Language: UR
سواحیلی ترجمہ قرآن کی اشاعت سے لیکر سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ کی سفرِ یورپ سے کامیاب مراجعت تک۔ (پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 17)
تاریخ احمدیت جلد مفتد هم سواحیلی ترجمہ قرآن کی اشاعت سے لیکر سیدنا حضرت مصلح موعود کے سفر یورپ سے کامیاب مراجعت تک رمئی ۱۹۵۳ء ستمبر ۲۱۹۵۵) مؤلفة دوست محمد شاہد الناشر ادارة الصنفين ربوه
نام کتاب تاریخ احمدیت جلد شانزدہم مرتبہ مولا نا دوست محمد شاہد طباعت موجودہ ایڈیشن 2007 2000 تعداد شائع کردہ مطبع نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر ISBN-181-7912-123-2 TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-16 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-123-2
بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مدنظر ترقی کرنے والی قو میں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت ہی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے
اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۱۷ کوجلد نمبر ۶ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہوتو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد شانز دہم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی (ناظر نشر و اشاعت قادیان)
بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم تاریخ امنیت کی ترویش جلد الحمد للہ چودھویں صدی کے اختتام کے موقع پر ادارۃ المصنفین کی طرف سے تاریخ احمدیت کی سترھویں جلد طبع ہو کر احباب کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے.تاریخ احمدیت کی پہلی جلد شاہ کے جلسہ سالانہ پر شائع ہوئی تھی.اور پندرھویں جلد شاہ کے جلسہ سالانہ پر سولہویں جلد کا مستوردہ تیار ہو رہا ہے انشاء اللہ احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی.وباللہ التوفیق - سترھویں جلد میں مئی سر سے لیکر ستمبر تک کے حالات کا ذکر ہے.اس زمانہ کا مہتم بالشان واقعہ حضرت مصلح موعود کا سفر یورپ ہے جس کے دوران حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی پیشگوئی دوبارہ پوری ہوئی تہم يُسَافِرُ المَسِيحُ اَوخَلِيفَةً مِنْ خُلَفَاءِ إِلى أَرْضِ دَ مِشْقَ (حمامتہ البشری منم کہ مسیح موعود یا ان کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ارض دمشق کی طرف سفر کرے گا.پہلی مرتبہ حضرت مصلح موعود نے ۱۹۲۳ء کے سفر یورپ میں دمشق میں نزول فرمایا اور پھر شائر میں یورپ جاتے ہوئے دوبارہ ارض دمشق میں اُتر سے.پہلی مرتبہ ابھی وہاں جماعت قائم نہیں ہوئی تھی لیکن دوسرے سفر میں حضور نے دیکھا کہ آپ کے عشاق کی ایک کثیر جماعت آپ پر قربان ہونا چاہتی تھی.اور حضور کی قدم بوسی کو سعادت سمجھتی تھی.الغرض یہ پیشگوئی دوسری دفعہ پھر بڑے زور سے پوری ہوئی.والحمد للہ على ذالك - حضرت مصلح موعود کا سفر یورپ کو علاج کی غرض سے تھا لیکن اس میں الہی مصلحت یہ بھی تھی کہ آپ کے متعلق جو یہ الہام تھا کہ تومیں آپ سے برکت پائیں گی یہ بھی پورا ہو.اور غلبہ اسلام کی وہ ہم جو آپ کی خلافت میں شروع ہوئی تھی اس میں ایک خاص جوش پیدا ہوچنانچہ ہر پریل شہ کو حضور نے کراچی سے ایک پیغام جماعت کے نام دیا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں یورپ اور امریکہ کے تمام مبلغین کو اکٹھا کر کے تقیہ ذیلی بر سر زمین طے کرنے کی کوشش کروں گا.کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھنا نصیب کرے.اور ہماری موتیں ہماری پیدائشوں سے زیادہ مبارک ہوں اور کامیابی ہمارے قدم چومے اور ہم
سول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے فاتح و نیل بن جائیں اور قیامت کے دن تمام دنیا کی حکومت کی کنجیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رکھنے کا فخر حاصل کریں " چنانچہ لندن میں حضور نے دنیا کے تمام بر اعظموں سے تعلق رکھنے والے مبلغین کی کانفرنس بلائی.یہ کانفرنس ۲۲ تا ۲۴ جولائی منعقد ہوئی اور اس میں محترم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بھی یورپ اور افریقہ میں تبلیغ اسلام، اسلامی لٹریچر کی اشاعت اور تعلیمی سکیموں سے متعلق بحث میں حصہ لیا.حضور نے افریقہ اور مغربی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کو تیز سے تیز تر کرتے کے لئے متعد د تجاویز منظور فرمائیں.بعد میں آنے والے دنوں نے بتایا کہ حضور کی ان تجاویز کا نہایت شاندار نتیجہ نکلا.الغرض حضرت مصلح موعود کا یہ سفر خاص مصلحتوں کے ماتحت ہوا اور نہایت ہی مبارک سفر ثابت ہوا.احباب کو علم ہے کہ ان دنوں مہنگائی بہت زوروں پر ہے.ہر چیز کی قیمتیں پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہیں.اسس مہنگائی کے زمانے میں کسی کتاب کا شائع کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے.پھر اخراجات کے مطابق اگر کتاب کی قیمت رکھی جائے تو وہ اتنی زیادہ بن جاتی ہے کہ ہر ایک اسے آسانی سے حاصل نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ نے ہمارے دو مخلصین مکرم جناب ملک ممتاز احمد صاحب آن دوالمیال اور مکرم میاں اصغر علی صاحب ٹمبر مرچنٹ لاہور کے دل میں ڈالا کہ وہ تاریخ کی اس جلد کی اشاعت کے لئے ادارہ کی مدد کریں چنانچہ ان دونوں اصحاب نے ہمیں گرانقدر امداد دی ہے.امید ہے کہ ان کے عطیہ کی وجہ سے خریدار دوستوں پر بوجھ قدرے کم ہو جائے گا.دوست دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ان دوستوں کو فضلوں اور برکتوں سے نواز سے اور ان کے اخلاص میں برکت دے.آمین اداره مؤلف کتاب ہذا مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا شکر گزار ہے کہ انہوں نے با وجود گوناگوں مصروفیت کے رات دن ایک کر کے مواد جمع کیا اور اسے نہایت احسن طریق سے ترتیب دی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری محنتوں اور نا چیز مساعی کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کرے اور دنیا اور آخرت میں ستاری فرمائے.آمین والسلام خاکسار ابو المنير نور الحق مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ریو
فہرست مضامین تاریخ اریت بیاد مقدم عنوان پہلا باب صفحه عنوان تاریخ احمدیت کی پندرہ جلدوں کی اشاعت صفح سواحیلی ترجمہ قرآن کی طباعت و اشاعت سیدنا حضرت مصلح موعود کے تاثرات و ارشادات ۴۷ سے لیکر شاہ ابن سعود کی المناک وفات پر فصل چهارم حضرت مصلح موعود کے تعزیت نامہ تک فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ربوہ کا افتتاح فصل اوّل فصل تیم ۵۶ 84 ۹۰ سواحیلی ترجمہ قرآن کی طباعت و اشاعت حضرت مصلح موعودیوں کا سفر سندھ ترجمہ القرآن کی مختصر تاریخ خطبات ناصر آباد سید نا حضرت مصلح موعود کا ایمان افروز دیباچه ۵ خطبه احمد آباد q خطبه محمد آباد اخبار الیسٹ افریقین سٹینڈرڈمیں مفصل خبر سواحیلی ترجمہ کی اشاعت خطبات کراچی مشرقی افریقہ کے مختلف علماء اور اہل قلم کے تاثرات کراچی میں اہم تقاریب اور حضرت مصلح موعود کے ترجمہ سواحیلی کا سہ و عمل فصل دوم ۱۳ ۲۰ پیر معارف خطابات فصل ششم مرکز احمدیت میں دو اہم اشاعتی اداروں کا قیام ۲۱ حضرت سیدہ امتیم داؤد کی وفات 1 - الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ فصل هفتم - اورینٹل اینڈ ریلیجیس پبلشنگ کارپوریشن سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ سے حضرت فصل سوم تاریخ احمدیت کی تدوین و اشاعت کا انتظام ۴۰ مصلح موعود کا خطاب.فصل شتم حضرت مصلح موعودہؓ کی طرف سے تحریک خاص شاہ ابن سعود کی المناک وفات پر حضرت مصلح موعود
عنوان صفحه کی طرف سے تعزیت.دوسرا باب فصل اول مرکزی دفاتر کا افتتاح ۱۰۵ 1.4 عنوان صفر روزنامه ایوننگ سٹار کراچی کا چود مصری محمد ظفرالله ۱۹۲ خان صاحب کو خراج عقیدت.روزنامہ المصلح کا اجراء کراچی میں صد یہ انجمن احمدیہ کا قیام 144 تحریک جدید کے پہلے انیس سالہ دور کا کامیاب ۱۲۵ عراق کے نائب سفیر متعینہ پاکستان کی طرف سے ۱۹۸ اختتام فصل دوم چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی خدمات کا اعتراف کرنل ڈگلس سے امام مسجد لندن کی ملاقات جلسه سالانه قادیان ۶۱۹۵۳ جلسہ سالانہ ربوہ اور حضرت مصلح موعود کی معرکہ آرام ۱۳۷ رسالہ دریاض میں سید نا حضرت مصلح موعود کا ایک علمی مضمون - 19A ۱۳۷ حضرت مصلح موعود کی طرف سے بعض اہم خطوط ۲۰۱ تقاریر افتتاحی خطاب دوسرے دن کی بصیرت افروز تقریر ۱۳۹ کا جواب.تیسرے دن کی پر شوکت تقریہ رپورٹر المصلح کے تاثرات ۱۴۵ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا سفر ۲۰۲ ۱۴۷ پاکستان - اخبار تنظیم پشاور میں جلسہ سالانہ ربوہ کا ذکر ۱۴۹ ڈاکٹر عبدالت لام کا نیا اعرانہ لہ کے خطبات جمعہ ایک نظر میں ۱۵۴ حضرت مصلح موعود کا ایک خطبہ نکاح بیرونی مشغوں کی تبلیغی سرگرمیاں فصل سوم جلیل القدر صحابہ کا انتقال ۱۵۸ نئی مطبوعات فصل چهارم ۹۵۳ہ کے متفرق اہم واقعات 191 حادث حضرت مصلح موعود کی مبلغین احمدیت کو نصائح 191 درس القرآن کا آغاز 197 تیسرا باب حادثہ جھمپیر اور حضرت مصلح موعود پر حملہ سے لیکر نوجوانان احمد نیت کی ملک گیر خدمت خلق تک سهم ۴۰ ۲۰۵
عنوان صفحه عنوان صفحہ فصل اول فصل سوم ریل کا خطرناک حادثہ اور ایک عظیم الشان نشان ۲۱۳ الفضل کا دوبارہ اجراء رؤیا کی تفصیلات ۲۱۴ تار کی مجلس مشاورت ۲۷۵ ۲۸۰ مصیبت زدہ مسافروں کی خدمت ۲۱ مذاہب عالم کا نفرنس جاپان سے احمد می مبلغ کا ۲۹۳ حضرت مصلح موعود کا پر معارف خطبہ چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا فاضلانہ خطبہ اسناد - فصل دوم 714 خطاب - فصل چهارم حضرت مصلح موعود کا سفر سندھ ۲۹۵ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی علالت اور ۲۹۸ حضرت مصلح موعود کے خلاف پے در پے منصوبے ۲۲۷ قیام لاہور.اور ان کی ناکامی.فصل پنجم قاتلانہ حملہ اور خارق عادت رنگ میں خدائی خلطات سیلاب مشرقی پاکستان اور جماعت احمدیہ کی ۳۰۰ پولیس کو حادثہ کی اطلاع ۲۳۳ امدادی سرگرمیاں.حضرت مصلح موعود کا ایمان افروز پیغام ۲۲۴ سیلاب پنجاب.مجالس خدام الاحمدیہ کی خصوصی ۳۰۵ قاتلانہ حملہ کی خبر قادیان میں انڈونیشیا میں حادثہ کی اطلاع د و لبنانی احمدیوں کا درد انگیز قصیدہ دردانگ پنجاب کے مذہبی لیڈروں کی طرف سے قاتلانہ حملہ کی مد قمست - بر صغیر پاک و ہند کے پریس کا زبر دست احتجاج ۲۴۰ خدمات - ۲۴۱ پنجاب پولیس میں چرچا سور سر ۲۲۲ مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی خدمات کا اعتراف ۳۱۵ خدمت خلق کے اسلامی مطمح نظر پر ایک ایمان افروز ۳۱۸ ۲۵۰ ۲۵۲ خطبه فصل ششم حضرت مصلح موعود کا حقیقت النروز ۲۶۴ عقل و تدبر اور فہم و ذکا کے خزانوں سے فائدہ ۳۲۱ بیان.اُٹھانے کی تلقین.عدالت میں مقدمہ بیانات اور فیصلہ ۲۷۲ چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب کا انتخاب عالمی
عنوان صفحہ عدالت کے جج کی حیثیت سے.۳۲۲ افتتاحی تقریر وقف زندگی کی تحریک دوسری تقریر عنوان ۳۶۵ پاکستان کے لئے تحریک دعا اور اس کی فوری قبولیت ۳۳۲ تفیسر می تقریر فصل هفتم فصل سوم حضرت مصلح موعود کا لا ہور کے متاثرہ علاقوں میں جلیل القدرصحابہ کا انتقال دورہ اور تعمیری سرگرمیوں پر اظہار خوشنودی - ۳۳۶ حضرت خان صاحب ذو الفقار علی خان صاحب گوتیره را مپوری سم چوتھا باب ۱۹۵۴ء سالانہ اجتماع خدام الاحمدیر مرکزیہ الحاج ممتاز علی خاں صاحب صدیقی درویش قادیان (۳۷۸ سے لیکر خدام الاحمدیہ کی تحریک حج تک حضرت میاں فیروز دین صاحب سیالکوٹی فصل اوّل مرزا محمد احسن بیگ صاحب راجستھان سالانہ اجتماع خدام الاحمد به مرکز به ربوه شانه ۳۲۱ حضرت مولوی مهرالدین صاحب لالہ مومنی افتتاحی خطاب ختتامی خطاب ۳۸۵ ۲۲۱ حضرت میرزا محمد رمضان علی صاحب پشاوری ۳۸۸ ۳۴۷ حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرسم عیسی ٣٩٠١ ۴۰۲ خدام الاحمدیہ عالمگیر کی طرف سے الوداعلی ایڈریس ۳۵۱ حضرت حافظ احمد دین صاحب ڈنگوی اجتماع کے بعض ضروری کوائف ۳۵۳ بعض دیگر مخلصین احمدیت کی وفات اجتماع کے بعد الوداعی تقاریب اور حضرت مصلح موعود ۳۵۴ الحاج السيد عبد الرؤف صاحب الحصنی دمشق ۴۰۴ جناب خان بها در سعد الله خان صاحب نظام پور ۴۴۰۵ کی قیمتی ہدایات.تحریک جدید کی نسبت اہم خطبہ ۳۶۰ ضلع پشاور فصل دوم منشی محمد خالد صاحب ، صدر جماعت احمدیہ جھانسی ۴۲۰۶ جلسه سالانه قادیان و جلسه سالانه ریوه ۱۹۵۳ مه ۳۶۳ یوپی - جلسه قادیان ۳۶۳ خان بهاد خان بها در نواب احمد نو از جنگ بها در حیدرآباد ۴۰۹ جلسہ ربوہ اور حضرت مصلح موعود کی پر معارف تقاریر ۳۶۵ وکن -
فصل چهارم صفحہ عنوان ۱۹۵۵ کا پہلا خطہ صفحه وم ۹۵ مر کے بعض متفرق مگر اہم واقعات ۴۱۲ حضرت مصلح موعود کی طرف سے جماعت ہائے ۲۴۸ خاندان حضرت مسیح موعود میں اضافہ ۴۱) انڈونیشیا کے لئے ایک قیمتی ترک - ۱۲ فارغ التحصیل شاہدین کے لئے نئی سکیم ۴۴۹ حج فنڈ خدام الاحمدیہ گورنر جنرل پاکستان کو ولندیری ترجمہ قرآن کا ۴۱۳ صدر انجمن احمدیہ کے لئے واقفین کی تحریک ۴۵۱ شخص ضرورتِ زمانہ کے مطابق لٹریچر تیار کرنے کا مسجد احمد یہ دارالذکر لاہور کا سنگ بنیاد ۴۱۵ ارشاد جلالة الملک شاہ سعود سے جماعت احمدیہ کراچی ۴۱۶ پانچواں باب کے ایک وفد کی ملاقات.ربوہ میں بجلی کی رو کا افتتاح ایک احمدی کوہ پیما کی کامیابی فصل اول حضرت مصلح موعود کی تشویشناک علالت ۴۵۵ ڈاکٹروں کی طرف سے بغرض علاج یورپ یا امریکہ ۴۵۷ جامعتہ المبشرین کی پختہ عمارت کی بنیاد ۴۱۸ جانے کا متفقہ مشورہ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی نئی عمارت کا افتتاح ۲۲۰ یورپ جانے کا فیصلہ بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں ۴۲۰ روح پرور پیغامات کا جدید سلسلہ ہاور فورڈ کالج امریکہ سے چودھری محمد ظفراله خالی ۴۳۲ پہلا پیغام صاحب کا خطاب.دوسرا پیغام مبلغین احمدیت کی مرکز سے روانگی اور واپسی ۴۳۴ قائمقام امیر اور ناظر اعلیٰ کا تقرر نیا لٹریچر ۴۲۵ تیسرا پیغام الحاج مولوی عزیز الرحمن صاحب فاضل منگلا کا ۴۴۰ چوتھا پیغام قبولی احمدیت.فصل نجم فصل دوم سفر یورپ کا آغاز خلافت ثانیہ کا بیالیسواں سالی ۱۹۵۵ء ۴۴۶ قصر خلافت سے روانگی ۴۶۰ ۴۷۵
A عنوان صفحه حضرت سیدہ نصرت جہاں کے مزار مبارک پردھا عالم رویا ہیں.لاہور سے کراچی ۴۷۸ زیورچ کے احمدی احباب سے خطاب صفحه ۵۲۸ ملک میں بے بنیاد اور جھوٹی افواہیں اور حضرت ٹیلیویژن پر انٹرویو اور ایک یوگوسلاوین کا ۵۲۹ امیر مقامی کے دوزور دار مضامین.پانچواں پیغام قبول اسلام ۴۸۲ زیورک سے جرمنی تک ۵۲۹ چھٹا پیغام ۴۸ ایک نامور تشرق کی بعیت ۵۳۰ ساتواں اور آٹھواں پیغام ۴۸۵ مقامی جماعت کی طرف سے حضور شے کے اعزاز ۵۳۲ نواں پیغام ۴۸۸ میں دعوت.اپنی صحت سے متعلق حضور کا رتم فرمودہ نوٹ ۲۹۰ اخبارات میں چرچا دسواں پیغام مدیر صدق جدید خراج تحسین بنگالی احمدیوں کے نام حضور کا پیغام ۵۳۳ ۲۹۱ مبلغ جرمنی کی مخلصانہ خدمات پر اظہار خوشنودی ۵۳۴ ۴۹۳ جرمنی سے ہالینڈ میں ورود ۴۹۴ فصل سوم ۵۳۵ ربوہ میں مقیم بنگالیوں کا اخلاص نامہ ۲۹۶ ہالینڈ سے روانگی اور لندن میں تشریف آوری ۵۴۱ ۴۹۰ ایڈیٹر صاحب الفضل کے نام مکتوب ۵۴۲ گیارھواں پیغام کراچی سے دمشق کے لئے روانگی ۴۹۹ لندن میں مبلغین اسلام کی عالمی کانفرنس ۵۴۲ دمشق میں درود اور ہفت روزہ قیام کا نفرنس کے کامیاب اختتام پر اخبار افضل ۵۴۴ ۵۰۹ میں مفصل خبر دمشق سے بیروت بیروت سے زیورک تک ۵۰۰ اخبار المنیر لالمپور کا تبصرہ بارھواں اور تیرھواں پیغام ۵۰۵ لندن کا نفرنس سورۃ فاتحہ کے متعلق چارہ پر معارف خطبات ۵۱۶ حضرت مصلح موعود کا پر شوکت اعلان چودھواں پیغام ۵۲۴ مالٹا کے ایک انجنیئر کا قبولِ اسلام ربوده کی دردناک اجتماعی دعا اور اس کا نظارہ پندرھواں پیغام ۵۴۵ ۵۴۵ ۵۴۹ ۵۴۹۱
۹ عنوان صفح خطبہ عید الاضحیہ عید کے بعد ڈسمنڈ شا کی ملاقات عنوان صفح ۵۲۹ حضرت مصلح موعود کا جماعت احمدیہ لندن ۵۵۴ ۵۵۰ سے خطاب.جماعت احمدیہ نائیجیریا کے نمائندہ وفد کی ۵۵۱ لندن سے کراچی تک نمائندگان جماعت ہائے احمدیہ پاکستان کا ۵۶۰ ملاقات - قادیان میں جشن مسرت ایڈیٹر ماہنامہ ایسٹرن ورلڈ کی طاقات طلبائے زنجبار کی ملاقات ۵۵۲ سپاسنامه حضرت امانں جھانی کے انتقال پر پیغام ۵۵۲ حضرت مصلح موعود کی بصیرت افروز تقریر تعزیت.ایک سوئس کا قبول اسلام یہ مسلم فرقوں سے مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام ۵۵۳ کی پر زور اپیل.۵۶۳ ۵۶۵ ناظر اعلیٰ ربوہ کے نام مکتوب اور واپسی کے ۵۵۳ حضرت مصلح موعود کا مرکز احدیت میں ورود ۵۶۵ اور شمع خلافت کے پروانوں کا فقید المثال پروگرام سے اطلاع.قافلہ کی پہلی پارٹی کراچی میں ۵۵۳ استقبال - مبارک سفر کا مبارک اختتام ۵۷۲ فهرست قافله پاکستان برائے جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۵۳ تصویر قافلہ پاکستان برائے جلسہ سالانہ قادیان سامر حضرت مصلح موعود پر حملہ سے متعلق حضرت مسیح موعود کی رڈیا اور اس بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی مراسلات حملہ کے عینی گواہوں کے بیانات فهرست قافله قادیان ۱۹۵۴ سے F
۱۰ تصاویر سید نا حضرت مصلح موعود کے سفر کراچی ۱۹۵۳ء مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزید کا ایک یادگار فوٹو.کی الوداعی تقریب کے موقع پر.رق مینجنگ ڈائریکٹر ایسٹ افریقہ سٹینڈرڈ مولانا حضرت مصلح موعود سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ شیخ مبارک احمد صاحب کو سوا خیلی ترجمہ قرآن ربوہ ۱۹۵۴ء سے خطاب فرما رہے ہیں.کی پہلی مطبوعہ کاپی پیش کر رہے ہیں.حضرت مصلح موعود و تحریک جدید کے دفاتر کا معائنہ کے لئے روانگی.لاہور اسٹیشن سے حضرت مصلح موعود کی سفیر یو رپ حضرت مصلح موعودہ کا مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے فرما رہے ہیں.صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے خطاب - افتتاح کے مناظر - خطاب کے بعد اجتماعی دعا.جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۵۳ء کے چند مناظر کراچی سے یورپ کے لئے روانگی.لوائے احمدیت کا پہرہ.کراچی ائیر پورٹ پر مصافحہ - جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۵۳ء میں شرکت کر نیوالے حضرت مصلح موعود کا نزول دمشق - پاکستانی قافلہ کا گروپ فوٹو.حضرت مصلح موعود در بیروت کے ائیر پورٹ پر.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رض اور حضرت مصلح موعود لندن ہیں.دوسرے اکابر صحابہ جامعہ احمد یہ ہیں.حضرت مصلح موعود و جامعہ احمدیہ ہیں.حضرت مصلح موعود و کالج اسٹاف سے مصافحہ فرما رہے ہیں.حملہ کے بعد حضرت مصلح موعوتوں کے دو نایاب تعلیم الاسلام کالج کی افتتاحی تقریب پر گروپ فوٹو.حضرت مصلح موعود کا گروپ فوٹو حضرت صاحبزادہ
- نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود پہلا باب توایلی ترجمہ قرآن کی طباعت اشاد سے لےکہ شاہ ابن سعود کی المناک فات پر حضرت مصلح موعود کے تعزین ملک فصل اقول سو امیلی ترجمہ قرآن کی طباعت اشاعت دنیائے احمدیت میں سال ۱۳۳۲اہش / ۱۹۵۳ء کے وسط کا ایک نہایت اہم واقعہ سو امیلی تدریب القرآن کی طباعت و اشاعت ہے جس نے مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کی مہم کو تیز تر کر دیا اورسلم افریقہ کے تخیل کو بہت تقویت پہنچائی.جیسا که تاریخ احمدیت (جلد مفتم) میں بتایا جا چکا ہے.اس ترجمہ کا آغاز مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ( سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ) نے یکم رمضان المبارک ۱۳۵۵ھ (مطابق ۱۷ نومبر ۶۱۹۳۶ ) کو کیا اور ہم ارمئی
۱۹۵۳ء کو ایسٹ افریقین سٹینڈرڈلینڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر مسٹرسی - بی.این اینڈرسن نے اس کا پہلا مجلد نسخہ تیار کیا جو مکرم شیخ صاحب نے اسی دن بذریعہ ہوائی ڈاک حضرت امیر المؤمنین المصلح الموعود کی خدمت میں بھیج دیا اور درخواست دعا کے ساتھ اس کی اشاعت کے لئے اجازت چاہی.مکرم شیخ صاحب کو ۲۱ مئی ۱۹۵۳ء کو حضور کا برقیہ موصول ہوا کہ "Translation reached.May God bless its publication and sale." (Khalifatul Masih) ترجمہ پہنچ گیا ہے اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت مبارک کرے.خلیفہ ایسے ہیں ترجمة القرآن کی مختصر تاریخ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے ترجمہ سوا جیلی کے پیش لفظ میں لکھا مجھے خوب یاد ہے کہ رمضان المبارک ۱۳۵۵ ھ کا پہلا مبارک دن تھا.نماز صبح کے بعد خاکسار نے قرآن مجید کے سواحیلی ترجمہ کا کام شروع کیا.اُن دنوں میں ٹبورا میں مقیم تھا جب خاکسا رنے اس کام کا ارادہ کیا تو یکیں اکیلا تھا کوئی افریقین دوست نہ تھا جو اس معاملہ میں میری مدد کرے سوائے پرائمری سکول کے ایک افریقین ٹیچر معلم سعیدی کامبی کے جو عربی زبان سے واقف نہ تھے اور جو کچھ نہ رصہ کے بعد کام چھوڑ کر چلے گئے.بہر حال ترجمہ کا کام میں نے باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھا دن کے بعد دن ہفتے کے بعد ہفتے اور سال کے بعد سال گذرتے رہنے حتی کہ وہ دن بھی آن پہنچا جب تیس پاروں کا ترجمہ مکمل ہو گیا.۱۹۴۳ء میں جب ترجمہ قرآن کا مسودہ ٹائپ ہو کر مکمل ہو گیا تو اسے مشرقی افریقہ کے ایک اہم ادارہ انٹرٹیریٹوریل لینگو ایک کمیٹی برائے سواحیلی Inter-Territorial Languages) ( Committee for Swahili کو جو سواحیلی کی ترقی و اصلاح کے لئے حکومت کی طرف سے.Mr.C.B.Anderson Managing Director of the East African Standard Ltd.کے پندرہ روزہ اخبار احمدیہ یکم جون ۶۱۹۵۳ نیروبی (مشرقی افریقہ)
مقرر تھا بغرض رائے بھجوا دیا گیا.اس ادارہ نے اپنے ماہرین کو اس کی دو کا پہیاں بغرض تنقید و اصلاح بھیجوائیں اور خواہش کی کہ وہ ترجمہ اور زبان دونوں کے متعلق اپنی رائے سے پورے غور و فکر کے بعد مطلع کریں.اپریل ۱۹۲۴ء میں اس ادارہ کے سیکریٹری نے ان ماہرین کی کئی صفحات پر عمل آراد ہمیں بھیجوائیں.ان کی متفقہ رائے تھی کہ On the whole, the translation is very good" یہ ترجمہ مجموعی اعتبار سے بہت اچھا ہے.ان ماہرین نے بعض مقامات کی تبدیلی کا مشورہ دیا جو قبول کیا گیا اور بعض جگہ ان کی عربی زبان سے عدم واقفیت کی وجہ سے ان کی مجوزہ اصلاح یا رائے رد کرنی پڑی.اس ابتدائی نظر ثانی کے بعد یہ مسودہ سواحیلی زبان کے بعض دیگر فاضل و ماہر فریقین کو بھجوایا کہ وہ خالصہ زبان کے عام فہم اور صحت زبان کے بارے میں اپنی رائے دیں.کچھ عرصہ بعد قریباً ۱۹۲۵ء میں ہمارے عزیز بھائی شیخ امری عبیدی جو لمبا عرصہ میرے ساتھ رہے اور مجھ سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے اور عربی سیکھنے اور دیگر دینی امور میں دسترس حاصل کرنے اور خدا داد صلاحیت کے باعث اس قابل ہو گئے کہ وہ اس پر مزید ما ہرا نہ تنقیدی نگاہ ڈال سکیں.چنانچہ انہوں نے اس کا بغور مطالعہ ، موازنہ اور تصحیح کا کام شروع کر دیا اور عربی زبان سے اس کا تطابق اور درستی کی طرف بھی تو جہ دی اور کئی مفید مشورے دیئے.چند سال کے بعد ہمارے دوسرے علماء نے بھی جو قرآنی علوم اور اسلامی علوم کے بھی ماہر تھے اور عربی اور سواحیلی دونوں زبانوں سے خاص واقعیت حاصل کر چکے تھے اس ترجمہ کو بڑے غور و فکر سے پڑھا، اپنی رائے دی، مشورہ دیا.الحمدللہ سب افریقین اہلِ علم اور ہمارے علماء سواحیلی ترجمہ اور اس کی فصاحت سے متاثر اور خوش ہوئے.ترجمہ میں تشریحی اور تغییری نوٹ بھی شامل کئے گئے کیونکہ ترجمہ کے کام کے بعد اس کی بڑی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی کہ تفسیری نوٹ بھی لکھے جائیں چنانچہ ۱۹۴۹ء کے آخر میں بالخصوص مندرجہ ذیل تین امور کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی سو نوٹ لکھے گئے :.اول :- پہلی بات ان نوٹوں میں یہ مد نظر رکھی گئی کہ مشرقی افریقہ میں غیر مسلموں بالخصوص عیسائیوں کی طرف سے ان کے جرائد و رسائل اور کتب میں قرآن کریم کی کسی آیت یا تعلیم یا آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کی مقدس زندگی پر اعتراض کیا گیا تو اس کا جواب ضرور دیا جائے.دوم :- قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب عالم کی تعلیم کا مقابلہ کر کے اسلامی تعلیم کی برتری کو دلائل سے ثابت کیا جائے.سوم : - کئی بدعات اور رسم و رواج شریعت اسلامیہ اور اسوۂ نبی کے خلاف ہیں اور سلمانوں میں بوجہ عدم فهم قرآن داخل ہو گئی ہیں جن کی قباحت کو واضح کر کے اصل تعلیم اور اصل حقائق نمایاں کئے جائیں.بہت سے نوٹ لیکس نے لکھے اور بعض میرے رفقاء نے.یہ اکثر نوٹ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالخصوص حضرت خلیفة أمسیح الثانی المصلح الموعود کی بیان فرمودہ تفاسیر سے استفادہ کے ساتھ تیار کئے گئے جن کے پڑھنے سے انسانی ذہن اور دماغ پر گہرا اثر پڑتا ہے اور یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید بنی نوع انسان کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے اور اس کتاب عظیم میں ایسی زبر دست قوت ہے کہ وہ لوگوں کو ذلت سے اُٹھا کہ رفعت اور عظمت کی چوٹیوں تک پہنچا سکتی ہے.جن دوستوں نے سواحیلی ترجمہ قرآن میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کا ہاتھ بٹایا اور خصوصی امداد فرمائی آپ نے ترجمہ کے شروع میں اُن کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ مجھے پر لازم ہے کہ میں اپنے اُن رفقاء کا خاص طور پر ذکر کروں جنہوں نے گزشتہ دو تین سالوں میں بہت فکر مندی خاص شوق اور پوری لگن اور محبت سے میرا ہاتھ بٹایا ہے مثلاً ا شیخ امری عبیدی به مولانا محمد منور صاحب فاضل حقیقت یہ ہے کہ میرے ان دو ساتھیوں نے اس ترجمہ و تفسیر کی نظر ثانی کے کام، نوٹوں کی تکمیل، پروفوں کے دیکھنے اور تفسیر سے متعلق دوسرے امور یعی خاص انداد کی ہے.اسی طرح مولانا عنایت اللہ صاحب خلیل، مولانا جلال الدین صاحب قمر نے احادیث اور دیگر ضروری مواد اکٹھا کرنے ہیں اور عربی نتن کے آخری پروف دیکھتے ہیں.لے مفصل حالات تاریخ احمدیت جلد ہفتم ص ۲ تا حث ۲۸ میں درج ہیں ؟ شه بہت مدد دی ہے " شہ یا محترم قاضی عبد السلام صاحب بھٹی نے بھی پروف ریڈنگ میں حصہ لیا ہے آپ مشرقی افریقہ میں لمبا عرصہ قیام اور سلسلہ کی خدمات بجالانے کے بعد ۱۹۶۷ء کو پاکستان میں تشریف لے آئے ہیں اور ربوہ میں مقیم ہیں.
سواحیلی ترجمہ قرآن کے ساتھ حضرت مصلح موعود سیدنا حضرت مصلح موعود کا ایمان افروز دیباچہ کا ایک ایمان افروز دریا یہ بھی شائع ہوا جو حضور..نے محترم شیخ صاحب کی درخواست پر عطافرمایا.یہ تاریخی دیباچہ حضور نے مولانامحمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبه زود نویسی کو لکھوایا تھا جو انہوں نے ۱۸ جنوری ۱۹۵۳ء کو صاف کر کے حضور کی خدمت میں پیش کیا حضور نے اپنے قلم مبارک سے کئی مقامات پر صحیح کی اور آخر میں دستخط ثبت فرمائے بیہ ۱۹ جنوری ۱۹۵۳ء کو مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب اور پرائیویٹ سیکرٹری نے اسے نیرو بی پہنچانے کے لئے وکیل التبشیر صاحب تحریک جدید کو بھجوا دیا.جناب شیخ صاحب نے اس اُردو دیباچہ کا عام فہم سواحیلی میں ترجمہ کیا.دیباچہ کا متقن حسب ذیل تھا :.اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُها وَنَصَلَى عَلَى رَسُولِهِ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر سواحیلی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کے مضمون کے متعلق مختصر نوٹ شائع کئے جا رہے ہیں.افریقہ کو اسلامی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے خصوصاً شمال مشرقی افریقہ کو اسلام کے ابتدائی ایام میں جب مکہ والوں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے مظالم کئے اور مکہ میں مسلمانوں کی رہائش نا ممکن ہوگئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے سلمانوں کو حبشہ کی طرف جانے کی ہدایت فرمائی.حبشہ یعنی ایسے پینیا وہ ملک ہے جو کہ کینیا کالونی کے ساتھ لگا ہوا ہے.چنانچہ مسلمان اس ملک میں پہنچے اور وہاں کے بادشاہ کے قانون کے ماتحت انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی گئی اور امن کا سانس انہوں نے لینا شروع کیا تو مکہ والوں سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی قوم کے دو لیڈروں کو بادشاہ اور اس کے درباریوں کے لئے بہت سے تحائف دے کر بھیجوایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ بادشاہ سے درخواست کریں کہ و ہ جا بحرین کو مکہ کی حکومت کے حوالہ کر دے تاکہ وہ ان سے اپنے خیالات اور عقائد کے مطابق سلوک کریں اور اگر بادشاہ نہ مانے تو پھر درباریوں کو تحفے دے کر اُن سے بادشاہ پر زور ڈلوائیں ه اصل مسوده اب دفتر شعبہ تار مریخ احمدیت میں محفوظ ہے،
اور مسلمان مہاجرین مکہ کو جس طرح بھی ہو واپس مکہ لائیں چنانچہ یہ وفد مکہ سے گیا اور درباریوں خصوصاً پادریوں کے ذریعہ سے بادشاہ سے ملا جو اس زمانہ میں سنگس کہلاتا تھا.جیسے معرب لوگ نجاشی کہتے تھے.یہ اس بادشاہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ اس زمانہ کے حبشی بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا.چنانچہ بادشاہ کے سامنے انہوں نے شکایت کی کہ ان کے ملک کے کچھ باغی بھاگ کہ حبشہ آگئے ہیں اور انہیں مکہ والوں نے اس لئے بھیجا ہے کہ ان باغیوں کو مکہ کی حکومت کے حوالے کر دیا جائے.بادشاہ نے ان لوگوں کی باتیں سن کر مسلمانوں کو بلوایا اور ان سے پوچھا کہ وہ کس طرح آئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ اُن پر ان کی قوم علم کر رہی تھی اور چونکہ افریقن بادشاہ کا انصاف اور اس کا عدل مشہور تھا وہ اس کے ملک میں پناہ لینے کے لئے آگئے.اس پر بادشاہ نے مکہ کے وفد کو جواب دیا کہ چونکہ ان کے خلاف کوئی سیاسی جرم ثابت نہیں صرف مذہبی اختلاف ثابت ہے اِس لئے وہ اُن کو واپس کرنے کے لئے تیار نہیں.مگہ کا وفد جب دربار سے ناکام لوٹا تو اس نے درباریوں اور پادریوں کو بھی تھے تقسیم کئے اور انہیں اکسایا کہ یہ سلمان لوگ حضرت مسیح کی بھی ہنگ کرتے ہیں اس لئے مسیحیوں کو بھی مکہ والوں کے ساتھ مل کر اُن پر سختی کرنی چاہیے.چنانچہ دوسرے دن پھر درباریوں نے بادشاہ پر نہ ور دیا کہ یہ لوگ توشیح کی بھی ہنگ کرتے ہیں چنانچہ بادشاہ نے مسلمانوں کو پھر بلوایا اور اُن سے پوچھا کہ آپ لوگ مسیح کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں مسلمانوں نے سورت مریم کی ابتدائی آیات پڑھے کہ اُن کو سنائیں جن میں مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر ہے اور پھر کہا کہ ہم مسیح کو نبی اللہ مانتے ہیں.ہاں انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتے.اس پر پادریوں نے شور مچا دیا کہ دیکھو انہوں نے مسیح کی بہتک کی ہے مگر افریقین بادشاہ منصف اور عادل تھا اس نے سمجھ لیا کہ یہ الزام ان پر غلط لگایا جارہا ہے یہ لوگ شیخ کا ادب کرتے ہیں مگر اس کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے.چنانچہ اس نے بڑے جوش سے ایک تنکا فرش پر سے اٹھایا اور کہا کہ خدا کی قسم یکس بھی مسیح کو وہی کچھ مانتا ہوں جو یہ کہتے ہیں اور یکی اس درجہ سے جو انہوں نے شیخ کا بیان کیا اُسے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں سمجھتا.اس پر پادریوں نے بادشاہ کے خلاف بھی آوازے کسنے شروع کئے کہ تو بھی مرتد ہو گیا ہے لیکن بنجاشی نے کہا کہ میں تمہارے شور و شخب کی وجہ سے مرعوب نہیں ہو سکتا.جب میرا باپ مرا تو یکی چھوٹا بچہ تھا اور میری جگہ میرا چچا قائم مقام بادشاہ مقرر کیا گیا تھا اور تم
لوگوں نے اس کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ مجھ کو تخت سے محروم کر دو.جب مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو با وجود اس کے کہ میں چھوٹا تھا میں نے اپنا حق لینا چاہا اور نوجوان میرے ساتھ مل گئے اور میرے چچا نے ڈر کر دستبرداری دے دی اور تخت میرے حوالے کر دیا تو میری بادشاہت تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے با وجود تمہاری مخالف کوششوں کے مجھے دی ہے.کیا میں اب تم سے ڈر کر خدا کو چھوڑ دوں گا اور ظلم اور تعری کروں گا.نہ تم نے یہ بادشاہت مجھے دی ہے نہ یکن تمہاری مدد کا مختارج ہوں لیکن کسی صورت میں ظلم نہیں کر سکتا.یہ لوگ آزادی سے میرے ملک میں رہیں گے اور کوئی اُن کو نقصان نہیں پہنچا سکتا.پس اسے اہل افریقہ جن کے مشرقی علاقہ کی علمی زبان سواحیلی ہے میں یہ ترجمہ آپ کو پیش کرنے میں ایک لذت اور سرور محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس کتاب کے ابتدائی ایام میں اس کتاب کے ماننے والوں کو آپ کے بیر اعظم نے پناہ دی تھی اور ظلم و تعدی کرنے سے انکار کر دیا تھا اور انصاف اور عدل قائم کرنے کا بیڑا اٹھا لیا تھا.آج قرآن پاک کی تعلیم اسی طرح مظلوم ہے جس طرح کہ کیسی زمانہ میں قرآن کریم کے ماننے والے مظلوم ہوا کرتے تھے.آج اس قرآن کریم کو دنیا میں لانے والا نبی فوت ہو چکا ہے لیکن اس کا روحانی وجود آج اس سے بھی زیادہ مظلوم ہے جتنا کہ آج سے قریباً چودہ سو سال پہلے وہ اپنی دنیا وی زندگی میں مظلوم تھا.اس پر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں.اس کی لائی ہوئی تعلیم کو بگاڑ کہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.اس کے ماننے والوں کو حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ واقعہ یہ نہیں.خدا کی نظروں میں سب سے زیادہ معزز وجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جن پر یہ قرآن نازل ہوا تھا اور سب سے زیادہ پیچی تعلیم وہ ہے جو اس کتاب یعنی قرآن مجید میں موجود ہے جیسا کہ آپ خود دیکھ لیں گئے.دنیا صرف اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ پر اس کی تردید کر رہی ہے اور اس کے ماننے والوی کو ذلیل کر رہی ہے.لیکن اے اہل افریقہ ! آج آپ کا بھی یہی حال ہے.آپ کو بھی غیر ملکوں میں تو الگ رہا اپنے ملک میں بھی ذلیل ہی سمجھا جا رہا ہے.پس وہ تعلیم جس نے چودہ سو سال پہلے ایک وحشی اور غیر تعلیم یافتہ قوم کو دنیا کی ترقیات کی چوٹی پر پہنچا دیا تھا لیکن جو آج مظلوم ہے اور گھر سے بے گھر کر دی گئی ہے لیکں اُسے آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں جبکہ آپ لوگوں کی حالت بھی اسی قسم کی ہے.اور آپ سے
اپیل کرتا ہوں کہ اس کتاب کو غور سے پڑھیں اور اسی عدل اور انصاف کی نگاہ سے اسے دیکھیں جس نگاہ سے نجاشی نے مکہ کے مسلم مہاجرین کو دیکھا تھا اور پھر اپنی عقل اور بصیرت سے نہ کہ لوگوں کے لگائے ہوئے جھوٹے الزاموں کے اثر کے نیچے اور لوگوں کی بنائی ہوئی رنگین عینکوں کے ذریعہ سے اُسے دیکھیں.مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو اس لاثانی جو ہر کی حقیقت معلوم ہو جائیگی اور اس رستے کو آپ پکڑ لیں گے جو کہ خدا تعالیٰ نے اس کتاب کے ذریعہ سے آسمان سے پھینکا ہے تا کہ اس کے بندے اُسے پکڑ کر اس تک پہنچ جائیں.اسے اہل افریقہ ! ایک دفعہ پھر اپنے عدل اور انصاف کا ثبوت دو اور پھر ایک سچائی کے قائم کرنے میں مدد دو جو سچائی تمہارے پیدا کرنے والے خدا نے بھیجی ہے جس سچائی کو قبول کرنے کے بغیر غلام قومیں آزاد نہیں ہوسکتیں مظلوم ظلم سے چھٹکار انہیں پاسکتے.قیدی قید خانوں سے چھوٹ نہیں سکتے.امن، رفاہیت اور ترقی کا پیغام یکی تمہیں پہنچاتا ہوں پیغام میرا نہیں بلکہ تمہارے اور میرے را کرنے والے خدا کا پیغام ہے.یہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے.یہ یورپ امریکہ اور ایشیا کے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے.ہزاروں کی تعداد میں آؤ ، لاکھوں کی تعدا میں آؤ اور سچائی کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جاؤ تا کہ ہم سب مل کر دنیا میں از سر نو خدا تعالیٰ کی بادشات کو قائم کر دیں اور بنی نوع انسان کی ہمہ گیر اخوت اور خدا تعالیٰ کے ہمہ گیر عدل و انصاف کو دنیا میں قائم کر دیں.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو میری آواز پر لبیک کہنے کی توفیق دے اور میں وہ دن دیکھوں جب کہ آپ لوگ میرے دوش بدوش دنیا میں امن اور سلامتی اور ترقی اور رفاہیت کے قائم کرنے میں کوشش کر رہے ہوں اور پھر یہ کوشش خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی الله احمدیہ مشن مشرقی افریقہ نے یہ معرکة الآراء دیباچہ پچاس ہزار کی تعداد میں بصورت پمفلٹ بھی شائع کر کے تقسیم کیا ہے سه روزه نامه المصلح کراچی در اخاء ۱۳۳۲ ش / ۱۸ اکتوبر ۶۱۹۵۳ ص * ه بروایت مکرم شیخ مبارک احمد صاحب +
East African Standard, Saturday, May 16, 1953.5 Holy Quran in Swahili and Arabic published مینجنگ ڈائرکٹر ایسٹ افریقہ سٹینڈرڈ مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب کو سوامیلی ترجمہ قرآن کی پہلی مطبوعہ کاپی پیش کرہے ہیں.The Sheikh Mubarak Ahmad, Amir and Chief Missionary of the East African Ahmadiyya Muslim Mission, receives the first printed copy of his Arabic-Kiswahili translation of the Holy Quran from Mr.C.B.Anderson, Managing Director of the East African Standard, Ltd., who printed the work.Also in the picture is Maulana Muhammed Munawwar, who helped the Sheikh in his translation, which took 15 years.Members of the "East African Standard" printing works staff watch the ceremony.
۱۴ مئی ۱۹۵۳ء کو ترجمہ قرآن کا پہلا اخبار ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ میں فصل خبر تو تیار ہوا اور بیٹی ۱۹۵۲ء کو نیروبی کے اخبار ایسٹ افریقین سٹینڈرڈ (East African Standard) نے پریس کی طرف سے اس کے پہلے نسخہ کے پیش کئے جانے کی تقریب کا فوٹومع اس کی تفصیلی خبر کے شائع کیا جو یہ تھی.Holy Quran in Swahili and Arabic Published Seventeen years ago Sheikh Mubarak Ahmad, the Amir and Chief Missionary of the East African Ahmad- iyya Muslim Mission, set himself the task of translating the whole of the Holy Quran from Arabic into Swahili.On Thursday his work was completed when the first copy of his translation, in a presentation binding, was handed to him by Mr.C.B.Anderson, Managing Director of the East African Standard, Ltd., after the 1,100 pages of the book had taken over three months in the printing.Mainly for distribution through the Muslim mis- sions working in East Africa and the Belgian Congo, 10,000 copies have been published.The first copy of the Quran, which has the Arabic text alongside the Swahili translation, will be sent to the head of the Ahmadiyya Muslim movement, Hazrat Mirza Bashirud-Din Mahmud Ahmad.at his headquar- ters in Rabwah, West Pakistan.Other copies will go to the Prime Minister of Pakistan, Mr.Mohammad Ali, and to the Foreign Minister, Mr.Zafrullah Khan.STUPENDOUS WORK: Receiving the first copy.Sheikh Ahmad said that when he had finished his trans- lation, he was confronted with the problem of its print- ing.With the Arabic original retained, it was a novel
and difficult job for any printing press in East Africa.He thanked the East African Standard staff for bringing this stupendous work" to completion in so short a time."I hope that this publication will prove a great blessing to the people of East Africa, bring them peace of mind, moral and spiritual uplift, and will go a long way in combating the evil of Communism and improving inter-communal relations,” said the Sheikh."Your firm will certainly be blessed by God for your share in this holy work", he added.Gathered at the presentation were members of the East African Standard staff associated in the production of the Holy Quran.Mr.Anderson said that he regarded it as a great occasion not only because the Quran was one of the great works which the firm produced, but also its introduction would surely bring peace and spiritual well-being to Swahili-speaking Muslims in East Africa.(East African Standard, Saturday, May, 16, 1953) قرآن کریم سواحیلی اور عربی زبان میں شائع کر دیا گیا سترہ سال قبل کی بات ہے کہ شیخ مبارک احمد صا حب نے جو مشرقی افریقہ کے امیر اور احمدیہ مسلم مشن کے چیف مشنری ہیں قرآن کریم کا عربی سے سوا خیلی زبان میں ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا.جمعرات کے دن ان کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا اور مسٹرسی بی.اینڈرسن نے جو الیسٹ افریقین سٹینڈرڈ لمیٹڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر ہیں ترجمہ کا پہلا نسخہ جو دیدہ زیب جلد سے مزین تھا شیخ صاحب موصوف کو پیش کیا.یہ کتاب ۱۰ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی طباعت میں تین ماہ صرف ہوئے...قرآن کریم کا پہلا نسخہ جس میں عربی متن کے ساتھ سواحیلی ترجمہ دیا گیا ہے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کو ان کے مرکز ربوہ مغربی پاکستان ارسال کیا جائے گا.اسکے
علاوہ اس ترجمہ کے نسخے مسٹر محمد علی وزیر اعظم پاکستان اور مسٹر محمد ظفر اللہ خان وزیر خارجہ پاکستان کو ارسال کئے جائیں گے.عظیم کا رہ نامند : شیخ مبارک احمد صاحب نے اس کتاب کا پہلا نسخہ لیتے ہوئے فرمایا کہ جب وہ ترجمہ کا کام مکمل کر چکے تو ان کے سامنے اس کی طباعت کا مسئلہ در پیش تھا.مشرقی افریقہ میں کسی پولیس کے لئے عربی متن کے ساتھ ترجمہ کی اشاعت ایک نیا اور مشکل مسئلہ تھا.انہوں نے ایسٹ افریقین سٹینڈرڈ کے سٹاف کو اس عظیم کام کی اس قدر قلیل عرصہ میں تکمیل پر مبارکباد پیش کی.نیز فرمایا کہ اس ترجمہ کی اشاعت مشرقی افریقہ کے باشندوں کے لئے بڑی برکت کا موجب ثابت ہوگی، اس کے ذریعہ سے انہیں اطمینان قلب حاصل ہوگا اور وہ اخلاقی اور روحانی رہنگ میں ان کی سر بلندی کا موجب ہوگا نیز کمیونزم کے برے اثرات کے ازالہ اور مختلف فرقوں میں بہتر تعلقات استوار کرنے میں اہم کر دار ادا کر سے گا.انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس مقدس کام میں آپ کی فرم نے جو حصہ لیا ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے بھی برکت دے گا.اس کتاب کی پیشکش کے موقعہ پر ایسٹ افریقین سٹینڈرڈ کا سار اسٹاف جس نے اس قرآن کریم کی طباعت میں حصہ لیا موجود تھا.مسٹر اینڈرسن نے کہا کہ وہ اس تقریب کو ایک بہت بڑا واقعہ گردانتے ہیں نہ صرف اس لئے کہ اس فرم نے قرآن جیسی عظیم کتاب کی طباعت کا کارنامہ سر انجام دیا بلکہ اس لئے بھی کہ اس کی وجہ سے مشرقی افریقہ کے سواحیلی بولنے والے مسلمانوں کے لئے وہ سکون اور روحانی تسکین کا موجب ہوگا.سواحیلی ترجمہ کی اشاعت حضرت میر المؤمنين الصلح المولود انشا مبارک بر تلف که کا تھا قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت کے لئے خاص توجہ دی جائے.مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے اس کی تعمیل کے لئے ایک وسیع پر وگرام تجویز کیا اور ارماہ احسان
۱۲ ۱۳۳۲ ہش ( مطابق اارجون ۶۱۹۵۳ ) کو حضور کی خدمت میں حسب ذیل رپورٹ ارسال کی.حضور کا ارشاد کہ قرآن کریم کے سواحیلی ترجمہ کی اشاعت اصل کام ہے ، اس کے متعلق ضروری پروگرام اور تجاویز اختیار کی جارہی ہیں (۱) اہم ملکی اخبارات میں با قاعده اشتهار (۲) بذریعہ خاص کی پمفلٹ (۳) اخبارات میں ریویو (۴) اور فنکشنز FUNCTIONS (۵) مبلغین کے ذریعہ (۶) بک شاپوں کے ذریعہ (۷) جماعتوں کے ذریعہ کہ وہ اس ترجمہ کو لے کر معتز نہین کے پاس جائیں اور فروخت کریں اور انہیں تحریک کریں کہ وہ افریقینز میں اس کو تقسیم کریں.خود بھی ارادہ ہے کہ ملک کا دورہ کیا جائے.جماعت کے دوسرے کاموں کے ساتھ ساتھ خود ہندوستانی و پاکستانی معززین سے مل کہ انہیں تبلیغ بھی کی جائے اور ترجمہ کے متعلق بھی تحریک کی جائے.ایک خاص نگران کمیٹی مقرر کرنے کی فکر میں ہوں.پاکستان کے گورنر جنرل اپرائم منسٹر اور فارن منسٹر کو مقامی کمشنر پاکستان کے ذریعہ سواحیلی ترجمہ بطور تحفہ دیا جا رہا ہے امروز فردا ہیں...اس موقع پر اخبارات اور فوٹو گرافروں کے نمائندے ہوں گے.مقامی کمشنر پھر خود ان کتابوں کو کراچی بھیجوا دیں گے.ہر ایک کی خدمت میں ایک مختصر خط بھی لکھا جائے گا انشاء اللہ.اِس وقت تک تقریباً ۱۲ ہزار شکنگ کی کتب باہر مختلف ایجنٹوں پیک شاپ اور فرداً فرداً لوگوں کو بھجوائی جاچکی ہیں لیے سواحیلی ترجمہ مشرقی افریقہ کے احمدیہ مشرقی افریقہ کے مختلف علماء اور اہل قلم کے تاثرات میں کا عظیم کا زیادہ ہے جس نے مسلمانان افریقہ کے حوصلے بڑھائے.ان میں عظیم قرآن کی نئی مشعل روشن کی اور غیر مسلموں میں اشاعت اسلام کے نئے رستے کھول دیئے.اکتوبر ۱۹۵۴ء کی بات ہے کہ محترم شیخ مبارک احمد صاحب ٹانگا شہر کے تبلیغی دورہ پر تشریف لے گئے تو ایک مسلم انجمن کے سرکردہ رکن با بوفتح محمد صاحب ( ملازم انجنیٹر نگ ڈیپارٹمنٹ ایسٹ افریقین ریلوے ) نے آپ سے ملاقات کی اور کہا مبارک دینے آیا ے رپورٹ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ بحضور حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود از نیرویی (۱۱رجون ۶۱۹۵۳ )
۱۳ ہوں اور خوشخبری سنانے آیا ہوں یا شیخ صاحب نے کہا وہ کیا ؟ کہنے لگے کہ آپ کے سو امیلی ترجمہ قرآن کریم کی ایک کتاب خرید کر میں نے ایک عیسائی افریقین کو پڑھنے کے لئے دی تھی اس کا خط آیا ہے کہ میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا ہوں لیے اس ترجمہ کی نسبت مشرقی افریقہ کے چند ممتاز علماء اور اہل قلم کی آراء درج ذیل کی جاتی ہیں :.۱- شيخ الغزالی آف ممباسه (کینیا ) :- انہوں نے سواحیلی ترجمہ پڑھنے کے بعد جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں اس ترجمہ کی تعریف کی.کچھ عرصہ بعد انہیں نیروبی آنے کا موقع ملا تو انہوں نے یہاں بھی سو ا خیلی ترجمہ کو سراہتے ہوئے بتایا کہ یہ بالکل صحیح اور درست ہے.۲ - جناب ایونی صالح آت زنجبار به انہوں نے لکھا کہ میں نے قرآن پاک کے اس ترجمہ کا اچھی طرح مطالعہ کیا ہے جو آپ نے میرے لئے بھیجا اور یکں یہ ماننے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ اس قرآن پاک کے متن اور تفسیر میں دوسرے قرآن پاک کے مشنوں اور انگریزی تفسیروں (جن میں مولانا محمد علی عبداللہ یوسف علی.اومارک پکھتال کی تیری ہیں ) میں جو میں نے پڑھی ہیں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا لیکن ایک خاص امر جس کا مجھے پر بہت زیادہ اثر ہے اور جس نے مجھے مجبور کیا کہ تخلوص قلب سے تعریف کروں وہ تفسیر کے بیان کرنے کا طریق ہے.ایسی تغییر جس میں مختلف دلائل اس طرز پر دیئے گئے ہیں جن کو قبول کئے بغیر چارہ نہیں اور ایسے دلائل جن سے پادری سیل اور پادری جے ڈیل کے اعتراضات کے منہ توڑ جوابات آپ کے ے ڈائری مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مقیم نیرو بی ۲۹ اکتوبر ۶۱۹۵۴ کے مدرسہ غزالی مباسہ کے مدرس اور دینی علوم کی اشاعت کا خاص شغف رکھنے والے عالم دین تھے اور دن رات درس و تدریس ان کا وظیفہ تھا : سے آپ بہت عرصہ ٹانگانیکا پولیس فورس میں اعلیٰ عہدہ پر متمکن ہے.بعد ازاں زنجبار آکر اپنے قبیلہ کے لوگوں میں رہائش اختیار کی اور زنجبار کی کونسل کے ممبر بنے.کورین قبیلہ کے سرکردہ علم دوست احباب میں سے تھے بہ
۱۴ سواحیلی ترجمہ وتفسیر قرآن پاک میں دیئے گئے ہیں جن کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے..جناب اسے عبداللہ آف مومبو (تنزانیہ) نے لکھا:.آپ کے اس مقدس کام کا بہت بہت شکریہ.اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی ہر عطا فرمائے ہم نے قرآن مجید جیسی پاک و مقدس کتاب پائی.آج میرا فرض ہے کہ آپ کو آپ کے اس اہم کام کئے تعلق کچھ لکھوں اور آپ کے اس انتھک محنت والے کام پر اظہار ہمدردی کمروں.- جناب عمادی آر و بٹی آف ارنگار تنزانیہ) نے لکھا :.آپ کی طرف سے قرآن پاک کے سو اصیلی ترجمہ و تفسیر کو پا کر نہایت ممنون ہوں.آپ کے اس بڑے اور اہم کام پر آپ کو مبارکبا د عرض کرتا ہوں.(ترجمہ) ۵.جناب ڈی.اسے.لاس صاحب نے لکھا :- یکس آپ کی خدمت میں آپ کے اس اچھے کام پر جو کہ آپ نے مشرقی افریقہ کے لوگوں کیلئے کیا مبار کبا د عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں اور ایک سو شلنگ کا چیک ساتھ منسلک کر رہا ہوں جس سے آپ اس قرآن پاک کے چند نسخے مفت تقسیم کر سکیں.یہ ایک چھوٹی سی حقیر رقم اس غرض کے لئے ارسال خدمت ہے.(ترجمہ) - معلم ایم.ٹی.رمضان ہا ہمیشی آن ایجی تنزانیہ) نے لکھا.(43131) ایجی ٹاؤن میں لیکن دوسرا شخص ہوں جسے قرآن پاک کا سو امیلی ترجمہ دیکھنے کی لے اپنے علاقہ کے ایک بڑے کاروباری اور تاجر تھے.جنگ عظیم کے وقت جو احمدی اس علاقہ میں ہندوستان سے گئے ان سے ان کے مراسم تھے.کے ارنا کے علاقہ کے ایک مشہور صاحب علم اور تبلیغ اسلام سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے ہیں.سے نیروبی میں مقیم انگریز نومسلم جو قریباً سترہ سال سے مسلمان ہیں آپ اسلام کی تعلیم سے گری واقعیت اور موازنہ مذاہب پر گہری نظر رکھتے ہیں جنہوں نے WHY ISLAM ، ایک تحقیقی کتابچہ عیسائیت کے روئیں اور اسلام کی برتری کے سلسلہ میں لکھا جو مقبول عام ہوا.کے اہل قلم مضمون نگار اور سواحیلی زبان میں دینی علوم کی درس و تدریس کا شغل رکھتے ہیں ؟
سید نا حضرت مصلح موعود کے سفر کراچی ۱۹۵۳ء کا ایک یاد گار فوٹو
۱۵ توفیق ملی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کی بابت کچھ لکھوں.میں آج بہت بڑی خوشی محسوس کرتا ہوں اور مجھے اس اعلیٰ کام نے حیرت میں ڈال دیا.میں نے اپنی زندگی میں ایسا ترجمہ و تفسیر سواحیلی نہیں دیکھا.اب یکی آپ کے ترجمہ قرآن پاک کی خوبی بیان کرتا ہوں.مجھے جب سے یہ تفسیر ملی اسی وقت سے مجھے اس کا دوسری چھوٹی چھوٹی تفسیروں سے جو کہ ممباسہ اور زنجبار سے حاصل کی تھیں مقابلہ کرنے کا موقعہ ملا تو بلاشبہ آپ کی تفسیر و ترجمہ بہت بہتر پایا.مزید بر آنی آیات کی اگرچه پرمختصر تفسیر متن کی ہے مگر ظاہری لحاظ سے اس تفسیر میں بہت سی حکمت کی باتیں ملتی ہیں.میں نے تفاسیر میں میراث کے مسئلہ کے متعلق اتنی وضاحت نہیں دیکھی اور نہ ہی پڑھی جیسا کہ آپ کے ترجمہ و تفسیر میں ہے.معلم سونگور و مرجان لو انو آن کا مولو (تنزانیہ) نے لکھا:.یکی اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ جس نے میری دعائیں قبول کر کے میرے احمدی بھائیوں کو قرآن پاک کا سوا خیلی زبان میں ترجمہ و تفسیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی جس میں پادری ڈیل اور اس جیسے دوسرے دشمنان اسلام کے اعتراضات کے جواب ایسے رنگ میں دیئے گئے ہیں کہ جن کا جواب دینا ایسے دشمنان اسلام کے لئے نہایت ہی مشکل ہے.یہ ترجمہ و تفسیر سواحیلی ہر مسلمان کے لئے ہر جگہ زبر دست ہتھیار کا کام دے گی.مجھے آج بے حد خوشی ہوئی.الحمد لله رب العلمين.(ترجمه).جناب محمد کا لونیا آن او ونزار تنزانیہ ) نے لکھا :.یں سچ سچ کہتا ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم افریقین قوم کی حالت بدلنے کے لئے بھیجا ہے اور ہمیں مردہ حالت سے نکال کہ زندگی دینے کو بھیجا ہے.آپ ہمیں بڑے سخت اندھیرے سے نکالنے کے لئے آئے اور ہمارے لئے ایسا چراغ لائے جو کبھی نہ مجھ سکے گا.برا کیا.یکی آج سے آپ کے ساتھ ہوں.ی حقیقت ہے کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ اچھا کیا ہے اور نے مسلم سوسائٹی کے ایک سرکردہ رکن اور گورنمنٹ سکول برائے افریقین کے استفادہ سے اپنے علاقہ کی سرکردہ شخصیت ہیں :
14 وجہ یہ کہ آپ کے سوا خیلی ترجمہ و تفسیر سے قبل ہم گہرے اندھیرے میں تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس اندھیر سے کو دور کرنے کے لئے ہمارے پاس بھیجا.اللہ تعالیٰ آپ کے اِس کام کو قیامت تک مضبوطی سے قائم رکھے.(ترجمہ) - جناب ناصر شریف آف پیمیا زنجبار) نے لکھا :- میں اتنا خوش ہوں کہ میں نے ترجمہ وتفسیر سواحیلی قرآن پاک کی خبر ملتے ہی ایک دم پمفلٹ تقسیم کر کے تمام دوستوں میں پھیلا دئے.اسی عرصہ میں میرے دوسرے ساتھی جس میں مسٹر انکے رشید او گوٹو شامل ہیں میرے پاس آئے اور آپ کے شائع کردہ سواحیلی قرآن پاک کے بارے میں ایسے ہی تعریفی کلمات کہے جیسے کہ میرے دل میں موجود تھے.مجھے فی الحقیقت اس تفسیر کا بہت دنوں سے شوق تھا.مدت سے اس ترجمہ کے منگوانے کے لئے فکر مند تھا.اب مجھے یقین ہے کہ یکی جلد ہی آپ سے اس ترجمہ و تغییر سواحیلی قرآن پاک کا ایک نسخہ اپنی پیاس بجھانے کے لئے حاصل کر لوں گا اسلئے یکس نے اور دوسرے ساتھیوں نے ایڈمنسٹریشن بلڈنگ سے آپ کو پیسے بھجوائے ہیں.(ترجمہ) ۱۰.جناب جمیس محمود آف رو جیجوا نے لکھا :- یہ واقعہ ہے کہ آپ کے سوا خیلی ترجمہ و تفسیر قرآن پاک کو پاکر یکیں بہت خوش ہوا ہوں.مجھے یہ بڑا ہی پسند آیا ہے.اس ترجمہ و تفسیر میں عیسائیوں سے زبر دست مقابلہ کیا گیا ہے.یہ کام حقیقتاً عین ضرورت پر اور عین وقت میں ہوا ہے کیوں کہ عیسائیوں نے ہمیں مشرقی افریقہ میں چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا.(ترجمہ).سنو وائٹ آف گومہ (تنزانیہ) نے لکھا :- یکی بہت شکر گزار ہوں اور جماعت احمدیہ مشرقی افریقہ کو قرآن پاک کے سوا حیلی ترجمہ و تغییر کے پہلی بار مشرقی افریقہ میں شائع کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں.ترجمہ اتنا عمدہ اور اعلیٰ ہے کہ انسان کا دل چاہتا ہے کہ پڑھتا ہی جاوے.اس کے علاوہ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ ترجمہ ے علاقہ زنجبار میں سرکاری ملازم تھے ؟ کے سوا خیلی زبان کے معروف شاعر اور مشہور صحافی :
14 بڑا اچھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی متن اور سو امیلی ترجمہ میں بڑی مطابقت ہے.عربی نفی میں بھی کوئی خرابی نہیں تفسیری نوٹس علم و معرفت سے لبریز ہیں.عربی زبان سے ناواقف کے لئے ان کا مطالعہ عالم بنانے کے لئے کافی ہے.(ترجمہ) ۱۲ - جناب شیخ ایک.ایل پینگا آف نیا سالینڈ (ملاوی) لکھتے ہیں : آپ کا بہت بہت شکریہ.میں نے قرآن پاک سواحیلی کا نسخہ وصول کیا.یکں اس قرآن پاک کی فصاحت تفسیر کو دیکھ کر دنگ رہ گیا.بہ نسبت اس قرآن کے جیسے میں نے ۱۹۳۲ء میں دار السلام تک شاپ سے پادری ڈیل آف زنجبار کا لکھا ہوا خریدا تھا حقیقتاً یہ سواحیلی ترجمہ و تفسیر قرآن پاک ایٹم بم کی طرح ثابت ہوا ہے.کیکی واقعی بڑا خوش ہوں کیونکہ اس میں حرف بہ حرف ترجمہ ہے اور ساتھ ہی تو رات اور انجیل کی آیات سے استدلالی پیش کیا گیا ہے.ایسی ترجمہ و تفسیر کی مثال واقعہ میں کوئی نہیں ملتی.اللہ تعالیٰ اس ترجمہ و تفسیر کرنے والے مفتر کو برکت سے نوازے.آمین (ترجمہ) ۱۳.جناب اے.اسے کیا نڈو آف لگومہ (تنزانیہ) نے لکھا:.یہ ترجمہ و تفسیر جو جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے بہت ہی اچھا ہے.اس کی تفسیر حکمت و معرفت سے پر ہے.عربی متن کی تفسیر بہت ہی آسان اور شیریں ہے اور لفظ بلفظ تفسیر ہے.علیم میراث جو کہ اسلام میں بڑا ہی مشکل ہے اس ترجمہ و تفسیر سواحیلی میں بڑے آسان طریقہ اور مہارت سے ترتیب دیا گیا ہے.اس میں سابقہ کتب کے جو نام دیئے گئے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے که یه تفسیر بالکل صحیح اور بڑی قیمتی ہے.ایسے لوگ جو تھوڑی سی عربی بھی جانتے ہیں وہ اس تغیر کے بہتر اور اعلیٰ ہونے کے بارے میں غلطی نہیں کریں گے اور عربی زبان کے علم میں مہارت پیدا کرسکیں گے ہم جماعت احمدیہ کے ان معزز احباب کے جنہوں نے ایسی تفسیر سواحیلی زبان میں کی جس کی اشد ضرورت تھی اور شائع کیا بہت بہت ممنون ہیں.(ترجمہ) ۱۴ - جناب کے.آئی.ایس.ملمبا (MI LIMBA ) آفت دار السلام (تنزانیہ) لکھتے ہیں :.اگر چہ متعدد لوگوں نے قرآن پاک کے اس سوا خیلی ترجمہ کے عمدہ اور اعلی ہونے کے بارہ میں بہت کچھ لکھا ہے لیکن مزید قرآن پاک کے اس سواحیلی ترجمہ کے پڑھنے والوں پر زور دیتا ہوں کہ قرآن پاک کا یہ سواحیلی ترجمہ بہت ہی اچھا ہے اور تفسیر بڑی واضح اور حکمت سے پر.ار فی حقیقت
JA معجزہ ہے.اس لیئے لیکن ایسٹ افریقین احمدیہ مسلم مشن کا اُن کے اِس اہم کام یعنی قرآن پاک کی سواحیلی زبان میں ترجمہ و تفسیر شائع کرنے کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں.قرآن پاک کی سوراحیلی تفسیر مشرقی افریقہ کے سارے عالم و شیوخ کئی سالوں تک بھی نہ کر سکے.اُن کے تفسیر سواحیلی نہ کر سکنے کی وجہ سے انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تفسیر ہو ہی نہیں سکتی اور ایسا کام کرنا کفر ہے اب قرآن پاک کی اس سواحیلی تفسیر سے واضح ہوتا ہے کہ صرف احمدی ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح راستے پر گامزن ہیں.لیکن جماعت احمدیہ کے لئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی برکات و رحمت اس پر ہوں.آمین (ترجمہ) تو در اوایل یک سال اشاعت تین تعداد کی ا ترجمہ سواحیلی کی پہلی اشاعت دنیا ہزار کی تعداد میں کی گئی.دسمبر قیدیوں کا قبول اسلام 1909 ء یک اس کے قریبا چھ ہزار نسخے فروخت یا تقسیم ہو چکے ۱۹۵۹ء تک تھے.بہت سے نسخے جیل خانوں کو ارسال کئے گئے بالخصوص ماؤ ماؤ ڈیٹینشن کیمپوں کو ، جہاں ان کی بہت مانگ تھی.اس کتاب کی وجہ سے بہت سے تعلیم یافتہ اور سمجھدار قیدیوں نے قبولِ اسلام کیا.اس سلسلہ میں بطور نمونہ بعض خطوط کا ذکر کرنا مناسب ہوگا.ا.مسٹر نارین نیتھنگے کا مبا قبیلہ کے ایک قیدی نے قرآن کریم کے سوا حیلی ترجمہ کے بار بار پڑھنے کے بعد اسلام قبول کر لیا.آپ نے ۲۹ اپریل ۱۹۵۹ ء کو لکھا کہ میں نے اپنی ساری زندگی اشاعت اسلام کے لئے وقف کر دی ہے اور اگر اسے قبول کر لیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ میں پوری طرح اس پر عمل کر کے دکھاؤں گا.۲ - جو روگ جو گو (NIOROGENIOGU ) ایمر جنسی ریگولیشنز کے تحت ۱۹۵۳ء سے گرفتار تھے آپ نے اور جنوری ۱۹۵۹ء کو لکھا کہ میں اپنی جوانی کے زمانہ سے عیسائیت کا پرچار کر رہا تھا لیکن اب یکس نے اپنا ارادہ تبدیل کر لیا ہے اور یکی چاہتا ہوں کہ آپ کے پیچھے مذہب اسلام کا مطالعہ قرآن کریم پڑھ کر کروں.مسٹر کب کیگیرا (KI BE KAGIRA ) بھی ایمر جنسی ریگولیشنز کے تحت گرفتار تھے ۱۶ جنوری ۱۹۵۹ء کو لکھا کہ میں اپنی جوانی کے زمانہ سے عیسائی ہوں لیکن اب قرآن کریم پڑھنے کے بعد آپکے مذہب کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں مجھے یقین ہے کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے خدائے تو انا نے جو
19 پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ دیا ہے اس کا مجھے (کافی) وسیع علم ہو جائے گا.جو روگ کرن (NTOROGE KARAN ) ایک ماؤ ٹاؤ قیدی تھے آپ نے ۱۲ جنوری ۱۹۵۹ء کو لکھا کہ یکی قریباً ۵۰ سال کی عمر کا آدمی ہوں.اپنی جوانی سے عیسائی تھا لیکن اب یکی قرآن کریم کے مطالعہ کا ارادہ رکھتا ہوں.۵ - مسٹر محمد ڈی.ایم.مادھو نے ۲۸ جون ۱۹۵۹ء کو ہونا اوپن کیمپ CHOLA OPEN CAMPS سے لکھا یہ کتاب یعنی قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ) بڑی اہم ہے اور یہی وہ کتاب ہے جس نے مجھے اور عمر کو اس قدر یقین اور اطمینان دلا دیا ہے کہ ہم کو بغیر کسی اور کے مشورہ کے مسلمان ہو جانا چاہیئے.ہول کیمپ میں جو کیکویو قبیلے کے افراد قیدی ہیں وہ مشن سے زیادہ تر یہی کہتے ہیں کہ انہیں مذہب اسلام کی کتب بالخصوص قرآن کریم مہیا کیا جائے.پھر اپنے ایک اور خط مورخ ۱۲ اگست ۱۹۵۸ء میں لکھا کہ جس گھر میں خدا کی روشنی رہتی ہے اس گھر کی کنجی قرآن کریم ہے.یقینا اگر قرآن سواحیلی زبان میں آج سے دس سال قبل ترجمہ ہوچکا ہوتا تو اس سے کینیا کے مسائل حل ہو گئے ہوتے ہمیں بڑے افسوس کے ساتھ آپ کو یہ اطلاع دینی پڑ رہی ہے کہ ہم مسلمانوں کے بڑے دشمن تھے لیکن اب ہمیں یہ مجھے آگئی ہے کہ وہ (صحیح اپنی آواز جو تمہیں پکار رہی ہے وہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز ہے..مسٹر مناسح کا بوجی جوگونا (MAMASSEH KABUGI NIUGUNA ) نے ۲ را گست ۱۹۵۹ء کو ہولا اوپن کیمپ سے ایک طویل خط لکھا جس میں انہوں نے بیان کیا کہ ، اماؤ ٹا ؤ قیدیوں نے اپنے پرانے مذہب کو چھوڑ دیا ہے اور قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ پڑھنے کے بعد اسلام کو قبول کر لیا ہے.انہوں نے مزید ۱۸ افراد کی فہرست بھیجی جو اس ترجمہ کے پڑھنے کی طرف مائل ہیں ایک ان میں سے ہر ایک کو قرآن کریم کا ترجمہ مہیا کر دیا گیا ہے.مسٹر کا بوجی جو گونا نے مؤرخہ 9 کو پھر لکھا کہ میں اور بہت سے قیدی جنہیں آپ نے مہربانی سے قرآن مہیا کیا آپ کے مشن کے اس مفید کام کے شکر گذار ہیں جو آپ اس ملک میں کر رہے ہیں.ہم اس (کتاب) کو بار بار پڑھ رہے ہیں کیونکہ ہمیں یہ بہت مفید معلوم ہوتی ہے.بہت سے لوگ جو اپنی رائے تبدیل کر رہے ہیں اور عیسائیت میں ان کی پوپ سپی ختم ہو رہی ہے انہیں اس
امر کا اشتیاق ہے کہ ان کے پاس قرآن کریم کا اپنا نسخہ ہو.مجھے اس امر کا علم ہے کہ آپ اسلام کی اشاعت پر بہت روپیہ خرچ کر رہے ہیں اور آپ کو پیش کر خوشی ہوگی کہ افریقیوں میں مذہب اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے یہ مندرجہ بالا اقتباسات سے بخوبی پتہ چل سکتا ہے کہ اِس ترجمہ نے مشرقی افریقہ کی علمی اور تبلیغی تاریخ پر کتنا گہرا اثر ڈاں ہے.جہاں مشرقی افریقہ کی ممتاز مسلم اور غیر سم شخصیتوں ترجمه سواحیلی کار و عمل منتصب طبقہ ہے نے اس اسلامی خدمت کو فراخ دلی سے سراہا اور خراج تحسین ادا کیا وہاں ایک صاحب شیخ عبد الله صالح غیر از جماعت عالم نے اس ترجمہ کے ایک خاصے حصہ کی حرفاً حرفاً نقل کی اور اس کے بعض مقامات میں اپنے مخالفانہ نوٹوں کا اضافہ کر کے اسے ایک نئے ترجمہ کے طور پر شائع کیا.اس حرکت کو مشرقی افریقہ کے علمی حلقوں میں انتہائی غیر پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا چنانچہ ایک • غیر از جماعت عالم الشیخ شریف احد عده ای آن مبروٹی کینیا نے اپنی کتاب FIMBO YA MUSE (عصائے موسی کی فصیل مفتم صفحہ اللہ میں اس روش پر تنقید کرتے ہوئے لکھا:."Pia ni ajabu ya pili kwa Sheikhtukitazama Täfsiri yake jinsi alivyowashambulia hawa Makadiani, baadaye akawa akarudi afasiri na kueleza kama wali- vyofasiri na kueleza wao Makadiani.” (FIMBO YA MUSA cha Sharief Ahmad A.Badawiy, Faslu ya Saba ‘Kupingana Makadiani', Jalalen na Kuafikiana na uk.41).شیخ عبد اللہ صالح) کی دوسری تعجب انگیز بات یہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ پہلے تو وہ قادیانیوں کے ترجمه اخبار ایسٹ افریقین ٹائمز " نہ EAST AFRICAN TIME" دسمبر ۶۱۹۵۹ صلا به سے بحواله سواحیلی اخبار میکینزی یا مونگو " MAPENZI YA MUNG U" اگست ۶۱۹۷۱ +
۲۱ ترجمہ پر حملہ کرتے ہیں اور پھر ان کے ترجمہ اور تفسیر کے مطابق ترجمہ اور تفسیر کرنے لگ جاتے ہیں.(ترجمہ) الشيخ بداوی کے یہ الفاظ نہ صرف احمدی علیم تفسیر کی فوقیت و برتری کا کھلا ثبوت ہیں بلکہ ان سے جماعت احمدیہ کے شائع کردہ سواحیلی ترجمہ و تفسیر کی عظمت و افادیت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے لیے فصل دوم مرکز احمدیت میں دو اہم اشاعتی اداروں کا قیام سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے مشاورت ۶۱۹۵۲ / ۳۳۱ امش میں فیصلہ فرمایا تھا کہ اسلامی لٹریچر کی اشاعت کے لئے دو کمپنیاں قائم کی جائیں.اس ارشاد مبارک کے مطابق اس سال " الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹیڈ اور دی اورینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن لینڈ کے نام سے دو اہم اشاعتی اداروں کا قیام عمل میں آیا." الشركة الاسلامیہ لینڈ اور اس کا پراسکی اپیل کی الشرکہ الاسلامیہ لینڈ کے نام پہلی کمپنی سے ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء تبلیغ ۳۳۲ امین کو قائم ہوئی اور اس کا تعارف اور کیفیت نامہ ( PROSPECTUS ) حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا گیا :.1 ا - منظور شده و جاری شده سرما یہ تین لاکھ پچاس ہزار روپیہ بلیس ہیں روپیہ کے سترہ ہزار پانصد خصص: منقسم ہے.۲.اس سرمایہ کے بھاری کرنے کی گورنمنٹ پاکستان کی منظوری زیر کیٹل شو کنٹی شونیو میں آن لے ترجمہ کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۱ ء میں اور تیسرا ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا.موخر الذکر ایڈیشن لندن سے The Greshm Press, old woking میں چھپا اور حضرت خلیفہ ایسیح الثالث کے ارشاد پر اسے عربی طریق کے مطابق دائیں سے بائیں طبع کروایا گیا نیز مولانا منور احمد صاحب کا مرتبہ انڈیکس بھی شامل کیا گیا جس سے اس کی افادیت بڑھ گئی.
۲۲ کنٹرول ایکٹ ہر زیر آر ڈرنمبر 52/cc/18.7 مورخہ ہے، حاصل کی گئی ہے.مرکزی حکومت پر اس اجازت دینے سے کمپنی کی مالی حالت یا کمپنی کی کسی سکیم یا اظہار رائے کی صحت کے متعلق کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی.- ڈائریکٹرز - (۱) مولوی جلال الدین صاحب شمس چیئر مین ربوه (۲) خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب ناظر بیت المال مصدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوه (۳) سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نا خرد عوة وتبليغ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوه (۴) مولوی عبد المنان صاحب، ایم.اسے انچارج تالیف و تصنیف تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان ربوه (۵) صاحبزادہ مرزا احفیظ احمد صاحب بزنس مین ربوه.۴.رجسٹرڈ آفس.ربوہ ضلع جھنگ.۵- بینک.دی نیشنل بنک آف پاکستان لاہور - دی آسٹریلیش یا بنک لمیٹڈ لائل پور.- آڈیٹرنہ.ایسی رسول اینڈ کمپنی لاہور مقاصد.یہ کمپنی عام طور پر ان اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے جو کمپنی کے میمورنڈم اور آرٹیکل آف ایسوسی ایشن میں درج کئے گئے ہیں.ان اغراض و مقاصد میں دیگر امور کے علاوہ مختلف علوم وفنون کی کتب، قرآن مجید اور دیگر اسلامی کتب کی طباعت و اشاعت کا کام خاص طور پر قابل ذکر ہے.ڈائریکٹر بننے کی شرط - ڈائریکٹر بنے کے لئے کم سے کم ۰۰۰ ۳۵ روپے کے خصوصی خرید نے ضروری ہیں.بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگوں میں شمولیت کے لئے ڈائر یکٹروں کو علاوہ اس سفر خرچ وغیرہ کے جو بورڈ آف ڈائریکٹر مقرر کرے گا مبلغ پچاس روپے تک فی میٹنگ دیئے جا سکتے ہیں.۹ - حصص کے مشترک خریدار انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر حصہ کی رقم کی ادائیگی کے ذمہ دار ہوں گے لیکن ان میں سے جس کا نام رجسٹر میں پہلے درج ہو گا ووٹ وغیرہ دینے اور نوٹس کے بھیجوانے اور سرٹیفیکیٹ کی وصولی میں انہیں مد نظر رکھا جائے گا.منافع کی وصولی کے لئے ان میں سے کسی بھی حصہ دار کے دستخط کافی ہونگے.له وفات ۱۲ اکتوبر ۱/۶۱۹۶۶ خاء ۳۲۵ انش + ۲ وفات و جون ۶۱۹۵۹ کر احسان ۱۳۳۸ هش سے وفات ۱۶ مئی ۶۱۹۶۷ ہجرت ۳۴۶اہش +
۲۳ ایک حصہ کے لئے صرف ایک ہی سٹینڈ کیٹ ہو گا.۱۰.کمپنی کا جاری شدہ سرمایہ تین لاکھ پچاس ہزار روپیہ ہے اور یہ نہیں ہیں، روپیہ کے سترہ ہزار پانصد حصص پر منقسم ہے.11- ابتدائی مصارف - اندازہ کیا گیا ہے کہ ابتدائی مصارف، چار ہزار روپیہ سے زیادہ نہ ہوں گے.اس میں حصص کی فروخت کے لئے اشتہارات اور کمیشن کے اخراجات شامل نہیں ہیں.-۱۲ مینجنگ ڈائریکٹر ابھی تک مینجنگ ڈائریکٹر کا تقریر نہیں ہوا.جب تک باقاعدہ طور پر کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹریا مینجنگ ایجنٹ مقرر نہیں ہوتے مولوی جلال الدین صاحب شمس کہی تعلقہ امور سر انجام دیں گے.-۱۳ انتقال حصص کمپنی کے حصص کے انتقال کے متعلق کوئی غیر معمولی پابندی نہیں گو کمپنی کے حقوق کو فائق رکھا جائے گا.ڈائریکٹروں کو اختیار ہے کہ ایسے حصص کے انتقال کو منظور نہ کریں جن کی پوری قیمت ادانہ کی گئی ہو.نیز ڈائریکٹر کوئی ایسا انتقال بھی جو کسی نا پسندیدہ منتقل الیہ کے حق نہیں ہونا منظور کر سکتے ہیں.۱۴.کمپنی کے ہیمورنڈم اور آرٹیکلز آن، ایسوسی ایشن کی کاپی کمپنی کے دفتر کے مقررہ اوقات کار میں دیکھی جا سکتی ہے اور قیمتا ایک روپیہ ہمیں حاصل کی جاسکتی ہے.۲۰۱۵ خرید حصص کا طریق.کمپنی کے حصص کی خرید کا طریق نہایت آسان ہے ایک حصہ کی قیمت ہیں روپے ہے اور اس کا طریق حسب ذیل ہے :- (۱) درخواست کے ہمراہ دورو پیر فی حصہ (۲) درخواست منظور ہونے پر تین روپیہ فی حصہ (۳) بقیہ پندرہ روپے پانچ پانچ روپیہ کی تین قسطوں میں ادا ہوں گے.ہر قسط کی ادائیگی کا درمیانی وقفہ کم سے کم ایک ماہ ہو گا اور اگر کوئی صاحب خرید کردہ حصوں کی پوری رقم یکمشت درخواست کے ہمراہ یا درخواست منظور ہونے پر ادا کرنا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں حصص کی خریداری پر کوئی پابندی نہیں ہر شخص جس قدر خصص خرید نا چاہے خرید سکتا ہے.-14 ڈائریکٹروں کو اختیار ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو بطور معاوضہ کمیشن دیں جس نے کمپنی کے حصص خرید یا فروخت کئے ہوں یا فروخت کرنے کا معاملہ کیا ہو مگر اس کمیشن کی مقدار حصص کی مالیت پر
پرا ۲ فیصدی سے زائد نہ ہوگی.۱۷ - درخواست فارم مورخه بسم الله الرحمن الرحیم بخدمت ڈائریکٹرز الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ زیوہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ یکی الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ کے.....معمولی حصص بحساب ہیں روپے فی حصہ خریدنا چاہت ہوں اور اس درخواست کے ہمراہ مبلغ.....روپے بطور ابتدائی رقم کے بذریعہ.....ارسال ہیں.آپ میرے اس قدر یا اس سے کم حصص جو بھی مقرر کریں گے وہ مجھے زیر شرائط مندرجہ میمورنڈم و آرٹیکلز آن ایسوسی ایشن و پراسپیکٹس منظور ہوں گے.میری طرف سے آپ کو اختیار ہے کہ آپ مجھے کمپنی مذکور کے رجسٹروں میں ان حصص کا مالک درج کریں.لیکن پاکستانی شہری ہوں.نام ولدیت یا زوجیت دستخط پستہ مینجنگ ڈائریکٹر نے اس اشاعتی ادارہ کے پہلے چیرمین اور مینجنگ ڈائریکٹر خالد احمدیت چیئر مین اور ڈائریکٹران حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس تھے.آپ فروری ۱۹۵۳ء تبلیغ ۱۳۳۲ اہش سے لے کر ۱۳ اکتوبر ۶۱۹۶۶/ اخاء ۳۴۵ اہش یعنی وفات کے دن تک ادارہ کے لئے وقف رہے.الشرکۃ الاسلامیہ کو مضبوط بنیا دوں پر استوار کرنے میں آپ کی کوششیں ہمیشہ آپ زر سے لکھی جائیں گی.آپ کے وصال کے بعد مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه (سابق امام مسجد لنڈن ) کو اس کا چیئرمین اور ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اور آپ ۳۰ جون ۱۹۷۱ ء تک یہ دینی خدمت بجالاتے رہے.یکم جولائی ۱۹۷۱ء سے اب تک مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل (ناظر اشاعت لٹریچر و لے روزنامہ المصلح کراچی مورخہ 4 مئی ۶۱۹۵۳ ہجرت ۱۳۳۲ اہش مٹ
۲۵ تصنیف ) یہ فرائض سر انجام دے رہے ہیں.ابتدائی ڈائریکٹر ان کے بعد حضرت شیخ کریم بخش صاحب کوئٹہ ، چوہدری عبد الواحد صاحب بی را سے نائب ناظر اصلاح و ارشاد)، مولوی محمد احمد صاحب جلیل (پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ) ، حافظ عبد السلام صاحب شملوی (سابق وکیل اعلیٰ تحریک جدید) اور مولوی نور محمد صاحب تیم سیفی (سابق رئيس التبلیغ مغربی نورمحمد افریقہ) کو بھی ڈائریکٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا.محترم چوہدری عبد الواحد صاحب بی.اسے قریباً پندرہ سال تک اس اشاعتی ادارہ کے ڈائریکٹر رہے.موجودہ ڈائر یکٹر ان کے نام یہ ہیں:.ا - محترم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل (چیرمین و منیجنگ ڈائریکٹر) ربوہ ۲- محترم چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه ( ناظر امور عامه ) ریوه ۳ - محترم مولوی عبد المالک خان صاحب ( ناظر اصلاح و ارشاد) ریوه -۴- محترم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر ( نائب وکیل التبشير ) ریوه - محترم شیخ محمد اقبال صاحب پراچہ (سرگودھا) -A -4 محترم چوہدری عبد الحکیم خان صاحب ( محمد پورہ فیصل آباد) محترم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب ( ابن حضرت مصلح موعود ) ریوه الشركة الاسلامیہ کے قیام پر ربع صدی ہو چکی الشركة الاسلامیہ کی مطبوعات پر ایک نظر ہے.اس مد میں ادارہ کی طرف سے قرآن عید A کے علاوہ) حضرت مسیح موعود ومحمد مسعود علیہ الصلوة والسلام، خلفاء احمدیت اور علماء سلسلہ احمدیہ کا جو بیش بہا پر معارف اور روح پرور ٹر پر شائع ہوا وہ حسب ذیل ہے :- ا - روحانی خزائن.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملکہ کتب کا مکمل سیٹ " روحانی خزائن کے نام سے ۲۶۲۲۰ کے سائز پر شائع کیا گیا جونئیس جلدوں پرشتمل ہے.سیٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی ہر جلد کے ساتھ مضامین اور حوالہ جات کی تفصیلی فہرست (INDEX) بھی دی گئی ہے جو مجموعی طور پر قریباً دو ہزار صفحات پر محیط ہے.سیٹ کی انیس جلدوں کی فہرست حضرت مولانا شمس صاحب نے مرتب فرمائی اور آپ ہی کے زیر انتظام اُن کی اشاعت ہوئی.بعد کی چار جلدیں مکرم چوہدری ظہور احمد صاب باجوہ کی زیر نگرانی طبع ہوئیں اور ان کا انڈیکس مکرم سید عبد الحی صاحب فاضل ایم اے نے تیار کیا.
۲۶ مکمل سیٹ کی کتابت کی سعادت مکرم منشی محمد اسمعیل صاحب خوشنویس مهاجر امرتسری (حال ربوہ) کو نصیب ہوئی کئی مخلصین جماعت نے مکمل سیٹ کی قیمت پیشگی ادا کر دی تھی جن کے نام روحانی خزائن عمل کے دیباچہ میں شائع کر دیئے گئے.۲ - ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام - حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات طیبہ، جو علم و معرفت کا خزینہ ہیں، الشركة الاسلامیہ نے دینی جلدوں میں شائع کئے.روحانی خزائن علہ کی طرح اس سیٹ کی ہر جلد کے ساتھ بھی تفصیلی انڈیکس شامل ہے جو قریباً نوسو صفحات پر مشتمل ہے.ملفوظات کی نو جلدیں حضرت مولانا شمس صاحب نے چھپوائیں اور پہلی چار جلدوں کا انڈیکس بھی تیا ر کیا.بقیہ جلدوں کی فرست حضرت مولانا عبداللطیف صاحب بتاتا و پوری نے ترتیب دی.ران ملفوظات کی مکمل ترتیب و تدوین مندرجہ ذیل اہل قلم کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ تھی :- چوہدری احمد جان صاحب وکیل المال تحریک جدید (جلد ۱ تا ۳) شیخ عبدالقادر صاحب نوسلم مربی سلسلہ احمدی ، مولوی عبدالرشید صاحب مولوی فاضل (جلد)، مولا نا محمد اسمعیل صاحب یا لگڑھی مرتب سلسلہ احمدیہ (جلد ۲ تا ۱۰) ملفوظات کا یہ سیٹ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی تحریک خاص پر اشاعت پذیر ہوا جیسا کہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۲۰ اگست ۶۱۹۶۰ کو ملفوظات کی پہلی جلد کے شروع میں لکھا ہے :.ہمارا ارادہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی جملہ کتب کی طباعت کے بعد ڈھانی خزائن کا دوسرا سلسلہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات مکتوبات اور ملفوظات پر مشتمل ہوگا شروع کریں لیکن بعض دوستوں اور خصوصا حضرت صاجزادہ مرزا ناصر احمد کما رتبه ه وفات ۳ نومبر ۶۱۹۷۷ / نبوت ۱۳۵۶ اہش.آپ کے مختصر سوانخ ، تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ اس (حاشیہ) میں درج ہیں ہے ه وفات ۱۸ار نومبر ۱۶۱۹۶۶ نبوت ۱۳۴۵ همش :
۲۷ کے شدید اصرار پر کہ ملفوظات جلد شائع ہونے چاہئیں، الشركة الاسلامیہ لیٹیڈ ملفوظات شائع کر رہی ہے ہمارے مقریہ پروگرام میں تبدیلی کی وجہ جماعت کا یہ شدید احساس بھی ہے کہ اس وقت تربیت کی سخت ضرورت ہے...ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام ایک ایسا قیمتی خزانہ ہے جو خود ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے اندر ایک غیر معمولی مواد اور طاقت رکھتے ہیں...ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکمل سیٹ کی کتابت کرنے کا شرف چوہدری شاہ محمد صاحب خوشنویسی (مرحوم) کو حاصل ہوا.۳ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام - حضرت اقدس علیہ الصلوة والسلام - کے جملہ ایمان پرور اشتہارات حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق" قادیان نے تبلیغ رسالت کے نام سے دنیا جلدوں میں شائع فرمائے تھے.محترم مولانا عبد اللطیف صاحب بہا ولپوری نے محنت شاقہ اور عرقریزی سے مزید اشتہارات تلاش کئے اور ان میں مفید اضافہ کیا جس کو الشركة الاسلامیہ نے تین جلدوں میں شائع کیا.ان جلدوں کی کتابت بھی چوہدری شاہ محمد صاحب خوشنویس نے کی اس مجموعہ کی پہلی جلد مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ کے زیر انتظام اور بقیہ دو جلدیں مریم قاضی محمد ندیہ صاحب کی نگرانی میں شائع ہوئیں.-۴- تذکره المجموعه الهامات و کشون و رویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام) تذکرہ کا پہلا ایڈیشن بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے دسمبر ۱۹۳۵ء میں شائع کیا جس کے اکیس سال بعد الشركة الاسلامیہ کی کوشش سے اس کا دوسرا شاندار ایڈیشن اکتوبر ۱۹۵۶ء میں منظر عام پہ آیا.حضرت مولانا شمس صاحب نے طبع دوم کے پیش لفظ میں لکھا کہ :.دوسرے ایڈیشن کی تیاری کا سارا کام در حقیقت فاضل عبد اللطیف صاحب بہا ولپوری کی مساعی کا رہین منت ہے.آپ نے صیغہ تالیف و تصنیف اور المشرکۃ الاسلامیہ لیٹیڈ کے له وفات ۲۳ مارس ۱۹۷۵ ۶ / امان ۱۳۵۴ بهش * تاریخ احمدیت جلد ۷ صفحه ۱۶۱ - ۱۶۲ +
PA ماتحت دو سال میں کام کو سر انجام دیا.اس کے لئے آپ کو سلسلہ کی ہزار ہا اختبارات و رسائل و کتب و روایات صحابہ کا جائزہ لینا پڑا اور جو رویا کشوف اور الہامات روایات صحابہ سے اخذ کئے گئے ہیں انہیں بصورت فیمم را تذکرہ " کے آخر میں درج کر دیا گیا ہے..جب مولوی عبد اللطیف صاحب دوسرے ایڈیشن کی ترتیب مکمل کر چکے اور اس پر نظرثانی کا سوال پیدا ہوا تو...یکی نے یہ معاملہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کر دیا.حضور نے فرمایا کہ آپ خود اس کام کو کریں.چنانچہ میں نے اس پر نظر ثانی کرتے ہوئے بعض جگہ مناسب تبدیلیاں کر کے تذکرہ چھپوانا شروع کر دیا.بعض امور کے متعلق حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ سے استصواب کیا گیا اور بعض وقت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ سے مشورہ لیا گیا.تین ساڑھے تین سو صفحات کے قریب چھپ چکے تھے کہ میں بعارضہ پلورسی بیمار ہو گیا اور میری جگہ چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ متعین ہوئے جن کی نگرانی میں بقیہ حصہ تذکرہ کا طبع ہوا.بیماری سے افاقہ پانے پر یکسن نے تذکرہ کے آخری سو ڈیڑھ سو صفحات کی بھی نظر ثانی کی اور ضمیمہ میری نگرانی میں طبع ہوا.مگر تذکرہ کی بنیادی جمع و ترتیب وہی ہے جو پہلے ایڈیشن پایایی مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری نے صرف تذکرہ کا دوسرا ایڈیشن ہی تیار نہیں کیا بلکہ آپ نے " مفتاح التذکرہ بھی مرتب فرمائی جس کے حصہ اول میں تذکرہ " کے الہامات کا اور حصہ دوم میں کشوف و رویا کا خلاصہ حروف تہجی کے اعتبار سے دیا گیا ہے.اس کلید کے ذریعہ تذکرہ سے استفادہ بہت آسان ہو گیا.یہ کلید بھی الشرکۃ الاسلامیہ کی طرف سے دسمبر ۱۹۵۷ء میں چھپ گئی.الشركة الاسلامیہ نے اکتوبر ۱۹۶۹ ء میں تذکرہ کا تیسرا ایڈیشن شائع کیا.اس ایڈیشن کے شروع میں ایک تو مفتاح التذکرہ " کو شامل کر دیا گیا دوسرے طبع دوم کے تمہ کے الہامات و کشوف اصل مجموعہ میں مناسب مقامات پر درج کر دیئے گئے البتہ جو محض روایات سے ماخوذ تھے ان کو ضمیمہ میں ہی سے تذکرہ طبع دوم صفحه الف ب "
۲۹ رہنے دیا گیا.اس ایڈیشن کی جمع و ترتیب کا کام بھی مولوی صاحب موصوف ہی کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا.تذکرہ کا چوتھا ایڈیشن ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا.کتب حضرت مولانا نور الدین خلیفہ مسیح الاول لے مرقاة اليقين في حياة نور الدين - فصل الخطاب المقدمة اهل الكتاب 4 - کتب حضرت مصلح موعودوا له تفسیر کبیر ( جلد ۶ جزر و چهارم حصہ سوم - جلد 4 بجز چهارم حقصه آخر- جلد چهارم بلد نجم حصہ اول - جلد پنجم حصہ سوم ) تفسير سورة كهف - تفسير سورة البقرہ العینی حضرت مصلح موعود کے فرمودہ نوٹوں کا مجموعہ).اسلام اور ملکیت زمین.دعوۃ الامیر اسلام میں اختلافات کا آغاز.خیر الرسل ، نبیوں کا سردار تقدیر الهی مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ (اسلامک آئیڈیا لوجی ) - فضائل القرآن - سیر روحانی ( جلد ۱ - ۲-۳ ) - ذکر الہی منہاج الطالبین نجات تحفة الملوك منصب خلافت حقيقة الرؤيا دنیا کا محسن.ملائکۃ اللہ ہستی باریتعالی انقلاب حقیقی.اسلام اور دیگر مذاہب.اختلافات سلسلہ کے صحیح حالات خلافت حقہ اسلامیہ نظامیہ اسلامی کی مخالفت اور اس کا پس منظر ہمارا رسول.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام - خلافت راشدہ - اسوۂ حسنہ- الموعود- دیبا پر تفسیر القرآن (عکسی).DID JESUS REDEEM MANKIND ( انگریزی ترجمه تفسیر کبیر سوره مریم ) کتب حضرت صاحبزادہ مرزه البشیر احمد صاحب سله تبلیغ ہدایت اشتراکیت اور اسلام ہمارا خدا.چالیسی جواہر پارے.سیرت خاتم النبیین حصہ اول و دوم کلام حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ہے ور عدن كتب مصنفین سلسله احمدیه اه وفات ۱۳در مارچ ۴۱۹۱۴ * سے وفات در نومبر ۶۱۹۶۵/ نبوت ۱۳۴۴ بهش سه وفات ۲ ستمبر ۶۱۹۶۳ / تبوک ۱۳۴۲ اہش کے وفات امئی ۱۹۷۷ ۶ ۷ ہجرت ۱۳۵۶اہش
ضرورت علم القرآن تبلیغی خط - اسلام اور مذہبی آزادی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر شرح القصيدہ.دس سوالوں کے جواب.خلافت مصلح موعود تنقید اصحیح (ردبہائیت، عقائد جماعت احمدیہ پر ?WHERE DIE نکتہ چینیوں کا جواب - ? 2/1 WHERE DID TESUS ( حضرت مولانا جلال الدین نامی) بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد سابق امام مسجد لنڈن ) تحقيق عارفانه لحق المبين في تفسير خاتم النبيين ( محرم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل) تنوير القلوب (محترم جناب مرزا عبد الحق صاحب امیر صوبائی جماعت احمدیہ پنجاب ) ڈوئی کا عبرتناک انجام (چودھری خلیل احمد صاحب ناصر سابق انچارج مبلغ امریکی ) تشریح الزکواۃ (علمائے سلسلہ) ۱۰ - بچوں کے لئے مفید کتب کا سیکٹ اخلاق اور ان کی ضرورت (خالد احمدیت حضرت مولانا ابو العطاء صاحب الجالندھری ، عبادات اور ان کی ضرورت (مولانا قاضی محمد نذیہ صاحب، فاضل) بچوں کے لئے اخلاقی مضامین (میاں محمد ابراہیم صاحب سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ حال مبتلیغ اسلام امریکہ ).رسالہ قضاء و قدر (مولانا ابو المنیر نورالحق صاحب ) - رسالہ روزہ (ملک محمد عبد اللہ صاحب سابق لیکچرار تعلیم الاسلام کا لج ربوہ) رسالہ حج (مولانا عبد اللطیف صاحب بہا ولپوری) ضیاء الاسلام پریس ربوہ الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ کی ملکیت ہے.اس ضیاء الاسلام پولیس ربوہ پریس کا افتتاح ، جولائی ۱۱۹۵۴/ وفا ۱۳۳۳اہش کو صبح په بجے عمل میں آیا.سب سے پہلے حضرت مولانا شمس صاحب نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی پھر حضرت مولوی محمد دین صاحب سابق مبلغ امریکہ نے مختصر تقریر کر کے دعا کرائی.اس تقریب پر صدر انجمن احمدیہ کے ناظر صاحبان ، تحریک جدید کے وکلاء اصحاب ، جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کرام کے علاوہ بعض دیگر احباب جماعت بھی موجود تھے.افتتاح کے بعد سب سے اول سورہ فاتحہ کی کاپیاں طبع کی گئیں اور حاضرین وفات ، دسمبر ۶۱۹۵۵ / فتح ۱۳۳۴ همش به وفات 1 مئی ۶۱۹۷۷ ہجرت ۳۵۶ ہش *
میں تقسیم کی گئیں لیے یہ پریس قریباً پچیس سال سے قابل قدر خدمات بجا لا رہا ہے.روزنامہ الفضل“ اور دیگر مرکزی رسائل نیز سیلسلہ احمدیہ کا اکثر اگر دو لٹریچر اسی میں چھپتا ہے.الشرکة الاسلامیہ کے اور ٹیل اینڈ ٹیمیں پیشنگ کارپوریش لینڈ اور اس کا پر انکی بعد دوسری شامی کینی اشاعتی اورینٹل اینڈ ریلیجیس سپیکنگ کارپوریشن لمیٹڈ کے نام سے ۲۰ اپریل ۶۱۹۵۳ / شهادت ۱۳۳۲ هش کو قائم ہوئی جو آرپیکو (O.R-P.CO) بھی کہلاتی ہے.اس کمپنی کے مطبوعہ پر اسپکٹس کا متن درج ذیل ہے :.- منظور شده مربیاید.پانچ لاکھ روپے ( ہیں میں روپیہ کے پچیس ہزار حصص پر منقسم) جاری شدہ سرمایہ :.پانچ لاکھ روپے ( بیس بیس روپیہ کے پچیس ہزار حصص پر منقسم ) ڈائریکٹر نہ: (۱) عبد المنان عمر ایم.اسے چیر مین بورڈ آف ڈائریکٹر نہ الکتاب لینڈ راولپنڈی ڈائریکٹر الشرکة الاسلامیہ لمیٹیڈ ربوہ ، انچارج تالیف و تصنیف تحریک جدید ریده (۲) میاں عبد الرحیم احمد چیئر مین بورڈ آف ڈائریکٹر ز دی سندھ ویجی ٹیبل اینڈ الائیڈ ز پروڈکٹس کمپنی لمیٹڈ، ڈائریکٹر وی سندھ جننگ اینڈ پریسنگ فیکٹری کی سندھ ، ڈائریکٹر انڈسٹریل اینڈ کمرشل سندھ ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ، وکیل التعلیم والصنعت تحریک جدید ربوہ.(۳) قریشی عبد الرشیدہ چیئر مین بورڈ آف ڈائریکٹر ز دی سندھ جنگ اینڈ پریسنگ فیکٹری کزی ، ڈائریکٹر پر و سوئنز لینڈ ا وکیل المال تحریک جدید زیادہ.(۴) مولانا جلال الدین شمس چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر ز الشركة الاسلامیہ لمیٹیڈ، انچارج تألیف و تصنیف صدر انجمن احمدیہ - (۵) سید داؤد احمد ناصر کے بی ایس سی.ربوہ له الفضل و وفا ۱۳۳۳ پیش / جولائی ۱۹۵۴ء ص : له وفات ۱۵ جون ۶۱۹۷۹/ احسان ۳۵۸ اتش سے وفات ۲۴ - ۲۵ ر اپریل ۶۱۹۷۳/ شهادت ۳۵۲ اهش به
۳۲ مشیر قانونی -:- چوہدری غلام مرتضی نے بی.اسے ایل ایل بی ، بار ایٹ لاء رجسٹرڈ آفس : ربوہ بینک : آسٹریلیشیا بنک لمیٹڈ لاہور مقاصد -:- مادیت کی تباہ کاریاں اور کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے دنیا کے مذہبی رجحانات میں زبر دست تبدیلی پیدا کر دی ہے اور اسلام کے متعلق لوگوں کی پچیس پی بڑھ رہی ہے اور مذہبی اور اسلامی لٹریچر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے.ان حالات کے پیش نظر مزوری ہے کہ ہماری دینی تعلیمات جو جواہرات تحقیق و تدقیق سے پر اور حق کے طالبوں کو راہ یہ است پر کھینچنے والی ہیں جلدی سے نیز کثرت سے ایسے لوگوں کو پہونچ جائیں جو بُری تعلیموں سے متاثر ہو کہ مہلک بیماریوں میں گرفتار یا قریب قریب موت کے پہنچ گئے ہیں اور ہر وقت یہ امر ہمارے مد نظر رہنا چاہیئے کہ جس ملک کی موجودہ حالت ضلالت کے نیم قاتل سے نہایت خطرہ میں پڑ گئی ہو بلا توقف ہماری کتابیں اس ملک میں پھیل جائیں اور ہر ایک متلاشی حق کے ہاتھے ہیں وہ کتابیں نظر آئیں.قرآن مجید اور علوم قرآنی کی ساری دنیا میں اشاعت کی جائے اور ذہنوں کو اصل دینی سرشموں سے روشناس کروایا جائے.مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لئے پانچ لاکھ روپے کے سرمایہ سے دی اور میٹل اینڈ ریلیجیں پبلیشنگ کا رپوریشن کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا گیا ہے جس کے اغراض و مقاصد پوری تفصیل کے ساتھ کمپنی کے میمورنڈم اور آرٹیکلز آف ایسوسی ایشن میں بیان کئے گئے ہیں.اِن اغراض و مقاصد میں دیگر امور کے علاوہ قرآن مجید اور علوم قرآنیہ اور مختلف علوم و فنون پرمشتمل کتب کی طباعت و اشاعت، ان کی فراہمی اور فروخت کا اہتمام خاص طور پر قابل ذکر ہے.سرمایہ : وہ کم سے کم سرمایہ جس سے حصص کی فروخت کی منظوری ہو سکتی ہے یہ ہے کہ پچاسی ہزار روپیہ کی مالیت کے حصص فروخت ہو جائیں اور اس مالیت کے حصص فروخت ہو چکے ہیں.ابتدائی مصارف :.اندازہ کیا گیا ہے کہ ابتدائی مصارف چار ہزار روپیہ سے زیادہ نہ ہو گی ه وفات ۱۳ جنوری ۱۹۷۶ء / صلح ۱۳۵۵ هش *
اس میں حصص کی فروخت کے لئے نشری کوششوں اور کمیشن کے اخراجات شامل نہیں.کمیشن :- ڈائریکٹروں کو اختیار ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو بطور معاوضہ کمیشن دیں جس نے کمپنی کے حصص خرید سے یا فروخت کئے ہوں یا فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہو مگر اس کمیشن کی مقدار حصص کی مالیت پر اڑھائی فیصدی سے زائد نہ ہوگی.خصص کی مشترکہ خریداری : - حصص کے مشترکہ خریدار انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر حصہ کی رقم کی ادائیگی کے ذمہ دار ہوں گے لیکن ان میں سے جس کا نام رجسٹر میں پہلے درج ہوگا ووٹ وغیرہ دینے اور نوٹسوں کے بھجوانے اور سرٹیفیکیٹ کی وصولی میں انہیں مد نظر رکھا جائے گا.منافع کی وصولی کے لئے ان میں سے کسی بھی حصہ دار کے دستخط کافی ہوں گے.ایک حصہ کے لئے صرف ایک ہی سرٹیفیکیٹ جاری ہو گا.ڈائر یکٹر بنے کی شرائط :- ڈائریکٹر بننے کے لئے ضروری ہوگا کہ ہر ڈائریکٹر کے سوائے نامزد یا سپیشل ڈائریکٹر کے اپنے نام پر کمپنی کے کم سے کم ساڑھے تین ہزار روپے کی مالیت کے حصص ہوں.ڈائریکٹروں کے مفاد : کمپنی میں ڈائریکٹروں کے کوئی مخصوص مفاد نہیں ہیں البتہ بورڈ آن ڈائریکٹرز کی میٹنگوں میں شامل ہونے کے لئے انہیں سفر خرچ وغیرہ کے علاوہ پچاس روپے تک دیا جا سکتا ہے.مینجنگ ایجنٹس : مینجنگ ایجنٹس اور مینجنگ ڈائریکٹرز اگر کوئی ہوں تو ان کا تقر کنٹرولر آن کیپیٹل اشو کی اجازت کے بعد ہوگا.انتقال حصص : کمپنی کے حصص کے انتقال کے متعلق کوئی غیر معمولی پابندی نہیں گو کمپنی کے حقوق کو فائق رکھا جائے گا.ڈائریکٹروں کو اختیار ہے کہ ایسے حصص کے انتقال کو منظور نہ کریں جن کی پوری قیمت ادا نہ کی گئی ہو نیز ڈائریکٹر کوئی ایسا انتقال بھی جو کسی ناپسندیدہ منتقل الیہ کے حق میں ہو، نامنظور کر سکتے ہیں.ضروری کا غذات کا معائنہ :.کمپنی کے میمورنڈم اور آرٹیکلز آن ایسوسی ایشن کی کاپی کمپنی کے رجسٹر ڈ دفتر میں متعین اوقات کار میں کسی وقت دیکھی جاسکتی ہے.
