ وار بٹالہ میں اتر کر نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن ، نہ سردی نہ گرمی نہ بارش نہ آندھیری ، آدھی آدھی رات کو یہاں پیاده پہنچتے ہیں جماعت کو اس نوجوان عاشق کی سیرت سے سبق لینا چاہیئے، پہلے اس زمانہ میں آپ کو دین حق کی متعدد خدمات بجالانے کی توفیق علی مثلاً ۱ ۱۸ رمٹی ۱۹۰۰ ء کو لاہور میں بشپ جارج الفریڈ لیفرائے " زندہ رسول اور معصوم بنی پر تقریر ہوئی.انہوں نے لیکچر کے بعد مسلمانوں کو اعتراضات کرنے کا موقعہ دیا جس پر حضرت مفتی صاحب جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور لاٹ پادری کو لاجواب کر دیا کہ اس شکست کا انتظام پیسنے کے لیے لاٹ یاور مکی صاحب نے ۲۵ رمٹی کو ایک اور لیکچر دینے کا اطلاق کیا.جس پر حضرت اقدس مسیح موعود نے مفتی صاحب کی تحریک پر ایک پر شوکت مضمون رقم فرمایا جسے حضرت مفتی صاحب نے بشپ موصوف کے لیکچر کے بعد اس جوش و خروش کے ساتھ پڑھا کہ لاہور مسلمانوں کے نعرہ تکبیر سے گونج اُٹھا.بشپ صاحب انگشت بدنداں رہ گئے.اور یہ کہ کہ چپ سادھ لی کہ تم مرزائی ہو میرے مخاطب عام مسلمان ہیں.میں تم سے گفتگو نہیں کرنا سے ** الحکم ) جنوری ۱۹۰۰ ء صفر رذکر جیب (۲۳۲) : سے الحکم ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ ء صفحہ ا نتہ الحکم اور مٹی ارہ الحکم ۴ ارمئی ۱۹۰۸ء ص ر تفصیل م تاریخ احمدیت جلد سوم صہ میں آپکی ہے )
۵۶۳ حضرت مسیح مولوڈ نے کتاب " من الرحمن کی تصنیف کے دوران مفتی صاحب کو عبرانی سیکھنے کا ارشاد فرمایا تا ثابت کیا جا سکے کہ عبرانی کا اصل ماخذ بھی ہو یا نہ بان ہی ہے چنانچہ حضرت مفتی صاحب نے لاہور میں ایک یہودی عالم سے اتنی عیبرانی سیکھی اور عبرانی الفاظ کی ایک فہرست حضور کی خدمت میں پیش کی.اس کے بعد آپ نے عبرانی بائبل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود سے متعلق پیشگوئیاں بھی نکال کر دیں جن میں سے بعض کیا عیبرانی متن تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۱ د ۱۳۸ پر درج شدہ ہے.عبرانی عبارتوں کی کاپی نویسی بھی آپ ہی کے ہاتھوں ہوئی اسی طرح حضرت اقدس نے تمہ اربعین نمبر ہ کے صفحہ پر جھوٹے نبی کے ہلاک ہونے کے بارے میں عبرانی تو رات کے چند سوالے درج ہیں وہ بھی آپ نے پیش حضرت کیسے تھے لیے.آپ کو ابتدا ہی سے حق و صداقت پھیلا نے کا بہت شوق تھا جو جنون کی حدتک پہنچا ہوا تھا.19ء سے آپ نے بیرونی ممالک کے مشہور عمائدین اور نامور شخصیتوں کو بذریعہ خط وکتابت تبلیغ کرنے کا آغاز فرمایا اور جلد ہی انگلستان اور امریکہ اور جاپان وغیرہ ممالک تک یہ سلسلہ محمد ہوگیا مسٹر جیمز ای را جور نیکی فورنیا) اسے جارج بیکر ( فلاڈلفیا امریکہ) مسٹر الیگزنڈ روب ( رور فورڈ امریکہ) روسی ریفارمرکونٹ ٹالسٹائی مسٹر پگٹ لنڈن نیز یورپ کے فری تھنکروں کی کانگرس منعقدہ اٹلی ۱۹۰۴ء کے نام آپ کے مکتوبات کا اردو ترجمہ آپ کی کتاب" ذکر جیب میں درج ہے.حضرت مفتی صاحب نے یہ قلمی جہاد حضرت میسیج موجود کے عہد مبارک کے بعد بھی جار ہی رکھا.ه تار میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی پر اتمام حجت کے لیے جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے اشتہارات شائع کیے گئے جو سب حضرت مفتی یہ احب ہی کے قلم سے نکلے تھے رسالہ واقعات صحیحہ اس دور کی یادگار ہے جو آپ نے شائع کیا تھا.ہے جولائی ۱۹۰۱ ء میں آپ مستقل طور پر ہجرت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں آگئے.ابتداء میں آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سیکنڈ ماسٹر اور ۱۹۰۳ء میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.۲۸ رمنگی ۱۹۰۳ء کو کالج کا افتتاح عمل میں آیا تو آپ اس کے مینجر اور سپر نٹنڈنٹ اور منطق کے پر دنیسر مقرر ہوئے.ہجرت قادیان کے بعد برابر ایک سال تک حضرت مسیح موعود کے حکم پہ آپ کا اور آپ کے اہل وعیال له الفضل ۳ر جنوری ۱۹۴۵ ء صبا سے ذکر جیب صفحه ۸، ۱۹ "
۵۶۴ کا کھانا دونوں وقت لنگر خانہ سے آتا رہا.آپ نے کئی بار عرض کی کہ اب میں یہاں ملازم ہوں اور مناسب ہے کہ اپنے کھانے کا خود انتظام کروں مگر حضرت اقدس نے اجازت ندی.ایک سال کے بعد آپ نے رقعہ لکھا کہ میں اس واسطے اپنا انتظام علیحدہ کرنا چاہتا ہوں کہ میرا بوجھ تو نگر پہ ہے وہ خفیف ہو کر مجھے نواب حاصل ہو".اس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا کہ: ہ ہو کہ آپ باربار لکھتے ہیں اس واسطے میں آپ کو اجازت دیتا ہوں اگر یہ آپ کے لیے لنگر سے کھانا لینے کی صورت میں بھی آپ کے ثواب میں کوئی کمی نہ تھی پہلے ۱۹۰۲ ء میں آپ بہت بیمار ہو گئے.آپ کی والدہ محترمہ بھی قادیان تشریف لائی ہوئی تھیں.انہوں نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست دعا کی.حضور نے فرمایا : " ہم تو ان کے لیے دعا کرتے ہی رہتے ہیں آپ کو خیال ہوگا کہ صادق آپ کا بیٹا ہے اور آپ کو بہت پیارا ہے.لیکن میرا دعوی ہے کہ وہ مجھے آپ سے زیادہ پیارا ہے ، مارچ ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود نے آپ کو البدر کا ایڈیٹر مقرر فرمایا اور حسب ذیل اعلان لکھا:.بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ الطلاع میں بڑی خوشی سے یہ چند سطر میں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ منشی محمد اسل صاحب مرحوم ایڈیٹر اختبار الہند قضائے الہی سے فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالے کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آگی ہے لینے ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن.جوان صالح.اور ہر یک طور سے لائق جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں.یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیر دی قائمقام منشی محمد انفل صاحب مرقوم ہو گئے ہیں میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رسم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ ذکر جیب صفحه ۳۳۰ ۲۲۱ با که ایضا صفحہ ۲۲۵
۵۶۵ اس کو ایسالائق اور صالح اڈیٹر ہاتھ آیا خدا تعالیٰ یہ کام ان کے لیے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے آمین ثم آمین خاکسار مرزا غلام احمد ۲۳ محرم الحرام ۱۳۲۳ لمجرى على صاحبها التحيه والسلام - ۳۰ مار چ ۱۹۰۵ ء له اختبار بدر تک آپ کی ادارت میں جاری رہا.اختبار الحکم" کی طرح " بدر بھی سلسلہ احمدیہ کی ابتدائی تاریخ کا حامل ہے اور اس کی شاندار خدمات کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں.حضرت مسیح موعود نے دونوں اخباروں کو اپنا دست و با زد قرار دیا.شنشہ میں حضرت مسیح موعود نے گور دہر سہائے ضلع فیروز پور کو ایک وفد بھیجا کیونکہ پتہ چلا تھاکہ وہاں حضرت بابا نانک کی ایک پوتھی رکھی ہے.اس وفد میں حضرت مفتی صاحب بھی شامل تھے آپ فرماتے ہیں ہم نے دیکھا کہ وہ پوستی قرآن شریف ہی تھا.واپسی پر اس دورہ کی رپورٹ حضرت مفتی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کی جو چشمہ معرفت " صفحہ ۳۳۷ پر درج ہے یہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کی وفات (۱۹۰۵ء) کے بعد حضرت اقدس کی ڈاک کا انتظام آپ کے سپر د تھا اسی لیے حضور نے وفات سے قبل آپ کو قادیان سے لاہور بلایا سر اپریل ۱۹۰۸ء کو اپنے دستِ مبارک سے یہ خط تحریر فرمایا کہ :.ایک انبار خطوط کا جمع ہو گیا ہے.آپ ایک ہفتہ کے لیے آکر ان تمام خطوط کا جواب لکھ جائیں اور نیز مل جائیں.تاکید ہے.راستے حضرت اقدس علیہ السلام کا مفتی صاحب کے نام یہ آخری خط تھا جو حضور نے احمدیہ بلڈ نگس لاہور سے لکھا.آپ اس کی تعمیل میں لاہور حاضر ہو گئے ، اختبار " بدر کا عارضی دفتر قائم کیا اور پھر حضور کے وصال تک وہیں رہے.حضرت مسیح موعود نے مفتی صاحب کی انتہائی محبت و عقیدت اور جوش خدمت کے باعث " سلسلہ احمدیہ کا برگزیده رکن خلص دوست اور محب صادق" جیسے نخری خطابات سے نوازہ اچنانچہ اشتہار ۲۲ اکتوبر شه البدر 4 اپریل ۱۹۰۵ء : له الفضل در جنوری ۱۹۴۵ء مره ذکر جیب صفحه ۱۹۲ ۱۹۳ (مکتوب کا عکس) ه -
۱۹۹ ء میں لکھا :- 044 مفتی محمد صادق میری جماعت میں سے اور میرے مخلص دوستوں میں سے ہیں...یہ اپنے نام کی طرح ایک محب صادق ہیں.حضرت مولانا منیر عسلی صاحب کی روایت ہے کہ :- یوں تو حضرت صاحب اپنے سارے خدام سے ہی بہت محبت رکھتے تھے لیکن میں یہ محسوس کرتا تھا کہ آپ کو مفتی صاحب سے خاص محبت ہے.جب کبھی آپ مفتی صاحب کا ذکر فرماتے تو فرماتے "ہمارے مفتی صاحب "له حضرت خلیفة أسبح الاول مولانا نور الدین ھیری کے عہد خلافت میں خلافت اولیٰ میں خدمات آپ نے بدر کی ادارت کے ساتھ ساتھ مہندوستان بھر کے سفر کیے اور وسیع پیمانہ پر پیغام حق پہنچائے نیز احمدیہ پریس کی مضبوطی داستحکام کے لیے ہر ممکن کوشش فرمائی.اس دور میں آپ نے پنجاب کے متعدد مقامات کا دورہ کرنے کے علاوہ آپ علی گڑھ ، مظفرنگر، میر مھ کانپور، اٹا وہ لکھنو ، شاہجہانپور ، جمال پور ، موگھیر ، سورج گڑھ، بھاگل پور ، بنارس ، پڑیا کوٹ، شاہ آباد آگرہ، لکھنو اور ریاست کپور تھلہ اور ریاست جموں میں بھی تشریف لے گئے ہیے خلافت ثانیہ کا عہد مبارک بھی آپ کی دینی خدمات سے لبریز خلافت ثانیہ میں اہم دینی خدمات | ہے.اس کے ابتدائی تین سالوں میں آپ جہاد باللسان ہیں دیوانہ دار مصروف رہے اور بنارس ، کلکتہ ، سونگڑہ ، ڈھاکہ ، حیدر آباد دکن، مدراس ، وہلی اور لاہور جیسے بڑے بڑے شہروں میں آپ کے نہایت بصیرت افروز لیکچر ہوئے.۱۰ مارچ ۱۹۱۷ ء کو آپ بغرض اعلائے کلمتہ اللہ انگلستان تشریف لے گئے تے انگلستان ) اور پور سے سفر میں تبلیغ دیں کرتے ہوئے ۱۷ اپریل ۱۹۱۷ء کو لندن پہنچے جہاں حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب پہلے سے سرگرم عمل تھے.حضرت مفتی صاحب قریبا ڈھائی سال تک انگلستان ه فکر جیب ۳۳۷ - سیرت المہدی " : سے اخبار بدر و الفضل میں تفصیل موجود ہے سے فاروق ۱۹ اپریل ۱۹۱۷ء سے الفضل ۱۲۴ اپریل ۱۹۱۷ ء مزا
۵۶۷ میں فریضہ تبلیغ بجالاتے رہے.اس دوران میں آپ نے ٹریکٹ شائع کئے ، اہم شخصیتوں مثلاً شہنشاہ جارج پنجم د ملکہ معظمہ سیکرٹری آف سٹیٹ لارڈ مانٹیگو، وزیر اعظم برطانیہ ، لنڈن کے لارڈ میٹر اور شہزادہ جاپان یوری ہی ٹو ہنگاشتی نوشی وغیرہ عمائدین کو تبلیغی خطوط لکھے ہے لنڈن کے ٹائیٹڈ پارک سنٹرل ہال نمیشن ہاؤس اور گرجا گھروں میں لیکچر دیئے.فریج سوسائٹی فلالوجی کے زیر انتظام آپ کے علم اللسان اور دوسرے موضوعات پر کامیاب لیکچر جس پر سوسائٹی نے بینگل کی ڈگری اور ڈپلومہ دیا بعد ازاں آپ کو ا سے ایس.پی فیلو کرامی کی ڈگریاں بھی دی گئیں یہ آپ نے پادریوں سے گفتگو کی اور چرچ تک قرآنی پیغام پہنچانے کی ہر مکن تدابیر اختیار فرمائیں جس کے نتیجہ میں قریباً ایک صد نفوس دین حق میں شامل ہوئے چنانچہ آپ فرماتے ہیں.حس غرض کے واسطے حضرت مرشد صادق مهدی محمود خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں عاجز کو بھیجا تھا وہ گزشتہ اڑھائی سال میں برفاقت برادر عزیز قاضی عبد الله صاحب حسب دلخواہ حاصل ہوئی قریب ایک صد نو مسلم ہوئے اور قریب پچاس کس مصد قلین ہوئے.لنڈن کے مرکز میں سلسلہ احمدیہ کا جھنڈا گرڈ گیا.بہت سے لیکچر ہوئے اخباروں اور رسالوں میں ہماری تصاویر اور مضامین شائع ہوئے.بادشاہوں اور امیروں و بھی پیغام میں پہنچایا گیا.اور عزباء کو بھی تیلی کی گئی.ہزار ہا رسائے تقسیم کیے گئے.مباحتے ہوئے مخالفین کو چیلنج دیئے گئے.مضافات میں بھی لیکچر ہوئے اور اشاعت رسالجات کی گئی.غرض ہر قسم کا تبلیغی کام با وجود ایام جنگ کی مشکلات اور دقتوں کے جبکہ اس ملک میں مردوں کی شکل نہ دکھائی دیتی تھی.اور گاڑیوں پر بھی عورتیں کام کرتی تھیں.ایسی تنگی اور تکلیف کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے مشن کو کامیاب کیا یہ اس کا فضل ، کرم ، رحم ، علم اور غریب نوازی ہے اس عقار ، ستار ، قدیم ، کریم ، رحیم کی بخشش ہے ورنہ ہم کیا اور ماری ہستی کیا.جو ہوا اُسی سے ہوا.اور آئندہ بھی ہوامید ہے اُسی سے ہے جب قادیان له الفضل اور یون ۱۹۱۷ و م : سم الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۱۷ عصر - ۲۷ اکتوبره الله ور فروری ۱۹۱۸ء صت - ۲۱ جنوری ۱۹۱۹ ء صفحه ، / ۸/ ۲۵ جنوری ۱۹۱۹ ء م : له الفضل الار فروری ١٩١٩ء ص - الفضل ۱۲۶ اپریل ۱۹۱۹ دم
OYA میں حضرت خلیفہ اسی سلمہ اللہ تعالیٰ کے فرمانے سے میں نے اس ملک میں آنے کے متعلق اشارہ کیا تھا تو ساری شب لاحول ولا قوة إلا بالله میری زبان پر جاری رہا اور اسی پاک کلام کے کرشمہا ئے قدرت میں بیہاں دیکھتا رہا ہوں اگر اپنی اس اڑھائی سالہ زندگی کی تفصیل لکھوں تو وہ اسی کلمہ لاحول......الخ کی تفسیر ہو گی اور ریس لیے حضرت مفتی صاحب انگلستان میں ہی تھے کہ آپ کو حضرت مصلح موعود نے امریکہ میں پہلا تبلیغی مشن امریکہ لکھنے لنے کا حکم دیا چنانچہ آپ ۲۶ مینوری ۱۹۲۰ء کو روانہ ہوئے اور فروری کے دوسرے بنتے بذریعہ جہاز فلاڈلفیا پہنچے یہاںمحکمہ امیگریشن کے افسران نے آپ کو ملک میں دین حق کی تبلیغ کی اجازت نہ دی اور امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا.آپ نے کمال جواں مردی، جرات اور استقلال کے ساتھ صورتحال کا مقابلہ کرتے ہوئے واشنگٹن کے سیکرٹریٹ میں اپیل کی اور اجازت چاہی اور ساتھ ہی حضرت مصلح موعود کو اطلاع دی.حضور نے پیشگوئی فرمائی کہ امریکہ باوجود اپنے ظاہری سامانوں کے ہیں داخلہ سے نہیں روک سکتا.ہم امریکہ میں داخل ہوں گے اور ضرور ہوں گے لیے چنا نچہ سیکر ٹریٹ نے تبلیغ کی اجازت دے دی گھر ہدایت کی کہ جب تک کہ فی الحال شہریں جانے اور ملاقات کرنے کی اجازت نہیں.آپ نے ساحل سمندر پر ہی تبلیغ شروع کر دی جس کی بازگشت ملکی پریس میں بھی سنائی دینے لگی اور اخبار پبلک ریلیجنز (PUBLIC RELIGIONS) وغیرہ نے آپ کے عقائد ، نصب العین اور تبلیغی مقاصد کی خوب تشہیر کی ہے.آخر دو ماہ کے بعد اپیل منظور ہوئی اور آپ نیو یارک تشریف لے گئے بڑی شکل سے ایک مکان کرایہ پر ٹا مگر ملکہ نے پادریوں کے اکسانے پر آپ کو نوٹس دے نہ انگلستان سے حضرت مفتی صاحب کا مکتوب جو سلانہ جلسہ ۱۹۱۹ر پر سنایا گیا ( الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۱۹ د مث) ه الفضل در دسمبر ۱۹۲۳ و صفحه ۷ : سه الفضل ۱۵ راپریل ۱۹۲۰ ۱ ص ۳۳.اس کا پہلا سہ ماہی پرچہ جولائی ۱۹۲۱ء میں تین ہزار کی تعداد مں چھپا اور مفت تقسیم کیا گیا مقام اشاعت viCTOR 74 AVENUE HIGHLAND PARK MIEH US.A اس شمارہ میں حضرت مصلح موعود کی پورے قد کی تصویر شائع ہوئی اور حضور کا ایک پیغام بھی نیز امریکہ مشق کی کی ابتدائی کہ فورٹ چھپی.i i
144 دیا آپ نے مکان بدل لیا اور دیوانہ وار جماد تبلیغ میں سرگرم عمل ہو گئے آپ امریکہ میں ساڑھے تین سال تک فریضہ بجالاتے رہے اس مختصر سے عرصہ میں آپ نے خدا کے فضل سے احمد یہ مشن کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیا دی مسلم من رائٹز (THE MUSLIM SUNRISE ) جاری کر کے سارے ملک میں حق کی آواز بلند کی آپ کے ذریعہ ٹیٹرائٹ میں پہلا بیت الذکر قائم ہوا اور امریکہ میں ایک مخلص جماعت پیدا کر نے میں کا میاب ہو گئے.اور یہی وہ امور تھے جن کی نسبت آپ شروع سے دعائیں کر رہے تھے چنانچہ فرماتے ہیں:.جب میں لنڈن سے امریکہ بھیجا گیا......تو میں نے تین دعائیں کیں.ایک مخلص جماعت نومسلموں کی مجھے عطا ہو.ایک بیت الذکر بنانے کی توفیق ہو.ایک رسالہ جاری کرنے کے سامان مہیا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجو د سخت مشکلات کے تینوں دعائیں قبول ہوئیں.مخلص جماعت پہلے ہی سال مل گئی ، رسالہ دوسرے سال جاری ہو گیا اور بیت الذکرہ اور مکان تیسرے سال تیار ہو گئے پہلے آپ نے امریکہ سے ایک رپورٹ میں لکھا :.مقابلہ بہت بڑے لوگوں سے ہے گر کچھ غم نہیں کیونکہ میرے ساتھ میرا خدا ہے اور خلیفہ اسیح کی اور احباب کرام کی دعائیں ہیں اور بزرگوں کی امدا د روحانی ہے قریبا ہر شب حضرت اقدس سیح موعود علیہ السّلام یا خلیفہ اول یا حضرت فضل عسير سے ملاقات ہوتی ہے دن بھر اجنبیوں میں ہوتا ہوں رات بھر اپنوں میں حضرت مفتی صاحب نے ۱۹۷۰ ء کی آخر میں شکاگو کو اور فروری ۱۹۲۱ ء میں ہائی لینڈ پارک کو تبلیغی مرکز بنالیا اور اپنی سرگرمیوں کو تیز تر کر دیا.ایک بار آپ شکاگو کے بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک عمارت سے ایک لڑکی نے اپنی ماں کو مخاطب کر کے نہایت خوشی سے آواز دی HAS Christ COME JESUS *Look! Look! Mother.الی دیکھو! دیکھو یسوع مسیح آئے ہیں.اس پر بچی کے والدین نے آپ کو اوپر بلایا اور انٹرویو لیا آپ نے بتایا کہ میں 7 Chris نہیں ہوں بلکہ مسیح پاک کا ایک خادم ہوں آپ کا یہ طریق تھا کہ ہر اتوار کو تین بجے اه رساله التحديه له بالمتعة منها : کے الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۲۰ وصله به سکه روایت مفتی عبد السلام صاحب و صوفی عبد الغفور صاحب امریکہ (مقاله غیر مطبوعہ بیرت حضرت مفتی محمد صادق صاحب از مفتی احمد صادق صاحب م ۲۶۸/۲۳)
شام جلسہ عام کرنے اور اس میں کسی اہم موضوع پر تقریر کر کے سامعین کے سوالوں کا جواب دیتے تھے اس پر وگرام کے علاوہ آپ کو امریکہ کے مختلف شہروں کی مختلف سوسائٹیوں اور گرجوں میں بھی مدعو کیا گیا آپ کے مسلمی لیکچروں کی شہرت پر میں نے ملک کے کونے کونے تک مینجار یا میفرسن یو نویسی شکاگو نے آپ کی علمی بیا تست اور خدمات برائے بہبودی خلق کوتسلیم کرتے ہوئے - DR - ۱۲۲ کی ڈگریاں دیں لے اور پریس کانگرس آن دی PRESS CONGRESS) کے آپ نمبر ورلڈ THE WORLD i OF منتخب ہوئے.ار فروری ۱۹۲۱ء کو آپ نے عیسائی دنیا کو ایک جلسہ میں چیلنج دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بحران کے عیسائی رند کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دے کر اخلاق اور رواداری کی شاندار مثال قائم فرما دی ہے کیا عیسائی دنیا میں بھی ایسا حوصلہ ہے کہ مجھے اپنے گرجا میں نماز پڑھتے دے ہے.اس لیکچر ہیں استجار وں کے نمائندے بھی موجود تھے جنہوں نے اس چیلنج کی پورے ملک میں اشاعت کی مگر پادریوں نے صات انکار کر دیا.ماہ ستمبر کو آپ نے بشپ صاحب فرانس کی دعوت پر معززین شہر کی ایک، پارٹی میں شرکت فرمائی بشپ صاحب نے آپ کا تعارف کرایا جس کے بعد آپ نے خوب تبلیغ کی.کسی نے کہا پہلے ہم ہندوستان مشنری کیجے تھے اب ہندوستان نے امریکہ میں بھیج دیا ہے.آپ نے فرمایا ہندوستان کو تو کسی مشنری کی ضرورت نہیں نہ آپ کے مشتری کو کامیابی نصیب ہو سکتی ہے وہاں تو زبانی مصلح موجود ہے لیے ایک امریکن خاتون نے آپ کو خط لکھا کہ خواب میں ایک ہندوستانی بزرگ میری راہنمائی کیا کرتے ہیں کیا آپ بتلا سکتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟ آپ نے اسے چند تصاویر بھیجیں جن میں ایک تصویر حضرت مسیح موعود کی کی بھی تھی اس عورت نے اسی پہ نشان کیا کہ یہی بزرگ میری راہنمائی فرماتے ہیں کیے الغر من حضرت مفتی صاحب امریکہ میں ساڑھے تین سال تک نہایت کامیابی سے تبلیغی فرائض انجام دیتے کے بعد ار ستمبر ۱۹۲۳ء کو عازم تادیان ہوئے.اور ہم دسمبر ۱۹۲۳ء کو مغرب کے وقت دارالامان میں پہنچے له العقل ۲۸ مارچ ۱۹۲۱ء ص : له الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۲۴ء مث ه ذکر جیب ۳۲۲ : ۳ الفضل ۳۰ اکتوبر ۱۹۲۳ء ص i i
ALI حضرت مصلح موعود نے ایک مجمع کثیر کے ساتھ مٹرک کے موڑ کے قریب آپ کا استقبال کیا اور اس مقدس سنتی کی قضاء أضلادُ سَعْلاً وَ مَرْحَبًا اور مبارک باد کے نعروں سے گونج اٹھی.نماز مغرب کے بعد حضرت مصلح موعود نے ایک لمبی دعا کرائی جس کے بعد حضور کی اجازت سے مفتی صاحب نے ایک مختصر مگر درد نگیر تقریہ کی میں میں بتایا کہ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ میں مغربی ممالک میں تبلیغ کر سکوں گا.میں ایسا ضعیف البیان انسان ہوں کہ سمجھا کرتا تھا کہ مغربی ممالک میں ایک ہفتہ کے لیے بھی زندہ نہ رہ سکوں گا.مگریہ ہی صحت قائم رہی، میں نے لمبے لمبے سفر کیے ، تنگ کو مٹڑیوں میں دن گزارے ، میرے قتل کے منصوبے کیسے گئے ہو نا کام رہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے ہر اعتبار سے کا میابی بخشی مگر یہ معجزہ محمود کا معجزہ ہے ایسے یورپ دامریکہ سے واپسی کے بعد آپ قادیان میں دوبارہ مقدمات دینیہ بجالانے لگے اس اثناء میں آپ صدر انجمن احمدیہ کے سیکرٹری مقرر ہوئے اور اس منصب کو نہایت قابلیت سے سنبھالا.۱۹۲۴ء میں حضرت مصلح موعود نے پہلے سفر یورپ کے موقعہ پر حضرت صاحبزادہ بشیر احمد صاحب اور آپ کو نائب امیر مقامی مقرر ہوئے فرمایا : در مفتی محمدصادق صاحب بھی پرانے مخلصین میں سے ہیں اور سلسلہ کی خدمات ہیں انہوں نے بہت حصہ لیا ہے.حضرت مسیح موعود کو ان سے خصوصیت سے محبت تھی وہ حضرت مسیح موعود کے ایسے خدام میں سے تھے جو ناز بھی کرلیا کرتے تھے اس زمانہ میں بھی مدافعا لی نے انہیں تبلیغ کی مذمتوں کا موقع دیا تھا یہ سکے ۱۹۲۶ء میں نظارتوں کا صدر انجین احمدیہ سے الحاق ہوا تو آپ پہلے ناظر امور خارجہ اور پھر ناظر امور عامر اور بعض دفعہ سرد و فرائض انجام دیتے رہے ان انتظامی امور کے ساتھ ساتھ آپ کی قلمی و لسانی خدمات کا پر جوش سلسلہ بھی جاری رہا.اکتوبر ۱۹۲۷ء میں آپ سیلون تشریف لے گئے تھے کو لمبو میں ایک پادری صاحب نے مسلمانوں کو مباحثہ کا چیلنج دیا تھا مسلمانوں نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اس کی اطلاع دی جس پر آپ کو جانے کا ارشاد ہوا.کولمبو کے مسلمانوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا.پادری صاحب تو آپ کے آنے ه الفصل ۴ دسمبر ۱۹۲۳ء / ٣ : له الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ء ص ة الفضل د اکتوبر ۱۹۲۷ء مٹ : الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۲۷ د ت : الفصل ۲۵ اکتوبر ص ۱۹۲۷ء مرا - الفضل 11 نومبر ۱۹۲۷ء مت - الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۲۷ء ص ۲ ::
سے پہلے ہی بھاگ گئے تھے.کولمبو کے ٹاؤن ہال ، بد ہسٹ سوسائٹی اور دیزی کالج میں آپ کے شاندار لیکچر ہوئے جن کی خبریں، ڈیلی سیلون اور ڈیلی نیوز نے شائع کیں.اہل سیلون آپ کی نورانی شخصیت سے بہت متاڑ ہوئے وہ آپ کو ولی اللہ سمجھتے تھے کو لبو کے بعد آپ نے کا نڈی میں بہت سی تقریریں کیں.یہ تقریب میں عام طور پر انگریزی میں ہوتی تھیں جہاں انگریزی جاننے والوں کی تعداد کم ہوتی مقامی زبان کا ترجمان آپ کی مدد کرتا.اور نومبر ۱۹۲۷ء کو آپ اس جزیرہ کے طول وعرمن تک پیغام احمدیت پہنچانے کے بعد مہند وستان روانہ ہوئے.یہ اور حضرت مصلح موعود کے ارشاد مبارک کی تعیل میں کیا اور چھاؤنی ، پینگا ڈی کالی کٹ، بنگلور، کلکتہ، بر من بڑیہ ، ڈھاکہ ، رنگ پور وغیرہ مقامات میں قیام فرمایا اور ستی و صداقت کی مناد می کرتے ہوئے وارد قا دیان ہوئے کیے اگلے سال ۱۹۲۰ءمیں آپ کراچی اور کلکتہ تشریف لے - لے گئے مئی ۱۹۲۹ء میں آپ نے دربارہ سیلون کا طویل سفر کیا جہاں ایک ایرانی عالم و صحافی سے آپ کو کامیاب گفتگو کا موقعہ ملا سیلون اخبارات کے رپور ٹڑوں سے آپ کی طویل ملاقاتیں ہوئیں اور آپ کے بیانات اخباروں میں شائع ہوئے جس سے ملک بھر میں احمدیت کا خوب پر جا موالی 19 ء کو آپ کشمیر تشریف لے گئے علم اور نہایت محنت و کاوش سے تین ماہ تک قبر مسیح سے متعلق تاریخی معلومات جمع کیں ان کو تحقیق جدید ستی تبریخ کے نام سے شائع فرما دیا جو آپ کا ایک مسلمی شاہکار ہے.فروری ۱۹۳۵ء میں آپ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود کے پرائیویٹ سیکرٹری مقرر کئے گئے.۲۰ ستمبر ۱۹۳۵ء کو آپ نے حضرت مصلح موعود کا نکاح حضرت سیدہ مریم صدیقہ سے پڑھا اور اس موقع پر ایمان افروز خطبہ دیا شه یکم جون ۱۹۳۷ء سے آپ صدر انجمن احمدیہ قادیان کی مرکزی رکنیت سے سبکدوش ہو گئے لیکن آپ کی راح له الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۲۷ء صت ، : کے تفصیلی حالات کے لیے ملاحظہ ہو الفضل ۲ دسمبر ۱۹۲۷ء ص - ۶ دسمبر ۱۹۲۷ء مشته - ۱۳؍ دسمبر ۶۱۹۲۷ - ۱۶؍ دسمبر ۶۱۹۲۷ ۲۰۰۲ دسمبر ۱۹۲۷ وصله : له الفضل یکم مئی ۲۰ را به شه الفضل ۲۲ جون ۱۹۲۸۰، من له الفضل ۲۱ مئی ۱۹۲۹ء مشان که الفضل ۲۷ مئی ۱۹۳۲ ء صت به شه الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۳۵ و صار ۲
دینی سرگرمیاں بیماری اور بڑھاپے کے باوجود بدستور جاری رہیں.حضرت مفتی صاحب سالانہ جلسہ کی مقدس سٹیج کی رونق تھے آپ کی پر جذب و تاثیر تقاریر سے وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی.خصوصاً " ذکر حبیب کا موضوع تو آپ کا سب سے دلپسند اور مقبول د محبوب موضوع تھا جسے آپ ایسے دلکش اور پر درد انداز میں بیان فرماتے کہ سُننے والے کو گویا حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود کی مبارک مجلس میں بیٹھا دیتے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں :- ایمان دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ ایمان نیس کی جڑھے دماغ میں ہوتی ہے اور جس میں یقین کی بنیاد دلائل پر رکھی جاتی ہے اور ایک وہ ایمان ہے جس کی بنیاد عشق اور محبت پر رکھی جاتی ہے.یہ ایمان اول الذکر ایمان سے افضل ہے لیکن سب سے افضل وہ ایمان ہے جس کی جڑ ھیں دل اور دماغ دونوں میں ہوں تاکہ دلائل کا رنگ بھی نمایاں ہوا اور عشق و محبت کا رنگ بھی غالب رہے.حضرت مفتی صاحب کو ایمان کا یہی ارفع مقام حاصل تھا.اسی لیے آپ زندگی بھر جہاد کی صف اوّل میں رہ کہ جہاں دلائل کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی نمایاں خدمات سر انجام دیتے رہے وہاں آپ نے عشق اور محبت کی گرمی کے ذریعہ بھی لوگوں کو مامور زمانہ کی مقناطیسی کشش سے متاثر کیا.ذکر جیب آپ کا خاص موضوع تھا.جسں کے بیان کرنے میں آپ کو کمال حاصل تھا.آپ حضور علیہ السلام کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات نہایت مؤثر طریق پر بیاں فرماتے تھے جس سے سامعین اپنا روح میں ایک بالیدگی محسوس کرتے تھے.اسی لیے جلسہ سالانہ کے موقع پر " ذکر حبیب" کے موضوع پر تقریر کے لیے آپ ہی کو منتخب کیا جاتا تھا اور....آپ یہ فرض نہایت عمدگی اور خوش اسلوبی سے ادا فرماتے رہے کہ حضرت مفتی صاحب کا شمار اُن بزرگ اصحاب مسیح موعود میں ہوتا ہے جنہیں بچپن ہی سے ذکر الہی کا بہت شغف تھا اور انہوں نے اپنی زندگی میں قبولیت دعا کے بہت سے نشانات کا مشاہدہ کیا جس کی کسی قدر تفصیل ہمیں آپ کے رسالہ ستحدیث بالمغرمت " میں ملتی ہے.نا روزنامه الفضل ریوه ۱۵ جنوری ۱۹۵۷ رصد ومت
۵۷۲ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی مشہور تصانیف حسب ذیل ہیں.تصانیف | 1- واقعات صحیحہ - تحديث بالنعمت - ۳.مقصد حیات -- - آئینہ صداقت - - کفاره - - تحقیق جدید متعلق تبرمسیح ے.بائبل کی بشارات سحق سرور کائنات - ۸ - تہنیت نامه مجتبی صادق - How to Save The World - پیر مہر علی شاہ صاحب کو ایک رجسٹر ڈ خط.Doctrine - CHRISTIAN ۱۲ - تحفہ بنارس - ۱۳ - ہم احمدی کیوں ہوئے ؟ - ۱۴ - ذکر حبیب " ؟ ۱۵- صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السّلام از روئے بائیل.لطائف صادق ( مرتبہ شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی ) ۱۷ قاعده عبرانی ( قلمی شخه) اولاد -۱- مفتی منظور محمد صاحب - ۲ - مفتی عبد السلام صاحب.۳.مفتی احمد صادق صاحب (سابق مبلغ نائیجیر با دامریکی) - ۴- سعیده عمر صاحبه - ۵ - رضیه صادق صاحبه.-۳- حضرت سید سیف اللہ شاہ صاحب ساکن بیچ بہارہ تحصیل وضلع اسلام آباد کشمیر ر ولادت شروع ۱۲۹۹ ه ۱۸۸۱ ۶ - دستی بعیت وسط مئی ۱۹۰۸ ء - وفات ۲۶ جنوری ۱۹۵۷ء) آپ کے والد سید اسد اللہ شاہ صاحب اپنے علاقہ کے پیر تھے جو ہر سال پنجاب میں اپنے مریدوں کے پاس جایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے دعوئی عظیم الشان دینی خدمات اور آپ کے مستجاب الدعوات ہونے کا علم انہی مریدوں کے ذریعہ ہوا اور انہیں سے حضور علیہ السلام کی تحریرات کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا.آپ نے ۱۳۲۳ عھد (۱۹۰۶ء) میں بیعت کا خط حضرت مسیح موعود کی خدمت لکھا حبس کی قبولیت کی اطلاع یکم مارچ ۱۹۰۶ء کو حضرت پیر افتخار احمد صاحب کے قلم سے بھجوائی گئی.رستی بیعت مئی ۱۹۰۸ء میں کی جبکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام الد یہ باڑ لگی میں قیام فرما تھے نے به نقل خود نوشت حالات مرسله سید محمد شاه سبیغی مکتوب بنام مؤلف ۱۶ار دسمبر ۱۹۸۴ و
۵۵ یه در ایام تھے جبکہ حضور نے انگلستان کے ماہر ہیشت دان پر و فیر کلیمنٹ ریگ کو شرف طاقات بخشار یعنی ۱۳ او دارمئی ۱۹۰۸ء اولاد - سید یوسف شاہ صاحب - فاضل جامعہ احمدیه تا دریان سید محمد شاه مینی صاحت بیچ بہاڑہ کشمیر سید عبد السلام صاحب ربوه ( پنتر صدر انجمن احمدیہ پاکستان) ۱۲ سند و نزینب بیگم صاحبه ۵ - سیده با جره بیگم صاحبه حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب بیشتری اسسٹنٹ سابق ملازم یوگنڈا ریلوے.(ولادت ۶۱۸۶۸- تحریری بیعت ۱۹۰۰ دوستی بیت و زیارت نروری ، وراء وفات ۱۹ فروری ۷ ۹۵اد) آبائی وطن شہابدی ضلع ہوشیار پور تھا.آپ کے والد نبی بخش صاحب اپنے علاقہ کے پیر اور زمیندار تھے جو ترک سکونت کر کے بیجہ تحصیل سمرالہ ضلع لدھیانہ میں آباد ہو گئے.آپ کا شجرہ حضرت سید بدر الدین ( آپ شریف) را تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو تاریخ حمد بہت جلد سوم صفحه ۱۵۴۳ ۵۴۴ : له سید محمد شاہ سیلینی کے مکتوب ۶ ار دسمبر ۱۹۸۴ء سے ماخوذ لودفات ۱۲ اکتو به ۱۹۸۶ء) سے حضرت خلیفہ امین الثالث کے ہم کلاس تھے اور ایک ساتھ مولوی فاضل کا امتحان دیا.عربی ، فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر تھے.رسالہ جامعہ کے کچھ عرصہ ایڈیٹر بھی رہے.۱۸ نومبر ۱۹۷۴ء کو وفات پائی اور قادیان میں بچوں کے قبرستان میں سپرد خاک کیسے گئے.کہ ولادت ۲۴ ستمبر : ۱۹ - فارسی ، اردو اور کشمیری تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے آپ کا کلام سلسلہ احمدیہ کے اخبارات در سائل میں شائع شدہ ہے مثلاً بدر (قادیان) مشكوة (قادیان) آزاد نوجوان (مدراس) الفضل در یوه فرقان (قادیان) الفرقان (رابوه) علاوه از ین سرینگر کے مقامی جرائد میں طبع ہوتا رہا مثلاً اخبار گزار، خدمت، رہنما اور روشنی یہ مسلک الباب والبہاؤ اور دعوت عمل " آپ کی تالیف ہیں : شے آپ کا نام افریقہ کے بیعت کنندگان میں الحکم اپریل ۱۹۰ ء صفحہ پر شائع ہوا : ای مشریف پنجاب کے پانچ دریاؤں کے سنگم پر ایک قدیم قصبہ جوملتان کے بعد اشاعت اسلام کا دوسرا یہ امرکز تھا.سید بدر الدین بھکری کی بیٹی اوچ شریف کے قدیم بزرگ سید جلال الدین بخاری کا باقی اگلے صفر پر)
064 کے توسط سے حضرت امام تقی علیہ السلام تک پہنچتا ہے.حضرت ڈاکٹر صاحب اس خاندان میں سب سے پہلے احمدی ہوئے آپ کے ذریعہ آپ کے چھوٹے بھائی حضرت سید اسمعیل صاحب اور پھر آپ کی والدہ اور بی بہن تعلق گوش احمدیت ہوئیں.آپ اپنے خود نوشت حالات میں تحر یہ فرماتے ہیں :.اتفاق سے ۱۸۹۷ء میں جب میں مشرقی افریقہ جارہا تھا.بھٹی میں ڈاکٹر رحمت علی صاحب جو کہ حضرت حافظ روشن علی صاحب کے بڑے بھائی تھے ، سے ملنے کا اتفاق ہوا.وہ بھی افریقہ جارہے تھے.ایک ہی جہاز میں سوار ہوئے اور تمام رستہ انہیں سے حضرت اقدس کے متعلق بحث مباحثہ ہوتارہا.آخر میں مان گیا.گر بیعت نہیں کی.اکثر عشاء اور تہجد میں دعائیں کرتارہا کئی دفعہ خواب میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حضرت اقدس کو بھی دیکھا گو ہیں احمدی جو چکا تھا کوئی شک و شبہ نہ تھا.مگر بیعت کو ضروری نہ سمجھتا تھا.آخریکا یک..و1 ء میں اس زور سے تحریک ہوئی کہ نماز فجر پڑھنی مشکل ہوگئی بعد نماز فجر بیعت کا خط حضرت اقدس کی خدمت میں تخریہ کر دیا.اس کے جواب میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا خطہ قبولیت بیعت کا ملا.آخر می فقرہ اس کا یہ تھا اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو آمین.تب سے باقاعدہ چندہ وغیرہ دینا شروع کیا.فروری ۱۹۰۱ ء میں قادیان حاضر مور کر دستی بیعت کی.بیعت کے بعد میں پھر افریقہ چلا گیا.افریقہ میں میاں محمد افضل صاحب ایڈیٹر البدر اور ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب مرحوم پہلے سے موجود تھے انہوں نے دہاں خوب کامیاب تبلیغ کی.ڈاکٹر رحمت علی صاحب بھی انہی کی تبلیغ سے احمدی ہوئے تھے.ڈاکٹر رحمت علی صاحب نہایت صالح اور منفی نوجوان تھے.اُن کے ذریعہ کثرت سے لوگ احمدیت میں دخل ہوئے اور افریقہ کا چندہ نہایت معقول رقم ہوتی تھی.وہاں تنخواہ بہت کافی ملتی تھی.چنانچہ میں نے وہاں سے علاوہ پانچ روپے ماہوار کے یکصد منارة المسیح کے لیے اور یکصد ریویو آن ریلیجنز کے لیے بھجوائے.اکثر حضرت اقدس کے لیے الگ رقم روانہ کرتارہا اگر احمدیت سے اچھی طرح واقفیت نہ ہونے کے باعث غیر احمدیوں سے اچھی طرح مباحثہ نہ کر سکتا تھا.۱۹۰۳ء میں واپس انڈیا آیا اور بمع اہل و عیال سیدھا قادیان آگیا.ر بقیہ حاشیہ منہ کے عقد میں آئیں رآب کو نرمت ۲ از شیخ محمد اکرام صاحب ناشر اداره ثقافت اسلامیه ۲ کلب روڈ لاہور هیچ چہار دہم ۱۹۹۰ء !
OLL نومبر ۱۹۰۳ ء سے اکتوبر ۱۹۰۴ توتک متواتہ قادیان میں رہا.ان دنوں مولوی کرم دین بھین کا مقدمہ فوجداری چل رہا تھا اور تمام اگریہ اور عیسائی اور غیر احمدی اُس کی مدد کر رہے کچہری میں جب دو سال قبل کی پیشنگوئی کے الفاظ جو کہ مواہب الہی من میں درج ہو چکی ہے ،جن میں کہ ہم دین نام شخص کو کہا گیا تھا کہ وہ کذاب بیٹیم بنان عظیم ہے) پڑھے جاتے تھے تو عجیب لطف آنا تھا.ستمبر ۱۹۰۴ء میں لیکچر لا ہور اور نومبر ۴، ۱۹ ء میں سیکچر سیالکوٹ میں شامل ہوا اور اکتوبر ۱۹۰۴ء کے آخیر میں ملازم ہو کر پنڈی گھیپ چلاگیا.وہاں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اور سلامت شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی.دسمبر ۱۹۰۵ ء میں رسالہ الوصیت نکلا جنوری ۱۹۰۲ء میں تیسرے حصہ جائیداد کیا.صیبت کی بلکہ اسی وقت ایک ہزار روپیہ کے مکانات جو کہ مدرسہ احمدیہ کے شمالی جانب ہیں وصیت میں دے دیئے اور چندہ ماہوار بتدریج ۱۸ روپیہ ماہوار تک کر دیا اور مہمان خانہ کے طحق مکان ریائش بغیر کہا یہ اکثر مہمانوں باسٹور کے کام آتا تھا.دوران مقدمه گورداسپور میں الہام عفت الرِّيَارُ مَحِتهَا وَمَقَامُهَا " اور تزلزل در ایوان کسر ٹی اور ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت وغیرہ میری موجود دگی میں ہوئے تھے.حضور علیہ السلام کی وفات سے قبل ۱۸ر مئی ۱۹۰۸ ء میں لاہور کے جلسہ دعوت عمائدین لاہور میں شرکت کی.دوسرے دن وہاں سے رخصت ہوئے میرے رخصت ہوتے وقت حضرت اقدس نے فرمایا.جاؤ اللہ حافظ.ہاں میں نے کہا تھا کہ حضور نہیں تو اب بہت دور چلا گیا ہوں یعنی الہ آباد.تو آپ نے فرمایا کہ در در نزدیک کیا ہمیں تو تبلیغ کرتی ہے.چند دن کے بعد حضور کے وصال کی خبر پڑھ کر بہت رنج ہوا اپنے مندرجہ بالا بیان میں آپ کے سفر گورداسپور کا بھی ذکر ہے.نام گورداسپور کے دوران آپ کو لے اختبار البدر قادیان (۲۴ جولائی ۱۹۰۴ء) نے لکھا کہ : ہم اپنے دوست با بو غلام غوث کو خصیت سے مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے قادیان کے ہ ماہ کے قیام میں خدا تعالیٰ کے انعامات کو دوسرے افریقی حمدی بھائیوں کے مقابل خصوصیت سے بڑھ کہ حاصل کیا ہے چنا نچہ یہ انتقل سائنٹی کے لیے ایک عمدہ بر محل مکان اور قطعہ زمین حاصل کیا ہے آئندہ بھی اُن کا ارادہ یہاں مستقل رھائش کا ہے.صفحہ ۳ کالم ۳) الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۵۰ء صفحه ۲
BLA ایک خاص اعزاز بھی نصیب ہوا ، روہ یہ کہ حضرت مسیح موعود کے عشاق ایک مدت سے آرزو مند تھے کہ حضور کے پیچھے نماز پڑھنے کی سعادت نصیب ہو جائے یہ ذکیہ بینہ خواہش اور دلی تمنا اور جولائی ۱۹۰۴ء کو یہ آئی جبکہ حضرت امام الزمان نے نماز ظہر اور عصر قصر اور جمع کر کے پڑھائیں.اس مبارک نماز کے وقت مقتدیوں کی کل تعداد میں تھی ان خوش نصیبوں میں آپ بھی تھے.حضرت بابو محمد الفضل صاحب ایڈیٹ " البدر نے اس تاریخی نمازہ کی کیفیت اور اس میں شامل ہونے والے بزرگ اصحاب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا :.ایک بجے کا وقت تھا.کہ حضرت امام الزمان علیہ السلام نے چند ایک موجودہ خدام کو ارشاد فرمایا کہ منانے - پڑھ لی جا دے.سب نے دھنو کیا.نمانہ کے لیے چٹائیاں بچھیں.حاضرین منتظر تھے.کہ حسب دستور سابقہ حضور علیہ السّلام کسی حواری کو امامت کے لیے آگے بڑھے.اور اقامت کے جانے کے بعد آپ نے نماز ظہر اور عصر قصر اور جمع کر کے پڑھائیں حضور علیہ الصلوۃ والسّلام کو امام اور خود کو مقندی پا کر حاضرین کے دل باغ باغ تھے.ان مقتدیوں میں کئی ایسے اصحاب تھے.جن کی ایک عرصہ سے آمنہ و تھی.کہ کبھی حضرت مین موعود علیہ السّلام نماز میں خود امام ہوں.اور ہم مقتدی ان کی امید آج بر آئی اور مجھ پر بھی یہ راز کھلا.کہ امام نماز کی ہیں قدر توجیہ الی اللہ زیادہ ہوتی ہے.اسی قدر جذب قلوب بھی زیادہ ہوتا ہے.چونکہ خدا کے فضل سے اس مبارک نمازہ میں میں خود بھی شریک تھا.اس لیے دیکھا گیا.کہ بے اختیار دلوں پر عاجزی اور فروتنی اور حقیقی بجز و انکسار غالب آتا جاتا تھا.اور دل اللہ تعالے کی طرف کچھا جاتا تھا.اور اندر سے ایک آواز آتی تھی.کہ دعا مانگو.قلب رقیق ہو کہ پانی کی طرح یہ یہ جاتا تھا.اور اس پانی کو آنکھوں کے سوا اور کوئی راستہ نکلنے کا نہ ملتا تھا اور اس مبارک وقت کے ہاتھ آنے پر شکر یہ الہی میں دل ہر گنہ گوارا نہ کرتا تھا کہ سجدے سے سر اُٹھا یا جاوے.غرضیکہ عجیب کیفیت تھی.اور ایک متقی امام کے پیچھے نماز ادا کرنے سے جو جو بخششیں اور رحمت از روئے حدیث شریعت مقتدیوں کے شامل حال ہوتی ہیں.ان کا ثبوت دست بدست مل رہا تھا.چونکہ یہ ایک ایسا عجیب وقت تھا.جس کے میسر آنے کی عمر بھر میں بھی امید نہ تھی.اور محض فضل ایزدی سے نہیں اور چند ایک دیگر احباب ملت کو میٹر آگیا.اس لیے مناسب ہے کہ اس مبارک وقت کے وجودہ مقتدیوں کے نام قلمبند کر دیئے جائیں.جن کی خدا تعالیٰ نے اس طرح عزت افزائی فرمائی اور آئیندہ
۵۷۹ نسلوں کے لیے یہ ایک یادگار رہ جائے.☑1 تم فہرست کالا کیا امان الاسلام کے مقدی برایمان اواکی اصحاب محمد یوسف صاحب طالب مسلم پیشا در اسلامیہ سکول ہائی کلاس.- مولوی عبد العزیز صاحب منتظم ساکن گوہد پورسیالکوٹ.محمد ابراہیم صاحب کلرک ساکن گوہد پور سیالکوٹ - عطاء محمد صاحب زمیندار " " ه خليفه نور الدین صاحب سٹیشنری شاپ جموں.عبدالرحیم صاحب دلار خلیفہ نور الدین صاحب بابو غلام غوث صاحب - ویٹرنری اسسٹنٹ - غلام رسول صاحب باور چھا.امرتسر.عبد العزیز صاحب.ٹیلر ماسٹر.میر مٹھ ۱۰ - عبد العزیز صاحب - مدرس - الیمین آباد - حافظ محمد حسین صاحب و ڈنگری ۱۲.میاں شہاب الدین صاحب - لدھیانه ۱۳ - حیدر شاہ صاحب گر را در شورکوٹ.ضلع جھنگ ۱۴ حسین صاحب - ساکن کٹھالہ - ۱۵.میاں شادی خان صاحب - تاجر سیالکوٹ ۱۹ - مولوی یار محمد صاحب مخلص قادیان ۱۷ - مولوی عبد اللہ صاحب - ۱۸ - نعمت خان صاحب - محکمہ پلیگ گورداسپور ۱۹ - میاں خیر الدین صاحب ساکن سیکھوان منع گورداسپور.۲۰ محمد افضل خادم احمدی جماعت ایڈیٹر مینجر اختبار البدر نے البدر ۲۴ جولائی ۱۹۰۴ و مت) ۲۰-
حضرت ڈاکٹر صاحب کو حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعود سے بے انتہاء عشق تھا.دعاؤں اور ذکر اپنی میں شغف کے اعتبار سے آپ جماعت میں ایک خاص مقام رکھتے تھے.ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ غالبا ۱۹۲۰ء میں ہجرت کر کے قادیان آ گئے تھے.بقیہ عمر آپ نے قادیان اور پھر ربوہ میں سیر کی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپرد قلم فرمایا : حضرت ڈاکٹر صاحب موصون......اپنی دینداری اور تقویٰ اور عبادت اور دعاؤں میں شعف کیوجہ سے وہ اس وقت احمدی بندگوں میں صف اول میں تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام اور حضرت خلیفہ المسیح ا الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو للہی عشق تھا.ڈاکٹر صاحب مرحوم کے اخلاص اور عشق کا یہ عالم تھا کہ اکثر سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں رحضت لے کر قادیان گیا اور اس ارادے سے گیا کہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السّلام مجھے شناخت نہیں کرلیں گے ادر مجھے نام لے کر نہیں جائیں گے میں واپس نہیں جاؤں گا خواہ نوکری رہے یا نہ رہے.چنانچہ میں رحمت پر رحضرت لیتا گیا اور پورا ایک سال قادیان میں ٹھہرا.آخر ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے دیکھ کہ کسی کام کے تعلق میں فرمایا میاں غلام غوث آپ یہ کام کر دیں.میں نے خدا کا شکر کرتے ہوئے وہ کام کیا.اور دوسرے دن حضرت سے رخصت لے کر نوکری پر واپس چلا گیا حق یہ ہے ان بزرگان قدیم کی شان ہی نرالی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبہ دست روحانی طاقت اور غیر معمولی مقناطیسی کشش کا ایک بین ثبوت ہے عبادت کا اتنا شوق تھا کہ اُن کا دل گو ہر وقت مسجد میں شکار ہوتا تھا.آخری ایام میں جب کہ ڈاکٹروں نے انہیں چلنے پھرنے سے منع کر دیا تھا.وہ پھر بھی داؤ لگا کر مسجد میں پہنچ جاتے تھے.یعنی کہ مجھے انہیں اصرار کے ساتھ روکنا پڑا.کہ ان پر بنفسِكَ عَلَيْكَ حق کا حکم بھی واجب ہے.نہایت تضرع کے ساتھ دعائیں کرتا اور ذکر الہی میں مشغول رہتا ان کے دل کی غذا تھی.یہ انہی اعمال حسنہ کا نمرہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب خدا کے فضل سے صاحب کشف والہام تھے اور خدا کا بھی یہ فضل منھا کہ انہیں اکثر اپنی دعاؤں کا جلد جواب مل جاتا تھا.گو بعض اوقات امید کے پہلو کے غلبہ کی وجہ سے وہ تعبیر میں غلطی کر جاتے تھے.له الفضل ۲۱ فروری ۱۹۵۷ ء ما
۵۸۱ بہر حال احمدیت کا ایک درخشندہ ستارہ اس جہان میں غروب اور اگلے جہان میں طلوع ہوا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وفات کے اس قدر جلد بعد ڈاکٹر صاحب کی وفات بھی ایک بھاری قومی صدمہ ہے حضرت مفتی صاحب تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص مقرب رفیق تھے.اور ان کا درجہ بہت بلند تھا.مگر ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کا وجود بھی اس وقت جماعت میں ایک بڑی نعمت تھا.خاص صدمہ کی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پرانے رفقاء) جلد از جلد گزرتے جاتے ہیں.کچھ عرصہ ہوا حضرت خلیفہ المین الثانی ایدہ اللہ نے خطبہ میں جماعت کو تحریک فرمائی تھی اور میں نے بھی حضور کی اتباع میں الفضل میں ایک مضمون لکھا منھا) که نوجوان احمدی نوافل اور دعاؤں اور ذکر الہی میں شعف پیدا کر کے جماعت کے روحانی مقام کو بلند رکھنے کی طرف توجہ دیں نامرنے والے بزرگوں کی طرح خدا تعالیٰ انہیں بھی اپنے فضل درحمت سے رڈیا صالحہ اور کشف اور الہام سے نوازے اور جماعت میں خدا تعالی کے زندہ اور تازہ بتازہ نشانات کا سلسلہ قائم رہے گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام اور آپ کے خلفاء کرام کے ذریعہ ظاہر ہونے والے نشانات اب بھی زندہ ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آیات کو تو ہمیشہ کی زندگی حاصل ہے.لیکن اگر جماعت کے افراد میں بھی ان روحانی چھینٹوں کا سلسلہ جاری رہے تو یہ گویا ہونے پر سہاگہ ہے اور مجھے خوشی ہے کہ کچھ عرصہ سے جماعت کا نوجوان طبقہ عبادت اور ذکر الہی کی طرف زیادہ توجہ دے رہا ہے اور ان میں سے بعض کشف و الہام سے بھی مشرف ہیں گھر یں ان سے کہتا ہوں کہ کا نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز جماعت احمدیہ ایک خدائی جماعت ہے.اور گو اسے اسلام اور احمدیت کی خدمت اور جماعتی ترقی کے لیے ظاہری اسباب کی طرف بھی ہمیشہ خاص توجہ دیتے رہنا چاہیئے لیکن ان کی ترقی کا اصل رازہ روحانی وسائل میں ہے اور جماعت کے نوجوانوں کو ان رسائل کی طرف خاص توجہ دینی چاہیئے.اور روحانی وسائل میں زیادہ توصبہ یہ وسائل ہیں.ا.نمازوں کو دل لگا کیا اور سنوار کر پڑھنا اور یہ تصور قائم کرنا کہ اس وقت خدا کے سامنے ہوں اور خدا میرے سامنے ہے.- نماز تہجد اور دیگر نوافل کی پا بندی - نمانہ نجد تودہ نعمت ہے جس کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے کہ
DAY اس کے ذریعہ ہر شخص کے لیے اس کے ذاتی مقام محمود کا راستہ کھلتا ہے ۳.دعاؤں میں شغف اور دعائیں بھی ایسی کہ گویا منڈیا اہلنے لگے.ذکر الہی جن میں کلمہ طیبہ اور درود شریف اور سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ اعظم اور استغفار سب سے بلند مرتبہ ہیں ان کے علاوہ میرے ذاتی تجربہ میں یا حی یا قیوم برحمتك استغيث اور لا اله انتَ سُبْحَانَكَ إِني كُنتُ مِنَ الظَّلِمينَ بھی بہت اعلیٰ درجہ افکار ہیں.بالآخر میں اپنے نوجوان عزیزوں سے پھر کہتا ہوں کہ پرانے بزرگ گزرتے جاتے ہیں.جماعت میں خوار نہ پیدا ہونے دو اور گزرنے والوں کی جگہ ساتھ ساتھ پر کرتے جاؤ.بلکہ ان سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ نصیحت ہمیشہ یادر کھوالہ اولاد پہلی بی بی سے افضل کریم صاحب ر نام حضرت مسیح موعود نے رکھا ہے ۲- عبد العزیز صاحب د و سرمی بیا بیا مره رحمانی بیگم صاحبہ سے) محترمه ✓ سید سید احمد صاحب - رسمی سید محمد احمد صاحب مرحوم ه سید محمد یونس صاحب -4 - امتہ اللہ بیگم صاحبہ (اہلیہ سید عبد الغنی شاہ صاحب بگجرات) سکینہ بیگم صاحبه را المیہ شیخ الطاف حسین صاحب مرحوم - امته قادر صاحبہ اہلیہ سید عبد الغفور شاہ صاحب لاہور ) امه عزیز صاحبه ر اہلیہ سید حمید اللہ شاہ صاحب لاہور ) ۱۰- امہ رشید صاحبہ د المیہ شریف احمد صاحب مرحوم سرگودہا ) سه ردانه نامه العقل ۲۱ فروری ۱۹۵۷ ء مش کے وفات مارچ ۱۹۰۷ ء ر بدر ۴ از تاریخ ۱۹۰۷ ء م : س البدر ۲۴ جولائی ۱۹۰۴ء ص : بدر ، ارجنوری ۱۹۰۴ء ص ļ
۵۸۳ ڈاکٹر محمد عمر صاحب لکھنوی پی.ایم.ایسی مقیم جے پور ربیت ۱۹۰۵ ء وفات ۶ ار مارچ ۶۱۹۵۷ آپ نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی اہیں پاس کیا.پھر آپ یو پی گورنمنٹ کی پراونشل میڈیکل سروس (کلاس ون) میں لے لیے گئے.اس دوران میں کئی سال تک میڈیکل کا لج لکھنو میں ریڈیالو حسیٹ (RADIOLOGIST) کی حیثیت سے طبی خدمات بجالاتے رہے.نیز یوپی کے مختلف ضلعوں میں سول سرجن کی حیثیت سے اپنے مفوضنہ فرائض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا.نہایت پر جوش اور مخلص احمدی تھے برصغیر پاک وہند کے نامور ادیب جناب شوکت تھانوی صاحب نے اپنی کتاب مابدولت، صفحہ 4 اپر اُن کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح اُن کی تحریک پر پنجاب گئے قادیان کی پہلی زیارت کی اور امرتسر میں حضرت مصلح موعود سے طلاقات کا شرف حاصل کیا.۱۹۳۹ ء میں فیشن لینے کے بعد سے آپ جے پور میں رہائش پذیر تھے آپ نے کئی کتابیں بھی تصنیف فرمائیں جن میں البیان الکامل فی الدق ولا لسل " بہت مشہور ہوئی.ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنے پیچھے چار بیٹے اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑیں اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر آپ کے بھائی ڈاکٹر محمد زبیر صاحب ایم بی بی ایس روارثی منزل بہار کالونی کراچی ملے) کے نام حسب ذیل تعزیت نامہ لکھا : - بوه بسم الله الرحمن الرحیم 414106 وعلى عبده المسيح الموعود نحمده ونصلى على رسوله الكريم کریمی محترمی ڈاکٹر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط فرمودہ ۷/۲/۵۷ موصول ہوا ڈاکٹر محمد عمر صاحب کی وفات کا مجھے علم ہو چکا ہے اور اس کا بہت صدمہ ہوا اس لیے بھی کہ وہ رفیق مسیح موعود تھے اور آپ کے خاندانی مجلس کی شمع اول تھے اور اس لیے بھی کہ وفات کے قریب ان کو اپنی اولاد کے ایک حصہ کی بے راہ روی کا صدمہ دیکھنا پڑا اٹھ به ناشر ادارہ فروغ اردو لاہور طبع دوم یکم دسمبر ۱۹۴۶ء الفضل ۲۷ ر ما با ۱۹۵۷ء ص ۲
۵۸۴ تعالی انہیں غریق رحمت کرے اور ان کی اولاد میں سے جو حصہ بھٹک گیا ہے اسے راہ راست پر لائے اور بقیہ اولا د کا حافظ و ناصر ہو اور دین و دنیا میں ترقی عطا کرے ان کے جو بیچے پاکستان میں ہیں انہیں آپ تحریک کرتے رہیں کہ وہ مرکز کے ساتھ اپنا تعلق ضرور قائم رکھیں اور حضرت صاحب کو دعا کے لیے خطوط لکھتے رہیں میں نے سُنا ہے کہ ان کے بیوی بچوں کو جے پور سے لانے کے لیے شیخ عبدالحمید صاحب کا ایک لڑکا روانہ ہو گیا ہے اور تجویز سے کہ یا تو وہ قادیان میں آباد ہو جائیں گے یا پاکستان آجائیں گے.قادیان میں آباد ہونے کی صورت میں آپ انہیں نصیحت فرما دیں کہ وہاں کے نظم و ضبط کا خاص خیال رکھیں کیونکہ خلافت سے دوری کی بناء پر ہمیں وہاں زیادہ چوکس نظم وضبط رکھنا پڑ تا ہے.جسے بعض جلد باز طبیعتیں برداشت نہیں کرتیں.آپ نے اپنے دو بچوں کے متعلق دعا کے لیے لکھا ہے.آپ خدا کے فضل سے بہت مخلص ہیں.اور آپ کی اہلیہ محترمہ بھی بہت مخلص ہیں اور پھر آل رسول بھی اللہ تعالیٰ آپ کے بچوں کو دین و دنیا کے امتحانوں میں علی کامیابی عطا کرے اور آپ کے لیے اور جماعت کے لیے قرۃ العین بنائے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کی مالی مشکلات کے دور ہونے کا رستہ بھی کھول دے.آمین.فقط والسلام 4 (مرزا بشیر احمد) حضرت ماسٹر خیر الدین صاحب ریٹائرڈ پی.ای.ایں دلارت ۶۱۸۸۷ بیت ۱۹۰۵ء - وفات ا ر ا پریل ۱۹۵۷ء) آپ فرماتے ہیں:.میں علی گڑھ میںانٹر میڈیٹ کا طالب علم تھا.وہاں موسم گرما کی تعطیلات غالباہ اور جولائی سے ہوا کہ تی تھیں.میرے ساتھ میرے ہم جماعت گل محمد صاحب رہتاس کے رہنے والے تھے.اس وقت لنگرخانہ.مدرسہ احمدیہ والی جگہ پہ تھا.اور اس میں باورچی غلام حسین رہتاسی تھے.جو گل محمد صاحب کے واقف تھے ہم دونوں ان کے پاس لنگر خانہ میں ٹھہرے.مولوی محمد علی صاحب ایم اے اس وقت ایڈیٹر یویو آف ریلیجنز تھے.اور بیت المبارک کے ساتھ والے حجرے میں اپنا کام کرتے تھے.ایک دو یوم معسیم ن الفضل یکم مئی ۱۹۵۷ و مت
DAD رہنے کے بعد ان سےدرخواست کی کہ ہم دونوں حضرت اقدس کی بیعت کرنا چاہتے ہیں.مولوی صاحب نے رمایا کہ کچھ یوم اور ٹھہریے.جس پر ہم لوگ مزید ایک دو دن ٹھہر گئے.اور پھر مولوی صاحب سے پر درخواست کی اس پر مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو لکھا.حضور اس پر آمدہ میں تشریف لائے جو بیت المبارک کی لکڑی کی سیڑھی کے پاس تھا.اور وہیں پر ہم دونوں کی بیعت لی.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بھی وہاں آ گئے اور حیب بیعت کے بعد دعا ہونے لگی توحضرت اقدس کے دریافت کرنے پہ مولوی صاحب نے فرمایا کہ منور ان کے لیے خاص دعا کی جائے یا سٹہ حضرت ماسٹر صاحب بچپن ہی سے نہایت ذہین تھے.مڈل دمیٹرک سے لے کر یو نیورسٹی کی تعلیم تک آپ نے وظیفہ حاصل کیا بعد ازاں صوبہ سی پی یراہ میں سائنس ٹیچر کی حیثیت سے آپ کا تقرر گورنمنٹ ہائی سکول امراد تی میں ہوا کام صوبہ میں آپ اس وقت غالباً تنہا احمدی تھے اس لیے مخالفت کی وجہ سے آپ کی ترقی رک گئی آپ نے حضرت مسیح موعود کی خدمت اقدس میں درخواست دعا کے خطوط لکھے آپ کو خواب میں حضرت مسیح موعود نے بشارت دی کہ ترقی ہوگی اور مزور ہو گی چنانچہ اس کے بعد ترقی ہوتی چلی گئی اور آپ بالا گھاٹ میں ہیڈ ماسٹر مقرر کیے گئے یہاں ہندوؤں کا بہت زور تھا مگر خدا کے فضل سے آپ کو نہایت عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا اس کے بعد گورنمنٹ نارمل ہائی سکول امراد تی میں جب آپ ہیڈ ماسٹر اور سپر نٹنڈنٹ کی حیثیت سے متعین کیے گئے تو مخالفین احمدیت کا ایک دند ڈائریکٹر صاحب ناگپور کو لا کہ یہ شخص احمدی ہے.اپنے مذہب کا سکول میں چرچا کرے گا اور لڑکوں کو زبردستی اپنے مذہب میں داخل کر ے گا.اس لیے اسے موجودہ عہدہ سے ہٹا دیا جائے" لیکن ڈائر یکٹر صاحب نے جواب دیا کہ مسٹر خیر الدین جیسا راستباز ، دیانت دار، نیک محنتی اور بلند اخلاق آدمی مجھے تمام کہ سی پی برار میں نہیں ملا.وہ آج کا احمدی نہیں ہے بلکہ شروع ملازمت سے احمدی ہے.آپ مخالفتوں کے ہجوم میں بھی فریضہ دعوت الی اللہ کو نظر انداز نہیں کرتے تھے.قادیان سے لٹریچر منگوا کر صوبہ برار میں تقسیم کرتے ، جلسہ سیرت النبی کا انتظام کراتے ، صوبہ سے گزرنے والے مبلغین سلسلہ سے تقریریں کراتے ، حضرت مسیح موعود کی دعاؤں اور اشعار فریم کروا کر کمروں میں شکا به روزنامه " الفضل " ریوه مورخه ۲۴ مئی ۱۹۵۷ رمت
DAY دیتے تا تبلیغ متقی کا سلسلہ جاری رہے.آپ کے خلاف بہت سازشیں ہوئیں اور عہدہ سے ہٹانے کی سر توڑ کوششیں کی گئیں مگر ہمیشہ خدا کا فضل آپ کے شامل حال رہا اور حکومت نے لیا.ای.ایس کے اعزاز می گریڈ سے نوازا.ریٹائر ڈ ہو تے وقت آپ کو سرکاری طور پر کئی اچھے عہدوں کی پیشکش کی گئی اور جو بھی کیا گیا کہ آپ ان میں سے کوئی ضرور منظور کر لیں لیکن آپ نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا کہ سرکاری فازمت تو بہت کر لی اب بقیہ زندگی خدمت دین کے لیے وقف کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں.ریٹائرڈ ہونے کے بعد ۱۹۴۲ء میں قادیان آگئے اور حضرت مصلح موعود کی خدمت مبارک میں اطلاع دی.حضور نے آپ کو پہلے نائب ناظر تعلیم و تربیت اور پھر ناظر تعلیم و تربیت مقرر فرمایا.قیام پاکستان کے بعد آپ نے سیالکوٹ میں بود و باش اختیار کر لی اور کچھ عرصہ تک احمدیہ گرلز سکول سیالکوٹ اور احمدیہ ہائی سکول گھٹیالیاں کے مینجر رہے اور اس قومی فرض کو بڑھاپے کے باوجود کمال محنت اور دیانتداری سے انجام دیا.۱۹۵۰ء میں جلسہ سالانہ سیالکوٹ کے موقع پر مخالفین احمدیت کی خشت باری پر آپ کے عمر کو اتنی شدید چوٹ آئی کہ زندگی کی امید نہ رہی.آپ نے فرمایا حضرت صاحب کو اطلاع دو آپ کے بیٹوں نے سید نا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں روزانہ تار بھیجنا شروع کر دیا اور آپ معجزانہ طور پر شفا یاب ہو گئے.آپ موصی تھے اور تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کے مجاہد بھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود کی کتب اور سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر زیر مطالعہ رکھتے اور اپنی لائبریری میں ان کا خاص اہتمام سے ریکارڈ رکھتے تھے.پابند صوم و صلواۃ اور تہجد گزار تھے.اور خصوصاً تجد میں حضرت مصلح موعود ، خاندان مسیح موعود ، بزرگان جماعت اور مبلغیی سلسلہ اور غلبہ اسلام کے لیے بہت دعائیں کرتے تھے اور صاحب رڈیا دکشت بزرگ تھے کہ اولاد : - 1- بشیر الدین طاہر صاحب.۲.محترمہ اے.اگر.نگہت صاحبہ متر مر امت اسلام ( اہلیہ عبد الرحمن صاحب پورن نگر سیالکوٹ) - حضرت چوہدری احمد دین صاحب وکیل گجرات رولادت ، ۱۸۷ قریباً بیعت ۱۹۰۵ د غالبات.وفات ۲۴ رمئی ۶۱۹۵۷ له الفضل ۲۳ مئی و ۲۵ مئی ۱۹۵۷ ء ر تلخیص مضمون محترمہ اے آر نگہت صاحبہ) رار دایات ۱۰ صفحہ ۶۶
DAL ہیں.حضرت چو ہدری صاحب نے جون ۱۹۲۹ ء میں قبول احمدیت کے حالات تحریر فرمائے جو درج ذیل کیے جاتے یک اسلامیہ ہائی سکول راولپنڈی میں ٹیچر تھا وہاں ایک احمدی کتب فروش تھا اس سے کتابیں لیکر پڑھیں.ان دونوں مذہب کی طرف پیر می توجہ نہ تختی ایک مضمون درباره حقیقت نماز پڑھا.اس کے پڑھنے سے مجھ پر خاص الر ہوا.اس کے بعد پھر اور رسائل دیکھنے کا اتفاق ہوا.پھر میں سکول کی نوکری چھوڑ کر کو ہاٹ چلا گیا.وہاں میں نے کتابیں پڑھیں اور اختیارات کا بھی مطالعہ کیا پھر میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ میں خود قادیان جا کہ دیکھوں.میں نے نئے مہمان خانہ میں جو اس وقت ابھی بناہی تھا اکیلے حضرت اقدس کی بیعت کی.اس وقت حافظ غلام رسول صاحب وزیہ آبادی بیلی موجود تھے.حضرت اقدس نے مجھے ایک کتاب مواہب الرحمن" بطور تحفه وی (ایضاً ۶۶) خالد احمدیت ملک عبد الرحمن صاحب خادم نے آپ کی وفات پر ایک مفصل مضمون لکھاجس میں بتایا کہ:.چو ہدری صاحب مرحوم و مغفور مضلع گجرات کے چوٹی کے دیوانی وکلاء میں سے تھے.اور اس زمانہ میں حیب که دیوانی وکالت پر ہر طرت مند رو کلا رہی چھائے ہوئے تھے عام طور پر سمجھا جانے لگا تھا کہ شاید دیوانی وکالت مسلمانوں کے بس کا روگ نہیں ہے.چوہدری صاحب مرحوم نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی قابلیت کے نتیجہ میں محنت شاقہ کے باعث دیوانی وکالت میں نام پیدا کیا اور جب تک یہ کام کرتے رہے مخالف یا موافق حلقوں میں عظمت کی نگاہوں سے دیکھے گئے.آپ ایک بلند پایہ قانون دان ہونے کے علاوہ اپنی علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے عربی اور فارسی دونوں نہ بانوں کے عالم تھے.۱۸۹۸ ء میں منشی فاضل کا امتحان پاس کیا تھا.فارسی کے قدیم اور جدیار لٹریچر پر کامل عبور حاصل تھا.ایران کے ایک فارسی روز نامہ کے خریدار تھے اور اسے اس لیے بالالتزام زیر مطالعہ یہ کھتے تھے کہ جدید فارسی علم کلام سے پوری طرح بہرہ ور ہوسکیں.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہرہ آفاق تصنیف اسلامی اصول کی فلاسفی کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا تھا جو تاحال شارح نہیں ہوا.چو ہدری صاحب ایک منتقی انسان تھے قرآن مجید کے عاشق تھے اور قرآن مجید پر تدبیر کر نے اور اس کے نئے نئے نکات معرف سے نکالنے میں ہمیشہ مشغول رہتے تھے.قرآن مجید کے درس و تدریس میں قلبی
۵۸۸ راحت و مسرت محسوس کرتے تھے.اور جب تک ان کی صحت نے اجازت دی یہاں تک کہ اپنے رفات کے تھوڑا عرصہ پہلے تک بیت احمد یہ گجرات میں قرآن مجید کا درس دیتے رہے.چو ہدری صاحب نہایت سنجیدہ مزاج اور منین طبع تھے.آپ کی طبیعت پر علم اور بردباری کا غلبہ تھا.زندگی کے تمام شعبوں دینی اور روحانی امور کے بارے میں نہایت پچند رائے کے مانگ مھتے.اور اپنی رائے کا اظہار بے ردد رعایت کر نے میں ہر گنہ کوئی باک محسوس نہ کر تے تھے.وکالت کے پلینڈ میں دیانتداری آپ کا حکم اصول تھا.اہل مقدمات کو ہمیشہ صحیح رائے دیتے تھے نہیں فریق کا مقدمہ کر دور ہو تا اُسے نہ صرف صاف لفظوں میں اپنی رائے سے مطلع کرتے بلکہ ایسا مقدمہ لینے سے انکار کر دیتے.ب اوقات ایسا بھی ہوا کہ کسی فریق نے آپ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے مقدمہ آپ کے سپرد کیا اگر نتیجہ خلاف توقع نکلا تو چو ہدری صاحب نے بھول کر دہ نہیں واپس کر دی.چوہدری صاحب کے اعلیٰ اور قابل تقلید نمونہ کے باعث ہر کس وناکس مخالف و موافق آپ کا ثناخواں اور آپ کو انتہائی ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتا تھا.آپ ایک بے ضرر انسان تھے اور تنازعات سے حتی الامکان کنارہ کش رہتے تھے.سادہ طبیعت سادہ وضع.اور سادہ کردار تھے.احکام شریعت کے پابند اور تقویٰ و طہارت کا اعلیٰ نمونہ تھے.ایک کامیاب وکیل ہوتے اور جماعتی زمہ داریوں کے باوجود عزلت نشیں تھے.صبح کی لی سیر جو عموما تین چار میل کی ہوتی تھی.آپ کی زندگی کا جزو بن چکی تھی.جسے آپ بجز جسمانی معذوری کے کبھی ترک نہ کرتے تھے.آپ کی اصابت رائے مسلم مفتی.دینی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ دن رات کا مشغلہ تھا اور اس لحاظ سے ان کا کتب خانہ عمدہ عمدہ کتابوں پر مشتمل تھا.۱۹۲۸ء تک رجب کہ میں گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کا ربع گجرات سے العت.اسے پاس کر کے گورنٹ کالج لاہور میں بی اے کلاس میں داخل ہوا) میرا ابتدائی زمانہ طالب علمی گجرات میں گزرا.ان ایام میں چوہدری.صاحب جماعت گجرات کے امیر تھے.آپ خاکسار کی تبلیغی سرگرمیوں اور دینی علوم میں شعف کی بے حد حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے.یہاں تک کہ ۱۹۲۶ء میں جب کہ میری عمر صرف 14 سال کی تھی اور میٹرک میں تعلیم پاتا تھا ایک مناظرہ میں رجس میں دوسری طرف سے ایک سیالکوٹی غیر احمدی مولوی صاحب مناظر تھے ) خاکسار کو جماعت احمدیہ کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا اور مناظرہ کی کامیابی پر اس قدر خوش تھے کہ ایک لمبے عرصے تک تعریف میں رطب اللسان رہے.جب میں نے تکمیل تعلیم کے بعد واپس
DAY برات آکر وکالت کا کام شروع کیا تھا تو چوہدری صاحب نے مجھے فرمایا کہ میں اب بوڑھا اور کمزور ہو چکا ہوں مجھے بے حد خوشی ہے کہ تم آگئے ہو اسلئے میں چاہتا ہوں کہ جماعت گجرات کی امارت کی ذمہ داری تم سنبھال لو ان کی وفات سے چند دن پہلے جب میں مع برادرم محترم حضرت را به مسل محمد صاحب اور سید فخرالاسلام صاحب چوہدری صاحب کی خدمت میں عیادت کے لیے حاضر ہوا تو چوہدری صاحب نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور میرا ہا تھ اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے باچشم پہ تم دیر تک دعائیں دیتے رہے اور فرما با سید نا حضرت مسلح موجود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے موقع پر تمہیں جس تعریف سے نوازا ہے تم خدا کے فضل سے فی الواقع اس تعریف اور خطاب کے اہل ہو.خاکسار کے مضمون بجواب چیمہ صاحب کا دیہ تک ذکر فرماتے رہے اور دعائیں دیتے رہے.سید فخر الاسلام صاحب چوہدری صاحب کے جوانی کے زمانہ کے دوست تھے.اور دراصل انہیں کے ذریعہ چو ہدری صاحب کو قبول احمدیت کی سعادت حاصل ہوئی تھی ان سے بے حد تپاک اور محبت سے ملے اور دیر تک جوانی کے زمانہ کی باتیں ان سے کہتے رہے.یہ میری ان کی آخر میں ملاقات تھی اور مجھے قطعاً امید نہ تھی کہ وہ اس قدر جلد ہم سے رخصت ہو کر اپنے حقیقی مولی کے پاس چلے جائیں گے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ چوہدری صاحب بلا شبہ احمدیت کے بڑے آدمیوں میں سے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے عشق میں گدانہ اور شمع احمدیت کے پروانے تھے.اگر چہ ۱۹۵۱ء سے لے کر وفات تک عدالت کے کام سے کنارہ کش ہو چکے تھے اور علالت کے باعث اکثر وقت گھر کے اندر ہی رہے لیکن اس چھ سالہ علالت کے دور کو بھی انہوں نے علمی کاوشوں اور سلسلہ کی قلمی خدمتوں کے لیے وقف کر دیا تھا.اس عرصہ میں متعدد بلند پایہ علمی مضامین ان کے قلم سے نکلے جو " الفرقان میں شائع ہوتے رہے ہیں.اور ایک مضمون اُن کے وفات کے بعد شائع ہوا ہے.چودھری صاحب موصوف اللہ تعالیٰ کے فضل سے صاحب کشون والعامات به روزنامه الفضل به بره ۲۳ جولائی ۱۱۹۵۷ - ۲۳ ردنا ۱۳ مرد
۵۹۰ تھے.۱۹۵۱ء میں جب موٹر کے حادثہ میں ان کی ٹانگ کی بڑی بڑی شکستہ ہوگئی توعام طور پر ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ اس بڑی کا جڑنا اور چوہدری صاحب کا جانیبر ہو نا مشکل ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل تندرست ہو گئے اور آسان چلنے پھرنے گئے اور اگرجی وکالت کا کام شروع نہیں کیا مگر عام روز مرہ کے کام کاج اور روزانہ میر کرنے باہر جاتے.حتی کہ مسجد میں بھی جمعہ اور عیدین کی نماز دوں میں تشریف لاتے اور کئی مرتبہ خاکسار کی خواہش پر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے.ابتدائی علالت کے ایام میں ایک شب ایک عجیب واقعہ پیش آیا.سردی کا موسم تھا رات کو چوہڑی صاحب سوئے ہوئے تھے آپ کے قریب ہی اس کمرہ میں میاں محمد ابراہیم صاحب احمدی رجو چودھری احب کے صاجزادہ برادرم چوہدری بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے منشی ہیں اور چودھری صاحب کی خدمت پر مامور تھے) دوسری چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے.خود چو ہدری بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ساتھ والے کمرے میں اپنے مقدمات کی تیاری میں مشغول تھے کہ چوہدری بشیر احمد صاحب کو آواز دے کر بلایا اور پوچھا کہ ابھی ابھی میرے کمرے میں کون بزرگ تشریف لائے تھے ہا چو ہدری بشیر احمد صاحب نے جواب دیا کہ کمرے کے تمام بیرونی دروازے اندر سے بند ہیں یہاں کوئی شخص باہر سے نہ اندر آسکتا ہے اور نہ کوئی آیا ہے.اس پر منشی محمد ابراہیم صاحب مذکور نے بتایا کہ میں نے بھی ایک بزرگ چوہدری صاحب مرحوم کے سرہانے کھڑے دیکھتے ہیں.چوہدری صاحب مرحوم نے بتایا کہ ایک بلند قامت بزرگ نهایت براق سفید لباس میں ملبوس ان کے کمرے کے بیرونی دروازے سے داخل ہوئے اور ان کی چار پان کے چاروں طرف گھوم کر ان کے مربا نے کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں آپ کی تیمار داری کرنے کے لیے آیا ہوں.یہ عجیب و غریب کشف جس میں منشی محمد ابراہیم صاحب بھی شامل کیے گئے چوہدری صاحب کی صحت یابی پر دلالت کرتا ہے.اسی طرح آپ نے ایک اور رڈیا دیکھا جس میں آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور دیکھا کہ حضور چوہدری صاحب مرحوم کے وطن مالوف شادیوال ضلع گجرات میں تشریف لائے ہیں اور تپاک اور محبت سے بچو ہدری صاحب.کے ساتھ معانقہ فرمایا ہے.اس روڈ یا کی بھی چو ہلدی صاحب نے یہی تعبیر کی کہ آپ اس علالت سے صحت یاب ہو جائیں گے |
091 چنانچہ جیسا کہ اوپر عمن کیا گیا ہے آپ خدا کے فضل سے صحت یاب ہو کہ دو تین سال تک روزمرہ کے کام کاج کرتے رہے.چوہدری صاحب مرحوم کے صاحبزادے چوہدری بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ بیان کرتے ہیں کہ چوہدری احمد دین صاحب مرحوم قبول احمدیت سے قبل حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ سے خاص عقیدت رکھتے تھے اور زمانہ طالب علمی میں ان کے مزار پر جایا کرتے تھے انہیں ایام میں ایک وفعہ خواب میں دیکھا کہ حضرت داتا گنج بخش رضی اللہ عنہ کی قبر کھلی ہوئی ہے اور اس میں سے ایک نہایت پر نور اور بابرکت ہستی نمودار ہوئی جو سر تا پا پھولوں سے لدی ہوئی ہے اور خواب ہی میں بنایا گیا کہ یہ سید نا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کے نتیجہ میں قادیان حاضر ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر ٩٠٥ار میں بیعت کر لی.بیعت کرنے پر اپنے گاؤں شادی وال تشریف لائے اور اپنے استاد مولوی نجم الدین صاحب سے اپنی بیعت کا ذکر کیا.چند دن بعد حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی......بھی شادیوال تشریف ما.لائے.اگر چہ حضرت مولوی نجم الدین صاحب اس سے قبل احمدیت قبول کر چکے تھے مگر اس وقت تک اظہار نہیں فرمایا تھا.چودھری صاحب مرحوم اور حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیہ آبادی کے کہنے پر حضرت مولوی نجم الدین صاحب.........نے قبول احمدیت کا اعلان کر دیا جس کے نتیجہ میں قریبا نصف گاؤں احمدیت کی آغوش میں آگیا.چو بلندی احمد دین صاحب کی وفات جماعت احمدیہ گجرات کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہے.حضرت ملک برکت علی صاحب حضرت مولوی امیر الدین صاحب ، حضرت مرزا امیر الدین صاحب ٹھیکیدار حضرت شیخ الہی بخش در تیم بخش صاحبان حضرت ماسٹر ہدایت اور صاحب حضرت با با امام الدین صاحب حضرت میاں محمد الدین صاحب در ت ساز حضرت میاں رحیم بخش مامالا کنڈی حضرت مرنه اوزیر بخش صاب حضرت ڈاکٹر عمر الدین صاحب حضرت ڈاکٹر علم الدین صاحب حضرت میاں عبد المجید صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب اور جماعت گجرات کے روح رواں تھے اپنی اپنی ذمہ داریوں کے بطریق احسن سر انجام دیتے ہوئے یکے بعد دیگرے مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَة کے مصداق بن چکے تھے اور اب حضرت چوہدری احمد الدین صاحب بھی ان کے ساتھ جا ملے ہیں.
