Tarikh-eAhmadiyyat V17

Tarikh-eAhmadiyyat V17

تاریخ احمدیت (جلد 17)

مئی 1955ء ۔ جون 1956ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

(پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 18)


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد شد هم (^) مئی ۱۹۵۵ء - جون ۱۹۵۶ء مؤلفى دوست محمد شاہر

Page 2

تاریخ احمدیت جلد ہفت دہم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر : نام کتاب مرتبه طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد ISBN-181-7912-124-0 شائع کردہ مطبع TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-17(Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-124-0

Page 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالی کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جابجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے

Page 4

اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلدنمبر ۱۸ کوجلد نمبر ۷ ابنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت سے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تا ہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد ہفتند ہم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)

Page 5

, فهرست مضامین تاریخ احمدیت جلد هشتند بهم عنوان پہلا باب عنوان مسلمان اپنے داخلی اختلافات کو نظر انداز صفحہ مجلس مشاوت ۱۳۳۲ / ۱۹۵۵ کر کے اشاعت اسلام کیلئے متحد ہو جائیں ۲۹ لیکر امریکہ میں نظام الوصیت" فصل چهارم کے نفاذ کی تحریک تک بر صغیر پاک و ہند میں سیلاب اور فصل اوّل امدادی سرگرمیاں مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء م ہندوستان افتتاح ه قادیان ۳۴ حضرت مرزا بشیر احمد صاحیت کا نوٹ قادیان کے مضافات میں رفاہی خدمات ۳۹ حضرت مصلح موعود کا پیغام شورٹی کی کارروائی ارشاد مبارک حضرت مصلح موعود پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں اور جماعت احمدیہ کی امدادی خدمات پاکستانی پرئیس اور جماعت احمدیہ کی امدادی مشرقی پنجاب میں صداقت احدیت کا ایک نشان فصل دوم ۱۵ خدمات 46 فصل پنجره حضرت اماں جی صغری بیگم صاحبہ کی اسناک وفات ۱۰ صنعت و حرفت کی ترویج کیلئے خصوصی تحریک ۱۰۰ نوجوانان احمدیت کو عبادت کی خصوصی تحریک ۱۰۳ حضرت مصلح موعود کا برقیہ اولاد تأثرات فصل سوم ۲۲ صیغه زود نویسی کو اپنی ذمہ داری پیر خطبات امامہ شائع کرنے کی اجازت ۱۰۳ فصل ششم اتحاد بین المسلمین کی تحریک || امریکہ میں نظام " الوصیت کے نفاذ |

Page 6

J.صفحہ عنوان کی پر زور تحریک عنوان ۱۰۴ ایک الوداعی دعوت میں حضرت دوسرا باب مصلح موعود کا خطاب حضرت مصلح موعود کے افریقین احمدیوں لوبہ مدراس اور جنوبی ہند کے احمدیوں کے کے نام پیغام سے لیکر امیر پاش کے نام محبت بھرا پیغام قیامت کی فصل اول حضرت مصلح موعود کا پیغام افریقی 110 قادیان دابر الامان کی طرف رجوع خلائق فصل چهارم صفحه ۱۵۱ ۱۵۲ قادیان اور ربوہ میں سالانہ جلسے ۱۵۶ قافلہ پاکستان دیار حبیب میں احمدیوں کے نام خواتین مبارکہ کے اعزازہ میں عصرانہ 119 جلسہ کا افتتاح اور حضرت مصلح موعود بیرونی ممالک کے احمدیوں کے لئے دو اہم ہدایات کا پیغام ۱۲۰ قادیان کی روحانی فضا وقف زندگی کی پُر جوش تحریک ۱۲۲ فصل دوم ربوہ کا سالانہ جلسہ اور حضرت مصلح مربعون کی ایمان افروز تقریریں ۱۵۷ ۱۵۹ 14 161 184 عقیدہ ختم نبوت سے متعلق ایک نہایت ہی خطیبی ۱۳۳ ۲۷ دسمبر کی ایمان افروز تقریبہ دُعاؤں کی خصوصی تحریک ۱۳۷ ۲۸ دسمبر کا ایمان افروز خطاب خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع اور حضرت ایک غیر از جماعت مسلمان کے تاثرات ۱۷۸ مصلح موعود کے پر معارف خطابات ۱۳۸ جماعت شاندا جماعت احمدیہ کی شاندار تعلیمی جدوجہد پر ایک نظر (۱۸۲ تلقین عمل کا پروگرام ۱۴۵ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی طرف ہند وستان میں تبلیغی جدو جہد سے متعلق ایک اعلان ۱۴۰ سے دینی اور دنیوی وقف کی تحریک فصل پنجم فصل سوم مجلس انصار اللہ مرکز یہ کاپاکستان میں حضرت مسیح موعود کے جلیل القدر اصحاب کا پیدا سالانہ اجتماع ۱۳۷۱ | انتقال 1941 ۱۹۴۱

Page 7

۲۶۵ ۲۷۴ ۲۷۵ ۲۷۵ で عنوان صفحه عنوان حضرت چوہدری محمد عبداللہ صاحب نمبر داره المحاج مولانا نذیر احمد علی صاحب پہلو پوری ۱۹۴ رئیس التبليغ مغربی افریقہ حضرت چوہدری باغ دین صاحب ۱۹۸ جناب صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی ایم اے مبلغ امریکہ حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب اسٹنٹ سرجن بہا ولپور ۲۰۰ نواب محمد الدین صاحب کی تدفین حضرت حکیم شیخ فضل حق صاحب حضرت سید نذیر حسین شاہ صاحب ۲۰۴ بہشتی مقبرہ میں فصل هفتم پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ گھٹیالیاں 200 ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات حضرت ماسٹر محمد حسن آسان صاحب دہلوئی ۲۰۹ خاندان حضرت مسیح موعود میں پُر مسرت حضرت خاں صاحب سید غلام حسین تقاریب ۲۲۹ خاندان حضرت مسیح موعود میں اضافہ شاہ صاحب بھیروی حضرت سید علی احمد صاحب مہاتمہ مبلغ انڈونیشیا کے اعزاز میں عشائیہ ۲۷۶ رجا ولی ضلع انبالہ ۲۳۶ قادیان کے بزرگ درویش اور اخبار ریاست ۲۷۶ حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحب ۲۳۹ ایک غیر احمدی صحافی کے تاثرات چوہدری فضل الہی صاحب امیر جماعت احمدیہ صدر انجمن احمدیہ کے لئے تحریک و افقین کھاریاں فصل ششم ۲۵۱ ربوہ میں ایک مشہور اطالوی پروفیسر کی آمد ۲۷۹ لجنہ اماء اللہ کا عہد بعض دیگر مخلص اور جاں نثار خدام احمدی جماعت احمدیہ کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ ۲۷۹ ۲۸۰ کی وفات حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب ۲۵۴ مولانا ابو العطا صاحب کا سفر قادیان ۲۸۲ ۲۵۳ مالا یار کے ایک قدیم احمدی کا انتقال ۲۸۱ جناب حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ امریکن رسالہ لائف میں جماعت احمدیہ کی مغربی افریقہ شاندار تبلیغی جدو جہد کا ذکر

Page 8

عنوان صفحه عنوان امریکی رسالہ کائف" کے مضمون پر مبلغین کی ایک تقریب میں حضرت اخبار لوح و قلم کا تبصرہ احمدی طلباء کی نمایاں کامیابی مصلح موعوضو کی شرکت ۲۸۹ ایک نہایت اہم تحریک ۲۹۱ بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں جامعہ احدید کی احمد نگر سے ربوہ منتقلی ۲۹۱ قادیان سے رسالہ اصحاب احمد کا اجراء ۲۹۱ مجاہدین احمدیت کی روانگی اور قادیان کے احمدی اور شہر نار تھی ۲۹۲ کامیاب مراجعت وفات خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی ۲۹۴ نئی مطبوعات کوئٹہ میں بہائیوں پر اتمام حجت ۲۹۷ تیسرا باب آنریری مبلغ احمدیت سوڈان کا انتقال ۲۹۹ احمد پیشن لائبیریا کا قیام اور ڈاکٹر عبدالت عام صاحب کا معلومات افزا اس کی دینی خدمات لیکچھ جھنگ مگھیانہ میں فصل اوّل ٣٠٠ دفتر لجنہ اماءاللہ کراچی کا افتتاح ۳۰۱ لائبیریا میں احمدیت کا پیغام جامعہ المبشرین میں ایک مبارک تقریب ۳۰۲ مشن کی بنیاد بستان میں جماعت احمدیہ کے کارناموں کا تذکره ۳۰ حضرت مصلح موعود کی ہدایات اور یو به تشکر تأثرات " ربوه" تبلیغی وسعت فصل دوم چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب کی تقریر مجاہدین احمدیت کی تبلیغی سرگرمیاں روحانیت سے تعلق دوسری قومی کانفرنس میں ۳۰۰ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کو لٹریچر مارشل بلگانن اور مسٹر کی وشچیف کو ڈاکٹر بلی گرا ہم پر اتمام محبت ہے ترجمته القرآن انگریزی کا تحفہ صفحه ١٠ ۳۱۳ ۳۲۸ ۳۲۹ ۳۳۰ ٣٣١ ۳۳۴ ۳۳۵ ۳۰۹ میشہ کے شہنشاہ پہیلی سلاسی کو پیغام حق ۳۳۷ جلالة الملک شاہ سعود کی خدمت میں جماعت احمدیہ کی غیر معمولی ترقی اسلامی لٹریچر ۳۱۰ || نا کبیر یا پولیس میں اثر و نفوذ یا و އނ

Page 9

عنوان تعطیل جمعہ کی کامیاب کوشش صفحہ ٣٣٩ عنوان فصل اوّل مکرم بشیر احمدخان صاحب رفیق کا دورہ امبر با ۳۴ تبلیغ احمدیت کی خصوصی تحریک مشن ہاؤس کے لئے عمارت کی خرید ۳۴۱) حضرت مصلح موعوضو کا جامعتہ المبشرین میں سیرت النبی کا کامیاب حلیمہ ۳۴۲ پر معارف خطاب دو لبنانی علماء کو تبلیغ ۳۳۵ احباب جماعت کے لئے ضروری اعلان صفحه امام جماعت احمدیہ کا لائبیرین مسلمانوں کو امریکہ سے تعلق ایک پر شوکت پیش گوئی ۳۸۲ عید مبارک کا پیغام ہائی سکول کا اتبراء ۳۴۷ مبلغین کے اعزاز میں ایک خصوصی تقریب ۳۸۴ ۱۳۴۸ فصل دوم قائد اعظم کی صد سالہ تقریبات کا انتظام ۳۵۳ کتب حضرت مسیح موعود کے پڑھنے اور آرچ پشپ آف کنٹر بری پر اتمام حجت ۳۵۰ حضور کے مقدس تبرکات کی حفاظت امریکی بحریہ کے کمانڈر کو اسلامی لٹریچر ۳۶۰ کے لئے تحریک حضرت مصلح موعوضو کی قیمتی نصائح مسلمان مشن ہاؤس کی جدید عمارت احمدیہ کلینک کا اجراء ۳۶۲ طلباء کو خانہ خدا کی تعمیر تو ایک بہائی بریسٹر کا بے بنیاد پروپیگینڈا اور ۳۸۵ لا شبیر یامین کا اہم ترین واقعہ حضرت حضرت مصلح موعود کا حقیقت افروز جواب ۳۹۰ خلیفة المسیح الثارات کی تشریف آوری ۳۶۵ حضرت مصلح موعود کا پیغام جماعت احمدیہ فصل سوم ڈیرہ غازہ پنجان کے نام مشن کی عظیم الشان خدمات سے متعلق تاثرات ۳۶۷ طلبا تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ سے چوتھا باب حضرت مصلح موعود کا خطاب ۳۹۵ ۳۹۹ تبلیغ احمدیت کی خصوصی تحریک سے فضل عمر بجستان اور دفتر مجلس لیکر احمدیہ مشن سکنڈے نیویا انصار الله مرکنه به کاسنگ بنیاد کے قیام تک.دفتر انصاراللہ مرکزہ یہ کی عمارت کی تکمیل ۴۰۰۱

Page 10

عنوان فصل سوم نوان حضرت مصلح موعود کا پہنچا ہم تعلیم ان اسلام ۴۵۴ سین می تبلیغ پر پابندی اور حضرت مصلح موعود ۴۲ ہائی سکول کے سٹاف کے نام مشرقی پاکستان پریس کی طرف سے زبر دست نور ہسپتال کے نام پر ایک شاخسانہ در ۴۵۴ احتجاج فصل چهارم ۴۰۵ فصل هشتم نوجوانان احمدیت میں روحانی انقلاب ۴۶۰ وقف زندگی سے تعلق تجاویز اور حضرت ٹیونس.زیکو سلاواکیہ اور مراکش میں ۴۰۸ اشاعت احمدیت مصلح موعود کا اظہار رائے قادیان کے لئے تحر یک وقف زندگی ۱۲ام فصل پنجم فصل هیم اہم خطبہ شادی بیاہ کے متعلق ۴۱۲ سیرالیون میں ایک عظیم نشان کا ظہور ۴۶۴ مسلمانوں پر حکومت فرانس کے ظلم ونشدد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام پر جماعت امری کے خلاف احتجاج پر احمدیہ دالم فصل دهم پاکستان فصل مالم احمد بیسکم سکنڈے نیویا مشن کا قیام ۴۷۹ افغانستان میں ایک مخلص احمدی کی شہادت موسوم مشن کا پہلا دور (خلافت ثانیہ میں ۴۸۲ ۴۲۲ اسلامی ممالک کی نسبت حضرت مصلح و پر کیا اثرات ۲۲۴ سکنڈے نیویا کے بعض دیگر ابتدائی مبایعین ۴۸۳ داؤد جان کی شہادت سے متعلق اخبار ریاست اوسلو میں مرکز کا قیام کا اداریہ فصل مفتم ۴۳ ۴۳۱ کوپن میگن پریس میں احمدیت کا چرچا ۴۸۴ ملکی لائبریریوں میں اسلامی لٹریچر نخلہ کے نام سے ایک نئی بستی کی بنیاد ۳۳ نومسلموں کی تعلیم و تربیت اخبار المنیر لائل پور کا اعتراف حق فن لینڈ میں پیغام احمدیت مجلس مشاورت ۵۶ (۳۹) ۴۴۷ ماہنامہ ایکٹو اسلام کا احتراء ۴۸۴ م مالا بارہ احمدیہ کا نفرنس کیلئے برقی پیغام ۴۵۲ ڈنمارک مستقل مشن کی حیثیت سے ۴۸۷

Page 11

عنوان صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا دورہ کوپن ہیگین دوسرے مرکزی مبیشترین کی آمد خوانین احمدیت کی مالی قربانی صفحه عنوان صفحه گوٹن برگ میں یورپین مبلغین کی کانفرنس ۵۰۳ ۴۸۷ چودہ یوگوسلاوین کا قبول احمدیت ۴۸ مسجد ناصر کی افتتاحی تقریب ۴۸۹ پریس میں چہ چا مسجد نصرت جہاں کا سنگ بنیاد ۴۹۰ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا سفر شد ۴۹۱ احمدی مبلغ کو وزارت انصاف کی خصوصی اجازت مسجد نصرت جہاں کا افتتاح کوپن ہیگن کی اہم شخصیتوں کی ملاقات اور مسجد نورا وسلو کا حضرت خلیفہ اسیح الثالث حضرت امام جماعت احمدیہ کا عیسائی دنیا کو چیلنج ۴۹۲ کے ہاتھوں مبارک افتتاح تقریب افتتاح کا چرچاؤ نمارک پریس میں ۴۹۴ حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی کا کلیسیا کی طرف سے مخالفت کا آغازہ ۴۹۷ پہلا سفر سکنڈے نیویا ڈینش ترجمہ قرآن کی اشاعت و مقبولیت ۴۹۹ پریس کانفرنس اخبار خلیج ٹائمز " میں ڈینیش ترجمہ قرآن استقبالیہ تقریب کا ذکر یوگو سلاوین حلقوں میں احمدیت کا اثر و نفوذ ۴۹۹ ربانی تائید کا ایک خاص نشان..جمعه ۵۰۲ پہلی مجلس شوری.گوٹن برگ مشن کی بنیاد حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے دست مبارک بڑے نیو یا پریس میں چہ بچھا سے مسجد ناصر کا سنگ بنیاد ۵۰۳ مشن کی مطبوعات ۱ فهرست قافله پاکستان برائے جلسہ سالانہ قادیان -۲- پاکستان فورم آف لائبیریا کے متعلق اخبارہ لامیر بیرین سٹارہ کی خبر.پاکستانی سفیر کے خطوط ۵۰۳ ۵۰۵ ۵۰۷ 110" ۵۱۸ ۵۲۱ ۵۲۴ ۵۲۵ ۵۲۵ ۵۲۷ ۵۲۹ ۵۳۶ = 1

Page 12

N تصاویر -۱ حضرت مصلح موعود جامعۃ المبشمرین کی ایک تقریب میں -۲- جامعة المبشرین میں سید ولی اللہ شاہ صاحب کی الوداعی تقریب -۳ جلسه سالانه که بوه ۹۵۵ار کی بعض یادگار تصاویر -۴- ممباسہ مشرقی افریقہ میں حضرت مسیح موعود کے بعض رفقائے خاص - سید نا حضرت مسیح موعود کا ایک تاریخی گروپ فوٹو معتکفین مسجد مبارک قادیان ۱۹۵۵ - سنگ بنیاد فضل عمر ہسپتال حضرت مصلح موعود کے دستِ مبارک -۸- سنگ بنیاد دفتر انصار الله مرکز یہ ربوہ حضرت مصلح موعود کے ما ٢٨٢ دستِ مبارک سے سے

Page 13

بسم الله الرحمنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِ وَعَلَى عَبْدِهِ المَسيحَ الْمَوْعُود پہلا باب مجلس مشاورت سے سے لے کر ۶۱۹۵۵ امریکہ میں نظام الوصیت کے نفاذ کی تحریک پیکٹ سید نا حضرت مصلح موعود کے با برکت عید مبارک بلکہ آپ کی پوری زندگی کا جامع نقشہ اشتہار ۲۰ فروری شاہ کی الہامی پیش گوئی میں موجود ہے اور اس کا خلاصہ حضرت اقدس مسیح موعود نے درج ذیل اشعار میں بیان فرمایا ہے.بشارت دی کہ ایک بیٹا ہے تیرا جو ہوگا ایک دن محبوب میرا کروں کا دُور اُس مکہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ ایک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي اس الہامی بشارت کے ہر لفظ کا عملی ظہور حضرت مصلح موعود کے مبارک زمانہ میں اس کثرت اور تواتر سے لے مجموعہ آمین صفحه المطبوع ضیاء الاسلام پولیس قادیان ۲۷ نومبر ۶۱۹۰۱

Page 14

ہوا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور علم تاریخ اور اس کے فلسفہ کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر بھی اس محض اتفاق سے تعبیر نہیں کر سکتا.قدرت ثانیہ کے اس عظیم الشان منظور کی راہ میں بار بارہ اندھیرے آئے مگر نیز صداقت کی کرنوں کی تاب نہ لاکر پاش پاش ہو گئے جس پر ۱۹۱۳ ، ۱۹۲۴ ، ۱۹۳۳ ، ۱۹۳، ۱۹۲۶ اور بعد کے سالوں کی تاریخ گواہ ہے.اسی طرح شاہ کا سال بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے شروع میں خدا کے محبوب بندہ اور حضرت مسیح موعود کے لخت جگر سید نا محمود المصلح الموعود کی شدید بیماری سے دنیائے احمدیت پر ایک تاریک رات چھا گئی جو حضور کے سفر مشرق وسطی و یورپ اور لندن میں مبشرین اسلام کی عالمی تبلیغی کا نفرنس کے بعد نہ صرف ایک پر نور سویرے میں بدل گئی بلکہ مغربی ممالک میں قرآن مجید کے عالمی روحانی اور تبلیغی انقلاب کے لئے ایک زبر دست حرکت پیدا کرنے کا موجب بنی اور مسلم یورپ کا وہ تصور جو حضرت مسیح موعود نے القاء ربانی کے تحت کتاب ازالہ اوہام اور نور الحق (حصہ اول) میں پیشیں فرمایا تھا جلد جلد حقیقت کا رنگ پکڑنے لگا.ر کے یادگار سال کے مندرجہ ذیل واقعات کا ذکر تاریخ احمدیت کی سترھویں جلد میں آچکا ہے :- شاہ کا پہلا خطبہ جمعہ.جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے لئے قیمتی تبرک.شاہدین سے متعلق نئٹی سکیم.صدر انجمن احمدیہ کے لئے تحریک وقف ضروری لٹریچر تیار کرنے کا ارشاد حضرت مصلح موعود کی تشویشناک علالت (۲۶) فروری) حضور کے روح پرور پیغامات.دوسرا کامیاب سفر یورپ ( روانگی از ربوه ۲۳ مارچ - دمشق ، بیروت ، زیورک ، نیورمبرگ.ہمبرگ اور ہالینڈ میں شاندار تبلیغی مساعی.لندن میں مبلغین احمدیت کی عالمی کانفرنس (۲۲ تا ۲۴ جولائی ).کراچی میں درود (۵ ستمبر ).ربوہ میں عظیم الشان استقبال (۲۵ ستمبر ) - اب اس جلد میں سب سے پہلے ٹائر کے بقیہ واقعات درج ہوں گے بعد ازاں له صفحه ۱۶۷۵۱۵ ۵ طبع اول (۱۳۰۸ھ / ۶۱۸۹۱) ریاض بند پرئیس امرتسر : ۱۲۰ صفحه ۴۴ طبع اول ۵۱۳۱۱۱ / ۶۱۸۹۴) مفید عام پولیس لاہور :

Page 15

تاریخی ترتیب کے مطابق سیکنڈ سے نیو یا مشن کی بنیا فہ تک کے ضروری کو الف و احوال پر روشنی ڈالی جائے گی جس سے نہ صرف اُس دور کی عالمگیر جماعتی سرگرمیوں کی تفصیل آنکھوں کے سامنے آجائے گی بلکہ یہ بھی معلوم ہوگا کہ خدا کے آسمانی سلسلہ کا قدم اپنے پیارے امام ہمام کی بیماری کے ایام میں بھی پیچھے نہیں ہٹا بلکہ الہی نوشتوں کے مطابق آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا جیسا کہ خود حضرت مصلح موعود نے دس سال قبل 19 اپریل ۱۹۳۵ء کی مجلس مشاورت (قادیان) سے خطاب کرتے ہوئے پیش گوئی فرمائی تھی کہ :- ہر احمدی کو سمجھ لینا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود نےاللہ تعالیٰ سے الہام پاکر میرے متعلق جو یہ خبر دی ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا اس کے معنے.....یہ تھے کہ کام کی اہمیت کے پیش نظر میرا فرض ہو گا کہ میں تیزی اور سرعت کے ساتھ اپنے قدم کو بڑھاتا چلا جاؤں اور جب میں....جلد جلد قدم بڑھاؤں گا تو خدا تعالے ان لوگوں کو بھی جو مجھے پر ایمان لائیں گے اس بات کی توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ جلد جلد اپنے قدم بڑھائیں.اسی طرح جب خدا نے مجھے خبر دی کہ زمین میرے پاؤں کے نیچے سمٹتی چلی جارہی ہے اور میں تیزی سے بھاگتا چلا جا رہا ہوں تو اس کے معنی بھی درحقیقت یہی تھے کہ جب میں تیزی کے ساتھ بھاگوں گا اور زمین میرے قدموں کے نیچے سمٹنی شروع ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان سچے مخلصوں کو بھی جنہیں میرے ساتھ وابستگی حاصل ہوگی اس امر کی توفیق عطا فرما وے گا کہ وہ زمین کو جلد جلد طے کریں اور آناً فاناً دور دراز فاصلوں کو طے کرتے ہوئے دنیا کے کناروں تک پہنچ جائیں “ لے سے رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۲۴ مگا ، ص۱۷۹ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قا دیان

Page 16

فصل اوّل مجلس مشاورت ۱۹۵۵ اِس سال جماعت احمدیہ کی چھتیسویں مجلس مشاورت کا انعقاد ۷، ۱۹۷۸ اپریل ۱۹۵۷ مهر (مطابق ۷، ۸، ۹ شہادت ۱۳۳ بیش ) کو عمل میں آیا.یہ مشاورت بھی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہال میں ہوئی اور اِس ہیں.۳۰ پاکستانی نمائندگان کے علاوہ بعض بیرونی ممالک کی احمدی جماعتوں کے منڈوب بھی شامل ہوئے.حضرت مصلح موعود ان دنوں سفر یورپ کے ارادہ سے کراچی میں قیام فرما تھے.حضور کی ہدایت کے مطابق مجلس کی صدارت کے فرائض مکرم جناب مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ صوبہ پنجاب نے انجام دئے.یہ پہلا موقع تھا جبکہ یہ مرکزی تقریب حضور کی عدم موجودگی میں منعقد ہوئی اور اس نے ہر نمائندہ کو پوری شدت سے محسوس کرا دیا کہ امام وقت کا مبارک اور خدا نما وجود رکتنی بھاری برکات اپنے اندر رکھتا ہے.سید نا حضرت مسیح موعود المل و اتم درجہ پر فائز محبوبان درگاہ الہی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:." خدا کا نور اُن کی پیشانی میں اپنا جلوہ ظاہر کرتا ہے.ایسا ہی اُن کے ہاتھوں میں اور پیروں میں اور تمام بدن میں ایک برکت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اُن کا پہنا ہوا کپڑا بھی مشترک ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات کسی شخص کو چھونا یا اس کو ہاتھ لگانا اُس کے امراض روحانی یا جسمانی کے ازالہ کا موجب ٹھہرتا ہے.اسی طرح اُن کے رہنے کے مکانات میں بھی خدائے عز و جل ایک برکت رکھ دیتا ہے.وہ مکان بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے.خدا کے فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں.اسی طرح اُن کے شہر یا گاؤں میں بھی ایک برکت اور خصوصیت دی جاتی ہے.اسی طرح اس خاک کو بھی کچھ برکت دی جاتی ہے جس پر اُن کا قدم پڑتا

Page 17

ہے یا لے شمع خلافت کے پروانے جب دیکھتے کہ اُن کا جان سے بھی پیارا آقا اُن کے درمیان موجود نہیں تو اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا جاتیں اور اُن کے قلوب کی گہرائیوں سے یہ دعا نکلتی کہ خد اکر سے وہ دن جلد از جلد آ جائے جبکہ حضور صحت کاملہ اور عاجلہ کے ساتھ ہم خادموں کے درمیان رونق افروز ہوں اور ہمیں حضور کے روح پرور کلمات سننے اور حضور کی برکات سے مستفیض ہونے کی سعادت حاصل ہو.افتتاح ح بہر کیف افسردگی اور متفرقانہ دعاؤں کے اس ماحول میں مشاورت کی افتتاحی کارروائی حسب پروگرام ، اپریل کو ٹھیک ۲ بجے بعد دو پر شروع ہوئی.تلاوت قرآن کریم جناب صالح شیبی صاحب انڈونیشین نے کی.اس کے بعد صدر مجلس مرزا عبدالحق صاحب نے حاضرین سمیت دعا کی اور فرمایا افسوس ہے کہ ہم اس مرتبہ ایسے حالات میں یہاں جمع ہوئے ہیں کہ حضرت مصلح موعود اپنی بیماری کی وجہ سے ہم سے دُور تشریف لے گئے.حضور کی عدم موجودگی میں دوستوں کو زیادہ سے زیادہ دعاؤں سے کام لینا چاہئیے تا کہ عملی لحاظ سے ہم پہلے کی نسبت بہتر ہو جائیں اور جس رنگ میں ہم سے قربانی کا مطالبہ کیا جائے اُسی رنگ میں ہم اپنی قربانی پیش کر سکیں اور ہماری طرف سے جو اطلاعات حضور کی خدمت میں پہنچیں وہ حضور کے لئے خوشی کا موجب ہوں.صدر مجلس نے اس اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانے کے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نوٹ بعد حضرت مرا بشیر احمدصاحب بریتی یک کار تم میشود مقامی مندرجہ ذیل نوٹ پڑھ کرشنا یا :- " حضرت صاحب کی بیماری میں جماعت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہو گئی ہے جماعت کو اس کا احساس ہونا چاہیے.اپنے اندر تقوی پیداکریں اور اندرونی اور بیرونی حقیقة الوحی صفحہ ۱۶، ۷ طبع اول مطبوعہ مطبع میگزین قادیان - تاریخ اشاعت ۵ در مئی

Page 18

فتنوں کی طرف سے چوکس رہیں اور مرکز کو باخبر رکھیں..اس شوری میں صدر کا کام فیصلہ کرنا نہیں ہو گا بلکہ صرف انتظام قائم رکھنا اور شوری کے مشورہ کو ریکارہ ڈکرنا ہوگا.۳- اگر کسی امر میں شوری کا مشورہ صدر انجمن احمدیہ کی تجویز کے مطابق ہو گا تو وہی آخری فیصلہ سمجھا جائے گا کیونکہ حضرت صاحب کی موجودہ صحت کی حالت میں حضور کے سامنے زیادہ امور پیش کرنے مناسب نہیں لیکن اگر شوراہی نے کیسی امر میں صد را نمین احمدیہ سے اختلاف کیا اور صدر انجمن اپنی رائے پر مصر رہی تو پھر حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کر کے آخری فیصلہ کے لئے کوئی بورڈ تجویز کرا لیا جائے گا یا اگر حضور کی صحت میں افاقہ ہوا تو حضور سے مناسب رنگ میں استصواب کر لیا جائے گا.۴ - اصلی معامہ اِس سال کے ایجنڈے میں بجٹ کا ہے باقی امور معمولی ہیں بجٹ پر اچھی طرح غور ہونا چاہیئے اور نیت خالصہ اصلاح اور جماعت کے کاموں میں بہتری کی رکھنی چاہیے.چونکہ ایک سرسری نظر سے حضرت صاحب بھی انجمن کے بجٹ کو دیکھ چکے ہیں اس لئے کوشش ہونی چاہیے کہ موجودہ حالات میں خرچ میں کوئی اضافہ نہ ہو سوائے کیسی اشد ضروری امر کے، ایسی اشد ضروری صورت میں بالمقابل تعین، اضافہ آمد کا بھی ضرور تجویز ہونا چاہیئے.اللہ تعالیٰ اہل شوری اور جماعت کا حافظ و ناصر ہو اور انہیں راستی اور سداد کی طرف رہنمائی فرمائے لے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب امیر مقامی کے اس نوٹ کے سنائے جانے کے بعد ایجنڈا کے مطابق با قاعدہ کارروائی شروع ہوئی اور دوسب کمیٹیوں کا تقررئیل میں آیا.ایک سب کمیٹی بیت المال و تحریک جدید کی تھی اور دوسری دعوہ و تبلیغ و بہشتی مقبرہ لے رپورٹ مجلس مشاورت منعقده ۷ تا ۹ ر اپریل ۱۹۵۵ یه صفحه ۱ - ۳

Page 19

کی پہلی کمیٹی بنائیں نمائندوں پر اور دوسری میں مشتمل تھی.مجلس مشاورت کا دوسرا اجلاس ۸- اپریل بعد دوپہر دو بجر حضرت مصلح موعود کا پیغام چالیس منٹ پر شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم کے بعد جو حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے کی صدر مجلس نے سب سے پہلے لمبی دعا کرائی اور پھر حضرت مصلح موعود کا وہ تازہ پیغام نمائندگان کو پڑھ کر سنایا جو حضور نے کراچی سے خاص طور پر اس موقع کے لئے ارسال فرمایا تھا.اس قیمتی پیغام کا انتون درج ذیل ہے :- اعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ هو الن نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم سامير خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ احباب جماعت احمدیہ ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ پہلی بات تو میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ شوری میری غیر حاضری میں آرہی ہے.پہلے سال میں بوجہ زخم کے شوری میں پورا حصہ نہیں لے سکا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مشق کروا دی مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ ابھی آپ لوگوں میں اتنی طاقت نہیں پیدا ہوئی کہ میری غیر موجودگی میں اپنی ذمہ داری پر پورا کام کر سکیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ایسی طاقت بھی پیدا کر دے اور مجھے بھی ایسی صحت بخشے کہ آپ سے مل کر اسلام کی فتح کی بنیادیں رکھ سکوں.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے پچھلے چند دنوں سے میری طبیعت زیادہ خراب ہونے لگ گئی تھی مگر دو دنوں سے پھر بحالی کی طرف قدم جلدی جلدی اُٹھ رہا ہے چنانچہ اس وقت بھی کہ میں یہ پیغام لکھوا رہا ہوں میں مکرہ میں ٹہل رہا ہوں اور میرے قدم آسانی کے ساتھ چل رہے ہیں.پہلے جو بیماری کے حملہ کے بعد دماغ خالی خالی معلوم ہوتا تھا کل سے وقفہ وقفہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بھی نیک تغیر پیدا ہورہا ہے اور میں بعض اوقات محسوس کرتا ہوں کہ میں سوچ سکتا ہوں اور پچھلے

Page 20

A واقعات کا تسلسل میرے دماغ میں شروع ہو جاتا ہے بلکہ کراچی آتی دفعہ ریل میں ایک سورۃ میرے دماغ میں آئی جس کے بعض حصے لوگوں سے اب تک حل نہیں ہو سکے تھے اور با وجود بیماری کے اس سورۃ کی شرح وبسط میں نے کرنی شروع کی اور وہ تفسیر عمدگی کے ساتھ حل ہونی شروع ہوئی.تب میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے خدا! ابھی دنیا تک تیرا قرآن صحیح طور پر نہیں پہنچا اور قرآن کے بغیر نہ اسلام ہے نہ مسلمانوں کی زندگی.تو مجھے پھر سے توفیق بخش کہ میں قرآن کے بقیہ حصہ کی تفسیر کر دوں اور دنیا پھر ایک لمبے عرصے کے لئے قرآن شریف سے واقف ہو جائے اور اس پر عامل ہو جائے اور اس کی عاشق ہو جائے.بہر حال آج میری طبیعت پچھلے چند دن سے بہت اچھی معلوم ہوتی ہے کچھ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سفر کی پریشانیاں جو پیدا ہو رہی تھیں وہ دور ہو رہی ہیں.پچھلے دنوں اختر صاحب اور مشتاق احمد صاحب باجوہ جو کام کے لئے جاتے رہے تو اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ نہیں سمجھتے تھے کہ فورا ر پورٹ نہ پہنچی تو مجھے صدمہ ہوگا.دو چار دن کے تجربہ کے بعد یکی نے خود اس بات کو محسوس کر لیا ہے اور انہیں ہدایت کر دی کہ جب وہ باہر جایا کریں تو ایک زائد آدمی سیکر جایا کریں اور اسے اس وقت کی رپورٹ دے کر میرے پاس بھجوا دیا کریں تا کہ مجھے پتہ لگتا ہے جب سے اس پر عمل ہوا ہے میری گھبراہٹ اور پریشانی دور ہونی شروع ہو گئی اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے طبیعت میں سکون ہے.خدا نے یہ بھی فضل کیا کہ جہاز کے ٹکٹوں کے ملنے کے غیر معمولی سامان ہوگئے اور ایکسچینج کے ملنے کے سامان بھی پیدا ہو گئے.اس موقع پر اسلامی ممالک کے بعض نمائندوں نے غیر معمولی شرافت کا ثبوت دیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اِن کے ملکوں کو عزت اور ترقی بخشے.اس واقعہ سے طبیعت میں اور بھی زیادہ سکون پیدا ہوا کے سوا ملک چھپ گیا :

Page 21

q اور پریشانی دور ہوئی.خدا کرے کہ مسلمانوں میں پھر سے اتحاد پیدا ہو جائے اور پھر سے وہ گذشتہ عروج کو حاصل کرنے لگ جائیں اور اسلام کے نام میں وہی رعب پیدا ہو جائے جو آج سے ہزار بارہ سو سال پہلے تھا میں اس دن کے دیکھنے کا متمنی ہوں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں.جب سعودی، عراقی، شامی اور لبنانی، ترک، مصری اور یمینی سو رہے ہوتے ہیں اور میں ان کے لئے دعا کر رہا ہوتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ دعائیں قبول ہوں گی خدا تعالیٰ ان کو پھر ضائع شدہ عروج بخشے گا اور پھر محمد رسول اللہ (صلی الہ علیہ وسلم ) کی قوم ہمارے لئے فخر و مباہات کا موجب بن جائے گی.خدا کرے جلد ایسا ہو.یکیں شوری میں آنے والے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے بجٹ اور دوسری باتوں پر غور کریں.اس سال دس بارہ دن لگا کر میں نے خود بھٹ کو حل کیا ہے.اس لئے بجٹ میں دوستوں کو زیادہ تبدیلی نہیں کرنی چاہیئے میرا خیال ہے کہ میری بیماری کا موجب وہ محنت بھی تھی جو تحریک اور انجمن کے بجٹوں کو ٹھیک کرنے کے لئے مجھے کرنی پڑی ہیں تو بیمار ہوگیا مگر میری محنت کئی سال تک آمد و خرچ کے توازن کو ٹھیک کر دے گی.اللہ تعا آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کو ان فرائض کے پورا کرنے کی توفیق دے جن کا آپ وعدہ کر چکے ہیں اور جن کے بغیر جماعت کی قریب کی ترقی ممکن ہے.شوری کی کارروائی اس ایمان افروز اور اثر انگیز پیغام کے بعد مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب اور سیکرٹری مجلس مشاورت نے حضرت مصلح موعود کی وہ ہدایات پڑھ کر سنائیں جن کے تحت اس مشاورت کا انعقاد جناب مرزا عبد الحق صاحب کی زیر صدارت اعمل رپورٹ مجلس مشاورت منعقده ۷ تا ۹- اپریل ۹۵ار صفحه ۷ - ۹ +

Page 22

میں آیا.ازاں بعد حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلی صدر امین احمدیہ نے مجلس مشاورت ۱۹۵ء کے فیصلوں کی تعمیل پرمشتمل مفصل رپورٹ سُنائی.آپ کے بعد سیکرٹری مجلس مشاورت نے رپورٹ اضافہ بجٹ - ۹۵۳ نہ پڑھ کر سنائی.یہ رپورٹ سُنائی جا چکی تو صدر مجلس کی ہدایت پر حضرت مولوی محمد دین صاحب ناظر دعوت و تبلیغ سٹیج پر تشریف لائے اور سب کمیٹی نظارت دعوۃ و تبلیغ و بہشتی مقبرہ کی رپورٹ پیش فرمائی جس میں ایجنڈا کی تین تجاویز زیر غور آئیں :- ۱ - امراء اور مبلغین کے باہمی تعلقات - ۲ - پروگرام جلسہ سالانہ میں تغیر و تبدل.بہشتی مقبرہ میں کسی علیحدہ قطعے کامیاں اور بیوی کے لئے مخصوص کیا جانا.اس اجلاس میں سب کمیٹی اور نمائندگان کی توجہ اور پپسی کا مرکز پہلی تجویز رہی جس کے دوران صدر انجمن احمدیہ کا قاعدہ ۱۹۳۵ ۶۸۱ - الف اور حضرت مصلح موعود کا ارشاد مبارک مطبوعه اخبار افضل ۲۶ مارچ ۱۹۴۶ خاص طور پر پیش کیا گیا.ان ہر دو کی عبارت ذیل میں فقتل به را کی جاتی ہے :.نقل قاعده عل ۸ ۶ الف صدر انجمن احمد جب کسی مبلغ کو مرکز کی طرف سے کسی جگہ مقر کیا جاوے یا بھیجا جا ہے تو وہ مرکز کا نمائندہ ہوگا اور اس کے فرائض میں یہ بھی شامل ہوگا کہ وہ مقامی کارکنوں کو مرکزہ کی ہدایات کی طرف توجہ دلائے لیکن اس کا فرض ہو گا کہ حتی الوسع مقامی امیریا پریذیڈنٹ سے مشورہ کر لیا کرے.اگر مبلغ کیسی مقامی عہدیدار کے طریق کار کو قابلِ اصلاح سمجھے تو اسے چاہئیے کہ مقامی امیر یا پریذیڈنٹ کے واسطہ سے اصلاح کرائے مبلغ کو حق ہو گا کہ مقامی انجمن یا مجلس میں حاضر ہو کر مشورہ میں شریک ہو مگر وہ ووٹ نہیں دے سکتا.اگر مبلغ اور امیر یا پریذیڈنٹ میں اختلاف ہو تو اس کا فیصد مرکز کی طرف سے ہو گا مبلغ کو ہر قسم کی مقامی پارٹی بازی سے مجتنب رہنا ہو گا.خاص حالات میں کیسی بڑی اور اہم جماعت کے متعلق ناظردعوت و تبلیغ کو اختیار ہوگا کہ مبلغ کو یہ ہدایت دے کہ وہ مقامی امیر یا پریذیڈنٹ کی ہدایات کے

Page 23

ماتحت کام کرے “ کے ارشاد مبارک حضرت مصلح موعود سلسلہ جن کو نمائندہ بنا کر بھیجے مقامی جماعت کے وہ لوگ جن کی آمدنیاں زیادہ ہوں وہ اس کو ملانوں کی سی حیثیت دے دیں اور وہ ماتحت کی حیثیت میں رہے غلط بات ہے اسے ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے جو ہمارا نمائندہ ہو کر جائے گا وہی افسر ہوگا دوسرا خواہ لاکھ روپے کماتا ہو وہ اس کا ماتحت ہو گا.کمائی کی وجہ سے اپنے آپکو بڑا سمجھنا ویسی ہی بات ہے جیسے عبد اللہ بن ابی سلول نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ مدینہ کا معزز ترین شخص ذلیل ترین شخص کو مدینہ سے نکال دے گا.بہر حال سلسلہ کا نمائندہ دنیوی دولت مندوں سے زیادہ معزز ہے اور مقامی لوگوں کو اس کا ادب اور احترام کرنا ہوگا اگر وہ نہیں کریں گے تو فتنہ کا موجب ہوں گے اور اپنے کئے کی سزا پائیں گے.یہ ہم نہیں کہتے کہ ہمارا نمائندہ غلطی نہیں کر سکتا اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نمائندے سے پرسش نہیں ہوگی وہ غلطی بھی کر سکتا ہے اور پرسش بھی ہوگی اور اس کے مجرم کے مطابق اسے سزا دی جائے گی لیکن سب کچھ آئین کے مطابق ہو گا افراد کو کوئی حق نہیں کہ اپنا فیصلہ کر کے حکومت جتانا چاہیں اسلام ناواجب حکومت کے بھی خلاف ہے اور وہ نشوز کے بھی خلاف ہے.حضرت مولوی محمد دین صاحب نے سب کمیٹی کی رپورٹ میں صدر انجمن احمدیہ کے مندرجہ بالا قاعدہ اور ارشاد حضرت مصلح موعود کا خاص طور پر ذکر کیا.ان ہر دو تحریرات کے سنائے جانے کے بعد سب کمیٹی میں گھل کر تبادلۂ خیالات ہوا جس میں متعددممبروں نے حصہ لیا.اس سلسلہ میں چوہدری انورحسین صاحب بی.اے ، ایل ایل بی وکیل و امیر شیخوپورہ نے اس امر کی تائید کی کہ مبلغین حسب دستور مرکز کے ماتحت ہی رہنے چاہئیں کیونکہ اول تو تمام جماعتوں کی تعلیمی استعدا رپورٹ مجلس مشاورت منعقده ، تا ۱۹ اپریل ۹۵اه صن الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۴۶ ص : Pa....

Page 24

۱۳ ایک جیسی نہیں ہوتی پھر جماعتوں کے رجحانات الگ الگ ہوتے ہیں.اِس طرح اگر الگ الگ افراد و جماعتوں کے رحم و کرم پر سیلفین چھوڑ دئیے جائیں تو تبلیغ کی پالیسی کی یکسانیت ٹوٹ جاتی ہے بعض جگہوں میں ابھی تک مبلغین کے علمی مقام اور نمائندہ مرکز کی حیثیت کا وہ احساس نہیں جیسا کہ ہونا چاہیئے مبلغ کے احترام کے پیش نظر اس کا مرکز کے ماتحت ہی براہ راست رہنا ضروری ہے.مولانا جلال الدین صاحب شمس نے فرمایا کہ قاعدہ صدر انجمن ۶۸ الف اور ارشاد حضور نہایت واضح ہیں ان میں تمام مشکلات کا حل موجود ہے اور ہر مبلغ کی حیثیت بمقابلہ امراء ومضات سے بیان کی گئی ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت نہیں جن مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے وہ مرکز کی طرف رجوع کرنے سے حل ہوسکتی ہیں.اس لئے مبلغ کی حیثیت برقرار رکھنی چاہئیے اور وہ مقامی جماعت کا روحانی اُستاد ہونے کی وجہ سے یہ حق رکھتا ہے کہ اس کی پوزیشن بالا رہے.مولوی احمد خاں صاحب نسیم نے فرمایا کہ جو مبلغ امیر مقامی اور جماعت سے تعاون ومشورہ سے کام نہ لے اُن کو وہ مبلغ نہیں سمجھتے، ان کو اس امر پر زور دینے کی ضرورت اس وجہ سے بھی محسوس ہوئی کہ بعض ممبروں کا اِن کی طرف بھی اشارہ ان کو محسوس ہوا مگر انہوں نے وضاحت فرمائی کہ اگر کبھی ان کے دورہ میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو وہ بجٹ کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اور مقامی جماعت کے پاس فنڈز کی قلت کی وجہ سے.والا وہ ہمیشہ مشورہ اور تعاون سے کام کرنے کے عادی ہیں.بالآخر مولانا ابو العطاء صاحب نے اپنی اخلاص سے پر تقریر کے ساتھ تمام احباب کی تو تبہ اس طرف مبذول کروائی کہ مبلغ خواہ کیسا ہی نوجوان ہو اس کی پوزیشن ایک روحانی استاد معلم اور رہنما کی ہوتی ہے حجاب جماعت جس قدر اس پوزیشن کو اعلیٰ اور ارفع بنائیں گے اسی قد اس کے کام میں برکت ہوگی اور دوسروں کی نظروں میں بھی اور اپنوں کی نظروں میں اس کا احترام و ادب پیدا ہو گا اور اتنی ہی اس کے الفاظ میں برکت ہوگی اور اگر اس کو ایک معمولی کارندہ اور ملا کی حیثیت دی جائے گی تو وہ اپنے کام میں ناکام رہے گا.اس کے بعد حضرت مولوی محمد دین صاحب نے بتایا کہ انہوں نے سب کمیٹی کے صدر

Page 25

سوم حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر سرحد کی اجازت سے نظارت اصلاح و ارشاد کے طریق کار کی وضاحت کی اور مختصر لفظوں میں کہا کہ ابھی تک دستور اور طریق یہ ہے کہ حضور خود مبلغ کا تقرر و تعین فرماتے ہیں خود مبلغ کو علیحدہ اور اکٹھے ہدایات دیتے ہیں پرو گرام تمام مبلغوں کے لئے حضور خود مجموعی اور انفرادی طور پر تجویز فرماتے ہیں اور پھر تمام مبلغوں کی رپورٹوں پر خود تنقید فرماتے ہیں مبلغوں کا تقرر و تبدل حضور کے حکم سے ہوتا ہے پھر ان مبلغین کا انتخاب ان لوگوں میں سے ہوتا ہے جو انٹرنس پاس کر کے چار سال میں مولوی فاضل پاس کرتے ہیں اور دیگر دینی علوم حاصل کرتے ہیں اس کے دو اڑھائی بلکہ اب تو ساڑھے تین سال جامعتہ المبشرین میں لگاتے ہیں اور جامعتہ المبشرین کی تعلیم وکورس اور امتحان تمام حضور کی نظروں کے ماتحت ہوتے ہیں وقتاً فوقتاً حضور ہدایات جاری فرماتے ہیں.اس طرح سے یہ بالغین ۲۰ سال سے اوپر اور ۲۵ سال تک تعلیم حاصل کرنے پر اور اب اس کے بعد مزید دو سال کی ٹریننگ کے بعد پھر ان کو پہلے بطور ما تحت مبلغ کے لگایا جاتا ہے جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان مبلغین کی تعلیم و تربیت پر کس قدر وقت اور روپیہ صرف ہوتا اور دماغ سوزی کی جاتی ہے باوجود ان باتوں کے غلطیاں ہوتی ہیں تو ان کی اصلاح ہوتی رہتی ہے غلطی پر پرسش اور پرسش سے زیادہ تعزیری کارروائی تک کی جاتی ہے مبلغین کو ہدایات دی جاتی ہیں کہ وہ حتی الوسع اپنے پروگرام مقامی جماعت کے امیر کے مشورہ سے تیار کر کے مرکز سے منظوری لے لیں نیز صیحہ نے تمام ممبران کو یقین دلایا کہ جس قدر بے قاعدگیاں دفتر کے نوٹس میں آتی رہتی ہیں ان کا ازالہ کیا جاتا ہے احباب کو چاہیئے کہ مرکز کو وقتاً فوقتاً باخبر رکھتے ہیں.اس پر تمام احباب نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ موجودہ طریق کار منظور کردہ صدر انجمن احمدیہ علی الف اور مضمون مندرجہ الفضل ۲۶ مارچ ۱۹ ہی صحیح ہے اس میں کسی تغیر کی ضرورت نہیں ہاں رخصت کا علم اور پروگرام کے تجویز کرنے میں حتی الوسع مقامی جماعت کے مشورہ اور علم کو ملحوظ رکھا جائے یا لھ حضرت مولوی صاحب نے اپنی رپورٹ کے آخری حصہ میں جلسہ سالانہ کے پروگرام کی نسبت ل رپورٹ مجلس مشاورت ( منعقده ۷ تا ۲۹ اپریل شار صفحه ۲۱۰۲ +

Page 26

سب کمیٹی کی یہ رائے بتائی کہ طلبہ سال کا پروگرام ہی صحیح ہے.جہاں تک میاں بیوی کے لئے بہشتی مقبرہ میں ایک قطعہ کے مخصوص کئے جانے کا معاملہ تھا اُس پر سب کمیٹی کی رائے یہ تھی کہ الگ قطعہ کی ضرورت نہیں.کی دعوت و تبلیغ بہشتی مقبرہ کی رپورٹ پر تفصیلی بحث تخصیص ہوئی جس کی تفصیل مشاورت کی مطبوعہ رپورٹ میں درج ہے...: مشاورت کے تمیرے اور آخری روزہ کی کارروائی ور اپریل کو مشاورت کا آخری دن ساڑھے سات بجے صبح اجتماعی دعا کے ساتھ شروع ہوئی جس | میں بابومحمد عبد اللہ صاحب ناظر بیت المال نے سب کمیٹی سیٹ شوری یا بری 1900ء کی رپورٹ پیش کی.اس سب کمیٹی کا اجلاس ڈاکٹر محمد عبد الحق صاحب لاہور کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا.سب کمیٹی نے میزانیہ صدر انجمن احمدیہ و تحریک جدید کا جائزہ لیا اور سٹینڈنگ فنانس کمیٹی کی جملہ سفارشات اور ترمیمات اور دونوں بجٹوں کے منظور کئے جانے کی سفارش کی.سب کمیٹی کی اس رپورٹ کے بعد بحث پر عمومی بحث ہوئی اور بالآخر نمائندگان شوری نے بالاتفاق سفارش کی کہ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے بجٹ جس شکل میں سب کمیٹی کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں انہیں منظور کر لیا جائے.ازاں بعد سات ممبران پرشتمل ایک کمیشن کا تقرر کیا گیا جس کے اغراض و مقاصد میں یہ تھا کہ وہ صدر انجمن احمدیہ کے کاموں کا جائزہ لے اور انجمن کے پنشنرز اور کارکنوں کے حقوق اور مفاد کے بارہ میں تحقیقات کر کے حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں اپنی رپورٹ پیش کرے.نمائندگان مجلس شوری کے سامنے بال آخرہ ایجنڈا کی تجاویز میں سے آخری تجویز یہ زیر غور آئی کہ مجلس شوری میں صدر انجمن احمدیہ کے نمائندوں کی تعداد کو بین اسے بڑھا کر پیش کر دیا جائے.نمائندگان کی اکثریت نے اس تجویز کے حق میں رائے دی.اتمام اس کے بعد صدر مجلس مرزا عبد الحق صاحب نے مختصر اختتامی تقریر کی جس میں فرمایا کہ اس سال مجلس مشاورت میں نہایت درجہ افسردگی رہی ہے حضور کی تقاریہ اور ہدایات سے ہماری روحیں جو تازگی حاصل کرتی تھیں اِس دفعہ ہم اُن سے محروم رہے ہیں.ان درد بھرے

Page 27

۱۵ الفاظ کے بعد (جو ہر احمدی کے دلی جذبات کی ترجمانی کر رہے تھے ) آپ نے حضرت مصلح موعود کے سفر کے بابرکت ہونے اور حضور کی کامل و عاجل شفایابی کے لئے دُعا کی تحریک کی اور اس سلسلہ میں جماعت کو مالی قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی اور اجتماعی دُعا کے ساتھ شوری کے اختتام کا اعلان کیا.تھا کہ :.بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت مصلح موعود نے مجلس مشاورت ۱۹۳۰ میں یہ اعلان فرمایا اسلامی اصول شریعیت کے مطابق کسی امر کے فیصلہ کا حق خلیفہ کو ہی ہے دوسروں کا کام مشورہ دینا ہے.پس مجلس مشاورت کوئی فیصلہ نہیں کرتی بلکہ مشورہ دیتی ہے فیصلہ خلیفہ کرتا ہے" اس ارشاد کی تعمیل میں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجلس شوری کی سفارشات محفور کی خدمت میں بغرض منظوری پیش کرنے کے لئے عرض کیا تو حضور نے فرمایا ان سب امور کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں جس کے متعلق ناظر صا کہ میرے فیصلہ کے لئے پیش کرنا ضروری ہے اسے پیش کر دیں.جہاں تک میزانیہ کا تعلق تھا حضور اُس کی منظوری پہلے ہی عطا فرما چکے تھے.لے مشرقی پنجاب میں صداقت احمدیت کا اورانا ان کے ایمان کے بعد سعد دوا ہے ہجرت احمدیت کی تائید میں قادیان اور اس کے گرد و نواح ایک نشان میں ظاہر ہوئے جن کی وجہ سے مخالفانہ ماحول بہت حد تک سازگار فضا میں تبدیل ہوا اور درویشان قادیان کی مشکلات میں بھی نمایاں کمی ہوئی.اس سلسلہ میں ۱۹۵۵ء کے وسط میں ایک ایمان افروز نشان ظاہر ہوا جس سے پتہ چلتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کس طرح احمدیت کی تائید و نصرت کے لئے جوش زن ہے.ذیل میں اِس نشان کی تفصیل مولوی برکات احمد صاحب راجیکی بی.اسے ناظر بیت المال قادیان لے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ر پورٹ مجلس مشاورت سے ۱۹۵۵

Page 28

14 کے قلم سے درج کی جاتی ہے :.گورداسپور میں ایک معزز مہند و دوست دیوان کیدار نا تھ صاحب قیام پذیر ہیں تقسیم ملک کے بعد ضلع سیالکوٹ سے آکر بطور پناہ گزین کے گورداسپورینی تقسیم ہوئے.قادیان کے بعض احمدی دوستوں سے اُن کے اچھے مراسم ہیں.ایک عرصہ کی بات ہے کہ اُن کو کسی دوست سے اتفاقا حضرت مسیح موعود کا فوٹو مل گیا جو انہوں نے اپنے رہائشی مکان کے ایک کمرہ میں آویزاں کرلیا.دو ماہ پیشتر و با من وجع المفاصل سخت بیمار ہو گئے.ان کے گھٹنے اور پاؤں میں ورم ہو گیا اور ہر وقت شدید درد رہنے لگا.انہوں نے سول ہسپتال گورداسپور اور بعض اور ماہر ڈاکٹروں GOUT سے علاج کروایا ہر قسم کی ادویہ اور ٹیکے استعمال کئے مگر آرام نہ ہوا.ایک دن جب وہ شدت درد سے بہت بے چین تھے تو حضرت اقدس....کے فوٹو کی طرف منہ کر کے انہوں نے نہایت تفریع سے دعا کی ابھی وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ ان کو زور سے آواز آئی:." تمہارا علاج قادیان میں ہے" اس غیبی آواز کے سننے کے بعد اُن کو یہ یقین ہو گیا کہ قادیان ہی میں جا کر ان کو افاقہ ہوگا چنا نچہ وہ اپنے ایک پڑوسی کے سہارے قادیان پہنچے اور اپنی بیماری کی تفصیل اور قادیان آنے کی وجہ بیان کی.چنانچہ مکرمی ڈاکٹر بشیر احمد صاحب انچارج احمدیہ شفاخانہ نے ان کا علاج شروع کر دیا ابھی علاج کرتے ہوئے دو دن ہوئے تھے کہ اُن کا درد جاتا رہا اور چند دن میں ورم بھی اُتر گیا اور وہ جلد ہی تقریباً شفایاب ہو کر واپس گورداسپور تشریف لے گئے.اِس واقعہ کا ذکر وہ اکثر لوگوں سے کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح ان کی شدید بیماری قادیان اور اس کے درویشوں کی برکت سے دور ہوئی اور کس طرح غیبی آواز نے اُن کو قادیان جا کر علاج کروانے کی طرف رہنمائی کی.اِس واقعہ کا لفضلہ تعالیٰ عام سیلیک پر بہت خوشگوار اثر ہوا ہے کالے کے روز نامہ الفضل بیکم جولائی ۹۵۵ه (یکم و فاست ) صفحه ۳ ، ۴ *

Page 29

فصل دوم حضرت انا جی صغری بیگم صاحبہ کی المناک وفت جماعت مومنین کے لئے اپنی روحانی والدہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کی رعایت کا المناک اور دردانگی صدمہ ابھی تازہ ہی تھا کہ حضرت آنان جی صغری بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ ایسی اول مولانا نور الدین) بھی 4 اگست 90 کی درمیانی شب کو ربوہ میں اپنے محبوب حقیقی سے جاملیں 1480 انا للہ و انا الیہ راجعون.یہ خبر سنتے ہی امیر مقامی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ( ناظر اعلیٰ) اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دیگر معزز ارکان کے علاوہ بزرگان سلسلہ اور احباب میاں عبد المنان صاحب عمر کے کوارٹر پر پہنچ گئے جہاں انہوں نے زندگی کے آخری ایام گزارے تھے.صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفاتر بند کر دئے گئے.سید نا حضرت مصلح موعود اُن دنوں لندن میں قیام فرما تھے حضور حضرت مصلح موعود کا برقیہ کی خدمت اقدس میں اس حادثہ کی اطلاع دی گئی تو آپ کی طرف سے تعزیت کا حسب ذیل تار موصول ہوا :- اماں جی کی وفات کی خبر سن کر بہت افسوس ہوا.تمام خاندان تک میری طرف سے تعزیت کا پیغام پہنچا دیں.خدا تعالیٰ ان کی روح کو بلند درجات عطا فرمائے.ان کو صالح بیگم صاحبہ (اہلیہ میر محمد احق صاحب مرحوم) کی قبر کے ساتھ دفن کیا جائے.مرزا محمود احمد سے که تاریخ وفات ۲۰، ۲۱ اپریل ۱۹۵۳ : ( ترجمہ ) " الفضل ظهور ۱۳۳۲ / ۱۰ اگست ۱۹۵۵ء صدا

Page 30

١٨ حضرت اماں جی کو جس پانی سے غسل دیا گیا اس میں آپ زمزم شامل تھا اور غلاف کعبہ کے بابرکت کپڑے سے آپ کا کفن تیار کیا گیا.ساڑھے پانچ بجے شام آپ کا جنازہ تابوت میں رکھ کر باہر لایا گیا اس وقت تک بیرونی مقامات مثلاً سرگودھا، لائل پور (فیصل آباد، جھنگ ،شیخوپورہ ، اور لاہور کی جماعتوں کے احباب خاصی تعداد میں پہنچ چکے تھے.پونے چھ بجے شام مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ریلوے لائن کے سامنے کھلے میدان میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں ہزار ہا افراد نے شرکت کی.نماز جنازہ کے بعد تابوت موصیبوں کے قبرستان میں لے جانے کے لئے اُٹھایا گیا.جس چارپائی پر تابوت رکھا گیا اس کے ساتھ لمبے بانس " باندھے گئے تھے.سو اچھے بجے جنازہ قبرستان میں پہنچا.تابوت کو قبر میں اتارنے میں جن بزرگوں نے حصہ لیا ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب کے علاوہ ربوہ میں مقیم لبعض بیرونی ممالک مثلاً انڈونیشیا، مشرقی افریقہ اور ٹرینیڈاڈ کے احمدی طلباء بھی شامل تھے.پونے سات بجے شام آپ کے جسد خاکی کو حضرت مصلح موعود کی ہدایت کے مطابق بیگم صاحبہ حضرت سید محمد اسحق صاحب کے مزار مبارک سے متصل جگہ پر سپر د خاک کر دیا گیا اور مکرم مولا نا جلال الدین صاحب شمس ہی نے آخری اجتماعی دعا کرائی.لہ حالات و شمائل ( حضرت نان بی لدھیانہ میں ۱۹ و ۵ - ۱۸۴۴ء) کے دوران پیدا اماں ھ (۷۵- ہوئیں.آپ کے والد ماجد حضرت صوفی احمد جان صاحب تھے جنہوں نے براہین احمدیہ پر شاندار تبصرہ شائع فرمایا.سیدنا حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ سجادہ نشینوں میں سب سے پہلے انہوں نے مجھے مانائیکے ازالہ اوہام صفحہ ۷۹۱ تا۷۹۳ میں حضور نے نہایت قابل رشک له الفضل ۹ اگست ۹/۶۱۹۵۵ر ظهور ۱۳۳۴ انش صدا : ے حضرت پیر افتخار احمد صاحب فرماتے ہیں کہ آپ کی تاریخ پیدائش " والدہ عبد السلام" ہے یعینی (رساله مصباح ربوہ ستمبر ۲۱۹۵۵ صت ) ه افتخار الحق منا از حضرت پیر افتخار احمد صاحب ناشر حکیم عبد اللطیف صاحب شاہد تاجر کتب - 1 مین بازار گوالمنڈی لاہور - وفات ، ار ربیع الاول ۱۳۰۳ ھ لدھیانہ گور غریباں“ میں دفن کئے گئے مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد اول و دوم :

Page 31

19 الفاظ میں اُن کا ذکر کیا اور تحریر فرمایا کہ :- " اگر چہ حضرت موصوف اس عاجز کے شروع سلسلہ بیعت سے پہلے ہی وفات پاچکے لیکن یہ امران کے خوارق میں سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے بیت اللہ کے قصد سے چند روز پہلے اس عاجز کو ایک خط ایسے انکسار سے لکھا جس میں انہوں نے در حقیقت اپنے تئیں اپنے دل میں سلسلہ بیعت میں داخل کر لیا ؟ حضرت اماں جی صفغر می بیگم کی شادی اپنے والد بزرگوار کے وصال کے بعد مارچ ۱۸۸۹ء میں ہوئی سید نا حضرت مسیح موعود نے آپ کو حضرت مولانا نور الدین بھیروی کی زوجیت کے لئے منتخب فرمایا اور جانبین کو تحریک فرمائی اور حضرت مولوی صاحب کی برات کے ساتھ لدھیانہ بھی تشریف لے گئے لیے پھر قادیان سے آپ کو بذریعہ مکتوب ارشاد فرمایا کہ - " آپ بھی دعا میں مشغول رہیں.نئی بیوی کی دلجوئی نہایت ضروری ہے کہ وہ مہمان کی طرح ہے.مناسب ہے کہ آپ کے اخلاق اس سے اول درجہ کے ہوں اور ان سے بے تکلف مخالطت اور محبت کریں اور اللہ جلشانہ سے چاہیں کہ اپنے فضل و کرم سے ان سے آپ کی صافی محبت تعشق پیدا کر دے کہ یہ سب امور اللہ بشانہ کے اختیار میں ہیں.اب اس کے نکاح سے گویا آپ کی نئی زندگی شروع ہوئی ہے اور چونکہ انسان ہمیشہ کے لئے دنیا میں نہیں آیا.اس لئے نسلی برکتوں کے ظہور کے لئے اب اسی پیوند پر امیدیں ہیں.خدا تعالیٰ آپ کے لئے یہ بہت مبارک کرے.میں نے اس محلہ میں خاص صاحب اسرار واقف لوگوں سے اِس لڑکی کی بہت تعریف سنی ہے کہ بالطبع صالحہ ، عفیفہ وجامع فضائل محمودہ ہے اس کی تربیت تعلیم کے لئے بھی توجہ رکھیں اور آپ پڑھایا کہ ہیں کہ اس کی استعدادیں نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہیں اور اللہ جل شانہ کا نہایت فضل اور احسان ہے کہ یہ جوڑ بہم پہنچایا ورنہ اس قحط الرجال میں ایسا اتفاق محالات له الجبر روایات غیر مطبوعہ جلد ، صفحه ۴، ۵ ( از حضرت پیر افتخار احمد صاحب) حیات احمد جلد سوم صدا ( از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی )

Page 32

کی طرح ہے کالے بارچ شاہ کی بیعت اولیٰ کے دوران آپ لدھیانہ میں تھیں اور جیسا کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے لکھا ہے :- 11 حضرت امال جان ( مَتَّعَنَا اللهُ بِطُولِ حَيَاتِهَا ) کے سوا وہ سب سے پہلی خاتون ہیں جن کو شرف بیعت حاصل ہوا.حضرت کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے رجسٹر میں ان کی تاریخ بیعت ۲۵ مارچ ۴۱۸۸ نمبر ۶۹ پر درج ہے ا سکے حضرت مولانا نورالدین (خلیفہ اسیح الاوّل) اگست شاہ میں ریاست جموں کی ملا انت ترک کرنے کے بعد اپنے آبائی وطن بھیرہ میں تشریف لے آئے اور شاہ کی پہلی سہ ماہی میں آر مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان آگئے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو مع اہل و عیال" الدار" ہی میں جگہ دی اس کے بعد آپ کا مطلب تیار ہوا اور پھر وہ مکان بنا جہاں اب مہمان خانہ کی قدیم عمارت ہے.حضرت مولانا نورالدین پہلے اس جگہ منتقل ہو گئے بعد ازاں آپ نے مطابے کے شمالی جانب ڈھاب کے سامنے ایک وسیع مکان بنوایا اور پھر اسی مکان میں رہائش پذیر ہو گئے شیع حضرت اماں جی اُن خوش قسمت خواتین میں سے تھیں جنہیں حضرت مسیح موعود کے زمانے میں ہی نظام الوصیت سے وابستہ ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.نظارت ے مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۶۸۱۶۷ حیات احمد جلد سوم صفحه ۱۱۵ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، مطبوعہ اسلامی پریس حیدرآباد دکن - اگست ۱۹۵۷ء - سلسلہ کے ان ابتدائی ایام میں آپ کا مطلب ہی بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا تھا جہاں الدار کے علاوہ آنے والے مہمان بکثرت قیام فرماتے تھے.چنانچہ حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب سابق مستند گورا ند نه مل ) پہلی بار وارد قادریان ہوئے تو آپ اسی مطب میں مقیم ہوئے تھے.(الحکم ۱۴ جنوری ۱۹ صفحه) ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحه ۸

Page 33

۲۱ بہشتی مقبرہ کے ریکارڈ کے مطابق آپ نے ۲۸۵ نمبر پر ، ار فروری شاہ کو وصیت کی اور حصہ وصیت مقرر کیا.آپ کا وصیت فارم ریکارڈمیں محفوظ ہے اور اس پر بطور گواہ آپ کے عالی مرتبت خاوند نیز حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم اور حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ کے دستخط ہیں.شاہ سے سٹہ تک آپ نے قادیان کی احمدی مستورات کی علمی ترقی اور بیداری کے لئے قابل قدر مساعی کی جس کا ثبوت اس دور کے اخبارات و رسائل ہیں جن میں آپ کی بعض تقاریر یا مضامین شائع ہوئے بیلے حضرت مصلح موعود کے مبارک دور میں آپ جلسہ سالانہ کے دوران اپنے گھر کی ناظمہ کی حیثیت سے ۱۹۱۶ء سے لے کر ۱۹۴۶ء تک خواتین کی مہمان نوازی کا فریضہ بجالاتی رہیں.علاوہ انہیں آپ کا مستورات کے پہلے سالانہ جلسہ پر خطاب کرنا بھی ثابت ہے لیے ضروری ہ کی تحریک برائے چنده مسجد برلن میں آپ نے ایک سوروپیہ چندہ پیش کیا جس کا ذکر حضرت مصلح موعود نے اپنے ایک مضمون میں خاص طور پر فرما یایشہ آپ اُن خوش نصیب خواتین میں سے ہیں جنہیں شام میں نوائے احمدیت کے لئے اپنے ہاتھ سے سوت کاتنے کی توفیق عطا ہوئی شے نے مثلاً بدر ۲۰ مٹی ۱۹۰۹ ء صفحہ ۶ ، ، ارجون ۱۹۰۹ ، صفحہ 9 ، الحکم ۲۱ جون ۱۹۰۹ء صفحه ۱۵، رساله احمدی خاتون قادیان جنور می ۱۹۱۳ ، صفحه ۳۹ ۴۰ - ه ۱۵ر الفضل دسمبر ۱۹۱۶ صفحه ۱۶ مصباح قادیان ۱۵ جنوری ۱۹۳۷ء صفحه ۱۴ - تاریخ لجنہ اماء الله - ۲۲ جلد اول صفحه ۵۸۸ مرتبه حضرت ام متین سیده مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء الله مرکزید) ه الفضل ۳- جنوری ۱۹۱۵ء صفحه ۸ - که رساله احمدی خاتون ، قادیان فروری ۶۱۹۲۳ صفحه ۱۶ - تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اصفحہ ۴۵۰ " رویداد جلسہ جو بلی صفحہ حج (حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم.اسے سیکرٹری خلافت جو بلی) ناشر مینجر بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان)

Page 34

۲۲ حضرت اتان جی، خاندان حضرت مسیح موعود کی خواتین مبارکہ کے ہمراہ ۲۵ اگست ۹۴۶ائڈ کو قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان میں تشریف لائیں اور پہلے لاہور اور پھر بوہ میں قیام پذیر ہوگئیں.اولاد | حضرت اماں جی کے بطن سے حسب ذیل اولا د ہوئی :- میاں عبدالحی صاحب ) ولادت ۱۵ فروری ۶۱۸۹۹ء - وفات ۱۱ نومبر ۶۱۹۱۵ ) امتہ الحی صاحبہ حرم حضرت مصلح موعود ( ولادت ار اگست ۱۹۰۱ ۶ - وفات ۱۰ر دسمبر ۶۱۹۲۴ ) میاں عبد القیوم صاحب ) ولادت ۲۲ ستمبر ۶۱۹۰۳ - وفات ۱۲ اگست ۲۶۱۹۰۵ میاں عبد السلام صاحب معمر (ولادت ۲۵ دسمبر ۶۱۹۰۵ - وفات ۲۵ مارچ ۲۶۱۹۵۶ میاں عبدالوہاب صاحب عمر ولادت ۸ فروری ۶۱۹۰۸ - وفات ۲۰ جون ۱۶۱۹۷۹ میاں عبد المنان صاحب عمر ( ولادت ۱۹ اپریل ۶۱۹۱۰ ) ۱ - حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کے انتقال پر صاجزادہ میاں تاثرات عبد المنان صاحب عمر کے نام حسب ذیل تعزیتی مکتوب لکھا :- عزیزم مولوی عبد المنان صاحب عمر السلام عليكم ورحمة الله و بركاته ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ حضرت اباں جی کا انتقال ہو گیا ہے.اس خبر سے بے انتہا صدمہ ہوا.انا للہ وانا الیہ راجعون.پرانے بزرگ آہستہ آہستہ گزرتے جاتے ہیں.....حضرت اماں جی سے بھی مجھے بہت محبت اور اُن کا خاص احترام تھا او پھر جس باپ کی وہ بیٹی تھیں اس کی وجہ سے بھی خاص اثر تھا.اللہ تعالیٰ اُن کو غریق رحمت کرے اور آپ سب کا حافظ و ناصر ہو " - حضرت ام منظفر صاحبہ ( حرم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) نے اخبار الفضل میں لکھا کہ :.حضرت اماں جی مرحومہ بہت زندہ دل اور مہمان نواز تھیں.جب بھی میں اُنکے گھر جاتی تو وہ انتہائی محبت اور شفقت سے پیش آتیں اور چونکہ اُن کی اور میری ہر دو کی مادری زبان فارسی تھی اس لئے ہم دونوں نہایت بے تکلفی کے الفضل و ظهور ۳۳۴ ایش / ور اگست ۱۹۵۵ء ص

Page 35

۲۳ - ساتھ فارسی میں گفتگو کر کے اپنا دل بہلاتے تھے.....حضرت اماں جی کا اندازہ گفت گو بھی بڑا دلچسپ اور بے تکلفانہ ہوتا تھا.....ہماری اتان جان مرحومه (یعنی حضرت سیدہ نصرت جہاں نوراللہ مرقدہا کے پاس حضرت ، تاں جی کا بہت آنا جانا تھا.جب بھی وہ حضرت اماں جان کے پاس آئیں یا حضرت اماں جان اُن کے گھر جاتیں تو گویا محبت و شفقت کے جذبات سے مجلس گرما جاتی تھی.حضرت اماں جان کی زندہ دلی اور مہمان نوازی اور شفقت اور غرباء پروری تو مشہور رہی ہے.حضرت اماں جی بھی ان کے قدم پر بہت مہمان نواز اور تشفیق اور غریب پرور تھیں " سے ۳ - صاجزادہ میاں عبد السلام صاحب عمر نے اپنے ایک مضمون میں حضرت اماں ہی کے اخلاق وعادات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا :." مہمان نوازی، یتیم اور نادار بچوں کی پرورش ، صلہ رحمی ، خلوص اور شکر گزاری سادگی اور تو کل آپ کی سیرت کے نہایت ممتاز اور نمایاں پہلو تھے.آپ کے ان اوصاف حمیدہ کی شہادت میں بے شمار واقعات آپ کے جاننے اور ملنے والوں کے دل پر ثبت ہیں جن کی یاد کبھی بھی محو نہیں ہو سکتی....قادیان کی ساری زندگی میں عموماً آپ کا وسیع مکان ایک مستقل مہمان خانہ بنا رہتا تھا خصوصا جلسہ سالانہ کے موقع پر سینکڑوں خواتین اور ان کے بچے آپ کے ہاں بطور مہمان ٹھرتے اور آپ سب کی مہمان نوازی اور آرام کا خیال ایسی محبت انہماک محنت اور جوش کے ساتھ کرتیں کہ اس کی مثال ملنی محال ہے خصوصاً غرباء ضعیف العمر، بیمار اور بچے آپ کی توجہ کا خاص مرکز بنے رہتے تھے جلسہ کے ایام میں مشکل گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کچھ تھوڑا سا آرام فرما لیتی تھیں جس کا نام آرام رکھنا بھی شاید درست نہ ہو.ایام جلسہ میں عموما آپ اپنا بستر وغیرہ تو پہلے ہی رکسی ل الفضل رضور ۱۳۳۴ امیش / ۱۷ اگست ۶۱۹۵۵ مت

Page 36

سم سمر ضرورت مند کے حوالہ کر دیتی تھیں لیکن جب دوبارہ اور سہ بارہ سخت سردی کی وجہ سے اور آپ کے آرام کے خیال سے بستر آپ کے لئے مہیا کیا جاتا تو وہ بھی کیسی نہ کسی ضرورت مند کو اُڑھا دیتیں.بارہ ایک بجے رات تک ضعیفوں، بیماری اور بچوں کو کھلانے پلانے اور کپڑا اڑھانے میں مصروف رہتیں.خود اکثر اپنے ہاتھ سے چاول وغیرہ تیار کر واکر تقسیم فرمائیں اور پھر تین چار بجے رات سے ہی اسی تیاری میں دوبارہ مصروف ہو جاتیں.ہر ایک مہمان سے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتیں.غرض جہاں تک مہمان نوازی کا تعلق ہے آپکی ذات خود ایک مہمان خانہ تھی.یہاں ربوہ میں آکر گو مکان وغیرہ میں اس قدر وسعت نہیں تھی پھر بھی حالات کے مطابق مہمانوں کو اپنے پاس ٹھر انے اور ان کی خاطر و مدارت کرنے میں بڑی خوشی محسوس کرتیں اور روزانہ آنے جانے والوں کی بھی کچھ نہ کچھ تو اضح ضرور کرتی تھیں اور جب تک کچھ کھلا پلا نہ دیتیں تسلی نہ ہوتی تھی.نادار اور یتیم بچوں کی پرورش آپ کی زندگی کا محبوب ترین مشغلہ تھا کئی ایک یتیم اور نادار بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت اپنے بچوں کی مانند کرتیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے متعدد افراد موجود ہیں جو کامیاب اور مخلصانہ زندگیاں گزار رہے ہیں.ایسے بچوں کی پرورش اپنے بچوں کی طرح کرتیں یتیموں کی محبت اور پرورش کا آپ کو اس قدر خیال تھا کہ اس مرض الموت میں بھی جب یک نے دریافت کیا کہ کوئی خاص وصیت یا بات فرمانی ہو تو فرما دیں.کہنے لگیں کوئی خاص بات تو نہیں لیکن ہاں یتیم بچی سعیدہ جو آب میرے پاس ہے اس کو ضرور پڑھا دینا اور اس کی اچھی تربیت کرنا....تمام رشتہ داروں کا خاص خیال فرما تی تھیں اور ان کی خدمت کا جب موقع ملتا اس فرض کو بڑی بشاشت اور خوش اسلوبی کے ساتھ ادا فرمائیں اور کہتی تھیں یہ میرے خاوند کے عزیز اور رشتہ دار ہیں.خود اپنے بھائیوں

Page 37

۲۵ اور بہن کی اولاد سے خاص محبت اور مروت کا سلوک ہمیشہ فرماتی تھیں.جذیہ خلوص اور شکر گزاری میں ایک منفردانہ شان کی حامل تھیں.اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے اگر کسی نے محبت سے پانی کا گھونٹ بھی پلایا ہے تو مجھے یہ بات نہیں بھولتی - جب بعض احباب یا خواتین کی خاص خاطر و مدارت فرمائیں تو اپنے بچوں سے بار بار کہتیں تمہیں معلوم نہیں انہوں نے تمہارے ساتھ کیسی کیسی نیکیاں کی ہیں اور ہمیشہ ان کے لئے دعائیں کرتی رہتی تھیں.اس مرض الموت اور اس سے پہلے بھی یکی اکثر یہ دریافت کرتا تھا کہ اتاں جی کوئی تکلیف یا کر تو آپ کو نہیں تو فرماتیں بالکل نہیں اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے.....ہاں بے شک عمل کمزور ہیں مگر جس رحیم اور رحمان ہستی نے اس دنیا میں اتنے فضل فرمائے اس کی ذات سے یہ بھی یقین ہے کہ آخرت میں بھی اس کا رحم اور اس کی مہربانیاں میرے شامل حال رہیں گی.کیسی تکلیف یا گھرا ہٹ کے وقت اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل تو تل رکھتیں اور کبھی مایوس نہ ہوتی تھیں اور فی الواقع اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ان کی ہر ضرورت کی تکمیل اپنے خاص فضل سے فرمائی اور اس کے بے شمار واقعات ہم نے اپنی آنکھوں سے روز مرہ دیکھے کہ کسی خواہش یا ضرورت کا اِ دھر اظہار کیا اُدھر اللہ تعالیٰ نے اس کو پورا کر دیا.ساری عمر نهایت و قاره سیر منتہی اور قناعت کے ساتھ بیر کردی.اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ان کو ملتی رہتیں مگر وہ سب کچھ اس کی راہ میں تقسیم کر انہیں اس آخری عمر میں اگر ہم ان کے جسمانی فرزند یا روحانی فرزند کوئی خاص مالی خدمت بجالاتے تو وہ رقم بھی فورا مستحق لوگوں میں تقسیم فرما دیتیں.بعض اوقات ہم اپنی کمزوری سے یہ بھی عرض کرتے کہ یہ رقم تو آپ کے آرام، علاج یا لباس کے لئے تھی تو وہ فرماتیں مجھے اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے کس کسی کی محتاج نہیں.اگر تم یہ خدمت میری خوشی کے لئے کرتے ہو تو میں بھی اپنی خوشی پوری کر لیتی ہوں.اکثر ان کی تعض

Page 38

MY روحانی بیٹیاں یا ان کی اپنی ہوئیں کوئی اچھا لباس شوق سے ان کی خدمت میں پیش کرتیں تو اکثر بغیر استعمال کے یا تھوڑے استعمال کے بعد کسی نہ کسی کو دے ڈالتیں اور اب وفات کے وقت آپ نے نہ کوئی پیسہ نہ زیور اور نہ ہی کوئی عمدہ لباس چھوڑا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کے ساتھ ایک نہایت معقول ماہوار مستقل رقم کا انتظام آپ کے لئے فرما رکھا تھا.صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے بھی آپ کے گزارے کا معقول انتظام تھا.اس کے علاوہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود، جناب چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ، جناب سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب اور ملک بشیر احمد صاحب آن کراچی اور بعض دیگر احباب مستقل طور پر ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ خدمت کرتے رہتے تھے اور اہلیہ صاحبہ میاں رالرحمن صاحب ڈائریکٹر انسپکشن لاہور بڑے اہتمام کے ساتھ ہمیشہ ان کے لئے لباس اور بہتر تیار کر کے پیش کرتیں یا بھجوا دیتی تھیں.اسی طور پر ان کے بعض اور بھی روحانی اور جسمانی فرزند ان کی خدمات وقتاً فوقتاً کرتے رہتے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی جناب سے اجر عظیم عطا فرمائے “ لے آپ کی ایک بہو محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ (بنت حضرت مولانا شیر علی صاحب) کا بیان ہے کہ سترہ نوبر شاہ سے لے کر جب یکی اپنی شادی کے بعد حضرت اماں جی کے پاس آئی مجھے آپ کی زندگی کے آخری سانسوں تک آپ کے ساتھ شب و روز رہنے کی سعادت حاصل رہی.اس تمام عرصہ میں میں نے آپ کو ایک اعلیٰ درجہ کی محبت کرنے والی ماں اور مشفق و مهربان ساس پایا.شادی سے قبل میری طبیعت میں بعض اثرات کے ماتحت طبعاً ایک ڈر سا تھا اور بعض اوقات تو طبیعت میں اسی خوف کے ماتحت مجیب سی گھبراہٹ ہو جاتی کہ عام ساس اور بہو کے دنیا وی رشتوں کی طرح ہمارے تعلقات میں کہیں کوئی کبیدگی پیدا نہ ہو جائے لیکن....له الفضل ۱۳ ظهور ۱۳۳۴ هش / ۱۳ اگست ۱۹۵۵ در صفحه ۱۳ هم

Page 39

۲۷ واقعات کی روشنی میں میں نے محسوس کیا کہ آپ عام ماؤں سے مختلف ماں اور عام ساسوں سے مختلف ساس تھیں اور میرے شادی سے قبل کے تمام خدشات ہے اصل اور بے بنیاد تھے.ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ.بحیثیت آپ کی بہو ہونے کے میں نے خاص طور پر اس چیز کو محسوس کیا کہ آپ میں وہ کوتاہ نظری، تنگ ظرفی اور تنگ دلی اور بگاڑ کی عمارت سازی نہیں پائی جاتی جو عمو گا گھروں میں ساس بہو کے جھگڑوں کی بنیاد بن جاتی ہے.آپ کے پاس آگریں نے یہ بھی محسوس نہیں کیا کہ میں کسی غیر اور اجنبی جگہ آگئی ہوں بلکہ آپ کی محبت اور شفقت نے تو میری اپنی ماں کی وفات کے بعد جو ایک زبر دست خلاء میری زندگی میں واقع ہو گیا تھا اس کو بہت حد تک بھر دیا تھا.آپ کی مہربانی ات میں مجھے ماں کی سی شفقت اور محبت نظر آتی تھی اور آپ نے مجھے اپنی بیٹیوں کی طرح رکھا.نہ اُنہیں مجھے سے غیریت تھی اور نہ ہی مجھے ان سے اجنبیت.ماں اور بیٹی نے پندرہ سال کا عرصہ جو اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آنکھ جھپکنے میں گزر گیا راحت و آرام، شفقت و محبت ، دلداری اور وفاشعاری میں بسر کیا.اس عرصہ میں مرتبہ بھی نہ تو کوئی الجھن پیدا ہوئی اور نہ بکر مرگی.نہ طعن و تشنیع کا کوئی موقع آیا اور نہ گڑھنے اور جلنے کی کوئی گھڑی دیکھی.غرضیکہ محبت و شفقت سے اس نہ دور کا آغاز ہوا اور وہی محبت و شفقت اس وقت بھی آپ کی آنکھوں میں موجود تھی جب اِس دنیا میں آپ مجھ سے جدا ہو رہی تھیں.آپ میری قابل قدر محہ تھیں.جس جس رنگ میں آپ نے میرے جذبات کا خیال اور میرے آرام کو مد نظر رکھا اُسے اگر تمام ساسیں اپنا شعار بنا لیں تو مجھے یقین ہے کہ دنیا میں ساس بہو کے جھگڑوں کی آواز بند ہو جائے اور یہ گھناؤنی چیز جس نے ہزاروں ہزار گھرانوں کے امن و چین کو پامال کر رکھا ہے یک قلم ختم ہو جائے اور تمام مگر کون و آرام کے نشیمن بن جائیں.آپ اپنی بہوؤں کی ادنیٰ سے ادنی خدمت کی احسان مند ہو جائیں اور

Page 40

۲۸ ان کی ذرا ذرا سی نیکیوں کو اپنے اوپر خدا تعالی کا بہت بڑا فضل گردانتین بعض اوقات تو ہماری جانب سے حقیر ترین خدمت کا بھی اپنے حلقہ احباب میں اس طرح تذکرہ کرتیں کہ ہماری گردنیں مارے شرم کے مجھک جاتیں کہ ہم نے کونسی ان کی اتنی بڑی خدمت کر دی ہے جس کا ذکر اس قدر قدرشناسی اور احسان مندی کے جذبات سے کیا جاتا ہے کالے فصل سوم اتحاد بین المین کی تحریک حضرت مسیح موعود کے مقاصد بعثت میں سے ایک عظیم مقصد وحدت امت ہے جیسا کہ آپ پر ۲۰ نومبر ۱۹۰۵ء کو الہام نازل ہوا کہ :.سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر میں جمع کرو.علی دین واحد " کے حضرت اقدس نے اس کلام ربانی کی تشریح یہ فرمائی کہ.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانان روئے زمین علمی دین واحد جمع ہوں او وہ ہو کر رہیں گے “ سے " حضرت مصلح موعود چونکہ حسن و احسان میں مشیل مسیح موعود تھے اس لئے آپ ہمیشہ ہی اتحاد بین المین کے پُر جوش دائمی اور علمبردار رہے مسلم قوم کا تفرقہ آپ سے دیکھا نہیں جاتا تھا اور آپ ہمیشہ ے ماہنامہ " مصباح" جنوری ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۱۰ تا ۱۶ سه بدر و الحکم ۱۲۴ نومبر ۶۱۹۰۵ صفحه ۲ و صفحه ا- تذکره صفحه ۷۷ ۵ طبع سوم ۶۱۹۶۹ سے الحکم ۱۳۰ نومبر ۶۱۹۰۵ صفحه ۲

Page 41

۲۹ شدت غم سے بیقرار ہو کر یہ دعا کرتے کہ سے دانه سیمره پراگندہ ہیں چاروں جانب ہاتھ پر میرے انہیں آپ اکٹھا کر دیں (کلام محمود) هر مسلمانوں کو متحد کرنے کا یہ جن یہ سفر یورپ کے بارئے ہوئے رجحانات کو دیکھ کر اور زیادہ ابھر آیا اور حضور نے پاکستان میں پہنچتے ہی یہ آواز بلند فرمائی کہ یورپ کو مسلمان بنانے کے لئے سب مسلمانوں کو اکٹھا ہو جانا چاہیئے.اتحاد بین السلمین کی یہ تحریک حضور نے ۲۱ ستمبر ۱۹۵۵ء کی ایک تقریب میں فرمائی جس کا اہتمام جماعت احمدیہ کراچی نے کیا تھا.چنانچہ اخبار الصلح" کراچی نے لکھا:." مسلمان نے اپنے داخل ہے اختلا فامتے کو نظر انداز کر کے اشاء متے اسلام کیلئے متحد ہو جائیں یورپ کے لوگ اس وقت اسلام کی طرف بڑی تیزی آہے ہیں بیچ لگژری ھوٹل کے عصرانہ میں امام جماعتِ احمدیہ کی تقریر کراچی ۲۱ ستمبر - امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ے یعنی مسلمان کے ہفت روزہ "تنظیم پشاور نے اپنی ۳۰ ستمبر ۱۹۵۵ء کی اشاعت میں حضرت مصلح موعود کی دورہ یورپ سے کامیاب واپسی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا :- تنظیم بشیر الدین محمود ی اسلامی سرگرمیوں کو قدر کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس سفر سے جو دراصل یورپ میں دین اسلام کے متعلق ایک صحیح جائزہ لینے کے لئے اختیا کیا گیا تھا بخیریت واپسی پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے.اگر بچہ بظاہر انہوں نے اپنی بیماری کے علاج کا بہانہ سامنے رکھا لیکن ہم آپ کی طبیعت کی گہرائیوں سے واقف ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اس بیمار دین اسلام کو الہ تعالی کا صحت کامل صح عطا فرمائے گا."

Page 42

آج بیچے گزری ہوٹل میں تقریر کرتے ہوئے تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کر کے اشاعت تبلیغ اسلام کے اہم کام کیلئے متحد ومنظم ہو جائیں اور اُن اعتراضات کا علمی جواب دیں جو یورپ اور دوسرے ممالک کی غیر مسلم دنیا ، اسلام اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس وجود پر کر رہی ہے.امام جماعت احمدیہ اُس دعوت عصرانہ میں یہ تقریر فرما رہے تھے جو آپ کے یورپ سے تشریف لانے پر آپ کے اعزاز میں آج کراچی کی جماعت احمدید کی طرف سے پینے لگثری ہوٹل کے وسیع و شاداب لان میں دی گئی تھی.امام جماعت احمدیہ نے قرآن مجید کی وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں یہود اور عیسائیوں کو نظرئیے توحید کی اشاعت و تبلیغ کے لئے تعاون کی دعوت دی گئی ہے امام جماعت احمدیہ نے نہایت دلچسپ طریہ استدلال کے بعد فرمایا اگر اسلام او محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن یہودی اور عیسائیوں کو یہ دعوت دی جاسکتی ہے کہ وہ رسالت نبوی کے لئے نہیں بلکہ محض وحدانیت خداوندی کے لئے مجتمع ہو جائیں اور باہمی تعاون سے کام لیں تو کیا وجہ ہے کہ آج مسلمان اپنے اپنے باہمی اختلاقی کو نظر انداز کر کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کی اشاعت کے لئے باہمی تعاون اور اشتراک سے کام نہ لے سکیں ؟ سفر یو رپ کے تاثرات بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا میرا مشاہدہ ہے کہ اب یورپ را سلام کی طرف بڑی تیزی سے مائل ہو رہا ہے اور وہاں کے لوگ اسلام اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اعتراف کر رہے ہیں.ضرورت ہے کہ ہم لوگ اپنی جانی و مالی قربانی سے وہاں اسلام کے پیغام کو پنچائیں اور جولوگ کبھی محمد صلے صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے کلمات نکالتے رہے ہیں آج انہی کے مونہوں سے آپ کے لئے درود و سلام کا نذرانہ پیش کریں.BEACH LUXURY HOTEL

Page 43

۳۱ امام جماعت احمدیہ نے اس امر پر پنہایت افسوس کا اظہار کیا کہ آج مسلمانوں کے مختلف فرقے نہایت معمولی معمولی مسائل پر باہم دست و گریباں ہیں حالانکہ ان سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور اسلام پر ہونے والے اور حملوں کا دفاع کس طرح کریں ؟ آپ نے کہا کہ مسلمانوں کی مختلف تنظیمیں اور مختلف فرقے یورپ اور دوسرے ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے مشن کھولیں تو یقیناً چند ہی سالوں کے اندر اندر یورپ کی کثیر آبادی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ غلامی میں آسکتی ہے.آپ نے کہا کہ اگر آج مسلمانوں نے بھی اپنی مستیوں اور غفلتوں کو ترک نہ کیا اور اسلام کی اصل ضرورت کو سمجھ کر میدان میں نہ آئے تو وہ قیامت کے روز شافع محشر کو اپنا منہ نہ دیکھا سکیں گے.تقریر کے اختتام پر امام جماعتِ احمدیہ نے اکثر حاضرین کو شرف مصافحہ بخشا اور ان سے گفتگو فرمائی.اس تقریب میں کئی سفارتی نمائندے، اعلیٰ سرکاری حکام، ممتاز شهری، اخباری نمائندے اور دیگر معزز افراد شریک تھے “ لے سید نا حضرت مصلح موعود کی یہ اہم تقریر اتحاد بین المسلمین کی عظیم انسان تحریک تھی جسے پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا جن کے نام یہ ہیں :.۱ - روزنامه انقلاب کراچی (۲۳ ستمبر ۱۹۵۵ء) ۲ - روزنامہ جنگ کراچی - روزنامه المصلح کراچی (۲۴ ستمبر ۴۱۹۵۵) ۲۳ ستمبر ۱۹۵۵) ۴ - روزنامه ایوننگ سٹار کراچی (۲۲ - ستمبر ۱۹۵۵م) ۵ - روز نامہ پاکستان سٹینڈرڈ کر اچنی (۲۲ ستمبر ۴۱۹۵۵) ۶ - روزنامه امروز کراچی ) ستمبر ۶۱۹۵۵ ) - روزنامه ملت لاہور (۲۴ ستمبر ۴۱۹۵۵) روزنامه المصلح کر اپنی ۲۳ ستمبر ۶۱۹۵۵ صفحه ۳

Page 44

۳۲ - ^ روزنامہ نوائے کشمیر لاہور ) ۲۳- ستمبر ۶۱۹۵۵ ) ۹ - روزنامہ پاسبان“ ڈھاکہ (۲۴ - ستمبر ۶۱۹۵۵ بطور نمونہ چند اخبارات کے نوٹ سپرد قرطاس کئے جاتے ہیں.ا - روز نامه ملت لاہور ۲۴ ستمبر ۱۹۵۵ ء نے لکھا :.یورپی ممالک میں اسلامی وفود بھیجے جائیں.دورہ یور سے واپسی پیر احمد یہ جماعت کے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود کا بیان.کراچی ۲۲ ستمبر- احمدیہ جماعت کے سر براہ مرزا بشیر الدین محمد نے بیچ لگثری ہوٹل میں ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے یورپی ممالک میں اسلامی وفود بھیجنے کی ضرورت پر زور دیا ہے مرزا صاحب جو حال ہی میں یورپ کے دورہ سے واپس آئے ہیں وہ دورہ کے متعلق اپنے تاثرات بیان کر رہے تھے.انہوں نے کہا کہ یورپ کے لوگ اسلام سے متعلق کا فی علم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں.جہاں بھی وہ گئے تو لوگوں نے انہیں اسلامی وفود بھیجنے پر اصرار کیا تا کہ انہیں اسلام کے بارے میں کچھ علم ہو سکے.انہوں نے کہا کہ یورپ میں لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ ان تک اسلامی تعلیمات صحیح طریقے سے پہنچانے کا انتظام ہو سکے.انہوں نے کافی لوگوں کو پر دے اور کثرت ازدواج کا حامی دیکھا.آخر میں مرزا صاحب نے اپنی تقریر میں چندہ اکٹھا کرنے کی ضرورت پر زور دیا تا کہ اس سے بیرونی ممالک میں اسلامی وفود بھیجے جاسکیں.- روز نامہ جنگ کراچی نے ۲۴ ستمبر ۱۹۵۵ء کی اشاعت میں لکھا :- " کراچی ۲۲ ستمبر ( پ پ ) مرزا بشیر الدین محمود نے کل ایک نجی تقریب میں کہا کہ اشاعتِ اسلام کے لئے آج یورپ کے ممالک میں تبلیغی و خود روانہ کرنے کی ضرورت ہے.آپ نے بتایا کہ یورپ کے عوام اسلام کی باہت واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں.وہ جہاں کہیں بھی گئے عوام نے ان سے مل کہ اسلام کی بابت باتیں دریافت کیں.یورپ کی ایک بہت بڑی اکثریت اسلام کو قبول کرنے پر آمادہ ہے بشرطیکہ انہیں اسلام کی صحیح واقفیت بہم پہنچائی جائے.آپ نے بتایا کہ لندن کے اکثر لوگ ان سے ملے جو ایک سے زیادہ شادیوں اور پر دے کے حامی تھے.آپ نے بیرونی

Page 45

۳۳ ممالک میں تبلیغی و خود بھیجنے کے لئے سرمایہ فراہم کرنے کا بھی مشورہ دیا یا - روز نامه انقلاب" کراچی ۲۳ستمبر ۱۹۵۵ء نے لکھا :- جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمو د نے آج کراچی کی جماعت احمدیہ کی طرف سے بیچ لگثری ہوٹل میں دیئے ہوئے ایک عصرانہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج یورپ اسلام کے لئے بھو کا بیٹھا ہوا ہے.ان کو کہیں پناہ نصیب نہیں ہوتی ضرورت صرف تبلیغ کی ہے.انکے کانوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے اور وہ قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.آپ نے فرمایا کہ ایک دن آئے گا جب کہ امریکہ اور یورپ مشرف بہ اسلام ہو جائے گا.آپ نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ فروعی مذہبی اختلافات کو چھوڑ کر واحدانیت کی تبلیغ میں متفق ہو جائیں.آپ نے بتایا کہ اگر کراچی کا ہر باشندہ پانچ روپے بھی دیدے تو بیس لاکھ افراد سے ایک کروڑ روپے جمع ہو جائیں گے اور اس سرمایہ سے یورپ میں زبر دست تبلیغ ہو سکتی ہے.آپ نے اپنے یورپ کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یورپ کے ہر ملک میں لوگ میرے پاس آتے رہے اور نہایت لچسپی کے ساتھ اسلام کے متعلق تحقیقات کرتے رہے.سوئٹزرلینڈ کے ایک کالج میں میری تقریر ہوئی تو اس وقت کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا اور ایک طالب علم نے کہا کہ جب اسلام کے اندر اس قدر خوبیاں ہیں تو کیوں نہ عیسائی اور مسلمان مل کر دنیا کے ان علاقوں میں حدانیت کی تبلیغ کریں جو خدا کے منکر ہیں ؟ مرزا صاحب نے کہا کہ ضرورت ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ تبلیغی مشن بھیجیں.یہ ضروری نہیں کہ احمدیوں کے مشن جائیں ، سستی بھیجیں، شیعہ بھیجیں، اہلحدیث اور آغا خانی بھیجیں.اگر آپ ہم احمدیوں کو بر سمجھتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن آپ بھی ہمارے مقابلہ میں تبلیغی مشن روانہ کیجئے.ہماری چھوٹی جماعت ہے اگر ہم دن میشن کو روانہ کرتے ہیں تو آپ دس ہزار روانہ کیجئے تبلیغ میں مقابلہ کیجئے اس سے فائدہ ہی ہو گا.آخر میں مرزا صاحب نے کراچی کے مسلمانوں سے پھر اپیل کی کہ و تبلیغی امداد کی طرف زیادہ توجہ دیں یا روز نامه پاسبان، ڈھاکہ (۲۴ ستمبر ۱۹۵۵ء) نے لکھا :." یورپ کے لوگ اسلام سے قریب تر ہو رہے ہیں.مرزا بشیر الدین کا بیان.کراچی ۲۲ ستمبر (ی پ سی) احمدیہ فرقہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد نے کل کراچی

Page 46

کے ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ یورپ اور خاص کر جرمنی میں اسلام کا پرچار کرنے کے کافی مواقع ہیں جہاں کے عوام اسلام کے متعلق بہت کچھ جانے کے خواہشمند ہیں.انہوں نے مزید یہ بتایا کہ وہاں کے لوگ اسلام سے بہت زیادہ قریب تر ہوتے جارہے ہیں کیونکہ انہیں حق کی بیحد تلاش وجستجو ہے اور صرف اسلام ہی سے ان کی تشقی ہو سکتی ہے.چنانچہ یہی وقت ہے کہ ہم انہیں اسلام کا سچا اور صحیح راستہ دکھا سکتے ہیں" فصل چهارم برصغیر پاک و ہند میں سیلاب اور امدادی سرگرمیاں بلاشبہ احمدیت ایک بین الاقوامی تحریک ہے اور تمام بنی نوع انسان اور جملہ ممالک کے باشندوں کی خدمت بہبود اور خیر خواہی اس کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے مگر چونکہ قادیان اور ربوہ کے مقدس مراکز احمدیت بر صغیر پاک و ہند میں واقع ہیں اور احمدیوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی یہیں آباد ہے اس لئے جہاں دنیا بھر کے احمدیوں کی قلبی محبت اور روحانی وابستگی پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک کے ساتھ ہے وہاں ان ممالک کے احمدیوں کی بھی ہمیشہ یہ روایت رہی ہے کہ وہ بمطابق حدیث "حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَانِ، اِس خطہ ارض میں آنے والی ہر آفت و مصیبت سے متاثر ہونے کے باوجود اپنی تکلیفوں اور دکھوں کو بھلا دیتے ہیں اور اپنے ہم وطن بھائیوں کی خدمت میں دیوانہ وار مصروف ہو جاتے ہیں.بر صغیر کے مخلص اور ایثار پیشہ احمدیوں نے خدمت اور اُخوت کی ایک شاندار مثال ۱۹۵۵ء کے وسط آخر میں بھی قائم کر دکھائی جبکہ قیامت خیز سیلابوں سے ہر دو ملکوں میں اس قدر ه موضوعات کبیر صفحه ۱۳۵ از حضرت امام علی القاری متوفی ۱۰۱۴ ھ )

Page 47

۳۵ شدید جانی و مالی نقصان ہوا کہ تباہی اور بربادی کے صدیوں کے ریکارڈ مات ہو گئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے نہایت جلالی الفاظ میں پیش گوئی فرمائی تھی کہ : " نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا " اے سیلاب کی ہولناکیوں کو دیکھ کر دانشوروں کی زبان پر سچے بچے طوفان نوح کے الفاظ جاری ہو گئے.چنانچہ دلی کے اخبار " دعوت نے لکھا کہ :- " طوفان نوح کے بعد سے اتنے وسیع و عریض خطر پر اس قدر تباہ کن سیلاب ہندوستان میں کبھی نہیں آیا.عام طور پر سادہ لوح ذہنیت ہیں اور اس ملک کے وہ لوگ ا جو اہل مغرب سے بھی زیادہ مادیت پر یقین کرنے لگے ہیں ان سیلابوں کو ایک اتفاقی ہنگامے سے زیادہ اور کوئی اہمیت نہیں دیتے.لیکن بصیرت کی آنکھ رکھنے والا خدا ترس انسان اور ایک ایسا شخص جس کی نظر واقعات عالم پر وسیع اور گھری ہو ہندوستان کی معلوم تاریخ کے اس عظیم ترین سیلاب پر سے سرسری طور سے نہیں گذر سکتا.سیلابوں کی یہ پے در پئے یورش ہر معتدل فہم رکھنے والے آدمی کو جنجھوڑ کو ایسے مقام پر لاکھڑا کرتی ہے جہاں سے وہ اُن کے دور رس نتائج و اثرات پر غور کئے بغیر نہیں رہ سکتا “ سے اسی طرح ہفت روزہ ” چٹان نے اپنی ، ار اکتوبر ۱۹۵۵ء کی اشاعت میں صفحہ ہم پر لکھا :.قرآن مجید میں طوفان نوح کا ذکر پڑھتے تو عقل کو تاہ اندیش کو حیرت ہوتی لیکن پنجاب کو طغیانی کے جن تھپیڑوں نے ہلاک کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طوفان کیا تھا.لاہور کے طوفان نوح کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے “ بر صغیر کے احمدیوں نے اس خوفناک سیلاب کے ایام میں جو امدا دمی خدمات انجام دیں اُن کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے :.ے حقیقة الوحی صفحہ ۲۵۷ (طبع اوّل) اشاعت ۱۵ مئی ۶۱۹۰۷ اخبار دعوت دہلی، در اکتوبر ۱۹۵۵ ء بحوالہ ہفت روزه "بدر" قادیان ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۵ء صفحه ۱

Page 48

ہندوستان اہلیہ : کثرت باراں اور سیلاب سے صوبہ اڑیسہ کے ہزاروں دیہات تذر آب ہو گئے.قادیان سے بے خانماں لوگوں میں ریلیف کا کام شروع کرنے کے لئے دوسو روپیہ بھجوایا گیا اور سو رو پیر اور کچھ پارسان جماعت ہائے اریبہ نے خود جمع کر کے ۱۷ اکتوبر ۹۵ار کو تین وفود متأثرہ علاقہ میں بھیجوا دیے.پہلا وقد مولوی محمد محسن صاحب ، مولوی سید غلام مہدی صاحب مبلغ سلسل احمدیہ کٹک ، مکرم سید ضیاء الدین صاحب نائب امیر سونگھڑہ اور میاں رحمت علی صاحب مشتمل تھا جو جانب موضع سدانند پورہ پنسو دہ بھجوایا گیا.دوسرا وقد مولوی سید صمصامر علی صاحب ، مولوی سید فضل عمر صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ و میاں محمود احمد صاحب قائد ملبس خدام الاحمدیہ سونگھڑہ پشتمل جانب چٹو وہ کلاٹ ون بندھا کی طرف بھجوایا گیا.تیسرا وند جو منشی محمد یوسف خانصاحب و مولوی سید محمد موسی صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ اور منشی شہاب الدین صاحب پوشتمل تھا التی کی جانب بھیجوایا گیا.ان وفود نے سیلاب زدگان میں نقد رقوم اور پارچات تقسیم کئے.وفود کو دلدل اور پانی میں سے گزر کر سیلاب زدہ دیہات میں جانا پڑا لیکن انہوں نے محض خدمت خلق کے اسلامی جذبہ کے تحت خندہ پیشانی اور تن دہی سے یہ کام سرانجام دیا.جماعت احمدیہ کی اس خدمت کو ہندو اور مسلمان معززین کے علاوہ افسران نے بھی سرا پایه ۲.قادیان : ساٹھ گھنٹہ کی مسلسل طوفانی بارش نے قادیان اور اس کے مضافات میں حشر سا بپا کر دیا تھا.یہ بارش ۳ اکتوبر سے شروع ہوئی جس سے علاقہ کے بہت سے مکانات گر گئے.قادیان کی آبادی میں سب سے زیادہ نقصان احمدیہ محلہ کا ہوا جو شہر کے مجموعی نقصان کا نصف تھا.پچاس مکانات تو بالکل بوند نہ مین ہو گئے اور ہم کو سخت نقصان پہنچا اور کئی لاکھ کا نقصان ہوا.وجہ یہ کہ قادیان اور اس کے نواح کا سارا پانی جمع ہو کر اسی جہت میں بہ نکلا.جہاں درویشوں کا محلہ واقع ہے سب سے ے ہفت روزه بدر قادیان ۲۱ نومبر ۵۵ار صد درپورٹ سید محمد احمد صاحب صوبائی امیرارڈ لیہ)

Page 49

لسلام زیادہ متاثر حلقہ ناصر آباد ہوا.جو نسبتاً نشیبی حصہ پر تھا بارش اور سیلاب کا پانی جب اس محلہ میں داخل ہونے لگا تو اس کے مکین اندرونی محلہ میں منتقل ہونے لگے.پانی کی سطح اتنی بلند ہوگئی تھی کہ ضروری سامان کو اندرونی حقہ میں لانے کے لئے کشتیاں استعمال کرنا پڑیں اور درویشوں نے ہمشکل مساجد میں پناہ لی.اسی اثنا میں قریشی عطاء الرحمن صاحب ناظر بیت المال دوسرے بھائیوں کے لئے بھاگ دوڑ کرتے ہوئے گر پڑے اور ان کے بائیں بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی.اس نشیبی حصہ میں جو درویش مقیم تھے اُن کا غلہ اور سرمائی سامان سب غارت ہو گیا اور کھیتی باڑی کر کے اپنا بوجھ اُٹھانے والے درویش اپنی فصلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے.بہشتی مقبرہ کی طرف جانے والی سڑک سیلاب میں بہہ گئی اور رستہ پانی کے دباؤ کے باعث ناقابل عبور ہو گیا.اور اگر بعض درویش اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر مدد کو نہ پہنچتے تو بعض غیر مسلموں کا ڈوب جانا یقینی تھا.قادیان میں ہم اکتوبر سے ۱۸ اکتوبر تک بجلی اور ریل کی آمد ورفت اور تار اور ٹیلی فون کا سلسلہ بند ر ہا اور قادیان کی لیستی کئی دن تک باقی دنیا سے منقطع رہی.بارش کی اس شدت کے دوران نہ صرف درویشیان قادیان کے حوصلے نہایت بلند رہے بلکہ انہوں نے اپنے غیر مسلم بھائیوں کی خدمت واعانت کا کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا کئی بھائیوں کو اپنے محلہ کے اندرونی حصہ میں پناہ دی اور کئی ہمسایہ دوستوں کو فراخدلانہ پیشکش کی کہ جب بھی وہ اپنے یہاں زیادہ خطرہ محسوس کریں احمدیہ محلہ میں تشریف لے آئیں.جب بارش پرمسلسل چالیس گھنٹے گزر چکے تو بعض غیر مسلم احباب نے خواہش ظاہر کی کہ فوری طور پر حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں بذریعہ تار درخواست دعا کی جائے چنانچہ جب انہیں بتایا گیا کہ جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے تار دی جا چکی ہے تو وہ بھی مطمئن ہو گئے اور درویشوں کے دلوں کو بھی سکیت حاصل ہوئی ہے اس مرحلہ پر قادیان کے ایک جوان ہمت درویش مرزا محمود احمد صاحب کا ذکر کرناضروری ے ہفت روزہ یہ کہ قادیان ۲۱ / اکتوبر شاء صلا

Page 50

ہے جو ذاتی طور پر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرنے کے خیال سے قادیان سے پیدل روانہ ہو گئے.چنانچہ ۵ اکتوبر تک قادیان میں بارش ہوتی رہی اور ذرائع آمد و رفت بالکل مسدود ہو چکے تھے مگر یہ نوجوان ، اکتوبر کو اس نیک جذبہ کو لے کر قادیان سے پیدل روانہ ہو گئے.یہ ایسا وقت تھا جبکہ قادیان سے واہگہ سرحد تک جس طرف نظر جاتی پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا.رستہ میں گاؤں کے گاؤں زیر آب تھے خشکی کا نشان نہ ملتا تھا لوگ اونچی جگہوں پر پناہ لئے ہوئے تھے.متعدد مقامات سے ریلوے لائن ٹوٹ گئی.سڑکیں بہہ گئیں.چنانچہ بعض جگہ انہیں تیرنا بھی پڑا.اکثر راستہ میں گلے گلنے تک پانی بہہ رہا تھا.بٹالہ تحصیل اور ذیل گھر کے آس پاس سات سات فٹ پانی بڑی تیز رفتاری سے بہہ رہا تھا.العرض صبح سات بجے چل کر ساڑھے پانچ بجے شام بڑی مشکل سے وہ امرتسر پہنچ گئے.اگلی صبح واہگہ کی سرحد سے گزر کو لاہور آئے.لیکن آگے راوی کے شدید سیلاب نے رستہ بالکل مسدود کر رکھا تھا.چنانچہ اس نوجوان کو نا چارہ اور اکتوبر تک لاہور ہی میں ٹھہرنا پڑا.آخر ۱۲ر اکتوبر کو حالات قدرے سازگار ہوئے تو یہ لاہور سے کالاشاہ کا کو تک پانی میں پیدل چل کر پہنچے.یہ دستہ بھی سیلاب کے باعث حد درجہ خستہ اور خراب ہو چکا تھا.پھر گوجرانوالہ کے رستہ اسی روز بخیر بیت ربوہ پہنچے گئے.اگلے روز ۱۳ اکتوبر کو انہیں بعد نماز ظہر ستید نا حضرت المصلح الموعود کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور درخواست دُعا کا بھی موقعہ ملا.حضور نے ان کے حالات سفر شنکر اظہار خوشنودی فرمایا میں کی اطلاع پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے انہیں حسب ذیل الفاظ میں دی گئی :- آپ جس ہمت اور کوشش سے قادیان سے لاہور اور پھر ربوہ پہنچے ہیں ان حالات کی اطلاع حضور کی خدمت میں دی گئی.حضور نے آپ کو جزاكم الله احسن الجزا فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ قادیان کے سب درویشوں کو تیرنا سیکھنا چاہئیے کیونکہ خطرے کے وقت آتے ہی رہتے ہیں.ایسے موقعہ بچہ ایک نہیں آنا چاہیے بلکہ دو تین ہوں اور باہمی رشتہ پکڑا ہوا -

Page 51

۳۹ ہو ، سکتھوں اور ہندوؤں کی مدد بھی کرنی چاہیئے ہے.قادیان کے مضافات میں رفاہی خدمات : درویشان قادیان نے حضرت مصلح موعود کے اس ارشاد مبارک پر جس والہانہ اندازہ میں لبیک کہا اُسے ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا.اگرچہ طوفانی بارش اور سیلاب سے پیدا شدہ تشویشناک صورت حال نے سب سے زیادہ انہی کو متاثر کیا تھا.اور اپنے مکانوں کی از سر نو تعمیر اور مرمت کے لئے انہیں بھاری اخراجات درکار تھے مگر گذشتہ شاندار جماعتی روایات کے عین مطابق انہوں نے نہ صرف قادیان کے متعد ومستحق اور ضرورت مند غیر مسلم اصحاب کو نقد اما میں کپڑے اور انان تقسیم کیا.بلکہ فوری طور پر چوہدری بدر الدین صاحب عامل معتمد مجلس قدام الاحمدیہ کے زیر قیادت بیٹ کے علاقہ میں امدادی سرگرمیاں جاری کر دیں.یکم نوی او کو قادیان سے ایک وقد سیلاب سے متاثرہ علاقہ کے حالات اور فوری ضروریات کا جائزہ لینے کے لئے اس علاقہ کی طرف روانہ ہوا.وقد مندرجہ ذیل اصحاب پرمشتمل تھا.شیخ عبد الحمید صاحب عاجز ناظر امور عامه ، ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مولف اصحاب احمد" مولوی برکت علی صاحب جنرل سیکرٹری لوکل کمیٹی ، چوہدری غلام ربانی صاحب انچارج احد به شفاخانه، چوہدری منظور احمد صاحب چیمہ اور مرزا محمود احمد صاحب.یہ وفد اس علاقہ کے دورہ سے اس نتیجہ پر پہنچا کہ سیلاب نہ دہ علاقہ کی فوری امداد کے لئے با قاعدہ امدادی کیمپ کھولنا ضروری ہے.اس فیصلہ پر اگلے روز ۱۲ نومبر ۱۹۹۵ء کو پھیرو چیچی کے مقام پر ایک طبی اور امدادی کیمپ قائم کر دیا گیا جس نے ہر ممکن ذریعہ سے مصیبت زدگان کی خدمت کا فریقیہ انجام دیا.یہ کیمپ ۱۶ر نومبر ۱۹۵۵ء تک جاری رہا.تیس سے زیادہ دیہات کے ہزار ہا ضرورت مندوں نے اس سے استفادہ کیا.کیمپ کے حلقہ میں جو دیہات تھے اُن میں گھوڑے واہ.نینو وال.پھیرو چیچی.بھینی کھنڈہ.راج پوره راج گڑھ.ملاں وال.بیسوال.خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اس امدادی و طبی کیمپ سے ه هفت روزه بدر قادیان ۲۸ قادیان ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۵

Page 52

امدادی پارٹیاں صبح صبح مختلف دیہات میں کام کرنے کے لئے نکل جاتیں اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو کر سارا دن علاج معالجہ اور امدادی کام میں مصروف رہتیں.اس امدادی کیمپ میں پانچے درویش ہمہ وقت مصروف کار رہتے اور اُن کا ہاتھ بٹانے کیلئے روزانہ ہی تین چار تازه دم نوجوان قادیان سے پہنچ جاتے.کیمپ کے انچار ج مکرم بشیر احمد صاحب انچارج احمدیہ ڈسپنسری تھے اور محمود احمد صاحب مبشر ، چوہدری بشیر احمد صاحب مہار، چوہدری منظور احمد صاحب چیمہ اور مرزا محمود احمد صاحب اُن کے ساتھ کام میں سرگرم عمل رہتے.چونکہ گندم اور چنے وغیرہ کی فصلیں ہونے کا وقت آچکا تھا اس لئے ایک طرف ضلع اور صوبہ کے حکام کو بیچ اور مویشوں کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی گئی، دوسری طرف قادیان سے مستری منظور احمد صاحب امدادی کیمپ میں ہل وغیرہ کی مرمت کے لئے پہنچ گئے.اس امدادی کیمپ کو کامیاب اور موثر بنانے کے لئے صاحبزادہ مرزا دسیم احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ قادیان نے خاص طور پر گہری دلچسپی لی.چنانچہ آپ سر نومبر شہداء کی شام کو ریعنی کیمپ کے قائم ہونے کے اگلے دن ) امدادی کاموں میں شرکت اور ریلیف کام کا معائنہ کرنے کے لئے خود تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ چوہدری عبد القدیر صاحب ، چوہدری غلام ربانی صاحب انچارج احمد یہ شفاخانہ اور یونس احمد صاحب اسکم مصروف عمل رہے.صاحبزادہ صاحب نے خدام الاحمدیہ کی طرف سے خدام الاحمدیہ کے فنڈ سے مبلغ دو سو روپے اور اپنی طرف سے بہت سے پار چات بھی عنایت فرمائے اسی طرح آپ کی بیگم صاحبہ نے لجنہ اماء اللہ کی طرف سے اور سید محمد شریف صاحب نے مجلس انصار اللہ کی طرف سے ایک ایک سو روپیہ اس فنڈ میں دیا.اسی طرح صدر انجمن احمد یہ قادیان نے رجس کی نگرانی میں یہ ریلیف کیمپ کھولا گیا تھا ) پانچ سو روپے کا عطیہ دیا.اُن دنوں درویشوں کے گھر خدمت خلق کے مراکز بنے ہوئے تھے.جماعت کی طرف سے کپڑوں کے تھان خرید کر بچوں عورتوں اور مردوں کے لئے کپڑے تیار کروائے گئے.سلائی کا کام احمدی درزیوں نے بلا اُجرت کیا اور رات دن اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لئے پار چات تیار کرنے میں

Page 53

الم مصروف رہے.احمدی مستورات نے پار چات اور غلہ جمع کیا جو ضرورت مندوں میں تقسیم کیا گیا.لیا.پھیر د چیچی کیمپ کے ذریعہ سے ایسا شاندار امدادی کام ہوا کہ اکثر دبیات کے سرپنچوں اور پنچایت کے ممبروں نے تحریری طور جماعت احمدیہ کی خدمات پر شکر گزاری کے پیغامات نظارت امور عامہ قادیان کو بھجوائے ، ان معزز غیر مسلم دوستوں کے نام یہ ہیں :- - سردار منگل سنگھ صاحب ایم ایس سی ایل ایل بی نمبر دار و پنج موضع بھینی میاں خان.۲- ٹھاکر تر لوک سنگھ صاحب سر پنچ و سردار امرسنگھ صاحب نمبر دار موضع بھا گڑیاں.سردار خزاں سنگھ صاحب نمبر دار و سردار بہادر سنگھ صاحب سر پنچ موضع ملاں وال..سردار نرنجن سنگھ صاحب ولد روڈ سنگھ صاحب نمبردار موضع راجپورہ.-۵ سردار رچھوسنگھ صاحب نمبر دار موضع کوٹ خان محمد - 4.پنڈت دیوان صاحب سر پہنچ و سردار بلدیو سنگھ صاحب ممبر پنچائیت موضع خان محمد کوچکی پور دکھڑ.سردار سنت سنگھ صاحب نمبر پنچایت و سردار سنتوک سنگھ صاحب سر پنچ موضع نانو والی.سردار بلدیو سنگھ صاحب سر پنج و سردار سنسار سنگھ صاحب میر پہنچایت موضع عالماں.۹ - سردار دیوان سنگھ صاحب ممبر پنچایت و سردار جگت سنگھ صاحب موضع چھجڑا.۱۰ سردار سنگھ صاحب و لاب سنگھ صاحب تمبر پنچایت و سردار مان سنگھ صاحب پر پہنچ پھیرو چیچی.۱۱ سردار گیل سنگھ صاحب ممبر پہنچایت بھلوال.امدادی کیمپ کی کارکردگی کی اطلاع جب ضلع اور صوبہ کے افسران کو ہوئی تو سرکاری و کانگریسی حلقوں نے بھی ان خدمات پر خراج تحسین ادا کیا اور شکریہ کے پیغامات اور خطوط لکھے جن میں سے چند بطور نمونہ ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :- دان)." جو قیمتی خدمات آپ کی جماعت سیلاب سے متاثر مصیبت زدہ لوگوں کی کر

Page 54

۴۲ رہی ہے وہ بہت زیادہ تعریف اور قدر کے قابل ہیں.ہم ان سرگرمیوں کیلئے آپ کے شکر گزار ہیں " ( ترجمہ میٹھی مورخہ 14 نومبر ۱۹۵۵ ء - جنرل سیکرٹری صاحب کانگریس صوبہ پنجاب ) (۲).” جناب ہوم منسٹر صاحب کے پاس آپ کی میٹھی اور اخبار بدر مورخہ ے کا پرچہ پہنچا ہے جس میں سیلاب زدگان کی امداد کے متعلق جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کا ذکر ہے.جناب ہوم منسٹر صاحب نے ان خدمات کے لئے مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنے کی ہدایت کی ہے ؟ د ترجمہ مراسلہ مورخه ۱۹ نومبر ۱۹۵۵ء از طرف شری اے.ڈی.پانڈے ، آئی اے ایس پرائیویٹ سیکرٹری آنریل ہوم منسٹر صاحب نئی دہلی ).(۳)." سیلاب کی شکل میں اس قدرتی قہر کا مقابلہ کرتے ہوئے جہاں باقی سیلاب زدہ حلقوں میں مختلف سبھا ، سوسائیٹیوں کے ذریعہ ریلیف کا کام ہوا وہاں یہ بات کافی سراہنے کے قابل ہے کہ جماعت احمدیہ نے بھی اپنی گذشتہ روایات کے مطابق علاقہ بیٹ سیاس موضع پھیرو چیچی میں اپنا ریلیف کیمپ قائم کر کے گرد و نواح کے سیلاب زدہ لوگوں کو محنت اور تمہندردی سے امداد بہم پہنچائی ہے.جماعت کی طرف سے نیشنل سپرٹ کے ساتھ جہاں دیہات میں آٹا ، کپڑے اور ادویہ سے لوگوں کی مدد کی گئی ہے وہاں قادیان خاص میں بھی مستحقین کو نقد مالی امداد دی گئی اور ایک مشنری سپرٹ اور خدمت خلق کے جذبہ کے ماتحت بعض بے آسرا اور نحیف سجنوں کے مکانوں کی مرقمت اپنے ذمہ لے رہے ہیں.جماعت احمدیہ کا یہ کام جہاں قابل ستائش ہے وہاں میں باقی جماعتوں سے بھی توقع یہ کھتا ہوں کہ وہ ایسے آڑے وقت میں مصیبت زدگان کی تکالیف کو دور کرنے میں کوشش کر کے اپنا فرض ادا کریں گی : رینڈت کو رکھ ناتھ جاب شرقاً ایم ایل اے صدر کانگریس کمیٹی گورداسپور کا تحریری بیان ) (۴)."مجھے اس بات کے علم سے خوشی ہوئی ہے کہ آپ کی جماعت نے علاقہ کے

Page 55

۴۳ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ریلیف کیمپ کھول کر مفاد عامہ کا ایک اعلیٰ کام کیا ہے ؟" د چٹھی مورخہ ۱۸ نومبر ۱۹۵۵ء - جناب سردار پرتاب سنگھ صاحب کیروں وزیر ترقیات حکومت پنجاب ) (۵)." مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ جماعت احمدیہ کے ریلیف کیمپ نے سیلاب زدہ لوگوں کو ریلیف پہنچانے کے لئے بہت عمدہ خدمات سر انجام دی ہیں یا دچھٹی مورخه ۱۵ نومبر ۱۹۵۵ء - جناب سردار امیل سنگھ صاحب وزیر مال حکومت پنجاب ).(4)." جناب منسٹر صاحب نے جماعت کے اس قابل قدر خدمت کے کام کی تعریف فرماتے ہوئے مجھے ہدایت دی ہے کہ آپ کو شکریہ کا پیغام پہنچا دوں “ (شری سر ناگت سنگھ صاحب پرائیویٹ سیکرٹری پبلک ورکسی منسٹر چندی گڑھے مورخہ ۱۸ نومبر (41900 (۷)." ہمارے نزدیک سیلاب زدہ علاقہ میں آپ کی ریلیف کی قیمتی خدمات قدر اور تعریف کے قابل ہیں " د جنرل سیکرٹری پنجاب کا نگر میں کمیٹی جالندھر مورخہ ۲۶ نومبر ۶۱۹۵۵ ) : (۸) مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ جماعت احمدیہ قادیان کے سجن کئی دنوں سے ان دیہاتیوں میں طبی اور دیگر امداد کا کام بڑی سرگرمی اور شوق سے کر رہے ہیں.جماعت کی طرف سے موضع پھیرو چیچی میں ایک ریلیف کیمپ بھی کچھٹتا ہے.جہاں بیماروں اور مصیبت زدگان کی ہر طرح سے امداد کی جاتی ہے.احمدی نوجوانوں کی امدادی پارٹیاں ادویات پر میری راشن اور کپڑے وغیرہ لے کر خود مختلف سیلاب زدہ دیہاتوں میں امداد کر رہی ہیں مجھے اس بات کے اظہار سے خوشی ہے کہ جو پبلک سیوا کا کام قادیان کے احمدی دوست پوری ہمدردی اور خدمت کے جذبہ کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں اس سے علاقہ میٹ کی مصیبت زدہ جنتا کو بہت آرام پہنچا ہے ؟ ( سردار بشن سنگھ صاحب نائب تحصیلدار علاقہ بیٹ ) (۹)." خدمت کے بے لوث جذبہ ، بے پناہ جوش اور خلوص کے ساتھ جماعت احمدیہ قادیان

Page 56

کی امدادی پارٹی نے علاقہ بیٹ کے تمام دیہات میں پھر کو مصیبت زدہ افراد کی امداد اور مریضوں کے علاج کا کام کیا، میں جس کا اظہار الفاظ میں مشکل سے کر سکتا ہوں.ان لوگوں کی بے غرض خدمت اور سیوا کا کام بے حد شکریہ اور مبارک بادی کا مستحق ہے.دشری پیارے لال صاحب نائب تحصیلدار کا منوان) اگر چہ پھیرو پیچی کا امدادی کیمپ شب و روز خدمت بجا لانے کے بعد 14 نومبر کی شام کو کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا لیکن جماعت احمد یہ قادیان کی رفاہی اور طبی سرگرمیاں کئی دنوں تک زور شور سے بدستور جاری رہیں.چنانچہ علاقہ بریٹ کے پریشان حال مریض اور ضرورت مند لوگ متواتر اپنے علاج اور کپڑوں وغیرہ کی امداد کے لئے قادیان پہنچتے رہے اور مرکز احمدیت کی طرف سے حسب حالات ان کی خدمت کا سلسلہ جاری رہا.اس کے علاوہ قادیان کے ارد گرد کے متاثرہ دیہات تک درویشوں کی طبی سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں.اور سینکڑوں ایسے مریض جو اپنی مجبوریوں کے باعث قادیان کے احمدی شفا خانہ میں نہیں آسکتے تھے، اُن کے گھروں تک دوائیں پہنچا دیں.دو احمدی و سپنر چوہدری غلام ربانی صاحب اور ملک بشیر احد صاحب ناصر باری باری دیہات کا دورہ کرتے رہے.اس انتظام کے ماتحت ۲۳ نومبر تک مندرجہ ذیل بارہ دیہات میں قریباً ایک ہزار مریضوں کا تسلی بخش طور پر علاج کیا گیا در تغل والا - رجاده - ٹھیکری والا - نت - موکل -لیل کلاں.بوہڑ.کا ہلوان.بھرانواں.رام پورہ - کوٹلہ - کاظم پورہ - طبی امداد کے علاوہ ان دیہات سے کئی افراد بغرض امداد قادیان پہنچے اور باوجود مالی مشکلات کے مرکز کی طرف سے اپنی توفیق اور بساط کے مطابق کسی نہ کسی رنگ میں اُن کی خدمت ضرور کی گئی.در دیشان قادیان نے اس موقع پر بعض منہدم مکانات کی از سر نو تعمیر میں بھی حصہ لیا.جیسا کہ شیخ عبدالحمید صاحب عاجز ناظر امور عامہ قادیان کے مندرجہ ذیل بیان سے ظاہر ہے :-

Page 57

۵ام خاص قادیان میں ہمارے دس خدام نے مکرم مولوی برکت علی صاحب انچارج تعمیرات کی نگرانی میں تین چار روز کی محنت اور بہت سے محلہ دار الرحمت میں سردار جیون سنگھ صاحب کے رہائشی مکان...کی تعمیر مکمل کر دی ہے اور ہماری پیشکش کے مطابق قادیان کی کانگریس کی طرف سے نہیں کسی اور حقیقی مستحق اور ضرورت مند غیرمسلم کے مکان میں تعمیر کی امداد کے لئے اطلاع دی گئی تو ہم خوشی سے ایسی خدمت کے کام کو سرانجام دینے کو تیار ہوں گے یہ " بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ درویشان قادیان کی ان قابل قدر اور ناقابل فراموش مساعی کا چرچا بھارتی پریس میں بھی ہوا.چنانچہ دہلی کے مشہور ہفت روزہ "ریاست" نے لکھا کہ :." اس سال سیلاب کے باعث پنجاب میں جو تباہی نازل ہوئی.اس کی مثال پچھلی تاریخ میں نہیں مل سکتی.چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ امرتسر اور گورداسپور وغیرہ اضلاع میں گھروں کے اندر چھ چھ فٹ تک پانی پہنچ گیا.جس کے باعث نوے فیصدی مکانات کو نقصان پہنچا.اور قادیان ضلع گورداسپور سے جو اطلاعات آئی ہیں.ان کے مطابق وہاں کی احمدی جماعت کے ۷۰ ۷۵ فیصدی کے قریب مکانات کو نقصان پہنچا ہے.اور مکانات میں جو سامان تھا وہ الگ تباہ ہوا.اور یہ واقعہ دلچسپ ہے کہ قادیان کے احمدی حضرات نے جب قریب کے دیہات کی تباہی کی خبریں سنیں تو یہ اپنی تباہی کو بھول گئے.اور انہوں نے دیہات میں جاکہ ان لوگوں کو بچایا.جو دیہات بالکل ہی تباہ ہو چکے تھے.اور اب بھی یہ لوگ ان دیہات کے لوگوں کے لئے غلہ اور کپڑے پہنچانے میں مصروف ہیں.ایک درویش کا شعار ہے کہ وہ اپنی ذاتی ضرورت کے مقابلہ میں دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دے.اگر کوئی دوسرا شخص بھوکا ہو تو خود بھوکا رہتے ہوئے کبھی اپنا کھانا دوسروں کو دے.درویشانہ زندگی کے اس اصول کے مطابق ل ملخصاً از هفت روزه بدر قادیان در ستمبر ۶ تا ۲۸ نو به ۱۹۵۵ نه

Page 58

قادیان کے ان احمدی حضرات کو یقیناً درویش قرار دیا جا سکتا ہے.جو سیلاب کی تباہی کے دنوں اپنی مصیبت کو بھول گئے.اور جنہوں نے اپنے گر چکے یا گر رہے مکانات کی پروا نہ کرتے ہوئے دیہات میں پہنچ کر دیہاتیوں کو سیلاب کی تباہی سے بچانے کی کوشش کی.اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کو اپنا فرض قرار دیا.احمدی جماعت ایک مذہبی جماعت ہے.اور ہمارا یہ پھیلا تجربہ ہے کہ اس جماعت میں نیک اور بلند لوگ دوسرے مذاہب کے مقابلہ پر اوسطا زیادہ ہیں.چاہے اس کی وجہ اس جماعت کے حلقہ کا محدود ہونا ہی کیوں نہ ہو.کیونکہ ہر مذہب جب تک محدود رہا.اس میں اچھے لوگوں کی کثرت رہی.اور جب اس نے وسعت اختیار کی تو اس میں غلاظت بھی بڑھتی چلی گئی چنانچہ فسادات کے زمانہ میں زندگی اور موت کی کشمکش سے بے نیاز ہو کہ قادیان کے کئی سو احمدی حضرات کا قادیان میں موجود رہنا اور اپنی مذہبی عبادت گاہوں اور بزرگوں کے مقبروں کو نہ چھوڑنا ان کی بلندی کا بہت بڑا ثبوت تھا.اور اب ان لوگوں نے سیلاب کے زمانہ میں ضلع گورداسپور کے دیہاتیوں کی جو خدمت سرانجام دی.اسے بھی ان کے مذہبی شعار کی بلندی قرار دیا جا سکتا ہے.جس کی ہر شخص سے توقع نہیں کی جا سکتی.ہماری خواہش ہے کہ یہ حضرات آئندہ بھی اس طرح ہی خدا کی مخلوق کی خدمت کو ایک فرض سمجھے کہ انجام دیں.اور جہاں تک بھی ممکن ہو اس خدمت اور فرض کو پروپگنڈا سے دور رکھا جائے.کیونکہ اگر خدمت فرض یا سروس کے ساتھ پروپگینڈا کی آلائش بھی شامل ہو تو اس کا اثر فرض شناسی اور خدمت گزاری پر اچھا نہیں پڑتا ہے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں پاکستان کو شکار میں دوہری آلات شہداء کی تباہ کاریوں سے دوچار ہونا پڑا.پہلے ۱۲ فروری اور ۱۹ فروری کو زلازل کے پے درپے جھٹکوں نے بلوچستان میں نه "ریاست ۲۱ نومبر ۱۹۵۵ء بحواله الفضل ۲۹ نومبر ۹۵۵اء ما

Page 59

ہیجان برپا کر دیا.ازاں بعد وسط اگست سے شدید سیلابوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.جس نے نہ صرف مشرقی بنگال بلکہ صوبہ پنجاب کے مندرجہ ذیل سات اضلاع کو بھی اپنی پیٹ میں لے لیا :- ڈیرہ غازیخان ، لاہور ،سیالکوٹ ، شیخو پورہ ، لائل پور (مال فیصل آباد ، منٹگمری (ساہیوال) ، ملتان.یہ وسیع علاقہ گویا ایک سمندر بن گیا.بہت سی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ، لاکھوں من غلہ بہر گیا اور اربوں کی جائیدادیں اس ہولناک طوفان کی نذر ہوگئیں.جماعت احمدیہ ملک بھر کی واحد دینی جماعت تھی جس کے محب وطن ، انتھک اور فرض شناس جوانوں نے زلزلہ اور سیلاب سے پیدا شدہ صورت حال سے نپٹنے میں حکومت پاکستان کا ہر ممکن طریق سے ہاتھ بٹایا اور اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی اعانت کے لئے اپنے اموال اور اوقات کی ہر مطلوبہ قربانی پیش کر دی.اس نازک موقع پر احمدی پروفیسر، احمدی طلبہ ، احمدی ڈاکٹر ، احمدی معمار ، احمدی تاجر، احمدی وکیل ، احمدی زمیندار ، احمدی کارکن غرضیکہ ہر طبقہ کے مخلصین نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.جو جماعتیں اور مجالس براہِ راست زلزلہ اور سیلاب سے متاثر تھیں ، انہوں نے بھی ایثار کا نمونہ دکھاتے ہوئے دوسروں کی خدمت کا حق ادا کر دیا اور جو علاقے بالکل محفوظ رہے تھے ان کی احمدی تنظیموں نے نقدی، خوراک پوشاک اور ادویہ سے گرانقدر امداد کی اور ڈاکٹر اور معمار اور دوسرے رضا کار لے اس آفت سے کوئٹہ کے ۱۲ نواحی دیہات یا تو بالکل زمین بوس ہو گئے یا انہیں انتہائی شدید نقصان پہنچا.جن میں ایک گاؤں کئی عالموں بھی تھا.کوئٹہ کے احمدی نوجوانوں نے اپنے امیر میاں بشیر احمد صاحب اور قائد مجلس شیخ محمد حنیف صاحب (حال امیر جماعت احمدیہ بلوچستان) کی راہنمائی اور سر پرستی ہیں اس گاؤں کا انتخاب کیا اور اس میں ۲۲ فروری سے ۷ ار اپریل تک وسیع پیمانے پر امدادی خدمات انجام دیں اور زلز ایسے متاثرلوگوں کو دیگر ضروریات زندگی مہیا کرنے کے علاوہ اپنے ہاتھوں متحد مکانا تعمیر کئے.(الفضل برکوه ۱۶ مارین شات - ماہنامہ "خالد ربوہ جنوری ۱۹۵۶ء ۲۲ - ۴۶ ) ۶ ما

Page 60

بھیجوائے غرضیکہ جس طرح ملک پر آنے والی یہ آفات اپنی مثال آپ تھیں اسی طرح احمدی جوانوں کا جوش عمل اور بے لوث جذبہ خدمت بھی بے نظیر تھا.در اصل حضرت مصلح موعودہ مدتوں سے خدمت خلق کی جو علمی و عملی ٹرینینگ نو نہالان جامات کو دیتے آرہے تھے.اس کے وسیع اثرات و برکات آب پبلک میں ایک واضح اور منتظم شکل میں آنے شروع ہو گئے تھے.یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوام نے ان کی سرفروشانہ سرگرمیوں پر زبر دست خراج تحسین ادا کیا اور ملکی پریس اور خبر رساں ایجنسیوں نے بھی ان کی اشاعت میں غیر معمولی دلچسپی لی.جماعت احمدیہ پاکستان کی رضا کارانہ خدمات کا عمومی ذکر کرنے کے بعد متناسب ہو گا کہ اُن احمدی جماعتوں اور مجالس خدام کا کسی قدر اجمالی تذکرہ بھی ضرور کر دیا جائے جن کو ان دنوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے قومی اور ملکی فرائض بجا لانے کی نمایاں توفیق ملی.(1) ڈھاکہ (امیر مشرقی بنگال سے کیپٹن خورشید احمد صاحب) سید نا حضرت مصلح موعودہ ابھی لنڈن میں تشریف فرما تھے کہ حضور کو مشرقی بنگال کے سیلاب کی اطلاع ہوئی.حضور نے تیرہ ہزار روپے بے خانماں لوگوں کے لئے منظور فرمائے اور بذریعہ برقیہ جماعت کو بھی تحریک فرمائی کہ " وہ بھی اپنی استطاعت کے مطابق سیلاب زدگان کی مدد کے لئے چندہ دیے کیونکہ آپ کے بھی وہاں سیلاب گذشتہ سال کی طرح خطرناک نوعیت اختیار کر گیا ہے...حضور کا ارشاد پہنچتے ہی بنگال کی مرکزی انجمن احمدیہ ڈھا کہ نے بلا تاخیر ریلیف کا کام شروع کر دیا چنانچہ سب سے پہلے انجمن کے ایک وفد نے وزیر اعلیٰ مسٹر ابو حسین سرکار کو اپنی رضا کارانہ خدمات پیش کیں اور پھر افسران حکومت سے مشورہ کے بعد پگلہ، چالش ہرا ، برہمن بڑیہ ، میر پور کالونی ، نارائن گنج اور پاڑہ میں ریلیف سنٹر کھول له حال بنگلہ دیش - ۵۲ روز نامه" الفضل " ۱۳ اگست و ۲۵ اگست ۹۵۵اه ما

Page 61

۴۹ دینے اور ہزاروں سیلاب زدگان میں نقد رقوم کے علاوہ ادویہ ، چاول ، دودھ اور دیگر اشیاء کی بھاری مقدار تقسیم کی.۲۱ اگست ۱۹۵۵ء کو مٹر غلام قادر چوہدری ایم ایل اے واہیم سی نے بشیر احمد صاحب سیکرٹری ریلیف کی معیت میں اچانک دو پہر کے وقت پگلہ ریلیف سنٹر کا معائنہ کیا اور اُس کی امدادی سرگرمیوں کو دیکھ کر بہت خوشنودی کا اظہار کیا اور اپنے قلم سے مندرجہ ذیل الفاظ لکھے کہ در " آج میں نے اچانک موضع پگلہ میں جماعت احمدیہ کے ریلیف سنٹر کا معائنہ کیا.کہیں اس سنٹر کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں.جماعت احمدیہ کے کارکن اپنے محدود ذرائع کے باوجود بہت وسیع پیمانہ پر امدادی کام کر رہے ہیں اور اخلاص اور دیانت داری سے عوام کی خدمت کر رہے ہیں.کئی ہزار آدمیوں میں چاول، دودھ اور دوائیاں تقسیم کی جاچکی ہیں.کاش کہ یہ روح دوسرے اداروں میں بھی پیدا ہو اور وہ اس اخلاص اور محنت سے کام کریں جس اخلاص اور محنت اور ہمدردی سے جماعت احمدیہ کے کارکن کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو اجر عظیم دے.غلام قادر چوہدری ایم ایل اے یا اسی طرح امدادی امور کے صوبائی وزیر مسٹر ہاشم الدین احمد ، متعلقہ افسران اور شاف کے ہمراہ ۲۴ ستمبر 1920ء کو میر پور کالونی کے احمد یہ ریلیف سنٹر میں تشریف لے گئے اور ریلیف کے کام میں گہری دلچسپی کا ثبوت دیا.حضرت مصلح موعود کی ہدایت کے مطابق مولانا رحمت علی صاحب سابق مبلغ انڈونیشیا اور سید اعجاز احمد صاحب مرقی سلسلہ برہمن بڑیا پہنچے اور مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کے تعاون سے سیلاب زدگان کی امداد کا کام پہلے سے زیادہ اہتمام اور باقاعدگی کے ساتھ شروع کر دیا.برہمن بڑیا کے گشتی شفا خانہ اور خیراتی شفاخانہ کے ذریعہ جن افراد کا مفت علاج کیا گیا اُن کی تعداد وسط ستمبر ۱۹۵۵ء تک ۴۰۰ ۲ تک جاپہنچی سلسلہ کے تیسرے مرتی جہا نہ محمد عمر صاحب بھی دوسرے مربیان کے ساتھ ڈھا کہ اور میر پور کالونی برہمن بڑیا اور نارائن گنج کے مختلف علاقوں میں امدادی کاموں کے لئے وقف رہے.، ہ کی طرح اس سال بھی محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب سیکرٹری

Page 62

نجنہ اماءاللہ ڈھاکہ نے زیر نگرانی بیگم صاحبہ گورنر صاحب مشرقی پاکستان امدادی خدمات انجام دیں، اور لجنہ اماءاللہ کی طرف سے پانچ سو روپے کی رقم کی بلیف کے لئے پیش کی اور لجنہ اماء اللہ کی بعض ممبرات مختلف مقامات پر ریلیف کے فرائض بجا لاتی رہیں ہیے دامیر مولوی عبدالرحمن صاحب منتشر قائد مجلس خدام الاحمدیہ (۲) ڈیرہ غازیخاں مانتی غیر محہ صاحب) محمد یہاں ۱۳؍ اگست کو زبر دست سیلاب آگیا جس نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا اور ہر شخص کی زبان پر نفسی نفسی کی صدا تھی.جماعت احمدیہ کے افراد بالخصوص خدام احمدیہ نے بلا امتیاز فرقہ مصیبت زدگان کی فوری اور بروقت امداد کرنے کے سلسلے میں قابل قدر مساعی سے کام لیا.اور ۱۴ راگست کو امدادی کیمپ کھول کہ ضرورت مند افراد کی خدمت کے لئے ہر ممکن ذرائع بروئے کارے آئے گرتے ہوئے مکانوں میں سے سامان نکالا.طلبہ اٹھایا.دیواریں بنائیں اور مستحقین کے لئے کھانے کا انتظام کیا.علاوہ ازیں ڈیرہ نمازیخان اور اُس کے نواح میں نادار اور سختی خاندانوں میں پار چات تقسیم کئے.ایک احمدی غلام حسن خانصاحب دلبستی مندرانی ) نے جن کا گھر سیلاب کی نذر ہو چکا تھا ، دوسرے مصیبت زدگان کو مکان بنا نے کے لئے دو سو اسی مرے زمین مفت دے کر قربانی اور ہمدردی خلق کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی لیے (۳)، ریوہ اس کہولناک سیلاب میں پاکستان کے احمدی جوانوں نے جو قابل رشک امدادی خدمات انجام دیں.اُس میں مجلس خدام الاحمدیہ کی مرکزی قبارت کی فرض شناسی بالغ نظری اور حب الوطنی کا بھاری عمل دخل تھا.اُن دنوں صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب مجلس خدام احمدیہ مرکز یہ کے صدر تھے.سیلاب کی خبر سن کر مجلس مرکز یہ ه روز نامه " الفضل " و ستمبر و ۲۲ ستمبر شهداءث.و ماهنامه خالد ربوہ جنوری ۱۹۵۶ء شه روزنامه الفضل ۲۶/۲۱، ۲۷ اگست و یکیم و ۲۳ ستمبر شده ( رپورٹ مولوی عبدالواحید خانصاحب انچارج کیمپ بستی شندرانی )

Page 63

۵۱ نے فوری طور پر صورت حال کا جائزہ لیا اور چوہدری انور حسین صاحب امیر شیخو پورہ کے مشورہ اور راہنمائی سے شیخو پورہ کے متاثرہ علاقہ میں متعدد ریلیف کیمپ قائم کر دیئے.علاوہ ازیں مرکزی ہدایات کے مطابق لاہور، سیالکوٹ، لائل پور (حال فیصل آباد ) اور ملتان کی مجالس خدام الاحمدیہ پوری جانفشانی سے طوفان زدہ لوگوں کو بچانے اور اُن کی رہائش، خوراک اور طبی ضروریات مہیا کرنے کے لئے سرگرم عمل ہوگئیں.چنانچہ چند دن بعد عزت مآب چوہدری محمد علی صاحب وزیر اعظم پاکستان اور میاں مشتاق احمد صاحب گورمانی گورنر مغربی پاکستان نے عوام سے اپیل کی کہ وہ امدادی کاموں میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں تو خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے معتمد مولوی محمد صدیق صاحب کی طرف سے اُن کی خدمت میں ۱۳ راکتو بر خطاء کو مندرجہ ذیل برقیہ ارسال کیا گیا :- آپ کی طرف سے سیلاب کے سلسلہ میں امداد کرنے کی اپیل کی گئی تھی اس کی تعمیل میں سیالکوٹ، لاہور، لائل پور اور ملتان کی مجالس خدام الاحمدیہ پہلے ہی امدادی کام کر رہی ہیں.ریوہ کے ہم رضا کاروں پرمشتمل ایک ریلیف پارٹی جس میں ڈاکٹر اور ۴۰ معمار بھی شامل ہیں شیخو پورہ میں کام کر رہی ہے.آپ کی نشری اپیل کے سلسلہ میں تمام مجالس کو ہدایات بھیجوا دی گئی ہیں کہ وہ مقامی حکام کے ساتھ رابطہ قائم کریں اور انہیں اپنی خدمات پیش کر دیں." برقیہ کے جواب میں مندرجہ ذیل خطوط موصول ہوئے جن میں مجلس کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے یہ لکھا گیا تھا : (1) - " کراچی مار اکتوبر ! - مجھے عزت مآب وزیر اعظم نے ہدایت فرمائی ہے (۱) کہ میں آپ کی تار مورخہ ۱۲ اکتوبر کا شکریہ ادا کروں.احمدی نوجوانوں کے اس جندیر کو وزیر اعظم نے بہت سراہا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے سیلاب زدگان کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہے".جائنٹ سیکرٹری کیبنٹ (۲) " گورنمنٹ ہاؤس لاہور.۱۷ اکتوبر ۶۱۹۵۵ نمبر ۸۵۴۰۵ عزت مآب گورنر پنجاب نے مجھے ہدایت فرمائی ہے کہ میں آپ کی تار مورخه ۱۲ اکتوبر " A.A.HAMID

Page 64

۵۲ کا جواب دوں اور جماعت احمدیہ کی اُن محب وطن کوششوں کا شکریہ ادا کروں جو انہوں نے سیلاب زدگان کے دُکھ درد کو دور کرنے کے لئے شروع کی ہیں.دستخط ) رشید احمد پرائیویٹ سیکرٹری ہز ایکسیلینسی گورنر مغربی پاکستان ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۵ء کیا کچھ مرکزی قیادت کی براہ راست نگرانی میں سب سے پہلی مجلس جو میدانِ عمل میں آئی وہ ربوہ کی مقامی مجلس خدام الاحمدیہ تھی جس نے شیخو پورہ کے سیلاب زدہ علاقہ میں مسلسل ایک ماہ یتک وسیع پیمانے پر امدادی خدمات انجام دیں.۷ اکتوبر کو قائد ریکوہ کرم مولوی اولمن والحق صاحب کی پر زور تحریک پر ربوہ کے مختلف اداروں اور خدام نے جن میں ڈاکٹر اور عمار اور مستری بھی شامل تھے ، ذوق و شوق سے اپنی خدمات پیش کیں.اگلے روز ۸ اکتوبر کی شام کو ندام الاحمدیہ ربوہ کا پہلا امدادی وفد مولوی محمد احمد صاحب ثاقب پروفیسر عامعه المبشرین (مہتم خدمت خلق کی زیر قیادت ربوہ سے روانہ ہو کہ صبح سات بجے شیخو پورہ پہنچا.اس وفد نے اپر چناب ، چیچو کی ملیاں اور چک حیدر آباد میں کیمپ قائم کر کے مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کر دیا.جس پر اس علاقہ کی کئی مقتدر شخصیات نے اظہار خوشنودی کیا.مثلا شیخو پورہ کے لائن پولیس آفیسر نے ۱۳ اکتوبر۱۹۵۵ء کو حسب ذیل سرٹیفکیٹ دیا.امدادی کیمپ خدام الاحمدیہ مقیم ہیڈ خان پور جس کے انچارج مولوی محمد احمد ثاقب ہیں نہایت محنت اور جانفشانی سے کام کر رہے ہیں.دن بھر مریضوں کے علاج اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کا کام کرتے ہیں.دیہات میں خود جا جا کر ڈوبتوں کو بچاتے ہیں.میں ان کے کام سے بہت مسرور ہوں.سرکاری افسران کے ساتھ بھی ان کا تعاون قابل رشک ہے.کیمپ " جو کہ چیچو کی ملیاں میں مقیم ہے وہ بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی سے کم نہیں ہے.سب (لوگ) جماعت کی ان خدمات کے تہ دل سے شکر گزار ہیں " انچارج سیکٹر سید والا جناب ڈاکٹر عابد علی صاحب نے غدام کی مساعی پر دلی مسترت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا :." رضا کاران مجلس خدام الاحمدیہ نے سیکٹر ستید والہ میں ۵؍ نومبر سے ۱۴ نومبرتک

Page 65

۵۳ سیلاب زدگان میں دواؤں کا کام نہایت تندہی ، جانفشانی اور ایمانداری سے کیا.اس دوران میں رضا کاران نے شکایت کا کوئی موقع نہ دیا.قوم کی خدمت کا جذ بہ رضا کاران میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے.امید ہے کہ آئندہ بھی نازک حالات میں یہ رضا کاران ملک و ملت کی خدمت سرانجام دیں گے.خدا انہیں جزا دے " ان امدادی مراکزہ کی سرگرمیاں پورے زوروں پر تھیں کہ یکے بعد دیگرے تین اور پارٹیاں ربوہ سے ضلع شیخو پورہ کے سیلاب زدہ علاقہ میں پہنچ گئیں جنہوں نے نارنگ شاہ مسکین اور مانگٹانوالہ میں تین اور فعّال ریلیف سنٹر کھول دیئے.نوجوانانِ احمدیت نے پُر خطر اور دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے رات کی تاریکیوں میں گہرے پانی کو عبور کیا اور مصیبت زدگان کی امداد کو پہنچ گئے.۲ نومبر ۱۹۵۵ء کو سردار عبدالحمید صاحب دستی وزیر صحت نارنگ تشریف لائے تو اہلِ نارنگ نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے احمدی جوانوں کی خدمات کو بہت سراہا جس کے جواب میں دستی صاحب نے فرمایا کہ میں خدام الاحمدیہ بلکہ مجموعی طور پر اُن پاریوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے سیلاب کے دوران میں بروقت خدمت خلق کا فریضہ انجام دیا ہے.ان نئے ریلیف کیمپوں کی امدادی سرگرمیوں کے متعلق بطور نمونه چند آراء درج ذیل کی جاتی ہیں : (۱)." خدام الاحمدیہ ربوہ کی ایک امدادی پارٹی نے جو کہ ۱۹۵۵ء کے سیلا کے سلسلہ میں چوہدری فضل داد ساحب انچارج ریلیف پارٹی کی قیادت میں کام کرتی رہی ہے ، علاقہ کلر اور نارنگ کے مضافات میں حد درجہ مفید خدمت سرانجام دی ہے.خدام الاحمدیہ کے یہ نوجوان رضا کار سیلاب زدگان کی امداد کی عرض سے ایک ایک بستی میں ہی نہیں بستی کے ایک ایک دروازہ تک پہنچے اور انہوں نے ستم رسیدہ انسانوں کو بچانے کے لئے اپنی جانوں کی بازی لگا دی.ان کی خدمات نے علاقہ کو متاثر کیا ہے اور وہ لائق صد تحسین و مبارکباد ہیں کہ وہ حقیقتی مجاہدہ ہیں اور انہوں نے سیلاب زدہ لوگوں کی نہایت مخلصانہ اور بے لوث خدمات کی ہیں.یکیں اپنی طرف سے اور ریڈ کہ اس سوسائٹی (ہلال احمر ) کی طرف سے خدام الاحمدیہ کے

Page 66

۵۴ ناظمین کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کی پُر مسرت زندگی اور تابندہ مستقبل کے لئے دعا گو ہوں.محمد رفیق درک " ڈپٹی چیف آرگنائزر ریڈ کر اس سوسائٹی نامہ نگ کیمپ" (انگریزی سے ترتیب) (۲) - م ۱۸ - انجمن خدام الاحمدیہ کی ایک رضا کار جماعت جو ۳۲ رضا کاروں پشتمل تھی، نارنگ آئی.یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب سیلاب کی وجہ سے رسل و رسائل کے تمام ذرائع ختم ہو چکے تھے.اس جماعت نے ان تمام دیہات کے ہر تباہ شدہ گاؤں میں جا کہ لوگوں کو طبی امداد پہنچائی.اس جماعت میں طلباء، ڈاکٹر اور کمپیونڈر شامل تھے.خدمت خلق کا جذبہ دیکھ کر علاقہ کے لوگ بہت متاثر ہوئے.میں ماسٹر محو فضل داد صاحب قائد رضا کاران کا فلڈ ریلیف کمیٹی کی طرف سے و انجمن آڑھتیان کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے رضا کاروں کی کمان بڑی قابلیت سے کی اور ان نوجوان طلباء رضا کاروں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنی تعلیم کا نقصان کر کے نسل انسانی کی خدمت کو کے سچے مومنوں کا ساثبوت دیا.یہ چند سطور لکھ کر اپنا فرض انسانی ادا کیا ہے.میں دعا کہتا ہوں کہ ہر مسلمان خدمت خلق کا اپنے اندر جذبہ پیدا کرے.نذیر حسین پر بد بینٹ انجمن رائس مرچنٹ نارنگ منڈی.سردارمحمد سیکرٹری انجمن آڑھتیاں وسیکرٹری فلڈ ریلیف کمیٹی نارنگ منڈی ضلع شیخو پورہ ۲۴ " (۳) - مانگٹانوالہ سیکٹر کے میڈیکل آفیسر جناب غوری صاحب نے اپنے سرٹیفکیٹ میں لکھا :.میں شیخ رشید احمد اور ان کی پارٹی کو یہ سرٹیفکیٹ دینے میں مسرت محسوس کوتا ہوں جنہوں نے خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی زیر ہدایت میرے ساتھ حلقہ مانگٹانوالہ کے سیکر میں کام کیا ہے.ان لوگوں نے نہایت تندہی سے خدمت کی اور ان کی خدمات بہت ہی مفید ثابت ہوئیں.انہوں نے دُور دراز کے دیہاتی لوگوں کو طبی امداد بہم پہنچائی.منزل مقصود پر

Page 67

۵۵ پہنچنے کے لئے دشوار گزار راستے اس پارٹی کے لئے کبھی سد راہ نہ بن سکے.میں بلا خوف تردید یہ کہ سکتا ہوں کہ ان لوگوں نے تنظیم ، اتحاد اور یقین سے اپنے کام کو سرانجام دیا.خدا انہیں ہمیشہ کامیابی عطا فرمائے.(دستخط) میڈیکل آفیسر انچارج مانگٹانوالہ سیکٹر ضلع شیخو پوره " در نومبر داء نہ گوہ کے احمدی نوجوانوں اور بزرگوں نے مشرقی بنگالی کے سیلاب زدگان کی امداد میں بھی سرگرم حصہ لیا اسی طرح مغربی پاکستان کے مختلف ریلیف سنٹروں کو پارچات بھی روانہ کئے نیز احمدی خوانین کی بین الاقوامی تنظیم لجنہ اماء اللہ کی مقامی شاخ نے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امانت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے اُن خوش قسمت رضا کاروں کی تعداد جنہیں مختلف ریلیف سنٹرز میں خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.قریباً ایک سو چودہ تک پہنچ گئی جن میں دمشق کے احمدی نوجوان اسید سلیم النجابی بھی شامل تھے جو ان دنوں ربوہ آئے ہوئے تھے.خلیس تعدام الاحمدیہ ربوہ کے رضا کاروں نے سیالکوٹ اور خانیوال میں بھی امدادی خدمات انجام دیں.ربوہ سے جانے والے چار معمار خدام کو نادار اور غریب لوگوں کے مکانات بنانے کے لئے بدوملہی سیکٹر کمانڈر کے زیر انتظام متعین کیا گیا.ان معماروں نے جس برق رفتاری سے مکانات تعمیر کئے.اس سے مقامی لوگ حیرت زدہ رہ گئے.ربوہ کے یہ رضا کا رجب مصروف عمل ہوتے تو بہت سے لوگ اُن کو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے.اگر چہ هر روز چودہ خدام اور انصار ان معماروں کے ساتھ بطور مزدور کام کرتے تھے مگر ان سرفروشوں کے ساتھ بمشکل پورے اُتر سکتے تھے خانیوال جانے والی امدادی پارٹی معتمد مجلس ربوہ مولوی عبدالباسط صاحب کی زیر قیادت ۴ دسمبر کو خانیوال پہنچی اور لیستی محمود الحق کی منہدم مسجد کو از سر نو تعمیر کرنے کے علاوہ متعدد مکانات اور رہائشی جھونپڑیوں کی تعمیر میں حصہ لینے کے بعد دسمبر کو رہو پہنچی ہے 14.رسالہ "خالد" ربوہ جنوری شیر ص ۲۴۹ ، الفضل اکتوبر و نومبر ۱۹۵۵ء

Page 68

۵۶ (۴) - لاہور (امیر جماعت چوہدری محمد اسد اللہ خان صاحب ، قائد مجلس خالد ہدایت صاحب - نگران اعلی میاں محمد يحي صاحب نیلا گنند ) لاہور اور اس کا نواحی علاقہ ہم اکتوبر کی صبح کو خطر ناک سیلاب کی زد میں آگیا.جس کے فوراً بعد مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور نے جو دھامل بلڈنگ میں اپنا امدادی مرکز قائم کر کے نہایت منظم کرہ نگ میں امدادی سرگرمیاں شروع کر دیں مجلس نے پچھلے سال کے سیلاب میں جو مثالی خدمات سرانجام دی تھیں ، اُن کے گہرے نقوش ابھی تک عوامی اور سر کا ر ہی حلقوں میں قائم تھے یہی وجہ ہے کہ مجلس کے ایک نمائندہ وفد نے جب اپنے نائب امیر ڈاکٹر محمد عبد الحق صاحب کی زیر قیادت پولیس، فوج اور سول حکام کو اپنی خدمات پیش کیں تو اُسے بلا تاخیر افسران حکومت کا مخلصانہ تعاون حاصل ہو گیا جس کے نتیجہ میں لاہور کے احمدی رضا کاروں کی امدادی کوششیں لاہور شہر اور اس کے ماحول میں نہایت تیزی سے وسعت پکڑ گئیں.چنانچہ پہلے روز ہی تربیت یافتہ احمدی نوجوان فوجی حکام کی کشتی پر مصری شاہ میں پہنچے اور پنتالیس افراد کو موت کی آغوش سے نکال کو محفوظ مقامات میں لے آئے.۵ اکتوبر کو ڈیڑھ صد خدام کی امدادی پارٹیاں متاثرہ علاقوں میں پھیل گئیں اور دو ہزار سے زائد سیلاب زدگان کو ضروری اشیاء بہم پہنچائیں اور ڈھائی سو افراد کو محفوظ مقامات میں منتقل کیا.اس روزہ خدام نے جن علاقوں میں خدمت انجام دی ان میں سنت نگر، کرشن نگر ، راج گڑھے ، اسلامیه پارک سمن آباد ، تاج پورہ ، وسن پوره ، حبیب گنج ، مصری شاہ ، بھارت نگر اور تو لکھا چوپ کے علاقے شامل ہیں مجلس کی ایک پارٹی بذریعہ کشتی لاہور سے ۲۱ میل دُور تلواڑہ اور ملک پور ، سانی وال کے علاقہ میں پہنچی اور ایک ہزار سے زائد مصیبت زدگان کو کھانا کھلایا.اس پارٹی نے قریباً ۳۶ گھنٹے متواتر امدادی کام کیا اور ۳۰ نے لبس عورتوں اور معصوم بچوں کو جو درختوں پر بیٹھے زندگی اور موت کی کشمکش.سے دوچار تھے محفوظ مقامات تک پہنچا یا.جب یہ خدام موضع سانی وال پہنچے تو ان کو بتایا گیا کہ ایک فرینگ دور ایک نوجوان دو دن سے امداد کے لئے چلاتا

Page 69

۵۷ رہا ہے مگر کوئی اس کی مدد کو نہیں پہنچ سکا کیونکہ پانی کا بہاؤ اس درجہ شدید ہے کہ اس میں جانا موت کو دعوت دینا ہے.یہ بات سنتے ہی شیر دل احمدی جوانواں نے اپنی کشتی کا رخ اس طرف کر لیا اور دو گھنٹہ کی جان توڑ کوشش کے بعد وہاں پہنچنے میں سے کامیاب ہو گئے.اس علاقہ میں بارڈر پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ خدام کے کام بہت متاثر ہوئے اور گئی جگہ انہوں نے خود اس پارٹی کے ساتھ دورہ کیا.فوجی حکام نے اس پارٹی کی جدوجہد سے متاثر ہو کر اس کشتی میں ایک وائرلیس سیٹ بھی نصب کر دیا تھا جس سے وقتاً فوقتاً ان کی خیریت دریافت کی جاتی اور پھر جو دھامل بلڈنگ کے مرکزی سینٹر میں بذریعہ ٹیلی فون اطلاع کر دی جاتی.سول اور فوجی افسروں نے عوام کو بذریعہ ریڈیو ہدایت کی کہ وہ سیلاب میں امدادی کام کے سلسلہ میں جو دھامل بلڈنگ کے امدادی مرکز سے رابطہ قائم کریں اور ساتھ ہی اس کا ٹیلی فون نمبر بھی بتا دیا گیا.اس انتظام سے لوگوں کو بہت فائدہ ہوا اور انہیں اپنے عزیزوں کی غیریت کے بارے میں بروقت اور مصیح معلومات حاصل ہوئیں.اس مرکز کی فراہم کر وہ بعض اطلاعات ریڈیو پر بھی نشر کی گئیں.۹ اکتوبر کو چوہدری محمد اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے قائد مجلس خالد ہدایت صاحب اور شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی (نائب نگران ریلیف سینٹر) کی معیت میں لاہور کے گرد و نواح کی سیلاب زدہ بستیوں کا ایک طیارے کے ذریعہ فضائی جائزہ لیا.اس جہاز کا انتظام چوہدری صاحب نے خود کیا تھا.واپسی پر انہوں نے خدام کو تفصیلی ہدایات دیں جن کے تحت فوری طور پر امدادی پارٹیاں جلو اور شاہدرہ کے علاقوں میں روانہ کی گئیں.ایک پارٹی چھے قدام پر شتمل قصور بھیجی گئی جس نے متعدد دیہات میں ریلیف کا کام کیا.دو ہزار سے زائد افراد میں کھانے کی خشک اشیا تقسیم کیں اور چھ سو سے زیادہ افراد کو طبی امداد پہنچائی اور ایک سو پچیس افراد میں کپڑے تقسیم کئے گئے.علاوہ ازیں شہر لاہور سے بارہ بارہ میل تک کالا شاہ کاکو کی نواحی بستیوں میں بھی خدام کی امدادی پارٹیوں نے وسیع پیمانے پر ضروری اشیاء تقسیم کیں اور ہزار ہا افراد

Page 70

۵۸ کو طبی امداد پہنچائی.اس علاقے میں ایک کثیر تعداد ایسے دیہات کی تھی جن میں صرف جماعت جدید کو امدادی خدمات بجالانے کی سعادت نصیب ہوئی.شہر میں پانی کے اترنے کے بعد بے حد غلاظت اور گندگی پھیل گئی تھی مجلس خدام الما حمدیہ نے اپنے چار امدادی سینٹر سلطان پورہ ، شاہدرہ ، کرشن نگر اور اسلامیہ پارک میں قائم کر دیئے.جہاں سے خدام روزانہ دوائیاں، کھانے کی خشک اشیاء، آٹا اور کپڑے وغیرہ لے کر دُور دُور تک سیلاب زدہ علاقوں میں تقسیم کرتے رہے، نیز خدام نے بالخصوص کرشن نگر کے علاقہ میں جو سب سے زیادہ متاثر تھا.پولیس کے ساتھ مل کر صفائی کا کام کیا اور فضا کو تعفن اور بد بو سے بچانے کی قابل قدر خدمات انجام دیں جن کا اس علاقہ کے لوگوں اور پولیس پر بہت نمایاں اللہ تھا.چنانچہ وہاں کے سب انسپکٹر پولیس چوہدری محمد اشرف صاحب نے معززین علاقہ کا ایک وفد یکا یا اور اُس میں برملا کہا کہ در حقیقت جماعت احمدیہ ہی خدمت خلق کا کام کر رہی ہے اور یہی لوگ ہیں جو سب سے آگے ہیں.آنریبل ڈاکٹر خاں صاحب وزیر اعلی مغربی پاکستان بھی اس علاقہ میں تشریف لائے اور قدام الاحمدیہ کے ریلیف کیمپ اور کام کا معائنہ کیا اور سراہا.سول ڈیفنس اور اینٹی ملیریا کے محکمہ جات کے ساتھ بھی خدام کام کرتے رہے.اور مسٹر آئی یو خان ریلیف کمشنر کو بھی پہچاس خدام کی مستقل خدمات پیش کیں.یہ محکمے خدا تعالیٰ کے فضل سے ان خدام کے کام کو دیکھ کہ بہت متاثر ہوئے اور کئی بار جود ہا مل بلڈنگ کے مرکز میں پہنچے کہ احمدی نوجوانوں کو خراج تحسین ادا کیا مجموعی طور پر خدام احمدیت نے ساڑھے تین سو سے زائد افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا.اور پندرہ ہزار سات سو افراد میں پکا ہوا کھانا اور سولہ ہزار چھ سو سیلاب زدگان میں دوسری ضروری اشیاء تقسیم کیں، اور جن افراد کو انہوں نے ٹیکے لگائے یا دوائیں تقسیم کیں اُن کی مجموعی تعداد ۷۱۵۰ تک پہنچتی ہے.جن مستحقین میں پار چات یا لحاف تقسیم کئے گئے وہ ان کے علاوہ ہیں ہے "خالد" جنوری ۶۱۹۵۷ ص ۲۵ تا ۲۰

Page 71

۵۹ (۵) مغلپورہ ریڈنٹ : عبدالحکیم صاحب، قائد مجلس : مرزا محمد اسلم صاحب ) لاہور کی طرح اس مجلس کی امدادی سرگرمیاں سیلاب کی خبر پاتے ہی شروع ہو گئیں.چنانچہ قائد مجلس کی معیت میں پہلی ریلیف پارٹی موضع محمود بوٹی میں پہنچی اور سیلاب سے گھرے ہوئے مسلمان باشندوں اور چار عیسائی خاندانوں کو اونچی جگہ پر منتقل کیا.ازاں بعد اگلے دن ( اکتوبر کو ) یہاں ریلیف کیمپ قائم کیا اور پولیس اور حکام کے تعاون سے سیلاب زدگان کو خوراک اور طبی امداد بہم پہنچائی.در اکتوبر کو مجلس نے اپنے وسیع پروگرام کے تحت ایک ریلیف پارٹی جس میں ایک ڈاکٹر پانچ فرسٹ ایڈرز اور سات مدد گار تھے کشتی کے ذریعہ لٹ گڑھا اور مرل میں نیچی.یہ بد نصیب دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے تھے.اُن کے پاس خوراک تھی نہ بیٹھنے کے لئے مگر.دلدل میں پھنسے ہوئے دیہاتی عوام حیران تھے کہ احمدی نوجوان سامان خوراک اور ادویہ لے کہ کیسے پہنچ گئے.9 اکتوبر کو مجلس کی دو امدادی پارٹیوں نے محمود بوٹی بند سے آٹھ میل کے رقبہ میں امدادی خدمات سرانجام دیں.اور اکتوبر کو مجلس مغلپورہ کی ایک پارٹی قائد مجلس کی نگرانی میں روانہ ہوئی.یہ پارٹی ایک کشتی میں کمبیل ، سامان خوراک چینے اور ضروری طبی امداد کا سامان ساتھ لے گئی.پانی اُس دن بہت گہرا اور تیز تھا.کشتی درختوں کے ایک جھنڈ میں پھنس گئی اور بڑی مشکل سے ایک دوسری کشتی کی راہ نمائی سے اسے نکالا گیا.واپسی پر شام ہو چکی تھی.ایک مستری کو راہ نمائی کے لئے ساتھ لیا.مگر اندھیری رات اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے پانی میں وہ بھی اچھی راہنمائی نہ کر سکا.اس موقع پر معلس کے دو قادم محمد رشید صاحب اور رشید احمد صاحب چوہدری نے کشتی کو نکالنے میں بڑی بہادری کا ثبوت دیا.وہ دو میں تک کشتی کو پانی میں اُتر کر کھینچتے چلے گئے اور رات گئے خشکی پر اُترنے میں کامیاب ہوئے.نواحی دیہات میں کام کرنے کے بعد مغلپورہ کے احمدی نوجوانوں نے 4ار اکتوبر سے اپنی مساعی کا رخ لاہور شہر کے بعض سیلاب زدہ حصوں کی طرف موڑ دیا اور اُس کی طبی پارٹیوں نے کرشن نگر کی جامع مسجد کے قریب ایک معیتی مرکز قائم کر کے مریضوں میں دوائیاں تقسیم کیں.اگلے

Page 72

روز محمود بوٹی کیمپ کے ذریعہ ڈھائی سو اشخاص کو طبی امداد پہنچائی اور ٹیکے لگوائے.اس کیمپ کا معائنہ بھی ڈاکٹر خانصاحب وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان نے کیا اور مجلس کی خدمات پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا.شیخوپو (4) چوپوره د المیرا چوہدری انور حسین صاحب وکیل - قائد مجلس خدام الاحمدیه به مرزا عبد ا سمیع صاحب ) اس سیلاب میں شیخو پورہ کے احمدی جوانوں نے ربوہ کے رضا کاروں کے دوش بدوش خانپور ہیڈ، منڈھیائی اور قلعہ ستار شاہ کے کیمپوں میں اپنی تہمت سے بڑھ کہ کام کیا.اس کے علاوہ بسوں اور کاروں میں سفر کرنے والے سینکڑوں افراد کو پینے کے لئے پانی بہم پہنچایا.ضلع شیخو پورہ کی احمدی جماعتوں کی طرف سے ۱۲۲ متحمل ا مکمل بستر ڈپٹی کمشنر صاحب شیخو پورہ کو مستحقین میں تقسیم کے لئے بھیجوائے گئے (۷) سیالکوٹ (امیر بابو قاسم الدین صاحب قادام الاحمدیه و مداحد قمر صاحب) • خدام الاحمدیہ سیالکوٹ نے اپنی گذشتہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ضلع بھر میں وسیع پیمانے پر خدمت خلق کا کام کیا.ابتداء میں یہ کام سا ہو وال ، چہزار سیکٹر ر تحصیل نارووال و تحصیل سیالکوٹ میں شروع کیا.مگر بعد ازاں اُسے جلد ہی تحصیل شکر گڑھ ، بدو طبی اور گدیاں تک پھیلا دیا گیا.ان تمام علاقوں میں قریبا شتر خدام اور اٹھارہ انصار نے جن میں ڈاکٹر ، معمار اور سماجی کارکن بھی شامل تھے پوری ہمت سے خدمت خلق کا فریضہ انجام دیا اور مشکل اور دشوار گزار راستوں سے گذر کر مصیبت زدگان تک راشن اور ادویات پہنچائیں نیز گرم کپڑے اور لحاف تقسیم کئے.۲۲ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو ڈاکٹر خان صاحب وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان کھمیرانوالہ ضلع سیالکوٹ میں تشریف لائے تو یہاں بھی انہیں احمدی جماعت کی خدمات کا اعتراف کمہ نا پڑا.اسی طرح ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع سیالکوٹ نے بھی جو اُس وقت اُن کے ہمراہ تھے، خدمت خلق کی جماعتی مسائی کو سراہا - ۲۳ / اکتوبر ۹۵ او کو جماعت احمدیہ نے ایک پورا ٹرک جس میں کھانے پینے

Page 73

کا سامان اور گرم اور سرد پارچات تھے تحصیل شکر گڑھ بھجوایا ، ٹرک کے ساتھ قائد خدام الاحمدیہ اور آٹھ خدام تھے.یہ ٹرک اگرچہ رستے کی خرابی کے باعث منزل مقصود تک نہ پہنچ سکا.تا ہم سامان کو اونٹوں پر لاد کر بعض قریبی دیہات تک لے جایا گیا جہاں سے سرفروش خدام نے اپنے سروں پر اُٹھا کر راتوں رات دریا کے پار پہنچا دیا اور سیکٹر کمانڈر صاحب اور دیگر حکام کی زیر نگرانی تقسیم کیا.ضلع سیالکوٹ میں سب سے زیادہ نقصان بدوملہی میں ہوا.یہاں پانی بارہ سے پندرہ فٹ تک بہہ رہا تھا اور کوئی انسانی طاقت بچانے والی نہ تھی.کئی لاکھ کی جائیدادیں تباہ اور کئی قیمتی جانیں لقمہ اصل ہو گئیں اور غلہ منڈی زمین میں دب گئی.شہر میں اس قدر تعفن اور بو پھیلی کہ دیا پھوٹنے کا شدید خطرہ لاحق ہو گیا.چنانچہ مقامی حکام کے مشورہ سے جماعت احمدیہ سیالکوٹ کی طرف سے پندرہ جوانوں کا ایک دستہ شہر کی گلیوں اور سٹرکوں کی صفائی کے لئے بھیجوایا گیا جس کے انچارج خواجہ محمد امین صاحب تھے.اس دستہ نے بھی مثالی محنت اور جانفشانی اور اخلاص سے کام کیا.جس پر سیکٹر کمانڈر صاحب بدوملہی نے یہ تحریری سرٹیفکیٹ دیا کہ بر جو کچھ جس نے انہیں کہا ، انہوں نے بڑی خوشی محنت اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیا اور لوگ بہت خوش ہوئے.شہر میں جو کام ان کی طاقت میں تھا ، انہوں نے کر دیا ہے، اب تو لوگوں کے مکانات وغیرہ بنانے اور مدد کرنے کا کام باقی ہے وہ بھی انہوں نے کافی کیا ہے.(۸).لائل پور (فیصل آباد ) د امیر جماعت ر شیخ محمد حد صاحب فرید کوٹ قائد مجلس خدام الاحمدیه ، چو مهدی اعلام ستگیر ناب سیلاب کی تند و تیز لہریں اس ضلع میں ، ا ر اکتوبر کو داخل ہوئیں.اور اسی روز احمدیوں نے امیر جماعت اور قیادت مجلس کی زیر نگرانی امدادی مساعی شروع کر دیں اور حکام ضلع کی راہنمائی ، سر پرستی اور ہدایات پر کمالیہ سے ڈھائی میل دور احمد یہ ریلیف ے ماہنامہ خالد ربوہ جنوری ۱۹۹۶ ۱۳۱۰ تا ۳۴

Page 74

کیمپ کھول دیا.یہ کیمپ پہلے ٹیموں میں تھا پھر اسے ریسٹ ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا.۱۴ اکتوبر کو پرنسپل صاحب نشتر کالج ملتان، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر صاحب، انسپکٹر صاحب پولیس کمالیہ اور چوہدری محمد نواز صاحب چیمہ مجسٹریٹ علاقہ کے مشورہ سے طے ہوا کہ مضافات کے کنوؤں کو فوری طور پر صاف کیا جائے تا جو لوگ پانی اُترنے کے بعد اپنے گھروں کو واپس ہوں ، وبائی امراض کا شکار نہ ہو جائیں.صورتِ حال ایسی نازک تھی کہ حکومت کی طرف سے دوا کا فوری انتظام نہ ہو سکتا تھا.مگر جذبہ خدمت سے سرشار احمدی جوانوں کے لئے یہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا.انہوں نے از خود بیش پونڈ پوٹاشیم پر منگنیٹ خرید لی اور اپنے فلاکت زدہ بھائیوں کی خدمت کے لئے چار چار فٹ گہرے پانی میں پا پیادہ نکل کھڑے ہوئے اور پچیس میل کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ایک سوئیس کنوؤں کو دوائی ڈال کر قابلِ استعمال بنا دیا.اس کے علاوہ کمالیہ احمدیہ ریلیف کیمپ نے ہزار مریضوں کو مفت دو امہیا کی اور پانچ سو افراد کو ٹیکے لگائے.یہ واحد کیمپ تھا جس نے اس علاقہ میں اس وقت خادمانہ کوششوں کا آنا نہ کیا جبکہ یہار، کسی اور امدادی مرکز کا نام ونشان نہیں تھا اور اس وقت اپنی سرگرمیاں ختم کیں جبکہ دوسرے کیمپ اکھڑ چکے تھے.10 اکتوبر کو احمدیہ کیمپ پیر محل کے چک نمبر 4 گ ب میں منتقل کر دیا گیا جہاں خدام کو متاثرہ دیہات کے ۹۲۱ بیماروں کو طبی امداد پہنچانے کی توفیق ملی.یہ کیمپ ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۵ء تک قائم رہاد (۹) بمنٹگمری (ساہیوال) ( رامیر جماعت چوہدری محمد شریف صاحب وکیل.قائد مجلس ماسٹر عبد الحق صاحب ناصر ) اار اکتوبر کو منٹگمری سے ۱۷ میل دور ہڑپہ کا تاریخی قصبہ خطر ناک سیلاب کی زد میں آیا.مجلس قدام الاحمدیہ نے پہلے تو اس قصبہ کے کئی بچوں اور عورتوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا پھر سیلاب زدگان کی امداد کے لئے پے در پے چھ پارٹیاں بھیجیں پہلی بار کھے کے رسالہ تعالی" جنوری ۸۹۵۱ ۳۵٫۳

Page 75

نے سائیکلوں پر چالیس میں سفر کر کے مصیبت زدگان تک ضروری اشیا پہنچائیں دوسری پارٹی نے ہر پر کے آٹھ سو سے زائد افراد کو طبی امداد مہیا کی جس سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر بہت متاثر ہوئے اور خدام کو بصیر پورسیکٹر میں کام کرنے کا مشورہ دیا جہاں اس آفت سے بہت سے دیہات تباہ ہو گئے تھے.چنانچہ خدام الاحمدیہ کی تیسری پارٹی بصیر پور میں پہنچ کر دس روز تک امدادی خدمات بجا لاتی رہی.جس کی واپسی کے معا بعد 4 نومبر کو چوتھی پارٹی بھی اسی علاقہ میں بھجوائی گئی جس نے شبانہ روز کوشش سے بقیہ کام تکمیل تک پہنچا دیا.خدام کو یہ سیکٹر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر صاحب کی طرف سے ایک ماہ کے لئے سپرد کیا گیا تھا.مگرہ احمدی جوانوں نے پندرہ دن میں پورے سیکٹر کے دس ہزار مریضوں کو طبی ابداد پہنچا کہ اپنا فرض پورا کہ دیا.سردی کے ان ایام میں خدام نے کھلے میدانوں میں راتیں بسر کیں اور روزانہ آٹھ دس میل پیدل سفر کر کے نہایت خندہ پیشانی سے مشکلات پر قابو پایا.ڈاکٹرمحمد اکرم صاحب اسٹنٹ میڈیکل آفیسر انچارج بصیر پور سیکٹر نے خدام الاحمدیہ کی مساعی کو حسب ذیل الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا : - م رضا کاران مجلس خدام الاحمدیہ نے بصیر پور سیکٹر میں منہ سے ماہ ۱۲ تک کام بہت محنت سے سر انجام دیا ہے.میں ان سے بہت خوش ہوں ! دوستخط ،انگریزی ڈاکٹر محمد اکرم اسسٹنٹ میڈیکل آفیسر بصیر پور ) ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے بھی محلیس کے کام پر اظہار خوشنودی کہتے ہوئے سرٹیفکیٹ عطا کیا.۱۲ نومبر کو کمشنر صاحب لمتان بصیر پور تشریف لائے اور احمدی جوانوں کی بہت تعریف کی.۲۷ تومیر کو مجلس کی دو مزید پارٹیاں میدان عمل میں بھیجی گئیں.ان پارٹیوں نے بھی تباہ حال اور اُجڑے ہوئے لوگوں کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے (۱۰) ملتان (امیر : چوہدری عبد الرحمن صاحب - قائد خدام الاحمدیه به چوندی : عبد اللطيف صاحب ).دار اکتوبر کو قیادت ضلع کی ایک پارٹی سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے اور رسالہ " خالد" جنوری ۶۱۹۵۶ ۳۶ - ۳۸ **

Page 76

کام کی نوعیت سے متعلق سروے کرنے کے لئے متاثر علاقہ میں پہنچی.اگلے روز پارٹی نے فلڈ ریلیف آفیسر محترم راجہ محمد ایوب صاحب مجسٹریٹ سے ہدایات میں ہیڈ سندھنائی میں ریلیف سینٹر قائم کر دیا گیا.جس نے چوہدری محمد امین صاحب اور ڈاکٹر محمد حسین صاحب ساجد ایم بی بی ایس سول ہسپتال کراچی کی نگرانی میں نمایاں طبی خدمات انجام دیں خدام کی پارٹیاں روزانہ ارد گرد کے دیہات میں ادویہ ، خوراک اور ضروریات زندگی کی اشیاء اور پار چات تقسیم کرتی تھیں جلد ہی ڈپٹی کمشنر صاحب ملتان اور فلڈ ریلیف کمیٹی ملتان کے صدر عبد الحمید صاحب پرنسپل امیر بین کارلج ملتان کا مخلصانہ تعاون حاصل ہو گیا جن کی زیر ہدایت ان امدادی کاموں میں وسعت پیدا ہوگئی.یہ کام بے حد پیچیدہ اور شکل تھا مگر خدام ہر قسم کے خطرات سے بے پروا ہو کر اور پانی اور دلدل کے پر خطر راستوں سے گزرتے ہوئے اُن فاقہ زدہ اور نیم عریاں لوگوں کے پاس پہنچے جو اپنی جان بچانے کے لئے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے.ایک خادم کو رات سوتے وقت کسی زہر یلے جانوبہ نے کاٹ لیا مگر اس کے جاز بہ خدمت میں کوئی کمی نہ آئی.ایک نوجوان کے پاؤں دلدل میں پھلتے چلتے سوج گئے اور آگے بڑھنا سخت دشوار ہو گیا لیکن انہوں نے منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا.ایک اور نوجوان کتے کے کاٹنے سے بری طرح زخمی ہوئے لیکن وہ اپنی مصیبت کو بھول کر مفوقہ خدمات سرانجام دیتے رہے.بہر حال ان تمام مشکلات کے باوجود ملیس کے جواں تہمت رسا کار ہر ضروری اور اہم علاقہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے.۱۹ اکتوبر سے ۵ر نومبر شراء تک مجلس کے نوجوانوں نے تین ہزار ایک سو پینیتا لیں افراد کو طبی امداد پہنچائی اور ایک ہزار اٹھائیں نفوس کو کھانے کی مختلف اشیاء دیں.اس کے علاوہ مستحقین کو گندم ، مٹی کا تیں ، لیمپ وغیرہ بھی تقسیم کئے اور جب پانی کانی حد تک اُتر چکا تو احمدی رضا کاروں نے مکانات کی تعمیر کی طرف بھی توجہ دی اور بیسیوں مکانوں کا ملبہ صاف کیا اور کئی دیواریں اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیں.(11) - کراچی (امیر: چوہدری عبد اللہ خان صاحب - قائد مجلس ہر مرزا عبد الرحیم بیگ صاب مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے جو ہمیشہ ہی ملتی خدمات میں بہت ممتاز

Page 77

۶۵ 1962 رہی ہے مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیلاب زدہ بھائیوں کی نقدی، پارچات اور ادویہ کی صورت میں بھر پور امداد کی.اُس نے پہلے تو مشرقی پاکستان کے ستم رسیدہ بھائیوں کے لئے ایک ہزار روپے کا عطیہ دیا اس کے بعد نہ صرف مغربی پاکستان کے سیلاب زدہ عوام کی امداد کے لئے مجلس مرکز یہ کوبھی ایک ہزار روپیہ پیش کیا بلکہ ۱۲۵ اکتوبر ۱۹۹۵ء کو ناظم خدمت خلق مرزا محمد اکرم صاحب اور ایک خادم پرمشتمل وفد کے ذریعہ بڑی مقدار میں پارچات اور قیمتی ادویات مجلس مرکزیہ کے لئے روانہ کیں.۱۶/ نومبر ۱۹۵۵ء کو مجلس.کراچی نے مرکز میں کپڑوں کی ایک اور کھیپ روانہ کی.اور نومبر ۱۹۵۵ء کو مجلس کراچی کے نوجوان ڈاکٹر محمد حسین صاحب ساجد نے ملتان اور شیخو پورہ میں دس روز تک شاندار طبی قدمات انجام دیں.قائد مجلس نے گورنر جنرل پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا ،گورنر مغربی پاکستان میاں مشتاق احمد گورمانی، وزیر اعلی ڈاکٹر خانصاحب اور صوبہ کے ریلیف کمشنر مٹر آئی یو خان کو بذریعہ تار کراچی کے محب وطن اور ایثار پیشہ احمدی نوجوانوں کی امدادی خدمات سے مطلع کیا جس پر گورنر جنرل پاکستان ، گورنر مغربی پاکستان اور فلڈ ریلیف کمشنر کی طرف سے قائد محلیس کے نام شکریہ کے خطوط موصول ہوئے جن میں مجلس کی مساعی کو سراہا گیا تھا.لجنہ اماءاللہ کراچی نے بھی سیلاب زدگان کی امداد کے لئے پار چات کا گراں قدر عطیہ پیش کیا جو مجلس کراچی کی دوسری قسط کے ساتھ بغرض تقسیم مرکز میںبھیجوا دیا گیا.ایک محتاط اندازے کے مطابق مجلس کراچی کو تقریباً نو دس ہزار روپے کی رقم بطور اعانت پیش کرنے کی توفیق ملی.زلزلہ کوئٹہ کے موقع پر مجلس کی طرف سے دو صد روپے کی تو اعانت دی گئی وہ مزید برآں ہے.(۱۳) - دیگر مقامات کے احمدیوں کی خدمات مندر یہ بانی جماعتوں یا مجاس مندم کے علاوہ دیگر مقامات کے احمدیوں نے بھی خدمت خلق کا ایسا عمدہ مظاہرہ کیا کہ صحابہ نیوٹی کی قدیم روایات اخوت پھر سے تازہ ہو گئیں.مجلس آنیہ ضلع شیخو پورہ نے ایک غریب اور ایک بیوہ کے مکان تعمیر کئے.ننکانہ کے احمدی جوان آنیہ کے امدادی کام میں ہاتھ بٹاتے

Page 78

رہے.مجلس خدام الاحمدیہ چوہڑکانہ کے تین جو ان شیخو پورہ ریلیف سنٹر میں مصروف عمل رہے.سانگلہ ہل کے ایک احمدی چوہدری امداد علی صاحب کمپونڈر نے قلع ستار شاہ کے امدادی کیمپ میں طبی خدمات سرانجام دیں.جماعت احمدیہ چک چہور کا ضلع شیخو پورہ نے سیلاب زدگان کے لئے چار سو پچپن روپے کا عطیہ دینے کے علاوہ پار چات اور غلہ بھی جمع کیا اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب ریٹائر ڈ کیپٹن تقریباً دو ہفتہ تک شیخو پورہ امدادی کیمپ میں طبی خدمات کے لئے وقف رہے.مجلس خدام الاحمدیہ سے ٹکڑا ضلع فیصل آباد کے احمدی دوست دریا کے کنارے آباد تھے جو براہ راست سیلاب کی زد میں آگئے مگر انہوں نے اپنے ہمسایہ دوستوں کے اموال ، اور مویشی محفوظ مقامات تک پہنچائے اور کئی دنوں تک اُن کے مویشیوں کو چارہ دیتے رہے اور پانی اُترنے کے بعد عربا کے مکانات بنوانے میں امداد دی مجلس خدام الاحمدیہ مانگٹ اونچے اور کھاریاں کی طرف سے قریبی ریلیف سنٹر میں پار چات بھجوائے گئے.مجلس خدام الاحمدیہ سرگودہا کے ممتاز رکن اور کوالیفائر ڈاکٹر جناب حافظہ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب نے لائل پور اور سیالکوٹ کے ریلیف سنٹروں میں قابل قدر خدمات سرانجام دیں.مجلس جھنگ مگھیانہ کے سترہ خدام نے نہایت محنت اور جانفشانی سے آفت زدہ مکان تعمیر کئے.مجلس خدام الاحمدیہ راولپنڈی نے زلزلہ کوٹہ سے متاثرین اور سیلاب زدہ بھائیوں کی خدمت نقدی ، پار جات اور دیگر ضروری اشیاء کی صورت میں کی.علاوہ ازیں مرکز کی آواز پر لبیک کہتے ہو.ڈاکٹر بشیر احمد صاحب اور ڈاکٹر مہر محمد صاحب قریشی دس دس روز تک نہایت محنت اور جانفشانی سے شیخو پورہ طیف سنٹر میں طبی خدمات بجا لاتے رہے.اسی طرح واہ کینٹ کی جماعت نے جس کے پریذیڈنٹ چوہدری جلال الدین صاحب قمر تھے ، لاہور اور سیالکوٹ کے ریلیف سنٹروں کے لئے کثیر تعداد میں پار چات بھیجوائے.ایک نوجوان محمد شفیع صاحب سلیم پوری نارد وال تحصیل میں امدادی خدمت بجا لاتے رہے.صوبہ سرحد کی مجالس میں سے پشاور اور مردان نے بھی مقدور بھر لے موجودہ نام فاروق آباد ہے.

Page 79

46 حصہ لیا.چنانچہ مجلس پشاور نے ملتان کے مصیبت زدہ بھائیوں کے لئے پار چات دیئے اور مجلس مردان نے پانچ رضا کاروں کی خدمات پیش کیں.الغرض اس ہوش ربا طوفان اور ہلاکت آفرین سیلاب کے دوران احمدیوں نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور محض اُس کے فضل و کرم سے اسلامی ایثار اور مخلوق خدا کی سچی اور حقیقی ہمدردی کا قابل رشک نمونہ دیکھا کہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے عہد بعیت میں صادق ہیں اور خدا اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے سچ مچے اپنی زندگی وقف کئے ہوئے ہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقت اسلام ہے دو قسم پر ہے ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور اوار اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بدل و جان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلل ہے ان سب حکموں اور حدوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارادتِ تامہ سر پر اٹھا لیا جائے.......دوسری قسم اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرینے کی یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی انور بار برداری اور سیتھی غمخواری میں اپنی زندگی وقف کر دی جاوے دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے دُکھ اُٹھاویں اور دوسروں کی راحت کے لئے اپنے پر رینج گوارا کر لیں شیر جماعت احمدیہ پاکستان نے پاکستانی پریس اور جماعت احمدیہ کی امدادی خدمات ران ایام میں نہایت وسیع پیمانے پر جو بے کوٹ اور بے غرضانہ للہی خدمات انجام دیں ، اس کا ذکر ملک کے بااثر اور مقتدر اخبارات نے بکثرت اور نمایاں نہ نگ میں کیا.ذیل میں کوسٹر سے لے کر ڈھاکہ ے آئینہ کمالات اسلام من دروحانی خزائن جلد ۵ ص.

Page 80

تک کے بعض مشہور اردو ، بنگالی اور انگریزی اخبارات کے ضروری اقتباسات درج کئے جاتے ہیں یہ کوٹہ ۲۹ ماریتا.جماعت احمدیہ کوئٹہ کے مضافات میں -- اخبار "میزان" کوئٹہ زلزلہ زدگان کے لئے امدادی اقدامات شروع کر دیتے ہیں.اس جماعت کے ایک شعبے " انصار اللہ " نے اب تک متاثرہ علاقوں میں ایک ڈاکٹر کی زیر نگرانی قریباً سات سو اشخاص کو طبی امداد بہم پہنچائی ہے.طبی امداد کے دوران میں غریب لوگوں میں کھانا تقسیم کیا گیا....جماعت کے قریبا پچاس کا رکن رضا کارانہ خدمت میں مصروف ہیں.اب تک یہ کا رکھی دس مکان تعمیر کر چکے ہیں.کلی عالمو اور کلی کوٹوال میں دس مزید مکانوں کے لئے عمارتی سامان بہم پہنچایا جا چکا ہے.امیر جماعت احمدیہ میاں بشیر احمد نے متاثرہ علاقوں میں اسے پی اے کو بتایا کہ ہمارے کام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ عوام میں اپنی مدد آپ اور خدمت کا جذبہ پیدا کیا جائے لوگوں میں یہ جذبہ پیدا ہو رہا ہے اور انہوں نے اپنے مکان تعمیر کرنے شروع کر دیئے ہیں.-۲- اختیار زمانہ " کو ٹرط " جماعت احمدیہ کا امدادی کام " کوئٹہ ۲ اپریل - کوٹہ کے نواحی زلزلہ زدہ علاقہ میں جماعت احمدیہ شارخ کوٹہ کی طرف سے امدادی کام کے سلسلہ میں تقریبا ۱۳ رہائش گاہوں کی تکمیل ہو چکی ہے.اس امدادی کام میں جماعت احمدیہ کے دونوں شعبے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ ہر اتوار کو اپنے امیر کی نگرانی میں مضافاتی دیہات میں امدادی کام کے لئے جاتے ہیں.جماعت کے دونوں شعبوں نے رہائش گاہوں کی تعمیر کے علاوہ مصیبت زدہ لوگوں میں خوراک اور ادویات بھی تقسیم کی ہیں." ۱۹۵۵ء سه ماخوذ از رساله" خالد" دسمبر شهداء ، جنوری نشده - آه" "میزان" "گوٹہ یکم اپریل 2 سے اخبار زمانہ " کوئٹہ یکم اپریل ۹۵۵

Page 81

19 - اخبار ” پاسبان“ ڈھاکہ | (1) " ڈھاکہ ۱۸ رستمیر گذشتہ ہفتہ میں جماعت احمدیہ ریلیف کمیٹی کی نگرانی میں میر پور - ھگہ - فتح الله علی گنج نارائن گنج - منشی گنج.نند لال گرام.پلکھتی.برہمن بڑ یہ اور کروں کے علاقہ میں سیلاب زدہ لوگوں میں چاول.دوائی اور دودھ تقسیم کیا گیا.ریلیف کمیٹی کے ممبران نے سیلاب زدہ علاقہ کا دورہ کیا اور تباہ شدہ مکانات کا جائزہ لیا تا کہ ان کو درست اور مرقیمت کرانے کی کوشش کی جائے.بعض مقامات پر سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں نقدی بھی تقسیم کی گئی.نیز بیماری سے بچاؤ کے لئے انجکشن بھی دیئے گئے.(۲)." ریلیف کمیٹی ڈھاکہ کی طرف سے آنریبل ریلیف منسٹر کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آندی بل منسٹر میر پور کالونی میں تشریف لے جاکہ احمدیہ ریلیف سنٹر میں چاول تقسیم کویی آنریل منسٹر نے کمیٹی کی درخواست کو قبول فرمایا اور ۲۴ ستمبر کو چار بجے جانے کا وعدہ فرمایا.جب آنریبل منسٹر میر پور کالونی چلنے کے لئے تیار ہوئے تو شدید بارش شروع ہوگئی.آنریبل منسٹر نے فرمایا کہ میں ضرور جاؤں گا.چنانچہ آپ سخت بارش میں میر پور کالونی تشریف لے گئے اور ایک ٹوٹی ہوئی جھونپڑی میں قیام فرمایا اور وہیں پر آپ نے اپنے ہاتھ سے سیلاب زدہ لوگوں میں چاول تقسیم کئے.نیز مہاجرین کے ایک وفد سے بھی ملاقات فرمائی کی ".اخبار نوائے پاکستان لاہور جہاں کسی مخالف شخص یا جماعت کے اچھے کام کی تعریف نہ کرنا اخلاقی گراوٹ کی ایک بین دلیل ہے وہاں اپنے مخالف فریق کی نقل کرنا اور وہ بھی بھونڈے طریق پر اور ساتھ ہی اسے اپنا نا گندی ذہنیت کا مظاہرہ کرنے کے مترادف ہے.حال ہی کا واقعہ ہے کہ شہر ڈیرہ غازیخاں میں مورخہ ۳؎ اگست کو پہاڑی نالہ بہ روتے سے رود کو ہی کا ایک زیر دست طوفان لہریں مارتا ہوا شہر میں داخل ہو گیا.کمر کمر سے له پاسبان " ڈھاکہ 9 ستمبر ۱۹۵۵ - ۲ " پاسبان" ڈھاکہ ۲۷ ستمبر ۱۹۵۵ء.