۳۴ خرید حصص کا طریق : کمپنی کے حصوں کی خرید کا طریق بہت سہل ہے ایک حصہ کی قیمت بیش روپے ہے.ادائیگی کا طریق یہ ہے:.(۱) درخواست کے ہمراہ پانچ روپیہ فی حصہ.(۲) درخواست منظور ہونے پر پانچ روپے فی حصہ.(۳) بقیہ دس روپیہ پانچ پانچ روپیہ کی دو قسطوں میں جبکہ ہر قسط کے درمیان ایک ماہ کا وقفہ ضرور ہوگا.اگر کوئی صاحب خرید کر دہ حصص کی پوری رقم یکمشت درخواست کے ہمراہ یا درخواست منظور ہونے پر ادا کرنا چاہیں تو بخوشی ایسا کر سکتے ہیں.خص کی خرید پر کوئی پابندی نہیں شخص جس قدر حصص خریدنا چاہے خرید کر سکتا ہے.خریداری حصص کے لئے فارم مندرجہ ذیل ہیں :.بخدمت ڈائریکٹرز دی اور نٹیل اینڈ ریلیجس پبلیشنگ کا پر پوریشن لمیٹڈ ربوہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ می خرید نا ہاں کیا ہوں.اس چاہتی یکیں دی اور ٹیل اینڈ ریلیجس پبلیشنگ کارپوریشن لمیٹڈ کے.غرض کے لئے اس درخواست کے ہمراہ مبلغ روپیہ حساب پانچ روپیہ فی حصہ بطور ابتدائی رقم کے بذریعہ ارسال ہیں آپ میرے لئے حصص کی جو تعداد مقررہ کریں گے وہ مجھے منظور ہو گی.مجھے میمورنڈم اور آرٹیکلز آف ایسوسی ایشن و پر اسپکٹس کی جملہ شرائط تسلیم ہیں.میری طرف سے آپ کو اختیار ہے کہ آپ مجھے کمپنی مذکور کے رجسٹروں میں ان حصص کا مالک درج کریں.دستخط -نام- ولدیت یا زوجیت لے دوسرے ڈائریکٹر ان را ابتدائی ڈائریکٹین کے بعد جن کا ذکر پراسپکٹس میں کیا گیا ہے ۱۹۷۸ ۶ تک حسب ذیل ڈائریکٹر ان مقرر ہوئے :- مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اسے ایل ایل بی حال سوئٹزرلینڈ ه روزنامه المصلح کراچی مورخه ۲۰ ۲۱ جون ۶۱۹۵۳/ احسان ۳۳۲ هش مث ؟
۳۵ - مکریم شیخ فضل الرحمن صاحب پراچہ سرگودھا ۳ - مکرم صاحبزادہ مرزه امبارک احمد صاحب (وکیل اعلى ووكيل التبشير) ۴- مکرم مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی سابق امیر جماعت احمدیہ لدھیانه که مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب بی.اسے (وکیل المال ) مکرم قاضی محمد رشید صاحب (وکیل المال) سے ہے.مکرم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب 4 A مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل پروفیسر جامعہ احمدیہ مکرم چوہدری احمد جان صاحب وکیل المال (حال امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی) ۱۰ - مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشير ( نائب وكيل التبشير) ۱۱- مکرم حافظ عبدالت لام صاحب (وکیل اللہ یوان.وکیل الاعلیٰ ) ۱۲ - مکرم سید میرسعود احمد صاحب ( نائب وکیل الدیوان حال مبلغ اسلام ڈنمارک ) ۱۳ - مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر (نائب وکیل التبشير حال ناظم دار القضاء ربوه ) ۱۴ مکرم مولوی نور الدین صاحب منیر (نائب وکیل التعليم) ۱۵ - مکرم مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی (وکیل التعلیم) ۱۶ مکرم چوہدری مبارک مصلح الدین احمد صاحب (وکیل المال ثانی ) ۱۷ - مکرم صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب ( ابن حضرت مصلح موعود ) ۱۸ - مکرم مولوی عبد القادر صاحب فضیغم کو سابق مبلغ امریکہ و نائب وکیل التبشير) ۱۹ - مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم.اسے ( ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز" انگریزی) ۲۰ - مکرم محمد شفیق صاحب قیصر (سابق مبلغ افریقہ) مکرم جناب مبارک احمد صاحب طاہر (مشیر قانونی تحریک جدید) ه وفات ۲۵ دسمبر ۱۹۶۳ در فتح ۱۳۴۲اہش کے وفات ۲۵ فروری ۶۱۹۶۶/ تبلیغ ۱۳۲۵ هش ه وفات ۱۶ فروری ۶۱۹۷۷ تبلیغ ۳۵۶ امشب کے وفات ۲۲ مارچ ۶۱۹۷۹/ امان ۱۳۵۸ اہش
۲۲- مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه ناظر امور عامه له موجودہ ڈائریکٹر ان مندرجہ ذیل ہیں :- موجودہ ڈائریکٹران ۱- محترم مولوی نور الدین صاحب منیر ( نائب وکیل التبشیر، مینجنگ ڈائریکٹر ٠٢ محترم چوہدری مبارک مصلح الدین احمد صاحب (وکیل المال ثانی ) ۳ - محترم مرنه انعیم احمد صاحب - 4 - - محترم چوہدری شبیر احمد صاحب (وکیل المال اول) محترم چوہدری مبارک احمد صاحب طاہر (وکیل قانونی) محترم چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه ناظر امور عامہ (نمائندہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ) محترم صاجزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجیز انگریزی (نمائندہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ) اس کمپنی نے ۱۹۵۳ کمپنی کے شائع کردہ تراجم قرآن عظیم اور دوسرا بلند پایہ لٹری ۱۳۲۲ ہش سے لے کر ۱۹۷۹ ۶/ ۱۳۵۸ پیش تک جو بلند پایہ اسلامی لٹریچر عربی، انگریزی اجر مین اور ڈچ زبان میں شائع کیا اس کی تفصیل درج ذیل ہے :- قرآن عظیم 1.The Holy Quran with Translation and Commentary قرآن مجید انگریزی ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پانچ جلدوں میں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب احضرت مولانا شیر علی صاحبے بی.اسے اور حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم.اسے سابق مبلغ جرمنی سپر مشتمل بورڈ کی مساعی کا نتیجہ ) مه مراسلہ ملک بشارت احمد صاحب سابق مینجر کمپنی و نصرت آرٹ پرئیس (مورخه ۲۰ اگست ۶۱۹۷۸ ظهور ۱۳۵۷اہش ) سے ماخوذ ہے ه وفات ۱۳ نومبر ۶۱۹۴۷ / نبوت ۱۳۲۶ امیش کے وفات ، جنوری ۶۱۹۷۷ صلح ۱۳۵۶ ش به
2.The Holy Quran with English Translation and Commentary.قرآن مجید انگریزی ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ ایک جلد ہیں.از حضرت ملک غلام فرید صاحب نے ایم اے سابق مبلغ جرمنی 3.The Holy Quran with English Translation.( قرآن مجید انگریزی ترجمه از حضرت مولانا شیر علی صاحب ہی.اسے) 4.The Holy Quran with German Translation.5.The Holy Quran with Dutch Translation.1.Forty Gems of Beauty (قرآن مجید کا جم من ترجمہ ) (قرآن مجید کا ڈچ ترجمہ ) حدیث نبوی (چالیس جواہر پارے از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ) 2.Nibras-ul.Momineen انبر اس المؤمنین از خالد احمدیت حضرت مولانا ابو العطاء صاحب سابق مبلغ بلاد عریبیہ ) تصانیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1.The Philosophy of Teachings of Islam.2.A Misunderstanding Removed.3.The Will 4.So said the Promised Messiah.(اسلامی اصول کی فلاسفی ) (ایک غلطی کا اندالہ ) ( الوصیت )
5.6.7.۳۸ حمامة البشرى الاستفتاء (کشتی نوح کا ایک حصہ ) التعليم تصانیف حضرت مصلح موعود 1.Introduction to the Study of the Holy Quran.2.Ahmadiyyat or the true Islam.3.The Real Revolution.4, Why I Believe in Islam.لماذا اعتقد الاسلام (دیبا چه تفسیر القرآن ) احمدیت یعنی حقیقی اسلام ) انقلاب حقیقی) (یکی اسلام کو کیوں مانتا ہوں ؟ ) 6.Muhammad The Liberator of Women 7.Economic Structure of Islamic Society.8.Ahmadiyya Movement ( اسلام کا اقتصادی نظام ) د ا سلسلہ احمدیہ.ویلے کا نفرنس لندن منعقدہ ۱۹۲۴ء میں پڑھا جانے والا مضمون ) خطبات حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ A Message of Peace and a Word of Warning.( امن کا پیغام اور ایک حرف انتباه ) تصانیف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اسے 1.Two Pillars of spirituality
د روحانیت کے دو زیر دست ستون ) 2.Attitude of Islam towards Communism.اسلام اور اشتراکیت ) علماء سلسلہ احمدیہ کی تصانیف 1.The Existence of God.از حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ہے 2.Islam and Communism اسلام اور اشتراکیت از حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم.اسے سابق امام مسجد لنڈن ) متفرق: 3.Pronouncement of the Promised Messiah.از جناب مولانا نورمحمد نسیم سیفی صاحب سابق رئیس التبليغ مغربی افریقہ ) 4.Muslim Prayer An Interpretation of Islam ایک اطالوی مستشرقہ Veccda Vaglieri کے مقالہ کا انگریزی ترجمہ مع پیش لفظ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب سابق صدر عالمی اسمبلی و حج بین الا قوامی عدالت انصاف ) سب بلند پایہ لٹریچر نصرت آرٹ پولیس ربوہ میں چھپا جو آرپیکو کی نصرت آرٹ پریس ربوہ حکمت ہے اور ضیاء الاسلام پریس کی طرح ۳ ۳۳۳/۱۹ میش سے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کی طباعت و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے.له وفات اور اکتوبر ۴۶۱۹۰۵ وفات ، دسمبر ۶۱۹۵۵/ فتح ۱۳۳۲ ش به
فصل سوم تاریخ احمدیت کی تدوین اشاعت کا انتظام سید نا حضرت مصلح موعود کو اپنے زمانہ خلافت کے آغاز ہی سے سلسلہ احمدیہ کی ابتدائی تاریخ کے محفوظ کئے جانے کا خیال دامنگیر رہا.چنانچہ حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۱۴ء کے موقع پر ارشاد فرمایا :- ہمارے بہت بڑے فرائض میں سے ایک یہ بھی فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود کے حالات اور آپ کے سوانح کو بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے محفوظ کر دیں ہمارے لئے آنحصر صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوۂ حسنہ نہایت ضروری ہے....آج بہت سے لوگ حضرت مسیح موعود کے دیکھنے والے اور آپ کی صحبت میں بیٹھنے والے موجود ہیں اور ان سے بہت سے واقعات معلوم ہو سکتے ہیں مگر جوں جوں یہ لوگ کم ہوتے جائیں گے آپ کی زندگی کے حالات کا معلوم کرنا مشکل ہو جائے گا.اسلئے جہاں تک ہو سکے بہت جلد اس کام کو پورا کرنا چاہیے ا لئے حضور نے صرف جماعت ہی کو اس طرف توجہ نہیں دلائی بلکہ بعد انہاں علاوہ رسالہ سیرت مسیح موعود کی تالیف کے، اپنے خطبات ، تقاریر اور ملفوظات اور کتب میں بڑی کثرت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عید مبارک کے واقعات پر روشنی ڈالی لیے جہاں تک جاعت احمدیہ کے دوسرے افراد کا تعلق ہے جن برکات خلافت ۹۴۹ ( طبع اول مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قا دیان) مان ایمان افروزہ روایات کا ایک مجموعہ جو تاریخی ترتیب کے مطابق ہے اور ملک فضل حسین صاحب مہاجر کی کوشش سے مرتب ہوا ہے اخبار الحکم قادیان ۲۱ مئی تا ۲۸ جولائی ۱۹۴۳ء میں شائع شدہ ہے ان کی جمع کردہ بعض اور روایات بھی شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہیں بنے
بند رگوں کو سب سے بڑھ کر اس قومی فریضہ کی بجا آوری کا شرف حاصل ہوا ان میں سر فہرست حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ( عرفانی تھے جنہوں نے حیات النبی حیات احمد اور سیرت مسیح موعود" کی متعد د جلدیں شائع فرمائیں.آپ کے علاوہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے صحابہ مسیح موعود کی روایات "سیرت المہدی ہے کے تین حصوں میں سپر د اشاعت فرمائیں محبت صادق حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے " ذکر حبیب ان کے نام سے ایمان افروز کتاب لکھی حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی اجمالی شانوی کا " سفر نامہ" جو حضرت مسیح موعود کے واقعات پر مشتمل تھا خلافتِ اُولیٰ کے عہد مبارک میں اخبار "الحق" (دہلی ) میں چھپا اور جون ۱۹۱۵ء میں تذکرۃ المہدی " کے نام سے شائع ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا کہ اس کا دوسرا حصہ بھی چھپنا چاہیئے.حضرت پیر صاحب کے قلم کا لکھا ہوا دوسرا حصہ ۳۷ صفحات کا تھا اوریہ آپ کا ارادہ تھا کہ اسے کئی حصوں میں تقسیم کر کے چھپوا دیں مگر افسوس اس کے صرف ۲۸ صفحات ہی شائع کر پائے تھے کہ آپ انتقال کر گئے.۱۹ نومبر ۱۹۳۷ء کو حضرت مصلح موعود نے روایات صحابہ جمع کرنے کی ایک اور موثر تحریک فرمان کے اس تحریک پر ابھی مرکزی نظام کے تحت با قاعدہ کام شروع نہیں ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے نہایت یک رنگ، قدیم اور بے مثال خدائی و شیدائی حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی بیمار ہو گئے.حضرت خلیفہ ثانی المصلح الموعود نے ۵ار دسمبر ۱۹۳۷ م کو اپنے قلم مبارک سے محرم شیخ محمد احمد صاحب منظر ایڈوکیٹ کپور فصل کو لکھا کہ :- منشی صاحب کی بیماری کی خبر سے افسوس ہوا.آپ یہ کام ضرور کریں کہ بار بار پوچھ پوچھ کر ان سے ایک کاپی میں سب روایات حضرت مسیح موعود کے متعلق لکھوائیں اس میں تاریخی اور واعظانہ اور سب ہی قسم کی ہوں یعنی صرف ملفوظات ہی نہ ہوں بلکہ سلسلہ کی تاریخ اور حضور علیہ السلام کے واقعات تاریخی بھی ہوں.یہ آپ کے لئے اور اُن کے لئے بہترین اشاعت حصہ اول دسمبر ۱۹۲۳ ۶ حصہ دوم دسمبر ۶۱۹۲۷ حصہ سوم فروری ۶۱۹۳۹ * کے اشاعت اولی دسمبر ۶۱۹۳۹ : کے اشاعت دسمبر ۶۱۹۲۱ + ه تاریخ احمدیت جلد هشتم ۴۲۵ شه حال امیر جماعت احمدیہ ضلع فیصل آباد :
یادگار اور سلسلہ کے لئے ایک کار آمد سامان ہوگا یا اے محترم شیخ محمد احمد صاحب منظر نے اس ارشاد مبارک کی تعمیل میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی بیان فرمود روایات انہی کے الفاظ میں قلمبند کر کے رسالہ ریویو آف ریلیجنز جنوری ۱۹۴۲ء میں شائع کرا دیں.۱۹۳۷ء کی تحریک کے نتیجہ میں نہ صرف روایات صحابہ کے جمع و اشاعت کا کام پوری توبہ اور باقاعدگی سے شروع ہو گیا بلکہ ایسا لٹریچر بھی تیار ہونے لگا جو سیدنا حضرت مسیح موعود اور خلافت اولی و ثانیہ کے عہد مبارک کی تاریخ پر مشتمل تھا چنا نچہ فروری ۱۹۳۸ء میں مکرم چو ہد ری محمد شریف صاحب مولوی فاضل مبلغ سلسلہ احمدیہ نے " سلسلہ عالیہ احمدیہ اور دسمبر ۱۹۳۸ء میں ملک فضل حسین صاحب مہاجر نئے تاثرات قادیان" شائع کی.دسمبر ۱۹۳۹ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم سے " سلسلہ احمدیہ جیسی شاندار تالیف اشاعت پذیر ہوئی جو سلسلہ احمدیہ کی پچاس سالہ تاریخ پر ایک مختصر مگر نهایت جامع او حقیقت الفرات کتاب تھی.۱۹۴۲ء میں شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مدیر الحکم نے " مرکز احمدیت.قادیان کے نام سے ایک پر از معلومات کتاب چھپوائی.۱۹۴۵ء میں حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد نے اپنی محققانہ تألیف LIFE OF AHMAD" کا حصہ اول مکمل کیا جو ۱۹۴۸ء میں لاہور سے شائع ہوا.۱۹۵۰ء میں ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے درویش قادیان نے " اصحاب احمد کی پہلی جلد اور ۱۹۵۲ میں دوسری جلد شائع کی جس سے سلسلہ کے لڑکپچر میں قابل قدر اضافہ ہوا.اسی طرح ۱۹۵۱ء کے دوران حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ عنہ کی حیات قدسی کے دو حصے حیدر آباد دکن سے سیٹھ علی محمد اسے.الہ دین صاحب کے زیر انتظام چھپے اور ہر طبقہ کے لئے ازدیاد ایمان کا موجب بنے.۱۹۵۳ء کا سال اگر چہ ابتلاؤں کا سال تھا مگر یہی وہ سال تھا جس میں سید نا حضرت مصلح موعود کی تحریک خاص سے مرکز احمدیت میں تاریخ سلسلہ احمدیہ کی تدوین و اشاعت کی مرکزی سطح پر بنیاد پڑی.اس کا محرک در اصل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک مکتوب تھا جو آپنے ہم اور پاپیچ له " اصحاب احمد جلد ہی منت دمرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے) :
۱۹۵۳ ۶ ( ۲۴ امان ۳۳۲ ہش) کو حضرت مصلح موعودہؓ کی خدمت بابرکت میں لکھا اور میں میں ایک عزیزہ کی یہ تجویز عرض کی گئی تھی کہ کوائف ۱۹۵۳ء سے متعلق حکومت پاکستان کے مرکزی اور صوبائی انٹرن کے بیانات ایک رسالہ کی صورت میں شائع ہونے چاہئیں.سید نا حضرت مصلح موعود نے اس پر اپنے قلیم مبارک سے تحریر فرمایا کہ :." اچھی بات ہے.اصل بات یہ ہے کہ اس کی مکمل تاریخ لکھی جائے.میر سے نہ دیک مباشر فضل حسین...و بلوا کر اس کام پر لگا دیا جائے یا دوست محمد بھی یہ کام کر سکتے ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور کی توجہ اس طرف بھی منعطف فرمائی کہ سلسلہ احمدیہ کی پوری تاریخ کو محفوظ کیا جانا چاہیئے.چنا نچہ اس سلسلہ میں حضور نے درج ذیل حضرت مصلح موعود کی طرف سے تحریک خاص الفاظ میں تحریک فرمائی.اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ لَحَمدُ، وَنُصَلّى على رَسُولِهِ الكَرِيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کو محفوظ کرنے کا انتظام احباب اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں احباب کرام! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کو علم ہے کہ ہماری جماعت کی تاریخ اب تک غیر محفوظ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے سوانح بعض لوگوں نے مرتب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بھی نا مکمل ہیں پس سلسلہ کی اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تاریخ سلسلہ احمدیہ کے مکمل کہ انے کا انتظام کیا گیا ہے سب سے پہلے قریب کے زمانہ کی تاریخ مرتب کی جائے گی تا کہ اصل مکتوب شعبہ تاریخ احمدیت" ربوہ میں محفوظ ہے ؟
مهم سوم ضروری واقعات محفوظ ہو سکیں.سلسلہ کی تاریخ کئی جلدوں میں مکمل ہو گی.تین سال تک کام کا اندازہ ہے.اس کی چھپوائی اور لکھوائی وغیرہ پر کم از کم تیس پینتیس ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ ہے.صدر انجمن احمدیہ پر چونکہ اس وقت کافی بار سے اس لئے اس کام کا علیحدہ انتظام کرنے کے لئے کیں احباب جماعت میں سر دست صرف مبلغ بارہ ہزار روپیہ کی تحریک اس کام کے لئے کر رہا ہوں.جب یہ روپیہ خرچ ہونے کو ہوگا پھر اور اپیل کی جائے گی.جماعت کے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے انہیں سلسلہ کی اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے تا یہ کام جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائے.دفتر محاسب صد له انجمن احمد یہ ربوہ میں اس تحریک کے لئے مذکھول دی گئی ہے جو احباب اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں وہ اپنی رقوم محاسب صاحب صدر انجمن احمد یہ ربوہ کو بمد تصنیف تاریخ سلسلہ احمدیہ بھجوا دیں.یہ رقم میرے اختیار میں رہے گی اور میرے ہی دستخطوں سے برآمد ہو سکے گی.والسلام مرزا محمود احمد خلیفہ ایسیح الثانی امام جماعت احمدیہ یہ تحریک خاص اخبار المصلح" (کراچی) ۲۰ ہجرت ۱۳۳۲ اہش (۲۰ مئی ۱۹۵۳ء) میں چھپ کر منظر عام پر آئی تو مخلصین جماعت نے اس کا پُر جوش خیر مقدم کیا.نیز اس اعلان نے جماعت کے اہلِ قلم اصحاب میں بھی ایک جنبش پیدا کر دی چنانچہ لاہور کے ایک مخلص احمدی ایڈووکیٹ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں تحریری درخواست دی کہ انہیں تاریخ سلسلہ لکھنے کا موقعہ عطا فرمایا جائے.لیکن حضور نے دفتر کو ارشاد فرمایا کہ : " المصلح میں اعلان کیا جائے.تاریخ سلسلہ کے لکھنے کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے.تاریخ سے کس ہو.ادیب ہوں تحقیق اور مطالعہ کا بہت شوق ہو جیسن تنخواہ پر آسکیں اس سے بھی اطلاع دیں.
۴۵ چنانچہ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ کی جانب سے المصلح ۱۶ جولائی ۱۹۵۳ء ص میں یہ اعلان بھی کر دیا گیا جس پر درج ذیل مقامات سے درخواستیں موصول ہوئیں :.لاہور (۲ عدد ) ، شیخوپورہ (۲ عدد)، کراچی (ایک عدد)، لطیف نگر اسٹیٹ ضلع تھرپارکر سندھ (ایک عدد).حضرت مصلح موعود کی خدمت بابرکت میں جب یہ سب درخواستیں منع کو ائف پیش کی گئیں تو حضور نے فیصلہ صادر فرمایا کہ درخواستوں پر کسی کارروائی کی ضرورت نہیں ان میں سے سر دوست کوئی پورا نہیں اترتا" چونکہ حضور تاریخ سلسلہ کے مدون کئے جانے کا عزم تمیم کر چکے تھے اس لئے آپ نے حضرت مرز البشیر احمد صاحب کے ابتدائی مراسلہ کے قریباً سوا ماہ کے بعد مکرم ماشہ فضل حسین صاحب کو تاریخ احمدیت کا مواد اکٹھا کرنے کے لئے نامزد فرمایا اور ان کا تقرر خلافت لائبریری میں ہوا.آنے ۳۰ اپریل ۱۹۵۳ء سے لے کر ۲۰ مئی ۱۹۵۵ء تک یہ خدمت انجام دی.حضور رضی اللہ عنہ نے فسادات ۱۹۵۳ء کے واقعات کو جمع کرنے میں اولیت دینے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں انہوں نے علاوہ اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرنے کے منٹر ی ہے (ساہیوال) سے لے کر راولپنڈی تک کا دورہ کیا اور بہت سی چشم دید شہادتیں جمع کر کے ان کو مرتب کیا نیز " فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کا پس منظر کے عنوان سے ایک کتا بچہ بھی لکھا.محترم معاشرہ فضل حسین صاحب کو مقرر ہوئے چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ۲۴ جون ۱۹۵۳ء کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے راقم الحروف (دوست محمد شاہد ) کو اطلاع ملی کہ حضرت اقدس نے اس عاجز کو یاد فرمایا ہے چنانچہ اگلے دن حضور نے شرف باریابی بخشا اور تاریخ احمدیت کی تدوین سے متعلق بنیادی ہدایات ارشاد فرمائیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ :- ا - فی الحال ستمبر ۱۹۴۶ء سے اگست ۱۹۵۲ء تک کی تاریخ لکھنے کا کام آپ کے سپرد کیا جاتا ہے.نے اس سفر میں آپ منٹگمری (ساہیوال)، اوکاڑہ، لائلپور (فیصل آباد) ، سرگودہا، جھنگ، ملتان اسیالکوٹ وزیر آباد، گوجرانوالہ ، لاہور اور راولپنڈی تشریف لے گئے نے
یہ حقہ لکھنے کے بعد دوسرے حصوں کی طرف توجہ دینا ہوگی..تاریخ کی ترتیب و تدوین میں علاوہ دیگر ماخذوں کے لاہور کی پبلک لائبریری سے بھی فائدہ اُٹھایا جائے..اس حصہ تاریخ میں نمایاں طور پر قیام و استحکام پاکستان کے سلسلہ میں جماعتی خدمات کو پیش کیا جائے.بحوالہ پورا نقل کیا جائے اور جو مواد بھی مل سکے اس کو جمع کر دیا جائے استقبیل کے مورخ اس سے انتخاب کر کے اپنے زمانہ میں ان واقعات کی ترتیب دے سکیں.تاریخ احمدیت کی تدوین کا دفتر ابتداء پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر کے کمرہ ملاقات میں قائم کیا گیا بعد ازاں جب خلافت لائبریری کے نئے کمرے تعمیر ہو گئے تو اسے لائبریری میں منتقل کر دیا گیا.ی محکمہ چونکہ حضور کی تحریک خاص سے قائم ہوا تھا اس لئے حضور اس کی خاص طور پر نگرانی اور راہ نمائی فرماتے تھے.حضور کی شروع ہی سے تاکیدی ہدایت تھی کہ اس شعبہ کی ہفتہ وار رپورٹ آنی چاہیے چنانچہ (حضور کی بیماری یا سفر یورپ کے دلوں کے سوا ) اس شعبہ کی کارگزاری با قاعدگی سے حضور کی خدمت میں پیشیں کی جاتی تھی حضور اسے ملاحظہ فرما کر بعض اوقات اپنے دستِ مبارک سے اور بعض اوقات زبانی ارشادات فرما دیتے حضور کے بعض احکام حضرت سیدہ ام متین صاحبہ حرم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے قلم سے بھی لکھے ہوتے تھے.۲۲ مئی ۱۹۵۵ء کو حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود زیورچ (سوئٹزر لینڈ میں تشریف فرما تھے اس روز حضور نے مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب یا جوه پرائیویٹ سیکریٹری کو مکرم مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ کے نام خط لکھوایا کہ ماشہ صاحب نے جتنا کام کر لیا کر لیا باقی دوست محمد صاحب شروع کر دیں بہر حال تاریخ سلسلہ ہم نے لکھنی ہے ۱۹۳۸ء سے پہلے لکھ لیں پچھلی بعد میں لکھ لی جائے گی ؟ حضور کا یہ ارشاد ۲۹ مئی ۱۹۵۵ء کو ربوہ میں موصول ہوا.ازاں بعد ۶ر فروری ۱۹۵۶ء کو شعبہ تاریخ کی رپورٹ ملاحظہ کر کے ارشاد فرمایا :- یہ بتائیں چھپنے میں کیا دیر ہے؟ چھپنی جلد چاہیے تا کہ محفوظ ہو جائے پھر ابتدائی تاریخ کی تدوین شروع کر دیں میں نے پچھلے زمانہ کی تاریخ اس لئے سپرد کی تھی کہ کم از کم
۴۷ یہ تو محفوظ ہو جائے.حضرت مصلح موعود کی اس مبارک خواہش تاریخ احمدیت کی پندرہ جلدوں کی اشاعت اور پورا کرنے کی سعادت دورة المتقی کے حصہ میں آئی حضور نے اس مرکزی ادارہ کی بنیاد دسمبر ۱۹۵۷ء میں رکھی اور اس کے بنیادی مقاصد میں تاریخ احمدیت کی اشاعت کو بھی شامل فرمایا اور مکرم ابوالمنیر نور الحق صاحب فاضل کو اس کے مینجنگ ڈائریکٹر کے فرائض سپرد فرمائے اور ان کو تاریخ احمدیت کے چھپوانے کے لئے خصوصی ہدایات فرمائیں.مکرم ابو المنیر صاحب نے پوری توبہ، غیر معمولی تہمت و استقلال اور کمال دلجمعی اور ذوق و شوق کے ساتھ اشاعت تاریخ کا بیڑا اُٹھایا اور ادارہ کے معرض وجود میں آتے ہی سب سے پہلے کام یہ کیا کہ ملک فضل حسین صاحب کی کتاب " فسادات ۱۹۵۳ء کا پس منتظر" طبع کروائی اور پھر گوناگوں مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجود دسمبر ۱۹۷۵ء تک تاریخ احمدیت کی پند راه ضخیم جلدیں شائع کرائیں.علاوہ ازیں پہلی تین جلدوں کے دو دو ایڈیشن بھی چھپوا دیئے.تاریخ احمدیت کی ابتدائی پانچ جلدیں خلافت ثانیہ کے بابرکت عمد میں اور بقیہ خلافت ثالثہ کے مبارک دور میں منظر عام پر آئیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی الصلح الموعود رضی سید نا حضرت مصلح موعود کے تاثرات ارشادات اللہعنہ نے تاریخ احمدیت کے ابتدائی " پانچ حصوں کی نسبت حسب ذیل تاثرات کا اظہار فرمایا :- تاریخ احمدیت جلد اول فرمایا : - " اس سال تاریخ احمدیت کی بھی پہلی جلد شائع ہو چکی ہے جو ۱۸۸۰ء تک کے حالات پر مشتمل ہے دوستوں کو اس کی اشاعت کی طرف بھی توقیہ کرنی چاہیے سے تاریخ احمدیت جلد دوم فرمایا : " اِس سال ادارۃ المصنفین نے تاریخ احمدیت کا دوسرا حصہ بھی شائع کر دیا ہے.لے تفصیل ۱۹۵۷ء کے حالات میں آئے گی : له الفضل ۲۵ جنوری ۶۱۹۵۹ (۲۵) صلح ۳۳۸ بهش) ص :
۴۸ گزشتہ سال اس کا پہلا حصہ شائع ہوا تھا.دوستوں کو چاہیے کہ وہ اس کتاب کو بھی خریدیں اور پڑھیں تاکہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے واقعات کا علم ہوا ہے تاریخ احمدیت جلد سوم یہ خوشی کی بات ہے کہ میری ہدایت کے مطابق ادارۃ المصنفین نے تاریخ احمدیت حصہ سوم کو شائع کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات کو مکمل کر لیا ہے.اس کتاب کے سب حصوں کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے.اسی طرح بخاری شریف کی شرح کا چھٹا جن بھی شائع کر دیا گیا ہے.جماعت کے دوستوں کو یہ دونوں کتابیں فوراً خرید لینی چاہئیں.(دستخط) مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی راه اه تاریخ احمدیت جلد چهارم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الف ما صر برادران! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه جیسا کہ احباب کو علم ہے کہ مولوی دوست محمد صاحب شاہد میری ہدایت کے ماتحت تاریخ احمدیت لکھ رہے ہیں.الحمد للہ کہ خدا کے فضل سے اُنہوں نے اس کا چوتھا حصہ بھی مکمل کر لیا ہے.اُستاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے بلند مقام اور آپ کے عظیم الشان احسانات کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد آپ کے الفضل (۱۶, فروری ۶۱۹۶۰ (۱۶) تبلیغ ۳۳۹ (مش) ص ؟ له الفضل وار دسمبر ۶۱۹۶۲ (۱۹ فتح ۱۳۴۰اہش ) ما به
۴۹ زمانہ کی تاریخ کی اشاعت میں پورے جوش و خروش سے حصہ ہے.اسے خود بھی پڑھے اور دوسروں کو بھی پڑھائے بلکہ کہیں تو یہ بھی تحریک کروں گا کہ جماعت کے وہ مخیر اور مخلص دوست جو سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ ہی نمایاں حصہ لیتے رہے ہیں " تاریخ احمدیت " کے مکمل سیٹ اپنی طرف سے پاکستان اور ہندوستان کی مشہور لائبریریوں میں رکھوا دیں تا اس صدقہ جاریہ کا ثواب انہیں قیامت تک ملتا رہے اور وہ اور اُن کی نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہوتی رہیں.آمین والسلام خاکسار مرز امحمود احمد # (خلیفة المسیح الثانی) ام تاریخ احمدیت جلد پنجم اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ " ادارۃ المصنفین ربوہ کی طرف سے تاریخ احمدیت کا پانچواں حصہ شائع کیا جارہا ہے سلسلہ کی تاریخ سے واقفیت رکھنا ہر احمدی کے لئے ضروری ہے احباب کو چاہیے کہ اس کا مطالعہ کریں اور اس کی اشاعت میں حصہ لیں.والسلام خاکسار مرند امحمود احمد (خلیفة المسیح الثانی) له الفضل دار دسمبر ۶۱۹۹۳ (۱۰ر فتح ۳۴۳ (پیش) ص : له الفضل ار دسمبر ۶۱۹۹۴ (۱۰ر فتح ۱۳۴۳ ش) صدا : ۶۴
فصل چهارم فضل احمر ایران انسٹی ٹیوٹ ربوہ کا افتتاح فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی عمارت تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے مشرقی جانب زیر تعمیر تھی جس کی ایک حد تک تکمیل پرستید نا حضرت الصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۲۵ ماه احسان ۳۳۲ آش بمطابق ۲۵ جون ۱۹۵۳ء کو ربوہ میں نو بجے صبح فضیل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح فرمایا.حضور نے پہلے تو ریسرچ کے ڈائریکٹر چوہدری حمد عبد اللہ صاحب ایم.اسے پی ایچ ڈی کے ہمراہ عمارت اور سامان کا معائنہ کیا اور پھر ریسرچ کے کارکنوں اور دیگر احباب جماعت سے ایک نهایت معلومات افروز تقریر فرمائی جس کا ملخص درج ذیل کیا جاتا ہے:.آٹھ سال ہوئے یکی نے قادیان میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی تھی.وہاں پر اس کا کام شروع ہو گیا تھا لیکن ۱۹۴۷ء کے انقلاب کے بعد ہمارے پاس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے لئے کوئی جگہ نہ تھی.میں نے ایک دوست کو تحریک کی کہ وہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ربوہ میں بنانے کے لئے ایک لاکھ روپیہ جمع کریں ایک لاکھ یکی جمع کروں گا.ابھی تک یکی تو اِس بارے میں تحریک نہ کر سکا کیونکہ جماعت کے سامنے اور بہت سی تحریکات ہیں لیکن اس دوست نے باون ہزار روپیہ کے قریب جمع کر دیا ہے جس سے یہ عمارت تیار کی گئی ہے.اگر بقیہ رقم بھی جمع ہوگئی تو انشاء اللہ العزیز وسیع پیمانے پر کام جاری ہو جائے گا اور بلڈنگ بھی مکمل ہو جائے گی.سر دست اِس انسٹی ٹیوٹ میں پانچ سکالر کام کر رہے ہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ جس آسمانی کتاب نے کائنات عالم پر غور کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ ولائی ہے وہ قرآن کریم ہے.دنیا کی کوئی آسمانی کتاب ایسی نہیں جس نے انسان کو کائنات عالم پر غور کرنے کا اس طرح واضح حکم دیا ہو جس طرح قرآن کریم نے دیا ہے.قرآن مجید نے اس بارے میں تین بنیادی امور بیان فرمائے ہیں.
اه اول.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دنیا کی تمام چیزیں مرتب ہیں کوئی چیز مفرد نہیں ہے.سب اشیاء میں ترکیب پائی جاتی ہے.فرمایا وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ (الذرات: ۵۰) دوم : قرآن کریم کہتا ہے کہ اشیاء کی وہ ترکیب ہر وقت عمل (WORK ) کر رہی ہے یعنی اسکے نتائج کا ایک سلسلہ جاری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے گی یومِ هُوَ فِي شَأْنِ کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت نئی شان اور ترکیب کے ساتھ تجلی فرماتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ کائنات عالم کی تمام چیزیں اُس کی اس تجلی سے متاثر ہوتی ہیں اور ان مرتب اشیاء کا سلسلہ کسی جگہ پر ٹھہر نہیں جاتا بلکہ آگے ہی آگے چلتا ہے.گویا ہر وقت نئے نتائج پیدا ہو رہے ہیں.الف اور ب کے ملنے سے حج پیدا ہوتا ہے پھر حج اور ڈ کے ملنے سے س پیدا ہوتا ہے.غرض اسی طرح ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے.سوم - قرآن کریم کہتا ہے کہ ان تمام اشیاء اور ان کی ترکیب اور اُس ترکیب سے پیدا ہونے والے نتائج کے اسرار کو معلوم کرنا تمہارا کام ہے.اس کام کو سر انجام دینے والے ہی اللہ تعالے کے نزدیک عقلمند ہیں.الَّذِيْنَ يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سبحنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران : ۱۹۲) وہ لوگ جو زمین و آسمان کی پیدائش کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اسے خدا ! تو نے اس کارخانہ کو بے حکمت پیدا نہیں کیا.تو پاک ہے اور ہمیں جیتیم کے عذاب سے بچا.پھر قرآن مجید یہ بھی وعدہ کرتا ہے کہ جو لوگ قوانین الہی میں غور کریں گے اور کائنات عالم کی حکمتوں کو سوچیں گے ان پر ان کے اسرار ضرور کھولے جائیں گے اور دنیا کے ذرہ سے لے کر خود خدا تعالیٰ تک ان لوگوں کے لئے کامیابی کا راستہ کھوئے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا (العنکبوت (۷۰) کہ جو لوگ ہمارے پیدا کر وہ عالم کے متعلق اور ہم تک پہنچنے کے لئے صحیح طریق سے کوشش کریں گے ہم اُن پر کامیابی کے راستے ضرور کھولیں گے.یہ تین اہم صداقتیں ہیں جن کا قرآن کریم اعلان کرتا ہے اور مسلمانوں کو ان کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہی تین امور سائنس کی بنیاد ہیں.ان حالات میں کس قدر تعجب کی بات ہوگی کہ مسلمان کا ئنات عالم سے غفلت اختیار کریں.دنیا میں مختلف خیال کے لوگ بستے ہیں.بعض لوگ تو یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کی طرف تو تب کرنا مذہب
۵۲ کا کوئی حصہ نہیں بلکہ ان کے نزدیک دنیا سے بے تو جہ رہنا نہ ہی آدمی کے لئے ضروری ہے جیسا کہ بدھوں کا خیال ہے یا عیسائیوں کے بعض فرقے سمجھتے ہیں.بعض لوگ دُنیا کو صرف دنیا کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کو ہی اپنا منتہائے مقصود سمجھتے ہیں بعض ایسے لوگ بھی ہیں کہ وہ کائنات عالم پر غور کرتے ہیں اور بعض ایجادات بھی ایجاد کرتے ہیں لیکن ان کے مذہب نے انہیں اس بارے میں کوئی ہدایت نہیں کی ان کے مذہب اس پہلو سے سراسر خاموش ہیں.انہوں نے یہ طریق اپنے لئے از خود ایجاد کر لیا ہے لیکن قرآن کریم تو مسلمانوں کو نہ صرف کائنات عالم پر غور کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے بلکہ وہ اس کام کو مذہب کا ایک حصہ قرار دیتا ہے اور اس کوشش کے نتیجہ میں ثواب اور روحانی بدلے کی اُمید ولاتا ہے.اگر مسلمان اس پہلو سے غفلت اور شستی کریں تو وہ صریح طور پر قرآن کریم کے احکام سے منہ پھیرنے والے قرار پائیں گے.جو لوگ صحیح طور پر کائنات عالم پر غور کرنے والے ہیں وہ بڑی محنت سے کام کرتے ہیں.میں نے بہت سے سائنسدانوں کے حالات پڑھتے ہیں وہ بڑے انہماک سے بارہ بارہ گھنٹے تک کام کرتے ہیں اور پھر شاندار نتائج پیدا کرتے ہیں لیکن مسلمان بالعموم پانچ چھے گھنٹے کے کام کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اسی لئے اپنے کام کی رپورٹ کرنے اور ڈائری لکھنے سے گھبراتے ہیں تبلیغی کام کرنے والے اور ریسرچ میں کام کرنے والے اگر اپنے کام کی ڈائری لکھیں تو اس سے انہیں صحیح طور پر حساس ہو جائے کہ انہیں اتنا کام کرنا چاہیے تھا اور انہوں نے کتنا کیا ہے.سُست لوگ اس بارے میں یہ مذر کیا کرتے ہیں کہ ہم نے کام کرنا ہے یا ڈائری لکھنا ہے.ڈائری لکھنے اور رپورٹ کرنے میں وقت ضائع ہوتا ہے.یہ عذر در حقیقت نفس کا دھو کہ ہوتا ہے.ڈائری وہی لکھ سکتا ہے جو صحیح طور پر کام کرتا ہے اور جو شخص کام نہیں کرتا وہ ڈائری لکھنے سے گریز کرتا ہے.ہمارا دنیا سے بہت بڑا مقابلہ ہے.ہماری یہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ دنیا کی لیبارٹریوں اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹوں کے مقابلہ میں بلحاظ اپنے سامان اور کارکنوں کے کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن یاد رکھنا چاہئیے کہ اصل کام یہ ہے کہ انسان میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی روح پیدا ہو جائے اور یہ روح محنت اور ایثار سے پیدا ہوتی ہے.جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہم نے بہت بڑے دشمن سے مقابلہ کرنا ہے تو ہمار سے اندر کام کرنے کی روح بڑھے جائے گی.ہمارے اس مقابلہ کی بنیا د روپے پر نہیں ہے.دنیا کے مقابلہ میں ہمارے پاس روپیہ ہے ہی
نہیں.۵۳ نپولین کا قول ہے کہ ناممکن کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے.اس کے یہی معنی تھے کہ نپولین کسی کام کونا ممکن نہیں سمجھتا تھا ہاں وہ اسے مشکل ضرور سمجھتا تھا اور پھر ہمت سے اُس کام کو سر انجام دیتا تھا.دنیا میں بہت سے لوگ ایسے گزرے ہیں کہ وہ اپنی اولو العزمی سے سامانوں کے مفقود ہونے کے با وجود کامیابی کار استهہ نکال لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت مسلمانوں پر جو غفلت اور جمود کی حالت طاری تھی اس کو بیداری سے بدلنا ناممک سمجھا جاتا تھا لیکن آپ نے مسلمانوں کے اندر امید کی کرن پیدا کر دی اور انہیں بیدار کر دیا.یورین مصنفین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے پہلے کے ہندوستانی مسلمان لیڈروں یعنی سرسید احمد خاں، امیر علی وغیرہ کو اپالوجسٹ (APOLOGIST) یعنی معذرت کرنے والے قرار دیتے تھے لیکن وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے متعلق تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا طریق اسلام کی طرف سے معذرت خواہانہ نہیں بلکہ جارحانہ حملے کا طریق ہے.ابھی ایک مشہور مغربی مصنف نے تحریک احمدیت کا ذکر اسی انداز میں کیا ہے.وہ کہتا ہے کہ مستقبل کے متعلق ایک ایسی جگہ بھی آتی ہے جہاں پر مؤرخ کو خاموش ہونا پڑتا ہے.تحریک احمدیت کے مستقبل کے ذکر میں اُس نے لکھا ہے کہ بہت سے گھوڑے جو گھوڑ دوڑ کی ابتداء میں کمزور نظر آتے ہیں وہی بسا اوقات اوّل نکلتے ہیں حقیقت بھی یہی ہے کہ اس وقت مذہبی دنیا میں جو تغیرات پیدا ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں جس قدر بیداری نظر آتی ہے وہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم کے نتیجہ میں ہے.اب مسلمانوں میں سے ننانو سے فیصدی لوگ وفات مسیح علیہ السلام کو ماننے لگ گئے ہیں قیصمت انبیاء کو ماننے لگ گئے ہیں اعدم نسخ قرآن کے نظریے کو بھی ننانوے فیصدی لوگ ماننے لگ گئے ہیں حالانکہ گزشتہ بارہ سو سال میں علمائے اسلام قرآنی آیات کے منسوخ ہونے کا عقیدہ رکھتے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت لطیف رنگ میں انہی آیات سے بہت سی حکمتیں بیان فرمائیں جنہیں لوگ منشوخ سمجھتے تھے.اس طرح مسئلہ نیخ قرآن کی بنیاد کو آپ نے توڑ کر رکھ دیا.تمام وہ مسائل جو باقی دنیا اور مسلمانوں کے لئے مشکوک بلکہ مخالفانہ طور پر تسلیم کئے جاتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ان کو بدل دیا.پس ناممکن بات کو خدا تعالیٰ کے فضل سے ممکن بنایا جا سکتا ہے.جب ہم قادیان سے نکلے ہیں تو خود جماعت کا ایک بڑا حصہ کہنا تھا کہ اب ہمارے پاؤں کسی طرح جمیں گے لیکن دیکھ لو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ہمارا بجٹ پہلے
۵۴ سے زیادہ ہے اور مخالفت کے باوجود جماعت کی ترقی ہو رہی ہے.اقتصادی حالت بھی پہلے سے بہتر ہے اگر چہ جماعت کی صحیح تربیت کی جائے تو چندے دگنے ہو سکتے ہیں.میرے نزدیک ریسرچ سکالر کو یہ کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ کوئی ایسی بات بھی ہے جو نہیں ہو سکتی اس کو اپنی تحقیقات کے سلسلہ کو پھیلانے میں یہ بھی نہ ماننا چاہئیے کہ میں دنیا کو پیدا نہیں کر سکتا ( گو یہ پیدا کرنا مجازی رنگ میں ہی ہو گا ، یہ تو درست ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ناممکن قرار دے دیا ہے وہ بہر حال ناممکن ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ جن چیزوں کو انسان کسی وقت ناممکن کر دیں وہ فی الواقعہ نا ممکن ہوتی ہیں.ابھی جب ایٹم بم ایجاد ہوا تو وہ سائنسدان جو کہتے تھے کہ دنیا کا کبھی خاتمہ نہیں ہو سکتا وہ کہنے لگ گئے کہ اِس ایجاد سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ دنیا ختم ہو سکتی ہے.چار پانچ ماہ تک وہ لوگ CAN REACTION ( تسلسل رد عمل کے نظریہ کے ماتحت دنیا کے خاتمہ کے قائل رہے ہیں.بہر حال ریسرچ کرنے والے انسان کے لئے بہت بڑی وسعت ہے.دنیا میں ایک وقت میں ایک چیز ناممکن بھی جاتی ہے اور پھر وہ ممکن ہو جاتی ہے.گویا قدرت بھی اپنے دائرہ کو لمبا کرتی رہتی ہے.پہلے لوگ دنیا کی لمبائی کا اندازہ روشنی کے تین ہزار سال سمجھتے تھے جنگ کے بعد یہ اندازہ چھ ہزار سال تک پہنچ گیا اور اب نیا نظریہ یہ ہے کہ دنیا کی لمبائی روشنی کے چھتیس ہزار سال کے برابر ہے.اس وقت محققین کے دو نظریے ہیں بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ دنیا EXPAND ہو رہی ہے.جوں جوں ہم علمی طور پر آگے بڑھتے ہیں دُنیا کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے.دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ در حقیقت ابھی تک ہم نے صحیح اندازہ ہی نہیں کیا.ہمارے سارے انداز سے ناقص اور کم ہیں.قرآن مجید کہتا ہے إلى ربك منتهها ( النازعات : ۴۵ ) کہ ہر چیز کی الجھنیں اللہ ہی حل کر سکتا ہے اور ہر چیز انجا مکار تیرے رب کی طرف پہنچتی ہے.گویا ہمارے سامنے SOURCES (غیر محد و دخترانے ) موجود ہیں جن کی ریسرچہ ہم نے کرنی ہے لیکن ہمارے پاس سامان نہیں.ایٹم بم کے متعلق پانچ ہزار ورکر کام کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہاں صرف پانچ کا رکن ہیں.پھر ان کے سامانوں کی فراوانی سے بھی ہمیں کوئی نسبت نہیں.ان لوگوں کا بجٹ دو دو ارب کا ہوتا ہے ہمارے ریسرچ کے بجٹ کو ان کے بجٹ کے ساتھ کوئی نسبت نہیں.ظاہر ہے کہ جب سامان تھوڑے ہوں اور کام کرنے والے آدمی تھوڑے ہوں تو کام کی نسبت زیادہ ہونی ضروری ہے.کم ہمت آدمی UNLIMITED
۵۵ کام کی زیادتی کو دیکھ کر کہتا ہے کہ بہت کام ہے مجھ سے تو یہ ہو ہی نہیں سکے گا.اس لئے وہ کام چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور مختلف جھوٹے عذرات پیش کرتا ہے لیکن اچھا آدمی کام کی زیادتی کی وجہ سے گھر آتا نہیں بلکہ کہتا ہے کہ یکی کام کے لئے وقت کی مقدار کو بڑھا کر اور محنت میں اضافہ کر کے اس کام کو کروں گا.سوچ لو کہ جب دنیا کے سامنے یہ حقیقت واضح طور پر پیش ہو کہ ایک شخص ایسا ہے کہ زیادہ کام کو دیکھے کہ اُس نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا اور دوسرا ایسا ہے کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے اس نے زیادہ محنت اور زیادہ ہمت سے کام کو سر انجام دیا تو دنیا ان میں سے کس کو اچھا سمجھے گی اور کس کو برا قرار دے گی صحابہ کی کامیابی تو خاص خدائی نصرت کا نتیجہ تھی دنیوی طور پر بھی بعض لوگ ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے بظاہر نا ممکن کاموں کو ممکن کر دکھایا ہے.سکندر، چنگیز خاں تیمور، باہر اور ہٹلر وغیرہ ایسے ہی لوگ تھے.ان کے علاوہ اور بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی قربانی اور ایثار سے بڑے بڑے کام کر دکھائے ہیں.ٹرکی کی گزشتہ جنگ میں ایک کرنیل کا واقعہ میں نے پڑھا ہے کہ ایک قلعے کے فتح کرنے کے لئے وہ اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑی پر چڑھ رہا تھا کہ درمیان میں اُسے گولی لگی اور وہ زخمی ہو گیا.اُس کے سپاہی محبت کی وجہ سے اُس کی خبر گیری کے لئے بڑھے مگر اُس نے کہا کہ تم لوگ مجھے ہاتھ مت لگاؤ وہ سامنے قلعہ ہے جس کا فتح کرنا ہمارا مقصد ہے جاؤ اور اس قلعہ کو فتح کرو.اگر فتح کر لو تو اس قلعے کے اُوپر میری لاش کو دفن کرنا ورنہ اُسے کتوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دینا.اس کے اس جذبہ کا اس کے ساتھیوں میں وہ اثر ہوا کہ سب نے نہایت ہمت کے ساتھ جنگ کی اور قلعے کو فتح کر لیا.پس دنیا میں کوئی کام نا ممکن نہیں.صرف وہی کام نا ممکن قرار دیا جائے گا جیسے ہمارا خدا ناممکن قرار دے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآن کریم نے کائنات عالم کے رانہوں کو جاننے کی طرف نعود توجہ دلائی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ صحیح روح سے اس راستے میں کام کریں گے وہ ضرور کامیاب ہوں گے.پس میں اس انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کے وقت توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر قرآنی روح پیدا کرو.زیادہ محنت اور زیادہ وقت لگا کر کام کرنے کی عادت ڈالو تب بہت سی چیزیں جو دنیا کے لئے ناممکن ہیں تمہارے لئے ممکن ہو جائیں گی.تمہارے سامنے کائنات عالم کی کوئی دیوار بند نہیں تم جس طرف بڑھنا چاہو اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے لئے دروازہ کھول دے گی.تمہارا یہ کام کوئی دنیوی کام نہیں بلکہ حقیقتاً دینی کام ہے.قرآن مجید کے حکم کی تعمیل ہے.اور پھر
۵۶ اس ریسری میں حقیقی طور پر کام کرنے والے کارکن میللہ کے لئے مالی طور پر بہت محمد ہوسکتے ہیں اور اخلاقی طور پر بھی.ان کے زیادہ محنت سے کام کرنے کو دیکھ کر، ان کے اس کیریکٹر کا اثر باقی افراد اور خصوصاً تبلیغی کام کرنے والوں پر بھی پڑے گا اور اسی میں ہماری کامیابی کا راز ہے کہ ہم اللہ تعالے پر تو تحمل کر کے ہمت اور عزم کے ساتھ زیادہ وقت لگا کر اور زیادہ محنت کے ساتھ کام کریں.خدا تعالیٰ کی نصرت ہمارے شامل حال ہو گی.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے.آمین لے ر اس حقیقت افروز خطاب کے بعد حضور نے دعا فرمائی اور یہ با برکت تقریب بخیریت اختتام پذیر ہوئی کئیے فصل پنجم حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کا سفرند سید نا حضرت خلیفتہ السیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے اس سال بھی حسب معمول سفر سندھ اختیار فرما یار حضور ۲۷ احسان ۱۳۳۲ اهش مطابق ۲۷ جون ۱۹۵۳ء کو ربوہ سے ناصر آبا دسندھ کیلئے روانہ ہوئے اور نا صر آباد ، احمد آباد محمد آبا د یں کچھ عرصہ قیام کے بعد میر پور خاص اور حیدر آباد سے ہوتے ہوئے 19 ظہور مطابق ۱۹ اگست کو کراچی میں رونق افروز ہوئے.کراچی میں حضورہ بہ رضویہ (راست) تک قیام فرما ہے حضور کا قیام ہاؤسنگ سوسائٹی میں تھا.۳۱ر ظہور (اگست) کو حضور بخیرو عافیت ہو مراجعت فرما ہوئے ہیں : ه رسالة" الفرقان" (ربوه) بابت ماہ جولائی ۶۱۹۵۳ صد تا صحت کے روزنامہ الصلح" کہ اچی ۲۳ جولائی ۱۹۵۳ء ص سے رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوه ۱۹۵۳ یه مث ، روز نامہ المصلح" کراچی مورخہ یکم جولائی ۱۹۵۳ء صت و یکم ستمبر ۶۱۹۵۳ ص : ۵۲
اس تاریخی سفر کی علمی اور دائمی یادگاروں میں وہ معرکۃ الآراء خطبات و تقاریر ہیں جو حضور نے نہایت اہم دینی اور علمی اور اخلاقی مسائل پر ناصرآباد، احمدآباد، محمد آباد اور کراچی میں ارشاد فرمائیں اور جن سے جماعت کے علم و عرفان میں بے انداز ترقی ہوئی حضور کے یہ خطابات اسی زمانہ میں روز نامہ المصلح ہیں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئے اور اخبار "بدر قادیان میں بھی چھپ گئے.ذیل میں اُن کی اہمیت کے پیش نظر بعض کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے :.حضرت المصلح الموعود نے ناصر آباد میں اپنے خطبات ارشاد فرمائے جن کی خطبات ناصر آباد تاریخ یہ ہے :.۱۰۳، ۷ار و فار جولائی و ۱۴۱۷ ظهور/ اگست - (۱) حضور نے مورخہ ۱۰اروفا ۱۳۳۲اہش / ۱۰ جولائی ۱۹۵۳ء کے خطبہ میں بڑی تفصیل سے بتایا کہ بیرونی ممالک میں مساجد کی تعمیر اسلام کی تبلیغ کا ایک نہایت مؤثر اور کامیاب ذریعہ ہے لہذا احمدیوں پر اشاعت اسلام کی جو بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے انہیں ہر وقت اس کو اپنے سامنے رکھنا چاہیئے اور تعمیر مساجد کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے پوری جد و جہد کرنی چاہئیے کیونکہ اسلام کی اشاعت یا مبلغوں کے ذریعہ ہوگی اور یا مساجد کے ذریعہ کا چنانچہ فرمایا :- جب تک ہماری جماعت اپنے اس فرض کو نہیں سمجھتی اس وقت تک اس کا یہ امید کر لینا کہ وہ اسلام کو دنیا پر غالب کرنے میں کامیاب ہو جائے گی غلط ہے.اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوگی جیسے چھپکلی کی دم کاٹ دی جائے تو وہ دم تھوڑی دیر کے لئے تڑپ لیتی ہے لیکن پھر ہمیشہ کے لئے تختم ہو جاتی ہے.ہمیں سوچنا چاہیئے آیا تو ہماری غرض صرف اتنی ہی تھی کہ ہم دنیا میں شور مچا دیں گے.اور اگر یہی ہماری غرض تھی تو یہ کام ہم نے کر لیا ہے اب ہمیں کسی مزید کام کی ضرورت نہیں.اور یا پھر ہماری غرض یہ تھی کہ ہم دنیا میں اسلام پھیلائیں اور اگر یہی ہماری مرض ہے تو اس کے لئے متواتر قربانیوں اور جد وجہد اور نیک نمونہ کی ضرورت ہے اور ہماری تبلیغ تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب ہمارہ اعملی نمونہ اسلامی تعلیم کے مطابق ہو.اگر ہمارے اندر دیانت پائی جاتی ہے.اگر ہمارے اندر سچائی پائی جاتی ہے.اگر ہمارے اندر نیک چال چلن پایا جاتا ہے.اگر ہمار سے اندر معاملات کی صفائی پائی جاتی ہے تو ہر شخص جو ہمیں دیکھے گا وہ سمجھے گا کہ اس جماعت کے ساتھ مل کہ دین کی خدمت کی
جا سکتی ہے لیکن اگر ہمارا نمونہ اچھا نہیں تو وہ کہے گا کہ " دُور کے ڈھول سہانے" باتیں تو ہم بڑی سُنتے تھے لیکن پاس آکر دیکھا تو ہمیں معلوم ہوا کہ اس کا پھل ایسا میٹھا نہیں پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھوا اور چندہ مساجد کی تحریک میں حصہ لو.اگر ہماری جماعت کے تمام دوست اس چندہ میں حصہ لینا شروع کر دیں تو ہر سال ایک خاص رقم اس غرض کے لئے جمع ہو سکتی ہے....ہماری جماعت میں ایک غریب سقہ تھا جب بھی چندہ کی کوئی تحریک ہوتی وہ فوراً آ جاتا اور کچھ نہ کچھ چندہ دے دیتا.اس کی تنخواہ صرف تیس روپے ماہوار تھی مگر آہستہ آہستہ اُس کے چودہ پندرہ روپے چندہ میں جانے لگے اور وہ ہر نئی تحریک پر اصرار کرتا کہ اس میں میرا بھی حصہ شامل کیا جائے.وہاں کے امیر جماعت نے مجھے لکھا کہ ہم اس کو بارہ بار سمجھاتے ہیں کہ تمہاری مالی حالت کمزور ہے تم ہر تحریک میں حصہ نہ لیا کہ و ہر تحریک غرباء کے لئے نہیں ہوتی مگر وہ کہتا ہے یہ کسی طرح ہو سکتا ہے کہ چندہ کی تحریک ہو اور پھر یکں اس میں حصہ نہ لوں اس لئے آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ اسے روکیں چنانچہ یکی نے اُسے پیغام بھجوایا کہ آپ چندوں میں اس قدر زیادہ حصہ نہ لیا کریں تب کہیں جا کر وہ گا...احمدیت اگر پھیلے گی اور اسلام اگر ترقی کرے گا تو انہی لوگوں کے ذریعہ جو سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کہنا ہے ہم نے ہی کرنا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم سے اپنے دین کی خدمت کا کوئی کام لے رہا ہے تو یہ ایک انعام ہے جو ہم پر کیا جا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے ایسے زمانہ میں ہم کو اسلام کی خدمت کے لئے چنا جبکہ اسلام کمزور ہو رہا ہے اور مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ایسے ہی لوگ ہیں جو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے جائیں گے اور ان کے نام اسلام کے مجاہدین میں شمار کئے جائیں گے پہلے (۲) مورخه ، اروفا ۱۳۳۲ اہش / ۷ در جولائی ۱۹۵۳ء کے خطبہ میں حضور نے فرمایا در قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے :.ياتها الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا (المؤمنون (۵۲) نه روزنامل الصلح » کراچی مورخ ۲۲ ر و ا ۳۳۲ امتش بمطابق ۲۲ جولائی ۱۹۵۳ء من *
۵۹ (ترجمہ) اسے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور مناسب حال عمل کرو.حضرت المصلح الموعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجید کی اس آیت کی لطیف تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :- " قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس بارہ میں مومنوں کو ایک اصولی ہدایت دیتا ہے اور فرماتا ہے يَايُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا یعنی یہ مقام که انسان ہر قسم کے تزلزل سے بچ جائے اور اسے روحانیت اور مذہب پر ثبات حاصل ہو جائے حلال کھانے کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اگر تم حلال کھاؤ گے تو اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر تمہیں عمل صالح کی توفیق ملے گی جس طرح آجکل کمیونزم نے یہ بات نکال لی ہے کہ سارا دھندا پیٹ کا ہے چنانچہ جہاں بھی کمیونسٹوں سے بات کرنے کا کسی کو موقع ملے وہ یہی کہتے ہیں کہ اور مسائل کو بجانے دیئے سارا جھگڑا ہی پیٹ کا ہے اسی طرح قرآن کریم یہی کہتا ہے کہ پیٹ ہی اصل چیز ہے مگر انہوں نے تو یہ کہا ہے کہ جس نے پیٹ کا مسئلہ حل کر لیا وہ کامینا ہو گیا اور قرآن یہ کہتا ہے کہ جس نے اپنے پیٹ کو ہر قسم کے حرام سے بچا لیا وہ کامیاب ہو گیا جس نے حلال اور حرام میں ہمیشہ امتیاز کیا اور جس نے طیبات کا استعمال ہمیشہ اپنا معمول رکھا وہی ہے جسے عمل صالح کی توفیق ملتی ہے یعنی نماز کی بھی ایسے ہی توفیق ملتی ہے جو حلال کھاتا ہے اور روزہ بھی اس کو نصیب ہوتا ہے جو حلال کھاتا ہے اور جج بھی اسی کو نصیب ہوتا ہے جو حلال کھاتا ہے اور زکوٰۃ کی بھی اسی کو توفیق ملتی ہے جو حلال کھاتا ہے...اگر کمیونسٹ ایک بات کو بارہ بار رھنے سے اس قدر پھیلا سکتے ہیں تو تم سمجھ سکے ہو.کہ اگر خدا کی بات کو رٹنا شروع کر دیا جائے تو وہ کیوں نہیں پھیلے گی اور قرآن یہ کتنا ہے کہ جس کے پیٹ میں حلال رزق جائے گا وہی دنیا میں عمل صالح بجالا سکے گا.اگر ہم اپنی ہاتوں میں اور خطبات میں اور تقاریر میں اور آپس کے لین دین میں یہی فقرہ دہرانا شروع کر دیں تو دنیا اس کی قائل ہو جائے گی " لے به روزنامه المصلح" کراچی مورخه ۲۸ جولائی ۱۱۹۵۳ (۲۸ وفا ۱۳۳۲ ش) مد و
۶۰ مورخه ۲۳ رو فا ۱۳۳۲ ہش / ۲۴ جولائی ۶۱۹۵۳ ) خطبه احمد آباد اس خطبہ میں حضور نے جماعت احمدیہ کو نصیحت فرمائی کہ اپنے نمونہ اور عمل کو ایسا پاکیزہ بناؤ کہ تم اپنی ذات میں محبتم تبلیغ بن جاؤ.اگر تم ایسا تغیر پیدا کر لو تو دنیا کی کوئی طاقت لوگوں کو تمہاری طرف مائل ہونے سے روک نہیں سکتی.اس خطبہ کے دو نہایت اہم اقتباسات درج ذیل ہیں:.اگر ہر مسلمان کی زبان بندی کی جائے.اگر ہرمسلمان کو تبلیغ سے روک دیا جائے.اگر ہر مسلمان کو خدا اور اس کے رسول کا پیغام پہنچانے سے منع کر دیا جائے تب بھی خدا کا پیغام رک نہیں سکتا.خدا خود آسمان سے لوگوں کے دلوں پر الہام نازل کرتا ہے اور وہ خود بخود ہدایت کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں.ہمارے پاس بیبیوں خطوط راس تقسیم کے آتے ہیں کہ ہم نے فلاں خواب دیکھی ہے جس کی وجہ سے ہم احمدیت کو قبول کرتے ہیں.ابھی امریکہ سے وہاں کے مبلغ نے ایک شخص کی مٹھی بھجوائی ہے جو ایم.اسے ہے اور جس میں اُس نے لکھا ہے کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ ایک شخص بلند آواز سے کہہ رہا ہے اس زمانہ میں محمود سے بڑھ کہ اسلام کا کوئی خادم نہیں.اسی طرح بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے اور آپ نے ہمیں کہا کہ اس شخص کو قبول کر لو.اور جب خدار کسی کو آپ بتائے گا کہ یہ بچائی ہے تو خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات کو رد کرنے کی کو شخص طاقت رکھتا ہے....تمہارا فرض ہے کہ اپنے اندر ایسی نیک تبدیلی پیدا کرو کہ تمہیں دیکھنے والے یہ محسوس کریں کہ تم ایک نئی چیز ہو.دنیا میں جب بھی کوئی ایسی چیز نظر آئے جو غیر معمولی ہو تو لوگ اُس کے متعلق خود بخود دریافت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے اور اس کی کیا حقیقت ہے " حضور نے خطبہ کے آخر میں اس نکتہ کو اور زیادہ موثر انداز میں بیان کرتے ہوئے فرمایا :- " مومن کو قرآن پر اعتبار ہوتا ہے جب اس کے سامنے کوئی بات قرآن سے ثابت کر دی جائے تو وہ فوراً اس کو ماننے لگ جاتا ہے بعض لوگوں کو کسی تجربہ کار انسان پر اعتماد
ہوتا ہے.اس لئے جو کچھ وہ کہتا ہے اسے وہ بلا دریغ مانے لگ جاتے ہیں بعض کو کسی نیک انسان پر اعتماد ہوتا ہے.جب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ ایک کام کر رہا ہے تو وہ بھی ویسا ہی کام کرنے لگ جاتے ہیں.تم بھی اپنی زندگیاں ایسی بناؤ کہ سب لوگ تمہارے متعلق یہ کہیں کہ یہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے.یہ دھوکا اور فریب نہیں کرتے نیکی اور پاکیزگی میں اپنی عمر بسر کرتے ہیں.اگر تم اپنے متعلق لوگوں کے دلوں میں یہ اعتماد پیدا کر لو تو نہ کوئی حکومت کسی کو تمہا رے آنے سے روک سکتی ہے نہ کوئی پارٹی تمہاری آواز کو دبا سکتی ہے نہ لوگوں کے باہمی معاہدات تمہیں کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں....جن کے ساتھ خدا کا تعلق ہو، جو اپنے نیک نمونہ سے لوگوں کے دلوں کو گھائل کر چکے ہوں ، جو اپنی نیکی اور تقویمی کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد حاصل کر چکے ہوں ، جو اُٹھتے اور بیٹھتے شرافت اور دیانت کا ایک مجسمہ ہوں.ان کا ہر قدم تبلیغ ہوتا ہے.ان کا ہر لفظ تبلیغ ہوتا ہے.ان کی ہر حرکت تبلیغ ہوتی ہے.ان کا ہر سانس تبلیغ ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت لوگوں کو ان کے نیک اثر سے محروم نہیں کر سکتی.وہ لوگ جو ان کی بات سننا تک گوارا نہیں کرتے ، وہ لوگ جو ان کی مشکل دیکھ کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ بھی ان کے نمونہ کو دیکھ کر ان کے پاؤں پکڑ کر برکت حاصل کرنے کے خواہشمند ہو جاتے ہیں.پس اپنے نمونہ اور عمل سے اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ تم اپنی ذات میں ایک مجسم تبلیغ بن جاؤ جس طرح سورج کو دیکھنے کے بعد انسان کیلئے کسی دلیل کی احتیاج باقی نہیں رہتی اسی طرح جب کوئی شخص تم کو دیکھ لے تو وہ یہ یقین ہی نہ کر سے کہ مرزا صاحب جھوٹے تھے....پس تم اپنے عمل سے اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ دنیا تمہارے پیچھے چلنے پر مجبور ہو، دنیا تم سے محبت کرنے پر مجبور ہو، دنیا تمہارے سایہ عاطفت میں پناہ لینے پر مجبور ہو جس طرح اگر کسی جنگل میں سے لوگ گزر رہے ہوں اور اس جنگل میں کوئی خطرناک شیر رہتا ہو تو لوگ سمٹ کر کسی زبر دست شکاری کی پناہ میں چلے جاتے ہیں اسی طرح دنیا سمجھ لے کہ ہر جگہ آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں مگر جہاں تم کھڑے ہو وہاں کوئی مصیبت آسمان سے نازل نہیں ہوتی اگر تم ایسا مقام حاصل کر لو تو دنیا تمہاری طرف آنے پر خود بخود مجبور ہو جائے گی.اگر کسی جگہ آگ کی بارش ہو رہی ہو اور صرف ایک
۶۲ مقام ایسا ہو جو اس آگ کی بارش سے محفوظ ہو اور اس وقت کوئی عورت اپنے بچہ کو لے کر آجائے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ دنیا کی کوئی حکومت اور دنیا کی کوئی طاقت اس عورت کو وہاں آنے سے روک سکتی ہے.نہ حکومتیں اسے روک سکتی ہیں نہ فوجیں اسے روک سکتی ہیں نہ پولیس اسے روک سکتی ہے کیونکہ وہ بجھتی ہے کہ میرا بچہ اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جبتک یکن اس جگہ نہ جاؤں.پس اپنے اندر وہ روح پیدا کرو جو پتے مومنوں میں ہونی چاہیئے.تم دیکھو گے کہ خدا آپ ہی آپ ساری دنیا کو تمہارے قدموں میں سمیٹ کر لے آئے گا تب تمہاری کا میابی میں کوئی شبہ نہیں ہو گا اور تمہارے پاس آنے سے لوگوں کو روکنے والا سوائے حسرت اور خسر ان کے اور کچھ حاصل نہیں کر سکے گا ہائے د موریہ اور وفا ۱۳۳۲اہش / ۳۱ جولائی ۱۶۱۹۵۳ خطبه محمد آباد حضور نے اس پر حکمت خطبہ میں یہ زترین نصیحت فرمائی کہ خدائی جماعتوں کو ہمیشہ ہی اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے تا ان کے کسی اقدام سے خدا اور رسول بد نام نہ ہوں.چنانچہ فرمایا:.جو شخص خدا کے نام پر حرام خوری کرتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ خطرناک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ اس میں صرف اس کی اپنی بد نامی ہی نہیں ہوتی بلکہ خدا اور اس کے رسول کی بھی بدنامی ہوتی ہے.دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے لوگوں کو بار بار گر ان کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے تھے مگر ان کی وجہ سے ان کے مذہب کو کوئی بد نام نہیں کرتا لیکن بعض فیج اعوج کے مسلمان کہلانے والے بادشاہوں نے جہاد کے نام سے تلوار اُٹھائی تو ان کی وجہ سے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آج تیک به نام کیا جا رہا ہے.اب مارنے والا ہے ایمان کوئی اور انسان تھا مگر الزام ہمار سے آقا پر آ گیا.اُس بے ایمان نے اپنے نفسانی جوش کی وجہ سے خونریزی کی مگر چونکہ اس نے دین کا نام لے کہ خونریزی کی اور کہا کہ یکی اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت ایسا کہ رہا ہوں اس لئے اسلام بدنام ہو گیا حالانکہ اسلام میں ایسے اعلیٰ درجہ کا ل روزنامه المصلح" کراچی مورخه ۲۳ تبوک ۳۳۲اہش مطابق ۲۳ ستمبر ۱۹۵۳ء حث کالم اوم +
۶۳ نمونہ دکھانے والے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے خود تکلیفیں اُٹھا کر معاہدات کی پابندی کی اور دشمن کے ہر قسم کے مظالم کے باوجود اُن سے حسن سلوک کیا لیکن ان کی نیکیاں بھی ان بے ایمانوں کی وجہ سے ٹھپ گئیں، جو کچھ ابو بکر نے کیا، جو کچھ عر نے کیا، جو کچھ عثمان نے کیا، جو کچھ علی نے کیا اور جوکچھ بنو امیہ کے کئی بادشاہوں نے کیا اور بنو عباس کے کئی بادشاہوں نے کیا بلکہ اُن کے بعد بھی مختلف ملکوں کے مسلمان بادشاہوں نے کیا وہ ان کے اخلاق اور حسن کردار کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.انہوں نے اپنے دشمن سے جو سلوک کیا.آدم سے لے کر آج تک کسی بادشاہ کے متعلق یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ اُس نے ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہو لیکن ان کی نیکیاں بھی چھپ گئیں کیونکہ بعض بے ایمانوں نے خدا کے نام پر لڑائیاں کیں اور جہاد کے نام پر فساد کئے اور خدا کے نام پر لوگوں کی گردنیں اُڑانا جائزہ قرار دے دیا.اگر وہ یہ کہ کر لوگوں کی گردنیں اڑاتے کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ گردنیں اڑائیں تو یہ زیادہ بہتر ہوتا.آخر ہندوؤں نے لوگوں کی گردنیں اڑائی ہیں یا نہیں عیسائیوں نے گردنیں اڑائی ہیں یا نہیں لیکن باوجود اس کے کہ عیسائیوں نے بہت زیادہ ظلم کئے ہیں بلکہ یکی سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے تیرہ سو سال میں اتنا ظلم نہیں کیا جتناعیسائیوں نے صرف ایک صدی میں کیا ہے پھر بھی عیسائیت بدنام نہیں ہوئی کیونکہ عیسائی یہ کہا کرتے تھے کہ ہماری طبیعت چاہتی ہے کہ ہم ایسا کریں اور مسلمان یہ کہا کرتے تھے کہ ہم خدا اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت ایسا کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی نہایہ، بدنام نہ ہوا کیونکہ لوگوں نے کہا یہ ان کا ذاتی فعل تھا لیکن خدا اور اُس کا رسول بہ نام ہو گئے.غرمق خدا کے کام میں اگر غلطی ہو جائے تو زیادہ بدنامی کا موجب ہوتی ہے اسی طرح خدا کی جماعت میں شامل ہو کہ اگر کوئی غلطی کی جائے تو وہ غلطی بھی زیادہ بدنامی کا موجب ہوتی ہے.غیر احمدی سو میں سے ننانو سے نماز نہیں پڑھتا اور سب مسلمان اس کو برداشت کرتے ہیں لیکن اگر ایک احمدی بھی نماز نہیں پڑھتا تو سب لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ تم میں اور ہم میں فرق کیا ہے.اگر ہم نماز نہیں پڑھتے تو فلاں احمدی بھی نماز نہیں پڑھتا.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارا اسو میں سے ایک نماز نہیں پڑھتا اور غیراحمدیوں
۶۴ کے سو میں سے ننانوے نماز نہیں پڑھتے، وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو ایک خدائی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے اور پھر نماز نہیں پڑھتا گویا اس ایک کا فعل ساری جماعت کو بدنام کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے کام میں حصہ لینے والوں اور خدائی جماعتوں میں شامل ہونے والوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں اور دیکھتے رہیں کہ انہوں نے کوئی ایسا قدم تو نہیں اُٹھایا جو خدا اور اس کے رسول کو بد نام کرنے والا ہو.پھر خدا تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت شامل حال رکھے.انسانی عقل چونکہ کمزور ہے اس لئے زندگی میں وہ کئی دفعہ غلطی بھی کر بیٹھتا ہے مگر اس کی بدنامی بعض دفعہ سو سو سال تک چلتی چلی جاتی ہے اس کا علاج صرف دعا ہے یا لہ ناصر آباد، احمد آباد اور محمد آباد کے خطبات جمعہ کا تذکرہ کرنے کے بعد اب کراچی کے خطبات ، تقاریر اور دوسری بعض تقاریب کے کوائف درج کئے جاتے ہیں.قیام کراچی کے دوران سید نا حضرت المصلح الموعود نے خطبہ عید الاضحیہ کے علاوہ خطبات کراچی دو خطبات جمعہ ارشاد فرمائے.۱ خطبہ عید الاضحیه (مورخه ۲۱ ظهور/ اگست ) اس خطبہ میں حضرت امام مہمام نے نہایت لطیف پیرائے میں ملت اسلامیہ کو ایک عظیم سبق کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا : رشتوں کی محبت بے شک جاہل لوگوں اور نادان لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے لیکن انسانیت کا مقام اس محبت سے انسان کو اُونچائے جاتا ہے جتنا نیچے چلے جاؤ محبت کا ذریعہ مادیت ہوتی ہے لیکن جتنا او پر پہلے جاؤ محبت کا ذریعہ روحانیت ہوتی ہے.جتنا جتنا انسان جانورں میں شامل ہوگا اتنی ہی اس میں مادیت والی محبت اور بھائیوں اور رشتہ داروں کی محبت زیادہ ہوگی اور جتنا جتنا وہ اُونچا ہوگا اتنی ہی اس کی محبت بھی بلند تر ہوتی چلی جائے گی.پہلے وہ اپنی اولاد سے زیادہ محبت رکھے گا پھر اور اُونچا ہو گا تو اپنے خاندان سے محبت رکھے گا.ه روز نامها المصلح کراچی مورخه ۲۶ تبوک ۱۳۳۲اهش ۲۶ ستمبر ۶۱۹۵۳ ص۴۱۲
۶۵....اور اونچا ہو گا تو اپنے وطن سے محبت کرنے لگ جائے گا اور اُونچا ہو گا تو اپنی قوم سے محبت کرنے لگ جائے گا اور اُونچا ہو گا تو انسانیت سے محبت کرنے لگ جائے گا اور اونچا ہو گا تو دین الہی سے محبت کرنے لگ جائے گا اور اُونچا ہو گا تو فرشتوں سے تعلق رکھنے لگ جائے گا اور اُونچا ہو گا تو اس کا خدا سے تعلق ہو جائے گا مگر خدائی تعلیق کا پہلا زمینہ خدا تعالیٰ کے نبیوں سے تعلق پیدا کرنا ہے.جس طرح تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ تم چھلانگ لگا کر چھت پر چڑھ سکو اس طرح تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی کرنے والے وجودوں کو چھوڑ کر تم خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر سکو میگر جس طرح کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ چھت پر بیٹھا ہوا انسان جب دیکھتا ہے کہ کسی پر شیریا ڈاکو نے حملہ کر دیا ہے تو وہ رہتی کہ اگر اس کو اوپر کھینچ لیتا ہے اسی طرح کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس سے ملنے کی سچی تڑپ رکھتا ہے لیکن وہ ایسے ماحول میں ہے کہ اسے انبیاء کی یہ اہنمائی میتر نہیں آسکتی تو وہ خود اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے مگر ایسا بہت شاذ ہوتا ہے اور شاذ پر کسی قانون کی بنیاد نہیں کھی جا سکتی.عام قانون یہی ہے کہ جو لوگ خدا نما وجود ہوتے ہیں انہی کے ذریعہ انسان کو روحانی ترقی ملتی ہے اور اس ترقی کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ انسان دنیوی محبتوں کو سرد کر کے ان کی محبت کو اپنے اوپر غالب کرے.جب وہ ان کی محبت کو غالب کر لیتا ہے تو ان کا نمونہ اختیار کرنا اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے.اس وقت وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی غیر ہے جس کی میں اقتداء کر رہا ہوں بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ میرا باپ ہے اور اس کا خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے.یہی سبق اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ محمد میں سکھایا گیا ہے اور پھر آگے ابراہیم اور آل ابراہیم کا ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ لیہ وسلم کی اولاد میں شامل ہو جاتا ہے وہ ابراہیم کی اولاد میں بھی شامل ہو جاتا ہے پھر جو کام اسمعیل نے کیا وہی کام وہ خود بھی کرنے لگ جاتا ہے اس لئے نہیں کہ اگر اسمعیل نے یہ قربانی پیش کر دی تھی تو یکیں کیوں نہیں کر سکتا بلکہ اس لئے کہ وہی خون جو اسمعیل کی رگوں میں دوڑ رہا تھا میری رگوں میں بھی دوڑ رہا ہے اور یکی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا
Σ ۶۶ بیٹا ہو کہ ابراہیم کا بھی بیٹا ہوں اور ابراہیم کا بیٹا ہو کہ اسمعیل کے کاموں میں اس کا شریک ہوں.بس جو کام اس نے کیا وہ یکی بھی کروں گا.جو شخص اس نقطۂ نگاہ سے اسلام کو دیکھتا ہے اس کے لئے عید الا ضحیہ بالکل اور چیز ہو جاتی ہے.کسی نے کہا ہے کہ دوسروں کی باتیں شنکر نصیحت حاصل کرنا عقلمند انسان کا کام ہے یہ بھی درست ہے مگر اپنے ہی خاندان کے افراد کی قربانی اور ان کا نمونہ جو تغیر انسان کے اندر پیدا کر سکتا ہے وہ کسی دوسرے کی قربانی اور اس کا نمونہ تغیر پیدا نہیں کر سکتا.پس عید الاضحیہ کے آنے پر ہم مسلمان یہ سبق تازہ کرتے ہیں کہ اس میں کسی غیر کا ذکر نہیں بلکہ میرے بھائی اسمعیل کی قربانی کا ذکر ہے.اگر اس نے ایسا نمونہ دکھایا تھا تو یکیں کیوں نہیں دکھا سکتا.اگر ابراہیم کا ایک بیٹا ایسی قربانی کر سکتا ہے تو اس کا دوسرا بیٹا ایسی قربانی کیوں نہیں کر سکتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ چونکہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں سے ہیں جو ساری دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے تھے اس لئے ایک سچا مسلمان تو اس موقعہ پر یہ کہے گا کہ اگر حضرت ابراہیم نے خدا کی راہ میں اپنا ایک بیٹا قربان کیا تھا تو میں دین کی راہ میں اپنے دو بیٹے پیش کروں گا کیونکہ یکی ابراہیم ہی کی نہیں محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی بھی آل ہوں.غرض ہر سلیمان اگر حقیقی معیار روحانیت کو حاصل کرنا چاہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے سمجھنے کی عادت ڈالے پھر آدم تک جو سلسلہ انبیا ء جاری رہا اس کا اپنے آپ کو جزو سمجھے.جب وہ اس بات کو سمجھ لے گا تو اس کا اخلاص بالکل اور رنگ اختیار کر لے گا.اس کی رُوحانیت ترقی کر جائے گی.اس کی قربانی بڑھ جائے گی اور اس کی روح ایک نیا جامہ پہن لے گی اور جو چیز اسے پہلے دوسروں کے باپ میں نظر آتی تھی وہ اسے اپنے خاندان میں نظر آنے لگے گی تب وہ خطرناک وادیاں جن میں سے گذرتے بلکہ داخل ہوتے بھی لوگ ڈرتے اور گھر اتے ہیں ان میں سے گذرنا اس کے لئے آسان ہو جائے گا اور وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں تیزی سے ترقی کرنے لگے گا.پس اس عید سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ روح اپنے اندر پیدا کرو کہ یہ دوسروں کے باپ کے قصے نہیں بلکہ تمہارے اپنے باپوں اور اپنے خاندان کے واقعات ہیں ہو تمہارے لئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کو عید الاضحیہ کے ذریعہ تمہارے
سامنے پیش کیا جاتا ہے لہ ۴ - ۲۱ ظہور اگست کے خطبہ جمعہ کے آغاز میں حضور نے یہ بتایا کہ " اسلام صرف دل کی صفائی کے لئے نہیں آیا اسلام قومی ترقی اور معاشرت کے ارتقاء کے لئے بھی آیا ہے اور قوم اور معاشرت کا پتہ بغیر اجتماع میں شامل ہونے کے لگ نہیں سکتا پھر جمعہ اور عید کے اجتماعی فلسفہ اور اس کے تقاضوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ شریعیت نے حکم دیا ہے کہ امراء اور قوم کے لیڈر جمعہ اور دوسری نمازیں خود پڑھایا کریں.مرکز میں متقدم حق خلیفہ وقت کا ہے اگر وہ نہ ہو تو اُس کے نائب پڑھائیں ، ملک کے افسر پڑھائیں، امراء اور لیڈران قوم پڑھائیں.اس میں بھی بڑا مقصد یہی ہے کہ اجتماع میں بجانے سے غرباء کی تکالیف نظر آجاتی ہیں اور پھر اُن کو دُور کرنے کے لئے اجتماعی رنگ میں کوشش کی جا سکتی ہے یا اس اثر انگیز خطبہ کا اختتام درج ذیل الفاظ پر ہوا :- " فرض جمعہ اور عیدین وغیرہ کی نمازیں نہ صرف قرب الہی کا ذریعہ ہیں بلکہ قومی مشکلات کے معلوم کرنے اور پھر اُن کو دور کرنے کا بھی اعلیٰ ذریعہ ہیں اور ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط رکھے بلکہ عوام کی مشکلات کے دُور کرنے میں بھی عملی حصہ سے حقیقت یہی ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی نہ دنیا کے لحاظ سے کامیاب بسر کر سکتا ہے اور نہ دینی لحاظ سے جب تک اُس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہ ہو.اسی طرح کوئی شخص اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لئے بسر نہیں کر سکتا جب تک قوم کے لئے اور قوم کے افراد کے لئے قربانی اور ایثار کی روح اس میں پیدا نہ ہونے کے ۲۸۰۳ طور/ اگست کے خطبہ جمعہ کا مضمون یہ تھا کہ نمازوں کو اس طرح سنوار کر ادا کرو کہ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشان اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لو.چنانچہ فرمایا.اه روزنامه المصلح" کراچی مورخه ۶ اراخاء ۱۳۳۲ هش / ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۳ء صب کے روز نامه المصلح کراچی مورخه ۱۲۰ اخاه ۱۳۳۲اهش ۲۰ اکتوبر ۶۱۹۵۳ قط
YA "قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الصَّلوة تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ العنكبوت نمازہ انسان کو فحش اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ادنیٰ سے ادنی درجہ کی نماز یہ ہے کہ تو سمجھے کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے اور اعلیٰ درجہ کی نماز یہ ہے کہ تو یہ سمجھے کہ تو اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھ رہا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف نماز اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں.نماز کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ عملی زندگی میں وہ انسان کو نشاء و مشکر سے روکے.گویا اصل مقصود یہ ہوا کہ انسان فحشاء و منکر سے رُکے اور روحانی لحاظ سے نماز کی غرض یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے سامنے آجائے اور وہ یہ سمجھے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے....پس نماز کا اعلیٰ مقام یہ ہے کہ انسان جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو اسے یہ یقین کامل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ جیسے ہند و کہتے ہیں کہ انسان عبادت کے وقت یہ سوچنا شروع کر دے کہ ایک بت جو اس کے سامنے ہے وہ خدا ہے اسی طرح وہ مسلمان بھی سوچنا شروع کر دے کیونکہ اسلام وہم نہیں سکھاتا.اسلام کوئی جھوٹا تصور انسانی ذہن میں پیدا نہیں کرتا.اسلام یہ کھاتا ہے کہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تمہیں اس امر کی کامل معرفت حاصل ہو کہ تم سے نیک سلوک کرنے والے سے خدا تعالیٰ نیک سلوک کرتا ہے اور تم سے بُرا سلوک کرنے والے سے خدا تعالیٰ بُرا سلوک کرتا ہے.اگر تم کو بھی یہ نظر آجائے اور تم کو بھی یہ محسوس ہونے لگ جائے کہ جس نے تمہارے ساتھ نیک سلوک کیا تھا اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے نیک سلوک کیا اور جس نے تمہارے ساتھ برا سلوک کیا تھا اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے بُرا سلوک کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری محبت الہی کامل ہو جائے گی اور تمہاری نماز اپنی ذات میں مکمل ہو جائے گی.غرض اسلام و اہمہ کی تعلیم نہیں دیتا اسلام ہمیں یقین اور معرفت کے مقام پر پہنچانا چاہتا ہے.اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی نمازوں کو اس طرح سنوار کہ ادا کریں اور انہیں اتنا اچھا اور اعلیٰ درجہ کا بنائیں کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ ہم سے اتنا تعلق رکھے کہ ہمارے ساتھ حسن سلوک کرنے والے سے وہ حسن سلوک کرے اور ہمارے ساتھ برا سلوک کرنے والے سے وہ برا سلوک کرے اور دوسری طرف ہماری اپنی آنکھیں اتنی روشن ہوں اور ہمارے دل میں اتنا نور
بھرا ہو کہ ہم کو خود بھی نظر آجائے کہ خدا تعالیٰ ہماری تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے جب یہ مقام کسی شخص کو حاصل ہو جائے تو وہ ہر قسم کے شکوک وشبہات سے بالا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے روشن نشانات اس کی تائید میں ظاہر ہونے لگتے ہیں اور وہ اس یقین سے برینی ہو جاتا ہے کہ خدا اسے ضائع نہیں کرے گا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھ رہا ہوتا ہے وہ اس کے حسن سلوک اور انعامات کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے اور وہ اس یقین پر مضبوطی سے قائم ہوتا ہے کہ دنیا اسے چھوڑ دے مگر خدا اسے نہیں چھوڑے گا.نادان اس کو نہیں سمجھ سکتا مگر وہ جس نے خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو.وہ ایسی مضبوط چٹان پر قائم ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اُس کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتی....رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مومن عبادت کرتے وقت یہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے اسکے یہ معنی نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کو ایک مثبت سمجھتا ہے اور اس کا تصور اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اسے اپنی آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے کہ خدا اس کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کر رہا ہے.خدا اس کی تائید کرنے والوں کی تائید کرتا ہے.خدا اس کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کرتا ہے.خدا اس کے دشمنوں کو ہلاک کرتا اور اس کے دوستوں کو ترقی دیتا ہے اور یہی مقام ہے جو ہر مومن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہرگز مراد نہیں کہ تم نماز میں خدا تعالیٰ کی تصویر بنانے کی کوشش کر و اور اس کا جھوٹا تصور اپنے ذہن میں لاؤ.اسلام مومن کے دل میں کوئی جھوٹا تصور پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ عملاً ایسے ایسے مقام پر پہنچا تا ہے کہ صفات الہیہ کا ظہور اس کے لئے شروع ہو جاتا ہے اور خدا اس کے لئے زمین و آسمان میں بڑے بڑے نشانات دکھانا شروع کر دیتا ہے اور خود اسے بھی وہ روحانی آنکھیں میسر آجاتی ہیں جن سے وہ خدا تعالیٰ کے چمکتے ہوئے ہاتھ کا مشاہدہ کر لیتا ہے اور جب یہ مقام کسی مومن کو حاصل ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی.ساری دنیا بھی اگر اس کے خلاف کوشش کرے تو وہ ناکام رہتی ہے کیونکہ خدا اس کی پشت پر ہوتا ہے اور جس کی تائید میں خدا ہو دُنیا اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت
نہیں رکھتی ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کراچی میں اہم تقاریب اور حضرت نے ایم کراچی کے دوران متعد د اہم اور یادگار المصلح الموعود کے پر معارف خطابات تقاریب میں شرکت فرمائی اور اپنے قیمتی خیالات سے نوازا.پہلی تقریب - ۲۴ ظہور / اگست کو مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کا ایک غیر معمولی اجلاس احمدیہ ہال میں منعقد ہوا جس میں خدام و اطفال کے علاوہ صحابہ کرام اور دوسرے بزرگان سلسلہ شامل ہوئے.تلاوت و نظم اور عہد کے بعد قائد مجلس کراچی مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب نے مجلس کی رپورٹ پیش کی جس کے بعد حضور نے نوجوانان احمدیت سے ایک پر معارف خطاب فرمایا جس کا خلاصہ رپورٹر صاحب المصلح کراچی کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے :- ور ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں زندگی کے ساتھ ساتھ موت کا سلسلہ بھی قائم کیا ہوا ہے.لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ایک عرصہ تک زندگی گزارنے کے بعد مر جاتے ہیں.موت سے جو ایک خلاء پیدا ہو جاتا ہے اسے پورا کرنا نوجوانوں کا کام ہے.اگر نوجوانوں کی حالت پہلے لوگوں کی مانند ہو یا ان سے بہتر ہو تو قوم تنزل سے محفوظ رہتے ہوئے ترقی کے راستے پر بدستور گامزن رہتی ہے لیکن اگر نوجوان ہی قومی کردار کے اعتبار کے معیار پر پورے نہ اُترتے ہوں تو پھر قوم کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے.سو قوم کی آئندہ ترقی کا دار و مدار نوجوانوں پر ہوتا ہے.جس فوج کا ہر سپا ہی سمجھ لے کہ شاید آگے چل کر میں ہی کمانڈر انچیف بن جاؤں تو وہ یقیناً اس احساس کے تحت اپنے عمل و کردار کو ایسے طریق پر ڈھالے گا جو بالآخر اسے اس عہدے کا اہل بنا دے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس فوج کے تمام سپاہیوں میں کمانڈر انچیف بننے کی اہمیت پیدا ہو جائے گی لیکن اگر فوج کا ہر سپاہی یہ سمجھ بیٹھے کہ یکی تو کمانڈر انچیف نہیں بن سکتا تو وہ فوج گرتے گرتے اس حالت که روزنامه المصلح کراچی مورخه ۲۶ اخا ۱۳۳۲ اش ۲۶ اکتوبر ۶۱۹۵۳ هتاه و سے مکمل رپورٹ روزنامه المصلح کراچی مورخه ۲۷ ستمبر ۱۹۵۳ / ۲۷ تبوک ۳۳۲ ایش مشت میں شائع شدہ ہے ، •
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب (احمد یہ ہال کراچی )
سید نا حضرت مصلح موعودؓ کا مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب (احمدیہ ہال کراچی)
خطاب کے بعد اجتماعی دعا
کو پہنچ جائے گی کہ اس میں ڈھونڈے بھی کوئی شخص ایسانہ ملے گا کہ جو اس عہد سے کی ذ مرواری سنبھال سکے.پس جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ہر فرد میں یہ احساس پیدا ہو کہ بڑے سے بڑا کوئی عہدہ ایسا نہیں ہو سکتا جس کی ذمہ داریوں کو میں کما حقہ ادا نہ کر سکوں.جب تک ہر فرد اس احساس کے ماتحت آگے بڑھنے کی کوشش نہ کر سے اس وقت تک قومی اعتبار سے وہ صلاحیت پیدا نہیں ہو سکتی جس کا پیدا ہونا تحفظ و بقا اور ترقی کے لئے ضروری ہے.پس تم میں سے ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ وقت پڑنے پر وہ بڑے سے بڑا عہدہ سنبھالنے کا اہل ثابت ہو سکے.اس کوشش اور جد وجہد میں کامیاب ہونے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں علیم کامل و عمل کامل علیم کامل اس بات کا مقتضی ہے کہ وہ اس جماعت یا مذہب یا سیاست کا بغور مطالعہ کرتا ہے جس سے وہ منسلک ہے.اسی طرح عمل کامل کے لئے ضروری ہے کہ نظم و ضبط اور جماعتی پابندی کو لازم پکڑا جائے.دوسرے اپنے اندر خیال آرائی اور بلند پروازی پیدا کی جائے کیونکہ جب تک انسان اس صفت سے متصف نہ ہو اُس وقت تک آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو سکتی.قومی اعتبار سے ترقی کا کوئی مقام ایسا نہیں ہوتا جسے انتہائی منزل سے تعبیر کیا جاسکے.دنیا میں کوئی قوم بھی ایسی نہیں گزری کہ جو یہ دعوی کر سکی ہو کہ وہ ترقی کے اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ جس سے آگے ترقی کر نا ممکن نہیں ہے.قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی پریشان بیان فرمائی ہے گل يوم هو في شان کہ وہ ہر روز ایک نئی حالت میں ہوتا ہے.شان اُس چیز کو کہیں گے جو غیر متوقع اور غیر معمولی ہو تو كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ کا مطلب یہ ہوا که خدا تعالیٰ کی صفات ایسی ہیں کہ ان کے مطابق وہ ہر روز دنیا میں تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے لیکن وہ تبدیلیاں غیر معمولی ہوتی ہیں اور پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہیں.پس انسان بھی جیسے اس دنیا میں امور کی سر انجام دہی کے لئے ایک واسطہ بنایا ہے جہد مسلسل کے لئے پیدا اه سوره رحمن : ۳۱
کیا گیا ہے.کوئی مقام ایسا نہیں آسکتا جس کے بعد وہ اپنے آپ کو جد و جہد اور عمل و کوشش سے بے نیازہ سمجھنے لگے.اسی امر کے لئے اس کی جد و جہد اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پر منتج ہو ضروری ہے کہ وہ خیال آرائی اور بلند پروازی سے کام لے.جب بھی وہ بلند پروازی اور خیال آرائی سے کام لینا چھوڑ دے گا.اس کی کوششیں بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی.غلام قوم میں سب سے بڑی برائی یہی ہوتی ہے کہ وہ غور وفکر کی عادت کھو بیٹھتی ہے اس کے افراد صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک حال میں ہی محو رہتے ہیں اور مستقبل کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے اور اگر کبھی اس طرف متوجہ ہوتے بھی ہیں تو بے حقیقت اور خیالی باتوں سے آگے نہیں جاتے.کوئی پروگرام اور کوئی سکیم ان کے مد نظر نہیں ہوتی محض ایک خیال ول میں پیدا ہوتا ہے جسے عملی جامہ پہنا کبھی نصیب نہیں ہوتا حالانکہ سیکیم اس کو کہتے ہیں کہ فلاں چیز ملنی ممکن ہے اسے حاصل کرنے کیلئے فلاں فلاں ذرائع کی ضرورت ہے اور وہ ذرائع فلاں فلاں نوعیت کی کوشش کے بغیر میں نہیں ہو سکتے تو گویا ذرائع معلوم کرنے کے بعد یہ سوچنا کہ ان ذرائع کو کیونکہ فراہم کیا جا سکتا ہے دوسرے الفاظ میں بلند پروازی کہلاتی ہے.راسی امر کو مزید واضح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.بلند پروازی اس کو کہتے ہیں کہ انسان اپنی موجودہ حالت سے اوپر ایک مقصد معین کرے پھر یہ سوچے کہ یہ مقصد کن ذرائع سے حاصل ہو سکتا ہے.جب ذرائع اپنی معین صورت میں سامنے آجائیں تو پھر اس امر پر غور کرے کہ کن طریقوں سے یہ ذرائع فراہم ہو سکتے ہیں.جب کوئی شخص یہ طریقے معلوم کر کے مصروف عمل ہو جاتا ہے تو ذرائع خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں اور بالآخر وہ مقصد یل جاتا ہے جس کے لئے یہ سب کوشش ہو رہی تھی اگر ایسا طور میں نہیں آتا تو وہ بلند پروازی نہیں خام خیالی یا واہمہ ہے.ایسا شخص ہمیشہ خوابوں کی دنیا میں الجھا رہتا ہے پس ہماری جماعت کے نوجوانوں کو غور وفکر اور بلند پہ وانی کی عادت ڈالنی چاہیئے.اس مرحلہ پر حضور نے مثالیں دے دے کر واضح کیا کہ غوروفکر سے کیونکر کام لیا جاسکتا ہے چنانچہ حضور نے فرمایا مثلاً آپ المصلح میں امریکیہ یا ہالینڈ کے مشن کی رپورٹ پڑھتے ہیں.
آپ کے لئے اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ آپ اسے پڑھ کر وہاں کے حالات سے باخبر ہو جائیں بلکہ رپورٹ میں نو مسلموں کی تعداد پڑھتے ہی آپ کو سوچنا چاہیے کہ اس ملک میں بیعت کی رفتار کیا ہے.وہاں کب سے مشن قائم ہے اور اس عرصہ میں کتنے آدمیوں نے بیعت کی بیعت کی رفتار نکالنے کے بعد آپ اندازہ لگائیں کہ اس حساب سے وہ ملک کتنے عرصہ میں جا کر مسلمان ہوگا اور اسی طرح ہم کتنے عرصہ میں توقع کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا اسلام کو قبول کرلے گی.اگر بیعت کی رفتار کے مطابق آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس ملک کے مسلمان ہونے میں سینکڑوں یا ہزاروں سال لگ جائیں گے جیسا کہ بظاہر حالات نظر بھی آرہا ہے تو پھر آپ کو سوچنا چاہیئے کر تبلیغی مساعی کو کیونکر مثمر ثمرات بنایا جا سکتا ہے.یہاں یہ کہ کہ آپ اپنے دل کو تسلی نہیں دے سکتے کہ کوشش کرنا ہمارا کام ہے نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے.اور اگر خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا تو اس میں ہمارا کیا دخل ہے ؟ اس میں شک نہیں نتیجہ پیدا کرنا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن خدا ظالم نہیں کہ وہ کسی کی کوششوں کو رائیگاں جانے دے سوال پیدا ہو گا خدا نے ابراہیم علیہ السلام کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا ؟ اس نے نوح علیہ السلام کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا ؟ اس نے موسیٰ علیہ السلام کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا ؟ اس نے بدھ کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا ؟ اس نے رامچندر کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا ؟ صاف بات ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو اس طرح ادا کیا کہ جو ادا کرنے کا حق تھا.پس ایسی صورت میں آپ کو اپنی کوششوں کو تیز کرنا چاہیئے نہ یہ کہ آپ دل کو تسلی دے کر بیٹھے رہیں.یہ کہنا کہ ہم اس لئے نا کام رہ گئے کہ نتیجہ خدا کے ہاتھ میں تھا بالکل غلط ہے ایسا کہنے والا شرارتی ہے.اگر چہ یہ بات صحیح ہے کہ نتیجہ خدا کے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن خدا بھی کسی وجہ سے نتیجہ پیدا کرتا ہے ہمارا خدا بھی آئینی خدا ہے وہ ڈکٹیٹر نہیں وہ ہر چیز حکمت کے ساتھ کرتا ہے وہ یہ نہیں کہتا کہ ہم دیں نہ دیں ہماری مرضی وہ کہتا ہے کہ اگر تم استحقاق پیدا کر لو تو ہم انعام ضرور دیں گے اور اگر نہ دیں تو ہم ظالم یعنی اگر ہماری ہی دی ہوئی طاقتوں سے اِس اِس طریق ہر کام لو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم انعام نہ دیں نتیجہ بے شک خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن
اس نے نتیجے کو ہمارے تابع کرنے کے لئے کچھ قانون بنا دیئے ہیں.خود فیصلہ کرنا بندے کے اختیار میں نہیں لیکن خدا کے ہاتھ کو پکڑ کر فیصلہ کر وانا بند سے کے ہاتھ میں ہے.غور و فکر کی عادت سے کام لینے کے طریق واضح کرتے ہوئے حضور نے ایک اور مثال دی.فرمایا اگر تم یہ سوچو کہ دنیا ہماری مخالفت کرتی ہے تو ساتھ ہی تمہیں یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ دنیا مخالفت کیوں کرتی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ سچی تحریکوں کی مخالفت ہوتی ہی آئی ہے.یہ ہے صحیح لیکن ساتھ ہی تمہیں یہ سوچنا پڑے گا کہ کیا یہ مخالفتیں ہمیشہ ہمیش جاری رہتی ہیں ؟ کیا پہلوں نے ان مخالفتوں کو دبانے اور کم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں نکالا تھا ؟ کیا آدم ، نوح، ابراہیم اور موسی و عیسی نے ان مخالفتوں سے ہار مان لی تھی ؟ اگر انہوں نے ہار نہیں مانی تھی تو ہم کیوں ہار مانیں ؟ اور کیوں نہ ایسا رستہ نکالیں کہ جس سے یہ مخالفتیں آپ ہی ختم ہو جائیں.اگر تم سوچتے تو تمہار سے سامنے خود راستے کھل جاتے.ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی جگہ غور وفکر کی عادت ڈالے اور محض دوسروں کے فورد شکر پر تکیہ نہ کر ہے.غور و شکر کی عادت پیدا کرنے کے طریقوں پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حضور ایدہ اللہ نے بچپن ہی سے تربیت کرنے اور بالخصوص جو اس کو بیدار رکھنے کی اہمیت پر بہت زور دیا اور اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زریں ہدایات نیز آئمہ کرام اور شاہان اسلام کے سبق آموز واقعات پیش کرنے کے بعد حضور نے واضح فرمایا کہ اگر جو اس بیدار ہوں تو انسان بہت سے خطرات سے پہنچے کہ اپنے لئے ترقی کے راستے پیدا کر سکتا ہے.اس ضمن میں حضور نے سوچنے کی عادت ڈالنے کی طرف پھر توجہ دلائی اور فرمایا با وقار طریق پر سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالو تا کہ تم میں ایسی روح اور جذبہ پیدا ہو جائے کہ تم وقت آنے پر بڑی سے بڑی ذمہ داری اُٹھا سکو.کام کرنے کا جذبہ قوم کو اُبھار دیتا ہے پھر کسی کے مرنے یا فوت ہونے سے حوصلے پست نہیں ہوتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ان میں غور وفکر کی عادت پیدا کر کے ان میں جذبہ مکمل بھر دیا تھا یہی وجہ ہے
۷۵ کہ ان میں کسی کے مرنے یا فوت ہونے سے کبھی خلاء پیدا نہیں ہوا.ہر موقع پر کوئی نہ کوئی لیڈر آگے آتا رہا اور مسلمان اس کی قیادت میں منزل بہ منزل کامیابی و کامرانی کی طرف بڑھتے رہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال ہوا تو فوراً حضرت ابو برای نے آگے آکر خلاء کو پورا کر دیا اور قوم میں کپست ہمتی قطعاً پیدا نہ ہونے دی.آپ نے اس موقعہ پر صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اگر کوئی شخص محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خدا سمجھتا تھا تو وہ سُن لے کہ اس کا خدا فوت ہو گیا لیکن جو اس کی و قیوم ہستی کو بعد امانتا ہے کہ جس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث کیا تھا تو اس کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہیں ہوتی.تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا.پس کام، منکر اور سمجھ کے مطابق کرنے چاہئیں اگر ایسا کرنے لگ جاؤ گے تو تم میں سے شخص کمان کے قابل ہو جائے گا.یہی چیز قوم کو خطرات سے بچانے والی ہوتی ہے کہ اس کے ہر فرد کے اندر لیڈرشپ کی صلاحیت موجود ہو جب یہ صلاحیت قوم میں عام ہو جائے تو پھر لیڈر ڈھونڈنے یا مقرر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ایسی حالت میں وقت پڑنے پر لیڈر شپ خود بخود اُبھر کر آگے آجاتی ہے اور قوم پر ہراساں یا پریشان ہونے کا کبھی موقع نہیں آتا.اس میں شک نہیں قوموں پر مصائب آسکتے ہیں.انہیں قتل بھی کیا جا سکتا ہے.انہیں گھروں سے بھی نکالا جاسکتا ہے لیکن اگر سوچنے کی عادت ہو تو ان سے بچنے کی راہیں بھی نکل سکتی ہیں.خطاب کے اختتام پر حضور ایدہ اللہ نے تمام خدام سے ان کا عہد بھی دہروایا.بعدہ لمبی دعا بھی کرائی اور اس طرح یہ مبارک اجلاس اختتام پذیر ہوا یا کہ دوسری تقریب - ۲۶ ظهور/ اگست کو لجنہ اماءاللہ کراچی کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا." جس میں حضور نے خواتین کو توجہ دلائی کہ وہ حالات کے مطابق اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کر یں اور فرائض کو پہچانیں.اه روزنامه المصلح کراچی مورخه ۱۲۵ ظهور ۱۳۳۲ بیش / ۲۵ اگست ۱۹۵۳ء مشاه
۷۶ حضور نے اس امر پر زور دیتے ہوئے کہ آجکل سوسائٹی میں ظاہری طور پر عورتوں کا اثر بڑھ گیا ہے، انہیں تلقین کی کہ وہ اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں اور اپنے اپنے حلقے میں دوسری خواتین کے ساتھ تعلقات بڑھا کہ ان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بہہ تن مصروف ہو جائیں کہ جو احمدیت کے خلاف بکثرت پھیلی ہوئی ہیں.حضور نے فرمایا کہ اگر احمدی خواتین نے اس امر کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کیا تو اس کا نہایت خوشگوار انتظا ہر ہو گا.دوران تقریر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ ہمارے خلاف غلط فہمیاں پھیلتی کیوں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے دینی کارناموں تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ حقیقی اسلام کے پیش ہونے سے ان مخالف مولویوں پر کیا اثر پڑا جنہوں نے دین پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی اور معمولی معمولی مسائل میں اختلافات کے نت نئے پہلو نکال کر مسلمان کے مختلف گروہوں کو مجبور کر رکھا تھا کہ وہ ان کے ساتھ چھٹے رہیں.مثال کے طور پر مسلمانوں میں یہ عقیدہ پھیلا ہوا تھا کہ عیسی علیہ السلام آسمان سے آکر تمام کا فروں کو تہ تیغ کر دیں گے اور دنیا کے خدا نے مسلمانوں میں بانٹ دیں گے.حضرت مسیح موعود علی الصلواة و السلام نے یہ کہ کر کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اب جو کچھ کرنا ہو گا خو مسلمانوں ہی کو کرنا ہوگا ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اسی طرح یہ کہہ کر کہ رفع یدین اور امین بالجہر وغیرہ کے جھگڑے عبث ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حالات اور مختلف مزاجوں کے لحاظ سے مسائل سمجھانے میں مختلف طریق اختیار فرمائے تھے تمہیں جس میں آسانی ہو اسی طریق پر عمل کرو.لوگوں کو ایسے مولویوں کی محتاجی سے نجات دلادی.پھر مسلمانوں میں اس بات پر اختلاف چلا آرہا تھا کہ قرآن مجید کی کتنی آیات منسوخ ہیں مختلف لوگ پانچ سے لے کر سات سو آیات تک مختلف تعداد کے قائل تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اعلان کہ دیا کہ قرآن کا ایک شعشہ بھی منسوخ نہیں ہے یہ سارے کا سارا قابل عمل ہے اور اس طرح لوگ دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں مولویوں کی غلامی سے آزاد ہو گئے.ایسی صورت ہیں ان مولویوں کا سیخ پا ہونا لازمی تھا کیونکہ اس طرح ان کی اجارہ داری ختم ہوتی تھی.انہیں اس کے سوا اور کوئی راہ
نہ سو بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف غلط فہمیاں پھیلا کر لوگوں کو بدظن کر دیا جائے چنانچہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنے تعلقات کو وسیع کریں.اپنے اپنے حلقہ میں میل جول بڑھائیں ہمارے ملنے ملانے سے ہی بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی کیونکہ ہم سے مل کر دوسروں کو معلوم ہوگا کہ ہم تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی اہمت ہیں.ہمارا کلمہ ہماری نماز ، ہمارا روزہ ہمارا حج ، ہماری زکوۃ سب وہی ہے اور مولوی صاحبان جو کہتے ہیں وہ درست نہیں ہے لیکن اگر یہ غلط فہمیاں اسی طرح پھیلی رہیں تو اس سے ہماری مشکلات میں بے حد اضافہ ہو جائے گا.پس احمدی خواتین کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیئے اور دوسری خواتین سے میل جول بڑھا کر یہ غلط فہمیاں دور کرنی چاہئیں یال تیسری تقریب - ۲۷ ظور / اگست کو احمدیہ مرچنٹس ایسوسی ایشن نے حضور کے اعزاز میں پینے لگثری ہوٹل میں ایک دعوت چائے کا اہتمام کیا جس میں احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت معززین بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے.اس موقعہ پر حضرت مصلح موعود نے اسلام اور کمیونزم کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.ہے چوتھی تقریب.بیچ لگزری ہوٹل میں جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے ۳۰ ظہور / اگست کو ایک شاندار استقبالیہ دیا گیا جس میں احمدی اور غیر احمدی معززین بکثرت مدعو تھے.سیدنا حضرت مصلح موعود نے اس تقریب سے بھی خطاب کیا اور حقیقی اسلام" کے موضوع پر ایک نہایت بصیرت افروز تقریر فرمائی جس کا خلاصہ رپورٹر صاحب الصلح" کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے :." تشد و تعوذ کے بعد حضور نے فرمایا.اگر چہ اسلام اُس مذہب کا نام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کو ملا ہے اور مسلم کے نام سے وہی لوگ پکارے جاتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر ایمان لاکر آپ کو اپنا مقتدا اور پیشوا مانتے ہیں لیکن قرآن کریم نے محاورے کے طور پر دوسرے انبیاء اور ان کے پیچھے متبعین کو بھی سلم ه روزنامه المصلح" کراچی مورخه ۲۷ ظهور ۱۳۳۲ مش / ۲۷ اگست ۱۹۵۳ء ص : کے روزنامه المصلح" کراچی مورخه ۲۸ ظهور ۱۳۳۲ ش /۲۸ اگست ۱۹۵۳ء ص.