باخ ۵۹۲ اب ان کی اولادوں.ان کے متعلقین اور ان کے شاگردوں کا فرض ہے کہ احمدیت کے جھنڈے کو اسی مضبوطی سے بلند رکھیں جس طرح ان عظیم الشان ہستیوں نے تادم واپسیں اسے سر بلند رکھا.اللہ تعالیٰ ان مبارک وجودوں کے درجات کو بلند کرے انہیں اعلیٰ اعلین میں جگہ دے اور پیچھے رہ جانے والوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے اور منهم من ينتظر کا مصداق بنے کی توفیق عطا فرمائے پہلے اولاد : چوہدری بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ رسابق امیر جماعت ضلع گجرات ) - مرزا مول بخش صاحب محلہ پیر گیلانیاں اندر دی موچی دروازه را مور) رولادت ۶۱۸۸۹ - بیعت ۶۱۹۰۴ - وفات ۲۴ رمئی ۶۱۹۵۷ بڑے مخلص ، جوشیلے اور غیور احمدی تھے اور تبلیغ کا جنون تھا انتہائی مشتعل مجمع میں کلمہ حق کہنے سے نہیں جھجکتے تھے اور جماعت کے تبلیغی اور تربیتی جلسوں کے انعقاد میں سرگرم حصہ لیتے تھے.ٹکٹ پر ٹنگ ریلوے پریس برانچ میں مغلپورہ ورکشاپ میں ملازم ہوئے اور وہیں.ریٹائر ہوئے.آپ کے والد حضرت میرزا میراں بخش صاحب بھی اصحاب مسیح موعود علیہ السلام میں سے تھے.اولاد :- دہلی بیوی سے) -- مرضا سمیع احمد ظفر صاحب رحال انگلستان) (۲) ولیہ بیگم صاحبہ مرحومہ - دوسری بیوی سے) ۳ - مرزا خلیل احمد صاحب - - - مرزا منیر احمد صاحب.٤ احمد ه - فریخ مبشرات صاحب - ۶ - بشارت تسنیم صاحب - ، کوثر وسیم صاحب ہے ۹ - حضرت مولوی رحمت علی صاحب آن پھیر د ا چھی ضلع گورداسپور رولادت 4 بیعت ۱۹۰۱ - دنات ورجون ۱۹۵۷ ب الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۵۷ ء مشر ۶ : سے لاہور تاریخ احمدیت ، ۲۳۱ موقظه مولا ناشیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل مربی سلسله احمدیه (فروری ۱۹۶۲ء) ه الفضل ۶ ارجولائی ۱۹۵۷ء مد
۵۹۳ پھیر دیچی میں سب سے پہلے احمدی آپ ہی تھے.بیعت کے بعد آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میں اکیلا ہوں حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ مومن کبھی اکیلا نہیں رہتا.آپ یہ جواب سن کر نہایت اطمینان قلب سے واپس آگئے.شروع میں برادری نے سخت مخالفت کی مگر آپ برابر تبلیغ میں منہمک رہے اور گاؤں والوں کو کہتے رہے کہ خدا اپنے مومن بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا کرتا.مجھے بھی وہ انشاء اللہ اکیلا نہیں چھوڑے گا.چنانچہ ۱۹۰۳ ء میں ان کی برادری کے چار گھرانے اور دوسرے متعدد اشخاص داخل احمدیت ہو گئے.مگر مخالفت پہلے سے بھی زیادہ شدت اختیار کرگئی.کئی دفعہ مخالفین سلسلہ نے مسجد سے باہر نکال پھینکنے کی کوشش کی.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مخالفت کی شدت کا ذکر کیا نیز فرمایا کہ لوگ مسجد میں نماز بھی ادا نہیں کرنے دیتے حضرت اقدس نے دعا کی اور فرمایا فی الحال اپنی زمین میں کوئی چھوٹی سی مسجد بنا لو خواہ متھڑا سا ہی ہو.انشاء اللہ جلد ہی یہ مسجد بھی آپ لوگوں کو مل جائے گی.اللہ تعالٰی نے آپ کی کوششوں کو قبول فرمایا اور جلد ہی پھیر و چیچی کا گاؤں احمدیت کی آغوش میں آگیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے مبارک کلمات پورے ہو گئے اور صداقت احمدیت کا نشان بن گئے.پھیرو چیچی کادیان سے تقریباً نویل کے فاصلہ پر تھا لیکن آپ اکثر اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت مجلس سے فیضیاب ہونے کے لیے قادیان پہنچ جاتے تھے.حضرت مولوی صاحب کو حضرت مسیح موعود اور حضور کے سب خاندان سے والہانہ عقیدت تھی.تبلیغ کا خاص شوق تھا اور اس ذریعہ کو ادا کر نے میں خاص لذت محسوس کرتے تھے.موصی تھے اور چندہ دینے اور ہر دینی تحریک میں آپ کا قدم آگے ہی رہتا تھا.آپ نے مقامی جماعت میں نماز با جماعت کی ایک تڑپ اور لگن پیدا کر دی تھی.تہجد گزار تھے.دعاؤں پر پختہ یقین تھا اور قبولیت دعا کے اپنے بہت سے واقعات سنا کر ایمانوں کو تازہ کر دیتے تھے.حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بجا آوری میں مقدور بھر کوشاں رہتے تھے.ہر ایک سے محبت اور خوش خلقی سے ملتے تھے.۱۹۴۷ ء میں ناصر آباد اسٹیٹ سندھ میں تشریف لے آئے اور یہیں انتقال
کیا ہے ۵۹۴ اولاد - ۱ محترمہ رحمت بی بی صاحبہ - ۲ - مولوی فضل الہی صاحب مولوی فاضل (شہید) محترم نور الہی صاحب - ۴- محترمہ امتہ اللہ بیگم صاحبه.مولوی کریم الہی صاحب - ۶ - مولوی احسان اپنی صاحب (مربی سلسلہ) ۱۰.حضرت پیر وغیر مسلی احمد صاحب ایم اے بھاگلپوری (ولادت ۱۸۷۷ء زبانی بیعت ۱۸۹۲ تو تحریری بیعت ۹۰۶ از وفات ۲۲ جون ۱۹۵۷ء) آپ نے سولہ سال کی عمر میں جبکہ آپ میٹرک کا امتحان دے رہے تھے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی پر ایمان لانے کا بھری مجلس میں اعلان فرمایا جس پر آپ کو شدید مصائب سے دوچار ہونا پڑا لیکن آپ نے ثبات قدم کا نہایت اعلیٰ قابل رشک نمونہ پیش فرمایا.آپ حکومت کے معزز عہدوں اور مناصب پر فائز رہے اور نہایت پاک مظہر زندگی بسر کی.آپ احمدیت کی ایک چلتی پھرتی تصویر اور منکسر المزاجی اور فروتنی کا مجسمہ تھے.، را پریل ۱۹۰۸ء کو قادیان دارالامان میں شکاگو کے ایک سیاح مسٹر ٹرنر اپنی لینڈ ی میں بارڈون اور ایک سکارج مین مسٹر با نشر کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کی.پروفیسر صاحب اُن دنوں ڈپٹی مجسٹریٹ تھے اور اس موقعہ پر قادیان میں موجود تھے.آپ نے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے تم جہانی کے فرائض انجام دیئے.کے آپ کو کئی سال تک جامعتہ المبشرين ربوہ میں تعلیمی خدمات بجالانے کا موقعہ بھی مانا آپ کے متعدد شاگرد اس وقت تبلیغی حیاد میں سرگرم عمل ہیں.خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب نے حضرت پر وفیسر صاحب کی بعض قابل تقلید صفات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحر یہ فرمایا کہ : - له الفضل ۱۲ جولائی ، ١٩٥ ء م ت - الفصل ۲۳ جون ۱۹۵۰د مرد کہ ریکارڈ بہشتی مقبره پوه : ٣ الفضل ۲۵ جون ۱۹۵۷ء صارم ه الحلم دار اپریل ۱۹۰۸ د ملت ۲ ، بدر و ر ا پریل ۱۹۰۸ د سراب ۱۵ تاریخ احمدیت جلد سوم طبع دوم ما ۵۳
۵۹۵ حضرت مولوی علی احمد صاحب ایم اسے بھاگلپوری نے عمر بھر اسلام کی خدمت کا فرمن ادا کیا.آپ خاموش طبع اور ہر قسم کے نام دینمود سے بہزار تھے.بھوس اور موثر خدمت کے قائل تھے.نیک نمونہ کو بہترین تبلیغ جانتے تھے.طبیعت میں بنی نوع انسان کی ہمدردی اور بھلائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.مجھے جامعتہ المبشرین میں ان کے ساتھ چار سال تک کام کرینی کا موقعہ کا ہے.ایسے نیک بزرگ اور ہمہ تن خیر انسان کی جدائی بہت شاق ہوتی ہے.مگر قدرت کا نظام اسی طرح ہے کہ ایک عمر کے بعد ہر انسان کو اس جہان خانی سے آخرت کی طرت کو پچ کرنا ضروری ہے.پروفیسر صاحب مرحوم پڑھا ہے کے باد جو باقاعدگی اور نظام کی پابندی میں ایک نمونہ تھے.انہیں فطر می شوق تھا کہ دور دراز سے آنے والے اور سلسلہ کی تبلیغ کے لیے جانے والے طلبہ کی علمی ترقی میں میرا بھی حصہ ہو اور اسی ذریعہ - سے میں نواب میں شریک رہوں.اس لیے بیماری کے باوجود بھی وہ محنت سے پڑھاتے رہے جزاک اللہ خیرا و احسن مثوالا في الجنة سن رسیدگی کے با وسجو د حتی المقد در باجماعت مسجد میں ادا فرماتے بہت دعا گو بزرگ تھے.آخری سالوں میں حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب سے بہت ہی لگاؤ تھا اور بیت المبارک میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قریب ہی صحت اوّل میں شریک نماز ہوتے تھے.اب دونوں بند رگوں کی جگہ خالی ہو گئی اور دونوں اپنے مولی کے پاس پہنچ چکے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے پسماندگان سے خاص فضل و احسان کا سلوک کرے آمین یا رب العالمین" له اولاد - - احسن صاحب روفات ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۱۸ء مدفون بہشتی مقبره (قادیان) ۲ - حسین صاحب (پندرہ دن کی عمر میں وفات پائی ) ۲.میاں عبدالرحیم احمد صاحب ( داماد سیدنا حضرت المصلح الموعود) ۱۱- حضرت مولوی غلام رسول صاحب چانگریاں ضلع سیالکوٹ الفضل ۱۲ جولائی ١٩٥٧ ء م
۵۹۶ 319-1 اولادت ١٨٨ء بیعت ۶۱۹۰۳ وفات ۲۷ رجون ۱۹۵۷ء) حضرت مولوی غلام رسول صاحب قبول احمدیت اور حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک کے چشمید واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :- یکی نے ۱۹۰۱ ء تا ۱۹۰۲ء میں بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ پر کی تھی.اس وقت حضور کی خدمت ہمیں ایک ہفتہ رہا اور ہم آپ کو جب آپ مسجد میں نماز کے بعد عموماً مغرب کی نماز کے بعد بیٹھتے تھے دباتے تھے یعنی مٹھیاں بھر تے تھے اور آپ ہم کو منع نہیں کرتے تھے اور آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا کہ وہ شبہات جو مولوی ڈالتے تھے آپ کا چہرہ دیکھنے سے دور ہو جاتے تھے.چنانچہ میں نے سنا ہوا تھا کہ مہدی معہود کا چہرہ ستارے کی طرح چمکتا ہوگا اور میں نے ایا ہی پایا اور میرے سارے اعتراضات آپ کا چہرہ دیکھتے ہی حل ہو گئے.اور جب آپ پر کرم دین نے دعوی کیا تھا اور مجسٹریٹ چندو لال کی عدالت میں دعوی تھا اور بہت شور تھا کہ حضرت سیح موعود ضرور جیل میں جائیں گے اور حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ لوگ یہ افواہ پھیلا رہے ہیں میں جیل میں جاؤں گا ہمارا خدا کہنا ہے تم کو ایسی فتح دونگا جیسے صحابہ کو جنگ بدر میں دی تھی اور وہ الفاظ آپ کے اب تک کانوں میں گونجتے ہیں اور ایک دفعہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صبح کو سیر کے واسطے پہاڑ کی جانب نکلے اور آپ دُور نہ جا سکے کیونکہ دوستوں کا ہجوم تھا اور ریتی چھلہ دیو بڑ کے مغرب کی طرف آپ ٹھہر گئے اور آپ کے گرد دوستوں نے گروہ (دائرہ) باندھ لیا اور مصافحہ کرنا شروع کیا اور میں نے جب مصافحہ کیا تو میں نے ایک روپیہ ایسے طور پر دیا کہ کسی کو معلوم نہ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری طرف ایسی شفقت بھری نظر سے دیکھا کہ جب مجھے وقت اور وہ نظر آپ کی یاد پڑتی ہے تو مجھے اب بھی سر در آجاتا ہے.ایک دفعہ جبکہ نسیم دعوت چھپ رہی تھی.آپ نے اس کتاب کی تعریف کی اور میری طبیعت للچائی کہ کتاب محمد کو بھی ملے اندر قیمت میرے پاس نہیں تھی جب آپ جانے لگے تو میں نے حضور سے عرض کی کہ حضور مجھے بھی ایک تة الفصل ہم پر جولائی ، 190 ء ما : تے "رجبر روایات نمبر ۳ ما کے اشاعت ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء -
۵۹۷ کتاب نسیم دعوت دی جائے اور آپ نے بہت شفقت سے خلیفہ رجب الدین صاحب سے رجو دور کے رہنے والے تھے) فرمایا کہ اس لڑکے کو کتاب ولا دیں اور صبح ہوتے ہی مجھے کتاب مل گئی ہے.حضرت مولوی صاحب کی زندگی عملاً خدمت دین کے لیے وقف تھی آپ کا محبوب شغل قرآن مجید پڑھنا پڑھانا اور وعظ و خطبات دینا تھا.مرحوم کا طریق متھا کہ ہر روز بلا نا نہ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کے ایک رکوع کا دلنشیں رنگ میں درس دیتے پھر گھر تشریف لے آئے جہاں چھوٹی بڑی لڑکیوں کا جمگھٹا ہوتا.سب کو ناظرہ یا ترجمہ قرآن مجید کا سبق دے کر تین فرلانگ کے فاصلہ پر واقع گاؤں مانگا چلے جاتے اور مردوں کو بھی نماز ظہر تک قرآن مجید کا ترجمہ سکھلاتے.نماز ظہر کے بعد سلسلہ کے مالی کاموں میں سیکرٹری مال کا ہاتھ بٹاتے اور عصر کے وقت واپس جانگیاں پہنچ کر نماز عصر پڑھاتے اور جلسہ سالانہ کے سوا آپ کا ہمیشہ یہی معمول رہا.صداقت حضرت مسیح موعود اور وفات مسیح وغیرہ مسائل ایسے موثر طریق پر پیش فرماتے کہ انکار کی گنجائش نہ رہتی.دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا.تبلیغ کے لیے باہر دیہات میں نکل کھڑے ہوئے اور خصوصاً مرکزی ایام التبلیغ میں تو آپ سارا دن جہاد تبلیغ میں صرف کر دیتے.آپ کے ذریعہ کئی نفوس نے سحق کی شناخت کی اور کئی ایک نئی جماعتیں قائم ہوئیں.آپ کی طبیعت اگر چہ مناظرانہ نہیں تھی تاہم آپ نے بعض بڑے بڑے مولویوں سے مناظرے کیسے.آپ کا قرآن مجید سے استدلالی غیر احمدی علماء کو ہمیشہ مرعوب کر دیتا تھا.اگر چہ آپ کے پاس احادیث و فقہ کی کتابیں موجود تھیں مگر آپ کا استدلال ہر مسئلہ میں کتاب اللہ سے ہوتا تھا.قرآنی آیات تو گویا آپ کے دل و دماغ اور زبان پر نقش تھیں.آپ کے اخلاق کریمانہ اپنوں اور پرالیوں کو مسلم تھے.۱۹۴۷ء میں آپ کے گھر ایک دیسی ساخت کا پستول بطور امانت رکھا تھا.کسی نے پولیس میں مخبری کر دی.آپ نے پستول لا کہ فوراً پولیس کے حوالہ کر دیا اور چالان رجسٹر ڈ ہو گیا عدالت میں پیشی کے وقت دوستوں کو تشویش ہوئی کہ نیند کا خطرہ ہے.مگر آپ نے فرمایا خواہ کچھ ہو جھوٹ میں بولا جانتا نہیں میں تو سچ ہی بولوں گا معززین دشرفا کا ایک وفد به خسر خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈ ر مرحوم روایات صحابہ " جلد من وما
مجسٹریٹ صاحب کو ملا کہ ملزم ایک خدارسیدہ بزرگ ہیں.ان کا کوئی تصور نہیں.مجسٹریٹ صاحب نے کہا اگر ملزم واقعی اقرار کر گیا تو میں بھی کم از کم سزا تجویز کروں گا.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے اصل واقعہ بیان فرما دیا.مجسٹریٹ نے بھی معمولی جرمانہ کیا جو بعض معززین شہر نے اپنی گرہ سے ادا کر دیا.موضع چانگریاں کے تو سکھ جاٹ پاکستان سے منتقل ہو کر قادیان کے پاس موضع مالیا میں مقیم ہوئے وہ ہمیشہ ہی حضرت مولوی صاحب کے پاس زیر نقد ، زیورات اور کاغذات سرکار می بطور امانت رکھا کرتے تھے چنانچہ چوہدری محمود احمد صاحب سابق معلم حلقہ ضلع پونڈہ نے آپ کے حالات زندگی میں لکھاکہ اور غیرمسلم تارکان دولت بھی آجتک مولوی صاحب کو یاد کرتے ہیں.......حجب میں قادیان جلسہ سالانہ گیا تو سہر واقف کار مولوی صاحب کا ہی حال پوچھنا تھا " آپ ایک لمبے عرصہ تک اپنے حلقہ چانگریاں کی گیارہ جماعتوں کے امیر رہے.اور جب بڑھاپا اور کمزوری کے باعث آپ زیادہ دور نہ جا سکتے تھے آپ نے امیر ضلع سیالکوٹ سے درخواست کر کے اس حلقہ کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا اس طرح آپ اپنے حلقہ میں مرتے دم تک امیر کے فرائض انجام دیتے رہے یہ ۱۲.حضرت چوہدری بھائی عبد الرحیم صاحب نومسلم سابق جگت سنگھ لادت ۱۸۷۳ ء بیعت دزیارت ۱۸۹۴ء.وفات ور جولائی ۱۹۵۷ء) حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب کا پہلا نام جگت سنگھ تھا.والد سر دار چندرسنگھ صاحب رساکن سر سنگھ ضلع لاہور) تھے جن کا تعلق زمینداروں کے ڈھلوں خاندان سے تھا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مدیر الحکم تحریر فرماتے ہیں کہ :.حضرت بھائی صاحب کو ابتدا ہی میں ایک ایسے مذہب کی تلاش تھی جو انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچا سکے آپ کی سچی تڑپ دیکھ کر اللہ تعالی نے سردار فضل حق کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کا علم دیا.سردار فضل حق صاحب بھائی صاحب کی اس تڑپ سے واقف تجھے اس لئے انہوں نے اُن کے سامنے له الفضل مادر جولائی ۱۹۵۷ء ص - الفضل ، ۱ اگست ۱۹۵۷ ء صث : سه حال ضلع امرتسهر سے پہلا نام سردار سندر سنگھ.آپ نے ۱۸۹۸ء میں اسلام قبول کیا وطن دھرم کوٹ بگر
ووه مذہب اسلام کو ایسے رنگ میں پیش کیا کہ جس سے اسلام کو تفوق دوسرے مذاہب پر ظاہر ہو.اس موضوع پر اکثر دونوں میں تبادلہ خیالات ہوا کرتا تھا اور کئی کئی گھنٹے گزر جایا کرتے تھے.بالآخر ایک دن حضرت بھائی صاحب نے سردار صاحب کے سامنے ایک معیارہ رکھا اور بطور آخری فیصلہ کے رکھا اور کہا سچونکہ مذاہب تو بے شمار ہیں اور ہر ایک انسان اپنے مذہب کو دوسرے مذہب پر ترجیح دیا کرتا ہے باقی رہا روایات اور قصے کہانیوں کا تذکرہ سو وہ ہر مذہب میں اُس کے پیشواؤں کے متعلق بے شمار پائے جاتے ہیں اس میں کوئی کسی کے پیچھے نہیں رہنا چاہتا اس لئے میرے نزدیک فیصلہ کن تجویز یہ ہی ہو سکتی ہے کہ فی زمانہ جس مذہب میں کوئی بزرگ ایسا پایا جاتا ہو جو خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہوتا ہو اور اُس کی دعا میں سنی جاتی ہوں تو میں سمجھ لوں گا کہ یہی مذہب قابل پیروی ہے.اس پر سردار فضل حق خاں صاحب نے فورا ہی حضرت مسیح موعود کا اسم مبارک کیا اور پورا پتہ بھی دیا یہ بات ایسی تھی جس نے حضرت بھائی صاحب کے دل کو تسکین دی اس نے اسلام کی عظمت اُن کے دل میں قائم کر دی.حضرت بھائی صاحب ان دنوں فوج میں ملازم تھے.اس گفتگو کے دوماہ بعد وہ رخصت لے کر اپنے گھر جارہے تھے تو انہوں نے عزم کر لیا کہ وہ گھر جانے سے پہلے قادیان جائیں گے.چنانچہ وہ سیدھے قادیان میں آئے.آٹھ دن تک یہاں قیام کیا.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینے کو کھول دیا اور آپ سکھ ہوتے ہوئے سلسلہ بہیت میں منسلک ہو گئے.ان گزشتہ ایام میں حضرت بھائی صاحب نے بہت دعائیں کیں اور سور و کہ خدا تعالیٰ کے حضور التجائیں کیں جن کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمالیا الخرمن بھائی ساحب بیعت کر کے اپنے گھر کو چلے گئے ، لہ آپ نے دو مضامین میں اپنے حالات پر روشنی ڈالی ہے جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے پہلا مضمون : - انسان کو اللہ تعالیٰ کس طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اس کا جواب اور معقول جواب یہی ہے.این سعادت به در باز و نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده! الحکم ۲۱ فروری ۱۹۳۵ء ص۳
۶۰۰ بظاہر سرگزشت اور واقعات میرے اسلام میں آنے کے یہ ہوئے.جو پہلے پہل ہی احمدیت یا یوں کہیں کہ احمد مرسل یزدانی علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ پر اسلام لانے اور بیعت کرنے پر ایک وقت ہی دو لطف اپنے اندر لیے ہوئے تھے.گو بیعت میں نے ۱۸۹۲ء میں جبکہ میں ابھی سکھوں کے لباس میں تھا.اور بالکل قادیان آجانے کا موقعہ د مارچ ۱۸۹۵ ء کو بفضلہ میسر آیا.لیکن ۱۹۴۲ میں بیعت کا شرت مجھے عطا ہونا اسی وقت ہی اسلام بنانے کی حقیقت کو اپنے اندر لیے ہوئے تھا.اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی نور فراست کی بھی ایک اعلیٰ درجہ کی دلیل ہے.کہ آپ مجھے اگر مسلمان خیال بلکہ یقین نہیں کر رہے تھے.تو اس بیعت میں نہایت مزیدار لطف بجز اس کے اور کیا تھا.میں اپنے حسن مولے کا نہایت ہی شکر گزار ہوں.کہ اس نے مجھے ایسے آسمانی ماتھے پرہاتھ رکھنے کا موقع اس وقت دیا.جس کے لیے آباد اعداد سے مسلمان کہلانے والے بہت کچھ متردد تھے.اور شکوک وشبہات اور تعصبات میں پڑے ہوئے تھے.یہی وہ خاص یزدانی کشش تھی جو کام کہ گئی.ورنہ میں اور یہ فضل اور ایسا بے مثل احسان لربنا الحمد لربنا الحمد.حب میں چومتی پر انٹری میں پڑھ کر تا تھا.اس وقت رسوم بند بھی ہماری درسی کتاب تھی جس میں انبیاء علیم السلام کا ذکرکچھ منفر دیا ہوا تھا.انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا حال جب میں نے پڑھا.تو میرے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے.یہ لوگ بڑے اچھے تھے.میرے وقت میں اگر کوئی انسان ایسا ہو.تو میں تو اس کو ضرور ہی مان لوں.جس منان آتا نے مجھے ایسا دل بچپن میں دیا تھا.مجھے اس پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ بالآخر مجھے چھوڑ نہیں دے گا اور احمدیت پر جو حقیقی اسلام کا آئینہ ہے میرا خاتمہ بالخیر کرتے ہوئے جنت میں ایک گھر بھی مجھے ضرور ہی عطا فرمائے گا.رب عليك توكلت واليك انبت واليك ـير : اردو مڈل پاس ہو گیا.وظیفہ سرکاری اللہ روپے ما مولر کا.اور سپیشل کلاس میں لاہور پڑھنے کے کیسے ہم کو د مجھکو اور میرے بھائی کو بھیج دیا گیا.لاہور ان دنوں ۱۸۹۱ ء میں ہر طرف ہی مذہبی چرچا رہتا تھا.عیسائی بازاروں میں اس طرح اگر یہ اور سکھ الگ الگ اپنے پر چار کرتے ہوئے بکثرت دکھائی دیتے تھے.ان وعظوں نے مذہب کی طرف بالکل ملال پیدا کر دیا.اور طبیعت نے یہ فیصلہ کرلیا.کہ میں مذہب میں ہیں رہی اچھا ہے لیکن مذکورہ کے آخر میں ہی میں رسالہ ملا میں ملتان بھرتی ہو گیا اور قریباً چھر باد کے بعد ہم سیالکوٹ میں آگئے.یہاں سردار سندر سنگھ صاحب ساکن دھرم کوٹے بگه - رفیق اور شرم را از i
۶۰۱ بن گئے.آپ نے ہی مجھے اسلام کی موٹی موٹی خوبیاں بتائیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پتہ بھی آپ ہی سے مجھکو ملا.ابتداء میں میں نے سردار صاحب کی مخالفت کی.اور اس خیال پر کہ سہارے مار سبب میں بھی بزرگ گزرے ہیں.کیا ضرورت ہے.کہ ہم دوسرے مذہبوں کے خوشہ چین بنیں.ہاں اب اگر کوئی انسان اسلام میں خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہو.کچھ اس کے معجزات کرامات ہوں.تو بیشک قابل انتباع ہو سکتا ہے.اور ایک شخص کی اطاعت میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول یقینی ہے اس پر انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پورا حال بھی بتایا.اور قادیان کا راستہ وغیرہ بھی بنایا.چنانچہ رسالہ میں جب میری رخصت کا وقت آیا تو میں پہلے سیدھا نا دیان پہنچا.یہی ۶۹۴ کا زمانہ تھا.یک یہاں چند ایام رہا.اور رو کر دعا مانگ کہ بیعت کی نعمت سے بفضلہ تعالی مشرف حاصل کر لیا.بیعت کرنے کے بعد میں نے اپنے گاوں میں ہ ماہ کے قریب ایام رخصت بسر کیے.ساری نمازہ یاد کی اور پڑھنے کا راز بھی معلوم لیا.مھم کے نہ مرنے پہ جبکہ میں گاؤں میں تھا.ہیڈ ماسٹر سکول نے مجھ پر اعتراض کیسے.گر قادیان سے مجھ کو آٹھم کے متعلق کافی اطلاع بذریعہ اشتہار بھیج دی گئی.جس سے میں ہیڈ ما سٹر صاحب سے گفتگو کرنے کے قابل ہو گیا.یہ نہیں معلوم کہ یہاں کے ہندوؤں نے یا کس نے دیاں اطلاع بھیج دی.کہ یہ شخص مسلمان جو رہا ہے.سال میں جاکر قریبا نماز کا پابند را در مولوی عبد الکریم صاحب کا پتہ قادیان سے دریافت کر کے سیالکوٹ شہر میں پھر پھرا کر نکال لیا.آپ سے درس قرآن کچھ دنوں ستا.گھر سکھوں کو جب پسند لگ گیا.تو انہوں نے سردار کو اکسا کر اس نعمت سے محروم کر دیا.دوپہر کے وقت یعنی اس نعمت سے محروم ہونے کے چند روز پہلے میں نے ایک رڈیا دیکھیں کہ میں اندھا ہو گیا ہوں.گھبراہٹ کی مدینہ رہی.جب میں بر خیال کرر ہا معتنا ، کہ اب ساری عمر دیواروں سے تحریں کھا کر گزرے گی.سخت اضطراب کے بعد جب آنکھ کھلی.تو جوانی کی نیند مشکل آنکھیں کھیں اور کچھ دل کو ڈھارس ہوئی.کہ پورا اندھا ت نہیں ہوا.پھر جب پورا تیر ہوا " تو اس کو خواب سمجھ کر نہیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس کی تعبیر خط لکھ کر دریافت کی.کارڈ میں جوابا یوں تحر یہ تھا کہ تم کو دینی صدمہ پہنچے گا.تو یہ استغفار خوب اچھی طرح کرنا چاہیئے.وہ اندھی ہونا قرآن کریم کے درس سے گویا محروم ہونا تھا.ہو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سمجھا دیا تھا.رمضان کا مہینہ بڑا اہی مبارک مہینہ آیا.حبس میں میں نے روز سے رکھنے شروع کیے.مگر سکھوں میں اس سے ایسی کھلبلی پڑ گئی.کہ انہوں نے سارا زور لگا کر مجھکو مجبور کیا کہ میں استعفیٰ دیدوں.جولہ تعالیٰ ابخوشی استعفے دیدیا.اور سیدھا
۶۰۲ قادیان پہنچا.یہاں آکر الحمد للہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے نہلا د ملا کر مسلمانوں سی ظاہری شکل بھی بنا دی.رسالہ میں منشی جلال الدین صاحب کی سنجیدہ اور خدا تری متین طبیعت نے مجھ پر بہت ہی اثر کیا.فتح اسلام میں نے اپنے ہاتھوں سے سارا نقل کیا.کیونکہ یہ اس وقت چھپا ہوا نہیں ملتا تھا.العرض احمدیت اور اسلام کی نعمت بزور اس طرح اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے عطا کی.در نہ سکھ ہونا اور جوان کی مستی اور نئی نئی ترقی اور حکام کی نظر میں بار بار پھرتے رہنا میری اپنی کوشش سے ان بلاؤں سے نکلنا بہت ہی دور کے ممکنات سے متھا.نہیں بلکہ نہایت ہی ناممکن تھا.الحمد اللہ علی ذالك - در مارچ ۱۸۹۵ء سے اب کہ ۱۹۲۴ ء ہے اللہ تعالیٰ نے یہاں قادیان میں میری پرورش کے بہت اچھی طرح سامان دیتا کیسے میرا کچھ روپیہ جو مجھے رسالہ سے ملا تھا.حبیب نماز ظہر سے پہلے ختم ہو گیا اور حضرت خلیفہ مسیح اول نے حساب کر کے مجھے اطلاع دی کہ آج آپ کا روپیہ ختم ہو گیا ہے.تو مجھے ہیرا سنگھ کا معقوله یا واکر سخت ہی قلق اور اضطراب پیدا ہوا.وہ یوں کہا کرتا تھا کہ دیکھو پھی ماتا کو دلتیاں چلاتے ہو.تین سال کے بعد تم نہ مانگتے پھر رہ تو مجھے کہنا اور جو چاہے کہنا نے مجھے رہ رہ کر خیال آنا تھا کہ نائی وصعوبی.کپڑا بعد دیگر ضروریات کیا ان سب کے لیے میں دست سوال دراز کرتا پھر رنگا.حضرت خلیفة المسیح الدول....عربی کی تعلیم اور طب کی تکمیل کے لیے مجھے باپ سے زیادہ شفقت کرتے ہوئے اپنے اوقات سے اکثر حصہ دے رہے تھے.مگر ابھی صحاح ستہ سے بخاری کا کچھ حصہ رہتا تھا.ہاں اس پر یشانی میں میں نے دھند کر کے اذان کے بعد سنتوں میں خوب رو رو کر دعا کی.اور اس وقت میرا سنگھ کے الفاظ نے اور بے سروسامانی کی بھیانک شکل نے دل کھول کر میری خوب ہی مساعدت کی.قدرت حق نے محض اپنے ہی وجود سے نماز ظہر کے بعد دو روپے ماہوار کا مجھے ٹیوٹر مقر کروا دیا.جو میری از حد خوشی اور دعا کی قبولیت کا بین نشان بنا.اسے دوسرا مضمون : بفضلہ پہلے ماہ میں قادیان میں تحقیقات امور مذہبی کے لیے مجھے آنا پڑا.چنانچہ میں جبکہ رحضرت پر اپنے گاؤں سورسنگھ ضلع لاہور میں جانا چاہتا تھا.پہلے قادیان میں آیا.اور سات آٹھ دن یہاں رہا.بازار میں ایک بوڑھے مندر کے ہاں کھانا کھاتا جو مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت ایسا کرتا تھا.اس سے بھی میں نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات کے متعلق ذکر ر الحکم کے تمبر ۱۹۲۳ء ملا ، بی
۶۰۳ کیا کہ آپ کے نزدیک آپ (یعنی حضرت مرزا صاحب) کیسے آدمی ہیں.تو انس نے ذکر خیر سے اطمینان دلایا غالباً ان کا نام بشن داس تھا.اچھی لمبی داڑھی تھی.میں نے رو کر دعا کی اور حضرت خلیفہ اول......سے دریافت کیا کہ کیا اگر یں کچھ عرصہ اسی حالت ہیں رہوں اور بیعت کر لوں تو ایسا ممکن ہے.آپ نے فرمایا کہ میں حضرت صاحب سے دریافت کر کے بتا سکتا ہوں.آپ نے ذکر کیا اور ظہر کی نماز کے بعد شرف بیعت سے میری عزت افزائی ہو کہ دعاکی گئی.آپ نے فرمایا کہ اب اپنے آپ کو اسلام میں ہی سمجھو.میں نے عرض کی.حضور میں جلدی کوشش کروں گا.رسالہ ملا میں جہاں میں ملازم تھا مردار سندر سنگھ کے ذریعہ جو دھرم کوٹ بگہ کے رہنے والے تھے حضرت میں موعود علیہ الصلاة والسلام کا تمام پورا پتہ مجھے معلوم ہوا اور ان کی ترغیب ہی سے مجھے اسلام پر غور کرنا پیٹنا.سردار سندر سنگھ (یعنی فضل حق صاحب خوش مزاج اسلام کو حقیقی اور نہایت درست مذہب خیال کرتے تھے اور میرے اس استغفار پر کہ اگر اسلام واقعی اپنے اصولوں میں پورا راہنا اور خدارسیدہ بنا دینے والا ہے تو اب بھی تو اسلام میں کوئی روحانی انسان با کمال خدا رسیدہ ہونا ضروری ہے : اس پر انہوں نے حضرت مرزا صاحب کا ذکر کیا اور مجھے اسی لیے قادیان آنا پڑا بیعت کرنے کے بعد میں نے اپنے گاؤں میں رحمت کے باقی ایام پورے کیے.ساری نمانہ کو یا دی اور دھر مسالہ میں روز چکے چکے تہاکر ذکر الہی اور لا الهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِن الظلمین اور کلمہ لا AND AWAN الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا درد اور وظیفہ کرتا رہا.واپس رسالہ میں جا کہ میر منشی جلال الدین صاحب والد مرز امحمد اشرف صاحب سے تعارف ہوا اور ان کی وساطت سے میرے عقائد کو زیادہ مضبوطی علی فتح اسلام میں نے اپنی قلم سے نقل کیا تھا کیونکہ اس کی کاپیاں ختم ہونے کی وجہ سے نایاب تھیں.آپ نے مولوی عبدالکریم صاحب کا قرآن کا درس سننے کی بھی ترغیب دی تھی.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو میں نے پہلے حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول کی وساطت سے قادیان میں خط لکھ کر شہر سیالکوٹ میں پوچھتے پوچھتے تلاش کیا اور اُن سے آخر مشرف ملاقات ہوئی.مولوی عبد الکریم صاحب کا درس قرآن کچھ دن شناگر مچھر محروم رہنا پڑ سکتھوں کی زیادہ مہربانی نے بید
1+M بھی مہربانی مجھ پہ کی کہ اس نعمت سے محروم کرنے ہیں وہ اسلام کی طرف زیادہ دھکا دینے کا موجب ہو گئے دو پر کر دھنو کے بعد کچھ پڑھتے پڑھتے میری آنکھ لگ گئی.رڈیا میں ایسا دیکھا کہ میں اندھا ہوگیا ہوں حضرت مرزا صاحب کی طرف خط لکھ کر تعبیر معلوم کی.تو آپ نے فرمایا کہ دینی صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہے.بہت بہت استغفار کردو.چنانچہ سکھوں نے رپورٹ کر کے درس قرآن سے محروم کر دیا.اور یہی نور آنکھوں سے اوجھیل ہوگی.رسالہ میں واپس از رخصت ہونے پر میں نے چوری چوری نمازیں بھی ادا کرنی شروع کیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ بھی دریافت کیا کہ میں اگر ایسی حالت میں رہوں اور اسلامی شعار حتی المقدور ادا کرتا رہ ہوں (ان دنوں ترقی دنیادی ذر امعراج پر تھی) تو نجات ہو سکے گی کہ نہیں اس کا جواب مجھ کو یہ ملا کہ ایسا ہونا ناممکن ہے.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے جسم اور فضل سے وہ دنیا و می ترقی کے خیالات میرے دل سے نکال لیے اور چند دنوں کے بعد جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے روزے رکھنے شروع کر دیئے.ہیرے مہربانوں کو جب معلوم ہوا تو ایک شور بر پا ہوگیا اورسردار ٹرپ نے آنکھیں لال پیلی نکالنی شروع کیں دھمکیاں دیں حکومت کا زور دکھایا اور کرنل صاحب بہادر رسالہ کو بہت کچھ اکسایا.آخر تنگ ہونے پر میں نے استعفاء دے دیا.اور سیدھا قادیان کا ٹکٹ ریعنی بٹالہ تک کام فوراً ہی لینا پسند کیا.میرے دوست سردار فضل حق صاحب نے کہا لیکھرام سیا لکوٹ میں آیا ہے وہ لیکچر دے گا آج رات بھر جائیں.لیکن حضرت مسیح موعود عليه الصلاة والسلام کی کشش نے اُس طرف رخ کرنے سے بھی بالکل ہی روک دیا.اور محض حقیقی مولی کے کریم سے ۸ مارچ ۱۸۹۵ء کو میں جب کہ روزوں کا مہینہ تھا قادیان میں وارد ہوا.حضرت اقدس نے مجھے حضرت خلیفہ اول.......کے سپرد کیا.کھانے اور تربیت روحانی اور تسلیم کی نگرانی کے لیے تاکید کرتے ہوئے اپنے سامنے کھڑا کر کے ہر طرح خیال رکھنے کا بھی مسکم دیا.حضرت خلیفہ اول نے آپ کے ارشاد کی کماحقہ ، رعایت کی.اور میری تربیت اور تعلیم کا جتنا مکن مقا خیال رکھا.کوئی کوئی باپ ہوتا ہے.جو ایسا خیال رکھتا ہے.جزاه الله خيرا فى حالة الدنيا والآخرة - میرے رشتہ داروں نے جب میرے مسلمان ہو جانے کی خبر سنی تو چارہ پانچ رشتہ دار خمر، تایا اور دوسرے اشخاص قادیان میں آدھمکے.حضرت مولوی صاحب نے احتیاط کے خیال سے مجھے بھائی خیر الدین صاحب
۶۰۵ کے ساتھ سیکھوں بھجوا دیا.مگروہ وہاں بھی پہنچے.اور بمشکل میرا پنڈ چھوڑا.حضرت اقدس نے جب سنا تو فرمایا: قادیان سے بڑھ کر امن کی کونسی جگہ ہے مولوی صاحب نے ایساکیوں کیا ؟ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے ترجمہ قرآن مجید مجھے پڑھایا.اور حضرت خلیفہ اول نے علم حدیث صرفت مسخوطب وغیرہ کی پوری تعلیم دیتی " حضرت بھائی بھی فرمایا کرتے تھے جس پیار اور محبت سے انہوں نے میری تربیت فرمائی اس کی مثالیں دینا میں بہت خال ملیں گی جب میں پڑھتے پڑھتے تھک جاتا تو فرما نے عبدالرحیم لیٹ جاؤ.اب نہیں پڑھتا ہوں تم سنتے جائے.ششماہ سے شہر تک آپ کو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السّلام کی بابر کت صحبت میں رہنے کا موقعہ ملا.ازاں بعد آپ مدرس تعلیم الاسلام کے ٹیوٹر اور پھر مدرس مقرر ہوئے آپ ۱۹۳۴ء تک تعلیمی خدمات بجالاتے رہے.اس کے دوران آپ کو حضرت مصلح موعود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود کے متعدد صاحبزادگان کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہوا.عرصہ تک حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے بچوں کے اتالیق بھی رہے.آپ ۳۱۳ اصحاب کبار میں سے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صنمیمہ انجام آنتظم صفحہ الہ میں آپ کا نام ہے پر درج فرمایا ہے.آپ کی بعض خود نوشت روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب حضرت مولوی نور الدین رخلیفہ ابیع الاول) اور حضرت مولوی عبدالکریم منا بہت مبارک میں موجود نہ ہوتے تو حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام حافظ معین الدین صاحب یا آپ کو امام الصلواۃ بنا لیتے اور بعض اوقات خود امامت کے فرائض انجام دیتے اور آپ کو حضور کے پیچھے نمانہ پڑھنے کی سعادت نصیب ہو جاتی.کے اخبار باور قادیان اور اکتویہ ، 190 ء مٹ راس مضمون کے اگلے حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کی بہت سی پیاری باتیں درج ہیں جو قابل مطالعہ ہیں)
۶۰۶ ایک بار کسی شخص کو آپ نے اور نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب نے محق سرزنش کے طور پر خفیف سی بدنی سزا دی میں پر حضرت اقدس مسیح موعود نے باہمی محبت اور ہمدردی کے متعلق ایسی اثر انگیز تقریر ی زمانی که ان دونوں بزرگوں نے اس شخص سے فوراً معافی مانگ لی اور ملکی عظیم کا اعلیٰ نمونہ پیش فرمایا.حضرت اقدس کے عہد مبارک میں آپ کے قلم سے بعض علمی مضامین بعضی اختبارات سلسلہ میں شائع ہوئے اس سلسلہ میں احکم.ار جولائی ۱۹۰۵ ء صفحہ ۵ کا مضمون خاص طور پر قابل ذکر ہے جو ضرورت امام کے موضوع پر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حبیب کبھی سفر کے لیے تشریف لے جاتے تو حضور کی حرم حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رکھے میں سوار ہو تیں تو دوسرے غلام کے علاوہ آپ کو بھی ساتھ جانے کا حکم ملتا.آپ رمنھ کے ساتھ ساتھ بطور محافظ بٹالہ اور مچھر واپس تک ساتھ رہا کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ :." ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء کو میں لاہور نواب محمد علی خاں صاحب کی کو بھٹی پر تھا تو جیل روڈ پر تھی.صبح کو حب زیرا دن چڑھا تو میں حضور کی آخری زیارت اور عیادت کے لیے گیا اس وقت حضور قلم دوات منگوائی اور کاغذ پر کچھ لکھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا.اس وقت میں نے دل میں کہا.الحمد للہ کیونکہ میں حضور کی تشویشناک حالت کی خبر سن کر بہت گبھرایا ہو ا تھا.مگر حضور جب بیٹھ کر لکھنے لگے تو کا غذ پر بے قاعدہ چلا سکے اور وہ ٹیڑھی سی کشش تھی.اس وقت مجھے یقین ہوا کہ حالت خطر ناک ہے مگر حضور نے مجھے پہچان لیا اور زور سے دبانے کے لیے ارشاد فرمایا یہ بالکل آخری وقت تھا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر میری آنکھوں کے سامنے آپ کی روح ارجعی الی ربك راضية مرضية كے ذوق سے ہمیشہ کے لیے بہرہ اندوز ہو گئی.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللهُمَّ صَلَّ وَسَلِّمْ كَمَا تُحِبُّ وترضى حضرت بھائی جا شملہ سے ۱۹۳۵ء تک قادیان دارالامان میں قیام پذیر رہے اس کے بعد فسادات کے دوران پاکستان آگئے.مگر مٹی ۱۹ ء میں پھر دیار محبوب میں تشریف لے گئے اور مع الحکم اور فروری ۱۹۳۵ دسته روایات حضرت چوہدری عبد الرحیم صاحب)
4.6 ناظر تعلیم و تربیت کے عہدہ پر ممتاز رہے.قادیان میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا.صاحبزادہ مرزا ہیم احمد صاحب نے آپ سے کتب احادیث ، طب اور فارسی پڑھی یہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب حیث فاضل امیر جماعت قادیان کی رحمت یا غیر موجودگی میں قائمقام ناظر اعلی اور امیر مقامی بھی آپ ہی ہوتے تھے.جولائی ۱۹۵۲ء میں آپ قادیان سے آگئے اور تارقات ربوہ میں مقیم رہے.حضرت بھائی جی سلسلہ کی ہر قسم کی تحریکات میں پہرہ خوش حصہ لیتے اور چند د جات باقاعدہ اور با شرح ادا فرماتے آپ کی وصیت پڑا کی تھی.صاحب رڈیا رکشون والہام تھے اور مستجاب الدعوات تھے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ دھر آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اطلاع ملی اُدھر وہ بات پوری ہوگئی بعض اوقات آپ کی قبولیت دعا کا فوری اثر نمایاں ہوتا اور دعاختم کرتے ہی اس کی مقبولیت کے آثار پیدا ہو جاتے عبادت نہایت خشوع و خضوع اور حضور قلب سے کرتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ گو یا آپ اس دنیا میں نہیں ہیں.عزباء اور مساکین کا خاص خیال رکھتے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے حساب دیا اور آپ نے بھی اسے خدا.کی راہ میں اس کی خوشنودی کے لیے بے دریغ خرچ کیا.آپ نہایت منکسر المزاج اور بے نفس اور یکرنگ بزرگ تھے.ہمیشہ نگاہیں نیچی رکھتے.گوشہ تنہائی کو بہت پسند فرماتے اور دربار شہرت سے کوسوں دور بھا گئے سالانہ جلسہ پہ آپ کو سیٹھی ٹکٹ دیا جاتا مگر آپ بالعموم دوسرے حاضرین میں بیٹھے رہتے.خاندان حضرت مسیح موعود کے جملہ افراد کا ان عدا حترام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کیک کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہم سب پہ اتنے احسانات ہیں کہ ہم ساری عمر اس خاندان کی خدمت کرتے رہیں تو خدمت کا حق ادا نہیں کر سکتے.آپ تو کل کے بلند مقام پہ تھے.آپ کی ضروریات کا انتظام معجزانہ طور پر خدا تعالیٰ فرما دیتا تھا.آپ نے دھرم سالہ قادیان اور ربوہ میں مکانات تعمیر کرائے جو آپ کے مقام تو کل کی واضح مثال ہے.حضرت صاحبزادہ مرتہ البشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ سپر د قلم فرمایا : را چوہدری عبد القدید ما در دیش قادریان کو آپ کا ترجمہ قرآن پڑھنے کا شرف حاصل ہوا.نا له الفضل ۲۵ جولا ئی ۱۹۵۷ دمت و مضمون چو ہدری عبد القدیر صاحب در رویش نادریان مطبوعه بدر)
۶۰۸ حضرت بھائی صاحب مرحوم کو بہت سی خصوصیات حاصل تھیں.اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھ مذہب سے نکال کر اسلام قبول کرنے کی توفیق دی.دوسرے یہ کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو شناخت کرنے اور احمدیت قبول کرنے کی سعادت بھی پائی.تیسرے یہ کہ نہ صرف اسلام اور احمدیت کو قبول کیا : بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی لی محبت کا موقعہ میسر آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کا قرب نصیب ہوا.چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم اور عمل کی نعمت سے بھی نوازا.اور ان کے ذریعہ بہت سے نوجوانوں نے دینی علم حاصل کرنے اور تقویمی پر قائم ہونے کی سعادت پائی.پانچویں یہ کہ حضرت بھائی صاحب صاحب الہام رکشوت بھی تھے.اور دعا کی تحریک پر ان پر عموما امد تعالی کی طرف سے بہت جلد انکشاف ہو جایا کرتا تھا پھر یہ کہ خلافت ثانیہ کا بھی لمبا دور پایا.اور بال آخر قادیان میں کئی سال تک درویشی کی زندگی بھی نصیب ہوئی.اور آخر میں اللہ تعالیٰ انہیں وفات کے قریب ربوہ لے آیا.اور ایسا اتفاق ہوا کہ جنازہ کے وقت حضرت خلیفہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ربوہ میں موجود تھے.اور حضور نے ہی نماز جنازہ پڑھائی.اور حضرت بھائی صاحب مقبرہ بہشتی کے قطعہ خاص میں دفن کیے گئے.یہ سب خصوصیات غیر معمولی رنگ رکھتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی مشفقانہ نعمت اور خاص ذرہ نوازی کی دلیل ہے.کہ سکھ مذہب سے نکال کر کہاں کہاں تک پہنچا دیا اس سعادت بروز باز و نیست تانه بخشد خدائے بخشنده حضرت بھائی صاحب مرحوم ۱۸۹ء میں مسلمان ہو کہ قادیان آئے تھے اور اس وقت ان کی عمر غالباً ۲۱ سال کی تھی جب خدا تعالے نے دل میں اسلام کی چنگاری پیدا کی.تو تو جی ملازمت چھوڑ کر حصرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے قدموں میں پہنچ گئے اور حضرت خلیفہ المسیح اول......نے انہیں اپنی شاگردی سے نوازا.گزشتہ ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے پرانے رفیق خاص اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خاص کارکن بڑی سرعت کے ساتھ فوت ہوئے ہیں اس کے نتیجہ میں طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے.کہ ان بزرگوں کی جگہ لینے کے لیے احمدیت کا نوجوان طبقہ آگے آنے کے لیے کیا کوشش کر رہا ہے.اور ترقی کرنے والی قوموں کا یہ قاعدہ ہے.کہ وہ ہمیشہ صف اول کے ساتھ ساتھ صحت روم کا بھی انتظام رکھا کہ تی
4-9 ہیں.تاکہ صف اول کے بزرگوں کے گزرنے پر صعت دوم کے نوجوان ان کی جگہ لے سکیں.اور جماعت کی ترتی میں کوئی رخنہ نہ پیدا ہو.پس میں اس موقعہ پر بڑے دردمند دل کے ساتھ اپنے نوجوان عزیز وں کو تحریک کرتا.اور ان سے اپیل کرتا ہوں.کہ وہ صف اول کے خلاء کو پر کرنے کے لیے اپنے اندر دہ اوصاف پیدا کریں.جو زندہ اپنی جماعتوں کا طرہ امتیاز ہیں.لینے فرائض کے علاوہ نفلی عبادات میں شعف پیدا کریں اور اپنے دلوں میں تقویٰ کا درخت لگا کر اپنے قلوب کے دامن کو خدا کی رحمت کے ساتھ وابستہ کر دیں حتی کہ الہی رحمت جوش میں آکر انہیں اپنے انوار کا مہبط بنالے مجھے خوشی ہے.کہ کچھ عرصہ سے کافی احمدی نوجوانوں میں اس طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے.مگر ابھی تک احمدیت کی صف روم اتنی بیدار نہیں ہوئی.کہ وہ صف اقول کی جگہ لے سکے.اور ان کا وجود بھٹکتی روحوں کے لیے شمع ہدایت اور سہارے کا کام دے.پس نوجوانوں کو چاہیئے کہ مزدور اس طرف خاص توجہ دیں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا ہر کچھیلا قدم ہر پہلے قدم سے آگے نہ بڑھے خدا کرے کہ ایسا ہی ہونے اولاد : میجر ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب.☑ خدیجه بیگم صاحبہ اللہ اللہ بیگم صاحبہ زینب بیگم صاحبه عائشہ بیگم صاحبہ -- آمنہ بیگم صاحبہ خاکسار - مرزا بشیراحمد ۱۰ ربوه لا اہلیہ حضرت ولوی فضل الدین صاحب دلیل) داللہ خانصاحب حضرت مولوی فرزند علی صاحب) اہلیہ محفوظ الحق صاحب علمی راہلیہ مولوی علی محمد صاحب اجمیری) را یہ محمد اسحاق صاحب ابن مولای مفخرالدین ها آن ھو گیاٹ ۱۳ - حضرت مولوی فضل الہی صاحب بھیر دی ولادت قریباً ۵ ۱۸ ء - زیارت نومبر ۱۸۹۱ء بمقام امرتسر بیعت ۹۳-۱۸۹۴ ۶- وفات ۲۵ اگست دوم حضرت مولوی فضل الہی صاحب بھیر دی اپنے خود نوشت حالات و روایات میں تحریر فرماتے ہیں کہ:.میرا پیدائشی شہر موضوع احمد آباد تحصیل پنڈ دادنخان ضلع جہلم ہے.جو بھیرہ سے تقریباً چار سیل کے روزنار الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ ء ص ۳
۶۱۰ فاصلہ یہ تھا.میرے والدین سخت حنفی تھے.بندہ کو امر تسر جناب قاضی سید امیر حسین صاحب مرحوم کے پاس آنے سے احمدیت کا علم ہوا.بندہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لیے ماہ رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اعتکاف کے ایام میں بہت درعا استخارہ کی.اور دعا میں یہ درخواست بھی کہ مولیٰ کریم مجھے اطلاع فرما.کہ میں حالت میں اب ہوں یہ درست ہے یا تو اس وقت حضرت مسیح موعود کا دعوی ہے.وہ درست ہے.اس پر مجھے دکھلایا گیا.کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں.لیکن رخ قبلہ کی طرف نہیں ہے.اور سورج کی روشنی بوجہ کسوف کے بہت کم ہے.جس سے تقسیم ہوئی.کہ تمہاری موجودہ حالت کا نقشہ ہے.دوسرے روز نماز عشاء کے بعد پھر رد ہو کر بہت دعا کی.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں فرمایا.کہ اصل دعا کا مرقت جوف اللیل کے بعد کا ہوتا ہے.جس طرح بچہ کے رونے پر والدہ کے پستان میں دودھ آجاتا ہے.اسی طرح پچھلی رات گریہ وزاری خدا کے حضور کرنے سے خدا کا رسم قریب آجاتا ہے.اس کے بعد بندہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی اختیار کرلی اس کے بعد حضور کی پاک محبت کی برکت سے یہ فائدہ ہوا کہ ایک روز نماز تہجد کے بعد خاکسار سجدہ میں دعائیں کر رہا تھا.کہ غنودگی کی حالت ہوگئی.جو ایک کشفی رنگ تھا.ایک پاکیزہ شکل فرشتہ میرے پاس آیا.جس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت سفید کو زہ پانی سے بھرا ہوا تھا.اور ایک امحق میں ایک خوبصورت کارد (چھڑی تھی.مجھے کہنے لگا.کہ تمہاری اندرونی صفائی کے لیے میں آیا ہوں.اس پر میں نے کہا.کہ بہت اچھا.آپ جس طرح چاہیں صفائی کریں.چنانچہ اس نے پہلے چھڑی سے میرے سینہ کو چاک کیا.اور اس کوزہ کے صاف پانی سے اس کو خوب صاف کیا.لیکن مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی.اور نہ ہی خومت کی حالت پیدا ہوئی.جیب رہ چلے گئے.تو میں نے خیال کیا.کہ اب میں نے صبح کی نمانہ ادا کرنی ہے.اور یہ تمام بدن چیرا ہوا ہے.نمازہ کسی طرح ادا کر سکوں گا.اس لیے ہاتھ پاؤں کو ہلانا شروع کیا.تو کوئی تکلیف نہ معلوم ہوئی.اور حالت بیداری پیدا ہوگئی.اس کے بعد نماز فجر ادا کی.اس کے بعد حضور کی فیض محبت سے بہت روحانی فوائد حاصل ہوئے.جو قبل اس کے کبھی نہیں ہوئے.بہت دفعہ مسجد مبارک میں حضور کے ساتھ بائیں طرف کھڑے ہو کر نماز باجماعت ادا کر نے کا اتفاق ہوا.حضور کی آواز کبھی نہ یادہ دیخی نہیں آتی تھی.بہت ہی آہستہ تسبیح تحمید کرتے تھے ، بعد فراغت نماز حضور اکثر و فعہ مسجد کے کونہ میں مشرق کی طرف سرخ فرما کہ بیٹھ جاتے.اور مہمانوں اور دوستوں سے
۶۱۱ فرمایا کرتے تھے.میں نے اس عرصہ چودہ یا پندرہ سال میں حضور کو کسی سے سخت کلامی یا تند آواز سے گفتگو کرتے نہیں دیکھا.بلکہ مخالف جاہل نے کبھی بد کلامی سے گفتگو حضور سے کی ہے.تو حضور نے نرمی اور آرام سے اس کا جواب دیا.اگر کسی دوست نے عرض کی.کہ حضور میں نے کچھ نظم بنائی ہے.اجازت ہو.تو بیان کروں.خواہ وہ عرض کرنے والا ایک ناخواندہ آدمی ہی معلوم ہو.اور وہ نظم خواہ کیسی ہی معمولی سی ہو.حضور نے کبھی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا.گو دوسرے سامعین کیسے ہی ناپسند کرتے ہوں.اسی طرح اگر کسی نے اپنے خواب اور کشوف یا الہامات سُنانے شروع کیے.تو آپ نهایت خندہ پیشانی سے سنتے رہتے تھے.ایک بزرگ جن کا نام میرے خیال میں سید مہر علی شاہ صاحب تھا.اور بہت سے کشوں اور الہامات کئی کئی اور متواتہ بہت دیر تک سنانے شروع کر دیتے جس سے لوگ اکتا جاتے.لیکن حضور ان کی دیجونی کے لیے سُنتے رہتے.اور کبھی کبھی مسکراتے بھی تھے.بعد میں کبھی کبھی آواز خفیف سے ہنستے بھی تھے.اور ہمیشہ تمہتم اور خندہ پیشانی سے گفتگو فرمایا کرتے.کبھی تیوری چڑھا کر گفتگو نہیں فرماتے تھے.ایک دفعہ بیت اقصی میں حضور نے دوستوں کو نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا.کہ دنیا میں ہر ایک مومن کے دوباپ ہوتے ہیں.ایک جسمانی اور دوسرا رومانی.جسمانی باپ تو انسان کو آسمان سے زمین پر لانے کا موجب ہوا.لیکن دوسرا روحانی باپ پھر نہ مین سے آسمان پر لے جانے کا موجب ہوتا ہے.چونکہ زمین سے آسمان پر لے جانا ایک عظیم الشان کام ہے.اسی لیے دوسرے روحانی باپ کا درجہ پہلے روحانی باپ سے زیادہ ہے.اس اصول کے ما تخت دوسرے باپ کی روحانی اولاد کو آپس میں محبت ، اخوت دوسرے جسمانی بھائیوں سے بڑھ کر کہنی چاہیئے.چنانچہ میں اس بات کا گواہ ہوں.کہ حضرت میسج موعود کے زمانہ میں جس قدر احمدی بھائیوں میں آپس میں محبت و اخوت تھی.اس کی مثال میں نے کسی دوسرے جهانی باپ کے بھائیوں میں نہیں دیکھی.تمام دوست ایک دوسرے کو بھائی بھائی کر کے بلاتے اور ان کی اس آمرانہ میں ایک بڑی محبت کا بھرا ہوا جام ہوتا.جو سینوں کے دل کو محبت سے سیراب کر دیتا اور کوئی غریب - ایر.اعلیٰ.ادنیٰ کا سوال نہ ہوتا تھا.- بیتِ مبارک میں بیٹھ کہ حضور مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرمایا کرتے تھے.بہت دفعہ حضور
کے بالکل ساتھ بیٹھ کہ بندہ نے کھانا کھایا.حضور بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے روٹی کے برائے نوالہ بنا کر آہستہ آہستہ لکھاتے تھے.اور جب تک تمام مہمان کھانا نہ کھالیتے.حضور کھا نا سے ہاتھہ نہ اٹھاتے.جب حضور کھانے سے فارغ ہوتے.تو ایک روٹی میں سے بھی کافی حصہ بچا ہوا ہوتا.حضور خشک شدہ ساگ اور اچار دہی وغیرہ جو میتر ہوتا.کھانے کے لیے منگواتے.تو پاس کے دوستوں کو بھی عنایت فرمانے کھانا نگے سر کبھی نہ کھاتے تھے.ایک دفعہ کا واقعہ ہے.کہ کھانا کھاتے کھاتے سر درد کی تکلیف کچھ شروع ہو گئی.اس لیے حضور دستار مبارک کو درد کی وجہ سے اتار کر رکھتے.لیکن پھر جلد ہی سر پر رکھ لیتے.اسی طرح کئی دفعہ کیا.جس سے معلوم ہوا.کہ حضور کھانا کی خاطر پھر دستار مبارک بار بار رکھ لیتے ہیں.غرض ایسی تکلیف کے وقت بھی ننگے سر کھانا کھانا پسند نہیں فرماتے تھے.کھانا عموماً ایک ہی قسم کا ہوتا تھا.ہاں اگر کوئی شخص پہلے سے کہ دیتا تھا.کہ میرے لیے خشکہ چاول یا اور کوئی پر بینری کھانا درکار ہے.تو اس کے لیے اس جگہ وہی کھانا آجاتا تھا.حضور کھانے کے وقت کچھ باتیں بھی فرمایا کرتے تھے.اور خندہ بھی کسی کسی وقت فرماتے تھے.اور نہایت بے تکلفانہ نشست حضور کی ہوتی تھی.آجکل کے پیروں کی طرح کوئی خاص مسند نہیں ہوتی تھی.حضور بعد نماز مغرب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی زندگی میں بہت مبارک میں شہ نشین پر اکثر دفعہ بیٹھ کہ خدام کا اپنی زیارت اور پاک کلام سے عشاء کی نماز تک شرف بخشتے تھے.اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب حضور سے کئی مسائل دریافت فرماتے.اور حضور اس کا جواب دیتے.اور مہمانوں سے باتیں فرماتے.ایک دفعہ کا واقعہ مجھے یاد آ گیا ہے.کہ بعد نماز مغرب حضور شہ نشین پر مشرقی کی طرف رخ فرمائے تشریف فرما تھے.اور چاند کی تاریخ پندرا سولہ غالبا تھی.اندھیرے میں جب مشرق سے چاند طلوع ہوا.تو یہ عاجہ مغرب کی طرف (حضور کے چہرہ مبارک کی طرف منہ کر کے بیٹھا ہوا تھا.مجھے نظر آیا.کہ حضور کے چہرہ مبارک سے شعاعیں نکلتی ہیں.اور چاند کی شعاعوں سے ٹکراتی نظر آتی ہیں.حبب بندہ لاہور ورنٹیل کالج میں تعلیم حاصل کرتا تھا.تو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ رہتا تھا.حضرت مفتی صاحب وصوت قریباً ہر ہفتہ کی شام کو لاہور سے روانہ ہو کہ رات کے بارہ بجے کے قریب ٹینشن الہ پر اتر کہ پیدل چل کر نماز تہجد کے وقت قادیان دارالامان میں پہنچ جایا کرتے اور صبح حضرت اقدس آپ کو اندر اپنے کمرہ میں بلا لیتے.کیونکہ کئی دفعہ یہ عاجز بھی حضرت مفتی صاحب کے ہمراد اور
۶۱۳ تادیان چلا جاتا تھا.اس لیے بعض دفعہ حضرت مفتی صاحب بندہ کو بھی اپنے تہراہ حضرت صاحب سے حضور لے جایا کرتے تھے اور حضرت اقدس اپنے کمرہ سے براستہ زینہ نیچے تشریف لے جاتے.اور بسکٹ چائے یا کوئی اور چیز خود اٹھا کہ لاتے.اور ہمارے آگے رکھ کر مہمان نواز می فرماتے تھے.اور حضرت مفتی صاحب حضور علیہ السّلام کو ولائتی ڈاک سُنا کہ ان کے جواب لکھا کرتے تھے.عزمن تمام دن حضرت اقدس کی خدمت گزار کہ عصر کے بعد قادیان سے روانہ ہوئے.اور اس وقت حضرت مفتی صاحب نے بتلایا.که حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے قادیان سے جانے کا یکہ کا کرایہ خودا دا فرماتے تھے.اس کی وجہ یہ بتلائی.کہ حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں.کہ جس قسم کا اخلاص آپ مجھ سے بوجہ مسیح موعود ہونے کے رکھتے ہیں.اس اخلاس میں شریک ہو کہ یہ ثواب حاصل کرنے کی خاطر ہم بھی آپ کے سفر خرپ میں کچھ حصہ ڈال دیتے ہیں.اسی طرح ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے مبلغ دور ہو یہ حضرت مفتی صاحب کو دیئے اور فرمایا.کہ ہم قادیان کی آمدورفت میں خرچ کریں.کیونکہ یہ ایک غریب آدمی نے بھیجے کر لکھا ہے کہ کسی ایسی جگہ خرچ فرمانا.جہاں مجھے بہت ثواب حاصل ہو.اس لیے آپ اس کو اس سفر میں خرچ کریں گے دیدہ فرماتے ہیں:.سب سے پہلے میں نے حضرت اقدس کی امرتسر کے مقام پر زیارت کی.جبکہ حضور دہی سے واپس تشریف لائے تھے.اور شیخ نور احمد صاحب کے مکان پر بمعہ اہل وعیال فروکش ہوئے تھے.حضور کے ساتھ حضرت المصلح الموعود بھی تھے.جن کی عمر اس وقت قریبا چار سال کی تھی.خدام میں سے ایک محمد یوسف خاں تھے.ایک میر محمد سعید صاحب وغیرہ.حضرت صاحب کے لیے شیخ نوراحمد صاحب کے مطبع کے برآمدہ میں صفیں سمجھائی گئی تھیں.وہاں حضور تشریف فرما ہوا کرتے تھے میں حسیب حاضر ہوا.تو شہر کے بعض اور معززین بھی موجود تھے.ایک شخص محمد یوسف صاحب جو ضلعدار تھے.وہ بھی موجود تھے.انہوں نے اپنی ایک خواب بیان کی مخفی.کہ آسمان سے ایک نور کی شعاع نازل ہوئی ہے.جو قادیان کی طرف اتری ہے.یہ یاد نہیں.کہ حضور نے اس کے بارے میں کچھ سے رجسٹر روایات ۲ صفحه ۳۲۲ تا ۲۲۷
۶۱۴ فرمایا تھا یا نہیں.یہ خواب وہ پہلے بھی بیان کر چکے تھے.یں حضرت صاحب کے پاؤں دبا رہا تھا.کہ ایک شخص جس کے کندھوں پر خالی مشک بھی تھی.اس نے بہت نامعقول اعتراضات کرنے شروع کیے.اس کی گفتگو میں بہت بداخلاقی کے الفاظ تھے.جس پر معرز برین جو موجود تھے.جو غیر احمدی تھے.انہوں نے بھی برا منایا اور اسکو لعن طعن کرنے لگے.گر حضرت صاحب نے ان کو منع فرمایا.فرمایا کہ یہاس کا قصور نہیں ہے.یہ بے مسلم ہے.مولویوں نے اسے کچھ باتیں سکھا کر بھیجا ہے.چونکہ یہ دینی جوش رکھتا ہے.اس لیے یہ ایسے الفاظ کہہ رہا ہے.یہ اس کا تصور نہیں.مجھے یہ اچھی طرح یاد نہیں.کہ میں نے اس موقعہ پر ہی بیعت کی تھی.یا پھر قادیان آکر.اس وقت یک امرتسر میں قاضی امیر حسین صاحب کے پاس پڑھا کرتا تھا.قاضی صاحب ان ایام میں احمدی تھے.اور حضرت صاحب کے پاس جایا کرتے تھے.اس کے بعد میں لاہور چلا گیا.اور وہاں اور تمثیل کالج میں تعلیم پاتا رہا.ان ایام میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم وغیرہ سے اکثر طاقات ہوتی رہی.اور ان کے ساتھ اکثر قادیاں آنے کا اتفاق رہا.چنانچہ مجھے یاد ہے.کہ ایک دفعہ ہم قادیان اس غرض سے آئے تھے.کہ پیشگوئی کے مطابق جورمضان شریف میں کسوف و خسوف ہوا تھا.اس کی نماز مسجد اقصی میں پڑھی جاتی تھی.چنانچہ ہم اس نماز میں شامل ہوئے.کافی دیر تک وہ نماز جاری رہی.غالبا ۱۸۹ء میں حضرت صاحب سفر ملتان سے واپسی کے وقت لاہور تشریف لے گئے اور وہاں شیخ رحمت اللہ صاحب کی دکان بمبئی ھاؤس کے پیچھے جہاں شیخ صاحب خود رہتے تھے.وہاں حضرت صاحب فروکش ہوئے.شام کے بعد کا وقت تھا.کہ یکیں بھی وہاں حاضر ہوا.اس کمرہ میں اور بہت سے لوگ حضور کی آمد کی خبر سنکر زیارت کے لیے حاضر تھے میشن کالج اور خالصہ کالج کے بعض طلباء بھی تھے.اور متفرق لوگ بھی تھے.سب نے عرض کی.کہ حضور کوئی نظریہ فرما دیں.حضور نے فرمایا.کہ میں سفر سے آیا ہوں.میں زیادہ تقریر تو نہیں کر سکتا.مگر کچھ بیان کر دیتا ہوں.چنانچہ حضور اس کمزہ کے شمالی جانب گلی کی طرف کی ایک سنجول دالی تا کی میں بیٹھ گئے اور کچھ فرمایا.اس کا خلاصہ جو مجھے یاد ہے.یہ تھا.کہ مذہب ایک عربی لفظ ہے جس کے اصطلاحی معنے خدا کا راستہ ہے.اور ہر ایک مذہبی آدمی کا یہ دعوئے ہے.کہ میرا مذہب خدا تک پہنچا ہوا ہے.فرمایا.کہ اس ہے.
710 کی مثال یوں ہے.کہ فرض کرو.لاہور سے ایک جماعت آدمیوں کی میاں میر جانے کے لیے نکلی ہے.اور باہر جا کر دریافت کر تی ہے.کہ میاں میر کو سیدھا راستہ کون سا جاتا ہے.لیکن وہاں مختلف راستے جار ہے ہیں.اور ہر راستہ پر آدمی کھڑے ہیں.اور کہتے ہیں.کہ جس رستے پر سم کھڑے ہیں.یہ میاں میر کو جاتا ہے.چنانچہ ان کے کہنے پر مختلف لوگ مختلف رستوں پر چل پڑتے ہیں.لیکن فرمن کرد - اگر اکثر لوگوں کو چلتے چلتے شام پڑ جائے.اور وہ میاں میر نہ پہنچیں.اور نہ انہیں میاں میر کے کوئی آثار کا پتہ لگے.تودہ لانہ سمجھ لیں گے.کہ جن راستوں پر ہم چل رہے ہیں.کہ میاں میں نہیں جاتے.لیکن وہ لوگ جو میاں میر پہنچ جاتے ہیں.یا انہیں میاں میر کے آثار نظر آجاتے ہیں.ان کو یقین آجاتا ہے.کہ ہم میاں میر کے راستہ پہ ہیں.یہی حال مختلف مذاہب کا ہے.مذہب کی غرض جیسا کہ میں بتا چکا ہوں.خدا تک پہنچتا ہے.اب اس مجلس میں مختلف مذاہب کے لوگ موجود ہیں.میں سوال کرتا ہوں.کہ کیا آپ میں سے کوئی شخص یہ کہ سکتا ہے.کہ میں نے اپنے مذہب پر چل کہ خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لی ہے اگر کوئی ایسا ہے.تو وہ کھڑا ہو جائے........کوئی کھڑا نہ ہوا جیسا کہ اوپر آچکا ہے حضرت مولوی صاحب موصوت ۹۳ - ۱۸۹۲ ء میں حضرت اقدس مسیح موعود ہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے تھے.آپ ان دنوں اور مینٹل کالج لاہور میں پڑھتے تھے اور جب تک پڑھتے رہے قریباً ہر اتوار قادیان جاتے اور حضرت اقدس مسیح موسلوڈ کی صحبت سے فیضیاب ہوتے جب گھر والوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے گھر کے درواز سے آپ کے لیے بند کر دیئے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اور محبت نے ان کے پائے استقلال میں خم نہ آنے دیا اور وہ تمام رشتہ داروں اور لواحقین کو چھوڑ کہ بھیرہ سے سرگودنا آ گئے یہاں آکر انہوں نے سرکاری ٹھیکیداری شروع کردی اور ساتھ ساتھ تبلیغ احمدیت میں مصروف رہے.چنانچہ آپ کی مخلصانہ کوششوں سے ہی ضلع سرگو دریا میں جماعت احمدیہ قائم ہوگئی.اور آپ نے 9 بلاک سرگودہا میں بیتِ احمدیہ بنوائی اور اپنے مکان کا ایک حصہ احمدی دوستوں کے قیام و طعام کے لیے وقف کر دیا شیخ محمد اسماعیل صاحب لائل پوری کے صاحب زادے میاں نصیر اے شیخ ل ايضا جلد ۱۲ ۲۵۹ تا ص ۲۶۲ ہے
۶۱۶ مالک کالونی ٹکسٹائل ملز اسماعیل آباد ملتان میں مرحوم کی تبلیغ کی وجہ سے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.۱۹۲۲-۲۳ء میں ہجرت کر کے قادیان میں چلے آئے اور تقسیم ملک تک وہیں سکونت پذیر رہے.مرحوم کا اکثر وقت عبادت میں گزرتا بغیر جماعت کے نماز ادا کر نا کمزوری ایمان سمجھتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالہ ہے میں نے کوشش یہی کی ہے کہ نماز با جماعت ادا کروں اور سوائے بیماری اور سفر کے لیکں نے کبھی بغیر جماعت کے نماز ادا نہیں کی.حضرت مولوی صاحب کو خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی آپ التزام کے ساتھ بیماری کی حالت میں بھی حضرت.خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کی صحت اور درازی عمر کے لیے بالخصوص دعائیں کرتے رہتے.کمزور ہونے کے باوجود جلسہ سالانہ میں مشمولیت کے لیے قبل از وقت ربوہ پہنچ جاتے اور سال کا زیادہ حصہ یہیں گزارتے اور اُن کی دل کی خواہش تھی کہ دہ ربوہ میں ہی رہیں.بیماری کی حالت میں کئی بار انہوں نے کہا کہ مجھے ربوہ پہنچا دو لیکن ڈاکٹروں کا مشورہ تھا کہ سفر نہ کیا جائے ہے حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کا بیان ہے کہ ور آپ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے خاص دوست تھے.حضرت مفتی صاحب کے ساتھ لاہور سے قادیان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لیے باقاعدہ جایا کرتے تھے.یہ دونوں اصحاب بٹالہ سے قادیان تک اکثر پیدل جایا کرتے تھے اس لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی فضل الہی صاحب مرحوم کو بعض اوقات " صدیق صادق کہ کہ بلایا کرتے تھے.قادیان میں قصر خلافت کی تعمیر کرانے کا شرف بھی مولوی صاحب موصوف کو ہی حاصل ہو ا تھا کیونکہ حضرت.......خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے اپنی رڈیا میں دیکھا تھا کہ قصر خلافت مولوی فضل الہی صاحب کی زیر نگرانی تعمیر ہو رہا ہے ہے به روز نامه الفضل سیوه ر ستمبر ۱۹۵۷ - ۶ تبوک ۱۳۳۶ مره ع الفضلی یکم ستمبر ، ١٩٥ء مست i !
۱۴ حضرت جوبڑی اللہ بخش صاحب مالک اللہ بخش سیم پریس قادیان ) " ر ولادت ۸۸۷اله بیعت ۲۷ مئی ۸۹۸ ء وفات پر اکتوبر ۱۹۵۷ ء م حضرت چو ہری اللہ بخش صاحب کی مختصر سوانح آپ کے صاحبزادے محترم جناب چوہڑی عنایت اللہ صاحب سابق مبلغ انچارج تنزانیہ وامیر جماعتہائے احمدیہ مشرقی افریقہ حال لندن کے قلم سے درج ذیل کیے جاتے ہیں.آپ سپین وال اُٹھے ( نزد ظفر دال) تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے.یہ سارا علاقہ • شہر کہلاتا ہے جس میں را چو توں کی سہری قوم آباد ہے آپ سہری قوم کے بٹھا کر راجپوتوں میں سے تھے.اور سلہری قوم میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے ہیں.آپ کے والد ماجد کا نام چوہدری فضل دین تھا جو پولیس میں غالبا ہیڈ کانسٹیبل تھے.والد صاحب مرحوم ابھی بہت چھوٹے تجھے کہ دالدہ انتقال فرما گئیں اور آپ کو پھوپھی نے پالا تھا.اُن کے والد صاحب چوہدری فضل دین صاحب پولیس کی ملازمت میں عموما لا ہور اور امر تیر رہے اور پہلے ان کی والدہ صاحبہ پھر والد صاحب نے وہیں وفات پائی.-.والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں ابھی وہ برس کا تھا کہ مجھے پہ نٹنگ پریس میں کام سیکھنے کے لیے لاہور میں کام پر ڈال دیا گیا.آٹھ آنے مہینہ کی تنخواہ بھی ملنے لگی.اُن کے پریس کے اُستاد کا نام بھی اللہ بخش ہی تھا جو لاہور کے نزدیک ساندے کھلاں میں رہتے اور دن کو لاہور میں اپنا پریس چلاتے تھے.والد صاحب کے اخلاق حسنہ کا ان کے اُستاد اور سارے خاندان پر اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ ہمیشہ والد صاحب کی عزت بلکہ ادب کر ہتے اور استاد شاگرد کے مثالی تعلقات تھے ہم قادیان سے سکولوں کی موسم گرما کی یخنوں میں اکثر ساندے بھی جایا کرتے تھے.بعد میں پریس ہی کی ملازمت کے لیے امرتسر چلے گئے اور وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق مکرم جناب استاد نور احمد صاحب کے زیر اثر آئے اور اُن کے ساتھ کام بھی کیا.احمدیت کے بارہ میں آپ کو علم استاد نور احمد ات ہے ریکار ڈ نظارت بہشتی مقبرہ ربوہ سے المفضل 11 اکتوبر ، ١٩٥ء کہ حضرت شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض مہند پریس امرتسر
YIA صاحب اور حضرت ڈاکٹر کرم الہی صاحب مرحوم کے ذریعہ ہوا.آپ حضرت ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب کے مکان سے نطقہ مکان کے ایک حصہ میں دوسری منزل پر کہا یہ پہ رہتے تھے قاضی فیملی سے تعلقات بڑھنے لگے.آپ کی پہلی شادی سلطان پورہ لاہور کے میٹ خاندان میں ہوئی.امر تسر میں قاضی فیملی کی بزرگ خواتین حضور صدا اماں جی یعنی مکرم جناب قاضی محمد اسلم مرحوم اور جناب قامتی منیر احمد مرحوم کی والدہ ماجیدہ میری والدہ کو تبلیغ کا کہتی تھیں والدہ کی عمر چھوٹی تھی اردو پڑھ لکھ لیتی تھیں ایک روز جب مسیح موعود علیہ السلام کا پاک کلام منظوم پڑھتے پڑھتے اس شعر پہ پہنچیں کہ :- ہے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد : تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے : تو حق گھل گیا سچائی کا تیرا پنا کام پورا کر چکا تھا.والدہ مرحومہ نے فرمایا جس شخص نے یہ شعر کہا ہے کبھی چھوٹا نہیں ہو سکتا.کیا ہی سچ فرمایا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے ے کچھ شعر و شاعری سے اپنا تعلق نہیں : اس ڈھب سے کوئی سمجھے لیس مدعا یہی ہے جنڈا جانے میری والدہ کی طرح کتنی روحیں حضور کا منظوم کلام پڑھ کر نور احمدیت سے منور ہوئی ہوں گی.جب والد صاحب گھر تشریف لائے تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کیں اب احمدیت قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتی خود والد صاحب بھی حق کا اثر قبول کر رہے تھے انہوں نے فرمایا یہ دین کا معاملہ ہے تمہاری مرضی چنانچہ پہلے ہماری والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعیت کی الحمد للہ علی ذالک اور وہ ہمارے خاندان میں سب سے پہلے احمدی ہوئیں.حضرت والد صاحب امرتسر کے احمدی بزرگوں اور والدہ مرحومہ مہر بی بی صاحبہ (زوجه اقول وفات ۱۹۲۳د مد خون بہشتی مقبره قادیان) کے زیہ اثر احمدیت کے قریب آتے گئے والدہ کی بیعت کے بعد مخالفت کا بازار محلہ کو چہ میو ڈار ہاتھی دروازہ امرتسر میں گرم ہو گیا والد صاحب مولوی ثناء اللہ صاحب کے گہرے دوست اور مزاج بھی تھے نماز بھی انہی کی اقتداء میں پڑھا کرتے تھے.۱۸۹۴ ء میں سبب رمضان المبارک میں سورج اور چاند دونوں کو مقررہ تاریخوں میں گرہن لگا تو والد صاحب مولوی ثناء اللہ صاحب سے اپنی کی مسجد میں صاف صاف کہدیا کہ آپ تو کہا کرتے تھے که اگر مرزا صاحب بچتے ہیں تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق چاند اور سورج کو گرین کیوں نہیں لگا اب تو گر مین نے بھی گواہی دے دی ہے اس لیے ہم حضرت مرنا صاحب کی طرف جاتے
ہیں مولوی صاحب نے اس پر کہا کہ افسوس اب لوگ گراہ ہو جائیں گے اور والد صاحب نے مولوی صاحب کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیں اور احمدیت کی طرف تیزی سے بڑھنے لگے.ایک مسئلہ ابھی صاف نہیں ہوا تھا غالباً وفات مسیح ناصری کا مسئلہ تھا کسی مخالف نے والد صاحب سے کوئی سوال کیا جس کا جواب اُس وقت آپ نہیں جانتے تھے چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ مسیح تو زندہ آسمان پر ہے پھر دوسر اسیح کیسے آگیا وغیرہ والد صاحب نے بتایا کہ دعا کرتے ایک رات جب سو گیا تو عجیب نظارہ دیکھا ایک نہایت صاف ستھرے خوبصورت کمرے میں پہلے آسمان سے ایک کرسی نازل ہوئی پھر غیب سے ایک نیز نمودار ہوا اور اس کے بعد حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ و سلم نهایت نورانی جلال کے ساتھ اس کرسی پر جلوہ افروز ہوئے اور سامنے میز پر حضور کے سامنے قرآن کریم ناندل ہوا نہایت قیمتی اور نورانی چیزیں جزوان اور موتیوں کی طرح چمکتے حروف تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کو کھولا اور میرے سوال کا جواب دیا کہ حضرت علی علیہ السلام تو مر چکے ہیں آنے والا آگیا ہے جس سے میری تسلی ہو گئی اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ۱۸۹۸ء میں بیعت کر لی.آپ پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی قادیان دارالامان تشریف لے گئے تھے.اور مکرم جناب مرزا محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ مل کہ پرنٹنگ پریس کا کام کرتے تھے اُن دنوں صرف ہینڈ پریس پر قادیان میں کام ہوتا تھا بڑا کام تو امرتسر میں استاد نور احمد صاحب کے سپرد کیا جاتا مقا جن کا غالباً اپنا پریس تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت اصلی کے ایام میں قادیان ہیں پریس کا کام کرتے رہے اور اپنے پریس کا نام حضرت خلیفۃ المسیح اول........سے رکھنے کے لیے عرض کیا.حضور نے فرمایا اللہ بخش پر میں رکھ لو کسی کے.س پریس رکھ لو کسی کے کہنے پر کہ حضور یہ تو ان کا اپنا نام ہے حضور نے فرمایا کہ اس سے اچھا نام میرے پاس نہیں میرا تو اگر بس چلے تو سب چیزوں کے نام ہی اللہ تعالی کے نام پر رکھ دوں.چنانچہ نام اللہ بخش پریس یہ کھا گیا..حبب آخری سفر پر حضور علیہ السلام سفر لا ہور کے لیے تیار ہوئے تو والد صاحب مرحوم نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضور مجھے بھی خدمت کے لیے ساتھ لے جائیں حضور نے فرمایا آپ یہیں رہیں لا ہور نہ جائیں آپ خوش قسمت ہیں ہم اشاعت دین کے لیے لکھتے ہیں اور آپ چھاپتے ہیں اس نیک کام میں آپ ہمارے ساتھ شریک ہیں.والد صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت خلیفہ المسیح اول
۶۲۰ کی وفات کے موقع پر مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفتہ ایسے ثانی کی بیعت نہ کی اور لاہور چلے گئے میں نے فوراً بیعت کر لی تھی اور میں نے کہا کہ حضور علیہ السلام کا یہ ارشا در کہ آپ نامور نہ جائیں یہیں رہیں مجھے سچا گیا ہے.مجھے معلوم نہیں کب لیکن کسی وقت غالباً خلافت اول کے زمانہ میں دارالامان سے امرتسر چلے گئے تھے وہاں مردار لکھبیر سنگھ صاحب المعروف لکھا سنگھ کے مشہور پریس وزیر مہند پریس کے سپر وائزر رہے اور جب تک آپ وہاں رہے مرکز سلسلہ کا بڑا بڑا تمام کام وزیر ہند پریس امرتسر میں ہی چھپتا رہا قاعدہ لیستر نا القرآن اور حضرت پیر منظور محمد صاحب کا قرآن مجید بھی وہیں چھپتا رہا.خلافت ثانیہ کے دوران واپس تا دیان آگئے اور اچھی شینین لا کہ اللہ بخش سٹیم پر لیس جاری کیا.- دوران قیام امرتسرمیں سکول سے چھٹیوں کے دلوں میں جب کبھی میں امرتسر جاتا تو دیکھتا کہ آپ جمعہ کے دن خطبہ پڑھتے تھے گویا خطیب بھی رہے.آپ کے تقومی نیکی سادگی پسیار محبت اور تبلیغی جنون کا یہ حال تھا کہ مسلم غیر مسلم سب آپ کی تعزیت کرتے تھے اور جماعت پر جب بھی مشکل وقت آتا تھا ہمہ دا مشورے دیتے تھے.جنون و جوش تبلیغ کی دو مثالیں عرض کرتا ہوں.ا والد صاحب جن دنوں امرتسر میں سیکرٹری تبلیغ ہوا کرتے تھے حضرت بابو فقیر علی صاحب والد ☑ حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب مرحوم امرتسر میں ریلوے سٹینشی ماسٹر تھے ایک دنبہ یوم تبلیغ کے موقع پر یہ دونوں بزرگ اکٹھے تبلیغ کرتے کرتے غنڈوں اور بد معاشوں میں پھنس گئے وہ انہیں دھوکا دیکر ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں گلی ختم ہو جاتی تھی.ان لوگوں نے تبلیغ کننے کے بہانے ان دونوں بزرگوں کو چار پائی پر بٹھا کہ بات چیت شروع کر دی اور فوراً ہر طرف مکانوں کی چھتوں پر ادھر ادھر عور نہیں اور بیچے جمع ہو گئے اور گلی مردوں سے بھر گئی اور مغلظات کی بوچھاڑ ہونے لگی گلی سے نکلنے کا بھی راستہ نہ تھا فرمایا کرتے تھے ہم دُعا میں مصروف ہو گئے چند منٹوں بعد دیکھا کہ امرتسر کا سب سے بڑا دس نمیر کا بدمعاش ہاتھ میں ہنڑ لیے وہاں آگیا اور لوگوں کو گالیاں اور دمکتے دیتا ہوا ہمارے پاس پہنچا اور والد صاحب مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا چوہدری صاحب آپ کہاں ان بد معاشوں میں پھنس گئے ہیں.چلیں میں آپ کو چھوڑ آؤں اور وہ حاضرین کو گالیاں دیتے ہوئے ہیں وہاں سے نکال کر یال بازار یک چھوڑ گئے.
۶۲۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق حضرت جمعدار فضل دین صاحب نے بیان فرمایا کہ جن دنوں وہ خود امرتسر میں تھے عاجز کے والد صاحب مرحوم امرتسر میں سیکرٹری تبلیغ تھے ایک دفعہ کسی مکان میں غیر احمدی دوستوں میں تبلیغ کر رہے تھے کرم جمعدار صاحب بھی حاضرین میں موجود تھے.جب حاضرین نے وفاتِ مین ناصری علیہ السلام پر اتفاق کر لیا اور کسی دوسرے مسئلہ کو شرو ع کرنا چاہا تو وہاں والد صاحب مرحوم نے فرمایا نہیں اس طرح نہیں اگر ہم مانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں تو کتنے افسوس کی بات ہے کہ کسی نے ۱۴ سو سال میں کسی نے اس بزرگ نبی پر فاتحہ بھی نہیں پڑھی آؤ ہم آج اُن کی روح کے لیے بلکہ دعا کریں چنانچہ والد صاحب نے ہاتھ اُٹھائے اور تمام حاضرین نے مل کر دُعا کی پھر بحث آگے چل لیے قادیان میں آپ نے محلہ بہت اقصٰی میں حضرت مرزا برکت علی بیگ اور مرزا نذیر عسلی بیگ اور مرزا سلام اللہ بیگ اور مرزا منظور سینگ والی گلی میں مکان خرید کر اس پر دوسری منزل تعمیر کی تھی ہم پہلے پانچ بہن بھائی است الرحمن - عطاء اللہ.عبدالمنان.عنایت اللہ اور امت المنان امرتسر میں پیدا ہوئے تھے باقی ساری اولاد تا زیان میں پیدا ہوئی.دوبارہ والد صاحب مرحوم ۱۹۲۸ء کے قریب قادیان تشریف لائے اور پریس کی مشینیں تو ائل انجن سے چلا کرتی تھیں لگائیں بجلی اس وقت قادیان میں نہ آئی تھی.پولیس پہلے احمد یہ چوک سے ریتی چھلا جانے والی اُس گل کے شروع ہوتے ہی دائیں طرف تھا جو ۱۹۳۰ء کے قریب دارالفضل میں پختہ دو منزلہ وسیع و عریض عمارت تیار کر کے اس میں منتقل کر دیا گیا تھا.بڑے بھائی جان مکرم محمد عطاء اللہ چو ہدی صاحب جو قادیان کے مشہور کھلاڑی تھے پہلے عطاء اللہ امرتسری کہلاتے تھے مولوی فاضل منشی فاضل اور بنی اسے بی ایڈ بھی پاس کیا کر پریس کا مینجر مقرر کیا گیا تھا اور چھوٹے بھائی جان کرم جناب چوہدری عبد المنان صاحب مرحوم کو کام کا نگران.۱۹۳۶ ء میں حب عاجز نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تو پریس کا مینجر مجھے بنا دیا گیا اور ۲۲ اکتو بہ ۱۹۳۸ء تک حب عاجز مشرقی افریقہ کے لیے قادیان سے روانہ ہوا اللہ بخش سٹیم پر یس تاریان کا مینجر رہا.غیر مطبوعہ تحریر چوہدری عنایت اللہ صاحب احمدی (مورخه ۲۵ نومبر ۱۹۸۳) ۱۳ دارالعلوم غربی بوده
۶۲۲ والد صاحب مرحوم پڑوسیوں ملازموں اور رشتہ داروں کے ساتھ نہایت محبت شفقت اور احسان کا سلوک فرمایا کرتے تھے.جنون کی حد تک تبلیغ کا شوق تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام اکثر نهایت سریلی آواز میں پڑھتے رہتے تھے حضور کی کتب سے بھی کئی عبارتیں آپ کو زبانی یاد تھیں.خلیفہ وقت کے ساتھ بے انداز محبت اور عقیدت تھی اور حضرت مصلح موعود کے منشا اور اشاروں کو حکم سمجھتے تھے.جن دنوں ہم قادیان میں اور آپ امرتسر میں رہا کرتے تھے ہر مہفتہ کی رات امرتسر سے بالہ تک بذریعہ ٹرین اور بٹالہ سے قادیان اپنے بائیسکل پر رجوانہوں نے بٹالہ میں اپنے احمدی دوست کے پاس رکھا ہوا متقا) آیا جایا کرتے تھے ہمیشہ قادیان پہنچے کہ پہلے سید ھے مسجد مبارک تشریف لے جاتے حضرت مصلح موعود...کی اقتدا میں نماز ادا کر تے اور علاقات کے بعد گھر آتے.جب کبھی کوئی تحفہ یا پھل وغیرہ لاتے تو حضرت خلیفة المسیح کی خدمت میں پیش کرتے اور اتنا لاتے کہ پڑوسیوں کو بھی حصہ ملتا ر ہے.ملازمین سے اپنے بیٹوں کا سا سلوک کرتے جب اُم خربوزہ وغیرہ کا موسم ہوتا تو تھوڑی دیر کے لئے آوا نہ دیگر پریس کو بند کراتے اور بہت سے آم یا خربوز سے ڈکہ ہی یا چھٹ خرید کر کہتے کہ لو پہلے یہ کھاؤ اور پھر جا کہ کام کہ وہ.احترام داطاعت امام کا یہ عالم تھا کہ حبیب ۱۹۲۸ء یا ۱۹۲۹ء میں آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ نے بہت مبارک کی دیوار سے ایک اینٹ نکالی ہے اور گھر لے آئے ہیں تو یہ خواب پہلے حضرت مصلح موجود کی خدمت میں حاضر ہو کہ بیان کی تعبیر حضور نے یوں بیان فرمائی کہ آپ کی بیٹی کارشتہ کسی مخلص احمد می کے ساتھ ہو جائے گا.والد صاحب نے عرض کیا کہ بس پھر آپ جیسے فرمائیں میری بڑی لڑکی امت الرحمن کا جو حضور کی شاگر د بھی ہے رشتہ کر دیں اس پر حضور نے فرمایا آجکل ڈاکٹ.فضل دین احمد صاحب یوگنڈا سے آئے ہوئے ہیں اُن کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر احمد دین صاحب کے لیے رشتہ درکار ہے وہاں کریں والد صاحب نے وہیں رشتہ مان کر بات بالکل ہی کر دی اور دوسرے روز نکاح کے اعلان کا وقت مقرر کر کے پھر گھر آئے اور آتے ہی سب کو آپا جان امت الرحمن کے نکاح کی مبارک باد دے دی.سب حیران تھے نہ لڑکی نے لڑکا دیکھا نہ کسی اور نے نہ حالات اور طبائع سب آگاہی لیکن دالد صاحب اتنے خوش اور مطمئن اور خدا تعالیٰ کی حمد وثناء میں محو تھے کہ سبھی خوش اور مطمئن ہو گئے اور ایک
۶۲۳ دوسرے کو مبارک دینے لگے اور نکاح کی تیاریاں ہونے لگیں دوسرے ہی رہ نسبت مبارک میں خود حضرت مصلح موسعود......نے آپا جان امتہ الرحمن کے حضرت ڈاکٹر احمد دین صاحب...کے ساتھ نکاح کا اعلان فرمایا.الحمد لله على ذالك - خلیفہ وقت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سارے خاندان کے افراد گل حسب مرائب آپ کو بے حد محبت اور تعلق تھا بزرگان سلسلہ خصوصاً علماء کی بڑی قدر کیا کرتے تھے.حبیب بارہ سال بعد مشرقی افریقہ سے ۱۹۵۰ ء میں ربوہ آیا تو والد صا حب مرحوم کو لاہور سے ساتھ والدصاحب لا کر حضرت مصلح موعود......کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا.بڑی محبت اور بے تکلفی سے باتیں جو میں حضور رد یا فرمایا آپ کے کتنے بیٹے ہیں ؟ والد صاحب نے عرض کیا حضور بیٹے تو و ہیں.ماشاء اللہ لیکن میرا اصل بیٹا یہی ہے یعنی عنایت اللہ یہ عاجزہ یہ صرف اس لیے کہا کہ سب میں سے صرف میں ہی وقف کر کے نراقین زندگی کی صف میں شامل ہوا تھا.الحمد للہ علی ذالک اور مرحوم کو چونکہ خدمت دین کا بے حد شوق اور جنون تھا اس لیے وہ میرے ساتھ سب بیٹوں سے زیادہ محبت رکھتے تھے اور مجھے یقیناً ان کی دعاؤں کا بڑا حصہ نصیب ہوا.خدا وند کریم اُن کے درجات علی علیین میں بلند فرماتا رہے.جن دنوں ۲۵ - ۱۹۴۴ء میں عاجز مصروف تبلیغ تھا زندگی وقف کر چکا تھا ( ۱۹۴۳ء میں) والد صاحب مرحوم نے میرے بعض اشعار کے جواب میں اور یہ جان کر بفضلہ تعالیٰ میں بھی اشاعت اسلام کی کچھ تو فیق پارہا ہوں بعض خطوط میں مجھے مندرجہ ذیل اشعار تخریہ فرمائے تھے ☑.✓ یہی خدا محفوظ رکھے ھر بلا سے مانگا کرد و هر دم خدا سے جیتا کہ بیتا کہ بہیتا کہ مہیا کہ عنایت منزل مقصود کا تحفہ مہیا کر عنایت که عنایت کر عنایت که عنایت کہ الہی منزل مقصود کا تحفہ عنایت کر ۱۹۴۵ء میں یہ پیاری نظم مجھے لکھ کر بھیجی.عنایت ہے اللہ کی تو میرے پیارے پڑے رہنا ہر دم اُسی کے دوارے نہاں ہے تو آنکھوں سے اسے میرے یوسف عیاں ہے تو دل میں منیا مثل تار سے زمانہ کی گردش سے گھبرا نہ جانا گناہ بخش دے گا خدا تیرے سارے
۶۲۴ خدا کے سہارے وہ فضل خدا سے ده فضل خدا سے لگے گی کنارے م.۴.جو کشتی چلے گی خدا کے سہارے دعا ہے سلامت سلامت رہ ہو تم سلامت رہیں بہن بھائی تمہارے نے حضرت چو بدری اللہ بخش صاحب اپنی خود نوشت سودایات میں تحریر فرماتے ہیں :- حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ہمیں نیکی اور تقویمی کی ہمیشہ ہدایت فرمایا کرتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ موت کو ہمیشہ پیش نظر یہ کھا کر و.تم لوگ بہت خوش قسمت ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جہاد میں ہمارے ساتھ شامل کیا ہے ہم مضمون لکھتے ہیں تم چھاپتے ہو پھر مخلوق خدا کی بہتری کے لیے شائع ہوتا ہے یہی اس زمانہ کا جہاد ہے.مطبع کو اپنا ایک نشان فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اللہ جل شانہ نے یہ سب سامان ہمارے لیے ہی پیدا کیا ہے.حضور کے سلطان القلم" ہونے پر میں بھی ایک شاہد ہوں کیونکہ ہم چھاپتے چھاپتے تھک جاتے تھے.اور حضور علیہ السلام کے مضا مین ہمیشہ ہی بیع رہے تھے اور کبھی ختم نہیں ہوتے تھے.حالانکہ اور لوگوں کے مضامین خستم ہو جایا کرتے ہیں اور پریس والے مضامین کی انتظار میں رہتے ہیں اور پھر لطف یہ ہے کہ ہمارے پریس میں صرف حضور علیہ السلام کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے اور دیگر پر یسوں میں عام لوگ مضامین بھیجتے تھے حضور علیہ السلام سے میری آخری ملاقات.جب حضور علیہ السلام اپنے آخر می سفر پہ لاہور جانے کے لیے تیار ہوئے تو جاتے وقت احمدیہ چوک میں حضور سے میں نے مصافحہ کیا اور دعا کی درخواست کی اور حضور کے ہمراہ لاہور جانے کی اجازت چاہتی کیونکہ ان دنوں حضور کی آخری کتاب چشمہ معرفت نہ یہ طبع تھی اس لیے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ " تم نے لاہور نہیں جانا تم اس کتاب کو جلای کانتم کرو حضور علیہ السلام کے اس ارشاد مبارک کا میرے دل پہ آج تک یہ اثر ہے کہ حالانکہ میرا بڑا بھائی پیغامی ہوگیا تھا.مگرحضور علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق پیغامی ریعنی لاہوری) فتنہ کے اثر سے محفوظ رہا.ہم نے قر یا اپنی ۱۹۰۸ ء کو کتاب " چشمہ معرفت مکمل کر کے حضور علیہ السلام کی خدمت سے غیر مطبوعہ تحریر چو ہدری عنایت اللہ صاحب احمدی ۲۵ نومبر ۱۹۸۴ ء
۶۲۵ میں پیش کر دی.اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو حضور علیہ السلام رحلت فرما گئے.۲۷ مئی ۱۹۰۸ ء کو حضور علیہ السّلام کی نعش مبارک کو لینے کے لیے بٹالہ والی سڑک پر گئے.اور حضور کے جنازہ کو کندھا دیتے ہوئے باغ میں میں آگئے.حضرت خلیفہ اول نے نماز جنازہ پڑھائی اور تمام جماعت نے باغ والے مکان میں آخری زیارت فرمائی.زیارت کے بعد نعش مبارک کو دفن کیا گیا ہے، 4_ اولاد : محترمہ مہر بی بی صاحبہ کے بطن سے) امته الرحمن صاحبه حال آئل در ته لندن راہلیہ حضرت ڈاکٹر احمد دین صاحب آف کھاریاں معدنون منا کا یوگنڈا) چوہدری محمد عطاء اللہ صاحب واقف زندگی سابق انچارج منیاء الاسلام پریسں قادیان - و انچارج چو پرو پرنٹنگ پریس لاہور سٹیلائٹ ٹاؤن بی ۲۳ بہاولپور - ۳، چو ہدری عبد المنان صاحب مرحوم سابق صدر جماعت احمدیہ ڈیرہ اسماعیل خان.چو ہدری عنایت اللہ صاحب (سابق مبلغ مشرقی افریقہ) ه استانی امتر المنان صاحبه ریحانه مطلقہ مرزا منور احمد صاحب در دیش قادیان.چو ہدری محمود نعمت اللہ صاحب ۳ رستم پارک نواں کوٹ لاہور.A ۷ - امتہ الکریم صاحبہ مرحومہ - - چوہدری صیفنڈ اور صاحب حال کراچی.دخترمہ گلنار بیگم صاحبہ کے بطن سے مت چو ہدری عصمت اللہ صاحب کرشن نگر لاہور چوہدری حمید الله ما الفر درس انامہ کل لاہور 1- چوہدری حفیظ اللہ صاحب لاہور ۱۲- چوہدری فقیہ الہ صاحب سابق بیبر آفیسر حکومت پاکستان رحال سویڈن) رجمہر روایات، جلد ۲ ص ۲ : ۰۲ ۱۹۳۳ ء میں وفات پائی ، بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں سے وفات ۱۹۸۴ء مدفون لاہور.