Page 82

اوپر پانی ہر گلی میں بہہ رہا تھا.عورتیں بچے بوڑھے چیخ چیخ کہ آسمان سر پر اٹھاتے ہوئے تھے اس افراتفری اور شور و پیکار میں رات سر پر آگئی.جو لوگوں نے جاگتے اور دعائیں مانگتے بسر کی.صبح کو سب سے پہلے جماعت مرزائیہ کے امیر عبدالرحمن مبشر نے اعلان کروادیا کہ ہماری جماعت کے آدمی رضا کارانہ طور پر غرباء، محتاجوں اور بیکسوں کی ہر ممکن امداد کرنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ انہوں نے ۱۵ آدمی مختلف محلوں میں لوگوں کی امداد کرنے کے لئے بھیج دیئے.علاوہ ازیں سیلاب زدگان کی امداد کے لئے جماعتی فنڈ سے قریباً ۲ من آٹا اور کچھ نقدی بھی تقسیم کروائی.بلکہ سُنا ہے کہ وہ لوگ مستقل طور پر اس کام کو جاری رکھے ہوتے ہیں.متعلقہ حکام بھی بڑی مستعدی سے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں.ادھر صالحین کی اسلامی جماعت کو جو لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کا بیکدم مروڑ اٹھا تو جھٹ سے آؤ دیکھا نہ تاؤ شہر میں منادی کروادی کہ ابھی ابھی جماعت اسلامی کا ایک وفد جناب ڈی سی صاحب بہادر اور دوسرے متعلقہ اعلیٰ حکام سے ملا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ لوگ فوراً شکستہ بند پر پہنچ جائیں اور اس کی مسدودی میں امداد دیں.واہ رے اسلامی جماعت تیرے پروپیگنڈے کے شاہرکارہ ! اسے کہتے ہیں لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا اور ستی شہرت حاصل کرنا حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ حکام بے چارے تو پہلے موقع پر پہنچ چکے تھے اور لوگوں کو جمع کرکے کام کی ابتدا کر چکے تھے لیکن بڑا ہو نام و نمود اور سستی شہرت کا جو کسی مرحلہ پر بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی ہے (1) - " مجلس خدام الاحمدیہ - اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ“ لاہور لاہور نے جو حامل بلا ک میں بلڈنگ ایک یہ طیف سینٹر کھول دیا ہے جس کا فون نمبر ۳۷۵۲ ہے.مجلس جو سیلاب زدگان کو ہر ممکن امداد بہم پہنچا رہی ہے اب تک سیلاب زدہ علاقوں کے پچاس افراد کو محفوظ ے صدارت له " نوائے پاکستان ۲۵ اگست ۱۹۵۵

Page 83

مقامات پر پہنچا چکی ہے.یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مجلس نے لوگوں کو گھرے ہوئے مقامات سے نکالنے کے لئے فوج کو پچاس خدام پیش کئے ہیں." (۲) - ” ہفتہ کے روز مجلس خدام الاحمدیہ کی ایک ریلیف پارٹی نے لاہور کے گرد و نواح میں سیلاب زدہ وبہات کا دورہ کیا اور مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگوں میں دوائیں، گرم کپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کیں.اوا (۳)." احمد یہ ریلیف کمیٹی سیالکوٹ کے پچاس کے قریب رضا کار مختلف سیکٹروں میں سیلاب زدگان کو امداد ہم پہنچانے میں مصروف ہیں.ان رضا کاروں میں ڈاکٹر صاحبان مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے افراد اور سماجی خدمت بجا لانے والے دیگر کارکن شامل ہیں.ان لوگوں نے ضلع کے دور دراز علاقوں تک جا جا کہ مصیبت زدگان کو ادویہ اور به بلیف کا دوسرا سامان بہم پہنچایا ہے.(۴).عین اس وقت جب کہ خطرہ زوروں پر تھا اور تمام سیاسی اور سماجی تنظیموں نے چُپ سادھ رکھی تھی.احمد یہ ریلیف کمیٹی معرض وجود میں آئی اس نے نہایت بے تابانہ طریق پر ریلیف کا کام شروع کیا.ریلیف کمیٹی کے ایک وفد نے ضلع کے ڈپٹی کمشنر شیخ منظور الہی صاحب سے ملاقات کی اور سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کو ہر ممکن امداد پہنچانے کے سلسلہ میں اپنی خدمات پیش کیں.اس وقت پولیس اور سول کا دوسرا حملہ ریلیف کے کام میں بے حد مصروف تھا اس کے باوجود کارکنوں کی شدید قلت تھی.ڈپٹی کمشنر کے کہنے پر ریلیف کمیٹی کی طرف سے ڈاکٹر صاحیان کی زیر سرگردگی رضا کاروں کے پانچ گروپ سیلاب زدہ علاقوں میں روانہ کئے گئے.انہوں نے سیلاب زدگان کے لئے جو کپڑے وغیرہ جمع کئے تھے انہیں متاثرہ دیہات میں تقسیم کیا گیا.کپڑے، ذوائیں ، راشن اور دوسری اشیاء ہو انہوں نے تقسیم کیں اس کی مالیت ۲۰ ہزار تھی.ان تمام دیہی بستیوں کو جو سیلاب " لے " سول اینڈ ملٹری گزٹ" ، اکتوبر شہداء (ترجمہ) - سے " سول اینڈ ملٹری گزٹ “ ۲۳ اکتوبر 20ء (ترجمہ) سے سول اینڈ ملٹری گزٹ " یکم نومبر ۱۹۵۵ء (ترجمہ).

Page 84

۷۲ کی وجہ سے پانی میں بہہ گئی ہیں.احمدیہ ریلیف کمیٹی اور مقامی حکام کی طرف سے فراہم کردہ رضا کاروں کی مدد سے از سر نو تعمیر کیا جا رہا ہے.کام کی رفتار بہت تیز ہے اس لئے امید کی جاتی ہے کہ مکانات بہت جلد مکمل ہو جائیں گے لیکن سیلاب زدہ علاقے کے باشندوں میں خوف اب بھی پایا جاتا ہے اور اُن کا احساس یہی ہے کہ وہ تا حال خطرے کی زد میں ہیں (1) - " مجلس خدام الاحمدیہ نے نواحی دیہات میں -4 " | اخبار آفاق “ لاہور اسلام کرنے کے بعد آج اپنی سالی کے دھارے کا رخ لاہورہ شہر کے سیلاب زدہ حصوں کی طرف موڑا اور اس مجلس کی طبی امداد کی پارٹیوں نے کوشن نگر کی جامع مسجد کے متصل طبی پوسٹ کا قیام کر کے آج ۱۵۵ مریضوں کو دیکھا اور ان میں دوائیاں تقسیم کیں.بیشتر اشخاص نے مفید طبی مشورے حاصل کئے اور ہر شخص کو ٹائیفائڈ اور ہیضے کے ٹیکے لگوانے کی تلقین کی گئی ہے.(۲) معتمد مجلس خدام الاحمدیہ نے اطلاع دی ہے کہ آج مجلس کے ۱۵۰ کارکنوں نے فوجی افسروں کی زیر ہدایت اور اکثر بطور خود لاہور کی زیر آب بستیوں میں مصیبت زدہ عوام میں کھانے کی خشک اشیاء، پکا ہوا کھانا اور پینے کا پانی تقسیم کیا.مجلس کے کارکنوں نے فوجی جوانوں کے ہمراہ ۲۵ بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کو ڈوبنے سے بچایا اور ۲۵۰ افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچایا.مجلس خدام الاحمدیہ کی اطلاع کے مطابق جتو کا علاقہ بھی زیر آب آچکا ہے.چنانچہ خدام کے ۱۲ کارکنوں کی ایک پارٹی اس علاقے میں تمام رات امدادی کام کرنے کے لئے فوجی نوجوانوں کے ہمراہ روانہ ہوگئی ہے.یہ (۳) - " مجلس خدام الاحمدیہ کے مجلس کی ایک امدادی پارٹی آج قصور روانہ ہوگئی.دوسری آٹھ پارٹیوں نے آج شہر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی گلیوں اور سڑکوں کی کے سول اینڈ ملٹری گزٹ ۱۰ر نومیر دارد (ترجمه).که "آقاق" لاہور ع النور سے "آفاق" لاہور 9 اکتوبر شاء مت.

Page 85

- صفائی کا کام کیا.اور شاہدرہ ، ٹھٹھہ ، ابوالخیر، بیگم کوٹ و دیگر دیہات میں کونین کے ٹھیکے لگائے اور پانچ سو افراد میں ادویات تقسیم کیں کارکنوں نے سلطان پورہ مصری شاہ تاجپوره ، شاد باغ ، وسن پورہ ، سنت نگر ، راج گڑھ میں امدادی کام کیا (۴)." مجلس خدام الاحمدیہ کی ایک امدادی پارٹی نے آج کوٹ خواجہ سعید اندر، کالو رام مڑھی، شیر سنگھ اور بھگت پورہ میں تین سو افراد کو طبی امداد بہم پہنچائی اور صیبت زدگان میں کچا گوشت تقسیم کیا.دوسری امدادی پارٹی نے ڈھیر کروں.جادا.اور گاہی نگل گونمنٹ رائس فارم کالا شاہ کاکو میں قریباً ڈیڑھ سو افراد کو کو نہین کے ٹیکے لگائے قصور کے مرکز میں کام کرنے والے کارکنوں نے قصور.بنگلہ مان - گنڈا سنگھ والا.برج نادرا والہ میا نوالہ.وزیر پور کھر پیر اور جوڑا کے دیہات میں مصیبت زدگان کو امداد بہم پہنچائی ہے (۵) - " آج مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی تین پارٹیاں مختلف جگہوں پر امدادی کام میں مصروف رہیں.سلطان پورہ ریلیف سنٹر سے شاد باغ مصری شاہ.وسن پورہ اور تاج پورہ کے علاقوں کو طبی امداد بہم پہنچائی گئی.احمدی مستورات کے ایک وفد نے شاہدرہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں 4 مستحق افراد میں پارچات اور ایک صد مریضوں میں اور یہ تقسیم کیں.ربوہ سے خدام الاحمدیہ کے ، ار افراد پرمشتمل ایک قافلہ آج گیارہ بجے شاہدرہ پہنچ گیا.سیلاب زدگان کو ہر قسم کی امداد بہم پہنچانے کے لئے تارنگ، کالا خطائی اور ایچڑ پر لگائے جائیں گے ** (4) - امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اسپیل کی ہے کہ اُن کی جماعت کے ڈاکٹر سیلاب زدگان کی امداد کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.اپیل میں کہا گیا ہے کہ احمدی ڈاکٹر جہاں کہیں بھی ہوں سیلاب زدوں کی طبی امداد کے لئے کم از کم دس روز وقف کریں.ے " آفاق لاہور ۱۸ اکتوبر دارمت که "آفاق" لاہور ۱۹ اکتوبر ۹۵۵ده مث ته “ آفاق " لاہور ۲۰ / اکتوبر ۱۹۹۵ء -

Page 86

مقامی مجلس خدام الاحمدیہ نے ڈاکٹروں کی نگرانی میں سلطان پورہ ، شاہدرہ، کویشن نگر اور اسلامیہ پارک میں امدادی کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں.جہاں سے ملحقہ بستیوں کو ادویات ،گرم کپڑے اور کھانے کی اشیاء پہنچائی گئیں.سے تقسیم (۷).لاہور سے خدام الاحمدیہ کا ایک دستہ جو چھ رضا کاروں پرمشتمل ہے.قصور پہنچا ہے اور اس نے قصور کے نواحی دیہات میں امدادی کام شروع کر دیا ہے مقامی جماعت احمدیہ نے بھی قصور میں کیمپ کھول دیا ہے جس میں سیلاب زدوں کیلئے پکا ہوا کھانا اور آٹا کیا جارہا ہے.(۸) - ' یہ لوگ موقع کے مطابق گھرے ہوئے لوگوں کی خوراک اور پار چات سے امداد کرنے کے علاوہ بیماروں کو ہر طرح طبی امداد بھی پہنچا ر ہے ہیں.(۹)." احمد یہ ریلیف کمیٹی سیالکوٹ اس وقت تک کمرانوالہ ، چیڑا ڈ ، پوڑ منڈا، نارووال، بدوملہی خاص میں راشن ، دوائیاں ،گرم ، سرد کپڑے اور بعض نادار لوگوں میں تقدی تقسیم کر چکی ہے.تین مزید مرکزہ گدیاں ، رعیہ اور میانوالی میں کھولے گئے ہیں.چوہدری نذیر احمد باجوہ ایڈووکیٹ صدر احمدیہ ، ریلیف ریلیف کمیٹی ایک ہزار نئے و پرانے گرم سرد کپڑے لے کر رعیہ کے علاقے میں تقسیم کرنے کے لئے (نارووال پہنچے گئے ہیں ہے دس معماروں نے ریلیف کمیٹی کو ایک ہفتہ کے لئے اپنی خدمات مکانات تعمیر کرنے کے لئے پیش کی ہیں یہ ا مجلس خدام الاحمدیہ کی سرگہ میاں “ | ۷ - اخبار " امروز " لاہور "آج مجلس کی ریلیف پارٹیوں نے شہر کے مختلف حصوں سے پچاس کے قریب افراد کو گہرے پانی سے نکال اور محفوظ مقامات پر پہنچایا.مجلس نے اپنا ایک ریلیف سنٹر جو دھامل بلڈنگ دفون نمبر ۳۷۵۲) قائم کر دیا ہے جہاں سے سیلاب لے آفاق" لاہور ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۵ ء مث - - آفاق ۲۳ اکتوبر ۵۰۶۵ سے " آفاق " ۱۲۴ اکتوبر شش اومده - محمد یہ الفاظ کہوا رہ گئے.ملاحظہ ہو نوائے پاکستان" لاہور مورخه ۲۴ اکتوبر ۹۵ ارد.همه آفاق ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۵ء مه.

Page 87

کے سلسلہ میں ہر ممکن امداد مہیا کی جارہی ہے مجلس نے پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لئے فوج کو اپنے پنچائی تربیت یافتہ خدام پیش کئے ہیں.مجلس کی ایک پارٹی نے ملٹری کے ساتھ مل کر گہرے پانی میں ریلیف کا کام کیا اور متعدد ڈوبتے ہوئے بچوں اور عورتوں " کو بیچاپی ملتان کے سیلاب زدہ علاقے میں خدام الاحمدیہ نے آج ۲۵۰ پونڈ خوراک تقسیم کی.خدام الاحمدیہ نے آج کرشن نگر لاہور میں جامع مسجد کے پاس اپنا طبی مرکز قائم کر دیا ہے مرکز نے لوگوں کو ٹیکے لگوانے کی ہدایت کی " (۲) انجمن کی چار پارٹیاں شیخو پورہ کے سیلاب زدہ دیہات میں کام کر رہی ہیں.خدام نے ایک ہزار افراد کو کھانا کھلایا.دوصد افراد میں خشک اشیاء تقسیم کیں.ایک سو اشخاص کو طبی امداد دی اور پینے کا پانی بہتا کیا گیا ہے.” (۳) - " مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی امدادی پارٹیوں نے کل مختلف سینٹروں میں سیلاب زدگان کی امداد کی.ایک پارٹی نے محکمہ سول ڈیفنس کے ریسکیو آفس میں ایمر جنسی سروس کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور سارا دن اُن کے ماتحت کام کرتے رہے مجلس کے سلطان پورہ سنٹر کے خدام کوٹ خواجہ سعید.مندر کالو - مڑھی شیر سنگھ اور بھگت پور میں پانی کو عبور کرتے ہوئے گئے اور تین صدا افراد کو طبی امداد بہم پہنچائی اور اس کے علاوہ کچا گوشت تقسیم کیا.شاہدرہ سنٹر کے خدام ڈھیر، کرول ، جادا ، دوگا ہی گل ، گورنمنٹ رائٹس فارم کالا شاہ کا کو گئے اور تقریباً ڈیڑھ صد ا فراد کو ٹیکے لگائے گئے.قصور کے سنٹر میں کام کرنے والے خدام قصور - بنگلہ مال - گنڈا سنگھ والا - برج نامدار وال.میانوالہ ، وزیر پور ، کھر پڑ ، اور جوڑا میں گئے.بعض جگہ ۱۷ میل تک پانی میں سفر کر کے سیلاب زدہ لوگوں تک پہنچے اور انہیں ہر قسم کی امداد بہم پہنچائی گئی سی نه - "امروز" لاہور ۸ اکتوبر ۵۵داء - له "امروز" لاہور ۱۸ اکتوبر ۱۹۵۵ - سے "امروز" لاہور ۲۰ اکتوبر ۹۵۵اء

Page 88

(۴)." مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ نے لاہور کی مجلس کو سیلاب زدگان کی امداد کے لئے دو سو روپے بھیج دیئے ہیں قصور اور اس کے ملحقہ بستیوں میں خدام الاحمدیہ کی ایک پارٹی مصیبت زدہ لوگوں میں ادویات ، پار چات تقسیم کرنے میں مصروف ہے.اس کے علاوہ کل سلطان پورہ مصری شاہ - شاد باغ - تاج پورہ - اسلا میبر پارک.راج گڑھ ، کرشن نگر اور نا ہارہ کی ملحقہ بستیوں میں تقریباً تین سو افراد میں ادویات تقسیم کی گئیں مجلس کے ان علاقوں میں امدادی کیمپ قائم ہیں.(۵) - " مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے آج ڈاکٹروں کی نگرانی میں سیلاب زدگان کو طبی امداد بہم پہنچائی مجلس نے سلطان پورہ.شاہدرہ - کریشن نگر اور اسلامیہ پارک میں اپنے امدادی کیمپ قائم کئے ہیں.جہاں سے ملحقہ بستیوں کو ادویات ، گرم کپڑے اور کھانے کی اشیاء بہم پہنچائی گئیں.علاوہ ازیں مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کی امدادی پاڑیوں نے خانپور سیڈ منڈھیائی، نارنگ ، ایچڑ - کالا خطائی.شاہ مسکین - مانگٹانوالہ اور ملحقہ علاقوں میں مقامی ہیلتھ آفیسر کے ہمراہ ادویات گرم کپڑے اور دیگر ضروریات کی چیزیں سیلاب دگان میں تقسیم کی ہیں." دانا " مجلس خدام الاحمدیہ مغلپورہ کی | -- اخبار نوائے وقت لاہور ریلیف پارٹی میں میں ایک ڈاکٹر پانچ فرسٹ ایڈرز اور سات مددگار تھے نے کل رات گڑھا اور مرل کے لوگوں میں امدادی کام کیا.عوام میں خوراک تقسیم کی گئی اور تقریبا ڈیڑھ سو اشخاص کو طبی امداد بہم پہنچائی گئی ہے.(۲) مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے زیر اہتمام امدادی سرگرمیوں کو اب اور وسیع کر دیا گیا ہے.اور آج سے سلطان پورہ میں نیا امدادی مرکزہ کام کر رہا ہے جہاں سے له " امروز " لاہور ۲۳ اکتوبر شهداء شهر امروز " لاہور ۲۴ اکتوبر ۹۵ سے نوائے وقت لاہور اور اکتوبر اء ما

Page 89

مصری شاہ ، کا چھو پورہ ، بھارت نگر، تاج پورہ ، شاد باغ اور وسن پورہ کے مصیبت زدہ عوام کی مدد کی جائے گی.نجلس کی دوپاریوں نے آن حضوری باغ کے کیمپ میں بھی امدادی کام کیا سول ڈیفنس کے کارکنوں کے ساتھ مل کر سیلاب زدگان کی مدد کی ہے " (س)." لاہور.۶ ار اکتوبر...مجلس خدام الاحمدیہ مرکز به دیوہ کی ایک پارٹی ضروری ساز و سامان ادو یہ پار چات وغیرہ لے کر قصور روانہ ہو گئی ہے.لاہور میں اس وقت محلی کے زیر اہتمام آٹھ امدادی مرکزہ کام کر رہے ہیں....مجلس خدام الاحمدیہ غلپورہ لاہور کے طبی مرکز نے آج سیلاب زدہ علاقوں میں تقریبا ۲۵ اشخاص کو مفت دوائی اور طبی امداد بہم پہنچائی مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خانصاحب نے بھی آج کیمپ کا معائنہ کیا اور کارکتوں کی امداد کو سراہا ہے ؟ (۴)." لاہور.16 اکتوب...مجلس خدام الاحمدیہ لاہورہ نے آن محکمہ شہری دفاع کے ارکان کے ساتھ کام کیا اور کوٹ خواجہ سعید - مڑھی شیر سنگھ اور بھگت پورہ کے دیہات "' میں سیلاب زدگان کو طبی امداد بہم پہنچائی (۵) - "خدام الاحمدیہ ربوہ کے مقامی ارکان نے سلطان پورہ کے امدادی مرکز سے شیاد یا رخ مصری شاہ ، وسن پورہ اور تاج پورہ کے علاقوں میں عوام کو طبی امداد دی اور مستورات کے ایک وفد نے شاہدرہ میں گرم کپڑے تقسیم کئے عنقریب کالا خطائی اور کیچڑ میں بھی امدادی کیمپ کھولے جائیں گے کہ یہ (4) - " مجلس خدام الاحمدیہ ریکوہ نے آج سیلاب زدگان میں ادویات اور پار چات تقسیم کئے اور سلطان پوره ، مصری شاہ ، شاد باغ ، تاج پورہ ، اسلامیہ پارک، راج گڑھ ، کرشن نگر اور شاہدرہ میں اینٹی ملیر یا ادویات تقسیم کی.ے نوائے وقت لاہور ہم ادراکتو بر است.کہ "نوائے وقت کیا ہور ۱۸ اکتوبر ۹۵رمت کہ "نوائے وقت لاہور 19 اکتوبر شاء منہ کے نوائے وقت لاہور ۲۰ اکتوبر شاء ما ھے." نوائے وقت “ ۲۱ اکتوبر ۱۹۹۵، ص۶

Page 90

(1) " ملتان (ڈاک سے ) مجلس خدام الاحمدیہ ملتان کے امدادی کارکن غوث پور کبیر والہ ، علی پور حسن پور اور دوسرے سیلاب زدہ علاقوں میں مصیبت زدگان کی امداد کر رہے ہیں.انہوں نے کبیروالا کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا یا ہے.دوسرے علاقوں کی ضروریات کے بارے میں اطلاع ملنے پر مزید کارکن روانہ کئے جائیں گے لیے مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور تے آج بھی سلطان پورہ کے مرکز سے امدادی کام جاری رکھا.سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ڈی ڈی ٹی کا چھڑکاؤ کیا گیا اور بیماروں میں کونین بانٹی گئی.قلعہ لچھمن سنگھ ، راوی روڈ اور بڑھا دریا کے کنارے پناہ گزینوں کو لحاف وغیرہ دیئے گئے اہلیہ (۹) - " مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی طرف سے کالا شاہ کا کو اور دیگر نواحی گاؤں میں ادویات اور دیگر ضروری اشیاء تقسیم کی گئیں اسی علاقہ میں طبی امداد کا سلسلہ بھی جاری ہے.مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے رضا کاروں نے آج بھی سیلاب زدہ دیہات میں صفائی کا کام بھاری رکھا ہے (۱۱) سیالکوٹ کے عوام اور سیاسی جماعتوں کی لیے جیتی حیرت انگیز اور افسوسناک ہے.احمد یہ ریلیف کمیٹی اور لنڈا بازار لاہور کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے سیلاب زدہ علاقوں میں جا کر عملی کام شروع نہیں کیا.جماعت اسلامی ، عوامی لیگ ، خاکسار جاعت ، مسلم کانفرنس اور دوسری آن گفت جماعتیں ان دنوں نہ جانے کن مصروفیات میں منہمک ہیں کہ سیلاب زدہ علاقوں میں جانا پسند نہیں کہ میں ہے " (۱۳) - لاہور - ۳۰ اکتوبر...مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی طرف سے آج تین ہزار سیلاب زدگان میں اجناس خوردنی تقسیم کی گئی، ۱۲۵۰ افراد کو ملیریا کے ٹیکے لگائے ے "نوائے وقت " ۲۴ اکتوبر دواء من - سے "نوائے وقت ۲۶ اکتوبر صا سے نوائے وقت " ۲۵ اکتوبر دوست کے "نوائے وقت“ ۲۸ اکتوبر شاء من " نوائے وقت ۱۳ نومبر ۲۰۶۱۹۵۵ - 1400

Page 91

گئے.اور سلطان پورہ میں شکستہ مسجد اور مکانوں کی مرمت میں لوگوں کی امداد کی گئی.علاوہ ازیں خدام کی ایک دوسری پارٹی نے کالا خطائی - ہیجڑ.پکھیالی قلوستار شاہ.دھو کا منڈی اور مانگٹانوالہ کے دیہات میں ہار جات اور ادویہ تقسیم کیں.| (1) " سیلاب زدگان کی امداد " ۹ - اخبار ملمت “ لاہور سیلاب کے دوران میں جماعت احمدیہ نے جو کام کیا اس کا مختصر سا ذکر آپ کے اخبار میں کرنا چاہتا ہوں.یہ اطلاع موصول ہوئی کہ ڈیرہ غازیخاں سے ۶۰ میل دور درہ سنگھڑ کے جنوب مشرقی کنارے سوکڑ.مندرانی اور جھوک کھیوے والی بستیاں تباہ ہوگئی ہیں.فیصلہ کیا گیا کہ بستی مندرانی میں سیلاب زدگان کا امدادی کام شروع کیا جائے چنانچہ زو خدام اور ان پر ایک نگران کو مقرر کر کے مبلغ دو صدر و پیر نقد اور دو تھان کپڑوں، کے دے کہ مذکورہ بالا مقام کی طرف روانہ کیا گیا.ہم لوگ پہلے روز بارش میں بھیگتے ہو.۱۳ میل تک بارش میں چلنے کے بعد پہاڑی نالوں کو جو بڑی تیزی سے تین تین چار چار فٹ گہرائی میں بہہ رہے تھے عبور کرتے ہوئے چار روز پیدل چل کر منزل مقصود پر پہنچے.وہاں جا کہ ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ حالتِ زار بیان سے باہر ہے مکان گر کر پیوند خاک ہو چکے تھے.سب کچھے پانی کی نذر ہو چکے تھے اور خود مکین ایک اونچے پہاڑی ٹیلہ پر پناہ گزیں ہو چکے تھے.بھوک سے نڈھال بچے بلبلا رہے اور اُن کے والدین نیم وا آنکھوں سے انہیں دیکھ دیکھ کر موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھے ہم نے وہاں جا کر بستی مند رانی کے ڈھائی صد افراد میں پانچ من آٹا گندم - تین من غله گندم - سات من غله جوار دو تھان کپڑوں کے.آدھ من دال آدھے من گڑ اور ایک صد دور پیہ تقسیم کیا جو وہاں کے مصیبت زدہ لوگوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے.لہ "نوائے وقت“ یکم نومبر شاء من

Page 92

A.اس سلسلہ میں ایک عجیب اور بے مثال قربانی کا نمونہ دیکھتے ہیں یہ آیا ہے کہ وہاں کے احمدی دوستوں نے بھی جو خود اس بلائے ناگہانی میں مبتلا ہو چکے تھے.ان لوگوں میں غلہ و غیره تقسیم کرنے کے علاوہ ۲۸۰ مرلہ زمین ان لوگوں میں مفت تقسیم کرنی شروع کر دی جن کے مکانات گر کر مستقل طور پر ندی کا طاس بن چکے تھے.یہ زمین ایک محفوظ مقام پر ہے اور اس کی بازداری قیمت مبلغ سات صد روپے سے کم نہیں ہے.اس قربانی کا سہرا غلام حسن خانصاحب کے سر ہے جنہوں نے محض لوجہ اللہ سیلاب زدگان میں مفت تقسیم کرنی شروع کردی.اسی طرح دیہات میں ایک جگہ ساٹھ کرم لیے اور تین فٹ گہرے پانی میں خشک مٹی ڈال کو لوگوں کے لئے راستہ بنایا گیا.جس سے بچوں، عورتوں کو ایک بڑی تکلیف سے نجات مل گئی.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مخلوق کی خدمت کرنے کی ہمیشہ تو فیق عطا فرمادے کہ یہی انسانیت کا معراج ہے.عبد الواحد خاں انچارج کیمپ لیستی سند رانی ضلع ڈیرہ غازی خان (۲) - " ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو مجلس غدام الاحمدیہ گنج مغلپورہ کی دو امدادی پارٹیوں نے ڈاکٹر محمد حفیظ صاحب سابق اسسٹنٹ سرجن آزاد کشمیر کی زیر ہدایت محمود بوٹی بند سے میل کے رقبہ میں واقع دیہات موضع بھینی پار ، رت گڑھ ، قزل ، سنت نگر، آوان گیاں میں کشتی کے ذریعہ پہنچ کر اپنے امدادی کام کو جاری رکھا.مجموعی طور پر ۶۱۶ افراد کو طبی امداد بہم پہنچائی اور ۶۰ آدمیوں کو مرہم پٹی کی گئی.۱۰ اکتوبرش دار کو مجلس نے اپنے امدادی کام کو بدستور جاری رکھا اور شیخ اعجاز احمد صاب مجسٹریٹ متعینہ علاقہ محمود بوٹی کی زیر ہدایات موضع کر اول ، جھگیاں اور جیو کے میں کشتی کے ذریعہ پہنچ کر خوراک، ماچس ، چائے کے بنڈل اور موم بتیاں وغیرہ تقسیم کیں.اس کے علاوہ مجلس نے ان دیہات میں دوائیاں بھی تقسیم کیں اور ۱۲۰ آدمیوں کو طبی امداد دی گئی ہے (۳) مرکز یہ خدام الاحمدیہ ربوہ سے ہم خدام پژشتمل ایک پارٹی سیلاب زدگان کی امداد کے لئے بھیجو کئی.ان خدام نے ایک کیمپ شیخو پورہ سے میل دور لاہور کی جانب ے روز نامه" حلمت " لاہور ۱۳ ستمبر و اوست - سے "ملت" لاہور ۱۳ اکتور ۶۹۵

Page 93

نہر اپر چناب کے کنارے لگایا ہے.ان خدام میں ڈاکٹر کشتی ران ، تیرا اک شامل ہیں جن کے پاس طیبی امداد اور دوسری امداد کا ہر قسم کا سامان موجود ہے ان کیمپوں ے قدیر ستارشاہ مستن کالی، خان پور ، روک ، لہیاں ، پنڈالی اور مومن پور میں امدادی پارٹیاں روانہ کی گئیں مینہوں نے پانی میں گھرے ہوئے سینکڑوں افراد میں کھانا تقسیم کیا.طبی امداد بہم پہنچائی، پھنسے ہوئے افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچایا ہے (۴) - " مجلس قدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ کی طرف سے شیخو پورہ میں متعینہ چالیس خدام آج چار پارٹیوں میں تقسیم ہو کر شیخو پورہ کے مختلف مقامات کله ، رحمت خان ، نبی پور ڈیو بیان الا طو کے ، مینڈھیالی، دین محمد کا ڈیرہ ، ٹھٹھہ قریشی اور چنگڑوں کے محلہ میں گئے جہاں ایک ہزار افراد کو کھانا کھلایا گیا.دوصد افراد میں خشک اشیاء تقسیم کی گئیں.ایک صدا فراد کو طبی امداد بہم پہنچائی گئی اور پچیس سو افراد کو پینے کے لئے پانی مہیا کر دیا گیا.عبد اللطیف قائد خدام الاحمدیہ ضلع ملتان نے اطلاع دی ہے کہ جماعت احمدیہ ملتان کی طرف سے جماعت کے کارکن سیلاب زدگان کی امداد کے لئے مصروف عمل ہیں آج سیلاب زدوں کو کئی پونڈ خوراک بہم پہنچائی گئی کنید (۵) - " مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے آج بھی مختلف سینٹروں میں سیلاب زدگان کی امداد کا کام جاری رکھا.ایک پارٹی نے محکمہ سول ڈیفنس کے ریسکیو آفس میں ایمر جنسی بروس کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور سارا دن ان کے ماتحت کام کرتے رہے مجلس سلطان پورہ سنٹر کے خدام کوٹ خواجہ سعید مندر کا لورام ، مڑھی شیر سنگھ اور بھگت پوره میں پانی کو عبور کرتے ہوئے گئے اور تین صدا فراد کو امداد پہنچائی اور اس کے علاوہ کچا گوشت تقسیم کیا گیا.شاہدرہ سنٹر کے خدام ڈھیر کر دل، جادا ، در گالی گل گورنمنٹ رائس فارم اور کالا شاہ کا کو گئے.اور تقریباً ڈیرھ صدا افراد کو کونین کے ٹیکے لگائے گئے.قصور کے سنٹر میں کام کرنے والے غدام قصور ، وزیر پور، کھر پیڑ اور جوڑا میں له " ملت " لاہور ۱۵ اکتوبر ت سے ملت " لاہور ۷ار اکتوبر ۱۹۵۵، ص

Page 94

AY گئے اور بعض جگہ سترہ سترہ میل تک پیدل پانی میں سفر کیا.اور سیلاب زدگان تک پہنچے اور انہیں ہر قسم کی امداد بہم پہنچائی گئی ہے.(4).لاہور ۱۸ اکتوبہ آج بھی مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی تین پارٹیاں مختلف جگہوں میں امدادی کام میں مصروف ہیں.سلطان پورہ ریلیف سنٹر سے شاد باغ مصری شاہ دسن پورہ اور تاج پورہ کے علاقوں کو طبی امداد بہم پہنچائی گئی.احمدی مستورات کے ایک وفد نے شاہدرہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں 4 مستحق افراد میں پارچات اور ایک صد مریضوں میں ادویات تقسیم کیں.اس علاقہ میں خدام کے ایک وفد نے بھی علاوہ ادویات کے دیا سلائی اور موم بتیاں تقسیم کیں.یوہ سے خدام الاحمدیہ کے سنترہ افراد پرمشتمل ایک اور قافلہ آج گیارہ بجے شاہدرہ پہنچ گیا ہے سیلاب زدگان کو ہر قسم کی امداد بہم پہنچانے کے لئے مندرجہ ذیل مقامات پر امداد کیمپ لگائے جائیں گے.نارنگ - کالا خطائی اور ایچڑ یہ ، (2) - " آج بھی حسب معمول مجلس تعدام الاحمدیہ لاہور کے زیر اہتمام سلطان پورہ اسلامیہ پارک، کرشن نگر ، اور شاہدرہ کے سنٹروں میں بڑی سرگرمی سے ریلیف کا کام جاری رہا.خدام ان علاقوں میں ادویات تقسیم کرنے اور صفائی کے کام میں مدد کر نے میں مصروف رہے.اس کے علاوہ قلعہ بھی سنگھ شمشان بھومی.اور اس کے ملحقہ علاقہ میں...مجلس کی چھے افراد پرشتمل پارٹی جو کہ 14 اکتوبر کو قصور کی طرف روانہ کی گئی تھی آج واپس لاہور پہنچ گئی ہے اس پارٹی نے اس دوران میں بنگلہ قیصر گڑھ ، مان گنڈا سنگھ والا، میانوالہ اوے حسین خاں والا ، جوڑا اور ان کے علاوہ دیگر چھوٹے چھوٹے دیہات میں پانی میں گزار کہ امدادی کام کیا تقریبا ڈیڑھ ہزار افراد میں ادویات تقسیم کی گئی ہے.لے ملت ، لاہور ۱۹ اکتوبر شرارت - سے " قلت "کیا ہور ۲۰ راکتور هه م ہ " تمت " لاہور ۲۲ اکتوبر ۹۵ ۶.

Page 95

۸۳ (۸) " لاہور ۲۴ اکتوبه- آج مجلس خدام الاحمدیہ لاہور تے اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں محکمہ اینٹی ملیریا سے مل کر ان کے گھروں میں ڈی.ڈی ٹی چھڑکنے کا انتظام کیا گیا.جو سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھے سلطان پورہ سنٹر میں بھی حسب معمول کام ہوتا رہا.مجلس نے آج قلعہ لچھمن سنگھ راوی روڈ اور بڑھا دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے تین صد افراد میں پار چات اور ادویات تقسیم کیں.(۹) : " دیپال پور اوکاڑہ روڈ سیلاب زدگان کے مختلف کیمپوں میں خدام الاحمدیہ اوکاڑہ کی طبی امداد اس قدر بر حمل اور مفید ثابت ہوئی کہ دور افتادہ سیلا ہے تباہ شدہ دوسرے دیہات کے لوگوں نے خدام سے اپیل کی ہے کہ ان کی طرف بھی توجہ کی جائے لیکن ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے خدام ان کی خواہش کی تکمیل سے قاصر ہیں.سردست میاں محمد شفیع نمبر دار چک 2 کی درخواست پر راجباہ ٹو.ایل کے چکوک ۳۴۱۳۳/۳۲ ۳۵ اور دوسرے قرب و جوار میں ڈیرے لگائے ہوئے سیلاب زدگان کی طبی امداد کے پیش نظر طبی کیمپ کو کلاس بنگلہ نہر پر منتقل کر دیا ہے.کاسش که دیگر جماعتیں بھی وسیع پیمانہ پر سیلابی علاقہ میں ایسی طبی امداد کا انتظام کریں کہ اب وہاں سیلاب کے بعد ملیر یاد دیگر امراض کی وبائی صورت میں پھیلنے کا سخت خطرہ ہے.(۱۰) - لاہور - ۲۶ اکتوبی آج میں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی پارٹیاں سرگرم عمل رہیں.انہوں نے سلطان پورہ ، کا چھوپورہ ، بھارت نگیر، مسلم گنج ، فیض باغ اور تو لکھا پارک میں صفائی کا کام کیا.مختلف جگہوں اور گھروں میں فینائل اور ڈی ڈی ٹی کا چھڑکاؤ کیا.خدام نے ملحقہ علاقوں میں بھی صفائی کا پروگرام بنایا ہے.(۱) - " لاہور ۱۲۷ اکتوبر مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے ایک ہنگامی اجلاس لے " ملت لہور.۲۶ اکتو بر شهداء - سے " ملت " لاہور ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۵ ۲ - ه " ملت “ لاہور ۱۲۸ اکتوبر ء ما

Page 96

لم میں فیصلہ کیا ہے کہ سیلاب زدگان میں علاوہ ادویات و پارچات تقسیم کرنے کے مکانات کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے.اس سلسلہ میں مجلس بہت سے معماروں کا انتظام کر رہی ہے جو متاثرہ علاقہ میں مستحق غرباء کے مکانات تعمیر کرنے میں مدد دیں.دیں گے.مجلس نے آج اپنے امدادی مرکز سے ایک صد پار چات سیلاب زدگان میں تقسیم کئے " 66 ۱۰- اخبار مغربی پاکستان لاہور (1) - " آج بھی مجلس خدام الاحمدیہ کی امدادی پارٹیاں تمام دن ریلیف کے کام میں مصروف رہیں.ایک امدادی پارٹی سائیکلوں پر کالا شاہ کا کو تک گئی اور راستہ میں سڑک پر بیٹھے ہوئے سیلاب زدگان کی امداد کی.یہ پارٹی پانچ گھنٹے کے بعد واپس کوئی.ایک اور امدادی پارٹی جو پرسوں لاہور سے ہر یکے جانے والی سٹرک پر روانہ ہوئی تھی آج سہ پہر کو واپس پہنچ گئی.اس پارٹی تے یہ کی ، یہ کا کلاں ، بہ کا خورد ، جاسمن ، ہڈیارہ میں کام کیا.مجلس کے سلطان پورہ کے سنٹر سے بھی لوگوں کو ہر طرح کی امداد بہم پہنچانے کا کام ہوتا رہا ہے (۲) مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کہ کوہ کی طر بے دام شیخو پورہ کے مختلف مضافات کلہ رحمت خاں ، نبی پورہ، ڈیرہ یہیاں والا ، للو کے ، منڈھیالی ، دین محمد کا ڈیرہ ، ٹھٹھر قریشی اور چنگڑوں کے محلہ میں گئے جہاں ایک ہزار افراد کو کھانا کھلایا گیا.دو صدا فراد میں خشک اشیاء تقسیم کی گئیں.دوصد افراد کو طبی امداد بہم پہنچائی گئی اور پچیس سو افراد کو پینے کے لئے پانی مہیا کر دیا گیا.لاہور ، شیخو پورہ روڈ کے کھل جانے اور ٹریفک کے زیادہ ہونے کی وجہ سے دو کاریں پانی میں پھنس گیئیں جنہیں خدام نے مل کہ بڑی تگ و دو - سے باہر نکالا.مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے آج بھی محکمہ سول ڈیفینس، انیٹی ملیر یا، ریڈ کراس اور پولیس کو اپنی خدمات پیش کیں اور شاہدرہ سنٹر میں بھی بڑے جوش وخروش ل "ملت" لاہور ۲۹ اکتو بر شرارت کے مغربی پاکستان لاہور ۱۵ اکتوبر شاء من

Page 97

سے ریلیف کا کام سرانجام دیا جاتا رہے یہ (۳) " مجلس خدام الاحمدیہ کو ٹر نے آج مجلس لاہور کو سیلاب زدگان کی امداد کے لئے دوصد روپیہ بھجوایا ہے تا کہ وہ اپنے کام کو اور بھی وسعت دے سکیں.قصور اور اس کی ملحقہ بستیوں میں مجلس خدام الاحمدیہ کی ایک امدادی پارٹی مصیب نیکن میں ادویات اور پار چات تقسیم کرنے میں مصروف ہے.اس کے علاوہ خدام نے آج سلطان پوره ، مصری شاہ، شاد باغ ، تاج پورہ ، اسلامیہ پارک، راج گڑھ.کرشن نگر اور شاہدرہ کی ملحقہ بستیوں میں قریباً تین صدا افراد کو انیٹی میر یا ادویات تقسیم کیں.مجلس نے سلطان پورہ ، اسلامیہ پارک ، شاہدرہ اور کرشن نگر کے علاقوں میں اپنے امدادی کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں ہے کھے گا ۱۱ - انبار ” پاکستان ٹائمز“ لاہور (1) "FLOOD RELIEF WORK IN SIALKOT” (From a Correspondent) Sialkot; Oct 313: The Ahmadiyya Relief Committee, District Sialkot, distributing rations, medicines and clothes through various centres intend to construct damaged houses of the poor people.The Relief Committee despatched another consignment of clothes, medicines and soap to the chaprar sector for distribution.¹ (2) "SIALKOT; Oct 18: According to information gathered from reliable sources, the out break of epidemic in the majority of flood- affected villages, has presented the district authorities with a new problem.Despite the unstinting efforts of the Deputy Commissioner, Sheikh Manzoor, and the medical authorities, the situation is still said to be out of control for lack of adequate medical staff.لے مغربی پاکستان " لاہور ۱۷ اکتوبر 20 اوت - سے مغربی پاکستان لاہور ۲۱ اکتوبر ۱۹۵ اید " ۲۱ شاید مد 1.Pakistan Times, Lahore, 15 October, 1955 P: 7 - Col.5

Page 98

The only local Relief committee formed by the Jamma'at Ahmadia, is working in the flood area with its five Doctors since October 6.Meanwhile two Doctors have reached here from Rabwah, and another two are expected soon.The Jamma'at Ahmadia has already distributed 1,300 articles of clothing, while medicines are being sent across to the marooned persons with the help of all avail- able resources.The Relief Committee's work is distributed in 15 sections.Under instructions from the Deputy Commissioner, it is learnt the Jamma'at Ahmadia has requested its central authorities to send more doctors with auxiliary staff to Sialkot."¹ (3) "The Majlis Khuddam-ul-Ahmadiyya, Lahore, is running four relief centres in Sultanpura, Islamia Park, Shahdara and Krishen Nagar, where clothes food and medicines are being distributed."2 ترجمه : (۱) - سیالکوٹ ۱۳ اکتوبر ضلع سیالکوٹ کی احمد یہ ریلیف کمیٹی ہو متعد و مراکز کے ذریعہ راشن، دوائیں اور کپڑے وغیرہ تقسیم کر رہی ہے اب اس نے ارادہ کیا ہے کہ غریبوں کے مکانات بھی تعمیر کئے جائیں.ریلیف کمیٹی نے کپڑوں، دواؤں اور صابن وغیرہ کی ایک اور کھیپ تقسیم کرنے کے لئے چپراڑ کے علاقے میں روانہ کی ہے لیے (۲) - سیالکوٹ مار اکتوبر موثق ذرائع سے حاصل کی ہوئی اطلاعات کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں کے بیشتر دیہات میں وبائیں پھیلنے کے خطرے نے ضلع کے حکام کو ایک نئے مسئلہ سے دو چار کر دیا ہے.شیخ منظور احمد ڈپٹی کمشترا اور طبی افسران کی انتھک کوششوں کے باوجود تربیت یافتہ طبی عملے کی کمی کے باعث صورتِ حال اب تک قابو سے باہر بیان کی جاتی ہے.جماعت احمدیہ کی طرف سے قائم کر دہ علاقے کی واحد ریلیف کمیٹی اپنے پانچ ڈاکٹروں کی مدد سے سیلاب زدہ علاقے میں 4 اکتوبر سے کام کر رہی ہے.اس عرصہ میں ربوہ سے 1.Pakistan Times, Lahore 19 October, 1955 P: 2 - Col.7 2 Pakistan Time Lahore, 20 October, 1955 P: 3 - Col.3 پاکستان ٹائمز ۵ار اکتوبر ۹۵۵ه (ترجمه)

Page 99

AL دو ڈاکٹر یہاں پہنچ چکے ہیں نیز توقع ہے کہ مزید دو ڈاکٹر بھی عنقریب پہنچ جائیں گے.جماعت احمدیہ پہلے پہننے کے تیرہ سو کپڑے تقسیم کر چکی ہے اسی طرح مجمکہ وسائل کو بروئے کار لاکر پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کے پاس جا جا کر انہیں دوائی بھی بہم پہنچائی جارہی ہے.ریلیف کمیٹی کا کام پندرہ حصوں میں منقسم ہے معلوم ہوا ہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی زیر ہدایت جماعت احمدیہ نے اپنے مرکزی ارباب حل وعقد سے درخواست کی ہے کہ وہ امدادی عملے کے ساتھ مزید ڈاکٹر سیالکوٹ بھیجوائیں لیے (۳) - مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے سلطان پورہ ، اسلامیہ پارک ، شاہدرہ اور کویشن نگر میں ریلیف کے چار مرکز قائم کر رکھے ہیں.ان مراکز میں کپڑے ، خوراک اور ادویہ تقسیم کی جا رہی ہیں کے ۱۲.ہفت روزہ چٹان لاہور مدیر چٹان آغا شورش کا شمیری نے " لکھا :.جماعت احمدیہ نے اپنی ہمیت کے مطابق کام میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اس کا اعتراف نہ کرنا اخلاقی بد دیانتی ہوگی تھا " ۱۳ - اخبار احسان لاہور ) مجلس خدام الاحمدیه مرکز یه ربوہ کی طرف " یہ “ سے شیخو پورہ میں متعینہ ۴۰ خدام چار پارٹیوں میں تقسیم ہو کر شیخو پورہ میں مختلف مضافات کلہ رحمت خاں ، نبی پورہ، ڈیرہ سیال والا ، للوں کے ، منڈھیالی ، دین محمد کا ڈیرا ، ٹھٹھا قریشی اور جنگڑوں کے محلہ میں گئے.جہاں ایک ہزار افراد کو کھانا کھلایا گیا.دو سو افراد میں خشک اشیاء تقسیم کی گئیں ایک سو افراد کو طبی امداد بہم پہنچائی گئی اور پچیس افراد کو پینے کے لئے پانی مہیا کیا گیا.لاہور شیخو پورہ روڈ لے پاکستان ٹائمز“ وار اکتوبر ۶۱۹۵۵ پاکستان ٹائمز ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۵ء ہفت روزہ چٹان ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۵، ص۲

Page 100

AA کھل جانے اور ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے دو کاریں پانی میں پھنس گئیں جنہیں خدام نے مل کر بڑی تگ و دو سے باہر نکال له " (۳) " مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی اماری پارٹیوں نے آج مختلف مراکز میں سیلاب ہوگان کی امداد کی ایک پارٹی نے محکمہ ڈیفنس شہری کے ریسکیو آفس میں ایمر جنسی سروس کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور سارا دن ان کے ماتحت کام کرتے رہے مجلس کے سلطانپورہ مراکز کے خدام کوٹ خواجہ سعید ، مندر کالو رام ، مڑھی شیر سنگھ اور بھگت پورہ میں پانی عبور کرتے ہوئے گئے اور تین سو افراد کو امداد بہم پہنچائی اور اس کے علاوہ کچا گوشت بھی تقسیم کیا گیا ہے.(1) - لاہور - ۱۶ اکتوبر مجلس خدام الاحمدیہ ہلال پاکستان " لاہور نے اپنی امدادی سرگرمیاں اور بھی وسیع کردی ہیں.آج مجلس کی ایک پارٹی سیلاب زدگان کی امداد کے لئے قصور روانہ ہو گئی یہ پارٹی اپنے ساتھ ادویات ، پار چات اور اشیاء خوردنی مصیبت زدگان میں تقسیم کے لئے لے گئی ہے اس کے علاوہ مجلس کی آٹھ پارٹیاں لاہور کے مختلف حصوں میں امدادی کام کرتی رہیں.کوشن نگر کے علاقہ میں چودھری محمد اشرف انچارج تھانہ پورانی انار کلی کی نگرانی میں ۲۱ خدام کی ایک پارٹی نے گلیوں اور سٹرکوں میں صفائی کا کام کیا.ڈاکٹر خان صاحب وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان نے بھی خدام کے کام کا معائنہ کیا.ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب مو گا کی زیر قیادت طبی امدادی پارٹیاں بھی مختلف علاقوں میں ادویات تقسیم کرتی رہیں ، شاہدرہ ٹھٹھہ ابوالخیر، بیگم کوٹ اور نواحی بستیوں میں ۱۵۰ افراد کو کو مین کے ٹیکے اور ۵۰۰ افراد میں ادویات تقسیم کی گئیں.علاوہ ازیں محکمہ ڈیفنس انیٹی ملیریا اور پولیس کی نگرانی میں خدام، ادویات کی تقسیم شہر کی صفائی اور پار چات تقسیم کرنے میں مصروف رہے.امیر جماعت احمدیہ لاہور ے اخبار احسان کا ہور، ار اکتوبر 2ء کے اخبار احسان کا ہوں.۱۹ اکتوبر ۱۹۵۵

Page 101

چودھری اسد اللہ خانصاحب نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر کے خدام کو مناسب ہدایات دیں جن علاقوں میں خدام نے امدادی کام کیا ہے.ان میں سلطانپورہ ، شاد باغ ، وسن پورہ ، اور احاطہ تھانیدار سنت نگر اور راج گڑھ کے علاقے شامل ہیں.(۲) - " مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی امدادی پارٹیوں نے آج بھی مختلف سنٹروں میں سیلاب زدگان کی امداد کا کام جاری رکھا.ایک پارٹی نے محکمہ سول ڈیفنس کے ریسکیو آنس میں ایمر جنسی سروس کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور سارا دن اُن کے ماتحت کام کرتے رہے مجلس کے سلطانپورہ سنٹر کے خدام کوٹ خواجہ سعید، مندر کالو رام ، مڑھی شیر سنگھ اور بھگت پورہ میں پانی کو عبور کرتے ہوئے گئے اور تین صد افراد کو طبی امداد بہم پہنچائی اور اس کے علاوہ کچا گوشت بھی تقسیم کیا گیا.شاہدرہ سینٹر کے خدام ڈھیر کر دل ، جاوا، در گا ہی گل ، گورنمنٹ رائٹس فارم کا شاہ کاکو گئے اور تقریبا ڈیڑھ صد افراد کو کونین کے ٹیکے لگائے گئے.قصور کے سینٹر میں کام کرنے والے خدام قصور، بنگلہ جان ، گنڈا سنگھ وہاں ، میرن نامدار والا ، بازید پور کھریر اور جھوڑا میں گئے اور بعض جگہ ۱۷ میل تک پیدل پانی میں سفر کیا اور سیلاب زدگان تک پہنچے اور انہیں ہر قسم کی امداد پہنچائی گئی ہے.A (۳) - " لاہور ۱۰ر اکتوبر - آج بھی مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی تین پارٹیاں مختلف جگہوں پر امدادی کام میں مصروف رہیں.سلطان پورہ ریلیف سینٹر سے شادہ باغ ، مصری شاہ ، وسن پورہ اور تاج پورہ کے علاقوں کو طبی امداد بہم پہنچائی گئی.مستورات کی ایک جماعت نے شاہدرہ اور اس کے ملحقہ علاقے میں 4 استحق افراد میں ہار جات اور ایک سو مریضوں میں دوائیں تقسیم کیں اس علاقہ میں خدام کے ایک وفد نے بھی دیا سلائی اور موم بتیاں تقسیم کیں.ربوہ سے خدام الاحمدیہ کا ۱۷ افراد پرشتمل ایک قافلہ آج گیارہ بجے شاہدرہ پہنچ گیا ہے.نے ہلال پاکستان لاہور ۱۸ اکتوبر ۵ء سے " ہلال پاکستان، لاہور ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۵ سے " ہلال پاکستان ۲۱ اکتوبر ۹۵۵له

Page 102

۹۰ ۱۵- اخبار تسنیم او را نابود ک امام دارای مراکز میں سیلاب زدگان لاہور شاہدہ کے کے لئے خوراک اور ادویات کا مناسب انتظام کہ دیا گیا ہے.سرکاری محکموں کے علاوہ متعد د تنظیموں مثلاً صوبائی میڈیکل ایسوسی ایشن کیمیسٹ اینڈ ڈسپنسرز یونین ، خدام الاحمدیہ نے اپنی امدادی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں.۱ - اخبار نوائے پاکستان لاہور پیر کرمی با ضلع سیالکوٹ میں اس وقت تک اخبارات میں جو عام انداز سے نقصانتا کے ظاہر کئے گئے ہیں اب جوں جوں شکر گڑھ اور بدوملہی کے بدترین سیلاب زدہ علاقوں کی آمد ورفت بحال ہو رہی ہے.وہ اندازے حقیقی جانی و مالی نقصان کے مقابلے میں کچھ حقیقت نہیں رکھتے.ان علاقوں کے لوگوں کی ہر چیز پانی کی نذر ہو چکی ہے.ضرورت ہے که سرسیاسی، مذہبی، سماجی جماعت اپنے تباہ حال بھائیوں بہنوں کی امداد کے لئے سرگرم عمل ہو.آج چودھری نذیر احمد باجوہ ایڈووکیٹ صدر احمدیہ ریلیف کمیٹی ایک ہزار نئے و پرانے گرم و سرد کپڑے لے کہ رعیہ کے علاقہ میں تقسیم کرنے کے لئے نارووال پہنچے گئے ہیں اور شکر گڑھے میں جہاں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے ابھی تک کسی جماعت کی طرف سے وہاں کسی قسم کی امداد نہیں پہنچی.اس لئے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ شکر گڑھ میں کی بھاری تعداد میں گرم کپڑے بھیجوانے کا فوری انتظام کیا جائے.دس معماروں نے ریلیف کمیٹی کو ایک ہفتہ کے لئے اپنی خدمات پیش کی ہیں.خدا کا خوف رکھنے والوں سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جانوں اور اپنی اولادوں کی جانوں کو آفات سے بچانے کے لئے اپنے تنگے بھائی بہنوں کے لئے گرم و سرد کپڑے عطا کریں گے تا کہ وہ سر پہ آئی ہوئی سردی سے محفوظ رہ سکیں.ظہور احمد سیالکوٹ.: (1) " لائل پور ۷ اکتوبر مولوی محمد احمد ثاقب ۱۷ اخبار نوائے وقت" لائل پور کی قیادت میں خدام الاحمدیہ رتبہ کا پہلا تسنیم" کا پور ۲۳ اکتوبر امت سے نوائے پاکستان ۲۴ اکتوبر شار مست.

Page 103

۹۱ امدادی و فد جو چالیس رضا کاروں پر مشتمل ہے ضلع شیخو پورہ کے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے لائل پور سے روانہ ہو رہا ہے.وقد میں ڈاکٹر ، تیراک اور معمار ہیں.وفد کے قائد نے مصیبت زدگان سے اپیل کی ہے کہ خدام الاحمدیہ کے شعبہ خدمت خلق سے رجوع کر دینا (۲) - " احمد یہ ریلیف کیمپ کمالیہ نے تین سو مریضوں کو کونین کے ٹیکے لگائے اور نواحی دیہات کے کنوئیں صاف کرنے کے لئے بیس پونڈ پوٹاشیم پر منگنیٹ صرف کی تیرہ کالجھیٹ خدام نے کیمپ آفیسر چودھری محمد نوانہ چیمہ کو آج کمالیہ میں اپنی خدمات پیش کہیں.اسی جماعت کے شیخو پورہ گروپ نے پانچ سو افراد کو خوراک اور دواؤں کی امداد بہم پہنچائی.چھ من روٹیاں ، تین سو روپے کی دوائیں اور دوسو روپے کے کپڑے سیلاب زدگان میں تقسیم کئے گئے شیر (۳).کمالیہ ( ڈاک سے، خدام الاحمدیہ لائل پور نے اپنے مقامی امدادی کیمپ کمالیہ کے ۱۴۹ سیلاب زدگان میں ادویہ اور ۲۰ سیر مجھنے ہوئے چنے تقسیم کئے ہے" (۴)." احمد یہ ریلیف کیمپ کمالیہ کے خدام نے ۴۵ میل کی مسافت پیدل طے کی اور بوت کمالیہ، حمدانه خورد ، چک غلام حسین ، دیروانه ، عظمت شاه ، چک قا در بخش، چک جو نیاں ، چک حکیم عظیم شاہ ، باگوانہ ، پریم ستی - چک ۷۲۴ گ.ب ، چک ۷۱۲ گرب چک ۷۲۵ گ.ب ، کے ۵۹ کنووں میں دوائی ڈالی.لوگوں کو طبی امداد پہنچائی.ان دیہات میں تقریباً تین سو مکانات منہدم ہو گئے ہیں (۵)." انجمن خدام الاحمدیہ نے کمالیہ کے علاقہ میں چک ۷۱۶ د ۱۷ ، ۱۸، ۷۱۹ اور ۷۲۰ میں کنوؤں میں جراثیم کش ادویات ڈالیں.مریضوں کو طبی امداد بہم پہنچائی ہے اور خدمت خلق کے اس گروپ میں ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر اور سینیٹری انسپکٹر کو ے نوائے وقت لائل پور 4 اکتو بر حواء منہ کے نوائے وقت لائل پورے ار اکتوبر شراء ما سے نوائے وقت لائل پور مار اکتوبر ت سے نوائے وقت لائل پور ۱۹ اکتو بر شراء مت

Page 104

۹۳ شامل کر دیا ہے.کمالیہ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، شور کوٹ اور جڑانوالہ کے معزز معاونین نے سیلاب نہ دکان کو خوراک ، ادویات اور کپڑوں کی امداد دی ہے.۱- اخبار نادرست منٹگمری " جماعت احمدیہ کا کیمپ ۱- و " " اوکاڑہ اور دیپالپور کے درمیان اوکاڑہ سے 9 میل کے فاصلے پر جماعت احمدیہ نے چک جے کے مقام پر ایک کیمپ کھولا ہے.جس کی افادیت اس لئے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ کیمپ سیلاب زدہ علاقے کے بالکل کنار ہے پر ہے.یہاں گذشتہ آٹھ روز میں کافی آدمیوں کو امداد پہنچائی گئی ہے.طبی امداد کے سلسلہ میں ڈاکٹروں نے ساڑھے تیرہ سو افراد کا اب تک علاج کیا ہے.اُن کو مشتمل امداد اور دوائی جہیا کی.خدام الاحمدیہ کے رضا کار بھی سید عزیز احمد صاحب اور ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کی معیت میں مفلوک الحال لوگوں کی ادویات اور دال چاول کے علاوہ پارجات سے بھی امداد میں مصروف ہیں میر ۱۹ اخبار کو ہستان " راولپنڈی ، سیالکوٹ چار اکتوبر (نامہ نگار ) ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے ضلع میں سیلاب سے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے ۱۷ امدادی مرکز قائم کئے ہیں.ساتھ ہی انہوں نے یہ اپیل کی ہے کہ لوگ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے دوائیاں ، گرم اور سرد کپڑے اور لحاف جمع کریں ، ادھر احمد یہ ریلیف کمیٹی نے تین سو گرم کپڑے اور دوائیاں ڈپٹی کمشنر کے حوالے کی ہیں اور اس بات کی اجازت حاصل کر لی ہے کہ کمیٹی یہ اشیاء خود سیلاب زدہ لوگوں میں تقسیم کرنے کی ہے.سے نوائے وقت کامل پور ۱۲۰ اکتو برش شهداء ما - سه اخبار خدمت منتشگیری در نومبر دارد اخبار نوائے وقت لاہور اور نومبر ۵۵ات و اخبار نوائے وقت“ لاہور 4 نومبر ۹۵ سے اخبار کو بستان راولپنڈی ۷ار اکتوبر ۹۵۵ه ما

Page 105

۹۳ ۲۰ - اخبار تعمیر راولپنڈی " مجلس خدام الا حد یہ راولپنڈی کی طرف سے سیلاب زدگان کی امداد راولپنڈی در نومبر مجلس خدام الاحمدیہ راولپنڈی نے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ایک ڈاکٹر کو دس روزہ دورہ کے لئے ضلع شیخو پورہ میں بھیجوایا ہے.ان کے ہمراہ ضروری ادویات سوا چار سو کپڑے جن میں کمبل، گرم کوٹ اور لحاف وغیرہ اور دیگر استعمال کی اشیاء ہیں بھیجوائی گئی ہیں.ان کے دورہ کے انفنس تام پر دوسرے ڈاکٹر کو مزید سامان کے ساتھ بھجوایا جائے گا ۲۱ - مجلس خدام ال حمدیہ کراچی نے اپنی مرکزی اختیار ما زنگ نیوز کراچی اعظم کو جوسی بندہ علاقوں میں بیلی کا تنظیم کام کر رہی ہے.ریلیف کا کام جاری رکھنے کے لئے ایک ہزار روپے کی رقم ارسال کی ہے.یہ رقم پہلی قسط کے طور پر بھجوائی گئی ہے مزید اقساط دو تین دن کے اندر اندر بھجوائی جائیں گی مصیبت زدگان سیلاب میں تقسیم کرنے کے لئے مجلس نے کپڑے بھی جمع کئے ہیں مجلس کا ایک عہدے دار کل اس علاقے کے دورے پر روانہ ہو گیا ہے جسے سیلاب سے شدید نقصان پہنچا ہے.دورے سے واپس آنے کے بعد بعد وہ رپورٹ پیش کرے گا کہ مجلس کو کسی قسم کی امداد ہم پنہچانی چاہیئے.(۲) - احمدیہ نو جوانوں کی سماجی تنظیم مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے قائد مرزا عبدالرحیم بیگ نے گورنر جنرل پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا گورنر مغربی پاکستان مسٹر مشتاق احمد گورمانی مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خانصاحب اور ریلیف کمشنر مسٹر آئی یو خان کی خدمت میں حسب ذیل تار ارسال کیا ہے :- " سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث جو نقصان ہوا ہے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی اس پر انتہائی افسوس کا اظہار کرتی ہے اور ان لوگوں سے جو سیلاب کا شکار ہوئے که اخبار تعمیر" راولپنڈی ا ر نومبر وار کے مارننگ نیوز کراچی ۲۵ اکتو بر هشداد

Page 106

۹۴ ہیں پوری ہمدردی رکھتی ہے.مجلس کراچی نے اپنی مرکز تنظیم کو جو سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کام کر رہی ہے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ایک ہزار روپے کی پہلی قسط ردانہ کی ہے.(ترجمہ) - ۲۲ - اخبار جنگ "کراچی کراچی ۲۵ اکتوبر رای پی پی مجلس خدام احمدیه کراچی نے مغربی پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے اپنی مرکزی جماعت کو ایک ہزار روپیہ ارسال کیا ہے مجلس نے متاثرہ لوگوں میں تقسیم کے لئے کپڑے بھی جمع کئے ہیں.مجلس کا ایک خاص نمائندہ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے لئے روانہ ہو گیا جو واپس آکر اپنی رپورٹ پیش کرے گا.بتایا گیا ہے کہ ملی مذکور کی شاخیں سارے مغربی پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد کا کام کر رہی ہیں.۲۳ اخبار نئی روشنی کراچی کراچی اور اکتوبر مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کا ایک وفد جو دو ممبروں پرشتمل تھا.پرسوں شام ناظم خدمت خلق مرزا محمد اکرم کی قیادت میں سیلاب زدہ علاقوں میں کپڑے اور دوائیں تقسیم کرنے کے لئے چناب ایکسپریس کے ذریعہ روانہ ہو گیا.وفد اپنے ساتھ ایک ہزار کپڑے جن میں قمیص ، کوٹ، پتلون، کمبل اور سوٹٹیر وغیرہ شامل ہیں اور دو ہزار پیلو ڈرین کی گولیاں اور تین ہزار سلفا میز اتھین کی گولیاں، ایسپرین اور کو نہین انجکشن نے کہ گیا ہے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کی طرف سے کپڑوں اور دواؤں کی یہ پہلی قسط ہے جو سیلاب نے وہ علاقوں کو روانہ کی گئی ہے.مجلس کے رضا کار اپنے قائد مرزا عبدالرحیم بیگ کی قیادت میں کپڑے اور دوائیں جمع کرنے کے کام میں ہمہ تن مصروف ہیں.مجلس کراچی نے اپنی مہم مرکزی ہیڈ کوارٹر ربوہ کی اس اپیل کے بعد کہ وہ مجالس جو حالیہ سیلاب سے متاثر نہیں ہوسکی سیلاب زدگان کے لئے زیادہ سے زیادہ امداد روانہ کریں ، تیز کر دی گئی ہے.یہ امر شه مارتنگ نیوز کراچی ۲۵ اکتوبر شراء ايضا " امروز کراچی ۲۶ اکتوبر شراء سے " جنگ " کراچی ۲۷ اکتو بر لاء ایضاً " ٹائمز آف کراچی " ۲۶ اکتوبر ۵

Page 107

۹۵ قابلِ ذکر ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کراچی اس سے قبل ایک ہزار روپے کی قسط روانہ کر چکی ہے.امریکا گذشتہ ماہ میں پانچ اکتوبر کو اتفاق سے لاہور - -۲۴ اخبار قلندر پشاور چلا گیا اور ہر اکتوبر کاسیلاب آگیا.میں بھی کئی 4 ونوں تک وہاں گہ کا رہا حتی کہ تمام راستے ریل اور لاریوں کے بالکل بند ہو گئے لاہور سے جو روزنامه اخبارہ نکلتے ہیں لاہورہ تک ہی محدود تھے اور سیلاب کی خیریں سرکاری یا کچھ سنی سنائی تھیں جو سخت خطر ناک تھیں.ایک روزنامے کے دفتر میں یہ بھی دیکھا کر تا تھا کہ بعض جماعتوں کے پروپیگنڈا سیکرٹری یا بعض لوگ بذات خود تشریف لائے کہ ہماری جماعت نے سیلاب زدگان لوگوں کے لئے یہ کیا وہ کیا.اپنے نام کا مراسلہ بنا کر دے جاتے.اگر اخبار میں دوسرے دن ان کا مراسلہ نہ ہوتا تو وہ صبح سویرے ہی لڑائی کرنے دفتر تشریف لانے کہ میں کل فلاں خبر دے گیا تھا وہ نہیں چھپی.اور جماعتوں کی طرف سے ٹیلیفون آتے.ان باتوں سے صاف ظاہر ہوتا کہ یہ لوگ خدا سے کچھ خوف نہیں کہ رہے بلکہ نام اور بعد میں انعام کے لئے سارا دھندا کر رہے ہیں.تقریباً پندرہ دن کے بعد کچھ راستہ بنا تحقیق سے پتہ چلا یہ راستہ بذریعہ لاری لاہور سے شیخو پورہ اور وہاں سے گوجرانوالہ ہے.وہاں سے پشاور کے لئے گاڑی ملنے گی یا لاہور سے اسی راستہ پر سر گو دیا اور وہاں سے چناب ایکسپر میں رات کو ملے گی ، یکی نے فیصلہ کر لیا کہ سرگودہا کے راستے ہی جاؤں گا.مبادا گوجرانوالہ سے پشاور کے لئے سیدھی گاڑی نہ ملے.چنانچہ میں سرگودہا کا ٹکٹ لے کر لاری پر کراؤن کیس کے اڈے سے سوار ہو گیا.۱۲ بجے شیخو پورہ پہنچا.ون وے ٹریفک تھا.اور سٹرک پر ہزاروں مخلوق خدا بے یارو مددگار پڑی تھی.سڑک کے دونوں طرف پانی ہی پانی میلوں تک نظر آرہاتھا.نصف راستہ طے کر لیا تو سڑک کے کنارے ایک رضا کاروں کا کیمپ لگا تھا.رضا کار " نمی روشنی" کراچی اور اکتو بر شده نیز پاکستان سٹینڈرڈ کراچی ۲۸ / اکتوبر.

Page 108

۹۶ کیمپ سے نکل کر دیوانہ وار اس سمندر کو چیر کہ چار چار پانچ پانچ فٹ پانی میں سروں پر کھانے کا سامان ، دوائیاں ، کپڑے لے کر سیلاب سے تہ تیغ دیہاتیوں کی طرف بے خوف خطر جا رہے تھے.کیمپ کا بورڈ میں نے غور سے پڑھا "رضا کاران انجمن احمد یہ ربوہ " میرا دل غصہ سے تلملا اُٹھا یہ کیا غضب ہے کیا اندھیر نگری ہے یہ لوگ ہماری نظر میں خارج از اسلام ہی سہی مگر اس وقت یہ میرے خیال میں سب سے زیادہ خدمت کر رہے ہیں مگر پندرہ دن سے کسی اخبار نے یہ لکھنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی مجھے یہ خیال پیدا ہوا تو میں نے ایک فرشتہ صورت باریش سے پوچھا.صاحب یہ ربوہ کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا یہ کافروں کی بستی چنیوٹ کے دریا کے اس پار آئے گی مگر میرا ان لوگوں سے اختلاف ہے لیکن مجھے شوق پیدا ہوا یہ کافروں کی بستی ضرور دیکھوں گا.میں نے اس باریش کو کریدنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مولوی صاحب ہیں اور کٹر احماری ہوا کرتے تھے میں نے سوال کیا اجی آجکل وہ جماعت احرار کہاں ہے انہوں نے فرمایا خدا کی مرضی وہ آجکل دنیا میں نہیں اور اس کے لیڈر تحریک ختم نبوت کے بعد جہاں سینگ سمائے موت کے دن پورے کر رہے ہیں.نہیں نے ایک سوال اور کیا اجی مولوی صاحب اگر در توہ دیکھنا ہو تو.انہوں نے فرمایا بابا کیا دیکھو گے.ان کا خلیفہ المسیح جب سے اس پر حملہ ہوا ہے باہر نہیں نکلتا اور اگر وہاں کسی کو پتہ چل جائے کہ تم مسلمان ہو تو مشکل بن جائے گی.یہ بچہ اسرار باتیں سن سن کر میرا ارادہ پکا ہو گیا خواہ کچھ ہی ہو یہ کا فروں کی بستی ضرور دیکھوں گا.چنیوٹ کے اڈے سے لاری آگے جو ہوئی دریائے چناب کا پک آ گیا وہ راوی والی ہر بہر پانی کی نہ تھی معمولی پانی تھا جیسے ایک ندی ہے دریا نہیں.میں نے عنوان اپنے مضمون کے لئے دل میں قائم کر لیا (کافروں کی بستی ندی کنارے ) ہار کر کے تھوڑی دیر بعد ربوہ کی آبادی آنی شروع ہو گئی.کہیں نے کلینر کو عرض کیا مجھے ربوہ انتہنا ہے گو میرا ٹکٹ سرگودہا کا تھا میرے کہنے پر داری سے سامان اتارا.اس لاری سے میں اکیلا ہی اُترا.وہاں دو تین آدمی معزز موجود تھے تالیا دوسری طرف جانے کے لئے بس کے انتظار میں تھے انہوں نے مجھے

Page 109

سے دریافت کیا مولوی صاحب کہاں جاتا ہے ؟ کیا آپ احمدی ہیں ؟ نہیں نے برجستہ جواب دیا جانا تو بھائی پشاور ہے اور احمدی بھی نہیں یہاں صرف کافروں کی بستی دیکھنے اترکھرا ہوا ہوں کیا اس بستی میں کوئی دکان ہے جہاں رات بسر کر سکوں اور کیا یہاں سامان اُٹھانے کے لئے مزدور نہیں ہوتے وہ میرے سامان پر جھپٹ پڑے ہم آپ کے مزدور ہیں.سامان اُٹھا لیا اور چل پڑے تھوڑی دور جا کر ایک احاطہ کے اندر ایک کمرہ میں میرا سامان رکھ دیا.وہاں کے انچارج کو بلا کر اطلاع دی.یہ مہمان ہیں.انہوں نے دو آدمی بلائے جنہوں نے ایک چار پائی پر میرا بستر کھول کر لگا دیا کرسیاں میز درست کر کے منٹوں کے اندر پر تکلف چائے لا کہ پیش کر دی.بیس سے سامان لانے والے معزز مزدور جا چکے تھے.یہ قیافہ درست نکلا انہوں نے دوسری طرف سے آنے والی پس پر جانا تھا.پہلی بسم اللہ سے میرے دل پر جانے والوں کی اس حرکت کا گہرا اللہ ہوا چائے کے ساتھ میں نے منتظم صاحب کو اپنا کنزم کترم شروع کر دیا.جناب یہ تو فرمائیے سُنا ہے مدت سے ہیڈ آف دی احمد یہ یعنی حضرت میرزا بشیر الدین صاحب محمود خلیفة المسیح الثانی کو کسی نے نہیں دیکھا انہوں نے جواب دیا غلط ہے آپ ابھی ایک منٹ کے اندر اُن کو مل سکتے ہیں.میں چائے آدھی تیتر آدھی بٹیر کر کے ان کے ساتھ ہو لیا حضرت مسجد میں تشریف فرما تھے.سینکڑوں آدمی ارد گرد بیٹھے تھے قابل عمل نصیحتیں کی جا رہی تھیں سب سے زیادہ مسئلہ سیلاب کے مصیبت زدوں کو ہر قسم کا آرام ، کھانا ، سردی سے بچانا، دوائیاں پہنچانا تھا، یہ گفتگو سن کہ میں بہت متاثر ہوا.میں صرف علیک سلیک کر کے بیٹھ گیا تھا میرا خاص مقصد کوئی تھا ہی نہیں میں دُور تھا ایک غیر ملکی آدمی غالباً کوئی جرمن تھا زیادہ توجہ اس طرف تھی حق بھی یہی تھا کیونکہ ہزاروں میں سفر کر کے آیا ہوا تھا.تھوڑی دیر بعد شام سے کچھ ہی پہلے وہ تشریف لے گئے اور میں اپنی قیام گاہ پر آ گیا وہاں ہی نمازہ ادا کی اور ساتھ لائی ہوئی اخباروں کو پڑھتے پڑھتے نماز عشاء ادا کر کے سو گیا.صبح سویرے اُٹھا خود بخود باہر نکل گیا.اندھیرا ہی تھا.بستی سے پہاڑ کے دامن تک پہنچ گیا.دامن کے ساتھ چلتے چلتے

Page 110

٩٠ اسی ندی کے کنارے پہنچا.رفع حاجت کے بعد نمانہ ادا کی اتنے میں آفتاب نے آنکھ دکھائی واپس آبادی کے پیچ و بیچ معلومات حاصل کرتا یہ مکان کیلئے نہ مین کون دیتا ہے کسی تریخ پر ملتی ہے لب لباب میری تحقیقات کا یہ نکلا کہ ایک پورے نظام کے ماتحت یہ سب کچھ ہو رہا ہے.میں اپنی آرام گاہ پر پہنچا وہاں میری انتظار چائے کے لئے تھی.چائے سے فارغ ہوا کپڑے بدلے اور منتظم کو عرض کیا کہ میں جماعت کے دفتروں کو دیکھ سکتا ہوں انہوں نے جواب دیا کیوں نہیں ان کے ساتھ ہو لیا دختر کیا تھے ایک سیکرٹریٹ جیسے چند دن پہلے یہاں صوبہ سرحد کا سیکرٹریٹ تھا.یکی ایک ایک دفتر میں گیا اور دیکھا بابو لوگ اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس سارے سیکرٹریٹ کے انچارج مرزا عزیز احمد ہیں جو ڈپٹی کمشنر رٹائرڈ ہیں.پھر پھرا کر مجھے امور عامہ کے دفتر لے جایا گیا.میں نے دروازہ پر بورڈ پڑھا.اندر جانے پر مجھے گریسی پیش کر دی گئی.میں بیٹھ گیا پانچ منٹ کے بعد میرے لئے چائے آگئی میں نے عرض کی چائے سے فارغ ہو کر آیا ہوں.دفتر میں بیٹھے ہوئے صاحب بڑی دھیمی آواز میں فرمانے لگے (جی آج کل چائے تو ایک فیشن ہے آجکل چائے تکلیف نہیں دیتی نوش فرمائیے ایک دو بزرگوں کو انہوں نے آواز دی کہ تشریف لاکہ میرے ساتھ چائے میں شریک ہو جائیں.چائے کے ساتھ ساتھ میں نے دریافت کیا.کیا آپ اس دفتر کے انچارج ہیں انہوں نے جواب دیا اس دفتر کے انچارج مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم اے ہیں جو سیلاب زدہ لوگوں کی امداد کو بذات خود دیکھنے گئے ہوئے ہیں لیکں اُن کا اسسٹنٹ ہوں میرا نام خادم حسین ہے اور یکن صوبہ سرحد میں کافی عرصہ گزارہ کہ اب ملازمت سے فارغ ہو کہ یہاں آیا ہوں.......مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں رسال پور میں کسی اچھے عہدے پر تھے اور یہی وجہ ہے کہ دفتر کا انتظام خاطر خواہ ہے.یہ تجربہ کار لوگ ہیں، یکی نے سیلاب کے لئے جو کچھ یہاں ہو رہا ہے پوچھا.انہوں نے مجھے سٹال دکھایا کپڑوں اور رضائیوں کے انبار لگے ہوئے تھے جو ہیڈ آف جماعت احمدیہ کی آواز پر ان کے معنقد خود بخود لا رہے

Page 111

٩٩ ہیں، میں اس کام کی رفتار دیکھ کر بہت خوش ہوا انہوں نے مجھ سے یہاں آنے کی وجہ دریافت فرمائی یا کوئی اور خدمت ہو تو میں نے عرض کی کہ میرا کچھ مقصد نہیں صرف سیر اور یہاں کے حالات کا جائزہ لینے مجھ سے بہتیرا دریافت کیا گیا میں کیا کام کرتا ہوں میں نے صرف اتنا جواب دیا مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتا ہوں.پشاور رہتا ہوں اور ئیس بھلا میں کب پکڑائی دینے والا تھا.یہاں ایک بات ضرور عرض کرنے کے قابل ہے سب لوگ کافر بڑے سے بڑا چھوٹے سے چھوٹا، امیر ہو یا غریب نماز پوری پابندی سے ادا کرتے تھے حقہ یا سگریٹ مجھے وہاں کوئی پیتا نظر نہیں آیا.دفتر میں آکر بڑی خندہ پیشانی سے مجھے خود آکر مرزا عزیز احمد صاحب بھی ملے.میں نے اجازت چاہی خادم حسین صاحب نے فرمایا کب تک ہمیں یہاں آپ کی خدمت کا وقت ملے گا میں نے جواب دیا میں صاحب ابھی چند منٹ کے بعد جانے والا ہوں میں واپس آرام گاہ پہنچا.سامان درست کیا اور آدمیوں نے میرا سامان اٹھایا اور مجھے سرگودہا جانے والی بس پر سوار کر دیا.میں خاموش ہیں کے اندر اور رات گاڑی پہ یہی سوچتا رہا یہ اچھے کا فر ہیں نماز کے پابند اچھے اخلاق F کے مالک اچھی طرح ایک نظام کے ماتحت خدمت خلق کا جذبہ موجود ہے.الغرض شهداء میں برصغیر پاک و ہند کے احمدیوں نے اپنے اہل وطن کی ایسی مثالی رفاہی خدمات انجام دیں کہ ملکی پریس نے بلا امتیازہ مذہب و ملت وطن عزیزیہ کی اس خادم جماعت کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا.خلاصہ نه اخبار تلندر پشاور ۲۶ نومبر ۹۵ او سجواله المفضل جلسه سالانه ۱۹۵۵ء مد۲۰۱

Page 112

1- فصل پنجم صنعت و حرفت کی ترویج کیلئے خصوصی تحریک ا حضرت مسلم موجودی کا ہے عظیم اسان کا نام بیت سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ حضور مسلمانان ہند خصوصاً جماعت احمدیہ میں صنعت و حرفت کے فروغ اور ترقی کے لئے ہمیشہ جدوجہد فرماتے رہے متحدہ ہندوستان کے دور میں آپ نے قادیان میں تحریک جدید کے زیر انتظام لوہے ، لکڑی اور چمڑے کے کار خانے جاری کرائے.اس کے علاوہ مختلف احمدی صناعوں کی کوشش سے شیشہ سازی اور دوسری اشیاء کے متعدد کارخانے شروع ہوئے.مثلاً سٹالہ ہوزری جس کے ذریعہ ایک ہزار کے قریب افراد کو روز گار میسر آیا اور متعدد گھروں میں مشینیں نصب ہوئیں.اس کارخانہ نے مکرم بابو اکبر علی صاحب جیسے لائق اور قابل انسان کے ہاتھ میں بہت ترقی کی.قادیان کا مشہور کار خانہ میک ورکس تھا جس کی وجہ سے قادیان کی صنعتی شہرت دُور دُور کے شہروں تک پھیل گئی تھی.اس کے علاوہ اکبر علی اینڈ سنتر تنزل سرویس احمد برادرز ، پیر در کس ، مکینیکل انڈسٹریز، آئرن سٹیل میٹل وغیرہ کارخانے لوہے کا کام کرتے تھے.جگہ جگہ بھٹیاں جل رہی تھیں.لوہا پگھل رہا تھا اور مختلف اشیاء ڈھل رہی تھیں.کہیں آٹا پیسنے کی مشینیں نصب تھیں.کہیں روئی دھننے کی کلیں اور کہیں لکڑی چیرنے کی مشینیں چل رہی تھیں.موسم گرما میں متعد د سوڈا واٹر فیکٹریاں کام کرتی تھیں.معطریات کے لئے پرفیومری کا کارخانہ تھا.ایک کارخانہ شیشے کا بھی تھا.عرض قادیان کی مقدس نیستی روحانی اور تعلیمی اعتبار ہی سے نہیں صنعتی طور پربھی ملک کا ایک مشہور مرکز بن چکی تھی.اه مرکز احمدیت قادیان صفحه ۴۱۶ ۷۰ الم از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم -

Page 113

۱۰۱ اور یہ صنعتی سرگرمیاں حضرت مصلح موعود کی خصوصی تو جہ ، شوق اور سر پرستی کی زمین مینت تھیں.اس سلسلہ میں حضور کے دلی جذبات کیا تھے ؟ اس کا کسی قدر اندازه حضور کی مندر جہ ذیل تقریر سے بخوبی عیاں ہے حضور نے مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- میں نہیں جانتا کہ دوسرے دوستوں کا کیا حال ہے.لیکن میں تو جب ریل گاڑی میں بیٹھتا ہوں.میرے دل میں حرکت ہوتی ہے کہ کائش یہ ریل گاڑی احمدیوں کی بنائی ہوئی ہو اور اس کی کمپنی کے وہ مالک ہوں.اور جب میں جہاز میں بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں کاش یہ جہاز احمدیوں کے بنائے ہوئے ہوں.اور وہ ان کمپنیوں کے مالک ہوں.میں پچھلے دنوں کراچی گیا.تو اپنے دوستوں سے کہا کاش کوئی دوست جہاز نہیں توکشتی بنا کہ ہی سمندر میں چلانے لگے.اور میری یہ حسرت پوری کر دے.اور.میں اس میں بیٹھ کر کہ سکوں کہ آزاد سمندر میں یہ احمدیوں کی کشتی پھر رہی ہے.دوستوں سے یکس نے یہ بھی کہا.کاش کوئی درس گنہ کا ہی جزیرہ ہو جس میں احمدی ہی احمدی ہوں اور ہم کہہ سکیں کہ یہ احمدیوں کا ملک ہے کہ بڑے کاموں کی ابتدا پھوٹی ہی چیزوں سے ہوتی ہے.یہ ہیں میرے ارادے.اور یہ ہیں میری تمنائیں.ان کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کام شروع کریں.نگہ یہ کام ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ ان جذبات کی لہریں ہر ایک احمدی کے دل میں پیدا نہ ہوں اور اس کے لئے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ نہ کی جائے.دُنیا چونکہ صنعت و حرفت میں بہت ترقی کر چکی ہے اس لئے احمدی جو اشیاء آب بنائیں گے وہ شروع میں مہنگی پڑیں گی.مگر باوجود اس کے جماعت کا فرض ہے کہ انہیں خرید ہے یہ ۱۹۴۷ء میں ملک کے بٹوارا کے بعد یہ کارخانے قادیان میں کہہ گئے.لیکن اس کے.کے ۱۱/۱۰/ را رپورٹ مجلس مشاورت منعقده ۱۰ ۱۱۱ ۱۲ ر ا پریل ۱۹۳۶ ۱۲۹ ۱۳۰

Page 114

١٠٢ با وجود قادیان اور مشرقی پنجاب کے احمدی صناعوں نے ہمت نہیں ہاری اور بدلے ہوئے حالات میں پاکستان میں پہنچ کر ملک و قوم اور جماعت کی خدمت کے لئے پھر سے اپنی صنعتی سرگرمیاں شروع کر دیں.جہاں تک جماعت کے نئے مرکز ربوہ کا تعلق ہے اس نئی بستی میں بھی ایک محدود پیمانے پر صنعت و حرفت کے کاموں کی داغ بیل ڈالی گئی.مگر ان پر صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا کنٹرول تھا.لیکن اس سال سیدنا حضرت مصلح موعود نے سفر یورپ سے واپسی کے بعد تخلص احمدی صناعوں کو تحریک فرمائی کہ وہ یہاں اپنے کارخانے جاری کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ سے رابطہ قائم کریں انہیں مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں گی.یہ تحریک حسب ذیل الفاظ میں تھی :- بسم الله الرحمن ! هوالت اصر ربوہ میں صنعتوں وغیرہ کے متعلق پہلے یہ طریق تھا کہ صدر انجمن احمد یہ کوشش کرتی تھی کہ ان کو اپنے ہاتھ میں رکھے.لیکن اب اگر مخلص احمدی صنایع یہاں کوئی صنعت شروع کرنا چاہیں تو ان کو اس کی اجازت دی جائے گی بشرطیکہ وہ اپنی صنعت میں نیک آدمی بطور بیر لگائیں جو فسادی اور شرارتی نہ ہوں.اس سلسلہ میں صدر انجمن احمد یہ مناسب سہولتیں بھی بہم پہنچائے گی.مثلاً کارخانہ کی عمارت وغیرہ کے لئے زمین ربوہ کی قیمتوں کے لحاظ سے نسبتاً سستے داموں دے گی.خواہش مند ا حباب جلد درخواستیں بھیجوائیں بلکہ مخلص احباب کا فرض ہے کہ وہ اس طرف فوری توجہ کریں تاکہ ربوہ کی آبادی کی صورت پیدا ہو خصوصا کپڑا بننے والے لوگ اور مستری جو لینتھوں ) LATHE ) وغیرہ کا کام کرتے ہیں جلد توجہ کریں یہ ثواب کا ثواب ہے اور فائدہ کا فائدہ.قادیان میں جن لوگوں نے کارخانے جاری کئے تھے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بہت کچھ فائدہ اٹھایا تھا.مرزا محمود احمد نے اصل تحریر شعبه تاریخ احمدیت " ربوہ میں محفوظ ہے ۶۱۹۵۵ - ۱۰ - 19

Page 115

حضور کی یہ تحریک پہلی بار الفضل مورخه ۲۱ اکتوبر ۱۹۹۵ (۲۱ را خار ۸۳) صفحہ ۵ پر شائع ہوئی.الفاظ مبارک حضور پر نور ہی کے تھے مگر اعلان قائم مقام ناظر امور عامہ کی طرف سے تھا.نوجوانان احمدیت کو عبادت کی خصوصی تحریک نے صلہ موجود نے اوائل نومبر حضرت مصلح تحریک فرمائی کہ :- ۱۹۵۵ء میں نوجواناتِ احمدیت کو یہ ” وہ تقولی اور عبادت پر خاص زور دیں اور اتنی عبادت کریں کہ آسمان کے دروازے ان پر کھل جائیں اور ان پر الہام نازل ہونا شروع ہو جائے پیلے حضور کی علالت کے باعث مخلصین جماعت کے قلوب میں ذکر الہی سے ایک خاص شغف پیدا ہو چکا تھا.دعاؤں کے اس ماحول میں اس تحریک نے نوجوانوں پر حیرت انگیز اثر ڈالا اور ان پر کشوف والہام کے دروازے کھل گئے جس کا ذکر حضور نے یکم جوان نشد کے خطبہ جمعہ میں بھی فرمایا.راس خطیہ کا تفصیلی ذکرہ آگے آرہا ہے ) سیدنا حضرت مصلح موعود کے مبارک صیغه زود نویسی کو اپنی ذمہ داری پر خطبات امام شائع کرنے کی اجازت اجازت کے بعد سپر د اشاعت کے سجاتے خطبات ہمیشہ حضور کے ملاحظہ ، نظر ثانی اور تھے.مگر اس سال کی آخری سہ ماہی میں حضور نے اپنی نا سازی طبع کے باعث صیغہ زود نویسی کو اپنی ذمہ داری پر اپنے خطبات و تقاریر کو شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی.اس اجازت کے بعد صیغہ کی طرف سے پہلا خطبہ جمعہ الفصل 14 اکتوبر ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا جو حضور نے ۱۶ ستمبر شاید کو احمدیہ ہال کراچی میں ارشاد فرمایا جو وقف زندگی کی عظیم الشان تحریک سے متعلق اور نہایت درجہ اہمیت کا حامل تھا.یہ خطبہ الفضل ، ار نومبر ۶۱۹۵۵ ۱۷۱ ماه نبوت (۱۳۵۳) صفحہ ۲.یہ تحریک حضور نے اپنے سفری ہور ده ر تا - ارنومبر ۹۹۵ ر ) کے دوران فرمائی تھی.

Page 116

مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر مولوی فاضل انچارج شعبہ زود نویسی نے اپنی گذشتہ روایات کے مطابق پوری احتیاط سے قلم بند کیا تھا.فصل حضرت مصلح موعودؓ نے ۹۵۵ءمیں ریاست ہائے امریکہ میں نظام الوصیت کے استواری کے امیوں کے نام انگریزی میں امریکہ کے نفاذ کی پرزور تحریک ایک اہم پیغام ارسال فرمایا جس میں حضور تے نظام وصیت کے عظیم الشان مقصد پر روشنی ڈالی اور اسے امریکہ میں بھی جاری کرنے کی پر زور تحریک فرمائی.اس پیغام کا متن معہ ترجمہ درج ذیل ہے ہر My dear brethern of America! As you must all be aware the Promised Messiah (on whom be peace) published his testamentary directions in the document which is known as Al-Wasiyyat two years before his death.This is a document of great importance and must be carefully studied by every Ahmadi.I trust all of you have carefully read its English translation.If the English translation is not readily available to you I request Brother Khalil Ahmad Nasir to translate Al-Wasiyyat into English with such assistance from his colleagues as he may need and to distribute it to all of you as soon as may be.I hope that each of you on studying this document will be inspired with the eager desire to participate in the grand scheme set out therein which is so vital for the advancement of Islam and humanity.When you study this document you will find that the scheme set out in it requires each member of the Movement who wishes to join it to bequeath in favour of the Central Ahmadiyya Association one tenth of his property or an amount in cash corresponding to one tenth of the value of his property or if he owns no substantial

Page 117

۱۰۵ property that he should contribute in his lifetime one tenth of his weekly or monthly income to the Central Ahmadiyya Association for the propagation of Islam and for the promotion of human wel- fare.It is necessary that the document bequeathing the property or setting out the promise in respect of these contributions should make it clear that the bequest or contributions as the case may be are free from all conditions and limitations and that the donor or his heirs or executors will in no circumstances question the disposal or disbursement of the property or the income by the Central Ahmadiyya Association or by any other authority which may be set up for carrying out the purposes and objectives of the scheme.Once you have studied the whole document carefully you will fully grasp its grand purpose and objective but I also request Brother Khalil Ahmad Nasir that he should arrange that the purpose and objective of Al-Wasiyyat Should be explained to you by representa- tives of the Movement in detail at your respective centres.In com- pliance with the spirit of Al-Wasiyyat the Ahmadiyya Association of the United States of America will arrange for the purchase as early as may be of a suitable plot of land in some central locality which may be dedicated as a place of burial for those who make their wills in compliance with the conditions set out in Al-Wasiyyat and the rules promulgated from time to time by the Head of the Movement and the Central Ahmadiyya Association and Tahrik-i- Jadid.I am convinced that once this project is put into effect in the States, it will quickly gather force and thousands of your country- men may even millions will in due course join this scheme and thus swell the numbers of those who shall continuously devote their efforts and substantial portions of their incomes and properties to the objects mentioned in Al-Wasiyyat.As the number of such sincere and devoted Ahmadis increases it may become necessary to establish similar burial places in different parts of the country and this shall be done from time to time as necessity shall require.The income derived from the property so bequeathed or from the sale thereof and from the contributions made in this behalf shall be disbursed as follows:- (a) One half shall be remitted to the Central Ahmadiyya Association for the maintenance of Central institutions and for the propagation of Islam throughout the world including the United States of America where for a long time to come workers specially trained at the Centre will continue to be needed.The two central institutions responsible for carrying on the work of propagation of Islam are the Central Ahmadiyya,.sociation and the Tahrik-i-Jadid,

Page 118

1.4 The funds to be devoted out of the said income remitted to the Centre for the propagation of Islam in various parts of the world will be divided between these two institutions in accordance with such instructions as may from time to time be laid down by the Head of the Movement.(b) Of the remaining one half, three quarters will be devoted to the propagation of Islam in the States and one quarter shall be devoted to the promotion of the welfare of the poorer and more backward of our brethren wherever they may be, preference being given to making provision for their Education and training.As soon as I receive intimation through the representatives of the Movement among you that a substantial number of you are eager to join the scheme set out in Al-Wasiyyat I shall proceed to appoint a committee for the purpose of selecting a site for the first burial ground under the scheme and for carrying out of the preli- minary work necessary for putting the scheme into effect in the United States, and for making provision for the scheme and its purposes being effectively carried out in perpetuity.Every person who makes a will or promises to make the minimum contribution under this scheme will, subject to the bequest being carried into effect or the contributions having been duly remitted, as the case may be, be entitled to be buried in one of the bruial places dedicated for this purpose in the States or, in case he dies in India in the burial place at Qadian, or, in case he dies in Pakistan, in the burial place at Rabwah, if his body is transported to the site of one of these burial places at the cost of his estate and there are no legal or other impediments in the way of the fulfilment of this purpose.It shall, however, be made clear in the will or in the document setting out the promise in respect of the said contributions, that failure to comply with this condition shall not operate to invalidate or otherwise affect the bequest or give rise to any claim in respect of the contributions made.Provision shall further be made that the Central Ahmadiyya Association shall take steps to have the names of all persons who have joined the scheme and on whose behalf its conditions have been fulfilled inscribed at suitable places in the burial places at Qadian or Rabwah and also that these names shall be inscribed as a record copies of which shall be made available in principal Ahmad- iyya Centres so that future generations of Ahmadis may be prompted to pray for The souls of their departed brethren who had devoted themselves and their substance to the service of Islam and humanity.It is essential and full care must be taken that the carrying into effect of the whole of this scheme shall be in accordance with the law of the United States of America so that no objection on that

Page 119

1-2 score should at any time operate to defeat or discount the purposes of this scheme.As stated in Al-Wasiyyat this system will multiply its benefi- cence and shall prove the means of the uplift of all the weaker sections of humanity and for the spread of general prosperity and the promotion of human welfare.Any system which is based on coercion or compulsion cannot achieve the same result.The scheme set out in Al-Wasiyyat being purely voluntary and a free gift for the service of Islam and humanity will carry with it moral and spiritual benefits which may be lacking in any other system.In course of time country after country will proceed to adopt this scheme and through this process God's name will be glorified throughout the world more particularly on behalf of those who become the recipients of spiritual, moral and material benefits under its operation.The scheme is already in operation in Pakistah and India.I hope and pray that the United States of America may prove to be th third country to adopt this scheme and thus lay the foundations for the promotion of the welfare of humanity on an ever expanding scale.Amen.Brethren: We are weak but our God is strong and Almighty.We can do but little, but He can do everything.Be sure that His help is speeding towards you.Indeed, He Himself stands at your door waiting to enter.Spring up therefore and open wide your doors for Him to enter.When God enters your homes and fills your hearts, life will become radiant for you and you will be glorified on earth as He is glorified in the Heavens.May God be with you.Amen ( ترجمہ ).میرے عزیزہ امریکن بھائیو ! جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے دو سال قبل وصیت کے طور پر ضروری ہدایات اس دستاویز کی شکل میں شائع فرما دی تھیں ہو " الوصیت " کے نام سے موسوم ہے.یہ دستاویز بہت اہم ہے ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ اس کا ضرور مطالعہ کرنے میں سمجھتا ہوں کہ آپ سب نے اس کا انگریزی ترجمہ بغور مطالعہ کر لیا ہوگا.اگر اس کا انگریزی ترجمہ آپ لوگوں کو بآسانی دستیاب نہ ہو سکتا ہو توئیں ے رساله ریویو آف ریلیجینز انگریز ی جنوری ۱۹۹۶ به صفحه ۸ تا ۱۲

Page 120

۱۰۸ برادرم خلیل احمد صاحب ناصر کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے الوصیت کا جلد از جلد ترجمہ کر کے آپ سب میں اسے تقسیم کرا دیں.مجھے یقین ہے کہ اس دستاویز کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ میں سے ہر ایک میں یہ شدید خواہش پیدا ہوگی کہ وہ بھی اس عظیم الشان تحریک میں جو اس میں بیان کی گئی ہے اور جو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے نہایت درجہ اہمیت کی حامل ہے شامل ہونے کی سعادت حاصل کرے.اس دستاویز کا مطالعہ کرنے پر آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس میں جو سکیم بیان کی گئی ہے.اس کے مطابق جماعت کے ہر اس فرد سے جو اس میں حصہ لینا چاہتا ہے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جائیداد کے دسویں حصہ یا جائیداد کی قیمت کے دسویں حصہ کے برابر نقد رقم بحق صدر انجمن احمد یہ وصیت کرے یا اگر اس کی کوئی قابل ذکر جائیداد نہ ہو تو وہ اپنی زندگی میں اپنی ہفتہ وار یا ماہوار آمد کا دسواں حصہ اشاعت اسلام اور انسانی فلاح و بہبود کی خاطر صدر انجمن احمدیہ کو ادا کرتا رہے یہ ضروری ہے کہ اس تحریر میں جو جائیداد کی وصیت کے طور پر لکھی جائے یا جس کے ذریعہ چندہ وصیت کی ادائیگی کا وعدہ کیا جائے.یہ امر بالصراحت مذکور ہو کہ جائیداد کی وصیت یا چندہ وصیت کی ادائیگی ان میں سے جو بھی صورت ہو ہر قسم کی شرائط اور پابندیوں سے آزاد ہو گی.اور موصی یا اس کے وارث یا اس کے مقرر کردہ منصرم وصیت کر دہ جائیداد یا آمدنی کے مصرف یا خرچ پر کوئی اعتراض نہ کر سکیں گے.صدر انجمن احمدیہ یا کوئی اور با اختیار ادارہ جو اس سلسلہ میں قائم کیا جائے اس تحریک کے اعراض و مقاصد کے تحت جائیداد یا وصول شده چندہ جات کو خرچ کرنے کا پوری طرح مجازہ ہوگا.بہ تمام و کمال اور بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس دستا ویزہ کا عظیم الشان مقصد اور اس کی اعراض آپ لوگوں کو معلوم ہو جائیں گی تاہم یکی برادرم خلیل احمد صاحب ناصر کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس بات کا انتظام کریں کہ آپ کے مختلف مراکز میں سلسلہ کے نمائندے " الوصیت" کا مقصد اور اس کی اعراض تفصیل کے ساتھ آپ لوگوں کو سمجھا دیں." الوصیت " کے منشاء کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جماعت احمدیہ

Page 121

1-9 جتنی جلدی ممکن ہو سکا کسی مرکزی علاقے میں ایک موزوں قطعہ زمین خریدنے کا انتظام کرے گی.یہ قطعہ زمین قبرستان کے طور پر ان لوگوں کے لئے مخصوص ہو گا جو " الوصیت" میں بیان کردہ شرائط اور ان قواعد کے مطابق جو امام جماعت احمدیہ اور صدر انجمن اور تحریک جدید کی طرف سے نافذ ہوں.وصیت کریں گے.مجھے یقین ہے کہ ریاست ہائے متحدہ میں ایک دفعہ جاری ہونے کے بعد یہ سکیم انشاء اللہ تقویت حاصل کرے گی.اور رفته رفتہ تمہارے ہزار نہیں بلکہ لاکھوں ہم وطن اس میں شامل ہو جائیں گے اور اس طرح ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا جو اپنی مسائی اور آمدنیوں اور جائیدادوں کا ایک معقول حصہ الوصیت " کے اغراض و مقاصد کے لئے وقف کریں گے.جوں جوں ایسے مخلص اور خدائی احمدیوں کی تعداد بڑھے گی.اس امر کی ضرورت محسوس ہوگی کہ ملک کے مختلف حقوں میں ایسے ہی قبرستان قائم کئے جائیں.چنانچہ حسب ضرورت مختلف اوقات میں ایسے قبرستانوں کا قیام عمل میں آتا رہے گا.ایسی وصیت کردہ جائیداد سے اس کی فروخت یا چندہ جات سے جو آمدنی ہو اس کو حسب ذیل طریق پر خرچ کیا جائے.(الف).اس آمدنی کا نصف حصہ مرکزی اداروں کو چلانے اور دنیا بھرمیں اشاعت اسلام کا کام کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کو ارسال کیا جائے گا اس میں امریکہ بھی شامل ہوگا.کیونکہ امریکہ میں ابھی لیے عرصے تک اسلام کے ایسے خادموں کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی جو خاص طور پر مرکز کے تربیت یافتہ ہوں وہ مرکزی ادارے جن کے ذمہ اشاعت اسلام کا کام ہے صدر انجمین احمدیہ اور تحریک جدید ہیں.دنیا کے مختلف حصوں میں تبلیغ اسلام کی عرض سے مذکورہ بالا آمدنی کا جو حصہ مرکزہ میں ارسال کیا جائے گا اسے امام جماعت احمدیہ کی ان ہدایات کے مطابق جو وقتاً فوقتاً جاری کریں گے ان دونوں اداروں میں تقسیم کیا جائے گا.(ب) - آمدنی کے باقی نصف حصے میں سے تین چوتھائی رقم ریاست ہائے متحدہ میں تبلیغ اسلام پر خرچ کی جائے گی باقی کی پوتھائی رقم ہمارے غریب اور پسماندہ بھائیوں

Page 122

11.کی فلاح وبہبود کے لئے وقف ہوگی جہاں کہیں بھی ایسے بھائی ہوں گے اُن پر یہ رقم خرچ کی جائے گی.اور اس ضمن میں ان کی تعلیم وتربیت کے انتظام کو مقدم رکھا جائے گا.جو نہی جماعت کے نمائندوں کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملے گی کہ آپ لوگوں میں سے ایک خاصی تعداد ایسے احباب کی ہے جو " الوصیت " کی بیان کہ دہ تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں، میں ایک کمیٹی قائم کرنے کا انتظام کروں گا اس کے قیام کا مقصد یہ ہوگا کہ اس سکیم کے تحت اولین قبرستان کے لئے جگہ منتخب کی جائے اور اس سکیم پر عمل درآمد کے لئے ضروری اور ابتدائی انتظامات کئے جائیں اور اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ اس سکیم اور اس کے مقاصد کو موثر طریق پر ہمیشہ کے لئے جاری رکھا جاسکے.ہر وہ شخص جو وصیت کرے گا یا اس سکیم کے قواعد کے ہمو جب کم سے کم شرح کے مطابق چندہ دینے کا وعدہ کرے گا وہ اس شرط پر کہ اس کی وصیت پوری ہو جائے یا حسب قواعد چندہ جات کی ادائیگی عمل میں آجائے.دونوں صورتوں میں اس بات کا حقدار ہو گا کہ ایسے قبرستانوں میں سے کسی ایک قبرستان میں دفن کیا جائے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اس مرض کے لئے قائم ہو جائیں گے.اور اس صورت میں کہ اس کی موت ہندوستان میں واقع ہو تو وہ قادیان کے قبرستان میں یا اگر پاکستان میں ہو تو ربوہ کے قبرستان میں دفن ہو سکے گا.لیکن یہ ضروری ہوگا کہ اس کی نعش ان قبرستانوں میں سے کسی ایک قبرستان تک پہنچانے کے اخراجات اس کے اپنے ترکہ یا جائیداد سے پورے کئے جائیں.اور اس کی راہ میں کوئی قانونی یا کوئی اور رکاوٹ حائل نہ ہو.وصیت یا چندہ جات کے وعدے کے ضمن میں جو تحریر لکھی جائے گی اس میں یہ صراحت کی جائے گی کہ اس شرط کے پورا نہ ہو سکنے کا یہ مطلب نہ ہوگا کہ وصیت کو نا جائز یا خلاف قاعدہ قرار دیا جا سکے گا یا اس کے جائز یا قانونی حیثیت پر کوئی حرف آسکے گا یا ادا کردہ چندوں کے بارے میں کسی مطالبہ یا دعوئی کا جوانہ پیدا ہو سکے گا.صدر انجمن ایسے تمام اشخاص کے نام جنہوں نے اس سکیم میں شامل ہونے کے بعد اس کی تمام شرائط کو پورا کر دیا ہوگا، قادیان یا ربوہ کے قبرستانوں میں مناسب جگہ پر کنندہ

Page 123

}}} ا کرانے کا انتظام کرے گی.نیز ان کے نام ایک ریکارڈ کی شکل میں بھی محفوظ رکھے جائیں گے جن کی نقول بڑے بڑے احمد یہ مراکز میں بھی رکھی جائیں گی.تا کہ احمدیوں کی آنے والی نسلوں کو اپنے اِن وفات یافتہ بھائیوں کی روحوں کے واسطے دعا کی تحریک ہوتی رہے جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اموال کو اسلام اور انسانیت کی خدمت کے لئے وقت کیا.یہ امر بہت ضروری ہے کہ اس بارے میں پوری احتیاط کی جائے کہ اس تمام سکیم پر عمل در آمد کے وقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے رائج الوقت قوانین کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے تا اس بناء پر کسی وقت بھی کوئی اعتراض پیدا ہو کہ اس سکیم یا اس کے مقاصد کو نا کام نہ بنا سکے.جیسا کہ " الوصیت " میں بیان کیا گیا ہے وصیت کی اس سکیم کے فوائد اور رنگ میں بھی ظاہر ہوں گے.اور بالآخر یہ انسانیت کے کمزور طبقوں کو اٹھانے اور انسانی فلاح و بہبود اور خوش حالی کو ترقی دینے کا ذریعہ ثابت ہو گی.کوئی نظام بھی جس کی بنیاد جبر و اکراہ پر ہو اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.الوصیت میں جو سکیم پیش کی گئی ہے خالصہ طوعی اور رضا کارانہ ہے اور خدمت اسلام کے ایک احمہ کا درجہ رکھتی ہے اس لحاظ سے جو اخلاقی اور روحانی فوائد اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہوں گے.تمام دوسرے نظام ان سے محروم ہیں.رفتہ رفتہ ایک ملک کے بعد دوسرا ملک اس تحریک کو اپنانے کے لئے آگے آتا رہے گا اور اس طرح ان لوگوں کی طرف سے جو اس سکیم کے ذریعہ بہ وحانی، اخلاقی اور مادی فوائد سے متمتع ہوں گے.دُنیا میں خدا کا نام بلند ہوتا رہے گا.اس تحریک پر پاکستان اور ہندوستان میں پہلے سے عمل ہو رہا ہے میری خواہش ہے اور میں اس کے لئے دُعا بھی کرتا ہوں کہ تحریک کو اپنانے والے ممالک میں سے امریکہ تیسرا ملک ثابت ہو.اور اس طرح وہ وسیع سے وسیع تر پیمانے پر انسانیت کی فلاح و بہبود اور اس کی ترقی کی بنیادیں استوار کرنے میں حصہ لے آمین.برادران ! ہم کمزور اور ناتواں ہیں.لیکن ہمارا خدا طاقت ور اور ہمہ قوت ہے.

Page 124

ہمارے بس میں کچھ نہیں لیکن وہ سب کچھ کر سکتا ہے یقین رکھو کہ اس کی مدد تمہاری طرف دوڑی آرہی ہے.بلاشبہ وہ خود تمہارے دروازے پر کھڑا ہے اور اندر داخل ہونا چاہتا ہے.پس اُٹھو اور اپنے دروازے کھول دو تاکہ وہ اندر آجائے.جب وہ تمہارے گھروں میں داخل ہو جائے گا اور تمہارے دلوں میں سما جائے گا تو زندگی تمہارے لئے منور ہو جائے گی.اور دنیا میں تم اسی طرح عزت دیئے جاؤ گے جس طرح آسمانوں میں اس کو عزت اور عظمت حاصل ہے.خدا تمہارے ساتھ ہو.سیدنا حضرت مصلح موعود نے یہ خصوصی پیغام چوہدری تحلیل احمد صاحب نافر انچار ج امریکہ مشن کو ارسال فرمایا اور اس مبارک تحریک کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بذریعہ مکتوب حسب ذیل ہدایات دیں :- RABWAH 10-1-56 مکرمی خلیل احمد ناصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ایک مضمون ارسال ہے.اس کو فوراً شائع کروائیں.اور پھر اس کے مطابق جو جو لوگ وصیتیں کریں ان کے نام اور جائیداد کی تفصیل مرکز کو بھجوائیں.ایک مقبرہ کمیٹی قائم کریں جو زمین خریدے اور اس مقبرے کو بہت خوبصورت بنایا جائے.باغ وغیرہ لگایا جائے.میرے مضمون " نظام نو " کا انگریزی ترجمہ بھی جلد شائع کیا جائے اس میں تمام تفصیلات اس مضمون کی میں نے بیان کی ہیں.وہاں کے لوگوں میں قادیان کی محبت اور قادیان کو واپس لینے کا جذبہ بھی پیدا کریں.جن لوگوں کو خدا توفیق دے وہ ایسا انتظام کریں کہ ان کی وفات کے بعد قادیان ان کی نعش لے جائی بھا سکے تو اس کا بہت اچھا اثر ہو گا.ه روزنامه الفضل ربوه و فروری شده جنگ است.کے حضور کا پیغام اور یہ مکتوب شعبہ تاریخ احمدیت کے خصوصی ریکارڈ میں محفوظ دونوں ہی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے قلم سے لکھے ہوئے ہیں.

Page 125

حضرت مصلح موعود نے امریکہ کے بعد اگلے سال انڈونیشیا کی احمد یہ جماعتوں کو بھی نظام وصیت کی ترویج کی طرف توجہ دلائی جس کے خوش کن اثرات رونما ہونے رو شروع ہوگئے.جس پر حضور نے ۲۹ جون سید کے تخطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :- " حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے وعیت کا نظام جاری فرمایا تو اللہ تعالے نے اس میں ایسی برکت رکھ دی کہ باوجود اس کے کہ انجمن کے کام ایسے ہیں جو دلوں میں جوش پیدا کرنے والے نہیں.پھر بھی صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ سحر یک جدید کے بجٹ سے ہمیشہ بڑھا رہتا ہے.کیونکہ وصیت ان کے پاس ہے اس سال کا بجٹ بھی تحریک جدید کے بجٹ سے دو تین لاکھ زیادہ ہے حالا نکہ تحریک کے پاس اتنی بڑی جائیداد ہے کہ اگر وہ جرمنی میں ہوتی تو ڈیڑھ دو کروڑ روپیہ سالانہ اُن کی آمد ہوتی مگر اتنی بڑی جائیداد اور بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کرنے کی جوش دلانے والی صورت کے باوجود محض وصیت کے طفیل صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید سے بڑھا رہتا ہے.اس لئے آب وصیت کا نظام میں نے امریکہ اور انڈونیشیا میں بھی جاری کر دیا ہے اور وہاں سے اطلاعات آرہی ہیں کہ لوگ بڑے شوق سے اس میں حصہ لے رہے ہیں..میں نے سمجھا کہ چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ایک نظام ہے اگر اس نظام کو بیرونی ملکوں میں بھی جاری کر دیا جائے تو وہاں کے مبلغوں کے لئے اور مسجدوں کی تعمیر کے لئے بہت بڑی سہولت پیدا ہو جائے گی.جیسا کہ حضرت مصلح موعود کے مندرجہ بالا پیغام سے عیاں ہے کہ آپ کی دلی تمنا اور خواہش عتی که بر صغیر پاک و ہند کے بعد نہ صرف امریکہ اور انڈونیشیا بلکہ ساری دنیا کے ممالک میں وصیت کا قیام عمل میں آجائے سو الحمد للہ حضور نے ۱۹۵۵ء میں جو آواز بلند کی تھی اس کی گونج اب آہستہ آہستہ ساری دنیا میں سنائی دینے لگی ہے چنانچہ وکالت مال ثانی تحریک جدید دیوہ کے ریکارڈ کے مطابق جنوری شادی تک برصغیر پاک و ہند سے باہر موصیوں کی تعداد نظامی روزنامه الفضل رکوه - ارجولائی ۶اء صدا

Page 126

۱۵۹۷ تک پہنچ چکی ہے جن میں سے ۲۶۰ موصی شمالی و جنوبی امریکہ میں ہیں بقیہ ممالک کے موصیان کی تعداد حسب ذیل ہے :.یورپ ۴۷۰ - افریقہ ۴۱۰ ممالک بھر ہند و آسٹریلیا.فجی جاپان ۶۳ انڈونیشیا ۲۲۴ - ممالک شرق اوسط اوسط ۱۷۰

Page 127

۱۱۵ دوسرا باب حضر بمصلح موعود کے افریقن احمدیوں کے نام پیغام سے لیکر لائیبیریا مشن کے قیام تک فصل اول خدائے علیم وخبیر کی طرف سے حضرت مصلح موعود کا پیغام افریقن احمدیوں کے نام قدرت ثانیہ کے مظہر نان حضرت مصلح موعود کو اوائل خلافت میں ہی افریقین اقوام کے شاندار مستقبل کی نسبت یہ خبر دی گئی کہ :- " خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ افریقہ جو مسلمانوں سے عیسائیوں کے ذریعہ نکل چکا ہے، آب آپ کے ذریعہ سلمانوں کو دلائے اور خدا تعالیٰ کی غیرت کا وقت آگیا ہے.آپ سے پہلے خدا خاموش بیٹھا رہا جس طرح مسیار جال کے نیچے دانہ ڈال کر بیٹھا رہتا ہے اور جانوروں کو وہ دانہ جس پر اس کی قیمت لگی ہوتی ہے، چھنے دیتا ہے، مگر اب جب دنیا نے اپنی غلطی سے سمجھ لیا ہے کہ اسلام ملنے والا ہے.خدا چاہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اسے اکناف عالم

Page 128

میں پھیلا دیتے.اس سلسلہ میں حضور نے قیام پاکستان کے بعد براہ راست افریقین احمدیوں کے نام بھی ایک نہایت امید افزا پیغام دیا جو رسالہ ریویو آف ریلیجینز" کے ستمبر شاہ کے ایشوع میں چھپا.یہ پیغام جناب حاجی جے سی الحسن عطا صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ اشانٹی ریجن رکماسی - فانا ) کے توسط سے ارضی ملال تک پہنچا اور اُس نے افریقی احمدیوں میں زیرہ دست بیداری پیدا کر دی.اس انقلاب آفرین پیغام کے الفاظ یہ تھے :- 'I am reading the writing on the wall that there is a great future for your race.' God does not forsake a race for all the times to come.Sometime, He gives opportunity to one nation and one continent and then He offers the same opportunity to another nation and another continent.Now is your time.You have been oppressed and ruled by others for a very long time.Rest assured that your glorious time is fast approaching.People were made to think that yours is an inferior race.I can say about myself that in my young age, when I used to read books, in English I used to think about your race as inferior one, But when I grew up and read the traditions and the Holy Quran, I came to know that it was all wrong.God has not made an exception of your people.God mentions all races and nations as equals.When He sends any prophet no the world, He gives sufficient intelligence also to the men, who are addressed, to accept that prophet.If you have not sufficient intelligence, or in other words, are an inferior race, then God forbid, it is His fault Who sent a prophet to a people who have intelligence to accept him.But this is not the Islam says that Europeans, Americans, Asiatics, Africans and people in far off islands are equal.All of them have the same power of understanding, learning, inemorising and inventing, Americans consider them selves as supper men.They even hate Europeans.case.تقدیر الهی ۲۰-۳۰ و تقریر ۲۶ دسمبر شده) مرتبہ منشی خواجہ غلام نبی صاحب بانوی ایڈیٹر " الفضل قادیان دارالامان - ناشر صیغه تألیف و اشاعت قادیان -

Page 129

116 The Europeans hate Asiatics.As far as Ahmadiyyat goes, I assure you that we, (and when I say we, I mean myself and all the Ahmadies who follow me), consider all the people on earth as equal.All of us are equal and have the same powers.I assure you that during my life time I am not going to allow any Ahmadi to adopt the aforesaid mistaken ideas as prevalent in the world.Just as the Holy Prophet said that he would crush such ideas under his heels, so I assure you that I will also crush such ideas under my heels.are "So, go and prove yourselves truc Ahmadies.Tell your brothers that you went to Pakistan and Rabwah and found that in Pakistan also there brothers who feel for you and consider all Ahmadies as equal, and that you did not see Pakistanees rather Africans in different colours.They are looking towards their African brothers as their own kith and kin.I am expecting the same sacrifice from Africans and ask you to preach and convey the message of Islam to every corner of your country.11 Rabwah will always look forward to you to bring every body in the Gold Coast into the fold of Ahmadiyyat, or the True Islam, the religion of God." ✓ THE REVIEW OF RELIGIONS, SEPTEMBER, 1955 532533

Page 130

A یعنی میں یہ نوشتہ دیوار پڑھ رہا ہوں کہ آپ کی وافریقین ) نسل کے لئے ایک عظیم متقبل مقدر ہے.اُس کا شاندار زمانہ قریب تو آرہا ہے.خدا نے ماضی میں بھی کسی قوم کو نہیں چھوڑا نہ آئندہ نظر انداز کریگا.وہ بعض اوقات کسی ایک قوم اور براعظم کو موقع دیتا ہے اور پھر ایک دوسری قوم اور دوسرے براعظم کو منتخب فرماتا ہے.ایک لیے عرصے تک آپ لوگوں پر ظلم کیا گیا اور دوسروں کے محکوم رہے.اب آپ کا دقت لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا گیا کہ افریقین ایک مکمتر قوم ہیں خود میں اپنے متعلق بھی کہ سکتا ہوں کہ اپنے اُس عہد شباب میں جبکہ میں انگریزی کتابیں پڑھا کرتا تھا تو میرا بھی یہ خیال تھا.لیکن بڑے ہو کر جب میں نے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ غلط تھا.خدا تعالیٰ نے آپ کی قوم سے کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام تسلیں اور قومیں برابر ہیں جب وہ کوئی اپنا فرستادہ دنیا میں بھیجتا ہے تو وہ کافی ذہانت اُن لوگوں کو بھی عطا فرماتا ہے جن کو مخاطب کیا جاتا ہے کہ وہ اس رسول کو قبول کریں.اگر آپ کے پاس یہ ذہانت نہیں یا دوسرے الفاظ میں آپ ایک کمتر نسل ہیں تو معاذ اللہ یہ خدا کا نقص ہے کہ اُس نے ایک ایسی قوم کی طرف اپنا مامور بھیجا جو ذہانت سے خالی تھی کہ اُس کو قبول کر سکے.لیکن معاملہ یہ نہیں ہے.اسلام کہتا ہے کہ یورپ امریکہ ، ایشیا، افریقہ اور دور دراز جزیروں کے سب باشندے برابر ہیں.تمام کو قوت عقل اور قوت علم و ایجاد عطا کی گئی ہے.گو امریکن اپنے تئیں ایک فوق البشر مخلوق سمجھتے ہیں اور یورپین سے بھی نفرت کریستے ہیں اور یورپ کے لوگ ایشیائیوں کو بنظر حقارت دیکھتے ہیں مگر جہاں تک تحریک احمدیت کا تعلق ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ (اور جب میں یہ کہتا ہوں تو میری مراد اُن تمام احمدیوں سے ہے جو میرے متبع ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ زمین پر لینے والے تمام لوگ برانہ ہیں.ہم تمام برابہ میں اور ایک جیسی صلاحیتیں رکھتے ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اپنی زندگی میں کبھی کسی احمدی کو یہ اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گا کہ وہ مذکورہ بالا خیالات کو جو دنیا میں رائج ہیں اختیار کرے.بالکل اسی طرح جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ ایسے خیالات کو اپنی ایڑیوں کے نیچے کچل دیں گے.پس میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نہیں بھی ایسے نظریات کو اپنے پاؤں تلے مسل دونگا.پس جائیں اور اپنے آپ کو سچا احمدی ثابت کریں.اور اپنے بھائیوں کو بتائیں کہ آپ پاکستان گئے

Page 131

114 تھے اور ربوہ میں بھی آپ نے بچشم خود دیکھا کہ پاکستان میں بھی آپ کے بھائی ہیں جو آپ کے جذبات کا احساس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تمام احمدی برابر ہیں.اور یہ کہ آپ نے پاکستانیوں اور افریقنوں میں کوئی الگ رنگ نہیں دیکھا.پاکستانی اپنے افریقین بھائیوں کو اپنے عزیز و اقارب کی طرح دیکھتے ہیں.یمیں افریقنوں سے بھی اسی قربانی کی توقع کرتا ہوں اور آپ سے کہتا ہوں کہ آپ تبلیغ کریں اور به نام اسلام افریقہ کے کونے کونے تک پہنچا دیں.ریوه ہمیشہ آپ کا انتظار کرے گا کہ آپ گولڈ کوسٹ کے ہر فرد کو احمدیت کی آغوش میں نے آئیں جو حقیقی اسلام اور خدا کا دین ہے.نہ اماء الله مرکزیہ اور لجنہ ربوہ نے 4 اکتوبر ۹۵اء خواتین مبارکہ کے اعزانہ میں عصرانہ اضاء ه کو دفتر مجنہ اماء الله مرکزے یہ میں خاندان حضرت مسیح موعود کی اُن خواتین مبارکہ کے اعزازہ میں ایک عصرانہ دیا جنہیں سفر یورپ میں حضور کی معیت کا شرف حاصل ہوا.اس سفر میں حضور کے ہمراہ حضور کے چاروں حرم حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ حضرت سید اتم وسیم صاحبہ ، حضرت ام منتدین سیده مریم صدیقہ صاحبہ اور حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ نیز محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور صاحبزاد کی امتہ الباسط صاحبہ بھی تھیں یکم شہید واد و احمد صاحب اور ان کی اہلیہ امتہ الباسط صاحبہ کا قیام قریبا ڈیڑھ سال تک لنڈن میں رہا.تقریب حضرات میں بند اما والد مرکزیہ کی تمام ممبرات، حلقہ جات کی عہدیداران اور لجنہ کی پانی کاراسات قریباً ایک سو کی تعداد میں شامل ہوئیں.اس تقریب کا انتظام صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اور کرم مرطیہ صدیقی صاحبہ بیگم نواب مسعود احمد خان صاحب کی نگرانی میں ہوا.اس موقع پر محترمہ امتہ الرشید شوکت صاحبہ المیہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ نے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اور لجنہ اماءاللہ یہ یوں کی نمائندگی کرتے ہوئے جو ایڈریس پیش کیا اس میں بتایا کہ حضور کے آرام و آسائش کا خیال رکھنا ہم سب کا مشترکہ فرض ہے لیکن دوسری تمام مشترکہ ذمہ داریوں کی طرح یہ ذمہ داری بھی نمائندگی کے ذریعہ پوری کی جا سکتی ہے.اس لحاظ سے آپ گویا ہماری نمائندہ تھیں اور اس کامیاب نمائندگی پر ہم آپ کے تہ دل سے مشکور ہیں اور آج آپ کی خدمت میں دلی مبارک باد پیش کرنے کے لئے یہاں حاضر ہوئی ہیں.ہم دعا کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس

Page 132

خدمت امام کا زیادہ سے زیادہ موقع عطا فرمائے اور اس ذریعہ سے خدمت دین کی مختلف راہیں آپ کے لئے آسان کی جائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل آپ کے ساتھ ہو اور اس کی رحمتیں آپ کا دامن تھامیں - ہم سب بھی ایسی ہی دُعا کے محتاج ہیں.اور آپ سے اس کے لئے درخواست کرتی ہیں.اپنے ایک ہیں کو ختم کرنے سے پہلے سید و امرز اصراری بصاحب صدر ابنه الا الله مرکز به او رسیده ام ار این صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتی ہیں کیونکہ آپ دونوں کی سرکہ دگی میں یہ انجمن ایک مضبوط تنظیم کے ساتھ ترقی کے راستے پر گامزن ہے اور آپ یورپ کے ممالک میں آپ کی مساعی نے عورتوں کی اس انجمن کو اور زیادہ تقویت بہم پہنچائی ہے.فجراكم الله احسن الجزا ايد كما بنور من عند اللهم امين له اس ایڈریس کے بعد حضرت سیدہ اتم متین صاحبہ نے حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ صدر بنا الا الله مرکزیہ اور دیگر شریک سفر خواتین مبارکہ کی طرف سے لجنہ اماء الله مرکزیہ کا شکریہ ادا کیا ، سفر یورپ کے مختصر حالات بتائے اور بیرونی ممالک کو جانے والی خواتین کو قیمتی نصائح فرمائیں کیے حضرت مصلح موعود نے کم اکتوبر 1 صورت بیرونی ممالک کے احمیوں کے لئے دو اہم ہدایات کے خطبہ بعد میں بیون منوں سے تعلق دو نہایت اہم ہدایات جاری فرما ہیں.-1 نومسلموں کو چندہ دینے کی عادت ڈالی جائے.- غیر ملکی نو جوانوں کو مرکز میں تعلیم کے لئے بھیجوایا جائے.چنانچہ حضور نے فرمایا :- نہیں بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مبلغین سے کہتا ہوں کہ وہ بھی چندہ بڑھانے کی کوشش کریں.غلام احمد بشیر مبلغ ہالینڈ) کے متعلق چوہدری ظفر اللہ خانصاحب نے بتایا کہ وہ نو مسلموں سے چندہ نہیں ه مصباح ربوہ نومبر ۱۵ء ص ۳۵ ه تاریخ لجنہ اماء الله جلد دوم من ۳۸ تا ۳۵۰ مرتبه امه اللطیف صاحب سیکرٹری شعبه اشاعت لجنه ما شد مرکز یه - ناشر دفتر لجنہ اماء الله مرکز یہ جنوری سام.

Page 133

لیتا.چوہدری صاحب نے کہا کہ میں نے اس سے کہا ہے کہ میں تو ان نو مسلموں کو اسی وقت احمدی سمجھوں گا جب وہ با قاعدہ چندہ دیں گے.لیکن وہ ہر دفعہ یہ عذر کر دیتا ہے کہ یہ لوگ مالی لحاظ سے کمزور ہیں اور چندہ دینے کے قابل نہیں.میرے نزدیک چو ہدری صاحب کی بات بالکل درست ہے.ہمارے مبلغین کو نو مسلموں سے چندہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے.میں نے جرمنوں کو دیکھا ہے کہ وہ چندے دیتے ہیں ایک شخص میری آمد کے متعلق خبر پا کر دو سو میل سے چل کر مجھے ملنے آیا.چوہدری عبید اللطیف صاحب مبلغ جرمنی نے مجھے بتایا کہ وہ جب سے احمدی ہوا ہے اڑھائی پونڈ ماہوار باقاعدہ چندہ دیتا ہے.پس اگر ہمارے سیلفین توسلون کو چندہ دینے کی عادت ڈالیں گے تو انہیں عادت پڑ جائے گی چاہے ابتدا میں وہ ایک ایک آنہ ہی چندہ کیوں نہ دیں.اگر وہ ایک ایک آنہ بھی چندہ دینا شروع کر دیں گے تو آہستہ آہستہ انہیں اس کی عادت پڑ جائے گی اور پھر زیادہ مقدار میں چندہ دینا انہیں دو پھر معلوم نہیں ہوگا.حضرت مسیح موعود کے اشتہارات اور کتا نہیں نکال کر دیکھ لو تمہیں ان میں یہ الفاظ دکھائی دیں گے کہ فلاں دوست بڑے مخلص ہیں انہوں نے ایک انه یا دو آنہ ما ہوار چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے.لیکن پھر وہی لوگ بڑی بڑی مقدار میں چندہ دینے لگ گئے تھے.ہمارے مبلغین کو بھی چاہئیے کہ وہ بھی نو مسلموں سے چندہ لینے کی کوشش کہ میں مشرقی افریقہ اور دشتی والے احمدیوں کی حالت نسبتا اچھی ہے.مشق کی جماعت بڑے اخلاص اور تہمت سے کام کر رہی ہے.پھر جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ نوجوانوں کو یہاں بھجوائیں جو یہاں کہ کہ تعلیم حاصل کریں اور مرکزی اداروں میں کام کریں.دیکھ لو بیماری سے پہلے مجھ میں کس قدر تہمت ہوا کرتی تھی نہیں اکیلا دس آدمیوں سے بھی زیادہ کام کر سکتا تھا لیکن اب ایک آدمی کے چوتھائی کام کے برابر بھی نہیں کہ سکتا.اس طرح یہ ناظر بھی انسات ہی ہیں.ان کو بھی بیماری لگ سکتی ہے اور کام کے ناقابل ہو سکتے ہیں.پس با ہر سے نوجوانوں کو یہاں آنے کی کوشش کر نی چاہئیے ، بلہ بہتر ہو گا کہ مختلف ممالک کے لوگ یہاں آئیں اور انجمن کا کام سنبھالیں تا کہ ہماری مرکز می رانجمن) انٹرنیشنل انجمن بن جائے صرف پاکستانی نہ رہے.دینی لحاظ سے بے شک پاکستان کے لوگ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں.لیکن اگر ان کے ساتھ ایک ایک ممبر نائیجریا ، گولڈ کوسٹ ، امریکہ مشرقی افریقہ الینڈ، جرمنی اور انگلینڈ وغیرہ ممالک کا بھی ہو تو کام زیادہ بہتر رنگ میں چل سکتا ہے.جب یہ لوگ یہاں آکر کام کریں گے تو باہر کی جماعتوں کو اس طرف زیادہ توجہ ہوگی اور وہ سمجھیں گے کہ مرکزہ میں جو انجمن کام کر رہی ہے وہ صرف پاکستان کی جماعتوں کی انجمن نہیں بلکہ ہماری بھی انجمن ہے.پس چندوں کو زیادہ

Page 134

کرو اور ان طوفانوں سے مایوس نہ ہو بلکہ پہلوانوں کی طرح کام میں لگ جاؤ اور جہاں جہاں پانی خشک ہوتا ہے.وہاں فورا کھیتوں میں ہل چلا دو تا تمہاری آئندہ آمد نہیں پہلے سے بھی بڑھ جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ چندے بھی بڑھ جائیں.جب مرکز مضبوط ہوگا اور بیرونی مبلغین کو بھی خدا تعالیٰ اس بات کی توفیق دے دیگا کہ وہ نو مسلموں سے چندے میں تو سلسلہ تبلیغ وسیع ہو جائے گا جب بھی دنیا میں کوئی مذہبی تحریک چلی ہے.اس کے ابتدائی مبلغ اسی ملک کے ہوتے تھے جس میں وہ تحریک ابتداء مشروع ہوتی ہے.چنانچہ اسلام کے پہلے مبلغ معرب ہی تھے.لیکن اس کے بعد ایرانی اور عراقی آگئے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت شروع کی.حضرت معین الدین صاحب بہشتی.شہاب الدین صاحب سهروردی ، بہاؤ الدین صاب نقشبندی سب دوسرے ممالک کے تھے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اسلام کی بڑی خدمت کی.حضرت علی علیہ السلام کے بعد بھی پچاس ساٹھ سال تک میسائیت کو پھیلانے والے ان کے اپنے علاقے کے ہی مبلغ تھے.لیکن بعد میں اور علاقوں میں بھی مبلغ پیدا ہو گئے اور آپ کے سو سال کے بعد تو سارے مبلغ اٹلی کے ہی تھے.پھر حہ منی اور انگلینڈ سے بھی کئی مبلغین اشاعت عیسائیت کے لئے آگے آگئے پس جب تک مبلغین تو مسلموں کو چندہ دینے کی عادت نہیں ڈالیں گے.یہ کام لیے عرصہ تک نہیں چل سکتا " سے وقف زندگی کی پُر جوش تحریک سید نا حضرت مصلح موعود کو اپنے دوسرے سفر یورپ کے دوران یہ دیکھ کہ بہت خوشی ہوئی کہ مغربی دنیا نہایت تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہو رہی ہے اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ وقت آگیا ہے کہ وقف زندگی کی تحریک کو پہلے سے زیادہ منظم، موثر اور دائمی شکل دی جائے کیونکہ جب تک جماعت احمدیہ میں دین کی نصرت کرنے والے مسلسل اور متواتر پیدا نہ ہوں علیہ السلام کے اہم مقصد کی تکمیل ہرگزہ ممکن نہیں.یہی وجہ ہے کہ حضور نے سفر یورپ سے واپسی کے بعد کہ اچی اور ربوہ میں جو ابتدائی خطبات ارشاد فرمائے.ان میں بار بار وقف زندگی کی پر جوش تحریک فرمائی.چنانچہ 14 ستمبر یو کے خطبہ جمعہ میں فرمایا : " جب تک جماعت میں وقف کی تحریک مضبوط نہ ہو اس وقت تک ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا نا ممکن ہے.اس کے لئے اول تو جماعت کے ہر فرد کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ میں نے ایک سے دو بننا ے روز نامہ الفضل ریوه ۲۵ نومبر ۱۹۵۵ ماده روزنامه /

Page 135

١٢٣ ہے.دو سے چار بننا ہے.چار سے آٹھ بنا ہے آٹھ سے سولہ بننا ہے سولہ سے نہیں بنتا ہے تیس سے چونسٹھ بننا ہے اور چونسٹھ سے ایک سو اٹھائیس بنتا ہے.ہماری جماعت آخہ لاکھوں کی جماعت ہے.اگر ہر دس سال کے اندر ایک ایک شخص کے ذریعہ دو چار احمدی بھی پیدا ہو جائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اگلے.دس سال میں پندرہ بیس لاکھ ہو جائیں گے اور اس سے اگلے دس سال میں اسی لاکھ ہو جائیں گے اور اس سے اگلے دس سال میں ڈیڑھ کروڑ تک ان کی تعداد پہنچ جائے گی.اگر ایسا ہو جائے تو ہم امید کر سکتے ہیں کہ یہ ڈیڑھ کروڑ دو ارب تک اسلام کا پیغام پہنچا سکتا ہے.لیکن اگر یہ نہ ہو اور ہر شخص سمجھ لے کہ میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ میں نے چندہ دے دیا ہے تو یورپ اور امریکہ کو اسلام کون سمجھائے گا ؟ اور اگر سمجھانے والا کوئی نہیں ہوگا تو مانے گا کون.....یورپ کے لوگ آپ اسلام کی طرف مائل ہو رہے آب ہیں لیکن بڑی چیز جو ان کے رستہ میں حائل ہے وہ یہی ہے کہ یورپین لوگ ہر چیز کو سیاسی نقطہ نگاہ سے دیکھتے رہیں ان کے بڑے بڑے لوگ یہ خوب سمجھتے ہیں کہ اسلام اگر ہم تک پہنچا ہے تو احمدیوں کے ذریعہ سے لیکن مسلمان جن کی اکثریت ہے وہ احمدیوں کے ہی مخالف ہیں.ایسی صورت میں اقلیت کے ساتھ منا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا ہاں اگر اکثریت کے ساتھ ملیں گے تو مفید کام کر سکیں گے اس قسم کے وساوس کا بھی تبھی ازالہ ہو سکتا ہے.جب ہمارے مبلغ اُن تک پہنچیں اور اُن کے شبہات کو دور کریں بظاہر ہے کہ ایک آدھ دفعہ ملنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اس کے لئے متواتر اور مسلسل جد و جہد کی ضرورتہ ہوتی ہے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا اور کون ہو سکتا ہے مگر آپ نے بھی سال ہا سال تبلیغ کی اور پھر آپ کے صحابہ نے تبلیغ کی تب جا کہ لاکھوں لوگ اسلام میں شامل ہوئے.مگر کچھ عرصہ کے بعد جب انہوں نے اسلام کی اشاعت کی طرف سے توجہ ہٹائی تو وہی لاکھوں خراب ہو گئے.اسی طرح اگر ہمارے نمائندے اور ہمارے قائم مقام ان ممالک میں موجود ہوں اور پھر یہ کام صرف انہی تک محدود نہ ہو بلکہ ان کی آئندہ نسل بھی اس کام میں مشغول رہے تو سینکڑوں سال تک دُنیا اسلام کے نور سے مستفیض ہوتی رہے گی.پس وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لئے ایک عظیم الشان تحریک ہے.اگر وقف کی تحریک مضبوط ہو جائے اور نسلاً بعد نسل ہماری جماعت کے نوجوان خدمت دین کے لئے آگے بڑھتے رہیں تو سینکڑوں نہیں ہزاروں سال تک تبلیغ اسلام کا سلسلہ قائم رہ سکتا ہے.اس مفرض کے لئے میں نے متواتر جماعت پر وقف کی اہمیت کو ظاہر کیا مگر آب میرا ارادہ ہے کہ جماعت سے خاندانی طور پر وقف اولاد کا مطالبہ

Page 136

۱۲۴ کمروں یعنی ہر خاندان کے افراد اپنی طرف سے ایک ایک نوجوان کو خدمت کے لئے پیش کرتے ہوئے عہد کریں کہ ہم ہمیشہ اپنے خاندان میں سے کوئی نہ کوئی فرد دین کی خدمت کے لئے وقف رکھیں گے اور اس میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے.جب خاندانی وقف کی تحریک مضبوط ہو جائے تو پھر اس کو وسیع کر کے ہم وقف کرنے والوں کو تحریک کر سکیں گے کہ وہ اپنے اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں سے ایک ایک دو دو تین تین چار چار کو وقف کرنے کی کوشش کہ میں اس طرح یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ممتد ہوتا چلا جائے گا اور قیامت تک جاری رہے گا جیسا کہ میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا اب فصل تیار ہے صرف اس کے کاٹنے والوں کی ضرورت ہے اور یہ مبالغہ نہیں واقعہ ہے کہ مغربی لوگوں میں اسلام کی طرف زیر دست میلان پایا جاتا ہے کہیں تو بیمار تھا اور لمبی بات نہیں کر سکتا تھا مگر میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی میں گفتگو کرتا یورپین لوگ فوراً مہتھیار ڈال دیتے تھے اور وہ سمجھے جاتے تھے کہ حقیقت کیا ہے.بہرحال بہ تحریک ہے جو نہیں جماعت میں کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر ہم السلام کی اشاعت میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.آخر اپنے دلوں میں سوچو اور غور کرو کہ اگر وقف کا سلسلہ جاری نہ رہے تو تمہارا یہ دعوئی کہ اسلام دنیا پر غالب آجائے گا کسی طرح سچا سمجھا جا سکتا ہے یہ تو ہوگا نہیں کہ ایک دن صبح اٹھ کہ تم تسبیح پر تین دفعہ سبحان اللہ سبحان اللہ کہو گے اور امریکہ کا پریذیڈنٹ اور کونسل آف سٹیٹ کے سب مہر مسلمان ہو جائیں گے اور وہ اعلان کر دیں گے کہ ہم عیسائیت کو ترک کرتے ہیں.اگر ہم نے واقعہ میں اسلام پھیلانا ہے تو بہر حال ہمیں جد وجہد کرنی پڑے گی.....تو حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لئے جب تک صحیح رنگ میں کوشش نہ ہو اس وقت تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا اگر ہم اسلام کو پھیلا نا چاہتے ہیں تو ہم میں سے ہر احمدی کو یہ عہد کر لینا چاہیئے کہ ہمیں اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار یا ساتھی کو اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دوں گا پھر وہ آگے اپنے ساتھیوں کو اسلام کی خدمت کے لئے تیار کریں.اور یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری رہے.رفتہ رفتہ اتنے لوگ ہمارے پاس جمع ہو جائیں گے کہ ہم انہیں آسانی کے ساتھ مختلف ممالک میں پھیلا سکیں گے اور ان سے دین کی اشاعت کا کام لے سکیں گے.جب یہ لوگ اسلام کی اشاعت کے لئے ہر شخص تک پہنچیں گے تو چونکہ ان کے دل اسلام کی طرف پہلے ہی مائل ہیں اس لئے اسلام کی فتح کا دروازہ کھل جائے گا اور محمد رسول اله صل اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں عزت کے ساتھ قائم ہو جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی یہ مقام دور نظر آتا ہے.لیکن جب

Page 137

۱۲۵ و پیدا ہوئی تو کامیابی اتنی سرعت کے ساتھ ہوگی کہ ہمیں خود بھی اس پر حیرت ہوگی.رسول کریم صلی الشہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھ لو تیرہ سال آپ مکہ میں رہے اور تبلیغ کرتے رہے مگر اس تبلیغ کے نتیجہ میں صرف استی آدمی آپ پر ایمان لائے اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لے گئے تو تھوڑے عرصہ کے بعد ہی ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہونے شروع ہو گئے جس طرح بند ٹوٹنے کے بعد سیلاب کا پانی رک نہیں سکتا اسی طرح جب لوگوں میں ایک کو چل جائے تو پھر گروہ در گروہ لوگ سچائی کو قبول کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی مخالفت ان کو پیچھے نہیں ہٹا سکتی.آج ہمیں اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والوں کی ضرورت ہے.مگر پھر وہ وقت آئے گا کہ وقف کرنے والے اتنی کثرت سے آئیں گے کہ سوال پیدا ہو گا کہ ان واقفین کو سنبھالے کون.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام نے لکھا ہے کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا مجھے یہ فکر ہے کہ روپیہ کو سنبھالنے والے کہاں سے آئیں گے.اسی طرح مجھے بھی یہ فکر نہیں کہ اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے والے کہاں سے آئیں گے مجھے یہ فکر ہے کہ وقف کرنے والے اس کثرت سے آئیں گے کہ ان کو سنبھالے گا کون دل خدا تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں.جن دلوں کو وہ آپ صاف کر دے گا وہ دین کی خدمت کے لئے آگے آجائیں گے پھر ان کو دیکھ کہ سینکڑوں لوگ پیدا ہو جائیں گے جو اپنے آپ کو وقف کرنے کے لئے پیش کر دیں گے اور ان سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں پیدا ہو جائیں گے.ہم بچے تھے تو ہم کتابوں میں ایک کہانی پڑھا کرتے تھے کہ جب بادل نظر آتا ہے تو قطرے آپس میں جھگڑتے ہیں ایک کہتا ہے کہ نہیں زمین پر گر کمر کیوں جان دوں.دوسرا کہتا ہے نہیں کیوں جان دُوں آخر ایک قطرہ بڑھتا ہے اور زمین پر گرتا ہے ہیں کے بعد دوسرا قطرہ گرتا ہے.پھر تیرا گوتا ہے پھر چوتھا گرتا ہے اور پھر موسلا دھار بارش شروع ہو جاتی ہے.یہی حال دین کی قربانی کا ہے پہلے قربانی کرنے والے جب قربانی کرتے ہیں تو اُن کو دیکھے کہ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ انہیں تو کچھ بھی نہیں ہوا ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ تباہ ہو جائیں گے مگر ان کی تو ہم سے بھی زیادہ • - عزت ہوئی.اور ہم سے بھی زیادہ انہوں نے کامیابی حاصل کی.آؤ ہم بھی انہی کے پیچھے چلیں چنانچہ وہ بھی اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ زمانہ آجاتا ہے کہ انسان کہتا ہے یہیں کسی کو رکھوں اور کسی کو رد کروں کس کو چنوں اور کس کو نہ چوں؟ اس زمانے کے آنے سے پہلے پہلے جو لوگ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی دین کی خدمت کے لئے پیش کریں گے

Page 138

وہ خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہوں گے اور اس کی برکتوں سے اتنا حصہ پائیں گے کہ بعد میں آنے والے ان برکات کا عشر عشیر بھی نہیں لے سکیں گے.کیوں کہ الفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّهِ فضیلت انہی کو ملتی ہے جو نیکی اور قربانی کی راہوں میں سبقت اختیار کرتے ہیں.اس خطبہ کے بعد حضور کی خدمت اقدس میں ایک احمدی کا خط پہنچا کہ میرے دل میں وقف کی تحریک ہوئی ہے.سر دست میں دعائیں کر رہا ہوں اور دوستوں سے مشورہ لینے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں کہ آیا میں ذاتی طور پر یہ عہد نبھا سکتا ہوں یا نہیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اگلے خطبہ جمعہ (۲۳) ستمبر) میں اس خط کا خاص طور پر ذکر فرمایا اور پھر نہایت موثر رنگ میں فرمایا کہ یہ تو درست ہے کہ ہر اچھے سے اچھے کام کے لئے بھی دکھا اور مشورہ کی ضرورت ہوتی ہے مگر مشورہ صرف انہی سے لیا جا سکتا ہے جو اُس کے اہل ہوں اور وقف زندگی کے بارہ میں صحیح مشوره صرف امام وقت کا ہی ہو سکتا ہے.چنانچہ فرمایا ہے وہ دوست جن کے دلوں میں میرے خطبہ کی وجہ سے وقف کی تحریک ہوئی ہے ان سے میں کہتا ہوں کہ تم سوچو اور مشورہ لو مگر صرف انہی لوگوں سے مشورہ لو جو تمہیں مشورہ دینے کے اہل ہوں بلکہ اگر تم صحیح مشورہ لینا چاہتے ہو تو مجھ سے لو.دوسروں کو کیا پتہ ہے کہ سلسلہ کو کس قسم کے واقفین کی ضرورت ہے، کسی قسم کا علم رکھنے والوں کی ضرورت ہے، کسی قسم کا تجربہ رکھنے والوں کی ضرورت ہے اور پھر ان کے کتنے وقت کی سلسلہ کو ضرورت ہے.مجھے پتہ ہے کہ سلسلہ کے لئے کسی قسم کے کام کا تجربہ رکھنے والوں کی ضرورت ہے ؟ کس قسم کے علم والوں کی ضرورت ہے ؟ اور کتنا وقت دے کر وہ سلسلہ کی خدمت کو سکتے ہیں اس بارہ میں صحیح مشورہ انہیں مجھ سے ہی مل سکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر صحیح طریق پر کام کیا جائے تو ایک وکیل وکالت کرتے ہوئے بھی سلسلہ کی خدمت کر سکتا ہے.ایک زمیندار زمیندارہ کرتے ہوئے بھی سلسلہ کی خدمت کر سکتا ہے.بشرطیکہ وہ شورہ صحیح آدمی سے ہے ، جب تک میرے دم میں دم ہے میں تمہیں صحیح مشورہ دینے کے لئے ہر دم تیار ہوں.پس مجھ سے مشورہ ہو اور کوشش کرو کہ تم اپنے آپ کو ان لوگوں کی صف میں لے آؤ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَ ه روزنامه الفضل ریوه ۱۶ اکتوبر ۹۵۵ء م۳ تا ۵

Page 139

۱۲۷ لیے هَاجَرُوا وَجَهَدُوا مَعَكُمْ فَا ذليكَ منا یعنی وہ لوگ ایمان تو بعد میں لانے اور انہوں نے ہجرت بھی بعد میں کی، اور جہاد بھی بعد میں کیا لیکن پھر بھی وہ صحابہ منہ میں شامل ہوں گے ہے اس قیمتی نصیحت کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود کے الہام " حق اولاد در اولاد کی یہ لطیف పా تشریح فرمائی کہ ہر زمینوں اور جائیدادوں وغیرہ میں حصہ یہ کوئی زیادہ قیمتی چیز نہیں.زیادہ قیمتی یہ چیز ہے کہ میں نے تمہاری اولاد کے دماغوں میں وہ قابلیت رکھ دی ہے کہ جب بھی یہ اس قابلیت سے کام لیں گے دنیا کے لیڈر ہی بنیں گے...یکی سمجھتا ہوں کہ ہمیں بعد میں جو کچھ بھی بلا.حق اولاد در اولاد کی وجہ سے ہی ملا اور میں نے جتنے کام کئے اپنی دماغی اور ذہنی قابلیت کی وجہ سے ہی کئے ورنہ مجھ سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے دنیا میں موجود تھے.اگر ان کے دماغوں میں بھی وہی قابلیت ہوتی ہو مجھ میں ہے تو دنیا میں دس ہزار محمود اور بھی ہوتا لیکن اگر ساری دنیا میں صرف ایک ہی محمود ہے تو اس کی وجہ وہی حق اولاد در اولاد ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمارا ورثہ ہمارے دماغوں کے اندر رکھ دیا ہے اور یہ وہ دولت ہے جسے کوئی شخص چھرا نہیں سکتا " حضور نے اس پر معارف نکتہ کو بیان کرنے کے بعد اپنی زندگی کے بعض ایمان افروز واقعات بیان فرمائے اور پھر چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کی دینی خدمت کو بطور مثالی بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے جس طرح وہ کر رہے ہیں اس طرح تم میں سے ہر شخص دین کی خدمت کر سکتا ہے.بشرطیکہ تم کرنا چاہو اور اپنے اپنے کاموں کے ساتھ دین کی خدمت کے لئے بھی وقت نکالو پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس وقف کو مستقل کیا جاسکتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو اپنے تمام کاموں سے الگ ہو کہ خالص دینی خدمت میں مشغول رہیں مگر ہر آدمی ایسا نہیں کر سکتا.اُن کے لئے یہی طریق ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا کا بھی کام کریں اور اُس کے ساتھ دین کو بھی نظر انداز نہ کریں.یاد رکھو جب تک جماعت میں نسلاً بعد نسل ایسے لوگ پیدا نہ ہوتے رہیں گے جو دین کی اشاعت لے انقال : ۷۶ ته روزنامه الفضل ۲۶ نومبر ا صت - روزنامه الفضل ٢٢ اكتوبر مدة

Page 140

کے لئے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جائیں اور اسلام کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار ہوں اس وقت تک اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا.....بھلا مبلغ سے بڑا اور کون سا مقام ہو سکتا ہے جو تم حاصل کرنا چاہتے ہو.جو شخص سچا اور حقیقی مبلغ ہوتا ہے وہ دُنیا میں خُدا تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت کے وزرا و ہز ایکسیلینسی نہیں کہا سکتے لیکن ایمبیسیڈر ہر ایک لبنی کہلاتے ہیں.اسی سفر میں ایک دن چوہدری ظفراللہ خان صاحب کہنے لگے کہ میں جب تک وزارت خارجہ میں تھا ہر اکیلینی نہیں کہلا سکتا تھا ، لیکن اب انٹرنیشنل کورٹ کا حج ہونے کی وجہ سے ہائی رائٹ (BY RIGHT ) اپنے آپ کو ہر ایک پیلینسی لکھ سکتا ہوں " حضرت مصلح موعود نے خطبہ کے آخر میں فرمایا :.خدا نے تمہارے لئے بڑی بڑی عزتیں رکھی ہیں.تم خدا پر توکل کرو اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرد.وہ دینے پر آتا ہے تو وہ کچھ دے دیتا ہے کہ انسان اسے دیکھ کر تیران رہ جاتا ہے.ہم نے ساری عمر میں دنیوی قابلیتوں کے بغیر وہ کچھ علم حاصل کیا ہے جو بڑی بڑی ڈگریاں رکھتے والوں کو بھی نہیں ملا.اسی طرح مالی لحاظ سے اللہ تعالٰی نے ہماری ایسے ایسے راستوں سے مدد کی جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے.پس خدا تعالیٰ پر توکل کرانے ہوئے تم اس کی طرف قدم اٹھاؤ اگر تم اس پر تو نکل رکھتے ہوئے اس کی طرف اپنا قدم بڑھاؤ گے تو یقینا تمہارا خدا تم کو ضائع نہیں کرے گا.وہ تمہارا ہاتھ پکڑے گا اور تم محسوس کرو گے کہ تمہارا خدا تمہارے سامنے کھڑا ہے میرے پاس اس سفر میں ایک نومسلم انگریز آیا اور اس نے کہا کہ میں بڑی کوشش کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کروں مگر مجھے پتہ نہیں لگتا کہ میں اس کے قریب ہو گیا ہوں یا نہیں.میں نے کہا کہ تمہاری اس خواہش کا انحصار تمہارے اس ایمان اور نقی ہور ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کا دروازہ تمہارے لئے بند نہیں بلکہ تم بھی اس کے انعامات کو اسی طرح حاصل کر سکتے ہو جس طرح پہلے لوگوں نے حاصل کئے اگر تم سچے دل سے یہ یقین رکھو کہ خدا تو الا کے انعامات کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں اور ہر ترقی تمہارے لئے ممکن ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا تعالے تمہارے قریب نہ آئے وہ یقیناً تمہارے لئے اپنے قرب کے دروازے کھول دے گا اور تم محسوس کرو گے کہ وہ تمہارے قریب آگیا ہے جیسے تمہارے کمرے میں اگر آگ جل رہی ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ تم اس آگی کے وجود سے انکار کر سکو.کیونکہ اس کی گرفی تمہیں محسوس ہونے لگتی ہے اس طرح اگر تم یقین رکھو کہ

Page 141

١٣٩ تمہارے لئے لا متناہی ترقیات کے دروازے کھلے ہیں اور تمہارا خدا بخیل نہیں تو یقیناً اس کا قرب تمہیں محسوس ہی نہیں ہو گا بلکہ تم اپنی روحانی آنکھوں سے اس کو دیکھنا شروع کر دو گے میرے اس جواب کا اس پر ایسا اللہ ہوا کہ وہ نماز کے بعد کئی گھنٹے تک مسجد میں بیٹھا رہا اور اس نے کہا مجھے اپنی ساری زندگی میں آج پہلی دفعہ یہ محسوس ہوا ہے کہ میرے لئے بھی ترقی کا راستہ کھلا ہے اور مجھے جو روحانی سرور اس سے حاصل ہوا ہے وہ پہلے کبھی حاصل نہیں ہوا.اسی طرح تم بھی خدا تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا کرو اور اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرو یہ مت خیال کرو کہ اس کے تمام انعامات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئے ہیں یا مسیح موعود پر ختم ہو گئے ہیں یا مجھ پر ختم ہوگئے ہیں.اس کے انعامات کے دروازے تم سب کے لئے کھلے ہیں.اگر تم ان دروازوں میں داخل ہو کر اس کے انعامات کو حاصل نہیں کرتے تو تم میں سے زیادہ بد قسمت اور کوئی نہیں لیکن اگر تم کوشش کرتے رہو اور اس کے انعامات پر یقین رکھو تو تم وہی کچھ حاصل کر سکتے ہو جو سید عبد القادر صاحب جیلانی اور شیلی اور معین الدین صاحب چشتی نے حاصل کیا.تمہارا خدا سجیل نہیں اور نہ اس کی جیب میں کمی ہے.اس کی جیب میں سارے دی ہے پڑے ہوئے ہیں اگر تم یقین اور ایمان کے ساتھ اس کی طرف بڑھو تو وہ معین الدین صاحب اپنی وال انعام اپنی جیب سے نکالے گا اور تمہاری جیب میں ڈال دے گا وہ محی الدین صاحب ابن عربی والا انعام اپنی جیب سے نکالے گا اور تمہاری جیب میں ڈال دے گا.وہ ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی والا انعام نکالے گا اور تمہاری جیب میں ڈال دے گا یہ تحریک وقت زندگی کے سلسلہ میں حضور نے ۴ در اکتوبر ۱۹۵۵ء ( ۱۴ اخاء ۱۳۳۳ ) کو بھی ایک نهایت زور دار خطبہ ارشاد فرمایا.یہ خطبہ مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع ہوا در حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسّلام نے جو کام ہمارے سپرد کیا ہے یا یوں کہو کہ جو کام ملاقات نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمارے سپرد کیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کا تصور کر کے بھی دل کانپ جاتا ہے.دنیا میں اس وقت دو ارب غیر مسلم پائے جاتے ہیں.اور ہمارے سپرد یہ کام ہے کہ ان دو ارب غیر مسلموں کو مسلمان بنا دیں گذشتہ تیرہ سو سال میں صرف پچاس کروڑ مسلمان ہوئے "/ شه روزنامه الفضل ریوه ۲۲ اکتوبر شراء مت )

Page 142

ہیں گویا اس وقت چار غیر مسلم ایک مسلمان کے مقابل پر موجود ہیں.اس کے متے یہ ہیں کہ جو کام نہیں ہو سال میں ہمارے آبا و اجداد نے کیا ہے اس سے چار گنا کام کی ہم سے اُمید کی گئی ہے لیکن اس کیلئے وقت کا لحاظ رکھنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے ورنہ غیر معین عرصہ میں تو بڑے بڑے کٹھن کام بھی ہو جاتے ہیں مثلاً دریاؤں کا پانی ہی جب ایک لمبے عرصہ تک پہاڑوں پر گرتا رہتا ہے تو اس کی وجہ سے بڑی بڑی فاریں بن جاتی ہیں اور جیالوجی والے کہتے ہیں کہ چونکہ دس دس ہمیں بیس لاکھ سال بلکہ کروڑوں سال سے یہ پانی گرتا رہا ہے اس لئے اب پہاڑوں میں بڑی بڑی غاریں بن گئی ہیں مگر انسانی زندگی اور انسانی سکیمیں اتنی لمبی نہیں ملتیں یا کم از کم تاریخ ہمیں کسی اتنی لمبی زندگی یا اتنے لیے عرصہ تک چلنے ولی سکیم کا پتہ نہیں دیتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین سو سال میں احمدیت ساری دنیا میں پھیل جائے گی.اگر ایک نسل کے بیس سال بھی فرض کر لئے جائیں توتم سمجھ سکتے ہو کہ تین سو سال میں پوری پندرہ نسلیں آجاتی ہیں گویا اگر ہماری پندرہ نسلیں یکے بعد دیگرے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرتی چلی جائیں تب وہ کام پورا ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے.مگر کیا حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کا یہ منشا تھا کہ اور لوگوں کی نسلیں تو اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور میری اپنی نسل وقف نہ کرے.آخر جو شخص دوسروں سے کوئی مطالبہ کرتا ہے اس کی نسل سب سے پہلے اس مطالبہ کی مخاطب ہوتی ہے لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی نسل بد عہدی کرے گی تو یقیناً خدا تعالے دوسر لوگوں میں سے اسلام کے بہادر اور جان نثار سپاہی کھڑے کر دے گا.چنانچہ دیکھ لو جب ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیات کام کی اولاد میں سے ایسے مشرک پیدا ہوئے جنہوں نے کعبہ میں بھی سینکڑوں بت رکھ دیئے تو دوسری طرف عراق کے علاقہ میں حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت جنید بغدادی" جیسے بزرگ پیدا ہوئے جنہوں نے دین کی بڑی خدمت کی اسی طرح ایک دوسرے ملک سے حضرت معین الدین صاحب چشتیہ آگئے اور انہوں نے اسلام پھیلا یا.پس جہاں میں حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کی اولاد کو توجہ دلاتا ہوں وہاں میں جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ تمہیں یکے بعد دیگرے کم از کم پندرہ نسلوں کو وقف کرنا ہو گا لیکن تم تو ابھی سے گھبرا گئے ہو اور ابھی سے تمہارا یہ حال ہے کہ جو شخص دین کی خدمت کے لئے آتا ہے اس کو یہ خیال آتا ہے کہ گزارہ کیسے ہو گا.سیدھی بات ہے کہ روپیہ ہو گا تو گزارہ ملے گا اور روپیہ اس وقت آئے گا جب نئے احمدی نہیں گئے.تم پچاس لاکھ احمدی لے آؤ تو تمہارے گزارہ خود بخود

Page 143

بڑھ جائیں گے.بہر حال دنیا اِس وقت اسلام کی آواز سننے کو منتظر ہے اور اس کے لئے ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین کی خدمت کے لئے آئیں اور اپنی زندگیاں اس کام کے لئے وقف کریں حضور نے خطبہ کے آخر میں خاندانی طور پر وقف کرنے کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : خاندانی طور پر اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرو.اور عہد کرو کہ تم اپنی اولاد در اولاد کو وقف کرتے چلے جاؤ گے.پہلے تم خود اپنے کسی بچے کو وقف کرو پھر اپنے سب بچوں سے عہد لو کہ وہ اپنے بچوں میں سے کسی نہ کسی کو خدمت دین کے لئے وقف کریں گے.اور پھر ان سے یہ عہد بھی لو کہ وہ اپنے بچوں سے عہد لیں گے کہ وہ بھی اپنی آئندہ نسل سے یہی مطالبہ کر یں گے.چونکہ اگلی نسل کا وقف تمہارے اختیار میں نہیں اس لئے صرف تحریک کرنا تمہارا کام ہوگا، اگر وہ نہیں مانیں گے تومیران کا قصور ہو گا.تم اپنے فرض سے سبکدوش سمجھے جاؤ گے اگر تم یہ کام کروگے اور یہ شرح جماعت میں نسلاً بعد نسل پیدا ہوتی چلی جائے گی اور ہر فرد یہ کوشش کرے گا کہ اس کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں واقف زندگی دین کی خدمت کے لئے جہیا ہو جائیں گے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کی تحریک فرمائی ہے.تمہیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئیے کہ تم میں سے شخص وصیت کرے اور پھر اپنی اولاد کے متعلق بھی کوشش کرے کہ وہ بھی وصیت کرے اور وہ اولاد اپنی اگلی نسل کو وصیت کی تحریک کرے.یہ بھی دین کی خدمت کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہے.اگر ہم ایسا کہ لی تو قیامت تک تبلیغ اور اشاعت کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے؟ اس تحریک کے نتیجہ میں ابتداء میں حضور کی خدمت میں تین درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سر فہرست احبزادہ مرزا انس احمد صاحب کی درخواست تھی.حضور انور نے ان درخواستوں کا اپنے خطبہ میں خاص طور پر تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :- میں نے جماعت میں جو وقف کی تحریک شروع کی ہے اس کے بعد میرے پاس تین درخواستیں آئی له روزنامه الفضل ربوه ۲۵ نومبر ۹۵ و م.له القامه ۱۹۵۵ء ۳۶ •

Page 144

ا ما ہیں.ایک تو میرے پوتے مرزا انس احمد کی ہے جو عزیزم مرزا ناصر احمد کا لڑکا ہے.اللہ تعالیٰ اسے اپنی نیت کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.انس احمد نے کہا ہے کہ میرا ارادہ تھا کہ میں قانون پڑھ کر اپنی زندگی وقف کروں لیکن آپ آپ جہاں چاہیں مجھے لگا دیں.میں ہر طرح تیار ہوں.ایک درخواست ہر سعد اللہ صاحب کی آئی ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے ایم اے کا امتحان دیا ہوا ہے اس میں کامیاب ہوتے کے بعد آپ جہاں چاہیں مجھے لگا دیں.تیسری درخواست باہر کے ایک لڑکے کی ہے جو ابھی چھوٹی جماعت کا طالب علم ہے.نہیں نے اسے کہا کہ وہ میٹرک پاس کر کے جامعہ میں داخلہ لے کیونکہ جب تک جامعہ میں زیادہ طالب علم نہیں آئیں گے اس وقت تک شاہد بھی زیادہ تعداد میں نہیں نکل سکتے.ہمارے اسکول کے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ لڑکوں میں وقف کی تحریک کریں اور انہیں سمجھائیں کہ تمہارا اعلی گزارہ تمہارے اپنے اختیار میں میں ہے.اگر تم باہر جاؤ گے اور تبلیغ کرو گے تو تمہاری تبلیغ کے نتیجے میں جماعت بڑھے گی اور جماعت کے بڑھنے سے چندے زیادہ ہوں گے.اور چندے زیادہ آئیں گے تو تمہارے گزارے بھی زیادہ اعلیٰ ہوں گے.اگر یورپ کا کوئی حصہ ہی احمدی ہو جائے تو جماعت کے چندے کئی گنا بڑھ سکتے ہیں.پس سکول کے اساتذہ اپنے سکول کے لڑکوں کو سمجھائیں اور پروفیبر کالج کے لڑکوں کو سمجھائیں اور باہر کے مبلغ اپنی اپنی جماعتوں میں چندہ دینے اور زندگی وقف کرنے کی تحریک کریں.اس طرح چند مہینوں میں ہی کام کی رفتار تیز ہوسکتی ہے اور یہ صدی ہر قسم کے شیطانی حملوں سے محفوظ ہو سکتی ہے.پھر جوں جوں جماعت بڑھے گی خدا تعالٰی اپنے فضل سے آئندہ بھی اس میں جوش پیدا کرتا چلا جائے گائیے ه روز نامه الفضل ربوه ۲۵ نوبه شه من

Page 145

١٣٣ عقد فصل دوم حضرت مصلح موجود کو ہمیشہ یہ فکر دامنگیر تم نبوت مین خلق ایک نہایت اہم خو رہتا تھا کہ سلسلہ احمدیہ کے افراد صحیح اسلامی عقائد سے باخبر ہیں تا غلط فہمیاں دور ہوں اور اُمت مسلمہ ایک مضبوط قلعہ بن کر اپنی پوری قوت غیر مسلم دنیا کومسلمان بنانے پر مرکوز کر دے.یہی وہ روح اور پاک جذبہ تھا جس کی بناء پر حضور نے ہر نومیر ۱۹۵۵ء کو مسئلہ ختم نبوت پر ایک اچھوتے رنگ میں روشنی ڈالی اور بڑے واضح لفظوں میں یہ حقیقت پیش کی کہ قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کے الہامات دونوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے.لہذا کسی احمدی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا انکار کر سکے.حضور کے اس پر از علم و عرفان خطیہ کے بعض حصے درج ذیل کئے جاتے ہیں :- قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاں اور بہت سے نام آئے ہیں وہاں آپ کا ایک نام خاتم النبیین بھی آیا ہے ، اور گو خاتم النبیین کی مختلف تاویلیں کی جاتی ہیں لیکن لفظ خاتم النبیین پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے.اور ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے دل سے خاتم النبیی تسلیم کرتے ہیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو نہیں " بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں: (اشتہار ۲۳ اکتوبر الماء ).....ہم نے متواتہ اس بات پر زور دیا کہ ہم قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور جب قرآن کریم میں رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے تو ہم آپ کے خاتم النبیین ہونے سے کیسے انکار کر سکتے ہیں ؟ اگر یہ بات صرف حدیث میں آتی تو ہم حدیثوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں لیکن کہنے والا کہ سکتا تھا که چونکہ یہ بات قرآن کریم میں نہیں آئی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر تم یقی نہیں رکھتے لیکن یہ الفاظ تو قرآن کریم میں آیا ہے پس جو شخص رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کو ختم النبیین

Page 146

۱۳۴ نہیں مانے گا وہ دوسرے الفاظ میں قرآن کریم کو بھی نہیں مانے گا.لیکن ہم تو قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں.پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین نہ کریں.لفظ خاتم النبيين کی تشریح میں تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا.شخص جو قرآن کریم کو مانتا ہے لانگا وہ آپ کو خاتم النبین بھی مانے گا.جب ہماری جماعت کے افراد معترضین کو یہ جواب دیتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ تم قرآن کریم کو بھی نہیں مانتے تم تو مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام ) کے الہامات کو قرآن کریم سے افضل سمجھتے ہو حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم آپ کے الہامات کو قرآن کریم کے تابع سمجھتے ہیں اور انہیں قرآن کریم کا خادم قرار دیتے ہیں.جیسے مرزا صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں.اسی طرح آپ کے الہامات قرآن کریم کے خادم ہیں.انہیں کوئی علیحدہ اور منتقل حیثیت حاصل نہیں چنانچہ آپ نے اپنی کتابوں میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطب ہرگز نہ پانا " وتجلیات الهیه ۲۳ (۲۵).پس جس طرح یہ بات بھی ہیچ ہے کہ اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو قرآن کریم کا مخالف یا اسے رد کرنے والا سمجھتا ہے تو وہ احمدیت اور اسلام سے خارج ہے.بہر حال گو یہ بات انتہائی غیر معقول تھی لیکن کہا جاتا تھا کہ ہم حضرت مرزا صاحب کے الہامات کو نعوذ باللہ قرآن کریم پر مقدم خیال کرتے ہیں اور قرآن کریم کو محض دکھاوے کے طور پر مانتے ہیں حالانکہ اگر ان کا یہ اعتراض سچا ہے تو پھر ہم بیرونی ممالک میں جا کہ اسلام کی اشاعت کے لئے کیوں تکلیف اُٹھا رہے ہیں، اگر رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر ہم سچے طور پر ایمان نہیں لاتے تو ہم اسلام کو پھیلانے کے لئے دوسرے ممالک میں کیوں جاتے ہیں ؟.ہمارا بیرونی ممالک میں اسلام پھیلانا بتاتا ہے کہ ہم اسلام اور محمد رسول اله صل اللہ علی وسلم پر سچا ایمان رکھتے ہیں لیکن بہر حال جب دشمن عداوت میں بڑھ جاتا ہے تو وہ مخالفت میں معقولیت کو نظر اندانہ کہ دیتا ہے.انہوں نے ہم پر یہ الزام لگایا کہ ہم قرآن کریم کو نہیں مانتے.اور مرزا صاحب کو محمدرسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم سے افضل سمجھتے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس قسم کے عقیدہ کو گھر کا موجب سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل سمجھا جائے یا اس کی وحی کو قرآن کریم سے برتر قرار دیا جائے قرآن کریم تو مضامین کا ایک سمندر ہے.ہماری ساری تمدنی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری

Page 147

۱۳۵ ساری معاشی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری عائلی ضرور نہیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری عقلی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری سیاسی ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری اخلاقی ضروئیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.ہماری ساری روحانی ضرورت ہیں قرآن کریم سے پوری ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات قرآن کریم کے قائم مقام نہیں ہو سکتے.اگر کوئی شخص نعوذ باللہ من ذالک حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الہامات کو قرآن کریم سے افضل یا اس کو رد کرنے والا مانے تو وہ قرآن کریم کی ان ساری تعلیموں کو آپ کے الہامات سے نہیں نکال سکتا.گویا اگر کس شخص کا فی الواقعہ یہ عقیدہ ہو تو آپ کے الہامات نعوذ باللہ قرآن کریم کے قائم مقام ہیں.تو وہ ان ساری برکتوں سے محروم ہو جائے گا جو قرآن کریم سے حاصل ہوتی ہیں.آپ کے الہامات قرآن کریم کی تشریح تو ہیں.اور قرآن کریم کی بعض مغلق باتیں جو آسانی سے سمجھ میں نہیں آسکتیں، آپ کے الہامات کی روشنی میں سمجھ آجاتی ہیں لیکن اگر ہم یہ سمجھیں کہ قرآن کریم کے سارے مضامین ان الہامات سے نکل آئیں گے تو یہ بالکل احمقانہ بات ہوگی.قرآن کریم ایک جامع اور کامل اور تمام الہامی کتب سے افضل کتاب ہے اور ا مرزا صاحب کے الہامات قرآن کریم کے خادم ہیں.اس لئے قرآن کریم میں تو سارے اخلاقی ، روحانی ، عقلی ، سیاسی ، معاشی ، اقتصادی اور ایمانی مضامین آگئے ہیں.لیکن حضرت مرزا صاحب کے الہاموں میں پیغام مضامین بیان نہیں کئے گئے کیونکہ آپ کو الہام کرنے والا خدا جانتا تھا کہ تمام مضامین قرآن کریم میں آپکے ہیں.اس لئے آپ انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے الہامات میں بھی کئی اہم باتیں بیان کی گئی ہیں لیکن وہ قرآن کریم سے زائد نہیں بلکہ اس کی تشریح کے طور پر ہیں...ہم جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا خادم اور علم سمجھتے ہیں ای طرح ہم آپ کے الہامات کو بھی قرآن کریم کا خادم یقین کرتے ہیں جس طرح خادم اپنے آقا کی چیزوں کی صفائی کرتا ہے اور ان کی نگرانی کرتا ہے.اسی طرح قرآن کریم پر سلمانوں نے اپنی غلط تشریحات کی وجہ سے جو گرد و غبارہ ڈال دی تھی حضرت میں موعود علی الصلوۃ والسلام کے الہامات اس گرد و غبار کو صاف کرتے ہیں.لیکن کیا کوئی غلام اپنے آقا کی چیزوں کو اپنی طرف منسوب کر سکتا ہے یا وہ اپنے آپ کو اس سے افضل قرار دے سکتا ہے ؟ اس کا کام تو اپنے آقا کے کپڑوں کو صاف کرنا انہیں سنبھال کر رکھنا جوتے پالش کرنا اور دوسری خدمات بجالانا ہوتا ہے اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے الہاموں کا ایک خادم کی

Page 148

حیثیت میں یہ کام ہے کہ وہ قرآن کریم کے معنی کو محفوظ رکھیں اور وہ گردو غبار جو قرآن کریم پر پڑے گیا ہے اسے صاف کریں یہ گرد و غبار قرآن کریم کا حصہ نہیں بلکہ لوگوں نے اپنے غلط خیالات کی وجہ سے قرآن کریم کے معانی پر ڈال دیا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے الہامات قرآن کریم کے خادم ہیں اور ان کا کام اس سے گردو غبار کو دور کرتا ہے.ان کی حیثیت شرو ع ہی سے قرآن کریم کی خادم کی سی ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ ان کی یہی حیثیت رہے گی.لیکن چونکہ مخالفین ہم پر یہ الز تھے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کو قرآن کریم پر ترجیح دیتے ہیں او محمد رسول شد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں سمجھتے.اس لئے میری توجہ اس طرف بھری کہ میں اس بات کی تحقیق کروں کہ آیا آپ کے الہامات میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین قرار دیا گیا یا نہیں.چنانچہ میں نے تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ تذکرہ " میں تین دفعہ یہ الہام درج ہے کہ : " صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ سَيْهِ وَلْدِ آدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ.ر ۲۳, ۲۷۵) 3 یعنی محمد رسول الله صل للہ علیہ وسلم پر درود بھیجو جو تمام بنی آدم کے سردار اور خاتم النبیین ہیں.اب اگر معتر متین کا یہ اعتراض درست ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی کو قرآن کریم پر ترجیح دیتے ہیں تو اگر ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے تو اپنے عمل سے ہم حضرت مسیح موجود علي الصلوۃ والسلام کو جھوٹا قرار دیتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو ہم معترضین کے قول کے مطابق آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑا اور افضل قرار دیتے ہیں.اور دوسری آپ کے الہام کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وحی کو قرآن کریم سے افضل قرار نہیں دیتے بلکہ انہیں قرآن کریم کے خادم کے طور پر تسلیم کرتے ہیں تو پھر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں رہتا کہ ہمارے اپنے عقیدے کے رو سے بھی محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم خاتم النبی ہیں کیونکہ مرزا صاحب کے الہامات میں بھی محمد رسول اللہ صلی الشر علیہ وسلم کو خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے.....پس یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ کوئی ایماندارا حمدی یہ گمان تک نہیں کر سکتا کہ حمد رسول اللهعلیہ و آلہ وسلم خاتم النبیین نہیں تھے.اگر ہم قرآن کریم کی طرف جاتے ہیں تو اس میں بھی آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے.اور اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی طرف جاتے ہیں تو ان میں بھی آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے پھر اگر ہم آپ کی تحریروں کی طرف دیکھتے ہیں تو ان میں بھی

Page 149

۱۳۷ بار بار آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے.پھر کوئی سنتا احمدی آپ کے قائم النبیین ہونے میں کسی طرح شہید کر سکتا ہے جدھر بھی کوئی جائے اسے یہی آوازہ آئے گی کہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں.قرآن کریم سے بھی یہی آواز آتی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور حضرت مرزا صاحب کے الہامات اور تحریروں سے بھی یہی آواز آتی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں.پس ایک احمدی کے لئے آپ کو خاتم النبیین ماننے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ خود اپنی قبر کھود کر اپنی روحانی موت کا اعلان کر دے ورنہ اسے اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں آپؐنے کو خاتم النبی میں ماننا پڑے گا.کیونکہ قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود على الصلوۃ والسّلام کے الہامات دونوں آپ کو خاتم النبیین قرار دیتے ہیں اور وہ قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہوئے بھی آپ کے خاتم النبیین ہونے سے انکار نہیں کر سکتا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة و انام کے الہامات پر ایمان رکھتے ہوئے بھی آپ کے خاتم النبیین ہونے سے انکار نہیں کر سکتا ہے حضرت مصلح موعود نے اور نومبر شھداء کو خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی دعاوں کی خصوصی تحریک کرہ اور تانے کے وعدوں کو قریب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام ہیں اللہ احیا خصوصا نوجوان دعاؤں میں لگ جائیں.چنانچہ فرمایا.ہماری جماعت بھی ایک نہایت قلیل جماعت ہے اور جو کام اس کے سامنے پڑے ہیں اُن کا ابتدائی مرکز ہندوستان میں ہے جہاں جماعت بہت تھوڑی ہے.اللہ تعالیٰ کے بڑے وعدے ہیں مگر ان وعدوں کو قریب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم دعاؤں میں لگ جائیں.اللہ تعالیٰ چاہے تو وہاں کے مسلمانوں کے دل بھی احمدیت کی طرف مائل کر سکتا ہے.اور وہاں کے سکھوں اور ہندؤوں کے دل بھی احمدیت کی طرف مائل کر سکتا ہے.پس جو کام ہم خود نہیں کر سکتے رہمارے لئے تو وہاں جانا ہی مشکل ہے ) وہ ہم دعاؤں کے ساتھ کر سکتے ہیں.ہمیں اللہ تعالٰی سے دعائیں کرنی چاہی ہیں کہ الہی تیرے وعدے تو سنتے ہیں لیکن اگر تیرے وعدے اس وقت پورے ہوئے جب ان مسکین لوگوں کے جو وہاں بیٹھے ہوئے ہیں دل ٹوٹ گئے تو اس کا کیا فائدہ ہو گا تو جلدی اپنے وعدے پورے کر اور جلدی ان لوگوں کے دلوں کو مضبوط کرنے کی تجویز کی.میں نے پچھلے جمعہ میں کہا تھا کہ مجھے بھی روبار میں یہی پتہ لگا ہے کہ میری مرض بھی دعا کے ساتھ له روز نامر الفضل ربوه ۱۸ نومبر ۱۹۵۵ء متاه

Page 150

تعلق رکھتی ہے سو دوست دعا کریں.اسی طرباً دنیا کے باقی ممالک میں ایک ایک دو دو کر کے مسلمان ہو رہے ہیں لیکن ایک ایک دو دو سے کیا بنتا ہے ضرورت یہ ہے کہ خدا تعالے بند توڑے.اگر بند ٹوٹ جائیں اور ہزاروں لاکھوں آدمی احمدی ہونے لگیں تو ایک دو سال کے اندر ہر رنگ میں احمدیت اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ پھر قریب ترین زمانہ میں کوئی فکر کی صورت نہیں رہتی.جب زیادہ تعداد میں لوگ مختلف ممالک میں احمدی ہو جائیں گے.تو پھر کچھ عرصہ میں وہ اپنے آپ کو اور مضبوط کر لیں گے اور اس طرح بعید کا زمانہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مضبوط ہوتا چلا جائے گا.تو دعائیں کرو.مجھے افسوس ہے کہ نوجوانوں میں جب جلسے ہوتے ہیں تب تو وہ نعرے لگا دیتے ہیں لیکن تہجد پڑھنے اور دعائیں کرنے کا رواج کم ہے حالانکہ تم سوچو تو سہی ہمارے ملک کی مثل ہے کہ کیا پڑی اور کیا پڑی کا شور یہ جو کام تمہارے ذمہ ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے تمہارے پاس طاقت ہی کہاں ہے اور دعا کے سوا تم کہ ہی کیا سکتے ہو.دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام نا ممکن باتوں کو ممکن بنا دیتی ہے.پس نوجوانوں کو خصوصا د گاؤں کی عادت ڈالنی چاہئیے بڑوں کو بھی یہ عادت ڈالنی چاہیئے.مگر نوجوانوں کو خصوصا یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ کیا پڑی اور کیا پڑی کا شوربہ ملکہ تم تو پڑی سے بھی کم ہو تمہاری جان تو تبھی بیچ سکتی ہے کہ خدا باز کے دل میں رحم ڈال دے.ایک پڑی اگر طاقت کے ساتھ باتہ سے لڑنا چاہے تو شائد سو میں سے نہیں ہزار میں سے ایک دفعہ ہی اس کا امکان ہے لیکن اگر وہ پڑی خدا کے آگے اسپیل کرے تو سو میں سے ۷۰ فیصدی امکان ہو سکتا ہے کہ باز کے پر ٹوٹ جائیں یا بانہ کی نیت بدل جائے یا باند کو کوئی اور زیادہ اچھا جانور نظر آجائے اور وہ اس پڑی کو چھوڑ کر ادھر بھاگ جائے تو یہ ساری چیزیں ہو سکتی ہیں.پس دُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں تمہاری محبت اور رحیم پیدا کرے تمہاری باتوں میں تاثیر دے اور تمہارے کاموں میں برکت دے اور سب سے زیادہ یہ کہ اسلہ تعلی تمہارے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرے کہ اس کے بعد وہ تمہاری باتوں کو رقہ نہ کر سکے بلکہ تمہاری دعائیں قبول کرنے لگ جائے یہی گر ہے تمہاری کامیابی کا.اس کے سوا اور کوئی گر نہیں ہے " خدام الاحمدیہ کا اندر جوان ام ان حمید کا سال اجتماع اور حضرت مصلح موعود کے پر معارف خطابات سالانہ اجتماع ۱۸ ۱۹ ۲۰ نومبر لے روزنامه الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۵۶ء ص ۴۱۳

Page 151

۱۳۹ ۱۹۵۵ء کو ریوہ میں منعقد ہوا.اس اجتماع میں بیالیس مجالس کے آٹھ سو سات خدام نے شرکت کی.مندرجہ ذیل دوشش بیرونی ممالک کے نمائندوں کو اس میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ہے.انڈونیشیا.برٹش شمالی لینڈ - چین - ٹرینیڈاڈ - شام.ڈچ گی آنا.عدن - مشرقی افریقہ - گولڈ کوسٹ دعانا ).قادیان.احمدی نوجوانوں نے تین روز تک اپنے خیموں میں مقیم رہ کہ اجتماعی عبادات ، ورزشی اور علمی مقابلوں تلقین عمل اور مجلس شوری کے اجلاسوں میں حصہ لینے کے علاوہ اپنے پیارے امام حضرت مصلح موعود کے دو ولولہ انگیز خطابات سے مستفیض ہونے کا شرف حاصل کیا.افتتاحی خطاب میں حضور نے خدام اور انصار دونوں کو نہایت بیش قیمت ہدایات سے نوازتے ہوئے فرمایا ہے و آج انصار اللہ کی پہلی میٹنگ ہے.انصار کسی جذبہ اور قربانی سے کام کرتے ہیں.یہ تو آئنہ سال ہی بتائیں گے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصار کرتے ہیں اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں جب کسی قوم کے دماغ دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے.پس میں پہلے تو انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ....جماعت میں نمازوں ، دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا ان کا کام ہے.ان کو تہجدہ ذکر الہی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہئے کہ نوجوان ان کو دیکھے کہ خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں.اصل میں تو جوانی کی کمر ہی وہ زمانہ ہے جس میں تہجد دعا اور ذکر الہی کی طاقت بھی ہوتی ہے اور مزہ بھی ہوتا ہے لیکن عام طور پر جوانی کے زمانہ میں مونٹ اور عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے.اس وجہ سے نوجوان غافل ہو جاتے ہیں لیکن اگر تو جوانی میں کسی کو یہ توفیق مل جائے تو وہ بہت ہی مبارک وجود ہوتا ہے.پس ایک طرف تو ہمیں انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونہ سے اپنے بچوں ، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں اور دوسری طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلانا ہوں کہ وہ اتنا اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نسلاً بعد نسیل اسلام کی روح زندہ رہ ہے.اسلام اپنی ذات میں تو کامل مذہب ہے لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ شہریت کے لئے بھی کسی گلائس کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح اسلام کی روح کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے کسی گلاس کی ضرورت ہے اور ہمارے قدام الاحمدیہ وہ گلاس ہیں جن میں اسلام کی روح کو قائم رکھا جائے گا اور ان کے ذریعہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے گا.دیکھو آخر ہم بھی انسان ہیں اور یہودی بھی انسان ہیں.ہمارا دین ان کے

Page 152

دین سے بہتر ہے اور ہمارا رسول ان کے رسول سے افضل ہے، مگر یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیا گیا تو وہ اسے دو ہزار سال تک نہیں بھولے بلکہ اتنے لمبے عرصے تک انہیں یہ یاد رہا کہ انہوں نے فلسطین میں دوبارہ یہودی اثر کو قائم کرنا ہے اور آخر وہ دن آگیا آپ وہ فلسطین پر قابض ہیں ہمیں اس بات پر غصہ تو آتا ہے اور ہم حکومتوں کو اس طرف توجہ بھی دلاتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو انہیں توجہ دلاتے رہیں گے کہ آپ یہ اسلامی علاقہ ہے یہودیوں کا نہیں.اس لئے یہ مسلمانوں کو ملنا چاہیئے مگر ہم اس بات کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہودیوں نے دو ہزار سال تک اس بات کو یاد رکھا جو دوسری تو میں بعض دفعہ بیس سال یا سو سال تک بھی یاد نہیں رکھ سکتیں.پس یاد رکھو کہ اشاعت دین کوئی معمولی چیز نہیں یہ بعض دفعہ جلدی بھی ہو جاتی ہے.جیسے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ۲ سال میں ہو گئی اور پھر مزید اشاعت کوئی پچاس سال میں ہو گئی مگر کبھی کبھی یہ سینکڑوں سال بھی لے لیتی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ اس کام کے زمانہ میں اس نے ایک سو سال کا عرصہ لیا اور کبھی یہ ہزاروں سال کا مورد بھی لے لیتی ہے.چنانچہ دیکھ لو یہودیوں کا دنیوی نفوذ تو بہت کم عرصہ میں ہو گیا تھا لیکن دوسری قووت کی ہمدردی انہیں دو ہزارہ سال بعد جا کہ حاصل ہوئی.جب لوگوں کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ کوئی قوم اپنے آثار اور اپنی تعلیمات کو قائم رکھنے کے لئے ہر وقت تیار ہے اور آئندہ بھی تیار رہے گی تو اس قوم کے دشمن بھی اس کے ہمدرد ہو جاتے ہیں.کیا یہ لطیفہ نہیں کہ عیسائیوں نے ہی یہودیوں کو فلسطین سے باہر نکالا تھا اور آب عیسائی ہی انہیں فلسطین میں واپس لائے ہیں.دیکھو یہ کیسی عجیب بات ہے کہ آج سب سے زیادہ یہودیوں کے خیر خواہ امریکہ اور انگلینڈ ہیں اور یہ دونوں ملک عیسائیوں کے گڑھ ہیں.فلسطین سے یہودیوں کو نکال بھی عیسائیوں نے ہی تھا مگر وہی آج ان کے زیادہ ہمدرد ہیں.گویا ایک لمبی قربانی کے بعد ان کے دل بھی پسیج گئے.پس ہمیشہ ہی اسلام کی روح کو قائم رکھو اس کی تعلیم کو قائم رکھو اور یاد رکھو کہ تو میں نو جوانوں کی دینی زندگی کے ساتھ ہی قائم رہتی ہیں.اگر آنے والے کمزور ہو جائیں تو وہ قوم گر جاتی ہے، مگر کوئی انسان یہ کام نہیں کر سکتا.صرف اللہ ہی یہ کام کر سکتا ہے انسان کی عمر تو زیادہ سے زیادہ ساتھ سنتر انتی سال تک چلی جائے گی مگر قوموں کی زندگی کا عرصہ تو سینکڑوں ہزاروں سال تک جاتا ہے.دیکھو سیح علیہ السلام کی قوم بھی دور ہزارہ سال سے زندہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم تیرہ سو سال سے زندہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جب تک دنیا قائم رہے گی یہ بڑھتی چلی جائے گی

Page 153

تم بھی ایک عظیم الشان کام کے لئے کھڑے ہوئے ہو.پس اس روح کو قائم رکھنا ، اسے زندہ رکھنا اور ایسے نوجوان جو پہلوں سے زیادہ جوشیلے ہوں پیدا کر نا تمہارا کام ہے.ایک بہت بڑا کام تمہارے سپرد ہے عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے جتنا عیسائی دنیا کو یہودیوں کا ہمدرد بتانا کیونکہ عیسائی دنیا کو ہمدرد بنانے میں تو صرف دماغ کو فتح کیا جاتا ہے لیکن عیسائیوں کو مسلمان بنانے میں دل اور دماغ دونوں کو فتح کرنا پڑے گا.اور یہ کام بہت زیادہ مشکل ہے.پس دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے کام کو تاقیامت زندہ رکھو محاورہ کے مطابق میرے منہ سے تا قیامت کے الفاظ نکلتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں" تا قیامت " بھی درست نہیں.قیامتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں.پس میں تو کہوں گا کہ تم اسے ابدی زمانہ تک قائم رکھو کیونکہ تم از لی اور ابدی خدا کے بندے ہو.اس لئے ابد تک اس نور کو جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے قائم رکھو اور محمدی نور کو دنیا میں پھیلاتے چلے جاؤ.یہاں تک کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے لگ جائے اور یہ دنیا بدل جائے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت جو آسمان پر ہے زمین پر بھی آجائے.میں بیمار ہوں زیادہ لمبی تقریر نہیں کہ سکتا.اس لئے میں مختصر سی دعا کر کے رخصت ہو جاؤں گا.میں نے اپنی مختصر تقریرہ میں خدام کو بھی نصیحت کر دی ہے اور انصار اللہ کو بھی.مجھے امید ہے کہ دونوں میری ان مختصر باتوں کو یاد رکھیں گے.اپنے اپنے فرائض کو ادا کریں گے اور اپنے اپنے علاقوں میں ایسے اعلیٰ نمونے پیش کریں گے کہ لوگ ان کے نمونے دیکھ کہ ہی احمدیت میں داخل ہونے لگ جائیں.پس دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ کے حضور میں اتنا گڑ گڑاڈ اور اتنی کوششیں کہ دو کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تمہاری مدد کے لئے اُتر آئیں انسانی زندگیاں محدود ہیں مگر ہمارا خدا ازلی ابدی خدا ہے اس لئے اگروہ یہ بوجھ جو ہم اٹھا نہیں سکتے آپ اُٹھالے تو فکر کی کوئی بات نہیں جب تک ہم یہ کام انسان کے ذمہ سمجھتے ہیں تب تک فکر رہے گا کیوں کہ انسان تو کچھ مدت تک زندہ رہے گا پھر فوت ہو جائے گا.مگر خدا تعالیٰ خود اس بوجھ کو اُٹھائے تو فکر کی کوئی بات نہیں یہ اسی کا کام ہے اور اسی کو سمجھتا ہے اور جب خدا تعالیٰ خود اس بوجھ کو اٹھا لے گا تو پھر اس کے لئے زمانہ کا کوئی سوال نہیں رہے گا کیونکہ خدا تعالی کے ساتھ صدیاں تعلق نہیں رکھتیں ان کا تعلق تو ہمارے ساتھ ہے ورنہ خدا تعالیٰ تو ازلی ابدی خدا ہے.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی اور مجھے بھی توفیق دے کہ ہم ثواب حاصل کریں.