کے لفظ سے یاد کیا ہے.ظاہر ہے ان سب کا مسلمان ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعد از ظور ایمان لانے کی وجہ سے تو ہو نہیں سکتا کیونکہ ان کے سامنے قرآن مجید کی شکل میں نہ کامل شریعیت موجود تھی اور نہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت معرض وجود میں آئی تھی.در اصل قرآنی محاورے کی رُو سے ان کا مسلمان قرار پانا صاف اشارہ کر رہا ہے کہ اسلام کے دو معنے ہیں.ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والا مسلمان ہے اور دوسرے وہ بھی مسلمان ہے جو مطیع اور فرمانبردار ہو.چنانچہ مسلمان کی موخر الذکر حیثیت کے اعتبار سے ہر و شخص جو مطیع اور فرمانبردار تھا خواہ وہ آدم کا فرمانبردار تھا یا نوے کا، ابراہیم کا فرمانبردار تھا یا موسی و عیسی کا وہ مسلمان ہی تھا.اسلام کی ان دو حیثیتوں کو مزید واضح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا ہم مسلمانوں کو دو قسم کا اسلام حاصل ہے ایک تو اس اعتبار سے ہم مسلمان ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کا نام ہی مسلم" رکھا گیا ہے دوسرے اطاعت و فرمانبرداری کی اس روح کے اعتبار سے بھی ہم مسلم ہیں کہ جو ہر نبی کے متبعین کے لئے دنیا میں وجہ امتیاز بنی پس تمام دوسرے انبیاء کی جماعتوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو ایک پیر فضیلت دی گئی ہے کہ وہ دوہرے مسلم ہیں.انبیاء کی جماعتیں اطاعت و فرمانبرداری کے باعث مسلم ہوتی ہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ہمارا نام مسلم رکھا.اس بارے میں یہ یا درکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالے جب کسی کا نام رکھتا ہے تو وہ بندوں کی طرح محض تفاؤل کے طور پر نہیں رکھتا وہ قادر و تو انا جب ارادہ کرتا ہے کہ کسی قوم کے افراد خاص خاص صفات کے حامل ہوں تب ہی وہ انہیں کوئی مخصوص نام عطا کہتا ہے.تو خدا تعالیٰ کا ہمیں مسلم کا لقب عطا فرمانا اس بات کا مقتضی ہے کہ ہم وہ صفات اپنے اندر پیدا کریں جن کا یہ نام متحمل ہے.اس میں یہ اشار معمر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے اطاعت و فرمانبرداری کے اعلیٰ معیار پر قائم ہوتے ہوئے جب بھی دینی اور دنیوی اعتبار سے بڑھنے اور ترقی کرنے کی کوشش شروع کریں گے تو خدا انہیں اعلیٰ درجات سے ضرور نواز سے گا.پس حقیقی اسلام کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کی روح ہمارے اندر اس طرح رچی
49 ہوئی ہو کہ اس کی مرضی اور منشاء کے خلاف کوئی ایک قدم اُٹھانا بھی ہمارے لئے ممکن نہ رہے تاکہ ہم محض نام کے اعتبار سے ہی مسلمان نہ کہلائیں بلکہ ہمار اعمل اور ہمارا کردار اس بات کی گواہی دے کہ فی الواقعہ ہم اس نام کے مستحق ہیں ہمارا اُٹھنا اور ہمارا بیٹھنا، ہمارا چلنا اور ہمارا پھرنا الغرض ہماری ہر حرکت اور ہمارا ہر سکون اس نام کے شایانِ شان ہو.تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا.چونکہ خدا تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہوسلم کے ذریعہ دنیا میں ایسی امت پیدا کرنا چاہتا تھا کہ جو اسم با مسمی ہو اور جس کا عمل و کردار اپنے لقب یعنی لفظ "مسلم" کے شایانِ شان ہو.اس لئے اس نے اس اُمت کو روحانی ترقی کے وہ وہ سامان اور مواقع عطا فرمائے جو اس سے پہلے کسی اُمت کو میسر نہ تھے چنانچہ نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ نے کامل ترین شریعت نازل فرمائی بلکہ اسے ہمیشہ ہمیش کے لئے محفوظ رکھنے اور اس کی تعلیمات کو زندہ رکھنے کا سامان بھی بہم پہنچا دیا.دوران تقریر اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ خدا نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ کی عظیم الشان طریق پر پورا فرمایا حضور نے بعض یورپین مصنفین اور دیگر معاندین اسلام کا یہ اعتراف بھی پیش کیا کہ فی الواقعہ قرآن جن الفاظ میں نازل ہوا تھا بجنسہ انہی الفاظ میں آج تک محفوظ ہے.نیز حضور نے قرآن اور انجیل کا موازنہ کرتے ہوئے ان تحریفات پر بھی کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالی جو انجیل میں ہوتی چلی آرہی ہیں اور جن کا سلسلہ اب تک بدستور جاری ہے حتی کہ بعض مستشرقین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ کاش وہ تخیل کے متعلق بھی یہ دعوای کر سکتے کہ وہ قرآن کی طرح تحریف اور ردو بدل سے مبرا ہے.اس ضمن میں حضور نے ایک اعتراض کا رہ ذکرتے ہوئے فرمایا.اس میں شک نہیں مسلمانوں میں بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو غلطی سے بعض آیات کو منسوخ مانتے ہیں لیکن مسلمانوں کا کوئی ایک فرقہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جو یہ مانتا ہو کہ قرآن مجید میں نعوذ باللہ بعض آیات بعد میں داخل کی گئی ہیں اس امر پر سب متفق ہیں کہ قرآن اول سے آخر تک اسی طرح محفوظ چلا آرہا ہے جس طرح کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا.
نفس مضمون کی طرف عود کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اسلام کے بیعنی نہیں ہیں کہ ہم حسنی، شیعہ ، اہل حدیث ، شافعی، حنبلی، مالکی یا قادری ہیں بلکہ اسلام کا اصل مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم پر چل کر ہی بشاشت محسوس کریں گے اور اس کی رضا اور اس کی خوش نودی حاصل کرنے کے لئے قرآن کو اپن دستور العمل بنائیں گے.نام کے اعتبار سے تو ہر فرقے کا مسلمان مسلمان ہے لیکن اس نام کا اصل مستحق وہی ہو گا جو اپنے عمل کو اسلام کے سانچے میں ڈھال کر اپنے آپ کو اس نام کا اہل ثابت کرے گا.اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے ابراہیم، نوح، موسی اور عیسی علیہم السلام کی جماعتوں کو بھی مسلمان قرار دیا ہے حالانکہ ان کے پاس قرآن نہیں تھا اور نہ ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی اسلام نام ہے اطاعت و فرمانبرداری کی سپرٹ کا جب یہ سپرٹ ہم میں پیدا ہو جائے گی تو ہم اللہ کے نزدیک بھی مسلمان شمار ہونے لگ جائیں گے اور یہی وہ امتیاز تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں بدرجہ اتم موجود تھا.وہ خدا کے سوا اور کسی کے آگے جھکنا نہیں جانتے تھے.انہوں نے اپنے دلوں پر خدا کو حکمران بنا لیا تھا اسی لئے دنیا کی ہر طاقت ان کی نگاہ میں بیچے تھی پس اسی روح اور اسی بعد بے کا نام حقیقی اسلام ہے.اسلام فقہ کی باریکیوں کا نام نہیں اور نہ ہی ان تفصیلات کا نام ہے کہ جن سے علم الکلام والوں کی تصانیف بھری ہوئی ہیں بلکہ وہ نام ہے اس سپرٹ اور اُس جذبے کا جس کے نتیجے میں انسان خدائی بادشاہت میں داخل ہو کہ ہر ما سوا کی غلامی سے نجات حاصل کر لیتا ہے لے ران اجتماعی تقاریب کے علاوہ خان ضیاء الحق صاحب (ڈرگ روڈ) اور سردار ممتاز احمد خاں صاحب (مالیر کینٹ) نے بھی الگ الگ عصرانہ پیش کیا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قریباً نصف نصف گھنٹہ تقریر فرمائی.ہے شه روزنامه المصلح کراچی مورخہ یکم تبوک ۳۳۲ اهش / یکم ستمبر ۱۹۵۳ء ملت.که روزنامه المصلح کراچی مورخه ۶ تبوک ۱۳۳۲اهش / ۶ ستمبر ۶۱۹۵۳ ص ܀
Al حضرت مصلح موعود کے ورود ربوہ کے بعد پرائیویٹ سیکرٹری صاحب د خلیفه ای الثانی پرائیویٹ سیوری صاحب حضرت علی یاسین کی طرف سے کو الف سفر کا بیان اور شکریہ نے اصل میں سفر سندھ کے کوائف پر دو کوائف مختصر نوٹ شائع کئے جن میں جماعت ہائے سندھ و پنجاب بالخصوص جماعت احمدیہ کراچی کے مظاہرہ اخلاص و محبت کا مختصر مگر پر کیف الفاظ میں نقشہ کھینچا اور ان کا شکریہ ادا کیا چنانچہ لکھا:." حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے اہل بیت اور خدام کے ہمراہ 9 ار اگست سے ۳۰ اگست تک کراچی میں قیام فرما رہے.اس عرصہ قیام میں جماعت احمدیہ کراچی کے مخلصین نے جس اخلاص اور فداکارانہ روح کا مظاہرہ کیا اور جس طرح رات دن انہوں نے حضور اور حضور کے اہلِ بیت کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف رکھا ایک نہایت ہی خوشکن اور ایمان افزاء نظارہ تھا.خدام اور انصار دونوں اپنے اپنے فرائض کی بجا آوری میں شب و روز مشغول رہے اور انہوں نے حضور کی تشریف آوری سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی ہر ممکن کوشش کی چنانچہ اس عرصہ میں کئی قسم کی تقاریب پیدا کی گئیں جن میں حضور شریک ہوئے اور سینکڑوں لوگ حضور کے کلمات طیبات سے مستفیض ہوئے.جماعت احد یہ کہ اچھی کی خوش قسمتی تھی کہ اس دفعہ حضور ایدہ اللہ نے وہاں عید الا ضحیہ منانے کا فیصلہ فرمایا.چنانچہ اور اگست کو سب سے پہلے عید الا ضحیہ کے خطبے کے ذریعہ ہی حضور نے جماعت سے خطاب فرمایا.اس کے بعد خطبہ جمعہ میں حضور نے مہاجرین کی آنکھوں دیکھیں حالتِ زار کی کیفیت بیان فرماتے ہوئے حکومت کو تو بہ دلائی کہ اسے ان کی رہائش کا خاطر خواہ انتظام کرنا چاہیئے.اس کے بعد ایک خاص تقریب میں حضور نے خدام الاحمدیہ کہ اچھی سے احمدیہ ہال میں خطاب فرمایا.اسی طرح حضور نے مستورات میں بھی ایک تقریر فرمائی اور پھر ۲۸ اگست کو حضور نے مارٹن روڈ کی مسجد احمدیہ میں خطبہ ارشاد فرمایا.ان تقاریب کے علاؤ دو دفعہ حضور کو بیچے گزاری ہوٹل میں عصرانہ دیا گیا جس میں حاضرین کی درخواست پر حضور نے ایک دفعہ اسلام اور کمیونزم پر اور دوسری دفعہ حقیقی اسلام کے موضوع پر روشنی ڈالی.خان ضیاء الحق خان صاحب ڈرگ روڈ اور سردار ممتاز احمد خان صاحب مالیر کینٹ کی
طرف سے بھی ۲۸ اگست کو عصرانہ پیش کیاگیا جہاں حضور نے قریبا نصف نصف گھنٹہ تقریر فرمائی.مغرض اسی قلیل عرصہ قیام میں حضور کی تشریف آوری سے جس قدر زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جا سکتا تھا اس قدر جماعت کراچی نے پوری کوشش کی اور مردوں عورتوں اور بچوں سب نے اپنے اپنے اخلاص کا قابل رشک مظاہرہ کیا ضیافت سے تعلق رکھنے والے انتظامات بھی قابل اطمینان تھے.اسی طرح حضور اور حضور کے اہل بیت کے لئے دوستوں نے اپنی کارین وقف رکھیں جو رات دن ہر ضرورت کے وقت کام آتی رہیں.ادارہ پرائیویٹ سیکرٹری جماعت احمد یہ کہ اچھی کے تمام افراد کا عموماً اور کریم جناب چودھری عبد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی اور مکرم جناب شیخ رحمت اللہ صاحب نائب امیر اور مکر شمیم احمد صاحب جنرل سیکرٹری اور چودھری احمد جان صاحب کا خصوصاً شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے ہر قسم کے انتظامات میں حصہ لیا اور حضور اور حضور کے اہل بیت اور ہم سفر خدام کی سہولت و آرام کا موجب بنے.جزاهم الله احمر الجزاء في الدنيا والعقبى" ۲ - " حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۳۰ اگست کو چناب ایکسپرلی کے ذریعہ کراچی سے عازمیم ربوہ ہوئے.جماعت احمدیہ کراچی کے سینکڑوں احباب اپنے محبوب اور مقدس امام کو الوداع کہنے کے لئے سٹیشن پر تشریف لائے اور حضور پر نور نے انہیں مصافحہ کا شرف بخشا اور لمبی دعا فرمائی.۵ بجکر بیس منٹ پر گاڑی نعرہ ہائے تکبیر کے درمیان روانہ ہوئی.راستہ میں حیدر آباد سندھ، رحیم یار خان ، خانپور ، لیاقت آباد، ڈیرہ نواب بهاولپور، لودھراں، شجاع آباد، ملتان ، خانیوال، عبد الحکیم، شور کوٹ روڈ، ٹوبہ ٹیک سنگھ گوجرہ، الائل پور، چک جھمرہ اور چنیوٹ کے سٹیشنوں پر بھی جماعتوں کے دوست حضور کے استقبال کے لئے تشریف لائے.بعض مقامات پر احمدی خواتین بھی اپنے مقدس امام کی زیارت کے لئے آئی ہوئی تھیں.اس سفر میں حضور اور حضور کے اہل بیت اور خدام کا ناشتہ اسر اگست کو خانپور کے اسٹیشن پر مکرم جناب چوہدری نصیر احمد خان صاحب نے پیش کیا دوپہر کا کھانا جماعت احمدیہ ملتان نے دیا اور عصرانہ جماعت احمدیہ لائل پور نے پیش کیا.
۸۳ گوجرہ کی جماعت نے بھی اپنے اخلاص کے ثبوت میں حضور کی خدمت میں دودھ و سوڈا واٹر پیش کیا.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری مکرم چوہدری نصیر احمد خان صاحب اور اسی طرح ملتان گوجرہ اور لائل پور کی جماعتوں کا خاص طور پر شکر یہ ادا کرتا ہے جنہوں نے حضور حضہ کے اہل بیت اور خدام کی خدمت میں نمایاں حصہ لیا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب دوستوں کو جزائے خیر عطا فرمائے اور انہیں پیش از پیش خدمت دین و ملت کی توفیق عطا فرمائے.اسر اگست کو چھ بجے شام حضور ربوہ اسٹیشن پر پہنچے.مرکزی جماعت کے قریباً تمام افراد اسٹیشن پر صف بستہ کھڑے تھے حضور نعرہ ہائے تکبیر کے درمیان گاڑی سے اُترے اور پھر حضور نے تمام احباب کو شرف مصافحہ عطا فرمایا اور پھر قصر خلافت میں تشریف لے گئے.چوہدری محمد شریف صاحب چک 9 شمالی، چودھری نذیر احمد صاحب چک کره جنوبی ضلع سرگودہا ، چوہدری عبد الرزاق صاحب، چوہدری مظفر احمد صاحب ، چوہدری منظور احمد صاحب اور چوہدری رشید احمد صاحب چک ۱۲ گوکھو وال ضلع لائل پور نے دوران سفر بطور والنٹیر نہ اپنے آپ کو پیش کیا.یہ سب نوجوان اخلاص اور تن دہی سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے رہے.دفتران سب کا شکریہ ادا کرتا ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء فصل ششم حضرت سیدہ ام داؤں کی وفات اس سال کا ایک المناک واقعہ حضرت سیدہ مقیم دائود (بیگم صاحبہ حضرت علامہ میرمحمد اسحق صاحب ) ه روزنامه "المصلح کراچی مورخہ ۶ ستمبر ۶/۶۱۹۵۳ تبوک ۳۳۲ اهش ص۶
کی وفات ہے.آپ کی کنیت ام داؤد اور اسم گرامی صالحہ خاتون تھا.آپ حضرت صوفی احمد جان صاحب در میا نوشی کی پوتی اور حضرت پیر منظور محمد صاحب مصنف قاعدہ لیتر نا القرآن کی صاحبزادی تھیں.آپ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کی شادی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیه الصلوة و السلام کو قبل از وقت بذریعہ رویا بشارت دی گئی.یہ آسمانی بشارت اگلے ہی دن ۵ فروری ۱۹۰۶ء کو پوری ہوگئی جبکہ حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں آپ کے نکاح کا اعلان کیا.یہ عید الا منجیہ کا دن تھا.اس طرح یہ دن جماعت کے لئے دوہری خوشیوں کے لانے کا موجب بنا.بچنا نچہ اس مبارک تقریب پر مدیر الحکم " حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے حسب ذیل نوٹ شائع کیا :- "سعید میں عید" " دار فروری ۱۹۰۶ء کا مبارک دن ہمارے لئے دوسری خوشی کا موجب ہوا ایک تو اس دن عید الضحی تھی ہی مگر اس عید میں عید ہوگئی لینے میرے محترم و مخدوم زاده جنب پیر محمد الحق صاحب خلف الرشید حضرت میر ناصر نواب صاحب کی شادی صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب کی دختر نیک اختر صالحہ خاتون سے قرار پائی اور اسی مبارک دن میں بعد نماز ظہر و عصر جو جمع کی گئی تھیں مسجد اقصی میں حضرت امام حجتہ الاسلام کے حضور نکاح پڑھا گیا.خطبہ نکاح حسب معمول حضرت حکیم الامت نے بڑے جوش اور اخلاص سے پڑھا.حضرت میر ناصر نواب صاحب کے متعلق تو کچھ کہنے کی حاجت نہیں اِس لئے کہ کوئی احمدی شاذ ہی ایسا ہو گا جس کو یہ علم نہ ہو کہ میر صاحب قبلہ حضرت ام المؤمنین علیہا السلام کے والد ماجد ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور آپ کی سیادت اور نجابت پہ اللہ تعالیٰ کی وجی نے شہادت دی ہے.علاوہ اس تعلق کے جو حضرت مسیح موعود سے میر صاحب ممدوح کو ہے آپ جناب خواجہ میرور و صاحب علیہ الرحمہ مشہور ولی اللہ کے نبیرہ ہیں.ایسا ہی صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب لو دریانہ کے مشہور و معروف سلسلہ نقشبندیہ کے پیشوا صوفی احمد جان صاحب مرحوم کے چھوٹے صاحبزادہ ہیں اور صالحہ خاتون ماں کی طرف سے اپنے جسم میں حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا خون رکھتی ہے.حضرت آدم بنوری مشہورا کا ہر سے گذرے ہیں جن کے کے حضرت مجدد الف ثانی کے خلفاء میں آپ کا مقام بہت بلند ہے پہلے شاہی شکر میں (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)
۸۵ خدام کا سلسلہ ہند و پنجاب سے نکل کر عرب تک پہنچا ہوا ہے ان تمام امور کو مد نظر رکھ کہ یہ تعلق نہایت ہی مسعود اور مبارک تعلق ہے اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اسی دن بعد نکاح دفتر الحکم کی طرف سے حسب معمول مندرجہ ذیل تہنیت نامہ شائع کیا گیا جو گویا گل قوم کی طرف سے مبارکبا د تھی اور قوم کے نمائندہ نے پیش کی.حضرت صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنے ماموں میر محمد الحق صاحب کی اس تقریب پر چند شعر بھی فی البدیہ کہ دیئے.بقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ) ملازم تھے لیکن ایک واقعہ سے متاثر ہو کر بلازمت ترک کر دی اور حضرت مجدد سے فیضیاب ہوئے اور پھر ایک عالم کو سیراب کیا.کہتے ہیں کہ آپ کی خانقاہ میں ایک ہزار سے زیادہ طلباء جمع رہتے تھے جن کو کھانا آپ کے لنگر سے ملتا تھا.آپ کے خلفاء کی تعداد ایک سو اور مریدین کی تعداد ایک لاکھ بتائی جاتی ہے جن میں سے ایک بزرگ حافظ سید عبد اللہ اکبر آبادی تھے جن کے مرید حضرت شاہ ولی اللہ کے والد اور چھا یعنی شیخ عبدالرحیم اور شیخ محمد رضا ہوئے جن سے خود حضرت شاہ صاحب نے فیض حاصل کیا.حضرت شاہ صاحب نے انفاس العارفین میں حضرت آدم بنوری کے واقعات لکھے ہیں اور ان کی بہت تعریف کی ہے.آپ کے خلاف سعد اللہ خان وزیر نے شاہجہان بادشاہ سے شکایت کی.بادشاہ نے آپ کو مکہ معظمہ جانے کا حکم دیا.آپ کو پہلے ہی وہاں جانے کا شوق تھا چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے.روایت ہے کہ جب آپ مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور فریضہ حج ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں روضہ اقدس پر حاضر ہوئے تو مرقد اطر سے دونوں دست مبارک ظاہر ہوئے اور حضرت ممدوح نے یہ ہزار شوق بڑھ کر مصافحہ کیا اور بوسہ دیا اور جب آپ نے مدینہ منورہ سے مراجعت کا قصد فرمایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے بشارت ہوئی کہ یا ولدی انت جواری.چنانچہ آپ نے وہیں قیام فرمایا اور ۱۰۵۲ھ میں وفات پائی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضہ مبارک کے قریب مدفون ہوئے ( رود کوثر از شیخ محمد اکرام ایم.اسے صفحہ ۲۸۵ - ۲۸۷ اشاعت سوم ۱۹۵۸ء شائع کردہ فیروز سنز لا ہورا و صوفیائے نقشبند از سید امین الدین صفحه ۲۶۶ طبع اول ۴۱۹۷۳ شائع کردہ مقبول اکیڈمی، لاہور) ہ یہ اشعار کلام محمد " میں شائع شدہ ہیں :
AY...عید کے دن سے پیشتر کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ یہ تعلق ہو گا.نہ کوئی تحریک ہوئی نہ کچھ.حضرت ام المؤمنین علیہا السلام نے ایک رؤیا میں اس تعلق کو دیکھا.نہاں بعد حضرت اقدش کو بھی رویا میں یہی معلوم ہو ا جس پر حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے صاجزادہ منظور محمد صاحب کو تحریک کی جنہوں نے نہایت خوشی اور فخر کے ساتھ اسے منظور فرمایا کالے اسی طرح حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اپنے اخبار" بدر میں لکھا کہ :.آج عید کا دن.دو خوشیوں کا دن ہے.ایک عید کی خوشی اور دوسرے ہمارے دو پیاری کے درمیان مبارک تعلق کی خوشی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج رات رویا میں دیکھا تھا کہ میاں محمد اسحق پسر حضرت میر ناصر نواب صاحب اور صالحہ بی بنت صاجزادہ منظور محمد کے باہمی تعلق نکاح کی طیاری ہو رہی ہے سو آج ہی یہ رویا پورا ہوا.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے ایک خاص جوش کے ساتھ بعد جمع نماز ظہر و عصر سجد اقصٰی میں جہاں خود حضرت امام بھی رونق افروز تھے خطبہ نکاح پڑھا اور جانبین پر خدا تعالیٰ کے فضل خاص کا ذکر کیا ہے حضرت سیدہ امیر داؤد صاحبہؓ کو عورتوں میں علمی اعتبار سے ایک منفرد مقام حاصل تھا.تفسیر قرآن مجید اور حدیث سے آپ کو غیر معمولی شغف تھا.احمدی مستورات کو ترجمہ قرآن پڑھانے اور اسلامی مسائل سکھانے میں آپ عمر بھر کوشاں رہیں.تحریر و تقریر میں نہایت بلند پایہ مقام رکھتی تھیں اور مختصر الفاظ میں وسیع مضمون بیان کر دینے کا آپ کو حق تعالیٰ نے خاص ملکہ بخشا تھا.دینی خدمت کے زبر دست جذبہ سے سرشار تھیں.لجنہ اماءاللہ کی ۱۳ ابتدائی ممبرات میں سے آپکا نمبر ساتواں تھائی سالہا سال تک نائبہ صد رلجنہ کے عہدہ پر فائز رہیں اور اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے ادا کئے.۱۹۲۲ء سے لے کر ۱۹۵۲ء تک مسلسل تین برس جلسہ سالانہ کا شعبہ مہمان نوازی آپ کے پاس رہا.سالانہ جلسہ ۳۳۱/۶۱۹۵۲ اہش کے دوران میں جبکہ آپ کی بیماری شدت اختیار کر چکی تھی آپ نے ایک استفسار کے جواب میں تحریر فرمایا.ہفت روزہ الحکم قادیان از فروری ۱۹۰۶ ء صلا ب کے ہفت روزه بد را قادیان و فروری ۱۹۰۶ء مث سے رسالہ "خاتون" قادیان فروری ۶۱۹۲۳ صت به
A4 " حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے میری جان بھی حاضر ہے.کیا تم سمجھتی ہو کہ اپنی اس بیماری میں لیکن مہمانوں کی کوئی خدمت سر انجام دے سکتی ہوں ؟ " لے تحریک جدید کے مالی جہاد میں آخر دم تک شامل رہیں اور صحابیہ اور موصیبہ ہونے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کشون و رویا کی نعمتوں سے بھی نوازا تھا یہ آپ شادی کے بعد قریباً نصف صدی تک زندہ رہیں.اس عرصہ میں آپ نے سلسلہ احمدیہ کی جو شاندار خدمات سر انجام دیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی فراست اور توبہ روحانی اور آپکی حقانیت کا کھلا اور واضح نشان ہے اور خدائی انتخاب کے صحیح ثابت ہونے کا واقعاتی ثبوت ہے.آپ کی وفات در ستمبر ۱۹۵۳ء کو ہوئی.اس موقع پر سلسلہ احمدیہ کے آرگن روز نامہ المصطلح " کراچی نے اپنی اشاعت استمبر ۱۹۵۳ء کے صفحہ اول پر آپ کی وفات کی خبر دیتے ہوئے حسب ذیل نوٹ شائع کیا.بیگم صاحبہ حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ....ایک نہایت ہی قیمتی ، خلق اللہ کے لئے نفع رساں اور خدمت دین کا درد رکھنے والی ہستی تھیں اور اس خیال سے کہ احمدی مستورات کی دینی اعلمی اور اخلاقی اصلاح اور ترقی کے لئے وہ اپنی تمام عمر ضایت نمایاں رنگ ہیں ا کوشاں رہیں ان کی ہم سے جدائی کوئی انفرادی حادثہ نہیں بلکہ بجا طور پر ایک قومی اور جماعتی نقصان ہے.ہم یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ جماعت کے لئے درد منکر اور خیر خواہی کے جذبات جس طرح حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل صافی میں موجزن تھے اور جن کی بناء پر وہ اپنی وفات کے آخری لمحوں تک خدمت دین میں مصروف رہے اسی ܀ که روزنامه المصلح کراچی مورخه ۱۰ تبوک ۱۳۳۲اهش / ار ستمبر ۱۹۵۳ء ص : سے مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو (1) تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم ص۳۵ تا ص ۳۵ مرتبه امنه الطیف صاحبہ سیکرٹری شعبہ اشاعت لجنہ اماء الله مرکز یہ زیر نگرانی حضرت سیده مریم صدیقہ صاحبہ صدر >> لجنہ اماء الله مرکز یہ ) اشاعت جنوری ۱۹۷۲ء (۲) سیرت داؤد صلا (مرتبہ طلباء جامعہ احمدیہ) ناشر الجمعية العلمية بالجامعة الاحمدیہ میر بوه تاریخ ۰۶۱۹۷۴
AA رنگ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی رنگین فرمایا تھا.جہاں وہ اپنے جلیل القدر شوہر کی زندگی میں ان کے شانہ بشانہ خدمت دین ، خلق اللہ کی فلاح ، بتائی اور مساکین کی نگہداشت اور غرباء کی امداد کے لئے مصروف رہیں.ان کی وفات کے بعد بھی انہوں نے اسی جذبہ کے ساتھ اس عظیم الشان مشن کو جاری رکھا اور اپنے علم و عمل سے جماعت کی مستورات کے لئے اپنے آپ کو نہایت ہی مفید وجود ثابت کیا.جلسہ سالانہ پر ہر سال عورتوں کے طعام و قیام کا انتظام آپ ہی کی نگرانی میں ہوتا تھا اور جس طرح حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ عنہ مردوں کے لئے تمام انتظامات حسن و خوبی سے فرماتے تھے بالکل یہی انداز یہاں تھا اور ہم یقین سے کہ سکتے ہیں کہ جس طرح ہر سال ہمیں جاب سالانہ پر حضرت میر صاحب یاد آجایا کرتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی اب انہیں فراموش نہ کر سکیں گی.علم و فضل کے اعتبار سے بھی ان کا مقام بہت بلند تھا.حضرت پیر منظور محمد صاحب کی صاحبزادی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ پایا تھا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالی عنہ نے خود ان کو تعلیم دی تھی اور پھر حضرت میر صاحب نے اپنی زندگی میں جس طرح ان کی تربیت اور تعلیم کا انتظام فرمایا اس سے تو یہ جو ہر قابل اور بھی چمک اُٹھا تھا.احمدی عورتوں میں تعلیمی ترقی کے شوق کو بڑھانے کے لئے انہوں نے بطور اسوہ جب معمولی محنت کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے "مولوی" کا امتحان دیا تو آپ یونیورسٹی بھر میں اول رہی تھیں.حدیث اور قرآن مجید اور حضرت مسیح موعود علی الصلواۃ والسلام کی کتب کا جو علم آپ کو تھا وہ عورتوں کو تو کیا مردوں میں سے بھی بہت تھوڑوں کو حاصل ہے.کئی بار آپ نے عورتوں کے سالانہ جلسوں کی صدارت فرمائی.کئی بار عورتوں میں حضرت میر صاحب کی طرح قرآن مجید اور احادیث کا درس دیا.تقریر اور تحریر کے ذریعہ عورتوں کی بیداری کے سامان پیدا کئے.جماعت کے سینکڑوں نادار بچوں کے ساتھ ماؤں سے بڑھ کر سلوک کیا اور پھر سالہا سال سے لجنہ اماء اللہ کی نائب صدر ہونے کی حیثیت سے احمدی عورتوں کی تنظیم میں بھی آپ نے نمایاں کام کر کے دکھایا.لے ے روزنامہ المصطلح " کراچی ار تبوک ۱۳۳۲ مش رستمبر ۶۱۹۵۳ ص :
محترمہ ام الله خورشید صاحبه مدیرہ ماہنامہ مصباح" ربوہ نے اپنے ادار یہ خصوصی میں لکھا :.در تمام احمدی بہنوں کو نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ مورخہ شہ کو دیس بجے رتن باغ لاہور میں حضرت سیدہ ام داؤ د احمد صاحبہ بیگم حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ ایک طویل اور تکلیف دہ علالت کے بعد اپنے مولائے حقیقی سے جائیں.انا للہ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ حضرت سیدہ ایک بے موصہ سے بیمار چلی آرہی تھیں.بالآخر آپ کے گلے کی نالی بند ہوگئی گلے اور معدہ میں خود اک جانا رک گئی.پھر معدہ میں خورد اکس نلکی کے ذریعہ پہنچائی جاتی رہی لیکن آپکی طبیعت دن بدن گرتی ہی گئی اور آخر اس صدمہ جانگاه پر منتج ہوئی.حضرت سیدہ مرحومہ صالحہ قانتہ اور مخلصہ مومنہ تھیں.خالص دینی روح رکھتی تھیں.آپ کو ہر قدم پر اللہ اور اس کے رسول کی رضا مقدم ہوتی.اپنا ہر لمحہ خدمت دین کے لئے وقف سمجھتیں.آپ ہی کی روحانی تربیت کا نتیجہ ہے کہ آپ کے تینوں صاحبزاد سے دینی اور دنیوی اعلیٰ ڈگریوں کے ساتھ جامعتہ المبہترین کے فارغ التحصیل شاہد ہیں اور مستقبل قریب میں مفوضہ دینی خدمات بجالانے کے لئے مختلف ممالک میں جانے کے لئے تیار ہیں.آپ لجنہ اماءاللہ کی روح رواں تھیں چنانچہ مدت سے لجنہ کی نائب صدر چلی آرہی تھیں مصباح کی آپ بہت ہی مہربان سرپرست واقع ہوئی تھیں جب تک زندہ رہیں ادارہ کی بہت سی مشکلات میں ہاتھ بٹاتی رہیں لیکن افسوس اب ہم اس قیمتی وجود کے ہمدردانہ اور شفقانہ سلوک سے گلیہ محروم ہوگئی ہیں.اسے خدا ! ہماری تیری بارگاہ میں نہایت ہی عاجزانہ التجا ہے کہ حضرت سیدہ کے مراتب میں بلندی عطا فرما اور آپ کو جنت الفردوس میں جگہ دے.آمین ! مرحومہ موصوفہ کی نعش اسی دن رات کے آٹھ بجے ربوہ لائی گئی.دوسرے دن مورخہ کو آٹھ بجے صبح حضرت اقدس امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے با وجود علالت طبع کے مسجد مبارک کے غربی جانب ایک جم غفیر سمیت نماز جنازہ پڑھائی.بجے حضرت سیدہ کے تابوت کو بہشتی مقبرہ کے احاطہ خاص میں قبر میں اتارا گیا اور ۹ بجے آپ کی قبر پر حضر ت سے جزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اسے نے حاضرین سمیت دعا فرمائی.اللَّهُمَّ اغْفِرُ لَهَا وَارْحَمْهَا
۹۰ وَاجْعَلُ مَشُونَهَا فِي جَنَّتِ النَّعِيمِ فصال ختم سالانہ اجتماع قدام الاحمدیرکزیت حضر مصلح مولودی خان ۲۳ ۲۴ ۲۵ ر اخاء ۳۳۲ مش / اکتوبر ۱۹۵۳ء کو ربوہ میں مجلس نقدام الاحمدیہ مرکز یہ کا تیرھواں سالانہ اجتماع منعقد ہوا.اس اجتماع میں سید نا حضرت مصلح موعود نے ۱۲۴ اور ۲۵.اخاء کوبیش بہا نصائح پر مشتمل دو اہم تقاریہ فرمائیں.پہلی تقریر ( مورخه ۲۴ اخاء ۱۳۳۲ اهش / اکتوبر ۶۱۹۵۳) حضور نے پہلی تقریر میں ابتداء خدام الاحمدیہ کو اعداد و شمار کا تفصیلی ریکارڈ رکھنے کی تاکید کی پھر ارشاد فرمایا : یکن نے شروع میں بتایا تھا کہ مجلس غدام الاحمدیہ کو قائم کرنے کی غرض ہی یہی تھی کہ نوجوان دین میں ترقی کریں اور اس قابل ہو جائیں کہ انہیں عزت دی جائے مگر گذشتہ حالات سے خدام الاحمدیہ نے کوئی زیادہ فائدہ نہیں اُٹھایا.تمہاری غلطیوں کی وجہ سے یا ہماری غلطیوں ه ماهنامه "مصباح ربوہ ستمبر ۱۹۵۳ء / تبوک ۳۳۲ اسش صت آپ کی وفات پر شائع ہونے والے دیگر مضامین:.(1) المصلح.استمبر ۶۱۹۵۳ ص ر میاں عبد المنان صاحب قرایم.اسے).(۲) المصلح ۱۳ ستمبر ۱۹۵۳ء ص ( محترمہ امتہ اللطیف صاحبہ المیہ شیخ خورشید احمد منا اسٹنٹ ایڈیٹر).(۳) المصلح ۲۲ ستمبر ۱۹۵۳ء ص (ملک نذیر احد صاحب ریاضی حال را ولپنڈی - صاجزادہ مرد اویم احمد صاحب نے درستمبر ۱۹۵۳ء کو قادیان میں بعد نماز عصر حضرت ممانی جان رضی اللہ عنہا کے مقام ، مناقب اور کارناموں پر نهایت رقت آمیز تقریر کی جس کا خلاصہ روزنامہ المصلح کراچی ۲ ستمبر ۱۹۵۳ وحث میں شائع ہوا ؟
کی وجہ سے بعض ایسی دیواریں قائم ہوگئی ہیں کہ اب سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی انہیں توڑ نہیں سکتا تم اگر یہ سجھتے ہو کہ ہم تدبیر سے انہیں توڑیں گے تو یہ غلط ہے خدا تعالیٰ ہی انہیں توڑے تو توڑے اور اس کی یہی صورت ہے کہ تم دعائیں کرو اور ذکر الہی کرو یہی ذرائع ہیں جن سے یہ دیواریں ٹوٹ سکتی ہیں اور کامیابی ہو سکتی ہے لیکن افسوس ہے کہ میرے پاس رپورٹیں آرہی ہیں کہ نوجوانوں میں نماز اور دعا کی اتنی عادت نہیں رہی جتنی پرانے لوگوں میں تھی اور یہ نہایت خطرناک بات ہے تمہارے لئے تو پرانے لوگوں سے زیادہ فتنے ہیں اس لئے پہلوں کے مقابلہ میں تمہارے سامنے بہت زیادہ مشکلات ہیں اور ان کو دور کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا تمہارے لیس اور قابو میں نہیں اس کا مقابلہ تو وہی کرے گا جو خدا تعالیٰ ایک پہنچ سکے اور جب خدا تعالیٰ کسی بات میں دخل دیتا ہے تو وہ آپ ہی آپ حل ہو جاتی ہے.پس اگر تم نے موجودہ مشکلات کا مقابلہ کرنا ہے تو تمہیں اپنے اندر اصلاح پیدا کرنی چاہیئے میں نے پہلے بھی جماعت کو توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ تمہاری عوض نعرے اور کیڑیاں نہیں نعرے اور کبڈیاں بالکل بیکار ہیں یہ نعرے اور کبڈیاں تو بالکل ایسے ہی ہیں جیسے کوئی شخص کپڑے پہنے تو ان پر فیتے سے اپنا نام بھی لکھوالے یہ بیکار چیزیں ہیں.تم نمازوں اور دعاؤں میں ترقی کرو اور نہ صرف خود ترقی کرو بلکہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کو دیکھے اور اس کی نگرانی کر سے تا کہ ساری جماعت اس کام میں لگ جائے.تم محمد کی عادت پیدانہ کرو بلکہ آپس میں تعاون کی روح پیدا کر وہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم تمہارے لئے ٹرینگ کے طور پر ہے تا کہ جب تمہیں خدمت کا موقعہ ملے تو تم میں اتنی قابلیت ہو کہ تم امیر بن جاؤ یا سیکرٹری بن جاؤ اس لئے تمہیں جماعت کے عہدیداروں سے بجائے ٹکراؤ کے تعاون سے کام لینا چاہئیے تم اپنی ذکر الہی کی عادت اور اخلاص اور نمازوں کو درست که وجب یہ چیزیں درست ہو جائیں گی تو خود بخود لوگ تمہیں آگے لے آئیں گے اور یہ شکوے سب ختم ہو جائیں گے.تم اپنے اندر نماز کی پابندی کی عادت پیدا کرو اور جھوٹ سے بکلی پر ہیز کرو جھوٹ ایسی چیز ہے کہ اگر انسان اس کو چھوڑ د سے تو اس کی دھاک بیٹھ جاتی ہے.جھوٹ کو انسان سب سے زیادہ چھپاتا ہے لیکن سب سے زیادہ وہی ظاہر ہوتا ہے.جھوٹ ایک ایسی بدی ہے کہ عام لوگ
۹۲ اس کو جلدی سمجھ لیتے ہیں اور اگر انہیں دوسرے کو جھوٹا کہنے کی جرات نہ ہو تو وہ کم از کم اپنے دلوں میں یہ بات ضرور لے جاتے ہیں کہ فلاں شخص جھوٹا ہے اور بنچ ایک ایسی نہیں ہے کہ منہ پر کوئی شخص پیچھے انسان کو بچا کہے نہ کہے وہ اپنے دل پر یہ اثر لے کر جاتا ہے کہ فلان شخص سچا اور راستباز ہے.اگر خدام الاحمدیہ یہ کام کرلیں کہ ان کے اندر سچائی کا جذبہ پیدا ہو جائے تو ان کی اخلاقی برتری ثابت ہو جائے گی اور کسی شخص کو ان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوگی ہر شخص یہی سمجھے گا کہ انہیں ذلیل کرنا پیچھے کو ذلیل کرتا ہے اور کوئی قوم یه برداشت نہیں کر سکتی کہ بچے کو ذلیل کیا جائے.پھر محنت کی عادت ہے.دنیا میں تمام ترقیات محنت سے ملتی ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو رعایت عمد سے مل جاتے ہیں اگر تم کام میں مست ہو گے تو سننے والوں کو اس بات کا یقین ہو جائے گا اور وہ مجھیں گے کہ انہیں عہدے محض رعایت کی وجہ سے ملتے ہیں ورنہ ان میں کام کرنے کی قابلیت موجود نہیں.لیکن اگر وہ دیکھیں کہ احمدی جان مار کر کام کرتے ہیں اور حکومت اور ملک کو اتنا فائدہ پہنچاتے ہیں جتنا فائدہ دوسرے لوگ نہیں پہنچاتے تو ہر ایک شخص کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ کہنا کہ احمدیوں کو محمد سے رعایتاً دسے دیئے جاتے ہیں غلط ہے.ہم اس اعتراض کا یہی جواب دیتے ہیں کہ تم وہ آدمی لاؤ جس کو بطور رعایت کوئی عہدہ ملا ہو.فرض کرو کوئی احمدی دیانت سے کام کر رہا ہے وہ ملک اور قوم کی خیر خواہی کر رہا ہے اور اس کا طریق عمل اور اس کی مثل اور اس کے کاغذات اس بات کی شہادت پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہم جلیسوں ، ہم عمروں اور ہم عمروں میں سب سے بہتر کام کرنے والا ہے اور مخالف اس کا نام لے کر کہے کہ فلاں کو عمدہ بطور رعایت ملا ہے تو اس کا ریکارڈ اس اعتراض کو دور کر دے گا لیکن اگر تمہار سے کام کا ریکارڈ اچھا نہیں اور معترض تمہارا نام لے تو ہمارے لئے اس اعتراض کا جواب دینا مشکل ہو جائے گا.پس تم اپنے اندر محنت اور دیانتداری پیدا کرو تا کہ تم پر کوئی اعتراض ہی نہ کر سکے کہ تمہیں رعایتی ترقی دی گئی ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اگر تم میں سے کسی کو یہ نظر آتا ہو
۹۳ کہ اسے رعایت سے ترقی دی گئی ہے تو وہ اس عہدے سے استعفے دے دے کیونکہ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ انسان کسی اور کی سفارش سے ترقی حاصل کرلے.شیخ سعدی نے کہا ہے." حقا که با عقوبت دو نرخ برابر است رفتن بیائے مروئی ہمسایہ در بہشت خدا کی قسم ایسی جنت دوزخ کے برابر ہے جس میں انسان کسی ہمسایہ کی سفارش سے داخل ہوا ہو.اگر کسی شخص میں اس کام کی اہلیت نہیں پائی جاتی جو اس کے سپرد کیا گیا ہے تو اسے سمجھے لینا چاہیئے کہ اس عہدہ کے لئے اس کی سفارش رعایتی طور پر کی گئی ہے اور اس کا فرض ہے کہ اگر اس کے اندر غیرت پائی جاتی ہو تو وہ استعفیٰ دے کر الگ ہو جائے.پس تم اپنی عقل محنت اور قربانی سے یہ بات ثابت کر دو کہ تم اپنے افسران اہم ملبیسوں اور ہم عمروں سے بہتر ہو اگر تم اس مقام کو حاصل کر لو تو لازمی طور پر تم اس الزام سے بچے جاؤ گے کہ تمہیں کسی رعایت کی وجہ سے ترقی دی گئی ہے.میں کراچی گیا تو مجھے بتایا گیا کہ ایک احمدی کے متعلق لکھا گیا کہ اسے ملازمت سے برطرف کر دیا جائے کیونکہ وہ نا اہل ثابت ہوا ہے لیکن حکومت نے بعض انصاف کے قواعد بھی بنائے ہوئے ہیں تا کہ لوگ ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ جب کوئی آفیسر اپنے ماتحت کے متعلق اس قسم کے ریمارک کرے تو اس کا رکن کو اس محکمہ سے تبدیل کر کے کسی دوسری جگہ مقررہ کیا جائے اور اگر وہاں بھی اس کا افسر اسی قسم کے ریمارکس کرے تو اسے نکال دیا جائے چنانچہ اس احمدی کے متعلق جب افسر نے یہ سفارش کی کہ اسے نکال دیا جائے یہ نا اہل ہے تو حکومت نے اسے ایک اور محکمہ میں بھیج دیا.یہ ایک مرکزی ادارہ تھا ۶ ماہ یا سال کے بعد جب یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس کے متعلق کیا کیا جائے تو اتفاقی طور پر اس کی تبدیلی کے احکام بھی جاری ہو گئے اس پر ادارے نے لکھا کہ اس کے بغیر ہمارا کام نہیں چل سکتا اسے تبدیل نہ کیا جائے.اعلیٰ آفیسروں نے لکھا یہ عجیب بات ہے کہ اس کا ایک آفیسر تو کہتا ہے کہ یہ نا اہل ہے اسے ملازمت سے برطرف کر دیا جائے اور دوسرا آفیسر کہ رہا ہے کہ اسی نے آکر ہمارا کام سنبھالا ہے ہر حال چونکہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ شخص اہل ہے یا نا اہل اس لئے اس کی تبدیلی کے احکام ترک نہیں
۹۴ کھتے چنانچہ اسے وہاں سے تبدیل کر دیا گیا اور کچھ عرصہ کے بعد اس تیسرے آفیسر سے اس کے متعلق رپورٹ طلب کی گئی اُس نے لکھا کہ میں نے اپنی پاکستان کی پانچ سالہ سروس میں اس قابلیت اور ذہانت کا آدمی نہیں دیکھا.چنانچہ اعلیٰ افسروں نے پہلے افسر کے ریمارک بدلے اور کہا کہ یہ شخص ترقی دئے جانے کے قابل ہے.غرض یہ بالکل غلط ہے کہ احمدیوں کو رعایتی طور پر شہد سے دئے جاتے ہیں لیکن اگر تمہیں کسی نے اہل سمجھ کر بھرتی کر لیا ہے اور وہ بھرتی کرنے والا احمدی ہے یا غیر احمدی.اور اس پر الزام لگ رہا ہو کہ اس نے تمہاری نا جائز حمایت کی ہے تو کیا تم میں اتنی غیرت بھی نہیں کہ اس نے تم پر جو احسان کیا ہے تم اس کا بدلہ اتارو اور اس کی عزت کو بچاؤ.اس کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ تم ملک اور قوم کی اتنی خدمت کرو اتنی قربانی اور ایثار کرو کہ ہر ایک شخص یہی کہے کہ تم سے کوئی رعایت نہیں کی گئی بلکہ سفارش کرنے والے نے تمہاری سفارش کر کے اپنی دانائی کا ثبوت دیا ہے کیونکہ اس نے اس شخص کو چنا ہے جس کے سوا اور کوئی مستحق ہی نہیں تھا.پھر یکی کہوں گا کہ اگر تم خدمت خلق کرتے ہو تو تمہیں اس کے مفید طریق اختیار کرنے چاہئیں میں نے کراچی کی رپورٹ شنی ہے وہ نہایت معقول رپورٹ تھی.میرے نزدیک وہ رپورٹ تمام مجالس تک پہنچانی چاہیئے تا کہ وہ اس سے سبق حاصل کریں.یہاں رپورٹوں میں عام طور پر یہ درج ہوتا ہے کہ اتنے لوگوں کو رستہ بتایا گیا حالانکہ یہ نہایت ارٹی اور معمولی نیکی ہے اور ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی نے اپنی ماں کو پنکھا جھلتے پر ایک ریچھ کو مقرر کیا.اس کی ماں بیمار تھی.مریضہ پر ایک مکھی بیٹھ گئی ریچھ نے ایک پتھر اٹھا کر اس مکھی پر دے مارا جس سے وہ مکھی تو شاید نہ مری لیکن اس کی ماں مرگئی.یہ کوئی خدمت نہیں ہے جیسے بڑے فخر کے ساتھ خدمت خلق کا کام قرار دیا جاتا ہے تم وہ کام کرو جو ٹھوس اور نتیجہ خیز ہو اور اس کے لئے خدام الاحمدیہ کو اچھی کی رپورٹ بہترین رپورٹ ہے جو تمام مجالس میں پھیلانی چاہئیے تا انہیں معلوم ہو کہ انہوں نے کس طرح خدمت خلق کا فریضہ سر انجام دیا.میں تمہیں اس کا چھوٹا سا طریق بتاتا ہوں اگر تم میں جوش پایا جاتا ہے کہ تم ملک اور قوم کے مفید وجود نبو تو تم اس پر عمل کر و.اس وقت جو خدام حاضر ہیں ان میں سے جو لوگ تجارت کا کام کرتے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں (حضور کے اس ارشاد پر چالیس غدام
۹۵ کھڑے ہوئے.پھر فرمایا ) جو خدام صنعت و حرفت کا کام کرتے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں (حضور کے اس ارشاد پر انچاس اقدام کھڑے ہوئے.اس کے بعد حضور نے فرمایا ، وہ ذریعہ جو یکی تمہیں بتانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تم ارادہ اور عزم کر لو کہ تم میں سے ہر ایک نے اس سال کسی ایک شخص کو تجارت پر لگانا ہے...مرکزی ادارہ کو چاہیے کہ وہ ان خدام کے نام لکھ لے اگلے سال ان سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے اس ہدایت پر کس حد تک عمل کیا ہے.اگر تم اس کام کو شروع کر دو تو دو چار سال میں تم دیکھو گے کہ اس طریق پر عمل کر کے تم مذہب ، ملک اور قوم کے لئے نہایت مفید ثابت ہو سکو گے.مگر یاد رکھو تم یہ سوچنے میں نہ لگ جانا کہ جس کو کام پر لگایا جائے وہ تمہارا رشتہ دار ہی ہو.چاہے وہ غیر ہی ہو تم نے ہر حال اسے کام کھانا ہے.دوسرے یہ بھی یاد رکھو کہ بعد میں کسی فیصلہ کی اُمید نہ رکھنا.احسان کرنے کے بعد اس کے میلہ کی امید رکھنا قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے الے دوسری تقریر (مورخه ۵ ر اخاه ۳۳۲اہش / اکتوبر ۱۹۵۳ء) عین اجتماع کے ایام میں حضرت مصلح موعود پر عالم رویا میں سلم قوم کے اصل فلسفہ زوال کا انکشاف ہوا اور بتایا گیا کہ مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف ۳۳ برس کے بعد ہی خلافت کے بابرکت آسمانی نظام سے کیوں محروم ہو گئے ؟ حضور نے اس رویا کی بناء پر اپنی دوسری تقریر میں نوجوانان احمدیت کو توجہ دلائی کہ انہیں ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ آئندہ ایسے حالات کبھی پیدا نہ ہوں جن کی بناء پر قبل انہیں امت مسلمہ سے خلافت جیسی عظیم نعمت چھن گئی.حضور نے اس مہتم بالشان تقریر میں خاص طور پر اس نکتہ پر زور دیا کہ افراد مر سکتے ہیں لیکن قومیں اگر چا ہیں تو خلافت کے قیام و استحکام کے ذریعہ سے ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہیں چنانچہ فرمایا :.انسان دنیا میں پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں.کوئی انسان ایسا نہیں ہوا جو ہمیشہ زندہ رہا ہو لیکن قومیں اگر چاہیں تو وہ ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہیں یہی امید دلانے کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ :- له روزنامه الفضل “ مورخه ۱۸ اخاء ۱۳۲۰ پیش / ۱۸ اکتوبر ۱۹۶۱ء صگ
۹۶ " یکی باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے " (یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۷۱۶) ر اس میں حضرت مسیح علیہ السلام نے لوگوں کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ چونکہ ہر انسان کے لئے موت مقدر ہے اس لئے یکیں بھی تم سے ایک دن بعد ا ہو جاؤں گا لیکن اگر تم چاہو تو تم ابد تک زندہ رہ سکتے ہو.انسان اگر چاہے بھی تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا لیکن قو میں اگر چاہیں تو زندہ رہ سکتی ہیں اور اگر وہ زندہ نہ رہنا چاہیں تو مر جاتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا کہ : " تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن یکں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی یا لے اس جگہ ہمیشہ کے یہی معنے ہیں کہ جب تک تم چاہو گے تم زندہ رہ سکو گے لیکن اگر تم سارے مل کر بھی چاہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ رہتے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے ہاں اگر تم یہ بچا ہو کہ قدرت ثانیہ تم میں زندہ رہے تو وہ زندہ رہ سکتی ہے.قدرت ثانیہ کے دو مظاہر ہیں اول تائید الہی اور دوم خلافت.اور اگر قوم چاہیے اور اپنے آپ کو مستحق بنائے تو تائید الہی بھی اس کے شامل حال رہ سکتی ہے اور خلافت بھی اس میں زندہ رہ سکتی ہے.خرابیاں ہمیشہ ذہنیت کے خراب ہونے سے پیدا ہوتی ہیں ذہنیت درست رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قوم کو چھوڑ دے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُفَ بِرُوا مَا بِاَنفُهم من یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کے ساتھ اپنے سلوک میں تبدیلی نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے دلوں میں خرابی نہ پیدا کر لے.یہ چیز ایسی ہے جسے شخص سمجھ سکتا ہے.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بات کو نہیں سمجھ سکتا.کوئی جاہل " الوصیت " طبع اول ص :: سے سورہ رعد : ۱۲
۹۷ سے جاہل انسان بھی ایسا نہیں ہوگا جسے یکیں یہ بتاؤں اور وہ کہے کہ یکں اسے نہیں سمجھ سکایا اگر ایک دفعہ سمجھانے پر نہ سمجھ سکے تو دوبارہ سمجھانے پر بھی وہ کہے کہ میں نہیں سمجھا لیکن اتنی سادہ سی بات بھی قومیں فراموش کر دیتی ہیں.انسان کا مرنا تو ضروری ہے.اگر وہ مرجائے تو اس پر کوئی الزام نہیں آتا لیکن قوم کے لئے مرنا ضروری نہیں تو میں اگر چاہیں تو زندہ رہ سکتی ہیں لیکن وہ اپنی ہلاکت کے سامان خود پیدا کر لیتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ صحابہ کو ایسی تعلیم دی تھی جس پر اگر ان کی آئندہ نسلیں عمل کرتیں تو ہمیشہ زندہ رہیں لیکن قوم نے عمل چھوڑ دیا اور وہ مرگئی.دنیا یہ سوال کرتی ہے اور میرے سامنے بھی یہ سوال کئی وقعہ آیا ہے کہ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے صحابہ کو ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی تھی جس میں ہر قسم کی سوشل تکالیف اور مشکلات کا علاج تھا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا پھر وہ تعلیم گئی کہاں اور تینتیس سال ہی میں وہ کیوں ختم ہوگئی ہے عیسائیوں کے پاس مسلمانوں سے کم درجہ کی خلافت تھی لیکن ان میں اب تک پوپ چلا آرہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیوں میں پوپ کے باغی بھی ہیں لیکن اس کے با وجود ان کی اکثریت ایسی ہے جو پوپ کو مانتی ہے اور انہوں نے اس نظام سے فائدے بھی اُٹھائے ہیں لیکن مسلمانوں میں تینتیس سال تک خلافت رہی اور پھر ختم ہو گئی.اسلام کا سوشل نظام تینتیس سال تک قائم رہا اور پھر ختم ہو گیا.نہ جمہوریت باقی رہی نہ غرباء پروری رہی نہ لوگوں کی تعلیم اور غذا اور لباس اور مکان کی ضروریات کا کوئی احساس رہا.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری باتیں کیوں ختم ہو گئیں ؟ اس کی یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کی ذہنیت خراب ہو گئی تھی اگر ان کی ذہنیت درست رہتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ نعمت انکے ہاتھ سے چلی جاتی.پس تم خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرو اور ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھو.اگر تم ایسا کرو گے تو خلافت تم میں ہمیشہ رہے گی.خلافت تمہارے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے دی ہی اِس لئے ہے تا وہ کہہ سکے کہ میں نے اِسے تمہارے ہاتھ میں دیا تھا اگر تم چاہتے تو یہ چیز ہمیشہ تم میں قائم رہتی.اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے الہامی طور پر بھی قائم رکھ سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے یہ کہا کہ اگر تم لوگ خلافت کو قائم رکھنا
۹۸ چاہو گے تو یکی بھی اسے قائم رکھوں گا گویا اس نے تمہارے منہ سے کھلوانا ہے کہ تم خلافت چاہتے ہو یا نہیں چاہتے.اب اگر تم اپنا منہ بند کر لو یا خلافت کے انتخاب میں اہمیت مد نظر نہ رکھو.مثلا تم ایسے شخص کو خلافت کے لئے منتخب کر لو جو خلافت کے قابل نہیں تو تم یقیناً اس نعمت کو کھو بیٹھو گے.مجھے اس طرف زیادہ تحریک اس وجہ سے ہوئی کہ آج رات دو بجے کے قریب یکی نے ایک نہ ڈیا میں دیکھا کہ پنسل کے لکھے ہوئے کچھ نوٹ ہیں جو کسی مصنف یا مورخ کے ہیں اور انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں.پنیسیل بھی COPYING یا BLUE رنگ کی ہے.نوٹ صاف طور پر نہیں پڑھے جاتے اور جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوٹوں میں یہ بحث کی گئی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمان اتنی جلدی کیوں خراب ہو گئے؟ با وجو د اس کے کہ خدا تعالیٰ کے عظیم الشان احسانات ان پر تھے.اعلیٰ تمدن اور بہترین اقتصادی تعلیم انہیں دی گئی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا پھر بھی وہ گر گئے اور ان کی حالت خراب ہو گئی.یہ نوٹ انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جو انگریزی لکھی ہوئی تھی وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو نہیں لکھی ہوئی تھی بلکہ دائیں طرف سے بائیں طرف کو لکھی ہوئی تھی لیکن پھر بھی میں اسے پڑھ رہا تھا گو وہ خراب سی لکھی ہوئی تھی اور الفاظ واضح نہیں تھے ہر حال کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا تھا.اس میں سے ایک فقرہ کے الفاظ قریباً یہ تھے کہ REASONS TWO WERE THERE FOR IT.THERE TEMPERAMENT, BECOMING (1) MORBID AND ANARCHICAL.(2) یہ فقرہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں پر کیوں تباہی آئی ؟ اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ خرابی جو مسلمانوں میں پیدا ہوئی اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی طبائع میں دو قسم کی خرابیاں ہو گئی تھیں ایک یہ کہ وہ مار بڈ (MORBID) ہو گئے تھے یعنی ان نیچرل (SUNNATURAL اور ناخوشگوار ہو گئے تھے اور دوسرے ان کی ٹینڈ نسینز (PENDENCES) انار کیکل ( ANARCHICAL) ہو گئی تھیں.میں نے سوچا کہ واقعہ میں یہ دونوں باتیں صحیح ہیں مسلمانوں
۹۹ نے یہ تباہی خود اپنے ہاتھوں مول لی تھی.بار بڈ (MORBID) کے لحاظ سے یہ تباہی اس لئے واقع ہوئی کہ جو ترقیات انہیں ملیں وہ اسلام کی خاطر ملی تھیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ملی تھیں، ان کی ذاتی کمائی نہیں تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے اور مکہ والوں کی ایسی حالت تھی کہ لوگوں میں انہیں کوئی عزت حاصل نہیں تھی لوگ صرف مجاور سمجھ کر ادب کیا کرتے تھے اور جب وہ غیر قوموں میں جاتے تھے تو وہ بھی ان کی مجاور یا زیادہ سے زیادہ تا جو سمجھ کر عزت کرتی تھیں وہ انہیں کوئی حکومت قرار نہیں دیتی تھیں اور پھر ان کی حیثیت اتنی کم سمجھی جاتی تھی کہ دوسری حکومتیں ان سے جبرا ٹیکس وصول کرنا جائز سمجھتی تھیں.جیسے یمن کے بادشاہ نے مکہ پر حملہ کیا جس کا قرآن کریم نے اصحاب فیل کے نام سے ذکر کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبحوث ہوئے تو تیرہ سال تک آپ مکہ میں رہے اس عرصہ میں چند سو آدمی آپ پر ایمان لائے.تیرہ سال کے بعد آپؐ نے ہجرت کی اور ہجرت کے آٹھویں سال سارا عرب ایک نظام کے ماتحت آگیا اور اس کے بعد اسے ایسی طاقت اور قوت حاصل ہو گئی کہ اس سے بڑی سے بڑی حکومتیں ڈرنے لگیں.اس وقت دنیا حکومت کے لحاظ سے دوبڑے حصوں میں منقسم تھی اول رومی سلطنت دوم ایرانی سلطنت.رومی سلطنت کے ماتحت مشرقی یوروپ ، لڑکی، ایسے سینیا ، یونان، مصر، شام اور اناطولیہ تھا اور ایرانی سلطنت کے ماتحت عراق، ایران رشین ٹری ٹوری کے بہت سے علاقے ، افغانستان، ہندوستان کے بعض علاقے اور چین کے بعض علاقے تھے.اس وقت یہی دو بڑی حکومتیں تھیں.ان کے سامنے عرب کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن ہجرت کے آٹھویں سال بعد سارا عرب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابعه ہو گیا.اس کے بعد جب سرحدوں پر عیسائی قبائل نے شرارت کی تو پہلے آپ خود وہاں تشریف لے گئے اس کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے فتنہ ٹل گیا لیکن تھوڑے عرصہ بعد قبائل نے پھر شرارت شروع کی تو آپ نے ان کی سرکوبی کے لئے شکر بھجوایا.اس لشکر نے بہت سے قبائل کو سرزنش کی اور بہتوں کو معاہدے سے تابع کیا.پھر آپ کی وفات کے بعد اڑھائی سال کے رصہ میں سارا عرب اسلامی حکومت کے ماتحت آگیا بلکہ یہ حکومت عرب سے نکل کر دوسرے
علاقوں میں بھی پھیلنی مشروع ہوئی.فتح مکہ کے پانچ سال بعد ایرانی حکومت پر حملہ ہو گیا تھا اور اس کے بعض علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا گیا تھا اور چند سالوں میں رومی سلطنت اور دوسری سب حکومتیں تباہ ہو گئی تھیں.اتنی بڑی فتح اور اتنے عظیم الشان تغیر کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی.تاریخ میں صرف نپولین کی ایک مثال ملتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو تعدا د اور قوت ہیں اس سے زیادہ ہو.جرمنی کا ملک تھا مگر وہ اس وقت ۱۴ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا اس طرح اس کی تمام طاقت منتشر تھی.ایک مشہور امریکن پریزیڈنٹ سے کسی نے پوچھا کہ جرمن کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ تو اس نے کہا ایک شہر ہے دوتین لومڑ ہیں اور کچھ چو ہے ہیں.شیر سے مرا درشیا تھا.لومڑ سے مراد دوسری حکومتیں اور چوہوں سے مراد جرمن تھے.گویا جو منی اس وقت ٹکڑے ٹکڑے تھا.روس ایک بڑی طاقت تھی مگر والے روس کے ساتھ ٹکرایا اور وہاں سے ناکام واپس لوٹا.اس طرح انگلستان کو بھی فتح نہ کر سکا اور انجام اس کا یہ ہوا کہ وہ قید ہو گیا پھر دوسرا بٹر اشخص میٹر آیا بلکہ دو بڑے آدمی دو سکوں میں ہوئے ہٹلر اور مسولینی.دونوں نے بے شک ترقیات حاصل کیں لیکن دونوں کا انجام شکست ہوا مسلمانوں میں سے جس نے یکدم بڑی حکومت حاصل کی وہ تیمور تھا اس کی بھی یہی حالت تھی.وہ بے شک دنیا کے کناروں تک گیا لیکن وہ اپنے اس مقصد کو کہ ساری دنیا کو فتح کرلے پورا نہ کرسکا مثلاً وہ چن کو تابع کرنا چاہتا تھا لیکن تابع نہ کرسکا اور جب وہ مرنے لگا تو اُس نے کہا میرے سامنے انسانوں کی ہڈیوں کے ڈھیر ہیں جو مجھے ملامت کر یہ ہے ہیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی آدم سے لے کر اب تک ایسے گذرے ہیں جنہوں نے فرد واحد سے ترقی کی تھوڑے سے عرصہ میں ہی سارے عرب کو تابع فرمان کر لیا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے ایک خلیفہ نے ایک بہت بڑی حکومت کو توڑ دیا اور باقی علاقے آپ کے دوسرے خلیفہ نے فتح کرلئے.یہ تغیر جو واقع ہوا خدائی تھی کسی انسان کا کام نہیں تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نپولین
I فوت ہوئے تو آپ کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر مکہ میں نچی تو ایک مجلس میں حضرت ابو بکر کے والد ابو قحافہ بھی بیٹھے تھے جب پیغامبر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو سب لوگوں پر غم کی کیفیت طاری ہوگئی ! سب نے یہی سمجھا کہ اب ملکی حالات کے ماتحت اسلام پراگندہ ہو جائے گا چنانچہ انہوں نے کہا اب کیا ہو گا.پیغا مہر نے کہا کہ آپ کی وفات کے بعد حکومت قائم ہو گئی ہے اور ایک شخص کو خلیفہ بنا لیا گیا ہے.انہوں نے دریافت کیا کون خلیفہ مقرر ہوا ہے ؟ پیغا مہر نے کہا ابو بکران ابو قحافہ نے حیران ہو کہ پوچھا کون ابو بکر ؟ کیونکہ وہ اپنے خاندان کی حیثیت کو سمجھتے تھے اور اس حیثیت کے لحاظ سے وہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے بیٹے کو سار ا عرب بادشاہ تسلیم کرلے گا.پیغامبر نے کہا ابوبکر جو فلاں قبیلہ سے ہے.ابو قحافہ نے کہا وہ کس خاندان سے ہے.پیغامبر نے کہا فلاں خاندان سے.اس پر ابو قحافہ نے دوبارہ دریافت کیا کہ وہ کس کا بیٹا ہے؟ پیغا مہر نے کہا ابوقحافہ کا بیٹا.اس پر ابو قحافہ نے دوبارہ کلمہ پڑھا اور کہا آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے.ابوقی فرم پہلے صرف نام کے طور پر مسلمان تھے لیکن اس واقعہ کے بعد انہوں نے پیچھے دل سے سمجھ لیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعوی میں راستباز تھے کیونکہ حضرت ابو بکر رض کی خاندانی حیثیت ایسی نہ تھی کہ سارے عرب آپ کو مان لیتے.یہ الہی دین تھی.مگر بعد میں مسلمان کی ذہنیت ایسی بگڑی کہ انہوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ یہ فتوحات ہم نے اپنی طاقت سے حاصل کی ہیں.کسی نے کہنا شروع کیا کہ معرب کی اصل طاقت بنو امیہ ہیں اس لئے خلافت کا حق ان کا ہے.کسی نے کہا بنو ہاشم عرب کی اصل طاقت ہیں.کسی نے کہا بنو مطلب عرب کی اصل طاقت ہیں کسی نے کہا خلافت کے زیادہ حقدار انصار ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں میں جگہ دی.گویا تھوڑے ہی سالوں میں مسلمان مارٹڈ (MORBID) ہو گئے اور ان کے دماغ بگڑ گئے.ان میں ہر قبیلہ نے یہ کوشش کی وہ خلافت کو بزور حاصل کرلے نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت ختم ہو گئی.پھر مسلمانوں کے بگڑنے کا دوسرا سبب انار کی تھی.اسلام نے سب ہیں مساوات کی روح پیدا کی تھی لیکن مسلمانوں نے یہ نہ سمجھا کہ مساوات پیدا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ایک
آرگنائزیشن ہو اس کے بغیر مساوات قائم نہیں ہوسکتی.اسلام آیا ہی اس لئے تھا کہ وہ ایک ارگ رزین اور ڈی سہیلن قائم کرے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تھی کہ یہ ڈسپلن ظالمانہ نہ ہو اور افراد اپنے نفسوں کو دبا کر رکھیں تا کہ قوم جیتے لیکن چند ہی سالوں میں مسلمانوں میں یہ سوال پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ خزانے ہمارے ہیں اور اگر حکام نے ان کے راستہ میں کوئی روک ڈالی تو انہوں نے ان کو قتل کرنا شروع کر دیا.یہ وہ روح تھی جس نے مسلمانوں کو خراب کیا.انہیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ یہ حکومت الہیہ ہے اور اسے خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس لئے اسے خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے.اللہ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے کہ خلیفے ہم بنائیں گے لیکن مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں اور جب انہوں نے ا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں تو خدا تعالیٰ نے کہا اچھا اگر خلیفے تم نے بنائے ہیں تو اب تم ہی بناؤ چنانچہ ایک وقت تک تو وہ پہلوں کا بار ا ہو ا شکار یعنی حضرت ابو بکر حضرت عمریض ، حضرت عثمان اور حضرت علی کا مارا ہو ا شکار کھاتے رہے لیکن مرا ہو ا شکار ہمیشہ قائم نہیں رہتا.زندہ بکرا، زندہ بکری، زندہ مرغا اور زندہ مرغیاں تو ہمیشہ ہمیں گوشت اور انڈے کھلائیں گی لیکن ذبح کی ہوئی بکری یا مرغی زیادہ دیر تک نہیں جا سکتی کچھ وقت کے بعد وہ خراب ہو جائے گی.حضرت ابوبکر معرض عثمان اور علی کے زمانہ میں مسلمان تازہ گوشت کھاتے تھے لیکن بیو تونی سے انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ چیز ہماری ہے.اس طرح انہوں نے اپنی زندگی کی روح کو ختم کر دیا اور مرغیاں اور بکریاں مُردہ ہو گئیں.آخر تم ایک ذبح کی ہوئی بکری کو کتنے دن کھا لولے.ایک بکری میں دس بارہ سیر پا نچھپیں نہیں سیر گوشت ہوگا اور آخر وہ ختم ہو جائے گا پس وہ بکریاں مردہ ہو گئیں اور مسلمانوں نے کھا پی کہ انہیں ختم کر دیا.پھر وہی حال ہوا کہ ہتھ پرانے کھونٹڑے بنے ہورہی ہے وہ ہر جگہ ذلیل ہونے شروع ہوئے، انہیں ماریں پڑیں اور خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوا.عیسائیوں نے تو اپنی مردہ خلافت کو آج تک سنبھالا ہوا ہے لیکن ان بد بختوں نے زندہ خلافت کو اپنے ہاتھوں گاڑ دیا اور یہ حض عارضی خواہشات ، دنیوی ترقیات کی تمنا اور وقتی جوشوں کا نتیجہ تھا، خدا تعالیٰ نے جو وعدے پہلے مسلمانوں سے کئے تھے وہ وعادسے اب بھی ہیں.اُسنے جب وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ امَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ
١٠٣ مَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فرمایا تو الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت فرمایا حضرت ابو بکر رین سے نہیں فرمایا.حضرت عورت سے نہیں فرمایا.حضرت عثمان سے نہیں فرمایا.حضرت علی سے نہیں فرمایا.پھر اس کا کہیں ذکر نہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ صرف پہلے مسلمانوں سے کیا تھا یا پہلی صدی کے مسلمانوں سے کیا تھا یا دوسری صدی کے مسلمانوں سے کیا تھا بلکہ یہ وعدہ سارے مسلمانوں سے ہے چاہے وہ آج سے پہلے ہوئے ہوں یا ۲۰۰ یا ۴۰۰ سال کے بعد آئیں وہ جب بھی امنوا وَعَمِلُوا الصّلِحت کے مصداق ہو جائیں گے وہ اپنی نفسانی خواہشات کو مار دیں گے.وہ اسلام کی ترقی کو اپنا اصل مقصد بنا لیں گے شخصیات، جماعتوں، پارٹیوں جتھوں، شہروں اور ملکوں کو بھول جائیں گے تو اُن کے لئے خد اتعالیٰ کا یہ وعدہ قائم رہیگا که لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ.یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے چاہے وہ عرب کے ہوں ،عراق کے ہوں ، شام کے ہوں ، مصر کے ہوں، یورپ کے ہوں، ایشیا کے ہوں، امریکہ کے ہوں، جزائر کے ہوں، افریقہ کے ہوں کہا ہے کہ اَستَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ وہ انہیں اس دنیا میں اپنا نائب اور قائمقام مقرر کہ لیگا اب اس دنیا میں شام ، عرب اور نائیجیریا، کینیا، ہندوستان، چین اور انڈونیشیا ہی شامل نہیں بلکہ اور ممالک بھی ہیں.پس اس سے مراد د نیا کے سب ممالک ہیں گویا وہ موعود خلافت ساری دنیا کے لئے ہے فرماتا ہے وہ تمہیں ساری دنیا میں خلیفہ مقرر کرے گا.كما اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ اسی طرح جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ مقرر کیا.اس آیت میں پہلے لوگوں کی مشابہت ارض میں نہیں بلکہ استخلاف میں ہے گویا فرما یا ہم انہیں اسی طرح خلیفہ مقررہ کریں گے جس طرح ہم نے پہلوں کو خلیفہ مقرر کیا اور پھر اس قسم کے خلیفے مقرر کریں گے جن کا اثر تمام دنیا پر ہو گا پس اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کو یا درکھو اور خلافت کے استحکام اور قیام کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہو.تم نوجوان ہو تمہارے حوصلے بلند ہونے چاہئیں اور تمہاری عقلیں تیز ہونی چاہئیں تا کہ تم اس کشتی کو ڈوبنے اور غرق نہ ہونے دور تم وہ چٹان نہ بنو جو دریا کے رخ کو پھیر دیتی ہے بلکہ تمہارا یہ کام ہے کہ تم وہ چینل ( CHANNAL ) بن جاؤ جو پانی کو آسانی سے گزارتی ہے تم ایک ٹنل
۱۰۴ ہو جس کا یہ کام ہے کہ وہ فیضانِ الہی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ حاصل ہوا ہے تم اُسے آگے چلاتے چلے جاؤ اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے تو تم ایک ایسی قوم بن جاؤ گے جو کبھی نہیں مرے گی اور اگر تم اس فیضان الہی کے رستہ میں روک بن گئے ، اس کے رستے میں پتھر بن کر کھڑے ہو گئے اور تم نے اپنی ذاتی خواہشات کے ماتحت اسے اپنے دوستوں رشتہ داروں اور قریبیوں کے لئے مخصوص کرنا چاہا تو یا د رکھو وہ تمہاری قوم کی تباہی کا وقت ہوگا پھر تمہاری عمر کبھی ملیں نہیں ہوگی اور تم اسی طرح مر جاؤ گے جس طرح پہلی قومیں مریں لیکن قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ قوم کی ترقی کا رستہ بند نہیں انسان بے شک دنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہتا لیکن قومیلی زندہ رہ سکتی ہیں ہیں جو آگے بڑھے گا وہ انعام لے جائے گا اور جو آگے نہیں بڑھتا وہ اپنی موت آپ مرتا ہے اور جو شخص خود کشی کرتا ہے اُسے کوئی دوسرا بچا نہیں سکتا ؟ لے نوجوانان احمدیت میں دینی تعلیم کوفروغ دینے جلس خدام الاحمدی مرکزی بود کی تربیت کا نمبر ا ا ا ا ا ا ا اور ارکان کی تربیتی کلاس یه کلاس منبره مجلس خدام الاحمدیہ یہ نے ہمیشہ ایک موثر کر دار ادا کیا ہے.قیام پاکستان کے بعد اس کلاس کے لئے سید نا حضرت مصلح موعود کی خاص ہدایت کے ماتحت خاص نصاب تیار کیا گیا اور حضور کے منتخب فرمودہ اساتذہ ہی تعلیم دینے پر مقرر....کئے گئے جس سے اس کلاس کی افادیت و اہمیت میں نمایاں اضافہ ہوا.۱۹۵۳ ء میں یہ پندرہ روزہ تربیتی کلاس جو پاکستانی دور کی پانچویں کلاس تھی، ۲۷ اکتوبر سے 11 نومبر تک ربوہ میں بھاری رہی جس میں سات خدام شامل ہوئے.(۱) شیخ ارشاد احمد صاحب اوکاڑہ (۲) شیخ حمید احمد صاحب چنیوٹ (۳) محمد ہارون خان صاحب ربوه (۲) ناصر احمد خاں صاحب ربوه (۵) حامد نور صاحب ربوه (۶) مولوی بشیر احمد صاحب میر کراچی (6) محمد لطیف صاحب شاکر کوئٹہ.اس کلاس میں اول الذکر پانچ نمائندگان ہی آخر وقت تک شامل رہے اور دوسرے نمائندوں کو کلاس کے دوران ہی رخصت لے کر واپس جانا پڑا.اس کلاس میں محمد ہارون صاحب نے نمبر حاصل له الفضل ۲۳ مئی ۶۱۹۶۱ ہجرت ۱۳۴۰ مش مرتاد
۱۰۵ ۲۳۵ کر کے اول اور ناصر احمد صاحب نمبر حاصل کر کے دوم رہے.یہ زمانہ مالی اعتبار سے نقدام الاحمدیہ کیلئے بہت تنگی کا زمانہ تھا اس لئے کلاس میں شامل ہونے والے خدام کے اخراجات بھی مجلس متعلقہ کو ہی برداشت کرنے پڑتے تھے البتہ مجلس مرکز یہ نے یہ سہولت ضرور دے رکھی تھی کہ جو مجلس چندہ سالانہ اجتماع سو فیصدی ۴ دا کر دے گی اُس سے نمائندہ کا خرچ نہیں لیا جائے گا.صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے کلاس سے پہلے یہ ہدایت جاری فرمائی کہ ہر مجلس کو کم از کم ایک نمائندہ ضرور بھجوانا چاہیے.نمائندے کے انتخاب کے وقت اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کہ وہ کم از کم مڈل پاس ہو.اردو لکھ پڑھ سکتا ہوا اور قرآن مجید ناظرہ جانتا ہوتا کہ کلاس میں نوٹ لے سکے لیے محمد ہارون صاحب نمائندہ ربوہ حلقہ دارالصدر نے اس کلاس سے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھ یا :.سلسلہ کے ایسے مسائل وعقائد جو کہ میری سمجھ سے بالا تھے اس کے علاوہ فقہ کے ایسے مسائل جن کا مجھے مرکز میں رہتے ہوئے بھی علم نہ تھا اور جن کو یکی ایک عرصہ سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا فاضل اساتذہ کی دلی کا وشوں اور پسندیدہ طریقہ ہائے تعلیم سے اس مختصر عرصہ ہیں سمجھے ہیں کامیاب ہو گیا.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے بعض صحابہ کرام کے لیکچر اتنے روح پرور اور ایمان افروز تھے کہ زبان قلم اُس کو بیان کرنے سے قاصر ہے یہ فصل ششتم شاہ ابن سعود کی المناک فات پر حضرت مصلح موعود کی حرا سے تعزیت شاہ عبد العزیز ابن سعود جو نجد و حجاز مقدس کے بادشاہ اور عالیم اسلام کے نہایت جری، زہبہ دست ل رساله خالد اکتوبر ۱۹۵۳ء/ اتحاد ۳۳۲ اهش مدت و دسمبر ۶۱۹۵۳ فتح ۱۳۳۲ ش ص ۲۲ : سے رسالہ " خالد ربوہ جنوری ۶۱۹۵۴/ صلح ۱۳۳۳ مش ص ۲۳ :
١٠٦ مرتبہ اور مرجان مریخ اور جدید جنگی فنون کے باہر اور بین الاقوامی سیاست کے خم و پیچ سے واقف تھے اس سال ار نومبر ۱۹۵۳ ء کو انتقال کر گئے.تمام عرب ملکوں نے اپنی سرکاری تقریبات ملتوی کر دیں اور قاہرہ، دمشق اور عمان کے ریڈیو سٹیشنوں سے عام پروگرام کی بجائے قرآن پاک کی تلاوت شروع کر دی گئی.تمام عرب ملکوں نے اڑتالیس گھنٹوں تک سوگ منایا نیویارک میں اقوام متحدہ کا پرچم شاہ ابن سعود کے ماتم میں سرنگوں رہا ہے صاحب الجلالہ شاہ مملکت سعودیہ عبد العزیز ابن سعود جیسے بیدار مغز، نیک دل اور شریف بادشاہ کے عہد حکومت میں اتحاد بین السلمین کی تحریک کو بہت تقویت حاصل ہوئی.انہوں نے ۱۹۳۵ء میں جب ایک غیر مسلم کمپنی کو پٹرول وغیرہ کا ٹھیکہ دینے کا معاہدہ کیا تو احراری آرگن مجاہد نے اس پر بہت تنقید کی بیا تک الزامات عائد کئے کہ شاہ ابن سعود انگریزوں کے زیر اثر ہیں اور عرب کے مخارجی معاملات پر برطانیہ کا قبضہ ہے جس کے اشارے پریمین اور نجد کی جنگ ہوئی تھی مگر جماعت احمد یہ ہمیشہ ہی اس ہنگامہ آرائی سے الگ رہی اور حضرت مصلح موعود نے ۳۰ اگست ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ میں شاہ کے خلاف اس پروپیگنڈا پر دلی رنج کا اظہار کیا اور فرمایا اس سے سلطان ابن سعود کی طاقت کمزور ہوگی اور جب اُن کی طاقت کمزور ہوگی تو عرب کی طاقت بھی کمزور ہو جائے گی.اب ہمارا کام یہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ سے سلطان کی مدد کریں اور اسلامی سرائے کو ایسا منظم کریں کہ کوئی طاقت سلطان کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی جرات نہ کر سکے تھے جلائہ الملک ابن مسعود کا یہ کارنامہ ہمیشہ یادر ہے گا کہ انہوں نے حج بیت اللہ کے درواز سے ہر کلمہ گو مسلمان کے لئے ہمیشہ کھلے رکھے.ایک بارا الفضل کے سیاسی نامہ نگار نے جلالہ الملک سے مکہ معظمہ میں ملاقات کی تو انہوں نے جماعت احمدیہ کی نسبت فرمایا کہ تبلیغ اسلام میں مدد دینا ہمارا کام ہے اور احمدیوں کی نسبت جب سورت کے ایک اہل حدیث نے شکایت کی کہ یہ ایک اور نبی کے ماننے والے ہیں تو سلطان نے کہا یہ تو شرک فی النبوة کرتے ہوں گے مگر یہاں تو مشرک فی التوحید کرنے والے بھی آتے ہیں.پھر احمدیوں کو مکہ سے نکالنے کی تجویز پر پوچھا کیا یہ کعبتہ اللہ کو بہت اللہ سمجھ کر حج کے لئے آتے ہیں ؟ جواب میں ”ہاں“ شکر فرمایا، تو کیا یہ عبد العزیز کے باپ کا گھر ہے جس سے کہیں نکال دوں ؟ یہ خدا کا گھر لے روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۲ نومبر ۱۹۵۳ء ص : له الفضل قادیان سر ستمبر ۱۹۳۵ء ما مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحه ۲۲۸ تا ۲۳۳)
" ہے اے جمعیت العلمائے ہند سے خصوصی رابطہ رکھنے والے ایک صاحب علم اور صاحب قلم نے ہفت روزہ صدق جدید لکھنو مورخہ 4 اگست ۱۹۶۵ء صث میں شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے زمانے کا یہ واقعہ بایں الفاظ لکھا کہ " محجرہ نشین مولویوں نے مرحوم سے کہا کہ چونکہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں اس لئے انہیں حجاز مقدس سے نکال دیا جائے.مرحوم نے مولوی صاحبان سے پوچھا کہ قادیانی حج کو اسلام کا مرکن اور اس کو فرض سمجھتے ہیں یا نہیں ؟ اس پر مرحوم نے فرمایا کہ جو شخص حج کی فرضیت کا قائل ہے اور اُسے اسلام کا اہم رکن سمجھتا ہے اُسے حج سے روکنے کا مجھے کوئی حق نہیں.یہ واقعہ ہم نے مرحوم کی زندگی میں خود بعض مولویوں کی زبانی سنا تھا ممکن ہے کہ بعض اخبارات میں بھی شائع ہوا ہویا ستید نا حضرت خلیفة المسح الثاني المصلح الموعود کو دنیائے اسلام کی اس عظیم شخصیت کے المناک انتقال پر بہت صدمہ ہوا اور آپ نے اور نومبر ۱۹۵۳ء کو اپنی اور جماعت احمدیہ کی طرف سے سعودی عرب کے نئے سلطان ہن میجی ٹی شاہ سعود بن عبد العزیز کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہارہ فرمایا اور دعا کی اللہ تعالیٰ اُن کی رہنمائی کرے.اس سلسلہ میں حضور نے ربوہ سے جو برقیہ ارسال فرمایا اُس کا ترجمہ درج ذیل ہے :- ہر میجسٹی شاہ سعودی عرب ریاض ! یں اپنی اور جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کے نامور والد کی وفات پر آپ سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے محبوب و مقدس ملک عرب کو امن اور ترقی سے نواز سے اور تمام امور میں آپ کی رہنمائی فرمائے اور آپ کے کندھوں پر جو بوجھ ڈالا گیا ہے اُسے برداشت کرنے میں آپ کی مڈ کرے.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.مرنه البشیر الدین محمود احمد امام جماعت الحدیده.ربو و مورخه از نومبر ۶۱۹۵۳ مجلہ اسلامیہ البشرى" حیفا فلسطین نے اپنی اشاعت ربیع الثانی ۱۳۷۳ ھ مطابق دسمبر ۶۱۹۵۳ له روزنامه الفضل قادیان ۲۴ جولائی ۶۱۹۳۵ صث کالم ۴۰۳ : کے روزنامه المصلح کراچی ۱۸ نومبر ۶۱۹۵۳/ ۱۸ نبوت ۱۳۳۲ ش صل به
1.A کے صفحہ 9 پر اس برقیہ پیغام کا عربی ترجمہ شائع کیا جو یہ ہے :- " حَضْرَةَ صَاحِبِ الجَلَالَةِ مَلِكِ الْعَرَبِيَّةِ السَّعودية - الرياض بِالْإِصَالَةِ عَنْ نَفْسِى وَبِالنِّيَابَةِ عَنِ الْجَمَاعَةِ الْاَحْمَدِيَّةِ أُعَزِيْكُمْ بِوَفَاةِ وَالِدِكُمُ الْعَظِيمِ وَنَسْئَلُ اللهَ أَن يَتَعَمَّدَهُ بِرَحْمَتِهِ - وَنَدْعُوا اللَّهَ أَن يُشْرِنَ مُلكَنَا الْمُقَدَّسَ وَالْمَحْبُوبَ الجَزِيرَةَ الْعَرَبِيَّةَ بِالْأُمِّنِ وَالتَّرَى وَيُرْشِدَم في جَمِيعِ الأُمُورِ وَيُعِينَكُمْ عَلَى حَمْلِ ذَلِكَ الْعِبُ التَّقِيْلِ الَّذِي قَدا لقى على عَاتِقِكُمْ - وَيَكُونَ حَافِظَكُمْ وَنَا صِرَكُمْ - ميرز البشير الدين محمود احمد اِمَامُ الْجَمَاعَةِ الْأَحْمَدِيَّةِ ربوة فى نومبر سنة ١٩٥٣ " صاحب الجلالہ شاہ سعود بن عبد العزیز کی طرف سے حضرت مصلح موعودہؓ کو اس تعزیت نامہ کے جواب میں حسب ذیل برقیہ موصول ہوا :- "جدة مرزا بشیر الدین محمود احمد امام الجماعة الاحمدية - ربوة نَشْكُرُكُمْ وَطَائِفَتَكُمْ عَلَى تَعزِيتِكُمْ وَمُشَارَ لَتَكُمْ فِي مُصَابِنَا الْعَظِيمِ - سعود بن عبد العزيز " له ترجمہ :.آپ کی تعزیت پر اور ہمارے اس عظیم صدمہ میں آپ کی شرکت پر ہم آپ کا اور آپکی جماعت کا شکریہ ادا کرتے ہیں.مجلۃ اسلامیہ " البشرى، حيفا ، فلسطین نومبر ۶۱۹۵۴ روزنامه المصلح کراچی ۱۹ار دسمبر ۶۱۹۵۳ صدا
سید نا حضرت مصلح موعود تحریک جدید کے دفاتر کا معائنہ فرمارہے ہیں
صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتتاح کے مناظر
1.9 دوسرا باب فصل اقول مرکزی دفاتر کا افتتاح اور حضرت مصلح موعود کا بصیرت افروز خطاب ربوہ میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان اور تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان کے مستقل مرکزی دفاتر کی بنیاد حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کے مقدس ہاتھوں سے اس ماہ ہجرت ۱۳۲۹ اش / ۳۱ مئی ۱۹۵۰ ء کو رکھی گئی تھی.اس کے کچھ عرصہ بعد تعمیر کا کام شروع ہوا.اس دوران صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے کارکنان اپنے عارضی کچے دفاتر میں ہی کام کرتے رہے لیے مرکزی دفاتر کی عمارات خدا تعالیٰ کے فضل سے پایہ تکمیل ه یه مرکزی دفاتر ابھی زیر تعمیر تھے کہ حضرت مصلح موعود نے مشاورت ۱۹۵۲ء کو خطاب کر کے فرمایا :." عمارت کی تاریخ اور ریکار ڈ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ربوہ کی تمام عمارات میری ممنونِ احسان ہیں.چاہیے ناظریہ کہ دیں کہ میں بڑا ظالم ہوں لیکن وہ یہ نہیں کہ سکتے کہ کوئی ایک عمارت بھی نظارت نے بنوائی ہے.یکس نے روزانہ سختیاں کر کر کے اور یہ کہہ کر کہ جب تک فلاں عمارت نہ بنے کا رکن دو گھنٹہ زائد وقت دفاتر میں بیٹھیں.یہ عمارتیں بنوائی ہیں.صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر کا کام میں نے سب سے اچھے آدمی کو دیا تھا اور ادھر تحریک جدید کے دفاتر کا کام یکں نے چوہدری فقیر محمد صاحب مرحوم کے سپرد کیا تھا مگر دونوں دفاتر والوں نے سستی سے کام لیا ہے.اس وقت یہ شکوہ تھا کہ اینٹیں نہیں ملتیں.اب انہیں ملنے لگ گئی ہیں بلکہ شکایت ہے تو یہ کہ اینٹیں اُٹھائی نہیں جاتیں اینٹیں بہت زیادہ ہیں.(باقی اگلے صفحہ پر )
کو پہنچ گئیں اور صدر انجمن احمدیہ و تحریک جدید کے دفاتر اپنی مستقل عمارات میں منتقل ہوئے تو ضروری سمجھا گیا کہ سید نا حضرت المصلح الموعود کی خدمت اقدس میں درخواست کی جائے کہ حضور اس موقعہ پر تشریف لا کر اجتماعی دعافرمائیں اللہ تعالیٰ ان نئی عمارات کو سلسلہ کے لئے با برکت بنائے اور کارکنوں کو اخلاص اور قربانی اور فدائیت کے جذبات کے ساتھ خدمت دین کی توفیق بخشے چنانچہ 4 ارماہ نبوت ۱۳۳۲ مش / ۱۶ نومبر ۱۹۵۳ء کو جبکہ صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر نئی عمارت میں منتقل ہو رہے تھے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے حضور کی خدمت بابرکت میں اطلاع بھجوائی گئی کہ دفاتر صدر انجمن احمدیہ نئی عمارت میں منتقل ہو رہے ہیں دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس نئی عمارت کو سلسلہ کے اداروں اور کارکنوں کیلئے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ کرے نیز لکھا کہ ارادہ ہے کہ جب پور اٹک سکاؤ ہو جائے تو اس وقت حضور کی خدمت میں عرض کیا جائے کہ موقعہ پر تشریف لاکر اجتماعی دعا فرمائیں.چنانچہ جب دفاتر کا تمام سامان نئی عمارت میں منتقل ہو چکا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے وکالت علیا اور انجمن تحریک جدید کے مشورہ کے ساتھ حضور کی خدمت میں مشتر که درخواست ارسال کی که اگر حضور پسند فرمائیں تو صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفاتر کی افتتاحی دُعا کے لئے ۱۹ر نومبر ۱۹۵۳ (مطابق ۱۹ار ماه نبوت ۱۳۳۲ ش) بروز جمعرات صبح دس بجے کا وقت رکھ لیا جائے حضور نے منظوری مرحمت فرمائی او ارشاد فرمایا کہ ایسے موقعہ پر کچھ غرباء کے لئے اور کچھ خوشی کے لئے بھی خرچ کر لیا جائے تو کچھ حرج نہیں؟ حضور کی منظوری حاصل ہونے پر حضرت صاحبزادہ مرزہ البشیر احمد صاحبت اور محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب قائم مقام وکیل اعلیٰ نے اس افتتاحی تقریب کا باقاعدہ پروگرام مرتب کیا جو مندرجہ ذیل شقوں پر مشتمل تھا :- اول.ہر دو دفاتر کی درمیانی سٹرک پر غربی دروازوں کے سامنے ناظر صاحبان صدر انجمن احمد یہ اور (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) ہر حال اگلے سال تک ہال بن جانا چاہیے.روپیہ منظور ہے، اور دفاتر کی جگہ پر نشان لگا دیا گیا ہے.اس سال دفاتر مکمل ہو جانے چاہئیں تا کہ اگلے سال مجلس شوری کا اجلاس وہاں ہو سکے.“ رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۵۲ ص ۱۱ )
HI و کلاء صاحبان تحریک جدید حضور ایدہ اللہ کا استقبال کریں گے.دوم.استقبال کے بعد حضور پہلے دفاتر تحریک جدید میں تشریف لے جائیں گے اور نئی عمارت کے کمروں کا معائنہ فرمائیں گے معائنہ کے وقت سارہ اللہ اپنے اپنے کمروں میں حسب دستور کام کرتا رہے گا البتہ وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید حضور کے ساتھ ہوں گے اور ہر صیغہ کا وکیل یا افسر اپنے اپنے کمرے کے دروازہ پر حضور کا استقبال کر کے حضور کو اپنے اپنے کمرہ کا معائنہ کرائے گا.سوم - معائنہ سے فارغ ہونے کے بعد حضور تحریک جدید کے ہال میں تشریف لے جائیں گے اور وہاں افتتاحی دعا فرمائیں گے.اس موقعہ پر تحریک جدید کے تمام کارکنان دعا میں شریک ہوں گے.چہارم.یہ فیصلہ کیا گیا کہ دفاتر تحریک جدید میں افتتاحی دعا سے فارغ ہو کر حضور دفاتر صد را نمی تمدید میں تشریف لائیں گے اور دفاتر کے کمروں کا معائنہ فرمائیں گے.اس وقت صرف ناظر صاحب اعلی صدر انجمن احمدیہ کو حضور کی معیت کا شرف حاصل ہو سکے گا اور انجمن کا باقی عملہ اپنے اپنے کمروں میں حسب معمول کام کرتا رہیگا البتہ ہر گرہ کے دروازہ پر متعلقہ ناظر یا افسر صیفہ حضور کا استقبال کر کے اپنے اپنے کمرہ کا معائنہ کرائے گا.پنجم.اس معائنہ سے فارغ ہونے کے بعد تلاوت قرآن مجید اور وتر میں سے کوئی نظم پڑھی جائیگی اور پھر حضور کی خدمت میں صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی طرف سے ایڈریس پیش کئے جائیں گے جس میں ہر دو انجمنوں کے عملہ کے علاوہ صحابہ اور مہمانان و دیگر حاضرین شریک ہوں گے.شتم بالآخر احاطہ دفا تر صدر انجمن احمدیہ میں تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کی ایک متحدہ پارٹی ہوگی جس میں مختصر سا ناشتہ پیش کیا جائے گا.ہفتم.حضور کی تشریف آوری پر دو بکر سے دفاتر صدر انجمن احمدیہ اور ڈومکبرے دفاتر تحریک جدید کی جانب سے بطور صدقہ ذبح کئے جائیں گے.ان میں سے ایک ایک بکرا تو صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی طرف سے ہو گا اور ایک ایک بکرا ہر دو اداروں کے عملہ کی طرف سے ہو گا.ہشتم.معائنہ کے وقت ہر دو شمار توں پر حکومت پاکستان کا جھنڈا اور لو ائے احمدیت اورائے جائیں گے.ہم.مشترکہ جلسہ اور اجتماعی دعا کے لئے احاطہ صدر انجمن احمدیہ میں ایک وسیع شامیانہ لگایا جائے گا اور دوستوں کو اس تقریب میں شمولیت کے لئے دعوت نامے جاری کئے جائیں گے جن میں ذیل کے طبقات کو
۱۱۲ خصوصیت سے ملحوظ رکھا جائے گا :- ا - وہ صحابہ کرام جو ربوہ میں موجود ہیں.مختلف تعلیمی ادارہ جات کے نمائند ہے.سلسلہ کے وہ مہمان جو عارضی طور پر باہر سے ربوہ میں آئے ہوئے ہوں..ربوہ کے غرباء اور مساکین میں سے ایک حصہ.اس پروگرام کے عین مطابق صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفاتر کو مناسب طریق پر سجایا گیا اور ان کی عمارتوں پر حکومت پاکستان کا جھنڈا اور لوائے احمدیت ہرایا گیا.جگہ جگہ خوش نما قطعات اور بورڈ آویزاں کئے گئے اور جا بجا نگلنے رکھے گئے حضور کے استقبال کے لئے دفاتر کے گیٹ پھولوں اور پتوں سے مزین کئے گئے اور احاطہ دفاتر صدر انجمن احمدیہ میں ایک شامیانہ نصب کیا گیا جس کے نیچے آنے والے معززین کے لئے کئی سو گر سیاں اور کوچ قرینہ کے ساتھ لگائے گئے اور لاؤڈ سپیکر کا بھی انتظام کیا گیا.افتتاح کے لئے 19 ماہ نبوت / نومبر کی تاریخ مقرر تھی.اس دن ٹھیک دس بجے سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ دفاتر کے معائنہ اور اختتامی دعا کے لئے کار میں تشریف لائے.اس موقعہ پر پروگرام کے مطابق چار پیکر سے بطور صدقہ ذبح کئے گئے اور اُن کا گوشت غریبوں میں تقسیم کیا گیا.ہر دو دفاتر کی درمیانی سڑک پر مغربی گیٹوں کے سامنے تحریک جدید کے وکلاء اور صدر انجین احمدیہ کے ناظر حضور کے استقبال کے لئے کھڑے تھے.حضور بمطابق پروگرام پہلے دفاتر تحریک جدید کے احاطہ میں تشریف لے گئے جہاں تھوڑی دیر کے لئے اطفال الاحمدیہ نے عنایت اللہ صاحب انسٹرکٹر کی سرکہ دگی میں پی ٹی کا مظاہرہ کیا جو حضور نے ملاحظہ فرمایا اور پھر دفاتر تحریک جدید کے اندر تشریف لے گئے اور کمروں کا معائنہ فرمایا معائنہ کے وقت تمام عملہ اپنے اپنے کمروں میں حسب ہدایت کام کرتا رہا صرف قائم مقام وکیل اعلیٰ صاحبزادہ مرزہ امبارک احمد صاحب اور ناظر صاحب اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ اور بعض دوسرے دوست حضور کے ہمرکاب تھے.دفاتر تحریک جدیدیں سب سے پہلے حضور دفتر وکالت تبشیر میں تشریف لے گئے وہاں دفتر کو ملاحظہ فرمانے کے بعد حضور نے ہدایت فرمائی کہ ہر ملک کے علیحدہ علیحدہ بڑے بڑے نقشے دفتر کی دیواروں پر چاروں طرف آویزاں ہونے چاہئیں تا جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں کا ہر وقت صحیح طور پر اندازہ ہوتا رہے.اس معائنہ کے وقت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وكيل التبشير و قائم مقام وکیل اعلیٰ موجود تھے.اس کے بعد حضور دفتر
تجارت میں تشریف لے گئے جہاں قریشی عبد الرشید صاحب وکیل التجارت نے اپنے دفتر کا معائنہ کروایا.پھر حضور وکالت تعلیم، وکالت صنعت اور دفتر ریویو آن ریجنز میں تشریف لے گئے جہاں میاں عبد الرحیم احمد صاحب وكيل التعلیم موجود تھے.بعد ازاں حضور نے دفتر سندھ ویجی ٹیبل آئیل ، نائب وکالت تصنیف اور وکالت قانون کے دفاتر کا معائنہ فرمایا اور کمیٹی روم میں تشریف لائے جہاں غیر ملکی طلباء اور شاہدین جمع تھے.اس کے بعد دفتر سیکر ٹری مجلس تحریک جدید، دفتر وکیل الدیوان، دفتر وکالت علیا، دفتر وکالت زراعت اور دفتر آڈیر تحریک جدید کا معائنہ فرمایا.دفتر آڈیٹرمیں بابو محمد اسمعیل صاحب معتبر آڈیٹر تحریک جدید موجود تھے.پھر حضور نے دفتر امانت جائیداد ملاحظہ فرمایا جہاں ماسٹر فقیر اللہ صاحب افسر امانت موجود تھے.پھر حضور نے دفتر وکیل المال ثانی دیکھا جہاں قاضی محمد رشید صاحب وکیل المال موجو دتھے.پھر دفتر وکیل المال اول میں حضور تشریف لے گئے جہاں چوہدری برکت علی خاں صاحب وکیل المال اول نے حضور کو اپنے دفتر کا معائنہ کروایا.اس معائنہ سے فارغ ہونے کے بعد حضور پھر دفاتر تحریک جدید کے ہال میں تشریف لے گئے.اس وقت تمام کا رکنان تحریک جدید کے ہال میں جمع ہو گئے اور حضور نے دفاتر تحریک جدید کے بابرکت ہونے کے لئے افتتاحی دعا فرمائی.دعا سے فارغ ہو کر حضور ساڑھے دس بجے دفاتر صدرانجمن احمدیہ میں تشریف لائے اور تمام دفاتر کا معائنہ فرمایا اس وقت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلیٰ اور حضرت مرز ا عزیز احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بھی ساتھ تھے.انجمن کا باقی عملہ اپنے اپنے کمروں میں کام کرتا رہا.حضور سب سے پہلے عمارت کے غربی جانب نظامت جائیداد کے دفتر میں تشریف لے گئے جہاں چوہدری صلاح الدین صاحب ناظم جائیداد اپنے عملہ کے ساتھ موجود تھے پھر حضور نے نظارت علیا او حفاظت مرکز کے دفاتر کا معائنہ فرمایا.اس کے بعد حضور انگریزی ترجمہ القرآن کے دفتر میں تشریف لائے جہاں ملک غلام فرید صاحب ایم.اسے موجود تھے.پھر دفتر تعلیم و تربیت میں تشریف لے گئے یہاں مولوی محمد دین صاحب ایم.اسے ناظر تعلیم و تربیت اپنے عملہ کے ساتھ موجود تھے.اس کے بعد حضور نے نظارت دعوۃ و تبلیغ کے دفتر کا معائنہ فرمایا جہاں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوة و تبلیغ تشریف رکھتے تھے.پھر دفتر بیت المال میں تشریف لے گئے جہاں خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب ناظر بیت المال اپنے عملہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے.اس کے بعد حضور خزانہ اور دفتر
۱۴ محاسب میں تشریف لے گئے جہاں مکرم میاں عبد الباری صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ نے حضور کا استقبال کیا.پھر حضور دفتر بهشتی ،مقبره، دفتر تالیف و تصنیف، دفتر آڈیٹر، دار القضاء اور دفتر امور عامہ میں تشریف لے گئے بہشتی مقبرہ کے دفترمیں مکرم بابو عبد العزیز صاحب سیکرٹری مجلس کارپرداز، دفتر تالیف و تصنیف میں مولانا جلال الدین صاحب شمس انچارج صیغه تالیف و تصنیف ، دفتر آڈیٹر میں مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ ، دار القضاء میں مولانا تاج الدین صاحب ناظم دار القضاء اور امور عامہ میں مکرم کیپٹن ملک خادم حسین صاحب قائمقام ناظر امور عامہ نے حضور کا استقبال کیا اور اپنے اپنے دفاتر کا معائنہ کروایا.اس معائنہ سے فارغ ہونے کے بعد حضور احاطہ دفاتر صدر انجمن احمدیہ میں اس سائبان کے نیچے تشریف لے گئے جہاں صحابہ کرام اور سلسلہ کے مہمانان اور تعلیمی ادارہ جات کے نمائندے اور ربوہ کے مدعو حضرات کرسیوں پر تشریف رکھتے تھے.تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کے تمام کارکنان بھی اس جلسہ اور اجتماعی دعا میں شرکت کے لئے اپنے اپنے دفاتر سے آکر شریک ہو گئے تھے.حضور نے سٹیج پر تشریف فرما ہو کہ دفاتر صدر انجین احمدیہ کا نقشہ ملاحظہ فرمایا اور پھر ایک وسیع ہال کی تعمیر کے متعلق جس کی تجویز قادیان میں ہوئی تھی مکرم جناب ناظر صا حب اعلیٰ سے گفت گو فرماتے رہے.یہ ہال دفا تر صدر انجمن احمدیہ کے غربی جانب کے میدان میں بنا تجویز ہوا تھا.اس موقع پر حضور نے صدر انجمن احد یہ کے دفاتر کے لئے مزید دو بڑے اور چھوٹے کمروں کی منظوری بھی مرحمت فرمائی کیونکہ دفاتر کی موجودہ عمارت اپنی وسعت کے باوجود صدر انجمن کی وسیع ضروریات اور بڑھتے ہوئے عملہ کے لئے ناکافی ثابت ہو رہی تھی اور با وجود اس کے کہ بعض کمروں میں دو دو دفتر قائم کئے گئے تھے پھر بھی مشکل کا سامنا ہو رہا تھا.معائنہ کے بعد اجتماعی دعا کا پروگرام تلاوت قرآن مجید سے شروع ہوا جو جناب ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے خوش الحانی سے کی.آپ نے اس موقعہ پر سورۃ الفتح کے پہلے رکوع کی تلاوت کی جو ایک نہایت ہی موزوں انتخاب تھا.اس کے بعد شیخ رشید احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حسب ذیل نظم پڑھ کر سامعین کو محظوظ کیا.سے ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے ؟ کوئی دیں دین محمد سانہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے : یہ ثمر بارغ محمد سے ہی کھایا ہم نے ازاں بعد صاحبزادہ مرزہ امبارک احمد صاحب نے تحریک جدید کی طرف سے ایڈریس پیش کیا جن میں
بیرونی مشنوں کی وسعت کا ذکر کر کے بتایا کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے تحریک جدید کو دنیا کے کثیر التعداد ملکوں میں اسلام کی خدمت کے لئے مشن قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اس ایڈریس کے بعد عبدالشکور صاحب سو نہ طالب علم جامعتہ المبشرین نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے مندرجہ ذیل اشعار خوش الحانی کے ساتھ سنائے بہار آئی ہے اب وقت خنداں میں لگے ہیں پھول میرے بوستان میں ملاحت سے عجب اِس دلستاں میں ہوئے بدنام ہم اس سے جہاں میں عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں جہاں ہم ہو گئے یار جہاں میں ہوا مجھے پر وہ ظاہر میرا ہادی فسيحان الذى اخرى الاعادي اس کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کارکنان صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس میں ہجرت کے غیر معمولی دھکنے کے باوجود سلسلہ کے کام میں غیر معمولی وسعت کا ذکر کر کے بتایا کہ یہعظیم الشان عمارت جس کے بنانے کی ہمیں ربوہ میں توفیق ملی ہے.اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے علیم و قدیر خدا کا یہ منشا ہے کہ جماعت کے وسیع اور عالمگیر مقصد کے پیش نظر ہمیں ہر حال میں اپنے کاموں اور اپنے سامانوں کو وسیع کرتے چلے جانا چاہیئے حتی کہ وہ الہامی بشارت اپنی تکمیل کو پہنچ جائے کہ بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد اس ابتدائی پر وگرام کے بعد حضرت المصلح الموعود (رضی اللہ عنہ نے ایک پر معارف تقریر فرمائی جو ایک گھنٹہ تک جاری رہی.فرمایا :- بایوسیاں اور ناکامیاں ان لوگوں کو زیادہ شاق گزرتی اور انہیں زیادہ صدمہ پہنچانے والی ہوتی ہیں جو کامیابی کے زمانہ میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کبھی مایوسی نہیں آئے گی.اس وجہ
سے ہجرت کا جو صدمہ ہماری جماعت کو پہنچ سکتا تھا اور پہنچا اس میں کوئی دوسری جماعت ہندوستان کی ہو یا پاکستان کی شریک نہیں.اور شریک نہیں ہو سکتی تھی.میری توبہ تو اللہ تعالیٰ نے ۶۱۹۳۲ سے ہی ادھر پھیر دی تھی کہ ہمارے لئے اس قسم کا کوئی صدمہ مقدر ہے.چنانچہ یہ بات میرے ۱۹۳۲ء کے خطبات میں موجود ہے جن میں یہ مضمون بڑے زور سے بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد اس کی تکرار رہی ہے لیکن ہماری جماعت نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی.لیکن یہ نہیں کہتا کہ یہ ان کی کسی غلطی یا کمزور ٹی ایمان کی وجہ سے تھا بلکہ یہ ان کی مضبوطی ایمان کی وجہ سے تھا.ہاں یہ انہی کلاموں کی تشریح میں کوتاہی اور غفلت کا ثبوت ضرور تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں میں یہ بات موجود تھی کہ قادیان ترقی کرے گا ، بڑھے گا ، پھولے گا اور پھلے گا اور احمدیت اس جگہ کہ اسنے ہو گی.اس لئے جماعت احمدیہ جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے الہاموں اور شیگوئیوں پر پورا یقین تھا اس میں شہر کرنے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں تھی اور یہ ماننے پر آمادہ نہیں تھی کہ قادیان سے انہیں ہجرت کرنا پڑے گی.پس ان کا اس بنیاد پر یہ یقین رکھنا کہ چاہے کتنے ہی حوادث ہوں یہ جگہ ہمارے ہاتھ سے نہیں جائے گی ان کے ایمان کا ثبوت ہے لیکن ساتھ ہی اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ الہی کلاموں اور ان کی تشریکوں میں جو کبھی کبھی تعطل واقع ہو جایا کرتا ہے اور کبھی کبھی ان کی تعبیر وقتی طور پر ٹل بھی جایا کر تی ہے.اس کے سمجھنے میں ان کی طرف سے کوتا ہی واقع ہوئی.جن دنوں قادیان پر حملے ہو رہے تھے اور ہم سب دُعاؤں میں مشغول تھے میں ایک دن بہت ہی زور سے دُعا کر رہا تھا کہ مجھے الہام ہوا اينما تكونوا يأت بكم الله جميعا.میں نے اس وقت سمجھ لیا کہ ہمارے لئے عارضی طور پر پراگندگی ضروری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی جاؤ کی کسی دن برکت اور یمین کے ساتھ تم سب کو واپس لے آؤں گا.یہ آیت قرآن کریم میں ہے اور در حقیقت یہ سلمانوں کے ہجرت کے بعد مکہ واپس آنے پر دلالت کرتی ہے اور اس میں دونوں پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں ہجرت کی بھی اور ہجرت کے بعد مکہ واپس آنے کی بھی لینے پہلے ہجرت ہوگی اور پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کامیابی کے ساتھ مگر واپس لائے گا.نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ ہم قادیان واپس جانا چاہتے ہیں اس لئے ہم ہندوستان