۶۲۶ ۱۵.میاں عبد الرحیم صاحب عرن پولا (ولادت اندانه ۶۱۸۶۴ - بیعت ۹۴ - ۱۸۹۳ ء - وفات ۲ نومبر ۱۹۵۷ء) آپ " السابقون الاولون" کے مبارک زمرہ میں شامل تھے.دنیاوی علوم و فنون سے بہرہ ور نہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ بصیرت بخشی کہ انہوں نے آسمان روحانیت کے چاند کو اس وقت دیکھا جبکہ وہ پہلی رات کا تھا اور جبکہ اس کو دیکھنے سے بہت سے عالم دفاضل قاصر رہے.چنانچہ وہ خود بارہا اپنی زندگی میں اپنی اس خوش بختی کو تحدیث نعمت کے طور پر فخر یہ بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ اس نے باوجوداتی وان پڑھ ہونے کے مجھے امام وقت کو پہچاننے کی توفیق دی.آپ کا آبائی گاؤں موضع بھائی نگل قادیان سے کوئی تین میل کے فاصلہ پر تھا اور قادیان بوحہ سسرال ہونے کے یہاں اکثر آنا جانا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کی خبر پا کر حضور کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر جوں جوں زمان گه رتنا گیا احمدیت پر آپ کا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا.بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیوض وربہ کات سے مستفید ہونے کے لیے فرصت کے دنوں میں فجر کی نمازنہ کے لیے قادیان پہنچ جاتے اور دن بھر قادیان میں نمازیں ادا کرتے اور حضور کے کلمات طیبات سُنتے عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے گاؤں کو روانہ ہو جاتے آپ کے گاؤں میں سوائے اپنے خاندان کے چند گھروں کی ساری کی آبادی سکھوں پرمشتمل تھی اور گاؤں میں کوئی بیت تھی انہوں نے ابتداء میں تو گھر میں ہی نماز کے لیے جگہ مخصوص کر لی.لیکن بعد میں باہر گاؤں میں بیت الذکر تعمیر کرنی شروع کر دی.سکھوں نے مسجد کی تعمیر کو روکنے کی انتہائی کوشش کی لیکن انہوں نے مردانہ دار مقابلہ کیا اور بیت تغیر کریمیں کامیاب ہو گئے اس پر سکھوں نے ان کو گاؤں کے کنویں سے پانی لینے کی ممانعت کر دی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مسجد میں الگ کنواں بنانے کی توفیق بخشی اور اس طرح ان کی کوششوں کے باعث خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے گاؤں میں جماعت کا التفضل ۱۹/ نومبر ۶۱۹۵۷ ص ۵
کا قیام عمل میں آیا.اور یہ اپنے گاؤں کی جماعت کے پریزیڈنٹ مقرر ہوئے.اور ۱۹۳۹ء میں قادیان محبت کرنے تک اس عہدہ پر فائز رہے اس کے علاوہ اپنے گاؤں سے ملحقہ موضع لوہ چپ جماعت کی داغ بیل ڈالی اور وہ موضع بھی انہی کی زیہ امارت رہا ہے.مو منع جو الی ضلع امرتسر میں بھی انہی کی تحریک سے محید تعمیر ہوئی.جب یہ شادی پر گئے تو دیکھا کہ گاؤں میں مسلمانوں کی کوئی مسجد نہ تھی انہوں نے اس موضع کے مسلمانوں کو اس گا ڈان میں ایک مسجد تعمیر کرنے کی تحریک کی اور اس مسجد کی تعمیر پر متوقع اخراجات کا نصف خود ادا کیا یہ ۱۶.حضرت ملک عطاء اللہ صاحب گجرات (دالادت ۱۸۴۸ ۶ اندازاً بیعت ۱۹۰۱ ۶ یا ۹۰۷ و - وفات ۲۲ نومبر ، ۵ ۱۹ ۶) حضرت ملک صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : - میرے پھوپھا مولوی میر احمد شاہ صاحب یہاں اسلامیہ سکول میں ٹیچر تھے دو اکر حضرت صاحب کی عربی کتابیں پڑھا کرتے تھے.احمدی نہیں تھے.میں طالب علم ہی تھا.ایک دن ان کے پاس بیٹھا تھا.وہ غالبا نورالحق پڑ ھور ہے تھے میں نے سوال کیا کہ آپ مرزا صاحب کی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں.مرزا صاحب نے ان میں کیا لکھا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ مرزا صاحب نے اپنی ہر کتاب میں اپنے دعوی کو دہرایا ہے اگر دلائل دیکھیں تو پیش نہیں جاتی.ان کے یہ الفاظ مجھے پہ اس رنگ میں اثر انداز ہوئے کہ میں حیرت میں پڑ گیا اور خیال کیا کہ اتنا بڑا عالم ہو کر مانتا بھی نہیں اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ ان دلائل کا کوئی جواب نہیں یہاں ہسپتال میں دو شخص احمدی تھے ایک میاں امام الدین ہیٹہ کیونڈر اور دوسرے سیاں احمد دین کیونڈر.میری ان سے گفتگو ہوئی.اس میں میں قائل ہو گیا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں تو حضرت مسیح ہرگز زندہ نہیں ہو سکتے.ہماری برادری میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی غالیا چا نا دہن عائشہ کی شادی ہوئی تھی.ہمیں اس کے پاس اکثر آیا جا تاکہ تا اور دو ہمیشہ مجھے بیعت کے لیے تحریک کیا کرتی تھی.ایک روز میں اور اس کا خاوند با روزنامه الفضل ربوده 19 نومبر ۱۹۵۷ ء م ث ا مضمون جناب مسعود احمد صاحب حیلمی ) سے رجسٹر روایات نمبرا صفحہ 9 ،
۶۲۸ دونوں بیٹھک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس نے اپنے لڑکے محمد اشرف کو جس کی عمر تقریبا پانچ سال کی تھی.دو پوسٹ کارڈ ہا تھ میں دے کر ہمارے پاس بھیجا اور اُس نے آکر کہا کہ ابا جی ! اماں جی نے یہ دوکارڈ دیتے ہیں اور کہتی ہیں کہ ایک تمہارا ابا بیعت کے لیے لکھ دے اور ایک تمہارا چا.ہم دونوں نے اسی وقت بیعت کے خط لکھ دیئے قبولیت بیعت کا خط حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے قلم کا لکھا ہوا ہمیں موصول ہوا جس میں مولوی صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا الفاظ یہ تھے کہ حضرت صاحب بیعت قبول کرتے ہیں اور میں بہت خوش ہوا ہوں ؟ مولوی کرم دین تھیں دالے مقدمہ کے سلسلہ میں حضرت صاحب جہلم تشریف لے گئے.تو یکی اسی گاڑی میں یہاں سے سوار ہوا.ہر سٹیشن پر بے شمار ہجوم ہوتا تھا.جہلم میں بہت بھیڑ تھی تحصیلدار غلام حیدر کے سپر د انتظام تھا.انہوں نے خوب انتظام کیا.جب حضور کچری تشریف لے گئے.تو عدالت کے سامنے میدان میں حضرت مسیح موعود کے لیے ایک کہ سی سمجھائی گئی اور ارد گرد ا حباب کا حلقہ مختا جس میں صاجزادہ عبداللطیف شہید کابل اور عجب خان تحصیلدار آن زیدہ بھی شامل تھے.حضرت صاحب نے گفتگو کی ابتداء) اپنے فارسی شعر سے آسماں بارہ : نشاں الوقت میگو پر زمیں این رو شاہد از پیٹے تصدیق من ایستاده اند سے شروع کی.فرمایا میرے لیے آسمان نے بھی گواہی دی اور زمین نے بھی گواہی دی مگر یہ لوگ نہیں مانتے فرمایا مانیں گے اور ضرور مانیں گے بلکہ میرے مرنے کے بعد میری قبر کی مٹی بھی کھود کر کھا جائیں گے اور کہیں گے کہ اس میں بھی برکت ہے مگر اس وقت کیا ہوگا.جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر پنتھر پڑیں صنم ترسے ایسے پیاز پر حضرت صاحب کا یہ فرمانا تھا کہ صاحبزادہ صاحب اور عجب خاں صاحب زار زار رونے لگے.مخلوق بہت تھی.پھر اندر عدالت میں تشریف لے گئے.مکان پر واپس جا کہ بیعت شروع ہوئی مخلوق اسقدر تھی کہ پگڑیاں باہم باندھ کر بیعت لی جاتی تھی ایک سرا حضرت صاحب کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور باقی بگڑی لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی تھی بیٹے (حاشیہ ص ۶۲ بیر)
۶۲۹ حضرت ملک صاحب کی شکل وجیہ ابا رعب ، ناک سنتوں ، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن تھیں.پیشانی کشادہ تھی.بہت نفاست پسند تھے.نمازہ تہجد کے سختی سے پابند تھے امام الصلواۃ کے فرائض بھی انجام دیتے رہے نماز تہجد کے بعد خوش الحانی سے تلاوت کرنا نماز فجر کے بعد پانچ چھے میں سیر کرنا آپ کا معمول تھا.قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کے ایک جلسے کی صدارت کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح حجرات تشریف لائے جلسہ میں اس درجہ خوش الحانی سے تلاوت قرآن کریم کی کہ حاضرین کی آنکھوں سے آنسو آگئے قائد اعظم نے آپ کا نام پوچھا اور کہا کہ آج تک ایسا میں نے خوش الحان قاری نہیں دیکھا.ور ثمین اردو - فارسی - عربی کی اکثر نظمیں آپ کو زبانی یاد تھیں اور روزانہ رات کو بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے کلام عمود کا خاصہ حصہ بھی آپ کو یاد تھا حضرت مسیح موعود کی دعائیہ نظمیں خاص طور پر پڑھتے تھے.ملازمت کے سلسلہ میں آپ کا قیام ہندوستان کے بیشتر مقامات میں رہا.مہندوستان سے باہر ایران - عراق - شام مصر - چین (ہانگ کانگ اور برما وغیرہ میں آپ کا قیام رہا.فرانس جانے کا بھی آپ کو اتفاق ہوا.مندرجہ بالا تمام مقامات پر اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کی آپ نے ہر ممکن کوشش کی پشاور میں قیام کے دوران میں آپ نے سیکریڑی تبلیغ و نشر و اشاعت کی حیثیت سے نمایاں خدمات سر انجام دیں وفات مسیح ناصری - راه نجات و غیره رسالہ جات تصنیف کیسے رسالہ وفات مسیح ناصری تقریبا سو صفحات پر مشتمل ہے.مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں نقد کے علاوہ بیوی کے تمام زیور چندہ میں دے دیا.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پیشادری امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد آپ کی خدمات کے بہت معترف تھے.گجرات میں نہ صرف آپ مختلف شعبہ جات کے سیکریڑی رہے بلکہ آپ نے نائب دو قائمقام امیر جماعت احمد یہ ضلع گجرات کی حیثیت سے بھی کام کیا.(بقیہ حاشیہ مت (۹۲) نے رجب روایات نمبر ۱۰ صفحه ۷۹ تا امر
ملک صاحب ایک عالم با عمل تھے.پنجابی، اردو، انگریزی، فارسی، عربی ، پشتو چھ زبانوں پر آپ کو عبور حاصل عفا پنجابی اردو، فارسی میں آپ شعر بھی کہتے تھے اور نظموں میں سے ایک نظم احمدی بچوں کا گیت ہے آپ کی ایک پنجابی نظم " پیغام نماز یا نصیحت بے نمازاں " نے بہت شہرت حاصل کی اور اسلامیہ سٹیم پریس کے پر و پر اٹر نے متعدد بار شائع کی آپ کا تخلص شاکرہ تھا آپ خوش خبط تھے دوران ملازمت میں آپ نے متعدد بار اپنی اردو انگریزی کی بہترین لکھائی پر العامات حاصل کیسے تھے.مندر جہ بالا چھ زبانوں کے علاوہ آپ ہندوستان کی تمام علاقائی زبانوں کو بھی جانتے تھے ہر وقت مسلم کی جستجو میں رہتے تھے حتی کہ مر من الموت کے دوران میں آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے ملک بشارت ربانی صاحب کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تفسیر صغیر منگوا نے کو کہا چنا نچہ رقم جمع کروادی گئی.آپ جب طازمت چھوڑ کر آئے تو آپ کے افسر نے آپ کو روکنے کی بہت کوشش کی اور لکھا کہ میں نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ میرے سارے عملے میں عطاء اللہ جیسا قابل شخص کوئی نہیں اور آپ کا نام خان بہادری کے خطاب کے لیے بھیج چکا ہوں.بعد ازاں آپ کو وزارت اور ایران میں نائب سفارت کی پیش کش بھی ہوئی مگر آپ نے قبول نہ کی لیے اول و 1 - مک بشارت ربانی صاحب - امنة الحفيظ صاحبہ روفات ۱۹۵۰ء) ۳- امتہ الحمید صاحبه ه.محترم که نل اعجا زه ربانی صاحب - انة الرشيد صاحبه - الطاف ربانی صاحب - A رضیہ سلطانہ صاحبہ (وفات بعمر ۳ سال) اکرام به بانی صاحب روفات ۱۹۸۲ ۶م ۹ - امة العزيزة صاحبه ۱۰ - امتہ الحی صاحبہ ۱۱ - امتہ السلام صاحبہ (وفات بعمر به ماد) ۱۲.ڈاکٹر محبوب ربانی صاحب له الفضل یکی دربار فروری ۱۹۵۰ در مضمون ملک محبوب ربانی صاحب نشتر میڈ یکل کا لج)
۶۳۱ حضرت شیخ یعقوب علی حصاب عرفانی ایڈیٹر الحکم و دلاوت: - ۱۸۷۲ء بیعت : - شتاء - وفات ۵۰ دسمبر سے : سلسلہ احمدیہ کے پہلے خبار نویس اور مورخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب الاسدی ان خوش قسمت اور مبارک وجودوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالی نے مسیح پاک کے آسمانی مشن کی تکمیل کے ابتدائی ایام میں فدائیت کے رنگ میں رنگین ہو کہ خدمات بجالانے کا شرف بخشا اور جن کے اخلاص و عقیدت اور فداکاری و جوش خدمت پر آسمان کے فرشتے بھی جزاء کم اللہ کہہ اٹھے اس گروہ مخلصین میں سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک خاص نوع کی خدمات بجالانے کیلئے چنا تھا اپنے ان خدمات کی بجا آوری کا وہ حق ادا کیا کہ مسیح پاک علیہ السلام کے طفیل آپکی یه خدمات اور ان کا تذکرہ بھی ہمیشہ زندہ رہے گا.یہ خدمات دین حق کی حمایت میں سلسلہ احمدیہ کا سر ہے پہلا اخبار جاری کرنے اسے کامیابی کے ساتھ چلانے اور پھر اس میں سلسلہ احمدیہ کے انتہائی اہم دور کی تاریخ کو محفوظ کرنے سے تعلق رکھتی ہیں سلسلہ کی تاریخ اور سیح پاک علیہ السلام کے فرمودات اور کلمات طیبات تمام زمانوں کے لئے محفوظ کر دینے کا کام وہ عظیم کارنامہ ہے جو بلاشبہ آنیوالی نسلوں پر احسان عظیم کا درجہ رکھتا ہے نسلاً بعد نسل لوگ آپ کی ان خدمات اور ان کے ذریعہ رونما ہونیوالے کارنامے پر ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے.۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دینی ضرورتوں کے پیش نظر اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ سلسلہ کی طرف سے ایک اخبار جاری کیا جائے تو حضور علیہ اسلام نے اخبار کے اجراء اور سلسلہ کی دیگر ضرورتوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے احباب کو پور سے جندباودر جوش کے ساتھ خدمات بجالانے کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی : - اسے مردمان دین کوشش کرو کہ یہ کوشش کا وقت ہے اپنے دلوں کو دین کی ہمدردی کے لئے جوش میں لاؤ کہ یہی جوش دکھانے کے دن ہیں.اب تم خدا تعالٰی کوکسی در عمل سے ایسا راضی نہیں کر سکتے جیسا کہ دین کی ہمدردی سے سوجا گوارا تھا اور ہوشیار ہو جاؤ اور دین کی ہمدردی کے لئے وہ قدم اُٹھاؤ کہ فرشتے بھی آسمان پر جزاکم اللہ ہیں اسی مت غمگین ہو کہ لوگ تمہیں کا فر کہتے ہیں تم اپنا اسلام خدا تعالی کو دکھلاؤ اور اپنے جھکو کہ بس فدا ہی ہو جاؤ" تے ریکارڈ بہشتی مقبرہ قادیان - رجبر بعیت اولی میں حضرت شیخ صاحب کی تاریخ بعیت ، فروری ه اشتهار منسلکہ آئینہ کمالات اسلام ۱۸۹۲ درج ہے:
۶۳۲ جہاں تک اخبار کے اجراء کا تعلق تھامسیح پاک علیہ السلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کا شرف حاصل کرنے والے با ہمت نوجوان حضرت عرفانی الاسدی ہی تھے آپ نے اکتوبر ۱۸۹۷ ء میں الحکم کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار جاری کیا.اگرچہ مال ذمہ داری کے لحاظ سے یہ آپ کی انفرادی ہمت کا نتیجہ تھا تاہم یہ جماعت کا اخبار تھا اور جماعت کی عمومی نگرانی کے ماتحت تھا اس کے ذریعہ جماعت کی ایک ہم ضرورت پوری ہوئی اس اخبار کے ذریعہ حضرت عرفانی الاسدی نے جو مہتم بالشان خدمات سر انجام دیں ان پر مسیح پاک علیہ السّلام نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے الحکم کو جماعت کا ایک باند قرار دیا.آپ کی ان خدمات کا اندازہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثاني المصلح الموعود کے اس والانامہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو حضور نے ۱۹۳۴ ء کے اوائل میں الحکم کے دوبارہ اجراء کے موقع پر آپ کو ارسال کیا اس میں حضور نے تحریر فرمایا : - دور حکم سلسلہ کا سب سے پہلا اخبار ہے اور جو موقعہ خدمت کا اسے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری زمانہ ہیں اسے اندر بلدرز کو ملا ہے وہ کروڑوں روپیہ خرچ کر کے بھی اور کسی اختبارہ کو نہیں مل سکتا.میں کہتا ہوں کہ الحکم اپنی ظاہری صورت میں زندہ رہے بانہ ر ہے لیکن اس کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ ہے سلسلہ کا کوئی مہتم بالشان ام اس کا ذکر کیے بغیر نہیں ہوسکتاکیونکہ وہ تاریخ سلسلہ کا حامل ہے " رالحکم به ۴ ار جنوری ۶۱۹۳۴ بقول حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیز......حضرت عرفانی الاسدی ان مبارک وجودوں میں سے تھے کہ جن کے ذریعہ اس زمانہ میں جب کہ آسمان نہ مین کے قریب تھا خدا ئے آسمان نے نئی آسمانی با دوستات میں کام لیا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہر صبح یا در بار شام میں وابسندگان دامن کو اپنے کلام فیض ترجہاں سے تفیض فرماتے تھے اس وقت حضرت عرفانی الاسدمی کا قلم ہر لفظ کو صفحہ قرطاس پر تیزی سے ضبط تحریر میں لاکر ان بیش بہا خزائن کو تمام زمانوں کے لیے محفوظ کر لیا تھا اور پھر وہ خزائن الحکم کی زینت بن کر ایک عالم کی روحانی تشنگی دور کرنے کا موجب بنتے تھے اور ہمیشہ بنتے رہیں گے یلہ له بحوالہ الحکم ۱۴ جنوری ۶۱۹۳۷ ! !
۶۳۳ حضرت عرفانی الاسدی کو بالکل عنفوان شباب میں لدھیانہ کے مقام پر بیعت اولی کے دنوں میں مسیح پاک علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا.اس کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر یہ کہ حضور کے وصال تک برابر خدمات بجالاتے رہے الحکم کے ذریعہ سلسلہ کا ریکارڈ تاریخ حضور لملفوظات و خطبات اور وحی الہی کو محفوظ اور شائع کرنے کا فخر حاصل کیا مزید یہ آں حضور کے اکثر سفروں میں ساتھ رہے.بہت سے معاملات جو مر نہ انظام الدین صاحب و مرزا امام الدین صاحب سے طے کرنے کے قابل ہوتے تھے وہ آپ کے ذریعے طے ہوتے رہے.مدرسہ تعلیم الاسلام کے پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے صدر انجمن کے اسسٹنٹ سیکر ٹی بھی رہے.صدقات کمیٹی کے سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دیئے مقدمات کے سلسلہ میں مولوی کرم دین بھیں کو آپ کے مقدمہ میں سزا ہوئی تھی جس سے وہ بری نہ ہو سکا ان مقدمات کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو یہ الہام ہوا ان الله مع الذين اتقواو هم محسنون چنانچہ اس العام میں آپ بھی شامل تھے.خلافت ثانیہ کے مبارک عہد میں بھی آپ کی خدمات بجالانے کے مواقع بکثرت میسر آئے ۱۹۲۴ء میں ویمبلے کا نفرنس کے موقع پہ آپ کو سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی معیت میں یورپ کے سفر پر جانے کا شرف حاصل ہو اچنانچہ افتتاح بیت فضل انڈین کے موقع پہ آپ وہ ہیں موجود تھے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بالخصوص المصلح الموعود سے آپ کو بے حد محبت اور عقیدت ملی آپ کے فرزند مکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم کی روایت کے بہو جب آپ نے بارہا وصیت کے طور پر اپنی اولاد کو تاکید فرمائی کہ اختلافات ہیں اس اصل کو پکڑے رکھنا جد ہر اہل بیت ہوں اس طرف تم ہوتا کیونکہ خدا نے ان کو اپنی معیت کا وعدہ دے رکھا ہے جیسے فرمایا انى معك و مع اهدك اس سلسلہ میں حضرت عرفانی الکبیر نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنی وصیت شائع فرمائی.میں آج ایک راز کا اظہار کرنے پر مجبور ہوں.میری اولاد جانتی ہے اُن کے پاس میرے خطوط موجود ہیں.میں نے انہیں ہمیشہ یہ وصیت کی کہ یہ خلافت نہایت عظیم الشان خلافت ہے اس کی بہت ره مرکه احمدیت.قادیان صفحه ۲۲۴ راز شیخ محمود احمد صاحب عرفانی )
بڑی مخالفت لازمی ہے تمہارا اپنی زندگیوں میں ایک ہی فرض ہے کہ خلافت سے وابستہ رہ کر اس کی حفاظت کر دو اور اپنے آپ کو مٹاکر بھی اس مقصد کو پالو گے تو سب کچھ تمہارا ہے.خلافت تمہاری دنیا میں ایک ہی متاع ہے.میں خدا کے فضل اور رسم سے ہمیشہ خلافت کا خادم رہا ہوں.اور ایک بصیرت کے سا تھے اس حقیقت کو سمجھتا ہوں کہ خلافت ہی خدا کی تجلیوں کا مظہر ہے.حضرت محمود کی شکل میں وہ اولوالعزم آیا ہے جو خدا تعالیٰ کے نزول کا مظہر ہے جو لوگ اب تک اسے ایک معمولی انسان یقین کرتے ہیں وہ غلطی یہ ہیں وہ ان تمام بشارتوں کا مصداق ہے جو مصلح موعود کے لیے ہوئی ہیں بسلسلہ عالیہ ترقی کرے گا اور خدا تعالٰی کے وعدے پورے ہوں گے لیکن وہ بڑا بد قسمت ہے جو اس خلافت سے وابستہ نہ رہے.اب تمام سعادتوں اور ساری یہ کتوں کا ہی ایک ذریعہ ہے کہ خلافت کے دامن کو مضبوط پکڑ لو میں آخر میں پھر اپنے دوستوں.واقف کا سوں اپنے عزیزوں اور بچوں سے کہتا ہوں کہ یہ عظیم حجم الشان خلافت ہے.اس کے ساتھ بڑی بڑی مشکلات بھی لازمی ہیں مگر اس کے برکات اور مرات، ایسے ہیں کہ آج نہ آنکھ دیکھ سکتی ہے اور نہ کان سن سکتے ہیں نہ کسی قلب میں گزر سکتے ہیں اس لیے اس قیمتی متاع کے لیے اپنی ساری طاقتوں ہمتوں اور مالومات کو قربان کرو.اگر تمہیں اپنے بزرگوں.دوستوں رستہ داروں اور اولاد سے قطع کرنا پڑے یا اموال سے جدا ہونا پڑے تو یہ سب کچھ دے کر بھی اگر تم اس سے وابستہ رہے اور اس کی حفاظت میں کسی خطرہ کی پرواہ نہ کی تو یاد رکھو تم نے سب کچھ پا لیا میں نے اپنا فرمن ادا کر دیا ہے.اور میں محمد للہ اس معرکہ میں اپنے دل سے اس فیصلہ میں متفق ہوں الفضل در جولائی ۳۷ وار) صحافت کے علاوہ تفسیر قرآن اور تالیف و تصنیف کے کام کے ساتھ بھی آپ کو بے حد شغف تھا ہو تادم آخر جاری رہا.عرصہ دراز سے آپ سکندر آباد دکن میں رہائش پذیر تھے.چنانچہ وہاں بھی پیرانہ سالی اور منعف کے باوجود آپ وفات تک دینی اور تبلیغی کتب تصنیف کرنے میں مصروف رہے آپ نے درجنوں کی تعداد میں کتابیں تصنیف فرمائیں اس طرح آپ نے نہایت قابل قدر لٹریچر اپنی یاد گار چھوڑا ہے آپ کی بعض تصنیف کردہ کتا کے سلسلہ کے لڑیچر میں تاریخی لحاظ سے بنیادی اہمیت حاصل ہے تے له روزنامه الفضل ربوه ١٣ فروری ١٩٥٨ ء م : له الفضل داده ۱۸ دسمبر ١٩٥٧ء مراوه
۶۳۵ حضرت عرفانی الکبیر اپنی خود نوشت سوانح میں تحریر فرماتے ہیں :.میرا نام یعقوب علی اور میرے والد کا نام محد مسلی ہے.لدھیانہ کے محلہ جدید میں منشی احمجان مرحوم مشہور و معروف صوفی اور اہل اللہ کے جوار میں رہنے کا ہمیں فخر رہا ہے.اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس وقت بھی منشی احمدجان مرحوم کی اولا داور یہ خاکسار نہ صرف ہم شہر ہم سایہ ہیں بلکہ درمان طور پر ایک ہی باپ کے بیٹے ہیں یعنی حضرت مسیح موعود میں ہو کر کھالی ہیں اور قادیان میں حجرت کر کے آبا د ہو چکے ہیں.اور میں دیکھتا ہوں کہ لا يشقى جليسهم بالکل سچا ارشاد ہے.دنیا دار لوگ اپنے نسب پر فخر کرتے ہیں.مگر اس زمانہ میں سب کی باتیں جو حقیقت رکھتی ہیں وہ ظاہر ہیں.جن لوگوں نے قوموں کے خروج را اقبال اور ادبار و زوال کی تاریخیں پڑھی ہیں.وہ جانتے ہیں کہ قومیں کس طرح بگڑتی اور کس طرح بنتی ہیں اس لیے میں ان مختصر حالات میں اپنے نسبی جھگڑے کو چھوڑتا ہوں یر کند کرد که : بنده عشق شدی ترک نسب کن جاتی کہ دریں راہ فلاں ابن فلان چیزی نیست مجھے تیس بات پر سجا فخر ہے وہ یہ ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود مسیح اور مہدی کو شناخت کیا اور میری زندگی میں ہی عجیب بات ہے اور یہ اور بھی عجیب ہو جاتی ہے جب کہ ناظرین کو معلوم ہوگا کہ میرے خاندان کو حضرت مسیح موعود کے خاندان سے اس وقت تیسری پشت کا تعلق ہے بلکہ چوتھی کا.میرے دادا شیخ سلطان علی صاحب ان ایام میں جب کہ عالی جناب مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد بزرگوار کشمیر میں تھے جناب نواب امام الدین خالصاحب مرحوم کے باڈی گارڈمیں سے تھے.مرزا صاحب قبلہ جن ایام میں واپس تشریف لے آئے انہیں دنوں کے قریب میرے دادا صاحب واپس چلے آئے اور ضلع جالندھر میں بعض اسباب کی بنیاد پر توطن اختیار کیا.ضرورتوں کے لحاظ سے مہندی پڑھانے والے معلم تھے.قادیان میں ایک زمانہ تک تعلیم دیتے رہے ان ایام میں حضرت مسیح موعود اپنی ریا منت اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے اور جناب مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کشمیر کی واقعیت کی بناء پر دال صاحب پر ہمیشہ مہربانی فرماتے تھے اور ایک دو مرتبہ میرے دادا صاحب بھی انہیں ملنے کے لیے اس تقریب سے حاضر ہوئے تھے
۶۳۶ والد صاحب جب قادیان تشریف لائے تو ایڈیٹر الحکم ماں کے پیٹ میں تھا.اور میرے پیدا ہونے کی خبر والد صاحب کو جنگی شاہ ایک مجذوب نے قادیان ہی کے مقام پر دی تھی.جس نے یہ کہا تھا کہ تیرا یہ بیٹا قادیان میں رہے گا اور ایک اہل اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ہوگا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے وہ موقعہ مجھے دیا اب میں قادیان میں ہوں اور خدا ہی کے فضل سے اس کے مامور ومرسل کا ادنیٰ خادم ہوں.میری پیدائش ۱۸۷۵ ء کی ہے.میری تعلیم ایک دیہاتی مدرسہ سے شروع ہوئی اور نومبر ۱۸۸۱ء کو میں مدرسہ میں داخل ہوا یہ خدا کے فضل کی بات ہے کہ میں مدرسہ میں اپنی جماعت میں اول رہا کرتا تھا پر امری کی چومتی جماعت میں پہنچتے پہنچتے مجھے مذہبی تعلیم اور مذہبی مسائل پر گفتگو کرنے کا شوق پیدا ہو گیا.اور یہ مشوق ابتدا شیعہ اور سنی کے اختلافات سے پیدا ہوا.اس راہ میں میرے راہنما مولوی غلام قادر صاحب مدرس تھے جو آجکل اسی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں.وہ میر می مذہبی زندگی اور اخلاقی حالت کو خوب جاننے دائے ہیں.پرائمری کا امتحان میں نے تعریف کے ساتھ پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا.اس کے بعد مجھے ور نیکٹر مڈل سکول کا کورس ختم کرنے کے لیے مڈل سکول بھیجاگیا.اور یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں بورڈنگ میں رکھا گیا.اس امر کی پرواہ نہ کر کے کہ یہ خود ستائی ہو گی مڈل سکول میں بھی ایک ہوشیارہ اور ہونہار طالب علم کی حیثیت سے میں رہا اور بورڈنگ کے انتظامی معاملات عموماً میری رائے اور مشورہ سے طے ہوتے مذہنی شوق اور بھی ترقی کر گیا ان ایام میں میں ایک دعا کیا کرتا تھا کہ یا الہ صحابہ کی سی خدمت دین کرنے کا موقع دے اور ایسی جماعت میں رہنے کی توفیق دے جو ھما بیت اسلام کا جوش رکھتی ہو ئیں اب یقین رکھتا ہوں کہ دعا قبول ہوگئی اور استاد میری قدر اور ممتحن صاحبان نے وقتاً فوقتنا بہترین راہیں مدرسہ کی کتابوں میں لکھیں.اس بڈل سکول کی تعلیم میں مجھے سنسکرت پڑھنے کا شوق پیدا ہوا.چنانچہ صرف نو پینے کے اندرمیں نے مڈل سکول کی سنسکرت کا کورس ختم کر لیا اور یونیورسٹی کے مڈل امتحان میں تعریف در بھی اور وظیفہ لے کر کامیاب ہوا.سنسکرت میں بھی پاس ہو گیا یہ زمانہ ۱۸۸۶ء سے لے کر ۱۸۸۸ء تک ختم ہو گیا.اس وقت میں مضمون نویسی میں ممتاز تھا.اور اخبار بینی کا مذاق بڑھ رہا تھا اخبارات میں مضمون بھیجنے کا شوق ہوتا جاتا تھا.چنانچہ جالندھر کے آفتاب سہند میں کبھی کبھی لکھتا تھا.در نیکلر مڈل کی تعلیم ختم کر کے میں لدھیانہ کے بور ڈسکول میں داخل ہو گیا یہاں پہنچ کر میرا
ندسی شوق ترقی کر گیا.اور اخباری مذاق نے اخبار نویسی کی صورت اختیار کر لی.میرے وقت کا بہت بڑا حصہ عیسائیوں سے مباحثہ میں گزرتا اور ان کی کتابیں پڑھنے کا شوق دن بدن ترقی کرتا گیا اور نورانشان کے اڈیٹر مسٹر حسن علی سفیر کی وجہ سے اخبارات کے پڑھنے کا بہترین موقعہ ہاتھہ آیا:- منشور محمدی اور خود نور افشاں میں مضامین لکھ دنیا ایک دفعہ نور افشاں میں ایک مناظرہ شروع کہ دیا جو بالآخر با دری نیوٹن صاحب نے بند کر دیا.اب میری توجہ تسلیم کی طرف کم ہونے لگی.اور اختیاری اور مذہبی مذاق ترقی کرنے لگا.عیسائیوں کے مناظرات سے پھر آریہ سماجیوں سے مناظرہ کرنے کا شوق پیدا ہوا.چنانچہ اس زمانہ کے میرے بعض دوست لاله بطور رام نیر اور لالہ مرلی دھر صاحب لدھیانہ میں موجودہ تھے اور لالہ چر پنچی لال مشہور آمد یہ اپدیشک فوت ہو چکا ہے.یہ زندگی مجھے بہت عزیز تھی.انہیں ایام میں یعنی ۱۸۸۹ء میں پہلی مرتبہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے کا شہرت حاصل ہوا.شیخ اللہ دیا صاحب داعظ انجمن حمایت اسلام نے مجھے پیش کیا اور میرے سنسکرت پڑھنے کا ذکر کیا.میں کوشن کہ حضرت بہت خوش ہوئے اور ہر قسم کی مدد کرنے کا وعدہ فرمایا.حضرت صاحب کو پہلی مرتبہ یہاں ملا.گھر آپ کی کتاب بر امین احمدیہ ۱۸۸۶۷ء میں چوہدری رستم علی خان مرحوم کے ذریعہ دیکھ چکا تھا.جب کہ وہ سارجنٹ تھے.گو اس کتاب کے سمجھنے کی اس وقت قابلیت نہ تھی تاہم پڑھنے کا شوق بے حد تھا.عرض ۱۸۸۹ء سے لے کر ۱۸۹۱ء کے شروع تک میں نے لدھیانہ رہ کر اس مذاق کو بہت بڑھا لیا.اور اب یہ اس درجہ تک پہنچ گیا کہ مجھے مدرسہ سے علیحدہ کر دے چنانچہ ۱۸۸۹ء میں پیسہ اخبار کا خریدار ہو چکا تھا.جو اس وقت آج کل کے روزانہ پیسہ اختیار کی تقطیع پر شائع ہوتا تھا.۱۸۹۱ ء میں انگریزی مڈل پاس کر کے لاہور کے ماڈل سکول میں پہنچ گیا قیام لدھیانہ میں منشی احمد جان صاحب مرحوم کے مریدوں نے ایک انجمن احمد یہ بنا کر اس کے ماتحت ایک رسالہ انوار احمدیہ عیسائی مذہب کی تردید اور اسلام کی تبلیغ کے لیے شائع کرنے کا انتظام کیا ہوا تھا میرے مذہبی اور اخباری ہونے کی وجہ سے اس رسالہ کا ایڈیٹر مجھے منتخب کیا گیا.مگر بعد میں وہ رسالہ بعض اسباب کی وجہ سے شائع نہ ہو سکا.لاہور میں یہ شوق جو تر قی کر سکتا تھا.وہ ظاہر ہے اب تعلیمی زمانہ کا خاتمہ تھا آخر ۱۸۹۳ ء میں انٹرنس پاس کر کے تعلیمی سلسلہ کو ختم کر دیا
۶۳۸ لاہور کی اس دو سالہ زندگی میں میرا اعتباری مذاق بہت بڑھ گیا.پیسہ اخبار کے خریدار کی حیثیت سے میرا تفادت منشی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار سے ہوا اور پھر یہ تعارف تعلقات کے بڑھنے کا موجب ہوا.منشی محبوب عالم صاحب نے مجھے اپنے چھوٹے بھائی میاں عبدالرحیم اور میاں عبد الکریم کی تعلیم کے لیے میرے ایام طالب علمی ہی میں مجھے مقرر کر دیا.میں نے یہ خدمت محض اس لالچ سے قبول کی کہ مجھے کثرت سے اخبار پڑھنے کو ملیں گے.چنانچہ میں اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گیا اور تھوڑے ہی دنوں کے بعد میں اس خدمت سے الگ ہو کہ انگریزی اخبارات اور خصوصاً ولایت کے رسالہ ٹٹ بٹس (TiT Bi Ts) کی کہانیوں کے ترجمہ کا کام کرنے لگا.پس میری اخبار نویسی کا مدرسہ پیسہ اخبار کا دفتر ہے.منشی محبوب عالم صاحب ہمیشہ میرے ساتھ یہ تکریم پیش آتے تھے.انہیں ایام میں مشہور اکٹر بیسٹ صوفی ابنا پر شاہ پیسہ اخبار میں کام کرتا تھا اور ایک مولوی غالبا ستبد احمد صاحب پاس لکھنوی پیسہ اخبار میں نادلسٹ تھے جنہوں نے مرد بران وغیرہ لکھے تھے.پیسہ اخبار کو لاہور آئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا محتا اور وہ اردو اخبار نویسی میں نئی روح پھونک رہا تھا پیسہ اخبار ہی کے دفتر میں میں باقاعدہ احمدی ہو گیا اور اس دو سال کی طالب علمی کے زمانہ میں لاہور کی تمام مذہبی سونٹیاں مجھ سے واقف ہو گئیں کیونکہ میں ان کے جلسوں میں با قاعدہ جانے والا اور نظر یہیں اور مباحثہ کرنے والا تھا.اس زمانہ کے آریہ سماج دیو سماج اور عیسائی مشن کے لوگ اب تک ان حالات کے جاننے والے ہیں.اخبار نویسی کے ساتھ دوسرا شوق مذہبی تقریروں کا تھا.چنانچہ انہیں ایام طالب علمی میں عیسائیوں اور انار کلی چیپل میں جہاں سنگھ باغ ہیں اور پادری گہرے کی کو ٹی پر گھنٹوں مانے کر تا بلکہ اہل پنجاب کے لارڈ بشپ صاحب سے جو ان دنوں محض ریونیڈ لیفر ائے تھے اور دہی سے لاہور لیکچر دینے آئے تھے تین دن رنگ محمل میں مباحثہ کیا جس کے لیے میرے استاد خلیفہ حمید الدین صاحب مرحوم نے ماسٹر چند و لال صاحب کی درخواست پر منتخب کر کے بھیجا تھا.اور آریہ سماج کے جلسوں پر سوالات که تا دیو سماج کے مندر میں جا کہ انجمن تحقیق میں حصہ لیتا.اس وقت میرے پرانے واقفوں میں سے پنڈت دیورتن اور سردار امر سنگھ صاحب اور موہن لال صاحب موجود ہیں.انار کلی میں روزانہ لیکچر اور رات کے ایک ایک بجے تک مباحثہ کے اکھاڑہ لگانا معمولی بات تھی.
۱۳۹ فروری ۱۸۹۲ ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے تو میں نے حسب دستور بیعت کر لی اور لاہور کے تمام حالات کو آنکھ سے دیکھا اور بعض جگہ نہایت جرات کے ساتھ آپ کے سلسلہ کی تبلیغ کی اور ماریں کھائیں.یہ جوش اس درجہ تک بڑھ گیا تھا کہ سلسلہ تعلیم کا جاری رکھنا میرے لیے مشکل ہو گیا تھا اگر یہ میرے بزرگ چاہتے تھے کہ میں کالج کی تسلیم کا کورس ختم کر لوں مگر حمدیت کی تبلیغ کا شوق مجھے اور طرف سے نکلا.حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر جو اس وقت سلسلہ احمدیہ سے الگ ہے ان ایام میں سلسلہ کا ایک سرگرم اور پر جوش ہمدرد تھا اگر چہ اس نے بیعت نہ کی تھی.وہ رکھا نوالہ مضلع قصور میں ضلعدار تھے اور اگر قصور جاتے تو مولوی غلام دستگیر قصوری انہیں تنگ کرتے اس غرض کے لیے کہ میں سلسلہ کی اعانات کروں مجھے اپنے ساتھ لے گئے ہیں اس خیال اور وہم سے گیا بھی نہیں تھا.کہ سرکاری ملازمت کروں گا مگر انہوں نے مناسب سمجھا کہ میرا نام محکمہ نہر میں برائے نائب ضلعد اران داخل کر دیں چنانچہ ان کی کوشش اور سید فتح علی شاہ صاحب کی توجہ سے ہیں اس مقصد میں کامیاب ہو گیا گھر ۱۸۹۴ء کے جولائی میں ہمیشہ کے لیے ملازمت کے خیال کو سر سے نکال کر اور اپنے دل سے عہد کر کے ا که آئندہ اخبار نویسی کروں گا میں نے ابن ضلع امرتسر کی کو بھی پر ان تمام امیدوں کا خاتمہ کر دیا اور ڈپٹی کلکڑی اور خان بہادر ی کی صورت میں میرے سامنے آئی تھی.اور میں قلم کے ذریعہ اہل ملک کی خدمت کے لیے متن تیار ہو کہ ۱۸ اور 19 برس کی عمر کے درمیان امرتسر آ گیا.اب اخبار نویسی میر مستقل کام ہو گیا اور میں نے اس کو ریا من ہند امرتسر کے مکرر اجراء اور سے احیاء سے شروع کیا.مگر ریاض ہند کے پر دیر الٹر صاحب با وجود دیکہ میرا ان پر کوئی بار نہ تھا زندہ نہ رکھ سکے اسی اثناء میں اختبار فیروز شیخ فیروز الدین صاحب آزیری مجسٹریٹ امر تسر نے جاری کیا اور میں اس کا پہلا اور آخری ایڈیٹر مقرر ہوا.اخبار فیروزہ ایک کامیاب اخبار تھا اور پیسہ اخبارہ کا بہترین مقابلہ اپنی قیمت اور مضامین کے لحاظ سے کرتا تھا اس وقت کی اردو اخبار نویسی میں وہ بہترین اضافہ سمجھا گیا.مگر بعد میں مجھے شیخ فیروز الدین صاحب سے ایک مقامی معاملہ کے متعلق اختلاف کرنا پڑا اور میں نے فیروز کو چھوڑ دیا.میاں صاحب نے بھی پھر میرے بعد نیوز کو باوجود ایک عمدہ اور کامیاب اخبار ہونے کے چلانا نہ چاہا اور کہا یا تم اس کو ایڈٹ کر دور نہ میں بند کر دوں گا ، مگر مجھے
پنی بات پر ایسا اصرار ہو چکا تھا کہ باوجود ان کی بے حرمہر بانیوں کے میں اس وقت ان کے ساتھ نہیں مل سکتا تھا فیروز کی ایڈیٹی کے ایام میں پریس کانفرنس کی تحریک منشی محبوب عالم صاحب نے کی مگر میں نے بحیثیت ایڈیٹر فیروز پریس کانفرنس پر جو سلسلہ مضامین کا لکھا وہ اس وقت تک اس زمانہ کے مشہور اور قابل قدر اخبارات آزاد اور زمانہ کانپور کے صفحات میں عزت کے ساتھ لیا گیا اور اس کی تائید ہوئی.پنجاب کے پریس میں ایڈیٹر الحکم رحجہ اس وقت ایڈیٹر فیروز تھا) اکیلا تھا جس نے جمرات کے ساتھ پریس کانفرنس کے حسن وقیع پر روشنی ڈالی اور پیسہ اخبارہ کی کثیر الاشاعتی اور اثر کے سامنے اپنی آواز کو نہ دیا یا یہی آواز اور صغیر کا سوال تھا جس نے مجھے شیخ فیروز الدین صاحب ایسے شریف الطبع بزرگ سے افسوس کے ساتھ الگ ہونے دیا امرتسر کی میون پلٹی کے ماتحت محکمہ جنگی میں عین ہو چکا تھا اور ایک لاکھ سے زیادہ کا عنبن ثابت کہ دیا گیا تھا اس خاص کام کے لیے ایک اخبار آہلو والیہ گنٹ رجو اب تک جاری ہے، میری آیڈیٹری میں نکلا اور امرتسر کے تمام واقف کار لوگ جانتے ہیں کہ اسے میں ایڈٹ کر رہا تھا کیونکہ امرتسر کی سنجیدہ پبلک جو اس معاملہ میں میرے تھے تھی وہ جانتی تھی اور یقین کرتی تھی کہ کوئی لالچ اور خوف میرے قلم کو روک نہیں سکتا تھا چنانچہ بڑے بڑے مخفی بھید ظاہر ہوئے اور بالآخر میونسپلٹی کے سیکر ڈی آنجہانی مسٹر نکل کی طرف سے ایک ہزار روپیہ رشوت کا پیغام مجھے دیا گیا تا کہ میں ضمیر فروشی کر کے چپ ہو جاؤں.مگر نیکی اور بھلائی کے فرشتوں نے میری تائید کی اور ایک نے میر فروشی کو ایک لعنت سمجھ کر ہزار روپیہ پر تھوک دیا.یہ ایک وقت تھا جو میرے لیے اس پیشے میں امتحان کا تھا.اور خدا کے فضل سے میں کامیاب ہوا بالآخر وہ میونسپلٹی کے عین کا سکینڈل آخر کار پبلک کی بہترین خواہشوں کے ساتھ ختم ہوا.اور میں نے بھی کمیٹی کی مخالفت بلا وجہ کرنی چھوڑ دی.اس اثناء میں اور بھی بہت سے کام کرنے پڑے امرتسر کی پریس سوسائٹی کی بعض نقائص پہ آزادانہ نکتہ چینی کی اور جب سوسائٹی کی قابل قدر خدمات کو اصلاح کی بہترین اصولوں پر چلتے دیکھا تو اس کے کام میں عمل ہمدردی میرا کام تھا اور اس وقت تک جو لالہ نند لال صاحب کی خدمات کا دل سے معترت ہوں.امرتسر کے قیام میں ایک اور رنگ میں بھی مجھے سرکاری خدمات کا موقعہ ملا.مسٹر نکل نے میری درخواست کے بددن بعد میں جبکہ کمیٹی کے حالات درست ہو چکے تھے میری اس آزا د نکتہ چینی
کی قدر کر کے میونسپل کے لیے پریس سپر نٹنڈنٹ کی حیثیت سے ایک معقول معاوضہ میں ملازمت میں لینا چاہا نگر میں نے شکریہ سے انکار کر دیا.پھر مجھے اختبار جہاں نما کی آیڈ میری کا موقع ملا.جو سر دار نارائن سنگھ صاحب نے جاری کیا تھا.مگر افسوس ہے کہ مجھے بہت جلد اس سے الگ ہونا پڑا.اور پھر کچھ دنوں تک امرتسر کے مشہور اخبار پنجاب کو ایڈٹ کیا.اخبار دکیل کے قابل قدر پروپرائٹر شیخ غلام محمد صاحب ناصر مرحوم کی ہمیشہ خواہش تھی کہ میں وکیل کا چارج لوں مگر محض بعض امور میں اختلاف رائے اس میں مانع رہا اور میں نے پسند نہ کیا کہ اپنی ذاتی رائے کو چند مچیوں پر قربان کر دوں.اسی اثناء میں اگست ۷ ۱۸۹ء مہنری مارٹن کلارک نے ایک نالش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کر دی میں نے اس مقدمہ کے حالات دوسری جنگ مقدس کے نام سے لکھے.اس وقت مجھے اپنے سلسلہ کی ضروریات کے اعلان اور اظہار کے لیے اور اس پر جو اعتراضات پولٹیکل اور مذہبی پہلو سے کیے جاتے تھے ان کے جوابات کے لیے ایک اخبار کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ اکتو بہ ۱۸۹۷ء میں احکم جاری کر دیا.اس دقت گورنمنٹ پریس کے خلاف بھی اور موجودہ پریس ایکٹ اس وقت بھی قریب تھا جو پاس ہوجاتا.تاہم ان مشکلات میں ہیں نے خدا پر بھروسہ کر کے امر تسر سے اخبار المحکم جاری کر دیا.اء کے آخر میں روزانہ پیسہ اخبار کے مکرر اجرا کی تجویز ہو چکی تھی.اور منشی محبوب عالم کے خواہش کے موافق ہیں نے روزانہ پیسہ اخبار کے ایڈ ٹیوریل شان میں جانا منظور کر لیا تھا.میرا خیال تھا کہ الحکم کا ہیڈ کوارٹر لاہور بادل دینا چاہیئے اور محض اس خیال سے میں نے پیسہ اخبار کے ساتھ تعلق گوارا کر لیا تھا.گرے ۱۸۹ء کے جلسہ سالانہ پر میں قادیان آیا تو یہاں ایک مدرسہ کے اجراء کی تجو یہ ہوئی.اور اس کے لیے خدمات کے سوال پر میں نے اپنی خدمات پیش کر دیں اور اس طرح قدرت نے مجھے دیار محبوب میں پہنچا دیا.الحکم کے اجراء کے وقت مجھے بہت ڈرایا گیا تھا کہ مذہبی مذاق کم ہو چکا ہے اور احمدیت کے ساتھ عام دشمنی پھیل چکی ہے.اس لیے الحکم کا میاب نہ ہوگا.مگر اللہ تعالی جانتا ہے میں نے الحکم کو ایک تجارتی پر چہ کی حیثیت سے جاری نہ کیا تھا بلکہ محض اشاعت سلسلہ اور حضرت دین کی نیت سے.اس لیے اس کے پہلے پر جہ میں لکھا تھا سے
۶۴۲ جب تو کلت علی اللہ یہ آغا نہ کیا پر نکل آئیں گے ا ور دیکھنا پر دانہ کیا خدا تعالیٰ نے اپنے محض فضل سے الحکم کو ایک مذہبی اخبار کی حیثیت سے کامیاب کر دیا اب ایڈیٹر الحسکم کی خدمات کا دائرہ احمدیت کے مرکز پر کھینچا گیا.اس دائرہ میں گردش کرتے ہوئے بھی ایڈیٹر الحکم پر وہ زمانہ نہیں آیا اور آئندہ خدا کے فضل سے امیدوار ہوں کہ نہ آئے جبکہ اس نے کسی خوب اور لالچ کیوجہ سے اپنی آواز کو میر کے خلاف دبانا چاہا ہو بلکہ ایڈیٹر الحکم نے ہمیشہ اپنا مائو یہ رکھا ہے.لکھنا ہے تو مت ڈر.ڈرتا ہے تو مت لکھ قادیان میں اڈ بیٹا اسکم جنوری ۱۸۹۸ء میں آگیا.اور چیہ اخبار کے ساتھ جو جدید تعلق پیدا کر لیا گیا تھا اسے اور لاہور کے دیگر منافع کو قادیان پر قربان کر دیا.اور الحمد للہ میں اس سودے میں نفع مند ہوں.مدرسہ کا انتظام ابتدائی حالت میں تھا.جو لوگ کسی انسٹی ٹیوشن کو چلانے کے کام سے واقف ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایڈیٹر الحکم کو مدرسہ کی ابتدائی حالات میں کن مشکلات سے گزرنا پڑا ہو گا.طبیعت میں حریت معنی.بعض اوقات مدرسہ کے ناظم سے اختلاف ہو جاتا آخر جب ا مدرسہ چل پڑا تو میری فرمن چونکہ لازمست تو تھی نہیں اس لیے میں نے حضرت مولو من عبد الکریم صاحب کے مشورہ کے ماتحت مدرسہ سے علیحدہ ہو کہ صرف اختبار کے کام کی طرف توجہ کی.قادیان میں اس وقت پریس کی سخت تکالیف تھیں نہ پریس ملتا تھا نہ کل کشش اور نہ کا تب اور نہ یہ لوگ قادیان آ کر رہنا چاہتے تھے.تاہم اڈیٹر محکم ان مشکلات کا مقابلہ کر تا رہا.اسی اثنا میں الحکم نے بٹالہ کے سب انسپکٹر کے اس رویہ کا نوٹس لینا چاہا جس کا برا اثر رعایا پر پڑ رہا تھا.اس نے اپنے اعلیٰ افسر کو بھڑکا کہ چاہا کہ ایڈیٹر الحکم پر کوئی مقدمہ بنا دے مگر میری طبیعت ان گیڈر بھبکیوں سے ذرا خائف نہ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک معاملہ پہنچا.بعض لوگوں نے رائے دی کہ چند روز کے لیے اڈیٹر الحکم قادیان سے باہر چلا جائے حضرت مسیح موعود علیہالسلام انے اس رائے کو اور پسند ہی نہیں کیا تھا مگر اصرار پر کہ دیا کہ اگر ہی مصلحت ہے تو حرج نہیں.لیکن یں نے اس رائے کی کمزوری پیش کی تو آپ نے بڑے جوش سے میری تائید کی بالا خہ اس سب انسپکٹر کو اپنی طاقت کا اندازہ معلوم ہو گیا.اور اس نے اپنے منصوبوں کو خاک میں ملتے دیکھ کہ ایڈیٹر
۶۴۳ حکم سے صلح کر لی.یہ پہلی کامیابی تھی تو یہاں نصیب ہوئی یو م پریس اور حکام کی ان مشکلات پر غالب آنے کے بعد الحکم نے اپنے کام کی طرف توجہ کی اور جو کام اس نے کیا اس کے لیے اس کی ۱۶ جلدیں ایک مسیر را تاریخ ہیں.تاہم مختصر طور پر بعض اہم امور میں پیش کرتا ہوں.۱.سب سے پہلے العلم کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریروں کو محفوظ رکھنے کا کام کیا گیا.ہر ایک تقریر قلم بند ہو کر شائع ہونے لگی.اس ضمن میں یہ کہ دنیا بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پرانی تحر میں ) در خطوط کو جمع کرنے کا کام بھی السکم کے ذریعہ کیا گیا.لگے.۲- پھر بزرگان ملت کے خطے مواعیہ لیکچر جو اس سے پہلے ہوا میں مل جاتے تھے محفوظ ہونے حضرت حکیم الأرت، ولانا نور الدین صاحب خليفة أسیس اول کا ایک پر از معلومات و معارف درس قرآن مجید ہوا کرتا تھا جو ایڈمیر الحکم نے سب سے اول اس کی اشاعت کا انتظام کیا.پہلے اختبار کے ذریعہ پھر مستقل رسالوں کے ذریعہ جو تفسیر القرآن اور ترجمۃ القرآن کے نام سے شائع ہوئے..ان امور کے مادر می قومی معالمات پر پوری آزادی کے ساتھ ہمیشہ ایڈمیر الحکم نے رائے دی.اور سب سے پہلے قوم کو ایک صدر انجین احمدیہ کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی کہ مرکزی کمیٹی کے ساتھ ضلعوار اور تحصیل دار کمیٹیاں شامل کی جائیں لیے ۵ - دینی مدرسہ کی ضرورت پر چند در آرٹیکل لکھے :- صنعتی شاخ کے اجراء پر توجہ دلائی اور کالج کے قیام کی تحریک کی.خدا کا شکر ہے کہ یہ تمام تحریکیں بار آور ثابت ہوئیں..ایڈیٹر الحسکم نے احمد می قوم کی مردم شماری پر قوم کو توجہ دلائی اور خود مطبوعہ فارم شائع کیسے گھر یہ کام پورا نہ ہو سکا.ایسا ہی ان اصولوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السّلام اپنی قوم کو ایک با مراد قوم بنانا چاہتے تھے اور جن سوشل خرابیوں کو وہ دور کرنا چاہتے تھے ان اصولوں کو ہمیشہ یاد دلایا.به روزنامه الفضل دیوه ، رمئی ۱۹۵۸ء صفحه ۵٫۴٫۳
۶۴۴ - اخبار وطن کے ساتھ جو معاہدہ غلطی سے ریویو ان ریلیز کے متعلق کیا جارہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر کے بغیر عام اسلامی مضامین اس میں شائع ہوں.اپنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے خلاف سمجھ کہ دوسرے بزرگوں کے ساتھ پر زور الفاظ میں اس کی حقیقت سے قوم کو آگاہ کیا.اور خدا کا شکر ہے کہ قوم نے توجہ کی..اسی سلسلہ میں وطن نے نقاش (ایڈیٹر زمیندار) کے مضامین چھاپ کر سلسلہ کو نقصان پہنچانا چاہا تو ایڈیٹر اسکم نے اصولی طور پر دین کی مخالفت کی اور سخت مخالفت کی.وطن نے اپنی غلطی کو معمل رنگ میں تسلیم کیا.۱۰.پھر دوسرے وقت وطن نے انجمن حما بہت اسلام کی اصلاح کے لیے مخالفانہ قلم اٹھا یا اور اس ستحریک میں لاہور کے بڑے بڑے لوگ شامل تھے.اخبار الحکم کے ایڈیٹر نے باوجودیکہ اپنوں اور پرالیوں کی طرف سے وطن کی تائید کے لیے زور دیا گیا انجمن کی طرفداری سنی سمجھ کر کی.اور آخر جو اصول المحکم نے پیش کیا تھا اسی پر فیصلہ ہوگیا.1- الحکم نے اظہار رائے میں کبھی دوستی اور دشمنی کی پر واہ نہیں کی.ہماری جماعت میں حمالک غیر میں اشاعت اسلام کے لیے دند کا سوال پیدا ہوا.اور قریب تھا کہ وہ انجمن میں پیش ہو کہ فیصلہ ہوجاتا گر الحکم نے اس مضمون پر متانت سے قلم اٹھایا اور واقعات کی بنا پہ دکھایا کہ ابھی اپنے ہی ملک میں بہت کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور احمدی قوم میں یہ پبلک رائے پیدا ہو گئی جس پر الاتفاق اس تجویز کو طلقومی کرنا پڑا.۱۲- ایڈیٹر الحکم کو ایک بہت بڑا ابتلاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انتقال کے بعد پیش آیا.جبکہ مسئلہ خلافت کے متعلق بعض سوال پیدا ہو گئے تھے.الحکم سے پورے استقلال اور صبر وثبات کے ساتھ یہ امر ذہن نشین کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کا احیاء اور بقاء صرف امام کی اطاعت پر موقوف ہے اور یہی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا فخر ہے اس ابتلاء کے وقت ایڈیٹر کی جان اور اس کے قادیان کی زندگی خطرہ میں متقی اور اختلاف رائے کے وقت ایسی باتیں معمولی ہوتی ہیں مگر خدا تعالیٰ نے اس امتحان میں سے بھی اسے کامیابی کے ساتھ نکال دیا.آخر قوم کوسمجھ آگئی کہ الحکیم نے انہیں ایک بھولی ہوئی بات یاد دلائی ہے اس اثناء میں بعض جھوٹے خلیفوں کی حقیقت سے بروقت قوم کو آگاہ کیا.۱۳ - پھر مسئلہ انکار پہ اس کو بعض دوستوں سے اختلاف کرنا پڑا.آخر حق کی فتح ہوئی اور حضرت
۶۴۵ مسیح موعود علیہ اسلام اور خلیفہ المسیح کا ہر مذہب تھا وہ کھل گیا.۱۴- اس اثناء میں ایڈ سیر الحکم نے چاہا کہ بالکل گمنامی کی حالت میں تبلیغ اسلام کا کام کر سے مگر دہ اس ارادہ میں کامیاب نہ ہوا اور بعض وجوہات کی بناء پر اسے واپس آنا پڑا.۱۵.غرض بہت سے کام ہیں جتنے کرنے کی خدا تعالٰی نے اسے توفیق دی منجملہ ان کے ایک اور کام کا نہایت ہی احتمالی رنگ میں ذکر کرتا ہوں کہ شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی مہدویت کی وجہ سے بعض علماء اور پولیس کے ناتجربہ کار لوگوں نے ہمارے سلسلہ کو ایک خطرناک سلسلہ قرامہ دیا تھا اور گورنمنٹ کو بدظن کرنے کے لیے کوئی دقیقہ باقی نہ رکھا گیا.مگر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایڈیٹر الحکم کو موقع دیا کہ وہ اس پہلو سے اپنے سلسلہ کی خدمت کر سے چنانچہ ایسے اسباب میسر آ گئے جن کے ذکر کی ضرورت نہیں کہ وہ سلسلہ کے پولیٹیکل پوزیشن کو صاف کرنے کے کام میں پایونیر ثابت ہوئی.۱۹.قادیان کے مقامی ضرورتوں کے متعلق اس کی راہیں مستند در قابل لحاظ قرار دی گئیں چنانچہ قادیان کے ڈاکخانہ کی اصلاحوں اور ترقیات میں اس کے قلم اور دماغ کو بہت دخل ہے.ایسا ہی قادیان کی نوٹیفائیڈ ایریا کا وجود الحکم کے کوششوں کے معمولی نظرات ہیں جو خدا کے فضل سے ملے.اگر میں ان کاموں کی تفصیل کرنے لگوں تو ایک کتاب تیار ہو جائے.مختصر یہ کہ جس طرح پر سلسلے کی خدمت کا موقعہ ملا.الحکم کرتا رہا اور کرتا ہے اور کرتا رہے گا.جب تک خدا تعالیٰ کا فضل چاہے گا.مدرسہ احمدیہ کے قیام اور مدرسہ تعلیم الاسلام کی اصلاح کے موقعہ پر بھی میں نے پر جوش حصہ لیا.اس تمام کام کو آج تک بغیر کسی نمائش کے کیا.جہاں میں نے اپنی آزادی رائے کا ذکر کیا ہے وہاں اگر میں یہ بیان نہ کر دوں کہ اپنی غلط راؤں کی اصلاح کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہوں تو یہ ذکر ناقص رہ جائے گا.۱۹۰۹ ء میں مجھے بعض اسلامی کاموں کے لیے دہلی جانا پڑا.دہلی میں رہ کر میں نے صداقت اسلام پر لیکچر دیئے اور وہاں انجمن خادم المسلمین قائم کرنے میں عملی حصہ لیا اور دیا نند مت کھنڈن سمجھا قائم کی.بلکہ بعض مکرم دوست چاہتے تھے کہ تبلیغ الاسلام علیگڑھ کا ہیڈ کوارٹر دہلی کو دیا جا سکتا ہے.بشرطیکہ تم کام کرنا چا ہو.اس وقت میرے خیال میں آیا کہ اگر ایسے لیکچر ہوں جن میں سلسلہ کا قطعاً ذکر نہ ہو تو مفید ہیں.بلکہ اس تجویز پر دہلی کے بعض علماء نے مجھے کہا کہ فتوی کفر واپس ہو جائے گا میں نے اس تجویز کو علی سمجھ کر اخبار میں لکھا اور اس پر عملدر آمد کے
لیے زور دیا اور ایک پروگرام ایسے لیکچروں کے لیے تجویز کیا.میں اس رائے پر مضبوطی سے قائم متھا کہ ۱۹۰۹ کے جلسہ میں صاحبزادہ محمود احمد صاحب کی تقریہ نے مجھے اپنی غلطی سے آگاہ کہ دیا اور اس جلسہ میں اس تجویز کے نقائص کا میں نے اقرار کر لیا اور اب میں اس کو احمدی سلسلے کی ترقی کی راہ میں روک سمجھتا ہوں عرض جہاں مجھے اپنی غلطی کا علم ہوا میں نے اس کو چھوڑنے کی خدا کے فضل سے کوشش کی ہے.محضر یہ کہ ایڈمیرا لکم نے جی عریض اور مقصد کو لے کر بحیثیت ایڈیٹر الحکم کام شروع کیا تھا اس میں نمایاں کامیابی ہوئی تھی.اور ان مشکلات میں سے گزر کہ مجھے یہ دیکھکر خوشی ہوئی کہ قوم میں اخبار بینی اور اخبار نویسی کا مذاق پیدا کرنے میں الحکم بامراد ہوگیا.جہاں صرف الحکم کے سوا اوراخبار تین رسالے خاص قادیان سے اور ایک اختبارا در رسالہ دربی سے اس سلسلہ کا نکلتا ہے اللهم زد نزد.میں جب اس کام سے فارغ ہو چکا تو میں نے حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور الحکم سے فرصت پا کر اور کام کرنے کا ارادہ کیا.مگر انہوں نے اپنی فراست خدا داد سے المحکم کا کام نہ چھوڑنے کا مجھ سے عہد لیا اس لیے خدا ہی کے فضل سے اس عہد پر قائم رہنے کی توفیق چاہتا ہوں اس سے الحکم کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے.اختبار کو ایک وسیع پیمانے پر چلانے کے لیے میں نے مشین پریس کا سلسلہ جاری کیا مگر یہ سچ ہے عرفت ربي بفسخ العزائم.مجھے اپنے اس ارادہ میں محض ناکامی ہوئی اور کارخانہ سات ہزار کا زیر بار ہو گیا.اور اس کے مالی مشکلات کا ایک نیا باب ایڈیٹر الحکم کے سامنے آیا.ایک موقعہ پر ان مشکلات سے نکلنے کا ایک امتحان میرے سامنے آیا اور وہ بھی بہت بڑا ابتلاء تھا.احکم تمام زیر باریوں سے نجات اور آئندہ کے لیے ایک ایسی باڈی کے ہاتھ میں جا سکتا تھا کہ جہاں تک اسباب کا تعلق ہے مالی مشکلات کا اسے سامنا نہ ہو.مگر جس شرط سے ہیں اس مھاری بوجھ سے نکل سکتا تھا میرے لیے وہ نہایت گراں اور ناقابل برداشت تھی.اور وہ یہی تھی کہ میں اپنی رائے سات ہزار روپے کے عوض بیج.دوں.اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو وسیع کر دیا اور جیسے امرتسر کی ایک ہزار کی تھیلی اس وقت کے حالات کے ماتحت میری رائے نہیں خرید سکی اب سات ہزارہ کا جادو مجھ پر موٹا نہیں ہوا.اور میں کسی اخبار نویس کی زندگی کا یہی پہلو شاندار سمجھتا ہوں کہ خوف اور لالچ اس کی رائے اور ضمیر پر موثر نہ ہو گر یہ خدا کے فضل کے بدوں نا کی ہے.الحکم نے مسلمانوں کے کامن کازمیں ہمیشہ وہ رائے دمی جو اس کی سمجھ میں مفید تھی اور جب دو
مسلمانوں میں کسی ایسے امر کے متعلق تنازعہ ہو ا جس کا اثر بحیثیت مجموعی قوم پر پڑتا تھا تو اس نے بلا لحاظ اس کے کہ وہ امر حق کے اظہار میں کسی زبر دست پارٹی کی مخالفت کرتا ہے پرواہ نہیں کی.اور یہ امر اس کے مخالفت اور موافق دوستوں سے پوشیدہ نہیں.انجمن حمایت اسلام کی اصلاحی مخالفت وطن نے شروع کی.معاملہ نے خطرناک رنگ اختیار نہ کیا.وطن کی حمایت میں پنجاب اور ہندوستان کے زبردست اسلامی اختبار اور مسلمانوں کے لیڈر تھے.میں نے انجمن حمایت اسلام کے پرانے نمبروں کو ڈیفنڈ کیا اور بات آخر جبس راد مسلح کو الحکم نے پیش کیا تھا اس پر عمل ہو گیا.۲ اخبار وطن اور زمیندار کے درمیان مسلمانوں کی آئندہ پولیٹیکل پالیسی یہ اختلاف ہوا اور اس بارہ می زمیندار کا طریق ایڈریر الحکم کے نزدیک قابل اعتراض اور مسلمانوں کے لیے غلط راہ پر لے جانے والا تھا.اس نے زمیندار کے اس رویہ کے خلاف پر دوسٹ کرنے میں کسی کی پرواہ نہیں کی.مگر اس کے صلے میں اس کو گالیاں سننی پڑیں.مگر ایسی گالیوں کا وہ عادی ہو چکا ہے.دہلی کے کرزن گزٹ نے وہاں کی جامع مسجد اور مدرسہ فتح پوری کی کمیٹی کے خلاف بعض غلط الزات لگائے ایڈنیٹر المسلم نے اس مسئلہ میں کہ زان گزٹ کی راڈوں کی کمزوری ظاہر کر دی جائیکہ مہیا کرزن گزٹ اور مسلمان عمائد دہلی کے ساتھ متفق نہیں تھے..حال میں جو دورہ اسلامی مدارس کے طریقہ تعلیم ورائش طلباء کے متعلق کہاگی تھا ایڈریر الحسکم بطور حالات نولیں ساتھ تھا.اس دورہ کے حالات شائع کرتے ہوئے صاف دلی کے ساتھ مدرسہ اسلامیہ دیو بند اور مدرسہ فرنگی محل کی قابل قدر خدمات کا اعتراف کیا گیا حالانکہ یہ لوگ ہمار سے سخنت مکفر اور معاندین میں اور ندوۃ العلماء کی کمزوری کا اظہار کر دیا گیا ایسا ہی گرد کل اور مدرسہ الہیات کا نور کی بھی تعریف کی گئی.یہ تمام واقعات بناتے ہیں کہ ایڈیٹر السکم نے جس میں اور صدہا نقص اور کمزوریاں ائیں یہ حیثیت ایک اخبار نویس کے ۱۸۹۴ ء سے لے کر ۱۹۱۴ ء تک کبھی اپنی رائے اور منیر کو بیچنا نہیں چاہا.اور خون اور لالچ نے اس کے دماغ اور دل پر حکومت نہیں کی.اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے محض فضل سے گو اس کی ہر دلعزیزی میں کمی ہو کیونکر ناممکن ہے ایک کھری اور صاف سنا دینے والا ہر دلعزیز ہو سکے مگر وہ ایک یا اصول اخبار نویس کی حیثیت سے اپنے زمرہ میں ممتازہ ہے.
۶۴۸ ذلك فضل الله يوتيه من يشاء والحمد الله على ذالك.محکم کو اپنے معاصرین سے تو تو میں میں کا موقعہ ان سولہ سال کے اندر بہت سی کم پڑا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ نہیں پڑا.مذہبی اختلاف کی وجہ سے نہایت گندہ لٹریچر شحنہ ہند کے ضمیمہ نے شائع که نا شروع کیا.لیکن آخر اس کا انجام وہی ہوا جو ان موری کے کیڑوں کا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود کے الہام کے ماتحت انی مهین من اراد اهانتك کے نیچے وہ ایسا آیا کہ ضمیمه را نه نشسته را المحدیث اور اہل فقہ کے ساتھ الحکم کو کبھی کلمہ حق کے لیے مقابلہ کرنا پڑا اگرا سے شکایت نہیں کہ انہوں نے شحنہ ہند کے منعمیمہ کی تقلید کی ہو.زمیندار اور وطن سے مقابلہ ہوا ان میں سے وطن محض زمیندار کی وجہ سے نہ یہ الزام آیا.بالاخر وطن کے قابل ایڈ میر نے نقاش کے پیروں کو سمجھ لیا.اور اس طریق کو چھوڑ دیا.زمیندار نے حال میں پھر گالیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا مگر اس کا خاتمہ ایک ضمیمہ نے کر دیا.پیسہ اخبار سے بھی بارہا اختلاف ہوا.پیسہ اخبار کی مخالفت کو ہمیشہ ہے اصول پا یا یہ تو اسلامی اخبار و سے مقابلہ کا ذکر ہے.آریہ اخباروں میں سے پر کائش اور اگر یہ مسافر اور مسافر سے مقابلہ ہوا.بجز جالندھر کے آریہ مسافر کے پر کائی اور مسافر نے الحکم کے مقابلے میں ہمیشہ شرافت سے کام لیا.اور اس وقت ایک تمام معاصرین کے ساتھ اس کے تعلقات مذہبی اختلات کو چھوڑا اچھے ہیں الحکم کے ایڈیٹر نے پریس کی اصلاح کے لیے بھی قدم اٹھا یا چنانچہ مسلم پریس ایسوسی ایشن کی تحریک اس نے کی.اور اس کے متعلق ملک کے مقتدر اختبارات اور مسلم کمیونیٹی کے لیڈنگ مہروں کی را ؤں کو جمع کیا.معاصرین اور اہل الرائے بزرگوں کو دعوت دے کہ لاہور سے زمیندار نے ایسی تحریک کی چونکہ ہمارا یہ عین مقصد تھا زمیندار کی مجوزہ مسلم پریس ایسوسی ایشن کے لیے قادیان سے وکیل بھیجا گیا.مگر انوس کہ وہ الیسوسی ایشن ایک ذاتی اعزام کا ذریعہ ثابت ہوئی اور جوتیوں کے چیلنج پر اسر پر اس کا خاتمہ ہو گیا.ایڈیٹر کی زندگی کا ایک باب اس کی لاٹیبل کے مقدمات ہوتا ہے.ایڈیر الحسکم پر وہ مرتبہ لائیل کے مقدمات ہوئے ایک مرتبہ امرتسر کے ایک میونسپل کمشنر نے لاہور میں استفادہ کیا جس میں بالا خر خدا تعالی نے ایڈیٹر محکم کو صاف بری کر دیا اس کے ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض دوستوں نے نہیں بلکہ معاصرین نے جن کا نام لینا نہیں چاہتا.اس وقت میری صلح کرانی چاہی اور شرائط صلح میں ایک ہی شرط تھی
۶۴۹ کہ ایڈیٹ اسکم آئندہ اخبار نویسی چھوڑ دے.اس کا میری طرف سے ایک ہی جواب تھا کہ اس مقدمہ لاٹیبل کے قید کا خون میرے مسلم پر حکومت نہیں کر سکتا.اور اخبار نویس جیسی محبوب نے چھوڑانے کی یہ دھمکی اور خون پینچ ہے.آخر خدا نے مجھے کامیاب کر دیا.دو سرای الجبل لے کا مقدمہ مولوی کرم الدین صاحب ساکن تھیں نے کیا.اس مقدمہ میں مخالف مسلمان آریہ اور عیسائی اس کے مددگار تھے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے تو اس آفت سے بچا لیا گر کرم الدین صاحب میرے مقدمہ لائیل میں اپنے دوست سراج الاخبار جہلم کے ضعیف ایڈیٹر کو لے کر جرمانہ کے سزا یاب ہو گئے اور وہ مقدمہ بطور یادگار رہ گیا.ان الله مع الذين اتقو والذين هم محسنون.ایڈیٹر الحکم کو تصنیف و تالیف کا شوق رہا.اور بعض رسالے ایسے وقت میں اس نے لکھے اس کی عمر ۱۸۷۱۷ د سترہ اٹھارہ سال کی تھی مگر افسوس ہے کہ آج ان کی ایک کاپی بھی اس کے پاس نہیں اور نہ دو ملتے ہیں.سب سے پہلی کتاب اس نے دینیات کی پہلی کتاب کے نام سے شائع کی جس پر دربار بہا ولپور نے اس کے پبلیشر شیخ عبدالرحمن امرتسری کو انعام دیا تھا.اخبار فیروز کے دفتر میں نشیا عورت کی لائف اور تقویم فیروزی کے علاوہ تثلیت کے رڈ اور ہ د تناسخ میں دو چھوٹے چھوٹے رسالے شائع کئے اور ایک رسالہ امرتسر کی مادی ترقی کا اصلی زریانہ لکھا تھا.تقاریان اگر حقیقت نماز اسماء الحسنیٰ تفسیر سورۃ بقرہ اور ترجمہ القرآن کے سلسلے میں آٹھ پارے شائع کیسے ایسا ہی آریوں کے رد میں حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم سے اصلاح النظر" ایک رسالہ لکھا اور ان کے علاوہ سالانہ جلسہ ۱۸۹۷ ء کی رپورٹ مکتوبات احمدیہ اور سیرت مسیح موعود کو تر تیب دے کر شائع کیا.آخری بات مجھے افسوس ہے کہ اپنی زندگی بحیثیت ایڈیٹر کے حالات لکھنے میں ہر چند میں نے بہت ہی ، جمال سے کام لیا ہے مگر شاید مسٹر فوق کے نکتہ خیال سے وہ لیے ہو گئے ہوں تاہم میں اپنے عزیز دوست اور ناظرین کشمیری میگزین سے خواستگار معانی ہوں کہ میں ان حالات کے بیان کرنے میں جہاں اپنے بعض BEL یعنی ازالہ حیثیت عرفی
۶۵۰ معاصرین کا ذکر کرتا ہوں وہاں مجھے ان سے کسی عداوت کا اظہار مقصود نہیں بلکہ بطور امر واقعہ ان پیش آمده حالات کو لکھ دیا ہے جو میری قلمی زندگی کا ایک جزر ہیں ایسا ہی اگر میں کوئی لفظ سلسلہ کے دوستوں کے متعلق کہیں لکھ گیا ہوں تو اس سے بھی میری عزمن سلسلہ کی تاریخ کا ایک ورق لکھنا ہوتا ہے در نہ اختلاف رائے کبھی تعلقات کو نہیں کاٹ سکتا ہو خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہم میں قائم کیسے ہیں بالآخر میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ محض اس کے فضل سے میں اس فلمی جنگ میں اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور یہی دعا ہے کہ وہ دیانت اور امانت کے ساتھ اس فرض کے ادا کرنے کی توفیق دے جو اس نے اپنی مشیت سے میرے سپرد کیا ہے.وآخر دعوانا ان الحمد لله ر خاکسار یعقوب علی تراب احمدی اله رب العالمين.مولانا شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی فرماتے ہیں کہ :.بہ بہ حالات حضرت عرفانی مرحوم نے ۱۹۱۲ ء تک لکھے تھے.بعد کے حالات بہت ہی مختصر طریقہ یہ ہیں کہ ۱۹۱۴ ء میں حضرت خلیفہ اول کے انتقال کے بعد جب جماعت میں عظیم تفرقہ واقع ہوا تو حضرت شیخ صاحب مرحوم نہایت اخلاص کے ساتھ خلافت ثانیہ سے وابستہ رہے اور محمد للہ اسی پر ان کا خاتمہ ہوا.۱۹۲۴ ء میں سفر یورپ کے موقعہ پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شیخ صاحب کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے اور مسجد لنڈن کے افتتاح کے موقعہ پر بھی آپ لنڈن میں موجود تھے.جون ۱۹۳۵ء میں آپ یورپ اور بلاد اسلامیہ کی سیاحت کے لیے روانہ ہوئے اور دو سال تک آپ یورپ کے مختلف ممالک اور بلاد اسلامیہ میں رہے.آپ نے واپسی پہ اپنا سفر نامہ مشاہدات عرفانی کے نام سے شائع کیا تھا.اپریل ۱۹۳۲ ء میں سلطنت آصفیہ کی ایک شاہزادی بیگم وقارالامرا ء نے آپ کو سار معے بائیں سو روپے ماہوار تنخواہ پر حیدر آباد لایا اس کے بعد آپ وہیں کے ہو رہے.یہانتک کہ ہر دسمبر ۱۹۵۷ء کو آپ ملک عدم ہوئے آپ سلسلہ احمدیہ کے سب سے بڑے مؤرخ.سب سے پہلے صحافی اور به روزنامه الفضل ربوه ما رمئی ۱۹۵۸ء صفحه ۴٫۳ ۵
۶۵۱ بلند پایہ انشا پرداز تھے جنینی تصنیفات آپ نے یاد گار چھوڑی ہیں ان کی فہرست خاصی طویل ہے شیخ داؤد احمد صاحب عرفانی فرماتے ہیں کہ : - (خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی شم ہوش و تو اس آخری وقت تک صحیح تھے.نارنج گرنے کے بعد زبان تو بند تھی لیکن دایاں ہاتھ جو اچھا تھا اس سے اشارے سے قلم ما نگتے اور لکھ دیتے آخری الفاظ جو انہوں نے لکھے وہ یہ تھے مجھے امانتاً دفن کیا جائے اور سیٹھ صاحب رعبداللہ بھائی صاحب میرا جنازہ پڑھائیں.ان کے آخری وقت پر ان کے پاس میری بیوی کی چھوٹی بہن صداقت میگیم بیزت فیروز علی صاحب مرحوم اور عائشہ میگیم اہلیہ یوسف احمد صاحب الہ دین - حضرت سیٹھ صاحب کی بہو تھیں حضرت سیٹھ صاحب کا پوتا صالح محمد بھی اور میرے ہم زلف مسیح الدین الہ دین اور والد صاحب کا قدیم نہ فیق اور نوکر شریعت موجود تھے.آخری سالن جب دیا ہے تو ان کا سر عائشہ بیگم کی گود میں تھا بڑی خوش قسمت خاتون ہیں کہ ان کو ایک بڑے جلیل القدر رفیق اور مورخ سلسلہ کے آخری لمحوں میں خدمت کا موقع ملا.ہم تو محروم ہی رہے.اس لیے کہ مجھے ہر خط میں لکھتے رہے کہ آنا نہیں.کیونکہ میری صحت اچھی نہ تھی بعارضہ زمہ بیمار تھا.یہ ان کی بے پایاں شفقت اور محبت تھی.حضرت سیٹھ صاحب کے خاندان کے ہر فرد نے اتنی بے حساب خدمت کی اور بے حساب دعائیں بھی انہوں نے ان کے لیے کیں : حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے نواسے جناب سیٹھ صالح محمد الہ دین صاحب کا بیان ہے کہ: میں نے ان سے ذکر کیا کہ میرا ارادہ ہے کہ اس سال جلسہ سالانہ ریوہ میں شرکت کردن به سن کر حضرت عرفانی صاحب پر رقت طاری ہوگئی اور انہوں نے فرمایا : - جب جاؤ گے تو حضرت صاحب کی خدمت میں مرے اس وزہد کا اظہار کرتا اور کہنا ہ گھر ہم دور ہیں لیکن ہمارے دل نہ دور نہیں ہیں اور میری تو یہی خواہش رہی کہ حضور کے قریب دردورہ ه روز نامه الفضل ربوه مار مئی ۱۹۵۸ء مد کے مولانا ظهر اسماعیل صاحب وکیل یادگیر فرماتے ہیں سیٹھ (یوسف الہ دین) صاحب قبلہ اور یوسف الہ دین - حافظ صالح محمد صاحب مسیح الدین اللہ دین.بیٹیر الدین اله دین سیٹھ علی محمد صاحب - راشد احمد الہ دین صاحب.طور یسین صاحب چونکہ سکندر آباد میں رہتے تھے اس لیے ان کو زیادہ خدمت کے مواقع نصیب تھے.(الفصل ۲۸ جنوری ۱۹۵۸ ص ۳)
HO میری نہ ندگی ختم ہو بیٹے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت عرفانی صاحب کے وصال پر حسب ذیل نوٹ سپر و قلم فرمایا.عرفانی صاحب جو اوائل میں تراب لقب استعمال کیا کرتے تھے.غالباً اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زندہ رفیق میں سب سے پرانے رفیق تھے اور گردہ ایک لمبے عرصے سے بیمار تھے مگر یہ خیال نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی داغ جدائی دے جائیں گے چنانچہ ان کی وفات، والی تار سے صرف ایک دن پہلے ہی مجھے ان کا ہاتھ کا لکھا ہو اخط ملا تھا.شیخ صاحب موصوف کی عمر وفات کے وقت غالباً ۹۰ سال سے اوپر تھی اور گو ان کی سماعت میں کانی فرق آگیا تھا.گر مینائی ٹھیک تھی چنانچہ وہ ہمیشہ ہاتھ سے خط لکھا کرتے تھے اور ان کے خطوں میں بے حد محبت اور اپنایت کا رنگ پایا جاتا تھا در اصل وه ان بزرگوں میں سے تھے جن کے ایمان کی جڑھ ان کے دل میں ہوتی ہے اور فلسفیا نہ دلائل کی نسبت جذبات کا پہلو زیادہ غالب ہوتا ہے.شیخ صاحب مرحوم سب سے پہلے احمدی تھے جنہوں نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کی عرضن سے اختبار المحکم جاری کیا.یہ اخبار شرو ع میں غالباً امرتسر سے جاری ہو انگر بہت جلد قادیان منتقل ہو گیا اور پھر شیخ صاحب خود بھی ہمیشہ کے لیے قادیان کے ہی ہو گئے اس کے کچھ عرصہ بعد اعتبار مدد بھی جاری ہو گیا.جس کے آخری ایڈمیر حضرت مفتی طمرد صادق صاحب مرحوم تھے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام ان دو اخباروں کو اپنے دو بازو کہ کر یاد فرمایا کرتے تھے.شیخ عربانی صاحب مرحوم کی دوسری بڑی خصوصیت یہ تھی کہ سب سے پہلے اپنی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ مرتب کرنے کا خیال پیدا ہوا چنا نچہ ان کی طرف سے اس سلسلہ میں متعدد نمبر نکل چکے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط کو جمع کر کے مکتوبات احمدیہ کے نام سے شائع کرنے کی سعادت بھی شیخ صاحب مرحوم کو ہی حاصل ہوئی.تاریخ بیعت کے لحاظ سے شیخ صاحب غالباً حضرت مفتی حمد صادق سے بھی زیادہ پرانے تھے.حق گوئی میں حضرت شیخ صاحب بہت دلیر اور صاف گو بلکہ برہنہ تلوار تھے.چنانچہ جب مشروع که روزنامه الفضل ربوه دار و تمبر ۶۱۹۵۷ ص ۳
۶۵۳ میں غیر میبائعین کا فتنہ اتھاتو شیخ صاحب اس کے مقابلہ میں غیر معمول جوش کے ساتھ پیش پیش تھے بلکہ بعض اوقات انہیں روکنے کی ضرورت پیش آتی تھی غالباً یہ غیر مبالغین کے فتنہ کا ہی اثر تھا کہ عرفانی صاحب مرحوم اپنے زرق کے مطابق اپنی اولاد کو سمینہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ جب بھی جماعت میں کوئی اختلاف پیدا ہو تو تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت کا ساتھ رہتا کیونکہ ان کے متعلق خدا کا وعدہ ہے کہ اپنی معلف وَمَعَ اهْلِك یعنی میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں خدا کرے کہ ہم اس خدائی وعدہ کے اہل اور قدرشناس ثابت ہوں.اس سال یعنی سال ۱۹۵۷ ء میں جماعت کو کئی بار پرانے مخلصین کی وفات کا صدمہ پہنچا ہے چنانچہ سب سے پہلے جنوری میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب خدا کو پیارے ہوئے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام گویا اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتے تھے اور محبت کے رنگ میں اکثر " ہمارے مفتی صاحب کہ کہ پکار تھے تھے اس کے بعد فروری میں حضرت ڈاکٹر ستیہ غلام غوث صاحب کی دنات جو گو یا بالکل ابتدائی رفقاء میں سے نہیں تھے مگر پھر بھی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کافی محبت پائی تھی اور وہ اپنی نیکی اور عبادت گزار می کی وجہ سے ان بزرگوں میں سے تھے جن کا دل گویا ہمیشہ مسجد میں لٹکا رہتا ہے.پھر غائبا جون کے آخر میں حضرت بھائی چو ہدری عبدالرحیم صاحب فرت ہوئے ہو ابتدائی رفقاء میں سے تھے اور ان کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ عین جوانی کے عالم میں سکھ مذہب کو ترک کر کے اسلام اور احمد میت کو قبول کیا پھر نیکی میں ایسی ترقی کی کہ دہ صاحب کشف و رویا بن گئے اور اب سال کے آخر میں آ کہ حضرت عرفانی صاحب نے جماعت کو داغ جدائی دیا ہے.وكل من عليها ذان ويبقى وجه ربك ذو الجلال ولا كرام حضرت مفتی صاحب اور حضرت عرفانی صاحب دونوں میری پیدائش سے بھی پہلے کے احمدی تھے اور حضرت بھائی صاحب نے غالباً میری پیدائش کے ایک سال بعد بعیت کی تھی.البتہ حضرت ڈاکٹر صاحب غالباً ۱۹۰۰ ء کے قریب بیعت سے مشرف ہوئے تھے اللہ تعالیٰ ان سب فوت ہونے والوں بزرگوں کو اپنے فضل درحمت کے دامن میں جگہ دے اور ان کی اولاد کو ان کے نقش نیم پر چلائے اور دین ر دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو آمین.جیسا کہ سب جانتے ہیں اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تائی اور ممتاز رفقاء بہت ہی تھوڑے
۶۵۴ گئے ہیں موت تو سب کے لیے مقدر ہے مگر کاش قبل اس کے کہ یہ مبارک گر وہ اس دنیا سے منتقل ہو کہ اپنی بنتی رہائش کو موں میں جاگزیں ہو جماعت کی صحت روم ان کی نیکی اور تقوی اور عبادت گزار ی اور صداقت اور دیانت اور اتحاد اور تعاون اور جذ بہ قربانی میں ان کی جگہ لینے کے لیے آگے آجائے اسے کاش ایسا ہی ہوا مجھے یاد ہے کہ حبیب میں نے ۱۹۲۱ ء میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور معلومی کی وفات پر ایک نوٹ لکھا تھا تو اس نوٹ کے عنوان میں یہ شعر درج کیا تھا : ے یاران نیز گام نے محمل کو جالیا ہم مجھ نالہ عرس کار داں رہے لیکن اب تو ڈرتا ہوں کہ شاید ہم سے کئی لوگ محو نالہ بھی نظر نہیں آتے اسے اللہ تو رحم کر اور مالے نوجوانوں میں وہ روح پھونک دے جو ہمیشہ تیرے پاک نبیوں اور رسولوں کے زمانہ میں ایک زبر دست انجمن کا کام دیا کر تی ہے اور نہیں صرف چلنے کی ہی طاقت ہی نہ دے بلکہ پرداز کی قوت عطا کہ - امین یا ارحم الراحمین.حضرت عرفانی صاحب اپنے آخری خط میں جو غالباً ۲۹ نومبر کا لکھا ہوا ہے اور مجھے ہر دسمبر کو ملا لکھتے ہیں کہ سنہ آج عمر کا ۹۲ سال شروع ہوا.الحمد للہ خاکسار - مرزا بشیر احمد - ۷/۱۲/۵۷ - ربوه شه خالد احمد بیت مولانا ابوالعطاء صاحب نے لکھا کہ :.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک درخشندہ گوہر ہیں رہتی دنیا تک آپ کا ذکر خیر باقی رہے گا آپ نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کو شناخت کیا حیب ابھی کم تعداد میں سعید رہ دنوں کو اس شناخت کی توفیق نصیب ہوئی آپ کو پھر اولین فضاء میں یہ لی روزنامه الفضل ربوه ۱ار دسمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۴٫۳
400 امتیانہ حاصل ہے کہ آپ بیعت کے بعد دعوت احمدیت کی اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہو گئے چونکہ اللہ تعالی نے آپ کو مؤثر تسلیم عطا فرمایا تھا اس لیے آپ نے تحریر کے ذریعہ سے سلسلہ کی خدمت پر کمر ہمت باندھ لی اور آخر تک ایک کامیاب صحافی اور بہترین مصنف کے طور پر آپ نے زندگی بسر کی قوت گویائی بھی وافر عطا ہوئی تھی اور آپ کی پر جوش اور ولولہ انگیز تقاریر بھی اسلام و احمدیعت کی خدمت کے لیے وقف تھیں آپ سلسلہ کی تاریخ کے بہت بڑے ماہر تھے بلکہ آپ کا سینہ ان سارے رافعات و مشاہدات کا خزینہ تھا.آپ کی وفات سے ایک عظیم خلا پیدا ہو گیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اب کہاں حضرت میں موعود پیدا ہوں اور کہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت عرفانی صاحب کبیر ایسے بے مثال عشاق زمین پر نمودار ہوں.حضرت عر نانی صاحب کی زندگی سراسر متو کلانہ زندگی تھی.فقر و تنگدستی کے با وجود را با غیرت تھے عزت نفس کا نمونہ تھے.غیروں کے آگے کبھی جھکتے والے نہ تھے ہاں مومنوں کے سامنے موم جسم تھے حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی آپ کو والہانہ عشق تھا میں قادیان میں خلافت ثانیہ کے آغاز میں ۱۹۱۶ ء یعنی ار از سال کی عمر میں طالب علم کے طور پہ آیا تھا.چونکہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی کا اصل وطن جاؤ لہ ضلع جالندھر تھا یہ گاؤں ہمارے گاؤں سے سات آٹھ میل کے فاصلہ پر تھا اس لیے مجھے شروع طالب علمی سے ہیں حضرت شیخ صاحب سے واقفیت تھی اور انہیں بھی مجھ سے بہت پیار تھا مجھے وہ نظارہ نہیں بھول سکتا جیب میں مدرسہ احمدیہ سے پڑھ کہ دوپہر کے وقت کرتا ہیں اٹھائے دار الفضل کے بیرونی محلہ کو جاتے ہوئے حضرت شیخ صاحب کے دفتر در مکان کے سامنے سے گزرتا اور شیخ صاحب مرحوم حسب دستور باہر بیٹھے لکھتے یا ٹہل رہے ہوتے.تو دور سے ہی دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرماتے آئے جی سوامی ایشور انند جی اور پھر دو چار منٹ بیٹھا کہ کوئی علمی اور روحانی بات هنر در بیان فرماتے اور بارہ کہتے کہ ایشو رانند" میں اللہ تا " کا ترجمہ کرتا ہوں اسے بڑا نہ مائیں.از حضرت شیخ صاحب کو اپنے ہونہارا در خادم دین فرزند حضرت شیخ محمود احمد صاب عرفانی کی وفات کا بہت صدمہ تھا مگر صبر و استقلال کا آپ نے بہترین نمونہ دکھا یا آپ کی بڑی خوامش منی کہ میری اولاد میں سے واقف زندگی خادم دین ہوں گزشتہ سال اپنے ایک پوتے کے
کے متعان مجھے لکھا کہ اسے جامعہ میں داخل کر کے خدمت دین کے لیے تیار کیا جائے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عرفانی کبیر کے درجات بلند کرے اور ان کے سارے خاندان پہ اپنی برکات نازل فرمائے اور انہیں اپنے مخلص ترین اور سلسلہ کے سچے عاشق بزرگ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشتے آئین سے ۲ - حضرت عرفانی صاحب بطور مورخ اپنا فر من سمجھتے تھے کہ کاروان روحانیت سے جدا ہو جانیوالے ہر ہم سفر کا ذکر خیر کریں پرانے رفقاء میں سے ہر ایک کے بارے میں.ان کے پاس معلومات کا ایک ذخیرہ تھا ذاتی طور پر بھی ان کے تعلقات بہت وسیع تھے اور اخبار نویس کی حیثیت سے بھی انہیں معلومات حاصل تھیں.اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دل بھی ایسا دیا تھا کہ وہ ہر ایک مصیبت زدہ کی مصیبت پر ریج جا تا تھا اس لیے آپ تمام بزرگان سلسلہ کے ذکر خیر کو قائم کرنے کا خاص اہتمام فرماتے تھے اور جہاں تک ان کے لیے ممکن ہوتا تھا وہ صالحین کے نیک نام کو پائیدار بنانے میں کوشاں رہتے تھے.یہ بات ان کی دلی پاکیزگی اور احباب سلسلہ کے ساتھ ان کے دلی لگاؤ کا ایک بین ثبوت ہے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے درمیان جو اخوت قائم کی ہے اس میں اضافہ اور اس کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ بزرگانِ دین اور فدایان سلسلہ کا ذکر زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جائے تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے دلوں میں ان کی محبت بڑھے اور وہ ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلیں اس خاص خصوصیت کی سے جو حضرت عرفانی صاحب کو حاصل تھی ان کا بھی حق ہے کہ سلسلہ کے احباب ان کے ذکر خیر کو قائم یکھیں اور نئی پود کو صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید کے طور پر اس کا اہتمام کریں.واقعہ یہ ہے کہ ایسے بزرگ اس امر کے محتاج نہیں ہوتے کہ ان کا ذکر کیا جائے لیکن در حقیقت اس کی ضرورت بعد کے لوگوں اور نئی نسلوں کو ہوتی ہے.اللہ تعالے حضرت عرفانی مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں انہیں خاص مقام عطا فرمائے آمین.سے ہر گنه نمیرد آن که دلش زنده شد بعتق ثبت است بر حمیده عالم درام مالے ه ره وز نامه الفضل - یوه مورخه ۱۰ر دسمبر ۱۹۵۷ء ص : N ۱۷ رمبر ۱۹۵۷ء م۵
ملک صلاح الدین صاحب ولف" اصحاب احمد نے اپنے ایک مضمون میں حضرت عرفانی صاحب کی سیرت و سوانح اور کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا :.در سنضرت شیخ صاحب کے گوناگوں دمای جمیلہ کا ذکر ایک ہی صحبت میں کیا جانا ممکن ہے.آپ کی خدمات احمدیت کا دامن قریبا اکسٹھ سال پر مند ہے.آپ حقیقی معنوں میں بابائے تاریخ احمدیت تھے ، آپ کو تاریخ سے سے فطری لگاؤ تھا اور شروع سے اس کی دُھن تھی.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ولادت بعثت تک کے واقعات کا ایک انمول ذخیرہ نہایت محنت و کاوش سے جمع کیا.جو کہ بالعموم اسبارہ بین حریت آخر کا سارنگ رکھتا ہے.اور اس میں بظا ہر کسی اضافہ کی گنجائش نہیں.۱۸۹۸ ترمیں آپ مدرسہ کے تعلق میں قادیان بلائے گئے.اور الحکم اختبارہ آپ قادیان میں ہی لے آئے.جو کہ سلسلہ احمدیہ کا پہلا اختبار تھا اورکم و بیش چار سال تک یہ سلسلہ کا واحد اخبار رہا.اور اس کے ذریعہ حضور کے مکاتیب مواعیظ - خطبات اور ملفوظات اور حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم مصاب کے خطبات اور مضامین اور دیگر بہت ہی مفید باتوں کی اشاعت ہوتی تھی سلسلہ کی بیش قیمت تاریخ کا صحیح ذخیرہ ہی اختیار ہے.کئی سال بعد البدر کا اجراء ہوا.ہر دو اخبارات کی افادیت اس امر سے ظاہر ہے کہ دونوں کو حضرت اقدس نے اپنے بازو قرار دیا.کیونکہ حضور کے مشن کی تقویت کا باعث تجھے حضور کی وحی کا ایک کثیر حصہ صرف ان ہی کے ذریعہ محفوظ ہوا.- تاریخ سلسلہ سے واقفیت رکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ وہ کام جو اس وقت ناظر امور عامہ سر انجام دیتے ہیں.نبینی اعتبار سے تعلقات حکومت کو توجہ دلانا.اس کا ایک کافی حصہ حضرت عرفانی صاحب سر انجام دیتے تھے.حضرت اقدس کے چچا زاد بھائی حضور کے شدید مخالف تھے ان شیخ صاحب میل ملاقات رکھتے تھے اور ان سے کئی کام کر دا لیتے تھے شیخ صاحب اخبار کے ذریعہ حکورت کو ضروری امور کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے.اس وقت مختلف نظارہ نہیں قائم ہیں.ابتداء میں حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جماعت کو ان کے فرائض کی یا دووان کراتے رہتے تھے اور اس بارہ میں مسلم اپنے طور پر احباب کو توجہ دلانے پہ آمادہ رہتا تھا.خلافت اولی میں بہت سے امور کی طرف الحكم صدر انجن احمدیہ کی توجہ منعطف کرتا رہا.سو یہ امور
407 مفید مشورہ کے رنگ میں یا ان کی رپورٹ اور کارگذاریوں پر صحت مندانہ تبصرہ کے طور پر ہوتے تھے.خلافت اولی کے آخریں جو پیغامی فتنہ رونما ہوا.حضرت عرفانی صاحب نے اس کا پوری طرح مقابلہ کیا اور خلافت ثانیہ کے قیام پر پوری شد و مد سے اس کی تائید کی.حضرت شیخ صاحب نے اسکم میں اور پھر الگ کتب کے ذریعہ حضرت اقدس کے غیر مسلم انسداد مخالف علماء اور احباب جماعت کے نام کے سینکڑوں مکتوبات شائع کر کے محفوظ کیے.علاوہ ازیں خود حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے مکتوبات اور حضور کی تقاریبہ جلسہ سالانہ بلکہ جلسہ سالانہ کی کارروائیاں شائع کیں.اللہ تعالیٰ نے عرفانی صاحب کو عصب کا حافظہ دیا تھا.حضوڑ مجو روزانہ میر کو تشریف لے جاتے تھے.اور احباب کو معلوم ہے کہ حضور کس قدر تیز چلتے تھے.باد بود اس کے حضور کے کلمات طیبات حضرت عرفانی صاحب نوٹ کر کے اولین موقع پر انہیں زیور طبع سے مزین کرتے تھے.اسی طرح مسجد مبارک کی مجالس سفروں کے حالات اور مقدمات کے کوائف بھی آپ شائع کرتے تھے.اس زمانہ میں جبکہ ابھی جماعت بہت قلیل تھی.اور اکثر حصہ غرباء پر مشتمل تھا.اور پھر حضرت اقدس کی اپنی تصانیف اور اشتہارات کثرت سے شائع ہوتے تھے.اور حضور کو خو چندہ کی قلت کے باعث بسا اوقات تھوڑے تھوڑے روپیہ کی فراہمی کے متعلق بہت پریشانی اٹھانی پڑتی تھی.ایسے حالت میں حضرت عرفانی صاحب کا نہ صرف الحکم جاری کرنا بلکہ جلد بعد کی چھاپہ خانہ بھی قائم کرنا آپ کے بیٹال عزم کا منظر ہے.نا معلوم آپ نے اس راستہ میں سالہا سال تک کس قدر تکالیف برداشت کیں.ہم ان کا آسانی سے تصویر کر سکتے ہیں نہ صرف حضرت اقدس کے عہد ملکہ وفات سے سال ڈیڑھ سال قبل تک آپ کا اشہب قلم پوری طاقت سے رواں دواں رہا.آپ نے تفسیر کا مجموعہ بھی شائع کیا میولودی ثناء اللہ جیسے مخالف کے مقابل پر بھی زور قلم صرف کیا.حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سے آپ کو شدید محبت تھی اور حضرت سیٹھ صاحب بھی آپ کا حد درجہ احترام فرماتے تھے.اور ضروریات کا خیال رکھتے تھے.آپ کا حافظہ باد جو دیکہ آپ اتنی بڑی عمرتک پہنچ گئے تھے.سوائے شاز کے سہو دنیاں سے مہتا رہا.ڈیڑھ دو سال قبل تک آپ بالعموم ہر ایک اس کا ایک پورے حافظہ والے جوان کی طرح جواب
709 جواب دیتے تھے.حضرت نواب محمد علی خانصاحب کے سوائخ کے تعلیق میں اس امر کا تجربہ ہوا کہ آپ کا حافظہ بے مثل تھا.نہایت مفید مشورے آپ دیتے تھے.اگر میں وہ حاصل نہ کر سکتا تو بے شمار اغلاط شائع کرنیکا موحیب ہوتا.آپ نئی پود کی حوصلہ افزائی کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے.آپ نے از خود مجھے توجہ دلائی کہ مسودہ آپ کو دکھلاؤں.میں آپ کی ہمت کی پوری راد نہیں دے سکتا بعض رفعہ ڈیڑھ دو صد صفحات کا مسودہ میں نے ارسال کیا.اور آپ نے ایک ہی رات میں نہایت توجہ سے پڑھ کہ بیش قیمت نوٹ لکھ کر اور تصحیحات کر کے واپس کر دیا.آپ اپنی تصانیف کے باعث مالی پریشانیوں سے ہمیشہ دوچار رہے.لیکن آپ نے ان کی پر واہ نہ کرتے ہوئے اپنے کام کو عمر بھر جاری رکھا.آپ نے کام کی قدیر بعد میں آنے والے مورخین کی نظر سے ہم کہیں تو اس کا پورا تصور کرنا ناممکن ہے.آپ کی تصانیف موتیوں سے تو لے جانے کے قابل ہیں.آپ کے فرزند مرحوم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے آپ کے اس کام میں آپ کی بہت معاونت کی تھی.لیکن وہ عین جوانی ہی میں ۱۹۴۴ء میں راہی ملک بقا ہوئے.حضرت عرفانی صاحب اس وقت سے امادہ کر رہے تھے کہ کلیتہ قادیان آبیں.لیکن جلد بعد تقسیم ملک کے باعث اس ارادہ کو علی جانہ پہنا سکے.بعد ازاں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۵۴ ء میں آپ کو صدرانجمن احمد یہ تاریان کا مہر مقرر فرما دیا تھا اور ایک بار جبکہ آپ قادیان تشریف لائے ہوئے تھے.اس کے ایک اجلاس میں شریک بھی ہوئے تھے.لیکن باوجود ارادہ کے بعض روکیں پڑتی رہیں.اور آپ قریبا دو سال تک مختلف عوار من میں شدید بیمار رہے.بعض وقت کافی افاقہ بھی ہوجاتا رہا.لیکن تصنیف کا کام نہ کر سکتے تھے.اسی حالت میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا - إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - اصحاب احمد کے کام کے متعلق میری حوصلہ افزائی فرماتے رہتے تھے.اور اپنی بزرگی کے باعث بہت محبت کا اظہار فرماتے رہتے.، اور با وجود اس سارے عرصہ کی علالت کے سوائے ایک دو بار کے ہمیشہ ہی اپنے قلم سے مجھے خط تحریر فرماتے تھے.ابھی ہفتہ عشرہ قبل بھی آپ کا خط موصول ہوا تھا " اللہ تعالیٰ اس بزرگ کی روح کو اعلی علیین میں جگہ مرحمت فرمائے اور ان کی اولاد اور جماعت میں سے ان کے نفی قاسم پر چلنے والے نیک سیرت خادم سلسلہ پیدا کرتا ہے آمین (ماشیہ مت پر)
44.حضرت عرفانی الکبیر کی تحریر کا ایک نمونہ لم زنگ الرحمن الرحیم حمد وطے علم وسوته ریگرام مکرمی صاحبزادہ مرزا الله لهم دورتر الله و ماته استم بہت میری عورت نے دو لصمت مونے کے شک کریں عزیز مکرم داؤد اثر عرفانی نے مرے سلسلہ حقایق و امارات و قرائنہ چھ کے ۲۵وسٹ مکمل خدام الر حمدیہ کی قائم کردار نہ میر مریوں کے لئے وقف کئے کہنا کی قمیت قریباً کی آنے تجٹ ہے وہ صرف مولی ڈاک آنے جہائی جہاں آپ کی مجلس عاملہ منظور کر کرنگی میجر جاویں گے امید آپ نے اجتماع حدود شما اعلام کر کے فرست لیے بھجوا رات کے کیلے کے شکر گزار ہوتا اختبار الفصل میں ہی الله کر دیا جار هي (حاشیہ ۶ کا) سے بدر تاریان ۱۲ دسمبر ، ۶۱۹۵ مت
اش انصاراللہ کے لئے ا شریک به برانی قائم کرتی ہوئی اور نہ انتی ارایه میکردم کی سویرریوں کے لئے اور اسٹ تیر اناء رقبہ کی دئبریریوں کے لئے ہر ایک سیٹ غائیگا ۱۵۰ کتابوں پرمشتمل ہوگا میری قیمت ترقی کر رہی ہے اکھر سر لنے وا ناک دعا کرن کا تمام مریر درست خاکسار عرفانی اندر ساری الروایت بی رنگ سکندر کا مرکز دینیات کی پہلی کتاب، فیثا غورث کی لائف ، تقویم فیروزی ، رو تثلیث ، رو تناسخ تحفه سالانه یا رپورٹ جلسہ سالانہ (۶۱۸۹۷) ، امرتسر کی مادی ترقی کا اصل راز - الانذار (۶۱۸۹۸) - اصلاح النظر ۱۹۰۰ ء احمدی کا من ۱۹۰۲ ء - امداد باہمی ۱۹۰۲ ء تفسیر القرآن جلدا ۲۰ (۱۱۹۰۳ - ۱۹۰۵ء) لیکچر فضل حق ۱۱۹۰۵) خطبات کر یمیر ۱۹۰۵ء حصہ اول ١٩٠٣ء
۶۶۲ حقیقت نمازہ رسٹی (۱۹۰۷ء) - اسماء الحسنی (۱۹۰۷ء) دا دا ترجمة القرآن پاره پاره ۲ پاره پاره پاره م پاره ۲۳۰ تا ۳۰ بر ۱۹۰۸ء تا ۶۹۱۹) قرآن کریم اور اس کی اعجازی قوت ( ۱۹۰۹ ء) حضرت خلیفۃ البیع الاول کی پہلی تقریر ۱۲ مارچ ۱۹۰۹ء - قادیان - آئینہ حتی نما (۱۹۱۲ی احمدی اور اُن کا مذہب ۱۹۱۰ ء ، احمد می خانون جلد ۲ نمبر ۵ ۶۱۹۱۰ حیات النبی جلد اول نمبرا اشاعت ، در اکتوبر ۱۹۱۵ ء - جلد انزل نمر دوم اشاعت ۴۰ در دسمبر ۱۹۱۵ ۶ از ولادت تا تالیف براہین احمدیه و سلسله ملفوظات که بمیہ نمبر ۲ (۶۱۶۰۶) حیات احمد جلد دوم نمبر ا دل - اشاعت اگست ۶۱۹۲۱." نمبر دوم - دودنوں جلادیں ۱۸۷۹ء سے ۱۸۸۹ء کے حالات پر مشتمل ہیں) اشاعت مارچ ۱۹۳۴ ۶ - حیات احمد جلد دوم نمبر سوم ۱۸۸۴۱ ۶ تا ۶۱۸۸۸) اشاعت دسمبر ۶۱۹۵۱ حیات احمد جلد سوم ( ۶۱۸۸۹-۶۱۸۹۲) اشاعت اگست ۶۱۹۵۲ حیات احمد جلد چهارم (۶۱۸۹۳ ۱۸۹۷۰ء) اشاعت اگست ۶۱۹۵۳ حیات احمد جلد پنجم ( ۲۱۸۹۸-۱۹۰۰ء) اشاعت دسمبر ۱۹۵۴ فر حیات احمد جلد ششم راس کے سرورق پر بھی سو جلد نجم ہی چھپا ہے، یہ جلد ۱۹ء سے ۱۹۰۲ ء تک کے واقعات پرمشتمل ہے اشاعت اپریل ۱۹۵۶ ء سلک مروارید حصہ اول - حصہ دوم ۶۱۹۱۸ احمد می عورتوں کے فرائض (۱۹۲۳ء) حیات ناصر ۶۱۹۲۷) سیرت حضرت..........اماں جان حصہ دوم فروری ۶۱۹۴۵ اسماء القرآن في القرآن' دستمبر ۱۹۴۷ء) قرآنی دعاؤں کے اسرار (۱۹۴۸ء)
۶۶۳ " اعجاز القرآن ما یثبت بالقرآن اکتوبر ۱۹۴۹ء البيان في اسلوب القرآن (۱۹۴۹ء) کتاب الصيام رمئی ۱۹۵۰ء) کتاب الحج (نومبر ۱۹۵۰ء) ذکر حبیب دسمبر (۱۹۵۰ء) امثال القرآن (۱۹۵۰ء) رحمة للعالمين في کتاب مبین حصہ اول - دوم (۱۹۵۰ء) كتاب المذكورة (+1901) كتاب الآداب حصہ اول نومبر ۱۹۵۱ء احکام القرآن حصہ اول (مارچ ۱۹۵۲) حصہ دوم ( نومبر ۶۱۹۵۲ ) حکمت الرحمن في آيات القرآن (جنوری ۱۹۵۳ء) تاریخ العران (۱۹۵۳) تقسیم القرآن (جنوری (۶۱۹۵۵ مقطعات قرآنی کی فلاسفی حیات حسن حیات حضرت میر ناصر نواب صاحب نظام تو می ۲ر دسمبر ۶۱۹۰۸ - قادیان * دوسری جنگ مقدس (جلد اول) حسان پدر معرفت الہی کے وسائل لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ تہذیب (بچوں کے لیے) " ارمغان عرفانی فی حیات عثمانی "
۶۶۴ معاهد المسيح سیرت مسیح موعود (جلد اول تا پنجم) مشاہدات عرفانی محامد المسیح و قادیان سے اولاد دشمنی شیخ محمود احمد صاحب عرفانی الاسدی (مجاہد مصر د مدیر الحکم) شیخ یوسف علی صاحب عرفانی الاسدی شیخ داؤد احمد صاحب عرفانی الاسد می ۱۸ حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحب آن ممبئی ز ولادت ۶۱۸۷۳ - بیت ۱۸۹۶ء - وفات مار دسمبر ۱۹۵۷ء) حضرت سیٹھ صاحب تحر یہ فرماتے ہیں :.مائیں ۱۸۹۳ء میں پنجاب کے اردو اخبارات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خلاف مضامین دیکھ کہ اس طرف متوجہ ہوا کہ یہ صاحب مدعی مهدویت وسیحیت کون ہیں ان کی تعلیم کیا ہے.ان کا دعونی کیا ہے.کہ پیسے بچے وہ مہدی آخرالزمان اور مسیح ابن مریم بونی کا دعوی کرتے ہیں.یا اخبارات خص سے ایسے مضامین لکھ رہے ہیں.پہلے میں نے زبانی طور سے اپنے حلقہ احباب میں تحقیق اور تفتیش شروع کی.مگر پھر خیال کیا کہ زبانی باتوں سے تسلی نہیں ہوگی.بہتر ہے کہ ان کی تصنیفات دیکھوں.اس لیے برا ہیں احمدیہ سے لے کہ آئینہ کمالات اسلام تک کی تمام تصنیفات بذریعہ دی پی منگوا کر پڑھیں.لیکن ان کتابوں کے پڑھنے میں سستی اور غفلت کی وجہ سے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ گزر گیا.آخر دل نے گواہی دی.کہ یہ شخص سچا ہے ؟ کا محرم مولوی محمداسماعیل صاحب ذکیل یا دیر کے نام معنون، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الاسامی کی تصانیف اور آپ کا کام آگزبیر عنوان اخبار بدر قاریان (۲۳ جنوری ۱۹۵۸) میں شائع ہوا تھا جو منیمہ میں شامل ہے : سے العضل ۲۹ جنوری ۱۹۵۸ د هر که دارد ستمبر ۱۹۵۷ دست I
440 اس کے بعد اپنی قوم تھی یمن کے ایک پیشوا جن کے سلسلہ بیعت میں میرے والد صاحب اور میرے دوسرے بزرگ رشته دار بھی منسلک تھے.علاوہ اس کے کچھ بھیا دار سندھ ممبئی وغیرہ کے دوسرے مسلمان بھی قریب دو لاکھ اشخاص ان کے مرید تھے.اور میں بھی اپنی پندرہ سولہ سالہ عمر میں ان کو مل چکا تھا.وہ بیٹی میں ہر سال قریباً آیا کرتے تھے.اور پیر سائیں جھنڈے والے کے نام سے مشہور تھے.۱۴۹۵ء کے آخر یا ۱۸۹۶ ء کے اوائل میں میں نے ایک خط بزبان فارسی ان کو لکھا.کہ ہم تو دنیا دار ہیں اور روحانی آنکھوں سے اندھے ہیں.اور آپ لاکھوں انسانوں کے پیشوا اور راہنما ہیں.صاحب بصیرت نہیں.لہذا آپ طفاً جواب دیں.کہ یہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مدعی مہدویت مسیحیت اپنے دعوئی میں صادق ہیں یا کا ذب.اگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا.اور وہ سچے ہیں.اور ہم ہدایت سے محروم ہو گئے تو آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کے ذمہ دار ہیں.اندر اگر وہ جھوٹے ہیں اور ہم نے نادانی سے ان کو مان لیا.تو ہماری گرا ہی کا وبال بھی آپ کے سر پر ہے.اس کا جواب بعد القاب آداب سوال منفسرہ کے بارے میں انہوں نے مجھے لکھا.کہ شہادت اول:.ہمارے سلسلہ کا دستور ہے.کہ با بین نماز مغرب و عشاء ہم اپنے مرید دں کے ساتھ حلقہ کر کے ذکر اللہ کیا کرتے ہیں.ایک روز اس حلقہ میں بحالت کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم نے دیکھا.توہم نے آپ سے سوال کیا.کہ یا حضرت یہ شخص مرزا غلام احمد کون ہے.تو آپ نے جواب دیا " از ماست" شہادت ودم : ہمارے خاندان کا وطیرہ ہے.کہ بعد از نماز عشاء ہم کسی سے کلام نہیں کرتے اور سو جاتے ہیں.یہی سنت رسول ہے.ایکدن خواب میں ہم نے آنحضرت صلعم کو دیکھا.تو ہم نے سوال کیا.کہ حضور مولویوں نے اس شخص پر کفر کے فتوے لگا دیئے ہیں.اور اس کو جھٹلاتی ہیں تو.آپ نے ارشاد فرمایا " در عشق ما دیوانه شده است شہادت سوم : - ہمارا سلسلہ اور خاندان تہجد گزار ہے.اس لیے ہم روزانہ رات کو 3 بجے کے بعد اٹھتے ہیں.اور نماز تہجد پڑھ کر کروٹ پر لیٹے رہتے اور اسی وضو سے صبح کی نماز پڑھتے ہیں کہ یہ بھی سنت رسوں سلطعم ہے.ایک دن اسی کروٹ لینے کی حالت میں کچھ غنودگی طاری ہوئی.اور آنحضرت مسلم تشریف فرما ہوئے.اس وقت ہماری حالت نیند اور بیداری کے درمیان تھی.تو ہم نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کی یارسول قد
474 اب تو سارا ہندوستان چھوڑ عرب کے علماء نے بھی کفر کے فتو سے دیدیئے.تو آپ نے بڑے جلال میں تین بار ڈیرا کہ فرمایاء هو صادق - هو صادق - هو ما دق یہ ہے سچی گواہی جو ہمارے پاس ہے ہم آپ کی قسم سے سبکدوش ہو گئے.ماننا نہ مانا آپ کا کام ہے.ماتم رشید الدین پیر صاحب العلم : اس کے بعد جولائی یا اگست ۱۸۹۶ ء میں میں نے حضرت اقدس کی تحریر ی بیعت کرلی.خاک اره اسمعیل آدم وله - حضرت عزنانی الکبیر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈمیری موسس الحکم آپکے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں سلسلۂ بیعت میں داخل ہونے کے بعد کل کا اسمعیل یا لکل بدا، گیا اور حقیقی معنوں میں ابدال ہو گیا.قابلیت موجود تھی، اخلاص تھا.اس سلسلہ میں اگر تو تھی کرتا چلا گیا.اور پھر وہ بیٹی کے سلسلہ کا آدم قرار پایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عاشقانہ رنگ میں اخلاص ہے اور سلسلہ کی خدمت میں انہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں......خلافت ثانیہ کی اول ہی بیعت کر لی مگر بعد میں شیخ رحمت اللہ صاح مرحوم ! اور دوسرے لاہوری احباب کے اثر میں لاہور سے تعلق رہا گھر قادیان سے قطع تعلق نہ کیا نہ نفسیخ بیعت.بالآخر اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ اصل مرکز سے کامل طور پر وابستہ ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام سے بڑی محبت تھی اور اسی محبت کے اظہار کو خاکسار عرفانی نے بارہا دیکھا.۱۸۹۸ ء سے مجھے شرف ملاقات نصیب ہوا اور اس تعلق مودت و اخوت میں ہر نئے دن نے ترقی بخشی......حضرت سیٹھ صاحب اب کاروباری سلسلہ سے ریٹائر ہو کر سلسلہ کے کاموں میں مصروف ہیں اور جماعت احمدیہ بمبئی کے امیر ہمیں.حضرت سیٹھ صاحب کے فرزند سیٹھ ہاشم صاحب نے مولانا عبد المالک خان صاحب فاضل مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ کراچی کو بتایا کہ ایک دفعہ متعدد علما رتے والد صاحب کو لکھا کہ آپ اکیلے ہوں گے اور ہم سب آپ کو سمجھانے آئیں گے.آپ نے ان کی اس بات کو منظور کر لیا اور اس طرح بجائے اس سے کہ رہ سمجھاتے خدا نے والد صاحب کے لیے تبلیغ اور اتمام حجت کا مرقعہ پیدا کر دیا اور آپ ل الفضل یکم دسمبر ۱۹۱۳ ء م : سے مکتوبات اصد یہ نمبر نیم متن ۳ د مل۳۰ مرتبہ حضرت عرفان الکبیر مطبوعہ مطبع نظام دکن حیدر آباد دکن.