Page 154

۱۴۲ لیکن جو اصل چیز ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ یہ بوجھ خود اٹھا لے تا کہ آئندہ ہمارے لئے کوئی فکر کی بات نہ رہے.حضرت مصلح موعود اجتماع کے آخری روز بھی تشریف لائے.اس موقع پر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزہ یہ کے نائب صدر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے اُن خدام کو حضور کی خدمت اقدس میں پیش کیا جنہوں نے مغربی پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف کا کام نہایت محنت اور جانفشانی سے انجام دیا تھا.حضور نے سب نوجوانوں کو شرف مصافحہ سے نوازا ، ہر مجلس کے خدام سے دریافت فرمایا کہ انہوں نے کیس کہیں علاقہ میں ریلیف کا کام کیا.اور یہ کہ ان کے امدادی کام کی نوعیت کیا تھی ؟.جب آنبہ ضلع شیخو پورہ کے بعض زمیندار مقام نے بتایا کہ وہاں خدام نے معماری کے کام سے نا واقف ہونے کے باوجود مصیبت زدہ لوگوں کے مکانات اپنے ہاتھوں سے تعمیر کئے ہیں تو حضور نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ب خدمت خلق کی خاطر ہمارے دوستوں کو دل پسند مشغلے کے طور پر معمار کا کام سیکھنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئیے.یہ کام بہت تھوڑی سی کوشش کے بعد با آسانی سیکھا جا سکتا ہے.اس کے نتیجہ میں وہ بارشوں اور سیلابوں وغیرہ کی ناگہانی مصیبتوں کے وقت وسیع پیمانے پر ایسی خدمت بجالا سکتے ہیں کہ جس کی ایسے مواقع پر ہمیشہ ہی شدید ضرورت محسوس کی جاتی ہے؟" ان سب خدام کو شرف مصافح عطا فرمانے کے بعد حضور نائب صدر کی معیت میں اسٹیج پر رونق افروز ہوئے اور خدام کو ایک روح پر در خطاب سے نوازا جس میں انہیں دُعاؤں پر زور دینے ، اللہ تعالی پر تو تحمل کرنے اور خدمت خلق کا فریضہ اُس بلند معیار کے مطابق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی جس کا مطالبہ اُن سے احمدیت کہتی ہے.چنانچہ فرمایا :- خدمت کرو اور کرتے چلے جاؤ تمہارا نام خدام الاحمدیہ ہے.خدام احمدیہ کے یہ معنے نہیں کہ تم احمد بیت کے خادم ہو.خدام احدید کے معنے ہیں تم احمدی خادم ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ سیدُ القَومِ حَادِ مُهُم قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے اگر تم واقع میں سچے احمدی بنو گے اور سچے خادم بھی بنو گے تو تھوڑے دنوں میں ہی خدا تم کو نستید بنا دے گا.ہر لے روز نام الفضل هاردسمبر ۱۹۵۵ء ۲۱۳۵ - ۲ روزه تا مه الفضل ۲۲ نومبر ۹۵ و ما

Page 155

۱۴۳ شخص تمہا را ادب اور احترام کرے گا اور لوگ سمجھیں گے کہ ملک کی نجات ان کے ساتھ وابستہ ہے دیکھو بہرکس طرح اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر ملک کی خدمت کرتے ہیں سو اپنے اس مقام کو ہمیشہ یاد رکھو اور ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہو کہ تمہارے ذریعے سے دنیا کا ہر غریب اور امیر فائدہ اُٹھائے نہ امیر سمجھے کہ تم اس کے دشمن ہور نہ غریب سمجھے کہ تم اس کے دشمن ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے غریب بھی بندے ہیں اور امیر بھی بندے ہیں، ہزاروں باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں امیر بھی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں اور ہزاروں مواقع ایسے آتے ہیں کہ غریب بھی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں تم دونوں کی خدمت کرو.کیونکہ احمدیت غریب اور امیر میں کوئی فرق نہیں کرتی.بالشویک کے غریبوں کی خدمت کرتے ہیں اور کیپیٹلسٹ امیروں کی خدمت کرتے ہیں تم خدام احمدیہ ہو، تمہارا کام یہ ہے کہ امیر مصیبت میں ہو تو اس کی خدمت کر د یہاں تک کہ ہر فرد بشر یہ سمجھے کہ اللہ تعالی نے تم کو اس کی نجات کا ذریعہ بنا دیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی قومی ترقیات تم حاصل کرد گے اور اللہ تعلی کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی اور یاد رکھو کہ جہاں جہاں جاؤ خدام کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرد.میرا اندازہ یہ ہے کہ تمام احمدیوں کا چالیس فی صدی خدام ہونے چاہئیں.سوا اپنی جماعت کو مجمعہ کے دن اور عید کے دن دیکھو کہ کتنی تھی اور پھر دیکھو کہ کیا اس کا چالیس فیصدی خدام ہیں اگر نہیں ہیں تو ہر اک کے پاس جاؤ اور اس کو تحریک کہو کہ وہ بھی آئے اور خدام میں شامل ہو.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ تم کو سے عطور پر خدام احدیہ نے کی توفیق دے کیونکہ ملک کو خدام احمدیہ کی ضرورت ہے جیسے نہیں نے بتایا ہے خدام احمد رجب ہم نے نام رکھا تھا تو اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ تم احمدیوں کے خادم ہو اگر تم یہ معنے کروگے تو بڑی غلطی کرو گے اور ہم پر ظلم کروگے.خدام احمدیہ سے مراد تھا احمدیوں میں سے خدمت کرنے والا گروہ.تم خادم تو دنیا کے ہرانسان کے ہو لیکن ہو احمدیوں میں سے خادم اس لئے اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم احمدیوں کی خدمت کرد بلکہ مطلب یہ تھا کہ احمدی سٹینڈرڈ کے مطابق خدمت کرو.چنانچہ دیکھ لو لاہور میں طوفان آیا مکان گرے تو اس موقع پر جو احمدی معمار ہم نے بھیجے اُن کے متعلق پولیس نے اور محلے والوں نے اقرار کیا کہ یہ آدمی نہیں یہ تو حق ہیں.یہ تو منٹوں میں مکان تعمیر کر دیتے ہیں تو یہ احمدی سٹینڈرڈ تھا.سو اپنا احمدی سٹینڈرڈ CAPITALIST راحمدی معیار ) تے BOLSHOVIK AHMADI STANDARD PEP

Page 156

۱۴۴ قائم کردہ اور اسے بڑھاتے جاؤ.دیکھو آج تو تم خدمت کرتے ہو کل دوسروں کو بھی تحریک ہوگی لیکن اگر احمدی ٹینڈرڈ کے مطابق تم خدمت کرنے والے ہوگے تو دوسرے تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتے.وہ ہزار ہوں گے اور تم پچاس ان ہزار سے زیادہ کام کر جاؤ گے کیونکہ سٹینڈرڈ احمدی سٹینڈرڈ ہوگا.اور ان کا سٹینڈرڈ اوّل تو احمدی سٹینڈرڈ نہیں ہوگا.دوسرے وہ فرق کریں گے کہ یہ ہمارا دشمن ہے.اور یہ ہمارا دوست ہے، تم نے کہنا ہے کہ ہم نے تو خدمت کرنی ہے.چاہے مخالف ہو یا دوست.اس طرح آپ ہی آپ تمہارا کام دوسروں سے بلند ہوتا چلا جائے گا.اور تم ملک کے لئے ایک ضروری وجو دین جاؤ گے اور اللہ تعالٰی کے تم پر فضل نازل ہوں گے.جیسا کہ شروع ہی میں میں نے کہا ہے اللہ تعالیٰ پر توکل کرو.دعاؤ پر خاص زور دو اور اپنی اصلاح کی فکر کرو جوانی میں تہجد پڑھنے والے اور جوانی میں دعائیں کرنے والے اور جوانی میں سنتی خوا میں دیکھنے والے بڑے نادر وجود ہوتے ہیں.تم نے ابدال کا ذکر سنا ہو گا.ابدال و حقیقت دہی ہوتے ہیں جو جوانی میں اپنے اندر تغیر پیدا کر لیتے ہیں اور اللہ تعالی کے ساتھ ایسا تعلق پیدا کر لیتے ہیں کہ بڑھے بڑھے بھی آکر کہتے کہ حضور ہمارے لئے دُعا کیجئے تمہارے احمدیوں کے بڑھے تو اقطاب ہونے چاہئیں اور احمدیوں کے جو ان ابدال ہونے چاہئیں وہ خوب دعائیں مانگیں اور اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت کریں کہ وہ اپنے فضل سے ان سے بولنے لگ جائے اور وہ جوانی میں ہی صاحب کشف وکرامات ہو جائیں اور محلہ کے لوگوں کو جب مصیبت پیش آئے وہ دوڑے دوڑے ایک خادم احمدیت کے پاس آئیں اور کہیں کہ دعا کہ دو ہماری یہ مصیبت ٹل جائے.جب تم جذیہ اخلاص سے اُن کے لئے دعا کرو گے تو پھر خدا تمہاری دعائیں بھی زیادہ فنول کرنے لگ جائے گا اور لوگوں کو مانا پڑے گا کہ تمہاری دعا ایک بڑی قیمتی چیز ہے.بہر حال ان نصیحتوں کے بعد میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں مصافحہ تو ہیں کہ چکا ہوں آپ آپ لوگوں کے لئے دعا کر کے آپ کو رخصت کرتا ہوں.باقی کام آپ کے منتظمین سرانجام دیں گے میں آپ کو اسلام علیکم کہ کہ آپ سے رخصت ہوتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور قیامت تک آپ لوگ اور آپ کی نسلیں دین کی خادم رہیں خدا کی محبت رہیں.خدا تم سے محبت کرنے والا ہو کبھی تمہارا دشمن تم پر غالب نہ آئے.بلکہ تم خدا کی مدد اور اس کی نصرت سے نیکی اور تقویٰ کے ساتھ لوگوں پر غالب آؤ.شرارت اور فساد کے ساتھ نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کے ساتھ تاکہ اسلام تمہاری ترقی سے فائدہ اٹھائے اور کسی کو تمہاری ترقی سے نقصان نہ پہنچے اللهم امين اور پہ دیکھو میں نے کہا تھا کہ تو قتل کرو.سو تو کھل کے معنے ہیں احمدیت کا صحیح مقام اس لحاظ سے میں کہتا

Page 157

۱۴۵ ہوں کہ احمد بیت زندہ باد (احمدیت زندہ باد کے نعرے) اور میں نے کہا تھا کہ خدمت احمدیت کے سٹینڈرڈ پر کہ جس کے متھے یہ ہیں کہ انسانیت کو زندہ رکھنے کی کوشش کرو.سو اس کے مطابق میں کہتا ہوں کہ تمہارا نعرہ یہ ہونا چاہیئے انسانیت زندہ باد اجتماع کے دوسرے روز سوا نو بجے سے سوا دس بجے شب تک تلقین عمل کا پروگرام تلقین عمل کا پروگرام مقرر تھا.اس پروگرام کی یہ خصوصیت تھی کہ اس میں ایک تو حضرت المصلح الموعود کی روح پرور افتتاحی تقریر کا ریکار ڈسنایا گیا.دوسرے حضرت صاحبزاد مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے (آکسن) نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے خدام سے ایک اثر انگیز خطاب فرمایا.آپ کی تقریر کا عنوان تھا." موجودہ حالات میں خدام الاحمدیہ کو کس طرح کام کرنا چاہیئے اس تقریر کا خلاصہ اخبار الفضل کے نامہ نگار کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے یہ مذہبی نقطہ نگاہ سے دنیا کے حالات وہی ہیں جو پہلے تھے موجودہ حالات گذشتہ حالات سے چندای مختلف نہیں.دنیا میں نفس اور روح کی کشمکش بدستور جاری ہے.نفس آج بھی انسان کو بھٹکا کہ اسے مادی زندگی اور اس کی دلفریبیوں میں الجھانے کی کوشش کر رہا ہے.ان حالات میں خدام الاحمدیہ کا فرض یہی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم کے مطابق اپنے نفس کو مار کر صفائی قلب کی راہ پر گامزن ہوں تا خدائی اتوار کو جذب کر کے دُنیا میں اسلام کے نور کو پھیلا سکیں.تقر به جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا.آپ میں سے بعض کہہ سکتے ہیں کہ عمر کے لحاظ سے ابھی ہم میں اتنی پختہ کاری نہیں ہے کہ ہم نفس کو مارتے میں کامیاب ہو سکیں.لیکن یہ محض ایک واہمہ ہے.حضرت علی آپ سے بھی چھوٹی عمر کے تھے جب انہوں نے نفس پر غلبہ حاصل کر کے اپنے دل کو انوار الہی کی تجلی گاہ بنایا انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو ان کی عمر ۱۲ سال تھی.سو نفس کو بارہ سال کی عمر میں بھی مارا جا سکتا ہے.آج خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کو مبعوث فرما کہ نفس پر غلبہ پانے کی راہیں آپ کے لئے آسان کر دی ہیں.پہلے لوگ چالیس چالیس پچاس پچاس سال تک مجاہدہ کرتے تھے تو انہیں خدائی اتوار کی کچھ جھلک نظر آتی تھی.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنے ایک مامور کو مبعوث کرنے کے بعد مجاہدات کے اس عرصہ کو کم کر دیا ہے اور وہ آپ کی تھوڑی سی کوشش کو بھی قبولیت کے شرف سے نوازنے کے لئے له روزنامه الفضل ربوه ۴ مارچ ۱۹۵۶ء ۵

Page 158

تیار ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتا ہے جب وہ آپ کی تھوڑی سی قربانی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے تو سوال یہ ہے کہ آپ بھی وہ تھوڑی سی قربانی کرنے پر آمادہ ہیں یا نہیں اس کا سلوک آپ سب پر عیاں ہے.قدم قدم پر اس کی تائید و نصرت کے ایمان افروز نظارے آپ برابر دیکھتے پہلے آرہے ہیں.پس خدا کا حلوہ دیکھتے کا دروازہ کھلا ہے یہ اب آپ کی بہت اور ارادے پر منحصر ہے کہ آپ یہ جلوہ دیکھتے ہیں یا نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے اس دروازے تک پہنچنا آپ کے لئے آسان کر دیا گیا ہے اور خدام الاحمدیہ " کی عرض یہی ہے کہ تو جوانوں کو نفس کی قربانی کے لئے تیار کیا جائے تا دنیا میں اسلام دوبارہ زندہ ہو.یہ مقصد اس پروگرام پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے جو آپ کے لئے پہلے ہی متر کر دیا گیا ہے.اس بارے میں مشعل کا کام دینے والی وہ ہدایات میں جو آپ نے مختلف اوقات میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ سے حاصل کی ہیں.جو مشعل راہ " کے نام سے ایک کتا بچہ کی صورت میں پہلے سے طبع شدہ موجود ہیں." مشعل راہ " کو بار بار پڑھیں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں.اگر آپ ان میں سے ایک ہدایت کو بھی ترک کرتے ہیں تو آپ خدام الاحمدیہ کے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہے نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کی طرف سے ہندوستان میں تبلیغی بعد جهد متعلق ایک اعلان حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ہندوستان کی احمدی جماعتوں اور اس کے مبلغین کی تبلیغی رپورٹیں با قاعدہ آیا کرتی تھیں مگر حضور کی بیماری کے باعث یہ سلسلہ با لکل بند کر دیا گیا اور جس پر حضور کو بہت فکر و تشویش پیدا ہوئی اور آپ نے ، اور نومبر ۱۹۵۵ دار نبوت ) کو اعلان فرمایا کہ :- ہر جماعت اپنی تبلیغی جد و جہد کے متعلق با قاعدہ رپورٹ بھیجوایا کرے.اسی طرح ہر مبلغ بھی.تا کہ مجھے حالات سے بھی خبر ر ہے.دعا کی بھی تحریک ہو اور یہ بھی تستی رہے کہ جماعت میں بیداری قائم ہے بلکہ بڑھ رہی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور جماعت کو ہر لحظ زیادہ کہتا جائے اور آپ کے اندر اخلاص بھی بڑھاتا چلا جائے اور قربانی کی روح بڑھاتا جائے تاکہ ہند دستان میں احمدیت اپنے پاؤں پر کھڑی رہے".نه روزنامه الفضل ربوه ۲۴ نومبر ۶۸۱۹۵۵ مد

Page 159

اس اعلامیہ میں حضور نے ہندوستان میں احمدیت کی رفتار ترقی کو تیز تر کرنے کے لئے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :- که کسی زمانہ میں ایک ایک احمدی کے ذریعہ سے ہزاروں احمدی ہوتے تھے یہ...مبلغ اگر اپنا فرض شه ادا کرتے تو آج تک ہندوستان میں جماعت دگنی ہو چکی ہوتی ہے فصل سوم مجلس انصار الله مرکز یہ تقسیم ملک کے بعد انتہائی خطرناک اس الا الله پہلا سالانہ اجتماع کو حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے حضرت حد تک جمود اور تعطل کا شکار ہو گئی تھی.، رنویرکار مصلح موعود کے حکم پر اُس کی قیادت سنبھالی جس کے بعد چند ماہ کے اندر ہی اس میں زندگی کے نمایاں آثار پیدا ہو گئے اور اس سال کے آخر میں اپنے پہلے کا میاب سالانہ اجتماع کے نتیجہ میں ایک زندہ اور فعال مرکزی تنظیم شمار ہونے لگی.مجلس انصاراللہ مرکزیہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع (جو حضور کی دعاؤں ، خصوصی توجہ اور اپنے جواں ہمت نائب صدر کی شب و روز مساعی کا پہلا شیریں پھل تھا رم ۱۸ ، ۱۹ نومبر کو تعلیم الاسلام کالج کے فضل عمر ہوسٹل میں منعقد ہوا.حضرت امام عالی مقام کی (انصار و خدام کے مشترکہ اجلاس میں) افتتاحی تقریر بھر کی تو انصار اللہ مرکز یہ کے اس پہلے سالانہ اجتماع کی بقیہ کارروائی کا آغازہ مولانا قمر الدین صاحب نائب قائد تعلیم و تربیت کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا.جس کے بعد حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے نائب صدر مجلس انصار اللہ نے تقریبہ فرمائی.آپ نے انصار سے اپیل کی کہ وہ جلد سے جلد اپنا دفتر قائم کریں تا ه بدر ۲۸ نومبر ۹۵۵ار ۲ -

Page 160

..اگلے سال اپنا سالانہ اجتماع اپنے دفتر کی عمارت میں کرنے کے قابل ہو سکیں.نیز فرمایا چالیس سال کی عمر ہی ایسی ہوتی ہے جبکہ انسان کے جسمانی، ذہنی اور روحانی قومی پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں.کوئی نبی ایسا مبعوث نہیں ہوا جسے چالیس سال کی عمر سے پہلے نبوت کے فرائض اللہ تعالی نے تفویض کئے ہوں.پس انصاراللہ جوانی کی جماعت ہے.انصار کو چاہیے کہ وہ جوانوں کی طرح ہی کام کریں اور ایسا کام کریں کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ کے آسمانی حکم کے تحت نیک کاموں میں خدام الاحمدیہ سے بھی سبقت لے جائیں.دنیا اس وقت جہاں مذہبی صداقت کی محتاج ہے وہاں دنیوی صداقت کی بھی متلاشی ہے.ہم نے اللہ تعالی کے فضل سے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالی کی تائید و نصرت اور اس کے بغیر معمولی نشانوں کے نظارے دیکھے ہیں.اس لئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم دنیا کو اسلام کی دعوت دیں.اور وہ اخلاق ہم دنیا میں پھر پیدا کریں جو دنیا سے نا پید ہو چکے ہیں.اس روح پرور خطاب کے بعد مندرجہ ذیل بزرگوں نے تقاریہ فرمائیں : -1- حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم اے قائد عمومی (" انصار اللہ کا مطلب ".-۲- مولانا ظہور حسین صاحب مبلغ بخارا نائب قائد مال ( درس حدیث " حضرت ابو البرکات مولانا غلام رسول صاحب را جیکی (محبت الہی ") ان تقاریر کے بعد یہ اجلاس نماز مغرب وعشاء اور کھانے کے لئے ملتوی ہو گیا اور پھر مجلس شوری کا انعقاد ہوا.جس کی بقیہ کارروائی اگلے روز بھی ہوئی.یہ شورکی قریبا چار گھنٹے تک جاری رہ ہی جس میں مجلس کے لائحہ عمل ، اُس کی تنظیم اور پروگرام سے متعلق نہا یت دور رس اور اہم فیصلے کئے گئے مثلاً مجلس انصاراللہ کا سالانہ اجتماع دس اکتوبر کے بعد کسی جمعہ اور ہفتہ کو منعقد کیا جائے اور یہ تاریخی مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے ایام میں نہ ہوں.انصار اللہ کا ضلعوار نظام قائم کیا جائے.انصار اللہ کے لئے بھی کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ششماہی امتحان کا انتظام کیا جائے.دفتر انصار اللہ کی تعمیر کے لئے تین سال میں ہیں ہزارہ روپیہ بطور چندہ اس طریق سے مجمع کیا جائے کہ ہر رکن کم از کم ایک روپیہ سالانہ چندہ دے.ہر مجلس کے ذمہ اُس کی تعداد کے لحاظ سے ایک رقم مقرر کر دی جائے جسے پورا کرنے کی وہ ذمہ دارنہ ہو.شوری میں مجلس کے قواعد و ضوابط اور لائحہ عمل پر نظر ثانی کرنے کے لئے ایک بورڈ بھی مقرر کیا گیا.اگلے دن 19 نومبر کو اجتماع کی کارروائی حسب معمول تلاوت قرآن مجید سے شروع ہوئی.جس کے بعد مندرجہ ذیل بزرگوں نے اجتماع سے خطاب فرمایا :-

Page 161

۱۴۹ -1- مکرم مولانا ابو العطاء صاحب فاضل پرنسپل جامعة المبشرين - (قائد تبلیغ ) -۲- مکرم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری پرنسپل جامعہ احمدیہ - - حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم اے (قائد عمومی ) مکرم مولانا قمر الدین صاحب (نائب قائد تعلیم و تربیت ) ه - حضرت زین العابدین سید ولی اللہ شاہ صاحب (قائد مال ) مکرم مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی رحیم مجلس لالیاں ) حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال در کن خصوصی مجلس انصار الله مرکز یہ ) سالانہ اجتماع کا آخری اجلاس دو بجے بعد دو پر حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم.کی خصوصی انصار اللہ مرکزیہ و ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ کی زیر صدارت منعقد ہوا.جس میں تلاوت قرآن مجید کے بعد تقاریہ کا انعامی مقابلہ ہوا جس میں مکرم مولانا عبد الغفور صاحب مبلغ سلسلہ اول - حاجی محمد فاضل صاحب ربوہ دوم اور قریشی محمد حنیف صاحب تمر سوم آئے.ساڑھے تین بجے کے قریب سیدنا حضر مصلح موعود با وجود علالت طبع کے تشریف لائے.حضور نے سٹیج پر تشریف رکھنے سے قبل مجلس مرکز یہ کے عہدیدار وں لیے بیرونی اور مقامی نمائندگان اور آخر میں بیرونی اور مقامی زائرین کو مصافحہ کا شرف بختا حضور کی طبیعت ناساز تھی.اس لئے حضور شرق مصافحہ عطا کرنے کے بعد واپس تشریف لے گئے جس کے بعد حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے بعض علمی اور انتظامی سوالات کے جوابات دیئے اور پھر اختتامی تقریر میں فرمایا کہ آب ہمارا یہ پہلا سالانہ اجتماع ختم ہو رہا ہے اس میں شامل ہونے والے دوستوں نے بہت سے سبق حاصل کئے ہوں گے.سب سے پہلا اور نمایاں بنیادی سبق وہی ہے جس کی خاطر انبیا علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے اور جس کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل نبی کا مل شریعت لے کر مبعوث ہوئے یعنی محبت الہی کا سبق.در حقیقت باقی سب چیزیں محبت الہی کے اس بنیادی سبق کے گرد ہی گھومتی ہیں حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس بنیادی سبق پر اثر انگیز پیرائے میں روشنی ڈالی.اور بالآخر انصار اللہ کو ترکی روح کی تحریک کرنے کے بعد اجتماعی دعا کرائی.لے اس یادگار موقع کی ایک تصویر " تاریخ احمدیت جلدث ص99 پر شائع شدہ ہے.

Page 162

۱۵۰ انصار اللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا تھا کہ انصار اللہ نے یہ ایام غیر معمولی طور پر دعاؤں اور عبادت میں گزارے جن کی غیر معمولی قبولیت کا ذکر خود حضرت مصلح موعود نے ۲۰ نومبر کو خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں تقریہ کرتے ہوئے فرمایا.اجتماع میں پہلے دن نماز مغرب وعشاء حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری نے پڑھائی اور دوسرے دن نماز ظہر وعصر میں امامت کے فرائض حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے نے ادا کئے.مختلف اجلاسوں میں تلاوت قرآن مجید کی سعادت مکرم مولوی تاج الدین صاحب ، مولوی احمد خان صاحب نستیم د نائب قائد تبلیغ ) اور مکرم مولوی قمر الدین صاحب ( نائب قائد تعلیم و تربیت) کے حصہ میں آئی.قرآن مجید، احادیث نبویہ اور درسی کتب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ قرآنی حقائق و معارف اسلام کی برتری اور آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کا عدیم المثال مقام نمایاں طور پر راستے آجاتا اور روح پر سچ مچ وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی.تقاصہ یہ کے موضوع بھی زیادہ تر ایسے مقرر کئے گئے تھے جس سے نفس کی اصلاح اور قلوب کا تزکیہ ہو.دورانِ اجتماع سید نا حضرت مسیح موعود کا جب اردو اور فارسی منظوم کلام پڑھا جاتا تو قلوب و اذہان کے اندر ایک نئی روحانی تبدیل پیدا ہو جاتی جتماع کے پہلے اجلاس میں حضرت مصلح موعود کے ارشاد مبارک کے تحت نما نہ تہجد پڑھنے اور کثرت سے دعائیں اور استخارہ کرنے والے انصار کے اعداد و شمار جمع کئے گئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل اجتماع ہونے والے انصار کی نمایاں اکثریت ان امور کی پابند اور التزام کرنے والی پائی گئی.الفرض مجلس انصار الله مرکز یہ کے اس تاریخی پہلے سالانہ اجتماع کے پروگرام میں تزکیہ نفس اور تربیت نفس کے پہلوؤں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا تھا اور انصار کی پر سونہ دُعاؤں اور عبادتوں نے ایک خاص روحانی ماحول اجتماع میں پیدا کر دیا تھا.یہی وجہ ہے کہ اجتماع میں اوّل سے آخر تک ایک پر کیف روحانی فضا چھائی رہی اور انصار یہ عزم لے کہ اُٹھے کہ وہ مجلس میں ایک نئی روح پیدا کر کے دم لیں گے.اور حضرت مصلح موعود جی بلند روحانی مقام پر انہیں دیکھنا چاہتے ہیں.خدا کی دی ہوئی توفیق پر یہاں تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے.لے لے ه ا ورا اترے سے یہ اجتماع سادگی اور مین انتظام کا بھی عمدہ نمونہ تھا.انصاراللہ مرکزہ بہ کے ریکارڈ کے مطابق اس دس آنے چھ پائی تھے جن میںسے دو سو چھیالیس روپے چھے آنے چھ پائی کھانے اور بقیہ رقم سائبان وغیرہ پر خرچ ہوئی.سے ملخص از الفضل ربوده ۲۲ ۲۳ ۲۴ فوت ۳ مطابق ۲۴۰۲۳۰۲۲ نومبر ۱۹۵۵ -

Page 163

141 حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر سید زین العابدین ایک الوداعی دعوت میں سید صلح موعود کا خط ولا الہ شاہ صاحب مبین اسلام کی حیثیت سے دمشق روانہ ہو رہے تھے.آپ کے اعزاز میں جامعتہ المبشرین کے اساتذہ اور طلبہ کی طرف سے ۴ دسمبر ۱۹۹۵ء کو ایک الوداعی تقریب منعقد ہوئی.جس میں مولانا ابو العطاء صاحب پرنسپل جامعتہ المبشرین نے تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ دمشق کو احمدیت کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے.اس موقع پر حضرت زین العابدین سید ولی اللہ شاہ صاحب نے حضرت مصلح موعود کے لطف و احسان کے بہت سے ایمان افروز واقعات بیان کئے کہ حضور نے ابتدا سے ہی کس قدر محنت اور دلچسپی کے ساتھ آپ کی زندگی میں دینی شعف کی روح پھونک دی.آخر میں سیدنا حضرت مصلح موعود نے خطاب فرمایا جس میں اُن حالات پر اختصار سے روشنی ڈالی.جن کے تحت ابتدا میں محترم شاہ صاحب کو تبلیغ کی عرض سے بلا د عر بیہ بھیجا گیا تھا اور فرمایا کہ: اس مرتبہ بھی جب میں دمشق گیا تو میں نے دیکھا کہ آپ بھی وہاں لوگوں کے دلوں میں شاہ صاحب کا بہت احترام ہے.اور وہ اُن کی بہت تعریف کرتے ہیں.اگر چہ وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مضبوط جماعت قائم ہے جو نہایت مخلص احباب پر تشتمل ہے.لیکن حضرت مسیح موعود کے اس الہام کے پیش نظر يَدْعُونَ لَكَ ابْدَالُ الشَّامِ وَعِباد الله من العرب.وہاں جماعت اور زیادہ ترقی کرے.اس لئے میں نے شاہ صاحب کو ایک مرتبہ پھر وہاں بھیجنے کا فیصلہ کیا.گو آب شاہ صاحب کی عمر بڑی ہے اور یکی بھی بیمار ہوں لیکن میں نے سوچا کہ انسانوں کا کام تو چلتا ہی رہتا ہے.خدا اور اس کے دین کا کام بہر حال متقدم رہنا چاہیئے.چنانچہ میرے کہنے پہ اس جذبہ کے ماتحت شاہ صاحب تیار ہو گئے حضرت بہر مسیح موعود کے اس الہام میں اہل شام کا ایک بہت بڑا مقصد بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی دعاؤں کے ساتھ احمدیت کو ترقی دینی ہے.پس یہ ضروری ہے کہ دُعاؤں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ اور بڑھے اور وسیع ہوتا اس کے بڑھنے کے ساتھ دنیا میں احمدیت کی ترقی اور اسلام کے غلیہ کے سامان پیدا ہوں.اگر وہاں خاطر خواہ کامیابی نصیب ہو جائے تو اس کا نفسیاتی طور پر یہاں بھی خوشگوار ے مکتوب 4 اپریل ۱۸۸۵ء مشموله مکتوبات احمدیہ جلد را منه.دمرتبه حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ترآب ایڈیٹر الحکم ۲۹ دسمبرشت شده )

Page 164

۱۵۲ اثر ظاہر ہو سکتا ہے.اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ شاہ صاحب کے موجودہ سفر کو ان کے پہلے سفر سے بھی زیادہ کامیاب کرے اور وہ پہلے سے میں کئی گنا زیادہ جماعت وہاں چھوڑ کر کامیابی و کامرانی کے ساتھ واپس آئیں." اس کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی.اور تشریف لے جانے سے قبل جامعتہ المبشرین کے طلبہ کو شرف مصافحہ عطا فرمایا.اور اس طرح بہ با برکت تقریب اللہ تعالیٰ کے حضور دُنیا میں علیہ السلام کی دعاؤں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی ہے حضرت شاہ صاحب دمشق میں تین ماہ تک قیام فرمار ہے اور جیسا کہ آپ نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے.مشق میں ایک مضبوط جماعت دیکھ کر آپ پر رقت طاری ہوگئی اور آپ کے آنسوؤں سے سجدہ گاہ تر ہو گئی.دورانِ قیام آپ نے نہ صرف یہ کہ جمعہ کے خطبات اور ہفتہ وار اجلاسوں میں ابدال التام سے خطاب فرمایا بلکہ اسلامی اور اشترا کی اصولوں کے موازنہ پر ایک کتاب بھی تصنیف فرمائی جود مشق کے ایک مخلص احمدی سید ابو الفرج نے ٹائپ کی.اس طرح خدا کے فضل و کرم سے آپ کو اس سفر میں کئی اہم تربیتی و تبلیغی خدمات دینیہ بجا لانے کی توفیق ملی.صوبہ مدراس اور جنوبی ہند کے قریب شہر سے مدراس میں ایک اردو مہفت روزہ آزاد نوجوان کے نام سے جاری ہے.اس اخبار کے مدیر احمدیوں کے نام محبت بھرا پیغام محمد کریم اللہ صاحب کی درخواست پر حضرت علی مولود نے صوبہ مدراس اور جنوبی ہند کے احمدیوں کے لئے حسب ذیل پیغام عطا فرمایا جو دسمبر منہ کے آخر میں اس رسالہ کے رار حلمات سلطان قلم نمبر کی زینت بنا اور حضورکے ارشاد پر اخبار بد رنویر رات میں بھی اشاعت پذیر ہوا.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم " نحمده ونصلى على رسوله الكريم حوالے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.بر اوزان صوبہ مدراسی و جنوبی ہند ! اللہ تعالیٰ نے اسلام ایسے وقت میں بھیجا کہ جب کہ ه روزنامه الفضل ریوه در دسمبر ۹۵۵ مه سه (غیر مطبوعہ) اس کا مسودہ شعبہ تاریخ احمدیت ه ریوہ میں محفوظ ہے.۳."بدر" قادیان ۱۴ جنوری ۶۱۹۵۶ م (۴) صلح ۱۳۳۵ ش) -

Page 165

۱۵۳ اس سے پہلے مختلف مذاہب موجود تھے گویا دنیا کی مختلف کھیتیاں مختلف مالکھوں میں تقسیم ہو چکی تھیں.اور سوائے عرب کے کوئی خالی زمین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پانی نہیں تی مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم دیا کہ جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا.قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کہ قرآنی دلائل کے ساتھ اپنے مخاطبین سے جہاد کرو.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے اس پر عمل کیا.کسی دشمن پر خود حملہ نہیں کیا.بلکہ اگھر اُس نے حملہ کیا اور آپ اس کے دفاع کے لئے پہونچے تو بھی پو پھٹنے سے پہلے کبھی اس پر حملہ نہیں کیا تا کہ وہ ہوشیار ہو جائے اور جنگ کے لئے تیار ہو جائے اور جب ایسی دفاعی جنگوں سے بھی آپ واپس آئے تو آپ نے فرمایا رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الاكبر - ہم چھوٹے جہاد سے واپس آئے ہیں اور اب بڑے جہاد کے لئے فارغ ہوئے ہیں یعنی تبلیغ کے لئے پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِنْ أَحَد مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَاجِرُهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ ابْلِغُهُ مَا مَنَ یعنی تم کو جب خدا تعالیٰ علیہ بھی دے تب بھی تبلیغ سے غافل نہ ہوتا بلکہ اسلام کی تبلیغ لوگوں کے کانوں میں ڈالتے رہنا اور جہاں تم غالب اور زیادہ ہو وہاں ان لوگوں کے لئے امن پیدا کرنا تاکہ وہاں آکر اسلام کی تعلیم مشن اور سیکھ سکیں اور جب وہ واپس اپنے وطن جانا چا ہیں تو آرام سے اُن کو وطن پہنچا دو.آپ لوگ آپ ایسے حالات میں سے گذر رہتے ہیں کہ منکرین اسلام زیادہ ہیں اور آپ کم ہیں.پس آپ کا فرض تبلیغ تو اور بھی بڑھ جاتا ہے.اگر آپ لوگ اچھا نمونہ دکھائیں اور اسلام کی تبلیغ کا جوش جنون کی حد تک بڑھا دیں تو اسلام کی اعلی تعلیم آج بھی دلوں کو موہ لے گی اور آپ کے خیر خواہ اور آپ کے محب کثرت سے پیدا ہو جائیں گے مگر ضرورت یہ ہے کہ اسلام کو معفول صورت میں اُن کے سامنے پیش کیا جائے.ایسی تمام باتیں جو قرآن کے خلاف ہیں اور غیر مسلموں کو اسلام سے ناراض کرنے والی ہیں قرآن کی روشنی میں اُن کا ازالہ کیا جائے اور رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے حسین سلوک سے اس کا دفاع کیا جائے.پھر دیکھو کہ لوگ فوراً اسلام کی طرف مائل ہونا شروع ہو جائیں گے.اور آپ کا وطن حقیقی معنوں میں آپ کا تو به ع

Page 166

۱۵۴ وطن ہو جائے گا.مگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاعْلَمُوا رَنَّ اللَّهَ يَجُولُ بيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ - انسان اور اس کے دل کے درمیان تعدا تعالیٰ حائل ہوتا ہے.دل تک وہی بات پہنچ سکتی ہے جو خدا پہنچائے.دوسرا کوئی نہیں پہونچا سکتا اس لئے پہلے تو اس نسخہ پر عمل کریں کہ نمازوں اور دعاؤں پر زور دیں اور اپنے ملک کے لوگوں کی ہدایت اور انتہائی کے لئے خدا سے اپیل کریں پھر جب لوگوں کے دل نرم ہو جائیں اور خدا کا فضل ان پر نازل ہونے لگ جائے تو محمدہ اور لطیف لٹریچر جو اسی زبان میں لکھا گیا ہو جس زبان کو آپ کے اہل مک سمجھتے ہیں ان میں پھیلائیں.اس زمانہ میں اختیار بھی بڑا اہم کام کرتے ہیں.اگر آپ ایسے اخباروں کی اشاعت کریں جو اسلام کی روشنی پھیلانے کی خدمت کر رہے ہیں.تو یقیناً ایک پنتھ دو کاج ہو جائیں گے.اور آپ کے خیالات بھی لوگوں تک پہونچیں گے اور آپ کا ایک اپنا اخبار بھی لوگوں میں مقبول ہو جائے گا.اور آپ کی اندرونی اصلاح کا کام بھی ترقی کرے گا.اس کے علاوہ اگر چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ جو چار چار صفحے یا آٹھ آٹھ صفحے کے ہوں خصوصا جو تامل اور کنزی وغیرہ میں لکھے ہوئے ہوں اگر غیر مسلموں میں پھیلائے جائیں تو ان کے قلوب میں اسلام کی طرف رغبت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی.مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسلام کی سب سے بڑی نعمت دُعا اور اس کی قبولیت کی اشاعت کریں.د ماؤں کی عادت ڈالیں اور غیر مسلموں سے کہیں کہ اپنی مشکلات میں ہم سے دعا کروایا کرد خدا تمہاری مشکلات دور کرے گا.میرا تجربہ ہے کہ جنوبی ہند کے ہندو بہت سمجھدار اور غیر متعصب ہیں.اگر محبت سے ان تک بات پہنچائی جائے گی تو یقیناً وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں گے.جب خدا تعالیٰ چند آدمی اُن میں سے آپ کو دے تو آپ ان کو منظم کریں اور انہی کو ان کی قوم میں تبلیغ کے لئے بھجوائیں جو اسلام کے ابتدائی زمانہ کی طرح یا بدھ کے ابتدائی زمانہ کے بھکشوؤں کی طرح اپنی قوم میں تبلیغ کریں اور یاد رکھیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقولى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدُ والله مشر اپنے بھائی کی مد کرو.مگر نیکی اور تقوی کے متعلق گناہ اور ظلم میں کبھی اس کی مد ت کرد.اپنی له المائدة : i

Page 167

۱۵۵ طبیعتوں میں سے درشتی نکال دو.نرمی اور دعا پر زور دو.پھر اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا.اور زیادہ سے زیادہ آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کا مدد گار ہو.مرزا محمود احمد و خلیفة المسیح الثانی قادیان دارالامان کی طرف رجوع خلائق قادریاں اس کے نواحی دیابت بکہ پنجاب کے اس کے ہر علاقہ میں امن و امان کی صورت حال چونکہ نہایت تیزی سے خوشگوار ہورہی تھی اس لئے قادیان کے درویشوں کیلئے مشرقی پنجاب میں کسی حد تک آمد و رفت کا دروازہ کھل گیا اور ملک کے ہر مذہب وقمت کے افراد قادیان کی طرف اس کثرت سے آنے لگے کہ با قاعدہ طور پر ایک دفتر زائرین کھولنا پڑا جس کا کام مقامات مقدسہ کی زیارت کرانا اور جماعت احمدیہ سے متعلق معلومات بہم پہنچانا تھا.مکرم سید محمد شریف صاحب دفتر زائرین کے انچارج مقرر ہوئے.اُن کے علاوہ چند اور درویش اس کام کی انجام دہی کے لئے متعین کئے گئے.دفتر کی دیواروں پر بعض موزوں تبلیغی قطعات آویزاں کئے گئے جن میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود کی صداقت میں مختلف مذاہب کی پیش گوئیاں درج تھیں زائرین انہیں پڑھتے اور بعض اوقات نوٹ بھی کر لیتے.اور اُن کی روشنی میں تبادلۂ خیالات بھی کرنے، بعض زائرین دعا کی درخواست کرتے ہوئے نذرانہ کے طور پر رقوم بھی پیش کرتے ، بعض مساجد کی صند قیچیوں میں رقم ڈال دیتے.دفتر زائرین کی طرف سے زبانی معلومات بہم پہنچانے کے علاوہ مہدو، سکھ، عیسائی مسلمان اور دیگر اقوام کے زائرین کو حسب موقع اردو، انگریزی ہندی اور گورمکھی میں لڑر پچر دینے کا بھی انتظام کیا گیا بشر میں آٹھ ہزار دو سو انچاس زائرین قادیان آئے جن میں سے تعلیم یافتہ طبقہ کو اٹھارہ سونیتیس ریکیٹ اور کتا ہیں تقسیم کی گئیں.رجوع خلائق کا بہر غیر معمولی سلسلہ خدا کی نصرت اور فرشتوں کی آسمانی تحریکات کے نتیجہ میں تھا.کیونکہ علاقہ میں امن و امان کی معتدل صورت حال کے باوجود درویشان قادیان کے لئے مشرقی پنجاب اور بعض دوسرے ه جفت روزه بدر قادریان ۲۸ نومبر ۵۵ه ما

Page 168

104 علاقوں میں گھلے بندوں تبلیغ کے مواقع ابھی تک میسر نہیں تھے.لیکن اللہ تعالیٰ ہر مذہب و ملت کی سید روحوں کو قادیان میں کھینچ کر لارہا تھا تا وہ اسلام اور حمدیت کی خوبیوں سے آگاہ ہوں اور اس ملک میں حق و صداقت کی آوازہ پھر گونجنے لگے لیے فصل حیات تحریک احمدیت میں جماعت احمدیہ کے مرکہ کی سالانہ جلسہ کو رہیا قادیان اور راتوں میں سالانہ جلسے ہمیشہ ایک آسمانی نشان اور شعائرالہ کی حیثیت حاصل ہوا ہے.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے علم پا کہ ۷ دسمبر او کو پیشگوئی فرمائی کہ ہر اسی جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی انیٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی.کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس ہے کے آگے کوئی بات انہونی نہیں ؟ خدائے قادر کی ان پاک بشارتوں اور وعدوں کے عین مطابق حملہ کے سالانہ جلسے مہر اعتبار سے کامیاب رہے.چنانچہ قادیان کے مبارک اجتماع میں قریباً ایک ہزار نفوس نے شرکت کی سعادت حاصل کی جن میں سے دو کو میں بیرونی ہندوستانی احمدی اور ایک سو میں پاکستانی احمدی تھے.اور جلسہ ربوہ میں پاکستان کے طول و عرض سے شامل ہونے والے احمدیوں کی تعداد پچاس ہزار تھی.علاوہ ازیں چین، انڈونیشیا ، عدن ، شام، فلسطین، مشرقی افریقہ ، مغربی افریقہ ، ماریشس، امریکہ ، ڈر گیا نا اور ٹرینیڈاڈ کے مخلص احمدی بھی تشریف لائے.اسی طرح.عالمی عدالت انصاف کے حج چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب اور حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین کو بھی اس میں شرکت نه اخبار "بدر" ۲۸ دسمبر ۱۹۵۵ ص ۱۲ - سے مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیه السلام جلد اول صفحه را ۳۳.B !

Page 169

کا موقع نصیب ہوا.نیز اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے جمہ من ما ہر ڈاکٹر فرز کورسٹلر بھی نیمی طور پر طلبہ کے دوران ربوہ پہنچے اور گہری دلچسپی DR.FRITZ KORE STILLER کا اظہارہ کیا.موصوف اُن دنوں حکومت پاکستان کو امداد باہمی سے متعلق مشورہ دینے کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے یہ یہ پہلا جلسہ تھا جو حضرت مصلح موعود کی سفر یورپ سے با صحت واپسی کے بعد منعقد ہوا جس میں کناف عالم کے روحانی پرندے مقدس امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہوئے اور ربوہ کی مقدس بعنی شم ادْعُهُنَّ يَا تِبْنَكَ سَعْيا كى عمل تفسیر کا روح پرور نظارہ پیش کر رہی تھی.قادیان اور ربوہ کے جلسوں کا یکجائی تذکرہ کرنے کے بعد ان کے ضروری کو ائف کا الگ الگ ذکر کیا جاتا ہے.اس سلسلہ میں سب سے قبل قافلہ پاکستان کے سفیر قادیان کی تفصیلات بیان ہوں گی.اس سال جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لئے جانے والا قافلہ پاکستان دیار حبیب میں قافله پاکستان اکتالیس احمدیوں پشتمل تھا جو ۲۵ دسمبر ۱۹۵۵ء کو صبح سوا نو بجے جو دیا مل بلڈنگ سے روانہ ہوا.قافلہ کے لئے پنجاب میں ریزرو کرائی گئی تھی.تمام احباب کیس میں بیٹھ گئے تو امیر قافلہ جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے فرمایا کہ اس سال سلسلہ کی کتنی منفقت در ہستیاں اپنے مولے تحقیقی کے پاس سدھاری ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنی طرف کھینچنا چاہتا ہے اللہ تعالی میں پنا نا نا چا ہتا ہے اور ہم ایک مقدس مقصد کی خاطر یہ سفر کر رہے ہیں.اس سفر میں تمہیں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی طرف جھکنا چاہیے.آؤ ہم اس سے استمداد کریں.چنانچہ دُعا کے بعد قافلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور تسبیحات پڑھتا ہوا روانہ ہوا.پاکستان کی کسٹم پوسٹ اور پولیس پوسٹ کی چیکنگ سے فارغ ہو کر قافلہ ہندوستانی علاقہ میں داخل ہوا.یہاں کسٹم کی پوسٹ پہ قافلہ کا استقبال سردار بھگت سنگھ صاحب انسپکٹر پولیس نے کیا.سردار صاحب موصوف نہایت شریف اور ہمدر و افسر تھے جانتے اور آتے وقت وہ قافلہ کے ساتھ رہے اور قادیان میں بھی وقتاً فوقتاً زائرین سے رابطہ قائم رکھا اور اُن سے پروکسش احوال کرتے رہے.پولیس پوسٹ پر آکر سردار صاحب موصوف نے جلدی قافلہ کو فارغ ه روزنامه الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۵۵ء / ۳۱ فتح ۱۳۳۲ میش ها

Page 170

۱۵۸ کرا دیا.اب قافلہ پوری رفتار سے روانہ ہوا.پولیس کی موٹر کبھی قافلہ کی بس سے آگے ہوتی اور کبھی پیچھے.میں بارش کی تباہ کاریاں نمایاں تھیں.ابھی تک زمین کا اکثر حصہ ناقابل کاشت معلوم ہوتا تھا.کوئی کھڑی فصل نظر نہ آتی تھی.زمین ابھی پورے طور پر خشک نہ ہوئی تھی.امرتسر سے گذر کر تھا کتھونگل کے پاس قافلہ کا معلوم ہوایس کا ایک ٹائر پنکچر ہو چکا ہے.ڈرائیور اس کو درست کرنے لگا.امیر قافلہ نے فیصلہ کیا کہ ظہر و عصر کی نمازیں یہیں ادا کر لی جائیں.وہاں تھانہ کے اندر واٹر پمپ پر وضو سے فارغ ہونے کے بعد اذان دی گئی.بغیر مسلم اصحاب کو اچنبھا معلوم ہوا ہو گا.لیکن اس وقت اہل قافلہ پر رقت طاری تھی.اردگرد سے غیر مسلم بچے اور نوجوان اذان کی آواز شنکر جمع ہوگئے.احمدیوں کو امیر قافلہ نے نہایت رقت سے نماز پڑھائی.زمانہ سے تاریخ ہونے کے بعد قافلہ پھر روانہ ہوا.بٹالہ پہنچ کہ موٹریں ریکیں ، جہاں متعد دغیر مسلم احباب سلمانوں کو دیکھنے کے لئے بس کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے.بٹالہ سے روانہ ہو کہ جو نہی قادیان کے قریب پہنچے اور منارة المسیح نظر آیا تو ارکان قافلہ کی آنکھ ہوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے اور سب کے ہاتھ دعا کے لئے آسمان کی طرف بلند ہو گئے.قافلہ کی وہی کیفیت تھی جو جلسہ سالانہ ربوہ کے آخری روز دُعا کے وقت ہوتی ہے لیے W ڈلہ کے قریب آکر شرک ابھی زیر تعمیر تھی.لہذا با وجود اس کے کہ سامنے قادیان نظر آنے کہا تھا.لیکن سٹرک کی خرابی کی وجہ سے موٹر موڑ کاٹ کر قادر آباد کے پاس سے دارالا نوار کی سڑک پر سے ہوتی ہوئی حضرت مولوی عبد المغنی خانصاحب اور نیک محمد خانصاحب کے گھر کے درمیان مٹرک کے ایک جانب مہ کی جہاں صاحبزادہ مرزها و سیم احمد صاحب، حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب، جناب ملک صلاح الدین صاحب ناظر امور عامه جناب عبد الحميد ما جز صاحب ناظر بیت المال ، چوہدری سعید احمد صاحب محاسب اور دیگر بزرگان سلسلہ اور در دامین تشریف فرما تھے.ایک درویش نے بلند آواز سے تین دفعہ اَهْلًا وَسَهْلًا وَمَرْحَبًا ما - سب سے پہلے مکرم شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ، اس کے بعد جناب سردار بشیر احمد صاحب نائب امیر اور پھر باری باری تمام افراد قافلہ موٹر سے اُترے.مدرسہ احمدیہ کے طالب علموں نے سامان انا را اور مدرسہ احمدیہ میں پہنچا دیا.ساڑھے تجھے بجھے ہندوستانی ٹائم کے مطابق حجر پاکستان سے نصف گھنٹہ آگے ہے ، روزنامه الفضل ربوده ۱۰ جنوری ۱۹۵۶م من • !

Page 171

۱۵۹ مسجد مبارک میں مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کی گئیں.پھر بہت الدعا میں نوافل ادا کئے گئے.آٹھ بجے مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل کی مسجد مبارک میں تقریر تھی جس کا عنوان تھا " قبول احمدیت کے واقعات ".به تقریر مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ وامیر جماعت ہائے احمد یہ دہلی کی صدارت میں ہوئی.".یہ جلسہ کا افتتاح اور ۲۲ دسمبر شام کو صبح دس بجے سابقہ زمانہ جلسہ گاہ میں جلسہ شروع ہوا.سٹیج کے دائیں جانب کرسیاں بچھائی گئی تھیں.حضرت مصلح موعود کا پیغام بائیں طرف سوائے احمدیت لہرا رہا تھا.پہلا اجلاس امیر قافلہ محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب کی صدارت میں شروع ہوا.تلاوت و نظم کے بعد طلبہ کا افتتاح حضرت علینہ ایسی الثانی رضی اللہ عنہ کے روح پرور پیغام سے ہوا جو صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ و افر جاسہ سالانہ نے پڑھ کر سنایا.حضور کے اس اثر انگیز پیغام کا متن یہ تھا ہے اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِي هُوَ الله ہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ماهير برا در این جماعت احمدیہ مہندوستان! السلام عليكم ورحمة الله و بركاته.پاریشی کے بعد اکثر حقہ جماعت کا پاکستان آگیا اور ادھر جماعت بہت کم رہ گئی مگر بڑا نقص یہ ہوا ہے کہ جماعت کے اکثر حصہ اور خود میرے ادھر آجانے کی وجہ سے وہ چوکش اور اخلاص ہندوستانی جماعت میں نہیں رہا جو پہلے ہوتا تھا.اکے عزیزو ! مذہب کا تعلق کسی شخص یا چند افراد سے نہیں ہوتا بلکہ ہر شخص کا تعلق خدا تعالیٰ سے براہ راست ہے.پس ہمت کرو اور دلوں کو مضبوط کرو اور تبلیغ کو وسیع کرو اور اپنے ارد گرد کے ہر مذہب اور ملت کے آدمیوں تک پیغام حق پہنچاؤ.سه حال ناظر دعوت و تبلیغ قادیان -

Page 172

14.خصوصاً قادیان کی جماعت کو چاہیے کہ اپنے ارد گرد کے ہندؤوں اور سکھوں سے ایسے گھل مل کر رہیں اور ایسے پریم و محبت سے رہیں کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ احمدی ان کی تمہ تقی کے خواہاں ہیں.ان کے بدخواہ نہیں.حضرت باوا نانک کو دیکھو کہ کس طرح اکیلے اُٹھے اور خالص اسلامی علاقوں منان اور ہزارہ میں چلے گئے وہاں دعائیں کیں.اور چلہ کشیاں کیں اور اپنے سے محبت پیدا کرنے والے لوگ پیدا کرلئے.تم بھی اگر خداتعالی سے تعلق پیدا کرو گے اور تہجد اور ذکر الہی پر زور دوگے تو تمہارے ارد گرد کے رہنے والے لوگ تم سے دُعائیں کروائیں گے تم سے محبت کریں گے اور تمہاری بزرگی کا اثر ان کے دلوں پر ہو گا.اب تم میں سے ہر شخص یہ بھول جائے کہ وہ زید یا بکر ہے ، بلکہ یہ یقین کرلے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس ملک میں نمائندہ ہے.پس اپنے مقام کو سمجھو اور مجھے یہ خوش خیریاں بھجواؤ کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری زبانوں میں اثر دیا ہے اور جوق در جوق لوگ احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں اور تمہارے ایمانوں میں اتنی طاقت دی ہے کہ قادیان کی مالی حالت روز بروز درست ہوتی جا رہی ہے.اور تبلیغ کا سلسلہ وسیع ہو رہا ہے.والسلام مرز امحمود احمد خلیفة المسیح الثانی حضور کا یہ پیغام بھارتی احمد یوں بالخصوص درویشان قادیان کے جوش عمل، تبلیغی ولولہ اور ذوق دعا میں غیر معمولی اضافہ کا موجب ہوا، اور اس نے ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دی.بھارت کے احمدی جو تقسیم ملک سے قبل اپنے محبوب آقا کی زیارت اور زندگی بخش کلمات سننے کے لئے دیوانہ وار آتے تھے.آپ اس بے تابی اور بیقراری کے ساتھ حضور کا یہ پیغام سن رہے تھے.اور پھر اس کا حضور ہی کے لخت جگر کے منہ سے سننا قند مگریہ کا سارے ناگ رکھتا تھا.اس پیغام کے بعد پروگرام کے مطابق پہلا مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادم خاص حضرت که روزنامه "بدر" قادیان ، جنوری ۷/۶۱۹۵۶/ صلح ۳ ما.

Page 173

141 بھائی عبد الرحمن صاحب قادیان کا ذکر حبیب " کے موضوع پر تھا، جو صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاب ہی نے پڑھ کر سنایا ہے جو نہایت ایمان افروز چشم دید واقعات پر مشتمل تھا.آپ کے بعد حضرت حکیم خلیل احمد صاب مونگھیری نے زندہ خدا " کے عنوان پر تقریر فرمائی.نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد دوسرا اجلاس صا حبزادہ میاں عبد السّلام صاحب تمر کی صدارت میں پودا جین میں مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری نے اسلام کا نظریہ حیات " کے عنوان پہ اور مولانا محمد سلیم صاحت نے اسلامی اصولوں کی بہتری " کے موضوع پر تقریر کی.ان تقاریر کے درمیان مشہور احمدی شاعر جناب قیسی مینیائی صاحب نے اپنا کلام سنایا.جلسہ کا دوسرا دن پروگرام کے مطابق اس کی کاروان سید معین الدین یا اپنے کنٹ حیدر آباد دکن کی صدارت میں ہوئی.پہلے اجلاس میں جن فاضل مقررین نے خطاب فرمایا اُن کے نام یہ ہیں.جناب مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ کلکنت ، جناب مولوی تشریف احمد صاحب یم.امینی - حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری - دوسرے اجلاس میں جو حضرت حکیم صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا.میاں عبدالسلام صاحب کمر اور مباشہ محمد عمر صاحب مربی سلسلہ کی تقاریر ہوئیں.جلسہ کا تیسرا دن ۲۸ دسمبر | تیسرے دن کا پہلا اجلاس محترم جناب شیخ بشیر احمدحمان ایڈوکیٹ کی صدارت میں ہوا جس میں مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ محمدیہ ربوہ مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ کلکتہ اور محمدکریم اللہ صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ " آزاد نوجوان" نے تقاریر کیں.صدارتی تقریر میں محترم شیخ صاحب نے تعلق باللہ کی طرف توجہ دلائی جو مذہب کا اصل مقصد ہے.آخری اجلاس میں جو حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ کی زیر صدارت ہوا، بالترتیب مولوی لینشیراحمد صاحب فاضل اور مولوی محمد سلیم صاحب نے سیکھے مسلم ہندو استحاد اور جماعت احمدیہ کے مستقبل پر تقاریر کیں.آخر میں صاحب صدر نے بھارت اور دیگر ممالک سے آمدہ تاریں سُنائیں.نیز وزیر اعلی پنجاب جناب بھیم سین سچر اور دیگر وزراء کے علاوہ سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون ایڈیٹر سے یہ مضمون اخبار "بدر" ۱۴ تا ۲۰ مار یا تو میں چھپ گیا.

Page 174

(47 ہفت روزہ "ریاست دہلی کے خطوط بھی سُنائے اور انتظامات جلسہ کے لئے حکام کا شکریہ ادا کیا.اور پھر حاضرین سمیت ایک پر سوز لمبی دعا کرائی ہے جلسہ کے سامعین اس جلسہ میںپاکستانی قافلہ اکتالیس افراد مشتمل تھا جن کے علاوہ کم و بیش مزید استی پاکستانی احمدی شامل حلیہ ہوئے.بھارت سے جن دو سو میں احباب نے شرکت کی اُن کا تعلق مندرجہ ذیل مقامات سے تھا :- (۱) کشمیر ( آستور - دنتی نگر ) - (۳) جموں (جموں شہر بھدرواہ) - (۳) ریاست چنبه - رہ) - یوپی (بریلی ولکھنو وغیرہ ) - (۵) بمبئی (ہمیٹی شہر - مبلی) - (4) بہار وبھا (4) بهار و بھاگلپور وغیره.ے).اڈلیہ (سو گھڑہ - کیرنگ ) - (۸) دکن (حیدر آباد - سکندر آباد.تیما پور چفتہ کنٹر.یاد گیر ) - (۹) بنگال (کلکتہ بھرت پور ) - (۱۰) جنوبی ہند (شموگہ و غیره الله جلسه مستورات جلسه مستورات حضرت مولوی عبد المغنی صاحب کے مکان سے ملحقہ چار دیواری کے اندر منعقد ہوا.جہاں سات سو سے اوپر خواتین کے بیٹھنے کی گنجائش تھی.۲۶ ر اور ۲۸ دیمر کا مردانہ پروگرام یہاں بذریعہ لاؤڈ سپیکر سنایا گیا اور ۲۷ دسمبر کو احمد مستورات کی تقاریر ہوئیں.قادیان کی روحانی فضا ہمیشہ دعاؤں سے معمور رہتی ہے.مگر جلیہ کے قادیان کی روحانی فضا | ان مبارک ایام کا رنگ ہی جدا تھا.ایسا محسوس ہوتا تھا کہ زمانہ چودہ صدیاں پیچھے کی طرف ہٹ گیا ہے.سے وہی نے ان کو ساقی نے پلادی : فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعادِي مکرم سید عبد السلام صاحب سیالکوٹی کا معمول تھا کہ آپ ان دنوں تہجد کے لئے خاص التزام سے جگاتے اور اس غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ اشعار نہایت بلند آواز سے پڑھتے تھے کہ ار کون روتا ہے کہ حسیں سے آسماں بھی رو پڑا ، مہرومہ کی آنکھ تم سے ہوگئی تاریک و تار یکیں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں وقت پر : یکیں وہ ہوں اور خدا میں سے ہوا دن آشکار ه "بدر" ناویان ، جنوری ار م.ایضاً.۵۶ {

Page 175

سونے والو جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے : جو خبر دی وجی حق نے اس دل بستیاب ہے کچھ احباب پہلے ہی جاگے ہوتے اور کچھ ان پر درد اشعار کو سُن کر جاگ اٹھتے.بہت سے نوجوان بیت الدعا کے باہر انتظار میں کھڑے نظر آتے.بعض اس مبارک کمرہ میں سربسجود دکھائی دیتے نماز تہجد مولوی شریف احمد صاحب امنیتی پڑھاتے اور نماز فجر حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت کی اقتدا میں ادا کی جاتی.بعد ازاں درس ہوتا اور پھر بہشتی مقبرہ کی سڑک پر احمدیت کے پروانوں کا تانتا بن بعد جا تا ہے اور حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کا مزائیہ مبارک حضور کا شہ نشین اور مقام بعیت خداست اولی اُن کی دُعاؤں کے خصوصی مراکز بن جاتے تھے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم فرزند جلیل کی اس فت پیشگوئی کا حیرت انگیز ظہور تھا کہ إلي أموتُ وَلا يَمُوتُ مُحَبَّتِيْ : يُدْرَى بِذِكْرِكَ فِي التَّرَابِ يَدَالله یں تو مر جاؤں گا.مگر میری محبت نہ مرے گی.بلکہ قبر میں سے بھی تیری یاد کی ندا پائی جائے گی.۳۰ دسمبر کو قافلہ کی واپسی کا دن تھا.جلسہ گاہ کے دروازہ کے سامنے بس قافلہ کی واپسی پر سامان لادا گیا.زائرین نے درویشوں کے ساتھ مل کہ دیما کی حسین کے بعد قافلہ پولیس کی معیت میں نعرہ ہائے تکبیر اور اسلام زندہ باد کے درمیان واپس روانہ ہوا.اور اسی دن بخیر بت پاکستان پہنچ گیا سیکھے ریوں کا سالانہ جملہ اور حضرت مصلح موعود کی جلسہ سالانہ قادیان کے کوائف کے بعد آب لیتا ہے ریوں کی تفصیلات دی جاتی ہیں.ایمان افروز تقریریں سید نا حضرت مصلح موعود نے ملالت طبع کے باوجو د حسب معمول سالانہ جلسہ کے اس مبارک اجتماع سے بھی تین بارہ خطاب فرمایا.۱ افتتاحی تقریر (۲۶ / دسمبر ۱۹۵۵ء) میں حضور نے سر سے پہلے اپنی بیماری کا بالتفصیل ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ له روزنامه الفصل میوه در نوری ش الامت مضمو هوندو غلام باری صاحب سیف بنوان" کوائف ادیان ".من الرحمن " فلا تألیف شد سے روزنامه الفضل ربوه مورخه ۱۳ جنوری ۹۵۶ و مده '

Page 176

کتنا عظیم الشان فرق بارہ مہینے میں پڑا ہے.بارہ مہینے پہلے میں بالکل تندرست تھا مگر اس کے بعد یکیں ایک سخت بیماری میں مبتلا ہوا جس کے اثرات اب تک باقی ہیں اس بیماری کا جو ظاہری جسمانی حصہ پہ اثر تھا.اس میں تو کمی ہے.ہاتھ پیر ہلاتا ہوں ، چل لیتا ہوں.لیکن ابھی کئی قسم کے اثرات باقی ہیں مثلاً نظر بہت کم کام کرتی ہے.گو ڈاکٹر کہتے ہیں موتیا بند نہیں ہے لیکن کوئی اعصابی مرض ہے بھوڑا سا بھی پڑھوں تو سر چکرا جاتا ہے.جس کی وجہ سے سارا دن گھبراہٹ میں گذرتا ہے.جب تک میری بیوی مجھے ڈاک وغیرہ شناتی رہے یا قرآن شریف کے نوٹ لکھتی رہے طبیعت ٹھیک رہتی ہے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کئی ڈاکٹروں نے حتی کہ یوروپین ڈاکٹروں نے بھی جو دین کے اتنے قائل نہیں کہا کہ آپ کی صحت معجزانہ ہے.حالانکہ وہ دین کے قائل نہیں ہیں مگر اُن کے منہ سے بھی ایسا فقرہ نکل گیا.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جرمنی میں ایک ڈاکٹر مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ YOUR CURE WAS MIRACULOUS ** اسی طرح یہاں کے بھی کئی ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ ایک معجزانہ بات تھی.اب اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس معجزہ کو کامل کر دے اور وہ جو اب تک میرے دماغ پر بوجھ ہے اس کو دور کر دے...میری بهاری زیادہ تر اعصابی رہ گئی ہے جہاں تک اصل بیماری کا سوال تھا، ڈاکٹروں کا یہی خیال ہے کہ وہ جا چکی ہے.صرف اعصابی تکلیف باقی ہے چنانچہ سوئٹزر لینڈ کا ایک مشہور ڈاکٹر جسے بوسٹن میڈیکل کالج امریکہ والے بھی (جو وہاں کا بڑا بھاری کالج ہے ) تقریر کے لئے بلایا کرتے ہیں.اور جس کے متعلق ہمارے دوستوں نے بھی وہاں سے مشورہ کر کے تار کے ذریعہ ہمیں لکھا تھا کہ اسے ضرور دکھاؤ اس کا فقرہ یہ تھا کہ آپ یہ ہماری آپ کے اختیار میں ہے آپ زور لگائیں اور بھول جائیں.نہیں نے کہا کہ میں بھولوں کس طرح اس کا بھی علاج بتاؤ کہنے لگا اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کی صحت بیماری کے حملہ سے پہلے بہت اچھی تھی اب ایک دم اس چیز میں جو کمی آئی ہے وہ آپ کو بہت محسوس ہوتی ہے اور آپ اس کو بھلا نہیں سکتے پھر جب میں اُٹھا تو یوروپین لوگوں کے طرز کے مطابق میرے سینے کی طرف اپنا ہاتھ کر کے اور انکلی ہلا کر کہنے لگا کہ میری نصیحت آپ کو یہ ہے کہ BE OPTIMISTIC - BE OPTIMISTIC اپنی امیر مضبوط کرو.پھر یہ بیماری جاتی رہے گی.وہ کہنے لگا جہاں تک طبی سوال ہے میرے نزدیک

Page 177

۱۶۵ وہ ہو ہماری چلی گئی ہے.لیکن آپ اپنے نفس پر قابو کر کے اسے بھلا دیں.گو آپ کے لئے یہ مشکل ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی صحت پہلے بہت اچھی تھی ایک دم جو آپ آکے ناکارہ ہو گئے تو جو صدمہ آپ کے دماغ کو پہنچا ہے اس کی وجہ سے آپ ہماری کو بھلا نہیں سکتے مگر کوشش کریں کیونکہ علاج یہ علاج نہیں ہے جس دن آپ اپنی طبیعت پر غالب آجائیں گے.جہاں تک جسمانی مرض کا سوال ہے وہ ختم ہو جائیگی.بہ بہت بڑا فرق ہے جو میری صحت میں واقعہ ہوا.کجا بارہ مہینے پہلے کی حالت اور کجا آج کی حالت.سوائے اس کے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض دفعہ ایسا وقت بھی آتا ہے کہ میں اپنے آپ کو بالکل تندرست محسوس کرتا ہوں.پچھلے مہینے میں تو میر کے آخر میں یا دسمبر کے شروع میں پندرہ دن ایسے رہے کہ میں کمرہ میں ٹہلتا تھا آخر ٹہلنا پڑتا ہے کیونکہ گھبراہٹ ہوتی ہے اور یہ بھی غالباً اس بیماری کے کو نتیجہ میں ہے کہ چونکہ پہلے چلنا پھرنا بند ہو گیا تھا.طبیعت اندرونی طور پر محسوس کرتی ہے کہ میں چل کے دیکھوں کہ چل سکتا ہوں یا نہیں تو ٹہلتا ہوں اور ٹہلتا چلا جاتا ہوں یہاں تک کہ پیر تھک جاتے ہیں عرض پندرہ دن ایسے رہے کہ میرا د مارغ با لکل یوں محسوس کرتا تھا کہ اس پر کوئی بوجھ نہیں اور نماز میں مجھے بھولنا بھی بند ہو گیا تھا.شروع شروع میں جب میں کراچی گیا ہوں تب تو یہ حال تھا کہ پاس آدمی بیٹھتے تھے جو بتاتے جاتے تھے کہ آپ سجدہ کر یں اب سجدہ سے اُٹھیں.یہاں بھی آکر کچھ تھولا مگر پھر ٹھیک ہو گیا مگر اس کے بعد پھر یہی کیفیت ہو گئی جس پر میں نے اپنے ساتھ ایک آدمی کھڑا رکھنا شروع کیاکہ تم کھڑے ہو جاؤ گے تو مجھے پتہ لگ جائے گا کہ کھڑا ہوتا ہے بیٹھ جاؤ گے تو مجھے پتہ لگ جائے گا کہ مجھے بیٹھنا ہے.مگر آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے طبیعت پر ایسا قا بو دے دیا کہ بغیر اس کے بیٹھنے یا قطع نظر اس کے کھڑا ہونے کے نہیں آپ ہی آپ کھڑا ہو جاتا تھا اور رکوع کرتا تھا اور تشہد پڑھتا تھا اسی طرح گھر میں نماز پڑھتا ہوں تو بیوی کو بٹھا لیتا ہوں کہ دیکھتے جانا میں غلطی تو نہیں کرتا.مگر کئی دفعہ ایسے وقت بھی آتے ہیں کہ نمازہ بالکل ٹھیک پڑھتا ہوں اور کوئی بات نہیں بھولتی ہیں سمجھتا ہوں کہ یہ محض دعاؤں کا نتیجہ ہے اور دعاؤں کے ساتھ ہی اس کا تعلق ہے.مجھے خدا تعالیٰ نے خواب میں بھی یہی بتایا ہے.ه روزنامه الفضل ریوه ۱۰ / فروری ۱۹۵۶ء ص۳۱۳

Page 178

194 اسی تسلسل میں حضور نے اگلے روز مزید بتایا کہ : بڑی مشکل یہ ہے کہ سب سے زیادہ اثر اس بیماری کا میری آنکھوں پر پڑا ہے شرع به مطلب میں تو اس کا پتہ بھی نہیں لگا لیکن آہستہ آہستہ پتہ لگا.آپ نہیں پڑھ نہیں سکتا ، یہ نہیں کہ حرف نظر نہیں آتے.حرف تو نظر آتے ہیں بلکہ آپ بھی اگر پڑھنے والی عینک لگا لوں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے.بغیر عینک کے مجھے زیادہ آرام رہتا ہے لیکن طبیعت میں پریشانی شروع ہو جاتی ہے.لائل پور میں ایک بڑے لائن ڈاکٹر ہیں.نہیں نے ان کو یہاں بلوایا اور کہیں نے کہا کہ دیکھئے میں نے قرآن شریف کا ایک سیپارہ ہی پڑھا تھا کہ میری طبیعت گھبرا گئی.اس بے چارے کو تو قرآن شریف پڑھنے کی عادت نہیں تھی کہنے لگا ایک سیپارہ یہ تو بڑی چیز ہے.کہیں نے کہا آپ میرا حال تو نہیں جانتے میں نے تو تندرستی میں بعض دفعہ رمضان شریف میں پندرہ پندرہ سولہ سولہ سیپارے ایک سانس (میں) پڑھے ہیں.پس میری تو ایک سیپارہ پر گھبراہٹ سے جان نکلتی ہے کہ مجھے ہو کیا گیا ہے کہ یا تو پندرہ سولہ سیپارہ پڑھنے اور ساتھ ہی زبان سے بھی پڑھتے جانا اور آنکھوں سے بھی دیکھتے جانا اور کجا یہ کہ ایک سیپارے کے ساتھ ہی گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے.وہ بے چارہ اس پر کہنے لگا کہ یہ تو بہت بڑا کام ہے یہ اس تفصیل کے بعد حضور نے نہایت زور دار اور پر شوکت الفاظ میں وقف زندگی کی تحریک کی طرف متوجہ کیا.چنانچہ فرمایا :- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے فرمایا ہے کہ مجھے سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تین سو سال تک تمہاری جماعت بڑی طاقتور اور مضبوط ہو جائے گی.تین سو سال کا عرصہ بڑا لمبیا عرصہ ہے یوں تو مومن کو قیامت تک کے لئے عزم کرنا چاہیے لیکن کم سے کم تین سو سال تک تو ہاری آئندہ نسلوں کو یہ عزم کرنا چاہئیے کہ یکے بعد دیگرے ہم سلسلہ کا بوجھ اُٹھاتے چلے جائیں گے اور اسلام کی اشاعت میں کوئی کوتا ہی نہیں کریں گے.اس وقت یکیں دیکھتا ہوں کہ نئے خاندانوں میں سے تو لوگ وقف کی طرف آرہے ہیں مگر پرانے روزنامه الفضل ريوه ۱۴ فروری ۱۹۵۶ ص۴) i

Page 179

142 خاندانوں میں ہے کہ آرہے ہیں، اس سلسلہ کے لئے بھی دعا کرو اور ان لوگوں کے لئے بھی دیا کہ وجی کو خدا تعالیٰ نے پہلے احمدیت کی خدمت کی توفیق دی تھی.کہ اللہ تعالیٰ ان کے خاندانوں کو بھی اس کی توفیق دیتا رہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعد میں آنے والے مومن ہمیشہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں بھی بخش اور ان کو بھی بخش جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں تو ان لوگوں کا بھی حق ہے کیونکہ ان کے ذریعہ سے ہی ایمان آپ تک پہونچا ہے اس طرح آپ لوگ کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ آپ میں ایمان قائم رکھے اور ایسا ایمان قائم رکھے کہ وقف کے ذریعہ سے جماعت کی ترقی کے لئے آپ لوگ ہمیشہ کوشاں رہیں.بے شک خدمات کے کئی ذرائع ہیں.قومی طور پر تو یہی ذریعہ ہے کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط رکھا جائے.جیسے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سارے لوگ وقف نہیں کر سکتے کچھ لوگ کر سکتے ہیں.سارے لوگوں کا وقف نہیں ہے کہ تمام لوگ ایمانوں کو پختہ رکھیں اور اپنی قربانی کو بڑھاتے چلے جائیں.اگر سارے لوگ اپنے ایمانوں کو پختہ نہ رکھیں اور قربانی نہ بڑھاتے چلے جائیں تو وقف کرنے والے کھائیں گے کہاں سے اُن کے کھانے پینے کا تبھی سامان ہو سکتا ہے.جب اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دیتا چلا جائے اور اس کے چندے پڑھتے چلے جائیں آختہ بہ سلسلہ بڑھے تو ہمیں دس پندرہ ہزار وافقتین چاہیں.ملک کا معیار زندگی اتنا بڑھتا چلا جاتا ہے کہ جو اچھی دینی یا دنیوی تعلیم والے ہوں گے ان کو اپنے ہمسایوں کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کم سے کم چار پانچ سو روپیہ ماہوار کی ضرورت ہوگی اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اگر دس مترابہ دافقین ہوں تو چالیس پچاس لاکھ روپیہ ماہوار کی آمدن ہوتی چاہیے.یعنی چھ کروڑ روپیہ سالانہ.تب جا کے اتنے واقفین مل سکتے ہیں جو سلسلہ کی ساری ضرورتوں کو پورا کر سکیں.اگر آ لوگ اپنی نسلوں میں یہ احساس پیدا کر یں کہ تم میں سے جو وقف کرے دوسرے لوگ اس کی خدمت کیا کریں تو یہ کام بڑی آسانی سے ہو سکتا ہے اس کے علاوہ اپنے چندے بڑھاؤ اپنے دوستوں کے بھی بڑھواؤ اور جو غیر احمدی دوست ہیں ان سے بھی چندے تو ان میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں.جن کے اندر دین کا درد ہے مجھے یاد ہے میر محمد الحق صاحب مرحوم جب بچے تھے حضرت خلیفہ اول نے میر ناصر نواب صاحب مرحوم کو جو ہمارے نانا تھے فرمایا کہ اسحق کو میرے پاس بھیجا کہیں نہیں اس کو قرآن حدیث پڑھاؤں گا.وہ تھے تو اہل حدیث مگر طبیعت بڑی خوشی تھی کہنے

Page 180

لگے اسماعیل ڈاکٹری میں پڑھتا ہے.اسحق اگر آپ کے پاس قرآن حدیث پڑھے گا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیشہ میرا ایک بیٹا میرے دوسرے بیٹے کے آگے ہاتھ پھیلائے گا کہ میرے لئے کچھ کھانے کا سامان کر و حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے کہ میر صاحب آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ میرا ایک بیٹا دوسرے بیٹے کے آگے ہاتھ پھیلائے گا.آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ میرے اس بیٹے کے طفیل خدا دوسر بیٹے کو رزق دے گا تو اپنی اولاد کو آپ لوگ یہ احساس پیدا کہ ائیں کہ جو تم میں سے واقف زندگی ہو تمہارا فرض ہے کہ اپنی آمدنوں میں سے ایک معقول حصہ اس کی خدمت کے لئے دیا کرو تاکہ اس کی فکر معیشت دور ہو جائے.سو ایک طرف جو دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے لڑکے ہیں ان کو یہ تعلیم دیں اور جو دوسرے ہیں اُن کو دینی تعلیم دلائی اور اصل چیز تو یہ ہے کہ قرآن شریف اور حضرت مسیح موعود اور عليه الصلوۃ والسّلام کی کتابیں پڑھ پڑھ کے آپ لوگ خود اپنی تعلیم اتنی مکمل کریں کہ اپنے گھروں میں ہی ہر شخص واقف ہو جائے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو صحابہ تھے وہ کون سے شاہد پاس تھے ؟ بس اک آگ ان کے دلوں میں لگی ہوئی تھی.وہ آگ لگ جائے تو سب کام آپ ہی آپ ہو جاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کو غور سے پڑھتے ہیں بسلسلہ کا لٹریچر غور سے پڑھتے ہیں قرآن شریف وحدیث غور سے پڑھتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کو کوئی بڑا علم آنا ہو وہ دنیا کے بڑے سے بڑے عالم پر غالب آجاتے ہیں اور کوئی شخص ان کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا.مجھے یاد ہے لنڈن میں ہمارے مبلغ ہوتے تھے چودھری ظہور احمد باجوه وده آجکل ناظر در شد و اصلاح ہیں اُن کے ساتھ بعض دفعہ لوگوں کی گفتگو ہوتی تھی بعض دفعہ انگریزوں کی اور بعض دفعہ جو بڑے بڑے ہوشیار اور جہاندیدہ پیغامی مبلغ وہاں ہیں اُن کی جب وہ سوال و جواب آتا تو ہمیشہ اُن کا خط پڑھ کر میرا دل کا پتا تھا کہ یہ کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں مگر ہمیشہ ہی میں نے دیکھا کہ جب میں ان کا جواب پڑھتا تھا تو دل خوش ہو جاتا تھا وہ ایسا مکمل اور اعلی جواب ہوتا تھا کہ میرا دل مانتا تھا کہ اس شخص کی اللہ تعالٰی نے مدد کی ہے.نے بعد ازاں ناظر امور عامہ بنے اب ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد تعلیم القرآن) ہیں.سے روز نامر الفضل دیوه از فروری ۹۵۶ ۵۲ -

Page 181

149 اس سلسلہ میں حضور نے حضرت ابراہیم اور حضرت علی کی مثال دیتے ہوئے فرمایا :.ابراہیم کی نسل میں بھی ان کے ایک بیٹے سے بارہ امام بنے تھے، اسی طرح حضرت علی سے بھی بارہ امام پیدا ہوئے.مگر کتنا افسوس ہے کہ بعض مخلص لوگ فوت ہوتے ہیں تو ان کے بیٹے ہیں خراب ہو جاتے ہیں اور بعض کا پوتا خواب ہو جاتا ہے.مگر علی کے اندر کیسا ابراہیمی ایمان تھا اور ابراہیم کے اندر کیا ایمان تھا کہ بارہ نسلوں تک میرا بہ اُن میں یہ ذمہ داری کا احساس چلتا چلا گیا کہ ہم نے دین کی خدمت کرنی ہے.اگر تمہارے بچے بھی یہ ارادہ کر لیں تو پھر کوئی فکر نہیں بڑھوں نے تو آخر مرنا ہے.خدا تعالیٰ نے آدم کے زمانہ سے لیکر آج تک ہر ایک کے لئے موت مقرر کی ہوئی ہے مگر جب یہی بچے بڑھے بن جائیں گے تو پھر کوئی فکر نہیں ہوگی کہ دین کا کیا بنے گا.یہی نو دس سال کے بچے ایسے طاقت اور پہاڑ نہیں گے کہ اگر دنیا ان سے ٹکرائے گی تو دنیا کا سر پاش پاش ہو جائے گا مگر یہ اپنے مقام سے نہیں ہٹیں گے ، اور احمدیت کو دُنیا کے کناروں تک پہنچا کے رہیں گے.لیکن یہ سارے کام دعاؤں سے ہو سکتے ہیں ہمارے اختیار میں تو خود اپنا دل بھی نہیں ہوتا لیکن خدا کے اختیار میں ہمارا بھی دل ہے اور ہماری اولادوں کا بھی دل ہے اور اولادوں کی اولادوں کا بھی دل ہے.ہمیں تو دس بارہ نسلیں کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کیوں کہ نظر تو یہ آتا ہے کہ بارہ تک پہنچنا بھی ہمارے اختیار میں نہیں.اگر یہ دریا کی ہر ہمارے دہانے میں سے گزرے تو خبر نہیں بارہ نسلوں تک پہنچے گی بھی یا نہیں مگر خدا کی یہ طاقت ہے کہ وہ بارہ ہزارہ نسلوں تک پہنچا دے اس لئے آؤ ہم خدا سے دعا کہیں کہ وہ اس طلبہ کو با برکت کرے اور اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو ہزاروں پشتوں تک دین کا بوجھ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیشہ ان میں ایسے کامل انسان پیدا ہوں جو اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق رکھنے والے ہوں اور اس کے دین کی اشاعت کرنے والے ہوں تاکہ احمدیت اور اسلام کا پیغام دنیا میں پھیل جائے اور ہم خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو جائیں.اپنی طاقت سے نہیں ، اپنی قوت سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کیونکہ یہ طاقت خدا میں ہے ہم میں نہیں ؟.حضور نے خطاب کے آخر میں خاص طور پر دو امور کا ذکر فرمایا.ایک تو یہ کہ دوست دُعا ه روزنامه الفضل ربوه ۱۰ر فروری ۱۹۵۷ ه م.

Page 182

16.کریں کہ اللہ تعالیٰ ہندوستان اور پاکستان کے رہنے والوں کو اسلام میں بھی متحد کر دے اور ساگر ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہو جائیں.دوسرا امر یہ تھا کہ حضور سے ملاقاتوں کے اوقات طبی مشورہ کے مطابق کم کر دیئے گئے ہیں احباب کو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے.یہ دونوں امور ذیل میں حضور ہی کے مبارک الفاظ میں درج کئے جاتے ہیں :- " b ہندوستان میں چالیس کروڑ کی آبادی ہے.اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ہمیں ایک کروڑر بھی ان میں سے مل جائے تو قادیان کی آبادی کے لئے یہ بڑا کانی ہو جاتا ہے مگر ہم تو اپنی کمزوری کی وجہ سے ایک کروڑ کہتے ہیں.ورنہ چالیس میں سے اکتالیس ملنے چاہئیں.چالیں تو وہ جواب ہے اور.ایک وہ جو اس وقت تک پیدا ہو جائے گا.سو اللہ تعالیٰ فضل کری کے اگر آب احمدیت اور اسلام کو اس ملک میں پھیلا دے تو یہ جو کہ اسی روکیں ہیں یہ آپ ہی آپ دُور ہو جاتی ہیں.اگر سارے دل اکٹھے ہو جائیں، سارا ہندوستان مسلمان ہو جائے تو پاکستان اور ہندوستان کا دل ایک ہو جائے گا.آج تو لوگ کہتے ہیں ہندوستان میں یہ نظریہ پاکستان کے خلاف ہوئی اور مہندوستان والے کہتے میں پاکستان میں یہ تقریر سند داستان کے خلاف ہوئی.لیکن اگر دونوں کے دلوں میں ایمان پیدا ہو جائے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں تو ایک دوسرے کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.پس دُعا کہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس طرح دلوں کو آپس میں صاف کہہ دے کہ ایک دوسر کے حقی بھی مل جائیں اور پھر ایمان میں بھی متحد ہو جائیں اور سارے میں محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے خادم ہو جائیں اور سب ہی ہم کو پیارے ہو جائیں کیونکہ اصل حکومت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہندوستان میں قائم ہو جائے تو پاکستان اور مہندوستان کے اختلافات آپ ہی ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں کوئی بارڈر نہیں وہ ماہی ایک ہے ہم تو کسی نہ مانہ میں ایک دھنی تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ میرے مذہب میں کالے گورے کی کوئی تمیز نہیں.ایرانی اور رومی اور عرب میں کوئی تمیز نہیں.پس اگر خدا تعالیٰ ان سب کو مسلمان بنا دے اور خدا تعالے سے یہ کوئی کبھی بات نہیں تو سارے جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں اور ہمارے دونوں ملک اتحاد اور اتفاق کے ساتھ بہت سی ترقیات حاصل کر سکتے ہیں جو اس اختلاف کے ساتھ نہیں حاصل کر سکتے ہے سوز امر الفضل ربوده ، فروری شده ست.

Page 183

پھر فرمایا : ملاقاتیں مختصر کی گئی ہیں.امید ہے کہ دوست اس کی پر واہ نہیں کہ لیں گے.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں تو ملاقاتیں ہوا ہی نہیں کرتی تھیں.آپ سیر کو جانتے تھے تو دوست دیکھ لیتے تھے اور اگر بعض کو موقع لتا تو مصافحہ بھی کر لیتے تھے.تقریر یں بھی مختصر ہوتی تھیں....حضرت مسیح موعود کی آخری جلسہ کی تقریر مجھے یاد ہے پچاس یا پچھ منٹ کی ہوئی تھی.اور ہم بڑی باتیں کرتے تھے کہ آج بڑی لمبی تقریہ ہوئی ہے.اور جماعت میں بڑا شور پڑا کہ آج حضور نے بڑی تقریر کی ہے.آپ لوگوں کو چھ چھ گھنٹے سننے کی عادت پڑی ہوئی ہے.آپ میں بچیں یا نہیں منٹ کی تقریہ ہو تو بڑے مایوس ہو جاتے ہیں کہ بہت چھوٹی تقریر ہوئی ہے لیکن اصل تقریر تو وہی ہے جس کو آپ اپنے دل میں رکھ لیں.جو میرے منہ سے نکل کر ہوا میں اُڑ جائے وہ کوئی تقریر نہیں چاہے ، وہ اکٹھ گھنٹےکی ہو یا نہیں گھنٹے کی ہو اور جو آپ اپنے دل میں رکھ لیں وہ پانچ منٹ کی بھی بڑی.تورہ کے روز نامہ " نوائے وقت" نے اس تقریر کا خلاصہ درج ذیل پریس نوٹ | الفاظ میں نائع کیا :.مرته البشیر الدین محمود کی نظریہ" لا بوده - ۲۷ دسمبر فرقہ احمدیہ کے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے آج بین الاقوامی احمدی کانگرس کے تو میں سالانہ اجلاس کا افتتاح کر تے ہوئے نوجوانوں کو تلقین کی کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیروی کو اپنا شعار بنا ئیں.دن ۲۷ دسمبر کی ایمان افروز تقریر در سری وی کی ایمان افرونه تقریر میں عور نے نے جماعت کو ہدایت فرمائی کہ خدمت خلق کے کام کو پوری توجہ سے جاری رکھیں.رسالہ " ریویو آف ریلیجینز کی اشاعت دس ہزار تک پہنچانے کی کوشش کریں.سکنڈے نیویا میں مشن کھولا جا رہا ہے اس کے لئے مالی قربانیاں پیش کریں.زمیندار محنت سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور فصل کے لئے ہمیشہ اچھا بیچ اور عمدہ کھاد استعمال کریں.روز نام الفضل ربوه ۱۰ فروری امت ہے.روزنامہ نوائے وقت " ۲۹ دسمبر دار ما

Page 184

۱۷۲ تقام احمدی ملازم ، تاجر ، صنایع اور طالب علم اپنے فرائض پوری تندہی کے ساتھ ادا کریں وقت زندگی کی تحریک ہمیشہ قائم رہے.اشاعت اسلام کے لئے غیر احمدی معزز مین سے بھی چندہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے صدر انجمن اور تحریک جدید کا بجٹ پچیس پچیس لاکھ تک پہنچا دیں.بیرونی ممالک میں بھی نظام الوصیت جاری کیا جائے اور مختلف ممالک میں مغیرہ بہشتی کی نیابت " کے طور پر بہشتی مقبرے تیار کئے جائیں.تقریب کے آخر میں حضور نے بیرونی ممالک میں خدا کے گھروں کی تعمیر دیوہ میں انڈسٹریاں قائم کر کے جلد جلد آباد کرنے اور قرآن کے روسی ترجمہ کی جلد اشاعت کی طرف خصوصی توجہ ولائی.اس پر معارف تقریر کے چند اقتباسات بطور نمونہ ذیل میں سپرد قلم کئے جاتے ہیں..دا خدمت خلق مومن کا ایک خاصہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اسلام کا خلاصہ ہے تعلق باللہ اور شفقت علی خلق اللہ یعنی انسان خدا سے محبت کرے اور اس کے بندوں کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرے.پچھلے سیلابوں کے وقت میں پاکستان کے خدام نے نہایت اعلیٰ درجہ کانمونہ دکھایا ہے.اس طرح قادیان کے خدام نے بھی اچھا نمونہ دکھایا ہے اور اس کا لوگوں کی طبیعتوں پر بڑا اثر ہوا ہے یاد رکھو کہ اس وقت تک یورپ کے لوگ مسلمانوں کو یہی طعنہ دیتے چلے آئے ہیں کہ یہ منہ سے تو بڑی اچھی تعلیمیں بیان کرتے ہیں.لیکن عملاً ان لوگوں کا یہ حال ہے یہ کبھی بھی بنی نوع انسان کے لئے کوئی قربانی نہیں کر سکتے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم محض زبانی ہے عملی نہیں وہ تو حکومت کے متعلق کہتے ہیں کہ کہنے کو تو حکومت کے متعلق بہت اچھے قانون ہیں مگر کون سی اسلامی حکومت ہے جس نے اسلام پر ٹل کیا ہے ، مگروہ تو ہمارے بس کی بات نہیں.نہ ہمارے پاس حکومت ہے نہ ہم وہ نمونہ دکھا سکتے ہیں.اگر کسی ملک میں اللہ تعالیٰ نے حکومت دی اور وہاں کے احمدیوں کے اندر اخلاص قائم رہا اور انہوں نے نمونہ دکھایا تو پھر اُن کا منہ بند ہوگا.گر کم سے کم جو ہمارے اندر خدمت خلق کی طاقت ہے اس کا تو ہم نمونہ دکھا ئیں.پس ہمیں ہر موقع پر خدمت خلق کو پیش نظر کرنا چاہیے.مگر یہ بھی یاد رکھتا چاہیئے کہ یہ انتظار کرنا کہ کوئی طوفان آئے تو پھر خدمت خلق کہ ہیں، یہ بری بات ہے.یہ دعاکرنی چاہئے کہ خدا طوفان نہ لائے خدمت کے ہر وقت مواقع ہوتے ہیں.مثلاً ہوائیں دنیا میں ہوتی رہتی ہیں بتائی ہوتے ہی رہتے ہیں.ان کے لئے بیماریوں میں نسخے لا دیا.دوائیاں لا دینی.گھر کا سامان خرید کے لا دیا.یہ چیز ہر وقت ہو سکتی ہے.پس خدام الاحمدیہ کو طوفانوں کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ دوسرے **

Page 185

۱۷۳ دنوں کے لئے بھی کام نکالنے چاہئیں جن میں خدمت خلق ہو سکے اور لوگوں کی تکلیفوں کو وہ دور کر سکیں.پس اس کو ہمیشہ یاد رکھو جیسا کہ میں نے بتایا ہے آج تک یورپ اور امریکہ اس خاصیت خلق کی روح کو اسلام کے خلاف اپنی عظمت میں پیش کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ عیسائی بڑی خدمت کرتے ہیں مسلمان نہیں کرتے اور شرم کی بات ہے کہ ہم ان کا جواب نہیں دے سکتے، اگر ہماری جماعت کے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ خدمت خلق کا اعلیٰ درجہ کا نمونہ پیش کر یں تو ہم یورپ اور امریکیہ کے منہ بند کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ جو تم خدمت کرتے ہو اس سے بڑھ کر خدمت کرنے والے ہم ہیں.یہ مت خیال کرو کہ لوگ قدر نہیں کرتے ، قدر کرنے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں مثلاً ڈاکٹر خانصاحب جو ہمارے وزیر اعلیٰ ہیں وہ سیالکوٹ گئے تو خدام نے ان کی طرف لکھا کہ ہم اس طرح کام کہ رہے ہیں انہوں نے جیسا کہ افسروں کا قاعدہ ہوتا ہے وہ رقعہ ڈپٹی کمشنر کو دے دیا.ڈپٹی کمشنر نے کہا ہاں واقعہ میں یہ بہت خدمت کر رہے ہیں.اس پر ڈاکٹر خان صاحب نے کہا افسوس ہے یہ لوگ خدمت خلق کرتے ہیں لیکن لوگ ان کو آگے نہیں آنے دیتے تو دیکھو وزیر اعلی کو تسلیم کرنا پڑا کہ تم قدمت خلق کر رہے ہو (ب) قادیان میں ہمارے گل تین سو آدمی ہیں.یہاں ایک ضلع میں ہمارا آٹھ آٹھ سو آدمی گیا ہے، مگر وہاں ہے ہی ساری آبادی تین سو.تین سو میں سے پچاس ساٹھ آدمی طونان کے موقع پر باہر گئے تھے لیکن دو وزراء نے تحریراً شکریہ کے خطوط بھیجوائے کہ آپ لوگوں نے بڑی خدمت کی ہے.اس طرح انسپکٹر جنرل پولیس نے شکریہ ادا کیا اور بعض اخبارات نے اس پر نوٹ لکھے.اخبارات نے تو یہاں بھی شرافت سے کام لیا اور وہ جماعت کی خدمت کو پیش کرتے رہے گو ڈرتے بھی رہے.وہ ساتھ ساتھ دوسری جماعتوں کا نام بھی لکھ دیتے تھے جن کے بعض دفعہ کچھ بھی آدمی نہیں ہوتے تھے نہیں خدمت کی اس روح کو قیامت تک جاری رکھو.یاد رکھو زندگی کا مقصد بھی یہی ہے کہ اللہ سے محبت کی جائے اور بنی نوع انسان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے.اگر اس روح کو قائم رکھوگے تو تمہاری کامیابی اور تمہاری ترقی میں کوئی شبہ نہیں.ه روزنامه الفضل ربوه ۱۴ فروری ۱۵۶ م - سے ایضاً

Page 186

۱۷۴ (ج) " میں نے دیکھا ہے کہ طبیعت پر ذرا بھی اثر ہو تو لوگ دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں کراچی میں میرا ریپشن ) RECEPTION ) ہوا تو اس کے بعد ایک ڈیپارٹمنٹ کے انڈر سیکرٹری نے اپنے ایک احمدی کلرک کو بلایا اور اس کو پچاس روپے دیئے کہ یہ اپنے حضرت صاحب کو بھیجوا دو کہ میری طرف سے کہیں دے دیں.میں نے کہا غیر احمدی کا چندہ ہے کہیں دینے کا کیا مطلب ہے اشاعت اسلام میں ہی جانا چاہیے اور یہی اس کا حق ہے چنانچہ میں نے وہ روپیہ اشاعت اسلام کے لئے تحریک جدید میں بھیجوا دیا اسے بھی اطلاع دی گئی وہ بڑا خوش ہوا اور کہنے لگا کہ بڑی اچھی جگہ چندہ بھجوایا ہے.اس طرح میں نے سکینڈے نیوین مشن کی تحریک کی اور اس کے بعد میں لاہور گیا تو چودھری اسد اللہ خان صاحب نے اڑھائی ہزار یا نہ معلوم کتنی سہ تم میرے ہاتھ میں دی اور کہنے لگے کہ اس میں سے ساڑھے پانچ سو روپیہ چندہ ایک غیر احمدی کا ہے وہ کہنے لگے کہ جب اس کو پتہ لگا کہ یہ تحر یک اشاعت اسلام کے لئے ہے، تو اس نے خود آ کر چندہ دیا اور کہا کہ یہ میری طرف سے بھی دے دیں.تو اگر ان لوگوں کو تحریک کی جائے تو وہ تو کروڑوں کروڑ ہیں.ان کروڑوں کروڑ میں سے اگر صرف ایک کروڑ میں سے تمہیں پچاس پچاس بھی ملیں تو پچاس کروڑ تو تمہارا مانگا ہوا چندہ ہو سکتا ہے خواہہ کمال الدین صاحب کو نہیں نے دیکھا وہ بغیر احمدیوں سے چندہ لیتے تھے اور دو دو لاکھ روپیہ سال کا چندہ ہو جاتا تھا.ان کے ساتھی تو بہت کم تھے.ہمارے ساتھی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے سارے پاکستان اور مہندوستان نہیں پھیلے ہوئے ہیں اگر ہر احمدی یہ عادت ڈال لے کہ اپنے دوست کو کہے کہ یہ اشاعت اسلام کا کام ہے.اگر اسلام تمہارا بھی ہے اور تم کو اس سے محبت ہے تو تمہیں کون روکتا ہے.تم بھی یہ عزت حاصل کرو اور اس ثواب میں شامل ہو جاؤ تو میں سمجھتا ہوں کہ تھوڑی سی تحریک سے بھی چندہ اُسکتا ہے اور پھر جو ایک دفعہ دے گا اس کو چاٹ پڑ جائے گی اور پھر وہ ہر سال دے گا.پہلی دفعہ تو آپ کو پندرہ منٹ اس سے بحث کرنی پڑے گی کہ دیکھو یہ خدا اور رسول کا کام ہے.دین کی اشاعت کا کام ہے اس میں حقہ لو.لیکن اگلے سال وہ خود تمہاری تلاش کرے گا اور تمہیں آئے ڈھونڈے گا اور کہے گا کہ میرا چندہ لو ے روز نامه الفضل بریوه ۱۵ فروری ۹۵۶ه ۵۱۲

Page 187

160 (د) " میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ " الوصیت " کا وہ حکم بھی پورا کیا جائے کہ بیرونی ملکوں میں لوگ وصیتیں کریں تو اس مقبرہ بہشتی کے قائم مقام وہاں بھی مقبرے بنائے جائیں.اگر ایسا ہو جائے تو امریکہ میں لوگ اس کے خواہش مند ہیں بلکہ مجھے وہاں سے اس کے متعلق درخواست بھی آچکی ہے.افریقہ کے لوگ بھی اس معاملہ میں بڑے جوشیلے ہوتے ہیں.میرے نزدیک وہاں لوگ بڑی بڑی جاندا دیں وقف کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور اس طرح سلسلہ کے فنڈز بہت مضبوط ہو جائیں گے.پس مختلف ملکوں میں جہاں جماعتوں کی تعداد کافی ہو جائے مقبرہ بہشتی کی نیابت میں اور اس کے قائم مقام مقبرہ بہشتی قائم کرنے چاہئیں اور وہاں کے لوگوں کی وصیت میں یہ رکھا جائے کہ وہ اس جگہ دفن کئے جایا کریں اور یہ بھی رکھا جائے کہ جو اس جگہ وصیت کرے گا اس کا حق ہو گا کہ جب کبھی اس کے ورثاء مالدار ہوں راکھی تو ہمارے آدمی غریب ہیں لیکن کروڑ پتیوں کا زمانہ بھی تو آنے والا ہے ) تو وہاں سے اس کی لاش لا کر ہمارے یہاں مغیرہ میں دفن کی جائے.اس طرح اُن میں اور بھی جوش پیدا ہو جائے گا.اس طرح وہ قادیان میں بھی دفن ہو سکیں گے.اس طرح ممکن ہے امریکہ سے لوگ اپنی لاشوں کو لے کہ قادیان میں کثرت سے جانے لگ جائیں اور اس طرح قادیان والوں کی مضبوطی کا بھی سامان ہو جائے اور ربوہ کی مضبوطی کا بھی سامان ہو جائے ) " ایک اہم کام یہ ہے کہ روسی ترجمہ قرآن جلد شائع کیا جائے.روس میں آٹھ کروڑ مسلمان نہیں مگر وہ لوگ اسلام سے دور جا چکے ہیں.ہمارے ایک دوست تھے جو امریکہ کی طرف سے کسی عہدہ پر مقرر تھے انہیں ایک روسی کنہ تیل ملا انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے نام سے تو پتہ لگتا ہے کہ تم مسلمان ہو کیا تم قرآن پڑھا کرتے ہو کہنے لگا میری دادی تو پڑھا کرتی تھی لیکن مجھے کچھ نہیں پتہ.کیونکہ ہمیں آب به زبان نہیں آتی.اس لئے اب ہم قرآن نہیں پڑھتے ابھی کچھ لوگ امریکہ اور مصر سے وہاں گئے تھے.انہوں نے بھی بنایا کہ وہاں تو جوانوں کو قرآن کا بالکل پتہ ہی نہیں.صرف بڑھے پڑھتے ہیں اور سجدوں میں نمازوں کے لئے آتے ہیں.آپ وہاں عربی کا رواج نہیں رہا.اب اگر قرآن کا روسی ترجمہ وہاں چلا جائے تو یہ آٹھ کروڈر سلمان بیچ سکتا ہے.پس آٹھ کروڑ مسلمانوں کے بچانے کے لئے روسی ترجمہ قرآن ه روز نامه الفضل ریوه ۲۲ فروری ۱۹۵۶ م ص.

Page 188

164 i بڑی جلدی شائع ہو جانا چاہیئے.میں نے اس کے لئے ہدایتیں دیدی ہیں اور چودھری صاحب کو بھی کہا ہے کہ وہ امریکہ جاتے رہتے ہیں وہ کوشش کریں کہ کوئی اچھا لائق آدمی روسی زبان کا ماہر مل جائے مبلغوں کو بھی میں نے لکھوایا ہے یہ خرچ بہت بڑا ہے.میرا خیال ہے شاید آٹھ دس لاکھ روپیہ میں یہ ترجمہ چھپے گا.مگر بہر حال اپنی اپنی جگہ پر اس کے متعلق تحریک کرو.اگر تر جمہ قرآن کرنے والے اختیاط سے ترجمہ کریں اور خواہ مخواہ رستہ چھوڑ کر روسی نظام پر حملہ نہ کریں.صرف اس اخلاقی اور روحانی تعلیم پر زور دیں جو قرآن کریم میں ہے تو اس اخلاقی اور روحانی تعلیم میں وہ لوگ خود بخود سموئے جائیں گے اور دنیا کو فائدہ پہنچ جائے گا.خواہ مخواہ اٹھیک ATTACK سے ایک قسم کا خفیق پیدا ہو جاتا ہے.اگر اس طرح کام کیا جائے تو میرے نز دیک بہت مفید ہو سکتا ہے اور بلا واسطہ اس سے یورپین لوگ بھی قائد اٹھا سکتے ہیں.کیونکہ ان کی دشمنی روسیوں سے کم ہو جائے گی اور روکس بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے کیونکہ اس سے دوسرے ملکوں میں محبت پیدا ہو جائے گی.پسی روسی ترجمہ قرآن کی طرف بہت جلد توجہ چاہیئے ؟ ۲۸ دسمبر کے خطاب کے دو جیتے تھے.پہلے حصہ ہیں ۲۸ ] ار سمیر کا ایمان افروز خطاب حضور نے عورتوں کے جلسہ گاہ اور احمدی بچوں اور کے تو جوانوں کی تعلیم پر خاص زور دینے کے علاوہ زمینداروں کی اصلاح اور ترقی وہ بہبود کے لئے صدر انجمن احمدیہ میں ایک نئی نظارت زراعت کے قیام کا اعلان فرمایا.اس سلسلے میں حضرت نے صدر انجمن احمدیہ کو نہایت قیمتی ہدایات دیں چنانچہ فرمایا :- ” میرے خیال میں صدر انجمن احمد یہ حسن کی زیادہ تر ذمہ داری ہے.اس کو چاہیے کہ اپنی ایک نظارت زراعت بنائے اور وہ زراعت کے ماہرین کا دورہ مقرر کرے.پہلے جماعتوں میں سکرٹری زراعت مقرر کرائے اور وہ تمام احمدیوں سے اقرار لیں کہ ہم کو جو ہدایات دی جائیں گی ہم اس کے مطابق فصلیں پیدا کریں گے پھر یہ نظارت زراعت کا کوئی ماہر مقرر کرے جو دورہ کرے اور جا کہ دیکھیے کہ له روزنامه المفضل ریوه ۲۲ فروری ۱۹۵۶ء ص.سے.اس حصے کا مکمل متن اخبار الفضل" در اپریل تا ۷ ار اپریل 20 ء میں شائع ہوا.

Page 189

122 کی کسی علاقہ میں کون کون سی فصل ہو سکتی ہے اور اس فصل کے بڑھانے کی کیا صورت ہو سکتی ہے.پھر اس کے اوپر ایک افسر ہو جو اس کی نگرانی کرے اور دیکھے کہ اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں.گویا جیسے کو آپریٹو سوسائٹیاں ہوتی ہیں.اسی طرح ایگلریکلچرل سوسائٹیاں بنائی جائیں اور سارے احمدی ممبر و عدہ کریں کہ ہمیں جو ہدایتیں دی جائیں گی ہم اُن کی تعمیل کریں گے.انہیں بتایا جائے کہ اتنے ہل دینے ضروری ہیں.خلاں فلاں موقع پر اتنے ہل دیتے ہیں.فلاں موقع پر پانی دینا ہے.اتنے پانی دیتے ہیں.فلاں بیچ ہونا ہے.اور فلاں فلاں فصل ہوتی ہے پھر جس طرح چندے کی وصولی ہوتی ہے.اسی طرح باقاعدگی سے یہ کام کروائیں.ہمارے سب سے زیادہ احمدی سیالکوٹ میں ہیں اور اس وقت تو جو وکیل الزہراعت ہیں وہ بھی سیالکوٹ کے ہی رہنے والے ہیں.یعنی چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور اسی طرح سید عبدالرزاق شاہ صاحب جو نائب وکیل ہیں نہایت ذہین اور ہوشیار نوجوان ہیں وہ سیالکوٹ کے باشندے تو نہیں لیکن اُن کے واللہ ساری عمر سیالکوٹ میں تو کر رہے ہیں.وہ بدوملہی کے پاس رعیہ میں ہوتے تھے.وہیں یہ پیدا ہوئے تھے.اگر سید عبدالرزاق شاہ صاحب اور چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے ہوتے ہوئے سیالکوٹ کے زمینداروں کی طرف توجہ نہ کی جائے تو کتنی افسوس کی بات ہے لیکن اس کے بعد پھر لائل پور اور سرگودھا وغیرہ میں کوشش کی جائے......عرض زمینداروں کی حالت کو سدھارنا انجمن کا کام ہے.اُن کا فرض ہے کہ وہ فورا ایک نظارت زراعت بنائیں اور تحریک والے بھی انجمن کے ساتھ ہی جائیں کہ بے شک وہ وکیل الزراعت ہیں.لیکن اگر بعض صیغوں کو ملا دیا جائے تو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے اور وہ بڑا اچھا کام کرنا جانتے میں خود اچھے بڑے زمیندار ہیں نواب محمد دین صاحب کے بھتیجے ہیں اب ان کے لائل پور میں مریعے ہیں اور ولایت میں بھی رہے ہیں.میرے نزدیک وہ ان باتوں کو سمجھتے ہیں.اور سید عبدالرزاق شاہ صامت کو بھی میں نے دیکھا ہے ان معاملات میں بہت ہی سمجھدار ہیں ان کو میں نے سندھ میں زراعت پر لگایا ہوا تھا.وہ ان باتوں کو خوب سمجھتے ہیں.پھر وکالت کے پاس زراعت کا ایک گر یجو ٹیسٹ بھی ہے.اس نے لائل پور کا لج میں زراعت کی تعلیم حاصل کی ہے.اس نے زندگی وقف کی ہوئی ہے.بے شک ے.حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب سے نقل مطابق اصل.

Page 190

ابھی وہ نا تجربہ کار ہے بچہ ہے لیکن شروع میں بچے ایسے کام کر لیتے ہیں آہستہ آہستہ تجربہ کار ہو جاتے ہیں تو سکیم بنائی جائے کہ کس کس علاقہ میں کیا کیا فصل ہو سکتی ہے اور اس فصل کے اعلیٰ پھل پیدا کرنے کا کیا طریقہ ہے پھر اس زمین والوں کو کہدیا جائے کہ تم نے یہی فصل ہوتی ہے جو اچھی ہو سکتی ہے.دیکھو دوکس نے اس طریق سے اپنے ملک میں سوگنے زیادہ پیدا وار کر لی ہے وہ ڈنڈے کے زور سے کرتے ہیں تم ایمان کے زور سے کہ لو گے ہے.تقریہ کا دوسرا حصہ" سیر روحانی " کے اہم علمی موضوع پر تھا.جس میں حضور نے عالم روحانی کی نہروں کا نقشہ ایسے روح پرور انداز میں کھینچا کہ سامعین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی حضرت مصلح موعود نے ۱۳ء کے تاریخی سفر حیدر آباد اور دہلی میں جو سو کر چیزیں دیکھی تھیں.ان میں نہریں بھی نقیں حضور نے اپنی اس تقریر میں نہا بہت تفصیل سے بتایا کہ قرآن مجید کے ذریعے کسی طرح علم کائنات علم جغرافیہ ، علم طب، علم ہندسہ، علم ادب ، علم معانی ، علم نفس ، علم کیمیا، علم منطق، علم مواند نه مذاب علم توافق بین المخلوقات، علم حیوانات ، علم معیشت و اقتصاد ، عظیم شہر بیت ، علیم، تاریخ، علیم بده عالم ، علم موسمیات اور بے شمار علوم دینیہ کی ہزار ہا علمی نہریں جاری ہو ئیں.پرانے زمانہ کے بادشاہوں نے جننی نہریں بنائی تھیں وہ سب کی سب ختم ہو گئیں مگر محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم جو علم شد مانی کے سب سے بڑے سمندر تھے.آپ نے شریعت ، تصوف ، سیاست، اخلاق فاضلہ کی جو روحانی نہریں جاری کی تھیں وہ برابر چینی چلی جارہی ہیں.تقریر کے آخر میں نہایت پر قوت و شوکت الفاظ میں پیشنگوئی فرمائی کہ اگر چہ اسلام اور کفر کی نہریں متوازی چلتی چلی جا رہی ہیں.مگر گھر اور ایمان کی آخری ٹکر میں آخر اسلام ہی دُنیا پر غالب آئے گا اور آخری فتح اسلام کی ہی ہو گی.اسلام کی نہر غالب آجائے گی اور گھر کی نہر اُس میں مدغم ہو کر اپنا نام کھو بیٹھے گی اور یہ نتیجہ نکلے گا کہ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِينِ اے کالی اور گوری نسلوں کے لوگو تم خدای کس کس نعمت کا انکار کرو گے.فسبحان اللہ و بحمدہ و سبحان الله لعظیم ایک غیر از جماعت مسلمان کے تاثرات محمود کے ایک غیر از جماعت مسلمان اقبال شاہ صاحب نے اس تعظیم الشان جلسہ سے متعلق درج ذیل تاثرات له روزنامه الفضل ربوده ۱۷ اپریل داره ۲ - سه مسیر روحانی جلد سوم ماه تامه ناشر الشركة الاسلامیه دیوه

Page 191

169 قلمبند کر کے اخبار" الفضل " کہ کوہ کو بھیجوائے :- ایک عرصہ سے میری یہ دلی تمنا اور خواہش تھی کہ نہیں ربوہ جا کر خود اپنی آنکھوں سے ان چیزوں کا بغور مشاہدہ کروں جن کی بات ہر طبقہ میں طرح طرح کی روایتیں مشہور ہیں.مثلاً یہ کہ احمدیوں نے قادیان اور ربوہ میں جنت اور دوزخ بنائی ہوئی ہیں.اور وہاں پریاں اور حوریں رہتی ہیں.احمدی مرزا صاحب کے نہ ماننے والوں کو کافر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں.اور اُن کا خدا ربوہ میں رہتا ہے وغیرہ وغیرہ اس قسم کی اور بہت سی روایتیں مشہور ہیں اور میں نے خود بہت سے غیر احمدی حضرات سے اس قسم کی بے بنیاد باتیں شنی ہیں جن کو کہ عقل تسلیم نہیں کرتی جب میں ان باتوں کو سنتا تو میرا اشتیاق اور بڑھتا تھا چنانچہ میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جب کبھی موقع ملائیں ان کی اصلیت معلوم کروں گا.ہر سال دسمبر کے آخری ہفتے میں ریوہ میں جلسہ سالانہ ہوتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں احمدی اور غیر احمدی شرکت کرتے ہیں.اس دفعہ مجھے بھی اس جلسے میں شرکت کا موقع ملا.میں اپنے ایک احمدی دوست کے ہمراہ ریوہ گیا تھا.ہمیں ایک غیر جانب دار مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں نے جو کچھ بھی وہاں دیکھا خدا کو حاضر و ناظر جان کر اس کو صحیح صحیح عوام کے سامنے رکھوں تاکہ وہ غلط فہمیاں دور ہو سکیں جو ان میں اس جماعت کے متعلق پیدا ہو چکی ہیں.ہمارا مذہب اسلام میں اجازت دیتا ہے کہ ہم ہر مذہب اور طبقہ کا صحیح طور سے مطالعہ کریں.اور پھر اپنی عقل اور دماغ سے اس کے اچھا اور میرا ہونے کا فیصلہ کریں نہ کہ تعصب سے یونہی بُرا بھلا کہیں.آب یکی اپنے مشاہدات کا ذکر کرتا ہوں.جلسہ کے ایام میں رتوہ میں اہالیان ربوہ کی طرف سے ہر خاص و عام کے لئے خواہ وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی) قیام اور طعام کا مفت انتظام ہوتا ہے اور اس مقصد کے لئے ریوہ کے اکثر مکانات کالج سکول اور دفاتر کی عمارات خالی کروادی جاتی ہیں.ربوہ میں آنے والے کا استقبال کرنے کے لئے جماعت کی طرف سے اسٹیشن اور میں کے اڈہ پر مجلس استقبال کے کارہ کی موجود ہوتے ہیں.جو اُن کو مہمانخانوں میں یا جہاں انہوں نے جانا ہوتا ہے پہنچاتے ہیں.میں چونکہ اپنے دوست کے ہمراہ گیا تھا اس لئے انہیں کے ساتھ اُن کے ایک مقامی عزیز کے ہاں

Page 192

1A.ٹھہرا.گو مکان مختصر تھا اور جہان زیادہ لیکن اس کے با دیو دکھی ان لوگوں نے میری رہائش کا نہا یت معقول انتظام کیا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ مسلمان کے دل میں جگہ ہوتی ہے ' جس کے لئے میں ان کا نہایت ممنون ہوں.۲۶؍ دسمبر 2ء کو جلسہ کا پہلا دن تھا اور لوگ صبح سے ہی جلسہ گاہ میں جمع ہو رہے تھے جلسہ تقریباً سوا نو بجے تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوا.افتتاحی تقریر حضرت مرزا بشیر الدین محمود صا حب کی تھی، آپ کی تقریر کے بعد دیگر حضرات نے تقاریر کیں اور اس طرح یہ جلسہ تقریباً پونے ایک بجے تک ہوتا رہا.یہ پہلی نشست تی ظہر کی نماز کے بعد دوسری نشست ہوئی ہو تقریباً چار بجے تک رہی خود خلیفہ صاحب اور دیگر حضرات کی تقریریں نہایت شائستہ اور قرآن وسنت کے دائرہ میں تھیں.اسی طرح مختلف عنوانات پر یہ سلسلہ ہائے تقاریہ ۲۸؍ دسمبر تک رہا.تقاریہ کے دوران بھی ان لوگوں نے نہایت ادب خلوص اور محبت کا ثبوت دیا.کسی تقریر یا برتاؤ سے یہ ظاہر نہیں ہوا کہ احمدی غیر احمدیوں کو کافر کہتے ہیں.بلکہ انہوں نے بار ہا اور صاف الفاظ میں یہ ظاہر کیا کہ خدا رسول اور قرآن کو ماننے والے سب بھائی ہیں.غیر احمدی مسلمان بھی تمہارے بھائی ہیں فرق تھوڑا سا عقائد میں ہے بنیادی عقائد اور اصول ایک ہی ہیں.ان میں کوئی فرق نہیں نیز انہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کی کتب سے حوالہ جات دیتے ہوئے ثبوت دیا کہ مرزا صاحب نے خود بھی کبھی کسی غیر میں کو کافر کے نام سے نہیں پکارا انہوں نے بتایا کہ ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو کا فرکہتے ہیں یہ محض بہتان ہے.شروع سے آخر تک ان سب حضرات کی تقریروں کا لب لباب حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ، فوقیت اور بڑائی رہا.ان حضرات نے خود اپنی تقاریر میں اس بات کا اعتراف کیا کہ مرند اعلام احمد صاحب حضور رسول مقبول کی شریعت کے تابع اور آپ کے غلام تھے.گویا ان لوگوں کے قول و فعل، کسی سے بھی یہ پتہ نہیں چلا.جس سے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں کوئی گستاخی واقع ہوتی ہو یا یہ کہ مرزا غلام احمد صاحب کوئی نیا دین یا اصول پیش کرتے ہوں.نیم اگر تعصب کے جامہ کو اتار کر بغور مشاہدہ و مطالعہ کریں تو ہم کو کہنا پڑے گا کہ صحیح اسلام کی جھلک رہ کوہ میں ملتی ہے.مثلاً کہ بوہ میں نمانہ کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے.آج کل کے مسکرات دینما و غیر

Page 193

نہایت سختی سے منع کئے گئے ہیں حتی کہ سگریٹ نوشی کو بھی میری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.اکثر لوگ کھانا جہان خانوں کی بجائے ہوٹلوں میں کھاتے تھے.میں نے ایک چیز کا بغور مشاہدہ کیا کہ ہوٹل والے گاہوں کے پیسوں کا حساب نہیں رکھتے تھے اُن کا کہنا تھا کہ یہاں کوئی بے ایمانی نہیں کر سکتا.جس قدر کھاؤ خود اپنا حساب کر دو.چنانچہ میں نے دیکھا کہ کوئی گاہک بھی ایک پیسیہ کی بے ایمانی نہیں کہتا تھا اور سب اپنی اپنی جگہ مطمئن تھے.اس موقع پر ہزاروں کی تعداد میں مستورات بھی شرکت کرتی ہیں پردہ میں رہتے ہوئے آزادی کے ساتھ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتی ہیں.اور مردوں کے دوش بدوشی چلتی پھرتی نظر آتی ہیں.مستورات کا احترام کیا جاتا ہے مستورات کے جلسہ کا الگ انتظام اور پروگرام ہوتا ہے.موجودہ خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نہایت ہی نیک کردار کے مالک ہیں ، جماعت کے ہر کام میں آپ کو دخل ہے.اور آپ کی مرضی کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا جاتا اور یہ نہایت اچھی بات ہے کہ کسی ایک کو اپنا امیر اور سرپرست مان کر اس کی قیادت میں ہر کا م کیا جائے.جماعت کے افراد میں سے اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو خلیفہ کی طرف سے اسے باقاعدہ مر الملتی ہے جو کہ اصلاحی سزا ہوتی ہے.چھوٹی موٹی غلطی پر مقاطعہ کی سزا دی جاتی ہے.ہاں مجھے یاد آیا میر عزیز دوست نے مجھے بتایا کہ ان کے عزیہ (جن کے ہاں میں قیام پذیر تھا ، جو کہ نظارت میں کام کرتے ہیں ان کو ایک دفعہ سات دن کے مقاطعہ کی مزا لی تھی.چنانچہ ایک ہفتہ تک ان سے کسی نے بھی بات تک نہ کی.دوست احباب تو الگ ان کے بیوی بچوں نے بھی ان سے گفتگو نہ کی بمیرے خیال میں یہ اصلاح کا ایک اچھا طریقہ ہے کیونکہ انسان اس طرح اپنی خطا پر جو کہ اس سے سرزد ہوتی ہے پشیمان ہوتا ہے اور آئندہ کے لئے محتاط ہو جاتا ہے.جہاں تک جنت و دوزخ کا سوال ہے تو اس میں ذرہ بھر بھی حقیقت نہیں محض لوگوں کو دھوکہ دینے اور بدظن کرنے کے لئے ایسی بات مشہور کی گئی ہے.میں نے اس کے متعلق اپنے دوست سے کہا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جنت و دوزخ تو کوئی نہیں.البتہ ایک قبرستان ہے (قادیان میں ) حبس کا م بہشتی مقبرہ ہے یہ قبرستان ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو وصیت کرتے ہیں.وصیت کی بڑی سخت شرائط ہیں جو ان شرائط کو پورا کرے.صرف وہی اس میں دفن کیا جاتا ہے ،اہم شرائط یہ ہیں کہ

Page 194

JAM وہ نماز روزہ کا پابند ہو ، جماعت کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو، جماعتی احکام کی پابندی کرتا ہو.وصیت کرنے والا اپنی آمد اور جائیداد کا کچھ حصہ جماعت کے لئے وقف کر دیتا ہے.آمد کا جو حصہ وقف کیا ہو اسے باقاعدگی سے ادا کر تا رہا ہو تب جاکر وہ اس بات کا حقدار ٹھہرتا ہے کہ وہ اس میں دفنایا جائے مندرجہ بالا شرائط کو پورا نہ کرنے والے کی وصیت منسوخ کر دی جاتی ہے یعنی وصیت کرنے والا اسلام کے اصولوں کا ایک چلتا پھرتا نمونہ ہونا چاہئیے.یہ ہے وہ جنت جس کے متعلق طرح طرح کی روایات مشہور ہیں.اعمال و اخلاق، قول وفعل کے اعتبار سے میں نے ربوہ میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی تو اسلامی اصولوں اور احکامات کے خلاف ہو بغرض تمام غلط اور بے بنیاد روایات مشہور ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف ان کے جذبات کو ٹھیس لگانا ہے اور کچھ نہیں ہے جماعت احمدیہ کی شاندار تعلیمی جماعت احمدیہ کے قیام پر قریبا چھیاسٹھ سال ہو رہے تھے جد وجہد پر ایک نظر اس عرصہ میں خدا کی اس کمزور اور ضعیف جماعت نے ہو ابتداء میں صرف چالیس نفوس پر مشتمل تھی اور جو جنوری ایه یک مشکل ایک پرائمری مدرسہ کھول سکی تھی.اب کسی طرح ایک بین الاقوامی سطح پر اشاعت عوم کا فریضہ بجا لا رہی تھی ، اس کی ایمان افروز تفصیل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے (آکسی) کے الفاظ میں سپرد قلم کی جاتی ہے.آپ کے جلسہ سالانہ 20 اء کے موقع پر تحریک احمدیت کے تعلیمی پس منظر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی علمی یو نیورسٹی اور دنیائے احمدیت کے تعلیمی اداروں کی علمی خدمات پر نہایت په تاثیر انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:- " جماعت احمدیہ کے زیر انتظام اور زیر نگرانی اس وقت تک اتنے تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں.کہ اس مضمون کے لئے نوٹ لیتے ہوئے مجھے بھی حیرت ہوئی کہ باوجود عزیت اور مفلوک الحالی کے ہماری جماعت کسی جوان سمتی سے ان اداروں کو کامیابی کے ساتھ چلا رہ ہی ہے.اگر ان اداروں کے اخراجات کو الگ الگ کر کے دیکھا جائے تو طبائع پر ان کا زیادہ اثر نہیں ہوتا لیکن ان سب کے مجموعی اخراجات کو دیکھا جائے ه روز نامر الفضل ریوه ۲۷ جنوری ۹۵۶ ئه م :

Page 195

١٨٣ تو یقینا سنجیدگی سے دیکھنے والوں کی نگاہوں میں یہ جماعت کا ایک عظیم الشان اور حیرت انگیز کارنامہ ہے.جماعت کے تعلیمی اداروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے.(1) دینی ادارے (۲) وتبوی ادارے.پہلی قسم کے اداروں میں سے مدرسہ احمدیہ ، جامعہ احمدیہ اور جامعتہ المبیشترین کے ادارے ہیں.یہ ادارے خاص مذہبی اور دینی نقطہ نگاہ سے جاری کئے گئے ہیں.جامعہ المبشرین میں پاکستان اور دوسرے ممالک کے و مبلغین تیار کئے جاتے ہیں.اسی طرح بیرونی ممالک سے آنے والے طلباء کی تعلیم و تربیت کا کام بھی اسی ادارہ کے سپرد ہے.مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے سپرد جامعہ المبشرین میں داخلہ کے لئے طلباء کو تیار کرنا ہے.ان کے مقابل پر دنیوی تعلیم کے ادارے ہیں.پاکستان میں جماعت کے ان اداروں کو چھوڑ کہ جو احباب جماعت یا انجمنیں چلا رہی ہیں.جماعت کی براہ راست نگرانی اور انتظام میں چلنے والی دنیوی تعلیم کے ادارے یہ ہیں :- ۱ - تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ.۲ - تعلیم الاسلام کالج ریبوه ۳- نصرت گولنہ ہائی سکول ریوه ۴ - جامعہ نصرت ریوه د تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیا میاں ضلع سیالکوٹ - نصرت گرلز ہائی سکول سیالکوٹ شہر پاکستان کے علاوہ دوسرے سات ممالک میں بھی بعض تعلیمی ادارے جاری کئے گئے ہیں.جو نہایت کامیابی سے چل رہے ہیں.اس وقت تک اُن کی تعداد تیس تک پہنچ چکی ہے ان کی تفصیل یہ ہے :- -1 گولڈ کوسٹ مغربی افریقہ : انٹرمیڈیٹ کالج اسکول 11 ۲- نائیجیریا اسکول 1.سیرالیون مشرقی افریقہ ه سنگا پور ملایا فلسطين h- ے.انڈونیشیا ہم 1 ان تمام اداروں کے اخراجات کا ایک عام خاکہ پیش کرنے کے لئے گذشتہ سات سال کی ایک

Page 196

۱۸۴ یونٹ مقرر کرتا ہوں کیونکہ پارٹیشن کے بعد شراء تو قریبا انتقال مکانی میں ہی گذرا.باقی سات سال کے عرصہ میں جماعت احمدیہ نے جامعتہ المبیشترین کے علاوہ پاکستان کے تعلیمی اداروں پر سولہ لاکھ پچاس ہزار دوسو بیالیس روپے ایک آنہ خرچ کیا ہے.جامعتہ المبشرین کے صحیح اعداد و شمار مجھے نہیں مل سکے.(یہ ادارہ تحریک جدید کے ماتحت ہے) لیکن ایک عام اندازہ کے مطابق اس پر دو لاکھ اسی ہزار روپیہ خرچ کیا جا چکا ہے.گویا مجموعی طور پر پاکستان میں قائم شدہ جماعت کے تعلیمی اداروں پر گذشتہ سات سال کے قلیل عرصہ میں انیس لاکھ روپیہ سے زائد رقم خرچ کی جاچکی ہے.بیرونی ممالک میں قائم شدہ تعلیمی اداروں پر جماعت سات لاکھ روپیہ سالانہ سے زیادہ خورا کر رہ ہی ہے.ان سب اخراجات کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کی میران ۷۰ دستر) لاکھ روپیہ سے زیادہ بن جاتی ہے.اور یہ کوئی معمولی رقم نہیں خصوصاً اس جماعت کے لئے جس کو ۲۶ ء میں اپنا مرکز چھوڑنا پڑا.دنیا داروں کی نگاہ میں اس کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا تھا.اور مرکزی چندوں کی آمد لاکھوں روپے سالانہ سے گر کر چند سو روپے سالانہ پہ آرہی تھی.مقامی لوگ جنہیں ہجرت کی تکالیف برداشت نہیں کرنی پڑیں.انہیں ان مصائب اور تکالیف کا اندازہ نہیں ہو سکتا جو اس جماعت کو پیش آئیں.ہاں وہ لاکھوں لوگ جنہیں مشرقی پنجاب چھوڑ کر پاکستان آنا پڑا ، خوب جانتے ہیں کہ یہ سات سال کا عرصہ مہاجروں نے کسی طرح گذارا ہے لیکن کہاں وہ دنیا داروں کی نظر میں پٹی ہوئی اور تباہ شدہ جماعت اور کہاں خدا تعالیٰ کا یہ فضل کہ اس جماعت نے خدا تعالیٰ کی ہی دی ہوئی توفیق سے صرف تعلیمی اداروں پر ۷۰ دستر) لاکھ روپیہ کے قریب رقم صرف گذشتہ سات سال کے عرصہ میں خرچ کی.تعمیر کا خرچ اوپر دیئے ہوئے اندازہ کے علاوہ ہے.صرف تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی عمارت پر اس وقت تک پانچ لاکھ روپیہ کے قریب رقم خرچ کی جا چکی ہے.اور اس کے نتیجہ میں عمارت تنبیہ کی گئی ہے.سرکاری عمارات سے ان کا مقابلہ کیا جائے تو وہ گورنمنٹ کے شیڈول کے مطابق چودہ پندرہ لاکھ روپے سے کم مالیت کی نہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت کے روپیہ میں اس قدر برکت دی ہے کہ گورنمنٹ جس عمارت پر چودہ پندرہ لاکھ روپے خرچ کرتی ہے.اسی قسم کی عمارت ہم چار پانچ لاکھ روپیہ کی لاگت میں تیار کر لیتے ہیں قادیان سے پاکستان میں ہجرت کرکے آنے کے بعد ہمارا کالیچ عارضی طور پر ڈی.اے.وی.کالج i لاہور کی عمارت میں لکھا.وہاں ایک دفعہ یہ شور اُٹھا کہ ہمیں یہ عمارت چھوڑ دینی چاہیے.نہیں ان دنوں

Page 197

۱۸۵..وزیر تعلیم مغربی پنجاب کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ گورنمنٹ نے سرگوں ہوا اور متشکری میں دو کالج بنائے ہیں اور اُن پر ۳۵ لاکھ روپیہ کے قریب رقم خرچ کی ہے آپ ہمیں اس رقم کا ۲۵ فیصدی دیدیں تو نہ صرف ہمارا کالج بن جائے گا بلکہ گورنمنٹ کو پتہ لگ جائے گا کہ اس کا روپیہ کہاں جاتا ہے تو وہ کہتے لگے آپ کو کالج جانے کے لئے روہ یہ نہیں دیا جا سکتا.پس ہردیکھنے والے کے لئے یہ یقینا معجزہ سے کم نہیں کہ گذشتہ سات سال کے عرصہ میں جماعت احمدیہ نے نہ صرف تعلیمی اداروں کو جاری رکھنے پر لاکھ روپیہ سے زائد رقم خرچ کی بلکہ ان اداروں کی تعمیر پر جو اخراجات آئے وہ بھی برداشت کئے اور خدا تعالیٰ کا جو فضل اس جماعت کے شامل حال رہا وہ بھی کسی معجزے سے کم نہیں کہ اس نے کم سے کم لاگت میں بڑی لاگت کی عمارات تیار کر لیں.ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ ایک غریب جماعت اس قدر توجہ اور اس قدر روپیہ ان تعلیمی اداروں پر کیوں خرچ کر رہی ہے.اس "کیوں" کا جواب ہر احمدی کو ملنا چاہیے.اس کا ایک جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب " فتح السلام " کے مندرجہ ذیل اقتباکس میں دیا گیا ہے.آپ فرماتے ہیں :." اے حق کے طالبو ! اور اسلام کے سچے محبو ! آپ لوگوں پر واضح ہے کہ یہ زمانہ جس میں ہم لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں یہ ایک ایسا تاریک زمانہ ہے کہ کیا ایمانی اور کیا عملی حسین قدر امور میں سب میں سخت فساد واقع ہو گیا ہے.اور ایک تیز آندھی ضلالت اور گمراہی کی برطرف سے چل رہی ہے وہ چیز جس کو ایمان کہتے ہیں اس کی جگہ چند لفظوں نے لے لی ہے جس کا محض زبان سے اقرار کیا جاتا ہے اور وہ امور جن کا نام اعمالِ صالحہ ہے اُن کا مصداق چند رسوم یا اصراف اور ر بیاد کاری کے کام سمجھے گئے ہیں اور جو حقیقی نیکی ہے اس سے بکتی ہے خیری ہے.اس زمانہ کا فلسفہ اور طبیعی بھی روحانی صلاحیت کا سخت مخالف پڑا ہے.اس کے جذبات اس کے جاننے والوں پر نہایت بد اثر کرنے والے اور حکمت کی طرف کھینچنے والے ثابت ہوتے ہیں وہ زہریلے مواد کو حرکت دیتے اور سوئے ہوئے شیطان کو جگا دیتے ہیں.ان علوم میں دخل رکھنے والے دینی امور میں اکثر ایسی بد عقیدگی پیدا کر لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اصولوں اور صوم و صلواۃ وغیرہ عبادت کے طریقوں کو تحقیر اور

Page 198

(AY..استہزاء کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں.اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے وجود کی بھی کچھ وقت اور عظمت نہیں.بلکہ اکثر اُن میں سے الحاد کے رنگ سے رنگین اور دہریت کے رگ وریشہ سے پیر اور مسلمانوں کی اولاد کہلا کہ پھر دشمن دین ہیں.جو لوگ کالجوں میں پڑھتے ہیں.اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہنوز وہ اپنے علوم ضروریہ کی تحصیل سے فارغ نہیں ہوتے کہ دین اور دین کی ہمدردی سے پہلے ہی فارغ اور مستعفی ہو چکتے ہیں.یہ میں نے صرف ایک شاخ کا ذکر کیا ہے جو حال کے زمانہ میں ضلالت کے پھلوں سے لدی ہوئی ہے.مگر اس کے سوا صدہا اور شاخیں بھی ہیں جو اس سے کم نہیں.....یہ کہ سچین قوموں اور تثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساترانہ کارروائیاں ہیں کہ جب تک ان کے اس سحر کے مقابل پر خدا تعالیٰ وہ پرزور ہاتھ نہ دکھا دے جو معجزہ کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہو اور اس معجزہ سے اس سحر کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادوئے فرنگ سے سادہ لوح دلوں کو مخلصی حاصل ہوتا بالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے.سو خدا تعالیٰ نے اس جادو کے باطل کرنے کے لئے اس زمانہ کے سچے مسلمانوں کو بیعجزہ دیا کہ اپنے اس بندہ کو اپنے الہام اور کلام اور اپنی بہ کات خاصہ سے مشرف کرکے اور اپنی راہ کے باریک علوم سے بہرہ کامل بخش کے مخالفین کے مقابل پر بھیجا اور بہت سے آسمانی تحائف اور علوی عجائبات اور روحانی معارف و دقائق ساتھ دئے تا اس آسمانی پتھر کے ذریعہ سے وہ موم کا بت توڑ دیا جائے جو سحر فرنگ نے تیار کیا ہے.سوا کے مسلمانو ! اس عاجیہ کا ظہوبہ ساحرانہ تاریکیوں کے اٹھانے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے.کیا ضرور نہیں تھا کہ سحر کے مقابل پر معجزہ بھی دُنیا میں آتا.کیا تمہاری نظروں میں یہ بات عجیب اور انہونی ہے کہ خُدا تعالیٰ نہایت درجہ کے مکروں کے مقابلہ پر جو سحر کی حقیقت تک پہنچ گئے ہیں ایک ایسی حقانی چمکار دکھاؤ جو معجزہ کا اللہ رکھتی ہو.اکے دانشمند و ! تم اس سے تعجب مت کرو کہ خدا تعالے نے اس ضرورت کے وقت میں اور اس گہری تاریکی کے دنوں میں ایک آسمانی سروشتی نازل کی اور ایک بنیاد کو صحت عام

Page 199

JAL کے لئے خاص کر کے بغرض اعلاء کلمہ اسلام دا شاعت نور حضرت خیر الانام اور تائید مسلمانوں کے لئے اور نیز اُن کی اندرونی حالت کے صاف کرنے کے ارادہ سے دُنیا میں بھیجات اس کے علاوہ تذکرہ ریعنی حضرت مسیح موعود کے الہامات کے مجموعہ) پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کے اداروں کو بعض اصولوں پر قائم کیا ہے.مثلاً آپ کا ایک الہام ہے :- انتَ مَدِينَةُ الْعِلْمِ طَيِّبُ مَقْبُولِ الرَّحْمَنِ.یعنی تو علم کا شہر ہے پاک اور خدا تعالیٰ کا مقبول ہے.قرآنی محاورہ کے مطابق اس الہام کی متعدد تشریحات ہوسکتی ہیں.کیونکہ کلام الہی میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ ہر موقع کے مطابق ایک نیا مفہوم پیدا کرتا ہے.مثلاً قرآنی محاور کے مطابق اس کے ایک معنی یہ ہو سکتے ہیں.کہ انتَ صَاحِبُ مَدِينَةِ الْعِلْمِ کہ آپ علوم کے دارالخلافہ کے شہنشاہ اور ان علوم کے منبع اور میداد ہیں جنہیں جماعت احمدیہ جاری کرنا چاہتی ہے.ان علوم میں (جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ قائم کی گئی یو نیورسٹی اور دارالعلوم میں سکھانے جائیں گے.یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ شعرا اس کے پاس بھی نہیں پھٹکتے.جیسے آپ کا الہام ہے کہ " در کلام تو چیزی است که شعر را در ان دخلے نیست " اسی طرح آپ کا ایک الہام ہے رَبّ عَلَّمْنِي مَا هُوَ خير عندك کہ اے اللہ تو مجھے وہ کچھ سکھا جو تیرے نزدیک میرے لئے بہتر ہے.دنیا میں بعض علوم ایسے بھی ہیں جو انسان کے لئے با برکت نہیں ہوتے یا اُسے اُن کی ضرورت نہیں ہوتی مثلاً بعض علوم محض فلسفیانہ مباحث ہیں یا ایسے نظریات ہیں جو ہر وقت بدلتے رہتے ہیں، اگر کسی علم کے چند ماہرین پائے جاتے ہیں تو اُن میں سے نہ صرف ہر ایک کے نظریات مختلف ہوں گے بلکہ وہ ہر وقت بدلتے رہیں گے.آج بھی مختلف سائنسدانوں نے مختلف نظریات دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اگر آج ایک سائنسدان نے ایک نظریہ پیش کیا ہے تو دس بیس سال کے بعد وصرا سائنسدانا کے رام سے فتح السلام صت - ه تذکره ۳۶ -

Page 200

JAA اس سے مختلف بلکہ بعض اوقات اس کے بالکل متضاد نظریہ پیش کر دے گا.یہ سب چیزیں شاعرانہ نظریات ہیں ، حقائق پرمشتمل نہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی قائم کردہ یو نیورسٹی میں جو علوم پڑھائے جائیں گے اُن میں شعراء کو کوئی دخل نہ ہو گا.پھر یہ علوم حقائق الاشیاء پرشتمل ہوں گے جیسا کہ آپ کے ایک الہام" رَبِّ اَرِنِي حَقَائِقَ الاشیاء میں بنایا گیا ہے.یعنی اے اللہ تو مجھے ہر چیز کی کنہ اور حقیقت دکھا دے.یکی یہاں پر ایک لطیف نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تعدا تعالیٰ نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو الہام فرمایا کہ ربّ اين حقائق الأشياء لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نہیں تھے.نہ آپ کوئی عظیم فلاسفر تھے.آپ ایک معمولی سے گاؤں کے رہنے والے تھے جو ریل اور پختہ سڑک سے بہت دور واقع تھا اور ذاتی طور پر آپ کو اپنے محدود حلقہ کے سوا کوئی نہ جانتا تھا بایں نہ آپ نے اپنی کتابوں میں بعض ایسے نکات بیان کئے ہیں کہ آج سالہا سال کی تحقیقات کے بعد بڑے بڑے سکالم ان کے خلاف کوئی اور نظریہ قائم نہیں کر سکتے.مثلاً نشہ میں آپ ضمنی طور پر ایک تقریر میں فماتے ہیں بر عر من جسمانی صدمات بھی نجیب نظارہ دکھاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ روح اور جسم اوار کا ایک ایسا تعلق ہے کہ اس راز کو کھولنا انسان کا کام نہیں ، دوسری بات آپ نے یہ بیان فرمائی کہ :- اس سے زیادہ اس تعلق کے ثبوت پر دلیل ہے کہ غور سے معلوم ہوتا ہے کہ روح کی ہاں حیم ہی ہے.حاملہ عورتوں کے پیٹ میں سورج کبھی اوپر سے نہیں گرتی بلکہ وہ ایک نور ہے جو نطفہ میں ہی پوشیدہ طور پر مخفی ہوتا ہے اور جسم کے نشو و نما کے ساتھ چھلکتا جاتا ہے کیا اء میں آکر امریکہ کے ایک عظیم بیا لو حبٹ EDMOND W.SINNOT DEAN OF YALE'S GRADUATE SCHOOL نے روح اور مادہ کے تعلق کے بارے میں ریبیریا کی اور اس کے بعد کتاب " دی بیالوجی آف دی سپرٹ " تحریمہ کی.اس کتاب کا خلاصہ" و بیل ٹائم آف امریکہ" مجربه ا ر اکتوبر شهداء میں چھپا ہے.اس خلاصہ کے دو اقتباسات قریباً ان دو اقتباسات کا ترجمہ ہیں.مثلاً لے سے رپورٹ جلسه اعظم مذاب صحه

Page 201

وہاں لکھا ہے.اس وقت سائنس اس کی وضاحت نہیں کر سکی.یعنی یہ ایسا راز ہے جس کے متعلق بیالوجسٹ مذکور نے تسلیم کیا ہے کہ اب تک سائنسدان اسے پا نہیں سکے.یاد رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ انسان اسے قیامت تک بھی نہیں پا سکے گا، لیکن بہر حال سائنسدانوں نے اس خدنگ تسلیم کر لیا ہے کہ سائنس اب تک اس راز کو نہیں پا سکی.آگے جا کہ خلاصہ لکھنے والا بیان کرتا ہے کہ در تنظیم کا یہ اصول نہ صرف انسان کا ارتفاع کرتا ہے بلکہ اس کے مذاہب کے لئے تین بنیادی چیزیں جہتیا کہتا ہے.یعنی بے ترتیب ہوئی میں ترتیب پیدا ہو جاتی ہے.مادہ میں روح پیدا ہو جاتی ہے اور بے اثر اور غیر جانبدار عناصر میں شخصیت اُبھر آتی ہے.تنظیم کا یہ اصل جس کو کسی طور پر بھی الفاظ میں بعینہ نہیں ڈھالا جا سکتا.میں بلا خوف تردید اسے خدا تعالیٰ کی ایک صفت سمجھتا ہوں : گویا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ قائم کئے گئے دارالعہ کے ذریعہ قائم کئے گئے دارالعلوم کے بیت الحکمہ کی ایک مثال دی ہے کہ آپ نے شعراء میں یہ بتایا کہ روح جسم سے نکلتی ہے اس کے قریباً ساٹھ سال بعد سائنسدانوں نے جو معرکہ مارا اس کا نتیجہ وہی تھا جو آپ نے ۱۸۹۶ء میں بیان فرما دیا تھا.جو پھر دنیوی اداروں میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی علم طالب علم کے دماغ کے مطابق ہوتا ہے اور کوئی نہیں ہوتا.اس لئے بعض اوقات طالب علم اس سے وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جو اسے اٹھانا چاہیے.مثلاً ایک لڑکے کا رحجان ڈاکٹری کی طرف ہے.لیکن باپ اسے انجنئیر نگ کی تعلیم دلانا چاہتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ باوجود اپنی پوری محنت کے اس علم کو پوری طرح حاصل نہیں کر سکتا.لیکن حضرت مسیح موعود عليه الصلواۃ و السلام کے ذریعہ قائم کی ہوئی یو نیورسٹی کے علوم میں یہ نقص نہیں ہوگا.یہاں یہ صورت نہیں ہو گی کہ آپ کا رحجان تو ڈاکٹری کی طرف ہو لیکن رستہ آپ کو فلسفہ کا دکھایا جائے.بلکہ ان علوم میں طالب علم کے لئے بھلائی ہی بھلائی ہوگی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علی الصلاة والسلام کے الہام ربِّ عَلَّمْنِي مَا هُوَ خَيْرُ عِندَكَ " یعنی اے اللہ ! مجھے وہی کچھ دکھا جو تیرے نزدیک بہتر ہے، میں بتایا گیا ہے ، خدا تعالیٰ ہر اک شخص کی علمی استعداد اور اس کے دماغی رحجان کو جانتا ہے.اس لئے یہاں ایسے علم کی تعلیم دی جائے گی جو طالب علم کے ذہن کے عین مطابق ہو اور اس میں اس کے لئے بھلائی ہی بھلائی ہو گیا.اس تعلیم میں یہ نقصان نہیں پایا جائے گا کہ وہ دماغ کے غیر مناسب ہونے کی

Page 202

19.وجہ سے کسی پر برا اثر ڈالتی ہو.پھر تذکرہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مدینۃ العلم کے دو علاقے یادو محلے ہیں.ایک علاقه یا محلہ کا نام بیت الفکر ہے اور دوسرے کا نام سمیت الذکر ہے.ان دونوں کا لطیف امتزاج اس شہر کی آبادی کا موجب ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام میں بتایا ذُو عَقْلِ مَتِيْنِ بَيْتُ الْفِكْرِ وَ بَيْتُ الذِّكْرِ وَ مَنْ دَخَلَهُ كانَ آمِنا تو آج ہمارے نزدیک...قومی العقل ہے تجھ کو بیت الفکر اور بہت الذکر عطا کیا اور جو شخص بہت الذکر میں با خلاص و قصد تعبد و صحت نیست و حسین ایمان داخل ہوگا وہ سوئے خاتمہ سے امن میں آجائے گا ہی گویا یہ یونیورسٹی جو حضرت مسیح موعود على المسلوة والسلام کے ذریعہ سے اس زمانہ میں قائم کی گئی ہے.اس کے دو حصے ہیں.ایک بہت الفکہ کہلاتا ہے.یعنی یہ حقہ ان علوم پر مشتمل ہے.جو کوئی اپنی عقل و تدبر، غور و فکر، اور دنیوی جد و جہد سے نکالتا ہے اور اس کے ذریعہ حقائق الاشیاء معلوم کرتا ہے.دوسرا حصہ بیت الذکر کہلاتا ہے ، اور یہ حقیہ ان علوم پر مشتمل ہے جو ذاتی کاوش اور جدوجہد کے نتیجہ میں حاصل نہیں ہوتے بلکہ دعا ، انابت الی اللہ اور خشیت اللہ کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی روشنی میں اس مدینۃ العلم میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو ان خرابیوں اور نقائص کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو دنیوی یو نیورسٹیوں میں تعلیم کرنے والوں کو پیش آتے ہیں بلکہ جو طالب علم اس یونیورسٹی میں داخل ہو گا وہ بد امنی ، فساد، نظلم اور ہلاکت سے محفوظ رکھا جائے گا.دنیوی سائنسدانوں نے ایٹم بم ایجاد کیا اور وہ اس کامیاب ایجاد پر نازاں تھے.لیکن آپ وہ خود اس ایجاد پر پشیمانی کا اظہار کہ رہے ہیں لیکن اس قسم کا خطرہ اینی مدینہ اعلم میں نہیں کیونکہ عقل تو خود اندھی ہے جب تک اسے دین کی روشنی نہ دی جائے.یہ انسان کو ہلاکت کے له برا همین احمد به حقه چهارم شده حاشیه در حاشیه ما

Page 203

191 گڑھے میں گرا دیتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مدینہ العلم میں بیت الفکر کے محلے کے ساتھ ساتھ بیت الذکر کا محلہ بھی آباد کر دیا تا کہ محض عقل کے استعمال کے نتیجہ میں جو خطرات انسان کو پیش آسکتے تھے وہ بیت الذکر یعنی دینی حصہ کے ساتھ دور ہو جائیں.پھر جس طرح و نیوی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء کو جیہہ فضیلت پہنایا جاتا ہے اسی طرح اس مدینتہ العلم کے رہنے والوں کا بھی ایک جبہ فضیلت ہے.چنانچہ لکھا ہے :- " رڈیا دیکھا کہ میں ایک فراخ اور خوبصورت اور چمکدار جبہ پہنے ہوئے چند آدمیوں کے ساتھ ایک طرف جارہا ہوں اور وہ چونہ میرے پاؤں تک لٹک رہا ہے اور چمک کی شعاعیں اس میں سے نکل رہی ہیں.گویا دنیوی تعلیمی اداروں نے جو اپنا جبہ فضیلت تیار کیا ہے وہ تو کالے رنگ کا ہے لیکن اس ، مدینۃ العلم کے رہنے والوں کو جو جیبہ فضیلت دیا جائے گا وہ نہایت خوبصورت اور چمک دار ہوگا اس سے نورانی شعاعیں نکلیں گی وہ نہ صرف پہننے والے کی شان کو ظاہر کرے گا بلکہ اپنی چمک اور نور سے دوسروں کی ہدایت کا بھی موجب ہو گا پہنے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر حمد صاب کی طر حضرت صاجزادہ مرزا ناصر حمایت اپنسیل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے اپنے اس معلومات افروز دینی اور دنیوی وقف کی تحریک کی.لیکھ کے آخرمیں اجاب سیاحت کو یہ کچھ زور پُر تحریک بھی فرمائی کہ وہ دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے اپنی زندگی وقف کریں اور سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں سرگرم عمل ہو جائیں.آپ نے فرمایا.یاد رکھنا چاہئیے کہ وقف محض دینی ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ دونوں طرح کا ہوتا ہے.دینی بھی اور دنیوی بھی.آپ کسی ترقی یافتہ قوم یا ملک کو دیکھ لیں ، اس میں آپ کو کثرت سے واقف نہ ندگی طبیبی گے.چند ماہ ہوئے مشہور انگریزی رسالہ " ریڈرز ڈائجسٹ میں ایک کتاب کا خلاصہ چھپا ہے.اس میں ایک عورت کا ذکر کیا گیا ہے جو اور میں بیمار ہوئی.ڈاکٹروں نے اسے مشورہ دیا کہ اس کا شہری فضا میں.ه تذکره طبع اول مشال - سه رساله الفرقان ربوه تعلیمی نمبر جنوری ۱۹۵۷ء ملا نام ۱

Page 204

رہنا اس کی صحت کے لئے مضر ہے.اسے اپنی صحت کو بحال کرنے کے لئے ایسے علاقہ میں چلا جانا چاہیئے جو میدانی بھی نہ ہو اور پہاڑی بھی نہ ہو بلکہ درمیانی قسم کا علاقہ ہو.پھر وہ شہر سے دور ہو.یہی ایک صورت ہے جس کی وجہ سے اس کی زندگی محفوظ رہ سکتی ہے اور اس کی صحت بحال ہو سکتی ہے چنانچہ اس نے ڈاکٹروں کی اس نصیحت پر عمل کرنے کے لئے اپنے خاوند کو بھی چھوڑا، اپنے دوسرے عزیزوں اور وطن کو خیر باد کہا اور قریب کے علاقہ میں جس میں ڈاکٹروں کی بتائی ہوئی خوبیاں پائی جاتی تھیں چلی گئی یہ علاقہ تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے تھا بلہ میں اس علاقہ کے ارد گرد پچاس میل میں صرف ایک شخص تھا جو دستخط کرنا جانتا تھا.باقی لوگ دستخط بھی نہیں کر سکتے تھے اور وحشت کا یہ حال تھا کہ روزانہ سینکڑوں لوگ قتل ہوتے تھے وہ عورت بے کار بھی نہیں رہ سکتی تھی.اس لئے اپنا وقت گزارنے کے لئے اس نے وہاں ایک اسکول جانہ کی کیا.اس نے دوسرے علاقوں کے بعض لوگوں کو خطوط لکھ کر عطایا اکٹھے کئے اور اس اسکول کے اخراجات چلانے کا انتظام کیا، اب تو وہاں اور اسکول بھی جاری کئے گئے ہیں.لیکن ی میں پہلا اسکول یہی تھا جو وہاں جاری کیا گیا.اس عورت کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہر بچے سے جس کو وہ پڑھاتی تھی.زبانی طور پر یہ وعدہ لیتی تھی کہ اگر اس کے ادارے قوم یا علاقہ کو اس کی ضرورت پڑے تو وہ وہیں آئے گا.کسی اور جگہ نہیں جائے گا.چنانچہ لکھا ہے کہ ایک طالب علم طب میں نہایت ذہین اور جو شیار تھا اسے طب میں اتنا ملکہ حاصل تھا کہ جب اس عورت نے وظیفہ دے کہ اس کی اعلیٰ پڑھائی کا انتظام کیا اور اس نے طب کی ا اعلیٰ ڈگری حاصل کرلی تو بعض فرموں نے اسے اغلباً دس لاکھ ڈالر سالانہ تنخواہ کی پیشکش کی.جو ہمارے ملک کے لحاظ سے پیتا بیس لاکھ روپیہ سالانہ بنتا ہے مگر اس عورت نے اسے لکھا کہ تم اپنے علاقے میں آجاؤ کیونکہ یہاں اور ڈاکٹر موجود نہیں چنانچہ وہ اس پیشکش کو ٹھکرا کہ وہاں آگیا.پھر دہ کوئی بھاری فیس بھی نہیں لیتا تھا وہ چھکڑوں پر رات کے بارہ بجے برف سے ڈھکے ہوئے راستوں پر سفر کر کے مریض کو دیکھنے جانا اور اس کا علاج کرتا.جب واپس آتا تو وہ لوگ پانچ سیر گندم با یکی اس کے چھکڑے میں رکھ دیتے.یہ وہ فیس تھی جو وہ اپنے علاقہ کے مریضوں سے لیتا اور جس کے متقابلہ پر اس نے لاکھوں روپیہ سالانہ کی تنخواہ کی پیشکش ٹھکرا دی.یہ واقف زندگی نہیں تھا تو اور کیا تھا اس طرح کی اور مثالیں بھی مل سکتی ہیں.

Page 205

۱۹۳ پس وقف محض مذہبی ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ مذہبی اور دنیوی دونوں قسم کا ہوتا ہے اور واقفین ہر قوم ، ہر ملک اور ہر زمانہ میں پائے جاتے ہیں.اصل میں وقف زندگی اور حیات کے کامل مظاہرہ کا نام ہے.جب کسی کی دینی دور عروج اور کمال کو پہنچ جاتی ہے تو وہ دین کا واقف زندگی بن جاتا ہے اور جب اس کی دنیوی روح عروج اور کمال کو پہنچ جاتی ہے تو وہ دنیا کا واقف زندگی بن جاتا ہے.جب ایک شخص کی قوتوں اور اس کے روپیہ کی اس کی قوم اور ملک کو ضرورت ہو اور وہ اس کی خاطر اپنا ذاتی مفاد ترک کر دے اور اس کی خدمت میں لگ جائے تو یہ اس کی دنیوی مکہ رج کے کمال اور عروج کا مظاہرہ ہوتا ہے اور وہ واقف زندگی کہلاتا ہے اور جب اس میں دین کی روح اپنے کمالی اور عروج کو پہنچ جاتی ہے اور وہ دین کی خاطر اپنا ذاتی مفاد ترک کر دیتا ہے تو وہ روحانی واقف زندگی بن جاتا ہے.وقف کی روح اور زندگی کو جماعت میں قائم رکھنے کے لئے جماعت کے افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرنا چاہئیے.چاہے وہ مرکزی ہدایات کے ماتحت کام کرنے کے اہل نہ بھی ہوں اور وہ یہاں کہ کہ کام بھی نہ کر سکیں لیکن جاعت میں اس قسم کا ذہنی رجحان پایا جانا چاہیے.اور اس کے نوجوانوں کی ایسے رنگ میں تربیت ہونی چاہئیے کہ جب بھی قوم انہیں جائے وہ اپنا سب مفاد ترک کر کے آجا ئیں تھی.لے رسالہ " الفرقان که یه جنوری ۵۶ار ۱۵۱۱۲

Page 206

۱۹۴ فصل پنجم حضر میسی موجود در اسلام کے جلیل القدر اصحاب کا انتقال اس سال حضرت مسیح موعود و مهدی مسعود علیہ السلام کے متعد دو جلیل القدر اصحاب رحلت فرما گئے جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے :.ا حضرت چوہدری محمد عبداللہ صاحب نمبردار سیلو پوری ر ولادت انداز انتشاره.بعیت ندارد زیارت شاه - وفات ۱۰ جنوری (۹۵) سید نا حضرت پیسے موعود علیہ السلام نے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۴ پر آپ کا نام اور مارچ شه و کے دو آتشی گولے کے نشان آسمانی کے عینی شاہدوں میں درج فرمایا ہے.آپ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں درج ذیل الفاظ میں تارپہنچا ہے "YOUR PROPHECY 17TH MARCH FIVE FLAMES SEEN EVERY WHERE FALLING FROM SKY 5 P.M.31ST MARCH.ABDULLAH” چوہدری صاحب نے اس مارچ کو تار دینے کے بعد یکم اور دو اپریل کو دو گارڈ بھی حضرت مسیح موعود کی خدمت میں لکھے جن کا متن درج ذیل ہے :- لے ریکارڈ دفتر بہشتی مقبره به توه.ے رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد ۱۳ ۹۵۰ سے تار اور کارڈ دونوں شعبہ تاریخ احمدیت کے خاص نہ بیکارڈ میں محفوظ ہیں.

Page 207

۱۹۵ (پہلا کارڈ) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَتُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمه الله بركاته کل اس مارچ شدہ کو ۴ بجے شام کے قریب آسمان سے آگ کے شعلہ مجیب طور پر گرتے جا بجا دیکھے گئے.چالیس چالیس کو سی تک سے خبریں آئی ہیں.گویا آپ کا الہام پیش وین تک والا مجیب و غریب طور پر ملین ۲۵ دن کے گزرنے کے سر پہ بطریقہ ماجدہ ظہور میں آیا.میں نے اس وقت ایک تار بھی حضور کے نام اس نشان کے پورا ہونے پر آپ کو دی ہے.اور مدد کہ طریقہ بھی اطلاعا اور مبارکا ارسال خدمت ہے.والسلام یکم اپریل شده نیاز مند عبد الله خان احمدی نمبر دار بہاول پور ۱۷ که بر اینچ ضلع لائل پور از سالار والا " ددوسرا کارڈ "میرے آقاد مولا بادی و مهدی مجدد وسیح ! تجھے مبارک ہو کہ تیری پیشگوئی مورخہ کے مارچ شدہ پچیس دن پچیس دن تک ، والی اس علاقہ میں بڑے زور وشور سے اس طرح پوری ہوئی کہ ۳۱ مارچ شہ کو بوقت ہم بجے کے آسمان سے آگ کے شعلہ جابجا گرتے ہوئے دکھائی دینے...میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی.خدا کی درگاہ میں سجدات شکر بجالا تا ہوا سٹیشن کو دوڑا جو یہاں سے دومیل ہے.وہاں اس علاقہ کے تین چار معزز زمیندار اور سٹیشن ماسٹر وغیرہ موجو دتھے.اِن کو رسالہ ریویو دکھایا گیا جس میں یہ پیشگوئی درج تھی بیٹیشن ماسٹر اور دوسروں نے بھی کہا کہ ہم نے بھی بچشم خود ایسا دیکھا ہے.اسی وقت حضور کی خدمت میں تار اور ایک کارڈ عرض کیا گیا.چونکہ وہ مختصر تھی اب مفضل عرض ہے.اخبار بدر اور الحکم اور ریویو کے ذریعہ نہیں نے اس پیش گوئی کو مشہور کیا ہوا تھا.آپ اس واقعہ پر پھر اخبارات لوگوں کو سُنائی گئی ہیں.لوگ خود بخود اقرار کرتے ہیں کہ یہ پیش گوئی پوری ہو چکی ہے.بہت سعید فائدہ اٹھائیں گے اور شفقی کہتے ہیں کہ مرزا صاب

Page 208

194 نجومی ہیں اور ان کے پاس کوئی دلیل اس کو جھوٹا کہنے کی نہیں رہی.عبد اللہ خان احمدی نمبر دار بہلولپور ۱۲۷ سرکھ برانچ ضلع لائل پور سالار والا اسٹیشن - ۲۰ ر ا پریل شده " چوہدری صاحب صاحب البام بزرگ تھے.انہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری سے پڑھا تھا.چنانچہ آپ کا بیان ہے کہ :- 19-4 میں ایک بار قادیان گیا تو چوہدری عبداللہ خا لصاحب بہلولپوری بھی اس وقت وہاں موجود تھے.انہیں الہام ہوا.اِنَّكَ عَلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ.اِس وقت ان کی عربی تعلیم.اس قدریہ کم تھی کہ انہوں نے اس فقرے کے معنے مجھ سے دریافت کئے.یکی نے اس الہام میں جو بشارت بھی اُسے بیان کیا.اور اس وقت اُن کے ساتھ یہ بھی طے پایا کہ میں اُن کے گاؤں میں اُن کے ساتھ چلوں اور وہاں رہ کر اُن کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاؤں.میں نے اُن کو چھے ماہ تک قرآن کریم پڑھایا اور ساتھ ہی تبلیغ اسلام کی خدمت بھی سر انجام دیتا رہا.اس عرصہ میں انہوں نے قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ ختم کر لیا.اور اتنی لیاقت پیدا کر لی کہ وہ دوسروں کو بھی ترجمہ پڑھا سکتے تھے اسے حضرت چوہدری صاحب ۱۹۳۲ ء کی پہلی مجلس مشاورت میں بہلولپور کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے.آپ کا نام ۲۳ 2 کی رپورٹ میں فہرست نمائندگان بیرونی میں نمبر ۱۳ پر درج ہے.چوہدری ناصرالدین صاحب واقف زندگی بی.اے مرحوم رسابق آڈ میٹر تحر یک جدید صدا امین احمدی نے آپ کی وفات پر ایک مضمون شائع کیا جس میں لکھا کہ : قبول احمدیت کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں زبر دست روحانی انقلاب آگیا.اور آپ کی ساری توجہ اصلاح نفس اور تبلیغ اسلام کی طرف پھر گئی.آپ کو کثرت سے قادیان جانے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں دین کی طرف راغب ہو کر حضرت اقدس کے دیدار سے مشرق ہوا تو حضرت کے چہرہ مبارک کو دیکھتے ہی یہ بات میرے دل میں مینے کی طرح گھٹا گئی کہ یہ پاک نور کسی کاذب کے چہرہ پر سر گتہ جلوہ گر نہیں ہوسکتا....ے حیات بقاپوری حصہ اول ۴۸ وطبع سوم )

Page 209

196 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پاک باتوں کا ذکرہ اکثر آپ کی مجلس میں رہتا اور سلسلہ تبلیغ و تربیتہ ہمیشہ جاری رہا.حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ اس کثرت سے آپ نے کیا ہوا تھا کہ خاص خاص مسائل کے بارہ میں حضور کی تحریرات اور حوالے زبانی یاد تھے.آپ الہامات اور رویائے صادقہ کی نعمت سے بھی مشرف تھے.....دعا پر آپ کو بہت یقین تھا.کثرت سے لمبی لمبی دعائیں کیا کرتے تھے.تجد التزام کے ساتھ آخر وقت تک ادا کرتے رہے.فرمایا کرتے تھے کہ اللہ میری تمام ضرور ہیں پوری کرتا ہے.اور نہایت تنگی اور شہرت کے وقت بھی حضرت مسیح موعود علی اسلام کے طفیل اُس نے مجھے سہارا دیا ہے.ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میرا بال بال مقروض تھا.اور اس سے تجات حاصل کرنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا.حضرت مصلح موعود سیالکوٹ تشریف لے گئے تو نارووال کے اسٹیشن پر رجہاں اس وقت چوہدری صاحب سب رجسٹرار تھے ) حضور سے دعا کی در بیروت کی.حضور نے فرمایا کہ اپنے گناہوں کو خدا کے حضور پیش کر کے استغفار کریں.چنانچہ اس نسخہ پر عمل کرنے سے خدا نے تمام قرضہ سے باعزت نجات دی.اور فراخی کی راہیں کھول دیں.آپ اپنے گاؤں اور علاقہ میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.گاؤں میں برادریوں کے جھگڑوں میں بھی آپ کی کوشش یہی ہوتی کہ گاؤں کا امن برباد نہ ہو اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل مل کر یہ ہیں.آپ ذہانت اور تدبیر سے معاملات کو سوچنے اور حل کرنے کی کوشش کرتے.سوشل اور تمدنی زندگی کو بہتر بنانے اور گاؤں میں تعلیم کی اشاعت میں خاص دلچسپی لیا کرتے تھے.گاؤں میں طلباء اور طالبات کے علیحدہ علیحدہ مڈل سکول بنوانے میں بھی آپ کی مساعی اور ترغیب کا کافی دخل تھا.سکول کے اساتذہ سے ملنے اور تعلیمی کارروائیوں سے باخبر رہنے کا شوق تھا.حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کا شوق تھا.حالات میرہ سے باخبر رہنے کے لئے باقاعدہ اخبار بینی اور ملک کے سیاسی تغیرات پر بحث و تمحیص کرنے کے علاوہ قرآن کریم اور تغیر پڑھنا اور سننا آپ کے محبوب شاغل تھے بعد اولاد.ا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تحصیلدار -۲- مولوی عصمت اللہ خانصاحبه له الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۵۵ و ۳۰ ه.والد ماجد چو ہدری صلاح الدین صاحب واقف زندگی سابق مشیر قانونی صدر انجمن احمدیہ پاکستان رقه

Page 210

190 - چوہدری بشیر احمد صاحب انسپکٹر پولیس ریٹائرڈ.ہم چوہدری عبد الرحمن صاحب سابق انسپکٹر پولیس.۲- حضرت چوہدری باغ دین صاحب ربیعیت شده - وفات ، جنوری شاه) آپ کا آبائی وطی کنمو والی ضلع سیالکوٹ تھا.گاؤں میں ہندو اور سکھ آبادی تھی جو کئی قسم کی رسومات میں مبتلا تھی جن میں مسلمان بھی ان میں شریک ہو جاتے تھے لیکن آپ اپنی نیک فطرت کی وجہ سے بچپن سے ہی ان رسوم کے خلاف تھے.اور ان کے انسداد اور مدارک کی کوشش کیا کرتے تھے تخلیقہ سراج الدین صاحب آف کلا سیوالہ ضلع سیالکوٹ آپ کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم چند دوست جن میں مرحوم بھی شامل تھے مولوی ابو محمد عبداللہ صاحب آن کھیوہ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے اور اُن سے کچھ پڑھتے بھی تھے مولوی صاحب کی مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کا ذکر اکثر ہوتا تھا.آپ کے دلائل کو پرکھا جانا اور پیشگوئیوں پر بحث ہوتی.ان دنوں پنڈت لیکھرام والی پیشگوئی کا عام چھہ چا تھا اور مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اگر مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی تو میں ایمان لے آؤں گا.خلیفہ سراج الدین صاحب فرماتے ہیں کہ ایہ میں مجھے کسی ذاتی کام کے سلسلہ میں امرتسر جانا پڑا.کام کے بعد مجھے خیال آیا چلو قادیان بھی دیکھے چلیں.چنانچہ میں قادیان گیا اور دل کی تسلی ہونے پر کہیں نے حضور کی بعیت کرلی اور کھیوہ واپس آکر مولوی صاحب کی مجلس میں اپنی بیعت سے تعلق تمام باتیں شنائیں.چند دن خوب بحث ہوئی اور اس کے بعد محترم مولوی صاحب اور دیگر تمام احباب بیعت کے لئے رضامند ہو گئے اور حضور کو خط لکھ دیا.اس طرح محترم چوہدری صاحب مرحوم.یہ شمارہ میں خط کے ذریعے بیعت کر لی ، بعد ازاں شعراء میں قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر عہد اطاعت باندھا.آپ نے اپنے خاندان اور رشتہ دارو میں تبلیغ شروع کی اور بہت کوشش اور محنت سے اس کام کو سرانجام دیتے رہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوششوں کو شرف باریابی بخشا اور رشتہ داروں کی کثیر تعداد احمدیت میں داخل ہوگئی.آپ اپنے ه المفضل اور جنوری ۱۹۵۵ء م

Page 211

١٩٩ گاؤں میں نمبر دار تھے اور اپنے فرائض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا کرتے تھے.اسی طرح خدمت سلسلہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.سلسلہ کے مبلغ اور کارکن جب مرکز سے تشریف لاتے اُن کے ساتھ نہایت محبت اور الفت سے پیش آتے اور ہر ممکن خدمت کرتے.اپنی جماعت کے پریذیڈنٹ تھے.اس سے قبل عرصہ تک سیکریٹری مال بھی رہے.ایک دوست کا بیان ہے کہ ہماری جماعت کے ذمہ خاصہ بقایا ہو گیا تھا تو مرحوم کو سیکرٹری مال بنا دیا گیا.آپ نے اس خوش اسلوبی اور محنت سے کام کیا کہ جماعت میں ایک شخص بھی بقایا دار نہ رہا.پُر جوش داعی الی اللہ تھے.کسی مجلس میں بھی تبلیغ کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ سلام کے خاندان سے آپ کو بہت الفت تھی.قدرت ثانیہ کے مظاہر کی قبولیت دعا کے کئی واقعات بیان فرمایا کرتے تھے.آپ دفتر اول تحریک جدید کے مجاہدوں میں شامل تھے یہ شیخ نور احمد صاحب ایڈووکیٹ رمزنگ روڈلاہور ) کا بیان ہے کہ " حضرت چوہدری صاحب موصوف کو میں نے بچپن سے دیکھا اور مطالعہ کیا.یہ امر واقعی حیرت انگیز ہے کہ آپ کو قدرت این دی نے غیر معمولی استعدادوں سے اور خاص صلاحیتوں سے حصہ وافر عطا یا تھا وہ اپنے اندر ایسی قابلیتیں اور خصائل رکھتے تھے کہ ان کو بلا مبالغہ ایک مثالی انسان کہا جا سکتا ہے.حیرت آتی ہے کہ ایک گاؤں میں پیدا ہونے والا اور صرف پرائمری تک تعلیم رکھنے والا زمیندار کس قدر معاملہ فہم، مدبر اور متانت کا اعلیٰ نمونہ تھا.آپ کی طبیعت میں انتہائی انکسار اور عجز تھا.نہایت رقیق القلب تھے اور امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم الشان روحانی فیض سے صحیح معنوں میں تربیت یافتہ ہونے کا زندگی بھر عملی نمونہ پیش کرنے والے افراد میں شمار کئے جانے کے قابل تھے.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس پر کامل یقین کا بہترین نمونہ آپ نے پیش کیا.بعض دفعہ انتہائی پریشانیوں سے بھی دو چار ہوتا پڑا لیکن خدا داد وقار اور وجاہت کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا.دشمنوں سے بھی باوقار اور مدبرانہ برتاؤ رکھتے تھے.اور غریموں کی دستگیری محض رضائے الہی کے لئے اپنی قلبی کیفیت کے ماتحت کرتے تھے...له الفضل ۲ مارچ ۱۵۵ مه

Page 212

چو ہدریوں کی طرح جاہ طلبی تکرار اور نخوت آپ کی طبیعت میں بالکل نہیں تھا.اور چودھراہٹ کا خمار کبھی اس نیک قطرت اور باکمال انسان پر اثر اندازہ نہ ہوا.آپ نے انسانی مساوات کا عملی سبق زندگی بھر پیش کیا.اور تبلیغ احمدیت کا والہانہ جوش ہمیشہ ان کے دل میں موجنون تھا.افضل اور کتب سلسلہ پڑھنے کا عشق اپنے اندر رکھتے تھے.شاید یہی وجہ تھی کہ آپ ادبی اعتبار سے بہت اچھی اردو لکھ سکتے تھے.اور خوش نویس تھے.غرض ہر بات ہر کردار اور ہر شعبہ زندگی میں صفائی نظافت اور نجیبانه کمال حاصل تھا.....محترم چوہدری صاحب کو حضرت مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم و مغفور آفت کھیوہ باجوہ ضلع سیالکوٹ کی پاکیزہ صحبت کا کافی شرف حاصل تھا.جو تبحر علمی کے لحاظ سے عظیم الشان فاضل تھے.کچھ اس کا نتیجہ تھا اور کچھ ذاتی استعداد کے باعث محترم چوہدری صاحب بعد بدر علوم اور فلسفیا نظریات کو بخوبی سمجھتے اور سمجھا سکتے تھے.آپ نے احمدیت کو ملی وجہ البصیرت سمجھا اور قبول کیا تھا.آپ کو حضرت مصلح موعودؓ سے بے مثال اور قابل رشک محبت بلکہ عشق تھائیے - ۳- حضرت ڈاکٹر فیض علی حیات صابر پنشنر اسسٹنٹ کمر مین بہاول پور رولادت ۱۳۹۳ ه مطابق شعراء بعیت ماریه - وفات ۱ جنوری شاری (.حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر کے والد مولوی عبد الغنی صاحب کا اصل وطن حجرہ شاہ مقیم تحصیل قصور تھا.مولوی صاحب موصوف بچپن میں تقسیم اور تنہا رہ گئے اور امرتسر میں اپنے رشتہ کے ایک چچا کے ہاں رجو ایک متمول سکھ سردار تھے ) پرورش پائی.آپ کا پہلا نام سردانہ روپ سنگھ تھا.آپ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا.آپ مشہور اہل حدیث عالم مولوی غلام علی صاحب قصوری کے تمتاز شاگرد اور جید عالم تھے.انبالہ میں عربی اور فارسی کے معلم رہے.اور پچاسی سال سے کچھ اوپر کر پائی.اہلیہ کا نام حصہ بیان بی بی تھا مولوی عبدالغنی صاحب کی اولاد چھے بیٹے اور ایک بیٹی تھی.جو سب اُن کی وفات کے بع.نہایت له الفضل لم.مارچ ١٩٥٥ء منه.سے الحکم اور مارچ فٹ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.

Page 213

۲۰۱ اخلاص کے ساتھ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئی.انہوں نے اپنے تمام بچوں کے نام تاریخی رکھے جو یہ ہیں پر ا دڈاکٹر، علی اظفر صاحب روفات (۱۲۹) آپ کا نام منارہ اسی پر کندہ ہے مشرقی افریقہ ٠٢ میں ملازم تھے اور وہیں وفات پائی.(ڈاکٹر) فیض علی صاحب صابر (ولادت ۱۳۹۳ ه ) دبابو مظہر علی طالب صاحب (ولادت شاه ) مشرقی افریقہ میں پوسٹ ماسٹر تھے اور وہیں دفن کئے گئے.۴ - دستری منظر علی صاحب رولادت سترہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ایران کی طرف قوت ہوئے.- حضرت مراد خاتون صاحبہ (ولادت ۳۳) اہلیہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب دخمر حضرت سید نا مصلح موعود ) 4- دڈاکٹر اقبال علی فنی صاحب (ولادت شاه) اسسٹنٹ سرجن انچارج کیمپ گورنر یو پی.آپ حکیم مفتی فضل الرحمن صاحب بھیروی رو اماد حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفة المسیح الاول) کے داماد تھے.(شیخ منظور علی شاکر صاحب د ولادت ۳ سابق کو توال میرٹھ شہر ڈاکٹر علی اظفر صاحب اور ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب کی جائے ولادت امرتسر ہے.باقی سب انبار چھاؤنی میں پیدا ہوئے لیے اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد ڈاکٹر علی اظفر صاحب اور ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر کم عمری میں ہی بغرض ملازمت مشرقی افریقہ تشریف لے گئے.جہاں حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب رجو حضرت علاقہ حافظ روشن علی صاحب کے سگے بھائی اور حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کے بہنوئی تھے) پہلے سے ملازم تھے.آپ کو بہت عزت و احترام کی نگہ سے دیکھا جاتا تھا.اور چلک میں نیک اور پاک اور عابد یقین کئے جاتے تھے.ڈاکٹر علی اظفر صاحب چند یوم میں ہی اُن سے ایسے مانوس اور متاثر له الحکم ۲۸ اپریل ۹۳۵ مٹ - کے آپ.ار جنوری یو کو لڑائی کے دوران ایک زخمی کی مرہم کی کو رہے تھے کہ بھالے سے شہید کر دیئے گئے دالحکم.ار فروری شاید مت )

Page 214

۲۰۲ ہوئے کہ احمدیت کی صداقت پر یقین ہو گیا.مکرم ڈاکٹر فیض علی صاحب بتایا کہ تے تھے کہ ” ہم دونوں بھائی ایک دوسرے سے کچھ فاصلہ پر کام کرتے تھے.نہیں ان دنوں خوب فیشن ایبل تھا اور دین کی طرف کم ہی وحیان تھا.رخصت لے کر بڑے بھائی صاحب کو ملنے آیا.تو انہیں دیکھ کہ نہیں حیران رہ گیا.ان کے اندر نمایاں تبدیلی پیدا ہو چکی تھی.خوبصورت چہرہ پر ایک چھوٹی سی ڈاڑھی عجیب بہار دکھا رہی تھی اور نماز و عبادت سے شغف بڑھ گیا تھا.مجھے بتایا گیا کہ آپ کریم ڈاکٹر رحمت علی صاحب کی تبلیغ سے احمدی ہو چکے ہیں.میں چونکہ اپنے بھائی کا بہت احترام کرتا تھا اس لئے ان میں یہ تغیر دیکھ کر میں نے بھی بیعیت کا خط لکھ دیا.پھر قادیان آکر دستی بعیت بھی کی ہے الحکم ۳۱ مارچ تشاء صفحہ ، پر دونوں بھائیوں کا نام فہرست نو مبائعین میں درج ہے.بعیت کے بعد سرکاری محکمہ کی طرف سے حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب اور آپ کو ایک ڈیوٹی پر بمبئی بھیجا گیا.بیٹی سے یہ دونوں بزرگ تیسرے روز جمعہ سے کچھ پہلے قادیان پہنچے.زمانہ میں حضرت اقدس مسیح ولو علیہ سلام بھی تشریف لائے.مگر خطبہ جمعہ حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروبی نے دیا جس میں سورۃ فلم کا نہایت پر معارف اور روح پرور تغییر بیان فرمائی.قادیان میں مختصر قیام کے دوران آپ نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کی.چنانچہ فرماتے ہیں.جب میں نے بیعت کی تو مجیب خوف آمیز سنساہٹ کی لہریں میرے تمام رگ و ریشہ میں پیدا ہوئیں اور تمام جسم گویا ڈھل کرنٹے سانچے میں ڈھل گیا تھا.افسوس میں اس روحانی لذت کی کیفیت کو بیان نہیں کر سکتا ہے یہ اپریل تشار کا واقعہ معلوم ہوتا ہے.اوائل تشاد میں آپ ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے ستمبر 2ء میں آپ نے حضرت بابو محمد افضل صاحب کی رفاقت میں سلسلہ احمدیہ کا دوسرا مرکزی اخبار " البدر" جاری کیا.جو سلسلہ کے اس ابتدائی دور کی تاریخ کا ایک اہم ماخذ ہے.اور جس کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں.آپ " البدر" کے مہتم سنتے اور حضرت بابو صاحب اس کے ایڈیٹر.شروع شروع میں حضرت اقدس مسیح موعود کی ڈائریاں آپ خود لکھنے تھے بعد میں آپ نے اُنہیں بھی اس خدمت میں شامل کر لیا ہے لاہور تاریخ احمدیت تا مصنف مولاناشيخ عبدلقادر مرحوم سابق سوداگری به احکم ۲۰ اپریل انشاء مشت گو در خلافت اولی می بھی جاری رہا اگرحضرت ڈاکٹر ہا ہا اس زمانہ میں نیا سے کوئی تعلق ز سارا آپ قادیان سے باہر لازم ہے.

Page 215

۳۰۳ حضرت اقدس نے اس اخبار کی منظوری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ہماری طرف سے اجازت ہے خواہ آپ ایک سو پرچہ جاری کریں.شاید اللہ تعالی اس میں برکت دے دیوے " کچھ عرصہ تک نگر خانہ کا انتظام بھی آپ کے سپر د رہا.حضرت اقدس مسیح موعود کی مرض الموت میں آپ ہی صدقہ کے دو بکرے خرید کر لائے.اور آپ ہی نے ان کو ذبح کیا.واپسی پر جو خوش نصیب بزرگ حضور کا جسد اطہری امور سے قادیان لائے ان میں آپ بھی شامل تھے.۱۹۴۷ء تک آپ بہاولپور کے فوجی ہسپتال میں اور بعد ازاں کئی اور سول ہسپتالوں میں طبی خدمات بجا لاتے رہے.بہاولپور میں کئی سالوں تک جماعت کے سیکرٹری رہے.جمعہ اکثر آپ ہی کے مکان پر پڑھا جاتا تھا.امامت بھی آپ خود کراتے رہے.آپ کی شہرت ایک دیانت دار اور پارسا شخص کی حیثیت سے ایسی نمایاں تھی کہ آپ ہز ہائی نس نواب بہادر نواب صادق محمد خان خامس عباسی والٹی ریاست بہاولپور کے محل کے میڈیکل آفیسر مقرر کردیئے گئے مگر احدیت کی وجہ سے آپ کی سخت مخالفت ہوئی اور آپ کو اس عہدہ سے برخاست کہ دیا گیا.آپ پیغام احمدیت پہنچاتے رہے.اور سچی بات کہنے سے کبھی گریز نہیں کیا.آپ حد درجہ جہان نواز تھے.ایک احمدی ڈاکٹر کی حیثیت سے آپ میں یہ وصف بھی بہت نمایاں تھا کہ نہ صرف مریضوں کا ہمدردی سے علاج کرتے بلکہ نقدی، کپڑوں اور غذا سے بھی مدد فرماتے.بڑے متوکل انسان تھے." اللہ مالک ہے " تکیہ کلام تھا.قرآن مجید کا ایک خاصا حصہ حفظ تھا.در ثمین اردو و فارسی کے بہت سے اشعار یاد تھے.اور اس کا ذوق اپنے بچوں میں پیدا کرنے کے لئے اکثر بیت بازی کراتے اور ان کی ذہانت پر خوش ہو کہ انعام بھی دیتے تھے.شعر وسخن کا پاکیزہ ذوق رکھتے تھے.آپ کی بعض نظمیں الفضل اور مصباح میں شائع شدہ ہیں.ء میں آپ پنشن لے کر مستقل طور پر قادیان آگئے اور پھر تقسیم ملک کے بعد ماڈل ٹاؤن لاہور میں قیام پذیر ہو گئے.ام ار جنوری ۵اء کو انتقال کیا.اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کئے گئے.ڈاکٹر احسان علی صاحب.سردار رحمت اللہ صاحب - سردار عبد الرحمن صاحب.اولاد - حمیده صابرہ بیگم صاحبہ - امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ - سردار عبد المنان صاحب - سردار عبد السّلام صاحب سردار عبدالحمید صاحب سردار عبد الرشيد صاحية.له تاریخ احمدیت لاہور " ۲۸۲.(موسقه مولا نا عبد القادر صاحب.نومسلم )

Page 216

ہم حضرت حکیم شیخ فضل حق حمات بٹالوی د ولادت ۱۸ جون شده او تقریبا بیت اندازا دار - وفاتی در جولائی ۱۹۵۵ء) هرا آپ کے والد شیخ نور احمد خانصاحب ذکار رئیس بٹالہ " براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت کے دوران حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور شروع سے ہی حضور کے عقیدت مند تھے.اگر چہ شیخ نور احمد صاحب نے مبیعیت نہیں کی مگر مخالفت بھی کبھی نہیں کی.اور مردم شماری میں اپنا نام احمد ہی لکھوایا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۷ دسمبر شعراء کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے والے اصحاب کی فہرست میں ان کا نام ۱۲ نمبر پر اور انکے بیٹے حضرت حکیم شیخ فضل حقی صاحب کا نام ۱۴۷ تمبر پر درج فرمایا شیخ نور احمد صاحب ۲۲ ستمبرک شاہ کو فوت ہوئے.اور اپنے بھائی مکرم ظفر الحق خانصاحب اور بہنوں کی پرورش اور تعلیم نیز سارے خاندان کی ذمہ داریاں حضرت شیر فضل حق صاحب پر آگئیں کہ آپ کی ایک بہن کی نسبت بٹالہ کے ایک معززہ غیر احمدی خاندان میں ہو چکی تھی.والد ماجد کی وفات کے بعد حضرت حکیم صاحب نے ان لوگوں سے کہ دیا کہ اب میں اپنی بہن کا ولی ہوں ، نہیں اس کا رشتہ احمدیوں میں ہی کروں گا.چنانچہ آپ کی یہ بہن حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کے ساتھ بیاہی گئیں.اسی طرح آپ کی بڑی بیٹی کے رشتہ کے لئے اُس کے غیر احمدی نانا نے ایک بڑے معزز خاندان میں سلسلہ جنبانی شروع کر رکھی تھی.حضرت حکیم شیخ فضل حق صاحب نے اس کا رشتہ بھی حضرت مصلح موعود کے ایماء سے حکیم فضل الر حمن صاحب (مبلغ افریقہ) کے ساتھ کر دیا اور اس طرح دین کا ایک معیاری نمونہ پیش کیا.مکرم عبد الجلیل خانصاحب عشرت بی اے آنرز نے حضرت شیخ فضل حق صاحب بٹالوی کے حالات زندگی پر الفضل 19 مئی شاہ کے صفحہ ہم پر ایک معلوماتی مضمون لکھا.جس میں خاص طور پر ان کے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے اس مثالی نمونہ کا تذکرہ کیا.نیز کھاکہ " مرحوم کی جوانی کے ایام ه روزنامه الفضل ربوه ۲۸ جولائی شامت نے روزنامه الفضل ربوہ 19 مئی ١٩٥٥ ء ما سه." آئینہ کمالات اسلام " ضمیمه ه روزنامه الفضل ربوه در جولائی شفاء..

Page 217

۲۰۵ میں عمران بینگ میں لکے نوٹی ایسوسی ایشن بٹالہ نے متفقہ رائے سے ان کو اپنی الیسوسی ایشن کا مد منتخب کیا.کچھ عرصہ کے بعد کے زئی برادری نے محض احمدیت کی وجہ سے انہیں صدرات سے الگ کر دیا.حکیم صاحب نے اطلاع بھجوائی کہ میں پریذیڈنسی کی پرواہ نہیں کرتا.بلکہ میری بھی چھوڑتا ہوں حکیم صاحب کی طبیعت میں اپنے عقائد میں از حد پختگی تھی.وہ بلا خوف لومة لائم اپنے اصول کے مطابق عمل کرتے تھے.اور اس میں کیا شک ہے کہ یہ بڑا مشکل کام ہے.بٹالہ میں حکیم صاحب مرحوم کی ذات مرجع خواص و عام تھی.خاندانی عزت کے علاوہ ذاتی وجاہت ، حسن اخلاق ، مہمان نوازی اور پھر ان کی حذاقت طب کی وجہ سے لوگ کھینچے چلے آتے تھے.بٹالہ میں ان کے مکان پر اکا بر سلسلہ اکثر آتے جاتے رہتے تھے.حکیم صاحب متقی اور پرہیز گار بزرگ تھے.تہجد کی نماز دقات تک باقاعدہ ادا کرتے رہے.دعاؤں پر مداومت کرتے تھے..ہمیشہ خطوں میں لکھتے رہتے کہ میرے لئے دعا کرو کہ خدا میرا انجام بخیر کرے.اور سچ یہ ہے کہ یہ سب سے جامع دعا ہے خود بڑے مستجاب الدعوات تھے.فرمایا کرتے تھے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خدا نے میری دعا قبول نہ کی ہو.....طبیعت میں انکساری اور عاجزی بے حد تھی.رقیق القلب تھے.لیکن صابر و شاکر بھی انتہا درجے کے تھے.حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم مجاہد افریقہ کوئی ۱۶ سال مسلسل بحیثیت مبلغ افریقہ باہر رہے ، ان کی عدم موجودگی میں محکم فضل الحق صاحب کی بیٹی (زوجہ حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم ) اپنے والد کے پاس رہیں.خاوند سے علیحدگی جہاں بیوی بچوں کے لئے ایک مسلسل امتحان تھا.وہاں لڑکی کی حالت بوڑھے باپ کے لئے بھی بہت تکلیف کا موجب تھی.لیکن مرحوم صبر سے برداشت کرتے رہے.اور دعاؤں پر تکیہ کیا پھر قسیم ملک پر اپنی لاکھوں روپے کی جائیداد چھوڑ کر جب پاکستان آئے تو کوئی مکان یا دوکان الاٹ نہ ہوئی اور نہ وظیفہ ملا.ایک رشتہ دار نے از خود کچھ زمین الاٹ کرا دی.لیکن مرحوم کے استغناء کا یہ عالم تھا کہ کبھی جاکہ اتنا بھی بنتنہ نہ کیا کہ نہ مین کہاں ہے ؟ اور اس کی کیا آمدنی ہے ؟ مرحوم نے فن طب محض ایک شغل کے طور پر سیکھا ، خود ہی مطالعہ سے طب میں اتنی دستگاہ حاصل کر لی کہ دور دور سے مریض آتے تھے.ہاتھ میں شفا تھی.علاج کے ساتھ دعا بھی کرتے تھے.طب کی کتب کا مطالعہ اس وقت نظر سے کیا کہ کتابوں پر ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے بے شمار نوٹ موجود ہیں.ہر کتاب کے ہر صفحہ میں خالی کاغذ لگوائے ہوئے تھے جن پر اپنے تجربہ اور مطالعہ کے نتائج توٹ کی صورت میں

Page 218

محفوظ کرلئے تھے ہے ، ۲۰۶ حضرت حکیم صاحب بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کئے گئے.آپ کی وفات پر بعض معزز مہند و صاحبار کی طرف سے بھی تعزیت کے خطوط موصول ہوئے.آپ نے اپنے پسماندگان میں اپنی بیوی کے علاوہ ایک بیٹیار افتخار الحق صاحب بیرسٹر) اور چار بیٹیاں بطور یادگار چھوڑیں کہ حضرت سید نذیر حسین شات پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ د ولادت قریباً شراء بعیت ۲۸ اکتو بر نشاء به مقام سیالکوٹ - وفات ۲۸ جولائی ۹۵ اید) حضرت سید نذیر حسین شاہ صاحب بہت نیک منتفی ، سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جانثار، آنریری مبلغ اور مناظر تھے، آپ کی وجہ سے گھٹیالیاں اور اس کے ماحول میں احمدیت کا نور پھیلا تکیے آپ کو کس طرح امام الزمان کے دست حق پرست پر بعیت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ؟ اس کی تفصیل حضرت شاہ صاحب کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.فرماتے ہیں :.میرے والد صاحب کے خود معیت لیا کرتے تھے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ران کو اس قدر محبت تھی کہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کو کہا کرتے تھے کہ جاؤ اور مرزا صاحب کی بعیت کہ وہ ہم مسجد میں تھے کہ ایک شخص سید شبیر شاہ نام چند اشتہار لایا اور میرے والد صاحب کو دیئے.ان اشتہارات میں مباحثہ امرتسر کا ذکر تھا.اور وہ شخص امرتسر سے ہی آرہا تھا.میں نے وہ پڑھے اور ان کا مجھ پر گہرا الہ ہوا.پھر جب سورج اور چاند کو گرہیں لگا تو اس وقت میں اپنے گھر میں تھا.میرے والد صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ یہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا نشان ہے.اس بات کا بھی مجھ پر اثر ہوا.پھر مولوی قطب الدین صاحب ایک موقع پر یہاں تشریف لائے.اور کوٹلی لوہاراں کا ایک مولوی عبدالصمد ان کے ساتھ بحث کے لئے آیا.پہلے سبحث نکے پنڈ مسجد میں شروع ہوئی.مولوی عبد الصمد حب الله بعض اللہ بار بار کہتا الفضل و در مئی شعراء من له ايضا.ه و الفضل لم راگست ۹۵ و استمبر شام رپورٹ مجلس مشاورت " ۱۹۲۶ ۶ ص۲۰۲ مٹ که نام سید نیاز علی شاہ صاحب شه مارچ.اپریل ۱۸۹ء کا واقعہ ہے

Page 219

۲۰۷ تھا.مولوی قطب الدین صاحب معاویہ اور علی کی باتیں کر رہے تھے کہ والد صاحب نے دونوں کو روک دیا اور فرمایا کہ آج جمعہ ہے تمام لوگوں کے سامنے باتیں کرو.چنانچہ جمعہ کے لئے لوگ جمع ہوئے، اور مولوی عبدالصمد صاحب نے خطبہ جو شروع کیا.اس خطبہ میں بھی وہ محب اللہ اور بعض اللہ کے الفاظ بار بار کہتا تھا، اور حضرت صاحب کے خلاف بھی کچھ اُس نے کہا.....مولوی قطب الدین صاحب میرے والد صحاب کے پاس آئے اور کچھ کان میں کہ کہ پھر واپس اپنی جگہ چلے گئے جب وہ نماز کے لئے آگئے مصلیٰ پر کھڑا ہونے لگے تو مولوی صاحب نے کہا کہ ران مولوی صاحب کے پیچھے میری نمانہ نہیں ہو سکتی.اس پر میرے والد صاحب نے نماز پڑھائی.نماز کے بعد متوفيك پر سحت ہوئی.مولوی عبد الصمد صاحب نے دوران مبحث پانی مانگا اور بدحواس سے ہو گئے.اِس پر گاؤں والوں کو محسوس ہوا کہ وہ جھوٹے ہیں.اور احمدیت کی طرف اِن کا رجوع ہوا.اس وقت تک گاؤں میں کوئی احمدی نہیں تھا.اس گفتگو کا بھی مجھ پر خاص اثر ہوا.میرے والد صاحب کی وفات 9ء میں ہوئی.ان کی وفات کے مقابعہ حضرت اقدس کی طرف سے ان کے نام رسالہ واقع السلام آیا جو میں نے وصول کیا.مرض الموت میں والد صاحب نے مجھے وصیت کی تھی کہ مخالفت نہ کرنا اور بان لینا اس وقت تک ہمارے گاؤں میں کوئی احمدی نہ تھا.جب حضرت اقدس سیالکوٹ تشریف لے گئے تو گھٹیالیاں میں چونکہ احمدیت کے متعلق ایک رو پیدا ہو چکی تھی.اس لئے یہاں سے سترہ اٹھارہ آدمی گئے تھے.اور قریبا سب نے بیعت کرلی تھی.بعیت کا واقعہ یوں ہے کہ جس روز حضرت اقدس نے سیالکوٹ جانا تھا.اس سے ایک روزہ پہلے ہم گئے تھے.....حضرت صاحب کی آمد آمد تھی.اس لئے عصر کے وقت ہی تمام شہر کے معززین اور مضافات کے لوگ جوق در جوقی سٹیشن پر جانے گئے.ہم بھی پہنچ گئے حضور کی گاڑی شام کے وقت اسٹیشن پر پہنچی اور جس ڈبہ میں حضور تھے.اسے کاٹ کر راجہ کی سرائے کے پاس لے جایا گیا.حضور ایک فٹن پر سوار ہوئے : دو رویہ قطاروں میں لوگ کھڑے تھے اور پولیس گشت کر رہی تھی حضرت صاحب کے پاس ایک شخص لیمپ لے کر کھڑا تھا اور کہتا تھا کہ یہ مرزا صاحب ہیں.بعد میں وہ شخص مجھے ملا اور احمدی ہونے کی وجہ سے اُس سے واقفیت ہوگئی.وہ حکیم عطا محمد صاحب گودھ پور والے تھے.راد یہ ۲۷ اکتوبر ۱۹ کا واقعہ ہے.

Page 220

وہاں مولوی عبدالکریم صاحب نے جمعہ کی نماز پڑھائی میں بالکل حضرت صاحب کے پاس کھڑا تھا.اور حضور ہی کی طرف میری توجہ تھی.جمعہ کے بعد حضور کے لئے ایک کو سی بچھائی گئی.حضور تشریف فرما ہوئے اور سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی.جس وقت حضور سورۃ فاتحہ پڑھ رہے تھے ، میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ بالکل بھولی بھالی شکل کا انسان ہے جو تقریریں ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ ان کی ہرگزہ نہیں ہو سکتیں، مگر حضور نے تقریر فرمائی تو میرا سارا شک رفع ہو گیا.اس تقریر میں حضور نے فرمایا کہ لوگ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں کہ وہ رب العالمین ہے.مالک یوم الدین ہے اور چاہتے ہیں کہ گمراہی کے انتہالہ کا اللہ کوئی علاج کرے.مگر جب اللہ تعالی نے علاج کا سامان کیا ہے تو لوگ منکر ہو رہے ہیں.کیا خدا تعالیٰ ظالم ہے کہ ایک تو امت گمراہ ہو رہی ہے اور دوسرے ان میں ایک دجال کو بھیج کر انہیں اور گمراہ کرے.یہ سوچتے نہیں ہے؟ اس تقریر کا لوگوں پر اس قدر اثر ہوا کہ بے شمار مخلوق نے بعیت کی.مجھے چوہدری اللہ داتا صاحب (فاناں والی میانوالی والے) نے کہا کہ بعیت کرو.کیا دیکھتے ہو ؟.ان کی تحریک سے میں نے دستی بیعت کر لی.اس سے پہلے میں حضرت اقدس کی ہر مجمع میں تائید کیا کرتا تھا.مگر ابھی تک بعیت نہیں کی تھی.ہاں ایک بات یاد آئی جب حضرت صاحب فٹن پر سوار ہوئے تو ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا اُس نے کہا کہ یہ منہ جھوٹے کا نہیں ! آپ کی تعلیم صرف پرائمری تک محدود تھی مگر بچپن سے ہی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا.چودہ پندرہ برس کی عمر میں جہاں بھی کسی علم دوست کا پتہ چلتا وہاں پیدل چل کہ اس سے استفادہ کرتے حضرت اقدس مسیح موعود و مہاری مسعود علیہ اسلام کی کتب پر گہری نظر رکھتے تھے.اور اہل قلم تھے، قرآن مجید پڑھنے اور اس پر غور کرنے کا خاص شوق تھا.تعلیم طب میں بلند پایہ رکھتے تھے.اور دوا کی نسبت دعاؤں کے زیادہ قائل تھے مریضوں کےلئے اللہ تعالی سے بڑی گریہ و زاری سے دم کرتے تھے.یہی وجہ تھی کہ الہ تان نے ان کے ہاتھ میں شتدا ر کھی تھی.آپ ہمیشہ مرض کی تشخیص کے بعد معمولی سی قیمت کی دوا تجویز کرتے اپنے علاقے میں ہر دل عزیز اور تیول تھے.صبح سے لے کہ شام تک آپ کا ہر کام گھڑی کی سوئی کی طرح اپنے له ۱۲۰ اکتوبر شاد سے الحکم ۱۰ - ۷ ارنو مبتداء میں یہ تقریر چھپ چکی ہے.، سے روایات غیر مطبوعہ جلد نا م ۲۳ تا ۲۳۰ - سه اخباره بدر ۲۷ جون نشید.