114 کے ساتھ سازش کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ حُب الوطنی کے خلاف تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں ان کا یہ اعتراض ایسا ہی بیہودہ اور ناپاک ہے جیسے کوئی کہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کفار مکہ سے سازش کر کے مگر واپس آنا چاہتے تھے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خدا نے کہا تھا کہ میں تمہیں مگر واپس لاؤں گا تو اِس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ تم سازش کے ساتھ یا منت سماجت کر کے اور ذلیل ہو کر جاؤ گے بلکہ یہ کہا تھا کہ تم کامیاب و کامران ہو کر مکہ واپس جاؤ گے.پس اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ واپس جانا آپ کی کامیابی و کامرانی اور عزت کی دلیل ہے تو یہی بات آپ کے خادموں کے لئے بھی عزت اور ان کے مقرب ہونے کی دلیل ہے.خدا تعالیٰ ہمیں اِس طرح قادیان واپس نہیں لے جائے گا کہ ہم دیانت اور امانت اور حب الوطنی کے جذبات کو ترک کر کے وہاں جائیں بلکہ وہ ہمیں اس طرح وہاں لے جائے گا کہ ہم دین اور وطن اور حکومت کے لئے عزت کا موجب ہو کر وہاں جائیں گے.اس قسم کے معترض محض تنگدلی عناد اور تعصب کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں اور ان حقائق کے ماننے سے انکار کرتے ہیں جو ایک دفعہ انہیں کئی دفعہ الہی جماعتوں کے ذریعہ دنیا میں پیش کئے جاچکے ہیں اور جب یہ حقائق کئی وقعها الہی جماعتوں کے ذریعہ دنیا میں پیش کئے جاچکے ہیں تو ان کے بارہ میں دھوکا نہیں کھایا جاسکتا.پس یہ ایک دھکا تھا جو ہماری جماعت کے لئے پہلے سے مقدر تھا.اس وقت جماعت کے بعض لوگ ان لوگوں کو جنہیں میں قادیان سے باہر بھجوا رہا تھا مل کر یہ کہتے تھے یہ تو چند دن کی بات ہے تھوڑے ہی دنوں میں یہ حالت دور ہو جائے گی ورنہ یہ ہونہیں سکتا کہ قادیان ہمارے ہاتھ سے چلا جائے.پھر ان چند دنوں کے لئے اس قدر پریشانی کی کیا ضرورت ہے، قادیان کو چھوڑ کر جانا ایمان کی کمی کی علامت ہے مگر آج یہاں وہ لوگ بھی بیٹھے ہیں جو نظام کے ماتحت قادیان سے باہر آنے والوں پر معترض تھے وہ اُس وقت قادیان سے باہر آنا کئی ایمان کی علامت قرار دیتے تھے اور اب وہ خود بھی یہاں موجود ہیں.گویا جو بات میں نے بتائی تھی وہ صحیح تھی اور جس امر کی طرف ان کا ذہن جا ر ہا تھا وہ غلط تھا.لازمی طور پر وہ لوگ جو آنے والوں کو کہتے تھے کہ تم کہاں جارہے ہو یہ تو چند دن کی پریشانی سے قادیان ہمارے ہاتھ سے نہیں جا سکتا غلطی پر تھے اور ان کی یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں کی تشریح کو نہ سمجھنے او
ان سے اغماض کرنے کی دلیل تھی.اب وہ ان لوگوں کے سامنے یہاں بیٹھے ہیں جنہیں وہ قادیان سے آنے پر سلامت کرتے تھے تو انہیں کس قدر شرم آ رہی ہو گی اور ان کی طبیعت پر یہ بات کسی قدرگراں گذر رہی ہوگی کہ وہ لوگ جنہیں وہ کہتے تھے کہ تم بیوقوف ہو کہ قادیان سے باہر جا رہے ہو اب وہ انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ آپ کہاں آگئے.ہر حال جس طرح یہ صدمہ جماعت احمدیہ کو پہنچا ہند وستان اور پاکستان کی کسی اور جماعت کو نہیں پہنچا.پھر ہم نے یہ تجویز کی کہ ہم ایک نیا مرکز بنائیں.مجھے خدا تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ ہمیں نئے مرکز کی ضرورت ہوگی اور ایک رویا میں مجھے صاف طور پر نظر آیا تھا کہ ہم ایک نئی جگہ پر اپنا مرکز بنا رہے ہیں.اس وقت بھی اسی اثر کے نیچے یہ چہ میگوئیاں شروع ہوئیں کہ ہمیں نئے مرکز کی کیا ضرورت ہے.وہ لوگ ہمارے ساتھ قادیان سے نکل تو آئے تھے لیکن ابھی ان کے اندر یہ خیال باقی تھاکہ یہ چار پانچ ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال کی بات ہے اس کے بعد ہم قادیان واپس پہلے جائیں گے لیکن میرا نقطۂ نگاہ یہ تھا کہ چاہیے چار ماہ کے لئے ہو یا چار دن کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے ایک مرکز قائم کرنا چاہیے.تم ریل کے تین چار گھنٹے کے سفر میں بھی آرام چاہتے ہو اور سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ دین کی اشاعت اور دین کے آرام کا خیال نہ رکھا جائے.اس کے لئے مرکز کی تلاش کیوں نہ کی جائے.ایک پراگندہ جماعت اشاعت دین کا کام نہیں کرسکتی.جو جماعت یہ خیال کرتی ہے که دس بارہ ماہ اشاعت دین کا کام نہ ہوا تو کیا ہوا وہ جماعت جیتنے والی نہیں ہوتی شکست خورد؟ ذہنیت کی مالک ہوتی ہے.کام کرنے والی اور اپنے مقصد کو پورا کرنے والی جماعت وہ ہوتی ہے جو کہتے کہ ہمارا ایک دن بھی ضائع نہیں ہونا چاہئیے.پھر میں نے ان لوگوں کو بتایا کہ دیکھو اتنی بڑی مصیبت ایک دو دن کے لئے نازل نہیں ہوا کرتی یہ ایک وقت چاہتی ہے.جب کبھی خدا تعالیٰ نے کسی مصیبت کو جلدی سے ملا دینا ہو تو وہ اسی نسبت سے مصیبت کو نازل کرتا ہے.دیکھو جب کسی کا باپ مرتا ہے ، ماں مرتی ہے یا کوئی اور رشتہ دار مرتا ہے ، جو خاندان کا نگران ہوتا ہے تو کتنی آفت آجاتی ہے.اب خدا تعالیٰ نے یہ قانون نہیں بنایا کہ کوئی صبح مرسے تو شام کو جی اُٹھے بلکہ اس کا یہ قانون ہے کہ وہ اگلے جہان میں زندگی پاتا ہے اور اس کے وہ رشتہ دار جو اس سے ملنے کی تمنا رکھتے ہیں وہ بھی ایک لیے عرصہ کے بعد وفات پا کہ اس سے ملتے ہیں پہلے نہیں.رسول کریم
119 صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو سات آٹھ سال کے بعد مگر فتح ہوا اور اس کے بعد بھی عضد اتعالے نے ایسے سامان کر دیئے کہ آپ مکہ میں نہیں بسے بلکہ صحابہ نے تو نبوت کے پانچویں سال ہی حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی جس کے معنی یہ تھے کہ وہ ۱۶ سال تک وطن سے الگ رہے پھر کہیں جا کر مکہ فتح ہوا.مگر جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی مدینہ کو ہی اپنا مرکز بنائے رکھا گویا ان کے لئے ہمیشہ کے لئے ہجرت ہو گئی.تو میں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ یہ تین چار ماہ کی بات نہیں اور اگر یہ تین چار ماہ کی بات بھی ہو تب بھی جب تم تھوڑی دیر کے لئے بھی اپنے لئے آرام چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ کے دین اور اشاعت کے لئے سالوں انتظار کیوں کیا جائے بہر حال ایک طبقہ کی مخالفت کے باوجود جماعت نے یہی فیصلہ کیا کہ میری رائے ہی ٹھیک ہے اور ہمیں مرکز بنا نا چاہیئے.چنانچہ یہ جگہ جو میری بعض پرانی خوابوں سے مطابقت رکھتی تھی مرکز کے لئے تجویز کی گئی.جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے تھوڑے ہی ہیں جنہوں نے اس جگہ کو ابتدائی حالت میں دیکھا اکثر نے اسے ابتدائی حالت میں نہیں دیکھا.ابتدائی حالت میں یہاں بسنے والے غالباً ۳۵ آدمی تھے ان کے لئے سڑک کے کنار سے خیمے لگائے گئے تھے جہاں اب بھی بعض کمرے بنے ہوئے ہیں.ان میں ابتداء لنگر بنا تھا اب وہ سٹور کا کام دیتے ہیں.ایک سال کے قریب وہاں گزارا.پھر لاکھوں روپے خرچ کر کے ہم نے عارضی مکان بنائے تا ان میں وہ لوگ بہیں جنہوں نے شہر آباد کرنا ہے.پھر لاکھوں روپے خرچ کر کے یہ بلڈنگ نہیں جو اب تمہیں نظر آتی ہیں.اس عظیم الشان صدمہ کے بعد جماعت نے اتنی جلدی یہ جگہ اس لئے بنائی تاکہ وہ مل کر رہ سکیں.اکٹھے رہ کر مشورے کر سکیں.سکول اور کالج بنائیں تاکہ اُن کی اولاد تعلیم حاصل کرے.اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جن کو اتنا صدمہ نہیں پہنچا ان میں سے کوئی جماعت بھی اپنا مرکز نہیں بنا سکی.بعض معترض کہتے ہیں کہ ہمارا یہاں ایک علیحدہ جگہ لیس جانا ملک سے بیوفائی کی علامت ہے.یہ نہایت ہی احمقانہ خیال ہے کیونکہ ایک قسم کے کام کرنے والوں کے لئے اکٹھا رہنا ضروری ہوتا ہے چاہے وہ محب الوطنی میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے کیوں نہ ہوں.دوسرے شہروں میں جاؤ وہاں تم دیکھو گے کہ تمام نیچہ بند اکٹھے رہتے ہیں.نائی اکٹھے رہتے ہیں.دھوبی اکٹھے رہتے ہیں.موچی اکٹھے رہتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے کام کے سلسلہ میں ایک دوسرے
۱۳۰ کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے.اگر یہ لوگ اکٹھے نہ رہیں تو بہت سی مشکلات کا سامنا ہو مثلاً اگر ایک نائی بیمار ہو جائے اور اس کا قائمقام وہاں موجود نہ ہو تو لوگوں کو کتنی وقت کا سامنا ہو.ایک دھوبی کا مسالہ ختم ہو جائے تو وہ اپنے ساتھیوں سے مانگتا ہے.اگر اس کے قریب دوسرے دھوبی نہ ہوں تو اس کے کام میں روک پیدا ہو جائے.نیچہ بندی کے سلسلہ میں بھی بعض چیزیں ختم ہو جاتی ہیں تو نیچہ بند اپنے ہمسایوں اور اپنے قریب رہنے والوں سے مانگ لیتے ہیں.اگر ایک نیچه بند ایک شہر میں رہتا ہو اور دوسرا دوسرے شہر میں تو وقتی ضرورت کے وقت کیا وہ دوسرے شہروں میں جاکر وہاں کے نیچہ بندوں سے وہ چیزیں مانگے گا.غرض ایک ہی کام کرنے والوں یا ایک ہی قسم کے پیشہ وروں کا اکٹھا رہنا ضروری ہے اور یہ معاشرتی اور اقتصادی حالت کا نتیجہ ہے محب الوطنی کی کمی کا نتیجہ نہیں.کراچی اور لاہور کے شہروں میں دیکھ لو کیا ایک ہی پیشہ والے لوگ اکٹھے نہیں رہتے.ہم تو اب بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جو لوگ مشرقی پنجاب سے آئے ہیں ان میں سے جن کے آپس میں تعلقات تھے انہیں یہاں اگر الگ الگ قصبات بسانے چاہیئے تھے.لیکں نے تو ۱۹۴۷ء میں یہاں تک کہا تھا کہ اردو دانوں کی بھی الگ بستی ہونی چاہئیے تاکہ ان کی زبان خراب نہ ہو.اب اگر میری تجویز کے مطابق اُردو و ان الگ شہر آباد کر لیں تو کیا یہ لوگ کہیں گے کہ ان کا ایسا کرنا حب الوطنی کی کمی کی وجہ سے ہے حالانکہ انہوں نے الگ شہر اس لئے آباد کیا ہوگا تا کہ زبان کی سی قیمتی چیز ضائع نہ ہو حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت میں اُردو زبان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی.اُردو دان پنجابیوں میں بس رہے ہیں اور انکی اولادیں پنجابی زبان سیکھ رہی ہیں ہمارے اپنے رشتہ داروں کی یہی حالت ہے.وہ دہلی میں رہتے تھے تو ان کی زبان ٹکسالی زبان سمجھی جاتی تھی.ان میں کثرت سے ادیب پائے جاتے تھے.وہ ماہرین زبان تھے مگر اب وہ ادھر آگئے ہیں اور ان میں دس میں گھرانے لاہور میں بس گئے ہیں.بعض ! جیل روڈ پر آباد ہیں لبعض شیرانوالہ گیٹ میں ہیں اور بعض میو روڈ پر ہیں یعنی وہ دنش بینس گھرانے بھی لاہور کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں.پنجابی ماحول کی وجہ سے ان کی اولادیں پنجابی زبان سیکھ رہی ہیں.اگر کسی بچے کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے " اناں میرے ڈڈھ وچہ پیٹر ہوندی اسے اور مائیں انہیں پنجابی زبان بولتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتی ہیں اور ہنس کر کہتی
۱۲۱ ہیں کہ دیکھیں یہ بچہ کس طرح آسانی کے ساتھ پنجابی زبان بولتا ہے.گویا خواجہ میر درد کا نواسہ ، مرزا غالب اور مومن خان کا بھانجا میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے، کی بجائے میرے ڈڈھ وچہ پیڑ ہوندی اسے کہتا ہے اور ماں ہنس کر کہتی ہے دیکھیں ہمیں تو پنجابی بولنی نہیں آتی مگر یہ بچہ خوب پنجابی بولی سکتا ہے.پس یکس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ گورنمنٹ تھل کا علاقہ آباد کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیئے کہ مظفر گڑھ کے علاقہ میں چالیس میل کا علاقہ صرف اُردو دانوں کے لئے وقف کر دے تاکہ جو لوگ قربانی کر کے وہاں آباد ہو سکیں آباد ہو جائیں اور اس طرح اُردو زبان محفوظ ہو جائے لیکن شاید وہ اگر دوران مجھ سے زیادہ عقلمند تھے کہ وہ اکٹھے ایک جگہ آباد نہ ہوئے تا کل کوئی معترض یہ نہ کہہ سکے کہ ان کا ایک علاقہ میں آباد ہونا حب الوطنی کے خلاف ہے حالانکہ ایک خاص قسم کی تنظیم اور مقصد کو سامنے رکھنے والے لوگ بالعموم ایک ہی جگہ پر اکٹھے رہتے ہیں اور ان کا ایسا کرنا معاشرتی اور اقتصادی حالت کے نتیجہ میں ہوتا ہے.کوئی جماعت اخلاق کی تعلیم دیتی ہے کوئی جات تصوف کی طرف مائل ہوتی ہے کوئی جماعت احادیث کو رواج دینا چاہتی ہے اور اسے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اکٹھا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً اہلحدیث کی ایک شاخ نے دیوبند آباد کیا تھا.اسی طرح بعض جگہیں دوسرے اہل حدیث نے بنائی ہیں.مثلاً حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی کے مریدوں نے بعض جگہیں بنائی ہیں کیونکہ ان کا اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اکٹھے رہنا ضروری تھا اگر وہ لوگ الگ الگ جگہوں پر پھیلے ہوئے ہوں تو وہ سکول اور کار ہو کس طرح چلا سکتے ہیں.اگر وہ لاہور، گوجرانوالہ گجرات اور لائل پور میں پھیلے ہوئے ہوں اور ان کا کالج لاہور میں ہو تو کیا ان کے لڑکے ان تمام ضلعوں سے لاہور جائیں گے تاکہ وہ اپنے کالج میں تعلیم حاصل کر سکیں یا اگر ایک ہی مقصد رکھنے والے لوگ ضلع لاہور کے مختلف شہروں میں آباد ہوں تو کیا ان کے بچے کسی ایک پرائمری سکول میں اکٹھے ہو سکتے ہیں.اور اگر وہ ایک شہر میں رہتے ہوں تو ان کا کالج چل سکتا ہے.اگر وہ ایک محلہ میں رہتے ہوں تو ان کا پرائمری سکول چل سکتا ہے لیکن اتنی چھوٹی سی بات بھی ہمارے ملک کے بعض افراد کی سمجھ میں نہیں آتی.ہم نے تو اُس وقت شور مچایا تھا کہ امرتسر والوں کو بھی الگ شہر آباد کرنا چاہیئے کیونکہ انہوں نے ایک خاص قسم کا ماحول
بنالیا تھا اور بعض خاص قسم کی تجارتیں اس شہر میں چل رہی تھیں.ہم نے اس وقت یہ کہا تھا کہ جالندھر، پانی پت اور لدھیانہ والوں کو بھی الگ الگ قصبات آباد کرنے چاہئیں تا کہ خاص قسم کی تجارتیں اور صنعتیں جو ان شہروں میں چل رہی تھیں دوبارہ جاری کی جاسکیں.اگر انہیں الگ الگ جگہوں پر بسایا گیا تو وہ مخصوص تجارتیں اور صنعتیں تباہ ہو جائیں گی ہم نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ زبان اگر دو کو زندہ رکھنے کے لئے اس کے بولنے والوں کو ایک علیحدہ علاقہ میں آباد کیا جائے اور پھر جولوگ قربانی کر کے وہاں آباد ہو سکیں آباد ہو جائیں.وہاں وہ اپنے سکول بنائیں کا لج بتائیں تا کہ زبان صاف رہے.یکی نے کہا تھا کہ اس کے لئے چالیس میل کے رقبہ کی ضرورت ہے اس لئے کہ قریب کا علاقہ زبان پر اثر ڈالتا ہے اگر بیچ میں شہر آباد ہوا اور اردگرد بھی اس زبان کے بولنے والے آباد ہوں تو شہر کی زبان محفوظ رہے گی بلکہ ممکن تھا کہ اردگرد کے علاقہ میں بھی اُردو زبان پھیل جاتی اور آہستہ آہستہ اکتالیسویں میل کے علاقہ کے لوگ بھی اُردو بولنے لگ جاتے.پھر بیالیسویں میل کے علاقہ والے بھی اُردو بولنے لگ جاتے.پھر تینتالیسویں میل کے علاقہ والے بھی اردو بولنے لگ جاتے کیونکہ اگر دو ایک علمی زبان ہے اور علمی زبان جلد پھیل جاتی ہے.غرض ہم تو یہ تحریک کر رہے تھے کہ ہر تجارت، صنعت اور پیشہ سے تعلق رکھنے والے لوگ الگ الگ قصبات آباد کریں بلکہ اُردو دان بھی ایک الگ علاقہ میں آباد ہوں مگر الٹا ہم پر یہ الزام لگایا گیا کہ ہم حکومت کے خیر خواہ نہیں اور اس وجہ سے الگ آباد ہونا چاہتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ شہروں کا بسانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا.تخلق بادشاہ نے اپنے نام پر تعلق آبا دبسانا چاہا لیکن باوجود اس کے کہ وہ سارے ہندوستان کا بادشاہ تھا وہ یہ شہر آباد نہ کہ یہ کا.پس نئی جگہوں پر شہر بسانا اور پھر کسی سکیم کے ماتحت شہر بسانا آسان کام نہیں ہوتا.بعض شہر اتفاقی طور پر بن جاتے ہیں لیکن ارادہ کے ساتھ شہر بسانا ہو تو وہ نہیں بستا.لوگوں نے ہزاروں شہر بسائے جن میں سے صرف بیسیوں رہ گئے ہیں باقی سب اُجڑ گئے.صرف بغداد ایسا شہر ہے جیسے مسلمانوں نے ارادہ کے ساتھ بسایا تھا اور وہ بس گیا لیکن جو رونق اس کی پہلے زمانہ میں تھی اب نہیں رہی.کسی زمانہ میں اِس کی آبادی چالیس لاکھ تھی اب دو لاکھ ہے.اسی طرح بعض اور شہر بھی تھے جو بسائے گئے لیکن ان میں سے اکثر اُجڑ گئے اور ان کی جگہ ایسے شہر ترقی کر گئے جو
١٣٣ اقتصادی وجوہ سے یا پبلک میں ایک خاص کو چل جانے کی وجہ سے خود بخود آباد ہو گئے تھے.پیس ہمارا کام ایسا تھا کہ حکومت کو پبلک میں اسے بطور نمونہ پیش کرنا چاہئے تھا اور ہمیں اس کا رنامہ پر شاباش دینی چاہیئے تھی بلکہ چاہیے تھا کہ وہ فخر کرتی کہ اس غریب جماعت نے جو اپنا سب کچھ لٹا کر یہاں آئی تھی ایک الگ شہر آباد کہ لیا.کئی سوسائٹیاں اپنے ارادہ میں ناکام رہیں، اور ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ موقعہ دیا کہ ہم نے با وجود کم مائیگی اور سامان اور ذرائع کے محدود ہونے کے شہر بسا لیا.یہ کتنی بڑی خدمت تھی ملک کی کہ اتنی بڑی تعداد انسانوں کی جو لاہور میں پس رہی تھی ہم نے اسے یہاں آباد کر دیا اور لاہور کی CONGESTION کو دو بہ کر دیا.چھے سات ہزار نفوس کو ہم لاہور سے نکال لائے.آخر شہری طور پر یہ کتنا بڑا فائدہ ہے جو ہم نے لاہور کو پہنچا یا.چاہیے تھا کہ دوسری جماعتیں بھی ہم سے نمونہ لیتیں مگر بجائے اس کے کہ وہ ہماری نقل نہیں قصبات تعمیر کرتے چونکہ وہ یہ کام نہ کر سکے اس لئے انہوں نے ہم پر بغاوت کا الزام لگا دیا اور کہا ر کوہ جو اڑھائی تین میل کا علاقہ ہے اور ہر قسم کے سامانوں سے محروم ہے ملک کے لئے خطر ناک قسم کی سرنگ بن گیا ہے.یہ غلط اور کمزور ذہنیت کا مظاہرہ تھا جو کیا گیا تعلیم یافتہ طبقہ کو چاہیئے تھا کہ وہ ایسے معترضین کو اس بات کی وجہ سے ملامت کرتا اور کہنا کہ تم کیوں بلا وجہ شک کرتے ہو اور تمہیں دھوکہ دیتے ہو.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے ان لوگوں کو ایک ایسے کام کی توفیق دی جو قوم اور ملک کے لئے باعث صد فخر ہے.ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ کام کرنے والوں سے حوصلہ پکڑتی ہیں اور ان سے نمونہ لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہ ملک اور قوم کے لئے ترقی کی ایک صورت پیدا کی گئی ہے لیکن ان معترضین نے یہ نمونہ دکھا کر اور یہ کہ کر کہ اس قصبہ کی وجہ سے ملک کا امن خطرہ میں پڑ گیا ہے ایک خطر ناک کذب سے کام لیا.بہر حال ہم سمجھتے ہیں کہ ہم میں زور نہیں تھا، طاقت نہیں تھی ہم بھی ویسے ہی تھے جیسے ہمارے دوسرے مہاجر بھائی ہیں.ہمار ے سامان بھی کم تھے لیکن اس کے با وجود خدا تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اپنے آپکو دُکھ میں ڈالیں اور یہاں آگر مکان بنائیں اور نہ صرف یہاں مکانات بنائیں بلکہ اپنے چندوں کو بھی قائم رکھیں.ناظر صاحب اعلیٰ نے ایڈریس میں کہا ہے کہ ہمارے چند سے کم ہو گئے ہیں یہ بات درست نہیں ہمارے چند سے کم نہیں ہوئے بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے برابر بڑھ رہے ہیں.اگر قادیان کے چندوں کو بلا لیا جائے جہاں دو اڑھائی لاکھ روپیہ کے قریب سالانہ
حوم ۱۲ جمع ہوتا ہے تو چند سے پہلے سے زیادہ ہیں اور اگر تحریک جدید کے چندوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ اور بھی زیادہ ہو جاتے ہیں.مہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی دی ہوئی نعمت ہے.چاہیے کہ اس پر جماعت کے اندریش کوریہ کا احساس پیدا ہو ہمیں افسوس ہے کہ دوسرے لوگوں نے ہمارے اس کام کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا.اگر وہ ہماری نقل کرتے اور بنیں گاؤں اور آباد کر لیتے تو ہم خوش ہوتے کہ انہوں نے پاکستان کی مضبوطی کا ثبوت دیا ہے اور فاتحانہ سپرٹ کا اظہار کیا ہے لیکن کام کرنے کی بجائے دوسروں پر دباؤ ڈالنا شکست کی علامت ہوتی ہے.یہ ایک قابل فخر کارنامہ تھا کہ جڑ سے ہوئے لوگوں نے ایک شہر بسا لیا اور ہماراملک اس کارنامے پر دوسرے ملکوں میں فخر کر سکتا تھا اور کہ سکتا تھا کہ آؤ دیکھو ہمارے مہاجروں نے کیسا شاندار کارنامہ سر انجام دیا ہے اور ان لوگوں نے مصائب پر ہنسنے کی توفیق پائی ہے.ہر حال جماعت کو چاہیے کہ وہ دعا کر سے کہ ہم جس مقصد کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ اسے پورا کرنے کی توفیق بخشے.ہمارا مقصد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو.اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ وسیلے ہوں.دینی تعلیم حاصل کرنے والے لوگ یہاں جمع ہوں اور وہ یہاں رہ کر دینی تعلیم حاصل کریں.ذکر الہی نماز او روزہ کا چرچا ہو.بڑی رسومات سے بچنے کی توفیق ہے.خدا تعالیٰ ہمیں ان تینوں اورا را دوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے اور ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے.اس شر سے بھی جو ماحول کی وجہ سے پیدا ہو سکتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں نظر بد سے بچائے اور اس شہر سے بھی جو خود ہمارے نفس کے اندر پید اہو سکتا ہے.ہمیں بیرونی نظر بھی نہ لگے اور اندرونی طور پر بھی ہماری اصلاح ہو اور اللہ تعالیٰ ہمیں ان فرائض کو کما حقہ پورا کرنے کی توفیق دے جو ہمارے ذمہ لگائے گئے ہیں اور اسلام اُس وقت ترقی کرے گا جب ہم ان فرائض کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پرینا کئے گئے ہیں اگر ہم ان کے مطابق زندگی بسر نہیں کریں گے تو اسلام ترقی نہیں کر سکتا اور اگر ہم نے اشاعت دین کی طرف توبہ نہ کی تب بھی اسلام ترقی نہیں کر سکتا.پس تم دعائیں کرو.ذکر الہی کرو اور اپنے اعمال کی اصلاح کرو تا خدا تعالی تمہیں اشاعتِ
۱۲۵ دین کی توفیق بخشے جو تمہار سے ذمہ لگائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں حاسدوں کے حسد اور کینہ وروں کے کہنے سے محفوظ رکھے.وہ تمہارا خود حافظ و ناصر ہو اور تمہیں ان دشمنوں سے بھی بچائے جنہیں تم جانتے ہو اور ان دشمنوں سے بھی بچائے جنہیں تم نہیں جانتے ؟ اے اس بصیرت افروز تقریر کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی اور پھر تمام حاضرین مجلس اور کارکنان میں شیرینی تقسیم کی گئی اور یہ خوشکن اور روح پرور تقریب ختم ہوئی متعد د دوستوں نے اس تاریخی تقریب کے فوٹو لئے.غرض خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تقریب نہایت خیر و خوبی اور عمدگی اور ظاہری و باطنی شان کے ساتھ سر انجام پائی.اس تقریب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے جن دوستوں نے سرگرمی سے حصہ لیا ان میں ہر دو عمارتوں کے نگران حضرت خواجہ عبید اللہ صاحب ایس.ڈی.او اور چوہدری عبد اللطیف صاب اوور سیئٹر اور ان کا عملہ بھی شامل تھا.اس تقریب کی خوشی میں ۲۱ نومبر بروز ہفتہ وفاتر میں عام تعطیل کی گئی ہے استید نا حضرت مصلح موعود نے نومبر ۱۹۳۴ء تحریک جدید کے پہلے انیس سالہ دور کا کامیاب اختتام میں تحریک جدید کا آغاز فرمایا.ابتداء یہ تحریک تین سالوں کی تھی پھر وہ دنئی سال تک ممند کی گئی اور پھر اس کے لئے انیس سال کی بعد لگائی گئی جو اللہ تعالے کے فضل سے اس سال اکتوبر ۱۹۵۳ء میں بخیر و خوبی اختتام کو پہنچی اور تحریک جدید کے دور ثانی کے دفتر اول کے سال اول کا آغاز ہوا.سید نا حضرت مصلح موعود نے ۲۷ نومبر ۱۹۵۳ء کے خطبہ میں جو حضور نے مسجد مبارک ربوہ میں ارشاد فرما یا تحریک جدید کے انیس سالہ دور اول کے پورے ہونے اور اس کے دوسرے انیس سالہ دور کے شروع ہونے کا اعلان فرمایا اور اس عالمگیر تبلیغی تحریک میں شرکت کرنے والوں کی نسبت ایک مستقل اور دائمی ہدایت بھی جاری فرمائی جو حضور کے الفاظ میں حسب ذیل تھی :- ویکس نے سوچا ہے کہ اب تحریک جدید کی یہ شکل کر دی جائے کہ ہر دفتر جو بنے گا اس کے دورہ اول اور دور ثانی بنتے چلے بھائیں اور ہر ایک 19 سال کا ہوتا له روزنامه الفضل" دیوه ۲۵ دسمبر ۱۹۵۵ء مث تا حث : که روزنامه المصلح ۲۷ نبوت ۳۳۲اہش / ۲۷ نومبر ۱۹۵۳ء ص :
۱۲۶ نیز فرمایا : " ہر دور کے بعد ایک کتاب لکھی جائے جس میں تمام حصہ لینے والوں کے نام محفوظ کئے جائیں اور اس کتاب کو جماعت کی لائبریریوں اور مساجد میں رکھا جائے تا آئندہ آنے والے اسے پڑھیں اپنی قربانیوں کا اس سے مقابلہ کریں اور دیکھیں کہ انہوں نے کسی روح سے کام کیا ہے " لے حضرت المصلح الموعود کی ہدایت کے ماتحت تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ نے جون ۱۹۵۹ء میں تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین کی مفصل فہرست شائع کر دی جو ۴۸۶ صفحات پر مشتمل اور حضرت چوہدری برکت علی خان صاحب پینشنر وکیل المال تحریک جدید کی ان تھک محنت اور عرق ریزی کا نتیجہ تھی.ر اس فہرست کا دیباچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تحریر فرمایا اور حضرت صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل الاعلیٰ تحریک جدید نے اُس کے ابتدائی حصہ زیر عنوان " تحریک جدید کا سارا مسودہ خود پڑھا منظوری دی اور اس کے اخراجات منظور کرائے میکرم چوہدری عبد الرحیم صاحب چیمہ ہیڈ کلرک نے السابقون الاولون کی اس کتاب کے صحیح اور بر وقت حسابات بنانے میں حضرت چوہدری برکت علی خان صاحب کی مدد کی.بعد ازراں سید منعم الحسن صاحب کلرک وکالت مال نے ہر مجاہد کے بقایا جات کا حساب بنا کر اس کی وصولی کے لئے خاص جد وجہد کی.اس مطبوعہ فہرست کے مطابق تحریک جدید کے انیس سالہ جہاد میں شرکت کرنے والے مجاہدین کی کل تعداد ۵۴۲۲ بنتی ہے.جماعت احمدیہ کے مشہور شاعر جناب عبد المنان صاحب ناہید نے تحریک جدید کے کامیاب و کامران اور مظفر و منصورہ انیس سالہ دور اول کے اختتام پذیر ہونے پر درج ذیل نظم کہی :- دفتر اول کا مجاہد اپنے حضور میں" خدا کی راہ میں مالی جہاد کی تحریک ہے تیرے عزم و فراست کی چمکتی دلیل ہزاروں خشک زمینوں کو کر گیا سیراب یہ قطرہ قطرہ کہ دریا میں ہو گیا تبدیلی زمین کے تیرہ کنارے بھی ہو گئے روشن کہاں کہاں تیری تبلیغ کی گئی قندیل دیار جن میں تھیں رقصاں جری کلیسا کی اذانیں ان کی فضاؤں میں ہو گئیں تحلیل له روزنامه المصلح" کراچی اور دسمبر ۶۱۹۵۳ ص :
مکرم مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب مکرم سیٹھ یوسف الدین صاحب د مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب تقریر فرمارہے ہیں لوائے احمد بیت کا پہرا مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی و مکرم مولوی بشیر احمد صاحب
جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۵۳ء کے چند مناظر
جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کرنے والے پاکستانی قافلہ کا گروپ فوٹو (۲۹ دسمبر ۱۹۵۳ء بمقام قادیان)
۱۲۷ وہاں وہاں ہوئیں آباد مسجدیں اپنی جہاں خدا کا تصور بھی تھا جنوں کی دلیل یہ ان غریبوں کی قربانیوں کا ثمرہ ہے سمجھتے ہیں جنہیں اہلِ جہاں حقیر و ذلیل اگر چہ شاہ بھی آئیں گے فرطِ زر لے کر گرانی ہے اس زیر گوہر پہ یہ متابع قلیل خدا کی راہ میں انیس سالہ جد و جہد خدا کے فضل سے پہنچی یہ پایہ تکمیل وفور شکر سے ناہید بھی ہے سر سجود شریک قافلہ تھا یہ لفضل رب جلیل یہ سال منزل مقصود کا نشاں ہے فقط یہ سنگِ میل نئے عزم کہ گیا تشکیل ترے ایاز ہیں محمود منتظر تیرے اشارہ چاہیے کچھ اور انہیں بیٹے تعمیل لله فصل دوم جال الانه قادریان ۱۳۳۲/۶۱۹۵۳ پیش تحریک احمدیت کے دائمی مرکز قادیان میں اس سال بھی ۲۶ - ۲۷-۲۸ دسمبر / فتح کو جلسہ سالانہ منتقد ہوا جو تقسیم برصغیر کے بعد ساتواں جلسہ تھا.اسی جلسہ کے لئے سیدنا حضرت المصلح الموعود نے بذریعہ تار ایک خصوصی پیغام دیا تھا جو پاکستانی قافلہ کے امیر چوہدری محمد اسد اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء و امیر جماعت احمدیہ لاہور نے اجلاس اوّل میں پڑھ کر سنایا.چوہدری صاحب نے تار کا اُردو ترجمہ کرتے ہوئے فرمایا :- حضرت اقدس نے جو پیغام الہ سال فرمایا ہے وہ اپنے الفاظ کے اعتبار سے بے شک مختصر ہے مگر اپنے معانی اور مفہوم کے لحاظ سے بہت وسیع ہے.حضرت مصلح موعود نے تمام حاضرین له روزنامه المصلح کراچی ۱۳ اگست ۱۳/۶۱۹۵۳ ظهور ۱۳۳۲ ش ص :
۱۲۸ جلسہ کو سلام کیا ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں فرمائی بلکہ اس وقت جلسہ کے اندر جو لوگ موجود ہیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو ہوں یا سکھ ہوں یا عیسائی ہوں سب کو سلامتی کا پیغام دیا ہے اور فرمایا ہے کہ سلامتی ہو خدا کی طرف سے تم سب پر.حضور نے اپنی جماعت کو یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اپنے ارادوں اور امنگوں کو بلند رکھو اور اپنے اخلاق کو ایسے عمدہ نمونہ میں لوگوں کے سامنے پیش کرو کہ وہ تمہارے گرویدہ ہو جائیں.پھر فرمایا ہے کہ تم سب اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھ کر انسان اور انسانیت کے حقوق کے تحفظ کے لئے وہ قربانیاں کرتے چلے جاؤ جو اس کے لئے ضروری ہیں اور تم چونکہ دعوی کرتے ہو کہ ہم دنیا میں امن کے لئے کھڑے کئے گئے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اتنے بڑے اور اہم کام کے لئے اسی نسبت سے قربانیاں بھی کرو اور اپنے اندر خدائی صفات اور خدائی اخلاق پیدا کرو اور اپنے آپ کو اِس رنگ میں ڈھال لو کہ تمہارا چلنا ، تمہارا پھرنا، تمہارا بیٹھنا، تمہارا اُٹھنا، تمہاری حرکت بلکہ تمہارا سکون اور تمہاری خوشی بھی اپنے اندر امن اور محبت کا پیغام رکھتی ہویا ہے اس جلسہ میں مندرجہ ذیل بزرگوں اور فاضل مبلغین نے تقاریر فرمائیں :- (۱) حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ امیر جماعت احمدیہ قادیان (افتتاحی خطاب ) - (۲) صاحبزاده مرز ا وسیم احمد صاحب ( ذکر حبیب) - (۳) مولانا عبد المالک خاں صاحب فاضل مبلغ کراچی (خاتم انبیین کا مفہوم جماعت احمدیہ کے نزدیک ) - (۴) مولانا محمد اسمعیل صاحب دیا لگڑ ھی مبلغ لائلپور ( حضرت مسیح موعود کی پیش گوئیاں ).(۵) مولانا محمد ابراہیم صاحب فاضل قادیانی (ہندوستان میں مسلمانوں کے کارنا ہے).(4) حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری ناظر تعلیم و تربیت قادیان ( ایک مثالی احمدی کا خاکہ).( ) مولانا شریف احمد صاحب امینی (زمن کا شہزادہ) (۸) گیانی مرزا و احمد حسین صاحب مبلغ سلسلہ (مسلمان اور سکھ).(9) چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر ایٹ لاء (۱۰) مولانا غلام احمد صاحب بد و ملهوی ( اسلامی تاریخ کے ناقابل فراموش واقعات ) - (۱۱) مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری ( اسلام میں ایشور بھگتی ).(۱۲) مولانا محمداسمعیل صاب فاضل وکیل یادگیر حیدر آباد دکن (مودودیت)- (۱۳) مولانا محمد سلیم صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ (حضرت لے ہفت روزہ "بدر" قادیان مورخہ ، جنوری ۱۹۵۴ء مٹہ کالم م :
۱۲۹ رسول عربی کا پاک نمونہ) اس جلسہ کا ایک قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گیانی مرزا و احد حسین صاحب نے اپنی تقریر کے بعد بتایا کہ وہ پاکستان سے شری گورو گرنتھ صاحب کے چار نسخے اور ننکانہ صاحب کی خاک (چرن دھوڑ) اور پوتر پانی (امرت) لائے ہیں.پھر انہوں نے امرت کائین با واہرکشن سنگھ صاحب پرنسپل کالج قادیان کو پیش کیا تو معزز سکھ اصحاب نے خوشی سے بے اختیار نعرے بلند کئے اور گیانی را بجے سنگھ صاحب فخر جنرل سیکرٹری سنگھ سمبھا و وائس پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی قادیان نے صد یہ اجلاس (حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری سے اجازت لے کر اپنے جذبات محبت کا اظہار درج ذیل الفاظ میں کیا :- مرزا واحد حسین صاحب گیانی نے اپنے ساتھ شری گورو گرنتھ صاحب کے چار نسخے لا کر اور شیری ننکانہ صاحب سے امرت (پوتر پانی لاکر اور ساتھ ہی شری ننکانہ صاحب کے گوردوارہ کے قدموں کی خاک پاک لا کہ ہم پر جو احسان کیا ہے ہم اس کے لئے گیانی صاحب کے ممنون ہیں اور دلی جذبات سے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں.مرزا واحد حسین صاحب نے رشتہ محبت کو استوار کرنے اور رواداری اور تعلقات کو بڑھانے کے لئے جو نیک کوشش کی ہے ہم دل سے اس کی قدر کرتے ہیں اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارا یہ باہمی رواداری کا جذبہ دن بدن ترقی کرے اور ہمارے تعلقات بہتر ہوتے چلے جائیں.مجھے یہ کہتے ہوئے جھجک محسوس نہیں ہو رہی بلکہ میں انبساط کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ہم جیتنگ جماعت احمدیہ سے دور دورہ رہے اور کبھی بھی ان کے کیریکٹر کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقعہ ہمیں نہ ملا ہمارے دلوں میں احمدی بھائیوں کے خلاف نفرت کے جذبات تھے اور ہم ان لوگوں کے متعلق کئی قسم کی بدگمانیوں میں مبتلا تھے مگر جب ہم نے قریب سے ان کا مطالعہ کیا تو ہم تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ان لوگوں کے اندر محبت، پیار اور اپنائیت کا بہت بڑا جذ بہ موجود ہے اور ہم اس سے پہلے ان کے متعلق جو بد گمانیاں اپنے دلوں میں رکھتے تھے وہ خلاف حقیقت تھیں.یکی محسوس کرتا ہوں کہ ان کا رویہ اور یہ عقیدہ کہ یہ دنیا کے ہر مذہب کے پیشوا اور دنیا کے ہر حصہ میں وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے نبیوں اور اوتاروں کو عقید تا قابل احترام سمجھتے ہیں اور اپنے جلسوں میں
اپنی اس عقیدت کا بر ملا اظہار کرتے رہتے ہیں یہ ان کی ایک بہت بڑی خوبی ہے اور یہ ایسی خوبی ہے جو ان کو دوسرے مذاہب سے قریب کر دیتی ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص میرے باپ کو اپنا باپ کہے تو یکیں اسے اپنا بھائی سمجھنے پر مجبور ہوں گا اور کوئی وجہ نہیں کہ کوئی شخص میرے آقا کو بزرگ کہہ رہا ہو تو یکیں اُس کے آقا کی تو ہین کا خیال کروں.پس میرے بھائیو ! لیکن مرزا و احمد حسین صاحب گیانی کی اِس مہربانی کا جو انہوں نے گاؤں بہ گاؤں پھر کر مشری گورو گرنتھ صاحب کے نسخے تلاش کئے اور پھر اپنے سر پر اٹھا کر ربوہ پہنچائے اور پھر ربوہ سے قادیان لائے اور آج ہمارے حوالہ کر رہے ہیں شکریہ ادا کرتا ہوں.یہ ایک حقیقت ہے کہ مشری گرنتھ صاحب پاکستان میں جب لوگوں کے پاس پڑے تھے گو ان لوگوں نے انہیں سنبھال کر رکھا ہوا تھا مگر ان کی حقیقی عزت وہاں نہیں ہو سکتی تھی.گیانی صاحب نے ان کو حقیقی عزت کی جگہ پر پہنچانے کے لئے بہت محنت اور محبت سے کام لیا ہے میں اس کے لئے پھر اپنی طرف سے اور قادیان کی سیکھ سنگت کی طرف سے ان کا اور احمدیہ جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں.پاکستان سے آنے والے احمدی بھائیوں کے جتھہ کے سالار چوہدری اسد اللہ خان صاحب سے بھی عرض کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کا رویہ اور AT1T42 نہایت عمدہ ہے.آپ بھائیوں نے ہمارے ساتھ محبت اور رواداری کے رشتہ کو استوار کرنے کے لئے جو اقدامات کئے ہیں نہیں انہیں بنتظر تحسین دیکھتا ہوں.اس کے بعد میں قرآن پاک کے دو نسخے جو اس وقت میرے پاس ہیں اور جن میں سے ایک میرے چچا سردار کہ تار سنگھ صاحب کے پاس اور دوسرا نسخہ سردار سوہن سنگھ بھائیر کے پاس بالکل محفوظ حالت میں پڑے تھے اور یہ دونوں آدمی صوفی قسیم کے بزرگ ہیں اور اسی لئے انھوں نے قرآن پاک کے نسخوں کو اتنے سالوں سے سنبھالے رکھا ہے یکیں یہ دونوں نسخے نہایت عزت اور احترام کے ساتھ چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.اس کے علاوہ یکی قادیان کی سیکھ سنگت کی طرف سے مرزا و احمد حسین صاحب گیانی کی خدمت میں شکریہ کے ساتھ بطور سروپا ایک دستانہ اور اکیس دمڑے ( روپے پیش کرتا ہوں یا یہ کہ کر گیانی را به سنگه هاب نجرز نے قرآن کریم کے دونوں ننھے چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کے ہاتھوں میں دیئے اور دستار
اور روپے گیانی و احمد حسین صاحب کو دے دیئے ) گیانی نخر صاحب کے محبت بھرے جذبات کے اظہار کے بعد جناب سردار ہر چرن سنگھ صاحب باجوہ نے بھی اپنے جذبات محبت کا اظہار کیا کہ : یکی رواداری کے اس خوش کن منظر اور اقدام سے بہت خوش ہوا ہوں.مجھے افسوس ہے کہ آج ہم تقسیم ملک کی وجہ سے شری گورو ننکانہ صاحب کے درشنوں سے محروم ہو گئے ہیں حالانکہ یہاں سے دلوں میں ایک تڑپ ہے کہ ہم اس پوتہ اور مقدس جگہ کو بار بار دیکھیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے ہی اعمال کی شامت ہے کہ ہم مشری ننکانہ صاحب کے درشنوں سے محروم ہو گئے ہیں اس لئے میں شہری و انگورو سے پرارتھنا کرتا ہوں کہ ہم سے جو غلطیاں ہوئیں اور گناہ سرزد ہوئے آپ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں اور ہمیں شری ننکانہ صاحب کی زیارت اور یا ترا کرائیں.اس کے بعد میں اپنے ہموطن بھائیوں کی طرف سے جو اس وقت گویا بے وطن ہیں گیانی و احمد حسین صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ! اس کے بعد جماعت احمدیہ کی طرف سے گرنتھ صاحب کے دو نسخے عزت و احترام کے ساتھ پیش کئے گئے بیلے ا جلسہ سالانہ کے سب انتظامات تسلی بخش تھے جو صا حبزادہ مرزہ اوسیم احمد صاحب جلسہ کے دیگر کوائف افسر علیسہ سالانہ کی نگرانی میں سر انجام پائے.آپ کے نائب مولوی برکت علی صاحب اور افسر ضیافت چو ہدری بدر دین صاحب عامل تھے.ہندوستانی مهمان جن میں ریاست کشمیر کے مہمان بھی شامل تھے جلسہ کے انعقاد سے کئی روز بیشتر آنے شروع ہو گئے تھے.پاکستانی قافلہ جس کے امیر جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء لاہور تھے مورخہ ۲۵ دسمبر کو ساڑھے دس بجے شب قادیان وارد ہوا درویشان قادیان اور ہندوستانی مہمانوں نے اس کا استقبال نعرہ ہائے تکبیر، احمدیت زندہ باد، اسلام زندہ باد اور حضرت امیر المومنین زندہ باد کے پر نہ ور نعروں سے کیا.پاکستانی زائرین جن میں علاوہ درویشوں کے لواحقین کے جماعت ہائے پاکستان کے بعض معزز اراکین اور مرکزی اداروں کے بعض کارکنان بھی شامل تھے کی تعداد ایک سو اسی تھی کہ ان کے علاوہ لے ہفت روزه بلد قادیان ، جنوری ۶۱۹۵۴ م که فرست قافله پاکستان روزنامه المصلح ، کراچی + ۱۹ر دسمبر ۱۹۵۳ ء میں شائع شدہ ہے اور ضمیمہ کتاب میں بھی منسلک ہے :
۱۳۲ سات افراد موٹروں کے ڈرائیور و معاون وغیرہ تھے.ہندوستانی احباب کی تعداد دو صد کے قریب تھی.قادیان پہنچنے پر لالہ لیکھراج صاحب گاندھی ڈی.ایس پی بٹالہ نے سرکارہ کی طرف سے قافلہ کا استقبال کیا اس کے بعد بھی آپ انسپکٹر صاحب پولیس اور مقامی انچارج صاحب پولیس ملک چندر بھان صاحب کی امدا د سے جلسہ کے ایام میں ہر طرح سے حفاظتی انتظامات کی دیکھ بھال کرتے رہے جلسہ کی تاریخوں میں جملہ انتظامات کی نگرانی کے لئے بخش سیتا رام صاحب تحصیلدار بٹالہ میٹر سوشیل کمار صاحب جینی مجسٹریٹ درجہ اول بٹالہ اور مسٹر آر.ڈی طہوترہ صاحب ریزیڈنٹ میجسٹریٹ بٹالہ علی الترتیب ۲۶-۲۷ اور ۲۸ دسمبر کو تشریف لائے اور تقاریر بھی سکتے رہے.لہوترہ صاحب نے جلسہ سننے کے بعد قرآن کریم کا ایک مبارک نسخہ بغرض مطالعہ بھی طلب فرمایا جو اُن کو پیش کر دیا گیا.مورخہ ۲۸ دسمبر کو جناب سردار گور بچن سنگھ صاحب با جوه و زیر پبلک ورکس حکومت پنجاب جن کی خدمت میں جلسہ میں شمولیت کے لئے نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے دعوت نامہ بھجوایا گیا تھا.چندی گڑھ راجد معانی سے تشریف لائے اور پون گھنٹہ تک پہلے اجلاس میں شامل ہو کہ تقاریر سنتے رہے.جناب باجوہ صاحب کا استقبال جماعت کی طرف سے جناب مولوی برکات احمد صاحب را جیکی ناظر امور عامہ اور جناب شیخ عبدالحمید صاحب عاجز ناظر بیت المال نے کیا.باجوہ صاحب نے پاکستانی قافلہ کے امیر جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب سے بھی ملاقات کی اور اس روحانی تقریب کے متعلق تبادلہ خیالات کرتے اور حالات سُنتے رہے.قادیان اور دوسرے مقامات کے ہند و اسکھ اور عیسائی معززین کثرت کے ساتھ اجلاسات میں شامل ہو کر تقاریر کو شوق اور توجہ سے سنتے رہے.غیر مسلم سامعین کی تعداد دوسرے اور تیسرے دن ہر اجلاس میں ڈیڑھ ہزار کے قریب رہی جن میں کالج کے طلباء اور پروفیسر صاحبان ، سکولوں کے اساتذہ ، بعض قومی لیڈران اور ہر طبقہ کے معززین شامل تھے.اور کئی غیر مسلم دوست جلسہ میں شمولیت کے لئے دہلی لکھنو اور کلکتہ وغیرہ سے بھی آئے تھے مورخہ ۲۷ دسمبر کو جناب با و اہرکشن سنگھ صاحب پرنسپل سکھ نیشنل کالج قادیان بھی جلسہ میں شامل ہوئے اور تنکانہ صاحب کا کل حاصل کیا.مورخہ ۲۷ کو جناب پنڈت موہن لال صاحب ایڈووکیٹ بٹالہ ممبر ہی لیٹو کونسل پنجاب اور جناب چوہدری بشیر الدین صاحب دھار یوال ممبر کو نسل نے بھی جلسہ میں شمولیت کی.بڑی دلچسپی سے تقاریر کو شنا اور بعد میں اس بات کا مسرت سے اظہار کیا کہ موجودہ مادیت کے زمانہ میں ایسی تقاریرہ کی بہت ضرورت ہے
سم سوا اور احمدیہ جماعت ہی اس وقت سطح زمین پر ایک واحد جماعت ہے جو خدا اور روحانیت کی تعلیم کو تازہ رنگ میں پیش کر کے لوگوں کے زنگ صاف کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے.جلسہ میں اردو پر یس کے دو نمائندے شامل ہوئے اور ساتھ ساتھ خبریں بھیجواتے رہے.مورخہ ۲۶ دسمبر کو احمدیہ انٹر نیشنل پریس کراچی کے ڈائرکٹر مسٹر تاثیر احمدی بھی شامل جلسہ ہوئے.جلسہ گاہ اور اس کے باہر تبلیغی لٹریچر تقسیم کرنے کا کام مکرم میاں اللہ دین صاحب انچا رج دفتر زائرین کے سپرد تھا جو اپنے معاوین کی مدد سے یہ کام سر انجام دیتے رہے.اس مبارک موقعہ پر افضلہ تعالیٰ دو ہزار کے قریب ٹریکٹ اُردو، انگریزی، ہندی اور گور رکھی زبان میں تقسیم کئے گئے سب لوگوں نے خوشی سے لڑ پر قبول کیا اور تو جہ سے پڑھنے کا وعدہ کیا.مورخه ۲۹ دسمبر کو جناب سردار گور دیال سنگھ صاحب باجوہ نے حضرت صاجزادہ مرزا عزیز احمدصاحب ایم.اے کے اعزاز میں اپنی کو بھٹی میں دعوت چائے دی.اس موقعہ پر سردار صاحب حضرت صاجزادہ صاحب کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کی یاد میں نجی امور کے متعلق محبت بھری باتیں کرتے رہے.اس دعوت میں جناب ناظر صاحب امور خامہ قادیان اور بعض دوسر سے احباب بھی شریک ہوئے.مورخه ۱۲۹ د یگر کو سر دارست نام سنگه صاحب با جوه میونسپل کمشنر قادیان اور سردار آنها سنگھ صاحب نے جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا عز بینہ احمد صاحب کے اعزاز میں اپنی کو ٹھی میں دعوت چائے دی.اس موقع پر بہت سے پاکستانی اور ہندوستانی احباب بھی مدعو تھے جن میں جناب مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت قادیان - جناب مولوی برکات احمد صاحب را جیکی ناظرا مور عامه قادیان- مکریم چوہدری بشیر احمد صاحب امیر جماعت دانه زید کا مکرم گیانی و احمد حسین صاحب مبلغ سلسلہ اور مکرم چوہدری سعید احمد صاحب بی.اسے محاسب صدر انجمن احمدیہ و غیر هم شامل تھے.اس تقریب میں علاوہ محبت و پیار کی متفرق باتوں کے مگریم گیانی صاحب نے حضرت بابا نانک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی سیرت پر بہت عمدہ روشنی ڈالی اور حاضرین کو اس خدا یاد بزرگ کا کلام سنا کر محفوظ کیا.دعوت کے اختتام پر چوہدری صاحب نے سردار صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اپنے اُن مراسم اور تعلقات کا جو ان کو باجرہ قوم سے ہیں ذکر فرمایا.سرد است نام سنگھ صاحب نے بھی اسی قسم کے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا.اس موقعہ پر جناب سردار سنتوک سنگھ صاحب ہیڈ ماسٹر خالصہ ہائی سکول قادیان نے
۱۳۴ بہت ہی درد اور رقت سے بریز تقریر کی جس میں اپنے وطن اور اہالیانِ وطن سے بعد ائی پر غم و اندوہ اور رکھ اور درد کا اظہار کیا اور دوبارہ تعلقات اور مراسم کے قائم ہونے کے متعلق تمنا ظاہر کی.اس تعلق میں سردار ہربنس سنگھ صاحب ساہی آف ڈسکہ حال مقیم دوسوسہ ضلع ہوشیار پور کا ذکر کہ دینا ضروری ہے جو دور سے محض جلسہ سننے اور جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب جو ان کے ہم قوم اور ہموطن ہیں سے ملاقات کرنے کے لئے قادیان آئے.انہوں نے چوہدری صاحب اور ان کے بعض لواحقین کے طعام کے اخراجات امسال بھی اور گذشتہ سال بھی خود ادا کر کے اپنی محبت اور یگانگت کا ثبوت دیا.پاکستانی قافلہ کے احباب نے مورخہ ۲۹ دسمبر کو قادیان کے بیرونی محلہ جات کی مجملہ مساجد قافلہ کی واپسی کی در میں خاص پر اور کی زیارت کی اور مسجد نور یں جو خاص طور پر تاریخی اور مذہبی تقدس کی حامل ہے نوافل اور ا گئے.مورخہ سر دسمبر کو دنیا بجے قبل دو پر پاکستانی قافلہ واپس روانہ ہوگیا.بوقت روانگی نعرہ ہائے تکبیر اور احمدیت اور اسلام زندہ باد کے نعرے بلند کئے گئے.بھارتی پولیس میں جلسہ کا ذکر بھارتی پریس نے اس ملک کی خبریں اور وشائع کئے اور نوٹ دئے اور احمدیوں کی رواداری اور بلند اخلاقی کی تعریف کی.اس سلسلہ میں بطور نمونہ صرف دو نوٹ درج کئے جاتے ہیں :.ا.سکھوں کے مشہور اخبار روز نامہ اجیت (جالندھرم نے اپنی ۳۱ دسمبر ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں لکھا:.در قادیان ۲۹ دسمبر احمدیہ جماعت قادیان کا ۶۲ واں سالانہ جلسہ قاریان میں ہو رہا ہے.اس جلسہ کے دوسرے دن اس میں شمولیت کے لئے علاوہ ہندوستانی احمدیوں کے جو ہندوستان کے مختلف علاقوں اور صوبوں سے اپنے مذہبی مرکز میں جمع ہوئے تقریباً دو صد پاکستانی احمدی بھی چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء برا در چوہدری محمد ظفر اللہ خان کی قیادت میں جلسہ میں شریک ہوئے.آج دوسرے دن کے اجلاس میں مرزا واجد حسین (صاحب) مبلغ جماعت احمدیہ نے اعلان کیا کہ وہ اپنے ساتھ شری گورو گرنتھ صاحب کی بیڑیں ، ننکانہ صاحب کا پوتر قبل اور ننکانہ صاحب کی چون دھوڑ لائے ہیں تا کہ اپنے سکھ بھائیوں کو بھینٹ کریں.چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر کے بعد سب سے پہلے باوا ہر کشن سنگھ پر نسپل سیکھ نیشنل کالج کی خدمت میں جگن کا کنستر جس پر سردار ہزارہ سنگھے صاحب گرنتھی ننکانہ صاحب کی چٹھی کا لیبل چسپاں تھا پیش کیا اس کے بعد کا نہ صحاب
۱۳۵ کی چون دھوڑی پیش کی.ازاں بعد قادیان کی گوردوارہ شہید گنج سبھا کی طرف سے قرآن شریف کے دو نسخے چوہدری اسد اللہ خان صاحب کی خدمت میں پیش کئے گئے اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب نے دو بیٹریں شری گورو گرنتھ صاحب کی گیانی را بھ سنگھ فخر جنرل سیکرٹری گوردوارہ سنگھ سبھا قادیان کو پیش کیں.اس موقعہ پر سردار ہر چرن سنگھ باجوہ نے مختصر الفاظ میں احمدیوں کی رواداری اور محبت و پریم کا ذکر کیا اور میری ننکانہ صاحب کے متعلق عقیدت اور محبت کے جذبات کا اظہار کیا.گیانی لابد سنگھ فخر نے اس موقعہ پر اپنی تقریر میں کہا کہ شروع شروع الحمدية میں ہمیں احمدیہ جماعت کے اخلاق اور عادتوں کا علم نہ تھا بلکہ ہمیں اس جماعت کے متعلق اندھیرے میں رکھا گیا تھا اور غلط فہمی ڈال کر ہمارے درمیان دشمنی ڈالی گئی تھی لیکن اب ہم نے احمدی دوستوں کو قریب سے دیکھ لیا ہے اور ان کی عادات اور اچھے اخلاق سے بخوبی واقف ہو گئے ہیں.جو محبت اور پریم اس جماعت نے قادیان اور دوسرے علاقوں میں سکھ بھائیوں کے ساتھ کی ہے وہ قابل قدر ہے اور ہم اس کو کبھی نہیں بھلا سکتے.اس سے پہلے بھی احمدیوں کی طرف سے پچھلے سال دو بیٹریں شری گورو گرنتھ صاحب کی پیش کی جاچکی ہیں اِس سال پھر انہوں نے یہ عمدہ نمونہ پیش کیا ہے.مرزا واحمد حسین نے یہ بھی بتایا ہے کہ انہوں نے بڑی کوشش اور شکل سے اور بھی بہت سی بیڑیں جمع کی ہیں جن کے بھیجوانے کا وہ بخوشی انتظام کریں گے اگر جماعت ! کے خلیفہ صاحب سے درخواست کریں.ہم احمدیہ جماعت کے بہت ہی شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمارے پوتر استھان کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے سامان کئے ہیں اور اپنی محبت اور پر یم اور رواداری کا ثبوت دیا ہے اور اپنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کیا ہے.اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کی طرف سے تکبیر کے نعرے اور سکھوں کی طرف سے ست سری اکال کے نعرے بلند کئے گئے.جلسہ میں مرزا و احد حسین گیانی نے سیکھوں اور مسلمانوں کے تعلقات پر بہت دلچسپ تقریر کی جو پنجابی زبان میں تھی.اس تقریر میں جابجا گورو گرنتھ صاحب کے شہر پڑھ کر انہوں نے حاضرین کو خوش کیا ہے ه روزنامه اجیت جالندھر مورخه ۳۱ دسمبر ۱۹۵۳ بحواله هفت روز ها بدر، قادیان ، جنوری ۱۹۵۴ ص و
- اخبار ٹریبیون (انبالہ) نے جنوری ۱۹۵۴ء کے پرچہ میں جلسہ کی مفصل خبر دی جس کا اُردو ترجمہ حسب ذیل ہے :- " خلیفہ اسیح کا پیغام خدا تعالیٰ نے احمدیوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو بد امنی اور فساد و بے اطمینانی سے نجات دیں ؟ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو ا حمدیہ جماعت کے روحانی پیشوا ہیں کا پاکستان سے مرسلہ پیغام جماعت احمدیہ قادیان کے باسٹھویں سالانہ جلسہ میں پڑھ کر سنایا گیا.اس میں انہوں نے اپنے ماننے والوں کو نصیحت کی کہ وہ ہر قسم کی تکالیف و مصائب کے با وجود اپنی انگوں اور حوصلوں کو قائم رکھیں اور اپنی تمام طاقتوں کو انسانیت کی خدمت اور تحفظ کے لئے لگائیں.اس پیغام میں یہ کہا گیا کہ خدا تعالیٰ نے احمدیہ جماعت کو اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ موجودہ دنیا کوہ بد امنی افساد اور بے اطمینانی سے نجات دلائے اور ایک ایسا نظام قائم کر سے جس کی بنیاد اخوت اور مساوات پر ہونیز اس بات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ احمدی جماعت پہلے سے ہی اس مرض کیلئے تمام قوموں کے پیش کرو کی طرح کام کر رہی ہے.پیغام کے آخر میں تمام احمدیوں کو تو بقیہ دلائی گئی کہ وہ اپنے آپ کو بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے منظم کریں.لبر ہندوستان کے مختلف علاقوں کے دو صد سے زائد احمدی جلسہ میں شریک ہوئے جن ہیں ساٹھ کے قریب ریاست جموں اور کشمیر کے رہنے والے تھے.اس کے علاوہ ایک سوستناسی زائرین چوہدری اسد اللہ خان صاحب برا در سر محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان کی قیادت میں پاکستان سے آئے.ان میں مولوی عبد المالک خان صاحب ( مولانا محمد علی و مولانا شوکت علی صاحبان کے بھتیجے ) صاحبزادہ مرز اعزیز احمد صاحب ایمیم.اسے حضرت امام جماعت احمدیہ کے بھتیجے اور مولوی ابو العطاء صاحب سابق مبلغ مصر اور فلسطین شامل تھے.احمدیوں کے علاوہ تقریباً ایک ہزار ہندو اور سکھ قادیان اور اردگرد کے علاقوں سے جلسہ میں شامل ہوئے.سرکاری افسران نہیں سے جنہوں نے جلسہ سُنا اور اس موقعہ پر ضروری انتظامات کئے
مسٹرالیں.کے جینی صاحب مجسٹریٹ درجہ اول ، مسٹر لیکھراج صاحب ڈی ایس پی نجیشی سیتا رام صاحب تحصیلدار تھے.جلسہ کے آخری دن جناب سردار گوریچن سنگھ صاحب با جوه و زیر پبلک ورکس حکومت پنجاب ہمرا ہی مسٹر آہ.ڈی ملہوترہ صاحب ریڈیڈ نٹ مجسٹریٹ بٹالہ جلسہ میں شریک ہوئے اور پاکستانی قافلہ کے امیر چوہدری اسد اللہ خان صاحب سے بھی ملاقات کی یا لے ۱۳۳۲/۶۱۹۵۳اہش کا آغاز جایا ل نہ رہو اور حضرت مصلح موعود کی معرکہ آرا قاری اگر ان پر پرسکون ماحول میں ہوا مگر حضرت مصلح موعود نے اِس سال کے پہلے خطبہ جمعہ میں ہی جماعت کو خبر دار کر دیا تھا کہ مخالفت کی پہلی کرو تو کمزور پڑ گئی ہے مگر ابھی اس کی کئی کھڑکیاں گھلی ہیں.دشمن کے کئی حملے ہیں جو باقی ہیں اور آئندہ رو نیت میں ترقی اور اصلاح کے لئے تھپیڑوں کی ضرورت ہے.حضور نے نئے سال کے شروع میں سات روزے رکھنے اور یہ دعا کرنے کی تحریک فرمائی کہ خدا تعالیٰ جماعت کو ان فتنوں کے ضرر سے بچائے رکھے اور اس کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور یا ظالموں کے ہاتھ کہ روک لے یا ہمیں اس صبر کی توفیق بخشے جو مومن کا حصہ ہوتا ہے اور ہماری کوششوں کے وہ ثمرات پیدا کرے جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں یا تے ان سب دعاؤں اور مجاہدات کی قبولیت کا اعجازی نشان ۱۹۵۳ء کا جلسہ سالانہ ریوہ تھا جو طوفان مخالفت کے زبر دست تھیڑوں کے بعد آیا مگر ایک غیر معمولی ابتلاء کے باوجود شبیع احمدیت کے پروانے پہلے سے زیادہ جوش و خروش اور ذوق دولولہ کے ساتھ اس مقدس اجتماع میں جمع ہوئے جو حسب دستورہ ۲۶ ۲۷) ۲۸ دسمبر / فتح کو منعقد ہوا اس تاریخی جلسہ میں سلسلہ احمدیہ کے نامور بزرگوں اور فاضل علماء کی پر از معلومات تقاریر کے علاوہ حضرت المصلح الموعود نے تین بار خطاب فرمایا.افتتاحی خطاب حضور نے اپنی ایمان افرو ر افتتاحی تقریر میں فرمایا :- رو یہ عظیم الشان موقعہ جو اِس وقت ہمیں حاصل ہے اجتماعی رنگ میں دنیا میں کیسی اور کو میسر نہیں.انفرادی طور پر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کے ذکر کو بلند کرنے کی لے ہفت روزہ "بدلہ قادیان مورخه ، جنوری ۶۱۹۵۲ ص۱۲ + که روزنامه الفضل لاہور ۲۲ جنوری ۱۹۵۳ م کالم ۳۰ :
۱۳۸ مثالیں تو ہر جگہ مل جاتی ہیں مگر اتنی کثرت کے ساتھ جماعتی رنگ میں محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور اسلام کے نام کو بلند کرنے کے لئے جمع ہونے کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی پس اس خصوصیت کو قائم رکھو اور اپنے وجودوں کو دنیا سے قطع تعلق کر کے اتنا ہلکا بنالو کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے تمہیں آسانی کے ساتھ بلند سے بلند تر مقام تک لے جاسکیں اس موقعہ سے فائدہ اُٹھاؤ.اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ اللہ تعالٰیٰ کی طرف راغب کرنے اور اپنے قلوب کو اس کے ذکر کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرو تا اس کا قرب اور اس کی رضا حاصل ہو.نیز فرمایا اسلام کے لئے یہ ایک نازک موقعہ ہے.چاروں طرف سے اسلام پر یورکش ہو رہی ہے اور اسلام کے مورچے پر سوائے چند احمدی مبلغین کے اور کوئی بھی نہیں ہے.آپ لوگ جو یہاں جمع ہیں آپ کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے فوج کے لئے اسلحہ کے کارخانے کی ہوتی ہے.جس طرح اگر فوج کے لئے اسلحہ مہیا نہ کیا جائے تو وہ بے کار ہو کر رہ جاتی ہے اسی طرح اگر آپ اپنے مبلغین کی مدد نہ کریں گے تو ان کی زندگیاں بے کار ہو جائیں گی.ان میں سے ایک ایک لاکھوں آدمیوں کا کام کر رہا ہے.سامان جو ہم نے ان کے لئے بہم پہنچایا ہے وہ پہلے ہی نہایت قلیل ہے.آخر میں حضور نے فرمایا.اب میں دعا کے ساتھ جلسے کا آغاز کرتا ہوں دوست بھی میرے ساتھ مل کر دعا کریں اپنے لئے بھی اور باقی دوستوں کے لئے بھی ان کے لئے بھی جو یہاں آئے ہیں اور ان کے لئے بھی جو یہاں نہیں آئے یا نہیں آسکتے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے، ہمیں اپنی حفاظت میں رکھے.ہمارا اوارث اورنگستان سوائے اللہ تعالٰی کے اور کوئی نہیں.دنیا میں کوئی قوم انني لا وارث نہیں ہے جتنی کہ ہم ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں جو گپشت پناہ حاصل ہے ریعش اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور مدد ) وہ بھی کسی اور قوم کو حاصل نہیں.ہماری مثال اس بچے کی ہے جسے جنگل میں چھوڑ دیا گیا ہو اور اس کے ہر طرف بھیڑیئے ، سانپ ، اور دیگر اسی قسم کے جانور ہوں مگر اس بچے کی حفاظت کے لئے شیروں نے اس کے اردگر دیگھیرا ڈال رکھا ہو.پس گو ہم کمزور ہیں اور نہایت ہی کمزور ہیں مگر ہمیں زمین و آسمان کے خدا کی حفاظت حاصل ہے بشرطیکہ ہم اپنے تئیں اس کے اہل ثابت کریں " لے له ملخص از روزنامه المصلح کراچی یکم جنوری ۶۱۹۵۴ سر یکم مصلح ۱۳۳۳ پیش ماده
۱۳۹ دوسرے دن ( ۲۷ دسمبر / فتح ) کی تقریر کے شروع میں حضور دوسرے دن کی بصیرت افروز تقریر نے احمدی مردوں اور عورتوں دونوں کو ارشاد فرمایا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے کاروبار ملازمت اور روزگار کے کام کے علاوہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے کچھ زائد آمد پیدا کر نیکی کوشش کرے اور یہ نہ ائد آمدنی اگر غریب ہو تو اس کا ایک حصہ اور امیر ہونے کی صورت میں ساری کی ساری سلسلہ کو بطور چندہ پیش کر دیے.ازاں بعد حضور نے ربوہ کی زمین اور طریق ملاقات کے بارے میں بعض ہدایات دینے کے بعد عالم اسلام کی دردناک صورت حال کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا :- اس وقت عالم اسلام نہایت نازک دور میں سے گزر رہا ہے.گزشتہ تین سو سال میں مسلمانوں کی حالت یہ رہی ہے کہ وہ تیزی کے ساتھ نیچے گر رہے تھے لیکن انہیں اپنے اس تنزل کا احساس زیادہ نہیں تھا بلکہ وہ ایک دوسرے کو گرانے میں بھی لذت محسوس کرتے تھے.درد اور تکلیف تو ہوتی تھی مگر اس کا احساس کم تھا.اس کے بعد یہ دور آیا کہ مسلمانوں کو اپنے تنزل اور رفتہ عالی کا احساس ہوا اور ترقی کرنے کا جذبہ پیدا ہوا اس جذبے کے تحت انہوں نے جد وجہد شروع کی.کچھ دشمن طاقتوں کے اختلاف اور کچھ اپنے اس جذبہ کی وجہ سے مختلف ممالک میں وہ آزاد تو ہو گئے لیکن آزاد ہو جانے کے باوجود اب تک ان کے باہمی اختلافات دور نہیں ہوئے اور یہ نہایت خطرناک امر ہے.اس لحاظ سے یہ دور پہلے دور سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ پہلے تو انہیں اپنی حالت کا علم نہ تھا اس لئے وہ اصلاح سے غافل تھے لیکن اب اپنی حالت کو محسوس کرنے کے باوجود وہ اپنی اصلاح پر قادر نہیں ہو رہے.پھر ان کی مشکلات کچھ اس نوعیت کی ہیں کہ ان کو حل کرنے کی جو راہ بھی تجویز کی جائے وہ خطرات سے خالی نہیں.مثلاً مصر میں سویزہ کا جھگڑا ہے.انگریز وہاں اس لئے رہنا چاہتا ہے کہ مشرق وسطی میں روس کے حملہ کا دفاع کیا جاسکے.اگر یہ دفاع کمزور ہو جائے تو روس اپنے ارادہ میں کامیاب ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں کمیونزم وہاں پر پھیلے گا اور ایک مسلمان طبعی طور پر چو نکہ کمیونزم کا مخالف ہے اس لئے وہ کبھی اس کو پسند نہیں کرے گا لیکن دوسری طرف اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر مسلمان مصر کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے.اگر غیر ملکی فوجیں موجود رہیں تو ملکی آزادی کبھی قائم نہیں رہ سکتی.پس سویز کے مسئلہ میں ایک طرف روس کا کمیونزم نظر آرہا ہے دوسری طرف مصر کی آزادی خطرہ میں پڑتی ہوئی نظر
۱۴۰ آتی ہے.گویا مصر کے لئے دونوں طرف ہی بلائیں ہیں.راسی طرح فلسطین کا جھگڑا ہے.یہ سویز سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ فلسطین مدفن رسول (صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت قریب ہے اور فلسطین کی بد نخبت حکومت کسی وقت بھی اپنی بدنیتی سے ارض پاک کے لئے خطرہ پیدا کر سکتی ہے اور یہود چونکہ مالدار قوم ہے اس لئے بڑی طاقتیں غلاموں کی طرح اس کی تائید کرتی ہوئی نظر آتی ہیں.قرآن مجید کرتا ہے کہ یہو دمسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں لیکن افسوس کہ مسلمان پھر بھی غافل ہیں.اسلامی ممالک میں ان کے مقابلہ کے لئے کوئی ایک جہتی موجود نہیں.وہ کسی موقعہ پر بھی اکٹھے ہو کر نہیں لڑے.اگر ایک عرب حکومت کی سرحد پر یہود نے حملہ کیا تو باقی اسلامی حکومتوں نے محض قرار داد پاس کرنے کو ہی کافی سمجھا حالانکہ چاہئیے یہ تھا کہ وہ اس حملہ کو خود اپنے اوپر حملہ تصور کرتے اور متحد ہو کر ان کا مقابلہ کرتے.پس فلسطین کا معاملہ بھی نہایت تکلیف دہ معاملہ بن چکا ہے.اسی طرح لیبیا سے برطانیہ نے جو معاہدہ کیا ہے یا عراق کی مالی حالت کا جس طرح برطانیہ پر انحصار ہے اور ایہ ان میں تیل کے سوال نے جو صورت اختیار کی ہے یہ سب ایسے امور ہیں جو دو گونہ مصیبت نظر آتے ہیں اور بظاہر ان کے حل کی کوئی محفوظ صورت نظر نہیں آتی.انڈونیشیا کا ملک اپنی جائے وقوع اور اہمیت کے لحاظ سے مسلمانوں کا ایک بڑا بھاری مورچہ ہے وہاں پر مذہبی تعصب بھی بہت کم ہے لیکن افسوس کہ یہ ملک بھی خانہ جنگی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی طاقت کو کمزور رہ کر رہا ہے.قریباً یہی حالت پاکستان کی ہے یہاں علاوہ دیگر امور کے اقتصادی مسئلہ بھی بہت نازک صورت اختیار کر گیا ہے.ہمارے ملک کی اقتصادی حالت اتنی خراب ہے کہ اس کی اصلاح کیلئے بہت بڑی اجتماعی قربانی کی ضرورت ہے.جب تک ہم ملکی مصنوعات کو یا نیم ملکی مصنوعات کو تکلیف اُٹھا کر بھی رائج نہ کریں گے اس وقت تک ہماری اقتصادی حالت سدھر نہیں سکتی.دوسرے ملکوں میں جب مصیبت آئے تو سب لوگ اجتماعی طور پر قربانی کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں عوام کو اس مصیبت کا احساس تک نہیں وہ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم وہی کھائیں گے جو پہلے کھایا
۱۴۱ فرمایا : کرتے تھے اور وہی پہنیں گے جو پہلے پہنتے تھے.ادھر سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی تذلیل کے لئے ایسے وعدے کر لیا کرتی ہیں جو پورے نہیں کئے جاسکتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام غلط امیدیں قائم کر لیتے ہیں اور کوئی مستحکم حکومت قائم نہیں ہو سکتی.سب سے بڑا سبب کمزوری کا وسیع پیمانے پر بری باتوں کی اشاعت اور ہر نقص اور کمزوری کا الزام حکومت کو دینے کی عادت ہے.اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر زید چوری کرے تو کہو کہ نہ یہ نے چوری کی بلکہ سرعام ایسا کہنے پر بھی اسلام پابندیاں لگاتا ہے مگر ہماری یہ حالت ہے کہ اگر ایک شخص رشوت لیتا ہے تو بد نام پورے ملک کو کیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب نوجوانوں کے کانوں میں بار بارہ یہ پڑتا ہے کہ فلاں وزیر بھی بے ایمان ہے.فلاں افسر بھی بے ایمان ہے تو وہ کہتا ہے که اگر باقی سب ایسا کرتے ہیں تو یکیں کیوں نہ ایسا کروں چنانچہ وہ بھی انہی عیوب میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس طرح قومی اخلاق تباہ ہو رہے ہیں ؟ اے حضور نے یہ تلخ حقائق بیان کرنے کے بعد جماعت احمدیہ کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائی چنانچہ یہ تمام امور بتاتے ہیں کہ مسلمان اس وقت ایک نہایت خطرناک دور میں سے گزر رہے ہیں ایسا خطر ناک کہ اس کا احساس کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن ان امور کو حل کرنا بظا ہر ہمارے اختیار میں نہیں.جن امور کو ہم حل نہیں کر سکتے ان کے لئے دعا کا خانہ موجود ہے اس لئے ہر احمدی سے یکیں یہ امید کرتا ہوں کہ وہ اسلامی ممالک کے ان بچی پیدہ مسائل کے لئے بالعموم اور پاکستان کی مشکلات کے لئے بالخصوص دعائیں کرے تا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان مشکلات کو دور فرما دے.دعا کے علاوہ ان امور کے متعلق ایک اور چیز بھی ہمارے اختیار میں ہے اور وہ ہے لوگوں کو صحیح مشورہ دینا تا قوم میں ان مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی صحیح سپرٹ پیدا ہو.تم جہاں کہیں بھی جاؤ اپنے حلقہ اثر میں لوگوں کو صحیح مشورہ دیا کرو اور انہیں بتا یا کرو کہ یہ دن آپس میں بڑنے کے نہیں ہیں بلکہ باہمی اختلافات کو فراموش کر کے متحد ہونے اور ملک کے مفاد کے لئے قربانی کرنے کے ہیں.یا د رکھو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی حفاظت اور خدمت کے لئے مامور کیا ہے اسلئے ل روزنامه المصلح کراچی در مصلح ۱۳۳۳ اعمش سر د جنوری ۶۱۹۵۴ ۲۰۳۰ به
تمہارے قلوب اسلام کی محبت اور درد سے معمور ہونے چاہئیں خواہ تم کن حالات میں سے گزرو.اس محبت کا ہمیشہ لحاظ رکھا کرو اور مسلمان کی ہمدردی تمہارا طرہ امتیاز ہونا چاہیئے.اس ہمدردی کا عملی ثبوت تم اس طرح دے سکتے ہو کہ ایک طرف تو تم دعاؤں سے کام کر اور دوسری طرف لوگوں کو صحیح مشورہ دیا کہ وہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اِن نَفَعَتِ الذکروای کہ تم ہمیشہ نصیحت کرتے رہا کرو کیونکہ نصیحت کرنے سے ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے خواہ تمہیں محسوس ہو یا نہ ہو.دوسرا ذریعہ جو تم ان مشکلات کے ازالہ کے لئے اختیار کر سکتے ہو یہ ہے کہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تمہیں تیار رہنا چاہیئے.ہر احمدی کا یہ عزم ہونا چاہیئے کہ اگر خدانخواستہ ہمارے ملک پر کوئی مصیبت آئی تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ اپنے مال، اپنی جائیداد ، اپنی زیلی غرض اپنی کسی چیز کی پرواہ نہ کرے گا اور ملک کی حفاظت و بقا کو مقدم رکھے گا.یاد رکھو اراد سے اور عزم کو معمولی چیز نہ سمجھو یہ بہت بڑی چیز ہے.یہی وہ چیز ہے جو وقت آنے پر تمہیں عمل کے لئے تیار کر سے کی مضبوطی کے ساتھ تیار رہنے اور عین وقت پر تیار ہونے میں بڑا بھاری فرق ہوتا ہے پس ابھی سے تیار ہو جاؤ اور یہ عزم کر لو کہ ہر مصیبت کے وقت تم اپنے ملک کی حفاظت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو گے.غرض اس وقت عالم اسلام کی حالت ایسی ہی ہے جیسے ۳۲ دانتوں میں زبان.اور یہ حالت اس امر کی متقاضی ہے کہ مسلمان اپنے اختلافات کو ختم کر کے متحد ہو جائیں.اب وقت ایسا ہے کہ مسلمان اگر مریں گے تو اکٹھے مریں گے اور اگر رہیں گے تو اکٹھے رہیں گے.دوستوں کو چاہیے کہ وہ اس نازک حالت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری ادا کریں یعنی ایک طرف تو دعاؤں سے کام لیں اور جن لوگوں سے بھی انہیں واسطہ پڑے انہیں صحیح مشورہ دے کر قومی سپرٹ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ابھی سے تیار ہو جائیں " اے تقریر کے دوسرے حصہ میں حضور نے جماعت کے اخبارات و رسائل کی اشاعت بڑھانے ، الشركة الاسلامیہ اور اه روزنامه المصلح کراچی مورخه ۵ صلح ۱۳۳۳امش بر هر جنوری ۶۱۹۵۲ مگو &
دی اور پیٹل اینڈ ریلیمیں پبلشنگ کمپنی کے حصص خریدنے کے علاوہ نئے نئے مضامین لکھنے پر خاص طور پر زور دیا اور فرمایا :- ابھی اسلامی علوم کے بہت سے ایسے حصے موجود ہیں جو صدیوں سے تشنہ تکمیل ہیں.پھر ہر پرانے مسئلہ کے متعلق بھی نئے نئے زاویہ نگاہ سے نئے نئے دلائل مہیا کئے جا سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح اور عصمت انبیاء وغیرہ پر صدیوں سے مضامین لکھے جار ہے ہیں لیکن حضر مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ایسے نئے اور اچھوتے انداز سے ان مضامین کو پیش فرمایا که گویا رنگ ہی بدل ڈالا.پس ہر تیر انے سے پرانے مضمون کو بھی پیش کرنے میں جدت سے کام لیا جا سکتا ہے.حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واقعہ کو ہی لے لو ابھی قرآن کریم سے مبیبیوں ایسی آیات نکالی جا سکتی ہیں جو اس واقعہ پر روشنی ڈال سکتی ہیں پھر واقعہ صلیب رومی حکومت کے عہد میں ہوا تھا لیکن اُس عہد کی تاریخوں کی چھان بین کرنے کی طرف آج تک کسی نے توجہ نہیں کی حالانکہ اگر اس طرف تو قبہ کی جائے تو بیبیوں نئے مضامین نکل سکتے ہیں جو اسلام اور سلسلہ کے لئے مفید ہو سکتے ہیں.مجھے افسوس ہے کہ خالص جماعتی مسائل کے علاوہ دیگر اسلامی علوم کی تحقیق و تدفین کے سلسلہ میں ہماری جماعت ابھی بہت پیچھے ہے اس طرفت تو تہ کرنے کی خاص ضرورت ہے.فرمایا ابھی تین دن کا واقعہ ہے" المصلح" میں میں نے ایک مضمون پڑھا جس میں ایک ایسا حوالہ بحوالہ علامہ سراج الدين الوشخص عرون الورد و انا اريد الباب وفريدة الغراب" کا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :- " وَقَالَتْ فِرْقَةً نُزُولُ عِيسَى خُرُ رُجُ رَجُلٍ يُشْبِهُ عِيسَى فِي الْفَضْلِ وَالشَّرَفِ كَمَا يُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَيْرِ مَلَكَ وَلِلشَّرِيرِ شَيْطَانَ تَشْبِيْهَا بِهِمَا وَلَا يُرَادُ الْأَعْيَانُ ر صفحه ۲۶۳ مطبع مصطفی البابی الحلبي واولاده بمصر طبع ثانی مسلمانوں کے ایک گروہ نے نزولی عیسی سے ایک ایسے شخص کا ظہور مراد لیا ہے جو فضل اور شرف میں حضرت عیسی علیہ اسلام کے مشابہ ہو گا جیسے تشبیہ دینے کے لئے ایک آدمی کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہتے ہیں مگر اس سے مراد فرشتہ یا شیطان کی ذات نہیں ہوتی.
۱۴۴ درج کیا گیا تھا جو غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے وہ اتنا اہم ہے کہ اگر وہ واقعہ میں درست ہے تو اس سے آئندہ کے لئے بحث کے زاویے ہی بدل جاتے ہیں گویا وہ احمدیت کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس مضمون کو لکھنے والے لائل پور کے ایک کلرک شیخ عبد القادر ہیں.ہر حال یہ حوالہ اور یہ مضمون بتاتا ہے کہ پرانے لڑ پچر میں ابھی ہمارے لئے نے عیسائیت کے ممتاز احمدی سکالر مکرم شیخ عبد القادر صاحب شیخ عبد الرب صاحب مرحوم نو مسلم سابق شو رام کے فرزند اکبر ہیں.وہ اکو نٹس کلرک سے ترقی کر کے اب ایک مشہور گروپ آف کمپنیز کے ٹیکسیشن آفیسر ( TAXATION OFFICER) ہیں.تیرہ چودہ سال کی عمر سے انہوں نے اسلام اور عیسائیت پر تحقیق شروع کی جو کہ بعد میں تقابل ادیان ، صحائف قمران اور قرآن حکیم اور تاریخ قدیم پر منتج ہوئی.اُن کے کئی سو مقالات سلسلہ کے اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکے ہیں.ان کی تین کتابیں فضل عمر فاؤنڈیشن سے انعام یافتہ ہیں :.ا - اسماء الانبياء في القران ۲ - حضرت مریم صدیقہ ۳ - قرآن مجید اور مستشرقین یہ تینوں مقالات غیر مطبوعہ ہیں.مطبوعہ رسائل میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں :- ا - اصحاب کہف کے صحیفے.انجیل مرقس کا آخری ورق.بدھ کی تعلیمات اشوک کے کتبوں ہیں.۲ - صحائف قمران - قبطی الجبيل علاوہ ازیں قرآن مجید اور اکتشافات جدیدہ پر ان کی تحقیق جاری ہے اور پنجاب یونیورسٹی کے اُردو دائرۃ المعارف میں آپ کے کئی نوٹ شائع ہو چکے ہیں.انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی بعد از صلیب زندگی پر نصف صدی تک تحقیق کی ہے جو کہ بیسیوں مقالات کی صورت میں پھیلی ہوئی ہے.اس موضوع پر انہوں نے لندن کی لیکن الا قوامی کانفرنس میں مورخہ ۳ر جون ۱۹۷۸ء کو ایک مقالہ پڑھا جو کا نفرنس کی مطبوعہ روداد (TRUTH ABOUT THE CRUCIFIX10) کے صفحہ ۱۲۹ تا ۱۴۹ میں شامل اشاعت ہے :
۱۴۵ " بہت سا ضروری مواد موجود ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے لئے مطالعہ کی ایک خاص لائن مقرر کر لیں اور پھر اسے وسعت دینے اور تحقیق کرنے کی عادت ڈالیں ؛الے اس اہم ہے.ایت کے بعد حضور نے چودہ زبانوں میں تراجم قرآن کی سکیم کا ذکر کر کے مخلصین جماعت کو تحریک جدید کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا :- دنیا کے پاس جو کچھ ہے بے شک وہ بعض جگہ پر امن بھی ہے لیکن اس امن کے ہوتے ہوئے بھی وہ دنیا اندھیرے میں ہے جب تک اسلام کا نور اُن لوگوں تک نہیں پہنچے گا اس وقت تک دنیا کا اندھیرا دور نہیں ہو سکتا.سورج صرف اسلام ہے جو شخص اس سورج کے چڑھانے میں مدد نہیں کرتا وہ دنیا کو ہمیشہ کے لئے تاریکی میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا انسان کبھی دنیا کا خیر خواہ یا اپنی نسل کا خیر خواہ نہیں کہلا سکتا.اس وقت تک تحریک (جدید) کے ذریعہ سے جو تبلیغ ہوئی ہے اس کے نتیجہ میں تیس چالیس ہزار آدمی عیسائیوں سے مسلمان ہو چکا ہے اور یہ طاقت روز بڑھ رہی ہے اور اسے مضبوط کرنا ہر احمدی کا فرض ہے بلکہ ہر سلمان خواہ وہ احمدی نہ ہو اس کا بھی فرض ہے کہ اس کام میں مدد دے کے حضرت مصلح موعود نے جلسہ کے تیسرے روز جو پر شوکت اور پر جلال تیسرے دن کی پر شوکت ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا دا کار ترین کی تھی اور عالیم کہ وحانی کا نوبت خانہ کے عہد آفریں عنوان پر تھی.اس تقریر میں حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود سے قائم ہونے والی آسمانی بادشاہت پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور قرآنی علوم کے گویا دریا بہا دئیے اور سیرت نبوی ، تاریخ سلف، آئمہ سلف اور حضرت مسیح موعود کے ایمان افروز واقعات نهایت وجد انگیز رنگ میں بیان فرمائے.اگرچہ پوری تقریر یورگن تھی مگر اس کے آخری مبارک کلمات تو صوبہ اسرافیل کا سارہ نگ رکھتے تھے جنہوں نے پر مردہ روحوں کو حیاتِ کو بخشی اور جماعت کے ہر طبقہ کو علم و عرفان کا تازہ ولولہ عطا کیا اور ان کے جوش عمل میں بے پناہ اضافہ کر دیا.ه روزنامه المصلح" ۱۳ جنوری ۱۳/۶۱۹۵۲ صلح ۳۳۳اہش مس کالم ۶۳۱۲ له الفضل ۱۴ اپریل ۱۴/۶۱۹۶۰ شهادت ۱۳۳۹ هش صبا کالم ۲ :
۱۴۶ گو اس تقریر کا ذکر تاریخ احمدیت جلد ہشتم ماہ پر مختصراً کیا جا چکا ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا آخری حصہ یہاں دوبارہ درج کیا جاتا ہے.حضور نے فرمایا :- اس نوبت خانہ سے جو یہ نوبت بھی یہ کیا شاندار نوبت ہے پھر کیسی معقول نوبت ہے وہاں ایک طرف بینڈ بج رہے ہیں ٹوں ٹوں ٹوں ٹیں ٹیں ٹیں اور یہ کہتا ہے اللهُ أَكْبَرُ اللهُ الْبَرُ اشْهَدُ أن لا إله إلا اللهُ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ - حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ - حَتَّى عَلَى الْفَلَامِ کیا معقول باتیں ہیں کیسی سمجھدار آدمیوں کی باتیں ہیں بچہ بھی سنے تو وعدہ کرنے لگ جائے اور ان کے متعلق کوئی بڑا آدمی سوچے تو شرما نے لگ جائے.بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ٹوں ٹوں ٹوں ٹیں ٹیں ٹیں مگر افسوس کہ اس نوبت خانہ کو آخر مسلمانوں نے خاموش کر دیا.یہ نوبت خانہ حکومت کی آواز کی جگہ چند مرثیہ خوانوں کی آواز بن کر رہ گیا اور اس نوبت کے بجنے پر جو سپاہی جمع ہوا کرتے تھے وہ کروڑوں سے دسیوں پر آگئے اور ان میں سے بھی ننانوے فیصد صرف رسماً اُٹھک بیٹھک کر کے چلے جاتے ہیں تب اس نوبت خانہ کی آواز کا رعب جاتا رہا.اسلام کا سایہ کھیچنے لگ گیا.خدا کی حکومت پھر آسمان پر چلی گئی اور دنیا پھر شیطان کے قبضہ میں آگئی.اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو ہاں تم کو ہاں تم کو خدا تعالیٰ نے پھر اس نوبت خاش کی ضرب سپرد کی ہے.اسے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اسے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!! اسے آسمانی بادشاہت کے موسیقار و !!! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اِس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اُٹھیں تا کہ تمہاری دردناک آوازیں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آ جائے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے.اسی غرض کے لئے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کے لئے یکں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں.سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جاؤ محمد رسول اللہ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے تم نے مشیح سے پھر وہ تخت محمد رسول اللہ کو دیتا ہے اور محمد رسول اللہ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش
۱۴۷ کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دُنیا میں قائم ہوتی ہے پس میری شنوا اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے میری آواز نہیں ہے میں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں تم میری مانو بخدا تمہارے ساتھ ہو.خدا تمہارے ساتھ ہو.خدا تمہارے ساتھ ہوا اور تم دنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ یہ ہے جناب مسعود احمد خان صاحب دہلوی رپورٹر، اصلاح ہے نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۳ رپورٹر الصلح کے تاثرات ۱۳۳۲ اہش کے ان مبارک ایام کی تفصیلی روداد المصلح (مورخہ ۱۵ار صلح ۱۳۳۳ ش ۱۵ر جنوری ۶۱۹۵۲) میں شائع کی جس میں حضور کے آخری خطاب سے متعلق تاثرات درج ذیل الفاظ میں سپرد قلم کئے :- مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ حضور ایدہ اللہ کا پُر جلال خطاب جونہی اختتام پذیر ہوا چاروں طرف سے بھیک ! خلیفہ ایسے لبیک !! کی صدائیں بلند ہونے لگیں.اس وقت حضور کی پر شوکت آواز سے یونی معلوم ہو رہا تھا کہ دشت و جبل گونج رہے ہیں اور انسان تو انسان آسمان پر فرشتے بھی سر بسجود پڑے ہیں.سامعین کی کیفیت یہ تھی کہ ان پر ایک وارفتگی کا عالم طاری تھا اور وہ خدا تعالیٰ کا شکر بجالا رہے تھے کہ اس نے انہیں اس مبارک اجتماع میں شریک ہونے اور حضور ایده اللہ تعالیٰ کی قوت قدسیہ سے فیضیاب ہونے کی سعادت بخشی.اس کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اجتماعی دعا کہ ائی یہ دعا بھی اپنے اندر ایک خاص رنگ رکھتی تھی میسح محمدی (علیہ السلام) کے ہزار ہا اتباع جذبہ ایثار و قربانی کی تجدید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا رہے تھے اور ہچکیوں اور سسکیوں کا ایک سیلاب تھا جو ان کے سینوں سے انڈا چلا آ رہا ہے.در دو سوز میں ڈوبی ہوئی یہ آوازیں جلسہ گاہ کی فضا اور اس فضا کے ذرہ ذرہ کو مبہوت بنا رہی تھیں کہ خدا اور اس کے مقبول بندوں کا یہ راز و نیاز نہ معلوم کسی روحانی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو کیونکہ اس وقت درد و کرب کے ساتھ دعائیں آسمان کی طرف بلند ہو ہو کر دلوں کو اس یقین سے بریز گر رہی تھیں کہ آج قبولیت کے دروازے کھلے ہوئے له سیر روحانی جلد سوم الناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹیڈ م۲۸۵ تا س کے حال ایڈیٹر" الفضل " ربوہ ح*
ہیں اپنے مولا سے جو مانگنا ہے مانگ لو.وہ سماں اب مادی طور پر آنکھوں کے سامنے نہیں ہے لیکن اس کی نہ محو ہونے والی یاد آج بھی تازہ ہے اور ہمیشہ رہے گی اور انشاء اللہ سال بہ سال ہر جلسہ سالانہ کے بعد اس کے نقوش اُبھرتے چلے آئیں گے اور انہیں ایک ایسی جلاء اور تازگی ملتی چلی جائے گی کہ جو آنے والوں کیلئے بھی حیات نو کی ضمانت دے گی.اگر بچہ ان تمام سعید روحوں میں سے کہ جنہیں بیچے پاک کے جھنڈے تلے جلسہ سالانہ کے ایام میں جمع ہونے کا شرف حاصل ہوا اکتاب وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ کے ربانی حکم کے تحت دور و دراز علاقوں میں واپس جا چکی ہیں لیکن یقینا ان کے دل اس پر کیف نظارے کی یاد سے معمور ہو ہو کر پکار رہے ہیں زمین وہ ہے کہ جس میں چشمے حیات کو کے اہل رہے ہیں " له یہ پرمعارف تقریہ قریباً ہ گھنٹے تک جاری رہی جسے ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ کرنے کا تقریر کا ریکارڈ شرف حضرت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب آفت بو نیو کوحاصل ہوا جیسا کہ محرم قاضی بدر بورنیو ہوا.عزیز احمد صاحب فاضل کے کا بیان ہے کہ :.و د مکرم سید عبد الرحمن صاحب امریکہ سے تشریف لائے ان کے ساتھ WIRE RECORDER تھا جس پر انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی جلسہ کی تقاریر ریکارڈ کیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی یہ تقاریر نہیں.ربوہ میں مختلف جگہ پر یہ تقاریر سنائی گئیں.اس کے بعد تحریک جدید انجمن احمدیہ نے دو WIRE RECORDER امریکہ امریکہ سے منگوائے جن پر ۱۹۵۲ء کی تقاریر خاکسار نے ریکارڈ کیں.۱۹۵۳ء میں حضور رضی اللہ عنہ کی تقاریر مکرم ڈاکٹر بدر الدین صاحب آف بور نیو نے اپنے ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ کیں.۱۹۵۳ء میں ربوہ میں میلی نہ تھی یہ تقاریر جریر کے ذریعہ ریکارڈ ہوئیں.تقاریہ کی سماعت سے معلوم ہوتا ہے کہ جزیر کی کو درست نہ تھی اس میں اتار چڑھاؤ تھا.نه روزنامه المصلح کراچی مورخه ۱۵ صلح ۱۳۳۳ پیش / ۱۵ر جنوری ۶۱۹۵۲ ص ۳ به کے (ابن مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ناظر اشاعت لٹریچر و تصنیف ربوه) حال کارکن نظارت امورها مه ربوه :
۱۴۹ حضور کو جب علم ہوا کہ تحریک جدید نے تقاریر ریکارڈ نہیں کیں تو حضور نے ڈاکٹر صاحب سے کاپی تیار کر وانے کی ہدایت فرمائی.ڈاکٹر صاحب کراچی جاچکے تھے چنانچہ وکالت تبشیر کے کارکن چوہدری محمد اشرف صاحب مرحوم کراچی گئے اور وہاں سے ڈاکٹر صاحب سے کاپی کرا کے واپس ربوہ آئے.یہ ریکار ڈ نظارت اصلاح و ارشاد میں محفوظ ہے اس سے محکمہ زود نویسی نے لفظاً لفظاً تقریر نوٹ کی جو کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہے.مجھے مکریم ڈاکٹر بدرالدین صاحب سے معلوم ہوا تھا کہ انہوں نے بعض دوسرے ممالک میں بھی کا پیاں تیار کر کے بھجوائی تھیں.مجھ سے بہت سے احباب یہ تقاریر ریکار ڈ کر چکے ہیں.انگلستان، جرمنی، امریکہ، ماریشس اور نبی بھی ریکارڈ تیار کر کے بھیجے گئے ہیں.قادیان بھی ایک کاپی تیار کر کے بھیجی گئی تھی.+++ مکرم ڈاکٹر بدرالدین صاحب مرحوم کی بیٹی مکرمہ امتہ العزیز اور لیس صاحبہ سے مجھے ۱۹۵۳ کی تقاریر کی ٹیپ حاصل ہوئیں.ان ٹیپ کا شروع اور آخر ٹوٹا ہوا ہے میرے خیال میں یہ اصل ریکارڈ ہے اس سے کس نے ایک کاپی تیار کی تھی جس سے کئی احباب کو کاپی کر کے دی گئیں ہے نظارت دعوت و تبلیغ نے اگلے سال مارچ ۱۹۵۴ء سے اس پر معارف تقریر کو غربی پاکستان کے طول و عرض میں سنانے کے وسیع پیمانہ پر انتظامات کئے لیے قریباً ربع صدی سے یہ تقر یہ ارادہ کے مرکزی اجتماعات کے علاوہ دوسرے بہت سے مقامات میں سنائی جارہی ہے مگر اس کی اثر انگیزی اور انقلاب آفرینی کا یہ عالم ہے کہ بار بار سنے کے باوجود اس کی روحانی تاثیرات و برکات میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ اب بھی حضرت مصلح موعود کی پرشکوہ آواز کانوں میں پڑتے ہی ایک خاص وجدانی کیفیت قلوب و اذہان پر طاری ہو جاتی ہے.اخبار تنظیم (پشاور) نے ہم جنوری ۱۹۵۴ء کی اشاعت اخبار تنظیم پشاور میں جاسالانہ ربوہ کا ذکر میں اس جلسہ کی نسبت حسب ذیل و کونوٹ شائع کئے:.ے اہلیہ مرزا محمد ادریس صاحب مبلغ انڈونیشیا حال آفس سیکرٹری لجنہ اماء الله مرکز یہ ربوہ : کے مکتوب قاضی عزیز احمد صاحب بنام مؤلف تاریخ احمدیت : کے روز نامها المصلح" کراچی اار مارچ ۶۱۹۵۴ / ۱۱ رامان ۱۳۳۳ مش
پنتالیس ہزار کے عظیم الشان اجتماع میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود کا محرکة الآرا خطاب" ہمیں امریکہ برطانیہ اور کمیونسٹوں سے بے نیاز ہو کر سلام کی اساس پر پاکستان کی حکومت کی تعمیر کرنی چاہیئے زیوه ۲۷ دسمبر : بعد از نماز ظر حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب امام جماعت احمدیہ پاکستان نے خطبہ مسنونہ محمدیہ علی صاحب السلام و تسلیمات و علی آل و اصحابہ الکرام کے بعد ارشاد فرمایا کہ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم مسلمان ایک آزا د سر زمین پر اپنے خدا جل شانہ اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد وستائش کے لئے ایک جگہ پر جمع ہوئے ہیں.یہ خدا کا انتہائی فضل اور اس کے رحم اور اس کے کرم کی دلیل ہے کہ ہم مسلمان با وجود اپنی اختلاف رائے کے بھی مذہب کے معاملے میں ایک ہیں ہم سب مسلمانوں کا ایک خدا کی ذات اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرآن پر ایمان ہے.ہمارے اختلافات باعث رحمت ہیں کیونکہ اس سے علم تحقیقات کے نکات اور خدمت اسلام کی راہیں ہم پر چھلکتی ہیں.ہمارا اثاث صرف مذہب اسلام ہے، ہم اسلام کے لئے جئیں اور اسلام کے لئے مریں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی شان نبوت کو برقرار رکھنے کے لئے ہم ہر جائز بعدہ و جہد کو جاری رکھیں.آپ نے فرمایا ہمارا مسلک غیر سیاسی ہے لیکن حالات جو مسائل پیش کرتے ہیں اس پر بھی مجھے کچھ کہنا ہے اور وہ ملک میں ہمارا حکمران طبقہ امریکہ ، برطانیہ اور کمیونسٹ تین آراد رکھنے والے گروہ ہیں.آپ نے فرمایا جب ہم ایک آزاد ملک کے مالک بن چکے ہیں تو ہمارا نصب العین صرف یہ ہونا چاہیے کہ ملک میں کمیونسٹ نہ بڑھیں.آپ نے فرمایا اس کے ساتھ ہی ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ہم جب برطانیہ سے آزاد ہو چکے ہیں تو ہم اس کی رسی کو پھر گلے میں نہ ڈالیں اور ہم کو اس کی غلامی پہ فخر نہیں کرنا چاہئیے.آپ نے فرمایا کہ امریکہ ایک بہت بڑا سرمایہ دار ملک ہے اور اس کے ساتھ گٹھ جوڑ مناسب نہیں ہے.آپ نے فرمایا ہمارے معاہدات کی بنیاد اس اصول پر ہو کہ پاکستان آزاد ملک کی حیثیت سے قائم رہے اور وہ آزاد ملک کی حیثیت سے برطانیہ اور امریکہ سے اپنے تعلقات قائم رکھے.آپ نے فرمایا آزادی بہت جدوجہد کے بعد ملی ہے اور اس کی قدر وہی جانتے ہیں جنہیں آزادی کی ماہیت کا علم ہو.
آپ نے فرمایا انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام اپنے خدا پرستوں کے لئے آزادی کی جدوجہد کرتے رہے.آپ نے فرمایا مجھے محسن ظن ہے کہ ہماری حکومت نے برطانیہ سے جو معاہدے کئے ہیں وہ درست ہوں گے.آپ نے فرمایا جیسا کہ میرے علم میں لایا گیا ہے کہ امریکہ بغیر کسی شرط کے پاکستان کو فوجی امداد دے رہا ہے تو یہ ایک مستحسن فعل ہے جس پر امریکہ اور پاکستان کے تعلقات مضبوط ہوں گے اور اس تعلقات کی مضبوطی پر مجھے سب سے زیادہ خوشی ہے.آپ نے فرمایا حکومت کی مشکلات آسان کرنے میں حکومت کی مدد کرو اور کمیونسٹ طبقوں کو افہام و تفہیم سے اسلام کے صحیح اصولوں پر لاؤ کیونکہ یہ مملکت پاکستان اسلام کی حکومت ہے اور جس کے اندر مسلمانوں کے لئے سوائے اسلام کے کوئی دوسرا رستہ ذیب نہیں دیتا.آقائے دو جہان حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مسلمان کا جزو ایمان سے مسلمان اول بھی محمد کا ہے اور اس کا ایمان بھی محمد کا ہے اور اس کا آخر بھی محمد کا ہے کیونکہ وہی شفیع المزنین و ہی ختم المرسلین اور وہی آخر الانبیاء ہے.اس کے بعد آپ نے دعا فرمائی کہ بانی سلسلہ حضرت مرزا صاحب اور حضرت خلیفہ اول اور تمام وابستگان سلسلہ مرحومین کو اللہ تعالیٰ اپنے جو ا یہ رحمت میں جگہ دے اور ہم زندوں کو ان کے نقش قدم پر اسلام کی خدمت کی توفیق عنایت فرمائے.دوسرا معركة الآرا خطية ربوه ۲۸ دسمبر بعد از نماز ظهر حضرت مرزا بشیر الدین محمود نے آخری عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جس نے سامعین کے ایمانوں میں ایک ولولہ پیدا کیا.آپ نے حمد و نعت کے بعد شاہان مغلیہ کا ایک ریخی واقعہ بیان فرمایا جولال قلعہ سے بنگال، مدراس، کراچی اور اٹک تک تعلق رکھتا تھا.آپ نے اس کے بعد فتح مکہ کا تاریخی واقعہ پیش کیا ہے " جماعت احمدیہ کا سالانہ جلیس حسب دستور اس دفعہ بھی جماعت احمدیہ پاکستان کا جلسہ سالانہ اپنے مرکزی مقام ربوہ (پنجاب) میں ۲۶ تا ۲۸ دسمبر ۱۹۵۳ء تین دن جاری رہا جو پروگرام، مقاصد اور حاضری کے لحاظ ه اخبار تنظیم پیشاور مورخه ۲ جنوری ۱۹۵۲ عرص
۱۵۲ سے کافی کامیاب جلسہ تھا.جلسہ کے آخری روز ۲۸ کو بعد از نماز ظہر حضرت مرز البشیر الدین صاحب محمود نے خطبہ مسنونہ کے بعد ارشاد فرمایا کہ ہمارے نبی کریم ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مگر کے دن اہل مکہ سے خطاب فرماتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کے ان الفاظ گرامی کو اپنی زبان مبارک سے دہرایا....لا تثريب عليكم اليوم....آپ نے فرمایا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دن فتح مکہ کا شاہانہ دربار منعقد فرمایا آپ جلوس آرائے میمنت لزوم تخت و تاج نبوت ہوئے تو آپ نے بعینہ انہی الفاظ مبارک سے اپنے بھائیوں کو معاف کیا جس طرح مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے جلوس آرائے تخت مصر ہو کر اپنے بھائیوں کو اپنے الفاظ سے معاف فرمایا.آپ نے فرمایا ہمارا آقا و مولیٰ سب نبیوں کا بادشاہ اور حسینان جہاں کا ملجا و ماری ہے.وہ خلق عظیم کا مالک حسن یوسف بھی رکھتا ہے.دم عیسی بھی رکھتا ہے.ید بیا بھی رکھتا ہے.وہ پچھلے اور آنے والے تمام بادشاہوں کا بادشاہ اور تمام نبیوں کا سرتاج ہے.اللہ نے جو دینا تھا محمد کو دیا اور آئندہ جس نے جو لینا ہے محمد سے لے گا اس لئے تم پہ اللہ کی اطاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اس کے اولوالامر کی اطاعت واجب ہے.آپ نے فرمایا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر اہل مکہ سے خطاب کیا کہ یا درکھو آج کے دن دین ابہ اہم کی فتح ہے.کفر و شرک اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ منہ چھپائے ہوئے ہے.آپ نے فرمایا جو لوگ براہ راست میرے پاس پہنچیں دین اسلام کا اقرار کریں وہ معاف.جو ابوسفیان کے گھر پناہ لیں کیونکہ وہ مسلمان ہو چکا ہے اور امان پا چکا ہے تو وہ بھی معاف.جو گھروں میں کواٹر بند کر کے بیٹھ جائیں، فتنہ و فساد میں حصہ نہ لیں تو وہ بھی معاف.اور جو ہمارے مؤذن بلال حبشی کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائیں وہ بھی معاف ہے.آپ نے فرمایا یہ تھا خلق عظیم سرورکون ومکاں.اور یہ ہے اسو ہ حسنہ بھی عربی جس پر چل کہ ہم نے اپنے مستقبل کو دین اسلام کے سانچے میں ڈھالنا ہے.آپ نے فرما یا ہم خدام دین محمد ہیں
۱۵۳ ہماری کوئی حرکت بھی دین کے خلاف نہیں ہونی چاہئیے.آپ نے فرمایا پیچھے اور راستباز بنو، اللہ سے تعلق قائم کرو اور قرآن کو ہاتھ میں لو، خود عاقل بنو، اوروں کو قرآن کی نعمت سے مالا مال کرو.آپ نے فرمایا جماعت کی طرف سے گیارہ زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے ہو چکے ہیں.پانچ زبانوں میں ترجمے اور ہوتے ہیں جس کے لئے تمہارے مالی ایثار کی ضرورت ہے جس کیلئے تم ، تمہاری بیویاں اور بچے بچیاں اپنے دستکاری کاموں سے دو دو پیسے جمع کر کے چند سے دو.آپ نے فرمایا دین کی خدمت اور اسلام کی اشاعت کے لئے ہر امیر و غریب احمدی مرد عورت کو اپنے ہاتھ سے روزانہ کچھ نہ کچھ کام کر کے اس کی آمد جماعت کو بھیجنی چاہئیے تا کہ جماعت کو تبلیغی فرائن کی انجام دہی میں مالی مجبوریاں ستیہ راہ نہ ہو سکیں.آپ نے فرمایا مسلمانو ا محمد رسول اللہ کے پروگرام کی اشاعت میں جس قدر زیادہ سے زیادہ مالی حقبہ لو گے آپ کی دنیا اور دین اسی قدر سنورتے جائیں گے.جب آپ کا سب کچھ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہو گا تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ اور اس کا رسول آپ کا نہ ہو.آخر میں آپ نے دعا پر اپنے خطبے کو ختم کیا.اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی اور یک جہتی کے لئے دُعا مانگی.تہمارے اپنے تاثرات ہمارے اپنے تاثرات یہ ہیں کہ حضرت مرز البشیر الدین صاحب محمود ایک بچے محمد ی سلمان ہیں ان کے دل میں اسلام کے لئے تڑپ اور محبت ہے.وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان خدا کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑیں اور ایک ہو جائیں.ہم نے گولڑہ شریف کے موسوں میں بھی شرکت کی ہے.تقریریں سنی ہیں.قوالیاں سنی ہیں.حسب مراتب مہمان نوازیاں دیکھی ہیں لیکن جو عملی تجاویز عملی کار کر دگی ملی تڑپ عملی نقل و حرکت عملی ولولہ ایک چھوٹی سی جماعت احمدیہ کے اندر ہے وہ ہم نے گولڑہ شریف کے جم غفیر میں بھی نہیں دیکھا.ہم اگر یہ تجویز پیش کریں تو کون مانے گا کہ گولڑہ شریف ، سال شریف ، خواجہ حسن نظامی اور سب بزرگ مل کر ایک کا نفرنس منعقد کریں جس میں جماعت احمدیہ کے ساتھ ان باتوں کا تصفیہ کریں جو ما بہ الاختلاف ہیں اور پھر ایک متوازی شکل میں خدمت قرآن کریں ہم نے خود پانچ منٹ حضرت بشیر الدین صاحب محمود سے ملاقات کی.انہیں معلوم تھا کہ یہ میرا مرید نہیں ہے.