746 نے دل کھول کر ان کو تبلیغ فرمائی.ایک موقعہ پر آپ نے ابتدائی زمانہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کو لکھ کہ میں تین رفت یعنی ظہر و عصر اور مغرب کی نمازیں مسجد میں ادا کرنے جاتا ہوں.لیکن تینوں وقت مجھے شدید گالیاں سنی پڑتی ہیں جضور نے جواب میں تحریر فرمایا کہ آپ جمعہ کی نماز زین العابدین ابراہیم صاحب انجینر کے ساتھ پڑھا کریں.وہ مخلص احمدی ہیں.اور باقی نمازیں آپ دکان ہی پر ادا کر لیا کریں.حضرت سیٹھ صاحب پہلی بار ۱۸۹۸ء میں تادیان تشریف لائے.ازاں بعد ارا اپریل ۱۹۰۰ ء کو آپ کو خطبہ الہامیہ حضرت اقدس کی زبان مبارک سے سننے کا شرف حاصل ہوا.اس موقعہ پر ہیں ، اتنی میں بعد نماز عصر ایک گروپ فوٹو بھی لیا گیا جنہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السّلام اور آپ کے خدام ہیں.اس گروپ فوٹو میں حضرت سیٹھ صاحب بھی شریک ہیں.اکتوریه ۱۹۱۷ ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی شادی ہوئی.اس مبارک تقریب پر حضرت سیٹھ صاحب نے ایک عمدہ سرخ رنگ کی منی ٹوپی بنوائی اور اس پر یہ الہام لکھوایا.مظهر الحق والعلاء كان الله نزل من اسماء اور حضرت اقدس سے درخواست کی کہ نکاح کے وقت یہ ٹوپی دولہا کو پہنا دی جائے اس کے علاوہ ایک شیمی اوڑھنی جس میں زرین نیتے وغیرہ ٹانکے تھے امن کے لیے بھجوائی یہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس محبت آمیز تحفہ پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے اپنے دوبہت مبارک سے ۳۰ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو مندرجہ ذیل خط آپ کے نام تخریبیہ فرمایا.له الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۵۸ ء مره
۶۶۸ عکس مکتوب سید نا حضرت مسیح موعود 1902 - 10 - 30مه Rain كم الله التابع 3-11-19.2 مجھی شریک آر امور سلام یا اور ورحمته السور رعاش آشنا محبت اور خصوصی نحطه حوانی بر خوروز محمد اور سید کی شادی.تقریب ہورہی ہے لیے ایک ولی او را ا ا ا ا ا ا ا ا ت کا انکار کرتا ہوں اور رین اور دنیاسین ان ان از این رو دارم ہوا مال احمد علیم احمدی جهت را حضرت اقدس کے مکتوب کا یہ مکس حضرت سیٹھ صاحب کے پسران آدم اسمعیل صاحب رہاشم اسمعیل صاحب کراچی کے ایک رسالہ " حضرت سیٹ اسمعیل آدم بمبئی دالنے کے مڈ سے ماخو ر ہے جسے خواجہ محد اسمعیل صاحب کمیٹی نے مرتب کیا تھا.مطبوعہ لیتھو آرٹ پریس کراچی.
۶۶۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۳۰ راکتور بر داد مجھی عزیز می السویم سیٹھ اسمعیل آدم صاحب نَحْمَدُة وتصلى السلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا محبت اور اخلاص کا تحفہ جو آپ نے بر نخور دار محمود اور بشیر کی شادی کی تقریب پر بھی ہے یعنی ایک طویل اور ایک اور منی پہنچی گیا ہے.میں آپ کے اس محبانہ تحفہ کا شکر کرتا ہوں اور آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دین و دنیا میں اس کا اجر بننے.آمین باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عند مندرجہ بالا مکتوب اور اس کے علاوہ پندرہ مزید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوباست، حضرت عرفانی انگیر نے مکتوبات احمدیہ جلد مجسم نمبر نیم (م۳ تا مسا۳ ) میں شائع فرما دیتے ہیں.حضرت سیٹھ صاحب ایک لمبا عرصہ تک جماعت احمد یہ بیٹی کی امارت کے فرائض کامیابی سے سرانجام دیتے رہے.آپ وسیع دینی معلومات رکھتے تھے اور بڑے بڑے لوگوں کو تبلیغ سے قائل کر لیا کرتے تھے.مرکز سے آنے والے ہر شخص کی خواہ مبلغ ہو خواہ تحریک جدید وقف تجارت سے تعلق رکھنے والا آپ اس کی بے حد عزت کیا کرتے اور اس کا خیال رکھتے.بنی نوع انسان کی ہمدردی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.آپ تہجد گزار تھے.قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۸ء میں آپ نے کراچی میں مستقل بودد باش اختیار فرمال اور باوجود ضعیفی کے جمعہ اور جماعت کے دیگر عام اجتماعات میں شرکت، فرماتے.پہلی بار جب چو ہدری عبد اللہ خان صاحب جماعت احمدیہ کراچی کے امیر منتخب ہوئے تو اس جلسہ کی صدارت آپ نے فرمائی یہ حضرت سیٹھ صاحب تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے اور آپ کا اسم گرامی مطبوعہ فہرست کے مرہ پر شائع شدہ ہے.اولاد : ۱- آدم اسمعیل صاحب کراچی ۲۰ - اسم استعطیل صاحب - کراچی له الفضل ۱۲۲ جنوری ۱۹۵۸ رصه مد ساله حضرت سیٹڈ اسمایل آدم بی والے مرتبہ خواجہ میرا ایمیل آن بھٹی سی پر لالو کھیت کراچی.۱۹
46.-۱۹ حضرت شیخ نجد الحق صاحب سابق معاون ناظر ضیافت قادیان 19 وفات ۲۷ دسمبر ۱۹۵۷ء) آپ ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے وہاں کوئی گرلز سکول نہ تھا.آپ کے خاندان کی کوئی آٹھ دس بچیاں تھیں جنہیں آپ نے خود قرآن شریف اور اس کا ترجمہ پڑھایا.پانچویں جماعت کا پرائیویٹ امتحان دلوایا پھر آٹھویں جماعت کی تیاری کے ساتھ ساتھ حدیث ، فقہ اور سلسلہ احمدیہ کی کتا نہیں پڑھا نہیں.آپ کی تبلیغ سے کئی سعیدے وچوں نے احمدیت قبول کی ، منکسر المزاج اور طیم الطبع بزرگ تھے گر عموما سلسلہ احمدیہ کے مسائل بیان کرتے وقت طبیعت میں جوش آجاتا اور آواز بلند ہو جاتی.ایک بار آپ کے گاؤں کے ایک مولوی صاحب نے ایک رسالہ پنجابی نظم میں لکھا جس میں حضرت مسیح موعود کی شان اقدس میں گستاخانہ الفاظ استعمال کیے.حضرت شیخ صاحب نے اس رسالہ کا جواب پنجابی نظم میں لکھا اور شائع کرایا.آپ کی صاحبزادی عنایت بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ :.: " وفات سے قریبا ہفتہ عشرہ پہلے اپنے بیٹے کو اور مجھے پاس بلاکر کہا خلافت سے وابستہ رہنا ماں باپ اولا دکو غلط راہ پر نہیں لگاتے.میں نے معجزات دیکھتے ہیں.اپنی آنکھوں سے صداقت دیکھی ہے خلافت کے بغیر ایمان کامل نہیں رہتا اور بہت سی نصیحتیں کیں اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے بہت دعائیں کرتے تھے نماز باجماعت ادا کرتے اور تہجد بھی پڑھتے تھے نیک مشورہ دینا.بڑے کاموں سے روکنا نیک کاموں کی ہدایت کرنا لڑائی جھگڑا میں صفائی کرانا ذکر الہی میں مشغول رہنا ترتیب مسکین مسافروں کو کھانا کھلانا اور مہمان نوازه می ان کا شیوہ مقالے حضرت مصلح موعود نے ۲۸ دسمبر ۱۹۵۷ء کو جلسہ سالانہ کے سیٹ پر آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کا تذکرہ کرتے ہوے ارشاد فرمایا کہ یہ اس رفیق کا جنازہ ہے جس نے کئی نشان دیکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت له الفضل ، فروری ۱۹۵۸ء مث : کے یہاں "صحابی" کا لفظ تھا
کی مھتی ہے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب نے آپ کی وفات پر لکھا کہ : - یہ جنازہ جو کہ خدا تعالیٰ کے موعود خلیفہ الصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتداء میں قریباً ستر ہزار مومنین نے ۲۸ دسمبر کو پڑھا اس پیارے وجود کا تھا جس کا دل سلسلہ کے اخلاص میں ڈوبا ہوا اور پر سرور اور چہرہ پر لور اور بشاشت سے بھر پور تھا.یہ جنازہ شیخ عبدالحق صاحب.......کا تھا.ہاں اس خوش قسمت انسان کا جس کے متعلق نمانہ ادا کرنے سے پہلے حضرت امام ایده اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ:.یہ اس رفیق کا جنازہ ہے جس نے کئی نشان دیکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی مفتی ! ہمارا عبدالحق ہر طرح پیار کے لائق تھا کیونکہ اس کا دل محبت اور پیار سے پڑ رہتا تھا جین کی وجہ سے وہ اپنے دوستوں کو نہایت خندہ پیشانی سے ملتا اور بغل گیر ہوا کرتا تھا.اس کی پر یکف نظر اس خاکسار پر پڑا کر تی تھی اس طرح کی باربار کی توجہ خاص نے میرے دل کو بھی محبت کرنے پر مجبور کر دیا اور میرا دل اس قدر فریفتہ ہوگا کہ ہر وقت اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتا تھا.حبیب یہ محبوب دل کی بیماری کی وجہ سے ربوہ سے باہر چلا گیا تو میں ان کے فرنہ ند ارجمند مولوی عبد الواحد صاحب سابق مبلغ ایران سے بار بار پوچھا کرتا تھا کہ شیخ صاحب کب ربوہ آئیں گے.اور وہ کیوں یہاں ہی ہیں رہنے اور بار بار میں پیغام بھجوایا کرتا تھا کہ آپ یہاں آجائیں یہ ایک دن کی بات نہ معنی ایک بار کا تقاضا نہ تھا بلکہ دو سال بلکہ اس سے زیادہ عرصہ میں بیسیوں بار خیر و عافیت اور ربوہ تشریف لانے کے متعلق دریافت کیا کرتا تھا وہ اپنی شدت مرض کی وجہ سے ربوہ نہ آ سکے لیکن میرے خدا نے مجھے کراچی لے جا کہ فروری ۱۹۵۷ء ۱۹۵۷ء میں ان کی زیارت کرادی.چونکہ پیاس بجھی نہ معنی.اس لیے اس کے دو تین ماہ بعد میں نے مولوی صاحب موصوف سے پھر دریافت کرنا شروع کر دیا کہ شیخ صاحب کب آئیں گے.تو ان کا یہی جواب ہو تا تھا کہ بھی کچھ پتہ نہیں اس پر میں ہمیشہ میں کہاکرتا شده در نامه العضل ۱۳ جنوری ۱۹۵۸ء م۵
764 تھا کہ ان کو میری طرف سے لکھیں کہ اب یہیں آجائیں.ڈرنے کی کون سی بات ہے.دیار محبوب ہی ہے گھر یا اگر رخصت کا وقت بھی آگیا تو عین دلی خواہش کے پورا ہونے کے مترادف ہوگا.چنانچہ وہ اپنی خوش قسمتی کے سایہ میں آیا اور اپنی مراد کو پہنچ گیا لیے اولاد مولوی شیخ عبد الواحد صاحب مجاهد چنین ، ایران ، دنجی دوسرے مخلصین سلس کا ذکر خیر ۱۹۵۷ ء میں کبار اصحاب مسیح موعود کے علاوہ سلسلہ کی کئی اور نہایت مخلص اور یگانہ روزگار شخصیات داغ مفارقت دی گئیں جن کا ذکر مختصر آ ذیل میں کیا جاتا ہے.۱.صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب آن ٹوپی مردان رصفات ۱۹ اپریل ۱۹۵۷ء) صاحبزادہ صاحب ۱۹۱۰ء میں حضرت خلیفہ المسیح الاول کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے.آپ محکمہ نہر میں مضعدار تھے.نہایت جرمی اور پر توش داعی الی اللہ تھے آپ کے خلاف مخالفت کے شدید طوفان اٹھے.خاصی جائیداد سے محروم ہونا پڑا.کئی جگہ آپ پر پتھراؤ کیا گیا.مگر آپ ہرا ابتداء میں قدم آگے ہی آگے بڑھانے گئے خدا نے مخالفین کا زور توڑ دیا اور اُن کے عمدہ نمونے سے کئی لوگ احمدی ہو گئے.صاحب ردیا تھے، حکیم محازق بھی تھے اور ہمیشہ غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کرتے تھے اور معذوروں کے گھر پہنچ کر طبی امداد پہنچاتے تھے پہلی جنگ کے بعد انفلوئنزا کی وباء پھیلی تو آپ نے سینکڑوں گھروں میں جاکر علاج کیا.صاحبزادہ صاحب مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھے.قبول احمد میت کے بعد انہیں اپنی خاصی جائیداد اور ملازمت سے محروم ہونا پڑا.بایں ہمہ انہوں نے کسی مہمان یا غریب صاحبت مند کو خالی نہیں جانے دیا.بعض دفعہ اپنے گھر کی قیمتی چیز فروخت کر کے حاجت مندوں کی حاجت پوری کر دی قیام پاکستان کے موقعہ پر آپ اپنی جائیداد به روزنامه الفضل ریوه ۱۳ جنوری ۱۹۵۸ و مث
۶۷۳ یچ کر مسافروں اور بھوکوں کو کھانا کھلاتے رہے.اپنے علاقہ کے اکثر غریب احمدیوں، یتیموں اور بچوں کے نیام دعام کا انتظام فرماتے اور تکمیل تعلیم تک طالبعلموں کی فیس بھی اپنی جیب سے دیتے تھے.خاندان حضرت مسیح موعود کے ساتھ ایک والہانہ عقیدت مفتی عمر کے آخری ایام میں بوجہ بیماری و کمزوری ربوده نہیں جا سکتے تھے اس لیے ربوہ جانے والوں کو گلے لگا کر انہیں پر نم آنکھوں الوداع کہتے اور مرد ؟ فردراً خاندان کے افراد کا نام لے لے کہ انہیں السلام علیکم کا پیغام بھیجتے.صوبیدار عبد الغفور خاں صاحب سابق نائب افسر حفاظت مصلح موعود کا بیان ہے کہ :.- چونکہ میں اکثر ربوہ جاتا رہتا تھا اس لیے مجھ سے بہت خوش رہتے اور میرے لیے بہت دعائیں کرتے.جب میں ربوہ سے واپس جاتا تو میرے ساتھ بار بار مصافحہ کرتے اور کہتے تم نے حضرت........ایدہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کیا ہے اور سارا دن واقعات دریافت فرماتے.مجھے اکتوبر ۱۹۵۶ء میں حضرت ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت عالیہ میں نائب افسر حفاظت کے طور پر طلب کیا گیا تو میں نے صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں اپنے جملہ واقعات پیش کیے.جس پر صاجزادہ صاحب نے فرمایا کہ تم فوراً جاؤا در یہ معاملات خدا تعالی پر چھوڑ جاؤ.یہاں کی تمام ضروریات ہم پوری کریں گے یہ ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ تم کو ایسی خدمت کا موقعہ ملا ہے اس پر میں تو کل کر کے اس خدمت کے لیے چلا آیا ہے نواب اکبر یار جنگ صاحب سابق حج ہائیکورٹ حیدر آباد دکن روقات ۱۵ ۱۶ جون ۱۹۵۷ ء لعمر ۸ سال) حضرت نواب صاحب سلسلہ کے ایک نہایت مخلص اور پرانے مقتدر عالم ، صاحب اثر ورسوخ شخصیت اور اعلیٰ پایہ کے قانون دان تھے.حیدر آباد ہائیکورٹ ہیں ان کے فیصلوں کو بطور نظیر اور مثال پیش کیا جاتا تھا.سلسلہ کی تحریر ہی اور تقریری خدمات میں بھی آپ کا مقام بہت بلند تھا اور اپنے دنیوی وقار اور اعلیٰ حیثیت کو ہمیشہ دینی خدمات اور سلسلہ کی ترقی کے لیے استعمال فرماتے تھے.بسا اوقات حیدر آباد کے امراء اور وزراء کو اپنے مکان پر مدعو کر کے پیغام حق ا الفضل ۲۹ مٹی ١٩٥٧ و مث : الفضل ۲۰ رجون ۱۹۵۷ء مره
پہنچاتے تھے.۶۴ آپ نہایت مخیر ، غریب پرور اور مثالی مهمان نواز بزرگ تھے آپ کے دستر خوان پر روزانہ ایک جماعت شامل ہوتی.سید نا حضرت مصلح موعود اور خاندان حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السّلام کے ساتھ والہانہ عشق تھا جب آپ منصفی کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے تو سیدنا حضرت مصلح موعود نے آپ کو وکالت کرنے کا ارشاد فرمایا.ایک ایسے شخص کے لیے جو اسی عدالت میں ایک عرصہ دران تک بج رہا ہو بطور وکیل پیش ہونا عزت نفس کے خلاف سمجھا جاسکتا ہے لیکن آپ نے اپنے پیارے اور مقدس آقا کے ارشاد کی نہایت انشراح صدر اور خندہ پیشانی سے تعمیل کی.اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس خلوص اور عقیدت کو بہت نوازا اور وکالت کا کام آپ کے لیے بہت نفع مند اور مفید اور ہا برکت ثابت ہوا آپ اردو زبان کے بلند باہم اور صاحب طرز ادیب اور عربی اور فارسی کے بھی جید عالم تھے طبیعت بہت فهمید، باوقار ادیہ سکھی ہوئی پائی تھی اور مطالعہ بہت وسیع تھائی حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب مرحوم کے قریبی عزیزوں میں سے اور اصل وطن قائم گنج ریوپی ، تھائیے آپ کے وصال پر اخبار صدق جدید" رکھنو) نے ۲۸ جون ۱۹۵۷ ء کی اشاعت میں یہ نوٹ شائع کیا.دکن کی حیزب ۱۶/۱۵۰۴ جون کی درمیانی شب بلده حیدر آباد میں اکبر بار جنگ نے وفات پائی اور ار تجون کو مدفون ہوئے.نام غلام اکبر خان تھا.وطن قائم گنج ضلع فرخ آباد تھا.مگر نو عمری ہی سے حیدر آبادی ہو گئے تھے اب سن سے کچھ اوپر ہی ہوگا ایک زمانہ میں نامور وکیل تھے.پھر ہائیکورٹ کے حج ہو گئے.چند سال ہوم سیکرڑی رمعتمد امور عامہ و تعلیمات و تعمیرات وغیرہ ) کے با اقتدار عہدہ پر فائز ہوئے صدق و مدیر صدق دونوں سے حسن ظن شروع سے قائم رکھے ہوئے تھے.اپنی قانونی مہارت کے علاوہ اپنی فیاضی جهان نوازی اور خلق اللہ کی قدرت وحسن سلوک کے لیے ممتاز تھے.قادیانی یا احمدی تھے.لیکن علماء اہل سنت سے بھی گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے.مولانا سید سلیمان ندوقی، مولانا مناظر حسن گیلانی، مولانا عبدالباری نددتی، اور ایمدان مدیر صدق پر بڑا اعتماد رکھتے تھے اور مشہور که پاره هرجون ۱۹۵۷ ء ما : له الفضل ٢٠ حجون، ١٩٥ ء صا
460 فاصل مفتی محمود حسن خان ٹونکی صاحب معجم المصنفین کو تو سالہا سال اپنا معزز مہمان بنائے رکھا گیے ۳ - مولوی سید عبد السلام صاحب مرحوم دار لیسه) (وفات اار اکتو به ۶۶۱۹۵۷) مولوی شیار عبد السلام صاحب آن آربیبہ ، حضرت مولوی سید عبد الرحیم صاحب کے صاحبزادہ پتھے جو اڑیسہ کے اولین اصحاب مسیح موعود میں سے تھے.مولوی سید عبد السلام صاحب نے قادیان میں مولانا جلال الدین صاحب کے ساتھ مولوی فاضل کا امتحان اصلا نمبروں میں پاس کیا بعدہ کچھ عرض تعلیم الاسلام ہائی سکول میں معلم رہے پھر وطن آگئے اور گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈ مولوی مقرر ہوئے اور عرصہ ملازمت میں سلسلہ تبلیغ بھی جاری رکھا آپ اعلیٰ درجہ کے مقرر اور کامیاب مناظر تھے اور فریق مخالفت کو لاجواب کر دیتے تھے.آپ کے دو مناظرے ہمیشہ یادگار رہیں گے ایک مناظرہ تین چار علماء سے سونگھڑہ میں مولوی سید غلام رسول صاحب پولیس سب انسپکٹر کی خواہش پر سب انسپکٹر کے مکان پر ہوا.بحث کئی روز تک جاری رہی بالآخر جب سید غلام رسول صاحب نے دیکھا کہ ان کے علماء نے ہر موقعہ پر ہزیمت اٹھائی ہے اور وہ احمدیت کے دلائل سے عاجز آ گئے ہیں تو انہوں نے انہیں مخاطب کر کے کیا کہ یں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برا بہ بھی ایمان ہو گا تو اس پہاڑ سے کہ سکو گے کہ یہاں سے سرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تمہارے لیے ناممکن نہ ہو گی ! رمتی باب ۱۷ آیت (۲۰) یہ حوالہ پیش کر کے مولوی عبد السلام صاحب نے پادری صاحب سے فرمایا کہ پادری صاحب پہاڑ تو دور کی بات ہے یہ لیمپ جو میز پر رکھا ہے آپ کے کہنے پر ٹل جائے تو ہم سمجھیں گے کہ آپ واقعی یسوع مسیح کے پیرو ہیں اور آپ میں ایمان کی کچھ خو بو ہے پادری صاحب بہت سٹ پٹا گئے اور گھبرا کر ایک نوٹ نکال کر دکھایا اور فرمانے لگے کیا آپ اس جماعت میں سے ہیں.؟ ے والد بلدیہ اور جولائی 1906 ومت کالم ۴
464 وہ فوٹو حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ امریکہ کا تھا.مولوی صاحب نے بڑی جرات سے جواب دیا الحمد للہ میں اسی جماعت میں سے ہوں اور احمدی ہوں.پادری صاحب نے مسلمانان بالبیر کو اشتعال دلاتے ہوئے کہا کہ آپ کے علماء تو ان پر کفر کا فتوی دے چکے ہیں.اب آپ خوشی خوشی اپنے مکانوں کو تشریف ے جائیں کیونکہ مجھ کو احمدی عالم نے دلائل و براہین کے ذریعہ اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اور پھر بھری مجلس میں اپنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا.دو سر مناظرہ جس میں آپ کو فتح میں حاصل ہوئی بالیر کے مشہور پادری اور مشنری کالج کے پروفیسر پادری عبدالسبحان کے ساتھ ہوائیے پادری صاحب نے اسلام کے خلاف آگ سی لگا دی تھی.معزز مسلمانان با سیر جوسب غیر احمدی تھے پادری صاحب کے جوابات کی تاب نہ لاکہ آپ کی خدمت میں آئے آپ نے مظلوم مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر انہیں تسلی دی اور پادری صاحب کے چیلنچ کو منظور کر لیا اور ساتھ ہی نصیحت فرمائی کہ پادری صاحب کو بحث سے پہلے ہرگز یہ نہ بتانا کہ میں احمدی ہوں ورنہ دہ فرار ہو جائیں گے.بہر حال مناظرہ طے ہو گیا.آپ نے ابتداء ہی میں ابھی اسلام کی تائید اور عیسا نیست کے رد میں دو چار دلائل دیئے تھے کہ پادری صاحب بدحواس سے ہو گئے.محترم مولوی صاحب نے پادری صاحب کو للکارتے ہوئے بڑے زور دار الفاظ میں انجیل کے حوالہ سے حضرت یسوع مسیح کا بہ قول پیش کیا.اس پر پادری صاحب کہنے لگے کہ آپ لوگ بیٹھنے سمجھائے کسی شخص کو میرے پاس لے آئے ؟ مگر غیور مسلمانوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ یہ ہمارے مولوی صاحب ہیں یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے آپ اس وقت ہمارے مولوی صاحب کے سوالوں کے جوابات دیں.اس طرح پادری صاحب کا یہ آخری وار خالی گیا اور وہ دوسرے ہی روز فرار ہو گئے ہیں شه بہ دار جولائی کا واقعہ ہے اور الفصل ۸ راگست ۱۹۳۳ ء مسٹ پر اس کی تفصیل شائع به شدہ ہے د تاریخ احمدیت جلد ، کار ۱۲۹ سے اخبار بدر ۲۱ نومبر ۱۹۵۷ء مث ر خلاصه مضمون جناب مکرم سید محمد موسی صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ )
466 خالد احمدیت مک عبدالرحمن صاحب غلوم گجراتی کی وفات ۱۹۵۷ء کے عام الحزن کا اختام خالد احمدیت حضرت ملک عبدالرحمن خادم صاحب بی اسے ایل ایل بی وکیل گجرات کے المناک قومی سانحہ وفات پر ہوا.حضرت ملک صاحب سلسلہ احمدیہ کے بلند پایہ مناظر ، نامور مصنف ، مخلص و غیور خادم شگفتہ مزاج ، قانون دان اور نکتہ رس اور متجر عالم دین تھے.آپ حضرت برکت علی صاحب کے لخت جگر تھے.اور سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے عہد مبارک میں ۱۳ نومبر ۱۹۰۹ ء کو (مطابق ۲۹ شوال ۱۳۲۷ ہجری بروز ہفتہ) پیدا ہوئے دیعنی سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ المسیح الثالث کی ولادت با سعادت سے صرف تین روز قبل آپ نے مڈل کا امتحان ہمشن اسکول گجرات سے اور میٹرک انٹر میڈیٹ کالج گجرات سے ۱۹۲۶ ء میں کیا ۱۹۲۰ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایٹ بنے.فرماتے تھے کہ اس وقت سارے کالج میں صرف یک واحد مسلمان سٹوڈنٹ تھا جس نے له والد ماجد کا نام ملک وزیر بخش ولادت قریباً ۱۸۶۹ء دنات ۱۲۰ دسمبر ۱۹۵۱ د حضرت ملک برکت علی صاحب گجرات سے تعلیم حاصل کر کے بغرض لماذمت لاہور میں مقیم تھے اور پیر جماعت علی شاہ کی بعیت میں تھے کہ آپ کو ا کا ڈنٹنٹ جنرل لاہور کے ایک غیر احمدی میاں شرف الدین صاحب کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کی پر معارف کتب کے مطالعہ کا موقعہ ملا ازاں بعد اعظم اور لیکھرام سے متعلق پیش گوئیوں کا ظہور ہوا جس پر آپ نے ۱۸۹۸ ء میں بیعت کا خط لکھ دیا تھا پھر ۰ ۱۹ ء یا ۱۹۰۲ ء میں قادیان دارالامان میں جاکر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا در جبر روایات جلد اما تا منه ) گے ولادت اور طالب علمی سے متعلق بعض معین تواریخ پندره روزه " پیام گجرات یکم ستمبر ۱۹۵۶ء ( منقول العضل ۲۳ جنوری ۱۹۵۸ء سے اخذ کی گئی ہیں اور اس اعتبار سے مستند ہیں کہ حضرت ملک صاحب مرحوم کی زندگی میں شائع ہوئیں اور قیاس غالب یہ ہے کہ آپ کی مہیا کردہ معلومات کی بناء پر مرتب ہوئیں.(واللہ اعلم بالصواب)
ڈاڑھی رکھی ہوئی تھی.آپ کو دین سے عشق اور جوش تبلیغ اپنے والد معظم سے در نہ میں ملا تھا جو طلق جرات میں نائب مہتم تبلیغ تھے.آپ کو بچپن ہی سے حضرت مسیح موعود اور خلفاء کی کتب سے دلی شفف تھا جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور ساتھ ہی آپ کے تبلیغی بذبہ میں بھی غیر معمولی اضافہ کا موجب بنتا گیا.آپ قلم و زبان کی زبر دست صلاحیتوں اور استعدادوں کے حامل تھے جن کو آپ نے طالب علمی کے دور ہی سے خدمت دین کے لیے عملاً وقف کر دیا.چنانچہ مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد چوہدری بشیر احمد صاحب سے مل کہ گجرات میں لیگ الیوسی اسیشن کی بنیاد رکھی جس کے صدر اور روح رواں آپ ہی تھے.۱۹۲۵ ء میں جبکہ آپ نویں جماعت میں پڑھتے تھے آپ نے مشن ہائی سکول کے وسیع احاطہ میں مہند دستان کے مشہور پادری عبدالحق صاحب سے کامیاب ناظرہ کیا.اس کے بعد گجرات کے آریہ سماج اور غیر احمدی علمائن سے مناظرے شروع ہو گئے جس سے ضلع بھر میں آپ کی دھاک بیٹھ گئی لیے دو مولانا ابو العطاء صاحب کا بیان ہے :- ۱۹۲۶ء کے مارچ میں کھاریاں ضلع گجرات میں مجھے جبکہ میں ابھی حضرت استاذی المحترم حافظ روشن علی صاحب کے پاس پڑھا کرتا تھا) ایک جلسہ کے لیے جانا پڑا.اس موقع پر پہلی مرتبہ برادرم خادم صاحب سے ملاقات ہوئی آپ کی عمر اس وقت ۱۵ ۱۶ برس ہوگی.یہ پہلی ملاقات ایسی محبت اور اخور کی را سیخ بنیاد بن گئی جس کی مثال بہت کم ملتی ہے.للہی محبت اور پر خلوص تعلق کے یہ نہیں برس آج ایک خواب نظر آتے ہیں.محترم خادم صاحب اس وقت دسویں جماعت میں پڑھتے تھے انہیں علیم دین کا بے حد شوق تھا.ہر جگہ معلومات حاصل کرنے کی انہیں بھن مھتی.عنفوان شباب - ہی وہ مخالفین اسلام واحمدیت کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو جایا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں مقبل ذہن کے ساتھ خاص قوت گویائی بھی عطا فرمائی سختی اور یہ کہنا ذرہ بھر مبالغہ نہیں کہ جناب ملک صاحب نے ان مواہب لدنیہ کو میشہ دین کی خاطر خر پا گیا ہے لہ تفصیل چوہدری بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت احمدیہ گجرات کے قلم سے آگے آرہی ہے : کہ رسالہ " الفرقان خادم نمیره جنوری ۱۹۵۹ ۶ ص۲ سے
469 19ء میں (مولف کتاب کی تحقیق کے مطابق) آپ کے قلم سے نیز صداقت کے زیر عنوان پہلا رسالہ شائع ہوا آپ اس وقت ینگ مین ایسوسی ایشن گجرات (پنجاب) کے سیکرٹری تھے حضرت مصلح موعود نے ، در اگست ۱۹۲۸ ء کو اس رسالہ کی اجازت مرحمت کرتے ہوئے فرمایا " اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ کتاب کو مخلق مندا کے لیے مبارک کرے الله محمد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ کے بعد آپ نے تبلیغی زندگی کے ایک نئے اور وسیع میدان میں قدم رکھا جلد ہی نہ صرف کالج کے ماحول میں بلکہ پورے لاہور میں بھاری شہرت حاصل کر لی.آپ نے اس زمانہ میں نہ صرف مخالفین احمدیت سے شاندار مناظر سے کیسے بلکہ احمدیہ فیلوشپ آف یوتھ لاہور کے صدر کی حیثیت سے لاہور کے نوجوانوں میں تبلیغ کی نئی روح پھونک دی.بہت سے تبلیغی مینٹ شائع کیے.احمدی جماعتوں نے اس نوجوان کی تبلیغی میلغار کے معرکے منے تو ہر طرف سے آپ کو مناظروں کے لیے بلایا جانے لگا.یہ سلسلہ ۳۲ - ۱۹۳۱ ء میں پورے زور شور سے شروع ہوا.اس دور کے مناظروں میں سے محبینی وضلع شیخوپورہ تو یہ ہوا کہ تحصیل و به باد رو ده ما را ضلع گجرات کو رحمت وزیر دیو نه خان رضلع شیخو پورہ) کی نہایت دلچسپ تفصیلات اخبار فاروق میں شائع شدہ ہیں جن سے آپ کی حاضر جوابی کی تیرت انگیز قوت کا انداز ہوتا ہے.آپ کی تبلیغی سرگرمیوں سے غیر احمدی علماء ہی نہیں مشہور پادری اصحاب بھی خوفزدہ ہو جاتے تھے اور آپ کے نام سے ہی اُن پر گو یا لرزہ طاری ہو جاتا تھا ۱۶٫۱۵ / ۷ ارجون ۹۳۲ اس کو چکوال میں عیسائیوں کا جلسہ تھا.پاور می ایس ایم پال صاحب کی تقریر تھی اور پریذیڈنٹ پادری عبد الحق صاحب تھے.ملک صاحب نے وقفہ سوالات میں سوال کرنا چاہا مگر پادری عبد الحق صاحب جو آپ کے نام سے خوفزدہ ہو گئے تھے.آپ کو وقت دینے سے جھان انکار کر دیا بعد ازاں سیکر ڈی انجمن احمدیہ چکوال نے مناظرہ کا کھلا جواب دیا.جس پر پادری صاحب موصو یہ کہ کر اپنی جان چھڑائی کرکے ملک عبدالرحمن صاحب سے له نیز صداقت امر ۲۲ : سایر تنظیم ۱۹۳۲ء میں معرض وجود میں آئی اور اس کا نام محترم قاضی محمد اسلم صاحب امیر جماعت الامور تجویز فرمایا تھا.۳۴ - ۱۹۳۳ ء میں محترم ملک صاحب مرحوم اسکے صدر تھے سے تاریخ انتقاد ۱۷/ ۱۸ اکتوریه ۱۹۳ در (ناروق ، رومبر ۱۱۹۳۱) پوسته منتقده ۲۸ ۲۹ نومبر ۱۹۳۱ء (فاروق ۱۹۳۲ اصلا خوشه منتقده ۱۶ دسمبر ۱۹۳۱ء در فاروق ۱۴ار مارچ ۱۱۹۳۲) ت منعقده ۲۴ ۲۵ فروری ۱۹۳۲ ۱ دفاروق ۲۱ ر مادر به ۱۹۲۲ دست)
گفتگو کرنے کو تیار ہی نہ مناظرہ طے کرنے کے لیے.پادری صاحبان اس اعلان کے بعد چکوال میں مختصر سا قیام کر کے جہلم بھاگ آئے لئے آپ کے بڑے صافہزاد سے ملک عبدالباسط صاحب کا بیان ہے کہ :- آپ دور دور جاکر احمدیت کے مخالفین سے مناظرے کرتے تھے اور بڑے فخر سے فرماتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے کبھی بھی شکست نہ ہوئی تھی بلکہ میں ہمیشہ ہی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کی خدمت میں کامیاب وکامران ہی واپس آتا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ ھو کئی مناظروں کے لیے مجھے منتخب فرماتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ اکثر مخالف مناظر مجھے دیکھ کر ہنس پڑتے تھے.کہ اس کل کے بچے نے ہمارے ساتھ کیا مناظرہ کرنا ہے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ بچہ اکیلا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ احمدیت کی صداقت تمام احمدی جماعت اور خصوصاً حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کی عظیم اور بے پناہ طاقت ہے.۱۹۳ء میں پہلی دفعہ آپ نے بطور نمائندہ مشاورت میں شرکت کی.۱۹۳۶ میں آپ نے لاء کالج سے قانون کا امتحان پاس کیا.اسی سال جلسہ سالانہ قادیان کے مقدس سٹیج سے ۱۲۸ دسمبر ۱۹۳۶ ء کو آپ کی پہلی بار.تقریر مولی عنوان تھا وابستگان خلافت کی منکرین خلافت پر فضیلت.۱۹۳۷ ء میں آپ نے گجرات میں پرکشش کا آغازہ کیا.اس سال ستمبر کو آپ کا نکاح حضرت خلیفہ اسی الثانی نے محترمہ زمانی بیگم صاحب عرت سوزی ار دختر خان بی اور آصفت، زمان خان یا کٹر پیلی بھیت سے دس ہزار مہ پر پڑھا لیے ۱۹۳۸ء میں آپ کے ہاتھوں گجرات شہرمیں متعلقہ ادب کی بنیاد رکھی گئی میں کے صدر آپ تھے یے ۱۹۳۹ء میں آپ نے مجلس مشاورت میں سرگرم حصہ لینا شروع کیا.چنانچہ اس سال کی مشاورت میں آپ نظارت علیا کی سب کمیٹی کے مبر نامزد کیسے گئے.صدر کمیٹی چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب تھے.اس مشاورت کے دوران آپ نے جلسہ جوبلی کے پروگرام کی بحث میں بھی حصہ لیا اور حضرت مصلح موعودہ کے حضور نہایت عمدگی سے اپنا نقطہ نگاہ پیش کیا یہ ره " اخبار فاروق، تاریان (۱۲۸ اگست ۱۹۳۲ء منا ۱۳ به به الفرقان قادم نمبر جنوری ۱۹۵۹ء مت له الفضل دسمبر ۱۹۳۶ ء نه که اولاد - تک عبد الباسط صاحب - ملک عبد الماجد صاحب انتہ الحکیم صاحبہ - امتد الجبیل مصاحبه ه " یکم ش - پیام ، گجرات یکم ستمبر ۱۹۵۷ و بہ سے رپو رٹے فیس مشاورت ۱۹۳۹ ء مجلس
ㅕ시 ۱۹۴۰ ء سے آپ نے رمضان المبارک میں پورے قرآن مجید کا درس دینا شروع کیا جو ۲۲ سال تک جاری رہ پایه ۱۹۴۴ء میں آپ امیر شہر گجرات منتخب ہوئے اور ۱۹۴۶ ء میں آپ امیر ضلع گجرات کے عہدہ پر تمتاز کیے گئے جسے آپ نے زندگی کے آخری سانس تک کمال خوش اسلوبی سے نباہا.آپ ۱۹۳۰ء سے مسلم لیگ گجرات کے ممتاز عبر تھے اور تحریک پاکستان کی جد و جہد میں ایک انتھک مجاہد کی بنیثیت سے گرانقدر خدمات بجالا رہے تھے.یہی وجہ ہے کہ ۱۹۴۶ ء میں پنجاب سلم لیگ نے حضر وزات کے خلاف تو تحریک شروع کی اس میں آپ ڈیفنس کمیٹی کے سیکرٹری تھے.جب حکومت کی طرف سے صلح کی بات چیت شروع ہوئی تو پنجاب کے مقتدر لیڈوں نے قائد اعظم سے مشورہ کرنے کے لیے آپ کو کراچی بھیجا اسی سال آپ کے زیر انتظام گجرات میںایک آل انڈیا مشاعرہ منعقد موایه ۲ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو گجرات میرے ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں راجہ غضنفر علی خان صاحب وزیر پاکستان اور آپ کے مشورہ سے آزاد کشمی حکومت کے قیام کا مسودہ تیار کیاگیا اور ۳ اکتوب کو پیرس ہوٹل را ولپنڈی کے خصوصی اجلاس میں مسودہ کی منظوری دی گئی اور آزاد کشمیر حکومت کا اعلان کر دیا گیا یہ حضرت مصلح موعود کے حکم پر جولائی ۱۹۵۲ ء میں جماعت احمدیہ کا ایک وفد کراچی گیا اور اس نے خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کی اور اختلافی مسائل میں جماعت احمدیہ کے دینی مسلک کی تین گھنٹے ایک ترجمانی کی اس وفد کے آپ بھی رکن تھے لیے ۱۹۵۲ء کی تحقیقاتی عدالت پنجاب میں آپ نے جماعت احمدیہ پر اعتراضات کا جواب اس شان سے دیا کہ فاصل مجوں نے اپنی رپورٹ میں اس کا نام لے کر بطور خاص ذکر کیا اور آپ کی غیر معمولی تحقیق تشخیص کی داد دیتے ہوئے لکھا کہ آپ نے کتب قدیمہ کی تلاش تجسس میں بڑی محنت کی ہے.(رپورٹ اردو م (۲) ۱۹۵۶ ء میں آپ نے فتنہ منکرین خلافت کی سرکوبی اور تعاقب میں اپنی جان تک کی بازی لگادی میں کے بعد آپ پوری کی مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئے جو بات خرجان لیوا ثابت ہوئی ۱۹۵۶ء کے جلسہ سالانہ پر اور دسمبر کو آپ نے مصلح موعود کی پیشگوئی اور اس کا ظہور کے موضوع پر ایک زبر دست اور پر جوش الفرقان خادم نمبر، ص۲۵ : له پیام گجرات یکم ستمبر۱۹۵۶ ء بہ سے تفصیل کے لیے ملاخطہ ہو بیان سردار گل احمد خاں صاحب کو ثر سابق چیف پلیسی آفیسر جمهور به حکومت کشمیر ( تاریخ احمدیت جله ماله ملاکشمیر مظفرآباد ما راکتور و ۱۹ ہی تفصیل ۱۹۵۲ کے حالات میں گزر چکی ہے.
| تقریر فرمائی.تقریر کے دوران جلسہ گاہ کی فضا بار بار نعروں سے گونجتی رہی.یہ معرکہ آرا نظریہ آپ کی زندگی کی آخری تقریر تھی اگلے روز ۲۸ دسمبر کو سید نا حضرت مصلح موعود نے ہزار ہا کے مجمع میں مولانا جلال الدین صاحب شمس مولانا ابوالعطاء صاحب اور آپ کو خالد کا خطاب عطا فرمایا.اگلے سال ۲۶ ستمبر ۱۹۵۷ء کو آپ کی بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی.داخل کرادیئے گئے.اکتوبر کے پہلے عشرہ کے آخر میں حضرت مصلح موعود لاہور تشریف لائے تو حضور نے ہومیو پیتھی دوائیں تجویز فرمائیں اور پھر انہ راہ شفقت وہ دوائیں خود ہی منگوادیں.نومبر کے آخر میں آپ تیزی سے صحتیاب ہونے لگے.اب جلسہ سالانہ کے ایام قریب تر آگئے تھے آپ نے فیصلہ کیا کہ ۲۵ دسمبر کوں ہور سے روانہ ہو کر جلب سالانہ ربوہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی جائے لیکن مشیت خداوندی کو کچھ اور ہی منظور تھا ۲۴ دسمبر ک کی ایک آپ کی دائیں ٹانگ سخت متورم ہو گئی اور آپ ساری رات درد سے سخت بیقرار رہے.۲۵ دسمبر کو آپ نے درد کی ناقابل برداشتہ کیفیت ہی میں اپنے محبوب آقا حضرت سیدنا المصلح الموعود کی خدمت اقدس میں اپنے ہاتھ سے حسب ذیل عریضہ لکھا :.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم میوہسپتال کمرہ عث سیدی دمولالی حضرت مصلح موعود اتم کم اللہ بصرہ العزیز السلام علينكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اللہ تعالیٰ حضور کا حافظ و ناصر ہو.حضور کو صحت و تندرستی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے.اور اسلام اور احمدیت کی ترقی و فتوحات کے وعدے حضور کے ذریعہ اور حضور کی زندگی میں پورے فرمائے.آمین میری اصل بیماری یعنی پلوریسی تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعاؤں اور توجہ سے ٹھیک ہو چکی محھتی.۱۹ ، دسمبر ۱۹۵۷ کو ڈاکٹر پیر زادہ نے یہ کہدیا تھا کہ اگر آپ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں لیکن مناسب ہے کہ اختیا کا چند دن اور ٹھہریں.اس خیال سے کہ مبادا دوبارہ پھیپھڑے کی جھلی میں پانی پیدا نہ ہو جائے.راه اصل مکتوب میں امیرالمومنین کے لفظ تھے.ناقل
ان حالات میں میں امید لگائے بیٹھا تھا کہ انشاء اللہ اب جلسہ سالانہ سے پہلے یہاں سے چھٹی مل جائے گی اور میں جلسہ پر حاضر ہو کر حضور کی زیارت کے علاوہ حضور کے انفاس قدسیہ سے اور جلسہ کی برکات سے بہرہ یاب ہو سکوں گا.لیکن بدقسمتی سے کل ۲۴ دسمبر کو دوپہر کا کھانا کھانے کے معابعد مجھے یہ محسوس ہوا کہ میری دائیں پنڈلی میں تھوڑی سی سوجن ہے.میں کھانا کھا کر لیٹا تو بن سران میں سخت درد ہونے لگا اور پنڈلی کی سومین بڑھتے بڑھتے ساری دائیں ٹانگ میں پھیل گئی اور ٹانگ میں بھی شدید درد ہونے لگا.ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق یہ دائیں ران کی خون والی رگ میں THRUMBosis کا نتیجہ ہے.اور ان کے نزدیک اس تکلیف کے ٹھیک ہونے میں کافی دن لگیں گے.گزشتہ دن کا بقیہ حصہ اور گزشتہ رات سخت بے چینی میں گزری اور آج دن میں بھی دائیں ٹانگ میں شدید درد ہے.اگر میر اے.پی.سی کے استعمال سے عارمتی افاقہ ہے.اندریں حالات میں جلسہ سالانہ میں شمولیت سے محروم ہو گیا ہوں.یحبس کا مجھے بیجد قلتی ہے.1914ء سے لے کہ آج تک یہ دسمبر کا پہلا جلسہ ہے جس میں شمولیت سے میں محروم ہو رہا ہوں.حضور کی خدمت میں عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ حضورا اپنے اس اسلام کے لیے خاص طور پر دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی فیلد سے جلد مکمل صحت و تندرستی و توانائی عطا فرمائے.نیز اپنی رضا کی راہوں پر چلنے اور دین کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین حضور از راہ شفقت جلسہ سالانہ پر حاضر ہونے والے احباب کو میرا سلام علیکم ورحمہ ادویہ کا نہ پہنچا کر بھی ممنون فرمائیں.والسلام حضور کا ادنی ترین علام.(از لا ہور.ملک عبدالر حمن خادم ) اس مکتوب کے ساتھ ہی آپ نے مولانا ابوالعطاء صاحب کو جلسہ سالانہ کے بیلے ایک پیغام بھیجا جیں میں حضرت مصلح موعود اور احباب جماعت کی رقت آمیز دعاؤں اور صدقات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جلد صحت یابی کے لیے مزید دعاؤں کی درخواست تھی.مولانا ابو العطاء صاحب نے یہ پیغام ۲۶؍ دسمبر ۱۹۵۷ء کو جلسہ میں پڑھ کر سنا یا لیے له متن والفضل ۱۲ جنوری ۱۹۵۸ء - الفرقان خادم نمبر ماه
HAP پیغام کیا تھا دین حق کے ایک عظیم مجاہد کے دل کی دردناک پکار تھی.سامعین رقت سے بھر گئے اور خادم احمدیت کو طلبہ میں نہ پاکر ان کا دل خون ہو کے رہ گیا.جلسہ سالانہ ١٩٥٤ ء تو خدا کے فضل سے بخیر و خوبی اختتام پذیر ہو اگر اس دسمبر کی صبح کو حضرت ملک صاحب کا سائنس یکا یک پھول گیا اور قوت گویائی جواب دینے لگی.اسی دوران حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین رآن سکندر آباد دکن) جلسہ میں شرکت کے بعد بغرض عبادت تشریف لائے اور ایک لمبی اور پر سوز دعا کرائی.ایک بجے کے قریب حالت تشویشناک ہو گئی.ڈیڑھ بجے آپ نے لمبا سانس لیا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور احمدیت کا یہ پر جوش مبلغ اور سلسلہ کا نڈر اور بہادر سپاہی جو ہم سال تک شیروں کی طرح غراتا اور للکارتا رہا ہمیشہ کے لیے جُدا ہو گیا.اِنَّا لِلهِ وانا الیه راجِعُونَ.آپ کا تابوت اگلے روز موا دو بجے بعد دوپہر لاہور سے ربوہ لایا گیا.۴ بجے بعد نماز عصر حضرت مصلح موعود نے مسجد مبارک کے عقبی میدان میں نماز جنازہ پڑھائی اور نعش کو کندھا دیا جنازہ میں خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد، بزرگان سلسلہ مثلاً حضرت نچو ہدری محمد ظفر اللہ خالصاحب اور دیگر کثیر تعداد احمدیوں نے شرکت کی چھے بجے آپ مقبرہ بہشتی کی سرزمین میں سپر د خاک کر دیئے گئے.قبر تیار ہونے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اجتماعی دعا کرائی یہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے تدفین کے بعد ایک نوٹ میں تحریر فرمایا :- تدفین کے وقت معلوم ہوا کہ ان کی عمر صرف ہم سال کی تھی.اس وقت مجھے اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام یا دہ آیا کہ :- سینتالیس سال کی عمر میں کفن میں لپیٹا گیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم مغفور کی وفات کے قریب ہوا تھا.اور اس الہام کا پہلا مصداق حضرت مولوی صاحب کی ذات والا صفات ہی تھی.لیکن چونکہ بعض اوقات خدائی کلام میں تنوع ہوتا ہے اور ایک ہی الہام میں متعدد واقعات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے اس لیے اس الہام کا دوسرا جلوه قریبا ۲۵ سال بعد حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم کی وفات میں نظر آیا.کیونکہ حضرت حافظ صاحب مرحوم بھی سینتالیس کی عمر میں فوت ہوئے تھے اور اب قریباً مزید اٹھائیس سال بعد ه الفضل ۳ ر جنوری ۱۹۵۸ و ما
۶۸۵ ملک عبد الرحمن صاحب خادم بھی ۲۰ سال کی عمر میں فوت ہوئے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ تبلیغ حق کے میدان میں ان تینوں اصحاب کا اندازہ بھی کم و بیش ایک جیسی ہی مقایعنی وہی غیر معمولی جوش و خروش وہی تیغ عریاں کا رنگ دہی بلا خوف لاحتہ لائم اظہار حق کا انداز مگر جودا دل ہے وہ اول ہے سلے تأثرات حضرت ملک صاحب کی عظیم شخصیت احمدی اور غیر احمدی حلقوں میں محبت واحترام کی نظر سے رکھی جاتی تھی جس کا کسی قدر اندازہ درج ذیل تاثرات سے ہوتا ہے.-۱- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب الف خادم صاحب مرحوم ایک بہادر مرد مجاہد تھے.اور جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا تقریری اور تحریری تبلیغ کے میدان میں صف اول میں رہے.اور مخالفوں کے مقابل پر گویا ایک برہنہ تلوار تھے اور عقائد صحیح میں ان کا قدم ہمیشہ ایک مضبوط چٹان پر قائم رہا اور اندرونی اور بیرونی مخالفت نے اُن کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہیں آنے دی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ فضل الله المُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً (النساء: ٩٦) یعنی ہم نے دین کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کو غیر مجاہد مومنوں پر بھاری امتیازہ اور بھاری درجہ عطا کیا ہے اس لیے امید ہے کہ خادم صاحب مرحوم کو اپنی جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا.مذ ہبی مباحثات کے میدان میں خادم صاحب کا تجود گو یا تو الجات کا ایک دیسی خزانہ تھا.اور ان کی تصنیف احمدیہ پاکٹ بک ہمیشہ ایک یادگاری تصنیف رہے گی جیسا کہ میں نے حضرت عرفانی مرحوم کی وفات پر نوٹ لکھتے ہوئے ذکر کیا تھا سال ۱۹۵۷ء میں ہمیں بہت سے بزرگوں اور دوستوں کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہے بلکہ عرفانی صاحب کے بعد بھی تین اور ممتاز بزرگ اور دوست بھی ہم سے جدا ہو گئے ہیں.چنانچہ عرفانی صاحب کی وفات کے دو دن بعد حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحب نے کراچی میں وفات پائی.سیٹھ صاحب مرحوم بہت مخلص اور ٹھوس اخلاص والے بزرگ تھے جنہوں نے اوائل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا.اور پھر سارا زمانہ بڑی وفاداری اور محبت اور اخلاص اور نیکی میں گزارا.اس کے بعد مین جلسہ کے ایام میں محترم شیخ عبد الحق صاحب سابق نائب ناظر ضیافت کی وفات ہوئی.شیخ صاحب مرحوم ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.اور بہت مخلص اور فدائی رنگ میں رنگین اور محبت کرنے والے تھے.جن کے ذریعہ ضلع گورداسپور میں کثیر التعداد لوگ احمدیت کے نور سے منور ہوئے.اور اب سال له روزنامه العضل ریوه ۵ جنور می ۱۹۵۸ وصت
YAY کے آخری دن میں خادم صاحب نے وارغ جدائی دیا ہے.وكل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال ولا كرام.کے تحقیقاتی کمیشن میں اور اس کے بعد گزشتہ فتنہ کے تعلق میں بھی خادم صاحب کی خدمات بہت قابل قدر ہیں.اور مناظرہ کے میدان کے تودہ ایک بہادر شہر تھے جو کسی مخالف طاقت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے.بلکہ منی کی تائید میں انہیں اس درجہ خدا پر بھروسہ تھا کہ گھر ہٹ تو دور کی بات ہے وہ اپنی حاضر جوابی اور لطائف سے مناظرہ میں بھی گفتگی پیدا کر دیتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے بیوی بچوں اور دیگر عزیزوں کو جوان کے نقش قدم پر ہیں اپنے فضل درحمت کے سایہ میں رکھے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہوا اور ان کے مجھکے ہوئے عزیزوں کو بھی ہدایت فرمائے آمین ) (الفضل ۳ جنوری ۱۹۵۸ صفحه ۲) رب ہر ترقی یافتہ انسان کی زندگی کا ایک خاص پہلو ہوا کہتا ہے.یہیں میں وہ اکثر دوسرے لوگوں سے امتیاز پیدا کر کے ان کے لیے گویا ایک نمونہ بن جاتا ہے اور فرض شناس لوگ اس کی مثال سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگیوںمیں ترقی کا راستہ کھو لتے ہیں.یہی صورت ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی زندگی میں نظر آتی ہے نہوں نے آج سے ایک سال قبل گو یا بالکل جوانی کے عالم میں وفات پائی - خادم صاحب مرحوم گجرات صوبہ پنجاب کے رہنے والے تھے اور کسی ایسے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے جس میں علمی تجرا در تبلیغی ذوق وشوق کی کوئی خاص رہدایات پائی جاتی ہوں.بلکہ خود ملک صاحب مرحوم نے بھی کسی دینی درس گاہ میں تعلیم نہیں پائی اور نہ کسی عالم دین کی باقاعدہ شاگردی اختیار کر کے دین کا علم سیکھا.ان کی درسی اور عربی تحصیل علم صرف اس قدر تھی کہ انگریزی کا بچوں کی فضاء میں بی.اسے پاس کر کے دکارت کا امتحان دیا.اور پھر بظاہر سال می شمر عدالتوں میں گشت لگا کہ اپنی روزی کماتے رہے.مگر باوجود اس کے خادم صاحب مرحوم نے محض اپنے ذاتی شوق اور ذاتی مطالعہ کے نتیجہ میں وہ کمال پیدا کیا کہ جہاں تک مذہبی مباحثہ اور اس میدان کے علمی حوالہ جات کا تعلق ہے وہ جماعت احمدیہ کے کسی موجودہ عالم سے کم نہیں تھے.بلکہ مناظرات میں جوابوں کی فرادانی اور برجستگی میں انہیں گوریا ایک جیتی جاگتی انسائکلو پیڈیا کہنا چاہیے.مرا اعتراض کا جواب ان کی زبان پر تیار کھڑا ہو تا تھا.ہر ضروری حوالہ ان کے منہ سے اس طرح نکلتا تھا.جس طرح ٹکسال کی مشین سے لگے بن بن کر نکلتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے.یہ سب کچھ کسی درسی تعلیم کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ محض ذاتی شوتی اور ذاتی مطالعہ کا نتیجہ تھا.میں نے ان کو مذہبی مناظرین کی صف اول میں لا کھڑا کیا تھا
اور اس پر ذوق و شوق کا یہ عالم تھاکہ جب کسی قلی یا سانی جہاد کا بگل بجتا تھا.تو وکالت کو الوداع اور ذاتی آرام و آسائش کو خیر باد کہنے کا منظر نظر آتا تھا.اور خادم صاحب سب کچھ چھوڑ کہ لبیک اللهم لبیک کہتے ہوئے آگے آجاتے تھے ہیں وہ رضا کارانہ جذبہ تھا جس نے قرون اولی میں اسلام کو سر بلند کیا.اور یہی وہ رستہ ہے جس پر گامزن ہو کہ احمدیت کے فرزند آج پھر دوبارہ اسلام کا مراد نا کر سکتے ہیں.اور انشاء اللہ یہ ہو کہ رہے گا.جیسا کہ خدا نے عرش نے حضرت مسیح موعود کو الہام کیا کہ : بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار من ترکم افتاد یعنی خوشی کی چال چل کہ اب وہ وقت نزدیک ہے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام لیووں کا پاؤں زمین کی پستی کی بجائے میناروں کی بلندی پر پڑے گا ؟ پس ہمارے نوجوانوں کو خادم صاحب مرحوم کی زندگی سے سبق لینا چاہیے.انہوں نے دنیا کے کاموں میں حصہ لیتے ہوئے اور وکالت کے فرائض ادا کرتے ہوئے محض اپنے ذاتی شوق اور ذاتی مطالعہ کے نتیجہ میں وہ مقام حاصل کیا تو کئی پورے وقت کے مبلغوں کو بھی حاصل نہیں ہوتا.انہوں نے اپنے دل میں خدمت دین کا بے پناہ جذبہ پیدا کیا.مذہبی مباحثات کے علم میں کمال کو پہنچے اور بظاہر واقف زندگی ہونے کے بغیر عملا اپنے اوقات کو خدمت اسلام اور خدمت احمدیت کے لیے وقف رکھ.ایسے نمونے خدا کی طرف سے جماعت کے لیے حجت ہوا کرتے ہیں اور خدا یہ بتانا چاہتا ہے کہ جب تمہیں میں سے ایک نوجوان اپنی ذاتی کوشش اور ذاتی ولولہ کے نتیجہ ہیں یہ مقام حاصل کر سکتا ہے تو تم کیوں نہیں کر سکتے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام میں نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کو حمتہ اللہ کے نام سے پکارا گیا ہے.یعنی خدا کی طرف سے لوگوں پر ایک محنت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تشریح یہ فرمائی ہے.کہ جب خدا تعالیٰ نے ایک ریاست کے نوابی خاندان کے نوجوان فرد کو جس کے لیے ہر قسم کے عیش و آسائش کے سامان مہیا تھے ، حمدیت کی صداقت کو اس زمانہ میں قبول کرنے کی توفیق دی جب چاروں طرف مخالفت کا زور تھا تو دوسرے صاحب دولت و ثروت خاندانوں کے لیے نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کا احمد بیت کو قبول کرنا قیامت کے دن ایک حجت ہوگا.کہ جب اس نے اپنے ماحول سے نکل کر صداقت کو قبول کیا.تو تم اپنے عیش وعشرت
۶۸۸ میں کیوں محو خواب رہے ؟ اسی طرح میں کہتا ہوں کہ خادم صاحب مرحوم کا وجود بھی جماعت کے ایک طبقہ کے لیے محبت ہے کہ جیب خادم مرحوم نے اپنے ذاتی شوق اور ذاتی کوشش اور ذاتی جد وجہد کے ذریعہ دین کا پختہ علم حاصل کیا اور وکالت جیسے غافل رکھنے والے پیشہ میں مصروف ہونے کے باوجود دین کا پر جوش خادم ره که زندگی گذار می تو تم کیوں اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے ؟ پس اسے وکیلو اور ڈاکٹرو اور اسے تاجر د اور صناعی اور اسے زمیندارو اور اے ودھیرے پیشہ وردا تم پر خادم مرحوم کی زندگی یقیناً ایک محبت ہے کہ تم دنیا کے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے بھی دین کا علم حاصل کر سکتے اور دین کی خدمت میں زندگی گذار سکتے ہو.اسلام تم سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ ساری کی ساری جماعت دنیا کے کاروبار چھوڑ کر دین کی خدمت کے لیے کیلیے وقف ہو جائے بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جماعت کا ایک حصہ تو پورے طور پر دین کی خدمت کے لیے وقف ہو.رجیسا کہ فرمایا لتكن منكم أمة ) اور دوسرا حصہ دنیا کے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے اور جائز طریق پر اپنی اور اپنے اہل وعیال کی روزی کماتے ہوئے اپنے اوقات اور اپنے اموال اور اپنے جسم اور اپنے دل و دماغ کے قومی میں سے خدا اور اس کے رسول اور اس کے میسج اور اس کے دین کا واجبی حق نکالے تا وہ دجال کی طرح اندھا نہ ہونے پائے بلکہ اس کی دونوں آنکھیں روشن ہوں اور اس کی زندگی میں دنیا یہ نظارہ دیکھے کہ :.دل با یار و دست با کار پس عزیز و اور دوستوں خادم مرحوم کی زندگی سے سبق سیکھو تا اس مرحوم نوجوان کی زندگی اور اس کی موت دونوں خدا کی رحمت سے حصہ پائے زندگی اس لیے کہ اس نے غیر معمولی حالات میں اپنی زندگی کو اسلام اور احمدیت کی خدمت میں لگایا.اور اپنے آپ کو اس کا اہل بنایا.ارموت اس لیے کہ اس کی وفات سے متاثر ہو کہ تم نے اس کی زندگی سے خدمت دین کا سبق حاصل کیا.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین.خاکسار مرزا بشیر احمد - ریوه ۱۹ دسمبر ۶۱۹۵۸ ¡
۲ - حضرت سیدہ زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب م ملک عبدالرحمن صاحب خادم کو اس وقت سے جانتا ہوں.جب وہ منزل میں تھے.مجھے گجرات سلسلہ کے کام کے تعلق میں جانا پڑا.اور وہاں مجھے جماعت کے نوجوانوں کی طرف سے ایڈریس پیش کیا گیا.اور اس اجلاس میں ایک تنظر یہ خادم صاحب نے کی مجھے ان میں غیر معمولی ذہانت کا احساس ہوا.اس کے بعد جب بھی گجرات جانے کا موقع ہوا ایک جلسہ منعقد کیا جاتا.اور خادم صاحب اور ان کے ساتھی تقریریں کرتے یہانتک کہ انٹرنس پاس کرنے تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتا بوں اور سلسلہ کے لڑکیچر سے ان کی واقفیت کافی ہو چکی ہوئی تھی.کالج میں داخل ہوئے تو ان کا شوق مطالعہ اور تقریر نمایاں تھا.اور بحیثیت ناظر دعوت و تبلیغ انہیں طالب علم مبلغین کے ساتھ جلسوں اور مباحثات میں بھیجنا شروع کیا ہوتے ہوتے جلسہ سالانہ کے سٹیج پر یہ میں صورت میں نمایاں ہوئے اور جیس طریق سے خدمت سلسلہ کی توفیق ان کو ملی وہ محتاج اعادہ نہیں.خلاصہ یہ کہ خادم مرحوم کو طالب علمی کے زمانہ سے ہی اپنے والد بزرگ کے اسوہ حسنہ وتلقین کے ماتحت اپنے تئیں از خود خدمت سلسلہ کے لیے تیار کرنے کی توفیق علی.جو ہم میں سے ہر ایک کے لیے قابل رشک اور سبق آموز ہے.بہت سے طلبہ تدریس نصاب کہ یا کالج کا حق بہانہ ہی بناتے ہیں.کہ ان کا مطالعہ.دینی کتب کے مطالعہ کے لیے وقت نہیں چھوڑتا.اگر شوق ہو یا دینی خدمت کی ضرورت کا سچا احساس ہو تو وقت نکالنا کیا مشکل ہے جو حل نہ ہو سکے.ایساعذر کرنے والے بسا اوقات گپ شپ میں اپنا وقت عزیز ضائع کر دیتے ہیں.خادم مرحوم کی زندگی ماستری درق ہمیشہ کے لیے یاد گار ہے.اللہ تعالیٰ ایسے نوجوان ہماری جماعت میں بیسیوں پیدا کرتا رہے.تا یہ سلسلہ اپنی جد و جہد مسلسل جاری رکھنے کی توفیق یا تار ہے، پہلے را جد عسلی حمد صاحب امیر جماعت احمد به گجرات " میرے پیارے مرحوم ملک عبدالرحمن خادم احمدیت کے ایک ابہادر فرزند اور قابل فخر نڈر مجاہد تھے ان کی زندگی کے ہر باب کا سرورق خواہ وہ عہد طفولیت کا ہے.یا زمانہ طالب علمی یا معاشرتی جدوجہد کا ایثار و قربانی کا مرقع ہے لة الفرقان جنوری ۱۹۵۹ ء م ۶
ان کی طفولیت فضول ہو ولعب بے مقصد کھیل کو د نا ہموار سنگی اور ضروری محنت اور مشقت سے جی چرانے کے عیوب سے پاک تھی.ابھی وہ اس عہد غیر معتدل سے پورے طور پر نکلنے بھی نہ پائے تھے کہ ان کو اہم دینی کتابوں اور اپنے سلسلہ احمدیہ کے روح پر در پاکیزہ متکی لٹریچر کے مطالعہ کا ہمہ تن مصروف اور خود فراموش شائق پایا گیا.جس کی بدولت اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے عالم جوانی میں انہوں نے اپنے نفس کو تہذیب کامل سے آراستہ کر لیا.گویا کہ عنفوان شباب سے ہی ذاتی ذمہ داری کا احساس اخلاقی قدروں کا احترام دا کرام.ان کا شعار اور طرہ امتیازہ تھا.گو عمر میں تو اس وقت وہ پھوٹے تھے مگر علم و عقل و دانش اور اخلاقی میز انوں اور ذمہ داریوں کے جائزہ اور محاسبہ میں انکا نفض اکثر سال خوردہ لوگوں سے بہت اونچے مقام پر پہنچ گیا تھا.یہ حقیقت ہے.کہ نہ کسی نے ان کی مضنگی دیکھی.اور نہ کبھی کسی نے اطور کے لحاظ سے انکو طفل پایا.شروع سے ہی ہمیشہ ایک مرد عاقل و عاقبت اندیش کی مانند علی میاس اور مذاکرات اور پاک و بے عیب صالحانہ محبتوں میں رہ کر تحصیل علم کا شوق اور اخلاقی مذہبی مسائل پر از خود غور و فکر کرنا ان کا مسلک زندگی رہا.دہ گلستان احمدیت میں وہ عندلیب خوشنوا تھے.جس کے چچیوں کی یاد اور جس کی نغمہ سیرائیوں رسالانہ جلسہ کی تقریروں کا محفوظ ریکارڈ ہمارے لیے ایک مضراب الم سے کم نہیں.اس سے ہماری پر رگ نا تواں اب بیتابانہ پھڑک اٹھتی ہے.اور ان کی دید و گفتار کی حسر نہیں اور ارمان ایک سو بان روح ہیں کہ جس سے ان کے محبوں اور قدر دانوں کا ایک کثیر گروہ بے چین رہتا ہے.ان کی زندگی صادق القول احمدی، دین کو دنیا پر مقدم کرد نگا ہ کی مثالی زندگی تھی اور یہ قول ہی ہے نبو در اصل احمدیت کی جان ہے.اور اس کے قیام کی غرض وغایت.ہ احمدی تو بلا واسط با بالواسط ان کو جانتا ہے ان کی مفارقت کے غم میں ان کیلئے بدرگاہ عالی دعاگو ہے.کہ ان کو اللہ تعالی اپنے جوار رحمت میں اعلی مقام عطا فرمائی دراصل اس کے غم کا حقیقی مداوا ہی اب یہ دعا ہے.سال ۱۹۲۷ء میں میری پہلی بیوی کے مرنے کے بعد میری دوسری شادی بزرگوارم حفر ملک برکت علی صاحب کی بڑی لڑکی جو ملک عبد الرحمن صاحب خادم کی حقیقی بڑی ہمشیرہ ہیں کے ساتھ ہوئی تب سے عزیز موصوف کے دم واپسیس یعنی ۱۳۲ دسمبر ۱۹۵۷ ء تک ان سے بہتر تعلقات ان کے خاندان کا ایک فرد ہونیکی حیثیت سے متواتر محبت اور شفقت اور باہم اکرام و تکریم کے رہے ہیں.اس طرح جب اکیس سال پیچھے جائیں توخادم صاب
۶۹۱ گاوہ زمانہ سولہ سترہ سالہ لڑکپن کا زمانہ تھا کہ جب سے میں نے ان کو نہایت قریب سے دیکھا.وہ اسوقت انروانی پاس کر کے این اے میں زمیندارہ کالج گجرات میں پڑھتے تھے.گر اپنی تبلیغی لگیں.ذاتی سنجیدگی اور خود نبی کی وجہ سے اس وقت بھی وہ خاندان میں غیر معمولی طور پر عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ان کو اس وقت بھی صرف علمی باتوں میں دلچسی تھی اور علمی مجلسوں میں نہایت ذوق و شوق سے شامل ہوتے تھے اور سکول سے باہر تقریبا سارا وقت کتب بینی یا تبلیغی سرگرمی میں صرف کرتے تھے.اپنی عمر کے تقاضا کے مطابق وہ کسی ایسے ماحول میں شاذ و نادر ہی شامل ہوتے تھے.جہاں ان کے وقت کا ضیاع ہو.یا حیاں، اخلاقی ناہمواری کا امکان ہو ان کا شغل مطالعہ اور بالخصوص اپنے سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ تھا.ان کو احمدیت کی تبلیغ کی ایک فطرتی لگی تھی.اس لگن کے تحت وہ نہایت درجہ ذاتی کا دش و فکر سے بہت دقیق اور گہرا مطالعہ ہر قسم کے ضروری لٹریچر کا کرتے تھے.محض ان کا ذاتی مطالعہ اور سعی و کوشش ہی ان کی علمی ترقی اور کمال کا موجب تھے.اور یہی وجہ ہے.کہ ان کے کہ کیٹر میں خود داری اور خود اعتمادی بدرجہ کمال تھی.جو ہر موقعہ پر ایک جو ہر نمایاں کے طور پر ان میں چمکتی تھی.انہوں نے اس بو ہر صافی کی بدولت اپنے گرد ایک ایسا ماحول مافی پیدا کر لیا تھا.کہ جس کی وجہ سے ان کی تربیت کے بارہ میں بھی ان کے والد صاحب بزرگوار فرمایا کرتے تھے.کہ ان کو کبھی پدرانہ نگرانی یا ناصحانہ تشویش لاحق نہ ہوئی.گویا اللہ تعالیٰ نے خادم کی فطرت میں ہی یہ جو ہر ودیعت کیسے ہوئے تھے.جو بلا خارجی اسباب استمداد اپنے وقت پر غنچہ گل کی طرح کھلتے گئے اور ریاضی احمدیت میں ظہور پذیر ہو کہ مہکنے لگے.خادم صاحب کی احمدیہ پاکٹ بک ان کے مختلف مذاہب کے مذہبی لٹریچر کے وسیع اور گہرے مطالعہ پر شاہد ہے.پہلی پاکٹ بک میرے مسلم کے مطابق انہوں نے جبکہ ان کی عمر ۱۷ ۱۸ سال بھی مرتب کی تھی.وہ پھوٹی تقطیع پر اسم با مسئے مختصر پاکٹ بک تھی.بعد میں اس کی نظر ثانی کرتے رہے اور آخری پاکٹ بک جس کے شروع میں ان کی تصویر بھی لگی ہوئی ہے.اور میں پر ایک نظر پڑتے ہی دل میں غم و اندوہ کے احساسات تازہ ہو جاتے ہیں.اسی کے چھٹے ایڈیشن پر مشمل ہے.یہ اب ۲۰۰ صفحات کی ایک ضخیم کتاب ہے.مؤلف کی محنت کوشش اور اس کے وسیع مذہبی مطالعہ اور ناقدانہ نظر کی گواہ تو یہ خود پاکٹ بک اور اس کا قیمتی اور سفید مواد ہے.اور اس کی افادیت اور قبولیت عامہ اس کے بار بار چھینٹے اور حجم میں متواتر اضافہ سے
ظاہر ہے.خادم صاحب کا سالانہ جلسہ کی سیج پر سے مقریرین میں انتخاب پہلی دفعہ سال ۱۹۳۶ء میں ہوا.جبکہ ان کی تقریر کا موضوع " وابستگان خلافت کی منکران خلافت پر فضیلت" تھا.اس کے بعد متواترہ ۱۹۵۶ء تک (۱۹۵۷ء کے جلسہ میں بوجہ بیماری شامل نہ ہوئے اور ۳۱ دسمبر ۱۹۵۷ ء کو فوت ہو گئے ) وہ مغربی ہمیں انتخاب کیے جاتے رہے.ان کا یہ متواتر انتخاب ان کے علم نافع الناس ان کے ملکہ تقریبہ ان کے مکارم اخلاق اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ساتھ فدایا نہ تعلق اور خدمت کے والہا نہ جذبہ کا ثبوت ہے.جلسہ پر سامعین ان کی تقریر سننے کے خاص طور پر شائق ہوتے تھے.اور تقریبہ کی پسندیدگی کا اعلان ان کی طرف سے بکرت وجدانی نعرہ ہائے تکبیر سے کیا جاتا تھا.انہوں نے صحیح معنوں میں اپنے آپ کو سلسلہ کی خدمت کے لیے وقف کیا ہوا تھا.اوّل سے آخر تک اس عہد پر کہ دین کو دنیا پر مقدم کردونگا.قائم کرو کہ خدمت دین بجالاتے رہے.کبھی کوئی روک اس راہ میں الف کے لیے روک نہ بنی.اور نہ ہی کوئی مشکل مشکل وہ بہ خدمت بغرض ثواب اور خوشنودی اور رمضان موٹی کریم بصدق دل اور مومنانہ جذبہ اور عزم کے ساتھ سرانجام دیتے تھے.اور جس طرح ان کی زندگی ئے کے شروع میں یہ جذبہ کا فرما تھا.اسی طرح ان کے دم واپسین تک وہ ان میں موجزن رہا.امیر جماعت شہر دو ضلع گجرات کی حیثیت سے بھی خادم صاحب کا ذکر بعض ان کی خصوصیات کی وجہ سے ضرور کی معلوم ہوتا ہے.خادم صاحب سال ۱۹۴۴ ء سے برا برا میر جماعت شہر گجرات اور بعد میں امیر ضلع گجرات بالاتفاق بلا کسی خفیف تر دریا امکاناً شکایت کے منتخب ہوتے چلے آئے ہیں.اس کی وجہ ظاہر ہے خادم صاحب کا مقام کیا بلحاظ ایثار وقربانی اور کیا لحاظ معلم و فضیلت اور کیا بلحاظ خلوص و نمونه پر مهرگاه می اتنا اونچا تھا.کہ کسی کے دل میں ان کے خلاف کوئی تر دو یا شکایت پیدا ہی نہ ہو سکتی تھی.ان کی خدمات کی پوری تفصیل کا پیش کرتا نہ میرا مقصد ہے.اور نہ ہیں کہ سکتا ہوں.لیکن میں صرف چند موٹی موٹی خصوصیات بطور ذکر بقائے خیر کے عرض کروں گا.وہ عالم دین تھے اور انہوں نے بے دریغ اپنی صحت و توانائی کا لحاظ کیے بغیر اپنے اس رزق خداداد کو جماعت پر جو ان کی زیر تربیت تھی.فریج کیا.وہ امیر شہر گجرات تو ۱۹۴۲ ء میں منتخب ہوئے
۶۹۳ لیکن قرآن شریف کا درس دینا انہوں نے اس سے پہلے ۱۹۴۰ء.اء سے شروع کر دیا تھا.میرے محترم جناب چوہدری عالم علی صاحب بشن حج ریٹائرڈ جو ان دنوں گجرات میں سینٹر سب جج تعینات تھے.اور ۱۹۴۴ء تک جماعت احمدیہ کے امیر شہر بھی رہے تھے.چند روز ہوئے کہ خادم صاحب مرحوم کی والدہ صاحبہ اور ان کی محترمہ اہلیہ صاحبہ کی خدمت میں تعزیت کے لیے تشریف لائے.اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے خادم صاحب کو قرآن شریف کے فہم میں ایک خاص ذوق عطا فرمایا تھا.وہ نہایت محنت اور شوق و ذوق سے درس قرآن مجید دیا کرتے تھے.اور بعض اعلیٰ طبقہ میں سے غیر احمدی تعلیم یا فتہ بھی درس میں التزاما شامل ہو کہ استفادہ کرتے تھے.۱۹۴۴ء کے بعد نہایت ہی اہتمام کے ساتھ سوائے ایک دو سال کے جبکہ وہ اپنی شدید بیماری کی وجہ سے درس نہ دے سکے وہ ہر سال رمضان المبارک کے مہینہ میں پورے قرآن مجید کا درس ختم کیا کرتے تھے.علاوہ ازیں اور اوقات میں بھی وہ قرآن شریف کا درس کئی سالوں تک دیتے رہے.سال گذشته ۱۳۷۶ ھ مطابق ۱۹۵۷ء کے ماہ رمضان المبارک کا جب درس شروع کیا.تو اس کے پہلے خطبہ جمعہ میں جماعت کے احباب کو درس سُنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا.کہ شروع میں مجھے اپنی بیماری اور ناتوانی کی وجہ سے کچھ تردد تھا.کہ درس دینا شروع کروں یا نہ کروں.لیکن آخر یہ سوچ کر کہ پھر شائد یہ موقعہ ملے یا نہ ملے.میں نے درس دینا شروع کر دیا ہے.آپ لوگوں کو بھی چاہیئے کہ فائدہ اٹھائیں.شاید پھر آپ کو یہ موقعہ ملے یا نہ ملے.اب ایسا معلوم ہوتا ہے.کہ نوجوان منتقی.امیر جماعت کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ مشیت ایزدی کو لبیک کہہ رہے تھے.ایسی کرامت ان کے حصہ میں ہی آتی ہے.جو اپنی زندگی میں دین کو دنیا پر مقدم کر کے تادم اخیر صادق العقول ثابت ہوتے ہیں.خادم صاحب کے عہد امارت کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے.اور اس لیے قابل ذکر ہے کہ ان کے عام عہد امارت میں عام طور پہ مرکز سے مبلغ یا مناظر منگوانے کی کم ہی ضرورت پڑی.وہ ان تمام ضروریا پر خود حادی تھے.گویا اپنی زیبہ امارت جماعتوں کے انتظامی نگران کے علاوہ ایک عالم دین یا مبلغ کی حیثیت سے بھی مذمت کرنے کی خصوصیت ان کو حاصل تھی.علاوہ ازیں ضلع کے صدر مقام پر ان کی موجودگی جماعتی وقار کا موجب تھی.عالم تھے اور صائب
۶۹۴ الرائے اور پبلک کے معزز طبقہ میں اپنی اصابت رائے کی بدولت ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے ان کا یہ اثر ورسوخ اور قانون دانی ایک ایسا سرمایہ تھا.جس سے ضلع کی بیرونی جماعتیں اور دیگر احمد یہ احباب متمتع ہوتے تھے.اور ان کے ممنون احسان تھے.اور اس کا جماعت اور نظام سے وابستگی پر بہت نیک اثر تھا.وہ چونکہ لحاظ نمونه ایثار و قربانی اور تیز عالم دین اور مبلغ کی حیثیت سے تمام احمد می افراد میں قابل احترام و عزت تھے.اس لیے ان کو ایک ایسا اثر در سوخ اور وقار حاصل تھا.جس کے طفیل وہ مرکز سے آئی ہوئی ہدایات کے مطابق نظام سلسلہ کی بہتر طور پر خدمت سر انجام دے سکتے تھے اور دیتے تھے.ان کے چودہ سالہ عہد امارت میں جہانتک میں نے سُنا ہے اور جیسا کہ مجھ کو معلوم ہوا ہے.کبھی بھی کوئی ایسا اہم معاملہ پیش نہ آیا.میں کو انہوں نے یہ وقت خود نہ سنبھال لیا ہو.یا جس کو خود ہی خوش اسلوبی کے ساتھ طے نہ کیا ہو.خادم صاحب راسخ العزم پختہ مزاج اور مستقل طبیعت کے انسان تھے استقلال طبیعت اگر ہم یہ کہیں کہ وہ اپنی رمن کے بچتے تھے.تو شاید یہ کہنا کی طبیعت کے متعلق زیادہ صادق المحال ہو گا.لیکن بنظر غائر اس بارہ میں بھی ان کی طبیعت کے دو رخ نظر آتے ہیں دنیوی یعنی معاشرتی معاملات میں جب وہ کسی بات پر بھیس کو وہ اپنے خیال کے مطابق صحیح سمجھتے.بعض اذقات ایسے بعد اس بات پر جم جاتے.کہ پھر مصلحت بینی یا مصلحت اندیشی کے طور کے دلائل ان پر بہت کم کارگر ثابت ہوئے.لیکن دینی معاملات میں ان کی طبیعت کا رنگ جہاں تک میں نے دیکھا ہے.اس سے مختلف تھا.میری مراد اس سے ان کے عقائد کے بارے میں ان کے استقلال کے متعلق ذکر کرنا نہیں ہے.کیونکہ اپنے عقائد میں وہ بفضلہ تعالی ایسی مضبوط چٹان تھے.جس سے ہر قسم کی مخالفت کی پر جنون دیوانہ لہریں جب ٹکراتیں.تو ہمیشہ اوندھے منہ بل کھاتی ہوئی واپس ہوتیں.بلکہ میری مراد یہ ہے.کہ وہ عقیدہ کے مخالف لوگوں سے بالخصوص اپنے قریبی رشتہ داروں سے ہمیشہ تلطف اور تالیف قلاب کو کام میں لاتے.اور بعض حالات میں ان کے احساسات کو اپنے احساس پر ترجیح دینے میں بھی مصلحت سے کام لیتے.اس میں مال اندیشی کا محرک دوسروں کی دینی بھلائی ہوتی تھی.ویسے عام معامات میں وہ طبیعت کے کھرے اور صاف گو تھے.جو بات وہ کسی کو کہتے اس پر خود اپنی و در اندیشی کی بدولت جسے رہتے.اور اس سے انحراف کو نہ اپنے لیے اور نہ کسی اور کے لیے پسند کرتے.