Page 221

۲۰۹ وقت پر ہوتا.طبیعت کی شگفتگی اور لطیفہ گوئی سے سب کو محظوظ فرماتے.کفایت شعاری آپ کی عادت تھی.ہمیشہ سادہ کھانا کھایا اور سادہ لباس پہنا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت سعید فطرت عطا کی تھی اور ہمیشہ یہی کوشش کرتے تھے کہ ہر ایک سے بھلائی ہو.اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت فرمایا کرتے تھے.آپ کی کوشش سے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے دو پرائمری سکول جاری ہو گئے.۱۹۲۷ء سے لیکر جب کہ آپ پہلی بار مجلس شوری کے ممبر منتخب ہوئے.سالہا سال تک آپ کو اپنے حلقہ کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا.صدر انجمن احمد یہ قادیان کی رپورٹ سالانہ ۱۹۳۲۳۵ ء سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ ضلع سیالکوٹ کے حلقہ خاناں والی میانوالی اور چندر کے منگولے میں انسپکٹر بیت المال کے اعزازی فرائض بھی سجا لاتے رہے.آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں سے تھے.اور موصی تھے.مگر اپنے گاؤں میں ہی امانتاً سپرد خاک کئے گئے لیے حضرت ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی (ولادت تیوری را انتقام میانه - جمعیت اپریل ان ال دی - وفات ۲۵/ اگست ۱۵ رو سلسلہ چشتیہ کے مشہور مشائخ اور گدی نشینوں میں حضرت شاہ فخرالدین دہلوی خاندانی حالات | رد ولادت 24 وفات 98 ) کے ممتاز مرید، خلیفہ مجاز اور F1616 1194 سجادہ نشین حضرت خواجہ حافظ وزیر محمد خاں شاہ محب اللہ صاحب بہت مشہور بزرگ گزرے ہیں جناب خواجہ حسن نظامی دہلوی نے اپنی کتاب " نظامی بنسری “ میں اور محمد عمر خانصاحب ساکن بستی عمر خان ضلع ہوشیار پور نے اپنی کتاب " یا د پیر کے صفح ۹۵۰۹۴ پر اور جناب پروفیسر خلیق احمد صاحب نظامی ایم اے استاد شعبہ تاریخ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے " تاریخ مشائخ چشتی" کے صفحہ ۵۲۹ پر ان کا له الفضل ار ستمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۵ مضمون محمد احمد کی صاحب له الفضل - استمبر ۹۵ مث.سے المفضل ۲۸ اگست وهشاهه الحکم ، در اپریل نشاء ملا.شم الفضل ۲۰ اگست ۱۹۵۵ ص۲ ته طبع اوّل او ناشر رسالہ " ارمغان دلی دی تی پرنٹنگ ورکس دہلی.مجھ کو ک ناشر ندوۃ المصنفین اردو بازار دہلی طبع اول مٹی شاء مطبوعہ اشو کہ پریس دہلی.

Page 222

۲۱۰ خصوصی تذکرہ کیا ہے.کراچی سے شائع شدہ " شجرہ شریف پیران نظام خاندان عالی چشتی نظامی نخورید کے مطابق حضرت شاہ صحبت اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند حضرت مولوی محمود الحسن خان صاحب کو اوائل میں ہی جہدئی دوراں وسیع الزمان کے دامن سے وابستگی کا شرف نصیب ہوا.چنانچہ قدیم رجسٹر بعیت میں آپ کی بعیت کا نمبر ۲۲۴ اور تاریخ بعیت 4 مٹی شار درج ہے.اور آپ کا پتہ اِن الفاظ میں دیا گیا." مولوی محمد حسن خان صاحب ولد وزیر محمد خان ساکن کھد بالی علاقہ دہلی حال مدرس موضع جھنا نوالی علاقہ پٹیالہ " واقعہ بیت حضرت مولوی محمد حسن خانصاب حضرت ماسٹر مر من صاحب آسان دعلوی محمد حسن ا د خلف الصدق حضرت مولانا محمود الحسن صاب) آپ کے واقعہ بیعت کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :- والد صاحب فرماتے تھے کہ اگر چہ مجھ کو ایام جوانی میں صوفیاء کے گروہ سے کوئی خاص عقیت حاصل نہ تھی لیکن اُن کے والد صاحب کو اس قدر عشق الہی تھا کہ ہر وقت و ہر لحظہ روتے رہتے تھے.یہ اسی عشق الہی کی برکت ہے کہ مجھ کو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے خدام میں شامل ہونے کا شرف نصیب ہوا.دور نہ جوانی میں نیچریانہ خیال رکھتا تھا.نماز روزے کی طرف کوئی رغبت نہ تھی، ایسی حالت میں بغیر ذاتی نیک اعمال کے کسی مخفی تصرف الہی کے ذریعہ صحابہ کی جماعت میں شامل ہو نا خدائے ذوالجوان آپ مشہور عالم دین مولوی محمد جعفر تھانیسری کے سمدھی تھے.آپ کی ایک بیٹی ہاجرہ خانم مولوی تھا نیری صاحب کے چھوٹے بیٹے مولوی محمد عثمان سے بیاہی ہوئی تھیں.اسی طرح مشہور مصنف اور نعت نویس مولوی سید احمد صات و پلوی (مولف فرہنگ آصفیہ) سے بھی آپ کی عزیز داری تھی.آپکے ایک بھتیجے ان کے نہایت قریبی عزیزوں میں بیا ہے ہوے تھے.نه مولوی سید اقبال علی صاحب قائم مقام سب جج اور اپنی کتاب " سید احمد خان کا سفر نامہ پنجاب کے صفحہ ۳۷۸ پر لکھتے ہیں." حضرت مولوی محمد حسن خانصاحب ایک بہت بڑے عالم اور فاضل بزرگ پٹیالہ کے ایک مدرسہ میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے تھے.باوجود مولوی ہونے کے نہایت روشن خیال شخص تھے.اُس وقت جبکہ مرستید پر ہر طرف سے کفر کے فتوؤں کی بھر مار ہو رہی تھی وہ سرسید کی تعلیمی تحریک کے نہایت مؤیہ اور حامی تھے.الم " (مطبوعہ شد، ابو علی گڑھ انسٹیٹیوٹ پریس).

Page 223

۲۱۱ کا خاص فضل و اکرام اور اس موسیبت الہی کے نزول کی وجہ صرف والد صاحب کا وہ عشق الہی ہی معلوم ہوتا ہے.ایک دفعہ والد صاحب اپنی سسرال میں والدہ صاحبہ کو پہنچانے پٹیالہ آئے نانا شیخ فخر الدین صاحب اس وقت مجسٹریٹ تھے.نانا صاحب نے براہین احمدیہ کا ایک نسخہ یہ کہہ کر دیا کہ مولوی صاحب! پنجاب میں ایک بزرگ دہریوں اور بالخصوص سرسید صاحب جیسوں کے سر کچلنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.والد صاحب نے بہت بے رعیتی سے کتاب لے لی لیکن جب چیلی فلم میں اشتہار دیکھا اور پڑھا، والد صاحب فرماتے تھے کہ میرا سانسی سینہ میں اچھلنے لگا.بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ واقعی یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور معلوم ہوتا ہے.والد صاحب کتاب کو ساتھ لے گئے.اور کئی دفعہ کتاب کو مطالعہ کیا.کچھ عرصہ بعد پھر پٹیالہ آئے اور نانا صاحب کو کتاب واپس کرنی چاہی لیکن نانا صاحب نے کہا کہ دنعوذ باللہ) شخص بے دین ہو گیا ہے کیونکہ قوت کا مدعی ہے.آپ اس کتاب کو آپ ہی رکھیں.اس وقت والد صاحب کے دا، میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہونے کا بیحد اشتیاق ہوا.خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اگر تیرے متقدرات میں قریب ہی میری موت مقدر ہے تو اپنے فضل سے اُس وقت تک زندہ رکھ کہ اس مہینہ کی تنخواہ ہل جائے.اور میں اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں تنخواہ ملنے پر آپ لدھیانہ روانہ ہو گئے اور خدمت اقدس میں باریابی حاصل کی.اس وقت دو چار احباب حاضر خدمت تھے جن میں ایک بزرگ حضرت پیر سراج الحق صاحب بھی تھے...وہاں آپ نے جبری اللہ فی حلل الانبیاء سیدنا حضرت بیرونی اتم محمد مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعیت میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدِدَ الِهِ وَ أَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ر ما را الشراء کو ایک ضروری اشتہار مطبع دیدیہ اقبال رتی لدھیانہ سے شائع فرمایا جس میں علمائے وقت کو اپنے عقائد کی حقانیت پر تحریری مباحثہ کی دعوت دی تھی.حضرت پیراج الحق صاحب نعمانی جمالی رانسوی سر سادگی کا بیان ہے کہ جب حضرت الحكم قادیان ۲۱ اکتو بر سایر مت (مضمون حضرت ماسٹر محمدحسین آستان ) ہے.مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیه السلام جلد اول ص ۲ تا ۲۰۳

Page 224

اقدس نے قیام لدھیانہ کے دوران یہ اشتہار دیا تو " میں سب کام چھوڑ کر لودھیا نہ حاضر ہوا تو مخالفت کا بہت زور تھا مولوی محمود الحسن خانصاحب احمدی بھی جو دہلی کے قرب وجوار کے رہنے والے اور پٹیالہ میں مدرس ہیں آئے ہوئے تھے بعض کیا کہ حضور اب ہم ہر میگہ اعلان کریں کہ جو عیسی علیہ السلام آنے والے تھے آگئے اور علی السلام بھی ساتھ میں لکھیں حضور نے فرمایا کہ بے شک یہی کہو اور علیا سلام بلکہ صلوۃ بھی کہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نام کے ساتھ صلوۃ کا لفظ فرمایا ہے.حضرت مولوی محمود الحسن خانصاحب کا نام حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اپنے مخلصین میں نہ صرف اپنی مشہور کتاب ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۸۳۲ پر بلکہ ضمیمہ انجام آتھم " ۳۱۳ اصحاب خاص کی فہرست میں ۳۰۱ نمبر پر درج فرمایا.کو کو حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب نے آپ کے اخلاص اور دیتی اور تبلیغی اخلاص و فدائیت عرش کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :- جوش "آپ سادہ مزاج مگر با وقار احمدی تھے باوجود دیکہ قلیل آمدنی رکھتے تھے مگر چندہ کی ادائیگی با قاعدہ کیا کرتے تھے.جب شراء میں میں سیکرٹری مال جماعت پٹیالہ بنا اور چندہ وغیرہ کی وصولی کا کام میرے سپرد ہوا تو میں نے آپ کا یہ نیک کردار دیکھا کہ جس روز آپ کو تنخواہ ملتی تو گھر جانے سے پہلے اکثر چند ادا کرتے تھے.اس ڈر سے کہ گھر جانے پر رقم خرچ نہ ہو جائے.اگر چہ ہماری جماعت پیٹیالہ کے پریذیڈنٹ حضرت مولوی عبید اللہ صاحب عربی پروفیسر تھے اور وہی نماز جمعہ پڑھایا کرتے تھے.لیکن میری دلی خواہش یہ ہوتی تھی کہ حضرت مولوی محمود الحسن صاحب پڑھائیں کیونکہ آپ کے خطبہ میں اخلاص اور جوش ایا جانا تھا، چنانچہ متعدد بار آپ کے پیچھے نماز جمعہ پڑھنے کا موقع ملا.آپ کا پُر جوش خطبہ صرف اور صرف اس مضمون مشتمل ہوتا تھا کہ نو جوانوں کو یورپ میں جا کہ تبلیغ اسلام کی تحریک کی جائے.المختصر سلسلہ کے حد درجہ خدائی اور جوشیلے بزرگ تھے.چونسٹھ برس کی عمر میں انتقال فرمایا سنور اور پٹیالہ کی جماعت تجہیز و تکفین میں شریک تھی.اسٹیشن پٹیالہ کے قریب قبرستان میں دفن ہوئے ہے ل تذكرة المهدی حقہ اوّل مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی مطبوعہ جون شاء - ه غیر مطبوعہ تحریر و کبر حضرت محمد حسن آسان کا بیان ہے ، مرتے وقت وصیت کی کہ حضرت با یزید بسطامی روز مرہ کے کپڑوں میں دفن ہوتے تھے مجھےبھی ایک جوڑا جو پہلے سے دھلا ہوا موجود تھا، پہنا کر ایک چادر میں لپیٹ دینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.المحکم ۱۲۰ اکتوبر ۹۳۷ مث )

Page 225

۲۱۳ حضرت اسر محمد نا رسانه ای و او را یار خلوص اور مارماریس می ارزه دہلوی کو تبلیغی جوش اور ایثار وخلوص اپنے والد ماجد سے ورثہ میں ملا تھا.چنانچہ آپ کے فرزند جناب مسعود احمد خان صاحب ہوتی ایڈیٹر روزنامہ الفضل تحریر فرماتے ہیں کہ :.یہی جوش اور قدمت اپنی دعاؤں نمونہ اور محنت کے ساتھ اپنی پوری اولاد میں منتقل کیا.د ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ.آپ کو بچپن میں ہی حضور علیہ السّلام کی مجلس میں شریک ہوتے اور حضور کے روح پرور ارشادات سُنتے اور انہیں ذہن نشین کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا.بچپن کے زمانہ میں میسر آنے والے فیض صحبت کا ہی اثر تھا کہ آپ میں دین کے لئے غیر معمولی جوش اور غیرت کا مادہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا.نہایت خوش گو اور قادر الکلام واقع ہوئے تھے.تبلیغ کا کوئی موقع آپ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.نہ صرف نمازیں نہایت التزام سے ادا کرتے بلکہ تہجد بھی باقاعدگی سے پڑھتے تھے.ان اوصاف کے علاوہ آپ کی جس نمایاں خصوصیت کا ذکر کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی کوشش کی، اور جب بھی پ کی زندگی میں ایسے مواقع پیدا ہوئے کہ جن میں دین اور دنیا ایک دوسرے کے مقابل ہو کہ باقاعدہ ایک معتین مسئلے کی صورت میں سامنے آئے ، آپ نے ہمیشہ دین کو ترجیح دی اور دنیاوی فائدے، شہرت یا ناموری کو اس طرح ٹھکرا دیا کہ گویا دین کے مقابلے میں ان کی پیر کاہ کے برابر بھی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہے.حضرت ماسٹر صاحب رضی اللہ عنہ ایک خوش بیان مقرر و مناظر ہی نہیں تھے بلکہ ایک جادو بیان داستان گو اور پایہ کے ادیب بھی تھے.جب کوئی دردناک قصہ بیان کرتے تو پتھر سے پتھر دل بھی موم ہو کر کھیل جاتے اور دردناک واقعات پر آنسو بہائے بغیرز رہتے.اُس پر حاضر دماغی اور بذلہ سنجی کا یہ عالم تھا کہ آپ کی لطیفہ گوئی پر مغل کشت زعفران بن جاتی.سامعین کو رمانا اور ہنسانا آپ کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا.جہانتک تحریہ کا تعلق ہے قلعہ معلی کی زبان لکھنے میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی.اول تو لکھتے ہی بہت کم تھے.اگر کبھی قلم اٹھاتے تو باغ و بہار کھلا دیتے.الفاظ موتیوں کی طرح پیڑے ہوئے دلی کی ٹکسالی زبان میں چھوٹے چھوٹے سادہ تھیلے اور اُس پر بات بات میں موقع اور محل کے مطابق محاوروں کا استعمال عبارت میں ایک عجیب رنگیتی

Page 226

۲۱۴ اور نظافت پیدا کر دیا.ایک صاحب کمال ادیب اور نامور داستان گو ہونے کے باوجود آپ نے اپنی ان ادبی صلاحیتوں کو کبھی اس قدر اُجاگر ہوتے نہیں دیا کہ وہ آپ کے دینی مشاغل اور بالخصوصی تربیت و تبلیغ کے فریضے میں حائل ہو سکیں.آپ کو یہ امر بھی گوارا نہ تھا کہ آپ اپنے حلقہ احباب میں ادیب کی حیثیت سے مشہور ہوں.آپ نے اپنی ادبی شہرت کو ایک مبلغ اور خادم دین کی حیثیت پر قربان کئے رکھا اور یہی کوشش کی کہ دنیا مجھے احمدیت کے ایک خادم اور مبلغ کی حیثیت سے جانے.نہ کہ ایک ادیب یا قصہ گو کی حیثیت سے.آپ نے ادبی صلاحیتوں کو اس طور پر استعمال کیا کہ وہ تبلیغ کے کام میں حمد ثابت ہو سکیں.یہی وجہ تھی کہ آپ از خود ادبی مجلسوں میں کبھی شریک نہیں ہوتے تھے.اگر کوئی قدردان ادیب مجبور کرکے لے بھی جاتا تو محض ایک آدھ دفعہ جا کر پھر اُس مجلس کا رخ نہ کرتے.بر خلاف اس کے اگر آپ یہ دیکھتے کہ ادیوں کی کسی محفل میں جانے سے تبلیغ کا راستہ گھلتا ہے تو پھر آپ ایسی محفل میں ضرور جاتے اور ادب میں اپنا سکہ منوانے اور وہاں اپنی استادان حیثیت تسلیم کرانے کے بعد رفتہ رفتہ پیغام حق پہنچانے کا راستہ اس درجہ ہموار کر دیتے کہ بال آخر دبی محفل مجلس مذاکرہ علمیہ میں تبدیل ہو جاتی اور بڑے بڑے نامور ادیب گھنٹوں آپ کی تبلیغی گفتگو کو اس محویت کے ساتھ سنتے چلے جاتے کہ گویا اس میں انہیں ایک سرور حاصل ہو رہا ہے.دہلی میں جامع مسجد کے قریب مٹیا محل کے علاقہ میں ایک مشہور رئیس نواب خواجہ عبد المجید صاحب رہتے تھے.اُن کے صاحبزاد خواجہ محمد شفیع دہلوی پایہ کے ادیب تھے.انہوں نے اردو مجلس کے نام سے ایک ادبی محفل قائم کی.اس کے اجلاس اُن کے مکان پر ہر مہفتہ منعقد ہوتے تھے.دہلی کے شعراء اور ادیب حضرات اُس میں بکثرت شریک ہوتے.حتی کہ خواجہ حسن نظامی صاحب مرحوم بھی اُس میں گاہے گا ہے تشریف لا کر اس کی سرسیتی فرماتے تھوڑے عرصہ میں ہی یہ ملیں اس قدر مشہور ہو گئی کہ بچے بچے کی زبان پر اس کا تذکرہ سننے میں حب ه خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے اپنے اخبار " منادی کے روز نامچوں میں بھی حضرت ماسٹر محمدیس تھا.آسان اور آپ کے بیٹیوں کا نہایت محبت بھرے الفاظ میں ذکر فرمایا روز نامچه مورخه ۱۱ ۱۳۱۸ ، ۱۴ اگست و یکم اکتو بر شیرو) اخبار منادی کے وہ فائل جن میں روز نامچے شائع ہوئے.پاکستان نیشنل سنٹر راولپنڈی فیروز سنتر بلڈنگ کی لائبریری کے ریفرنس سیکشن میں موجود ہیں.

Page 227

۲۱۵ آنے لگا.اور عرف عام میں یہ خواجہ شفیع کی مجلس کہلانے لگی بعرصہ سے یہ مجلس منعقد ہورہی تھی محترم ماسٹر صاحب نے اس کی طرف کبھی توجہ نہ دی.اگر کسی واقف کار ادیب نے اصرار بھی کیا تو بھی شرکت سے محتر نہ رہے.اتفاق ایسا ہوا کہ ۱۹۴۷ء میں یوم التبلیغ " کے موقع پر جماعت کا جو وفد جامع مسجد اور مٹیا محل کے علاقے میں بھیجا گیا.حضرت ماسٹر آسان صاحب کو اس کا امیر مقرر کیا گیا تھا.اس سے قبل کسی تبلیغی وفد کے ہمراہ آپ اس علاقہ میں نہ گئے تھے.بلکہ سالہا سال سے فیض بازارہ اور دریا گنج کا علاقہ آپ کے لئے مقرر کیا جاتا تھا.آپ وفد لے کر گئے اور علاقے کے شرفاء سے مل کر ان تک پیغام حق پہنچایا.اتفاق سے میں بھی اس وفد میں شامل تھا.جب نواب خواجہ عبدالمجید صاحب کے مکان کے آگے سے گزرے تو میں نے بتایا کہ یہاں خواجہ شفیع صاحب کی اردو مجلس منعقد ہوتی ہے.آپ نے فرما یا کہ چلو اُن کے والد خواجہ عبدالمجید صاحب سے بھی ملاقات کرتے جائیں.دروازے پر تو کر بیٹھا ہوا تھا.اس سے کہا.تو اب صاحب سے کہو چند لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں.نوکر واپس آیا اور کہا نواب صاحب نے آپ کو اوپر دیوان خانے میں طلب کیا ہے.ہم سب اور پر پہنچے ، نواب صاحب دیوان بہنے میں بیٹھے اپنے کسی دوست سے باتیں کر رہے تھے.ہمیں دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور بڑے تپاک سے ملے اور ہمیں صوفوں پر بیٹھنے کے لئے کہا.اس کے بعد ہم لوگوں سے مخاطب ہوئے اور کہا کہئیے آپ لوگ کس لئے تشریف لائے ہیں ؟.محترم ماسٹر صاحب نے فرمایا " ہم جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں.آج ہما را یوم التبلیغ ہے ، محترم ماسٹر صاحب نے اتنا ہی کہا تھا کہ نواب صاحب کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور انہوں نے نہایت درشت لہجے میں کہا ” میں آپ لوگوں کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوں.آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں " ماسٹر صاحب نے نہایت نرمی اور لطافت سے انہیں پھر مخاطب کرتے ہوئے فرمایا آپ ذرا توقف فرمائیں.صرف دو منٹ مجھے بولنے دیں اگر پھر بھی آپ سمجھیں کہ میرا بولنا آپ کے ذوق سماعت پر بار ہے، تو ہم لوگ فوراً یہاں سے پہلے جائیں گے.محترم ماسٹر صاحب کو یہ خیال تھا.کہ دومنٹ میں یکیں انہیں رام کریلوں گا.اور یہ مزید بات سُننے پر آمادہ ہو جائیں گے.مگر یہ سنتے ہی نواب صاحب کھڑے ہو گئے اور پان چہاتے ہوئے نہایت غضب ناک لہجے میں دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے.آپ فوراً میرا دیوان خانه خالی کر دیں اور میرا وقت ضائع نہ کریں.اُن کے کھڑے ہونے پر ہم لوگوں کو بھی کھڑا ہونا پڑا.اور ہم نواب صاحب کے مزید تحکم پر دیوان خانہ سے چپ چاپ باہر آگئے.نواب صاحب کے لہجے کی دورشتی

Page 228

۲۱۶ بڑھتی جارہی تھی محترم ماسٹر صاحب نے دیوان خانہ سے نکلتے ہوئے نہایت پر شوکت آواز میں فارسی کا ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ " دولت کے گھمنڈ میں حق سے منہ موڑ نا فرزانگی کے خلاف ہے.میل مالدار وہ ہے جو حق و صداقت کی دولت سے مالا مال ہے ؟ اس شعر کو سُنتے ہی نواب صاحب کا غصہ دھیما ہو گیا.اور انہوں نے مزید کوئی فقرہ اپنی زبان سے نہ نکالا.اور ہم لوگ وہاں سے چلے آئے.اس واقعہ کے بعد میں نے دیکھا کہ محترم ماسٹر صاحب نے اس بات کی شدید خواہش ظاہر کی.کہ وہ بھی اُردو مجلس میں شریک ہوں.ماسٹر صاحب کے ادیب دوست تو پہلے ہی وہاں جانے پر اصرار کر رہے تھے.آپ کے جو ایک دوست نے اصرارہ کیا، تو آپ فوراً چلنے پر آمادہ ہو گئے.لباس انتہا سے زیادہ سادہ ہوتا تھا.اس لئے اکثر لوگ تا وقتیکہ آپ گویا نہ ہوں ، خاطر میں نہیں لاتے تھے.چنانچہ خواجہ شفیع صاحب نے بھی اولی کوئی توجہ نہ دی.لیکن جب والد صاحب نے قلعہ معلی کی تد بان میں ایک کہانی پڑھ کر سنائی.تو ٹکسالی زبان اور اندازہ بیان پر ساری محفل پھڑک اُٹھی.اس قدر داد ملی جس کا شمار نہیں تعریف کرتے خواجہ شفیع صاحب کی زبان خشک ہو گئی محفل کے اختتام پر خواجہ صاحب نے بڑے اصرار سے درخواست کی کہ اگلے ہفتہ بھی ضرور تشریف لادیں.چنانچہ مجلس میں جانا شروع کر دیا جب بھی جاتے خود خواجہ شفیع اور تمام دوسرے ادیب سر آنکھوں پر بٹھاتے.اور بہت احترام کے ساتھ پیش آتے.رفتہ رفتہ لطیفہ گوئی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا.ایک مجلس میں اتفاق سے خواجہ حسن نظامی بھی تشریف لے آئے.ماسٹر صاحب نے لطیفہ بیان کیا.خواجہ صاحب لوٹ پوٹ ہو گئے.بہت داد ملی.اگلی مجلس میں پھر وہی لطیفہ بیان کرنے کی خواہش ظاہر کی.ماسٹر صاحب نے پھر لطیفہ بیان کیا.لیکن اور ہی انداز سے.خواجہ صاحب نے کہا آپ کے اور زیادہ مطف آیا.خواجہ صاحب ہر ٹیلیس میں وہی لطیفہ بیان کرنے کی فرمائش کرتے حتی کہ چھ سات دنفوسنا، اور کہا کہ اتنی دفتر شن پکا ہوں لیکن طبیعت سیر نہیں ہوئی.جی یہی چاہتا ہے کہ پھر ستوں.ان مجلسوں میں خواجہ حسن نظامی صاحب کی بعض تحریر کردہ کہانیاں ہی نہیں...ایک موقع پر خواجہ صاحب نے فرمایا میں ان کو بیس بائیس سال سے جانتا ہوں.لیکن قادیانی جماعت کے ایک مبلغ کی حیثیت سے بار بار یہ میرے پاس آئے ہیں اور ہمیشہ تبلیغ کرتے ہوئے بھی آئے ہیں انہوں نے یہ کبھی ظاہر ہوتے نہیں دیا.کہ یہ پایہ کے ادیب بھی ہیں.مجھے کیا معلوم تھا کہ بشخص گدڑی میں لعل ہے.اس کے بعد انہیں ” بلبل ہزارہ داستان " کا لقب دیا، اور بعد میں جب بھی یاد کرتے.اسی لقب سے یاد کرتے.اور اس طرح رفتہ رفتہ

Page 229

۴۱۷ خواجہ شفیع صاحب کو معلوم ہوگیا کہ ماسٹر آسان صاحب تو احمدی ہیں.لیکن جادو چل چکا تھا.اعزاز و اکرام میں فرق نہ آیا.ایک دن ماسٹر صاحب مجلس سے کچھ وقت قبل خواجہ شفیع صاحب کے پاس چلے گئے.وہاں باتوں ہی باتوں میں والد صاحب سے احمدیت کے بارے میں ذکرہ آگیا.کہ آپ احمدی کیسے ہو گئے.بس پھر کیا تھا.تبلیغی گفتگو چل نکلی.خواجہ صاحب غور سے سنتے رہے.اور بالآخر کہا کہ اتوار کے روز صبح تشریف لائیے.ہم بھی اپنے مولوی صاحب کو بلوا لیں گے پھر دو تین گھنٹے کھل کر گفتگو ہوگی.اب تک تو ہم سنی سنائی باتوں پر ہی تکیہ کئے بیٹھے ہیں.محترم ماسٹر صاحب تو تھے ہی اس موقع کی تاک میں چنانچہ اتوار کو جا پہنچے اور دس بجے صبح سے لیکر ایک بجے بعد دوپہر تک اُسی دیوان خانے میں کہ جہاں سے خواجہ شفیع صاحب کے والد نے انہیں نکالا تھا.خوب تبلیغ کی.اور مناظرہ کی طرح ہی نہ پڑی.اور ساری مجلس جس میں خواجہ شفیع صاحب نے چیدہ چیدہ حضرات کو بلایا ہوا تھا، محو حیرت محترم ماسٹر صاحب کی باتوں کو سنتی رہی.بعض حضرات سوالات بھی کرتے رہے.جس سے سلسلہ کلام طول پکڑتا گیا.محترم خواجہ عبدالمجید صاحب بھی اس وقت برابر والے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے.اس طرح آپ کو کھل کر تبلیغ کرنے کا موقع مل گیا.اُنسی روز جب آپ گھر واپس آئے تو بہت خوش تھے.اور کہتے تھے کہ آج اُس ذلت کی تلافی ہوئی ہے کہ جب نواب خواجہ عبدالمجید صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض غلاموں کو اپنے دیوان خانے سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا تھا.آج خدا نے اُسی دیوان خانہ میں تین گھنٹے تک تبلیغ کرنے کا موقع عطافرمایا ہے.یہ خدا ہی کا فضل ہے کہ اُس نے مجھ جیسے حقیر آدمی کے لئے یہ کچھ کر دکھایا.کہاں نواب صاحب احمدیت کے بارے میں ایک لفظ سُننے کے لئے تیار نہ تھے.اور کہاں آج اُسی دیوان خانہ کے درو دیوار تین گھنٹے تک احمدیت اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے اذکار متقدس سے گونجتے رہے ہیں.اس کے بعد مجلس میں جانا ترک کر دیا.اگر کسی نے اصرارہ بھی کیا تو اسے کہہ دیا کہ آب ہمیں وہاں جانے کی ضرورت نہیں.نہ ہمیں پہلے وہاں جانے کی فرصت تھی.ہم اگر گئے تھے تو ایک مقصد کے تحت گئے تھے وہ مقصد بفضلہ پورا ہو گیا ہے.آپ ہمارے واسطے اُردو مجلس کی وساطت کے بغیر ہی نواب صاحب کا دیوان خانہ تبلیغ احمدیت کے لئے کھلا ہے.ہم جب چاہیں وہاں جا کہ تبلیغ کہ سکتے ہیں.جب وہاں جانا نترک کر دیا تو خواجہ حسن نظامی صاحب اور خواجہ شفیع صاحب ایک مرتبہ بارہ دری خواجہ میر درد میں جہاں محترم ،ماسٹر صاحب رہتے تھے.فوراً اُن کے مکان پر آئے اور مجلس میں با قاعدگی سے آنے کی خواہش

Page 230

۲۱۸ ظاہر کی.اُن کے کہنے سے کبھی کبھار چلے جاتے تھے لیکن دلی ذوق کے ساتھ نہیں بعد میں وہاں جانا عملاً متروک ہو گیا.لیکن خواجہ شفیع صاحب نے بعد میں بھی احترام میں کمی نہیں کی.اور اکثر گھر پر آکر ملتے رہے حتی کہ پاکستان بننے کے بعد بھی شاء میں محترم ماسٹر صاحب کی علالت کی خیر شت کر نا ہوں میں گھر پر ملنے آئے اور بڑی دیر باتیں کرتے رہے.اسی طرح آپ نے ہندو کا کتھوں کے ستنتر کلب " اور دہلی کے مشہور ادارے ندوۃ المصنفین کے ساتھ جو مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی اور مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی و غیر ھم جیسے نامور علماء دیو بند پشتمل تھا.ایک ادیب کی حیثیت سے راہ و رسم پیدا کی.اور بعد میں وہاں تبلیغ کی ایسی طرح ڈالی کہ گھنٹوں بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری رہتا.اور آپ خود انہی کی لائبریریوں میں سے اُن کے مسلمہ قائدین کی کتب نکلوا کر انہی کے حوالوں سے انہیں جواب دیتے.یہ چند ایک واقعات مثال کے طور پر بیان کئے گئے ہیں.ورنہ آپ کی زندگی اس قسم کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جو اس بات پر گواہ ہیں کہ آپ نے ایک بلند پایہ ادیب ہونے کے باوجود ادبی شہرت کو ہرگز مطمع نظر نہ بنایا.اور اس میدان میں بھی دین کو دنیا پر مقدم رکھا.آپ زندگی بھر میں اپنی ادبی صلاحیتوں کو صرف اس حد تک ہی بروئے کارہ کائے ، کہ جس حد تک پیغام حق پہنچاتے میں اُن سے مدد ملتی ورنہ آپ محض قصہ گوئی یا افسانہ نویسی سے کوئی علاقہ رکھنے کے لئے تیار نہ تھے.یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی مخرب اخلاق قصہ آپ کی فلم سے نہ نکلا.جو تھوڑا بہت لکھا بھی لازمی طور پر اصلاحی اور سبق آموز رنگ میں ہی لکھا.آپ نے اپنے عمل سے احمدی ادیوں کے لئے ایک مثال قائم کر دکھائی کہ وہ ان صلاحیتوں کو کسی طور پر صحیح رنگ میں استعمال کرکے اس میدان میں بھی دین کو دنیا پر مقدم کر سکتے ہیں.فی زمانہ احمدی ادمیوں کے لئے اس میں ایک بہت بڑا سبق مضمر ہے کیونکہ ماضی میں جن احمدی نو جوانوں نے ادب میں ضرورت سے زیادہ شغف اختیار کیا.اُن کی ادبیت احمدیت پر غالب آگئی.اور شہرت کی خواہش نے ان کو راہ اعتدال پر قائم نہ رہنے دیا بلکہ اُن میں سے بعض تو ہمیں اب مخالفین کی صف میں نظر آتے ہیں.آپ کی یہ ایک بہت بڑی خوبی تھی کہ آپ صرف اور صرف احمدیت کو ہی اپنے لئے وجہ شہرت بنانا چاہتے تھے، اور کسی دنیوی امتیاز کو خواہ وہ دوسروں کی نگاہ میں کتنا ہی وقیع کیوں نہ ہو کوئی ہمیت دینے کے لئے تیار نہ تھے.خادم احمدیت ہونا آپ کے نزدیک دنیا میں سب سے بڑا اعزانہ تھا.باقی ہر اعزاز

Page 231

۲۱۹ اس قابل تھا کہ اُسے اس عظیم شرف" پر بلا توقف قربان کر دیا جائے.آپ کا ایک شعر جو اکثر وبیشتر آپ کی تربیتی تقریروں کا نقطہ مرکزی ہوتا تھا.وہ شعر یہ ہے اور اسی پر ہمیں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.کیا کم شرف ہے احمد مرسل کا ہوں غلام : آسان دنیا لاکھ کہے تم غریب ہو " جناب پروفیسر سعود احمد خان صاحب دہلوی نے آپ کی تبلیغی وادبی خدمات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے :.بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے دفتر کی تنخواہ کافی نہ تھی.اس لئے کئی کئی ٹیوشنیں روزانہ پڑھاتے چنانچہ اس سبب سے ماسٹر مشہور ہوگئے.اُن کی اس محنت نے اُن کو بوڑھا کر دیا.اور جیب اس محبت کے دنیوی پھل کھانے کا وقت آیا تو بچوں کو وقف کر دیا.اور ہم کو یہی تلقین کی.اُن کی خود اپنی زندگی احمدیت کی فدائیت میں گزری.اتوار چھٹی کا دن ہوتا ہے.اس کی صحیح تبلیغ میں گزارتے.اور پھر تین بجے کام پر چلے جاتے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ اس انہماک سے کیا تھا کہ عیسائیوں ، آریوں اور دہریوں کے عمیق مسائل پر نہایت دلیری سے مباحثہ کیا کرتے.لیکن کچھ بحث نہ تھے کبھی مناظرہ کا چیلنج نہ کیا.اور ضرورت پر ہمیشہ کوشش کی کہ مرکز سے کوئی بزرگ عالم تشریف لائیں اور کسی بزرگ کے نہ آنے پر کہا کرتے اچھا جہاں اور روپ نہ سہی ارنڈ روپ سہی" یعنی جیسے صحرا میں کسی کو اور درخت نہ ملے اور پپیتہ کے درخت کے چار پانچ پتوں کا ہی سایہ میسر آجائے تو قیمت ہے.اسی طرح اگر کوئی عالم نہ سہی.تو پھر خود مناظرہ کیا کرتے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیاب مناظرے کئے اور کبھی کوئی مناظرہ فساد یا لڑائی پر ختم نہ ہوا.دوسرے مذاہب کے زیر دست مناظرین بھی والد صاحب کی قوت استدلال کے قائل تھے.اور آپ کی عزت کیا کرتے تھے.عیسائیوں میں پادری جوالا سنگھ ، پادری سلطان پال - پادری عبدالحق.پادری احمد سیح اور آریوں میں جہاشہ دھرم بھکشو مہاشہ رام چندر اور دتی کے غیر احمدی علماء سے معرکۃ الآرا اور کامیاب مناظرے ہوئے.مجھے یاد ہے میں تعلیمی زمانہ میں ایک دقعہ مفتی کفایت اللہ صاحب کے پاس گیا.اور ختم نبوت پر ان سے استغفار کئے ، وہ جواب دیتے رہے ہیں نے مزید سوال کئے.آخر وہ کچھ سمجھ گئے.قطع کلام کر کے کہا کہ تم کون ہو کس کے بیٹے ہو.نہیں نے کہا آسان صاحب کا.کہنے لگے میں تم سے بات نہیں کرتا.وہ بڑے زبر دست مناظر ہیں.پھر انہوں نے میرے والد صاحب کا عزت سے ذکر کیا.

Page 232

دہلی کے ستنتر کلب میں جس کے تمام ممبر اعلی تعلیم یافتہ اور نئی روشنی کے دلدادہ تھے.اور دہریت کے زیر اثر تھے.مہینوں ہر اتوار خدا کی بستی پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا.کلب کے تمام ممبر ایک طرف اور والد صاحب دوسری طرف اکیلے تھے.آخر ان کا سالانہ جلسہ آیا.سیکرٹری نے رپورٹ میں صاف اقرار کیا کہ خدا کی ہستی کے انکار پر اب اُن کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہی تھی.ہر موضوع پر فی البدیہ تقریر کر لیا کرتے تھے.سکولوں اور کالجوں کے لئے ہم بھائی کسی ڈی بیٹ کے لئے مواد مانگتے تو موافق اور مخالف دلائل اس طرح بتاتے کہ حیرت ہوتی.اور ہمارے سکول اور کالج کے اساتذہ جو ایم اے سابق ہوا کرتے حیران رہ جاتے کہ یہ بھائی کس طرح اپنی تقاریر دوسرے لڑکوں سے پہلے تیار کر لیتے ہیں...مجھے یاد ہے کہ جب برادرم مکرم جناب مولود احمد خانصاحب بی اے امام مسجد لنڈن اور یہ عاجینہ پانی بہت سے معینہ اور فی البدیہ مقابلوں میں انعامات جیت کر اور ریکارڈ توڑ کر گئے.تو سکول کے سیکنڈ ما سٹر استاذی المکرم جناب محمد ہاشم خان صاحب ایم اے بی ٹی نے جو کہ غیر احمدی ہیں.تمام اسکول کے سامنے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے کہا " یہ دونوں بھائی اس باپ کے بیٹے ہیں جو نہایت قادر الکلام مقرر ہے.اور اُن کے باپ کے اس فن کو جماعت احمدیہ نے چار چاند لگا دیئے ہیں! جس طرح وہ بولنے پر قادر تھے.اسی طرح وہ تحریر کے بھی دھنی تھے.خاص دتی کی ٹکسالی زبان ہیں لکھا کرتے تھے.اُن کے افسانے اور کہانیاں اور ڈرامے آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہوئے.افسانے اور کہانیاں انہوں نے خود بھی ریڈیو پر براڈ کاسٹ کیں.لیکن اُن کی ہر تحریر میں احمدیت کا نہاگ جھلکتا تھا.افسانوں میں بھی پاکیزہ خیالات کا اظہار کرتے تھے اور مضامین میں تو بعض اوقات خالص تبلیغی ہو جاتے خواجہ محمد شفیع دہلوی کی مجلس میں ایک وقعہ بہائی مقررہ مسنر فوجدار نے بہائی تحریک کی تاریخ پر فخریہ کی.خواجہ حسن نظامی اور سر رضا علی بھی شامل تھے بستر فوجدار نے دوران تقریر کہا کہ قرآن کا اثر زائل ہو گیا.اس لئے نئی تشریعیت کی ضرورت ہے تقریر کے بعد دوسرے حاضرین بہائیت سے متعلق احکام پوچھتے رہے کہ نمانہ میں کتنی ہیں.روزے کتنے وغیرہ وغیرہ.والد صاحب کو غصہ آیا کہ ہمارے اسلام پر اعتراض ہوا ہے اور کوئی نہیں جو اُس کا جواب دے لایعنی باتیں پوچھ رہے ہیں.آخر والد صاحب نے وقت مانگا.اور اس اعتراض کا جواب دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا نام لے کہ نیا یا کہ کس طرح قرآن کا اثر آج تک قائم ہے اور خدائی نشان آج بھی اسلام کے ذریعہ ظاہر ہوتے ہیں تمہید میں والد صاحب نے بتایا کہ یہ اثر ہرزمان

Page 233

٢٢١ میں کام کر تا رہا.اور کوئی زمانہ خالی نہیں رہا.جبکہ اس کے دعوے دار نہ ہوں.مثال کے طور پر ائمہ سلف اور صوفیاء کیار کے حوالے پیش کئے.جیسے حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا.دمبدم روح القدس اند مینے مے وید: من نے گولیم مگر عیبی ثانی نشدم اس پہ خواجہ حسن نظامی صاحب مرحوم بھی داد دینے لگے.چونکہ اُن کے پیرو مرشد کا بھی ذکر ہو گیا تھا.والد صاحب کی تقریر کے بعد انہوں نے کہا کہ بہائیوں کو اس کا جواب دینا چاہئے.اگر اُن کے پاس صداقت ہے.ورنہ قرآن اور اسلام کا اثر زائل نہیں ہوا.تعلق باللہ کا دعوی کرنے والے اسلام میں موجود ہیں بستر و مدار بڑی سراسیمہ ہو ئیں.اور کہنے لگیں نہیں مناظر نہیں.البتہ ہمارے عالم محفوظ الحق صاحب علمی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں.والد صاحب نے اُسی وقت للکارا ہمی میدان، و سمی چوگان و ہمی گوئے محفوظ الحق صاحب علمی بولے کہ ہم تو تحریک بہائیت کی تاریخ بیان کرنے آئے تھے مناظرے کے لئے نہیں.والد صاحب نے کہا، تو پھر اسلام اور قرآن پر کیوں حملہ کیا تھا.تاریخ بہائیت تک ہی نفر یرہ کو محدود رکھا جاتا.اسلام پر حملہ کرو گے تو جواب بھی شنا پڑے گا.....اپنی نظموں میں احمدی عقائد نہایت سادگی کے ساتھ بیان کہ جاتے تھے مشکلاً :- مکان فلک کو میں سمجھے مکین میلے کو مکین کا رہنا کجا وہ مکان مکاں ہی نہیں ہے آج کون تم میں جو جرات سے یہ کہے : اسلام زندہ ہوتا ہے میٹی کی موت سے تغزل کے اندازہ میں کہا : جس پہ ہم شیدا ہوئے ہیں وہ تو دلبر اوہ ہے : جس کے ہم مارے جو ہیں وہ تمگر اور ہے تیغ آب بے کار تیری ہوگئی آئے مولوی ہے جس سے کٹتا گھر ہے اب وہ تو خنجر اور ہے ایک غیر احدی شاعر نے دلی میں احمدیت کے خلاف ایک نظم شائع کی.اُس کا جواب طویل مستدکس میں دیا.اُس کے کل ۴۸ بند تھے.اور ٹیپ کا بند تھا در کے سینے قادیاں جان و دلم به تو ندا : تو نے پھر اسلام کو دُنیا میں زندہ کر دیا تمام نظم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی اور آپ کے نشانات کو بڑے زور کے ساتھ پیش کیا.اور مخالفین کی ہر رنگ میں ہزیمت کی مثالیں نظم کیں.اور پھر اس کو اپنے خرچ پر کتابی صورت میں شائع کیا.اُن کو اپنے اشعار، افسانے اور مضامین جمع کرنے کا شوق نہ تھا.بڑی مشکل سے برادر معظم جناب

Page 234

۲۲۲ " مسعود احمد صاحب بی اے واقف زندگی نے کچھ کلام اور مضامین تجمع کئے لیکن وہ شاہد کے ہنگامہ کی نذر ہوئے.جو بیچا وہ اس وقت ہزاروں میل دور میرے پاس نہیں.ورنہ بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ساتھ آپ کا عشق مندرجہ ذیل اشعار سے ظاہر ہوتا ہے:.شرف ہے سر کو میرے بھی مسیح کی چوکھٹ کا اکیلا ایک تو اے سنگ آستاں ہی نہیں ہیں آستان مبارک کے ان گنت خادم اکیلا دتی کا آسان خستہ جاں ہی نہیں کیا کم شرف ہے احمد مرسل کا ہوں غلام : آسان لاکھ دنیا کہے تم غریب ہو حضرت ماسٹر محمد من صاحب آسان نه صرف نظام الوصیت سے وابستگی کا شرف رکھتے تھے.بلکہ نہیں ہونے سے بحیثیت نمائندہ دہلی مجلس مشاورت میں سال ہا سال تک شمولیت کی سعادت بھی نصیب ہوئی حضرت مصلح موعود یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو دہلی تشریف لے گئے.14 مارچ ۱۹۳۶ء کو رتال کٹورہ پارک میں جماعت دہلی و شملہ کی ایک مشترکہ تقریب میں حضور نے تقریہ بھی فرمائی اور حضور کی بابرکت معیت میں دہلی اور شملہ کے مخلص احمدیوں کا فوٹو بھی لیا گیا.جس میں آپ بھی شامل تھے.یہ تاریخی فوٹو تاریخ احمدیت جلد مفتم صفحه ۲۵ پر شائع شدہ ہے.۱۹۲۳ حضرت آستان دہلوی صاحب ء میں دہلی سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے تھے اور لاہور میں مقیم تھے مگر اپنی وفات سے پانچ ماہ قبل اپنے بڑے بیٹے میاں محمود احمد خانصاحب نائب امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی کے پاس آئے ہوئے تھے اور یہیں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا.۲۰ اگست ۱۹۵۵ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمس نے نماز جمعہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ موصیوں کے قبرستان میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قطعہ میں سپرد خاک کئے گئے اور دیگر بزرگان سلسلہ و احباب کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب امیر مقامی اور مولانا جلال الدین صاحب شمس نے جنازے کو کندھا دیا اور قبر تیار ہونے پر اجتماعی دعا میں شریک ہوئے.دُعا حضرت صاحبزاد مرزا ناصراحمد صاحب نے کرائی.آپ کے وصال پر جماعت کے مختلف حلقوں میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء ص۳

Page 235

۲۲۳ حضرت مصلح موعود کے خطبہ بہ میں ذکر سیدنا حضرت علی موعود اُن دنوں یورپ میں تشریف فرما تھے.یورپ سے واپسی پر حضور نے ۲۳ ستمبر 2ء کو کراچی میں خطبہ جمعہ کے دوران آپ کا ذکر نہایت شاندار الفاظ میں کیا.اور آپ کے اس جذبہ کو کہ آپ نے اپنے بیٹوں کو خدمت دین کے لئے وقف کیا، بہت سراہا اور اس پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا :- یکی نے جب وقف کی تحریک کی تو گو سینکڑوں مالدار ہماری جماعت میں موجو دتھے.مگران کو یہ توفیق نہ ملی کہ وہ اپنی اولاد کو خدمت دین کے لئے وقف کریں لیکن ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے اپنے چار لڑکے اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دیے جن میں دو بیٹے ان کی وفات کے وقت پاکستان سے باہر تھے.ان میں سے ایک ویسٹ افریقہ میں وائس پرنسپل ہے اور ایک لندن منش کا انچارج اور انگلستان میں ہمارا مبلغ ہے.ان کے سات بچے تھے اور وہ غریب آدمی تھے.انہوں نے اپنے خرچ پر انہیں گریجوایٹ کرایا اور پھر سات میں سے چارہ کو وقف کر دیا.ان میں سے ایک لفضل کا ایڈیٹر ہے.ایک لنڈن مشن کا انچارج ہے.ایک ویسٹ افریقہ میں وائس پرنسپل ہے.اور ایک کہ اچی میں تحریک جدید کی تجارت کا انچارج ہے.ان سارے لڑکوں کو انہوں نے بی.اے یا ایم اے اپنے خرچ پر کرایا.سلسلہ سے انہوں نے کوئی رقم نہیں لی.انہیں یہ کبھی خیال نہ آیا کہ ہمیں ایک غریب آدمی ہوں.اگر میرے بیٹے پڑھ کر اعلی ملازمتیں حاصل کر لیں تو ہمارے خاندان کا نام روشن ہو جائے گا.انہوں نے روشنی صرف اسلام میں دیکھی اور اپنے لڑکوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا.عرض ہماری جماعت میں ایسی مثالیں تو موجود ہیں جو جماعت کی عزت کو قائم رکھنے والی ہیں.لیکن اب یہ حالت ہے کہ سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کے اور یا پھر میری اولاد کے اور کسی جگہ سے ہمیں واقف زندگی نہیں مل رہے کبھی کبھی تو جب میں اس حالت کو دیکھتا ہوں اور مجھے ڈر آتا ہے.کہ کہیں میری اولاد بھی کسی وقت دوسروں کو دیکھے کہ دین کی خدمت سے منہ نہ پھیرے.تو میرے دل میں جوش آتا ہے کہ میں اللہ تعالٰی سے دعا کروں کہ الہی مجھے صرف ایسی اولاد کی ضرورت ہے جو تیرے دین کی خدمت گذار ہو.تو مجھے ایسا دن نہ دکھا ئیو کہ تیرے دین کو قربانی کی ضرورت ہو اور میرے بیٹے اس کے لئے تیار نہ ہوں اور اگر کوئی ایسا دن آنے والا ہو تو تو بڑی خوشی سے

Page 236

۲۲۴ مجھے بے اولاد کر دے کیونکہ میرا نام تو نے روشن کرتا ہے میری اولاد نے نہیں نہیں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میری ساری اولاد دین کی خدمت کرنے والی ہو.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا نہ تھا.مگر کیا دنیا میں کوئی شخص ہے جو آپ کا نام معزت سے نہیں بنتا.آپ کا خدا سے تعلق ہو گیا اور خدا نے آپ کے نام کو ابدی طور پر زندہ کر دیا.پس جس کا خدا سے تعلق ہو جائے اسے ڈر ہی کس بات کا ہو سکتا ہے.حضرت مسیح ناصرتی کو دیکھ لو، آپ کی کوئی جسمانی اولاد نہ تھی جو آپ کے نام کو زندہ رکھتی.مگر آج ساری دنیا کے عیسائی کو اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے انہیں خدائی کا رتبہ دیتے ہیں.مگر وہ آپ پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.وہ کام خود اچھا کرتے ہیں مگر ہر اچھا کام کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ کہ سچن سو بازیشن ہے.چونکہ ان کی قوم میں رحم کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے.اس لئے اگر وہ کسی موقع پر رحم سے کام لیتے ہیں تو ساتھ ہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ که سچن سوئزیشن ہے.برسی کی تعلیم کا نتیجہ ہے.اگر میت کے اپنے بیٹے ہوتے تو کیا بن جاتا.اور ان کا نام کتنے عرصہ تک باقی رہنا.لیکن چونکہ انہوں نے اپنی زندگی خدا تعالے کے لئے وقف کر دی.اس لئے خدا تعالے نے ان کو وہ عظمت دی کہ آج سارا یورپ اور امریکہ ان کی عزت کر رہا ہے.بلکہ یورپ کے ایک چھوٹے سے چھوٹے ملک کے عیسائی جس طرح حضرت میں کو یاد رکھتے ہیں.اگر ان کے اپنے بیٹے بھی موجود ہوتے تو اس طرح اُن کو یاد نہیں رکھ سکتے تھے.اسی طرح نہیں سمجھتا ہوں ماسٹر محمد حسن صاحب آستان نے بھی ایسا نمونہ دکھا یا ہے جو قابل تعریف ہے.وہ ایک معمولی مدرس تھے.اور غریب آدمی تھے.انہوں نے فاقے کر کر کے اپنی اولاد کو پڑھایا اور اسے گریجوایٹ کرایا.اور پھر سات لڑکوں میں سے چارہ کو سلسلہ کے سپرد کر دیا.آپ وہ چاروں خدمت دین کر رہے ہیں اور قریباً سارے ہی ایسے اخلاص سے خدمت کر رہے ہیں جو وقف کا حق ہوتا ہے.اگر یہ بچے وقف نہ ہوتے تو ساتوں مل کر شاید دس بیس سال تک اپنے باپ کا نام روشن رکھتے اور کہتے کہ ہمارے ابا جان بڑے اچھے آدمی تھے مگر جب میرا یہ خطبہ چھپے گا تو لاکھوں احمدی محمد حسن صاحب آسان کا نام لے کہ ان کی تعریف کریں گے اور کہیں گے کہ دیکھو یہ کیسا با ہمت احمدی تھا کہ اُس نے غریب ہوتے ہوئے اپنے سات بچوں کو اعلی تعلیم دلائی.اور پھر ان میں سے چار کو سلسلہ کے سپرد کر دیا.اور پھر وہ بیچتے بھی ایسے نیک ثابت ہوئے کہ انہوں نے خوشی سے اپنے باپ کی قربانی کو قبول کیا اور اپنی طرف سے بھی ان کے

Page 237

فیصلہ پر صاد که دریایی ۲۲۵ ) قمرالانبیاء حضر بشیر عمران دوسرے بزرگان او مخلصین بلبل کے تاثرات نے آپ کی وفات پر سب ریلی متر وٹ سپرد قلم فرمایا :- آسان صاحب مرحوم کو میں ایک عرصہ سے جانتا تھا.نہایت مخلص اور زندہ دل بزرگی تھے اور مجلس میں گفتگو کا خاص دلکش انداز رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کی حاضر جوابی کے سامنے اکثر ذو علم اصحاب کو بھی لا جواب ہونا پڑتا تھا.شگفتہ مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت نیک اور سلسلہ احمدیہ کے لئے خاص اخلاص اور قربانی کا جذبہ رکھتے تھے.ان کے بہت سے بچے اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے وقف ہیں جو انشاء اللہ ان کے لئے قیامت کے دن ایک تاج بن کمہ زرنیت کا موجب ہوں گے.اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل اور رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کی اولاد کا دین ودنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین.آسان صاحب مرحوم ہمارے خاندان کے بھی بہت سے بچوں کے استاد تھے.جن میں میری چھوٹی لڑکی امتر اللطیف سلمہا بھی شامل تھتی ہیں (۲) حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے آپ کی وفات کی خبر سپر کلب روڈ یہ کوہاٹ سے ۱۵ ستمبر ۱۹۵۵ء کو حسب ذیل تعزیتی خط تحریر فرمایا ہے جناب ماسٹر صاحب مرحوم کی وفات کی خبر سے دل کو قلق ہوا.....میری لڑکی آصفہ (سیگیم مرزا مبشر احمد ) کو حسین ہمدردی اور محبت و پیار سے انہوں نے پڑھایا ان کا وہ سلوک میرے پیش نظر اور دل پر نقش ہے.آصفہ کو ان کی وفات کا بہت صدمہ ہوا ہے.بہت نیک نیت اور نیک طبع مسہتی تھی.خدا تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی نسلوں کو ان کے لئے ذکر خیرا در زیادہ سے زیادہ بلندی درجات کا موجب بناتا رہے.اللہ تعالیٰ ان پر بڑھتی ہوئی رحمت کا سایہ رکھے اور ان کے پسماندگان کا خدا حافظ و ناصر ہو.انا للہ وانا الیہ راجعون (مبارکه) ۱۵ ستمبر او با.له الفضل ۲۲ اکتوبر شاه ۴ - الفضل ٣ ستمبر ۱۹۵۵ء م٣ م له سے یہ مکتوب آپ نے مکرم سعود احمد صاحب دہلوی کے نم تیم فرمایا تھا کے الفضل ۲۴ ستمبر شاه ما

Page 238

۴۲۶ (۳) - حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا :." ماسٹر اس آن صاحب رضی اللہ تعالی عنہ سے میرے بھی تعلقات تھے.وہ مجھ سے محبت رکھتے اور ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملا کرتے.ان کے کلام میں شگفتگی اور عجیب طاحت تھی.جب مجھے مرکز سے عزیز مکرم مولوی محمد نذیر صاحب قریشی ملتانی کی معیت میں ایک وفد کی صورت میں تبلیغی خدمات کے لئے دہلی بھیجا گیا اور کہیں نے ایک عربی رسالہ مع دو عربی نظموں کے لکھ کر شائع کیا تو جناب ماسٹر آسان صاحب ان تبلیغی مہمات میں اور رسائل و اشتہارات کی اشاعت کے کام میں بہت ہی محمد محاولت ثابت ہوئے اور انہیں ویسے بھی تبلیغ کا بے حد شغف تھا.غالبا ان کا اکثر وقت اپنی مشاغل میں گذرتا کہ کہیں احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہیں.اور کہیں مخالفین اور معترضین کے اعتراضات کے جواب دینے میں مصروف ہیں.اللهم اغفر له وارحمه - رقعه الله في الجنّات العلية الرفيعة و حفظ اولاده وبارك فيهم وعليهم ببركاته البديعة.أمين.خاکسار غلام رسول را جیکی ربوده (۴) حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے اپنے مکتوب میں لکھا :.موصوف مجھ سے جب میں قادیان میں تھا بہت محبت رکھتے.جلسہ سالانہ پر نہایت پرسوز لہجے میں جذبات انگیز نظم پڑھتے تو سامعین پر ایک کیف طاری ہو جاتا.ایک دفعہ تو ہجوم جذبہ شوق سے خود غش کھا کر گر پڑے.مسجد اقصی سے آتے ہوئے راستہ میں ملے تو..میں نے سر پر پگڑی دیکھی کہ ان کی نزاکت طبع کا ایک قصہ یاد دلاتے ہوئے پوچھا یہ کیا ؟ کہنے لگے بھٹی ہر ملکے در سے اب تو ہم پنجابی، ہمارے گرد و آقا بھی پنجابی ما قبلہ راست کردیم آنسوے کھلا ہے.قادیان میں اپنے بیٹیوں کو ساتھ لے کر میرے مکان پر آئے اور ایک ایک کا تعارف کراتے ہوئے ان سب کے لئے حسنات دین ودنیا کی دُعا کرنے کے لئے التجا کی ہے." (۵) محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحبه - ری شعبہ سائیکالوجی کراچی یونیورسٹی نے اپنے مکتوب میں نظریہ کیا :- • له الفضل ۲۴ ستمبر ١٩٥٥ ء ص - له الفضل ۲۴ ستمبر ۵۵ مث

Page 239

۲۲۷ میں مرحوم ماسٹر صاحب کو قادیان کی مجلس مشاورت میں دور سے دیکھا کرتا تھا.آپ کی میٹھی زبان اور نکتہ رس تقریریں شنکر دل میں خواہش پیدا ہوا کرتی کہ ان کو قریب سے دیکھوں اور ان کی باتیں سنوں.اس کے بعد مجھے علی گڑھ اور دہلی جانے کا اتفاق ہونے لگا.ایک دفعہ ماسٹر صاحب نے خود ہی مجھے دعوت دے کر اپنے پاس بلوایا.اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا.شائد ہی مجھے دہلی جانے کا اتفاق ہوا ہو اور انہیں اس کا علم ہو گیا ہو اور پھر انہوں نے مجھے اپنے ہاں دعوت نہ دی ہو.میرے لئے یہ مجالس از یا دعلم اور از یاد ایمان کا باعث ہونے کے علاوہ نہایت درجہ دلچسپ اور لذیذ ہوتیں.آپ کی عام گفتگو میں ایسی بے ساختہ ادبی خو بیاں ہوتیں کہ جی چاہتا کہ اسے لکھ لیا جائے.کہیں نے ان کے کئی مختصر افسانے ان کی اپنی زبان سے گنے نہیں نے علی گڑھ کے زمانے میں دہلی کے مشہور داستان گو سے (حین کا نام اب مجھے یاد نہیں ) داستانیں سنی ہیں.یہ لوگ ایک شاندار ماضی کی یادگار تھے.ماسٹر صاحب مرحوم میرے علم میں اس ادبی دور کی آخری شمع تھے.میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں ماسٹر صاحب مرحوم کی مجلس میں شامل ہو کر ان کے علم وفن سے محظوظ ہوتا رہا ہوں.آپ کی ملاقات کا حلقہ وسیع تھا تقسیم ملک کے بعد بھی آپ نے اپنے دوستانہ تعلقات قائم رکھے اور اپنی خاص مجالس کا سلسلہ جاری رکھا.سلسلہ احمدیہ اور سلسلہ کی شخصیتوں سے جو محبت اور عقیدت تھی.اس میں ایک کمال درجے کی سادگی تھی.اس کے اظہار کے لئے کسی تحریک کے منتظر نہ رہتے.بلکہ جب بھی سلسلہ کلام شروع ہوتا تو یہ محبت آپ ہی اُبل پڑتی ہی (4) مکرم نسیم سیفی صاحب رئيس التبلیغ لیگوسی (نائیجیریا) نے اپنے مکتوب میں لکھا ہے مجھے حضرت ماسٹر صاحب کو کسی قدر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا.جماعت میں بھی اور جانت کے علاوہ بعض دیگر تقاریب میں بھی.مجھے ان کے قریب بیٹھ کر ان کی مخصوص انداز میں گفتگو سننے کا بھی موقع ملا اور ان کے دلچسپ مناظرے سننے کا بھی ، نہیں نے ان کو جماعتی کاموں میں منہمک بھی دیکھا اور انفرادی طور پر لوگوں کی مدد کرتے ہوئے بھی دیکھا، کہیں نے ان کے مذہبی مضامین بھی پڑھے اور ان کی زبان سے خواجہ محمد شفیع صاحب دہلوی کی مجالس میں ان کے ادبی مقالے بھی سنے.اس قرب اور عقیدت له الفضل ۲۴ ستمبر هر سه حال وکیل التصنیف تحریک جدید ربوده..

Page 240

۲۲۸ نے میرے غم کو زیادہ گہرا کر دیا ہے.اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مرحوم کو اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے اور ہم سب کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے.آمین.دے ).پاکستان ریڈ کو اس کے سیکرٹری جنرل محترم صفدر علی خانصاحب نے اپنے مکتوب میں لکھا :." مرحوم کا وہ پر خوش زمانہ جو دہلی میں ہم نے دیکھا تھا.آنکھوں کے سامنے پھر گیا.وہ نمازوں کا با جماعت اہتمام ، پھر فجر کی نماز کے بعد درس قرآن مجید جو مرقوم اپنے گھر میں ہی ہم لوگوں کو دیا کرتے تھے.ہر اتوار کو بلاناغہ سائیکلوں پر صبح سے شام تک دہلی کے ملحقہ دیہات میں تبلیغ ، خدام الاحمدیہ کے اجلاسوں میں ان کی یادگار تقریریں.یہ سب اور اسی قسم کے دیگر بے شمار دینی مشاغل جن میں مرحوم مستغرق رہا کرتے تھے.ایک ایک کر کے آنکھوں کے سامنے پھر رہے ہیں.مجھ سے مرحوم خاص شفقت سے بلا کرتے تھے.جب خاکسار جاپان میں تھا تو ایک فوجی افسر جو میرے دوست تھے رخصت پر ہندوستان جانے لگے مجھ سے گھر والوں کے لئے کوئی پیغام وغیرہ پوچھا.میں نے جواب دیا.گھر میں توسب خیریت ہے.البتہ اگر دہلی جاؤ تو میرے ایک محترم بزرگ وہاں رہتے ہیں ، ماسٹر محمد حسن صاحب آسان ان کا نام ہے.ان کو میرا سلام پہنچا دینا چنانچہ وہ دہلی گئے میرا سلام ماسٹر صاحب مرحوم کو پہنچایا.جب واپس جاپان آئے تو کہنے لگے کہ اپنی مخصوص صفات اور نہ ہی جذبہ کے لحاظ سے ماسٹر صاحب منفرد انسان ہیں.غرضیکہ مرحوم جس سے بھی ایک دفعہ ملنے اپنے مخصوص انداز میں اس پر بہت گہرا اثر ڈالتے.مجھے ان کی وفات پر بے حد صدمہ ہوا ہے.اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے کیے.تے حضرت آسان دہلوی کی اولاد کی تفصیل یہ ہے :- اولاد ! ر اولاد پہلی اہلیہ امتر المغنی شمیم صاحبہ ).ا.- سائرہ خاتون ۲ - مریم خاتون - محمود احمد خانصاحب مرحوم سابق نائب امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی و زعیم اعلیٰ محیی انصار الله کے الفضل ۲۴ ستمبر ۹۵ ومن ايضا.اوه

Page 241

۲۲۹ راولپنڈی و امیر جماعت احمدیہ پیشاور.مسعود احمد خانصاحب دہلو کی ربوہ حال ایڈیٹر الفضل" سابق مدیر رسالہ " انصار الله" ۵- مقصود احمد خانصاحب مرحوم امیر جماعت احمد یه کتری ضلع تھر پار کم.مولود احمد خانصاحب سابق مبلغ انگلستان و امام مسجد احمد یہ لنڈن ، سعود احمد خانصاحب ایم اے سابق ٹیچر احمدیہ سیکنڈری سکول کماسی غانا مغربی افریقہ - حال پروفیسر تعلیم الاسلام کا لج یہ توہ.- صالحہ خاتون صاحب الیه مریم مختار احمر صاحبان بالیو تنذیر احمد صاحب مرحوم سابق امیر امت محمدیہ دبلی - مرغوب احمد خالصاحب حال لنڈن.۱۰ محبوب احمد خانصاحب اسسٹنٹ انجنیر پی.ڈبلیو ڈی سینٹر - ۱۱ - ناصرہ خاتون صاحبه.(اولاد دوسری اہلیہ جمیدہ بیگم صاحبه ).۱۲ - صادقہ خاتون صاحبه.۱۳ - مشہود احمد خانصاحب راولپنڈی.۱۴.داؤد احمد خانصاحب واہ کینٹ.۱۵.حقصه خاتون صاحبه ۱۶ - مودود احمد خانصاحب حجر منی ۱۷ و دود احمد خانصاحب کراچی.۱- بشری خاتون آستان صاحبه منظفر آباد.حضرت خانصاحب سید غلام حسین شاہ صاحب بھیروی ریٹائرڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پنجاب سول ویٹرنری ڈیپارٹمنٹ و سابق ایمیل سر جینڈری آفیسر یا بھوپال ر ولادت اندازاً لشراء - بحيت شد.وقات ۱۵ را خار ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۵) آپ حضرت قامتی امیر حسین صاحب رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے.چودہ سال کی عمر میں دامن سیح موعود کے ساتھ وابستہ ہوئے ، حضرت اقدس کے عشاق میں سے تھے.آپ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ لصلوة والسلام کے عہد مبارک کے " البدر " یکم فروری منشاء کے صفر ۲ پر بھی آتا ہے لیے ے لکھا ہے : ۱۴ جنوری شنشاء عصر کے وقت محتی قاضی غلام حسین صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ حصار نے عرض کی کہ

Page 242

۲۳۰ آپ کی زندگی کا ایک یادگار واقعہ آپ کا سفر بٹالہ ہے جو آپ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کی تعمیل میں کیا اور جس پر حضور نے اظہار خوشنودی فرما یا.ذیل میں آپ ہی کے قلم سے اُسے درج کیا جاتا ہے.عاجز کو خدا کے محض فضل سے چودہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعیت نصیب ہوئی مجھے اس بات کا از حد شوق تھا کہ حضرت اپنی زبان مبارک سے مجھے کسی قسم کا بھی کام کرنے کا ارشاد فرمائیں تا کہ نہیں اس کی تعمیل کر کے اپنی خواہش پوری کروں.غالبا ملا تھا جبکہ ہم درجن بھر آدمی حضرت کے ساتھ گول کمرہ میں کھانا کھاتے اور چھوٹی مسجد میں جو کہ آپ مسجد مبارک کہلاتی ہے ، نماز پڑھا کرتے تھے.مجھے اکثر حضرت کے پاؤں دبانے اور حضور کو پنکھا جھلنے کا شرف حاصل ہوا ہے.ظہر کی نمانے کے بعد حضرت مسجد میں ہی ڈاک پڑھا کرتے تھے جو کہ ان ایام میں دوپہر کو آیا کرتی تھی.ایک دن میرے دل میں بڑا جوش اور شوق پیدا ہوا کہ آج اگر حضرت مجھے کسی کام کا ارشاد فرمائیں تو دل کی تمنا پوری ہو.حضرت تو ڈاک پڑھ رہے تھے اور میرا دل تڑپ رہا تھا کسی کام کے کرنے کیلئے کہ اتنے میں حضرت صاحب نے خط پڑھتے پڑھتے گردن مبارک کو اوپر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ یہ ایک ملٹی ہے آپ بٹالہ سے جا کر لے آئیں.بس پھر کیا تھا.میرا دل تو باغ باغ ہو گیا.بلیٹی میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا.ابھی ٹھہرنے اور حضور اندر تشریف لے گئے.چند منٹ میں باہر تشریف لاکر میرے ہاتھ میں پانچ روپے دے کر فرمایا کہ یہ اس کے اخراجات کے واسطے ہیں.روپے اور ملٹی لے کہ خوشی سے اچھلتا ہوا ئیں مسجد سے نیچے اُترا لیتے کے اڈے سے پتہ لگا کہ اس وقت یہانی کوئی یہ نہیں.کیونکہ اس نہ مانہ میں ایک یا دو یتے ہوتے تھے.اگر وہ بٹالہ چلے جاتے پھر قادیان سے بٹالہ تک جانے کے واسطے کوئی سواری نہ ہوتی.خیر میں پیدل چل پڑا.اور شام کو بٹالہ اسٹیشن پر بابو جی کو ملیٹی دکھائی.اس نے کہا پارسل آیا ہوا ہے تم صبح چھڑا لینا.آب رات کو القیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ میری تنخواہ میں سے دو پیر اضافہ ہوا ہے اور بنگال سے ایک درخواست آئی ہے کہ نہ پیری کی پوسٹ خالی ہے، عہ روپیہ یا ہوار ملیں گے.اس لئے مشورہ استفسار ہے کہ کونسی جگہ منظوری کی جاوے، آپ نے فرمایا کہ استخارہ مسنونہ کے بعد جس طرف طبیعت کا میلان ہو.وہ منظور کر لو"

Page 243

کہاں رکھو گے ، رات سرائے میں ٹھہرا.صبح کو میں بابوجی کے پاس گیا.اُس نے ایک چھوٹی سی ٹوکری جس میں کہ پانچ سیر کے قریب وزن ہوگا.میرے سپرد کر دی.اور کہا کہ فریبندہ نے اس کا محصول ادا کیا ہوا ہے.یعنی PAID پارسل ہے.جب میں ٹوکری لے کو سٹیشن سے باہر نکلا تو پتہ لگا کہ جو یکہ رات کو قادیان سے بٹالہ آیا تھا وہ سواریاں لے کر واپس قادیان چلا گیا ہے.چونکہ بٹالہ سے قادیان کی سڑک کچھی اور بہت خراب اور رتی تھی.اس واسطے بٹالہ کے بیکہ والے قادیان جانا پسند نہ کرتے تھے ، اگر کوئی جاتا بھی تو بہت کرایہ چارج کرتا.ہمیں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ آپ بہنگی والا کہا ر لے جاؤ.چنانچہ میں نے ایک کہار کو وہ ٹوکری دے دی.اس نے بہنگی کے ایک پلڑا میں یہ ٹوکری رکھ دی اور دوسرے پلڑا میں اتنا ہی پتھر کا وزن رکھ کر کندھے پر اُٹھا کہ میرے ساتھ ہو لیا.اور چار آنہ مزدوری قادیان تک طے ہوئی.ہم جلدی ہی قادیان پہنچے گئے.حضرت کے عطا کردہ پانچے.وپیر میں سے چارہ آنہ میں نے کہا کو مزدوری دے دی.اور پونے پانچ روپے جیب میں رکھ کر ٹوکری ہاتھوں میں لے لی مسجد مبارک کی پرانی تنگ سیڑھیوں میں چڑھ کہ سیڑھیوں کے خاتمہ سے قبل ہی جو دروازہ حضرت کے زمانخانہ میں جاتا ہے وہاں ٹھہر کر حضرت صاحب کی خدمت میں اپنی آمد کی اطلاع کرائی حضرت فورا ہی باہر تشریف لائے اور مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ آگئے.نہیں نے عرض کی حضرت آگیا.ٹوکری کو دیکھتے ہی یہ فرماتے ہوئے اندر تشریف لے گئے کہ آپ ٹھہریں.چند منٹ میں حضرت ہاتھ میں ایک بڑا چا تو لئے ہوئے تشریف لائے اور اس ٹوکری کے اوپر جو ٹاٹ سلا ہوا تھا.اس کو چاقو سے ایک طرف سے کاٹ کر اپنے دونوں ہاتھ اس ٹاٹ کے اندر داخل کر کے باہر نکالتے ہی فرمایا کہ یہ آپ کا حصہ ہے.میں نے جلدی میں اپنے کرتے میں ڈلوالئے.رقبل ازیں مجھے علم نہ تھا کہ پارسل میں کیا ہے ) میں نے دیکھا کہ وہ سبزی مائل انگور ہیں.اتنے میں میں نے وہ پونے پانچ روپیہ جبیب سے نکال کر پیش کئے.اور عرض کیا که حضور یہ بقایا رقم ہے.صرف چار آنہ خرچ ہوئے ہیں.اس پر حضرت نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ ہم اپنے دوستوں سے حساب نہیں رکھا کرتے " اتنا فرمایا اور ٹوکری اُٹھا کر اندر تشریف لے گئے.انگور میرے کرتے ہیں اور پونے پانچ روپیہ میرے ہاتھ میں رہ گئے...سبحان اللہ ! کیا اعلیٰ فقرہ فرمایا کہ ہم اپنے دوستوں سے حساب نہیں رکھا کرتے.میں اس وقت ۱۴ ، ۱۵ سال کا نتیجہ تھا.یہ حضرت کی شفقت تمہربانی

Page 244

۲۳۲ اور عنایت تھی کہ اپنے تخدام کی عزت ، قدر اور حوصلہ افزائی فرماتے.اے خدا کے پیارے مسیح موعود ! اللہ کی ہزاروں اور کروڑوں برکتیں اور رحمتیں ہوں تجھ پر اور تیری آل اولاد پر آپ نے حضرت مسیح موعود علی الصلواۃ والسلام کی دعاؤں کی برکت سے وٹرنری کا لیا لاہور کے طلبہ میں نہ صرف اول پوزیشن حاصل کی اور انعام اور وظیفہ حاصل کیا.بلکہ کم وبیش نصف صدی تک امتیازی رنگ میں حصار فیروز پور چھاؤنی.لائل پور منٹگمری.رہناک اور بھو پاک میں طبی خدمات بجا لاتے رہے ، آپ ابتدائی موصی بھی تھے.اور تحریک جدید کے انیس سالہ مجاہد بھی.آپ کے بیٹے سید محمود احمد شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : " حضرت والد صاحب کا اسم گرامی سید غلام حسین شاہ تھا.ان کے والد ماجد کا نام سید غلام شاہ تھا.آپ بھیرہ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے.دادا جان نے ایک خواب میں دیکھا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیایت لام کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور دو روپے بطور نذر پیش کئے ہیں چنانچہ اس خواب کو پورا کرنے کی عرض سے حضرت دادا جان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے او حضور کی بیعت کی اور دو روپیہ کی رقم بطور نذر بھی پیش کی لیکن اس خواب کی حقیقی تعبیر یہ تھی کہ بجائے دورہ پر کے دو بیٹے آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جمعیت کرکے خدمت دین کی توفیق حاصل کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کے گیارہ بیٹوں میں سے دو بیٹوں یعنی حضرت قاضی امیر حسین صاحب اور حضرت سید غلام حسین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعیت کی اور خدمت احمدیت حسب توفیق کرتے رہے.حضرت والد صاحب نے تقریباً چودہ یا پندرہ سال کی عمر میں شہداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.شاء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم کے مشورہ پر وٹرنری کالج لاہور میں داخل ہوئے اور اپریل سنتشلہ کے امتحان میں محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے طفیل معجزانہ طور پر وٹرنری کالج کے تمام طلباء میں آپ نہ صرف اوّل آئے بلکہ جنرل پروفیشن میں پرنسپل کے گولڈ میڈل کا انعام اور وٹریزی نے الحکم ۲۸ور مشی و ارجون ۲۱۹۳۹ ۲۲ ۲۳

Page 245

سائنس میں کو ٹلے ویل میموریل سلور میڈل کا انعام اور لارڈ لارنس سکالر شپ بھی حاصل کئے علاوہ ازیں وٹرنری سرتیری و میڈیسن اور اینائمی و فتر یا لوجی اور بود ائن پتھالوجی کے سہرسہ مضامین میں بھی آپ نے علیحدہ علیحدہ فرسٹ پر ائمہ حاصل کئے.ان سب انعامات کو جب آپ نے حضرت مسیح موعود نا یا اسلام کے حضور پیش کیا.تو حضرت اقدس ملاحظہ فرما کہ بہت خوش ہوئے.خلاف توقع آپ کے شاندار طور پر کالج میں کامیاب ہوتے اور اول آنے کے معجزہ کو دیکھ کہ آپ کے ایک ہم جماعت راجہ فضل دین صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی بعیت کر کے داخل احمدیت ہوئے.وٹرنری کالج سے کامیاب ہو کہ جنگ یوگنڈا کے سلسلہ میں آپ افریقہ چلے گئے.اور افریقہ سے واپسی پر نشہ میں گورنمنٹ کیٹل فارم حصار میں آپ کی تعیناتی وٹرنری اسسٹنٹ کے طور پر ہوگئی.پھر آپ ترقی کر کے فارم او در سیر ہو گئے.اور بعد ازاں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ہو گئے حصار میں آپ ء سے ۱۹۳۶ء یعنی پچیس سال تعینات رہے حصار سے تبدیل ہو کہ فیروز پور چھاؤنی، پھر لائل پور ساڑھے تین سال منٹگمری اور بیر پانچ سال رہتک میں یہ عہدہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تعینات رہے.جہاں سے جنوری ۱۳۷ہ میں آپ پنجاب دوتری سروس سے ریٹاٹرہ ہوئے.اسی سال آپ کوشن کار کردگی کے نتیجہ میں گورنمنٹ کی طرف سے خانصاحب " کا خطاب دیا گیا.چونکہ آپ کا کنبہ بڑا تھا اور ابھی کا فی بال بچے مکمسن تھے.اس لئے مزیدہ ملازمت کی اشد ضرورت آپ کو محسوس ہوئی.چنانچہ کچھ عرصہ بعد نائباً ۱۹۳۶ء کے آخر میں آپ ریاست بھوپال میں ایمیل سر بینڈری اور وٹرنری آفیسر مقرر ہو گئے.جہاں سے گیارہ سال کی ملازمت کے برا میں بعد تقسیم برصغیر آپ ریٹائر ہوئے.ریاست بھوپال سے ریٹائر ہو کر آپ اور میں پاکستان آگئے اور موضع بھلوال ضلع سرگودھا میں بغرض آباد کاری چلے گئے.بھلوال میں جانے کی وجہ یہ بھی کہ آپ کے ایک بڑے بھائی سید احمد شاہ صاحب نے آپ کو وہاں بلایا تھا اور زمین وغیرہ کی الاٹمنٹ کے حصول میں آپ کو تقریبا ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا.بحیثیت، ریفیوجی آپ نے جو عرصہ بھلوال میں گزارا اس میں آپ کی صحت دن بدن گرتی چلی گئی.اپریل شراء میں بمقام ربوہ جو پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا تھا.اس میں شامل ہوتے تھے لیکن اس کے بعد صحت اس قابل نہ رہی تھی.کہ موسم سرما کے جلسوں میں شرکت کر سکتے.بھلوال کا قیام آپ کا ضعیفی اور کمزوری کا دور تھا.تاہم آپ اپنے سوانح حیات مرتب کرتے رہتے تھے.شاہ کے موسم گرما میں آپ ایک مرتبہ میرے ہمراہ لائل پور سے ربوہ تشریف لے گئے تھے ؟ ۱۴۸

Page 246

۲۳۴ کے بعد بھی ایک مرتبہ آپ ربوہ تشریف لے گئے تھے.اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے تھے.لڑکپن میں حضرت مسیح موجود علیہ السلام کی بیعت کرنے اور اور ائل عمر میں بار بار حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہونے کی وجہ سے حضرت میں موعود علیہ اسلام اور حضرت خلیفہ لمبیع الاول رضی اللہ عنہ کی سیرت کا گہرا اثر آپ کے دل و دماغ پر نقش تھا.بعیت کرنے کے بور وٹرنری کالج سے کامیاب ہو کہ آپ نے بھیرہ سے سکونت ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا اور افریقہ سے واپسی پر حصار کی ملازمت کے دوران میں قادیان میں اپنے بڑے بھائی حضرت قاضی سید امیر حسین کی معرفت کچھ زرعی زمین خرید کر لی تھی.اور نت ایر تک ایک مختصر سخنہ رہائشی مکان بھی اپنے بھائی صاحب کے مکان کے عقب میں تعمیر کر لیا تھا.جس میں جلسہ سالانہ کے مواقع پر آپ بال بچوں سمیت قیام کرتے تھے.چنانچہ آپ بھیرہ سے قطع تعلق کر کے قادیان میں ہجرت کر گئے تھے.اگرچہ بوجہ سرکاری ملازمت قادیانی میں مستقل طور پر قیام پذیر نہ ہوئے تھے لیکن ملازمت سے تاریخ ہو کر مستقل سکونت قادیان میں اختیار کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے تھے.....تحریک جدید میں انہیں سالہ مجاہد ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پانچ ہزاری نورج کے سپاہی تھے.بہت پرانے موصی تھے.باقاعدہ چندہ ادا کرتے تھے ! اپنی تنخواہ وصول کرنے پر سب سے پہلے چندہ ادا کیا کرتے تھے.اور بعد ازاں باقی ماندہ تنخواہ خرچ کرتے تھے.اگر کوئی ذاتی خروج اشد ضروری ہوتا تو پہلے چندے کی رقم علیحدہ نکال کر رکھ لیتے تھے تھم رہے کا حساب کتاب نوٹ کرتے وقت چندہ کی سلم سب سے اول اور اوپر تحریر کرتے تھے.آپ نہایت مفتی جفاکش ، فرض شناسی منتظم اور نڈر تھے.جوشیلی طبیعت اور ہمت مردانہ کے مالک تھے.اسلام اور احمدیت کے لئے بہت غیرت رکھتے تھے، اولاد کو تعلیم دلانے اور تربیت کرنے میں بے حد دلچسپی لیتے تھے.پنچ وقت نماز کے پابند اور تہجد گز ایتھے.ہر تکلیف اور پریشانی میں دعا کرتے اور حضرت اقدس کی خدمت میں عریضیہ برائے دعا اس سال کرتے.آپ ملازمت کے فراض اتنی محنت اور تن دہی سے ادا کرتے تھے کہ ایک نہایت محنتی انگرینہ آفسر نے کئی بار آپ کو جا کر کہا " خدا کے لئے اپنے آپ کو ہلاک مت کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ تقریباً پچاس سالہ دور ملازمت میں کبھی نہیں نے اپنے اقمر سے ترقی نہیں مانگی.بلکہ خود بخود افسر میری ترقی کے لئے لکھتے رہے.اور اللہ تعالیٰ ترقی دیتا رہا.مسٹر بر میفورڈ MR.BRANFORD

Page 247

۲۳۵ گھر میں اردو زبان مروج ہونے کے باعث خود بھی اردو بولتے تھے اور پنجابی زبان بھول گئے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ اس کام کو کبھی پنجابی بولتے نہیں سنا بلکہ ہمیشہ اردو ہی بولتے سنا ہے اولاد حضرت شاہ صاحب نے چھ شادیاں کیں.آپ کے بارحسب ذیل اولاد ہوئی.۱- سیده امنه الرحمن صاحبه ۲- سید ظہور حسین صاحب.ستیده رقیه بیگم صاحبه ۴.ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب ریٹائرڈ اسسٹنٹ پروفیسر پنجاب وٹرنری کا لج سابق مبلغ احمدیت جزائر فجی.ه سیده صفیہ بیگم صاحبه (مدفون بہشتی مقبره قادیان ) -4 سیده آمنه بیگم صاحبہ مانسهره (بیوه سید مقصود علی شاہ صاحب مرحوم ) ، سید منظور احمد صاحب.ه ستیره کنیز فاطمه صاحبه سیده احمدی خاتون صاحبه ۱۰ میجرستید محمود احمد شاہ صاحب بی اے (ریٹائرڈ) سابق ایڈمنسٹریٹیو آفسیر کیا ۱۱- سیدہ محمودہ خاتون صاحبہ اہلیہ ملک سعید احمد صاحب ، شکاگو امریکہ.۱۲- سید میاره که بیگم صاحبر جہلم.۱۵ سید مسعود احمد شاہ صاحب بی اے کراچی.لفٹیننٹ سید منصور احمد شاہ صاحب شہید مقر (وقات ۱۵ار جولائی ۹۲۳ ه ) بریگیڈئیر ریٹائرڈ سید ممتاز احمد شاہ صاحب، بمب رائل کالج آف وٹرنری سر جینز، سابق ڈائریکٹر ریماؤنٹ وٹرنری فارمز GHQ حال ڈیفنس سوسائٹی کراچی.له الفضل ۱۳ نومبر ۹۵۵اید صث.

Page 248

۲۳۶ ۱۶ سیدہ ممتانہ جہاں صاحبہ بی اے.بیٹی (علیگ) لاہور ۱۷- سید مقصود احمد شاہ صاحب کراچی.۱۸ میجر ریٹائر ڈ سید منور احمد شاہ صاحب لاہور.19- ڈاکٹر سید رفیق احمد شاہ صاحب ایم بی بی ایس لاہور ۲۰- سیده نصبیره بیگم صاحبه ۲۱ - سیده بشری بیگم صاحبہ ۲۲- سید سعید احمد صاحب.۲۳ - سید نا صر احمد شاہ صاحب - ناصر ۲۴.سیده زهره خاتون صاحبه.۲۵- سید ظفر احمد شاہ صاحب ۲۶ - سید جمیل احمد شاہ صاحب کے حضرت سید علی احمد صاب بها اجر بھا ولی ضلع انبالہ (.41900 ر ولادت اندازا نداره بیعت و زیارت ستمبر د هجرت قادیان شاه - وفات یکم نومبر ۱۹۹۵ -) آپ کی خود نوشت روایات میں لکھا ہے :.سن بیعت ندارد.سن زیارت حضرت مسیح موعود علیہ سلام شاه - سید عبدالمحی عرب کا نکاح سنور میں ہوا، رخصانہ کے ساتھ میں قادیان دار الامان وارد ہوا.اور یہاں مدرسہ میں پڑھنے لگا اور تیسری کا امتحان دے کر چوتھی میں آیا.نہیں اپنی خالہ نے وجہ عبدالمی عرب کی وجہ سے اندرون خانہ جایا کرتا تھا.اور کئی بار حضرت مفتی محمد صادق صاحب کار تھہ لے کہ تازہ وحی لکھانے لے گیا جو میں کچھ پڑھ بھی لیتا تھا اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات و دفن کا منظر مجھے خوب یاد ہے.اور حضور کا شجرہ نسب مطبوع دمرتبه میجرتی محمود احمد شاہ صاحب کراچی شه ) له الفضل ۱۵ اکتوبرش داده است.مضمون سید اعجانه احمد شاہ صاحب این حضرت ستبر علی احمد صاحب )

Page 249

۲۳۷ جاد نماز پر مسجد مبارک میں ایک جانب کھڑے ہونا بھی یاد ہے.سیر کے لئے جانا بھی یاد ہے.حضور کے چہرہ مبارک کو میں ٹکٹکی لگائے دیکھا کرتا تھا اور اسی میں محور رہا.اور حضور کا میری طرف دیکھنا بھی یاد ہے.خاکسار علی احمد عفا اللہ عنہ ہی سم.در توام میرا نکاح اول حضرت خلیفہ المسیح اول نے قادیان میں پڑھائیں حضرت خلیفة المسیح الثانی سیدنا امیرالمومنین کی ولایت سے واپسی پر نہیں ہجرت کرکے دارالامان نے واپسی پر دارالامان میں آگیا.علی احمد عفا اللہ عنہ میرا حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے آپ کی وفات پر لکھا کہ :.is وہ میرے رفیق قدیم تھے ان سے پہلے پہل مجھے 194 ء میں تعارف ہوا جب میں اخبار" بدر قادیان میں کام کرتا تھا اور وہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے پاس ایک پرچہ پر تازہ وحی حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسّلام کے قلم مبارک رقم سے حسب معمول لکھی ہوئی بدر میں شائع ہونے کے لئے لائے پھر جب کا تب لکھ چکا اور کاپی پریس میں لے جائی گئی اور پروف نکلا تو حضور علیہ السلام کے ملاحظہ کے لئے انہی کے ہاتھ بھیجا گیا.دریافت کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ ان کی قریبی رشتہ دار اندرون خانہ سیدہ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں رہتی ہے.اس لئے ان کو یہ سہولت اور یہ فخر حاصل ہے، اور ابھی بچے ہیں.بستی کے مشہور ومعروف افغان خاندان کے افراد مہاراجہ پٹیالہ کی مختلف خدمات پر مقرر تھے انہی میں سے ایک مخلص احمدی امام علی صاحب کی بیٹی ان کے رشتہ مناکحت میں آئی.ان کے والد براڑہ سے دو تین میل دور ایک بسنتی رجاؤ لی نام ایک خانقاہ کے متولی تھے جس کے ساتھ بیسیوں بیگھہ زمین معافی کی ان کے نام تھی اور وہ گدی نشین تھے اور ہزاروں مریدوں اور معتقدین کے مرجع تھے والد کی وفات پر یہی استید علی احمد صاحب، جانشین ہوئے چونکہ یہ احمدی تھے اور نہایت مخلص اور والہ دشہدائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، انہوں نے اعلان کر دیا کہ نہیں یہاں کوئی خلاف شریعت اسلامیہ امر نہ خود کروں گا نہ ہونے دوں گا.رقص و سرود اور دیگر بدعات میکسر موقوف.آپ آئیں ہیں علامہ فضلی منگوا کہ ان کا وعظ کراؤں گا.آپ لوگوں کی دعوت بدستور ہوگی.گھر کوئی غیر تشریع کارروائی روا نہ رکھی اء والفضل دار نومبر راء ).۲- " روایات صحابہ بغیر مطبوعہ جلدث شنا

Page 250

جائے.اس پر وہ لوگ مایوس ہو گئے اور کئی مخالفت پر آمادہ.یہ خود بھی اس صورت حال سے بیزار تھے.اور دل سے چاہتے تھے کہ قادیان دار الامان ہجرت کر جاؤں.چنانچہ یہ سجادہ نشینی اور پیری مریدی کا قضیہ نا مرضیہ اور سینکڑوں بیگھر زمین معافی والی اور دوسری جائیداد منقولہ و غیر منقولہ چھوڑ کر قادیان آگئے.یہ حضرت خلیفة المسیح اولی رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا.یہاں چند سال تو رجاؤ لی جا کہ مزار مین سے بٹائی وغیرہ لے آتے.اور اس پر کشائش سے گزارہ کرتے مگر پھر یہ صورت نہ رہی تو درویشانہ زندگی اختیار کر لی تنہا نہیں تھے.جوہی بچے بھی ساتھ تھے.تنگ دستی بڑھی تو دفتر میں مدد گار کارکن ہونا اختیار کو لیا.جس کی تنخواہ اس وقت دس گیارہ روپے سے زیادہ نہ تھی.زیادہ تر مقبرہ بہشتی کے دفتر کی ملازمت پسند کرتے.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بھی برسوں قدمت بجا لاتے رہے.وہاں زیادہ خوش تھے اور ہر قسم کی مشقت و محنت برداشت کرتے کیونکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ الہ تعالی کی ذات ستودہ صفات سے انتہائی عقیدت رکھتے تھے.......میرے سامنے ان پر کئی مشکل وقت آئے مگر وہ ہمیشہ صابر اشنا کہ رہے اور کبھی شکوہ شکایت زبان پر نہیں لائے.فسادات ۹۴۷اہ کے زمانے میں ان کے اہل و عیال تو لاہور آگئے.ایسے ہی میرے بھی.وہ میرے مکان پر آگئے اور کہا الحمد للہ آپ کی خدمت کا مجھے موقع ملے گا جس کی نہیں دیرینہ خواہش رکھتا ہوں.میں نے معلوم کیا کہ وہ رات کو ۱۲ بجے تک تو بہ آمدے میں ٹہلتے رہتے اور درود و استغفار، ذکر و اذکار میں اور پھر حسب معمول تین بجے سے کچھ پہلے اٹھ کر نماز تہجد پڑھتے رہتے.اذان فجر تک.اور یہ ان کی پرانی عادت تھی.....جب ریوہ کی بنیاد پڑی تو سید علی احمد صاحب بغیر اپنی معیشت و جائے رہائش کا خیال کئے من يهاجر فى سبيل الله يجد فى الأرض مراغمًا كثيرًا وسعہ پڑھتے ہوئے دیوہ پہنچ گئے اور اپنی بقیہ عمر عشر کی حالت میں بطیب خاطر گزار دی، غفر الله له له آپ کو خلافت اور مرکز سے والہانہ محبت تھی اور باوجود تنگی ترشی کے مرکز سلسلہ سے باہر جانا گوارا نہیں تھا.آخری بیماری میں کئی دوستوں نے ربوہ چھوڑنے کا مشورہ دیا.مگر آپ کا ایک ہی جواب تھا اور وہ یہ کہ ساری عمر تو خلیفہ وقت کے قدموں میں گزار دی.اب آخری نظر میں دنیا کی ۱۹۲ تا ۱۳۵ او دو الفضل ۱۰/ نومبر امت له الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۹۵ مت

Page 251

۲۳۹ خاک چھاننے کے لئے کس طرح باہر چلا جاؤں حضرت مصلح موعود بھی آپ پر ہمیشہ نظر شفقت رکھتے تھے.چنانچہ اپنی جیب خاص سے حضور نے تجہیز و تکفین کا بندوبست فرمایا اور پھر خود ہی وصیت کے بقایا جات ادا کر کے انہیں موصیوں کے قبرستان میں دفن کرنے کا ارشاد فرمایا ہے اولاد آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری تجھے پشتوں میں ہر ایک کا ایک ہی لڑکا ہوتا رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی برکت سے آپ کو سات لڑکے اور آٹھ بیٹیاں عطا کیں جن کی تفصیل یہ ہے :- د از اطلبیه اقول لطیف انساء بیگم صاحبہ ) سیده آمنه بیگم صاحه بسیده محمد بیگم صاجه رسیده مبارکه بیگم صاحبہ سید اعجاز احمد صاحبر ہے.ستیده عارفه بیگم صاحبه استید امتیاز احمد صاحب ، سیده رضیہ بیگم صاحبہ (مرحومه.د از الیہ ثانی محصور النساء بیگم صاحبه ) سید میمونه اول (مرحومہ) سید سجا د احمد صاحب سیدہ میمونه صاحبه (ثانی) بستید میر احمد خلیل صاحب بستیده ساجدہ بیگم صاحبہ بستید تنویر احمد صاحب سید شاہ میراحمد صاحب بستید تبشیراحمد صاحب و حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد د ولادت ۱۹ ز خون شهداء بمقام لدھیانہ - وقات ، دسمبر دارد آپ کے والد ماجد حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب اولادت ۱۶ را گست شماره - جمعیت ۶۸۵۲ وفات دار جولائی ۱۳) سید نا حضرت مسیح موعود کے نہایت مخلص یکرنگ اور قدیم عشاق میں سے تھے.جنہیں حضور کے ۳۱۳ اصحاب کبار میں شمولیت کا شرف حاصل تھا حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری جنہیں اپنے اخلاص ، خصوصی خدمات اور سُرخی آسمانی نشان کے عینی شاہد کی حیثیت سے تاریخ احمدیت میں ایک خاص مقام حاصل ہے ، آپ کے پھوپھا تھے.آپ نے احمدیت کی آغوش میں تربیت پائی.بچپن له الفضل.نومبر شاءت کے انسپکٹر بیت المال ربوہ.کے تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ستمبر ہر دم از قلم مولانا عیاری اور آپکا یا نام رحیم بخش تھا

Page 252

۲۴۰ میں ہی آپ کو حضرت مسیح موعود علی اسلام کی زیارت کرنے اور حضور کے ارشادات سننے اور ذہن نشین کرنے کا موقع ملا.اس طرح آپ کو مسیح محمد تی کے صحابہ میںشمولیت کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر بڑے ہو کہ آپ نے اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تمام زندگی خدمت اسلام میں بسر کی.آپ اُن ممتاز اور نامور مخلصین میں سے تھے جنہوں نے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں اپنی زندگی خدمت اسلام کے لئے وقف کی اور پھر وفات کے وقت تک اپنے اس عہد کو نہایت درجه اخلاص ، ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ اس شان اور خوبی سے نبھایا کہ جس پر آنے والی نسلیں فخر کر یں گی.آپ نے آٹھ سال تک انگلستان میں تبلیغ حق کا فریضہ ادا کر کے سرزمین مغرب میں السلام کا یول یا نا کیا اور اس طرح خدمت اسلام کی اعلیٰ مثال قائم کی مسجد فضل لندن حس کا سنگ بنیاد سید نا حضر مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی نے وار اکتوبر ۱۹۲۳ ء کو اپنے دست مبارک سے رکھا تھا.آپ کے ہی دوران قیام میں تعمیر کے مراحل میں سے گذر کر پا یہ تکمیل کو پہنچی اور پھر آپ کے ہی زمانہ قیام میں ۳ اکتوتیر اد کو اس کا افتتاح ہوا.انگلستان میں پہلی مسجد اپنی زیر نگرانی تعمیر کرانے اور پھر اہل مغرب کی سعید روحوں کو حلقہ بگوش اسلام کرکے اس مسجد کو آباد رکھنے کی سعادت آپ کے حصہ میں آتی پہلے سے مقدر تھی سه این سعادت بزور باند و نیست تا نه ببخشد خدائے بخشنده جب ۱۹ ء میں سید نا حضرت مصلح موعود تبلیغی اغراض کے تحت انگلستان تشریف لے گئے تو آپ کو وہاں حضور کی معیت میں جانے کا شرف حاصل ہوا بحضور کے واپس تشریف لے آنے کے بعد آپ انگلستان متن کے مبلغ انچارج اور امام مسجد لندن کی حیثیت سے وہیں مقیم رہے، اور نہایت کامیابی کے ساتھ فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد ۲۲ اکتوبر 19ء کو واپس تشریف لائے حضور کے ارشاد کی تعمیل میں آپ ۱۲ فروری میں دوبارہ انگلستان تشریف لے گئے.اور وہاں پانچ سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے کے بعد 19 نومبر ۱۹۳۵ء کو قادیان تشریف لائے.آپ نے وہاں اپنے دوران قیام میں اس خوش اسلوبی سے تبلیغ کا فریضہ ادا کیا کہ انگلستان کے علمی طبقے میں اسلام کا خوب چرچا ہوا.اور بالخصوص وہاں کا پریس اسلام اور بادی اسلام صلے اللہ علیہ وسلم کے اذکار مقدس سے گونج اُٹھا، انگلستان سے واپس آنے کے بعد آپ صدر انجمن میں مختلف عہدوں پر فائز رہ کر خدمات سلسلہ بجا لاتے رہے ، ایک لمبا عرصہ آپ کو حضور کے پرائیویٹ سکتے

Page 253

کے طور پر کام کرنے کی سعادت میسر آئی.علاوہ ازیں تعلیم و تربیت ، امور عامہ اور امور خارجہ کے شعبوں میں آپ نے ناظر کی حیثیت سے نہایت گرانقدر خدمات سرانجام دیں نیز کچھ عرصہ آپ نے انگریزی ترجمة القرآن کا کام بھی کیا.اور ایڈیشنل ناظر اعلی کے فرائض بھی سر انجام دیئے.عرصہ دراز سے آپ ناظر امور خارجہ کے طور پر خدمات بجالا رہے تھے.حتی کہ وفات سے کچھ دیر قبل تک آپ دفتر میں مفقوضہ فرائض کی سرانجام دہی میں مصروف تھے.اور کام کے دوران میں آپ کو ضعف کا شدید دورہ ہوا جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے.اور دو گھنٹے کی مختصر علالت کے بعد جان جان آفرین کے سپرد کر دی.نور الله قدة.حضرت درد صاحب مرحوم نے اپنی زندگی جہاں خدمت اسلام کے لئے وقف کئے رکھی.وہاں آپ نے مسلمانان ہند کی بھی کچھ کم خدمات سر انجام نہیں دیں.جب سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی میں کشمیر کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے اور کشمیر میں آزادی کی مہم کا پوری شدت سے آغاز ہوا.تو اسی زمانے میں محترم درد صاحب مرحوم نے کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری کی حیثیت سے مسلمانان کشمیر کی بیش بہا خدمات سرانجام دیں.ایک زمانے میں آپ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن کے طور پر بھی خدمات بجالاتے رہے.پھر ۱۹۳ء میں جبکہ آپ انگلستان میں تھے.آپ نے وہاں قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح مرحوم سے تعدد ملاقاتیں کہیں اور انہیں ہندوستان واپس جا کہ مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا.چنانچہ قائد اعظم مرحوم نے واپس آنے سے قبل جب ، اپریل ۱۹۳۳ء کو مسجد احمدیہ لندن میں عبید الا ضحی کے موقع پر ہندستان کے مستقبل کے متعلق تقریر فرمائی تو اس کے ابتداء میں محترم درو صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.امام مسجد نے مجھے ترغیب دی اور اس ترغیب میں ان کی فصاحت و بلاغت نے میرے لئے کوئی راہ فرار نہیں چھوڑی.ان کی پرزور تحریک کی وجہ سے کہیں سیاسی سٹیج پر کھڑا ہونے کے لئے مجبور ہوا ہوں.ان کے انگریزی الفاظ یہ تھے ☑ “THE ELOQUENT PERSUATION OF THE IMAM LEFT ME NO ESCAPE,“ ے انقلاب عظیم کے متعلق اندار و یشارات صدا از حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب.

Page 254

۲۴۲ یعنی امام صاحب کی فصیح و بلیغ تحریک نے میرے لئے کوئی راہ بچاؤ کی نہیں چھوڑی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو علمی ریسرچ کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا چنا نچھ آپ کا بلند پا بہ لٹریچر اگر تبلیغی اور دینی مصروفیت کے ساتھ ساتھ علمی ریسرچ کا سلہ "2 آخر دم تک جاری رہا اور آپ نے متعدد کتب انگریزی اور اردو زبان میں تصنیف فرمائیں، ان میں لائف آف احمد - اسلامی خلافت " - "مسلمان عورت کی بلندشان " "بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز " خاص طور پر قابل ذکر ہیں." لائف آف احمد " جلد را جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سوانح حیات پر مشتمل ہے، ایک ضخیم کتاب ہے اور سلسلہ کی تاریخ کے اعتبار سے بہت اہمیت رکھتی ہے.آپ اس کی مزید دو جلدیں تیارہ کرنے اور ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کو نہایت شرح وبسط کے ساتھ پیش کرنے کا ارادہ رکھتے تھے.اس بلند پایہ لٹریچر کے علاوہ آپ کے ظلم سے مندر جہ ذیل کتب بھی شائع ہوئیں :- " اسلامی الیم" "الهدى" تاریخ اندلس" " روئی داد جلسه جوبلی " آپ کی وفات شہادت کا رنگ رکھتی ہے.جیسا کہ اوپر ذکر وفات میں شہادت کا رنگ | آچکا ہے.۷ دسمبر ۱۹۵۵ء کا واقعہ ہے.آپ دفتر میں تشریف لائے.طبیعت پوری طرح مہشاش بشاش تھی.ناظر اعلیٰ حضرت مرز اعزامی احمد صاحب ایم.اے کے کمرے میں اُن کی میتیر کے ہی ایک طرف بیٹھ کر آپ کام کرتے رہے بسوا بارہ بجے دوپہر کے قریب آپ نے کچھ تکان محسوس فرمائی اور یک لخت ضعف کا شدید دورہ ہوا.اور حالت غیر ہونے لگی.گرم دودھ وغیرہ پلانے اور ہاتھ پاؤں دبانے سے طبیعت سنبھل گئی.اس اثناء میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب بھی تشریف لے آئے.انہوں نے دوائی بھجوائی اور پھر اس حال میں کہ آپ مسکراتے ہوئے باتیں کر رہے تھے.آپ کو گھر پہنچا نے اس کا مربی ایڈیشن بھی " مؤسس الجماعة الاحمديه و انگلیز" کے نام سے چھپ چکا ہے.

Page 255

۲۴۳ دیا گیا.سوا دو بجے کے قریب آپ کو ضعف کا پھر شدید دورہ ہوا اور آپ نصف صدی سے زائد عرصہ تک اسلام اور احمدیت کی ان تھک خدمات بجا لانے کے بعد عالم جاو دانی کی طرف رحلت فرما گئے.آپ کی وفات کی غیر تمام ریوہ میں آنا فانا پھیل گئی.اور لوگ کثرت کے ساتھ آپ کی رہائش گاہ کی طرف آنے شروع ہو گئے.وفات کی خبر موصول ہوتے ہی صدا نہیں احمدیہ اور تحریک بدیہ کے دفاتر میں باقی وقت.کے لئے فوراً تعطیل کا اعلان کر دیا گیا ہے اگلے روز در دسمبر ۱۹۵۵ء کو نماز ظہر کے بعد حضرت مصلح موعود نے احاطہ بہشتی مقبرہ میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں اہل ربوہ ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے.نماز ظہر کے بعد آپ کا جنازہ بہشتی مقبرہ لے جایا گیا.جہاں سید نا حضرت مصلح موعود نے نمازہ جنازہ پڑھائی اور کافی دور تک کندھا دیا.چار پائی کے ساتھ بڑے بڑے بانس باندھ دیئے گئے تھے تاکہ احباب آسانی کے ساتھ کندھا دے سکیں.سپرد خاک کرنے سے قبل احیاب جماعت کو چہرہ دیکھنے کا موقعہ دیا گیا.لوگ احمدیت کے فدائی اور دیرینہ خالص خادم سلسلہ کے چہرے کی آخری جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھے.اور ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے.چنانچہ اس بات کا انتظام بھی کیا گیا کہ سب احباب قطارہ میں باری باری گذر کہ چہرے پہ آخری نظر ڈال لیں.به منتظر نهایت درد ناک تھا، ضبط کے باوجود اکثر احباب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.جب سب احباب چہرہ دیکھ چکے تو آپ کو سپردخاک کر دیا گیا.قبر تیار ہوتے پر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے دعا کرائی سے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد نے جس انتشار و اخلاص سے سلسلہ کی خدمت کی وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ایک نوٹ میں اظہار تعزیت کرتے ہوئے لکھا :.لمرم درد صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے درخشندہ گوہر اُن صادق وفا داروں اور سچے خدام میں سے تھے جنہوں نے اپنی زندگی سلسلہ کے لئے وقف کر دی.اور آخر دم تک اس پر قائم رہے.دین کو دنیا پر ملی طور پر مقدم کیا.آج اُن کے کالے فیلو بڑے بڑے مناصب پر فائز ہیں، اور ہزاروں روپیہ تنخواہ الفضل و دبیر ادمن له الفضل ار دسمبر من

Page 256

۲۴۴۴ ہے یہ ہے ہیں لیکن درد صاحب مرحوم و مغفور نے سلسلہ کی خاطر درویشانہ زندگی و امیرانہ زندگی پر ترجیح دی.مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے اپنے قلبی تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا :- عربی مقولہ ہے "موت العالم موت العالم" کہ عالم کی موت جہان کی موت ہوتی ہے.کیونکہ حقیقی عالم کا وجود دنیا کے لئے نفع رساں وجود ہوتا ہے.اس کی زندگی خالق کی مرضی کو پورا کرتے ہوئے مخلوق کے فائدہ میں صرف ہوتی ہے.ایسے وجودوں کے اُٹھ جانے سے واقعی دنیا میں ایک موت طاری ہو جاتی ہے حضرت مولوی عبد الرحیم درد رضی اللہ عنہ ان اہل علم انسانوں میں سے تھے جو مما رزقنهم ينفقون کے مطابق اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے انعامات و مواہب سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے میں زندگی گزارتے ہیں.وہ اپنے علم ، اپنی عقل ، اپنی فراست اور اپنے اثر و رسوخ سے دوسروں کا پھیلا کرنے میں کبھی کمی نہ کرتے تھے.روپے کی انہیں خود بہت تنگی تھی.تاہم بقدر امکان اس پہلو میں بھی کو تا ہی نہ کرتے تھے.سال ہا سال تک اُن کے ساتھ رہتے اور تعاون دیکھنے کے نتیجہ میں مجھے معلوم ہے کہ حضرت در د صاحب رضی اللہ عنہ سلسلہ احمدیہ کے ان پہنچے اور دنا دار خادموں میں ایک نمایاں وجود تھے.بوشر و ئیسر اور حالت آرام و تنگی میں خدا کے دین کی خدمت کا قطعی فیصلہ کر چکے تھے.انہوں نے عملاً پوری وفاداری اور کامل اخلاص و محبت کے ساتھ اس فیصلہ کو نافذ کیا ہے.بہت سے مراحل ان کی زندگی میں ایسے آئے ہیں جب کھو کھلے انسان ثابت قدم نہیں رہ سکتے.لیکن حضرت درد صاحب نے ان تمام منزلوں کو نہایت خوبی اور خوبصورتی سے طے کیا ہے.احمدیت اور اسلام کے لئے اُن کی بے انتہا عقیدت کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ وہ دن رات خدمت دین کرتے تھے.اور پھر ہمیشہ یہی کہتے تھے اور اسی احساس سے معمور رہتے تھے کہ ہمیں اپنا فرض پورا نہیں کر رہا.وہ نہ صرف خود علمی اور ٹھوس کام کرنے کے عادی تھے بلکہ ہمیشہ ہی اپنے ملنے والوں اور دوستوں کو ہر روز نصیحت کرتے تھے کہ گہری تحقیق اور پوری ریسرچ سے کتا ہیں اور مضامین لکھے جائیں.انہیں دینی علوم سے خاص شغف تھا اور جدت اور تحقیق ان کی طبیعت کا خاصہ تھا.اپنے احباب اور دوستوں کے ساتھ پوری وفاداری اور کامل خلوص کے ساتھ پیش آتے له الفضل - اردسمبر ۱۹۵۵ء مث

Page 257

۲۴۵ تھے.دوستی نبھانے میں بھی حضرت درد صاحب منفرد تھے مگر بایں ہمہ جب جماعت اور دین کا سوال آجاتا تھا تو حضرت درد صاحب کو ہرقسم کی دوستی اور محبت کو قربان کر دینے میں ذرا بھی دریغ نہ ہوتا تھا.وہ جماعت کے نظام کے قیام کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پر آمادہ تھے.نہیں نے سفر و حضر اور حلوت وخلوت میں انہیں احمدیت کا نہایت عبور اور اپنے امام تمام کا سچا عاشق صادق پایا تھا ہے.حضرت صابزادہ مرزا بشیر احمدرضا کے تاثرات قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر صاحب حادثه انتقال پر حسب ذیل مضمون رقم فرمایا :- ایم اے نے حضرت مولانا حدد صاحب کے محترمی در و صاحب ایک نہایت مخلص خاندان کے فرد تھے.ان کے والد مرحوم ماسٹر قا در بخش صاحب لدھیانوی قدیم اور مخلص صحابہ میں سے تھے اور ان کے پھوپھا حضرت منشی عبداللہ صاحب ستور منی کو تو جماعت کا ہر فرد جانتا ہے منشی محمد عبد اللہ صاحب سنوری" کا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں نہایت درجہ محبت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور ان کے اخلاص اور تقوی شعاری کی بہت تعریف کی ہے.یہ وہی بزرگ ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا وہ قمیص عنایت فرمایا حیں پر خدائی روشنائی کے چھینٹے پڑے تھے.اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق حضرت منشی صاحب مرحوم کے ساتھ ہی مقبرہ بہشتی قادیان میں دفن کر دیا گیا.بلکہ جیسا کہ میری تصنیف "سیرت المہدی" میں مذکور ہے، درد صاحب مرحوم کی پھوپھی مرحومہ کی شادی بھی حضرت منشی محمد عبد الہ صاحب مرحوم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر ہی ہوئی تھی.اس طرح دوتر و صاحب ایک ایسے مبارک خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو احمدیت کی تاریخ میں ایک خاص شان رکھتا ہے.درد صاحب خود بھی صحابی تھے اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بعض باتیں بھی یاد تھیں.جن میں سے بعض کا ذکر سیرت المہدی میں آچکا ہے.مگر درد صاحب کی ذاتی خدمات کا سلسلہ خلافت ثانیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.درد صاحب اور میں نے ایم اے کا امتحان اکٹھا پاس کیا تھا جس کے بعد وہ کچھ عرصہ ضلع ہوشیار پور کے ایک ہائی سکولی میں ملازم رہے.مگر بہت جلد ہی وہاں سے فراغت حاصل کر کے سلسلہ حقہ کی خیریت الفضل - اردسمبر ٩٥٥اء مث

Page 258

* میں آگئے اور جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۳۱-۱۹۲۰ء میں نظارتیں قائم کیں تو ابتدائی ناظروں میں سے درد صاحب بھی ایک صیغہ کے ناظر مقرر ہوئے اور اس وقت سے لے مکہ آج تک جو پینتیس سال کا عرصہ بنتا ہے.درد صاحب نے اس وفاداری اور جاں نثاری کے ساتھ اس خدمت کو نبھایا جو انہی کا حقہ تھی.کبھی اپنی تنخواہ میں ترقی کا مطالبہ نہیں کیا.کبھی کوئی حق نہیں مانگا.بلکہ جو کچھ بھی سلسلہ کی طرف سے ملا اسے کامل رضا اور پورے صبر و شکر کے ساتھ قبول کیا.مجھے یاد ہے کہ جب ہم شروع میں خدا کے ساتھ عہد باندھ کر سلسلہ کی خدمت میں آئے تو میری ہی تجویز پر ہم دونوں نے یہ عہد کیا تھا کہ خدا کی توفیق سے ہم ہمیشہ سلسلہ کی خدمت میں زندگی گزاریں گے.اور کبھی کسی معاوضہ یا ترقی یا حق کا مطالبہ نہیں کریں گے اور میرے لئے انتہائی خوشی اور درد صاحب کے خاندان کے لئے انتہائی فخر کا مقام ہے کہ درد صاحب نے اس عہد کو کامل وفاداری کے ساتھ نبھایا اور منھجر مَنْ قَضَا نَحْبَہ کے مقام پر فائز ہو گئےاور میرا انجام خدا کو معلوم ہے.گو میں بھی اپنی کمزوریوں کے باوجود خدا کی رحمت کا امیدوار ہوں.درد صاحب کا خاص وصف یہ تھا جس میں مجھے بھی اکثر اوقات ان پر رشک آنا تھا کہ اگر کبھی حضرت صاحب کی طرف سے یا انجمن وغیرہ کی طرف سے ان کی کسی بات پر گرفت ہوتی تھی.(اور گرفت سے کون انسان بالا ہے ) تو وہ اسے انتہائی صبر اور ضبط کے ساتھ برداشت کرتے تھے اور اپنی بریت کا معاملہ بھی صرف خدا پر چھوڑتے تھے.غائبا ء میں درد صاحب کو لندن مشن میں پہلی دفعہ مبلغ بنا کر بھجوایا گیا.جہاں انہوں نے ۱۹۳۰ء تک کام کیا.اور اسی زمانہ میں لندن مسجد کی بنیاد رکھی گئی اور اسی زمانہ میں وہ تعمیر ہوئی.اس کے بعد وہ دوبارہ ۱۹۳۳ ء میں لندن گئے اور 1932ء میں واپس آئے.یہ وہی زمانہ ہے جس میں ہمارے خاندان کے چار بچوں نے ولایت میں تعلیم پائی اور درد صاحب کمال محبت سے ان کی سرپرستی فرماتے رہے.اس کے بعد درد صاحب نے ولایت سے واپس آکر اکثر زمانہ نظارت تعلیم و تربیت اور نظارت دعوت و تبلیغ میں گذارا نگران کا خاص کام نظارت امور خارجہ سے تعلق رکھتا ہے.جہاں وہ غیر معمولی طور پر کا میاب رہے.درد صاحب کو حکومت کے افسروں اور بغیر از جماعت اصحاب کے ساتھ ملنے کا خاص ڈھنگ آتا تھا.اور وہ ان ملاقاتوں میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہتے تھے.مزاج کی سادگی اور کچھ مالی تنگی کی وجہ سے ان کا لباس بہت ہی سادہ بلکہ بعض اوقات درویشانہ رنگ کا ہوتا تھا.مگر لوگوں سے اس قابلیت اور

Page 259

۲۴۷ وقار کے ساتھ ملتے تھے کہ وہ بہت جلد ان کے زیر اللہ آجاتے تھے اور در دصاحب اکثر اپنی بات منوا کہ ہی اُٹھتے تھے.بظاہر حالات مجھے امید نہیں کہ جماعت کو قریب کے زمانہ میں درد صاحب جیسا کا میاب ناظر امور خارجہ میسر آئے.ولعل الله يحدث بعد ذالك امراء کچھ عرصہ درود صاحب نے انگریزی ترجمہ قرآن کریم کے بورڈ میں بھی کام کیا جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم اور ملک غلام فرید صاحب ایم اے اور چودھری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم اور یہ خاکسار کام کرتے تھے اور درد صاحب کی قابلیت بورڈ کے لئے بہت مفید اور کار آمد ثابت ہوتی تھی.جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے.میرے ساتھ ذاتی تعلقات در د صاحب کے ۱۹۱۶ء میں یعنی آج سے چالیس سال قبل شروع ہوئے اور ہم نے نہایت درجہ محبت اور اخلاص کے ساتھ یہ زمانہ گذارا، اور نظارتوں میں آنے کے بعد تو ہم گویا مسلسل رفیق کا ر ہی رہے.درد صاحب اکثر میری رائے پر اعتماد کرتے تھے اور مجھے بھی اکثر ان کے مشورہ پر اعتماد ہوتا تھا.اور گو بعض اوقات ہماری رائے میں اختلاف بھی ہو جاتا تھا.(واختلاف امتی رحمۃ).مگر درد صاحب کی محبت کا یہ اندازہ تھا کہ وہ اکثر میری رائے پر اعتماد کرکے اپنی رائے ترک کر دیتے تھے.گو بعض اوقات مجھے بعد میں محسوس ہوتا تھا کہ حالات کے لحاظ سے درد صاحب کی رائے ہی زیادہ مناسب تھی.مجھے وہ آخری دفعہ چند دن ہوئے لا تہور میں عزیز منظفر احمد کے مکان پر آکر ہے.در اصل وہ میری اور امتم منظفر احمد کی عیادت کے لئے وہاں آئے تھے.اور اس سے قبل بھی کئی دفعہ آچکے تھے.لیکن اس دفعہ ایسا خدائی تصرف ہوا کہ جب میں انہیں رخصت کرنے کے لئے مکان سے باہر گیا تو انہیں رخصت کرتے ہوئے ان سے غیر معمولی طور پر بغل گیر جو کہ بلا.غالباً اس میں تقدیر کا یہ اشارہ تھا کہ اب یہ تم دونوں کی آخری ملاقات ہے میرے علاوہ درد صاحب کے زیادہ تعلقات عزیزم مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے ناظر اعلیٰ اور عزیزم میاں ناصر احمد صاحب اور عزیزم مرزا ظفر احمد اور عزیزیم مرزا مظفر احمد اور مکرمی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور مکرمی چودھری فتح محمد صاحب سیال (جن کے ساتھ بعد میں ان کا رشتہ بھی ہو گیا ، اور مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب اور مکرمی چودھری اسد اللہ خانصاحب اور مکرمی راجہ علی محمد صاحب کے ساتھ تھے.مگر حقیقہ ان کا حلقہ ملاقات بہت وسیع تھا.اور بہت سے غیر از جماعت معززہ اصحاب ان کے دوستوں میں شامل تھے.حضرت خلیفہ ایسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تو در دو صاحب کو خاص محبت اور

Page 260

۲۴۸ عقیدت تھی اور ان کے دل میں حضرت صاحب کا خاص اکرام تھا اور حضور کو بھی ان پر بہت اعتماد تھا.جب ہوشیار پور مصلح موعود والا جلسہ ضروری ۱۹۳۷ء میں ہوا تھا تو اس میں اور بعض بعد کے جلسوں میں بھی درد صاحب نے ہی مصلح موعود والی پیش گوئی حاضرین کو سنائی تھی.اس موقع پر درد صاحب کو اس وجہ سے چنا گیا تھا کہ ان کے پھوپھا صاحب یعنی حضرت منشی عبداللہ صاحب مرحوم ان ایام میں حضرت میں موجود علیہ اسلام کے ساتھ تھے.جب حضور نے ہوشیار پور میں چلہ کشی کی اور انہی ایام میں مصلح موعود والے الہامات ہوئے.حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے حضرت مصلح موعود نے ور و کبر شاہ کے خطبہ جمیعہ میں آپ کی شاندار علمی ، تبلیغی اور سیاسی خدمات حضرت مولانا عبد الرحم درد کا ذکر خیر پر روشنی ڈالتے ہوے ارشاد فرمایا کہ اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت پرسوں درد صاحب اچانک حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے قوت ہو گئے ہیں.ہم میں سے ہر ایک نے فوت ہوتا ہے.درد حصہ تو اتنے بڑے پایہ کے آدمی نہیں تھے.ان سے بڑے بڑے پانیہ کے لوگ بھی وفات پا گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ، آپ کے چاروں خلفاء وفات پا گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پاگئے حضرت خلیفہ المسیح الا قول رضی اللہ عنہ وفات پا گئے.پھر حضرت مسیح موجود علیہ السلام کے پرانے صحابہ ایک ایک کر کے وفات پاگئے خود ان کے والد ماسٹر تا در بخش صاحب اور ان کے خسر میاں عبداللہ صاحب سنوری جو پرانے صحابہ میں سے تھے ، فوت ہو گئے.پس فوت تو سب نے ہوتا ہے.لیکن یہ طبیعی بات ہے کہ پرانا تعلق ہونے کی وجہ سے صدمہ زیادہ ہوتا ہے.۹۱ ایڈ سے درد صاحب کا میرے ساتھ تعلق تھا.۱۹۱۳ء میں وہ قادیان سلسلہ کی خدمت کے لئے آ گئے تھے.۱۹۲۲ء میں وہ انگلستان مبلغ بن کر گئے تھے.پھر دوبارہ ۱۹۳۳ء میں انگلستان گئے.اور قریباً 4 سال وہاں رہے.بغرض وہ دو دفعہ مبلغ بن کر انگلستان گئے.پہلی دفعہ ۱۲ جولائی ۹۲۴ار کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۲۲ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو واپس آئے.اور دوسری دفعہ ۲ فروری ۱۹۳۳ ء کو قادریان سے روانہ ہوئے.اور 19 نومبر ۱۹۳۷ ء کو واپس آئے.قادیان میں وہ سالہا سال تک صدر انجین احمدیہ کے روزنامه " الفضل ۴ در دسمبر ۱۹۵۵ ه ما رفت.

Page 261

۲۴۹ ناظر رہے.اور سلسلہ کے اہم عہدوں پر کام کرتے رہے.اتنے لمبے عرصہ تک جس شخص کے ساتھ تعلق رہا ہو.اس سے طبعا محبت ہو جاتی ہے.ایک انسان کسی مکان میں لمبے عرصہ تک رہے تو اس سے بھی محبت ہو جاتی ہے.پھر ایک انسان جس کے ساتھ روزانہ واسطہ پڑتا ہو.اس سے تو لاز گا محبت ہو جاتی ہے.اس لئے گو درد صاحب کی وفات کوئی عجیب چیز نہیں.لیکن ان سے دیر میز تعلق کی بناء پر ان کی وفات سے میرے دل کو اور دوسرے دوستوں کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنا ایک طبعی بات تھی حضرت مسیح علیہ السلام کو جب صلیب پر چڑھانے کا وقت قریب آیا تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ میری روح تو تیرا حکم مانے کے لئے تیار ہے، مگر میرا جسم کمزور ہے.پس جسمانی طور پر ایسی چیزوں کا صدمہ ضرور ہوتا ہے.چنانچہ درد صاحب کی اچانک وفات سے مجھے بھی صدمہ ہوا........مجھے یاد ہے جب ہم نے درد صاحب کو ولایت بھیجا ہے.ان کی تنخواہ سو روپے ماہوار تھی.چندہ اور دوسری کٹوتیوں کے بعد انہیں ساٹھ روپے ماہوار ملتے تھے.جس میں سے بڑا حصہ وہ اپنی والدہ کو بھیج دیتے تھے.ان کی دو بیویاں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کے چار چار پانچ پانچے بچھے تھے.وہ ہمارے مکان کے ہی ایک حصہ میں جو کچا تھا اور میں میں رہنا آج کل کے کلرک بھی پسند نہیں کرتے رہتی تھیں.مجھے یاد ہے کہ مجھے یہ معلوم کر کے سخت صدمہ ہوا کہ ان کی بیویوں کے حصہ میں چار چار پانچ پانچ بچوں سمیت صرف چودہ چودہ روپے ماہوار آتے تھے.آپ تو چودہ روپے وظیفہ پر بھی لڑکے شور مچا دیتے ہیں کہ یہ رقم بہت کم ہے لیکن ان دنوں ان کی بیویوں کے حصہ میں بچوں سمیت صرف چودہ چودہ روپے آتے تھے.ان کی ایک بیوی کے بھائی جلد سانہ تھے.جن کے پاس فرم شکنی کے لئے جب کوئی کتاب آتی تو وہ اس سے فرمے منگوا لیتی تھیں اور وہ خود اور دوسری بیوی فرمے توڑ توڑ کہ کچھ رقم پیدا کر لیتیں جس سے ان کا گزارہ چلتا.اب دیکھو ایک شخص ایم اے ہے اور سب جھی کے لئے اسے آفر آچکی ہے.ہ تبلیغ کے لئے ملک سے باہر جاتا ہے.سلسلہ کو اتنی توفیق نہیں ہوتی.کہ وہ اس کے بیوی بچوں کو مناسب گذارہ دے سکے.اس کی بیویوں کو اپنے گزارہ کے لئے فرمے توڑنے پڑتے ہیں لیکن پھر بھی اس نے نہایت ثابت قدمی سے سلسلہ کی خدمت میں چالیس سال کا عرصہ گزارہ دیا......درد صاحب جب سلسلہ کی خدمت کے لئے آئے تو ان کی عمر زیادہ نہ تھی لیکن اس عمر میں بھی ان کے وقار کا یہ حال تھا.کہ ہم انہیں بڑے سے بڑے افسر سے بھی ملنے کے لئے بھیج دیتے تو وہ نہایت کامیابی کے ساتھ

Page 262

۲۵۰ جماعت کی نمائندگی کر کے آجاتے تھے.اگر ہم انہیں کہتے کہ وائسرائے سے ملاقات کے لئے جاؤ.تو وہ فوراً اس کی ملاقات کے لئے تیار ہو جاتے تھے.اور کامیاب طور پر اسے مل کر آتے تھے.کونسل کے نمبروں کے پاس انہیں بھیجا جاتا تو وہ بغیر کسی جھجک کے چلے جاتے.اور نہایت کامیابی کے ساتھ سلسلہ کے کام بجالاتے.ان کے دل میں کبھی بھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا تھا کہ وہ لوگ بڑے درجہ کے ہیں اور میں کمزور انسان ہوں.اس وقت میں کالج کے پروفیسروں کے متعلق بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ باوجودیکہ اس وقت ملک کی حکومت اپنی ہے.انہیں اگر گورنر کے پاس بھی بھیجا جائے تو وہ کامیابی کے ساتھ کوئی کام کر سکیں لیکن وقد صاحب کے اندر یہ یقین پایا جاتا تھا کہ گو ہمیں کمزور انسان ہوں لیکن یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے پھر میں اسے کیوں نہیں کر سکتا.اور نیکی سمجھتا ہوں ہر شخص کے اندر یہ مادہ پایا جانا ضروری ہے.اگر کسی انسان میں یہ مادہ پیدا ہو جائے تو اس کی زبان میں برکت پیدا ہو جاتی ہے.اور لوگ اس کی بات سننے لگ جاتے ہیں.چودھری فتح محمد صاحب ، میاں بشیر احمد صاحب درد صاحب اور سید ولی اللہ شاہ صاحب سب اکٹھے آئے تھے اور ان میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ نے چالیس چالیس سال تک سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ان میں سے زندہ افراد کو لمبی زندگی عطا کر کے اور زیادہ خدمت کی توفیق بھی دے سکتا ہے جضرت مسیح علیہ السلام کو ہی لے اور ہمارے نزدیک وہ ۱۲۰ سال تک زندہ رہے.پس گو ان کی عمریں زیادہ ہو چکی ہیں.کوئی ۶۲ سال کا ہے کوئی ۶۴ سال کا ہے اور کوئی ۶۵ سال کا ہے.اور میری عمر تو اس وقت ۶۷ سال کی ہو چکی ہے.لیکن خدا تعالے میں یہ طاقت ہے کہ وہ ہم میں سے بعض کو صحت والی عمر دے کہ ان سے اس وقت تک کام لے لے جب تک جماعت کے نو جوانوں کے اندر بیداری نہ پیدا ہو جائے.اور وہ سمجھنے نہ لگ جائیں کہ ہمیں سلسلہ کا بوجھ اُٹھانے کے لئے آگے آنا چاہیے.پس میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ دین کی خدمت کے لئے آگے آئیں.اور صرف آگے ہی نہ آئیں بلکہ اس ارادہ سے آگے آئیں کہ انہوں نے کام کرنا ہے ؟" له الفضل ۱۸ر دسمبر ۱۹۵۵ء تا ۲

Page 263

۲۵۱ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد کو ہر دو ہویوں سے اولاد عطا ہوئی اس کی تفصیل یہ اور اولاد | رپہلی بیوی محترمہ سارہ درد صاحبہ بنت میاں محمد اسماعیل صاحب تاجر کتب آن مالیر کوٹلہ مہاجہ قادیان سے ) 1- عطاء الرحمن ورد صاحب.- عطیه درد صاحبه مرحومہ (اہلیہ چو ہدری محمد سلیم احمد صاحب) -۳ رضیه درد صاحبه و اہلیہ پروفیسر مسعود احمد صاحب عاطف ) ہے.خاتم النساء درد صاحبہ (اہلیہ مولوی محمد شفیع صاحب اشرف سابق مبلغ انڈونیشیا، حال ناظر امور عام).۵- لطف الرحمن درد مرحوم.4- حبیب الرحمن درد صاحب A مجیب الرحمن درد صاحب رسابق قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور) صفیه درد صاحبہ راہلیہ عبدالرزاق احمد صاحب ) ۹ - نعیم الرحمن در د صاحب.۱۰ نعیمه درد صاحبہ (اہلیہ ملک رب نواز صاحب ) بیعت مئی ۱۹۰۱ پلے د محترمه مریم درد صاحبه نیت حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب سے ) ا با جمده و رد صاحبہ (اہلیہ چوہدری محمد اسلم صاحب ) صالحه در و صاحبه قانتہ درد صاحبہ (اہلیہ حمید محسن منور صاحب ) ۴ محمد عیسی درد صاحب - -۱۰- چوہدری فضل الہی صاحب امیر جماعت احمد یہ کھاریاں (ولادت کند و بعیت نشلیش) چوہدری فضل اپنی صاحب کے بیٹے عطاء الہی صاحب تیم تحریر فرماتے ہیں :- " محترم والد صاحب مرحوم کی پیدائش قریبا شششاہ میں کھاریاں ضلع گجرات میں ہوئی مروجہ طریق کے مطابق آپ نے مڈل تک تعلیم حاصل کی اور تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ پٹواری کے عہدہ ن الحکم کے ارمئی ۱۹۰۱ صفحہ

Page 264

۲۵۲ پر طارم ہو گئے.آپ نے ان میں قادیان جا کہ حضرت مسیح پاک کے دست مبارک پر بیعت کی.قادیان سے واپس گاؤں پہنچ کر آپ نے اپنے خاندان کے دیگر افراد کو تبلیغ کرنا شروع کی.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تھوڑے عرصہ میں کئی افراد خاندان احمدیت میں داخل ہو گئے.آپ کی تبلیغ سے ہی آپ کے والدین نے احمدیت قبول کی اہمیت نے آپ کے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کر دی تھی.با وجود جوانی کی عمر کے آپ نے ایسا نیک نمونہ ظاہر کیا کہ اپنے تو اپنے ہی تھے بیگانے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے.جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ان دنوں آپ پٹواری تھے لیکن احمدیت قبول کرتے ہی آپ نے اس ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کر لی.کیونکہ آپ یہ سمجھتے تھے کہ اس ملازمت میں حلال رزق کی کمائی دشوار ہے.خدا تعالیٰ نے اس قربانی کا بدلہ یوں دیا کہ عمر بھیر آپ کو کسی ملازمت کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی اور نہایت عزت اور آرام سے زندگی بسر کی.فالحمد لله على ذالك............قبيله والد صاحب نے سلسلہ کی طرف سے ہر تحریک پر عمل کرکے نہ صرف السابقون الاولون کا مقام حاصل کیا.بلکہ مقامی امیر ہونے کی حیثیت دوسروں کے لئے بھی اعلیٰ نمونہ پیش کیا.چنانچہ کھاریاں کی جماعت میں آپ نے سب سے پہلے وصیت کی.اور آپ کے اخلاص ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے خاندان میں اکثر افراد موصی ہیں.تحریک جدید میں آپ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور تا دم آخر آپ باقاعدگی کے ساتھے چندہ تحریک جدید ادا کرتے رہے.جاعت احمدیہ کھاریاں کے امیر ہونے کی حیثیت سے آپ نے قریباً تیس سال تک سلسلہ کی خدمت کی.امارت کے علاوہ آپ میونسپل کمیٹی کے قریبا پندرہ سال تک پریذیڈنٹ رہے ہیں.اس فریضہ کو بھی آپ نے نہایت دیانت داری اور محمدگی سے نیا ہا.آپ کی صفات میں سے آپ کی سادگی بہت نمایاں تھی.با وجو دیکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی مالی حالت بہت اچھی تھی اور دینی و دنیاوی لحاظ سے آپ کو اچھا مقام حاصل تھا.لیکن ظاہر داری اور تکلف آپ کے اندر نام کو نہ تھا.انتہائی سادگی سے آپ نے اپنی زندگی بسر کی.آپ کی دیانت داری کے نہ صرف اپنے بلکہ بیگانے بھی معترف تھے.آپ کے پاس لوگ اکثر اپنے زیورات اور نقدی وغیرہ بطور امانت رکھ جاتے.

Page 265

۳۵۳ سلسلہ کے اموال میں تو آپ حد درجہ احتیاط برتتے اور کیا مجال تھی کہ ایک پائی کی بھی کمی بیشی ہونے پاتی.آپ کی ذاتی صفات میں ایک نمایاں صفت آپ کا حلیم الطبع ہونا تھا...آپ ہمیشہ علم اور صبر سے کام لیتے.لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ دین کے معاملہ میں حد درجہ عبور بھی تھے.سلسلہ کے معاملات میں تو آپ بہت زیادہ غیور تھے اور اگر کسی سے آپ نے کبھی ناراضگی کا اظہار بھی کیا تصرف ایسے مواقع پر جہاں سلسلہ کی عزت اور وقار کا سوال ہوتا.آپ نے اپنی زندگی میں متعدد مناظرے اور جلسے بایں عرض کروائے تاکہ سلسلہ کے متعلق غلط فہمیاں دور ہوں.آپ خود سلسلہ کے احکامات اور شرعی امور کے سختی سے پابند تھے.یہی وجہ تھی کہ اگر سلسلہ یا شریعیت کے خلاف عمل کا مظاہرہ دیکھتے تو آپ کو بہت ناگوار گذرتا اور باحسن طریق اس کی اصلاح کی کوشش کرتے.احکام شریعت اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر آپ کو خاصا عبور حاصل تھا.عزباد کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے اور حتی الامکان ہر غریب اور محتاج کی مدد کرتے.یہی وجہ ہے حضرت والد صاحب کی وفات کے موقع پر ہر طبقہ کے افراد نے بہت ہمدردی کا اظہار کیا " فصل ششم ام بیس بعض دیگر مخلص اور جانثار یہ سال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب ایم اے کے الفاظ میں ” عام الحزن " تھا جس میں سلسلہ احمدیہ کے بہت خدام احمدیت کی وفات سے جلیل القدر اصحاب کے علاوہ کئی اور مخلص بزرگ اور سلسلہ کے متعدد جانثار خادم انتقال کر گئے.مثل حضرت مولوی عبد المغنی خانصاحب سابق ناظر دعوت و تبلیغ حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب سابق مبلغ افریقیه و افسر لنگر خانه 1900, له الفضل ، نومی دارد ما مضمون از عطارا النبی صاحب سلیم)

Page 266

۲۵۴ حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب مبلغ افریقہ - -۴- حضرت صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی سابق مبلغ امریکیہ - ار حضرت مولوی عبد المغنی خانصاحب حضرت مولوی صاحب قوم کے پٹھان تھے.آپ کی ولادت اپنے آبائی وطن قائم گنج ضلع فرخ آباد (صوبہ یو پی بھارت) میں ہوئی.صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش اکتوبر دار ہے.آپ کے والد کا اسم گرامی نامدار خان اور دادا کا نام کا مدار خان تھا.نامدار خان ریاست حیدر آباد کے پولیس فورس میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر فائز تھے مولوی صاحب کی پرائمری تک تعلیم قائم گنج کے مقامی سکول میں ہوئی.اس کے بعد اٹاوہ چلے گئے جہاں بورڈنگ ہاؤس میں رہائش اختیار کرکے ہائی سکول کی تعلیم حاصل کی.کالج کی تعلیم ہی.انیس سی تک علی گڑھ میں حاصل کی.آپ کا واقعہ قبول احمدیت بہت ایمان افروز ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ "جب میں اٹاوہ میں بورڈنگ ہاؤس میں تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے عبادت کی خاص الخاص لذت سے ہوناس کیا.ان ایام میں اللہ تعالی رات کی تنہائی میں ایسے میٹھے سبق پڑھاتا کہ ان کی لذت میرے دل اور روج کے ایک ایک گوشے میں سما جاتی.فرمایا یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک جاری رہا.لیکن پھر اچانک ایک دن بند ہو گیا اور اس کے بعد باوجود میری انتہائی بے تابی اور بے قراری اور گریہ وزاری کے پھر جاری نہ ہوا.جب میری بے قراری انتہا کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ کچھ عرصہ بعد تم ایک شخص سے ملو گے اب اس کے ذریعہ ہی یہ سلسلہ تمہارے لئے دوبارہ جاری ہوگا." مندرجہ باں واقعہ اٹا وہ کا ہے جبکہ آپ ابھی ہائی سکول کے طالب علم تھے.چند سال بعد جب آپ علیگڑھ کالج میں داخل ہوئے تو وہاں طلباء کی مجلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کا ذکر مخالفانہ رہنگ میں آپ کے کانوں میں پڑنے لگا.ایک روز کسی ایسی ہی مجلس میں کسی شخص نے حضرت اقدس علیہ السلام کے متعلق کہا کہ مرزا صاحب تو رنعوذ بالله ، حضرت نبی اکرم صلی اله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں.فرمایا میں نے جب یہ سنا تو میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ عیہ وتم کی محبت کی وجہ سے چاہا کہ اس شخص کے خلاف جس کی طرف یہ گستاخی منسوب کی جار ہی ہے.ریعنی حضرت

Page 267

۲۵۵ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف کچھ کہوں لیکن وہ الفاظ جو میرے دل میں تھے ابھی حلق تک نہیں پہنچے تھے کہ فورا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انقاد ہوا کہ خبردار اس شخص کے خلاف کوئی لفظ زبان سے نہ نکلے یہ وہی برگزیدہ ہے جس کے ذریعے وہ سلسلہ تمہارے لئے دوبارہ جاری ہوگا جو اٹا وہ میں منقطع ہوا تھا.فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے کچھ ہی عرصہ بعد میں قادیان گیا اور حضرت خلیفہ المسيح اول رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی سے مشرف ہوا.یہ شاء یا ء کا واقعہ ہے ۱۹۱۴ء میں آپ ہی.ایس سی کا امتحان دے کر سیدھے قادیان آئے.حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی آخری بیماری کے ایام میں تیمار داری میں ہمہ تن حصہ لیا اور حضور کی وفات کے بعد اپنی خدمات حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموجود کے حضور پیش کر دیں حضویہ نے آپ کی پیشکش منظور فرماتے ہوئے آپ کا پہلا تقررہ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں بطور سائنس ٹیچر کیا.جس کی تصدیق صدر انجمن احمدیہ قادیان کے کاغذات میں باقاعدہ طور پر ۱۵ نومبر اہ سے ہوتی ہے.1919ء میں جب پہلی بار حضرت اقدس مصلح موعود نے نظار توں کی تشکیل فرمائی تو آپ پہلے ناظر بیت المال مقرر ہوئے.۱۵ - ۱۶ اپریل شاہ کی اولین مجلس مشاور سینے سے لے کر جب تک ناظر رہے مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہونے کا اعزانہ حاصل ہوا.جولائی ۱۹۲۳ میں حضرت مصلح موعودؓ نے سفر یورپ کے لئے روانگی سے قبل ایک مشاورتی کمیٹی تجویز فرمائی تھی جس کے بارہ ممبروں میں سے چوتھا نمبر آپ کو نامزد کیا اور فرمایا " ماسٹر عبد المغنی صاحب کی بھی میں قدر کرتا ہوں بسلسلہ کے کاموں کے تفکرات کی وجہ سے وہ بوڑھے ہو گئے ہیں.ان کی عمر اتنی نہیں جتنی عمر کے وہ نظر آتے ہیں.لیکن مالی معاملات میں اعتراضوں اور تشبیہوں کی وجہ سے وہ جوانی له الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۶۰ء ص۳ سے خصوصی ریکارڈ " شعبہ تاریخ احمدیت " ریوه.سل الفضل.ار جنوری نشده ۳۰ مضمون جناب محمد رفیع الزمان خانصاحب ریٹائرڈ بریگیڈیئٹر ہے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲، ص۳ زیر نمبر ۲۷-

Page 268

۲۵۶ میں ہی بوڑھے ہو گئے ہیں.۲۶ مارچ ۱۹۳۶ء کو جلسہ خلافت حویلی کے پروگرام کی تکمیل کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر ہوئی جس کے ایک ممبر آپ بھی تھے.اس سب کمیٹی کی تجاویز مشاورت ۱۹۳۹ء میں پیش کی گئیں جن پر حضرت مصلح موعود نے فیصلہ جات فرمائے.اور انتظامات کی سرانجام دہی کے لئے پانچ رکنی کمیٹی مقرب فرمائی.جس کے صدر چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب تھے اور ایک ممبر آپ بھی تھے.یہ نتظارت بیت المال میں ۱۷ سال کام کرنے کے بعد ا ء میں آپ کا تبادلہ ہوا اور آپ ناظر دعوت وتبلیغ مقرر ہوئے.یکم نومبر یو کو ۶۰ سال کی عمر ہو جانے پر حسب قواعد صدر انجمن احمد یہ آپ ریٹائر ہوئے.لیکن چارج دینے کے دوسرے ہی روز حضرت مصلح موعود نے آپ کو تحریک جدید میں وکیل التبشیر مقرر فرمایا.تقسیم ملک پر جب صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر پاکستان آئے تو اول لاہور میں اور بعد ازاں ربوہ میں آپ بیک وقت ناظرہ عوت و تبلیغ اور وکیل التبشیر کے فرائض سرانجام دیتے رہے.جن سے نشاء میں آخری مرتبہ سبکدوش ہوئے تیه مئی شعراء میں آپ شدید بیمار ہوئے اور وار اگست ۱۹۵۵ء کو آپ میو ہسپتال لاہور کے امر تسر دارد (مغربی سرجیکل) میں داخل کئے گئے ہیے اسی دوران آپ نے مولوی عبد الکریم صاحب دہر حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب حلال پوری) کے ذریعہ یہ پیغام بھجوایا کہ " میرے تمام بھائیوں کو کہہ دیں کہ ممکن ہے کہ آپ یہ میرا آخری سفر ہو.اور کہیں آپ لوگوں سے آب نہ مل سکوں اس لئے اگر مجھے سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو مجھے معاف کر دیں اور میرے لئے دعائیں کرتے رہیں ہے آپ ہم ستمبر شیر کو انتقال کر گئے.در ستمبر ۵۵اء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب امیر مقامی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے له الفضل ۲ جولائی ۱۹۲۳ء ص ۶ - سه روئیداد عجله خلافت جو بلی از حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ناشر مینجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان سے الفضل - ار جنوری ۹۷ ر مت له الفضل و ستمبر هشدار مث.شبه الفضل ۳۰ را گست ۱۵۵ راء مث - له الفضل ۶ ستمبر ۵۵ ما.

Page 269

۲۵۷ حضرت مصلح موعود کا خراج تحسین حضرت مصلح موعومر نے ۲۳ ستمبر ۱۹۵۵ء خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.مولوی عبد المغنی خانصاحب بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں اپنی زندگی وقف کی.وہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قادیان میں ہجرت کر کے آگئے.اور پھر وفات تک مرکتہ میں ہی رہے.اور سلسلہ کے مختلف عہدوں پر نہایت اخلاص اور محبت کے ساتھ کام کرتے رہے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر تحریر حضرت مرزا بشیر احمد صات کانوٹ فرم فرمایا :- مولوی صاحب مرحوم غالباً حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ۱۹۱۲ ء میں اپنے وطن قائم گنج ضلع فرخ آباد یوپی سے قادیان ہجرت کر کے آئے تھے.اور پھر ملکی تقسیم کے بعد تک مسلسل خدمت سلسلہ میں مصروف رہے.نہایت مخلص اور صاحبہ اور شا کہ بزرگ تھے.نمازوں کے انتہا درجہ پابند اور نماز با جماعت کے دلی شائق تھے.صاحب کشف و رویا بھی تھے مگر اس کا ذکر کم کرتے تھے حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ مبصرہ العزیز کے ساتھ نہایت در تبر اخلاص رکھتے تھے.اور سلسلہ کی ہر چھوٹی بڑی خدمت کو بڑی توجہ اور سرگرمی سے ادا کرتے تھے.ملکی تقسیم کے بعد انہیں اُوپر تھے دو جوان بچوں (ایک لڑکی اور ایک لڑکے) کی وفات کا صدمہ پہنچا.مگر اس بندہ خدا نے اس صدمہ پر اتنے صبر سے کام لیا جو اسی کا حصہ تھا.ان کے جواں سالہ لڑکے کی وفات اُن ایام میں ہوئی.جب حضرت صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا.وہ اس کا جنازہ لاہور سے ریوہ لا رہے تھے کہ ایک عزیز نے جسے اس کی وفات کا علم نہیں تھا.ان سے بچہ کی خیریت پوچھی مولوی صاحب نے جواب میں کہا پہلے حضرت صاحب کی خیریت بتاؤ اور جب یہ معلوم ہوا کہ حضور خیریت سے ہیں تو بلند آواز سے الحمد للہ کہا.اور اس کے بعد پوچھنے والے کو بتایا کہ بچہ کا جنازہ لا رہا ہوں.مولوی صاحب مرحوم شروع میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ٹیچر رہے اور کچھ عرصہ بعد جب نظارت میں له روزنامه الفضل ۲۲ راکتور ۱۹۵۵ مت

Page 270

۲۵۸ بنیں تو حضرت صاحب نے انہیں ناظر بیت المال مقریہ فرما دیا جس کام کو انہوں نے بڑی سرگرمی اور توجہ کے ساتھ نبھایا اور اس کے بعد کئی سال تک ناظر دعوت و تبلیغ بھی رہے.اور انجمن کی طرف سے ریٹائر ہونے پر کچھ عرصہ تحریک جدید میں بھی کام کیا.طبیعت بہت نرم پائی تھی اور کسی کی دُکھ کی داستان سُن کر دل فوراً پسیج جاتا تھا.اور ایسے موقعوں پر بعض اوقات اتنی نرمی کر بیٹھتے تھے جو نظم وضبط کے لحاظ سے درست نہیں سمجھی جاتی تھی.مگر یہ کمزوری بھی ان کی شرافت اور رحم دلی کا نتیجہ تھی مزاج میں تصوف کا رنگ تھا اور اردو اور فارسی ادب کے ساتھ بھی اچھا شغف تھا.اور اردو کے بہت سے شعراء کا کلام یاد تھا.مزاج میں بہت سادگی تھی اور دوست تو از بھی بہت تھے.یہیں جب بھی اُن کے مکان پر جانا تو بڑی محبت سے مہمان نوازی کا حق ادا کرتے ہی جناب گیانی عباداللہ صاحب سکالر سکھ لڑیچر نے چشم دید جناب گیانی عبداللہ ان کا بیان واقعات کے نام پر بتایا کہ :.بناء " مجھے حضرت مولوی صاحب مکرم سے ۱۹۳۶ء سے جب کہ آپ نظارت بیت المال سے تبدیل ہو کر ناظر دعوة وتبلیغ مقرر ہوئے.اب تک تعلق رہا ہے.اور اس لیے عرصہ میں مجھے آپ کو قریب سے دیکھنے کے بھی کئی مواقع میسر آئے.آپ کی گفتار اور کردار سے ہمیشہ نیکی اور تقویٰ ہی ظاہر ہوا.آپ کے دل میں غیر مسلم قوموں میں تبلیغ اسلام کا بہت خوش تھا.آپ کی یہ تڑپ تھی کہ ہندوستان کی ہندو اور سکھ وغیرہ غیر مسلم تو میں جلد سے جلد حلقہ بگوش اسلام ہوں اور حضرت مسیح موجود میز سلام کی ان پیش گوئیوں کو پورا کرنے والی نہیں جو حضور نے غیر مسلم قوموں خصوصا ہندووں اور سکھوں کے اسلام قبول کرنے کے بارہ میں فرمائی ہوئی ہیں.اس سلسلہ میں ہمیشہ آپ کی یہ کوشش رہی تھی کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی طرف سے اچھے سے اچھا ، اعلیٰ سے اعلیٰ ہندی اور گورمکھی لٹریچر شائع ہو تاکہ زبان کی غیریت کی بناء پر ہندو اور سکھ اسلام ایسی نعمت سے محروم نہ رہیں.آپ جتنا عرصہ نظارت دعوت وتبلیغ میں ناظر ر ہے آپ کی اس طرف خاص توجہ رہی آپ کو جہاں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے پہلے ناظر بیت المال تھے وہاں آپ کو یہ امتیازہ بھی حاصل ہے کہ آپ کے زمانہ میں نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے له الفصل 14 ستمبر ۱۹۵۵ء ص۳

Page 271

۲۵۹ سکھوں اور ہندوؤں میں تبلیغ کے لئے مہندی اور گور مکھی کا معیاری لٹریچر کثرت سے شائع ہوا چنانچھ آپ کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیکچر پیغام صلح کا مہندی اور گور یکھی ترجمہ ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوا.جسے ہندوؤں اور سکھوں نے بہت پسند کیا.اس کے علاوہ آپ کے زمانہ میں ہی قادیان سے مہندی کا ماہوار رسالہ " من دوں میں تبلیغ کے لئے “ اور گورمکھی ماہوار رسالہ " سکھوں میں تبلیغ کے لئے " شائع ہوا.اُن کے زمانہ میں نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے جتنے بھی گورمکھی میں یا اُردو میں ساتھوں کے لئے تبلیغی ٹریکٹ یا مضامین شائع ہوئے.ان کا بیشتر حصہ آپ کی ہی ہدایات اور نگرانی میں تیار ہوا.آپ کا یہ طریق تھا ایک ایک مضمون کو کئی کئی مرتبہ سنتے.کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ کہیں اس مضمون میں درج شدہ کوئی شہر سناتا تو آپ اس کے معنی دریافت کرنے کے بعد اسی مضمون کی قرآن شریف کی آیت یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر سنا دیتے جیسے اس مضمون میں شامل کر لیا جاتا.آپ جب کبھی احمدی مبلغین کو تبلیغی دوروں پر بھجواتے تو انہیں موقع اور محل کے مطابق کچھ نہ کچھ نصائح اور مہایات بھی فرماتے.جب مجھے پہلی مرتبہ یو پی اور سی پی کے تبلیغی دورہ پر جانے کا موقع میسر آیا تو آپ نے بہت محبت اور شفقت سے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور فرمانے لگے کہ :.آپ ایک احمدی مبلغ ہیں اور احمدی مبلغ کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ جہاں بھی جائے احمدیت کے متعلق پیدا شده غلط فہمیوں کو دور کرے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو احمدی بنائے لیکن اگر کسی وجہ سے آپ لوگوں کو احمدی بنانے میں کامیاب نہیں ہوتے.تو پھر آپ کا رویہ ایسا ہونا چاہئیے کہ لوگ احمدیت کے دوست ضرور بن جائیں.آخر میں حضرت مولوی عبد المغنی خانصاحب کی تحریر کا ایک نمونہ (جو مستقبل کی احمدی نسلوں ایک تحریم اے نے ایک قابل قدر پیام کی حثیت رکھتا ہے، ذیل میں درج کیا جاتا ہے آپ نے نظارت بیت المال کی سالانہ رپورٹ (۳۳-۱۹۳۲ء) کے ابتدا میں بطور تمہید لکھا :- خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم نے اُس مسیح پاک کے زمانہ کو پایا جس کے لئے بیشتر کی انہیں آرزمند له الفضل ۲ ستمبر ۱۹۵ م ر حضرت مولوی صاحب کی سیرت د شمائل پر جناب وقیع الزمان صاحب نے ایک مقالہ سر قلم کیا تھا جو اختبار الفصل.ار جنوری تا ۱۵ جنوری شاء میں بالاقساط شائع ہوا.

Page 272

۲۶۰ W تھیں اور حسرت کرتے ہوئے دُنیا سے چلی گئیں.کیسا فضل واحسان ہے اس ذات باری کا کہ ہمیں یہ زمانہ میسر ہوا، اور ہمیں اُس جہاد میں شامل کیا گیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ در حضرت مسیح موعود والمهدی مسعود علی الصلوۃ والسلام کا شیطان کے مقابلہ میں ہوتا مقدر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ اور پہلے نبیوں کے نوشتوں میں بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود اور آپ کے متبعین کے مقابلہ میں شیطان اپنی تمام طاقت کے ساتھ برسر پیکار ہو گا.اور یہ شیطان کی آخری جنگ ہوگی جس میں حضرت مسیح موعود اور آپ کے متبعین غالب آئیں گے اور شیطان کا زور توڑ دیا جائے گا.پس اسے احمدی جماعت ! اس مبارک جنگ کے لئے اخرین مِنْهُمْ کی مصداق ہو کر آنحضرت ل للہ علیہ وسلم کے یہ حضرت میں موعود علیہ اسلام کے جھنڈے کے نیچے لانے کے لئے تیرا انتخاب مبارک ہو.اس پر جس قدر فخر کیا جائے بجا ہے.لیکن جس قدر کسی پر کوئی انعام ہوتا ہے.اسی قدر اس پر ذمہ داری بھی عائد ہو جاتی ہے، گو یہ ذمہ داری اس انعام کے قابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی جو تمام کہ ایران آباد کے لئے اس صلہ میں حاصل ہوتا ہے.یہ جہاد تیر و تفنگ کے ساتھ نہیں بلکہ یہ ثابت کرنے کے لئے ہے کہ اسلام کی ترقی کا رانہ اس کا قدرتی حسن و کمال اور اس کے پاک تاثیرات ہیں.جس نے دنیا کی حالت کا نقشہ بدل دیا تھا اور اسی طرح اب بھی اسلام ترقی کرے گا چنانچہ حضرت مسیح موعود علی اسلام نے ثابت کہ دیا کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ ہر بان نیرہ اور دلائل قاطعہ اور اپنے ذاتی حسن و کمال سے بڑھا اور پھیلا ہے کیونکہ میں نے اس کی توبیوں کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا.اس کی نظر میں دنیا و مافیہا ایک نہایت حقیر چیز نظر آئی.اس کے لئے دنیا کی کوئی طاقت یا خوبصورتی ایسی نہ تھی جو اس کے مقابلہ میں مرعوب اور گرویدہ بنا سکے.اور دکھلا دیا کہ اس کی ذاتی کشش ہی تھی جو پہلے اور اب دنیا کو اپنا حلقہ بگوش بنائے چلی جارہی ہے.پس یہ خدا کا برگزیدہ دنیا میں آیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں حیرت انگیز تبدیل کر کے دنیا سے رخصت ہوا.اور اپنے بقیہ کام کی تکمیل سنت اللہ کے ماتحت متبعین کے لئے چھوڑ گیا.اب اے احمدی جماعت ! ہاں وہ جماعت جسے تیرہ سو سال پیشتر سے خدا تعالیٰ نے اخَرِينَ مت کے وعدے کے مطابق صحابہ کے ساتھ شامل فرمایا ہے.تیرا فرض ہے کہ تو غور کرے کہ کس قدر انعام و احسان ہے کہ خدا نے اپنے وعدے کے مطابق اپنے کام کے لئے تجھے چنا ہے تا دیکھے کہ تو بھی صحابہ کی

Page 273

۲۶۱ پہلی جماعت کی طرح کسی حد تک اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتی ہے.جن کے ہندوکش ہونے کا تجھے دھوئی ہے اور جن کے کار ہائے نمایاں مخفی نہیں انہوں نے خدا کی راہ میں اسلام کی خاطر اپنی عزیز سے عزیزہ چیز ، جان و مال، عزیز و اقارب قربان کر دینے میں کوئی دریغ نہیں کیا.اور جو کام ان کے سپرد ہوا، کما حقہ، انجام دیکر رضی اللہ عنہم کی تا قیامت دعائیں لیتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے.آپ اس جماعت کے کام کرنے کا وقت آیا ہے.اس نے بھی خدا کے مرسل اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد باندھا ہے.آؤ دیکھیں اس عہد کو پورا کرنے کے لئے ہم نے کیا کچھ کوشش کی ہے.اس وقت ہم سے جانوں کا مطالبہ نہیں ہے.اس جہاد میں صرف مالی قربانی کا مطالبہ ہے.وہ بھی تمام مال نہیں اس میں سے کچھ حصہ بقدر سولہویں حقے کے.اگر دیکھا جائے تو اس مالی قربانی کے مطالبہ کو پہلے نظائر کے پیش نظر قربانی کہنا ہی قربانی کی مہک ہے.لیکن یہ خدا تعالیٰ کا مزید احسان ہے کہ ہماری اس حقیر سی مالی پیشکش کو قربانی قرار دے دیا گیا ہے" اولاد استیدہ بیگم صاحبہ دو سال کی عمر میں فوت ہوئیں ).و.انه ی ما از ویبره کرم محم وقیع الزمان خانصاحب ریٹائرڈ بریگیڈیرو انتر می رسان -۳- عبدالشکور خانصاحب دوفات مارچ ۱۹۵۳ بعمر ۲۴ سال ).لم عبد المنان خان صاحب - جناب حکیم فضل الرحمن حساب مبلغ مغربی افریقیه الحاج حکیم فضل الرحمن صاحب جماعت احمدیہ کی طرف سے افریقہ بھیجے جانے والے دوسر خوش قسمت مجاہد احمدیت تھے جن کو ارض بلال میں کم و بیش اکیس سال تک خدمت دین کی توفیق ملی.آپ حضرت لے رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد به قادیان بابت له الفضل ١٠ جنوری ١٩٦ء ٣.

Page 274

میسج موعود کے اصحاب میں سے ایک ممتاز بزرگ حضرت حافظ نبی بخش صاحب ساکن فیض اللہ چک (ضلع گورداسپور) کے فرزند ارجمند تھے.آپ پہلی مرتبہ حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر ۲۳ فروری ۹۲ اید کو گولڈ کوسٹ (فانا) تشریف لے گئے اور سات سال تک تبلیغی جہاد میں سرگرم عمل رہنے کے بعد 1919ء میں واپس قادیان تشریف لائے.قیام افریقہ کے دوران ہی آپ کی والدہ فوت ہوگئیں.واپسی پر آپ کی شادی ہوئی جس کے چند سال بعد فروری ۱۹۳۳ء میں آپ کو دوبارہ مغربی افریقہ بھیجا گیا جہاں آپ چودہ سال تک تبلیغ دین کے مقدس فریضہ کی ادائیگی میں مصروف رہے.یہ زمانہ آپ کے لئے مسلسل جہاد کی حیثیت رکھتا تھا.جس میں آپ نے اسلام کے کئی اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی یلغار کا نہایت بہادری اور جرات سے مقابلہ کر کے انہیں شکست فاش دی جس کے بعد ان علاقوں میں احمدیت کی بنیادیں پہلے سے بہت زیادہ مضبوط ہوگئیں.اگر چہ اُسی زمانہ میں آپ کو اپنے والد ماجد کی وفات کا صدمہ بھی سہنا پڑا مگر اس نڈر اور جانباز سپاہی نے میدان جہاد کو چھوڑ کر واپس آنا گوارا نہ کیا.چنانچہ آپ کے بھائی محترم ملک حبیب الرحمن صاحب رسابق ڈپٹی انسپکٹر آف سکولنہ سرگودھا ڈویژن نے ایک مرتبہ جناب مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مرحوم کو بتایا کہ جہاں تک انہیں علم ہے حکیم صاحب نے کبھی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں یا دفتر تبشیر کو اپنی وطن واپسی کی استدعا نہیں کی اور عماد کے آواخر میں جب آپ واپس تشریف لائے تو آپ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے تھے اور آپ کی اہلیہ محترمہ بھی ادھیڑ عمر کو پہنچ چکی تھیں اور بچے جوان ہو چکے تھے.بایں ہمہ افریقہ سے مراجعت کے بعد بھی آپ زندگی کے آخری سانس تک نہایت اخلاص سے سلسلہ احمدیہ کی خدمات سبجا لاتے رہے.چنانچہ مڑ کی ابتداء سے کچھ عرصہ تک آپ نے وکالت تبشیر اور نظارت دعوۃ و تبلیغ میں خدمات انجام دیں جس کے بعد حضرت مصلح موعود ہی نے آپ کو افسر لنگر خانہ و جہان خانہ مقرر فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ سلام کے جہانوں کی خدمت میں آپ نے اپنے سارے اوقات وقف کر دیے اور اپنے فرائض کی بجا آوری میں اس درجہ محنت سے کام لیا کہ آپ ہائی بلڈ پریشر اور یرقان کی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو گئے.بایں ہمہ کئی ماہ تک آپ مسلسل کام کرتے رہے اور بڑی مشکل سے بعض بزرگوں کے ه حال نظارت اصلاح و ارشاد

Page 275

۲۶۳ متواتر اصرار اور مشورہ پر جولائی ۱۹۵۵ء میں باقاعدہ علاج کے لئے لاہور گئے مگر بیماری آخری درجہ تک پہنچ چکی تھی کوئی دوا کارگر نہ ہوئی.آخر ۲۸ اگست ۹۵۵ ایء کو نمبر ۵۹ سال خالق حقیقی کا بلا و یا آگیا.اور آپ ہمیشہ کے لئے مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَہ کے آسمانی گروہ میں شامل ہو گئے.اخبار الفضل نے آپ کی وفات پر حسب ذیل خبر شائع کی :- " ربوہ ۲۹ اگست - گہرے رنج و افسوس کے ساتھ یہ اطلاع احباب تک پہنچائی جاتی ہے کہ مکرم و محترم جناب حکیم فضل الرحمن صاحب کل دوپہر کو لاہور میں انتقال فرما گئے اور اس طرح تبلیغ کے میدان کا ایک نہایت کامیاب اور بہادر سپاہی اور احمدیت کا ایک سچا اور مخلص فرزند ہم سے جدا ہوگیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ محترم حکیم صاحب نے ہر برس کے طویل عرصہ تک مغربی افریقہ میں میں کامیابی کے ساتھ ملا کلمہ الحق کا فریقیہ ادا کیا اور محض تبلیغ اسلام کی خاطر اپنے وطن اپنے اہل و عیال اور اپنے دیگر عزیزوں سے قریباً ایک ربع صدی تک جدائی برداشت کرتے ہوئے جس غیر معمولی قربانی اور ایثار کا ثبوت دیا اس کی بناء پر آپ کا نام یقینا....سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ وتابندہ رہے گا.اور آنے والی نسلوں کے لئے راہنمائی کا کام دے گا." شید تا حضرت خلیفہ المسح الثاني المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ ۲۳ ستمبر ا ء میں آپ کی خدمات جلیلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :- خدا تعالیٰ نے اسلام کی اس عظیم الشان عمارت کی مرقمت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو اس قلعہ کا پاسیان مضر فرمایا تا کہ اسلام کی یہ گرتی ہوئی عمارت پھر اپنی بنیادوں پر استوار ہو جائے اور دشمن کے حملے ناکام ہو جائیں.چنانچہ آپ آئے اور آپ نے نئے سرے سے اس عمارت کے فرش اور دیواروں پر سیمینٹ کر دیا.اس کے اندر دوبارہ سفیدی کر دی.اس کے تمام سوراخ بند کر دیئے.اور اُسے پھر ایک مضبوط قلعہ کی شکل میں تبدیل کر دیا.آپ کسی کی طاقت نہیں کہ الفضل ۳۰ اگست ۹۵۵اء ما الفضل ۱۴۳ اکتوبر ۹۵ من (مضمون مولانا نذیراحمد صاحب بیشر اینجات مشنری گولڈ کوسٹ (غانا) له الفضل ۲۹ اگست ۱۹۵۵ء

Page 276

P45 وہ اسلام کی دیوار کو گھر اسکے.پھر خدا نے اس عمارت کی صرف مرحمت ہی نہیں کی بلکہ ایک نئی فوج بھی تیار کر دی جو قلعہ کی حفاظت کے لئے اس کے سامنے کھڑی ہے.اب دشمن کی مجال نہیں کہ وہ اس قلعہ کی طرف بڑھے اور اس پر حملہ کر سکے، کیونکہ اس قلعہ کے محافظین کے دلوں میں خدا اور اس کے رسول کی محبت ہے وہ اس کی رضا کے لئے اپنے وطنوں کو چھوڑتے ہیں.اور غیر ملکوں میں سالہا سال تک کہ کہ دین کی اشاعت کے لئے جد و جہد کرتے ہیں.ہمارے مبلغین میں ایسی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ انہوں نے اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی وقف کی اور شادی کے چند مہفتوں بعد ہی غیر ممالک میں چلے گئے.چونکہ میاں بیوی اگر ایک رات بھی اکٹھے رہیں تو بعض دفعہ حمل ہو جاتا ہے.اس لئے ان کے مجھے ہی بچے پیدا ہوئے اور وہ سالہا سال تک اپنے باپ کی شکل تک دیکھنے کو تو سنتے رہے.ایک مبلغ جو شادی کے معا بعد تبلیغ اسلام کے لئے چلے گئے تھے.ان کا بچہ ان کے جانے کے بعد پیدا ہوا اور پھر بڑے ہو کر سکول میں تعلیم حاصل کرنے لگا جب وہ دس سال کا تھا تو ایک دن وہ سکول سے اپنے گھر آیا اور اپنی ماں سے کہنے لگا کہ اماں لڑکے جب سکول میں آتے ہیں تو کہتے ہیں.ہمارا ایا W یہ لایا.ہمارا ایا وہ لایا میرا بھی کوئی آتا ہے یا نہیں ؟ " اسی طرح حکیم فضل الرحمن صاحب جو حال ہی میں میرے پیچھے فوت ہوئے ہیں وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے چلے گئے اور تیرہ چودہ سال تک باہر رہے.جب وہ واپس آئے تو اُن کی بیوی کے بال سفید ہو چکے تھے اور ان کے بچے جوان ہو چکے تھے ؟ اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تحریر فرمایا کہ در حكيم فضل الرحمن صاحب ایک نہایت مخلص کارکن تھے جنہوں نے اپنے آپ کو مین تو جوانی میں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کیا اور پھر تقریباً تیس سال مغربی افریقہ کے مختلف کے علاقوں میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور ملکی تقسیم کے بعد واپس آکر افسر لنگر خانہ کے اہم عہدہ پر مقرر ہوئے.له خالد احمد بیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی طرف اشارہ ہے دال زیار لذوات الخمار حصہ دوم کا طبع دوم نا شر لجنہ اماء الله مرکز به درکوه - تقاریر حضرت مصلح موعود ) سے روزنامه الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص۳

Page 277

۲۶۵ حکیم صاحب مرحوم ایک باہمت اور نہایت مخلص اور صابر و شاکر اور خدمت سلسلہ میں بشاشت اور خوشی کے ساتھ حصہ لینے والے کارکن تھے.ان کی اہلیہ بھی ایک صابرہ اور شاکرہ خاتون ہیں ؟ - الحاج مولانا نذیر احمد علی صاحب رئيس التبليغ مغربی افریقہ الحاج مولوی نذیر احمدعلی صاحب حضرت بالا تیری ماتا کے فرزند تھے.ار فروری شیر کو پیدا ہوئے آپ پہلی مرتبہ ۲۲ فروری شیر کو گولڈ کوسٹ رمغربی افریقہ) تبلیغ اسلام کے لئے بھجوائے گئے جہاں مسلسل پانچ سال تک تبلیغی جہاد میں مصروف رہے اور ۱۵ رمٹی ۱۹۳۳ء کو قادیان تشریف لائے.ازاں بعد یکم فروری ۱۹۳۶ء کو دوبارہ گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے.ڈیٹھ سال بعد حضرت مصلح موعود کی ہدایات کے مطابق آپ سیرالیون میں نے مشن کی بنیاد کے لئے.ا ر اکتوبر ۹۳ یہ کو گولڈ کوسٹ سے روانہ ہو کر ۱۳ اکتوبر ۱۹۳۶ کو سیرالیون کے دارالحکومت فری ٹاؤن پہنچے.سیرالیون میں آپ نے مسلسل آٹھ سال تک شاندار تبلیغی خدمات سر انجام دیں.اور با وجود شدید مخالفت کے احمدی جماعتوں میں غیر معمولی توتی ہوئی.یہی وجہ ہے کہ ۱۲ فروری ۱۹۲۵ء کو آپ قادیان تشریف لائے تو حضرت مصلح موعود نے آپ کی سرفروشانہ اور مجاہدانہ خدمات پر خمار تحسین ادا کرتے ہوئے آپ کو ایک محلیس عرفان میں کامیاب جو نیل" کے خطاب سے نوازد.اور جب آپ ۲۶ نومبر ۱۹۳۵ء کو عازم مغربی افریقہ موئے تو حضور نے آپ کو مغربی افریقہ کا رئیس التبلیغ نامزد کیا اور اعلان فرمایا کہ آئندہ آپ کا نام مولوی نذیر احمد علی ہو گا.آپ نے قادیان سے روانگی سے قبل ایک الوداعی تقریب میں فرمایا." آج ہم خدا تعالیٰ کے لئے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لئے جارہے ہیں.موت فوت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.ہم میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے.تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دور دراز حقہ ہے.جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے.احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچیں اور اس مقصد کو پورا کریں جسکی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہو گا.پس ہماری قبروں کی ه روزنامه الفضل ربوده ۲۹ اگست شک دارد.سه روز نامه الفضل ۲۲ فروری ۱۹۵۵ رد صدا

Page 278

۲۶۶ طرف سے یہی مطالبہ ہو گا کہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ جس مقصد کے لئے ہماری جانیں صرف ہوئیں اُسے وہ پورا کہ میں ہے اس دفعہ آپ کے ہمراہ تین اور مجاہد بھی تھے.یہ وفد ۲۶ فروری ۱۴۷ء کو فری ٹاؤن پہنچ گیا.مولانا نذیر احمد علی صاحب دوسرے مبلغین احمدیت کو سیرالیون میں متعین کرکے خود پورے مغربی افریقہ کی تبلیغی مہمات کا جائزہ لینے کے لئے 19 ستمبر ۱۹۴۶ء کو گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے.اور اہم خدمات بجالانے کے بعد اپریل انشاء میں ربوہ واپس تشریف لائے اور کچھ عرصہ نہایت محنت ، فرض شناسی.اور عرق ریزی کے ساتھ جامعہ المبشترین ربوہ میں پروفیسر کے فرائض سرانجام دینے کے بعد آخری بار اپریل 19ء کو ربوہ سے سیرالیون پہنچے اور ایک لمبی علالت کے بعد سیرالیون کے شہر " بو میں اسٹی ۱۹۵۵ء کو انتقال کر گئے.بنا کردند خوش رسمے نجاک و خون غلطیدن و خدا رحمت کنند این عاشقان پاک طینت را آپ سلسلہ احمدیہ کے چھٹے جا نثار مجاہد اور مبلغ تھے جنہوں نے ( بعہد خلافت ثانیہ ممالک غیر میں فریضہ تبلیغ بجالاتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی پہلے پانچ جانثار مبلغ یہ ہیں :- - حضرت حافظ عبید اللہ صاحب ماریشس (بار دسمبر ۱۹۲۳ء) ۲ حضرت شاہزادہ عبد المجید صاحب ایران ( ۲۲ ) فروری ۱۲۵ ه ) - مولوی محمد دین صاحب سابق مبلغ البانیہ آپ بذریعہ بحری جہاز مشرقی افریقہ تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ کا جہانہ ڈوب گیا.( ۲۲ نومبر ۱۹۳۷ الی م مرزا منور احمد صاحب مبلغ امریکہ (۵) ۱ ستمبر ۱۹۳۵ (۶) -۵ حافظ جمال احمد صاحب روز بل ماریشس (۲۷ ستمبر ۱۹۲۹ ) مولانا نذیر احد علی صاحب کا مزارہ سیرالیون کے شہر یوں کے ایک نہایت پر فضا جگہ پر واقع ہے.الفضل ٣٠ ، نومبر ١٩٣٥ء من (قادیان) له الفضل ۲۵ دسمبر ۶۱۹۵۵ سرورق ۲۰ کے مزید تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ۵، ۸ دحالات غانا و سیرالیون مشن تابعین اصنی احمد جلد چهارم مولفه جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ناشر احمد یہ بیڈ پو ر ہوہ پاکستان طبع اول دسمبر تار انفصال، خون شهداء منه و تجهیز و تکفین کی تفصیل از قلم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری انچا ر با سیرالیون مشن ) واتین

Page 279

اس جانثار مجاہد کی یہ امتیازی شان ہے کہ سید نا حضرت خلیفة السيح الثالث رحمتہ اللہ تعالیٰ پہلے سفر مغربی افریقہ کے دوران اور مٹی نشا کو آپ کے مزار پر دعا کے لئے تشریف لے گئے حضور کے ہمراہ حضرت شیده منصوره بیگم صاحبه ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشير مولوی محمدصدیق صاحب گورداسپوری امیر جماعت ہائے احمد یہ سیرالیون اور دیگر احباب جماعت بھی تھے.دعا کے وقت کا منظر نہایت ہی رقت آمیز تھا.ہر آنکھ اشکبار تھی بیہ مولوی نذیر احمد علی صاحب احمدیت کے ایک انتشار پیشہ ، جا نفروش اور مثالی مبلغ تھے اور آپ نے جس والہانہ انداز ، جذبہ فدائیت اور روح اخلاص کے ساتھ مجاہرانہ خدمات سرانجام دیں اُس کے نقوش اہل افریقہ اور مبلغین افریقہ کے قلوب پر ہمیشہ قائم رہیں گے.بالخصوص وہ مجاہدین احمدیت جنہیں آپ کی قیادت و رفاقت میں افریقہ میں اعلائے کلمہ اسلام کی سعادت نصیب ہوئی مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کو سالہا سال تک آپ کی معیت میں کام کرنے کا موقع ملا.آپ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- 14 یکیں مارچ ۱۹۴۰ء میں سیرالیون بھجوایا گیا اور امر کے آخر تک میں آپ کے ساتھ رہا.اس " قریباً چار سال کی مدت میں سفر و حضر میں آپ کو نہایت قریب سے دیکھنے اور آپ کی سیرۃ کا گہرا مطالعہ کرنے کا میں نے موقع پایا.آپ کا سلوک مرتبیانہ اور برادرانہ پایا.اور مجھے کبھی کوئی شکوہ پیدا نہیں ہوا.آپ جو بھی کام سپرد کرتے اس میں خود بھی حصہ لیتے تھے.ابتداء میں آپ میری پوری رہنمائی اور تربیت و اصلاح فرماتے رہے تا کہ آزادانہ طور پر کام سنبھالنے کے قابل ہو سکوں تبلیغی جوش ، سلسلہ کے لئے قربانی ، ایثار، صبر و استقلال، غیرت دینی، خدا پرستی، تو کل اور تقوی وطہارت کے لحاظ سے آپ اُسوہ تھے.باقاعدہ تہجد گزار تھے کبھی نماز اشراق بھی ادا کرتے تھے سفر و حضر میں صبح کے وقت بلا ناغه تلاوت قرآن مجید کرتے تھے.تلاوت نہایت بلند آواز سے خوش الحانی سے کرتے تھے.فراتے تھے بقیه حاشیه صفحه گذشته الفضل ۱۲ اکتو بر شکار حد امضمون مولانا نذیر احمد صاحب منتشر ۱۵ ستمبر امت امضمون شیخ نور احمد صاحب منیر میشر بلا و اسلامیہ مقیم بیروت ) له الفضل ۵ ارجون شاه ۶۱۵

Page 280

۲۶۸ که ان قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودً ا کے مطابق صبح کی تلاوت زیادہ باعث ثواب ہے.کھلی ہوا میں یہ آوازہ بند تلاوت کرنے سے دوسروں کو بھی تحریک ہوتی ہے.نیز صبح کی تازہ ہوا گلے اور پھیپھڑوں اور عام صحت کے لئے مفید ہے.سینکڑوں میل کے دورے ہم نے اکٹھے کئے.آپ ہر بستی میں داخل ہوتے وقت مسنون دعائیں پڑھتے اور بوقت ضرورت مسنون طریق پرہ استخارہ بھی کرتے تھے.اور آپ مستلقین کو بھی تلقین کرتے تھے کہ کوئی اہم معاملہ بغیر استخارہ کے طے نہ کریں.آپ ماتحتوں سے نرمی کا سلوک کرتے اور عموماً اُن کے کام کی تعریف کر کے اُن کی ہمت افزائی کرتے تھے.لیکن مفادِ سلسلہ کے پیش نظر بعض دفعہ آپ سختی ضروری سمجھتے.لیکن بعد میں نادم ہو کہ اظہار معذرت کرتے اور استغفار کرتے تھے.آپ نے علوم دینیہ بچپن میں.سبق سبقا نہیں پڑھے تھے.تاہم آپ قرآن مجید ، حدیث شریف اور فقہ میں بہت دسترس رکھتے تھے.اور عربی بخوبی بول سکتے تھے.اور عربی سیکھنے کے بہت شائق تھے.آپ علم دوست تھے.مطالعہ کا شغف رکھتے تھے کسی چھوٹے سے بھی حصولِ علم میں کوئی تردد نہیں کرتے تھے.آپ نے مجھ سے عربی ادب اور صرف و نحو پڑھی.آپ تفاسیر کا مطالعہ کر کے مشکل آیات کا حل تلاش کرتے اور نوٹ لیتے رہتے.اور زیاد فی علم کی خاطر احباب سے تبادلۂ خیالات بھی فرماتے.رمضان شریف میں درس قرآن کریم مشن کہ مستفید ہوتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ تصانیف آپ کے پاس تھیں.آپ طبع اول کی کتب رکھنے کی کوشش کرتے اور کوئی نہ کوئی کتاب آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھی.آپ نے اپنی کتابوں کے صندوق کے ڈھکنے کے اندرونی طرف حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کی نظم " نو نہالان جماعت " لگا رکھی تھی.اور جب بھی ٹرنک کھولتے اُسے پڑھ کر گنگنانے لگتے.اس طرح حضور کی ہدایات ہمیشہ مستحضر رہتی تھیں.تبلیغی سفروں میں سامان کا قریب ہے حصہ کتب مشتمل ہوتا تھا.خصوصاً ان کتب پر جن کی ضرورت تبلیغی گفتگو اور تقریروں میں ہوتی ہے.آپ کے فرزند مبارک احمد صاحب نذیر نے ایک بار توجہ دلائی کہ اس قدر زیادہ کتب ساتھ لے جا کر آپ با وجیہ سفری مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں حالانکہ انکی ضرورت کبھی کبھار پڑتی ہے.آپ نےکہا کہ میرے عزیز کو ان کتب کی قدر و قیمت کیا معلوم میں خدائی فوج کا سپاہی ہوں ، اور یہ کتب سرد حضر میں میرا بہترین اسلحہ اور مونس ہیں.له تابعین اصحاب احمد جلد چهارم مولفه مک صلاح الدین صاحب ایم اے طبع اول ۱۹۲ء ۲۳۴ تا ۲۳۹ ایم اے "

Page 281

۲۶۹ جناب مولوی نور محمد نیم سیفی صاحب سابق رئیس التبلیغ مغربی افریقہ تحریر فرماتے ہیں :- " آپ ان تھک کام کرنے والوں میں سے تھے.اور چاہتے تھے کہ اپنے ارد گرد کے تمام احباب کو ہر وقت کام ہی کرتے دیکھیں.ایک دفعہ ایک مبلغ کی ڈائری پڑھے کہ آپ کو احساس ہوا کہ ضرورت سے کم کام کیا گیا ہے.چنانچہ آپ نے ایک پروگرام بنا کہ واپسی ڈاک سے مجھے ارسال کر دیا کہ ان مبلغ صاحب سے اس پر عمل کروایا جائے.یہ پروگرام تہجد سے لے کر رات کے تو دس بجے تک کے لئے تھا.اور اس دوران میں ورزش، نمازیں ، تلاوت قرآن کریم ، ناشتہ اور کھانا، تبلیغ اور آرام و غیر یا ہر قسم کی باتیں درج تھیں.اس پروگرام کو دیکھ کر مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ آپ کو نہ صرف کام کی فکر مفتی بلکہ کام کرنے والوں کی صحت کا بھی از مد خیال تھا.اپنے ماتحتوں کی عزت افزائی اور ان کے کام کو زیادہ سے زیادہ اچھا رنگ دے کر اُجاگر کرنے کی آپ کو ہمیشہ فکر رہتی تھی.اس سلسلہ میں آپ نے مجھے بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ میں اپنے ساتھیوں سے مضامین لکھوا کر ان کی درستی کر کے اخبارات میں شائع کروایا کروں.آپ کی اس خواہش کے پیچھے یہ جذبہ کار فرما تھا کہ ہمیشہ اپنے جانشین پیدا کرنے کی فکر میں رہنا چاہئیے.آخر انسانی زندگی کا کیا بھروسہ ہے ؟ کون جانے اُسے کب پیام اصیل آجائے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کسی ایک آدمی کے چلے جانے سے کام کے میدان میں خلا پیدا ہو جائے.جب نہیں نے حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر کی وفات پر ایک پمفلٹ شائع کیا تو آپ نے ایک نہایت ہی پیارا دیباچہ لکھا جس میں حضرت نیر صاحب کی بعض نمایاں خوبیوں کا ذکر کمر کے اس بات کی خواہش کی کہ ہمیں بھی وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنی چاہیں اور ان خوبیوں کو ایک دائمی تسلسل حاصل ہو جانا چاہیئے.آپ کی خاص خاص خوبیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ آپ تبلیغ کے سلسلہ میں جماعت پر کم سے کم یو تجھ ڈالنا چاہتے تھے اور اپنے ساتھ کام کرنے والے مبلغین کو ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے رہتے تھے.چنانچہ ایک وفعہ نائیجیریا مشن کو کچھ ملی مشکلات پیش آئیں تو آپ نے جو اس وقت ہمارے رئیس تبلیغ تھے.مجھے لکھا کہ میں اپنے ساتھ کام کرنے والے مبلغین سے کہوں کہ وہ پھیری لگا کہ کپڑا بیچ لیا کریں اور یکی خود لیگوس میں ایک دو ٹیوشنیں لے لوں تاکہ اس آمد سے ہم اپنا خرچ بھی برداشت کم سکیں اور مشن کی مزیدہ مدد بھی کر سکیں.اگر چہ حالات جلد ہی بدل گئے اور مشن کو مالی آسانی میسر آگئی

Page 282

لیکن آپ کی یہ نصیحت دل پر ایک نقش چھوڑ گئی ہے " جناب مولوی عطاء اللہ صاحب کنیم رسابق مبلغ غانا و انچار ج احمدیہ مشن امریکہ ) کا بیان ہے : ئیں نے مولوی نذیر احمد علی صاحب کو غانا میں کام کرتے نہیں دیکھا.نانا میں فروری ۱۹۵۷ء میں میری آمد سے چند ماہ قبل آپ پاکستان جا چکے تھے.لیکن جن مبلغین اور احباب جماعت سے آپ کے متعلق تذکرہ ہوا.ہر ایک کو آپ کے تبلیغی جنون کی تعریف میں رطب اللسان پایا.آپ عالم شباب میں ن ممالک میں تشریف لائے اور اعلائے کلمتہ اللہ میں اپنا شباب اور اپنی صحت قربان کر دی اور اسی فریضہ کی ادائیگی میں جام شہادت نوش فرمایا.جنون تبلیغ کے لحاظ سے یقیناً آپ حضرت مصلح موعود کے اس شعر کے مطلوب دیوانہ تھے سے عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو جہاد کبیر میں آپ کو نہ بخار کی پرواہ تھی نہ کسی بیماری کی.چونکہ تبلیغ کا خود جنون تھا.اس لئے وہ ماتحت کام کرنے والے مبلغین اور دیگر افراد کو بھی اسی رنگ میں رنگیں دیکھتا اور کرنا چاہتے تھے.تھے.اور خواہاں تھے کہ سالوں کا کام مہینوں بلکہ مفتوں میں تکمیل پذیر ہو سکے.اور اس تیز رفتاری پر کسی کو شکوہ ہو تو اس کی چنداں پرواہ نہیں کرتے تھے متعدد بار ایسا ہوتا کہ شدت مرض کے باعث آپ تقریر نہیں کہ سکتے تھے تو آپ تبلیغی جلسہ میں محض شرکت کہ لیتے تا ثواب حاصل کر سکیں.میں نے وراٹا ریجن کے سوا قریباً ہر ریجن (علاقہ) میں کام کیا ہے.اور مختلف مقامات میں جاتے کی کوشش کی ہے.وہ علاقے جہاں اب سٹرکیں بن چکی ہیں.پہلے گھنے جنگل اور دشوار گزار راستوں سے وہاں جانا پڑتا تھا.آپ اُس عہد میں بھی وہاں پہنچے.دوسری بار آپ تشریف لائے تو اسی تبلیغی جنون کے صدقے اپنے ساتھ الحاج مولوی نذیر احمد صاحب بیشتر فاضل کو لائے تاکہ ان کے ذریعہ مقامی یعنی افریقن مبلغین تیار کرکے تبلیغ کی توسیع کی جائے اور بفضلہ تعالی آپ کی یہ سکیم بہت کامیاب ہوئی اور آج کل نا بعين ابعین اصحاب احمد جلد چهارم مؤسفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے صفحہ ۲۶۴ ، ۲۶۵.

Page 283

۲۷۱ کے افریقین مبلغین میں سے سوائے چند کے دیگر تمام ہی میشتر صاحب کے ذریعہ ترجمیت یافتہ ہیں.چنانچہ مولوی صاحب اور ان افریقن مبلغین کی مساعی سے اس ملک کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں احمدیت کا بیج بویا گیا اور متعد د جماعتیں قائم ہوئیں.م - جناب صوفی مطیع الرحمن حصان بنگالی ایم اے مبلغ امریکہ گی کے مبلغ امریکہ جناب صوفی مطیع الرحمن صاحب کا آبائی گاؤں" کا مائیٹ ہے.یہ گاؤں احمدیت کے قدیم بنگالی مرکز بر مین بڑیا شہر سے تقریباً تین چار میل کے فاصلے پر ہے.یہ وہی تاریخی شہر ہے جہاں حضرت مولوی سید عبد الواحد صاحب (ولادت ۱۸۵۳ ء وفات ۱۹۲۶) نے ۱۹۱۳ء میں داخل احمدیت ہونے کے بعد احمدیت کی اس زور شور سے تبلیغ کی کہ ۱۹۲۷ء تک ڈیڑھ ہزارہ سے بھی زیادہ نفوس حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.صوتی صاحب اس علاقہ کے ایک ممتاز علم دوست خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور آپکے والد ماجد قاری نعیم الدین صاحب بھی ایک بلند پایہ عالم ، ہر دلعزیز واعظ اور خوش الحان قاری تھے جن کے چار بیٹے تھے.(۱) مولوی بدل الرحمن صاحب - (۲) مولوی ظل الرحمن صاحبت - (۳) مولوی مطیع الرحمن صاحب - (۴) مولوی محب الرحمن صاحب.یہ چاروں بھائی سلسلہ احمدیہ کے خدائی اور شیدائی تھے.اور انہوں نے اپنی پوری زندگی سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں گزاری ھونی مطیع الرحمن صاحب شہاد میں پیدا ہوئے.آپ اگرچہ اپنے بھائیوں میں سے تیسرے نمبر پر تھے مگر جہاں تک قبول احدیت کا تعلق ہے پورے خاندان میں یہ نعمت اول نمبر پر آپ ہی نے حاصل کی.اس وقت آپ کی عمر قریبا پندرہ سال کی ہوگی.یہ زمانہ جماعت احمدیہ کے لئے اپنوں اور بیگانوں کی مزاحمت کے اعتبار سے بڑی پریشانی کا زمانہ تھا اور خلافت ثانیہ کا ابتدائی دور تھا اور آپ ابھی طالب علم تھے.احمدیت کی پاداش میں آپ کو گھر سے نکال دیا گیا.آپ قادیان تشریف لے آئے.اس وقت ” له تابعین اصحاب احمد جلد چہارم مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے صفحہ ۲۵۱ ۲۵۲ سے والد ماجد مکرم جناب مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان و امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی

Page 284

۲۷۳ آپ را جتنا ہی کالج سے انٹر میڈیٹ کر چکے تھے.حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر آپ نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا.آپ کو احمدیت سے والہانہ عشق تھا.آپ اور آپ کے بھائی مولانا ظل الرحمن نے قبول احمدیت کے بعد ایسا نیک نمونہ دکھایا کہ اُن کے والد بھی احمدی ہو گئے اور قادیان آنے کی خواہش ظاہر کی جس سے آپ کو اس قدر خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنی چند ضروری اور پسندیدہ اشیاء بیچ کر انہیں ہدیہ بھیجا اور وہ قادیان تشریف لے آئے.بی.اپنے پاس کر لینے کے بعد آپ نے اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر دی جس پہ حضرت مصلح موعود نے آپ کو گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کے تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر فرمایا جہاں آپ نے انتھک محنت اور خلوص سے کام کیا.شروع شروع میں آپ کو یہ ماحول کچھ اجنبی سامحسوس ہوا گھر آپ جلد ہی لوگوں میں گھل مل گئے.گھٹیالیاں میں ہی آپ نے ایم اے کی تیاری کی اور کامیاب ہو گئے.جس دن آپ کا ایم اے کا نتیجہ نکلا اسی روز آپ کا نام امریکہ مشن کے لئے تجویز ہوا.اور آپ ۲۰ میٹی ۲ء کو احمدی مسلم مشن امریکہ کے انچارج کی حیثیت سے بھیجے گئے.حضرت مصلح موعود نے بوقت روانگی آپ کو صوفی کے قابل قدر خطاب سے نواز اور ارشاد فرمایا کہ اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ بنگالی کا لفظ استعمال کریں.آپ ۸ار اگست ء کو شکا کو پہنچے.آپ کو شروع میں بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا.لیکن خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت جلد آپ نے اس پر قابو پا لیا.اور تھوڑے ہی عرصہ میں نہ صرف امریکین مشن کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں کامیاب ہوگئے بلکہ ہزاروں میل کے تبلیغی دوروں، نجی " لاقاتوں لیکچروں اور امریکن پولیس میں مضامین اور خبروں کی اشاعت اور رسالہ مسلم سن رائز “ کی وسیع پیلیٹی کے ذریعہ امریکہ میں اسلام اور احمدیت کی دھاک بٹھا دی.آپ نے قریباً سات سال کے عرصہ ہیں نہ صرف نئی جماعتیں قائم کیں بلکہ بے شمار ٹریکٹوں کے علاوہ دی لائف آن محمد ادر" دی ٹومب آن جبیر " جیسی معرکة الآراء کتا بیں شائع کیں جن کا ملکی پریس میں بھی خوب چرچا ہوا.شمالی امریکہ میں جو عرب مقیم ہو گئے تھے یا عارضی طور پر آتے تھے انہیں رسالہ " البشری " کے ذریعہ سے تحریک حریت سے روشناس کرایا.بہت سی سعید رو میں آپ کی تبلیغ سے اسلام و احمدیت میں داخل ہو ہیں.آپ کو امریکیہ میں ایسی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی کہ ملکی پریس آپ کے فاضلانہ لیکچروں سے گونجنے لگا.جناب صوفی صاحب ۱۳ دسمبر کو واپس قادیان تشریف لائے.اور دوبارہ ۲۱ اکتو بر شراء کو امریکہ بھیجے گئے.

Page 285

۲۷۳ چوہدری مظفرالدین صاحب بنگالی مرحوم کا بیان ہے کہ حضرت مصلح موعود نے آپ کو الوداع کہتے ہوئے یہ خاص اعزاز بخشا کہ وہ امریکہ میں حضور کی طرف سے بعیت بھی لے سکتے ہیں.صوفی صاحب اس دفعہ مسلسل بارہ سال تک امریکہ کی سرزمین کو نویر اسلام سے منور کرنے کے بعد تکاء میں واپس مرکز میں پہنچے.۱۹۲۷ء میں آپ کی ٹانگ پر ایک پھوڑا نمودار ہوا جس نے خطرناک صورت اختیار کر لی جس کے نتیجہ میں آپ کی ایک ٹانگ کاٹنا پڑی اور آپ کئی ماہ ہسپتال میں رہے.جو نہی آپ کی طبیعت قدرے سنبھلی آپ نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ سے کام لیا جائے اور بار بار خطوط کے ذریعہ درخواست کی کہ حضور دعا کریں کہ اللہ تعالی مرتے دم تک مجھے خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مصلح موعود نے آپ کی اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور دسمبر ۱۹۵۷ء سے آپ کو رسالہ " کہ یویو آف ریلیجینز انگریزی کا ایڈیٹر مقرر فرما دیا.ربوہ میں جب آپ نے ریویو آف ریلیجیز کی ادارت کا کام شروع کیا تو سامان بہت کم تھا.ربوہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں سے گزر رہا تھا.لیکن آپ نے اپنے علمی اور انتظامی قابلیت ، ذوق و شوق اور محنت و عرق ریزی - بہت جلد ایسے اعلیٰ معیار پر پہنچا دیا کہ یورپ اور امریکہ کے متعدد نامور منتشرقین نے رسالہ کی تعریف کی اور اس کے علمی مضامین کو سراہا.جس کا ذکر خود حضرت مصلح موعود نے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمایا.رسالہ کی افادیت میں اضافہ کے لئے آپ بڑی کثرت سے کتب ورسائل زیر مطالع رکھتے، امریکہ کے تقریباً تمام مشہور رسالے آپ منگواتے تھے.اور بستر پر تمام دن لیٹے ہوئے انہیں پڑھتے رہا کرتے تھے.جب تک ہر چیز کو خود دیکھ کر اطمینان نہ کر لیتے چین نہیں آتا تھا.جس سے آپ کی محققانہ بصیرت کا پتہ چلتا ہے.اپنی علالت کے باو یو در سالہ چھپوانے کے لئے اکثر و بیشتر خود لاہور تشریف لے جاتے.آپ نہایت جانفشانی کے ساتھ قریباً پانچ سال تک جماعت کے اہم رسالہ ریویو آف ریلی چیز کی ادارت کے فرائض سر انجام دیتے رہے حتی کہ وفات کے دن (۳۰ اکتو بر شیر کو بھی اسی خدمت میں مصروف تھے کہ حرکت قلب بند ہونے سے رحلت فرما گئے اور اس طرح نئی دنیا میں اسلام کا نہایت کامیابی سے جھنڈا گاڑنے والا ایک بہادر سپاہی اور ایک کامیاب مبلغ اور سلسلہ احمدیہ کا ایک قدیم اور انتھک خادم ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا.وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک ۵۶ سال بھی لیے رپورٹ سالانہ صدر انجمن احد بد نشد تا سایر دو الفصل یکم نومبر های ریویو آف ریلیجین » انگریزی ریکوه

Page 286

۲۷۴ ۲۷ دسمبر دار کو حضرت ۵ مقبرہ میں نواب محمد الدین صا کی تدفین بہشتی مقبر میں لا اله الا الان اصل الموجودة خلیفة المسیح نے جلسہ گاہ میں نماز ظہر وعصر پڑھانے کے بعد سلسلہ احمدیہ کے ایک نہایت مخلص بزرگ حضرت نواب محمد الدین حمایت کی نماز جنازہ بھی پڑھائی حضرت نواب صاحب مرحوم ۱۹۳۹ ء میں فوت ہوئے تھے.اور آپ کو آپ کے آبائی گاؤں تلونڈی عنایت خان میں ہی امانتاً دفن کیا گیا تھا.جہاں سے آپ کا تابوت مقبرہ بہشتی ربوہ میں دفن کرنے کے لئے لایا گیا.چنانچہ جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے ہزار ہا احمدی احباب نے حضور نہ کی اقتدا میں آپ کا جنازہ پڑھا اور بلندی درجات کے لئے دعائیں کیں بعد ازاں آپ کا تابوت مقبرہ بہشتی ہیں سپرد خاک کیا گیا.حضور نے نماز ظہر و عصر سے قبل محترم نواب صاحب مرحوم کا جنازہ پڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا : نواب محمد الدین صاحب سلسلہ کے ساتھ نہایت گہرا اخلاص رکھنے والے انسان تھے.ان کے بیٹے چوہدری محمد شریف صاحب (یونسشگری جماعت کے امیر ہیں) بھی بڑے مخلص احمدی ہیں.نواب صاحب مرحوم اس لحاظ سے بھی سلسلہ کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتے ہیں کہ ربوہ کی نہ میں خرید تے یہاں پر کانوں کی اجازت لینے اور اس طرح ربوہ بہانے کا سارا کام آپ نے ہی کیا تھا.اس لئے نواب صاحب کا ہم پر حق ہے کہ ہم ربوہ کی ہر گلی اور ہر عمارت کو دیکھ کر ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کے مدارج کو بلند فرمائے.اور ان کی اولاد میں بھی ان جیسا بلکہ اس سے بڑھ کر سلسلہ کے لئے اخلاص پیدا کرے ، حضرت نواب صاحب کے ساتھ مولوی غلام رسول صاحب آف بدوملہی کا جنازہ بھی پڑھایا گیا مولوی صاحب مرحوم اصحاب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میں سے تھے اور مربی سلسلہ مولوی چراغ الدین صاحب کے خسر تھے.آپ ۱۹۵۳ء میں فوت ہوگئے.د بقیه حاشیه صفحه گذشته نومبر شهداد منت تامه مضمون چوہدری مظفرالدین ما بنگالی ، الفصل یکم نومبر ۱۹ نومبر اور مضمون جناب مجیب الرحمن صاحب نیا کی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان ).که روزنامه الفضل ربوه ۴ جنوری 2ء ۳ - له ايضا.