انہیں معلوم تھا کہ جماعت سے وابستگان کے سلسلے میں اس کا نام نہیں ہے لیکن انہوں نے جن خیالات کا اظہار فرمایا اس میں اسلام اور دین محمد علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے پتھی تڑپ ، پنجی " عقیدت اور پہنچی راہنمائی کے آثار نظر آرہے تھے ہم نے تنظیم اللہ کے بھروسے پر نکالا ہے اور ہم اس کو اللہ کے بھروسے پر سچائی کے راستوں پر چلانا چاہتے ہیں ہم نے جو لکھا خدا شاہد ہے یہ اس غرض سے نہیں لکھا کہ ہمیں جماعت احمدیہ سے یا مرزا صاحب سے چنداں مالی خواہشات نہیں بلکہ یہ خالصتا للہ ایک مخبر صادق اور ایک پیچھے رپورٹر کی حیثیت سے ہم نے ان حالات کو لکھا ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود نے خود فرمایا کہ اگر جماعت کے اندر ان کے امراء ورؤسا پیچھے اطلاق اچھی عادتوں اور تجھی اسلامی محبت سے مسلمانوں کے ساتھ ، دوستوں کے ساتھ اور ہمسائیوں کے ساتھ پیش آئیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے اختلافات اور تنازعات ایک محبت ، اخلاق، مروت ملکی اور وطنی تعلقات کے سلسلے میں ایک بنیان مرصوص (نہ) ثابت ہوں لیکن آپ نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں بھی اہل مغرض اشخاص کی کی نہیں ہے اور یکں چاہتا ہوں جو شخص بھی جماعت کے متعلق کوئی معلومات کرنا چاہیے اُسے میرے ساتھ ملاقات کا موقع دیا بجائے لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایسا نہیں کیا جاتا ہیں چاہتا ہوں کہ تم میں سلف الصالحین کی تقلید ہوا اور تم اپنے اختلاقی کو اسلام او مسلمانوں کی محبت کے راستے میں حائل نہ کرو.اگر ہم حضرت مرزا بشیر الدین صاحب کے تمام اوصاف کو جو ساری اُمت کے متعلق ان کے دل میں ہیں بیان کریں تو اس کے لئے ایک بہت بڑے دفتر کی ضرورت ہے.ے دفتر تمام گشت بپایان رسید عمر و همچنان در اول وصف تو مانده ایم" له سفر سندھ کے روح پرور خطبوں کا مفصل بیان ہو اک ۱۹۵۳ء کے خطبات جمعہ ایک نظر میں چاہے اب ان میں اس سال کے ان اطارات بارہ اب ذیل میں ان کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے جو شائع شدہ ہیں.ان خطبات کی تعداد ۲۷ بنتی ہے.اخبار تنظیم پشاور مورخ ۱۲ جنوری ۱۹۵۲ء ص ۳ +
ا.ہمارے سب کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے.ہر تغیر میں اُسی کا ہاتھ نمایاں نظر آتا ہے.(۲) جنوری صلح ) ۲.وقت کو ضائع نہ کرو اور بار بار انفرادی اور اجتماعی طور پر غور کرو کہ ہمارا کیا پروگرام تھا اور ہم نے اب تک کسی حد تک اس پر عمل کیا ہے ؟ ( 9 جنوری صلح ) - مصائب کے یہ ایام اور استقامت کے ساتھ خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے گزار وا اور ساتھ ہی اپنی ان طاقتوں کو بھی صحیح طور پر استعمال کر وجوبعد اتعالیٰ نے تمہیں دی ہیں.(۱۶ جنوری صلح ).موجودہ وقت کی قدر کرو اور اپنے لئے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرو.ہمارے ایمان اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ تحریک جدید ہمیشہ جاری رہے.(۲۳ جنوری صلح).روزے انسان کو غلطیوں سے بچانے مشکلات پر قابو پانے، اور خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں.(۳۰) جنوری صلح ).سچائی کو اختیار کرو کہ اس کے نتیجہ میں تمہیں دوسری بہت سی نیکیوں کی بھی توفیق مل جائے گی.17 فروری تبلیغ.اگر تم نے احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے تو تمہیں یقین رکھنا چاہیئے کہ بالآ خرتم ہی کا میاب ہو گے.(۱۳ فروری / تبلیغ ).جماعت اور تنظیم کی غرض نہیں ہوا کرتی ہے کہ جماعت کے تمام حصے واقعات سے باخبر رہ ہیں.(۲۰ فروری تبلیغ ۹ - تمہار ا سب سے بڑا عزیز اور دوست خدا تعالیٰ ہے اس لئے تم اُسی کے سامنے مجھکو اور اسی سے مدد طلب کرو.اپنی زندگی کو اسی طریق پر چھلاؤ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے.(۲۰.مارچ کر امان ) ۱۰ - اگر انسان اپنے ہر کام کے شروع میں سوپر سمجھ کربسم اللہ پڑھے تو اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوگی اور غیر معمولی علوم حاصل ہوں گے.(۳ اپریل رشہادت) 11 - بسم اللہ ہر برکت کی کلید ہے اور اس سے فائدہ اُٹھانا ہر مومن کا فرض ہے.(۲۴ اپریل (شہادت) ۱ - بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر مومن اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ہر کام کا آغاز اور انجام اللہ تعالئے ہی کے ہاتھ میں ہے.اگر تم اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت اور رحیمیت کو مد نظر رکھو تو تمہاری زندگی کے سارے اعمال درست ہو جائیں.(یکم مئی سر ہجرت)
104 ۱۳ بسم الله الرحمن الرحیم سے مومن پر خدا تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتوں کا انکشاف ہوتا ہے اگر انسان اسے اپنا وزد بنا لے تو یہ اس کے اندر نور معرفت اور روشنی پیدا کرنے کا زبر دست ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے.(درمئی ہجرت ) ۱۲.رمضان کے مبارک ایام سے فائدہ اُٹھاؤ اور خدا تعالیٰ کے آگے گریہ و زاری کر و.صرف زندہ رہنے کی کوشش نہ کرو بلکہ سچے مسلمان بن کر زندہ رہنے کی کوشش کرو کہ یہی ہما را اصل مقصود ہے.(۲۲ مئی/ ہجرت) ۱۵.اللہ تعالیٰ نے جو عبادتیں مقرر فرمائی ہیں ان کے بغیر انسان کی روحانی زندگی کبھی قائم نہیں رہ سکتی.اپنے اندر نیکی پیدا کرو اور پھر اپنے ماحول کا جائزہ لے کر قوم کی بھی اصلاح کرنے کی کوشش کرو.) ۲۹ مئی ہجرت ) ۱.اپنے اعمال سے دنیا پر واضح کر دو کہ تم دوسروں سے زیادہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے اور اعلیٰ اخلاق ظاہر کرنے والے ہو.تمہارا فرض ہے کہ بنی نوع انسان کی عموما اور مسلمانوں کی ہمدردی کے کاموں میں خصوصاً شوق سے حصہ لو.(۵ جون / احسان ) ۱۷.کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اُس کے افراد زیادہ نہ سوچیں اور باتیں کم نہ کریں.-14 (۱۲ جون / احسان) ۱۸.اگر تم اپنے ان اعمال کو درست کر لو جو دوسروں کو نظر آتے ہیں تو تمہارے باطنی اعمال آپ ہی آپ درست ہو جائیں گے.اس ذات کے ساتھ اپنے تعلق کو ہر حال مقدم رکھو جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے.(۱۹ جون / احسان ) ۱۹.مذہب کی اصل غرض اعمال کی اصلاح ہے اور یہ اصلاح کوشش اور محنت کے بغیر کبھی نہیں ہو سکتی.اپنے اعمال میں ایسی اصلاح کرو کہ دیکھنے والا یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ان کے اور دوسروں کے ایمان میں نمایاں فرق ہے.(۲۶ جون / احسان ) ۲۰ - قرآن کریم کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہی اسلام ہے.(۲۵ ستمبر رتبوک ) ۲۱- اگر تم قرآن کریم پڑھ کر اس سے فائدہ اُٹھاتے ہو تو تم سے بڑھ کر خوش قسمت اور کوئی نہیں ہے.(۲ اکتوبر را خادم
184 ۲۲.دنیا کی اصلاح اور اسلام کی تعلیم کو پھر سے رائج کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کیا ہے.جب تک تم اسی تعلیم کو اپنے نفس میں رائی نہیں کر لیتے تم اسے دنیا میں بھی رائج نہیں کر سکتے.(۹) اکتوبر الفاء) ۲۳ نماز، روزہ، زکوۃ، ذکرون کر اور خدمت خلق وہ ذرائع ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی اور بنی نوع انسان کی محبت حاصل ہوتی ہے.(۲۳ اکتوبر / اخاء) ۲۴.ربوہ میں رہنے والوں کا فرض ہے کہ وہ اس مقام کے تقدس کو ہرلمحہ مد نظر رکھیں اور اپنے اوقات کو ذکر الہی، خدمت دین اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے وقف کر دیں.(۳۰ اکتوبر اضاء) ۲۵.تم خوشی اور بشاشت سے آگے بڑھو اور تحریک جدید کے چندہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو تا دنیا میں اشاریے اسلام ہو سکے.(۲۷) نومبر نبوت ) ۲۶.جماعت کے ہر فرد کومحسوس کرنا چاہیے کہ اس کی زندگی کے تمام کاموں میں سے سب سے اہم کام تبلیغ واشاعت اسلام ہے.(۲ دسمبر / فتح) ۲۷.جلسہ سالانہ پر احباب کثرت کے ساتھ آئیں اور یہاں آکر اپنا سارا وقت دین کے لئے خرچ کریں.کارکن خدمت کا اعلیٰ معیار قائم کریں اور اخراجات میں ہر ممکن کفایت کو ملحوظ رکھیں.(الر دسمبر / فتح ) لے ه "افضل" (لاہور) ۲۲ جنوری - ۲۶ جنوری - ۲۱ جنوری - ۳ - فروری - ۸ فروری ۱۴۰ فروری - ۱۵ فروری - ۲۲ فروری ۱۳۳۲/۶۱۹۵۳ ش (خطبات ما تاث) " المصلح (کراچی) ۹ر اپریل - ۲۲ - اپریل - ۲ مئی ۱۳ مئی - ۲۰ مئی - ۳۰ مئی - ۱۷ جون - ۲۶ جون - یکم جولائی.در جولائی.۱۲ جولائی - ۱۳ نومبر - ۱۵ر نومبر - ۱۹ نومبر ۰ ۲۵ نومبر - ۱۱ر دسمبر - ۱۳ دسمبر - ۱۶ دسمبر ۴۱۹۵۳/ ۱۳۳۲ هش - خطبات مد تا باستثناء خطبہ ۲۲ کے جو الفضل ربوہ مورفضه ۲۹ را پریل ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا ) +
۱۵۸ فصل سوم جلیل القدر صحابہ کا انتقال اس سال (۱۳۳۲ مش مطابق ۶۱۹۵۳ ) میں مندرجہ ذیل جلیل القدر صحابہ کا انتقال ہوا :- ۱ - حضرت مرزہ اکبر الدین احمد صاحب لکھنوی ( وفات ۵ در جنوری ۶۱۹۵۳ ) محترم سید ارشد علی صاحب لکھنوی کا بیان ہے :- 19 1 مرحوم خاکسار کے ماموں تھے اور احمدیت کی نعمت مجھے مرحوم ہی سے ملی تھی شاید ۱۹۰۱ء سے پہلے مرحوم نے بیعت کی تھی...مرحوم کے احمدی ہونے کے مختصر حالات جوئیں جانتا ہوں یہ ہیں.۱۹۰۱ ء سے پہلے مرزا کبیر الدین احمد صاحب مرحوم اور مرحوم کے چھوٹے بھائی مرزا حسام الدین صاحب جھانسی میں پولیس میں ملازم تھے وہاں ایک اوورسیٹر مشتاق احمد صاحب تھے انہیں کہیں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ازالہ اوہام مل گئی مشتاق احمد صاحب شاعر اور علم دوست آدمی تھے اور مرحوم کے دوست تھے انہوں نے مرزا صاحب مرحوم کے پاس مولوی رحمت اللہ صاحب اور پادری فنڈر کی کتا بیں دکھی تھیں.وہ یہ جانتے تھے کہ مرحوم کو ردعی است کا شوق ہے اس لئے انہوں نے ازالہ اوہام مرزا صاحب مرحوم کو دے دی " ازالہ اوہام کو پڑھنے کے بعد مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عریضیہ لکھا اور بیعت کرلی.مرحوم کے چھوٹے بھائی ایک مدت تک احمدی نہیں ہوئے تھے لیکن خدا کے فضل سے مرحوم کی تبلیغے سے وہ احمدی ہو گئے.مرحوم کو تبلیغ کا جنون تھا.مرحوم انجیلی طرز تحریرہ کے موجد تھے اور اس مخصوص رنگ میں لکھے ہوئے ان کے پرانے مضامین جو بدر تشخیز اور ریویو میں شائع شدہ ہیں انہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے احمدیوں نے تبلیے مبلغین کے ذریعہ سے نہیں کی بلکہ ان بزرگوں نے خود مبلغ ہونے کی حیثیت میں کی ہے یہی وجہ ہے
۱۵۹ کہ ہم سے جدا ہونے والی یہ ہستیاں آج بھی ہمار سے لئے ایک عملی نمونہ ہیں اور ہم سے جدا ہونے کے بعد بھی یہ خدا کے بند سے ہمارے لیے ایک ایسا عملی نمونہ چھوڑ گئے ہیں جو تبلیغ اسلام کا ایک بہت بڑا گر ہے.ایک مرتبہ یک مکرم جناب چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی پر ممدوح سے باتیں کر رہا تھا دور این گفت گو میں چودھری صاحب نے فرمایا مرزا صاحب کیسے ہیں؟ میں نے کہا اچھے ہیں لیکن اب بہت بوڑھے ہونے کی وجہ سے سلسلے کے نوکر کارکنوں کی کم سنتے ہیں.مکرم چو دھری صاحب نے گھرا کہ اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا یہ بہت قابل قدر لوگ ہیں جس زمانہ میں انہوں نے بیعت کی ہے وہ بڑا عجیب زمانہ تھا.چو دھری صاحب کی اس روحانی کیفیت کا میرے اوپر بڑا گرا اثر ہوا اور اس دن سے یکی بالکل محتاط ہو گیا.۱۹۱۲ء میں جب حضرت خلیفہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی لکھنو تشریف لائے تھے تو اس زمانہ میں مرزا صاحب مرحوم پر تعلقات کی وجہ سے خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کا اثر تھا لیکن حضرت صاحب کی زیارت کے بعد مرحوم نے حضور کی بیعت کر لی اور پھر کبھی پیغامی دوستوں کا نام نہ لیا.مرزا صاحب مرحوم کی عمر 90 سال کے قریب تھی لیکن اتنی لمبی عمر میں بھی بڑے جواں ہمت ، ہنس مکھ، زندہ دل بخیر اور ایک خاص رنگ کے مہمان نواز تھے.مرحوم کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک سے تحریر کئے ہوئے کئی خطوط تھے جو اب شاید ہمیں مل بھی نہ سکیں لکھنڈ کے پرانے احمدی کسی نہ کسی رنگ میں مرحوم کی تبلیغ ہی سے احمدی ہوئے ہیں اور بیچ یہ ہے کہ لکھنو میں حدیت کے باغ کا وہ ایک قابل قدر بیج تھے یا اے حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے آپ کی وفات پر لکھا:.جب یکی بدر میں کام کرتا تھا تو مرزا صاحب مرحوم سے تعارف ہوا.اُن دنوں وہ اپنی مخلصانہ پر جوش تبلیغی خدمات کی وجہ سے بہت پیش پیش تھے.ریلو سے گارڈ تھے اس لئے سفر و حضر میں جہاں موقع پاتے تبلیغ فرماتے اور سب سے اول وفات مسیح منواتے تشخید الا ذہان اه هفت روزه بدر قادیان ۲۸ جنوری ۶۱۹۵۳ ص به
19.ریویو آن پیچیز کی ایڈیٹری جب میرے سپرد تھی تو شیعہ علماء مجتهدین اور دیگر مشہور و معروف اکابر کی تحریرات سے (جن میں وفات مسیح یا حضرت مسیح موعود و جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات تبلیغ واشاعت کا اعتراف ہوتا، مجھے بہت امداد پہنچاتے رہتے چنانچہ بعض تحریروں کے عکس بھی ان رسالوں میں چھاپے گئے.وہ ہمیشہ ایسی ٹوپی پہنتے جس پر احمدی لکھا ہوتا.اس طرح بہت جلد دوسرے لوگوں کی توجہ ان کی طرف ہو جاتی.ہر سوال کا جواب نہایت دل نشین طرز میں دیتے کچھ عرصہ وہ جناب بابا نانک صاحب کی اتباع میں ایک سبز چولہ پہنتے رہے جس میں احمدیت کے مخصوص مسائل کے متعلق ثبوت ثبت تھے.احمدیہ جلسہ سالانہ ہیں یہ چولہ پہن کر جب شامل ہوتے تو احباب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے ان کے بہت تعلقات محبت و اخوت تھے.ایک رسالہ انجیل کی طرز عبارت پر لکھا جو بہت لچسپ اور مفید تھا.کوئی ڈیڑھ دو ماہ کا عرصہ ہوائیں نے عالیہ بل کر قادیان میں ان کی وصیت پڑھی جس میں مرقوم تھا کہ میں اپنی کتب کی لائبریری وصیت میں دیتا ہوں.الفضل میں بھی جب چھپی تو میں نے جو کئی سال سے ان کے حالات سے بے خبر ہو رہا تھا ان کو لاہور سے خط لکھا اور پرانے تعلقات کی یاد تازہ کی، ان کا جواب آیا جو بہت پُر دردتھا معلوم نہ تھا کہ ان کا آخری خطہ ہے لہ مرحوم کی تصانیف حسب ذیل ہیں :- (1) حیات صادق کبیر (۲) انجیل کبیر کا پہلا صادق باب (۳) جناب محصلعم کا دوبارہ دنیا میں آتا.حضرت مصلح موعود نے ۱۹ احسان ۱۳۳۲ش/ ۱۹ جون ۱۹۵۳ کو خطبہ جمعہ کے بعد جو جنازہ اے گائیب پڑھائے ان میں آپ کا جنازہ بھی تھا.حضور نے آپ کی نسبت فرمایا :- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے اور لکھنو کے رہنے والے تھے اللہ ۲ - حضرت میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب (وفات ۱۸ اپریل ۶۱۹۵۳ ) سلسلہ احمدیہ کے نہایت متوکل، زاہد، عابد اور مستجاب الدعوات اور ممتاز بزرگ حضرت ڈاکٹر سید لے روزنامہ " الفضل" ۲۹ جنوری ۶۱۹۵۳ صت به ه روزنامه " المصلح" در جولائی ۶۱۹۵۳ مث
- عبد الستار شاہ صاحب کے فرزند ارجمند اور احمدیت کا مجستم پاک نمونہ تھے.نمازوں اور تجد میں با قاعدگی رکھتے تھے اور قرآن پاک کے ساتھ خاص عشق تھا آپ پہلے فوج میں میجر آئی ایم ایس تھے پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ - ۱۹۱۸ء) کے بعد جیل خانہ جات پنجاب کے سپرنٹنڈنٹ رہے اور ۱۹۴۴ء کے آخر میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیلی بنا دئے گئے اور اسی عہدہ سے ریٹائر ہوئے اور پھر سیا لکوٹ میں چاہیے اور نہیں انتقال کیا.سرکاری ملازمت میں جہاں جہاں رہے اپنے اخلاق ، خدمت اور رواداری سے سب کو گرویدہ بنا لیا حتی کہ غیر مسلم تک آپ کی بلند حوصلگی اور شان مروت کو دیکھ کر دنگ رہ گئے.اخبار ریاست دہلی کے ایڈیٹر اور ممتاز سیکھ صحافی جناب سردار دیوان سنگھ مفتون نے اپنی کتاب ناقابل فراموش میں حضرت شاہ صاحب کا ذکر نہایت عقیدت بھرے الفاظ میں کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں.دام سوموار کو صبح سپر نٹنڈنٹ میجر شاہ (یہ بزرگ بہت شریف - دیانتدار.نیک اور مذہبی خیال کے بزرگ تھے قادیان کی احمدی جماعت کے پیشوا کے عزیزوں میں سے تھے.قیدیوں کے بہت ہمدرد تھے مگر ان کی دماغی کیفیت کچھ ایسی تھی جسے فزیکل کہا جاسکتا ہے یعنی خیال آجائے تو قیدی کے لئے سب کچھ کر دیں اور خیال نہ آئے تو قیدی کی کسی خواہش کی پرواہ نہ کریں یہ ہمیشہ ہی میرے احساس کا خیال کرتے رہے " پریڈ میں تشریف لائے تو میں نے ان سے کہا پریس کی بجائے میری ڈیوٹی کیسی اور جگہ لگا دی جائے تو اچھا ہو میجر شاہ نے فوراً حکم دیا کہ میں اپنی رہائش والی جگہ پر ہی رہوں اور جو کام دینا ہو یہاں ہی دے دیا جائے “ سے (۲) اس زمانہ میں سپر نٹنڈنٹ کے عہدہ پر ایک بہت ہی نیک دل اور خدا ترس میجر وو حبیب اللہ شاہ تھے میجر شاہ پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے اور مذہبی اعتبار سے قادیان کے احمدی اور احمدیوں کے موجودہ پیشوا کے قریبی رشتہ دار.آپ کو ولایت کے تعلیم یافتہ تھے اور ان کے گھر میں بھی یورپین بیوی تھیں مگر نیکی، پارسائی، نماز، روزہ کے اعتبار سے آپ ایک پکے مسلمان تھے " سے لے آپ کے حالات " تاریخ احمدیت جلد ہشتم ۲۳ پر درج ہیں ؟ کے ناقابل فراموش» از دیوان سنگھ مفتون طبع اول مارچ ۱۹۵۸ء ۲۵ ۵۳ ایضاً ۲۷۰۳۲۹
۱۶۲ رسالہ چٹان لاہور کے ایڈیٹر شورش کا شمیری صاحب نے اپنی کتاب ” پس دیوار زندان“ میں اُن کے کئی چشم دید واقعات لکھے ہیں جن سے آپ کے پاکیزہ شمائل پر خوب روشنی پڑتی ہے.چنانچہ لاہور سٹرل جیل کے ضمن میں لکھا ہے :.(۱) سید امیر شاہ جیلر تھے اور میجر حبیب اللہ شاہ سپرنٹنڈنٹ دونو خاص خوبیوں کے مالک تھے.کرنل پوری انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات نے منٹگمری سے واپسی کے بعد میجر حبیب اللہ شاہ سے ذکر کیا کہ ایک سخت طبیعت کا قیدی آرہا ہے اس پر قابو پا سکو گے ؟....مجھے یہاں تشقرد و انتقام کے سبھی مرحلوں سے گزار کر لایا گیا تھا اور اب مجھے پر کوئی سا تجربہ کرنا باقی نہ رہا تھا میجر حبیب اللہ شاہ کا سلوک بہر حال شریفانہ تھا.لطف کی بات یہ ہے کہ وہ پچھے قادیانی تھے.ان کی ہمشیرہ میرزا بشیر الدین محمود کے عقد میں تھیں.قادیان کے ناظر امور عامہ سید زین العابدین علی اللہ اُن کے بڑے بھائی تھے.انہیں یہ بھی علم تھا کہ میں آل انڈیا مجلس احرار کا جنرل سیکرٹری ہوں اور احرار قادیانیوں کے حریف ہیں بلکہ دونوں میں انتہائی عداوت ہے.میجر حبیب اللہ شاہ نے اشارہ بھی اس کا احساس نہ ہونے دیا انہوں نے اخلاق و شرافت کی انتہا کر دی.پہلے دن اپنے دفتر میں اس خوش دلی اور کشادہ قلبی سے ملے گویا مدة العمر کے آشنا ہیں.انہوں نے مجھے بیماری میں رکھا اور اچھی سے اچھی غذا دینا شروع کی نتیجہ میری صحت کے بال و پر پیدا ہو گئے اور میں چند ہفتوں ہی میں تندرستی کی راہ پر آگیا.وہ بڑے جسور، انتہائی حلیم، بے حد خلیق اور غایت درجہ دیانت دار آفیسر تھے.ان کے پہلو میں یقیناً ایک انسان کا دل تھا.ان کی بہت سی خوبیوں نے انہیں سیاسی قیدیوں میں مقبول و محترم بنا دیا یا کے میجر حبیب اللہ شاہ نے قیمتی سے قیمتی دو امتیا کی اور اچھی سے اچھی غذا تاکہ منٹگمری جیل کے ظالمانہ ایام میں جو کچھ مجھ پر بیت چکی ہے اس کی تلافی ہو اور میں گمشدہ صحت حاصل کر سکوں.جب ساتھیوں کی اس بیگانہ وشی کا انہیں پتہ چلا تو قلق ہوا سید امیر شاہ اور بھی آزردہ ہوئے بعض ے یہ واقعات انداز ۱۹۴۲ء کے ہیں : که پس دیوار زندانی از شورش کا شمیری شائع کردہ مکتبہ چٹان لاہور ص ۲۵، ص۲۵۵
۱۶۳ کانگریسی راہنماؤں سے دبی زبان میں گلہ کیا.آخر ایک روز ان کی معاونت سے مجھے ایک کمرہ مل گیا.سجن سنگھ اپنی جگہ آگئے.سید امیر شاہ نے اپنے طور پر مجھے بی کلاس کی مراعات دے دیں یعنی وہ تمام سامان بھیجوا دیا جو بی کلاس قیدیوں کے لئے مقرر تھا.میجر مجیب اللہ شاہ نے میری صحت کی خرابی کے پیش نظر اعلیٰ خوراک اور پھل مہیا کرنے کا حکم دیا یا لے (۳) " شاه صاحب ( مراد سید حبیب شاہ صاحب مریز سیاست ناقل ) چاہتے تو لاہور میں رہ سکتے تھے یہاں انہیں بہت زیادہ آرام حاصل تھا خود منوہر لال ان کا خیال رکھتے.سپرنٹنڈنٹ جیل میجر حبیب اللہ شاہ ایک تو خود شریف النفس انسان تھے دوسرے میرزا بشیر الدین محمود نے بھی انہیں کہہ رکھا تھا " نے هند و اخبار پرتاپ (لاہور) کے آریہ سماجی ایڈیٹر ماشہ کرشن نے آپ کو ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پنجاب ہونے پر ایک خصوصی نوٹ میں مبارکباد دی چنانچہ لکھا :- شاہ صاحب احمدی ہیں اور یکی آریہ سماجی با وجود اس کے میں انہیں اس ترقی پر مبارکباد دیتا ہوں کیونکہ وہ ہر لحاظ سے اس کے مستحق ہیں.بہت کم سپر نٹنڈنٹ ہیں جو ہر دلعزیزی کے میدان میں اُن کا مقابلہ کر سکیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا ترس اور فرض شناس ہیں.ان کی خدا ترسی انہیں کسی قیدی پر بے جا سختی کی اجازت نہیں دیتی اور ان کی فرض شناسی اس بات پر تیار کرتی ہے کہ قواعد کی حدود میں رہ کر قیدیوں سے بہترین سلوک کیا جائے" سے میجر صاحب کے چھوٹے بھائی سید عبد الرزاق شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :- آپ را ولپنڈی میں سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ تھے.ایک دن اُن کا داروغہ جیل ان کی کوٹھی میں بے وقت آیا اور شکایت کی کہ ایک کہنچنی جو قیدی ہے بڑا شور کر رہی ہے اور سب کو گندی گالیاں دے رہی ہے اور بے قابو ہے.آپ نے اُس سے کہا تم چلو میں آتا ہوں.گھر میں دو نفل پڑھے اور دعا کے بعد جیل خانہ گئے.وہ کھڑی تھی جو نہی آپ اس کے سامنے ہوئے اس کی زبان پس دیوار زندان از شورش کا شمیری ۲۶ + له ايضا ص۲۷۷۰۲۷۶ پرتاپ دسمبر ۶۱۹۴۴ بحواله الفضل ۱۴ فتح ۱۳۲۳ پیش / ۱۴ دسمبر ۶۱۹۴۴ حث کا لم ۳ ۴۰ +
بند ہو گئی اور کانپنے لگی ہی ہے حضرت سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قدر والہانہ عشق تھا اس کا ذکر شورش صاحب نے درج ذیل الفاظ میں کیا ہے :- ایک دن میجر حبیب اللہ شاہ نے مجھے یاد کیا ان کے دفتر میں گیا تو ہوم سیکرٹری کا ایک خط دکھایا جس میں سردار گوپال سنگھ قومی سے جھٹکے کے تنازعہ کا ذکر تھا اور اس امر کی ہدایت کی گئی تھی کہ اذان دینے سے ٹیررسٹ وارڈ کے قیدیوں میں جو بد مزگی پیدا ہوتی ہے اس پر قابو پایا جائے.انگریزی دوغلہ زبان ہے ایک ہی لفظ کے کئی مفہوم ہوتے ہیں.یکی نے اور میجر حبیب اللہ شاہ نے اس خط سے جو مطلب اخذ کیا یہ تھا کہ اذان دینے کی حوصلہ شکنی کی جائے ہر حال یہ خط داخل دفتر ہو گیا.میجر حبیب اللہ شاہ نے بھی کوئی تو تعبہ نہ دی نہ ہم نے غور کیا.لاہور کا ڈپٹی کمشنر ہینڈ رسن تھا اسنے ایک دن اُس سوال پر کوئی ناگوار بات کسی میجر صاحب کو غصہ آگیا ہینڈ رسن کو فوراً ٹو کا " آپ آذان یا قرآن کے بارے میں محتاط رہیں ! یکی نہیں روک سکتا ؟ میجر صاحب ہینڈرسن سے اُلجھ پڑے.ایک دفعہ پہلے بھی ہینڈرسن نے حضور کا نام بے ادبی سے لیا تو اس سے اُٹھے تھے.تمام جیل میں ان کی اس حمیت کا چرچا تھا " ہے اولاد - ارسیده رضیہ بیگم صاحبه (حال ربوه) ۲- سیده تنقیه بیگم صاحبه حال کراچی ) سید منصور احمد شاہ صاحب ایر کموڈور ریٹائرڈ (حال کراچی) - حافظ عبدالعزیز صاحب نون ساکن حلال پور ضلع سرگودھا (ولادت ۱۸۷۵ء ، بیت ۱۱۹ وفات ، ارمئی ۱۹۵۳ م آپ نے ۲۹ دسمبر ۱۹۳۷ء کو اپنے قبول احمدیت کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا :- و ئیکس نے ۱۹۰۷ ء میں قادیان آگر دستی بیعت کی.....حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول غیر مطبوعہ مکتوب بنام مولف" تاریخ احمدیت " به " پس دیوار زندان از شورش کا شمیری خه ۳۰ ، منا ۳ سے الفضل ۱۹ مئی ۱۹۵۳ء صه و مکتوب میاں عبد السميح صاحب نون ایڈووکیٹ سرگودہا ( بنام مولف کتاب )
۱۶۵ میرے واقف تھے چھوٹی مسجد میں بیعت کی تھی.میرے لئے حضرت نے دعا کی.اُس وقت سے میرا ایمان نہایت مضبوط ہے.اُس وقت میں نے آپ کو سیح موعود اور امام مہدی مانا تھا.سنتے تھے کہ حضرت عیسی کی بجائے آپ تشریف لائے ہیں یا لے ا رمئی ۱۹۵۳ کا واقعہ ہے کہ آپ صبح سوا چار بچے اپنے گاؤں حلال پور کی طرف آرہے تھے کہ آپ کا گھوڑا پھلرواں ریلوے سٹیشن سے دو میل دور گاڑی سے بد کا اور بے قابو ہو کر انجن کی لپیٹ میں آگیا.گھوڑا اچھلا گیا اور آپ لائن سے باہر گر پڑے.ایک زخم دائیں پنڈلی پر اور دوسرا زخم بائیں کان کے پیچھے آیا گاڑی کھڑی ہو گئی.ریلو سے گارڈ نے آپ کو بے ہوشی کی حالت میں گاڑی میں رکھ لیا.گاڑی ابھی تین میل ہی گئی تھی کہ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ کی نعش ملکوالی ریلوے سٹیشن پر پہنچی.آپ کی جیب سے کچھ نقدی اور دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ کی ایک میٹھی بر آمد ہوئی مشین سے ریلوے پولیس نے احمدی قرار دے کر نعش تجہیز و تکفین وغیرہ کے لئے جماعت احمدیہ بھیرہ کے سپرد کر دی جماعت بھیرہ نے کفن وغیرہ کا انتظام کیا.جنازہ پڑھا اور دفن کرنے کے لئے قبرستان کی طرف لے جانے ہی والے تھے کہ راجہ بشیر الدین صاحب سکول ماسٹر مڈھ رانجھا نے جو حسن اتفاق سے وہاں گئے ہوئے تھے نعش کی شناخت کرلی اور جماعت کے دوستوں کو حلال پور نعش پہنچانے کے لئے کیا چنانچہ دوستوں نے لاری کا انتظام کیا اور پندرہ سولہ آدمی نعش کو لاری میں رکھ کر 11 میٹی ۲ بجے رات کو حلالہور آئے.جماعت احمدیہ بھیرہ کے دوستوں نے کمال ہمدردی اور انتشار کا نمونہ دکھایا.آپ کا جنازہ غائب حضرت مصلح موعود نے ۱۹ جون ۱۹۵۳ کو پڑھایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قلعہ صحابہ میں دفن کئے گئے.آپ کی وفات پر مولوی عبد المجید صاحب منیب (معلم اصلاح و ارشاد) نے لکھا :.مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ بیعت سے پہلے میں صوم وصلوٰۃ کا تارک تھا لیکن سبعیت کے خط میں ہی حضرت اقدس علیہ السلام سے اوامر کی پابندی کے لئے دعا کی درخواست کی چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ خدا کا فضل ہے کہ اس کے بعد سفر اور حضر میں.بیماری اور صحت کی حالت میں ایک نمازہ 1.9 ے رجسٹر روایات صحابہ جلد ۳ ما "المصلح» ۲۹ اگست ۱۹۵۳ء ص وہ جولائی ۱۹۵۳ ء مث کالم ملا ہے
بھی فوت نہیں ہوئی.۱۶۶ آپ بڑے پرانے موصی تھے اور اپنی حیات ہی میں اپنا جائداد کا ایک حصہ صدر انجین احمدیہ کے نام منتقل کر دیا تھا.آپ بڑے شجاع تھے اور دین کے معاملہ میں بڑی غیرت رکھتے تھے شدید سے شدید مخالفت کی بھی پروانہ کرتے تھے.گودین کے معاملہ میں آپ بہت غیرت دکھاتے تھے مگر دنیا کے معاملات میں آپ بہت نرم دل تعلیم طبع واقع ہوئے تھے چنانچہ آپ کے کمین اور مزارعان اور دیگر رشتہ دار آپ سے بہت خوش تھے.آپ کفایت شعار تھے لیکن سلسلہ کی ہر تحریک میں حصہ لیتے.تحریک تجدید کا چندہ سابقون ہیں شامل ہونے کے لئے اُدھار بھی لے کر ادا کر دیا کرتے تھے.حضرت حافظ صاحب صائب الرائے اور حاضر جواب تھے مشکل سے مشکل موقعہ پر بھی کوئی مناسب تدبیر آپ کو سوجھ جایا کرتی تھی " سے میاں عبد السمع صاحب نون ایڈووکیٹ سرگودھا ( خلف الرشید حافظ عبد العزیز صاحب نون ) کا تحریری بیان ہے کہ :.حضرت حافظ عبد العزیز صاحب نون...موضع حلال پور تحصیل بھلوال میں...پیدا ہوئے.انکے والد صاحب حافظ غلام محمد صاحب اور دادا حافظ غلام مصطفیٰ صاحب تھے.اس سے اوپر بھی جہاں تک شجرہ نسب ملتا ہے سب جد امجد حفاظ قرآن کریم تھے بلکہ خواتین بھی قرآن کریم کی حافظ تھیں چنا نچہ والد صاحب کی بہنیں اور پھوپھیاں بھی حفاظ تھیں...والد صاحب کے دادا حضرت حافظ غلام مصطفی صاحب مشہور قاری اور علم حدیث کے متجر عالم تھے.جب حضرت امام مہدی کے ظہور کی علامات کسوفت خسوف (۱۸۹۴ء میں) ظاہر ہوئیں تو انہوں نے اعلان کر دیا کہ امام مہدی ظاہر ہو چکے ہیں لیکن ان کی جلد ہی وفات ہو گئی مگر ے آپ کا نام تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین کی مطبوعہ فہرست کے صفحہ ۳۲۰ پر درج ہے : که روز نامها المصلح" کراچی مورخه ۲۹ ظهور ۱۳۳۲ بهش سر اگست ۶۱۹۵۳ ه به
192 حضرت حافظ عبد العزیز صاحب نے اس وصیت کو یاد رکھا ہوا تھا جونہی انہیں کسی اشتہار کے ذریعہ سے حضرت اقدس مہدی علیہ السلام کی آمد کی اطلاع ملی.انہوں نے قادیان کا عزم کیا اور حضرت اقدس کی زیارت سے مشرف ہوتے ہی بیعت کر لی.آپ کے بعد حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل حلالپوری پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی صداقت آشکارا ہو گئی اور وہ بھی امام زمان کی بیعت سے مشرف ہوئے لیے حضرت مولوی صاحب ایک مشہور عالم خاندان کے چشم و چراغ تھے ان کی بیعت سے گاؤں میں سخت رد عمل پیدا ہوا.انہیں تکلیفیں بھی دی گئیں.خود حافظ صاحب کے خلاف بھی کئی قسم کے منصوبے بنائے گئے مگر حضرت حافظ صاحب خود بڑے زمیندار اور رعب والے انسان تھے کسی کو جرات نہ ہوئی کہ بر ملا ان کے روبرو تعصب کا اظہار کر سکے.وہ خود ایک ننگی تلوار کی طرح تھے احمدیت کے ٹور کو چھپانا معصیت سمجھتے تھے اور تبلیغ حق کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.حضور اقدس علیہ السلام کی جو کتاب آتی گھوڑے پر سوار ہو کر سُنانے نکل جاتے.ان کا برتاؤ مغرباء کے ساتھ مشفقانہ تھا.ان کی عربات نفس کا بہت خیال رکھتے تھے اور وہ بھی ان پر جان نچھاور کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان میں بہت قیام فرماتے تھے اور اکثر حضور سے خط و کتابت کرتے رہتے تھے.اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ بھی عاشقانہ محبت و عقیدت رکھتے تھے.دعاؤں کے لئے خود بھی حضوریہ کو خطوط لکھتے اور دوسرے غیر از جماعت دوستوں کو ان کی مشکلات کا حل حضرت مصلح موعود کی دعائے مستجاب میں بتاتے تھے اور ایسے دل نشیں اور پروٹون طریق پر حضرت اقدین کا قبولیت دعا کا نشان بیان فرماتے تھے کہ اکثر لوگ حضور انور کو دُعا کے لئے خطوط لکھتے اور پھر ان سے نتائج معلوم کرتے جو اکثر و بیشتر بلکہ ہمیشہ ہی ایزا دی ایمان و ایقان کا باعث بنتے " سے ه تحریری بیعت ۱۷ار فروری ۱۱۹۰۸ ، دستی ۱۳ راپریل ۶۱۹۰۸ (مرتب) به ه غیر مطبوعہ خط میاں عبد السمیع صاحب نون ایڈووکیٹ سرگودھا بنام مؤلف تاریخ احمدیت +
IYA اولاد : (1) میاں عبدالسمیعے صاحب نون ایڈووکیٹ سرگودہا (۲) محترمہ زینب بیگم صاحبہ (۳) محترمه سردار بیگم صاحبہ.- ماسٹر عبدالعزیز صاحب نوشہرہ کے زرئیاں ضلع سیالکوٹ (ولادت ۱۸۶۳ قریباً بیت ۶۱۹۰۶ زیارت ۱۹۰۷ ء وفات ۲۰ جون ۶۱۹۵۳ ) له آپ اپنے خود نوشت حالات میں لکھتے ہیں کہ :." بعد امتحان میٹریکولیشن میں یکم جولائی ۱۸۸۷ء کو رسالہ کا بنگال کیوری متعینہ چھاونی فیروز پور میں بعہدہ انگلش سکول ماسٹر ملازم ہو گیا.میرے اسسٹنٹ منشی خیر الدین صاحب جو ریاست مالیر کوٹلہ کے ایک مغرة زجاگیر دار خاندان سے تھے مقرر ہوئے.آپ کو فارسی زبان کا اچھا ملکہ تھا اور آپ پہلے احمدی تھے.آپ کو حضرت صاحب کی کتابوں کا بڑا شوق تھا چنا نچہ جو بھی کتاب وہ منگواتے مجھے ضرور مطالعہ کے لئے دے دیتے ہیں اس کو بڑے غور اور ٹھنڈے دل سے پڑھتا اور جو بات میری عقل اور فہم سے بالاتر ہوتی ہیں اسے ہمیشہ بحوالہ خدا کرتا رہا اور کبھی دل میں نہ کسی قسم کا شک پیدا ہوا اور نہ ہی اعتراض ، نکتہ چینی یا عیب جوئی کا خیال آیا.قصہ مختصر یہ کہ ۲۶ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ہمارا رسالہ چھاونی فیروز پور سے تبدیل ہو کر چھاؤنی لورالائی ملک بلوچستان کو چلا گیا.چونکہ رسالہ سٹرک سوار پیدل جارہا تھا ہم لوگ ماہ دسمبر میں براسته منتشگیری ، ملتان ، ڈیرہ غازی خان و غیره میدانی اور پہاڑی علاقہ طے کرتے ہوئے لورالائی پہنچے.یہاں رسالہ دو سال رہا.یہیں مجھے صوفیائے کرام کی کتابوں اور مثنوی شریف پڑھنے کا شوق پیدا ہوا.حضرت صاحب کی کتاب ازالہ اوہام بھی چھپ کر پہنچ گئی.ہم نے کتاب مذکور کو بغور پڑھا اور پھر ایک شخص بنام میر احمد شاہ دفعدار کو دی.اُس نے خدا جانے اسے پڑھا یا نہ پڑھا مگر اس نے حضرت صاحب کے الہام انا افر لناه قَرِيبًا من القادیان کے متعلق سخت نکتہ چینی کی اور کچھ ناروا الفاظ بھی اپنی زبان سے کہے.چھاؤنی اور الائی سے تبدیل ہو کر اسی طرح پیدل سوار چلتے ہوئے فروری ۱۸۹۴ء کو نه المصلح ۴ اکتوبر ۱۹۵۳ء صد کالم عاد
149 علاقہ منت نگری سے لگاتار بارشوں میں بھیگتے ہوئے چھاؤنی انبالہ پہنچے....چندوں میں تو یکیں شروع اپریل 1904 ء میں شامل ہو گیا تھا مگر ابھی بیعت نہیں کی تھی.ایک دن یکی قرآن شریف پڑھ رہا تھا جب میں نے یہ آیت " كُنتَ انْتَ الرَّقِيبٌ عَلَيْهِمُ پڑھی تو مجھے سیاق و سباق سے یقین آگیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام واقعی فوت ہو چکے ہیں اب ان کا دوبارہ آنا ناممکن الوقوع ہے.غرضیکہ قرآن شریف کی رہنمائی اور احمدی احباب کے فیض صحبت سے متاثر ہو کر میں نے دستی بیعت کرنے سے پہلے بذریعہ خط ۱۹۰۶ ء میں حضرت صاحب سے مع بیوی اور تین بچوں ( ۲ لڑکے اور ایک لڑکی بیعت کا شرف حاصل کیا.پھر اخیر ماہ ستمبر ۱۹۰۷ء میں اپنے عزیز ملک جلال الدین صاحب سکنہ دھرم کوٹ بگہ کو ہمراہ لے کر قادیان گئے اور نماز ظہر کے بعد مسجد مبارک میں خاص حضرت صاحب کے دست مبارک پر ہم دونوں نے بیعت کی اور اسی روز شام کو موضع پہل پچک میں آکر جمعدار حسین بخش صاحب پنشنر کے ہاں مہمان ہوئے پھر علی الصباح ہی لیکن امرتسر چلا آیا لے آپ نہایت مخلص متقی ، پابند صوم و صلواۃ اور صاحب رؤیا و کشف بزرگ تھے.حضرت سیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اندرین وقت مصیبت چاره ما بیکساں جزہ دعائے بامداد و گریه اسحار نیست سے اس مصیبت کے وقت ہم غریبوں کا علاج سوائے صبح کی دھا اور سحری کے روزے کے اور کچھ نہیں.ماسٹر عبد العزیز صاحب نوشہر وی اس شعر کا ایک جیتا جاگتا عملی نمونہ تھے.مہمان نوازی ، بیمار پرسی اور غریب پروری آپ کی طبیعت کا خاصہ تھا.نوشہرہ میں گرلز مڈل سکول آپ نے منظور کرایا اور اپنا مکان سکول کے سٹاف کی خاطر دے دیا.ہر کام سلیقہ سے انجام دیتے.طبیعت میں نہایت سادگی تھی.۱۹۳۴ء میں آپ کی لڑکی اختر بیگم ۲۱ سال کی عمر میں جے وی پاس کر کے گھر آئی.اس کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ وہ اچانک بیمار ہو کہ اس جہانِ فانی سے اُٹھ گئی جس کا آپ کو بہت صدمہ ہوا یہاں تک کہ اس فانی دنیا کی کچھ حقیقت اُن کی ے رجسٹر روایات صحابه مه ۲۱ تا ص ۲۱ : بركات الدعاء ص ۳۲
نگاہ میں نہ رہی آپ نے اپنی اس پیاری بچی کا تمام جہیز نصرت گرلز سکول قادیان کو دے دیا.آپ سخت محنت کے عادی تھے اپنی زندگی کے آخری سال میں بھی جبکہ آپ کی عمر نو سے سال کے لگ بھگ تھی پیدل چل کر اپنے کھیتوں کا چکر لگا آتے، با وجود بڑھاپے کے درختوں کو پانی دیتے ، ملائی کرتے اور باغ کی نگہداشت میں لگے رہتے.حضرت خلیفة المسیح الاول ان سے بہت گہرے تعلقات تھے اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام بالخصوص حضرت مصلح موعود کے ساتھ غایت درجہ محبت و عقیدت تھی لیے حضرت مصلح موعود نے ۲۵ ستمبر ۱۹۵۲ء کو نماز جمعہ کے بعد آپ کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا " صحابی تھے مخلص احمدی تھے کے ۵ - چودھری عمر الدین صاحب آف بنگہ ضلع بالند مقر ولادت : اندازه ۱۸۶۳ و بیعت ۱۹۰۳ء ، وفات : ۲۳ جون ۶۱۹۵۳ } چوہدری مثمر الدین صاحب مبلغ اسلام مولوی کرم الہی صاحب ظفر مبلغ سپین کے چچا تھے اور انہیں کے ذریعہ سے آپ کے خاندان کو احمدیت کی لازوال نعمت و برکت نصیب ہوئی.فرمایا کرتے تھے کہ مجھے احمدیت حضرت مولوی کریم بخش صاحب کے ذریعہ قبول کرنے کی توفیق ملی.آپ کو مشرق وسطی کے سفر کا بھی موقع ملا اور مصر، شام اور ترکی بھی گئے.فرمایا کرتے تھے ، اسی سفر میں اشارہ ہوا کہ پیشوا ظاہر ہو چکا ہے اس کی بیعت کرو چنا نچہ سفر سے واپسی پر آتے ہی احمدیت نصیب ہوگئی.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۱۹۰۵ ء میں جب دہلی تشریف لے گئے تو آپ بھی امرتسر سے پھگواڑہ سٹیشن تک حضور کے ہمسفر رہے جونہی کوئی سٹیشن آتا آپ نکل کر حضور کے ڈبہ کے سامنے کھڑے ہو جاتے.له المصلح - الغاء ۱۳۳۲اہش ۴ اکتوبر ۱۹۵۳ء ص ب له المصلح ۱۳ نبوت ۱۳۳۲ ش / ۱۳ نومبر ۶۱۹۵۳ سے بیعت سے قبل اہلحدیث تھے احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ نے اعلان فرما دیا کہ میں نے تحقیق کر کے بیعت کی ہے آپ لوگوں کی عبیسی مرضی ہو.اکثر اہلحدیث آپ کے خیالات کا ادب کرتے تھے اس لئے اکثر نے اُن کی بیعت کے بعد بیعت کر لی ؟
141 حضرت اقدس نے فرمایا.میاں عمر الدین ! ہر سٹیشن پر ہی آجاتے ہو.انہوں نے عرض کیا کہ حضور پھگواڑہ سے گاڑی بدل جائے گی اس لئے نا معلوم کب زیارت ہو.آپ کو اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ حضرت اقدس کو میرا نام بھی یاد ہے.آپ ایک مثالی احمدی تھے.بڑی عمر کو پہنچے جانے کے باوجود صحت جسمانی اچھی رہی.تجد با قاعدہ ادا کرتے تھے اور دیگر نوافل بھی.حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعودؓ سے غایت درجہ عقیدت و محبت تھی.ان کا نام سنتے ہی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے.ایک لمبے عرصہ تک جماعت احمدیہ بنگہ ضلع جالندھر کے سیکرٹری حال رہے.حسب توفیق ہر قسم کے چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.نہایت مخلص اور غریب پرور تھے یہ آپ کا انتقال جھنگ میں ہوا جہاں آپ کے فرزند ڈاکٹر فضل حق صاحب پریکٹس کرتے ہیں.آپ موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک ہوئے.- - حضرت شیخ محمد کرم الہی صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ پیٹیالہ (ولادت ۱۸۵۶ء بیعت ۲۸ فروری ۱۸۹۰ء.وفات ۹ جون ۱۹۵۳ء ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تین سو تیرہ اصحاب کبار میں سے تھے اور حضرت اقدس نے ضمیمہ انجام آعظم کی فہرست میں آپ کا نام ۱۲۶ نمبر پر درج فرمایا ہے.سلسلہ احمدیہ کی متعد د خدمات بجالانے کا آپ کو شرف حاصل ہوا.منارۃ المسیح قادیان پر آپ کا نام چندہ دہندگان کی فہرست میں کنندہ ہے.۶۱۹۲۳ سے مجلس مشاورت کی نمائندگی کے فرائض بھی بجا لاتے رہے اور تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا.ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد کراچی میں آباد ہو گئے اور یہیں وفات پائی.میاں جان محمد صاحب پینشنر سب انسپکٹر پولیس کیمپلپور (ولادت : اندازاً ۱۸۷۷ء ، - وفات : در جولائی ۱۱۹۵۳) ه روزنامه المصلح کراچی مورنہ ور وفا ۱۳۳۲ ہش / ۹ جولائی ۱۹۵۳ء (مضمون مکرم مولوی کرم البنی هاست ظفر مبلغ سپین سے ملخص ) رجسٹر بیعت اولی - ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ المصلح کراچی ۱۲ جون ۱۹۵۳ صفحہ ۸( مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۶۴ صفحه (۴)
۱۷۲ شیخ محمد صدیق صاحب امیر جماعت احمدیہ کمی پور نے آپ کی وفات پر لکھا ہے.و و مر حوم صحابی تھے شمع تبلیغ کے پروانے تھے.آپ نہایت ہی متقی، پرہیز گار، تجد خواں ، پر جوش اور مخلص احمدی تھے.آپ کی وفات سے جماعت ایک قیمتی وجود کی رائے اور دعاؤں سے محروم ہو گئی ہے.آپ ۱۹۳۲ء میں ریٹائر ہوئے اور ۱۹۲۷ء تک لینے پندرہ سال امیر اور سیکرٹری مالی جماعت احمدیہ کیمپلپور کے اہم عہدوں کو نہایت تندہی اور خوش اسلوبی سے سنبھالے رکھا.آپ کی ذاتی لائبریری میں سلسلہ عالیہ حدیہ کی تقریباً جملہ کتب اور اخبار الفضل کے فائل موجود ہیں جن سے جماعت اور پبلک مستفیض ہوتی رہتی ہے " سے شیخ نیاز محمد صاحب ریٹائر ڈ انسپکٹر پولیس رولات الامام امین آباد ضلع گوجرانوالہ بیعت و زیارت : ۶۱۹۰۷، وفات ۲ جولائی ۱۹۵۳ء بمقام ربوده) شیخ صاحب مرحوم میاں محمد بخش صاحب انسپکٹر پولیس بٹالہ کے فرزند تھے جنہوں نے ۱۸ اپریل ۱۸۹۷ء کو قتیل لیکھرام کا سراغ لگانے کے لئے مسٹر بیمار چند سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداس پور وغیرہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الدار کا محاصرہ کیا اور خانہ تلاشی لی یہ شیخ نیاز محمد صاحب کی خود نوشت روایات میں ہے کہ :.مجھے یاد پڑتا ہے اور میری والدہ صاحبہ نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ والد صاحب نے ذکر کیا تھا کہ لیکھرام کے قتل پر جب حضرت اقدس کے مکان کی تلاشی لی گئی تو والد صاحب کی کسی زیادتی پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ تو اس طرح مخالفت کرتے ہیں مگر آپ کی اولاد میرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو جائے گی.والد صاحب نے فرمایا کہ میں یہ سن کر چپ ہو گیا کیونکہ اُن کو یہ شروع سے ہی یقین تھا کہ حضرت صاحب نہایت بزرگ اور عا بد انسان ہیں نے که حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ سرحد نے " تاریخ احمدیہ (سرعد مطبوعہ ۱۹۵۹ء کے صفحہ ۲۵۸ ۲۵۹ پر آپ کا ذکر فرمایا ہے ، بے روزنامہ الصلح کراچی ، ر جولائی ۶۱۹۵۳ صت به سه روزنامه الفضل ربوه ۲ ستمبر ۶۱۹۵۳ ه که روزنامه المصلح" کراچی ۲۸ جولائی ۶۱۹۵۳ باشہ اس واقعہ کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد دوم طبع دوم صفحہ ۲۲۸ - ۴۲۰ میں گزرچکی ہے : شہ رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۳ ص۱۳۲ :
۱۷۳ شیخ نیاز محمد صاحب کے بیان کے مطابق ۱۹۰۱ء کے آخر میں اُن کے والد صاحب کو ہاتھ میں کا بینکل کا پھوڑا نکلا جو ملک ثابت ہوا.بیماری کے ایام میں انہوں نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ تندرست ہونے کے بعد حضرت اقدس کی بیعت میں داخل ہو جائیں گے مگر زندگی نے وفانہ کی اور وہ ۳ مارچ ۱۹۰۲ء کو فوت ہو گئے.ان کی وفات کے بعد شیخ نیاز محمد صاحب بٹالہ سے اپنی زمین واقع تحصیل حافظ آباد میں چلے آئے جہاں اُس وقت بندوبست ہو رہا تھا چند سال بعد غد اکے ٹیم کے مبارک ہونٹوں سے نکلی ہوئی بات پوری ہو گئی احمد شیخ نیاز محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کرلی.جناب شیخ صاحب اپنے قبول احمدیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.حسن اتفاق سے حضرت مولوی حکیم محمد دین صاحب ۱۹۰۷ ء میں ہمار سے ایک مکان میں کرایہ دارہ کی حیثیت سے رہنے لگے اور اس بزرگ کی پاک محبت کے اثر سے اس عاجز کو توفیق علی کہ یہ عاجز اُن کے ہمراہ قادیان آیا.اور چونکہ اُن ایام مجھے دینی واقعیت اچھی طرح سے نہ تھی اس لئے حضرت خلیفہ اول من سے جو مجھ سے شفقت سے پیش آتے تھے دو تین روز کے بعد ذکر کیا کہ حضرت صاحب کو سیح اور مہدی مان لینا کوئی آسان کام نہیں.پہلے میں اہلسنت و الجماعت کی کتب پڑھوں گا اور پھر حضرت اقدس کی کتب کا مطالعہ کر کے کوئی فیصلہ کروں گا.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ زندگی کا کیا اعتبار ہے یکن آپ کو ایک آسان گر بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ اللہ تعالی کے حضور میں دعا کریں اگر حضور پہنچے ہوئے تو آپ پر حقیقت کھل جائے گی.چنانچہ میں نے نمازوں میں دعائیں کرنی شروع کر دیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے دوسرے یا تیسرے روز مجھے پر ایک مبشر اور صاف خواب کے ذریعہ سے حقیقت گھل گئی اور معا مجھے اپنے والد صاحب کی آخری نصیحت بھی یاد آگئی تو میں نے حضرت خلیفہ مسیح اول کی خدمت میں اپنی رؤیا اور والد صاحب کی آخری نصیحت کا ذکر کیا اور عرض کی کہ میں بیعت کرنے کے لئے آمادہ ہوں.اس وقت قریباً ۹.ابجے صبح کا وقت تھا.حضرت خلیفہ مسیح اول نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا اب تو آپ ہمارے بھائی ہو گئے ہیں اور پھر اسی وقت مجھے مع حکیم محمد دین صاب حضرت اقدس کے دولت خانہ پر لے گئے اور اندر اطلاع کروائی.اس پر حضور نے کمال شفقت سے بیت الدعا کے ساتھ والے دالان میں بلوا کر اس عاجز کی بیعت لی.یکی نے بیعت کرنے سے پہلے حضور کی خدمت میں آبدیدہ ہو کر عرض کی کہ للہ میرے والد صاحب کو معاف فرما دیں حضور نے فرمایا اچھا
14 ہم نے معاف کر دیا.پھر میں نے عرض کی کہ للہ ان کے لئے درد دل سے دعا فرما دیں.فرمایا بہت اچھا.بیعت کے وقت حضرت اقدس چار پائی پر تشریف رکھتے تھے.میں نیچے بیٹھ گیا مگر حضرت اقدس نے میرا ہاتھ کھینچے کہ اوپر بٹھالیا اور بیعت لینے کے بعد لمبی دعا فرمائی.اس کے بعد حضرت خلیفہ اول یا حکیم محمد دین حنا اور یکن نیچے اُتر سے تو رستے میں خواجہ کمال الدین حضرت خلیفہ اول کو ملے حضرت خلیفہ اول نے خواجہ صاحب کو کہا اس لڑکے کو جانتے ہو ؟ اس نے آج وہ کام کیا ہے کہ مجھے بھی اس پر رشک آرہا ہے اور یکن چاہتا ہوں کہ کاش میری اولاد بھی میرے بعد میرے لئے اسی طرح نیک نامی کا باعث ہو.خواجہ صاحب نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ اس نے والدصاحب کو حضور سے معاف کروایا ہے اور ان کے لئے دعا کروائی ہے " اہ جناب شیخ صاحب ۱۹۴۱ء میں ملازمت سے ریٹائر ہو کر قادیان آگئے جہاں کچھ عرصہ تک افسر حفاظت بھی رہے.۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے اپنے وطن گوجرانوالہ میں رہائش پذیر ہو گئے.وفات سے قریباً دو ماہ قبل حضرت مصلح موعود کے ایماء پر ربوہ تشریف لے آئے.جناب شیخ صاحب اپنی ملازمت کے دوران احمدی دوستوں سے نہایت رواداری اور شفقت سے پیش آتے رہے اور مہمان نوازی کا عمدہ نمونہ پیش کرتے رہے.نہایت نیک دل اور راستباز انسان تھے.شدھی کی تحریک کے انسداد میں آگرہ کے علاقہ میں نہایت مفید کام کیا.تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین میں سے تھے.انتظامی قابیت بھی بہت رکھتے تھے.نہایت زیرک اور معاملہ فہم انسان تھے.مدت تک سٹار ہوزری قادیان کے ڈائریکٹر رہ ہے.خاندان حضرت مہدی معہود سے بہت محبت رکھتے تھے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہت خیال تھا.غرضیکہ دینی اور دنیا وی دونوں اعتبار سے آپ کی زندگی حیات طیبہ کا رنگ رکھتی تھی اور ایک کامیاب زندگی تھی یہ اولاد : محترمہ فضل بیگم صاحبہ ولادت ۱۹۰۳ء ( زوجه مکرم قریشی ضیاء الدین احمد صاحب مرحوم ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور) محترم بریگیڈیر غلام احمد صاحب ایم آرسی پی ) ولادت ۱۹۰۵ء - وفات ستمبر ۲۶۱۹۷۶ ۱۳۰ ه رجسٹر روایات صحابہ ۱۳۰ ص ۱۲ ۱۲۲ که روزنامه المصلح" کراچی ۲۰ ستمبر ۶۱۹۵۳
۳.محترمہ عنایت بیگم صاحبہ ولادت ۱۹۰۸ء (زوجہ مکرم محمد بشیر صاحب چغتائی) ۴ - حافظ بشیر احمد مرحوم ( ولادت ۶۱۹۱۰ - ونات اگست ۶۱۹۷۶ ) محترمه فرخنده اختر صاحبه ولادت اکتوبر ۶۱۹۱۶ ( بیگم حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ) ۶- محترمہ محموده ثروت صاحبه ولادت ۱۹۱۹ء ( زوجہ انعام اللہ صاحب راٹھور ) خیر احمد صاحب ولادت ۶۱۹۲۱ له - خلیل احمد صاحب ولادت ۶۱۹۳۰ ۹ - چوہدری غلام حسن صاحب نمبر دار سیالکوٹی جٹ باجوہ والد چوہدری صو بے خاں صاحب ولادت ۱۸۷۸ء بمقام تلونڈی عنایت خان ضلع سیالکوٹ ، بیعت ۱۹۰۰ م ، وفات و ستمبر ۱۱۹۵۳) حضرت چوہدری صاحب ضلع سیالکوٹ کے ایک معزز زمیندار خاندان اور باجوہ قوم سے تعلق رکھتے تھے، جس نے عہد مغلیہ کی ابتداء میں ہندو مذہب ترک کر کے اسلام قبول کر لیا تھا سیا لکوٹ میں بعض بزرگوں کے باعث احمدیت کا چرچا تھا آپ بھی کشاں کشاں پہنچے اور حضرت مسیح موعود کے دست حق پرست پر بیعت کرلی.یہ ۱۹۰۰ ء کا واقعہ ہے.موصوف اپنے بیان مورخہ ۱۴ اپریل ۱۹۳۸ء میں فرماتے ہیں :- جس زمانہ میں میں نے بیعت کی تھی اُس وقت ایک جائیداد کا مقدمہ ہم کو پڑا ہوا تھا جس کا فیصلہ ہمارے خلاف ہو چکا تھا اور ہم نے اپیل کی ہوئی تھی.تمام مخالفین سلسلہ ہم سے کہتے تھے کہ اگر تم اس مقدمہ میں کامیاب ہو جاؤ گے تو ہم مرزا صاحب کو سچا سمجھیں گے چنانچہ کس نے ایک طویل خط حضرت مسیح موعود (علیہ السّلام) کی خدمت میں لکھا کہ یہ لوگ اس مقدمہ میں ہماری کامیابی کو آپ کی صداقت کی دلیل سمجھتے ہیں اور سلسلہ حقہ کا یہ نشان سمجھیں گے حضور دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی دے اور بوانت بچائے کیونکہ یہ مقدمہ طوالت پکڑ چکا ہے اور بہت خرچ اٹھ چکا ہے جس کا اثر ہماری اولادوں پر پڑے گا.چند یوم کے بعد حضور کی طرف سے ایک خط آیا کہ دعا کی گئی تم خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو.(حضرت) چودھری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم اس وقت ہمارے وکیل تھے خدا تعالیٰ نے ایسا معجزہ دکھایا کہ اپیل ہماران منظور ہوگیا.مخالف وکیل پنڈت ه مکتوب محترمه فرخنده اختر صاحبہ سے ماخوذ معلومات و سه رجسٹر بیت و رجسٹر روایات صحابہ جلد ۲ من ( غیر مطبوعہ )
144 بیلی رام جموں چلا گیا.ہمارے وکیل چودھری نصر اللہ خاں صاحب کو جج صاحب نے بتا بھی دیا کہ اپیل تمہار سے مخالف ہے.ادھر مخالف فریق ہمارے پیچھے لگ گیا کہ آؤ صلح کر لیں چنانچہ وہ جائیداد ہم نے نصف نصفی تقسیم کر لی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے ہر ایک نقصان سے بچا لیا.ایک وفعہ ہم قادیان گرمی کے موسم میں گئے میری بیوی اس وقت میرے ساتھ تھی ملاقات کے موقع پر میری بیوی سے حضرت مسیح موعود نے دریافت فرمایا کہ لڑکی تم کچھ پڑھی ہوئی ہو.اس نے جواب دیا کہ ہاں حضور یکں قرآن شریف با ترجمہ پڑھی ہوئی ہوں اور تفسیر محمدی بھی پڑھی ہوئی ) ہوں.چنانچہ آپ نے اس سے قرآن شریف ترجمہ کے ساتھ سنا.آپ نے فرمایا " ترجمہ وہی ہے جو تم نے پڑھا ہوا ہے لیکن سمجھ میں فرق پڑ گیا ہے میری منشاء ہے کہ چند یوم یہاں ٹھہرو اور مجھ سے پڑھ کر جاؤ تو جا کر عورتوں کو تبلیغ کرو کیونکہ عورتیں عورتوں کو اچھی طرح تبلیغ کر سکتی ہیں ؟ اگلے روز صبح کے وقت حضور نے میری بیوی کو سورۃ فاتحہ کا سبق دینا شروع کیا.اس وقت میری بیوی کی گود میں ایک چھوٹی لڑکی تھی میمونہ بیگم اس لڑکی کا نام تھا.ایک آنکھ اس کی خراب تھی اور پانی بہتا رہتا تھا ہمیں خطرہ تھا کہ آنکھ ضائع ہو جائے گی.سبق دیتے وقت لڑکی نے رونا شروع کر دیا اور دونوں آنکھیں خراب ہوگئیں حضور کو سبق دینا دشوار ہو گیا.لیکن خلیفہ اول کے شفا خانہ میں بیٹھا ہوا تھا حضور نے ایک خادم کے ساتھ لڑکی کو شفا خانہ بھیج دیا اور حضرت مولوی صاحب کو لڑ کی خادمہ نے کہا کہ مولوی صاحب حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اس لڑکی کی آنکھوں میں کچھ ڈال دیں اچھی ہو جائے گی ، چنانچہ مولوی صاحب نے فوراً اس کی آنکھوں میں ایک شیشی سے پانی سا ڈال دیا لڑکی کی آنکھوں کو فوراً آرام آگیا اور ایک آنکھ کا نقص خاص بھی بجاتا رہا.جب تک وہ لڑکی زندہ رہی اُس وقت تک وہ معجزہ کے طور پر ہم لوگوں کو دکھایا کرتے تھے.اے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ضمیمہ رسالہ تریاق القلوب کے صفحہ ۲۸ پر آپ کا نام نشان متعلق لیکھرام کے مصدقین کی فہرست میں بالفاظ ذیل نمبر ۹۵ پر لکھا ہے :- ے رجسٹر روایات صحابه ر حه تا حه به
144 غلام حسن صاحب ہی.اسے کلاس مشن کالج لاہور (خلاصہ عبارت تصدیق ) مرزا صاحب کی پیشنگوئی ہر طرح سے پوری ہوئی ہے یا آپ ۱۹۲۴ ء میں ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے اور حضرت صاحبزادہ مرته الشریف احمد صاحب کی کو ٹھٹی کے قریب ایک وسیع عمارت حسن منزل تعمیر کروائی جہاں آپ ۱۹۴۷ء کے پر آشوب زمانہ تک رہائش پذیر رہے اور پھر اپنا سارا اثاثہ چھوڑ کر اپنی بہوؤں کے ساتھ پاکستان میں پناہ گزین ہوئے.جناب میجر چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ تحریر فرماتے ہیں :.۱۹۷ ء میں میں حفاظت مرکز قادیان کا انچارج تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر فوج کی ملازمت چھوڑ کر آیا تھا.حفاظت مرکز کی تمام کارروائیوں کا مرکز و محور اپنا گھڑ ا حسن منزل ہی تھا.والد صاحب کو بڑھتے ہوئے فسادات کی صورت کا صحیح علم تھا جب یکی گرفتار ہو کو جیل بند کر دیا گیا تو حضور خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چاہا کہ میرے گھر کے تمام افراد فوراً پاکستان بھجوادئے جائیں تا کہ حکومت اور پولیس کی سختی سے بچ جائیں.والد صاحب نے قادیان چھوڑنے سے انکار کر دیا اور بار بار کہتے کہ لیں تو یہاں مرنے کے لئے آیا تھا اور یہیں مروں گا.آپ کو ہجرت پر آمادہ کرنے کے لئے کوئی دلیل کارگر نہ ہوئی.آخر یہی کہہ کر آپ کو رضا مند کیا گیا کہ حضور کہتے ہیں کہ چلے بھاؤ.پاکستان آن کر ہم نے دیکھا کہ آپ کو قطعاً جائیداد کھو جانے کا صدمہ نہ تھا صرف اور صرف یہی رنج تھا کہ قادیان چھوٹ گیا.جہاں مرنے گیا تھا وہاں مرنا بھی نصیب نہ ہوا.اس یقین سے پر تھے کہ ہم ضرور قا دیان جائیں گے ؟ آپ پانچ بھائی تھے حضرت نواب محمد دین صاحب ، حضرت چوہدری محمد حسین صاحب ، حضرت چوہدری غلام حسن صاحب ، حضرت چوہدری غلام علی صاحب ، حضرت چوہدری غلام سرور صاحب.حضرت چوہدری غلام حسن صاحب اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح شب بیدار ، متدین اور مختر بزرگ تھے.نے آپ سیفٹی آرڈی نیس کے تحت ۲۳ اگست ۱۹۴۷ء کو قادیان سے گرفتار کئے گئے تھے اور ا ر اپریل ۱۹۴۸ء کو دوسرے احمدی اسیران مشرقی پنجاب کے ساتھ آپ کی رہائی سنٹرل جیل لاہور سے عمل میں آئی.( تاریخ احمدیت جلد ۱ ص جلد ۱۲ ص ۱۳)
14A قرآن سے غایت درجہ محبت تھی اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالخصوص حضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عاشق سادقی تھے اور حضور کی خدمت میں ہر سال نذرانہ پیش کرنا آپ کا معمول تھا.آپ نے سلسلہ احمدیہ کی ہر مرکزی تحریک میں سرگرم حصہ لیا مگر اپنی زندگی نہایت سادہ رنگ میں بسر کی.آپ کو عمر بھر اپنی اولاد کی تربیت کا خاص خیال دامنگیر رہا.آپ کی حسین تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ خدا کے فضل سے آپ کے بعض فرزندوں کو یورپ اور امریکہ میں نہایت کامیاب طور پر اعلائے کلمۂ اسلام کی توفیق علی اور اب تک مل رہی ہے.آپ نے میجر چو ہدری شریف احمد صاحب باجوہ نائب امیر جماعت احمدیہ لائل پور کے بنگلہ میں وفات پائی اور ہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ شاس صحابہ میں دفن کئے گئے.اولاد - (۱) میمونہ بیگم صاحبه مرحومه (۲) رحمت بی بی صاحبہ مرحومه (۳) عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ نوابزاده چوہدری محمد سعید صاحب حیدر آباد سندھ (۴) چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اسے.ایل ایل بی سابق امام مسجد اندن و انچارج سوئٹزرلینڈ مشن ہے (۵) چوہدری عزیز اللہ صاحب کراچی (۶) میجر چو ہدری شریف احمد صاحب باجوہ ہی.اسے ایل ایل بی.سابق انچا رج مشن انگلستان و امریکہ (۷) میجر ابوالخیر صاحب باجوہ ماڈل ٹاؤا از سوریه ۱۰- ڈاکٹر منظور احمد صاحب ولد مولوی محمد دلپذیر صاحب بھیروی (ولادت : ۱۸۹۶ و بیت و زیارت : ۶۱۹۰۸ ، وفات : ۱۸ اکتوبر ۱۹۵۳) لے آپ مرکز میں تحریک تجدید کے وکیل التبشیر، وکیل اعلیٰ اور وکیل الزراعت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں : الفضل ، ۲ جون تا یکم جولائی ۱۹۶۱ء ( مضمون چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اسے.ایل ایل بی.وکیل الزراعت) و قلمی مستورات رجسٹر نمبر د ۲ مرتبه میجر شریف احمد صاحب، باجوہ قاضی واله : ۱۰۵ براسته برنالہ ضلع لائل پور به بھیرہ کی تاریخ احمدیت" ص" (مولفہ فضل الرحمن صاحب التمل امیر جماعت احمد یہ بھیرہ - اشاعت دسمبر ۲۶۱۹۷۲ ه روز نامه" المصلح ۱۳؍ نومبر ۱۹۵۳ء مث :
149 ڈاکٹر منظور احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں :- ۱۹۰۸ء میں جب حضور آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے اُس وقت مجھے زیارت کا شرف حاصل ہوا اور پہلی دفعہ قادیان آیا جب خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم نے حضور کا لیکچر پیغام صلح نما ہو ر بریڈ لا ہال میں سُنایا وہ سُن کر قادیان آگیا اور پھر دوسری دفعہ ۱۹۰۸ء کے سالانہ جلسہ پر قادیان آیا.مجھے یاد ہے کہ وہ جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ہوا تھا.اور یہ بھی یاد ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے لیکچر کے بعد جب موجودہ حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا لیکچر ختم ہوا تو حضرت خلیفہ اول نے حضور کی قرآن دانی کے متعلق چند تعریفی کلمات فرمائے تو میرے پاس ڈاکٹر بشارت احمد صاحب جو آجکل پیغامی ہیں بیٹھے ہوئے جھوم جھوم کر آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے کہ شبحان اللہ سبحان اللہ آپ کے بعد یہی خلیفہ ہوں گے.لیکن ڈاکٹر صاحب سے اُس وقت اس لئے واقف تھا کہ وہ اُس وقت بھیرہ میں ہی تعینات تھے " له حضرت مسیح موعود صمدی مسعود علیہ السلام نے ۱۴ نومبر ۱۹۰۲ء کوپنجابی نظم میں سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کو بہت عمدہ کام قرار دیتے ہوئے فرمایا :- و اس زمانہ کا یہی جہاد سے ہے ڈاکٹر منظور احمد صاحب مرحوم بھیروی نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ سلانوالی ضلع سرگودہا ) اور قادیان میں گزارا اور آپ دونوں جگہ اس عظیم الشان تبلیغی جہاد میں سرگرم عمل رہے.آپ کی کتاب" امام المتقین پنجاب کے حلقوں میں بہت پسند کی گئی.اس مقبول عام کتاب کے علاوہ آپ نے اور بھی کئی پنجابی نظمیں کہیں جو کئی لوگوں کو داخل احمدیت کرنے کا موجب بنیں.ذیل میں آپ کی تالیفات کی فہرست دی جاتی ہے :.امام المتقير منظوم پنجابی نجات المؤمنین منظوم پنجابی - اسلامی دوکان ، خلافت دا بلا و ۱ - ۱۹ مطالبات تحریک کنید سوانح دلپذیر، مهدی دی میٹھی.مرزامحمدی - مهدی قادیان دے وچ آیا.گوریچن شدی، روحانی چرخہ گھڑیال اکیا ه مراد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رض: کے رجسٹر روایات صحابہ ۵ ۳۶۰ سے " البدر ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء : که ۱۹۲۲ء کی پہلی مجلس شوری میں آپ کو جماعت سلانوالی کی نمائندگی کا بھی موقع ملا (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲)
IA.مسجد احمدیہ لنڈن، مجربات دلپذیر، مرزا صاحب بیله محترم ڈاکٹر صاحب اُردو زبان کے بھی عمدہ شاعر تھے.آپ کی اُردو نظمیں سلسلہ احمدیہ کے اخبارات در سائل میں شائع شدہ ہیں.اولاد :- پہلی بی بی خدیجہ بیگم صاحبہ سے) ۱- سعیده بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری فضل الرحمن صاحب پشاور ۲ - امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ میجر فتح دار صاحب کھاریاں ۳- امر البشیر صاحبہ اہلیہ ملک بشارت احمد صاحب کراچی ۴ - منصور احمد صاحب پشاور A محمود احمد صاحب لندن بشری بیگم صاحبہ اہلیہ پر وفیسر عبد الرحیم صاحب نیتر کیمپلیور - بشیر احمد صاحب لندن - مبشر کی بیگم اہلیہ نثار احمد صاحب ملتان ۹ - پروفیسر محمد یوسف صاحب پشاور ( دوسری بی بی سے ) 1 - انور احمد صاحب ۱۱ - مظفر احمد صاحب ۱۲- ثمینہ بیگم صاحبہ ۱۱- حضرت قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی " (ولادت : ۲۳ جون ۸۸۱ار ، وقفات : ۲۹ اکتوبر ۶۱۹۵۳ بمقام ربوہ ) حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب آف قاضی کو ضلع گوجرانوالہ متوفی دار می ۱۱۹) کے فرزند رشید ے رسالہ واذا الصحف ننشرت تاثر جناب میاں عبد العظیم صاحب در ویش پروپرائٹر احد بک ڈپو تا دیان گنگ اصحاب احمد جلد 4 ص مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے
اور اپنے والد بزرگوار کی طرح خود بھی ۳۱۳ اصحاب کبار میں شامل تھے چنانچہ حضرت اقدس صدی موعود علیہ الصلوة و السلام نے ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۴۳ پر آپ کا نام ۱۲۵ نمبر پر درج فرمایا ہے.آپ نے نقشہ نویسی کا کام اپنے پھوپھی زاد بھائی قاضی نظیر حسین صاحب ہیڈ ڈرافٹمین جموں سے سیکھا اور وہیں محکمہ پبلک ورکس میں ملازم ہو گئے.کچھ عرصہ بعد آپ کے چھوٹے بھائی حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب نے اطلاع دی کہ قادیان میں محکمہ تعمیرات جاری ہونے والا ہے جس پر آپ نے اپنی خدمات پیش کیں اور مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان آگئے جہاں حضرت میر نا صر نواب صاحب مہتم تعمیرات کے عہدہ پر فائز تھے لیہ سب سے پہلے محمر تعمیرات کی اسامی آپ کے لئے تجویز ہنوئی مگر اپنے خلوص محنت اور غیر معمولی فرض شناسی کی بدولت آپ کو عظیم الشان تعمیری خدمات بجا لانے کی ایک لمبے عرصہ تک توفیق ملی.قادیان میں سلسلہ احمدیہ کی سب عظیم الشان مرکزی عمارتیں بنوانے کا مشرف آپ کو ملا چنانچہ مسجد نور، بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے ملحقہ کوارٹرز مینارہ الشیخ اور قصر خلافت قادیان آپ ہی کی زیر نگرانی تیار ہوا.علاوہ ازیں مسجد اقصٰی میں کنویں اور پانی کے انتظام کو فرش مسجد کے نیچے لے جانے کی صورت آپ ہی کے ہاتھوں ہوئی.اسی طرح بہشتی مقبرہ کے راستہ کا پل جس کا ذکر الومیت میں ہے نیز بہشتی مقبرہ کا کنواں آپ ہی کی نگرانی میں بنایا گیا اور پھر حضرت مسیح موعود کے مزار کی تعمیر بوقت تدفین کی سعادت بھی آپ کو نصیب ہوئی.آپ کے سوانح نگار جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اسے نے ان تعمیرات کا ذکر کر کے یہ رائے قائم فرمائی ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں بھی ستقل طور پر ہجرت کر کے آگئے تھے سے قادیان کی ان مرکزی تعمیرات کے علاوہ حضرت خلیفہ اسح الاول : حضرت خلیفة السيح الثاني - حضرت أم المؤمنين حضرت صاحبزادہ مرزا البشیر احمد صاحب - حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنے سب عمارتی کام آپ ہی کے سپرد فرماتے تھے.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کی ڈلیوری کی کوٹھی بہت افضل ، حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی تعمیرات اور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب لے رسالہ " نور احمد" من (از شیخ نوراحمد صاحب مالک ریاض ہند پریس (مرتسر) طبع دوم ناشر حکیم عبد الله صاحب شاہد گجراتی ۶۱۹۵۶ : ه اصحاب احمد جلد ششم م م
۱۸۲ کی کوٹھی بیت الظفر آپ ہی کی زیر نگرانی تیار ہوئی تھی.آپ کچھ عرصہ تک قادیان میں بلڈنگ کنٹریکٹر کے طور پر دیگر احباب کے مکانات بھی تعمیر کراتے رہے.حضرت خلیفہ اول ہو نے آپ کے کام سے خوش ہو کر تحریر فرمایا :- قاضی صاحب ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ ملکہ، پانی خوب نکلا ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر اور اُس کے بعد آپ کی محنت پر جزاك الله احسن الجزاء.یہ دل سے دعا ہے اللہ تعالیٰ قبول کرے.والسلام نور الدین ۱۲ جنوری شه " اے جناب قاضی عبد السلام صاحب بھٹی ابن حضرت قاضی عبد الرحیم صاحب کا بیان ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایک موقع پر قادیان میں اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ میری کوٹھی کا جو کام قاضی صاحب نے کروایا ہے وہ روپوں کا کام آنوں میں کرایا ہے اور اسے دیکھ کر میرے دل سے دعا نکلتی ہے.لہ سلسلہ کی جو تاریخی عمارات آپ نے بنوائیں آپ نے ان کی تعمیر کے کسی مرحلے پر ان میں معمولی سے نقص کو بھی برداشت نہ کیا تعلیم الاسلام ہائی سکول کی تعمیر کے دوران آپ کو معلوم ہوا کہ ایک دیوار میں نیچے کی کچھ اینٹیں معیار کی نہیں لگیں وہ ساری دیوار آپ کے حکم سے گرا کر از سر نو تعمیر کرائی گئی.ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد آپ سلسلہ کے نئے مرکز ربوہ میں رہائش پذیر ہو گئے اور بڑھاپے کے باوجود انتہائی جوانمردی سے اس کی تعمیر ہیں حصہ لینے لگے جلسہ ربوہ ۱۹۲۹ء کے موقع پر حضرت مصلح موعود کو الہاما ربوہ میں میٹھے پانی کے نکلنے کی بشارت ملی تھی جو اِن الفاظ میں تھی سے جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے مرے پانی بہا دیا اس آسمانی بشارت کے مطابق جب ربوہ میں پہلا کامیاب پمپ لگا تو آپ نے ، مٹی ۱۹۵۱ ء کو حضور کی خدمت میں لکھا " پمپ لگانے کی تجویز پیش کرنے کے موقع پر حضور نے پانی جمع رکھنے کے لئے ایک ٹینکی بنا کر اصحاب احمد جلد ششم من (۱۲) جنوری ۶۱۹۱۴ ) : سه روزنامه المصلح" کراچی ۱۵- دسمبر ۱۹۵۳ء صت
IAP کوٹیوں اور مسجدیں بذریعہ تالیاں پانی پہنچانے کا خیال ظاہرفرمایا تھا.پس اگر حضور پسند فرمائیں تومیں تخمینہ ناکر پیش کر دوں گا اور بعد منظوری ایک مہینے کے اندر یہ کام کر دینے کی امید رکھتا ہوں.انشاء اللہ تعالیٰ " حضرت مصلح موعود نے اس پر اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا اتخمینہ پیش کر دیں مگر انجمن کی عمارات اس قدر دور ہیں کہ وہاں تک پانی کی طرح جائے گا یا سماس جزوی مقدمت کے علاوہ ربوہ میں آپ کا عظیم کارنام مسجد مبارک کی تعمیر ہے جو اگست ۱۹۵۱ء میں آپ کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچی.الغرض قادیان اور ربوہ کے دونوں مراکز کی تعمیرات میں آپ کو شاندار خدمات کی توفیقی ملی.حضرت قاضی عبد الرحیم صاحب اولین مومیوں میں سے تھے آپ کا وصیت نمبر ۳۷ تھا.آپ نے علاقہ ملکانہ کی تبلیغی مہم میں سرگرم حصہ لیا اور تین ماہ وقف کر کے خدمت اسلام کرتے رہے.تحریک تجدید دنتر اول کے مجاہد تھے.۱۹۴۷ء کی ہجرت کے بعد آپ کو قادیان کی جدائی کا بہت صدمہ تھا اور قادیان کی واپسی کے انتظار میں آپ کی عمر کی آخری گھڑیاں آن پہنچیں.جناب قاضی عبد السلام صاحب بھٹی لکھتے ہیں کہ قادیان کی واپسی کیلئے بیحد بیقرار رہتے تھے مگر جب حضرت ام المؤمنین فوت ہو گئیں تو جنازے کے ہمراہ جاتے ہوئے روتے تھے اور کہتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے اتنی بڑی ہستی کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی تو ہم کون ہیں ؟ بعد ازاں جب حضرت ام المؤمنین کے مزار کی تعمیر کا کام آپ کو سونپا گیا تو درد بھرے دل سے کہا کہ آج سے ۴۴ برس قبل قادیان میں خدا کے مسیح علیہ السلام کے وصال پر ان کی آخری آرام گاہ کی تیاری کا کام اللہ تعالی نے مجھ سے ہی لیا تھا اور آج پھر ویسی ہی خدمت کا شرف مجھے بخشا گیا.موت کو بہت یاد رکھتے تھے اور شیخ سعدی کا یہ شعر ہے حضرت مسیح موعود نے رسالہ " الوصیت میں بھی درج فرمایا ہے بہت پڑھا کرتے عروسی بود نوبت ما تمت : اگر بر نکوئی بود خانمت آپ کا انجام نہایت مبارک ہوا ۲۹ اکتوبر ۱۹۵۳ء کو جمعرات کی شام آپ کی وفات ہوئی اگلے روز حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جمعہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ صحابہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.سے له " اصحاب احمد جلد ششم ص و ل " المصلح کرا چی ۲۶ نومبر وه ار دسمبر ۱۹۵۳ مت »
JAM حضرت مهدی موعود کو جناب الہی سے یہ وعدہ دیا گیا ہے:.یکن تیرے خالص اور دلی محبتوں کا گر وہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گایا ہے اس وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی کثرت نسل سے نوازا چنا نچہ وفات کے وقت آپ کے بیٹوں (قاضی بشیر احمد صاحب، قاضی عبد السلام صاحب، قاضی مبارک احمد صاحب اقاضی منصور احمد صاحب) اور ایک نواسہ اور پوتوں، پوتیوں اور پڑ پوتیوں کو شامل کر کے آپ کے کنبے کی تعداد ۶۲ افراد تک پہنچ چکی تھی یہ ۱۲- حکیم محمد عبد الصمد صاحب دہلوی (ولادت : قریباً ۶۱۸۷۹، بیعت و زیارت ۶۱۹۰۵، وفات دار دسمبر ۱۹۵۳ء بمقام کراچی) حضرت حکیم محمد عبد الصمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تو غیر احمدی علماء نے احمدی بنایا ہے چنا نچہ آپ اپنے ایک تحریری بیان میں فرماتے ہیں:." یکی ۱۸۹۱ ء میں ایک مولوی صاحب بنے سے (تفسیر جلالین پڑھا کرتا تھا اس میں یعینی اتی متوفِّيكَ وَرَافِعُكَ إلى والی آیت آگئی جس کی تفسیر میں لکھا تھا " رَافِعُكَ إِلَى مِنَ الدُّنْيَا مِنْ غَيْرِ مَوْت (یعنی یکی دنیا سے تیرا رفع بغیر موت کے کروں گا ) میں حیران ہوا کہ میں غيْرِ مَوت کہاں سے آگیا.یہ متن کی تفسیر ہو رہی ہے یا متن کا مقابلہ ہو رہا ہے.رات غور کرتے کرتے روز بھی گئے.اتفاقاً والد صاحب کی آنکھ کھلی.انہوں نے اتنی دیر جاگنے کا سبب دریافت کیا.میں نے اصل حقیقت آشنائی.فرمایا میاں اُستاد کس لئے ہوتا ہے ؟ تم صبح جا کر مولوی صاب سے یہ معاملہ حل کروالینا چنانچہ میں صبح مولوی صاحب کے پاس گیا اور سارہ اقصہ کورش نایا.مولوی صاحب کہنے لگے کہ میاں متقدمین سے لے کر متاخرین تک سب کا یہی مذہب چلا آتا ہے.اس میں جھگڑا مت کرو.مگر میں نے کہا کہ جب تک میری سمجھ میں نہ آئے ہیں آگے ہرگز نہیں چلوں گا.اس پر ه اشتهار ۲۰ فروری ۲۱۸۸۶ س المصلح" کراچی ۱۵ر دسمبر ۱۹۵۳ء سے آپ کے صاحبزادہ حکیم عبد الواحد صاحب صدیقی حال کراچی کی روایت کے مطابق ان کا نام مولوی محمد بشیر صاحب تھا.
۱۸۵ وہ بہت ناراض ہوئے.میرے والد صاحب کو بھی بلوایا مگر انہوں نے کرنا کہ آپ استاد ہیں اور یہ شاگرد آپ جائیں اور آپ کا کام میں اس میں دخل نہیں دیتا.اور یہ کہ کر وہ پہلے گئے اور مولوی صاحب نے پھر مجھے کہنا شروع کیا کہ پڑھو.میں نے کہا جب تک آپ سمجھائیں، نہ میں کیسے پڑنے سسکتا ہوں.اس پر مولوی صاحب کو غصہ آیا اور انہوں نے مجھے ایک تھپڑ مارکر کہا کہ ایک تجھے جنون ہوا ہے اور ایک مرند ا کو.میں حیران ہوا کہ یہ مرزا کون ہے.ساتھ ہی میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یکس کسی اصل پر قائم ہوں....شام کو دوسرے استاد کے پاس گیا اس نے بھی کہا کہ ایک تجھے جنون ہوا ہے اور ایک مرزا کو.اس سے میرا دل اور مضبوط ہو گیا کہ میری بات کمزور نہیں ہے.پھر تیسرے اُستاد مولوی عبد الوہاب صاحب کے پاس گیا اُنہوں نے کہا کہ یہ تو بڑا قصہ ہے اس کا تو مدعی موجود ہے جو کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں اور جس عیسی کی آمد کا لوگ انتظار کر رہے وہ میں ہوں.میں نے کہا کہ پہلی بات تو میری سمجھ میں آگئی ہے مگر دوسری کا ابھی پتہ نہیں لگا.انہوں نے کہا کہ مکی پنجاب میں گیا تھا بائیس دن وہاں رہا.اُن کا ایک مرید مولانا نور الدین ہے حکمت ہیں تو اُس کا کوئی ثانی نہیں.اور یکں نے اُس کے دینی درسوں کو بھی سنا ہے بڑے بڑے مولوی اس کے سامنے رک نہیں مار سکتے.انہوں نے اپنی بیعت کا ذکر نہ کیا کیونکہ وہ مخالفت سے ڈرتے تھے مجھے کہنے لگے کہ اُونچا مت بولو مولوی عبد الغفور صاحب سن لیں گے.میں نے کہا مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں میں صداقت کے اظہا ر سے کیسے رک سکتا ہوں.غیر اسی طرح پڑھتے پڑھتے ۱۹۰۵ء کا زمانہ آگیا.حضرت صاحب دہلی تشریف لے گئے اور الف خاں صاحب سیاہی والے کے وسیع مکان میں فروکش ہوئے.ہزار ہا لوگ آپ کے رکھنے کے لئے گئے تے ہیں بھی گیا.میں مخالف مولویوں کے ساتھ گیا.اُن میں طلباء زیادہ تھے اور ہمارے سرغنہ مولوی مشتاق علی تھے انہوں نے لے حضرت حکیم صاحب نے ان کا نام مولوی محمد اسحق صاحب منطقی بتایا تھا.روایت حکیم عبدالواحد صاحب) + کے واقع چنتلی قبر متصل مسجد سید رفاعی صاحب د اخبار الحکیم قادیان ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ ء حب کالم علا) + سے تفصیلی روداد کے لئے ملاحظہ ہو ا خبار "بدر ۱۳ نومبر و ۶- نومبر ۶۶۱۹۰۵
JAY حضرت صاحب پر کچھ اعتراض کرنے شروع کئے جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ٹھر جائیں اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کاغذ اور قلم دوات لے کر ایک مضمون لکھا اور وہ مولوی مشتاق علی صاحب کو دیا کہ آپ اسے پڑھ لیں اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو مجھ سے دریافت کرلیں اور ساتھ ہی اس کا جواب بھی لکھ لیں.پھر پہلے آپ میرا مضمون شنا دیں اس کے بعد اس کا جواب سنادیں.مولوی صاحب نے بغیر جواب لکھے حضرت صاحب کا مضمون سُنانا شروع کیا.حضرت صاحب نے پھر فرمایا کہ اگر جواب آپ لکھ لیتے تو اچھا تھا مگر انہوں نے کہا کہ نہیں کہیں زبانی جواب دے دوں گا.خیر انہوں نے حضرت صاحب کا مضمون پڑھ کر سنا دیا اور دیر تک خاموش کھڑے رہے جواب نہیں دے سکے.ساتھ کے طلباء میں سے بعض نے کہا کہ اگر ہم کو یہ علوم ہوتا کہ آپ جو اب نہیں دے سکیں گے تو ہم کسی اور کو سرغنہ بنا لیتے آپ نے ہمیں بھی شرمندہ کیا.اس پر مولوی صاحب نے ایک طالب علم کو تھپڑ مارا اور اس نے مولوی صاحب کو مارا میفتی صاحب نے ان دونوں کو ہٹا دیا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر شروع ہوگئی اور حضرت صاحب کی تقریر میں لوگوں نے کچھ شور کیا.جماعت کے لوگوں نے حضرت صاحب کے گرد گھیرا ڈال لیا.اس میں کچھ تھوڑی سی جگہ کھلی رہ گئی تھی وہاں میں کھڑا ہو گیا.اکبر خان ایک احمدی چپڑاسی تھے انہوں نے مجھ کو مخالف سمجھے کہ دھکا دے کہ وہاں سے ہٹا دیا.تھوڑی دیر کے بعد پھر میں وہاں کھڑا ہو گیا اور وہ پھر مجھ کو دھکا دینے کے لئے آگے بڑھے تو حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ان کو روکا کہ کیوں دھکا دیتے ہو.اکبر خان نے کہا کہ حضور یہ مخالف ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا ہے؟ جو آتا ہے اس کو آنے دو....ہ حضور کی یہ تحریر وفات شیخ کے مسئلہ پر مشتمل تھی جو اخبار بد را قادیان در نومبر ۱۹۰۵ء ص پر شائع شدہ ہے : ہ آپ فرمایا کرتے تھے " میری نگاہ جو نہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرہ مبارک پر پڑی تو میری ٹانگیں کانپنے لگیں اور طاقت نے بالکل جواب دے دیا اور میرے دل نے کہا کہ یہ جھوٹوں کی شکل نہیں یا (بروایت حکیم عبد الواحد صاحب صدیقی)
JAZ حضرت صاحب نے تقریر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور فرمایا کہ جو لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے میرے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتے وہ اس دعا کو کثرت سے پڑھیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کی پنجوقتہ نمازوں میں بتلائی ہے.اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ العمتَ عَلَيْهِہ چلتے پھرتے ، اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت کثرت سے پڑھیں.زیادہ سے زیادہ چالیس روز تک اللہ تعالیٰ ان پر حتی ظاہر کر دے گا.میں نے تو اُسی وقت سے شروع کر دیا.مجھ پر تو ہفتہ گذرنے سے پہلے ہی حق گھل گیا.میں نے دیکھا کہ حامد کے محلہ کی مسجدیں ہوں وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں.لیکن حضرت صاحب کی طرف مصافحہ کرنے کے لئے بڑھنا چاہتا تھا کہ ایک نابینا مولوی نے مجھ کو روکا.دوسری طرف سے یکس نے بڑھنا چاہا تو اُس نے ادھر سے بھی روک لیا.پھر تیسری مرتبہ میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہا تو اس نے مجھ کو پھر روکا تب مجھے غصہ آگیا اور میں نے اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں یقصہ نہ کہ وہ بارو نہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور یکیں تو حضور سے مصافحہ کرنا چاہتا ہوں اور پیچھے کو روکتا ہے.اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.میں نے صبح میر قاسم علی صاحب اور مولوی محبوب احمد اور مشتری قادر بخش کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا.میر صاحب نے کہا کہ اسے لکھ دور کیں نے لکھ دیا.انہوں نے کہا کہ اس کے نیچے لکھ دو کہ میں اپنے اس خواب کو حضور کی خدمت میں ذریعہ بیعت قرار دیتا ہوں.یکس نے لکھ دیا.مولوی محبوب احمد صاحب جو غیر احمدی تھے انہوں نے کہا تم کو اپنے والد کا مزاج بھی معلوم ہے ؟ وہ ایک گھڑی بھر بھی تم کو اپنے گھر نہیں رہنے دیں گے.میں نے کہا مجھے اس کی اه حضرت میر صاحب اُن دنوں سیکرٹری انجمن احمدیہ دہلی تھے.قبل ازیں آپ دو سال دس ماہ تک تیم خانہ انجمن موید الاسلام دہلی کے سپرنٹنڈنٹ رہے اور جیسا کہ مہم تیم خانہ مولوی عبدالاحد صاحب نے اپنے شریفکیٹ میں لکھا " انہوں نے اپنے فرائض نہایت دیانتداری سے ادا کئے ! اس کے باوجود آپ کو محض احمدی ہونے کی وجہ سے ملازمت سے جبراً علیحدہ کر دیا گیا اور آپ کا استعفاء ۳۱ جولائی ۱۹۰۵ ء کو با ضابطہ طور پر منظور کر لیا گیا (بدر در دسمبر ۹۰۵ ومت) یہ قربانی چونکہ محض خدا کے واسطے تھی اِس لئے آئندہ پھل کر آپ کو پہلے دہلی پھر قادیان میں ایک لمبے عرصہ تک خدمات دینیہ بجا لانے کی سعادت حاصل ہوئی ؟
IAA کوئی پرواہ نہیں خیر حضرت صاحب نے بیعت منظور فرمائی اور مجھے لکھاکہ تمہاری بیعت قبول کی جاتی ہے.اگرتم پر کوئی گالیوں کا پہاڑ کیوں نہ توڑ دے نگاہ اٹھا کر مت دیکھنا " لے دہلی میں بیعت کے بعد آپ پہلی مرتبہ شانہ کے جلسہ سالانہ پر قادیان حاضر ہوئے اور دوبارہ حضور کی زیارت نصیب ہوئی.حضرت حکیم صاحب اللہ میں دہلی کو ترک کر کے قصبہ اچولی ضلع میرٹھی میں طبابت کرنے لگے.میں آپ نے اپنے اہل و عیال کو مستقل رہائش کے لئے قادیان بھجوا دیا اور خود جماعتی ضرورت کے پیش نظر 1911 اچولی میں ہی مقیم رہے.بعد میں خود بھی ہجرت کر سکے ۱۹۳۴ ء میں قادیان تشریف لے آئے یہ امر کے ملکی فسادات کے دوران آپ قادیان سے پاکستان میں چلے آئے تھے اور کراچی میں قیام پذیر ہوئے اور یہیں آپ کا انتقال ہوا.آپ بلندی پر طبیب تھے.سیدنا حضرت مصلح موعود سے والہانہ خلاص رکھتے تھے اور اپنا وقت دوسروں کی خدمت اور بھلائی میں صرف کرنے کے عادی تھے.اپنے ملنے والوں خصوصاً نوجوانوں کی اخلاقی اور تمدنی اصلاح میں ہمیشہ کوشاں رہتے اور انہیں بہت دلکش انداز میں نصائح فرمایا کرتے تھے.آپ نوجوانوں کو خاص طور پر تلقین فرماتے تھے کہ عمدہ اخلاق کے بغیر صمد صحت نہیں مل سکتی ہے حضرت شیخ غلام حسین صاحب (۱۳) (ولادت ۱۸۹۳ء اندازا (وقات) ۱۵ دسمبر ۱۹۵۳ / ۵ ار ستم ۱۳۳۲ هش بمقام کراچی) حضرت شیخ غلام حسنین صاحب کے دادا حضرت شیخ حمد ابراہیم صاحب رضی اللہ عندارد والد حضرت ماسٹر قمر الدین صاحب لدھیانوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابہ میں سے تھے.اور دونوں کو حضور علیہ سلام کے ۳۱۳ - اصحاب کبار میں شمولیت کا شرف حاصل تھا.سکے حضرت شیخ صاحب مرحوم نہایت متقی پرہیز گار اور حقوق اللہ و حقوق العباد کی بجا آوری کا خاص ه سیر روایات صحابه نمبر ۱۲ صفحه ۱۳ تا ۱۸ - روزنامه المصلح اور دسمبر ۱۹۵۳ء ۱۳ فتح ۱۳۳۳ هش مش ه روزنامه الصلع، کراچی - افتح ۳۲ امیش دارد برای ما اخوند فیاض احمد خان جن کے ایک نوٹ کی تلخی) سے ضمیمہ انجام انتم مسلم
التزام فرمانے والے بزرگ تھے.آپ نے عمر کا ایک بڑا حصہ بسلسلہ ملازمت دہلی میں گزارا آپ کی سادگی ، تقویٰ اور خوش خلقی کا یہ اثر تھا کہ بڑے سے بڑا افسر بھی آپ کو نہایت عزبات و احترام کی نظر سے دیکھتا اور آپ کی بات کو وقعت دیتا یہ آخر دم تک جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.بالخصوص حجامت احمد یہ دہلی میں پینتیس سال تک سیکرٹری مال کے فرائض نہایت محنت، جانفشانی اور خوس اسلوبی سے سرانجام دیئے.دہلی سے کراچی آنے کے بعد بھی کئی سال تک جماعت مقامی کی مجلس عاملہ کے رکن رہے، اگرچہ کم گو تھے لیکن تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے.بڑے بڑے صاحب اور نشین حضرات تک پہنچنے اور اُن تک پیغام حق پہنچ کر خوش ہوتے دوسروں کی دلداری کا خاص خیال رکھتے تھے.اور یہ امر بیعت کو کسی صورت گوارا نہ تھا کہ کسی کو آپ کی وجہ سے کوئی دکھ پہنچے یا وجہ شکایت پیدا ہو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور نظام سلسلہ سے آپ کی وابستگی عشق کی حد تک پہنچی ہوئی تھی سلسلہ کی ترقی کے لئے دعاؤں میں مصروف رمنا آپ کا خاص شیوہ تھا.آپ نے چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا بطور یاد گار چھوڑے اے ت ان بلند پای صحابہ کے علاوہ سلسلہ احمدیہ کے بعض اور مخلصین بھی اس سال بعض دوسر مخلصین کی وفا داغ مفارقت دے گئے جن میں سے دو خاص صورت قابل ذکرہیں.دو پرتابل را سید طفیل محمد شاہ صاحب (ولد سید شاہ نواز صاحب ترندی رئیس سیتی سیداں و مو بات تحصیل ٹانڈہ ضلع ہوشیا پور ) 1905 ه روز نامه اصلح کراچی مورخه ، ار فتح ۱۳۳۳ مش / دبر له مات ه ولادت شله، وفات ۲۵ ماری سر خلافت ثانیہ کے اوائل میں داخل احمدیت ہوئے اور پھر اوپری شمر سرکاری ملازمت اور طہا بہت کے ساتھ ساتھا حمدیت کی پر جوش علمی خدمت میں گزار دی.آپ ایک محقق اور فاضل بزرگ تھے.آپ کی مندرجہ ذیل تالیفات کو جماعت میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی.رہنا کے تبلیغ - اجرائے نبوت - تحقیقات الادیان حصہ اول اسلام اور مہندو دھرم کا مقابلہ.آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ ۹۲۳ مہر کی پہلی مجلس شوری میں جماعت احمدیہ کو گھر وال (لائل پور کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے آپ کو گھر وال اور سالار والہ کی حمدیہ جماعتوں کے سالہا سال تک پریزیڈنٹ بھی ہے.اولاد را سی غلام حمدشاہ نا سید مداحلاه سید طیف احمدشاه تا بریم حداد مالیم احمدشاه اسیر مبارک احمد مینا سیده مبارک بیگم صاحبه تحریک جدید کے اولین مجاہدین میں سے تھے.(مطبوعہ فہرست صفحہ ۲۹۲)
19.(۳) استید رضوان عبدالله صاحب ابن اشتد عمر ابوبکر آندی خرطوم (حبشہ کے احمدی نوجوان مینتعلم مولوی فاضل کلاس جامعہ احمدیہ س البشري " حيفا دسمبر ۱۹۵۰ ء ص ۲۴۷۳ ه ولادت ۱۹۳۵ء یہ ہونہار، با اخلاق اور نہایت مفتی احمدی نوجوان تھے جو دسمبر ۱۹۵۰ء میں جو ملک حبشہ سے علم دین سیکھنے کیلئے مرکز احمدیت ربوہ میں آئے تاکہ واپس جاکر اپنے تک کی عیسائی اور دیگر اقوام کو اسلام کی طرف دعوت دیں.مگر افسوس ابھی آپ کو یہاں آئے ساڑھے تین سال ہی ہوئے تھے کہ آپ ۲۶ اگست ۹۵۳ہ کو جامعہ احمدیہ کے طلبہ کے ساتھ دریائے چناب پر نہانے گئے اور عصر کی نمازہ کے لئے وضو کر رہے تھے کہ پاؤں پھیل جانے سے دریا میں ڈوب کر عالم غریب الوطنی میں شہید ہو گئے مرحوم اپنے والدین کے سب سے بڑے بیٹے تھے.آپ کو پہلے ما نشتہ عام قبرستن میں دفن کیا گیا.بعد ازاں حضرت مصلح موعود کی اجازت سے بہشتی مقبرہ میں سپردخاک کئے گئے.آپ بزم تعلیم البیان جامعہ احمدیہ احمد نگر ربوہ کے بانیوں میں سے تھے.(روز نامہ الصلح یکم، ۲ ، ، ا ستمبر لله ) آپ کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک مضمون رضوان عبد اللہ کی المناک وفات کے عنوان سے سپرد قلم فرمایا جس میں کھا.رضوان جو کئی ہزار میل کی مسافت لے کر کے علم دین کی تحصیل کی غرض سے ربوہ آیا تھا.اور جب کہ مجھے معلوم ہوا ہے اپنے والدین کا ایسے بڑا چہ تھا.ایک بہت ہی شریف اور ہونہار اور دیندار لڑ کا تھا...رضوان رحوم سے پہلے لاہور میں مجھے مار عربی زبان میں نہیں کرتا رہا اورپھر ہم نے اسے ابو بھجوانے کا انتظام کردیا.اُس وقت سے میری طبیعت پر رضوان کی شرافت کا خاص اثر تھا.کم گو ، شریف مزاج ، بے شہر، مخلص دینی جذبات سے معمور اور ہونہار.یہ وہ اثر ہے جو ہرہ شخص جو رضوان سے ملا اس کے متعلق قائم کرتا رہا ہے یہ المصلح یکم ستمبر ۹۵ہ ص۳) } و مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ خالد ربوده نومبر ۱۹۵۳ م ص ۲۵ - ۲۷)
191 ۰۱۹۵۳ فصل چهارم انی کے متفرق مگر اہم واقعات ات دی دید بزرگ و برتر حضرت سی موعود و مہدی سود خاندان حضرت مسیح موعود میں اضافہ عبد النور والسلام و بشارت دی تھی کہ میں تیری تربیت به کو کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا اشتہار ۲۰ فروری شملہ) اس آسمانی وعدہ کے مطابق اس سال خاندان مسیح موعود میں درج ذیل نفوس کا اضافہ ہوا :- صاحبزادی نزہت صاحبه ربنت حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب) تاریخ ولادت ۳ جنوری ۵۳ مد مرزا مظفراحمد صاحب رابن صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا نورا صد صاحب) تاریخ ولادت ، راگست ۱۹۵۳ء له مرزا لقمان احمد صاحب (ابن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احد صاحب) تاریخ ولادت په نومبر ۱۹۵۳ سلمان احمد خان صاحب ( ابن نوابزادہ میاں عباس احمد خان صاحب) تاریخ ولادت ۱۳ نومبر ۱۹۵۳ء مرزا احسن احمد صاحب ( ابن صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب) تاریخ ولادت تا نومبر ۱۹۵۳ شو - امتر النصیر صاحبہ نسبت صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب) تاریخ ولادت ۲۲ دسمبر ۱۹۵۳ء جنوری ۹۵۳ار کو سید نا حضرت مصلح موجودند حضرت مصلح موعود کی مبلغین احمدیت کو نصائح نے پاکستان کے احمدی مبلغین کو شرف باریانی بخشا اور انہیں نہایت قیمتی نصائح سے نوازا.یہ ملاقات دس سے بارہ بجے تک جاری رہی.اُس زمانہ میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ ناظر دعوہ و تبلیغ تھے اور الفضل هم جنوری ۱۳۳۲/۰۱۹۵۳ ش ص له المصلح ۱۲ نومبر ۱۹۵۳ء سے المصلح دار نومبر ۱۹۵۳ م ص ۲ ه المصلح ۲۲ نومبر ۱۹۵۳ ص ۲ شه تاریخ وفات ۱۲ مئی ۱۹۶۷ء
۱۹۲ حسب ذیل سینٹر مبلغین (علاوہ شاہدین و دیہاتی مبلغین کے) پاکستان میں اعلائے کلمہ اسلام میں مصروف تھے: حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ربوده مولاناعبدالغفور صاحب مبلغ لامور - مولنا احمدخان صمدیان نسیم اور مقامی تبلیغ حضرت مولنا رحمت علی صاحب مبلغ بنگال مولانا غلام حسین صاحب نے ایاز مجاهد سنگاپور و ور نیور مبلغ میرپورخاص (سندھ) مولنا ظل الرحمن صاحب بنگالی مبلغ بر یمن برید مشرقی پاکستان ، مولنا شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگریل مبلغ شیخوپورہ - مباشر محمد مر صالح بن مبلغ بنگال سید اعجاز احمد صاحب بن مبلغ تیجے گاؤں مشرقی پاکستان مولوی محب اللہ صاحب مبالغ چارو کھبیہ (مشرقی پاکستان مولنا عبدالمالک خان صاحب کراچی.مولنا چراغ دین صاحب مبلغ را ولپنڈی مولانا محمد اسماعیل صاحب دیال گڑھی مبلغ لامپور- مولنا غلام احمد صاحب فرتی مبلغ سکھر سید احمد علی شاہ صاحب مبلغ حیدر آباد سندھ مولوی محمد حسین صاحب صحابی مبلغ سرگود یا د جنگ مولوی عبدالرحیم صاحب عارف مبلغ مجنگ نگھبانہ مولوی محمد احد صاحب بینیم مبلغ اوکاڑہ درس القرآن کا آغاز ۲۸ فروری ۱۹۵۳ کو حضرت مصلح موعود نے مسجد مبارک ربوہ میں سورۃ مریم سے درس قرآن کے ایک نئے دور کا آغاز فرمایا.اس پر معارف درس کے مختصر اور ضروری نوٹ مولنا ابو العطار صاحب جالندھری کے قلم سے انہیں دونوں رسالہ الفرقان روزنامه الفضل" ربوہ اور مفت روزہ "بدر" قادیان میں بھی چھپتے رہے.بعد ازاں مارچ ۱۹۵۷ نہ میں درس مکمل طور پر تفسیر کبیر جلد چہارم کی صورت میں شائع کر دیا گیا.آنریل چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب زیر روزنامہ ایونگ سٹار کراچی کا خارجہ پاکستان اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی چوھدی مخ ظفر اللہ خان صا کو خراج عقیدت کے فرائض انجام دینے کے بعد اس سال ماہ مارچ " کر کو کے اوائل میں پاکستان واپس تشریف لائے تو کراچی کے انگریزی روز نا مهر ایوننگ شانه (EVENINE STAR) ه تاریخ وفات ۱۵ر دسمبر ۱۹۶۳ سے تاریخ وفات ۴ جنوری سال ه تاریخ وفات ۲۶ اکتوبر ۱۹۷۶مه که تاریخ وفات ۳۱ اگست ۹۵۸ سه ر سابق میں البیلی انڈو نیشیا ) ه تاریخ وفات شه تاریخ وفات ۱۸ر نومبر +1944 شه تاریخ وفات در پارچ ۹۶۴ه شه تاریخ وفات ہار ستمبر له کے
۱۹۳ نے ۳ مارچ ۹۵۳ یہ کو آپ کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کی شاندار قومی دیلی خدمات کو سراہا.اور حسب ذیل مقالہ افتتاحیہ لکھا:.آج کوئی ایسا نفس موجود نہیں ہے جس نے چو ہدری محرظفراللہ خان صاحب سے بڑھ کہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت سر انجام دی ہو.انہوں نے مسلمانوں کے مفاد کے تحفظ میں سینہ سپر ہو کر دنیائے اسلام کو اپنا اور پاکستان کا گرویدہ بنایا ہے.چھ سال کے مختصر عرصہ میں پاکستان کو بین الاقوامی مجالس میں جو اہم اور باعزت مقام حاصل ہوا ہے.اس میں ظفر اللہ خان صاحب کی مساعی کا بے حد دخل ہے.ایک تو ذہانت و فراست اور دیگر ذاتی اوصاف کی وجہ سے دوسرے نو آبادیات میں سامراجی طاقتوں کی آمریت کے خلاف پر زور آواز اُٹھانے کے باعث آج پاکستان کے ظفر اللہ خان صاحب تمام دنیا میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.پاکستان سے باہر جاتے اور واپس آتے وقت جس جس ہوائی اڈے پر بھی اُن کا طیارہ اُترتا ہے.اس مملکت کی منتازہ ترین شخصیتیں اُن کے استقبال اور برادرانہ خیر مقدم کے لئے وہاں موجود ہوتی ہیں.خلفر اللہ خان صاحب نے پاکستان اور اسلام کے لئے جو خدمات انجام دی ہیں قوم اُن سے پوری طرح باخبر ہے ہمیں اُن پر فخر ہے.اور ہم ہی نہیں پورا ملک اُن کی شخصیت پر نازاں ہے.مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے ۹۴ہ سے ایک ہفت روزہ الصلح" ۱۹۴۹ء روز نامہ الصلح کا اجراء کے نام سے جاری کر رکھا تھا میں کے روز نامہ کا ڈیکلریشن حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جو ۲۹ مارچ سالہ کو کامیابی سے ہمکنار ہوئی.اور ۳۰ را پر سایہ کو اس اخبار کی با قاعد ۱۹۵ اور روزانہ اشاعت کا آغاز ہو گیا جو عملاً افضل کا ہی دوسرا ایڈیشن تھا اور اس کی اشاعت و ادارت کے قبلہ انتظامات بھی الفضل کا مستعد اور فرض شناس سٹاف ہی انجام دیتا تھا.اس کادفتر حمدیہ ہال میگزین لین کراچی میں تھا.یہ روز نامہ ابتداء میں کلیم پریس لارنس روڈ میں بعد ازاں علمی پرنٹنگ پرائیں اور پھر آرمی پریس میں چھپتا رہا اور اس مارچ 19لہ یعنی الفضل کے احیاء تک نہایت باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا.المصلح کی یہ عظیم خدمت ہمیشہ یادگار رہے گی کہ اُس نے نہایت کامیابی سے الفضل کی بندش 2 900 ه بحواله روزنامه اصلح کرا چی مار اگست ۹۵۳ام (۸از ظهور ۳۳ (پیش) ۳۴
۱۹۴ سے پیدا شدہ خلا کو پر کیا.اور جماعت کی روحانی اور اخلاقی تشنگی کو بجھانے کا موجب ہوا.اور یہ سب کچھ اور یہ سب کچھ حضرت مصلح موعود کی ذاتی توجہ، دلچسپی اور دعاؤں کا نتیجہ تھا.سید نا حضرت امیرالمومنین الصلح الموعود نے ۱۲ ماہ شہادت ۳۲ نماش کراچی میں صدر انجمن احمدیہ کا قیام مطابق ۱۴ را پریل ۱۹۵۳ء کو صدرانجمن حد یہ کراچی کے قیام کا اعلان فرمایا جس کے الفاظ یہ تھے:.اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ بسم الله الرحمن الرحيم عمل لا وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الرد ناصير اعلان میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی تمام جماعت ہائے احمدیہ پاکستان کے نام یہ اعلان کرتا ہوں کہ آج سے کراچی میں ایک صدر انجمن احمدیہ قائم کی جاتی ہے میں اس صد را امین احمدیہ کو تمام پاکستان کی احمد یہ جماعتوں کے انتظام کا کامل طور پر مساوی حق دیتا ہوں.اس سے میری مراد یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں صدر انجمن احمد یہ رجسٹرڈ حال ربوہ کو بھی سلسلہ کے ان کاموں کے کرنیکا اختیار ہوگا جو جماعت نے اس کو سونے ہیں اور صدرانجمن احمدیہ کراچی کو بھی اختیار ہوگا کہ وہ انہی دائروں میں کام کر سکے.میں تمام جماعت ہائے احمدیہ کو جو پاکستان کی کسی جگہ بھی واقع ہوں ہدایت کرتا ہوں کہ وہ آئندہ صدر انجمن احمدیہ کراچی کے ساتھ اسی طرح تعاون کریں جس طرح وہ صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے ساتھ کر رہی ہیں.اور اگر کسی وقت صدر انجمن احمدیر ربوہ اورصدرانجمن احمد یہ کراچی کی ہدایات ہیں اختلاف نظر آئے تو وہ صدر انجمن حمدیہ کراچی کی ہدایات کو تر جیح دیں لیکن میرے اس حکم کے یعنی نہیں کہ جماعتیں اپنا چندہ بھی کراچی بھیجوانا شروع کر دیں.چندے وہ حسب دستور سابق ربوہ ہی بھجواتے رہیں.سوائے اس کے کہ کسی ضرورت کی وجہ سے صدر انجمن احمدیہ کراچی کچھ حصہ چندہ کا کراچی بھیجنے کی ہدایت دے.