ہوں.میں یہاں ان کی طبیعت کے استقلال کا ایک واقعہ ہو بہت کے لیے سبق آموز ہے.بیان کرتا خادم صاحب کے والد بزرگوار حضرت ملک برکت علی صاحب سال ۱۹۵۲ء میں فوت ہوئے تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام کے رفیق اور موصی تھے.ان کی وصیت کا حساب.ان کی وفات پہ فوراً بے باق کہ دیا گیا تھا.لیکن باوجود اس کے خادم صاحب نے اپنی اس خواہش کے تابع کہ اپنے والد مرقوم کی قبر یہان کو دعا کرنے کا موقعہ حاصل رہے.ان کی میت کو اما نتا صندوق میں گجرات میں ہی دفن کرایا.اور قبر اندر سے پختہ اینٹوں کی اس طرح خرابی بنوائی گئی.کہ صندوق کو مکن طور پر کم نقصان پہنچے.اور جب میت قادیان مقبرہ بہشتی میں دفنانے کے لیے جانی ہو.تو بآسانی قبر سے وہ برآمد ہو سکے.اس کے بعد سال ۱۹۵۲ ء سے اپنی وفات تک ان کا بلا تساہل اور بلا مبھول چوک یہ معمول رہا.کہ سوائے کسی الہ مجبوری کے وہ ہر جمعہ پڑھانے کے بعد براہ راست بلا لحاظ شدت موسم خواہ بارش ہو بلا یا کڑا کے کی سردی یا گرمی جس کے لیے وہ چھتری سائیکل پر ساتھ رکھتے تھے.پہلے وہ قبرستان جاتے اور اپنے والد مرحوم کی قبر پہ دعا کر کے گھر واپس لوٹتے.کہنے کو یہ بات ایک معمولی بات ہے.لیکن اس مداومت اور استقلال پر جب فی زمانہ عام انسانی غفلت اور تساہل اور والدین کے احسانات سے خود کش فراموشی کو سامنے رکھتے ہوئے غور کریں.تو یہ ایک ایسا کارنامہ ہے.جو صرف ایسے مجاہد نفس سے صادر ہو سکتا ہے.میں کو اللہ تعالیٰ پر اور عالم معاد پر کامل یقین کے ساتھ والدین کی محبت میں روح کی تانگی اور روحانی زندگی بھی حاصل ہو.دنیوی ذاتی معاملات ہیں جہاں تک میں نے ان کو پا یا ہے.وہ ہمیشہ آپیس کے معاملات میں مقدمہ بازی جھگڑا یا فساد سے بچتے تھے.گویا ان کے نزدیک اس میں تضیع اوقات وزیر کے علاوہ تضیع اخلاق کا بھی خطرہ تھا.ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی.کہ کسی نہ کسی طرح کسی قدر نقصان یا حجر رج کے ساتھ بھی ایسے معاملات کا تصفیہ ہو جائے.کہ دل کی پریشانی سے آدمی جتنا بچے اتنا ہی بہتر ہے.لیکن دینی معاملات میں ہیں یہ نہیں کہہ سکتا.کہ اس معیار کو وہ سامنے رکھتے تھے.بلکہ وہ ہمیشہ اختلافی معاملات یا مسائل کو غائت درجہ حل کرنے یا کامل تصفیہ تک پہنچانے کی کوشش نہیں لگے رہتے تھے اور وہ یہ ذوق اور شوق بکمال استقلال کرتے تھے.
794 فطری طور پر خادم صاحب شگفتہ مزاج تھے.مگر طبیعت پر مضبط متھا.شگفتگی اور کرختگی حسب زندہ دلی حالات کچھ اختیاری تھی.ان کے بے تکلف دوست اور ان کے ایوان ظرافت کے تحمل کے زائرین ان کی اس سیرت کے بجد مدارج اور قائل ہیں.کہتے ہیں.دم سانہ دوستوں کی ہلکی پھلکی محل میں وہ ٹھیس کا سنگار تھے.مجلس پر چھا کر ہر ایک کے وہی میر جمع دل ہوتے.اور ہاتف غیبی سے تائید یافتہ.اپنے علم وفضل کے دامن سے ظرافت کے ہلکے پھلکے پھول اٹھاتے اور خاص مشار الیہ پر اس انداز سے پھینکتے.کہ پھول لگے مگر کانٹا نہ چھے.یہ پیسے ہے کہ لطیف ظرافت ہی صرف صحیح انفر ظرافت میں داخل ہے.یعنی ایسی ظرافت کہ جس کو کثافت ذہنی یا می خاطر نے نہ چھیڑا ہو.اور جو روح کے پروں میں نامعلوم طور پر گھس کر بہجت آگین ہیجان.اور وجدان پیدا کرے.باقی سب " - درد اور بار خاطر جولانی طبع اور جودت میں قدرت نے خادم صاحب کو ایک وافر حصہ دیا تھا.اس کے ساتھ علم وفضل کا آئینہ اس حسن کو دوبالا کرنے والا تھا خواص چھوڑ عوام جن کے ساتھ بے تکلفی تھی.وہ ان کی اس سیرت کو بحرت تمام یا دکر کے روتے ہیں.مناظرات ومباحثات میں بھی ان کی اس سیرت کا یہ تو بے ساختہ جھلک اٹھتا تھا.مگر ضبط اور نفات کو کبھی ہاتھ سے نہ دیا.ایسی باریک چوٹ کرتے تھے.کہ دشمن کھسیا نہ ہو کہ دم بخود ہو جاتا اور ان کی یہ بے ہراس دلجمعی اور شگفتگی جو علامت کامرانی اور کامیابی ہے.سامعین کے نزدیک ان کی فتح کی دیل ہوئی.لوکل بار روم ہی ان کی اس سیرت کی زیادہ رموزدن جولان گاہ تھی.وہاں برابہ کی چوٹ مفتی مگر ان کی فوقیت مسلم ہے.خادم صاحب نے اپنے ذوق کی مناسبت سے ریڈیو لاہور پر ایک نظریہ جس کا غائبا عنوان " عدالتوں میں نوک جھوک، تھا کی تھی.بہت دلچسپ تھی.خالص دوستی کا جذبہ ایک ممتاز شرف ہے اور انسانیت کا نہ یور خادم صاحب کی دوستی کا رنگ خود فری ناکس کا دوست ہے اور نہ وہ دوستی کے قبیل.نہ جہاں تک میں نے خادم صاحب کو دیکھا ہے وہ دوستی کے معاملہ ہیں.ایک رقیق القلب اور رنگ پیر در انسان تھے.ابتدائی طالب علمی کے زمانہ سے اب اخیر تک اپنے قدیم دوستوں کے ساتھ
494 ان کا تعلق یکساں خلوص رہتے تکلفی کا تھا.کسی کے جذبہ دوستی کی حقیقی قدر و منزلت کا حال تب کھلتا ہے.جب وہ اپنی زندگی کا ابتدائی طالب علمی کا دور طے کر کے مروجہ تمدن کی مختلف المدارج سوسائٹی میں داخل ہوتا ہے.اگر اپنی اس نئی منزل میں بھی اس کا سلوک سوسائٹی کی طبقاتی تقسیم کے علی الرغم اپنے قدیم مجولیوں اور ہم نشینوں سے ویسا ہی رہتا ہے.جیسا کہ ان سے کبھی پہلے تھا.تو پھر سمجھو.کہ و شخصی حقیقی دوستی کے جذبہ کا امین ہے اس معیار پر اگر خادم صاحب کی دوستی کو جانچا جائے.تو صاف نظر آئے گا.کہ ان کو زیادہ بیگانگت اور خیر سگال کا تعلق ایسے مخصوص دوستوں سے تھا جو بظاہر سوسائٹی کی طبقاتی تقسیم میں کسی بہت سے ان سے نچلے طبقہ میں تھے.کیونکہ خادم صاحب ان کی خاطر داری کا خیال اور دلداری کا اہتمام اب بھی اسی طرح کرتے تھے.جیسا کہ ماضی کے بعید ایام میں.دوستانہ ہوا خواہی کا سرچشمہ دل ہے.اور وہاں تک ایک غیر کی نظر کو خواہ وہ کتنی ہی تیز اور سریع کیوں نہ ہو.قابل اعتبار رسائی نہیں.اس لیے میں حالات چشم دید کی بنابر پہ ان کے دوستوں میں کوئی قابل اعتبار تقسیم تو نہیں کر سکتا.مگر یہ میں کہ سکتا ہوں کہ یہ جو بظاہر ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع نظر آتا ہے.اس کی اگر با ہمی اخلاص مردت اور قربانی کی جریب سے حد بندی کی جائے.تو کچھ لوگ اس حلقہ سے باہر کھڑے نظر آئیں گے.مگر اس میں کسی کا قصور نہیں.ہمارے مادری مندن مادی ماحول مادری نظریہ زندگی کے اس روح کش نہ مانہ ہیں جیسا کہ بقول شیخ سعدی علیہ الرحمۃ حیشہ شیریں کے گرد مورد سلیخ اور ایک سیاسی شخصیت ملک و سلطان کی صحبت میں نفع گیر مصاحبین جمع ہو جاتے ہیں.ویسے ہی کسی مفید وجود کی طرف جو اپنے ذہن رہا.عملی توت پختگی عزم اور اثر و رسوخ کی بدولت قابل قدر ہو متمدن مصلحت کوشش فرزانوں کا رخ کرنا بعید از قانون قدرت نہیں.خادم صاحب حقیقتاً خادم اسلام تھے.اور فقط یہ خوبی ان کی وجہ امتیاز تھی.یہانتک کہ ان کے عقیدہ کے مخالف بھی ان کی اس خوبی کریکٹر کے بادل نخواستہ قائل تھے.اس کے ساتھ وہ پختہ مغز - مدیر عاقبت اندیش مشیر اور راسخ العریم با ہمت نبوان تھے.اور ان چیزوں کی اس دنیا میں بہت مانگ ہے اس لیے ایسے وجود کے دامن سے اگر بعض مصلحت کیش ملی و البستہ نظر آئیں.تو کسی کو تعجب نہ کرنا چاہیئے.ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گجرات نے اپنی قرار داد تعزیت مورخہ یکم جنوری ۱۹۵۸ء میں خادم
۶۹۸ صاحب کی اچانک اور بے وقت وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی وفات سے نہ صرف ایک دیرینہ ہمدرد دوست کی رفاقت سے رسم مردم ہو گئے ہیں.بلکہ ایک عالم ہمارے رمیان سے اٹھ گیا ہے.جو ہمہ گیر لیاقت اور تخلیقی صلاحیتوں کا حامل تھا.رشتہ داروں کے ساتھ سلوک میں جو خاص بات میں نے دیکھی اور تواتر کے ساتھ جس کا تجربہ کیا.وہ یہ تھی.کہ کسی سے ہمد بندی کے موقعہ پر ان کا دل جس کے تابع ان کا عمل ہوتا تھا.نہ یادہ حرکت کرتا.اور زبان کم.وہ کسی کا کام کر کے اس کو احسان جتانا اپنے وقار کے خلاف سمجھتے تھے.صرفت یہ نہیں.بلکہ اگر ان کے سامنے کوئی احسان پذیرائی ظاہر کرنا چاہے تو ان کے چہرہ پر ناگواری کی خشونت کے آثار نظر آتے لگتے تھے.وہ رشتہ دار سے رشتہ داری کے تعلق میں کسی قسم کا فائدہ اٹھانا عار خیال کرتے تھے.بحیثیت وکیل یا کسی اور تنگ میں بھی اپنے رشتہ داروں.دوستوں اور بے کسی غریب ناداروں کی بلا دحیہ معاوضہ خدمت کرتے نگر خود حتی الوسع کسی اپنے ذاتی کام کے لیے فرمائش کرنے سے کتراتے تھے.عوام سے جو ان کی اس سیرت سے واقف تھے بالخصوص ضلع کے اندر جماعت کے کمزور اور بے کس افراد جو اپنی ہر مشکل کے موقعہ پر ان کی طرف رجوع کرتے تھے.اب ان کی مفارقت کو بہت زیادہ پھسوس کرتے ہیں.عزیزم خادم صاحب کو مکرم مولانا ابو العطاء صاحب کے ساتھ اپنی بہت اوائل ایام تبلیغ سے محبت اور مودت کے تعلقات تھے وہ مولانا صاحب موصوف کی علمی صلاحیتوں کے مداح تھے.اور کہتے تھے کہ ان صلاحیتوں کے علاوہ وہ صوفی منش ہیں اب خادم صاحب کی وفات کے بعد ہر شخص اپنے اپنے تعلق کے مطابق ان کی جدائی کو محسوس کرتا ہے.میلے " بچو ہدری بشیر احمد صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ گجرات - ئیس محترم خادم صاحب مرحوم و مغفور کو اوائل طالب علمی سے جانتا ہوں.وہ میرے مخلص ترین اور وفادار دوست تھے.سکول اور کالج کی تعلیم کے زمانہ سے تبلیغ ان کا مرغوب مشغلہ رہا.پڑھائی کی طرف بہت کم توجہ تھی.جب آپ نے مڈل کا امتحان پاس کیا تو ہم نے مل کر احمد بہ ینگ مین ایسوسی ایشن ه الفرقان جنوری ۱۹۵۹ء ص ۳۳ تا ۴۰
گجرات کی بنیاد رکھی.جس کے ہفتہ وار تبلیغی اجلاس منعقد ہوتے تھے.محترم خادم صاحب اس ایسوسی ایشن کے صدرہ اور روح رواں تھے.ابھی آپ نویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ مقامی عیسائیوں نے مشن ہائی سکول گجرات کے دین کیا ڈونڈ میں ایک عظیم الشان پبلک تبلیغی جلسہ کے انعقاد کا اعلان کیا اور پا در عبدالحق صاحب کو خاص طور پر اس جلسہ میں لیکچر دیتے کے بیٹے بلایا گیا.پادری صاحب کی تقریبہ کے بعد تقریر پر اعتراضات پیش کرنے کا اعلان کیا گیا.اس پر ہمارا نو آموز مجاہدہ خادم خدا کا نام لے کر میدان میں کود پڑا.اور سوال وجواب کا سلسلہ شرو ع ہوگیا.جس نے بالآخر ایک باقاعدہ مناظرہ کی صورت اختیار کر لی.پادری عبد الحق صاحب کو اپنی منطق اور عربی دانی پر بہت نازہ اور گھمنڈ تھا.خادم صاحب نے آدھ گھنٹڈ کے اندر اندر اپنے برجستہ اور ٹھوس دلائل سے پادری صاحب کو لاجواب کر دیا.اور پادری صاحب جلسہ چھوڑ کر فرار ہو گئے.جس پر غیر عیسائی حاضرین جلسہ نے پادری صاحب پر سٹی سٹیم کے نعرے لگائے.محترم خادم صاحب کا یہ پہلا پبلک مناظرہ تھا جس سے ان کی آئندہ درسیل تبلیغی جدو جہد کا آغازہ ہوتا ہے.اس کے بعد آپ نے احمدیہ ینگ مین ایسوسی ایشن گجرات کے زیر اہتمام مقامی اگر یہ سماج اور غیر احمدی علماء سے پے در پے متعدد کامیاب پہلک مناظرے کیے.مہفتہ رفتہ آپ کی شہرت تمام جماعت میں پھیلنی شروع ہو گئی.اور آپ اپنے تعلیمی مشاغل کو پس پشت ڈال کہ ملک کے طول و عرض میں میدان مناظرہ پر چھا گئے.آپ نے مشہور زبان درانہ دریدہ دین مخالفین سلسلہ پر اپنی خداداد قابلیت اور لاجواب فن خطابت سے ہیبت طاری کر دی.۱۹۳۴ء میں محترم خادم صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے کلاس میں پڑھتے تھے.ان دنوں جناب قاضی محمد اسلم صاحب جماعت لاہور کے امیر تھے قاضی صاحب موصوف کی سرپرستی میں ہم نے احمدیہ فیلو شپ آف یو مقو لا ہور کی بنیاد رکھی.محترم خار کم صاحب اس مجلس کے صدر تھے.اور ان کی صدارت میں احمدیہ فیلوشپ آف یو کھلا ہور نے تبلیغ کا ایک وسیع پروگرام مرتب کر کے اسے عملی جامہ پہنایا.اور کثیر تعدادمیں تبلیغی ٹریچر شائع کیا.جب تک آپ لاہور میں بسلسلہ تعلیم مقیم رہے نشرو اشاعت کا یہ سلسلہ با قاعدہ جاری رہا.۱۹۲ء میں آپ نے وکالت شروع کی لیکن زیادہ تر آپ سلسلہ کی خدمات میں سرگرم عمل رہے اور آپ نے ہمیشہ پیشہ وکالت کو ایک ثانوی حیثیت دی.۱۹۴۶ء سے وفات تک جماعت مجرات کے
امیر رہے.اور اپنی ذمہ داریوں کو نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے.محرم خادم صاحب کے رگ وریشہ میں احمدیت رچی ہوئی تھی.حضرت......خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائی تھے.اور ان کی عالی مرتبہ شان کے خلاف کوئی نازیبا کلی شنا گوارا نہ کرتے تھے.۱۹۴۶ء میں ایک دن میں بار روم گجرات میں داخل ہوا.تو کیا دیکھتا ہوں کہ بار روم میں ایک شور بہ پا ہے.خادم صاحب کے ہاتھ میں ہوتا ہے.جس سے ایک ہندو وکیل کو بے تحاشا ما ر ہے ہیں.تمام ہندو اور مسلمان وکلاء سہمے ہوئے بیٹھے ہیں اور کسی کو جرات نہیں پڑتی کہ وہ اس ہند و وکیل کو خادم صاحب کے پنجہ سے چھڑائے.خادم صاحب نے اس قدریہ مارا کہ اس کے سر سے خون جاری ہو گیا.اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا.وکلاء نے بڑی مشکل سے اسے اٹھایا اور دوسرے کمرہ میں پہنچایا.دریافت کرنے پر خادم صاحب نے بتایا کہ اس نیت نے مسلمان وکلاء کے سامنے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات استعمال کیے تھے مین کی وجہ سے انہوں نے اسے پیٹا ہے.تاکہ آئندہ کوئی ہندو وکیل ہماری غیرت کا امتحان لینے کی جرات کر سکے.محترم خادم صاحب جہاں ایک بہترین مقر را در مناظر تھے.وہاں ایک کامیاب وکیل بھی تھے.اور مقامی بار میں نہایت عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے.آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا.آپ ایک مخلص اور قابل فخر دوست تھے.طبیعت نہایت شگفتہ اور بذلہ سنج واقعہ ہوئی تھی.وہ مجلس کی رونق اور سنگار تھے تحریم قادم صاحب مرحوم و مغفور کو سب سے بڑا خراج عقیدت جو نونا لان جماعت پیش کر سکتے ہیں یہ ہے کہ وہ ان کی قابل رشک روایات کو زندہ رکھیں اور اپنے اندر قدمت دین کا سچا جذبہ پیدا کریں.بکوشید اسے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بہار رونق اندر روضه ملت شود پیداب محترم جناب پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اسے سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور یکی ۱۹۲۹ء میں انگلستان سے دو سال مزید تحصیل علم کے بعد واپس لاہور لوٹا.مجھے انگلستان جانے غیر مطبوع
سے پہلے بھی اور وہاں کے قیام کے دوران میں بھی تبلیغ اور اشاعت کے کاموں سے دلچسپی تھی.جب میں واپس آیا تو میں سب سے گہرا اثر یہ لے کر آیا کہ سلسلہ کے پڑھے لکھے نوجوان ایسے ہوں جو انگریز کی کلیوں کی تقسیم سے بھی بہرہ ور ہوں اور عربی اور اسلامی علوم سے بھی خوب واقف ہوں تا بہ مشرقی و غربی عوم کا اجتماع جو ہمارے سلسلے کا امتیاز رہا ہے.قائم رہے اور آئندہ ترقی کرتا چلا جائے.واپسی پر حضور ایدہ اللہ مبصرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوا کچھ باتیں کرنے کا موقعہ بھی ملا.حضور ایدہ اللہ لاہور میں قیام فرما تھے.اور ماڈل ٹاؤن میں مکرمی تور بدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کو تھی میں فروکش تھے ایک مجلس میں دو تین طالب کم نمایاں نظر آئے.میں نے اس موضوع پر حضور کی خدمت میں کچھ گذارش کرد بھی مفتی.اس مجلس میں اشابہ کافی تھا میں نے کہا کاش ! کالجوں میں پڑھنے والے نوجوان بھی سلسلہ کے علوم میں ایسے طاق ہوں.جیسے کوئی بڑے سے بڑا مبلغ میں نے اس خیال کو پھر پیش کر دیا.میرے فقرے میں کچھ بے اطمینانی تھی حضور ایدہ اللہ نے سنتے ہی مجلس میں ایک نوجوان کی طرف اشارہ کیا.اور کہا آپ انہیں نہیں جانتے با حضور کے اشارے میں میرے فقرے کا جیتا جاگتا جواب تھا.یہ نوجوان جو گفتگو کے لحاظ سے بڑا ذکی اور زمین ، ایک عجیب خود اعتمادی اور اولوالعزمی لیے ہوئے تھا.گورنمنٹ کالج کا سرخ بلیز پہنے ہوئے.چھوٹی چھوٹی ڈاڑھی.بڑی بڑی آنکھوں والا ہمارا عبد الرحمن خادم تھا.جسے قرب سے اور بار بار لٹنے اور جس کی تقریہ اور تقریر کو سنے دیکھنے کے مواقع مجھے بار بار ملنے والے تھے.خادم صاحب کو دیکھتے ہی میرا اپنا حوصلہ بڑھ گیا.پھر کیا تھا.لاہور میں کئی سال ان کی تقریروں اور تحریروں کے غلطے ہوتے رہے اور ہر روز کوئی نیا محاذ کوئی نئی فتح ، انہی دنوں کی بات ہے موچی دروازے کے باہر ایک مشہور مناظر کو خادم صاحب نے (اس طالب علمی کے عالم میں (!) للکارا.اور ایسا ساکت کیا کہ سلسلے کے مخالف بھی، نہ صرف محسوس کر گئے.بلکہ منہ سے مان گئے کہ ان کے مولوی صاحب سے کچھ نہیں بنا.اس کے بعد میں نے خادم صاحب کو لگنے میں مصری شاہ میں اور کئی دوسری جگہ کیثیت مناظر دیکھا اور بحیثیت رونق مجلس اور لیکچرار تو بے شمار جگہ.ان کی ایک نہایت ہی کامیاب تقریرہ سیرت کے موضوع پر گورنمنٹ کالج لاہور میں اس زمانے کی مسلم ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ہوئی.جسے سن کر کالج کے مسلمان غیر مسلمان پر وفیسر دنگ رہ گئے.وہ تقریبہ ایسی سحر انگیز تھی کہ اس کے بعد ایسی تقریروں کا سلسلہ بند ہو گیا.
L خادم صاحب کی قلمی مساعی میں لاہور کے احمدی نو جوانوں کی ایک انجمن کا ذکر آتا ہے جس کا نام احمدیہ فیلوشپ آف یو تھ تھا.اس کے کرتا دھرتا خادم صاحب ہی تھے.اپنی کا ایک حلقہ تھا جو اس کے لیے چندہ دیتا یا جمع کرتا تھا.جس سے اس کے پمفلٹ شائع ہوتے تھے.بالعموم کسی یوم التبلیغ پر یاکسی اور اہم تقریب پر ایک پمفلٹ حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بھی رقم فرمایا اور اسی فیلوشپ کو چھاپنے کے لیے دیا.احمدیہ فیلو شپ آف یو تھر کے پمفلٹوں کا فائل محفوظ کرنے کے قابل ہے.امید ہے ہماری لائبر سمیر یاں اس کی طرف توجہ کریں گی.میں اس فیلوشپ کے کاموں کو قریب سے جانتا تھا.میرے مشورے اس میں شامل ہو تے تھے.بلکہ اس زمانہ میں لاہور کا امیر ہونے کی وجہ سے ان پمفلٹوں کی اشاعت میں میری عام ذمہ داری بھی شامل ہوتی تھی.احمد یہ فیلوشپ آف یو تھ میرا ہی تجویز کیا ہوا نام تھا.انگلستان کی ایک ایسی ایسوسی الیشن کا نام تھا جو مجھے پسند آگیا اس زمانے میں لاہور میں ہم نے ایک سنڈی سرکل کی بنیاد رکھی جنہیں میں علمی مقالے پڑھے جاتے.سال بھر کا پروگرام طے کر لیا جاتا.ہر مقالے کے وقت مخصوص اور محدود مظفری ہوتی اور مقالے پڑھے جانے کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ ہوتا.ہماری جماعت کے مشاہیر نے مثلاً اخوریم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے آدم فی القرآن پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بشارات بائیل پر ، مولانا جلال الدین صاحب نفس نے جہاد فی القرآن پر بیش قیمت مقالے خاص تیاری کے بعد پڑھے.جہاں تک مجھے یاد ہے یہ شائع بھی ہوئے غالباً یہ تینوں تو ضرور شائع شدہ ہیں.بیرون جماعت دوست بھی جو ہمارے ساتھ تعاون کرتے.اس سرکل میں شامل ہوتے اور مقالے بھی پڑھتے اور ایک خوشگوار اور مفید علمی و دینی تحقیق کا سلسلہ باہمی ادب اور تعاون کی شکل میں جاری رہتا.اس سٹڈی سرکل میں خادم صاحب نے نہایت عمدہ مقالہ پڑھا.ان کو جب دعوت دی گئی تو مجھے خیال ہوا خادم صاحب کی طبیعت کے لیے بحث کا میدان جس میں ترکی یہ ترکی جواب دینا ہوتا ہے شاید انہ یادہ موزوں ہو.سٹڈی سرکل کا ماحول ان کے لیے زیادہ موزوں نہ ہو.کیونکہ اس میں نسبتا + ٹھنڈے طریق کی ضرورت تھی.اور کچھ رسمی قسم کے علمی طریق کی جس کی ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ ایسی علمی باتیں بھی بیان کی جائیں جن کا کسی جذباتی اور دوقتی بحث سے زیادہ تعلق نہ ہو.خادم صاحب نے کہا
۷٠٣ کہ وہ سب کچھ منظور کرتے ہیں.خادم صاحب نے موضوع کیا جنا ب حسان بن ثابت کی شاعری ہمارے دوست جانتے ہیں کہ حسان بن ثابت کے ایک شعر نے ابتداء اسلام کے اس شاعر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور عاشق کو زندہ جاوید کر دیا ہے.اس شعر کی تقریب کو حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اور آپ کے متعین نے اور علی الخصوص ہمارے موجودہ امام اور خلیفہ ایدہ اللہ نصرہ العزیز نے خوب اجاگر کیا ہے.حسان بن ثابت نا بینا تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر انہوں نے اس شعر میں کہا که نامه تو میری آنکھ کی پتلی تھا.یعنی مجھے اندھے کی دنیا تیری وجہ سے روشن متقی اب تیرے مرنے کے بعد مجھے پرواہ نہیں کون جیتا اور کون مرتا ہے.خادم صاحب کے دل ودماغ میں سلسلہ کی تحریر یں بسلسلہ کا مخصوص علم.اور طرز کلام پوری طرح راسخ تھا.(ہاں اس طالب علمی کے زمانے میں !) آپ نے ایک علمی موضوع کے لیے اسی خزانے کی طرف رجوع کیا.اشارہ وہاں سے مل گیا.اپنے مطالعے سے اسی اشارے کو پھیلا کہ آپ نے پورا مضمون تیار کر لیا.حسان بن ثابت کا مجموعہ کلام لائبریری سے لے کر چھان مارا.زندگی کے حالات سب قسم کے ماخذوں سے جمع کر کے مرتب کرلئے.اور سیرت نبوئی اور زمانہ ابتداء اسلام کے اس خدائی رسول اور خدائی اسلام کی سیرت اور شاعری کو ایسے عمدہ طریق سے مربوط کیا کہ مٹنے والے عش عش کر اٹھے.مقالہ سٹڈی سرکل کا شاہکار ثابت ہوا.احمدیہ ہوسٹل ایمپرس روڈ میں اجلاس ہوا اجلاس میں لاہور کے کئی پر و فیسر موجود تھے ان میں عربی ادب اور اسلامی تاریخ کے استاد بھی تھے لیے محترم چو ہدری محمد اسد اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور ر برادرم مکرم ملک عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم و مغفور کے ساتھ مجھے دیرینہ تعلق تھا.ابھی وہ لاء کالج میں وکالت کی تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ میرا ان سے بے تکلف رابطہ ہو گیا تھا.میں نے ان کو نہایت با غیرت پکا اور سچا مو من احمدی مسلمان پایا.ان کا دینی مسلم بہت گہرا اور وسیع تھا.کالج کے زمانہ میں انہوں نے ایک انجمن قائم کی تھی.جس کے ممبران کی تعداد دینا تھی.اور اس له الفرقان جنوری ۱۹۵۹ء مکا تا ۲۰
مناسبت کے باوصف اس کا نام "عشرہ مبشرہ رکھا گیا تھا.ملک صاحب مرحوم مضامین لکھتے تھے جوڑ کیوں کی صورت میں شائع ہوتے رہتے تھے.اور تبلیغ کا اس قدر وسیع کام ہوتا تھا.کہ اس انجمن کے ہر ممبر کے لیے دل سے دعا نکلتی تھی.مضامین صرف جوابی ہی نہیں ہوتے تھے جبکہ اپنے نظریات بھی پیش کیے جاتے تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے نتائج نہایت شاندار حاصل ہوتے تھے.اللہ تعالیٰ نے اس تبلیغی جدو جہد کے ذریعہ سے سلسلہ حقہ احمدیہ کو کئی نوجوان مخلص خادم بھی عطا فرمائے.جو آج بھی اس انجمن کے ممبران کے لیے بطور صدقہ جاریہ ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مالک اس نہایت ہی مفید کام کے صلے میں مکرم ملک صاحب مرحوم اور باقی تمام عمران کو نہا بہت اعلی درجہ کے انعامات سے نواز سے آمین کالج کے زمانہ کے بعد ملک صاحب مرحوم کو میں والہانہ اندانہ میں اسلام کی تبلیغ کے جذبہ سے سرشار دیکھ بہت ہی کم نو جوانوں میں وہ جذبہ دیکھنے میں آیا ہے.تمام لوگ جانتے ہیں.کہ وکالت کا کام بہت محنت اور توجہ چاہتا ہے اور ملک صاحب مرحوم اپنے کام میں کامیاب تھے.اس لیے انہیں بہت کم فارغ وقت مل سکتا ہو گا.پھر بھی جب کبھی دین کی ضرورت کا انہیں علم ہوتا.وہ بغیر کسی عذر کے فوراً خدمت کے لیے تیار ہو جاتے.ان کی اس بے لوث دینی مستعدی کی وجہ سے ان کا تخلص خادم نہایت موزوں تھا.بعض لوگ وقت کی قربانی بھی پیش کر دیتے ہیں مال کی قربانی بھی پیش کر دیتے ہیں.لیکن اپنے اسلام کی قربانی میں شکستی دیکھا جاتے ہیں.ملک صاحب مرحوم کو میں نے دیکھا کہ وہ ہر قسم کی قربانی پر طیب خاطر اور کما حقہ ادا کرتے تھے.ایک دفعہ ضلع گوجرانوالہ کے ایک دور افتادہ گاؤں میں مجلس مناظرہ منعقد ہوئی.جہاں مکرم ملک صاحب کو احمدیہ نقطۂ نگاہ پیش کرنے کے لیے بلوایا گیا تھا.راقم الحروف کو بھی اس مجلس میں شمولیت کا موقعہ ملا.اختتام مناظرہ پر ریلوے سٹیشن نارنگ تک پہنچنے کا کوئی انتظام نہ ہو سکا.اس لیے ہم پیدل ہی آئے فاصلہ قریباً آٹھ میں ہو گا میں نے دیکھا کہ باوجود دو دن مناظرہ میں متعدد تقریریں کرنے کے مکرم ملک صاحب مرحوم نے یہ فاصلہ بغیر کسی تھکاوٹ کا اظہار کرنے کے طے کیا حالانکہ ہمارے ساتھ کے کئی احباب تکان سے بحال ہو رہے تھے.دینی خدمات کے ضمن میں ملک صاحب مرحوم کے لیے کوئی رکاٹ روک پیدا نہ کر سکتی تھی.غیرت دینی اور پابندی نظام میں بھی مکرم ملک صاحب معزز حیثیت رکھتے تھے اور ان کو دیکھ کر ہمیشہ دل سے ان کے لیے دعا نکلتی تھی.اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں انہیں نہایت اعلیٰ مقام عطا فرمائے
اور ان کے بچوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق وافر عطافرمائے.آمین.ملک صاحب مرحوم عمل زندگی میں انقطاع الی اللہ کی نہایت پر منفعت مثال تھے.وہ دنیا میں رہتے تھے پر دنیا سے بالکل بے پرواہ ہو کر با وجود ایک نہایت ہی دنیا دارانہ پیشہ اختیار کرنے کے انہوں نے دنیا کو کبھی اختیار نہ کیا تھا.اور ان کی دینی عملی زندگی دیکھ کر ہمیشہ رشک آیا کرتا تھا.لیکن یہ خاصیت اللہ تعالی کے خاص فضل سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.زور باند سے نہیں.اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں مکرم ملک صاحب مرحوم نہایت نڈر تھے اور ان کی زبان اور نطق میں اللہ تعالیٰ نے بے اندازہ برکت رکھی تھی.منادات پنجاب (۱۹۵۳ء) کے تحقیقاتی کمیشن کے رد برد دینی حصہ کو پیش کرنے میں جس بے لوث اور جرات مندانہ انداز میں آپ نے جماعت احمدیہ کی وکالت کی وہ فاضل جج صاحبان سے بھی خراج عقیدت حاصل کر گئی.جس کا انہوں نے اپنی رپورٹ میں نہایت زور دار الفاظ میں ذکر کیا ہے.جتنی دیر ملک صاحب تقریر کرتے رہے تمام سامعین گویا مسحور ہی رہے.جماعت احمدیہ کو ماضی قریب میں بہت سے مخلص اور پر جوش خدام سے جدا ہونا پڑا ہے وہ لوگ تو اپنا عہد اللہ تعالی سے باندھ کر اُسے کما حقہ نباہ کر اُس کے پاس چلے گئے.لیکن جو ابھی تک اس سجن المومنین میں موجود ہیں اُن پر ایک نہایت ہی عظیم زمہ داری کا بوجھ پڑا ہے.ہمیں ضرورت ہے کہ ہر آن ہم میں صادق اور عرفانی اور خادم پیدا ہوتے رہیں.تاکہ خدا کے کام میں روک پیدا نہ ہو بلکہ اس کا کام پہلے سے بھی پڑھے کہ وسیع اور کامیاب موبیلہ.جناب بشیر احمد صاحب چغتائی کی.ایس سی واہ کینٹ.میں ۱۹۲۵ء میں گجرات انٹر میڈیٹ کالج میں دسویں میں جاکر داخل ہوا.تو محترم بھائی ملک عبدالرحمن صاحب قادم مرحوم و مغفور سے تعارف حاصل ہوا.عربی اور اردو ہمارے مشترک مضامین تھے بند دن ان کے گھر پر میٹرک کے امتحان کی تیاری کے سلسلہ میں عربی اکٹھی بھی پڑھتے رہے.دوستانہ تعلقات بڑھے تو رفتہ رفتہ گہرے برادرانہ تعلقات ہو گئے.اس زمانہ میں بھی ان کا بہترین اور محبوب مشغلہ له الفرقان جنوری ۱۹۵۹ء م۲۱۳
تبلیغ ہی تھا.لوگ احمدیت پر اعتراض کرتے اور وہ ان کا یہ کیا کرتے.بازار میں ہی بعض اوقات گفتگو شروع ہو جاتی تو گھنٹوں جاری رہتی لوگ اکٹھے ہو جایا کرتے اور احمدیت کی صداقت کے دلائل ایک طالب علم کی زبانی سنا کرتے.اس زمانہ میں بھی کسی کے علم سے مرعوب نہ ہوتے اور کامل وثوق کے ساتھ مدل طور پر اپنی بات کو پیش کرتے.عام طور پر جب حضرت مسیح موعود کی کسی تحریر پر کوئی شخص اعتراض کرتا تو خادم صاحب ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ آگے پڑھو.معرمن رکتا اور وہ اصرار کرتے کہ آگے پڑھو کیونکہ سیاق و سباق خود ہی اعترا من کو حل کر دیتے.لاہور کالج کے زمانہ میں جب امیر صاحب جماعت احمدیہ لاہور کی اجازت سے احمدیہ فیلوشپ آف یو تھ بنائی تو ٹریکٹوں کے شائع کرتے ہیں اس قدر انہماک تھا کہ بعض اوقات آدھی آدھی رات تک پریس والوں اور کاتبوں وغیرہ کی طرف چکہ لگاتے رہتے اور پھر سارے لاہور شہر میں اس طرح تقسیم کراتے میںاس کہ شہر میں ایک شور پڑھاتا.کھیلوں میں سے کرکٹ اور والی بال کا شوق تھا اور کیرم بورڈ بھی خوب کھیل لیتے تھے.بعض دوستوں کو جن سے گہرے تعلقات ہوتے بہت خطوط لکھتے بلکہ بعض اوقات ایک ایک دن میں دو دو تین تین خط لکھ دیتے.سکول اور کالج ڈیٹ میں ہمیشہ حصہ لیتے اور بحث میں شگفتگی پیدا کر دیتے.میں بچپن ہی سے پان بہت کھاتے تھے.مثربت یا سوڈا واٹر بے حد برف ڈال کر خوب ٹھنڈا کر کے پیتے.احمدیہ ہوسٹل کے زمانہ سے اور پھر اس کے بعد تک چائے خوب گرم ہیتے.بچپن کے زمانہ معنی سکول کے وقت سے ہی قلم لکھتے تھے.واقعات کو دلچسپ پیرائے میں منظوم کر لیتے.اگر کسی لڑکے سے پر خاش ہو جاتی تو پھر اس کی ہجو بھی لکھتے.اور ہم جماعت لڑکوں کو اکٹھا کر کے فرصت کے وقت میں سناتے اور خاصہ مشغلہ ہو جاتا.ایک زمانہ میں کچالو کھانے کا بہت شوق ہو گیا تھا.بعض اور دوست کچالو کھانے کے شوقین تھے.ان کے ساتھ مل کر بہت کچالو کھا جایا کرتے.مٹھائی میں برفی بہت پسند بھی پچھلی بھی بڑے شوق سے کھاتے تھے.احمد یہ ہوسٹل کے زمانہ میں موری دروازہ لاہور کے
باہر باغ میں مختلف قسم کے مذہبی خیالات کے لوگ شام کے وقت اکٹھے ہو جایا کرتے.اس میں دہریہ بھی ہوتے آریہ اور سناتن دھرمی بھی.خادم صاحب اکثر اس مجلس میں شامل ہوتے اور خوب بحث مباحثہ رہا کرتا.اور معین اوقات اچھا خاصا مجمع ہو جایا کرتا.مجھے ایک مثال بھی یاد نہیں کہ خادم صاحب سے کسی نے احمدیت پر کسی اعتراض کا جواب پوچھا ہو.اور انہوں نے کہا ہو کہ مجھے ابھی فرصت نہیں کہ یا موقع نہیں یا پھر کسی وقت آئے.طبیعت میں شگفتگی تھی اور بعض محاورات کو مزاحیہ رنگ میں دے کر اسے بار بار دھراتے تو ایک مذاق بن جاتا اور پھر دوسرے بھی اس کی نقل کرنے لگتے.مثلاً یہ کہنا کہ ہمیں طبیعت صاف کر دوں گا.اس کی بجائے کہتے کہ میں طبیعت کپڑ چھان کر دوں گا وغیرہ.نظم خوب کہہ لیتے تھے.مگر میں نے کبھی ان کو اپنی نظموں کا ریکارڈ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا.البتہ اکثر اپنی دینی نظمیں الفضل وغیرہ میں شائع کر وا دیا کرتے.اکثر حوالے انہیں از بر یاد ہوتے اور جب دوران تقریر میں وہ حضرت مسیح موعود کی وہ تحدیانہ تحریر یں جو حضور نے مخالفین کو چیلنج کر کے لکھیں ہیں زبانی بوش کے ساتھ فرفر سناتے تو ایک خاص کیفیت پیدا ہو جاتی.الزامی جواب ان کی طرف سے خاص طور پر نہ در آور ہوا کر تا تھا.اور معتز من بعض اوقات سٹ پنا اٹھتا تھا.حضرت.........خلیفة المسیح الثانی ایده الله نصرہ العزیز کی دعا اور توجہ یہ کامل یقین تھا.اور اطاعت امام کے نہایت اعلیٰ مقام پر تھے.حضور سے بے حد محبت اور عقیدت تھی.ایک مرتبہ عزیز عبد الباسط صاحب کو بہت تیز بخار تھا.ادھر حضور نے خادم صاحب کو طلب فرمایا ہوا تھا.بچہ کو اسکی حالت میں چھوڑ کر چل پڑے.اس کی شدید بیماری کے متعلق تشویش اتنی تھی کہ جب گجرات اسٹیشن پر کر معلوم ہوا کہ گاڑی لیٹ ہے اور ابھی کچھ وقت باقی ہے.تو اسٹیشن سے پھر گھبرائے ہوئے گھر بچہ کو دیکھنے آئے.لیکن بچہ کو اسی حالت میں چھوڑ کر چل پڑے.حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عزیز کی بیماری کا ذکر کیا.اور کہتے تھے کہ حضور نے جس توجہ سے سُنا.مجھے اسی وقت یقین ہو گیا کہ حضور کی دعا سے بچہ کی بیماری جاتی رہے گی.چنانچہ بعد میں جب گھر واپس پہنچے تو معلوم ہو کہ بچہ کا بخار اسی وقت ہی اتر گیا تھا یا ر الفرقان جنوری ۱۹۵۹ء م ۲۶ و مت (۲)
و کرم جناب احمدعبدالحق مجاہد امرتسری گنج مظهوره الاجور ہ حضرت ملک عبد الرحمن صاحب خادم سے میرا تعارف ۱۹۳۲ ء میں ہوا جبکہ آپ نے آحمدیہ فیلو شپ آن یو تھ کے نام سے ایک انجمن قائم کی اس انجمن کے اعراض و مقاصد یہ تھے کہ تبلیغ احمدیت کے ۵۲ لٹریچر شائع کرنا اور احمدیت پر اعتراضات کے جواب دینا خواہ وہ اعترا من نظریه ی رنگ میں ہوں یا تحریر میں آپ اس انجمن کے پہلے پریذیڈنٹ تھے.ہر ماہ ایک ٹریکٹ چار صفحات کا شائع ہوتا تھا تومرحوم خادم صاحب خود تحریر فرماتے تھے اور ہر ممبر کو ۲۵ عدد ریکیٹ تقسیم کیلئے ملتے تھے آپ کے ان لڑکیوں نے لاہور میں ایک آگ لگا دی مخالفین نے احمدیت کی مخالفت ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اخبار زمیندار میں مضامین شائع کرنے کے علاوہ اسلامیہ کالج کی مسجد مبارک کو بطور ڈا مقرر کیا گیا.ہفتہ میں تین بار اس مسجد میں احمدیت کے خلاف تقریر یں ہوئی عین اس کے جواب میں احمد یہ بہت لاہور میں خود جناب ملک عبد الرحمن صاحب خادم ان تقریروں کا جواب دیتے تھے یہ سلسلہ برا بہ کئی ہفتے چلتا رہا آخر حکومت کی طرف سے دونوں فریقوں کو نوٹس دیئے گئے اور مقدمہ دائر کیا گیا جماعت کی طرف جناب عزت تاب چو ہدری ظفر اللہ خاں صاحب پیش ہوئے اور تمام احمدی اصحاب کو ضمانتوں پر رہا کیا گیا اگر فریق مخالفت نے ضمانت دینے سے انکار کردیا.اور ان کو جیل بھیج دیا گیا مقدمہ انگریز سٹر ڈزنی کی عدالت مضا مخالف علماء نے مرحوم خادم صاحب پر متواتر پا ۴ گھنٹے جرح کی اور پہلے ہی دن مخالفین کو شکست ہوئی اس مقدمہ کو سننے کے لیے امرتسر سے مولوی ثناء اللہ صاحب وحبیب اللہ صاحب کلرک خاص طور پر لاہور آئے ہوتے تھے آپ کے دلائل اس قدر بر جستہ اور وزن دار تھے کہ مسٹر ڈزنی بہت متاثر ہوئے آپ کی تقریرہ میں ایک خاص رنگ ہوتا تھا آپ سامعین پر چھا جاتے تھے.گنج مغلپورہ میں احرار کا بہت نه در مظاہر پندرہ دن کے بعد ہمارے خلاف جلسہ کیا جاتا تھا اس کے جواب میں مرحوم خادم صاحب چھ چھ گھنٹے متواز تفریہ کرتے تھے اس قدر لمبی تقریر آپ نے سوائے مغلپورہ میں اور کسی جگہ نہیں کی ایک دفعہ احرار نے بغیر اشتہار چھپوائے جلسہ کیا حاضرین کی تعداد ہزاروں تھی لال حسین اختر نے اس جلسہ میں بڑی تعلیوں سے کام لیا اور کہا کہ خادم میرے مقابلہ میں نہیں آسکتا اتفاق سے آپ سیر کرتے ہوئے گنج میں آگئے اور بہیت میں دوستوں کو بیٹھے دیکھ کر فرمایا کہ کیا مشورہ ہورہا ہے یہ بتانے پر کہ لال حسین نے یہ فقرہ آپ کے متعلق کہا ہے فرمانے لگے یہ اس کا آخری جلسہ ہے پھر کبھی وہ اس جگہ نہیں آئے گا یہ
2.9 کہ کہ آپ جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہو گئے لال حسین اختر نفریہ کر رہا تھا کہ آپ نے گرج کر کہا سائیں صاحب خادم آگیا ہے آپ کا یہ کہنا تھا کہ جلسہ گاہ پر سناٹا چھا گیا اور کئی منٹ تک خاموشی طاری رہی آخر مناظرہ کی طرح ڈالی گئی اور پرا سو گھنٹ آپ نے مناظرہ کیا اس کے بعد آج تک احرار کی طرف سے گنج مغلپورہ میں کوئی جلسہ نہیں ہو سکا اس کے مقابل جماعت احمدیہ مغلپورہ متواترہ اپنا سالانہ جلسہ کرتی رہی جو کامیابی کے ساتھ ہوتا رہا یہ واقعات ۱۹۳۲ ء سے لے کہ ۱۹۳۵ ء تک کے ہیں.۹ - اہلحدیث حالم جناب مولوی ابو یحی امام خاں صاحب نو شہر دی در میری ان کی ملاقات کی تقریب میری طرف سے ان کی اور ان کے مسلک کی دشمنی سے شروع ہوئی.جو بعد میں ان کی محبت مگر ان کے مسلک کے معاملہ میں بدستور دشمنی پر قائم رہی.کاش اس بارہ میں اور شدت کی گنجائش ہوتی اور اے کاش خادمتم صاحب کی محبت میں اور انہ یاد ہو سکتا.تقسیم وطن سے چودہ سال قبل مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تحر یک احمدیت کی با قاعدہ بنیاد کھ دی گئی.اُدھر سے باقاعدہ کام شروع ہو گیا ادھر سے احراری خیالات کے طلبہ نے بے قاعدگی سے استقبال شروع کر دیا.مولانا ظفر علی خاں مرحوم کو دعوت دی گئی سید بخاری کو بلا یا گیا اور یونیورسٹی کتاب ، قادیانی مذہب" مرتبہ الیاس برنی کا عمل دخ بن گئی.آپ کے فرقہ کے سالانہ طلبہ سیرۃ النبی کا اعلان ہوا.ہم لوگ پہلے سے منتظر تھے.طلبہ شہر کی مشہور عمارت لائل لائبریری میں ہونا تھا.احراری طلبہ نے کسی اشتہار کے بغیر یونیورسٹی کے ایک ایک فرد کو اطلاع کر دی.قرار پایا کہ جلسہ گاہ کے دروازہ پر پکٹ لگائی جائے احرار می طلبہ میں سے کوئی صاحب عملاً گیٹ پر کھڑے نہ ہو سکے بخلاف ان کے آپ کے گروہ کے مشہور نمبر ڈاکٹر عنایت اللہ شاہ صاحب فریق مخالف پر نگرانی کے لیے آتے جاتے رہے.جلسگاہ کے داخلہ کا ایک ہی گیٹ تھا.جس پر پکنے کے لیے مجھے نامزد کیا گیا.قابل دید منظر متھا گیٹ سے باہر دور تک کالی شیروانی اور رکش کیپ والے طالب علم کھڑے تھے اور ایک طرف بیشتری نظارے باز تھے.گیٹ پر صرف ایک طرف راقم السطور اور دوسری طرف عبد السلام محمر ڈاکٹر عبد الرحمن وسلم نیز در ایک اور صاحب تھے.پکٹ جاری رہ ہی اتنے میں آپ کے سلسلہ کے واعظین تشریف لائے
ان میں ملک عبد الرحمن صاحب خادم بھی تھے.اس وقت تک ہم دونوں ایک دوسرے سے شناسا نہ تھے.طلبہ اپنے پروگرام کے مطابق جاری رہا.گیٹ پر سے پرندہ بھی ہوکر نہ گزرا صرف ایک شہری دیوار پھاند کر ڈال میں گئے.بعد میں انہوں نے مجھ سے معافی طلب کی..اس سے دس سال بعد ۱۹۴۱ء میں گجرات جانے کا اتفاق ہوا.ممدوح کی مدینہ کتاب احمدیہ پاکٹ بک دیکھی.جوفنی طور پر نہایت سلیقہ سے مرتب کی گئی ہے.ایسے باکمال مصنف سے ملاقات کے بغیر واپس جانا شیوہ انصاف سے بعید ہے پہلی.باکمہ ملاقات پر بر من کیا.علی گڑھ کے آخری جلسہ سیرۃ میں میں شخص نے آپ حضرات کے مقاطعہ کے لیے کنٹ کی تھی وہ میں ہوں.میرا عقیدہ اور عمل اب بھی اس انداز پر ہے لیکن آج آپ کی مؤلفہ کتاب احمدیہ پاکٹ بک دیکھ کر خیال گزرا کہ آپ جیسے صاحب فن کی ملاقات کے بغیر لوٹنا شیوہ انصاف سے بعید ہے.کتاب الف سے لے کر تی تک غلط سہی لیکن فنی طور پر اس میں کوئی سقم نہیں ملک صاحب آپ نے عضب ڈھا دیا.ممدوح نے جلسہ اور سلسلہ کی کوئی بات نہیں کی مگر اس روز کا الفضل مجھے پورا بنا دیا.جیس سے پکی تلملا اٹھا دوسرے روز پھر حاضر ہوا آج بھی تانہ الفضل کا ایک ایک حرف سنا ڈالا تیرت روز بھی یہی انداز ! مجھے ان کی اس رفتار پر حیرت نہ تھی.کذالك يفعلون - تعب اس پر تھا کہ اگر ان سے اس طرح سنتا رہا تو یہ مجھے کہیں کا رہتے نہ دیں گے ؟ میں نے مولانا احمد یار خان صاحب سے ان کے مناظرہ کی طرح ڈال دی.مولانا محمدوح ہمارے عقیدہ میں بریلوی ہیں.باخبر ! یہ مناظرہ ممدورج کی مسجد کے ایک حجرہ میں ہوا.مضمون یاد نہیں دونوں صاحبوں نے سلجھی ہوئی باتیں کہیں ! کہنا یہ تھا کہ یہاں بھی ملک صاحب کی رفتار کا یہی عالم دیکھنے میں آیا بلاتکان مصروف گویائی ہیں.اس سے پہلے ان کا ایک مناظرہ وزیر آباد میں مولانا مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے ساتھ شنا.مولانا محمد روح اپنے شکارہ کو گھیرنے میں بڑے ہوش یار تھے یہ عمل یہاں بھی جاری تھا.خادم صاحب ان کی گرفت سے اس لیے نہ گھبرائے کہ وہ صرف اسی ایک موضوع پر گفتگوئے مناظر در عمل پیرا ہے ورنہ مولانا امرتسری کے سامنے کس کے قدم حجم سکتے تھے.آخر اس شعر پر جھگڑا ہو گیا.
بڑا مزہ ہو کہ محشر میں ہم کریں شکوے وہ مفتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے اتنے میں مولوی ظفر علی خان صاحب تشریف لے آئے اور ثالث کی حیثیت سے خادم صاحب کے قومی پر خلاف ڈگر می دمی ، گجرات کی ملاقاتوں میں ملک صاحب کی طرف سے تواضع کا ذکر قلم اندانہ کر دیا گیا ہے.اگر چہ وہ بھی تفصیل کا مقتضی مقا.ممدوح سے آخری ملاقات لاہور نبود بال بلڈنگ کے اس جلسہ سے باہر ہوئی جس میں تقسیم کے بعد خلیفہ صاحب کی غائبا پہلی تقریبہ تھی.یہ ملاقات تھی.وقت کے اعتبار سے مختصر مگر کیفیت کے لحاظ سے مسرت انگیز تھی.ملک صاحب مجھ سے کتابوں کے حصول کا تذکرہ فرمایا کرتے.آج بھی یہی ان کا رتھے یہ ایک مرتبہ نواب صدیق حسن خاں صاحب کی تالیف اقتراب الساعۃ کے لیے فرمایا یہ کتاب ہمارے سلسلہ کے ایک دوست محمد علی صاحب تارکش جے پوری کے پاس تھی.میں نے خادم صاحب کے نام بھجوادی اور خود جو قیمت تجویز کی ممدوح نے انہیں منی آڈر کر دیا.میں اپنے جن شنا ساؤں کے متعلق دریافت کرتا رہتا ہوں ان میں سے ملک صاحب محمد دح بھی ہیں.ربوہ میں ۱۹۵۷ء کے جلسہ سالانہ کا پر وگرام پڑھا تو ان کا نام نہ تھا.لیکن جنوری میں حمدحسین صاحب میڈ کا تب الفضل سے یہ سن کر سکتہ ہو گیا.کہ مدرج تو جلسہ کے دوران میں میو اسپتال میں تھے اور یہیں انتقال فرمایا.رابو یحی امام خان نوشهر وی یکم فروری ۱۹۵۸ عالم خالد احمدیت ایک شاعر کی حیثیت سے حضرت مک مصاحب کا ادب و تعقیل از ] شاعری میں بھی عند مقام حاصل تھا..آپ پوری عمر گجرات کے ادبی حلقوں پر چھائے رہے.معرورت پنجابی شاعر استاد امام دین صاحب گجراتی نے " بانگ دہل ، شائع کی جس کا دیباچہ آپ نے لکھا جو آپ کے پاکیزہ اور نفیس ذوق سخن کا آئینہ دار تھا.اخبار " فاروق کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا شعری کلام ۹۳۱اد ہا به مراسله بنام ملک مبارک احمد خان امین آبادی - مدیر گرفتار زمانه - ( مطبوعہ الفرقان جنوری ۱۹۵۹ء م ۲۳ ص ۲۵
LIK سے جماعت احمدیہ کے پبلک ملقوں میں شائع ہونا شروع ہو چکا تھا.آپ کے پر جوش تبلیغی کلام میں سے درج ذیل ایمان افروز اور پر شرکت نظم کو جماعت میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی.جہاں میں احمدیت کامیاب و کامراں ہو گی خدائے بے مثال و بے جگوں کی سے قسمہ مجھ کو خدائے واقف راز دُوں کی بنے قسم مجھ کو وں کی بے قسم مجھ کو م مجھ کو ندائے پاک کی شانِ عبدالی کی قسم ہے مجھ کو ریت کعبہ کی درگاہ عالی کی قسم مجھ کو زمیں پر بارشیں برسانے والے کی ہدائے نیلگوں افلاک کو پہنانے والے کی قسم مجھ کو خدائے پاک و برتر کی خدائی کی قسم مجھ کی کو اللہ العالمین کی کبریائی کی قسم اُس ذات کی میں نے محمل کو کیا پیدا قسم اس ذات کی میں نے ہمیں اس کا کیا شیدا قسم اس ذات کی میں نے قمر کو نور بخشا ہے قسم اس ذات کی ہو بے بدل ہے اور کہتا ہے قسم نرگس کو متوالی نگاہیں دینے والے کی گلوں کو حسن اور بلبل کو آہیں دینے والے کی ہ فاروقی میں مطبوعہ چند ابتدائی نظمیں گدائے لم یزل بجواب شکوه نه مینداره ( فاروق ، نومبر ۳۱ ۱۹د مت نقاش خفاش (فاروق ،ار دسمبر ۱۹۲۲ دست )
تر مشاق کے دل میں محبت بھرنے والے کی ریخ خوبان عالم کو منور کرنے والے کی عالم کو منور کرنے والے تسم ہے اس عزیز و غالب و مختار ہستی کی ہے جس کے ہاتھ میں ہر نئے بلندی اور پستی کی جہاں میں دیکھ لینا احمد تیت پھیل جائے گی سیما کے عدد کی فوج رسوائی اٹھائے گی یقینا لشکر شیطان شکست فاش کھائے گا مسلم اسلام کا سارے جہاں پر لیلائے گا ہماری فتح کا نقارہ بجتا کو بکو ہوگا مرے محمود کا شہرہ جہاں میں چار سو ہو گا اسیران جہاں کی رستگاری بالیقیں ہوگی مفاسد سے سراسر پاک یہ ساری زمیں ہو گی صداقت میرے آقا کی زمانے پر عیاں ہوگی جہاں میں احمدیت کامیاب وکامراں ہو گی مدد انصار دیں کی آسماں سے لیے گماں ہو گی عدوان محمد کو مزا عبرت نشاں ہوگی خدا خود جبر و استبداد کو برباد کر دے گا وہ ہر سواحمدی ہی احمدی آباد کر دے گا وُہ منظر کس قدر خادم مسرت آخری ہو گا زمانے پر مسلط جب مرے آقا کا دیں ہو گا لے ل الفرقان جنوری ۱۹۵۹ء
تصنیفات 4 پیشگوئی متعلقہ مرزا احمد بیگ وغیره (۱۳۳) مذہبی انسائیکلو پیڈیا یا مکمل تبلیغی پاکٹ بک کے رسیلا ایڈیشن دسمبر ۱۹۳۲ علام ۳- چو ہد ری محمد حسن چیمہ کی افتراء پردازیوں کا جواب (شور) پمفلٹ : - ا " نیز صداقت اشاعت ۱۹۲۸ و ناشر انجمن احمد یہ ضلع گجرات سے (الف) ۲- اسلام اور آریز و هرم اجرائے نبوت بر رو انقطع بلوت خدا کی عبادت کیوں اور کیسے کر نی چاہیئے.؟ - قرآن کریم کی روح سے سلسلہ نبوت جاری ہے احسان کے سلسلہ مضامین کا جواب کے محرره بیسی تقطیع کی سب سے پہلی مر صمدی پاکٹ بک سید عبدالحی عرب صاحب نے خلافت ادلی میں شائع کی خلافت ثانیہ میں ایک پاکٹ بک مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی نے تصنیف فرمائی اور ایک فخر الدین ملتانی مالک احمدیہ کتاب گھر قادیان نے مولانا ابوالعطاء صاحب: مولوی قمر الدین صاحب اور دوسرے علماء کی مدد سے شائع کی.ایک احمدیہ پاکٹ بک حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق کے قلم سے بھی نکلی.ان سب سے سلسلہ کے لٹریچر میں مفید اضافہ ہوا گر قبول عام اور شرف دوام کی سند خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے ملک صاحب مرحوم کی پاکٹ بک ہی کو حاصل ہوئی.یہ معرکہ آرا در کتاب پہلا مبالغہ ایک علمی شاہکا رہے جس کے چھ انڈین آپ کی زندگی میں چھپے.آخری اور چھٹا ایڈیشن درستی کے فرائض مولوی محمد اسماعیل صاحب دیا لگڑھی مبلغ سلسلہ نے انجام دئے ساتواں ایڈیشن ۱۹۹۸ء میں نظارت اشاعت ربوہ نے شائع کیا درستی کے فرائض مولوی محمد اسمعیل صاحب دیا لگڑھی مبلغ سلسلہ احمدیہ نے انجام دیئے.سے اس کی پہلی اشاعت پہ حضرت میر قاسم علی صاحب نے اخبار فارورق ۲۱ - ۱۴ دسمبر ۱۹۳۲ ء مرز ۱۵ /۱۶ پرمفصل اشتہار دیا جس کے آخر میں لکھا " میں دیوی سے کہتا ہوں کہ اس پاکٹ بک کو جیب میں رکھ کر کوئی شخص کسی میدان میں بھی شرمندہ نہیں ہوسکتا بلکہ باطل کو کچلنے اور حق کا بول بالا کرنے میں یقینی طور پر انتخابی اور کامیابی کا سہرا حاصل کرے گا."
410 فردری ۱۹۳۵ ء نائمر سیکرٹری انجمن احمدیه بیرون ولی دروازہ لا ہور) ۶ - ۱۳۴۰ مجری بھی گزر گیا.= ^ - کیا مسیح ناصری نے مردے زندہ کیے.و.معیار الصادق و یا جوج ماجوج ١٠.كشف الحجاب في تعبير الخواب.1 - امام وقت کی بیعت ضروری ہے ؟ ر مندرجہ ذیل پمفلٹ احمدیہ فیلوشپ آن یو تھ لاہور نے اسی ترتیب سے شائع کیسے) ۱۲ پیارا مسیح موعود - ۱۳ - رد فضیلت مسیح - دیکم دسمبر ۱۹۳۲ء) -۱۴ خدا کا مسیح موعود - د جنوری ۱۹۳۳ء) ۱۵ - معیار صداقت ( مولوی میر حمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے اشتہار" معیار نبوت کا جواب) مطبوعہ غالب پریس سیالکوٹ سرائے مہا راجیہ روڈ ۱۹ - کریشن اوتار میسیج موجود کی صداقت پہ بائبل کی شہادت (۱۵ر اپریل ۱۹۳۳ء) ۱۸- اسلام کا مسیح موعود (۱۶ اپریل ۱۶۱۹۳۳-۱۹ - احمدی فریق لاہور کے عقائد سلطان القلم مسیح موعود - ۲۱ - نشانات صداقت (۱۳ جولائی ۱۱۹۳۳) اولوالعزم مسیح موعود ( اگست ۱۹۳۳ء) ۲۳ - آه نادر شاہ کہاں گیا ؟ (۵ از نومبر ۱۹۲۳ء) ۲۴ د اسلام اور عیسائیت (۳ مارچ ۲۱۹۳۲) (۱۲) اکتوبر ۱۹۳۳ء) ۲۵ علم قرآن مسیح موعود (۱۲) - ۳۹.صادقوں کی نشانی (۱۹) دسمبر ۱۱۹۳۴) (بقیه حاشیه هنا ) ۲۴ صفحات پرمشتمل به رساله کر لینٹ کسٹم پریس گجرات سے چھپا.اسکے عمر ورق پر لکھا تھا.نیز صداقت یعنی (غیر مسائلین کے رسالہ) تناقضات ما بین اقوال حضرت صاحب د میاں صاحب کا دندان شکن جواب مواقفه مک عبد الرحمن صاحب خادم نگرانی سیر برای بینگ بین احمدیہ ایسوسی ایشن گجرات (پنجاب) که فهرست اذا الصحف نشرت مت آنا نثر میاں عبد العظیم صاحب در ولیش قادیان -
۲۷.گالیوں کا جھوٹا الزام (۱۴ فروری ۱۶۱۹۳۵ ۲۸ - خاتم النبیین کا صحیح مفہوم (۲۲ جون ۱۱۹۳۵) یہ پمفلٹ ، سیکریٹری تبلیغ جماعت احمدیہ گجرات کی جانب سے شائع ہوا.O
616 فصل چهارم ۱۹۵۷ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات ۱۲ نومبر ۱۹۵۷ء کو صاحبرادی امتہ المتین یوود اون خاندان حضرت مسیح موعود میں تقاریب مسرت بیگم صاحبہ بنت سیدنا حضرت مصل موجود کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.آپ کا نکاح جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ء کے موقع پر حضور نے حضرت سید محمد اسحق صاحب کے فرزند سید محمود احمد صاحب ناصر سے پڑھا تھا.۲ - ۵ دسمبر ۱۹۵۷ ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا نکاح سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزارشید احمد صاحب سے حضرت مصلح موعود نے پڑھا.19 دسمبر کو شادی کی مبارک تقریب ہوئی اور اار دسمبر بروز بدھ دعوت ولیمہ کا انعقاد ہوا جس میں سید نا حضرت مصلح موعود کی دعوت پر خاندان حضرت مسیح موعود کے بزرگ افراد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاب نیز حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور بعض دیگر بر فقاء حضرت اقدس اور ناظر اور وکلاء صاحبان نے مشرکت کی سیے ولادت ۱- صاحبزادی امتہ الغفور صاحبہ بنت صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ (بیگم پیر معین الدین صاحب) 4ار مٹی ١٩٥٤ ء یه ۲.صاحبزادہ ظاہر احمد صاحب ابن صاجزادی، مترا جمیل صاحبه دیگیم چوہدری ناصر محمد صاحب (*1906 سیال - ۶ جون ۱۹۵۷ء کے ه الفضل ۲۳ / نومبر ، ، ر دسمبر ۱۱۰ر دسمبر ۱۵؍ دسمبر ۱۹۵۷ مط ۳-۲ الفضل ۸ارسی ۹ جون - الر دسمبر - ۱۳ر اکتوبر ۱۹۵۷ء ملا
۲- سیده اتالر دون صاحبہ بنت صاحبزادی امتہ الکیم صاحبہ بیگم سید ولا و مظفر احمدشاه صابر ونتر ١٩٥ء ۴.صاحبزادہ مرزا عبد الصمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب - ۱ار اکتوبه ۱۹۵۷ ء له یہ سال بھی احمد می جوانوں اور احمد می خواتین کی علم و عمل میں کامیابیوں کا پیغام لے ا ا ا ا ا ا رات ایام میں ا د ی جانوں اور نمایاں کامیابی - ا.تعلیم الاسلام کالج یونین کے نمائندہ جنا عبد اللہ ابو بکر صاحب متعلم سال دوم نے خیبر یونیورسٹی کی طرف سے منعقدہ انگریزی مبا سنتے ہیں سوم پوزیشن حاصل کی لیتے ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی ہائیڈ رو یک آفیسر بغربی پاکستان کو مغربی پاکستان ہیمسٹرانگ کانگریس کی طرف سے اسکے اکتالیسویں اجلاس میں تونسہ بیراج کے سلسلہ میں نئی تحقیقات میں بہترین تحقیقی مقالہ پیش کرنے پر کانگرس گولڈ میڈل دیا گیا لیکے ۳.تعلیم الاسلام کا لج ریلوں نے یونیورسٹی بوٹ بھینگ ریس میں چیمپین شپ جیت لی یہ اعزاز کالیج کو گذشتہ آٹھ سال سے حاصل مھا یشہ ۴- زاہدہ پر دین صاحبہ طالبہ - نصرت گرلز ہائی سکول راجہ رینت حافظ عبد السلام صاحب) میٹرک کے بورڈ کے امتحان طالبات میں سوم آئیں یہ ۵- پودری خلیل احمد صاحب ناصر انچارج حدید من امریکہ کو مریضہ جون ۱۹۵۷ء پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگر یاد می گئی ہے -- مغربی پاکستان سٹیٹ میڈیکل فیکلٹی کے زیر اہتمام ایل.ایس.ایم.ایفے کا امتحان ہوائیں میں کوڑ تسنیم صاحبه ربنت مکرم خان اختر احمد خالصاحب سپر نٹنڈنٹ ورکشاپ زراعتی کالج لائلپور (فیصل آباد) اقل آئیں شیشه لة الفضل دارمٹی - ۱۹ جون - ۱ ار ستمبر - ۱۳/ اکتوبر ۱۹۵۷ و مرا : سے الفضل ۲۴ فروری ۱۹۵۷ء ص : له الفضل ۲۴ فروری ۱۹۵۷ ء مت له الفضل ۲۷ فروری ۱۹۵۷ء مد بن الفضل و ارجون ، ۱۹۵ و م : له الفضل ۱۹ جون ۱۹۵۷ء ما ه الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۵۷ء مره
419.خلیل حی صاحب (ابن مکرم محمد عبد الحی صاحب) چھلی بندی حیدر آباد دکن میٹرک کے امتحان میں اعلیٰ ریاضی میں سونی ضد نمبر لے کر اول رہے.اس امتحان میں تین ہزار دوصد طلباء سٹریک ہوئے تھے یہ منور احمد صاحب را این مکرم ظفر علی صاحب چدھرڑ صدر جماعت احمدیہ گھر، ایف ایس سی میڈیکل میں ۲۰۶ نمبر لے کر پنجاب یونیورسٹی میں سوم رہے ہے ۹- سید نسیم شفیع صاحبه ربنت حضرت سید ابوالبرکات ڈاکٹر شفیع احمد صاحب نخفق دہلوی) ایم.اے اسلامیات میں یونیورسٹی کی تمام طالبات میں اول آئیں اور ۴۲۵ نمبر حاصل کیے.اور ان کی ہمشیرہ محترمہ سیدہ رضیہ شفیع صاحبہ ایف اے کے امتحان میں بورڈ کی طالبات میں چھٹے نمبر یہ رہیں تے ۱۰ - چو ہدری محمد سلطان اکبر صاحب ربوہ بی.اسے آرٹس پنجاب یونیورسٹی میں چہارم اور بھی اسے عربی میں دوم آئے شے ۱۱- طیبه جبین صاحبه ر بنت مکرم مرزا نثار احمد فاروقی پشاور) ایف ایس سی میڈیکل کے امتحان میں بانی ی بیت مرزا یا سی میں نمبرے کہ یو نیورسٹی مھر ہمیں اول رہیں لے ۱۲- منیر احمد صاحب رشید قلعہ گو بر سنگھ لاہو ، ایم.اسے ریاضی میں بے ہے نمبر لے کر پنجاب یونیورسٹی میں بوتل آئے شے ۱۳، منظور النساء بیگم صاحبہ بنت جناب محمد اسمعیل صاحب معتبر سابق آڈیر تحریک جدید) ایم اے ا عربی میں جملہ طالبات میں اول رہیں شہ ۱۴- چوہدری منظور احمد صاحب باجوه راین چو ہدری محمد عالم صاحب نمبر دار فتح پور ضلع سیالکوٹ) و ایم.ایس سی کیمیکل ٹیکنالوجی ہمیں ۸۰۳ نمبر ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں سوم آئے یہ ۱۵ - جناب صلاح الدین صاحب رابن مولانا جلال الدین صاحب شمس) نے ایم.بی.بی.ایس کے امتحان میں یونیورسٹی میں پوتھی پوزیشن حاصل کی نیلے کے بدر قادیان در جولائی ، ١٩٥ء من له الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۵۷ء ص : له الفضل ر جولائی ۱۹۵۷ و له : له الفضل ۱۳ اگست ۱۹۵۷ء ملا ب شه الفضل الاستمبر 190 مل له الفضل ۱۶ اگست ۱۹۵۷ ۶ ط ب له الفضل ۲۰ اگست ۹۵۷ ارما : شه الفضل ۲۵ اگست وات الفضل ۲۴ ستمبر ، ۹۵ار مگه نه الفضل ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۵۷ء صف ور
۷۲۰ تسلیم الاسلم کالج کی یونیورسٹی فٹ بال ٹیم نے گارڈن کالجی اور اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کی میوں کو شکست دی شیشه -16 ایتعلیم الاسلام ہائی سکول بہبود کی کرکٹ ٹیم نے ضلع جھنگ کے ہائی سکولز ٹورنامنٹ میں ڈسٹرکٹ چمپین شپ جیت لی ہے اسلام لاء کالج کولمبو کا ایک وفد بھارت اسلام اور ایک اسلام لاء کالج کولمبو کے طلباء قادیان اور ربوہ میں اور پاکستان کے دورہ پر ۲۴ دسمبر ۱۹۵۶ء کو مدراس بھی پہنچا جو پانچ مسلمان اور ایک بکر بہٹ پر مشتمل تھا.جماعت احمدیہ مدراس کی طرف سے انہیں ڈنر دیا گیا.نیز ایڈریس اور ٹریچر پیش کیا گیا.ان دنوں مولوی شریف احمد صاحب امینی احمدیہ مشن مدراس کے انچارج تھے.نے یہ دندم جنوری ۱۹۵۷ء کو عملی اور دلی سے ہوتے ہوئے قادیان پہنچا.ان مقامات کی جماعتوں نے ان کے قیام کے نہایت عمدہ انتظامات کیے جس سے یہ دن نہایت متائثر ہوا.قادیان میں بھی ان کا پر خوش خیر مقدم کیا گیا او سلسلہ کا لٹریچر پیش کیا گیا.وفد نے مقدس مقامات کی زیارت کی.تبلیغی گفتگو کے سلسلہ میں شیخ عبد الحمید صاحب عاجزہ ہی.اسے نے خاص طور پر حصہ لیا.یہ درندہ تاریان کی زیارت کے بعد پاکستان آیا اور ہم جنوری کو بوقت شام لاہور سے.بوہ پہنچا له الفضل ۱۴ نومبر ۱۹۵۷ ز صلاته الفضل ۲۲ نومبر ١٩٥٧ وصل : ٣ الفضل ۳ دسمبر ۱۹۵۷ء ص : سکے نام دائی.ایل.ایم.منصور (لیڈر) جعفری راستم نمائندہ ڈیلی نیوز کو لہو اہیم - صلاح الدین ، الیں.ایل.ایم.ابراہیم ، اسے.آر منصور اور کے.کے.دیکھا گاما ۵ جماعت احمدیہ معینی نے بھی دندہ کا پر تپاک استقبال اور دارالتبلیغ والحق بلڈنگ) میں اس کے قیام و طعام کا خاص اہتمام کیا.قاضی سید امیر الدین صاحب آن دھار دار ، نور حسین صاحب مر فراز احمد صاحب بی اے اور مولوی سمیع اللہ صاحب انچار ج دار التبلیغ بیٹی نے رند کو جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی سے آگاہ کیا.( بدر ۱۲ جنوری ۱۹۵۷ ء منا ) ه بدر در جنوری ۱۹۵۰ و صدا و مث
۷۲۱ ممبران وفد نے ربوہ کے مختلف ادارے دیکھنے کے علاوہ سید نا فر یا رہو سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا نیز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کا نبی کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے.6 جنوری کی شام کو دکالت تبشیر کی طرف سے وفد کے اعزاز میں عصرانہ کا اہتمام کیا گیا.اس موقعہ پر وند کے لیڈر جناب دائی.ایل.ایم.منصور نے نظر یہ کرتے ہوئے اکناف عالم میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.تقریر کے دوران انہوں نے گزشتہ چند صدیوں میں مسلمانوں کی ابتر حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس امر پہ نہ دور دیا کہ سلمانوں کو پھر سے اٹھانے اور انہیں بام عروج پر پہنچانے کے لیے ان میں اعلیٰ روحانی اقدار پیدا کرنے کی ضرورت تھی.یہ کام ایک ایسی تنظیم کے ذریعہ ہی انجام پا سکتا تھا جو سیاست سے بالا رہتے ہوئے روحانی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرے.سو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت احمدیہ کے ہاتھوں اس اہم کام کی بنیاد پڑچکی ہے.نہیں معلوم ہے کہ اس جماعت کو مخالفت کا بھی سامناکرنا پڑ رہا ہے لیکن اصلاح در تی کا کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں ہے جس میں مخالفت سے دوچار نہ ہونا پڑے ، مدر اس سے.در اس سے لے کر ربوہ تک راستہ ہمیں جماعت احمدیہ کی مختلف شاخیں نہیں خوش آمدید کہتی رہی اور ہمیں خوش آمدید کہتی رہی ہیں.ان سے مل کر اور حالات کا بچشم در مطالعہ کر کے ہمیں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کے متعلق بہت کچھ علم حاصل ہوا ہے اور جو اہم کام یہ جماعت سر انجام دے رہی ہے اس سے ہم لوگ بے حد متاثر ہوئے ہیں.جناب وائی.اہل.ایم.منصور نے تقریبہ جاری رکھتے ہوئے کہا لاہور وغیرہ میں بعض لوگوں نے یہ کوشش بھی کی کہ ہم ربوہ جانے کا ارادہ ترک کر دیں.لیکن ہم جماعت احمدیہ کا مرکزہ دیکھنے کا فیصلہ کر چکے تھے.چنانچہ ہم یہاں آئے.ہمارا تاثر یہ ہے کہ جماعت احمدیہ اپنے عقائد پھیلانے میں کسی جبر یا دباؤ سے کام نہیں لیتی.وہ صرف عقل کو اپیل کرتی ہے اور فیصلہ دوسرے پر چھوڑ دیتی ہے کہ وہ ذاتی کوشش اور جدو جہد کے نتیجہ میں حق کو قبول کرے لیے ریوہ میں ٹیلیفون کا احتراء ہ جنوری ۱۹۵۷ء کا دوسرا ہفتہ مرکز احمدیت ربوہ کی ترقی کے لیے ایک ه الفضل درجنوری ۱۹۵۰ء مراد
۷۲۲ نیا سنگ میل ثابت ہوا کیونکہ اس دوران یہاں ٹیلیفون جاری ہوگیا اور ارجنوری ۱۹۵۷ کو تلیفون ایکس مینی کھول دیا گیا.ابتداء میں حسب ذیل پور میں ٹیلیفون نصب ہوئے.سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب المعلم الموعود، پرائیویٹ سیکرٹری خلیفہ المسیح مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ، مرزا مبارک احمد صاحب ، مرزا منور احمد صاحب ، نواب محمد احمد خاں صاحب مرزا حفیظ احمد صاحب، ناظر صاحب بیت المال ، افسر صاحب امانت ، پرنسپل صاحبہ جامعہ نصرت وكيل الزراعثت صاحب تحریک جدید ، خدام الاحمدیہ مرکز یہ ، اخبار الفضل ، ناظر صاحب اعلی صدر انجمن احمدیہ پاکستان ، ناظر حفاظت ، ناظر صاحب امور عامه ، جنرل سیکر ٹری لجنہ اماء الله ، فضل عمر ہسپتال، افسر انچار نا صاحب ایم این سنڈیکیٹ ، میاں غلام محمد صاحب اختر، ٹیلیفون ایمپین انکواری به پبلک کال آهن، سرگودہا رنگ کال سیکرٹری میونسپل کمیٹی.ربونه صدر شام شکری القوتی کو تحفہ قر آن جماعت احمدیہ ڈھاکہ کے ایک وفد نے جناب عبدالقادری صاحب قرآن مہتہ کی زیر قیادت مورخہ ۱۶ جنوری ۱۹۵۷ ۶ گورنمنٹ ہاؤس میں شام کے صدر السید شکری القوتلی سے ملاقات کر کے ان کی خدمت میں انگریزی ترجمہ القرآن کا تحفہ پیش کی صدر موصوف اپنے دس روزہ دورہ پاکستان کے سلسلہ میں ڈھاکہ تشریف لائے ہوئے تھے.یہ تحفہ ایک نہایت خوبصورت بکس میں جو اس غرض کے لیے خاص طور پر تیار کیا گیا تھا ان کی خدمت میں پیش کیا گیا.صند و نچھے میں چاندی کی ایک تختی پر صدر موصوف کا نام کندہ تھا.نیز اس پہ ایک طرف ممبران وفد کے نام درج تھے.علاوہ ازیں صدر مومون کی خدمت میں اس موقعہ پر عربی زبان میں نہایت نفاست سے فریم کیا ہوا خوش آمدید کا ایک ایڈریس بھی پیش کیا گیا.ایڈریس کا خلاصہ یہ تھا کہ سه روزنامه الفضل ۱۲ جنوری 1906 خدمت له ابن حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی.ناه ولادت ۱۸۹۱ و درفات ۱۹۶۷ مشهور عربی سیاسی مدیر.شام کو فرانسیسی استعمار سے آزادی ملی تو لک کے پہلے صدر منتخب ہوئے.بعد ازاں کئی بار انتخاب میں کامیاب ہوئے.آخر می انتخاب 1400ء میں ہوا.آپ اتحاد شام ومصر کے زبر دست حامیوں میں سے تھے مگر بعض حالات کے باعث یہ اتحاد قائم نہ رہ سکا اور آپ نے سیاست سے علیحدگی اختیار کر لی.
۷۲۳ جماعت احمدیہ اگر چہ بلحاظ تعداد ایک چھوٹی سی جماعت ہے تاہم اس نے دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو سر بلند کرنے اور اس کی اشاعت کا فریضہ ادا کرنے کے سلسلہ میں ایک عظیم ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی ہوئی ہے اس جماعت کے افراد اپنے موجودہ امام سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمو د احمد کی زیہ ہدایت رومانیت کی پیاسی دنیا کے دور دراز علاقوں تک دین حق کے نور کو پھیلانے میں مصروف ہیں نہ افریقہ کے بیابان جنگل اور تپتے ہوئے صحرا جہاں نئی تہذیب اور نئے تمدن کا ابھی سایہ بھی نہیں پڑا ان کی پہنچ سے باہر ہیں اور نہ مغرب کے وہ متمدن شہر نہیں اپنی مادی اور سائنسی ترقی پہ نانہ ہے ان کے دائرہ عمل سے خارج ہیں مشرق و مغرب میں دین حق کو سر مبند کرنے کی ایک سعی پیہم ان کا طرہ امتیاز ہے.اس وقت جماعت کے سینکڑوں اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں نے جو پاکستانیوں بولوں ، جرمنوں امریکیوں اور دوسری قوموں کے افراد پر مشتمل ہیں خدمت دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی ہیں.ایسے ایثار پیشہ نوجوانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور وہ دنیا کے دور دراز علاقوں میں خدمت دین کا فریضہ ادا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں.ان کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالے کا پیغام روئے زمین پر بسنے والی تمام قوموں تک پہنچ جائے.اور وہ سماجی انصاف اور اخوت و مساوات کی اسلامی تعلیم سے کما حقہ واقف ہو کہ اس کو اپنانے پر آمادہ ہو جائیں اسی عزم کے پیش نظر جماعت احمدیہ نے دنیا کی تمام اہم زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے علاوہ ازیں دنیا کے مختلف علاقوں میں میوت الذکر تعمیر ہو رہے ہیں.آپ دوستی اور اخوت کے ان رشتوں کو اور زیادہ مستحکم کرنے کی غرض سے تشریف لائے ہیں جو اسلام کی بعثت کے وقت سے ہمارے اور آپ لوگوں کے درمیان قائم چلے آرہے ہیں.ہم سب ایک ہی قسم (یعنی ملت) کے مختلف اعضاء ہیں.ہم سب کا دین ایک.کتاب ایک.قبلہ ایک ہے اور ہم سب اللہ تعالی کے ایک ہی رسول کی اُمت اور اس کے تابع فرمان ہیں.ہم ہیں آنحترم کے انتہائی مخلص ممبران و مدر جماعت احمدیہ (1) عبد القادر بہتہ (قائد وفا (۲) چوہدری مختار احمد
۵۲۴ (۳) ملک محمد طفیل (۱۳) خواجہ علی الکریم (2) دولت احمد خال خادم (7) مولوی غلام احمد مربی انچار ج شه حکومت بھارت کی طرف سے کشمیر کو بھارت میں مدغم ربوہ میں ایک احتجاجی جلسہ کرنے کے اعلان پر ۲۳ جنوری ۷ ۱۹۱۵ء کو راہ میں ہم احتجاج یوم منایا گیا.اس روز ربوہ میں صدر انجمن اور تحریک جدید کے جملہ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیل عام رہی تمام دکانیں اور تجارتی کاروبار بندر ہے اس روز بہت مبارک میں ایک احتجاجی جلسہ مولانا جلال الدین صاحب شمس کی زیر صدارت منعقد ہوا جن میں آپ کے علاوہ میاں غلام محمد صاحب اختر ناظر اعلی ثانی ، مولانا ابو العطاء صاحب قائد عمومی انصار الله مرکز یہ مولوی ابوالمیز نور الحق صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ پوه ، چوہدری ظہور احمد صاحب سیکرٹری ری پبلکن پارٹی ربوہ نے خطاب کیا اور قرار داد کے ذریعہ ، اقوام متحدہ حکومت پاکستان اور عوام کو کشمیر کی آزادی کی طرف توجہ دلائی نیز یقین دلایا کہ اس سلسلہ میں اگر حکومت پاکستان کوئی قدم اٹھائے تو جماعت احمدیہ ہر لکن قربان کے لیے تیار ہے لیے اسی روز یعنی ۶ اور جنوری ۱۹۵۷ء کو جناب صدر الدین سیجی پونتو انڈو نیشین قونصل قادیان میں | صاحب انڈو نیشین تو فصل بھٹی معہ اہلیہ زیارت قادیان دار الامان " کے لیے تشریف لے گئے.صدر انجمن احمدیہ کے ناظر صاحبان نے اسٹیشن پر ان کا پر جوش استقبال کیا اور احمدیہ چوک میں حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب رقائمقام امیر مقامی و ناظر اعلیٰ نے آپ کو اخلاق سهلا و مرحبا کہا.مرکز احمدیت کی برکات و فیوض سے متمتع ہونے کے بعد یکم مارچ ، 198ء کو واپس تشریف لے گئے.جناب صدر الدین صاحب انڈینیشیاء کے اُن خوش نصیب احمدیوں میں سے تھے جنہوں نے قادیان میں دینی تعلیم حاصل کرنے کی سعادت پائی اور اس مقدمی بستی میں ۱۹۴۰ تک قیام پذیر رہے لیکے که روزنامه الفضل ربوه ۲۱ جنوری ، ۱۹۵ د ماده : له الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۵۰ ء مٹ سه اختبار بدر ۲ مارچ ۱۹۵۷ر متر آپ قبل از میں پاکستان میں انڈو نیشین سفارت خانہ کے فرسٹ سیکہ لڑی رہے.)
۷۲۵ ۲۰ جنوری ۱۹۵۷ء کو لجنہ اماءاللہ کلکتہ کے ایک چار رکنی گورنر مغربی بنگال کو تحفہ قر آن کریم | وند نے زیب النساء بیگم صاحبہ سیکرٹری لجنہ اماءاللہ کانہ کی قیادت میں گورز مغربی بنگال ہز ایکسی لینی شرکتی پر مجانا نیند سے راج بھون میں ملاقات کی اور ان کی خدمت میں قرآن مجید اور کتاب " احمدیت کے انگریزی تراجم تحفہ پیش کیسے نیز ایک سپاسنامہ کے ذریعہ جماعت احمدیہ ، اس کے عقائدہ، اعراض و مقاصد اور عالمگیر تبلیغی خدمات پر روشنی ڈالی گور نر صاحبہ نے سپاسنامہ سے متعلق متعد د سوالات کیے جن کے جوابات سیکر ڈی لجنہ اماءاللہ نے دیئے.ممبرات کو برقعہ پوش دیکھ کہ پردہ کا بھی ذکر آیا.جماعت کا ذکر انہوں نے تعریفی الفاظ میں کیا.اور کہا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کے ذریعہ جماعت کا تھوڑا بہت علم ہے.انہوں نے احمدی مستورات کی تعداد اور تعلیمی کوائف دریافت کیے اور نصف گھنٹہ تک نہایت محبت و پیار اور سکون واطمینان کے ساتھ گفتگو کی نیش کلکتہ میں جلسہ میخوان مذاهب جماعت احمدیہ کلکتہ کے زیر اہتمام سرما سچ ۱۹۵۷ء کو جلسه پیشوایان مذاہب منعقد ہوا.جلسہ کی اطلاع کے لیے اردو ، بنگلہ اور انگریزی میں تین ہزار پوسٹر کلکتہ کے مختلف علاقوں میں چسپاں کیسے گئے اور ہزارہ ہنڈیں تقسیم کیے گئے.اخبارات میں بھی اعلانات کیے گئے.انگریزی میں ایک ٹریکٹے ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.جلسہ کی ابتدائی کارروائی ڈاکٹر کالی داس صاحب ناگ.ایم.ا سے پی.ایچ.ڈی کی صدارت میں شروع ہوئی.مولوی پیر احمد صاحب مبلغ دہلی نے افتتاحی تقریر میں جلسہ کی غرض وغایت پر روشنی ڈالی.انچار ج منشی شمس الدین صاحب امیر جماعت کلکتہ نے حضرت مصلح موعود اور سر رادھا کرشمن نائب صدر جمہوریہ ہند کے پیغامات سنائے بعد ازاں صدر صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں اس نوع کے طلبوں پر خوشی کا اظہار کیا اور جماعت احمدیہ کی صلح گل پالیسی کو سراہا اور فرمایا آج کا یہ اجتماع مختلف مذاہب کے نمائندوں ہی کا اجتماع نہیں بلکہ ایک روحانی سازہ بھی ہے جس میں سے مختلف نیک آوازیں نکل رہی ہیں.اس جلسہ له بدره ۲ مارچ ۱۹۵۷ و مه به سه دنات ۶۱۹۷۵
ت درج ذیل مقررین نے خطاب کیا.جناب بہو اس ریٹائرڈ پریسیڈ لنی مجسٹریٹ (سیرت حضرت مسیح علیہ السلام ) پنڈت دی بل (مہاتمہ بدھ کی تعلیم اور سیرت) کیپیٹھ بھاگ سنگھ - جنرل سیکرٹری سکھ کیوں سنٹر کلکتہ (سوانح حضرت گورو نانک) پر و فیسر اخت را حمد صاحب اختر اور نیوی ایم اے پروفیسر پیٹنہ یونیورسٹی (سیرت حضرت مسیح موعود ) پنڈت اجودھیا پر شاد صاحب بی اسے اپدیشک آریہ سماج روید - قرآن - مذہبی رواداری) مسٹار ڈشیر دین شاه (سوانح حضرت زرتشت) مولانا بشیر احمد صاحب فاضل مبلغ دہلی (سیرت حضرت سری کرشن) ریورنڈ منی سین ربہ ہم سماج کی تقسیم ) مولانا غلام احمد فاضل (سیرت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) مولوی عبید الرحمان صاحب ناتی مبلغ مرشد آباد (سیرت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) جناب ہو اس صاحب ریٹائرڈ مجسٹریٹ کی تقریر کے بعد مولانا بشیر احمد صاحب نے جناب ڈاکٹر کالی و اس صاحب کو قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ بطور تحفہ پیش کیا.ڈاکٹر صاحب نے یہ آسمانی تحفہ پور سے ادب و احترام کے ساتھ قبول کیا اور فرمایا کہ کہیں جماعت احمدیہ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے یہ اہم کتاب مجھے مطالعہ کے لیے دی.انہیں چونکہ ایک اور جلسہ میں صدارت کے لیے جانا تھا جلسہ کی بقیہ کارروائی پر وفیسر میرا لالی صاحب چوپڑہ کی زیر صدارت ہوئی تقاریہ کے آخر میں انہوں نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ لیہ وسلم کو نہایت عمدہ اور دریکی انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے رونٹی احمدی بستیاں :.اس سال صوبہ سندھ میں دونئی بستیاں وجود میں آئیں.ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب نے سکرنڈ ضلع نواب شاہ میں اپنی اراضی پر جو تین سو ا.قادسیه ایکٹر پر مشتمل تھی ایک نیا گاؤں آباد کیا جس کا نام حضرت مصلح موعود نے قادسیہ تجویز فرمایا.یہ گاؤں قاضی احمد دو سومیل پر واقع ہے اور اس علاقہ میں چانڈیا بلوچ قوم آباد ہے ه بدن به ۱۶ مارچ ۱۹۵۷ در مشر : الفضل اور اپریل ۱۹۵۷ء ص ۶ : ۳ آپ ۲۸ ستمبر ۱۹۸۹ ء کو شہید کر دیئے گئے.