Page 287

فصل هفتم ے کے بعض متفرق مگر اہم واقعات ۶۱۹۵۵ ا بدر ماریا شاہ کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر می سایت خاندان حضرت مسیح موعود میں کی صاحبزادی است الی بیگم صاحب اور میت وقیع الزمان خاص اب اسی ما المجید پر مسرت تقاریب وخلف الرشید جناب رفیع الزمان خانصاحب آف قائم کرنے یوپی) کی تقریب شادی عمل میں آئی بستید نا حضرت مصلح موعود نے قصر خلافت میں دس ہزار روپے حق مہر روز کار کا اعلان فرمایا اور دعا کی کلیہ (۲) ۱۲۰ مارچ ۱۹۵۷ و بروز ہفتہ چار بجے سہ پہر کو حضرت مصلح موعود کی صاحبزادی امتہ الجمیل بیگم صاحبہ اور جناب چوہدری ناصر محمد صاحب سیال واقت زندگی (ابن حضرت چوہدری فتح محمد سیال ، کی تقریب نکاح کا انعقاد ہوا.حضرت مصلح موعود نے اعلان نکاح فرمایا.دوران تقریب حضور پر ایک خاص کیفیت طاری رہی اور دیگر احباب کی آنکھیں بھی پرنم معنی به رخصفانہ اگلے سال در جنوری ۵۷ دارد کو ہوائی (۳) ۲۶۰ دسمبر ۱۹۵۷ء کو حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ کی افتتاحی تقریر سے قبل اپنی صاحبزادی محترمہ امتہ المتین صاحبہ کا نکاح سید محمود احمد صاحب (خلف المدرشید حضرت سید محمد اسحق صاحب ) سے اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی صاحبزادی محترمہ امت الوحید بیگم صاحبہ کا نکاح محترم صاحبزادہ مرزاور شیدام صاحب ر این حضرت صاحبزادہ مرتہ العزیز احمد صاحب سے پڑھا ہے ے بعد ازاں بریگیڈئیر.٢ الفضل در مارچ شعلاء صل - ٣ الفصل ۱۵ر باره شهداء مت.لله الفصل 4 جنوری ١٩٥٧ء.ثم الفضل ۴ فروری ۱۹۵۶ء ص ۳ -

Page 288

خاندان حضرت مسیح موعود میں اضافہ اس سال خدا تعالی کے پاک درندوں کے مطابق خاندان اضافہ ہوا :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں چھے بابرکت وجودوں کا ۱- صاحبزادی امتہ العلی صاحیہ زیده (روبی) بنت ڈاکٹر کونیل مرزا مبشر احمد صاحب ولادت ۲۵ مئی ۱۹۵۵ ) ۲- صاحبزادہ مرزامحمود احمد صاحب این صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ایم اے لیکچرار تعلیم الاسلام کا لج ربوہ (ولادت ۳ اکتوبر ) سید نا حضرت مصلح موعود نے ، جنوری شیر کو مولانا مبلغ انڈونیشیا کے اعزاز میں عشائیہ اور عبد الواحد صاحب مولوی فاضل مجاہد انڈونیشیا کے اعزاز میں عشائیہ دیا.جس میں غیر ملکی طلباء اور بعض دوسرے احباب بھی شامل ہوئے.اس موقع پر حضور مختلف ممالک کے تعلیمی و تبلیغی حالات پر دلچسپ گفتگو فرماتے رہے.یوں محسوس ہوتا تھا کہ شفیق باپ اپنے گھر میں اپنے بینچوں سے نہایت بے تکلفی کے ساتھ محبت بھری گفتگو کر رہا ہے کہیے این ور و او را شاد کودیک قادیان کے بزرگ درویش اور اخبار ریاست کرکٹ نہیں ہوا جس میں بھارت کے ہزاروں غیر مسلم مرضی پرٹ لے کر پاکستان آئے.اس موقع پر قادیان کے بعض بزرگ درویشوں نے بھی لاہور آنے کی اجازت چاہی لیکن سرکاری حکام نے کسی مصلحت کے پیش نظر اجازت دینے سے انکار کر دیا.جبس پھر دہلی کے مشہور و معروف اخبار ریاست نے ” قادیان کے احمدی شرفاء گیارہ نمبریوں میں " کے زیر عنوان حسب ذیل نوٹ شائع کیا :- ور پچھلے کرکٹ میچ کے موقع پر ہندوستان سے بنتیں ہزار کے قریب ہندوستانی مختلف صوبہ جات سے لاہور گئے.دونوں حکومتوں کے فیصلہ کے مطابق کوئی شخص بھی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر سے فارم لیکر الفضل اسم مئی و و ما - سه ڈائری نوشته مولاناعبد الرحمن حمات انور سابق پرائیویٹ سیکرٹری حضرت مصلح موعور بحواله روزنامه الفضل ، اكتوبر ٩٥٥اء مث - ٣ الفضل (۳) جنوری ۱۹۵۵ء ص۲ ۹۵

Page 289

اور اس کو بھر کر بغیر کسی دقت کے لاہور جا سکتا تھا.اور کسی شخص کے مستحق یا غیر مستحق ہونے کے متعلق سوال نہ کیا گیا.چنانچہ اس موقع پر وہ لوگ بھی مہند دستان سے پاکستان جا کہ لاہور کی سیر کہ آئے جو پولیس کے رجسٹر نمبر دس میں بطور بد معاش درج تھے یا جن کو کرکٹ سے کوئی پچسپی نہ تھی اور جو صرف اپنے دوستوں سے ملنے کے لئے وہاں گئے.مگر یہ واقعہ بے حد دلچسپ ہے کہ قادیان کے ذیل کے معزز اصحاب کو (جو احمدی جماعت میں انتہائی عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں اور جو مذہبی اعتبار سے بہت ہی بلند ہیں) کرکٹ کا میچ دیکھنے کے لئے بھی عارضی پر مٹ نہ دیا گیا.حضرت مولوی عبدالرحمنی امیر جماعت احمدیہ قادیان - ۲ حضرت صاحبزادہ مرزا دوسیم احمد رحضرت امام جماعت احمدیہ کے صاحبزادہ ).۳.ملک صلاح الدین ایم اے ایڈیٹر اخبار "بدر" قادیان.گویا کہ جس صورت میں دس نمبری بد معاشوں کو بھی کرکٹ میچ دیکھنے کا عارضی پہ سمٹ دیا گیا.ان تین نیک دل اور بلند مذہبی بزرگوں کو حکومت نے گیارہ نمبر یے سمجھ کہ پرمٹ دینے سے انکار کر دیا.اور حکومت کی کتابوں میں دس نمبر کے بعد ایک گیارہ نمبر رجسٹر بھی موجود ہے.جس میں کہ صرف مذہبی لوگوں کے نام لکھے جاتے ہیں.اور پرمٹ دینے والے افسروں کے خیال میں یہ گیارہ نمبر بیٹے دس نمبریوں سے بھی بُرے اور خطر ناک بدمعاش ہیں قادیات کی احمدی جماعت کے نمبروں کے متعلق ہمارا پرانا تجربہ یہ ہے کہ یہ لوگ اخلاق اور کیریکٹر کے لحاظ سے بہت بلند ہیں.اور ایڈیٹر ریاست نے آج تک کسی احمدی کو بھی نہیں دیکھا جو کہ دیانت دار نہ ہو.بلکہ یہ کہنا چاہئیے کہ اگر دوسرے نیک لوگ گناہ کرتے ہوئے خدا سے ڈرتے ہیں تو احمدی گناہ کرتے ہوئے خدا سے اس طرح ہی بدکتے ہیں جیسے گھوڑا صرف سایہ سے بلکتا ہے.یعنی یہ گناہ کے خیال سے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں.احمدیوں کی اس پوزیشن میں ان کو قادیان سے لاہور جانے کا عارضی پرمٹ نہ دیا جاتا ایسا واقعہ نہیں جس کو نظر انداز کیا جا سکے ہم چاہتے ہیں کہ مرکزی گورنمنٹ کا ایکسٹرنل ڈیپارٹمنٹ ان افسروں سے باز پرس کرے جو افسران بزرگوں کو پرمیٹ نہ دینے کی حماقت کے ذمہ دار ہیں ایک روشن خیال غیر احدی صحافی جو مفت روزه نگهبان ایک غیر احمدی صحافی کے تاثرات کراچی کے مدیر تھے، ۲۰ جنوری اور کو مسجد حمدیہ لم ریاست ۱۴ فروری ۱۹۵۵ء بحواله روزنامه الفضل ۲۲ فروری ۱۹۵۵ء مث -

Page 290

کراچی میں تشریف لائے.لطیف احمد صاحب تاثیر چیف ایڈیٹر "المصلح" تے انہیں سلسلہ احمدیہ کی دینی خدمات کے بارے میں معلومات بہم پہنچائیں جن سے متاثر ہو کر انہوں نے اخبارہ نگہبان“ میں حسب ذیل شذرہ سپرد قلم فرمایا :- " میں نے احمدیہ مسجد کراچی میں کیا دیکھا " کراچی میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں ۲۳ جنوری کو روزہ نامہ المصلح" کراچی کے چیف ایڈیٹر جناب لطیف صاحب تاثیر سے اُن کے دفتر واقع احمد یہ مسجد میں ملنے گیا.صاحب موصوف بڑے تپاک سے ملے اور دیر تک گفتگو کرنے کے بعد انہوں نے مجھے قرآن پاک کے ۳ ترجمے دکھائے ایک انگریزی دوسرا جمعیتی اور تیسرا ڈچ زبان میں تھا.اور جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ احمدیہ جماعت نے یوروپ کی ۱۲ زبانوں میں قرآن پاک کے ترجمے کر کے اقوام یورپ کے سامنے پیش کئے ہیں تو بے انتہا مسرت ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ اسلامی فرقوں میں....صرف یہی جماعت ہے جو یورپین ممالک میں تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہے.ایڈیٹر صاحب سے ملنے کے بعد جب میں احمدیہ مسجد گیا.تو یہ دیکھ کر دلی مسرت ہوئی کہ بڑے بڑے احمدی افسران و عمائدین احمدیہ مسجد کے فرش دیواریں اور چھت پانی سے دھو کر صاف کر رہے ہیں اور اس خدمت کو ہر ہفتہ بلا تکلف انجام دیتے ہیں.در اصل اس مسجد میں اخوت و مساواتِ اسلامی کا جو مظاہرہ ہوتا ہے وہ دوسرے فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے.صدا امین احمدیہ کےلئے تحریک الفین استان حضرت مصلح موعود نے اس سال کے شروع میں تحریک فرمائی کہ مخلص احباب تحریک جدید کے علاوہ صدر انجین احمدیہ کے لئے بھی اپنی زندگیاں وقف کریں.فرمایا :- احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ اب تک صرف تحریک جدید کے لئے واقفین لئے جاتے تھے.اب ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ صدر انجمن کے لئے بھی واقفین زندگی کی تحریک کی جائے.پس اس بارہ میں میں اعلان کرتا ہوں کہ مخلص احباب اپنے آپ کو سلسلہ کی خدمت کے لئے پیش کریں.عام را ہنمائی کے لئے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مندرجہ ذیل قسم کے احباب کا یہ آمد ہو سکیں گے :.لے ہفت روزه نگهبان کراچی ۲۵ جنوری ۶۱۹۵۵

Page 291

۲۷۹ اول ، ایم.اے.ایل ایل بی ڈاکٹر دوم: بی.اے بی ٹی.سوم: ایسے افراد جن کو انتظامی کاموں کا تجربہ ہو خواہ پنشنز ہوں.چهارم: ایسے احباب جو تجارتی یا صنعتی دلچسپی رکھتے ہوں خواہ مڈل تک کی تعلیم ہو - گزارہ کے متعلق ہر ایک واقف کو صدر انجمن احمد یہ اطلاع دے گی کہ کس اصل پر وہ گزارہ دے سکتی ہے.اس تحریک پر کئی مخلصین جماعت نے اپنی زندگی اپنے پیارے امام کے حضور پیش کرنے کی سعاد حاصل کی.مشہور اطالوی پروفیسر ڈاکٹر ایسا نڈر و یونانی روہ میں ایک مشہور اطالوی پروفیسر کی مد جو اپنی مادری زبان کے علاوہ دنیا کی مشہور پانچ زبانوں کے ماہر اور قرآن مجید کے اطالوی زبان میں مترجم نیز روم یو نیورسٹی میں شعیہ فارسی کے صدر بھی تھے ان دنوں پاکستانی یونیورسٹیوں کے دورہ پر تھے.آپ وکالت تبشیر کی دعوت پر کز احیت دیکھنے کے لئے ۱۳ فروری شھداء کو لاہور سے ربوہ آئے.اور سید نا حضرت مصلح موعود سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.علاوہ ازیں مرکزی دفاتر اور اداروں کو بھی دیکھا اور تعلیم الاسلام کالج میں اٹلی میں اسلامی علوم کی ترویج کے موضوع پر لیکچر دیتے مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ مرکزہ یہ تے اپنے خصوصی اجلاس منعقدہ ۱۴ فروری شار نہ اماءاللہ کا عہ این زیر بار حضرت ام ار ان کا در این انار اور کیا - ناصر ور عہد نامہ :- ۱۹۵۵ء اشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ الة وَرَسُولُه میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنی جان و مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لئے تیار رہوں گی.نیز سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی.1964 ء میں اس عہد نامہ میں مندرجہ ذیل فقرہ کا اضافہ کیا گیا کہ :- اور خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہوں گی کہیے الفضل ۸ فروری ۱۹۵۵ء ص۳ له الفضل ۱۵ فروری ۱۹۵۵ء منا ے رسالہ " مصباح " فروری شهداء مت تاریخ لجنہ اماء اله جلد دوم صفورات به مرتبه امته التکلیف صاحبه 144 سیکرٹری شعبه اشاعت لجنہ اماء الله مرکز یه ربع اول جنوری شاه

Page 292

۲۸۰ طعا اس سال جماعت احمدیہ کے خلاف جس رنگ میں بے بنیاد جاعت امری کے نام بے بنیاد پراپیگن اور جھوٹا پراپیگنڈہ کیا گیا اور مفروضہ خبریں شائع کی گئیں اس کا ایک نمونہ ریکارڈ کرنا ضروری ہے.اخبارہ تعمیر" راولپنڈی نے لکھا :- لاہور - ۱۸؍ مارچ (نمائندہ خصوصی) معلوم ہوا ہے کہ جماعت احمدیہ نے اپنا ہیڈ کوارٹر ربوہ سے انڈونیشیا منتقل کر دینے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے.مزید معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے بیٹے مرزا ناصر احد تھوڑا ہی عرصہ ہوا.انڈونیشیا کا دورہ کرکے لوٹے ہیں.یاد رہے کہ نیام پاکستان سے پہلے جماعت احمدیہ کا ہیڈ کوارٹم قادیان د مشرقی پنجاب) میں تھا جہاں اب بھی اس جماعت کے تین سو تیرہ ارکان مقیم ہیں.ہمارے نمائندہ خصوصی تنظیم لاہور مک ممتاز کو جماعت احمدیہ کے قریبی حلقوں نے بنایا ہے کہ جن دنوں مجلس تحفظ ختم نبوت کا پاکستان میں زور تھا اور اس قسم کا پروپیگنڈا زوروں پر کیا جار ہا تھا کہ جملہ احمدیوں کو ایک اقلیتی فرقہ قرار دے دیا جائے اور چوہدری ظفر اللہ کو وزارت خارجہ سے ہٹا دیا جائے.انہی دنوں اس امر پر غور و خوض شروع ہو گیا تھا کہ جماعت کا ہیڈ کوارٹر ربوہ سے منتقل کر دیا جائے چنانچہ مارشل لاء اور اُس کے بعد چوہدری ظفراللہ خان کے استعفوں اور چوہدری صاحب کے بین الا قوامی عدالت میں پہلے جانے کی خبروں کے پیش نظر ہیڈ کوارٹر کی تبدیلی کے منصوبہ پر سنجیدگی سے غور شروع ہو گیا اور جس روز چوہدری صاحب پاکستان سے ہیگ چلے گئے ہمارے لئے آپ کوئی چارہ نہ رہا کہ ہم ربوہ سے باہر چلے جائیں.اس حلقے نے بتایا کہ چوہدری ظفر اللہ کے بحیثیت وزیر خارجہ پاکستان میں رہنے سے اگرچہ تبلیغی لحاظ سے جماعت احمدیہ کو کوئی خاص فائدہ نہیں تھا.مگر اس قسم کی ڈھارس سی تھی کہ حکومت میں ہمارا بھی نمائندہ ہے.اب اگر چہ حکومت کی طرف سے ہمارے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی جار ہی لیکن اپنے تبلیغی ذرائع کو محدود اور ایک عدم تعاون کے نظریہ کو پاتے ہوئے ہم مجبور ہیں کہ ربوہ کو چھوڑ دیں جس کیلئے انڈونیشیا کو منتخب کر لیا گیا ہے.جہاں بیٹھ کر ہم اپنا عالمی مشن چلائیں گے.اس حلقے نے ابھی یہ انکشاف نہیں کیا کہ کی ان کا ہیڈ کوارٹر منتقل ہو جائے گا.به روزنامه وزنامہ " تعمیر کے راولپنڈی مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۵۵ و مادر

Page 293

۲۸۱ مندرجہ بالا بے بنیاد اور جھوٹی خبر اگلے دن بالکل انہی الفاظ میں اخبار زمیندار " لاہور نے بھی شائع کی لیے پھر تین ماہ کے بعد لکھا :- کراچی - ۲۹ جون - کراچی کے ایک اردو روزنامہ نے اپنی ۲۷ جون کی اشاعت میں لکھا ہے کہ قادیانیوں کے سربراہ اپنی باقی ماندہ زندگی انڈونیشیا میں بسر کرنا چاہتے ہیں.اس سلسلے میں انڈونیشیا کے سفارت خانے نے وضاحت کی ہے اور کہا ہے کہ قادیانی سربراہ کی طرف سے انہیں باقاعدہ کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی کہ آیا وہ ربوہ سے اپنا ہیڈ کوارٹر انڈونیشیا میں منتقل کرنا چاہتے ہیں یا نہیں سفارت خانے نے کہا ہے کہ جا کر تہ سے وزارت مذہب کی طرف سے بھی اس ہجرت کے متعلق نہیں کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے الا یار کے ایک قدیم احمدی کا انتقال کال کٹ کے رونی حصوں میں سے ایک بزرگ احمدیوں • ایم احمد تھے جو اس سال ۲ ر ا پریل ۹۵۵ ایر کو فوت ہو گئے.اے پی عبدالرحیم صاحب آف کلکتہ کے بیان کے مطابق آپ کو احمدیت کا پیغام رسالہ ریویو آف ریلیجینز کے ذریعہ پہنچا اور آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے عہد مبارک میں ہی شامل احمدیت ہو گئے مگر بیعت کے ایک سال بعد حضرت اقدس کا وصال ہو گیا اس لئے حضور کی زیارت نصیب نہ ہو سکی.جماعت احمدیہ مالا بار کی تاریخ میں آپ کی مالی قربانیاں ہمیشہ یاد رہیں گی.ابتدائے زمانہ میں جبکہ مالا بار کے مذہبی راہنما اور اُن کے حاشیہ نشین احمدیوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے مرحوم نے نہایت فراخدلی کے ساتھ خدا کے مظلوم بندوں کی مالی اعانت اور تکالیف کو کم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ بے اندازہ عقیدت و محبت تھی.ہر ضرورت کے وقت حضور کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھتے اور خدا کے فضل و کرم سے حصہ وافر پاتے احمدی اور غیر احمدی کیا غیر مسلم تک آپ کے دلدادہ تھے.آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کالی کٹ شہر میں گزارا.وفات کے وقت جماعت احمدیہ پینگا ڈی کے پریذیڈنٹ تھے ہے ه روز نامہ زمیندار کاہور ۲۱ مارچ ۱۹۵۵ء مت.که روزنامه زمیندار کا پور یکم جولائی ۵ ام من • سے اخبار بدر ۱۴ اگست ۱۹۵۵ء ۶۱۲

Page 294

جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے تاریخ مالا بار کے صفحہ ، پر ان کا بطور خاص ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خلافت ثانیہ کے اوائل میں مالا باری احمدیوں کے نمائندے کی حیثیت سے سالانہ جلسہ قادیان پر قادیان بھیجے گئے تھے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے آپ کا تمام حاضرین جلسہ سے تعارف بھی کرایا تھا.اس کتاب میں اس واقعہ کا سن دسمبر یہ بتایا گیا ہے مگر یہ سہو ہے کیونکہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ان دنوں لندن میں تھے.پھر یہ کونسا سال ہے ؟ الفضل کے پرانے اور مستند مطبوعہ ریکارڈ سے اس پر کوئی.وشنی نہیں پڑتی.اس سال مولانا ابو العطا صاحب جالندھری مدیر مولانا ابو العطا صاب کا سفر قادیان ماہنامہ الفرقان" اپریل کے دوسرے مہفتہ میں ہندوستان تشریف لے گئے.دورانِ سفر آپ کو قادیان دارالامان کی زیارت بھی نصیب ہوئی.واپسی پر آپ نے سفر قادیان کے روح پرور تا ثرات قلم بند فرمائے جو روزنامہ الفضل در مئی اء میں شائع ہوئے جن سے شہواء کے قادیان کی ایک جیتی جاگتی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اور تحریک احمدیت کی صداقت پر ایک زندہ ایمان نصیب ہوتا ہے.آپ نے لکھا:.بيت الدعا میں چند منٹ گزارنے کے بعد اپنی قیام گاہ پر آیا.تلاوت قرآن مجید کی اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے بزرگوں کے مزاروں پر اندھا کرنے کے لئے بہشتی مقبرہ کی طرف روانہ ہوا سارا راسته و هی سکون محسوس ہوا جو ہمیشہ ہوا کرتا تھا میں بعض پیشینگوئیوں پر غور کرتا ہوا بہشتی مقبرے کی سٹرک پر جارہا تھا، میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان بوڑھے بچے اور خواتین دعا کر کے واپس آرہے ہیں اور کچھ دعا کے لئے جا رہے ہیں.روضہ مبارک پر بھی چند دوست سوز وگدازہ سے دعا کر رہے تھے.نہیں نے حضرت مسیح مولو علی السلام کے روضہ پر دعا کے بعد اپنے طریق کے مطابق پہلے اپنے اساتذہ حضرت مولاناسید محمد سر درشاہ مانا.حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت قاضی امیر حسین صاحب اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب کی قبروں پہ ان کی بلندی درجات کیلئے دعا کی پھر اپنے پیارے اور محسن والد حضرت میاں امام الدین صاحب کی قبر پر گیا.لے مطبوعہ انوار احمدیہ پریس قادیان شیخ صاحب شاشاء میں مالا بار میں مبالغے تھے اور یہ کتاب آپ نے انہی دنوں تالیف فرمائی تھی.

Page 295

۳۸۳ اور دعا کی.پھر اپنی مرحومہ بیوی والدہ عزیزم عطاء الرحمن ظاہر کی قبر پر دعا کی.پھر اپنے نانا جان شیخ نظام الدین صاحب آف سٹروعہ کی قبر پر دعا کے لئے گیا.آخرہ میں اپنی پیاری والدہ ماجدہ رضی اللہ عنہا کی قبر یہ دعا کی.یہ قبریں بہشتی مقبرہ کے مختلف قطعات میں پھیلی ہوئی ہیں.اس لئے دُعا کے لئے ساتہ قبرستان کا چکر لگانا ضروری ہوتا ہے اور ء کی ہجرت کے بعد جب بھی مجھے قادیان آنے کا موقع ملا ہے کہیں نے قریباً ہر روز سارے بہشتی مقبرے میں دُعائیں کی ہیں حدیث نبوی کے مطابق زیارت قبور موت کو یاد دلاتی ہے جب یکی بہشتی مقبرے سے واپس آرہا تھا تو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان قوت قدسیہ کا تصور کر رہا تھا.اس زمانہ میں جب کہ آپ کے خلاف فتویٰ کفر کا زور شور مچا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دوسرے معاند علماء سلسلہ احمدیہ کو مٹانے کے لئے ایٹی چوٹی کا زور لگا رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو مخاطب کر کے فرمایا تھا ہر سے هُمْ يَذْكُرُونَكَ لا عِننين وذكرُنَا فِي الصَّالِحَاتِ يُعَدُّ بَعْدَ فَنَاءِ کہ ان کو تو لوگ بڑے طور پر یاد کیا کریں گے مگر ہمارا ذکر خیر اور ہمارے لئے دعاؤں کا سلسلہ ہماری موت کے بعد بھی جاری رہے گا وایہ کے عظیم انشان انقلاب کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر زائرین کا اس طرح مسلسل دعائیں کرتے رہنا آپ کی پیشگوئی کی صداقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے اور ادھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا یہ حال ہے کہ ان کی قبر کا بھی کسی کو پتہ نہیں ۱۹۴۷ء سے پہلے ایک دفعہ بڑی مشکل سے اُن کی نشاندہی ہو سکی تھی اور آپ تو اس کا آنا پتہ ہی نہیں ہے.بہرحال اللہ تعالی نے ان واقعات سے اپنی مستی اور قدرت کا ثبوت دیا ہے " بین امریکین رسالہ لائف میں جماعت احمدیہ کی اس سال میں ان اقوامی شہر کے مال مہنت دار کی شاندار تبلیغی جد و جہد کا ذکر امریکی رسالہ تالف ( E ) نے دنیا " LIFE کے مشہور مذاہب پر درج ذیل اشاعتوں میں کچھ تفصیلی مضامین شائع کئے ہندو مذہب دے فروری) بدھ مت ( ۷ مارچ ) چینی ندا سب (۳ را به بین) اسلام دور مٹی ).یہودیت (۱۳(جون) - عیسائیت (۲۰/ دسمبر).ور مٹی شاء کی اشاعت میں رسالہ لائف نے اسلام پر جو مسود مضمون سپر دا شاعت کیا.اس کے انخلہ میں اس نے خصوصیت کے ساتھ جماعت احمدیہ کی ان مسائلی کا تذکرہ کیا جو جماعت کی طرف سے ان

Page 296

PAN دنوں اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے عمل میں آرہی تھیں.رسالہ لائف نے اس امر کا بھی اعتراف کیا که مبلغین احمدیت جس خوش ذوق و شوق اور جان فروشی کے ساتھ افریقہ میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں عیسائی پادری بے بس نظر آتے ہیں اور جہاں ان کی کوششوں کی بدولت ایک شخص عیسائیت میں داخل ہوتا ہے وہاں احمدی مبلغوں کی مساعی سے دس افراد حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں.اس مفید مضمون کا ایک اہم حصہ (مع ترجمہ) درج ذیل کیا جاتا ہے :- MISSIONS A NEW SECT SEEKS TO WIN CONVERTS TO ISLAM Though no faith in history spread with such fabulous speed as Islam, it was no - contrary to Western opinion propagated ex- clusively with fire and sword.While it is true that the Koran sanctions holy war and that many Pagan chose Islam in prefer- ence to oblivion the Moslems were generally tolerant of Chris- tians and Jews and granted religious freedom to those who paid tribute.Numerous converts adopted Islam because of its doctrinal appeal.And in the centuries that followed its first swift florescence, it continued to spread quietly in the wake of Arab traders who carried its precepts to India, China and eventually Indonesia.Until recently Islam had no organized missionary movement.For just as the orthodox Moslem abhorrence of mediation between man and God has obviated a priesthood, so individual faith makes every Moslem a missionary.But Islam has also been a victim of its own pride; contemptuous of other doctrines, it long denied itself the refreshing impact of new and outside ideas.Today, however, there are signs that it has begun to interest itself in the technique of Christian missions.Even the ancient Al Azhar University at Cairo, Intellectual center of Islam, which has resisted Western influences, now trains a few students annually for missionary work in the field.And certain off shoot sects are exhibiting symptoms of religious energy.Of these the most vocal is a modern sect called the Ahmadiyya, with headquarters in Pakistan and missionary centres throughout Eruope, Africa, America and the Far East.The Ahmadiyya movement evolved in India during the last half century.Its origin, as with many other Islamic sects, was eccen- tric.In 1890 a performer named Mirza Ghulam Ahmad, of Qadian in the Punjab, announced that he was the bearer of a new evelation, a new interpretation of Islam for the modern era, and that his com- ing was foretold both in the Bible and the Koran.He claimed to be both the Messiah and the Mahdi, a Moslem version of the Messiah, and cited in evidence the similarity of his character to that of Christ (though he afterward asserted his superiority to him).A few years.later he insisted that he was also an avatar, or incarnation, of the

Page 297

۲۸۵ Hindu Krishna (Life, Feb.7).He also boasted of his ability to fore- tell the deaths of his opponents, which accurred so consistently in accordance with his forecasts that the government finally forbade him to exercise his prophetic power.But his teachings were liberal and pacifistic; Islam was to be propagated by precept, not by holy war, by missionaries, not by the sword.After the death of Ahmad in 1908, his followers separated into two groups: the original Qadianis who supported Ahmad's claim to be a prophet, and the seceders, with headquarters at Lahore, who discarded this idea and formed a society for the propagation of Islam.Today both branches engage in mission work around the world.The Qadianis claim 60,000 converts in Africa, which they have made a special target.For obvious reasons Islam is spreading wherever in the world the white man's prejudices about race and color seem to deny Christ's teachings of the fellowship of man.Like Christianity and judaism, Islam began among the predominantly Semitic peoples at the south- eastern corner of the Mediterranean basin.To day of the world's variegated Moslem populations.The vast majority are enlisted from other ethnic groups.About three quarters of them live in Asia and most of the remainder in Africa where millions of Negroes, represent- ing roughly one fifth of the native inhabitants, have already embraced Islam.In some arears where Christian and Moslem mission- aries are in competition Islam gains 10 converts for every one who accepts the rival faith.It is significant that in West Africa, Islam has come now to be regarded as the religion of the blacks as opposed to Christianity the religion of the whites.(ترجمہ ) دنیا میں جس برق رفتاری سے اسلام پھیلا ہے تاریخ عالم میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، بایں سمجہ اہل مغرب کے نظریات کے برعکس اس کی اشاعت محض اسلحہ جنگ اور تلوار کی مرہون نہ نتی یہ درست ہے کہ قرآن نے جہاد کی اجازت دی اور بہت سے لیے دین مشرکوں نے اس حال میں اسلام قبول کیا کہ اگر وہ ایسانہ کرتے تو انہیں اپنی مستی سے ہی ہاتھ دھونا پڑتا.لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، کہ مسلمانوں نے بالعموم عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کیا اور ان لوگوں کو مذہبی آزادی عطا کی جنہوں نے خراج یا جزیہ دینا قبول کر لیا.پھر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہ تھی جو اس لئے نئے دین میں داخل ہوئے کہ اسلامی عقائد کی صداقت ان کے دلوں میں گھر کر گئی تھی.ے فاضل مضمون نگار نے اپنے ذاتی خیالات کے ماتحت ایسا لکھا ہے ورنہ اسلامی نظریہ جہاد کے مطابق یقیناً ایسا ہوا خود نبی کرم صل اللہ یہ تم اورخلفاء اربعہ کی زندگی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے یہ پتہ لگتا ہو کہ سی بی مشخص وخفض اس لئے زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا ، کہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا.

Page 298

۲۸۶ اسلام اپنے ابتدائی زمانہ عروج کے بعد صدیوں تک عرب تاجروں کے ذریعہ دنیا میں خاموشی کے ساتھ پھیلتا رہا، یہ عرب تاجہ ہی تھے جنہوں نے اسلامی تعلیم کو ہندوستان ، چین اور بالآخر انڈونیشیا تک پہنچایا.حال ہی میں کچھ عرصہ قبل دنیا میں تبلیغ اسلام کی کوئی منتظم تحریک موجود نہ تھی مسلمانوں میں خدا اور بندے کے درمیان کسی اور کو واسطہ تسلیم نہ کرنے کے شدید جذبہ کی وجہ سے اسلام میں پاپائیت کبھی سر نہ اٹھا سکی.ہر سلمان اپنے انفرادی ایمان کی بدولت اپنی ذات میں اسلام کے ایک مبلغ کی حیثیت رکھتا تھا.تاہم اسلام خود اپنے جذبہ تفاخر کا اس رنگ میں شکار ہوتا رہا، کہ اس نے دوسرے معتقدات کی تحقیر میں نئے اور مجھی افکار و نظریات کے ساتھ علاقہ پیدا کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی طرف کوئی توجہ نہ دی.لیکن موجودہ زمانے میں اب مسلمانوں کے اندر ایسے آثار ظاہر ہو رہے ہیں کہ جن سے ایک خاص رجمان کی نشاندہی ہوتی ہے اور وہ رجحان یہ ہے، کہ مسلمانوں نے بھی اب عیسائیوں کی تبلیغی تنظیم ! اس کے فنکارانہ اسلوب میں دلچسپی لینی شروع کر دی ہے حتی کہ قاہرہ کی المان مہر یو نیورسٹی بھی جسے اسلام کے ایک علمی مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور جو مغربی اثرات کا شدت سے مقابلہ کرتی رہی ہے اب ہر سال بعض طلبہ کو اس غرض سے تیار کرتی ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کا فریضہ ادا کر سکیں.مزید یہ آں اسلام کے معیضی دوسرے فرقوں میں بھی زندگی اور قوت کے آثار دن بدن نمایاں ہو رہے ہیں.ان میں سب سے زیادہ پیش پیش ایک نیا فرقہ ہے جو جماعت احمدیہ کے نام سے موسوم ہے.اس کا صدر مقام پاکستان میں ہے اور یورپ، افریقہ ، امریکہ اور مشرق بعید کے ممالک میں اس کے باقاعدہ تبلیغی مشن قائم ہیں.احمدیت کی تحریک گذشتہ نصف صدی کے اندر اندر ہندوستان میں معرض وجود میں آئی بعض دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح اس کی ابتدا بھی غیر معمولی حالات میں ہوئی بن شاہ میں (حضرت مرزا غلام ! نامی ایک ریفار مرنے پنجاب میں قادیان کے مقام پر صاحب الہام ہونے کا دعوی کیا اور کہا کہ خدا تعالے نے ے یہ بھی مضمون نگار کا ذاتی تاثر ہے ورنہ اسلام نے کسی مذہب کے متقات کی تحقیر نہیں کی بلکہ صداقت کے پیش کرتے میں بھی ان کے احساسات کاخیال رکھا ہے اوربعض امورمیلا مشر توحید وغیرہ میں تو تعاون و اشتراک کی پیشکش نیک کی ہے.در آل عمران : ۶۵) کے الازہر یو نیورسٹی کی طرف سے ابھی تک کوئی اسلامی منشن جاری نہیں ہوا.

Page 299

نئے زمانے کی ضرورت کے مطابق اسلامی تعلیمات کے نئے نئے معارف ان پر کھولے ہیں.انہوں نے اس اکبر پر بھی زور دیا کہ ان کی بعثت کی خیر بائیل اور قرآن دونوں میں موجود ہے.انہوں نے مسیح اور مہدی ہونے کا بھی اعلان کیا.اور اس کے ثبوت میں اس امر کو خاص طور پر دنیا کے سامنے نہ کھا کہ خود ان میں اور مسیح میں جو ہو اور اوصاف کے لحاظ سے مماثلت پائی جاتی ہے گو بعد میں انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ملحاظ مرتبہ سینے سے افضل ہیں.چند سال بعد انہوں نے اس دعوئی کا بھی اعلان کیا کہ وہ مہندؤوں کے لئے کوشن ہیں.انہوں نے اپنے آپ کو اس رنگ میں بھی ظاہر کیا کہ وہ اللہ تعالی سے خیر یا کہ اپنے مخالفین کی موت کی پیشگوئی کرنے اور اُن کے انجام کے متعلق قبیل از وقت اطلاع دینے کی اہلیت رکھتے ہیں.بعد میں ان کی یہ پیشگوئیاں اس طریق پر حرف بحرف پوری ہونے لگیں کہ حکومت نے بالآخر انہیں اس قسم کی پیشگوئیاں کرنے سے منع کر دیا.ان کی تعلیم نرمی اور آزاد خیالی پر مبنی تھی.انہوں نے تعلیم دی کہ اسلام جہاد کے ذریعہ نہیں بلکہ اپنی باطنی تو بیوں کے ذریعہ دنیا میں پھیلے گا.اور طوار نہیں بلکہ خالصہ تبلیغی جد و جہد اس کی اشاعت کا ذریعہ بنے گا.شاریہ میں مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد ان کے ماننے والے دو گروہوں میں بٹ گئے.ان میں سے اصل گروہ جو ابتداء معرض وجود میں آیا تھا قادیانی کہلاتا ہے اور ان کے دعوئی ماموریت پر ایمان رکھتا ہے، علیحدہ ہونے والے گروہ نے جو اس خیال کا حامی نہیں تھا لاہور میں اشاعت اسلام کے نام سے ایک انجمن قائم کر لی ہے.آجکل دونوں جماعتیں دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے میں مصروف ہیں.قادیانی جماعت کا جس نے افریقہ کو خاص طور پر اپنی توجہ اور جد وجہد کا مرکز بنا رکھا ہے ، دعوئی ہے کہ وہ اب تک وہاں ساٹھ ہزار منشی باشندوں کو اسلام میں داخل کر چکی ہے.ے یہ وضاحت ضروری ہے کہ حضرت میں موعود علیہ اسلام کا ہمیشہ سے یہ مسلک تھا کہ کسی شخص سے متعلق انداری پیشگوئی کا اعلان نہیں کیا جاتا تھا جب تک اس سے اجازت حاصل نہ کر لی جائے اور گورنمنٹ کا بھی یہی منشا تھا.مضمون نگار نے غالبا یہ غلط فہمی سے لکھا ہے، یہ اختلاف حضرت مسیح موجود کی وفات (۲۶ مٹی ) کے معا بعد نہیں ہوا بلکہ جماعت کے پہلے خلیفہ حضرت مولانا نور الدین بھیروی کی وفات (۱۳) ماست ۱۹۱۳ء) کے بعد ہوا ہے.نیز جماعت ا کی لاہوری شارخ بھی حضرت اقدس کے دعوئی ماموریت کی ہرگز منکر نہیں.

Page 300

۳۸۸ دنیا میں جہاں کہیں بھی رنگ اور نسل کے بارے میں سفید نام اقوام کے تعصیات انسانی برادری سے متعلق مسیح کی تعلیم کو پس پشت ڈال کر اس کی تردید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہاں اب رعیسائیت کی جگہ اسلام پھیل رہا ہے ، ایسا کیوں ہے.اس کے اسباب ظاہر وباہر ہیں.دین بیوی اور دین موسوی کی طرح اسلام کا آغاز بھی بحیرہ روم کے جنوب مشرقی کوتے ہیں سامی النسل لوگوں کے درمیان ہی ہوا تھا.چنانچہ یوروشلم کی قدیم پہاڑی جو ساتویں صدی عیسوی کے زمانہ سے مسلمانوں کے لئے ایک متبرک عبادت گاہ کا درجہ رکھتی ہے عیسائیت کے نمودار ہونے سے قبل یہودیوں کے لئے بھی اسی طرح متبرک تھی، اور وہ وہاں اپنے جانوروں کی قربانی دیتے تھے.اگر چہ مسلمانوں نے خود اس غرض کے لئے اس جگہ کو کبھی استعمال نہیں کیا.لیکن آج دنیا میں مسلمانوں کی آبادی مختلف رنگ اور نسل کے لوگوں پر شتمل ہے اور اس کی ایک بھاری اکثریت سامی نسل کے علاوہ کلبہ دوسرے نسلی گروہوں سے تعلق رکھتی ہے.ان میں سے تین چوتھائی کے قریب ایشیا میں آباد ہے اور باقی کا اکثر حقہ افریقہ میں پھیلا ہوا ہے جہاں لاکھوں لاکھ منشی باشندے جن کی تعداد وہاں کی اصل آبادی کے پانچویں حصے کے برابر ہوگی اسلام قبول کر چکے ہیں بعض علاقوں میں جہاں آجکل عیسائی مشنری اور مسلمان مبلغ ایک دوسرے کے بالمقابل اپنے اپنے مذہب کی اشاعت میں مصروف ہیں حالت یہ ہے کہ عیسائیت قبول کرنے والے ایک شخص کے مقابلے میں دس حیثی اسلام قبول کرتے ہیں.به امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مغربی افریقہ میں اب اسلام کو واضح طور پر حبشیوں کا مذہب قرار دیا جاتا ہے جبکہ عیسائیت وہاں صرف سفید فام لوگوں کا مذہب بن کر رہ گئی ہے " رسالہ کی اشاعت کے بعد نیو یارک کے ادارہ 142 TIME INCORPORATED THE WORLD'S GREAT می به مضامین کتابی شکل میں شائع کر دیئے اور اس کا نام رکھا.افسوس ادارہ نے کتاب میں سے جماعت احمدیہ کی تاریخ اور تبلیغ اسلام کی مساعی کا تفصیلی ذکر خارج کر دیا اور اس کی بجائے صرف چند سطریں بطور خلاصہ لکھے دیں.رسالہ " لائف" کے مندرجہ بالا امریکی سیالہ گالف کے مضمون پر اخبار لوں قلم تم تبصرہ مضمون پر پشاور کے اخبار وح و قلم تے حسب ذیل تعیصرہ سپر د اشاعت کیا :-

Page 301

۲۸۹ تمام عالم اسلام کے علماء کرام اور ساری تبلیغی جماعتیں آجکل مساجد کے ممبروں پر اخبارات اور ریڈیو پر اسلام کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے میں نہایت سرگرمی سے مشغول ہیں لیکن ان کے مواعظ حسنہ اور ان کی وعظ و نصیحت زیادہ تر بلکہ تمام تر اسلام کے حلقہ بگوش دیندار مسلمانوں کے لئے وقف ہے یورپ اور امریکہ کے غیر مسلموں تک پہنچ کر ان کو اسلام کی خوبیوں سے واقف کرنے کی سعادت بھی انہیں نصیب نہیں ہوئی.بین الاقوامی تبلیغ کا حق ادا کرنے میں جماعت احمدیہ تمام اسلامی تبلیغی جماعتوں سے بازی لے گئی ہے اور اس کی نصف صدی کی کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مغربی ممالک کے لوگ اسلامی تعلیم سے قدرے آشنا ہو گئے ہیں.اور یورپ اور امریکہ کے اخبار بین طبقہ نے اپنے ممالک کے اخبارات و رسالہ جات میں اسلامی واقفیت سے لبریز مضامین کو برداشت اور گوارا کر لیا.کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۵۵ ء کا سال تعلیمی اعتبار سے احمدی طلباء کی نمایاں کامیابی جاعت احمدیہ پاکستان کے لئے بہت مبارک ثابت ہوا کیونکہ اس میں بعضی احمدی طلبا اور طالبات نے امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کی.- عزیزه سیده نعیمه صادقه صاحبه دیبیت سید مقصود علی شاہ صاحب مرحوم، میٹرک میں ۶۱۴ نمبر اصل کر کے صوبہ سرحد کی لڑکیوں میں اول آئیں ہے -۲- بشیر احمد صاحب گورنمنٹ کوارٹرز ۳۶.ڈی لاہور کی صاحبزادی بیشتر کی خورشید صاحبہ نے میٹرک کے امتحان میں ۶۵۱ نمبر حاصل کئے اور پنجاب بھر کی طالبات میں دوم رہیں گے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے اعجاز الرحمن صاحب بی ایس سی کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں سوم رہے.مکرم منیر احمد صاحب رشید این مکرم میاں محمد اسحق صاحب سنوری سٹوڈنٹ گورنمنٹ کالج لاہور ۳۹۲ نمیر لے کرنی انیس سی کے امتحان میں پنجاب بھر میں اول آئے اور ایک نیا ریکار ڈ قائم کیا آپ میٹرک میں یونیورسٹی میں دوم اور ایف ایس سی میں چھٹے نمبر پر آئے تھے شیشے ه لوح وقلم پیشا در ۲۸ اکتوبر ه ه وایه ، افضل دار نومبر شده و مه له الفضل ۲۲ مئی ۱۹۵۵ء صدا ه الفضل هاربون ۵ - ۲ه الفضل ۱۸رجون شه و - ه الفضل ۲۲ جون ۱۹۵۵ء مت ص هـ

Page 302

۲۹۰ -4 -6 ^ کریمه نسیم نصرت صاحبه دبیت مکرم شیخ عبد القیوم خان صاحب ) ایس وی کے امتحان میں ۸۱۳ نمبر لے کر صوبہ بھر میں اول آئیں لیے تعلیم الاسلام کالج ریکوہ کے مکرم منور احمد صاحب سعید ایف اے آرٹس کے امتحان میں یونیوسٹی پھر میں اول آئے.آپ نے ۶۷ہم نمبر حاصل کئے یکے کرم چودری حمید الله است برای محرم یا اونو خیش صاحب سگنیلہ ) نے ایم اے حساب کے امتحان میں یو نیورسٹی بھر میں تعمیری پوزیشن حاصل کی ہے محترم ڈاکٹر میجر شاہنواز خالصاحب کی بڑی صاحبزادی امیرہ بیگم صاحبہ نے بی اے آنرز فلاسفتی کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی ہے محترمہ زبیده نظام صاحبه دیست که نل چوہدری نظام الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ حلقہ پنج گرائیں) اور ممتاز جمیل صاحبہ آف لاہور ایم اے جغرافیہ کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں بالترتیب اول اور دوم آئیں سنیے مکرم محمد عباس صاحب فرزند میاں عطاء اللہ صاحب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی، بی ایس سی الیکٹریکل انجنیئر نگ کے آخری امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں دوم رہے اور ۸۹۲ نمبر حاصل کئے بیتے محترم قاضی محمد اسلم صاحب صدر شعبہ سائیکالوجی کراچی یونیورسٹی کے صاحبزادے مکرم منصور احمد صاحب ایم اے فلاسفی کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول آئے نیز پاکستان کی اعلیٰ سروسز (فارن رسول وغیرہ) کے امتحان میں پانچویں پوزیشن حاصل کی شیشه ۱۲- مکرم بشارت احمد صاحب بیٹی آفیسر امریکہ (ابن مکرم غلام احمدخان صاحب بصیر پور من دیر منٹگمری ، اپنے امتحان میں ۶۰۸ ۹۸ فیصد نمبرے کہ اول آئے اور نیا ریکارڈ قائم کیا ہے الفضل در جولائی شاء من له الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۵۵ - سه حال وکیل اعلیٰ تحریک جدید و صدر مجلس انصار اللہ مرکزیه - که الفضل دراگست شهداء -صدا- هه الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۵۵ ۳۰ الفضل.۲۷,۲۶ اگست ۹۵۵ اومد که الفضل ۲ ستمبر ۱۹۵۵ ما شه الفضل ، ستمبر ۱۹۵۵ء ص.2 الفضل 4 جنوری ۱۹۵۶ء صا

Page 303

۲۹۱ ۱۳- محترمدرس بیده نا صرہ خاتون صاحبه امنیت محترم ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب انچارج فاطمہ حیات سینی ٹوریم کوٹر) پنجاب یونیورسٹی ایم اے اُردو یونیورسٹی میں اول آئیں.ان کو طلائی تمغہ دیا گیا یہ جامعہ احمدیہ کی احمدنگر سے یو منتقلی جامعہ احمد یہ سات سال تک احمدنگر میں جاری رہنے کے بعد ۲۲ فروری شهدا ء کو ربوہ میں منتقل ہوا.اس موقع پر احمد نگر کے سربراہ ، نمبر دار ، اور مسلم لیگ احمد نگر کے نائب صدر نے جامعہ کے اساتذہ اور طلباء کے اعزاز میں ایک وسیع پارٹی دی اور ان کے حسن سلوک اور ہمدردانہ رویہ کو سراہا اور سیلابوں میں ان کی ناقابل فراموش خدمات کو خراج تحسین ادا کیا.مکرم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری نے احمدنگر کے معززین کا شکریہ ادا کیا اور دین ودنیا کی کامیابی کے لئے دُعا کی مولانا ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعة المبیشترین قبل ازیں جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے اور آپ ہی کے زیر انتظام فروری ۱۹۲۶ء میں به مرکزی اداره لاہور سے احمد نگر منتقل ہوا تھا ہوں نا صاحب بھی اس تقریب میں مدعو تھے اور آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ سات سالہ عرصہ میں مقامی باشندوں کے ساتھ ہمارے ایسے گہرے تعلقات رہے ہیں کہ فنانشل کمشنر صاحب پنجاب اور صوبائی وزیر بحالیات جب یہاں تشریف لائے تو وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ہے " ۲۶ مئی ۱۹۵۵ء کو جناب ملک صلاح الدین صاحب قادیان سے سالہ اصحاب احمد کا اجراء ایم اے نے قادیان سے ایک دو ماہی رسالہ اصحاب احمد " کے نام سے جاری کیا جو جولائی 1907ء تک شائع ہوتا رہا.اس رسالہ میں نہ صرف متعدد اصحاب مسیح موعود کے ایمان افروز حالات شائع ہوئے بلکہ حضرت خلیفہ المسیح الاول مولانا نور الدین حضرت مصلح موعودہؓ اور حضرت نواب میہار کہ بیگم صاحبہ کی مبارک تحریرات کے عکس اور چربے اور تاریخ سلسلہ سے متعلق نهایت قیمتی اور نایاب تصاویر محفوظ ہوگئیں.علاوہ اثر یں حضرت مصلح موعود کے سفر یورپ ۱۹۲۷ء کے ابتدائی کوائف بھی ریکارڈ ہوئے.یہ رسالہ سیدی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سے دعا کے بعد جاری کیا گیا.آپ.ارا پریل ۱۹۵۵ء کو ربوہ سے دارالامان وارد ہوئے تھے ہیں افضل ۲۰ جنوری ۶۱۹۵۶ ص۲ - له الفضل ۲۴ فروری ۵۵ ماء ورد - ۵۳ اخبار بدر ۴ ر ا پریل ۱۹۵۵ء ص کالم ۴

Page 304

۲۹۲ حکومت ہندوستان نے ایک طویل کشمکش کے بعد بالآخر قادیان کے احمدی اور شہرنا تھی یہ فیصلہ دیا کہ صدر انجین احمدیہ قادیان کی جائیداد کو واپس کیا جائے.اس فیصلہ پر قادیان کی شہرنا تھی سیوک سبھا نے احتجاج کیا اور مہندوستان کی مرکزی حکومت کو ایک میموریل بھیجا.جس کی ایک نقل دہلی کے ایک مشہور اخبار ریاست کو بھی ارسال کی.یہ اخبار سردار دیوان سنگھ مفتون کی ادارت میں شائع ہوتا تھا.اخبار ریاست نے اس میموریل پر قادیان کے احمدی اور شہر نارتھی “ کے عنوان پر حسب ذیل تنذراہ لکھا :- " پر شار تھی سیوک سبھا قادیان (گورداسپور ) نے اس میموریل کی ایک نقل اشاعت کے لئے دفتر له صدر انجمن احمدیہ قادیان" ایک مذہبی ادارہ ہے جو سائپسٹر ایکٹ آف شاہ کے تحت شاہ سے چرڈ شدہ ہے اور اپنے بائی لاز کے مطابق مسلسل کام کر رہا ہے بعض لوگوں نے یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ انجین احمدیہ کے صدر احمدیوں کے خلیفہ ہیں جن کے پاکستان چلے جانے کے بعد یہ انجمن خود بخود EVACUEE ہو جاتی ہے.حالانکہ صدر امین احمدیہ قادیان کے الفاظ میں صدر کا لفظ پریزیڈنٹ کے مفہوم کے لئے کبھی استعمال نہیں ہوا بلکہ اس کے معنے ہمیشہ مرکزی انجمن احمدیہ قادیان کے لئے گئے ہیں.اس نوع کی بے بنیاد باتوں اور مغالطہ انگیزیوں کے نتیجہ میں محکمہ کسٹوڈین نے شروع ۱۹۵۷ء میں انجمن کے خلاف نوٹس جاری کر دیا.یہ تقدیر دو سال تک جاری رہا اور ضلع گورداسپور کے اسسٹنٹ کسٹوڈین سے لے کہ ہندوستان کے کسٹوڈیو جنرل تک پہنچا اور با تاخہ یہ فیصلہ ہوا کہ صدر انجمن احمدیہ قادیان پناه گزین EVACUEE نہیں ہے.اس لئے اس کے خلاف مقدمہ خارج کیا جاتا ہے.اور بینکوں میں ٹکی ہوئی رقم واپس کی گئی.اس فیصلے پر صدر انجمن احمدیہ قادیان کی طرف سے کسٹوڈین صاحب کی خدمت میں انجمن کی جائیدادوں کی فہرست پیش کی گئی.اس فہرست میں قادیان کے قریباً چالیں مکانات بشمول تعلیم الاسلام کا لج دو سکول اور ہسپتال بھی تھے.اور سفید زمین کے چند پلاٹ بھی.چونکہ اس جائیداد پر تقسیم کے بعد بعض ادارے یا شرنا تھی قابض ہو گئے تھے.اس لئے ان میں تشویش پیدا ہونا قدرتی امر تھا.شیخ عبد الحمید صاحب عاجز ناطر امور او خارجہ قادیان نے بدر در اپریل ۱۹۵۵ء میں یہ ساری تفصیلات بیان فرمانے کے بعد قادیان کی پر شار تھی سیوک سبھا کو توجہ دلائی کہ وہ اس سلسلہ میں معقول آئینی اور پر امن طریق اختیار کرے.

Page 305

۲۹۳ 鳙 ریاست میں بھیجی ہے جو اس سمجھانے ہندوستان کی مرکزی گورنمنٹ کو بھیجی.اس میموریل میں خوش کی گئی ہے کہ قادیان کی احمدی جماعت کو وہ جائیداد واپس نہ کی جائے جس پر شرار تھی اڑ سے قابض ہیں اور جس کو خالی کرنے کے لئے حکومت نے انھیں حال ہی میں حکم دیا ہے.قادیان کے احمدیوں کی پوزیشن یہ ہے کہ جب ۱۹۴۷ء میں فسادات ہوئے تو ان کا زیادہ حصہ قتل و خون ریزی اور فنڈہ پن سے خوف زدہ ہو کہ پاکستان چلا گیا.مگر دو سو کے قریب احمدیوں نے جن کو آب جاں نثار درویش کہا جاتا ہے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور بڑے بڑے خطرہ سے بے نیاز ہوتے ہوئے فیصلہ کیا کہ یہ اپنے اس مذہبی ہیڈ کوارٹر کو نہ چھوڑیں گے کیونکہ یہاں ان کے بانی مذہب حضرت مرزا غلام احمد اور دوسرے مذہبی لیڈروں اور مشاہیر کے مقبرے اور تاریخی یاد گاریں ہیں چنانچہ دو سو جاں نثار درویش پاکستان نہ گئے اور انہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر خطرہ کو لبیک کہا حالانکہ اس زمانہ میں مشرقی پنجاب میں مسلمان ہونا یا مسلمان کہلانا ایک سنگین مجرم تھا جس کی سزا غنڈوں کے ہاتھوں سے قتل اور خون ریزی سے کم نہ تھی.یہ واقعات ۱۹۶ ء کے ہیں.اس کے بعد جب اس صوبہ میں کچھ سکون اور امن ہوا تو یہاں کی احمدی جماعت نے حکومت سے درخواست کی کہ ان کی جائیداد (جس پر شرنار تھی قابض ہیں ) اور روپیہ (جو بنکوں میں مجمع تھا ، ان کو واپس کیا جائے چنانچہ احمدیوں کی بہت بڑی جد وجہد کے بعد مرکزی گورنمنٹ نے حکم دیا کہ چونکہ یہ روپیہ اور جائیداد ایک مذہبی ٹرسٹ کی ملکیت ہے یہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں.اس جائیداد کو کسٹوڈین کے قبضے میں رہنا خلاف انصاف ہے.گورنمنٹ کے حکم سے بنکوں نے تو روپیہ ادا کر دیا مگر وہ تتر تاریخی ہو اس جائیداد پر قابض ہیں اس مقبوضہ جائیداد کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور یہ میموریل بھی اس غرض کے لئے ہی گورنمنٹ کو بھیجا گیا ہے کہ یہ جائیداد کسٹوڈین پراپرٹی قرار دی جائے اور جائیداد کو شہر تار بھنیوں سے خالی نہ کرایا جائے.احمدیوں کی اس جائیداد کے متعلق بہت بڑا سوال اصول کا ہے.مثلاً ایک مسلمان کرنال کا رہنے والا تھا 2 ایہ کے فسادات سے خوف زدہ ہو کہ یہ بمبئی چلا گیا.یہ بھی بھی پاکستان نہیں گیا اور ہمیشہ ہی ہندوستان میں رہا.تو اگر یہ مسلمان آج اپنے وطن کو نال جا کہ وہاں اپنی جائیداد میں آباد ہونا چاہتا ہو تو کیا اس شخص کو صرف مسلمان ہونے کے تجرم اور اس کے اپنی جان بچا چلے جانے کے گناہ کی یہ سزا دی جا سکتی ہے کہ اس کی جائیداد واپس نہ کی جائے اور اسے کہا جائے کہ

Page 306

۲۹۴ کر نال میں قدیم نہ رکھو یا اگر ء کے فسادات سے خوف زدہ ہو کہ درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے تمام سجادہ نشین، مجاور اور جاروب کش دہلی سے بھاگ جاتے اور کوئی شخص بھی اس درگاہ میں نہ یہ بہتا تو کیا اس درگاہ یعنی ایک مذہبی معاہد کو کسٹوڈین کی ملکیت میں دیا جا سکتا تھا.یعنی اگر ان دونوں صورتوں میں کسٹوڈین کو جائیداد پر قبضہ کرنے کا حق حاصل نہیں تو پھر قادیان کی احمدی جماعت جو خالص مذہبی جماعت ہے، کی جائیداد کیونکہ کسٹوڈین کے قبضہ میں رہ سکتی ہے اور کیوں اسے واپس نہ کیا جائے.جبکہ احمدی جماعت کے لئے قادیان کی وہی پوزیشن ہے جو سنیوں کے لئے درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین ولیاء کی اور قادیان میں تو دو سو کے قریب احمدی اپنی جان کو تھیلی میں رکھ کہ ثابت قدم اور موجود رہے ، قادیان کے شرنارتھیوں کے ساتھ ہر شریف انسان کو ہمدردی ہونی چاہیئے کیونکہ یہ لوگ صاحب جائیدا تھے اور تباہ ہو کر پاکستان سے ہندوستان آئے اور ان کو نا قابل برداشت اور نا قابل بیان مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر ان شرنارتھیوں کی امداد کی صورت یہ ہے کہ ہندوستان سے پاکستان جاچکے مسلمانوں کی جائیداد میں سے ان کو جائیداد دی جائے اور ان کی کسٹوڈین کے فنڈ میں سے نقد روپیہ کی امداد کی جائے.ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اور قادیان کے شرنارتھی دونوں اس مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور احمدی جماعت کی جائیداد ان کو واپس کی جائے کیونکہ احمدی جماعت مذہبیا ہر اس حکومت کی وفا شعار ہے جو حکومت بر سر اقتدار ہو.یعنی یہ لوگ حکومت کے خلاف کسی سیاسی تحریک میں حصہ نہیں لے سکتے خالص مذہبی جماعت ہے اور ان کے ساتھ کینہ اور نبض کا سلوک کرنا انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا.دریاست دیلی شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب سجادہ نشین حضرت وفات خواجہ حسن نظامی حصاد بلوی نظام الدین اولیاء رولادت ۲۵ دسمبر شهداء، وفات ا، جولائی ۱۵ء) جو بر صغیر ہند و پاک کے مشہور مذہبی راہنما اور اردو کے قدیم اور صاحب طرز ادیب تھے اس سال انتقال کر گئے.خواجہ صاحب عربی، فارسی، اردو اور ہندی کے بہت بڑے سکالر تھے.ارہ میں انہوں نے مصر اور شام اور حجاز کا سفر کیا ، یہ سفر نامہ نعیم ہونے کے باوجود ہاتھوں ہاتھتے پیکا.اس کے بعد آپ نے غدر عشاء کے متعلق متعدد کتابیں لکھیں جو اس پر آشوب زمانہ کی تاریخ کا ے ہفت روزہ " پدر " قادیان ۱۴ جولائی ۲۰۶۱۹۵۵

Page 307

۲۹۵ مستند مأخذ سمجھی جاتی ہیں.آپ نے قرآن مجید کا اردو اور مہندی میں بھی ترجمہ کیا جو مقبول عام ہوا.آپ نے اپنی زندگی میں بیسیوں اخبار و رسائل کی ادارت کی.اخبار منادی " آخر وقت تک مرتب کرتے رہے.آپ کا روز نامچہ انتہائی دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا.آپ کے مریدوں کا حلقہ بڑا وسین تھا.نہایت مرنجان مرنج اور ہرقسم کے تعصب سے پاک طبیعت رکھتے تھے.جس امر کو حق سمجھتے اس کا بر ملا اظہار کر دیتے تھے.باوجود اختلاف مسلک کے عمر بھر جماعت احمدیہ سے آپ کے مراسم در روابط نہایت درجہ گہرے ر ہے.ان تعلقات کا آغاز شاہ سے ہوا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو اپنے علم مبارک سے ایک خط لکھا کہ ہر " ہم نے آپ کی صحت کے لئے خدا سے دعا مانگی اور ہم کو الہام ہوا کہ خواجہ حسن نظامی ابھی بہت دن زندہ رہیں گے اور مسلمانوں کے بڑے بڑے کام کریں گے !" آپ نے یہ خط اپنے اخبار منادی بابت ماہ تعمیر شاه سیناء میں شائع کر دیا تھا حضرت میں مولود علیه السلام اکتوبر 19ء میں آخری بار دتی تشریف لے گئے اور دوسرے اکابر امت کے علاوہ حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار مبارک پر بھی دعا کی.اس موقع پر خواجہ حسن نظامی صاحب نے نہایت محبت و خلوص کا ثبوت دیا.حضرت اقدس اور آپ کے خدام کو اپنے خاص حجرے میں لے گئے.ایک کتاب خوان نظامی ہدیہ پیش کی.اور پہلے زبانی اور بعد کو تحریری درخواست کی کہ حضور انہیں کوئی تحریری عطا فرمائیں حضرت اقدس نے واپسی پر ۱۳/ نومبر نشاء کو تبرکا ایک مبارک تحریر بھجوائی جو اخبار بدر قادریان ۲۳ تومیر صفحه ے اخبار نوائے وقت" ۳ اگست ۱۹۵۵ء له روزنامه الفضل اور اکتوبر ۵ امت میاں عبدالوہاب صاحب عمر کا بیان ہے کہ :.سکول کی طالب علمی کے زمانہ میں نہیں نے آپ کو ایک خط لکھا.ہواپسی جواب آیا." مجھے ایک دفعہ درق ہو گئی تھی تو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو میں نے دعا کے لئے لکھا.آپ نے مجھے جواب دیا کہ آپ اس مرض سے قوت نہیں ہوں گے.اور ساتھ ہی مولانا حکیم نور الدین کو لکھا کہ حسن نظامی کے لئے دوا تیار کر کے بھیجو.چنانچہ مجھے اس مرض سے شفا حاصل ہو گئی : (روز نامه الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۸۵ء ص ) سے متن کے لئے دیکھیں تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۴۳۹م حاشیہ

Page 308

۲۹۶ کالم لا میں بھی چھپ گئی.خواجہ صاحب نے منشاء میں حضرت خلیفہ المسیح اول سے بھی اس قسم کی درخواست کی تھی جس پر حضور نے حضرت نظام الدین اولیاء کی شان و عظمت کے بارہ میں ایک ایمان افروز مکتوب لکھا ہے حضرت مصلح موعودؓ سے حضرت خواجہ صاحب موصوف کو عمر بھر نہایت مخلصانہ تعلق رہا.۱۹۳۷ء کی تحریک آزادی کشمیر میں آپ حضرت مصلح موعود کی قیادت میں جو بے لوث انتھک اور شاندار خدمتا بجالائے اُن کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد ششم حصہ دوم میں گزر چکی ہے.حضرت مصلح موعود اپنے مشہور سفر حیدر آباد دکن سے واپسی پر دہلی تشریف لائے تو ۲۸ اکتو بری ۱۹۳ ء کو خواجہ حسن نظامی صاحب نے حضور کے اعزاز میں عشائیہ دیا.خواجہ صاحب نے اس موقع پر حضور کی اقتداء میں نماز بھی ادا کی اور حضور کا ایک گروپ فوٹو مسجد نواب خان دوراں میں لیا گیا جس میں خواجہ صاحب کے علاوہ چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب اور دیگر عمائدین و معززین بھی تھے.یہ یاد گار فوٹو شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صحاب نے اپنے اخبار " منادی" (مورخہ ۲۴ دسمبر ۹۳۷ء) میں سپر دو اشاعت کیا اور اُس کے نیچے ایک مفصل نوٹ دیا جس میں لکھا:.میں اپنے تعلقات کی یادگار میں جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے میرے تھے اور اُن کے فرزند در خلیفه حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے ہیں.اور مرزا صاحب نے اپنی خلافت کے پچیس سالہ ایام میں اسلام کی اور سلمانوں کی بڑی بڑی خدمات انجام دی ہیں اور سر محمد ظفر اللہ خان جیسے خادم آسلام اور مسلمین افراد تیار کئے ہیں.اس لئے میں یہ تصویر اپنی جماعت اور ناظرین منادی کی معلومات کے لئے اور جو علی کی خوشی میں دل سے شریک ہونے کے لئے شائع کرتا ہوں.حسن نظامی ہے.خواجہ صاحب اتحاد بین المسلمین کے پُرجوش حامی اور علمبردار تھے اور آپ کو اُمت میں انتشار دو تشتت پر بہت دُکھ ہوتا تھا اسی جذبہ اتحاد اور روح وحدت کی بناء پر آپ نے شاید میں فرمایا کہ بر جو لوگ اس وقت مسلمانوں کے فرقوں اور خصوصاً قادیانیوں کے خلاف تقریریں کرتے پھرتے ہیں پاکستان کے دشمن اور بھارت کے ایجنٹ ہیں؟ - ه الحکم ۲۸ فروری شد و صفحه را کالم را تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ۳۳ ۳۳ سے مفصل نوٹ تاریخ ایری جلد شتم صفحہ ۱۳ ، ۱۲۴ء میں ملاحظہ ہو.سے اخبار " آزاد " لاہور ۲۸ جون ۱۹۵۰ء ص -

Page 309

۲۹۷ نیز درد مند دل کے ساتھ تحریر فرمایا :- " اگر سچ مچ علماء مذکور (مولانا عبد الحامد صاحب بدایونی اور مولانا سید سلیمان صاحب ندوکی) نے ایسا جلسہ کیا تھا تو مجھے خدا کے سامنے سجدہ میں گھر کر رو رو کر دعا کرنی چاہئیے کہ وہ علماء مذکور کو اس غلط طرز عمل سے بچائے اور یا مجھکو اس دنیا سے جلدی اٹھائے تا کہ میں اپنی مسلمان قوم کی تباہی اور پاکستان کی تباہی نہ دیکھوں جو ایسے غلط کاموں سے ہونی ضروری ہے ؟ چنانچہ آپ کی دعا قبول ہوئی اور آپ اور جولائی ۹۵اء کو انتقال کر گئے.آپ کی المناک رحلت پر برصغیر پاک و ہند کے پریس نے خصوصی نوٹ لکھے اور گہرے رنج والم کا اظہار کیا.چنانچہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ایڈیٹر بدر (قادیان) نے خاص طور پر لکھا کہ :- ہمیں یہ افسوس ہے کہ اس وقت جبکہ ایسے محب وطن صلح ذی وجاہت اور با اثر شخصیتوں کی نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ بھارت کو از حد ضرورت ہے آپ کے مفید وجود سے ہم محروم ہو گئے ہیں.ملک صاحب نے اپنے اس نوٹ میں اپنی نجی ملاقاتوں کا ذکر بھی کیا اور لکھا :.۱۹۵۲ء میں آپ بواسیر کے باعث فریش تھے.آپ نے فرمایا کہ میں کراچی وغیرہ سے ہو کر آیا ہوں احمدی احباب نے ربوہ لے جانے کے لئے بہت اصرار کیا.لیکن بعض روکا ئیں تھیں.اب نہ معلوم ہیں زندہ رہوں کہ نہ رہوں اس لئے بار بار افسوس ہوتا ہے کہ (حضرت) مرزا صاحب (امام جماعت احمدیہ) سے کیوں ملاقات نہ کر آیا ماہ میں......جناب خواجہ صاحب سے پھر ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اس صورتِ حالات سے سخت دُکھ ہوا ہے.اور پاکستان سے عرس پر آنے والے معززین سے علیحدگی ہیں میں نے حالات دریافت کئے اور خواجہ ناظم الدین کو رجو اس وقت گورنر جنرل تھے، اور بعض دیگر سرکردہ لیڈروں کو پیغام بھیجے ہیں.کوٹہ میں بہائیوں پر اتمام حجت وانا واعد صاحب اس سال موسم شما میں میں نے کے ابوالعطا تین ہفتے b لئے کوٹہ تشریف لے گئے.عرصہ قیام میں مولانا صاحب نے لے "منادی جون ۱۵۶ء بحوالہ رسالہ چند معروضات ما از اصغر بھٹی صابی اسے علیگ ایل ایل بی ایڈووکیٹ سرگود یا ممبر پنجاب پراونشل مسلم لیگ کونسل مطبوعہ پاکستان پرنٹنگ ورکس ایبٹ آباد روڈ لاہور.نگے اخیار بدرہ اگست ۵۵شهادت سه هفت روزه بدر قادیان ، اگست شهداء من

Page 310

۲۹۸ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے سرکردہ بہائیوں سے گفتگو کے بعد بہائیوں پر اتمام حجت کے لئے پانچ مقالے سپرد قلم فرمائے.یہ پُر مغز مقالے ۱۷ ، ۱۸ ،۲۰،۱۹ ، اور ۲۲ اگست ۱۹۵۵ء کو آپ نے عام اجلاسوں میں پڑھے اور ہر مقابلے کے بعد بہائی صاحبان کو سوالات کا موقع بھی دیا.اس اہم واقعہ کی تفصیل مولانا ابو العطا صاحب کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے فرماتے ہیں :- امسال موسم گرما میں مجھے تین مہینے کے لئے کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا.کوئٹہ میں بہائیوں کی ایک مختصر سی جمیعت ہے.مگر یہ لوگ اپنے پروپیگنڈے اور وسوسہ اندازی میں بہت ہوشیار ہیں.مجھے بتایا گیا کہ بہائی صاحبان نے مشہور کہ یہ کھا ہے کہ کوئی عالم ہمارا جواب نہیں دے سکتا، نہیں نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس عرصہ قیام میں احباب کو بہائیت کے متعلق معقول واقعیت بہم پہنچائی جا اور بہائیوں کے تمام اعتراضات کا قلع قمع کیا جائے.بعض احباب جماعت کی معیت میں کہیں بہائی ہاں اور بہائی لائبریری میں گیا.ہم نے اس ہال میں جو ایک غیر معمولی کمرہ ہے تین چار سرکردہ بہائیوں سے گفتگو کی اور میں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم بہائیت کے متعلق چند تحریری مقالے یہاں پڑھیں گے.بہائی اور دوسر احباب سنیں اور مقالہ ختم ہونے پر مناسب وقت سوال و جواب کے لئے رکھ لیا جائے.اس طرح سے فریقین کے دلائل سامنے آجائیں گے اور اعتراضات کے جواب ہو جائیں گے.بہائی سیکرٹری صاحب نے کہا کہ تحریریں طور پر یہ تجویز آجائے تو اپنی محفل میں پیش کر کے جواب دے سکیں گے.چنانچہ ہماری جماعت کی طرف سے پھر تجویز لکھ کر بھیجی گئی مگر بہائیوں کی طرف سے انکار میں جواب آ گیا.1A, 16 لي آخر ہم نے فیصلہ کیا کہ بہائیوں کو عام دعوت دے کہ یہ مقالے احمدیہ مسجد کوئٹہ کے احاطہ میں پڑھے جائیں.چنانچہ بذریہ تحریری اعلان انہیں اطلاع دی گئی اور پورا پروگرام بھیج دیا گیا.یہ پانچ مقالے ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ اور ۲۲ / اگست ۹۵۹ ید کو پڑھے گئے.اس میں احمدی احباب کے علاوہ سنی اور دوسرے مسلمان احباب نے بھی شرکت فرمائی مستورات کے لئے پردے کا انتظام تھا.چند بہائی صاحبان بھی آتے رہے.ہر مقالہ کے بعد انہیں سوالات کا موقع دیا جاتا رہا.اچھے ماحول میں سلسلہ سوال وجواب جاری رہا اور حاضرین پر حق واضح ہو گیا.بہائیوں کی طرف سے بعض اوقات تین تین اصحاب یکے بعد دیگرے سوالات کرتے رہے سب کے تفصیلی جواب حاضرین کے گوش گزار کئے گئے.ان پبلک اجتماعات کے علاوہ جناب شیخ محمد اقبال صاحب تاتیمہ کی طرف سے بہائی سیکرٹری کو محدود اصحاب کی موجودگی میں چائے پر بلایا

Page 311

۲۹۹ گیا.اس موقع پر ان پر اتمام محبت کی گئی انہوں نے سوچنے کا وعدہ کیا بلہ مولانا صاحب نے یہ یاد گار مقالے ۳۰ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو ” بہائیت کے متعلق پانچ مقالے" کے عنوان سے شائع کر دیئے اور ان مقالات کے بعد بطور نمونہ ایک اور باب کا بھی اضافہ کیا جس میں قرآنی آیات سے تعلق بہائی صاحبان کی مغالطہ انگیزیوں کا مسکت و مدلل جواب تھا.مولانا عبد الماجد صاحب دریا آبادی ایڈیٹر صدق جدید لکھنو نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :.کتاب کے مصنف "احمدی ہیں اور کتاب احمدیت ہی کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے.اس لئے اس میں مناظرانہ رنگ جھلکنا قدرتی ہے.تاہم بہت سی پر مغز باتیں بھی بہائی مذہب و شریعت سے متعلق ان صفحات میں بھی جاتی ہیں.14 استید ابراہیم عباس فضل اللہ جو سوڈان کے آنریری مبلغ احمدیت سوڈان کا انتقال در اسبلت خرطوم کے باشندہ تھے اور سوڈا میں آنریری طور پر تبلیغ احمدیت کے فرائض انجام دے رہے تھے.اس سال ۲۸ اگست ۱۹۵۵ء کو وفات پا گئے.مرحوم نے ۲۲ سال کی عمر میں ۲۴ نومبر ۹۴ائے کو احمدیت قبول کی اور پھر حضرت مصلح موعود کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے بغرض تعلیم ۳ مارچ ۱۹۵۶ء کو پاکستان آئے اور ربوہ میں تعلیم پانے کے بعد ۱۴ رمٹی سے کو اپنے وطن کو لوٹے اور پہلے خرطوم میں ایک کمپنی میں کام شروع کیا اور ساتھ ہی سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کی قیم اور زبانی تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری کیا.انہاں بعد اپنی الگ تجارت قائم کر لی اور چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ احمدیت مسقیم حیفہ کو لکھا کہ اب نہیں بہت آزادی سے پیغام احمدیت پہنچا سکتا ہوں.لیکن افسوس زندگی نے وفا نہ کی اور آپ ۳۷ سال کی عمر میں اپنے مولیٰ کریم سے جاملے.استید ابراہیم عباس کا اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر محض دینی تعلیم کی خاطر پاکستان میں آنا اور پھر آنریری طور پر تبلیغ احمدیت کرنا اخلاص کا بہترین نمونہ ہے جو بلا دھر میہ کے احمدی نوجوانوں کے لئے ہی نہیں بہائیت کے متعلق پانچ مقالے از مولانا ابوالعطاء صاحب صفحه تک ۳ ت "صدق جدید لکھنو مورخه ۱۳۱ اگست شهداء بجواله بدر تے اکتوبر ۱۹ ، صفحه ۲۵.

Page 312

۳۰۰ تمام دنیا کے احمدیوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پی.ایچ.ڈی رکنٹیب ) السلام مالی معلوم افرا لیکچر فیلوسینٹ جان کیری کا لن اس سال پاکستان کالج جھنگ مکھیا نہ میں تشریف لائے.آپ اُن دنوں اقوام متحدہ کی انیمی توانائی برائے پر امن مقاصد کا نفرنس جیوا کے سائنٹفک سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات بجا لا رہے تھے.ستمبر ۱۹۵۵ء کو آپ کے اعزاز میں جھنگ ڈسٹرکٹ بورڈ ہال میں وسیع پیمانہ پر عصرانہ دیا گیا.اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے اپنے معلومات افروز انگریزی لیکچر میں، ٹیم کی تاریخی اور اس کی طاقت پر نہایت دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی اور آخر میں سوالوں کے جوابات بھی دیئے ہیں جماعت اسلامی کے ترجمان تسنیم نے اس علمی تقریرہ کی مفصل کارروائی درج ذیل الفاظ میں شائع کی بد جھنگ مگھیانہ (ڈاک سے دُنیا کے مشہور سائنسدان مسٹر آئن سٹائن کے واحد ایشائی ساتھی جناب ڈاکٹر عبد السلام ایم اے پی ایچ ڈی کینٹیب نے امین الدین بال جھنگ میں مقامی حکام ضلع ، وکام اور شہر کے صاحب علم ونکہ معتز زین کے ایک بہت بڑے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی طاقت صرف جنگ ہی میں نہیں بلکہ میر امن مقاصد کے لئے بھی ایک نعمت ثابت ہو رہی ہے.ڈاکٹر عبدالسلام جو سینٹ جان کالج کیمرج کے فیلو ہیں اور جو جینوا کی حالیہ بین الا قوامی ایٹم برائے امن کا نفرنس کے سائنٹیفک سیکرٹری بھی تھے.شیخ ایم بشیر احمد ایجنٹ برما شیل جھنگ کی طرف سے دی گئی ٹی پارٹی میں تقریر کر رہے تھے.آپ نے کہا کہ امریکہ نے قریباً چھے سیر صاف شدہ یورینیم ایٹمی تجربات کے لئے پاکستان کو دی ہے.اس کے علاوہ بہت جلد پاکستان میں ایک ایٹمی ری ایکٹر بھی تعمیر کیا جائے گا.اس طرح طاقت کی فاضل پیداوار سے عوام کے معیار زندگی پر کافی خوشگوار اثر پڑے گا.ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ آئندہ قریباً ساٹھ سال تک دنیا میں طاقت کے وسائل از قسم پٹرول ، کوئلہ گیس وغیرہ میں بہت حد تک کمی واقع ہو جائے گی تو اس وقت طاقت کی تمام ضروریات ایٹمی قوت سے له الفضل 11 ستمبر ۵لاء ما ، ہفت روزه " پدر " ۲۱ اکتوبر ۹۵۵اء صفحه (۱۰ له الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۵۵ء مت

Page 313

٣٠١ ہی پوری کی جائے گی.ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر کے دوران میں تختہ سیاہ پر سامعین کو مختلف اشکال کے ذریعہ یہ مجھایا کہ ایٹمی فارمولا سے کس طرح حسب ضرورت کام لیا جا سکتا ہے.کس طرح اٹیم کو توڑا جا سکتا ہے اور کس طرح اس سے طاقت حاصل کر کے کارخانے ، فیکٹریاں اور دوسری روز مرہ کی ضروریا میں کام لایا جا سکتا ہے.آپ نے بعض اصحاب کے سوالات کے جوابات میں فارموں کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی.آپ نے کہا برطانیہ میں ہوا سو یونٹ فی کسی طاقت استعمال کرنے پر ۲۲ سو ڈالر آمدنی.شام و لبنان اور ترکی ہیں.۳ یونٹ پر پہا سو ڈالر آمدنی اور پاکستان میں ہم یونٹ پر ۵۰ ڈالر فی کس آمدنی کا تخمینہ ہے.اس کے علاوہ آپ نے ہائیڈروجن ایٹم کے سلسلے میں بھی وضاحت کے ساتھ اپنے تجربات کا نچوڑ بتایا.آپ نے انگریزی زبان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ روس میں ہائیڈروجن ایٹم سے متعلق بہت زیادہ کوشش سے تحقیقات جاری ہے کیونکہ جہاں یورینیم کے حصول میں مختلف قسم کی دقتیں پیش آتی ہیں وہاں ہائیڈ روجین ایٹم کی تیاری میں صرف پانی سے کام لیا جائے گا.ڈاکٹر عبدالسلام کا تعارف کراتے ہوئے صدر جلسہ شیخ یوسف شاہ بیرسٹرایٹ لاء نے بتا یا کہ ڈاکٹر صاب جھنگ کے ایک متوسط و معزز گھرانہ کے ہونہار فرزند ہیں.آپ نے میٹرک.بی اے اور ایم اے میں پنجاب یونیورسٹی اور پی ایچ ڈی میں کیمرج یونیورسٹی کے سابقہ ریکارڈ کو مات کیا ہے.ڈاکٹر صاحب پہلے اور واحد ایشیائی ماہر ریاضی دان ہیں جنہوں نے مغرب کے شہرہ آفاقی سائنس دان مسٹر آئن سٹائن کے ساتھ کام کیا ہے.ڈاکٹر صاحب کی عمر تقریباً ۳۳ ، ۳۴ سال ہے اور آپ جھنگ کے ایک ریٹائرڈ ہیڈ کلرک محکمہ تعلیم کے صاحبزادے ہیں.آج کل آپ کیمبرج یونیورسٹی میں سائنس کے لیکچرار اور بین الاقوامی ایٹم برائے امن کانفرنس جنیوا کے سیکرٹری ہیں.ڈاکٹر موصوف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ دنیا کے چیدہ دماغوں میں سے ایک بہترین دماغ کے مالک ہیں.یہ تقریب آپ کے اعزاز میں شیخ ایم بشیر احمد اختر و ایجنٹ بر ماشیل وسٹر نور سلطان ایڈووکیٹ جھنگ کی طرف سے منعقد کی گئی تھی جو قریباً ۲۴ گھنٹے جاری رہتی.ته صاحبہ کے دفتر الجنہ اماءاللہ کراچی کا افتتار اور ستمبر 1909ء کو حضرت سعید کر کے دفتر کا با قاعده ہاتھوں سے لجنہ اماءاللہ افتتاح عمل میں آیا.اس تقریب پیر لجنہ کراچی کی ویزیٹر ٹریک VISITORS BOOK پر حضرت نے امیر جماعت احمدیہ ضلع جھنگ سه روز نامه تسنیم " لاہور ۱۴ ستمبر ۱۹۵۵، ص۲

Page 314

اشتم امنه المتین سیده مریم صدیقہ صاحبہ مدخلها العالي صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے اپنے دست مبارک سے حسب ذیل تحریر رقم فرمائی :- w بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نحمده ونصلى على رسوله الكريم وَعَلَى عَبْدِهِ المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو النـ اصير الحمد للہ آج 19 ستمبر شہداء کو لجنہ اماءاللہ کراچی کے مرکزی دفتر کا افتتاح ہوا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ لجنہ اماءاللہ کراچی کی عہدہ داروں اور تمام ممرات کو صحیح رنگ میں کام کرنے کی توفیق ملے اور دفتر کا قیام ان کے لئے مزید ترقیات کا موجب ہو.دن دوگنی رات چوگنی ترقی کریں اور لجنہ اماءاللہ کے قیام کا جو صحیح مقصد ہے کہ نظام احمدیت کی عمارت کی ہر عورت ایک مضبوط اینٹ بنے.وہ مقصد ان کے ذریعہ پورا ہو.آمین اللهم آمین دو ستخط مریم صدیقه ام مرا نا صراحه.آمنه به امته الجميل محمود بگیم.امته التین جنرل سیکرٹری لجنہ اماء الله ( ۱۹ - ۹ - ۱۵۵) ر اس سے پہلے ربوہ کا مرکزی ادارہ جامعتہ المیترین جامعتہ المبشرین میں ایک مبارک تقریب کرایہ کے ایک کان میں جاری تھا.ستر 1 ۲۲ ۱۹۵۵ء کو جامعہ کے طلباء کی وقت کے پیش نظر اسے اپنی زیر تعمیر عمارت میں منتقل کر دیا گیا.اس موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپیل تعلیم الاسلام کالج نے مولانا ابو العطی صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کی درخواست پر ایک پر اثر خطاب فرمایا جو نہایت مفید نصائح پر مشتمل تھا.علا وہ انہیں آپ نے اپنے دست مبارک سے جامعتہ المبشرین کے رجسٹر میں حسب ذیل الفاظ سپرد قلم فرمائے :.بسم الله الرحمن الرحيم منحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود.دنیا میں فلسفہ بھی موجود ہے اور فلسفی بھی.مگر دنیا میں عملاً مذہبی لوگوں کا فقدان ہے قریبا پس نے مصباح دبیر شوراء صفحه ۳۵ - تاریخ لجنه اما د الله جلد دوم صفحه نه مرتبه امته اللطیف سیکرٹری شعبه اشاعت لجنہ اماء الله مرکز به طبع اول تاریخ اشاعت جنوری تک شاید

Page 315

سمسم جامعتہ المبشرین کے قیام کی غرض فلسفہ یا علم کلام سکھلانا نہیں.اس کے لئے ایک علیحدہ ادارہ کے قیام کی ضرورت ہی کیا تھی.پس عملی رنگ میں ایک تدریبی انسان بننا اور بنانا آپ کی زندگیوں کا مقصد ہوتا چاہیئے.اگر ہم اسلام کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں تو دنیا بہت سی مشکلات سے نجات حاصل کر لے گی.اور اسلام کو کروڑوں فرزند مل جائیں گے.اس تربیت کے لئے ایک مفید ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام ہے.اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہوئیہ فقط مرزا ناصر احمد ۵۵ - q اسلامی دنیا کے ایک علمی مرکزہ کی حیثیت سے احمدیہ لبنان میں جمعت احد کے کاموں کا ذکر انسان کو یہ ہی بہت بہت ہی ہے اس ہمیشہ اہمیت سال لبنان پریس میں جماعت احمدیہ کے دینی کارناموں کا خصوصی تذکرہ ہوا.چنانچه روزنامه " بیروت " نے حسب ذیل الفاظ میں جماعت احمدیہ کے انگریزی ترجمہ قرآن کو تخراج تحسین ادا کیا :- " مَعَانِي الْقُرْآن الكريم باللغة الانكليزية ظَهَرَني مَكَاتِبِ ادْرُوباً بِطَبْعَةٍ ثَانِيَةٍ وَبِصُورَةٍ أَنِيْقَةٍ لِتَرْجَمَةِ مَعَانِي الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ بِاللغَةِ الإِنطَيْرِيَّةِ مِنْ قِبَلِ الْجَمَاعَةِ الْإِسْلَامِيةِ الأَحْمَدِيَّةِ ، وَتَرَّرَتِ الْجَمَاعَةُ فِى مُؤْتَمَرِ التَّبْشِيْرِ بِالْإِسْلَامِ أَنَّهَا سَتُوَيْسُ الْجَوَامِعَ بِهَا تَبُورِ وَنُدْرِيعَ وَتَرِينَدًا.....وَ الْمَعْهَدَ الإسلا فِى بليغة ترجمه : قرآن کریم کا انگریزی زبان میں ترجمہ جماعت اسلامیہ احمدیہ کی طرف سے یورپ میں قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کا دوسرا ایڈیشن بڑی خوبصورت شکل میں شائع ہوا ہے.جماعت نے اسلام کے بارہ میں ایک تبلیغی مجلس میں یہ بھی فیصد.الفضل ۳۰ ستمبر 1 ء ملک سه روزنامه "بيروت" (لبنان) ۲۲ ستمبر

Page 316

” کیا ہے کہ جھینگ ، تربور ، ٹرینیڈاڈ میں مساجد اور لیگوں میں تعلیمی ادارہ قائم کرے گی.اسی طرح روز نامہ " الهدف " نے حسب ذیل نوٹ شائع کیا : ترجمة معاني القرآن تَقُوْمُ الْجَمَاعَةُ الأَحْمَدِيَّةُ فِي الْبَاعِنَانِ بِنَشَاءٍ دِينِي وَاجْتَمَا عِي وثَقَافِي مَلْحُوظ وَقَدْ عَلِمْنَا اَنَّ فَرِيقًا مِّنْ أَعْلَامِ الْجَمَاعَةِ يَقُوْمُ الْآنَ بِتَرْجَمَةِ رَئيسُ مَعَافِي الْقُرْآنِ الْمَجِيدِ إِلَى عَدَةٍ مِّنَ الْبِغَاتِ الْعَالَمِيَّةِ وَقَدْ تَلَقَيْنَا مِنَ الْجَمَاعَةِ كُدَّاسًا بِاللُّغَةِ الإِنْكَيُزيّة وَضَعَهُ رَيه الْجَمَاعَةِ ميرزا بشير أحْمَد بِالْمَقَارَنَةِ بَيْنَ الْإِسْلَامِ وَ الشَّيَوعِيَّةُ.ا ترجمہ ) : قرآن مجید کا ترجمہ " جماعت احمدیہ پاکستان میں دینی، قومی اور ثقافتی کام سر انجام دے رہی ہے.اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ جماعت آب متعدد عالمی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کا اہتمام کر رہی ہے.ہمیں انگریزی زبان میں ایک کتابچہ بھی موصول ہوا ہے جو جماعت کے امام مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے.جس میں اسلام اور اشتراکیت کا موازنہ کیا گیا ہے.کا دن یوم تشکر کے طور پر منایا.اس روز صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفاتر اور ربوہ کے محمدہ تعلیمی اداروں میں عام تعطیل رہی.مقامی احباب نے حضور کے اُن صاحبزادگان اور خدام ا اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ارکان کو مبارہ کباد دی جنہیں اس یادگار سفر میں حضور کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا تھا.دوپہر کو مجلس استقبالیہ نے پانچ سو سے زائد ضعفاء اور مستحقین کی پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا.اسی طرح غلہ منڈی کے تاجروں اور دوکانداروں نے چاولوں کی دھو دیگیں پکا کر مسافروں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیں.شام کو مقامی انجمن کے صدر عمومی ڈاکٹر فرنہ ند علی صاحب کے زیر انتظام له روزنامه " الهدف" بيروت لبنان 4 نومبر ۹۵۵اء.

Page 317

۳۰۵ ہاکی ، فٹ بال، والی بال اور کبڈی کے بیچ ہوئے جن میں ربوہ کے اطفال اور خدام نے شرکت کی.اس مبارک سفر کے مبارک قافلہ کی مکمل فہرست درج ذیل کی جاتی ہے :- (1) حضرت سیدہ ام ناصر صاحبه - (۲) حضرت سیده ام دسیم صاحبه.(۳) حضرت سیده مریم صدیقہ صاحبه ، (۴) حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ - (۵) صاحبزادی امتہ الجمیل بیگم صاحبہ.(۶) صاحبزادی امتہ المتین بیگم صاحبہ.(۷) صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشير - (۸) صاحبزادی طبیبہ آمنہ بیگم صاحبہ المیہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (۹) - امتہ الباقی عائشہ صاحبہ نیت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب.(۱۰) صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب.(۱۱) صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب.(۱۲) صاحبزادہ مرزا تعمیم احمد صاحب - (۱۳) صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب (۱۴) صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب (۱۵) حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب له (۱۶) سید داود احمد صاحی - (۱۷) صاحبزادی امته الباسط بیگم صاحبہ ( بیگم سید داؤد احمد صاحب) - (۱۸) صاحبزادی امتہ المصور صاحبہ (بنت سید داؤد احمد صاحب) - (۱۹) حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب (معالج خاص) (۲۰) چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی اے ایل ایل بی (پرائیویٹ سیکرٹری - (۲۱) ملک مبارک احمد صاحب (سکالر یعربی زبان ).(۲۲) قریشی عبدالرشید صاحب روکیل التجارت تحریک جدید) - (۲۳) میاں محمد شریف صاحب اشرف بی اے (اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری ) (۲۴) بعبد اللطیف خانصاحب (کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری).(۲۵) کیپٹن محمد حسین صاحب حمد (افر حفاظت) (۲۶) میاں رحم دین صاحب باورچی.خط کشیدہ نام اُن خوش نصیبوں کے ہیں جو حضور کی معیت میں ۲۵ ستمبر وار کی شب کو وابور توہ ہوئے.باقی شرکائے سفر حضور کی ربوہ میں تشریف آوری سے قبل اس نمبر دارد و یا بعض دوسرے ایام میں پہلے ہی ربوہ پہنچ گئے تھے کے ہ آپ اس سفر میں حضور کے ہمراہ تھے مگر تعلیم کی غرض سے انگلستان میں ٹھہر گئے اور سید محمود احمد صاحب ناصر کے ہمراہ ہم راکتو بریشی او کو واپس تشریف لائے.ہے آپ بھی مع اہل بیت اعلیٰ تعلیم کے حصول اور لندن میں دینی خدمات بجالانے کے بعد ۲۸ نومبر 19ء کو واپس ریوہ تشریف لائے.سے مثلاً حضرت سیدہ ام دیم علامہ صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا صنیف احمد صاب، صاحبزاد مرزا رفیق احمد صاب.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳۰ ستمبر ۹۵اء.•

Page 318

" اس سال ماہ ستمبر میں مہفت روزہ اخبار " پوٹ" (راولپنڈی) کے ایڈیٹر تاثرات ربوہ جناب پیر سید صاحب ربوہ تشریف نے واپسی پر انہوں نے افضل کو نسیم.درج ذیل الفاظ میں اپنے تاثرات قلم بند کر کے بھجوائے در اس سے قطع نظر کہ ایک قوم ، فرقے یا گروہ کے عقیدوں میں سچائی کا عنصر کس حدتک ہے یا وہ ناقد کے ذاتی عقائد سے کسی حد تک مشابہت رکھتے ہیں.یہ امر قابل توجہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا جو اس مخصوص گروہ سے تعلق رکھتے ہیں.عملی رویہ کیا ہے، کیوں کہ بے عمل حقیقت سے یا عمل کم علمی بہتر ہوتی ہے.اور ایک مشہور حدیث (بقول بعض قول علی ) ہے کہ یہ نہ دیکھو کہ کون کہتا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہتا ہے.جب اس نظریہ سے تحریک احمدیت سے وابستہ لوگوں کا کر دارہ جانچا جائے تو بلاشبہ ان کے لئے سرعقیدت سے ٹھیک جاتا ہے.پچھلے دنوں آل پاکستان جرنلسٹ ایسوسی ایشن کی مرکزی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے مجھے سرگودہا جانے کا اتفاق ہوا.واپسی پر جب ربوہ اُترا تو اجنبی ہونے کی وجہ سے میں پیش آئندہ وقتوں کے تصور سے مانوس ہو چکا تھا.اسٹیشن سے متصل ایک چھوٹی سی مسجد سے باہر نکلتے ہوئے ایک ضعیف شخص سے میں نے “ الفضل " کے دفتر کا پتہ پوچھا، جس شفقت اور نرمی سے اس بزرگ نے میرا احوال پوچھا اور مجھے خود دفتر تک پہونچایا.اس سے خلوص اور محبت کا وہ بین القومی جذبہ جھلک رہا تھا جو کسی بھی حساس دل کو مرعوب کرنے کے لئے کافی ہے.انسانی اخوت کے اس چھوٹے سے مظاہرے نے مجھے بے حد متاثر کیا.میرا ارادہ ربوہ کے کچھ مقامی اخبار نویسوں سے ملنے کا تھا.الفضل کے دفتر سے تھوڑا آگے نکل کو نظر اٹھائی تو قصر خلافت کی عمارت کو احاطے میں لئے طویل چار دیواری دکھائی دی.میرا ربوہ آنے کا چونکہ یہ پہلا موقع تھا.اس لئے محض مٹر گشت کے خیال سے چل پڑا.ایک چیز جس نے میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا.ربوہ کے مختصر قصبہ میں صفائی کا بندوبست تھا.بازاروں اور کوچوں کی صفائی کسی اور شہر میں صفائی کا ہفتہ منانے کے دنوں میں بھی نہیں دیکھی جا سکتی.چھوٹی چھوٹی عمارات جنہیں ماڈرن طرز پر بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور صاف ستھرا ماحول قابل رشک منظر پیش کرتا تھا.وہاں سے رسالہ مصباح کے دفتر پہونچا تو ایک عزیز نے مجھے خوش آمدید کہا.چائے کے کپ پر جو گفتگو چھڑی تو اُٹھنے کو جی نہیں چاہتا تھا میر عطا دالکریم کی باتوں میں سادگی اور شیرینی کا حسین امتزاج تھا.انہوں نے مجھ تحریک احمدیہ

Page 319

کی تبلیغی سرگر میوں سے روشناس کرایا اور مختصر سے عرصہ میں جو ترقی کی تھی اس پر روشنی ڈالی.اپنائیت اور بے ساختہ پن کا احساس اس ماحول میں ایسی نعمت معلوم ہونا تھا جس سے جدا ہونے پہ رنج ہوتا تھا مجھے چلا کہ بڑے بڑے شہروں سے دُور یہ جگہ علم و ادب کا ایک چھپا ہوا مرکز ہے.وہ جگہ جہاں تعلیم کا ذکر بھی نہ ہوتا تھا.اب ایک سے زائد کالجوں جن میں سے ڈگری کالج برائے طالبات بھی ہے، کا مستنفر ہے.مفت طبی امداد بلا امتیاز ہر شخص کو حاصل ہو سکتی ہے.الفضل ، مصباح اور الفرقان اور رسالہ ریویو آف ربیبی نیز (مذہبی جائزہ ) اور دیگر رسائل کا مرکزہ ہونے کی وجہ سے اس کی صحافتی اہمیت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی.اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے بیشتر ملیکہ تمام رسالے مذہبی قسم کا لٹریچر شائع کرتے ہیں لیکن یہ بعید نہیں کہ جلد ہی ادبی معیار کے لحاظ سے ان میں سے کسی دن کوئی جبر یادہ ملک گیر شہرت حاصل کرے.آج اگر یہ پوچھا جائے کہ مسلمان جو ہمیشہ سے یہ دعوی کرتے آئے ہیں کہ انہوں نے اسلام تبلیغ کے زور سے پھیلا یا کسی حد تک اس مقصد کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں تو ہم خاموشی کے علاوہ کوئی جواب نہ دے سکیں گے.اگر احمدیوں کی ان کوششوں کو نظر اندازہ کر دیا جائے جو وہ اپنے نظریات پھیلانے کے لئے کر رہے ہیں.دنیا کے دور افتادہ علاقوں اور سمندر پار کے ملکوں میں ان کے مضبوط ادارے قائم ہیں.جن کا بیشتر مرکز سے اتنا مستحکم ہے کہ اس پر رشک کیا جا سکے.اس محدود سی تنظیم کی نگرانی میں برطانیہ ، امریکہ افریقہ ، آسٹریلیا، مراکش اور دوسرے ملکوں میں تبلیغ کا کام پوری تندہی سے جاری ہے ، گلوب کے کونے کونے سے مبلغ ربوہ میں آتے ہیں اور ہدایات لے کہ اپنے اپنے مقاموں کو لوٹ جاتے ہیں.ان میں سے اکثر لوگوں نے زندگی اس مقصد کے لئے وقف کر رکھی ہے اور خیالات کی اشاعت کے لئے ہر طرح کی تکالیف بصد خوشی برداشت کرتے ہیں.اس جذبہ کی قدر نہ کرنی حد درجہ نا انصافی ہوگی.کہا جاتا ہے کہ ہر تحریک جب تک وہ محدود دائروں میں رہتی ہے مضبوط اور پر خلوص ہاتھوں میں رہتی ہے.لیکن جونہی اس کا دائرہ اثر وسیع ہو جاتا ہے اس میں ہر قسم کی بدعنوانیاں شروع ہو جاتی ہیں.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کسوٹی پر متذکرہ تحریک کسی حد تک پر بھی جا سکتی ہے، لیکن اگر اس کے عقیدت مندون کی تعداد پر بحث نہ کی جائے تو معلوم ہو گا کہ ان میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جن کے لئے معاشرہ میں اصلاح کی جاتی ہے.معدودے چند افراد کو چھوڑ کر یہ لوگ اپنے عقیدہ میں راسخ مخلص

Page 320

۳۰ راست گو اور دیانت دار ہوں گے.اپنے ساتھیوں کی مدد کے لئے ایک احمدی ذاتی نقصان کی پرواہ نہیں کرے گا.اور جہاں مجموعی مفاد کا سوال ہوگا وہاں کسی بھی شخص کی یہودی اس کی ستر راہ نہیں ہو سکتی.یہی وہ صفات ہیں جو کسی قوم کی تعمیر میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہیں.احمدیوں کے خلاف بے شمارہ شکایات بیان کی جاتی ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر سنجیدگی سے ان پر غور کیا جائے تو اس میں بے شمار غلط فہمی کی بناء پر مبنی ہوں گی.....اگہ ہم کسی سے اختلاف رکھتے ہوں تو اس پر ٹھنڈے دل سے سمجھنے اور سمجھانے کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ تلوار بازی پر.شام کو جب میں ربوہ سے لائل پور کے لئے روانہ ٹوا تو میں اپنے دل میں ایسا خوشگوار تاثر لئے ہوئے تھا جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا ہے ہو.چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب کی تقریر) بین الاقوامی عدالت انصاف کے بھی حصیر چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب نے ۲۶ اکتوبر روحانیت سے تعلق دوسری قومی کانفرنس میں فقہ کو واشنگتن د امریکہ ، میں سے رومانیت سے متعلق دوسری قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک ہمہ گیر اخلاقی اور روحانی انقلاب کی ضرورت پر نہ دور دیا.جماعت اسلامی کے آرگن روز نامہ تسنیم" لاہور نے اس اہم تقریہ کا خلاصہ حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا :- واشنگٹن ۲۶ اکتوبر بین الاقوامی عدالت کے جج سرمحمد ظفر اللہ خاں نے اعلان کیا ہے کہ اگر چہ دنیا کا نیا سائنٹیفک علم اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ترقی ایک عطیہ ربانی ہے لیکن ایک روحانی اور اخلاقی انقلاب جو اس سائنٹیفک ترقی کے لئے نہ صرف ہم پلہ ہو بلکہ اس سے زیادہ ہو.انسانیت کی عظیم ترین ضرورت ہے.روحانیت سے متعلق دوسری قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم میں سے اکثر کے لئے یہ انقلاب موجودہ طرز ہائے زندگی ، رسوم و عادات اور اقدار میں مکمل کایا پلٹ کر دے گا.امریکہ کے نائب صدر مسٹر رچرڈ نکسن نے اس سے پہلے کا نفرنس کو خطاب کیا کا نفرنس کے اعلان کردہ مقصد کو سراہا.کانفرنس کی غرض وغایت ہے کہ دنیا کے ہر ملک اور قوم میں ه روزنامه الفضل ربوه در اکتوبر شراء مده

Page 321

۳۰۹ تنظیم آزادی اور مشترکہ بھلائی کو فروغ دینے کے لئے مذہبی صداقت کو ایک موثر طاقت بنایا جائے سر ظفر اللہ خاں نے کہا کہ موجودہ سائنٹیفک ترقیوں ، اور ایٹمی ہتھیاروں نے خیر و شر کی درمیانی خواب کو جو ممکن بنا دیا ہے.اس کی وجہ سے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ انسان اپنے طرز فکر کو تیر و کمان اور گولہ بارود کی سطح سے بلند کرے.ہمیں اپنے آپ کو انسانیت اور آفاقیت کی اصطلاحات میں فکر کرنے کی تربیت دینی چاہیئے.آپ نے کہا کہ ایسی طریہ فکر خدا کی ذات سے اپنا تعلق قائم کرنے سے پیدا کی جا سکتی ہے.ہم جب ایک مرتبہ خدائے تعالیٰ کی ذات سے اپنا تعلق قائم کریں گے اور اس کے ہم آہنگ ہو جائیں گے تو انسانیت کی اصطلاحات میں سوچنا آسان ہو جائے گا.ہم صرف خدائے تعالیٰ کی ذات ہی کے توسط سے مختلف رنگ، نسل، مذہب اور طبقات کے انسانوں سے اپنے رشتوں کو استوار کر سکتے ہیں.دوسرا کوئی بھی طریقہ کار جزوی نوعیت کا ہوگا.اور کسی نہ کسی لحاظ سے اس میں کوئی نہ کوئی نقص رہ جائیگا.سر ظفر اللہ خان نے مزید کہا کہ ایک ایسی صورت حال میں جس میں کہ ہماری تہذیب اپنے آپ کو گرفتار پاتی ہے.ایک تہذیب و ثقافت کی بنیادوں کے لئے بڑی کٹھن آزمائش کا وقت ہوتا ہے.اگر یہ بنیادیں ہل گئیں تو ہر چیز تباہ و برباد ہو کر کھنڈر بن جائے گی.یہ بنیا دیں اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتیں.جب تک وہ صداقت اور سچائی پر قائم نہ ہوں اور جو حق اور صداقت پر بنیاد قائم کرتے ہیں تو یقین کیجئے کہ وہ ایک مضبوط چٹان پر عمارت تعمیر کر رہے ہیں.اور جو لوگ جھوٹ اور برائی.یا جھوٹ اور سچائی کے کسی امتزاج پر یہ بنیاد قائم کرتے ہیں وہ ریت پر محل کی تعمیر کر رہے ہیں ؟ مارشل بلگانن اور مسٹر کرو شچیف کو روس کے وزیر اعظم مارشل لگائی اور کمیونسٹ ترجمۃ القرآن انگریزی کا تحفہ پارٹی کے فٹ سیکرٹری کو وشچیف نو بر شاہ کے آخر میں دورہ خیر سگالی پر ہندوستان آئے جماعت احمدیہ کلکتہ نے ان روسی لیڈروں کی کلکتہ میں آمد کی اطلاع پر مشیر آف کلکتہ اور جناب وزیر اعلی مغربی بنگال روز نامہ تسنیم " لاہور ۲۸ اکتوبر راء مه - ایضا نوائے وقت“ لاہور ۱۲۸ اکتور شده نیز اخبار" الفضل " ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۵ء ملا

Page 322

سے درخواست کی کہ ہم معزز مہمانوں کی خدمت میں قرآن کریم انگریزی بطور تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں.وزیر اعلیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ جماعت احمدیہ کے وفد کی ملاقات تو وقت کی کمی کی وجہ سے مشکل ہے.البتہ اپنا تحفہ ڈائر کٹر آف پبلسٹی کو پہنچادیں.چنانچہ ۲۸ نومبر کو جماعت کلکتہ نے مولوی محمد سلیم صا فاضل کے ذریعہ ترجمہ القرآن انگریزی حصہ اول و دوئم اور دیباچہ کے دوسیٹ ڈائر یکٹر صاحب کی ندرت میں پیش کر دیتے بے جلالتہ الملک شو کی یا ا سعودی عرب کے بادشاہ جلالة الملک شاہ سعود بن عبدالعزیز مہندوستان کے سر کا ری دورہ پر ۲۰ نومبر ۱۹۵۶ء کو دہلی اسلامی لٹریچر تشریف لائے اور سترہ روزہ قیام کے بعد ار کمر کو بھی سے سعودی عرب روانہ ہوئے ، آپ اپنے دورہ کے دوران 2 دسمبر کو حیدر آباد دکن میں اور دسمبر کوالٹی میں پہنچے تندر آباد دکن میں حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب امیر جماعت احمدیہ سکندرآباد نے آپ کی خدمت میں مندرجہ ذیل کتب مشتمل اسلامی لٹریچر خوبصورت مجلد کروا کر اور کلمہ طبیہ لکھوا کر پیش کیا.ایکٹر کیٹ فرام دی ہوئی قرآن اسلامی اصول کی فلاسفی EXTRECT FROM THE HOLY QURAN (عربي) - جلالۃ الملک شاہ سعود تے یہ ہد یہ خوشی سے قبول فرمایا ، اسی طرح مولانا شریف احمد صاحب امنیتی مبلغ بمبئی نے جماعت احمدیہ بمبئی کی طرف سے بذریعہ مکتوب نہایت مخلصانہ جذبات کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ آپ کی آمد سے دونوں ممالک کے تعلقات پہلے سے زیادہ خوشگوار ہو جائیں گے لیے مبلغین کی ایک تقریب میں دبیر شداد کو وکالت تبخیر کی طرف سے بیرون ممالک میں جانے والے مبلغین اور ماریشس سے آئے حضرت مصلح موعود کی شرکت ہوئے مخلص احمدیوں کے اعزانہ میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی.جس میں حضرت مصلح موعود نے بھی شرکت فرمائی.بیرونی ممالک میں جانے والے مجاہدین احمدیت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ، شیخ نصیر الدین احمد صاحب اور مکرم مولوی عبد الواحد صاب سماٹری تھے اور جماعت احمدیہ ماریشس کے مکرم محمد عظیم سلطان غوث صاحب.احمد ید اللہ صاحب اور 1900 کے ہفت روزه بدی با دبیر شاعت - ۳ هفت روزه بدره ام در دسمبر ۹۵۵اره ما

Page 323

عبد الرحیم صاحب سوکیہ ہو حضور کی زیارت اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کی مرض سے مرکز احمدیت میں تشریف لائے ہوئے تھے.یہ تقریب بعد نماز عصر ہوئی.نماز مغرب کے بعد انہی اصحاب کے اعزانہ میں جامعتہ المیترین کی طرف سے ایک عشائیہ کا اہتمام کیا گیا.جس میں حضرت مولانا عبد الرحیم جناب در و کی زیر صدارت ان اصحاب نے مختصر تقاریر فرمائیں اور بالاخر حضرت مولانا درد صاحب نے صدارتی خطاب فرمایا جو اُن کی زندگی کا آخری خطاب ثابت ہوائیے شید نا حضرت مصلح موعود نے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۵۵ء کو جلسہ سالانہ کے ایک نہایت اہم تحریک وقع پر تحریک فرمائی کہ اصحاب مسیح موعود کے حالات جلد سے جلد محفوظ ہو جانے چاہئیں اور جس کو کوئی روایت پتہ لگے وہ اخبارات اور کتابوں میں چھپوا دے اور ملک صلاح الدین صاحب کو پہنچا دے تا یہ خزانہ محفوظ ہو جائے.چنانچہ فرمایا :- " ہمارے ہاں بھی صحابہ کے حالات محفوظ ہونے چاہئیں ملک صلاح الدین صاحب لکھ رہے ہیں.....جس وقت یورپ اور امریکہ احمدی ہوا، تو انہوں نے آپ کو برا بھلا کہنا ہے کہ حضرت صاحب کے صحابہؓ اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے حالات بھی ہمیں معلوم نہیں وہ بڑی بڑی کتابیں لکھیں گے جیسے یورپ میں بعض کتابوں کی نہیں ہیں چالیس چالیس پونڈ قیمت ہوتی ہے اور بڑی بڑی قیمتوں پر لوگ ان کو خریدیں گے مگر ان کا مصالحہ ان کو نہیں ملے گا اور وہ غصہ میں آکر تم کو بد دعائیں دیں گے کہ ایسے قریبی لوگوں نے کتنی قیمتی چیز ضائع کر دی.ہم نے تو اب تک حضرت مسیح موعود علیہ سلام کی سیرت بھی مکمل نہیں کی.بہر حال صحابہؓ کے سواسخ محفوظ رکھنے ضروری ہیں.جس جس کو کوئی روایت پتہ لگے اس کو چاہیے کہ لکھے کہ اخباروں میں چھپوائے.کتابوں میں چھپوائے اور جن کو شوق ہے ان کو دے تاکہ وہ جمع کریں اور پھر وہ جو کتابیں چھاپیں ان کو ضرور خریدے اور اپنے بچوں کو پڑھائے.صحابہ میں جو رنگ تھا اور ان لوگوں میں جو قربانی تھی وہ ہمارے اندر نہیں ہے مگر ہمارے اندر بھی وہ طبقہ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کی صحبت پائی تھی.بڑا مخلص تھا اور ان میں بڑی قربانی تھی اگر وہی اخلاص آج کل نوجوانوں میں پیدا ہو جائے تو جماعت ایک سال میں کہیں سے کہیں نکل جائے بیٹے A- له الفضل بر دسمبر و اوصا و ۲۱ دیمیر شاه صفر ---- که روزنامه الفضل ربوده ۱۶ فروری ۹۵ ایر صفحه ۲

Page 324

۳۱۲ اس سال بھی مجاہدین احمدیت یورپ ، امریکہ، افریقہ اور بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں ) مشرق بعید وغیرہ میں سرگرم عمل رہے.اس سلسلہ میں بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات کا تذکرہ ضروری ہے.(1) جماعت احمدیہ انگلستان کے ایک وفد نے اور فروری ۹۵۵ار کو وزیر اعظم لنڈن شن اسیلوں کو انگریزی ترمه قرآن یکی نیز بنا کر قرآن مجید مالی شرارت ہے.اور اس کے ذریعہ اقوام عالم میں امن قائم ہو سکتا ہے.یہ وفد مکرم مولود احمد خاں صاحب امام مسجد لنڈن ، مکرم چوہدری ظہور احد صاحب با جوه ، مکرم سید محمود احمد ناصر، مکرم عبد العزیز صاحب، مسٹر بشیر الدین پلیرنس پر مشتمل تھا.وزیر اعظم سیلون نے نہایت توجہ سے اسلامی تعلیم کوشنا اور اس کی خوبیوں کا اعتراف کیا.موصوف نے اسلام ، بدھ مذہب اور عیسائیت کے بارہ میں تبادلہ خیالات کیا.اس تقریب کی خبر لنڈن کے مشہور اخبار ڈیلی ٹیلیگراف" میں بھی شائع ہوئی لیے (۱۳) ۲۱۰ فروری ۱۹۵۵ء کو ایرانی سفارت خانہ میں جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے عزت مآب شاه ایران (رضا شاہ پہلوی) کو انگریزی ترجمہ قرآن کا تحفہ پیش کیا.اس دفد کے ممبران یہ حضرات تھے.مکرم مولود احمد خانصاحب امام مسجد لنڈن ، مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجود مکرم مولوی نذیر اه صاحب بیشتر ، مکریم سید محمود احمد صاحب ناصر اور مکرم عبد الشکور صاحب کمرے DAILY TELEGRAPH شاہ ایران نے عزت و احترام سے یہ تحفہ قبول کیا نیز جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے جرمنی ، ڈچ اور انگریزی تراجم قرآن پر بہت مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا انگریزی ترجمہ قرآن کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہونی چاہیے بیٹے (۳) - ، ، اپریل سے وا ء کو انگلستان نیشنل انشورنس ایڈوائزری کمیٹی " کا اجلاس ہوا جس میں جناب مولود احمد خاں صاحب امام مسجد لندن نے قانون وقت کی پابندی اور تعدد ازدواج وغیرہ مسائل یہ اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی.اجلاس میں انگلستان کی نامور شخصیتیں موجود تھیں کہ الفضل ۲۵ فروری شهواء صفوره به ایضاً صفحه ما - ٣ الفضل ۹ر اپریل شراء منا

Page 325

ہالینڈ مشن مشتق کی طرف سے اس سال ۲ نئی کتب شائع ہوئیں.(1) پہلی کتاب حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی کتاب " مسیح کہاں فوت ہوئے " کا ترجمہ ہے.(۲).دوسری کتاب قرآن مجید اور اس کی اخلاقی تعلیم کے زیر عنوان مکرم مولودی غلام احمد صاحب بشیر مبلغ ہالینڈ نے لکھی.حضرت مولانا شمس صاحب کی کتاب کے بارہ میں اخبار ۲۶ مارچ شہداء کی اشاعت میں لکھا :.✓ HETVADER LAND احمد مسلم مشن ہالینڈ کی طرف سے سیج کہاں فوت ہوئے " کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کے مصنف مسٹر شمس ہیں اور جس کا ترجمہ مستر زھر مان نے کیا ہے.اس کتاب کا لب لباب یہ ہے کہ یوں میں صلیب پر فوت نہیں ہوئے.بلکہ بے ہوشی کی حالت میں قبر میں اتارے گئے جہاں سے ہوش آنے پر آپ باہر نکال لئے گئے.چونکہ فلسطین میں اُن کے لئے خطرہ تھا اس لئے وہاں سے مشرقی ممالک کو چلے گئے جہاں جا کر انہوں نے اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو انجیل کی خوشخبری سنائی.انجیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح تمام گمشدہ بنی اسرائیلیوں کو جمع کرنے آئے تھے.جو کہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے اور پھر کشمیر میں وفات پائی.(ترجمہ).اسی نوعیت کا تبصرہ ملک کے ایک دوسرے اخبار HET PANOOL نے ۳۰ مارچ ۱۹۵۵ء کی اشاعت میں بھی کیائیے حضرت مصلح موعودہ کی علالت طبع کے باعث اس سال دنیا بھر کے احمدیوں نے نہ صرف امریکہ مشن اورانہیں کیں بلکہ نور سے عقیدتک بے مثال شوت دیا اس سلے میں امریکی احمدی نے حضور کی خدمت میں تین ہزار ڈالہ کی رقم پیش کی اور درخواست کی کہ حضور اسے اپنی صحت کو بحال کرنے کے لئے خرچ فرمائیں.پاکستان اور لندن سے حضور کی صحت سے متعلق جو تازہ خبر یں موصول ہو نہیں واشنگٹن کا مرکزہ ان کو باقاعدگی سے تمام مشنوں تک پہنچاتا رہا.امریکہ کے ایک ہفتہ وار جریدہ NEWS WEEK نے اسلام پر یہ الزام لگایا کہ وہ جبر وتشد ے افضل اور نومبر شار (خلاصہ رپورٹ مکرم مولوی غلام احمد بشیر مبلغ مالینڈ)

Page 326

کم استمر کا علمبردار ہے.امریکہ مشن کی طرف سے اس کی پر زور تردید میں نیوز ویک کو ایک مفصل مکتوب لکھا گیا.اخبار کے ادارہ نے خط کے جواب میں اپنی غلطی پر بر ملا افسوس کا اظہار کیا اور آئندہ محتاط ۱۹۵۵) رہنے کا یقین دلایا.امریکہ کے ایک مشہور غیر مسلم ادیب مٹر جیمز نے " ریڈرز ڈائجسٹ" رمٹی ۹۵ ایو) میں اسلام کی تائید میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا | RELIGION ISLAM MISUNDER STOOD امریکہ مشن نے اس اہم مضمون کو دس ہزار کی تعداد میں چھاپ کو ملک کے کونہ کونہ تک پہنچا دیا جس کے نتیجہ میں امریکی عوام میں اسلام کی تحقیق کا نیا شوق پیدا ہوا.اس مضمون کے علاوہ لاس انجلز مشن نے پانچ ہزار کی تعداد میں تبلیغی اشتہارات بھی تقسیم کئے اور اس سال مشن کی طرف سے مجموعی طور پر سات ہزار اشتہارات شائع کئے گئے.اسی طرح ایک پمفلٹ BIBLICAL BACK GROUND OF ISLAM پانچ ہزار کی تعداد میں فلسطین بھیجا.جناب چوہدری خلیل احمد ناصر نے امریکن یو نیورسٹی میں اور مولوی نور الحق صاحب انور نے نیو یارک یونیورسٹی میں لیکچر دیئے.نیو یارک کے ایک چوک میں رات کے وقت مختلف خیالات کے لوگ مجمع ہو کر پبلک لیکچر دیتے تھے.نیو یارک کے احمدیوں نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا.اُن کے لیکچرسٹن کو سینکڑوں غیر مسلم احباب دارا تبلیغ آئے اور معلومات حاصل کیں میلغین احمد نے لیکچروں کے ذریعہ پیغام حق پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا.ریڈیو پر بھی پانچ SAINT LOUISE تقاریر کیں لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں احمدی جماعتوں کی آٹھویں سالانہ کنونشن اس سال ۳، ۴ ستمبر ۱۹۵۵ء کو سینٹ لوئیس ہیں ہوئی جس میں ملک کے اطراف و جوانب سے شمع احمدیت کے پروانوں نے شرکت کی.اس کنونشن میں جن شہروں کے نمائندے خاص طور پر شامل متباع ہوئے ان کے نام یہ ہیں :.نیو یارک.واشنگٹن.پٹس برگ کلیولینڈ.شکاگو ڈئیٹرائٹ - ملوا کی.ڈیٹن انڈیا نیلپس سنز سینٹی.بالٹی مور - باسٹن ینگسٹر ٹاؤن.له الفضل ۳ جولائی ۱۹۵۵ء ۳۰

Page 327

۳۱۵ مکرم سید عبدالرحمن صاحب کلیولینڈ سے اپنے بھتیجے طاہر احمد صاحب کے ہمراہ شامل ہوئے اور انتظامات میں ہر قسم کی امداد کی.کنونشن کا افتتاح مولوی نور الحق صاحب انور مبلغ انچارج امریکہ نے فرمایا.کنونشن سے مبلغین کے علاوہ مختلف جماعتوں کے پریذیڈنٹوں نے بھی موثر خطاب کیا.اس موقع پر عہدیداروں کے انتخاب کے علاوہ خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے اجلاس بھی ہوئے.کنونشن میں مکرم سید جواد علی صاحب بی اے سیکرٹری امریکہ مشن نے امریکہ مشن کی آمد و خرچ کے بجٹ اور اس میں اضافہ کرنے کی تجاویز پیش کرنے سے پہلے سید نا حضرت مصلح موعود کا درج ذیل روح پر در پیغام پڑھ کر سنایا جس کو سنکر حاضرین کے دل فرحت وسترت سے بھر گئے حضور کا یہ پیغام سوئٹزر لینڈ سے مکرم چو ہدری خلیل احمد صاحب ناصرنے بھجوایا تھا." کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام بھائیوں اور بہنوں کو سید نا حضرت امیر المومنین ایدو له کا سلام پہنچا دیں نیز انہیں حضور ایدہ اللہ کی اس خواہش کی بھی یاد دہانی کرائیں کہ انہیں ہر سال اپنی تعداد کو دوگنا کرنے کا عزم کرنا چاہئیے.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی مساعی میں برکت ڈالے اور آپ کے کام میں آپ کی راہنمائی فرمائے شید شکاگو ٹریبیون (۲۳ ستمبر ۱۹۵۵ء میں مکرم عبدالشکور صاحب کنزے کا انٹرویو شائع ہوا جس میں جماعت احمدیہ کے قیام ، اعراض و مقاصد، احمدیوں کی تعداد کا ذکر تھا.اس سال جو سعید روحیں داخل احمدیت ہوئیں.ان میں کینیڈا کے ایک نوجوان بھی شامل تھے جن کا اسلامی نام ناصر احمد رکھا گیا.آپ کینیڈا میں پہلے مقامی مسلمان ہیں سیسے کینیڈا کے ایک ہفت روزہ اخبار " دی سٹار THE STAR نے مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ اور جماعت احمدیہ کی تبلیغی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:.رومن کیتھولک چرچ کے بعض پیرووں نے اب ایک ہندوستانی مذہب اسلام قبول کر لیا ہے.ہندو تو پہلے ہی تبدیلی مذہب کے قائل نہیں.البتہ مسلمان اس سلسلہ میں کوشش کر رہے ہیں.لے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو" الفضل " ۲۲ تا ۲۴ ر نوسر / ۲۹۵۵ و - له الفضل ۲۱/۲۰ / دسمبر شاء و خلاصه ر پورٹ مکریم سید جواد علی صاحب ).

Page 328

ہندوستان اپنے قدیم مذہب کو قائم رکھنے کے لئے پر دبہت بھجواتا رہتا ہے.پاکستان جو کسی زمانہ میں ہندوستان کا حصہ تھا.لیکن آپ ایک آزاد ملک ہے.اشاعت اسلام کے لئے اسلامی مبلغین بھجوا رہا ہے.یہ بات قارئین کے لئے اور بھی حیران کن ہوگی کہ یہاں ان کا کامیاب مبلغ کوئی ہندوستانی یا پاکستانی نہیں بلکہ ایک انگریز ہے جو اپنے آپ کو بشیر احمد آرچرڈ کہتا ہے (ترجمہ) مشرقی افریقہ مشن مبلغ مشرقی افریقہ مولوی محمد نور صاحب نے تو ماہ کسموں اور تین ماہ نیروبی میں گزارے.اس عرصہ میں دو ہزار تین سو میل کا سفر کیا.TRUTH WHY ISLAM تین سو افراد کو زبانی تبلیغ کی.دو ہزار پمفلٹ ، دو سو کتب اور چار سو رہ دو ہزار پمفلٹ ، دو سو کتب اور چار سو رسائل تقسیم کئے خطوط لکھے.چار تقاریر کیں.انشتی مضامین لکھے.آپ کی مساعی کے نتیجہ میں ۳۲ افراد داخل سلسلہ ہوئے.آپ نے اس سال خصوصیت سے ملک کے مختلف مذہبی حلقوں میں عربی ، انگریزی ، گجراتی اور سواحیلی لٹریچر تقسیم کیا.اور عرب بھائیوں کو جماعت دمشق کا عربی لٹریچر پیش کیا.اخبار ٹروتھ نائیجریا - البشري (فلسطین) کی اشاعت کی کینیا کالونی کے پچاس پادریوں کو رکیوں اسلام ؟) اور دیگر لٹریچر بھیج کر اتمام محبت کی.نیروبی کے ایک یورپین پادری صاحب سے تین گھنٹے تک آپ کی مختلف مسائل پر گفتگو ہوئی.دوسری ملاقات میں وہ ایک اور پادری صاحب کو ساتھ لائے جو جنوبی افریقہ سے آئے تھے.آپ نے انہیں بھی پیغام حق پہنچایا اور انگریزی لٹریچر دیا.آپ کی تبلیغی مساعی سے افریقینوں کو متاثر دیکھ کر پادری صاحبان جماعت کی مخالفت پر کمربستہ ہو گئے مگر اس کا اٹھا اثر ہوا.افریقنوں کو تحریک احمدیت سے متعلق مزید دلچسپی پیدا ہو گئی.کہ سیمس کی چھٹیوں میں بہت سے عیسائی کسو مو ٹانگا نیکا اور کینیا سے آئے.جن سے آپ نے کفارہ تثلیث ، معجزات مسیح اور آمدثانی کے بارہ میں تبادلہ خیالات کیا.عیسائیوں کے علاوہ آپ نے ہندووں کو بھی ملفوظات حضرت مسیح موعود علیا تمام احدیت کا پیغام ارسالی اصول کی فلاسفی میزبان گرانی دی یکم مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل نے اپنے حلقہ میں دسمبر کے وسط میں دورہ کیا.وہاں ۲۱ افراد داخل سلسلہ ہوئے ہے له بحواله روزنامه الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۵۵ ص۲ که روزنامه الفضل اور مارچ ، ۱۸/۱۵ جولائی ۵ رپورٹ مریم موں نام منصور صابه مبلغ مشرقی افریقہ)

Page 329

۳۱۷ مبلغ یوگنڈا کریم حکیم محمد ابراہیم صاحب نے اس سال ملک کے ممتاز شیوخ کو پیغام احمدیت پہنچایا.فرقہ بکوٹو کے شیخ اور ڈیڑھ صد مساجد کے نگران شیخ زید بھی زیر تبلیغ رہے.انہوں نے احمدیہ لٹریچر کا شوق سے مطالعہ کیا.اسی طرح شیخ ابراہیم نے مخالفت کے باوجود جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کیا.شیخ علی کو لیا بھی احمدیت سے متاثر ہوئے شیخ شعیان کر ونڈے نے جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کو سراہتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ہمارے شیوخ نے ہمیں تباہ کر دیا ہے.آؤ ہم سب احمدیوں کے ساتھ مل جائیں.ایک مخلص احمدی شیخ عبداللطیف صاحب کی بہت شدید مخالفت ہوئی مگر وہ احمدیت پر ڈٹے رہے.کمپالہ سے دس میل دور جنجہ روڈ پر ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا.یہاں ایک پلاٹ مقامی جماعت کے ذریعہ تین ہزار شلنگ میں حاصل کیا گیا.یہ رقم یوگنڈا کی جماعت نے دی.یوگنڈا کے شاہی خاندان کے فرد پرنس بدر و اور امریکی رسالہ لائف LIFE کے نمائندہ کو قرآن مجید کے سواحیلی ترجمہ کا تحفہ دیا گیا.یو گنڈا کے سالانہ اجتماع میں غیر احمدی معززین بھی دُور دُور سے تشریف لائے.اس سال یوگنڈا میں ۲۹ افراد داخل سلسلہ ہوئے لیے پچھلے سال دار السلام میں جماعت کی مخالفت تیز تھی جس میں اس سال نمایاں کمی آگئی تعلیم یافتطیق مدارج رہا.بعض شیوخ کے رویہ میں بھی خوشگوار تبدیلی ہوئی رشیخ بھی اپنے پوتے کو مکرم مولوی عبد الکریم صاب شرتاً مبلغ سلسلہ کی خدمت میں لائے اور کہنے لگے میرا اپنا بیٹا ہے علم رہا ہے، اسے نہیں آپ کے سپرد کرتا ہوں.آپ اس کو پڑھائیں.شیخ علی مرے MZE جو جماعت کی مخالفت میں پیش پیش تھے ایک روز کہنے لگے کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ ہمیں عیسائیت کے خلاف متحد ہو جانا چاہیئے.دوران سال مولوی صاحب موصوف نے چار ہزار میل کا تبلیغی سفر کر کے پیغام حق پہنچایا اور دوری کئے بسفروں کے دوران لٹریچر کی اشاعت بھی ہوئی تین ہزار پمفلٹ مفت تقسیم کئے گئے.دو ہزار سے زائد کا لٹریچر فروخت ہوا.سواحیلی اخبار مانیر یا مونگر اور دوسری جگہوں کے چیدہ چیدہ افراد کو بھجوایا جاتا رہا، سات سو افراد داخل سلسلہ ہوئے.دار السلام میں جماعت نے خانہ خدا اور مشن ہاؤس کے لئے ایک موزوں پلاٹ لے رکھا تھا ۱۹۵۶ء له الفضل ۱۳ نومبر ۶۵ ۴ رخلاصہ رپورٹ کرم مولوی نور الدین ما میر سیکرٹری احمد یشن مشرقی افریقی ).

Page 330

۳۱ میں اس پر عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا.شور میں تعمیر کا کام جاری رہا اور تکمیل ۱۹۵۶ یو میں ہوئی.مشرقی افریقہ کے مخلص احمدیوں کے علاوہ غیر احمدی معززین نے بھی عطیہ جات دیئے.جن کی وصولی میں مکرم مولوی عبدالکریم صاحب شرما.مکرم ڈاکٹر طفیل احمد صاحب دار - محرم شفیع صاحب - مکرم نذیر احمد هنا ڈار اور کریم عطاء الرحمن صاحب سٹیشن ماسٹر، مکرم عبد العزیز صاحب اور اُن کے بھائیوں کی مخلصانہ کوششوں کا نمایاں دخل تھا اس سال جماعت احمد یہ گولڈ کوسٹ کا تیسواں سالانہ جلسہ ۷، ۹۷۸ ولڈ کوسٹ مشن | جنوری ۱۹۵۵ء کو سالٹ پانڈ میں منعقد ہوا جس میں ملک کے کونہ کونہ سے " 1 افراد شامل ہوئے مسٹر بشیر الدین صاحب منتظم مکانات تھے.جلسہ گاہ ملک کی بڑی شاہراہ کے عین کنارے پر اور تعلیم الاسلام سکول کے سامنے تھی.مکرم قریشی محمد افضل صاحب قائم مقام امیر گولڈ کوسٹ نے اپنے افتتاحی خطاب میں احباب جماعت کی مخلصانہ مساعی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جماعتوں نے ۳۷۰ پونڈ کی رقم حضور کے مجوزہ سفر امریکہ کے لئے داخل خزانہ کر دی ہے.اسی طرح عیدین کے موقع پر ایک ہزار پونڈ کی رقم جمع ہوئی.سلسلہ کی عمارتوں کے لئے پانچ سو پونڈ جمع ہوئے ، یہ امر باعث مسرت ہے کہ گولڈ کوسٹ کی آل افریقین اسمبلی میں دو مخلص احمدی مسٹر آرم امنڈے اور بی کے آدم منتخب ہوئے.جلسہ میں آپ کے علاوہ درج ذیل اصحاب نے تقاریر کیں :- مسٹر جمال الدین صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ گولڈ کوسٹ.I مسٹر بشیر الدین صاحب.- محترم پروفیسر سعود احمد خانصاحب وائس پرنسپل احمدیہ کا لج کماسی.۴.مکرم حاجی حسن عطا صاحب - محترم ڈاکٹر سید سفر الدین صاحب.مکرم مولوی عبد القدیر صاحب شاہد مبلغ انچار ج اكره.اس کے علاوہ بعض چیف اور دیگر مبلغین نے بھی تقاریہ کیں تیسرے دن شوری کا اجلاس له الفضل رسم جولائی اور خلاصہ رپورٹ مکرم مولوی عبدالکریم صاحب شراً ؟

Page 331

۳۱۹ » ہوا جس میں تبلیغ کا اہم مسئلہ خاص طور پر زیر بحث آیا اور اس کی طرق پر زور توجہ دلائی گئی ہے (1) اكرا دوار الحکومت خانا) کے کثیر الاشاعت اخبار ڈیلی گرافک " میں UAC کمپنی کی ایک شارخ نے ایک اعلان شائع کروایا جس کے بعض حضرات سے سرور کائنات حضرت نبی اکرم صلی اتو علیہ وسلم کی تنقیص شان ہوتی تھی.جس پر محترم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر انچارج گولڈ کوسٹ (فانا) نے اخبار کے ایڈیٹر کو بطور احتجاج پہلے ایک تار دیا اور پھر ایک لمبی تحریر بھیجی اور اس کی ایک کاپی مینجر کمپنی کو بھی ارسال کی جس پر مینجر کمپنی نے اظہار افسوس کیا اور اخبار نے آپ کے احتجاج کا ذکر بھی کیا اور آپ کے مراسلہ کے بعض فقرات شائع کر کے معذرت بھی کی.(۲) اس سال فینٹی نہ بان میں قرآن مجید کے ترجمے کا کام بھی شروع کیا گیا کہیے (3) جولائی تا ستمبر 90ء کے دوران مجاہدین گولڈ کوسٹ نے ۳۷۸۹ میل کا سفر طے کیا.۱۰۷ گاؤں میں تبلیغ کی.۵۴ تقاریر کیں.اور اس دوران ۴ ، افراد اسلام قبول کر کے داخل احمدیت ہوئے ہی ہے.انچار ی مشن مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے اس سال ملک بھر کے طویل دورے کئے اور متعدد مقامات پر تقاریر کرنے کے علاوہ مشہور شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور سالٹ پانڈ.اکہ افل اور ٹیچیا کے سکولوں کا معائنہ کیا اور سالٹ پانڈ کی فلڈ ریلیف کمیٹی میں شرکت کی.مولوی عبد القدیر صاحب نے بھی تبلیغی اور تربیتی جلسوں میں شرکت کی اور مختلف شخصیات تک پیغام حق پہنچا یا.اگرہ میں نو جوانوں کی ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جو آٹھ روز تک جاری رہی.مولوی عبد القدیر صاحب شاہد کے سپر د پاکستانی نمائندہ رمسٹر انعام اللہ خانصاحب سیکرٹری موتمر عالم اسلامی اور ورلڈ فیڈریشن آف یونائیٹڈ نیشنز ایسوسی ایشن کے وائس چیر مین ) کی رہائش کا انتظام کیا گیا.جسے آپ نے احسن طریق پر انجام دیا.مولوی صاحب موصوف نے پاکستانی نمائندہ کی ملاقات مسلمان لیڈروں، شامی تاجروں اور گولڈ کوسٹ کے سرکاری افسروں اور اخباری نمائندوں کے ساتھ کرائی.کانفرنس کے مندوبین میں سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر بھی تقسیم که روزنامه الفضل ۱۰ مارچ ۶۹۵۵ ۸۲۰ و خلاصہ رپورٹ مکرم قریشی محمد افضل صاحب ، ه روزنامه الفضل ۱۰٫۹ ستمبر ۱۵ء سے روزنامه الفصل ۱۹ نومبر ۱۹۵۵ء

Page 332

کیا گیا.اس سال کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ یکم جنوری ء سے جاعت احمدیہ نے " سن رائز کے نام سے ایک اخیار جاری کیا.جو اس ملک کا پہلا مسلم اخبار تھا.اس اخبار کے مدیر مکرم سعود احمد خانصاب دہلوی بی.اے آنرز بی.ٹی وائس پرنسپل احمد یہ کالج کماسی تھے جو کالج کی مصروفیات کے باوجود ادارت کے فرائض نہایت تند ہی سے کرتے رہے.علاوہ ازیں مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم اور دیگر مبلغی کام بھی اُن کے ساتھ تعاون کرتے رہے.یہ ماہنامہ اخبارہ ملک کی نامور شخصیتوں مثلاً وزراء ممیران امیلی پیرامونٹ چیفس اور افسران حکومت کو بذریعہ ڈاک بھیجوایا جاتا کہ پائید برٹش پارلیمنٹ کے نمبر مسٹر LONNEX BOYED نائیجیریا کے دورہ پر نائیجیریا مشن ہے آپ نے محمد علقات عامہ کے زیر اہتمام ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا.کانفرنس کے اختتام پر احمدیہ مشن نائیجریا کی طرف سے موصوف کو دہ یا چہ قرآن مجید انگریزی کا تحفہ دیا گیا.GIWA نامی گاؤں کے سکول میں احمدی ٹیچر نے طلبا کو اسلامی روایات سے آگاہ کیا.جین پر اس بستی کے لوگوں میں احمدیت کا چر چانٹروع ہوگیا.بعد ازاں مکرم مولوی مبارک احمد صاحب ساتی وہاں تشریف لے گئے اور احمدیت سے متعلق مزید معلومات بہم پہنچائیں.عرصہ زیرہ رپورٹ میں ساٹھ افراد نے بعیت کی بیہ ویسٹرن ریجن کے ایک مسلمان حاکم ALAFIN کو بعض سیاسی وجوہات کی بناء پر اپنے علاقہ سے جلا وطن کر دیا گیا.آپ کی واپسی کے لئے کریم مولی کا نسیم سیفی صاحب اور کرم مبارک احمد صاحب ساقی نے وزیر اعلیٰ سے دو دفعہ ملاقات کی اور انہیں الا فین کے معاملہ میں نرمی کرنے کے لئے کہا گیا جس پر وزیر اعلیٰ نے انہیں یقین دلایا کہ وہ اُن کے مطالبہ پر غور کر ہیں گے.اس سال کی پہلی سہ ماہی میں پندرہ افراد داخل سلسلہ ہوئے کیے اس سال نائیجیریا میں سیکنڈری سکولوں کے مسلمان طلباء کی سالانہ کا نفرنس منعقد ہوئی جس کا له الفضل ۱۹ نومبر ۹۵ در یک ۱۹ مارچ ۶۹۵۵ ۳ - ۵۲ الفضل ۸ در مارچ ۱۹۵۵ " ه الفضل ۲۳ اپریل ۶ ۳۰ درپورٹ مکرم مبارک احمد صاحب سانتی ).

Page 333

OBA نے افتتاح مولانا نسیم سیفی صاحب کی تقریہ (فلسفہ دُعا سے ہوا.مقامی حاکم اوبیا اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا " جن دنوں ہم تمہاری عمر کے تھے.ہمارے ہاں عیسائیت کا اس قدر زورہ تھا کہ ہمارے لئے مسلمان کہلا نا مشکل تھا.یہ شاہ کا ذکر ہے جب ہم نے قادیان میں جماعت احمدیہ کو لکھا اور انہوں نے وہاں سے ۱۹۳۷ء میں ایک مشنری بھیجا اور ہم اس قابل ہوئے کہ نائیجریا میں سب سے پہلا مسلمان سکول جاری کر سکیں.انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس ملک میں مسلمان قوم کی ترقی کا آغازہ احمدیت کے داخل ہونے سے ہوا.لیگس میں ایک نیا احمد یہ سکول جاری کیا گیا جس سے جماعت کے تعلیمی اداروں کی تعداد وش ہو گئی ہے ر اکتوبر دواء کو آل پاکستان مسلم آرگنا ئزیشن اور ورلڈ اسمبلی آف یوتھ کی ایگزیکٹو کے ممبر جناب انعام اللہ خانصاحب نائیجیریا پہنچے.مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب، مکرم مولوی مبارک احمد صاحب ساتی اور پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ نائیجریا نے ہوائی مستقر پر ان کا استقبال کیا.آپ احمد پٹیشن ہاؤس میں بھی تشریف لائے اور قرآن مجید کے ڈرح ، جرمن ، سواحیلی اور انگریزی تراجم کو دیکھ کہ بہت متاثر ہوئے ہے سیرالیون مشن مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل مبلغ فری ٹاؤن نے اس سال اخبار ڈیلی میل کے یہودی رپورٹر سے کئی بار مذہبی گفتگو کی.اخبار نے ۴ار مارچ کو آپ کا مضمون شائع کیا.جس میں اس امر کا ذکر تھا کہ مسیح صلیب پر قوت نہیں ہوئے.یہ ضمون لاکھوں مسیحیوں کی نظر سے گزرا مگر کسی سے کوئی معقول جواب نہ بن پڑا.بعض میسائی اصحاب نے غیر متعلق باتیں چھپوا کر پیچھا چھڑانے کی کوشش کی.جو کا سر صلیب کے علم کلام کی برتری کا بین ثبوت تھا.ایک سیمی نے ایڈیٹر ڈیلی میل " کے نام ایک خط میں مسیحیوں کی اس روش پر تنقید کی.ایڈیٹر صاحب ڈیلی میل “ پر اس کا ایسا نمایاں اثر ہوا کہ انہوں نے ۲۱ مارچ ۹۵۵ ایڑ کے جلسہ کے دوران واضح لفظوں میں اعلان کر دیا کہ اسلام مسیحیت سے بدرجہا بہتر ہے کیا ه روزنامه الفضل ن۲۷ ستمبر هواء سه روزه نامه الفصل ۱ نومبر ۱۹۵۵ ء • سے روزنامه الفضل ۱۵ اپریل شهداء منه و خلاصهہ رپورٹ مکرم مولوی محمدابراہیم صاحب خلیل - )

Page 334

۳۲۲ مارچ ۱۹۵۵ء میں مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل نے ایک جلسہ میں تمام سیحیوں کو حضرت مسیح کی صلیب سے نجات اور سفر کشمیر کے موضوع پر دعوت مذاکرہ دی جو اخبار ڈیلی میل " مورخہ ۱۴در مارچ ۱۹۵۵ء میں ایک مختصر مضمون کی صورت میں بھی شائع ہوئی.یہ مضمون لاکھوں مسیحیوں کی نظر سے گزرا لیکن کسی کو مقابل پر آنے کی جرات نہ ہوئی حتی کہ اخبار ڈیلی میل " میں ایک عیسائی نے اپنے طویل خط میں اعتراف کیا کہ مبلغ اسلام کے چیلینج کا کوئی معقول اور نسلی بخش جواب نہیں دیا گیا.مولوی صاحب موصوف نے ایک یہ پورٹر سے رجو امریکہ اور لائبیریا میں دس سال تک رہے اور ان دنوں فری ٹاؤن میں تھے.اس سلسلہ میں گفتگو کی وہ.مادہ بہت متاثر ہوئے اور انہیں بھی تسلیم کرنا پڑا کہ بشپ اور دوسرے سیمی اصل موضوع سے گریز کر گئے ہیں لیے 14..مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کی کوشش سے ریاست نے فیصلہ کیا کہ - وکو پر احمد یہ سکول کی نئی عمارت سرکاری خمریخ پر تیار کی جائے.اس کے لئے سولہ سو پونڈ کی منظوری دی.روکو ٹیچر میں پندرہ سال سے خانہ خدا قائم کرنے کی کوشش ہورہی تھی.مگر چیفیس اور دیگر مخالفین جماعت کے عدم تعاون کی وجہ سے معاملہ تعطیل میں رہا.اللہ تعالیٰ نے اس بارہ میں بھی کامیابی بخشی، چنانچہ آپ کی تحریک پر 1 پونڈ میں ایک مکان برلب سڑک خرید لیا گیا.حضرت مصلح موعود کی دیرینہ خواہش تھی کہ سیرالیون سے ایک جماعتی اخبار جاری کیا جائے.یہ خواہش اس سال پوری ہوئی اور ماہ مٹی سے ہو " احمدیہ دارالتبلیغ سے ایک پندرہ روزہ اخبار افریقین کو سینٹ " کے نام سے جاری کیا گیا ہے اور مشن کے ہیڈ کوارٹر ہو " میں نذیر مسلم پریس سے طبع ہونے لگا.یہ نیا پریس حضرت مصلح موعود کی خواہش کے مطابق مولانا نذیر احمد علی صاحب کی یاد میں قائم کیا گیا تھا.ریاست ٹونکیا سیرالیون سے جنوب مشرق میں واقع ہے جہاں عرصہ سے پانچ مختلف مقامات پر دو سو افراد پر شتمل جماعتیں قائم تھیں اور تین مقامات پر احمد یہ جوت الذکر بھی تعمیر ہو چکے تھے.ه الفضل در اگست ۹۵۵اء مه الفضل ۵ اگست ۶۱۹۵۵ ۳۰ سے المفضل ١٥/ نومبر ١٩٥٥ ء ص ٣ -

Page 335

اس سال شروع مارچ شہداء میں وہاں کے پیرا ماؤنٹ چیف مام و اسمانے احمدیوں پر جور و ستم ڈھانے ۱۹۵۵ء شروع کئے.۳۵ پونڈ جرمانہ کیا.بعض کو زد و کوب کیا.اور قید میں ڈالا.اور بعض کو تپتی دھوپ میں دو تین گھنٹے کھڑے رہنے پر مجبور کیا.حالانکہ اُن کا سوائے اس کے اور کوئی جرم نہ تھا کہ انہوں نے مالک ریاست سے مشورہ کئے بغیر احمدیت کو کیوں قبول کیا اور خدا کے گھر کیوں تعمیر کئے.اسی تشویشناک صورت حال کی اطلاع ننے پر مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری اور مکرم مولوی محمود احمد صاحب شاہد اور ہو جماعت کے بعض ممبران چیف صاحب سے ملے.بعد ازاں ہنگامی میٹنگ کر کے حکام ضلع اور سیرالیون کے اخباروں کو ان احمدیوں پر کئے جانے والے مظالم کی تفصیلات بھجوائیں جس پر سیرالیون پریس نے ان مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور احمدیوں کی تائید میں موثر اداریے سپر وقلم کئے جس کے نتیجہ میں گورنمنٹ کی طرف سے پولیس افسروں کو تحقیقات کے لئے بھیجوایا گیا اور یہ تکلیف دہ سلسلہ خدا کے فضل سے ختم ہو گیا ہے سیرالیون گورنمنٹ کے وزیر مواصلات ورسل در سائل آنریبل ایم.ایسی مصطفے اسنوسی نے احمدیہ اخبار " افریقین کر لینٹ " پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے ایڈیٹر کو لکھنا : یں آپ کو اور آپ کے احمدیہ مشن کو اس شاندار اور عظیم انقدر کام پر جس کا بیڑا آپ نے سارے مغربی افریقہ میں عموما اور سیرالیون میں خصوصاً اٹھایا ہے ہدیہ مبارک باد پیش کرتے ہوئے دلی خوشی محسوس کرتا ہوں.افریقین کر لینٹ کا اجرا آپ کے کام میں جو آپ تعلیمی اور تد منبی میدان میں سر انجام دے رہے ہیں ایک گرانقدر اضافہ کا موجب ہوا ہے اور سیرالیون کے ایک گروہ عظیم کی دیرینہ خواہش اور ضرورت کی تکمیل کا پیش خیمہ ہے.اس اخبار کا مقصد چونکہ محض اشاعت اسلام اور اس کی صحیح اور اصلی تعلیم سے لوگوں کو آشنا کہنا اور ملک کی عام خدمت ہے.لہذا مجھے امید واثق ہے کہ یہ اخبار خواص ا.رعوام کی نظروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.خدا تعالیٰ آپ کے اس نئے فریضہ میں جس کی ذمہ داری آپ نے اٹھائی ہے برکت ڈالے اور متلاشی حق لوگوں کے دل آپ کی اخلاقی اور مالی امداد کے لئے کھول دے خدا تعالیٰ آپ کو به روز نامه مفضل ۶ راگست ۹۵۵ و صت.

Page 336

۳۲۳۴ تو فیق عطا فرمائے کہ آپ اسے استغلال اور مداومت سے جاری رکھ سکیں ؟ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری انچاره سیرالیون مشن ما واگست میں فری ٹاؤن تشریف لے گئے اور برٹش کونسل کے ایک لیکچر میں شرکت کی جہاں ملک کے تمام اخبار نویس، سیرالیون کے چیف منسٹر اور معزز شہری موجود تھے.آپ کو ان سے ملنے اور تعلقات پیدا کرنے کا موقع میسر آیا.آپ نے سلسلہ کا کچھ لٹریچر مفت تقسیم کیا اور کچھ فروخت کیا ، اور پریس کے لئے مزید سامان خریدا.مکرم قاضی مبارک احمد صاحب - مکرم مولوی محمود احمد صاحب شاد اور کرم مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری اور لوکل مبلغ پا فوڈے صاحب نے مختلف جگہوں کے دورے کئے جن میں پیغام حق پہنچایا گیا.سال کے شروع میں بو جماعت کے ایک مخلص دوست یا علی رو جس نے ایک مکان مشن کے نام ہبہ کیا.مجملہ مبلغین کی مساعی کے نتیجہ میں ماہ اگست میں اکیسی افراد داخل احمدیت ہوئے لیے جماعت احمدیہ سیرالیون کی ساتویں سالانہ کانفرنس 14 دسمبر ۹۵ ایر کو نہایت کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی.یہ کانفرنس احمدیہ سکول بو کے کھلے احاطے میں منعقد ہوئی.کانفرنس کے پانچ اجلاس ہوئے.کا نفرنس کا افتتاح مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ انچارج سیرالیون نے کیا جس میں بتایا کہ اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں غیر معمولی کامیابی ہوئی ہے مثلاً بو شہر میں نہ صرف احد یہ سکول کی عمارت جو عرصہ سے زیر تکمیل تھی مکمل ہوئی ہے بلکہ ایک شاندار مشن ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا ہے.دوران سال پانچ نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور اڑھائی سو افراد شامل احمدیت ہوتے علاوہ ازیں ایک اخبار اور پر یس کا قیام عمل میں آیا کیسے اپریل ۱۹۵۵ء کے دوران بانڈونگ میں وزراء کانفرنس منعقد ہوئی جس انڈونیشیا مشن میں ۲۹ مال کے سینکڑوں نمائندے اور بعض کے وزرائے عظام اور سینکڑوں اخباری نمائندے شامل ہوئے.کرم سید شاہ محمد صاحب رئيس التبليغ انڈونیشیا، ملک الفضل ۱ نومبر ۱۹۵۵ء (خلاصہ رپورٹ مکرم مولوی محمد صدیقی صاحب شاہد گورداسپوری) - سے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳ نام فروری شده و سالانہ رپورٹ ۱۳ با په تاها را در ۵ مرتبه مولوی محمد صدیق صاحب شاہد ).

Page 337

۳۲۵ عزیز احمد صاحب اور مولوی محمد زہدی صاحب نے ایک ہزار سے زائد کتب نمائندگان میں تقسیم کیں.نیز فلسطین ، انڈونیشیا ، ترکی ، عراق ، برما، سیلون ، انڈیا اور یمین کے ممالک کے نمائندگان سے تبادلہ خیال بھی کیا ہے شمالی بور نیمشن مشق کی طرف سے اس سال انگریزی عالی زبان کا ایک سہ ماہی رسالہ منٹن سے اس و PEACE جاری کیا گیا.اب تک مغربی ساحلی علاقہ میں احمدیت قائم تھی.اس سال کے ابتداء میں بعض دوسرے علاقوں کی طرف توجہ دی گئی.چنانچہ مبلغ سلسلہ مکرم مرزا محمد ادریس صاحب مشرقی ساحل کے دورے پر تشریف لے گئے.جس کے دوران ایک تو رسالہ کی توسیع واشاعت کا موقع ملا.دوسرے دیہاتی لوگوں نے ذوق و شوق سے تبلیغ حق شنی.آپ کے بعد مکرم مولوی محمد سعید صاحب انصاری بھی اس علاقہ میں تشریف لے گئے.ایک زیر تبلیغ نوجوان ہوا ونتلمورا یوسف صاحب نے بیعت کی.جس پر اُن کی بہت سخت مخالفت ہوئی.مگر وہ ثابت قدم رہے اسی طرح کرم مرزا محمد ادریس صاحب کی کوششوں میں بھی خدا نے برکت بخشی اور راناؤ کی بستی کا ایک ہیڈ ماسٹر احدی ہو گیا جس کے چند روز بعد ایک ریٹائر ڈ ٹیچر نے بھی مع اپنی بیوی کے بیت کہ مالی اس سال بورنیو مشن کے اثرات نمایاں طور پر ظاہر ہونے شروع ہوئے.اور خوشکن اطلاعات مرکز میں پہنچیں جن کی تفصیل حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے درج ذیل کی جاتی ہے :- بور نیو میں اس وقت ہمارے دو مبلغ ہیں.پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس علاقہ میں احمدیت کا پھیلنا مشکل ہے.اس لئے یہاں دو مبلغوں کو بٹھانے کی کیا ضرورت ہے اور اس علاقہ میں پہلے بہت ہی تھوڑے احمدی تھے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں صرف ایک ہی احمدی تھے اور وہ ڈاکٹر بدرالدین صاحب تھے.میں وہاں کے مبلغین کو بار بار کہہ رہا تھا کہ اپنے کام کو بڑھاؤ.آخر خدا تعالیٰ کا فضل ہوا اور اس علاقہ میں احمدیت کے پھیلنے کے سامان پیدا ہو گئے.ہمارا ایک مبلغ بورنیو کے ایک حصہ میں تبلیغ کے لئے گیا اور خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہوا کہ وہاں احمدیت کی ایک رو پیدا ہو گئی.انگریزوں کو له الفضل ۱۲۰ جولائی ۱۹۵۵ء ص۳ له الفضل ۱۴ ستمبر ۹۵ (خلاصہ رپورٹ مکرم ڈاکٹر حافظ بدر الدین صاحب مقیم بورنیو ).-

Page 338

۳۲۶ جب اس رو کا احساس ہوا تو حکام نے اس کو دبانا چاہا اور جو شخص بھی احمدی ہونے لگتا اس پر دباؤ ڈالا جاتا کہ اگر وہ احمدی ہو گیا تو اسے ملازمت سے برخواست کر دیا جائے گا یا اسے جائداد سے محروم کر دیا جائے گا لیکن اس کے باوجود ہمارے مبلغ کو خدا تعالیٰ نے اس علاقہ میں کامیابی عطا فرمائی.آج وہاں سے ایک اور خط آیا ہے کہ دوسرے مبلغ کو بھی ایک دوسرے علاقہ میں بھیجا جارہا ہے.اور خیال ہے کہ اگر یہ مبلغ اس علاقہ میں گیا تو وہ سارے کا سارا علاقہ احمدیت میں داخل ہو جائے گا.بورمیو میں آبادی کم ہے.لیکن علاقہ بہت وسیع ہے.اگر انگریزی یا انڈو نیشین بورنیو دونوں کو ملا لیا جائے تو اس کا رقبہ ہندوستان کے نصف کے برابر ہے اور پاکستان سے وہ تین چار گنا زیادہ ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ میں احمدیت پھیلا دی تو یہ ہمارے لئے بڑی برکت کا باعث ہوگا ہے ۱۹۵۵ء میں مندرجہ ذیل مجاهدین امارات مجاہدین احمدیت کی روانگی اور کامیاب مراجعت بلا د غیر میں بغرض تبلیغ اسلام تشریف لے گئے :- ا.لم.مکرم مولوی نذیر احمد صاحب میشر.آپ مع اہل و عیال تیسری بار گولڈ کوسٹ (غانا) تشریف لے گئے.-۲- مکرم صوفی محمد اسحق صاحب (۲۸ جنوری ۶۹۵۵ ) برائے گولڈ کوسٹ.۳.مکرم خلیل احمد صاحب اختر برائے لائبیریا (۲۸ جنوری ۹۵) ہم.مکرم چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ برائے سیرالیون (۲۸/ جنوری ۱۹۵۵) ه - حکیم قاضی مبارک احمد صاحب برائے سیرالیون (۲۸ جنوری ۹۵۵اء ) -4 مکرم شیخ ناصر احمد صاحب برائے سوئٹزر لینڈ (۲۷) فروری ۱۹۵۵ اوت مکرم مولوی صالح محمد صاحب برائے لنڈن ۲۴ مارچ ۱۹۵۵ ء ہے مکرم مولوی نور الدین صاحب مشیر برائے مشرقی افریقہ (۲۱) جولائی ۹۵۵ ادا ہے ,^ المفضل ۱۸ر جنوری شماره صفحه را در خطبه جمعه فرموده ۱۳۰ دسمبر ۶۸۱۹۹۵) سه الفضل ۲۹ جنوری شاء صفحه را در بیکار ڈ تحریک جدید کے مطابق روانگی کی تاریخ ۲۷ جنوری ۱۹۵۵) سے افضل یکم مارچ ۱۹۵۵ء مستحث سے افضل ۲۷ باپ شهداء صفحوت - شه الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۵۵ء صفحه را -

Page 339

۳۲۷.11 مکرم حافظ بشیر الدین صاحب برائے مشرقی افریقہ ( ۴ اگست ۱۹۵۵ الی حکام رحیم بخش صاحب برائے برٹش گی آنا دیکم نومبر و رہا ہے.مکرم شیخ نصیر الدین صاحب برائے نائیجیریا (۳) دسمبر والے ۱۳ مکرم مولانا عبد الواحد صاحب سماٹری برائے انڈونیشیا کہ دسمبر ۹۵ ای او اس سال مندرجہ ذیل مبلغین اسلام بیرونی ممالک میں اعلائے کلمہ حق کا فریضہ کامیابی سے ادا کرنے کے بعد مرکز احمدیت واپس تشریف لائے.مبلغ انڈونیشیا مکرم حکیم عبد الرشید صاحب ارشد (۲۰ فروری شارداه مبلغ امریکہ مکرم مولوی عبد القادر صاحب فنیقیم (۱۴، اپریل ۱۹۵۵ء اله - مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه مبلغ انگلستان (۱۹ اپریل ۹۵۵ راشه - مبلغ امریکہ مکرم چوہدری غلام یسین صاحب ( ۱۳ مئی ۱۹۵۵ ۶ شه مبلغ گولڈ کوسٹ مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم ( ۱۶ جون ۱۹۵۵ - مبلغ انڈونیشیا مکرم میاں عبد الحی صاحب (۲۵ ستمبر ۱۹۵۵ یونانی.た (51900) مبلغ انچارج امریکہ مکرم چوہدری خلیل احد صاحب ناصر (۲۸ ستمبر ۱۹۵۵) - مکرم چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین (۱۴ دسمبر ۱۹۵۵ هم الله ان مبلغین کے علاوہ ۳ فروری ۱۹۵۵ء کو انگلستان سے شیخ مبارک احمد صاحب را بین خانصاحب فرزندعلی صاب کی مراجعت بھی ہوئی.آپ 11 اگست ۱۹۵۷ء کو ربوہ سے بغرض تعلیم روانہ ہوئے تھے.اس عرصہ میں آپ شام، جرمنی اور انگلستان میں مختلف علوم کی تحصیل میں مصروف رہے تلے - ه الفضل ۵ اگست ۱۹۵۵ء (اخبار میں ہوا ۴ جولائی لکھا ہے ) ٣٠ الفضل ۱۳ نومبر اء ما سے ریکارڈ تحریک جدید که الفضل وار دسمبر ۱۹۹۵ ص - شم الفضل در مارچ ۹۵ ط له در ت الفضل ۱۶ اپریل ها و صفر را - شه الفضل ۷ ار اپریل ۱۹۵۵ه ما شه الفضل ۱۶ مئی ۱۹۵۵ و صفحه را الفضل درجون شراء ما - نه الفضل ٣٠ ستمبر ١٥ - صفحه-ث - ال الفضل ۳۰ نمبر ۱۹۵۵ء من الفضل ١٧ر دسمبر 2٥٥ ء ما - ١٣ الفضل ۵ فروری ۹۵۵ه صفورا -

Page 340

نئی مطبوعات اس سال کی چند قابل ذکر اور مشہور مطبوعات سلسلہ یہ ہیں:.- حیات قدسی حصہ چهارم د از حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدسی را جیکی مبلغ سلسلہ احمدیہ) - تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر و از خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس انچارج تالیف و تصنیف صدر انجمن احمدیه ) - شمع تورتم مع تبدیل حرم مرد و جمعه (مولف حکیم عبد الطیف صاحب شام منشی فاضل اور افضل " دو حصہ عبد دبیر نمبر ۱۴ مین بازار گوالمنڈی لاہور) ۴- بیرت حضرت مولانا شیر علی المرتبه لک نذیر احمد ریاض لیکچرار جامعه المبشرين ربوہ ) ، اس کتاب کا پیش لفظ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے رقم فرمایا.-A ه حیات فیض رمز تبہ مولانا عبدالمالک خانصاحب مربی سلسلہ احمدیہ کراچی ) - - رسالہ حج (مصنفہ مولوی عبداللطیف صاحب فاضل بہاولپوری ناشر الشركة الاسلامیہ ) علامات شناخت انبیاء ( از مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعة المبشرين، ناشر الشركة الاسلاميه ).عبرت ناک انجام داز کردم چوپردی خلیل احمد صاحب ناصر انچار ج احمد پیشن امریکہ ناشر الشركة الاسلامیه ).۹ آزاد بھارت دیگرم گیانی عباد الله صاحب ریسرچ سکالہ سکھ ازم ناشر الشركة الاسلامیہ کے ان کتب کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی زیر نگرانی بڑے سائز پر ربوہ کا ایک نقشہ بھی شائع ہوا ہے جس میں شہر کی سڑکوں، گلیوں اور دیگر مشہور پبلک مقامات کو نمایاں کیا گیا تھا.نقشہ کی ایک بڑی عرض جلسہ سالانہ پر آنے والے دوستوں کی راہنمائی اور ان کی جائے کہ ہائش سے متعلق صحیح معلومات بہم پہنچانا تھا.لے مسلمان خواتین کے لئے فقہی مسائل اور اسلامی ہدایات کا مجموعہ رفتہ حدیہ کا دوسرا ایڈیشن مفید اضافوں کیا تھے.سے مولانا عبد المجید صاحب سالک نے اس کتاب پر یہ تبصرہ کیا کہ " مجھے یہ کتاب بے حد پسند آئی.اس کی سادگی سلاست اور اثر انگیزی قابل قدر ہے " والفضل ۲۸ مارچ ۱۹۵۶ م ) الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹ ء صفوت - له الفضل دار مارچ ۱۹۵۵ء ص.

Page 341

۳۲۹ تیسرا باب حمدیش اشمیری کا قیام اوراس کی شاندار دینی خدمات فصل اوّل لائبیریا کا ملک، افریقہ کے مغربی ساحل پر گنی کے جنوب ، سیرالیون کے جنوب مشرق اور ایوری کوسٹ کے مغرب میں واقع ہے.یہ افریقہ کی سب سے پرانی جمہوری ریاست ہے جس کی بنیاد ۱۹۳۳ء میں اُن افریقینوں کے ذریعہ سے رکھی گئی جو امریکن کالونائزیشن سوسائٹی SOCIETY AMERICAN COLONIZATION : کے زیر انتظام یہاں آباد کئے گئے تھے.لاشہر یا شام میں جمہوری ملک بنا.اس ملک کے مقبول ترین صدر ولیم وی ایس ٹب مین WILLIAM V.S TUBMAN تھے جو ۱۹۴۴ء سے بار بار منتخب ہوتے رہے اور اپنی وفات )شام تک اسی عہدے پر فائزہ رہے.ملک کا دارالسلطنت مترو و یا MONROVIA ہے.جس کے باشندوں کی غالب اکثریت عیسائی ہے.لائبیریا میں احمدیت کا پیغام اس ملک میں احمدیت کا پیغام سب سے پہلے شاہ میں پہنچا جبکہ کالج کے ایک پر وفیسر نے احمد پیشن لندن سے لٹریچر منگوایا.اس واقعہ کے قریباً چونتیس سال بعد تار کے اوائل میں سید نا حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر مکرم مولی محمد صدیق له الفضل ۱۲۴ تومیری لاله ما ۲۴ رخط حضرت قاضی محمدعبداللہ صاحب بی.اے بی ٹی مبلغ لنڈن کا

Page 342

۳۳۰ صاحب امرتسری مبلغ سیرالیون نے بذریعہ ڈاک نیز سیرالیون کے بعض مخلص احمدیوں کے ذریعہ سے لائیبریا میں بہت سا انگریزی اور عربی لٹریچر بھجوایا.پھر مٹی ۱۵ء میں خود بھی ایک ماہ کے دورے پر یہاں آئے.آپ پہلے احمدی مبلغ تھے جو اس ملک میں تشریف لائے.اس دوران آپ نے صدر مملکت ولیم شب مین سے ملاقات کی اور انہیں قرآن مجید کی انگریزی تفسیر اور دوسرا اسلامی لٹریچر تحفہ پیش کیا.صدر ٹب میں نے اس آسمانی تھنے کا دلی شکر یہ ادا کیا اور وہ کیا کہ میری ایک مسلم عوام کی تعلیم تویت کے سلسلہ میں جماعت احمد یہ جو بھی قدم اٹھائے گی حکومت اس کا خیر مقدم کرے گی.لائبیریا کے اخبار بستر LISTNER نے اس طاقات کی نمایاں خبر شائع کی لیے لائبیریا مشن کی بنیا د رکھنے کی سعادت صوفی محمد اسحق صاحب کے حصے میں آئی جو حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کے حکم پر ۱۳ جنوری سے اس کی صبح اور اسکی کو بذریعہ بحری جہاز مرد و یا پہنچے.صدر جمہوریہ کے انتخاب کے باعث آپ کے جہاز کو چند روز تک کھلے سمندر میں بندرگاہ کے باہر ٹھہرنا پیٹا.4 جنوری کو جہاز بندرگاہ میں داخل ہوا.آپ قریباً اٹھارہ روزہ تک ایک لبنانی تاجریخی علی کے ہاں قیام فرمار ہے اور خاصی تگ و دو کے بعد نمبر ۱۶ اکبری سٹریٹ میں تمہیں ڈالر پر ایک کمرہ کرائے پر لے کہ اشاعت احمدیت کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا.یہ ۲۴ جنوری اء کا واقعہ ہے.جس کے بعد آپ نے ایک قرآن کلاس کھول دی جس سے لوگوں میں آہستہ آہستہ چر چا شروع ہو گیا.ایک جمعہ کے موقع پر آپ کو امام کی اجازت سے نما نہ جمعہ کے بعد غیر احمدی مسلمانوں میں لیکچر دینے کا موقع ما بعد میں چند صحرائی عربوں نے وفات مسیح کے متعلق سوالات کئے جس پر آپ نے شيخ المجامع الازہر الاستاذ محمود شلتونے کا فتویٰ پیش کیا جو قاہرہ کے ہفت روزہ "الرسالة" دار مٹی شاہ) میں رفع عیسی کے نام سے شائع ہوا ہے اس طرح عام مسلمانوں میں بحیثیت مبلغ احمدیت آپ کا ابتدائی تعارف ہوا.شروع ضروری شاہ میں آپ نے اندرون ملک دوروں کا آغا نہ کیا له الفضل د ارجون ۶۱۹۵۶ صفحه ۵ سے ڈائری ۲۸۰ جنوری تا فروری ۱۹۵۶ مرسله صوفی محمداسحق ما از لائبیریا ریکارڈ تحریک جدید - سے آپ مریم موسوی مبارک احمد صاب ساتھی کے زمانہ میں احمدی ہوئے اور لائبیریا میں ہی انتقال کیا.ه ولادت ار وفات 194 - و تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تا یه بیخ احمدیت جلد ۹ صفر ۲۹۷ - ۳۱۳ -

Page 343

۳۳۱ اور پہلی بار امینہ گاؤں میں پہنچے ، آپ نے ایسے موثر رنگ میں پیغام حق پہنچا یا کہ ایک عالم دین تفصیل مالک داخل احمدیت ہو گئے.یہ آپ کی تبلیغ کا پہلا شیریں ثمر تھا.جس کے بعد آہستہ آہستہ سیا.یہ ومیں احمدیت سے وابستہ ہونے لگیں اور جلد ہی ایک مختصر مگر فعال جماعت کا قیام عمل میں آگیا.صوفی صاحب نے دارالسلطنت کے مختلف مسلمان اور حضرت مصلح موعودکی پدیا ان دینی و امتوں میں نیو دینے فرد کے جسے شہر لیکچر شروع میں بھی حرکت پیدا ہو گئی اس پر حضرت مصلح موعود نے ہدایت بھجوائی کہ : ابھی موقع ہے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات بڑھاؤ ان کو تحفے وغیرہ دیتے رہو اور جلدی کوشش کرو کہ لائبہیر یا سارا احمدی ہو جائے " ازاں بعد صوفی صاحب کی تبلیغی رپورٹ (مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۵۷) پر ہدایت فرمائی کہ آپ احمدی بنائیں اور چندہ لیں پھر خریع بھیجوانے میں آسانی رہے گی " چنانچہ آپ نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں تیز تر کر دیں.اپریل ء میں افواج کے کمانڈنگ آفیسر سے ملاقات کی اور انہیں احمدیت کا پیغام پہنچایا.جون ۱۹۵۶ء میں چیف کمشنر سے ملے اور انہیں تحریک احمدیت سے متعارف کرایا.جولائی 1907ء میں لائبیریا یو نیورسٹی کے پریذیڈنٹ کو یونیورسٹی میں عربی کلاسز جاری کرنے کی تحریک کی.اگرچہ پوری یونیورسٹی میں کوئی مسلمان پروفیسر اور طالب علم نہیں تھا.تاہم انہوں نے یہ تجویز منظور کر لی اور یونیورسٹی کی طرف سے اس کا اعلان بھی پریس میں شائع کروا دیا.اس کا یہ اثر ہوا کہ محکمہ تعلیم نے مسلمانان لائبیریا کو اجازت دے دی کہ اُن کے علاقوں میں جو سرکاری سکول ہیں اور اُن کو کوئی عربی معلم مل سکتا ہے تو وہ اپنے طلبا کو عربی کی بھی تعلیم دیں صوفی صاحب کو مسلم حقوق کی جدو جہد میں دوسری کامیابی یہ ہوئی کہ وزیر دفاع نے فوجیوں میں تبلیغ اسلام کی منظوری دے دی.اگست ۹۵۶ہ سے آپ نے تحریری رنگ میں بھی اشاعت اسلام کی طرف توجہ شروع کر دی.اس سلسلہ میں آپ کا ایک مضمون اخبار " ائیرین ایج" ۱۹۵۷ء کو شائع ہوا.یہ مضمون امریکی رسالہ " ریڈر نہ ڈائجسٹ " رمئی شو کے ایک مخالف اسلام * LIBERIAN AGE میں ہم اور اگست ے رپورٹ جناب صوفی محمد سختی ها موقعه در فرودی شهر ریکاردو تحریک جدید وکالت تبشیر و لعنتقل ۱۰۱۰ را پر می کشد.

Page 344

۳۳۲ مضمون کے جواب میں تھا.انہی ایام میں آپ نے ایک شبینہ تعلیمی کلاس جاری کی جس میں کئی افراد نے داخلہ لیا.یہ کلاس بھی تبلیغ کا ایک عمدہ ذریعہ ثابت ہوئی.ستمبر 1994ء میں آپ نے بہائیوں سے تبادلہ خیالات کرکے اُن پر اتمام حجت کی.آپ شروع ہی سے باقاعدگی کے ساتھ منروویا کے محلہ وائی ٹاؤن کے مسلمانوں کو بھی تبلیغ کرتے آرہے تھے جس کا مخالفانہ رد عمل بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا.مگر آپ نے صبر و تحمل کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھا جس کا خوشگوار اثر چیف پر ہوا.اور اس نے آپ کی ایک تقریر کے بعد آپ کے رویے کی بہت تعریف کی.آپ نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں یہ خوشکی اطلاع بھجوائی تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ :." آپ گالیاں کشن کہ ڈھا دیں.اتنی نرمی کریں کہ اُن کے دل شرمندگی سے بھر جائیں.بلکہ اظہار بھی کریں کہ اگر آپ جوتیاں بھی ماریں تو میں آپ کی ہدایت کے لئے کوشش کر تار ہوں گا.آپ بہائی عورت کے پیچھے پڑے رہیں اور دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کروں گا.اور کہیں کہ آپ انگلیس سال کے بعد بہائیت نہیں چھوڑ سکتیں تو ہم ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد کسی طرح اسلام چھوڑ سکتے ہیں ؟ صوفی صاحب نے ایک خاص تبلیغی مہم جاری کی.جس کے تحت سرکاری حکام اور دیگر معززیجا ہے خاص طور پر رابطہ قائم کیا.آپ نے حلقہ تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے سلسلہ کے انگریزی لٹریچر کو بھی انے کا بھی انتظام کیا جس کے نتائج بہت جلد ظاہر ہونا شروع ہو گئے بلکہ اس کامیاب تجربہ کے بعد آپ نے اگلے سال ایک ایک شاپ قائم کر دی جس سے مشن کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں بہت مدد ملی.۲ ارجون عشاء کو آپ نے پریذیڈنٹ ہاؤس میں سربراہ مملکت کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس میں درخواست کی کہ اس ملک کے مسلمان آپ کی وفادار رحیت ہیں.ان کی ترقی کے لئے مناسب اقدام فرمایا جائے نیتر تجویز پیش کی کہ یونیورسٹی میں عربی زبان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے اور اس کے لئے آپ نے اپنی رضا کارانہ خدمات پیش کیں.پریذیڈنٹ صاحب نے ان امور پر غور کا وعدہ کیا یہ اه قائل لائبیریا مشن تحریک جدید وکالت تبشیر و الفضل ۱۳ جنوری شاه.لہ تفصیل کیلئے ماحظہ جو افضل ۱۲۰۱۳ اکتوبر تار سے افضل ستمبر ۱۹۵۷ اومت (تبوک به )

Page 345

دوسرے احمدی مشنوں کی طرح لائبیریا مشن میں بھی صداقت احمدیت کے کئی نشان ظاہر ہوئے.چنانچہ صوفی محمد اسحق صاحب اپنی ایک رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : ائبیریا میں قیام کے شروع میں وہاں ایک لبنانی تاجر مسلمان منصور عطر نامی نے مخالفت شروع کہ دی حتی کہ ایک اخبار میں میرے خلاف کچھ ناز یبار یمار کسی بھی شائع کرائے جس پر میں اس سے ملا مگر اس کا رویہ معاندانہ اور متکبرانہ تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح موعود کو الہام کیا تھا کہ "راني مهين مَنْ اَرَادَ إِهَا نَتَكَ وَإِنِّي مُعِينَ مَنْ اَرَادَاعَا نَتَكَ به چنانچہ اس الہی وعدہ کے مطابق چند ماہ کے اندر اندر اس شخص کی رسوائی اور ملک بدری کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس طرح ہوا کہ اس ملک میں نہیں چلانے کی کسی غیر ملکی کو اجازت نہ تھی لیکن یہ اس میں ملوث پایا گیا جس پر اسے فورا ملک بدر ہونے کا نوٹس مل گیا.اور اسے اپنا سارا تجارتی کاروبار اونے پونے فروخت کرکے ملک سے نکلنا پڑا.اسی طرح ایک دفعہ منروویا کے بعض سرکہ وہ مسلمان جو در پردہ جماعت کے دشمن تھے صدر مملکت ٹب میں کو ملے اور اُن سے درخواست کی کہ وہ اس عاجز کو ملک بدر کر دیں لیکن صدر صاحب نے ان مسلمانوں کو جواب دیا کہ احمد بریشن ایک بین الاقوامی تنظیم ہے.پس جب تک جماعت احمدیہ کا مبلغ نائبیریا کے مگلی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتا وہ اسے ملک سے نکل جانے کا حکم نہیں دے سکتے، جس پر یہ سب نا کام ہو کر واپس آگئے ہے.صوفی صاحب موصوف لائبیریا میں تقریباً سوا تین سال مصروف جہاد رہے.اس قلیل عرصہ بن نہ شر یہ کہ ملک میں اسلام اور احمدیت کا چہ چا ملک کے ہر طبقہ میں شروع ہو گیا.بلکہ مشن مالی اعتبار سے بھی بہت حد تک خود کفیل ہو گیا اور علمی طبقے کا ایک اہم مرکز بن گیا.ه ملخص رپورٹ مرتبہ جناب صوفی محمد اسحق صاحب

Page 346

فصل دوم صوفی محمد اسحق صاحب سوا تین سال کے بعد دوسرے مجاہدین احمدیت کی تبلیغی سرگرمیاں ۲۹ مارچ ۹۵ار کو مرکز احمدیت ربوہ میں واپس تشریف لائے بے آپ کے بعد بالترتیب مندرجہ ذیل مجاہدین احمدیت نے انچارچ مشن کے فرائض سرانجام دیئے اور تبلیغی سرگرمیوں کو وسیع سے وسیع تر کر دیا :- مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری راز ۲۷ اپریل کشش اور شہادت ۳ تا ۲۶ دسمبر ۱۹ فتح - -۲- مولوی مبارک احمد صاحب ساقی راز ۶ را کتوبرین شده را خار ۳۵۳۹له تا ۱۵ دسمبر ۶۱۹۹۹ فتح ) -۳- مولوی امین اللہ صاحب سالک (از ) راکتوری / اداره تا ار فروری ۹ در تبلیغ ۱۳۵۳) - ۱۴ چوہدری رشید الدین صاحب رانه ۲۱ نومبر اور نبوت ۱ تا ۳۰ ماری ۹۷ در امان ۱۳۵۶ ه - مولوی عطا دالکریم صاحب شاہد ر از هر نومبرت وایه ر بوت هه تا جولائی شد 4- مولوی عبدالشکور صاحب - آپ ۱۷ فروری نوار تبلیغ شیر ) کی شب کو منزودیا پہنچے.۱۹ جون اور احسان ہی کو اس مشن کا چارج سنبھالا.اور آپ تک لائبیریا میں تبلیغی خدمات بجا لا رہے ہیں.اکتو بر کار میں دو مقامی مبلغین نانا کے مشنری کالج سے کورس مکمل کر کے آئے تو دو نئی شاخیں کھول دی گئیں اور وہاں ان کو متعین کر دیا گیا.ان میں سے ایک مبلغ سماء کے شروع میں فارغ ہوگئے.تاہم دوسرے مبلغ مکرم علی ساما صاحب پر ستور نہایت دلجمعی سے خدمت دین میں له الفضل ۲۹ مارچ ۱۵ام ملا ہے اسے ریکارڈ وکالت تبشیر لائبیریا مشن

Page 347

مصروف ہیں.۳۳۵ ان مبلغین نے اپنے عرصہ تبلیغ میں اشاعت حق کے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں اور کئی اہم واقعات رونما ہوئے.جن میں سے بعض کا تذکرہ کرنا ضروری ہے.دسمبر شام میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سیکرٹری جنرل اقوم متحدہ کولٹریچرا پی می روند امیر یا تشریف نے اس موقع پر ڈیگ ہمیر شولڈ لائبیریا لائے.مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری نے ۲۳ دسمبر ۹ہ کو ان سے ملاقات کرکے ان کی خدمت میں بیش قیمت اسلامی لٹریچر کے علاوہ ایک ایڈریس بھی پیش کیا جس میں اسلام اور تحریک احمدیت کے متعلق تعارف کرانے کے بعد ان کی توجہ قرآن کریم کی سورہ حجرات کی دسویں آیت کی طرف مبذول کرائی جس میں اسلامی لیگ آف نیشنز کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور جسے حضرت مصلح موعود نے ۱۹۲۷ء میں ویمبلے کا نفرنس کے موقع پر اپنے مشہور لیکچر " احمدیت یعنی حقیقی اسلام" میں پیش فرمایا تھا.اس میمورنڈم کے جواب میں سیکرٹری جنرل کے پرسنل سیکرٹری ڈبلیو وچر نے نیو یارک سے حسب ذیل مراسلہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کو بھیجا :- اقوام متحدہ ایگزیکٹو آفس آف دی سیکرٹری جنرل ۱ فروری ۹۶ محترم الحاج صدیق صاحب.مجھے یونائیٹڈ نیشنز کے سیکرٹری جنرل صاحب کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ میں آپ کی چٹھیوں مورخہ ۲۳ دیمیر اور درجنوری ته کا شکر یہ ادا کروں، نیز آپ کی اس مہربانی پر بھی ان کی طرف سے شکریہ ادا کروں جو کہ آپ نے قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کا ایک نسخہ اور دیگر مفید اسلامی لٹریچر ارسال کر کے سیکر ٹری جنرل صاحب پر کی ہے.سیکرٹری جنرل آپ کے ان تحائف اور نیک جذبات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.آپ کا خیر اندیش - ڈبلیو ویچر پرسنل سیکر ٹی (ترجمہ) لے - مکتوب مولوی عبدالشکور صاحب مبلغ انچارج لائبیریا (۱۵) اکتوبر ۱۹ ) له الفضل ۲۴۰ را پریل ۱۹۶۰ و صفحه ۲ -

Page 348

ڈاکٹربلی گراہم پر اتمام محبت جنوری شاہ کے آخر میں مشہور امریکن پادری ڈاکٹر بلی گراہم آٹھ امریکن پادریوں کے ہمراہ افریقین ممالک کے دورہ MONROVIA پر سب سے پہلے مغربی افریقہ کے ملک لائبیریا آئے وہاں انہوں نے اپنے تین روزہ قیام کے دوران عیسائیت پر تین پبلک لیکچر دئیے.لوگوں کو یہ لیکچر سنتے پر آمادہ کرنے کیلئے منر دیا دار الحکومت میں بے شمار ہینڈ بل تقسیم کئے گئے.حتی کہ ہوائی جہازوں کے ذریعہ بھی یہ اشتہار شہر پر پھینکے جاتے رہے.لوکل اخبارات میں بھی ایک ہفتہ تک خوب پراپیگنڈہ ہوتا رہا.اور یہ سب پراپیگنڈہ امریکن کونسل کی طرف سے کیا جاتا رہا.ہوائی اڈہ پر اور پھر شہر میں ڈاکٹر گراہم کا عیسائیوں کی طرف سے شاندار استقبال کیا گیا.جس میں لائبیریا کے پریذیڈنٹ جناب ولیم ٹب میں خود شریک ہوئے اور ڈاکٹر گراہم کے تینوں لیکچروں کے موقع پر صدارت کے فرائض بھی انہوں نے خود انجام دیئے.ڈاکٹر گراہم ایک نہایت ہوشیار اور مشاق لیکچرار اور بین الاقوامی شہرت کے مالک پادری ہیں.بقول ان کے اس وقت ان کا ہفتہ واری لیکچر " فیصلہ کا وقت " ایک ہزارہ ریڈیو اسٹیشنوں سے براڈ کاسٹ کیا جاتا تھا.ڈاکٹر گراہم نے اپنے لیکچروں کے دوران قرآن مجید پر زیر دست تنقید کی کہ اس میں نسل انسانی کی نجات اور دنیا کے مستقبل کا کوئی ذکر نہیں.نہ کوئی پیشگوئی موجود ہے.اس پر مولوی محمد صدیق صاب امرتسری نے ان کی آخری تقریر میں پلک مناظرہ کا چیلنج دیا اور جمہوریہ متحدہ عربیہ (مصر) کے سفیر مقیم لائبیریا استاذ انور فرید اور ایک امریکن پر نہیں رپورٹر نے آپ کی تائید کی اور اُن سے کہا کہ اول تو آپ کو قرآن مجید کا اس رنگ میں ذکر ہی نہیں کرنا چاہیے تھا اور اگر کیا ہے تو اب احمدی مبلغ کو اپنے جلسے میں جواب دینے کا موقع دیں.مگر ڈاکٹر گراہیم کا سر صلیب کے شاگرد کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہ کر سکے.ڈاکٹر بلی گراہم صاحب کے نائیجریا اور مشرقی افریقہ پہنچنے پر ہمارے وہاں کے مبلغین کرام نے بھی انہیں اس قسم کے کھلے چیلینج دیئے بلکہ مقابلہ دعا کا نشان دکھانے اور دیکھنے کی بھی دعوت دی مگر افسوس وہاں بھی وہ گریز کرتے رہے اور پبلک کے آمادہ کرنے کے باوجود مجاہدین احمدیت سے ایسا روحانی مقابلہ نہ کر سکے اور دورے سے واپسی پر امریکہ پہنچ کر بیان دیا کہ میری حالت تحقیق

Page 349

۳۳۷ کے مطابق افریقہ میں اسلام کی ترقی اور رفتار عیسائیت کی نسبت بہت زیادہ تیز ہے اور با وجود عیسائی مبلغین کی انتھک کوششوں کے اور ہر قسم کے طریقے استعمال کرنے کے اب تک تیز ہے بلکہ جہاں تین افراد عیسائیت میں داخل ہوتے ہیں وہاں اس کے مقابل سات افراد اسلام قبول کرتے ہیں گویا سات اور زمین کی نسبت ہے بلکہ بعض عیسائی لیڈروں کے نزدیک دس اور ایک کی نسبت ہے.دسمبر ۱۹ء میں حبشہ کے شہنشاہ ہیں میشہ حق حثہ کے شہنشاہ میں سلاسی کو پیار اس ساسی اول لائبیریا تشریف لائے اور دسمبر 19ء کو مولانا محمد صدیق صاحب نے ان کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس میں تاریخی اسلام کے ابتدائی واقعات کی روشنی میں واضح کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ شاہ میشہ اس کے ملک کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.ایڈریس کے بعد آپ نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر کا ہدیہ پیش کیا جسے شہنشاہ نے کھڑے ہو کر وصول کیا اور بتایا کہ میں عربی جانتا ہوں اور نجاشی شاہ حبشہ کی نسل میں تربیٹھواں بادشاہ ہوں.جماعت الحدیہ کی غیر معمولی ترقی ۲ - مولوی مبارک احمد صاحب سائی کے زماز میں کے شروع میں ماؤنٹ برکلے دے گاؤں کے اکثر لوگ احمدی ہوگئے.MOUNT BARCLAY اور پیگ وے PAG WAY آپ نے اُن دنوں ایک جگہ پیغام احمدیت پہنچایا جس پر ایک معمر خاتون نے (جو صاحب کرامات سمجھی جاتی تھی فریضہ حج بھی ادا کر چکی تھی اور اس نے ایک پختہ مسجد بھی بنوائی تھی ، حاضرین سے کہا کہ میں نے آج سے نہیں برس قبل آپ کو بتایا تھا کہ مجھے خواب میں ایک شخص نے کہا ہے کہ امام الزمان آ چکا ہے اور عنقریب اس کا نام یہاں پہنچنے والا ہے ، دیکھو میری بات سچی ہوگئی اس لئے میں بغیر کسی حیل و حجت کے احمدی ہونے کا اعلان کرتی ہوں.ے رسالہ " ٹائمز " ۱۵ر فروری مار (ترجمہ) کے رپورٹ مولوی مبارک احمد صاحب ساختی ۲۵ جنوری ۱۲ فروری ۱۹۶۳ ریکارڈ وکالت تبشیر تحریک جدید رتوه تبلیغ ۳۵۴

Page 350

قبل ازیں آپ تنہا تبلیغی فرائض انجام دست رہے تھے.لیکن شروع ۱۹۶۳ ء میں مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر انچارج احمدیہ مشن سیرالیون نے ایک لوکل مبلغ بھی لائبیریا بھیج دیا.جن کے ذریعہ تبلیغ کا سلسلہ دیہات تک وسیع ہو گیا.بعد ازاں گیمبیا کے ایک لوکل مبلغ بھی کچھ عرصہ کے لئے پہنچ گئے اور لڈنگو زبان بولنے والوں میں بھی سرعت سے حق کا نور پھیلنے لگا یہاں تک کہ اکتوبرت شو میں لائبیریا کی احمدیہ جماعت کی مجموعی تعداد ایک سو سے اوپر ہو گئی لیے - محترم ساقی صاحب کے ذریعہ لائبیریا پریس میں اسلام اور لا نمبر یا پریس میں اثر و نفوذ احمدیت کی آواز کا خاصا اثر و نفوذ ہوا.موصوف لائبیریا کے LIBERIAN UNION OF JOURNALISTS کے ممبر تھے اور اکثر صحافیوں صحافیوں کی انجمن ے گہرا رابطہ رکھتے تھے.آپ کی تجویز پر منروویا کے کثیر الاشاعت اخبار دی لائبیرین ایچ THE LIBERIAN AGE نے جمعہ کے روز مسلمانوں کے لئے نیا کا لم جاری کیا جس میں آپ کے دینی یہاں مضامین با قاعدگی کے ساتھ چھپتے رہے مسلمانان لائبیریا کے پڑھے لکھے طبقہ نے اعتراف کیا کہ یہ موقع ہے کہ اس عیسائی ملک میں اسلام کا نام ہر ملا لیا جارہا ہے.ان مضامین کے نتیجہ میں ہی مسٹر کو امی یا تر حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جو بعد میں جاعت کے جنرل سیکرٹری بنے لیے....- مولوی مبارک احمد صاحب ساتی اور اُن چرچا ریڈیو اور ٹیلیویژن پر دین حق کا چھ چھلی کے بعد تشریف لے جانےوالے مبلغین کے دور میں اسلام کا چرچا پریس کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلیویژن میں بھی شروع ہو گیا.اور مبلغین ہر جمعہ کو لا نہیر یا ریڈیو پر کسی نہ کسی اسلامی موضوع پر تقریریں نشر کرنے لگے.جنوری ۹۶یر کے آغاز میں لائبیریا میں ٹیلیویژن جاری ہوا اور اسی ماہ ٹب مین کے پانچویں دفعہ صدر منتخب ہونے کا جشن منایا گیا، ٹیلیویژن کے مینجر نے یہ انتظام کیا کہ جب پروگرام کا اختتام ہو تو مختلف فرقوں کے رہنما ٹیلیویژن پر دعائیہ کلمات کہیں اور پبلک کو مختلف مذہبی امور کی طرف توجہ لے 1993ء کی مرسلہ رپورمیں رفائل نائجیریا مشن وکالت تبشہ تحریک جدید ) که غیر مطبوعہ یاداشتیں (تحریر کردہ مولوی مبارک احمد صاحب ساتی )

Page 351

۳۳۹ دلایا کریں اور اس غرض کے لئے مسلمانوں کے لئے جمعہ کا دن تجویز ہوا.اس سلسلہ میں مسلمانوں کے جو دو نمائندگان چنے گئے اُن میں مولوی مبارک احمد صاحب ساتھی انچارچ مشن لائبریا بھی تھے.دوسرے مسلمان نمائندہ تو ایک ماہ کے بعد ہی تنگ پڑ گئے.مگر احمدی مبلغ سارا سال بغیر کسی ناغہ کے ہر جمعہ کو ٹیلیویژن پر قرآن مجید کی آیات تلاوت کر کے ان کا ترجمہ اور تفسیر بیان فرماتے رہے.یہ اسلامی پروگرام مسلمان حلقوں میں بہت پسند کیا گیا.حتی کہ بعض عیسائی دوستوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں اب معلوم ہوا ہے کہ قرآن مجید میں ایسی جامع اور محمدہ تعلیمات پائی جاتی ہیں اسی طرح شہر کے اکثر لبنانی اور شامی اور عرب دوستوں میں بھی اس پروگرام کے تذکرے ہوئے سیہ اگست 1ء میں لائبیریا کے چھ سات گاؤں کے لوگوں کا مشترکہ خط ساقی صاحب کے پاس پہنچا کہ ان کے پاس مبلغ بھیجا جائے.ان خوشکن نتائج کی بناء پر آپ کی ہر تقریمہ کے آخر میں یہ اعلان بھی کیا جانے لگا کہ اگر لٹریچر کی ضرورت ہو تو احد یہ مشن کو پوسٹ بکس نمبر ۶۱۸ کے پتہ پر لکھیں لیے حکومت لائبیریانے حکم دیا کہ اتوار کے روز ہر قسم کا تعطیل جمعہ کی کامیاب کوشش اور روبار بند رکھا جائے.اور اس دن کے تقدس کا خاص خیال رہے.اس پر مولوی مبارک احمد صاحب ساتھی نے صدر مملکت کی ہفتہ وار پر یس کا نفرنس میں بیوال اٹھا یا کہ جمعہ کا دن مسلمانوں کی نگاہ میں بہت مقدس ہے.مگر مسلمان ملازمین نماز جمعہ میں دفاتر چھوڑ کر مسجد میں جاہی نہیں سکتے.اس لئے انہیں نماز جمعہ کے لئے ایک گھنٹہ کی رخصت دی جائے.پریزیڈنٹ صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے مسلمان ملازمین کو جمعہ کے روز ایک گھنٹہ کی رخصت دیئے جانے کی منظوری دے دی اور شام کو ریڈیو نے بھی یہ خبر نشر کی کہ مولوی مبارک احمد صاحب کے مطالبہ پر پریذیڈنٹ نے یہ رخصت دی ہے اس اعلان پر تمام مسلمان حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے آپ کا شکریہ ادا کیا ہے الفضل ۲ جنوری ۱۹۶۳ء صفحه ۳ و الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۶۵ء صفحه ۳ ے رپورٹ مبارک احمد صاحب ساقی در اگست ۲ ستمبر ائر ریکارڈ وکالت تبشیر تحریک جدید - الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۶۳ ۶ صفحه ۳

Page 352

۳۴۰ - A متر و یا کالج میں لیکچر مولوی مبارک احمد صاحب ساقی نے مزرود یا کالج کی ہائی وائی کلب کے زیرا ہتمام لیکچر دیا جس میں بائبل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پیش گوئیاں بتلائیں اور صلیب سے حضرت میں کے زندہ اتارے جانے کا ذکر کیا اور بائبل اور قرآن کا موازنہ کیا.اس لیکچر کے بعد طلباء میں بحث ہوئی اور بالاخر سب نے مل کر عیسائیت پر عدم اعتماد کا ووٹ پاس کر دیا.جب کالج کے ارباب حل وعقد کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے کلب ہی بند کردی اور فیصلہ کیا کہ طلبا کو آئندہ کسی میٹنگ کی اجازت نہ ہوگی.کلب کے پریزیڈینٹ نے کالج کی اتھارٹی سے معافی مانگی اور بڑی شکل سے چھے ماہ کے بعد کلب جاری کرنے کی اجازت دی گئی یاد و عشاء میں لائبیریا کے صدر ٹب میں انگلستان محرم بشیر احمدخان رفیق کا دورہ لائبیریا کے سرکاری دورے پر تشریف لے گئے جہاں محترم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد لنڈن نے اُن کے اعزاز میں مع ۳۵ ممبران وفد کے مسجد فضل میں عشائیہ دیا.دوران تقریر انہوں نے لائبیریا مشن اور اس کے انچار ج مشنری جناب مبارک احمد صاحب ساتی کی دینی اور علمی خدمات کو بہت سراہا نیز امام صاحب کو لائبیریا کی تقریب آزادی پر مع اہل وعیال مہمان خصوصی کی حیثیت سے لائبیریا آنے کی دعوت دی جس پر تکریم بشیر احمد خان صاحب رفیق اگلے سال ۲۴ جولائی شاہ کو لائبیریا تشریف لے گئے.منرو دیا ے ہوائی مستقر پر ملک کی مشہور شخصیات نے آپ کا پر جوش استقبال کیا.ان میں مسلمان گورنر صوصو مومو، پریزیڈنٹ مسلم کانگریس آف لائبیریا، وائس پریذیڈنٹ مسلم کمیونٹی آف لائبیریا ، وائی چیف اور دیگر سرکردہ مسلمان شامل تھے آپ کو روکر انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور ایک ائیر کنڈیشنڈ کار آپ کے عرصہ قیام میں استعمال کے لئے جہیا کی گئی.اور روزانہ صدر مملکت کی ملاقات کے لئے وقت مقرر کیا گیا.امام رفیق صاحب کا یہ دورہ لائبیریا مشن کی ابتدائی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتا ہے جس سے جماعت احمدیہ لائبیریا کو بہت فائدہ ہوا اور اس نے ملک کے عوام کو محسوس کرا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے نے رپورٹ ۱۷ جولائی ۹۶۴

Page 353

احمدیت کو اتنی شوکت عطا کر دی ہے کہ ملک کے پریذیڈنٹ نے ایک احمدی مبلغ کو خصوصی مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا ہے.محترم امام صاحب نے اپنے ہفت روزہ دورہ میں ۲۶ جولائی کی تقریب آزادی میں شرکت کرنے کے علاوہ رجس میں صدر ٹب بین نے آپ کی آمد کا خاص طور پر ذکر کیا ) متعدد اہم دینی و قومی اجتماعات میں بھی شمولیت کی چنانچہ ۲۴ جولائی کی شام کو جبکہ حج فلم دکھلانے کا انتظام تھا.آپ نے فلسفہ حج پر مختصر تقریر کی.۲۵ جولائی کی شام کو جماعت احمدیہ کی مجلس عاملہ سے خطاب کیا.۲۶ جولائی کو خطبہ مجتہ دیا.شام کو ٹیلیویژن کے نمائندے نے آپ کا ایک انٹرویو ٹیلی کاسٹ کیا جس میں آپ نے اسلام کے متعلق برجستہ اور بر موقع جواب دیئے جو دلچسپی سے گنتے گئے.۲۷ جولائی کو مسلمانان لائبیریا نے آپ کے اعزانہ میں پر تکلف عصرانہ دیا.مسلم کانگرس آف لائبیریا نے آپ کو ایڈریس پیش کیا جس کا آپ نے موثر رنگ میں جواب دیا بعد ازاں صدر ٹب میں نے تقریر فرمائی جس میں باوجود عیسائی ہوتے کے واضح الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق قرار دیا.جس پر مسلمانوں میں خوشی کی زبردست لہر دوڑ گئی ہے اس موقع پر مولوی مبارک احمد صاحب ساقی کے علاوہ مختلف ممالک کے سفراء بھی موجود تھے بھاری تقریب ٹیلیویژن پر دکھائی گئی.ریڈیو اور اخبارات میں بھی اس کا خوب چرچا ہوا.خود پریذیڈنٹ صاحب نے مسلمان گورنر کو اس کی کامیابی پر مبارک باد دی.۱۲۹ جولائی آپ کے قیام کا آخری دن تھا.اس روز آپ نے شام کو منرو ودیا کے گورنمنٹ ہائی سکول کے ہال میں " یورپ میں اسلام کی مستقبل کے موضوع پر لیکچر دیا جس کے بعد آپ ساڑھے سات بجے شام بذریعہ طیارہ عازم اگر ہو گئے.آپ کو الوداع کہنے والے معززین میں ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کا نمائندہ بھی تھا ہے ۱۰.مولوی مبارک احمد صاحب ساقی کا بیان مشن ہاؤس کیلئے عمارت کی خرید تاتر مولوی مبارک ہے کہ ہر " ہماری بک شاپ بفضل خدا اس قدر ترقی کہ چکی تھی کہ ہمارا مشن خود کفیل ہو گیا اور مرکز نه غیر مطبوعہ تحریر جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق سابق امام مسجد لنڈن.له الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۶۷ ۶ صفحه ۴۳ ر مضمون مولوی مبارک احمد صاحب سانتی).