۱۹۵ کیں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ اگر کسی ضرورت کے ماتحت صدر انجین احمدیہ کراچی میری طرف سے ہدایت جاری کرنا ضروری سمجھے تو میری زندگی میں اسے یہ اختیار بھی ہوگا...میں امید کرتا ہوں کہ جماعت اپنی دینی اصلاح اور چندوں کی ادائیگی اور وقف زندگی اور انسانی اسلام اورتعلیم قرآن اور غرباء پروری اور ہمدردی اور خدمت خلق اوراچھے اخلاق اور نیک فو نے پیش کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتی رہے گی.اور ان باتوں کو ایسی مضبوطی سے پکڑے گی کہ کوئی روک اسے ان مقاصد سے ہٹا نہ سکے.اسے عزیز و باگھبرانے کی بات نہیں.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے.میں نے یہ ہدایات صرف کام کی سہولت کے لئے دی ہیں کیونکہ خدا کا کام ہر انسان کے وجود سے مقدم ہے وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين خاک مرزا محمود احمد ۱۲ - ۴ - ۵۳ ایک بھارتی احمدی پر افسوسناک تشدد می ش کا وقعہ ہے کہ منی پور ضلع کلک اڈریس) میں ۴۳ گاؤں کا ایک بڑا جلسہ ہوا جس میں سائت غیر احمدی معلماء مدعو تھے جلسہ کے اختتام پر محلہ والے ایک بھیاسٹھ سالہ مخلص احمدی گو بر علی خان صاحب کو ( جو حضر خلیفہ الشیخ الاول ض کے عہد خلافت میں داخل احمدیت ہوئے تھے ) ایک غیر احمدی مولوی محمد اسماعیل صاحب کے پاس پکڑ کے لئے گئے اور احمدیت سے تائب ہونے کو کہا.گو ہر علی خان صاحب نے کہا کہ میں اُمتی شخص ہوں اور یہ عالم ہیں نہیں ان سے سوال و جواب نہیں کر سکتا ہاں میں احمدی عالم کو منگا سکتا ہوں بشرطیکہ آپ لوگ ان کے آنے جانے کا خراج اپنے ذمہ لیں.یہ شرط مولوی محمد اسماعیل صاحب نے قبول کرائی.اور دوماہ کے عرصہ میں مباحثہ ہونے کے لئے ایک تحریر اُن سے لکھائی.اگلے دن ایک شادی کی مجلس میں انہیں دوبارہ زبر دستی بلوایا گیا اور اُن پر انتہائی دباؤ ڈالا گیا کہ وہ احد ثیت سے منحرف ہو جائیں جب انہوں نے انکار کیا تو انہیں چاروں طرف سله المصلح ، ار اپریل ۱۹۵۳ء ۷ ماه شهادت ۳۳۲ایش ص
144 سے غنڈوں کے ہجوم نے گھیر لیا.اور کہنے لگے کرصرف ایک بار کہہ دو کہ میں حمدی نہیں ہوں ہم تمہیں اپنا سردار بنالیں گے اور تم کواگر کوئی تکلیف ہو تو اس کو دور کر دیں گے.یہ بد قماش لوگ در اصل انہیں حق سے برگشتہ کر کے شہر بھر میں ایک جلوس نکالنا چاہتے تھے.اور سواری اور پھولوں کے بار لیکر کھڑے تھے لیکن جب گوہر علی خان صا نے نہایت درجہ استقلال کا نمونہ دکھایا اور ان کی یہ مذبوحی حرکات اُن کے ایمان میں ذرہ برابر تنز لنزل پیدانہ کر سکیں تو یہ لوگ مایوس ہو گئے.اور نہایت غیظ و غضب اور گالی اور ہنسی ٹھیٹھا کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں مکان سے باہر لے گئے اور دھوپ میں کھڑا کر دیا.گرمی کی شدت سے جب اُن کو پیاس لگی تو پانی تک دینے سے انکار کردہ ہا گیا اور ان کو دھمکی دی گئی کہ گر تو یہ نہیں کرو گے تو تمہیں زندہ جلا دیا جائے گا.بعد ازاں خوران کی بیوی پیا ایک طلاق نامہ لکھا اور اُن سے زبر دستی دستخط کے لئے اور پھر انہیں گاؤں سے باہر نکال دیا گیا اور دھمکی دی کہ اگر تم دوبارہ اس گاؤں میں آؤ گے تو تمہاری لاش چیل اور کروں کے حوالے کر دی جائے گی.گوہر علی خان صاحب نہایت بے سروسامانی کی حالت میں وہاں سے سات میل کے فاصلے پر سر کو کا ہوش میں آئے جہاں دو گھرا حدیوں کے تھے.وہاں سے سونگڑہ ہوتے ہوئے سدانند پور پہنچے اور ایک مخلص احمدی محمد محسن صاحب کے یہاں پناہ گزین ہو گئے جنہوں نے اس دردناک واقع کی تفصیلات قادیان بھجوائیں.اور اخبار بدر" قادیان مورخہ ۱۴ جولائی ۱۹۵۳ء کے صفحہ پر شائع ہوئیں.ملک کے بٹوارہ پر قریباً چھ برس گزر چکے تھے اس قادیان کے ماحول میں ایک خوشگوار تبدیلی دوران میں قادیان اور اس کے ماحول میں غیر مسلم اور مسلم آبادی میں شدید کھچاؤ، تلخی اور منافرت کی جو خلیج حائل تھی وہ اب آہستہ آہستہ کم سے کم تر ہوتی چلی گئی.اور باہمی تعلقات میں روز بروز اضافہ ہونے لگا.اس خوشگوار تبدیلی کا ایک ثبوت قادیان سے آمدہ وہ رپورٹ بھی تھی جو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں قادیان سے ناصر آباد موصول ہوئی اور حضور نے ، باہ ظہور اگست " ( ۳۳۲ امش) کو ملاحظہ فرمائی اور خطبہ جمعہ کے شروع میں اس کا خاص طور پر ذکر کیا چنانچہ فرمایا.۱۹۵۳ء عام طور پر ہماری جماعت کے لوگ ان حالات سے واقف نہیں ہوتے جو جماعت کے خلاف ملک کے مختلف جہات اور اطراف میں یا مختلف ملکوں میں پیدا ہوتے ہیں چونکہ ایسی تمام اطلاعات مرکزہ میں آتی ہیں اور وہ اطلاعات نہ ساری شائع کی جاسکتی ہیں اور نہ ہی ان سب کا شائع کرنا مناسب ہوتا ہے.اس لئے صرف چند لوگ ہی ایسے ہیں جو ان سے واقف ہوتے ہیں اگر مصیبت آتی ہے لے اخبار میں سہو امر لو چھپ گیا ہے ( مکتوب سید شاہد احمد صاحب سونگھڑ وی بنام مؤلف ۲ مارچ ۱۹۸۱ء)
196 تو انہی کے کندھوں پر آتی ہے اور اگر کوئی خوشی کی خبر آتی ہے تو اس سے بھی وہی لذت محسوس کرتے ہیں لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کو جماعت کا ہر فرد سمجھ سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہماری جماعت کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے بظاہر اس کی کوئی دنیوی وجہ نہیں پائی جاتی کیونکہ ہماری جماعت کے لوگ دوسروں سے حسن سلوک کرتے ہیں.ان سے نیک معاملہ کرتے ہیں ان سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں اور ان سے اچھے تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں اور ان کے بہی خواہ ہیں لیکن پھر بھی ان کی مخالفت ہوتی ہے.آج ہی میں قادیان کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں لکھا تھا کہ ہم ایک باغیچہ میں گئے وہاں کچھ مہاجر بیٹھے آپنی میں باتیں کر رہے تھے اور کچھ مقامی لوگ بھی وہاں بیٹھے تھے.شروع شروع میں جب پاکستان سے ہندو اور سکھ مہاجر وہاں گئے تو چونکہ وہ بہت چڑے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے سلوک سے تنگ تھے اس لئے وہ پاکستان یا مسلمانوں کی تعریف کسی مسلمان سے سُن نہیں سکتے تھے اور اگر کوئی تعریف کرتا تو اس سے لڑ پڑنے اور کہتے کہ تو بڑا غدار ہے لیکن آہستہ آہستہ قادیان والوں کے مین سلوک کی وجہ سے لوگوں میں تبدیلی پیدا ہوئی چنانچہ اب ان مہاجرین میں سے بھی ایک حصہ ایسا ہے جو کبھی کبھی جماعت کی تعریف کر دیتا ہے ہر حال اس رپورٹ میں ذکر تھا کہ وہاں جو مہاجر بن بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے بعض نے تعریف کی اور کہا کہ احمدی بڑے اچھے ہیں اور یہ اپنے معاملات میں دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہیں.ان کا اتنا کہنا تھا کہ ایک مقامی سکھ جو اپنے دل میں جوش دبائے بیٹھا تھا کھڑا ہو گیا اور اس نے دس بارہ منٹ تک تقریکی اور کہا کہ ان لوگوں کے ہم ایسے اچھے تعلقات تھے کہ جب سے یہ گئے ہیں ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ قادیان اور اس کے گردو نواح کی رونی ہی چلی گئی ہے.ان لوگوں کے پاس طاقت تھی اور یہ اگر چاہتے تو ہمیں تباہ کر سکتے تھے مگر اتنی طاقت کے باوجود ان لوگوں نے ہماری حفاظت کی اور ہمیں کسی قسم کا نقصان پہنچنے نہیں دیا چنانچہ واقعہ یہی ہے کہ گو بعد میں ہندوستانی حکومت غالب آگئی مگر سوال تو یہ ہے کہ اس وقت کون سمجھتا تھا کہ گورداسپور کا ضلع اُدھر چلا جائے گا اس وقت اگر ہمارے بھی وہی جذبات ہوتے جو مندروں اور سکھوں کے تھے تو دس دس میل کے حلقہ میں ایک ہندو اور سکھ بھی نہ بچپنا مگر ہم نے ان کے مردوں اور عورتوں اور بچوں کی اسی طرح حفاظت کی جس طرح ہم اپنے کردوں اور عورتوں اور بچوکی کی حفاظت کرتے تھے اور نہ ہم نے زبان سے انہیں کوئی لفظ کہا.نہ ان کی دل شکنی کی اور بندگلی
گویج سے کام لیا بلکہ گر میں کسی احمدی کے متعلق ذرا بھی شکایت پہنچتی توہم سختی سے اس کے پیچھے پڑ جاتے لے عراق کے نائب سفیر متعینہ پاکستان کی طرف سے عراق کے نائب سفیر متعینہ پاکستان اسید عبد المہدی العشیر نے پاکستان کے یوم آزادی چوہدری محمد ظفراللہ خانصاحب کی خدمات کا اعتراف کے موقع پر سر راست بات کو یڈیو پاکستان سے اہل پاکستان کے نام ایک پیغام نشر کرتے ہوئے فرمایا کہ عراق پاکستان کی اس جدوجہد کو بھی فراموش نہیں کرسکتا جو اُس نے اقوام متحدہ میں متعدد عرب مسائل کی تائید میں کی ہے موصوف نے کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ چوہاڑی ظفر اللہ خان صاحب نے اس سلسلے میں وہ عظیم الشان کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ جس نے اہل عراق کے دل موہ لئے ہیں.آپ کی شخصیت میں انہیں ایک سچا اور حقیقی دوست ملا ہے.آپ نے بے مثال جذبے اور کمال دلیری سے اُن کے قومی مفاد کی حفاظت کی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کا نام عراقیوں کی قومی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا.انہوں نے مزید فرمایا کہ پاکستان اور عراق کے درمیان نہایت گہرے اور تحکم تعلقات قائم ہیں.دونوں نے بین الاقوامی حلقوں میں عالمی امن کی سلامتی اور غلام ممالک کے باشندوں کی تحریک آزادی میں ایک دوسرے سے گہرا تعاون کیا ہے یے (ترجمہ) کرنل ڈگلس سے اہم مسجد لنڈن کی ملاقات کینیا ایا امیر کا کام میری جدید بی بی بی ولیم مانٹیگور گلس تاریخ ہی امام زریں حروف میں لکھا جائے گا.آپ ہی وہ قابل فخر وجود ہیں جنہوں نے پادری ہنری مارٹن کلارک کے مقد ما اقدام مقتل میں باوجود عیسائی ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے حق میں فیصلہ دیا.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے آپ کو نہ صرف اس پیلاطوس سے مشابہت دی ہے جس کی عدالت میں یہودیوں نے حضرت مسیح ابن مریم کے خلاف مقدمہ دائرہ کیا تھا.بلکہ حق وانصاف پر مبنی جرات مندانہ فیصلہ کرنے پر آپ کی تعریف بھی فرمائی ہے.چنانچہ حضور کشتی نوح میں تحریر فرماتے ہیں :.یہ پیلاطوس مسیح ابن مریم کے پیلاطوس کی نسبت زیادہ با اخلاق ثابت ہوا.کیونکہ عدالت کے امر میں وہ دلیری اور استقامت سے عدالت کا پابند رہا.اور بالائی سفارشوں کی اُس نے کچھ بھی پرواہ نہ کی.له روزنامه المصلح کراچی مورخه ۳۰ تبوک ۳۳۲ آبش / ۳۰ ستمبر ۹۵۳ر سد کے کارنگ نیوز Morning News کراچی ۱۲ اگست ۱۹۵۳ بحواله روزنامه المصلح کراچی مار گست ۱۹۵۳ ر م ۱۶ مست
١٩٩ اور قومی اور مذہبی خیال نے بھی اس میں کچھ تغیر پیدا نہ کیا.اور اس نے عدالت پر پورا اقدم مارنے سے ایسا عمدہ نمونہ دکھایا کہ اگر اس کے وجود کو قوم کا فخراور حکام کیلئے نمونہ سمجھا جائے تو بے جانہ ہو گا.عدالت ایک مشکل امر ہے.جب تک انسان تمام تعلقات سے علیحدہ ہو کر عدالت کی کرسی پر نہ بیٹھے تب تک اس فرض کو عمدہ طور پرادا نہیں کر سکتا مگر ہم اس سچی گواہی کو ادا کرتے ہیں کہ اس پہلا ملوس نے اس فرض کو پورے طور پرادا کیا.اگرچہ پہلا پیلاطوس جو رو می تھا.اس فرض کو اچھے طور پر ادا نہ کر سکا اور اسکی بزدلی نے ریح کو بڑی بڑی تکالیف کا نشانہ بنایا.یہ فرق ہماری جماعت میں ہمیشہ تذکرہ کے لائق ہے جب تک کہ دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں کروڑوں افراد تک پہنچے گی، ولیسی ویسی تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کا تذکرہ رہے گا.اور یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے اس کام کے لئے اُسی کو چنا ہے ۹۵۳ یہ میں کرنل ڈگلس کی عمر 9 سال کے لگ بھگ تھی اور تالیف و تصنیف کا کام آپ نے اب بھی جاری رکھا ہوا تھا.چنانچہ اسی سال آپ کی میسری کتاب لارڈ آکسفورڈ اینڈ دی شیکسپیر جانپ (Lord Oxford and the Shakspeare gomp) چھپ کر منصہ شہود میں آئی.ان علمی مصروفیات کے باوجود آپ نے چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ امام مسجد لندن کو نصف گھنٹہ ملاقات کا موقع دیا.چوہدری صاحب موصوف کے ساتھ اس ملاقات میں شیخ مبارک احمد صاحب بی.اسے ( ابن حضرت خانصاحب مولوی فرد علی صاحبت بھی تھے.شیخ مبارک احمد صاحب کا بیان ہے کہ ملاقات کے شروع میں ہی انہوں نے دریافت کیا کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا کیا حال ہے ؟ اور احمدیت کی مخالفت کا کیا حال ہے ؟ چو ہدری صاحب موصوف کی سہستی اور ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ چودھری صاحب کے قیمتی وجود کی قدر کرنی چاہیے امریت کے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ تحریک مٹے گی نہیں.بلکہ آئندہ ترقی ہی کرے گی.لیکن مجھے اس کے راستہ میں بہت سی مشکلات حائل نظر آرہی ہیں پھرانہوں نے اپنی زندگی کے ان ایام پر نظر دوڑاتے ہوئے جانہ نے ہندوستان میں گزارے تھے کہا کہ ساٹھ سال کا عرصہ ہو چکا ہے مگر میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ اب تک موجود ہے سے کشتی نوح طبع اول مره
جس وقت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود) دائیں طرف اور پادری مارٹن کلارک بائیں طرف کھڑے تھے اور میرے سامنے مرزا صاحب کے خلاف جعلی مقدمہ دائر تھا اور مارٹن کلارک مرزا صاحب (سیح موعود کے خلاف گواہی دے رہا تھا.اور پستول نکال کر سامنے رکھ رہا تھا کہ یہ مرزا صاحب نے عبدالحمید کو دیا تھا.وکیل کا نام تو مجھے یاد نہیں مگر جب اُس نے عبدالحمید سے سوال کیا کہ کیا تمہارے ساتھ اس فعل میں کوئی accomplice شریک جرم تھا ؟ تو اُ سے مرزا صاحب (سیح موعوی کا نام تو آتا نہ تھا اس لئے اس کے ہاتھ پر اس کے شریک کاروں نے مرزا صاحب (سیح موعود) کا نام لکھ دیا تھا اوروہ اپنا ہاتھ دیکھ رہا تھا.اس پر مجھے شک ہوا کہ آخر یہ اپنا ہاتھ کیوں دیکھتا ہے جو اب کیوں نہیں دیتا.معلوم کرنے پر حقیقت آشکارا ہوئی کہ وہ اپنے ہاتھ پر سے نام پڑھ رہا تھا.اُس وقت معا میرے ذہن میں خیال آیا اور میں نے دریافت کیا کہ یہ لڑ کا کہاں رہتا ہے ؟ تو مجھے بتایا گیا کہ پادریوں کے پاس رہتا ہے.میں نے اُسی وقت کہا کہ اس لڑکے کو علیحدہ لے جاؤ اور پولیس کی نگرانی میں رکھو چنانچہ ایسا کرنے نے اُس پر سے پادریوں کا اثر اور رعب زائل ہو گیا اور اس نے حقیقت سے آگاہ کر دیا.مزید کہا کہ میں چاہتا تھا کہ جعلی مقدمہ کے سرکردہ لوگوں کو سخت سزائیں دوں مگر مرزا صاحب کے خلاف اس قدر تعجب تھا اور لوگ برافروختہ ہوئے ہوئے تھے کہ میں نے یہی مناسب سمجھا کہ ان پر سختی نہ کی جائے.مبادا حالات اور زیادہ کشیدہ ہو جائیں.اس لئے انہیں سخت سزائیں دینے سے گریز کیا.یہ تمام واقعہ وہ ایسے پیرایہ میں بیان کر رہے تھے کہ سننے والا محسوس کرتا تھا کہ وہ اس میں ایک لذت اور فخر سا محسوس کرتے ہیں جو ایک نیک کام کر نیوالے کو نیکی کر کے محسوس ہوتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حقیقت کو پاکر اپنے ہم مذہب لوگوں کا خیال نہ کرتے ہوتے حتی اور راستی کا ساتھ دیا.اور یہ ایک کارنامہ تھا.سے اگرچہ نے ربوہ تو اگر چہ انہوں نے ربوہ کو دیکھا تو نہیں مگر اُن کا حافظہ انہیں اس قطعہ اراضی کو Locate کرتے ہیں اس قدر کمد ثابت ہوا ہے کہ فورا وہ جگہ پہچان لی اور کہا کہ وہاں سے کئی دفعہ انہیں گذرنے کا اتفاق ہوا تھا ی بھی ذکر کیا کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام انسان تھے اور خدا کے رسول جیسے دوسرے انبیاء کرام میں نہیں خدا نہیں مانتا.اور نہ ہی میں تثلیث کا قاتل ہوں.اور مرزا غلام احد صاحب (سیح موعود کو بھی خدا کا برگزیدہ انسان اور نبی تصور کرتا ہوں مگر اُن پر ایمان لانا اس لئے ضروری نہیں سمجھتا کہ حضرت مسیح کے وجود اور ان کی پیروی سے میری تستی ہو جاتی ہے.ان سب واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں احمدیت کے ساتھ ایک لگاؤ ہے ایسا لگاؤ ہے جو کے معنے ہیں کھوج لگانا.to locate
سلیم الطبع اور نیک فطرت کو حق اور سچائی کے ساتھ ہوتا ہے اسے پاکستان کے نامور ادیب و مورخ اور ماہنامہ ریاض رسالہ ریاض میں سید نا کا ایک علمی مضمون کراچی کے ایڈیٹر مولنا میں حمد جعفری استانہ 1940 سے لکھا:.ہ) نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۳ئر کو آرام باغ روڈ کراچی موعود و جناب مستطاب ! خدا کرے مزاج عالی ہمہ وجوہ بعافیت ہو.رسالہ ریاض کا سالنامہ مولنا شوکت علی مرحوم کے لئے وقف کیا گیا ہے شوکت علی نمبر کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں.جانتا ہوں آپ بے حد کثیر المشاغل ہیں.پھر بھی یہ درخواست کرنے پر اپنے تئیں مجھو کر پاتا ہوں کہ اس نمبر کیلئے جناب اپنے دست مبارک سے ضرور کچھ تحریر فرمائیں خواہ وہ کتنا ہی مختصر ہو.جواب کا بلے چینی کے ساتھ انتظار خادم رییس احمد جعفری ایڈیٹر سے ہے “ حضرت مصلح موعود نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور ایک علمی مضمون سپرد قلم فرمایا جو بر ساله ریاض کے مولانا شوکت علی نمبر " ہیں اشاعت پذیر ہوا.اس سال علاوہ احمدی احباب کے غیر احمدی حضرت مصلح موعود کی طرف سے بعض ہم خطوط کا جواب اور غیر سلم معززین کی طرف سے بھی حفظ امیرالمومنین کی خدمت میں متحد تصویر بفرض جواب موصول ہوئے جن کے جوابات حضور نے ارسال فرماتے، ان جوابات میں سے بعض اُسی زمانے میں روزنامہ الصلح کراچی اور رسالہ ریو تو آن ریلیجز (انگریزی) ربوہ میں شائع ہوئے کیے مه روزنامه المصلح کراچی ۲۰ستمبر ۲۸/۱۹۵۳ تبوک ۳۳۲ انش من، ۲ اصل مکتوب شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے.سے ایک ہند کے دو سوالوں کے جاب المصلح ہوا اپریل تالہ ص) ایک خط کا جواب کمیونزم کے بارے میں "المصلح ار جولائی و مادر جولائی ۹۵۳لہ صب)، حضور کا خط جنازہ کے تعلتی ہیں ( الصلح ۲۵ جون سه ست) در محمدیوں کے خطوط کا جواب (المصلح ۲۲ نومبر ۱۹۵۳ دصت) کے ایک ایرانی کے سوالات متعلقہ کمیونزم اور حضور کا جواب در بویران پیجز (انگریزی رابوه جنوری ۱۹۵۳ء ) ایک اور صاحب کے سوالات کا جواب (ریبولی ان پیجز (انگریزی) ربوه اگست ۱۹۵۳ م)، برمنگم (انگلستان) سے مسٹر راجہ کا خط اور سیدنا کا جواب در یویو آن پر یلجز (انگریزی) ربوه دسمبر ۱۹۵۳، ص۳۳ - ۳۹)
٢٠٢ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کا سفر پاکستان کسی اور کے لیے معانی اور توری حصیر رضی اللہ تعالی عنہ ، ارنومبر ۹۵ کو بذریعہ ہوائی جہاز کمیٹی سے کراچی پہنچے اور چند یوم وہاں قیام کر کے ربوہ تشریف لائے.اور پھر جو دھامل بلڈنگ لاہور میں مختصر قیام کے بعد دسمبر کے آغاز میں واپس تا دیان تشریف لے گئے.اس سفر میں حضرت عرفانی الماسی نے سیدناحضت مصلح موعود سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور مرکز احدیت کی بات سے مستفید ہوئے علاوہ ازیں کراچی میں ا نومبر کی شام کوذکر حبیب کے موضوع پر اور ۲۵ نومبر کو جامعت البشرين ربوہ میں علم حقیقی کی تعریف اور اس کے حصول کی راہیں" کے موضوع پر نہایت ایمان افروز خطاب فرماباته.موخر الذکر خطاب اساتذہ و طلبہ جامعتہ المبشرین کی طرف سے پیش کردہ ایڈریس کے جواب میں تھا.یه استقبالیہ تقریب سعید حضرت عرفانی الاسدی ، مولوی موسعید صاحب انصاری مبلغ بورنیو اور حضرت ڈاکٹر بعد الدین صاحب آنریبه ی مبلغ یورنیور کی ربوہ میں آمد کے سلسلہ میں منعقد ہوئی.اور اس میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، تحریک جدید کے وکلہ ، ناظر صاحب تعلیم و تربیت حضرت مولوی محمد الدین حنات اور دیگر معززین سلسلہ نے شرکت فرمائی تقریب کے اختتام پر مولنا ابو العطاء صاحب پر نسپل جامعہ المبشرین نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے دعا کروائی.یہ تقریب ساڑھے نو بجے صبح سے سارے گیارہ بجے تک جاری رہی.اس موقع پر ایک گروپ فوٹو بھی لیا گیا ہے اسی روزم بیچے بعد نماز عصر ولنا ابوالحطاء صاحب جالندھری ایڈیٹر الفرقان نے اپنے مکان پر حضرت عرفانی نے کے اعزاز میں ایک مختصر باپرٹی کا انتظام فرمایا.یہ پارٹی ربوہ میں چھپنے والے رسائل ریویو آف ریلیج" (انگریزی) "الفرقان"، "مصباح" اور "خالد" کی طرف سے دی گئی تھی.اس مجلس میں ربوہ کے مرکزی رسائل کی ترقی اور بہبود زیر غور آئیں.اور حضرت عرفانی صاحب نے اس سلسلے میں بہت مفید مشورے دیتے اور مضامین میں تنوع پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی، اور اپنے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے جب اکتوبر شملہ میں الحکم" ه روزنامه الصلح کراچی ۱۲ نومبر ۱۹۵۳ م.س "المصلح" ، ۱ نومبر ۲۰ نومبر ۲۲۰ نومبر ۱۹۵۳ مص سے "المصلح" ۲۲ دسمبر ۲۰۱۹۵۳ که من در اصل گرامی در مسیر این امام وخلافه نفر شهر رمان اندی سامانه اصلی برای درست کا ۱۹۵۳
حضرت مصلح موعود جامعتہ المبشرین میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور دوسرے اکابر صحابہ جامعہ احمدیہ کے اساتذہ وطلبہ اور مبلغین کے ساتھ
سید نا حضرت مصلح موعود کا ایک گروپ فوٹو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی الوداعی تقریب کے موقعہ پر
۲۰۳ جاری کیا اس وقت میرے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا.مجھے اخبار نکالنے کا خیال مقدسہ مارٹن کلارک کے باعث پیدا ہوا.میں نے حضرت اقدس علیہ السّلام کی خدمت میں لکھا.حضور نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ مجھے تو اخبار کا تجربہ نہیں جماعت غریب ہے.آپ اپنے تجربہ کی بناء پر جو مناسب سمجھتے ہیں کریں چنانچہ میں نے اللہ پر توکل کر کے اخبار الحکم جاری کر دیا.اُن دنوں کتابت کی اُجرت پر آنے فی صفحہ ہوتی تھی.آپ نے یہ بھی بتا یا کہ انہوں نے طالب علمی کے زمانے میں پہلا مضمون جالندھر کے اخبارہ آفتاب ہند میں لکھا تھا.اس مجلس میں چوہدر سی علی محمد صاحب بی.اے بی ٹی نائب ایڈیٹر ریویو آن ریلیجز" (انگریزی) مولوی خورشید احمد صاحب شاد منجر مصباح اور مولوی غلام باری صاحب سیف ایڈیٹر خالد نے شرکت کی.دعا پر یہ پرلطف اور یادگار مجلس ختم ہوئی سیاہ حضرت عرفانی الماسانی کا یہ سفر پاکستان کا پہلا اور آخری سفر ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد آپ اپنی زندگی میں بارہ پاکستان نہیں آسکے.ڈاکٹر عبدالت دام صاحبک نیا اعزاز اونٹ کا لا ہوریں بیانی کے پروفیسر شعبہ ریاضی پنجاب گورنمنٹ کالج ایونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو سہ کے آخر میں کیمرج یونیورسٹی کی طرف سے لیکچررشپ کی پیشکش کی گئی.آپ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں یہ نمایاں اعزاز ملا بوصوت اس نئے عہدے کا چارج لینے کے لئے اور دسمبر کو بذریعہ ہوائی جہاز کیمبرج تشریف لے گئے.پاکستان اور احمدیت کے اس مایہ ناز فرزندگی اعلی تعلیمی صلاحیتوں کا ذکر کرتے نیچرل فلاسفی ایڈنبرگ کے پروفیسر ابن کینٹ ٹیٹ نے انہیں دنوں لکھا:.جدید نظریاتی طبیعات کے انتہائی ترقیاتی یافتہ شکل اور دلچسپ میدان میں ڈاکٹر عبد السلام کو ایک ریسرچ سکالر کی حیثیت سے واقعی اعلی مقام حاصل ہے، مجھے یہاں کی رنج میں دنیا کے اُن چنیدہ طلبہ کو منتخب کرنے کا موقع ملا ہے جو بلاشبہ اعلی ترین دماغوں کے مالک تھے لیکن سلام نے بڑی آسانی سے ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ ان چنیدہ سکالرز میں سے بھی قابل ترین سکالر ہے.یہ تنہا میری ہی رائے نہیں ہے کیونکہ سینٹ جان کالج کی فیلوشپ انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانسٹڈ سٹڈی پرنسٹن کی رکنیت اور کیمرج کی موجودہ پیشکش یہ سب اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ فی الواقعہ آپ سه روز نامه المصلح " کراچی و دسمبر ۵دمت کالم را
جمار کالونہ میں سے بہترین کار ہیں، ڈاکٹر عبدالسلام اپنی عمر کے اس دور میں ہیں کہ جس میں وہ زیادہ سے زیادہ سانسی کام کر سکتے ہیں اوراگر وہ متعلقہ شعبوں میں کام کرنے والوں سے قریبی تعلقات پیدا کرنے کی طرف راغب ہو گئے تو یقیناً سال بہ سال ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا جائے گا.اور بالآخروہ اُن چند اشخاص کے زمرے میں شامل ہو جائیں گے کہ جو کہیں بھی ہوں علوم عالیہ کے سکالہ زردنیا کے کونے کونے سے استفادہ کے لئے اُن کے پاس کھنچے چلے آتے ہیں.چند سال بعد ڈاکٹر عبد السلام لاہور یا جہاں وہ چاہیں واپس جاسکیں گے.اور اگر ضروری سرمایہ فراہم ہوگیا تو نظریاتی طبیعات کا وہ خود ایک ادارہ قائم کر سکیں گے.جو یقی اعلی ترین بین الاقوامی شہرت کا حامل ہو گا " سے ار دسمبر 19ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی الصلح الوعود حضرت مصلح موعود کا ایک اہم خطبہ نکاح نے مسجد مبارک میں ڈاکٹر بدرالدین صاحب آن بورنیو کی صاحبزادی امتہ العزیز صاحبہ کے نکاح کا اعلان رمایا جو مرزا محمداد رہیں صاحبت مبلغ بورنیو کے ساتھ مبلغ ایک ہزار وہ پیسے مہر یہ قرار پایا.حضور نے خطبہ نکاح میں فرمایا :.جولوگ مالی تنگی کی وجہ سے دین کے خادموں کی کم قیمت لگاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیا وہ چیز تو قیمتی ہے جس کے امریکن یا سکھ ہندو خریدار ہوں گر اُس چیز کی کوئی قیمت نہیں جس کا خود اللہ تعالی خریدار ہے.ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب میں یہ گھورہی ہے اور یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں وہ چیز نظر آگئی مجود و سروں کو نظر نہیں آتی.انہوں نے اپنی پہلی لڑکی بھی ایک خادم دین کو دی تھی یعنی مونی مطیع الرحمان صاحب بنگالی کو.اگر چہ وہ ڈاکٹر ہیں اور ہزاروں اور پیر ماہوار کھاتے ہیں مگر وہ اپنی لڑکی ایک واقف زندگی کو دے رہے ہیں کیونکہ اس میں انہیں وہ چیز نظر آتی ہے جو انہیں اپنے آپ میں نظر نہیں آتی.میں نے خوش قسمتی اس لئے کہا ہے کہ کئی لوگ با وجود خادم دین کی قدر و قیمت پہچاننے کے پھر بھی عمل کی توفیق نہیں پاتے " سے ه روزنامه المصلح " کراچی ۱۲ دسمبر له ما وصت.ه ابن مرزا محمد اسماعیل صاحب منجر بر یاشیل پٹرول پیپ ایم.اسے مرزا اینڈ سنز همین حال دارو دار الصور نشرتی ربوہ سے روز نامہه الصلح کراچی یکم جنوری ۱۹۵۷ در یکم صلح ۳۳۳ امش در خطبه نویس مولنا نذيرا مدمن على رئيس التبليغ مغربي فريقين
۲۰۵ امریکہ بیٹر نی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں ر اس سال امریکہ کی احمدی جماعتوں کی چھٹی سالانہ کامیاب کنونش شکاگو کے وائی ایم سی.اسے کے ہال اور مسجد میں ۳۰.اور اس مئی ۹۵۳ہ کو منعقد ہوئی جس میں ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی جماعتوں کے اڑھائی سوسے زائد نما بندگان نے شرکت کی بلعام کا انتظام مسجد شکاگو میںاور قیام کا انتظام دور ہوٹلوں میں کیا گیا.کل چھانہ اجلاس ہوئے جن سے مبلغ انچارج جناب چوہدری خلیل احمد صاحب ناصری، چوہدری غلام بین صاحب مبلغ حلقه نیو یارک ، عبدالقادر صاحب استلم آن داشنگٹن مولوی عبد القادر صاحب ضیغم مبلغ انچارج حلقه پٹس برگ اور سید عبدالرحمان صاحب آن کلیولینڈ نے خطاب کیا.کنونشن میں مرکزی عہدیداروں کے انتخاب اور مالی اور انتظامی فیصلہ جات کے علاوہ آئندہ سال کے لئے نہایت مفصل تبلیغی پروگرام تجویز کیا گیا اسلام کونٹی دنیا کے کونے کونے تک پھیلایا جا سکے.کنونشن کے دوران ہی لجنہ اماءاللہ اورخدام الاحمدیہ امریکہ کے اجلاس بھی منعقد ہوئے.لجنہ اماء الدامریکہ کا اجلاس کیسٹر زینب عثمان آن سینٹ لوئیں کی صدارت وائی ایم سی.اسے ہال میں اور خدام الاحمدیہ کاسالانہ اجتماع مجد شکاگو میں مولوی عبد القادر صاحب ضیغم کی صدارت میں ہوا کنونشن کے اختتام پر چو ہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے جماعت احمدیہ کے سال گذشتہ کے اہم واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان امور کا خاص طور پر ذکر کیا جن سے سلسلہ احمدیہ کو نمایاں ترقی حاصل ہوئی.آپ نے امریکہ مشین کی سرگرمیوں کے سلسلے میں مسجد ڈٹین کی تعمیر اور افتتاح ، عبدالشکور رویش صاحب کی ربوہ کو روانگی مختلف ٹریکٹیوں کی اشاعت اور ان کی چھوٹی کے علمی حلقوں میں تقسیم وغیرہ امور پر روشنی ڈالی.اور امریکن احد بیوں کو اس طرف متوجہ کیا کہ اب انہیں یہ مجھ لینا چاہئے کہ گویا ہی احمدیت کے ستون ہیں.اور اس حیثیت سے انہیں ہرقسم کی قربانیوں کے لئے تیارے جنا چاہئے لمسی درگاہ کے بعد یہ کنونشن ختم ہوئی.احباب کے ایک دوسرے سے جدا ہونے کا نظارہ نہایت ہی ایمان پرور تھا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے مدت کے بچھڑے ہوئے بھائی ایک مختصر وقفہ کے لئے مل کر پھر اگلے سال ملاقات کی اگے تمناؤں کے ساتھ جدا ہو رہے ہیں.سہ اس کامیاب کنونشن کے چند ماہ بعد امریکہ یشن کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی معرکہ آرا تالیف کے روز نامہ المصلح" کراچی ۱۵-۱۶- ۱۷ جولائی ۱۹۵۳ء
۲۰۶ در اسلامی اصول کی فلاسفی کا شاندار امریکی ایڈیشن شائع کیا گیا.یہ ایڈیشن طباعت کے اعلیٰ معیار کے ساتھ چھپوایا گیا تھا آیات قرآنیہ کے بلاک بنوا کر ان کے عکس دیئے گئے.اور اس کے آخر یہ کتاب کے تمام حوالوں کو فسٹ نوٹ کے طور پہ درج کیا گیا.اس کتاب کی اشاعت کے بعد امریکہ میں تبلیغ اسلام کی جدوجہد پہلے سے زیادہ تیز ہو گئی بلائے ۳۰ جولائی ۹۵۳ مہ کو انگلستان کے مشہور اخبار ٹائمز (Times) گھوڑوں کی نمائش کی خبر شائع ہوئی جو عرب ہارس سوسائٹی Arab Horse) انگلستان ستان میں (Society کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی.اس میں میسترسی ای.بارلنگ.Mrs.C, E) (Barling کے گھوڑے کا بھی ذکر تھا جس کا نام صابر محمد تھا.یہ خر پڑھتے ہی چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ امام مسجد لنڈن نے یکم اگست ۱۹۵۳ء کو عرب ہارس سوسائٹی کے سیکرٹری کے نام خط لکھا جس میں اس امر یہ اظہار افسوس کیا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک سے جنہیں ہم مسلمان فخر موجودات اور سرور کا سات سمجھتے ہیں ایک گھوڑے کو موسوم کیا جائے.بلکہ ہم تو اصول اس بات کے بھی مخالف ہیں کہ دنیا میں اعلیٰ اخلاق اور روحانیت کو قائم کرنے والے نیک اور پاک وجودوں کے ساتھ جانوروں کو نسبت دی جائے.اس لئے اگر مسز بار لنگ اپنے گھوڑے کا نام لیوں سے رکھتیں تو بھی اس سے ہم کو تکلیف ہوتی امام صاحب نے سیکرٹری صاحب سے درخواست کی کہ باہمی محبت اور مسلمانوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے پیش نظر اس نام کو تبدیل کر دیا جائے اس پر مسز بارلنگ نے اپنے گھوڑے کا نام تبدیل کر دیا.جس کی اطلاع دیتے ہوئے سیکر ٹر ی عرب ہارس سوئٹی کریل آر سی ڈی یہ سکن نے اپنے خط میں لکھا کہ مسز بار لنگ نے بتایا ہے کہ اس گھوڑے کی نمائش ۹۵ لر اور را 19۵ء میں بھی ہوئی تھی جہاں ریجنٹ آن عراق وغیرہ نماز لوگ موجود تھے مگر کسی نے بھی اس طرف تو به نه ولائی ، امام صاحب لنڈن نے سیکرٹری صاحب اور میز بارلنگ کو شکریہ کے خطوط لکھے اور لکھا کہ بہت ممکن ہے کہ ریجنٹ آف عراق یا دوسرے مسلمانوں کو اس نام کی طرف توجہ نہ ہوئی ہو.ورنہ کوئی مسلمان بھی کسی جانور کو حضرت نبی اکرم صلی الہ علیہ وسلم کا نام و یا اگر پسند نہیں کر سکتایہ انڈونیشیا انڈونیشیا مشن کی وسیع اسلامی سرگرمیوں میں سے جو اس سال پورے انڈونیشیا میں ه روزنامه المصلح کراچی ۲۵ نومبر ۱۹۵۳ء ص و ۲۶ نومبر ۱۹۵۳ء صگ که روزنامه المصلح کراچی دار اکتوبر ۱۹۵۳ء/ ۱۸ را خاء ۱۳۳۳ مش ص۳ JA
جاری رہیں دو واقعات کا تذکرہ نہایت ضروری ہے :.(1) ہالینڈ کے احمدیہ شن کی طرف سے بذریعہ ہوائی ڈاک ولندیزی ترجمہ قرآن کی ایک کاپی یہاں اس خواہش کے ساتھ موصول ہوئی کہ پریذیڈنٹ جمہور بیانڈونیشیا جناب ڈاکٹر سوکارنو صاحب کو تحفہ پیش کی جائے.اس خواہش کی تکمیل ۱۴ اگست ۹۵۳لہ کو بوقت سو نو بجے صبح ہوئی جبکہ جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے جو مولوی عبد الواحد صاحب (رئیس التبلیغ انڈونیشیا) راڈن ہدایت صاحب (نائب صدر جماعت احمدیہ انڈونیشیا) جناب مرتو لو صاحب دسیکرٹری امور خارجہ جماعت احمدیہ انڈونیشیا) اور حافظ قدرت اللہ صاحب (سیکرٹری احمدیہ مسلم مشن انڈونیش پیشتمل تھا.ڈاکٹر سو کار نو صاحب پریذیڈنٹ انڈونیشیا سے ان کے محل آستانہ پر ملاقات کی.اور قائد وفد مولنا عبد الواحد صاحب نے قرآن کریم کا یہ نایاب تحفہ جو مخملی جزدان میں لپیٹا ہوا تھا اور لکڑی کے ایک منقش صند و نیچے میں رکھا تھا پریذیڈنٹ صاحب کی خدمت میں پیش کیا.جسے انہوں نے نہایت احترام سے قبول فرمایا اور شکریہ کے دلی جذبات کا اظہار کیا.جناب مولنا عبد الواحد صاحب نے یہ آسمانی تحفہ پیش کرنے سے پہلے عرض کیا کہ اس ترجمہ کی پیشکش کے پیچھے دراصل وہ مخلصانہ جذبات کار فرما ہیں جو ساری دنیا میں بسنے والے احمدیوں کے دلی جذبات ہیں نیز بتایا کہ ہالینڈ میں اس وقت جماعت احمدیہ کی طرف سے اشاعت اسلام کی جو کوشش ہو رہی ہے اُس میں ہمارے ایک انڈونیشین بھائی (مولنا ابو بکر ایوب صاحب بھی خدمت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور ہماری ران حقیر کو ششوں کا اور اسلامی تعلیم کی اشاعت کا یہ نتیجہ ہے کہ وہاں فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا کا نظارہ نظر آر ہا ہے.وہ ڈچ جو حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں اپنے انڈونیشین بھائی کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کو باعث فخر خیال کرتے ہیں اور یہ اخترت اسلامی ہی کا کرشمہ ہے کہ آج یہ تحفہ قرآن ان ڈی مسلمان بھائیوں کے خلوص بھرے جذبات کے ساتھ اور ان کی خواہش کے پیش نظر جناب عالی کی خدمت میں نہیں کیا جا رہا ہے اور یہ اسلام کی روحانی برزنتری کا ایک زندہ ثبوت ہے.اس اہم واقعہ کی خبرملکی پریس نے نہایت تفصیل کے ساتھ مع فوٹو کے شائع کی.علاوہ انہیں اسی شام کو انڈونیشیا ریڈیو پر بھی تفصیل سے اس کی خبر نشر کی گئی ہے ** (۲) جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی پانچویں سالانہ کا میاب کانفرنس ۲۵-۲۶-۲۰ دسمبه ر ماه فتح ۳۳۲ میش ه روزنامه المصلح کراچی ۳۰ جنوری ۱۹۵۷ء / صلح ۱۳۳۳ مش ص۳
۲۰۸ کو بمقام ہوگا انعقاد پذیر ہوئی.ہوگر جو جاکرتا ہے کوئی چالیس میل جنوب کی طرف واقع ہے انڈونیشیا پر یس اور ریڈیو اور پوسٹر کے ذریعہ اس اہم کا نفرنس کی خبرٹو پر سے مک میں پھیل چکی تھی.نیز شہر کے سنیما گھروں میں بذریعہ فلم سلائیڈز اس کی خبر ایک ہفتہ تک نشر ہوتی رہی.یہ ہر دسمبر کی شام کو کانفرنس کی استقبالیہ تقریب نہایت وسیع پیمانے پر منعقد ہوئی جس میں بہت سے سرکاری محکام، معززین اور شہر کی دیگر اعلیٰ شخصیتوں نے بھی شرکت کی جن میں ڈپٹی کمشنر اور بلوگر شہر کے بہت خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اس موقع پر پریذیڈنٹ انڈونیشیا ڈاکٹر سو کارنو، جناب ڈاکٹر محمد حتی ، جناب وزیر اعظم، نائب وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر خارجه، دور بر سوشل معاملات ، گورنر مغربی جاوا، فضائی فوج کے سربراہ اور انڈونیشیا کی پولیس کے افسر اعلیٰ اور دوسرے انڈونیشی زعماء کی طرف سے مبارک بادی کے پیغامات موصول ہوئے، استقبالیہ تقریب میں رئیس التبلیغ انڈونیشیا اور پریزیڈنٹ جماعت احمد یہ انڈونیشیا نے تقاریر کیں.اختتام پر حضرت مصلح موعود کا لیکچر احمدیت کا پیغام تمام مدعوین میں مفت تقسیم کیا گیا.۲۵ دسمبر کو صبح آٹھ نیچے کا نفرنس کی باقاعدہ کارروائی شروع ہوئی.افتتاحی اجلاس میں جناب مولوی عبد الواحد صاحب زمیں تبلیغ انڈونیشیا نے حضرت مصلح موعود کارہ مبارک اور روح پر در میام پڑھ کر سنایا جوحضور نے از راو دوره نوازی چند روز قبل ہی بذریعہ تاریبہ کی عنایت فرمایا تھا.اس پیغام کوسن کر تمام دل جذبات تشکر سے لبرینی تھے.اور بہت سی آنکھیں پرنم جناب رئیس تبلیغ صاحب نے یہ پیغام سنانے کے بعد اسی پیغام کی روشنی میں احمدی احباب کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور ایک نئے عزم اور نئے ارادے کے ساتھ کام شروع کرنے کی تحریک کی.اسی روز مجلس انصار الله، لجنہ اماء اللہ اور خدام الاحمدیہ کے الگ الگ اجلاس بھی ہوئے جن کی رپورٹ شام کو کانفرنس کے اجلاس عام میں پیش کی گئی.۲۶ دسمبر کے اجلاس میں جماعت انڈونیشیا کی ترقی کے لئے بعض نئی تجاویز پر غور کیا گیا اور آئندہ سال کے چندہ عام کا مجوزہ بجٹ ایک لاکھ نو سے ہزار روپے منفقہ طور پر پاس ہوا.۲۷ دسمبر کا اجلاس ایک کھلا تبلیغی اجلاس تھا جس کے لئے دعوت عام تھی.اس میں چار اہم مضامین پر تقاریر ہوئیں جنہیں حاضرین نے توجہ سے سُنا جہاں کا نفرنس کے دوسرے اجلاسوں میں شامل ہونے والے افراد اور نمائندگان کی تعداد پونے تین سو کے قریب تھی اور اڑھائی سو کے قریب دیگر انڈو نیشین احمدی بھائی تھے وہاں اس تبلیغی اجلاس کی حاضری سات سو سے بھی زیادہ تھی.شام کو کانفرنس کا الوداعی اجلاس ہوا.جس میں پہلے مبلغین احمدیت نے تقاریر فرمائیں بعد ازاں جماعتوں
عدن کے نمائندگان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.اور بالآخر ایک بجے شب یہ کانفرنس نہایت کامیابی کے ساتھ انجام پذیر ہوئی نور کو جماعت احمدیہ عدن کا جلسہ سیرت النبی ڈاکٹر میجرمحمد خان صاحب کے مکان پر منعقد ہوا.جو نہایت کامیاب رہا جلسہ میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے علاوہ اشیخ عبدالله حمد الشبوطی اور سعید علی جریک نے تقاریر کیں جلسہ کے لئے خاص دعوت نامے بھیجے گئے.کل حاضری ۳۸ نتھی یہ سیرالیون کی احمدی جماعتوں کی پانچویں کا میاب سالانہ کانفرنس ۵-۶-۲ دسمبر ۹۵ار کو تو (B0) میں منعقد ہوئی.اس کا نفرنس میں سیرالیون کی اہم جماعتوں کے پانچ سو سے زائد نمائندے سیرالیون شامل ہوئے.اجلاس اوّل هر دسمبر کو ماسٹر محمدابراہیم صاحب جلیل کی زیر صدارت ہوا.جن کی افتتاحی تقریر کے بعد چو ہدری نذیر احمد صاحب امیر سیرالیون نے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کا حسب ذیل رور پر در پیغام پڑھ کر سنایا جو حضور نے خاص اس تقریب کے لئے ارسال فرمایا تھا."Unite and work.God be with you." ترجیہ : متحد ہو کر کام کرد.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.چوہدری نذیر احمد صاحب نے یہ پیغام پڑھنے کے بعد بتایا.اس کے الفاظ اگر چہ نہایت مختصر اور قلیل ہیں مگر ران میں نہایت وسیع مضمون بیان کر دیا گیا ہے اور اس کا ہر لفظ ہمارے لئے مشعل راہ ہے.تمام حاضرین نے حضرت اميرالمومنين الصلح الموعود کا یہ پیغام تین بار ہرایا اور دعا کی کہ خدا تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.دعا کے بعد سیرالیون کے ایک نہایت مخلص لوکل احمد نی مبلغ اور ترجمان جناب الفاسوری با صاحب نے تقریبیہ کی کہ یہ احمدیت کا احسان عظیم ہے کہ اُس نے ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کیا.ہمارے اقوال، ہمارے اعمال اور ہماری عادات و اطوار کی اصلاح کی ہم مردہ تھے ہمیں خداتعالے کے بیٹے نے نئی زندگی عطا کی.اور ایک نیا دور حیات بخشا.خدا تعالئے کے اس احسان عظیم کے شکر پر میں اگرہم سب اپنا تن من دھن اسلام کے لئے قربانی کردیں تو بھی کم ہے.اس کا نفرنس کے اگلے چار اجلاسوں سے مندرجہ ذیل مقررین ومبلغین نے خطاب فرمایا :- روزنامه المصلح " کراچی ۴ فروری ۱۹۵۳ ص۳ ه روزنامه المصلح کراچی ۴ فروری ۱۹۵۳ ۲/۶ تبلیغ ۱۳۳۳ پیش منه
۲۱۰ چوہدری نذیر احمد صاحب امیر سیرالیون ، مولوی محمد عبد الکریم صاحب ، مسٹر موسے سودا صاحب لوکل مبلغ ، مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری مبلغ سیرالیون ، الفا احمد دوری صاحب - چھٹا اور آخری اجلاس مولوی محمد عبد الکریم صاحب کی زیر صدارت ہوا.جن کے نئے امیر سیرالیون ہونے کا اعلان اس کا نفرنس کے اجلاس دوم میں سابق امیر شیر الیسون چوہدری نذیر احمد صاحب نے کیا تھا.یه اختتامی اجلاس شوری کی حیثیت رکھتا تھا جس میں نمائندگان اور مبلغین نے جماعت احمد یہ سیرالیون کی ترقی اور کامیابی کے لئے اہم تجاویہ پر غورکیا اوراور باتفاق رائے یہ تجویز پاس کی کہ جلد از جلد ایک پر میں خرید کر ایک جماعتی اخبار جاری کیا جائے.پریس کے لئے پانچ سو پونڈ کی رقم تجویز ہوئی جس کی ادائیگی کے لئے مخلص بن نے اجلاس میں ہی وعدے لکھوانے شروع کر دیئے جن کی تعداد ۱۴ (پونڈ تک پہنچ گئی.اور باقی رقم کے لئے جماعتوں کے نام سر کلر جاری کر دیئے گئے.دوسرا ہم فیصلہ یہ کیاگیا کہ حمدیہ سکول بو کو سیکنڈری سکول بنادیا جائے.تارہ طلبہ جاحد ریسکولوں سے تاریخ ہونے کے بعد دوبارہ ایک نیت کی مسموم فضا میں جانے پر مجبور ہوتے ہیں کسی حد تک محفوظ ہو جائیں اور دینی ماحول میں تعلیم حاصل کر کے اسلام کے لئے مفید وجود ثابت ہو سکیں.یہ اختتامی اجلاس رات کے دس بجے تک جاری رہا اور محترم امیر صاحب سیرالیون کے مختصر خطاب اور دعا پر اختتام پذیر ہوا.مسلے مبلغین کی مرکز احمدیت میں بیرونی ممالک ستید نا حضرت اقدس المصلح الموعودور بوده کی بنیاد 19 ستمبر لہ ہی سے یہ دعائیں بکثرت کر رہے تھے کہ الہی ! سے واپسی اور روانگی اس نئی بستی کو مرکز توحید بنا دے.ان منظر تھانہ دعاؤں کی قبولیت کے آسمانوں پر قیامت تک کیا گیا اسباب پیدا ہوں گے.اِس کی نسبت تو مستقبل کا مورخ ہی بتا سکے گا.تاہم یہاں اس قدر بتانا ضروری ہے کہ ان دعاؤں کے بعد فوری طور پر یہ سامان پیدا ہوا کہ اس مقدس مقام میں بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ بجالانے والے مجاہدین کی مراجعت و روانگی کا ایک ایسا غیر معمولی سلسلہ شروع ہو گیا جس کی نظیر متحدہ ہندوستان کی تاریخ احمدیت میں نہیں ملتی.جیسا کہ خود حضرت مصلح موعود نے ے آپ کی نسبت چوہدری نذیر احمد صاحبے کا نفرنس میں اعلان فرمایا کہ ہمیں بہت جلد آپ بھائیوں سے جدا ہونیوالا ہوں.آج سے آپ کے امیر مولوی مد عبدالکریم صاحب ہوں گے.چنانچہ آپ اس کے بعد جلد ہی پاکستان میں تشریف لے آئے) سه روزنامه المصلح کراچی ۱۳ فروری ۱۹۵۳ / ۱۳ تبلیغ ۱۳۳۳ مش ص۳
۲۱۱ ۱ مئی شاہ کو مبلغین کے اعزاز میں دی جانیوالی ایک پارٹی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:.ہم قادیان سے نکل کر بھی کمزور نہیں ہوئے.بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ پہلے ہم ایک ایک دو دو مبلغوں کی دعوتیں کرتے تھے.اب ہم درجنوں کی دعوتیں کرتے ہیں کیونکہ اب مسلموں کے رسالے باہر جانے شروع ہو گئے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ایک ہی دفعہ مبلغوں کی بٹالین باہر جائیں گی.وہ دن دور نہیں جب مبلغوں کے برگیڈ یا ہر جائیں گے وہ دن دور نہیں جب مسلوں کے ڈویژن تبلیغ اسلام کے لئے باہر جائیں گے.(انشاء اللہ تعالیٰ سے اس سال ۶۱۹۵۶ / ۱۳۳۶ میش میں جو مبلغین احمد ثبت ممالک غیر میں کامیاب فریضہ تبلیغ انجام دینے کے بعد ربوہ تشریف لائے.ان کے نام یہ ہیں :- را سید احمد شاہ صاحب نائیجیر یا ( آمد ربوده را اپریل ۹۵۳ ر / ر شهادت ۳۳۲ همیش) مولوی صدر الدین صاحب ایران آمد و بوه ۱۲ اگست ۱۹۵۳ء/ ۲ ظهور ۱۳۳۲ ش) رس مولوی محمد سعید صاحب انصاری بور نبود ( آمد ر بوه ۱۷ اکتوبر ۹۵ در اراخاء ۱۳۳۳، منش) (۴) دسمبر سید شاه محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیاد آمد بوده ۱۵ ۱۹ / ۱۵ فتح ۳۳۲ مه مش سه جو مبلغین اس سال ربوہ سے بیرون پاکستان کے لئے روانہ ہوئے اُن کے اسماء یہ ہیں :.را، مرزا محمد ادریس صاحب شمالی بورنیو ( روانگی ۱۲ جنوری ۱۲/۱۹۵۳ صلح ۱۳۳۳ میش) مل قریشی فیروز محی الدین صاحب سنگا پور ( " " (۳) مولوی فضل النبی صاحب بیشتر مشرقی افریقہ ( روانگی از اپریل ۵۳ له به شهادت ۳۳۲ ریش) رسی مولوی محمد نور صاحب " ) し (۵) سید میر احمد صاحب بابری بر ما روانگی، جون ۹۵۳ ، راحسان ۳۳۲ مه مش) مولوی امام الدین صاحب انڈونیشیا ( روانگی ۲۳ جون ۲۳/۴۱۹۵۳ احسان ۱۳۳۳ رمش) (6) قریشی محمد افضل صاحب غانا روانگی 4 جولائی ۹۵۳ / ۶ وفا ۳۳۲ارسیش روزنامه الفضل ربوه با ارا اپریل ۱۹۶۱ء ص ۵ کالم ۴ کے ریکارڈ وکالت تبشیر تحریک جدید ر بوه - ايضا الصلح ۲۳ دسمبر ۱۹۵۳ء ص ۴
۲۱۲ 1901 (۴) مولود احمد خان صاحب انگلستان د روانگی در جولائی مواد / هر دفا ه مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری سیرالیون د روانگی ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۳ / ۱۵ را خا ۱۳۳ امیش له (در اس سال پاکستان میں سلسلہ احمدیہ کی مندرجہ ذیل نئی کتب شائع ہوئیں ہے.رقم را تعلق باشد و تقریر سید نا حضرت مصلح موعود بر موقع جلسه سالانه ۲۸ دسمبر ۶۱۹۵۷ H (۲) اشتراکیت اور اسلام از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) (۳) " اچھی مائیں " ( ی رسول پاک میم المالی مقام کی ختم نبوت کی حقیقت (از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احد صاحبت مسلمان عورت کی بلندشان تقریرہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد) حیات الآخرة ( تقریر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب) () ہند و سامراج اور مسئلہ کشمیر (ان گیانی عباد اللہ صاحب محقق سکھ مذہب) () یومیہ" ( شائع کرده نظارت دعوة و تبلیغ ربوه) احمدیہ تجار ڈائرکٹری (مرتبه نظارت امور عامه صد را نمین احمدیه ریوه) ے ریکارڈ وکالت تبشیر تحریک جدید ربوہ کے تحقیقاتی عدالت کی کارروائی کے سلسلہ میں مرکز احمدیت کی طرف سے اس سال جو مفید لٹریچر شائع ہوا وہ ان کتب کے علاوہ ہے.سے حضرت مرزا بشیر احد صاحب نے اس دلچسپ اور مفید تصحیف پر تبصرہ فرمایا کہ یر کتاب خدا کے فضل سے بہت دلچسپ اور موثرانداز میں لکھی گئی ہے اور ایک ایسے موضوع پر ہے جونہ صرف اسلام بلکہ جملہ مذاہب میں اول درجہ کی اہمیت رکھتا ہے یعنی یہ کہ اس دنیوی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی مقصد ہے یا نہیں اور اس دوسری زندگی کا انسان کی موجودہ زندگی سے کیا تعلق ہے اور رابطہ ہے اور اس اُخروی زندگی کے دلائل اور شواہد کیا ہیں؟ مجھے بہت خوشی ہے کہ محترم شاہ صاحب نے اس مضمون کو بڑی اچھی طرح نہا ہا ہے اور کتاب کا انداز تحر یہ بھی بڑا دلچسپ اور سبق آموز ہے." در روزنامه الصلح کراچی ۱۵ مئی ۵۳ه مث ) ١٥ ایک معر یہ غیر احمدی دوست نے لکھا:."یہ تو ایک دہریہ کو بھی خداوندی نظام کا قائل کر دیتی ہے...اگر کوئی وہر یہ بھی ہو تو اس کتاب کے پڑھنے کے بعد خداوند تعالیٰ کی مستی کا قائل ہو جاتا ہے میرے کئی ایک دوستوں نے بھی یہ کتاب پڑھی ہے.ہر ایک نے تعریف کی ہے و الصلح ۱۲ را پریل ۱۹۵۳ء صت)
۲۱۳ تیسرا باب اور مجھی اور حریمی مود پر قاترا جملہ سے لیکر نوجوانان احمدیت کی ملک گیر خدمت خلق تیک (خلافت ثانیہ کا کتالیسواں سال ۱۳۳۳ امش) ۱۹۵۴ء فصل اوّل ۱۹۵۳ء ۱۳۳۲اہش کے متفرق واقعات پر ریل کا خطرناک مادہ اور ایک عظیم انشان روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم ۱۹۵۴ - ۳۳۳ امش کے سال میں قدم رکھتے ہیں.۲۱ جنوری ۹۳ ای را بر صلح ۱۳۳۳ میش کو صبح پانچ بج کر چالیس منٹ پر کراچی سے ۷۵ میل دور جھمپیر اور برود آباد کے درمیان پاکستان میل کو ہولناک حادثہ پیش آیا.پڑول لے جانے والی گاڑی کے ایک ڈبہ کا پاکستان میں سے ہوں اک تصادم ہو گیا اور آگ لگ گئی جس کے شعلوں نے پاکستان میل کو اپنی پیٹ میں لے لیا.اس وقت ہوا تیز چل رہی تھی جلتا ہوا پٹرول شکلوں کی بھڑک اٹھا اور گہرے دھوئیں کے تین سونٹ بلند اور سیاہ بادل فضا پر چھا گئے.پاکستان میں کی پہلی دو بوگیوں کے ساتھ (جن کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ) بعد کے چار ڈبلے بھی تباہ ہو گئے.انجن کے ساتھ پہلے تین ڈبوں میں سے ایک ڈبہ عورتوں اور بچوں کا منھا جن کے اقربا دوسرے ڈبوں میں سفر کر رہے تھے.جو مسافر انجن سے ڈور ڈبوں میں سوار تھے وہ تو محفوظ رہے لیکن ان میں سے بعض کے بیجوری بیچتے جل کر راکھ ہو گئے.
حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان بھی اس ٹرین میں سفر کر رہے تھے.آپ کا سیلون اسی گاڑی کے آخر میں تھا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ معجزانہ طور پر محفوظ رہے.قریباً تین ماہ پیشتر حضرت مصلح موعود نے چودھری صاحب کے اس حادثہ سے دوچار ہونے اور اس میں محفوظ رہنے کے متعلق ایک رویا دیکھا تھا جس کی اطلاع حضور نے بذریعہ مکتوب چو دھری صاحب موصوف کو بھی بھیجوا دی تھی.چنانچہ اس حادثہ کے دو روز بعد ۲۳ فروری کو حضرت چودھری صاحب نے احمدیہ ہال کراچی میں جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس میں جماعت کے سامنے حضرت مصلح موعود کی رویا اور حادثہ کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ا.غالباً یہ اکتوبر کے اواخر کی بات ہے کہ مجھے نیو یارک میں جہاں رویا کی تفصیلات میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے گیا ہوا تھا، حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تاریلا جس میں مجھے یہ ہدایت کی گئی تھی کہ میں تارہ کے پہنچتے ہیں صدقہ دے دوں اور پھر جب سفر شروع کروں تو بھی اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ ادا کردوں ہیں ہدایت کی میں نے فوراً تعمیل کردی : علاوہ ازیں سفر پر روانہ ہونے سے قبل چو ہدری عبداللہ خان صاحب کو کراچی لکھا کہ وہ 9 دسمبر ۱۹۵۳ء کو ایک جانور میری طرف سے بطور صدقہ ذبح کروا دیں اور اسی طرح ۲۸ دسمبر کو بھی.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.اس سفر میں میری بچی بھی میرے ساتھ تھی جب ہم امریکہ سے واپس کراچی پہنچے تو اس نے اپنی والدہ سے حضرت صاحب کے برقی پیغام کا ذکر گیا.اس پر اس کی والدہ نے بتایا کہ وہ خود بھی اس عرصہ میں ا۶ جانور بطور صدقہ فریج کرواچکی ہیں.ابھی میں نیو یارک ہی میں تھا کہ تار کے چند روز بعد مجھے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک والانامہ ملا.جس میں حضور نے اپنا ایک رویا بیان فرمایا تھا اور اس رویا کی بناء پر ہی حضور نے مجھے تار دیا تھا.رویا کے جو حصے مجھے یاد ہیں.وہ میں اپنے الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں حضور نے لکھا :.میں نے خواب میں دیکھا کہ تمہاری طرف سے کوئی خط آیا ہے جس میں کسی ایسے حادثے کا ذکر ہے کہ جس کی زدمیں تم خود بھی آگئے ہو.کہیں سوچتا ہوں کہ انہی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ہے اور پھر خود ہی یہ خط بھی لکھ رہے ہیں.وہاں مرزا البشیر احمد صاحب بھی بیٹھے ہیں.میں ان سے بھی تمہارے خط کا ذکر کرتا ہوں اور خط میں سے وہ حصہ نکالتا ہوں جس میں حادثے کا ذکر ہے.یوں معلوم ہوتا |
۲۱۵ ہے کہ خط میں کئی اور کاغذ ہیں.جن میں بعض اور باتیں بیان کی گئی ہیں.مرزا بشیر احمد صاحب کہتے ہیں تعجب ہے چو ہدری صاحب نے اصل بات تو لکھی نہیں.کچھ اور ہی باتیں لکھی ہیں.آخر وہ کاغذ بھی مل گیا.معلوم ہوتا ہے کہ حادثہ ہوائی جہاز کو پیش آیا ہے.تم اس میں سوار ہوا اور وہ تیزی سے نیچے کی طرف چلا آ رہا ہے جب ہوائی جہاز بہت نیچے آجاتا ہے تو کچھ جزیرے سے نظر آتے ہیں اور جہازان میں سے ایک جزیرے میں جاگرتا ہے.میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ سفر مشرق میں مغرب کی طرف ہے اور کسی شخص غلام محمد نامی کا بھی ذکر آتا ہے.اس سے مجھے خیال ہوا کہ ممکن ہے گورنر جنرل صاحب کا بھی کوئی تعلق ہو کیونکہ وہ بھی سفر یہ جانے والے ہیں.میں نے تار دے دیا ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے ان کا سفر خیریت سے گزار دے.خطاب جاری رکھتے ہوئے مکرم چوہدری صاحب موصوف نے فرمایا کہ حضور کو تفہیم ہوئی تھی کہ سفر مشرق سے مغرب کی طرف ہے لیکن میرا امریکہ سے واپسی کا سفر مغرب سے مشرق کی طرف تھا البته ۲۹ دسمبر کو مجھے تہران سے واپس دمشق جانا تھا اور میرے سفر کا یہی ایک حصہ ایسا تھا جو مشرق سے مغرب کی جانب تھا..اس لئے میں نے چوہدری عبداللہ خان صاحب کو لکھا تھا کہ ایک جانور ۲۸ دسمبر کو بھی ذبح کر دادیں.اب دیکھو ریل کے اس خوفناک حادثے میں جو کل (یعنی ۲۱ جنوری ۱۹۵۳) کو پیشین آیا ہے وہ سب باتیں پوری ہوگئی ہیں.جو خواب میں حضورہ پر منکشف کی گئی تھیں.مجھے کل بھی ہیں کا خیال تھا کہ حضور کے خواب میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ تھا.لیکن آج صبح جب میں اس حادثے کی تفصیلات اخبار ڈان میں پڑھ رہا تھا تو ایک بات میری نگاہ میں ایسی آئی کہ جس سے فوراً میری توجہ حضور کے خواب کی طرف کھینچی گئی وہ یہ ہے کہ پاکستان میل کے ڈرائیور کا نام جو حیرت انگیز طور پر زندہ بیچ رہا ہے غلام محمد ہے.حضور نے دیکھا تھا کہ یہ سفر مشرق سے مغرب کی طرف ہے چنانچہ لاہور سے کراچی کی جانب عموماً مشرق سے مغرب ہی کی طرف تھا.لیکن جہاں حادثہ پیش آیا وہاں سفر میں مشرق سے مغرب ہی کی طرف تھا.پھر حضور کے خواب میں جزیگر دکھائے.گئے تھے سو یہ حادثہ جس مقام پر ہوا.وہ پکی سڑک سے دس گیارہ میل دور تھا کسی سمت سے کوئی
۲۱۶ سڑک اس تک نہ آتی تھی اور وہ جنہ میرے ہی کی طرح باقی آبادیوں سے کٹا ہوا تھا پھر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ خواب میں کسی شخص غلام محمد کا تعلق معلوم ہوتا ہے سو غلام محمد نامی شخص کے انجن ڈرائیور ہونے سے وہ بات بھی پوری ہو گئی اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیسے بھی گیا.اب کون کہہ سکتا ہے کہ یہ محض خیالی یا بناوٹی بات ہے.جزوی تفصیلات کو چھوڑ کر اس خواب ہیں تین بڑی بڑی باتیں تھیں اور وہ تینوں ہی پوری ہو گئیں.را کوئی خوفناک حادثہ پیش آنے والا ہے جس کی زد میں آنے کے باوجود میں محفوظ رہوں گا کیونکہ حضور کے خواب کے مطابق حادثہ مجھے پیش آیا ہے اور بعد میں میں خود ہی اس کی اطلاع خط کے ذریعے حضور کو دے رہا ہوں.(۲) وہ سفر شرق سے مغرب کی طرف ہوگا چنانچہ فی الواقعہ یہ سفر مشرق سے مغرب کی طرف ہی تھا.(۳) کسی شخص غلام محمد کا اس سے تعلق ہوگا سو یہ غلام محمدپاکستان میل کا ڈرائیور ہی تھا جو بفضلہ زندہ بچ گیا حضرت چودھری صاحب کا موجودہ اس موقعہ پر ستم رسیده مصیبت زدہ مسافروں کی خدمت میں اور مصیبت زدہ مسافروں کے لے اسے ثابت رحمت ہوا.آپ اپنے سیلون میں بہت سے مسافروں کو لیکر واپس میر اسٹیشن پر پہنچے اور قریباً چھ گھنٹہ تک جائے وقوعہ پر موجود رہے، آپ نے ریلوے حکام کو ہدایات دیں اور اس وقت تک چین نہیں لیا جب تک اپنی نگرانی میں سب سواریوں کو ان کی منزل تک بھجوانے کے انتظامات مکمل نہیں کرلئے.دوپہر کے تھوڑی دیر بعد آپ بذریعہ موٹر کراچی کے لئے روانہ ہوئے.آپ کے کراچی پہنچنے سے قبل ہی بہت سے زخمی اور دوسرے مسافر کوٹری ، حیدر آبا دو اور کراچی پہنچ چکے تھے بہلے دو روز بعد آپ نے اپنے خطبہ جمعہ (۲۳ جنوری) میں جماعت احمدیہ کراچی کو بھی پر زور نصیحت فرمائی کہ اس ه روزنامه الصلح کراچی و ۱۲ جنوری ۱۹۵۴ م / ۲۶ صلح ۳۳۳ مش صلا کے روز نامه المصلح کراچی ۲۲ جنوری ۲۲/۱۹۵۴ صلح ۱۳۳۳ امیش ، تحدیث نعمت ص ۵۹۸ تا ۲۰۰ از حضرت چود سبری محمد ظفر اللہ خان صاحب طابع حبارت پرنٹرز ۲۴ سرکلر روڈ لاہور ستمبر 1961ء کہ
۲۱۷ 44 حادثہ میں زخمی ہونے والوں کی تیمار داری اور وفات پانے والوں کے پسماندگان کے ساتھ عملی ہمدردی میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں کیونکہ مومن میں ہمدردی خلائق کا جذ بہ بدرجہ اتم ہوتا ہے وہ دوسروں کے غم کھو اپنا غم سمجھتا ہے اور اسے دور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا.جماعت احمدیہ کے مخلص احباب جو ہمیشہ ہی نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے آرہے تھے اس نصیحت پر کما حقہ عمل پیرا ہوئے اور اس موقعہ پر اخوت اسلامی کا بہت عمدہ نمونہ انہوں نے پیش کیا.حضرت مصلح موعود کو تین ماہ قبل اس المناک حادثہ کی جناب حضرت مصلح موعود کا پر معارف تخطبہ اپنی سے اطلاع ملنا، اور حضور کی دعاؤں سے تقدیر مہرم کا مل جا نا چونکہ ایک حیرت انگیز نشان تھا اس لئے خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعود نے اگلے خطبہ جمہ کے دوران اپنی رویا کی مزید تفصیلات بیان کرنے کے بعد نہایت شرح وبسط سے واضح فرمایا کہ کس طرح قادر و توانا خُدا نے اپنی قادر نہ جلوہ نمائی سے تقدیر مبرم کو بدل ڈالا.چنانچہ حضور نے اپنے اس پر معارف خطبہ میں ارشاد فرمایا.ا یا مار نومبر ۹ہ کی بات ہے کہ میں نے رویا دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں یہاں بشیر احمد صاب اور در دو صاحب میرے ساتھ ہیں کسی شخص نےمجھ ایک نا رہا کر دیا اور کہا کہ چودری راشدخان صاب کا ہے میں نے اس لفافہ کو کھودنے بغیر یہ محسوس کیا کہ اس میں کسی عظیم الشان حادثے کی خبر ہے جو چود بری صاحب کی موت کی شکل میں پیش آیا ہے یا کوئی اور بڑا حادثہ ہے.میں نے دیر کہ صاحب سے کہا.لفافہ کو جلد ہی کھولو اور اس میں سے کاغذ نکالو.دیگر صاحب نے لفافہ کھولا.اس میں سے بہت سے کا غنہ نکلتے آتے تھے لیکن اصل بات جس کی خبر دی گئی تھی نظر نہیں آتی تھی.آخر کار لفافہ میں صرف دو کاغذرو گئے.لیکن اصل خبر کا پتہ نہ لگا.میاں بشیر احمد صاحب نے کہا پتہ نہیں.چو دھری صاحب کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے.وہ ایک اہم خبر لکھتے ہیں لیکن اسے اچھی طرح بیان نہیں کرتے.میں نے کہا گھبراہٹ میں ایسا ہو ہی جاتا ہے.اس پر لفافہ میں دو کاغذ جو باقی رہ گئے تھے ان میں سے ایک کاغذ کو میں نے باہر کھینچا تو وہ ایک فہرست تھی لیکن اصل واقعہ کا اس سے پتہ نہیں لگتا تھا اس فہرست میں ایک نام سے پہلے تک لکھا تھا اور آخر میں حد دکھا تھا.درمیانی لفظ پڑھا نہیں جاتا تھا اس سے اتنا تو پتہ لگتا تھا کہ واقعہ میں کوئی اہم خبر ہے لیکن اصل واقعہ کا پتہ نہیں لگتا تھا.پھر لفافہ ہیں سے انکی اور شفاف کاغذ نکلا جوہ تھا.میں اسے دیکھنے لگا.Tracing paper
۲۱۸ اور میں نے کہا یہ خبر ہے جو چودھری صاحب نے ہم تک پہنچانی چاہی ہے مگر سجائے کوئی واقعہ لکھنے کے اس کاغذ پر ایک لیکر کھچی ہوئی ہے اور میں سجھتا ہوں کہ یہ ایک ہوائی جہاز ہے جو مشرق سے Crashed مغرب کی طرف جا رہا ہے.آگے جاکر وہ لکیر میدم ارسبوری صورت میں نیچے آجاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جہاز میکرم نیچے آگیا.اس جگہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکا ہے اور معاً کا لفظ میرے سامنے آتا ہے تو معا سمندر میرے سامنے آجاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ نیچے کچھ جزیرے ہیں مجھے نیچے کی طرف عملا سمندر نظر آتا ہے.اس میں ہلکی ہلکی لہریں ہیں میں خواب میں کہتا ہوں خدا کرے کہ نہ معلوم چودھری صاحب کو تیرنا آتا ہے خدا کی ہے اس حادثہ کی خبر معلوم کر کے کسی حکومت نے ہوائی جہا زیا کشتیاں بچانے کے لئے بھیجدی ہوں تا کہ چودھری صاحب اور دوسرے لوگ بچ جائیں جب میں نے یہ رویاد رکھی اس وقت قریباً دو بجے رات کا وقت تھا.اس دن میری بیوی مریم صدیقہ کی باری تھی.اور وہ میرے پاس ہی دوسری چارپائی پر سوئی ہوئی تھی.میں نے انہیں جگایا اور کہا جلدی سے ایک خط لکھو چنانچہ میں نے اسی وقت چودھری صاحب کو خط لکھوایا اور تحریر کیا کہ وہ کچھ صدقہ دے دیں فوراً ابھی ، اور آتے ہوئے بھی.اور اسی مضمون کی ایک تار بھی دے دی.نہیں نے جب یہ ردیا دیکھی تو چودھری صاحب امریکہ پہنچ چکے تھے.اور میں نے رویا میں یہ نظارہ دیکھا تھا کہ چودھری صاحب مشرق سے مغرب کو جارہے ہیں.اگر وہ امریکہ سے پاکستان آرہے ہوتے تو یہ سفر مشرق سے مغرب کو نہ ہوتا بلکہ مغرب سے مشرق کو ہوتا پھر میں نے رویا میں یہ دیکھا تھا کہ چو دھری صاحب خود ہی اس حادثہ کی خبر دے رہے ہیں اور یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اگر اس حادثہ میں اُن کی جان کا نقصان ہے تو وہ اس کی خبر کیسے دے رہے ہیں ؟ بہر حال میں نے اس خواب کی تین تعبیریں کیں.اول یہ کہ کوئی حادثہ چودھری صاحب کو سخت مہلک پیش آنے والا ہے اور خدا تعالے انہیں اس سے بچالے گا کیونکہ وہ خود اس حادثہ کے متعلق تمھی خبر دے سکتے ہیں جب وہ محفوظ ہوں.دوسرے ہیں نے یہ تعبیر کی کہ اس دن ملک غلام محمد صاحب گورنر جنرل سفر یہ پروانہ ہو رہے تھے شاید انہیں کوئی حادثہ پیش آجائے.میں نے ملک اور محمد کے الفاظ دیکھے تھے بیچ میں ایک لفظ اور بھی تھا جو پڑھا نہیں گیا.میں نے خیال کیا کہ شاید اس سے ملک غلام محمد صاحب مراد ہوں کیونکہ ان کے نام سے پہلے بھی ملک اور آخر میں محمد کا لفظ آتا ہے اور وہ چودھری صاحب
۲۱۹ کے دوست بھی ہیں اور دوست کا صدمہ خود انسان کا اپنا صدمہ کہلاتا ہے، چنانچہ میں نے صبح انہیں تار دے دی چونکہ وہ احمدی نہیں ہیں اس لئے میں نے یہ نہ کھا کہ میں نے رویا دیکھی ہے بلکہ صرف یہ لکھا کہ آپ سفر پر جارہے ہیں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس سفر کے دوران میں آپ کو اپنی حفات میں رکھے لیکن میرا تا ر پہنچنے سے پہلے ملک صاحب سفر پر روانہ ہو چکے تھے.وہ تار قائمقام گورنر جنرل کو ملا اور انہوں نے خیال کیا کہ یہ مبارکبادی کی تارہے.چنانچہ ان کی طرف سے شکریہ کی چٹھی آگئی حالانکہ وہ تار اس رویا کی بنا پہ اصل گورنر جنرل کو دی گئی تھی لیکن وہ علی قائمقام گورنر جنرل کو تیسرے چونکہ چودھری صاحب مغرب میں پہنچ چکے تھے اور پاکستان کی طرف سفر کرتے ہوئے انہوں نے مغرب سے مشرق کو آنا تھا اور پھر اس حادثہ کی خبر بھی انہوں نے خود ہی دی تھی.اس لئے میں نے خیال کیا کہ شاید اس سے یہ مراد ہو کہ جو خاص کام مراکو وغیرہ کی خدمت کا وہ کر رہے ہیں اس میں انہیں ناکامی ہو.بہر حال یں نے ایک بکر بطور صدقہ ذبح کر وا دیا اور چودھری صاحب کو بھی خط لکھا کہ وہ خود بھی صدقہ دے دیں چنا نچہ انہوں نے بھی صدقہ دے دیا اور ہم نے دعائیں جاری رکھیں.میں لاہور گیا تو چو دھری صاحب کی بیوی مجھے ملیں نہیں نے انہیں بھی بتایاکہ میں نے اس قسم کی رویا دیکھی ہے چونکہ چودھری صاحب کی لڑکی بھی اس سفر میں ان کے ہمراہ تھی اس لئے ان کے لئے دوسرا صدمہ تھا.اس لئے انہوں نے کبھی اس عرصہ میں روزانہ ایک ایک کر کے یا بعض دنوں میں دو دو کر کے 4 بکرے صدقہ دیتے چودھری صاحب خیریت سے کراچی پہنچ گئے.اور اس قسم کا کوئی حادثہ انہیں پیش نہ آیا کراچی سے پنجاب آئے تو یہ سفر بھی خیریت سے گزر گیا.لیکن جب کراچی واپس گئے تو رستہ میں اس گاڑی کو جس میں چودھری صاحب سفر کر رہے تھے خطرناک حادثہ پیش آیا اور انڈین ریڈیو پر جب یہ خبر نشر ہوئی تو اس کے متعلق کا لفظ ہی استعمال کیا گیا.گاڑی پٹڑوں کے ڈبوں سے ٹکرا گئی اور ایسا خطرناک حادثہ پیش آیا کہ ایک احمدی دوست نے مجھے لکھا کہ میں سمجھتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا عذاب آگیا ہے.ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس میں کوئی اور احمدی بھی سفر کر رہا تھا لیکن اس خط سے معلوم ہوا کہ وہ بھی اس ٹرین میں تھا اور اس نے لکھا کہ ہر وہ شخص جس نے اس نظارہ کو دیکھا ہے وہ کہہ نہیں سکتا کہ یہ حادثہ عذاب اہی نہیں تھا بہر حال دونوں گاڑیاں ٹکراگئیں اور جن ڈبوں کو خدا تعالیٰ نے آگ سے بچا یا انہیں پیچھے لایا گیا جس جگہ پر یہ واقعہ ہوا چودھری صاحب کے خطبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے دس دس میل دور Crashed
۲۲۰ تک پکی سڑک نہیں ہے صرف ریل کی پٹڑی گزرتی ہے اس لئے امداد کے لئے اس جگہ تک کوئی موٹر نہیں آسکتی تھی.اس طرح وہ جگہ جزیرے کی طرح تھی.میں سمجھتا ہوں کہ رویا میں ہوائی جہانہ کا دکھایا جانا اور واقعہ ریل میں ہونا اور پھر گاڑی بھی مشرق سے مغرب کو جا رہی تھی اسی طرح دوسری باتوں کا ہونا بتاتا ہے کہ یہ ایک تقدیر مبرم تھی لیکن خدا تعالے نے ہماری دعاؤں کو شنکر اس حادثہ کو بجائے ہوائی جہانہ کے ریل میں بدل دیا.ہوائی جہاز میں ایسا حادثہ پیش آجائے تو اس سے بچنا مشکل ہوتا ہے شاذ ہی کوئی شخص اس قسم کے حادثے سے بچنا ہے لیکن یہی حادثہ ریل میں پیشیں آجائے تو اس سے کسی انسان کا پنچ جانا ممکن ہے اور پھر وہ ریل مشرق سے مغرب کو جا رہی تھی جب میں نے اخبار میں وہ واقعہ پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میری وہ خواب پوری ہو گئی ہے.میں نے میاں بشیر احمد صاح ہے اس کا ذکر کیا جن کو میں یہ خواب اسی وقت بتا چکا تھا جب یہ خواب آئی تھی.انہوں نے بھی کہا کہ واقعہ میں وہ خواب پوری ہوئی ہے لیکن میں نے اخبار میں یہ واقع پڑھ کر چودھری صاحب کو یہ لکھنا پسند نہ کیا کہ میری رویا پوری ہوگئی ہے.کیونکہ رویا میں انہوں نے پہلے اطلاع دی تھی اس لئے میں نے یہی پسند کیا کہ وہ اطلاع دیں گے تو میں لکھوں گا چنانچہ دوسرے دن چودھری صاحب کی تار آ گئی کہ آپ کھا رویا پوری ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے اس حادثہ سے بچالیا ہے.یہاں صرف رویا کا سوال نہیں کہ وہ پوری ہوگئی بلکہ یہ ایک تقدیر مبرم تھی جو دکھاؤں سے بدل گئی رویا میں خدا تعالیٰ نے مجھے ہوائی جہانہ دکھا یا لیکن وہ واقعہ اسی جہت ہیں اور اسی شکل میں ریل میں پورا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہونا تقدیر مبرم تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے کہا چلو ان کی بات بھی پوری ہو جائے اور اپنی بات بھی پوری ہو جائے یہی واقعہ ہم ریل میں گرا دیتے ہیں.اس سے ہماری بات بھی پوری ہو چاہتے گی اور ان کی دُعا بھی قبول ہو جائے گی.پس یہ واقعہ ہمارے لئے زائد یقین اور ایمان کا موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کی وجہ سے اپنی تقدیر مبرم کو بدل دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں بھی ایسا ہی ہو مثلاً نواب صاحبک لڑکا عبدالرحیم بیار ہو گیا.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پتہ لگا کہ وہ اب بچ نہیں سکتا.اس پر آپ نے خاص طور پہ اس کی صحت کیلئے دعا شروع فرما دی اور اس دعا کے نتیجے میں وہ بچ گیا.اسی طرح مبارک احمد کے متعلق بھی آتا ہے کہ جب اُس کی نبضیں چھٹ گئیں تو آپ نئے اس له البدر (قادیان) ۲۹ اکتوبه - ۱۸/ نومبر ۱۹۰۳ء ص ۳۲۱
۲۲۱ کے لئے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ سانس دے دیار پس ریل کار کا یہ حادثہ خدا تعالیٰ کی تقدیر مبرم پر دلالت کرتا ہے.اس نے ہماری دعاؤں اور صدقہ اور قربانی کی وجہ سے ایک ایسی تقدیر کو بدل دیا جیسں کو عام حالات میں وہ بدلا نہیں کرتا.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے ایمان کو بڑھانے اور اُسے تقویت دینے کے کئی سامان عطا فرمائے ہیں اگر ہم ان کے بعد بھی اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتے اور شہستی سے کام لیتے ہیں تو یہ ہماری انتہائی بد قسمتی ہوگی.دنیا تو ابھی اندھیرے میں ہے اورا سے پتہ نہیں کہ خُدا ہے یا نہیں اسے پتہ نہیں کہ خدا تعالیٰ بولتا ہے یا نہیں.اسے علم نہیں کہ خدا تعالے سچا ہے یا نہیں لیکن ہمارے لئے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ پہلے موجود تھا نہ صرف یہ کہ وہ پہلے سنتا تھا اور بولتا تھا بلکہ وہ ہمیں یہ دکھا رہا ہے کہ میں اب بھی سنتا ہوں میں آپ بھی بولتا ہوں اور اب بھی اپنے بندوں کی مدد کرتا ہوں کیا حضور نے خطبہ کے آخر میں نصیحت فرمائی کہ :- ہ ہم اگر سو چیں اور غور کریں تو تمہیں بھی ہر جگہ ہی کہنا پڑتا ہے کہ یہ موقع بھی دعا کا ہے.اگر پہلے منافع سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا تو اسی موقع سے ہی فائدہ اُٹھا لیں کیونکہ جہاں دعا نشان دکھاتی ہے وہاں نشان کے محسوس کرنے کا رستہ بھی دعا ہی کھولتی ہے اور ہمارے ایمان کے رستہ ہیں جو روک ہوا اسے بھی دعا ہی دور کرتی ہے پس ہمیں اس مبارک زمانہ سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.خدا تعالے نے کھڑکیاں کھول دی ہیں اور اپنے تقریب کے رستہ کو آسان بنا دیا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان ذرائع سے فائدہ اٹھائیں تاہم جھولیاں بھر کران کھڑکیوں سے گذریں اور تاکہ ہم اس کی رحمت اور فضل سے مالا مال ہو جائیں جس سے دوسری دنیا محروم ہوچکی ہے.پہلے چودھری محمدظفر اللہ خاں صاحب روزیر خارجہ چوری محمد ظفر اللہ خاں حنا کا فاضلانہ مشکلیه اسناد پاکستان) نے ۲۷ ماه تبلیغ ۳۳۳ امنش (فروری ۱۹۵۴ء) کو تعلیم الاسلام کالج لاہور کے حلبتہ اسناد میں ایک فاضلانہ خطبہ دیا جس میں آپ نے بتایا کہ جو طالب علم ے حقیقة الوحی ص ۳۸۵ طبع اول نشان ۱۸۲ که روزنامه المصلح " کراچی ۱۸ تبلیغ ۳۳۳ اتش / فروری ۱۹۵۴ء ص ۳-۴
۲۲۲ اسلامی روح کے ساتھ علم کے کسی شعبہ یا کسی شاخ کی تحقیق کر رہا ہو اس کی نظر سبع بھی ہوگی اور باریک بھی.اور ہر قدم پر اپنے محبوب حقیقی کی قدرت نمائی کے جلوؤں کا مشاہدہ کرے گا.آپ کا یہ لطیف مضمون اس طرح قرانی آیات کیسا تھ مربع تھا جس طرح انگشتری نگینے سے مرصع ہوتی ہے.قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے مختلف علوم و فنون اور سائنس کے میدان میں جو بے نظیر خدمات انجام دیں اور نئے نئے علوم و حقائق کا انکشان کیا ان کا آپ نے دلنشیں اور موثر پیرا یہ میں ذکر کر کے فرمایا :- و مشتق اور بغداد قاہرہ اور قیروان، قرطبہ اور اشبیلہ اور غرناطہ، ہمدان ، اصفہان اور شیراز طوس اور نیشا پور، بل بنجارا اور سمرقند درجہ بدرجہ علوم کے آسمان پرز نیز بر فشاں بن کے چھکنے لگے اس تمام علمی نور کا اصل منبع اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو مردہ پرستی اور باطل نوازی کی زنجیروں سے آزاد کر کے پھر خالق حقیقی سے روشناس کرایا.انسانی دماغ کو نئی روشنی بخشی اور اسے نئی امنگوں اور نئے عزائم سے معمور کر دیا.آپ نے خطبہ کے آخر میں طلبہ کو نصیحت فرمائی کہ در دنیا آج دعا کی طاقت سے غافل ہے.یہ ہتھیار اور طاقت ہر کسی کو میسر ہے لیکن اس سے فائدہ وہی اٹھا سکتا ہے جو اس پر ایمان رکھتا ہو اور اسے استعمال کرنا جانتا ہو.پس اس نہایت طاقتور مہتھیار کے استعمال کی عادت ڈالو سے پاکستان کے رسالہ قومی زبان (کراچی) نے اپنی ہار مارچ ۹۵ائد کی اشاعت میں اس بصیرت افروز خطبہ پر حسب ذیل تبصرہ شائع کیا :- یونیورسٹیوں میں تقسیم اسناد کے جلے ہر سال ہوتے ہیں.یہ رسم زمانہ دراز سے چلی آرہی ہے.ان جلسوں میں خطے کے لئے اول ایسے اصحاب کو مدعو کیا جاتا تھا.جوڈی علم اور اہل کمال ہوتے تھے.بعد ازاں ایسے لوگوں کا بھی انتخاب ہونے لگا جو کسی وجہ سے نامور بادی جاہ یا ملک کے کسی منصب پر فائز ہوئے.ان خطبوں میں ملک کی تعلیمی حالت یا کبھی کبھی علم وفضل اور تحقیق کا ذکر ہوتا.اور آخر میں طالب علموں کو مشورے اور پند و نصائح ہوتے.یہ حال گذشتہ تیس سال پہلے کا تھا.بعد میں جب ملک میں سیاست اور آزادی لے خفیہ کا منفن رسالة المنار تعلیم الاسلام کالج لاہور) جون ۱۹۵۴ء میں شائع ہوا.
۲۲۳ کی ہوا چلی.تو یونیورسٹیوں اور کالجوں نے سیاسی لوگوں کو مدعوکرنا شروع کیا.کیونکہ اساتذہ اور ان سے زیادہ طلباء نے طلب علم او شوق تحقیق کم کر کے عنان توجہ سیاست کی طرف موڑ دی تھی، چنانچہ تقسیم اسناد کے ملبوں کے خطبوں میں سیاست زیادہ اور علم اور آدم گری کی ترغیب کم ہونے لگی.پاکستان جب وجود میں آیا.تو یہاں کی یونیورسٹیوں کے خطے بھی اسی شان اور اسی رنگ کے ہوتے تھے اور ہوتے ہیں.جیسے پہلے ہوا کرتے تھے.ان خطیبوں میں سے کسی کو کبھی یہ خیال نہ گزرا.کہ ہم وہاں نہیں میں جہاں پہلے تھے.اب ہم پاکستان ہیں ہیں اور پاکستان کے حصول کیلئے جو بے نظیر قربانیاں کیں.وہ کسی مقصد کے لئے تھیں؟ پاکستان ملتے ہی یہ سب کچھ بھول گئے.ہماری تعلیم ، ہماری معاشرت ، ہماری سیاست میں کوئی ترقی اور اصلاح نہیں ہوئی تنزل ہوا ہو تو ہوا ہو.ہمارے اکابر، سیاستدان اور لیڈر یہاں تک کہ ہمارے علماء بھی سیدھے ارو رستے سے بھٹک گئے ہیں.بہاری تمام صلاحیتیں اب ذاتی اقتدار کے حصول میں مصروف ہیں ؟ چودھری محد ظفر اللہ خاں صاحب کا خطبہ پاکستان میں پہلا خطبہ ہے جس کی نیت ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ خاص طور پر پاکستان کی یونیورسیٹیوں اور کالجوں اور پاکستانی طلبہ کے غور و فکر کے لئے ہے اس کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والاستچا مومن ہے.اس کے دل میں اسلام کا درد ہے.اور قرآن کی تعلیم پر کامل ایمان اور اس پر پورا عبور ہے.اس کے ہر لفظ اور فقرے میں اسلامی روح نظر آتی ہے.ابتدا میں انہوں نے اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ یہ صدی تاریخ انسانی میں ایک نئے ہم اور انقلابی دور کی علمبر وارتسلیم کی جائے گی.اس صدی کے دوران میں انسانی زندگی کے ہر شعبے پر ایک انقلاب دارد ہو چکا ہے جس نے انسانی طبائع میں ایک ہیجان پیدا کر دیا ہے اور ہر طرف بے اطمینانی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے.پرانے معیا نا کامی اور غیر تسلی بخش قرار دیئے جا رہے ہیں.اور نئے معیار ان کی جگہ پیش نہیں کئے جاسکتے جو عالمگیر مقبولیت حاصل کرچکے ہوں یا جن کی کامیابی عملی دائرے میں اتنی واضح اور روشن ہو چکی ہو.کہ انہیں قبول کئے بغیر حیات انسانی کی تکمیل اور انسانی زندگی کے مقصد کا حصول ناممکن نظر آئے " اس صورت حال پر جناب چودھری صاحب نے ذرا اور وسیع نظر ڈالی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں حیات کے جو نظر ہے اور منصو بے زیر بحث ہیں.ان کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد اسلام کا نظریہ حیات پیش کیا ہے اور اپنے ہر قول کی تائید میں قرآن پاک کی آیات پیش کی ہیں.اسی بحث کے دوران میں تحریب فرماتے ہیں کہ علم الادیان کے مطالعہ کی طرف جتنی توجہ بڑھتی جارہی ہے.غیر اسلامی حلقوں میں وو
۲۲۴ اسلامی تعلیم کے تفوق اور کمال کا اقرار بھی کہیں دبی زبان سے اور کہیں علی الاعلان ہونا شروع ہو گیا ہے.یہ کیفیت واضح طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد نمایاں ہونی شروع ہوئی ہے.لیکن اس حقیقت کے کھلے طور پر تسلیم کئے جانے اور وسیع پیمانے پر زیر عمل لائے جانے کے راستے میں ایک بڑی روک ابھی تک موجود ہے جس کے دور کے بغیر یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ مختلف اقوام سرعت د مستعدی سے اس راستے پر گامزان ہوں.وہ رو یہ ہے کہ علی طبقہ گر ذہنی طور پر اسلامی تعلیم کی برتری کا قائل ہوتا جارہا ہے لیکن اس تعلیم کی ترویج کی تائید پر آمادہ ہونے سے قبل اس کا عملی نمونہ مشاہدہ کرنے کا خواہشمند ہے.ہمیں نہایت حسرت و اندوہ کے ساتھ یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ انفرادی مثالوں کو چھوڑ کر قومی بلکہ جماعتی پیمانے پر بھی ہم یہ نمونہ ابھی دنیا کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہیں.علمی طور پر کسی جامع تعلیم کے اصولوں اور اس کی تفاصیل کو سمجھ کر ان کے مال اور برتری کو تسلیم کر لیا نیا کی موجودہ مشکلات کے حل کرنے کے لئے کافی نہیں.....یہی حال آج اسلامی تعلیم کا ہے.اول تو خود عامتہ المسلمین اس سے کما حقہ آگاہ نہیں ہیں.پھر اسے دوسروں کے سامنے مناسب طور پر پیش کرنے کا خاطر خواہ انتظام نہیں.باوجود اس کے جس قدر بھی غیر سلم علی طبقے کچھ اپنی محنت اور کوشش سے اور کچھ مسلمانوں کی انفرادی اور جماعتی ستی کے اثر سے اس تعلیم سے واقفیت حاصل کرتے جاتے ہیں.وہ اس امر کا اعتراف کرنے لگتے ہیں کہ تعلیم جامع اور موزوں ہے.انسانی مشکلات اور الجھنوں کا حل بوجہ احسن مہیا کرتی ہے اور حیات انسانی کے مقصد اور اس کے حصول کے طریقوں کی بے نظیر رہنما ہے لیکن نہیں اسی تعلیم کا عمل نمونہ دیکھنے کی خواہش اور شوق ہے.تاکہ وہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ آیا موجودہ دور میں تعلیم قابل عمل بھی ہے یا نہیں اور اپنے دعوے کے مطابق حقیقی خوشحالی اور اطمینان اور راحت کا موجب بن سکتی ہے یا نہیں ؟ اس کے بعد چودھری صاحب نے کسی قدر تفصیل سے بتایا ہے کہ اسلامی تعلیم سے کیا مراد ہے؟ اور قرآن کی آیات سے اس کی تشریح کی ہے.خطبہ اس قدر سلسل اور مربوط ہے کہ اس میں سے ادھر ادھر کے اقتباسات دینا اس کے حق میں نا انصافی ہوگی.اسے شروع سے آخر تک بیک وقت پڑھنا چاہیئے.خطبہ اس قابل ہے کہ کیر تعداد میں چھپوا کر پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میںتقسیم کیا جائے تاکہ طالب علم اور استاد دونوں اسے غور سے پڑھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں " اے اخبار قومی زبان کراچی مورخه ۱۶ با چ ۱۹۵۴ م ، بجواله الفضل ۱۴ اگست ۱۹۵۴ء مده
۲۲۵ فصل دوم سید نا حضرت مسیح موعود و مہدی مسعودعلیہ الصلاة والسّلام نے شملہ میں ایک درد یا دیکھاکہ آپکے صاجزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے کپڑوں پر خون کے دھتے یا چھینٹے ہیں.اس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود کی عمر کوئی دس سال ہو گی.اس رویا میں صریح طور پر اس بات کی خبر دی گئی تھی کہ خدا کے اِس پاک اور مظہر بندہ پر قاتلانہ حملہ مندر ہے.چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی " مدینہ الحکم کا تحریری بیان ہے کہ :.در شاہ کے موسم سرما کی بات ہے کہ میں نے حضرت امیرالمومنین کے متعلق ایک رو یاد کبھی آپ تو اس وقت بچے ہی تھے.روبیا یہ تھی کہ آپ ایک نہایت شاندار شاہانہ لباس پہنے ہوئے ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت میر محمد اسحیم بھی اعلیٰ درجہ کے لباس میں ہیں اُن کے لباس میں ایسا امتیاز تھا کہ وہ گویا سالار ہیں.اس کے بعد مجھے ایک کاغذ دکھایا گیا جس پراوپر نیچے تک ایک سطر میں یہ الفاظ درج تھے.نظام الملک پولیٹیکل ایڈوائزر دہ دن آگئے.ران الفاظ میں سے آخری وہ دن آگئے " کے متعلق میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اس الہام کی تشریح ہے جو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا برا نہین ہیں درج ہے."The days will come when God will come with His army." یہ فجر کی نماز کے بعد کا واقعہ ہے اُن دنوں حضرت اقدس اکثر نماز فجر کے بعد تشریف فرما ہوئے کوئی تازہ الہام یا رویا ہوتی تو شنا تھے.بعض لوگ اپنی خواب سنانے اور کبھی آپ مناسب وقت پر تقریر فرماتے.
۲۲۶ میں جب یہ رویا سنا چکا توحضرت اقدس نے معاد میرے آخری الفاظ ختم ہوتے ہی بڑے جوش سے فرمایا دعا کرو اور آپ نے بھی دعا کی اور فرمایا میں آپ کے بیان کو قریب ترین الفاظ میں بیان کرتا ہوں ممکن ہے کچھ کم و بیش ہو گر مفہوم بالکل یہی ہے ؟ !.میں نے بھی محمود کے متعلق بعض خواب دیکھتے ہیں اور الہامات بھی ہیں جو اپنے وقت پر پورے ہوں گے میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ اس کا نام مسجد پر لکھا ہوا ہے اور ایک مرتبہ سرخی سے اس کا نام لکھا ہوا دیکھا.ایک مرتبہ اس کے کپڑوں پرخون کے دھتے یا چھینٹے دیکھے.فرمایا خوابوں کی تعبیر اپنے وقت پر ہوتی ہے جو لوگ بڑے ہوتے ہیں ان کے دشمن بھی بہت ہوتے ہیں اس لئے میں نے دعا کی ہے کہ ہر امر برکات کا موجب ہو.یہ کہو کہ آپ تشریف لے گئے.مجھے یہ تو یاد نہیں آتا کہ اخبار میں شائع ہوا یا نہیں مگر میں نے اپنی رویا اپنی نوٹ بک میں درج کی تھی اور حضرت کا ارشادہ بھی ہے انہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواب کے بعض پہلوحضرت مصلح موعود پر بھی وقتا فوقتا جناب الہی کی طرف سے کھولے گئے.جس کا اظہار حضور کی زبان مبارک سے کئی مواقع پر ہمیں ملتا ہے.مثلاً (ا) حضور نے سالانہ جلسہ شام ئه ز منعقدہ مارچ ۹ہ کے دوران فرمایا کہ مجھو کہ کہتے ہیں کہ عثمان ہے.میں کہتا ہوں ہاں عثمان ہوں مگر وہ عثمان تو دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہوا.اور میں وہ عثمان ہوں کہ میرے مخالف ناکام رہیں گے اور ناکام رہے ہیں یہ ہے ر۲ ۲۴ و ۲۵ دسمبر ۹۳ اله کی درمیانی شب میں آپ نے خواب میں دیکھا کہ : لوگ کہتے ہیں کہ جلسہ کے ایام میں مجھ پرحملہ کیا جائے گا اور بعض کہتے ہیں کہ موت انہی دنوں میں ہے.یکس نے دیکھا کہ ایک فرشتہ ہے جس سے ہیں یہ بات پوچھتا ہوں.اس نے کہا کہ میں نے تمہاری عمر کے متعلق لوح نے غیر مطبوعہ مکتوب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مورخه ۲۵ را پس ۱۹۵۴ از سکندر آباد دکن بنام پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح الثانی بین حضرت شیخ صاحب کی مفصل خط و کتابت ضمیمہ میں ہے.) الفضل کیکم اپریل سایر صفحه 9 کاما !