جماعت احمدیہ کھنڈو ضلع لاڑکانہ کے احمدیوں نے اپنی زمین میں کھنڈو کے ماحول.انور آباد میں ایک نیا گاؤں آباد کیا جس کا نام حضور نے انور آباد تجویز فرمایا کہ جماعت احمدیہ کا مرکز می رسالہ تنشی الا زمان جسے یکم مارچ رسالت تشجیہ الا زبان کا احیاء ۱۲ کوتین محمود المصلح الموعود نے جاری فرمایا تھا اور جو مار پا ۱۹۲۲ء میں ریویو آن ریجنز میں مدغم کر دیا گیا، خالد احمدیت مولانا ابو العطاء صاحب کی ذاتی کوشش سے یکم جون ۱۹۵۷ء سے دوبارہ جاری ہوا اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکزہ تہ کی زیر نگرانی اطفال الاحمدیہ کے ترجمان کی حیثیت سے بہت جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا.جون ۱۹۵۷ء سے جنوری ۱۹۹۲ تک جن اہل مسلم حضرات نے اس کی ادارت کے فرائض انجام دیئے ان کے نام یہ ہیں.شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل (آٹھ سال تک مدیر رہے) جناب جمیل الرحمن صاحب رفیق ہی.ایس سی ، جناب رفیق احمد صاحب ثاقب، جناب عطاء المجیب صاحب راند ایم.اے.جناب محمد شفیق صاحب قیصر قریشی، محمد اسلم صاحب، لئیق احمد صا حب طاہر مولوی نصیر احمد صاحب قمر ، عبد الماجد صاحب طاہر، قمر داد و احمد صاحب کھوکھر اور فضیل عیاض احمد حضرت خلیفہ المسح الثانی المصلح الموعود کے ارشاد مبارک پر ] جامعہ احمدیہ کے نئے پرنسپل یکم جولائی ، 19ء کو جامد احمدیہ اور امن المترین کا جامعتہ باہمی الحاق عمل میں آیا اور آپ نے ، جولائی کو سید داؤد احمد صاحب کو اس ادارہ کا پرنسپل مقرر فرمایا کہ سید نا حضرت مصلح موعود نے مدراس کے ہفتہ روزہ آزاد حضرت مصلح موعود کا خصوصی پیغام نوجوان کے بفر عید نمبر کے لیے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا جو ورجولائی ۱۹۵۷ نو کو شائع ہوا.له الفضل ، نومبر ۱۹۵۷ء م : سه تاریخ شهادت ، اراگست ۱۹۸۵، رٹرینیڈاڈ) کہ سیرت دارد متا نا مثر الجمعیتہ العلمیہ بالجامعة الاحمدیہ ریوه ما سرچ ۶۱۹۷۴
۷۲۸ اخبار نوجوان کے لیے مجھ سے مضمون طلب کیا گیا ہے.جب میں اچھا تھا تو دن میں دو دو سو کالم بھی لکھ لیتا تھا میری کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام جو نہایت ہی مفید کتاب ہے.اور یورپ اور امریکہ میں بہت مقبول ہے.اس کا حجم پانچ صد صفحہ کا ہے.یہ کتاب مرن تین دن میں لکھی گئی تھی.اب عمر اور بیماری کی وجہ سے میرے لیے پرانے کام کامواں حصہ بھی کرنا ممکن نہیں ہے.مگر یہ سر حال چونکہ ایک دوست نے خواہش کی ہے.ان کی خواہش کے احترام میں یہ چند سطور لکھ رہا ہوں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرت صحیحہ دیگر پیدا کیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فطرة الله التي فطر الناس عليها - اے لوگو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ فطرت کو اختیار کر وہیں پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے مینی انسان کو اپنے کاموں میں رہنمائی کے لیے زیادہ تر اپنے دل کی طرف نگاہ رکھنی چاہیئے کہ کیا اس کا دل اسے مجرم قرار دیتا ہے یا بری.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ استفت قلبك ولو افتاك المفتون یعنی اپنے دل سے فتویٰ لے اور اسی پر عمل کہ خواہ ہزاروں مفتی اس کے خلاف فتوی دیتے ہوں.میں اسی اصول کے ماتحت انسان کو چاہیے کہ اپنے دل سے فتویٰ لینے کی عادت ڈالے.اور محض مولویوں کے فتووں پر اسے نہیں جانا چاہیئے اگر اس کا دل کہے کہ جو کچھ تو کرتا ہے اگر یہی کام تیرا ہمسایہ کر سے تو تجھے خوشی پہنچے گی اور تو اس پر عیب نہیں لگائے گا تو اسی صورت میں اس کام کے کرنے میں تجھے کوئی حرج نہیں.لیکن اگر اس کا دل یہ کہے کہ اگر میرا ہمسایہ یہ کام کریگا تو میں اسے بہت بڑا سمجھوں گا.تو سمجھ لے کہ وہ کام در حقیقت برا ہے ہیں اس اصول پر انسان اپنی زندگی کو سنوار سکتا ہے.چاہیئے کہ وہ اس اصول کو ہمیشہ یادرکھے کیونکہ خدا تعال کا حکم بھی نہیں ہے اور رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کا کم بھی نہیں ہے مرز امحمود احمد (خلیفة المسیح الثانی سے التاريخ للبخاري عن رابعه بحوالہ جامع الصغير للسيوطى جلد امر ناثر المكتبة الاسلامیہ مندری پاکستان ه اجبار پدر قادیان میکم اگست ۱۹۵۷ و صا
۷۲۹ فرقہ اسمعیلیہ کے اڑھالیوں، نام سلطان سر امام سلطان محمد شاہ آغاخان ثالث کا انتقال محمد شاہ آغاخان نادث جنوا میں جولائی کو انتقال کر گئے.11 آپ ۲۵ شوال ۱۲۲۴ هـ / ۱۲ نومبر ۱۸۷۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے ، ار اگست ۱۸۸۵ء کو امام ینے آپ کی پوری عمر مسلمانوں کی خدمت میں گزری.یکم اکتو یہ ۱۹۰۶ ء کو مسلمانان ہند کے جس وفد نے لامہ ڈمنٹے ملاقات کر کے مسلمانوں کے سیاسی مطالبات پیش کیے ، اس کی قیادت کے فرائض آپ ہی " نے انجام دیئے آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی ارکان میں سے تھے اور ۱۹۰۶ ء سے ۶۱۹۱۳ تک اس کے صدر رہے.بعد انہاں گول میز کانفرنس (۱۹۳۰ء تا ۱۹۳۲ء) میں مسلمانوں کی نمائندگی کی.۱۹۳۷ ء میں جمعیت الاقوام (LEAGUE OF NATIONS) کی صدارت کی پالے بر صغیر کے بین صف اول کے مسلم زعماء نے مسلمانان ہند کی سیاسی جدو جہد میں حضرت مصلح موجود اور حضرت پتو پوری حمد ظفراللہ خاں صاحب کی مساعی جمیلہ کو نہایت درجہ قدیر و احترام سے دیکھا اور کانگریس نواز مسلمانوں کی شدید مخالفت کے باد یجود گہرا تعاون فرمایا ، ان میں سرآغا خاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں حضرت مصلح موعود کو مرحوم کی وفات پر گہرا رسوخ ہو ا جس کا اظہار حضور نے بیگم سر آغا خاں کے نام درج ذیل تعزیتی تاریں کیا :- آپ کے قابل احترام موہر کی المناک وفات سے مجھے سخت صدمہ ہوا.آغاخاں مرحوم کے ساتھ میرے بڑے پرانے تعلقات تھے.میں نے ان کو نہ صرف اپنا ہی ایک مخلص دوست پا یا تھا بلکہ دہ ایک بڑے محب وطن اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا غیر معمولی جذبہ رکھنے والے تھے.برائے ه تاریخ ائمہ اسماعیلیہ حصہ چہارم من تا مت ۱۳ ناشر ہزہائی نس پرنس آغا خاں شیعہ امامی اسماعیلیہ الیوسی این برائے پاکستان کراچی.طبع اول جنوری ۱۹۸۳ ۶ جلد امه ۱۲ - ۱۲۹ نا مشر GREAT SOVIET ENCYCLOPEDIA MACMILLAN, INC NEW" YORK." COLLIER MACE MILLAN PUBLISMERS LONDON اردو انسائیکلو پیڈیا طبع سوم مر۲۲ مطبوعہ فیروز سنز لمیٹڈ لاہور.جنور سی ۶۱۹۸۴
مہر بانی میری طرف سے دلی تعزیت قبول کیجیئے.اور میرے یہ جزوات پولیس علی خان اور پرنس صدر الدین تک پہنچا کہ سبھی ممنون فرمائیں.مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیه ۱۳ له ناظر صاحب امور خارجہ نے یہ تار دیا کہ : - جماعت احمدیہ اور حضرت امام جماعت احمدیہ کو آپ کے قابل تعظیم خاوند کی وفات سے گہرا صدمہ ہوا ہے.پھر آغا خاں مرحوم مسلمانوں کے خیر خواہ اعلیٰ ذاتی اوصاف کے حامل اور بے نظیر لیڈر تھے.ان کی وفات پاکستان اور تمام عالم اسلام کے لیے ایک عظیم نقصان ہے.ہماری طرف سے دلی ہمدردی قبول فرما ہیے اور پرنس علی اور پرنس صدر الدین کو بھی ہمارا تعزیتی پیغام پہنچا دیجیے دینے پرنس کریم آغا خان نے جوابی پیغام میں کہا WAS Touched BY DEEPLY KIND MESSAGE of AHMADIYYA COMMUNITY" یعنی جماعت احمدیہ کے ہمدردانہ پیغام نے میرے دل پر نہایت گہرا اثر کیا ہے کہیے ناظر صاحب امور عامہ نے سر آغا خان کے جانشین پرنس کریم آغاخان کی خدمت میں حسب ذیل تہنیتی تار دیا.جماعت احمدیہ اور حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کی جماعت اسماعیلیہ کے انچاسویں امام مقرر ہونے اور آغا خاں چہارم کے خطاب سے سرفرانہ ہونے کی تقریب پر دلی مبارکباد قبول کیجیے ہماری دعا ہے کہ خدا ئے قادر و قیوم آپ کی راہ نمائی فرمائے آچکے بطل احمدیت اور عالمی عدالت انصاف کے حج اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ حضرت پتو بدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے سراً نجا خان کی خدمات کا ذکر کر تے ہوئے فرمایا آغا خاں نے عالم اسلام کی فلاح و بہبود کے لیے جو نہ بہ دست خدمات انجام دیں اس کے لیے دنیا بھر کے مسلمان مرحوم کے شکر گزار رہے ہیں.وہ ایک بہت بڑی شخصیت تھے.انہوں نے ہر نیک مقصد اور ہر ضرورت مند کی فراخدلانہ امداد کی ان کا انتقال ایک ایسے دور کا خاتمہ ہے جس میں آغا خان ن الفضل به ارجولائی ۱۹۵۷ صلہ کے الفضل 19 جولائی ، ۱۹۵ ء مست کالم آخر له الفضل در راگست ۱۹۵۷ء طة الفضل 19 جولائی ۱۹۵۷ء صلا
نے یورپ اور ایشیا ہو دونوں جگہ نمایاں کردار ادا کیا بلے سر آغا خان کے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے ساتھ گہرے مراسم تھے جس کا کسی قدر اندازہ درج ذیل اقتباس سے ہوتا ہے.سر آغا خان تحر فرماتے ہیں :- ا- I myself presiding as host, and Mr.Jinnah and Sir Muhammad Shafi negotiating on one side and Mahatma Gandhi on the other.They were informal talks and no record was kept.I said little and left the bulk of the discussion to Mr.Jinnah and Sir Muhammad Shafi and to the other delegates who from time to time took part, notably Sir Zafrullah Khan, Mr.Shoukat Ali, and the late Shafaat Ali Khan.' (The Memoirs of Aga Khan- Page 228Cassell and company Ltd.London-1954) (ترجمہ) میں مسلمانوں کی طرف سے میزبانی کے فرائض ادا کرتا رہا البتہ مسٹر بجناح اور مرمحمد شفیع مسلمانوں کی طرف سے اور دوسری طرف سے مہاتما گاندھی گفت وشنید میں سرگرم حصہ لیتے رہے.یہ غیر رسمی ملاقاتیں تھیں جن کا کولا ریکار نہیں رکھا جاتا تھا.میں تو بہت ہی کم بولتا تھا جبکہ گفت وشنید کا زیادہ پوچھے مرد جناح اور سرمد شفیع نے اٹھایا ہوا تھا یا پھر دوسرے اراکین وفد نے جو وقتاً فوقتاً شامل گفتگو رہا کرتے تھے جن میں مر محمد ظفر اللہ خان مسٹر شوکت علی اور مرحوم شفاعت علی خاں ممتاز حیثیت کے حامل تھے.'A former distinguished colleague of mine, at the Round Table Conference and the committees which followed, Zafrulla khan, is at present Foreign Minister; and the brings to his herculean الفضل ٤ ا ر جولائی ۱۹۵۷ء صلا
۷۳۲ responsibilities sagacity, forensic ability, and great experience in the field of international affairs.(The Memoirs of Aga Khan- Page 321) ( تر جمہ ) گول میز کانفرنس کے زمانہ اور اس کے بعد کی کمیٹیوں کے میرے ممتا نہ ساتھی ظفر اللہ خان وزیر خارجہ ہیں جو بین الا قوامی معاملات میں اپنے وسیع تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اس وزارت کی انتہائی مشکل ذمہ داریوں کو اپنی بھر اور ذہانت اور قانون مہارت سے بحسن وخوبی نباہ رہے ہیں 'It is formality to say that it was an honour to be chosen to lead so notable a body of man including personalities of the calibre of Mr.M.A.Jinnah, later to be the creater of Pakistan and the Quaid-i-Azam or Sir Muhammad Zafrullah Khan for many years India's representative at humerous international congress and first Foreign Minister of Pakistan, or my old and tries friend Sir Muhammad Shafi, one of the founder of Muslim League.' (The Memoirs of Aga Khan- Page 214-215) (ترجمہ) بغیر کسی تکلف کے ہیں یہ کہتا ہوں کہ ایسی قابل ترین ممتاز شخصیتوں پر مشتمل وفد کی رہنمائی میرے لیے ایک بہت بڑا اعزانہ متھا جیسے سر محمد علی جناح جو بعد میں پاکستان کے بانی اور قائد اعظم کہلائے یا سر ظفر اللہ خاں جو کئی سال بین الاقوامی کانفرنسوں میں ہندوستان کی نمائندگی کرتے رہے اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ بنے یا میرے پرانے مخلص دوست سر محمد شفیع جو کہ مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ایک تھے.اس سال بھائیوں نے چکوال رضلع جہلم میں اپنی تبلیغی سرگرمیاں بھائیوں سے کامیاب مناظرہ | تیزکردیں.بلکہ تین چار سلمان بھائی بھی ہو گئے جس سے علاقہ
میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا.اس پر سلمانوں کے ایک وفد نے احمدیہ بیت الذکر چکوال میں انچار ج مربی مولوی محمد اشرف صاحب ناصر سے ملاقات کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مسلمانوں کی نمائندگی میں بھائیوں سے گفتگو کریں.طے شدہ پروگرام کے مطابق ۱۵ جولائی ۱۹۵۷ ء احمد یہ بیت الذکر میں پرا ہم شام سے پڑے بجے تک اسلامی شریعیت اور بہائی شریعت میں موازنہ کے موضوع پر مناظرہ ہوا.بہائیوں کی طرف سے ان کے مشہور مبلغ اور لیڈر محفوظ الحق صاحب علمی اور مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد اشرف صاحب ناصر پیش ہوئے.تقریرہ کے لیے نصف نصف گھنٹہ وقت مقرر کیا گیا.پہلی اور آخری تقریر مولوی محمد اشرف صاحب نے فرمائی.احمد یہ بیت الذکر کا صحن سامعین سے بھرا ہوا تھا ارد گرد کے علاقہ کے مسلمان بھی اس میں شامل تھے.صدر جلسہ کے فرائض مولوی نور محمد صاحب خطیب مسجد خواجگان نے ادا کیے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مناظرہ میں اسلام کو نمایاں کامیابی ہوئی.ایک بہائی نے تو اس وقت بر سر عام بہائیت سے توبہ کی.صاحب صدر نے احمد می مناظر کو مخاطب کر کے فرمایا آپ نے آج مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت سر انجام دی ہے جس کے لیے میں مسلمانان چکوال کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں تکیہ ، درسط ۱۹۵۷ بو کا به انسوس ناک دافعه آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی فرضی تصویر پر احتجاج ہے کہ جنوبی بھارت میں ندیب فوٹو پبلیشر کمپنی حیدر آباد دکن کی طرف سے آنحضرت اور آپ کے صحابہ کی فرضی تصویر شائع ہوئی.اس شرمناک حرکت کا ناظر صاحب دعوت تبلیغ قادیان نے فوری نوٹس لیا اور اس پر احتجاج کرتے ہوئے لکھا: اس قسم کا فرضی فوٹو آنحضرت صلعم کا شائع کرنا اور پھر اس کے لئے نذرانہ طلب کرنا بہت معبوب قابل اعتراض اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس لگانے کا باعث ہے.اور ہم اس کی اشاعت شه ولادت ۱۸۹۴ ء وفات فروری ۱۶۱۹۷۸ له ولادت ۳۱ تکبر ۱۹۳۳ء - ونات ۱۰۹ جولائی 1991ء : له الفضل ۳ اگست ، ١٩٥ء م
۷۳۴ پر سخت نفرت اور دکھ کا اظہاہ کرتے ہیں ہلے ۲۸ را گست ۱۹۵۷ء کو دریائے چناب میں سیلاب کے بڑھتے ہوئے حمل ایل ربوہ کا مثالی وقار میں زور کی وجہ سے میوہ کے قریب دریائے چناب پر ریو سے گل ربوہ کے حفاظتی پہنتے ہیں ایک سوفٹ لمباشگان پڑ گیا اور پل کے تباہ ہونے کا فوری خطرہ پیدا ہو گیا.چاروں طرف سے راستے مسدود ہونے کی وجہ سے ریلوے حکام بالکل بے لیس ہو گئے اور فوری امداد بہم پہنچانے سے قاصر تھے اس لیے ریلوے انجینئر صاحب لائلپور (فیصل آباد) نے بذریعہ تارہ ناظر اعلى صدر انجمن احمدیہ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب سے درخواست کی کہ کم از کم ایک سو مزدور فور پل پر بھجوانے کا انتظام فرمائیں.نمائندہ روز نامہ الفضل کی اطلاع کے مطابق یہ اطلاع ملتے ہی ناظر امور عامہ صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب کی زیر نگرانی لوکل انجین احمدیہ، مجلس خدام الاحمدیہ یوہ اور علی انصار اللہ یہ لوہ کے امدادی دستے پوری طرح حرکت میں آگئے.نیز صدر انجین احمدیہ اور تحریک جدید کے جملہ وفاتہ بند کر دیئے گئے اور دوصد پچاس افراد جن میں کالج کے پروفیسر صاحبان دفاتر کے افسران ، صیفہ جات کے عملے کے دوسرے ارکان اور ربوہ کے نوجوان دوکاندار العرض پر مشعر اور حروفہ کے لوگ شامل تھے.وہ سب شدید دھوپ اور گرمی میں در میل کی مسافت پیدل طے کر کے دریائے چناب کے پل پر پہنچ گئے اور وہاں پر انہوں نے جناب ایم.ایس شرکت صاحب آئی.او ڈبلیور انسپکٹر آن در کسی کی نہ یہ ہدایت دریا کے دوسرے کنارے سے بھاری بھاری پتھر لا کر شگات میں ڈالنے شروع کر دیئے اور نہایت محنت اور جانفشانی سے کام کر کے وہ قریباً آٹھ ہزار مکعب فٹ پتھر شگان میں بھر کر فوری خطرہ بڑی حد تک دور کر دیا ان اڑھائی صد احباب کے جوش و خروش کے ساتھ کام کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ہر شخص کس طرح بھاری پتھر ا ٹھا کر لیے جا رھا ہے.خدام کے کام اور ان کے جوش وجذبہ سے متاثر ہو کر آئی.او.ڈیلیو صاحب نے نمائندہ الفضل سے کہا خود ریلوے کے مزدور ہیں روز میں جو کام کرتے وہ ان با بہت نوجوانوں نے چند شد اخبار بدر یکم اگست ، ۹۵ار ما : ایضاً الفضل ، راگست، ۱۹۵د مرا
۷۳۵ گھنٹوں میں کر دکھایا ہے.مزید کہا دراصل رضا کارانہ خدمت کا جذبہ ان سے یہ سب کچھ کروارہا ہے.آپ نے بتایا کہ گزشتہ رات سے شگان لحظہ بہ لحظہ بڑھ رہا تھا اور کسی سمت سے انداد کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.میں نے دریا کے قریب پہاڑیوں پر پتھر نکالنے والے پٹھانوں کو تین تین روپے فی مزدور کی پیشکش بھی کی لیکن انہوں نے پیشگی اجرت کا بہانہ کر کے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لینے سے انکار کر دیا.ایسے نازک موقع پر انہوں نے جس بڑی ذہنیت کا مظاہرہ کیا اس سے مجھے بہت افسوس ہوا.اگر یہ بوہ والوں کی طرف سے بر وقت امداد نہ ملتی تو اب تک پل کو بہت نقصان پہنچ چکا ہوتا.شام تک مسلسل پھر ڈھونے کے باعث خدام وانصار تھک کر تیوز ہو چکے تھے کہ ریلوے کے آئی.او.ڈبلیو صاحب نے درخواست کی کہ بہنیں ایسے با ہمت نوجوان درکار ہیں جو رات کو بھی مچی پر موجود رہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ ریلوے کے ہیں مزدوروں کے ساتھ مل کہ جو پہلے سے وہاں موجود تھے مزید پھر ڈال کر یگان کو بڑھنے نہ دیں.اس پر قائد صاحب یوہ صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب نے ایسے با ہمت مدام کو دعوت خدمت دی چنانچہ خدام نے بڑے اشتیاق سے آگے بڑھ بڑھ کر اس خدمت کے لیے اپنے نام لکھوانے شروع کردیئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بیل نام آگئے میں پر باقی سب احباب کو واپس جانے کی اجازت دے دی گئی یہ رانچی میں جلسہ سیرت المبنی او در ستمبر ۱۹۵۷ کومور بہار بھارت کے مشہور مقام را نچی میں پہلاک لائبریر می مال میں زیر صدارت با بد دیگمبر رام (چهترین رانچی میونسپلٹی) سیرت النبی کا جلسہ منعقد ہوا.مقررین کے اسماء یہ ہیں.جناب حبیب اللہ صاحب پر وفیسر لاء کالج رانچی.مولانا ابو البيان واعظ بھاگلپوری - جناب محمد عباس صاحب وکیل نمازدی.مسٹر ہری کرشن لال ایم ایل سی بہار ( آپ نے اپنی نظریہ میں حضور اکرم کے بارے میں کہا اور انسانی زندگی کے کوئی پہلو ایسے نہیں جن کے لیے آپ کی تعلیم مکمل نہ ہو.آپ کی تعریف کرنا گویا سورج کو چراغ دکھانا ہے سید محی الدین احمد صاحب چیف ایڈیٹر اخبار دی سینٹل رانچی.بابو دیگمبر رام نے اپنی صدارتی تقریر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے رونما ہونے رائے عالمی انقلاب کا تذکرہ کرتے له الفضل ۳۰ اگست ۱۹۴۷ء ص ۱ - ۸
ہوئے بتایا کہ آنحضرت کسی خاص قوم یا خاص دلیش یا صرف مکہ کے لیے نہیں......بلکہ تمام دنیا کی قوموں کی اصلاح کے لیے آپ میسجے گئے تھے آپ نے ہر قسم کی برائی کو دور کرنے کی کوشش کی اور اس میں شاندار طور پر کامیاب ہوئے لیے مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے جنوری ۱۹۲۵ء " ربوہ سے رسالہ البشری کا اجراء میں حیفار فلسطین سے ماہنامہ البشری، جاری فرمایا تھا " اس سال آپ نے اکتوبر ، 190 ء سے ربوہ میں بھی اسی نام سے ایک عربی رسالہ کا آغازہ فرما دیا اور نے ۱۹۵ء.پر نسپل جامعہ احمدیہ جناب سید داؤ د احمد صاحب کو پیشکش کی کہ اگر البشر کی پسند ہو تو جامعہ احمدیہ اسے بخوبی اپنا سکتا ہے آخر جامعہ ہمارا ہے اور ہم جامعہ کے سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں سبب یہ تجویز پیش ہوئی تو حضور نے اس امر کی خوشی اجازت مرحمت فرما دی اور یہ رسالہ وسط.سنوری ۱۹۵۹ء سے پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ کی نگرانی میں آگیا اور ملک مبارک احمد صاحب استاذ الجامعہ اس کے مدیر مقرر ہوئے.سٹی 1909 ء میں اس کا پہلا شمارہ نئے انتظام کے تحت منصہ شہود پر آیا.جو ظاہری اور باطنی خوبیوں کا مرقع تھا.اس کے معیاری اور بلند پایہ مضامین اور نفیس طباعت اور بہترین دیزی کاغذ کو دیکھ کر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے غایت درجہ خوشنودی کا اظہار فرمایا سے رسالة البشری مرکز احمدیت کا واحد و بار سالہ تھا.اور اس نے سید وار د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ کی خصوصی سر پرستی اور ملک مبارک احمد صاحب کی مثالی ادارت میں شاندار اور ناقابل فراموش علمی خدمت سر انجام دی اور حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعود کی متعدد مقدس تخریبات کو نہایت فصیح وبلیغ اور با محاورہ عربی میں منتقل کر کے انہیں عرب ممالک کے بلند پایہ علمی حلقوں تک پہنچا یا.چنانچہ البشری میں کشتی نوح اور الومیت کے اقتباسات کے علاوہ" سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کا مکمل عربی ترجمہ اشاعت پذیر ہوا اسی طرح حضرت مصلح موعود سه بدر ها را اکتوبر ۱۹۵۷ تو منه وصلاته ولادت ۱۹۲۲ء رفات ۶۱۹۸۸ از سیرت داد و صفحه ۳ ، ۴ - ناثر الجمیعتہ العلمیہ بالجامعته الاحمديه بيرلوه تاریخ طبع مارچ ۴ :
کی تصنیف تغیر کبیر، اور دعوت الامیر ، کے بعض حصوں کا نیز دعوت اتحاد اور رحمتہ للعالمین کا مکمل عربی ترجمہ اس میں چھپا.علاوہ انہیں مندرجہ ذیل اہل مسلم بزرگوں اور نو جوانوں کے بلند پایہ مضامین بھی اسمیں اشاعت پذیر ہوئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب - حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری اشیخ نور احمد صاحب منیر شیخ عبد القادر صاحب محقق عیسائیت - مولوی بشارت احمد صاحب بشیر - جناب سید عبد الحی صاحب شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئٹزر لینڈ.صوفی طمد اسحاق صاحب سابق مبلغ لائبیریا - قاضی محمداسلم صاحب صدر شعبہ نفسیات کراچی یونیورسٹی.مولوی جمیل الرحمن صاحب مولوی محمد یعقوب صاحب الحجر.بیر دنی ممالک کے احمدیوں میں سے خالد و تلف (جرمنی) عبد السلام میڈیسن (ڈنمارک الاستاذ رشد می الباکیر الیسوطی (سابق رئیس الجماعة الاحمدیہ حیقا) اور السید عبد الحمید عبد المجید خورشید (مصر) کی نگارشات بھی رسالہ کی زینت بنیں.حضرت صاحبزادہ مرنہ اطاہر احمد صاحب اور سید محمود احمد صاحب انگلستان سے واپسی | ناصر تو سید نا حضرت مصلح موعود کے منشاء کے مطابق بغر من تعلیم کچھ عرصہ سے انگلستان میں قیام فرما تھے اس سال اکتوبر میں واپس ربوہ تشریف لے آئے ہے ۱۹ر دسمبر ۱۹۵۷ء کو احمدیہ انٹرنیشل حضرت چو ہدری محمد ظفراللہ خانصاحب کے اعزاز میں استقبالیہ | پریس ایسوسی ایشن کی طرف عالمی عدالت انصاف حضرت پچودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا.جس میں مہران ایسوسی ایشن کے علاوہ بزرگان سلسلہ ناظر در وکلاء صاحبان اور لائلپور (فیصل آباد) اور سرگودہا کے بعض صحافی حضرات بھی شریک ہوئے اس موقعہ پر مختلف احباب سے گفتگو کرتے ہوئے آپ نے متعدد علمی اور عوامی دلچسپی سے تعلق رکھنے والے بعض موضوعات پر اپنے مخصوص انداز میں روتی ڈالی اور اس طرح حاضرین کو آپ کے زرین خیالات سے مستفید ہونے کا موقعہ ملا.له حال وکیل التصنيف ریوه به که الفضل ۵٫۲ اکتوبر ۱۹۵۷ ت مرا
دوران گفتگو جب آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی کہ بعض ملفوں میں نمانہ اردو میں پڑھنے کا رجحان پیدا ہورہا ہے تو اس اس کو غیر بستن قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ انگریز کا راج ختم ہو چکا ہے پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے لیے انگریزی زبان سے تعلق کیسر منقطع کر لینا ممکن نہیں ہے.؟.ہم مجبور ہیں کہ ابھی انگریز می کو کسی نہ کسی رنگ میں برقرار رکھیں کیا وہ زبان میں میں قرآن مجید نازل ہوا اور بے دینی نکتہ نگاہ سے بنیادی اہمیت حاصل ہے اس قابل ہے کہ ہم اس سے اپنا تعلق منقطع کر لیں ؟ ؟ - نہیں تو چاہیے کہ ہم عربی زبان کو زیادہ سے زیادہ اپنائیں اور اسے زیادہ سے زیادہ مقبول بنائیں.اس کا ایک آسان طریق یہ ہے کہ ہم نے غیر زبانوں کے جو مشکل الفاظ اختیار کر رکھے ہیں حالانکہ ہم میں سے اکثر ان کے صحیح یعنی اور مفہوم سے پورے طور پر آشنا بھی نہیں ہوتے انہیں ہم ترک کرنے کی کوشش کریں اور ان کی بجائے اپنی روز مرہ بول چال میں زیادہ سہل عام فہم اور موزوں و مانوس الفاظ استعمال کرنے کی عادت ڈالیں مثال کے طور پر آپ نے فرمایا عام طور پر ہمارے ہاں کھانے پینے کی دکانوں کے لیے ہوٹل اور کیفے کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ان کی بجائے بآسانی عربی الفاظ اختیار کیے جا سکتے ہیں.اگر کھانے وغیرہ کی دکان کے لیے مطعمہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ مناسب ہے.اسی طرح ہوائی جہازوں کے اترنے کی جگہ کے لیے ہم نے ہوائی اڈہ کا لفظ اختیار کر رکھا ہے کوئی وجہ نہیں کہ ہم عربی زبان سے اپنے لگاڈ اور تعلق کی بنا پر اس کے لیے مطار کا عربی لفظ استعمال نہ کریں جو زیادہ پہل اور بناء پہ اور مختصر ہے اس طرح روز مرہ کی بول چال میں عربی زبان کو رواج دینے سے ہم عربی زبان سے اپنے تعلق اور لگاؤ کو بڑھا سکتے ہیں یہ اب بیرونی احمدیہ مشنوں کی ر۱۹۵۷ء میں تبلیغی سرگرمیوں بیرونی مشنوں کی سرگرمیاں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جاتی ہے.مشن کے انچارج مولود احمد خاں صاحب نے اس سال کی پہلی سہ ماہی میں بارہ مختلف انگلستان مشن روٹری کلبوں میں لیکچر دیئے جن کا بالعموم موضوع اسلام تھا.ان تقاریر پر حاوی پریس کا تبصرہ بہت دلچپ تھا.چنانچہ اخبار میکنے گزٹ لنڈن ایڈور ٹائنز MRCHNE GAZETTE) ه الفضل یوه ۲۱؍ دسمبر ۱۹۵۷ء صا
ADVERTISE) LONDON نے اپنی در فروری ۱۹۵۷ء کی اشاعت میں لکھا کہ یہ افسوسناک امر ہے کہ یہاں مذہبی امور میں دلچسپی ظاہر نہیں کی جاتی مگر میکنے روٹری کلب کے ہفتنہ داسا جلاس میں جو ابھی منگل کو منعقد ہوا یہ معاملہ پر کی ثابت ہوا.شاید یہ بیت الفضل لندن کے امام مسٹر موارد احمد خان کی رجو در انڈرز در تھے روٹری کلب کے نمبر ہیں) اسلام سے متعلق : انکا نہ لیکچر کا نتیجہ تھا.سوالات کے وقفہ کے دوران ممبران نے کئی سوالات کیسے لیکن ایک سوال حاضرین کی توجہ کا مرکز بنا جو میتھوڈسٹ سنردل ہاں کے پادری جان سٹیون فشر ( STEVEN FISHER) کا سوال تھا اور وہ یہ کہ عورتوں کے بارہ میں اسلام کی تعلیم کیا ہے : معزز مقرر کے جواب سے معلوم ہوتا تھا کہ اسلام نے عورتوں کو بھی ان کے حقوق دیئے ہیں اور ان میں حکمت ، وراثت اور طلاق وغیرہ کے معاملات بھی شامل ہیں لیکن انہوں نے مزید بتایا کہ عورتوں کی نگہداشت کا فرض مرد کے ذمہ لگایا گیا ہے.طلاق کے مسئلہ کیا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام طلاق کو جائز قرار دیتا ہے اور اس معاملہ میں سرد اور ورث دونوں کے حقوق مقرر ہیں.اسی طرح اخبار دی گرئیر لنڈن روڈ میں میگزین THE GREATER LONDON) (RODIUS MAGAZINE نے لکھا روٹری کلب کے حالیہ اجلاس میں موادود احمد خان امام بیت الفضل لذت نے ایک غیر معمولی نظریہ بعنوان اسلامی دنیا کی اسلام کے متعلق ان کے نظریات نے اس درجہ مونی پیدا کر دیا.کہ مہر علی کو منسار سوالات بند کرنے میں خاص دشواری پیش آئی.فاضل مقریر نے تعدد ازدواج کو اسلامی نقطہ نگاہ سے جائزہ قرار دیا.ردشگری کتاب کے علاوہ سلاد ( SLOUGH) کی در گرز یونین کے ممبران سے بھی آپ نے خطاب کیا اور اسلام کی عالمگیر تقسیم ہر روشنی ڈالتے ہوئے سامعین کو قبول اسلام کی دعوت دی یہ نظریہ بہت خاموشی تے سنی گئی اختتام پر بہت سے سوالات دریافت کیسے گئے انگلستان بشن کے زیر انتظام پندرہ.رزہ لیکچروں کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا.جن میں منڈن کے علاوہ نائیجیریا ، گیمبیا ، ٹرینیڈاڈ اور بھارت کے طلبہ نے بھی شرکت کی ۹۵۷اد کا پہلا پندرہ روزہ وار لیکچر ماہ جنوری میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے دیا جس میں آپ نے ناقابل تردید عقلی دلائل د برا امین سے تثلیث کار فرمایا.سیکچر کے اختتام پر ایک مسیحی طالب علم نے اعتراف کیا کہ فاضل مقرر
۷۴۰ نے جو دلائل بیان فرمائے ہیں ہمارے پاس ان کا فی الحقیقت کوئی جواب نہیں.پندرہ روزہ لیکچروں میں سب سے زیادہ قابل ذکر ایک مباحثہ تھا جو اسلام اور غلامی کے موضوع ہر ہوا.سب سے پہلے تمام حاضرین کو اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی اس طرح تمام مخالف اور موافق پہلوؤں پر سیر حاصل بحث ہوئی.پھر اگلے اجلاس میں میر عبدالسلام نے اسی موضوع پر ڈیڑھ گھنٹہ تک ایک جامع لیکچر دیا.۲۰ مارچ ۱۹۵۷ء کو ٹیلیویژن کے ایک پروگرام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نازیبا اور توہین آمیز الفاظ استعمال کیے گئے جس پر مولود احمد خاں صاحب اور ایک احمدی ڈاکٹر حمد نسیم صاحب نے احتجاج کیا اور متعلقہ ڈائر یکٹر کو تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مذہبی رہنما ہیں.حضور کی شان کیخلاف نازیبا الفاظ کے استعمال سے کہ دڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اس پر ڈائر یکٹر نے معذرت کی اور یقین دلایا کہ ایسے الفاظ کا اعادہ نہیں ہوگا.لنڈن کے ایک کلاب کے پچاس نمبر بیت الفضل میں آئے جن سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے پون گھنٹہ تک خطاب فرمایا جس میں اسلام کا دیگر مذاہب عالم سے موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام خدا کی وحدانیت کا قائل ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء کو سچے اور خدا کے رسول تسلیم کرتا ہے.من کی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق نائیجیرین طلبہ کے ایک گروپ سے موادی مبارک احمد صاحب ساقی نے تین گھنٹہ تک تبادلہ خیالات کیا یہ ھالینڈ مشن اس سال کے وسط میں نائیجیریا کے ممتاز سیاسی لیڈر اور وزیہ آنریل مالم حاجی ابو بكبر تفاوا بلیوا ( MALAM ABUBAKR احمدیہ مشن ہاؤس ہیگ میں تشریف لائے اور اس روحانی و دینی مرکزہ کو دیکھ کر مسرت کا اظہار فرمایا.اس موقع پر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ان سے پون گھنٹے تک مختلف امور پر تبادلہ خیالات فرمایا اور مشن کی طرف سے انگریزی ترجمہ قرآن عطا فرمایا.جسے انہوں نے قدر دانی کے گہرے جذبات را الفضل ۸ در جون ۹۵۷اد مستم (خلاصہ رپورٹ مرسلہ مولوی مبارک احمد ساقی کی
سے قبول کیا ہے ۷۴۱ ر شیخ ناصر احمد صاحب انچار ج مشن سوئٹر لینڈ نے ۲۴ جنوری ، ۱۹۵ء کو بازل سوئٹر لینڈ مشن شہر می تبلیغی جلسه ست ، د مارچ کو شان مہوس میں پر اسٹنٹ کب سے اور ۱۲ ما رچ کو بون میں ایک پر ہجوم اجلاس سے خطاب کیا.پانچ اخبارات میں مشن کے متعلق خبریں شائع ہوئیں آپ نے قرآن کریم کے روسی ترجمہ کے سلسلہ میں ابتدائی معلومات مہیا کر کے ترجمہ کا نمونہ تیار کروایا ہے اس سال صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وكيل البشر یورپ کے تبلیغی جائزہ کے سلسلہ میں تشریف لے گئے تو ان کی یہ قافت میں آپ ۲۸ جولائی کو آسٹریا کے دارالحکومت دمی آنا گئے اور ۱۲۹ جولائی کو آسٹریا کے چانسلر صاحب کو قرآن مجید کا جرمن ترجمہ پیش کیا ہے جو اُن کے نمائندہ خصوصی نے وصول کیا.چانسلر صاحب مسٹر جولیس راب نے جرمن ترجمہ قرآن کی پیش کش پر اظہار تشکر کیا اور شیخ ناصر احمد صاحب کے نام خط میں لکھا :.ر مجھے اس امر کا حد درجہ فلق ہے کہ جب آپ مورخہ ۲۹ جولائی ۱۹۵۷ ء کو فیڈرل چانسلری میں تشریف لائے تو میں بوجہ دی آنا سے باہر ہونے کے آپ سے ذاتی طور پہ نہ مل سکا.امید ہے کہ آپ اب اس خط کے ذریعہ میرا پُر خلوص شکریہ قبول کریں گے کہ آپ بذات خود تشریف لائے اور میرے لیے قرآن کریم کے پہلے ثقہ اور مستند عربی جرمن ایڈیشن کا ایک نسخہ پیش کیا.میں نے دنیائے اسلام کی اس حد درجہ اہم اور مقدس کتاب پر بڑے شوق سے نظر ڈالی ہے اور میں دلی مسرت کے ساتھ اسے اپنی لائبریری کا ایک قیمتی جند بناؤں گا.مرزا مبارک احمد صاحب کے نام بھی اس مضمون کا ایک خط علیحدہ بھجوا رہا ہوں.پرخلوص جذبات کے ساتھ آپ کا جولیس راب کے (ترجمہ) لہ آپ ۱۹۵۹ء کے انتخاب کے بعد ملک کے وزیر اعظم بنے.آپ آزاد نائیجیریا کے پہلے مسلمان تھے.جو اس منصب پر فائزہ ہوئے.افوس.۱۵ جنوری ۱۹۶۶ ء کو فوج نے آپ کی مادرت کا تختہ الٹ دیا اور آپ شہید کر دیئے گئے - له الفضل - ارمئی ۱۹۵۷ رصت خلاصہ رپورٹ مریم شیخ ناصر احمد صاحب : - الفضل (در جولائی ۱۹۵۷ء صل له بدر تاریان ۲۶ ستمبر ۱۹۵۷ء مت
۷۴۲ سپین مشن | چوہدری کرم الہی صاحب ظفر مبلغ سپین میڈرڈتے بارسیاد نا شہر تشریف لے گئے جہاں ارجولائی ۱۹۵۷ء کو ایک لیکچر دیا جس کے بعد آپ نے حاضرین کے سوالوں کے جوابات دیئے.یہ علمی مجلس بہت دلچسپ اور کامیاب رہی.روزنامہ طار ا سا (TARRASA) نے اپنی سوار جولائی ۱۹۵۷ تو کی اشاعت میں اس کا مفصل تذکرہ کیا.طار اسا کے نوٹ کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.گزشتہ بدھ کے روز رات کے وقت اخبار طار ا سا (TARRASA) کے نامہ نگاروں اور صحافیوں کی ایک جماعت نے دین حق کے مبلغ کرم الہی ظفر سے جو امن وسلامتی کا پیغام لے کر آئے ہیں ، انٹر ویو کیا.ظفر صاحب جماعت احمدیہ کے مبلغ ہیں جن کا مرکز قادریان ہے.ظفر صاحب نے پہلے ایک مختصر سی تقریر کی.اس کے بعد سوالات کا موقعہ دیا گیا جو اچھا خاصا دلچسپ تبادلۂ خیالات کا رنگ اختیار کر گیا.بہت سے مسائل اسلام اور عیسائیت میں مشترک پائے گئے.آپ قریباً نو سال سے میڈرڈ میں مقیم ہیں اور عطر کی معمولی تجارت کے ساتھ گزارہ چلاتے ہیں.جب پہلی دفعہ سپین وارد ہوئے تو ہسپانوی زبان بالکل نہیں جانتے تھے.اب اچھی خاصی مہارت ہو چکی ہے.ان کی قومی زبان اردو ہے جو زیادہ تر شمالی ہند دوستان میں عام بولی جاتی ہے مگر ان کے لیے مقدس نہ بان عربی ہے جس میں قرآن کریم لکھا ہوا ہے.قرآن کریم مسلمانوں کے لیے مقدس مذہبی کتاب ہے.پہلے ان کو مرکز سے کچھ مدرمنتی تھی مگر جب سے برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی ہے یہ مالی مدد بھی ان کو نہیں ملتی.اب یہ خود بھیری لگا کر گزارہ کرتے میں کسی قدر آمدہ ایک کتاب اسلام کا اقتصادی نظام کی ہو جاتی ہے.تقریر سے پہلے آپ نے کچھ عربی زبان میں تلاوت کی.بعد میں اپنے مشن کی عزم کو تفصیل سے بیان کیا اور بتایا کہ آج دنیا کے مصائب و آلام کی وجہ یہی ہے کہ گرامی اور ضلالت کا عام دور ہے.روحانیت اور اعلیٰ اخلاق کی جگہ مادہ پرستی اور اخلاق رویہ نے لے لی ہے جس کا خطر ناک انجام سوائے تباہی اور ہلاکت کے ، اور کوئی نہیں.ہاں اگر بنی نوع انسان اپنے معبود حقیقی کی طرف رجوع کریں تو ان تمام مصائب سے نجات پا سکتے ہیں اور حقیقی اور دائمی خوشی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں جس کا راز عربی کے ایک سادہ مگر وسیع المعانی لفظ " اسلام " میں پایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کی جائے.قرآن کریم کی بعض آیات ظفر صاحب نے حوالہ
۷۴۳ کے طور پر پیش کیں تو یوجنا کے کشف اور سورج اور چاند گرہن کی پیشگوئی کی مانند نظر آتی ہیں.اپنی تقریر کے دوران ظفر صاحب نے حز قیل نبی کی پیش گوئی بھی پڑھ کر سنائی جس میں یا تبجوج ماجوج کی لڑائی کا ذکر ہے.جماعت احمدیہ کے نزدیک یا جوج ماجوج سے امریکہ اور روس کے ساتھی لعینی استخادمی بلاک اور سروس اور اس کے ساتھی یعنی کمیونسٹ بلاک مراد ہیں.اور یہ جنگ بنی نوع انسان کی اپنی بڑھالیوں کا نتیجہ ہے.پس جماعت احمدیہ کے قیام کی عز من محض یہ ہے کہ بھولی بھی کی مخلوق اپنے خالق حقیقی کی معرفت حاصل کر کے اس کی طرف رجوع کرے تادہ رحیم و کریم اعلیٰ ہستی اپنے بندوں پر آسمان سے رحم نازل فرمائے.به عجیب اتفاق کی بات ہے اور باعث دلچسپی ہے کہ یہ امن کا پیغام ہمارے مقدس پوپ دوازدہم کے پیغام سے ملتا ہے جس میں انہوں نے بھی دنیا کو آگاہ کیا ہے کہ اگر قومیں ہدایت کے راستہ پرگامزن نہ ہوں گی تو دنیا ایک خطر ناک ہلاکت میں مبتلا ہو جائے گی.ہم قارئین کی توجہ ایک خاص امر کی طرف دلانا چاہتے ہیں کہ اسلام ہی ایک ایسا غیر عیسائی مذہب ہے جو عیسائیت کے قریب اتہ ہے (قرآن کریم کا بھی یہی دعا ہے کہ عیسائیت ، سلام کے زیادہ قریب ہے) اور قرآن کریم کے بہت سے اصول اور تعلیم تو رات کے مطابق ہے.اسلام تو رات کے تمام انبیاء کو مانتا ہے.مسلمان حضرت مریم کو مقدس مانتے ہیں اور یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام پاک دامن کنواری کے بطن سے پیدا ہوئے تھے.انجیل کے بعض حصوں کو درست سمجھتے ہیں.مگر...خدا تعالیٰ کے معجزوں کیہ کامل ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ہماری تثلیث کے اعلیٰ راز کے سمجھنے سے قاصر ہے.قدرتی طور پر یہ وہ مسائل ہیں جو عیسائیت اور اسلام کے اتحاد میں ردک ہیں.مگر کوئی مضائقہ نہیں.یہ امریم کیتھولک لوگوں کے لیے ہرگز کسی قسم کے تعصب کا مر جب نہیں بنا چاہیے کہم اسلام کی خرومیوں کا اعترات نہ کریں.اسلام بنی نوع انسان ہیں عالمگیر محبت کا سبق دیتا ہے اور دنیا میں مختلف طبقات کے لوگوں میں حقیقی طور پر امن وسلامتی کا ضامن ہے.افسوس د کاره اوس مونواس)
،۴۴ اس سال کے دو واقعات خاص طور پرت بل ذکر ہیں.امریکہ مشن اول سے پہلا اہم واقعہ حضرت چوہدری محمد ظفراشد خان صاحب کا مارچ.اپریل ۱۹۵۷ء کا قیام امریکہ ہے جس کے ذریعہ حق و صداقت کا پیغام ملک کے اعلی سماجی علمی اور مذہبی حلقوں تک پہنچا.آپ کے قیام کے دوران میں جماعت نیو یارک کو مشن ہاؤس کے لیے پہلے کی نسبت کہیں بہتر جگہ حاصل ہو گئی اس نئے مشن کا افتتاح آپ نے یکم مارچ ۱۹۵۷ء کو نماز جمعہ کی امامت کے ساتھ فرمایا اور ایک بصیرت افروز خطبہ دیا.پھر عید الفطر کے روزہ آپ نے نماز عید کی امامت فرمائی.نیو یارک مشن نے غیر مسلموں کو بھی کارڈوں کے ذریعہ سے اس تقریب کی دعوت دی تھی.اس طرح اشاعت دین کا ایک نہایت عمدہ موقع پیدا ہو گیا.ان اجتماعات کے علاوہ آپ نے اس عرصہ میں کئی لیکچرز مختلف یونیورسٹیوں کالجوں.کلبوں اور ایسوسی ایشنز میں اسلام کے متعلقہ مضامین پر دیئے.آپ کا پہلا لیکچر کو لبیا یونیورسٹی کے BERNARD COLLEGE FOR WOMEN میں "اسلام" کے موضوع پر ہوا اس میں آپ نے اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی خاکہ غیر مسلم طلبہ کی واقفیت کے لیے پیش فرمایا.قریبا ہر بیسکپچر کے بعد یہاں کے دستور کے مطابق سوال و جواب کا سلسلہ بھی جاری رہا.جس میں تقریب کے موضوع سے متعلق مزید معلومات سے آپ مستفید فرماتے رہے.کو لمبیا یو نیورسٹی میں مسلم طلبہ کی ایسوسی ایشن نے آپ کے لیکچروں کے ایک مسلمہ کا انتظام کیا.مقصد یہ تھا کہ اس طرح صرف بنیادی امور کی بجائے تعلیم اسلام کی گہری اور تفصیل را قضیت علم دوست طبقہ کو دی جائے.اس سلسلہ میں پہلا لیکچر ISLAM-THE FAITL یعنی اسلام بحیثیت مذہب کے موضوع پر ۲۶ فروری کو ہوا.دوسرا لیکچر ۱۲ ر ماستا کو SPIRITUAL VolNCS OF ISLAM MORAL AMD THE کے عنوان پر دیا گیا جس میں اسلام کی اخلاقی اور روحان تقسیم کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا.تیرا THE SOCIAL AND ECONOMIC VALUES OF ISLAM.کے موضوع پر کے زمانہ پچ کو ہوا.ان لیکچر ز میں یونیورسٹی کے طلبہ اور پینٹیوں کے علاوہ باہر سے زمی علم احباب جمع ہوتے رہے اور تقاریرہ کے بعد تبادلۂ خیالات ہوتا رہا -
BOWDOIN ۷۴۵ آپ کا یک میکر امریکہ کے شمال مشرقی ریاست MAINE کے ایک کالج Design OR UNIVERSE COLLEGE میں ، ر مارچ کو ہوا.عنوان یہ تھا:.ACCIDENT ? ISLAMIC view یعنی در تخلیق عالم اسلامی نقطہ نگاہ سے محض حادثہ ہے یا تدبیر اٹلی ؟ آپ کی ایک نہایت اہم نظریہ AMERICAN FRIEND OF THE MIDDLE EAST کے سالانہ اجلاس میں ۲۶ور مارچ کو ہوئی اس موقعہ پر ملک کے اطراف وجوانب سے اس آرگنائزیشن کے نمائندگان نیو یارک میں اپنی سالانہ کا نفرنس کے لیے جمع ہوئے تھے.حضرت چو ہدری صاحب نے اپنی تقریر میں بتایا کہ مشرق وسطی کی الجھنوں کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مذہب یعنی اسلام کی روح کو سمجھا جائے اور خاص طور پر اس امر کی اہمیت کو بھی کا اسلام کا مقدس صحیفہ نہ صرف مکمل طور پر وحی الہی بلکہ آنے والے ہر زمانہ کی تمام قسم کی مشکلات کا حل پیش کرنے کا دعو می کرتا ہے.یہ تقریہ اس اہم مجمع میں بڑے غور سے سنی گئی بعد میں صاحب صدر نے کہا کہ نظریہ سے قبل میں نے مقرر کا تعارف ایک مشہور عالم سیاست دان اور قانون دان کی حیثیت سے کرایا تھا.لیکن اب میں کہ سکتا ہوں کہ آپ ایک بڑے فلاسفرا اور عالم بھی ہیں.ار اپریل کو آپ کی ایک نظریہ دوائی.ایم سی.اسے واشنگٹن کی BREAKFAST CLUB میں ہوئی.یہ ایسٹر کا تہوار بھی تھا.اس لیے موقعہ کی مناسبت سے آپ نے حضرت مسیح کا مقام مسلمانوں کی نظر میں" کے موضوع پر روشنی ڈالی.اور اس سلسلہ میں واقعۂ صلیب اور سفر کشمیر کے واقعات بھی بیان کیے.۲۲ اپریل کو آپ کا ایک خاص لیکچر اسلامک سنٹر و اسٹنگٹی میں ہیرا.اس موقعہ پر مسجد دانسنگٹن کا لیکچر ہاں کچھا کھچ بھرا ہوا تھا.آپ نے اسلام اور عہد حاضر کی زندگی ISLAM) کے موضوع پر مشرح وبسط کے ساتھ روشنی AND MODERN LIFE) ڈالی.ان لیکچروں کے علاوہ آپ ہر ہفتہ میں دوبار کولمبیا یونیورسٹی کے دو مذاکرات (SEMINARS) میں بھی مشریک رہے.ان میں سے ایک تو " امن عالم کے موضوع یہ تھا اور دوسرا شرق اوسط کے معاملات پر.ان میں کو لمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اور بعض دوسرے سکالرز بھی شریک ہوئے ہیں.حضرت ہمہ ہدری صاحب ان مضامین پر اسلامی اور پاکستانی نقطه نگاه
بیان فرمایا.مور ضد سم را پر یا گر آپ UNION PEACE CHURCH کے ایک پنج پر دھو تھے مدعو جس میں اس امر پر تبادلہ خیالات موا کہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے اس کی مضبوطی کے لیے کیا مساعی کی جاسکتی ہیں ؟ لے دوم :- جماعت احمدیہ امریکہ کی وہیں کامیاب سالانہ کانفرنس اس سال ۳۱ اگست تا ۲ ستمبر 14ء دین میں منعقد ہوئی.کانفرنس میں امریکہ کے میں شہروں کے احمد می مندوبین نے شرکت فرمائی.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کا پر جوش پیغام خاص دلچسپی سے سنا گیا.د و مخلصین جماعت نے نئے مشن ہاؤس کے لیے اپنی جائیدادیں وقف کرنے کا اعلان کیا.حملہ نمائندگان کے یہ دن دعاؤں کے پیر گیفت ماحول میں گزرے اور دہ ایک خاص جذبہ، ائمہ اور نئے عزائم لے کر گئے ہیں ۱ - دار است ۱۹۵۷ء کو مولانا شیخ مبارک احمد صاحب ریمیں التبلیغ مشرقی مشرقی افریقہ مشن افریقہ نے بیت سلام مانگا نیکا کا افتتاح کیا.اس تقریب میں احمدی احباب کے علاوہ متعدد افریقن - ایشین اور یوردین معززین نے بھی شرکت کی ٹانگا نیکا کے دارالسلطنت دار السلام کے وسط میں یہ پہلی عبادت گاہ تھی جسے وہاں کی جماعت احمدیہ نے خدائے.احد کی عبادت کے لیے تعمیر کیا افتتاح سے قبل مولنا موصوف نے سواحلی زبان میں مختصر مگر موثر الفاظ میں اسلامی مساجد کی عرض و غائیت اور اسلامی مساوات کو پیش کیا.اور بتایا کہ انہیں مقاصد کی تکمیل کے لیے اللہ تعالے نے سید نا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مسیح مونوڈ کے طور پر مبعوث کیا اور احمدیہ جماعت دین حق کے ان مقاصد کی اشاعت کے لیے ہر حالت میں کوشش کو جاری رکھے گی.آپ نے یہ بھی علان کیا کہ خارا کا یہ گھر خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف ہے اور ہر مذہب رحمت کا آدمی باردک له روزنامه الفضل ابوه و در جون، ۱۹۵ د مت ۳۰ درپورٹ سید جواد علی صاحب سیکریڑی امریکہ مشن ) الفضل در نمبر ۱۵ ارست (رپورٹ چوہدری خلیل احمد صاحب ناقته مبلغ امریکہ )
رٹوک عبادت بجالا سکتا ہے اس تقریب کا ترجمہ اردو اور انگریزی زبان میں حاضرین تک پہنچی ماگیا.کارروائی کا آغانہ قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا جو ایک غیر احمدی عالم دین شیخ ، حمد عنان صاحب نے نہایت خوش الحانی سے کی.ازاں بعد جماعت احمدیہ دار السلام کے سیکر ڈی سید محمد سر در شاہ نما حب ایم اے نے انگریزی زبان میں مختصر طور پر پروگرام کی تفصیل بتائی.پھر مکرم سید محمد اقبال شاہ صاحب آن نیروبی نے تمام پیغامات پڑھ کر سناتے ہو مقامی افسران اور احباب کی طرف سے موصول ہوئے تھے.یا بیرونی جماعتوں اور مشنوں نے بھجوائے تھے.سب سے پہلے سیدنا الصلح الموعود کا تار منایا گیا نہں میں حضور نے اس کا نام بہیت سلام تجویز فرمایا تھا.گورنر صاحب ٹانگ انیکا کے پرائیویٹ سیکر ٹری نے لکھا.سزا کیسی لنیسی نے مجھے ہدایت کی ہے کہ ان کی طرف سے دار السلام میں نئی مسجد کے انتقارح کے موقعہ پر خوشی کے جذبات آپ تک پہنچا دوں.یوگنڈا کے قائم مقام گورنر صاحب کا پیغام :- میں آپ کو اور آپ کی وساطت سے آپ کی نام جماعت کو مبارکباد دیتا ہوں جو لوگ اس مسجد کو استعمال کریں گے اُن تک بھی میرے خوشی کے جذبات پہنچا دیجئے.کینیا کو لونی کے گورنر صاحب کا برقیہ.دار السلام میں آپ کی نئی مسجد کے افتتاح کے وقع پر آپ کو اور آپ کی مقامی جماعت کو جے ہو بیٹی اپنی وفادار رتایا میں سے شمار کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں نہایت گرم جوشی سے مبارکباد دیتا ہوں.نیروبی کے میٹر صاحب کا پیغام :- افتتاح کے دفع پر مخلصانہ جانہ بات بھجوانے میں مجھے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے.جماعت احمدیہ کا ایمان اور ان کی دعائیں اس امر کی ضامن ہیں کہ یہ نئی عمارت ان کی رومانی تقویت کا باعث ہو گی اور دوسرے لوگوں کے لیے ان تمام عمدہ تعلیمات کا منبع اور مرچیمہ ہوگی جو اسلام سکھاتا ہے اور مین کے ذریعہ قوموں میں امن اور صلح قائم ہوتی ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ نیریہ بی کے احمدی اور اُن کے اخباب اس امید کے اظہار میں میرے ساتھ مریک ہوں گئے کہ یہ عبادت گاہ صرف انہیں کے لیے مذہبی مرکز نہیں بنے گی بلکہ اس کے ذریعہ سے مختلف عقاید رکھنے والی جماعت کے افراد عمدہ شہریت کے اصول سیکھیں گے جماعت احمدیہ کی مداوا را نہ تسلیم اور جاہ یہ مدردی محلوق ان علاقوں کی زندگی به عمده او این نشان
۷۴۸ ارہ ر کھتے ہیں اور ان کے ذریعہ سے مشرقی افریقہ کے لوگوں اور اُن کے خیالات کو متحد کیا جا سکتا ہے.کینیا کے وزیر بے محکمہ مسرمان ( MR.MADAN) نے لکھا مجھے افسوس ہے کہ یکی اس تقریب میں شامل نہیں ہو سکوں گا.تاہم میں آپ کی اور آپ کی جماعت کی کامیابی کے لیے دعا کرتا ہوں میری دعا ہے کہ آپ کی تعلیم کے ذریعہ انسانوں میں باہمی مفاہمت پیدا ہو.حقیقی رواداری اور آپس میں مل بیٹھنے کا جذبہ پیدا ہو.لوگ لڑائی جھگڑے کی بجائے باہمی الفت میں محلہ ہوں ان میں حقیقی برادرانہ محبت پیدا ہو جو کہ میرے ناقص خیال میں تمام خدا پر ایمان لانے والوں کو پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے.خدا تعالیٰ کی رحمت بے پایاں آپ کی رہنمائی کرے تا آپ دکھی مخلوق میں امن اور قناعت پیدا کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہوں.ان تمام معاملات میں کہیں آپ کی عظیم الشان کا میانی کا خواہاں ہوں.یوگنڈا کے وزیر مواصلات مسٹر ناتھ مینی (MR،NATH MAINI) نے اپنے پیغام میں کہا :.اس بابرکت موقع پر میں آپ کو اپنا مخلصانہ سلام اور دلی جذبات پیش کرتا ہوں کامل میں اس موقعہ پر قریب تر ہوتا اور اس میں شامل ہو سکتا میری دعا ہے کہ یہ خدا کا گھر جو آپ نے تعمیر کیا ہے اس طبعی تڑپ کو پورا کرنے والا ہو.جو حق کی تلاش کے لیے ہر نسل اور ہر مذہب کے انسان میں ودیعت کی گئی ہے.مشرقی افریقہ کے ریلویز اینڈ ہاربر نہ ) RAILWAYS AND HARBOURS) کے جنرل مینجر مرار نظر کر بی نے تحریر فرمایا : - مضبوط مذہبی عقاید اور مخلصانہ مذہبی اعمال کسی بھی جماعت اور کی تنخور مندی کے لیے نہایت اہم ہوتے ہیں یہ عبادت گاہ جو آپ نے نہ صرف احمدیوں کی مذہبی اور مجلسی بہبود کے لیے بنائی ہے بلکہ ہر مذہب کا پیرو اسے عند الضرورت استعمال کر سکتا ہے، اس کا ایک منہ بولتا نشان ہے.ساحلی علاقہ کے مسلمان حاکم شیخ مبارک علی خادمی صاحب نے لکھا:.میں دعا کرتا ہو ا کہ خدا تعالیٰ اس کام میں برکت ڈالے اور آپ کو عظیم انشان ذمہ داریاں ادا کرنے میں کامیاب کرے ہے شده در نامه الفضل ربوه ۳ ، مئی ۱۹۵۷، ص ۳ !
۷۴۹ خدا کی قدرت : تین سال پیشتر جب ۱۲ دسمبر ۱۹۵۲ ء کو اس بیت الذکر کی بنیاد رکھی گئی تھی تو شہر میں حمدیوں کے خلاف بہت اشتغال تھا.افریقن شیوخ نے اپنے جاہل مریدوں میں عام تحریک پھیلائی ہوئی تھی کہ احمدیوں پر پھر پھینکے جائیں اور راستہ میں جہاں کہیں احمد می مبلغ یا کوئی اور احمدی ہے.بچے شور و غل مچائیں اس مخالفت کے پیش نظر بنیادرکھنے کے موقع پر کسی کو دعوت نہیں دی گئی تھی.اور خاموشی سے دعا کے بعد سنگ بنیاد رکھ دیا گیا.پولیس کی طرف سے امکانی شرارت کا مقابلہ کرنے کا پورا انتظام موجود تھا.لیکن درمیان کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا انقلاب پیدا کیا کہ وہی شیوخ جو ہر مجلس میں عزت و احترام کے ساتھ بٹھائے جاتے تھے اب ان پر لوگ آواز سے کہتے تھے اور کولی آن کی بات سنا تو کجا ان کو پاس تھانے کے لیے بھی تیار نہ ہوتا تھا بعض سیاسی حرکات کی وجہ سے مسلمان افریقین اس نتیجے پر پہنچے کہ شیوخ غدار ہیں.اور افریقیوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں میں وجیہ بھی کہ افتتاح کے موقع پر افریقی معززین شوق کے ساتھ شامل ہوئے اور یہ تقریب سید نا حضرت المصلح الموعود کی خاص توجہ اور دیگر بندگان سلسلہ کی دعاؤں سے غیر معمولی طور پہ کامیاب ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک - مقامی پریس نے بھی خاص دلچسپی لی انگریزی اخبارات ٹانگائی کا سٹینڈرڈ سنڈے نیوز.اور سواحیلی اخبارات MANGAZA اور ZUHRA نے افتتاح سے پہلے اور بعد میں محمدہ نوٹ شائع کیے اور پبلک کو بار بار اس تقریب کی طرف متوجہ کیا.روزنامہ انگریزی اخبار ٹانگا نبی کا سٹینڈرڈ نے افتتاح کی رپورٹ نہایت شاندار الفاظ میں شائع کی.اس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے حکام اور عوام کے دلوں سے جھوٹے پراپیگنڈے کا اثر زائل ہو گیا.بہت سے افریقن اصحاب نے بعد میں کہا کہ ہمیں تو بتایا جاتا تھا کہ احمدی نہ کلمہ شہادت پڑھتے ہیں نہ اذان کہتے ہیں اور نہ قرآن پڑھتے ہیں لیکن ہم نے دیکھ لیا ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا.بیت اسلام کے افتتاح کے چار ماہ بعد شیخ مبارک احمد صاحب نے ۲۷ جولائی ۱۹۵۷ء کو بیت احمدیہ جنجہ کا سنگ بنیاد رکھا.بعد ازاں مختصر نظریہ فرمائی جس کا انگریزی میں ترجمہ جو مہدی عبدالہ من صاحب نے کیا.چوہدری صاحب موصوف نے اپنے بیٹے کی طرف سے ٥٠٠ شلنگ کا چیک دیا.اسی طرح ڈاکٹر لے روزنامه الفضل ربوہ ۴ رمٹی ، ۱۹۵ ء صفحہ علم.
مل دین صاحب شیخ عبد الغنی صاحب (کمپاله ) فضل الہی صاحب رکبالہ منانہ احمد صاحب، بھائی کلام حیدر صاحب.عبد الشکور صاحب بٹ نے خانہ خدا کی تعمیر کے لیے رقوم پیش کیں..اس سال کے دوران مشن کے زیر اہتمام مئی ۱۱۵ ء سے ، اہانہ انگریز تا انبار زیست افریقین ائمز جاری ہوا اور اس کے مدیہ مولوی نور الدین صاحب میر مقرر ہوئے.یہ اخبار بہت جلد ملک کے مختلف حصوں میں مقبولیت اختیار کر گیا.چنانچہ مباسہ ٹائمز نے اپنے ایڈیٹوریل کے صفحہ پر اس اخبار کے متعلق لکھا، احمدیہ مشن نے ایسٹ افریقن ٹائمز کے نام سے جو انگریزی ماہانہ جاری کیا ہے وہ خوب مقبول ہو رہا ہے.یہ اخبار خدمت اسلام کے لیے وقف ہے اور اسلامی نکتہ نگاہ کو سمجھنے کے لیے بہت عمدہ مواد پیش کرتا ہے.اس کا بنیادی مقصد روحانیت کو زندہ کرتا اور ان سوالات کا اسلامی حل پیش کرنا ہے جو موجودہ دور میں درپیش ہیں.اس کے علاوہ یہ اخبار افریقہ میں بسنے والی تو موں میں مل جل کر رہنے کی.درح بھی پیدا کرنے کی کوشش کرے گا.سے مولوی نور الدین صاحب سیر نے افریقین مسلمان لڑکیوں کے لیے الگ سکول جاری کرنے کی تحریک اٹھائی چنا نچہ لیجسلیٹو کونسل کے ممبر مسٹر انگالا نے یقین دلایا کہ حکومت اس بارہ میں کارروائی کرے گی.اس سلسلہ میں پراونشل کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ایجو کیشن آفیسر سے بھی ملاقات کرکے انہیں تعلیمی حالت بہتر بنانے کی طرف توجہ دلائی کیے ہ مشرقی افریقہ میں قبل ازیں احمدیہ مشن کی طرف سے انگریزی اور سواحیلی زبانوں میں دو اخبارات جاری تھے اور بہت مقبول تھے.اس سال جماعت احمدیہ یوگنڈا کے زیر انتظام لو گنڈا نہ بان میں مجھی ایک ماہنامہ ISLAM ہوا شید LY OBU D0 B021 رصوتِ اسلام نکلنا شروع چوہدری عنایت اللہ صاحب مبلغ مانگا نیگا نے دوران سال ملک کے 9 مقامات کا دورہ کیا.له الفضل ۳ ار اگست ۷ ۹۵ اوصت درپورٹ حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب) الفضل اور دسمبر ۱۹۵۰ء متات الفضل در رستمبر ۱۹۵۷ د ص ۳ به له الفضل یکم مارچ ۱۹۵۸ء مت : شه الفضل ۳۱ جولائی ، دوار صبا
601 ۶۳۰۰ ٹریکٹ تقسیم کیے ایک ہزار سے زائد افراد تک پیغام حق پہنچایا.ایک عرب نوجوان در ۲۴ افرین داخل احمدیت ہوئے اور بچوں وغیرہ کو ملا کہ کل ۸۳ افراد کو سلسلہ احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق علمی یه 1 - گولڈ کوسٹ کی جماعت ہائے احمدیہ کا سالانہ جلسہ اس سال بھی ۱۰ راا گولڈ کوسٹ ر مانام مشن ۱۲ جنوری ۱۹۵۷ ء کو منعقد ہوا.و ر جنوری کو احمدیت کے عشاق مرکز جماعت سالٹ پانڈ میں وارد ہونے شروع ہوئے.احمدی مردوں درتوں اور بچوں سے بھری ہوئی لاریاں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور مختلف دعاؤں کے دلکش زنم کے درمیان دارا لتبلیغ میں اگر رکتیں تو فضا نعروں سے گونج امتی تھی.فرزندانِ احمدیت کی آمد کا یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا.صبح تک چار پانچ ہزار افراد جمع ہو چکے تھے.- الحاج مولانا نذیر احمد صاحب بنشر امیر جماعت ہائے احمد یہ گولڈ کوسٹ نے اپنی افتتاحی تقریر میں ان کامیابیوں کا ذکر کیا.جو خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۵۶ء میں حاصل ہوئیں.ان میں سے اول الذکر احمدی سیکنڈری سکول کماسی کا امدادی فہرست ( tist است ) پہ آنا اور اس کے معین عملہ اور خصوصاً پرنسپل صاحب کا میسر آتا ہے.ثانی الذکر چیز سویڈرد کے عربی مدرسہ کی عمارت کی تکمیل اور اس کے لیے ایک عربی سکالر کا بطور انچارج میسر آنا ہے.آپ نے بتایا کہ سویڈرو کے علاقہ کے لوگوں کی متواتر دو سال سے یہ خواہش تھی کہ ان کے بچوں کی عربی اور دینی تعلیم کے لیے ایک عرباسکول کا اجراء کیا جائے اگر چاسکول غیر رسمی صورت میں شروع ہو چکا تھا.تاہم اس کے لیے نہ لو ضر وری عملہ تھا اور نہ بھی عمارت - یہ دونوں چیزیں بفضل خدا گزشتہ سال کے اختتام تک حاصل ہوگئیں.ان کامیابیوں کا ذکر کرنے کے بعد آپ نے سال.واں کی ذمہ داریوں کی طرف جماعت گواڈ کوسٹ کی توجہ مبذول کرائی جس میں اگر امشن کو مضبوط کرنے اور مشن ہاؤس کی تعمیر کی ضرورت.شمالی علاقہ میں عیسائی مشنوں کی خطرناک سکیم کا مقابلہ وغیرہ کا پروگرام شامل تھا.آپ نے تفصیل سے بتایا کہ گولڈ کوسٹ کے شمالی علاقہ میں فروغ عیسائیت کے لیے مختلف مشن کیا کیا کوششیں کر رہے ہیں.اور نہیں ان کو نا کام له الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۵۷د مریم
607 بنانے کے لیے کس قسم کے مقابلہ کی ضرورت ہے ؟ دوسری تقر یہ وا ( wa) کے علاقہ کے ایک مخلص دوست الحاج معلم صالح صاحب نے کی.آپ نے اپنے علاقہ کی تبلیغی سرگرمیوں اور جماعت کی حالت کا ذکر کیا.پھر انشانٹی کے علاقہ کے مبلغ انچارج ملک خلیل احمد صاحب اختر شاہد نے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی.جن کا تعلق خارق عادت امور سے ہے.دوسرے اجلاس میں سب سے پہلے حلقہ رکھنی کے چیف رئیں نے اپنے حلقہ کی رپورٹ پیش کی.بعد ازاں مقامی افریقن مبلغین کے تبلیغ کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کی.آخر می تقریہ کماسی کالج کے وائس پرنسپل سعود احمد خاں صاحب دہلوی نے " احمدی نوجوانوں کو خطاب کے موضوع پر فرمائی اور موثر پیرا یہ میں نوجوانوں کو آگے بڑھنے اور خدمت کا مقدس فریضہ اپنا نصب العین بنانے کی تلقین کی.دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں کماسی احمدیہ کالج کے پرنسپل صاحبزادہ مرزا لمجید احمد صاحب ایم اسے نے نظریہ فرمائی.جس کا عنوان تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دین حق کے سالار اعظم ہیں.آپ کی تقریر کے بعد اسلامی دراثت کے متعلق ایک ریز دلیشن پاس کیا گیا.جس میں جماعت احمدیہ گولڈ کوسٹ نے یہ فیصلہ کیا.کہ آئندہ درستہ میں احمدیوں کے بچوں اور بیویوں کو بھی حقدار تسلیم کیا جائے.اس سے قبل ملک کا ایک معتد بہ حصہ جو آکان قوم سے تعلق رکھتا تھا.اس حق در اثت سے کلینہ مردم تھا.اس کے بعد مولوی صالح محمد صاحب فاضل نے مسیح موعود کا بیٹا' کے عنوان پر تقریر کی.تقریروں کے پروگرام کے بعد جب، احمدیت کے جاں نثاروں کے ایشیار اورہ اخلاص کے عملی مظاہرہ کا وقت آپہنچا تو سٹیج سے مالی جہاد کی صدا بلند ہوئی.اس آوانہ کا اٹھنا تھا کہ مخلصین جماعت بڑھ بڑھ کر اپنی قربانیاں پیش کر نے لگے.اور مصری قوم جمع ہو رہی تھیں اور ادھر ایک بزرگ در دو داور دعاؤں ا پرمشتل گیتوں کے ذریعہ حاضرین کے قلوب گرما رہے تھے.دیکھتے ہی دیکھتے خاصی رقم جمع ہو گئی.بعدانہ ان مکرم جناب امیر صاحب نے خلافت کی اہمیت اور اس کی برکات پر خطبہ جمعہ دیا.نمازہ جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد مالی قربانی پیش کرنے کا سلسلہ پھر شروع ہوا اس موقعہ پر ۶۸۵ پونڈ جمع ہوئے.
اختتامی اجلاس میں مولوی فضل الہی صاحب انوری نے تحریک جدید کے موضوع پر پہلے عربی پھر انگریزی نہ بان میں خطاب کیا لیے ۰۲ ۱۸۲۲ء میں پیر گیزوں نے گولڈ کوسٹ میں ہی ہو.بی بستی بسال ۱۸۷۴ء میں برطانوی شناسی آزادی وجود میں آئی جس کے بعد یہ ملک ایک لمبے عرصہ تک برطانوی استعمار کی زنجیروں میں جکڑا رہا اور بالآخر ڈاکٹر کوائی کرومہ (DR : NKRUMAH) ان کی پارٹی کی برسوں کی زبر دست آئینی و سیا سی جلد مہد سے آزاد ہوا ہے اور خود مختاری حاصل کر کے نانا کے نام سے دنیا کی آزا د قوموں کی صف میں داخل ہو گیا.جس سے دنیا ئے احمدیت میں بھی خوشی اور مسرت کی نئی لہر دوڑ گئی.مولوی عبدالقدیر صاحب شاہد سابق مبلغ گولڈ کوسٹ نے اس مو قع پر لکھا کہ : مغربی افریقہ میں چارہ بر طانوی مقبوضات میں سے گولڈ کوسٹ ایسا ملک ہے جس کے باشندوں نے سب سے زیادہ تعداد میں اسیروں کے رستگار حضرت خلیفہ المسیح الثانی مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کے ارسال کردہ مبلغین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے احمدیت کو قبول کیا اور خدا تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ اس نے افریقہ کے جنوب اور مغرب میں سب سے پہلے آزادی دنخود مختار ی کی نعمت سے نواز نے کے لیے گولڈ کوسٹ (حال غانا) کوہی چنا.گولڈ کوسٹ کی گل آبادی پنتالیس لاکھ ہے اور وہاں اب تک تین ہزار سے زائد افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو چکے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ به تعداد روز بر ورنہ اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ عیسائیوں میں تشویش اور مایوسی کے اثرات واضح طور پر نمایاں ہور ہے ہیں.جن کا اظہار وہ اپنی تقریر وں اور تحریروں میں کرتے رہتے ہیں.پھر حکومت کے عمائدین اور اونچے طبقہ کے لوگوں میں بھی احمدیت کا نفوظ بڑھ رہا ہے چنانچہ وزیر اعظم گوا می کرد ما نے دتحریک آزادی کو کامیابی سے چلانے کا سہرا جن کے سر ہے) ایک دفعہ کماسی میں ہمارے احمدیہ سیکنڈری سکول میں نظریہ کرتے ہوئے احمدیت کی تعلیم کو سراہا اور طلباء کو اسلام کا له الفضل ، ار فروری 1920 ء م : 1 65-59 : FREEDOM مولف ایم برا گنگی ( M.BRAGINSKY) - طبع دوم AFRICA WINS Progress PUBLISHERS, Moscow
۷۵۴ مطالعہ کر نے کی تلقین کی.اسی طرح کفر د ڈوا نامی ایک شہر میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صحیح رننگ میں احمد می مسلمان ہیں.اور احمد می جس رنگ میں اسلام کو پیش کرتے ہیں وہ ہمارے لیے قابل قبول اور مفید ہے.اس کے علاوہ اگر کمیونٹی سنٹر میں ہمارہ سے ایک جلسہ کی صدارت گولڈ کوسٹ کی مجلس دستور سانہ کے صدر سرایمنیوٹیل کیسٹ نے کی.اور جلسہ کے اختتام کے بعد صدارتی ریمارکس میں انہوں نے احمدیہ مشن کے کام اور احمدیت کی تعریف کرتے ہوئے اسے اپنے ملک وملت کے لیے مفید قرار دیا.نیز احمد یہ مشن کو تحمل، امن اور داداری کا مکمل نمونہ قرار دیتے ہوئے دوسرے مشنوں کو بھی اس کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کی.پس گولڈ کوسٹ کی آزادی اور خود مختار میں منصف اور حق پسند دنیا کے لیے عموماً اور احمدیہ جماعت کے لیے خاص طور پر خوشی اور مسرت کا باعث ہے ، " - غانا کی یوم آزادی کی تقریبات پر ہر رائل ہائی نس ڈچیز ان کینٹ ملکہ انگلستان کے ذاتی نمائندہ کی حیثیت میں شامل ہوئیں.احد یہ مشن نانا کے مبلغ انچار ج مولوی ناذیہ احمد صاحب منتشر نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو انگریزی ترجمہ القرآن کی ایک جلد بطور تحفہ ارسال کی ڈچیز آن کینٹ نے اس بیش بہا تحفہ کے موصول ہونے پر انتہائی خوشی کا اظہار کیا.اور اپنے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو ہدایت کی کہ وہ ان کی طرف سے شکریہ ادا کریں چنانچہ انہوں نے انجلہ و احمد یہ مشن کے نام لکھا :.( ترجمہ )گورنمنٹ ہارس.اگرا.هر مارچ ۶۱۹۵۷ جناب عالی ! ڈر چیز آف کینٹ نے مجھے ہدایت کی ہے کہ آپ نے ان را نوازش ہر رائل ہائی نس کی خدمت میں قرآن مجید کا ایک نسخہ جو بطور تحفہ بھیجا ہے.اس پر آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کردن مر پائی انس اس جذبے کی بہت قدر کرتی ہیں.آپ کا یہ تحفہ انہوں نے بہت خوشی سے قبول کیا ہے.آپ کا مخلص : دستخط ) پرائیویٹ سیکریٹری (ترجمہ) ر ان تقریبات میں دیگر کئی ملکوں کے نمائندہ دنور نے شرکت کی جنہیں مولوی نذیر احمد مبشر نے انگریزی المفضل ، مارج ١٩٥٠ دم
۵۵ ترجمة القرآن اور دوسرا اسلامی تریکیر پیش کیا لے ۱۸ اور ۱۰ نومبر ۱۹۵۷ء کو علاقہ انسانٹی کے احمدی نوجوانوں کا دوسرا سالانہ اجتماع منعقد ہواتا ان کی ہمہ جہتی دینی، روحانی، تبلیغی اور جسمانی تربیت کا کما حقہ اہتمام کیا جاسکے.چنانچہ اس سلسلہ میں پانچ اجلاسوں کے دوران جماعت کے مربیان ، عہدیداران ، بزرگوں اور دیگر مقررین نے مختلف موضوعات پر سیر حاصل تقاریرہ کہیں.الحاج حسن عطاء صاحب ایم.بی.اسی نے " نوجوانوں کی ذمہ اریان کے موضوع پر خطاب فرمایا اور ایک پرانے اور ضعیف العمر احمدی مسٹر علی آن کو ٹو کوم جن کی عمر غالباً ایک سو سال سے زائد تھی ، نے نانا میں احمدیت کے ابتدائی حالات بیان فرمائے.صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب نے " برکاتِ خلافت " اور " حضرت مسیح موعود کی حیات طیبہ" کے موضوعات پر تقاریر کیں لیے نائیجیریا مشن کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں اس سال ملک میں دین حق کے غلبہ اور اثرو نفوز نائیجی پایشن کے ایسے واضح آثار نمایاں ہو گئے کہ لیگوس کے مشہور انگریزی اخبارہ ڈیلی ٹائمز نے مارٹی 1906ء کی اشاعت میں لکھا کہ مغربی نائیجیریا کے نامی یا دریوں نے اس امر پر انتہال تشویش اور گھبراہٹ کا اظہار کیا ہے کہ نائیجیریا میں اسلام بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے ، نائیجیریا میں اسلام کی فتوحات عیسائیت کے لیے زبر دست خطرہ ہیں.اسلام کی اس بڑھتی ہوئی کرو کے نتیجے ہیں عیسائیوں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں.اور اپنے معتقدات کے بارے میں ان کا ایمان اور یقین منزلزل ہوتا جا رہا ہے.چند ماہ بعد لیگوس کے بشپ صاحب نے یہ رائے دی کہ تمام نائیجیریا اور خصوصاً اس مرکز لیگوس سے زیادہ سے زیادہ نفوس حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں یہی حال ابادان کا ہے جو تعلیمی مرکز ہے بیہ جماعت احمدیہ نائیجیریا کا جلس الانه ۲۵-۲۶ دسمبر 19ء کو لیگوس میں منعقد ہوا جو ہر لحاظ سے کیا بے بہائی ا - روزنا والفضل ربوه در اپریل ۱۹۵۷ م ان الفضل 3 دسمبر ۱۹۵۷ء ص سے: الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۷ عص و ڈیلی ٹائمز (لیگوس) ، دسمبر ۱۹۵۷ء مجولہ جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام اور اس کے نتائج من اتقریر صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر به موقعه جمله سالانه ۱۹۶۲ء) سے : الفضل ۱۳ - ۱۴ فروری ۱۹۵۸ء :
604 سیرالیون مین ایک وسیع تبلیغی دورے کا انتظام کیا.یہ تبلیغی دورہ کی تشہر سے لیکر سیرالیون شن | یکم اکتوبر ، ۱۹۵ ء تک جاری رہا جس کے نتیجہ میں تقریبا تین ہزارہ افراد تک احمدیت کی آودانہ پہنچی - ۴۳ ، افراد داخل احمدیت ہوئے اور تین نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.اس یادگار دورے کا خلاصہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری انچار ج مشن کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے.٨١٤٨ دیکم ستمبر ۹۵ از گوئیں القائم فوڈے صالحو اور برادر داؤد سونگو نے احمدیہ مشن میرالیون کے شعبہ ان تبلیغ کے نظام کے تحت جماعت کے مرکز ہوا سے امیر سیرالیون اور مخلصین جماعت کی دعاؤں کے ساتھ وقف عارضنی کے دورے کا آغاز کیا اور بذریعہ ٹرین کینیا (K ENEMA) روانہ ہوئے وہاں پہنچ کر ایک روز انفرادی تبلیغ کی اور لڑ کر تقسیم کیا گئے روز میں کا پیدل سفر طے کر کے ایک گواران بیشمار MERA) 9 پہنچے گاؤں کے چیف نے ہماری درخواست پر سب لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا اور ہم نے اسلام اور احمدیت پر دو لیکچر دیئے.عیسائیت کے مقابل اسلام کی برتری ثابت کی.امام مہدی علیہ السلام کی آمد کی ونیزی سنائی اور سوالات کے جواب دینے کچھ دینی کتب بھی فروخت کیں.اگلے روز چار میل پیدل طے کر کے ایک گاؤں کینجو ( KEN TU) پہنچے.دو گھنٹے ٹھر کہ گاؤں والوں کو اللہ تعالے کی عبادت کا اسلامی طریق.اسلام کی سچائی اور نماز کے فوائد بنائے اور امام مہدی کی خبر دی.کچھ مخالفت ہوئی مگر اکثر لوگ جو مشرک تھے سُن کر خوش ہوئے اور ہماری خاطر بھی کی.وہاں سے آگے پانچ میل پیدل چل کریم ایک گاؤں کو نیا ( KONIA) پہنچے وہاں پر خدا کے فضل سے ہماری ایک پر انی جماعت قائم ہے ان کے زیر الہ لوگوں کو تبلیغ کی رات کو گاؤں میں عام وعظ کیا اور سوالات کے جواب دیئے رات کو اٹھ کر اپنی جماعت کے ساتھ باجماعت نماز تہجد اداکی اور فجر کی اذان کے بعد گاؤں والوں کو نماز کے لیے بیدار کیا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تلقین کی نماز فجر کے بعد مسجد میں تعلیم و تربیت میں مشغول رہے جماعت کے چند وں وغیرہ کا حساب دیکھا.وہاں آگے پانچ میں چل کہ ایک ایک پائو رہ PAT ) پہنچے اور گھر گھر دستک دے کر ایک خدا ایک رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک کتاب قرآن کریم پر ایمان لانے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہونے کی تلقین کی.لوگوں نے توجہ سے ہماری بانہیں شستیں اور مہمان نوازی بھی کی.وہاں سے آگے چھ میل پیدل چل کر ایک گاؤں تاہواں (TAH WAN ) گئے ٹاؤن چیف کو کہا کہ لوگوں
کو جمع کرے گر اس نے تعاون نہ کیا ہم نے گھر گھر جاکو انفرادی طور پر اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچا یا امام مہدی کی آمد کی بشارت دی اور رات گزار کہ اگلے روز وہاں سے تین میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں بامبا ہوں (BAMBAHUN) پہنچے جہاں ہم نے دو لیکچر دیئے اور انفرادی تبلیغ بھی کی اور لٹریچر تقسیم کی گاوں والے ہمار می تبلیغ سے بہت خوش ہوئے اور دوبارہ آنے کو کہا دو پونڈ بطور امداد مشن کو ہمیں دیئے وہاں سے چار میل پیدل چل کر ایک گاؤں پیری ( PEERI) پہنچے.لوکل چیف کے تعاون سے ہم نے " پبلک لیکچر دیا.بہت اچھا اثر ہوا.چیف نے ہماری مہمان نوازی بھی کی اور خدا کے فضل سے دو افراد جماعت میں شامل ہوئے وہاں سے ہم چانگو رہ CHANG ) پہنچے یہ مخالفت گاؤں تھا انہوں نے ہمیں ٹھہر نے نہ دیا اس لیے ایک گھنٹہ کے بعد ہم آگے روانہ ہو گئے اور تین میل پیدل چل کر ایک گاؤں کالونا پہنچے اور گاؤں میں پھر کر اعلان کیا کہ ہم تقریرہ کریں گے کیونکہ ٹاؤن چیف گاؤں سے باہر تھا اور بڑے بڑے لوگ مخالف تھے لوگ میدان میں جمع ہو گئے انہیں اسلام پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی اور امام مہدی کی بشارت دی اور سوالات کے جوابات دیئے ہم صبح سے بھو کے تھے.اور کئی میل پیدل چل چکے تھے مگر مخالفت کی وجہ سے کسی نے ہمیں پانی تک نہ پوچھا.جنگل میں خرید و فروخت بھی نہیں ہوتی.اس لیے بھوکے ہی آگے روانہ ہو گئے.وہاں سے بذریعہ کشتی ایک دریا عبور کیا اور تین میل چل کہ ایک گاؤں " باگو پہنچے.بارش سے ہمارے کپڑے ترنو تھے کیونکہ گذشتہ تین میں بارش میں سفر کیا تھا یہاں بھی ہماری بہت مخالفت ہوئی اور ہم آدھ گھنٹہ سستا کر نا چار آگے چل پڑے اور دو میل طے کر کے ایک گاؤں کا سیما ( KH MEEMA) میں تین روزہ قیام کر کے دن رات خوب تبلیغ کی.لوگ بہت اچھی طرح پیش آئے مہمان نوازی بھی کی اور تمہیں بہت آرام دیا اور خدا کے فضل سے آٹھ افراد معہ امام مسجد بیعت کرلی.الحمد للہ کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نئی جماعت عطا فرما دی اور نبی کی تعلیم و زبیت کے لیے بعد میں مرکز می مشن کی طرف سے کریم ملک غلام نبی صاحب مبلغ سیرالیون کو بھیجا گیا.وہاں سے ہم دو میل پر ایک گاؤں فوفو پہنچے ایک روز قیام کیا انفرادی تبلیغ کی ایک دکان پر دو گھنٹے مر میں گفتگو اور سوال وجواب ہوتے رہے.گاؤں میں لٹریچر تقسیم کیاگیا.اگلے روز میں چل کر ایک گاؤں پانڈے ہو پہنچے دو روز قیام کیا اور سارا سارا دن تبلیغ اور وعظ ونصیحت میں گزرتا رہا.لوگوں نے ہماری باتیں بڑی دلچسپی اور توجہ سے نہیں.چار افراد نے بیعت کی.باتی لوگوں نے غور کرکے فیصلہ
60A کرنے کا وعدہ کیا مگر ہمارے ساتھ نمازیں ادا کرتے رہے.آگے چار میل کا سفر طے کر کے ایک گاؤں بامبا ہوں پہنچے چار روز قیام کیا.یہاں کے لوگوں کو ہم نے بہت اچھا پایا د لیکچر دیئے انفرادی تبلیغ کی گھر گر حضرت امام مہدی کا پیغام پہنچایا اور بالاخر یہاں خدا کے فضل سے ۲۸ افراد نے احمدیت قبول کی اور ایک نئی جماعت قائم ہو گئی اس گاؤں میں داخل ہوتے ہی ابتداء میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ایک با اقتدار شخص نے ہمیں گالیاں دیں اور گاؤں سے نکل جانے کا حکم دیا ہم خاموشی سے اُٹھ کر چل دیئے پھر خیال آیا کہ گاؤں کے دوسری طرف جا کر دیکھیں چنانچہ ادھر جا کہ تبلیغ کی تو کئی سعید الفطرت لوگوں نے حق کو قبول کر لیا اور ہمار می خوب خاطر مدارات کی اور بڑی عزت اور محبت سے پیش آئے بعد میں وہاں احمد یہ بہت بھی تعمیر ہوگئی اور وہ گاؤں اس علاقہ میں خدا کے فضل سے احمدیت کا مرکز بن گیا.اس گاؤں سے پھر ہم و میل پیدل سفر کر کے ایک گاؤں کیچیھا پہنچے اور سیدھے ٹاؤن چیف کے پاس پہنچے.راستے میں شدید بارش سے ہمارا برا حال تھا.بھوک نے بھی نڈھال کر رکھا تھا لیکن اس مخالفت نے ہماری بانہیں سننے اور گاؤں میں قیام کرنے کی اجازت سے انکار کر دیا.ناچار ہم آگے روانہ ہوئے ہم پہلے ہی سخت تھکے ماندے تھے اور کپڑے بارش سے تر تھے کہ راستے میں تمہیں پھر بارش نے آلیا.رات سر پہ بھی راستہ بھی دشوار گزار اور خطرناک تھا اس اضطراری حالت میں ہم نے بڑے سوز و گدانہ اور الحاج سے دعا کی کہ اسے ہمارے رسیم دکریم خدا ! ہم تیرے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور تیر سے مہدی علیہ السلام کے خدائی ہیں اور حض تیرا نام بلند کرنے اور تیرے دین حق کی تبلیغ کے لیے اپنا کام کاج گھر بار اور عزیز و اقارب چھوڑ کر ان جنگلوں میں پھر رہے ہیں بھوک کی شدت سے ہمارے تھکے ماند سے ہم بھی اب جواب دے رہے ہیں تو غیب سے ہماری مدد فرما چنانچہ اس سمیع دلمجیب نے اپنے کرم سے ہماری دعاسنی اور وہ موسلا دھار بارش کیرم بند ہوگئی اور چار میل تک بند رہی.پھر ہماری پگڈنڈی کے ایک طرف بارش ہونے لگی لیکن دوسری طرف بالکل خشک موسم رہا اور اس طرح خارق عادت طور پر ہم بارش سے محفوظ رہ کر خدا تعالی کی مہربانی پر شک کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے چنانچہ چار میں مزید چل کر ہم رات گئے ایک گاؤں مانو کو ٹو جون پہنچے جہاں ہماری ایک بڑی پرانی اور مخلص جماعت موجود ہے جماعت کے صدر گاؤں سے باہر ہی ہمیں مل گئے ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے ہم نے رات اپنے احمدی بھائیوں کے پاس گذاری مسجد میں جماعت کو اپنے سفر کے حالات بتائے اور وعظ ونصیحت کی اور "6"
609 اور اگلے روز مل کر چار میل پر ایک قصبہ کو مینڈے اور پھر مانگا میں کچھ دیر ٹھہر کر ٹریچر فروخت کیا اور تبلیغ بھی کی پھر بذریعہ لازی بونگو آئے اور وہاں احمدی بھائیوں کے ہاں قیام کیا.اور دو روز تبلیغ تربیت میں مصروف رہے وہاں سے ایک اور احمدی گاؤں، جوئی پہنچے اور دو روز قیام کیا یہاں بھی ہمارے احمدی بھائیوں نے ہماری خوب خاطر مدارت کی بہت خوش ہوئے اور ہمیں ہر قسم کا آرام پہنچا ہم نے گاؤں کے غیر احمدی طبقہ میں بڑے اچھے ماحول میں تبلیغ کی وہاں سے چند میل چل کر ہم مضلع کے مرکز می قصبہ کینما ( KENEMA) آئے چونکہ ہمارے وقفِ عارضی کا مہینہ ختم ہو گیا تھا اس لیے ہم عارضی تھا یکم اکتوبر ، ۱۹۵ء کو بذریعہ ریل گاڑی ۴۵ میل کا سفر طے کر کے بخیریت اپنے مرکز بو" پہنچ گئے.فالحمد الله اولاد أخيراً.بذر اس تبلیغی دورہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم نے ۱۱۰ میل پیدل ، ۶۵ میل بذریعہ لاری ور ۱۳۲۰ میل بند بعد دلیل سفر کیا تقریبا تین ہزار افراد کو پیغام حتی پہنچایا اور خدا کے فضل سے ۴۴ افراد ہمارے ذریعہ بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.اور تین جگہ بالکل نئی جماعتیں قائم ہوئیں لے ۲ - جماعت احمدیہ سیرالیون کے ایک رند نے جو مولوی محمد صدیق امرتسری امیر د مبالغ انچارج مولوی محمود احمد صاحب جیمیہ اور ملک غلام نبی صاحب شاہد پرمشتمل تھا در اکتو به ۱۹۵۰ء کو وزیر اعظم سیرالیون ڈاکٹر ایم اے ایس مار گائے سے ملاقات کی.اس موقع پر آن مبل ایم ایس مصطفے وزیر معدنیات و زراعت نے جماعت احمدیہ کے مبلغین اور مشن کا تعارف کرائے ہوئے فرمایا کہ : - یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے اس خطہ سیرالیون میں اسلامی نور کی شعاعوں کو تیز ترین کر کے ہمیں جگا دیا ہے.یہ لوگ تقریبا عرصہ ۲۰ سال سے مصائب و مشکلات بر داشت کرتے ہوئے اس ملک کی دینی اور تعلیمی حالت کو بہتر بنانے میں مشغول ہیں.........یہ امر بھی قابل ستائش ہے کہ.ان نوجوان مشنریوں کی انتھک خدمات صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں اور انہیں تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ ہر ایک کا بھلا چاہتے اور خدمت خلق کا جذبہ ان کے ہر کام اور سکیم میں نمایاں نظر آتا ہے.تعلیمی را تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الفضل ۳۰ر نومبر.یکم دسمبر ، ۶۱۹۵
64.لحاظ سے اس ملک کے سینکڑوں بچے ان کے سکولوں میں پڑھ کر اور ان کے زیر تربیت رہ کر بہترین شہر می بن چکے ہیں.....احمدیہ جماعت کے مشن دنیا کے تمام ممالک میں کام کر رہے ہیں اور ہر جگہ ان کے فیض سے ہزاروں لوگ مستفید ہورہے ہیں.میں ان کے یورپین مشنوں کو جانتا ہوں اور بعض میں خود بھی گیارموں اور لنڈن کے سب اسلامی سنڑوں میں میں نے لیکچر دیئے ہیں.اس جماعت کی لینڈن مسجد میں دو تین دفعہ لیکچر دینے کے لیے بھی بلایا گیا اور اسی طرح مجھے ان کا قابیل قدر کام لنڈن میں اپنی آنکھوں سے ملاخطہ کرنے کا موقع ملا ہے.......گوئیں ماسکی سکول آفت تھاٹ کا مسلمان ہوں اور احمد می نہیں ہوں مگر ان احمدی مبلغین کی مساعی کو دیکھ کر اور ان کی بے لوث قربانیوں کی وجہ سے ہمیشہ ان کا مداح رہا ہوں اور میں رنگ میں بھی ان کے اس مقدس کام میں ان کا ہا مخف ٹا سکتا ہوں بٹاتا رہوں گا.افسوس ہے مسلمانان سیرالیون کے اس سیکشن پر جو ابھی تک ان لوگوں کی پہچان نہیں کر سکے اور ان کے راستہ میں مخالفانہ روڑے اٹکاتے ہیں.اس کے بعد مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے قرآن کریم انگریزی ترجمہ اور لالات آن محمد کا ایک نسخہ دن یہ اعظم سیرالیون کو پیش کیا ھے انہوں نے نہایت ادب واحترام کے جذبات سے قبول کیا اور فرمایا :- میرے لیے یہ خوشی اور عزت کا مقام ہے کہ آج مجھے جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن کریم انگریزی اور لائف آف محمد جیسے بیش قیمت اور نادر تخالف پیش کیے جار ہے.میں احمدیہ مشن اور ان مبلغین کی مساعی ، قربانیوں اور سادہ طرز رہائش سے بہت متاثر ہوں مبلغین کو وہ اسباب و سلمان اور آسانیاں میسر نہیں ہیں جو اس ملک کے دوسرے مشنوں کو ہیں مگر پھر بھی احمدی مبلغین ہمہ تن اس ملک کی دینی اور تعلیمی بہبو دمیں منہمک نظر آتے ہیں." - - " اخبار ڈیلی میل" نے صفر اول پہ اس تقریبک فوٹو دیگر کارروائی شائع کی اور ریڈیو سے بھی اسے نشر کیا گیا ہے ۲۰۰۳ نومبر ۱۹۵۷ء کو سیرالیون کے وزیر پبلک ورکس آنریل چیف کا نڈے بورے جنوبی صوبہ له الفضل ۳۰ ۳۱ اکتوبی ۱۹۵۰ء (خلاصہ ر پورٹ چوہدری محمود احمد صاحب جیمیہ)
کا دورہ کرتے ہوئے احمد یہ سنڈل سکول ہو میں تشریف لے آئے قامنی مبارک احمد صاحب ہیڈ ماسٹر سکول اور سٹاف نے اُن کا خیر مقدم کیا آپ نے سکول کے اسمبلی ہال میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - ہر وہ انسان جو کسی دور دراز کے ملک سے کسی دور دراز ملک میں جاتا ہے اس کے مدنظر کچھ وجوہ اور مقاصد ہوتے ہیں بلکہ سرا بنی جو کسی دوسرے مقام سے آتا ہے اس کی آمد کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے.یہ احمدیہ مشتری جنہیں آج ہم اپنے درمیان دیکھ رہے ہیں یہ بھی ایک خلاص غرض اور خاص مقصد کے پیش نظر یہاں آئے وہ غرض اور مقصد کیا تھی ؟ وہ اسلام کی اس ملک میں ڈونگاتی کشتی کی ناخدائی تھی.دیکھنے اور سننے والوں نے دیکھا اور ٹنا بعض نے ان پر بہنا شروع کر دیا اور شدید یافت کی بعض نے ایک حد تک توجہ بھی دی لیکن محض سننے کی حد یک اور بعض نے سنجیدگی سے سوچنا تمر و ع کر دیا کیونکہ اس وقت کہ جب ان کے پہلے احمدیہ مشنری الحاج نذریہ احمد علی مرحوم نے سر زمین سیرالیون پر قدم رکھا یہ زمین عیسائیت سے انتہائی طور پر متاثر مفتی اور لوگ سمجھتے تھے کہ اسلام کو عیسائیت کے مقابل پر دیکھنا یا کھڑا کرنا اب ناممکن اور محال ہے لیکن چند اسلام کے خبروں نے اس مبلغ کی دعوت پہ توجہ دی اور لبیک کی صدا بلند کی.آج کچھ عرصہ نہیں گزرا کہ وہی احمدیت یا حقیقی اسلام جس کے متعلق اس وقت یعنی آج سے تقریباً ہمیں کل قبل یہ بجھا جاتا تھا کہ یہ ایک چھوٹا سا پودا ہے جو چند یوم کے بعد اپنی موت خود مر جائے گا.وہی پورا آج پنپ رہا ہے اور اپنی جڑوں کو اس مضبوطی سے سرزمین سیرالیون میں پیوست کر چکا ہے کہ اب خطر ناک سے خطر ناک آندھی بھی اس کو اکھاڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی آپ نے فرمایا احمدیت نے ان چند سالوں میں باوجود مخالفت کی آندھیوں اور نامساعد حالات کے جو غیر معمولی اور حیرت انگیز ترتی کی ہے یہ اس امر کا پیش خیمہ ہے کہ ایک بڑا انقلاب جلدی احمد بہیت کے ذریعہ اس ملک کی کایا پلٹ دینے والا ہے اور وہ وقت بھی کوئی بہت دور نہیں جب سیرالیون کا ہر فرد لوائے احمدی کے نیچے کھڑا ہو کر اسلام اور توحید کا نعرہ بلند کر رہا ہو گا گو آج اس دعوٹی کو مجنوں کی بڑ ہی سمجھا جائے گا اور اس پر طاقتور عیسائی مشن ہنسی اڑائیں گے.انہوں نے فرما یا عملی طور پر میں پہلے بھی احمدی متھا.اب بھی احمدی ہوں اور انشاء اللہ ہمیشہ ہمیش احمد میں رہوں گا.یہ میری ذاتی کمزوری ہے کہ بعض مجبوریوں کی بنا پر یکی ظاہری اپنے قبیلے کے مذہبی نظام میں منسلک ہوں میں ان کا لیڈر اور چیف ہوں اس لیے اُن کے قدیمی طور پر عقائدہ کا احترام بطور چیف میرا فرض ہے.