Page 354

۳۴۲ سے کسی قسم کی گرانٹ نہیں لی جاتی تھی.یہی نہیں بلکہ ہم نے کچھ رقم جمع کرنی بھی شروع کردی.تقریباً تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اس قابل ہو گئے کہ مشن ہاؤس خرید سکیں.مردویا ہر کے اندر کافی تلاش جاری رہی کہ کوئی مناسب پلاٹ مل جائے جہاں مشن ہاؤس تعمیر کیا جائے.لیکن کافی تگ و دو اور حکومت سے بار بارہ درخواستوں کے باوجود کوئی خاص قطعہ دستیاب نہ ہو گا.بہت پریشانی تھی.شہر سے باہر خالی زمین مل سکتی تھی لیکن خیال تھا کہ غریب جماعت ہے کسی کے پاس بھی سواری موجود نہیں اگر شہر سے باہر مشن ہاؤس بنا لیا گیا.تو عام نمازوں کا کیا ذکر جمعہ کے لئے بھی احباب نہیں پہنچ سکیں گے.اللہ تعالیٰ کا احسان ہوا کہ ایک روز ایک دوست بک شاپ پر آئے اور چند کتب خریدیں.جاتے وقت کہنے لگے کہ میرا ایک مکان ہے جو فروخت کرنا چاہتا ہوں اگر تمہاری نظر میں کوئی گاہک ہو تو بتائیں.میں نے کہا الحمد للہ ہم تو خود اس تلاش میں ہیں.چنانچہ شہر کے عین وسط میں فوجی توپ خانہ کے بالکل سامنے یہ مکان دیکھا اور پانچ ہزار ڈالر میں سودا ہو گیا.بلڈنگ ہماری ضرورت کے لئے مناسب تھی چنانچہ یہ مکان خرید لیا گیا.اس کے پیچھے کچھ جگہ خالی پڑی تھی.خاکسار نے ایک لبنانی مسلمان سے بات کی اور وہ اس بات پر رضامند ہو گیا کہ ہم اس کو یکصد ڈالر ماہوارہ ادا کرتے رہیں اور وہ چھ کمروں پرمشتمل دو منزلہ مکان تیار کر دے گا.الحمد لله خاکسارہ کی روانگی سے قبل اس مکان کے اوپر کا حصہ مکمل ہو گیا اور اس لبنانی دوست کو تمام تر ادائیگی بھی کر دی گئی ہے +11 سیرت النبی کا پہلا کامیاب جلسہ بیریا میں سیرتالنبی کا سب سے میں کامیاب جلسہ چوہدری رشید الدین صاحب مبلغ انچارج لائبیریا کی نگرانی اور انتظام کے تحت ہمارجون عشاء کو منعقد ہوا.جس میں احمدی احباب کے علاوہ دیگر دوستوں نیز نائجیریا کی بعض سریہ اور دہشخصیتوں نے شرکت کی.صدارت کے فرائض لائبیریاکے سابق وزیر خارجہ جناب مومولوڈو کلی MOMOLU-DUKULY نے انجام دیئے.موصوف پریذیڈنٹ ٹب مین مرحوم کے زمانہ میں لیے عرصہ تک ملک کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں آپ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے سے غیر مطبوعہ تحریر مولوی مبارک احمد صاحب ساقی.

Page 355

۳۴۳ ہے جو کسی زمانہ میں سوڈان سے ہجرت کر کے لائبیریا آیا اور یہاں اسلام کی اشاعت کا موجب بنا.محترم جناب ڈو کلی صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ احمدیہ مشن نے اس مبارک جلسہ کا اہتمام کر کے محسن انسانیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے اذکار مقدس گنے کا موقع بہم پہنچا یا.نیز انہوں نے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے فرمایا.ایک وقت تھا کہ جب یہاں اسلام اور مسلمانوں کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے میں شرم محسوس کرتے تھے.جماعت احمدیہ کا یہاں تبلیغی مشن قائم ہونے کے بعد صورت حال نمایاں طور پر تبدیل ہوتی چلی گئی.احمدیہ مشن کی مساعی اور سرگرمیوں کے نتیجہ میں تقاریر، اخبارات ، ٹی وی اور لٹریچر کی اشاعت کے ذریعہ اسلام کی صحیح تصویر لوگوں تک پہنچنی شروع ہوئی اور لوگوں کے خیالات میں تبدیلی آنے لگی.بعد ازاں مشن کی طرف سے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا اور اس طرح مسلمانوں کے زیوریم سے آراستہ ہونے کی راہیں کھلیں.اب محمد اللہ تعالیٰ یہ حال ہے کہ لوگ مسلمان کہلانے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں اور سرکاری حلقوں میں بھی مسلمانوں کو عزت ملنے لگی ہے.مرودیہ کے سب سے با اثر اخبار " لائبیرین سٹار نے اپنی ، ارجون کی اشاعت میں " احمد یہ مشن تعریف و توصیف کا مستحق ہے " کے جلی عنوان کے تحت اس مبارک جلسہ کی تفصیلی خبر شائع کی.اخبار دکور نے لکھا:.AHMADIYYA MISSION EXTOLLED FORMER Secretary of State Hon.Momolu Dukuly has extolled the Ahmadiyya Muslim Mission in Liberia as a progressive educational and religious establishment.He underlined the essential role Ahmadiyya has played in the spiritual enhancement of the Liberian Society more especially in upgrading Islam in this country.Hon.Dukuly made these remarks while add ressing the con- vention of Seerae-tun-Nabi (reviewing the life of Prophet Muham mad) held last Saturday at the mosque of the Ahmadiyya Mission on Lynch Street Monrovia.

Page 356

۳۴۴ A prominent, Lawyer who has contributed to the develop- ment of Ahmadiyya in Liberia.Hon.Dukuly reaffirmed his conti- nual assistance to the mission.Earlier the head of the Mission.Maulvi Rashid Uddin, admo- nished participants of the convention to effectively emulate the examplary life of Muhammad the Holy Prophet of Islam.The Ahmadiyya Missionary depicted the life of Muhammad as "an open chapter" and he retraced the old days of Islam when Holy Prophet Muhammad and his minority followers were rejected and prosecuted by their majority oponents who were mostly immo- ral idol worshipers.Maulvi Rashid reminded the participants that the time is very close for Islam to dominate the world asking them to strictly adhere to the Islamic doctrine.Also speaking at the occasion was Mr.G.S.Gill.proprietor of GITCO enterprise in Liberia.He hailed the Ahmadiyya Move- ment in the world as a successful religious organization.Mr.Gill a learned religious philosopher who belings to the Sikh sect of India, described Islam as a source of transformation for mankind which has impressed us.ترجمہ ) سابق وزیر خارجہ آنر بیل مومو لوڈو کلی نے ایک ترقی یافتہ تعلیمی اور دینی تنظیم کی حیثیت سے احمدیہ مشن لائبیریا کو بہت تعریف و توصیف کاستخنق گردانا، انہوں نے لائبیریا کے معاشرہ میں روحانی اقدار کو فروغ دینے اور خاص طور پر اس ملک میں اسلام کو سر بلند کرنے کے سلسلے میں جماعت احمدیہ نے جواہم کردار ادا کیا ہے اس پر روشنی ڈالی اور اس کی خدمات کو سراہا.آنر سیبل ڈوکلی نے ان خیالات کا اظہار گذشتہ ہفتہ (۱۴ جون شکر) کے روز احمدیہ مسجد مردویہ میں منعقدہ حلیہ میر قالبی رصلی اللہ علیہ وستم.میں تقریر کرتے ہوئے کہا.آخر میل ڈو کلی نے جو ملک کے نامور قانون دان ہیں، احمد مشن کو اپنی مسلسل تائید وحمایت کا یقین دلایا.قبل ازیں احمدیہ مشن کے انچار ج مولوی رشید الدین نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے محمد سول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر روشنی ڈالی اور حاضرین کو اپنی نہ زندگیاں آپ کے اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی تلقین کی.انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ایک کھلی ہوئی کتاب

Page 357

۳۴۵ کی مانند ہے.ہم ہر ہر قدم پر آپ کی حیات طیبہ سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں.انہوں نے خاص طور پر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زندگی کے اُس حصہ کا ذکرہ کیا جبکہ آپ کے قلیل تعداد ساتھیوں كو كثر التعداد مخالفین کی طرف سے شدید مخالفت اور مظالم کا سامنا کرنا پڑا اور مشکلات و مصائب کے ان ایام میں آپ نے صبر کا جو مبینظیر نمونہ دکھایا، اس پر روشنی ڈالی.مولوی رشید نے حالترین کو آگاہ کیا کہ وہ وقت بہت قریب ہے جب اسلام ساری دنیا میں غالب آجائے گا.انہوں نے اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہونے کی پرزور انداز میں تلقین فرمائی.اس موقع پر جناب گورچرن سنگھ گل (جو لائبیریا میں قرم کے مالک ہیں) نے بھی تقریر کی.آپ نے جماعت احمدیہ کو دنیا بھر میں ایک کامیاب اور قابل تعریف مذہبی تحریک قرار دیا.مسٹریگل نے جو مذہبی علوم کی گہری واقفیت رکھتے ہیں.اور جن کا تعلق مہر دستان کے سکھ مذہب سے ہے ، مزید کہا کہ اسلام انسانیت میں اصلاحی انقلاب لانے کا سرچشمہ ثابت ہوا ہے.اور اس نے ہماری نہ ندگیوں کو بہت متاثر کیا ہے.GITCO ۱۲ ۱۹۷۵ء کے وسط میں لبنان کے دو عالم الشیخ مداہ نہیں دو لبنانی علماء کو تبلیغ الميديا الحرة التعليم والاسعاف بیروت اور شور قاری اور واعظ الشيخ لطفی عامر افریقہ کا دورہ کرتے ہوئے لائبیریا پہنچے.ان کا مشن مسلمانوں کو وعظ و تلقین کر نا تھا.احمدیہ مشن لائبیریا کے انچار ج جناب چوہدری رشید الدین صاحب کی دعوت پر ۲۱ جون کو پانچ بجے شام وہ ایک سرکردہ اور با اثر لبنانی ڈاکٹر جناب عارف قصاص کی معیت میں تشریف لائے.مبلغ لائبیریا نے اس موقع پر انہیں جماعت احمدیہ کے عقائد اور تعلیمی و تبلیغی خدمات سے متعارف کرایا نیز قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ اور دوسرا لٹریچر پیش کیا جسے دیکھ کر دہ کہنے لگے یہی اصل کام ہے جو سب مسلمانوں کو کرنا چاہیے.اس پہلی تقریب کے بعد بھی وہ مبلغ لائبیریا سے ملتے رہے اور تبادلہ خیالات ہوتا رہا.ہر جمعہ کو مبلغ لائبیریا یہاں ٹی وی پر تقریر کرتے تھے یہ پروگرام بھی وہ پچسپی سے دیکھتے رہے، نیز احمدیہ مشن کے تبلیغی کاموں کے بارہ میں معلومات حاصل کیں.بعض ایسے لوگوں سے بھی اُن کی ملاقات ہوئی جو مکرم چو ہدری رشید الدین صاحب کی تبلیغ کے ذریعہ عیسائیت کے چنگل سے نکل کر آنحضرت صلی شد

Page 358

۳۴۶ علیہ وسلم کے حلقہ غلامی میں داخل ہوئے تھے.اس وفد کے امیر اور الجمعية الخيرية للتعليم والاسعاف بیروت کے پرنسپل جناب الشیخ محمد عددہ کا حال یہ تھا کہ جب پہلے دن وہ مشن ہاؤس میں آئے اور مبلغ لائبیر بانے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے دعونی مسیحیت و مهدویت کے بارہ میں بتایا تو وہ لاحول پڑھنے لگے اور کہا کہ یہ بات کیسے ممکن ہوسکتی لیکن رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن میں نمایاں تبدیلی آگئی اور انہوں نے بال آخرت کیا کہ جماعت احمدیہ کے عقائد میں کوئی خلاف قرآن بات نہیں.نه الشيخ لطفی عامر صاحب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کے اقتباسات پر مشتمل بارہ صفحات کا ایک مضمون بھی مرتب کیا اور کہا کہ وہ اسے اپنی تقریروں میں بیان کریں گے اور جرائد میں بھی شائع کرائیں گے لیے.ان علما نے احمدیہ مشن کی دینی خدمات پر میلہ انبیریا کو اپنے ادارہ کی فیلوشپ کی سند بھی دی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رضی اللہ عنہ کو عقیدت بھرے الفاظ میں مکتوب لکھا جس کا متن اس باب کے آخر میں دیا جارہا ہے.اس لبنانی وفد کی لائبیریا میں آمد، صدر مملکت لائبیریا سے ملاقات ، اور احمد یہ مشن ہاؤس میں آمد کا مفصل ذکر پر یس نے کیا.چنانچہ اخبار نے لکھا :- "The two Arabian Muslim Preachers: Sheik Loutfi Amer and Sheik Mohamed Adra are currently nere on a spiritual visit: Last week; they visited the Ahmadiyya Muslim Mission; on Lynch Street where they were welcomed by the head of the Mission; Maulvi Rashid Uddin; in a spiritual mood preceded by a grand reception...At the Mission they were presented copies of the English translation of the Holy Quran and other Islamic Literature which they examined and lauded as work of great men.The Sheiks are sheduled to leave early next week for the second leg of their tour in Senegal.They have already visited Ghana." ے ماخوذ از بر پورت جمهوری رشید الدین صاحب مبلغ لائبیریا خدمت حضرت خلیفة المسیح الالم زاده ۱۲ جولائی لاء.ماخود از

Page 359

۳۴۷ ترجمه : یعنی دو عرب مسلمان مبلغین - شیخ لطفی عامر اور شیخ محمد عدیا جو کہ یہاں ایک مذہبی پروگرام کے تحت آئے ہوئے ہیں نے پچھلے ہفتہ پہنچ سٹریٹ میں واقع احمدیہ مسلم مشن دیکھا.جہاں اُن کا استقبال مشن کے سربراہ چوہدری رشید الدین نے ایک خاص جذبہ اخوت کے ساتھ کیا.یہاں ایک استقبالیہ تقریب بھی منعقد ہوئی مشن ہاؤس میں اُن کو مقدس قرآن کے انگریزی ترجمہ کی کا پیاں اور دوسرا اسلامی لٹریچر بطور تحفہ پیش کیا گیا.جس کا انہوں نے جائزہ لیا اور یہ کہ کر بڑی تعریف کی کہ یہ عظیم انسانوں کا کام ہے.دونوں بزرگ اگلے ہفتہ کے شروع میں یہاں سے سینیگال کے لئے روانہ ہو جائیں گے، جو ان کے..سفر کا دوسرا مرحلہ ہے.اس سے پہلے وہ کھانا سے ہو آئے ہیں.امام جماعت احمدیہ کی طر ب امبرین مسلمانوں ۱۳ دسمبر کو عید انورکے الا ضحیہ سے اتوی موقع پر حضرت تعلیقہ المسیح الثالث امام کیلئے عید مبارک کا پیغام جماعت احمدیہ نے لائبیرین مسلمانوں سے اپنی محبت اور شفقت کا اظہار فرماتے ہوئے عید مبارک کا ایک پیغام بھجوایا.اس بارہ میں روز نامہ ائبیرین سٹار میں درج ذیل رپورٹ شائع ہوئی : Ahmadiyya Head Sends Special Eid Greetings The head of the world wide Ahmadiyya Movement in Islam.Mirza Nasir Ahmad, has sent a special Eid greetings to Liberian Muslims urging them to be steadfast in their religious undertakings.Mirza Ahmad, who is the Khalifatul Mesih III of the Move- ment, called on Liberians to dilligently strive for success of Islam and assured them of the victory of Islam at the predicted time.The radiogramed message was received last week when hund- reds of Muslims gathered at the Lynch Street Mosque of the Mission to observe the Islams annual prayer of Eidul Azhiya.

Page 360

۳۴۸ While giving the Eid sermon, the Ahmadiyya Muslim Mission- ary in Liberia.Maulvi Rashid Uddin, called on Muslims in the commu- nity to sacrifice for the cause of Allah so that they may obtain eternal divine blessings.He underscored the essence of sacrifice which he described n fundamental aspect of every success, adding that it will bring mân- kind closer to his creator.(Page 2.Liberian Star Wednesday Dec, 24.1975) ترجمہ :" دنیا بھر میں پھیلی ہوئی احمدیہ جماعت کے امام حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے لائبیرین مسلمانوں کے نام عید مبارک کے تہنیتی پیغام میں فرمایا ہے کہ انہیں اپنے مذہبی فرائض پوری مستعدی اور تندہی سے سرانجام دینے چاہئیں.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب جو جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ ہیں نے لائبیرین مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ چوکس اور ہوشیار ہو کہ پوری سر گرمی سے اسلام کی ترقی اور سرفرازی کے لئے جدوجہد میں لگ جائیں.انہوں نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ اپنے موجود وقت پر اسلام کو ضرور فتح اور غلبہ حاصل ہو جائے گا.یہ برقی پیغام گذشتہ ہفتہ اُس وقت وصول ہوا جبکہ النچ سٹریٹ پر واقع احمد یہ مشن کی مسجد میں سینکڑوں مسلمان عیدالاضحیہ کی نماز ادا کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے.اس موقع پر عید کا خطبہ دیتے ہوئے لائیبیریا میں مقیم احمدی مبلغ رشید الدین نے سامعین پر زور دیا کہ وہ خدا کی راہ میں بشاشت سے قربانیاں پیش کریں تا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور دائمی برکات حاصل ہوں.انہوں نے قربانی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر کامیابی کے لئے قربانی ایک بنیادی امر ہے.انہوں نے مزید کہا کہ قربانی سے ہی انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے " لائیبیریا میں سب سے پہلے مسلم ہائی سکول “ کا اجراء " نصرت جہاں ہائی سکول کا اجراء | آگے بڑھو تسکیم کے تحت سانوے کے مقام پر ۱۹۷ SANOYEA میں عمل میں آیا.ابتداء میں یہ سکول ایک عارضی عمارت میں جاری کیا گیا.مستقل عمارت کی تعمیر کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ۵ء میں ایک خطیر رقم منظور فرمائی اور سردار رفیق احمد صاب

Page 361

۳۴۹ ایم اے پرنسپل مسلم ہائی سکول سانو نے نے چوہدری رشید الدین صاحب انچارج احمدی کا مشن لائبیریا کی نگرانی میں عمارت کی تعمیر کے تمام مراحل نہایت محنت اور اخلاص سے ادا کئے.اس شاندار عمارت کا افتتاح حکومت لائبیریا کے وزیر تعلیم نے ۳ ستمبر 2ء کو کیا.اس تقریب میں علاقہ کے چیفیس اور دیگر متعدد نامور شخصیتوں نے شرکت کی اور جماعت احمدیہ کی تعلیمی خدمات کو سراہا نے وزیر تعلیم نے کہا کہ صدر مملکت کی حکومت تعلیمی اداروں کی وسعت کو بہت اہمیت دیتی ہے اور جماعت احمدیہ کا اس علاقہ میں ہائی سکول کا جاری کرتا ان کی پالیسی کے عین مطابق ہے.حکومت احمد پیشن کے اس قابل ستائش کام پر بہت شکر گزار ہے.افتتاح کی اس تقریب کو ریڈیو اور ٹیلیویژن نے اپنی خبروں میں نمایاں جگہ دی.یہ خبر مختلف وقتوں میں کئی بار نشر ہوئی.لائبیریا کے سب سے اہم اخبار نے اسے نمایاں خیر کے طور پر نشر کیا.اخبار کی رپورٹ کا لائبیرین سٹار LIBERIAN STAR متن یہ تھا:.AHMADIYYA OPEN 25,000 SCHOOL the Ahmadiyya Muslim Mission “EDUCATION Minister Advertus A.Hoff has commonded in Liberia for its pragmatic and whole some contribution towards the development of the Liberian educational system.Making this remark over the weekend after dedicating the $25.000:00 high school complex established by the Mission in Sanoyea Bong County Minister Hoff noted that the Ahmadiyya front against ignorance in sect is gallantly fighting in the battle this country.He said that the laudable efforts of the Mission towards the enhancement of our educational standard is a clear manifestation of its genuine interest in the over-all development of the Liberian people.له الفضل ١٠ ستمبر سے یعنی ولیم ٹالبرٹ ٹب مین کی وفات کے بعد اس عہدہ پر فائز ہوئے.WILLIAM TOLBERT جو اسد

Page 362

۳۵۰ The Education Minister expressed profound gratitude to the Ahmadiyya Mission on behalf of the Liberian Government and assured the Mission of Government's continual support.Earlier the Head of the Ahmadiyya Muslim Mission in Liberia Maulvi Rashid Uddin declared the Sanoyea school project as a hum- ble start of an elabotule plan to be implemented by the Mission for the benefit of the Liberian people.In addition to the school complex the Missionary disclosed that his Mission will provide a modern hospital in Sanoyea District thereby fighting against disease another are - enemy of the country.Maulvi Rashid added that the Sanoyea school project symbo- lizes his Mission's unreserved support for the educational policy of President Tolbert.He expressed gratitude to the people and Government of Liberia for recieving Ahmadiyya in Liberia with open hands and hearts which he said iniciates the cordial relationship that has long existed between Christians and Muslims in Liberia.The first high academic institution ever built by any Islamic organization in Liberia the Sanoyea Ahmadiyya High School is fully equiped with indespensible educational facilities according to Mr.Sardar Rafiqque Principal of the School.Minister Hoff was accompanied to the dedication ceremonies by top officials of the Education Ministry including the Supervisor of Schools for Montserrado and Bong Counties Mr.Raulston G.Dennis and Mrs.Maria Mason.The Superintendent and other top officials of Bong County including the Commissioner of Sanoyea District Mr.Blyden Rennie were also present at the dedication ceremony".

Page 363

۳۵۱ د ترجمه ) : وزیر تعلیم جناب ADVERTUS A.HOFF نے لائبیریا کے تعلیمی نظام کی ترقی یں مفید اور ملی تعاون پر احمدی مسلم من انبر باکو قابل حسین قرار دیا.انہوں نے اس خیال کا اظہار گذشته هفته SANOYEA مقام پر مشن کی طرف سے قائم کردہ ہائی سکول کا افتتاح کرتے ہوئے کیا نیز کہا کہ احمدیہ جماعت اس ملک میں جہالت کے خلاف جہاد میں مصروف ہے.آپ نے فرمایا کہ ہمارے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے سلہ میں جماعت لائبیرین عوام کی عمومی ترقی میں گہری دلچسپی لے رہی ہے.جناب وزیر تعلیم نے لائبیرین حکومت کی طرف سے احمدیہ مشن ہا شکریہ ادا کیا اور مشن کو حکومت کے مسلسل تعاون کا یقین دلایا.قبل ازیں احمد پیش لائبیریا کے انچارج رشید الدین نے کہا کہ سانوے میں سکول کا قیام اس کیم کی ابتدا ہے جو مشن کی طرف سے لائبیرین عوام کے فائدہ کے لئے عمل میں لائی بھائے گی.مبلغ اسلام نے نے کہا کہ سکول کے علاوہ ان کا مشن ضلع سانوٹے میں ایک ہسپتال بھی تعمیر کرے گا.بیماریوں کا مقابلہ کیا جا سکے جو ملک کو نقصان پہنچا.ہی ہیں.شید الدین نے مزید کہا کہ اس سکول کی تعمیر مشن کی طرف سے جناب پریذیڈنٹ ٹالبرٹ کی تعلیمی پالیسی کی مکمل حمایت کا عملی اظہار ہے.احمد یہ مشن کا حبس کشادہ دل سے لائبیریا میں استقبال کیا گیا ہے.آپ نے اس پر لائبیریا کے عوام اور حکومت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ امر اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں اور عیسائیوں کی باہمی روادارانہ اور اچھے تعلقات کی دلیل TOLBERT ہے احمدیہ ہائی سکول جو لائیبر با مں کسی مسلمان تنظیم کی طرف سے بنایا جانے والا پہلا ہائی سکول ہے کے بارہ میں سکول کے پرنسپل سردار رفیق احمد نے بتایا کہ اس میں ضروری تعلیمی سہولتیں پور طور پر میسر ہوں گی.وزیر تعلیم ڈاکٹر HOFF کے ساتھ وزارت تعلیم کے اعلیٰ افسران نے افتتاح کی تقریب میں شرکت کی ان میں MONTSERADO اور BONG کاؤنٹی کے سپروائزر آف سکولز اور منر MARIA MASON شامل تھے.ضلع سانوئے BLYOTON کے علاوہ بانگ کونٹی کے سپرنٹنڈنٹ اور دوسرے افسران بھی میٹر کے کمشنر مسٹر C.DENNIS

Page 364

۳۵۲ افتتاح کے موقع پر موجود ہے ہے.شاء میں اس سکول کی سائنس لیبارٹری کے لئے عالمی شہرت کے حامل سائنسدان جناب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے تحفہ اپر ٹیس APPORATUS عنایت فرما بایه -۱۵ - بیرونی ممالک میں احمدی مبلغین پاکستان قوم آف اخیر بات کی صدارت تبلیغ تربیت کا فریضہ ادا کرنے کے و ساتھ ساتھ اپنے محبوب وطن پاکستان کی خدمت میں بھی سرگرم رہتے ہیں.اس سلسلہ میں لائبیریا احمد پینشن کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں.۱۹۷۳ء میں سفیر پاکستان مقیم غانا جناب ایس اے معید صاحب نے لائبیریا میں رہائش رکھتے والے پاکستانی شہریوں پرمشتمل ایک تنظیم " پاکستان فورم آف لائبیریا OF LIBERIA PAKISTAN FORUM کے نام سے قائم کی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لائبیرین لوگوں کو پاکستان سے متعارف کرایا جائے اور وہ پاکستان اور اس کے شہریوں کے بارہ میں صحیح معلومات حاصل کر سکیں اور اس طرح دونوں ممالک کے باشندوں میں رابطہ اور تعارف کی راہیں کھلیں اور یہاں کے لوگوں میں پاکستان کی نیک نامی اور وقار بڑھایا جائے.لائبیریا میں مقیم پاکستانی احمدی اس تنظیم میں بڑی روشی سے شامل ہوئے اور انہوں نے اس کے مقاصد کو کامیاب بنانے میں بھر پور حصہ لیا اور ہر موقع پر دوسرے پاکستانی بھائیوں کے دوش بدوش رہے اور پاکستان کی شہرت کا موجب بنے.چوہدری رشید الدین صاحب مبلغ لائبیر با دو سال تک اس تنظیم کے منتخب صدر رہے اور غانا میں واقع لائبیریا پاکستانی سفارت خانہ سے بھی رابطہ قائم رکھا اور لائبیریا میں پاکستان کا وقار بڑھانے کا کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا.اس تنظیم کے زیر انتظام مرسال یوم پاکستان ، یوم آزادی اور دیگر تہوار شایان شان طریق پر منائے جاتے.ان مواقع پر اخبارات میں مضامین لکھے جاتے اور اجلاسوں کی رپوڑ میں شائع کرائی جاتیں.فورم کے ان اجلاسوں میں کئی مواقع پر پریذیڈنٹ ٹالبرٹ کی کا بینہ کے وزراء بھی شریک " ل کامبیر بن سٹار ستمبر و حواله الفضل ۱۶ اکتو برای ۱۹ بر صفحه ۲ - سه الفضل ۳ مارچ ش ابو صفورت

Page 365

۳۵۳ ہوتے تھے.ان میں صدارتی امور کے وزیر جناب ڈوچہ DUE CHEH اور نائب وزیر محنت جناب ڈینیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں لیے -14 ما جماعت احمدیہ کا مرکزہ چونکہ پاکستان میں قائداعظم کی ملالہ تقریبات کا نتظام ہے اس نے دیا میری پہلے ہوئے ایرانی لئے بھر مشن شروع سے ہی اس کی ترقی و استحکام اور شہرت و مقبولیت کے لئے کوشاں ہیں.اس سلسلہ میں ان کی خدمات سنہری حروف سے لکھی جائیں گی.ان قومی روایات کے مطابق احمد بیشی لائبیر بانے نومبر شاہ میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی صد سالہ تقریبات کا خصوصی اہتمام کیا.ایک تقریب احمد میشن کے زیر اہتمام سانوئے SANOYEA کے مقام پر احمدیہ ہائی سکول کی نئی عمارت میں مبلغ انچارج رشید الدین کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں لائبیرین شہری کثیر تعداد میں شریک ہوئے اور بڑے شوق سے پروگرام میں حصہ لیا.دوسرے مقامی لوگوں کے علاوہ مکرم جناب ممبر قومی اسمبلی نے بھی حضرت بانی پاکستان کے بارہ میں ایک پرجوش تقریر فرمائی.اس تقریب کی جو رپورٹ روز نامہ لائبیرین سٹار میں شائع ہوئی وہ درج ذیل ہے :- MOMO KAINE AHMADIYYAS REMEMBER PAKISTAN'S FOUNDER MEMBERS of the Ahmadiyya Mission of Liberia; joined by Liberian friends, recently held an impressive programme in Sonoyea.Bong County, to mark the Birth Centennary of the Founder of the State of Pakistan, Quaid Azam Mohammad Ali Jinnah, In his message to the Mission, the Pakistan Ambassador to Ghana, S.A.H.Ahsani, expressed his Liberia resident in Accra, happiness for the special programme and wished the function success.Missionary In Charge Rashid Uddin spoke about the great achievements of the Quaid at the ceremony saying that he lived a life according to the principles of Islam.Other speakers were Hon.Momo Kaine, member of the House اس سلسلہ میں بطور مون سفارتخانہ پاکستان کے مراسلات اور بعض اخبارات کے تراشے ضمیمہ میں ملاحظہ ہوں.

Page 366

۳۵۴ of Representatives, Bong County; Bong Ahmadiyya High School principal Sardar Rafiq Ahmad.☑ ترجمہ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی صد سالہ تقریبات کے سلسلہ میں ممبران جماعت محمد لائبیریا نے اپنے لائبیرین دوستوں کے تعاون سے بانگ کونٹی میں سانوے SANOYEA کے مقام پر ایک شاندار پروگرام ترتیب دیا.اس موقع پر سفیر پاکستان مقیم گھانا جناب ہیں اے اینچ احسانی نے احمدیہ مشن کے نام اپنے پیغام میں اس اہم تقریب پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور پروگرام کی کامیابی کے لئے دعا کی.اس موقع پر مشنری انچارج جناب رشید الدین صاحب نے اپنی تقریر میں قائد اعظم کی عظیم کامیابیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اُن کے اعمال اسلامی اصولوں کے مطابق ہوتے تھے.اس تقریب کے دوسرے مقررین میں عزت مآب MOMOKAINE ممبر قومی اسمبلی اور مکرم سردار رفیق احمد صاحب پرنسپل احمدیہ ہائی سکول شامل تھے بے اس سلسلہ میں دوسری تقریب ما نرود و یا شہر میں منعقد ہوئی.اس میں بھی احمدی احباب نے پورے جوش و خروش سے حصہ لیا جس کی تفصیل مکرم مولوی عطاء الکریم صاحب شاہد مبلغ لائبیریا کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے :- ائیجیریا میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی صد سالہ تقریبات ۲۸، ۲۹ نومبر کو بڑے اہتمام کے ساتھ منائی گئیں.اس موقع پر سفیر پاکستان برائے لائبیریا مقیم اکرا جناب احسانی صاحب خود بھی تشریف لائے اور ان کی تحریک پر حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ کے عین مطابق پاکستانی احمدی احباب نے بھی دوسرے لوگوں کے شانہ بشانہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اس موقع پر منعقد ہونے والی نمائش اور فٹ بال کے میچ میں حصہ لیا.اس تقریب پر جو سیمینار منعقد ہوا.اس کا آغاز خاکسار (عطاء الکریم شاہد نے تلاوت قرآن پاک کے ساتھ کیا.جس کا بعد میں انگریزی میں ترجمہ بھی شنایا گیا.بعدہ ایک پاکستانی احمدی دوست نے تقریر کی اور بانی پاکستان کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.لا ممبر بن ستار - ۱۵ دسمبر اء.

Page 367

۳۵۵ عرض قائد اعظم کی صد سالہ مقامی تقریبات میں مقامی احمدی احباب بھی دیگر پاکستانیوں کے شانہ بشانہ شریک ہوئے اور یہ تقریب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہی.الحمد لله ڈاکٹر ڈبلیو آرٹ ٹالبرٹ صدر جمہوریہ لائبیریا کو کریم -k جمہوریہ لائبیریا و تحف قرآن سوی عطا کہ یہ صاحب شاہ نے جمعت احدی کے سات دکنی وفد کے ہمراہ قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ و مختصر تفسیر مع ایک تبلیغی خط ۲۳ جنوری شوراء کو پیش کیا.اس بارہ میں حکومت لائبیریا کی وزارت اطلاعات نے اپنے سرکاری خبر نامہ میں مندرجہ ذیل اطلاع شائع کی: “MONROVIA: The Ahmadiyya Muslim Mission in Monrovia presented the translation and commentary of the Holy Koran to President Tolbert.Making the presentation to Dr.Tolbert at the Executive Mansion A.K.Shahid, missionary in charge of the Muslim Mission, extolled the President for the religious tolerance they are enjoying in Liberia under his able leadership.He expressed the hope that Dr.Tolbert will appreciate the greatness of the Holy Koran which, he said, provides man with spiritual, moral and political guidance.Mr.Shahid thanked the President for granting him and mem- bers of his delegation audience.He wished for Dr.Tolbert a pros- perous New Year and prayed for God's choicest blessings upon the Liberian leader." ترجمه در منزد ویا احمدی سکم من مرد دیانے صدر ٹالبرٹ کو قرآن پاک کا ترجمہ وتفسیر پیش کی ہے قصر صدارت میں ڈاکٹر ٹا لبرٹ کو یہ تحفہ پیش کرتے ہوئے اے کے شاہد امیر دشنری انچارج احمدیہ مسلم مشن نے صدر مملکت کو اُس مذہبی رواداری کے لئے سراہا جس سے وہ سب انجیر با میں اُن کی با صلاحیت قیادت میں فیضیاب ہو رہے ہیں.آپ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر ٹالبرٹ قرآن پاک کی قدر دانی کرتے ہوئے اس کی عظمت سے محظوظ ہوں گے جو انسان کی روحانی اخلاقی اور سیاسی رہنمائی کرتا ہے.شاہد نے وفد کو ملاقات کا موقع دینے پر صدر مملکت کا شکریہ ادا کیا.آپ نے ڈاکٹر ٹا لبرٹ الفضل در جنوری شاه صدا

Page 368

۳۵۶ کونٹے سال کے دوران خوشحالی نصیب ہونے اور عنایات الہی کا مور دینے کے لئے دُعا کی.قومی ذرائع ابلاغ نے صدر لائبیریا کو قرآن کریم کی پیشکش کی خبر کی وسیع پیمانہ پر تشہیر کی ریڈیو لائبیریا دو روز تک یہ خبر اپنے خبر ناموں میں نشر کرتا رہا اور قومی ٹیلیویژن نے دو مرتبہ اس تقریب کو ٹیلی کاسٹ کیا.اس طرح خدا تعالیٰ نے اس دور دراز علاقہ میں خدام احدی کو عظمت قرآن کی اشاعت کا موقع عطا فرمایا.فالحمد لیہ.۱۸- حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے کر مطلب آرچ بشپ آف کنٹربری پر اتمام حجت ماندنی شده هستند، اشاره می باش کا (منعقدہ کونسل آف چرچز کے دعوت نامہ کے جواب میں عیسائیت کے مذہبی رہنماؤں کو تبادل در خیالات کی عالمی تحریک فرمائی تھی.اء میں برٹش کونسل آف پیر چیز کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹر بری مغربی افریقہ کا دورہ کرتے ہوئے لائبیریا آئے تو مولومی عطاء الکریم صاحب شاہد نے ۱۳ مارچ 199 ء کو اُن سے ملاقات کرکے ایک تحریری یا داشت کے ذریعہ انہیں حضرت امام جماعت احمدیہ کی اس پیشکش کی طرف توجہ دلائی گو بالمشافہ گفتگو کے دوران مذکورہ یا داشت کی زبانی وضاحتہ سُن کر انہوں نے اس معاملہ کوٹال دیا مگر انگلستان واپسی پر اُن کے بیمار پر برٹش کونسل آف چر چیز کے ترجمان مسٹر کینتھہ آر کو کمیل * 1929 نے آپ کو اپنے خط مجررہ اور اپریل KENNETH R.CRACK NELL میں لکھا:."The Archbishop of Canterbury has asked me to reply to your letter of March 13th 1979.The position in brief is this.We have indeed, from the British Council of Churches, responded to the Alimadiyya Muslim Mission in London.I am thoroughly engaged in correspondence with Mr.Rafiq, the Imam here in London.He has nominated three Ahmadi gentlemen to take part in some prelimary conversations in an unpublicised, but friendly and open-spirited way about how our conversations could proceed with you.Mr.Rafiq is at this moment not in Britain, but I have written to tell him that on our side we have nominated three of our scholars, Canon Wootton, Dr.Kerr, and Canon Schneider to meet with the Ahmadiyya, Mission group.

Page 369

۳۵۷ We on our side have great hope that we may promote both understanding and goodwill.Many thanks for your concern in this matter.” ترجمہ :.آرچ بشپ آف کنٹر بری نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ کے خط محترہ ۱۳/ ماریچ شاء کا جواب دوں.اختصارا حقیقت حال یہ ہے کہ برٹش کونسل آف چر چیز نے احمدی مسلم مشن لندن کی مراسلت کا جواب دے دیا ہے.میں پوری طرح امام لندن جناب بشیر احمد صاحب رفیق سے خط و کتابت میں مصروف ہوں ، آپ نے تین احمدی حضرات کو اسی غرض کے لئے نامزد کیا ہے کہ وہ غیر مشتہرہ ابتدائی مگر دوستانہ اور فراخدلانہ گفتگو میں حصہ لیں کہ ہماری یا ہمی گفتگو کا سلسلہ کس طرح آگے بڑھایا جا سکتا ہے.جناب رفیق صاحب ان دنوں برطانیہ میں موجود نہیں.تاہم میں نے انہیں لکھ دیا ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے تین فضلاء یعنی جناب کیتین ووٹن ، ڈاکٹر کیر اور ڈاکٹر شیڈر کو مقرر کر دیا ہے کہ وہ احمدیہ مشن کے وفد سے ملیں.ہم پرامید ہیں کہ با ہمی افہام و تفہیم اور خیر سگالی میں اضافہ کر سکیں گے ، اس سلسلہ میں آپ کی دلچسپی کے لئے شکریہ " اگر چہ اس خطہ سے ظاہر ہوتا تھا کہ مسیح کی صلیب سے رہائی " کے موضوع پر گفتگو کے لئے برٹش کونسل آن چرچز آمادہ ہے مگر عملاً ہوا یوں کہ جلد ہی بی بی سی نے یہ خبر نشر کی کہ آرچ بشپ آف کنٹریری نے اچانک ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا ہے “ - لائبیریا میں عیسائی حکومت اور چرچ کا غلبہ بڑا نمایاں ہے مگر انہی تصرف سے آرچ بشپ آف کنٹریری کی لائبیریا میں آمد اور انہیں احمدی مسلم مشن کی یادداشت پر مبنی مفصل خبر اور تصاویر مقامی پر میں نے نمایاں طور پر شائع کیں.اخبار سکوپ نے یاد داشت کی پیشکش کو ایک مجیب وغریب تھنے کا نام دیا؟ - ے رسالہ " تحریک جدید " دسمبر ۱۹۷۶ ء ص ۱۲ ، ۱۵

Page 370

۳۵۸ اخبار نیولائبیری" نے اسی خیر اور تصویر کو اس عنوان سے شائع کیا.AHMAPIYYA MISSIONARY MEETS ANGLICAN ARCHBISHOP یعنی مبلغ احمدیت کی آرچ بشپ سے ملاقات.لائبیریا کے سب سے قدیم اور وقیع اخبار " لائبیرین ایچ نے اسی خبر کو نمایاں ترین رنگ میں آرچ بشپ کی تصویر کے ہمراہ شائع کرتے ہوئے لکھا کہ آپ کے حالیہ دورہ کے دوران احمدیہ مسلم مشن کے نمائندے آپ کا استقبال کر رہے ہیں بغیر کا مکمل انگریزی متن اور ترجمہ دوست ذیل ہے : ARCHBISHOP TO HOLD MUSLIM CHRISTIAN DIALOGUE IT was indeed a memorable occasion in the history of Liberia when the Most Reverend Rt.Honourable Frederic Donald Coggan D.D.Archbishop of Canterbury set his foot, for the first time on the soil of this oldest African Republic.He was welcomed by all and particularly by the members and officials of the Protestant Epis- copal Church.This is not all.He was as well heartily welcomed by A.K.Shahid, Amir and Missionary Incharge of the Ahmadiyya Muslim Mission, Liberia who presented him a letter declaring his visit and auspicious, and appro- priate occasion to remind him about the British Council of Churches letter to the Ahmadiyya Muslim Mission London, dated May 25, 1978, inviting them to a dialogue on: "THE DELIVERANCE OF JESUS FROM THE CROSS”.This invitation was duly accepted by the Supreme Head of the Ahmadiyya Movement in Islam, during the concluding session of the international conference on the above subject in London, on June 4, 1978.He further suggested that those conversations should be held in an atmosphere of love and courtesy in London, Rome a West African capital, an Asian capital, and in the United States of America adding that the Roman Catholic Church should also be included in the proposed dialogue.It is noteworthy that the Ahmadiyya Movement does not believe in the accursed death of Jesus (Peace be on him) at the hands of the Jews.Under a Divine scheme to save him, he was taken down from the cross alive while he was in a deep 1444 ه ۲۳ / مارچ ۱۹۷۹ء ۲۹ مارچ ۱۹۵۶

Page 371

۳۵۹ swoon.After miraculous treatment of his wounds according to his own saying the journeyed a long way to Kashmir (India) to convey the Divine message to the "Lost sheep of Israel" where he was revered, followed and lived unto a ripe old age of 120 years, died a natural and honourable death and was buried in Srinagar the capi- tal of Kashmir, where his tomb is a centre of historical attraction, even today.The Ahmadiyya Missionary requested the Most Rev.Archbi- shop to hold the dialogue by virtue of his being the President of the British Council of Churches, so that the invitations acceptance should reach its logical conclusion, praying for the Archbishop that his fair name might go down in the annals of history for this great achievement promoting religious amity between two great religions of the world - Islam and Christianity.Amen.ترجمہ : " آرچ بشپ اسلام اور عیسائیت میں تبادلہ خیال کی مجلس منعقد کرائیں.لائبیریا کی تاریخ میں یہ یقیناً ایک یادگار موقع تھا جب محترم رائٹ آنریبل فریڈرک ڈونلڈ کوگن ڈی.ڈی آرچ بشپ آف کنٹربری نے پہلی بار اپنا قدم افریقہ کی اس قدیم ترین جمہوریہ کی سرز مین پر رکھا.ہر کسی نے اور خصوصاً پر انسٹنٹ ایسی سکوپل چرچ کے عمائدین اور ممبران نے آپ کو خوش آمدید کہا.صرف یہی نہیں بلکہ عطاء الکریم صاحب شاہد امیر ومشنری انچارج احمدی مسلم مشن لائبیریا نے بھی خوش دلی سے آپ کا استقبال کیا جنہوں نے آرچ بشپ کو ایک خطہ پیش کرتے ہوئے آپ کے دورہ کو ایک مسعود اور موزوں موقع قرار دیا تا کہ آپ کو برٹش کونسل آف چر چیز کے خط بنام احمدیہ سلم من لندن محوره ۲۵ مئی کشمیر کے سلسلہ میں یاد دہانی کرائی جا سکے حسن میں کونسل مذکورہ نے مسیح کی صلیب سے رہائی کے موضوع پر باہمی تبادلہ خیالات کی دعوت دی ہے.یہ دعوت حضرت امام جماعت احمدیہ نے مذکورہ موضوع پر لندن میں ہونے والی عالمی کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں ہر چون شداد کو باضابطہ طور پر منظور فرمائی تھی اور آپ نے مزید تجویز فرمایا کہ تبادلہ خیالات کی یہ مجالس محبت اور شائستگی کی فضا میں لندن، روم، مغربی افریقہ ایشیا کے ایک ایک دارالحکومت نیز ریاستہائے متحدہ امریکہ میں منعقد کی جائیں.مزید برآں رومن کیتھولک چرچ کو بھی تبادلہ خیالات کی ان مجالس میں شریک کیا جائے.

Page 372

یہ امر قابل ذکر ہے کہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح علیہ السلام کی یہود کے ہاتھوں لعنتی موت پر ایمان نہیں رکھتی.آپ کی حفاظت کی الہی تدبیر کے تحت آپ کو صلیب سے زندہ اتارا گیا، جبکہ آپ پر گہری بیہوشی طاری تھی.آپ کے زخموں کے معجزانہ علاج کے بعد خود آپ کی اپنی پیشگوئی کے مطابق آپ کشمیر (انڈیا) تک طویل سفر کر کے پہنچے تا کہ " اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو پیام راہی دے سکیں جہاں آپ کو عزت و احترام اور قبولیت نصیب ہوئی.اسی جگہ آپ نے ایک سو بیس برس کی طویل کمر کے بعد طبعی اور آبرومندانہ وفات پائی اور کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں دفن ہوے جہاں آج بھی آپ کا مقبرہ تاریخی کشش کا مرکز ہے.مبلغ جماعت احمدیہ نے جناب اگرچ بشپ سے درخواست کی کہ وہ برٹش کونسل آف چه چیز کے صدر کی حیثیت سے تبادلہ خیالات کی مجلس کا انعقاد کرائیں تاکہ ان کی طرف سے دی گئی دعوت کی قبولیت اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے.آپ نے آرچ بشپ کے لئے دعا کی کہ دنیا کے دو عظیم مذاہب یعنی اسلام اور عیسائیت کے درمیان مذہبی ارتباط بڑھانے کی تعظیم کاوش کی بناء پر آپ کا نیک نام تاریخ میں ہمیشہ محفوظ رہے.آمین.19 امریکی بحریہ کے کمانڈر کو اسلامی لٹریچر نو مبراء میں دو امریکی بحری جنگی پھر جہازوں کے لفٹینٹ کمانڈر ڈینیس کی مارویل خیر سگالی کے دورہ پر لائبیریا آئے.مولوی عطاء الکریم صاحب شاہد نے مکرم محمود احمد صاحب بھیٹی اور مریم محمد کو اے صاحب یا تر کے ہمراہ ان کو قرآن کریم انگریزی اور دوسرے اسلامی لٹریچر کے دو سیٹ ہر دو جہازوں کی لائبریریوں کے لئے پیش کئے.لامبيرين اس خبر کو لائبیریا کے تین اختیارات نے نمایاں طور پر تفصیل کے ساتھ شائع کیا.اخبار" نیو NEW LIBERIAN QURAN FOR WAR SHIPS " نے مار دسمبر شاہ کو اس عنوان کے ساتھ خبر شائع کی بر یعنی جنگی جہازوں کے لئے قرآن کریم " اخبار" لائبیرین ایج ۲۳ مارچ ۱۹۷۵ -

Page 373

اخیار ویک اینڈ نیوز WEEK END NEWS تے یکم دسمبر شاہ کو یہ خبر دی اور اختبار لائبیرین اِن آگرل LIBERIAN INAUGURAL نے اپنی ۲۸ نومبر 9ء کی اشاعت میں تفصیلی خیر پور به عنوان دیا.“VISITING US ATLANTIC NAVAL FLEET PRESENTED WITH HOLY QURAN” یعنی خیر سگالی کے دورہ پر آنے والے بحر اوقیانوس میں متعین امریکی بحری بیڑے کو قرآن کریم کی پیشکش.اختیار ہذا نے لکھا :."Making the presentation, the Ahmadiyya Muslim Missionary emphasised that true Quranic and Islamic teachings have been in fact meant to bring about an unprecedented era of peace and pros- perity, good-will and amity between nations and continents.The Lt.Commander Dennis C.Marvel accepted the precious gift, expressing his heartfelt gratitude and hoped that it would prove to be an inspir- ing reading for the crews of both the U.S.naval ships.” ترجمہ :.احمدی مسلم مشنری نے تحفہ پیش کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ حقیقی قرآنی اور اسلامی تعلیمات کا اصل مقصد قوموں اور بر اعظموں کے درمیان بے مثال دور امن و خوشحالی، خیر سگالی اور با ہمی مفاہمت پیدا کرتا ہے.لیفٹیننٹ کمانڈر ڈنیس سی مارویل نے اس گرانقدر تحفہ کو قبول کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس کا مطالعہ امریکی بحریہ کے دو جنگی جہازوں کے عملہ کے لئے ایمان افروز اخبار لا میرین ان گول منروویا INAUGURAL THE LIBERIAN ۲۸ نومبر ۱۹

Page 374

ثابت ہو گا." ۲۰ - مولوی عطاء الکریم صاحب شاہد کے عہدا مارت میں سانوے سے تین میل جنوب میں بمقام نخلہ خدا کے ایک نئے گھر کی تعمیر ہوئی.جس کا سنگ بنیاد سردار رفیق احمد صاحب ایم اے نے رکھا اور اس کا افتتاح ۱۹ ماریچ نوری کو مولوی عطاء الکریم صاحب شاہد کے ہاتھوں عمل میں آیا.ستمبر نشاء میں مولوی عبد الشکور صاحب انچارج استی تبلیغ کا ایک وسیع پروگرام امن من مرد یا شیرین بینی کا ایک وین پروگرام بنایا.نے منرو د میں ایک لاؤڈ سپیکہ خریدا.حکومت سے شہر کے معروف مقامات میں تبلیغ کے لئے تحریری اجازت لی اور ایک سال تک ہر ہفتہ با قاعدگی سے ان مقامات پر پیغام حق پہنچاتے رہے.مشن ہاؤس کی جدید عمارت از نو بر شانہ میں ملی ہاؤس کی جدید عمارت کی ۲۲ نومبر مشن کی بنیاد رکھی گئی جو ضروری تشاء میں پایہ تکمیل تک پہنچی.اس دو منزلہ خو بصورت عمارت کے نچلے حصہ میں بک شاپ اور اوپر والے حصہ میں گیسٹ ہاؤس بنایا گیا.احمدیہ کلینک کا اجراء ۲۳ - شملہ میں حضرت خلیفة المسیح الثالث جب دوباره افریقن ممالک میں تشریف لائے تو مولوی عبد الشکور صاحب مبلغ کو نائیجیریا اور فانا میں حضور کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا.حضور نے نشہ کے سفر افریقہ کی طرح اس سفر کو بھی لائبیریا میں ہسپتال کے اجراء کی خواہش کا اظہار فرمایا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی خواہش کو بہت جلد پورا کرنے کے سامان کر دیئے اور اگست ۱۹۸۳ء میں حکومت کی طرف سے اس کی منظوری بھی مل گئی حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی نے ہسپتال کے لئے ڈاکٹر نصیر احمد صاحب مبشر ایم بی بی ایس.ایم ڈی کو نامزد فرمایا اور سولہ ہزار ڈالر کی خطیر یہ تم اس کے اجراء کے لئے منظور فرمائی.۱۳۰ نومبر 19ء کو اس کا اجراء منرو و یا شہر میں عمل میں آیا.کلینک کی افتتاحی رسم لاسانہ کر دیا نائب وزیر تعلیم نے ادا کی.مقامی ریڈیو اور ٹیلیویژن پر کئی بار یہ خبر نشر کی گئی اور پریس میں بھی اس کی له الفضل ۱۲ مئی نامه مه

Page 375

نے یکم دسمبر شاید - DAILY OBSERVER ۳۳ خوب اشاعت ہوئی.چنانچہ اخبار "ڈیلی آبزرور کی اشاعت میں کلینک کی تصویر دیتے ہوئے لکھا :- AHMADIYYA MUSLIM MISSION OPENS CLILIC The Ahmadiyya Muslim in Liberia has opened a modern clinic in Monrovia as part of its contribution towards the expansion of health delivery services to the Liberian people.The clinic, dedicated on Tuesday, is being operated by Dr.Nascer A.Mobashar, Dr.Mobashar worked at various medical centres in Pakistan, Ghana and the United States of America.Assistant Minister of Education for Administration, Mr.Lasanah V.Kromah who officiated at the dedicatory ceremony, extolled the efforts of the Ahmadiyya Muslim Mission in bringing spiritual, intellectual and physical upliftment to the people of Liberia.During the dedication ceremony, the Head of the Ahmadiyya Muslim Mission in Liberia, Maulvi Abdul Shakoor, said the establish- ment of the clinic is a humble start of a scheme designed by the Worldwide Ahmadiyya Muslim Movement to provide health care and quality education for the people of West Africa.He disclosed that the Mission presently operate a junior high school in Sanoyea, Bong County, and an elementary school in Largo, Grand Cape Mount County.Maulvi Shakoor Further disclosed that the Mission has established and operates about 150 institutions of learning in West Africa, including a Teacher's Training College and a Missionary Training College in Ghana, In the field of health care, he said, the Mission operates 19 well-equipped hospitals now functioning in Ghana, Sierra Leone, the Gambia and Nigeria.He thanked the Liberian Government for the high level of cooperation it has accorded the Mission since it was established here 25 years ago.He also expressed gratitude to the Government for granting the permission to open and operate a clinic in the country.

Page 376

The dedication ceremony was attended by some distinguished religious and community elders, including the President of the Ahmadiyya Muslim Mission in Liberia, Alhaji Fatai Akani Odutola and the President of the Indian Association in Liberia, Mr.G.S.Gill.ترجمہ : احمدیہ مشن کے کلینک کا افتتاح - احمدیہ مشن لائبیریا تے مرد و یا میں ایک جدید کلینک کھولا ہے.جولائبربین عوام کے لئے صحت کے میدان میں اس کی خدمات میں ایک اور اضافہ ہے..اس کلینک کا منگل کے دن افتتاح کیا گیا.اس میں ڈاکٹر نصیرا.افتتاح کیا گیا.اس میں ڈاکٹر نصیر اے منتر کام کر رہے ہیں.ڈاکٹر مبشر پاکستان ، گھانا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مختلف میڈیکل سینٹر نے میں کام کر چکے ہیں.انتظامیہ کے نائب وزیر تعلیم جناب لاسانا.وی.کرومانے ، نے اس تقریب کی صدارت کی اور احمدی مسلم مشن کی ان کوششوں کی بہت تعریف کی ، جو وہ لائبیرین قوم کی رومانی، ذہنی اور جسمانی سربلندی کے لئے سر انجام دے رہا ہے.احمد یہ مسلم مشن لائبیریا کے سربراہ مولوی عبدالشکور صاحب نے افتتاح کی اس تقریب کے دوران احمدیہ کہا کہ کلینک کی تعمیر ایک معمولی سا آغاز ہے، اس اسکیم کا جو احمد مسلم عالمی تحریک نے مغربی افریقہ کے لوگوں کو حفظان صحت اور عمدہ تعلیم مہیا کرنے کے لئے تیار کی ہے.انہوں نے بتایا کہ اس وقت میشن بونگ کاؤنٹی کے مقام سانوے میں ایک جونیئر ہائی سکول اور گرینڈ کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی کے مقام لارگو میں ایک ابتدائی سکول چلا رہا ہے.مولوی عبدالشکور صاحب نے مزید بتایا کہ مشن نے مغربی افریقہ میں ۱۵۰ کے قریب تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں.اور چلا رہا ہے.ان اداروں میں اساتذہ کی تربیت کا ایک کالج اور گھانا میں مبلغین کی تربیت کا ایک کالج بھی شامل ہیں.انہوں نے کہا کہ حفظان صحت کے میدان میں یہ مشن جبکہ سہولتیں فراہم کرنے والے 19 ہسپتال بھی چلا رہا ہے جو اس وقت گھانا، سیرالیون گیمبیا اور نائیجیریا میں بطور وقف کام کر رہے ہیں...

Page 377

۳۶۵ انہوں نے اُس اعلیٰ سطح کے تعاون کے لئے ماہرین حکومت کا شکریہ ادا کیا، جو دوپشن کے ساتھ اس وقت سے کر رہی ہے جبکہ ۲۵ برس قبل یہ مشن یہاں بنایا گیا تھا.انہوں نے حکومت کا اس بناء پر بھی شکریہ ادا کیا کہ اُس نے ملک میں ایک کلینک کھولنے اور اسے چلانے کی اجان دی.اس تقریب میں بعض نمایاں مذہبی و سماجی شخصیتوں نے شرکت کی بعین میں احمد مسلم مشن لائبیریا کے صدر الحاجی خطائی آکافی او دو تولا اور لائبیریا کی انڈین ایسوسی ایشن کے صدر جناب جی.ایس - گل شامل ہیں.خانہ خدا کی تعمی " ۲۴ جنوری شاء میں منروویا میں خانہ خدا کی تعمیر نو کا کام شروع کیا گیا جو مٹی شاہ کے آخر میں مکمل ہوا اور اس کا افتتاح یکم جون کو رمضان المبارک کی پہلی نمازہ تراویح سے کیا گیا.اس مبارک گھر پہ میں ہزار ڈالر سے زیادہ رقم خرچ ہوئی جو مقامی طور پر مہیا کی گئی بیٹے لائبیریا مشن کا اہم ترین واقعہ | ۲۵- لائبیریا مشن کی تاریخ میں سب سے اہم اہم حضرت خلیفہ آج الثالث کی تشریف آوری واقعہ سے منہ میں کہا جائے توکوئی مبلغہ نہ ہوگا.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی اس ملک میں تشریف آوری ہے حضور اپنے مشہور عالم دورہ افریقہ شاہ کے دوران ۲۹ اپریل اء کو ۲ بجے بعد دو پہر مرد ویا میں درود فرما ہوئے.رابرٹس فیلڈ کے فضائی مستقر پر جاعت احمدیہ لائبیریا کے مخلص اور فدائی احباب کے علاوہ حکومت کے اعلی افسران.لائبیریا کے مسلم نہ عماد اور دیگر معززین کے علاوہ خود صدر مملکت ٹب مبین کے ذاتی نمائندہ نے بھی حضور کا نہایت پر خلوص اور پر تپاک خیر مقدم کیا.جس کے روح پرور مناظر ٹیلیویژن پر بھی دکھائے گئے.اس طرح اہل لائبیریا کو حضور کی زیارت کا بھی موقع ملا اور ملک کے کونے کونے میں اسلام کا بھی غیر معمولی چرچا ہوا.ان ایام میں جبکہ حضور نے اس سرزمین کو برکت بخشی جناب امین الله ما تصاحب ساکت مبلغ لائبیریا لے مکتوب مولوی عبدالشکور صاحب مبلغ لا نبیر با نام مولف مورد ۱۵ اکتو بر نگشاید.

Page 378

کے فرائض انجام دے رہے تھے.حضور یکم مٹی شاہ کو لائبیریا سے بذریعہ طیارہ گیمبیا کے لئے روانہ ہوئے.حضور نے اپنے مختصر قیام کے دوران پہلے ہی روز مملکت کے صدر ولیم ایس دی ٹب مین سے ملاقات فرمائی اور جماعت احمدیہ لائبیریا کی طرف سے حضور کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں شہر کے معززین خاصی تعداد میں شامل ہوئے اور حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.اگلے دن ۳۰ ر ا پریل کو بوقت پہر ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.جس میں اسلام اور احمدیت کے درخشندہ مستقبل پرتفصیل سے روشنی ڈالی.ازاں بعد حضور کے اعزاز میں صدر مملکت مسٹر ولیم ٹب مین کی طرف سے ایگزیکیوٹومیشن میں وسیع پیمانے پر پر تکلف عشائیے کا اہتمام ہوا.جس میں وزرائے مملکت، کلیسیا کے بیشپ، بیرونی ممالک کے سفارتی نمائندوں اور دیگر نامور معززین نے شرکت کی.اس موقع پر صدر سب میں نے استقبالیہ ایڈریس پیش کرتے ہوئے اس امر کا خاص طور پر ذکر فرمایا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کا لائبیریا میں ورود مسعود ہمارے لئے بہت عزت افزائی کا موجب ہے حضور نے جو ایا صدر مملکت اور اہل لائبیریا کو دعاؤں سے نوازا کہ اللہ تعالی انہیں خوشیوں اور مسرتوں سے سدا مالا مال رکھے اور اہل ملک کی خوشحالی میں اضافہ ہوتا رہے لیے پریذیڈنٹ ٹب میں نے اس سرکاری ضیافت کے موقع پر یہ اعلان بھی کیا کہ وہ احد میشیم مش لامیرا کو ایک سو پچاس ایکڑ زمین دے رہے ہیں تا حضرت امام جماعت احمدیہ کے ارشاد کے مطابق جماعت احمدیہ سکول اور ہسپتال تعمیر کر سکے.یہ زمین منروویا سے سو میل دور سانوئے SANOYEA حاصل ہوئی.جس پر پہلے مسلم ہائی سکول کی عمارت تعمیر کی گئی جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے.میں له الفضل ۳ و ۵ مئی ۱۹

Page 379

فصل سوم را شروع ء میں مشرقی افریقہ کے امبر امن کی عظیم الشان خدا سے تعلق تاثرات ابی سلمان کی ڈر حاجی علی سینڈا ر ALI SENADA لیڈر چند روز کے دورہ پر متر د ویا آئے.انہوں نے وہاں پہنچنے کے ساتھ ہی ایک پریس کانفرنس بلائی.پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ ان کی پارٹی مشرقی افریقہ میں مسلمانوں کی بہبودی کی خاطر قائم ہوئی ہے.انہوں نے اس وقت تک مختلف ممالک سے ساٹھ سے زیادہ وظائف حاصل کئے ہیں.اور آب مسلمان طلباء کو ان ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بھیجا جارہا ہے مشرقی افریقہ میں مسلمانوں کی حالت بہت پست ہے.اسمبلی میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں.انہوں نے مزید بتایا کہ لائبیریا کی حکومت نے ان کو پانچ وظائف دیئے ہیں.پر یس کا نفرنس کے دوران ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کے ملک میں احمد بہ مشن موجود ہے.اس کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے ، حاجی سینڈا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میں احمدیت کے شدید ترین مخالفین میں سے تھا ، لیکن جب سے کہیں نے دُنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا ہے اور متعدد مقامات پر احمد یہ جماعت کے کام کو دیکھنے کا موقع ملا ہے.مجھے یقین ہوگیا ہے کہ صرف یہی ایک جماعت ہے جو صحیح معنوں میں اسلام کی خدمت کر رہی ہے ؟ (۲) مسلم کانگرس آف لائبیریا کے پریذیڈنٹ اپریل 1977ء کو عید الا ضحیہ کے روز ایک دوست حاجی سانکو با یو صاحب کے ہاں ایک عشائیہ میں دوسرے معززین کے ساتھ دھو تھے.اس موقع پر آپ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا " احمدی میشن عرصہ سے ہمارے ہاں موجود ہے ، ہم نے ان کے مبلغین کی مساعی کا بغور مطالعہ کیا ہے اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ احمدی حقیقی مسلمان ہیں اور ان کے دلوں میں اسلام کی خدمت کا بے پناہ جذبہ موجود ہے...احمد مبلغین کی آمد سے قبل لائبیریا میں مسلمانوں الفضل ۴ ستمبر ۱۹۶۴ و صفحه ۳.

Page 380

کی کوئی آواز نہ تھی لیکن آپ حکومت میں مسلمانوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے حقوق کی نگہبانی کی جاتی ہے." (۳).لبنان کے نامور عالم رئیس الجمعیۃ الخیر یہ الشیخ محمد عدہ نے احمد مسلم مش لائبیریا کی - اسلامی سرگرمیوں سے متاثر ہو کہ مبلغ لا تجبر یا چو ہدری رشید الدین صاحب کو حسب ذیل سند خوشنودی عطا کی :- بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ السلا م عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.إِنَّ الْجَمْعِيَّةَ الْخَيْرِيَّةَ لِلتَّعْلِيمِ وَالإِسْعَافٍ بَيْرُوتَ قَرَّرَتِ هَيْئَةُ الإِدَارِيَّةُ إِسْنَادَ مَنْصَبِ مُسْتَشَاءٍ شَرَبَ لِلجَمعِيَّةِ لِلسَّيَّدِ دَشِيدِ الدِّينِ نَظرَا لِدَعْوَتِكُمُ الْإِسْلَامِيَّةِ فِي بِلَادِ انرِيقِيَا وَغَيْرِهَا مِنَ الْبِلادِ الْإِسْلَامِيَّةِ وَالعَرَبِيَّةِ وَتَفَضَّلوا بِقَبُول الاحترام الشيخ محمد عدد - الرئيس A فی ۶۱۹۷۵/۶/۲۳ - ترجمہ : بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکانه.الجمعية الخيرية للتعليم والاسعاف، بیروت کی مجلس عاملہ نے اس بات کا ریزہ ولیشن پاس کیا ہے کہ مکرم رشید الدین صاحب کو اُن کی افریقہ اور دیگر ممالک اسلامیہ اور عربیہ میں تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں خدمات کی بناء پر جمعیت کے اعزازی مشیر کا عہدہ پیش کیا جائے براہ مہربانی قبول فرمائیں.الرئيس الشيخ محمد عدده (۴).لبنان کے مشہور قاری اور واعظ اشیخ لطفی عام مثمان صاحب نے حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفة المسیح الثالث کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الأخ الْكَرِيمُ السَّيَّدُ نَاصِراً حَمَد دَيْسُ الْحَرَكَةِ الْإِسْلَامِية الاحمدية له الفضل ٣ ستمبر و صفر ٣.

Page 381

۳۶۹ رَبُوه باكستان أحَيِّيْكُمْ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ سَلَامُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَبَرَكَاتُهُ.وَبَعْدُ لَقَدْ سَنَحَتْ فِي الْفُرْصَةُ وَزُرْتُ دَوْلَةٌ مِنْ دُولِ غَرْبِ افْرِيقِيَا وَهِيَ لَا مُبِيرُ يَا ، وَأَثْنَاءَ زِيَارَ فِي الْتَقِيْتُ بِجَمَاعَةِ الْأَحْمَدِيَّةِ وتكرر القَاء وَوَقَفْتُ عَلَى مُدَى تَعَلَّقِيهِمْ بِالْإِسْلَامِ وَتَعَالِيمِهِ مِنْ حَيْثُ الْهَيْئَةِ وَالتَّطبِيقِ مِمَّا بَعَثَ فِي نَفْسِي الْآمِّنُ وَالطَّمَانِيَّةُ بِمَوْتَفِنَا انَّ اللَّهَ حَافِظٌ دِينِهِ فِي كُلِّ زَمَانٍ وَ مَكَانٍ وَكَيْفَ لَا وَهُوَ يَقُولُ فِي مُحْكَمِ التنزيل " إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَ اِنّا لَهُ لَحَافِظُونَ " هذَا وَقَدْ مَنَحَنِي رَئِيسُ الْجَمَاعَةِ الْآخَ دَشِيدُ الدِّينِ بَعْضَ كُتُبِ وَرِسالاتِ الْجَمَاعَةِ فَقَرَأَتُهَا مَرَّةً وَمَرَّةً وَكُلَّمَا انْتَهَيْتُ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ اَعُوْدُ وَاُمَاوِدُ قِرَاتَهُ مَرَّةً أُخْرَى حَتَّى أَشْبَعَ وَهِيَ مِنْ هَذَا التَّبْعِ الصَّافِي الذِي يَبْعَثُ فِي النَّفْسِ الطَّمَانِيَّةَ وَيَسْعُ النُّوْرَ فِي رُوحِي الَّتِي أَظْلَمَهَا تَيَّارُ التَّخَبُّطِ وَالتَّشَاحُنِ وَالتَّبَاعُضِ وَالتَّفْرِقَةِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ خَلَا جَمَاعَتِكُمْ وَزَادَ إِعْجَابِي أَكْثَرَ وَ اكْثَرَ كِتَابُ " نَلْسَفَةِ الْأَصُولِ الإِسْلَامِيَّةِ " لِخَاتَمِ الْخُلَفَاءِ وَ الْمُجَدِينَ حَضْرَةِ أَحْمَدَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود.وَهَذَا الْكِتَابُ عَلَى حَدَاثَةٍ حُجَّةً وَلِلَّهِ صَفَحَا تِهِ لَهُوَ مَجْمَعُ عِلى كُلٌّ كَلِمَةٍ مِنْهُ نَرْتُ أَلْفَ كَلِمَةٍ مِنْ كَلِمَاتِ غَيْرِهِ.وَإِنَّهُ يُسْعِدُ فِي كَمَا وَيُشَرِننِى أَنْ اكْتُبَ لَكُمْ لِمُعَبْرَ لَكُمْ عَنْ شَعُورِى نَحْوَ جَمَاعَتِكُمْ وَ نَشَرَاتٍ جَمَاعَتِكُمْ وَكُتُبِ جَمَاعَتِكُمْ شُعُورًا بالفخرِ وَ الْإِرْتِيَاحِ...كَمَا وَيُشَرِنَنِي أَنْ تَجِنَ فِي الْفُرْصَةَ لِأَذُورَ جَمَاعَتَكُمْ فِي بَاعِسْتَانَ خَاصَّةً وَكُلَّ ارْجَاءِ الدُّنْيَا عَامَّةٌ اضَرَعُ إِلَى اللهِ الْعَلِيُّ الْقَدِيرِ أَنْ يَمُدُّ فِي عُمْرِكُمْ وَيُوَنِتَكُمْ لِلْمَسِيرَةِ عَلى طَرِيقَةِ الْهُدَى وَالتَّقَى وَالنَّقِى وَيَجْعَلَ صَلاحَ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى يَدَيْكُمْ

Page 382

٣٧٠ وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اخوكم - محمد لطفی عامر عثمان شارع محى الدين الخياط.بناية ابراهيم عينانى الملا - بيروت لبنان.ترجمه در بخدمت برادر محترم جناب ناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ اسلامیہ ربوہ پاکستان میں آپ کی خدمت میں السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کا اسلامی تحفہ پیش کرتا ہوں، بعد ازاں گذارش ہے کہ مجھے مغربی افریقہ کے ملک لائبیریا جانے کا موقع ملا.یہاں قیام کے دوران جماعت احمدیہ کے احباب سے ملنے کا اتفاق ہوا.پھر بار بار اُن سے ملاقات ہوتی رہی.اس طرح مجھے اسلام کے ساتھ اُن کی وابستگی اور تعلق کی پختگی کا علم ہوا اور بحیثیت جماعت اسلام کی تعلیم پر اُن کے عمل کا اندازہ ہوا.اس بات نے میرے دل میں ہمارے اس موقف کے بارہ میں امن و اطمینان پیدا کر دیا کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانے اور ہر ملک میں اپنے دین کا خود محافظ ہے.اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ وہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.اس بات کے سمجھ لینے کے بعد احد یہ مشن کے انچارج برادرم رشید الدین صاحب نے مجھے جماعت کی بعض کتب اور لٹریچر دیا.جنہیں میں نے بار بار پڑھا جب بھی میں کسی کتاب کے مطالعہ سے فارغ ہوتا تو دوبارہ اور سہ بارہ اُسے پڑھنا حتی کہ میں اُس کے مطالعہ سے خوب سیر ہو جاتا.یہ کتب ورسائل اُسی چشمہ صافی سے صادر ہوئے ہیں جو دل میں ٹھنڈک و اطمینان پیدا کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی تفرقہ دشمنی کیتہ، بغض اور گمراہی کی لہروں نے میری روح کو تاریک کر دیا تھا.ان کتب نے اپنی تو رانی شعاعوں سے اُسے روشن اور منور کر دیا ہے.کہیں نے یہ بھی دیکھا کہ آپ کی جماعت ان تمرا ہیوں سے پاک ہے ، خاتم الخلفاء والمجددین حضرت احمد سیح موعودہ کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی نے میری پسندیدگی کے جذبات کو عروج پر پہنچا دیا.یہ کتاب اپنے دلائل کی جدت کے ساتھ ساتھ بہت کم صفحات پر مشتمل ہے.یہ ایک علمی خزانہ ہے جس کا ہر ایک لفظ دوسرے لوگوں کے ہزار لفظ کے برا ہی ہے.اس امر کو میں اپنی خوش قسمتی اور عزت و شرف کا موجب سمجھتا ہوں کہ میں آپ کی خدمت میں اس غرض سے خط لکھ رہا ہوں کہ میں جماعت احمدیہ اور اس کے لڑیچر کے متعلق اپنے ان جذبات کا اظہار

Page 383

کر سکوں میں پر مجھے پورا نفر اور کلی اطمینان ہے.ایسے ہی یہ امر بھی میری خوش بختی اور عزت افزائی کا باعث ہو گا کہ مجھے خاص طور پر پاکستان اور عام طور پر دیگر ممالک میں آپ کی جماعت کو دیکھنے کا موقع ہے.یں اللہ تعالیٰ کی مقتدر ہستی کے حضور عاجزانہ دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کی عمر میں برکت دے اور آپ کو ہدایت ، تقولی اور طہارت کے راستوں پر بڑھاتا چلا جائے اور اس اُمت کی ہدایت اور بھلائی کا سامان آپ کے ہاتھوں سرانجام پائے.والسلام محمد لطفی عامر عثمان (۵) لائبیریا میں اپنا عرصہ قیام پورا کرنے کے بعد جب چو ہدری رشید الدین صاحب واپس THE LIBERIAN STAR پاکستان آرہے تھے تو لائبیریا کے سب سے بڑے اخبار نے آپ کی روانگی کا ذکر کیا اور آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا :.RASHID UDDIN SAYS GOODBYE After an unflinching and dedicated service to the upliftment of the Ahmadiyya Mission in Liberia Mr.Rashid Uddin the amiable and indefatigable head of the Mission is saying goodbye.Maulvi Uddin is recalled to Pakistan for another assignment in continuation of his sacred duty to Allah.Speaking to the STAR the Ahmadiyya Bishop whose beautiful contributions to the achievement of the aims and objectives of the Mission include the establishment of schools in Sonoyea Bong County and Monrovia said that eventhough he had to answer to the call of duty he would miss his mumerous friends and the warm hospitality of the people of Liberia not leaving out the concrete co-operation he enjoyed from them to make his mission to Liberia a successful one.Mr.Uddin's efforts in the spreading the word of Islam through the local news media would also not be forgotten; and his contributions towards the educational development of Liberia were so excellent that they won him a commendation from the Minister of Education Dr.Advertus A.Hoff Jr.

Page 384

۳۷۲ In collaboration with his conviction that religion best be taught to our ammoral generation of to day through classroom lec- tures, the Pakistani Missionary targeted his period of assignment on the provision of educational facilities for the Liberian people, who are ardently in need of Islamic religious education.Therefore, under the directive of the Supreme Head of the Ahmadiyya Movement, Hazrat Mirza Nasir Ahmad of Pakistan; he wasted no time in establishing a modern high school in Sanoyea Bong County; updating two elementary schools in Largo Cape Mount County and Monrovia, In community service he spearheaded the Pakistani Forum of Liberia for two years during the encubency of Ambassador S.A.Moid during which time he again used his brilliant officiating ideas to make the Forum an organization of high reputè, He will be severaly missed but his contributions a living Testimony of dedication and devotion will remain.ترجمہ احمد مسلم مشن کی ترقی اور یہودی کے لئے مخلصانہ خدمات بجا لانے کے بعد انتھک اور دلکش شخصیت کے مالک مبلغ انچارج مولوی رشید الدین صاحب اب ہمیں الوداع کہنے والے ہیں.انہیں پاکستان واپس بلایا گیا ہے اور وہ خدمت دین کے تسلسل میں وہاں اپنی نئی ذمہ داری سرانجام دیں گے.یہاں قیام کے دوران احمدیہ مبلغ نے مشن کے اغراض و مقاصد کے حصول میں دیگر کامیابیوں کے علاوہ سانوئے اور منروویا میں سکولوں کے قیام کا شاندار کارنامہ بھی سرانجام دیا.تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں مولوی رشید الدین صاحب کی وہ جدو جہد جو وہ قومی ذرائع ابلاغ کے واسطہ سے کرتے رہے فراموش نہیں کی جاسکے گی.اور لائبیریا کی تعلیم ترقی میں تو آپ کی خدمات ایسی محمد ہیں کہ خود وزیر تعلیم جناب ڈاکٹر نے آپ کو خراج تحسین پیش کیا.اپنے اس یقین کی بناء پر کہ ہمارے آج کے بگڑے ہوئے بچوں کو مذہبی تعلیم سکول کے کمروں میں ADVERTUS A.HOFF ( The Liberian Star Friday, January 21, 1977)

Page 385

۳۷۳ بٹھا کر بہتر طور پر دی جا سکتی ہے.پاکستانی مبلغ نے اپنے عرصہ قیام میں انہیں لوگوں کے لئے جنہیں اسلامی تعلیم حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے تعلیمی سہولتیں مہیا کرنے پر توجہ مرکوز رکھی.اور امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا نا صراحہ کے ارشادات کے مطابق بہت جلد سانوئے SANOYEA کے کے منقظام پر جدید طرز کا ایک ہائی سکول تعمیر کرنے کے علاوہ منر د ویا اور لاگو LARGO میں واقع دو پرائمری سکولوں کی حالت بہتر بنادی ملی خدمات کے سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سفیر پاکستان جناب ایس اے معید کے وقت میں آپ نے دو سال تک " پاکستان فورم آف لائبیریا کی قیادت کی.اس عرصہ میں آپ کی تنظیمی صلاحیتوں کی وجہ سے فورم کو بہت شہرت حاصل ہوئی.ان شاندار خدمات کی وجہ سے جو آپ کے اخلاص اور وفا کی زندہ شہادت ہیں، آپ کی یاد ہمیشہ قائم رہے گی.(4) - عزت مآپ ڈاکٹر ولیم آرٹا لبرٹ رصدر جمہوریہ نامبر یا تنظیم اتحاد افریقہ) نے ۲۸ جنوری 19ء کو مولوی عطاء الکریم صاحب شاہد مع جماعت لائبیریا کے چھ رکنی وفد سے ملاقات کی.مولوی صاحب موصوف نے بتایا کہ وہ تین سالہ قیام کے بعد واپس مرکز میں جا رہے ہیں.اس کے صدر مملکت نے اپنے قلبی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے نئے مشن کے امیرو مبلغ انچا رج کے لئے یہ پیغام دیا کہ : - احمد تیر مشن خدمت دین اور خدمت عوام کو حسب معمول ماری اور اپنی روایات کے پرچم کو سر بلند رکھے اسے - ل الفضل ۳ ماریچ ۶۱۹ ص۳

Page 386

۳۷۴ چوتھا باب تبلیغ احدیت کی خصوصی تحریک سے لیکر احمد پیشن سیکنڈے نیویا کے قیام تک خلافت ثانیہ کا بیالیسواں سال (۹۵) فصل اوّل ۱۹۵۶ء کے تاریخی واقعات کا آغازہ سید نا حضرت تبلیغ احمدیت کی خصوصی تحریک اصل مونو سفر لاہورسے ہوتا ہے، حضور در بنوری کے ۱۵ کو لاہور تشریف گئے اور آٹھ جنوری کو واپس مرکز احمدیت میں تشریف لائے.لاہور میں تین روز قیام کے دوران حضور نے ہر جنوری 19ء کو رتن باغ میں ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جاعت احمدیہ لاہور کو لاہور کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر فریضہ تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی چنانچہ ارشاد فرمایا: دنیا میں رہنے کے لئے ایک دوسرے سے بھائی چارہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بھائی چارہ سنجیدگی سے ہونا چاہیے.اگر کسی سے صرف نہیں مذاق کر لیا جائے اور جب وہ جدا ہو تو اس کا خیال دل سے نکال دیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.اگر اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے سنجیدہ باتیں کی جائیں اور اُن کے اندر صداقت معلوم کرنے اور اس کے نور اور فکر کرنے کی

Page 387

۳۷۵ لگن پیدا کی جائے تو خود بخود ان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوگی کہ وہ تمہاری باتیں سنیں اور جب کبھی تمہارا مبلغ یا امام یہاں آئے تو اس سے بھی ملاقات کریں اور اس کی باتیں سنیں پس یہاں کے احباب کو اپنی اس ذمہ داری کو نہیں بھلانا چاہئیے.لاہور ایک اہم جگہ ہے اور اب اسے اور بھی زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے.کیونکہ مغربی پاکستان کے ایک یونٹ بن جانے پر یہ اس کا دارالخلافہ آیا ہے.اس وقت پاکستان میں کراچی سے اُتر کر لاہور اور ڈھاکہ کو جو پوزیشن حاصل ہے وہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں.اس لئے یہاں کی جماعت کے جو ذمہ دار لوگ ہیں، انہیں خصوصیت سے ان امور کی طرف توجہ کرنی چاہئیے.دنیا میں انسان کی زندگی محدود ایام کی ہے.اگر اس کو بھی ضائع کر دیا جائے تو دنیا میں انسان نے دوبارہ تو نہیں آنا موت کے آنے تک اس نے جو کچھ کر لیا سو کہ لیا.اس کے بعد اعمال کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے اس لئے انسان زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے اور اس مختصر وقت کو کسی صورت میں ضائع نہ کرے پہیں یہاں کے تمام احباب کو چاہیے کہ وہ اس امر کی طرف توجہ کریںاور اپنے دوستوں کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ باتیں کیا کریں اور اس طرز سے باتیں کیا کریں کہ ان میں سچائی معلوم کرنے کی لگن پیدا ہو جائے جب ان میں سچائی معلوم کرنے کی لگن پیدا ہو جائے گی تو جہاں بھی انہیں سچائی نظر آئے گی وہ اسے قبول کو لیں گے.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان کے اندر لگن پیدا ہو جائے کیونکہ جب کسی کے اندر لگن پیدا ہو جاتی ہے تو وہ کسی کے روکنے کی وجہ سے کہ کتا نہیں بلکہ وہ تحقیق حق کے لئے دوڑتا ہے اور خود اس کے متعلق سوالات کرتا ہے.دیکھو مدینہ کے لوگ کلمہ آتے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ انہیں ملنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے اُن میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن پر آپ کی باتوں کا اثر ہوا اور انہوں نے واپس جا کر اپنے شہر والوں سے ان باتوں کا ذکرہ کیا.چنانچہ اگلے سال اور زیادہ تعداد میں مدینہ کے لوگ مکہ آئے وہ مکہ کی گلیوں میں پھرتے رہے، مکہ والوں نے انہیں دھوکا میں ڈالنا چاہا اور حقیقت پر کئی پر دے ڈالے لیکن آخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر ہی لیا.آپ نے ان سے باتیں کیں اور ان باتوں کے نتیجہ میں مدینہ والوں نے دین کو قبول کر لیا لیکن پہلی دفعہ یہی فیصلہ ہوا تھا کہ شہر سے باہر نکل کر کسی علیحدہ جگہ ملاقات کی جائے کیونکہ وہ لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں مکہ والے ان کی مخالفت نہ کریں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے باتیں کہیں اور ان پر حق کھل گیا تو انہوں نے بلند آواز سے نعرہ تکبیر بلند کیا ، رسول کریم

Page 388

٣٤٠..صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اتنی بلند آواز سے نعرہ تکبیر کہا ہے کہ ممکن ہے بلکہ والوں کو پتہ لنگ جائے کہ تم کسی نیت سے یہاں آئے ہو.انہوں نے کہا یا رسول اللہ جب تک ہمیں حقیقت کا صحیح طور پر پتہ نہیں تھا.اس وقت تک ہم بھی اسے چھپانے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب جب کہ حقیقت ہم پر واضح ہو گئی ہے ہم اُسے چھپا نہیں سکتے.پس جب انسان کے اندر صداقت کے معلوم کرنے کی لگن پیدا ہو جاتی ہے تو وہ آپ ہی آپ صداقت معلوم کرتا رہتا ہے مجھے یاد ہے کہ نواب محمد دین صاحب مرحوم نے جب بعیت کی تو اس وقت ده ریاست مالیر کوٹلہ میں ملازم تھے اور کونسل آف سٹیٹ کے ممبر تھے.بعیت کے وقت آپ نے کہا میں یہاں سے ریٹائر ہو جاؤں تو مجھے ملازمت کے لئے کسی اور ریاست میں جانا پڑے گا.اس لئے آپ مجھے ابھی اپنی بیعت مخفی رکھنے کی اجازت دیں.چنانچہ میں نے انہیں بیعت کو مخفی رکھنے کی اجازت دے دی ببعیت کے بعد وہ شملہ پہلے گئے.مجھے بھی ان دنوں چند دنوں کے لئے تبدیلی آپ وہ ہوا کی خاطر شملہ جانے کا موقع ملا نواب صاحب نے مجھ سے کہا آپ روز روز کہاں شملہ آتے ہیں.کہیں اور تو کوئی خدمت نہیں کر سکتا.ہاں اتنا کر سکتا ہوں کہ بڑے بڑے لوگوں کو چائے پر بلا کہ آپ کا ان سے تعارف کرا دوں.چنانچہ انہوں نے ایک دعوت کا انتظام کیا کہیں بھی وہاں چلا گیا.انہوں نے بڑے بڑے آدمی وہاں بلائے ہوئے تھے.یہیں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اعتراض کرے تو میں اس کا جواب دوں کہ نواب صاحب کھڑے ہو گئے اور انہوں نے حاضرین کا شکریہ ادا کرنے کے بعد اس طرح بات شروع کی کہ یہ میری خوشی کی بات ہے کہ امام جماعت احمدیہ یہاں تشریف لائے ہیں جو شخص کسی قوم کا لیڈر ہوتا ہے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیئے وہ ہمیں دین کی باتیں سنائیں گے خواہ ہم مائیں یا نہ مانہیں ان سے ہمیں فائدہ پہنچے گا.اس کے بعد وہ تقریر کرتے ہوئے یکدم جوش میں آگئے اور کہنے لگے اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو مبعوث کیا ہے اور اس نے دعوی کیا ہے کہ میں خدا تعالی کی طرف مامور ہوں.یہ دعوی کوئی معمولی دعوی نہیں.اگر وہ اپنے اس دعوئی میں سچا ہے اور ہم نے اسے قبول نہ کیا تو لازما ہم خدا تعالیٰ کے مجرم ہوں گے اور اس کا عذاب ہم پر آئے گا.اس لئے آپ لوگوں کو سنجیدگی سے اس کے دعوئی پر غور کرنا چاہیے.جب نواب صاحب اپنی تقریر ختم کر کے بیٹھے گئے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے تو اپنی بیعت کو مخفی رکھنے کی اجازت

Page 389

لی تھی اور میں نے آپ کو اجازت دے دی تھی لیکن اس وقت آپ نے خود ہی اسے ظاہر کر دیا ہے.انہوں نے کہا مجھے تقریر کرتے کرتے جوش آگیا تھا.اس لئے میں ضبط نہیں کر سکا.عرض دوستوں کو چاہیے کہ وہ تبلیغ کی طرف توجہ کریں.اور دوسروں تک سنجیدگی سے اپنے خیالات پہنچائیں.مجھے یاد ہے کہ پہلے پہلے جب میں لاہور آیا کرتا تھا تو گئی والی مسجد میں نمازہ ہوتی تھتی ہیں وقت اگلی صف میں جتنے دوست بیٹھتے ہیں اس وقت لاہور میں قریباً اتنے ہی احمدی ہوتے تھے.لیکن اب جمعہ کی نماز میں بعض دفعہ یہاں پندہ پندرہ سو دوست جمع ہو جاتے ہیں.بلکہ ان کی تعداد اس سے بھی بڑھ جاتی ہے.ممکن ہے آج بھی اس قدر لوگ موجود ہوں لیکن کھلی جگہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ معلوم نہ ہوتے ہوں.بہر حال جمعہ کی نمازہ میں اڑھائی اڑھائی سو کی تعداد میں سائیکل ہی ہوتے ہیں.ابھی مجھے کسی نے بتایا ہے کہ پچھلے جمعہ کے موقع پر بارہ موٹریں اور ایک بڑی تعداد میں سائیکلیں ہی سائیکلیں جمع ہوگئی تھیں.مغرض جب گمٹی والی مسجد میں نماز ہوتی تھی اس وقت جماعت کی تعداد بہت تھوڑی تھی لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اس کی تعداد بہت بڑھا دی ہے.اب موجود، جماعت کو خیال کرنا چاہئیے کہ اس وقت پچاس ساٹھ احمدیوں نے اپنی زندگیوں کو سدھارا اور دو سروں تک اپنے خیالات کو سنجیدگی سے پہنچایا.نتیجہ یہ ہوا کہ صرف جمعہ کی نماز میں آنے والے احمدیوں کی تعداد ۵۰ سے بڑھ کر ۱۵۰۰ تک پہنچ گئی.اگر تم بھی ان لوگوں کی طرح اپنی نہ منگیوں کو سدھارتے اور اپنے خیالات سنجیدگی سے دوسروں تک پہنچاتے تو تم پندرہ سو سے پینتالیس ہزار (۴۵,۰۰۰) بن جاتے.لاہور کے شہر کو اللہ تعالٰی نے احمدیت کے ابتدائی زمانہ سے ہی تبلیغ کا مرکزہ بنایا ہے.میں ابھی بھیر ہی تھا کہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام لاہور تشریف لایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ یہاں تشریف لائے.میں بھی ساتھ تھا.مسجد وزیر خاں کے قریب ایک دوست کے ہاں آپ کی دعوت تھی.میری عمر اس وقت بہت چھوٹی تھی.صرف سیر کی وجہ سے میں ساتھ آگیا تھا.دعوت سے فارغ ہو کر جب ہم باہر نکلے تو دہلی دروانہ ہ سے نکلتے وقت اس زمانہ میں دائیں طرف ایک پیپل کا درخت تھا اس درخت کے پاس ہجوم بہت زیادہ تھا.ہمیں دیکھ کر لوگوں نے گالیاں دینی شروع کر دیں.اور بہت شور بلند کیا.جب ہم پیپل کے پاس سے گزرے تو اس وقت جو لوگ جمع تھے اُن میں سے کسی نے کہا کہ تم یہ کہو کہ ہائے ہائے گویا مرزا صاحب فوت ہوگئے ہیں.

Page 390

میں بہت حیران تھا کہ لوگ اتنا شور کیوں کرتے ہیں اور ہمیں کیوں گالیاں دیتے ہیں.مجھے یہ نظارہ خوب یاد ہے کہ اس وقت ایک شخص جو مولوی طرز کا معلوم ہوتا تھا اور منڈا تھا اور اپنا دوسرا ہاتھ ٹنڈ پہ مار کہ ہائے ہائے کی آواز بلند کر رہا تھا.بچپن کی وجہ سے مجھے یہ عجیب تماشا - معلوم ہوتا تھا.اور میں اسے شوق سے دیکھتا تھا.لیکن بعد میں کسی نے بتایا کہ یہ ہجوم حضرت صاحب کی مخالفت کی وجہ سے جمع ہو گیا تھا.اور اپنی اس مخالفت کی وجہ سے آپ کو گالیاں دے رہاتھا گویا کسی وقت وہ زمانہ تھا کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام تشریف لایا کرتے تو آپ کو گالیاں دینے کے لئے لوگ راستوں پر جمع ہو جاتے تھے لیکن اس وقت احمدیوں کا ایمان تازہ تھا.ان میں اخلاص اور جوش پایا جاتا تھا وہ نیچے دل سے باہر نکلے اور انہوں نے تبلیغ کے رستہ میں سا جذبہ دکھایا اور خدا تعالیٰ نے بھی ان کی کوششوں میں برکت دی اور ان کی تعداد کو ہزاروں تک پہنچا دیا.نیلا گنبد کو ہی لے لو.اس وقت اس علاقہ میں بہت سے احمدی آباد ہیں لیکن کیسی زمانہ میں مسنتری محمد موسیٰ صاحب اکیلے آئے تھے.اب اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد میں ہی اتنی برکت دی ہے کہ ان کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے اور پھر انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی ہے.اس طرح منشی محبوب عالم اُن کے کلرک تھے ان کا خاندان بھی احمدی ہو گیا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اِن دونوں کی اولاد اتنی ہے کہ اس کی تعداد لاہور کی پرانی جماعت کی تعداد سے زیادہ ہے تو یاد رکھو کہ نہ صرف اللہ تعالٰی مومنوں کی کوششوں کو ضائع نہیں کرتا.بلکہ وہ ان کی اولادوں کو بھی بڑھاتا ہے بس تم اپنے آپ کو سلسلہ کے لئے مفید وجود بناؤ اور ایسا مفید وجود بناؤ کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دوستوں رشتہ داروں اور ملنے والوں کو ایک سے ہزار کر دے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا فرمائی تھی." ایک سے ہزار ہو دیں.یہ دُعا آپ کی صرف جسمانی اولاد کے متعلق نہیں ہو سکتی کیونکہ جسمانی اولاد ایک سے ہزار بہت کم ہوتی ہے ایک سے ہزارہ روحانی اولاد ہوتی ہے.سو یہ دھا تمہارے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تو فیق دے کہ تم ایک سے ہزار ہو جاؤ لیکن جس طرح لاہور کی جماعت کے سرکردہ احباب کام کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں تو وہ ایک سے دو بھی نہیں ہو سکتے اگر تم ایک سے ہزار ہوتے تو اس وقت لاہور میں جماعت احمدیہ کی تعداد پندرہ لاکھ ہوتی ہے کے روز نامه الفضل ریوه ،۲۸ جنوری ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۳ تا ۵ -

Page 391

۳۷۹ در جنوری ۱۹۵۶ء کو جامعتہ المبیشترین کی مصلح موعود کا جامعہ المیترین میں طرف سے مجاہد بلاد عربیہ مولانا محمد شریف صا حضر حضرت پر معارف خطاب اور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی.** اس با برکت تقریب میں چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب اور بعض دیگر بزرگان سلسلہ کے علاوہ سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے بھی شرکت فرمائی.اور نہایت پر معارف خطاب سے نوازا اور دوران خطاب مولانا محمد شریف صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ : انہوں نے اپنے وطن گھر بار اور عزیز و اقارب سے یہ طویل جدائی خدمت دین کیلئے برداشت کی جو حالات اُن کو پیش آئے ہیں اُن میں سے گزرنے کے لئے ہر ایک کو تیار رہنا چاہئیے.کیونکہ ان چیزوں سے جدائی اختیار کئے بغیر دنیا میں دین کی اشاعت نہیں ہوسکتی.اس موقع پر حضور نے اپنا ایک رڈیا بیان کرتے ہوئے بتا یا کہ جو قوم دنیا میں باہر نکلنے اور نو آبادیاں قائم کرنے کا شدید اشتیاق رکھتی ہیں وہ کبھی تباہ نہیں ہوتی.حضور نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ہم میں یہ سپرٹ قائم رہے گی کہ ہم قدمت دین کی اپنے وطنوں کو خیر باد کہتے میں رضا با نفضا کا نمونہ دکھائیں اور تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کر کے دنیا میں رومانی نو آبادیاں قائم کرتے پچھلے جائیں اس وقت تک خدا کی تائید و نصرت اور اس کی حفاظت ہمارے شامل حال رہے گی اور ہم دنیا میں ترقی کرتے چلے جائیں گے.حضور نے خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا دنیا میں جتنی بھی فاتح قو میں گزری ہیں انہوں نے پہلے اپنے وطنوں کو چھوڑا اس کے بعد ہی انہیں فتوحات نصیب ہوئیں.عربوں نے اپنے وطن کو چھوڑا ، ترکوں نے چھوڑا.یہودیوں نے چھوڑا.آرین نسل کے لوگوں نے چھوڑا اور وہ دور دور ملکوں میں پھیل گئے.اگر وہ اپنے وطنوں کو نہ چھوڑتے تو انہیں فتوحات نصیب نہ ہوئیں اور وہ نئے نئے ملکوں کے وارث نہ بنتے.پس اگر ہمیں بھی خدا کے دین کی اشاعت کے لئے اپنے وطن چھوڑ نے پڑیں تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں.اس موقع پر حضور نے جامعتہ المبشرین کے طلبہ کو خصوصیت سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ایک ہجرت قومی ہوتی ہے اور ایک ہجرت فردی ہوتی ہے.حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم مولوی محمد شریف شاب

Page 392

۳۸۰ مولوی جلال الدین شمس صاحب اور اسی طرح ہمارے دوسرے مبلغوں نے اپنے وطن سے دس دس پندرہ سال مہجوری اختیار کر کے دوسرے ممالک میں دین کی خدمت کا جو فریضہ ادا کیا وہ فردی ہجرت کا ہی ایک نمونہ ہے.ان سب کی مثالیں تمہارے سامنے ہیں ان قربانیوں کے تسلسل کو قائم رکھنا تمہارا کام ہے.اگر قربانیوں کا یہ تسلسل جاری رہے تو پھر فکر کی ضرورت نہیں، کیونکہ ایسی قوم کبھی ضائع نہیں ہو سکتی جو قوم قربانیوں کے تسلسل کو جاری رکھتی ہے یعنی اس میں قربانیوں کا سلسلہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے تو پھر اس قوم کا ہر فرد بجائے خود ایک امت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور اس کو ایک طرح سے دائمی زندگی حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ افراد مر سکتے ہیں.انہیں نہیں مر ہیں.انہیں معنوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا ہے اِن إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّة کہ ابراہیم ایک امت تھا.یہی وجہ ہے کہ ابراہیم کا نام آج تک زندہ ہے اور ہم ان کے نام پر درود بھیجتے پہلے آرہے ہیں.اس لئے میں نے وقف کی تحریک کے متعلق تمہیں کہا تھا کہ تم خدمت دین کے لئے زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کو اپنی نسلوں میں جاری رکھوادر اس بات کا عزم کردو کہ تمہارے خاندانوں میں یہ تحریک چلتی پھلی جائے گی.اور ہر نسل میں ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد خدمت دین کے لئے ضرور آگے آتا رہے گا.اس طرح تم میں سے ہر شخص ایک امت کی شکل اختیار کرے گا.اور اس کا نام چلتا چلا جائے گا کیونکہ امت کی عمر کو دائمی قسم کی زندگی کہتے ہیں.نہیں یہ عہد کر لو کہ تم اپنے اندر ہی نہیں بلکہ اپنی نسلوں میں بھی اس روح کو زندہ رکھو گے اللہ تعالیٰ نے جہاں حضرت ابراہیم کو ان کی قربانی کی وجہ سے امت قرار دیا ہے.وہاں ساتھ ہی ہم کو ان کی پیروی کرتے ہوئے اسی اسوہ پر عمل کرنے کی تلقین کی ہے جیسا کہ فرمایا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى.تقریر کے آخر میں حضور نے فرمایا اسی طرح جہاں تم خود اپنے وطنوں کو خیر باد کہو وہاں باہر جا کر روحانی نو آبادی قائم کرنے کے اشتیاق کا پورا پورا مظاہرہ کرو جہاں تمہارا اپنا وجود ایک امت کی طرح ہو وہاں تم ایک دو کو نہیں بلکہ امت کی امت کو اسلام اور محمد رسول اله صلی الہ علی رستم کی غلامی میں داخل کرو.باہر جا کہ ایک یا دو کو احمدی بنانا کافی نہیں ہے بلکہ چاہئیے کہ کروڑوں کروڑ انسان اور ملک کے ملک تمہارے ذریعہ قبول حق کی سعادت حاصل کریں.

Page 393

حضور نے فرمایا پس تم میں سے ہر شخص کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ایک امت بن جائے وہ خود بھی خدمت دین کی روح کو زندہ رکھے اور اپنی نسلوں کو بھی اس کے لئے تیار کرے تا دین کے ایسے خادموں کی ایک امت کے بعد دوسری امت پیدا ہوتی چلی جائے یہاں تک کہ وہ زمانہ آجائے کہ دنیا میں ہر طرف اسلام ہی اسلام جو اگر اس عزم کے ساتھ تم دین کی خدمت کروگے اور کرتے چلے جاؤ گے تو خدا یقیناً تمہاری مدد کرے گا اور کامیابی ضرور تمہارے قدم چھوٹے گی.اس پر اثر خطاب کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی اور یہ با برکت تقریب اختتام پذیر ہوئی لیے احباب جماعت کے لئے ضروری اعلان سید نا حضت العلی الوجود رضی اشرف نے المصلح اللہ عنہ | سلسلہ احمدیہ کے مرکزی اداروں کو پہلے سے زیادہ فعال بنانے کے لئے جنوری شاء میں ایک اہم اصلاحی قدم یہ اٹھایا کہ احباب جماعت کو ہدایت فرمائی کہ وہ ان اداروں کی عملی نگرانی کے لئے خطوط کا سلسلہ جاری کریں.اس تعلق میں الفضل ۲۰ جنوری ء کے صفحہ ا پر حضور کے علم مبارک سے حسب ذیل اعلان شائع ہوا جس سے ان اداروں اور جماعت دونوں میں ایک نئی حرکت اور بیداری پیدا ہو گئی.صدر انجمین احمدیہ اور تحریک جدید کے اداروں کے کام کی رفتار کو تیز کر نے کے لئے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ احباب جماعت ان اداروں کی عملی نگرانی کے لئے خطوط کا سلسلہ جاری کریں.ایسے تمام خطوط میں نظارتوں اور وکالتوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی جائے اور اگر وہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں سستی کرتی ہوں یا خلیفہ وقت اور مجلس شورٹی کے فیصلہ جات پر عمل نہ کرتی ہوں تو انہیں اس طرف توجہ دلائی جائے.تاہم ایسے تمام خطوط پرائیویٹ سیکرٹری کے نام بھجوائے جایا کریں جو وقتاً فوقتا الفضل میں بھی چھپتے رہیں گے.لیکن چونکہ ایسی کوئی چیز شائع نہیں کی جاسکتی جس سے فتنہ پیدا ہو اس لئے دفتر کو اختیار ہو گا کہ جس حصہ کو چاہے کاٹ دے.اگر اس مضمون کے متعلق پھر بھی کا رروائی نہ ہو تو صحیح طریق یہ ہو گا کہ مجلس شورٹی میں اس جبات کا جو نمائندہ ہو وہ اسے توجہ دلائے کہ وہ مجلس شوری میں مناسب ننگ میں سوال کرے.بہر حال روزنامه الفضل ربوه ۱۷ جنوری ۱۹۵۶ و صفحه من

Page 394

۳۸۲ اصلاح تو کی جائے مگر فساد کا وہ عام طریقہ جو دوسری مجالس میں سوال وجواب کے رنگ میں اختیار کیا جاتا ہے.اس کی اجازت نہ ہوگی یا سے شروع جنوری ۱۹۵۷ء کا واقعہ ہے کہ حضور امریکن قوم سے تعلق ایک پر شوکت بیان کی خدمت میں الا انہیں کسان کے یہ بعضی احمدیوں کو ریل میں سفر کرتے ہوئے بعض آدمی جنہوں نے اُن پر متعدد سوالات کئے جن کی وجہ سے انہیں وہم ہوا کہ وہ سی آئی ڈی کے آدمی ہیں.حضور نے ۲۰ جنوری ۹۵۶اہ کے خطہ معبر میں اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ جد " جہاں تک گورنمنٹ کی مدد کا سوال ہے اخبارات میں پاکستان کے بعض وزراء کی تقریریں چھپی ہیں کہ حکومت امریکہ نے حکومت پاکستان کو اتنی مدد دی ہے.ہمیں مدد دینے کے متعلق زرتو کبھی گورنمنٹ نے اعلان کیا ہے اور نہ گورنمنٹ کے رسل در سائل کے قرائع نے کبھی اعلان کیا ہے کہ گورنمنٹ نے اس قدر مدد احمدیوں کو دی ہے.لیکن جہاں تک پاکستان کو مدد ملنے کا سوال ہے.اس کے متعلق خود پاکستان کے وزراء نے اعلانات کئے ہیں جو اخبارات میں بھی چھپ چکے ہیں بلکہ گورنر جنرل نے بھی کہا ہے کہ حکومت امریکہ نے حکومت پاکستان کو اس قدر مدد دی ہے.پس جہاں تک گورنمنٹ امریکہ کا تعلق ہے وہ ہم سے ایسی ہی جلا ہے جیسے دوسرے ممالک کی غیر مسلم حکومتیں جدا ہیں اور جہاں تک امریکن لوگوں کا سوال ہے اُن کی اکثریت اب بھی عیسائی ہے مگر اک خدا تعالیٰ کے فضل سے ان میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو چکی ہے جو اسلام لے آئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ روز بروز بڑھ رہی ہے.اس کے اندر اسلام کی خدمت کا بڑا جوش پایا جاتا ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ترقی کرتے کرتے جب اس کی تعداد ایک خاص حد تک پہنچے جائے گی تو ہزاروں اور لاکھوں ڈالہ کا سوال ہی پیدا نہ ہو گا بلکہ ان کا چندہ اربوں تک پہنچ بھائے گا جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے امریکہ کے انچارج مبلغ خلیل احمد صاحب ناصر نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ ہماری جماعت کا چندہ چالیس ہزار ڈالہ سالانہ تک پہنچ گیا ہے.یہ رقم بہت بڑی ہے لیکن ہم ه روزنامه الفضل ربوہ مورخہ ۲۰ جنوری ۱۹۵۶ ه صفحه را

Page 395

اسے کچھ بھی نہیں سمجھتے بلکہ ہم تو امید رکھتے ہیں کہ وہاں کے مبلغ ہمیں یہ اطلاع دیں گے کہ امریکہ کی جماعت کا چندہ چالیس ہزار ڈالر سالانہ نہیں چالیس لاکھ ڈالہ سالانہ نہیں ، چالیس کروڑ ڈالر سالانہ نہیں ، چالی ، ارب ڈالر سالانہ نہیں بلکہ چالیس کھرب سالانہ ہے.یعنی پاکستان کی موجودہ سالانہ آمد سے بھی دس ہزار گنا زیادہ ہے.اس وقت ہم سمجھیں گے امریکہ آج اسلام کے قریب ہوا ہے.جب امریکہ اپنا کلیجہ نکال کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردے گا.تب ہم سمجھیں گے کہ امریکہ آج اسلام لایا ہے تھوڑے بہت روپے کو ہم کچھ نہیں سمجھتے.یہ روپیہ کیا ہے، امریکہ کے لحاظ سے تو یہ اس کے ہاتھ کی میں ہے بلکہ اس کے ہاتھ کی میل بھی نہیں.جس دن امریکہ اربوں ارب روپیہ بطور چندہ اسلام کی اشاعت کے لئے دے گا.جس دن امریکہ میں لاکھوں مسجدیں بن جائیں گی.جس دن امریکہ میں لاکھوں میناروں پر اذان دی جائے گی.جس دن امریکہ میں لاکھوں امام مساجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھایا کریں گے.اس دن ہم سمجھیں گے کہ آج امریکہ اپنی جگہ سے ہلا ہے.پس دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ان پر کوئی شخص اس قسم کا سوال کرے تو اسے نہیں کہ یہ جواب دیا کہ ہیں کہ میاں تم کون ہو پوچھنے والے یہ تو ایسی بات ہے جس کا گورنمنٹ کو بھی علم ہے بسائے منی آڈر اس کی معرفت آتے ہیں اور بینکوں پر اس کا تسلط ہے معلوم ہوتا ہے تمہیں کوئی دھوکا لگ گیا ہے یا تم سے کسی افسر نے مذاق کیا ہے کہ احمدیوں کو امریکہ سے امداد ملتی ہے ورنہ اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ یہ بات تمہارے ذریعہ دریافت کرتا وہ تو بڑی آسانی سے ڈاک خانوں سے اس بات کے متعلق معلومات حاصل کر سکتا تھا یا بینکوں سے اس بات کا علم لے سکتا تھا.بھلا گورنمنٹ سے یہ باتیں چھپ سکتی ہیں.ڈاک کا محکمہ گورنمنٹ کے ماتحت ہے اس لئے ڈاک خانوں کی معرفت جو روپیہ ملتا ہے گورنمنٹ کے افسران کو اس کا علم ہوتا ہے.ہاں بعض اوقات کو ہمنشیں مصلحنا کہ دیا کرتی ہیں کہ ہمیں فلاں بات کے متعلق پتہ نہیں.حالانکہ انہیں اس کا علم ہوتا ہے.پس ایسی باتیں بعض لوگ برسبیل تذکرہ کر دیا کرتے ہیں.اس لئے یہ خیال کر لینا کہ ایسی باتیں کرنے والا ضرور گورنمنٹ کا جاسوس ہے فضول بات ہے.اگر کوئی شخص اس قسم کی باتیں کرتا ہے تو مومن کو چاہیے کہ بجائے اس کے وہ دہم کرے وہ گورنمنٹ کا آدمی ہے وہ خدا تعالی سے استغفار کرے، ہاں اگر وہ مرکز کو خیر دیا

Page 396

۳۸۴ ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں.دراصل یہ باتیں ایسی ہیں کہ اِن کے لئے گورنمنٹ کو سی آئی.ڈی مقرر کرنے کی ضرورت نہیں اگر کسی کو کسی بیرونی ملک کی معرفت روپیہ آتا ہے تو حکومت کو اس کا علم ا ہوتا ہے.کیونکہ وہ روپیہ اسی کے محکمہ کے ذریعہ آتا ہے پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ عقلمند قوم امریکہ ہے اور اس کا حکومتی مذہب عیسائیت ہے آپ وہ کون پاگل حکومت ہوگی ہو اپنے مذہب کے خلاف دوسروں کو روپیہ دے.ہم تو حکومت امریکہ کے مذہب عیسائیت کے خلاف لڑتے ہیں اور ان کے عقائد کو باطل قرار دیتے ہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ جیسے حضرت مین علیہ السلام کو یہود نے کہا تمہیں " بعل " سکھاتا ہے.(بعل ایک بت کا نام تھا جس سے یہودی لوگ عقیدت رکھتے تھے ، تو مسیح علیہ السلام نے جواب دیا کہ اے نادانو ! میں بعل کے خلاف تعلیم دیتا ہوں پھر وہ مجھے اپنے خلاف باتیں کیوں سکھاتا ہے کیا کوئی دوسرے کو اپنے مذہب کے خلاف باتیں سکھاتا ہے پھر تم میرے متعلق یہ خیال کیسے کر سکتے ہو کہ بعد مجھے سکھاتا ہے جب کہ میں اس کے خلاف تعلیم دیتا ہوں اب دیکھو یہ کتنی موٹی دلیل ہے.اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں مگر کیا امریکہ کی عقل ماری گئی ہے کہ وہ ہمیں روپیہ دے حالانکہ ہم اس کے مذہب کے خلاف تبلیغ کر رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ہم اس کے مذہب کو توڑ کر رکھ دیں گے وہ دن دور نہیں جب احمدیت کے ذریعہ امریکہ میں عیسائیت پاش پاش ہو جائے گی اور اسلام قائم ہو جائے گا.وہ دن دور نہیں جب مسیح کو امریکہ کے تخت سے اتار دیا جائے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تخت پر بیٹھا دیا جائے گا جب وہ زمانہ آجائے گا حکومت امریکہ بے شک ہمیں امداد دے گی اور نہ صرف ہمیں حکومت امریکہ امداد دے گی بلکہ وہ ہمارے آگے ہاتھ جوڑے گی کہ خدا کے لئے ہم سے مدد لو اور تمہیں ثواب سے محروم نہ رکھو مگر آج وہ ہمیں مدد نہیں دے سکتی ہے ۲۳ جنوری ۱۹۵۷ء کو وکالت تبشیر مبلغین اسلامکے اعزاز میں ایک خصوصی تقریب کی طرف سے ایک خصوصی تقریب معقد کی سے کی گئی جس میں مبلغ فلسطین مکرم مولا نا محمد شریف صاحب اور مبلغ انڈونیشیا مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب له روزنامه الفضل ربوه مورخه در فروری ۱۹۵۶ء صفحه ۴۰۳۴.

Page 397

۳۸۵ کو اُن کی مراجعت پر خوش آمدید کہا گیا اور مکرم سید کمال یوسف صاحب کو جو اعلائے کلمتہ الحق کے سلسلہ میں سکنڈے نیویا جا رہے تھے ، الوداعی ایڈریس پیش کیا گیا.اس تقریب میں دیگر بزرگان سلسلہ کے علاوہ حضرت مصلح موعودہؓ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی شرکت فرمائی.استقبال والوداع کے مشترکہ ایڈریس کے بعد جو مکرم نائب وکیل التبشیر بشارت احمد بشریات نے پڑھا.حضور نے مبلغین السلام کو نہایت قیمتی ہدایات سے نوازا.اس ضمن میں حضور نے قرآن مجید کے روسی اور فرانسیسی تراجم جلد شائع کرنے کی اہمیت پر زور دینے کے علاوہ یورپ کے نو مسلموں کی صحیح معنوں میں تربیت کرنے اور ان میں قربانی کی روح اور خدمت دین کا جذبہ ابھارنے کی طرف توجہ دلائی نیز فرمایا کہ ہمارے مبلغین کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ بیرونی ممالک میں ان کے ذریعہ جو لوگ اسلام قبول کریں وہ محض نام کے ہی مسلمان نہ ہوں بلکہ وہ اسلام کا درد رکھنے والے اور جماعتی چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہوں.جب تک اُن میں بھی قربانی کی روح ترقی نہیں کرے گی اس وقت تک نہ خود ان کی اپنی زندگیوں میں حقیقی روحانی انقلاب رونما ہو گا.اور نہ وہ تبلیغ اسلام کو وسیع سے وسیع تر کرنے میں محمد ثابت ہو سکیں گے لیے کا فصل دوم ب حضرت مسیح موعود کے پڑھتے اور حضور کے حضرت مصلح موعود نے خطہ محمد فروده ۲۰ جنوری ۱۹۵۷ء کے ذریعہ پر زور تحریک مقدس تبرکات کی حفاظت کے لئے تحریک زمانی که احمدیوں کو حضر میں موجود ایک کام کہ علیہ سلام کی کتابیں بغور پڑھنی چاہئیں.نیز صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ حضور کے کپڑوں کو آئندہ ه روز نامه الفضل ربوه مورخه ۲۴ جنوری ۱۵۶ صفحه مراد

Page 398

نسلوں کیلئے محفوظ کرنے کا اہتمام کرے.اس کے علاوہ اس خیال کا بھی اظہارہ فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخی انگوٹھی جماعت کو دے دوں.اس کے لئے حضور نے یہ تجویز بھی فرمائی کہ اس نگوٹھی کا کاغذ پر عکس لے لیا جائے اور اسے زیادہ تعداد میں چھپوا لیا جائے پھر نگینہ والی انگوٹھیاں تیار کی جائیں.لیکن نگینہ لگانے سے پہلے گڑھے میں اس عکس کو دیا دیا جائے.اس طرح ان انگوٹھیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کی انگوٹھی سے براہِ راست تعلق ہو جائے گا.گویا اکیس اللهُ بِكَافٍ عبده تگ بھی ہوگا اور وہ عکس بھی نگ کے نیچے دبایا ہوا ہو گا.پھر اس قسم کی نگ انگوٹھیاں مختلف ممال میں بھیج دی جائیں مثلاً ایک انگوٹی امریکہ میں رہے.ایک انگلینڈ میں رہے ایک سوئٹزر لینڈ میں رہے.اسی طرح ایک ایک انگوٹھی دوسرے ممالک میں بھیج دی جائے تا اس طرح ہر رنگ میں حضر میں موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تبرک محفوظ رہے." ۲۹ جنوری ۱۹۵۶ء کو گورنمنٹ کالج مرکز احمدیت دیکھنے کے لئے ) ربوہ میں آئے.طلباء نے مرکزی دفاتر ، خلافت لائبہیر میری اور تعلیمی ادارے بھی دیکھے اور حضرت مصلح موعود کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا.حضور نے تمام طلباء کو شرف مصافحہ بخشا اور ان کی درخواست پر انہیں اپنے قیمتی نصائح سے بھی مستفید فرمایا : اس موقع پر حضور نے جو تقریر فرمائی اس کا ایک اہم حصہ درج ذیل ہے :- اس زمانہ میں ایک مسلمان کے لئے سب سے بڑی نصیحت یہی ہو سکتی ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کرے.اس وقت ہر شخص اپنے اپنے کام میں لگا ہوا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین کی طرف بہت کم لوگوں کو تو جہ ہے.سلسلہ احمدیہ کے باقی حضرت مرز اعلام احمد صاحب علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ع ہر کے در کار خود با دین احمد کاز نیست یعنی دنیا میں ہر شخص اپنے اپنے کام میں مصروف ہے لیکن محمدصلی الہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین روزنامه الفضل ربوه مورخه ، فروری ۹۵ ایو صفحه.6

Page 399

۴۸۷ کی طرف کسی کو توجہ نہیں.اس دُنیا میں دنیا کی محبت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ دنیا میں سوائے اس کے اور کوئی چیز ہی نظر نہیں آتی.اگر انسان کی طبیعت ترقی کی طرف مائل ہوتی ہے تو وہ صرف یہی سوچتا ہے کہ وہ کوئی نوکری کرلے ، اپنی تجارت کو بڑھائے ، یا زراعت میں ترقی کرے، لیکن وہ کبھی نہیں سوچتا کہ وہ کوشش کرے کہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی محبت ترقی کر جائے.اس وقت ہمارے ملک میں محض رسم کے طور پر یہ خوشی پیدا ہو چکا ہے کہ ملک میں اسلامی حکومت قائم ہونی چاہئیے.حالانکہ سب سے بڑا ملک انسان کا اپنا قلب اور اس کا دماغ ہے.مگران میں اسلامی حکومت قائم نہیں کی جاتی.گویا با ہر تو ہم اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں.مگر دل اور دماغ میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی طرف ہماری توجہ نہیں.ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ کراچی میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے.ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ سابق پنجاب میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے.ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ سابق بر حد میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے، ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ سابق بلوچستان میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے.ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ایسٹ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے دل ودماغ میں بھی کہ جس پر ہمارا اپنا قبضہ ہے.اسلامی حکومت قائم ہو کیونکہ اگر ہم یہ کہی کہ ہمیں اپنے دل و دماغ میں اسلامی حکومت قائم کرنی چاہیئے.اور پھر با وجود اس کے کہ ایسا کرنا ہمارے امکان میں بھی ہے.ہم اس میں کامیاب نہ ہوں تو دوسرا شخص اعتراض کرے گا کہ اسے ملک میں تو.اسلامی حکومت قائم کرنے کا فکر ہے.لیکن ابھی تک یہ اپنے دل اور دماغ میں بھی اسلامی حکومت قائم نہیں کر سکا.اس اعتراض سے بچنے کے لئے اپنے دل و دماغ کو چھوڑ کر ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کا شور مچایا جا رہا ہے.اگر ہم باہر نکل کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کوئی شخص تاجر ہے کوئی زمیندار کوئی صنعت کار ہے، کوئی پروفیسر ہے، کوئی طالب علم ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں " كُلُّكُمْ رَاعٍ وَحُدُكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ تَعِيَّتِهِ ، یعنی تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور جو شخص بھی اس کے تابع ہے اس کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا کہ آیا اُس نے اسے اسلام کی تعلیم پر چلایا ہے یا نہیں ؟ مثلاً باپ ہے.قیامت کے دن اس سے سوال کیا

Page 400

جائے گا کہ آیا اُس نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو اسلام کی تعلیم پر چلایا ہے یا نہیں.خاوند ہے اس سے بیوی کے متعلق سوال کیا جائے گا.افسر ہے اس سے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا.دوست ہے اس سے اس کے دوستوں کے متعلق سوال کیا جائے گا.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جوں جوں تعلیم کا رواج بڑھ رہا ہے دین کی طرف رغبت کم ہو رہی ہے.تعلیم کو رواج دینا تو ضروری ام تھا.رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے اس امر کو مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے مثلاً آپ نے فرمایا ہے کہ اگر تمہیں چین میں بھی علم سیکھنے کے لئے جانا پڑے تو جاؤ.اور جب رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نےمسلمانوں کے لئے تعلیم کو اس قدر ضروری قرار دیا ہے تو ہمیں چاہیے تھا کہ اس قدر ضروری چیز کو اس طرح ضبط میں لاتے کہ ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دین کے بھی خادم ہوتے لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب بچے ہوش سنبھالتے ہیں تو وہ فلمی گانے تو یاد کر لیتے ہیں.لیکن اگر انہیں کہا جائے کہ قرآن کی کوئی سورۃ سناؤ تو وہ انہیں یاد نہیں ہو گی.مگر اس کے باوجود لوگ اسلامی حکومت کا قیام چاہتے ہیں.گویا وہ زور تو اس بات پر لگاتے ہیں کہ کسی طرح شیطانی حکومت کا قیام ہو.لیکن منہ سے اسلامی حکومت کے قیام کے خواہش مند ہوتے ہیں.دنیا میں جو کچھ کسی کے پاس ہوتا ہے.وہی دوسرے کو دیتا ہے.میرے پاس فلمی گا تے تو ہیں نہیں.میں ایک مذہبی آدمی ہوں میرے پاس صرف قرآن اور حدیث ہے.اس لئے میری نصیحت یہی ہے کہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر قرآن کریم اور حدیث کے مطالعہ میں بھی صرف کردو.اگر میری اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آپ روزانہ کچھ وقت قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ میں لگائیں گے اور اس کے احکام پرعمل کریں گے تو آپ لوگوں کے گھروں میں خود بخود اسلامی حکومت قائم ہو جا..گی.اور جب آپ لوگوں کے گھروں میں اسلامی حکومت کا قیام ہو جائے گا تو مگ میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے آپ کو زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی.ایک دفعہ میں کراچی گیا تو وہاں ایک.موقع پر مجھ سے کہا گیا کہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے متعلق اپنا نظریہ بیان کروں.اس وقت نہیں تے یہی کہا تھا کہ جب میں مسلمان ہوں تو میں اسلامی حکومت کیوں نہ مانگوں گا.اگر میں اسلامی حکومت نہ چاہتا تو ہجرت کر کے پاکستان کیوں آتا میرا پاکستان میں آنا ہی بتا تا ہے کہ نہیں اسلامی حکومت کے قیام کا خواہش مند تھا لیکن کیا اسلامی حکومت میرے بنانے سے بنتی ہے دنیا میں ہم کوئی عمارت بناتے ہیں.

Page 401

۳۸۹ تو اس کے کمرے آسمان سے گھڑے گھڑائے نہیں آ جاتے بلکہ ہم اینٹیں لیتے ہیں.اور انہیں خاص طریق سے نیچے اوپر رکھ دیتے ہیں.جس سے ایک شکل بن جاتی ہے.اور ہم کہتے ہیں یہ بر آمدہ ہے.پھر ہم اینٹوں کو ایک اور طریق سے نیچے اوپر رکھتے ہیں جس سے ایک اور شکل بن جاتی ہے اور ہم کہتے ہیں یہ کمرہ ہے.اسی طرح ہم کونے پر ایک کمرہ بناتے ہیں.اور کہتے ہیں.یہ بیٹھیک ہے.ایک کمرہ بناتے ہیں اس میں کچھ طاقچے لگا دیتے ہیں.اور کہتے ہیں یہ غسل خانہ ہے.پھر اگر ہم عمارت پر کچھی اینٹیں لگاتے ہیں تو مکان کچھ بنتا ہے.اگر پکی اینٹیں لگاتے ہیں تو مکان پیکا بنتا ہے.حکومت بھی ایک عمارت ہے جس کی اینٹیں افراد ہیں.حکومت کی عمارت افراد کے ساتھ ہی بنتی ہے.کیا تم نے کبھی جنگوں اور صحراؤں میں بھی کوئی حکومت دیکھی ہے حکومت شہروں میں ہوتی ہے، اس لئے حکومت نام ہے مجموعہ افراد کا.جب افراد مل جل کر کام کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں یہاں حکومت قائم ہے، اور اگر تمام افراد مسلمان ہوں تو ان سے بنی ہوئی حکومت غیر مسلم کیسے ہو سکتی ہے مسلمان افرا سے جو حکومت بنے گی کوئی اسے غیر مسلم بنانے کے لئے کتنا زور لگائے کہ اس عمارت کو کچی عمارت ثابت کرے وہ کچی عمارت ہی کہلائے گی.اسی طرح کچی اینٹوں سے جو عمارت بنے گی کوئی کتنا زور لگائے کہ اسے پکی عمارت ثابت کرے وہ کچھی عمارت میں کہلائے گی.اسی طرح اگر افراد مسلمان ہوں گے تو ان سے جو حکومت بنے گی چاہے اس کا نام کچھ رکھ لو وہ بہر حال اسلامی حکومت ہی ہوگی، جیب حکومت کے بنانے والے لا الہ اللہ اللہ کہنے والے ہوں گے تو وہ حکومت غیر اسلامی کسی طرح ہو سکتی ہے.پس اسلامی حکومت کا قائم کرنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے.اسلامی حکومت کسی اور کے بنانے سے نہیں نیتی.اگر ہم خود مسلمان بن جائیں گے تو حکومت بھی اسلامی بن جائے گی.بہن.دوستان میں دیکھ لو وہ مونہہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہم نے غیر دینی حکومت بنائی ہے.لیکن ہے وہ ہند و حکومت.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ہندووں کی اکثریت ہے.اگر ان کے کہنے کے مطابق واقعی لادینی حکومت ہے تو کیا وجہ ہے کہ مہندوستان کے کسی حصہ میں جب بھی مارے جاتے ہیں تو مسلمان ہی مارے جاتے ہیں.کیا تم نے کبھی پڑھا ہے کہ بہار اور بنگال میں فسادات ہوئے اور اتنے ہندو اور سکھ مارے گئے، تم جب بھی پڑھوگے کہ ہندوستان میں فلاں جگہ فسادات کے نتیجہ میں کچھ لوگ مارے گئے تو وہ لاز کا مسلمان ہی گے.عرض چاہے وہ اُسے لادینی حکومت ہی کہیں لیکن چونکہ وہاں ہندووں کی کثرت ہے.اس لئے

Page 402

٣٩٠ ان کی وجہ سے جو حکومت بنی ہے وہ ہندو حکومت ہی ہے.اسی طرح اگر ہم بھی حقیقی مسلمان بن جائیں تو چونکہ یہاں ہماری اکثریت ہے.اس لئے چاہے کوئی کتنا زور لگائے یہاں اسلامی حکومت ہی بنے گی.پس اگر سب افراد صحیح معنوں میں مسلمان ہوں تو ان سے بنی ہوئی حکومت ہر حال اسلامی ہوگی چاہے اس کا کوئی نام رکھ لیا جائے.اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.لیکن یہ ضرور ہے کہ اسلامی کہانے سے ہندو پڑتے ہیں.حالانکہ چاہے وہ اپنی حکومت کو لا دینی کہتے ہیں لیکن ہے وہ بھی دینی، اگر وہ لا دینی حکومت ہوتی تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہر دفعہ فسادات میں مسلمان ہی کیوں مارے جاتے ؟ کبھی نہ کبھی یہ خبر بھی آتی کہ فلاں جگہ اتنے ہندو مارے گئے ہیں.لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا.لیکن وہ کہتے یہی ہیں کہ ہماری حکومت کا دینی ہے.لیکن چونکہ وہاں مہندؤوں کی اکثریت پائی جاتی ہے.اس لئے اس اکثریت کی وجہ سے ملک میں جو حکومت قائم ہوئی ہے وہ ہندو حکومت ہی ہے.اس لئے جو ابتلا بھی آتا ہے مسلمان پر ہی آتا ہے.بہر حال اسلامی حکومت کے قیام کا اصل طریق یہ ہے کہ پاکستانی مسلمان دل سے سلمان ہو جائیں.اس کے نتیجہ میں جو حکومت قائم ہوگی اسے آپ کوئی نام دے دیں وہ یقینا اسلامی حکومت ہوگی کیونکہ اس کے بنانے والے مسلمان ہوں گے.اور مسلمان میں حکومت کو بنائیں گے وہ کسی صورت میں غیر اسلامی نہیں ہو سکتی ہے ایک بہائی بیرسٹر کا.سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اوران کراچی سے ایک دوست رپورٹ بھائی کی ماں بہتا ہوں حضرت مصلح موعود کا حقیقت افروز جواب کا ایک جلسہ ہوا ہے جس میں ایک ہائی بریسٹ نے چودھری محمدعلی صاحب وزیر اعظم پاکستان سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اُن سے CONSTITUTION بنائی وہ اسلامی نہیں کیونکہ اسلام تو فیل کہا کہ آپ نے جو کانسٹی ٹیوشن نے ہو چکا ہے.ہاں آپ نے بہائی تعلیم کا خلاصہ پیش کر دیا ہے.اس پر چودھری محمد علی صاحب نے کہا کہ له روزنامه الفضل ربوہ مورخہ ۱۰ اکتوبر شاء صفحه ۴۷۳ مسلمان طلباء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نہ کی قیمتی نصائح.فرموده ۲۹ جنوری ۶۱۹۵۶ نے آئین.

Page 403

۳۹۱ ہم نے تو اسلامی دستور بنانے کی کوشش کی تھی.یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکے.حضرت مصلح موعود نے دار فروری شاء کے خطبہ جمعہ میں اس واقعہ کا ذکر فرمایا اور نہایت پر شوکت انداز میں بہائی پروپیگنڈا کی تردید کی اور ثابت کیا کہ قرآن مجید کبھی قبیل نہیں ہوسکتا اور بہائیوں کو چیلنج کیا کہ وہ چند ایسے احکام پیش کر دکھائیں جو نا قابل عمل ہوں.اور بہائیت کی کوئی مفید اور اعلی تعلیم بتائیں جو پہلے سے کمال جامعیت کے ساتھ قرآن مجید میں موجود نہ ہو.چنانچہ فرمایا : چونکہ میں چو ہدری محمد علی صاحب وزیر اعظم پاکستان کو بچپن سے جانتا ہوں اور ان کے کیر کڑ سے پوری طرح واقف ہوں اس لئے میں یہ اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جہاں تک قرآن کریم اور اسلام کا سوال ہے وہ ایک نہایت پُر جوش اور اخلاص رکھنے والے شخص ہیں.اس لئے یکی ان کے متعلق یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں کہ قرآن کریم فیل ہو چکا ہے.اس لئے ہمیں اسلامی دستور بنانے کے سلسلے میں اس سے راہ نمائی حاصل نہیں ہوئی اور ہم نے بہائیت کی تعلیم کا خلاصہ پیش کر دیا ہے.اگر کوئی ان کے متعلق یہ بات کہتا ہے تو میں اس سے کہوں گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو.قرآن کریم کہتا ہے کهہ اگر تم سے کوئی شخص کسی کے ذاتی کیر کڑ کے خلاف کوئی بات کہے تو تم اس کا فورا انکار کر دو.اور یہ بات چونکہ چوہدری محمد علی صاحب کے کیر کڑ کے خلاف ہے اس لئے میں کہوں گا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے جہاں تک قرآن کریم کے فیل ہو جانے کا سوال ہے.اگر قرآن کریم فیل ہو گیا ہوتا تو پاکستانی لیڈر اسلامی دستور بنانے کی کیوں کوشش کرتے.ہاں جواب کا آخری حصہ ایسا ہے کہ اس کے متعلق خیال کیا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے چوہدری محمد علی صاحب نے بات ٹالنے کے لئے کہ دیا ہو کہ ہم میں حصد تک کام کر سکے ہیں اسے قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے.اس سے زیادہ ہم کیا کر سکتے تھے پھر یہ کہنا بھی بالکل غلط ہے کہ اسلامی دستور کا جو خاکہ پیش کیا گیا ہے وہ بہائیت کی تعلیم کا نچوڑ ہے بہائیت کی ایک تعلیم یہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک زبان ہونی چاہیے مگر عجیب بات یہ ہے کہ بہاء اللہ کے دعوی سے پہلے ایک زبان جاری کرنے کی تحریک پیدا ہو چکی تھی.اور اس وقت اسپرانٹو زبان بنائی گئی تھی جس کے متعلق تجویز کیا گیا تھا کہ اسے ہر ملک میں پھیلایا جائے.بہاء اللہ نے اس تحریک سے متاثر ہو کر اپنی کتابوں میں یہ لکھ دیا ہے کہ ساری دنیا میں ایک ہی مہربان ہونی چاہئیے SPRANTO

Page 404

۳۹۲ اور بھائی اس پر بڑا فخر کرتے ہیں کہ دیکھو بہاء اللہ نے ساری دنیا میں ایک زبان جاری کرنے کی تحریک کی تھی.حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے.ایک زبان کے رواج کا خیال بہاء اللہ سے پہلے ہی موجود تھا.اور اسی خیال سے متاثر ہو کہ بہاء اللہ نے اپنی کتابوں میں شامل کر لیا.مگر اب پاکستان کے دستور کو دیکھو تو اس میں بنگالی اور اردو دونوں کو سرکاری زبانیں قرار دے دیا گیا ہے.پھر یہ بہائیت کا نچوڑ کیسے ہو گیا.بہائیت تو یہ کہتی ہے کہ ساری دنیا میں ایک ہی زبان ہونی چاہیئے اور یہاں صرف پاکستان کے ملک میں دو سرکاری زبا نہیں قرار دے دی گئی ہیں.اب میں دستور میں دو زبانیں سر کاری قرار دے دی گئی ہوں وہ بہائیت کی تعلیم کا نچوڑ کیسے ہوا.اس طرح اور بہت سی باتیں ہیں جو بہائیت کی تعلیم کے خلاف ہیں.پس اسلام فیل کہاں ہوا.ہم تو بہائیوں سے آج تک یہ پوچھتے رہے ہیں کہ وہ بتائیں اسلام کہاں فیل ہوا ہے.مگر وہ اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دے سکے ۱۹۲۲ء میں جب میں انگلستان گیا تو وہاں میرے پاس ایک امریکن بینکر آیا ہو بہائی تھا.اس کے ساتھ اس کی بیوی کے علاوہ دو عورتیں اور بھی تھیں، جن میں ایک انگریز تھی.اور دوسری ایرانی انگریز بہائی عورت بہت منتقصب تھی.اس نے مجھے کہا کہ آپ بہائی کیوں نہیں ہو جاتے.میں نے اسے جواب دیا کہ جب کوئی انسان کسی خاص منزل پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے لئے اس منزل سے آگے جانے کے لئے کوئی وجہ ہونی چاہیئے.نہیں نے قرآن کریم کا بغور مطالعہ کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ سچا ہے اور جب مجھ پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ قرآن کریم سچا ہے اور قیامت تک اس کی تعلیم جاری رہے گی تو مجھے اسے چھوڑ کر کسی اور طرف جانے کی کیا ضرورت ہے.وہ کہنے لگی جب پہلی تمام تعلیمیں بدل چکی ہیں تو قرآن کریم کیوں نہیں بدل سکتا.میں نے اسے کہا کہ محض انس خیال سے کہ پہلی تمام تعلیمی بدل چکی ہیں، قرآن کریم کے متعلق بھی یہ بات مان لینا کہ وہ بدل سکتا ہے درست نہیں.ہمیں حقیقت پر بحث کرنی چاہیئے.اس کے بعد اگر ہم کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں تو اس پر ٹیل کہنا چاہیے.آپ اسلام کی پندرہ میں باتیں مجھے ایسی بتا دیں جن پر اب عمل کرنا نا ممکن ہو یا نہایت کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم میں سے پندرہ ہمیں باتیں ایسی پیش کریں جو قرآن کریم میں موجود نہ ہوں.اگر آپ ایسا کریں تو میں بہائیت کی تعلیم کو مان لوں گا.ورنہ اسے چھوڑ کر کسی اور تعلیم کے مانے کی ضرورت ہی کیا ہے وہ کہنے لگی بہائیت کہتی ہے جھوٹ نہ بولو.میں نے کہا دُنیا کا کون سا مذہب ہے جو کہتا

Page 405

۳۹۳ H ہے جھوٹ بولو سر مذہب میں کہتا ہے کہ سچ بولو اور یہی قرآن کریم نے کہا ہے پھر اس نے کہا بہاء اللہ نے کہا ہے کہ عورتوں کے لئے تعلیم ضروری ہے.میں نے کہا یہ تعلیم بھی قرآن کریم میں موجود ہے مثلاً قرآن کریم کہتا ہے کہ عوز میں بھی جنت میں جائیں گی اور جنت میں وہ اس وقت جاسکتی ہیں جب وہ نمازیں پڑھیں گی، روزے رکھیں گی، زکواۃ دیں گی ، حج کریں گی اور یہ کام بغیر تعلیم کے کیسے ہو سکتے ہیں.اگر انہیں یہ پتہ ہی نہیں ہو گا کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے.عبادات کیا ہیں.اخلاق فاضلہ کیا ہیں تو وہ جنت میں کیسے جائیں گی.اور یہ تمام باتیں تعلیم کے ساتھ وابستہ ہیں.اس پر اس عورت نے کہا دیکھنے بہائیت کہتی ہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کرنی چاہئیں لیکن قرآن کریم تعد ان دوات کی تعلیم دیتا ہے تو بہت بڑا ظلم ہے.نہیں نے کہا کہ یہ بحث کہ ایک بیوی پر کفایت کرنا بہت ہے یاضرورت کے وقت ایک سے زیادہ بیویاں کرنا مناسب ہے بہت لمبی ہے.میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ظلم ہے تو خود بہاء اللہ نے ایک سے زائد بیویاں کیوں رکھیں.اس عورت نے کہا کہ قرآن کریم تو چار بیویوں کی اجازت دیتا ہے.میں نے کہا اصل اعتراض ایک سے زائد بیویاں کرنے پر ہے.تین یا چار بیویاں کرنے پر نہیں.اگر اصل اعتراض ایک سے زائد بیویاں کرنے پر ہے تو جس طرح یہ اعتراض چار بیویوں پر وارد ہوتا ہے اسی طرح دو اور تین پر بھی وارد ہوتا ہے.اس پر اس انگریز عورت نے ایرانی عورت سے دریافت کیا کہ بہاء اللہ کی کتب میں اس کے متعلق کیا لکھا ہے ؟ پہلے تو اس نے حقیقت بیان کرنے سے گریز کیا لیکن بعد میں اصرار کرنے پر بتایا کہ یہ درست ہے کہ بہاء اللہ کی ایک سے زائد بیویاں تھیں مگر ساتھ ہی کہنے لگی کہ بہاء اللہ نے کہا تھا کہ میری تعلیم کی تشریح عباس کرے گا وہی درست ہوگی.اور عباس نے یہی کہا ہے کہ مرد ایک سے زائد بیویاں نہ کرے.میں نے کہا جب بہاء اللہ نے عملی طور پر تعدد ازدواج کو تسلیم کیا ہے.اور اس نے خود ایک سے زیادہ بیویاں کی ہیں تو آب کون شخص یہ بات مان سکتا ہے کہ بہائیت کی تعلیم یہ ہے کہ مرد ایک سے زیادہ بیویاں نہ کرے آخر وہ کہنے لگی اصل بات یہ ہے کہ اس نے دوسری شادی دعوئی سے پہلے کی تھی.دھوئی کے بعد اس نے کوئی شادی نہیں کی.میں نے کہا بہائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ امام کو بچپن سے ہی غیب کا علم حاصل ہوتا ہے اس عقیدہ کے ماتحت جب بہاء اللہ کو بچپن ہی سے پتہ تھا کہ تعدد ازدوا نا جائز ہو جائے گا تو اس نے ایک سے زائد بیویاں کیوں کہیں.اس پر وہ پھر گھبرا گئی اور مختلف بہانے

Page 406

۳۹۴ بنا کر اس نے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی لیکن جب میں نے مجبور کیا تو اس نے کیا دھوئی کے بعد بہاء اللہ نے اپنی ایک بیوی کو بہن قرار دے دیا تھا.میں نے کہا کہ جب اسے بچپن سے غیب کا علم تھا اور وہ جانتا تھا کہ یہ چیز نا جائز ہونے والی ہے تو اُس نے یہ کھیل کھیلا کیوں.آخر اس تماشا کی ضرورت کیا تھی.پھر تمہارا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اس نے اپنی ایک بیوی کو بہن قرار دے دیا تھا.کیونکہ اگر اس نے اپنی ایک بیوی کو بہن قرار دے دیا تھا تو اس بہن کے ہاں بہاء اللہ سے اولاد کیوں ہوئی محمد علی جو بہاء اللہ کا دوسرا نا ئب تھا.اس کی دوسری بیوی ہی سے تھا.میں نے کہا تم محمد علی ہی سے پوچھ لو کیا وہ دوسری بیوی سے نہیں، اس وقت وہ زندہ تھا.اور میں نے اس عورت کو بتایا تھا کہ میں انگلستان آتا ہوا اسے مل کر آیا ہوں.اس پر اس عورت نے کہا ہاں آپ کی بات درست ہے کہ محمد علی دوسری بیوی سے ہی پیدا ہوا تھا.اور دعوئی کے بعد پیدا ہوا تھا لیکن پھر بھی یہ بات قابل اعتراض نہیں کیونکہ وہ دوسری بیوی سے شادی دعوئی سے قبل کر چکے تھے.میں نے کہا اگر دھوئی کے بعد بھی اس کے ہاں اولاد ہوئی ہے تو وہ ہیں تو نہ ہوئی.امریکن عورت زیادہ معقول تھی بیری اس گفتگو پر وہ کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی کہ اگر یہ بات ہے تو پھر میں مسلمان ہوں.بہائی نہیں ہوں.بفرض قرآن کریم کے متعلق یہ کہنا کہ وہ فیل ہو گیا ہے ایک بالکل جھوٹا دعوئی ہے.ان کا یہ دعولی تب سچا سمجھا جا سکتا تھا جب بہائی لوگ اس میں سے پندرہ نہیں باتیں ایسی نکال کر پیش کرتے جن پر عمل نہ ہو سکتا یا بہائیت کی تعلیم میں سے پندرہ نہیں باتیں ایسی دکھاتے جو قرآن کریم میں موجود نہ ہو ئیں.اور اس کی تعلیم سے بہتر ہوتیں یا بہاء اللہ کے دعوئی کے بعد کوئی حکومت ایسی قائم ہوتی جو بہائیت کی تعلیم پر عمل کرتی مگر حالت یہ ہے کہ جس قرآن کے متعلق بہائی لوگ کہتے ہیں کہ وہ فیل ہو چکا ہے اس کی تعلیم پر گل کرنے والوں کو تو چند سال کے بعد ہی حکومت مل گئی تھی اور پھر انہوں نے سینکڑوں سال تک دنیا پر حکمرانی کی اور بہائیوں کو ابھی تک اتنی توفیق بھی نہیں ملی کہ وہ اپنا بیت العدل ہی بنا سکیں.جس طرح ہمارے ہاں بیت المال ہے.بہائیوں کے ہاں بیت العدل ہوتا ہے.انہوں نے مقامی طور پر تو بیت العدل بنایا ہے لیکن وہ ابھی تک عالمی بیت العدل کا قیام عمل میں نہیں لا سکے اور اب وہ علی الاعلان اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ فرہ ابھی تک عالمی بیت العدل نہیں بنا سکے پھر قرآن کریم کہاں فیل ہوا.قرآن کریم کی تعلیم اپیل کرنے والوں

Page 407

۳۹۵ نے نہ تو صرف ماضی میں سینکڑوں سال تک حکومت کی ہے بلکہ اب بھی پاکستان نے اسلامی دستور مرتب کر لیا ہے.پس قرآن کریم نہ فیل ہوا ہے نہ آئندہ کبھی فیل ہو گا، بلکہ یہ قیامت تک قبیل نہیں ہوگا.زمین بدل سکتی ہے آسمان بدل سکتا ہے.ایک قوم کی جگہ دوسری قوم آسکتی ہے.ایک حکومت مٹے تو اس کی جگہ دوسری حکومت آسکتی ہے ، زبانیں مٹ سکتی ہیں لیکن قرآن کریم کبھی فیل نہیں ہو سکتا.یہ خدا تعالیٰ کا نازل کردہ قانون ہے جو ہمیشہ قائم رہے گا اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ فیل ہو گیا ہے وہ جھوٹ ہوتا ہے اور ہم اب بھی اسے چیلنج کرتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کے چند ایسے احکام پیش کرے جو نا قابل عمل ہوں یا وہ کچھ باتمیں ایسی پیش کرے جو نہایت مفید اور اعلی درجہ کی تعلیمات پرمشتمل ہوں اور بہائیت میں ہوں ، قرآن کریم میں نہ ہوں ے : حضرت مصلح موعود کا پیغامہ جماعت احدثر ضلع دیر و نازیخان کا سالانہ جلسه جماعت احمد ڈیرہ غازیخان کے نام ۱۶ - ۱۷ - ۱۸ر فروری شیر کومنعقد ہوا.اس " موقع پر سید نا حضرت مصلح موعود کا حسب ذیل روح پرور پیغام مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر امیر جماعت نے افتتاحی اجلاس میں بھی پڑھ کر سنایا اور جلسے کے دوسرے ایام میں بھی ہر روز یہ مبارک پیغام تقاریر شروع ہونے سے قبل پڑھا جاتا رہا.یہ پیغام حضور انور نے فیض محمد خالصاحب گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازیخان کی درخواست پر رقم فرمایا تھا.جس نے سامعین کے قلب و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا اور ان کے اندر اخلاص اور ایمان کی ایک نئی روح پھونکنے کا موجب بنا :- " ایک طالب علم نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں ڈیرہ غازیخان کے طلبہ کے لیئے کوئی پیغام بھیجوں.کیونکہ اس نیک خواہش کو ٹھکرانا تقویٰ کے خلاف ہے.میں مندرجہ ذیل پیغام اس جلسہ کے لئے بھجواتا ہوں " " اے حاضرین جلسہ ! سب سے پہلے تو میں آپ کو وہ پیغام پہنچاتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم کے ساتھ پہنچایا اور میں پہنچانے کا حکم نے لے روز نامه المفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۵۶ء صفحه ۰۵۱۳

Page 408

ديا يعنى السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - اللہ تعالٰی کی سلامتیان آپ پر نازل ہوں اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کی آپ پر بارش ہو.آپ لوگ ڈیرہ غازیخان کے رہنے والے ہیں یعنی ایسے شہر کے جس کے رہنے والا غازی بھی ہے اور خان بھی.یعنی ایک طرف تو بڑا بہادر بھی ہے اور دو سری طرف اس کی بہادری اس کے اپنے نفس کے لئے شریح نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے خرچ ہوتی ہے اور وہ غازی ہے.سو سب سے بہترین پیغام وہی ہے جو آپ کا ضلع یا آپ کا شہر دے رہا ہے ہیں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ میں سے ہر شخص خان بھی بنے اور غازی بھی ہے مگر دیوی غازی نہ بہنے لٹھ لے کر اپنے ہمسایوں کے گرد نہ پھرتا رہے، بلکہ قرآنی حکم کے مطابق کہ جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كبيرًا (الفرقات : ۵۳ ) قرآن کے ذریعہ ساری دنیا سے عمل کروائے تا کہ آپ کا ضلع بچے معنوں میں ڈیرہ غازی خان ہو جائے • مین.طلب تعلیم الاسلم ہائی سکول ربوہ سے فروری شاد و کوتعلیم الاسلام ہائی سکول میں طلباء جماعت دہم کے لئے ایک الوداعی دعوتِ حضرت مصلح موعود کا خطاب عصرانہ کا انعقاد عمل میں آیا.اس تقریب میں حضرت مصلح موعود نے بھی شرکت فرمائی اور طلباء اور اساتذہ کو اپنی نندیں ہدایات سے بھی نوازا چنانچہ فرمایا: ا " اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں دریسی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف دستکاریوں کے سکھانے کا بھی انتظام ہو تو اس سے یقیناً یہ رجحان ترقی کر سکتا ہے مثلاً ہمارے اس اسکول میں بوہارا تو کھانا کام سکھایا جائے تو ہمارے بہت سے بچے سکول سے تاریخ ہو کہ ان لائنوں میں ترقی کر سکیں گے.اسی طرح اگر ایک زمیندارہ کلاس اس میں ہو جس میں بتایا جائے کہ کون سے وقت کونسی فصل اچھی ہوتی ہے مختلف فصلوں کے ہل چلانے اور پانی دینے کا کیا طریق ہے روزنامه الفضل ربوده ۲ مارچ ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۳۰

Page 409

۳۹۷ " اچھا بیج استعمال کرنے اور مناسب موقع پر کھاد دینے سے پیداوار میں کتنا اضافہ ہو جاتا ہے اس طرح کی ابتدائی باتیں اگر زمیندار بچوں کو سکول میں ہی بتا دی جائیں تو اس سے یقینا وہ بڑے ہو کر بہت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور جماعت کے زمینداروں کی پیداوا کہیں سے کہیں پہن سکتیہے.زرعی ترقی کی اہمیت حضور نے یورپ کے مختلف ممالک کی فی ایکٹر پیداوار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ہمارے احمدی زمیندار محنت سے کام کریں اور زرعی ترقی کے لئے نئے نئے تجربات سے فائدہ اُٹھائیں تو ان کی آمدنیاں کئی گنا بڑھ سکتی ہیں اور اگر وہ اپنی پیداوار کا معیارہ یورپ کی کم سے کم پیداوار تک بھی لے جائیں تو جماعت کا چندہ بآسانی ساڑھے تین کروڈ تک پہنچ سکتا ہے اور ہم ایک اسکول چھوڑ کٹی مزید اسکول اور کالج قائم کر سکتے ہیں.حضور نے فرمایا ہماری جماعت کے کام دو حقوں میں منقسم ہیں.ایک کام ہے اپنی آمد نیوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا، یہ کام ہماری ذاتی ہمت اور سعی سے تعلق رکھتا ہے اور موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ جماعت نے پوری ہمت سے یہ کام نہیں کیا اور اس میں ترقی کی ابھی کافی گنجائش ہے دوسرا کام ہے دین کی خدمت کے لئے چندہ دینا بہ کام دل سے تعلق رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور اس کام میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں نمایاں کامیابی عطا فرمائی ہے.پس جو کام ہمارے اختیار میں تھا اس کے کرنے میں ہم نے کوتاہی کی ہے لیکن جو کام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں تھا وہ اُس نے کر دیا ہے اور ایسے انگ میں کر دیا ہے کہ دنیا ہماری جماعت کی مالی قربانی کو دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے.سہارے پاکستان کے احمدی جس طرح پیٹ کاٹ کاٹ کہ دین کے لئے چندہ دیتے ہیں اس کی فی الواقع کوئی مثال نہیں مل سکتی.حالانکہ یورپ کے مقابلے میں ان کی آمدنیاں بہت محدد ہیں.اگر پاکستان کا معیار زندگی بھی یورپ اور امریکہ جتنا بلند ہو اور پاکستانی احمدی اپنی موجودہ شرح کے مطابق ہی چندہ دیں تو بھی ہما را چندہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے پاکستان کی موجودہ سالانہ آمدنی کے لگ بھگ پہنچ سکتا ہے اور ہم تعلیمی اور رفاہی کاموں میں بیسیوں گنا زیادہ حصہ لے سکتے ہیں.

Page 410

۳۹۸ حضور نے فرمایا ہمارے نوجوانوں میں بی اے.میں بی اے.ایم اے کرنے کا بہت شوق.ں ہے وہ خواہ فیل ہی ہوتے رہیں پھر بھی کالج میں جانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکنیکل لائنوں کی طرف جانے کو پسند نہیں کیا جاتا.حالانکہ ان لا نوں میں ملازمتوں کی نسبت ترقی کرنے اور روپیہ کمانے کے بہت زیادہ امکانات ہیں حضور نے کئی ایک مثالیں دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ کس طرح بعض دستکاروں نے نہایت معمولی اور محدود پیمانے پر کام شروع کیا اور پھر ترقی کرتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ گئے.حضور نے فرمایا پس دو باتیں ایسی ہیں جنہیں اگر ہمارے سکولوں میں رائج کیا جائے تو ہماری آئندہ نسلوں میں ملازمتوں کی طرف جاتے اور دندکاریوں سے نفرت کا رحجان بدلا جا سکتا ہے.ایک تو یہ کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دستکاری کا کوئی کام ضرور سکھایا جائے مثلاً لوہار کا کام ہے یا زمیندارہ کا کام ہے.جس کے لئے سکول سے ملحق ایک چھوٹا سا قطعہ زرعی فارم کے طور پر مخصوص کیا جا سکتا ہے جس میں عملی طور پر زراعتی ترقی کی ابتدائی باتیں سکھائی جائینگی.دوسری بات یہ ہے کہ اسکول کے ہر بچے کو کہونڈری کا کچھ کام سکھایا جائے.اس کے لئے اگر مفتے میں صرف دو گھنٹے بھی مخصوص کر دیئے جائیں تو بھی بچے اپنی تعلیم میں عروج کئے بغیر معمول علاج معالجہ کرنے پر قادر ہو جائیں گے اور یہ چیز ایسی ہے کہ جس کی از حد ضرورت ہے.ملک میں ڈاکٹروں کی بہت کمی ہے اس لئے کمیونڈری کا کام کرنے والے ملک کی بڑی خدمت کر سکتے ہیں.اور ہزاروں بلکہ لاکھوں کما سکتے ہیں اور عملاً کہا بھی رہے ہیں.پس میرے نزدیک یہ دو باتیں ایسی ہیں جو اگر ہمارے سکولوں میں رائج ہو جائیں تو ان سے موجودہ ذہنیت کو بدلا جا سکتا ہے.اور نوجوانوں کے قلوب میں مختلف مہروں اور پیشیوں کو سیکھنے کا شوق اور ولولہ پیدا کیا جا سکتا ہے جس کی بدولت عملی زندگی میں ان کے لئے آمدنی پیدا کرنے اور معیار زندگی کو بلند کرتے کے لئے نئے نئے راستے کھلیں گے اور اس طرح جماعت کی مالی حالت بھی زیادہ مستحکم ہو سکے گی اور جماعت اسلام کی ترقی اور دین کی خدمت کے سلسلے میں اپنی سعی کو تیز سے تیز تر کر سکے گئی ہے ه روزنامه الفضل ریوه ۲۳ فروری ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۳ ، ۴۷ -

Page 411

۳۹۹ ۲۰ فضل عمر ہسپتال اور فقر مال فضا اللہ رکز کا سید نا حضرت مصلح موعود نے ہر فروری شاد کو یوم مصلح موعود کی مبارک تقریب کے موقع پر فضیل عمر ہسپتال اور دفتر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا سنگ بنیاد سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا.حضور انور نماز عصر کے بعد ۴ بجے کے قریب ہسپتال کی مجوزہ عمارت کے مقام پہ بذریعہ کار تشریف لے گئے.صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور عملہ ہسپتال کے دیگر ارکان نے استقبال کیا.حضور نے تین اینٹیں بنیاد میں رکھیں.درمیانی اینٹ جو قادیان دار الامان سے آئی تھی سب سے پہلے اُسی کو حضور نے بنیاد میں رکھا.جونہی حضور نے یہ پہلی مبارک اینٹ سنگ بنیاد کے طور پر رکھی ، ایک بکرا بطور صدقہ ذبح کیا گیا.جس کے بعد حضور نے ایک پُر سوز اجتماعی دعا کرائی.بعد ازاں حضور نہ اُس جگہ تشریف لے گئے جو مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے صدر دفتر کی تعمیر کے لئے مخصوص کی گئی تھی.یہاں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احد صاحب نائب صدر مجلس انصار الله مرکزیہ خالد احمدیت مولانا ابو العطاء صاحب قائد عمومی اور مکرم چو ہدری ظہور احمد صاب قائد مال نے حضور کا استقبال کیا.موٹر کار سے اُترنے کے بعد حضور نائب صدر اور قائد عمومی کے ہمراہ اُس جگہ تشریف لائے جہاں سنگ بنیاد رکھنا مقصود تھا.حضور نے اپنے دست مبارک سے نچ اینٹیں رکھیں اور پھر ایک کرسی پر رونق افروز ہوگئے تاکہ وہ تمام احباب بھی پہنچ جائیں جو فضل عمر ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شریک ہوئے تھے.یہ مخلصین اگرچہ اس دوسری تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لئے دیوانہ وار دوڑے پہلے آرہے تھے تاہم حضور نے اجتماعی دعا کرانے سے پہلے کچھ دیر انتظار فرمایا.اس دوران میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دفتر کا نفستہ حضور انور کی خدمت میں پیش کیا، حضور نے نقسنہ ملاحظہ فرمایا اور ضروری ہدایات دینے کے بعد دوبارہ سنگ بنیاد کی جگہ پر تشریف لائے اور پر سوز اجتماعی دعا کہ ائی.ان ہر دو مبارک تقاریب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، ربوہ میں مقیم اصحاب حضرت مسیح موعود صدر انجمن احمدیہ کے ناظر صاحبان تحریک جدید کے و کلا حضرات اور اہل ربوہ نے کثر تعداد میں شرکت کی ہے.ه روز نامہ الفضل ۲۳ فروری ۱۹۵۷ ص۵۶۱

Page 412

فت انصارالله مرکز ید کی عمارت کی تعمیل ان انتہائی تقاریب کے چند روز بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نائب صدر انصار الله مرکزیہ نے روز نامہ الفضل ۲ مارچ شراء کے پرچہ میں دفتر مرکزیہ انصار اللہ مرکزیہ کی تکمیل کے لئے مخلصین جماعت کو پُر زور تحریک فرمائی کہ لاکھوں کی جماعت میں سے نہیں صرف دو سو ایسے مخیر دوستوں کی ضرورت ہے.جو ایک ایک سو روپیہ بطور عطیہ دینے کے لئے تیار ہوں.چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا کہ : مجلس انصار الله مرکز یہ کے دفتر کا سنگ بنیاد ۲۰ فروری کو یوم مصلح موعود کی مبارک تقریب پرستید نا حضرت مصلح موعود کے مقدس ہاتھوں سے ربوہ کی سرزمین میں رکھ دیا گیا.یہ پہلا مبارک قدم ہے جو انصار اللہ کے سرگرم اراکین نے اللہ تعالٰی کی مدد اور اس کی نصرت و تائید پر کامل یقین رکھتے ہوئے اس کے حضور عاجزانہ دعاؤں اور التجاؤں کے ساتھ اٹھایا ہے.مجھے یقین ہے کہ انصار اللہ جو اپنے عزائم کی پختگی اور اپنے ارادوں کی بلندی میں نوجوانوں کے رامتنا اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک آدم کی حیثیت رکھتے ہیں.اپنی پوری توجہ کے ساتھ اس عمارت کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہر قسم کی قربانی سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور اپنی فعال حیثیت کا ایک نمایاں ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیں گے مجلس انصار اللہ کے گذشتہ سالانہ اجتماع میں تمام نمائندگان نے متفقہ مشورہ کے ساتھ دفتر کی عمارت کو مکمل کرنے کے لئے ایک روپیہ چندہ ہر نمبر کے لئے لازمی قرار دیا تھا.تمام مجالس ہائے انصار اللہ کا اولین فرض ہے کہ وہ اس چندہ کی ادائیگی میں بغیر کسی پس و پیش کے فوری طور پر حصہ لیں اور ایک مہینہ کے اندر اندر اپنے ہر فرد سے اس چندہ کو وصول کرکے دفتر مرکزیہ کو اطلاع دیں مگر ظاہر ہے کہ ایک روپیہ سے اس عمارت کے اخراجات پورے نہیں ہو سکتے.اور اگر اس قلیل رقم پر اکتفا کی جائے تو یہ عمارت کہیں برسوں میں پایہ تکمیل تک پہنچے گی اور اتنی مدت تک انتظار نہیں کیا جا سکتا.سو اس کے لئے میں دو سو ایسے مخلصین کو پکارتا ہوں جو اس عمارت کی تکمیل کے لئے صرف ایک ایک سو روپیہ بطور عطیہ پیش کریں اور بغیر کسی التواء کے فوری طور پر پیش کریں.مغربی پاکستان میں اس وقت دس ڈویژن ہیں اور ہر ڈویژن متعدد اضلاع

Page 413

ام پر مشتمل ہے.اگر ہر ڈویژن میں سے میں ایسے فدائی کھڑے ہو جائیں جو ایک ایک سو روپیہ دینے کے لئے تیار ہوں تو چند دنوں میں ہی یہ رقم بڑی آسانی کے ساتھ پوری ہو سکتی ہے.میں پشاور ، راولپنڈی ، جہلم ، گھیرات ، لاہور ،سیالکوٹ ، ملتان ، منٹگمری ، لائل پور، حیدرآباد کوئٹہ اور کراچی کے انصار کو خصوصیت کے ساتھ مخاطب کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ میری س آواز پر اپنی شاندار روایات کے مطابق لبیک کہیں گے اور اس عمارت کو اتنی سرعت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا دیں گے کہ دوسروں کے لئے ان کا یہ نمونہ مشعل راہ کی حیثیت رکھے گا.یا د رکھیں کہ زما نہ بڑی سرعت کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہے.اس دورمیں شکست گام کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.زندہ جماعتوں کے افراد اپنی قومی خصوصیات کو برقرار رکھنے کے لئے انتہائی جد و جہد سے کام لیا کرتے ہیں.آخر اپنے منتہی کو حاصل کرکے رہتے ہیں انصاراللہ کا مرکزی دفتر تمام انصار اللہ کے لئے ایک دماغ کی حیثیت رکھنا ہے جس طرح انسانی جسم اسی وقت تک مفید اور کار آمد.....کام کر سکتا ہے.جب تک اس کا دماغ کے ساتھ انصال رہتا ہے.اس طرح انصار اللہ بھی عملی رنگ میں اس وقت تک ایک زندہ اور کا نہ آمد وجود رہیں گئے.جب تک ان کا اپنے مرکز کے ساتھ تعلق رہے گا.پس مرکزی دفتر کی عمارت کو پایہ تکمیل تک پہنچا نا خود انصار اللہ کے قیام کے لئے بھی ضروری ہے.یہ درست ہے کہ ہم نے گذشتہ عرصہ میں اپنے وقت کا کچھ ضیاع بھی کیا ہے.اور ہم نے اپنے قیمتی اوقات سے صحیح رنگ میں فائدہ نہیں اٹھا یا مگر بیداری کا تقاضا ہے کہ اب ہم اپنے قدم کو ایسا تیز تر کر دیں کہ نہ صرف گذشتہ کو تاہیوں کا پورے طور پر ازالہ ہو جائے.بلکہ آنحمدہ قومی دور میں انصار اللہ کی جد وجہد ایک امتیازی حق حاصل کرے.میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ وہ کون سے مخلص دوست ہیں جو اس غرض کے لئے صرف ایک ایک سو روپیہ دینے کے لئے تیار ہوں، میں ایسے مخلصین کو آواز دیتا ہوں میں ہی نہیں لے ساہیوال.کہ فیصل آباد -

Page 414

انصار اللہ کا دفتر مرکز یہ ربوہ سے انہیں آواز دے رہا ہے کہ آؤ اور میری بنیادوں کو اونچا کر و.آؤ اور مجھے اپنے ہمعصروں میں سرخرو ہونے کا موقع دور اے ابراہیم ثانی کے پرندو ! تمہارا نشیمن تیار ہو رہا ہے.اس نسیمین کے لئے تنکے جہیا کر نا تمہارا کام ہے.تمہیں خد نے قربانی اور ایثار کی دولت سے نوازا ہے تمہیں اس نے اپنے لازوال حسن سے حصہ دیا ہے.تمہیں اُس نے روحانی جلال اور جمال عطا کیا ہے.تم دنیا کی نگا ہوں میں حقیر ہو لیکن خدائے قادر و برتر کی نگاہ میں تم بادشاہوں سے بھی زیادہ معززہ ہو.نہیں تم سے ایک حقیر قربانی کا مطالبہ کر رہا ہوں میں تمہارے جواب کا منتظر ہوں کہ تم میری اس آواز کا کب جواب دو گے ہے مخلصین جماعت نے اس اپیل کا بھی نہایت مخلصانہ جواب دیا جس کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے نہ صرف دفاتر اور ہال کی تکمیل ہو گئی بلکہ کارکنوں کے لئے دو کوارٹر بھی تعمیر ہو گئے.اور بعد ازاں ایک ٹیوب ویل بھی نصب کر دیا گیا.یہ مرکزہ احمدیت ریوہ کی خوبصورت اور یادگار عمارت جو حضرت خواجہ عبید اللہ صاحب او در سیرت کی نگرانی میں تکمیل کو پہنچی.قبلہ رخ اور پانچ کمروں اور ایک بال پرمشتمل ہے.دفتر کا صدر دروازہ مغربی ہے جس کے دونوں جانب اُن مخلصین جماعت اور مجالس انصار اللہ کے نام کندہ ہیں جنہوں نے خلوص و ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفتر کی تعمیر کے لئے سو سو روپے یا اس سے زائد رقم عطیہ" پیش کی.فصل سوم مجاہد سپین مولوی کریم اللي صا، ظفر سپین میں تبلیغ پر پابندی اور حضرت مصلح موعود دس سال سے نہایت پر اسی طریق پر سپین میں تبلیغ دین حق کا فریضہ بجالا رہے تھے کہ اچانک اس سال کے شروع میں پادریوں کی ے روز نامه الفضل ربوده ۱۲ مارچ ۱۹۵۷ء صفحوره - که تاریخ انصارالله نفر را از پروفیر حبیب الله الا مر کز ی ر و انا ارشاد

Page 415

انگیخت پر ہسپانوی حکومت نے اس پر پابندی نافذ کر دی اور سفارت خانہ پاکستان کے ذریعہ سے انہیں ۲۶ مارچ ۱۹۵۶ء کو حسب ذیل مراسلہ بھی بھیجوا دیا :- No.EPM/S-33/56.EMBASSY OF PAKISTAN MADRID 6th March 1956.Dear Mr.Zafar, Reference our conversation on the morning of Monday the 5th March 1956, I am desired to state that the Government of Spain have represented to this Embassy that they take strong exception to your proselytising activities which, we have been told, are a violation of the Constitution of Spain.You are requested, therefore, not to do anything which may give cause to the Government of Spain to charge you with a violation of their Constitution.Karam Elahi Zafar Esq., Lista 58, 40 MADRID.Yours sincerely, Sd/- (Afzal Iqbal) Charge d' Affairs.(ترجمہ) سفات خانہ پاکستان ه - 1904 4 مارچ ۱۹۵۶ء ڈیر مسٹر ظفر نمبرای پی ایم / انیس ۵۶/۳۳ مارچ ۱۹۵۷ و بروز پیر کی صبح کو ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو کے حوالہ سے میں آپ سے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت سپین نے سفارت خانہ پاکستان کو مطلع کیا ہے کہ اس نے آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے یہ سپین کے آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے.

Page 416

اس لئے آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ آپ ایسی کسی کارروائی سے احتراز کریں کہ حکومت سپین اپنے آئین کی خلاف ورزی کا الزام آپ پر لگائے.آپ کا مخلص افضل اقبال - ناظم الامور مکرم ظفر صاحب نے ہسپانوی وزیر خارجہ کو ایک خط لکھا کہ ہمیں دس سال سے سپین میں مقیم ہوں.اب تک میرے خلاف کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی.اب حکومت میری سرگرمیوں کو کیوں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے ؟ ہسپانوی حکومت سرکاری طور پر کیتھولک گورنمنٹ ہے اس کا دعوی ہے کہ یہ مذہب سچا ہے جو خدا تعالیٰ سے قائم کرنے کا ذریعہ اور اعلیٰ اخلاق کا حامل ہے.میری تبلیغ کا مقصد بھی محض اعلیٰ اخلاق کا قیام اور بنی نوع انسان کا خدا تعالیٰ سے حقیقی تعلق قائم کرنا ہے.نیز آپ نے اس بات پر زور دیا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم مہرگز ملک سپین کے لئے کسی قسم کا خطرہ نہیں بلکہ اس سرزمین کی حقیقی فلاح و بہبود کا خواہش مند ہے، خط کا جواب ملا کہ وزیر خارجہ صاحب نے آپ کے خطہ کا اچھا اثر لیا ہے ، دراصل ساری شرارت پادریوں کی ہے کہ انہوں نے پولیس والوں اور حکام کو انگیخت کی ہے لیے حضرت مصلح موعودہ اس اطلاع پر بہت مشوش ہوئے اور حضور نے ۲۰ را پریل ۱۹۵۶ م کو حکومت پاکستان اور دوسری مسلم حکومتوں کو توجہ دلائی کہ وہ اس افسوسناک اقدام کے خلاف احتجاج کریں، نیز فرمایا :- ایک دفعہ پہلے بھی پانچ سات نوجوان ہمارے مبلغ کے پاس بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ سی آئی ڈی کے کچھ آدمی وہاں آگئے اور انہوں نے کہا کہ تم حکومت کے باغی ہو.کیونکہ حکومت کا مذہب رومن کیتھولک ہے.اور ہم نے سُنا ہے تم مسلمان ہو گئے ہو.ان نوجوانوں نے کہا کہ ہم حکومت کے تم سے بھی زیادہ وفادار نہیں لیکن اس امر کا مذہب کے ساتھ کیا تعلق ہے انہوں نے کہا دراصل پادریوں نے حکومت کے پاس ایک شکایت کی ہے کہ یہاں اسلام کی تبلیغ کی جاتی ہے اور گورنمنٹ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم تمہاری نگرانی کریں.انہوں نے کہا کہ تم ہمیں دوسرے شه روزنامه الفضل ریوه در جولائی ۶۱۹۵۶ صفحه ۳.

Page 417

کی باتیں سننے سے نہیں روک سکتے.اگر ہمارا دل چاہا تو ہم مسلمان ہو جائیں گے.لیکن تمہیں کوئی اختیار نہیں کہ تم دوسروں پر جبر سے کام لو.اس وقت سے یہ مخالفت کا سلسلہ جاری تھا جو آخر اس نوٹس کی شکل میں ظاہر ہوا.بہرحال یہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے کہ بعض عیسائی ممالک میں آپ اسلام کی تبلیغ پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں.پہلے عیسائی ممالک محمد رسول اشد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف رات اور دن جھوٹ بولتے رہتے تھے.ہم نے ان افتراؤں کا جواب دینے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی شان دُنیا پر ظاہر کرنے کے لئے اپنے مبلغ بھیجے تو اب اِن مبلغوں کی آواز کو قانون کے زور سے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے.......دیکھو سویز کے محاطہ میں مصر کی حکومت ڈٹ گئی اور آخر اس نے روس کو اپنے ساتھ ملا لیا.اگر سویز کے معاملہ میں مصر و ٹ سکتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی بلندی کے لئے اگر پاکستان کی حکومت ڈٹ جائے تو کیا وہ دوسری اسلامی حکومتوں کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکتی محمد و ال صل للہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے اتنی بغیرت بھی نہیں دکھا سکتیں....اگر مسلمان حکومتیں محمد رسول اللہصلی الہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے سوریز جیتنی غیرت بھی دکھائیں تو سارے جھگڑے ختم ہو جائیں اور اسلام کی تبلیغ کے لئے راستے کھل جائیں اور جب اسلام کی تبلیغ کے رستے کھل گئے تو یقیناً سارا یورپ اور امریکہ ایک دن مسلمان ہو جائے گا.حضور کے اس خطبہ پر مشرقی پاکستان مشرقی پاکستان پریس کی طروب زبردست احتجاج کے پریس نے زبردست احتجاج کیا.(1) چنانچہ ڈھاکہ کے اخبار " آزاد تے ۲۶ جون ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں حسب ذیل ادارتی نوٹ سپرد قلم کیا جر " ہر ایک ملک میں ہر ایک مذہب کو اپنی اشاعت کا کم و بیش موقع ملتا ہے اور یہی بین الاقوامی مسلم اصول ہے.لہذا اسپین کی حکومت کا اس بنیادی حق کو چھیننا ایک ایسا امر ہے کہ جس پر جماعت احمدیہ کے ممبران بے چین ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور اس معاملہ میں دوسرے که روزنامه الفضل ربوه ۵ارمی ۱۹۵۶ء صفحه ۲ ، ۳ -

Page 418

۴۰۶ مذاہب کے مشنری اور تمام روا داری برتنے والے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی حفاظت کے خواہاں اصحاب بھی جماعت احمدیہ کی ہمنوائی کریں گے.اور فرڈینینڈ FERDINAND حکومت سپین کا قابل نفرت حکم ہمارے سامنے پرانے زمانہ کے ایسا بیلا ISABELA کی حکومت کا نقشہ پیش کرتا ہے.نیز ہمیں سپین میں عرب تمدن کے شہری زمانہ اور طارق و موسیٰ بن نصیر کی بے نظیر جرات بھی یاد دلاتا ہے.در حقیقت عربوں نے ہی سپین کی تاریخ کو بنایا تھا.انہوں نے اپنے زمانہ میں عمارت سازی ، انڈسٹری.علم موسیقی.ادب اور علوم و فنون کو ترقی دی تھی.مگر وقتی طور پر عربوں کی یہ جلائی ہوئی شمعیں ناموافق حالات کی وجہ سے بجھا دی گئیں مگر کچھ عرصہ بعد وہی یورپکے ظلمت کروں میں روشن ہو گئیں.اسی کو تاریخ میں یورپ کی نئی زندگی کے نام RENAISSANCE سے موسوم کیا جاتا ہے.ایک وقت تھا کہ سپین سے عرب حکومت کو اور مسلمانوں کو بزور شمشیر نکال دیا گیا.تم ایسا کرنے والوں نے اسلام کو سپین سے نکال کر عربوں سے زیادہ خود یورپ کے تمدن کو نقصان پہنچا یا.اسی وجہ سے مشہور عیسائی مورخ لین پول لکھتا ہے کہ مہ اس طرح سے سپین والوں نے اس عرب نس کو قتل کر دیا جو روزانہ ایک سنہری انڈا دیا کرتا تھا.اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کا تمدن پانچ سو سال پیچھے پڑگیا.مندرجہ بالا تمام حقائق سپین کے موجودہ مدترین تسلیم کرتے ہیں اور آج کل تنزل فرانکو سپین کی اس پرانی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.یہ حقیقت اِن کی مساعی سے آشکار ہو رہی ہے چنانچہ انہوں نے مسلم ممالک میں اپنے تمدتی مشنری بھجوا کر اور افریقہ میں مسلم علاقہ کی آزادی کا اعلان کر کے اس بات کا واضع ثبوت فراہم کیا ہے.آجکل سپین میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ پرانیز پہاڑ سے ہی افریقہ شروع ہو جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ سپین اور افریقہ میں گہرا تمدنی تعلق ہے.ماضی اور حال کے ان مختلف حقائق و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے آج سپین گورنمنٹ کا یہ حکم خاص طور پر اسلامی دنیا کے لئے حیران کئی اور انتہائی تکلیف جو ہے، اور طبعا دل یہ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سپین اور اسلامی دنیا کی دوستی اور تعلقات کیا.صرف

Page 419

ایک کھوکھلی نمائش ہے.اور کیا آج بھی سپین میں پرانے زمانے کی طرح اسلام کے متعلق منفیضی موجود ہے.اگر اِن حقائق کو نظر اندانہ کر دیا جائے تو پھر بھی مذہب کی تبلیغ ہر ایک انسان کا بنیادی حق ہے جس کو حکومت سپین نے اپنے حکم کے ذریعہ سے ختم کرتا جاتا ہے.اس کے تعلق حکومت پاکستان کو غور و فکر کرنا چاہیے اور اس کے جواب میں اسے سفارتی کا رروائی اور حکومتی خط و کتابت کے علاوہ حکومت کو اپنے ملک میں دوسرے مذاہب کے مبلغین کے بارے میں بھی نئے سرے سے اصول وضع کرنے چاہئیں.اس ضمن میں ہماری ہمسایہ حکومت بھارت کا رویہ بھی قابل غور ہے.نہ معلوم اس سلسلہ میں ہماری حکومت نے کچھ غور و خوض کیا ہے یا نہیں (۲) مشہور اخبار " اتفاق " نے ۲۹ جون ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں لکھا در حکومت فرانکو نے حال ہی میں سپین میں صرف عیسائیت کے STATE RELIGION ہونے کا اعلان کیا ہے.اور دوسرے ہر مذہب کی تبلیغ پر پابندی عائد کر دی ہے.اسی وجہ سے میڈرڈمیں مقیم مبلغ اسلام کو سپین سے پہلے جانے کا حکم جاری کیا گیا ہے.حکومت سپین کا یہ فعل بین الاقوامی حقوق انسانیت پر ایک کاری ضرب ہے اور تمام عالم اسلام کے لئے خصوصا انتہائی طور پر تکلیف دہ ہے.سپین ایک زمانہ میں یورپ میں اسلامی نندن کا مرکز تھا، اور یہاں پر فلسفہ ادب.علوم و فنون ، اور علم صنعت و حرفت نے اس حد تک ترقی کرلی تھی کہ بعد میں یہی چیز یورپ کی نئی زندگی کا باعث بنی بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ در اصل سپین میں عربوں کے ذہنی ارتقا نے ہی موجودہ ماڈرن یورپ کو جنم دیا ، پھر بین الاقوامی اصول کے گرد سے مذہبی آزادی کا حق ہر اک کے لئے تسلیم کیا گیا ہے.سپین کی موجودہ حکومت عالم اسلام کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کی خواہاں ہے لیکن اگر اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو کہ عالم اسلام کو تکلیف دینے والا ہو تو اس سے یہ نتیجہ آغاز ہوگا کہ یہ محض ایک نمائشی خواہش ہے.حکومت کا یہ حکم پرانے زمانے کے ایسا بیلا اور فرڈی نینڈ ISABELA لے (ترجمه از بنگله) روزنامه الفضل ریوه ام جولائی ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۳

Page 420

۴۰۸ FERDINAND کے بعض و تعصب سے کم نہیں ہے.حکومت فرانکو نے مذہبی آزادی کو ختم کرنے کے لئے جو حکم جاری کیا ہے اس پر حکومت پاکستان کو بیدار ہونا چاہیے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر سیاسی گفت و شنید سے اس اہم معاملہ کو طے کرے.(اتفاق ڈھاکہ ۲۹ور جون ۱۵۶ ء الے (۳) - جریده " ملت " نے لکھا: " ایک خبر سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت سپین نے اپنے ملک سے مبلغ اسلام کو نکل جانے کا حکم دیا ہے کہا جاتا ہے کہ یہ حکم پاکستانی سفارت خانہ کے ذریعہ دیا گیا ہے، یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے.مذہبی تبلیغ کی آزادی کا ہر ملک میں ہونا نہایت ضروری ہے.پاکستان میں عیسائی مبلغین عیسائیت کی تبلیغ آزادی کے ساتھ بلا روک ٹوک کر رہے ہیں.ہمیں یہ امید ہے کہ ہماری حکومت اس حکم کے ازالہ کے لئے مناسب کا رروائی فرمائے گی " رقمت ڈھاکہ ۲۹ جون سا ہو ہے فصل چهارم وقف زندگی سے متعلق تجاویز اور سید نا حضت مصلح موعود نے سفر یورپ اکشتی حضرت مصلح موعود کا اظہار رائے سے واپسی کے بعد اپنے متعد خطبات میں تقریب وقف زندگی پر زور دیا اور ۱۰؍ فروری ۱۹۵۶ء کو یہاں تک فرمایا کہ :." اگر دنیاوی حکومتوں نے اپنی ضروریات کے وقت جبری بھرتی کا قانون جائز رکھا ہے تو ہم اپنے نوجوانوں کو وقف کے لئے کیوں مجبور نہیں کر سکتے پیکے ه روزنامه الفضل به بوه در تولائی ۱۹۵۷ صفحوه ايضا سے روزنامہ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۵۷ ص۳۷۲.1404

Page 421

وم اس خطبہ پر بعض احمدیوں کی طرف سے تجاویز موصول ہوئیں.حضور نے اور مارچ ۱۹۵۶ء کے خطبہ جمعہ میں ان تجاویز کا ذکر کر کے ہدایت فرمائی کہ والدین خصوصاً عورتیں بچپن ہی سے اولاد کی صحیح تربیت کریں.جماعت میں واقفین کا اعزازہ قائم کیا جائے اور واقفین انتظامی قابلیت پیدا کرنے کے علاوہ کوئی ایک فن بھی سیکھیں.اس سلسلہ میں حضور نے مزید ارشاد فرمایا :- اصل بات یہ ہے کہ جس شخص کی قسمت ہیں یہ لکھا ہو کہ وہ دین کی خدمت کرے گا اسے اس کی توفیق مل جاتی ہے اور اگر اس خدمت میں اس کی جان بھی چلی جائے تو وہ اسس کی پرواہ نہیں کرتا.اسلامی تاریخ سے علوم ہوتاہے کہ جنگ حسین کے موقع پر جب ہزاروں تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی تو مسلمانوں کی سواریاں برک کو میدان جنگ میں سے بھاگ پڑیں.در حقیقت اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب اسلامی لشکر روانہ ہوا تو مکہ والوں نے خواہش کی کہ چونکہ ہم حدیث العہد ہیں اور اس سے قبل کسی لڑائی میں شامل نہیں ہوئے.اس نئے اس موقعہ پر نہیں بھی قربانی پیش کرنے کی اجازت دے دی جائے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور دو ہزار نو مسلم بھی اسلامی لشکر کے ساتھ چل پڑے یہ لوگ کفار کے اچانک اور دو طرفہ حملہ کی برداشت نہ کر سکے اور واپس مکہ کی طرف بھاگے صحابہ گو اس قسم کی تکلیف اٹھانے کے عادی تھے.مگر جب دو ہزار گھوڑے اور اونٹ ان کی صفوں میں سے بے تحاشا بھاگتے ہوئے نکلے تو ان کے گھوڑے اور اُونٹ بھی ڈر گئے اور سارے کا سارا لشکر بے تحاشا پیچھے کی طرف دوڑ پڑا یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد صرف بارہ صحابی رہ گئے اور تین اطراف سے قریباً چار ہزارہ تیر انداز تیر برسا رہے تھے.ایک صحابی عنہ کہتے ہیں کہ ہماری سواریاں اس قدر ڈر گئی تھیں کہ ہمارے ہاتھ باگیں موڑتے موڑتے زخمی ہوگئے.لیکن اونٹ اور گھوڑے واپس مڑتے کا نام نہیں لیتے تھے.بعض دفعہ ہم باگیں اس زور سے کھینچتے تھے کہ اونٹ یا گھوڑے کا سر اس کی پیٹھ کو لگ جاتا.مگر جب ہم اسے پیچھے کی طرف موڑتے تو وہ بجائے پیچھے مڑنے کے اور بھی تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بھاگ پڑتا اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو بلایا اور اُن سے فرمایا عباس بلند آوازہ

Page 422

ام سے کہو کہ اے وہ لوگو جنہوں نے صدہابیہ کے موقع پر معیت رضوان کی تھی اور اے وہ لوگو جو سورۃ بقرہ کے زمانہ کے مسلمان ہو، خدا تعالیٰ کا رسول تمہیں بلاتا ہے حضرت عباس نے جب یہ آواز دی تو وہ صحابی کہتے ہیں کہ ہمیں یوں محسوس ہوا کہ گویا ہم مرچکے ہیں قیامت کا دن آگیا ہے اور اسرافیل بگل بجا کہ ہمیں بگا رہا ہے تب ہم میں سے جو اپنی سواریاں موڑ سکے انہوں نے اپنی سواریاں موڑ لیں اور جو سواریاں موڑ نہ سکے انہوں نے تلواروں سے اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کی گردنیں کاٹ دیں.اور خود دوڑتے ہوئے رسول کریم صلی الہ علیہ ولی کی طرف یہ کہتے ہوئے میں پڑے کہ لبیک یا رسول اللہ لبیک یارسول اللہ سے رسول اللہ ہم مار ہیں.اس بحول اللہ ہم حاضر ہیں اور چند منٹ میں ہزاروں کا لشکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع ہو گیا.دیکھو صحابہ میں کس قدر جوش اور ایمان پایا جاتا تھا کہ انہوں نے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی اس آواز پر کہ خدا تعالی کارسول تمہیں جاتا ہے.اپنی سواریوں کی گردنیں کاٹ دیں اور دوڑتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم اسلام کی خدمت کے لئے حاضر ہیں.پس جن لوگوں کی قسمت میں دین کی خدمت کرنا ہوتا ہے وہ خود بخود اس کے لئے آگے آجاتے ہیں لیکن جن لوگوں کی قیمت میں نیکی نہیں انہیں نہ میرے خطبات کام دے سکتے ہیں نہ دوسروں کی مثالیں انہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں.نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں انہیں دین کی خدمت کے لئے آگے لا سکتی ہیں اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں انہیں اس طرف کوئی توجہ دلا سکتی ہیں وہ ازلی محروم ہیں.اِن کو برکت کون دے.برکت اسی کو ملے گی جس کی قسمت میں وہ پہلے سے لکھی ہوئی ہے.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ مرزا غالب کو آم بہت پسند بھتے.ایک دن وہ بادشاہ کو ملنے گئے وہ انہیں اپنے باغ میں لے گیا.پرانے زمانے میں درباریوں کو یہ ادب سکھایا جاتا تھا کہ وہ ہمیشہ بادشاہ کی طرف اپنا منہ رکھا کریں لیکن مرزا غالب بار بارہ آموں کی طرف دیکھتے بادشاہ نے کہا مرزا غالب یہ کیا بات ہے کہ تم بار بار ادھر کیوں دیکھتے ہوں انہوں نے کہا حضور میں نے سُنا ہوا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی بندے کو اس دنیا میں بھیجتا ہے تو رزق پر اس کا نام لکھ دیتا ہے.نہیں دیکھ رہا ہوں شائد کسی ہم پر میرا یا میرے باپ دادا کا بھی نام لکھا ہوا ہو.بادشاہ نہیں پڑا اور اس نے اپنے تو کر کو حکم دیا کہ وہ مرزا غالب کے گھر

Page 423

االم ام دے آئے.پس جس کی قسمت میں خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت لکھی ہے اس کے رستہ میں خواہ دس میل تک زہریلے سانپ ہوں وہ انہیں کچلتا ہوا آگے آجائے گا اور خواہ ننگی تلواریں کھڑی ہوں اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ آگے بڑھا تو اس کی گردن کٹ جائے گی.تب بھی وہ دین کی خدمت کے لئے آجائے گا بلکہ دین کی خدمت تو بڑی چیز ہے ہم دیکھتے ہیں کہ باطل کے ساتھ محبت رکھنے والے بھی کسی مصیبت کی پرواہ نہیں کرتے حضرت مسیح موعود علی صلوة واسلام کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک مراثی کا لڑکا سیل کی مرض میں مبتلا ہو گیا.اس کی ماں اسے علاج کے ئے قادیان کائی وہ لڑکا عیسائی ہو چکا تھا اور اس کی والدہ کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح دوبارہ اسلام قبول کرے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے درخواست کی کہ آپ صرف اس کا علاج کریں بلکہ اسے تبلیغ بھی کریں تاکہ یہ دوبارہ اسلام میں داخل ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھا.آخر ایک رات بیماری کی حالت میں ہی وہ بالہ کی طرف بھاگ نکلا تاکہ وہاں عیسائیوں کے مرکز میں چلا جائے.اس کی ماں کی آنکھ کھل گئی.اور اس نے چار پائی خالی دیکھی تو وہ رات کے اندھیرے میں اکیلی بٹالہ کی طرف دوڑ پڑی اور کئی میل کے فاصلہ سے اسے پکڑ کر لے آئی.پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی وہ روتی ہوئی کہنے لگی حضور میرا یہ اکلوتا بیٹا ہے اگر یہ مرجائے تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں لیکن میری صرف اتنی خواہش ہے جس طرح بھی ہو یہ مرنے سے پہلے دوبارہ کلمہ پڑھ لے الہ رانی نے اس عورت کے اخلاص کو دیکھ کر یہ فضل کیا کہ دو تین دن کے بعد اس نے اسلام قبول کر لیا اور پھر وہ فوت ہو گیا.پس اگر باطل کے ساتھ محبت کرنے والے بھی بڑی بڑی قربانیاں کر سکتے ہیں تو دین کے ساتھ سچی محبت رکھنے والے کسی قسم کی قربانی سے کسی طرح دریغ کر سکتے ہیں.بہر حال دوستوں نے جو باتیں لکھی ہیں ان میں سے بعض بہت اچھی ہیں ملا یہ کہ واقفین کو کوئ نہ کوئی پیشہ سکھانا چاہیے اور پھرے کہ جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ واقفین کا اعزازہ کریں جیسا کہ میں نے بتایا ہے خود واقفین کے اندر انتظامی قالبیت ہونی چاہئیے.اگر ان میں انتظامی قاطبیت ہوئی تو انہیں مرکز میں ذمہ داری کے عہدے مل سکیں گے.انگریزی دانوں سے ہماری کوئی دوستی نہیں اور نہ عربی دانوں سے کوئی دشمنی ہے اگر واقفین انتظامی قاطعیت پیدا کرلیں تو در حقیقت مرکز کے سارے اہم عہدے انہی کے لئے ہیں

Page 424

اور وہی اس کے اصل حقدار ہیں.پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ لوگ دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ آپ کو سچا ایمان بخشے.آپ کے اندر دین کی خدمت کی خواہش پیدا کرے تا آپ اپنی جان اور مال سب کچھ اپنے خدا کے سامنے پیش کر دیں اور جب مری تو ایسی حالت میں کریں کہ آپ کے دلوں میں یہ حسرت نہ ہو.کاش ہم دین کی خدمت کرتے.اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں کو دور فرمائے اور ہماری خدمات کو قبول کرے اور حضرت ابو کیڑے کی طرح ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ تھوڑا یا بہت جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ ہم اس کی راہ میں قربان کر دیں ؟ حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود نے وقت قادیان کے لئے تحریک وقف زندگی پھلے سال دستان میں صدر بھی تحریر انجمن احمدیہ پاکستان اور تحریک جدید کے کام سنبھالنے کے لئے نوجوانان پاکستان کو زندگی وقف کرنے کی ہدایت فرمائی.اب اس سال حضور نے اسی نوعیت کی تحریک بھارتی احمدیوں کے لئے بھی کی اور مارچ شہداء کو ضروری اعلان " کے نام سے حسب ذیل فرمان جاری فرمایا جو روزنام مفضل ار مارچ ۱۹۵۶ء کے صفحہ اول پر اشاعت پذیر ہوا : قادیان میں کارکنان کی سخت ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہات سلام کو ہندوستان میں پیدا کیا.اس لئے یہ ہندوستانیوں کا حق ہے کہ وہ سلسلہ کے کاموں کے لئے قربانیاں کریں.اس لئے تمام جماعتوں کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ اقول ڈاکٹر دوم گریجوایٹ سوم میٹرک پاس اگر اپنی زندگیاں ساری عمر کے لئے نہیں تو دس دس سال کے لئے وقف کریں تا کہ ان کو قادیان میں رکھ کہ دینی تعلیم دلائی جائے اور پھر سلسلہ کے کاموں پر لگایا جائے.خاکسار مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی 1 14 " اہم خطبہ شادی بیاہ کے متعلق حضرت مصلح موعود نے اور مار یا تشدد کو و ایک رویا کی بناء پر لاہور میں دین حق کے عائلی نظام کے بارے میں ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا جس میں نہایت موثر پیرایہ میں تلقین فرمائی کہ اه روزه نامه الفضل ربوه ۲۵ مارچ ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۷۱۶

Page 425

ورم شادی کی بنیاد اخلاق نیکی اور تقوی پر قائم ہونی چاہیئے.تا جو اولاد پیدا ہو وہ بھی نیک، متقی اور اللہ تعالی کے نام کو بلند کرنے والی ہو چنانچہ فرمایا.در حقیقت شادی بیاہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بڑھا ایک ایسا درخت لگا رہا تھا جو کئی سال کے بعد پھل دیتا تھا.اتفاقاً وہاں سے اس ملک کا بادشاہ گذرا اس نے جب بڑھے کو ایک ایسا درخت لگاتے دیکھا جس کا پھل کئی سال کے بعد پیدا ہونا تھا.تو وہ اسے کہنے لگا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو تمہاری عمر اسی نوے سال کی ہو گئی ہے اور تم ایسا درخت لگارہ ہے ہو جو کئی سال کے بعد پھل دیتا ہے کیا تمہیں یہ امید ہے کہ اس کا پھل کھاؤ گے وہ کہتے لگا بادشاہ سلامت اگر ہمارے باپ دادا بھی یہی خیال کرتے اور وہ اپنی زندگیوں میں پھلدار درخت لگا کر نہ جاتے تو آج ہم کہاں سے پھل کھاتے.انہوں نے درخت لگائے اور ہم نے ان کا پھل کھایا.آج ہم درخت لگائیں گے تو ہمارے پوتے پیڑ پوتے ان کا پھل کھائیں گئے.بادشاہ کو اس کی بات بڑی پسند آئی اور اس نے کہا زہ یعنی تو نے کیا ہی اچھی بات کہی ہے اور بادشاہ کا یہ حکم تھا کہ جب نہیں کسی بات سے خوش ہو کہ نہ کہہ دوں تو فورا اسے تین ہزار روپیہ انعام دے دیا جایا کرے.بادشاہ نے خوش ہو کر زہ کہا تو وزیر نے فورا تین ہزار روپے کی تھیلی اس بڑھنے کے سامنے رکھ دی، وہ روپوں کی تھیلی اپنے ہاتھ میں لے کر کہنے لگا بادشاہ سلامت لوک درخت لگاتے ہیں تو کئی کئی سال کے بعد انہیں اس کا پھل کھانا نصیب ہوتا ہے مگر مجھے دیکھئے کہ میں نے درخت لگاتے لگاتے اس کا پھل کھا لیا.بادشاہ پھر اس کی بات سے خوش ہوا اور کہنے لگا زہ.اس پر وزیر نے جھٹ ایک دوسری تھیلی اس کے سامنے رکھ دی.یہ دیکھ کر بڑھا کہنے لگا حضور آپ تو کہہ رہے تھے کہ تو مر جائے گا، اور اس درخت کا پھل نہیں کھا سکے گا.مگر دیجھے لوگ تو کہیں سال میں ایک دفعہ درخت کا پھل کھاتے ہیں اور میں نے اس درخت کے لگاتے لگاتے دو دفعہ اس کا پھل کھا لیا.بادشاہ پھر اس کی بات سے خوش ہوا اور کہنے لگا زہ.اس پر وزیر نے فوراً ایک تیسری تفصیلی اس کے سامنے رکھ دی.اس کے بعد وزیر کہنے لگا بادشاہ سلامت یہاں سے چلئے ورنہ اس بڑھے نے تو ہمیں ٹوٹ لینا ہے.یہی مثال شادی بیاہ کی ہے جو شخص شادی بیاہ کرتا اور پھر اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کرتا ہے وہ دنیا میں

Page 426

۴۱۴..نیکی اور تقویٰ کی بنیاد رکھتا ہے.اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس نے بہیمیت اور بداخلاقی کی بناء پر ان تعلقات کو قائم کیا ہے.بہت بڑی نادانی اور حماقت ہے دنیا میں جتنے اولیاء اللہ گذرے ہیں انہی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہوئے جتنے موجد اور سائنسدان گذرے ہیں سب انہی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں.مثلا نیوٹن کو ہی لے لو.اگر اس کے ماں باپ آپس میں نہ ملتے تو نیوٹن کسی طرح پیدا ہوتا.پھر جب ان کے تعلقات کے نتیجہ میں نیوٹن جیسا انسان پیدا ہو گیا تو ان تعلقات کی بناء ہمیت پر کسی طرح ہوئی.اسی طرح دنیا میں جتنے بڑے بڑے جرنیل گندے ہیں سب انہی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں.نپولین کو لے لو بیٹلر کو لے لو.اگر ان کے ماں باپ بھی یہی کہتے کہ ہم ان تعلقات کو اختیار نہیں کرسکتے کیونکہ ان کی بنیاد بہیمیت پر ہے تو نپولین اور میٹر کہاں سے پیدا ہوتے.اس طرح جیتنے بڑے بڑے ائمہ گذرے ہیں سب انہی تعلقات کے نتیجہ میں پیدا ہوئے.حضرت امام ابو حنیفہ حضرت امام شافعی به حضرت امام مالک یا حضرت امام احمد بن حنبل اور صوفیاء میں سے سید عبد القادر صاحب جیلانی ، شہاب الدین صاحب سہروردی - بہاء الدین صاحب نقشبندی معین الدین صاحب چشتی - محی الدین صاحب ابن عربي.حضرت جنید بغدادی.ان تمام بزرگوں کے ماں باپ بھی اگر یہی خیال کر لیتے تو یہ پاک لوگ جنہوں نے دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا کیا ہے کسی طرح ظاہر ہوتے.در حقیقت تمام مدار نیت پر ہوتا ہے.اگر ہمیت کی نیت سے کوئی شخص ان تعلقات کو قائم کرتا ہے تو وہ انسانیت کی توہین کرتا ہے اور اگر اخلاق اور تقوی اللہ پر بنیاد رکھتا ہے تو وہ اخلاق اور تقویٰ اللہ کو قائم کرنے والا ہوتا ہے : ه روزنامه الفضل ربیوه یکم اپریل ۱۹۵۶ به صفحه علا -

Page 427

۱۵م فصل پنجمیم ۲۳ مارچ ۱۹۵۷ء کا دن اء کا دن پاکستان کی تاریخ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام پر میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس روز جماعت احمدیہ پاکستان کا میشن مسترت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وجود عمل میں آیا اور نئے دستور کے تحت میجر جنرل سکندر مرزا نے پہلے صدر جمہوریہ کی حیثیت سے حلف اُٹھا کر اپنے مہارے کا چارج سنبھالا.اس تقریب پر پورے ملک میں خوشی دسترت کی لہر دوڑ گئی تھی.اور جماعت احمدیہ پاکستان نے بھی جوش و خروش کے ساتھ جشن مسرت منایا.اس روز ربوہ میں جماعت کے مرکزی دفاتر پر پاکستانی پرچم لہرائے گئے متعد دکھیلوں، ضیافتوں اور جلسہ عام کے انعقاد کے علاوہ استحکام پاکستان کے لئے دعائیں کی گئیں.غرباء کو کھانا کھلایا گیا.بچوں میں مٹھائی تقسیم کی گئی اور رات کو چراغاں کیا گیا.ربوہ میں رات گئے تک خوب چہل پہل اور رونق یہ ہیں.ظاہر صاحب امور خارجہ نے جماعت احمدیہ کی طرف سے صدر مملکت میجر جنرل سکندر مرزا بعزت مآب وزیر اعظم جناب چو دھری محمد علی صاحب.وزیر داخلہ جناب عبد الستاره صاحب گورنر معرفی پاکستان جناب مشتاق احمد صاحب گورمانی اور وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر خانصاحب کی خدمت میں مبارک باد کے برقی پیغام ارسال کئے.جماعت احمد یہ انگلستان کی طرف سے بھی صدر مملکت اور وزیر اعظم کے نام مبارکباد کے تار ارسال کئے گئے ہے یہ دن ملک اور جماعت احمدیہ پاکستان کے لئے دوسری خوشی کا دن تھا، کیونکہ اس دن جمعہ کا مبارک دن تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے اس دن کی خصوصیت کے پیش نظر اپنے یاد گار خطبہ جمعہ ميں خاص طور پر دستور پاکستان کے نفاذ پر دلی مسرت کا اظہار کیا اور اہل پاکستان اور ن روزنامه الفضل ۲۵، ۲۶ مارچ ۱۹۵۶ م ص -

Page 428

خصوصاً جماعت احمدیہ کو انکی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی چنانچہ ارشاد فرمایا :- " آج کا دن حکومت پاکستان نے ملک کی کانسٹی ٹیوشن بننے پر خوشی منانے کے لئے مقرر کیا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ خوشی کا دن ہے 11 ء میں میں نے جو لیکچر دیئے تھے.- اُن میں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ مسلمان جو بھی آئین بنائیں وہ اسلامی ہی ہوگا.آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک سچا مسلمان کوئی آئین بنائے اور وہ غیر اسلامی ہو.مسلم کے معنے فرمانبردار کے ہیں.مسلم کے معنے ہی خدا اور اس کے رسول کے ماننے والے کے ہیں.اگر کوئی شخص خدا اور اس کے رسول کو ماننے والا ہے اور سچے طور پر ان کا فرمانبردار ہے تو وہ ایسا قانون بنائے گا ہی کیوں جو غیر اسلامی ہوگا.پس ایسی اسمبلی جو سچے مسلمانوں پر مشتمل ہو غیر اسلامی دستور بنا ہی نہیں سکتی.ہماری کانسٹی ٹیوشن تو پہلے سے ہی قرآن کریم میں موجود ہے اور اس کی توضیح اور تشریح کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث موجود ہیں لیکن اس پر غیر مسلموں کو تسلی نہیں تھی.وہ سمجھتے تھے کہ قرآن کریم میں کانسٹی ٹیوشن کے لئے پورا مسالہ موجود نہیں.دوسرے ہر قاضی اور ہر افسر قرآن کریم سے صحیح بات نہیں نکال سکتا.اس لئے ضروری تھا کہ پورے طور پر غور کر کے قانون کو ایک معین شکل دے دی جاتی تاکہ جو لوگ قرآن کریم پر غور نہیں کہ سکتے وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں پھر دوسرے ممالک کے مقابل پر بھی پاکستان کا آئین تیار ہونا نہایت ضروری تھا سو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ قریباً نو سال میں مہارا دستور تیار ہو گیا.اگر دستور کے بننے میں مزیادہ دیر ہوتی تو بہت سی خرابیاں پیدا ہونے کا اندیشہ تھا.ملک میں عام طور پر مایوسی پیدا ہو گئی تھی، اور لوگ سمجھتے تھے کہ ہمارے لیڈر اس اہم مسئلے پر بھی سر جوڑ کر بیٹھنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے سو آج جب کہ دستور بن کر قوم کے سامنے آگیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیڈروں کو پبلک کے مائگر کردہ الزامات سے بچالیا ہے.باقی لوگ اس آئین میہ اعتراضات کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں فلاں غلطی ہے فلاں نقص ہے.انہیں بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دستور بهرمان انسانوں کا بنایا ہوا ہے اور انسانوں کے بنائے ہوئے دستور میں غلطیوں کا احتمال ہو سکتا ہے.اس لئے دستور میں کوئی غلطیاں رہ بھی گئی ہوں تو ان کی بعد میں اصلاح ہوتی رہے گی ہمیں ان چند غلطیوں کی وجہ سے سارے دستور پر اعتراض نہیں کہ نا چاہیے.قرآن کریم ہمارے سامنے ہے مجھے

Page 429

الم اور رسول کریم صلی الہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث ہمارے پاس موجود ہیں.اگر کسی معاملہ میں ہمیں محسوس ہو کہ ہم نے اس بارہ میں صحیح قدم نہیں اٹھایا تو اسے ہر وقت بدلا جاسکتا ہے حضرت علی کو دیکھ لو.آپ فرماتے تھے کہ جب مسح کے احکام نازل ہوئے تو میں تردد میں پڑ گیا.نہیں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے پاؤں کے اوپر مسح کرنے کا حکم دیا ہے حالانکہ مٹی تو پاؤں کے نچلے حصے کو لگتی ہے.لیکن پھر میں نے سمجھا کہ جب خدا تعالے نے اوپر مسح کرنے کا حکم دیا ہے تو یہی درست ہے.میرا خیال درست نہیں.پس خدا تعالیٰ کے مقابلے میں انسانی عقل کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ بڑے بڑے برگزیدہ لوگوں کی عقلیں بھی اس کے سامنے ہیچ ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے کہ ہر وقت یہی دُعا کرو کہ اے اللہ میرے علم کو بڑھا گویا ایک ایسا شخص جو علم کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا.ہے فَكَانَ تَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى کا مقام حاصل تھا جس کے متعلق اللہ تعالے نے یہ فرمایا کہ ہم نے اسے وہ علم دیا ہے جو کسی اور کو نہیں دیا.اسے بھی رب زدني علما کی دعا سکھائی گئی.پس خدا خدا ہی ہے اور بندہ بندہ ہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باوجود اس کے کہ افضل الدرس اور خاتم النبیین تھے پھر بھی علم حاصل کرنے کے محتاج نہ ہوتے تو خدا تعالی آپ پر قرآن کریم کیوں نازل کرتا یہیں فرما دیتا کہ تم خود ہی غور کر کے انسانوں کے لئے ایک لائحہ عمل بنا دو.لیکن خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ خود قرآن کریم نازل کیا اور بسم اللہ کی سب سے لے کر والناس کی سی تک ایک مفصل کتاب نازل کر دی.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا انسان بھی یہ دعا کہ تار متا تھا کہ الہی میرا علم بڑھا تو پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن پر یہ شور مچانا کہ چونکہ اس میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں اس لئے یہ قابل قبول نہیں کونسی معقول بات ہے.یہ کانسٹی ٹیوشن خدا تعالیٰ کی تیار کردہ نہیں بلکہ انسانوں کی بنائی ہوئی ہے اور انسانوں کے کاموں میں بہر حال غلطیاں رہ جاتی ہیں.اس لئے اس پر جھگڑنا اور شور مچانا بے معنی بات ہے.یکیں اس موقع پر ایک بات اپنی جماعت سے بھی کہنا چاہتا ہوں.اللہ تعالے سورۃ التین میں فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو اعلیٰ درجہ کی قوتیں دے کہ دنیا میں بھیجا ہے لیکن بعض دفعہ اس میں

Page 430

مام ایسا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے حصہ میں گر جاتا ہے.یہی حال قوموں کا ہوتا ہے.بعض اوقات جب قوموں پر غلامی کا دور ہوتا ہے تو وہ کہتی ہیں کہ کاش ہمیں آزادی حاصل ہوتی تو ہم ملک کی خاطر کوئی اہم کام کرتیں.لیکن جب انہیں آزادی ملتی ہے اور انہیں طاقت اور دولت میسر آجاتی ہے تو اُن کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں وہ اپنوں اور ہمسایہ قوموں کا جانی اور مالی نقصان کرنے لگ جاتی ہیں.اور قتل و غارت کو اپنا شیوہ بنالیتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ بعض لوگوں کو جب ملک میں کوئی اقتدار حاصل ہوتا ہے تو وہ مظالم پر اتر آتے ہیں اور اقتصادی اور نسلی طور پر دوسروں کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی دی ہے وہاں ہمارے لئے یہ خطرہ بھی ہے کہ ہم کہیں اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرنے لگ جائیں اور بنی نوع انسان کو چاہے وہ ہمارے ملک کے ہوں یا دوسرے ممالک کے کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی صحابیہ سے بعض غلطیاں ہوئیں، مگر رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کو جب بھی ان کا علم ہوا.آپ نے فورا ان کا تدارک کر دیا مثلاً ایک دفعہ آپ نے کچھ صحابہ کو با ہر خبر رسانی کے لئے بھجوایا.دشمن کے کچھ آدمی ان کو حرم کی حد میں مل گئے صحابیہ نے اس خیال سے کہ اگر ہم نے ان کو زندہ پھوڑ دیا تو یہ جا کہ مکہ والوں کو خبر دیں گے اور ہم ہمارے جائیں گے ان پر حملہ کر دیا اور ان میں سے ایک شخص لڑائی میں مارا گیا.جب یہ خبریں دریافت کرنے والا قافلہ مدینہ واپس آیا تو پیچھے پیچھے مکہ والوں کی طرف سے بھی ایک وفد شکایت لے کر آگیا کہ انہوں نے حرم کے اندر ایک آدمی مار دیا ہے جو لوگ حرم کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وستم پر ظلم کرتے رہتے تھے.ان کو جواب تو یہ ملنا چاہیے کہ تم نے کب حرم کا احترام کیا ہے کہ تم ہم سے حرم کے احترام کا مطالبہ کرتے ہو.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب نہ دیا بلکہ فرمایا کہ ہاں بے انصافی ہوئی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس خیال سے کہ حرم میں وہ محفوظ ہیں انہوں نے اپنے بچاؤ کی پوری کوشش نہ کی ہو.اس لئے آپ لوگوں کو خون بہا دیا جائے گا.چنانچہ آپ نے قتل کا وہ فدیہ جس کا عربوں میں رواج تھا.ان کے ورثاء کو ادا کیا.اس طرح ایک دفعہ میدان جنگ میں آپ نے ایک عورت کی لاش دیکھی تو آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے

Page 431

۴۱۹ فرمایا.یہ بہت بُری بات ہے.ایک صحابی کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایسی ناراضنگی کی حالت میں تھے کہ میں نے کبھی آپ کو ایسی حالت میں نہ دیکھا.اس طرح ایک اور واقعہ ہوا.لڑائی ہو رہی تھی کہ کفار میں سے ایک شخص نے بلند آواز سے کہہ دیا کہ میں صابی نیتا ہوں اس زمانہ میں مسلمانوں کو عام طور پر صابی کہا جاتا تھا جیسے بعض لوگ ہمیں قادیانی کہتے ہیں.آب اگر کوئی نا واقف شخص وفات مسیح کا مسئلہ سمجھے کہ احمدیت اختیار کرے اور کہے کہ میں قادیانی ہو گیا ہوں تو ہم اسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تو ہماری جماعت میں سے نہیں.مگر ایک صحابی نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور اسے قتل کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حیب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ اس صحابی پرسخت ناراض ہوئے اور فرمایا جب اس نے توبہ کر لی تھی تو تم نے اسے کیوں قتل کیا.اس صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ شخص ڈر کے مارے اسلام کا اظہار کر رہا تھا در نہ حقیقتاً وہ مسلمان نہیں تھا.آپ نے فرمایا کہ کیا تو نے اس کا سینہ پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ ڈر کے مارے اسلام کا اظہار کر رہا ہے، وہ صحابی کہتے ہیں رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی تارزانگی کا مجھ پر اس قدر اثر ہوا کہ میں نے خواہش کی کہ کاش میں آج مسلمان ہوتا تا میرے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے.پس تو میں بعض اوقات دولت اور طاقت کے نشے میں دوسروں پر ظلم بھی کرتے لگ جاتی ہیں.اس لئے بے شک تم خوشیاں مناؤ اور خوشیاں منا نا تمہارا حق ہے کیونکہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ وطن سے محبت کرنا بھی ایمان میں داخل ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی میں نصیحت کروں گا کہ تم اپنے لئے اور دوسری کے لئے استغفار بھی کرو اور دعا کرو کہ تم میں سے کسی سے کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہو کہ اس کی وجہ سے اسلام پر اعتراض عائد ہو جائے.لوگ مانیں یا نہ مانیں خدا تعالیٰ تمہیں ایک دن دنیا پر غلیہ عطا فرمائے گا.اس نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو الہا کا فرمایا ہے بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور جب وہ وقت آئے گا کہ بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واستلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تو وہ کون سے احمق ہوں گے ہو تم سے برکت حاصل نہیں کریں گے.کپڑے تو بے جان چیز ہیں اور تم جاندار ہو.جب وہ وقت آئے گا کہ بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تو آپ کے صحابہ اور

Page 432

۴۲۰ تابعین اور پھر تبع تابعین سے بھی اُن کے درجات کے مطابق برکت حاصل کی جائے گی.کیا تم نے دیکھا نہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنے فاصلے پر تھے.لیکن بغداد کے بادشاہ اُن سے برکت ڈھونڈتے تھے.بلکہ صرف انہیں سے برکت نہیں ڈھونڈتے تھے بلکہ ان کے شاگردوں سے بھی برکت ڈھونڈتے تھے.پس تم اللہ تعالی سے دعائیں کرتے رہو کہ طاقت مل جانے کے بعد کہیں حکم نہ کرتے لگ جاؤ.اور تمہاری امن پسندی عصمت بی بی از سیله چادری والی نہ ہو.اگر تم طاقت ملنے پر ظالم بن جاؤ گے تو تمہاری آج کی نرمی بھی ضائع ہو جائے گی اور خدا تعالے کہے گا کہ اپنے تو تمہارے ناخن ہی نہیں تھے اس لئے تم نے سر کھجلانا کیسے تھا.اب میں نے تمہیں ناخن دیے ہیں تو تم نے سر کھجلانا بھی شروع کر دیا ہے.پس تم خوشی منانے کے ساتھ ساتھ استغفار بھی کرتے رہو اور اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی دعائیں کرو کہ وہ اس آزادی کو سب کے لئے مبارک کرے پھر جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت ملک کی باگ ڈور ہے ان کے لئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ انہیں سچی نیکی اور تقویٰ اور انکسار عطا کرے جو ایک مومن کا خاصہ ہے.صحابہ کرام کو دیکھ لو باوجود اس کے کہ انہیں ہر قسم کی بڑائی حاصل تھی.ان میں حد درجہ کا انکسار پایا جاتا تھا اور غرور سے وہ کوسوں دور رہتے تھے.حضرت خالد بن ولید ہی کو دیکھ لو.انہوں نے چند آدمیوں کے ساتھ رومی حکومت سے ٹکر لے لی تھی حالانکہ اس وقت کی رومی سلطنت اس وقت ہندوستانی حکومت سے بھی بہت زیادہ طاقت ور تھی اور خاللہ کے ساتھی خواہ اس وقت کتنے بھی زیادہ ہوں.بہر حال پاکستان کی طاقت سے کم طاقت رکھتے تھے.لیکن انہوں نے رومی حکومت سے ٹکر لی اور پھر اس جنگ میں فتح حاصل کی.اسی خالدہ کو بعض وجوہات کی بناء پر حضرت عمر نے کمانڈر ان چیف کے عہدے سے برطرف کر دیا.ان کی عمر برطرفی کا ڈر ڈر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے ذریعہ بھیجا گیا تھا حضرت ابو عبیدہ نے حضرت خالد کے ماتحت کام کیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اسلامی فتوحات میں ان کا بہت بڑا دخل ہے.انہیں خیال گذرا کہ شاید خالدہ کو برطرفی کا حکم بُرا لگے.اس لئے انہوں نے فوری طور پر اس کا اعلان نہ کیا.لیکن بعض لوگوں کو اس کا پتہ لگ گیا اور انہوں نے خالد کو بھی تیا دیا.یہ سنکر خالد رض حضرت ابو عبیدہ کے پاس آئے اور کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ میری برطرفی کے احکام آچکے ہیں.