۲۲۷ محفوظ دیکھی ہے......جلسہ کی اور بعد کی دو ایک تاریخیں ملاکر اُس نے کہا کہ ان دنوں میں یہ بات یقیناً نہیں ہوگی شاہ ، ارجون نشانه کوحضور کی زبان پر فلما تو نیت کی آیت جاری ہوئی جس کا واضح مطلب یہی تھا کہ کوئی انسان آپ کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا بلکہ آپ کی وفات طبعی ہوگی.(۴) حضرت مصلح موعود اوائل اہ میں لاہور میں قیام فرما تھے.اس دوران حضور نے ایک ملاقات ہیں چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کو اپنی عدالتی گواہی کے بعد یہ خواب سنایا کہ کسی شخص نے حضور پر حملہ کر دیا ہے.ابتدا ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ غالب آگیا ہے.لیکن بالآخر وہ اپنے مقصد میں ناکام رہتا ہے ہے حضور نے فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں انکوائری کمیشن کے ہال میں ہوں....اس وقت مجھ پر پیچھے سے ایک شخص نے حملہ کیا ہے اور میں گر گیا ہوں...حملہ آور نے یہ دیکھ کر کہ میرے حملہ سے یہ نہیں مرے بھاگ کر کوئی اور مہتھیار لانا چاہا اور مجھے چھوڑ کر بچھے ہٹا.تب میں اُٹھ کر تیزی سے ایک دروازے کی طرف گیا اور اس دروازہ سے باہر آکر دروازہ بند کر کے چند منٹوں پر جو باہر نکلی ہوئی ہیں میں بیٹھ گیا.انھم کے دوران حضرت مصلح موعود کے خلا ہے رہتے تھے اور ان ناکامی کے بعد ہ ہ ہو جاتے ہیں کرکس کرنے کے اب یہ اٹر کے بعد حضرت مصلح موعود پر حملہ کرنے اور آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے.لہ کے تلاطم خیز دور میں جبکہ حضرت مصلح موعود نے کتاب رنگیلا رسول اور رسالہ " در تمان " کے فتنہ کے خلاف عت مسلمانان ہند کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا بعض غیر از کجا معز مسلمانوں کے خطوط حضور کی خدمت میں پہنچے کہ دشمنان اسلام آپ پر حملہ کی تجویز ہی کر رہے ہیں.علاوہ ازیں بیسیوں اصحاب نے خواب دیکھے جن میں اس خطرے کی نشاندہی کی گئی تھی جس سے تحریک ہوئی کہ حفاظت کا خاص انتظام کیا جانا چاہیئے بے ازاں بعد حضور کو ہر سال صراحتہ قتل کی دھمکیاں بھی ه الفضل قادیان ، ار جنوری ۱۹۳۵ء صفحه به کالم له الفضل ربوده و جولائی ۱۹۵۲ م ص ۵ کالم ۱ ۳ ۳۳۳ س روزنامه المصلح" کراچی ۱۲ رامان ماراح ارش صفحه ۳ کالم ۲ ۱۹۵۴ ه مفصل خواب ۱۲۶ نبوک ۱۳۳۳ ش / ۱۹۵۴ء ص ہم میں شائع شدہ ہے.ش تقریر دلپذیر (۱۹۲۷ء) صفحه به مطبوعه و سمبر ۱۹۲۸ء
۲۲۸ دی جانے لگیں اور آپ کو قتل کرنے کے پے در پے منصوبے بھی ہونے لگے لیے اس سلسلہ میں حضور نے ۲۰ور دسمبر سالہ کی تقریر میں پانچ واقعات بیان فرمائے جو حضور ہی کے الفاظ مبارک میں درج کئے جاتے ہیں :- پہلا واقعہ.ایک گزشتہ جلسے کا واقعہ ہے.ہمیں تقریر کر رہا تھا اور تقریر کرتے کرتے میری عادت ہے کہ میں گرم گرم چائے کے ایک دو گھونٹ پی لیا کرتا ہوں تا کہ گلا درست رہے کہ اسی دوران میں جلسہ گاہ میں سے کسی شخص نے ملائی کی ایک پیالی دی اور کہا کہ یہ جلدی حضرت صاحب تک پہنچا دیں کیونکہ حضور کو ضعف ہو رہا ہے.چنانچہ ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے میرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو وہ پیالی ہاتھوں ہاتھ پہنچانی شروع کر دی.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے دو سٹیج پر پہنچ گئی بیٹے پر اتفاقا کسی شخص کو خیال آگیا اور اس نے احتیاط کے طور پر ذرا سی ملائی چکھی تو اُسکی زبان کٹ گئی تب معلوم ہوا کہ اس میں زہر لی ہوئی ہے.اب اگر وہ ملائی مجھ تک پہنچ جاتی اور میں خدانخواستہ اُسے چکھ لیتاتو اور کچھ اثر ہوتا یا نہ ہوتا ، اتنا توضرور ہوتا کہ تقریب رک جاتی.دوسرا واقعہ یہ ہے کہ قادیان میں ایک دفعہ ایک دیسی عیسائی آیا جس کا نام جے میتھیوز تھا اور اس کا ارادہ تھا کہ وہ مجھے قتل کر دے.یہاں سے جب وہ ناکام واپس لوٹا تو اس کا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور اس نے اُسے قتل کر دیا.اس پر عدالت میں مقدمہ چلا.اور اس نے سیشن کورٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرا ارادہ اپنی بیوی کو ہلاک کرنے کا نہیں تھا.بلکہ میں مرزا صاحب کو ہلاک کرنا چاہتا تھا.نہیں نے ایک جگہ کسی مولوی کی تقریر یشنی.جس نے ذکر کیا کہ قادیان کے مرزا صاحب بہت بڑے آدمی ہیں.اور اُن میں یہ یہ برائیاں ہیں.میں نے اُس کی نظریہ کے بعد فیصلہ کیا کہ میں قادیان جاکہ مرزا صاحب کو مار ڈالوں گا.چنانچہ میں پستول لے کر قادیان گیا.اتفاقاً اس روز جمعہ تھا.جمعہ کے خطبہ میں چونکہ بہت لوگ اکٹھے تھے.اس لئے مجھے ان پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی.دوسرے دن میں نے سنا کہ وہ پھیر و چیچی چلے گئے ہیں.میں پستول لیکر اُن کے پیچھے پیچھے پھیر و چیچی گیا اور میں نے سمجھا کہ وہاں آسانی سے میں اپنے مقصد میں کا میاب ہو سکوں گا مگر وہاں ه الفضل ، ار جنوری ۱۹۳۵ء صفحه ۸ کالم ۱ ! ! !
۳۲۹ بھی نہیں نے دیکھا کہ ان کے دروازہ پر ہر وقت پہرہ دار بیٹھے رہتے ہیں.اس لئے میں واپس آگیا.گھر اگر میرا اپنی بیوی سے کیسی بات پر جھگڑا ہو گیا، اور میں نے اُسے مار ڈالا.یہ سارا واقعہ اُس نے عدالت میں نود بیان کیا حالانکہ میں کچھ علم نہیں تھا کہ کوئی شخص کس نیت اور ارادہ کے ساتھ ہمارے پاس آیا ہے.لیکن ہر موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی اور اُسے حملہ کرنے میں ناکام رکھا.تیسرا واقعہ یہ ہے کہ احرار کی شورش کے ایام میں میں ایک دن اپنی کو بھی دارالحمد میں تھا کہ ایک افغان لڑکا آیا اور اس نے کہلا بھیجا کہ کہیں آپ سے ملنا چاہتا ہوں.میرے چھوٹے بچے اندر آئے اور انہوں نے بتایا کہ ایک لڑکا باہر کھڑا ہے اور وہ ملنا چاہتا ہے.میں باہر نکلنے ہی والا تھا کہ میں نے شور کی آواز شنی میں حیران ہوا کہ یہ شور کیا ہے.چنانچہ میں نے دریافت کر دیا تو مجھے اطلاع دی گئی کہ یہ لڑکا قتل کے ارادہ ہے آیا تھا مگر عبدالاحد صاحب نے اُسے پکڑ لیا.اور اس سے ایک چھرا بھی انہوں نے بر آمد کر لیا ہے.میں نے عبدالاحد صاحب سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتہ لگ گیا کہ یہ قتل کے ارادہ سے آیا ہے ؟ وہ کہنے لگے کہ یہ لڑکا پٹھان تھا اور ہم پٹھانوں کی عادات کو اچھی طرح جانتے ہیں جب یہ باتیں کر رہا تھا تو باتیں کرتے کرتے اس نے اپنی ٹانگوں کو اس طرح ہلایا کہ ہمیں فوراً سمجھ گیا کہ اس نے چھرا چھپایا ہوا ہے.چنانچہ میں نے ہاتھ ڈالا تو پھر انکل آیا.پولیس نے اس پر مقدمہ بھی چلایا تھا اور غالباً اُس نے اقرار کیا تھا کہ میں قتل کی نیت سے ہی قادیان آیا تھا.اس موقعہ پر حضور نے فرمایا کہ میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ اس جیلخانہ میں قید تھا جہاں میں افسر لگا ہوا تھا.اور وہ کہتا تھا کہ میں پہلے دھرم سالہ تک اُن کو قتل کرنے کے لئے گیا تھا مگر مجھے کامیابی نہ ہوئی.آخر میں قادیان گیا اور پکڑا گیا ) چوتھا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ امر طاہر کے مکان کی دیوار پھاند کر ایک شخص اندر کودنا چاہتا تھا کہ لوگوں نے اُسے پکڑ لیا.پولیس والے چونکہ ہمارے خلاف تھے اس لئے انہوں نے یہ کہ کہ اُسے چھوڑ دیا کہ یہ پاگل ہے.پانچواں واقعہ بالکل تازہ ہے جو کل ہی ہوا ہے، کل ہمارے گھر میں دودھ رکھا ہوا تھا کہ میری بیوی کو شبہ پیدا ہوا کہ کسی نے دودھ میں کچھ ڈال دیا ہے.چنانچہ اس شہر کی وجہ سے انہوں نے کہہ دیا کہ اس دودھ کو استعمال نہ کیا جائے.ایک دوسری عورت جسے اس کا علم نہیں تھا یا اُس نے خیال کیا
۲۳۰ کہ یہ محض وہم ہے اُس نے دوہ دودھ پی لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے اب تک متواتر نیتیں آرہی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شبہ کیا گیا تھا وہ درست تھا.لیکن با وجود اس کے کہ لوگوں نے مجھے ہلاک کرنے کی کئی کوششیں کیں اور ہر رنگ میں انہوں نے زور لگا یا.چونکہ الہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ خدا کا سایہ میرے سرہ ہو گا.اس لئے وہ ہمیشہ میری حفاظت کرتا رہا.اور اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک وہ کام جو میرے سپرد کیا گیا ہے اپنی تکمیل کو نہ پہنچ جائے ہے قاتلانہ حملہ اورخارق علوت رنگ میں خدائی حفاظت کی سب واقعات کی شہر سے قبل کے ہیں اور متحدہ ہندوستان کے دور سے تعلق رکھتے ہیں.قیام پاکستان کے ابتدائی چار سال میں اس قسم کا کوئی قابل ذکر واقعہ رونما نہیں ہوا.مگر خدا کے از لی علم ہیں اس کا یہ نشان بھی مخفی تھا کہ کوئی سازشی ہاتھ حضرت مصلح موعود کو شہید کرنے کے لئے بھر اوپر وار کرے لیکن خدا کے فرشتے معجزانہ طور پر آپ کو بچالیں خدا کی بہ تقدیر ار ما شاہ کو پوری ہوئی جبکہ عبدالمجید نامی ایک شخص نے حضور پر قاتلانہ حملہ کیا مگر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل، اپنی قدرت اور اپنی صفت احیا کا غیر معمولی نظارہ دیکھا یا اور اس بندہ درگاہ عالی کو خارق عادت رنگ میں سبچالیا.ر اس دردناک سانحہ کی تفصیل حضرت مولوی ابوالعطا صاحب جالندھر نئی نذیر الفرقان" کے الفاظ میں یہ ہے.مورخ ارمان ۹۵۳د بروز بدھ قریباً پونے چار بجے مسجد مبارک ربوہ میں نماز عصر پڑھا کر ہمارے رو ام امام حضرت امیرالمومنین مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ مبصرہ واپس تشریعیت کے چاہتے تھے کہ محراب کے دروازہ پر اچانک ایک اجنبی نوجوان نے پیچھے سے جھپٹ کر آپ پر جاتو سے حملہ کر دیا.۲۸ له الموعود تقریر حضرت مصلح موعود جلسه سالانه دسمبر ۳۳اره صفحه ۱۷۸ - ۱۸۲ عبد الحميد ولد منصب دار قوم جٹ چکا تے جج والا تھانہ صدر لائلپور (فیصل آباد) سابقہ وطن موضع جمال پور تھانہ کرتار پور تحصیل و ضلع جالندھر یہ شخص دو روز قبل ربوہ میں آیا تھا.یہاں پہنچ کر اس نے پہلے توحضور سے ملاقات کر نیکی کوشش کی لیکن جب اس میں وہ ناکام رہا تو اس نے احمدی ہونے کا خیال ظاہر کیا بلکہ نام بھی کر دیا.ان بعد اپنے ولی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مسجد مبارک میں جا پہنچا.المصلح ۱۹ر امان ۳۳۳ آبش / ۱۹ مارز ۹۵۳ایه) !
حملہ کے بعد حضرت مصلح موعود کا ایک نایاب فوٹو
حملہ کے بعد سید نا حضرت مصلح موعود کی ایک نایاب فوٹو حضور قصر خلافت کے بالائی کمرہ میں آرام فرما رہے ہیں.سر مبارک پر پٹی بندھی ہوئی ہے
٢٣١ چا تو کا یہ دار حضور ایدہ اللہ نصرم کی گردن پر شہ رگ کے قریب دائیں طرف پڑا جس سے گہر گھاؤ پڑگی حملہ آور نے دوسرادار بھی کیا مگر محمد اقبال صاحب محافظ کے درمیان میں آجانے کے باعث اس مرتبہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تبصرہ کی بجائے چاقر ا سے جالگا اور وہ زخمی ہو گیا.نمازیوں نے حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش کی اور کافی جدوجہد کے بعد اسے قابو میں لایا گیا اور اس کوشش میں بعض دوسرے بھی زخمی ہوئے ہے.حضرت امام جماعت احمد یہ زخم لگنے کے فوراً بعد بہتے خون کے ساتھ چندا حباب کے سہارے سے اپنے مکان میں تشریف لے گئے.بھون کو ہاتھ سے روکنے کی پوری کوشش کے باوجود تمام راستہ ہیں اور سیڑھیوں.پر خون مسلسل بہتا گیا، جس سے حضور کے تمام کپ رہتے، کوٹ انفر سویٹر، قمیض در بنیا نہیں اور شلوار خون سے تر یہ تر ہو گئے.حضور کے ساتھ چلنے والے بعض خدام کے کپڑوں پر بھی مظلوم امام کے مقدس خون کے قطرات گرے (خاکسارا ابو العطا کے کوٹ، پاجامہ اور پگڑی پر بھی اس پاک خون کے قطرات پڑے ہیں، مکان پر پہنچ کر ابتدائی مرہم پٹی جناب ڈاکٹر صا حبزادہ مرزا منور احمد صاحب ایم بی بی ایس اور جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے کی.اور زخم کو صاف کر کے اور ٹانکے لگا کر یہی دیا.ابتداء میں بر خیال تھا کہ زخم یوں اپنے گہر اور تین انچ چوڑا ہے لیکن جب رات کو لاہور سے مشہور سرجن جناب ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب تشریف لاتے اور انہوں نے زخم کی حالت دیکھ کرضروری سمجھا کہ ٹانکے کھول کر پوری طرح معائنہ کیا جائے تو معلوم ہوا کہ زخم بہت زیادہ خطرناک اور سوا ہم اپنے گہرا اور شاہ رگ کے بالکل قریب تک پہنچا ہوا ہے.محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنی خداداد مہارت سے کام لیکر قریباً سوا گھنٹہ لگا کر زخم کا آپریشن کیا اور اندر کی ریبانوں کا منہ بندکر کے باہرٹانکے لگا دیتے تھے.....اس تمام عرصہ میں حضرت امیر المومنین ایده الله بصر ا مثلا عبد العزیز جمن بخش صاحب ( مجاہد سرینام ، ڈچ گیا نا ) جن کا دایاں انگوٹھا چاقو سے مجروح ہوا اور مستقل طور پر زخم کا ایک نشان چھوڑ گیا.آپ اپنی زندگی میں ہمیشہ یہ نشان دکھایا کرتے اور اپنی اس خوش نصیبی پر فخر کرتے تھے کہ خلیفہ موعود مصلح موعود کی حفاظت میں یہ زخم آیا ہے ، وفى سبيل الله مالقيت صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب فرماتے ہیں یہ کپڑے صاحبزادہ مرزا رفیق احمد کے پاس ہیں اور سید قمرسلیمان احمد صاحب خلف الرشید سید داد واحمد صاحب مرحوم تحریر کرتے ہیں کہ جب سیدنا اصبح الموعودؓ پر مسجد مبارک میں حملہ ہوا تو ابا جان وہیں تھے.حضور کا مبارک خون ابا جان کی قمیص پر بھی لگ گیا تھا.اور ابا جان نے حضور کی خون آلود قیص اور اپنی یہ قمیص محفوظ کر لی تھیں.سیرت داؤد ناشر جامعہ احمد یہ ربوہ صفحہ ۱۶۷ - ۱۶۸) سے جناب صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب چیف میڈیکل آفیسر فضل عمر ہسپتال ربوہ کا بیان ہے کہ جس وقت حضرت مصلح الموعود رضی اللہ تعالی عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا خاکسار گھر سے باہر نکل رہا تھا کہ قریشی نذیر احمد صاحب ڈرائیور حضور گھرائے (باقی اگلے صفحہ پر)
۲۳۲ با موش تھے اور آپ کی زبان پر بیح و تحمید جاری تھی.آپ نے صلہ ہونے کے فورا بعد سجد سے نکلتے ہی ہدایت فرمائی کہ حملہ آور کو صرف قالعہ کیا جائے لیکن اُسے مارا نہ جائے.یہ حملہ ناگہانی اور اچانک تھا اور جونہی نمازیوں کو اس کا پتہ لگا ان میں سے چند دوست لیک کر حضور کے پاس پہنچے اور کچھا جناب نے حملہ اور کوگرفتار کرنیکی سعی کی.اس افراتفری اور انتہائی غم و غصہ کی حالت کے باوجود یہ صرف جماعت احمدیہ کی اخلاقی قوت اور اپنے امام ہام ایدہ الہ بصرہ کے ارشادات کی تعمیل کے جذبہ کا ہی نتیجہ تھا کہ حملہ آور محفوظ حالت میں فوراً حوالہ پولیس کر دیا گیا.اے مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری حضرت مصلح موعود کا بیان ہے کہ ار ما پرچ شام کو جب مسجد مبارک میں حضرت مصلح موعود پر چاقوسے حملہ کیا گیا.خاکسار بھی اس وقت مسجد میں تھا.اور حضور کے سلام پھیرنے کے بعد محراب کے شمالی دروازہ سے باہر نکلا.اچانک محراب کے باہر کے دروازہ سے حضور کو جھکا ہوا دیکھا کہ حضور گرنے کے قریب ہیں خاکسار محراب کے غربی جانب کے چہوترہ کی طرف آیا اور حضور کو سہارا دیا.مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ نماز کے بعد اچانک حضور پر حملہ ہوا ہے جس کا نتیجہ میں دیکھ رہا ہوں اتنے ہیں دیکھا کہ مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب حضور کے قریب گئے ہیں معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ محراب کے سیدھے غربی جانب اندر سے ہی آتے ہیں یا باہر سے آئے.چنانچہ انہوں نے حضور کو دائیں جانب سے سہارا دیا اور حضور کی بغلوں کے نیچے باز و یک سہارا دیاناکہ (بقیہ حاشیہ ) ہوئے کار لیک آئے کہ فورا چلو حضور پرکسی نے قاتلانہ حملہ کیا ہے خاکسار اسی وقت قصر خلافت پہنچا حضرت مصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن کے دائیں طرف تقریباً تین انچ لیا اور بہت گہر نہ غم تھا.خاک رنے اُسی وقت ہسپتال سے ضروری سامان منگوایا اور حضور ایدہ اللہ کے رخ کو عارضی ٹانکے لگائے تاکہ خون زیادہ نہ ہے خون پہلے بہت زیادہ نکل چکا تھا) اس کے بعد خاکسار نے فوری ارجنٹ ٹیلیفون پر نیٹڈاکٹر مسعود احمد کو کیا کہ وہ کسی اچھے سر جن کو لیکر فوری آجائیں چنانچہ اغلباً رات دس اور بارہ بجے کے درمیان پر وفی مسعود احمد صاحب اپنے ساتھ ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب سرجن کو لیکر آئے ، انہوں نے اور ڈاکٹر مسعود احمد صاحب نے مل کر عا منی ٹانکے نکالے زخم کا اچھی طرح معائنہ کیا اور پھر پختہ ٹانکے لگائے حضور رضی اللہ عنہ کو درد اور بے چینی کی بہت تکلیف تھی جس کیلئے مناسب ادویہ دی گئیں " ے ماہنامہ الفرقان ربوه بابت ضروری و ماراح ۱۹۵۳ از صفحه ی وب
حضور چل سکیں.میں نے بائیں جانب سے حضور کو سہارا دیا اس طرح سے حضور کو سہارا دیتے ہوئے ہم دونوں حضور کو قصر خلافت کے اندر لے گئے اور حضور کے کرہ ہمیں جاکر حضور کو بستر پر لٹایا.اسی عرصہ میں حضور کے زخم سے چند قطرے حضور کے خون کے چلتے ہوئے میری شلوار پر بھی گرے جس کا اپنے گھر پہنچنے پر میری اہلیہ کے توجہ دلانے پر مجھے علم ہوا نہیں نے کہا کہ میرے جسم سے تو کوئی خون نہیں نکلا.یہ خون کے قطرے حضور کے ہی ہیں جو تھے چلتے ہوئے میری شلوار پہ گرے ہیں.چنانچہ اس وجہ سے میری اس شلوار کو تبرک کے طور پر میری اہلیہ نے محفوظ رکھ لیا اور دھویا نہیں جواب تک میرے پاس موجود ہے.پھر اُسی وقت حضور نے میرے ذریعہ یہ پیغام مسجد مبارک میں جمع شدہ احباب کے نام دیا کہ قاتل کو جان سے نہ مارا جائے تاکہ جو تحقیقات اس کے ذریعے ہو سکتی ہو یہ اس کا موقعہ ہاتھ سے نہ نکلے چنانچہ خاکسار نے جو اُن دنوں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں تھا.یہ تعمیل ارشاد بھی کی " پولیس و حادثہ کی اطلا چوہدری غلام مرتضی صاحب بی بی ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول نے جو اس حادثہ ہوئے لکھا :.کے عینی شاہد تھے انچارج صاحب تھانہ لالیاں کو اس حادثہ کی اطلاع دیتے بخدمت افسر انچارج صاحب تھانہ لالیاں ، اسلام علیکم در حمہ اللہ و بر کانتر آج مسجد مبارک ربوہ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی امام جماعت احمدیہ نمانه پڑھانے کے بعد جب محراب کے مغربی دروازہ سے نکلنے لگے تو ایک نوجوان لڑکے نے جس نے صف اول میں حضور کے پیچھے ہی نماز پڑھی تھی آگے بڑھ کر باہلی کہتے ہوئے حضور پر چاقو سے حملہ کر دیا.چاقو حضرت صاحب کی گردن میں دائیں جانب لگا اور حضور زخمی ہو کر گرے.اقبال احمد پہرہ دار نے حضرت صاحب کو سنبھالا اور نوجوان کو پکڑنا چاہا توند کور نے پھر دوسرادار حضرت صاحب پر کیا.لیکن یہ دار اقبال احد کے بائیں کان پر لگا.اقبال احمدزخمی ہو گیا.اس پر میں نے آگے بڑھ کرحملہ آور نوجوان کو پیچھے سے پکڑ لیا جملہ آور اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتا رہا.اس کشمکش میں میرے ناک کی بائیں جانب آنکھ کے نیچے رخسار پر چاقو کی نوک سے خراشیں آئیں.مولوی نور الحنی عبد الحکیم جامعه مبشرین ، ماسٹر فقر الله قاضی عبد السلام ملک ولایت خان و دیگر مردمان جو نماز پڑھ چکے تھے نے حملہ آور کو پکڑ لیا.اور چاقو بھی چھین لیا حضرت اد ابوالمنير نور الحق صاحب
۲۳۴ صاحب کو سہارا دیگر قصر خلافت میں لے گئے حملہ آور نوجوان یہاں مسجد میں موجود ہے جس نے چُپ سادھ رکھتی ہے.اور کوئی پتہ نہیں بتانا، آپ موقع پرستی کر لوڈ کا سمائی فرمائیں.خاکسار غلام مرتضی تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ضلع جھنگ ا بوقت ہم بجھے شام " اس اطلاع پر پومیس مسجد مبارک میں پہنچ گئی اور حملہ آور کو اپنی تحویل میں لے لیا.جماعت احمدیہ کے اولو العزم امام حضرت مصلح موعود نے حضرت مصلح موعود کا ایمان افروز پیام نادیہ کے دس سے پنا کام کیا کہ ارائی کی قاتلانہ حملہ بعد رات کو جماعت احمدیہ کے نام اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل برتی پیغام بزبان انگریزی تحریر فرمایا جو اخبار المصلح" کراچی کی ۱۲ مارچ ۹۵۷لہ کی اشاعت میں شائع ہوا :- 'Almuslih Karachi' *'Brethren you have heard about the attack made upon me by an ignorant enemy.May God open these peoples' eyes and make them understand their duty towards Islam and Holy Prophet.My brethren pray to God that if my hour has come Allah may give my soul peace and bestow His blessings.Also pray that God through His bounty may give you a leader better suited to the job than I was.I have loved you always better than my wives and children and was always ready to sacrifice every one near and dear to me to the cause of Islam and Ahmadiyyt.I expect from you and your coming genera- tions also to be so for all times God be with you.Wassalam Mirza Mahmud Ahmad
me to me every neard dear to the cause Jam & Ahmadiyal stof expect from you aho four coming generating sto be for all time ## God be with you Waszlam ja ma Almond
Allah soul th/may give my beace & Histom His blessing stot also pray thar Go through His bong may give you a leader better anted to the job than I was stop I have loves Jon alway better than my wives & children & was always ready to sacrifice
حضرت مصلح موعود کا ملے کے بعد رقم فرمودہ انگریزی پیغام Alharich Brotherer you have hearts about the attack made upon me вид вели ignorant.enemy stoh may God when there peoples eyes I make them understand their duty towers Islam & holy prophet stop my brothern pray to God that it my how has come
ترجمہ :- " المصلح کراچی.۳۳۵ برادران ! آپ سن چکے ہوں گے کہ مجھ پر ایک نادان دوشمن نے حملہ کیا ہے.اللہ تعالی ان لوگوں کی آنکھیں کھونے اور اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اُن پر جو فرض عائد ہوتا ہے اُسے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.برادران ! اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اگر میرا وقت آن پہنچا ہے تو وہ میری روح کو تسکین عطا کرے اور اپنی رحمتیں نازل فرمائے نیز یہ بھی دعا فرما نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ لوگوں کو ایسا لیڈر عطا فرمائے جو اس کام کے لئے مجھ سے زیادہ موزوں ہو.یہ میں ہمیشہ آپ سے اپنی بیویوں اور بچوں سے زیادہ محبت کرتارہا ہوں اور اسلام اور احمدیت کی خاطر اپنے ہر قریبی اور ہر عزیزہ کو قربان کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہا ہوں.میں آپ سے اور آپ کی آنیوالی نسلوں سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں کہ آپ بھی ہمیشہ اسی طرح عمل کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.والسلام مرزا محمود احمد امام مظلوم پر حملہ کی اطلاع بجلی کی طرح پور سے ربوہ میں پھیل گئی.ایک حشر تھا جو بسا ہو گیا ایک نیات تھی جوٹوٹ پڑی سینکڑوں احباب دیکھتے ہی دیکھتے احاطہ مسجد مبارک میں جمع ہو گئے.ہر آنکھ گریاں اور ہر دل بریاں تھا.اور سبھی حضور کی حالت معلوم کرنے کے لئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے جب اُس روز مغرب کی نماز باجماعت پڑھی گئی توہر مسجد گریہ و بکا اور خشوع و خضوع کا درد ناک منظر پیش روزنامه المصلح" کراچی ۱۲ ماچ ۱۹۵۳ء ص ۲ -
۲۳ کہ رہی تھی.یہ رات جس درد و کرب اور متفرقانہ دعاؤں کے ساتھ گزری اُس کا صحیح نقشہ صرف حضرت مسیح موعود علی الصلاۃ والسلام کے مندرجہ ذیل شعر سے ہی کھینچا جا سکتا ہے سے اندریں وقت مصیبت چاره ما بیکساں ند دعائے بامداد و گریه اسحار نیست یعنی اس مصیبت کے وقت ہم غریبوں کا علاج سوائے صبح کی دُعا اور سحری روزے کے اور کچھ نہیں لیے بوہ سے باہر پاکستان اور بیرونی دنیا تک اس ناپاک اور بینہ دلانہ حملہ کی خبر پاکستان ریڈیو، بی بی سی لنڈن اور بعض دیگر ملک کے ریڈ یونے آنا فانا پہنچادی میں نے دنیا بھر کے اصدیوں میں زبر دست تشویش و اضطراب کی اہر دوڑادی جماعتوں میں صدقات اور گریبانیوں کا وسیع سلسلہ جاری ہوگیا اور ہر ملک کے احمدی نہایت زخم رسیدہ دل کے ساتھ اپنے پیارے امام کی سلامتی اور درازی عمر کے لئے انفرادی اور اجتماعی دعاؤں میں مصروف ہو گئے.اس موقع پر دنیائے احمدیت نے سید نا حضرت مصلح موعود کی ذات با برکات سے جس بے نظیر اور والہانہ عقیت و محبت کا نمونہ دکھایا وہ اپنی مثال آپ تھا.دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے گوشہ گوشہ سے ٹیلیفون اور ناروں کا تانتا بندھ گیا.ان میں سے ایک بڑی تعداد جوابی تاروں کی تھی جن میں فوری جواب مانگا گیا تھا.اور یہ سلسلہ کئی دنوں تک برابر جاری رہا.مختلف ممالک سے ارب پچ کو جو تار موصول ہوئے اُن میں سے چند ایک کا ذکر کرنا مناسب ہو گا :- انڈونیشیا :.جماعت احمدیہ انڈونیشیا نے اپنے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے حضور کی صحت کے متعلق دریافت کیا - مشرقی پاکستان - جماعت احد یہ بورون حضورکی درازی عمر کی دعا کرتے ہوئے نام دیا.جرمنی : چوہدری عبدالطیف صاحب مبلغ جرمنی نے ہمبرگ سے اپنے اضطراب کا اظہار کیا اور حضور کی صحت دریافت کی.برما - خواجہ بشیر احمد صاحب نے جماعت احمدیہ زنگوں کی طرف سے حضور کی صحت کے متعلق دریافت کیا اور لکھا کہ ہم حضور کی صحت کاملہ عاجلہ اور درازی عمر کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.سنگاپور :- سائق فاروق صاحب نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ہم حضور کی جلد شفایابی اور ہر سه " الفرقان ربوہ فروری ماریچ ۱۹۵۴ء ص ب
۲۳۷ لمبی عمر کے لئے دعائیں کرتے ہیں.سیلون لنکا: پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کو ہونے لکھا کہ ہمیں اس خبر سے سخت صدمہ پہنچا ہے.اللہ تعالے حضور پر فضل ور رحم فرمائے اور صحت کے ساتھ لمبی عمر بخشے.نیز درخواست کی کہ حضور کی صحت کے متعلق روزانہ اطلاع دی جایا کرہے.کینیا کالونی : نیروبی سے مولانا شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے تارہ دیا کہ مشرقی افریقہ کے تمام احمدی اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر بجا لاتے ہیں کہ اُس نے حضور کی حفاظت فرمائی.احباب جماعت اجتماعی دعائیں کر رہے ہیں، صدقات دے رہے ہیں اور حضور کی درانہ ٹی عمر کے لئے دعا گو ہیں اس طرح نیرو بی سے میر سید احمد صاحب نے بھی اپنے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے حضور کی صحت کی اطلاع بذریعہ تار مانگی.یوگنڈا : کلنڈنی سے جناب صالح محمد صاحب نے اس ظالمانہ فعل پر اظہار نفرت کرتے ہوئے لکھا کہ حضور کی درازی عمر اور صحت عاجلہ کے لئے دعائیں جاری ہیں نیز بذریعہ تار حضور کی صحت اور خیریت کے متعلق خبر دریافت کی کمپالا سے ڈاکٹر علی دین صاحب نے تار دیا کہ لو گنڈا کے احمدی سخت مضطرب ہیں اور دعاؤں میں لگے ہوئے ہیں حضور کی صحت کے متعلق بذریعہ تارا اطلاع دی جائے.امریکہ :.واشنگٹن سے چوہدری خلیل احمد صاحب نام نے لکھا کہ امریکیہ کی احمدی جماعتوں کو دلی صدمہ پہنچا ہے.ہم دعاؤں میں مشغول ہیں اللہ تعالیٰ حضور کو جلد صحت عطا فرمائے اور حضور کا حافظ و ناصر ہو.واشنگٹن ہی سے امتہ الحفیظ صاحبہ اور نفیس جیسہ صاحبہ کے تار بھی اس سلسلہ میں موصول ہوئے.نیو یارک کے احمدیوں نے اپنے تار ہیں لکھا کہ حضورہ کی ذات گرامی پر بزدلانہ حملہ سے سخت صدمہ پہنچا.اللہ تعالے حضور کا حافظ و ناصر ہو.ار مارچ کے بعد بھی دنیا کے بہت سے ممالک سے بے شمارہ تار آئے.بالخصوص ہندوستان جس کے ہر صوبہ سے تار موصول ہوئے چنانچہ قادیان ، ریاست حیدرآباد دکن ، ریاست مالیر کوٹلہ ، منو بر مبٹی، صوبہ یوپی مصوبه مغربی بنگال ، مالابار ، ریاست جے پور صوبہ بہار وغیرہ مقامات سے بہت سے تار مرکز میں پہنچے اور محکمہ تار کے عملہ پر کام کا اس قدر دباؤ پڑ گیا کہ مسلسل چو نہیں گھنٹہ مصروف کا رہنا پڑا ہے بیرونی ممالک کی مخلص جماعتوں نے صرف تارہی نہیں دیتے بلکہ پاکستان کی مسلم لیگی حکومت سے بھی پر نہ ور مطالبہ س المصلح" کراچی ۲۳۰ مارچ ۱۹۵۴ / ۲۳ رامان ۳۳۳ ابش صداده
۲۳۰ کیا کہ اس شرمناک اور گھناؤنے فعل کی بغیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے جس نے دنیا کے لاکھوں احمدیوں کے جذبات بری طرح مجروح کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ صلہ یقینا کسی گہری سازش کا نتیجہ تھا چنانچہ جرمنی کے احمدیوں نے پاکستان کے گورنرجنرل ملک غلام محمد صاحب، وزیر اعظم پاکسان محمدعلی صاحب بوگرہ، گورنر پنجاب میاں امین الدین صاحب اور وزیرا علیٰ پنجاب ملک فیروز خان نون کے نام حسب ذیل مکتوب لکھا :.Your Excellency, we the Ahmadi Muslims living in Germany heard the attack made on our most be- heart runding and leader the on Momineen S as a great naws of an loved Imam Hazrat Amiru! 10th of March.This sad.news came to shock and filled us with feelings of great sorrow and reseut- ment.We consider the benign personality of Hazrat Amirul- Momineen as a living sign of God.His strenuous efforts in connection with the service and propagation of Islam have won appreciation everywhere.We are much grateful to the Ahmadiyya Community to whom we have the honour to belong and particularly to our beloved Leader Hazrat Amirul Momineen as they acquainted us with the teachings of Islam.ے اُن دونوں ایڈیٹر صاحب الصلح کراچی کے نام جوہر اسے اور برقی پیغام موصول ہوئے اُن سے بھی اس خیال کی تائید ہوئی.تھی اور اس ضمن میں بعض واضح قرائن بھی سامنے آئے.(المصلح ۲۳۰۱۷ رامان ۳۳۳ انس) |
۲۳۹ the attack that it is quite evident from the details of it is not an act of a single human being.There seems to be We therefore request you a great conspiracy behind this act.a arranged to go into the that a complete inquiry may be depth of this conspiracy We also assert with great emphasis that the Government should not fail in its duty to stop these atrocities being committed against the Ahmadiyya Community.We Beg to Remain, Sir, Ahmadi Muslims in Germany ه را پریل ۱۹۵۴ء ها محترم عزت مآب ! ہم جرمنی میں رہنے والے احمدی مسلمانوں نے اپنے نہایت ہی پیارے امام اور پیشوا حضرت امیرالمومنین سپر از ما رچ کو ہونے والے حملہ کی خبر سنی جس نے ہمارے دل پارہ پارہ کر دیئے.اس اندوہناک خبر سے ہیں سخت صدمہ ہوا.ہم حضرت امیر المومنین کے شفیق وجود کو اللہ تعالے کا ایک زندہ نشان یقین کرتے ہیں.کیا ہے.خدمت و اشاعت اسلام کے سلسلہ میں جو انتھک مساعی آپ نے سرانجام دی ہیں انہوں نے ہر جگہ خراج تحسین حاصل ہمیں جماعت احمدیہ کے عمر ہونے کا شرف حاصل ہے.ہم اس جماعت اور اس کے محبوب رہنا کے مون دیکر گزار ہیں جنہونی ہمیں اسلام کی تعلیمات سے آگاہ فرمایا.حملہ کی تفصیلات سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ یہ کام کسی اکیلے آدمی کا نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم سازش کارہ فرما نظر آتی ہے.اس لئے ہم آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس سازش کی تہہ تک پہنچنے کے لئے مکمل تحقیقات سے رسالہ ریویو آن ریلیجن" انگریزی (ریبوه) مئی ۱۹۵۷ ، صفحه ۲۳ - ۲۴
م کا انتظام فرما یا جاوے.نیز ہم اس بات کی بھی توقع رکھتے ہیں کہ جو مظالم اس وقت جماعت احمدیہ پر روا رکھے جارہے ہیں حکومت اُن کا مکمل تدارک کرنے کے سلسلہ میں اپنے فرائض کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گی.ہم میں آپ کی سلامتی کے دھاگو احمدی مسلمانان جرمنی اس المناک سانحہ کی خبر قادیان میں دوسرے دن ار ماست ۱۹۵۴ء کو صبح قاتلانہ حملہ کی خبر قادیان میں آٹھ کے ذریعہ ریڈیو پاکستان سنی گئی.یہ خبر کیا تھی ، ایک صاعقہ تھی ایک بجلی تھی جو آنا فانا گری اور اس نے درویشیوں کے حلقہ میں کہرام مچا دیا اور اُن کے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا.جوں جوں پر خبر ان کے کانوں میں پہنچی وہ سب یکے بعد دیگرے دیوانہ وار مسجد مبارک اور دار اسی کی طرف دوڑے ہر در ولیش سخت پریشان تھا کہ کیا ہوا.اب کیا کیا جائے، شخص چاہتا تھا کہ کاش اس کو قوت پر دار نصیب ہو تو وہ اُڑ کر اپنے پیالے امام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے اور حضور کے درد و کرب میں شریک ہو کر اپنے آپ کو اپنے پیارے امام پر سے قربان کر سکے.بیت الدعا اور دالان حضرت ام المؤمنین میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے اشکبار آنکھوں اور غمزدہ دل کے ساتھ نہایت سوزد گداز سے اجتماعی دعا کرائی.دعا کے وقت حشر سا بنا تھا ایسا معلوم ہونا تھا کہ اکشرور ولیوں کی آہ و بکا عرش الہی تک پہنچ رہی ہے.اس رقت انگیز دعا کے بعد حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور صاحبزادہ مرزا د سیم احمد صاحب کے مشورہ سے چو ہدری عبد القدیر صاحب واقت زندگی کارکن نظارت اور عامر قادیان کو تفصیلی حالات معلوم کرنے کے لئے دس بجے گاڑی سے ربوہ بھیجا گیا.چودھری صاحب اس سانحے سے متعلق تفاصیل معلوم کر کے ار ما رچ کو باہم یکے سہ پہر قا دیان واپس پہنچے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی مندرجہ ذیل اطلاع بھی بذریعہ تار مو مول ہوئی کہ سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی بید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پر ایک نوجوان نے مسجد میں جاتو سے عین اس وقت حملہ کیا جب کہ حضور بعد نماز عصر مسجد سے باہر تشریف لے جا رہے تھے زخم تین انچ لمبا اور پوتن اپنے گہرا ہے جس پہ مرہم پٹی کر دی گئی ہے حضور ہوش میں میں حضور اقدس کے علاوہ دو اور احمدی بھی حضور کو بچانے کی کوشش میں زخمی ہو گئے جملہ اور گرفتار کر لیا گیا ہے احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ حضور کو صحت ه حال ناظر بیت المال (فرج) صدر انجمن احمدیہ قادیان
۲۴۱ و سلامتی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے کہ ملہ درویشیوں کو تا 9 بجے مسجد مبارک میں جمع ہو کر نمازہ نوافل پڑھنے اور دعا کرنے کی ہدایت کی گئی.چنانچہ تمام در دویش وضو کر کے ہر وقت مسجد مبارک میں پہنچے گئے اور ستورات بیت المذکر میں جمع ہو گئیں مسجد میں سب سے پہلے حضرت مرزا بشیر احمدصفات کا تار تین بار پڑھ کر سنایا گیا.پھر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے دو نوافل باجماعت پڑھائے جس میں بہت طویل قیام رکوع اور سجود کئے.اجتماعی دعاکی طرح یہ نوافل بھی رفت اور الحاج اور تفریح کا ایک خاص رنگ لئے ہوئے تھے یہ نماز تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی جس میں نہایت خشوع اور خضوع سے سیدنا المصلح الموعود کی صحت وعافیت، کامل و عاجل شفایابی اور دراز ٹی عمر کے لئے دعائیں کی گئیں.حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب حبٹ ناظر علی و امیر جماعت قادیان کے الفاظ میں اس وقت در ویٹوں کے.....دیکھ درد کی چنچیں اور آہ و بکا کی آوازیں اس طرح ان کے سینہ سے بلند ہورہی تھیں جس طرح آتش فشاں پہاڑ کے شعلے پر رقت آمیز نظارہ الفاظ میں قلمبند نہیں کیا جا سکتا صرت دیکھنے سے ہی تعلق رکھتا تھا.نماز کے بعد صدقہ کی تحریک کی گئی جس پر قریباً ایک سورد پر جمع ہوا دو بکرے بطور صدقہ ذبح کے گئے اور بقیہ رقم بیوگان اور مساکین میں تقسیم کر دی گئی.ہندوستان کی بیرونی احمدی جماعتوں کو اطلاع پہنچانے کے دو ذرائع اختیار کئے گئے.اس نظارت علیا نے بذریعہ نار تمام بڑی بڑی جماعتوں کو اس حاد نہ سے مطلع کیا.۲.اخبار بدر کی طرف سے ۱۶ مارچ نہ کو ایک غیر معمولی نمبر شائع کیا گیا جس میں نہ صرف حملہ کی تفصیلات حضور کا پیغام اور حضور کی صحت سے متعلق تاریخ وارہ تازہ اطلاعات درج تھیں بلکہ حضرت مصلح موعود کی مثالی شان آپ کی نسبت خدائی دعدے اور آپ کے عظیم الشان کارنامے اور جماعتی فرائض مشتمل نہایت پر اثر مضامین بھی شامل اشاعت کئے گئے تھے یہ حافظ قدرت اللہ صاحب سیکرٹری احمد یہ مسلم مشن انڈونیشیا نے لکھا.انڈونیشیا میں حادثہ کی طلاع دو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں حضور اقدس سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ منصرہ العزیزہ پر قاتلانہ حملہ ایک ایسا اندوہ مناک اور دل ہلا دینے والا سانحہ ہے.جس کے تصور سے بھی ایک احمدی کا دل لرز جاتا ہے.اس واقعہ کی خبر جو نہی احباب جماعت کو پہنچی اور اس نے تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو ا خبار بدر" "قادیان - ۱۴-۱۲ر امان ۳۳۳ آش مارچ ۱۹۵۳
۲۴۲ سے جو کیفیت پیدا ہوئی وہ بیان سے باہر ہے.عقیدت مندوں نے اپنے پیارے اور محبوب آقا کی سلامتی کے لئے درد مندی کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی دعائیں شروع کر دیں اور صدقات کا سلسلہ جاری کر دیا.بہت سےمخلصین نے اس غرض کے لئے روزے بھی رکھے اور اخلاص و محبت کے جذبات کے ساتھ بارگاہ الہی سے اس کے فضل کے طالب ہوئے.اکثر جماعتوں نے انفرادی صدقات کے علاوہ اجتماعی قربانیاں بھی دیں.چنانچہ جماعت کی طرف سے جو جانور صدقہ کے طور پر ذبح کئے گئے.ان کے تعداد ہم کے قریب ہے آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حالت زار کو دیکھا اور اپنا فضل نازل فرما یا اور حضور اقدس کو اپنے کرم سے رو بسلامت کیا.لے حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ سے مشرق وسطی کے مخلص احمدیوں دو لبنانی احمدیوں کا درد انگیز قصیده کا انگیزی کے قلوب و اذہان پر کیا بیتی؟ دو لبنانی احمد یوں ابو صالح السيد نجم الدین اور السید توفیق الصفدی کے مندرجہ ذیل درد انگیز قصیدہ سے اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے اس حادثہ منظمی سے متاثر ہو کہ کہا.- أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَدَتكَ نَفْسِين وبعدَ النَّفْسِ مَا كَانَ افْتِدَاء -٢ عَلِمْتُ بِمَا جَرَى مِنْ نِعْلِ وَفْدِ ابي في دَرْبِهِ إِلَّا التَّوَاءُ -٣ شَفَاكَ اللهُ مِنْ جُرح يقلبى له الم وليست لة دواء سوَى أَنْ تَبقَ يا مولاى دوما معا في رَغْمَ مَا رَادُوْا وَشَاؤُوا ه وَقَدْ حَمَلَ الْآثِيرُ لَهَيْبَ جُرح و مُضِ الْبَرْقِ لَيْسَ لَهُ انْطِفَاءُ - فَوَافَاكَ الْبَنُونَ سِرَاعَ خَطو الفضل (لاہور) و تبوک ۳۳۳ آش استمبر ۱۹۵۴ء ص
۲۴۳ جهَادُ دَأَبُهُمْ لَا الْاِنْحِنَاءُ ، وَقَدْ عَقَدُوا اليَمِيْنَ بِأَنْ يَنُورُوا رسه إذَا لِلْخَصْمِ لَمْ يَطْمِسُ لِوَاءُ تَشُقُ دُجَى الضَّلَالِ لِتَبُنِيَ صَرْحًا متين الْعُمُدِ يَعْمِرُهُ الضّياءُ و فَشَرَعَ الْأَحْمَدِيَّةُ فِيهِ يُعْطى يوجه اللهِ مَا وَ سَعَ الْعَطَاءُ -١ آيَا هَوْلايَ يَا مَنْ شَمَّ قَلْبِي يذكرِكَ وَازْدَهَى مِنّي الرَّوَاءُ تماكَ بِسَهْمِهِ نَدْهُ زَنِيم.اصَابَ الرُّوحَ مِنَّا وَالكَلَامُ -١٢- وما عرَنَ الْخَرُونَ بِمَا جَنَاهُ ومَا عَرَنَ الْجَحِيمَ لَهُ جَزَاءُ - مَلَابِينُ بذِي الدُّنْيَا تَهِيد فلَا تَعْجَبْ فَقَدْ عَمَّ الْبَلَامُ تَسْأَلُ عَنْكَ مَحْمُودَ السَّجَايَ وتبتهل الْمَسَرَّةُ وَالشَّفَاءُ ١٥ فداتكَ الْأَحْمَدِيَّةُ يَا إِمَامًا وروحى يَا أَمِيرِ لَكَ الْفِدَاء - وعافاك المُهَيْمِنُ مِنْ جُرُوج 19 ا جروحا أودَعَتْ فِي الصَّدْرِدَاء إذا ما كان مولانا بخير نحنُ وَمَا لَكَ الدُّنْيَا سِوَاءُ
۲۴۴ ا ذكرت بِجُرْحِكَ الْفَارُوقَ لَمَّا رماة الوفد وانْقَطَعَ الرجاء وَعُثمَانُ النَّقِيُّ قَتِيلُ بَيْتٍ كَذَاكَ عَلِيُّ الْقَى الانْقِيَاء ٢٠ تا سَى فِيهِمُ يَا ابْنَ الْمَعَانِي ولا تنسَ شَهِيدَ الكَرْبَلاء وَلَا تَجْرَعَ آيَا كَنْزِى وَذُخْرِى فما تحَوَادِثِ الدُّنْيَا انْتِهَاء عَلَيْكَ سَلَام رَبِّي كُلَّ حِينٍ سَلامُ مَا بِهِ قَطُّ رِيَاء ا.اسے امیر المومنین! میری جان آپ پر فدا ہو اور جان سے بڑھ کر کیا فدیہ ہوگا ؟ - ایک شریر، سرکشی اور غیر مہذب شخص نے اپنی حرکت سے آپ کو جو نقصان پہنچایا ہے ، مجھے اس کا علم ہوا.للہ تعالٰی آپ کو اس زخم سے شفا بخشے جس کی وجہ سے میرے دل میں ایسا درد ہے، جس کا کوئی علاج نہیں..بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ ہمیشہ صحت مندانہ زندگی بسر کریں اور دشمن اپنے ارادوں میں نا کام ہو.ه تار کے ذریعہ زخم کا شعلہ، جو قائم رہنے والی بجلی کی چمک کی مانند تھا، ہم افراد جماعت تک پہنچا.- آپ کے روحانی فرزند تیز قدموں کے ساتھ فوراً آپ کے پاس پہنچے اور یہ لوگ جہاد کے عادی ہیں اور دشمن کے آگے سرنگوں ہونا ان کا شیوہ نہیں.- انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک دشمن کا جھنڈا سرنگوں نہ ہو ان کے جوش و خروش میں کمی نہ ہوگی.یہ روحانی ہتھیار گراہی کی تاریکیوں کو پاش پاش کر دیں گے اور آخر کار ان سے ایسا روحانی محل تیار ہو گا جس کے ستون مضبوط ہوں گے اور جو ہمیشہ پر نور رہے گا.که روزنامه الفضل لاہور مورخہ ۲۷ ہجرت ۳۳۳ آتش / ۲۷ مئی ۱۹۵۴ء مست
۲۴۵ و اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کے رحم سے احمد ثیت کو ہرممکن ترقی اور پھیلاؤ عطا ہوگا.ا.اے میرے آقا ! تیرے ذکر سے میرے دل میں نورانی شعاع داخل ہوئی اور میرے چہرے پر رونق آگئی.ایک کینے اور بد بخت نے تجھ پر تیر چلا یا جو در حقیقت ہماری روح و جگر میں پیوست ہو گیا..اس مجرم کو معلوم نہیں کہ اس نے کتنا بڑا جرم کیا اور وہ بھی نہیں جانتا کہ اس جرم کی سزا جہنم ہے.۱۳.اس واقعہ سے دنیا کے لاکھوں انسانوں کو صدمہ ہوا.اسے آقا اس واقعہ سے آپ متعجب نہ ہوں کہ ہلائیں آتی ہی ۱۵ رمتی ہیں.اسے پاکیزہ خصائل اہم تیرے بارے میں کمالات ہمجتم سوال بن رہے ہیں.اور مسرت و شفا خود دعا گو ہیں.اسے امام ! جماعت احدیہ آپ پہ قربان.اسے امیر را میری جان آپ پر شار ۱.اسے امام ! اللہ تعالیٰ آپ کو ان زخموں سے جلد شفا بخشے جنہوں نے میرے سینہ میں ستنقل زخم ڈال دیتے ہیں اور مجھے بیمار کر دیا ہے.۱۷.جب ہمارا آقا خیر و عافیت سے ہو تو ہمیں ساری دنیا کی بادشاہت ملنے کے برابر خوشی ہوتی ہے.۱.اسے شکیل عمر تیرے زخم سے حضرت عمرہ کی یاد تازہ ہوگئی جب ایک کیلنے نے آپ پر وار کیا اور امید حیات جاتی رہی.۱۹.اور ایسا ہی حضرت عثمان کی یاد تازہ ہو گئی جو بے گناہ تھے اور گھر کے اندر شہید کئے گئے.نیز حضرت علی القی الاتقیاء بھی یاد آگئے.۲۰.سے جلیل القدر امام ! ان بزرگوں کے مصائب ہمارے لئے اسوہ نہیں اور اس سلسلہ میں شہید کربلا حضرت امام حسین کو کون بھلا سکتا ہے..اسے آقا انستجھ سے مخفی نہ رہے کہ ہمارے لئے گھرانے کا کوئی موقع نہیں کیونکہ دنیا کے حوادث کی کوئی انتہا نہیں.۲۲.اسے سرمایہ حیات ! اور اے ذخیرہ آخرت تجد پہ ہر گھڑی خداتعالی کا اسلام.تجھ پر سر گھڑی بنی نوع انسان کا مخلصانه سلام - حضرت مصلح موعود پر بزدلانہ حملہ نے نہ صرف احمدیوں کے دلوں مسلمان معززین کے قابل قدر جذبات کو ہی انتہائی طور پر مجردن کیا بلکہ ہر ملک ہر فرقہ اور ہر مذہب کے شریف النفس مسلمانوں کو اس سے سخت صدمہ ہوا.بہت سے محرز غیر احمدی احباب ربوہ پہنچے اور انہوں نے اپنے ولی جذبات کا اظہار کیا.کئی دوستوں نے اختلاف عقیدہ کے باوجود تاروں اور خطوط کے ذریعہ اس سفاکانہ اقدام کے
۲۴۶ خلاف احتجاج کیا.احتجاج کرنے والوں میں نامور ادبا ، قانون دان، ممتاز اطبا استجار سیاسی اور مذہبی رہنما ، ماہرین تعلیم غرضیکہ ہر طبقہ کے اصحاب شامل تھے مثلاً کراچی کے نامور شاعر جناب ادیب سہارنپوری نے چودھری عبد اللہ خان صاحب امیر جاعت احمدیہ کراچی کے نام لکھا.گرامی جناب قبلہ چو دھری صاحب - السلام علیکم حضرت صاحب پر قاتلانہ حملہ کی اطلاع سے یہاں شخص کو سخت صدمہ پہنچا ہے.میں چونکہ مشاعروں کی کثرت کی وجہ سے کئی دن تک ذہنی اور جسمانی طور پہ لاپتہ تھا ، اس لئے یہ غمناک اطلاع مجھے کافی دیر سے ملی.بھائی جان اور گھر کے تمام لوگ رنجیدہ ہیں اور دھاگو ہیں کہ الہ تعالی حضرت صاحب کو جلد صحت یاب فرمائے آمین سمجھ میں نہیں آتا کہ جو شخص کسی بلند مقصد کے لئے خود کو وقف کر چکا ہو، اور جس کا مرنا جینا اپنے لئے نہیں بلکہ پوری قوم یا معاشرہ کے لئے ہو، اس کے متعلق کون بدبخت یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ اس کی جان بیکر کوئی کارنامہ انجام دے رہا ہے یا اپنے لئے مسرت کی گنجائش نکال رہا ہے ؟مگر کیا کیجئے کہ مسلمان قوم کی خصوصیت بھی اس کی دوسری خصوصیات کی طرح اپنی مثال آپ ہے.لعنت ہے اُس بدبخت پر اور بھٹکا ر کور بین پر جو روشنی پر تلوار سے حملہ کر کے خوش ہو.لوگ اسے دیوانہ تو کہ سکتے ہیں لیکن اس کے لئے دوسرا کلمہ خیر ممکن نہیں.حضرت صاحب نے عین اس حادثے کے بعد جو بیان دیا ہے وہ حضرت صاحب کی عالی ظرفی بہادرانہ شان اور جری روح رکھنے والے انسان کے بالکل شایان شان ہے.اس بیان میں اپنی تکلیف یا قاتل کی برائی کی طرف کوئی اشارہ نہیں، بلکہ رضائے الہی پر اپنی ہر چیز قربان کردینے کی جھلک ہے.میرے جذبات اگر آپ حضرت صاحب تک پہنچا سکیں تو ممنون ہوں گا.چودھری اسد اللہ خان صاحب اور چودھری بشیر احمد صاحب کے حادثہ والی اطلاع بھی کافی رنجیدہ تھی خدا کرے یہ حضرات بھی جلد صحت یاب ہوں ، آمین حضرت صاحب کی بیگم صاحبہ اور دیگر متعلقین کی خدمت میں خاص طور پر طائر صاحب کی خدمت میں ہمارے سب کے جذبات اور صحت کی دعائیں پہنچا دیئے.فقط آپ کا ادیب سہارنپوری کراچی ۱۴۴ سے تار پاک ۱۹۵۳ ء کی درمیانی شب کو چودھری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب ربوہ آرہے تھےکہ مینوٹ کے قریب کار کے حادثے میں زخمی ہوگئے.یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے.سے صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب
جناب او تب سهار مہوری کے مکتوب کا مکمل متن دینے کے بعد بعض دوسرے معززین کے بکثرت خطوط میں سے بطور نمونہ چند خطوط کے بعض فقرات بھی درج ذیل کئے جاتے ہیں تاکہ آئندہ نسلوں کو بھی اندازہ لگ سکے کہ ۱۹۵۴ ء میں انسانی ضمیر اور اسلامی رواداری کی آنکھ کتنی حساس اور بیدار تھی اور اس ظالمانہ اور گھناؤنے فعل کو کس طرح انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا :.پنجاب کے ایک مشہور قانون دان اور لیڈر نے لاہور سے لکھا:.مد آج اخبار میں نہیں نے نہایت رنج اور افسوس کے ساتھ آپ پر قاتلانہ حملہ کی جب پڑھی ہسخت صدمہ وا...مسلمانان پاکستان کو متفقہ طور پر اس کی مذمت کرنی چاہیے.کیونکہ ایسے واقعات امن کو برباد اور اسلامی اخلاق و احکام کے سخت منافی ہیں..لاہور سے ایک ماہر معالجات حکیم صاحب نے اپنے خط میں لکھا:.یہ کینہ حرکت دین میں بھی اور دنیا میں بھی حملہ آور کے لئے نقصان اور ذلت کا باعث ہوگی خدا آپ کا حامی و ناصر ہو اور ہے ؟ ۳.اوکاڑہ کے ایک معز یہ تاجر نے لکھا:.عقیدہ کے اعتبار سے میں آپ کی جماعت کا پیرو نہیں ہوں ، اس کے باوجود آپ پر کئے گئے اس حملے سے مجھے بہت دکھ پہنچا ہے.خداوند کریم کا احسان ہے کہ اس کی قدرت نے آپ کو اپنی امان میں رکھا ہے ۴.آزاد کشمیر کے ایک مذہبی لیڈر نے لکھا:.ناہنجار حملہ آور کا یہ عمل نہایت مذموم اور قبیح اور سفاکانہ و ظالمانہ قابل مذمت و نفرت ہے.محض اختلاف عقائد کی بناء پر یہ بین بزدلی و شقاوت دہمیت ہے.....ہر شریف و سلیم العقل کی نظر میں ایسی مجنونانہ حرکات غیر واجب و نا پسندیدہ ہیں.میں فرقہ جعفریہ اثنا عشریہ کا فرد ہوں.اور اس مظلوم قوم و مذہب سے تعلق رکھتا اور منسلک رہنا ہی باعث نجات سمجھتا ہوں جو تیرہ سو سال سے ہر زمانہ میں ہرقسم کے مظالم صبر وسکون سے برداشت کرتا رہا ہے یا.سیالکوٹ سے ایک معزز عہدیدار نے اپنے خط میں لکھا :.جناب والا کی قیمتی جان پر کمینہ اور بزدلانہ حملہ کی ہر مجھ پر بجلی کی طرح گرمی اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر عطا فرمائے تاکہ آپ انسانیت کی رہبری کرسکیں.
۲۴۸ - راولپنڈی سے ایک مشہور ایڈوکیٹ نے لکھا:.گو میں خود احمدی نہیں ہوں لیکن میں اس امر کا قائل ہوں کہ حضرت اقدس مرزا صاحب نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے.اور ایک ایسی جماعت پیدا کی ہے جو اسلام کے اصولوں پر چلنے کی کوشش اپنے خیال کے مطابق کر رہی ہے آج کو ہستان اخبار میں آپ پر حملہ کا پڑھ کر بڑا تعلق ہوا اس ناپاک حملہ کی مذمت رجس قدر کی جائے کم ہے ؟“ ے.جہلم سے ایک ڈاکٹر صاحب نے لکھا.بھی بد بخت نے یہ مکروہ فعل کیا ہے.خدائے قہار وجبار اس سے انتقام لیگا اور ضرور لیگا شکر ہے پر وردگار کا کہ زخم مہلک نہیں ہے.خدائے غفور الرحیم کو بھی آپ سے دین اسلام کا کام لینا منظور ہے، ہیں آپ کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا اور نہ ہی میں احمدی ہوں یہ ، مگر جب میں نے یہ جانکاہ خبر پڑھی آنکھوں میں آنسو آگئے شکر ہے للہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے آپ کو بچا لیا " کراچی سے ایک معزز بزرگ نے (جو ایک ملک کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اب پاکستان کی رعایا میں لکھا.دیروز در روزنامه جنگ" خوانده دلم را خیلی تکلیف رسید.که کدام شقی القلب باعث ہلاکت جان عزیز میخواست شدن مگر ناکام گشت.خدا در حفظ و امن خود نگه دارد و چنیں ایسے را بردارش براند.امید دارم که بزرگوارم از خیریت خود مطلع خواهند نما شد تاکه باعث تسلی گردد.پروردگار مردان کار را در حفظ و امان خود نگاه دارد ضلع سیالکوٹ سے پاکستان کے ایک مشہور ماہر تعلیم نے لکھا.ہ افسوس ہے کہ ملک میں مذہبی رواداری بہت کم ہے.اور بے خر نوجوان گمراہ کن پروپیگنڈا کے اثر کے نیچے آجاتے ہیں.پنجاب کے ایک مشہور مصنف نے اپنے ایک خط میں لکھا:.یہ پڑھ کر کہ جناب صدر جماعت پر کسی بے دین اور گمراہ شخص نے حملہ کر کے ان کو زخمی کیا نہایت رنج و قلی توار یہ یقین کامل ہے کہ ایسے مصائب پر صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے جماعت کا اپنی تبلیغ دین کی کوششوں کو جاری رکھنا ہر حالت میں جماعت کی ترقی و کامیابی پر منتج ہوگا ہے کراچی سے پاکستان کی ایک بہت بڑی تجارتی کمپنی سے تعلق رکھنے والے ایک معزز دوست نے لکھا.
۲۴۹ ” ہمارے بدنصیب ملک میں جہالت کی وجہ سے مذہبی رواداری کا عدم وجود تعصب دتنگ نظری کی فراوانی اور جہاں مذہبی جذبات کی تشنگی صرف انسانی خون سے ہی بجھائی جا سکتی ہو.انسانیت کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ ہے.ہمارے ملک کے اخبارات کو بالاجماع اس کی مذمت کرنی چاہئے تاکہ ایسے حادثات فاجعہ کا اعادہ نہ ہو کے ۱۲.ایک سٹی مسلم لیگ کے صدر نے لکھا :- ہ میں نے اخبارات میں جناب پی.ایک سفا کا نہ حملہ کی بابت پڑھا کو ئی ذی فہم شخص ایسے ذلیل اقدام کی مذمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا خدائے بزرگ و برتر کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ عاقبت نا اندیش اپنے سفاک ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکا.یہ المناک واقعہ جہاں حملہ آور کی انتہائی شقاوت قلبی اور بد نطرتی پر دلالت کرتا ہے وہاں ہمارے ملک کی بدقسمتی اور تاریک تقبل کے خطرہ کو نمایاں کرتا ہے.کیونکہ ایسے وحشیانہ رجحانات یقیناً سوسائٹی کے لئے مہلک اور تباہ کن ہیں؟ ۱۳ پاکستان کے ایک مشہور شیعہ لیڈر نے لکھا:."اُمید ہے کہ خداوند کریم کے فضل وکرم سے آپ کی طبیعت اب ما شاء اللہ بہت اچھی ہو گی خدا نے بڑا افضل کیا اور جس شخص نے بھی یہ بیہودگی کی اس نے بہت برا کیا.میں نے اُسی دن ایک تاریخی مزاج پرسی کا دیا تھا.لیکن جواب سے محروم رہا.میں تو اُسی وقت ربوہ پہنچتا مگر یہاں کے حالات نے مجھے مجبور کر رکھا تھا.انشاء اللہ عنقریب مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوں گا یا ۱۴ حکومت کے ایک گنہ ٹیڈا فسر نے لاہور سے لکھا:." مجھے پر سن کر انتہائی صدمہ ہوا کہ جناب والا کی ذات پر انتہائی کمینہ حملہ کیا گیا لیکن یہ معلوم کر کے تسلی ہوئی کہ اللہ تعالی نے محض اپنے فضل سے جناب کو محفوظ رکھا.اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے پیاروں کو ابتلاؤں میں ڈالتا چلا آیا ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک ابتلا تھا جس سے آپ کے درجہ کے لوگوں کو گزرنا پڑا، پیچ کابول بالا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقصد میں کامیاب کرے جس کے لئے اس نے آپ کو پیدا کیا اور ہمیشہ آپ کا حافظ و ناصر ہو ۲ له الفضل ۲۳ مارچ ۵شائه ص ۱
۲۵۰ ۱۵.حکومت پاکستان کے ایک ریٹائرڈ گنہ ٹینڈ آفیسر (جو بڑی ذمہ داری کے عہدہ پر متعین تھے) نے لکھا:.آپ پر قاتلانہ حملہ کی خبر اخبارات میں پڑھ کر جس قدر تشویش ہوئی ہیں اسے الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں.بارگاہ عالی میں سربسجود ہوکر شکریہ اداکیا.کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے آپ کی جان بچا لی اور بنزول ملزم اپنے ناپاک عزائم میں ناکام رہا.احمد شہ دکھاکرتا ہوں کہ شانی مطلق آپ کو شفا کا ملہ و عاجب لہ عطا فرمائے.آمین لاہور میں تمام ذمہ دار اخبارات ہیں اس حملہ کی مذمت کی گئی ہے اور ان دنوں ہزاروں کی تعداد میں خطوط موصول ہو رہے ہوں گے.لیکن براہ کرم مجھے بھی اپنی صحت کی نسبت مطلع فرمائیں.اخبارات کی خبروں سے تسکین نہیں ہوتی..لاہور کے ایک معزز تاجر نے لکھا:.معلوم ہوا ہے کہ کس شخص نے آپ کے اگر پر دار کیا ہے مگر خدا وند کریم نے آپ کو محفوظ رکھا ہے.اور اب صحت اچھی ہے.خداوند کریم فضل کرے.میں بیمار ہوں.ورنہ خود حاضر ہوتا.اس لئے اپنے عزیزہ کو آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں.ان کے آنے پر دل کو تسلی ہوگی " ۱۷.ایک ریٹا ئر ڈسی ہیں.پی آفسر کراچی نے لکھا:.مجھے یہ خبر پڑھ کر دلی رنج و افسوس ہوا کہ آپ یہ بزدلانہ حملہ کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے.کہ اس نے آپ کو محفوظ رکھا.مجھے آپ کے ساتھ دلی ہمدردی ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے" ۱۸.ایک ایم ایل.اسے نے اپنے خط میں لکھا.مراه آپ پر حملہ سے بے حد پریشانی اور افسوس ہوا.باری تعالیٰ نے بے حد فضل و کرم کیا ہے کہ آپ اس بزدلانہ اقدام سے محفوظ رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوم کی رہنمائی کیلئے زندہ و سلامت رکھا.مولیٰ کریم آپ کا سایہ تا دیر سلامت رکھے سے پنجاب کے مذہبی لیڈروں کی طرف سے قاتلانہ حملہ کی میت اوہوں کے استاد نہ میں بیڈروں کی له الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۵۳ متر
۲۵۱ طرف سے قاتلانہ حملہ کی واضح لفظوں میں مذمت کی گئی چنانچہ لکھا.ار خطیب مسجد وزیر خان مولانا ابو الحسنات نے اس سلسلہ میں ایک بیان میں کہا کہ "اسلام اپنے پیروں سے ایک انبیاتی احد عادلانہ نظام کی حتی ضمانت کا مطالبہ کرتا ہے جو ختم نبوت کا عملی نفاذ اور دین کی اصلی عظمت کا اہتمام ہے.مشرقی بنگال کے افسوس ناک واقعات کے بعد ربوہ کا یہ واقعہ اسلامی احساس ذمہ داری کے موثر نفوذ میں جس کسی کا پتہ دیتا ہے.وہ بے حد رنجیدہ اور تعجب خیز ہے.ایسے اقدامات نہ صرف امن کو برباد کرنے والے ہیں، بلکہ اسلامی اخلاق و احکام کے مخالف ہیں.مجھے یقین ہے کہ حکومت اور عوام اس بارہ میں ذمہ دارانہ عاقبت اندیشی سے کام لیں گے اور سد باب کی ایسی موثر ندا پر اختیار کریں گے جو ان تمام امکانات کو ختم کرے جو تشہد و ظلم کا موجب بن سکتے ہیں؟ - مولانا وارو د غزنوی نائب صدر جمعیت العلماء السلام نے کہا و میں نے نہایت افسوس کے ساتھ آج کے اخبارات میں مرزا بشیرالدین محمود پر قاتلانہ حملہ کی خبر بھی.حملہ آور کے متعلق ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کون شخص ہے.اور کس جماعت سے تعلق رکھتا ہے.اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حملہ آور مرزا صاحب کی جماعت کے اس حصہ سے تعلق رکھتا ہو جیسے مرزا صاحب کی ذات سے شدید اختلافات ہیں یا یہ حمل مرزا صاحب کی جماعت اور عام مسلمانوں کی چفلش کا نتیجہ ہوں.بہرحال ملک میں کوئی گوشہ فکر ایسانہ ہو گا.جواس قسم کی متشدانہ حرکات کو پسند کرتا ہوں میری بی نظمی رائے ہے کہ نہ میں با سیاسی اختلافات کی نا پر نانماند حملوں یا تمندانہ کاروائیوں کی اگرا جازت دی گئی یا حوصلہ افزائی کیگئی.تو فسادات کا نہ ختم ہو نیوالہ سلسلہ شروع ہو جائے گا.اور یہ ملک وملت کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہوگا.اس لئے غیر مبہم الفاظ میں کیس اس افسوسناک واقعہ کی مذمت کرتا ہوں.اور یہ قطعی رائے رکھتا ہوں کہ اس قسم کی نقش دانہ سرگرمیاں مسائل کے حل کرنے میں کسی طرح مدد نہیں دے سکتیں.بلکہ سراسر نقصان دہ ہوتی ہیں.کیونکہ تشدد کو روکنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تشدد کرنا پڑتا ہے.اور معمولی تشدد کے مقابلہ میں وسیع پیمانہ پر تشدد کیا جاتا ہے، اس وقت وہ اندھا اور بہرہ ہوتا ہے اور قصور وار اور گنہگار کا امتیاز نہیں کرتا.اور قوم بحیثیت مجموعی نقصان عظیم کی متحمل ہوتی ہے.آل مسلم پارٹیز کنونشن کی مجلس عمل کے رکن ماسٹر تاج دین انصاری نے اس واقعہ کی مذمت کر تے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس احمقانہ فعل کی سخت مذمت کرتے ہیں کیو نکہ عقیدہ ختم نبوت کا ایسی حرکتوں سے کوئی تعلق نہیں.
۲۵۲ آپ نے مزید کہاکہ ہم ہمیشہ تشدد کی مخالفت کرتے رہے ہیں خواہ وہ کسی طرف سے ہو.اور آئندہ بھی ہم تشدد کی مذمت کرتے رہیں گے.اے ۳ سابق سالار جیوش احرار اسلام پنجاب جناب الحاج محمد مسرور صاحب نے بیان دیا کہ ہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے اختلافات اور نوعیت کے ہیں ان کی آڑ لے کر کسی جماعت کے سربراہ پاخانہ حملہ کرنا نہ صرف غلط اقدام ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی بھی ہے.ہے اس سانحہ ہو شر با پر برصغیر پاک و ہند کے پر لیں بر صغیر پاک و ہند کے پریس کا زیر دست احتجاج نے انتاجی ادارے پر قلم کئے جن میںسے بطور نمونہ بعض کا تذکرہ کیا جاتا ہے.مغربی پاکستان ) روزنامہ سول اینڈ ملٹری گرے لاہور نے اپنی امت مورد ۲ یا ۱۹۵۴ء میں تھا.Dangerous Creed The attack on the life of the Head of the Ahmadiyya Commu- nity at Fabwah will be condemned by all right-thinking men as an act of religious fanaticism which has not only no sanc- tion in Islam but is, in fact, a gross libel on this great religion which gave humanity 14 centuries ago the gospel for freedom of conscience, tolerance and respect for honest differences of views which today form the rallying values of the democratic world.A religion which teaches: "there shall be no compul- Founder had the breadth human sion in religion", whose sympathies to invite Christians to own mosque and who rose hold sunday service in his to his feet to show respect, to کے نوائے وقت ۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء سمحواله الفرقان احمد نگر ار بوه فروری.ماریج ۱۹۵۴ء ص ۵ سے نوائے وقت (لاہور) ۶ ار تاریخ ۱۹۵۴ء صف
۲۵۳ a Jews' funeral, cannot possibly have anything in common with the Mulla creed that apostates must be put to death.Carried to its logical conclusion every Muslim must rush at the throat on a fellow-Muslim for there is no sect which has not been declared Kafir and apostate by some other sect.1 is time the Ulema 'revised this dangerous creed pregnant with the most deadly germs to scatter Pakistan's solidarity to the four winds.As a matter of fact the brotherhoud of all Muslims irrespective of sects or schools should have been the corner- stone of Pakistan's constitution.If it is a fact that Pakistan can stand only on the foundation of unity, it is equally a fact that the Kalima-e-Tayyeba which is common to all Muslims can alone be the corner-stone of the unity.(Civil & Military Gazette: March 12, 1954) ترجمه : مرزا البشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی زندگی پر جوحملہ کیا گیا ہے.وہ ملک کے سمجھ دار طبقہ کے نزد فعل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.نہ صرف شریعیت اسلامی میں اس کا کوئی جواز نہیں بلکہ یہ اس مذہبی رواداری کی روح کے بھی خلاف ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے اس دنیا کو عطا ہوئی تھی.آج بھی وہ آزادی ضمیر کا پیغام جو چودہ سو سال پہلے دنیا کو دیا گیا تھا جمہوریت کی بنیاد ہے.وہ مذہب جو یہ سکھاتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں.اور جس کے بانی نے یہاں تک
۲۵۴ وسعت قلبی کا ثبوت دیا کہ اس نے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں اپنی عبادت ادا کرنے کی اجازت دی.اور جو ایک یہودی کے جنازے کے احترام کے طور پر کھڑا بھی ہو گیا.وہ یقیناً آج کے ملازم کے شدید خلاف ہے.آج کا ملا ازم یہ چاہتا ہے.کہ اس کے ساتھ اختلاف کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے.اگر اس اصول پر عمل کیا گیا.تو غالبا پاکستان میں کسی کا گلا بھی سلامت نہیں رہے گا.کیونکہ کوئی ایسا فرقہ نہیں جس نے دوسرے فرقے کو کافراور مرتد نہ قرار دیا ہو.ابھی وقت ہے کہ ہمارے علماء اس قسم کی خطرناک فرقہ وارانہ ذہنیت پر ٹھنڈے دل سے غور کریں.کیونکہ یہ وہ ذہنیت ہے.جو پاکستان کی سالمیت پر ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے.واقعہ یہ ہے کہ تمام پاکستانی مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور انہیں ملک کے نظام میں برابری کا درجہ حاصل ہے.اگر ہمارا مقصدیہ ہے کہ تمام پاکستان وحدت کی مضبوط بنیاد پر کھڑا ہو جائے تو پھر ہمیں یہ انا پڑے گا کہ کلمہ طیبہ ہی ہماری وحدت کی بنیاد بن سکتا ہے.- روز نامہ پاکستان ٹائمز لاہور نے اپنے ۱۳ ماپر 9 سٹر کے ایڈٹیوریل نوٹ میں لکھا :.Editorials on the Rabwah Incident (Excerpts) the life of Mirza Bashir-ud-Din The recent attempt on Mahmud Ahmad, Head of the Ahmadiyya Community.will un- doubt dly be condemned by every section of opinion in Pakistan.It is not yet known whether the assailant was motivated by a personal grudge or prompted by his streng disapproval of the Ahmadiyya commu.the religious or political activities of Rabwah incident has no more nity.In the former case significance than any other similar crime; but if the young man was guided by his political and religious convictions, his action deserves the serious attention of all those who are in a position to influence and mould public opinion.the However
۲۵۵ strong such differences of opinion may be, the use of the dagger or the bullet to further a particular point of view can- It should also: be realised that not be tolerated or justified.individual terrorism usually defeats the very purpose for which it is employed and often produces repercussions contrary to those derived.We fully endorse the statements on the Rabwah incident given by Maulana Abul Hasanat, Maulana Daood Ghaznavi, and Master Taj-ud-Din Ansari and earnestly hope that all Pakistanis will discourage the development of a trend which can do untold harm to the country.(The Pakistan Times: March 13, 1954) حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد امام جماعت احمدیہ پر جو قاتلانہ حملہ ہوا ہے.بلاشبہ ملک کی رائے عامہ کے ہر گوشے سے اس کی شدید مذمت کی جائے گی.ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ قاتل کا کوئی ذاتی عناد اس فعل کا محرک تھا یا جماعت احمدیہ کی مذہبی یا سیاسی مساعی سے شدید اختلاف کی بنا پر اس نے ایسا کیا ہے.اول الذکر صورت میں ربوہ کا یہ حادثہ اسی نوعیت کے دوسرے جرائم سے کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتا.لیکن اگر اسی نوجوان کے سیاسی یا مذہبی عقائد اس کا باعث بنے ہیں تو یقینا ان تمام لوگوں کو جو صاحب اثر ہیں اور رائے عامہ کو سدھار سکتے ہیں.اس طرف اپنی پوری توجہ کہ نیکی ضرورت ہے.اختلاف رائے کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو، لیکن ایک خاص نقطہ نظر کی خاطر گولی یا خنجر کا استعمال کبھی بھی مبنی بر انصاف اور درست نہیں سمجھا جا سکتا، یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ انفرادی دشت انگیزی عموماً اس مقصد کو فوت کر دیتی ہے جس کے حاصل کرنے کے لئے ایسا اقدام کیا گیا ہو، بلکہ اکثر اوقات اس مقصد کے بالکل برعکس نتائج پیدا کرتی ہے.ربوہ کے اس حادثہ کے متعلق مولانا ابو الحسنات مولانا داؤد غزنوی اور ماسٹر تاج الدین انصاری نے جو بیانات دیئے ہیں ، ہم اس کی پوری تائید کرتے ہیں اور اس بات کی کلی امید رکھتے ہیں کہ ہرپاکستانی اس قسم کے رجحانات کو جس سے
۲۵۶ ملک کو نا قابل بیان نقصان پہنچ سکتا ہے، ہرگز بڑھنے نہیں دے گا.- اخبار مغربی پاکستان (۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء) نے اپنے ایڈیٹوریل نوٹ زیر عنوان افسوسناک حرکت میں لکھا.قادیانی عقائد سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود ہمیں یہ خبر پڑھ کر سخت رنج ہوا کہ مرزا بشیر الدین محمود خلیفه قادیان پر کسی نا معلوم نوجوان نے حملہ کر دیا ہے.ہمارا یہ سوچا سمجھا ہوا موقف ہے، کہ عقائد کا اختلاف سراسر واتی مسئلہ ہے اور اگر کسی وجہ سے عقائد کا اختلاف ذاتیات سے قومی اور اجتماعی مسئلہ بھی بن جائے نسب بھی کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا.کہ وہ اپنے مخالف کو بالحبر اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے اور خنجر دستان کو اپنے موقف کی دلیل نبہانے پر اصرار کرے.اس کے علاوہ یہ حرکت انتہائی غیر اسلامی ہے.اسلام کا سب سے شاندار اور انتہائی مستحسن اصول یہی ہے کہ دوسرے دین کے کسی بزرگ کے خلاف گستاخی نہ کی جائے اور کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کیا جائے جس سے دوسرے فرقہ والوں کے جذبات کو ٹھیس لگے اور اسلام کی اس واضح اور غیر سیم تعلیم کے پیش نظر بھی مذکورہ نوجوان کی جاہلانہ اور دیوانگی کی رک سخن نہیں سمجھی جائے گی.اور پاکستان کے فہمیدہ طبقے کا کوئی فرد اس حرکت کی تائید نہیں کرے گا رہے ۴ روز نامہ ملت لاہور نے اپنی اشاعت مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء میں قاتلانہ حملہ کے عنوان سے ذیل کا اداریہ لکتھا.قاتلانہ حملة امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود صد صاحب پر کسی نامعلوم نے قاتلانہ حملہ کیا ہے.لیکن تادم تحریر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حملہ آور کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے.اور آیایہ جملہ کسی ذاتی رنجش کا نتیجہ ہے یا اسی فرقہ وارانہ ناقشت کا ایک اور افسوسناک مظاہرہ ہے جس کے شعلوں نے پارسال پنجاب کے اس دامان کو خاکستر کمر ڈالا تھا.بہر حال اتناظاہر ہے کہ یہ حملہ کسی اختلاف رائے ہی کی بنا پر ہوا ہے.لیکن اختلاف رائے کا ازالہ قاتلانہ حملوں کے ذریعے سے اول تو ممکن نہیں.اگر ہو بھی تو اُسے کسی صورت میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ مچھر سیاست چل نکلے تو جمہوریت انجام کار خود اپنے ہا تھوں سے اپنا گلا کاٹ لینے پر مجبور ہو جایا کرتی ہے.ان حالات میں کوئی ہوشمند انسان اس حملہ کی خدمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا.جو بزدلانہ ہی نہیں.جواله الفرقان - فروری - مارچ ۱۹۵۴ م صت |
Yac غیر مآل اندیشا نہ بھی تھا.ہمیں یقین ہے کہ اس جمہوریت کش رجمان کے ہولناک نتائج کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے تمام فرقے اور جماعتیں یک زبان ہو کہ اس کی مذمت کریں گی.تاکہ اس تباہ کن ذہنیت کے جراثیم پروپگنڈا کی زہر آلود فضا میں پرورش پاکر معاشرے کے رگ وپے میں پوری سرعت و شدت سے سرایت کرنے کی بجائے اپنی موت آپ ہی مر جائیں " اے -۵ روز نامہ تعمیر راولپنڈی (۱۳ مارچ ۱۹۵۷ء) نے مرزا بشیر الدین پر حملہ کے زیر عنوان حسب ذیل شذرہ شائع کیا :- احمدی فرقہ کے راہ نما مرزا بشیرالدین محمد پر حملہ کی بر بڑھ کر ہر صحیح الخیال مسلمان کو رنج ہو انگورا گرچہ حملہ آور کے متعلق ابھی تک کوئی تفصیل معلوم نہیں ہوسکی لیکن وہ جس فرقہ اور عقیدہ سے بھی تعلق رکھتا ہو اس کی حرکت بلا شبہ مذموم ہے، اور اگر اس نے یہ کام کسی مذہبی جوش کی بنا پہ کیا ہے تو یقیناً اس نے اپنے مذہب کی تعلیمات کو غلط سمجھا ہے.اور ان کے خلاف عمل کر کے اس مذہب کے پیروکار ان کو شرمندہ کیا ہے...مذہب اور عقائد کے اختلافات اور دوسروں کے نظریات پر ناپسندیدگی کے اظہار کیلئے تشدد کے طریقے اختیار کرنے کو دنیا کے ہر مذہب نے برا ٹھہرایا ہے.لیکن اسلام نے جس کا پیغام امن و سلامتی اور رواداری کا پیغام ہے.ایسے طریقوں کی خاص طور پر مذمت کی ہے.ذاتی خواہشات کی بنیاد پر اور رنبش کے اظہار کیلئے بھی ایسے طریقوں کا استعمال ہر سو سائٹی اور ہر قانون میں ممنوع رہا ہے.لیکن مذہبی یا سیاسی نظریات کی بنیاد پر ایسے افعال اور بھی زیادہ مردہ سمجھے گئے ہیں کیونکہ اس سے پوری سوسائٹی پر برا اثر پڑتا ہے.اسی لئے ہم اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے بہ امید کرتے ہیں کہ حملہ آور کا برا قدام کسی مذہبی جذبہ کا نتیجہ نہیں تھا ہمیں یہ بھی امید ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما اس قسم کے واقعات کے اعادہ کو روکنے کے لئے عوام کی ذہنی اور اخلاقی اصلاح کی پوری کوشش کریں گے.ہوسکتا ہے کہ اس قسم کے انفرادی واقعات کا مذہبی تعصبات سے کوئی تعلق نہ ہو.لیکن ایک اسلامی ملک کے شہری ہونیکی حیثیت سے مختلف مذہبی عقائد رکھنے والوں اور اقلیتوں کے بارہ میں ہم پر خاص احتیاط ضروری ہے کیونکہ ایسے تمام لوگوں کی حفاظت ہم پر مذہب کی طرف سے بھی واجب ہے.سے ل ما وصل بحوالہ الفرقان فروری مارچ ۱۹۵۴ء مٹ
۲۵۰ اخبار عوام لائل پور (۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء) نے لکھا.ہم بغیر کسی تمہید کے سب سے پہلے اپنے ان جذبات کا اظہار کر دینا چاہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود صاحب پر حملہ حد درجہ قابل مذشت ہے.- جناب حمید نظامی صاحب ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت نے لکھا:.ابھی تک وثوقی کیساتھ یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ حملہ آور کون ہے؟ اور اس کا مقصد کیا تھا ؟ حملہ کا محرک جذبہ ذاتی تھا یا حملہ آور مرزا صاحب ہی کی جماعت سے تعلق رکھتا ہے یا اس کے مذہبی عقائد مرزا صاحب سے مختلف ہیں اور حملہ کی وجہ یہ اختلاف ہے ؟ تادم تحریر کسی سوال کا بھی یقینی جواب نہیں ملا.بہر حال ہمیں خوشی ہے کہ مولانا و او د احمد غزنوی، مولانا ابوالحسنات محمد احمد اور ماسٹر تاج الدین نے غیر مبہم الفاظ میں اس حملہ کی مذمت کی ہے.اور یہ کہا ہے کہ اختلاف عقائد کی بنا پر تشدد کا استعمال ایک نامناسب ناجائز خطر ناک اور تعلیمات اسلامی کے منافی فعل ہے.کوئی نہیں شخص اس معاملہ میں ان حضرات کے خیالات سے اختلاف نہیں کرے گا.کہ عقائد کے اختلاف کی بنا پر تشدد کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی گئی.تو ایک ایسا خطر ناک اور ناپاک چکر شروع ہو جائے گا کہ کسی کی زندگی محفوظ نہ رہے گی" سے 1900 کوئیٹہ کے ہفتہ وار اخبار انبار نے اپنی اشاعت مورخه ۱۹ر پاس نہ ( جلد نمبر 1 میں لکھ دینکو ولی دین کے زیر عنوان لکھا :.قادیانی فرقہ کے پیشوا مرزا بشیر الدین محمود احمد پر قاتلانہ حملہ کی اطلاع ملی ہے ، اب تک اس کا پس منظر معلوم نہ ہو سکا اور نہ اس عقدہ کی گرہ کشائی ہوئی ہے کہ یہ ایک فرد واحد کا انفرادی فعل تھا یا کسی منظم سازش کا نتیجہ.بہر کیف یہ حادثہ انتہائی اندوہناک ہے.اور قادیانیت سے اختلاف رکھنے کے باوجود ہم اس قسم کی انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں.تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ نظریہ حیات خواہ کیسا ہی ہو.کبھی نشد و قتل و غارت گری سے ختم نہیں ہوا.بلکہ حق و باطل طاغوت د ایمان کے تصادم میں ہمیشہ نظریہ اور نظریہ کی آویزش رہی ہے.اور جو بھی نظریہ حیات انسانی کے مطابق اور انسانیت کے موافق رہا ہے.وہ دوسرے تمام نظریات پر حاوی ہو گیا ہے.خود مذہب اسلام نے تشدد و بربریت اور جبر کے خلاف جہاد کی تاکید سه مسجداله الفرقان ربوہ - فروری - پارت ۱۹۵۴ اومت کے نوائے وقت ۱۴۳ مارچ ۱۹۵۷ء مث
۲۵۹ کی ہے.اور واشگاف الفاظ میں دین میں جبر کرنے کے خلاف فتویٰ دیا ہے سورۃ الکافرون خودرو اداری فراند لی اور بلند حوصلگی کی تعلیم دیتی ہے.لکھ دینکم ولی دین ان تمام حقائق و معارف کی روشنی میں موسمون پر حملہ انتہائی شرمناک امر ہے اور ایک مجنونانہ فعل ہے اور اس قسم کے تشدد سے مسائل کا حل تلاش کرنا انتہائی غلط ہے اسے شرقی پاکستان در شہور بنگہ اخبار" ملت نے سوار مارچ ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں اس حملہ کی مذمت کرتے ہوئے لکھا:.ایک خبر سے معلوم ہوا ہے کہ احمدیہ جماعت کے امام جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد کو ایک غیر معروف دشمن نے لاہور کے ربوہ نامی مقام پر چاقو سے زخمی کر دیا ہے.جناب مرزا صاحب پر اس وقت حملہ کیا گیا، جبکہ آپ رات کی نماز کے بعد گھر جارہے تھے.ان کو بچاتے ہوئے دو اور آدمی بھی مجروح ہوئے ہیں.یہ خبر دردناک ہے.لیکن اس مذموم حال کے پیچھے جو مقصد پو شیدہ ہے.وہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا مذہبی امور میں اس قسم کے حاسدانہ طریق کو اختیار کرنا نہایت افسوسناک امر ہے.احمدیہ جماعت کے عقائد کے ساتھ ہمارے عقائد کے بہت سے اختلاف رہ سکتے ہیں.لیکن اس بنا پر جماعت احمدیہ کے امام پر اس قسم کے مجرمانہ حملہ کی کوئی شخص آزادی ضمیر کے ساتھ تائید نہیں کر سکتا یہ مذموم فعل پاکستان کے لئے میرے ایام کا آغاز ہے.ہم امید کرتے ہیں کہ اس حادثہ کے تحت میں جس قسم کا مذموم ارادہ بھی پوشیدہ کیوں نہ ہو گو رنمنٹ اس کی پور سی تفتیش کر کے مجرم کو پوری سزا دینے کا طریقہ اختیار کرے گی.لے (ترجمہ).بنگلہ زبان میں شائع ہونے والے مشہور اخبار آزاد ڈھا کہ نے اپنی اشاعت مورخہ ۴ ار ما رح ۱۹۵۴ء میں حسب ذیل اوار یہ تحریہ کیا :.احمدی جماعت کے امام حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد کو ایک شرع النفس نے چاقو سے حملہ کر کے نہایت کاری ضرب لگائی ہے.لاہور کی ایک خبر سے ظاہر ہے کہ وہاں امن عامہ میں خلل واقع ہونے کے خوف سے ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا ہے.ہم اس قسم کے بزدلانہ حملہ کی خدمت کئے بغیر نہیں رہ سکتے.ہم امید کرتے له سحواله الفضل یکم اپریل ۹۵۴ له صدا سے سجواله بدر "قادیان - ۲۱ اپریل
کہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب جلد صحت یاب ہو جائیں گے.ہم سب کی خواہش ہے.کہ اس کی وجہ سے پنجاب میں کسی اور جگہ بدامنی نہ پھیلنے پائے.نیز ہم امید کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کی فوری اختیاط اور تعاون سے وہاں امن قائم رہے گا ہ سے (ترجمہ) مشرقی پاکستان کے اردو اخبار انگارا نے زیر عنوان ایک ناز یبا حرکت“ لکھا:.پاکستان اور بھارت کے پرسنجیدہ اخبار نے خلیفہ قادیان جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب پر ایک فرد کے محلہ کی سنسنی خیز خبر شائع کی ہے اور مشرقی پاکستان کے بیشتر اخبارات نے اس مذموم حرکت کے خلاف اداریے.سپرد قلم کئے ہیں، اس لئے عقائد میں اختلاف کے باوجود ہم بھی صحافتی فرائض ادا کرنے پر مائل ہوئے ہیں یوں تو پیشوایان مذاہب اور سیاسی قائدین کی جانیں ہمیشہ خطرہ میں رہتی ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ پاکستان جیسی نوزائیدہ مملکت میں جس کی بنیاد اعلیٰ ترین روحانی قدروں پر رکھی گئی ہے.مذہب یا عقیدہ کے اختلاف میں خنجر کو ثالث بنانا بہت مضر ثابت ہوگا.کیونکہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے.اور خراب افعال کی تقلید کرنے والے بہت آسانی کے ساتھ بیدار ہو کر تخریبی سرگرمیوں کی وجہ سے اجتماعی امن کے لئے خطرات کا موجب ہو جاتے ہیں.سرزمین پاکستان میں اسلام کے نام پہ فرقوں کی کثیر آبادی موجود ہے.اور اس کے ساتھ ساتھ پھل پھول رہی ہے اور سب کو اپنے اپنے عقائد کی پرامن تبلیغ واشاعت کا پورا پورا حق حاصل ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کی عظمت میں روزانہ چار چاند لگ رہے ہیں.احمدیوں اور دوسرے عقائد کے مسلمانوں کا مسئلہ خالصتہ ایک اختیاری اور عقیدہ کا مسلہ ہے.اور ان کو اسلام کی اعلیٰ ترین تعلیمات کی روشنی میں خود ہی اپنے اپنے افعال کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے.اسی کے ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے.کہ ایک فرد کی مجنونانہ حرکت سے کسی پوری قوم کو اس کا ذمہ وار قرار نہیں دیا جا سکتا ہم امید ہے کہ اس حادثہ کو صرف ایک انفرادی حرکت سے تعبیر کیا جائیگا.اور احمدی فرقہ کے حضرات اور دوسرے مسلمانوں کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے.ڈان کے نمائندہ مقیم لاہور نے جو رپورٹ روانہ کی ہے.اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت پنجاب نے اس حملہ کے بعد پورے صویر میں احتیاطی تذا ہر اختیار کرلی ہیں.تاکہ ایک فرد کے مجنونانہ فعل سے اجتماعی امن کو خطرہ پیدا نہ ہوجائے.اور ہم اس کے لئے حکومت پنجاب کی انتظامی صلاحیت کی داد دیتے ہوئے تمام سے بحوالہ بدر، قادیان ۲۱ را پریل ۹۵۳ ه صدا
پاکستانیوں سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ عقائد میں اختلاف کو شخصی دشمنی کا محرک بنانے سے گریز کریں.اور اسلام کے اس اہل نظریہ کو پیش نظر رکھیں کہ تم اپنے دین پر ہو اور ہم اپنے دین پر لا اکراہ في الدين وغيره.تازہ ترین اطلاع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے.کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد خطرہ کے دور سے گزر چکے ہیں اور پولیس بہت سرگرمی کے ساتھ مصروف تفتیش ہے.ہماری خواہش ہے کہ پاکستان میں تمام مذہبی اختلافات کو مباحثوں و مناظروں اور تحقیق سے طے کرنے کی بجائے نفرت اور تشدد کے ہتھیاروں کو استعمال نہ کیا جائے.اس کا نتیجہ مفید ہونے کی بجائے انتہائی مضر ہو سکتا ہے یہ سے ہفتہ وار اخبار آواز حق (منظفر آباد) نے اور مارچ ۹۵ نہ کی اشاعت میں زیر عنوان آزاد کشمی قابل صد مذمت" لکھا : یہ خبر بہایت افسوس کیسا تھ سنی گئی کہ کسی بدر کر دار شخص نے احمد یہ جماعت کے امام مرزا بشیر الدین محموداحمد پر قاتلانہ حملہ کیا.شکر ہے کہ مرزا صاحب بچے گئے ہیں.اور حملہ آور کوبی موقعہ گرفتار کر لیا گیا ہے.یہ حملہ یقینا بزدلانہ حرکت ہے.جس کی ہر صائب الرائے انسان قدمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا.کون نہیں جانتا کہ مرزا صاحب اور ان کی جماعت کے عقائد کے ساتھ بہت سے لوگ اتفاق نہیں کرتے.لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اختلاف رائے کی بنا پر کسی کی جان لی جائے.اور وہ بھی بزدلوں کی طرح چوری چھپے اور گھات میں رہ کرہ فرانس کے مشہور انقلابی فلاسفر والٹیر کا قول ہے :- "I may disagree with all what you say, but 1 will fight unto death for your right to say so." یعنی ایک صحیح جمہوریت پرست اپنے مخالف سے کہتا ہے.کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں.اس کے ساتھ میرا کوئی اتفاق نہیں ہے.لیکن آپ کے اس حق کی کہ آپ میرے خلاف بھی کہتے رہیں حفاظت کرنے کے لئے اپنی جان بھی دے دوں گا.جمہوریت اور رواداری اسی کا نام ہے.کہ آپ کسی شخص کے خیالات کے ساتھ اتفاق نہ بھی کرتے ہوں تو بھی آپ اس کو اظہار خیال کا موقع دیں.جب تک وہ پرامن طور پر اپنے خیالات کا اظہار سه بحوالہ بدر قادیان - ۲۱ را پریل ۱۹۵۴ ه ص ۲۰
۲۶۲ کرتا ہے.اور لوگوں کو تشدد کی تلقین نہیں کرتا.آپ اسے لکھنے، بولنے ، چلنے پھرنے کی مکمل آزادی دیں.بلکہ اس کی اس آزادی کی بھی حفاظت کریں لیکن محض اختلات عقائد کی بنا پر تشدد اور قتل کی سادش پر اتر آنا اور کیسی کے Cold Blooded murder کی کوشش کرنا جمہوریت، انسانیت اور آزادی پر ایک بدترین حملہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے.اگر اس قسم کی حرکتوں کوکچلی کہ نہ رکھ دیاگیا.تو پاکستان میں کسی بھی شخص کی جان محفوظ نہیں ہے.بڑے سے بڑے حکمران سیاسی تاند ہی لیڈر کاروباری آدمی کو ایک بند دل کرانے کا مٹھ موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے.برا کے آنگ سان وزیراعظم ور اس کی کابینہ مرحوم بیات علی خان اور سر گاندھی وغیرہ کی مثالیں ہاسے سامنے ہیں.ضرورت اس امر کی ہے.کہ موجودہ واقعہ کی مکمل تحقیقات کر کے ان اشخاص کو جن کا اس سے براه را است یا بالواسطہ تعلق ہو، کیفر کردار تک پہنچایا جائے.اور ملک میں رواداری جمہور تبت اور انسانی آزادی کا تحفظ کیا جائے کہ لے بھارت اور روز نامہ ملاپ رنئی دہلی نے مار مارچ سالہ کے ایشوع میں زیر عنوان مرزا صاحب پر جملہ لکھا کہ:.الف پاکستان میں ایک بار پھر بہیجان بیا ہے.دس مارچ کی شام کو ضلع جھنگ کے ایک گاؤں ربوہ میں جو پاکستان کے اندرا حمدیوں کا ہیڈ کوارٹر ہے مرزا بشیر الدین محمود احمد نمازاداکرنے کے بعد سجد سے باہر آ رہے تھے.کہ کسی ایماندار مسلمان نے ان پر چھرے سے حملہ کر دیا.اپنی قسمت سے وہ پکچے گئے.جملہ آور کی کہ پاسے نہیں " ب عملی طور پر قادیانی اتنے ہی اچھے مسلمان ہیں جتنے کہ اور لوگ.یورپ اور ایشیا کے اندر زمانہ بدید میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بیچارے قادیانیوں نے جو کچھ کیا وہ شاید سلمانوں کا اور کوئی طبقہ کبھی کر نہیں سکا.برلن لنڈن اور واشنگٹن میں ہر جگہ آپ کو قادیانی مسجدیں ملیں گی.شکاگو میں ہیں یہ دیکھ کر حیران کہ گیا.کہ وہاں کئی ہزار مسلمان رہتے ہیں.نسل کے لحاظ سے وہ سب نیگرو ہیں.قادیانیوں نے جب دیکھا کہ امریکہ کے نسلی امتیاز سے وہ تنگ ہیں تو انہیں مسلمان و جانیکی ترغیب دی.چنانچہ اب وہ با قاعده شمان نہیں لیتے له بحواله الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۵۳ / ۳۰ ر امان ۱۳۳۳ بیش ص ۱-۸ سے سمجحواله الفرقان ماہ فروری مارچ انه ص ۸ - ج A-1.
۲۶۳ - اخبار دلچسپ (مدراس) نے ۲۰ مارچ ۱۹۵۷ء کے الیشور میں زیر عنوان "مرزا بشیرالدین محمود احمد پر قاتلانہ حملہ لکھا.یہ نہایت افسوس ناک ذہنیت ہے کہ معمولی سی معمولی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر فتنہ و فساد کا مرکز بنا دیتے ہیں.اور اس ملک میں جہاں اسلامی قوانین کے لئے رات دن چیخ و پکار ہوتی رہتی ہے.اس اسلام ہی کی خلاف ورزی عمل میں آرہی ہے.یسلم قوم کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف تو بند بانگ اسلامی دعوے ہوں.اور دوسری طرف ان دھوؤں کا رد عمل شروع ہو جائے اس سلسلہ میں حال کی افسوسناک طلاع سے سنجو بی ظاہر ہو سکتا ہے.کہ لاہور سے سو میل کے فاصلہ پہ ریوہ نامی مقام پر مولانا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ پر دن دہاڑے محلہ ہوا.اور وہ بھی کسی غیر قوم کے فرد سے نہیں بلکہ ایک مسلمان کے ہاتھوں.یہاں یہ بتانا ضروری نہیں کہ حملہ کس لئے ہوا لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ حملہ کر نے والا کون ہے ؟ اور کس بنا پہ اس حملہ کی اس میں جرات پیدا ہوئی یہ مانی ہوئی بات ہے.کہ عام طور پر ذاتی عناد پر ایک دوسرے سے اختلافات رونما ہوتے ہیں.اور فساد کی نوعیت اختیار کر جاتے ہیں.اگر بنظر غور دیکھا جائے تو یہ اختلاف کسی ذاتی عناد و دشمنی سے نہیں بلکہ عقائد کے اختلاف کی بناپر عمل میں آیا.یوں تو ہم احمدی نہیں، اور نہ ہی ہم تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں، کہ احمدی اپنے عقائد کے لحاظ سے مسلمان نہیں.کیونکہ ہمارے پاس ہر وہ شخص مسلمان ہے.جس کا کلمہ ہمارا کلمہ ہو.جس کی کتاب ہماری کتاب ہو.اور جس کا قبلہ ہمارا قبلہ ہو.اس ضمن میں ہم یہ کہیں گے.کہ ہم نے احمدیوں کے ساتھ رہ کر دیکھا ہے.وہ تو آٹھوں پر تبلیغ کا سودا اپنے سر میں سمائے پھرتے ہیں اور جہاں پہر بھی جاتے ہیں اور جو بات کرتے ہیں اس میں اسلام ہی اسلام ہوتا ہے.اس کا تجربہ تو ہم کو ہار نوجوان بخت دوست اور صحافی بھائی جناب کریم اللہ صاحب نوجوان ایڈیٹر آزا د نوجوان سے ہو گیا ہے.ان کی باتوں سے پایا جاتا ہے کہ احمدی سوائے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے اور کسی چیز کو اپنا مقصد نہیں بتاتے ہاں یہ سچ ہے کہ وہ حضرت مسیح ناصری کے متعلق اپنے عقائد ہم سے کچھ جدا گانہ رکھتے ہیں لیکن اس بنا پر تو کوئی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا.اور نہ اس سے اسلام کے بنیادی اصولوں میں کوئی اختلاف پیدا ہوتا ہے.اس سے جدا ہو کر دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ ہم سے کہیں زیادہ مذہب اور ملت کے قائل ہیں اور اپنا جینا اور مرنا بھی تو اس کے لئے بتاتے ہیں.اور بات ہے بھی کچھ ایسی کہ ان احمدیوں کے اشاعت اسلام والے کارنامے بہت شاندار ہیں.جن کا ہم اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے مغربی ممالک میں اسلام کی احمدیوں نے ایک بھاری خدمت انجام دی ہے ، ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ ہم بنگلور
۲۶۴ جارہے تھے کہ اتفاقاً ایک احمدی بھائی سے ملاقات ہوگئی.رات بھر کا سفر تو اسلام کی باتوں میں گزرا، اور وہ صاحب جو احدی تھے.برابر وقت پر نماز پڑھ لیتے تھے.احمدی بھائی نے تہجد تک کو سفر میں ملتوی نہ کیا اور پھر جب صبح ہو رہی تھی.نماز نمبر بھی پڑھ لی.یہ ایسی چیز ہے جس کو ایک صالح فطرت انسان دیکھ کر تاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.در اصل بات سے بھی کچھ ایسی ہیکہ مسلمان اپنی باتوں کا نقشہ اپنے عمل میں کھینچ دیتا ہے اور اس کسوٹی پر ہم نے احمدیوں کو پور نے اترتے دیکھا ہے.کتنا افسوس کا مقام ہے.کہ عقائد کو اختلاف ر عناد کا مرکز بناکر مولانا موصوف کی جان لینے تک کی ٹھان لی گئی.کہا جاتا ہے مولانائے موصوف عصر کی نمازہ پڑھ کر باہر نکلے ہی تھے کہ کسی شقی القلب شیطان نا انسان نے اُن پر چھرے سے حملہ کر دیا.اور یہ دار آپ کی گردن پر پڑا.لیکن یہ خدائے عزوجل کی قدرت کا کرشمہ تھا.کہ مولانا سے موصوف اس حملہ سے بال بال بچ گئے.اس کے بعد حملہ آور کو فورادو آدمیوں نے گرفتار کر لیا اس گرفتاری میں ان کے زخم آئے.اس جملہ سے دنیا کی دوسری قومیں کیا نتیجہ اخذ کریں گی.کیا اس سے صاف ظاہر نہیں ہوتا کہ مسلمان حبیبی دنیا کی سب سے بڑی قوم جو ہمیشہ سے رواداری اور مساوات کا درس دہراتی آئی ہے.وہ خود قبل از اسلام کی وحشیانہ حرکات کی حامل ہے.کیا ایسے حملے کے بعد دنیا کی تو میں ہماری طرف سے پیش کئے جانے والی قرآنی ہدایات کو اپنا رہنما بنا سکتی ہیں.ایسے جارحانہ عمل کو روکنے کے ہی لئے تو اسلام کا دنیا میں ظہور ہوا.اگر مسلمان اب بھی سنبھلنا چاہیں تو ان کے لئے موقع ہے کہ ایسے وحشیانہ خیالات کو دور کر کے اصلاح عمل کی کوشش کریں.ورنہ وہ دن دور نہیں کہ انہیں اعمال کی وجہ سے دنیا میں ان کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا.اور خود بھی تباہ ہو کر رہیں گے.اور جب خود مسلمان اپنی تباہی کے سامان پیدا کر لیں گے، توارشاد خداوندی کے بموجب ان کو تباہی سے ذرا بھی نہیں بچا سکے گا.اے حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموجو تو نے سالانہ جلسہ حضرت مصلح موعود کا حقیقت افروز بیان پرسی مادر علی کی تفصیل پر بڑی شرح و لسط سے روشنی ڈالی تھی جو حضور ہی کے مبارک الفاظ میں درج ذیل ہے فرمایا :- رو حادثہ مارچ (س) کی دس تاریخ کا واقعہ ہے ، کہ میں عصر کی نماز پڑھنے کے لئے گیا.نماز پڑھ کے سے بحوالہ بدره قادیان ، را پریل 1
۲۷۵ جس وقت میں باہر نکلنے لگا.اور دروازہ کے پاس پہنچا.یہ میں نہیں کہ سکتا کہ میرا ایک پیر باہر آگیا تھا یا نہیں آیا تھا مگر بہر حال میں دروازہ کی دہلیز کے پاس کھڑا تھا.کہ پیچھے سے کسی شخص نے مجھ پر حملہ کیا.وہ حملہ اس شدت سے تھا اور ایسا اچانک تھا.اور پھر چونکہ وہ حملہ مر کے پاس کیا گیا تھا.ایک دم میرے حواس پر اس کا اثر پڑا.اور مجھے یہ نہیں محسوس ہوا کہ کیا ہوا ہے.مجھے یہ علم ہوا.کہ جیسے کوئی بڑا پتھر یا دیوار گری ہے اور اس پتھر یا دیوانہ کی وجہ سے میرے حواس مختل سے ہو گئے ہیں.اس وقت میں اپنے ذہن میں یہ نہیں سمجھتا تھا.کہ زلزلہ آگیا ہے یا کیا ہوا ہے.بس مجھے یہ سمجھاتی تھی.کہ کوئی بڑی سل میری گردن پر آ کے پڑی ہے لیکن ایک جس شعور ہی ہوتی ہے.اور ایک غیر شعوری ہوتی ہے.بغیر شعوری جس کے ماتحت میں نے اُس جگہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا.جس جگہ پر چوٹ تھی.پھر مجھے اتنا یاد ہے کہ مجھے یہ دھندلکا سا معلوم ہوا.کہ میں گر رہا ہوں.اور مجھے کوئی شخص سہارا دے رہا ہے.چنانچہ جو پہرہ دار تھا.اس نے مجھے گرتے ہوئے دیکھ کہ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کو پتہ لگ گیا تھا کہ کسی نے حملہ کیا ہے یا اُس کو بھی نہیں پتہ تھا.بہر حال اس نے یہ دیکھ کر کہ یہ گر رہے ہیں.وہ میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا.اور اس نے اپنا سینہ لگا کے ہاتھ سے مجھے سنبھال لیا.اس وقت مجھے یہ یاد ہے کہ مجھے یوں معلوم ہوا جیسے اس کے کان پر کوئی زخم ہے اور میں یہ سمجھنے لگا.کہ شاید وہی پتھر یا سل جوگری ہے وہ اس کو بھی لگی ہے.اور اس کی وجہ سے اُسے یہاں زخم آیا ہے.اس اثر کے بعد اس نے مجھے سہارا دیگر اہم کھینچا یا ہیں دھکتے میں باہر آگیا.بہرحال مجھ یہ علوم ہوتا تھا کہ جو پھر گیا ہے اس کے دھلنے کی رومیں کہیں نکل کے باہر آگیا ہوں مسجد کے آگے جو دو تین سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں.ان کے اوپر دھکے کے زور میں یا اُس کے کھینچے سے (شاید اُس نے مجھے بچانا چاہا، میرا ایک پیر دیوار کے پرے چلا گیا.اور ایک ادھر رہ گیا.وہ ستات الیسی تھی کہ اگر اس وقت وہ شخص دوبارہ حملہ کرتا.تو میں وہاں سے ہل بھی نہیں سے سکتا تھا.کیونکہ اس دھکتے میں ایک دیوار میری لاتوں کے درمیان تھی اور ایک ٹانگ نیچے اُتری ہوئی تھی.اور ایک ٹانگ سیڑھیوں کے اوپر تھی.خیر اتنے میں کچھ لوگ اندر سے باہر نکل آئے اور انہوں نے کھینچ کر مجھے باہر کیا مگر میں ابھی تک اسی احساس کے نیچے تھا.کہ شاید کوئی پتھر گیا ہے.یا دیوار گری ہے یا خبر نہیں کیا ہوا ہے مگر یہ مجھے محسوس ہوتا تھا.کہ ہاتھ میں نے چوٹ کی جگہ پر رکھا ہوا ہے.یہ مجھے نہیں پتہ لگتا تھا.کہ میں نے ہاتھ کیوں رکھا ہوا ہے اتنے میں اندر سے دوسرے دروازہ میں سے کچھ نمازی نکل کر باہر آگئے.اور وہ میرے سامنے کھڑے ہو گئے ابھی تک کوئی چیز مجھے پوری نظر نہیں آتی تھی.ان کے چہرے بھی دھندہ کے سے نظر آرہے تھے.بہر حال
مولوی ابو العطاء صاحب مجھے نظر آئے.تو میں نے کہا مولوی صاحب ہوا کیا ، یعنی میں بھی یہ مجھ ہی نہیں کہ تھا کہ مجھ پر حل ہوا ہے بہاریں یہ مجھا تھا کہ کوئی پتھرگیا ہے یا زلزلہ آگیا ہے یا معلوم نہیں کیا بات ہوئی ہےاور میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا ہوا ہے یہ دیوار اتفاقی گرگئی ہے یا زلزلہ آیا ہے یا یا ہوا ہے.اس پرانہوں نے ار بعض دوسرے ساتھیوں نے کہا کہ آپ کسی شخص نے حمد کی ہے میں نے کہا اچھا مجھ پر عمل کیا گیا ہے اسوقت مجھے احساس ہوا کہ شاید یں نے اپنا ہاتھ زخم پر رکھا ہوا ہے.چنانچہ میں نے جب ہاتھ دیکھا تو سارا ہاتھ خون سے بھرا ہوا تھا.اتفاقاً کسی کو گھر میں خیال آیا اند اس نے لاہور میں میرے لڑکے مرزا ناصر احمد کو فون کر دیا کہ اس طرح حملہ ہوا ہے مرزا ناصر احد نے مرزا مظفر احمد کو بتایا جو میرا داماد بھی ہے اور بھتیجا بھی ہے.انہوں نے اپنے طور پر دہم نے تو نہیں کہا تھا اور نہ ہمیں خیال تھا، ایک ڈاکٹر کو کہا کہ تم وہاں چلو اور چل کر دیکھو.ڈاکٹر امیرالدین صاحب جو لاہور کے سرجن ہیں.انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالج کے یونیورسٹی کے امتحانات ہو رہے ہیں اور کل میں نے لڑکوں کا امتحان لینا ہے.اس لئے میں نہیں جاسکتا.پھر انہوں نے ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب سے کہا اور وہ ان کو لے کر آگئے.ان کے ساتھ بعض دوسرے ڈاکٹر بھی آگئے مثلاً ڈاکٹر مسعود صاحب پہنچ گئے ڈاکٹر محمود اختر صاحب جو قاضی فیملی میں سے ہیں.(مسعود احمد صاحب بھی قاضی فیملی میں سے ہی ہیں) وہ بھی پہنچ گئے.یہ میو ہسپتال میں کلو فارم دینے پر افسر مقرر ہیں.ڈاکٹر یعقوب صاحب غالبا ان سے پہلے آچکے تھے اور وہ گر بھی گئے تھے.شیخ بشیر احمد صاحب ڈاکٹر صاحب اور چو ہڈی اسد اللہ خان صاحب لاہور سے آرہے تھے.گھبراہٹ میں انہوں نے شاید موٹر تین چلوا دیا.تو موٹر گر گیا.جس کی وجہ سے یہ سارے زخمی ہوئے اور قریباً ہر ایک کی ہڈیوں کو ضرب پہنچی کسی کی کہنی کی ہڈی ٹوٹی اور کسی کی پیسنے کی بڑی ٹوٹ گئی.بہر حال ڈاکٹروں نے زخم کو دیکھا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے نز دیک تھے.اس کا پھرا پر پیشین کرنا پڑے گا.یہیں نے کہا مجھے اتنی کوفت ہو چکی ہے.اور اب رات کے ایک بجے کا وقت قریب آگیا ہے.اگر آپ صبح تک انتظار کر سکیں تو کیا حرج ہے رہ گئے کہ اچھا مشورہ کر کے نہاتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر مسعود صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کہتے ہیں کہ گردن پر درم ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اندر خون جاری ہے اور کوئی رگ پھٹی ہوئی ہے.اس لئے صبح تک انتظار کرنا خطر ناک ہے.اگر اور انتظار کیا گیا تو خون میں زہر پیدا ہو جائے گا.اور انہیں اصرار ہے کہ اپریشن ابھی ہونا چاہیئے چاہے رات کے وقت تکلیف بھی ہوگی.لیکن اپریشن ضرور کرنا پڑے گا.چنانچہ میں اس پر راضی ہو گیا.کہنے لگے ہوش کیا جائے.میں نے کہا مجھے بے ہوش نہ کریں.یونہی اپریشن کرور خداتعالی توفیق دے گا.اور میں اس کو
برداشت کروں گا.چنانچہ ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب آئے ، اور خواب آور ٹیکہ لگوا دیا.پھر ایک گھنٹہ بارہ منٹ تک انہوں نے اپریشن کیا.صفائی کی اور خون کے لوتھڑے نکالے.انہوں نے بعد میں بتایا کہ حملہ سے ایک بڑا حصہ کٹ گیا ہے.دو درمیانی سائز کی خون کی رگیں کٹ گئی ہیں.اور سواد کا اپنے گہرا اور سواد کو اپنے الاعتر عضلات کا کٹ گیا ہے.بہرحال کوئی ایک گھنٹہ بارہ منٹ کام کرنے کے بعد وہ فارغ ہوئے اور صبح چلے گئے.دوسرے دن گردن وغیرہ کی درد کی تکلیف رہی اور چونکہ نہیں گردن کو بہلا نہیں سکتا تھا.اس لئے ایک تکیہ ایسا بنا دیا گیا جس کے بچے میں شگاف کر دیا گیا تاکہ زخم کی جگہ تکیہ پرندے گے.بہرحال آج کل حفظان صحت کے جو قوانین مقرر ہیں.ان کے لحاظ سے ایک عرصہ مقررہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے آرام دے دیا.پو را آرام تو کوئی بائیں ئیس دن میں آیا.لیکن زخم کے ٹانکے شاید آٹھویں یا دسویں دن کھول دیئے گئے.خون کے متعلق بھی دوستوں نے بتایا کہ جہاں تک آپ آئے ہیں.وہاں تمام جگہ پر جیسے خون کے چھیڑے بنے ہوئے ہوتے ہیں.اسی طرح اچھے خاصے چھپڑ بنے ہوئے تھے.وہ لباس جس پر خون لگا ہوا ہے ہم نے اب تک رکھا ہوا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے نشانوں کی مقدمات کا ایک ثبوت ہے حکومت کی طرف سے ان دنوں بڑی ہمدردی کا اظہار ہوا.خود گورنر صاحب کی طرف سے بھی ہمدردی کی گئی.وزیر اعظم صاحب کی طرف سے ایک دفعہ دوسرے نے اور پھر انہوں نے خود بھی فون کر کے بات کی.اسی طرح کمشنر صاحب بھی آئے.ڈی آئی جی بھی آئے.ڈپٹی کمشنر بھی آئے سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی آئے لیکن حکومت ضلع کی مصلحت یہی معلوم ہوتی تھی.کہ اس معاملے کو یہ فع دفع کر دیا جائے.چنانچہ ایک موقع پر ایک بالا افسر نے اس خیال کا اظہار بھی کیا ایسے مقدمات میں پولیس کی طرف سے محمود با عدالت میں کپڑے بھی پیش کئے جاتے ہیں.وہ بھی ایک شہادت ہوتے ہیں.کہ دیکھو یہ خون ے لتھڑے ہوئے ہیں.اور ان سے پتہ لگ جاتا ہے کہ زخم کسی حد تک تھا مگر ہم ہے پولیس نے پہلے خود کپڑے مانگے لیکن جب پیشی کا وقت آیا تو با وجود ان کو کہنا کے بھیجنے کے کہ کپڑے منگوا لیں.انہوں نے نہیں منگوائے گواہوں نے اب یہ خیال ظاہر کیا ہے.کہ کپڑے اس وقت پیش ہوتے ہیں.جب ان کے اندر سے زخم لگے.میں تو قانون دان نہیں.مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ ہے تو پہلے ان کا آدمی کپڑے مانگنے کیوں ނ سے اس سلسلہ میں ۱۲ مئی ۱۹۵۷ء کو حضور کا بیان لالیاں عدالت میں ہوا.