۷۶۲ لیکن آپ لوگ جو احمدیہ اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا تعلیم دے رہے ہیں یہ آپ کی زوردارمی ہے.کہ احمدیت اور اسلام کو صحیح طور پر سمجھیں اس شمع اسلام ہے اپنے قلوب میں روشنی اور نور کا ذخیرہ جمع کرلیں تاکہ جب اس اسکول سے فارغ ہوں اس نور ہدایت اور شمع روشن کے ذریعے دوسرے کے دلوں اور ارواح کو روشن اور منور کریں.مسلمانوں کو ان کی پوری پوری مدد اور ہر طرح ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے تا اسلام کی یہ ناؤ جو ابھی تک منجدھار میں چکہ لگا رہی ہے اپنے چکر سے نکلنے اور اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہو اس سلسلے میں میں اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہوں اور ان مبلغین کی مدد ہو اور گورنمنٹ سے بھی ان کے لیے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں اور آئندہ بھی میرا یہی مسلک رہے گا.مجھے احمدیہ اسکول کے سٹاف ہیڈ ماسٹر اور مشن کے جنرل نٹنڈنٹ کا حسن انتظام اور تعلیمی ترقی دیکھ کر بہت خوشی اور مسرت ہوئی ہے اور اتنا اچھا کام میں نے شاید ہی کسی اور اسکول میں دیکھا ہو جو اس امر کا مظہر ہے کہ یہ سکول چند سالوں کے بعد سیرالیوں کا بہترین سکول ہو گا.اس سال بھی جیسا کہ مجھے بنایا گیا ہے اس سکول میں سے سیکنڈری سکولز اور کالجز کے لیے تیرہ طلبہ کا میاب ہوئے ہیں جن میں ایک کو گورنمنٹ کی طرف سے وظیفہ کی پیشکش بھی ہو چکی ہے یہ تعداد نہ صرف حوصلہ افزا بلکہ قابل ستائش اور فخر ہے لیکن ہمیں اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اپنی تعداد ک اپنی کوششوں اور ہمت کے ذریعہ ڈبل کروانا چاہیے.تاکہ نہیں امر کے حصول کے لیے ہم کوشاں اور مساعی ہمیں اس کو جلد از جلد حاصل کریں.ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی مدد آپ بھی کریں اور وہ اس طرح کہ ان مبلغین سے جو دینی اور دنیا دی.انگلش اور عربک دونوں قسم کی تعلیمات دینے آئے ہیں ان سے ان علوم کے حصول کی انتہائی کوشش کریں.ان کی ٹرینگ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور بہترین مسلمان بن کر اوروں کو شمع اسلام کا دیوانہ بنانے میں ان کی مدد کریں.آپ نے ہمارے ایک احمدی نوجوان کو گور جو کہ ان کے منی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے) خاص طور پر مخاطب ہو کر فرمایا.سٹر مانیرے یہ میرے قبیلے کے لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ احمدی جماعت میں شامل نہیں ہوتے اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ بہت نقصان ہو رہا ہے کیونکہ اگر وہ سب احمدی ہو کہ ان مبلغین کی مدد کریں جو اتنی اچھی عمارتیں اور اچھا کام ہم "بو" میں دیکھ رہے ہیں اس سے کئی گنا اچھا کام یہ لوگ ہمارے لیے
۶۳ فری ٹاؤن میں کر دکھائیں اور وہاں ہم اپنے مذہب اور تعلیم کو غیر معمول طور پر مضبوط کر سکیں مگر کیا کروں یہ پرانے فیش کے لوگ میری بات نہیں ما نتہ تاہم میرا دل جانتا ہے اور میرا خدا بھی جانتا ہے کہ دل سے میں احمدی ہوں کہ آپ نے مزیدہ فرمایا کہ : - سچا مذہب وہ ہے جو کہ عملی اور اخلاقی تبدیلی اپنے پیر ڈوں میں پیدا کر دے احمدیت کی تائید یا مخالفت میں کتابی دلائل شاہد ہیں.اور آپ پورے طور پر نہ سمجھ سکیں کیونکہ ہم مذہبی تعلیم سے پوری طرح آشنا نہیں ہیں اور نہ ہم عربی جانتے ہیں لیکن درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اور کڑ دے اور خراب درخت کے پھل کبھی میٹھے نہیں ہوتے اسی طرح جھوٹا مذہب اور چھوٹے مذہبی لیڈر اپنے ماتحت لوگوں کے اخلاق بند نہیں کر سکتے اور ان میں کوئی نیک تبدیلی نہیں پیدا کر سکتے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے.میں نام احمدیوں کے متعلق کچھ کہ سکتا مگر میرے ذریعہ میرے خاندان اور قبیلے کے کئی آدمی احمد می ہوئے ہیں میرے قبیلے کے ان لوگوں میں احمدیت نے جو اخلاقی تبدیلی مذہبی دلچسپی پیدا کی ہے ده یقیناً حیرت انگیز ہے.میں نے کئی بار عام مجالس میں اس امر کا ذکر کیا ہے حتی کہ بعض عام جلسوں میں جہاں کہ بعض نے احمدیت کے خلاف بھی تقریریں کیں میں نے اس بات کو احمدیت کی صداقت میں پیش کرتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ احمدی کوئی بڑا کام تو نہیں کرتے ہیں.آخر تم میں سے جو چند لوگ نکل کہ اُن سے مل گئے ہیں وہ چور ڈاکو جھوٹے تو نہیں بن گئے ان کی اخلاقی حالت تو پہلے سے اچھی نظر آ رہی ہے.جو لوگ ان سے معاملہ کرتے رہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ ان کا معاملہ منصفانہ اور نیکوں والا ہے.اگر احمدی حضرات مرزا صاحب کو نبی کہتے ہیں تو ہمارا کیا بگاڑتے ہیں آخر ہمارے لوگوں کی حالت کو سدھارتے ہی ہیں آپ کو معلوم ہے کہ فری ٹاؤن کے احمدیوں کی اکثریت شمنی لوگوں کی ہے زمینی ان کے اپنے قبیلے کے لوگ) اور یہ عجیب بات ہے کہ میری کورٹ میں ہر قسم کے لوگوں کے خلاف مقدمات پیش ہوتے ہیں مگر اب تک کہ مجھے آپ لوگوں کا چیف بنے تیرہ سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے.میرے پاس کبھی کسی ٹی احمدی کے خلاف کوئی مقدمہ آج تک نہیں آیا حالانکہ بطور ٹنی میری چیف کورٹ میں میرے اور میرے وزراء کے پاس سینکڑوں مقدمات پیش ہوئے ہیں.کیا اس کا صاف یہ مطلب نہیں کہ احمد می چونکہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور نہ کسی پر نہ یا دتی کرتے ہیں اس لیے انہیں کورسٹ
۷۶۴ میں نہیں لایا جاتا.اخر اگر دوسرے نشتی لوگوں میں سے کئی تجوریاں کرتے ڈاکے مارتے جھوٹ بولتے حرام کھاتے بیویوں سے بدسلوکی کرتے اور دوسروں کے حقوق غصب کرتے ہیں تو احمدیہ جماعت کے افراد کیوں ان باتوں میں ملوث نہیں ہوتے یہ امر واضح کر کے ہمیشہ احمدیت کی مخالفت کرتے والوں سے کہتا ہوں کہ اگر تم احمدی نہیں ہوتا چاہتے تونہ ہو مگر تمہیں چاہیے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں کیونکہ تمہیں ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ عملاً تمہاری مدد ہے اور وہ ہمارے لوگوں کی عملی اصلاح کہ رہے ہیں انسان کا انجام بخیر اس کے اعمال نے کرتا ہے مسلمان کے اس اسلام کا کیا فائدہ ہجو دن رات احمدیوں کی مخالف کرتا ہے لیکن اعمال اس کے کافروں سے بھی بدتر ہوں ہمارا مخالفت کرتا تب ہی نہیں فائدہ دے سکتا ہے جب کہ ہم اپنے آپ کو اپنے اعمال اور اخلاق کے لحاظ سے بھی احمدیوں سے بالاتر ثابت کر سکیں مگر معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہے اور اخلاقی لحاظ سے ہم میں اور اُن میں بہت فرق ہے یکی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان مبلغین کا خود محمد و معاون ہو اور جس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں نہیں بھی توفیق دے کہ ہم بھی حتی المقدور اس فرم کو سجانا سکیں تاکہ مہارا ملک اس اسلامی تعلیم و تہذیب اور ثقافت سے مالا مال ہو اور دنیا میں بہترین رول ادا کر سکے مجھے ہو" میں آپ کا کام دیکھ کہ بہت خوشی ہوئی ہے میری باتیں خواہ کسی کو چھی لگیں یا بہری میں حقیقت کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں اپنے واپسی سے قبل آپ نے سکول کی لاگ یک اور مشن کی وزیٹر نہ ٹیک میں مندرجہ ذیل ریمارکس لکھے :- میں نے احمد یہ سکول دیکھا.جس میں بچوں کو عمل یعنی ہاتھ سے کام کرتے ہوئے بہا یا تو پروٹیکٹوریٹ کے سکولوں کی ایک بہترین نشانی ہے طلبہ کے ساتھ بہت اچھا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور اساتذہ بمع جنرل سپرنٹنڈنٹ اور مہیڈ ماسٹر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بصورت حسن انجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں مجھے اس اسکول کو دیکھ کر یقین ہوگیا ہے کہ یہی وہ ایک مسلم اسکول ہے جس پہ آئندہ اسلامی تہذیب اور ثقافت کا مرکز ہونے کی امید کی جا سکتی ہے (کانڈے بورے منسٹر آف در کس لیے به روز نامه الفضل نه بوه ۱۹ جنوری ۶۱۹۵۸ مترم ه روز نام الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۵۸ ء ما
640 جماعت احمد یہ سیرالیون کا سالانہ جلسه ۱۵/۱۲/۱۳ر دسمبر ۱۹۵۷ء کو مقام "بو" میں منعقد ہوا مولوی محمد صدیقی صاحب امرتسری نے افتتاحی خطاب میں اس الہی تائید و نصرت کا ذکر کیا جو جماعت کو حاصل ہے آپ کے علاوہ جن مقررین نے خطاب کیا ان میں بعض یہ ہیں.ات سوشل ویلفیر آفیسر مسٹر انتھونی.آپ نے فرمایا : " میں جماعت احمدیہ کے کام سے بہت متاثر ہوا ہوں.کیونکہ یہ ایک بہترین منظم جماعت ہے ؟ مبلغین صمدیت کی آمد اور روانگی اس سال جو نام این فریضہ تلی کی جا دادی کے بعد واپسی مرکز مجاہدین آوری احمدیت میں تشریف لائے.ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :.شیخ نور احمد صاحب نیر - ۲۵ فروری د لبنان سے ہے سید منیر احمد صاحب باہری رہبریا سے ) کہ - مولانا ابو بکر ایوب صاحب (ہالینڈ سے ) سے -۴- سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ ( انڈونیشیا سے ہے - ملک عزیز احمد صاحب (انڈونیشیا سے) شد بشیر احمد آرچر ڈ صاحب (غرب الہند سے ) له ۷.مولوی مبارک احمد صاحب ساقی ۲۰ نومبر رنا نیجیریا سے ہے اس سال درج ذیل کتب شائع ہوئیں جن سے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں عمدہ نئی مطبوعات اضافہ ہوا.اه روزه - د ملک محمد عبد اللہ صاحب لیکچرار ٹی آئی کالج.ربوہ) ) - پہلی زندگی کے متعلق اسلامی تسلیم رتقریر پر دنیسر قانی محمداسلم صاحب) اہم اسے صدر شعبہ نفسیات کراچی یونیورسٹی.له الفضل ۲۹ فروری ۱۹۵۷ء صلا به له الفضل به راگست ۱۹۵۷ وصل له الفضل ۲۲ اگست ، ۹۵ له الفضل ۲۲ ستمبر، ١٩٥ء صا : یہ الفصل ۲۴ اکتوبر ۱۹۵۷ء شعرشه الفضل ۲ دسمبر ۱۹۵۷ ء ما
649 THE GREAT انیس الرحمن صوفی عبد الغفور صاحب) HERITAGE ٠٣ ۰۴ احمدیت کا مستقبل رحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) - ذکر حبیب رنظریہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب) - قرآن کا اوّل و آخر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) ۷- اصحاب احمد جلد سوم رملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان) (" " اصحاب احمد جلد چهارم در ملک صلاح الدین صاحب - ۹ حیات قدسی حصہ پنجم.(حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدسی را جیکی) قول بلیغ (قاضی محمد نذیر صاحب لالپوری) ا - فسادات ۱۹۵۳ء کا پس منظر.ملک مہالہ فضل حسین صاحب صاحبه ) ہماری تقسیم عربی ایڈیشن) -۳- جوانی پھل گورمکھی - رگیانی عباد الله صاحب (ریسرچ سکالر سکھ لڑیگیر رنا شر نظارات دارت ور و تبلیغ قادیان) -۳- چو ہدری محمد حسن جیمیہ کی افتراء پردازیوں کا جواب رخالد احمدیت حضرت ملک عبد الرحمان صاحب خادم امیر جماعت احمد یہ ضلع گجرات) ۱۵ - " اسلام پر ایک نظر دارد و ترجمه کتاب OF AN INTERPETATION ISLAM مصنفہ اطالوی خاتون پر وفیسر ڈاکٹر گیری ان مترجم بیشیخ محمد احمد صاحب مظہر فیلیز یونیورسٹی میں عربی اور اسلامی تہذیب کے مضامین کی پر دنیسر.انہوں نے اس کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر نہایت عمدہ پیرایہ میں روشنی ڈالی اور صاف تسلیم کیا کہ آپ خدا کے برگزیدہ نبی تھے.اس کا انگریزی ترجمہ پر دفیسر ڈاکٹر الڈ وکیل نے کیا اور پیش لفظ محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے سپرد قلم فرمایا.مولانا عبد المجید صاحب سالک نے کتاب کے ترجمہ پر یہ تبصرہ کیا کہ : شیخ محمد احمد صاحب مظہر رایڈووکیٹ لائلپور) کا علمی و اسلامی ذوق قابل تحسین ہے
646 دو بقیہ حاشیہ منہ سے آگے) کہ انہوں نے ڈاکٹر و گلیری کی اس کتاب کا اردو ترجمہ بے حد احتیاط و اہتمام سے کیا.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا لکھا ہوا ایک دیباچہ بھی شامل ہے.میرے نزدیک ہر تعلیم یافتہ مسلمان کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیئے جو باعث اور دیا د ایمان ہو گا کہ لے و الفضل بر نومبر ۱۹۵۷ء ص :
ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد ۱۹ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الاسدمی کی تصانیف اور آپ کا کام مواردی احمد اسمعیل صاحب فاضل وکیل مانیکور نے بادگیر کے قلم سے) خدا تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ جو روحانی انسان دنیا میں اس کے فیض سے فیض یافتہ ہو کر تیار کیے جاتے ہیں اس کی ایک مثال حضرت عرفانی الاسد می صاحب کا وجود تھا کہ متضر قدس مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام کے فیض کی برکت سے آپ کے اندر قرآن کا عشق اور دینی خدمات کا ایسا اعلی جذبہ پیدا ہوا کہ آپ آخری گھڑیوں تک اسی نشہ میں سر شاردہ کہ رضائے الہی کا مرتبہ پا گئے.ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء.حضرت عرفانی صاحب کے کام بے شمار اور رہتی دنیا تک یاد گار ہیں.جن میں سے آپ کے بعض خصصی کام تفصیلی طور پر درج ذیل ہیں :.(1) حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام کے ذیل کے شعر میں میں جذ بہ حذرت قرآن کا ذکر ہے حضرت عرفانی صاحب نے ہمیشہ اس کو اپنے سامنے رکھ کر اس شعر کو اپنی تحریرات میں کثرت کے ساتھ استعمال فرمایا اور عمل طور پر اس کے پابند رہے اے بے خبر یہ خدمت قرآن کر بہ بند زانین که بانگ بر آں فلاں نما نار چنانچہ ادارہ معالق معارف قرآنیہ کے نام سے خود حضرت عرفانی صاحب نے حسب ذیل کتاب تصنیف تالیف و شائع فرمائیں جس کے لیے مسلسل کئی سال شب و روز محنت فرمائی اور آخری عمر میں اس امر کی پر واہ نہ کی کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں یا بیمار رہتے ہیں.یا ان کی کتب کے سامان مہیا نہیں ہیں.جو نہی کسی کتاب کی اشاعت کا سامان مہیا ہو جاتا آپ فوراً بلا تاخیر غیر ضروری اس کی تصنیف فرماتے اور کم از کم
بار اقول کی اشاعت اس کو پانچ سوکی تعداد میں ضرور شائع فرماتے.اور اگر کسی کتاب کی اشاعت کا سامان نہ بھی ہوتا تو جو عزم ان کے دل میں کسی کتاب کی تصنیف یا تالیف کا پیدا ہو جاتا اس کو پورا کر لیتے.جیسے جیسے کاغذ " اور اشاعت کے اخراجات آتے جاتے وہ اس کو شائع فرما دیتے اور یہ بھی حضرت عرفانی صاحب کی شروع سے عادت تھی کہ وہ علاوہ علمی تحریرات کے خصوصی تحریک کے رنگ میں وہ اپنے کسی بے تکلف دوست یا توریز یا جماعت کے فرد کو جو مخیر ہوتا یا خدمت دین کا جذبہ رکھتا یا اس کے دل میں اشاعت معارف قرآن کی تڑپ ہوتی تحریک فرماتے.پھر جو اس خدمت کے لیے آگے آیا اس کا ذکر مختلف تصانیف میں حضرت عرفانی صاحب نے فرما دیا اور بعض دفعہ اس کی امداد کی سبھی صراحت کی ہے.پچھلے ۲۵ سال سے حضرت عرفانی صاحب کا کام حیدر آباد د سکندر آباد دکن میں ہوا کیونکہ دہ سکندر آباد ہی میں مقیم تھے.اس لیے.اولاً یہاں کے کاتبوں کا نام جنہوں نے حیات احمد یا سیرۃ یا سلسلہ کی دوسری کتب لکھیں اور جین کا کام حضرت عرفانی صاحب کے ذریعہ انجام پا یا لکھتا ہوں تادہ آئندہ سلسلہ کے ریکارڈ میں رہ سکیں.اس میں سب سے زیادہ کتابت کا کام محمد معفر صاحب کا تب سکنہ علی میاں بازار حیدرآباد نے انجام دیا ہے وہ اب بھی سلسلہ کا زیادہ کام کرتے ہیں ربہ غیر احمدی ہیں احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں احمدیت سے منسلک کر دے) کاتبوں کے نام : - ( محمد جعفر کاتب (۲) ولی الدین کاتب (۳) فخر الدین کا نتب (۴) عبد الکریم کا اتب (2) ست زائن کا تب (4) امیر خال کاتب () عبد الرؤف كاتب (۸) عبد الحفیظ کا تب.وہ مطابع جن میں یہ کتابیں چھپتی رہیں ان کے نام درج ذیل ہیں.مطابع کے نام.(۱) دستگیر می پریس حیدر آباد دکن (1) محموریه شین پریس حیدر آباد دکن (۳) رفیق مشین حیدر آباد (۴) اسلامی پریس حیدر آباد (۵) اسٹوک پرنٹنگ پریس حیدر آباد (۶) انتظامی پریس حیدر آباد ) نامی پریس حید آباد (۲) مکتبہ ابراہیمیہ پریس حیدر آباد دکن (۹) نظام دکن پریس حیدر آباد دکن - (۱) تاج پریس حیدر آباد دکن - اُن معاونین میں سے بعض خصوصی معاونین کے نام جنہوں نے حضرت عرفانی صاحب کی تصانیف میں امدادی.معاونین کے نام -: () حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب معہ خاندان (۲) سیٹھ یوسف الہ دین صاحب رسیٹھ علی محمد صاحب و حافظ صالح محمد صاحب وسیع الدین اله دین و بشیر الدین صاحب الله دین و غیر هم -
(۳) شیخ واد و علی صاحب عرفانی فرزند حضرت عرفانی صاحب وارنگل - (۳ اسیر شیخ حسن صاحب احمدی یا دگیر در ان کا خاندان خصوصا سیٹھ محمد عبدالحی صاحب احمدی یادگیر.(۵) محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل ہائی کورٹ بادگیر ما جز را تم) (۲) کریم غلام قادر صاحب شرقی سکندر آباد دکن معه خاندان (6) کرم سید حسن صاحب کا می گوڑھ معه خاندان (۸) مولوی شهر عثمان صاحب والدمحم عبد اللہ صاحب بی.ایس سی حیدر آباد (1) کرم محمدعبد الله صاب '(-) بی.ایس.سی.ایل ایل بی حیدر آباد دکن - (۱۰) سیٹھ عمر حسین صاحب چنت کنٹہ اور ان کے لڑکے سیٹھ معین الدین صاحب چنت کنٹر دیگر معاد تین جن کا ذکر تصانیف میں موجود ہے.وہ قارئین خود مطالعہ فرما سکتے ہیں.(۲) اخبار الحكم قادیان کے تو حضرت عرفانی الاسدی موسٹی و ایڈیٹر ادری تھے جس کا آغا نہ ۶۱۸۹۷ سے ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے الحکم کو سلسلہ کی خدمت کے اعتبار سے ایک بازو قرار دیا تھا) اور ۱۹۵۴ء تک اس اخبار کی (ہ) سناوں جلدیں مکمل ہوئیں اور یوں ساتھ برین مسلسل خدمت کا موقعہ ہا.خود یہ بڑا عظیم الشان کام ہے جس کے اعتبار سے آپ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے سب سے پہلے اخبار نویس کہلائے مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کو دوسرے رنگ میں جو دین کی خدمت اور اشاعت کی تڑپ تھی.اس کا ذکر خود حضرت عرفانی صاحب اپنی کتاب اسماء القرآن فی القرآن ص ۲۹ پر فرماتے ہیں.الحسکم کے ساتھ ہی مجھے دو باتوں کا زبردست جوش رہا ایک حضور علیہ الصلواۃ والسلام کے ملفوظات کی اشاعت اور آپ کے پرانے مضامین د مکتوبات کی حفاظت دوسرے قرآن مجید کے حقائق و معارف کے لیے دلچسپی پیدا کرنا.چنانچہ الحکم سب سے پہلا مناد ہے جس نے قرآن مجید کے تفسیری نوٹ رجو حضرت خلیفہ المسیح الاوّل) نے فرمائے تھے.شائع کرنے شروع کیے.پھر اسی سلسلہ میں سورۃ بقرہ کی پوری تغیر اور ترجمتہ القرآن کے رنگ میں تقریبا دس پاروں کا ترجمہ اور نوٹ شائع کر دیئے.( اسماء القرآن ص ۲۹۳) ۳- ترجمہ القرآن اور اس کی تفصیل : - ) ترجمہ القرآن پارہ 12 ابنی اسرائیل سے سورۃ کہف تک.کل صفحات ۱۰۸ - تاریخ اشاعت ستمبر ۱۹۱۱ ء - شائع شدہ مطبع انوار احمدیہ پریس قادیان.(۳) ترجمة القرآن پارہ ۱۶ سوره مریم سے طہ تک کل صفحات من تاریخ اشاعت ۱۹۱۹ د شائع شده مطبع انوار احمدیہ پریس قادیان -
661 نوٹ : عہد خلافت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ میں یہ پہلا پارہ شائع ہوا (۳)، ترجمته القرآن پارہ کا سورہ انبیاء سے سورہ حج تک کل صفحات ۹۲ - سند دوستان اسٹیم پریس لاہور.(۴) ترجمۃ القرآن پارہ ۲۰ سورۃ نبا سے والناس تک کل صفحات ۱۲۰ (0) ترجمة القرآن پارہ ۲۵ سوره ملک سے مرسلات تک.کل صفحات ۲۸ (۶) ترجمته النقرآن پارہ ۲۲۰ زمر سے حم السجدہ تک - تاریخ اشاعت ۱۲۰ دسمبر تک ۶۱۹۰۸ (6) ترجمة القرآن پاره ۲۴ (۸) ترجمته القر آن پاره ۲۵۰ سوره شوری سے جانئیہ تک.صفحات ہو تا ہے 66 (1) ترجمة القرآن پارہ ہر سورۃ احقاف سے ذاریات تک سے ذاریات تک ہی تا یه تک تاریخ اشاعت ۲۵ دسمبر ۶۱۹۰۸ مطبوعہ انوار احمدیہ پریس قادیان.(1) ترجمة القرآن پارہ عش ۲ سورہ مجادلہ سے سورہ تحریم تک کل صفحات من شائع شدہ نومبر ۱۹۰۹ء دیپک راجپوت پرنٹنگ پریس لاہور.گویا تغیر القرآن پارہ اول و تغیر القرآن پارہ دوم اور پارہ دردار علاو عشا اور پارہ ۲۳۰ سے پارہ ۳۰۰ تک مکمل ترجمہ مع تغیر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے نوٹوں سے مرتب کر کے شائع فرمائے.(۴) حقائق و معارف قرآن کے کام -:- حضرت عرفانی صاحب اپنی کتاب اسماء القرآن کے ۲۹۲ پر لکھتے ہیں کہ : " ترجمہ القرآن کے کام کو جب میں جاری نہ رکھ سکا تو میں نے قرآن مجید کی مہم کے لیے ایک دوسرا طریق اختیار کیا کہ اس سلسلہ میں چھوٹے چھوٹے رسالے شائع کروں.چنانچہ اسی سلسلہ میں حسب ذیل کتابیں شائع ہوئیں اس کی تفصیل ملاحظہ ہو.حضرت عرفانی صاحب نے ایک جگہ پر لکھا ہے کہ قیامت کے روز میں علاوہ دوسرے نیک کاموں کے اس خدمت قرآن کو بھی خدا کے حضور پیش کر کے اپنی مغفرت کا طلبگار ہوں گا اور حضور کا ذیل میں شعر کہے اے بے خبر به خدمت قرآن کمر به بند زان بیشتر که بانگ برآید فلاں نماند یہ تو آپ اپنی ہر تصنیف یا تالیف پر مزور لکھتے تھے.اداره حقائق معارف قرآنیہ کی طرف سے شائع شدہ کتب:.(نوٹ) اس ادارہ کو اکیلے حضرت عرفانی
66F صاحب ہی چلاتے تھے.(اسماعیل) کتب کی تفصیل حسب ذیل ہے :.اسماء الحسنی کل صفحات ۱۰۴ تعداد ۱۰۰۰ بار اول مطبوعه انوار احمدیہ پریس تادیان - نوٹ : سکندر آباد سے یہ کتاب یار دوم بھی چھپی ہے.- مقطعات قرآنی کی فلاسفی - کل صفحات مطبوعه.........تاریخ اشاعت ٣ - اسماء القرآن في القرآن کل صفحات ۲۹۶ بار اول تعداد ۵۰۰ تاریخ اشاعت ۵۰۰ ۲۰ ستمبر ۶۱۹۴۷.قرآنی دعاؤں کے اصرار کل صفحات ۲۳۸ بار اول تعدا د (۵۰۰) تاریخ اشاعت ۳۰ جون ۶۱۹۴۸ - البيان في اسلوب القرآن کل صفحات ۳۲۸ بار اول تعداد (۵۰) ( (۵۰۰) ۲۵ اکتوبر ۶۱۹۲۹ اعجاز القرآن ما ثبت به القرآن م۳۷۲ بار اول تعداد (۵۰۰) ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۹ء - كتاب الصيام من ۳ بار اول تعداد ۵۰۰ تاریخ اشاعت ۳۰ رمئی ۱۹۵۰ء - کتاب المج م ۲۹ بار اول ۵۰۰ تاریخ اشاعت نومبر ۱۹۵۰ء كتاب الزكواة من ۲۷ بار اول تعداد ۵۰۰ تاریخ اشاعت ۱۲۵ مارچ ۱۹۵۱ ء کتاب الاداب حصہ اول ۰ ۲۳۳ بار اول تعداد ۵۰۰ تاریخ اشاعت یکم نومبر ۱۹۵۱ء نوٹ :.ارکان اسلام کی فلاسفی کے سلسلہ میں حقیقت نماز " پر ایک کتاب حضرت عرفانی صاحب نے مئی ۱۹۰۷ ء میں شائع فرمائی تھی.۱۱- احکام القرآن حصہ اوّل م۳ ۳۵ ۵۰۰ بار اول تاریخ اشاعت ۱۵ار مارچ ۱۹۵۲ء - امثال القرآن منگا تعداد ۵۰۰ بار اول تاریخ اشاعت ۱۹ جون ۱۹۵۲ء..۱۳ - احکام القرآن حصہ دوم صبا بار اول تعداد ۵۰۰ تاریخ اشاعت نومبر ۱۹۵۳ء حکمنه الرحمان فی آیات القرآن مثلا تعداد...بار اول کی تاریخ اشاعت ۱۵ جنوری ۱۹۵۳ء ۱۵- تاریخ القرآن ما تعداد..د بار اول تاریخ اشاعت د راگست ۱۹۵۳ء 14 - تفسير القرآن من ١ تعداد ۵٠٠ بار اول تاریخ اشاعت یکم جنور می ۱۹۵۵ د ر ۵ - دوسری کتب کی تفصیل جو حضرت عرفانی الاسدی صاحب نے شائع فرمائیں.رحمتہ اللعالمین فی کتاب مبین حصہ اول من ۲ ۲ تعداد ۵۰۰ تاریخ اشاعت ۲۰ مئی ۱۹۵۰ د
۲- رحمة للعالمين في كتاب مبين حصه دوم ۲۳۳ تعداد ۵۰۰ تاریخ اشاعت نومبر ۶۱۹۵۰ نادر و نایاب تحریریں ۱۳۶۰ بار اول تعداد ۵۰۰ - تاریخ اشاعت ۱۵/ نومبر ۱۹۵۲ و - الاعمال و العظامات کے متعلق حضرت.......خلیفہ المسیح الثانی کے خطبات کا مجموعہ مرتبہ حضرت عرفانی صاحب الاسدی.نوٹ یہ کتاب سیر عبد اللہ الدین صاحب نے شائع فرمائی.م ۵ حیات حسن - حالات زندگی حضرت سیٹھ حسن صاحب احمدی یا دیگر رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرتبه حضرت عرفانی صاحب شائع کردہ اولاد سیٹھ صاحب یادگیر..سیرت حضرت اماں جان حصہ اول ۲۷۳ تعداد ۳۰۰ بارا قول تاریخ اشاعت یکم دسمبر ۱۹۳۳ در مطبوعه انتظامی پریس حیدر آباد سیرت حضرت اماں جان حصہ دوم مر ۴۳۲ تعداد ۳۰۰۰ با را دل تاریخ اشاعت ۲۵ فردی ۱۹۴۵ د - رپورٹ جلسہ سالانہ قادیان ، ۱۸۹ ۶ و الانذار (۱۰) اصلاح النظر (۱۱) سلک مروارید حصہ اول (۱۲) سلک مروارید حصہ دوم - ۱۳ - خطبات کریمیه - آئینہ حق ما جواب الہامات مرزا کل صفحات ۳۲۴ تاریخ اشاعت ۱۹۱۲ ۶ بار اول تعداد ایک ہزار (۱۰۰) ۱۵- جان پدر کل ۳۶ خطوط - حضرت عرفانی الاسدی صاحب کے خطوط جو آپ نے اپنے بیٹے مکرم محمود احمد عرفانی مجاہدہ مصر کے نام لکھے تھے.۱۶- قرآن کریم اور اس کی اعجازی توت - حضرت عرفانی صاحب لیکچر فیرورت پور - تاریخ اشاعت ۱۲۹ مئی ۱۹۰۹ ء انواراحمد به شین پریس قادیان - 16 مشاہدات عرفانی یعنی سیاحت یورپ وبلاد اسلامیہ ۱۸- اشتہارات اور الہامات معد رساله الومیت ۶۱۹۰۵ تاریخ اشاعت سمر ماریخ ۰۶ ۱۹د کل صفحات تا۲۴ نوٹ: اس کے 2 انمبر شائع ہو چکے ہیں.یہ کام حضرت میر ناصر نواب صاحب کی خواہش پر آپ نے انجام دیا تھا.۱۹ - ارستان عرفانی فی حیاة عثمانی کل صفحات ۲۰۰ نواب میر عثمان علی خان سیا در نظام دکن کے سلور جولی بره دکن یادشاہوں کی تاریخ ددیگر کاموں کی تفصیل ہے.شیخ یعقوب علی عرفانی ایڈ میٹر سالار سمیٹی.۲۰- محامد المسيح - شائع کردہ حضرت عرفانی صاحب.
۲۱ حیات ناصر مصنفہ حضرت عرفانی صاحب تراب مطبوعه ۱۹۲۷ د ۲۲ واقعه ناگنز به مطبوعه نومبر ۱۸۹۸ و انوار احمدیہ قادریان ۲۳ - حقیقت نماز مطبوعہ مئی ۱۹۰۷ء (اس کا ذکرہ اس سے قبل کیا گیا ہے.) ۲۲ - ذکر حبیب تقریه جلسه سالانه قادیان کل صفحات ۴۰ تعداد (۲۵) بارا دل تاریخ اشاعت ۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ را شوک پرنٹنگ پریس - حیدر آباد - تعداد (۱۲۵) ۱۲۶ دسمبر ۱ ۶۱۹۵ نوٹ: یہ تقریر مکرم محمد عبداللہ صاحب بی.ایس سی نے جلسہ پر پڑھ کر سنائی تھی) (۲۶) ذکر میب تقریہ جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۵۲ د کل صفحات ۲۰۱ ، دسمبر ۱۹۵۲ (۲۷) خلافت محمود مصلح موعود سے نده قادیان ۲۳ جنوری ۱۹۵۸ ء مشت ۱
اشاریہ جلد ۱۹ مرتبه : ریاض محمود باجوه شاهد شخصیات مقامات كتابيات ۲۹
سلام اسماء البوجيل انتم عبداللہ.آدم نماں منشی.آصف زمان نمای - آصفه بیگم سیده 466 اپنا پرشاد، صوفی ۱۸۲ ابن خلدون، علی مهر * A* 414 ۶۳۸ ابوسعید عرب ۲۹۲ ابو بکر صدیق ۱۱۷-۱۳۲ - ۱۷۷-۳۷۱ این رشد ، علامه ٥١٨ ابو عبيدة بن الجراح ابن قیم آصفہ بیگم ثبت مولون محمد احمد م ایوان علی مودودی ، ستید آفتاب احمد نظام، میجر ۳۱۳ ابو البشارت عبد الغفور آمنہ بیگم نسبت بھائی عبد الرحیم ۶۰۹ ابوالبیان واعظ بھاگلپوری آمنه بیگم نیست ستری نظام الدین ۳۱۳ ابوالحسن الماوردی آمنه صدیقه انه میگم Fri ابو یحیی امام خاں نوشہروی ۰۹ - ۷۱۱ اتغسلين ولميس ۳۲۰ اجل سنگھ سردار 14A-146 ۳۰۶ ابو العطاء جالندھری ۱۵۶۰۸۲-۱۶۲ اجودھیا پر شاد، پنڈت احسان اللہ ملک احسان البی ۱۲۴ 148 ۵۵۴ ۱۶۸ ۱۰۰۰ ۱۹۸۰ - ۲۳۱ - ۲۳۶۰۲۳۳ | احمد الدین بی.اسے ، چوہدری ۳۱۵-۳۲۰ ۲۳۷ - ۲۷۹ - ۲۸۴ ۰ ۳۲۵-۲۵۸۰۳۵۵ احمد انور راڈن حضرت این تیم ملی استان سم ال۴۷ ۴۶۴۷۳- ۵۱۴۰۴۹۵ - ۱۵ ۵۳۸۰۵۲۰۰۵ احمد شهید بریلوی ،استید این ایم ایل اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ۶۵۴ - ۲۴۰۷۱۴۰۶۹۸۰۲۸۳۰۶۸۲، ۲۱۰ ۲۸۸۰ - ۴۷۳ تا ۴۷۵ صاحبزادے.ابراهیم حاجی ابراهیم بین اور تمام ابراهیم بن محمد ابراهیم عابد ، میاں 14A ۲.د احمد بن عبد الله ۳۸۷ ابو المنير نورالحق ۵۱۴۰۴۲۰۰ تا ۵۲۷۰۵۲۰ احمد بوده - الجزائر ۲۰۹۰۲۰۰ ۳۵۵ ۲۷۰ تا ۱۳۲۰۵۳۱ تا ۷۲۲۰۵۴۹۰۵۲۰- احمد نبی بی نسبت مستری نظام الدین ۳۱۳ ۳۹۹ ابوالہاشم خان ۵۱۰ ابو بكر الويب ابراہیم لنکن سد را مریکہ ۲۲۱ - ۲۲۲ ۲۹۰ - ۷۷۵ احمد بی بی نسبت میای فضل محمد احمد بیگ، مرزا ۳۲۰ 1^4 احمد جبان ، چوہدری ۱۸۲ - ۲۹۵
FAQ ۶۳۰ Yar ۵۷۴ 4- 4 1+4 lar ۲۰۸ lar 146 احمد جان منشی - در میانه - ۲۳۵ - ۶۳۷ احمد مختار چوہدری (1) اعجاز الحق ، ڈاکٹر ۵۴۶ اعجانه ربانی، کرنل ۲۳۴ احمد نور اختر اجد، پروفیسر 411 YAY-14A احمد حسین کاتب احمد خان نیستم احمد دین، چهادی حجرات - ۸۲ تا ۵۹۱ اختر احمد اور نیوی استید ۵۲۷۰۵۴۶ اعظم علی، چوہدری افتخار احمد، پیر اختر حسین، ملک جینزل ۲۶۵ افضل حق، چوہدری احمد دین ، ڈاکٹر ۳۸۷- ۳۸۸-۴۲۹ ۷۲۷ احمد دین شیخ ۲۸۰ اردشیر دین شاه ۶۲۳ - ۹۲۲ ۲۲ اقبال ، پروفیسر احمد دین - گنری ۱۹۳ - اسد اللہ خاں ، چوہدری - ۱۳-۱۲-۱۷ اقبال الدین شیخ ۱۹۲ - ۳۶ - ۱۱ - ۱۲۱ - ۱۸۰- ۱۸۱ - ۴۸۴ | اقبال شاہ ، سید بھی گلہ اقبال احمد خاں، کیپٹن ڈاکٹر ۷۰۳ - ۲۹۵ - ۴۸۹ ۱۹۱ اسد اللہ شاہ نے سیگر ۵۰۲ اقبال احمد شاید ۶۲۷ JAA احمد دین ، منشی احمد دین ، میاں احمد دین امیاں کمپونڈر احمد دین ، میاں.لاہور حضرت اسمعیل علیه السلام ۶۳ - ۲۰۱ ۲۰۲۰ اکبر احمد دین آف کوئٹہ احمد رشید احمد رمضان شیخ ۱۲ اسکیل ستید اکبر، شهنشاه ۲۸۰ اسمعیل آدم سیٹھ ۶۶۴ تا ۲۲۹ اکبر علی اسمعیل آرو احمد سانسه ۳۸۵ اسمعیل شہید ۴۷۴ ۶۰۳ تا ۶۷۵ احمد سربندی هستید ۴۷۲ اسمعیل کا ٹھگڑی، چوہدری IAY اکرام ربانی ۱۹۲ اکبر یار جنگ ، نواب ۳۲۴ - ۴۲۲ ۶۲۰ احمد سو کا نہ تو ، ڈاکٹر ۴۱۵ اسمعیل آفت کماسی ۳۹۹ اکمل ، قاضی ظہور الدین - ۱۸۴ - ۳۲۹ اسمعیل آن نائیجیریا ۳۹۵ الڈوکسیلی، پروفیسر ڈاکٹر ۱۹۵ اسمعيل بن عبد العزيز ۲۰۹ الطاف ربانی ۶۲۷ اسید بن حضیر احمد صادق مفتی ۵۶۹ - ۵۷۴ اشفاق احمد، چوہدری احمد شاه ، پیر احمد شاه ، سید احمد شاہ، میر ، احمد علی سیده احمد علی ، منشی دوالمیال احمد غزنوی ۱۷۳ اظہر احمد مرزا احمد گل پراچہ ۲۰ اعجاز احمد شیخ ۱۵۷ اشون درد اولو کو ڈانا ، امام 174 146 الفاو شمال الفرید گوسلام ٥١٢ الفرح 466 اظہارالحسن ، پیرزادہ ڈاکٹر ۲۹۰ * القائم فوڈ سے ساتھ ۶۳۰ الله بخش چوپ کی والد موی کرمانی نفره YAA ۳۳۸ اللہ بخش ، چو ہڈی.مالک سٹیم پر پیس قادیان ۴۳۰ ۶۱۷ تا ۹۲۵
اللہ بخش ، حاجی ہنگو نے ۵۱۲ امته الباری ، سیده ۲۴۲ امته القيوم ، سیده NAL-PLA اللہ بخش بشیخ ۳۲۱ امتد الباسط، سیده اللہ بخش آف ساند سے کلاں 414 امته الجمیل ، سیده ۴۲۸ - ۷۱۷ اخته اللطیف خورشید اللہ بخش ضیاء 4A.الله وته ، الحاج مرزا A امتد الجمیل نسبت ملک عبد الرحمن روم ماستر الکریم نیست چون ری الله بخش دم امتہ اللہ بیگم مثبت بھائی عبد الرحیم ۶۰۹ الله الحفیظ بنت قریشی محمد طیع الله ۳۴۱۰ ام امتہ اللہ بیگم نبت ڈاکٹر سید غلام غوث الله وا ته ر چوهدری ۱۹۰ امتہ الحفیظ نبت ملک عطاء اللہ ۶۳۰ DAT الله وته ر پرسیاں ۳۱۰ استراح استه الحکیم با اسیده 41A امت اللہ بیگم نبت مولوی رحمت علی ۵۹۴ الله و ته رسیان اللہ دیا ، شیخ ۱۷ امتد الحکیم ثبت ملک عبد الرحمن امتر المتین ، سیده ۷۱۷۰۲۱۰ امتہ الحمید منبت چونکی احمد جان ۲۰۶ امته المنسان نیست چو یدی الله بخش ۶۲۱ ۶۲۵۰ اللہ رکھا ۲۰ تا ۲۰-۳۶-۴۲-۳۵۰۳۴ امتد الحمید نسبت ملک عطاء الله ۶۲۰ امته النصیر راستیده ۲-۲۰-۵۵ - ۶۳ تا ۶۵ - ۷۰-۷۱ ۱۲۰۰ - امتد المی ثبت حضرت خلیفتہ البیع الاول ۱۱۰ امجد علی شاه ، ستید امت امستر الحنی ثبت ملک عطاء اللہ ۶۳۰ امر سنگھ، سردار المی بخش شیخ الی بخش ، کریل اله دین.قادیان الياس برفى الیگنہ نڈر وب انان چی ۷۱۰۳ - ۳۲۳ - امام الدین، بابا امام الدین، مرزها امام الدین ، مولوی 201 امته الرحمن نسبت چو ہد کی اللہ بخش ۶۲۱ امری عبیدی، شیخ ۶۲۵ - ۲۲۳ ۵۰ اتم طاهر، سید و مریم بیگم 616-74 011-174 ۶۲۸ PIA (۹) امته الرشید نسبت کم کر سید غلام غوث ۵۸۳ امیم متین رسیده امریم صدیقه) - ۴۷ 141 2.4 امته الرشید ثبت ملک عطاء الله ۵۶۳ امتر المرؤوف ، سیده ۳۲۶ امته السلام نیست ماسٹر خیر الدین 041 ۶۳۳ ۴۱۶ - ۱۹۵ امستر السلام ثبت ملک عطاء الله.۵۷۲ - ۵۲۶ - ۴۲۸ - ۳۳۵ - ۲۱۰ ۲۳۰ ۲۱۰ LIA اقيم ناصر، سیده (محمود بیگم ۵۸۶ امیر احمد قدوائی DAY ۶۰۰ امیر الدین سٹور کبیر امتہ العزیز بنیت ڈاکٹر سید غلام غوث امیر الدین ، استید ۵۹۰ امیر الدین، قاضی ستید امام الدین، میاں سیکھوانی ۳۱۷ امتہ العزیز ثبت ملک عطاء الله ۶۳۰ امیرالدین، مولوی امام الدین ، میاں کیونڈر امتہ العزیزہ بیگم امام الدین خان، نواب ۷۳۵ امتر الغفور استده امام الدین گجراتی ، استاد اما مرد نسبت حضرت خلیفتہ مسیح الاول 611 ات ۳۰۶ امیرالدین ٹھیکیدار، مرزا ۱۲ ۷۲۰ 041 16 امیر حسین ، قاضی سید ۶۱۰ - ۶۱۱ استر القادر نبت ڈاکٹر سید غلام غوث ۵۸۲ ۱ امیر خان کا تب
امیر عالم ، حاجی ۱۸۰ ایم.اے ناصر امینی ، مولوی شریف احمد ۲۳۵ ایم صلاح الدین انتھونی اندرا گاندھی انڈین پروفیسر انڈریو کوین ، سر انس احمد ، مردا زنگان 440 Par FAL 014 43.برکت علی بیگ، مرزا ۷۲۰ برکت علی خان ایمیرائٹس، پروفیسر ۳۴۴ برکت علی لائق له میانوی ایمینوئیل کیسٹ ، سر ۲۲۹-۷۴۴ برونوف، وی.جی.پروفیسر ۲۴۳-۳۲۴ دی اینک باول ایوب بیگ، مرزا ۳۷۶ - ۳۷۷ برناڈ جی اے.پروفیسر ۱۴ب البسواس بشارت احمد ڈاکٹر بارڈون ، نہیں ۵۹۴ بشارت احمد بشیر - 140 044 ۴۸۵ - ۳۵۴ انوار احمد منشی 30.باقی بالله انور احمد کا ہوں ، چوہدری ۳۳۹ باکار ہے.اسے، اگر انور بیگ، مرزدا بشارت احمد نسیم 140 بانشر، مسٹر ۵۹۳ بشارت احمد ولد محمد شریف ، چوہدری ۱۸۰ انور شاہ دیوبندی ، مولانا ۳۲۸ بدرالدین ، ڈاکٹر اوسنگ زیب عالمگیر ۵۵۷ بدر سلطان اختر ۲۰۰ بشارت تستیم بن مرزا مولا بخش اوصاف علی خان ، کرنل بدرالدین بھنگری، استید ۵۰۵ بشارت ربانی ، ملک اد نکور الکیل بن عبد الرحمن ۴۰۹ تا ۴۱۴ برگنسکی، ایم ۳۲۸ - ۱ د بشر نی بیگم نبت غلام نبی بانوی ۵۹۲ ۶۳۰ و سلم او کو فاطمہ ۴۱۲ پرش بهبان اسے ار منصور ۷۲۰ برکات احمد ۴۲۵ بشن و اس ۲۶۲ بشیر احمد ، منشی اسے.اگر محبت ۵۸۶ برکات احمد سید ۲۲۰ بشیر احمد ( محمد اسمعیل غزنوی کا پروردہ) اے جے جان ۲۸۶ برکات احمد راجیکی ۷۸۲-۲۶۹ ۱۴۵ - ۱۳ الیں.اگر داس ، شری برکت بی بی میں.ا سے.رحمان ۱۸ ۵ برکت علمی ، چوہدری 444 - 444-044-a ۲۰ بشیر احمد، چوہدری گجرات ۱۸۱-۵۹۰ تا ایس ایل.ایم ابراہیم ۷۲۰ برکت علی ، مرزدا - ربوده ۱۸۵ بشیر احمد، چوہدری ایس ایم پال پادری ایس.این سین ، ڈاکٹر ایم ایس شرکت ایم ایس مصطفے ۲۰۹ برکت علی، مرزا قادیان ۲۷۶ - ۵۵۰ بشیر احمد، ڈاکٹر درویش قادیان ۱۲-۲۱ PAY برکت علی ، ملک گجرات ۵۹۱-۲۷۵ بشیر احمد ، راجه 442-44-4Y بشیر احمد آرچوو ۹ | برکت علی مولوی بسیالکوٹ ۱۸۷ بشیر احمد ایڈووکیٹ ، سردار ام سلام ۱۹۴
بشیر احمد ایڈووکیٹ شیخ ۱۲۰۱۰۰۶-۵ بشیر الدین احمد سامی ۱۸۱ - ۱۸۳ - ۲۳۴ - ۳۲۴۳ - ۰۳۶۱ بشیر الدین اسامه م الله شیر احمد ایم.اسے ، مرزا ۱۶ - ۴۲ - ۴۴ تا ۴۶.*- 44- * * - ** - 30 - ۵۵۰۰ ۵۵۴۰۵۵۳۰۵۲۸۰۵۴۷ ۴۳۵ ۳۸۲ ۵۶۷ تا ۵۷۲ - ۵۸۱ ۵۸۵۰ - ۵۹۱ - بشیر الدین اله دین اد ۲-۷۷۹ ۲۰۰-۹۲۰۰۶۱۹۰۹۱۲۰۲۰۸ - ۶۲۲ بشیر الدین حقانی ، چوہدری بشیر الدین طاہر - ۲۲۰۵۸۶ تا ۶۷۲ - ۶۷۸ ۷۸۰۰ تا ۶۸۴ ۱۱۹ ۱۷۹-۱۵۶۰۱۳۰۰ بشیر الدین عبید اللہ حافظ ۱۹۵-۳۸۹ ۷۰۷۰۰۰۰ ۷۱۳۰ - ۷۱۷ - ۲۱ ، تا - 11A - 46-4 ۰۷۵۰ ۳۶۴-۳۶۲۰۳۴۰ - ۳۳۹ - ۳۲۷ - ۷۰ ۳۷۰ ۰ ۲۱۹ - ۴۳۸ - ۲۲۰ - ۲۶۹ - ۴۷۸ بشیر الدین محمود احمد امراء المصلح الموعود بشير بن سعد ۴۷۹ - ۵۷۱ - ۵۳ - ۵۰۳۰۵۸۳-۵۸۰ خلیفة المسیح الثانی ۱ تا ۱۰۰۵-۱۱-۱۳ بشیر شاه رسید ۲۰۵ - ۲۰۷ - ۶۰ - ۶۶ - ۶۵۳-۶۵۲ ۱ - ۳۰-۲۰-۲۶-۲۴-۲۱ تا ۴۹ بلونت سنگھ ، بادا ۶۸۸ - ۶۶۹ - ۱۸۵ - ۷۸۸ - ۰۲۱-۷۱۷ ۵۳ - ۵۵ - ۵۶ - ۲۵-۷۰ تا ۸۴۰۸۱۰۷۳ بند را نائیکے ۸۵ - ۹۲ - ۹۳ - ۹۷ - ۹۸ - ۱۰۰ - ۱۰۲ بنوری ، عزمه 646-477 بشیر احمد باجوه ، چوہدری ۵۱۲ - ۱۳ ۵ ۱۰۳ - ۱۰۹ - ۱۱- ۱۱۴ - ۱۱۲ - ۱۱۸ تا بهادر خان ، ملک بشیر احمد بھٹی ، قاضی ۱۹۳ ۱۲۸-۱۲۶ ۱۳۰۰ تا ۱۳۰ - ۱۳۳ - ۱۵۳ بہاول شاه هستید ۱۰۵ ۱۵۵ تا ۱۶۲ - ۱۲۸ تا ۱۷۲ ۱۷۹ ۲۰۰۰ بہاؤ الدین نقشبندی بشیر احمد بختانی بشیر احمد خادم بشیر احمد خان بشیر احمد رازی، راجه بشیر احمد شمسی - ۲۳۳ - ۲۲۸ - ۲۲۲ - ۲۱۵۰ ۲۰۶۲۸۴۰ بی راماکریشنا راڈ ، شہری ۱۹۵ ۲۲۵ تا ۲۳۰ - ۲۵۶ - ۲۶۲ تا ۲۷۰ بی عبد الله فاضل بیگی، اسے جاردرج ۱۹۵ ۳۲۴ - ۳۲۶ ۳۰۰ ۲۳ تا ۳۴۲۲۳۳۶۰۳۳۲ بیگم جی بشیر احمد فاضل مبلغ یونی دی.۲۸۰ ۲۰۲۰ ۳۵۰ تا ۳ ۳۵ - ۳۷۵ - ۳۰۰ -۳۷۱ - ۳۵ بھاگ ، ما با - امرتسری ۲۸۴ - ۲۸۵ - ۴۲۱ - ۲۵ ۴ - ۷۲۵ - ۷۲۶ ۴۰۰ - ۲۱۳ - ۲۱۵ - ۲۲۳ تا ۴۲۷ - ۴۲۸ بھاگ سنگھ کیپٹن بشیر احمد نظام بشیر احمد ولد شاه محمد چوہدری بشیر الابراهیمی ، علامه بشیر الدین ل الهم ۴۱۰ PA س ۳۳۲۴۳۳-۴۴۱ - ۴۳۷ - ۳۳۹ ۴۵۰۰ بھیم سین سچر ۲۹۳ - به ۳۲ * د ۳۵ ۳۷۷ تا ۳۷۸ - ۳۸۸ ۴۸۰۰ - ۴۹۴ - ۴۹۶ پاسما ، پادری ۲۲۵ ۵۰۰ تا ۵۰۰ ۱۳۰ تا ۱۹ ۵۲۲۰۵ تا ۵۲۴ پرائس ، آئی اینچ بشیر الدین آف نمانا ۱۳۹۷ | ۵۳۰۰۵۲۸۰۵۲۰ تا ۲۱۰۵۳۰ ۵ تا ۳ ۴ ۵ پرتاپ گی گیرن، سردار ۴۲۵۰۳۰۸
پرویز پروازی جبرائیل.چیف رئیس پشاور کامل ایڈووکیٹ ملالہ ۲۸۴ جعفری باشم ۳۰ جیمز ولسن ، سر ۷۲۰ جھنڈا سنگھ ، سردار پگٹ ، مسٹر ۵۶۳ حجیت سنگھ - کیپٹن چ Fir ۲۳۴ پورن سنگھ ، سرواله ۲۳۳ جلال الدین.پولیس انسپکٹر ۲۱ چراغ دین ، میاں پیر بخش، ڈاکٹر ۲۸۹ جلال الدین شیخ پیر محمد.پیر کوٹ ثانی ۱۹۰ جلال الدین بشیخ - کراچی ت پیلو ، اسے ایس تسنیم احمد خالد تقی امام تنویر احمد، خواجه تو ان عبدالجلیل حسن توفیق ارسن ٹ ۴۷۵ چرنجی لال، لاله ۱۸۹ چنین سنگھ ، سردار ۳۶۱ جلال الدین منشی ۲۰۲ - ۲۰۳ چند ولال ، ماسٹر جلال الدین بخاری رسید ۵۷۵ چند ولال مجسٹریٹ جلال الدین شمس، مولانا ۱۰۰-۱۰۱-۱۲۱ چو این لائی ۳۲۸ ۳۳۸۰۴۱۹-۳۵۳-۲۷۹ - ۱۹۸ - ۱۵۶۵۷۶ ۳۳۲ ۳۹۵ - ۵۱۲ - ۵۲۹ - ۵۳۰ - ۵۳۴ حاشر الدین انعامی ۷۰۲ - ۶۸۲ - ۶۷۵-۵۴۹ - ۵۳۸ ۴۱۳.۰۷۲۴۲۶۳ جلال الدین قمر ح ۳۳۳ ۶۳۸ 044 ۴۰۳ حاکم علی مهم و تعلم حامد شاہ سیانکوئی میر ۳۱۳-۳۷۲ ۱۹۵ حامد علی ، حافظ ٹرنیہ اشکاگو کا سیاح) ۵۹۴ جماعت علی شاہ، پیر ، حامد علی شیخ ۳۰۲-۳۰۳ - ۵۵۷ ٹٹاک، پروفیسر ۲۷۳ - ۲۷۵ - ۲۰۶ جمال الدین ، میاں سیکھوانی ۳۱۷-۳۱۸ حبیب احمد ، منشی - - ٹھا کر سنگھ، صوبیدار ث ۲۳۴ جمال عبد الناصر ۲۵۰ - ۲۵۶ حبیب الدین، میاں جمنا کماسی ثناء اللہ امرتسری ۳۴۷ - ۳۴۸ - ۶۱۸ جمیل الرحمن رفیق، فلک جنید بغدادی ۲۹۹ حبیب اللہ ، پروفیسر ۱ ۱۹۵ - ۲۷ ۷ - ۷۲۷ حسان بن ثابت انه ۲۰۸ حسن ، امام ۲۹۳ ۱۵۸ - ۸۲ ج جارج پنجم شہنشاہ جارج الفریڈ لی فرائے جان محمد چوہدری جواد علی، استید ۱۹۰ - ۲۸۲ - ۲۷۷ حسن آف یاد گیر شیخ بیٹھ ۷۷۰۰۳۳۳ 06771046 ۵۶۲ حسن بصری جونند، اینچ.پروفیسر ۳۷۴ حسن خان حجانه ۲۷۵ جولیس راب - چانسلر ۷۴۱ حسن دین ، مستری ۵۵۷ - ۵۵۶ جان ہارورڈ ۳۸۲ جی آر سیٹھی جبرائیل آدم ۳۹۸ | جیمز ایل ۴۲۷ حسن کسی بیمه ، شناسی ۲۶۰۰۲۵۹۰۲۵۶
حسن علی.ایڈیٹر نورافشان ۶۳۷ حمید اللہ، شیخ حسن شاہ ، سید ۱۹۲ حمید الدین خلیفه ۶۳۸ خورشید احمد شیخ محسن عطاء ، الحاج 466 حمید اللہ چوہدری PAI حسن علی ، مولانا حسن کامی ،استید حسن محمد.باڈی گارڈ ۲۲۵ خورشید احمد پر بھا کر خورشید احمد شاد ۳۴۱ خورشید بیگم 22.☑I حمید اللہ خاں حلیمہ بیگم بنت مستری نظام الدین ۳۱۳ خیر الدین ، ماسٹر حلیمہ بیگم نسبت میاں فضل محمد ۳۲۰ خیرالدین سیکھوانی ،میاں حسن محمد خاں عارف ۴۹۵ حیدر شاہ گرد اور حسن نظامی، خواجه ۵۴۶ خ 4+044 حسن ولد پروفیسر لی احمد با گلپوری ۵۹۵ خادم حسین ملک ۱۲۱-۱۳۷ - ۲۷۵ حسین ، امام حسین کٹھالہ ۱۵۴ خالد بن ولیده ۵۷۹ خان کابی حسین شہید سہروردی ۴۶۳ خدا نخشن مرندا حسین کامی - سفیر تمہ کی ۳۱۰ خدا بخش ملک حسین ملک ۴۳۵ خدابخش، میاں خیر دین زرگر رڈز ۲۳۶ را تا گنج بخش " ۶ اه دائی ایل.اسے منصور داؤد احمد (ملازم) YA+ 14 ۵۸۵۰ ۵۸۲ IAL ۵۹۱ - ۲۷۸ Fil ٣٠٩ داؤد احمد سید میر ۱۹۵-۷۲۷۰۳۷۶ - حسین اور پرفیسر علی احد بھا گلپوری ۵۹۵ خدا انخش عرف موسن جی ۱۸۵ داؤد احمد، مرزا ۱۲۱ - ۲۳۷- ۳۳۵ حشمت الله خان حکیم ۱۹۲ خدیجه بیگم حشمت اللہ خان ، ڈاکٹر ۱۵۶ - ۱۸۴ خلیل احمد ۰۷۳۴۶۰۹ ۵۹۲ داؤد احمد عرفانی ، شیخ ۶۵۱ ۲۱۰ - ۴۳۸ - ۵۲۲ - ۵۲۳ - ۵۶۰ خلیل احمد اختر ۳۹۸ - ۳۹۹ - ۵۲ - ۶۶۴ - ۷۷۰ - -461 خلیل احمد انعام ۳۱۳ داؤ د سونگو 44.- 404 حضرت اللہ پاشا ستید ۲۳۰) خلیل احمد مونگیری حکیم ۰۸۳ حفیظ احمد ۹ ۳۵ - ۳۶۰ خلیل احمد ناصر چونڈی ۱ خلیل احمد ناصر ، چوری ۲۷۲۰۱۱۱-۳۸۱ ۰۹۱۸ خلیل احمد مونگیری حکیم ۲۸۲-۲۸۲ داود مظفر احمد شاه هستید ۲۲۸-۳۲۹ حفیظ اللہ، چوہدری حفیظ الہی ، شیخ حمدی ، ڈاکٹر حمید احمد خواجه حمید احمد خان 14.درد ، خواجہ میر خلیل الرحمن سیٹھی ۱۹۴ دوری، پروفیسر P&A ٢٠١ ۲۲۸ دوست محمد خان حجانه ۳۳۴ تا ۳۳۶ خلیل الرحمن شيخ خلیل حئی ۱۹ دوست محمد شاہد ۴۶۹ | خورشید احمد ، چوہدری ۱۸۳ | دوست محمد علاوالدین ۱۰ ۴۲۲
و ه لست احمد خان خادم دولت خان ۷۲۴ IAA را هم برائے ۹۸ رشید احمد ، قاضی رام سنگھ ، سردار ۳۲۲ رشید احمد، مرزا ۵۰۰ رشید احمد سرور دھر مانند سنگھ، سردار ۲۲۴۰-۴۲۵ رتن لال د میر، شهری 414 ۱۹۵ ۲۸۲ رجب الدین خلیفه ۵۹۰ رشید الدین ، پیر سائیں.جھنڈے والے دیوان سنگه مفتون ۹۷ - ۳۶۷ ۵۴۳۰ رحمانی بیگم ۰۵۴۴ دیورتن، پنڈت رحمت بی بی ۶۳۸ رحمت خان AAY ۶۶۵ ٥٩٢ رشید الدین ، چوہدری ۵۱۷۰۵۱۶۰۱۹۵ ۱۹۰ رشید رضا شیخ دین محمد ، ڈاکٹر حکیم ۱۸ رحمت خاں ، چوہدری دین محمد ، میاں ۱۸۹ رحمت رحمت الله حکیم، ربوہ دین محمد مالی دی بینگ، ڈاکٹر ۲۸۰ رحمت الله حکیم شیخ - کراچی رحمت اللہ ، ڈاکٹر TAN رشیده بیگم رشیدی صالح ۱۸۹ رضیه بیگم ۵۱۳ رضیہ سلطانه ڈانا تھا مس ۲۲۰ - ۲۲۱ رحمت الله شیخ ۲۰۹ - ۲۳۰ رضیه شفیع اسیده ڈانسن، ڈاکٹر - ۶۶۶ - ۶/۴ ۵۰۲ ڈبلیو کے ہے مین ، پروفیسر ۳۷۲ رحمت علی ، ڈاکٹر ڈ چیز آف کینٹ ۷۵۲ رحمت علی، مرزدا ڈرسکل، مسٹر رضیه صادق ۳۳۲ ۳۸۵ ۶۳۰ 619 ۵۷۴ ٥٠ رفیع احمد، مرزا ۱۹۵-۲۱۹۰۴۱۵ - ۷۳۵ - ۷۱۸ - ۴۹۵۳۰۴ ۳۷۵ رحمت علی ، مستری ۱۸۸ رفیق احمد ثاقب 646 ڈریوس، ڈاکٹر ۳۷۷ رحمت علی ، مولانا ۱۰۰ - ۱۰۱ روشن دین 140 ڈگلس ، کرنل ۴۳۸ - ۴۲۶ رحمت علی آف پیر و هیچی ۵۹۳۰۵۹۲ روشن علی ، علامہ حافظ ۲۹۲-۳۲۸-۳۳۰ علی - روٹی ، ڈاکٹر الیگنہ نڈر ۲۱۵ رحیم بخش چوہدری چنده - ۱۸۶ ۶۷۸ - ۶۸۴ - ڈی سی در ما ذکریا ، معلم ۲۸۲ رحیم بخش، شیخ ۵۹۱ ریاض احمد رحیم بخش ، میاں ۵۹۱ ریاض النبی زگی ولیدی طوگان ، ڈاکٹر ۲۶۰ رحیم مجابی زینی دحلان رز رادها کوشتن ، ڈاکٹر را شد احمد اله دین ۲۲۰ ریاض قدیر ڈاکٹر ۴۱۵ رستم علی ، چوہدری ۳۱۰ - ۶۲۷ ریورنڈ کے ایم ماتھن ۷۲۵ - ۲۸۶ رسول بخش ، ملک ۱۹۲ ریورنڈ منی سین رشدى الباكير السيوطي حيفا ۵۱ رشید احمد، ڈاکٹر زار ۳۲۲ ۳۲۲ 1+9 ۲۶ ۳۴۵
زاہد زایده پرون زمان شاه ، پیر ۷۱۸ سرور سلطانه ۲۰۸ سربندی که مجدد زمانی بیگم : 4^» ١١ - ٣٣٣ سمیع احمد ظفر سمیع اللہ ، مولوی ۵۹۲ ۷۲۰ - ۲۰ ۲۰۰ سندرسنگھ اسردار (سردار فضل حق) سرین سنگه ، مهرداد ۴۲۴ - ۴۲۵ *• * • * • /* = 4** – ORA زیب النساء بیگم ۲۵ سعادت احمد ، ملک ۴۹۵ سوتن هارون الرشید زیب النساء بہت ڈاکٹر پیر بخش ۲۹۰ سعد زید جنجه اشیخ ۳۸۸ سعد الدین تفتازانی ، علامه زین العابدین ، مولوی ۳۰۴ - ۳۰۵ سعد بن معاذان زین العابدین ابراہیم ۶۶۰ سعدی ، شیخ ۳۶ سوڈیرو ۱۶۷ سوئیکارنو ۴۹۹ سویم خانم ۳۵۴ ۴۱۵ زین العابدین ولی اللہ شاہ ، سید ۱۵۶ سعود احمد دہلوی ۱۸۵ - ۱۹۸ ۲۵۰۰ تا ۰۲۵۴ ۲۷۶ سعید احمد ، ڈاکٹر ۳۵۳ - ۳۵۴ - ۲۱۰ - ۵۱۸ - ۵۱۹ سعید احمد خان ، خان سعیده بیگم • زینب بیگم نسبت بھائی عبدالرحیم ۶۰۹ سعیده شمر زینب بیگم بنت سید سیف الله شاه دره سکینه بی بی 144 س پش سکینه بیایم سالم مولی ابی حذیفہ سلام الله ، مرتدا سانی ایم.اسے ۱۳۹۷ سلامت شاه ست نرائن کا تب سلطان علی ، شیخ 642 سی پی این سنگھ ، شهری ۳۹۹۰۳۹۸ سید احمد سید ۲۰۵ سید احمد ، مولوی ۳۲۸ ستید بخاری ۳۲۸ سیف الرحمن ، ملک А AAT 4.9 JA.-171 ۵۷۴ ۳۵۵ - ۵۱۴۲ - ۵۱۲ تا ۵۱۸ - ۰۵۴۹ ۲۹۳ سیف اللہ شاد ، ستید JAY ۶۲۱ - ۱۸۶ ۶۳ سیفی کا شمیری سینتی کمار چیسٹر جی، ڈاکٹر ۵۰۴ م شادی خان، میاں ۱۸۷ - ۵۰۹ شافعی با توه ٹیکمین، پروفیسر ۳۲۳ سلطان محمد شاه آغاخان ثالث ، امام شاه محمد ، سید ۲۱۵ تا ۲۱۸ - ۴۸۵ سراج الحق ، موادی سراج الحق نعمانی ، بیر سربلند خان ، چوہدری سردار علی خان مهرداد علی ،استید 4.F TAS 19.۲۹ تا ۷۳۱ ۴۸۰ - ۲۹۲ - ۴۹۵ - ۷۲۵ سلطان محمود غزنوی مد در شناه مبتیہ ، ڈاکٹر سليم الحالي، السید ۲۳۴ ۴۸۰۰ شاہ نواز خان ، ڈاکٹر ۴۷ - ۱۵۷ شاہ ولی الله - محدث دیوی ۲۷۸ - ۴۷۴ سلیم چشتی ۱۹۱ سلیمان منصور پور کی متقاضی سید ۲۲۸ شبلی کے علامہ سرفراز احمد بی.اسے ۷۲۰ | سلیمان ندردی استید ۶۷۴ | شبیر احمد ، چوہدری YA
۱۲ شبیر احمد ، خواجه ۰۴۷۳ - ۴۷۲ ۳۳۲ شرافت خان آف ارئیسه ۵۴۸ صلاح الدین، چوہدری شیر بہادر قیصرانی ، سردار ۳۲۱ صلاح الدین ، خلیفه شرف الدین ، میاں ۶۰۰ شیر علی ، مولانا شریف و ملازم) ۶۵۰ تیر محمد، بھائی شریف احمد ڈاکٹر ۱۹۴ شیر ولی خان ۲۶۳ صلاح الدین ابن جلال الدین نجم ۷۱۹ ۱۹۱ صلاح الدین ایم.اے ، ملک ۱۸۳-۲۸۲ شریف احمد، مرزا ۱۳-۲۹ - ۱۵۰ ص ض صلاح الدین خان – 416 - 4+0 - 144 - ۶۵۰۰ ۳۶۹۴۳۸ - ۲۱۰ 14A ۲۸۰ ۳۲۰ صابرہ بیگم ۳۵۰ صمصام الدین، مولوی سید شریف احمد امینی ۲۸۰ تا ۲۸۲ - ۲۲۱ صاحب دین ، شیخ ۱۳۶۰۱۳۵ صادقه بیگم صوبه بیگیم اہلیہ میاں فضل محمد ضرار، حضرت شعبان کرونڈے شعیب شیخ شفاعت علی خان ۳۸۸ PAY صالح b- b صالح بیگم ۳۱۳ طاہر احمد، مرزا خلیفہ مسیح الرابع Ar ۷۳۱ صالح فاطمه شفیع صالح محمد مرزا شکری القوتلی ، الستيد ۷۲۲ صالح محمد ، مولوی ۳۲۰ طاہر احمد ہاشمی شکیل احمد منیر ۱۱ صالح محمد الہ دین ۰ ۳۷۶-۳۷۵ - ۳۵۲ - ۳۵۰ - ۸۴ ۳۲۰ -451-459-476-414 - 014|144-147 ۴۷۵ ۳۳۸ طاہرہ بیگم طاهره نسرین فاروقی ۳۴۲ - ۴۷۶ (444-961 ۷۵۲ شمس الدین ، منشی ۲۵، صالح محمد فاضل شمس الدین خان ، خان ۱۸۱ صبغۃ اللہ، چوہدری ۶۲۵ طفیل مسیح ، پادری شمس تبریز ۲۲۱ صبیحہ خانم شمیم احمد، میجر ۴۲۸ صداقت بیگم شنکر داس مہرہ ، ڈاکٹر ۴۲۵ صدرالدین ، پرنس شورش کا شمیری ۳۶۵ - ۳۶۷ صدر الدین ، مولوی ۳۹۳۷ ۲۶۴ طیبہ جبیں ۶۵۱ ظاہر احمد ۴۳۵ 454 414 ۳۰ ظفر علی خال، مدیر زمینداره ۲۶۴ تا ۳۷۷ شرکت علی ، مولانا - 114 - 10 Li شوکت علی تھانوی ۵۸۳ | صدرالدین محسنی پونتو شہاب الدین ، خواجہ ۴۸۰ صدیق حسن خاں ، نواب شہاب الدین ، میاں 064 صفیہ بیگم ظفر احمد کپور تھلوی ، منشی ۲۴ ظل الرحمن بنگالی 411 ۶۵۴ 1.1 ظہور احمد، چوہدری ۵۱۰ - ۵۱۵ - ۷۲۴ ظہور احمد باجوہ ، چوہدری ۱۹۵-۴۹۵ شہاب الدین سہروردی ۲۲۱ - ۲۷۸ | صلاح الدین ، پیرزاده ۴۲۹ | ظهور القمر
ع عارف الزمان، میجر عائشہ 114 عبد الحق شیخ معاون ناظر ضیافت قادیان عبد الحئی.لاہور ۶۷۰ تا ۶۷۲ - ۶۸۵ عبدالحئی ، میاں ۳۰-۳۷-۳۲۶ عبد الحق منشی ۵۲۸ - ۵۲۹ - ۵۳۲ عبد الحی امیال - مبلغ ۱۹۶ - ۳۲۲ - ۵۴۹ ۶۲۷ عائشہ سیالکوٹ عائشہ - کماسی ۳۹۹ عبد الحق، مولوی عائشہ بیگم ۵۵۰ عبد الحق ، مولوی مبلغ چمبه - ۳۱۸ - ۴۱۶ - ۳۶۱ ۱۸۷ عبد الحمی ونگ کمانڈر PAI ۴۳۰ عبد الحئی پسر مولوی عبدالمغنی ۱۹۴ عائشه بگم ایلیه یوسف احمد اله دین عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا -۲۳ - ۱۲۲ عبد الحئی شاه رسید ۷۳۷۰۵۱۷۰۵۱۶ عائشہ بیگم بیت بھائی عبد الرحیم ۶۰۹ ۱۲۹ - ۱۸۰ تا ۱۸۳ - ۳۲۸ - ۴۸۶ - عبد الحمی عرب ، ستید عائشہ صدیقه به ام المومنین) عبد الحق خوش نویس ۱۹۳۰۱۸۴ عبد الحئی یاد گیر، سیٹھ عائشه محمودہ بیگم ^^ ۲۷۶ عبد الحق را مه ۱۲۱ - ۲۹۵ - ۵۳۸ عبد الخالق - مبلغ | عباد الله ، گیانی ۲۳۴ - ۲۸۲ ۱۳ ۲۸۵ 149 ١٩٦ عبد الخالق بهتر ۳۲۴ - ۲۶۲ - ۴۶۳ عبد الحکیم نیگیٹ، ڈاکٹر ۱۹۳ عبد الرحمن ، چوہدری عبد الحكيم العمل عباس محمد ، مستری ١٨٩ عبد عبد الاحد، مولوی ۴۱۵ عبد عبد الحكيم عامر عبد الباری ندوی عبد الباسط، ملک عبد الباقی بہاری ایم.اے 465 ۲۸۰ ۳۶۵ عبد الرحمن، چوہدری.ملتان عبد الحمید (مقدمہ مارٹن کلارک کا اہم عبدالرحمن ، حاجی کردار ۳۱۰ - ۴۴۴ عبدالرحمن - سجاده نشین عبد الحمید، بابو ۲۶۰ عبد الحمید ، ڈاکٹر ۱۸۵ عبد الرحمن ، شیخ ۲۲۹ عبد الرحمن ، قریشی میانوالی 474 JAY JAY ۲۹۸ JAK ۳۲۸ عبد الحمید راجه ١٩٨ - ٣٣٧ عبد الرحمن قریشی نمائندہ میسج ۲۵۵ عبد الرب للغاز عبد الجبار غزنوی عبد الجلیل ، حافظ ڈاکٹر ۱۸۸ عبد الحمید ، شیخ عبد الحسيب عبد الحفيظ كاتب ۲۵۵ 444 ont عبد الحمید ابن میان فصل محمد ۳۲۰ عبد الرحمن، میجر ڈاکٹر عبد الرحمن ابن میاں فضل محمد ۳۲۰ عبد الحمید چتائی ، ڈاکٹر.لاہور ۱۸۸ عبد الرحمن اللہ رکھا مدراسی بیٹھ ۲۲۸ عبد الحق، پادری ۳۲۲ - ۶۷۸ - ۶۷۹ | عبد الحمید خان کا ٹھنگڑھی -919 عبدالحق ، چوہدری عبد الحق ، ڈاکٹر ۱۹۲ ٢٢٩ - ٣١٩ ۱۹۲ عبد الحمید ڈاڈھا ۲۶ - ۱۲۰ - ۱۵۸ عبد الرحمن امرتسری شیخ ۶۲۹ عبد الحميد سالکین ۲۰۹ - ۲۱۰ عبد الرحمن الور ۵۵ - ۱۰۸- ۱۰۹ - ۲۱۰ عبد الحميد تشملدی، بابو - 019 IA4 عبد الحق شیخ.ڈرائیور ۲۱۱ عبد الحميد عاجز ، شیخ ۲۸۲ - ۷۲۰ | عبد الرحمن بن عوف 14A
۱۴ عبد الرحمن بن یامین ۴۱۱ عبد الرحیم ورد ایم.اے عبد الرحمن ٹھیکیدار ، خواجہ ۵۱۰-۵۱۳ عبد الرحیم دہلوی ، ڈاکٹر عبد الرحمن جیٹ ۱۱ - ۱۲ - ۲۱-۱۸۳ ۱۱ ۱۲۰ - ۲۱ - ۱۸۳ عبد الرحیم شاه ، استید عبد الرحیم عرفت پولا ، میاں ۶۰۷ - ۲۳۵۰۲۳۴ عبد الرحمن خادم ، ملک ۷۰-۸۰-۸۳ عبد الرحیم نیر ۱۵۹ - ۲۷۹ - ۱۸۷ - ۶۰۷ تا ۱۶ عبد الرزاق ، بابو ۵ - ۱۰۰ - ۱۰۱ عبد سمیع امروہی ، حافظ JAD (AF عبد سمیع کیوں تھلوی.ڈاکٹر ۱۸۲ - ۲۷۵ ۲۰۸ عبد عبد السميع نون ، میاں الشكوريت عبد الشکور کرے ۶۳ - ۶۳۲ عبد ١٩٠ عبد الحمد ، مرزا عبد الرحمن خان ، خان ۱۹ عبد الرزاق شاه استید بھنگہ ٢٠٨ عبد العزيز - میرٹھ عبد الرحمن خان نواب زاده میان ۳۱۵ عبدالرشید ، میاں - لاہور ۱۸۸ عبد العزیز ، چوہدری عبد العزیز حکیم ، شرق پور عبد الرحمن صدیقی ، ڈاکٹر ۱۸۱ - ۳۲۸ عبد الرشید بستیم ، چوہدری ) عبد الرحمن غزنوی عبدالرشید را نزی ۱۶۴ عبد الرشید شاہد ۱۹۹ عبد العزیز ، ماسٹر 43.43A 049 ۴۹۵ 141 ۴۱۸ عبد العزيز - مدرس - ایمن آباد ۵۰۹ عبد الرحمن فاضل ، مولوی - قادیان ۱۹۱ عبدالرشید غنی ۳۲۲ عبد العزیز ، مستری - ربوه JAY عبد الرحمن قادیانی بھائی ۷۲۲۰۳۲۲ عبدالرؤف، ڈاکٹر مرزا ۱۲ عبد العزیز ، مولوی گوید بود ۵۷۹ ۰۷۲۲ عبد الرؤف كاتب 444 عبد العزية اڑھتی 141 DAY 410 عبد الرحمن لدھیانوی ، قریشی - ۱۸۶ عبدالسبحان - مسانیاں ۳۱۷ عبد العزیز بین ڈاکٹر سید غلام فوت ۰۲ عبد الرحمن بیشتر، مولوی ۱۸۳-۲۶۹ عبد السلام وکیل اعلی ، ۱۲۱ - ۳۳۸ - ۵۱۵ | عبد العظیم درویش ، میاں ۲۸۳ عبد السلام ، پروفیسر سر ڈاکٹر ۳۷۳ عبد الغفار - حیدرآباد عبد الرحیم عبد الرحیم ، بھائی چوہدری ۵۹۸ تا ۶۰۸ ۳۷۴ - ۵۲۷ ۰۲۵۳ عبد الغفور صوفی عبد السلام رسید ۳۷۶ - ۵۷۵ عبد الغفور خان ، صوبیدار عبد الرحیم ، مولوی سید ۶۰۵ عبد الرحیم ، میاں ٥٩٥ عبد السلام ، مولوی رسید الرئیسیه ۶۵ عبد الغنی انبالوی ، بابو عبد الرحیم ، میان برا در منشی محبوب عالم عبد السلام، میان ۴۹ عبد القادر - سیلون عبد السلام ، مفتی ۵۶۹ - ۵۷۴ عبد الغنی شیخ - کمپالا عبد السلام ، میر 044-147 Y4F LA.٢٠ عبد القادر، پروفیسرسید ۲۲۰-۳۲۱ 14.عبد الرحیم ابن خلیفه نورالدین جمونی و د عبد السلام عمر ، میاں -۲-۶۶-۶۷ عبد القادر ، چوہدری - ملتان عبدالرحیم ابن میاں فضل محمد ۳۲۰ ۱۳۵ - ۳۲۲ تا ۳۲۷ عبد القادر مولانا شیخ ۱۵۶- ۴۷۶ عبد الرحیم پراچہ ، شیخ ۸۰۴ عبد السلام میڈیسین - ڈنمارک -۷۲۳-۷۲۲۰۵۵۰۷۳۷
10 عبد القادر شیخ محقق عیسائیت عبداللہ خان، نواب عبد القادر بن مصطفى المغربي ۳۵۲ - ۳۵۳ عبد اللطیف مولوی میبتغ کنده برای ۲۸۱ عبدالله خان او تک ، 19 عبد الماجد ، ملک ۳۱۵-۱۶۹ عبد القادر جیلانی استید ۲۰۸ عبد الطیف آف ٹوپی ، صاحبزاده ۲۲-۷۷۲ عبد الله فاضل مبلغ مالا مار ۲۸۰ - ۲۸۲ - ۲۸۴ عبد القدوس ، ڈاکٹر ۲۸-۲۹ - ۲۶ عبد اللطیف اوورسیئٹر، چوہدری ۱۲۱ عبد الماجد خان عبد اللطیف بیگم پوری ، چوہدی عبد القدیر درویش چوہدری 4.6 عبد القدیر شاید ۲۶۶ - ۳۹۷ - ۲۱۹ عبد اللطیف خال ۰۷۵۳۰ ۴۴۹ عبدالقیوم، خواجه عبد القيوم ، صوبیدار عبد الکریم ، ڈاکٹر مرزا ۲۱۰ عبد الماجد دریا بادی عبد اللطیف پریمی ۳۹۷-۳۱۹ عبد الماجد طاہر ۱۸۶ عبد اللطيف.وی میدان JAY FA عبد المالک، چوہدری.لاہور عبداللطیف ،شهید ، صاحبزاده ۲۸۷-۲۹۹ عبدالمالک ، شهزاده ۲۱۰ ، YA.۳۴۲ ۲ ۱۹۴ ۲۹۸ عبد المالک خان، مولانا ۲۳ - ۱۵۷ ۶۶۲ - ۱۹۸ ۳۱۲ - ۶۲۸ - ۳۱۲۹) عبد التحریم، ڈاکٹر ملتان ۱۸۲ عبد الله منشی عبد الکریم، خواجہ ۷۲۴ عبدالله ، مولوی 1044 عبد المجید، چو ہدی.کراچی عبد الکریم شیخ.لاہور عبد الكريم يعلم JAA 144 عبدالله اتم ۳۹۹ عبد الله ابوبكر 41A عبد المجيد، مرزا ، پشاور عبد المجید مولوی - کراچی عبد الکریم میاں برا دانشی محبوب عالم عبد اللہ الہ دین سیٹھ ۲۳۶-۲۸۵ عبد المجید، میاں گجرات عالم الدین ۰۷۶۹ - ۶۸۴ - ۶۵۸ - ۶۵۱ ۶۳۸.عبد الکریم میں.لاہور ۳۳۳ عبد اللہ پر اسے.مولوی عبدالمجید خان ، ڈاکٹر ۴۲۲ عبد المجید خورشید استید ۴۳۴ ۲۱۰ 14A ٥٩١ 141 عبد الكريم مسلمی ۱۹۴ عبدالله بن ابی بن سلول ۳۳ - ۴۶ - ۷۲ عبد المجید سالک ۱۰۹۰۱۰۸- ۳۴۶ عبد الكريم خالد ۲۱ ۲۲۰ عبد الله بن سبا ۱۲ - ۵۶ - ۱۳۳ عبد الحمی عرب ستید عبد الكريم سیالکونی ۵۵۸۰۳۰۹ - ۶ ۵ عبد الله بن عمر رض عمر رضا عبد اللہ بن عیسی ۱۶۰ عبد المنان ، مولوی ۲۹۲ ۲۱۱ - م عبد المغنی خان جہلم ۱۸۲-۱۸۹ ۶۰۵ - ۶۱۲ - ۶۲۷ - ۶۲۸ - ۶۴۲ عبدالله جان ، مرزا ۵۵ - ۲۰۸ - ۲۱۰ عبد المغنی خاں - مولوی ۶۸۴۰۶۵۸ - ۶۵۷ عبدالکریم شرما عبد الکریم کاتب عبد اللہ حجام، میاں عبد المنان ۶۲۵ - ۶۲۱ ۱ - ۲۱۹ عبد اللہ خان، چوہد کی ۱۵۷ - ۱۶۳ - ۱۲۴ عبد المنان عمر امسال ۱۱۰۱۰ - ۱۴ - ۱۰ تا - ۴۳۱ - ۴۴۹ ۷۶۹ ، - ۱ - ۲۴ تا ۲۶-۶۸۰۲۵۰۴۶-۷ تا عبد اللطیف چوہدری ۱۹۵ عبد الله خان چوہدری قلعه صو با سنگھ ۱۹۳ | ۷۹ -۹۳-۱۰۴ - ۱۰۵ - ۱۱۱ تا ۱۳۲ ۲۷۵ -