Page 433

۴۴۱ لیکن آپ نے مجھے نہیں بتایا جس دن آپ کے پاس میری برطرفی کے احکام آئے تھے آپ کو چاہیئے تھا کہ اس دن مجھے اطلاع دے دیتے تاکہ میں فوری طور پر خلیفہ وقت کے احکام کی تعمیل کر دیتا.یہ میرا استعفیٰ ہے.اسے حضرت عمریض کے پاس بھیجوا دیں اور فوج کا کام سنبھال لیں ، حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ میں حضرت علم کو بھی لکھوں گا مگر آپ سے بھی کہتا ہوں کہ میں سپہ سالاری کا عہدہ اس وقت قبول کروں گا جب آپ وعدہ کریں کہ آپ حسب سابق میرے ساتھ مل کم کام کرتے رہیں گے حضرت خالد نے کہا کہ میں آپ کی ایک سپاہی سے بھی بڑھ کہ اطاعت کروں گا.میں نے جو خدمت کی ہے وہ کسی مرتبہ اور عزت کے لئے نہیں کی بلکہ میری ساری خدمت خدا تعالیٰ کی خاطر تھی تو دیکھو خالدہ کی بڑائی انتہا کو پہنچ چکی تھی.لیکن پھر بھی ان میں کس قدر انکسار پایا جاتا تھا.لیکن آج کل ایک وزیر کسی وجہ سے وزارت سے ہٹتا ہے تو وہ اپنی علیحدہ پارٹی بنا لیتا ہے پس تم دعائیں کرو کہ آزادی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ ایسی روح پیدا کرے کہ جوں جوں ملک و قوم کو طاقت اور قوت ملتی جائے.تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نالے ہوئے دین اور خدا تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتاب قرآن کریم کو قائم کرنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ ایسا نمونہ دکھاؤ کہ ہند و خود تمہارے پاس آئیں اور کہیں کہ ہم مسلمان بننا چاہتے ہیں اور یہ کوئی بعید بات نہیں.آخر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو کسی تلوار نے جیتا تھا.پھر حضرت عثمان اور حضرت علی کو کسی تلوار نے جیتا تھا.یہ سب لوگ قرآن کریم کی تعلیم سے متاثر ہو کہ ایمان آئے تھے.اسی طرح اب بھی قرآن کریم کی تعلیم ہندؤوں کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کر سکتی ہے.ایک مشہور عیسائی مصنف کا ر لائل نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اُس نے دنیا کے مشہور آدمیوں کا ذکرہ کیا ہے.جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی شامل ہے.اس کتاب میں وہ ایک جیگر لکھتا ہے.عیسائی مصنف اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے لیکن دہ یہ بھول جاتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوئی کیا تو اس وقت آپ اکیلے تھے اور پھر آہستہ آہستہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے.پس سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے بغداد میں اسلام کے لئے تلوار چلائی.انہیں کسی تلوار سے اسلام کی طرف کھینچا گیا.ان لوگوں کو صرف دلائل اور براہین سے ہی اسلام کی طرف مائل کیا گیا تھا.پھر جب بڑے بڑے لوگوں کو

Page 434

۴۴۲۲ دلائل اور براہین سے اسلام میں داخل کیا گیا تھا.تو کمزور اور ادنی لوگوں کو دلائل اور براہین سے کیوں داخل نہیں کیا جا سکتا تھا.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی تعلیم کو ہم زیادہ سے زیادہ بہتر رنگ میں بھی نہیں اور اپنے اخلاق فاضلہ سے انہیں متاثر کریں.اگر پاکستان اس ذمہ داری کو احسن طریق پر ادا کرے تو انگلستان، امریکہ، جرمنی، فرانس ، سپین، آسٹریا ، سوئٹزر لینڈ، روس اور جاپان بلکہ ساری دنیا محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کہ آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو جائے گی اور وہ آپ کی غلامی میں فخر کرے گی...فصل افغانستان کے مخلص احمدی انشاء افغانستان میں ایک مخلص احمدی کی شہادت سے محق وصداقت کے لئے جانی قربانی پیش کرتے آرہے تھے.چنانچہ سب سے پہلے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کو وسوال او میں اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو تاریخ کا جولائی منشاء میں جام شہادت نوش کرنا پڑا.خلافت ثانیہ کے عہد میں تیری شہادت حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کو ۱۹۲۳ء میں نصیب ہوئی.۱۹۳۶ ء میں ولیداد خانصاحب اور آپ کا ڈیڑھ ماہ کا ننھا بچہ شہید کیا گیا.آپ کے بعد بھی بعض افغانستانی احمدی شہید کئے گئے جن میں داؤ د جان صاحب خاص طور پر له روزنامه المفضل سه تاریخ احمدیت جلد و صفحه ۱۸۵ سه تاریخ احمدیت جلد ۳ ۳۲ تا ۳۵۵ ۳ آخه تاریخ احمدیت جلده مشکل آمنم شه تاریخ احمدیت جلدث.مژده

Page 435

۴۴۲۳ قابل ذکر ہیں.آپ موضع جاجی ضلع پختیمہ صوبہ کابل کے رہنے والے تھے اور علاقہ کے معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے.اپنے خاندان میں اکیلے اور نہایت مخلص احمدی تھے جو تھوڑا ہی عرصه قبل ربوہ میں آکر حضرت مصلح موعود کے ہاتھ پر بیعت سے مشرف ہوئے تھے.آپ دسمبر 110 کے طلبہ سالانہ ربوہ میں شامل ہوئے اور ربوہ میں مجاہد اور نیو ڈاکٹر بدرالدین صاحب مرحوم کی کوٹھی واقع دارالصدر شمالی ربوہ میں ایک ماہ تک قیام کیا.واپسی پر لوگوں کو جب اس بات کا علم ہوا کہ آپ ربوہ گئے تھے.انہیں پکڑ لیا گیا اور علاقہ کے حاکم نے مطالبہ کیا کہ اسے موت کی سزا دو، مگر حاکم علاقہ تو شریف انسان تھے.اُن کے دل میں رقم تھا انہوں نے کہا کہ میں اس کے قتل کی کوئی وجہ نہیں دیکھتا.ہمارے ملک میں مذہبی آزادی ہے.جب لوگوں نے دیکھا کہ حاکم اسے مارنے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے قید خانہ پر حملہ کر دیا.اس کے دروازے توڑ دیئے اور داؤد جان کو قید خانہ سے نکال باہر کیا اور دریافت کیا کہ وہ گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ پاکستان گیا تھا.انہوں نے کہا ہاں میں گیا تھا.اس پر انہیں کھلے میدان میں کھڑا کر کے گولی مار کر شہید کر دیا گیا ہے یہ دردناک واقعہ کسی تاریخ کو پیش آیا.اس کے بارے میں کوئی قطعی رائے نہیں دی جاسکتی.البتہ بعض قرآن کی رو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ ضروری نام کے آخری ایام تھے.مرحوم کی کمر بوقت شہادت قریباً تیس سال تھی.مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیوہ محترمہ گل بی بی صاحبہ) - ایک بیٹی رامینہ خاتم اور تین بیٹے (غازی جان ابراہیم جان - گل جان) یادگار پھوڑے.حادثہ و شہادت کے بعد پسماندگان کو بھی بہت سے آلام و مصائب میں سے گزرنا پڑا.جس کی تفصیل بہت درد انگیز ہے.بینظلوم خاندان بڑی مشکل سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچائے له الفضل ۱۳ اپریل ۱۹۵۷ء مث و الفضل ۱۴ جون ۱۹۵۶ ص۲ کہ اس دردناک سانحہ کے چند ماہ بعد وسط ماہ جون ۹۵۶ہ میں افغانستان میں ایک ہلاکت آفرین زلزلہ آیا جواتنی شدید نوعیت کا تھا کہ دریاؤں نے اپنا رخ بدل لیا کٹی نالے نا پید ہوگئے، کابل اور نواحی علاقوں کے ہزاروں مکانات گر گئے چھ سو افراد ہلاک ہوئے مجروحین کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی.الغرض یہ زالزال قیامت صغری کا نمونہ تھا جو کوسٹر کے ۱۹۳۵ء کے زلزلہ سے بھی شدید اور ہولناک تھا.

Page 436

حضرت مصلح موعود نے شہید مرحوم کا جنازہ غائب ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ بر کو نماز جمعہ کے بعد پڑھایا اور مرحوم کا یوں تذکرہ کیا.یہ مخلص دوست جلسہ پر ربوہ آئے تھے.واپس گئے تو بعض لوگوں نے اُن کی شکایت حکام میں کر دی.انہوں نے بلا کہ دریافت کیا کہ کیا تم ربوہ گئے تھے تو انہوں نے کہا ہاں نہیں دیاوہ گیا تھا.اس پر انہیں قید کر دیا گیا.مگر ان کی قوم کی اس سے تسلی نہ ہوئی.چنانچہ ایک بڑے زیر دست ہجوم نے قید خانہ پر حملہ کر دیا اور اس کے دروازے اور کھڑکیاں توڑ دیں اور پھر انہیں نکال کرنے گئے اور کھلے میدان میں کھڑا کر کے شہید کر دیا.مرنا تو سب نے ہے لیکن اس قسم کی موت بہت دکھ اور تکلیف کا موجب ہوتی ہے اور مارنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق بناتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.انصُرُ أَخَاكَ ظَايعا او مَظْلُومًا کہ تو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم.ایک صحابی نے پوچھا یا رسول نہ مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آگئی ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے کی جائے.آپ نے فرمایا ظالم کو ظلم سے روکو یہی اس کی مدد ہے.نہیں تم دعائیں کمرو کہ اللہ تعالے ہماری جماعت کی حفاظت فرمائے اور جن لوگوں نے یہ غلطی کی ہے انہیں بھی ہدایت دے.تا بجائے اس کے کہ وہ احمدیوں کے خلاف تلوار اٹھائیں اُن کے دل احمدیت کے نور سے منور ہو جائیں اور انہیں نیکی کی راہوں پر چلنے کی توفیق نصیب ہو.سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح لاہور امین اسلامی ممالک کی نسبیت حریم صلی و ور کے اثرات یا خود ہمیشہ مسلمان ملک کی تمادو الموعود ہی ترقی بہبود کے لئے کوشاں رہتے تھے اور ان کی نیک شہرت کے خواہاں بھی تھے.داؤد جان کے بہیمانہ قتل کے واقعہ سے چونکہ بیرونی دنیا میں حکومت افغانستان کی بدنامی کا خدشہ تھا.اس لئے حضور نے ور مارچ شہداء کو شہید مرقوم کی نمازہ جنازہ پڑھاتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ ان کی شہادت میں افغانستان کا ہرگز کوئی دخل نہیں.ازاں بعد ۳۰ ر ماله په ۱۹۵۶ء کو ایک مفصل خطبہ ارشاد ل روزنامه الفضل ربوه ۱۳ را پریل ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۳ تا ره -

Page 437

۴۲۵.فرمایا جس میں افغانستان سمیت تمام اسلامی ممالک کی نسبت اپنا یہ تجربہ بتا یا کہ ان میں اسلام کے اثر کے ماتحت خدا ترسی کا زیادہ بہتر نمونہ پایا جاتا ہے.چنانچہ آپ نے پہلے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں حکومت افغانستان پر کوئی حرف نہیں آتا.ازاں بعد فرمایا :- " حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جب صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو شہید کیا گیا اور ملک میں احمدیوں کے خلاف جوش پیدا ہو گیا تو کچھ احمدی وہاں سے بھاگ کر هند دوستان آگئے مجھے یاد ہے امان اللہ خان سابق شاہ افغانستان تخت پر بیٹھا تو اس نے انگریزوں سے لڑائی کی اور اتفاق ایسا ہوا کہ اس لڑائی میں پٹھانوں کا پلہ بھاری رہا.عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ انگریزوں کے مقابلہ میں بیٹھانوں کی طاقت کچھ بھی نہیں.لیکن میں نے ان دنوں رویا میں دیکھا کہ اگر انگریزوں نے اس محاذ جنگ پر اپنے چوٹی کے افسر نہ بھیجے تو انہیں شکست ہوگی.نادر شاہ جو موجودہ شاہ افغانستان کے والد تھے ، وہ افغان فوج کے جبر نہیں تھے.انہیں خدا تعالے نے تو فیق دی اور انہوں نے کامیابی کے ساتھ انگریزوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا.اتفاق کی بات ہے کہ اس لڑائی کے کچھ عرصہ بعد شملہ گیا تو وہاں گورنمنٹ آف انڈیا کے ہوم سیکرٹری نے مجھے چائے پر بلایا.اس وقت کے چیف آف دی جنرل سٹاف بھی ان کے ساتھ تھے.باتوں باتوں میں میں نے انہیں اپنی رویا سنائی.اس پر چیف آف دی جنرل نشاف بے اختیار بول اُٹھے کہ آپ کی رؤیا بالکل درست ہے اور میں اس کا گواہ ہوں، میں اِن دنوں فوج کا کمانڈر تھا جو پٹھانوں سے لڑ رہی تھی.ایک دن پٹھان فوج ہمیں دھکیل کر اتنا پیچھے اتنا پیچھے لے گئی کہ ہرتی شکست میں کوئی شبہ باقی نہ یہ ہاتھا.اور ہمیں مرکز کی طرف سے یہ احکام موصول ہو گئے تھے کہ فوجیں واپ لے آؤ.چنانچہ ہم نے اپنا سامان ایک حد تک واپس بھیج یا تھا.لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ پٹھان فوج کو ہماری فوجی طاقت کے متعلق غلطی لگ گئی اور وہ آگے نہ بڑھی اگر وہ آگے بڑھ آتی تو افغان فوج ڈیرہ اسمعیل خان تک ہمیں دھکیل کر لے آتی.اور ہمارے ہاتھ سے پنجاب بھی نکل جاتا.اس لڑائی کے بعد افغانستان کا ایک وفد منصوری آیا.میں نے اپنا ایک وفد منصوری بھیجا تاکہ وہ افغان نمائندوں سے گفتگو کر سکے.انہوں نے کہا کہ آخر ہمارا کیا قصور ہے کہ آپ کے ملک میں ہمارے آدمی مارے جاتے ہیں.نیک محمد خاں صاحب جو غزنی کے گورنہ میر احمد خانصاحب کے.

Page 438

بیٹے ہیں.اس وند کے نمبر تھے، جو ہم نے منصوری بھیجا.افغان و قد میں محمود طرزی صاحب بھی تھے جو امان اللہ خاں کے شہر تھے اور حکومت افغانستان کی طرف سے پیرس میں سفیر بھی رہ چکے تھے.اور ایک ہندو وزیر تھے.جو اس وقت حکومت افغانستان کے وزیر خزانہ تھے.ہندو وزیر نے نیک محمد خاں کو دیکھتے ہی کہا تم تو پٹھان ہو تم یہاں کیسے آئے ہو.انہوں نے کہا میں احمدی ہوں آپ کے ملک میں امن نہیں تھا اس لئے میں یہاں آگیا.وزیر نے کہا تم کہاں کے رہنے والے ہو.انہوں نے کہا.میں غزنی کا رہنے والا ہوں اور وہاں کے گورنہ میر احمد خاں صاحب کا بیٹا ہوں.ہندو وزیر روتے ہوئے نیک محمد خاں صاحب سے بغل گیر ہوگیا اور کہنے لگا تم میر احمد خان کے بیٹے ہو اور یہاں پھر رہے ہو.میر احمد خاں تو میرا بھائی تھا تمہیں افغانستان میں کون کچھ کہہ سکتا ہے تم اپنے وطن میں واپس آجاؤ.میں تمہاری حفاظت کروں گا محمود طرزی صاحب نے بھی کہا کہ اگر تم افغانستان آجاؤ تو تم پر کوئی سختی نہیں ہوگی.میں خود نگرانی کروں گا تم ایک درخواست بھیج دو W تو میں تمہاری واپسی کا انتظام کروں گا.چنانچہ ہم نے مولوی نعمت اللہ خانصاحب کو جو پہلے افغانستان میں موجود تھے محمود طرزی صاحب سے ملنے کے لئے کہا.اور انہوں نے حسب وعدہ احمدیوں کی بعض تکالیف کا ازالہ کر دیا.اس موقع پر ہمارے مبلغ نے اپنے آپ کو جس طرح گورنمنٹ کے سامنے ظاہر کر دیا تھا پبلک پر بھی ظاہر کر دیا.شروع میں تو امان اللہ خانصاحب نے دلیری دیکھائی اور جہاں کہیں احمدیوں پر سختی ہوتی تھی.وہ خود فون کے ذریعے اسے روکتا اور کہتا کہ ہمارے ملک میں ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے.لیکن بعد میں مولویوں سے ڈر گیا اور مولوی نعمت اللہ خان کو سنگسار کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا.لیکن خدا تعالے نے امان اللہ خان کو بغیر سزا کے نہ چھوڑا جب نادر شاہ نے بر سر اقتدار آنا چاہے تو لات گا اس سے ہمیں ہمدردی تھی مگر نادر شاہ کو فوج نہیں ملتی تھی.اُس نے خیال کیا.اگر وزیری اس کے ساتھ مل جائیں تو اسے فتح کی امید ہوسکتی ہے.چنانچہ وہ سرحد پر آیا اور اس نے وزیریوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا.وہاں ایک احمدی حکیم تھے.جن کا وزیر یوں پر اثر تھا.انہوں نے نادر شاہ کے حق میں وزیر یوں میں پروپیگنڈا کیا.چنانچہ آہستہ آہستہ وزیری اس کے ساتھ شامل ہونے لگے اور تھوڑے عرصہ میں ہی ایک بڑا لشکر تیار ہوگیا، ایک اور احمدی نوجوان بھی وہاں

Page 439

۴۲۷ تھے جو خوست کے رہنے والے تھے.انہوں نے بھی اس کی مدد کی.چنانچہ نادر شاہ نے ان دونوں کو محبت کی نگاہ سے دیکھا اور وزیریوں کے اس لشکر کے ذریعے شاہی فوج کو شکست دی اور افغانستان کے تخت پر قابض ہو گیا.فتح کے بعد اس نے احمدیوں سے کہا کہ تم افغانستان واپسی چلو میں تمہیں آزادی دُوں گا.لیکن جب کچھ مدت تک انتظار کرنے کے با وجود احکام جاری نہ ہوئے تو احمدی دوست نادر شاہ سے ملے اور اسے اس کا فرعدہ یاد دلایا.نادر شاہ نے کہا مجھے اپنا وعدہ خوب یاد ہے.لیکن اگر موجودہ مخالفت کے دور میں میں نے احکام جاری کر دیئے تو مجھے خوف ہے کہ افغان کہیں مجھے ہی نہ مارہ ڈالیں.آپ کچھ دیر صبر کریں مناسب موقع ملنے پر میں احکام جاری کر دوں گا.پھر چند ماہ اور گذر گئے.لیکن پھر بھی حکومت کی طرف سے کوئی احکام جاری نہ ہوئے.اس پر ہمارے احمدی دوست پھر نادر شاہ سے ملے.اور کہا کہ اب تو ہم تنگ آچکے ہیں آخر آپ کب احکام جاری فرمائیں گے.کچھ دیر سوچنے کے بعد نادر شاہ نے کہا کہ مجھے ایک ترکیب سوجھی ہے.نہیں تمہارے خلاف حکومت کے پر اپنے حکم کی تائید کر دیتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی نہیں یہ حکم بھی دے دیتا ہوں کہ اگر کسی نے دوسرے شخص پر کوئی ایسا الزام لگایا جس کی سزا موت ہوئی اور وہ تحقیقات کے بعد جھوٹا ثابت ہوا تو الزام لگانے والے کو بھی موت کی سزا دی جائے گی.اس نے عام لوگوں پر قیاس کرتے ہوئے خیال کیا کہ جب کسی شخص کو یہ پتہ لگ جائے گا کہ اب اسے موت کی سزا ملنے والی ہے تو وہ احمدی ہونے سے انکار کر دے گا اور دوسری طرف الزام لگانے والا ڈرے گا کہ اگر تحقیقات پر اس نے احمدی ہونے سے انکار کر دیا تو مجھے موت کی سزائے گی.چنانچہ واقعہ میں ایسا ہی ہوا.اس اعلان کے نتیجہ میں لوگ ڈر گئے کہ اگر ہم کسی کو قادیانی کہیں گے اور وہ موقعہ پر قادیانی ہونے سے انکار کر دے تو ہمیں موت کی سزا ملے گی.اس کے نتیجہ میں احمدی بے دھڑک وہاں رہنے لگ گئے انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا تھا.ظاہر شاہ کے وقت میں بھی ایسا ہوا کہ اگر کسی والی نے احمدیوں کو پکڑ لیا اور اُن سے رشوت طلب کی تو بادشاہ نے نہ صرف انہیں آزاد کروا دیا بلکہ والی نے اگر کچھ روپیہ لے لیا تھا تو وہ بھی واپس دلوا دیا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ اسلام کے اثر کی وجہ سے ہے.چاہے اُن کے ملک میں کتنی غیر آئینی ہے مگر چونکہ وہ مسلمانوں کی نسل سے ہیں اس لئے ان میں کسی حد تک نیکی کا مادہ موجود

Page 440

۴۲۸ ہے.اب بھی یہ خبر ملی ہے کہ تیرہ احمدی جو گرفتار کئے گئے تھے، حکومت نے انہیں رہا کر دیا ہے.یہ چیز بتاتی ہے کہ چاہے مسلمانوں میں کتنی خرابیاں ہوں.اسلامی تعلیم کا ان پر اس قدر اثر ضرورہ ہے کہ انہیں نیکی کی طرف مائل کر دیتا ہے.نہیں نے دیکھا ہے ہم خوشی اور افسوس کے مواقع پر حکومتوں کو تاریں دیتے ہیں تو غیر احمدی اسلامی حکومتیں ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ہماری تاروں اور پیغامات کی پرواہ بھی نہیں کرتیں لیکن اسلامی حکومتیں ان کی قدر کرتی ہیں.مجھے یاد ہے ابن سعود کو ایک دفعہ کسی موقع پر تار دی گئی تو انہوں نے فوراً اپنے نام سے جماعت کا شکر یہ ادا کیا.پھر ایک دفعہ اردن کے شاہ عبداللہ کو میں نے خط لکھا تو انہوں نے اس کے جواب میں اپنے دستخطوں سے ایک مفصل خط بھجوایا.شاہ ایران کو ایک دفعہ ہمدردی کی تار دی تو انہوں نے حسین اعلیٰ کے ذریعہ جو اس وقت وزیرہ درہ بار تھے شکریہ کی تار بھیجی.عرض میں نے دیکھا ہے کہ اسلامی حکومتوں میں بہت سے اسلامی اخلاق ابھی باقی ہیں مبثل مصر میں ہماری جماعت کے امیر فوت ہوئے تو خود جنرل نجیب اور کرنل نا صرنے ہمدردی کی تاریں ان کے خاندان کو دیں بلکہ ان میں سے ایک نے دو تاریں دیں.ایک تارہ ان کے اپنے خاندان کے رئیس ہونے کی وجہ سے اور ایک تاران کے جماعت کے امیر ہونے کی حیثیت سے لیکن یہ باتیں ان علاقوں میں نہیں پائی جاتیں جو ہندو اثر کے نیچے ہیں مثلاً یہی دیکھ لو جب میں لاہور جاتا ہوں تو وہاں بڑی جماعت ہے اور اسمبلی کے ۲۵ - ۳۰ ممبر ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے ووٹوں سے مبر بنے ہوتے ہیں.لیکن چونکہ وہ ہندو اثر کے نیچے رہے ہیں اس لئے وہ ملنے سے گھبراتے ہیں.لیکن جب میں پشاور گیا تو اس وقت جو پارٹی بھی مجھے دی گئی اس میں صوبائی وزیر اعظم خان عبدالقیوم خانصاحب اور دو تین اور وزیر اور جوڈیشیل کورٹ کے حج بھی شریک ہوئے.اس کے مقابلہ میں لاہور میں بعض چھوٹے چھوٹے ریکس بھی ہماری پارٹیوں میں آنے سے گھیراتے ہیں حالانکہ ان پہ ہمارے احسانات بھی ہوتے ہیں.اور اس کی وجہ یہی ہے کہ لاہور کا علاقہ ہندو اثر کے نیچے رہا ہے اور پشاور اسلامی اثر کے نیچے ہے.اس لئے وہاں ابھی تک اسلام کا اثر پایا جاتا ہے.افغانستان میں جو تیرہ احمدیوں کو رہا کیا گیا ہے اس کو بھی اسلام کے اللہ کا ہی نتیجہ سمجھتا ہوں.یکہ داؤد جان صاحب کو بھی جو شہید کر دیئے گئے ہیں.علاقہ کے گورنر نے بچانے کی پوری کوشش

Page 441

۴۲۹ کی لیکن ہجوم نے حملہ کر کے انہیں باہر نکال لیا.اور گولی مار کر شہید کر دیا ، وہاں مشخص کے پاس مہتھیار ہوتے ہیں اور جب لوگ جوش میں آجاتے ہیں تو حاکم بھی ڈر جاتے ہیں.بہر حال میرا تجربہ یہی ہے کہ جن ممالک میں اسلامی اثر پایا جاتا ہے وہاں کے رہنے والوں میں زیادہ..” اچھے اخلاق پائے جاتے ہیں.ان میں زیادہ تواضع ہوتی ہے.اور ان میں زیادہ انکار پایا جاتا ہے لیکن جن لوگوں پر اسلامی اثر نہیں یا وہ غیر قوموں کے ساتھ رہ رہ کر اپنی اسلامی روایات کو بھول گئے ہیں.ان میں آپ اسلام والی باتیں نہیں پائی جاتیں بلک ان میں عزور زیادہ پایا جاتا ہے.ورنہ اسلام کی برکت سے اسلامی ممالک میں بھی اگر چہ ہماری جماعت کی مخالفت کی جاتی ہے مگر تعلقات کے بارہ میں ان کی حالت دوسروں کی نسبت بہت زیادہ اچھی ہے.ابھی پچھلے دنوں مجھے ایران کے ایک مذہبی لیڈر کا خط آیا جس میں اُس نے لکھا کہ آئیں ہم مل کر اسلام کی خدمت کریں.میں نے اسے پہنی لکھا ہے کہ ہم تو اس کے لئے تیار ہیں مگر تم خود غور کر لو.کہیں بعد میں لوگوں کی مخالفت پر پیچھے نہ ہٹ جانا.ہمارے ملک میں تو لوگوں کی یہ کیفیت ہے کہ جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ انہیں اپنے جلسے منعقد کرنے کے لئے بھی رویہ نہیں ملتا تھا اور ہمیشہ میں انہیں مدد دیا کرتا تھا لیکن اب یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہمارا مسلم لیگ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا.مجھے لاہور میں ایک دفعہ لکھنو کے ایک وکیل ہے.انہوں نے کہا کہ میں قریباً نو سال موں نا محمد علی صاحب کا سیکرٹری رہا ہوں اور مجھے خوب یاد ہے کہ جب کبھی مسلم لیگ کا جلسہ ہوتا تھا آپ کو اس میں بلایا جاتا تھا.اور آپ سے مشورہ لیا جاتا تھا.میں نے کہا دوسرے مسلمان تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارا مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں رہا.وہ کہنے لگے کہ کوئی شخص جو حالات سے واقف ہو ایسا نہیں کہ سکتا.میں خود مسلم لیگ کے ملبوں میں شریک ہوتا رہا ہوں اللہ مجھے خوب یاد ہے کہ آپ کو ان جلسوں میں بلایا جاتا تھا اور جب روپیہ کی وجہ سے جلسہ نہ ہو سکتا تھا تو آپ سے مالی امداد لی جاتی تھی.ہم لوگ جو ابھی تک زندہ موجود ہیں اس بات کے گواہ ہیں.نہیں نے کہا کمرہ میں بیٹھ کر آپ کے گواہی دینے سے کیا بنتا ہے.اگر آپ میں حجرات ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ حق بات کہہ رہے ہیں تو اخباروں میں بھی اپنا بیان شائع کر دائیں ، پس حقیقت یہی ہے کہ

Page 442

۴۳۰ جن ممالک میں اسلامی اثرہ پایا جاتا ہے ان میں ہمیں اخلاق ، تواضع اور انکسار نظر آتا ہے.اور انہیں خدا تعالیٰ سے بھی محبت ہوتی ہے اس طرح سکھوں میں میں نے دیکھا ہے کہ ان میں بھی خداقا کی محبت پائی جاتی ہے.میں نے عام طور پر دیکھا ہے کہ سکھ ملنے آتے تھے تو وہ ہاتھ جوڑ کر رونے لگ جاتے تھے.اور کہتے تھے کہ دعا کریں ہمیں خدا مل جائے.اسی طرح ہندؤوں میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس میں خدا تعالیٰ سے ملنے کی تڑپ پائی جاتی ہے.بدقسمتی ہماری ہے کہ ہم نے ان میں تبلیغ بند کر دی ہے اور خدا تعالیٰ کی نعمت کو تالے لگا دیتے ہیں.اگر ہم انہیں تبلیغ کہیں تو وہ ضرور اثر قبول کر لیں مجھے ایک دعوت کے موقع پر کراچی کے ایک انڈین ہائی کشتر طے انہوں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ مجھے اسلام کی کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق ہے اور آپ کا لٹریچر بھی نہیں نے پڑھا ہے.اس طرح تصوف کی طرف مجھے رکنیت ہے.اور فارسی اور عربی کی قابلیت جس قدر میں پیدا کر سکا ہوں اس کے مطابق تصوف کی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں.عرض بڑے بڑے ہندؤوں میں بھی خدا تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہے مدراس کے مشہور کانگرسی لیڈر شری را جگو پال اچاریہ کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ ان میں بھی خدا تعالے کا خوف پایا جاتا ہے اور ان کا دل چاہتا ہے کہ ہندوستان میں عدل و انصاف قائم رہے اور مسلمانوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن ہم ان لوگوں تک اسلام کی تعلیم مناسب طریق سے نہیں پہنچاتے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ حکومت افغانستان نے ہمارے تیره احمدی کو چھوڑ دیا جو دوست شہید کر دیئے گئے ہیں اُن کی شہادت میں بھی گورنمنٹ کو کوئی دخل نہیں لوگ انہیں زبر دستی قید خانہ سے نکال کر لے گئے اور شہید کر دیا.بہر حال دوست دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک میں احمدیوں کے لئے امن کی صورت پیدا کر دے اور جن لوگوں نے وحشیانہ نمونہ دکھایا ہے انہیں ہدایت دے آخر وہ بھی ہمارے بھائی ہیں.اور خدا تعالے چاہیے تو وہ انہیں ہدایت دے سکتا ہے.ه روزنامه الفضل ربوه ۱۴ جون ۱۹۵۶ صفحه ۲۰ تا ۲

Page 443

داؤد جان کی شہادت سے تعلق دہلی کے ہفت روزہ "ریاست نے دار جان حساب مرحوم کی شہادت سے متعلق حسب ذیل ادارتی نوٹ اخبار ریاست کا اداریہ سپر د اشاعت کیا :- " افغانستان میں مذہبی آزادی احمدیوں کی سنگساری قابل توجه کنگ ظاہر شاہ چند روز ہوئے افغانستان کے ملاؤں اور مذہبی دیوانوں نے کابل کے جیل خانہ پر حملہ کر کے ایک افغان داؤد جان کو جیل سے نکال کر اس کو ہلاک کر دیا.جس کے حالات یہ ہیں.داؤد جان احمدی خیالات کے تھے اور وہ پچھلے سال احمدیوں کے سالانہ جلسہ میں شامل ہوتے کے لئے ربوہ (ضلع جھنگ پاکستان گئے.اس جلسہ میں شامل ہونے کے بعد یہ جب واپس کابل پہنچے تو وہاں کے مذہبی ملاؤں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ احمدیوں کے سالانہ جلسے میں شامل ہونے کے لئے ربوہ گئے تھے.داؤد جان ایک نیک اور مذاہبی شخصیت تھے.جو جھوٹ بولنا گناہ سمجھتے تھے.انہوں نے جواب دیا کہ ہاں آپ ربوہ گئے تھے.ان کے ربوہ جانے کے مجرم میں ان ملاؤں نے افغان گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ داؤد جان کو گرفتار کر کے ان کو سزا دی جائے.چنانچہ افغانستان کی گورنمنٹ کے حکم سے آپ گرفتار کئے گئے.اور ابھی آپ پر مقدمہ نہ چلایا گیا تھا کہ مذہبی ملا بے صبر ہو گئے اور انہوں نے مذہبی غنڈوں کو ساتھ لیکر کابل جیل پر حملہ کیا.داؤد جان کو جیل سے نکالا اور جیل سے باہرے جا کہ ان کو ہلاک کر دیا.یہ واقعہ نہ صرف افغانستان میں مذہبی آزادی کے جنازہ کا ثبوت تھا.اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ افغان گورنمنٹ لا اینڈ آرڈر کے اختیار سے کسی طرح مفلوج ہے جہاں کہ لوگ قیدیوں کو جیل سے بھی جبرائے جا سکتے ہیں.افغانستان کے اس واقعہ بالکلہ کے متعلق اب کابل کی تازہ اطلاع ہے کہ افغان گورنمنٹ نے ان تمام لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے جو جیل پر حملہ کر کے دادو جان کو ہلاک کرنے کا باعث تھے.افغانستان میں مذہبی آزادی کا عدم وجود نیا واقعہ نہیں.جو کچھ آج کابل میں ٹوا آج سے بہت برس پہلے کنگ امان اللہ کے زمانہ میں بھی ہو چکا ہے جہاں احمدیوں کو اختلاف مذہب کے

Page 444

بعد " " جرم میں پھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا اور وہاں کے کئی احمدی جو افغانستان کے باشندے تھے.افغانستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے.چنانچہ افغانوں اور انگریزوں کی جنگ (اس وقت کے کمانڈر انچیف افغانستان کے موجودہ بادشاہ ظاہر شاہ کے والد نادر خان تھے ) کے بعد صلح کے سلسلے میں افغان لیڈروں کا ایک ڈیپوٹیشن ہندوستان آیا جس میں افغانستان کے وزیر اعظم محمود طرزی اور ایک ہندو وزیر بھی شامل تھے تو احمدیوں کا ایک وفد اس ڈیپٹومیشن سے ملا اور اس وفد کی قیادت افغانستان کے ایک احمدی نیک محمد خان کر رہے تھے جو غزنی کے گورنر میر احمد خان کے بیٹے تھے.یہ وفد جب افغان لیڈروں اور وزراء سے ملا تو ہندو وزیر نے نیک محمد خان سے پوچھا کہ تم تو افغانستان کے باشندے معلوم ہوتے ہو.تم احمدیوں کے دند میں کیونکہ شامل ہوئے.تو نیک محمد خان نے جواب دیا کہ آپ غزنی کے گورنہ میر احمد خان کے بیٹے ہیں اور احمدی ہونے کے جرم میں ہجرت کر کے ہندوستان آچکے ہیں.اس ہندو وزیر نے جب پیشنا کہ یہ گورنر میر احمد خاں کے لڑکے ہیں تو آپ ضبط نہ کر سکے اور آپ روتے ہوئے نیک محمد خاں سے بغل گیر ہو گئے کیونکہ گورنہ میر احمد خاں اس ہندو وزیر کے گہرے دوستوں میں سے تھے اور کہا کہ تم واپس افغانستان آجاؤ تمہیں افغانستان میں کوئی کچھ نہ کہہ سکے گا اور افغان گورنمنٹ تمہاری حفاظت کرے گی.چنانچہ اس ہندو وزیر اور افغانستان کے وزیر اعظم محمود طرزی (جو ایشیا کے ممالک میں ایک بہت بڑے سیاست دان اور کنگ امان اللہ کے خسر تھے ) نے احمدیوں کو حفاظت کا یقین دلایا اور یہ واقعہ ہے کہ حفاظت کے اس یقین دلانے کے بعد افغانستان کی گورنمنٹ نے افغانستان کے احمدیوں کی حفاظت بھی کی.مگر اس کے بعد احمدیوں کے خلاف افغانستان کے ملاؤں نے جب یہ شور پیدا کیا تو کنگ امان اللہ نے بغاوت سے خوفزدہ ہو کہ ایک احمدی مولوی نعمت اللہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور یہ پبلک میں سنگسار کئے گئے.سوال یہ ہے کہ حالات کے بدلنے کے بعد جب کہ یہ قرار دے لیا گیا ہے کہ دنیا میں ہرشخص کو مذہبی اور سیاسی خیالات رکھنے کا حق حاصل ہے.امریکہ جیسے سرمایہ پرست میں کمیونسٹ کہ سکتے ہیں منصر میں عیسائیوں کو مسلمانوں جیسے حقوق حاصل ہیں.جاپان، چین اور برما جیسے بدھ مذہب رکھنے والے ممالک میں عیسائی اور مسلمان رہ سکتے ہیں.روس میں بھی مساجد اور

Page 445

۴۴۳۳ مذہبی معابد موجود ہیں اور ہندوستان میں ہر مذہب کے انسان کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہے.تو کیا افغانستان میں احمدیوں کا مذہبی غنڈوں کے ہاتھوں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جانا چاہیے.انصاف پسند دنیا کی نظروں میں قابل در گزر قرار دیا جاسکتا ہے جس پر افغانستان کے موجودہ بادشاہ کنگ ظاہر شاہ اور ان کی گورنمنٹ کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہم چاہتے ہیں کہ کنگ ظاہر شاہ اور ان کی گورنمنٹ احمدیوں کی حفاظت کا ذمہ لے تا کہ وہاں آئندہ کسی شخص کو بھی اس تنگ انسانیت فعل کی جرات نہ ہو اور وہاں ہر مذہب کے لوگ دوسرے ممالک کی طرح آزادی اور اطمینان کے ساتھ زندہ رہ سکیسی فصل مفتیم شید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعودة نخلہ کے نام سے ایک نئی بستی کی بنیاد.تقسیم ہند سے قبل تبدیلی آب و ہوا کے لئے اکثر پالم پور اور ڈلہوزی تشریف لے جایا کرتے تھے.کیونکہ یہ پہاڑی مقامات ایک تو زیادہ بلندی پر واقع نہیں ہیں.دوسرے ان کی آب و ہوا معتدل ہونے کے باعث حضور انورہ کے مزاج مبارک کے موافق تھی.قیام پاکستان کے بعد اس مقصد کے لئے مری میں خیبر لاج حاصل کی گئی مگر مری موزوں جگہ ثابت نہ ہوئی.اس لئے حضور کی ہدایت پر جابہ ضلع سرگودہا (حال ضلع خوشاب ) کے قریب اس سال کے شروع میں نخلہ کے نام سے ایک اضافی بستی کی بنیاد رکھی گئی نخلہ کی زمین نواب مسعود احمد خان صاحب کی ملکیت تھی.تعمیرات سے پہلے اس جگہ دو چھو لداریاں نصب کی گئیں جو سرگودہا سے کرائے پر حاصل کی گئی تھیں.سب سے پہلے حضرت مصلح موعود کی کوٹھی کی ہفتہ وار ریاست دہلی ۲۵ جون ۶۱۹۵۶ *

Page 446

۴۴۳۴ بنیاد رکھی گئی جس کی ابتدا میں بعض مقامی لوگوں نے مخالفت کی.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ رودک غیر احمدی شرفاء کی مداخلت سے بہت جلد دور ہو گئی.یہ کو بھی حضرت صاحبزادہ مرزا نا صراح صاحب چئیر مین صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی نگرانی میں شہوار کے وسط آخر میں نہایت تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچیں.کو مٹی کا نقشہ سید سردار حسین شاہ صاحب نے تیار کیا.اور اس کے حسابات کی خدمت کردم ملک فضل عمر صاحب مولوی فاضل نے سرانجام دیے نخلہ میں حضور کی کوٹھی کے علاوہ مندرجہ ذیل عمارات بھی تعمیر کی گا (۱) مسجد.(۲) دفتر پرائیویٹ سیکرٹری.(۳) بیر کسی برائے پہریداران (۲) کوارٹرز برائے صاحبزادگان حضرت مصلح موعود - (۵) کوارٹرز برائے ناظر صاحبان و وکلاء حضرات تحریک جدید (4) بیر کس برائے غیر ملکی طلباء.(۷) کوارٹر برائے ڈسپنسری وڈسپنسر - (۸) کوارٹر برائے نخلہ - (۹) گیسٹ ہاؤس برائے جامعہ نصرت کہ وہ لیے نتخلہ کے ماحول کو خوشگوار اور پر فضا بنانے کے لئے ایک باغ بھی لگا یا گیا جس میں ولایتی شریفہ ، یوکلپٹس ، مالٹا ، آلوچہ ، آڑو، امرود، انگور، انجیر اور فالسہ کے پوڈ لگائے گئے.تخلہ کی قیام گاہوں میں روشنی اور منکھوں کے لئے جبر پیر نصب کیا گیا جو محمد اکرام اللہ صاحب ملتان چھاؤنی کے ذریعہ جہتا ہوا.وائرنگ کے لئے نصرت کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں جبس کے نگران صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور مینجر چوہدری غلام حسین صاحب تھے.تخلہ کے پرانے ریکارڈ کے مطابق سید نا حضرت مصلح موعود تعمیرات کا معائنہ کرنے کے لئے نخلہ میں پہلی بار ۲۵ جون شاء (احسان ) کو رونق افروز ہوئے.اور ایک رات کے قیام کے بعد مری تشریف لے گئے.اس ابتدائی سفر کے بعد حضور ہر سال جابہ میں تشریف لے جاتے رہے.آخری بار حضور نے اور جولائی ۹۶۲ہ رونا رہ ) کو سفر نخلہ اختیار فرمایا اور قریباً اڑھائی ماہ تک قیام فرما نہ ہنے کے بعد اور ستمبر نے رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ریوه ۵-۱۹۹۷ یه ۱۲۱۰ }

Page 447

باغ کو جانے والی سٹرک کوارٹرز ناظر صاحبان صدر انجمن احمدی و کلاء حضرات تحریک جدید طلباء معالج خاص بیر کسی برائے پہریداران باغ کوارٹرز صاحبزادگان کوارٹرز غیر ملکی دفتر کو بھی حضرت مصلح موعود شمال اقدس دفتر پرائیویٹ سیکٹری 23 مشرق يد بیر کسی برائے پہر بداران ۴۴۳۵

Page 448

م نهم ر تبوک ) کو ربوہ تشریف لائے.بلم نظر میں سلسلہ احمدیہ کے بہت سے اہم دینی کام سرانجام پائے حضور نے یہاں مقعد ایمان فرو خطبات بعد ارشاد فرمائے تفسیر صغیر جیسی مہتم باستان تفسیر بیبی یا یہ تکمیل تک پنچی (جس کا ذکر آگے آرہا ہے.بہت سے خوش قسمت افراد اور جماعتوں کو اپنے پیارے امام سے شرف باریابی کے قیمتی مواقع میسر آئے.حضرت مصلح موعود کے وصال ہے نومبر ۱۹ ) کے بعد حضرت خلیفہ لمسیح الثالث رضی شد عنہ بھی اپنے مبارک عہد خلافت کے اوائل میں نخلہ تشریف لے گئے یہ افسوس مئی جون ۱۹۷۴ٹر کے ملکی ہنگاموں کے دوران نتخلہ کی بستی نہایت بے دردی سے تاخت و تاراج کر دی گئی.سال ۱۹۹۶ (۳) کو یہ خصوصیت میل اخبار المنیر لائل پور کا اعتراف حق ہے کہ اندرونی اور بیرونی مخالفتوں کے باوجود سلسلہ احمدیہ کے مخالف پریس نے نہ صرف جماعت احمدیہ کی خارق عادت ترقی کا واضح لفظوں میں نے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی مطبوع رپورٹوں کے مطابق سیدنا حضرت مصلح موعود کے قیام نخلہ کی تفصیلی تاریخیں درج ذیل ہیں :.اوره ) از ۳ ستمبرتا هر ستمبر، از هر نومبر تا نومبر، از ۲ دسمبر تا هر دسمبر (اور ) از ۲۲ جنوری تا ۲۵ جنوری ، از ۲۶ مارچ تا ۲۹ مارچ ، از درهمی تا ۱۶ ستمبر وار جولائی سے ۲۷ جولائی تک مری میں قیام رہا.ان ۲۳ ستمبر تا ۱۰ اکتوبر ۱۸۴۷۰ اکتوبر تا ۱۲ اکتوبر اء / ۱۳۸۳) از ۲۲ را پریل تا ۳۰ را پریل.((..از ارمنی تا ارمنی ، ، جون تا ۳ را گست.۱۳) از ۹ ارجون تا ۲۸ جون - (۹) از ۱۲ تیون تا ۵ ارجون - ۲۱ جون نام رکتومیه (۹) از ۹ جولائی تا ۲۶ ستمبر کے سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۹۲۵۶ اید منفجر ۲ - سه حال فیصل آباد -

Page 449

۴۳۷ اقرار و اعتراف کیا بلکہ اس کے خلاف اُٹھنے والی بعض مخالف تحریکات کے مذہبی اور سیاسی خدموال بھی پوری طرح بے نقاب کر ڈالے جو صداقتِ احمدیت کا منہ بولتا نشان تھا.اس سلسلہ میں اخبار المنبر (لائل پور) کے چند ادارتی نوٹ درج کئے جاتے ہیں : (1) - " ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا.لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی.مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا ان میں سے اکثر تقویٰ ، تعلق باشد، دیانت خلوص، علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے.سید نذیر حسین صاحب دہلوی.مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی ، مولانا قاضی سید سلیمان منصور پوری.مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی مولانا عبد الجبار غزنوی مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری اور دوسرے اکا یہ رجیم الله وغفر لہیم کے بارے میں مہارا احسن خلق یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر ورسوخ اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں.اگرچہ یہ الفاظ سننے اور پڑھنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے اور قادیانی اخبارات و رسائل بھی چند دن اپنی تائید میں پیش کر کے خوش ہوتے رہیں گے لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر ( نور اللہ مرقدهم و بر مضاجعهم ) کی تمام کا دشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتے رہے تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا.وہاں ان کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں.گذشتہ ہفتہ روس اور امریکہ کے دو سائنس دان یہ کوہ وارد ہوئے ) اور دوسری جانب ۱۹۵۳ر کے عظیم تر ہنگامہ کے باوجود.قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا ۱۹۵۶۵۶ء کا بجٹ پچیس لاکھ ۲۵,۰۰۰ ) کا ہو.(1904-0

Page 450

۳۳۸ دیوں کے کالج ، ہائی سکول اور پرائمری مدارس میں سینکڑوں مسلمانوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں.جن کا متقبل اعتقادی اعتبار سے خطر ناک ترین ہے.ه - قادیانی شعبہ خدمت خلق (تقدام الاحمدیہ ) کی بوگس رپورٹوں اور سطحی قسم کے پروپیگنڈا کی صفت سے باخبر ہونے کے باوجود ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ سینکڑوں مسلمانوں نے ان کے کام سے اثر قبول کیا..حکومت میں ان کا اثر علی حالہ قائم اور موجود ہے.ملازمتوں میں ان کی ترقی حسب سابق ہے.-- تجارت میں اگر چہ ان کی وہ ہمہ گیر اسکیم جو ۱۹۵۵ء میں مرزا محمود احمد صاحب کے حسب ایما پنجاب کی منڈیوں پر چھا جانے کی عرض سے بنائی گئی تھی، ناکام رہی ہے.لیکن یہ امر واقعہ ہے ان کا تجارتی رسوخ ترقی پذیر اور مالی حالت مستحکم ہے..ربوہ بسرعت ایسا شہر بن رہا ہے جو تعلیم ، تجارت ، کارخانوں اور دوسرے مادی وسائل کے اعتبار سے پاکستان کا متوسط شہر ہو گا اور امتیازہ یہ کہ دنیا میں واحد ایسا شہر ہو گا جس میں کوئی شخص مرزا غلام احمد صاحب کا منکر نہیں ہو گا.۱۵۳ یو کے وسیع ترین فسادات کے بعد جن لوگوں کو یہ وہم لاحق ہو گیا ہے کہ قادیانیت ختم ہو گئی یا اس کی ترقی رک گئی.انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ بلدیاتی اداروں میں ملکہ (بعض اطلاعات کی بناء پر مغربی پاکستان اسمبلی میں قادیانی ممبر منتخب کئے گئے ہیں..پاکستان سے یا ہر دنیا کے کم وبیش تیس ممالک میں سے اکثر ایسے ملک ہیں جن کے قادیانی عقیدہ رکھنے دانوں نے صدر انجمن احمد یہ ربوہ " اور صدر انجین احمدیہ قادیان" کے نام لاکھوں کی جائیدادیں وقف کر رکھی ہیں.(۲)." قادیانی باطل ان تمام مخالفتوں کے علی الرغم کیوں قائم و موجود ہے اور خواہ چیونٹی کی رفتار سے چلے کیوں وسیع ہوتا جارہا ہے ؟ اس سوال کا جواب ہمارے نزدیک یہ ہفت روزہ " المنیر لائل پور ۱۳ار فروری ۱۹۵۶ بر صفحون -

Page 451

۴۳۹ ہے کہ اس کائنات میں سنت اللہ الہی قانون تاند) یہ ہے کہ خاطر کائنات نے چند ایسے ضوابط قائم کر رکھے ہیں کہ جو گروہ دخواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر ) انہیں اپنا لے وہ قائم بھی رہے گا اور مادی و ظاہری اعتبار سے ارتقاء و عروج بھی حاصل کرتا رہے گا.(1) پہلا ضابطہ قیام و ارتقاء یہ ہے وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ.ہر وہ چیز جو انسانیت کے لئے نفع رساں ہو اسے زمین پر قیام و بقا عطا ہوتا ہے.رحیم ورحمان کی رحمت کا جوش اور دوام متقاضی ہے کہ انسانیت بڑھے، پھولے اور ترقی پائے.اسی مقصد کے لئے کائنات میں " نفع رسانی " کا عنصر سب پر غالب رکھا گیا ہے.اور جس چیز میں یہ تو ہر جب تک موجود رہتا ہے اس کی حفاظت عنا صر فطرت کے ذمہ بطور فرض عائد ہے.درخت کے پتے خواہ کانٹے دار درختوں کے ہوں یا پھلدار اشجار کے ، جب تک زہریلے گیسوں کو جذب کرتے اور صحت اور ہوا باہر پھینکتے رہتے ہیں.درخت کی جڑ انہیں غذا بہم پہنچاتی رہتی ہے.لیکن جونہی ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے ٹہنیاں انہیں اپنے جسم سے کاٹ دیتی ہیں اور وہ ایندھن کی شکل میں بھاڑوں اور چوہلوں میں ڈال دیئے جاتے ہیں.قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جو ہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدوجہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں.یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں.سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں.ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں.اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن وسلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں.کہا جا سکتا ہے اور ہم خود اسے زیادہ شدت کے ساتھ کہتے ہیں کہ قادیانی حضرات دین کی تخریف کرتے ہیں.وہ اس سیرت رسول کے تصور سے ہی محروم ہیں.جو انبیا وعلیہم السلام نے پیش کی تھی.یہ بھی بجا ہے کہ وہ اس دودھ میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی مسیحیت کے زہر کو یہ ہے کہ وہ میں " ملا کہ پیش کرتے ہیں.لیکن بایں ہمہ یہ امر قابلِ اعتراف ہے کہ " فَيُبلغ الشاهِدُ الْغَابُ" کا فرض جو امت محمدیہ پر عائد کیا گیا تھا.امت کی کوتاہی کے باعث معطل یا کم از کم نیم معطل تھا.اس باطل گروہ کے ذریعہ اسلام اور صاحب اسلام کا رسمی تعارف اور بعض حقوں میں تفصیلی

Page 452

مام تعارف ان کے ذریعہ کرایا جارہا ہے.اور جب تک کوئی صحیح العقیدہ گروہ آگے بڑھ کہ کرہ ارض کے تمام باشندوں میں اسلام کی دعوت کا بیڑہ نہیں اُٹھا لیتا.عین ممکن ہے کہ صرف اس کام کے لئے اس جماعت کو نعمت زندگی عطا کی جائے.غیر مسلم ملک میں قرآنی تراجم اور اسلامی تبلیغ کا صرف اسی اصول " نفع رسانی کی وجہ سے قادیانیت کے بقا اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے.ظاہری حیثیت سے بھی اس کی وجہ سے قادیانیوں کی ساتھ قائم ہے ایک عبرت انگیز واقعہ خود ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوا ۵۶ او میں جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ میں علم اور اسلامی مسائل سے دل بہلا رہے تھے اور تمام کلم جماعتیں قادیانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی جدو جہد میں مصروف تھیں.قادیانی عین انہی دنوں ڈرچ اور بعض دوسری غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ قرآن مکمل کر چکے تھے.اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام محمد اور جسٹس منیر کی خدمت میں یہ تراجم پیش کئے گویا وہ زبان حال وقال یہ کہ رہے تھے کہ ہم ہیں وہ غیر مسلم اور خارج از ملت اسلامیہ جماعت جو اس وقت جب کہ ہمیں آپ لوگ " کافر قرار دینے کے لئے پر تول رہے ہیں.ہم غیر مسلموں کے سامنے قرآن اُن کی مادری زبان میں پیش کر رہے ہیں.غور فرمائیے ان ائیے ان لوگوں کا تاثر کیا ہوگا ؟ اور قادیانیوں کا یہ کام ان کی زندگی اور ترقی میں کسی متریک ممدو معاون ہے ؟ مقصد کی لگن اور ایشیار، یہ جو سر بھی جس گروہ یا فرد میں پایا جائے گا وہ پڑھے پھوٹے گا.اور اس میں قدرت کفر و اسلام کے امتیاز کے بغیر تیار کرنے والے کو نتائج سے بہرہ ور کرتی ہے.قادیانیوں نے گذشتہ پچاس سال میں اندرون اور بیرون ملک اپنی اسلامی زندگی کو قائم رکھنے اور قادیانی تحریک کو عام کرنے کے سلسلے میں جدوجہد کی ہے.اس کا یہ پہلو نمایاں ہے کہ انہوں نے اس کے لئے ایثار و قربانی سے کام لیا ہے.ملک میں ہزاروں اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اس نٹے مذہب کی خاطر اپنی برادریوں سے علیحدگی اختیار کی.دنیوی نقصانات برداشت کئے اور جان و مال کی قربانیاں پیش کیں.بلاشبہ ہم ان لوگوں کو غیر خلص سمجھتے ہیں.جو اپنے متعلق یہ جانے کے باوجود کہ ان کی

Page 453

الم لم نہ ندگیاں کھلے فاحش سے آسودہ ہیں.اور اپنے آپ کو الہام الہی کا مورد قرار دیتے ہیں اور اس حقیقت سے کما حقہ آگاہ ہونے کے باوصف کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور اس کے قانون جزا و سزا پر یقین نہیں رکھتے بایں ہمہ وہ محبت الہی اور احساس آخرت پر مواعظ اور خطبے دے کہ اپنے مریدوں کو دام تزویز میں پھنسائے ہوئے ہیں.لیکن ہم کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ قادبیاتی عوام میں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اخلاص کے ساتھ اس سراب کو حقیقت سمجھ کر اس کے لئے مال و جان اور دنیوی وسائل و علائق کی قربانی پیش کرتی ہے.یہی وہ لوگ ہیں جن کے بعض افراد نے کابل میں سزائے موت کو لبیک کہا.بیرون ملک دور دراز علاقوں میں غربت و افلاس کی زندگی اختیار کی.اور عین اُس وقت کہ جب قادیانی خلافت سے متعلق حضرات بیش قیمت مقوی ادویات کو آب و دانہ کی طرح استعمال کرتے اور بیک وقت چار چار بیویوں کے جلو میں اپنے عشرت کدوں میں مسرت و عیش کے شب و روز گزارتے تھے.یہ مخلص لوگ نائیجیریا، جرمنی اور اسرائیل میں ایسے لوگوں کے ماتحت افلاس کے باوجود کام کر رہے تھے جو بین الاقوامی سازشوں کے کرتا دھرتا تھے.بہر نوع قادیانی باطل کے قیام و ثبات میں ” مقصد کی لگن اور اس کے ایثار" کا جیمز وحتی ایک ایسا جو ہر ہے جس نے اس گروہ کو معتد بہ فائدہ پہنچایا ہے.تیسرا پا یہ جس پر قادیانی قصر قائم ہے.وہ تنظیم ہے.یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابتداء انگریز کا مقادر قادیانی جماعت کے معرض وجود میں لانے کا محرک تھا.لیکن یہ حقیقت تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ حکیم نور الدین صاحب اور ان کے بعد مرزا محمود احمد صاحب کی انتظامی صلاحیتوں نے قادیانی جماعت کو بہت بڑی اولاد بہم پہنچائی ہے.قادیانی خلیفہ ایک چالاک قسم کے سیاسی راہ نما ہیں.جو خود تو آمریت مطلقہ کے مدعی ہیں.اور اُن کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ان کا تقریر بھی خدا کی جانب سے ہوا ہے.اور معزول بھی انہیں خدا ہی کر سکتا ہے.لیکن انہوں نے اس کے باوجود اپنی جماعت کو جس طریق پر منظم کیا ہے چاہے وہ مستقبل میں ایک خطرناک غبارہ ہی ثابت کیوں نہ ہو.ہم اس کی وضاحت آئندہ کے مباحث میں کریں گے مگر اس وقت تک اس نظم کے تین پہلو ہم اپنے ناظرین کے سامنے پیش کرنا ضروری خیال کرتے ہیں.تقسیم ملک کے وقت مشرقی پنجاب کی یہ واحد جماعت تھی جس کے سرکاری خزانہ میں اپنے

Page 454

۴۴۲ معتقدین کے لاکھوں روپے جمع تھے.اور جب یہاں مہاجرین کی اکثریت بے سہارا ہو کہ آئی تو قادی ایں کا یہ سرمایہ جوں کا توں محفوظ پہنچ چکا تھا.اور اس سے ہزاروں قادیانی بغیر کسی کاوش کے از سرتو بحال ہو گئے.پھر یہ موضوع بھی مشخق توجہ ہے کہ یہ وہ واحد جماعت ہے جس کے ۳۱۳ افراد تقسیم کے لمحہ سے آج تک قادیان میں موجود ہیں.اور وہاں اپنے مشن کے لئے کو شاں بھی ہیں اور نظم بھی.دوسرا پہلو تعمیر ربوہ کے سلسلہ میں ہمارے سامنے آتا ہے.ہم اسے تسلیم کرتے ہیں کہ سابق (حکومت) کے ایک انگریز گورنر نے بہت سستے داموں ربوہ کی زمین قادیانیوں کو دیدی تھی لیکن کیا اس حقیقت کا انکار ممکن ہے کہ اس زمین سے لاکھوں رو پیر صدر انجین احد یہ ربوہ نے کہا یا اور اس سے شاندار بلڈنگیں اور جماعتی ضروریات کے لئے عمارات تعمیر کیں اور آج یہ بات پورے وثوق کے ساتھہ کہی جا سکتی ہے کہ دنیا میں ربوہ وہ واحد شہر ہے جس میں مرزا غلام احمد صاحب کو نبی اللہ تسلیم کرنے والوں کی اپنی حکومت ہے.ان کا اپنا نظام عدالت ہے.اس کا اپنا خلیقہ ہے جس کا ہر حکم واجب التعمیل ہے.اس کا اپنا سر کاری بینک ہے.جس میں قادیانیوں کا لاکھوں روپیہ تجارت ، صنعت اور حرفت کے کاموں پر لگا ہوا ہے.اس یہ کوہ میں ہو فوجی ٹینینگ ، تبلیغی تربیت ، سائنس وفلسفہ کی اعلی تعلیم و صنعت و حرفت کی تعلیم کا اہتمام اسی طرح موجو د ہے.جس طرح کا انتظام منظم حکومتیں کیا کرتی ہیں.قادیانی تنظیم کا تیسرا پہلو وہ تبلیغی نظام ہے جس نے اس جماعت کو بین الاقوامی جماعت بنا دیا ہے.اس سلسلے میں یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ :.• بھارت کشمیر، انڈونیشیا ، اسرائیل ، جرمنی ، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ ، امریکہ.برطانیہ ، دمشق ، نائیجیریا • افریقی ملتے اور پاکستان کی تمام قادیانی جماعتیں مرزا محمد احمد صاحب کو اپنا امیر اور خلیفہ تسلیم کرتی ہیں اور ان کے بعض دوسرے ممالک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں روپوں کی جائیدا دیں صدر انجمن احمدیہ یہ توہ" اور صدر انجمین احمدیہ قادیان کے نام وقف کر رکھی ہیں.تیسرا پہلو قابل توجہ یہ ہے کہ قادیانیوں کا منصوبہ آئندہ سال ۵۶ - ۱۹۵۶ء کے لئے یہ ہے.

Page 455

اس سال کا بجٹ پچاس لاکھ روپے کا ہو.یہ ہے وہ جماعت جسے ہم باطل سمجھتے ہیں.اور باطل سمجھنا کسی تعصب، ضد یا عناد وحسد پر مبنی نہیں بلکہ ہم خلوص کے ساتھ قرآن و سنت کے بینات کی روشنی میں مرزا صاحب کے دعادی کو سراسر غلط سمجھتے ہیں اور ان کی نبوت کا تسلیم کرنا ہمارے نزدیک امت محمدیہ سے خروج وانداد ہے.آپ غور فرمائیے کہ اس جماعت کی مخالفت میں جو کام آج تک کئے گئے ہیں وہ اپنی جگہ اہمیت مقصدیت اور خلوص کے با وصف حصول مدعا کے لئے کیوں کا میاب نہیں ہو سکے ہی (۳).متعدد اخبارات رجن میں احرار کے حامی اخبارات خصوصیت سے قابل ذکر ہیں) کی متفقہ روایت یہ ہے کہ :.جھنگ ۲۲ فروری ( - ناقل) گذشتہ شب نماز عشاء کے بعد مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ایک اجلاس عام منعقد ہوا جس میں مولانا غلام قادر خطیب جامع مسجد قاضیاں مولوی محمد لقمان مظفر گڑھی، اور سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے تقاریر کیں مولوی محمد نعمان (مظفر گڑھی) نے اچھوتے انداز میں چندہ جمع کیا.انہوں نے کہا کہ مجلس تحفظ ختم نبوت کا خوب بہت بڑھ گیا ہے.آئندہ سال کا بجٹ ایک لاکھ ہوگا.(ایک اخبار نے اس اچھوتے انداز کی وضاحت یوں کی ہے.جلسہ گاہ میں کپڑے کی بھولیاں بنا کر تمام حاضرین جلسہ سے فرداً فرداً چندہ دینے کے لئے کہا گیا.اس اثناء میں اسٹیج سے مقرر صاحب سامعین کو چندہ دے کہ جنت کا ٹکٹ کٹوانے پر عجیب و غریب طریقوں سے اکساتے رہے......ماشاء اللہ سوسو کے نوٹ دو اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک آپ لوگ دو ہزار روپیہ نہیں دیں گے حضرت شاہ صاحب اسٹیج پر نہیں آئیں گے.جلدی کیجئے مولوی محمد نعمان صاحب بار بار کہ رہے تھے.بابوو ! جنٹلمینو ! دین کی حفاظت کے لئے چندہ دو ماشاء اللہ دس دس اور سو سو کے نوٹ جلدی کرد.رات جا رہی ہے ، جنت کے ٹکٹ کٹوا لو وغیرہ وغیرہ ) انہوں نے اپنی خالہ کا ایک خواب بیان کیا جس لے ہفت روزہ المنیر لائل پور ۲ مارچ ۱۹۵۶ء صفحہٹ ، نہ مان پڑھا نہیں جاتا.

Page 456

م م م میں حضور کی زیارت کا ذکر تھا.* اس طلبہ میں شاہ صاحب“ کے بارے میں متعدد اخبارات کی رپورٹ یہ ہے.انہوں نے رمایا کہ مولانا محمدعبدالله در خواستی کو ایک خواب آیا.ان سے حضور خاتم النبیین صلی الہ علیہ وسم نے فرمایا ” میری نبوت پر کتے بھونک رہے ہیں اور انہیں بند کرنا مولوی محمد عبداللہ درخواستی اور عطاء اللہ شاہ بخاری کا کام ہے " شاہ صاحب نے کہا کہ حضور خاتم النبیین نے میرے نام پیغام دیا ہے کہ میں ختم نبوت کے مسئلہ کو کامیابی سے چلاؤں " ہم نے ان رپورٹوں کو سخت ذمتی اذیت اور دلی کوفت کے ساتھ کے پڑھا اور یہاں نقل کیا ہے مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اب اپنی عمر کے اس دور میں ہیں جس کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کتنے روز کے مہمان ہیں.انہیں خود بھی اس کا احساس ہے اور ان کے مفلوج اعصاب شہادت دے رہے ہیں کہ بہر حال اب آخری مرحلہ آیا چاہتا ہے.ظاہر ہے کہ ہر وہ شخص جو خدا پر ایمان رکھتا ہے جس کو قیامت اور جزا و سزا پر یقین ہے.اس کی آخری خواہش بھی یہی ہوتی ہے.اور اُس کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے شخص کی آرزو بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ عمر کے اس آخری لمحہ میں ایسے اعمال و افعال سے کنارہ کش رہے جو کل اُس کے لئے اذیت اور باز پرس کا باعث ہوں.بلاشبہ ہم سب گناہوں میں غرق ہیں.اور خصوصیت سے نہیں اپنی معصیتوں کا شدید احساس ہے اور ان پر اپنے رحیم و رحمان سے آقا بالحاج عفو طلب ہیں.اور یہ بات بھی کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں کہ دنیا میں جتنے گناہ پائے جاتے ہیں.ان میں سب سے زیادہ اہمیت تین قسم کے گناہوں کو حاصل ہے.أول.خدائے ذوالجلال کے بارے میں گستاخی ، ان کے سامنے کبیر اور ان پر افتراء پردازی.دوم سید المرسلین کے ادب و احترام میں کمی ، آپ کے ناموس پر حملہ - آپ کی ذات اقدسی پر خود غرضی کے لئے افتراء پر داری.سوم.کسی مسلمان کی جان ، اس کے مال ، اس کی عزت اور اس کے ایمان پر حملہ.شاہ صاحب کی جانب منسوب کردہ الفاظ اگر صحیح ہیں ، یا انہوں نے اس مفہوم کو بیان کیا ہے کہ حضور سرور کائنات روحی و نفسی خدا و صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منتخب فرمایا کہ وہ ختم نبوت کی حفاظت

Page 457

۴۵ ام کریں اور اب شاہ صاحب اسی ارشاد رسالت کی تعمیل کے لئے شہر شہر گھوم پھر رہے ہیں تو ہم دکھ بھرے دل سے کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے حضور اقدس کی شان میں دنا دانستہ ایسی گستاخی کی ہے.جس سے وہ جتنی جلدی تو بہ کر لیں ان کے لئے بہتر ہے شاہ صاحب کی اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ سید العرب والعجم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ صاحب کی ان تقریروں کو جو وہ تحفظ ختم نبوت کے نام پر آج تک کرتے رہے اور اب کر رہے ہیں منظوری اور پسندیدگی حاصل ہے اور اسی وجہ سے انہیں دربار رسالت سے یہ امتیازہ عطا ہوا ہے کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے انہیں اس عظیم کام کے لئے منتخب فرمایا گیا ہے.اور ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر مولانا سید عطاء اللہ شاہ صاحب کی یہ تقریریں جو وہ قادیانیت کے خلاف کر رہے ہیں.(جن میں سے آیات کی تلاوت اور اُن کے بعض مطالب کی تبلیغ کا حصہ جو فی الحقیقت ان کی تقریروں کا لیے ہوگا مستثنیٰ کہ لیا جائے ).اگر انہیں دربارِ رسالت کی پسندیدگی حاصل ہے تو ہم اس اسلام کو جو کتاب وسنت میں پیش کیا گیا ہے اور جس میں ذہین ، قلب، زبان اور اعضاء کو مسئولیت سے ڈرایا گیا ہے.خیر باد کہنے کو تیار ہیں.ہمارے نزدیک شاہ صاحب نے نہایت غلط سہارا لیا ہے اور مسلمانوں میں جو عقیدت رحمتہ اللعالمین با کی هو داعی صلی الہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود ہے اس سے نہایت غلط قسم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش " کی ہے.اور پھر اس میں جب ہم مزید دیکھتے ہیں کہ وہ اس خواب سے مراد یہ لیتے ہیں.کہ تحفظ ختم نبوت کے نام پر جو نظم ( ؟ ) انہوں نے قائم کر رکھا ہے حضور خاتم النبیین روحی و نقسی فداہ اس نظم کی تائید فرما ر ہے ہی تو ہماری روح لرز جاتی ہے.اگر خدانخواستہ بینظم اور اس کے تحت متعین کردہ مبلغین کا کام اور اس کے نام پر حاصل کئے گئے ، صدقات ، زکواتی ور چندے اس بُری طرح صرف ہونے کے باوجود انہیں پیغمبر امین کی پسندیدگی حاصل ہے تو ناگزیر ہے کہ ان تمام احادیث رسالت مآب کو خیر باد کہہ دیا جائے جن میں آپ نے مسلمانوں کے مال کے احترام کی اہمیت بیان فرمائی ہے.اور جین میں اموال المسلمین میں خیانت کو حرام اور موجب مرزا بتلا یا گیا ہے.لے ہفت روزہ المنیر لائل پور ۱۹ مارچ ۱۹۵۷ ۶ صفحه ۲

Page 458

हलष (م) " ختم نبوت کا ایک لازمی تقاضا یہ تھا کہ امت محمدیہ بنیان مرصوص کی حیثیت سے قائم علی الحق رہتی.اس کے جملہ مکاتیب فکر اور تمام فرقوں کے مابین دین کے اساسات پر اس نوع کا اتحاد ہوتا جس نوع کا اتحاد ایک صحیح الذین امت میں ہونا ناگزیر تھا لیکن فور کیجئے کیا ایسا ہوا ؟.بلاشبہ ہم نے متعدد مراحل پر اتحاد امت کے تصور کو پیش کیا اور سب سے زیادہ قادیانیوں کے خلاف مناظرہ کے سٹیج سے ڈائرکٹ ایکشن کے ویرانے تک ہم نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کے تمام فرقے " یک جان ہیں لیکن کیا حقیقتا ایسا تھا.کیا حالات کی شدید سے شدید قر تا مساعدت کے باوجود مہاری تلوار تکفیر نیام میں داخل ہوئی ؟ کیا ہولناک سے ہولناک تر واقعات نے ہمارے فتاولی کی جنگ کو ٹھنڈا کیا ؟ کیا کسی مرحلہ پر بھی " ہمارا فرقہ حق پر ہے اور باقی تمام جہنم کا ایندھن ہیں " کے نعرہ سے کان نامانوس ہونے ؟ اگر ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تو بتائیے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنے والی امت کے اگر تمام فرقے " کافر ہیں اور میرا ایک دیگر کو جہنمی کہتا ہے تو لا محالہ ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو سب کو اس گھر اور جہنم سے نکال کمہ اسلام اور جنت کا یقین دلا سکے.اگر ایک سطحی ذمین اس سوال کا جواب نہ پا کہ ہماری تمام علمی کاوشوں ، مناظروں اور خطابات کے علی الرغم قادیانیت کی اندھی غار میں گر جائے تو اس میں قصور کس کا ہے." (۵) " اس وقت جو کوشش " تحفظ ختم نبوت“ کے نام سے قادیا نیت کے خلاف جاری ہے.قطع نظر اس سے کہ کوشش کا اصل محرک خلوص ، خدا کے دین کی حفاظت کا جذبہ ہے یا حقیقی وجہ معاشی اور منفی ذہن کے رجحانات کا مظاہرہ ہے.ہماری رائے میں یہ کوشش نہ صرف یہ کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مفید نہیں ہے بلکہ ہم علی وجہ البصیرت کامل یقین و اذعان کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ جدو جہد قادیانی شجرہ کے بار آور ہونے کے لئے مفید کھاد کی حیثیت لے ہفت روزه "المنير" لائل پور ۱۹ مارچ ۱۹۵۷ صفوت

Page 459

رکھتی ہے تحفظ ختم نبوت ہو یا مجلس احرار.ان دونوں کے نام سے آج تک قادیانیت کے خلاف جو کچھ کہا گیا ہے اس نے قادیانی مسئلہ کو اٹھایا ہے.ان حضرات کے اختیار کہ وہ طرفیل نے راہ حق سے بھٹکنے والے قادیانیوں کو اپنے عقائد میں پختگی کا مواد فراہم کیا ہے.اور جو لوگ مذبذب تھے انہیں بد عقیدگی کی جانب مزید دھکیلا ہے.استہزاء، اشتعال انگیزی ، یادہ گوئی ، بے سروپا لفاظی اس مقدس نام کے ذریعہ مالی نین ، لادینی سیاست کے داؤ پھیر، خلوص سے محروم اظہار جذبات مثبت اخلاق فاضلہ سے نہیں کہ دار ، نا خدا ترسی سے بھر پور مخالفت کسی بھی غلط تحریک کو ختم نہیں کر سکتی اور رغبت اسلامیہ پاکستان کی ایک اہم محرومی یہ ہے کہ " مجلس احرار " اور تحفظ ختم نبوت " کے نام سے جو کچھ کیا گیا ہے.اس کا اکثرو بیشتر حصہ انہی عنوانات کی تفصیل ہے ؛ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء ( ۱۳۳۵) اس سال جماعت احمدیہ پاکستان کی سالانہ مشاورت ۲۹ ، ۳۰ ، ۳۱ مارچ ۱۹۵۶ (امان ۱۳۳۵ ) کو حسب سابق لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ کے ہال میں منعقد ہوئی برف اور ہ کی مشاورت کے کے دوران تو حضرت مصلح موعود کراچی میں سفر یورپ کے لئے قیام فرما تھے.مگر اس مشاورت میں حضور رونق افروز ہوئے اور اپنے ندام کو بیش قیمت ہدایات اور روح پرور کلمات سے نوازا.مشاورت میں ۳۹۲ نمائندے شامل ہوئے جن میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے علاوہ مندرجہ ذیل ممالک کے نمائندگان بھی تھے.انڈونیشیا مشرقی افریقہ - چین گولڈ کوسٹ (غانا) شام ڈچ گی آنا.ٹرینیڈاڈ - عدن - بھارت (قادیان) - مشاورت میں عالمی عدالت انصاف کے حج چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب نے بھی شرکت کی.اور کارروائی میں مدد کے لئے حضور کے ساتھ سٹیج پر تشریف فرما ر ہے.اور ایسے وقت میں جب کہ حضور رونق افروز نہ ہوتے آپ کو حضور کی نیابت میں شوری کی صدارت کے فرائض بھی انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی حضرت مصلح موعود لے ہفت روزہ المنیر لائل پور در جولائی شهلاء صفحه

Page 460

۴۴۸ نے صدر انجمین احمدیہ کے بجٹ (بارہ لاکھ اکتالیس ہزار آٹھ سو دس (۴۱۰ ۴۱ ۱۲) روپے) اور تحریک جدید کے مجموعی بجٹ دتیرہ لاکھ تمہیں ہزارہ چار سو اسی (۱۳۳:۴۸۰ ) روپے کی منظوری عطا فرمائی بیان سید نا حضرت مصلح موعود نے نمائندگان کو متعدد بار خطاب فرمایا جس میں جماعت کی راہنمائی کیلئے متعدد قیمیتی نصائح فرمائیں.حضور کے بعض اہم ارشادات بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں :.(1) " ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولادوں کو ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلام کا کام جاری رکھنے کی توفیق دے.اگر ہماری اولادوں میں ایمان کا سلسلہ قائم ہے.تو تھوڑے روپے سے بھی قیامت تک کام ہوتا چلا جائے گا.کیونکہ روپے کی مقدار کو دوام حاصل نہیں ہوتا.بلکہ اخلاص اور ایمان کا جوش دوام اختیار کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور صحابہ کو جو ملا وہ انہوں نے اسلام کی خدمت میں لگا دیا.لیکن اس کے بعد اسلام نا وارث ہو گیا.روپیہ تو مسلمانوں کے پاس بہت آیا لیکن اُن میں اخلاص اور ایمان کا سلسلہ باقی نہ رہا.اب السلام کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو مبعوث کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں اپنے دین کی محبت کی چنگاری سلگا دی تھی.اس لئے جو کام آپ سے پہلے بڑی بڑی اسلامی حکومتیں بھی نہ کر سکیں وہ ایک گمنام اورمعمولی گاؤں کا رہنے وا کر گیا.جس کا شدید سے شدید دشمنوں کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے.پس ہمیں دُعا کرنی چاہئیے کہ خدا تعالی یہ ابیان ہم ہیں اور ہماری آئندہ نسلوں میں قائم رکھے.اور ہماری اولاد نہ صرف اس جوش کی وارث ہو جو ہمارے دلوں میں خدمت دین کے لئے پایا جاتا ہے بلکہ اس کا جوش ہم سے بڑھے کہ ہو تا اسلام کا جھنڈا اُن کے ہاتھ میں رہے اور وہ کبھی سرنگوں نہ ہو (۲) : " سب سے بڑی چیز جس کی کسی دینی سلسلہ کو ضرورت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اس میں خلافت اور تنظیم ہمیشہ کے لئے قائم رہے.اللہ تعالی سے محبت قائم رہے.اگر یہ سب باتیں قائم رہیں تو نے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۳ء مطبوعه الفضل را پریل ۹۵۶ اره (شهادت ) صفحه ما را نه رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ و صفحه ۲۰ ۳۲۰ (تلخیص، ناشر مولوی عبدلا من مانا اور سیر مریم ملی مشا است.

Page 461

و امام دنیا کی فتح میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا.میں تو بیمار ہوں اور مجھے بعض دفعہ اپنی زندگی کا ایک ایک دن دو بر معلوم ہوتا ہے لیکن مجھے یہ بات نظر آر ہی ہے.اور ہم میں سے جو لوگی زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ چند سالوں کے اندر اندر دنیا میں ایک عظیم انسان تغیر پیدا ہوگا اور احمدیت ایک نمایاں حیثیت اختیار کرلے گی.بلکہ اب بھی احمدیت نے اتنی اہمیت حاصل کر لی ہے کہ امریکہ کے ایک رسالہ نے جس کی اشاعت دو کروڑ کے قریب ہے ، ایک نہ سر دست مضمون لکھا ہے کہ مشرقی افریقہ میں احمدیوں نے اسلام کی اس طرح تبلیغ کی ہے کہ اس کے مقابلہ میں عیسائیت شکست کھا کہ رہ گئی ہے.اور انگلستان کے ایک اور مشہور شخص نے بھی لکھا ہے کہ مشرقی افریقہ میں اب عیسائیت کی اشاعت کے لئے کوئی موقع نہیں رہا اور احمدیوں نے اس کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی.به احمدیت کی صداقت کا ایک بڑا نشان ہے.(۳)."جس قدر عشق قرآن کریم سے حضرت خلیفہ اول کو تھا.اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کوئی بعید امر نہیں تھا کہ تراجم قرآن کریم کا کام انہی کے زمانہ میں شروع ہو جانا.لیکن چونکہ یہ جانت خدا تعالیٰ نے میرے لئے مقرر کر رکھی تھی.اس لئے اس زمانہ میں یہ کام شروع نہ ہوا تا قرآن کریم کے انوار کا ظہور میرے زمانہ خلافت میں ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا یہ الہام پور ہوا کہ " نور آتا ہے نور اس الہام کا ایک معصوم یہ بھی تھا کہ میرے زمانہ خلافت میں قرآن کریم کی اشاعت ہوگی اور اس کے تراجم مختلف زبانوں میں کئے جائیں گے کیونکہ قرآن کریم کا ایک نام نور“ بھی رکھا گیا ہے.حقیقت یہی ہے کہ اب تک جو کام ہوا ہے ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے.اور اُسی نے مختلف زبا نہیں جاننے والے آدمی ہمیں مہیا کئے دیر نہ ہمارے پاس مختلف زبا نہیں جاننے والے لوگ موجود نہیں تھے......پس یہ برکتیں اللہ تعالیٰ نے صرف ہمارے لئے رکھی تھیں.در حقیقت ان تراجم کا کام کسی فرد کا کام نہیں تھا.بلکہ خلافت تنظیم اور تجھے کا کام تھا ورنہ جماعت میں سے کون ہے جو ان تراجم میں سے ایک ترجمہ بھی شائع کروا سکتا.لیکن ہم سب نے مل کر وہ کام کر لیا چوڑے نے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ / ۱۳۳۹ صفحه ۱۷

Page 462

۴۵۰ بڑے بادشاہ بھی نہیں کر سکے تھے.کہتے ہیں ایک شخص نے موت کے وقت اپنے سب بیٹوں کو بلایا اور جھاڑو منگوا کر کہا اس جھاڑو میں سے ایک تنکا نکال کر توڑو.انہوں نے اس تنکے کو بڑی آسانی سے توڑ دیا.اس کے بعد اُس نے انہیں جھاڑو دیا اور کہا کہ اُسے توڑو مگر اُن سے نہ ٹوٹا.اس پر اُس نے کہا میرے بیٹو! تم نے دیکھا کہ ایک ایک تنکا ذاتی طور پر کوئی قوت نہیں رکھتا.تم نے اسے ایک انگلی کے دباؤ سے ہی توڑ دیا.لیکن جھاڑو کو توڑنا تمہارے لئے مشکل ہو گیا.اسی طرح اگر تم متفرق ہو گئے تودنیا کی ہر طاقت تمہیں تباہ کر سکتی ہے لیکن اگر تم اکٹھے اور متفق رہے تو تم محفوظ اور مطمئین ر ہوگے.اسی طرح یہ خلافت اور تنظیم کی ہی برکت ہے کہ جماعت نے متعدد زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر دیئے.ورنہ جماعت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا مالدار نہیں جو ان تراجم میں سے ایک ترجمہ بھی شائع کروا سکتا ہے (لم) - " تم جو چاہو کر لو.لیکن یاد رکھو وہ دن آنے والا ہے جب احمدیت کے کاموں میں حصہ لینے والے بڑی بڑی عزتیں پائیں گے لیکن ان لوگوں کی اولادوں کو جو اس وقت جماعتی کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے.دھتکار دیا جائے گا.جب انگلستان اور امریکہ ایسی بڑی بڑی حکومتیں مشورہ کے لئے اپنے نمائندے بھیجیں گی اور وہ اُسے اپنے لئے موجب عزبات خیال کریں گئے اس وقت ان لوگوں کی اولاد کہے گی کہ ہمیں بھی مشورہ میں شریک کہ وہ لیکن کہنے والا انہیں کہے گا کہ جاؤ تمہارے باپ دادوں نے اس مشورہ کو اپنے وقت میں رہ کر دیا تھا اور جماعتی کاموں کی انہوں نے پرواہ نہیں کی تھی.اس لئے تمہیں بھی اس مشورہ میں شریک نہیں کیا جا سکتا.پس اس غفلت کو دور کرو.اور اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ جو شخص سلسلہ کی کسی میٹنگ میں شامل ہوتا ہے.اس پر اس قدر انعام ہوتا ہے کہ امریکہ کی کونسل کی ممبری بھی اُس کے سامنے پہنچ ہے.اور اُسے سو خرچ کر کے بھی اس میٹنگ میں شامل ہونا چاہیے.اگر وہ اس میٹنگ میں رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ و ۱۳۳۵ صفحه ۲۰۴

Page 463

ام شامل نہیں ہوتا تو اس کی غیر حاضری کی وجہ سے سلسلہ کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن وہ خود الہی انعامات سے محروم ہو جائے گا.جب شورتی نہیں تھی تب بھی کام چلتا تھا.اور اب شورٹی جلائی جاتی ہے.تب بھی کام چل رہا ہے.پس تم حقیہ لویا نہ لو سلسلہ کا کام چلتا رہے گا.ہاں اگر تم اس وقت جماعتی کاموں میں حقہ نہیں لیتے اور انہیں اپنے لئے موجب عزت خیال نہیں کرتے تو تمہاری اولادیں آئندہ انعامات سے محروم ہو جائیں گی.لوگ اپنی زندگیوں میں اپنی اولادوں کے لئے ہزاروں ہزار روپیہ کی جائیدادیں بنا جاتے ہیں تا اُن کے کام آئیں تم بھی اگر سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتے رہوگے تو تمہارا ایسا کہ نا تمہاری اولاد کے لئے ایک بڑی بھاری جائیداد ثابت ہوگا.یا درکھو.اگر تم میں سے کسی کو سلسلہ کے کسی کام کے لئے مقرر کیا جائے تو اس کا اس سے بھاگتا سخت غلطی ہے.تم سلسلہ کے کام کی سرانجام دہی میں ہر گنہ کو تا ہی نہ کرو بلکہ اسے اپنی عزت کا موجب سمجھو.اگر تم سلسلہ کے کاموں کو عزت والا قرار دو گے تو خدا تعالیٰ بھی تمہیں عزت والا بنا دے گا.گو اس وقت جماعت کے پاس دولت نہیں ، اسے دنیا میں کوئی اہمیت حاصل نہیں لیکن تھوڑے عرصہ میں ہی احمدیت دُنیا پر غالب آنے والی ہے اور اس کے آثار خدا تعالیٰ کے فضل سے نظر آرہے ہیں.بڑے بڑے لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف ہو رہی ہے.یہ بڑے بڑے لوگ جس علاقہ سے بھی آئیں گے وہ احمدیت کو زیادہ معزہ سمجھیں گے اور احمدیت کی وجہ سے انہیں اور عزت حاصل ہوگی لیکن جو لوگ سلسلہ کے کاموں میں شریک ہونے کو ذلت اور وقت کا ضیاں سمجھیں گے اُن کے علاقہ میں عزت دیر سے آئے گی اور اگر وہ عزت آگئی تو جن لوگوں نے اپنے وقت میں سلسلہ کی خدمت میں کوتا ہی کی ہوگی ان کی اولادیں اس عزت سے محروم کر دی جائیں گی.پس آئندہ کے لئے احتیاط کرو اور ہمیشہ سلسلہ کے کاموں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تم میں سے کسی کو سلسلہ کے کسی کام کے لئے مقرر کیا جائے تو وہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ نے اُسے بہت بڑے خطاب سے نوازا ہے..ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء صفحه ۲۴، ۲۵ -

Page 464

۴۵۲ (۵) " دورے تبھی مفید ہو سکتے ہیں.جب حکومت کے افسروں کی طرح ان کا پروگرام بنایا جائے.اور پہلے سے اُن کا وقت مقرر کر کے متعلقہ جماعت کو اطلاع دے دی جائے تاکہ وہ ارد گرد کے پچاس ساٹھ جماعتوں کے لوگوں کو وہاں بلائے.اور پھر وہاں کا نفرنس کی جائے دور نہ جس قسم کے دورے سال کے دوران میں کئے گئے ہیں.انہیں ہرگز دورہ نہیں کہا جا سکتا.دورہ اس چیز کا نام ہے کہ کسی جماعت میں ارد گرد کے پچاس ساٹھ میل تک کے رہنے والے احمدیوں کو اکٹھا کیا جائے اور ان سے جماعتی امور پر تبادلہ خیال کیا جائے اور پھر جو مشورہ طے پائے اس پر عمل کیا جائے پھر میں نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ ناظر صرف اپنے صیغہ ہی کا خیال نہ رکھے بلکہ جب دورہ پر جائے تو صدر انجمن احد یہ کے ہر ناظر سے ہدایات لے کر جائے اور جو دقتیں انہیں پیش ہوں.اُن کو دُور کرے مثلاً اگر بعض جماعتوں میں جھگڑے طے نہ ہو رہے ہوں یا تعلیم کا اچھا انتظام نہ ہو تو چاہیے دورہ کرنے والے ناظر کا ان امور سے کوئی تعلق نہ ہو اس کا فرض ہے کہ وہ ان امور کو بھی اپنے پروگرام میں شامل کرہ ہے : ۷، ۸ ر ا پریل ۱۹۵۶ء کو پینگا ڈی علاقہ الابار احمدیہ کانفرنس کیلئے برقی پیغام ا ا ا ا اور میں ان کی ا د امن کانفرنس شمالی مالا آل کیرالہ احمدیہ منعقد ہوئی ہو نہایت درجہ کامیاب رہی.اس کا نفرنس میں حضرت مصلح موعود کا برقی پیغام عبدالرحیم صاحب ( ابن مولانا عبداللہ صاحب مالا باری ) نے پڑھ کو سُنایا.اصل پیغام انگریزی میں تھا جسے پڑھنے کے بعد انہوں نے اس کا ملیالم زبان میں بھی ترجمہ کیا.حضور کے انگریزی پیغام کا ذیل میں اردو ترجمہ دیا جاتا ہے :- " مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ احمدیہ جماعت اکھلا کیرالہ (علاقہ مالا بار نے ایک کا نفرنس میں اجتماع کر کے برادران کو احمدیت کی تعلیم سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے مجھے اس بات سے بھی مسرت ہے کہ اس وقت حق و صداقت کے بیج بونے کے لئے جنوبی ہندوستان بہترین کھیت ثابت ہو رہا ہے.میں اس بات سے بھی خوش ہوں کہ آپ لوگوں نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت نے رپورٹ مجلس مشاورت ۹۵۶اد صفحه ۵۴۰۵۳ - که KERALA

Page 465

۴۵۳ دیا ہے.اس قسم کے بہت سے اجتماع ہر سال ہونے چاہئیں اور ہمارے مبلغین کو طوفانی دورے کر کے لوگوں کو سچائی کے سر چشمہ کی طرف لانا چاہیئے.ہمارے رسول مقبول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مسلمانوں کو اپنی طرف بلا رہے ہیں.صرف ایک حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے ذریعہ لاکھوں مہندو اسلام کی طرف آئے اور اب بھارت میں چار کروڑ مسلمان ہیں وہ چالیس کروڑ غیر مسلموں کو اسلام میں لا سکتے ہیں.پس حالات کے تقاضا کو سمجھو اور اس کے مطابق اعمال بجا لاؤ اور آنحضرت صلی الہ علی ایم کے پتے اور مخلص سپاہی بنور دنیا میں امن کو قائم کرنے والے بنور اور جلدی اور ستنقل مزاجی سے کام کرد.خدا تعالیٰ یقینا تمہاری مدد کرے گا.اور تم لوگوں کے دلوں کو حق وصداقت کے لئے پس مایوس نہ ہوں اور خدا تعالیٰ پر یقین اور بھروسہ رکھیں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے.مایوسی کی کوئی وجہ نہیں چھوٹی سے چھوٹی مایوسی بھی گھر کے برابر ہے مسلمان بہادر ہوتے ہیں.پس سچے اور بہادر ہو.اور ہمیشہ بذریعہ خط و کتابت میرے ساتھ تعلقات رکھو.بھارت میں امن کے قیام کا باعث بنو ہر مسلمان تمہارے کاموں کو سمجھتا ہے اور تمہارے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو تسلیم کرتا ہے.وہ یقینا خدا تعالیٰ کے لئے اور ملک کی بہتری کے لئے تمہاری تقلید کرے گا.اکے میرے خدا ! اپنے فرشتوں کو حکم دے کہ بھارت کے حالات اسلامکے لئے ایسے موق ہو جائیں جیسے میں چاہتا ہوں خلیفہ ایسا ( ترجمه از انگریزی ) مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل ہائی کورٹ یادگیر کا نفرنس کی تفصیلی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ :.د اس پیغام نے " نیخ روج کا کام دیا اور احمدی بھائی بہنوں اور بچوں کے از دیا وانیا کا موجب ہوا.اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہر فرد بشر میں ایک خاص خوش، دلولہ اور اُمنگ اگھر ه بدر ۴ ارجون ۹۵۶ یه صفحه ۲

Page 466

آئی ہے.یہ ۴۵۴ حضرت مصلح موعود کا پیغام تعلیم الاسلام ان سکول کے بیوی اور من ما داریم ہائی ماسٹر صاحب ہی.ایس سی.بی ٹی محترم ماسٹر نذیر احمد تعلیم الاسلام ہائی سکول سات نام " صاحب رحمانی ، صوفی غلام محمد صاحب اور ماسٹر ۱۹۵۶ اللہ بخش صاحب (زراعتی ماسٹر شاندار تعلیمی خدمات سجا لانے کے بعد یکم جون 1907ء میں ریٹائر ہوئے اس موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل پیغام عطا فرمایا جو روزنامہ الفضل در جون ۱۹۵۶ء کے صفحہ اول پر اشاعت پذیر ہوا." مجھے معلوم ہوا ہے کہ ٹی آئی.ہائی سکول ربوہ سے مندرجہ ذیل مدرسین ریٹائر ہو رہے ہیں صوفی محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر صوفی غلام محمد صاحب.ماسٹر نذیر احمد صاحب رحمانی اور ماسٹر اللہ بخش صاحب ان لوگوں نے اپنے اپنے وقت میں اپنے کام کو نہا یت جاں فشانی سے پورا کیا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی حسین خدمت کو قبول فرمائے اور ان کی ریٹائر ہونے کی بعد کی زندگی بھی نہایت خوشگوار اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کے نیچے گذرے اور اللہ تعالے ہمیشہ ان کو اور ان کی اولادوں کو اسلام کی خدمت کی توفیق بخشتار ہے تور ہسپتال کے نام پر ایک شاخسانہ تین حضرت علی مون کے نوش میں یہ بات مصلح موعود آئی کہ مختلف حلقوں میں یہ وسوسہ پیدا کیا جارہا ہے کہ ربوہ کے نئے ہسپتال کا نام " فضل عمر ہسپتال کی بجائے " نور ہسپتال ہونا چاہئیے.بعد ازاں ایک معترض کا خط بھی حضور کی خدمت میں پہنچا جس نے اس اطلاع کی تصدیق کر دی حضور نے الفضل ۲۴ مئی ۵۶ ا ء میں اپنے وضاحتی نوٹ کے ساتھ یہ خط شائع کیا دیا مگر اس کے باوجود یہ صاحب بذریعہ مکتوب اپنی اس رائے پر مصر رہے کہ بہر حال نور ہسپتال " ہی نام ه اخبار بدر" قادریان ۱۴رتون ها و صفحه ما کالم سے آپ کے بعد جناب ماسٹر محمد ابراہیم صاحب جمونی ہیڈ ماسٹر ہوئے.سے روز نامہ الفضل ربوه در جون ۱۹۵۶ صفحه علا.

Page 467

۴۵۵ رکھا جائے جس پر حضور نے یہ دوسرا مکتوب اور اس کا جواب الجواب بھی شائع فرما دیا.تا مخلصین جماعت ہوشیار ہو جائیں کہ بعض لوگ اخلاص و عقیدت کا لبادہ اوڑھ کر کس طرح جماعت کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے میں مصروف ہیں ؟.( پہلا مکتوب ) " میرے پیارے آقا سلمہ اللہ تعالی - اسلام علیکم ورحمت اله دبیر کاته.جب سے میں نے " الفضل “ اخبار میں پڑھا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ نے فیصلہ کیا کہ نور ہسپتال کا نام فضل عمر ہسپتال کے نام پر بدل دیا جائے مجھے سخت تکلیف ہوئی ہے.اس لئے نہیں کہ حضور کے نام کی طرف کیوں منسوب کیا جارہا ہے.بلکہ اس خیال سے کہ "نور" کا نام کیوں اُڑا دیا گیا ہے.حضور آپ حضرت خلیفہ المسیح الا قول رضی اللہ عنہ کے محسن زادے ہیں اور حضرت مولوی صاحب آپ کے گھن.طب میں جو کمال اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اول کو عطا فرمایا تھا، ایک دنیا کو تادین کھینچ کر لایا اور اس طرح ان کا وجود طبابت کے اعتبار سے بھی ایک وسیع تبلیغ کا ذریعہ بنا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خلیفہ اول منتخب کر کے نوازا.جہاں تک حضور کی ذات کا تعلق ہے وہ اتنی عظیم الشان ہے.اور دنیا کے کونے کونے تک میں خوبصورتی سے حضور نے احمدیت کا پیغام پہنچایا ہے وہ اتنا بے نظیر کارنامہ ہے کہ زمانہ اس نام کو مٹا نہیں سکتا اور آنے والی نسلیں قیامت تک حضور کو یاد رکھیں گی اور ان کی دعائیں آپ کے ساتھ رہیں گی.اس لئے " فضل عمر کا بجائے "نور" کے رکھ دیا جائے تو اس سے حضور کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا لیکن " نور " کا نام حذف کرنے سے جماعت الزام کے نیچے آجاتی ہے کہ اتنی جلدی ایک محسن کو بھول گئی.اس لئے میری درخواست ہے کہ حضور انجین کے فیصلہ کو اپنے حکم سے منسوخ فرمائیں.البتہ یہ ضرور ہو کہ نور ہسپتال کے نیچے یہ لکھا جائے کہ اس کی بنیاد اور تعمیر فضل عمر کے ہاتھوں سے ہوئی یہ ه روزنامه الفضل ربوه ۲۴ مئی ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۳

Page 468

۴۵۷ ( حضرت مصلح موعود کا جواب ) ایک صاحب کا خط مجھے نور ہسپتال کے نام کے متعلق ملا ہے.زمیں اس کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا لیکن خط بھیجوا رہا ہوں ، کہ اس کو بغیر نام کے شائع کر دیا جائے ) اس مضمون کا خط مجھے ربوہ میں بھی ملا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی لوگوں کے دلوں میں شبہ ایک ہی وقت میں پیدا ہوا ہے سو یا د رہے کہ نور ہسپتال قادیان میں تھا.اس کا نام نہیں بدلا گیا.بلکہ وہ قادیان میں موجود ہے.اس کو قادیان سے اُٹھا کر لانے کی ہمیں توفیق نہیں.جب بھی خدا تعالے ہمیں قادیان دلائے گا.نور ہسپتال نور ہسپتال ہی رہے گا.فضل عمر ہسپتال ایک نئی عمارت ہے جو نئے لوگوں کے چندوں سے بنی ہے.ہر چندہ دینے والی جماعت یا منتظم جماعت کا حق ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے اپنی عمارت کا نام رکھ دے.اگر اس قانون کو تسلیم کر لیا جائے کہ جو عمارت کسی بزرگ کے نام سے موسوم کی جائے تو جہاں کہیں بھی اس فن کی نئی عمارت بنائی جائے وہی نام اس کو دینا چاہیے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ آئندہ جماعت احمدیہ جہاں کہیں ہسپتال بنائے اس کا نام نور ہسپتال رکھے.کیا کوئی معقول آدمی ایک منٹ کے لئے اس خیال کی صحت کو تسلیم کر سکتا ہے ، جب مختلف ممالک میں جماعتیں ہسپتال بنائیں گی تو کیسی جگہ پر وہ اس ملک کے کسی وزیر کے نام پر اس ہسپتال کا نام رکھیں گی کسی جگہ کسی بڑے مبلغ کے نام پر اس کا نام رکھیں گی.غرض ہر ملک اور ہر علاقہ میں نئے نئے ناموں پر ہسپتال بنتے جائیں گے.ربوہ میں جو ہسپتال بنا ہے.ان لوگوں نے جنہوں نے وہ ہسپتال بنایا ہے مجھے سے خواہش کی کہ اس کا نام فضل عمر مہینتان رکھ دیں اور میں نے اجازت دے دی.کیا یہ ہسپتال قادیان سے اٹھا کر لایا گیا ہے.کہ یہ خیال کیا گیا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کا نام اس سے الگ کر دیا گیا ہے.حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں تو اس ہسپتال کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی تھی.اگہ اس خیال کو وسیع کیا جائے تو جس طرح قادیان میں عربا کے لئے جو مختلف مکان بنائے گئے تھے.اس جگہ کا نام ناصر آباد رکھا گیا تھا کیونکہ میر ناصر نواب صاحب نے وہ مکان چندہ کر کے بنوائے تھے ، اب ربوہ میں محلہ الف میں فریا کے لئے مکان بنائے گئے ہیں تو یہ اعتراض بھی ہونا چاہئے کہ اس کا نام محلہ دارالیمین کیوں رکھا گیا.پھر جماعت کو قانون بنا دینا چاہئیے کہ جہاں جہاں بھی کوئی مبہسپتال بنایا جائے.اس کا نام

Page 469

۴۵۷ نور ہسپتال رکھا جائے.اور جہاں جہاں بھی غربا کے لئے مکان بنائے جائیں، ان کا نام ناصر آباد رکھا جائے.پس یہ ایک محض جذباتی اور عقل سے عاری خیال ہے.نوکر ہسپتال قادیان میں موجود ہے.وہ اب بھی نور ہسپتال ہے.اور جب کبھی خدا تعالے ہمیں قادیان دے گا تو ہم کوشش کریں گے کہ وہ ہمیشہ نوکر ہسپتال رہے.ممکن ہے اس وقت کی مالی حالت کے لحاظ سے ایک نیا ہسپتال جو اس سے بیسیوں گئے بڑا ہو بنائیں اور اس کا کوئی اور نام رکھ دیں.لیکن نور ہسپتال، نور ہسپتال ہی رہے گا.اور نور مہسپتال ہے.قادیان میں رہنے والے اب بھی جب خط لکھتے ہیں تو نوکر ہسپتال کا نام نور ہسپتال ہی لکھتے ہیں.پس قادیان میں بننے والے ہسپتال کا نام نور ہسپتال رکھنے کی وجہ سے قیامت تک کے لئے احمدی اس بات پر مجبور نہیں کہ جہاں کہیں وہ کوئی ہسپتال بنائیں اس کا نام نور ہسپتال رکھیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نئے جہسپتال کے بنانے والوں نے اپنے اعلان میں بیو تونی کی ہے.اور یہ لکھا ہے کہ اجازت دی جائے کہ نور ہسپتال کی بجائے اس کا نام فضل عمر ہسپتال رکھا جائے، حالانکہ یہ نیا ہسپتال ہے.قادیان مالا نہیں.لیکن ہسپتال کے منتظمین کی ہو تو فی کی وجہ سے جماعت کے تمام کے تمام افراد کو یہ حق له نہیں پہنچتا کہ وہ بھی ہو توں بن جائیں.فقط والسلام مرزا محمود احمد د دوسرا مکتوب ) پیارے حضرت صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ حضور کا مضمون برائے نور ہسپتال ربوہ خاکسار نے پڑھا.حضور والا ! جہاں تک ہسپتال کی مکانیت کا تعلق ہے قادیان والا ہسپتال نورہ ہسپتال ہی رہے گا.اور قیامت تک اس کے نام کو کوئی مٹا نہیں سکتا اور دیوہ والا ہسپتال یقینا وہ ہسپتال نہیں جس کی بنیاد حضرت خلیفہ المسیح الاول نے رکھی.مگر پیارے آقا جہاں تک تبرک کا تعلق ہے ہمیں یقینی طور پر ربوہ والے ہسپتال کا نام بھی نور ہسپتال ہی رکھنا چاہیے.یہ تو ہ کی بیشتر عمارات کے نام بھی وہی رکھنے گئے ہیں جو ان کے نام قادیان میں تھے.مثلاً تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیاد الفضل ۲۴ مئی ۱۹۵۶ء ص.

Page 470

۴۵۸ حضرت مسیح موعود علیہ الصلو قا و اسلام نے رکھی اور اس کا نام تعلیم الاسلام ٹائی سکول تجویز فرمایا.اب ربوہ کے سکول کا نام بھی وہی ہے.حالانکہ وہ سکول جس کی بنیاد حضور نے اپنے دست مبارک سے رکھی تھی وہیں رہ گیا ہے.اس طرح اور بھی کئی عمارات ہیں جن کا تبر کا خلقی طور پر وہی نام یہ کھا گیا ہے.جو ان عمارات کا قادیان میں تھا اس لئے حضور والا میری عقل ناقص کے مطابق تبرک اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کا نام بھی نور ہسپتال ہی رکھا جائے.بے شک اس کی مکانیت اور اس کی بنیاد کے لحاظ سے اس کا نام بدل سکتے ہیں مگر جب باقی اکثر عمارتیں جو تعمیر کی گئی ہیں اُن کا بھی وہی نام رکھا گیا ہے تو پھر خاص کہ نور ہسپتال کے نام کے بدلنے کی خاص ضرورت کیوں پیش آگئی.اس کے علاوہ معرصہ پانچ سال سے جو شروع میں کچا ہسپتال تھا اس کا نام بھی نور ہسپتال ہی رکھا گیا حالانکہ اس کی بنیاد بھی حضور نے ہی رکھی تھی.تو اب اس نئے ہسپتال کے لئے صد نمین کا نیا نام تجویز کہ نا ایک عجیب سی بات نظر آتی ہے.حضور والا چونکہ تمام عمارتوں اور محلوں وغیرہ کے نام تبرکا قادیان کے ہی ناموں جیسے رکھے گئے ہیں.اس لئے وہی تیر کا اس بات کا شدید مقتضی ہے کہ اس ہسپتال کا نام بھی نور ہسپتال ہی رہنے دیا جائے ، خاکسار کو امید ہے کہ حضور صدر انجمن احمدیہ کو ارشاد فرمائیں گے کہ وہ اپنا فیصلہ منسوخ کر دے " ( حضرت مصلح موعود کا جواب الجواب ) سکول اور کالج کے نام تبدیل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی آدمی کے نام پر نہیں تعلیم الاسلام ان کا نام ہے اور وہ حضرت مسیح موعود کے ر کھے ہوئے نام ہیں.کیا تعلیم الاسلام نام کی بجائے آپ کے خیال میں تعلیم عیسائیت یا تعلیم ہندویت رکھا جاتا.جن کے چندوں سے یہ ہسپتال بنا ہے وہ شوری میں مل کر یہ فیصلہ کر دیں کہ اس کا نام نور ہسپتال رکھ دیا جائے تو فوراً بدل دیا جائے گا.در حقیقت یہ ہسپتال چندوں سے بن بھی نہیں رہا ہے بلکہ ہماری تجارتی کمائی سے بن رہا ہے.دس ہزارہ میں نہ بوہ کی زمین خریدی گئی جس میں سے پانچ ہزار روپیہ میں نے دیا.اس فروخت سے جو نفع ہوا اس سے کالج سکول اور ہسپتال بن

Page 471

رہے ہیں.۴۵۹ آپ شوری میں یہ معاملہ پیش کر دیں.اگر شوری برہان الدین ہسپتال نام رکھ دے تو وہ رکھ دیا جائے گا.کالی کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا تھا اور ہسپتال کا نام میر ناصر نواب صاحب نے.کیا آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور میر نا صر نواب صاحب کو ایک درجہ دینا چاہتے ہیں ؟.له میں آخر آپ لوگوں کا غلام تو نہیں کہ ہر احمدی مجھے جو حکم دے وہ میں مان لوں.جماعت کی اکثریت کا فیصلہ نہیں مانتے کو تیار ہوں.جو زید یا بکر یہ سمجھتا ہے کہ اس کا کہنا ماننا مجھ پر واجب ہے وہ بے شک میری بیعت چھوڑ دے" (پرائیویٹ سیکرٹری) افسوس حضرت مصلح موعود کے اس حقیقت افروز جواب پر بھی بعض لوگوں کی تسلی نہ ہوئی جس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل ۱۲۰ جون ۱۹۵۶ء میں ایک درد بھرا نوٹ سپر د قلم فرمایا جس میں اعتراض اٹھانے والے عناصر کو مقام خلافت کی عظمت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے واضح فرمایا کہ محمد گر حفظ مراتب نه کنی زندیقی چنانچہ آپ نے لکھا کہ " اداروں کے نام ایک رسمی سی بات ہے ربوہ کے ہسپتال کا نام نور ہسپتال را یا افضل عمر ہسپتال اس سے جماعت کی تنظیم اور ترقی پر کیا خاص اثر پڑ گیا ہے ؟ پس خدا کے لئے دوست خاموش ہو جائیں اور حضرت صاحب کو مزید پریشان نہ کریں.کیا ہمارے دوست بنی اسرائیل کے طریق پر قدم مارنا چاہتے ہیں ؟ جو ہر بات پر سوالوں اور اعتراضوں کی بھر ماہ کمہ کے حضرت موسیٰ کو تنگ کرتے رہتے تھے.چنانچہ جب ایک دفعہ کسی مسلمان کہلانے والے نے اسی قسم کا اعتراض کر کے ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کیا تو آپ نے اس پر یہ الفاظ فرمائے کہ قد اذذِى مُوسَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ " یعنی حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل نے اپنے ناواجب سوالوں اور اعتراضوں کے ذریعہ ه روز نامہ الفضل رتبه ۱۵ جون ۱۹۵۶ء صفحه ۳

Page 472

اس سے بڑھ کر تنگ کیا.مگر موسیٰ نے صبر سے کام لیا.بہر حال حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہا اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دونوں ہی ہمارے امام ہیں.ایک سابق امام اور ایک موجودہ امام - اگر یہ بوہ میں قائم ہونے والے ایک ادارہ کا نام خواہ وہ پین طب سے ہی تعلق رکھتا ہو.جملہ ہسپتال کی تجویز پر فضل عمر ہسپتال نام رکھ دیا گیا تو اس سے " اندھیر کو نسا ہو گیا ہے فصل مستقیم نوجوانان احمدی میں رومانی انقلاب حضرت علی مولوی کی علت کے نتیجے میں ت مصلح تبدیلی پیدا ہوگئی کہ دعاؤں اور درود شریف کے بکثرت درد سے اُن پر جناب الہی کی طرف سے رویا اور کشوں کے دروازے کھل گئے جس پر حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ یکم جون ۹۵۶ میں نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے " کہنے کو تو مسلمان کہتا ہی رہتا ہے کہ اس کو صراط مستقیم کی خواہش ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صراط مستقیم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی تمنا ہے اور اس فضل کو کھینچنے کے لئے خدا کوئی نہ کوئی ذریعہ بنا دیتا ہے.کہیں سوچا کرتا ہوں کہ کسی شاعر نے کیا سچ کہا ہے کہ مد خدا شهری به انگیزد که خیرے ما در آن باشد یعنی خدا تعالیٰ بعض وقت شتر میں سے بھی ہمارے لئے غیر اور بھلائی اور برکت کے سامان پیدا کر دیتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ میری بیماری سے پہلے جماعت کے نوجوان وہی تھے جو له روزنامه الفضل ۱۲۰ جون ۱۹۵۶ء صفحه ۶۰۵

Page 473

الالم اب ہیں اور اُن کے تعلقات بھی ویسے ہی تھے جیسے اب ہیں لیکن دُعاؤں اور درود کی طرف اُن کی زیادہ توجہ نہیں تھی لیکن جب میری بیماری کی خبریں شائع ہو ہمیں تو انہوں نے اپنے بزرگوں کو دیکھا کہ دعائیں کر رہے ہیں تو انہوں نے بھی دُعائیں کرنی شروع کر دیں پھر انہوں نے سنا کہ درود سے دُعائیں زیادہ سنی جاتی ہیں.اس پر انہوں نے بھی درود پڑھنا شروع کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تھے تو پچیس پچیس چھیں چھبیس سال کے لیکن پہلے انہیں رویا و کشوف نہیں ہوتے تھے لیکن ان دعاؤں اور درود کی کثرت کی وجہ سے یکں دیکھتا ہوں کہ درجنوں احمدیوں کو بڑی اعلیٰ درجہ کی خواہیں آنی شروع ہو گئیں ہیں.اور ہر ڈاک میں ایسے کئی خطوط نکل آتے ہیں جن میں خوابیں درج ہوتی ہیں.بعض دفعہ روزانہ پانچ پانچ چھ چھ خط اکٹھے آجاتے ہیں.جن میں خوابیں درج ہوتی ہیں.اور ان میں سے بعض اتنی شاندار ہوتی ہیں کہ اُن کے پڑھنے سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ خدائی سویا ہیں.یہ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ چاہے میری ہماری a کی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے لیکن بہر حال ان کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور چاہے انہوں نے دعا کی قبولیت کے لئے ہی درود پڑھا، مگر درود کی برکات سے انہیں حقہ مل گیا.چنانچہ ان دعاؤں اور درود اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کے نتیجہ میںایسی ایسی خواہیں دوستوں کو آرہی ہیں کہ انہیں پڑھ کر حیرت آتی ہے اور ان کا لفظ لفظ بتا رہا ہوتا ہے کہ سیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اگر یہ تحفہ جو ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے اس سے ان کے اندر حقیقی لذت ایمان پیدا ہو گئی اور انہوں نے گاؤں اور ذکر الہی کی عادت کو ترک نہ کیا تو یہ رویا و کشوف کا سلسلہ ان کے لئے مستقل طور پر جاری ہو جائے گا اور اللہ تعا کے فضل ران پر متواتر نازل ہونے شروع ہو جائیں گے.یونی زیکوسلا واکی اور مراکش میں اشاعت اهمیت به سال تبلیغ اسلام اور اشاعت احمدیت کے اعتبار سے بہت اہم سال تھا جس میں ایک طرف اگر حکومت سپین نے تبلیغ دین کی بندش کا فیصلہ ه روزنامه الفضل ریوه ۲۲ جون ۱۹۵۶ ۶ صفحه ۳ (ایضاً ۲۹ مئی ۱۵۶ صفحه ۲)

Page 474

کیا تو دوسری طرف دنیا کے متعدد ممالک مثلاً ٹیونس ، نیکوسلا واکیہ اور مراکش تک احمدیت کی آواز پہنچانے کا سامان کر دیا.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ ۱۵ جون ۹۵۶ یو میں خدا تعالیٰ کے ان تازہ افضال اور تصرفات پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا :- از دنیا اس وقت اسلام کی پیاسی ہے اور وہ ہم سے مبلغین اور لٹریچر کا مطالبہ کر رہی ہے کل ہی ایک ایسے ملک سے چھٹی آئی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی بڑی بھاری تعداد ہے.وہاں ایک شخص نے قرآن کریم کا دیباچہ جو میرا لکھا ہوا ہے جرمنی میں پڑھا اور پھر اس نے لکھا کہ میں نے آپ کا دیباچہ پڑھا ہے اور نہیں اس سے بڑا متاثر ہوا ہوں.اگر ہماری زبان میں آپ اسے شائع کر دیں تو ہمارے ملک میں تیس لاکھ مسلمان ہیں ان کے متعلق آپ سمجھ لیں کہ وہ فوراً آپ کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے مگر سوال یہ ہے کہ جو کام شروع ہیں اگر وہی پورے نہ ہو رہے ہوں تو ہم نے کام کسی طرح شروع کر سکتے ہیں ورنہ دنیا میں ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جن یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کئی ممالک جن میں اس وقت عیسائیت کو غلبہ حاصل ہے اگر ان میں تبلیغ کی جائے اور لٹریچر پھیلایا جائے تو وہ بہت جلد احمدی ہو جائیں گے....محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرسی بلند سے بلند تر ہوتی چلی جائے گی.خواہ ساری عیسائی دنیا زور لگا لے.ساری ہندو دُنیا زور لگائے.ساری یہودی دنیا نہ ور لگا لے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرسی کو کھینچنے والا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا.وہ آسمان کی بلندیوں کی طرف اڑتی چلی جائے گی اور اگر زمین کے لوگ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کرسی پر نہیں بیٹھنے دیں گے تو آسمان سے خدا اُترے گا اور وہ خود آپ کو اس کرسی پر بٹھائے گا یہ خدائی قضا ہے جو بہر حال پوری ہو کہ رہے گی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شعر ہے کہ ملک قضائے آسمان است این بہر حالت شود پیدا یہ آسمان کی قضا ہے اور اس نے ہو کہ رہنا ہے نہ امریکہ کی طاقت ہے.نہ اسرائیل کی طاقت ہے، نہ روس کی طاقت ہے ، نہ انگلستان کی طاقت ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کرسی سے اتار سکے بسپین کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے.پچھلے دس پندرہ سال اتار.میں وہاں تین حکومتیں بدل چکی ہیں.لیکن پھر بھی اگر بعض حکومتیں فرض شناسی سے کام نہیں

Page 475

لیں گی اور تفکر کرنا شروع کر دیں گی تو اللہ تعالی اس فلم کو برداشت نہیں کرے گا اور خدا خود انہیں مجبور کرے گا کہ وہ اسلام کے راستہ سے روکیں دورہ کریں.بلکہ اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغوں کو اگر عقل دے تو اب بھی وہ ایسے سامان پیدا کر رہا ہے جن سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے پچھلے دنوں ٹیونس کا ایک شہزادہ جو تخت کا وارث تھا منصر میں آیا اور احمدی ہو کہ چلا گیا.مگر ہمارے مبلغوں نے یہ غلطی کی کہ اس سے تعلق نہیں رکھا اسی طرح الحجز ائمہ کا ایک نمائندہ پچھلے دنوں آیا اور مجھے ملا اور کہنے لگا کہ مولوی آپ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں میں نے خود احمدیت کا مطالعہ کیا ہے اور مجھے اس کی تعلیم بڑی اچھی نظر آتی ہے کہیں نے کہا یہ اُن سے پوچھو کہ وہ کیوں مخالفت کرتے ہیں.کہنے لگا میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ ایسی اچھی باتوں کی کیوں مخالفت کرتے ہیں.اسی طرح زیکو سلو یکیا کا ایک نمائندہ مجھے زیورک میں ملا اور کہنے لگا کہ میں احمدی ہونا چاہتا ہوں.میں نے کہا جلدی نہ کرو.پہلے مولویوں کی باتیں کشن اور ایسا نہ ہو کہ بعد میں ان کی باتیں شنکر کہنے لگ جاؤ کہ اب میں مرتد ہونا چاہتا ہوں.پھر میں نے اسے اختلافات بتائے اور کہا کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں اور وہ انہیں آسمان پر زندہ سمجھتے ہیں.ہم قرآن کی کسی آیت کو منسوخ نہیں کجھتے مگر وہ کئی آیات کو منسوخ قرار دیتے ہیں.اس طرح ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کے لئے تلوار کی ضرورت نہیں مگر وہ جہاد کا یہی مفہوم سمجھتے ہیں کہ تلوار کے ساتھ غیر مسلموں کی گردنیں کا ٹ دی جائیں.وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ آپ کیا باتیں کر رہے ہیں.ہمارے ملک کے لوگ پہلے ہی ان باتوں کو مانتے ہیں ہمارے ملک میں تعلیم زیادہ ہے اس لئے کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ سمجھتا ہو پھر ہمارے ملک میں ٹیٹو کی حکومت ہے.اگر ہم لوگوں کو ہر مسئلہ بتائیں گے کہ غیرمسلموں کو قتل کو نا جائز ہے تو ٹیٹو پہلے ہماری گردنیں کاٹے گا اور کہے گا کہ تمہیں تو جب تلوار ملے گی دیکھا جائے گا پہلے نہیں تمہاری گر نہیں اڑاتا ہوں.ہماری عقل ماری ہوئی ہے کہ ہم اسی مسئلہ کو تسلیم کریں.باقی رہا قرآن میں منسوخی کا سوال.سو یہ بات بھی بالکل واضح ہے اگر مان لیا جائے کہ قرآن میں بعض منسوخ آیات نہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ سارا قرآن ہی قابل اعتبار نہیں.ہم ایسے بے وقوف نہیں کہ ان باتوں کو مان لیں.آپ بے شک تستی رکھیں.مولویوں کا نہ ہم پر اثر ہو سکتا ہے اور نہ میرے ملک کے دوسرے

Page 476

لوگوں پر.آپ بے شک لٹریچر بھیجیں.ہمارے نوجوان ان مسائل کو خوش آمدید کہیں گے اور وہ خوش ہوں گے کہ آپ نے ان کو گمراہی سے بچا لیا.عرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر ملکوں میں اسلام کے پھیلنے کے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور چند ممالک تو اپنے نظر آرہے ہیں کہ اگر ان میں صحیح طور پر تبلیغ کی جائے تو وہ لوگ عیسائیت کو چھوڑ کر بہت جلد اسلام میں داخل ہو جائیں گے.کیونکہ ان کے دلوں میں خواہش پیدا ہو رہی ہے کہ اسلام کی تعلیم ان تک پہنچے اور وہ اسے قبول کریں.بے شک سپین کی گورنمنٹ ہمارے مبلغ کو نکال دے اور دے اور مولوی اس پر خوشیاں منا لیں، مگر الہی تدبیر کا وہ کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں.چنانچہ ادھر سپین کی گورنمنٹ نے ہمارے مبلغ کو نوٹس دیا اور ادھر مراکش کے مسلمانوں نے خط و کتابت شروع کر دی کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں گویا اگر ایک ملک ٹانگ کھینچتا ہے تو دوسرا کرسی بچھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.بہرحال اللہ تعالی السلام کے پھیلنے کے خود سامان کر رہا ہے ، شروع میں جب اسلام پھیلا تھا تو خدا نے ہیں پھیل یا تھا.فصل نهم سیرالیون میں ایک عظیم نشان کا ظہور سرزمین احمد منی کا اخبار افریقی کومینٹ THE AFRICAN CRESCENT ایک عیسائی پریس میں چھپتا تھا.مگر اس سال کے وسط اول میں پریس کے عیسائی پرنٹر نے پادریوں کے اکسانے پر نہ صرف پرچہ چھاپنے سے انکار کر دیا اور مسودات واپس کر دیئے بلکہ ایڈیٹر کو سینٹ کو یہاں تک لکھا کہ ہمارا اسیح تو مُردے زندہ کیا کرتا تھا اور مختلف قسم کے معجزے دکھایا کرتا تھا اگر آپ کا مسیح بھی اپنے دعوئی میں صادق ہے تو اس سے کہو کہ کم از کم تمہارا اخبار ہی چھاپ دیا له روزنامه الفضل ربوه ۱۲۰ جون ۱۹۵۶ صفحه ۲

Page 477

۴۷۶۵ کرے.اس طنزیہ جواب سے مخلصین سیرالیون کو سخت تکلیف ہوئی مگر وہ خدائے عز و جل کے حضور فریاد کرنے اور حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں درخواست دعا بھیجنے کے سوا اور کیا کر سکتے تھے سو انہوں نے ایسا ہی کیا.اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے لئے ایسی غیرت دکھلائی کہ سخت مخالف حالات کے باوجود بہت جلد اس نے ایک نئے اور اعلیٰ درجہ کے پریس کا سامان کر دیا.انگلستان سے چار مشینیں منگوائی گئیں اور ان کو علی رو جبر ز صاحب کے وقف شدہ مکانوں میں نصب کر دیا گیا.ہوا یہ کہ مولانا محمد صدیقی صاحب امیر و انچارج منشن سیرالیون نے پریس کے لئے ایسی پر جوش تحریک کی کہ سیرالیون جیسی غریب اور نسبتا چھوٹی جماعت نے اپنے پریس کے لئے جود ہو پونڈ کی خطیر رقم جمع کر لی.اس شاندار مالی جہاد میں جماعت کے دوسرے مخلصین کے علاوہ سید علی رو جی، احمدی پیرامونٹ چیف آنر میل ناصر الدین کا مانہ گا صاحب اور مسٹر قائم جاب سیکشن چیف خالا نے نمایاں حصہ لیائیے حضرت مصلح موعود ہ کو اس روح پرور واقعہ کی اطلاع پر بے انداز مسترت ہوئی اور آپ نے ۱۲۹ جون ۱۹۵۶ء کے خطبہ جمعہ میں اس تازہ نشان کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :- اس مہفتہ میں مجھے ایک مبلغ کی طرف سے ایک چھٹی آئی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.اس کے بعد اپنا ایک ذاتی واقعہ اس کے ثبوت کے طور پر بیان کروں گا.وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے یہاں اخبار جاری کیا اور چونکہ ہمارے پاس کوئی پریس نہیں تھا.اس لئے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا.دو چار پرچوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کر رہے ہو.له الفضل ۲۲، ۲۵ جولائی ۱۵۶ء هست رونا شه ) و مخلص خط مولانا محمد صدیق تصاب امرتسری ۱۵ر جولائی سه

Page 478

ا جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے.چنانچہ اسے غیرت آئی اور اس نے کہہ دیا کہ آئندہ یہ تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا.کیونکہ پادری اس پر برا مناتے ہیں جب اپنا اخبار چھینا بند ہو گیا تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے میں بھی ایک نوٹ لکھا.کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے.اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خلا اُن کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے.یعنی پہلے ان کا اخبارہ ہمارے پریس میں چھپ جایا کرتا تھا.اب چونکہ ہم نے انکار کر دیا ہے.اور ان کے پاس اپنا پر میں کوئی نہیں اس لئے آب ہم دیکھیں گے کہ یہ خوشیح کے مقابلے میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں اس کی کیا طاقت ہے.اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کر دے وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی.اور میں نے سمجھا کہ گو ہماری یہاں تھوڑی سی جماعت ہے لیکن بہر حال میں انہیں کے پاس جا سکتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ اس موقع پر وہ ہماری مدد کویں تا کہ ہم اپنا پریس خرید سکیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین کو میل کے فاصلہ پر ایک احمدی کے پاس گیا تا کہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے.یہ شخص جس کے پاس ہمارا مبلغ کیا کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا.اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جا رہا تھا کہ اس احمدی نے تبلیغ شروع کردی وہ دریا کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ دیکھو یہ دریا اُدھر سے ادھر بہہ رہا ہے کرکے رہا اگر یہ دریا یک دم اپنا رخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف اللہ بہنا شروع کر دے تو یہ ممکن ہے لیکن میرا احمدی ہونا نا ممکن ہے مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقین احمدی اس سے ملا اور چند دن اس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہو گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہو گئی وہ افریقین اپنے گاؤں کا چیف یعنی رئیس ہے مگر ہمارے ملک کے رئیسوں اور اُن کے رئیسوں میں فرق ہوتا ہے.اُن کے رئیس اور چیف عموما ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہمارے ہاں نمبر دار اور سفید پوشش ہوتے ہیں، گو بعض چیف بڑے بڑے بھی ہوتے ہیں مثلاً لنڈن میں میری ریسپشن کے موقعہ پر جوا فریقین چیف آیا اس کے ماتحت تین لاکھ آدمی تھا.گویا ریاست پٹیالہ سے بھی..RECEPTION

Page 479

PARAMOUNT CHIEF بڑی ریاست اس کے ماتحت تھی.پس بے شک بعض بڑے بڑے چیف بھی ہوتے ہیں جب ہم اُن کے متعلق چیف کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو بعضی احمدی اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں اور وہ سمجھتے نہیں کہ اس سے بہت بڑا ر میں مراد ہے.حالانکہ اس کے معنے صرف ایک چھوٹے نمبر دار کے ہوتے ہیں.وہاں قاعدہ یہ ہے کہ لوگ اپنے چیف کا خود انتخاب کرتے ہیں.گاؤں والے اپنے چیف کا انتخاب کرتے ہیں اور شہر والے اپنے چیف کا انتخاب کرتے ہیں.گاؤں کا چیف چھوٹا چیف ہوتا ہے.قصبہ کا چیف اس سے بڑا چیف ہوتا ہے اور شہروں کے چیف ان سے بڑے ہوتے ہیں پھر اس ضلع کے الگ الگ چیف ہوتے ہیں جنہیں پرا مونٹ چیف کہتے ہیں.یعینی راجوں کا راجہ.بہر حال وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ میں اس چیف کے پاس گیا جو ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا، احمدیت میں داخل ہوا تھا اور جو کسی زمانہ میں احمدیت کا اتنا مخالف ہوا کرتا تھے کہ اس نے یہ کہا تھا کہ دریا اپنا رخ بدل سکتا ہے اور وہ نیچے سے اوپر کی طرف بہہ سکتا ہے.لیکن میں احمدی نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو کہ جونہی وہ احمدی ہوا اس کی زمین میں سے ہیروں کی کان نکل آئی اور گو قانون کے مطابق گورنمنٹ نے اس پر قبضہ کر لیا مگر اسے کچھ رائلٹی دینی پڑی جس سے یکدم اس کی مالی حالت اچھی ہونی شروع ہو گئی.اور جماعتی کاموں میں بھی اس نے شوق سے حصہ لینا شروع کر دیا.بہر حال وہ لکھتے ہیں کہ میں اس کی طرف جا رہا تھا کہ خدا تعالے نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آ گیا اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا.اس وقت وہ اپنے کسی کام کے سلسلہ میں کہیں جارہا تھا.وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اتر پڑا اور کہنے لگا کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں.میں نے کہا کہ اس اس طرح ایک عیسائی اختبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے.اگر مسیح کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھاوے وہ کہتے لگا آپ یہیں بیٹھیں.میں ابھی گاؤں سے ہو کہ آتا ہوں.چنا نچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے پانچ سو پونٹو ں کہ ہمارے مبلغ کو دے دیا.پانچ سو پونڈ اس سے پہلے دے چکا تھا گویا تیرہ ہزار کے قریب روپیہ اس نے دے دیا اور کہا کہ میری خواہش ہے آپ پولیس کا جلدی انتظام کریں تاکہ عیسائیوں کو جواب دے سکیں.کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے

Page 480

سے انکار کر دیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پریس دے دیا ہے.ایک ہزار پونڈ ہمار ملک کی قیمت کے لحاظ سے تیرہ ہزار روپیہ کا بنتا ہے.اور یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ بڑے بڑے تاجر بھی اتنا رو پہ دینے کی اپنے اندر توفیق نہیں پاتے.وہ بڑے مالدار ہوتے ہیں مگر اتنا چندہ دینے کی ان میں ہمت نہیں.انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس سے پہلے جب اس چیف نے پانی ہو پونڈ چندہ دیا تھا تو میں ایک شامی تاجر سے بھی ملا تھا.میں نے اسے تحریک کی کہ وہ بھی اس کام میں حصہ لے اور میں نے اسے کہا فلاں گاؤں کا جو رئیس ہے اس نے پانچ سو پونڈ چندہ دیا ہے.وہ کہنے لگا کہ میری طرف سے بھی آپ پانچ سو پونڈ لکھ لیں اور پھر کہا کہ میں اس وقت پانچ سو پونڈ لکھواتا ہوں مگر کہیں دُوں گا اس چیف سے زیادہ ، یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.ایک معمولی گاؤں کا چیف ہے اور پھر احمدیت کا اتنا مخالف ہے کہ کہتا ہے اگر دریا اللہ چلنے لگے تو یہ ممکن ہے لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ میں احمدی جو سکوں.مگر پھر خدا تعالیٰ اسے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے اور نہ صرف احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے بلکہ یکدم اسے ہزاروں روپیہ سلسلہ کو پیش کرتے کی توفیق مل جاتی ہے.له روزنامه الفضل ريوه ۱۰ جولائی ۱۹۵۷ء صفحه ۳۱۲ سے مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری فرماتے ہیں :- ** مذکورہ بالا پریس کے لئے جب مالی تحریکیں کی جارہی تھیں تو مجھے دن رات یہ فکر رہنے لگا کہ آپ ہم احمدیہ پریس کہاں اور کس عمارت میں فٹ کریں گے کیونکہ ہمارے پاس اس وقت " بو " میں سوائے ایک احمدیہ دارالتبلیغ کی عمارت کے اور کوئی عمارت نہ تھی.اسی فکر میں ایک شب بے چینی کے عالم میں بار بار بستر پر پہلو بدلتے ہوئے خاکسار اللہ تعالیٰ کے حضور ملتجی تھا کہ الہی اس پریس کے لئے عمارت کا کیا انتظام کیا جائے کہ اچانک اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈالا کہ محترم الحاج علی روجرز صاحب کو تحریک کروں کہ وہ اپنے دو مکان اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر جماعت کے نام سہہ کر دیں.چنانچہ اگلے روز خاکسار نے مکرم الحاج علی روجر ز صاحب کے پاس جا کہ انہیں کہا کہ جماعت کی :

Page 481

حضور نے مزید فرمایا :- میں نے پچھلے دنوں تحریک جدید کے بیرونی مشنوں کے متعلق ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں میں نے ذکر کیا تھا کہ تحریک جدید کے پاس بیرونی مشنوں کے لئے اتنا کم روپیہ رہ گیا ہے کہ دیقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ فوری ضروریات کے پیش نظر آپ یہ دونوں مکان مع ساتھ والی زمین کے اللہ تعالیٰ کی خاطر احمد یہ مشن کو ہبہ کردیں کیونکہ ان کی اس وقت اشد ضرورت ہے.یہیں قربان جاؤں اس پیارے بزرگ بھائی کے وہ کسی تردد اور عذر کے بغیر فی الفور سر تسلیم تم کرتے ہوئے اپنے وہ دونوں مکان صبر کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے بالکل درست ہے.لائیں کاغذ اور قلم اور مجھ سے ابھی ابھی لکھوائیں.چنانچہ اسی وقت ہم مشن کے دفتر میں پہنچے اور میں نے لوکل قانون کے مطابق انگریزی میں معاہدے کا ڈرافٹ تیار کر کے اس کی تین نقول کیں اور بطور گواہ جماعت کے دوسرے سر کردہ ممبران کو بلا کہ ان کے سامنے الحارج علی رو جوریہ صاحب سے دستخط کروائے.چنانچہ اس کے بعد سے شہر کے وسط میں دونوں عمارتیں اور خالی زمین قانونی طور پر احمدی مشن سیرالیون کی ملکیت ہو گئیں.اُن کی قیمت مع زمین اس وقت تین ہزار پونڈ سے کم نہ تھی.ان میں سے ایک عمارت میں پریس قائم کیا گیا اور دوسری عمارت جماعت کی سنٹرل لائبریری اور پبلک ریڈنگ روم کے طور پر استعمال ہونے لگی جس کا افتتاح ملک کے سینکڑوں باشندوں کی موجودگی میں " و "کے ڈسٹرکٹ کمشنر صاحب نے کیا اور پھر پبلک کا ہر طبقہ اس لائبریری اور ریڈنگ روم ہے فائدہ اٹھانے لگا.اس ریڈنگ روم می لوکل اخبارات کے علاوہ دنیا بھر سے ہر قسم کے کم وبیش نہیں روزا ہفتہ وار اور ماہوار اخبار اور رسالے وغیرہ با قاعدہ آیا کرتے تھے جن میں سے اکثر احد یہ لائبریری کے نام پر مفت آتے تھے.یہاں اظہار تشکر کے طور پر ذکر کرنا بھی مناسب ہو گا کہ مجوزہ پریس کی مشینیں خریدنے کے لئے محترم الحاج علی رو بر ز صاحب نے اپنے دونوں مکانوں کے علاوہ اپنے اور اپنے خاندان کی طرف سے بطور چندہ پریس ۵۰۰ پونڈ نقد بھی ادا فرمایا فجزاہ اللہ تعالی.پولیس کے لئے انگلستان سے آمدہ چار مشینیں سالہا سال تک مشن کی ضروریات پورا کرنے کے علاوہ تجارتی لحاظ سے بھی سود مند و ثابت ہوئیں.

Page 482

شائد اب ہمیں اپنے مشن بند کرنے پڑیں مگر ادھر میں نے خطبہ پڑھا اور اُدھر اللہ تعالیٰ کا فصل دیکھو کہ ایک دن میں نے ڈاک کھولی تو اس میں ہمارے ایک مبلغ کا خط نکلا جس میں اس نے لکھا کہ ایک جرمن ڈاکٹر نے احمدیت کے متعلق کچھ لڑ بیچر پڑھا تو اس نے ہمیں لکھا کہ مجھے اور لٹریچر بھیجواؤ.چنانچہ اس پر میں نے آپ کا لکھا ہوا دیبا چہ قرآن اسے بھیجوا دیا.دیباچہ پڑھے کہ اس نے لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس کو اپنے ملک میں چھاپا جائے اور بڑی کثرت سے یہاں پھیلایا جائے اور میں اس بارے میں آپ کی ہر طرح مدد کرنے کے لئے تیار ہوں.پھر اس نے لکھا کہ یہاں بیس لاکھ جرمن نسل کے مسلمان پائے جاتے ہیں.اگر دیباچہ کا یہاں کی زبان میں ترجمہ ہو جائے تو ہیں لاکھ مسلمان عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے سے بچ جائے گا.اور وہ احمدیت کو قبول کرلے گا.گویا ہم تو یہ ڈر رہے تھے کہ کہیں خدانخواستہ ہمارے پہلے مشن بھی بند نہ ہو جائیں اور اللہ تعالے نے ہماری تبلیغ کے لئے راستے کھول دیئے.پھر جب خطبہ شائع ہوا تو باہر سے بھی اور اندر سے بھی ہمارے خدا کے زندہ ہونے کی کثرت سے مثالیں ملتی شروع ہو گئیں.ایک غیر احمدی کا خط آیا کہ میں نے آپ کا خطبہ پڑھا تو میرا دل کانپ گیا کہ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی تکلیف کی وجہ سے کس قدر دکھ ہوا ہے.ہمیں سو روپیہ کا چیک آپ کو بھجوا رہا ہوں آپ اس روپیہ کو جس طرح چارہیں خرچ کریں پھر ایک اور خط کھولا تو وہ ایک احمدی کا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ میں سو روپیہ بھجوا رہا ہوں تاکہ بیرونی مشنوں کے اخراجات میں جو کمی آئی ہے وہ اس سے پوری ہو سکے.پھر ایک عورت کا خط آیا کہ میں پچاس روپے بھجوا رہی ہوں تاکہ جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ ہو سکے.پھر چوتھا خط میں نے کھولا تو اس میں ایک ترکی پروفیسر کا ذکر تھا.ہمارا ایک احمدی ان دنوں ایک ترکی پروفیسر سے ترکی زبان سیکھ رہا ہے اور ایک سو بیس روپے ماہوار اسے ٹیوشن دیتا ہے وہ ترکی پروفیسر اسلام کا دشمن تھا اور رات دن اسلام اور مستی باری تعالی پر اعتراض کرتا رہتا تھا وہ احمدی لکھتا ہے کہ کہیں نے ایک دن فیصلہ کیا کہ چاہے میری پڑھائی ضائع ہوجائے میں نے آج اس سے مذہبی بحث کرتی ہے.چنانچہ میں اس سے بحث کرتا رہا.اور پھر میں نے اسے آپ کا لکھا ہوا دیباچہ قرآن دیا کہ وہ اسے پڑھے وہ دیباچہ لے گیا اور پڑھنے کے بعد مجھے کہنے لگا کہ میں آج سے پھر سلمان ہو گیا ہوں ، پھر جب مہینہ ختم ہوا اور میں اسے روپیہ دینے کے

Page 483

لئے گیا تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ پر یہ مہربانی کرو کہ یہ روپیہ میری طرف سے اپنے امام کو بھجوادو اور انہیں کہو کہ وہ جس طرح چاہیں اس روپیہ کو خرچ کریں اب دیکھو ایک دہر یہ انسان ہے خدا تعالیٰ پر رات دن مہنسی اڑاتا ہے.اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا.لیکن اس پر ایسا اثر ہوا ہے کہ جب اسے ٹیوشن کی فیس پیش کی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہ روپیہ مجھے نہ دو.بلکہ اپنے امام کے پاس بھیج دو اور انہیں کہو کہ وہ اسے جس طرح چاہیں خرچ کریں.اس کے بعد میں نے تو پانچواں خط کھولا وہ ایک احمدی دوست کا تھا جو انڈونیشیا سے بھی پرے رہتے ہیں.انہوں نے لکھا کہ یہ اطلاع ملتے ہی کہ بیرونی مشنوں کو جو روپیہ بھجوایا جاتا تھا.اس میں کمی آگئی ہے میں نے اڑھائی سو پونڈ لنڈن بنک میں تحریک جدید کے حساب سے جمع کروا دیا ہے میری تو انش تھی کہ میں چھ سو پونڈ جمع کراؤں.مگر سردست فوری طور پر میں نے اڑھائی سو پونڈ بنک میں جمع کرا دیا ہے.پھر چھٹا خط میں نے کھولا تو وہ ایک ایسے دوست کی طرف سے تھا جو پاکستان کے باہر کے رہنے والے ہیں.انہوں نے لکھا آپ اس فکر میں اپنی صحت کیوں برباد کر رہے ہیں.ہماری جائیدادیں اور تمہارے بیوی بچے کس غرض کے لئے ہیں.ہم ان سب کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.آپ یو نوں کا فکر نہ کریں آپ جیتنے پونڈ چاہیں گے ہم جمع کر دیں گے اور اس بارہ میں آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیں گے.غرض اس طرح متو اثر خطوط آنے شروع ہو گئے ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے اس خطبہ کے پہنچتے ہی تمام جماعتوں میں اک آگ سی لگ گئی ہے اور لوگ انتہائی بے تابی کے ساتھ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں.اسی طرح پشاور سے ایک دوست کا خط آیا جس میں انہوں نے لکھا کہ یہ خطبہ پڑھ کر مجھے سخت تکلیف ہوئی ہے.اگر تمام احمدی کوشش کہیں تو کیا وہ سات ہزار دو سو پونڈھی جمع نہیں کر سکتے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کام کے لئے پوری طرح تیار ہیں.اور ہم خود اس روپیہ کو جمع کریں گے.آپ اس بارے میں کسی قسم کی تشویش سے کام نہ لیں، یہ تو کل اور پرسوں کی ڈاک کا ذکر تھا.آج ڈاک آئی اور میں نے اسے کھولا تو اس میں سے ایک شہر کی خدام الاحمدیہ کی مجلس کی طرف سے خط نکلا جس میں یہ ذکر تھا کہ ہم نے آپ کا خطبہ تمام خدام کو پڑھ کر سنایا.جس پر فوراً مقامی خدام نے دو سو روپیہ چندہ کے وندے لکھوا دیئے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یہ روپیہ وصول کر کے بہت جلد مرکز میں بھجوادیں.

Page 484

۴۷۲ عرض دیکھو مہارا خدا کیسا زندہ خدا ہے کہ جو کام ہم نہیں کر سکتے تھے اس کے لئے وہ آپ سامان مہیا کر رہا اور خود لوگوں کے دلوں میں تحریک کر رہا ہے.چنانچہ ایک طرف ایک ٹرکی پروفیسر کے دل میں تحریک پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمائی کا روپیہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کی.بجائے تبلیغ اسلام کے لئے بھیجوا دے تو دوسری طرف ایک جرمن ڈاکٹر کے دل میں تحریک پیدا ہوتی ہے کہ ہم خود اسلام کی اشاعت میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں.آپ دیباچہ کا ترجمہ ہماری ملکی زبان میں کروا دیں تو لاکھوں لوگ احمدی ہونے کے لئے تیار ہیں.اسی طرح جو پاکستان کے باہر احمدی رہتے ہیں.اُن کے دل میں تحریک پیدا ہوئی ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ آپ کیوں فکر کرتے ہیں.آپ ہمیں حکم دیں تو ہم اپنے بیوی بچے بھی اس راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اور جتنے پونڈ چاہیں گے ہم جمع کر دیں گے.مگر ہم سے یہ تکلیف نہیں دیکھی جاتی کہ آپ فکر اور تشویش سے اپنی صحت کو برباد کر لیں بغرض اللہ تعالیٰ نے اپنے زندہ اور قادر ہونے کا ایک نمایاں ثبوت ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ وہ کتنی بڑی طاقتیں رکھنے والا خدا ہے اس سلسلہ میں یہ بھی فرمایا کہ :.ہماری مثال حضرت عائشہ والی ہو گئی ہے.جب مدینہ میں پہلی دفعہ ہوائی چکیاں آئیں اور یا ایک آٹا پینے لگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ازواج مطہرات میں سے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ آٹا تحفہ پیش کیا جائے.چنانچہ مدینہ میں سب سے پہلے یہ آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر بھجوا دیا گیا.اور اس کے پھلکے تیار کئے گئے.حدیثوں میں آتا ہے کہ اس سے پہلے پتھر پر دانہ کوٹ کو دلیہ سا بنا لیا جاتا تھا اور اس کی روٹی تیار کی جاتی تھی جب پہلی دفعہ نرم اور ملائم آٹے کی روٹی پکا کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے پیش کی گئی تو آپ نے اس میں سے ایک لقمہ توڑ کر اپنے منہ میں ڈالا اور پھر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگ گئے.ایک عورت جو پاس بیٹھی ہوئی تھی وہ کہنے لگی.بی بی آپ روتی کیوں ہیں.روٹی تو بڑی ملائم اور نرم ہے اور ہم نے اس آٹے کی بڑی تعریف شنی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ه روزنامه الفضل ربوه ۱۰ جولائی ۱۹۵۶ء صفحه ۴۰۳.!

Page 485

۴۴۷۳ میں اس لئے نہیں روتی کہ آٹا خراب ہے بلکہ مجھے اس روٹی کو دیکھ کر رسول کریم صلی الہ علی رستم کان مانہ یاد آگیا ہے ہم اس زمانہ میں دانوں کو پتھروں سے کچل کر دلیہ سا بنا لیتی تھی اور اس کی روٹیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلایا کرتی تھیں.آخری عمر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضعیف ہو گئے تو آپ کے لئے روٹی چبانا بڑا مشکل ہو گیا تھا.پس مجھے اس روٹی کو دیکھ کہ مونا آگیا اور مجھے خیال آیا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہ چکیاں ہوتیں تو میں آپ کو اس آٹے کی روٹی پکا کر کھلاتی ہمارا بھی یہی حال ہے.اب تو ہمارا اصدر انجمن احمدیہ کا بیٹ چودہ پندرہ لاکھ کا ہے.اور تحریک جدید کا بجٹ بھی بارہ تیرہ لاکھ کا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں یہ کیفیت تھی کہ کئی مقامات پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام نے یہ لکھا ہے کہ اب تو ہم پر اتنا بوجھ ہے کہ پندرہ پندرہ سو روپیہ ایک مہینے کا خرچ ہے.گویا اس زمانہ میں اٹھارہ ہزار روپیہ کا سالانہ خرچ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام اسے بڑا بوجھ قرار دیتے تھے لیکن اس زمانہ میں بعض ایسے احمدی نہیں کہ اُن میں سے ایک ایک اس بوجھ کو آسانی سے اٹھا سکتا ہے.اس وقت بعض دفعہ ایسی حالت ہوتی تھی کہ لنگر میں آٹا نہیں ہوتا تھا اور منتظمین کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں روپیہ کے لئے درخواست کرنی پڑتی تھی.شہ میں جو زلزلہ آیا اور حضرت مسیح موعود علی الصلواه والسلام کچھ عرصہ کے لئے باغ میں تشریف لے گئے تو مجھے خوب یاد ہے ایک دن آپ باہر سے آئے تو اللہ تعالی کی بڑی حمد و ثنا کر رہے تھے اس وقت آپ نے حضرت اماں جان کو بلایا اور فرمایا بیٹھڑی کے لو اور دیکھو اس میں کتنی رقم ہے.حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے کمرہ سے باہر نکل کر بتایا کہ اس کپڑے میں چار سو یا پانچ سو کی رقم ہے.آپ نے فرمایا آج ہی لنگر والے آٹے کے لئے روپیہ مانگ رہے تھے اور میرے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا اور میں حیران تھا کہ اس کا کیا انتظام ہوگا.اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک غریب آدمی جس نے میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے آیا اور اس نے یہ گٹھڑی مجھے دے دی.میں نے سمجھا کہ اس میں پیسے ہی ہوں گے لیکن اب معلوم ہوا کہ روپے تھے اس پر آپ دیر تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے رہے کہ اس نے کیسا فضل نازل فرمایا ہے.بے شک ہماری نگاہ میں چار سو روپیہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا لیکن اس وقت ہم ان

Page 486

۷۴ام چیزوں کو دیکھتے تو ہمارا ایمان تازہ ہوتا تھا اور اب نہیں اس سے سینکڑوں گنے زیادہ روپیہ ملتا ہے اور وہ روپیہ ہمارے ایمان کو بڑھاتا ہے.میں نے دیکھا ہے.مجھے اپنی عمر میں بعض غیر احمدیوں نے دو دو تین تین چار چار ہزار روپیہ نذرانہ کے طور پر دیا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام کے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ آپ کو چار سو روپیہ ملا تو آپ نے موعود کے سمجھا شائد اس میں پیسے ہی ہوں گے ورنہ اتنا روپیہ کون دے سکتا ہے آج اگر وہی زمانہ ہوتا تو وہ لوگ جو اس وقت افسوس کر رہے ہیں ان کو بھی قربانی کا موقع مل جاتا اور شخص قربانی کر کے سمجھنا کہ مجھے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت کا موقع عطا فرما کر مجھ پر احسان فرمایا ہے لیکن وہ زمانہ تو گزر گیا اب پھر ایک دوسرا زمانہ آگیا ہے جس ہیں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے دین کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر رہا ہے.بہر حال ہر زمانہ کے لحاظ سے خدا اپنی نہ ندگی کا ثبوت دیتا چلا آیا ہے اس زمانہ میں چار سو ر و پره کامل جا نا خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ایک ثبوت تھا اس زمانہ میں کبھی کبھی چالیس پچاس ہزار دے کر اس نے اپنی زندگی کا ثبوت دیا ہے اور آج خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت وہ اڑھائی سو پونڈ ہیں جو ایک دوست نے اطلاع ملتے ہی لنڈن بنک میں جمع کر وا دیئے.اسی طرح اس ترکی پروفیسر کا وہ روپیہ بھی زندہ خدا کا ایک نشان ہے جو اس نے اپنے اوپر خرپا کرنے کی بجائے مجھے دین پر خرچ کرنے کے لئے بھجوا دیا.یا پھر خدا تعالے کے زندہ ہونے کا ثبوت اس جیشی چیف کا واقعہ ہے جس نے احمدیہ پریس کے لئے ایک ہزار پونڈ دو قسطوں میں دے دیا اور یا پھر خدا تعالٰی کے زندہ ہونے کا ثبوت افریقہ کے اس دوست کا خط ہے جنہوں نے یہ لکھا کہ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں.آپ روپیہ کے متعلق کسی قسم کا فکر نہ کریں.بیرونی مشنوں کیلئے جتنے پونڈوں کی ضرورت ہو ہمیں لکھیں ہم کسی نہ کسی طرح جمع کر دیں گے.عرض خدا تعالٰی ہر زمانہ میں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت مہیا کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے مومن بندوں کے ایمانوں کو بڑھانا رہتا ہے مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جب اشتہار چھپوانے کے لئے بھی ہمارے پاس کوئی روپیہ نہ ہوتا تھا.نہیں جب خلیفہ ہوا اور غیر مبایعین کے مقابلہ میں میں نے پہلا اشتہار لکھا تو اس وقت ہماری مالی مالت اتنی کمزور تھی کہ اس اشتہار کے چھپوانے کے لئے بھی ہمارے پاس

Page 487

۴۷۵ کوئی روپیہ نہیں تھا.ہمارے نانا جان میر نا صر نواب صاحب مرحوم کو اس کا علم ہوا تو اس وقت ہسپتال کے لئے چندہ جمع کر رہے تھے.انہوں نے ڈھائی سو روپے کی پوٹلی لا کہ میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ آپ اس روپیہ کو استعمال کریں جب آپ کے پاس روپیہ آئے گا تو وہ مجھے دے دیں.چنانچہ سب سے پہلا اشتہار ہم نے انہیں کے روپیہ پہلا اشتہار ہم نے انہیں کے روپیہ سے شائع کیا.پھر اللہ تعالیٰ نے وہ دن دکھایا کہ یا تو دوسو اور اڑھائی سو کے لئے ہمارے کام رکے ہوئے تھے یا اب ایک ایک شخص ہی بیس بیس ہزار دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے مشک پچھلے سال میں بیمار ہوا تو ڈاکٹروں نے مجھے ولایت جانے کا مشورہ دیا.اس پر اللہ تعالے نے ہماری جماعت کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ اس نے ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اس غرض کے لئے جمع کر دیا.عرض زمانے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے چلے جائیں گے ایک زمانہ میں لوگ اربوں ارب روپیہ دیں گے اور انہیں پتہ بھی نہیں لگے گا کہ اُن کے مال میں سے کچھ کم ہوا ہے کیونکہ دینے والے کھرب پتی ہونگے.اور جب وہ ہیں بائیں یا پچاس ارب روپیہ دیں گے تو انہیں پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ان کے خزانے میں کوئی کمی آئی ہے.اس وقت انہیں یا دبھی نہیں رہے گا کہ کسی زمانہ میں پچاس روپیہ کی بھی ضرورت ہوتی تھی تو اس کے لئے بھی دعائیں کرنی پڑتی تھیں.تم تذکرہ پڑھو تو تمہیں اس میں یہ لکھا ہوا دکھائی دے گا کہ ایک دفعہ ہمیں پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل اللہ پر کبھی کبھی ایسی حالت گذرتی ہے اس وقت ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا تب ہم نے وضو کیا اور جنگل میں جاکر دعا کی اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام نازل ہوا کہ دیکھو ئیں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں.اس کے بعد ہم واپس آئے تو بازار سے گذرے اور ڈاک خانہ والوں سے پوچھا کہ کیا ہمارے نام کوئی منی آڈر آیا ہے یا نہیں، انہوں نے ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپے آپ کے نام بھجوا دیئے گئے ہیں چنانچہ اسی دن یا دوسرے دن وہ روپیہ ہمیں مل گیا.(تذکرہ (۱۵۲) غرض ایک زمانہ ایسا گذرا ہے کہ حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کو پچاس روپوں کے لئے بھی فکر ہوتا تھا کہ وہ کہاں سے آئیں گے اور یا آب یہ حالت ہے کہ سندھ میں جو میری اور سلسلہ کی زمینیں ہیں اُن پر تین ہزار روپیہ ماہوار تنخواہوں کا ہی دینا پڑتا ہے گو یا کمجا تو

Page 488

۴۷۶ یہ حالت تھی کہ پندرہ سو روپیہ ماہوار کا خرچ ساری جماعت کے لئے بوجھ سمجھا جاتا تھا کہ حضرت مین موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے لئے خاص طور پر علیحدگی میں دعا کرنا ضروری سمجھا اور کیا یہ حالت کہ اسی شخص کا بیٹا سینکڑوں روپیہ ماہوار اپنے کارکنوں کو تنخواہیں دیتا ہے اور انجمن کے افسروں کو لا کر وہ رقم ہزاروں روپیہ کی بن جاتی ہے.اور ربوہ کے دفتروں کو ملکہ کوئی نوے ہزار ماہوار کی رقم بن جاتی ہے.یہ کتنا عظیم انسان فرق ہے جو ہر شخص کو دکھائی دے سکتا ہے لیے خطبہ کے آخر میں حضور نے یہ پیشگوئی فرمائی : " مگر ابھی کیا ہے.ابھی تو صرف ہزاروں روپیہ خرچ ہو رہا ہے پھر کوئی وقت ایسا آئے گا کہ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کا تین تین ارب کا بجٹ ہو گا پھر الیسا زمانہ آئے گا کہ ان کا تین تین کھرب کا سیٹ ہوگا یعنی صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کا سالانہ بجٹ ۷۲ کھرب کا ہو گا.پھر یہ بجٹ پرم پر جا پہنچے گا کیونکہ دنیا کی ساری دولت احمدیت کے قدموں میں جمع ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صاف طور پر لکھا ہے کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا مجھے یہ فکر ہے کہ اس روپیہ کو دیانت داری کے ساتھ خرچ کرنے والے کہاں سے آئیں گے.چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کا نظام جاری فرمایا تو اللہ تعالے نے اس میں ایسی برکت دکھ دی کہ یا وجود اس کے کہ انجمن کے کام ایسے ہیں جو دلوں میں جوش پیدا کرنے والے نہیں پھر بھی صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید کے بجٹ سے ہمیشہ بڑھا رہتا ہے کیونکہ وصیت اُن کے پاس ہے.اس سال کا بجٹ بھی تحریک جدید کے بجٹ سے دو تین لاکھ روپیہ زیادہ ہے.حالانکہ تحریک کے پاس اتنی بڑی جائیداد ہے کہ اگر وہ جرمنی میں ہوتی یا یورپ کے کسی اور ملک میں ہوتی تو ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو کروڑ روپیہ سالانہ اُن کی آمد ہوتی.مگر اتنی بڑی جائیداد اور بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کرنے کی جوش دلانے والی صورت کے باوجود محض وصیت کے طفیل صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید سے بڑھا رہتا ہے.اسی لئے آب وصیت کا نظام نہیں نے امریکہ اور انڈونیشیا میں بھی جاری کر دیا ہے اور وہاں سے اطلاعات آرہی ہیں کہ لوگ بڑے شوق سے لے روزنامہ الفضل ریوه ۱۰ جولائی ۱۹۵۷ ء صفحه ۶۰۵.

Page 489

اس میں حصہ لے رہے ہیں.گو امریکہ کے مبلغ اس معاملہ میں بہت سستی سے کام لے رہے ہیں میں نے سمجھا کہ چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ نظام ہے.اگر اس نظام کو بیرونی ملکوں میں بھی جاری کر دیا جائے تو وہاں کے مبلغوں کے لئے اور مشنوں کے لئے اور مسجدوں کی تعمیر کے لئے بہت بڑی سہولت پیدا ہو جائے گی غرض یہ کہ خدا تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان ہے جو اس نے اپنے زندہ ہونے کے ثبوت کے طور پر تمہارے سامنے ظاہر کیا ہے.اب تمہارا کام ہے کہ تم ان نشانات سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا تعالیٰ کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑ لو کہ وہ تم سے کبھی جدا نہ ہو تمہیں اگر ایک چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی مل جائے تو تم اسے ضائع کرنا کبھی پسند نہیں کرتے.اگر تمہیں دو آنے مل جائیں تو تم ان دو آنوں کا ضائع ہونا بھی برداشت نہیں کر سکتے، اگر تمہیں کہیں سے ایک روپیہ ل جائے تو تم اس ایک روپیہ کا ضیاع بھی برداشت نہیں کہ سکتے، اگر تمہارے پاس ایک رئیل اور مریل گھوڑا ہو تو تم اس مریل گھوڑے کو بھی ضائع کرنا بھی پسند نہیں کرتے پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہارے پاس ایک زندہ خدا ہو اور تم اس سے غافل ہو جب تم اس کا ہاتھ پکڑ لو گے تو وہ تمہیں کبھی بھی نہیں چھوڑے گا.بلکہ ہر موقع پر تمہاری غیر معمولی نشانات سے تائید فرمائے گا.اگر تمہارے جاہل باپ دادا نے یہ ضرب المثل بنائی ہوئی تھی کہ " ہتھ پھڑے دی لاج رکھنا اور وہ جس کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے اسے کبھی نہیں چھوڑتے تھے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر تم نے مضبوطی کے ساتھ اپنے خدا کے دامن کو پکڑ لیا تو وہ تمہاری لاج نہیں رکھے گا، وہ ایسی لاج رکھے گا کہ دنیا میں کسی نے ایسی لاج نہیں رکھی ہو گی اور وہ تمہارا اس طرح ساتھ دے گا کہ تمہارے ماں باپ نے بھی تمہارا اس طرح کبھی ساتھ نہیں دیا ہو گا ئے مسلمانوں حکومت فرانسکے ظلم و تشہد کے خلاف احتجاج حرارت فرانس یک مورے حکومت عرصہ الجزائر کے حریت پسند سلمانوں پر بے پناہ مظالم توڑ رہی تھی، یہ سلسلہ اس سال کے وسط میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا.جب کہ فرانسیسی فوج نے الجزائر شہر کے پرانے عرب محلوں سے کم وبیش دو ہزار عربوں کو گرفتار کر کے اُن پر مظالم که روزنامه الفضل ربوه ۱۰ جولائی ۹۵۶ ہر صفحہ ۷۶

Page 490

۴۷۸ کا پہاڑ گرا دیا جس سے پوری دُنیائے اسلام میں شدید قلق اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی موتمر عالم اسلامی پاکستان کی طرف سے پاکستان میں ۲۹ جون شاہ کو یوم الجزائر منایا گیا جماعت اسے احمدیہ پاکستان نے بھی اس روز احتجاجی جلسے کئے اور حکومت فرانس کے سفیر متعینہ کراچی کو تار اور خطوں کے ذریعہ اپنے دلی جذبات سے آگاہ کیا اور حکومت فرانس پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں پر اپنے مظالم کا سلسلہ ختم کر دے اور الجزائر کو آزادی کا پورا پورا حق دے اس سلسلہ میں ۲۹ور جواہات کو نماز جمعہ کے بعد اہلِ ربوہ کا ایک غیر معمولی اجلاس زیرہ بلاس زیر صدادار الحاج حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال منعقد ہوا جس میں صاحب صدر کے علاوہ مولانا ابوالعطاء صاحب قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ، چوہدری محمد شریف صاحب اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے الجزائر میں مسلمانوں پر حکومت فرانس کے و تشدد کے خلاف پر زور احتجاج کیا.اجلاس میں حسب ذیل قرار دادیں پیش ہو کہ بالاتفاق منظور ہوئیں : ا البیات ربوہ کا یہ اجلاس عام حکومت فرانس کے ظلم و استبداد پر انتہائی رنج وقلق کا اظہار کرتا ہے جو اس نے الجزائر کے نہتے مسلمانوں کو کچلنے کے لئے شروع کر رکھا ہے.حکومت فرانس کو چاہیئے کہ اس ظلم کو فورا بند کرے.ہمیں یقین ہے کہ الجزائر کے مظلوم مسلمانوں کا یہ خونِ ناحق رنگ لائے بغیر نہیں رہے گا اور کوئی مادی طاقت ان کو حصول آزادی کے مقصد سے نہیں روک سکے گی.اہالیان ربوہ کا یہ اجلاس عام سلامتی کونسل کے صدر کے اس بیان پر کہ " الجزائر کے متعلق پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کی طرف سے پیش کردہ قرار داد اقوام متحدہ کے منشور کی سپرٹ کے منافی ہے؟ سخت افسوس کا اظہار کرتا ہے.اس کا یہ بیان اس امر کی بتین پہیل ہے کہ الحجر ائر میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہنے پر بڑی طاقتیں رضامند ہیں ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ الجزائر کے مسئلہ کو سلامتی کونسل میں زیر بحث لانے کے لئے ان طاقتوں کے نمائندے اس کی تائید نہ کرتے.۳.اہالیات ربوہ کا یہ اجلاس الجزائر میں مظلوم مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کرتا ہے اور انہیں |

Page 491

۴۷۹ اپنا ہر قسم کا تعاون پیش کرتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے.ہم.ان قرار دادوں کی نقول حکومت ہائے فرانس ، امریکہ ، برطانیہ کے نمائندگان مقیم کراچی.صدر جمہوریہ پاکستان.وزیر اعظم پاکستان سیکرٹری موتمر عالم اسلامی سیکریٹری جنرل یو این اور پولیس کو بھجوائی گئیں لیے الحجز امری محبانِ وطن نے ایسی بہادری اور صبر و استقلال سے تحریک آزادی کو چلایا کہ ساری دنیا دنگ رہ گئی.آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے سامان ہوئے کہ فرانس ایک نئے انقلاب سے دوچار ہو گیا اور جنرل ڈیگال پر سر اقتدار آئے جنہوں نے الجزائر کے مظلوم ملک کو آزادی دلا دی اور الجزائرمی سلمان غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر آزادی کی فضا میں سانس لینے لگے.فصل دهم ۱۹۳۶ء میں حضرت مصلح موعود کو عالم رویا میں دکھایا احد مسلم سکنڈ نے یوی ایشن کا قیام گیا کہ " ناروے.سویڈن فن لینڈ اور ہنگری کے نڈنے لوگ احمدیت کا انتظار کر رہے ہیں.اس خواب کی عمل تعبیر وسط القاء میں رونما ہوئی جبکہ سکنڈے نیویا میں احمد مسلم مشن کی بنیاد پڑی جو خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کا آخری یورپ بین مشن تھا.یہ علاقہ شمالی یورپ کا حصہ ہے.جو ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کے ممالک اور مغربی جانب واقع جزیرہ آئس لینڈ پر مشتمل ہے.اس مشن کے متحرک ایک سویڈش نوجوان مسٹر کنار ایرکسن ( GUNNAR ERIKSON ) تھے جو له روزنامه الفضل ربوه ۳ جولائی ۱۹۵۶ و صفحه ما دعت ه کتاب " مجاہد مہنگری صفحه را ۳ از حاجی احمد خانصاحب ایاز طبع اول ۱۹۳۷ء گجرات.

Page 492

۴۸۰ " ☑ سولہ سترہ سال کی عمر میں سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں شوراء کے قیام لنڈن کے دوران حاضر ہوئے اور مشن کھولنے کی درخواست کی ہے حسن کی منظوری حضور نے لنڈن کا نفرنس و منعقده ۲۲ تا ۲۴ جولائی شهداد میں عطا فرمائی بلکہ اس نئے مشن کے افتتاح کے لئے حضرت مصلح موعود کے حکم سے کمال یوسف صاحب مرکز احمدیت سے ۱۲ر اپریل شاہ کو روانہ ہوئے.حضور نے چوہدری عبد اللطیف صاحب بی.اے انچارج جرمنی مشن کو ہدایت فرمائی کہ وہ بھی مشن کے افتتاح کے لئے اُن کے ساتھ سویڈن کے شہر گوٹن برگ (GOTEN BORG ) پہنچیں چنانچہ یہ دونوں مجاہد ۱۴ جون ۱۹۵۶ء کو گوٹن برگ پہنچے تھے اور شہر میں مشن ہاؤس کا انتظام کرنے کے بعد اشاعت اسلام کا کام شروع کر دیا.چوہدری عبد اللطیف صاحب بی اے نے اس نے اسلامی مشن کے قیام کی تفصیلی خبر حسب ذیل الفاظ میں سپرو اشاعت کی : خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے بھر دسہ پر عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اپنے محبوب آقاستی یا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل میں برادرم کمال یوسف صاحب کے ہمراہ ۱۴ جون ۵ گوٹن برگ ( GOTEN BORG) شہر میں خاکسار وارد ہوا.....نئے مشن کے قیام کے لئے پہلا ضروری کام مناسب کمرہ کی تلاش ہوتا ہے.اس بارے میں خاص تگ و دو اور کوشش کے بعد يفضلہ تعالٰی کوٹن برگ شہر میں ایک کمرہ مناسب کرایہ پر مل گیا ہے جس میں برادرم کمال یوسف صاحب منتقل ہو چکے ہیں.ایک ہفتہ قیام کے دوران مختلف سوسائٹیز سے تعلقات پیدا کئے.گورنمنٹ کے محکم متعلقہ کے افسر انچارج کو ملنے کا موقع ملا.اس نے ہمارے تبلیغی کام میں خاص دلچسپی کا اظہار کیا اور ہر ممکن امداد کا پورا پورا یقین دلایا بلکہ برادرم کمال یوسف صاحب کو زبان سیکھنے کے بارہ میں بھی امداد کا وعدہ کیا.تبلیغی ملاقاتوں کے سلسلہ میں سب سے اہم ملاقات ایک ایرانی دوست سے ہوئی ان سے خاکسار نے ہمبرگ سے خط و کتابت کے ذریعہ تعلقات پیدا کر لئے تھے.ان سے تفصیلی گفتگو کرنے کا موقع ملا.اور انہوں نے خدا کے فضل سے مشن کے قیام کے سلسلہ میں له روزنامه الفضل ربوه ۶ / اکتوبر شاء صفحه ۵ - له الفضل ریوه ۱۴ اپریل تا ۶ صفحه ۳ الفضل ، ارجون ۱۹۵۶ء صفحه را

Page 493

NM خاصی دلچسپی کا اظہار کیا اور ہر ممکن امداد کا یقین دلایا.یہ دوست جرمن زبان بھی جانتے ہیں اس لئے انہیں جرمن لٹریچر مطالعہ کے لئے دیا.جرمن کو نسل جرنل اور وائس کو نسل جنرل سے بھی برادرم کمال یوسف صاحب کی ملاقات کروائی.اور انہوں نے مشن کے کاموں کے سلسلہ میں امداد کا وعدہ کیا.اور یونیورسٹی کے جرمن زبان کے ایک پروفیسر کے ذریعہ مختلف علمی اداروں سے تعارف کروانے کا یقین دلایا.گوٹن برگ کے سب سے بڑے اخبار GOTE BORGS POSTE نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۲ جون میں ہم دونوں کے فوٹو کے ساتھ خاکسار کا انٹرویو نہایت اچھے الفاظ میں شائع کیا.اس میں مضمون نگارنے اسلام کو امن مصلح اور رواداری کا مذہب قرار دیتے ہوئے اہالیان سویڈن کی توجہ ہمارے مشن کی طرف مبذول کرائی ہے مضمون نگار لکھتا ہے کہ مسٹر لطیف نے بتایا کہ لفظ اسلام کا مطلب امن ہے.اس لئے اسلام امن کے قیام پر خاص زور دیتا ہے.السلام صرف (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی قرار نہیں دیتا بلکہ حضرت مسیح کو بھی نبی قرار دیتا ہے.اسلام عالمگیر قوت کا حامی ہے.گوٹن برگ میں بھی مناسب وقت پر مسجد تعمیر کی جائے گی.جماعت ہمبرگ (جرمنی میں عنقریب مسجد تعمیر کروا رہی ہے.ایک مسلمان دن میں پانچ دفعہ اپنے ربّ کے حضور سربسجود ہوتا ہے.میر لطیف نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی نماز میں ایک خاص روحانی تو ت ہے اور اللہ اپنے عاجز بندوں کی مخلصانہ دعاؤں کو پایہ قبولیت بھی بخشتا ہے.آخر میں برادرم کمال یوسف صاحب کا ذکر کرتے ہوئے مضمون نگار لکھتا ہے ک گفتگو کے دوران وہ اپنے آئندہ مشن کے قیام کی تجاویز سوچنے میں منہمک نظر آتے تھے مضمون نگار نے یہ بھی ذکر کیا کہ جماعت احمدیہ کامرکز پاکستان میں ہے جہاں مبلغین دنیا بھر میں تبلیغ کے کام کو سرانجام دینے کے لئے تیار کئے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی تائید و نصرت کے بھروسہ پر سویڈن میں مشن کی داغ بیل ڈال دی گئی ہے.اس اہیم نے مشن کا قیام حضرت امیر المومنین کی اولوالعزمی بلند میتی اور دین حق کی اشاعت کے درد کا مظہر ہے؟ له روزنامه الفضل ربوہ ۱۲ جولائی ۱۹۵۷ء ص۳

Page 494

۸۲ اسی مشن کی تبلیغی خدمات کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :- ا دور خلافت ثانیه ( از جون ۱۹۵۶ نومبر ۱۹۶۵) تا ۲ دور خلافت ثالثه و از نومبر ۱۹۹۵ ۶ تا جون ۱۹۹۲ ) دور خلافت را به راز جون شده تا تا حال ) ۳ چوہدری عبد اللطیف صاحب اگر چہ مشن کھولنے کے مشن کا پہلا دور خلافت ثانیہ میں بعد واپس جرمنی تشریف لے گئے تا ہم حضرت مصلح موعود کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں در نومبر ۱۹۶۷ء تک (جبکہ اس مشن کو مستقل حیثیت دے دی گئی ) آپ جرمنی میں ہی رہ کر اس کی نگرانی کے فرائض انجام دیتے رہے مگر براہ راست زرداری چونکہ کمال یوسف صاحب پر عائد ہوتی تھی اس لئے انہوں نے تبلیغ اسلام کے لئے ہر ممکن ذرائع کو بروئے کار لانے کا کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا محترم کمال یوسف صاحب کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا.کھانا باہر سے کھانا پڑتا تھا کیونکہ اس ملک میں کھا PAYING GUEST بنانے کا رواج نہیں.پریس سے رابطہ کیا اور لوگ آنے شروع ہو گئے.مگر کسی مالک مکان نے مجھے اپنے گھر میں ٹکتے نہیں دیا.زیادہ سے زیادہ دو تین ماہ کسی گھر میں رہ سکا.اس کے بعد جواب مل جاتا.اور اس طرح بیسیوں مکان بدلے.اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ لوگ السلام کے مخالف تھے.ملکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس کثرت سے لوگ آتے تھے اور بار بار گھنٹی بجتی تھی جس پر اہل خانہ تنگ پڑھتے تھے اور بعض اوقات اتنے تنگ آتے کہ مجھے مکان چھوڑنے کے لئے کہہ دیتے بلے آپ کی تبلیغی مساعی کا پہلا پھل میٹر ایرکسن تھا ہو ، اگست 19ء کو داخل صورت پہلا پھل ہو گئے جن کا اسلامی نام سیف الاسلام محمود رکھا گیا.چنانچہ وہ مشن کے لئے بہت مفید وجود ثابت ہوئے اور سویڈن کے اعزازی مبلغ بنائے گئے اور انہی کی ادارت میں فروری ۱۹۵۹ء میں ماہنامہ ایکٹو اسلام تین زبانوں میں جاری ہوائیے به روزنامه الفضل ربوه ۶ اکتوبر شاه مره به روز نامه الفضل رتبه 4 اکتوبر ١٩٧٩ ٣

Page 495

سکنڈے نیویا کے بعض دیگر ابتدائی مبایعین سیف الاسلام محود اسٹاک ایلم) کے بابایی کے کے بعد ابتدا میں جو خوش نصیب اسلام و احمدیت میں داخل ہوئے اُن کے نام یہ ہیں :- اء عبد السلام میڈسن صاحب ڈنمارک کے اعزازی مبلغ ڈنمارک).د -۲- الاستاذ نور احمد صاحب بوستاد (اعزازی مبلغ ناروے) • ۳.بے مور تکدی تولسن کو نہا جن تاریخ بعیت ۱۸ر اپریل ۶۱۹۵۹ حضرت مصلح موعود نے اور مئی 1924ء کو عربی مکتوب کے ذریعہ بعیت کی منظوری عطافرمائی اور انہیں تلقین کی کہ تعلیمات اسلامی پر گامزن رہیں.م بدحت ابراہیم بیگور وچ مالمو سویڈن کی جماعت کے قائد خدام الاحمدیہ) ۵ عبدالوہاب ہانسن (ڈنمارک ) 4.عبد الواحد روسن (ڈنمارک).نوع سوئیڈ ہانسن (ڈنمارک).اوسلومیں مرکز کا قیام جناب کہاں اویسی صاحب کچھ مرد گوش برگ میں مقیم رہے کے بعد کمال عرصہ سٹاک یالم میں منتقل ہو گئے.جہاں قریباً 17 سال تک اشاعت اسلام میں مصروف رہے.بعد ازاں ۲۸ اگست نشاء کو آپ نے اوسلو میں اپنا مشن قائم کر لیا اور جلد ہی پولیس اور عوام سے مضبوط رابطہ قائم کر لیا.ازاں بعد ذاتی دعوت نامے اور اخبار میں اعلان کے بعد ایک تبلی طلبہ منعقد کیا جو بہت کامیاب رہا.اور پھر آپ نے ڈنمارک میں ایک عام ہیلاں بلایا جس میں کالجوں اور سکولوں کے طلباء اور پادری خاصی تعداد میں شامل ہوئے.آپ کی تقریر کے بعد بہت سے سوالات کئے گئے جن کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے.اس موقع پر مسٹر مینڈکسن (محمد عبد السّلام صاحب) نے بھی عمدہ پیرائے میں معجزات قرآنی پر روشنی ڈالی علاوہ ازیں ڈنمارک کے ایک اور کثیر الاشاعت اخبار نے مبلغ احمدیت کا مفصل انٹرویو لیا اور نمایاں جگہ پر اسے شائع کیا جس کے نتیجہ میں ملک بھر سے بہت سے.یعنی خطوط آنے شروع ہو گئے اور مزید اخباروں نے بھی آپ کے انٹرویو شائع کئے اور جب قبارات کو علم ہوا کہ ڈنمارک کے بعض

Page 496

مقامی لوگوں نے احمدیت کو قبول کر لیا ہے اور وہ با قاعدہ نماز اور روزہ کی پابندی کرتے ہیں تو انہوں نے مسٹر محمد عبد السلام (سابق میڈسن) کا ایک مفصل انٹرویو اپنے خاص ایڈیشن میں سپر دا شاعت کیا جس میں تفصیل کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا تذکرہ کیا گیا تھا.ازاں بعد سٹیٹ ریڈیو کی درخواست پر ہمارے اس تو مسلم بھائی نے سٹیسٹ پادری کے ساتھ ریڈیو پر مذہبی مذاکرہ میں حصہ لیا.مذاکرہ کا موضوع نیجات تھا.اس مذاکرہ کے بعد ملک کے تعلیمیافتہ طبیقہ میں اسلام کے متعلق عام چر چا شروع ہو گیا اور سویڈن کے حلقوں میں بھی اسلام کے بارے میں پچسپی اور بیداری کی ایک نئی لہر پیدا ہوگئی.چنانچہ سویڈن میں بھی ایک نو مسلم کا انٹرویو شائع ہوا.جس کے معا بعد ریڈیو نے اُن کا ایک مذہبی مذاکرہ بھی نشر کیا جو بہت اثر انگیز ثابت ہوا.کوین میگین کے ایک اخبار کوپن ہیگین پریس میں حمیت کا چھالیا، KRISTELIGHT DAGBLAD OF COPEN HAGEN ALFRED NEILSEN نے اپنی اشاعت ۱۵ار دسمبر شاء میں ایک عیسائی مشنری کا ایک مضموت شائع کیا جس میں لکھا ” ہمیں اس سے پیچسپی ہے کہ اسلامی حملہ کا سکنڈے نیویا میں کیا نتیجہ پیدا ہوگا ؟ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ان لوگوں کو کامیابی ہوگی.یہ احمدی عام مسلمانوں سے زیادہ سنجیده بیش محترم کمال یوسف صاحب نے انہی ایام میں ناروے مگی لائبر یہ یوں میں اسلامی لٹریچر ڈنمارک.سویڈن.فن لینڈ کی تمام مشہور لائبریریوں میں کتاب " اسلامی اصول کی فلاسفی "." احمدیت یعنی حقیقی اسلام " اور " لائف آف محمد " کے سیٹ رکھوائے.علاوہ انہیں سوئیان کے ایک مشہور مستشرق کو اسلامی لٹر بنجر پیش کیا.نومسلموں کی تعلیم وتربیت مانگی میں تخلیق سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اسلامی اس تبلیغی معاشرہ کی تعمیر کے لئے نومسلموں کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دینا بھی ضروری تھا محترم کمال یوسف صاحب نے اس پہلو کو شروع سے ہی خاص اہمیت دی.لہ مغرب کے افق پر صفحہ ۲۶ از محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ه ا حب.

Page 497

۴۴۸۵ “ نومسلموں کو بڑی محنت اور توجہ سے نماز کے اسباق دیئے.قرآن مجید ناظرہ پڑھایا اور نماز روزہ کی پابندی کا ایک غیر معمولی شوق اور ولولہ پیدا کر دیا.جس کا ملکی پر میں نے بھی خاص طور پر چرچا کیا.ایک اور سویڈش نو مسلم محمود ارکسن کے متعلق پریس نوٹ شائع ہوا کہ جب اُسے دواجی فوجی تعلیم کے لئے فوج میں داخل ہونا پڑا تو اس نے براہ راست بادشاہ سے نماز کو صحیح اوقات پر ادا کرنے کے لئے رخصت کی درخواست کی جسے منظور کر لیا گیا جو سویڈن کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے پہلا موقع تھا.نماز روزہ کی پابندی کے علاوہ ابتدا ہی سے سلسلہ کی مالی قربانیوں میں بھی اس ملک کے نو مسلم سرگرم حصہ لینے لگے تھے اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اور حضرت مصلح موعود کے لئے غیر معمولی اخلاص اور غیرت کا جذبہ بھی اُن میں پیدا ہو چکا تھا.اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لئے اُن ابتدائی ایام کا صرف یہ واقعہ بیان کرنا کافی ہوگا کہ کمال صاحب نے ایک بار ایک نو مسلم نوجوان سے ووکنگ کے رسالہ اسلامک ریویو کا تازہ پر چہ طلب کیا تو اس نے جواب دیا کہ عرصہ ہوا میں نے اُسے بند کرا دیا اور بتایا کہ نہیں نے اس کا پیشگی چندہ دیا ہوا تھا.لیکن جب اس میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان کے خلاف ایک مضمون دیکھا تو نہیں نے دو کنگ کو اطلاع دی کہ اسے میرے نام بھیجنا فورا بند کر دیں کہ جناب کمال یوسف صاحب کا بیان ہے کہ " ایک مسلمان ڈنیش انجنیر SVEND HANSAN احمدی ہونے سے قبل حضور کی ملاقات کے لئے ربوہ حاضر ہوئے اور حضرت خلیفة المسیح الثالث سے ملاقات کے بعد انہوں نے ایک دوست کو لکھا کہ ” یہ چیز مجھے پر واضح ہو چکی ہے کہ یہ شخص (یعنی حضرت خلیفہ المسیح) ہی حقیقی اسلام پیش کرتے ہیں.یہ یقیناً خلیفہ راشد ہیں.انسانی مسائل کا انہیں گہرا ادراک ہے اور اس قدر منکسر المزاج ہیں کہ اسی وجہ سے ہم سب کے لئے بہت اعلیٰ نمونہ ہیں.جماعت کے وائس پریذیڈنٹ کے متعلق مشہور تھا کہ انہیں ایک خاص ملک جانے میں بہت انقباض ہے.ایک دن حضرت خلیفہ اسیح کی ہدایت آئی کہ وہ اس علاقہ میں تبلیغی دورہ کے لئے جائیں.انہوں نے بغیر کسی تردد کے اسی وقت جانا قبول کر لیا.ه روزنامه الفضل ریوه مار دیسمبر وارد صفحه ۴۳.له الفضل ۱۸ اپریل نشاء ص۳

Page 498

فن لینڈ میں پیغام احدیت فن لینڈ میں حقیقی اسلام کی پہلی آواز وسط سیار..میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کے ذریعہ پہنچی جو ان دنوں موسمی تعطیلات کے دوران لنڈن سے سویڈن ، فن لینڈ اور روس تشریف لے گئے.اور فن لینڈ کی ایک معزز تعلیم یافتہ خانوں تک پیغام اسلام ایسے موثر انداز میں پہنچایا کہ وہ اسلام کی گرویدہ ہوگئی.اس ایمان افروز واقعے کی تفصیل آپ نے انہی دنوں بذریعہ مکتوب ۱۸ ستمبر 1911ء کو حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی خدمت میں ارسال کر دی تھی تو اخبار "بدر" قادیان ۱۶ اکتوبر ۱۹ء کے صفحہ ۱۳ ، ۱۴ پر شائع ہوئی.اس واقعہ کے قریبا پنتالیس سال بعد جناب کمال یوسف صاحب نے ۲۶ مارچ شاہ سے یکم مئی شاء تک فن لینڈ کا دورہ کیا اور اس علاقے میں مقیم تر کیمسلمانوں اور اُن کے امام سے رابطہ پیدا کر کے ان تک احمدیت کی آواز پہنچائی.اس سلسلہ میں آپ فن لینڈ کے دارالسلطنت ہلسنکی (HELSINKI) اور ٹمیرے ( TAMPERE) بھی تشریف لے گئے.امام مہنگی ولی احمد حکیم نے بڑے اخلاص اور جوش کے ساتھ بار بار کہا کہ جماعت قادیان کا لٹریچر میں نے پڑھا ہے اور اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ٹھیرے کے امام حبیب الرحمن صاحب شاکر نے دوران گفتگو بتایا کہ ضیاء الدین این فخر الدین مرحوم مفتی روس نے اعتراف کیا تھا کہ دنیا کے میں اگر کوئی قرآن کا صحیح ترجمہ اور تفسیر قرآن جاننے والے لوگ ہیں تو وہ قادیانی ہیں.امام میرے جماعت احمدیہ کی خدمات کے بہت مداح تھے ہے جنوری ۹۵لہ سے سکنڈے نیویا منٹن کی طرف سے ماہنامہ ایکٹو اسلام کا اجراء الحاج سیف الاسلام محمودہ کی ادارت میں ایکٹو السلام" ر ACTIVE ISLAM ) ایک ماہنامہ جاری کیا گیا جو سویڈش، نارویجن اور ڈینیش تین زبانوں میں چھپتا تھا یہ ڈینش کلیسا کے مشہور پادری BERTIL WIBERG نے چرچ کے سالنامہ کی رپورٹ میں اس رسالہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.ایکٹیو اسلام سکنڈے نیویا کی جماعت احمدیہ کا نے تلخیص رپورٹ دورہ فن لینڈ بشمولہ جنرل فائل سکنڈے نیویا.سے روزنامه الفضل ربوہ یکم اپریل ۱۹۵۹ء م۳

Page 499

م شائع کردہ رسالہ ہے جب اُس نے مشن کے قیام کا اعلان چند سال ہوئے کیا تو ہوں کے لئے حیرانی کا موجب مواس مرکز سلسلہ کی طرف سے ۲۵ مار پچ ۱۹۵۷ء کو ڈنمارک ڈنمارک ایک تنقل مشن کی حیثیت میں براہ راست مومینیشن کی نگرانی میں دے دیاگیا اور سویڈن میں تبلیغی ذمہ داری جناب کمال یوسف صاحب کو سونپی گئی.دو سال بعد اکتوبر میں ڈنمارک کو ایک مستقل مشن کی حیثیت دے دی گئی.اور پورے سکنڈے نیویا مشن کے انچارج کمال یوسف صاحب مقرر کئے گئے.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صاحبزاده مرا مبارک حرا کا دوه کوپن مین امین البشر او باشد که اگر ہفتے میں کوپن ہیگن کے مختصر دورہ پر تشریف لائے اور سکنڈے نیویا مشن کا براہِ راست انچارج کمال یوسف صاحب کو تجویز فرمایا اور فوری طور پر خانہ خدا کی زمین خرید کر اُس کی تعمیر کرنے کی ہدایت فرمائی اور ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جس میں کثرت سے پریس رپورٹرز اور نیوز ایجنییز شامل ہوئیں.کم و بیش پچاس اخبارات نے آپ کے فوٹو کے ساتھ جلی حروف اور بڑی بڑی مہر خوں کے ساتھ اس کی رپورٹ شائع کی جن کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک مسجد گنبد اور مینار کے ساتھ کوپن بیگن کے وسط میں تعمیر کی جائے گی.یہ فیصلہ اسی بنیاد پر کیا گیا ہے کہ سکنڈے نیویا اور خصوصاً ڈنمارک میں اسلام جلد جلد ترقی کر رہا ہے.اس مختصر دورہ کے دوران مکرم بشیر احم صحاب رفیق بطور سیکرٹری آپ کے ساتھ رہتے لیے جناب کمال یوسف صاحب ۶ سال تک تنہا اشاعت حق دوسرے مرکزی بیشترین اسلام کی آمد کے جہاد میں مصروف رہے.جس کے بعد مشن کی سرگرمیوں میں ایسی وسعت پیدا ہوئی کہ سکنڈے نیویا کے تینوں ممالک یعنی ڈنمارک ، سویڈن اور ناروے ہیں تین مستقل مشن قائم کر دیئے گئے.ان مشنوں کا چارج سنبھالنے کے لئے اور تبلیغی کوششوں کو تیز تر ه روزنامه الفضل ربوه مورخه ۱۹ر اپریل نشده صفحه ۱ - ۲ فائل تبشیر ۶۱۶ نمبر ام

Page 500

کرنے کے لئے مرکز احمدیت سے جو بشرین اسلام خلافت ثانیہ و ثالثہ کے عہد مبارک میں تشریف لائے اُن کے نام یہ ہیں.(ڈنمارک)، (۱) سید مسعود احمد صاحب (۲) سید جواد علی صاحب.(۳) حیدر علی صاحب ظفر - (م) منصور احمد صاحب بیشتر سویڈن) () سمیع اللہ صاحب زاہد (۲) منیر الدین احمد صاحب.(۳) عبد القدیر صاحب - (لم) حاملہ کریم محمود صاحب.د ناروے) ، ناروے میں جناب کمال یوسف صاحب ہی متعین کئے گئے.ذیل میں سکنڈے نیوین ممالک کے مبلغین کرام کی تاریخ روانگی اور واپسی پر مشتمل خاکہ دریا جاتا ہے :- نام مبلغ تاریخ روانگی وایسی دوبارہ روانگی واپسی و ڈنمارک) - کمال یوسف صاحب ۱۲ را پریل ۹۵۶ ۱۸ اکتوبر ۶۹ ۲۸ مارچ ۰۹۱۵ ۲۶ اگست ۱۹ سید مسعود احمد صاب مار مئی ۱۹۷۲ و ۰ ارجون ۸۱۹۶۵ ۱۲ جون ۱۹۶۶ ( آپ ۱۶ر اپریل اء کو ڈنمارک سے ہالینڈ آگئے ، اور ۲۹, دسمبر شاید کو وہاں سے سوئٹزر لینڈ.تشریف لے گئے اور وہاں سے ۱۲ فروری علیہ کو ڈنمارک واپس آگئے اور دیمبر 19ء کو واپس مرکز تشریف لائے ).ار -۳- سید جواد علی صاحب ۱۸ مارچ ۹۳ - ۱ر نومبر سیه ۴ / م - حیدر علی ظفر صاحب ۲۱ جنوری شاه ۲۵ مارچ ۱۹ و به ر مارچ ۱۹ ۲۰ فروری شده متصور احمد جناب مبشر ، جنوری شعراء ۴ در جولائی ۱۹۸۳ ۶ بر ستمبر ۹۴اء ر سویڈن ) , ۱۹۷۳ ۱۲ جنوری شاد بر ستمبر ۱۹۷۹ و ۱- کمال یوسف صاحب ۱۳ ستمبر شاهه ۱۰ / دیسمبر ۳ -۲- سمیع اللہ صاحب زاہد ۳۱۱ جولائی شده | ۱۸ ستمبر ۶۸۱۹ 1929

Page 501

نام مبلغ روانگی واپسی دوبارہ روانگی | واپسی - منیر الدین احمد صاحب ، راگست ۱۹۷۳ ه ۱۹ اکتو بر شده ۲۳ ر ماسه شه ۲۲ دسمبر شد م میر عبدالقدیر صاحب ۱۵ر اپریل که تا حال حامد کریم محمود صاحب ۱۳۰ جنوری ۴۱۹۴۹ ۲۳ نومبر شاه ۱۲ اپریل ۱۹۹۲ ۱۹ نومبر ساد (ناروے) ا کمال یوسف صاحب خلاصه المختصر یہ کہ حضرت مصلح موعود کے زمانہ خلافت میں اوسلو (ناروے) سٹاک مالم اور مالمود (سویڈن) اور کوپن میگین (ڈنمارک) میں نئی جماعتیں بنیں.بعض اور شہروں میں بھی بیعتیں ہوئیں.ڈینش ترجمہ و تفسیر قرآن کے کام کا آغاز ہوا مشن کو اتنی وسعت ہوئی کہ ایک مرکزی مبلغ کے علاوہ تین یورپین نو احمدی ، عبد السلام صاحب میڈسن ڈنمارک میں ، الخارج سیف الاسلام محمود ابرکن صاحب سویڈن میں اور الاستاذ نور احمد صاحب بولستناد نارو سے میں اعزازی مبلغ بنائے گئے.خواتین احمدیت کی مالی قربانی حضرت سید نام متین صاحب د ب ا ا ا ا له مرک نین نے صدر اماء الله ۲۰ دسمبر کو احمدی خوانین کے جلسہ سالاد پر تحریک فرمائی کہ حضرت مصلح موعود کے عہد خلافت پر پورے پچاس برس گزر چکے ہیں.خدا تعالٰی کے اس عظیم نفضل واحسان کا عملی شکریہ ادا کرنے کے لئے انہیں یورپ کے کسی ایک ملک میں خانہ خدا تعمیر کرنا چاہیے لیے اور اس کے لئے ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کو تجویز کیا جہاں سید مسعو داحمد صاحب مبلغ اسلام کی شبانه روز کوشش سے خانہ خدا کے لئے زمین خریدی جا چکی تختی مسجد تفصل لنڈن اور مسجد مبارک سنگ کی طرح مسجد کوپن ہیگن کی تحریک پر بھی خواتین احمدیت نے نہایت شاندار طور پر لبیک کہا یہ ن روزنامه الفضل ۱۲ جنوری ۱۲۵ ارد صفحه ۲ - سه تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ لجنہ جلد سوم صفحه ۳۸۰ تا ۴۲ ۴۳ از حضرت سیده مریم صدیقه صاحبه صد لجنه مرکز به به طبع اول ۲۵ / دسمبر ۱۹۷۳

Page 502

٤٩٠ مسجد نصرت جہاں " کا سنگ بنیاد اس مسجد کی بنیاد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے جمعہ المبارک 4 ر مٹی ۱۹۶۶ ء کو ٹھیک ایک بجے دوپہر کوپن ہیگن میں رکھی.کئی روز قبل ہی اخبارات میں اس کے سنگ بنیاد کا چرچا شروع ہو چکا تھا.ایک روز قبل ڈینیش ریڈیو نے اہم خبروں میں یہ خبر بار بار نشر کی محترم چوہدری محمد ظفراللہ خانصاحب ، امام مسجد لنڈن بشیر احمد صاحب رفیق ، مستر احسان اللہ ڈینیشن نومسلمہ لنڈن سے ، مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب امام مسجد ہمبرگ جرمنی سے ، مکرم برادرم نور احمد صاحب بوستاد او سلور نام ہے سے اور متعدد احمدی بھائی سویڈن سے اس تقریب میں شمولیت کے لئے تشریف لائے سنگ بنیاد کی کارروائی ساڑھے بارہ بجے شروع ہوئی تھی.اس سے قبل ہی سفیر ایران اور ان کے سیکرٹری ترکی ، انڈونیشیا، اور سنی گال ایمبیسی کے فرسٹ سیکرٹری ، لارڈ میٹر کے سٹاف کے اکثر ممبر اور ڈپٹی میٹیر عرب اور ایران کے تجاہ اور ڈینیش مسلمان ایک گیند نما خیمہ میں جمع تھے.کارروائی کے دوران پاکستان کے وزیر قانون اور پاکستانی ایمبیسی کے فرسٹ سیکرٹری بھی تشریف لائے ٹھیک 7 ۱۲ بجے تلاوت قرآن مجید موئی - سورة البقره آیت ۱۲۵ تا ۱۳۰ ر ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کعبہ کے وقت کی دعائیں ہیں) کے بعد ان کا ترجمہ احباب کو سنایا گیا.صاحبزادہ مرندا مبارک احمد صاحب نے عمدہ اندازہ میں یورپ میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ مساجد کی تعمیر، ان کی تاریخ مسجد کی اہمیت اور مقام پر روشنی ڈالی اور پھر احمدی مستورات کی ان مالی قربانیوں کا بڑے موثر اور ! سنگ میں ذکر فرمایا جو انہوں نے ڈنمارک ، ہیگ (ہالینڈ) اور لنڈن کی مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں کیں.حاضرین اور بیشتر اخبارات نے بھی لجنہ کی قربانیوں کو بہت سراہا.آپ کے خطاب کا ڈینش ترجمہ مکرم برادرم عبد السلام صاحب میڈیسن نے احباب کو سنایا ہے جس کے بعدمحترم صاحبزادہ صاحب محراب کی سمت بڑھے.جہاں سنگ بنیاد رکھنے کا پروگرام تھا.بنیا د کے لئے مسجد مبارک قادیان کی ایک اینٹ حضرت سید نا خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموتوری نے دعا کے بعد اپنی زندگی ملہ اس خطاب کا مکمل متن الفضل ۱۲ رجعون شام میں شائع شدہ ہے.

Page 503

۴۹۱ ہی میں بھجوا دی تھی.اس اینٹ کو برادرم عبد الرؤوف خانصاحب نے احرام کے کپڑے کے ایک ٹکڑے پر دجو آپ زمزم سے دُھلا ہوا تھا ) رکھا.مبلغ انچارج مکرم عبد السلام میڈسن صاحب نوکر احمد بوستاد صاحب اور ذکر باکسن آرکٹیکٹ نے اس کو چاروں کونوں سے پکڑا اور صاحبزادہ صاحب نے یہ انیٹ عاجزانہ دوگاؤں کے ساتھ مسجد کے مجوزہ محراب میں کعبہ اللہ کی حکمت میں نصب کر دی اور پھر رقت آمیز دعا کرائی.سنگ بنیاد رکھنے کے بعد معزز مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا اور فرداً فرداً تمام احباب سے ملاقات کی گئی.عربوں کے ایک نمائندہ کی طرف سے حجامت کا شکریہ ادا کیا اور عربی میں سب احباب کو خوش آمدید کہا.پھر ڈپٹی لارڈ میٹر نے جماعت کو خوش آمدید کہا اور اس علاقہ میں مسجد تعمیر ہونے پر خوشی کا اظہار کیا.کھانے کی تیاری میں لجنہ کی سیکریٹری صاحبہ مستر مریم ملر اور مستر مبارکہ میڈیسن اور مسٹر جمال نے بہت محنت اٹھائی کھانے کے بعد مکرم مرا درم عبدالسلام صاحب میڈسن نے جمعہ کی اذان دی اور حضرت چو ہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے خطبہ جمعہ دیا جس میں مسجد کے مقام کی وضاحت کی اور فرمایا کہ موجودہ سائنسی دور میں رومانیت اور مادی ترقی صرف اس صورت میں ہم آہنگ ہو سکتی ہے کہ ہر انسان اپنے تئیں اعمال کے لئے خدا کے سامنے جواب دہ تصور کرے.اکثر اخبارات نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی سنگ بنیاد کے وقت موجودگی اور پہلا مجمعہ پڑھانے کو بہت اہمیت دی اور مشن کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا سنگ بنیاد کا پروگرام ڈینش اور سوئیس ٹیلیویژن پر دکھایا گیا.ڈینش پریس نے سنگ بنیاد کی بکثرت خبریں شائع کیں اور چارہ اخبارات نے اس پر اداریے بھی سپرد قلم کئے لیے مسجد نصرت جہاں کا افتتارخ اسکینڈے نیویا کی اس پیلی اور تاریخی مسجد کامبارک کی اس افتتاح حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی کے مقدس ہاتھوں سے اور جولائی شاید کو ہوا، حضور نے پہلے اس مسجد میں پہلی نماز جمعہ پڑھائی اور اس کے بعد ایک مختصر مگر پر معارف انگریزی خطاب فرمایا جس کے پہلے حصہ له الفضل ربوه ۱۶ جون لواء - ايضا الفضل ۲۲ ستمبر سا مضمون جناب عبد السلام میڈر کسی صاحب -

Page 504

۴۹۲ میں اسلام کی اس بے مثال تعلیم کو نمایاں طور پر پیش کیا کہ مسجد خانہ خدا ہے.کسی کی ملکیت نہیں لہذا اسلامی مساجد کے دروازے ہر ایسے فرد اور ہر ایسی مذہبی جماعت کے لئے کھلے ہیں جو خدا واحد کی پرستش کرنا چاہے.خطاب کے دوسرے حصہ میں حضور نے پنچ بنائے اسلام کی تشریح فرمائی اور بتایا کہ یہ پانچ ستون ہیں جن پر مسجد استوار ہوتی ہے.اس تقریر کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی.اس یادگار افتتاحی تقریب میں یورپ کے مبلغین اسلام ، احمدی احباب، غیر ملکی سفراء ڈنمارک کی سر بر آوردہ شخصیتیں اور کوپن ہیگن کے معز نہ شہری کثیر تعداد میں شریک ہوئے اس موقع پر حضور نے پریس کانفرنس سے بھی خطاب فرمایا جس میں عالمی اختیارات کے نمائندوں نے بھاری تعداد میں شرکت کی.نیز ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے حضور کا خصوصی انٹرویو بھی ریکارڈ کیا.کوپن ہیگن کی اہم شخصیتوں کی ملاقات اور او پی سی میں حضور ایک مفت قیام فرم حضرت امام جماعت احمدیہ عیسائی دنیا کو چیلنج کرے اور پھر ے ، جولائی سننے کو ۲۷.اس دوران افتتاح مسجد کے بعد بھی حضور کی اہم دینی مصروفیات نقطۂ عروج پر رہیں مثلاً ۱۲ جولائی کی شام کو حضور کی خدمت میں ڈینیش مشنری سوسائٹی کے بعض نامور مناد ، کوپن ہیگن یونیورسٹی کے مستشرق اور گون میگین میوزیم کے ایتھالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائر یکٹر اور ان کے مشیر کے علاوہ عیسائی متادوں کے ایک بورڈ کے وہ ممبر حاضر ہوئے جو اُن دنوں احمدیت پر ریسرچ کر رہے تھے.سب سے پہلے سیکرٹری ڈینٹل مشتری سوسائٹی نے ارکان وفد کا تعارف کرایا، پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا.ملاقات کے آخر میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے حسب ذیل چیلینج کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر فرمایا کہ یہ دعوت آپ بھی کھلی ہے.ہمیں خوشی ہوگی اگر عیسائیت کی سچائی اور صداقت کا فیصلہ کرنے کے لئے عیسائی حضرات یہ دعوت قبول کر لیں چلینج یہ تھا کہ در ل منتقل تقریر ملاحظہ ہو روزنامه الفضل ربوده در اگست شاء من دمش.ام الفضل ربوه ۲۹ جولائی ۱۹۶۶ را سه روزه نامه الفضل ر بوه ۲ راگست ۱۹۶۶ ص۳ -

Page 505

۴۹۳ توریت اور انجیل قرآن کا کیا مقابلہ کریں گی.اگر صرف قرآن شریف کی پہلی سورۃ کے ساتھ ہی مقابلہ کرنا چاہیں یعنی سورۃ فاتحہ کے ساتھ جو فقط سات آیتیں ہیں اور جیسی ترتیب انسب اور ترکیب محکم اور نظام فطرتی سے اس سورۃ میں صد ہا حقائق اور معارف دینیہ اور روحانی حکمتیں درج ہیں ان کو موسیٰ کی کتاب یا یسوع کے چنار ورق انجیل سے نکالنا چاہیں تو کو ساری عمر کوشش کریں تب بھی یہ کوشش لاحاصل ہوگی اور یہ بات لاف و گزاف نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی یہی بات ہے کہ توریت اور انجیل کو علوم حکمیہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہم کیا کریں اور کیونکہ فیصلہ ہو.پادری صاحبان ہماری کوئی بات بھی نہیں مانتے.بھلا اگر وہ اپنی توریت یا انجیل کو معارف اور حقائق کے بیان کرنے اور خواص کلام الوہیت ظاہر کرنے میں کامل سمجھتے ہیں تو ہم بطور انعام پانسو روپیہ نقد ان کو دینے کے لئے تیار ہیں : اس کے علاوہ حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حسب ذیل چیلنج بھی دہرایا.جس قدر اصول اور تعلیمیں قرآن شریف کی ہیں وہ سراسر حکمت اور معرفت اور سچائی سے بھری ہوئی ہیں اور کوئی بات اُن میں ایک ذرہ مواخذہ کے لائق نہیں اور چونکہ ہر ایک مذہب کے اصولوں اور تعلیموں میں صد با جزئیات ہوتی ہیں اور اُن سب کی کیفیت کا معرض سحبت میں لانا ایک بڑی مہلت کو چاہتا ہے.اس لئے ہم اس بارہ میں قرآن شریف کے اصولوں کے منکرین کو ایک نیک صلاح دیتے ہیں کہ اگر ان کو اصول اور تعلیمات قرآنی پر اعتراض ہو تو مناسب ہے کہ وہ اول بطور خود خوب سوچ کر دو تین ایسے بڑے سے بڑے اعتراض بحوالہ آیات قرآنی پیش کریں جو اُن کی دانست میں سب اعتراضات سے ایسی نسبت رکھتے ہوں جو ایک پہاڑ کو ذرہ سے نسبت ہوتی ہے.یعنی اُن کے سب اعتراضوں سے اُن کی نظر میں اقوئی و اشد اور انتہائی درجہ کے ہوں.جن پر اُن کی نکتہ چینی کی پر زور نگاہیں ختم ہوگئی ہوں اور نہایت شدت سے دوڑ دوڑ کہ انہی پر جا ٹھہری ہوں سو ایسے دو یا تین اعتراض بطور نمونہ پیش کر کے حقیقت حال کو آزما لینا چاہیے کہ اس سے تمام اعتراضات کا بآسانی فیصلہ ہو جائے گا.کیونکہ اگر بڑے اعتراض کتاب سراج الدین بیسائی کے چار سوالوں کا جواب ص۳۲ طبع اول ۲۲ جون شده

Page 506

۴۹۴ بعد تحقیق نا چیز نکلے تو پھر چھوٹے اعتراض ساتھ ہی نابود ہو جائیں گے اور اگر ہم ان کا کافی و شافی جواب دینے سے قاصر ہے اور کم سے کم یہ ثابت نہ کر دکھایا کہ عین اصولوں اور تعلیموں کو فریق مخالف نے بمقابلہ ان اصولوں اور تعلیموں کے اختیار کر رکھا ہے وہ ان کے مقابل پر نہایت درجه در ذیل اور ناقص اور دور از صداقت خیالات ہیں تو ایسی حالت میں فریق مخالف کو در حالت مغلوب ہونے کے فی اعتراض پچاس روپیہ بطور تاوان دیا جائے گا ہے تقریر استان کا چرچا ڈنمارک ہیں میں ڈنمارک پر ی نے مسجد کو پی سی کے پریس افتتاح کا وسیع پیمانہ پر چرچا گیا.اس سلسلہ میں چند اخبارات کا ذکر کیا جاتا ہے.(1) ڈنمارک کے ایک ہفت روزہ اخبار VALBY BLADET VALBY BLADET نے اپنی ۲۷ جولائی ۹۶ کی اشاعت میں زیر عنوان " سکنڈے نیویا میں سب سے پہلی مسجد کا افتتاح اور خلیفہ صاحب کی مجلس لکها هر اس مجلس میں روحانی آزادی سے ہمکنار کرنے والی ایک عجیب و غریب فضا چھائی ہوئی تھی.اس عجیب و غریب اور حریت نواز ماحول میں مغربی پاکستان سے تشریف لائے ہوئے خلیفہ مرزا ناصر احمد صاحب کی عظیم اور واجب الاحترام شخصیت سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی.آپ کا چہرہ گہری بھووں اور سفید ریش سے مزین تھا.یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا اُن بزرگ اور مقدس ہستیوں میں سے جن کا ذکر کتاپ موسی میں آتا ہے.ایک بزرگ اور مقدس مہنتی ہمارے درمیان تشریف فرما ہے.فی الواقع مر شخص نے اُس عظمت اور تقدس کو محسوس کیا جو آپ کے وجود میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.یہ احساس اور یہ تاثر اس وقت اور بھی زیادہ اُجاگر ہو گیا جب آپ نے ان الفاظ کے ساتھ پر یس کا نفرنس کا آغاز فرمایا : " میں جنگ کا نہیں، امن کا حامی ہوں اور امن کے ایک پیرو کی حیثیت سے خدا کے اس گھر کے دروازے لوگوں پر کھولنے آیا ہوں.افتتاحی تقریر کے بعد گہری خاموشی کے عالم میں تین منٹ کی دعا ہوئی ، ٹیلی ویژن والوں، نه اشتہار مفید الاخیار مشموله سر و چشم گریه منت

Page 507

۴۹۵ ان کی سیلاب کی طرح امنڈی چلی آنے والی روشنیوں اخبار نویسوں اور ان کے کیمروں سے پھوٹ نکلنے والی فلیش لائٹوں کے باوجود مسجد کے گول کمرے میں ہر طرف وجد آفرین اور پرکیف خاموشی طاری تھی ، ڈھا کے ختم ہونے پر بھی یہ کیفیت دیر تک طاری رہی اور آہستہ آہستہ پہلی حالت واپس آئی.افتتاح کا اصل آغاز خلیفہ صاحب کی اقتداء میں نماز جمعہ کی آدائیگی سے ہوا.وہ تمام لوگ جو نماز میں شریک ہونے کے خواہش مند تھے ، انہیں نماز میں شریک ہونے کی عام اجازت تھی لیکن اُن کے لئے ضروری تھا کہ وہ جوتے اتار کر اور انہیں باہر ہی چھوڑ کر مسجد میں داخل ہوں مسجد کے مقدس کمرہ میں داخل ہونے کے لئے بس یہی ایک شرط تھی.بہت سے لوگوں کے لئے جنہیں مسجد کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقع ملا.اس نوع کی عبادت میں حصہ لینا ایک دل موہ لینے والے عظیم تجربہ کی حیثیت رکھتا تھا ہے (۲) - اخبار KRISTELIG DAG BLAD نے جو کلیسائے ڈنمارک کا تر جمان ہے ، اپنی ۲۱ جولائی 2ء کی اشاعت میں مسجد کی تعمیر کو اسلام کی قوت و عظمت کا درخشندہ نشان قرار دیتے ہوئے لکھا :- " ڈنمارک میں مسجد ! آج سے نہیں نہیں سال قبل یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ڈنمارک میں بھی کوئی مسجد تعمیر ہوسکتی ہے.اس وقت ایسا خیال مضحکہ خیز شمار ہوتا اور اس پر قبلے بلند کئے جاتے.بہر حال یہ مانا پڑے گا کہ اسلام کی اس شاخ نے فی زمانہ تبلیغی جد وجہد کا حیران کن مظاہرہ کیا ہے اور اس میدان میں اس نے بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے ، بالخصوص افریقہ میں اس نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ کسی لحاظ سے کم نہیں ہے.ہم آج کی خبر کا نوٹس لینا ضروری سمجھتے ہیں اور ہم تو ان لوگوں کی ہمت اور حوصلہ کی داد دینے کے لئے بھی تیار ہیں جس کے یل پر انہوں نے نسبتاً بہت تھوڑی مدت میں یہ کچھ کر دکھایا.اس امر کا احساس ہمارے لئے چنداں ALBY BLADET ۲۷ جولائی ۱۹۶۶ء ، روزنامه افضل ربوه ۲۵ / اگست ۱۹۶۶ کے شاخ سے مراد جماعت احمدیہ ہے (ناقل).

Page 508

" دکھ اور تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتا خصوصاً مین ایسے وقت میں جبکہ اسرائیل اور دنیائے عرب کے درمیان کشیدگی زوروں پر ہے.اسلام حقیقتاً ہم سے اتنا دور اور اتنا متروکی نہیں ہے جیسا کہ ہمارے آباء و اجداد عام طور پر یقین کرتے تھے، اسلام کی قوت اور عظمت بیا یک درخشندہ نشان ہے جس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد آج افتتاح ہوا ہے.(۳).ڈنمارک کے ایک اور روز نامہ AKULET نے اپنے ۲۲ جولائی کے طویل ادارتی مقالہ میں لکھا وی ڈورا کی مسجد اس مذہب کی جو عرب کی پسماندہ و خستہ حال سرزمین میں اب بھی زندہ ہے.بہت بعد میں پھوٹنے والی ایک چھوٹی سی شاخ کی حیثیت رکھتی ہے.اس موجودہ وقت میں اللہ اور اس کے رسول کو یہاں حاصل کرنے میں بہت وقت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا سیکھو (۴).ڈنمارک کے ایک اخبار LOLLANDSTIDENDE نے اپنے ۲۵ جولائی ۱۹۶۶ء کے پہ چپہ میں لکھا :..." آج مسلمانوں کا مذہب یعنی دین اسلام ڈنمارک میں پھیلا یا جا رہا ہے.کوپن ہیگن کے علاقہ وی ڈورا ( HVIDOVRE) میں پہلی مسجد تعمیر ہو گئی ہے اور اس کا افتتاح بھی عمل میں آ چکا ہے.ایک ایسے وقت میں جبکہ خود ڈنمارک کے کلیسا نے اپنے داخلی حالات کا جائزہ لیتے اور آئندہ کے لئے لائحہ عمل تیارہ کرنے کی غرض سے با قاعدہ ایک کمیشن مقرر کر رکھا ہے.اس مسجد کا نوٹس لیتا اور اسے قابل اعتنا سمجھنا خالی از پیچسپی نہ ہوگا.عیسائیت ڈنمارک میں ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصہ سے قائم چلی آرہی ہے اور یہاں لیے مناد (مرد بھی اور عورتیں بھی ) موجود ہیں جنہوں نے ایسے ممالک میں عیسائیت کا پیغام پہنچایا ہے جہاں اسلام ایک مذہب کی حیثیت سے بہت مقبول ہے.لیکن آج صورت حال مختلف ہے.آب خود ڈنمارک میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان مقابلہ کی طرح پڑ چکی ہے.کلیسا کی اصلاحی تنظیم کو له سبحوالہ روز نامه الفضل ربوده ۲۵ اگست شاه ۲ روزه نامه الفضل ۲۵ / اگست ۱۹۶۶ یو صفحو ش

Page 509

وم جسے " داخلی مشن کو خود اپنے ہی گھر میں کلیسا اور مسجد کی باہمی مخالفت کی شکل میں نئی سرگرمی اور جد و جہد کا مظاہرہ کرنا ہوگا.وہ ممالک جن میں ہم اپنے مناد بھیجا کرتے تھے اب جو ابا ہمارے ہاں مناد بھیج رہے ہیں اور ہما اور ہمارا قرض چکانے پر تل گئے ہیں.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اب حالات بدلے ہوئے ہیں.سوال یہ ہے کہ اس غیر ملکی مذہب اور اس کی تعلیم کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا جو دیگر مذاہب کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے کیونکہ ڈنمارک میں مکمل مذہبی آزادی ہے.البتہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس غیر ملکی مذہب کے بارہ میں عوام کا رد عمل کیا ہوگا ؟.یہ ائر مختارج بیان نہیں کہ ڈنمارک میں بڑی تیزی سے مسلمانوں کی ایک جماعت معرض وجود میں آچکی ہے اور جس رفتار سے مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ہے وہ اس امر کی آئینہ دار ہے کہ ڈنمارک کی مسلم تحریک کے پیچھے پر عزم اور فعال دماغ کار فرما ہیں.اس بات کو تو کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا کہ سارا ڈنمارک حلقہ بگوش اسلام ہو جائے گا.لیکن کوپن ہیگن کے علاقہ دی ڈورا میں جس سرگرمی کا ثبوت منظر عام پر آیا ہے.وہ اپنی وسعت کے لحاظ سے اس نوعیت کی ہے کہ کلیسا اس موقف کا سہارا نہیں لے سکتا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈنمارک جو پہلے بیرونی دنیا میں عیسائی مناد بھیجا کرتا تھا.اب خود تبلیغی سرگر میوں کی آماجگاہ بن گیا ہے.یہ صورت حال ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اور اس چیلنج کو ہر حال قبول کرنا ہو گا.کلیسیا کی طرف سے مخالفت کا آغاز تقریب استان ما یک بار وہی ہوا کہ میان مسجد کا پہلا رو عیسائی حلقے مسجد کی مقبولیت کو دیکھ کر کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئے اور اخبارات میں مخالف مضامین کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.ایک پادری نے واضح طور پر اخبار میں لکھا کہ ڈنمارک کی تاریخ کا بدترین دن وہ تھا جس دن " نصرت جہاں مسجد کا افتتاح کیا گیا.اور یمین ایک عیسائی پادری کی حیثیت سے اس مسجد کا ہرگز روا دار نہیں ہو سکتا.یہ سلسلہ اتنا وسیع تھا کہ بعض اخبارات نے لکھا کہ پادریوں نے مسجد کے خلاف جہاد کا اعلان ه روزه نامه الفضل ۲۵ اگست ۱۹۶۶ ۹

Page 510

" مه ام کر دیا ہے.بہت سے لوگوں نے احمد یہ مشن کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جب انہوں نے محسوس کیا کہ اس سے تو بجائے نفرت کے لوگوں کے دلوں میں اسلام کے حق میں ہمدردی پیدا ہو رہی ہے تو انہوں نے مسجد کے ساتھ ایک چرچہ میں ڈنمارک کے مشہور پادری کی دجو مشرق وسطیٰ میں مبلغ رہ چکے تھے ) تقریر کرائی.پادری صاحب نے کہا میں اسلام کا خیر مقدم تو کہتا ہوں مگر ایسے اسلام کا جو جمہور کا اسلام ہے.جن کے نزدیک السلام میہ سکھاتا ہے کہ منکرین جب تک اسلام قبول نہیں کرتے ان کے خلاف علم جہاد بلند کرو.اور ان کی گردنیں کاٹ دو.یہ بھی کوئی اسلام ہے جو نصرت جہاں مسجد والے پھیلا رہے ہیں.پادری مہرک پیڈریس نے لکھا: جب ہم تبلیغی مشن کا لفظ بولتے ہیں تو از خود ہمارے ذہن میں انجیل کی تبلیغ کا تصور آتا ہے.جو ہم اور دنوں یہودیوں اور سلمانوں کو کرتے ہیں.ہم عیسائی صدیوں سے اس تصویر کے عادی ہیں.لیکن کوپن ہیگن میں مسجد نصرت جہاں کی تعمیر ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے.السلام ایک ملیے جمود کے بعد دوبارہ فعال تبلیغی مشن بن گیا ہے.اور اب جماعت احمدیہ نے بڑے منظم طریق سے پروگرام بنا کر عالمی سطح پر تبلیغ شروع کر دی......اور یہ ایک ایسی عالمی تحریک ہے جو عیسائیت کا جواب ہے سچ جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو دیکھ کہ پادریوں نے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جس نے ایک کتاب " شمالی یورپ میں اسلام اور جماعت احمدیہ پر ایک نظر “ کے عنوان سے لکھی جس میں بتایا کہ ۱۹۶۶ء میں کوپن ہیگن کے ایک محلہ میں مسجد کا افتتاح کیا گیا، یہ اس بات کی روشن دلیل ہے که تبلیغ پر عیسائیوں کی اجارہ داری نہیں......بلکہ آپ ایک غیر ملکی مذہب اسلام جاگ رہا ہے اور عیسائیوں کی صدیوں کی تبلیغ کا منہ توڑ جواب دینے لگا ہے.اور یہ بات تمہیں دو چھیلنج دیتی ہے.ایک یہ کہ نصرت جہاں مسجد کی تعمیر پر ہمارا کیا ردعمل ہے ؟.دوسرا شمالی یورپ میں اسلام کی موجودگی.** یہ دو زبردست چیلینج ہیں جو شمالی پورپ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی جد و جہد پیش کرتی ہے یہ ه روزنامه افضل ۱۸ اپریل شاه ۲۳ ، ۳ه روزنامه الفضل مورخه ۱۹ ر ا پریل نشده و ص /

Page 511

رضو ڈینش زبان میں ترتیبہ قرآن حضرت مصلح موعود دین ترجمہ قرآن کی اشاعت مقبولیت ای داستان زیادی کی اجازت اور سر پرستی سے ڈنمارک کے پہلے احمدی عبد السلام مینڈکسن صاحب نے 197 ء میں شروع کیا تھا ، مکرمی کمال یوسف صاحب اور میرسعود احمد صاحب کو اس کی نظر ثانی کا موقع ملا.ترجمہ کے دس پارے حضرت مصلح موعود کی زندگی میں طبع ہوئے مگر مکمل ترجمہ شروع ۹۶۶ء میں ڈنمارک کے مشہور پالیشر شائع کیا.یہ ڈنیش زبان کا پہلا ترجمہ قرآن تھا جو میڈسن صاحب نے چھ سال کی محنت شاقہ سے تیار کیا جس میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی انگریزی تفسیر قرآن اور جمہ منی ترجمہ قرآن کے علاوہ تفسیر غیر BORGEN نے اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کے ترجمہ قرآن سے بھی استفادہ فرمایا.ترجمہ پر ڈنمارک کے ایک مستشرق مسٹر وائس برگ نے نظر ثانی کی.قرآن مجید کے عربی بلاک کے منتن کی تیاری کے اخراجات تحریک جدید نے مہیا کئے.یہ ترجمہ مساوی صفحات کی تین جلدوں پر مشتمل تھا اور اس کے کل صفحات ۱۳:۰ کے قریب تھے.۱۸ جنوری شاء کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں اس ترجمہ کا پہلا نسخہ بذریعہ ہوائی ڈاک بھجوایا گیا جس پر حضور نے مبارکباد کا حسب ذیل نامه ارسال فرمایا :." مجھے ڈیمنیش ترجمہ حاصل کر کے بہت خوشی ہوئی.آپ کو اسی طرح سب احمدی احباب کو مبارک ہو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ خدا کا یہ پیغام جلد از جلد ڈیمنیش لوگوں کے دل منور کرے" شاہ فیصل سعودی عرب شاه حسین ،اردن، شاه ایران اور صدر جمال عبد الناصر صدر مصر نے بھی مبارکباد کے خطوط بھیجے.غیر مسلم حلقوں نے تبصرے کئے اور ڈنمارک کے مشہور پادری کارل ایرک این برگ نے لکھا :- "عبد السلام میڈسن تعریف کے مستحق ہیں ناکثر ممالک میں ترجمہ قرآن مل جاتا ہے.مگر ڈینش لوگ لمبا عرصہ تک اس سے غافل رہے.میری خواہش ہے کہ یہ کتاب اور اس کا پیغام عوام و خواص سب پڑھیں کیونکہ یہ کتاب عیسائی کلیسیا کو سب سے بڑا چیلنج ہے " خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ترجمہ بہت مقبول ہوا.اخیار خلیج ٹائمز میں دنیش ترجمہ قرآن کا ذکر اخبار علی مگر ALIALED DIE ( KHALEJ TIMES نے ۱۶ را پریل ۹۰ اید کی اشاعت

Page 512

میں میڈیسن کے ڈینش ترجمہ قرآن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا :- "In 1956, after five years of the political studies including intensive study of the Arabic language and the Holy Quran and extensive study of Hadith and other Islamic literature, Mr.Madsen embraced Islam and took the Muslim name of Abdul Salaam.He invited a Pakistani missionary from Holland to give lecture on Islam at the Teachers Training College in Ribe.In the following years, small communities were established in Stockholm and Oslo.In 1967 the Glorious Quran was published by the Borgen Publishing House with the Arabic text and with Danish translation his Life and notes made by Abdul Salaam Madsen."Muhammad and Teachings;" by the same author, was published at the same time." ( ترجمہ ) - پانچ سال تک عربی زبان ، قرآن حکیم ، حدیث اور دیگر اسلامی لٹریچر کا گہرا مطالعہ کر کے شاید میں مسٹر میڈسن نے اسلام قبول کیا اور عبدالسلام اسلامی نام اختیار کر لیا.انہوں نے ہالینڈ سے مبلغ اسلام کو دعوت دی کہ ٹیچر نہ ٹرنینگ کالچ واقع رہے میں اسلام کے متعلق لیکچر دیں.چند سالوں میں سٹاک ہالم اور اوسلو میں چھوٹی چھوٹی جماعتیں قائم کی گئیں.19ء میں بورگن پبلشنگ ہاؤس نے عبدالسلام میڈیسن کا ڈنیش زبان میں کیا ہوا قرآن کریم کا ترجمہ مع نوٹس اور عربی متن کے شائع کیا.اسی زمانہ میں اسی مصنف کی کتاب محمد کی زندگی اور آپ کی تعلیم " شائع ہوئی" یوگوسلاوین ا ابری شدہ کی بات ہے.حکوم یوگو سلاویں حلقوں میں احمدیت کا ثرو نفوذ کمال یوسف صاحب آئی لینڈ کے دورہ پر تشریف لے گئے.اور مشن کو عارضی طور پر سنبھالنے کے لئے مولوی بشیر احمد صاحب شمسی جرمنی سے ڈنمارک پہنچے.اس دوران ایک عجیب ایمان افروز واقعہ رونما ہوا.جس کی تفصیل جناب مولوی بشیر احمد صاحب شمس کے الفاظ میں درج ذیل ہے :- ایک روز جب خاکسار مشن ہاؤس میں دفتری کام میں مصروف تھا تو ایک ٹیلیفون آیا.ایک نوجوان جرمن زبان میں کچھ استفسار کر رہا تھا.اس نے کہا مجھے علم ہوا ہے کہ آپ

Page 513

ا.جم من زبان جانتے ہیں.لیکن آپ سے کچھ راہنمائی حاصل کرنی چاہتا ہوں گفتگو لمبی تھی لہذا خاکسار نے اُسے تجویز کیا کہ ہم آپس میں کسی جگہ مل لیں تو بہتر ہے چونکہ وہ ڈنمارک کے ایک قصبہ میں ایک لوہے کے کارخانہ میں ملازم تھا اور یوگوسلاویہ سے تعلق رکھتا تھا.اس نے کہا کہ میں بہت مصروف ہوں چھٹی نہیں مل سکتی.اگر آپ میرے پاس وقت نکال کر آجائیں تو میں آپ کا بہت ممنون ہونگا.کوپن ہیگن سے قریباً ساٹھ کلومیٹر دور رہتا تھا.اگلے روز یکیں ٹرین پر اُس کے پاس پہنچا.وہ اسٹیشن پر موجود تھا.مجھے مل کر بہت خوش ہوا.گھر پہنچے.رات وہیں ٹھہرا.رات کو اس نے مجھے سارا واقعہ سنایا کہ خواب میں اس لڑکے سامنے ایک سفید پگڑی پہنے گھنی لمبی سفید داڑھی والا شخص ظاہر ہوا.جس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جسے بعیت کا غذ کیا گیا.اسے خواب میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ جنت میں داخل ہونے کا کاغذ ہے جب اس شخص نے اپنی اس خواب کا ذکر کیا تو میں نے اُسے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی فوٹو دکھائی تو فوراً پکار اُٹھا کہ یہی وہ شخص ہے جسے اُس نے خواب میں دیکھا ہے.آخر میں خاکسار نے بیعت فارم کا ذکر کیا تو کہنے لگا کہ میری تسلی ہو گئی ہے.چنانچہ اس نے بلا توقف جماعت میں شمولیت اختیارہ کہ لی ہیں ایک ماہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد مکرم کمال یوسف صاحب واپس ڈنمارک تشریف لائے تو اس یوگو سلاوین نوجوان کی تحریک پر ہم نے سویڈن جانے کا پروگرام بنایا کیونکہ گو تھن برگ میں بہت سے یوگو سلاوین دوست رہائش رکھتے تھے.مکرم محمود ارکسن صاحب لوکل مبلغ سویڈن استمد مقیم سٹاک عالم کو اطلاع دی.گو تختن برگ میں مکرم بشیر الدین احمد صاحب این کرنا تقی الدین جعد صاحب کی مدد سے (جو اس وقت وہاں اپنے کاروبار کے سلسلہ میں مقیم تھے ) ایک میٹنگ کا اہتمام کیا.اور سلسلہ احمدیہ سے متعلق ایک پمفلٹ یوگو سلاوین زبان میں شائع کروالیا.اس میٹنگ میں چالیس کے قریب یوگو سلاوین دوست تشریف لائے.احمدیت کا تعارف کم دوایا گیا تواللہ تعالی کے فضل سے اسی میٹنگ میں ہی پانچ افراد نے باقاعدہ طور پر سبعیت کر کے سلسلہ احمدیہ میں رسالہ " تحریک جدید جولائی ۱۹۶۹ء ۲۵

Page 514

۵۰۲ شمولیت اختیار کر لی.الحمد للہ.اس سارے واقعہ کی اطلاع مکرم کمال یوسف صاحب نے حضور کی مندرست میں بھجوائی.حضور نے خوشنودی کا اظہارہ فرمایا.نیز بذریعہ تار حکم دیا کہ آئندہ تین ماہ کے لئے بشیر شمسی صاحب کو تھن برگ میں ٹھہریں.چنانچہ اس ارشاد کی تعمیل میں خاکسار مزید تین ماہ کے لئے وہاں ٹھہر گیا اور کام کو جاری رکھا.اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے اس عرصہ میں مزید پیچیس افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے الحمد للہ.ہمہرگ جوینی سے گئے ہوئے مجھے چار ماہ کا عرصہ ہوگیا تھا.اس پر حکم چودی عبداللطیف صاحب مبلغ جرمنی نے مرکز کو لکھا کہ وہ اکیلے کام نہیں کر سکتے.یا انہیں کوئی اور مبلغ دیا جائے یا بیشتر شمسی صاحب کو واپس ہمبرگ بھجوا دیا جائے ، اس پر مرکز کے حکم پہ خاکسارہ عمیر پہنچ گیا.ابھی دو ماہ ہی گزرے تھے کہ دوبارہ مجھے حکم ملا کہ میں گوتھن برگ (سویڈن پہنچ کہ کام شروع کروں.یہ اکتوبر 1979ء کا مہینہ تھا.دوبارہ جاکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے کام شروع کیا جس کے بہت اچھے نتائج بر آمد ہوئے.اس دوران مکرم کہاں یوسف صاحب واپس ربوہ آگئے.اور کریم سید مسعود احمد صاحب نے ڈنمارک مشن کا چارج سنبھال لیا.گوتھن برگ مشن کی بنیادا گوفتن برگ میں جماعت احمدیہ کا قیام شاک علم کے محمد اریس صاحب اور محترم کمال یوسف صاحب کی کوشش سے ہوا جنہوں نے گوفتن برگ میں یوگو سلاو احباب کے ایک اجتماع کا انتظام کیا جس میں سب سے پہلے یوگوسلاوین مسلمان HAIRULLAH با قاعده بعیت کر کے داخل احمدیت ہوئے پھر ان کی تبلیغ سے ایک اور شخص حسن نامی نے بعیت کی.....آب ان دونوں احمدی احباب نے اار مٹی شوید اور کو ایک اور مجلس منعقد کی جس میں مکرم کمال یوسف صاحب مولوی بشیر احمد صاحب شمسی نے بھی شرکت کی.اس میٹنگ اور اس کے بعد کی کوششوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مزید گیارہ اشخاص احمدی ہو گئے.ازاں بعد اس مٹی 1949 کو سیرت النبیؐ کا ایک کامیاب جلسہ منعقدہ کیا جلسہ کے بعد انفرادی ملاقاتوں کے دوران مزید پانچ افراد سلسلہ سے منسلک ہو گئے.پھر مزید تین خاندان جو بارہ افراد پرمشتمل تھے داخل جماعت ہوئے.اسی طرح جون ۱۹۶۹ء تک یوگوسلاو احمدی احباب کی تعداد ۳۳ تک پہنچ گئی.

Page 515

۵۰۳ حضرت خلیفہ میں الثالث کے دست مبارک ہے اور ستر اور کارو گونی پی (سویڈن) کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار مسجد ناصر کا سنگ بنیاد رہے گا کیونکہ اس دن حضرت خلیفہ ایسیح الثالث نے گونھن برگ شہر میں سویڈن کی پہلی مسجد کی بنیادی اینٹ اپنے دست مبارک سے نصب فرمائی.اس مسجد کی زمین مولوی منیر الدین احمد صاحب نے خریدی تھی.خدا کے گھر کا سنگِ بنیاد رکھنے اور اس کی زمین کا معائنہ فرمانے کے بعد حضور نے متعدد افراد کو شرف مصافحہ سنجشا اور انہیں حقائق و معارف سے سرفراز فرمایا ئیے اگلے روز ۲۸ ستمبر ۱۹۷۵ء کو ہوٹل سکنڈ نیویا گوتھن برگ میں یور مین مبلغین کی کانفرنس میں جہاں حضور قیام فرما تھے یورپ کے جملہ احمد یہ مشنوں کے مبلغین کی کانفرنس منعقد ہوئی.اس کا نفرنس میں مندرجہ ذیل مبلغین کو شرکت کرنے اور حضور کے ارشادات سے مستفید ہونے کی سعادت نصیب ہوئی :- ۱ - مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق (امام مسجد لنڈن ) -۲ مکرم چوہدری کرم الہی صاحب ظفر (مبلغ سپین ).۳ - مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری (امام مسجد نور فرنکفورٹ مغربی جرمنی ).۴.مکرم حیدر علی صاحب ظفر (امام مسجد فضل عمر ہمبرگ ) ۵ - مکرم سید مسعود احمد صاحب (امام مسجد محمود زیورک سوئٹزرلینڈ).-4 مکرم جناب کمال یوسف صاحب (امام مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن ڈنمارک).مکرم منیر الدین احمد صاحب (مبلغ سویڈن ہے.اس تاریخی کانفرنس کے علاوہ نمایہ عصر کے چودہ یوگوسلاوین کا قبول احمدمیت بعد ایک مبارک جیسی بھی منعقد ہوئی جس میں حضور نے یوگو سلاو بین دوستوں کو شرف زیارت بخشا اور ان کی درخواست پر ہر ایک کے ساتھ له الفضل ۱۷ اکتوبر ۹۷ ایضاً من

Page 516

۵۰۴ باری باری فوٹو کھینچوائے.یہ سلسلہ تقریباً نصف گھنٹے تک جاری رہا.الفضل کے نامورنگار خصوصی جناب مسعود احمد خانصاحب دہلوی کا بیان ہے کہ اس تمام عرصہ میں ان یوگوسلاوین دوستوں پر ایک ایسا کیف کا عالم طاری رہا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس عالم میں نہیں ایک اور ہی عالم میں ہیں اور ان کی جانب سے ذوقی و شوق اور ولولہ عشق کا اظہار خدائی تصرف کے ماتحت ہو رہا ہے.J نماز مغرب و عشا کے بعد عشائیہ کی بابرکت تقریب بھی حضور اس کے دوران اور بعد میں علیہ السلام کے سلسلہ میں احمدی احباب کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ فرماتے رہے.ایک یوگو سلاوین مخلص احمدی برادرم شعیب موسی صاحب اپنی اہلیہ کو بیعت کرانے میں صرف اس لئے مشامل تھے کہ وہ پہلے پوری صحت کے ساتھ قرآن شریف پڑھنا یکھیں.مگر حضور نے فرمایا کہ حق کھل جانے پر اسے قبول کرنے اور فارم پُر کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے.دینی تربیت اس کے بعد ہی ہو سکتی ہے.اس پر شعیب موسی صاحب نہ نانہ کمرہ کے دروازہ پر اپنی اہلیہ سے ملے اور حضور کے منشاء سے آگاہ کیا تو انہوں نے بخونی سیعیت فارم پہ کہ دیا.فارم میٹر کرنے کی دیر تھی کہ بہت سے دیگر یوگو سلاوین دوستوں اور بہنوں کی طرف سعیت فارم دیئے جانے کا مطالبہ ہوتی لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے چودہ یوگو سلاوین باشندوں نے جن میں چھ مرد اور آٹھ خواتین تھیں.بیعت فارم پر کر کے قبول احمدیت کا اعلان کر دیا.اس خدائی تصرف و نصرت کے روح پرور نظارہ سے تمام مجلس میں خوشی اور مسرت کی زبر دست لہر دوڑ گئی.حضور نے بیعت کرنے والے احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا." بعیت میرے ساتھ نہیں بلکہ خدائے قادر و قدوس کے ساتھ ایک عہد ہے جو آپ نے اس وقت باندھا ہے.ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مہدی علیہ اسلام کے زمانہ میں اسلام دنیا بھر میں غالب آئے گا سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق وہ زمانہ آگیا.ظہور مہدی علیہ السلام کی دوسری صدی جس کے شروع ہونے میں پندرہ سال رہ گئے ہیں، علیہ السلام کی صدی ہوگی.آپ نے علیہ اس نام کے لئے جدو جہد کرنے اور قربانیاں پیش ا روزه نامه الفضل ۱۷ اکتوبر كان مث

Page 517

کرنے کے لئے آج اپنے خدا سے عہد کیا ہے.اس ارشاد کے بعد حضور نے نہایت مخلص یوگو سلاوین احمدی برادرم جناب عزت اولی وچ کو جو ترجمانی کے فرائض انجام دے رہے تھے، ہدایت فرمائی کہ وہ یہ بات نو مبایعین تک پہنچا دیں.چنانچہ انہوں نے اپنے نو مبائع احمدی بھائیوں کو مخاطب کر کے سے اُن تک یوگو سلاوین زبان میں حضور کا یہ ارشاد پہنچا یا.سب نے سرتسلیم خم کرتے ہوئے حضور.استقامت کے لئے دعا کی درخواست کی.اس کے بعد حضور ابدہ اللہ کے ارشاد کی تعمیل میں جناب عزت اولی ورچ صاحب نے زنانہ کمرہ کے دروازے پر بجا کہ ان بہنوں کے سامنے بھی جنہوں نے بیعیت فارم پر کئے تھے.یوگو سلاوین زبان میں حضور کے مذکورہ بالا ارشاد کو دہرایا.اس کے بعد حضور نے ہاتھ اٹھا کہ لمبی پر سوز دعا کرائی.جس میں جملہ حاضرین شریک ہوئے.یہ ایک خاص دعا تھی جو دلوں کو سکینت و طمانیت سے بھرنے کا موجب بنی.دعا کے بعد بھی قلبی مسرت کے زیر اثرسب کی آنکھیں نمناک تھیں.اور لب مالک حقیقی کی ستائش میں جنیش کر رہے تھے، بلاشبہ خوش قسمت ہیں وہ احباب جنہیں اس مجلس اور اس کے اختتام پر ہونے والی دعا میں شرکت کی توفیق ملی.دُعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے یوگو سلاوین احباب سمیت مجملہ حاضر احباب کو ایک قوعہ پھر شرف مصافحہ بخشا اور حضور 9 بجے رات کے بعد مشن ہاؤس سے ہوٹل سکنڈے نیویا واپس تشریف لے آئے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے سویڈن میں پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے سب سے پہلے طیب و شیرین نمر سے نواز کر دلوں کو خوشی ومسرت سے بھر دیا.الحمد للہ علی ذالک : کہ کو ۲۰ اگست شاه کوستید تا حضرت خلیفہ ربیع الثالث مسجد ناصر کی افتتاحی تقریب نے مسجد ناصرکا افتتاح فرمایا.اس تقریب میںشرکت کرنے کے لئے سویڈن، ناروے، ڈنمارک، انگلستان، ہالینڈ، مغربی جرمنی ، سوئٹزر لینڈ، امریکہ مشرق وسطی اور پاکستان کے ایک ہزار احباب تشریف لائے.شرکت کر نے والوں میں پورپ کے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کی تعمیر کہ وہ ساتوں مساجد کے درج ذیل امام اور دیگر مبلغین کرام بھی شامل تھے.مریم بشیر احمد خان صاحب رفیق ( امام مسجد فضل لندن ) تكريم عبد الحکیم صاحب المن ر امام مسجد مبارک دی ہیگ ہالینڈ) - مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری را امام مسجد نور فرینکفور مکرم حیدر علی صاحب ظفر ( امام مسجد فضل عمر ہمبرگ مغربی جرمنی - مکرم چه بداری استانی احمد صاب

Page 518

۵۰۶ باجوہ (امام مسجد محمود زیورک سوئٹزر لینڈ) - مکرم سید مسعود احمد صاحب ( امام مسجد نصرت جہا کوین بگین ڈنمارک) کمریم کمال یوسف صاحب (امام مسجد ناقر گوٹن برگ.سویڈن ، کریم کرم اللی اما خفر ( مبلغ سپین ) - مکرم منیر الدین احمد صاحب (مبلغ سویڈن ) - تکریم سمیع اللہ صاحب زاہد (مبلغ سویڈن مکرم نور احمد بوستاد صاحب ( آنریری مبلغ ناروے مکروم عبدالسلام صاحب میڈیسن در آنریری مبلغ ڈنمارک) مکرم منیر الدین شمس صاحب ( مبلغ انگلستان - مکرم مولوی محمد اسمعیل منیر صاحب (سابق مبلغ سیرالیون) سکنڈے نیوین ممالک اور مغربی جرمنی کے نو مسلم احمدی احباب و خواتین بھی بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے.سویڈن کے مقامی احباب و خواتین اس کے علاوہ تھیں.مسجد کے احاطہ کو خو بصو ر قطعات سے سجایا گیا تھا.اس سلسلہ میں سویڈن کے مبغلین کرام کے علاوہ سویڈن اور اوسلو کے احباب نے بھی محنت سے کام کیا.بالخصوص یوگو سلاوین احمدی بھائی کرم شعیب موسیٰ صاحب اس خدمت میں پیش پیش تھے.ساڑھے دس بجے صبح حضور نے مشن ہاؤس میں ایک پر ہجوم پریس کا نفرنس سے خطاب فرمایا اور موثر انداز میں صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیئے.پریس کانفرنس کے دوران اور اس کے بعد بھی یورپ کے مختلف ممالک سے احباب کی آمد کا سلسلہ برابر جاری رہا.پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی نمازہ جمعہ کی تیاری شروع ہوئی.گوٹن برگ کے سب سے پہلے یوگو سلاوین احمدی مکرم شعیب موسی صاحب نے حضور کے ارشاد پر اذان دی جس کے بعد حضور نے انگریزی زبان میں خطبه جمعه ارشاد فرمایا.حضور نے سورۃ توبہ کی مندرجہ ذیل آیت نمبر ۱۰۹ تلاوت فرمائی آ فَمَنْ اَسسَ بَنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرُ أَمْ مَنْ أَسَّسَ بَنْيَانَهُ عَلَى شَفَا حُرُفٍ هَادٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَ اللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ.ترجمہ یہ کیا وہ شخص جو اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے تقولی اور رضامندی پر رکھتا ہے.زیادہ اچھا ہے یا وہ جو اس کی بنیاد ایک پھیلنے والے کنارے پہ رکھتا ہے ہو گر رہا ہوتا ہے پھر وہ کنارہ اس عمارت سمیت جہنم کی آگ میں گیا جاتا ہے اور اللہ ظالم قوم کو کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.اس آیت کی روشنی میں حضور نے مسجد کے کسٹوڈینیٹرز کی یہ ذشتہ داریاں بیان کی.اول یہ کہ

Page 519

۵۰۷ وہ اسے پاک صاف اور مظہر رکھیں.اس میں پانی مہیا کہ ہیں اور ایسی تمام دیگر ضروریات بہم پہنچائیں جن کا موجود ہونا عبادت بجالانے کے لئے ضروری ہو.دوم یہ کہ وہ مساجد میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ جو لوگ ان میں عبادت کے لئے آئیں.ان کا زندہ تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوتے ہیں مدد ملے.SYMBOL حضور نے مزیدیہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دو قسم کی مساجدہ کا ذکر کمر کے ان کے درمیان پائے جانے والے امتیاز کو واضح فرمایا ہے.چنانچہ اس آیت کی رو جس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر ہو اور وہ لوگوں کا خدا تعالیٰ کے ساتھ نہ ندہ تعلق پیدا کر نے والی ہو د حقیقی مسجد ہے.برخلاف اس کے وہ مسجد جس کی بنیاد ظلم کی راہ سے لوگوں کو EXPLOIT کرنے پر ہو.اور بناء بریں تقوی اللہ سے یکسر خالی ہو.وہ حقیقی مسجد نہیں ہے حقیقی مسجد ایک عظیم نشان کی حیثیت رکھتی ہے اور ایک پیغام کی حامل ہوتی ہے.اور وہ یہ کہ سب لوگ خدا کی نگاہ میں برابر ہیں اور سب اس کے فرمانبردار اور عبادت گزار بندے بن کر اس سے زندہ تعلق قائم کر سکتے ہیں اور اس کے افضال و انعامات کے مورد بن سکتے ہیں.اور یہ کہ انہیں ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے.خطبہ کے بعد حضور نے جمعہ کی نمانہ پڑھائی.اس طرح سویڈن کی سب سے پہلی مسجد کا مبارک افتتاح عمل میں آگیا.اس کا افتتاح عمل میں آنے کی دیر تھی کہ گوٹن برگ ریڈیو نے حضور کے خطبہ جمعہ ، نماز جمعہ اور مسجد کے افتتاح کی خبر نشر کرنے کے علاوہ اس میں دی جانے والی اذان نشر کی.یہ خبر وقفہ وقفہ سے بار بار نشر ہوتی رہی.اور اذان کی آواز بھی ریڈیو کے ذریعہ پورے شہر میں بار بار کو سختی رہی.اس طرح بفضل اللہ تعالیٰ پورے شہر میں مسجد کے افتتاح کا چھہ چا ہونے لگا.اور لوگ بڑی تعداد میں اسے دیکھنے کی غرض سے آنے لگے.رات گئے تک لوگوں کا تانتا بندھا رہا ہے سویڈن کے چالیس سے زیادہ اخباروں نے مسجد کے افتتاح کے پریس میں چرچا متعلق بڑی بڑی تصاویر اور بہت تفصیلی خبر بی شائع کیں.نیز عیسائی حلقوں نے تبصروں کی شکل میں رو عمل کا اظہار بھی کیا.چند اخباروں کے اقتباسات کا آزاد 1964 تلخیص روزنامه الفضل ۳۰ اکتوبر تا ۸ / نومبر ۶۸۵

Page 520

ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- (1) - گوٹن برگ سے شائع ہونے والے اخبار VASTRA FRULUNDA نے اپنے ۲۶ اگست کے شمارہ میں پیغمبر اسلام محمد کے نام کی عظمت کے قیام کی خاطر مر وقار افتتاح" کے جلی عنوان اور حضور ایدہ اللہ کے پریس کا نفرنس سے خطاب کی نہایت نمایاں تصویر کے تحت پانچ کالموں میں پھیلی ہوئی جو بہت تفصیلی خبر شائع کی اس میں اُس نے افتتاح کے دیگر کو الف کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ......خلیفہ مرزا ناصر احمد نے اپنی دلکش اور سریلی آواز میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.اس خوبصورت مسجد میں جمع ہونے اور اس سے دلی طور پر وابستہ رہنے کا یہ مقصد ہے کہ ہم خدا کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر کے اس دنیا میں کامیاب زندگی گزار سکیں.ہم یہاں اپنے آپ کو اس قابل بنائیں گے کہ ہمیں اپنے پیدا کرنے والے کی رضا حاصل ہو.جب ہم ایک نیک مقصد کی خاطر دلی اخلاص کے ساتھ مجاہدہ کرتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں خداتعالی کا پیار ہمیں حاصل ہوتا ہے.آپ نے فرمایا جب ہمیں خداتعالی کا پیار حاصل ہو جائے اور ہم اس میں ہو کہ زندگی بسر کرتے لگیں تو اس کا پیار ہمیں نوع انسان کے ساتھ بھی محبت کا سلوک روا رکھنے پر ابھارتا ہے اور ہم نوع انسان کو محبت کا پیغام پہنچائے بغیر رہ ہی نہیں سکتے.(۲) گوٹن برگ سے شائع ہونے والے لوتھرن چھپا کے مذہبی آرگن نے اپنے ۳ ستمبر شاید کے شمارہ میں لکھا:.KYRKOCH FOLK پچھلے دنوں گوٹن برگ میں سویڈن کی سب سے پہلی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا ہے مسجد کے منصویر کو بروئے کار لانے کا سہرا اسلام کی ایک تبلیغی تحریک یعنی جماعت احمدیہ کے سر ہے.مسجد کا افتتاح اس جماعت کے سربراہ خلیفہ آسیح نے فرمایا اور اس میں بہت سے مسلمانوں نے شرکت کی.اگلے سال قرآن کا سویڈش زبان میں ترجمہ شائع کیا جائے گا.پروگرام یہ ہے کہ آئندہ سولہ سال میں دنیا کی تمام زبانوں میں قرآن کے تراجم دستیاب ہو سکیں.پہلے جس بات کو کوئی بھی تسلیم کرتے کے لئے تیار نہ تھا.اب وہ وقوع پذیر ہو رہی ہے.اسلام وہ پہلا مذ ہر نہیں ہے جس نے اپنی تعلیم کو له روزنامه الفضل - ار دسمبر ۱۹۹۶ سه جلسه سالانه نمبر صت

Page 521

۵۰۹ پھیلانے کے لئے میدان تبلیغ کے طور پر ہمارے ملک کو منتخب کیا ہے.اب سوال یہ ہے کہ سویڈن میں جبکہ مذہبی لحاظ سے ایک نئی صبح کا جھٹ پٹا نمودار ہوا چاہتا ہے.یہاں کے عیسائی اس نئی صورت حال کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں ؟ اس سنجیدہ سوال کا ☐ GOTEN BORG POSTEN آپ کے پاس کیا جواب ہے ؟ " (۳) - گوٹن برگ کے ایک اور اخبار گوٹن برگ پوسٹ" اپنی ۲۱ اگست کی اشاعت میں مسجد کے افتتاح کی تفصیلی خبر شائع کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کیلئے خوشی کا ایک خاص موقع قرار دیا.تاہم اس نے اس خیر میں اپنی طرف سے ایک سراسر غلط بات بھی شائع کر دی اور وہ یہ کہ (نعوذ باللہ) مسجد میں عورتوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی تا کہ مسجد کی جگہ ناپاک نہ ہو جائے.اگر چہ اخبار نے یہ سراسر غلط اور خلاف واقعہ بات اسلام کے بارہ میں غلط فہمی پھیلانے کی غرض سے شائع کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں سے ہی ایک خبر کا پہلو پیدا کر دیا اور وہ یہ کہ ہر طبقہ کے لوگ د خصوصا خوانمین ) بڑی کثرت سے اس کی زیارت کرنے آئے تھے.صفحہ ۱۲ پر اخبار نے تین کالمی عنوان کے تحت جو خبر شائع کی اس کا ترجمہ درج ذیل ہے.سہ کالمی عنوان :- خلیفہ مسیح نے ہیگس بو کی پہاڑی پر پہلی مسجد کا افتتاح فرمایا " خبر کامنتن :.سویڈن کی پہلی مسجد جیسے جماعت احمدیہ نے تعمیر کیا ہے.اس کا افتتاح مجمعہ کے یہ وزعمل میں آیا.تمام سلمانوں کے لئے یہ ایک خوشی کا موقع تھا.تاہم اس میں ایک حد تک جنبیت پائی جاتی تھی.کیونکہ عورتوں نے چہروں پر نقاب ڈالے ہوئے تھے.وہ بھی نماز میں شریک تھیں.لیکن ایک علیحدہ احاطہ میں.پاکستانی مسلمانوں کے ایک سو خاندانوں نے دس لاکھ کرونے کی لاگت سے اسے تعمیر کیا ہے اور اس کے لئے انگلستان اور امریکہ میں رہنے والے احمدیوں) سے چندہ جمع کیا ہے.ہیگس بو کی پہاڑی پر تعمیر شدہ مسجد کے مینارے (جو اذان دینے کے لئے بنائے جاتے ہیں ) محض علامتی مینارے ہیں.علی الصبح سے سورج غروب ہونے کے دو گھنٹہ بعد تک دن ہیں له روزنامه الفضل ربوه ۰ار دسمبر تامیه جلب سالانه نمیرفت.

Page 522

۵۱۰ پانچ مرتبہ بلند آواز سے لوگوں کو نمانہ کے لئے پکار پکا نہ کمر بلا نا کار دارد ہے.اس لئے جدید تکنیکی آلات سے استفادہ کرتے ہوئے اذان مسجد کے اندر ہی لاؤڈ سپیکر کی مدد سے دی جاتی ہے......مسجد کا افتتاح فرقہ احمدیہ کے سر براہ اعلی حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح نے فرمایا.تمام دنیا سے بالعموم اور انگلستان جرمنی اور پاکستان سے خصوصا آنے والے مہمانوں کے علاوہ ایسٹونین آرتھوڈوکس چرچ کے پادری صاحب بھی اس موقع پر آئے ہوئے تھے.حضرت مرزا ناصر احمد (حضرت) احمد (علیہ السلام) کے تیسرے خلیفہ ہیں.اس فرقہ کی بنیاد اس غرض سے رکھی گئی تھی تا کہ تمام بنی نوع انسان کے لئے سب سے آخری اور تکمیل دین کی حیثیت سے اصلی اور حقیقی اسلام کا انہ سرتو احیاء کیا جائے.اس فرقے کے دعوے کے بموجب بانی سلسلہ احمدیہ ( آخری زمانہ میں آنے والے) موعود مسیح تھے.وہ اس لئے آئے تھے تا کہ قرآن کی کامل تعلیم کی جو موجودہ زمانہ کے لئے بھی موزوں ترین تعلیم ہے نئی تعمیر اور نئی تشریح سے دنیا کو آگاہ کر سکیں.خلیفہ تسبیح نے خطبہ جمعہ میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ رضاء الہی کی خاطر اللہ کے گھر کو پاک صاف رکھنا از حد ضروری ہے.آپ نے فرمایا یہ (یعنی مسجد ) ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہمیں خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر کے اس دنیا میں زندگی بسر کرنی چاہیئے.جو شخص نیک اور دیندار نہ ہو خدا تعالیٰ اس کی راہنمائی نہیں فرماتا.خدا تعالیٰ کی راہنمائی اور ہدایت اسے ہی نصیب ہوتی ہے جو عدل.امن و عافیت اور آزادی کا درس دیتا اور اس کے قیام کے لئے کوشاں رہتا ہو.خدا تعالیٰ ایسے شخص کو محبت یک رنگی اور حقیقی را ہنمائی سے نوازتا ہے.تاکہ وہ حیات نو اور خدمت نوع انسان کے پیغام کو پھیلا سکے.وہ جماعت جس نے گوٹن برگ میں مسجد بنائی ہے تبلیغ اسلام کا فریضہ بجا لانے والی ایک مضبوط تنظیم کی حامل ہے بسکولوں کے قیام کی وہ زبردست حامی ہے تا کہ مسلمان بچوں کو دینی تعلیم بھی دی جا سکے.یہ جماعت کوپن ہیگن - لندن - دی ہیگ.ہمبرگ - فرینکفورٹ اور زیورک میں مساجد پہلے ہی تعمیر کو چکی ہے.اگلے سال قرآن کا سویڈش زبان میں ترجمہ شائع کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں.اور منصوبہ یہ ہے کہ آئندہ سولہ سال میں تمام یورپی زبانوں میں قرآن کے تراجم شائع ہو جانے چاہئیں.

Page 523

سیکس پو پر جس مسجد کا افتتاح عمل میں آیا ہے وہ دوسری مساجد کی طرح گنبد سے مزی بو ہے......اس جماعت کے (سویڈن میں) دو مبلغ ہیں.جماعت سویڈن نہ صرف بیرونی ملکوں سے آکر یہاں آباد ہونے والے مسلمانوں پر مشتمل ہے بلکہ وہ سویڈش باشندے بھی اس میں شامل ہیں جنہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے......اپنی تقویم کی رو سے یہ جماعت چودھویں صدی میں سے گزر رہی ہے کیونکہ ہجری اسلامی کیلنڈر کی رو سے موجودہ سال ۱۳۵۵ واں سال ہے.GOTEN BORG POSTEN ATTED PAGE 21, 1976.حضرت خلیفہ المسیح الثالث لاء کی حضرت تخلیقین اربع الثالث کا سفر ت ۱۹۷ء کر صلیب کا نفرنس سے خطاب کے بعد لندن سے ۲۴ جولائی کو روانہ ہو کہ ۲۵ جولائی کی رات کو اوسلو (ناروے) میں رونق افروز ہوئے اور ۲۶ جولائی کو حضور نے یہاں ایک پریس کا نفرنس سے خطاب فرمایا.۲۸ جولائی کو اوسلو سے روانہ ہو کہ سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہالم میں پہنچے اور چند روز قیام فرمانے ، پر یس کا نفرنس اور انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں میں انوار اسلام پھیلانے کے بعد ۳۱ جولائی کو سویڈن کے شہر کوٹن برگ تشریف لائے اور یکم اگست کی صبح کو ایک پریس کا نفرنس سے خطاب فرمایا جس میں حضور نے موجودہ زمانہ کے مسائل کا حل اسلام سے پیش فرمایا اور قرآن مجید جیسی عظیم کتاب کی طرف نہایت پر شوکت انداز میں توجہ دلانے کے بعد اشاعت قرآن کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی مساعی پر روشنی ڈالی.ریڈیو گوٹن برگ نے اس روز سوا پانچ بجے پریس کانفرنس کی یہ خبر نشر کی :- حضرت مرزا ناصر احمد ( جو ۱۹۶۵ء میں جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے تھے) نے اپنے پہلے دورہ میں فرمایا تھا کہ گوٹن برگ کو ایک مسجد کی ضرورت ہے.اس کے تقریبا ایک سال بعد ہی ایک بڑی مسجد تعمیر ہو چکی ہے.اس مرتبہ آپ نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ آئندہ ایک سوسال کے اندر یورپ کی اکثریت مسلمان ہو جائے گی.جماعت احمدیہ ایک اسلامی فرقہ ہے اس کی بنیاد انیسویں صدی کے آخرہ میں رکھی گئی.اس جماعت کے قیام کا مقصد تبلیغ کے ذریعہ اسلام کی عظمت کو دبار ه روزنامه الفضل 11 نومبر ٩۶ ص.

Page 524

۵۱۲ قائم کرتا اور دنیا میں امن پیدا کرتا ہے.جماعت احمدیہ کا آغازہ شمالی مہندوستان کے ایک چھوٹے ہوا.اور اب یہ جماعت بڑھ کر ایک عالمی جماعت بن چکی ہے.اس وقت تمام دنیا میں ان کی تعداد ایک کروڑ ہے.سویڈن میں دوصد کے قریب احمدی ہیں حضرت امام جماعت احمدیہ کئی مرتبہ سویڈن کا دورہ کر چکے ہیں.پچھلی مرتبہ شاء میں آپ یہاں تشریف لائے تو آپ نے جماعت احمدیہ کی مسجد ناصر کا افتتاح کیا جو سویڈن کی پہلی مسجد ہے.آپ کی یہاں دوبارہ آمد کی غرض یہ ہے کہ قرآن مجید کی اشاعت و تقسیم کی عالمی مہم کو آخری شکل دی جائے.قرآن مجید مسلمانوں گئے کی مقدس کتاب ہے.یہ نظریہ آخر میں ا فر پہ ختم ہوا کہ آپ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اہلی سویڈن کے سو سال میں واقعہ میں مسلمان ہو جائیں گے بیٹے گوٹن برگ میں دو روزہ قیام کے بعد حضور ۳ راگست کو کوپن ہیگن میں رونق افروز ہوئے.راستہ میں حضور نے سویڈن کے شہر مالمو میں بھی کچھ وقت کے لئے قیام فرمایا.جہاں مقامی اخبارات کے نمائندوں نے حضور سے انٹرویو لیا.ہم اگست کو حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور اسی روز شام کو ایک جلسہ سے خطاب فرمایا.4 اگست کو حضور نے ایک مقامی اخبار کے نمائندہ کو شرف ملاقات بخشا اور انٹرویو دیا.اور ۸ راگست کو سکنڈے نیویا کا یادگار دورہ مکمل کرنے کے بعد کوپن ہیگی ہے ہمبرگ تشریف لے گئے ہیے یہ سفر بھی گذشتہ سفروں کی طرح بہت کامیاب اور مبارک ثابت ہوا.اور ملکی پریس کے ذریعہ اسلام واحمدیت کی تبلیغ ملک کے کونہ کو نہ تک پہنچ گئی.بطور نمونہ چند اخبارات کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے :- (1) - روزنامه ARBEIDER BLADET (۲۱ جولائی ) نے زیر عنوان اسلامی خلیفہ نے ناروے کو عیسائیت سے لا تعلق کو چھوڑا " لکھا....اسلام تمام بنی نوع انسان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے آیا ہے.دیعنی اس کی مخاطب ہر قوم اور اس کا ہر فرد ہے) اسلام میں روئے زمین کا ہر انسان جب چاہے داخل ہو سکتا ہے.جہاں تک قبولِ اسلام کا تعلق ہے اس میں دیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس کسی کو جب بھی قبول حق کی سعادت ملے اس کے لئے له الفضل در تمبر ۱۹ء ص - له الفصل ۱۳۱ جولائی مر ۱۹ ۶ تا ۱۲ اگست ۱۹۴۷ء.

Page 525

۵۱۳ بسا غنیمت ہے.یہ خلاصہ ہے مسلمان فرقہ احمدیہ کے خلیفہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد کی اس گفتگو کا جو انہوں نے گذشتہ بدھ (۲۶) جولائی شتاء) کو اوسلو میں اخباری نمائندوں سے ملاقات کے دوران فرمانی....خلیفہ مسیح اس خالص مذہبی جماعت کے روحانی سر براہ اعلیٰ ہیں.دنیا بھر میں اس جماعت کے افراد کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے.ان میں سے ۳۰ در افراد نامرو سے میں رہائش پذیر ہیں خلیفہ مسیح کے متبعین ان سے اُسی عقیدت و احترام سے ملتے ہیں جو کیتھولک عیسائی پوپ کے ساتھ روا رکھتے ہیں..اس جماعت کا قیام ہندوستان میں شائر میں عمل میں آیا تھا.موجودہ خلیفہ بانی سلسلہ کے تیسرے جانشین یا خلیفہ ہیں.ان لوگوں کا دعوئی یہ ہے کہ وہ حقیقی اسلام کے علمبردار ہیں اور اسی کی دُنیا میں تبلیغ کرتے ہیں.ان کا یہ حقیقی اسلام دنیا کے دوسرے ساٹھ کروڑ مسلمانوں کے اسلام سے قدرے مختلف اور ممانہ حیثیت کا حامل ہے.خلیفہ السیح لندن میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد یہاں آئے تھے.اس کا نفرنس میں مسیح کی صلیبی موت سے نجات کا موضوع زیر غور آیا تھا.اس فرقے کا دعوی ہے کہ ایسے شواہد اور ثبوت موجود ہیں جن سے اس بارہ میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ میں واقعہ صلیب کے بعد نوے سال تک زندہ رہے.وہ مشرق کی جانب پیدل سفر کرتے ہوئے اُن علاقوں میں گئے جہاں بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل آباد تھے.وه ایران، افغانستان اور کشمیر آئے یہاں انہوں نے ان گندہ قبائل میں شریعت موسوی کی تبلیغ کی اور انہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بعثت کے لئے تیار کر لیا...خلیفہ المسیح نے بحیثیت نبی مسیح کے مرتبہ و مقام کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا وہ خدا کا بیٹا ہرگز نہ تھے.وہ تمام دوسرے انسانوں کی طرح ) ایک عورت کے بطن سے پیدا ہوئے تھے.جماعت احمدیہ ایک پر جوش تبلیغی جماعت ہے.اور خلیفہ المسیح سال کا ایک بڑا حصہ اپنی جماعت کا دورہ کرنے اور اس طرح ان کی نگرانی و راہ نمائی کرنے میں گزارتے ہیں....- خلیفہ المسیح نے پولیس کا نفرنس میں الوداعی کلمات کہتے ہوئے فرمایا.اسلام بڑا ہی پیارا اور حسین مذہب ہے.اگر ایک فوعہ تم اس کے حسن کے گرویدہ ہو گئے تو اس سے جدائی تمہیں ہر گنہ گوارا نہ ہوگی ہے ے بحوالہ الفضل -4 اگست ۱۹۴۷ ص۲ -

Page 526

لم الله (۳).سویڈن کے روزہ نامہ " آرہے تت“ نے لکھا:- گوٹن برگ صرف خدا تعالیٰ ہی انسانیت کے درپیش مسائل حل کر سکتا ہے.اس ضمن میں تمام انسانی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں.یہ ہیں وہ الفاظ جو جماعت احمدیہ کے روحانی سربراہ اعلی حضرت مرند ا ناصر احمد نے منگل دیکم اگست) کے روزہ مسجد ناصر گوٹن برگ میں اخباری نمائندوں سے گفتگو q کرتے ہوئے فرمائے.قرآن مجیدہ کی اشاعت کے لئے حضرت مرزا ناصر احمد نے عالمی سطح پر ایک موٹر مہم چلا رکھی ہے.اس مہم کے تحت قرآن کا دنیا کی تمام زبانوں میں ترجمہ کر کے ہر ملک اور ہر قوم میں پھیلایا جائے گا.حضرت مرزا ناصر احمد نے اپنے بیان میں یہ بھی فرمایا کہ انسانیت کی ہر نسل کے مسائل کا حل قرآن میں موجو د ہے " اخبار نے ان عنوانات کے تحت لکھا :- مسلمان خلیفہ کوٹن برگ میں " - " اہل سویڈن کی روحانی اقدار میں تنزل کے آثار " خیر کا متن.گوٹن برگ - سویڈش لوگ اگر چه سخت محنتی انسان ہیں.تاہم ان کی روحانی اوراخلاقی اقدار دن بدن انحطاط پذیر ہوتی جار ہی ہیں.یہ بات گذشتہ منگل دیکم اگست کے روزہ ایک کروڑ احمدی مسلمانوں کے روحانی پیشوا حضرت مرزا ناصر احمد نے مسجد ناصر گوٹن برگ میں کہی آپ کی تشریف آوری کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن مجید کی عالمی پیمانہ نیر اشاعت کی مہم کو تیز سے تیز تر کیا جائے.اس جماعت نے قرآن مجید کا دنیا بھر میں بولی جانے والی تمام زبانوں میں تراجم شائع کرنے اور انہیں دنیا میں پھیلانے کا عزم کر رکھا ہے.ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا میرا پیغام یہی ہے کہ اس وقت انسانیت کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا اصل اور حقیقی حل صرف اللہ تعالیٰ ہی عطا کر سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کی آج تک جتنی انسانی کوششیں بھی کی گئیں وہ ایک ایک کر کے سب ناکام ثابت ہو چکی ہیں.آپ نے فرمایا اس زمانہ میں انسانیت کو دو بڑے مسائل درپیش ہیں.ان میں سے ایک مسئلہ کا تعلق دنیا کی بڑی اور چھوٹی قوموں کے مابین تعلقات کی پہنچ متعین کرنا ہے.دوسرا مسئلہ انسانی حقوق کی تعیین سے تعلق رکھتا ہے.آپ نے کیا اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ہر نسل کے مسائل کا حل بیان کر دیا ہے جزیہ برائی

Page 527

۵۱۵ وہ نئے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کو قرآنی تعلیم کی نئی الہامی تو جیہات کے ذریعہ اپنے خاص بندوں پر منکشف فرمانا رہتا ہے.اس ضمن میں آپ نے واضح فرمایا کہ قرآنی ہدایات کی پرانی تعبیریں اور تفسیریں اس زمانہ کے نئے مسائل حل کرنے کے سلسلہ میں کافی نہیں ہیں.اس کے لئے نئی روشنی اور نئی راہنمائی کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ انسانوں سے ) کلام کرتا ہے.اور ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآنی تعلیمات کی نئی تشریحات و توضیحات منکشف فرماتا ہے.حضرت مرزا ناصر احمد نے پورے وثوق اور یقین کے ساتھ اعلان فرمایا کہ ایک دن دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول کر لیں گے.آپ نے اس خیال کا اظہار فرمایا کہ ایسا آئندہ ۱۱۵ سال کے اندر اندر ہو جائے گا.اس ضمن میں آپ نے واضح فرمایا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ لوگوں سے عیسائیت ترک کروا کے انہیں مسلمان بنا لیا جائے گا بلکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک دن ساری دنیا مسلمان ہو جائے گی تو اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اسلام کی پیاری اور حسین تعلیم اپنے باطنی محسن کی وجہ سے ایک دن ساری دنیا کے لوگوں کے دل جیت لے گیا.اُس وقت رُوئے زمین پر بسنے والے انسانوں کے نظریات میں انقلاب آئے بغیر نہ رہے گا.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آپ نے مزید فرمایا، حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں اسلام کو غلط سمجھا گیا ہے.اسی لئے اس بارہ میں یہاں بہت سی غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں.اسلام ہر گھنہ جبر و تشدد کا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ تو پیار ومحبت اور امن و آزادی کا علمبردارہ مذہب ہے.آپ ے خبر دار فرمایا کہ اگر ہم اس عالمگیر تباہی سے بچنا چاہتے ہیں جو کرہ ارض پر منڈلا ر ہیں.ے تو ہمیں انسانوں اور قوموں کے مابین حقیقی مساوات کے قیام کے لئے جد و جہد کرنی چاہئیے بلے " (۳) جنوبی سویڈن کے سب سے اہم اور با اثر اخیارہ روزہ نامہ سکو نسکا ڈاگ بلادت SKANS KA DAG BLADET نے اس عنوان کے تحت لکھا :- خلیفہ اسیح کی مالمو میں تشریف آوری کے موقع پر مسلمان خواتین بھی آئی ہوئی تھیں " جماعت احمدیہ با یک تبلیغی جماعت ہے.راور ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے میں منہمک ے آرہے تت گوٹن برگ ۲ اگست شاه بحواله الفضل ۲۲ اگست شاء ۳۰-۵

Page 528

014 ہے) اس جماعت کی تبلیغی مساعی کا اصل محور تبلیغ اسلام ہے.اس سوال کے جواب میں کہ آپ لوگ تبلیغ کس طرح کرتے ہیں.آپ نے فرمایا ہم سڑکوں پر نکل کر تبلیغ نہیں کرتے.ہم براہ راست لوگوں کے دلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں.خلیفہ مسیح نے خدا تعالیٰ کی بہتجی کے متعلق اپنے عقیدہ اور از روئے السلام انسانی حقوق کی بھی وضاحت فرمائی.آپ نے بتایا کہ انسانیت کے چار علیحدہ شعبے ہیں جسمانی، ذہنی، ثقافتی اور روحانی.ان چاروں شعبوں میں انسانی ترقی کو نقطہ عروج پر پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان ان سے متعلق اپنے حقوق پہچانے.کیونکہ کوئی شخص بھی ہمہ جہتی حقوق کا علم حاصل کئے بغیر حقیقی رنگ میں حقوق انسانی کے لئے سعی نہیں کر سکتا.ان حقوق کا صحیح علم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ السلام ہی ہے کیونکہ اس نے جملہ حقوق انسانی کو واضح طور پر متعین کیا ہے.نہ اشتراکیت ہی نے انسانی حقوق کو واضح کیا ہے اور نہ سرمایہ داری نظام نے ہی ان کی تعیین کی ہے.سچ بات یہ ہے کہ کوئی دنیوی نظام بھی ہمہ جہتی حقوق انسانی کی نشاندہی نہیں کر سکتا.حقوق انسانی کا صحیح علم خدا تعالیٰ ہی کو ہے جو ہر نئے کا خالق و مالک ہے.اور وہی اُن کی تعیین بھی کر سکتا ہے.اسی لئے حقوق انسانی کی تعیین اور نشاندہی کا واحد ذریعہ اسلام ہی ہے.مالمو میں چالیس نمبروں کے علاوہ گوٹن برگ سٹاک عالم ، لند اور بین شوپنگ میں اس جماعت کے نمبر موجود ہیں.اپنے حالیہ دورہ میں خلیفہ المسیح نے ان سب سے ملاقات کی ہے.ڈنمارک میں بچوں کے نام رکھنے نیز شادی احمدی مبلغ کو وزارت انصاف کی خصوصی اجازت اور کان کے سلسلہ میں موجود ستور کے مطابق صرف پبلک چوپ یو تھرن چوپ کیتھولک چرپ.اہل یہود اور میتھوڈسٹ چرچ کو قانونی حق حاصل تھا.باقی تمام چرچوں اور مذہبی جماعتوں کو خواہ وہ عیسائی ہوں یا غیر عیسائی، یہ حق حاصل نہیں تھا.یا تو انہیں انہی چرچوں میں سے کسی ایک چرچ میں اس مرض کے لئے جانا ضروری تھا یا پھر ٹاؤن ہال میں بچوں کے نام اور نکاح وغیرہ کی روایات چہرہ سے مختلف که روزنامه سکون کا ڈاگ بلادت ۴ ر اگست ۹ ایر ها کالم نامه سیجواله الفضل ۲۳ اگست ۹۶ اید

Page 529

نہیں تھیں صرف خدا کے نام کی بجائے ریاست کا نام استعمال کیا جاتا تھا.رسم نکاح کا ٹاؤن ہال میں ادا کرنا کسی مذہبی آدمی کے بھی شایان شان نہیں.نام کے لئے ہر صورت میں پادری سے سند حاصل کر کے چرچے منسٹری سے منظوری نہیں لینی پڑتی تھی جو نہایت غیر مناسب طریق تھا.اس صورت حال کے پیش نظر جماعت احمدیہ ڈنمارک نے وزارت انصاف میں دو دفعہ درخواست کی کہ میں مستقل آزادانہ طور پر اسلامی طریق کے مطابق بچوں کے نام رکھنے اور نکاح وغیرہ کا حق دیا جائے.دونوں مرتبہ درخواست نامنظور ہو گئی.اس پر احمد میشن نے سب سے پہلے OMBUDSMANDEN ر ملکی قانون کے سلسلہ میں اتھارٹی ( ادارہ کو اپنی شکایت پہنچائی.ازاں بعد مختلف ممالک کے سفراء سے ملاقات کر کے اور خط و کتابت کے ذریعہ یہ درخواست کی گئی کہ اپنی حکومت کے ذریعہ احتجاج کریں.جو اکثر اخبارات میں شائع ہوا.علا وہ ازیں مکرم کمال یوسف صاحب اور دوسرے احمدیوں نے اخبارات کے ایڈیٹروں سے ملاقات کی جس کے نتیجہ میں اکثر اخبارات نے متواتر احمدیہ مشن کو مخق دلانے کیلئے متعدد مضامین اور اداریے سپرد قلم کئے.اس سلسلہ میں ۱۲۰ اخبارات کے تراشے احمد یہ مشنوں نے ریکارڈ کئے.ایک اور قدم یہ اٹھایا گیا کہ ان چرچوں اور مذہبی جماعتوں کو جن کو یہ حقوق حاصل نہیں تھے میمورنڈم لکھ کر ان سے دستخط کرنے کی درخواست کی گئی تاکہ اجتماعی نہنگ میں حکومت سے درخواست کر سکیں.وجہ یہ کہ چو پے منسٹری کے سیکرٹری نے بیان دیا تھا کہ اگر اس قسم کی درخواست پارلیمنٹ میں سب کے دستخطوں سے پیش ہو تو ہم قانون مروجہ کو بدلنے اور ترمیم کی سفارش پر غور کریں گے.چنانچہ مارمن، یونی شیرین ، لبرل کیتھولک APOSTDIC چرچ اور دو جماعتوں PINSE چوپ نے پورا پورا اتفاق کیا.مگر موخر الذکر دو چرچوں نے اتفاق کے باوجود دستخط نہ کئے اور یہ مجبوری ظاہر کی کہ انہیں دستخط کرنے سے قیل جنرل اسمبلی کے اجلاس کی منظوری لینی ضروری ہے جو فروری 19ء میں بلایا جارہا ہے.مگر باقی چرچوں نے دستخط کر کے احمدی شکم مشن ہی کو کا غذات بھیجوا دیئے.اس کے بعد احمد یہ مشن کے تمام ممبروں کی جنہوں نے اتفاق کیا تھا مشن ہاؤس میں میٹنگ بلائی جس میں مزید نئے اقدام تجویز کئے اور پارلیمنٹ کو درخواست بھیجوانے پر اتفاق کیا.درخواست کو اگلے دن پارلیمنٹ اور پریس میں بھیجوا دیا گیا.پورے پر میں نے اس کو شائع کیا اور پارلیمنٹ میں ہماری درخواست ایجنڈا کے لئے پڑھ کر سنائی گئی.مگر ملک کی مضبوط اور

Page 530

۵۱۸ منظم چرچ مشن سوسائٹی نے کوشش کی کہ وہ تمام چوپا جو ہماری میٹنگ میں شمولیت کے لئے آئے یا جنہوں نے اتفاق کا اظہار کیا ان سے بائیکاٹ کر کے باقی چہ چوں سے ان کو علیحدہ کر دیا جائے نیز یہودیوں کے نمائنڈ نے پریس میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہ ہو.اور مخصوص طور پر صرف ہمیں ہی ملے.علاوہ ازیں تمام مخالفین اسلام نے جن میں تار بریخ مذاہب کے پروفیسر ، فضلاء اور پادری شامل تھے متفق طور پر کہا کہ یہ غلط بات ہے کہ مسلمان صرف یہ حقوق لیکر خاموش ہو جائیں گے بلکہ وہ اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گے جب تک تمام کا تمام ڈنمارک مسلمان نہیں ہو جاتا.انہوں نے یہ بھی کہا کہ سلمانوں سے تو ہمیں کوئی خطرہ نہیں d اصل خطرہ ہمیں صرف مسلمانوں کے فرقے احمدیہ جماعت سے ہے.نیز یہ کہ با وجود احمدیوں کی قلیل تعداد کے بہت جلد ڈنمارک کے کلچر پر اسلام کا اثر تمہایاں اور واضح ہوگا ؛ (پروفیسر CROSS HOLT) مگر ان تمام مخالفتوں کے باوجود خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ بالآخر ۲۷ اگست ۹اء کو وزارت انصاف کی طرف سے با قاعدہ تحریری اجازت نامہ موصول ہو گیا.اس طرح چہ پت کی طرح جماعت احمدیہ کے مبلغ کو بھی نام رکھنے اور نکاح پڑھانے کا اختیار مل گیا ہے دسمبر ۱۹۷۹ ء میں خدا تعالیٰ نے ایسا سامان مسود دور اوسلو کا حضرت علی اسح الثالث" فرمایا کہ ناروے کے شہر اوسکو کے وسط میں چار کے ہاتھوں مبارک افتتاح کنال پیشتمل ایک وسیع و عریض عمارت جماعت احمدیہ نے خرید لی اور اس طرح جہاں ڈنمارک اور سویڈن میں مساجد تعمیر کرنا پڑیں وہاں ناروے میں مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ایک تیار شدہ تین منزلہ عمارت مل گئی اور اس طرح اوسلو میں مسجد نور اور مشن ہاؤس کا قیام عمل میں آگیا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۲۷ دسمبر شاہ کو جلسہ سالانہ کے موقع پر اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.پچھلے ہفتے ایک بہت بڑی عمارت چار کنال ناروے کے سے رپورٹ کمال یوسف صاحب مبلغ انچارج ڈنمارک فائل تبشیر جنرل سکنڈے نیویا ۵۲۳ - سے فائل سویڈن مشن تحریک جدید به توه او ۱۳

Page 531

۵۱۹ شہر اوسلو کے وسط میں بہت عمدہ علاقے میں تین منزلہ عمارت ہے راور انہوں نے لکھا ہے کہ ہماری جماعت کی ضرورتیں پوری کر کے دو خاندانوں کے رہنے کی گنجائش یعنی دو کوارٹر بھی نکل آئیں گے ) وہ خریدی گئی.۱۵ لاکھ کرونے ہیں.یہ بہت اچھی جگہ ہے عین اُس کے سامنے وہاں کے بادشاہ کا ایک پارک ہے، بادشاہ کے نام پر موسوم.اس کے دوسری طرف بادشاہ کا محل بھی ہے لیکن بہر حال سامنے کھلا پارک ہے.اس کے سامنے سٹرک ہے.سٹرک کے اس طرف وہ بڑا اچھا بنا ہوا مکان بڑی موٹی پتھر کی دیواریں سروے وغیرہ کروا کے انجنیر سے پھر وہ تقریدا گیا.یہ نئی جگہ مل گئی ، حضرت خلیفہ السیح الثالث مسجد نور او سلو کے افتتاح کے لئے ۳۱ جولائی کو گوٹن برگ سے بذریعہ کا رہ روانہ ہوئے.احباب نے آپ کو دلی دعاؤں سے خصت کیا.شام ساڑھے سات بجے حضور مسجد نور پہنچے.احباب جماعت نے پرتپاک نعروں سے حضور کا استقبال کیا.حضور نے سب سے پہلے احباب سے مصافحہ فرمایا.پھر مسجد میں دو نفل ادا کئے.اس کے بعد حضور نے مبلغ ناروے مکرم کمالی یوسف صاحب اور مبلغ سویڈن مکرم منیر الدین احمد صاحب کی معیت میں پہلی منزل اور اس کے تہہ خانہ کا تفصیلی معائنہ فرمایا.اس موقع پر سویڈن ڈنمارک، مغربی جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اور انگلستان کے متعدد احمدیوں کے علاوہ مکرم کمال یوسف صاحب (مبلغ ناروے)، کرم منیر الدین احد صاحب - مکرم حامد کریم صاحب (مبلغین سویڈن ) بکریم سید مسعود احمد صاحب (مبلغ ڈنمارک مکرم نواب زادہ منصور احمد خان صاحب ( مبلغ بیمه منی ).مکریم تقسیم مہدی صاحب و مبلغ سوئٹزر لینڈ ) کرم منیر الدین شمس صاحب (سبلغ انگلستان).اور مکرم کرم الہی صاحب ظفر و مبلغ سپین )، اس موقع پر موجود تھے حضور نے پونے تین بجے ناروے کی سب سے پہلی مسجد میں نماز جمعہ پڑھائی اور اس کا باضابطہ افتتاح فرمایا حضور نے مساجد کا تقدیس اور ان کی اہمیت پر انگریزی زبان میں ایک مختصر مگر میر معارف خطیہ دیا، جس میں واضح فرمایا کہ تمام عبادت گاہیں اللہ ہی کی ملکیت ہیں مسجد کے دروازے تمام ان احباب کے لئے کھتے ہیں.تو خدائے واحد کی پرستش کرنا چاہیں.اس تاریخ سانہ افتتاحی تقریب کے موقع سے یہ اس ملک کا سکہ ہے.سہ روزنامه الفضل ۲۶ فروری ۱۹ء ص.

Page 532

۵۲۰ پر موجود آسٹریا ، بنگلہ دیش ، ترکی ، چین اور فرانس کے قونصل جنرل اور کئی دوسرے ملکوں کے سفارتی نمائندے اور اخبار نو میں شامل تھے جن میں سے اکثر نے احمد پیشن ہاؤس کے لائبریری روم میں بیٹھ کہ حضور کا خطبہ جمعہ بہت توجہ اور نہایت انہماک سے شستا، جمعہ اور عصر کی نمازوں کے بعد حضور مسجد سے ملحق لائبریری روم میں تشریف فرما ہوئے اور سفارتی نمائندوں تبادلہ خیال فرمایا.نمائندوں نے مسجد کی تقریب افتتاح پر حضور کی خدمت میں مبارک باد پیش کی سوا چار بجے سہ پہر حضور آنے مسجد نور کے احاطہ میں نصب شده بلند و بالا پول پر کوائے احمدیت لہرایا جس کے ساتھ ہی احباب نے نعرے بلند کئے.ناروے کی فضاؤں میں کوائے احمدیت لہلہانا اپنی ذات میں اس حقیقت کا ہمہ ملا اعلان تھا کہ :.کوائے ماپنہ ہر سعید خواهد بود : نشان فتح نمایاں بنام ما باشد اس موقع پر اخبارات اور ٹیلیویژن کے فوٹو گرافر اور فلم سانہ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے انہوں نے حضور کے بہت سے فو ٹولے اور مختلف نظارے فلمائے.ایک فوٹو انہوں نے خود حضور کی خدمت میں درخواست کر کے خاص اہتمام سے اتارا یہ فوٹو مکرم نوراحمد صاحب بوستاد کے ساتھ کھینچوایا گیا.مسجد کے افتتاح کی خبر نامہ دے کے اخباروں میں بہت وسیع پیمانے پر شائع ہوئی.ن صرف اوسلو سے شائع ہونے والے تمام قومی اخباروں نے خیر اور فوٹو نمایاں طور پر شائع کئے بلکہ ملک کے دوسرے حقتوں سے شائع ہونے والے اخبارات ورسائل نے بھی اس خبر کو پورا اہتمام سے چھاپا اور بعض نے اس پر ادارتی نوٹ لکھے.اوسلو کے میٹر نے ۲ اگست کو حضور کے اعزازہ میں اپنے آفس میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا.جس میں حضور کو اہل شہر کی طرف سے افتتاح کی مبارکباد پیش کی.اس افتتاح کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیا اور شہر ناروے کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور اُن کی دینی و دنیوی ترقی قرار دیا اور خوشحالی کے ضمن میں اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا حضور نے اسلامی تعلیم کے محاسن و فضائل کو واضح کرکے بتایا کہ دنیا کے موجود مسائل اسلام کی بے مثال و لازوال تعلیم پر عمل پیرا ہونے سے ہی حل ہوں گے.میر موصوف نے حضور کے ابر شادات کو دلچسپی، توجہ اور انہماک سے سنا - ۳ اگست کو حضور نے احباب سے ملاقات کی اور نہیں درد انگیز پیرایہ میں ۲ گھنٹے تک خطاب فرما کر ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.ہم اگست کو

Page 533

۵۲۱ حضور نے مبلغین کی کانفرنس طلب فرمائی.جس میں یورپ میں السلام کی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیا.علیہ السلام کی مہم کو تیز سے تیز تر کرنے کے سلسلہ میں انہیں ہدایات دیں.نیز تبلیغ اسلام کی راہ میں حائل بعض مشکلات پر قابو پانے کے طریقوں پر بھی روشنی ڈالی.کانفرنس میں علیہ السلام کی نئی صدی کے استقبال کی تیاریوں کا بھی جائزہ لیا گیا.یہ کا نفرنس حضور کی صدارت میں صبح ساڑھے گیارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہی.اس طرح جملہ تقریبات کے کامیاب افتتاح کے بعد حضور اسی روز اوسلو سے بذریعہ ہوائی جہا نہ ایمسٹرڈم روانہ ہو گئے.سکنڈے نیویا میں حضور کی زندگی کا یہ آخری یادگار سفر تھا جس سے اسلام کا پیغام ایک نئی شان و شوکت کے ساتھ ملک کے کونے کونے تک پہنچ گیا ہے حضرت خلیفہ مسیح الا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ار ای ای دنیا را با ایده اشارات سیدنا حضرت خلیفہ الرابع ال الرابع ایدہ الہ تعالی کا بنصرہ العزیز نے جولائی اگست ۱۹۸۲ء میں پہلا سفر سکنڈے نیویا سکنڈے نیویا کا پہلا سفر اختیار فرمایا حضور ۲۸ جولائی ۱۸ء کو ریوہ سے روانہ ہوئے اور اس جولائی شاہ کو قریباً ایک بجے دوپہر اوسلو کے فضائی منتقر پر درود فرما ہوئے.حضور کے استقبال کے لئے محترم کمال یوسف صاحب رمبلغ انچارج ناروے محترم حامد کریم صاحب ( مبلغ انچارج سویڈن ) اور محترم نور احمد بوستاد صاحب د نیشنل پریذیڈنٹ ناروے) اور سکنڈے نیویا کے دوسرے مخلصین نے حضور کا اور احمدی خواتین نے حضرت بیگم صاحبہ کا پرتپاک استقبال کیا.حضور اوسکو کے احمدیہ مشن ہاؤس میں قیام فرما ہوئے.یکم اگست کو حضور نے عصر کی نماز کے بعد تجدید بیعت کے طور پر دستی بعیت کی.بعیت سے قبل حضور نے بیعت کی حقیقت، اس کی اہمیت اور روج بیعت پر بہت بصیرت افرونه انداز میں روشنی ڈالی حضور نے فرمایا ایک مومن کی زندگی میں سب سے اہم موقع وہ ہوتا ہے جب وہ خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بعیت کرتا ہے کیونکہ اس موقع پر وہ جو عہد کرتا ہے وہ کسی انسان سے نہیں بلکہ اپنے خدا سے عہد کرتا ہے.خدا سے کئے ہوئے عہد کے نتیجہ میں انسان پر بہت اہم ذمہ داریاں عائد لے تلخیص کتاب " دورہ مغرب که " مش ۱۵ تا ۲۲۲۰ -

Page 534

۵۲۲ ہوتی ہیں.خدا ہی توفیق دے تو یہ ذمہ داریاں ادا ہو سکتی ہیں.اس لئے ہر بعیت کنندہ پر ایک یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ وہ جہاں مبیعیت کے عہد کو نبھاتے میں کوشاں رہے.وہاں بعیت کے نتیجہ میں عائمہ ہونے والی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی خدا تعالیٰ سے توفیق مانگتا رہے.بعت کی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.جہاں تک سبعیت کی حقیقت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے :.انَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بان لَهُمُ الْجَنَّةَ (توبه : (١١) ترجمہ : اللہ نے مومنوں سے ان کے جانوں اور ان کے مالوں کو (اس وعدہ کے ساتھ) خرید لیا ہے کہ ان کو محنت ملے گی.بعیت میں دراصل ایک مومن اللہ کے ساتھ سودا کرتا ہے.وہ اپنی جان اور اپنا مالی اللہ کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سودے کی قیمت اگر بیچنے والا اپنے عہد پر پوری طرح قائم رہے اور اس کا عملی ثبوت دیتا رہے جنت کی شکل میں ادا کرتا ہے یعنی وہ اُس کے لئے جنت مقدر کر دیتا ہے..اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں ایک مرکزہ قائم فرمایا.اصل خلیفہ اللہ آپ ہی ہیں.یہ مرکز ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.لیکن اس کے مظہر بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے رہیں گے.جب بھی مظہر بدلے گا اس کے ہاتھ پر بیعت کی تجدید ضروری ہوگی تاکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کہ وہ اس مرکز کے ساتھ وابستگی قائم رہے.آیت استخلاف کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ مرکز خلافت راشدہ کی شکل میں قائم رہا اور خدا تعالٰی مومنوں کے ہر خوف کو امن میں تبدیل کرتا رہا جب تک مومن شکر گزار بنے رہے خلافت بھی قائم رہی.جب مسلمان ناشکری کے مرتکب ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے بموجب یہ نعمت اُن سے چھن گئی پھر آپ ہی کی پیشگوئی کے بموجب اس کا دوبارہ اجراء سید نا حضرت اقدس مسیح موعود کے ذریعہ ہوا ہے اور آپ کے بعد یکے بعد دیگرے مظہر ظاہر ہوئے : اور ہو رہے ہیں.جب بھی مظہر بدلے گا بیعت کی تجدید ضروری ہوگی.اس کے بغیر وحدت قائم نہیں رہ سکتی اور گناہوں سے توبہ کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکتا.روح بیعت یہ ہے کہ بیعت کرنے والا نفس سے خالی ہو کر کامل اطاعت کی روح اپنے

Page 535

۵۲۳ اندر پیدا کرے اور اگر اس راہ میں اسے اپنی جان ، اپنی عزیز سے عزیز نئے اور مال کو چھوڑنا پڑے تو دل میں میں نہ آنے دے.خلیفہ جب کوئی فیصلہ کرے وہ صحیح ہو یا غلط بیعت کنند کا یہ فرض ہے کہ وہ دل میں میں لائے بغیر انشراح قلب کے ساتھ اسے قبول کرے.اس پر عمل پیرا ہو اور اطاعت کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھائے.اس کے لئے اخلاص کا ہونا ضروری ہے.اخلاص کے باوجود انسان سے کمزوری ظاہر ہو سکتی ہے.لیکن اگر انسان کی نیت صاف سیدھی اور کھری ہو تو خدا تعالیٰ اس کے بداثر سے اسے محفوظ رکھتا ہے حضور نے فرمایا.جب میں بیعت لیتا ہوں تو ساتھ ساتھ میں خود بھی بعیت کر رہا ہوتا ہوں اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ سمجھ رہا ہوتا ہوں.ان بصیرت افروز ارشادات کے بعد حضور نے اجتماعی بیعت کی.اس تاریخی موقع پر الفارو ویت دہراتے ہوئے عجیب ربودگی طاری تھی.دعا بھی ایک خاص شان کی حامل تھی خشوع و خضوع اور درد و الحاج کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ روحیں آستانہ الہی سپر پانی کی طرح بہہ نکلی ہیں لیے ۵ اگست کو حضور نے گیارہ بجے قبل دو پہر احمد یہ مشن ہاڈکس اوسلو کی پریس کانفرنس انا لائبریری میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور جماعت احمدیہ کے اغراض و مقاصد عالمی سطح پر اس کی مذہبی اور فلاحی سرگرمیوں.نیز اسلام اور نوع انسانی کے مستقبل سے متعلق اخبار نویسوں کے سوالات کے نہایت تسلی بخش جواب دیئے.پریس کانفرنس میں گفتگو زیادہ تر انگریزی زبان میں ہوئی اور نارویجین زبان میں ترجمانی کے فرائض مکرم کمال یوسف صاحب اور نور احمد صاحب بولستاد نے انجام دیئے.اخبار نویسیوں نے ایک سوال یہ کیا کہ یورپ میں اب تک کتنے لوگ احمدی ہوئے ہیں.حضور نے فرمایا یہ صحیح ہے کہ دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں یورپ میں بہت کم لوگ احمدی ہوتے ہیں اور ابھی اُن کی تعداد چنداں قابل لحاظ نہیں ہے لیکن ہم اپنی حیات کا مدارہ تعداد پر نہیں رکھتے.بلکہ ایمان اور اخلاص پر رکھتے ہیں.ایسے صاحب ایمان مخلص و وفا شعار ه روزنامه الفضل ١٣ ستمبر ۱۹۸۳ء ص۴۳ م.

Page 536

۵۲۴ اور سراپا ایثار خواہ چند ہی ہوں وہ طاقت کا نہایت موثر ذریعہ ہوتے ہیں اور بالآخر غالب آ کہ رہتے ہیں.ایک سوال یہ ہوا کہ یورپ کے ملکوں نے تو ویلفیر سٹیٹ کی شکل میں اپنے عوام کی معاشی ضروریات پوری کرنے میں بہت کچھ کیا ہے.اسلامی معاشی نظام کی رو سے اس بارہ میں آپ کے کیا نظریات ہیں.اور اس میدان میں آپ کی جماعت کیا کہ رہی ہے ؟ حضور نے فرمایا ہر قوم کا معاشرتی ڈھانچہ ( SOCIAL SETUP ) اس کے معاشرتی فلسفه ( SOCIAL PHILOSOPHY ) پر..مینی ہوتا ہے.اسلام کا اپنا ایک معاشرتی فلسفہ ہے جس میں جسم اور روح دونوں کی ضروریات کو یکساں اہمیت دی گئی ہے اس کی تفصیلات بیان کرنے کے لئے کافی وقت درکار ہو گا.سردست میں ان تفصیلات کو چھوڑتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ویلفیر سٹیٹ کا نظر یہ جسمانی ضروریا تک محدود ہوتے ہوئے ہمہ گیر نہیں ہے.ہر چند کہ جماعت احمدیہ تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے تاہم اول تو یہ خالصہ ایک مذہبی جماعت ہے دوسرے کہیں بھی اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اسلام کی سوشل فلاسفی کو پوری جامعیت کے ساتھ نافذ کر سکے.اس لئے اس میدان میں اس کی کوششیں خدمت انسانیت تک محدود ہیں.ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے محدود وسائل کے مطابق لوگوں کی معاشی مشکلات اس رنگ میں دور کریں کہ اُن کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور انسانی شرف پر کوئی آنچ نہ آنے پائے.کیونکہ اسلام نے عزت نفس اور انسانی شرف پر بہت زور دیا ہے.ہم حتی المقدور خدمت کرتے وقت انسان، انسان میں کوئی تفریق نہیں کرتے.نامہ نگار نے سوال کیا کہ آپ کی نگاہ میں انسانیت کا مستقبل روشن ہے یا تاریک ؟ حضور نے فرمایا انسانیت کا مستقبل میرے نزدیک ایک حد تک تاریک اور بڑی حد تک تابناک ہے.تاریک ان معنوں میں ہے کہ انسانیت اپنے پیدا کرنے والے سے دُور ہو کر تباہی کے قریب جا پہنچی ہے.تباہی تو آٹے گی اور وہ ہوگی بھی بہت ہولناک لیکن انتہائی ہولناک تباہی کے باوجود انسانیت بچے کی ضرور مکمل تباہی کا شکار نہیں ہوگی.پریس کا نفرنس مسلسل ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی اور ساڑھے بارہ بجے کے بعد اختتام پذیر ہوئی.۵ اگست کو ساڑھے تین بجے بعد دو پر مسجد نور سے ملحق احمد بیشن ہاوس استقبالیہ تقریب میں حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا.جس میں

Page 537

۵۲۵ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نارویجین معززین کے علاوہ اوسلو کے میٹر محترم الیٹ نور نیگن ( ALBERE NOR DENGEN ) بھی شامل ہوئے حضور نے موصوف کو قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کا ایک نسخہ اور بعض دیگر متخالف ہے.معززین کے ساتھ بہت خوشگوار ماحول میں تبادلۂ خیالات کا دلچسپ سلسلہ ایک گھنٹہ سے زائد عرصہ تک جامہ کی رہا.الوداعی مصافحہ کے وقت اوسلو یو نیورسٹی کے دو نوجواں طلباء کی درخواست پر حضور نے ایک گھنٹہ تک حضرت مسیح علیہ اسلام کے واقعہ صلیب اور ان کی ہجرت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا نقطہ نظر پیش فرمایا.حضور کی گفتگو کے معا بعد یونیورسٹی کے دو طالب علم تیبانی تائید کا ایک خاص نشان مشن ہاؤس کے صحن میں ہی اپنے پادری سے لکھے گئے اور اسلام کی تائید میں اس کے ساتھ زور شور سے بحث کرنے لگے.دونوں طالب علم اتنے پُر جوش تھے کہ پادری صاحب گھبرا گئے اور اس خیال سے کہ یہاں اور لوگوں کو پتہ نہ لگ جائے.ان طالب علموں کو لے کر فورا مشن ہاؤس سے باہر نکلنا چاہا.لیکن وہ طالب علم چند قدم چین کم پھر پادری صاحب کو روک لیتے اور پھر ان سے بحث کرنے لگ جاتے.اس طرح سے بار بار بحث کر کے طالب علموں نے پادری صاحب کا ناطقہ بند کر دیا اور ان کو اپنی جان چھڑانی مشکل ہو گئی.سب دوست پیچسپی سے یہ منظر دیکھتے رہے.اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت کا یہ ایک خاص علمی نشان تھا جو حضور کے دورے کے آغاز میں نامردے کی سرزمین میں ظاہر ہٹو ایہ ر اگست ۱۹۸۶ء کو حضور نے مسجد نور میں نمازہ جمعہ پڑھائی.اس روز اوسلو ہی نہیں بلکہ ناروے کے دوسرے شہروں سے احباب مع مستورات بہت کثیر تعداد میں آئے ہوئے تھے.حضور نے درج ذیل آیات قرآنی تلاوت فرمائیں ار ذلِكُمُ اللهُ رَبِّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ؟ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلِ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُه قَدْ جَاءَ كُمْ بَصَائِرُ مِنْ تلخيص روزنامه الفضل ۱۵ ستمبر له ۳۰-۶-

Page 538

تبكُمْ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ : وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا انَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظ.(الانعام آیت ۱۰۳ تا ۱۰۵) وہ د تر جمہ ).یہ ہے تمہارا اللہ جو تمہارا رب (بھی) ہے.اُس کے سوا کوئی معبود نہیں.ہر ایک چیز کا پیدا کرنے والا ہے.پس اُس کی عبادت کہ د اور وہ ہر ایک (چیز) پر نگران ہے.نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں.لیکن وہ نظروں تک پہنچتا ہے اور وہ مہربانی کرنے والا اور حقیقت پر آگاہ ہے.تمہارے رب کی طرف سے بظاہر (دلائل) آچکے ہیں.پس جس نے انہیں جان لیا.اس کا یہ فعل ) اس کے اپنے (فائدہ کے) لئے ہوگا.اور میں نے کجروی اختیار کی داس کا یہ فعل ) اسی پر پڑے گا اور میں تمہارا ھی فط نہیں ہوں.اس کے بعد حضور نے ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حیرت انگیز تصریف آیات ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے جیسا کہ اُس نے اگلی ہی آیت میں فرمایا وكذلك نصرت الاذیت یعنی ہم اسی طرح آیات کو پھیر پھیر کر لاتے ہیں.اسلوب بیان کے اچانک بدلنے کو تصریف کہتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالی نے اسلوب بیان بدلا ہے اور یہ بے حکمت نہیں ہے.یہاں طبعا یہ الجھن پیدا ہوتی تھی کہ اتنے حسین قدرتی نظارے دیکھ کر بھی لوگ خدا تعالے سے کیوں غافل ہوتے ہیں اور اُس کے منکہ ہو بیٹھتے ہیں.بر خلاف اس کے صحراؤں اور ویرانوں میں رہنے والوں کو وہ کیسے نظر آ جاتا ہے.یہاں کے لوگوں کو دیکھ کہ یہ الجھن میرے دل میں بھی پیدا ہوئی.اور کی پریشان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سر زمین ریعنی ناروے کی سرزمین) کو قدرتی حسن سے مالا مال کرنے میں بڑی فیاضی سے کام لیا ہے.اس کے باوجود یہاں کے لوگ جنہیں سب سے زیادہ اس کا شکر گنہار ہونا چاہیے تھا خود اس کی مہنتی ہی کے منکر ہوئے بیٹھے ہیں.اور اس سے نافل ہیں.تعریف آیات کے طور پر یکدم اسلوب بیان بدل کو اللہ تعالی نے یہ الجھن دور کر دی.جب میری نظر اس سے اگلی آیت کی طرف گئی.جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لَا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَ اخرضْ عَنِ الْمُشْرِكين - تو تمام الجھنیں دور ہو گئیں.یہاں اللہ تعالی نے تصریف آیات A

Page 539

۵۲۷ کے ذریعہ یہ امر ذہن نشین کر آیا ہے کہ بصائر جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مہستی پر سختہ ایمان پیدا ہوتا ہے.انسانوں کو نبیوں کی وساطت سے عطا کئے جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مبعوث ہو کہ یہ اعلان فرمایا کہ کہیں بصیرتوں کا منبع اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر اتم بن کر تمہارے پاس آگیا ہوں.میں تمہارا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کروں گا.اور تمہارے لئے خدا کی مستی کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی.ان آیات میں خدا تعالی در اصل یہ تبتا رہا ہے کہ حسن قدرت کے ذریعہ شرک پیدا نہیں ہوتا.نبی آتا ہے اور خدا تعالیٰ سے انسانوں کا رشتہ جوڑتا ہے.جب وہ چلا جاتا ہے تو رفتہ رفتہ شرک پھر سر اٹھاتا ہے اور مناظر قدرت شرک کی جگہ لے لیتے ہیں.جب ان آیات کی طرف توجہ مبذول ہوئی تو سب اُلجھنیں دور ہو گئیں.نمازہ جمعہ کے معا بعد جماعت احمد یہ ناروے کی سب سے پہلی مجلس شوری پہلی مجلس شوری منعقد ہوئی جس میں جماعت احمد یہ ناروے اور اس کی ذیلی تنظیموں کی مجلس عاملہ کے اراکین اور دیگر صائب الرائے افراد نے شرکت کی حضور کی منظوری سے محترم صاحبزادی مرزا انس احمد صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد اور محترم چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس انصاله مرکزہ یہ نے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی ، محترم چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت ضلع شیخو پوره اور محترم محمود احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ نے انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی اور محترم صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ نے قدام الاحمدیہ کی نمائندگی کی.انجمن احمدیہ وقف جدید کی نمائندگی خود حضور نے فرمائی.محترم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے سیکرٹری مجلس شوری کے فرائض سرانجام دیئے یتقامی جماعت کے ایک صاحب نے لجنہ اماء اللہ ناروے کے نمائندہ کی حیثیت سے مجلس شورٹی میں شرکت کی.کارروائی کا آغا نہ تلاوت قرآن سے ہوا جو بشارت احمد صاحب صابر نے کی.بعد ازاں حضور نے دعا کرائی.پھر حضور انور نے اراکین شوری سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.جماعت احمدیہ ناروے کے لئے آج کا دن 4 اگست ۱۹۱۳ء بروز جمعہ المبارک ) ایک تاریخی دن ہے کیونکہ آج بفضل الله تعالیٰ اس کی پہلی مجلس شوری منعقد ہو رہی ہے.جب قو میں پھیلتی ہیں اور قومی و جماعتی کاموں میں وسعت پیدا ہوتی ہے تو شوری کے نظام کو بھی وسیع کہ نا ضروری ہوتا ہے.اب چونکہ جماعت

Page 540

۵۲۸ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریباً دنیا کے ہر ملک میں پھیل چکی ہے اور اس میں روز بروز وسعت پیدا ہو رہی ہے.اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مرکزی مجلس شوری کی طرز پر ملک میں بھی سال میں ایک بار شوری کا اجلاس ہوا کرے اور وہ اہم مقامی امور پر غور کر کے خلیفہ وقت کو مشورہ دیا کرے نیز ارشاد فرمایا.اب چونکہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں پھیل چکی ہے ور ایسے جاعتی مسائل پیدا ہو چکے ہیں جو عالمی نوعیت کے ہیں.اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ مختلف ملکوں کی جماعتوں کو شوری کی تربیت دی جائے.اگر انہیں شوری کی تربیت نہ دی گئی تو خطرہ ہے کہ کہیں بعض ملکوں کی سوچ غلط راہ پر نہ چلی جائے اور وہ ڈیمو کریسی (جمہوریت ) کو ہی شورائی نظام نہ سمجھ لیں.اس لئے کہیں آج تمام ملکوں میں شوری کا نظام رائج کرنے کا اعلان کرتا ہوں.شورٹی کے ضمن میں حضور نے فرمایا ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس میں خلیفہ وقت خود تو لمبی بات کہتا ہے.لیکن دوسروں کو لمبی بات نہ کرنے کا حکم دیتا ہے.خدا تعالیٰ نے فریقہ وقت کو بصیرت عطا کی ہوتی ہے اور چونکہ اراکین نے مشورہ اسے دنیا ہوتا ہے اس لئے وہ خداداد بصیرت کی وجہ سے مختصر اشارہ بھی سمجھ جاتا ہے.مشورہ کی پوری ماہیت اس پر از خود واضح ہو جاتی ہے.خلیفہ وقت خود اس لئے بھی لمبی بات کرتا ہے کہ اسے سب کو سمجھانا ہوتا ہے اور معاملہ کی اہمیت کے مختلف پہلووں کو سب کے ذہن نشین کرانا ہوتا ہے احباب کو مشورہ پیش کرتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھنا چاہیے.شور کی کے اراکین کی بحث کے اختتام پر فرمایا.یوں تو تربیت کے مختلف ذرائع پر احباب نے روشنی ڈالی ہے اور اس بارہ میں مشورے پیش کئے ہیں لیکن دعا کا کسی نے ذکر نہیں کیا حالانکہ دعا کے بغیر تربیت نہیں ہو سکتی.شوری کے اجلاس کے معا بعد حضور نے ناروے کی مجالس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجلاسات کی صدارت فرما کہ ان کی کارگزاری کا جائندہ لیا.مجلس ارشاد راحت حضور کے قیام اوسلو کا آخری دن تھا.اس روز ہونے اٹھے بجے سہ پر حضور مجلس ارشاد میں رونق افروز ہوئے اور احباب جماعت کو نہایت بصیرت افروز ارشادات سے نوازا.اور ایک گھنٹہ تک احباب کے سوالات کے جو ایتا دیئے.اس دوران حضور نے حضرت عیسی علیہ السّلام کی بن باپ ولادت میں پوشیدہ حکمت اور

Page 541

۵۲۹ نظام زکواۃ کی اہمیت پر روشنی ڈالی.در اگست ۱۹۴۷ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اوسلو سے گوٹن برگ روانگی تشریف لے گئے.سکینڈے نیو یا بریس میں چرچا خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت خلیفہ المسیح این الرابع کے اوسلو میں آٹھ روزہ قیام کا سکنڈے نیویا پریس میں غیر معمولی چیہ چاہوا.(۱) ملک کے ہفتہ وار وسیع الاشاعت اخبار روزنامه گوٹن برگ پوسٹن GOTEN BORG POSTEN نے ار اگست ۲ء کے شمارہ میں لکھا " سوموار کا دن گوٹن برگ میں احمدی مسلمانوں کے لئے ایک بہت اہم دن تھا کیونکہ اُس روز اُن کے روحانی پیشوا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے احباب جماعت سے ملاقات کی.آپ سفید پگڑی اور شیروانی میں ملبوس تھے.آپ نے اپنے پیرووں سے گلابی رنگ کی خوبصورت مسجد میں تو HOGS BOHOTO میں واقع ہے ملاقات کی خلیفہ بننے کے بعد یہ آپ کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے : " خلیفہ " کا مطلب ہے بانی جماعت احمدیہ کے جانستین.بانی سلسلہ احمدیہ اٹھارھویں صدی کے اواخر میں ہندوستان میں مبعوث ہوئے.خلیفہ ایسیح جو پاکستان سے تشریف لائے ہیں آجکل پورے یورپ کا دورہ فرما رہے ہیں.تا کہ قرآن کریم کی تعظیم کو دنیا بھر میں پھیلانے کی مہم کو تیز کر سکیں، پروگرام کے آخری مرحلہ میں آپ نے سپین میں نو تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح فرمانا ہے.یہ سب سے پہلی مسجد ہے جو دسپین کے شہر کے قریب ) سات سو سال سے زائد عرصہ کے بعد تعمیر کی گئی ہے.احمدی مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مسیح موعود دنیا میں آچکے ہیں اور وہی جماعت احمدیہ کے بانی تھے.احمدی مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دوسرے مسلمان ابھی تک مسیح موعود کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں.حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے بتایا کہ مسیح موعود لے انیسویں صدی چاہیے (ناقل)

Page 542

عین وقت پر دنیا میں تشریف لائے اور انہوں نے خطرناک عالمی جنگوں سے خبر دار کیا.ان میں سے دو نہایت خطرناک عالمی جنگیں لڑی جاچکی ہیں ).ر حضرت خلیفہ المسیح نے یہ بھی بیان کیا کہ گوٹن برگ میں جماعت احمدیہ زیادہ بڑی تعداد میں نہیں ہے مگر پھر بھی ایک سو پچاس افراد پرمشتمل ہے جن میں پاکستانی.سویڈش اور یوگوسلاوین افراد شامل ہیں.پوری دنیا میں اس جماعت کے افراد کی صحیح اور معین تعداد بتانا ممکن نہیں ہے کیونکہ ہر روزہ نئے افراد اس جماعت میں شامل ہو رہے ہیں ہے (ترجمہ) : (۲) - اخبارہ ایکچوالٹ ACTUELT) (۱۲ اگست ) کے المشبوع نے لکھا.خلیفہ المسیح بلاشبہ میرا اثر شخصیت کے مالک ہیں.یہی نہیں بلکہ آپ اسلامی فرقہ جماعت احمدیہ کے عالمی سربراہ بھی ہیں جس کے ممبران کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہے.حضرت مرزا طاہر احمد حال ہی میں مسیح موعود کے بعد چوتھے خلیفہ کی حیثیت سے منصب خلافت پر فائز ہوتے ہیں.آپ آجکل یورپ کے دورہ پر ہیں اور کل آپ نے کوپن ہیگن کو اپنی تشریف آوری سے عزبات سختی ہے.آپ نے کل وی ڈورے ( HVIDOVRE ) کی مسجد میں اسلامی فرقہ کے عقائد اور اس کے شن پر روشنی ڈالی.ڈنمارک میں اس جماعت کے ممبران کی تعداد ۲۰۰ ہے.ان میں سے اکثرو بیشتر پاکستانی ہیں.تاہم ڈمنیش باشندے بھی اس میں روز بروز شمولیت اختیار کر رہے ہیں......جماعت احمدیہ کے نزدیک قرآن مجید کی رو سے عورت کو وہی حقوق حاصل ہیں جو مرد کو حاصل ہیں.اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ عورت کو شادی کی کسی تجویز کو قبول کرتے یا مدد کرنے کا پورا پورا اختیار حاصل ہے.اسی طرح ہر یا وراثت کی شکل میں جو رقم یا جائیداد عورت کو ملے اسے اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے یا اپنے مصرف میں لانے کی بھی وہ پورے طور پر مجاز ہے (یعنی وہ گلی طور پر آزاد ہے کہ وہ جس طرح چاہے اسے خرچ کرے ).اس کے باوجود مرد کو عورت پر ایک گونہ نینتی فضیلت حاصل ہے.له بجواله روزنامه الفضل الى اكتوبر اء من

Page 543

۵۳۱ " ود دور " کی خوبصورت مسجد کے تمام اخراجات احمدی مستورات نے یہ داشت کئے تھے.انہوں نے اس کی تعمیر کے لئے خود رقوم بطور چندہ ادا کیں ہے.(۴) - اخبار" بی.ٹی “ نے اپنے ۱۳ اگست ۱۹۴۷ء کے شمارہ میں لکھا بر اس مقفتنہ اپنے سر براہ اعلیٰ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے جماعت احمدیہ نامی اسلامی فرقے کے پچیس تیس ہزار افراد ودوور میں واقع اپنی مسجد کی طرف کھنچے پہلے آئے.یہ سربراہ اہلی مسیح موعود کے چوتھے خلیفہ ہیں.آپ گذشتہ منگل سے مسجد کے پہلو میں پہلی اینٹوں سے تعمیر شدہ مکان میں مسجد کے امام صاحب کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں.امام مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن میں مقیم احمدی مسلمانوں کے امیر میں.خلیفہ المسیح سے روز روز ملاقات کا موقع نہیں ملا کرتا.خاص طور پر ایک ایسے شخص کو جو جماعت کا رکن نہ ہو یا بے دلی سے جماعت میں آشامل ہوا ہو لیکن گذشتہ شام تمہیں پندرہ منٹ کی ملاقات کا موقع ملا.اعلیٰ صلاحیتوں کی مالک اس پرکشش شخصیت کے ساتھ جسے قدرت نے مزاح کی جس سے بھی حصہ وافر عطا کیا ہے.ہماری ملاقات طول پکڑتی گئی اور پندرہ منٹ کی بجائے ۴۵ منٹ تک جاری رہی.فی الاصل تو یہ ملاقات مشن کے تہ خانہ میں ملاقات کے لئے مخصوص کمرے میں ہونا تھی اور بہت سے مقامی مسلمانوں نے خلیفہ مسیح کے ارشادات کو ریکارڈ کرنے کے لئے متعدد ٹیپ ریکارڈرز بھی وہاں لا جمع کئے تھے.لیکن خلیفہ اسیح نے اپنے قافلہ کے ۱۳ ممبران میں سے چند ممبران کی ہمراہی میں ایک لان رگھاس کے ایک قطعہ میں ) ملاقات کرنا پسند فرمایا.حضرت مرزا طاہر احمد کی عمر ۵۳ سال ہے.دو ماہ قبل بطور خلیفہ المسیح آپ کا انتخاب عمل میں آیا ہے.اس منصب پر آپ اپنی وفات تک فائز رہیں گے.آپ بانی سلسلہ احمدیہ کے پوتے ہیں.ایک کروڑ مسلمانوں کے سربراہ اعلیٰ کی حیثیت میں خلیفہ منتخب ہونے کے بعد یہ آپ کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے.روزنامه الفضل ۳۰ دسمبر له صلا ۲ - سه اصل تعداد چند ہزار ہوگی (ناقل )

Page 544

۵۳۲ آپ اوسلو اور گوٹن برگ میں مساجد کا دورہ کرنے کے بعد یہاں تشریف لائے ہیں.آج آپ یورپ کے جنوبی علاقوں کی مسجدوں کے دورہ پر روانہ ہو جائیں گے.آپ کا یہ دورہ ستمبر میں اٹلی اور سپین میں دو مسجدوں کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچے گا.دیاد رہے اٹلی میں مسجد کی تعمیر کے انتظامات بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے ہیں.سپین میں حضور نے مسجد کا افتتاح فرمانا تھا جو بفضل اللہ تعالی - ار ستمبر کو عمل میں آیا فالحمد للہ.ناقل ).خلیفہ مسیح کے ہمراہ آپ کی بیگم اور دو چھوٹی صاحبزادیاں بھی کوپن ہیگن آئی ہیں.آپ شاید میں بھی اپنی دو بڑی صاحبزادیوں کے ہمراہ یہاں تشریف لائے تھے.ان دونوں صاحبزادیوں کی اب شادی ہو چکی ہے.آپ اپنے خاندان کے ہمراہ ربوہ میں رہتے ہیں جو پاکستان کا ایک شہر ہے.یہ شہر جماعت احمدیہ کا مرکز ہے جوش ہی اء میں بھارت اور پاکستان کی تقسیم کے بعد ایک بنجر علاقہ میں تعمیر کیا گیا ہے.گفتگو کے دوران خلیفہ اسی نے فرمایا خلافت کا بوجھ بہت بھاری بوجھ ہے اور بہت عظیم ہے.یہ ذمہ داری.ہمارا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ اسلام کے دائرہ میں رہیں بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ دنیا کا ہر شخص اس میں داخل ہوتا کہ وہ آنے والی تباہی سے بچ سکے.اسلام تمام بنی نوع انسان کی آخری پناہ گاہ ہے.انہیں اس دین واحد پر جمع ہو جانا چاہیئے.خلیفہ اسیح نے بڑے فخر سے بتایا کہ اُن کی جماعت کا کوئی رکن بھی ناخواندہ نہیں ہے اور جماعت میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہے اور یہ کہ تعلیم حاصل کرنے میں عورتیں بھی مردوں سے پیچھے نہیں ہیں.آپ نے فرمایا میری اہلیہ کا لج میں زیر تعلیم رہی ہیں لیکن اس دوران ہماری شادی ہو گئی.اور وہ گھر اور بچوں کی دیکھ بھالی میں ہمہ وقت مصروف رہنے لگیں.جب سے میں خلیفہ بنا ہوں ان کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے.، اور ان پر بھی کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے.خلیفہ ایسیح نے بتایا کہ پاکستان میں واقع جماعت کے مرکزہ میں کام کرنے والے سٹاف کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے.وہ تین بجے صبح بیدار ہوتے ہیں.ساڑھے چار بجے وہ پہلی نماز دنماز فجر ادا کرتے ہیں ، گھنٹہ دو گھنٹہ کی نیند کے بعد وہ سات بجے پھر بیدار ہوتے ہیں.

Page 545

۵۳۳ روزانہ انہیں سات سو خطوط موصول ہوتے ہیں وہ سب خطوط کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کا جواب ارسال کیا جاتا ہے.اوقات کار کا سلسلہ نصف شب تک جاری رہتا ہے اور وہ ہفتہ کے ساتوں دن کام میں رہتے ہیں.(۵) مسیحی اخبار کرائسٹ لائٹ ڈیگ (۴) اگست ۹۸۳ اید) نے لکھا :- میسیج (علیہ السلام) صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.کوئی سچا نبی کبھی صلیب پر فوت نہیں ہو سکتا.مسیح علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے صلیب پر جان دینے سے محفوظ رکھا.زخموں کے مندمل ہونے پر جب آپ صحتیاب ہو گئے تو آپ نے بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی تلاش میں افغانستان اور کشمیر کی طرف ہجرت کی.بائبل کی رو سے آپ نے پیش گوئی کی تھی کہ آپ بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی طرف ہجرت کریں گے.اگر آپ ایسا نہ کرتے تو (نعوذ باللہ ) جھوٹے ثابت ہوتے.یہ ہے وہ عقیدہ جس کا اظہار گذشتہ جمعرات کے روز کوپن ہیگن کے علاقہ " وہ دور میں واقع ود مسجد نصرت جہاں میں اسلامی فرقہ احمدیہ کے نئے خلیفہ نے اپنے متبعین کے ایک اجتہان کے روبرو کمال سنجیدگی اور اعتماد کے ساتھ کیا.دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ کے سربراہ کے عہدہ پر نئے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد کا با ضابطہ تقریر ابھی حال ہی میں عمل میں آیا ہے.اس جماعت کے ممبران کی تعداد ایک کروڑ بتائی جاتی ہے.جماعت احمدیہ کی بنیاد آج سے ۹۰ سال قبل حضرت مرزا غلام احمد نے رکھی تھی.شملہ میں (حضرت) احمد نے دعوی کیا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ الهام یہ بتایا ہے کہ آپ وہی مسیح موعود اور مہدی ہیں جس نے احیائے اسلام کا فریضہ انجام دینا ہے اور جس کے آنے کی بشارت (حضرت) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دی تھی اور بائیل میں بھی مسیح کی آمد ثانی کی شکل میں جس کی پیش گوئی موجود ہے.اور مزید برآں ہندووں کی مذہبی کتب میں بھی جس کے ظہور کی خبر دی گئی ہے.نئے خلیفہ بانی سلسلہ احمدیہ کے پوتے ہیں اور ان کے چوتھے خلیفہ (یعنی جانشین) ہیں.آپ آجکل اپنی جماعت کے افراد سے ملنے کی غرض سے یورپ کے وسیع دورہ کے سلسلہ میں یہاں آئے ہوئے ہیں.اس دورہ میں آپ اٹلی میں ایک له الفضل ۱۳ اکتوبر ۹اء من

Page 546

۵۳۴ نی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے علاوہ سپین میں قرطبہ کے قریب ایک مسجد کا افتتاح کریں گے.جو حال ہی میں تعمیر کی گئی ہے.کوپن ہیگن میں اجتماع کے رو برونئے خلیفہ نے فرمایا.بہت سے ایسے قرائن ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح (علیہ السلام ) صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے مثلاً یہ کہ وہ صلیب پر صرف تین گھنٹے کے قریب رہے.ان کے جسم پر ایسا محلول کلا گیا جس میں زخموں کو مندمل کرنے والی ادویہ شامل تھیں.اس وقت ارض مقدس میں تدفین سے قبل مردہ جسموں پر ایسا محلول یا مریم ملنے کا کوئی رواج نہ تھا.پھر یہ کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کے پہلو میں نیزہ مارا گیا تو پانی اور خون اس سے بہہ نکلا.حالانکہ مردہ جسم سے پانی اور خون نہیں نکل سکتا.آپ نے مزید فرمایا اس تعلق میں بائیل میں جو کچھ لکھا ہے وہ غلط نہیں ہے بلکہ غلط توجیہات کی وجہ سے حقیقت کو کچھ اور ہی رنگ دے دیا گیا ہے.نئے خلیفہ ربوہ میں رہتے ہیں جو پاکستان میں واقع ہے.آپ نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ علیہ اسلام کی مانند خدا تعالیٰ کے نبی تھے.دونوں اپنے اپنے زمانہ میں نئی شریعت لے کر آئے تھے.دونوں کو شریعت کی حفاظت کے لئے دق کی جنگیں لڑنا پڑیں.عیسی علیہ السلام کی طرح د حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود کی حیثیت سے بوش ہوئے تھے.یعنی دین کو از سر نو زندہ کرنے والے کی حیثیت سے.جب مذہب زوال پذیر ہو جاتا ہے.تو خدا تعالیٰ مذہب کے از سر نو احیاء کی عرض سے ایسے وجودوں کو مبعوث کیا کرتا ہے سو احمدیت حقیقی اسلام ہی کو دنیا میں آشکار کرنے کی غرض سے آئی ہے.یہ حقیقی اسلام ہی تورع انسان کا خدا سے تعلق بحال کر کے دنیا کو تباہی سے بچائے گا.جماعت احمدیہ مسیح علیہ السّلام اور آپ کے ابتدائی پیرووں کی طرح اپنے مشن کی تکمیل کے لئے کبھی تشدد کا سہارا نہیں لے گی.قرآن میں میں جہاد کا ذکر ہے اس سے فی زمانہ روحانی جہاد مراد لیا جائے گا.حضرت مرزا طاہر احمد نے جو یہاں سے ہمبرگ جانے والے ہمیں مزید فرمایا جس طرح میں امیت صدیوں گمنام رہنے کے باوجود صداقت کے بل پر بالاخر فتحیاب ہوئی.اسی طرح احمدیت بھی

Page 547

۵۳۵ ضرور غالب آئے گی.انہوں نے کہا ایک مہذب قوم کی حیثیت سے اہل ڈنمارک کی خوبی اور تہذیب و انسانیت کے فروغ میں ان کے کردار کی اہمیت اس بات میں نہیں ہے کہ وہ احمرمت کو خاطر میں نہ لاکر اس کے خلاف تشدد روا نہیں رکھتے بلکہ ان کے کردار کی عظمت اس امر میں مضمر ہے کہ وہ اپنے دلوں کے دروازے کھول کو احمدیت کے پیغام کی طرف متوجہ ہوں ، اس پر غور کریں.اور قائل ہونے کی صورت ہیں اسے قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں لیے ( 4 ) - روزنامہ آر بیت ) ARBETET ) نے اپنی اور اگست ۱۹۱۲ء کی اشاعت - میں لکھا :- " گوٹن برگ میں خلیفہ المسیح کی تشریف آوری.پرسوں گوٹن برگ میں پاکستان سے خلیفہ السیح (حضرت) مرزا طاہر احمد تشریف لائے خلیفہ اسیح ہونے کی حیثیت میں آپ احمدی مسلمانوں کے مذہبی رہنما ہیں.آپ آجکل سارے یورپ کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ اپنی جماعت کے افراد سے ملاقات فرما سکیں.آپ نے مسجد ناصر ہیں پر یس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا میں اس سال جون میں خلیقہ منتخب ہوا ہوں اور اس حیثیت میں میرا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے.بعد ازاں میں سپین جاؤں گا جہاں ہماری جماعت نے ایک مسجد تعمیر کی ہے جس کا افتتاح ستمبر میں ہو گا.قبل اس کے میں سویڈن سے جاؤں مالکو میں اپنی جماعت کے ممبران سے بھی ملاقات کروں گا.وہاں جماعت کے پچیس افراد رہتے ہیں.احمدی مسلمان اسلام کا ایک فرقہ ہیں اور گوٹن برگ میں ان کی تعداد ایک سو پچاس افراد پرمشتمل ہے جن میں اکثریت پاکستانی اور یوگو سلاوین افراد کی ہے.مسجد ناصر سویڈن کی واحد مسجد ہے اس کا افتتاح 194 ء میں ہوا تھا خلیفہ المسیح مرزا طاہر احمد صاحب نے احمدی مسلمانوں کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.ہمارے اکثر کام کے بحوالہ روزنامه الفضل ۳۰ دسمبر ۲۱۹۸۲ ص۳۱ - ۳۸

Page 548

۵۳۶ تبلیغی نوعیت کے ہیں.تاہم اُن کے علاوہ ہم اسپتال اور سکول بھی قائم کرتے ہیں.ہماری جماعت کا آغانہ ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے اٹھارھویں رانیسویں صدی ہونا چاہیے ناقل ) کے اواخر میں ہوا.تمام دنیا میں ہمارے ممبران کی تعداد دس ملین (ایک کروڑ سے زائد ہے ، پاکستان میں احمدیوں کی تعداد ۳٫۵ (۳۵ لاکھ) کے لگ بھگ ہوگی.آپ نے اس امر کی وضاحت کی کہ تمام دوسرے مسلمانوں کی طرح ہم بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں.آپ نے واضح فرمایا ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے.حضرت مرزا طاہر احمد ترتیب کے لحاظ سے چوتھے خلیفہ ہیں.خلیفہ المسیح کا گوٹن برگ کا دورہ اپنے ممبران سے ملاقات کی شکل میں سوموار کی رات کو دبیہ تک جاری رہائیے مشن میڈیسن کی مطبوعات - ڈینیش ترجمه قرآن ، عبدالسلام صاحب بینایی).اسلام کی بنیادی تعلیم پمفلٹ (نارویجین) ۳- نماز مترجم (سویڈش) -۴- اسلامی تعلیم کا خاکہ درجناب نسیم سیفی صاحب کی کتاب کا سویڈش ایڈیشن ) سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (مصنفہ حضرت مصلح موعود ) - حقوق نسواں مصنفہ چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب ) - حرف انتباه (حضرت خلیفہ المسیح الثالث).(سویڈش اور ڈینیش ترجمہ ) ۸ - سیرت النبی (عبد السلام میڈسین ) 4 A له بحوالہ روزنامه الفضل اور اکتوبر ۹ مت کے.ایک پاکستانی اہل قلم " ڈنمارک میں السلام “ کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں :- یہ عبد السّلام میڈین ہیں جن کی راہنمائی اول اول کسی پرانے مسلمان نے نہیں کی بلکہ اسلام نے خود انہیں راستہ دکھا دیا ہے.اور آج یہ خود پرانے مسلمانوں کی یہ انتہائی کا فریضہ بھی انجام

Page 549

۵۳۷ اس کتاب پر ملک میں بہت تبصرے شائع ہوئے.چنانچہ عیسائیوں کے واحد روز نامہ KRICTELIQ BAG BLADOT نے اپنی ۲۷ مئی شاہ کی اشاعت میں بنیٹ آسٹر گارڈ ( BENT OSTER GARD ) کے قلم سے اس پر حسب ذیل تبصرہ چھپا بقیة حاشیہ صفحہ گذشتہ ) دے رہے ہیں.ایک اسکول میں استاد ہیں.جب ان سے قبول اسلام کا تذکرہ چھڑا تو کہنے لگے.میں نے جب یو نیورسٹی میں داخلہ لیا تو عربی کو بطور مضمون زبان لیا تھا یعربی رووور رود پڑھی تو قرآن کا مطالعہ بھی کیا اور پھر اس قدر متاثر ہوا کہ دائمہ اسلام میں داخل ہو گیا.جناب عبدالسلام میر سین نے قرآن پاک کا ترجمہ ڈینیش نہ بان میں پہلی مرتبہ کیا ہے.وہ یہاں کوپن ہیگن کی لیستی ر RAHDHOVER ) میں تعمیر کی گئی مسجد میں ہر ہفتے ڈینیش زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرتے ہیں.سننے والے ڈینیش مسلمان بھی ہوتے ہیں اور دوسرے مسلمان بھی.قرآن پاک کے ترجمہ کے علاوہ بھی انہوں نے اسلام پر کئی مختصر کتابیں لکھی ہیں محصور کی حیات طیبہ پڑھی تقریبا سو صفحات کی ایک کتاب لکھی ہے.آب وہ بچوں کے لئے اسلامی تعلیمات پر مینی مختصر کیا ہیں لکھ رہے ہیں ، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں اس کی ضرورت اور اہمیت پر یوں روشنی ڈالی.اس سلسلے میں دو باتیں پیش نظر ہیں.پہلی تو یہ کہ نئے ڈمنش مسلمانوں کے بچوں کو اسلام سے واقف کراتا ہے کیونکہ خود یہ نئے مسلمان فی الوقت نہ اتنا علم رکھتے ہیں اور نہ ہی اتنا وقت کہ اپنے بچوں کو اسلام کی صحیح تعلیم دے سکیں.دوسری بات یہ ہے کہ یہاں اور یورپ بھر کے اسکولوں میں عام معلومات کے طور پر اسلام کے بارے میں بچوںکو جو کچھ پڑھایا جاتاہے.وہ زیادہ ترگمراہ کن مواد تشتمل ہے.اس لئے اگر بچوں کو اس موضوع پر پڑھنے کی کچھ صحیح کتابیں مل جائیں تو مستقبل میں اسلام سے راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے لئے لکھا کچھ کہاں کام نہیں اوروہ بھی دن کے موضوع پر لیکن عبداسلام میدین چونکہ خود استاد یں اس سے توقع ہے کہ اس کام کبھی خوش سونی سے سرانجام دے لیں گے جناب عباس نام کوین میگن سے کافی دور ایک دو سر شہرمیں اقامت پذیر ہیں لیکن دین کی خدمت کا جذبہ انہیں ہر ہفتے باقاعدگی سے اتنی دور آنے پرمجبور کرتا ہے.وہ ہر ہفتے اپنے مقررہ وقت پر آتے ہیں اور حق کے متلاشی لوگوں کی پیاس بجھا کر جاتے ہیں نہیں نے چند بار ان محفلوں میں شرکت کی اور دیکھا کہ نشست کے دوران ان سے نئے نئے سوالات بھی کئے جاتے ہیں اور وہ خندہ پیشانی سے سہکے جوابات دیتے ہیں اللہ ان کی مدد فرمائے اور انہیں اس کا اجر عطا فرمائے " داخبارہ " جسارت " کراچی ۲۲ جنوری ۹۷۳ اید مث کالم )

Page 550

۵۳۸ اس ماہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر چار گنب پڑھی ہیں.ان میں سے ایک مشہور مصنف TORANDRU کی کتاب کا بھی مطالعہ کیا تا عبد السلام میڈیسن کی کتاب کا موازہ نہ کر سکوں.میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میڈیسین کی تصنیف بہت عمدہ ہے اور انہوں نے سنجیدگی سے مستند اور غیر مستند روایات میں تمیز کی ہے.(ترجمہ) ل بجواله روزنامه الفضل ۱۴ اپریل ۱۹۷

Page 551

تاریخ احمدیت جلد هشتادر فهرست قافلہ پاکستان برائے جلسہ سالانہ قادیان (۱۹۵۶) 1- بابو اللہ بخش صاحب ولد میاں غلام رسول صاحب را ولپنڈی.-- احمد دین صاحب ولد ماسٹر عبدالرحمن صاحب ہیڈ سٹور کیپر کھیوڑہ ضلع جہلم.-۳ اللہ رکھی صاحبہ بیوہ مولوی محمد عارف صاحب سرگودہا - ۴- ڈاکٹر امتیاز حسین صاحب ولد حافظ نذیر حسین صاحب پاکپتر، ضلع منٹگمری (حال ساہیوال).۵ - احمد دین صاحب ولد رحیم بخش صاحب بھاگووال ضلع سیالکوٹ.ہ اللہ وہ صاحب ولد میاں نظام الدین صاحب حراج خانیوال ضلع ملتان - اللہ بخش صاحب ولد چودھری ختم انہ صاحب دکاندار برتن فروش سیالکوٹ.۸ - احمد علی صاحب ولد جان محمد صاحب میا نوالہ ضلع سیالکوٹ.۹ - حاجی اللہ دتہ صاحب ولد حاجی احمد دین صاحب لالہ موسی ضلع گجرات ۱۰.ابراہیم صاحب ولد حاجی جان محمد صاحب مرحوم ننگل شا ہو ضلع سیالکوٹ.- شیخ اقبال دین صاحب ولد شیخ چراغ دین صاحب جنرل مرچنٹ بہاول نگر.۱۲- پیرانوار الدین صاحب ولد پیراکبر علی صاحب مرحوم مری روڈ راولپنڈی.☑

Page 552

۱۳ - اشرف علی صاحب ولد چودھری محمد بخش صاحب مرحوم مرالی والا ضلع گوجرانوالہ - بشیراں بیگم صاحبہ زوجہ مولوی تارج دین صاحب لائل پوری ربوه ۱۵- بشیر احمد صاحب مراد پوری ولد محمد علی صاحب چک نمبر ۹۶ گ ب لائل پور -14 -۱۶ برکت اللہ صاحب ولد مول بخش صاحب گھر ضلع گوجرانوالہ - ۱۷.چودھری بشیر احمد صاحب کا اٹھ گڑھی ولد عبدالرحیم خان صاحب سیکرٹری بھیرہ بیس سرگو دیا.- ملک بشارت احمد صاحب ولد ملک مولا بخش صاحب مرحوم دفتر آبادی به توه - A ۱۹ - حاجی بلند بخش صاحب ولد ودھاوا صاحب راؤ کے ضلع سیالکوٹ ۲۰- بشیر احمد صاحب قادیانی و لد امام دین صاحب احمد نگر نزد ده بوه ۲۱ - مولوی تاج دین صاحب لائل پوری ولد علی گوہر صاحب ربوہ.۲۲ - جمال یوسف صاحب ولد سیٹھ محمد سعید یوسف صاحب ربوہ.۲۳ - جمال الدین صاحب ولد غلام محمد صاحب چک سکندر ضلع گجرات - -۱-۴- جان محمد صاحب ولد چودھری رحمان صاحب رلیو کے ضلع سیالکوٹ.۲۵ - چراغ بی بی صاحبہ والدہ مولوی محمد صدیق صاحب لائبریرین ربوہ - -۲۶ حمیدہ بیگم صاحبہ زوجہ پیر شیر عالم صاحب گولیکی ضلع گجرات.۲۷- حمیده صابرہ صاحبہ بہت ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر مرحوم ربوده.-۲۸ سید حسین شاہ صاحب ولد سید فضل شاه صاحب مگھیا نہ جهنگ.۲۹- خیر الدین صاحب ولد ملک بڑھا صاحب را ہوالی ضلع کو حیرانوالہ - ۳۰ - حیات بیگم صاحبه زوجہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ربوہ.- حاجی خدا بخش صاحب ولد چودھری جیون صاحب میانوالی ضلع سیالکوٹ.-۳۲- حمید احمد صاحب ولد علم دین صاحب دوکاندار احمد نگر نزد ریوه - ۳۳ - خضر حیات صاحب نمبردار ولد امیر صاحب چک منگل ضلع سرگودہا - ۳۴ رضا محمود صاحب پسر ملک محمد رفیق صاحب ربوہ.۳۵ - منتری روشن دین صاحب ولد منتری محمد دین صاحب دیالگڑھی ربوہ.

Page 553

۳۷ ۳۶ - زینت بی بی صاحبه زوجه مستری چراغ الدین صاحب احمد نگر نزد ربوه - سردار رحمت اللہ صاحب ولد ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر ربوہ.رحیم بخش صاحب ولد چودھری مول داد صاحب چک چهور ۱۱۷ ضلع شیخو پوره - ۳۹ - زینب بی بی صاحبہ زوجہ شیخ مراد بخش صاحب مراد کلاتھ ہاؤس لائل پور م شیخ رحمت اللہ صاحب ولد شیخ جھنڈا صاحب مرحوم لائل پور - الم.دوست محمد صاحب ولد رائے اللہ یار صاحب ٹھیٹھ جوئیہ ضلع سرگودہا.۴۲ - زینت بی بی صاحبہ زوجہ پیر محمد صاحب مانگٹ اونچے مضلع گوجرانوالہ.۴۳ - رشید احمد صاحب ولد خدا نخش صاحب کوٹ مومن ضلع سرگودہا.۴۴ - رحمت اللہ صاحب ولد حاجی فضل محمد صاحب درویش چک ۶۶ ج ب لائل پور ۴۵.مسماة روڑی صاحبہ زوجہ علی بخش صاحب بد و طہی ضلع سیالکوٹ.م رحیم داد صاحب ولد محمد خاں صاحب ربوہ.۴۷ - رشید الدین صاحب ولد عزیز الدین صاحب کرونڈی ریاست خیر پور میرس.۴۸.سمیع اللہ صاحب ریاض ولد سراج الدین صاحب درویش دار الصدر ریوه - ۴۹ - سکینہ بیگم صاحبه زوجہ محمد ظہور خاں صاحب احمد نگر نز د ربوہ.سردار بیگم صاحبه زوجه شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام ربوه - A.- سید سردار حسین شاہ صاحب ولد سید عارف حسین شاہ صاحب ربوه - ۲ - سردار احمد صاحب نانبائی ولد علم دین صاحب دارالہ حمت ریوہ شیخاں بیگم صاحبہ زوجہ محمد بشیر صاحب صراف سیالکوٹ.۵۳ ۴ ۵ ملک شادی خان ولد امیر بخش صاحب مرحوم سیالکوٹ شہر.۵۵ - سلطان علی خاں صاحب ولد نعمت علی خاں صاحب چاہ بھاگو والہ ملتان شہر ۵۶ - سلطان احمد صاحب ولد چودھری نور علی صاحب مرحوم انسپکٹر بیت المال ربوده - ۵۷ - شریف احمد صاحب ولد میاں محمد مراد صاحب حافظ آباد ضلع گوجرانواله.۵۸ - سردار احمد صاحب دلد میاں چودھری غلام علی صاحب مرحوم چک ۴۰۰ ج ب لائل پور -

Page 554

* ۵۹ - ڈاکٹر سعید احمد صاحب ولد میاں فیروز الدین صاحب انچار ج سول ہسپتاں کھاریاں.4 - صادقہ خانم صاحبہ زوجہ ملک محمد رفیق صاحب دارالصدر ریوه - ۶۱ - صدیق احمد صاحب پسر عطا محی الدین صاحب جنڈا نوالہ ۱۹۵ لائل پور - ۶۲ صالحه در د بیگیر صاحبہ نینت مولانا عبد الرحیم صاحب درد مرحوم لاہور.۶۳.گیانی عباد اللہ صاحب مینجر روزنامه الفضل ربوه - ہم 4.چودھری عبدالحق صاحب ولد چودھری اللہ دتہ صاحب نواں کوٹ وے شیخو ۶۵.حافظ عبد السلام صاحب ولد میاں حیات علی صاحب مرحوم وکیل الا علی ربوہ.عبدالرشید صاحب انبالوی ولد با بو عبد الغنی صاحب مرحوم دار الرحمت ربوه - ۶۷ - مستری عبد المجید صاحب ولد منتری عبدالغفور صاحب درویش محله الف ربوہ - ۶۸ - عبد المجید خانصاحب ولد محمد ظہور خاں صاحب احمد نگر نزد ربوه - -- عبدالمنان صاحب ولد ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی دار الصدر غربي ربوہ.۷۰ عبد المجید خان صاحب آف و برو وال حال محله دار النصر ديوه - ۷۱.چودھری عطا ء اللہ صاحب دلد نبی بخش صاحب چک ۳۰ سرگود با ۷۲ - عنایت اللہ صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب فاروق کٹلری ورکس نظام آباد گوجرانوالہ - ہے.چودھری عبدالکریم صاحب کا ٹھگڑھی ولد عبدالعزنیہ خاں صاحب محلہ واٹر ورکس سیالکوٹ.۷۴ - ڈاکٹر عبدالکریم صاحب ولد مولابخش صاحب مرحوم چک ۹۷ گ ب لائل پور - ۷۵ - مولوی عبد العزیز صاحب بھا میٹری ولد چودھری عبد الکریم صاحب دارالصدر شرقی ربوہ.24 - عبدالرحمن صاحب زرگر و لدحاجی میاں محمد یوسف صاحب مرحوم پنڈی چیری ضلع شیخوپورہ ۷۷ - مرزا عبد الحق صاحب ولد قادر بخش صاحب مرحوم ایڈووکیٹ سرگودہا.ے.حکیم عبد العزیز صاحب ولد محمد اسماعیل صاحب چک چٹھہ ضلع گوجرانوالہ - 9 عبد الرحمن صاحب ولد خواجہ عبدالصمد صاحب پنساری گوجبہ خان ضلع راولپنڈی.عبد الخالق صاحب ولد عبد الماجد صاحب چک یا شمالی ضلع سر گو دیا.16 ۱- عبد الرحیم صاحب ولد حکیم محمد الدین صاحب کچہری بازار اوکاڑہ.

Page 555

عبداللطیف خانصاحب ولد چودھری جلال خاں صاحب محلہ کشمیری سیالکوٹ.۸۳ - ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کک ولد محمد بخش صاحب سول لائن گوجرانواله.۸۴ - عبد الرحمن صاحب ولد امام الدین صاحب مرحوم ڈسکہ ضلع سیالکوٹ.عبدالمالک صاحب ولد ما فظ احمد دین صاحب مرحوم چک سکندر ضلع گجرات.۸۶ - صوفی عبد الغفور صاحب ولد بابو غلام محمد صاحب مرحوم داؤ د خاص ضلع سیالکوٹ.۸۷ - عبد الحق صاحب ولد محمد جمال صاحب ساکن ترکڑی ضلع گوجرانوالہ - -۸۸ - عبد الغنی صاحب زرگر ولد اللہ رکھا صاحب پیر محل ضلع لائل پور - ۸۹ - شیخ عبد الواحد صاحب ولا منشی ننهو شاہ صاحب دھرم پورہ لاہور.۹۰ - مولوی عزیز الرحمن صاحب ولد غلام محمد صاحب چک منگلا ضلع سرگودہا - ۹۱ - عبد الرحمن صاحب ولد محمد مقیم صاحب باندھی نواب شاہ سندھ ۹۲- علی احمد صاحب ولد چودھری علی محمد صاحب مرحوم چک ۲۹۷ ج ب لائل پور.۹۳ - نور احمد صاحب ولد نبی بخش صاحب دفتری خزانه صدر انجمن احمدیه ربوه.۹۴ منتری عبدالرحمن صاحب ولد علیم اللہ صاحب مرحوم حافظ آباد گوجها توالد - ۹۵ - علی احمد صاحب ولد رحیم بخش صاحب ٹھیکیدار لکڑی رہوہ.۹۶ - قاضی عبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ دوالمیال ضلع جہلم.۹۷ - عبد القادر خاں صاحب ولد عبد العزیز خاں صاحب ڈی سی آفس بہاولنگر.۹۸ - عبد العلی صاحب ولد غلام نبی صاحب دھرم پورہ لاہور.۹۹ - مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر امیر جماعت ہائے احمد یہ ڈیرہ غاز بیجاں.۱۰.حافظ عنایت اللہ صاحب شبنم ولد اللہ رحم صاحب پیرس روڈ سیالکوٹ.۱۰- قربنشی عبد القادر صاحب ولد غلام قادر صاحب ڈیسنٹ کلاتھ ہاؤس اوکاڑہ.۱۰۲- عبدالغنی صاحب ولد چودھری لال دین صاحب پٹواری مال ڈوگری گھمنتاں سیالکوٹ.۱۰۳- چودھری عنایت اللہ صاحب ولد چودھری ثناء اللہ صاحب بہلول پورسیالکوٹ.۱۰۴- عطا محمد صاحب ولد منشی اللہ دتہ صاحب جاکے چیمہ ضلع سیالکوٹ.

Page 556

۱۰۵- بابو غلام حسین صاحب اور سیر مینجر نصرت سرویس کمپنی ربوه.غلام رسول صاحب ولد عبد الرزاق صاحب ٹھیکیدار ربوه - ۱۰۷- غلام فاطمه صاحبه زوجه احمد دین صاحب مرحوم سمیٹریال ضلع سیالکوٹ.۱۰- مولوی غلام باری صاحب سیف ولد حکیم چراغ الدین صاحب کوارٹر تحریک جدید رہوہ.۱۰۹.غلام احمد صاحب و له که م سخنش صاحب گلٹر ضلع گوجرانوالہ - ۱۱۰- غلام محمد صاحب ٹیچر ولد محمد بوٹا صاحب مرحوم محلہ صرافاں شاہدرہ.غلام رسول صاحب ولد شیر محمد صاحب مرحوم با نور ابگر بیچول فارم ملتان - ۱۱۲- چودھری غلام احمد خاں صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ پاکپتن ضلع منٹگمری.۱۹۳ - مولوی غلام احمد صاحب فرغ مرتی سلسلہ احمدیہ سکھر.غلام محمد صاحب ولد چودھری نبی بخش صاحب علی پور چک یا ضلع لاہور.۱۱۵- چودھری غلام محمد صاحب ولد چودھری ولایت خان صاحب پو ہا مہاراں ضلع سیالکوٹ.۱۱۶.غلام احمد صاحب ولد اللہ دتہ صاحب کلاتھ مرچنٹ بدوملہی سیالکوٹ.-114 ۱۱۷ - سیده فاطمه بانو صاحبہ زوجہ محمد یحی خانصاحب مرحوم دار الصدر دیوه ۱۱۸- میاں فضل الہی صاحب ولد عبد العزيز صاحب خانیوال ضلع ملتان.١١٩- كريم في في صاحيه والدہ مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری ربوہ.۱۲۰ - فضل حسین صاحب ولد اللہ جو ایا صاحب چھپور کو ملی ضلع سیالکوٹ.۱۲۱ - قائم الدین صاحب ولد اللہ وسایا صاحب ریلوے کوارٹرز قصور.۱۲۲ - سید فیاض حیدر صاحب ولد سید نذیر حید ر صاحب سیالکوٹ شہر.۱۲۳ - فیروز الدین صاحب ولد فقیر محمد صاحب انسپیکٹر تحریک جدید وکیل المال ربوہ.۱۲۴- فضل الدین صاحب ولد عمر دین صاحب منڈی چوہڑ کا نہ - ۱۲۵ - فتح محمد صاحب ولد عمر الدین صاحب مرحوم را سم گڑھ لاہور.فضل کریم صاحب ولد چودھری عمرالدین صاحب ٹیلر مسجد احمدیه لامل پور - ۱۲۷- قمر الدین صاحب ولد جیون خان صاحب گوٹھ قمر الدین مورد سندھ ؟

Page 557

۱۲ - شیخ فضل الرحمن صاحب پراچہ ولد میاں محمد امین صاحب سرگود ہے.۱۲۹.لطیف احمد صاحب ولد محمد حسین صاحب درویش دار الرحمت غربی ربوه - ۱۳۰- مسماۃ لال پری صاحبہ والدہ شیر احمد خان صاحب افغان در رویش ریوه.۱۳۱- لال دین صاحب ولد علی بخش صاحب مرحوم بدو لہی سیالکوٹ.۱۳۲ - سید محمد اقبال حسین شاہ صاحب بی اے بی ٹی طارق منزل دار الصدر ریوه.۱۳۳ - مستری محمد اسمعیل صاحب ولد متری نواب دین صاحب دارالصدر ربوه ۱۲- شیخ محمد عمر و بهره صاحب ولد شیخ فضل کریم صاحب و مہرہ کراچی حال ربوہ - - شیخ محمد اسمعیل صاحب ولد میاں شاہ دین صاحب لالہ موسیٰ گجرات.۱۳۶.محمد سلیم صاحب ولد ملک محمد ابراہیم صاحب لالہ موسیٰ گجرات.۱۳۷- محمد عیسی ظفر صاحب ولد چودھری محمد یوسف صاحب احمد نگه نزد ربوه.۱۳۸ مورد و و احمد صاحب ولد نواب زاده مسعود احمد خاں صاحب دار الصدر ربوہ.۱۳۹ - نذیر بیگم صاحبہ بنت فضل الدین صاحب مرحوم ربوہ - ۱۴۷۰- سنتری ناظر دین صاحب ولد جھنڈا صاحب مرحوم احمد نگر نزد ریوه - ال۱۴ - نواب دین صاحب ولد عبد اللہ صاحب ٹرنک ساز چنیوٹ.۱۴۴ نذیر احمد صاحب ولد حبیب اللہ صاحب بزاز لاہور.۱۴۳- نصیر احمد بشیر صاحب ولد چودھری بشیر احمد صاحب لیکچرار تھا تعلیم الاسلام کا لج ربوہ.ہم ۱۴ - چودھری عبد القادر صاحب ولد چودھری مکھی صاحب مرحوم مانی شمال ضلع ملتان.۱۴۵ - نثار احمد صاحب ولد قریشی فقیر محمد صاحب مرحوم کو ٹھی موراں والی ڈسکہ.۱۴۶ نور الحق صاحب بٹ ولد خواجہ عبدالحق صاحب دکان دار گوجرہ لائل پور - ۱۴۷- محمد ابراہیم صاحب ناصر لیکچرار تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ۱۴۸- صوفی محمد ابراہیم صاحب ولد بالو عطاء اللہ صاحب مرحوم سابق ہیڈ ماسٹر ربوہ.۱۴۹ - محمد عبد اللہ صاحب ولد عمر الدین صاحب مرحوم حجام ربوہ - ۱۵۰- سید مسعود احمد صاحب ولد حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم ربوه -

Page 558

۱۵۱ - محمد ابراہیم صاحب شاد ولد اللہ دتہ صاحب ٹیچر چک چہور ۱۱ ضلع شیخو پورہ - ۱۵۲ - مرزا محمد صادق صاحب ولد مرزا حسین بیگ صاحب گوشجره حال ریوه - -۱۵۳- قریشی محمد صادق صاحب ولد امام الدین صاحب.-۱۵۴ شیخ محمد عبد اللہ صاحب ولد ڈاکٹر شیخ محمد یوسف صاحب با گو را درکس وزیر آباد.۱۵۵- محمد ابراہیم صاحب ولد ھیگو المعروف علم دین صاحب وزیر آباد - ۱۵۶- محمد احمد حامی صاحب ایم ایس سی مینجر استدار فروٹ پراڈکٹس ربوہ.۱۵۷- محمد الحق خلیل صاحب ولد ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل ربوه ۱۵۸- محمد یا مین صاحب ولد محمد اسمعیل صاحب کلرک دارالرحمت وسطی ربوه - ۱۵۹ - چودھری محمد شفیع صاحب ولد محمد اسمعیل صاحب کلرک ڈی سی آفس گوجرانوالہ.۱۶۰ - محمد عبد الله صاحب ولد خیر الدین صاحب مسجد احمدیہ گوجرانوالہ - مبارک احمد صاحب ولد شیخ عنایت اللہ صاحب دوکاندار محلہ اسلام آبا د سیالکوٹ.-141 ۱۶۳- محمد علی طاہر صاحب ولد حکیم مہر دین صاحب ملازم محکمہ بجلی لائل پور - محمد نصیر باجوہ صاحب ولد حیات محمد صاحب مرحوم انسپکٹر تحریک جدید ر بوه - م - محمد اسلم صاحب ولد فیض احمد صاحب قصاب پوتا با با صدرالدین صاحب درویش گولبازار ربوه - ۱۲۵- منیر الدین صاحب والد میاں قمر الدین صاحب مرحوم گوجرانوالہ مال ربوہ.۱۶۶- شیخ محمد الدین صاحب ولد شیخ قطب الدین صاحب مرحوم گوجرانوالہ حال ربوه -194 ۱۶۷ - محمد عطاء ربی صاحب ولد فضل احمد صاحب گول بھوانہ بازار لائل پور - ۱۶۸ - محمد بشیر صاحب ولد میاں اللہ دتہ صاحب صراف سیالکوٹ.۱۶۹ - قریشی محمد سعید صاحب ولد قریشی محمد حنیف صاحب ریوه ۱۷۰ - محمد عمر صاحب سندھی شاہد بی اے آنرز ریوہ.۱۷۱- محمد عبد اللہ صاحب ولد صالح محمد صاحب چک منگلا ضلع سرگو دہلے.۱۷۲ محمد صادق صاحب ولد چودهری نوکر محمد صاحب چک پیشی شیل اوکاڑہ.۱۷۳.ڈاکٹر محمد حفیظ خاں صاحب ولد ڈاکٹر حبیب اللہ خاں صاحب مغل پورہ لاہور.-14H •

Page 559

۱۷۴- محمود احمد صاحب ولد محمد حسین صاحب قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ.۱۷ منشی محکم دین صاحب ولد وریام خاں صاحب باڈہ ضلع لاڑکانہ سندھ.۱۷۶- محمد حسین صاحب ولد میران بخش صاحب مرحوم صراف ڈسکہ سیالکوٹ.۱۷۷- ملک محمد شفیع صاحب ولد ملک خدا بخش صاحب مرحوم ریل با زار لائل پور - ۱۷۸ - محمد عیسی صاحب ولد ماہی صاحب مرحوم راجہ جنگ لاہور.۱۷۹.محمد صدیق صاحب ولد حبیب الله زرگر صاحب پیر محل لائل پور - ۱۸۰ - منظور احمد صاحب ولد احمد دین صاحب دانہ زید کا ضلع سیالکوٹ.۱۸۱- محمد فیروز صاحب ولد نور محمد صاحب درزی مانگٹ اونچے گوجرانوالہ.شیخ محمد شریف صاحب ولد نبی بخش صاحب نمک ڈیلر بدوملہی سیالکوٹ.۱۸۳- عبد الحلیم صاحب ولد چودھری مراد علی صاحب انگلش ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکوں جہلم - ۱۸۴- محمد صدیق صاحب ولد میاں کرم الہی صاحب پریذیڈنٹ دھرم پورہ لاہور.۱۸۵ - محمد رشید صاحب ولد محمد صاحب مرحوم چک ۳۶۶.آئی بی ضلع ملتان.۱۸۶ به محمد رفیق صاحب ولد میاں کرم الہی صاحب پریزیڈنٹ دھرم پور لاہور.۱۸۷ - منور احمد صاحب ولد مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی درویش دھرم پورہ - ۱۸- ایم عبد الرحمن صاحب ولد میاں محمد بخش صاحب ڈیرہ نماز میخاں.۱۸۹ - محمد حسین صاحب ولد امام الدین صاحب محلہ اراضی یعقوب سیالکوٹ.۱۹۰ - ملک محمد عاشق صاحب ولد ملک محمد شریف صاحب بھینی شر قبور شیخو پوره - ۱۹۱ - محمد یعقوب صاحب ولد ابراہیم صاحب اندرون بوٹرگیٹ ملتان.۱۹۲ - مولوی محمد احمد صاحب جلبیل ولد مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم ریوه - ۱۹۳- شیخ محمد اقبال صاحب پراچہ ولد میاں محمد امین صاحب پراچہ مینجر یونائٹیڈ ٹرانسپورٹ سر گو وہا.۱۹۴- میاں نواب دین صاحب ولد فوج دار خاں صاحب کچا گولبازار ربوہ.-۱۹ مستری نور محمد صاحب ولد گلاب دین صاحب مرحوم مغل پورہ لاہور.

Page 560

۱۹۶- نذیر احمد صاحب ولد محمد عالم صاحب مرحوم منڈی بہاؤالدین گجرات ۱۹۷ - دین محمد صاحب ولد امیر بخش صاحب عینو والی سیالکوٹ.۱۹ - زینب بیگم صاحبہ بیوہ ڈاکٹر غلام علی صاحب مرحوم زراعتی کالج لائل پور.۱۹۹ - مرزا واحد حسین صاحب ولد مرزا حسین بیگ صاحب را ہوالی ضلع گوستیرانوالہ - ۲۰۰ - بابو محمد بخش صاحب ولد چودھری فضل دین صاحب مرحوم دار النصر ربوه - زائد ا.مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعتہ المبشرين ربوه - - عطاء الكريم صاحب شابک پسر مولانا ابو العطاء صاحب ربوہ.- سردار بشیر احمد صاحب ایس ڈی او لا ہوں.-۴- چودھری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ ربوہ.۵ - صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ر بوها - ه روز نامه الفضل ربوه مورخه ۲۱ ستمبر ۱۹۵۶ء صفحه ۵ تا ۸ : i

Page 561

پاکستان فورم آف لائبیریا کے انتخابات کے سلسلہ میں اخبار لائبیرین سٹالہ کی خبر کا متن PAKISTANI FORUM ELECTS OFFICERS The Pakistan Forum of Liberia has elected officers for the year 1974-75.They are Mr.Ch.Rashid-Ud-din, president; Mr.Raffique Ahmed Butt, secretary-general, re-elect; Mr.Sh.Z.M.Shakeel, treasurer; and Mr.Idrees Ahmed Bashir.The new officers pledged to continue the good works of their predecessors in maintaining the existing relationship between the Forum and Liberia.They also assured that they would work cooperatively toward the upliftment of the Forum and continue to participate in worthy programmes in the Forum's contribution toward the social and economic progress of Liberia.The Forum was formed through the inspiration of the Pakistan Ambassador to Liberia and Ghana, His Excellency S.A.Moid in 1973.His motive was to bring all Pakistani residents in Liberia under one umbrella to contribute their quota toward the social economic development of their country of residence.It is a non-political and non-profit making organization whose objectives are to create mutual understanding, friendship and unity between Pakistani residents here and the people of Liberia, With this new line-up of hardworking gentlemen as its officers, it is hoped the Forum will intensify its untiring contributions toward worthy causes:

Page 562

IF پاکستانی سفیر جناب ایس اے معید کے خطوط :- EMBASSY OF PAKISTAN P.O BOX 1114 ACCRA 9th December 1974 No.Amb-28/74 Mr.Rashiduddin, President, Pakistan Forum of Liberia, P.O.Box 618, Monrovia (Liberia) SUB:- PUBLICITY ON THE OCCASION OF “THREE YEARS OF PEOPLE'S RULE” Dear Sir, I thank you for your letter of 24th October and for youT thoughtfulness to keep me informed of the progress of Forum's activities.It is indeed gratifying to learn of the succes of the meeting you organised on 20th October and I have every hope that all Pakistan nationals will continue to emulate the lead given by you in supporting the Forum not only for propogating the right image of Pakistan but also for better understanding of the local people for the people of Pakistan.I have separately informed you of my plans to visit Monrovia from January 2 to 5 next.I am writing this to say that this month the People's Regime is completing three years of democratic rule in Pakistan.On this occasion we should try to project the achievements of the People's Rule.I am therefore, enclosing an article on "Minorities in Pakistan" which you may kindly try to be covered in one of your local dailies within this month.As and when the article may appear, please let us have 15 copies of the newspaper.Thanking you, Yours faithfully, Sd/- (S.A.MOID) AMBASSADOR

Page 563

REGISTERED BY AIR MAIL EMBASSY OF PAKISTAN P.O.BOX 1114 ACCRA September 4, 1975 No.Amb-13/75 My dear Choudhry Rashid Sahib, This is to acknowledge with thanks the receipt of two packets of the Liberian Star of August 16 & 18, 1975 containing the articles on Pakistan giving an adequate coverage to the function held to celebrate the twenty eight anniversary of the Independance Day on August 14, 1975.We very much appreciate your efforts in mobilising the press and hope that you will continue the good job you are doing for Pakistan.2.The Ambassador of Pakistan His Excellency Mr.S.A.H.Ahsani, will be arriving Monrovia from Freetown by Nigeria Airways Flight at 1345 hours (1.45 p.m.) on September 22, 1975.I am taking this opportunity to inform you about his programme of visit and hope that you will make appropriate arrangements for His Excell- ency's reception, Hotel reservation at Monrovia and make his stay as confortable as possible.His Excellency Mr.Ahsani will be staying at Monrovia for a week and is scheduled to leave for Accra on the 4th October, 1975 by Nigeria Airways Flight at 1455 (2.55 p.m.).Our letter of even number dated September 3, 1975 may be replaced by this letter.With best wishes and kind regards, Mr.Ch.Rashiduddin, President, Pakistan Forum of Liberia, P.O.Box 618, MONROVIA (LIBERIA).Yours sincerely, Sd/- (S.Hyderul Hason) First Secretary.

Page 564

جلسه سالانه ریوه ۱۹۵۵ ء کے روح پرور مناظر متعلقہ صفورس) ا.سیدنا حضرت مصلح موعود فتاحی خطی سے قبل السید محمد سلم الجابی الشامی تلاوت کر رہے ہیں)

Page 565

ر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کی زیر صدارت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تقریر فرمارہے ہیں.(۲۷ دسمبر اجلاس اول )

Page 566

۳ - خالد احمدیت ملک عبد الرحمن صاحب خادم گجراتی تقریر فرما ر ہے ہیں.زیر عنوان" عقائد احمدیت پر اعتراضات اور اس کا جواب ۲۷ دسمبر اجلاس ادل)

Page 567

Page 568

حضرت اقدس سید نا حضرت مسیح موعود کا ایک یادگار فوٹور متعلقہ صفر ۱۱۹۸ کھڑے دائیں سے بائیں: ۱-۲۹ - حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مدیر الحکم ۳۰-۲۹ حضرت چوہدری مول بخش صاحب سیا سکوٹی (والد ڈاکٹر ۹ ۶ شاہنوا نہ خان صاحب، ۵-۲-۲ - حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر - مینجر بدر - کہ رسیوں پر دائیں سے بائیں :-1- حضرت منشی عبدالعزیز صاحب دہلوی مصنف مرزا حیرت کی حیرانی.۲.حضرت ڈاکٹر محمد اکھیل صاحب گوڈیائی.۳.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام - - - ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ۵۰ حضرت مرزا نیا ز بیگ حنا کا نوری (والد ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب) -: نیچے فرش پر -- -۱-۹-۲ - حضرت چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر مدار ضلع جالندھر.۳.حضرت منشی محمد اردو سے خاں صاحب کپور تھلوی.-۴- حضرت منشی کردم علی صاحب کا تب - ۵ - چوہدری فضل دین صاحب

Page 569

معتکفین بریتے مُبارک قادیان ۲۰۰ مئی ۱۹۵۵ء متعلقه صفحه ۲۸۲) کھڑے ردائیں سے بائیں ) - 1 - جناب محمد احمد صاحب نسیم مال باری در دویش قادیان - ۲ - حضرت حاجی محمد الدین مناسبت تهالدی در ویش قادیان - ۳ - خالد احمدیت حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری امیر المعتکفین ۴۰ - جناب ۳-۱ - صدیق امیر علی صاحب منگلوری - ۵ - یونس احمد صاحب سلم قریشی واقف زندگی رابن ماسٹر محمد شفیع صابا تسلم محرم امیر المجاهد یرضی ) درویش قادیان بیٹھے ہوئے (دائیں سے بائیں) 1 - مولوی فضل الدین صاحب بنگوتی مرحوم - ۲ - مکرم محمد علوی صاحب مالاباری قادیان - بابا جان محمد صاحب سیالکوئی درویش قادیان.

Page 570

قصر خلافت ربوہ میں ایک مبارک تقریب متعلقہ صفحہ ۳۱) حضرت مصلح موعود کے بائیں طرف حضرت سید زین العابد بیضے ولی اللہ شاہ صاحب تقریر کر رہے ہیں حضور کے دائیں جانب.۱.مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعہ احمد و مدير الفرقان ۳۲۰۲۰ - صاحبزاده مرندا مبارک احمد صاحب وکیل النبشه

Page 571

بية الفضل لندن میں نمازہ کا ایک نظارہ (متعلقہ صفحہ ۳۱۲) ۱ - ۹ - ۲ مولوی مبارک احمد صاحب ساقی ۲۰ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر ضد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ ہم مولوی عبد الرحمن صاحب واقف زندگی منڈی ، ما میسید محمود حمد صاحب نا مرد خلف حضرت سید میر محمد الحق صاحب ، ۶ تا ۹؟

Page 572

مسٹری ر ان کے نے مین صد ر ا تیلیہ یا اور حصہ سے خلیفہ اسیح الثالث ( متعلق )

Page 573

گورنمنٹ ہاؤس منرویا دائیں سے بائیں : -1- صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ۲ - ٹب میں صدر لائیبیریا --- چونڈی ظهور احمد صاحب باجوہ سابق امام بیت الفضل لنڈن - ۴.حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ ۵ - چوہدری محمد علی صاحب مضطر ایم.اسے سباق پر وفیہ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ.

Page 574

جامعتہ المبشرين ربوہ میں ایک اہم استقبالیہ تقریبے ( متعلقہ صفحہ ۳۸۴) د نیچے دائیں سے بائیں ) مسٹر محمد یعقوب صاحب آف ٹرینیڈاڈ مرحوم مبلغ ٹرینیڈاڈ) ۲- عبدالعزیز جمن بخش صاحب آف ڈر گیا نا مبلغ ڈرچ گیا نا )۱۳ - شیخ عمری عبیدی صاحب مرحوم ومبلغ ٹانگانیکا، ہم میسٹر علی صالح منا ئیو را - مولوی یوسف عثمان صاحب کبوں یا - - - مولوی محمد عثمان صاحب چینی مبلغ سنگا پور ،.مولوی معبد الوہاب بن آدم صاحب (امیر و مشنری انچارج فانا.کرسیوں پر دائیں سے بائیں : حضرت ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسله احمدیه ۲۰- مولوی محمد شریف صاحب سابق مبلغ بلاد عربیه - ۳ - حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ۴۰۰ حضرت مصلح موعود.۵- میارت عبدالرحیم احمد صاحب (وکیل التعليم - مولانا ابو العطاء صاحب پرنسپل جامعتہ المبشرین ، مولوی محمد احمد صاحب جلیل پروفیسر جامعه المبشرین (حال ناظم دار القضاء) دپیچھے پہلی قطار میں کھڑے.دائیں سے بائیں.صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب (ابن حضرت مصلح موعود ) مرحوم - ۲- مولوی محمد عمر ضا سندھی سر شیخ اشتیاق علی صاحب لاہور - ۴ - مرزنه الطف الرحمان صاحب النور ومبلغ جرمنی لوگو لینڈ - نانا ( ۵۰ - عبد الرشید شریف صاحب ابن مولوی محمد شریف صاحب رحالی ڈپٹی سیکرٹری نائنینس پنجاب - حضرت مولوی عطا محمد صاحب مرحوم استاذ الجامعه.- - ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ریاض مرحوم - - مولوی

Page 575

محمد احمد صاحب تاتب استاذ الجامعه -۹ - مولوی ابو المنير نورالحق صاحب استاذ الجامعه - ۱۰ - مولوی غلام بادری افنان سیف استاذ الجامعة - 14 - مولوی حکیم محمد اسمعیل هنگ مرحوم استاذ الجامعه - ۱۲ - قریشی مقبول احمد هنا ر سابق مبلغ لنڈن و ایوری کوسٹ ۱۳ - مولوی سلطان محمود صاحب انور ایمان ناظر اصلاح و ارشاد ) - ۱۴ حضرت چویڈی فتح محمد صاحب سیال ایم کے سابق بانی احدید یشین انگلستان و ناظر اعلی ۱۵ کیپٹن محمد حسین صاحب جیمیه محافظ خاص حضرت مصلح موعود حال لنڈن ) ردوسری قطام) ۱ - چوہدری عبد الرحیم صاحب میراد را کبر مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت را بریری ربوه - ۲ - مولوی مقبول حسین صاحب ضیاء مربی سلسلہ احمدیہ -۳ - خان بشیر احمد خان صاحب رفیق در سابق امام بيد الفضل لنڈن حال ایڈیشنل وکیل التصنيف لنڈن ہم مولوی بشیر احمد صاحب شمس در سابق مبلغ نائیجیریا - جوین ).۵ - مولوی محمد شرف ممتاز صاحب رحالی مربی سلسلہ فیصل آباد) - آغا سیف اللہ صاحب مربی سلسله دمای مینجر روز نام الفضل رتبوه ، مولوی بشیر احمد صاحب قمر سابق مبلغ غانا - مولوی احمد صادق صاحب بنگانی امربی سلسله بنگلا دیش) ۹ - مولوی منیر الدین احمد صاحب (سابق مبلغ کیفیا، مشرقی افریقہ سویڈن ) ۱۰.ملک غلام نبی صاحب (سابق مبلغ سیرالیون - فانا ۱۱- مولوی عبد الرشید صاحب رازی (سابق مبلغ فانا - تنزانیہ فیجی ۱۳ - مولوی عبد الحکیم صاحب الملتے اسلیغ ہالینڈ ) ۱۳- موادی فضل الہی صاحب انوری ( سابق مبلغ غمانا ، جرمنی ) د تیسری قطار (حکیم مولوی نذیر احمد صاحب دریجان رحال مربی سلسله ملتان) ۲- سید رفیق احمد صاب گجراتی.عربی ٹیچر ۳ - چوہدری رشید الدین صاحب (سابق مبلغ نائیجیریا - لائبیریا ) ۴- مولوی محمد بشیر صاحب شاه سابق مبلغ سیرالیون ) - مولوی اقبال احمد صاحب غضنفر د سابق مبلغ سیرالیون ) ۶- سید کمال یوسف صاحب (مبلغ سکنڈے نیویا ) ، - مولوی منیر احمد صاحب عبارت (سابق مبلغ برما، نائیجیریا ) - قریشی عبد الرحمن صاحب سیلونی (سابق مبلغ سیلون و شیخ نذیر احمد صاحب بشیر حیدر آبادی سابق مبلغ انگلستان - ۱۰ محمود احمد صاحب میرلو پری مرحوم.4 چوتھی قطار) ایشیخ رشید احمد اسحق صاحب رسابق مبلغ ڈچ گئی آتا ہے.حافظ محمد سلیمان حضار سابق مبلغ مشرقی افریقی - امین اللہ خاں صاحب سالک (سابق مبلغ امریکہ ولندن ) - مولوی محمد اکبر افضل صاحب (سابق مربی سلسله حال راولپنڈی ، ه - میر غلام احمد صاحب تیم سابق مبلغ سیرالیون - گیانا - زیمبیا - - مولوی فاروق احمد صاحب حال مربی سلسلہ بنگلہ دیش ، مولوی رشید احمد صاحب سرور (سابق مبلغ ٹائیگا نیکا) - آخری قطاره: ۱- سردار مقبول احمد صاحب : بیج (مبلغ مشرقی افریقہ) ۲ - مولوی نظام الدین صاحب مہمان (سابق اب مبلغ سیرالیون ۳ - مولوی محمد طفیل ماه منیر ( سابق مربی سلسلہ احمدیہ ) ۲ - صلاح الدین خان صاحب بنگالی (سابق) مبلغ ہالینڈ)

Page 576

حضرت فضل عمر اصلح الموعود کے دست مبارک سے فضل عمر ہسپتال اور دفتر مجلس انصار الله مرکز یہ کا سنگ بنیاد ( متعلقہ صفحہ ۳۹۹)

Page 577

سنگ بنیا د دفتر مجلس انصار الله مرکز یہ سامنے پہلی قطار : ۱- مولانا ابوالعطاء صاحب - ۲- میاں غلام محمد صاحب اختر نا ظر اعلی ثانی - سید نا حضرت مصلح موعود - ۴- حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب پٹیالوی معالج خصوصی.دوسری قطار : - حضور انور کے بالکل پیچھے کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ افسر حفاظت ۲۰ بائیں طرف مولانا جلال الدین صاحب شمس (خالد احمدیت ) ۳۰.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب - ۲ - مولوی بشارت احمد صاحب بشیر سندھی (سابق مبلغ غانا.

Page 578

افتتاح بیت نصرت جہاں.کوپن ہیگن (متعلقہ صفحه ۴۹) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث یہ خطبہ جمعہ اور شاد فرما رہے ہیں.

Page 578