(AD ۱۹۲ 14F 064 141 ۲۳ 141 14 ۱۳۵ تا ۱۳۷-۱۵۲۰۱۵۰ - ۱۵۸ عزیز احمد ، مرزا ۷۶ - ۱۲۱ - ۱۷۹ - ۱۸۶ عطاء محمد ، ماسٹر نہ توہ عطاء محمد مولوی - جمال پور هز نیز احمد ، ملک ۴۱۵ - ۴۱۷ - ۴۹۵ خطاء محمد ، مولوی - راولپنڈی - GTX - Faq · fat – 344 | 14P″ – 14P-190-191 - 100 ۱۹۲ -64000.عبید انسان کا ٹھگڑ بھی چو ہدی.عبد المنان نامید عطاء محمد گوہد پور - عبد الواحد ، مولوی ۴۱۵ - ۹۷۱ - ۶۷۲ عزیز الدین ، چندی گجرات ۱۹۴ عطاء محمد مینگوی جڑانوالہ عبد الواحد غزنوی ، مولوی - ۵ عزیز الدین زرگر - لاہور ۱۸۸ عطام محمد شگلی عبد الواسع عمر میاں ۲۶ - ۷۷ - ۱۹ عزیز الرحمن، ملک ۰۳۲۸ 46 ۱۲۰ عطر دین درویش ، ڈاکٹر شکریہ عبد الوهاب الشيخ عزیز الرحمن سنگلار ۴۳۲ عزیزه بیگم ۱۳ - ۱۲ علائی ، شیخ ۶۲۵ علم الدین ، ڈاکٹر عبدالوہاب نمائندہ ٹروتھ ۳۵۵ عصمت اللہ چودی عبد الوہاب مرز میاں ۲ تا ۵ ۱۰۰۰۰ تا عطاء الرحمن - سابق وزیر اعلی مشرقی پاکستان علم دین بستری.ربوہ ۲۷ - ۳۴-۲١٢-١٠١٤٠١٢٠١٤ ۳۶-۲۹- ۳۸ ۴۳۰ - ۲۹ تا ۵۳ - ۵۵ عطاء الرحمن راحت ۶۲۰۶۰ ۲۲۰ تا ۲۶ - ۸۳-۱۰۸۰۱۰۵ تا عطاء الرحمن ، ملک ۲۲۱ 041 JAY ۴۶۳ علوی بن طاهر بن الحداد ۴۰۹ - ۴۱۲ علی احمد، ٹھیکیدار ربوه ۱۸۵ علی احمد بھاگلپوری، پروفیسر ۴ ۵۹ - ۵۹۵ ۱۳ - ۱۲۰ - ۱۲۳ - ۱۳۱ - ۱۳۲- ۱۳۶ - عطاء الرحمن ،فاضل، قریشی ۱۸۱۷-۱۹۳ علی حیدر، ملک.دوالمیال 149 400 17-06-04-07 JAY ۴۰۴ PAY ۴۰۴ 489-004 444-901 عطاء الرحیم حامد ۱۹۵ عطاء الکریم شاہک علی خان ، پرنس ملی.کوٹو کوم عطاء اللہ ، چو ہدری ۱۸۲ علی کرم اللہ وجیه 444-YA+ 1A4 عبید الرحمن فانی عبید الله خواجه - به یوه عبید الله را نجها حکیم عطاء اللہ ، ملک گجرات ۲۲۷ تا ۶۳۰ ۸۵ - ۱۱۷ - ۱۵۸ - A عطاء اللہ بہر ۱۹۳ علی گوہر ربود عثمان عمر، میاں عثمان غنی انه ۱۳-۲۲ تا ۱۱۷۰۵۷۰۲۴ عطاء اللہ ابن چوہدری اللہ بخش ۶۲۱ علی انور، مولوی - 004 - 184 على روجرز، سید..۵ تا ۵۰۲ عطاء اللہ ایڈووکیٹ ، میاں ۱۸۳ علی کلونها، شیخ عثمان بن ملعون ۵۰۰ عجب خان ، تحصیلدار زیدہ ۶۲۸ عطاء اللہ ایم.اے ، قاضی عزیز عطاء اللہ کلیم ۳۵۱ عطاءان ۱۳۴ علی مانسہری ۱۹۲ علی محمد، راجہ عزیز احمد چودی با میرحید آباد ۴۲۹۰۱۸ اعطاء المجیب را شد ۷۲۷ علی محمد ، سیٹھ
14 علی محمد اجمیری علی محمد الدین سیٹھ غ غزالی ، امام ۵۵۳ - ۵۵۰ - ۵۵۸ تا ۰۵۷۵ ۵۶۹ تا ۵۸۵۰۵۸۱ - ۵۸۰ - ۵۷۸ - ۵۷۴ ۲۷۸ علی محمد بی.اسے.بیٹی ماسٹر ۱۸۶ غضنفر علی خان، راجہ ۷۸۱ ۵۹۴ - ۶۰۰ -۶۰۱ تا ۲۰۸ ۲۱۰۰ تا ۶۱۹ علی محمد سولوی ۳۱۷ غلام احمد، حاجی علی محمد گوندل ، چوہدری ۱۹۱ غلام احمد ایم.اسے ، مرندا علی ہاشمی استید ۳۱۴ - ۳۲۰ ۶۲۴ تا ۶۲۸ - ۶۳۱ تا ۶۳۵ - ۶۳۷ - ۶۲۹۵۱۷ - ۶۴۱ تا ۶۴۵ - ۶۴۰ - ۱۹ غلام احمد بد و مهدوی ۱۹۸-۷۱۴۰۳۷۵ ۶۵۲ - ۶۵۳ - ۲۶۴ تا ۶۰۴ عمر ابن الخطاب ۱۱۷۰۸۴ - ۱۴۲ ۷۲۴ - ۷۲۶ - - 40- -444- - غلام احمد حفیظ عمر الدین ، چوہدری.لاہور ۱۸۹ غلام احمد شاه عمر الدین ، ڈاکٹر 091 غلام احمد عطاء غلام احمد نسیم 144 غلام اللہ ، ڈاکٹر چوہدری ۲۰۰ تا ۲۱-۲۱۲ ۴۲۹ غلام باری سیف ۴۱۹ غلام جیلانی ، منشی Ary عمر بن معدي كرب عمر دین شعلوی ، مولوی همرعلی غلام احمد مترخ غلام احمد قادیانی مرزا مسیح مود علیه اسلام غلام حسن ، مهر ۳۰۰۲-۱۱۹۰ - ۲۲ ۳۰۰ تا ۴۵۰۳۹-۲۹ غلام حسین، چوہدری عنایت اللہ ، چوہدری.بہلولپور ۱۸۷ تا ۵۲ - ۵۵ - ۵۷ تا ۲۰ - ۷۳ - ۶۴۲ - ۲۸ غلام حسین، چوہدری.حویلیاں - ١٩٩ - ٣٨٥ ٩١٠١-١٠٤٠١٤۰۰۸۲۰۷۵۰ ۷۴ ۱۹۲ الم ۲۲ عنایت اللہ چو ہدی مبلغ تنزانیہ - ۶۱۷ ۱۱۷ - ۱۳۸ - ۱۴۳ تا ۱۴۷ ۱۵۰۰ تا ۱۵۲ غلام حسین شیخ - لاہور انوي - ۲۲۲ تا ۷۲۵-۷۵۰ - ۱۵۹ تا ۱۶۲ - ۱۲۹ ۱۷۰۰-۱۷۰-۱۹۳ غلام حسین ایاز عنایت اللہ مفتی ۵۵۸ ۲۰۱۴ - ۲۲۵ - ۲۲۸ - ۰۲۳۲ ۲۳۸ تا غلام حسین رہتاسی عنایت اللہ خلیل ۱۹۵ - ۳۸۴ - ۲۲۱ - ۲۲۴ - ۲۳۵ - ۲۲۲۰۲۲۹۰۲۲۸ غلام حمد ، قاری عنایت اللہ شاہ ، ڈاکٹر ۷۰۹ ۲۷۵ - ۲۶۰ - ۲۷۸ - ۲۰۸ تا ۲۹۳۰۲۹۱ غلام حیدر ، بھائی عنایت اللہ ولد محبوب عالم ۵۰۷ ۲۹۸-۳۰۵ تا ۳۰۹۰۳۰۰ تا ۳۲۲-۳۲۲ غلام حیدر ہیڈ کلرک کرنل ڈگلس ۴۲۴۳ نا تا ۲۰۰ ۳۳۷ - ۲۳۸ - ۳۳۹ - ۳۶۳۰۲۵۵۰۳۴۵ غلام حیدر تحصی دار حضرت عیسی علیه السلام ۳۰۵۰ ۱۲۴۰۱۴۳-۵۷ ۳۷۴ - ۳۶۷ ۳۰۰۰ ۴۰۶۰۳۷۱۰ ۲۰۰۰ غلام حیدر، راجہ ، جبکہ ۱۳۸ - ۱۵۴ - ۲۱۵ - ۲۳۹ تا ۲۴۱ ۲۰۰ ۴۱۳ ۴۱۴۰ - ۴۲۲۲ ۲۲۳۰ - ۲۳۸ تا غلام حیدربی اسے بی ٹی ۶۲۰ ۲۲۵ ۲۵۳۰ - ۲۶۱ - ۳۰۹۰۲۷۵ غلام دستگیر قصوری ۲۵۰۵۲۵۰۵۲۰۰۵۱۹۰۵۱۳۰۴۹۷ د اعلام رسول، صوبیدار عنایت بگیم - ۵۵۸ - ۲۹۰ - ۴۲۷ - ۳۹۹ •.۶۲۸ ۵۱۲ ۶۳۹ VI..F.L
IA تمام رینول مولوی قلعے والے ۲۰۲۰ اعلام محمد فیس آباد یک پیش غلام رسول ، مولوی - چانگریاں ۵۹۵ غلام محمد، چوہدری - 044-049 1141 Air فتح الدین ، مولوی - دھرم کوث فتح دین ، تو ہڈی بیکٹ ضلع خیر لویه غلام محمد خان بہادر - گلگت فتح علی ، چوہدری.بچہ نہ ۱۹۳ فتح علی شاه ، ستید ، غلام میسون ، مولوی سید منون گره ۶۷۵ غلام محمد صوفی غلام رسول ، میاں ڈیرہ غازیخان -001 [084 غل اهم محمد ، ماسٹر PA فتح محمد السلم 716 A غلام محمد، ملک گورنر جنرل پاکستان ۳۳۴ فتح محمد سیال ایم.اسے ۱۲۱ - ۱۵۶ ۲۳۸۳ غلام میسول افغان ۲۹۳ غلام محمد، مولوی غلام رسول باورچی، امرتسر 068 غلام محمد راجپوت تعلام رسول پینتیس ۲۰۰۳۵ - ۷۸ غلام محمد زرگر سیالکوٹ - 10A - • • 1*4 غلام رسول و زیرآبادی ، حافظ 041 ۰۴۴۶۲۹۳-۲۳۹۲ ۱۹۲ فرخ مبشرات TAX ۵۹۲ فخر الاسلام ، سید اور میٹر ۱۹۱-۵۸۹ غلام محمد کا ٹھگڑی غلام محمد ناصر شیخ ۱۹۰ فخر الدین کاتب 444 14 ۲۴۱۰ فرید احمد مرزا فرید الدین گنج شکر غلام سرور خان - بالا کوٹ غلام محی الدین ، قریشی غلام سرور خان درانی - مردان ۳۱۰ غلام مرتضی، مریدا ۶۳۵ فرزند علی خان غلام غوث ، ڈاکٹر سید داد تا ۵۰۰ غلام مصطفی، ڈاکٹر ۲۱۰ - ۳۶۵ فشر جان سٹیون وید تا ۵۸۱ - ۵۹۵ - ۶۵۳ غلام مهدی ناصر، مولوی سید ۲۸۰ فضل، ڈاکٹر کوسٹر ڈاکٹرسید غلام غوث ، میاں غلام غوث جھونی، میاں غلام فرید ، ملک غلام قادر، چوہدری اوکاڑہ غلام قادر - لاہور غلام قادر - مولوی • JA غلام نبی ، ملک ۱۹۶ - ۴۱۸ - ۷۵۷ فضل احمد چوہدی (نائب ناظم تعلیم) 459114 001-14A JA فضل احمد چویدری غلام نبی مری ، مولوی ۲۹۰ تا ۲۹۷ فضل احمد، چوہدری امیر حیم یارخان غلام نبی، مولوی مبلغ انبیٹہ + A+ م ۵۱۰ ۲۹ فس احمد شیخ - دیوه ۱۸۶ ۲۹۲۰-۲۹۳ غلام نبی بانوی، خواجہ ، ایڈیٹر الفضل ۲ فضل الدین ، بابو فضل الدین وکیل، مولوی ۵۱۳ - ۵١١ غلام قادر شرقی 44.غلام نبی گھوگھیاٹ ، ملک غلام محمد اختر ۱۳۹ - ۲۱۰ - ۲۱۱ - ۲۳۰ غلام یاسین چوہدری - ۲۲ - ۲۲۰ ۲۹۵۰ ۴۸۲۰۴۳۸ غلام محمد بابا - قادیان غلام محمد باڈی گارڈ ۱۹۲ 144 فضل الہی بھائی فضل الہی دکمپانی فضل النبي ابن مولوی رحمت علی ۳۸۸ 40.۵۹۴ 14 فاروق عمر، میاں KYA فضل الهی انوری ۱۹۶ - ۲۱۹ - ۷۵۳ ۲۱۱ فائمہ برین، ڈاکٹر ٣٠٧ فضل الہی بشیر 144
14° فضل الہی بھیروی فضل حسین ، مهاشه 414-4+8 DIA فیض احمد، مولوی مبلغ تیما پور ۲۸۰ کر لینڈن فیض الحسن سید ۳۴۷ کرم اپنی مولوی شاہدده فضل حق خان، سرداره ۴۲۲ فیض الرحمن فینسی ، ملک ۶۲۱ فضل دین، جمعدار فیض بی بی فضل دین ، چوہدری ق فضل دین ، ڈاکٹر ۶۲۲ قاسم ، مسٹر فضل ،دین ، مولوی بهار ۲۸۰-۲۸۲ قاسم، سیرالیون فضل دین ، مولوی.ربوہ فضل شاه رستید فضل على غنی.وکیل ۱۸۵ کرم الہی ، ڈاکٹر قاضی 141 ۶۱۸ ٥٥٨ کرم الہی ابن مولوی رحمت علی ۵۹۳ الہی کرم اپنی ظفر ۱۹۶ - ۲۸۸ - ۷۲۲ ۳۸۷ کرم دبین بهین ، مولوی ۵۷۷ - ۵۹۶ ۶۴۹ ۶۲۸ ۴۰۴ - ۴۰۳ TAY قائم الدین، بابور سیالکوٹ - ۵۰۸ تا ۰۵۱۳ - IAC 004 ۱۱۹ قاسم علی، میر کریم آغا خان ، پرنس کریم الدین ۱۳ کریم بخش ، میاں چونڈہ فضل عمر، مولوی سید ارلیس ۲۸۰ قدرت الله ، حافظ ۱۹۷ - ۳۷۷ - ۳۷۸ کریم بخش بنگری ۱۹۶-۳۷۷ فضل کریم ابن ڈاکٹر سید غلام غوث ۵۸۲ ۰۴۱۸ - ۳۸۰ ۵۸۲ کریم بیابی ۴۲۵ ۲۸۸ ٣٢٠ فضل کریم برادر کردم این نظر ۲۸۹ قدرت الله سنوری فضل کریم پیاچه ۱۸۴ نظیم الرحمن شيخ - اریون ۴- قدسیه بنت چوہدری عبد الحمید ۵۵۰۰۴۰۰ کلیم احمد ۴۴۵ کلیمنٹ ریگ، پروفیسر ۳۳ A40 فضل محمد، میاں ۲۱ تا ۳۱۸ قطب الدین، مستری فضل محمد خان شهلوی م قطب الدین، مہر - له یوه ۱۸۴ کمال شناسی حسن سی بر کے بھائی ۲۶۰ فضیل عیاض احمد ۲۰، قطب الدین بختیار ٢٤٨ کمال الدین ، خواجہ ۱۰۵-۱۵۹ - ۵۲۵ فقیهه الله ، چوہدری ۶۲۵ | قمر الدین، مولوی ۱۹۳ - ۷۱۴ کمال یوسف سید ۱۹۶-۴۱۸ قمر داؤ د کھوکھر IAA فقیر اللہ ، ماسٹر.لاہور فقیراللہ مینگری (ساہی ال) گنج بهاری لال ۱۹۰ قمر سلیمان استید میر ۳۲۸ کنگ ، مسٹر فقیر علی، بالود ۶۲۰ قیصر شہنشاہ روم ۲۹۹ کنیز احمد ۳۳۲ قرادیو ، حاجی ک کوامی نکروما ، ڈاکٹر ہے تم نهم فوڈ سے کاٹے فیروز الدین شیخ ۶۴۰۰۶۳۹ کانڈ سے بورے ۲۰۱ کالی داس ناگ ، ڈاکٹر ۲۶۰۷۲۵، کوثر تسنیم کوثر وسیم فیروز محی الدین قریشی ۱۹۶-۲۱۹ کانسی رام چاولہ.لدھیانہ ۲۳۴ کو کیپ امتہ الکریم کب فیض احمد، پیر ۱۹۱ کپو، اگر ایل ۵۲۷ کوکر، چیف [44 -7 44 A ۵۹۲ ۳۳۸ ۴۰۱
کو مونٹ جورڈین ۳۷۵ لطف الرحمن ، مرزا کونٹ ٹالسٹائی کے کے وریکا گانا کے وی کرشن گاندھی امہا تھا ۵۶۳ لطف الرحمن درد ۷۲۰ لطیف احمد ۲۸۴ لطیف احمد غزنوی ۷۳۱ لعل دین، ڈاکٹر گل احمد خان کو شمر ، مرد الله ۶۸۱ لقمان شاه استید بنگلہ گل حسن کیپٹن ڈاکٹر گلزار بیگم ۲۹۰ نکھا سنگھر، سرواله ۶۲۵ نوئیں ، ڈاکٹر ۱۹۶ مبارک احمد، مرزدا ۰ ۴۶۷ - ۶۱ - ۲۶۵ ۰۳۹۵ - ۳۸۹ - ۴۸۸ - ۴۸۶ - ۴۰۵ ۳۶ ۰۷۴۷ - ۴۱ - ۰۲۲ - ۵۱۲ - ۵۱۴۱۵۴۰ -2005r1 68.Y-A مبارک احمد ، ملک مبارک علی مولوی ۲۸۰ - ۲۸۲ - ۴۲۱ ۲۲۰ مبارک احمد خان امین آبادی ، ملک A + - 4 11 - P•Y - Pia|pal گلزاری لال نندا، شهری ۲۸۶ لئیق احمد طاہر گل محمد آف در بتناسی ۵۸۲ لیکھرام ، پنڈت ،، مبارک احمد ساقی ۱۹۷ - ۳۹۵ - -642 446-408 گور دیال سنگر با خود ۲۸۴۰۲۳۴ بیمار چنڈ ۴۲۴ - ۴۲۵ مبارک علی خادمی گور دیال سنگھ ڈھلوں ۴۲۵ لینن ۳۲۷) سیار که بیگم هستیده نواب گورکھ ناتھ ، پنڈت گور کو سنگر مسافر، گیانی ۴۲۴ ۳۲۷ - ۳۲۹ - ۳۱۵ ۲۸۲ سا تھیو ما بود ۳۸۰ تا ۲۹۲ مبار که میگیم بنت غلام نبی بانوی ۲۲۲ گومینوں گیڈ کل، شری گھیر سنگھ جی بیرا، سردار ۳۵۴ مارین کلارک ٣١٠ مبار که بیگم بنت مہر غلام حسن لم أعلم YAY YAY مارگنون ، اسے جی ل عالم ابوبكر تضا والجيوا لا بود سنگر فخر ا گیانی ۴۲۵ ماھیگو ، لارڈ لاڈے، شیخ ۲۸۳ مانسہرے مانہ گائے ، ڈاکٹر ایم اے ایس 69 مبارکہ شرکت ۳۴۴ مباشر احمد خان ۷۴۰ مبشرہ بیگم مٹو کو کہیا YA MAA لال جی دال جی سیٹھ ۲۲ مائی دادی ས་ مجدوب ، پروفیسر ۲۰۲ مجیب الرحمن دره لال حسین اختر 4.مبارک احمد، چوہدری ۱۹۳ مجید احمد ، خواجه rrr لال دین چونڈہ ۱۸۷ مبارک احمد، حافظ ۱۹۲ مجید احمد، مرنا ۳۹۹ - ۲۵۵ - ۵۲ ، لائٹ گیر، ڈاکٹر ۲۹۹ مبارک احمد شیخ ۱۹۹-۳۸۵۰۳۸۳ ۵۵ ه - لمصورام نیز ۰۷۴۹۰۷۴۲ ۶۲۷ مجیدہ طاہرہ الم العالم لبيد شاعر ۵۰۰ ۵۰۰۰ مبارک احمد، قاضی ۲۰۰۳ - ۴۰۴ - ۷۶۱ محب الرحمن شیخ ا IAM
محبوب در بانی محبوب عالم ۲۱ -644-68A-404-407-401 [MY+ محمد احمد نظام.ربوہ ٣٠٠ ٢٠١٠ محمد چیف رئیس اڈانسی ۳۹۸ محمد اختر ۴۹۵ - ۳۱۳ H محبوب عالم ، قاضی ۳۰۵ - ۳۰۶ محمد ، حافظ ملک - ربوہ ۱۸۲ محمد اسحاق ، صوفی محبوب علی بنشی ۶۳۸ - ۶۲۰ - ۶۴۱ محمد ، مولوی.ڈھاکہ ۱ ۱۸ محمد اسحاق ، مدیر الاعتصام 676-199 ٢٠٢ محمد ابراہیم بشیر آباد اسٹیٹ ۱۹۰ محمد اسحاق امیر ۶۱ - ۳۲۸-۳۲۱۰۲۲۰ محسن خان، مولوی محفوظ الحق علمی ۲۰ محمد محمد ابراہیم حکیم محکم دین ۲۹۰ محمد ابراہیم.گوہد پور مختار احمد چوہدری ۷۲۲ مختار احمد ، چوہدری.لاہور ۱۸۸ محمد ابراهیم، مولوی مختار احمد بٹ - 414 146 044 محمد اسلم ، قریشی رشہید ٹرینیڈاڈ) ۷۲۷ محمد ابراہیم بنشی.لاہور ۱ محمد اسلم ایم.اسے پروفیسر قاضی ۱۳۴ ۵۱۳۰ – 486 × 2 × × - 444 - 464–41A - DIT YAY ۱۵ ۲۳ محمد ابراهیم ، مولوی مبلغ کمپالہ محمداسلم خان آفریدی ، خان مختار احمد شاہجہانپوری ، حافظ سید محمد ابراہیم ، میاں MIA-IAN−61–4- محمد ابراہیم بقا پوری حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۱۰۳ ۳۳ - ۴۱۰۲۹ محمد ابراهیم فیل ٥٩٠ محمد اسمعیل چوہدری 410- ۴۱۹ محمد اکلیل حکیم ۴۱۹ محمد اسمعیل حکیم ، سرگودها ۲۲ تا ۶ ۲ - ۵۱ - ۵۵ - ۵۰ تا ۸۷۰۸۲۰۲۰ محمد ابراہیم سیالکوٹی ، میر ۱۵ محمد امیل، خواجہ بمبئی محمد ابراهیم فاضل مولوی - قادیان ۱۸۳ { P*? M = }} & = {} % - 4 4 - 41 - 4 + - AA محمد ابراہیم ناصر 14 A ۱۴۲ تا ۱۴۴ ۱۴۷ ۱۴۸ ۱۹۰۰ ۰ محمد ابو الوفاء ، مولوی ۲۸۳۰۲۸۳ • ۲۱۸ ۲۲۰۰ ۲۲۱ - ۲۲۸ تا ۲۳۹۰۲۳۰ محمد اور ایس، مرزا تا ۲۴۲ - ۲۴۹-۲۶۷-۲۷۲۰۲۷۰ محمد اجمل شاہد ۲۰۹۰۲۷۸۰۲۷۰۲۵۴ ۳۴۰-۳۰۰۰ محمد حسن امروہی • 146 محمد اسمعیل ، ڈاکٹر 14.۱۹۲ FAI محمد اسٹیل سیٹھ محمد تکمیل ، قریشی ۵۲۸ - ۵۲۴ - ۵۴۸ ۱۰۰ - ۱۰۱ محمد المفصیل ، مرزا ۵۵۴ محمد محمد کمیل پانی پتی میشیخ ۲۵۰۰۱۵۷ ۲۲۳۰۳۹۰۰۳۸۹۰۳۷۱-۳۶۳۰۳۲۹) محمداحمد، ڈاکٹر مولوی ۴۶۸ ۲۰۰۰ محمد اسمعیل خالد ۴۶۵ - ۴۶۴۰۴۶۲ - ۲۵۰۰ ۲۴ ۲ محمد احمد سید DAY محمد آلکیل دیا تگڑھی ۲۵۱۰۲۵۰۰ ۴۲۹ ۱۴ ۲۸۲ - ۲۰۰۰۲۹۴۰۲۸۳ تا ۵۰۰ محمد احمد استی ابن میر محمد امیل ۱۹۴ محمد امیل شهید استید ۵۰۲ تا ۵۰۴ ۵۰۰۰۵۶۳۰ - ۵۰۹ محمد احمد ثاقب ۱۵۷ - ۵۱۵ - ۵۱۸ محمد السلمین غزنوی ۴ - ۱۲ تا ۱۳ - ۱۲۵ ۱۲۰ تا ۵۸۱ - ۵۹۱ - ۹۱۸ - ۶۱۹ ۲۲۷۰ - ۶۳۵ | محمد احمد خال ، نواب • ۰۱۶۴ - ۱۲۳ ۲۲ 417-417+6+P+ 6 × × × × × 6 - 440 محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ شیخ ۱۱۹ - ۱۰۰ محمد اسٹیل کشکی - ۷۷۲- ۱۸۲ ۱۷۴۰۰۷۳۵۰۷۳۳۰۷۲۸ - ۰۲۷ - ۲۴ محمد الخیل رائپوری شیخ YAD 410
۲۲ محمد اسمعیل منیر ۱۹۷ ۲۰۰۰ محمد ایوب ، مولوی مبلغ بعد رواه محمد اسمعیل وکیل یادگیر.[FAQ - YAN - PAY YAL محمد حسین شیخ چنیوٹ محمد ایوب ، مولوی مبلغ سماٹرا ۴۱۵ محمد حسین رشیخ.لاہور ۲۲۲ - ۵۴۰ - ۶۵۱ - ۷۷۰-۷۷۸-۶۶۴ محمد ایوب مخدوم محمد اشرف محمد اشرف ، مرزا محمد اشرف خاں عطاء محمد اشرف ناصر ۶۲۸ ۲۲۹ 4PF محمد حسین ، شیخ سمن آباد.لاہور محمد ایوب مخدوم جگہ گھیات [14 ر حسین ، شیخ عزیز روڈ ، لاہور رنده ۱۸۲ محمد حسین ، مرزا - ریوه JAM 149 IAA IAA محمد بخش ایڈووکیٹ میر ۱۸۲ محمد حسین ، مولوی سبز چیچڑی والے ۱۸۵ محمد بخیش بٹالوی ،میاں ۴۴۳۳ ۴۴۳ محمد اظہر الدین ۳۶۲ محمد بسیونی - مصر ۳ محمد حسین ،میاں.کوٹ ڈسکہ JAK محمد افضل ، بابو - ایڈیٹر البدر ۵۶۴ محمد بشیر سیرالیون ۲۰۴ محمد حسین ، میاں مالو کے بھگت ۱۸۸.-064-04A - ÓGY محمد بشیر احمد ، الحاج ۱۸۲ محمد حسین بٹالوی محمد افضل قریشی ۱۹۶-۴۱۹۰۳۹۸ محمد بشیر شاد محمد افضل او جلوی - لامبور محمد افضل پٹیالوی ، چوہدری محمد اقبال شیخ محمد اقبال شاہ ، سید 144 ۲۱۰ - ۲۰۸ ۴۴۴۲۰۳۴۸ محمد حسین چیچه ای دوست ، چوہدری محمد بشیر شاه درستید.بنگلہ محمد حسین چیمہ ، کیپٹن ٠٢١١ 1^4 147 تا ۱۰ محمد بوٹا محمد اکبر خان میجر جنرل ۵۰۵ ۵۰۰۰ محمد بوٹے خان.ربوہ ۵۷۶ محمد ہونگے محمد حفیظ فاضل بقا پوری ۴۳۰ محمد حنیف اشیخ.کوئٹ ۱۸۶ محمد حیات تاثیر ١٣٠ ۲۱۰ JAJ 371-74 ۲۰۳ محمد حیات ، سرندا - رفیق حیات ۵۱۳ محمد اکرام پیشیخ محمد الکریم خان ، شاہ جی ۳۲۴ محمد بریل.کنڈیارو ۱۹۲ محمد خان ایڈووکیٹ ، رانا محمد اکرم دا توی منشی میر ۲۹۸ محمد بیران ۲۸۳ محمد دین Ar محمد الدین حکیم ۲۸۰ - ۴۲۱-۲۸۲ محمد تو ہے ، الحاج ۴۰۴ محمد دین ، ڈاکٹر بھلوال محمد الدین ، ڈاکٹر، چکوال ۴۷۶ ۵۵۰۰ محمد جعفر کا تب ۱۹۲ ۷۶۹ محمد دین ، مولوی ۱۲۱-۱۸۵-۵۱۰ - ۵۱۱ ۲۵۹ - ۲۶۵ محمد دین فوق محمد جی ، مولوی - ریده ۱۸۵-۲۹۸ محمد ذکریا ، مولوی محمد الدین ، میاں ۰۹۱ محمد جلال شمس محمد الرداد - ریو ۱۸۵ محمد امین ، خواجہ ۱۰ محمد حتی ، ڈاکٹر ۶۴۹ A ۴۱۵ محمد رشیدی الحاج ڈاکٹر ۲۸۴ - ۲۸۶ - ۴۹۴ محمد امین ، میاں ۵۱۳ محمد حسن چیمہ ، حافظ ۱۵۶۰۱۰۳-۱۵۹ محمد رنسین ، صوفی بسکھر محمد انور حسین ،چو ہدری ۱۸۲-۱۱۹ محمد حسین ، حافظ - ڈنگوری ۵۷۹ محمد رمضان شیخ محمد ایوب.اے ڈی ایم ۲۸ در محمد حسین ہیٹھ - جنت گنٹہ ، محمد زبیر، ڈاکٹر 14.-IAI VAL PAY
محمد نه مان خان آف یوری محمد زمان خان بالا کوٹ محمد زیدی ، مولوی دام.٢١٠ 714- محمد شفیع ، میاں ۲۳ محمد صدیق مشکلی ۲۵ تا ۲۹ ۲۳۵ محمد طفیل ، شیخ محمد شفیع استم، ماسٹر محمد شفیع انجنیر ، چوندی ۱۸۵ محمد طفیل ، ملک 000 - FI محمد سر در شاه رسید ۲۵۸۰۳۹۲-۵۵۴ محمد شفیع نشار ، ڈاکٹر ۱۴ محمد طفیل - مدیرہ نقوش" لاہور محمد سرور شاہ ایم.اے ۲۵ محمد شفیق قیصر محمد سعید حکیم ۲۸۰ محمد صادق محمد سعید پیر ۶۱۳ محمد صادق شیخ محمد سعید الخياري ۱۹۷ محمد صادق - مدرس جموں 476 محمد طیب، تعاری Ary ۳۴۹ ۳۲۹ محمد خضر الله خان ، سر چوپدری ۲۲۰۱۶ - ۱ ده ۳۴۳ ۱۲۰۰۰ تا ۹۳۰۸۲۰۸۰ ۱۰۳۰۹۸۰ - ۱۱۲ ۳۸۰ - ۲۷۷۰۲۶۴ - ۲۱۷ - ۱۹۳ - ۱۱۳۳ ۵۵۰ محمد مسعید حیدر آبادی ، مووی ۲۳۸ محمد صادق مفتی ۳۰۵-۰۲۱۲ ۴۷۷ ۴۲۴ - ۲۴۶ - ۴۰۷ - ۲۸۵ - ۲۹۵ محمد سلطان اکبر، پروفیسر ۶ ۲۰-۰۵-۱۹ ۵۵۷-۵۷۱۰۵۵۸ تا ۲ ۰ ۵ -۵۹۲۰۵۸۱ ۵۱۰ - ۵۱۶ - ۶۸۰ - ۶۸۲ - ۰۱ ۷ محمد سلیم ملک - جہلم ۱۹۲ ۶۱۲ تا ۶۱۲ -۶۱۶ - ۶۵۳۰۰۵۲ - ۶۷۷ ۷۱ - ۷۲۵ - ۷۲۹ تا ۷۳۲ - ۷۳۲ ندیم مولوی ۲۳۵ ۲۸۰۰ - ۲۸۲ - ۴۲۴ - ۳۱۹ - ۲۸۵ محمد سلیمان ، حافظ محمد سیمان ، سید بہار محمد شاه سیفی رسید محمد صادق ، مولوی مبلغ سیرالیون ۱۳۰۰ محمد ظہور الدین اکمل رقاضی ۱۸۴-۳۲۹ 194 محمد صادق سمائری ۱۹۹-۲۰۵ - ۴۱۱ - ۳۱۳ محمد ظہور خاں پٹیانوی - احمد محمر ۰۴۱۴۲۳۶ 065-04 por محمد عارف ، مولوی محمد صادق شاه رسید بھیگلر محمد عباس وکیل JAY ۲۹۴ محمد شرینی ، چوہدری ۱۹۷ محمد صادق فاروقی محمد شریف ، خواجه ، گوجرانواله ۱۹۰ محمد صادق ناقد محمد شریف ڈیٹی 101 محمد صدیق حکیم محمد شریف ، میان TA محمد ختمان مولوی 46.محمد عبد الحق مجاہد امرتسری ۱۹۲ محمد عبد الحئی سیٹھ - یادگیر ۲۸۱-۷۷۰ ۱۸۲ محمد صدیق سینه کلکستر ۱۸۴ محمد عبد الله، بابو سانگلوبل محمد شریف ایڈووکیٹ ، چوہدری ۱۸۲ ۱۹۰۰ محمد صدیق امرتسری ۲۰۰۰۱۹۶ تا ۰۳ ۴۰ محمد عبد الله جلد ساز - ربوه ۱۰۱۸۵ - 240 24-439-407 محمد عبد اللہ ، چوہدری محمد مصداق ایم.اسے ، چوہدری لائبریرین محمد عبد اللہ ، ڈاکٹر قلعہ سورہ سنگھ محمد شفیع ، سر محمد شفیه ، ملک احمد ملک عزیز احمد مبلغ جاوا Al محمد صدیق پیانوی ، حاجی ۴۸ - ۲۹۵ محمد عبدالله باجوه - ظفر وال PAL محمد عبد اللہ ہی اسے.بائی ، قاضی 147 ۵۳۱۰ ۵۱۳ IAL محمد شفیع ، ملک از مور ۱۸۹ محمد صدیق شاہکه ۱۹۰ - ۳۹۹ تا ۴۰۲ - ۴۱۹ ۱۹۸ - ۲۶ ۵ - ۵۶۷ -
۲۴ محمد عبد الله مستری - داتو زید کا ۱۸۸ محمد عمر لکھنوی، ڈاکٹر ۵۸۳ محمد نصیر الله خواجه محمد عبد الله منشی اسٹیٹ ۱۸۷-۳۲۹ محمد نیسی بھاگلپوری محمد عبد الله این میان فصل محمد ۳۲۰ محمد غوث اسیاں محمد عبد اللہ بی ایس سی.نیند آباد محمد فاضل فیروز پوری ، حاجی محمد فقیر الله - رابوه -465 محمد عرفان ، مولوی، مانسہرہ ۱۸۲ ۲۱۰۰۱۸۲ محمد فیاض عباسی محمد علی ، چوہدری 014 ۱۱ محمد ہارون - انڈونیشیا ۳۱۷ محمد یار عارف ۱۸۵ محمد نسین [LAY محمد نسین خان - فیروزه نو په ۵۰۰ محمد یعقوب امجد محمد قاسم نانوتوی ۲۷۳ تا ۴۷۵ محمد یعقوب خان ، قندھار ۲۵۲ 14^ 401 ۳۳۳ 14.محمد علی چوہدری سابق وزیر اعظم پاکستان محمد کریم الله نوجوان ۲۲۸ - ۰۲۳۷ ۲۳۷ محمد یعقوب طاہر ۱۳۲ - ۲۱۰۰۲۰۹ محمد علی سیٹھ - ۴۲۴ - ۴۲۱ - ۲۸۵۰۲۸۲ ۳۶۸ محمد كلوفيا ۵۲۲ تا ۵۲۹ - ۵۳۴ - ۰۵۴۹ ۳۸۵ محمد یوسف 064 محمد علی مولوی مبلغ فیروز پوری ۳۳۳ محمد لائل پوری، میاں ۲۳ ۲۵۰ ۱ - ۲۵ - ۱۰۲ محمد یوسف خاں.سابق پرائیویٹ سیکرٹری محمد علی ایم.اے مولوی ۲۱۰۲۰۰۴-۳۵ ۱۵۶ - ۱ - ۱۰۴ - ۱۰۵ - ۱۳۷ - ۲۰۰۰۱۵۹-۱۲۹ | محمد لطیف ، میاں ۵۳۹ - ۵۵۳ ۵۶۰۰ - ۵۸۴ - ۶۲۰ - محمد مارنا ڈیوک ۱۹۴ محمد یوسف ، سردار F4-IAA ۲۷۳ محمد یوسف ، قاضی ۲۱۰۰۲۰۹ - ۶۲۹ محمد علی شیواری باجوہ، چوہدی.چونڈہ ۱۸۷ محمد مبارک اسمعیل ، ماسٹر ۱۹۲ محمد یوسف خان محمد علی تارکیش جے پوری محمد علی جناح ، قائد اعظم ۶۲۹ 11 ۶۸۱۰ ۶۲۹ ٢١٣ محمد حسن رسید ارلیس ۴۰۵ محمد یوسف فلورار، حافظ ۶۱۳-۶۲۹ محمد محسن رشیخ لائل پور ۲۵۰ محمد یونس رسید محمد مسعود خان بیستی مندرانی ۱۹۲ محمد یونس، مولوی ود ١٢١ محمد علی خان، نواب ۳۱۵ ۳۲۳۰ ۵۶۰۰ محمد معین الدین سیٹھ ۱۸۳- ۲۸۱ - ۳۳۳) محمد رشناسی سن سیر کے بھائی) ۲۶۰ 474 - 404-4-4-4-0 محمد منور، مولوی ۱۹۶-۳۸۲ تا ۳۸۵ محمود احمد، بھائی 141 محمد علی شاہ، ستید ۱۹۲ محمد منیر، چو ہدری بھٹیالیاں ۱۸۸ محمود احمد ، ڈاکٹرسید ۵۳۶ - ۵۲۷ محمد على بشيخ والدشيخ يعقوب علی عرفانی محمد موسی استری محمد معمر، مہاشہ محمد محمر بریلوی ، بایف محمد عمر سینگل سیٹھ tro محمد موسیٰ ۳۰۰ محمود احمد، قاضی 1.4 ۲۱ محمود احمد شاد، چو ک ی ۴۰۴۰۴۰۳ ۱۰۰ محمد موسی ، مولوی سید ۲۸۰ محمود احمد باجوہ ، چوہدی لکها نوالی ۳۲۲ A4A محمد نذیر لائل پوری قاضی ۵۲۰ محمود احمد چیه ۵۲۰ محمود احمد جیمیه ۱۹۷-۷۵۹ ۱۲۰۰ ، ۱۸۴ محمد نسیم ،ڈاکٹر ۳۰ محمود احمد عرفانی شیخ ۲۹۳ - ۷۳۳ - ۲۵۵
۲۵ -404 ۱۹۱ منصور ملک مسعود الرحمن شیخ - نارنگ منڈی محمود احمد نامتر اسید میر ۱۹۸-۳۵۲ مسیلمہ کذاب مسیح الدین الردین + 676 = 6 14 – 816 - 164 ۱۹۴ منظور احمد چنیوٹی، مولوی ۳۲۷۰۳۴۶ ۴۶ -529 449-401 محمود اللہ شاہ ،استید ۴۵۲ مشتاق احمد، ڈاکٹر میر ۱۸ منظور احمد، مفتی ۴۰۰ 440 مشتاق احمد ، یا جوه ، چوہدری ۱۹۷-۳۵۴ منظور احمد مولودی مبلغ یویی مصطفے ،ایم ایس محمود پیناس محمود حسن خان ٹونکی مفتی محمود عالم ، سیده ربوه محمود کا کری ۳۹۹ مظفر حسن JAM ۵۹، منظور احمد باجوہ ۵۷۴ مظفر احمد مرزا ۲۲۹-۲۷۸-۲۸۲ منظور احمد ایم ایس سی، پروفیسر مرزا ۳۵۰ منظور احمد عامل، مولوی سید محمود نعمت اللہ، چوہدی ۶۲۵ مظفر حسن، پیرزاده ۲۹۰ منظور الحسن بی.اسے پیر زادہ محمود بیگم احمد.کراچی ۴۷۶ ۵۵۰۰ مظفر خان ، ملک.لاہور محمود تیم المیر میں عبدالسلام قمر ، محی الدین ابن عربی محی الدین احمد رسید محی الدین ایڈووکیٹ ، استید مدن ،مسٹر مراد بخش، حافظ مرادن، حکیم خاں، ۳۲۸ مظہر الحق ، پیر مظہر علی اظہر ۳۵، معاویه، امیر ۱۸۳ معزز احمد رسید < MA معلم صالح الخارج ۱۹۲ معین الدین ، پیر ۳۹۹ معین الدین ، حافظ ۱۸۸ منظور النساء بیگم ۱۸۴ منظور بیگ، مرزدا ۳۲۷ منظور محمد، پیر ۲۸۰ 414 ۲۸۰ ۲۹۰ 414 ۲۲۱ ۲۲۰-۳۰ ۸۵۰۸۲ منور احمد ، ڈاکٹر مرزا ۱۸ - ۱۹ - ۲۴۶۰۱۲۱ ۶۶۰ - ۵۵۰۰ ۴۸۵ - ۲۰۶ - ۴۳۸ - ۴۲۸ ۳۳۸ -477 635 منور احمد این ظفر علی چدھڑ ۲۰۰ منور شاه رسید مرتضی خان ، مولوی ۴۲۱ معین الدین بیٹھ ۲۸۵ - ۷۷۰ منیر احمد ، خواجه معین الدین چشتی ، خواجه ۲۰۲۰۲۷۸ منیر احمد، راجه 414 ۱۳ ۳۲۲ ۹۱۸ - ۵۴۰ ۵۹۲ 414 196 714 ۳۴۲-۱۹۷ مرلی دھر، لاله حضرت مریم علیہ السلام ۶۳۰ منیر احمد ، قاضی مریم بی بی ۳۱۴ مقبول احمد قریشی ۱۹۷ منیر احمد این مرزها مول بخش مریم سلطانه ۴۶۹ مقبول احمد ذبیح ۱۹۷ منیر احمد با هری رسید مسعود احمد ، میر سیالکوٹ ، ١٨-١٩٤ ملک راج ، پنڈت ۲۲۳ منیر احمد رشید مسعود احمد، قاضی مسعود احمد جہلمی ۳۰۹ ممتاز احمد ۷۵۰ منیر احمد عارف 476-146 مناظر احسن گیلانی ۶۷۲ میرا منير المحصنى مسعود احمد خورشید - الامور ٣٠ منصور حلاج ۲۲۲ | منیر الدین احمد
۲۶ حضرت موسی علیہ السلام موشی سیوئی موسی و معلم مولا بخش، مرزا ۳۲۲ نذیر احمد ظفر، ڈاکٹر راجہ ۳۲۶-۳۳۷ ۳۲۲ - ۳۶۱ - ۳۴۶-۲۴۴ - ۲۳۷۵۷ ۴۰۴ ۳۶۵ ۵۰۰۰ - ۵۰۹ - ۵۱۰ تا ۵۱۹۰۵۱۳ نذیر احمد علی ۳۵۷-۲۰۱ - ۲۵۳ -441-45 0f- -- ۵۳۹ - ۵۲۵ - ۵۳۴ - ۵۲۰ ۳۸ -471-404-040164 - نذیر احمد مبشر ۱۹۸ - ۳۱۲ - ۲۹۸ مولود احمد خال ۳۷۵-۳۷۶ - ۷۳۸ تا ناصر احمد پرویز پروازی موہن لال ، شری مجھ آیا کشیده مر النساء مهر بياني ناصر شاه رسید ۵۴۶ - ۶۳۸ ناصر نواب ، میر یلم - ۲۱۰ - ۲۵۱ ناصره ترمان ۲۹۰ ناظر یار جنگ ، نواب ۶۲۵-۶۱۸ ناظم الدین ، خواجہ مہر دین ،شیخ سیالکوٹ ۱۸۶ نانک ، بابا گورو - «۵۱۰ ۵۱۷ ۳۲۲ م ۰۷۵ ۲۷۲ - ۳۷۳ نذیر حسین ، ڈاکٹر سید ۲۹۸ - ۶۰۶ نذیر حسین ، مرزها - لاہور ۳ نذیر حسین دهلوی سید پھگلہ ۳۲۲ نذیر شاه رسیده بهنگه ۵۶۵-۹۸ ۵۷۵ - ۱۹- نذیر علی بیگ، مرزها نسیم احمد مهردین بستری جڑانوالہ ۱۹۳ نبی بخش رسید ه نسیم احمد خان نیستیم ۲۹۲ 1091 نسیم سیفی ۱۹۴ IAA ۳۴۸ ۲۰۸ ۲۲۱ ۳۳۲ rra ۳۹۰۰۲۸۹-۱۹۷ 419 رسیده مر و سلم ۲۸۲ تقسیمہ بیگم ۲۸۴ نصرت جہاں گیر اسیده ماره ۶۴ - ۹۵ - ۱۰۳ میرانی بخش مرزها ۲ود نشار احمد، چوہدری میمونه بیگم، استانی نجم الدین ، مولوی میور، سرولیم ۱۳۸ نرائن سنگه ، سردار ن نرنجن سنگ اسردار ناتھ مینی.وزیر یوگنڈا ۲۲ نذر احمد -4-4859 نارائن سنگھ ۶۲۱ نذیر احمد ڈرائیور ۲۱۱ نصرت جہاں بیگم نازش رنمود.۳۴۶ نذیر احمد منشی اسٹیٹ ۲۲۹ نصر الله ، میجر ناصر، خواجہ میر ۲۷۸ نذیر احمد، مرزا کراچی ۲۲۵ نصر اللہ خان، چوہدری ۳۱۲-۳۱۳ ناصر احمد ۲۲۶ نذیر احمد ، میاں ۵۱۰ نصیر احمد خان 14^ ناصر احمد شیخ ۷۳۷ - ۷۲۱ نذیر احمد باجود ایڈوکیٹ ، چوہدری ۵۱۱ نصیر احمد خان - خانپور ناصر احمد، قاضی ناصر احمد، مرزا خلیفتہ السیح الثالث ۱۳ نذیر احمد دہلوی ، ڈپٹی ۱۸ - ۲۳ تا ۲۶ ۲۰۰۰ - ۲۹ تا ۴۴۰۳۹ نذیر احمد ریاض، ملک نصیر احمد خان ، پروفیسر ۳۴۴۰۳۴۳ ۵۲۵ نصیر احد قمر ۲۲۶ نصیر احمد ناصر، راجه -۱۱۹۰۹۸-۹-۰۱ ۱۲۳-۱۲۰ نذیر محمد سیالکوٹی ، چوہدری ۲۰۶-۵۵۰ نصیر الحق ، حاجی ، ۷۲۷ 111
نصیر الحق شيخ - لاہور ۱۲-۱۸۸۰۳۷ - ۱۲ - ۱۷-۲۹ ۳۰۰ - ۳۵ - ۳۷ ۲۰۰ نیاز محمد، ملک نصیر الدین شیخ ۱۹۸-۱۳۹۳ - ۳۹۲ ۲۹ تا ۵۲ - ۵۷ تا ۶۲ ۶۴۰ - ۶۷۰۲۵ نیوٹن (پادری) نصیر الدین ، مولوی سید نمیره اختر نصیر ا سے شیخ نظام الدین ، حکیم مولوی نظام الدین ، مرزا ۳۴۲ وه.ی ۱۲۰ ۱۳۰ - ۱۳۹ - ۱۳۹-۱۳۷ - ۱۲۳ واحد حسین، گیانی ۶۱۵ ۱۴۵ تا ۰۱۵۰ ۱۵۳ - ۱۵۷ - ۱۲۱ - ۱۲۲ وارث دین ، پادری ۳۴۳ - ۲۳۹ - ۳۳۲ - ۲۰۰ - ۱۳۹۱ واگر ایم.اے ۶۳۳ ۲۷۹ - ۲۹۱ تا ۲۹۹ - ۳۲۲۰۳۱۴۰۳۱۲ ورثه سنگی ، سردار نظام الدین بستری سیالکوٹ ۳۰۹ تا ۳۲۳ - ۲۲۶ تا ۳۲۹-۳۳۴ - ۲۲۷ وزارت حسین رستید -٣١٣ ۲۷۸ IAQ ٩٣ ۲۳۴ Jar ۲۶۵ - ۵۵۴ - ۵۵۸ - ۵۶۰ - ۵۲۶ وزیر پخش ، مرزا ۵۶۹ - ۶۰۲ تا ۶۰۵ - ۶۰۸ - ۶۱۹ وسیم احمد ، مرزا ۲۳۴۰۱۱ - ۲۸۴۰۲۸۲ نظام الدین اولیاء بکل مسٹر نعمت الله پسر ماسٹر فقیر الله نعمت اللہ ولی نعمت خان ، چوہدری که یام نعمت خان گورداسپور 40A - 406-40 • - *p* - 470 48.-466 - 44Y 145 Ar نور الدین جمبونی ، خلیفہ 044 ۳۱۴ نور الدین منیر ۱۹۸ - ۳۸۵-۷۵۰ ۲۸۵ - ۲۲۱ تا ۴۲۴ ۵۲۰۰ - ۶۰۰ ۰ وقار الامراء بیگم وگلیری ، ڈاکٹر 40.ولی الدین احمد حیدر آبادی نور الہی ابن مولوی رحمت علی ۵۹۴ ولی الدین کا تب نعمت خان آف کریام ۳۲۰ نورحسین 67 ولی الله ۴۲۴ 449 ٣٠٠ ۱۹۰ ولی داد، چوہدری ۱۹۸ نور محمد ، مستری - لاہور ۱۸۹ ولیم شب مین نعیم احمد ۳۳۲ نور محمد حکیم نعیم الدین، قاضی نعیمه بیگم ۳۳۲ نور محمد منشی حضرت نوح علیہ السلام ۳۷ - ۵۷ نور محمد ، مولوی نور احمد شیخ ۱۳ - ۶۱۷ - ۶۱۹ نور محمد علاء الدین نور احمد منیر شیخ ١٩٧-٤٣٧-٧٥ نور محمد س نور الحسن ، قریشی ۳۱۷ ولی محمد، چوہدری - خانیوال ۱۷۲۲ ولیه بیسیم ۴۲۲ ویریل، پنڈت سیم کیفی ۲۸۹۰۱۹۷-۳۹۰-۳۹۲ با جره بیگم ، سیده ہارٹ ، پروفیسر - ۷۵۵-۵۱۷۰٣٩٠١ - ٠٣٩٩ نور الحق انور ۱ - ۱۱۲ - ۱۹۷ - ۳۸۲ ۲۰۲۰ نووی ، امام نور الحق تنویر ۱۶۷ بارون احمد اسید IAA 14" ۵۹۲ ་་་ ٣٠٥ ۳۱۸ نہرو، پنڈت ، ۲۱۲ هارون الرشید چوہدری - حافظ آباد ۱۹۴ اسم المیں بیٹھ نور الدین حکیم مولانا خلیفته ی اول تا ۱۱۰۰ نیا ز احمد
644 ۵۷۳ ٢٢٩ ۲۲۵ ہدایت ، راڈین - جاکر تا ۲۵۵-۴۱۷ ہوتا گوا ہدایت اللہ ، ماسٹر گھیرات ۵۹۱ ہیرا سنگھ ۴۰۴ یوری ہی ٹو کاشی نوشی.جاپان ۶۰۲ یوسف الادین سیٹھ ہیڈ نگ ، ڈاکٹر ہیر الال چوپڑھ ۷۲۶ یوسف شاہ ، ستید ہری کرشن لال ۷۳۵ یار محمد مخلص - قادیان ۵۰۰ یوسف علی عرفانی ، شیخ ہنٹر مسٹر ۳۱۳ یعقوب بن عیسی ۳۹۷ یو لک ، مسٹر ہنری تھامس ۲۲۱ - ۲۲۲ یعقوب علی عرفانی شیخ يعقوب علی عرفانی پشیخ ۵-۳۱۹ - ۵۲۴ یونت رائے ، شرعی ہنری مارٹن کلارک، ڈاکٹر ۳۷ ۲۳۱۰ تا ۵۹۸ - ۶۳۱ تا ۶۲۴ - ۷۷۶-۲۸۵-۲۰۵ یونس احمد السلم ۶۴۱۰ ۴۴۶ ۷۸ تا ۰
٢٩ 4 مقامات آنها کور آنها کشمیر افغانستان ۱۴۳ - ۲۷۶ - ۲۶۹ - ۲۸۷ آسٹریا ۲۱ اکال گڑھ اگره ۵۶۶ اگوائی الارو ۴۴۵ - ۴۵۶ ۲۵۲۲-۴۹۱۰۲۸۷۰۲۷۸۰ ۵۲۸۰۵۶۳ تا ۷۴۳۰۷۲۸۰۵۷۱ تا ۷۴۶ ۲۸۳ - ۵۷۶۰۵۴۷ - ۷۵۰۰۷۴۸۰۷۲۶-۶۲۳ انباله ۲۳ ۵۶۱ - ۳۲۲ انڈونیشیا ۲۲۹-۲۳۰-۲۵۶ - ۲۴ ۳۵۴ - ۲۸۲۰۳۶۱ ۴۱۴۰ تا ۴۵۳۰۳۱۹ ۳۸۱ ۲۸۲ - ۲۸۵ - ۴۸۷ - ۴۸۸ - ۲۹۱ تا ۳۹۵ ۳۹۶ - ۵۲۵ تا ۵۲۷ - ۵۵۳-۲۲ - ابادان ۳۹۴ - ٣٩۶ الجزائر ۳۵۵ آماده ۵۶۶ الرآباد اٹلی ٥٧٣ امراوتی ۵۸۵ انڈیا ناپیلیس انقرة انگلستان Ar - YY.- Yoq -roc-824 ۲۵۴۰ ۲۵۰۰ ۱۷۷ - ۱۰۵ اجیلوڈے ۳۹۶ امرت سر ۲۸۱-۲۹۰-۳۷۰ - ۴۴۱ - ۲۵۵ - ۳۵۰ - ۳۷۵ - ۳۷۶-۳۰۰ - ۳۰۲ ۴۲۹ - ۵۸۳۶۰۹ - ۶۱۰ - ۶۱۷ تا ۶۲۲-۶۲۷ - ۲۳۹ ۴۳۳ - ۲۴۶ - ۴۶۷ - ۴۹۱ - ۵۴۸ - ۵۲۹ احمد آباد احمد نگر ۳۱۵ - ۳۲۰ تا ۶۴۲ - ۶۴۹ - 60-040-OYA-D44-045 ۳۰۰ تا آپ شریف ۵۷۵ امریکه ۲۴-۲۵ ۹۰۰ - ۷۹۰۷۸ - ۱۱۶ | ۰۹۳۹ اریہ ۶۷۵-۲۸۵ ۱۱۷ - ۱۱۹ - ۱۲۵ - ۱۷۷۰۱۳۵ - ۲۱۳۰-۱۸۸ انور آباد اسرائیل ۲۵۲ تا ۱۲۵۵ استنبول ۲۵۵ ۲۱۷-۲۱۶ - ۲۷۰۰۲۲۴ - ۲۷۷ - ۳۲۴ اویکو ۲۵۹ - ۲۷۰ ۲۴۳ - ۳۴۵ - ۳۵۰ ۳۵۱۰ ۲۰۰۰ تا ۳ ۳۸ او کاره Par ۴۲۸۰ ۳۵۰ اسماعیلیہ ٢٥٠ ٣٩٤ - ٣٩٢ - ١١م - ۲۵۵-۴۶۷ ایمیٹ آباد افریقہ ۲۰۹-۲۰۷ - ۲۰۶۰۵۲ - ۵۵ ۰۳۱۳ - ۲۹۸ ۰۲۱۲ ۴۹۱۰۴۰۷-۲۷۸۰ ۴۷۷ - ۲۷۲ - ۴۷۱ - ۲۷۳ - ۲۶ - ۳۳ - ۲۰ اسے سینیا ۳۱۹ - ۳۸۲ تا ۳۸۴ - ۲۰۶ - ۴۰۰ - ۴۱۷ ۴۹۹۱ - ۵۰۰ - ۵۲۷۰۵۲۶-۵۲۹ - ۱۵۵۲
ایی ایتھنز ایران ۰۱۷۸ ۰۳۸۰ ٢٩٥ بلجین کا نگو - 07 ٢٠٣ ۴۸۲ بیٹی ۲۸۱ - ۲۸۶ - ۵۷۶ - ۶۶۵ - ۶۶۲ بینی - ۷۲۰ - ۲۶۹ 41, DAL -461 ایشیا ایمیسٹرڈم 471-0-4-Y.بنارس بنگلور ٥٥ بنگلا دیش بنگر 644 ۵۰۲ - ۲۸۷۰۲۸۵ - ۲۲۹ پاکیپٹن ۴۷۳ پایین VAA پاکستان ۱۲ - ۲۰ - ۹۳۰۷۲۰۲۵۰۲۳ باچے بو ۴۰۲ - ۴۰۳ بنوں ۲۲۱۰ ۲۱۸ - ۱۹۹ -١٢٢١٠٣١٣ ١٥٩٠١٧٠٠١٦٠٠١١٣ بارسلونا ۲۲ بو ۳۰۰ - ۲۰۱ تا ۴-۲ - ۷۵۶ ۲۳۲ - ۲۴۶ - ۲۹۹ - ۲۹۹ - ۳۱۹ - ۳۱۸ بازل - 640 - 441 604 ۴۲۲ - ۳۹۴-۳۸۹ - ۳۲۸ - ۳۶ - ۳۵۴ باسٹن ۳۸۳ بورنو باغ ལུ ۲۹۸ بوسٹن باگو ، بون بالا کوٹ ۲۰۶ تا ۳۱۱ بونگو ۵۰۷۰۴۹۲-۳۸۸ - ۳۸۰ - ۲۸۵ - ۴۵۰ {H ۵۲۵ - ۵۴۱۷۲۱ app-67-6-447-9.4| 404 ۵۲۵ - ۵۲۰ تا ۵۲۹ ۵۸۲۰۵۸۴۰ بالٹن 111 بہاول پور ۲۳۷۰۲۹۰۰۲۸۵۰۲۳ پانڈ سے بو 604 بالسير پٹس برگ Par با ما ۴۰۲ بیج بیاره ۵۰۲ - ۵۰۵ پشاور ۱۵۰ با مبابون ۷۵۸۰۷۵۰ بیجه پنجاب ۲۳ - ۱۵۹ ۲۲۶۰۲۸۲۰-۳۶۸ بٹالہ ۴۰ - ۵۹ - ۲۳۳ - ۳۰۱-۲۲۵ بیروت - ۶۸۱ - ۶۶۳ ۴۴۱ - ۵۵۸ - ۵۶۲ -۶۲۵-۶۲۲-۲-۶ بھاگلپور پنڈ دادنخان کرنا ۳۳۰ بھاگی تنگل ۲۲۶ پورٹ آف سپین بر من برید بھٹیاں ۲۳۳ پورٹ سعید بحره ۲۹۱ بھینڑوی بغداد قبلوال بنگل ۲۹۸ بھوپال پولینڈ یون ۲۹۱ پورا مہارانی با ما ۲۰۲ | بیره ۲۳ - ۴۸ - ۳۳۷۰۲۹۹-۱۵۵۰ پیری ༈་ ra.rip 10-
۴۰۳ جاوا ۲۰۲ چیستر کنٹر YAS-TAP چنڈ بھروانہ دم پینگاڈی ۲۸۳ - ۵۷۲ | جیو والی بھی گلہ ۲۰۸ - ۲۱۰ تا ۲۱۲ جده پھیر و پیچی ۰۵۵۵ - ۵۲۹ - ۵۲۸ - ۵۰۹ - ۴۹۱ تاہواں د، جمال پور ۲۰ تا ۴۸۲ - ۲۸۳ چنیوٹ ۵۹۳ جرمنی ۲۷۲ - ۳۸۰۰۲۷۷۰۲۸۳ - ۲۸۷ چوہا سیدن شاه چین چھاڑ ڑیاں کلاں ترکی ۲۵۶ - ۲۵۹ - ۲۷۰ - ۲۷۵ - ۳۲۳ جمول 044-011-00A چھو ہر ۲۳ ۲۹۰ Y4A -FAC_FA تنا دل جنوبی افریقہ ۲۹۸ جنوبی روڈیشیا تیما پور تھائی لینڈ جیبو و ریچ ۲۲۹ - ۲۸۳ | جنوبی غرب ۲۲۹ - ۲۳۰ حضرموت ۳۵۰ جنوبی مهند ۲۲۸ تا ۲۳۰ - ۲۳۳ - ۲۸۱ حویلیاں ٹ - ۳۳۷۰۴۲۳۰ ۳۲۱ - ۳۸۵ - ۳۸۳ ٹانگا نیکا ۳۸۴ ۷۲۷-۷۴۶۰۳۸۵۰ بنجه ٹورا ۳۸۵ جنیوا ٹرینیڈاڈ ۲۶۰ ۷۲۹۰۳۰۰۰ بوس د کمانچه کسانحہ ۳۷۸ - ۲۰۰ | جولی ٹو بہ ٹیک سنگھ ۲۸۷ جومور ۲۰۹ - ۴۱۱ - ۲۱۳ حيفا ۲۳۰ جہلم ۲۳-۳۱۲۰۳۰۹۰۸۳-۶۲۸ حیدر آباد دکن.۲۸۵ - ۲۸۳ - ۲۳۵ -۱۳۰.-494 - <)69 ٣٩٥ حیدرآباد سندھ ۳۳۰۰۳۵۰ ۰ ۴۳۰ 404 خ رلینڈ ٹیکسی ٹاؤن ج - YA.947 ۴۴۷ પે خانیوال ۱۵۲ خیر پور ۵۴۹ PAN چ چانگریاں جاپان جادلہ حیا کرد جالندھر چانگو چڑیا کوٹہ ۵۶۲ - ۳۸۲-۲۷۴ ۶۵۵ دار السلام اه، دانه ۵۶۶ ناتہ زیادہ کا ۳۱۳ تا ۳۱۶ چک ۹۸ شمالی سرگودہا - ۳۲ ۲۵-۱۷۸ ر مشق ۴۵ - ۱۷۸ - ۲۲۷ - ۳۵۲ -۳۵۳ 040 ۲۰۲ 44 ۵۱۲۰۵۱۱ ۲۳۵ چکوال.ادھرم کوٹ ہیگا.4--14-YAA
دھرم مہوتسو ۳۲ - ۷۴۲۰۵۵۵ - ۵۵۲ - ۵۴۷ - ۴۹۱ ۲۳۶-۲۳۲-۱۲۱ - ۱۷۰ - ۱۳۳۰ ۱۲۳ ۲۰ وفی ۲۸۶۰۲۸۲ ۲۹۰۰ - ۳۲۲ - ۳۶۸ ۲۳۸ ۲۲۲۰ - ۲۷۰ - ۲۹۳-۲۹۹-۲۱۸ سرحد ۲۳ سرگودھا ۲۳-۱۲۰-۱۷۵ - ۶۱۵۰۲۴۳ - ۶۹ ۴ - ۵۲۵ - ۵۳۶ - ۵۶۶ - ۶۲۵ تا تا ۳۲۰ ۳۲۵۰-۳۳۵۰۳۲۶-۳۳۵ ۳۴۳ - ۳۴۵ - ۳۴۶ ۳۵۴۰-۳۵۱۰۳۵۰۰ سعودی عرب ۲۱۴ - ۴۷۹۰۳۸۹-۴۸۷ -47-47 دیوبند و یو درگ دیونه ما جدا ڈچ گی آنا ڈنمارک ڈومینکن ری پبلک سکینڈ سکندر آباد ۸ ۷ ۶ ۲۸۴ - ۲۸۵ ۰ ۰ ۴۰ - ۴۹۱۰۳۸۹ - ۴۹۳ تا سکنڈے نیویا ۵۳۱ - ۵۳۰۰۵۲۵۰۵۲۴۰۵۱۳ - ۴۹۶ ما ۴۸ ۵۴۸۰۵۴۵۰۵۳۶ - ۵۵۳ - ۵۸۰ - ۲۰۰ - ۷۳۷ - ۲۶ - ۷۲۴ - ۲۱ ۲۰ ڈھا کہ ۳۳۳-۳۷۴-۵۶۶ - ۵۷۲ - ۷۲۲ ریکھا نوالہ سکھر ہٹ سماٹرا کمر سٹر سندھ ۷۶۹ - ۴۲۳ ۹۱ لم And ۴۳۷ ۴۲۷ - ۳۳۷ - ۱۵۹۰ ۱۳ ڈیٹرائٹ ۳۸۱ -۳۸۲ - ۵۶۹ رنگ پور وٹین ۳۸۲ - ۷۴۶ روحین ڈیرہ دین پناه ۵۰۲ ۲۲۰۰ ۴۱۲۳۰ ۴۱۲۰۴۴۱۰۰ ۳۸۲۰ سنگا پور به ۰۰۳۸۲ ۰۴۹۱ ۴۰۳ ۲۸۹ روس ۱۷۷ - ۱۷۸-۲۷۷۰۲۷۶-۲۴۳ سوات ڈیرہ غازی خالی ۲۳-۵۵۶ - ۵۵۰ ۳۴۵ - ۴۹۹ - ۵۴۹ - ۷۴۳ - سوڈان ڈیرہ نواب ڈیر یا نوالہ رانچی راولپنڈی ۴۳۷ روم ز ۳۳ سورج گڑھ سورسنگھ ۳۵۱ PMY سره زائريا د زیور PAY ۳۹۵ سولاریسی نگڑھ پنڈی ۲۲-۲۷ - ۲۹- ۳۵ - ۸۰ ۱۲۰ - ۴۹ - ۳۵۰ - ۳۵۹ ۲۲۳۰۳۷۰۰ سالٹ پانڈ -441-046 س سان فرانسسکو ریوه ۱۲-۱۳ - ۱۷-۲۲ تا ۲۵۰۲۶ ۳۵۰ ساہی وال ٢٦-٨-٩٣-٩٩۷-۶۵ - ۵۹ - ۴۷ - ۳۷ سین وال اُتلے 463-044 ۴۲۷ - ۴۵۱ - ۲۲۲۰ ۲۶۰ سوئٹزرلینڈ - ۷۴۱۰۵۵۵ - ۴۹۱ - ۴۸ ۴۷۵۱ سویڈن ۱۳۰ به ۴۲۸ سیالکوٹ ۱۳۱- ۳۰۹ - ۳۱۲-۳۱۳ ۶۱۷ ۳۵۰ ۳۷۲۰ - ۵۰۹ تا ۵۱۱ ۰۵۱۳۰ ۵۸۷ ۱۰۰ ۰ ۱۰۱ - ۱۰۳ - ۱۰۴ - ۱۱۱ - ۱۱۲ - ۱۲۰-۱۱۳ سپین ۲۷۳-۲۸۰ - ۴۵۸ - ۴۶۰ ۶۰۰ - ۹۰۱ - ۲۰۳ - ۶۰۴ -
FF سیرالیون ۳۹۹ ۲۰۰۰ ۲۰۳۰ - ۲۱۹ عراق ۱۲۰ - ۱۱۳۰ ۸۳ - ۷۷ - ۶۳ - ۷۱ - ۵۸ - ٣ ٢٢٩٠ ٥٠۵۱ - ۱۷۸۰ ۴۸ - ۲۲۹ - ۲۳۱ تا ۲۳۳ - ۲۳۵ عرب -۲۲۹ - ۲۳۰ - ۲۵۲ - ۲۵۳ ۱۵۰ - ۱۹۹۹-۹ ۴۵۴ ۷۵۶۰۴۵۶۰ تا ۷۶۲ - ۰۶۶۶ 4-0-716- par 14 ۲۸۰۰۲۳۶ - ۲۸۴ - ۲۸۷۰۲۸۵ تا ۲۰۵ سیکھواں سیلون ۴۱۵ - ۵۴۷۰۴۸۷ - ۵۵۲ شكرا ۳۱۰ تا ۳۲۳ ۳۴۷ - ۳۴۶-۳۳۷ - ۳۲۸۰ شکر ۲۵۹ - ۴۶۰ ۱۳۶۷ تا ۳۶۹ - ۴۳۲ ۳۳۴۲۰ - ۴۶۰ - ۳۸۷ ۳۸۳ علی گڑھ ۳۲۳ - ۳۲۲ - ۵۶۲ - ۵۵۸۰۵۲۸ - ۵۴۰۰ ۵۴۵ - ۴۹۰ - ۴۸۹ سینٹ لوئیس شادیوال ۰۷۱۰ - ۶۴۵ - ۵۸۴ غ 641-04.۵۶۳۰۵۷۰ تا ۵۶۵ - ۵۷۱ - ۵۷۶۰۵۷۲ ۵۷ - ۵۸۰ - ۵۸۳ تا ۵۸۰ ۵۹۲۰-۵۹۴ شاه آباد شاہ پور شام ۳۱ - ۳۲-۱۷۸ - ۲۵۹۰۲۳۳ خانا ۲۷۶ - ۳۹۹۰۲۹۸ - ۲۱۹ ۵۹۰ تا ۲۰۸ - ۶۱۳ تا ۶۱۷ - ۶۱۹ - ۶۲۱ - ۷۲۲ - ۶۲۹۰ ۲۸۰ ۲۲۷ تا ۲۴۹ - ۴۵۴ - ۲۵۶ - ۷۵۱ -665-605 ۵۵۰ غرناطه ۶۴۱ - ۲۳۷ - ۹۳۵ - ۶۲۷ - ۶۲۷ - ۲۲۲ تا ۶۴۶ - ۶۴۹ - ۶۵۳ - ۶۵۵ - ۶۵۷ • شاہجہان پور شکاگو ۵۶۹ - ۵۹۲-۵۷۰ نفتح گڑھ چوڑیاں ۵۹ قاضی احمد ۲۶ شمالی نائیجیریا ۳۹۵ فرانس ۱۷۷ - ۲۵۰ - ۳۵۰-۲۵۲ قاهره ۲۵۷-۲۵۳ شمالی بند -۶۲۹ - ۵۷۰ - ۵۲۹ - ۳۸۰ ۲۲۹ قائم گنج ۵۵۳-۸-۲ فری ٹاؤن ۲۸۳ فلاڈلفیا ۴۲۰ فلپائن ۲۷۰ - ۲۷۳ تا ۲۷۵ ۳۵۰۰ فلسطین ۲۵۲ تا ۴۵۹۰۲۵۲-۲۰۰ کالونا ۴۳ ۰۵۵۲۰۵۵۰ - ۳۸۲ - ۳۸۱ شور الله شورکوٹ ص صادق آباد فونو ، کالی کٹ فیصل آباد ۱۲۰ - ۳۵۴-۳۵۵ - ۴۳۷ کانپور طرابلس ع ق کانو عبد الحکیم ۲۳۷ قادسیه کپور تھلہ ۳۱ - ۳۴ - ۲۸۷ | قادیان ۸ تا ۱۲ - ۲۰ تا ۲- ۷۸-۲۹ | کراچی ۱۴-۳۹۰۱۷ - ۴۸ -۷۲-۱۴۰ ۱۵۶۸۰ ۳۸۳ قبرص کاغان ۲۹۸ 406 ۲۹۵ 044-04)
M41-400-140 - 194 - 197- 104 ۳۱۳ ۲۴۱۰ ۳۲۹۰ ۳۵۰۰ - ۲۲۸ تا ۲۳۰ کینیا نورہ چھاؤنی کینجو > MA ( × × 4 1 -494-4¥*-*44-JCY کینما کینیا لام السلام 460 ميانما گھٹیائیاں ل که نام کسوموں ۳۸۴ 605 ۷۲۴ ۶۳۵ - ۵۷۲ - ۵۷۱ کفروڈوا کلڈ نہ کلته کلیولینڈ کینیڈا کھاریاں کھنڈو کھیوڑہ ۲۵ - ۲۶ ۳۶۰ گانڈا ۵۶ - ۵۷۲ - ۷۲۵ گجرات ۱۰۴ - ۳۰۰ - ۲۰۱۰ ۱۷۵ - ۱۳۵۰ ۱۲۲ - ۱۲۰ ۲۶۹ ۶۷۸ ۳۰۲ تا ۳۰۵ - ۳۰۹ - ۲۱۳ - ۳۳۵-۳۳۱ ۴۹۶۰۴۹۵ - ۴۰۴ - ۴۲۸۰۳۵۰ ۷۲۷ ۶۰۲-۲۰۰ - ۵۲۱ - ۵۴۳۰۵۳۷ - ۵۳۱۲۳ م ۶۱ ۶۲۳۰۶۲۰۰ - ۱۳۷۰۶۳۴ تا ۶۳۹ (+9 - 6** - YAP » 464- 460 N·Mu لائبیریا 19 (541-5×4-DAA - YÒL - ۴۵۷ - ۴۵۴ ۳۸۲ ۶۲۹ - ۷۷۷ - ۶۷۸ - ۷۸۱۰۶۸۰ - ۷۸۲ تورمیانه ۰۲۳۳ ۲۹۰- ۷۳۳ - ۶۳۵ کماسی 6+4-446-440-44P 44P - Yad [401 - 46 - 4pY کمیار ۲۰۶ - ۳۸۰ گروٹ ۳۲۰ لكوا بالي کوٹ رحمت خاں 444 کو ٹو کوم کوسکی کوهنگ کولمبو 681-247-241 ۲۹۸ گوجرانوالہ گوجره دده گڑھی حبیب اللہ گلگت گنی ۲۸۳ گوٹھ رحمت علی ٢١١ ۲۹۹۰۲۷۷ سلنڈن ۷۴ ۸۳۰۷۶۰ ۳۵۱۰۳۵۰۰ ۳۲۲۰۳۰۸ او د هران ۵۶۷ -۴۹۱۰۳۹۲ - ۳۷۵۰ ۳۷۳ ۴۴۹ -64---674-844-096 ۴۳۷ نورپول کو مینڈے ۷۵۹ گورداسپور ۳۱۰ - ۳۶۸- ۴۳۸ - ۴۳۹ لوه چپ کوہاٹ ۲۳ - ۲۸-۶۱۰۲۹ - -478-461-866-pp1|SAL-I کوئٹہ کیرالہ ۱۲۲-۱۰۱۰/۰۱ - ۴۴۷ - ۲۲۴ - ۲۸۳ اویری والہ گورو ہر سہائے ۵۶۵ لیاقت پور کینکلینا 464 کیرنگ YAD ليمبيا ۳۲۳ لینگویس ۳۹۲-۳۹۷ - ۷۵۵۰۳۹۷ لینن گراڈ
۳۵ مشرقی بند YAO ن ماٹوٹو کا مهر ۱۲۰۰۷۸۰۳۱ ۱۳۸۰ - ۱۷۸ نا سا لیند باریشی ۲۶۳ - ۲۶۵ ۲۵۰ تا ۲۵۲ - ۲۵۴ تا ۲۹۱۰۲۵۰-۲۹۲ ناصرآباد ۵۹۳-۴۷۹۰ ۴۲۸ ماری پور -۶۲۹ - ۵۴۵۰۵۴۶۰۳۸۹ ۳۳۱ نائیجیریا ۲۹۵۰۳۹۲۰۳۸۹ تا ۳۹ ما سا ہو نگو ۲۰۳ مظفر آباد ۲۳ ۴۵۴ ۲۵۰۰ - ۳۹ ۰ تا ۰۲۱ ۷۵۰۰ -.ما غوسه ما كوما نانيا ٢٥٩ ۴۰۳ ملاک KAL نبی سر روڈ نخله ۵۳۰۰ ۵۲۸ - ۵۲۲ مانه بار ۲۸۵ - ۲۸۰ - ۴۲۲ مغربی پاکستان نکی سانحہ مالیر کوٹلہ ننکانہ صاحب TAQ مانسہرہ مانگا ۲۰۰ - ۲۱۱ مکانی سنگی ٥٩٤ مکوتو ۲۰۲ نواب شاه ۳۲۵ - ۳۹۰۴۸ ۳۸۰ نواں پینٹ - احمد آباد ۱۳ مانو کو ٹو جون ۵۸ مگر ۳۳۰۳۱ - ۲۲۹ - ۳۷۲۰۴۷۱ تو ہانڈا ۴۰۳ محمد آباد ۳۳۹ ۴۷۸ ۲۸۰۰ تا ۰۲۸۲ ۵۰۱۰ ۵۰۰۰ نور پور محمود آباد نگیریان ۳۲۰۰۳:۴ نورنگر އހސ میکاہ کا مرضیہ بھارت ۲۸۳ علیا ۲۷۲ - ۴۰۲۰۳۹۹ - ۲۰۳ نیا سالینڈ مدینه ۴۱ - ۴۳ ۲۴۰۰ - ۱۰۷-۳۷۹ ملمان ۴۳۷ ۵۵۷۰۵۴۹۰ ۵۷۵۰ نیوزی لینڈ ۴۹۹ - ۳۹۸ - ۳۸۳۰۴۸۲۰ ۴۸۰ نیو یارک ۳۸۲۰۳۱۳ - ۳۷۸۰۲۲۲ ۴۰۹-۲۳۰ نیرونی مری ۲۳ تا ۲۹۰۲۲ - ۲۳۰۳۶ - ۶۵ ملکوال - ۷۴۵ - ۷۴۴ ۲۳ -4--6-180-119-69 ۵۲۵۰ ۵۲۴ - ۵۲۳ ماجد مشكلا ٤٠٣ ۵۴۹ واشنگتن ۲۷۲۰۲۵ - ۱۹۸۲ ۵۶۸۰ - دالم مساک YAA مونگیر ۵۰۰۰ وڈار ۲۰۱ - ۳۱۷ میڈرڈ مانیاں مشرقی بنگال میر پور خاص مشرقی پاکستان ۹۰ تا ۱۰۱ - ۱۵۹ - ۱۷۹ میرٹھ.144-164 میمون سنگھ ۲۶ ہالینڈ ۳۸۰۰۳۷۸۰۳۷۷۰۲۷۳ - ۴۶۳ - ۴۲۲ - ۴۵۳ ۴۲ ۴۲۹۰۴۴۸ و زیر آباد اسم وی آنا ام
۳۶۹ - ۴۲۴ - ۴۴۷ - ۴۵۸ ۲۰۰۰ یا مانڈو ه و ۴ - ۴۵۱ - ۵۴۸ ۵۵۵۰ ۷۴۰۰ انگا ۴۰۲ ۵۹ ۴۰۰ ۵۲۰۰۵۳۵۰۵۴۱۰ - ۵۴۸ یورپ ۱۴ - ۱۷ - ۳۳ - ۷۰ ۶۹۰ ۲۱۷۰ میلی 474 - 044-247 - A<+ - Þ¥Y, PAJ بجگہ برسیان هزاده ۳۱۶ - ۳۱۷ ہوشیار پور بیگ ابلی -65--541-PA+PAP ہمبرگ ۲۰۵-۲۷۴ - ۴۶۷ - ۴۹۱ بیو فورڈ منسولونیا هندوستان ۹۷-۱۴۳ ۲۱۷۰۲۱۳۰۲۱۳۰ ۰۲۱۷ ۲۳۰۰۲۲۱ تا ۲۳۷۰۲۳۳ ۲۵۷۰ یاد که یادگیر ۲۲۰ - ۲۷۷ - ۲۸۰ - ۲۸۵ - ۲۶۷۰۲۹۲ تا یاغستان ی ۲۲۰ - ۲۳۴ - ۳۳۵ - ۱۱لم ۴۷۰۰ ۲۶۵۰ ۵۶۳ - ۵۲۹۰۵۰۶۰۵۰۴۰۲۸۷ 441 - 677 - 48+ - 861 Fax PAI Par MAA یوگنڈا ۳۸۲۰۳۸۴ تا ۳۸۰ داری دارد • یونی با نا
تفسیر ابن کثیر تفسیر القرآن جلد ۱ - ۲ حدیث الفتح الرباني بخاری شریف صحیح جامع الصغير ✓ کتابیات تحفہ گوئٹ وید ۵۶۳ نور الحق ۲۲۰ تریاق القلوب ٥٠٣ کتب خلفاء سلسله احمدیت یعنی تحقیقی اسلام ۲-۶۶۱ مدیره ۵۱۰۵۰-۳۲۰۰۳۴۰ - ۵۱۳ تذکره ۱۰۵۰ 46 019-00 تذكرة الشهادتين توضیح مرام چشمه معرفت LVA ۱۳۹ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات ۲۹۳ ۶۲۴ - ۵۶۵ اسلام اور ملکیت زمین IAL ۷۲۸ حقیقته الومی ۵۱ -۳۱۱ - ۳۱۲ - ۵۱۱ اسلام میں اختلافات کا آغا نہ كتب حضرت مسیح موعود خطبه الباميه ۲۱۱ - ۷۲۷ برکات خلافت آئینہ کمالات اسلام 24 - ۶۳۱ - ۶۶۴ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب پیام احمدیت ا بدالك او عام ۲۹۲ - ۲۷۸ اسلامی اصول کی فلاسفی ۲۰۹ - ۴۰۷ ۵۸۷۰ ضرورت الامام ۱۷۷ - ۷۲۶-۵۷۷ کشتی نوح فتح اسلام ۶۰۵ اہ لیکچر سیالکوٹ الوميت انجام انتم ایک غلطی کا ازالہ برا امین احمدیه ۲۹۳ - ۳۲۵ ۳۹۰۰ لیکچر لاہور پیغام مع ۱۱۴۰۱۱۳-۱۱۷-۱۱۸-۱۲۰ منن الرحمن ۴۲۰ ۲۶ تفسیر صغیر ۵۲۳ - ۵۲۶ تا ۵۲۸۰۵۲۲ - ۲۳۰۰ ۵۵۴۰۵۵۱۰۵۵۰۶۰۶ ۵۵۱۰۵۳۰۰۵۲۲ - ۵۲۲ ۷۳۶۰ ۴۲۹ 044 تفسير كبير.حضرت خلیفتہ اسی الاول کی پہلی تقریر ۶۶۲ ٥٠٠ خطبات محمود مکتوبات احمدیه ۶۲-۶۶۶ - ۲۶۹ خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک 106 ۵۶۳ خلافت حقہ اسلامیه ۴۷۶۰۲۷۰۰۱۶۱ ۱۲۲ ۱۳۰۰ ۵۵۵-۳۲۹۰۱۵۶۰۱۳۱۰ | مواہب الرحمن ۵۰۰ - ۵۰۰ دعوت اتحاد تجليات الهيد 052-866 ۲۴۰ نسیم دعوت ٥٩٧ - ٥٩٠ | دعوت الامير
i : 6.دیباچہ انگریزی ترجمه القرآن ۲۵۰۰۲۵۰ در مغان عرفانی فی حیات عثمانی ۱۶۳-۱۳ ۱۹۵۳ء کے فسادات کا پس منظر ۱۱۰ ۰۳۰ در اسلام -10 به اولو العزم مسیح موعود رحمة اللعالمین سلام اور اگر یہ وحرم اہلی زندگی کے متعلق اسلامی تعلیم 640 سیر روحانی ۲۰ ۳۰ حد اسلام اور بین الاقوامی تعلقات ۳۸۰ اور ایک کشف پر حلف کنده شود اسلام اور عیسائیت ایک نئی تحقیقات منصب خلافت اسلام پر ایک نظر بائیل کی بشارات بحق سرور کائنات ۵۰۲ نظامہ آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر اسلام کا مسیح موعود 10 بچوں کے لیئے اخلاقی مضامین - ۱۰- ۱۷ - ۱۹ - ۱۵۷ - ۰۷م اسلام کا د راشتی نظام ۳۲۲ برمان بدایت ۲۹۴ اسماء الحسنى ۴۲۰ ۶۷۲ بشارات رحمانیه ۲۰۰۰۲۷۵ ۴۲۰۰ ت مستنين الله اسماء القرآن في القرآن ۰۰۷۷۳ ۱ تا ۷۲ ، بحیرہ کی تا نه بینچ ۰۹۲۰۳۱۵ پندت پنڈت سیکھرام کا واقعہ قتل اصحاب احمد ٢٩٩ نظامی نو آسمانی تحفہ آو نادر شاہ کہاں گیا ؟ آئینه صداقت م الانذار ۶۶ پیر مہر علی شاہ صاحب کو ایک جیسٹر ڈ خط آمینه حق نما 441-447 البيان الكامل في الدق والسل ١٥٨٣ اعجاز القرآن ما يثبت بالقرآن ۱۷۲۰۷۷۳ پیارا مسیح موعود 41 اجرائے نبوت پہ رو انقطاع نبوت ۷۱۴ البنيان في اسلوب القرآن احکام القرآن حصہ اقول احمدی مذہب احمد کی اور ان کا منہ ہیب احمدیت احمدیت کا مستقبل 667-997 ۶۶۲ 667-447⑈ پیش گوئی متعلق مرزا احمد بیگ غیره ۱۴ المحقائق من الاحمدية ۲۵۳ تاریخ احمدیت ۱۳۸ ۰۲۱۷۰ ۳۴۱ ۳۴۰۰ المبشرات ۱۰۸ - ۵۱۸ ۳۷۳ - ۵۱۳ - ۱۸ ۵ - ۲۳۰۵۳۸ و ۲۰۱۰ ٢٥، المصابيح ۳۴۵ تاریخ القرآن - المودودي في الميزان ۴۱۹ تاریخ لجنه امام وقت کی بعیت ضروری ہے ۱۵ء تائید حق 467- 447 ٢٥٠ 16 احمدی خاتون احمدی عورتوں کے فرائض امت محمدیہ میں مجدد ۳۳۲ تبویب مسند احمد بن حنبل : احمدی فریق لاہور کے عقائد امثال القرآن احمدی کاسن امداد باہمی اب تحديث بالنعمة 014 - 66 احمدیہ پاکٹ یک ۶۸۵-۲۹۱-۱۰- امرتسر کی مادی ترقی کا اصل راز ۷۱ تحریک جدید کے بیرونی مشن ۴۲۰ اخلاق اور ان کی ضرورت اربعین ۴۲۰ امن کا پیغام دد ، تحفہ بنارس ۲۰ انڈکس خطبات جمعہ و عیدین ۲۲۰ تخف سالانه یا رپورٹ جاب ساز معداً ۵،۲
۳۹ تحقیق عدد تعلق تبریح ترجمة القران خاتم النبیین کا صحیح مفہوم ۶۶۲ خالد سیف الله ا سلسلہ احمد ۴۲۰ سباسل الملفوظات کر یمیر نمبر ۲ 410 سلطان التعلم مسبح بعودة تقویه فیروزی ۶۴۹ - ۶۶۱ خدا کا مسیح موعود خدا کی عبادت کیوں اور کیسے کرنی چاہیے؟ سیلک یہ وزارید حصہ قول ، دوم -447417 <ID سوانح حیات حضرت چوہدری غلام محمد خان تهنیت نام محتبی صادق تیرہ سو چالیس ہجری بھی گزر گیا خطبات که کمیته حصہ اول جان پدر کل ۶۶۳ - ۷۷۳ و خوب عمل ۵۰۵ صاحب جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام اور اس کے نتائج دوسری جنگ مقدس جلد اول ۶۶۳ سیرت المهدی 400 دی گریٹ ہیریٹیج جماعتی تربیت اور اُس کے اصول ۴۱۹ دیوان خادم چونویں پھیل سیرت حضرت امان جان حصہ دوم ۶۶۲ و کر حبیب ۳۷۰ - ۵۶۰۰۵۵۸ تا سیرت حضرت مفتی محمد صادق ساب ۵۶۵ توندی محمدحسین تیمیہ کی افتراء پرداز یو کا جواب ۵۶۶ ۵۷۰۰ - ۵۰۴ - ۶۶۳ -۷۷۴-۷۷۶ سیرت داؤد 479-476 چھتیس سال قادیان میں [644-617 ریورٹ مجلس مشاورت ١٩٥٠ ء ILA سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۹ ހ حصہ بت سیٹھ آئیل آدم کمیٹی والے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۷ء سیرت مسیح موعود جبل آن تا نیم موعود حضرت شہزادہ عبد الطیف شهید ۲۹۹ بجبر روایات ۲۰۵ - ۲۱۰ - ۳۲-۲۱۲ شرح القصيدة حقیقت نماز حکمت المرين في آيات القرآن.حیات احمد ۶ ۳۱۸ - ۵۸۲ - ۱۹۲ - ۵۵۰ - ۶۱۲ - ۶۱۵ شرح سند بخاری - ۶۲۹ - ۶۲۰ - ۷۶۵ ۰۰۲-۹۶۴ اد صداقت حضرت مسیح ، وعود علیہ السلام اند رائے انم - ۲۲۲ رحمة للعالمین فی کتاب بین اقل - دوم بائیبل فی حیات النبيق جلد قابل تمبرا [MM] علیم قرآن مسیح موعود حیات بقا پوری ۱۹م روز شاسیت حیات حسن ۰۷۳-۶۶۳ رد تناسخ اب حیات حضرت میر ناصر نواب صاحب - ۹۷ رو فضیلت مسیح روزه حیات قدیمی حصہ پنجم فوست اذا الصحف نشرت دا، فیشا غورث فیشا نورت که ما شفته قاعده عیبرانی سیکنڈ ایڈونٹ آف جیری کو ٹیسٹ قران کریم اور اس کی امجازی قوت حیات ناصر ۷۷۲ - ۶۶۲
قرآن کا اول وآخر مسلك الباب والبهاء 040 دینی منکر قرآن کریم کی روح سے سلسلہ نبوت جاری ہے.مسیح موجود کی صداقت پر بائیل کی شہادت زمین کی پکار قرآنی دعاؤں کے اسمرالہ قضا و قدر قول بلیغ 414 66-445 مشاہدات عرفانی ۴۱۹ معرفت النبی کے وسائل معيار الصادق کتاب الآداب حصہ اول ۶۶۳-۷۷۲ معیار صداقت ۷۷۲-۶۶۳ مقصد حیات 66-445 ۷۷۲ - ۶۶۳ کتاب الحج كتاب الزكوة كتاب الصيام کرسچین ڈاکٹرین کرشن اوتار كشف الحجاب فى تعبير الخواب کفاره ۱۵ مقطعات قرآنی کی فلاسفی 410 ۶۶۲۰۶۵۰ قادیانی مذہب 615-6-9 داء کتب اہل کتاب السلام استلا ایک بلاء ان ایسٹ افریقہ ۱۳۷۶ ۶۶۳ داء اسلام میں خلیفہ کا انتخاب ٥٢ انجیل IMA ۷۴۳ ۵۶۳ - ۳۹۷۰۳۵۷۰۶۳ ۷۷۲۰۶۶۳ بائیل منتظم جماعت کا منتظم کام تبلیغ اسلام تورات ۴۲۰ فقہ، اسلامیات، کلام وغیرہ نشانات صداقت ۱۵ اقترب الساعته 41 نظام قومی ۶۶۳ الاحكام السلطانية 14A-146 410 ۵۷۴ نیر صداقت ۷۱۴ -۱۵ الاخلاق والواجبات کیا مسیح ناصری نے مُردے زندہ کئے ۱۵ واقعات صحیحہ گالیوں کا جھوٹا الزام 414 ۵۷۴ - ۵۶۳ الخلافة ۲۵۲ ۱۶۶ وہ پھول جو مرتبھا گئے ٢٩٩ البينات في الدين والاجتماع ۲۵۲ گلگت کے تہوار اور عوامی روایات ۲۹۹ ہدایتہ المقتصد ترجمه بداية المستبد ٥١٨ المنتاج 144 146 ۶۶۲ 44.۲۹۲ شرح القاصد لا اله الا الله محمد رسول الله ۶۶۳ ہم احمدی کیوں ہوئے؟ لامپور تاریخ احمدیت ۵۹۲-۳۰۶ ہوٹو سیوری ورلڈ ۴۱۲ یا جوج ماجوج 068 ۵۰۴ کبزان ۵۷۴ سیرت و تاریخ د حیات النبی کتب غیر مبالغین لائف آف محمد ۶۶۱ | عسل مصفی.لائف آف احمد لطائف سادق لیکچر فضل حق محامد السح ۷۷۳-۶۶۴ مجدد اعظم محامد اسیح و قادیان ۵۱ - ۵۲ ما بدولت ۲۴۱ مذہبی راہنماؤں کی سوانح عمریاں کتب مخالفین سلسله مولانا ظفر علی خان مرکز احمدیت قادیان ۲۳۳ | ترجمان القرآن ۲۲۹ آپ کو شر
متقدمه ابن خلدون الخلافة ۱۶۶ رسالہ اقتدام - لاہور ۲۹۳۰۴۸۸۰۲۷۸ - ۴۷۷ - ۲۷۵ - ۴۶۹ | ۱۰۸ تاریخ آئمبر اسمعیلین ۲۹ اخبار البدر - قادیان ۳۰۹-۵۶۴ ۲۹۴ -۲۹۷ - ۵۰۳ تا ۵۰۰ ۵۰۹۰- ۵۱۳ -DAY-049 - 044|144 ۵۱۲ - ۵۲۲ تا ۵۳۴ - ۵۴۸۰۵۴۳-۵۴۹ معلومات عامه متفرق رسال البشرى - ریوه ۷۳۶ ۵۵۰ تا ۵۰۰ - ۵۳ - ۵۶۵ تا ۵۷۰ اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا ۳۸۲ اخبار قادیان ۲۹۴ -۲۹۷ - ۳۱۳ ۵۸۰-۵۰۲ - ۲۸۳ تا ۵۸۲ - ۵۸۹ - ۵۹۲ کو لیسٹر انسائیکلو پیڈیا ۴۴۷ ۳۱۷ - ۳۲۰ - ۵۶۲ - ۵۶۵ - ۵۷۵ - ۵۸۴ ۵۹ - ۵۹۸ - ۶۰۷ - ۲۱۶۰۶۹ - ۶۵۰ تا معجم المصنفين معجم المؤلفين 6.60-------04:460 ۱۳۵۲ ۶۳۱ تا ۶۵۲۰۶۲۹-۶۵۷-۶۵۸-۵۰۰ ۱۰-۱۷ تا ۷۲۰ - ۷۴۸۰۷۴۶ ۷۵۰۰ اسلحہ جنگ ۵۰۶ - ۵۰۰ اخبار الفتح قاہرہ ۱۳۸ - ۱۲۹ تا ۷۵۰ - ۷۵۹ ۷۷۰۰ - ۶۴ ۶۷۰۷۲۵۰ الاشتقاق والتعريب ۳۵۲ رساله الفرقان - ربوه ۳۷۰ - ۵۷۵ - ۵۸۹ اخبار رساله المصلح - کراچی بانگ دیل - 411-6-6- -|- ×¢A|11 اختبار المنیر فیصل آباد ۹۲-۹۲ - ۳۴۵ اخبار الهلال الافريقي - بوسيراليون - حدیث دفاع ۵.۳ تا ۵۰۰ رساله الفرقان - ربوه - خادم نمبر ۶۰۸ تا ۳۴۹ - ۷۱۳۰۶۸۳۰۶۸۱۰۶۸۰ ۴۶۳ اخبارات و رسائل اخبار الفضل - ريوه ٣-٥-٨-١٠-١٢ ہونوز اینڈوٹ اخبار آزاد کانپور ۳۰۰ ۶۲۰ ۱۹ تا ۳۵ ۳۹۰ - ۲۰۰۲۳۰۲۲ تا ۶۵-۱۶۸ اخبار امروزه مستان ۲۰۲۰۹۲-۲۰۳ اخبار انداد نوجوان - مدراس ۲۲۸ - ۵۷۵ ۷۱ تا ۷۵ - ۱۸ تا ۸۵ - ۸۹ تا ۱۱۲ - ۱۱۸ تا ۴۲۰ - ۵۲۱ - ۵۴۲ - -۷۲۸۰ ۷۲ اخبار آمرید سافر - جالندھر اخبار آفاق - لاہور اخبار اہلو والیہ گنٹ اخبار احسان - لاہور رسالہ ادب لطیف ۱۳۳ - ۱۴۲-۱۳۹ - ۱۴۳ - ۱۴۶ - ۱۵۲ مجلہ انٹر نیشنل سپیکٹر - بیگ ۶۴۰ ۱۵۳ - ۱۵۵ - ۱۷۰ - ۱۹۹ - ۲۰۲۰۲۰۰ اخبار انقلاب - لاہور ۹۲ - ۲۰۷ - ۲۱۲-۲۰۹ ۲۱۶۰ - ۲۲۱ - ۲۳۲ اخبار انگار ہے.حیدرآباد ۲۲۲ ۴۲۳ ۶۴۰ ۲۳۶ - ۲۳۸ - ۲۴۲ - ۲۴۳ - ۲۵۱-۲۴۹ رساله انوار احمدیہ لدھیانه ۹۲ - ۳۴۷ ۲۵۴ ۲۵۰۰ - ۲۵۹ ۲۲۰۰ - ۲۷۲-۲۲۹ اخبار اہلحدیث - امرتسر ۸ ۲۷۶ - ۲۷۷ ۲۸۰۰ - ۲۸۴ - ۲۸۹۰۲۸۰ تا ۲۹۳ اخبار ایسٹ افریقین ٹائمز اخبارہ انرگس.یوگنڈا ۳۸۷ ۲۹۸ تا ۳۰۰ - ۲۰۸۰۳۰۷ - ۳۱۳ - ۳۴۶ اختبار ایوننگ ٹائمز - نائیجیریا - ۳۹۰۰۳۸۹ رسالہ اصلاح النظر ۶۲۹-۶۶۱-۷۲ ۳۵۴ ۳۵۶۰ - ۳۵۹ تا ۳۶۴ - ۳۷۱ تا ۳۸۰ اخبار بدر قادیان ۲۳۱ - ۲۲۳-۲۳۲ اختباره افریقین کریسنٹ - بو - سیرالیون ۳۰۰ ۳۹۰ - ۱۳۹۵ - ۲۰۹ - ۲۱۵ تا ۲۱۹ - ۴۲۷ ۲۰۰ تا ۲۸۵ - ۲۹۱ - ۲۹۲ - ۲۲۲ - ۴۲۴ اخبار افغان پشاور ۲۲۹۱۳۲۹ تا ۲۲۰ - ۲۷ - ۴۴۷ - ۴۵۰ - ۲۷۲ - ۴۲۶۱۳۶۸ - ۰۲۴۷ ۰۵۱۳ ۵۲۲ تا ۵۲۸ - ۵۶۵
404-4-2-24 - a^r-bə – 344 6 4 6 0 ۱۳۹ اخبار صدق جدید یکھنڈ اخیاردی گرٹیلنٹن روڈ ٹیس میگرین ۵۶۹ رسالہ صوتِ اسلام - یوگنڈا.43.۲۰ - ۱۰۴ - ۹۷۵ - ۱۹ - ۲۴۰۰۰۰ تا اخبار دی سلم سن رائز - امریکہ ۷۲ ۰۲۰۰ - ۰۲-۰۲۱-۷۳۶۰۷۳۴ اخبار ڈیلی ٹائمز - نائیجیریا ۳۹۴-۳۰۰ رسالہ فاروق - قادیان-۵۷۵۰۵۶۷ -40747 - 4 } - 4 }} -9--964 " اخبار پاسیان - ڈھاکہ اخبار پاک کشمیر.راولپنڈی ۵۰۷ اخبار ڈیلی سردی نائیجیریا ۲۹۱ اخبار فیروز - امرتسر ۶۳۹ تا ۶۲۱ اخبار پاکستان ٹائمز - لاہور ۸۲-۹۲-۱۱۴ اخبار ڈیلی سیلون - کولمبو اخبار پبلک ریلیجنز - امریکہ ۵۶ اخبار ڈیلی نیوز - کولمبو ۵۰۲ اخبار کرزن گزٹ.دہلی اخبار پرکاش - لاہور اختبار پنجاب - امرتسر ۰۶۴۹ ۵۰۲ اختبارہ ڈیٹی میں - فری ٹاؤن ۴۰۴ ۲۰۲۰ اخبار کومٹ.نائیجیریا 06401451 رساله پیام - گجرات ۲۸۰۰۶۷۷ اخبار رفتار زمانه امین آباد.اخبار کومستان - لامبور ۹۳-۱۲۱۰۹۹ ۱۱ ۱۲۱۰۱۲۰ تا ۱۳۴-۳۶۲۰۳۹۱ اختبار روشنی - سرینگر دد اخبار گلزار - سرینگر ا اخبار پلیسه - لاہور ۶۳۷ ۶۴۰۰ تا ۲۲۲ اختبار رہنما - سرینگر دهد اختبار لاہور.لاہور ۹۲ اخباره ریاست - دیلی ۳۶۹۰۹۸ تا ۳۷ رساله لائف - امریکه ۲۵۵۰۳۹۶ اخبار ماتر بھولی کالیکٹ کیرالا ۴۲۳ اخبار پیغام ملح - لاہور -۱۰۲۰۹۲-۱۰۲ ۲۶۹ ۲۰۴ ۰۱۱۳ - ۱۰۷ اختبار تقسیم.لاہور -0.اخبار ریاض هند: امرتسر ۲۲۸ اخبار مانچسٹر گارڈین انگلستان - ۲۰۲ ۵۰۰۰۹۲ رساله دیوید آف ریلیجنز ۳۲۲ - ۲۰۲۵۷۶ - رساله تشمند الا زبان ربوه ۲۳۹ - ۷۲۵ ۶۴۴ ۷۲۰۰ - اخبار ٹائمز آف انڈیا.بھارت ۵۴۶ اخبار زمانہ کانپور اخبار مجاید - لاہور ۶۴۰ اخبار مسافر I رسالہ ٹٹ بیٹس.ولایت اخبار زمیندار لاہور ۲۶۸ - ۶۴۷ رساله مشکوة - قادیان اختبار جہاں نما اخبار مغربی پاکستان لاہور ۲۶۲ رساله چیان از مور ۱۱۲۰۹۲ اخبار سراج الاخبار، جمیلم ۲۴۹ اخبار ممباس ٹائمز.کینیا 60+ رساله خالد - ریدہ ۵۲۵-۶ اخبار سفینہ لاہور ۸۰-۹۲ - ۱۱۰ اخبار منشور محمدی - بنگلور رسالہ خدام الدین - لاہور ۲۹۷ سالہ سیارہ ڈائجسٹ، کراچی ۴۴۳ اخبار میکنے گزٹ.لنڈی اختبار خدمت - سرینگر دد اخبار سیمینار اسلام - انڈونیشیا ۴۹۱ اخبار نوائے پاکستان لاہور.اخبار دی ٹائمز آف کراچی ۹۲-۱۱۴ اخبار شحنہ ہند - میرٹھ ۶۳۸ ۹۲ - ۹۹ ۰ ۱۱۴ - ۲۰۱ ۲۰۲۰ - ۲۷۵ اخبار دی سینیٹل.رانچی ۲۵، اختیار صدق.لکھنؤ ۶۷۴ اخبار نور قادیان ☑4
۴۳ اخبار نورافشاں.لدھیانہ رساله نیز صداقت گجرات ۶۰۹ اخبار وکیل امرتسر رسالہ نیوز اینڈ نیچرویوز رسالہ ویونیوائنٹ.راولپنڈی ۲۲۴ اخبار اخبار وطن بیٹی ۶۴ - ۶۳۷ اخبار مینه داستان ٹائمز دبی ۵۲۷ اخبار سواحیلی اخبار 40 MWANGAZA + ZUHRA