۲۶۸ آیا تھا اس طرح وہ چادر جس میں کہا جاتا ہے کہ ملزم ھاتوچھا کہ بیٹھا تھا وہ بھی پولیس نے پیش نہیں کی.یہ قانون ہے (شاید بعض لوگ نہیں جانتے ہوں گے کہ ایسے فوجداری مقدمات میں گورنمنٹ مدعی ہوتی ہے.خود مغروب کا کوئی حق نہیں ہوا کرتا کہ وہ بیچ میں بولے یا بلوا سکے.بہر حال وہ چادر بھی نہیں پیش کی گئی جس کی وجہ سے مجسٹریٹ نے احمدی گواہوں پر شبہ کا اظہار کیا اور لکھا کہ اگر کوئی چادر تھی تو وہ پیش کیوں نہیں کی گئی.حالانکہ چادر پیش کرنا نہ کرنا پولیس کا کام تھا.ہمارے اختیار میں یہ بات نہ تھی.اس دوران میں ڈاکٹر کئی دفعہ آتے رہے.اپنی دنوں اس حملہ کے اثرہ کے نیچے یہ بھی ہوا کہ مجھے عارضی طور پر ذیا بیطیس کی شکایت ہوگئی.ڈاکٹر پیشاب ٹیسٹ کرتے رہتے تھے تاکہ کوئی خرابی ہو تو پتہ لگ جائے.ایک دن جو پیشاب ٹیسٹ کرایا تو معلوم ہوا کہ اسکے اندر شکر آتی ہے مگر ڈاکٹروں نے کہا.ابھی آٹھ دس دن تک آپ نے گھیرائیں اگر تو تکلیف زخم کی وجہ سے ہوئی ہے اور ایسا ہو جاتا ہے.تو آٹھ دس دن کے بعد ہٹ جائے گی.اور اگر زخم کی وجہ سے نہ ہوئی تو ہم علاج کا فکر کریں گے.اتنی دیر تک علاج کے فکر کی ضرورت نہیں.چنانچہ دس بارہ دن کے بعد یہ تکلیف خدا تعالیٰ کے فضل سے ہٹ گئی اور پتہ لگ گیا کہ یہ صرف زخم کی شدت کی وجہ سے تھی.خود اصل بیماری نہیں تھی.اس کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ یہ زخم کی تکلیف آپ کو چھ مہینے تک چلے گی.پہلے تین مہینوں میں تو آپ کو زخم کا آرام معلوم ہونا شروع ہوگا.لیکن تین مہینے کے بعد یہ تکلیف بڑھنی شروع ہو جائے گی.اور وہ نرود Nerve ) جو کٹ گیا ہے وہ اندر کسی جگہ پر اپنی جگہ بنائے گا.اور کسی دوسرے نمرود سے جڑنے کی کوشش کرے گا.جب وہ اس طرف کو چلے گا.تو اس سے آپ کو گھبراہٹ ہوگی اور یوں معلوم ہوگا کہ اندر کوئی چیز حرکت کرتی ہے غرض مجھے انہوں نے پہلے سے کہہ دیا تھا مگر اتفاق کی بات ہے.بعض دفعہ تشویش مقدر ہوتی ہے قریباً چھ مہینے تک جو انہوں نے وقفہ بتایا تھا.اس میں مجھے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی.صرف چھوٹی چھوٹی حرکت ہوتی تھی لیکن چھٹے ماہ کے آخر میں اس قدر شدید تکلیف ہوئی کہ بعض دفعہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی مینڈک اند رکود رہا ہے اور چھلانگیں مارتا ہوا آگے جار ہا ہے.اور با وجود جاننے کے گھبراہٹ پیدا ہو جاتی.ڈاکٹروں سے پوچھا گیا کہ یہ کیا بات ہے تو کہا چی کے سرجن نے کہا کہ یہ تکلیف اس سے پہلے ہونی چاہیے تھی.اور اب تک آرام آجانا چاہیئے تھا.مگر ممکن ہے بڑی عمر کی وجہ سے اندمال کا وقت پیچھے ہو گیا ہو.اس لئے ایک ماہ تک انتظار کریں.اگر طبعی عارضہ ہوا تو یہ تکلیف ہٹ جائے
۲۶۹ گی.ورنہ پھر غور کیا جائے گا کہ اس نئی تکلیف کا نیا سبب کیا ہے پھر لاہور آگر سرجن کو دکھایا گیا.اور وہاں کے ڈاکٹر نے بھی پہلی ہی رائے ظاہر کی.بہر حال دو مہینے یہ تکلیف جاری رہی.اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے دب گئی.اب مجھے سر کے اس حصہ میں نسبتا حس بھی محسوس ہوتی ہے.اور گردن کو ٹیڑھا کرنے سے جو پہلے یکدم جھٹکہ سامحسوس ہوتا تھا.اور ایسا معلوم ہوتا تھا.جیسے کسی نے سر میں ہتھوڑا مارا ہے.وہ حالت بھی جاتی رہی ہے اور وہ جو اندر کوئی چیز زور سے حرکت کرتی معلوم ہوتی تھی.جیسے کوئی جانور کو درہا ہے یا ناچ رہا ہے وہ بھی جاتی رہی ہے.بہر حال اب ایسی حالت ہے کہ اکثر اوقات میں سمجھتا ہوں کہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے.گو کوئی کوئی وقت ایسا بھی آجاتا ہے.جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ شاید کوئی بیماری ہو.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایک بلا آئی.بڑی شکل میں آئی.بہت بری شکل میں آئی اور پھر چلی گئی.اصل میں تمام اور انجام کے لحاظ سے دیکھے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انجام اچھا کہ دیا مجھے کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ یوں تو ہم قصد یں کرواتے نہیں ممکن ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک خون نکالنا اچھا ہو.اس نے یہ ذریعہ پیدا کر دیا.کہ چلو انہوں نے قصد یں نہیں نکلوانی ہم اس طرح ہی فاسد خون نکال دیتے ہیں مگر میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو بھی واقعہ ہوا حملہ کرنے والے کی نیست بہر حال مجھے مارنے کی تھی بخود عدالت میں اس نے اقرار کیا ہے کہ میں اسی نیت سے آیا تھا کہ ان کو ماروں مگر یہ سیدھی بات ہے کہ جس نے بھی مجھے مارنا چاہا تھا اس نے مجھے نہیں مارنا چاہا تھا.بلکہ اپنے خیال میں احمدیت کو مارنا چاہا تھا اور یہ چیز ایسی ہے جس کے متعلق میراند ہی فرض ہے کہ میں دنیا کو بتا دوں کہ احمدیت کا میری زندگی سے کوئی تعلق نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو دنیا نے یہ سمجھا تھا کہ احدیت ختم ہوگئی مگر پھر احمدیت اس سے بھی آگے نکل گئی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو انہوں نے مجھے بس یہ بڑھا ان میں عقلمند تھا.اب یہ ختم ہیں.پھر جب میں خلیفہ ہوا.تو لوگوں نے کہا ایک بیٹے کے ہاتھ میں خلافت آگئی ہے مگر وہ بچہ آج بوڑھا ہے اور احمدیت آج جوانی کی طرف جا رہی ہے نہ اس کے بچپن نے احمدیت کو نقصان پہنچایا اور نہ اس کا بڑھایا احمدیت کو کوئی نقصان پہنچائے گا.دنیا کتنی بھی کوشش کرے احمدیت کا پورا بڑھے گا.بڑھتا جائے گا.ترقی کرتا جائے گا.آسمان تک جا پہنچے گا یہاں تک کہ زمین اور آسمان کو پھر اسی طرح ملا دے گا جس طرح
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا تھا.دیکھو ہمارے ہاں فارسی کی ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ سے خدا شری به انگیزد که خیر یا در آن باشد یعنی خدا تعالی بعض دفعہ کوئی شر پیدا کرتا ہے لیکن اس میں ہمارے لئے خیر مقصود ہوتی ہے.اب دیکھو یہ واقعہ گزرا تو ظاہر میں اس وقت ہم بھی گھرائے.بیمار تو تکلیف پاتا ہی ہے اس کو آخر کھ پہنچتا ہے.باقی جماعت کو بھی ایک صدمہ پہنچا لیکن یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ جس وقت میں خلیفہ ہوا اور لوگوں نے حضرت صاحب کے الہام ٹولے تو ان میں سے ایک الہام" فضل عمر بھی انہوں نے پیشیں کرنا شرع کیا کہ دیکھو یہ دوسرے خلیفہ ہوئے ہیں اور ان کے لئے الہام ہے.فضل عمر پیغامیوں نے اس پر خوب ہنسی اڑائی کہ لوجی یہ فضل عمر بن گئے ہیں.اب یہ جو تمہارا خلیفہ بننے کا سوال تھا.یہ تو تمہارے ہاتھ کا ایک فعل تھا.بے شک قرآن یہی کہتا ہے کہ میں خلیفہ بناتا ہوں.مگر بنواتا تو آدمیوں کے ہاتھ سے ہے اور جو چیز آدمیوں کے ہاتھ سے بنوائی جاتی ہے.وہ کوئی دلیل لوگوں کے سامنے نہیں ہوتی تیم یہ کہنے کہ دیکھو حضرت صاحب نے کہا تھا.فضل عمر اور یہ دوسرے خلیفہ بن گئے توبڑی کھینچ تان کے بعد دلیلیں نکالنی پڑتیں کہ اب تک زندہ رہنے کی کونسی صورت تھی اور کون اس پر یقین رکھ سکتا تھا یہ ذرا پیچیدہ باتیں ہیں.دشمن کا سیدھا جواب یہ تھا کہ تم نے ان کو دوسرا خلیفہ بنا دیا.اب لگے ہو الہام چسپاں کرنے تم نے آپ خلیفہ بنایا ہے لیکن یہ چیز خُدا تعالیٰ نے ایسی پیدا کی جو تمہارے ہاتھوں سے نہیں ہوئی تمہارے مخالف کے ہاتھوں سے ہوئی.راہ جس دن مجھ پر حملہ کیا گیا.اسی دن حضرت محمرض پر حملہ کیا گیا تھا یعنی بدھ کے دن.(۲ جس طرح ایک غیر عقیدہ شخص نے حضرت عمرہ پر حملہ کیا تھا.اسی طرح ایک غیر فقد شخص نے مجھ پر حملہ کیا.رس جس طرح مسجد میں حضرت عمر یہ حملہ کیا گیا تھا.اسی طرح مسجد میں مجھ پتہ حملہ کیا گیا ہے جس طرح نماز کے وقت میں حضرت عمر پر حملہ کیا گیا تھا.اسی طرح نماز کے وقت میں مجھ پر حملہ کیا گیا.(۵) جس طرح پیچھے سے آکر دشمن نے حضرت عمر یہ حملہ کیا تھا.اسی طرح پیچھے سے اگر مجھ پر حملہ کیا گیا.فرق صرف اتنا ہے کہ ان پر صبح کے وقت حملہ ہوا اور مجھ پر عصر کے وقت حملہ ہوا.لیکن جو قرآن شریف کی تفسیریں ن البولولو غلام
پڑھنے والا ہے.وہ جانتا ہے کہ قرآن شریف میں جو صلواۃ الوسطیٰ کا لفظ آتا ہے، اس کے متعلق مفسرین نے یہی لکھا ہے کہ اس سے یا عصر کی نمازہ مراد ہے یا صبح کی.گویا صبح اور عصر کو ایک نام میں شریک قرار دیتے ہیں.پس وہ ساری مشاہتیں جو حضرت عمر کے حملہ کے ساتھ تھیں.وہ ساری کی ساری اللہ تعالی نے اس جگہ ملادیں.اور پھر فضل عمرہ کہ کر یہ بھی بتا دیا.کہ ہم اس کیساتھ حضرت عمران سے بڑھ کر معاملہ کریں گے.یعنی حضرت عمرف اس حملہ کے نتیجہ میں شہید ہو گئے تھے لیکن یہ پیدا ہونیوالا لڑکا اس حملہ کے باوجود بچ جائیگا.اور زندہ رہے گا.اب دیکھو تو مہارے اور تمہارے اختیار کی بات نہیں تھی تم یہ نہیں کر سکتے تھے کہ کسی شخص کو کہو کہ توجاکر حل کرے تاکہ عمرہ کے ساتھ مشابہت پوری ہو جائے کہ یہ کام صرف دشمن کے ہاتھ سے ہو سکتا تھا.چنانچہ جو واقعات ہوئے انکو دیکھ کر سمجھ ہی نہیں آتا.کہ ہمارے آدمیوں کو اس وقت ہو کیا گیا تھا.مثلا وہ آتا ہے تو ہمارے آدمی اس کو پناہ بھی دیتے ہیں.اس کو بٹھاتے بھی ہیں اس کی خاطر بھی کرتے ہیں اور کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ تم تحقیق تو کریں یہ ہے کون.قادیان میں یہ قاعدہ تھا کہ اجنبی آدمی کو نماز کے وقت پہلی دو صفوں میں نہیں بیٹھنے دیتے تھے.اور جماعت کے مختلف محلوں کے دوست ہر روز آ کے پہرہ دیتے تھے.یہاں آکر ان کو بڑا اطمینان ہو گیا.کہ اب کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں اور پھروہ شخص اپنے افراد کے مطابق آگے پہلی صف میں بیٹھا اور کسی نے نہیں پوچھا کہ میاں تم اجنبی آدمی ہو.تم پہلی سطر میں کیوں بیٹھے ہو.بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ مجھ سے عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ نے اس لڑکے کو دیکھا تھا.میں نے کہا میں نے تو نہیں دیکھا تھا.بات یہ ہے کہ خُدا تعالیٰ کا منشاء تھا کہ وہ نظروں پر پردہ ڈال دے.ورنہ عموما انسان کی نظر اٹھ جاتی ہے اور وہ دیکھ لیتا ہے.مگر میں نے یہی کہا کہ میں نے تو دیکھا نہیں.یہ مانتا ہے اور دوسرے لوگ کہتے ہیں.ورنہ ہمیں نے اسکو نہیں دیکھا.تو یہ ساری چیزیں ایسی تھیں جو ہائے اختیار کی ہیں تھیں کیسی یک کند بر کیساتھ تعلق رکھتی تھیں اوریا پھر خدائی تدبیر تھیں.ہر حال ان ساری تدبیڑوں کے نتیج من ال تعالے نےحضرت عرض سے میری مشابہت اسوقت ثابت کردی، پھر حضر بلے حوالے:.طبری جلد ۳ ص ۲۶۴-۲۶۶ الفتوحات الاسلامیہ جلد ۲ ص ۴۹۰ ( تاليف السيد احمد بن ذہنی دحلان مفتی نگر ، مطبوعه مصر ار الفاروق " ص ۲۸۲-۲۸۳ موقفہ علامہ شبلی نعمانی
مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پیشگوئی بھی پوری ہوگئی حضرت مسیح موعود علی الصلوة والسلام نے میرے متعلق فرمایا تھا.کہ میں نے دیکھا مو در آیا ہے.اور اس کے تمام کپڑوں پر گرتے پرا در صدی وغیرہ پر اور پا جانے پر خون پڑا ہوا ہے.یہ خواب کتنے عرصہ کی ہے.میں چھوٹا تھا.اور میری گیارہ بارہ سال کی عمر تھی.جب انہوں نے یہ خواب دیکھی.اور میری پینسٹھ سال کی عمر میں آگے یہ خواب پوری ہوئی.یہ کتنا بڑا بھاری نشان ہے.پھر انہی دنوں میں میں نے رویا میں دیکھا.کہ میں انکوائری کمیشن کی جگہ پر ہوں.وہ جگہ اس لئے دکھائی گئی تھی.کہ اس کے نتیجہ میں لوگوں کے جوش کی وجہ سے بعض باتیں پیدا ہوئیں.بہر حال میں نے دیکھا.کہیں انکوائری کمیشن کے ہال میں ہوں اور میرے پیچھے سے کسی شخص نے آکر مجھ پر حملہ کیا ہے.اور میں گر گیا ہوں.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کیساتھ کوئی اور آدمی بھی ہے کہتے ہیں واللہ علم کہاں تک ٹھیک ہے کہ کوئی شخص اس وقت مسجد سے بھاگا تھا.جس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی اور شخص بھی اس اُمید میں بیٹھا ہوا تھا.بہر حال وہ رڈیا میں نے دوستوں کوشنادی تھی.اور پھر اسی طرح ہوا.کہ پیچھے سے ایک شخص نے حملہ کیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائیے حکومت پنجاب کی طرف سے چوہدری محمد اسحق صاحب عدالت میں مقدمہ بیانات اور فیصلہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ کی عدالت میں زیر دفعہ تعزیرات پاکستان چالان پیش کیا گیا.اور مقدمہ کی کاروائی کا آغاز ہوا.۱۲ مئی ۱۹۵۴ ء کو ڈاک بنگور لالیاں میں بالترتیب مندرجہ ذیل بیانات ہوئے.اس بیان چوہدری غلام مرتضی صاحب این چو ہدری غلام مصطفی صاحب راجپوت بعمر ۳۵ سال پی.ٹی.آئی تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ -۲ بیان ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب سرجن میو ہسپتال.لاہور بیان ڈاکٹر صاجزادہ مرزا منور احمد صاحب ایم بی بی ایس میڈیکل آفیسر ان ہیلتھ نوٹیفائیڈ بریا کیٹی ربوہ اسسٹنٹ انچارج نوری ہسپتال.ربوہ سه روزنامه الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۵ از صفحه ۳ تا ۵
- بیان ڈاکٹر بشیر احمد صاحب اہے.ایم.اور سول ہسپتال.لالیاں ه بیان اقبال احمد صاحب ولد نور یا ہی صاحب بھٹی ہعمر ۳۰ سال پہریدار سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود - بیان چوہدری ولایت خان صاحب ولد ملک حسن خان صاحب رهیجان بعمر ۴۸ سال اسسٹنٹ آڈیٹر تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان بیان عبدالحکیم صاحب اکمل ابن مولوی عبدالرحیم صاحب بڑٹ بعمر ۲۱ سال طالب علم جامعة المبشرين ربوه - بیان مولانا عبد الرحمن صاحب انور ولد مولوی محمد عبد اللہ صاحب بور تالوی ریحان بعمر ۴۷ سال پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود -1+ - بیان داؤد احمد صاحب ولد محمد اسماعیل صاحب ارائیں بعمره ۲ سال کلرک دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ بیان احمد دین صاحب ولد ملک محمد دین صاحب بعمر ۲۲ سال مددگار دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ا بیان سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود ۱۲ بیان گلزم عبدالحمید وار منصب داد جٹ بعمر ۱۵ - ۱۲ سال طالب علم جماعت نہم بیٹی مسلم ہائی سکول لائلپور.ساکن چک نمبر ۲۲ مج والا ضلع لائل پور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب نے ۲۵ مئی ۹۵۳ہ کو ملزم کو پانچ سال قید کی سزا دی اور اپنے فیصلہ میں بعض غیر متعلق ریار کس بھی دیئے جو بعد کو ہائی کورٹ کے حکم سے حذف کر دیئے گئے لیے قاتلانہ حملہ کے بعد حضرت مصلح موعوفہ کے لئے قاتلانہ حملہ کے بعد حضرت مصلح موعود کا پہلا خطبہ جمعہ اپنے سرمبارک کو جنبش دیتا لکن بر می خور نہ تھا ان ایام میں صرف انگلی کے اشارے سے نماز ادا کر سکتے تھے.اس کے بعد آپ بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے.پھر رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے توانائی اور قوت میں اضافہ ہوتا گیا.جونہی آپ نے محسوس کیا کہ اگر چہ آپ کھڑے ہو کہ نماز نہیں پڑھا سکتے مگر خطبہ جمعہ دے سکتے ہیں آپ جمعہ کے لئے بھی تشریف لانے لگے جس سے حضور کی اولوالعزمی اور جماعت سے غیر معمولی محبت کا پتہ چلتا ہے.اس سانحہ کے بعد حضرت مصلح موعود نے پہلا جمعہ اور محیرت ۱۳۳ مش بمطابق له الفضل در جولائی ۱۹۵۵ مرص:
الا مئی اے کو مسجد مبارک ربوہ میں پڑھایا خطبہ کے شروع میں حضور نے بتایا کہ.میں نے جماعت سے بہت کچھ کہنا ہے لیکن میری صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ لمبا بولا سکوں اس لئے ان ضروری باتوں کو میں ابھی ملتوی کرتا ہوں میں نماز پڑھانے آج آیا ہوں لیکن چونکہ ابھی کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھا سکتا.اس لئے میں بیٹھ کر نماز پڑھاؤں گا.باقی درست حسب سنت کھڑے ہوکر نماز پڑھیں.پچھلے دنوں تو میرے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بھی سوال نہیں تھا کیونکہ میں نہ سر کو ہلاسکتا تھا اور نہ مجھکا سکتا تھا.بلکہ حملہ کے شروع ایام میں تو میں صرف انگلی سے اشارہ کر سکتا تھا.گویا چار پائی پر جسم پڑا ہے.اور انگلی کے ساتھ ہی رکوع اور سجدہ ہو رہا ہے مجھ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ سر ہلا سکوں پیالے اس کے بعد حضور نے اہل ربوہ کو مخاطب کر کے فرمایا :- اول ربوہ کی بنیاد کی غرض یہ تھی کہ یہاں زیادہ سے زیادہ نیکی اختیار کرنے والے اور دیندار لوگ آباد ہوں.....پس تم یہاں رہ کر نیک تونہ دکھاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو.ہماری جماعت اس وقت کتنی مشکلات ہیں سے گزر رہی ہے......تم ساری دنیا سے لڑائی مول لے کہ یہاں جمع ہوئے اور پھر بھی تقوی وطہارت اور عمل وانصاف اپنے اندر پیدا نہیں کر سکے تو تمہاری زندگی ایسی ہوئی کہ انہوں نے بھی تمہیں ٹھکرا دیا اور غیروں نے بھی تمہیں ٹھکرا دیا.حالانکہ دنیا میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو اپنے ٹھکرا دیتے ہیں تو اسے غیروں کے پاس پناہ مل جاتی ہے.اور اگر غیر ٹھکرا دیتے ہیں تو اپنے اسکی امداد کرتے ہیں لیکن تمہیں غیروں نے بھی ٹھکرادیا اور انہوں نے بھی ٹھکرا دیا.پھر تمہیں یہاں رہنے کا کیا فائدہ حاصل نہوا ؟ ایسے حالات میں ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرد....اگر تم اس کی رضا کو حاصل کر لو تو ساری مصیبتیں اور کوفتیں دور ہو جائیں اور راحت کے سامان پیدا ہو جائیں" سے ه الفضل ا احسان ۱۳ به ارجون ۱۹۵۳ صفحه ۳ - ۴۲ ته ایضاً صفحہ ۳-۴
۲۷۵ فصل سوم ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء سے روز نامہ الفضل ایک سال کے لئے بند کر دیا گیا تھا.الفضل کا دوبارہ اجرا اس جبری تعطل کا ورم ختم ہونے کے بعد ا را است ۱۹۵۲ء کو لاہور سے افضل کا دوبارہ اجراء عمل میں آگیا.حضرت مصلح موعود نے مولوی محد شفیع صاحب اشرف سابق مدینہ فاروق (لاہور) کو اس نئے دور کا قائمقام ایڈیٹر نامزد فرمایا جس کے چند روز بعد کراچی سے افضل کا پورا عملہ اور کاتب حضرات لاہور پہنچ گئے.اور ۲۶ مارچ ۱۹۵۷ء سے جماعت کا یہ ترجمان دوبارہ جناب شیخ روشن دین صاحب تنویر کی ادارت س نکلنا شروع ہوا.جناب مولوی محمد شفیع صاحب الشر اسے تحریر فرماتے ہیں :- جس وقت فاروق کا پہلا پرچہ شائع ہوا.روز نامہ الفصل“ کا سارا سٹان اس وقت لاہور ہی میں تھا.میں اپنی دنوں کراچی کی جماعت اس کوشش میں تھی کہ اُن کا اخبار الصلح " جو پندرہ روزہ تھا اور جیسے وہاں کے خدام بہت اخلاص کے ساتھ چلایا کرتے تھے اُسے روز نامہ کہ دیا جائے.ار ما رچ کو جب کہ لاہور میں مارشل لاء لگا ہوا تھا بذریعہ فون ہم سب کو فوری طور پر ربوہ پہنچنے کی ہدایت ہوئی.الفضل کا سارا اسٹاف جس میں ادارتی عملہ اور انتظامی کارکنان سب شامل تھے معہ ضروری ریکارڈ کے ربوہ پہنچا.ربوہ پہنچ کر یہ ہدایت علی کو الفضل کا عملہ فورا کراچی کے لئے روانہ ہو جائے.اور خاکسار حسب سابق لاہور جاکر فاریق جاری رکھے.نیز یہ کہ اخویم مکرم شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی جو اس وقت لا ہو ر ہی میں تھے.اور ادارہ الفضل کے رکن تھے میرے ساتھ کام کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.فاروق کے دو پرچے شائع ہو چکے تھے.دوسرے پرچہ کی اشاعت کے وقت مارشل لاء لگ چکا ه مبلغ اسلام انڈونیشیا حال مربی سلسله احمد بیر اسلام آباد (پاکستان)
۲۷۶ ہوا تھا.تیسرے پرچہ کی نوبت آئی تو سنسر شپ کی پابندی بھی لگ چکی تھی.کاپیاں لیکر خاکسار تعلقات عامہ کے دفتر میں گیا جس کے ناظم اس وقت جناب یوسف العزیز صاحب تھے.انہوں نے کاپیاں رکھ لیں اور کہا کہ کل آکر لے جائیں.دوسرے روز گیا تو انہوں نے پھر ٹال مٹول سے کام لیا اور فرمانے لگے کہ کچھ دیر اور انتظار کریں.مجھے صورت حال کا اندازہ ہو چکا تھا.چنانچہ اس وقت لاہور میں محترم حضرت مرزا عزیز احمد صاحب قیام فرما تھے بر تن باغ جاکر ہیں نے اُن کی خدمت میں ساری تفصیل بتائی وہ فوراً تیار ہوئے اور اس وقت کے صوبائی وزیر اطلاعات جناب عبدالحمید دوستی صاحب کے ہاں گئے اور فاروقی کے سلسلہ میں گفتگو کی.دستی صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ اصل حالات معلوم کر کے آپ کو اطلاع دیں گے.ان کی طرف سے اطلاع کیا آئی تھی شام کے پانچ بجے کی خبروں میں ریڈیو سے یہ اعلان ہو گیا کہ فاروق بند کر دیا گیا ہے.ران سب امور کی اطلاع حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور محترم ناظر صاحب دعوة و تبلیغ کی خدمت میں بھیجوائی گئی اور آئندہ کے لئے رہنمائی اور ہدایت کا طلبگار ہوا جس پر خاکسار کو واپس ربوہ آنے کا ارشاد ہوا.ربوہ پہنچ کر محترم ناظر صاحب دعوت و تبلیغ کی ہدایت پر خاکسار نے پھر اپنے اصل دفتر یعنی وکالت تبشیر تحریک جدید میں رپورٹ کی.وکالت تبشیر نے جب پھر میرا اسے میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی سے ہدایت طلب کی تو حضور نے فرمایا اس وقت سلسلہ کو جرنلسٹوں کی ضرورت ہے.اسے کراچی بھجوا دیا جائے وہاں "المصلح میں کام کا تجربہ حاصل کرے.اور مجھے رپورٹ دیا کرے.چنانچہ اس کے چند روز بعد ہی حضور سے مل کر خاکسار کراچی چلا گیا جہاں اُس وقت اخبار کے انچار ج محترم شیخ روشن دین صاب تنویر مرحوم تھے.اسی دوران الفضل کی بندش کا عرصہ ختم ہو گیا.ارماچ ۵۳ ۹ہ کو حضر خلیفہ ایسیح الثانی پر حملہ ہوا.اگلے ہی روز اور بائیٹ کو مجھے بذریعہ تار ربوہ ہلوایا گیا.چنانچہ سوار آپ کی شام کو خاکسار کراچی سے بذریعہ چناب ایکسپریس ربوہ پہنچا حضور پر نور کی زیارت اور ملاقات کا شرف اور حاصل کیا.زخم کی وجہ سے حضور لیٹے ہوئے تھے.فرمایا ابھی جا کر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے ملو.اور ان سے ہدایات لیکر لاہور جاکر فوراً لفضل " جاری کر دو.اس کی پابندی کا عرصہ ختم ہو گیا ہے.چنانچہ اسی وقت خاکسار میاں صاحب کے دولت کدہ پر حاضر ہوا.اور حضور کے ارشاد سے اطلاع دی حضرت میاں صفات ے فرمایا تم کل صبح ہی لاہور چلے جاؤ اور اس کا نام میر جیسے بھی ہوا الفضل“ جاری کر دو خواہ دو صفحہ کا i
ہی کیوں نہ ہو حضرت صاحب کی صحت کی خبریں جماعت کو جلد جلد پہنچتی رہنی چاہئیں.وہاں "افضل" کے خریداروں کے پتہ جات بھی ہوں گے.انہیں اور ایجنسیوں کو اخبار بھجوانا شروع کر دیں.فرمایا آپ جاکر کام شروع کر دیں پھر کراچی سے دوسرا عملہ بھی جلد آ جائے گا.اس پر خاکسار نے عرض کیا کہ حضور کی صحت کے پیش نظر اب حضور سے تو عرض نہیں کیا جا سکتا.اگر آپ ہی ایک مختصر سا پیغام مجھے لکھدیں تو میں افضل " کے نئے دور کے پہلے پہر چہ میں اسے شائع کر دوں.فرمانے لگے بہت اچھا.کل لاہور جاتے وقت صبح صبح مجھ سے لیتے جائیں چنانچہ ارما پرت کی صبح کوحضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت میاں صاب نے مجھے دعا سے رخصت فرمایا اور اپنا تحریری پیغام بھی عطا فرمایا.جو الفضل کے نئے دور کے پہلے پرچہ میں شائع ہوا تھا.یہ پرچہ بھی ۱۷ مارچ کو شائع ہوا.تاریخ اس پر ار ما سورج کی تھی اور دوشنبہ کا مبارک دن.صرف دو صفحہ کا پرچہ تھا.وہ بھی نہایت جلدی اور افراتفری میں مرتب کیا گیا.نہ کوئی کا تب تھا اور نہ کوئی دوسرا معاون بڑی مشکل سے اخویم شیخ محمدا صر صاحب پانی پتی کے ذریعہ ایک بزرگ اور معمر کاتب مکرم سلطان احمد صاحب کو تلاش کیا گیا.وہ بہت کمزور اور ضعیف ہو چکے تھے.لیکن بہر حال مہنگامی ضرورت تھی جیسے بھی ہوا انہوں نے دو صفحے لکھ دیئے.اگلے روز ڈرا سکون ہوا تو منہفت روزہ کا ہور کے دفتر میں گیا.جہاں لاہور کے کا تب کریم منشی لعل دین صاحب سے استعانت کی.انہوں نے دو صفحات لکھ کر یے اور یوں دوسرا شمارہ نکالا یست کتابت کا مسئلہ توکسی نہ کسی طرح حل کر دیا گیا مگر جلد ہی اخبار کو طباعت کی شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا.کیونکہ بوجہ مخالفت کوئی پریس الفضل چھاپنے کو تیار نہ تھا.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جو اس وقت ناظر دعوہ و تبلیغ تھے.محترمہ بگم تشفیع رضا ایڈیٹر اخبار دستکاری کے پاس ان کے فلیٹ نمبر میکلیگن روڈ لاہور تشریف لائے.اسی فلیٹ کے نیچے محترمہ بیگم شفیع مرحوم کا دستکاری پریس تھا جس میں انگریزی اور اردو چھپائی کا انتظام تھا.افضل کا دفتر بھی اسی بلڈنگ کے نمبر ۳ ه کمکتوب مولوی محمد شفیع صاحب اشرف بنام مولف کتاب (غیر مطبوعہ) دفات بیگم شفیع : ه علدار حضرت سید شفیع احمد ابوالبرکات محقق دہلوی رضی الله عنه
فلیٹ میں تھا.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے محترمہ بیگم شفیع کو مام حالات سے آگاہ گیا کہ کوئی پرہیں اخبار الفضل کو چھاپنے کو تیار نہیں ہے.آپ کے پریس کے علاوہ ہماری نظر میں کوئی پریس نہیں ہے جو الفضل کو چھاپ سکے بیگم شفیع نے پہلا توقف ایمانی جرات سے جواب دیا کہ "احدثیت کے لئے میرا پریس کیا میری جان بھی حاضر ہے.میں ضرور ہر قیمت پر الفضل کو چھاپوں گی.اور اس خدمت کو عین سعادت گھوں گی چنانچہ الفضل ۳۰ ما راح ۱۹۵۴ء سے ۱۵ را پریل ۱۹۵۴ء تک دستکاری پولیس میں چھپتا رہا.اور ہوتا یہ کہ بگم شفیع کے صاحبزادے مبشرات احمد صاحب جو پولیس کے منیجر تھے.اپنی نگرانی میں رات بھراخبار ھیوا تے اور بیگم شیح اس عرصہ میں الفضل کے خیریت سے چھپنے کے لئے نوافل پڑھتیں اور دعائیں کرتیں.اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے محض احمد یت کی برکت سے بیگم شیفت کے پریس اور ان کے نیچوں کی حفاظت فرمائی کچھ عرصه بعد محترمہ بیگم شفیع حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوئیں تو حضور نے بڑے اچھے الفاظ کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اخبار الفضل "دستکاری پریس کے بعد پہلے انصاف پریس میں پھر پاکستان ٹائمز پر نہیں میں طبع ہوتا رہا.بعد ازاں جلسہ سالانہ امہ کے ایام میں لاہور سے ربوہ منتقل کر دیا گیا.اور اسر دسمبر ۹۵ اور اس دسمبر ۱۹۵۳ / ۳۱ فتح ۱۳۳۳ امیش سے ضیاء الاسلام پریس ربوہ میں چھپنے لگا.اس طرح سلسلہ احمدیہ کا یہ قومی ترجمان قریباً سات برس کے بعد دوبارہ مرکز احمدیت سے نکلنا شروع ہوا جس پرا جاب جماعت نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعودوا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے تو اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے نام خصوصی پیغامات دیئے حضرت مصلح موعود کے پیغام کا متن یہ تھا :- " اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے.جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہیے.آج ربوہ سے اخبار شائع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس کا ربوہ سے نکلنا مبارک کرے اور جب تک یہاں سے نکلنا مقدر ہے.اس کو اپنے صیے فرائض ادا کرنے کی توفیق دے.اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے.اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہیے اور اپنے اخبار کے شه با خود از مکتوب سید مبشرات احمد تاهانی امریکی ( ابن حضرت علامہ سید ابو ابرات نفتق دیالوگ) خود از احتان سیدابرات
۲۷۹ مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہیئے.اللہ تعالٰی آپ کو ان امور پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.خاکسار مرزا محمود احمد شاه حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل کا دور جدید کے عنوان سے لکھا:.الحمد لقد تم الحد دل کہ ایک لیے وقفہ کے بعد الفضل پھر مرکز سلسلہ سے نکلنا شروع ہو گیا ہے غالباً تر تالیس سال کا عرصہ گذرا کہ سلسلہ احمدیہ کے مرکز قادیان سے حضرت امیر المومنین خلیفة أمسیح الثانی ابد الاله تعالیٰ کے ہاتھ سے الفضل کا اجراء ہوا.یہ حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ تھا.اس کے بعد ہمارا یہ مرکزی اخبار خدا کے فضل سے مسلسل ترقی کرتا گیا حتی کہ کی تعلیم کے دھکے کے نتیجہ میں افضل کو بھی جماعت کی اکثریت کے ساتھ قادیان سے نکلنا پڑا جس کے بعد حالات کی مجبوری کے تحت وہ لاہور سے شائع ہوتا رہا.یہ گویا اس کے لئے برزخ کا زمانہ تھا اب سات سال کے درمیانی زمانہ کے بعد الفضل پھر بوہ یعنی مرکز سلسلہ نمبر اسے نکلنا شروع ہوا ہے.الفضل کے اس نئے زور میں تمام جماعت کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں.اور یہ مخلص احمدی کے دل سے یہ صدا اُٹھ رہی ہے کہ مرکز سلسلہ کا بہ پور راجو گویا اب اپنے بلوغ کو پہنچ رہا ہے.بیش از میش سرعت کے ساتھ بڑھے اور پھیلے اور پھدے اور اس کے پھلوں سے لوگ زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوں مگر اس تبدیلی کے نتیجہ میں جہاں جماعت کی یہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنے اس مرکزی اخبار کی اشاعت کی توسیع میں پہلے سے بڑھ چڑھے کر حصہ لے اور مرکزہ کی ان صحافتی تاروں کو اور بھی زیادہ وسیع اور مضبوط کر دے جو اسے افراد جماعت کے ساتھ باندھ رہی ہیں.وہاں الفضل کے عملہ کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ نہ صرف الفضل کو زیادہ سے زیادہ مفید اور دلکش بنائے بلکہ لاہور سے ربوہ کی طرف منتقل ہونے کے نتیجہ میں جو بعض مادی وسائل کی ترقی میں امکانی کمی آسکتی ہے اسے بیش از پیش توجہ اور کوشش کے ذریعہ کم نہ ہونے دے.اس زمانہ میں پریس کی اہمیت اور اس کے اثر کی وسعت ظاہر عیاں ہے.سو اب یہ جماعت اور علا الفضل کا مشترکہ فرض ہے کہ افضل کو ہر جہت سے ترقی دے کر اسے ایک الہی جماعت کے شایان شان بنائے.وكان الله معنا اجمعين (خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ اس کے ن الفضل ۳۱ مفتح ۱۳۳۳ مش/ ۱۹۵۴ء صفحہ ایک الفضل یکم جنوری ۱۹۵۵ء / مطابق یکم صلح ۱۳۳۴ مش مطا
جماعت احمدیہ کی پینتیسویں مجلس مشاورت ۰۱۷ ۱۷- ۱۰ را پیریل ۱۹۵۴ ۱۹۵۴ء کی مجلس مشاورت ۱-۱۲- مر شہادت ۱۳۳۳اہش کو لجنہ اماء اله مرنہ یہ کے ہال میں منعقد ہوئی.نمائندگان کی تعداد ۴۳۳ تھی.۲۰ کے لگ بھگ صحابہ شریک اجلاس ہوئے مشورہ کی ہمیں پاکستان اور آزاد کشمیر کے علاوہ بیرونی ممالک کی احدی جماعتوں کے مندرجہ ذیل بارہ نما ئندوں نے بھی شرکت کی.ا.سلیم جابی صاحب (شام) ۲ رشید احمد صاحب (امریکی؟ -۳- صالح شبیبی صاحب (انڈونیشیا) ۴- عبدالشکور صاحب کنز سے (جرمنی) ه قاضی عبد السلام صاحب بھٹی (نیٹر بی مشرقی افریقی) ۶ مسٹر ایم جمال دین صاحب کو لمبوری سیلون ) مسٹر ایس جمال دین صاحب (نگبور سیلون) - حکیم فضل الہی صاحب (کولمبو میلون) مولانا نذیر احمد صاحب مبشر (گولڈ کوسٹ) ۱۰ جناب سید شاہ محمد صاحب زمیں التبلیغ (انڈونیشیا) مولانا نذیر احمد صاحب علی ( سیرالیون) ۱۲ - امری عبیدی صاحب (مشرقی افریقہ) اس مشاورت کی ایک غیر معمولی اہمیت یہ تھی کہ جب سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی الصلح الموعود پر حملہ ہوا تھا یہ پہلا موقع تھا کہ حضور قصر خلافت سے باہر تشریف لائے اور اپنے خدام کے درمیان رونق افروز ہوئے.مجلس کے افتتاحی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جو اسید سلیم الجابی الشامی نے کی.بعد ازاں حضور نے ایک مختصر خطاب فرمایا جس میں سجٹ سے متعلق قیمتی ہدایات دیں اور بالخصوص نوجوانان احمدیت کو، فرمہ داری کا احساس کرنے اور محنت کی عادت پیداکرنے کی تلقین فرمائی.اور بتایا کہ اگر ہمارے نوجوان یہ دوار صان اپنے اندر پیدا کریں تو وہ زمین سے آسمان تک پہنچ سکتے ہیں.حضور نے اپنی نا سانہ کی طبع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹری مشورہ کی رو سے ایک لمبے عرصہ تک آرام کی ضرورت ہے.اس لئے میں پہلے کی طرح شریک مشاورت نہ ہو سکوں گا.بعد میں سب کیسٹیاں مقرر ہوں گی جن کی رپورٹوں اور نمائندگان کی آگراد مجھے ساتھ کے ساتھ بھجوائی جاتی رہیں گی.اور میں ان کے متعلق اپنا فیصلہ دے دیا کروں گا.نیز ارشاد فرمایا کہ مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت ہائے صوبہ پنجاب شوری کے چیر مین ہوں گے جو میرے بعد مشوری کی کارروائی جاری رکھیں گے.چنانچہ حضور کی نشاء مُبارک کے مطابق پوری با قاعدگی اور وقار کے ساتھ تینوں روزہ کارروائی جاری رہی.اور محترم مرزا عبدالحق صاحب حضور کی نیابت میں چیئر مین کے فرائض انجام دیتے رہے.اسی طرح سب کمیٹیوں کی تجاویز اور نمائندگان شوری کی آزاد بھی ساتھ کے ساتھ حضور کی خدمت با برکت میں پیشیں ہوتی رہیں.اور حضور کے مبارک |
۲۸۱ فیصلوں کی اطلاع بھی نمائندگان کو پہنچتی رہی.مشاورت کے دوسرے دن حضرت مصلح موعود سے جماعت احمدیہ کی والہانہ عقیدت و محبت اور اسلام و احمدیت کی خط ایثار و قربانی کا بہت شاندار مظاہرہ دیکھنے میں آیا تفصیل اس اجمالی کی یہ ہے کہ حضرت مصلح موعود پر حملہ کے بعد ایک حفاظتی کمیٹی مقرر کی گئی تھی جو چو ہدری عبد اللہ خان صاحب امیر جماعت کراچی پیجر دارد احمد صات اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پشتمل تھی.اس کمیٹی کو تمام حالات پر تفصیلی غور کرنے کا موقعہ ملا مشاورت کے دوسرے روز حفاظتی تدا پر یہ جب خصوصی بحث کا آغازہ ہوا تو سب سے پہلے اس کمیٹی کے رکن چو ہدری عبداللہ خانصاب نے مفصل تقریہ فرمائی جس کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.آپ نے فرمایا :- جو حفاظتی امور میں بیان کروں گا.ان کے دو جیتے ہیں اول یہ کہ حفاظتی تدا پر یہ کیا خراج کرنا چاہیے ؟ دوسرے ہمیں حضور کی حفاظت کے لئے کیا تدابیر اختیار کر نی چاہئیں ؟ جو واقعات پچھلے دونوں ہوئے ہیں میں چاہتا ہوں کہ ان پر عام عقلی نظریہ کے تحت غور کیا جائے ہمیں یہ بھونا نہیں چاہیئے.کہ حضور نے جماعت کی خاطر لا تعداد قربانیاں کی ہیں.آپ نے حملہ کے معا بعد جماعت کے نام جو پیغام دیا.اُس میں جماعت کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.کہ میں تم سے اپنی بیویوں اور بچوں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں، آپ نے یہ بات جذبات کو اپیل کرنے کی خاطر بیان نہیں فرمائی بلکہ آپ نے ایک حقیقت کو بیان فرمایا ہے.اور واقعہ یہی ہے کہ حضور نے سلسلہ کی خاطر اپنی جان اور مال پیش کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا.آپ سے دشمن کو ذاتی طور پر کوئی عناد نہیں.آپ پر قاتلانہ حملہ محض جماعت احمدیہ کا خلیفہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے اور پھر یہ خلیفہ ہونے کی وجہ سے ہی نہیں.بلکہ اس اعلیٰ راہ نمائی کی وجہ سے ہوا ہے.جو اپنی خلافت کے زمانہ میں آپ جماعت کی کرتے چلے آئے ہیں.گذشتہ زمانہ میں آپ نے جماعت سے عملی طور پر کسی محبت کا اظہار فرمایا.اس کا علم ہراس شخص کو ہے جس نے ان دنوں میں حضور کو دیکھا.آپ کو ان دنوں کھانے پینے اور آرام کرنے کا کوئی خیال نہیں تھا.آپ میابی اور بے قراری کے ساتھ اس طرح پھرتے تھے کہ ایک ماں بھی سمجھوں کی خاطر اس قدر بے تاب اور بے قرار نہیں ہوتی.پھر جب مالی قربانی کا سوال پیدا ہوا، تو آپ نے اپنا مال پیش کر دیا.اور اس قربانی میں جماعت کا کوئی فرد آپ سے سبقت نہ لے جا سکا.ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہیئے.کہ سلسلہ نام اس مجموعہ افراد کا ہے جو بیاں بیٹھے میں سلسلہ نام ہے اس جماعت کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے پیدا کی اور
۲۸۲ جماعت ان افراد کا نام ہے.جنہوں نے احمدیت کو قبول کیا اور حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا سلسلہ کی خاطر اپنی جان نہیں کرنا اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ آپ کو جماعت کے افراد سے اپنے بیوی بچوں سے بھی زیادہ محبت اور پیار ہے پھر اس وقت جب کہ زخم لگا ہوا ہے حضور کا یہ فرمانا کہ مجھے آپ سے اپنی بیوی بچوں سے بھی زیادہ پیار ہے.خود اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ جماعت سے کس قدر محبت کرتے ہیں.اس عظیم محبت کو مد نظر رکھتے ہوئے جو آپ کو جماعت سے ہے ، جو لا پرواہی آپ کی حفاظت کے سلسلہ میں کی گئی.میں جب اس بات پر غور کرتا ہوں تو مجھ پر اب بھی رعشہ طاری ہو جاتا.ہے.میں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، ہاں جیسا کہ احباب کو معلوم ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو معجزانہ طور پر بچا لیا.اس مقدس انسان سے بہت سی پیش گوئیاں وابستہ ہیں.اسلئے اللہ تعالے نے آپ کو محفوظ رکھا.لیکن جہاں تک ہماری حفاظت کا سوال تھا.ہم نے خلیفہ وقت کو غیروں کے ہاتھوں میں دینے ہیں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.جب کوئی چاہتا.آپ پر حملہ آور ہو جاتا جب یہ حالات ہمیں معلوم ہوئے.تو ہم نے چند حفاظتی تدا پر منظور کیں.وہ ہیں.انہیں میں آپ کے علم میں نہیں لا سکتا مجلس شوری چاہے تو ایک اور کمیٹی مقرر کر دے جو ان امور پر غور کر ے بہرحال ان میں سے ہر ایک چیز نہایت ضروری ہے.ہمیں حضور کی حفاظت کے لئے زمین ، عقل مند اور مضبوط آدمیوں کی ضرورت ہے.ان کے حصول کیلئے جس قدر بھی رقم خروج ہو ہمیں اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے.اور اگر حضور ان اخراجات کی منظوری مرحمت نہ فرمائیں.تو ہمیں آپ کی خدمت میں بار بار التجا کرنی چاہیے کہ حضور منظور عنایت فرمائیں ہم گھراج کا جو اندازہ پیش کیا تھا وہ ۴۴۷۳۵ روپے تھا لیکن میرے نز دیک وہ اندازہ بھی کم تھا کیونکہ بعض باتیں اس وقت نہ یہ بحث نہیں آئی تھیں.RQUND FIGURE کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلہ میں پچاس ہزار روپے منظور کئے جائیں.اور حضور کی خدمت میں نہایت مودبانہ درخواست کی جائے که حضوران اخراجات کو منظور فرما لیں لے Security measures چوہدری عبدالله خان صاحب کے بعد چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے فرمایا کہ : نے رپورٹ مجلس مشاورت منعقده ۱۶ تا ما را پریل ۱۹۵۳ئه ۲۵۰ تا ۲ į |
۲۸۳ یہاں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذات کی حفاظت کا سوال نہیں بلکہ اللہ تعالے کے اس پیغام کی حفاظت کا سوال پیش ہے جو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا اسب کمیٹی نے جب حضور کی خدمت میں خراج کے اندازہ کی رپورٹ نہیں کی تو حضور نے نہ چاہا کہ اس قدیر مالی بوجھ بات پر ڈالا جائے لیکن کیا اس سے جماعت کا فرض کم ہو جاتا ہے ؟....میں تو سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے اگر کسی کے دل میں محبت ہے ، اخلاص ہے ، وہ اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہے یا وہ بتانا چاہتا ہے کہ اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے محبت ہے.بلکہ اسے اپنی ذات اور آئندہ نسل سے محبت ہے تو وہ یہ تو برداشت کرلے گا کہ خدا تعالیٰ کے موعود اور اس کی بارات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خلیفہ کے جسم کی حفاظت میں لاپروائی کی جائے اگر حضور اس رقم کو نا پسند بھی فرما دیں تب بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے جذبات کا اظہار کریں اور اپنی جانوں ، مالوں اور عرب توں کو پیش کریں یہ سلے چوہدری صاحب کے بعد میاں غلام محمد صاحب اختر نمائندہ لجنہ نے تقریر فرمائی کہ :.جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پر حملہ ہوا تولوگوں نے دیکھ لیا کہ جماعت کو آپ سے کسی قدر والہانہ محبت ہے.جماعت کا ہر فرد یہ چاہتا تھا کہ کاش یہ چاتو اس کی گردن پر پھرتا.ہم روحانی طور پر رہی حضور کے زیرا احسان نہیں بلکہ ہم میں سے اکثر دنیا دی طور پر بھی حضور کے زہیر احسان ہیں.حضور کے ان احسانات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارا فرض ہے کہ ان حالات میں اپنا سب کچھ پیش کر دیں میں تو کہوں گا اس کے لئے پچاس ہزار روپیہ کی رقم کا مطالبہ کچھ بھی نہیں لاکھوں روپیہ کی بھی ضرورت ہو تو ہم مہیا کریں گے.جماعت نے حفاظت مرکزہ کی خاطر جتنا روپیہ دیا تھا اس سے کم از کم دگنا رو پیر حضور کی حفاظت کے لئے پیش کرنا چاہیئے.میری تجویزہ یہ ہے کہ یہ پچاس ہزار روپے ابھی جمع کئے جائیں.اس رقم کا بلہ حصہ یعنی مبلغ پانچ صدر و پیسہ میں اپنی طرف سے پیش کرتا ہوں" سے نمائندگان جماعت جماعت نے اس تحریک کا نہایت پُر جوش خیر مقدم کیا اور فوراً اپنی اور اپنی جماعتوں کی طرف سے نقد با وعدوں کی صورت میں اپنا چندہ لکھوانا شروع کر دیا.یہ ایک نہایت ایمان افروز منظر تھا جب کہ تمام رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء ص ۲۸-۲۱ کے رپورٹ " ص ۲۹
۲۸۴ احباب فاسقيمُوا الخَيْرَات کے ارشاد ربانی کے مطابق ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس دینی تحریک میں حصہ لے رہے تھے.چنانچہ مختصر وقت میں نہ صرف یہ کہ چندہ کی مطلوبہ رقم پوری ہو گئی ملکہ نقد اور وعدوں کو ملا کر ساٹھ ہزار سے بھی تجاوز کرگئی مشاورت کے اگلے دن پچھتر ہزار روپے کی رقم جمع ہوچکی تھی جوحضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے داخل خزانہ کر دی گئی.لے لے در اصل نمائندگان شوری کی درخواست یہ تھی کہ حضور بغرض علاج امریکہ تشریعیت لے جائیں لیکن حضور نے فرمایا کہ میں صحت کی خرابی کی وجہ سے امریکہ جاتو نہیں سکتا.لیکن اگر حالات اس قسم کے پیدا ہوگئے کہ مجھے امریکہ جانا پڑا تو میں کسی کے خراج پر جانے کو تیار نہیں ہوں تم اپنے آدمیوں کو ہی خرچ دے دو تو کافی ہے.نیز فرمایا : تم اپنے عملہ کے لئے رو پیرو سے دو اور اسے علیحدہ رکھو جب ضرورت پیش آئی میں لے لوں گا.اب میری ایسی حالت نہیں کہ میں لمبا سفر کر سکوں.امریکہ بحری رستہ سے جاؤں تو دو ماہ جانے میں لگیں گے اور دو ماہ آنے میں لگیں گے اور تین ماہ تک وہاں قیام کرنا ہو گا ہاں ہوائی جہاز پر سفر کیا جائے تو وقت کم لگے گا لیکن ہوائی جہاز پر سفر کرنے کے میں قابل نہیں“ سے سے رپورٹ مشاورت ۱۹۵۴ / ۳۳۳ امتش ۶۵۰-۹۱ الفضل ۲۳ شہادت ۱۳۳۳ مش / ۲۳ اپریل ۱۹۵۴مه ص ۳ یہ فنڈ جمع ہو چکا تو سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بعض امراء جماعت نے ملاقات کی درخواست کی جو حضور نے منظور نہیں فرمائی جس کی وجہ حضورہ کے الفاظ میں یہ تھی کہ :.ر چونکہ شوری میں سے بعض امراء کا علیحدہ طور پر ملنا خلاف قاعدہ تھا اس لئے میں نے اس ملاقات کو پسند نہ کیا.ملاقات ایک وقت میں خلاف قاعدہ ہوتی ہے اور دوسرے وقت میں باقاعدہ ہو جاتی ہے جب مجلس شور کی میٹھی ہو تو سارے افراد شور کی کا حصہ ہوتے ہیں اس لئے اس میں سے بعض افراد علیحدہ طور پر ملاقات کرنا چاہیں وہ امراء ہوں یا عام نمی خلاف قائد ہوتا ہے.لیکن اگر مجلس شور کی نہ ہوتو پھر امیر اور غریب کا کوئی سوال نہیں ہر شخص کو ملاقات کا حق ہوتا ہے اور وہ ملاقات کرتا ہے.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ رست) سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء ص ۶۶ - ۶۷
۲۸۵ سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنی افتتاحی تقریر میں ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر چندہ کی ایک اور تحریک خاص فرمائی تھی.اور وہ یہ کہ غیر موصی اصحاب ایک پیسہ نی روپیہ اور موصی احباب کم از کم دو پیسے فی روپیہ اضافہ کر دیں جو ایک مستقل فنڈ کے طور پر رہے.یہ تحریک ابتداء میں تین سال کے لئے جاری ہو.اور اس میں سے مبلغ چالیں ہزار حفاظتی تدابیر پہ ربوہ اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں خریج ہو.اور چالیس ہزار کی رقم ان جھوٹے الزاموں کے ہد کرنے میں صرف کی جائے جن کی وجہ سے تشدد انگیز واقعات رونما ہوتے ہیں اور جن کی ایک کڑی سی قاتلانہ حملہ کاسانحہ بھی ہے.اس فنڈ میں سے اٹھارہ ہزار روپیہ ایک جیپ کار کی خرید اور اس کے اخراجات کے لئے مختص ہوگی بسب کمیٹی بیت المال کی طرف سے جب شوری کے سامنے یہ مفصل تجویزہ پیش ہوئی تو نمائندگان نے اس کے حق میں بھی بالا نافی رائے دی جس کو حضور نے بھی منظور فرما لیا ہے سید نا حضرت مصلح موعود کی بیعت جو حملہ کے باعث پہلے ہی علیل تھی، شوری میں پہلی تقریر کے بعد اور بھی ناساند ہو گئی جس کی ایک ظاہری وجہ یہ ہوئی کہ حضور حملہ کے بعد پہلی بار پگڑی پہن کر آئے تھے.پگڑی کا سریہ بوجھ محسوس ہوتا تھا نیز کلاہ عین زخم کی جگہ کے اوپر لگتا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ شدید درد شروع ہوگیا جس نے دن اور رات حضور کو بے چین کئے رکھا.مگر اس نا قابل برداشت تکلیف کے باوجود حضور مجلس شوری کے تیسرے دن صبح و بسجے ہال میں تشریف لے آئے.اس وقت حضور کے سر مبارک پر پگڑی کی بجائے ایک قسم کی ترکی ٹوپی تھی اور ٹوپی پہ ایک رومال بندھا ہوا تھا.سب سے پہلے انڈونیشیا کے صالح الشیبی نے تلاوت قرآن مجید کی.اس کے بعد حضرت مصلح موعود نے کرسی پر رونق افروز ہو کر خطاب فرمایا کہ :- احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ جو کام بھی کریں ہوشیار ہو کر کریں.یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ ہی ہر کام کرتا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ عملی طور پر یہ نہیں ہوتا.کہ خدا تعالیٰ آسمان سے اتر کر یہ کہے کہ تم لحاف اوڑھ کر چارپائی پر لیٹے رہو میں تمہاری جگہ کام کرتا ہوں.خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ سلام سے کہا تم اُس باغ میں رہو.اور اس کے پھل کھاؤ لیکن فلاں دروازہ سے چوکنا ر ہیں.اگر اس دروازه سے شیطان تم پر حملہ آور ہو گیا.تو میں زمہ دار نہیں ہوں گا.پھر جب شیطان نے حملہ کر دیا.تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ یہ میری غلطی تھی.میں نے تمہیں کیوں نہ بچایا بلکہ اس نے کہا میں نے تمہیں ے رپورٹ مجلس شوری ۱۹۵۴ء ص ۳۶ - ۳۷
۲۸۶ باغ دیا تھا.دودھ اور شہد کی نہریں عطا کی تھیں اور ہر قسم کی آسائش کا سامان مہیا کر دیا تھا لیکن تم اتنے شکست نکلے کہ تم نے احتیاط کو بھی نظر انداز کر دیا.اور شیطان کو اندر آنے دیا.اب تم سے یہ شہد اور دودھ کی نہریں اور دوسرے آسائش کے سامان واپس لے لئے جاتے ہیں.حضرت نوح علیہ السلام کو بھی خدا تعالیٰ نے نعمتیں دیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہ دیا کہ تم یہ نہ تھا کہ میں تمہیں چیزیں بھی دوں گا.اور پھر ان کی حفاظت بھی کروں گا حفاظت تمہیں خود کرنی ہوگی.اگر تم نے سستی اور غفلت سے کام لیا تو میں نے تمہارا ہاتھ نہیں بٹانا.ہاں اگر تم کام کرو گے اور پوری محنت سے کام کرو گے اور اس کے بعد بھی کوئی کسر رہ جائے گی.تو اس کو نہیں پورا کروں گا یعنی اگر تم خود رخنہ پیدا کرو گے تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا.ہاں اگر تمہارے پوری جد و جہد کرنے کے باوجود کوئی رخنہ باقی رہ گیا.تو میں اس کو پورا کروں گا حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے وقت میں بھی یہی ہوا حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں بھی یہی ہوا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی یہی ہوا.آپ کو یہودیوں نے کھانے میں زہر ملا کر دے دیا.بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ران کی دعوت کو منظور کیوں کر لیا لیکن آپ کی شان یہی تھی.کہ آپ ان کی دعوت قبول کر لیتے.یہ صحابہ کا کام تھا کہ وہ کھانے کو چکھ کر دیکھ لیتے اور اطمینان کر لیتے.اب مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا.تو بعض دوستوں نے لکھنا شروع کر دیا.کہ خلیفہ وقت کو نماز کیلئے مسجد میں نہیں آنا چاہیے اسی طرح ملاقات کا سلسلہ بھی بند کر دینا چاہیے.میں نے کہا اس کا مطلب تو یہ ہو کہ خلیفہ وقت کو کسی منارہ پر باندھ دیا جاتا اور جماعت اپنا فرض ادا نہ کرے جب تک خلافت رہے گی خلیفہ مسجد میں نماز پڑھانے ضرور جائے گا.وہ ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رکھے گا.چاہے دشمن اس پر حملہ کرے یا نہ کرے اسی طرح وہ اپنے فرائض بھی بجالائے گا.آگے جماعت کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ دیکھیں کہ وہاں کوئی مشکوک آدمی تو موجود نہیں ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہودیوں کی دعوت کو منظور کر لیا تھا.اور آپ کی شان یہی تھی کہ اس دعوت نامے کو منظور فرمالیتے صحابہ کا یہ فرض تھا کہ وہ حفاظت کے پیش نظر کھانا چکھ لیتے.لیکن ان سے یہ غلطی سرزد ہوگئی.انہوں نے کھانا چکھا نہیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھالیا.آپ کو الہا نا پتہ لگ گیا.کہ اس کھانے میں زہر ملا ہوا ہے اور
YAL آپ نے لقمہ منہ سے نکال کر پھینک دیا تھا.لیکن غالباً حضرت عائشہ کی یہ روایت ہے کہ وفات کے وقت آپ نے فرمایا کہ یہودیوں نے کھانے میں جو زہر کھلایا تھا.اس کا اثر اس وقت تو نہیں ہوا.لیکن اب جسم میں اس کا اثر معلوم ہوتا ہے.یعنی اس وقت تو آپ بچ گئے لیکن اس زہر کا اثر اعصاب پر ایسا ہوا کہ بڑھتا ہے میں جا کہ وہ پھسوس ہوا.اسی طرح ایک اور واقعہ آتا ہے.آپ ایک جنگ سے واپس آرہے تھے.کہ راستہ میں ایک جگہ آرام کرنے کیلئے شکر ٹھہر گیا صحابہ کا خیال تھا کہ چونکہ ہم اب مدینہ کے قریب آگئے ہیں.اس لئے خطرہ باقی نہیں رہا.مگر وہ تھکے ہوئے تھے اس لئے علیحدگی میں آرام کرنے کے لئے بکھر گئے.اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ایک درخت کے نیچے رہ گئے.آپ نے اپنی تلوار درخت کے ساتھ لٹکا دی اور خود آرام کی خاطر لیٹ گئے.بلے سفر کی تھکاوٹ تھی.اس لئے آپ کو نیند آگئی.ایک کا فرجس کا بھائی مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے مارا گیا تھا.اس نے یہ قسم کھائی تھی.کہ چونکہ میرے بھائی کو مارنے والے مسلمان ہی ہیں اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں.اس لئے میں اپنے بھائی کا انتقام لینے کی خاطر محد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو ماروں گا.چنانچہ وہ اس ارادہ سے چوری پیچھے آپ کے ساتھ ساتھ آرہا تھا.اس نے اس موقعہ کو جب صحابہ کسی خطرہ کا احساس نہ کرتے ہوئے آرام کی خاطر منتشر ہو گئے تھے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے سایہ میں اکیلے سوئے ہوئے تھے.غنیمت جانا، اس نے درخت سے تلوار اتاری اور آپ کو آواز دے کر کہا.اب کون تم کو مجھ سے بیچا سکتا ہے ؟ اس وقت با وجود اس کے کہ آپ بے سہتھیار تھے اور بوجہ بیٹے ہوئے ہونے کے حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے.آپ نے نہایت اطمینان اور سکون سے جواب دیا.اللہ اب اللہ کا لفظ تو سارے لوگ کہتے ہیں.فقیر بھی.اللہ اللہ کہتے ہیں لیکن ظاہر میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ کہا.تو خدا تعالیٰ کی ذات آپ کے پیچھے موجود تھی.آپ کا یہ لفظ زبان سے نکالنا تھا.کہ اس دشمن کے ہاتھ سے تلوار گر گئی.وہ تلوار آپ نے فوراً اٹھائی.اب وہ شخص جو آپ کے قتل کرنے کی نیت سے آیا تھا.آپ کے سامنے مجرموں کی طرح کھڑا تھا آپ نے معلوم کرنا چاہا کہ آیا میرے منہ سے اللہ کا لفظ سن کر بھی اسے سمجھ آئی ہے یا نہیں ؟ آپ نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.اب مجھ سے تمہیں کون سچا سکتا ہے ؟ تو اس نے کہا.آپ ہی رحم کریں
تو مجھے چھوڑ سکتے ہیں.چنانچہ آپ نے چھوڑ دیا.اور فرمایا کہ نہیں کہنا چاہیئے تھا کہ اللہ ہی بچا سکتا ہے.کیا میرے منہ سے سننے کے باوجود بھی تمہیں اس طرف توجہ نہیں ہوئی.اب دیکھ تو خدا تعالے نے اپنے رسولوں کی ایک نشان کے طور پر حفاظت تو کر دی لیکن دراصل یہ ذمہ داری صحابیہ کی تھی.خدا تعالے نے کہا میرا کام حفاظت نہیں.ہاں موت سے بچانا میرا کام ہے.اور موت سے میں بچالوں گا.لیکن اس نے حملہ میں کوئی روک پیدا نہیں کی پس کچھ کام جماعت کو بھی کرنے پڑتے ہیں.خلیفہ پر پابندیاں عائد نہیں کی جاسکتیں خلیفہ اپنا کام کرے گا.اور جماعت کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گا.ضرورت اس بات کی ہے کہ ذہنیت کو بدلا جائے.اے پھر ریا یاد "حقیقت یہ ہے کہ مذہب قبول کرنے کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں.کہ انسان کی حرکات ، انکار اور دماغ سب تبدیل ہو جائیں.اگر یہ نہیں ہوتا.تو کسی مذہب کے قبول کرنے سے اسے کچھ بھی نہیں ملتا باقی سب چیزیں رسمی ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب فرمایا اگر میں کسی انسان کو اپنا خلیل بنانا چاہتا تو ابو بکر کو بناتا.یہ تم سب پر فضیلت رکھتا ہے تم کہہ سکتے ہو کہ اسے ہم پر کونسی فضیلت حاصل ہے اسے تم پر جو فضیلت ہے وہ نماز روزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ ان جذبات کی وجہ سے ہے.جو اس کے دل میں موجزن ہیں.نماز اور روزہ کا اداکرنا بھی ضروری ہے لیکن ان کے ہوتے ہوئے بعض اوقات خدا تعالیٰ نہیں ملتا.خدا تعالے کو پانے کی خاطر اپنی ذہنیت کو بدلنا ضروری ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے.وہ ہر کام کو بغیر سوچنے کے کہ یہ عقل کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں کرتا چلا جاتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ میں وعظ فرما رہے تھے بعض صحابہ محلیس کے کناروں پر کھڑے تھے.آپ نے انہیں مخاطب کرتے ہوے فرمایا بیٹھ جاؤ.اس وقت حضرت عبداللہ بن مسعود پاس کی گلی میں سے گزر رہے تھے.آپ کے کان میں یہ آوازہ پڑی.تو آپ وہیں بیٹھ گئے.اور بیٹھے بیٹھے مسجد کی طرف انہوں نے گھٹتے ہوئے آنا شروع کر دیا کسی شخص نے آپ سے کہا یہ احمقانہ حرکت ہے کہ تم گلی میں اس طرح بیٹھ کر چل رہے سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء ص ۵۴ - ۵۶
۲۸۹ ہو.آپ نے فرمایا.میرے کان میں رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز پڑھی تھی کہ بیٹھ جاؤ تو میں بیٹھ گیا اس پر اس شخص نے کہا.کیا تمہیں یہ بات مجھ میں نہیں آئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم نے یہ حکم ان لوگوں کو دیا ہے جو مسجد میں آپ کے سامنے کھڑے تھے.آپ نے فرمایا یہ درست ہے.لیکن موت کا کوئی وقت مقرر نہیں پتہ نہیں.میں مسجد میں پہنچنے سے قبل ہی مرجاؤں گا.اور اس حکم پر عمل نہ کر سکوں.تو خدا تعالے کے سامنے میں کیا جواب دوں گا.کیا خدا تعالے کے سامنے میں یہ کہوں گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم میں نے نہیں مانا تھا.اس لئے جونہی آواز میرے کان میں پڑی تو بیٹھ گیا.چاہے یہ بے قوفی کا کام قرار دے دیا جائے.لیکن اگر مسجد میں جانے سے قبل مجھے موت آگئی تو خدا تعالے کے سامنے ہیں یہ تو کہہ سکوں گا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم جو میرے کانوں میں پڑا مانا ہے.اس طرح جب رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے شراب کے حرام ہونے کے متعلق اعلان فرما یا تو اس وقت کچھ صحی اشیا ایک شادی کے موقعہ پر جمع تھے.ایک مٹکا باقی تھا جس کو وہ شروع کرنے ہی والے تھے کہ ان کے کانوں میں آوازہ آئی کہ شراب حرام ہو گئی ہے.اس پر اُن میں سے ایک نے کہا سنو ! رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے شراب حرام ہوگئی ہے.دوسرے نے کہا.باہر نکل کر ذرا تصدیق کر لو لیکن جس صحابی محور اس نے یہ بات کہی تھی اُس نے ڈنڈا اٹکے پر مارا.اور اسے پھوڑ کر کہا.خدا کی قسم انہیں پہلے مکا توڑوں گا.اور پھر تحقیقات کروں گا جب میرے کان میں آواز پڑگئی.تو تحقیقات کا سوالی بعد میں پیدا ہو گا.عمل پہلے ہو گا پیس صحابہ میں یہ روح تھی کہ وہ احکام پر فوری طور پر عمل کرتے تھے، اور یہ نہیں سوچتے تھے کہ آیا وہ عقلی معیار پر پورا اترتے ہیں یا نہیں " ا تسلسل میں مرید فرمایا :.دو پس تمہیں خدا تعالیٰ کے متعلق اپنی ذہنیت کو بدلنا ہو گا تمہیں کلی طور پر اپنے آپ کو خدا تعالی کے حوالہ کرنا ہوگا.جب تم اپنے آپ کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کے حوالہ کر دو گے.تو تم خدا تعالی کی گود میں ہو گے.اس وقت دشمن تم پر حملہ آور نہیں ہوگا.خدا تعالی پر حملہ آور ہوگا.باقی رہا تکالیف کا سوال.سو تکالیف تو خدا کی جماعتوں کو بڑھانے والی ہوتی ہیں یہ تو جماعت کے تمنے ہیں.سزائیں نہیں.سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء ص ۵۸ - ۵۹
۲۹۰ اور قوم کی تباہی کا موجب خدا تعالیٰ کی سزا ہوتی ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ اُس کا ہو جاتا ہے تمہیں یہ دیکھنا چاہیے.کہ اس قسم کے حملے انفرادی نہیں ہوتے.ایک عرصہ سے مجھے مخالفین کی طرف سے خطوط آرہے تھے کہ یوں ہوگا.اگر اس حملہ کا جو مجھ پر کیا گیا.ایک فرد سے ہی تعلق ہے تو یہ سینکڑوں خطوط کہاں سے آگئے تھے.اس قسم کی باتیں لوگوں نے دوسروں سے شنی ہوئی تھیں تو تبھی انہوں نے تحریر کیں.بہرحال کچھ لیڈر اسحلہ کے پیچھے کام کر رہے ہیں عوام کے خلاف تمہارا جوش اور غصہ بیکار ہے.اس حملہ کے اصل ذمہ دار لیڈر ہیں.اس فعل کا تعلق کیسی ایک فرد سے نہیں.یہ ایک قومی فعل ہے.اور اس کی ذمہ داری قوم پر ہے.اس کا ایک علاج نو یہ ہے کہ حکومت اس طرف توجہ کرے لیکن حکومت اس طرف توجہ نہیں کرتی.دوسرا علاج یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس طرف توجہ کرے.اور خدا تعالیٰ اس طرف ضرور توجہ کرے گا.بشرطیکہ تم اسکی طرف رجوع کرو.خدا تعالیٰ سے کی ہوئی دُعائیں اور اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنا خُدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہیں اور دشمن کو نا کام کرتے ہیں ؟“ لے حضرت مصلح موعود نے اپنی تقریر کے آخر میں ازدواجی حقوق کی ادائیگی اور احمدی نوجوانوں کو آگے لانے کی پر زور تلقین بھی فرمائی اور پھر واپس تشریف لے گئے.ازاں بعد مک عبد الرحمن صاحب خادم اور چوہدری فضل احد صاحب نائب ناظر تعلیم و تربیت نے بالترتیب سب کمیٹی نظارت ملیار دعوت و تبلیغ اور سب کمیٹی نظارت تعلیم و تربیت کی رپورٹ میں پیش فرمائیں اور نمائندگان نے بھی اسی ترتیب سے اپنے خیالات کا اظہار کیا.اور پھر رائے شماری ہوئی.سے اب چونکہ ایجنڈے پر درج شده تمام تجاویز پر شوگر کی میں خوبرہ ہو چکا تھا.اس لئے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اطلاع کر دی گئی.چنانچہ حضور نا سازی طبع کے باوجود اختتامی تقریر اور دعا کے لئے تشریف لائے اور نمائندگان شوری سے ایک پر معارف خطاب فرمایا جس کا خلاصہ شیخ خورشید احمد صاحب رپورٹر الفضل کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے :- ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء ص ۶۳ تھی کہ # ۱۹۵۴ء ص ۷۵ - ۹۲
۲۹۱ فرمایا ، اس وقت ہمارے خلاف بہت سی غلط فہمیاں پھیلا دی گئی ہیں.بہت سے ایسے الزامات ہم پر لگائے جاتے ہیں جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہیں.حالانکہ ہم نے اگر حضرت مرزا صاحب کے لائے ہوئے اصولوں کو بانا ہے تو محض اس لئے کہ ہمیں ان میں اسلام کا فائدہ نظر آتا ہے.مثلا حیات مسیح علیہ اسلام کے عقیدے کو حضرت مرزا صاحب نے قرآن مجید کی رو سے باطل قرار دیا.اور یہ ایک بڑی واضح اور صاف بات ہے کہ عقیدہ حیات مسیح اسلام کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا اور عیسائیت کو تقویت دینے کا موجب ہے.اسی طرح قرآن مجید میں نسخ آیات کے عقیدہ کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تردید لڑائی اور ایک معمو کی عقل کا انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے.کہ اس عقیدہ سے قرآن مجیدہ کی شرعی حیثیت کو سخت دھکا لگتا ہے.اور نسخ کے اصول کو مان کر قرآن مجید کا کوئی حصہ بھی قابل اعتماد نہیں رہتا.اسی طرح اگر ہم نے حضرت مرزا صاحب کے کہنے پر مان لیا کہ اللہ تعالیٰ جس طرح پہلے بولتا تھا اسی طرح اب بھی اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور یہ کہ جہاد کا پیغہوم ہرگز نہیں ہے کہ تلوار کے زور سے دوسروں کو مٹانے اور اسلام کو پھیلانے کی کوشش کی جائے کیونکہ اس طرح خود مسلمانوں پر بھی دشمنان اسلام کو ظلم کرنے کا راستہ کھلتا ہے تو تباد آخر اس عقیدہ سے اسلام کی منک ہوتی ہے باعزت قائم ہوتی ہے.لپس ہمارے خلاف سراسر غلط الزامات لگائے جاتے ہیں تمہارا فرض ہے کہ ان الزامات کا ازالہ کر د.بے شک ہم اس وقت ملکی فضا کے پیش نظر پاکستان کے مسلمانوں میں تبلیغ نہیں کرتے لیکن اگر کوئی اعتراض کرتا ہے اور الزام لگا تا ہے تو اس کا جواب دینے سے دنیا کا کوئی معقول آدمی ہمیں روک نہیں سکتا.حضور نے فرمایا اس وقت تم مظلوم ہو.اور دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ مظلومیت ہی جینا کرتی ہے پس منظومیت سے مست گجرات کہ اسے ظاہر کر د انسان کی لا الہ تعالی نے نیک بنائی ہے اگر تم ان منگولیت کو لوگوں پہظاہر کرو گے تو خو ظلم کرنے والوں کے بھائی بند ان کو ملامت کرنے لگ جائیں گے بین ظلم ہونے دو.اگر تمہارے پاس اس ظلم کا ازالہ کرنے کی طاقت نہیں تو نہ سہی.اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا لیکن شرط یہ ہے کہ تم الہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کر لو.جو اعتراض کرے اس کا جواب دے کر اس کی غلط فہمی کو دور کرد - مرکز کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ رکھو.اپنی اصلاح کرو ، غر یہوں اور کیوں کی مد که در خدمت خلق میں حصہ اور اور آنا نمایاں حصہ لو کہ دنیا اپنے لئے تمہیں ایک مفید اور نافع الناس وجود تسلیم کرے.اور ساتھ ہی ساتھ دن زن پر زور دو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور فرمائے
۲۹۲ للہ تعالی نے تمہیں جو استعدادیں عطا فرمائی ہی اگرتم اللہ تعلی پر توکل رکھتے ہوئے انہیں عقل اور فہم و فراست.کے ساتھ استعمال کرو گے تو پھر یقینا اللّہ تعالیٰ کی مدد تمہیں حاصل ہو جائے گی.اور جب اس کی مدد اور تائید تمہیں حاصل ہو تو پھر دنیا تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی.ہارنے دو بجے حضور ایدہ اللہ تعالی نے تقریر فرمائی اور پھر مجمع سمیت لمبی دعا فرمائی.دعا کے بعد حضور واپس تشریف لے گئے.اور اس طرح جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت کا یہ سالانہ اجلاس بخیر و خوبی اختتام پذیہ تہوار کے دوسری جنگ عظیم دیکم ستمبر ۹ہ دار اگست ۹۴۵ ار) کی تباہ کاریوں نداہب عالم کا نفرنس جاپان نے جہاں یورپ کا سیاسی نقشہ یکسر بدل ڈالا، وہاں جاپانیوں کے سیاسی سے احمد می مبلغ کا خطاب مادی اور نہ ہی نظام کبھی نہ وبالا ہو گئے ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے مشہور شہر ایٹم بم سے کھنڈر بن گئے.اور جاپان کے مصنوعی خدا یعنی بادشاہ ہیرو میٹر (HIROHITO) کی ساری سطوت و حشمت خاک میں مل گئی ” شفٹوازم جاپانیوں کا قومی اور سرکاری مذہب تھا جس میں بادشاہ کی پوجا کی جاتی تھی.دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر امریکی جنرل میکارتھر نے اس مذہب پر پابندی لگاری اور بادشاہ کی عبادت کا خاتمہ کر دیا.پھر کچھ عرصہ بعد جب اہل جاپان میں آزادی کی روح عود کر آئی تو انہوں نے خود ہی نئے دستور میں سے شنٹو ازم کو بالکل الگ کر دیا.جس سے ملک میں ایک زبر دست مذہبی خلا پیدا ہو گیا.اور کئی دبی تحریکوں نے جنم لیاجن میں سے ایک کا نام انا نا نیکیو ANA NAI-KY GI ہے.اس تحریک کے زیر انتظام ۳ اپریل سے لیکن ارا اپریل ۵۳ ام تک جاپان کے شہر شمیزو (SHIMIZU) میں ایک ہب عالم کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں منتظمین نے مندر بین کو مندرجہ ذیل دس سوالات دیتے کہ وہ ان کے جواب اپنے مذہب کی رو سے پیش کریں :- مذہبی لوگ موجودہ دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ - مذہبی لوگ انسان کی راہنمائی کیسے کر سکتے ہیں ؟ مذاہب کی تعلیمات کی بہت یاد کسی امر کو بنایا جائے؟ به روز نامه الفضل " لاہور ۲۷ شہادت ۱۳۳۳ میش / اپریل ۱۹۵۴مه ۲۰
۲۹۳ ۴.آپ کی نظر میں بدروحوں اشیاطین اور جنات کا عالم روحانی میں کیا کردار ہے؟ تمام مذاہب کو ایک کر دینے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ 4 عالمی امن کو بروئے کار لانے میں مذہبی لوگوں کا کیا حصہ ہے ؟ مذہبی لوگ صحیح البیان اور تو مہمات کے درمیان کیا فرق کرتے ہیں ؟ - مذہب اور اخلاقیات کا باہمی رشتہ کیا ہے ؟ کسی نجی کے ظہورہ کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے ؟ عالمی امن اور انسانی فلاح و بہبود کے بارے میں آپ کی تعمیری آراء کیا ہیں ؟ اس ہفت روزہ کا نفرنس میں دنیا بھر کے تیس کے قریب نمائندے شریک ہوئے.بیرونی ممالک کے نمائندوں نے انگریزی میں تقاریر کیں جن کا ترجمہ جاپانی میں سنایا گیا.کانفرنس میں تین مسلمان نمائندوں کے لیکچر ہوئے.جن میں سے ایک انڈر ویشن پیر صاحب کے مرید تھے جنہوں نے اپنے پیر صاحب سے ہوگا کا علم سیکھا تھا اور وہ اسی پر زور دیتے رہے.دوسرے حیدر آباد دکن کے تھے جن کی تقریہ کا موضوع امن تھا.تیسرے نمائندہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر انچارج امریکی مشن تھے جنہوں نے اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کیا.سنہ چو هوری خلیل احمد صاحب ناصر کا بیان ہے کہ :- کا نفرنس کے پہلے ہی دن مجھے اللہ تعالیٰ نے موقعہ ہم پہنچایا کہ میں نے تین سوالوں کے جوابات پیش کئے ہیں نے اس میں دنیا کی موجودہ حالت اور جاپان کی جنگ عظیم میں شرکت اور مصائب کا ذکر کیا اور ان کا اسلامی نقطہ نگاہ سے حل پیش کیا.میری تقریب کے بعد جو انگریزی میں تھی جاپانی میں اس کا ترجمہ سنایا گیا جس کے اختتام پر دیر تک تالیاں بجتی رہیں.بعد میں صدر جلسہ نے مجھے لکھ کر بتلایا کہ میں نے اپنے صدارتی ریمارکس میں جو ہر تقریر کے بعد ہوئے تھے یہ کہا ہے کہ میں آپ کی باتیں سُن کہ جذبات پر کنٹرول کر نیکی تاب نہ لا سکا اور میری آنکھیں آنسوؤں سے ڈ بڑھاتی رہیں.میں اِن آنسوؤں کو آپ کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کرتا ہوں.میرے علاوہ دیگر مقررین نے ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش ہی نہ کی اور اگر کی تو مختصراً.جب آخری دن آیا اور ابھی کافی نے ان جوابات کا منفن رسانه ریویو آن ریلیج " انگریزی (ربوہ) با بہت جولائی اگست ۱۹۵۴ء میں چھپ گیا تھا.
۲۹۴ مقررین کو تقریر کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھاتو مجھ سے پوچھا گیا کہ میں باتی سات سوالات کا بھی جواب دوی.نیز کہا کہ بہر حال آپ ان سات سوالات کے جوابات مکمل بیان کریں اور وقت کی پروا نہ کریں.جتنا چاہیں وقت لیں.چنانچہ میں نے تمام سوالات کے جواب پیش کئے اور ان کا لفظ بلفظ جاپانی زبان میں ترجمہ اخبارات میں شائع کیا گیا.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو اسلام سے ایک خاص شغف پیرا ہوا.یہ پہلا موقعہ جاپان میں تھا کہ اس قدر چنیدہ مجمع میں اسلامی نمائندہ کی طرف سے تقریر کی گئی.لوگوں نے قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کیا.دسویں سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ بجائے اس کے کہ ہر مذہب کے لوگ اپنی اپنی الہامی کتب کی اشاعت کریں کیوں نہ ایک کمیٹی بنادی جائے جو تمام الہامی کتب شائع کیسے.میرے نزدیک موجودہ حالات میں یہ نہایت بہترین صورت ہے یا یہ کہ ہر ایک مذہب کے نمائندہ سے ایسی کتب کی جائیں جو ان کی الہامی کتب سے مستنبط دلائل پر مشتمل ہوں اور کمیٹی مشترکہ طور پر ایسی کتب شائع کرے یہ بھی نہیں نے پیش کیا کہ تمام مذاہب بہت باری تعالی کے قائل ہیں اور کیمونزم ہی ایک ایسی ار ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی مستی کا انکار کرتی ہے.اس لئے کیوں نہ سب مذاہب مل کر اس کے خلاف ایک مذہبی محاذ بنائیں اور مقابلہ کریں.پھر ایک یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ گھر دنیا تہذیب و تمدن کا دعوی کرتی ہے مگر اس میں مذہبی تعصب ابھی با تی ہے جس کی بنا پردہ بز در طاقت فریق مقابل کو کھلنا چاہتی ہے اس لئے ایسے مذہبی تعصب کے خلاف خواہ یہ کسی کی طرف سے بھی ظہور میں آئے ہمیں مل کر آواز اٹھانی چاہیے.میں نے کہا......اگر ایسا ہو سکے تو ہمارے لئے یہ تجاویز نہایت مفید ثابت ہو سکتی ہے لیے راہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصرایم اسے انجائنج امریکی مشن کی تقریر جامعة المبشرین میں سوالہ روز نامہ الفضل لا ہو مورخہ ۲۷ ہجرت سلام / ۲۷ مئی ۹۵۲ه مث کالم ۳ - ۴) ۱۳۹۳
۲۹۵ فصل چهارم حضرت مصلح موعود کا ہر احسان رجون کو بذریعہ جناب ایکسپریس بدہ حضرت مصلح موعودہ کا سفر سندھ سے کراچی تشریف لے گئے.ریلوے اسٹیشن پر سینکڑوں مدام نے پر سوز دعاؤں کے ساتھ اپنے پیارے امام کو الوداع کہا.اس سفر میں حضرت سیدہ اتم منین صاحبہ نصرت سیده بشری بیگم صاحبہ اور بعض دیگر افراد خاندان کے علاوہ عملہ پرائیویٹ سیکرٹری کے کچھ ارکان کو حضور کی معیت کا شرف حاصل ہوا حضور نے اپنے بعد، ار احسان / جون تک مولانا جلال الدین صاحب شمس کو اور اس تاریخ کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو امیر مقامی مقرر فرما یا بنه حضرت مصلح موعود ہر ماہ وفا جولائی تک کراچی میں قیام فرمار ہے.ازاں بعد ناصر آباد، محمد آباد، محمود آباد دنیشد احمدی اسٹیٹس میں تشریف لے آئے حضور نے سفر سندھ کے دوران احمدیوں کو تبلیغ اسلام اور محنت کی طرف خاص توجہ دلائی.چنانچہ از ماه ظهور را اگست کو محمد آباد میں خاص اسی موضوع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :- گورنمنٹ نے اپنی مصلحتوں کے ماتحت اجن کو میں ٹھیک سمجھتا ہوں سرکاری افسروں اور ساری ملازمین کو تبلیغ سے روک دیا ہے.لیکن اس کا عوام الناس سے کوئی تعلق نہیں.پس تمہیں کوئی قانون اپنے بھائی بندوں کو تبلیغ کرنے سے نہیں روک سکتا، بشر طیکہ تم ان سے کام لو اور فتنہ کو ہوا ان دو.تمہیں صرف فساد سے روکا جاتا ہے اور فساد اور تبلیغ کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دوسرے کو نیکی کی تلقین کرے اور پھر خود ہی فساد کرنے لگ جائے.ہاں اگر دوسرا شخص فساد کرتا ہے تو یہ اس کی اپنی غلطی ہے.تبلیغ کرنے والے کا اس میں کوئی قصور نہیں.میں ۳۳۳ایش صفحه ما الفضل (لاہور) در احسان /جون ۱۹۵۴ء
۲۹۶ دیکھتا ہوں کہ یہاں ہماری جماعت کے کثرت سے لوگ موجود ہیں.مگر پھر بھی وہ تبلیغ نہیں کرتے.نصرت آباد اور جھڈو سے چلو اور ناصر آباد تک آؤ تو ایک ہزار کے قریب احمدی مرد مل جائے گا اور عورتیں اور بچے ملاکر چار پانچ ہز از تک اُن کی تعداد ہوگی.یہ اتنی ہی تعداد ہے جتنی ابتدا میں قادیان کی ہوا کرتی تھی مگر اس وقت قادیان کی تبلیغ سے ارد گرد کے کئی گاؤں احمدی ہو گئے تھے صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ تم اپنے اندر یکی پیدا کرد اور رگوں کو یک نمونہ دکھاؤ.اگر تم زیادہ محنت کرتے ہو تو جب لوگ تمہاری فصلوں کے پاس سے گزریں گے توہر دیکھنے والا تمہاری اچھی فصل کو دیکھ کہ کہے گا کہ احمدی بڑے محنتی ہوتے ہیں.پھر جب دوبارہ گزرے گا.تو تم کہو گے کہ کچھ دیر کیلئے ہمارے پاس بیٹھ جاؤ گرمی کا موسم ہے.کچھ پانی وغیرہ پی لو اس سے دوہ اور زیادہ متاثر ہو گا.اور کہے گا احمدی تو فرشتے ہوتے ہیں پھر کسی دن اگر اس کا تمہارے ساتھ معاملہ بڑے گا یا تمہارے پاس وہ کوئی امانت رکھ جائے گا یا تم سے سودا خرم رہے گا اور تم اسے اچھا سودا دو گے یا امانت میں خیانت سے کام نہیں لو گے تو پھر تو وہ اتنا متاثر ہوگا کہ جس کی حد ہی کوئی نہیں.نیز فرمایا : خدا تعالیٰ نے اس وقت تمہیں ثواب کا بہت بڑا موقع دیا ہے اگر تم چاہو.تو تم ذرا سی محنت اور توجہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہو.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا اسلام کی طرف توجہ کر رہی ہے مگر ہمارے پاس لڑ پھر نہیں.کتابیں نہیں رو پیر نہیں کہ ان ذرائع سے ہم انہیں اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرسکیں.لیکن تم ان ضرورتوں کو بڑی آسانی سے پورا سکتے ہو.کیونکہ تمہاری محنت اور کھائی کے نتیجہ میں ہی روپیہ پیدا ہو گا.اور پھر وہی روپیہ تبلیغ اسلام کے کام آئے گا.اگرتم دیانتداری کے ساتھ محنت کرد تو نہ صرف تمہاری اس محنت کا نہیں بدلہ ملے گا بلکہ انجمن تمہارے رو پہلے سے جو تبلیغ بھی کرے گی اس کے ثواب میں تم حصہ دار ہوگے.رسول کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص کسی کے مال کو تقسیم کرتا ہے اور دیانتداری اور انصاف سے کرتا ہے اسے صدقہ دینے والے کے برابر ثواب ملتا ہے.بہن بے شک انجمن کو بھی ثواب ہوگا لیکن تمہیں بھی ثواب ہوگا.اس لئے بھی کہ تمہارے روپے سے انجمن نے تبلیغ کی اور اس لئے بھی کہ تم نے اچھی نگرانی کی اور محنت سے کام کیا.گویا تمہیں نہین ثواب ملیں گے.پہلا ثواب انجمن کے ثواب سے ملے گا دوسرا ثواب تمہارے اپنے چندہ
کی وجہ سے ملے گا اور تیسر اثواب تمہیں اس لئے لے گا کہ تم نے فصلوں پر محنت کی اور اچھی نگرانی کر کے سلسلہ کے مال کو بڑھایا اور کسی کو تین گنا ثواب مل جانا تو ایک لوٹ ہوتی ہے.اگر تمہارے پاس ایک سو روپیہ ہو جو اگلے سال تین سو ہو جائے.اس سے اگلے سال نو سو ہو جائے.اس سے اگلے سال ستائیں سو ہو جائے تو پچاس سال کے اندر ساری دنیا کی دولت تمہارے پاس آجاتی ہے پس تین گنا ثواب کوئی معمولی ثواب نہیں.یہ ایک کوٹ ہے جس کا کوئی شاہی خزانہ بھی متحمل نہیں ہو سکتا.پس اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں موقعہ دیا ہے.اس سے فائدہ اٹھاؤ.ہمیں بھی جتنے سامان میسر آئے ان سے ہم تمہیں فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں گے.لے حضور نے ۲۰ ظہور / اگست کو ناصر آباد میں جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ اس مضمون پر مشتمل تھا کہ اگر دیندار بننا چاہتے ہو تو ان سارے طریقوں کو اختیار کر وجو دینی ترقی کے لئے ضروری ہیں.اور جو شخص پورے طور پر نہ دین کا بنتا ہے نہ دنیا کا خدا تعالی اس کی مدد نہیں کرتا.سے ظہور / اگست کا مجمعہ حضور کے سفر سندھ کا آخری جمعہ تھا جس میں حضور نے نہایت لطیف اور موثر پیرا یہ میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ اگر انسان سیکھنے کی نیت رکھے تو زمین کی اینٹیں، پہاڑوں کے درخت اور جنگلوں کی جھاڑیاں بھی اس کے لئے قرآن و حدیث کی تفسیر بن جاتی ہیں.نیز بتایا کہ انسانی ترقی کا اصل گریہ ہے کہ جو چیز اسے اچھی نظر آئے اسے مضبوطی سے پکڑے سے اس سفر میں حضور عب ناصر آبا د تشریف لے گئے تو شروع شروع میں تو یہ معلوم ہوا کہ آب و ہوا کی وجہ سے پہلے کی نسبت زخم کی تکلیف میں افاقہ ہے.لیکن بعد میں ٹھنڈی ہوا چلنے سے گردن کا کھچاؤ بھی بڑھنے لگا اور ورم اور درد بھی زیادہ ہوناشروع ہوگیا.اور بعض اوقات معمولی سے جھٹکے کے ساتھ گردن میں پہنچ پڑ جاتا تھا.اور جیسا کہ حضرت مصلح موعود نے بعد میں خود بیان فرمایا کہ : اس درد کے ساتھ زخم کے اوپر اس قسم کی جلن محسوس ہونے لگی جیسے کوئی شخص لوہا تپاک ہاتھ میں له روزنامه الفضل لاہور ما ظهور ۱۳۳۳ ، مش ۱۸ اگست ۱۹۵۴ ه ص ۴-۵ / له الفضل مرتبوک ۱۳۳۲ مش / ستمبر ۹۵له ص ٣-٤ الفضل ۲۹ تبوک ۳۳۳ مش ر ستمبر ۹۵ ر م ۳-۴
پکڑے ، اس ہاتھ میں جو کیفیت گرم لوہے کو پکڑنے کے وقت پیدا ہوتی ہے.وہی کیفیت اس ملبن کی تھی جو زخم کے اوپر کے حصہ میں درد کے ساتھ ساتھ محسوس ہوتی تھی." بیماری کی اس کیفیت کے باوجود حضرت مصلح موعود نے سندھ میں اپنی دینی تنظیمی اور اصلاحی سرگرمیوں کو جاری رکھا.اسی دوران کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ربوہ سے متعد د خطوط حضور کی خدمت میں موصول ہوئے جن میں یہ درخواست کی گئی منفی کہ زخم کا ڈاکٹر سے معائنہ کرانا چاہیئے.لیکن حضور نے فیصلہ فرما یا کہ اب آخری ایام میں چند دنوں کے بعد لاہور چلے جانا ہے.ربوہ جانے کے بعد لاہور جاؤں گا لے لے.چنانچہ حضور جلد ہی ناصر آباد سے پنجاب کوانہ ہو گئے.اور یکم تبوک ستمبر کو ربوہ میں رونق افروز ہوئے سیکے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب وسط ۱۹۵۴ء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی علالت اور قیام لاہور کوشدی طور پر ہار ہوگئے پہلے تقرص کی تکلیف ہوئی پھر ۲۹ جون ۱۹۵۲ء کو یک دم نقاہت بہت زیادہ ہوگئی اور تنفس بھی بہت زیادہ تیز ہوگیا.الفضل ۴ ار تبوک ۱۳۳۳ بیش ار ستمبر ۱۹۵۴ء ص ۳ حضرت مصلح موجود سفر سندھ سے واپسی کے بعد بغرض علاج تین بار لاہور تشریف لے گئے.۱ - ۱۳ تا ۱۶ تبوک ستمبر ۲- ۳۰ اخا ر کنو به تا یکم نبوت / نومبر ۳- ۲۰ تا ۲۲ دسمبر فتح دوسرے سفر میں حضور نے مولانا عبدالرحیم صاحب در و ناظر امور عامہ کی دختر نیک اختر رضیہ درد صاحبہ کی تقریب رخصتانہ میں اور تیسرے سفر میں قاضی محمد شریف کے صاحبزادے کیپٹن ارشد محمود جاوید صاحب کی دعوت ولیمہ میں شرکت فرمائی حضور نے محترمہ رضیہ درد صاحبہ کا نکاح اور دسمبر سال کو محترم مسعود احمد صنا عاطف پر فی تعلیم الاسلام کا لج ربوہ سے پڑھا اور کیٹین ارشد محمود جاوید صاحب کا نکاح محترم کرنل تقی الدین احمد صاحب آئی ایم ایس کی صاحبزادی فرحت سلوبا کے ہمراہ تیسرے سفروں ہور کے دوران پڑھا تھا.د رپورٹ سالانه صد را نمین احمدیہ پاکستان ۵۵-۱۹۵۴ء صفحه در رالفصل ۲ نبوت ۱۳۳۳ هش/ نومبر ص ۱ - المفضل ۲۲ فتح ۱۳۳۳ هش/ دسمبر ۱۹۵۴ء ص ا کالم ۲) سے الفصل ۲ تبوک ۱۳۳۳ ش ص ۱
۲۹۹ فوری علاج کے لئے آپ یکم جولائی کو لاہور لائے گئے جہاں آپ نے بغرض علاج ساڑھے تین ماہ قیام فرمایا.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی طبیعت پہلے سے بہت بہتر ہو گئی.اور آپ 4 اکتو بر ۱۹۵۴ء کو لاہور سے ربوہ واپس تشریف نے آئے.روانگی سے قبل حضرت میاں صاحب نے جماعت احمدیہ لاہور کے نام حسب ذیل پیغام اشاعت کے لئے عنایت فرمایا : میں لاہور سے ربوہ جاتے ہوئے احباب لاہور کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے ساڑھے تین ماہ کے قیام لاہور میں نہ صرف میری صحت کیلئے دردِ دل سے دعائیں کیں.بلکہ عیادت اور اخلاص اور محبت کے حق کا بھی کامل اسلامی نمونہ دکھایا.جزاکم اللہ خیرا.احباب دعا جاری رکھیں کہ اللّہ تعالیٰ مجھے جلد پوری شفا دیکر خدمت دین کی توفیق دے اور ہم سب کو حسنات دارین سے نوازے اور حافظ و ناصر ہویے الفضل ۲ جولائی و ۷ ار اکتوبر ۱۹۵۳ئه مطابق بر وفادار اخاء ۳۳۳ ش
٣٠٠ فصل پنجم باب مشرقی پاکستان اور اگست شانہ کے شروع میں مشرقی پاکستان ایک تباہ سیلاب اور کی سیلاب کی زد میں آگیا.یہ سیلاب ایسا خوفناک تھا کہ جماعت احمدیہکی امدادی سرگرمیاں را کے پسینے سے وانا فوری قراردیا.منہ ڈھا کہ اسے بنگال کے احمدی مبلغین کی طرف سے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں یہ رپورٹ پہنچی کہ ایک بستی کے باشندوں نے ہمیں فون کیا کہ کوئی شخص ہماری حالت نہیں پوچھتا آپ کم از کم کوئی آدمی تو ہمارے پاس بھجوائیں، تا یہ دیکھ کر کہ ملک میں ہمارے پُرسان حال موجود ہیں ہماری ہمت بندھ جائے.چنانچہ مبلغین کی ایک وند وہاں پہنچا.ہر طرف پانی ہی پانی کھڑا تھا گاؤں کا کوئی شخص ایک کشتی لے آیا اور انہیں اس میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا.انہوں نے دیکھا کہ لوگوں نے پانی میں بانس گاڑ کر ان پر گھاس پھونس ڈال رکھا ہے وہ ان بانسوں کی چھتوں پر ہی سوتے اور انہی پر کھانا پکاتے ہیں مبلغین کو دیکھ کر گاؤں کے سب لوگ جمع ہو گئے اور سه اخبار پاسیان یکم ستمبر ۱۹۵۴ء - پاکستان پوسٹ در ستمبر ۱۹۵۴ء (جواله الفضل ۱۵ ار ستمبر ۱۹۵۴ء ص ۴) سے اُن دنوں مندرجہ ذیل سینہ مبلغین خدمات سلسلہ سجا لا رہے تھے : ا مولانا رحمت علی صاحب در تئیس المبلغین - مباشر محمد عمر صاحب فاضل.مولوی محمد جمیل صاحب شاہد ڈھاکہ) مولوی ظل الرحمن صاحب فاضل (بر من بڑیہ) سید اعجانا صد صاحب (تیج گاؤں).مولوی محب اللہ صاحب (چار کیا، علاوہ ازیں مولوی ممتاز احمد صبا مولوی علی اله صار مولوی منور علی صا بالترتیب ڈھاکہ بیٹا انگار کو سیل میں دیہاتی مبلغ کی حثی سے مصروف عمل تھے.رپورٹ سالانہ مد انجمن احدید پاکستان ۵۳ ۱۹۵۳ ص ۵۷)
٣٠١ اس طرح زار و قطار رونے لگے جیسے کوئی گہرا دوست سالہا سال کی جدائی کے بعد طلا ہو مبلغین نے انہیں کچھ چاول ہے اور کہا ہم غریب لوگ ہیں لیکن پھر بھی چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی تکلیف میں حصہ لیں.انہوں نے چاول واپس کر دیئے اور کہا ہمیں اس بات کا ڈر نہیں کہ ہم فاقوں مر جائیں گے.ہم میں سے جس کے پاس کچھ غلہ یار ہے ہیں.وہ دوسروں کی مددکرتا ہے.ہمیں صرف یہ احساس تھا کہ ملک میں نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں.اب آپ آگئے ہیں.تو ہمیں سب کچھ مل گیا ہے اور ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ ہماری تکلیف کا احساس کرنے والے تک میں موجود ہیں بے حضرت مصلح موعود نے ستمبر ۱۹۵۴ء کے خطبہ جمعہ میں یہ دردناک واقعہ بیان کرنے کے بعد احمدیوں سے پرندور تحریک فرمائی کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی ہرممکن مدد کریں اور ان کے لئے جلد سے جلد چندہ جمع کر کے حب الوطنی کا ثبوت دیں.نیز بتایا کہ : اس سلسلہ میں کراچی کی جماعت نے سب سے پہلے قدم اٹھایا ہے.انہوں نے پانچ ہزار رو پہلے کا وعدہ کیا تھا جس میں سے تین ہزار سے اوپر چندہ انہوں نے جمع کر لیا ہے.جن جماعتوں نے اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی قدم نہیں اُٹھایا میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ چندہ جمع کریں اور اسے مرکز میں بھیجیں مرکز بھی اپنے پاس سے کچھ رقم دے گا کیونکہ ان لوگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اخراجات کم کر کے مصیبت زدہ لوگوں کے لئے کچھ رقم نکالیں.پھر جو رقم جمع ہو اس میں سے کچھ رقم حکومت کے مقرر کردہ نظام کو بھجے دی جائے.اور کچھ رقم جماعت کو بھیج دی جائے تاکہ وہ اپنے ہمسایوں میں جو تقسیم کرے سے اس تحریک کے بعد ڈھاکہ، نرائن گنج اور پنج گاؤں کے سیلاب زدہ علاقوں میں احمدی نوجوانوں نے امدادی سرگرمیاں پہلے سے زیادہ تیز کردیں چنانچہ مستمر کو نذرالاسلام صاحب جنرل سیکر ٹری کی زیر قیادت آٹھ قدام کا ایک وند نرسندی گیا.وفد کے ساتھ ٹیکے اور دیگر ضروری اور یہ تھیں.خدام نے پیج گاؤں میں بھی مولوی ستید اعجاز احمد صاحب کے زیر اہتمام کام کیا اور وہ سیلاب زدہ علاقوں میں بھی گئے جہاں مفلوک الحال کسانوں میں ه الفضل ۱۴ تبوک ۱۳۳۳ مش / ۱۲ ستمبر ۱۹۵۴ء ص ۴ الفصل ۱۴ تبوک ۳۳۳ آبش/ ۱۴ارستمبر ۱۹۵۴ء مث کالم۳
٣٠٢ اردو تیر اور کھانے پینے کی اشیاء کپڑے، برتن ، صابن وغیرہ ضروری اشیاء تقسیم کیں اور بہت سے لوگوں کو ٹیکے لگائے بلے ر تبوک ستمبر سے ۱۳ تبوک / ستمبر تک نیچ گاؤں کے سیلاب زدہ علاقے میں پانچ صدا فراد کو ہیضے کے ٹیکے لگائے گئے.اور ڈیڑھ سو افراد کو روزانہ دودھ اور ادویہ مہیا کی جاتی رہیں.علاوہ ازیں ایک امدادی پارٹی نے میر پور یونین کے پندرہ میل کے علاوہ میں پیدل اور کشتی کے ذریعہ سفر کر کے ۱۸ دیہات میں ہیضے کے ٹیکے لگائے اور ان میں دُودھ ، دوائیں اور کپڑے تقسیم کئے ہے ۱۵ تبوک / ستمبر کو مہاشہ محمد عمر صاحب، مولوی محمد اجمل صاحب شاهد اور مولوی احسان اللہ صاحب نے موضع اینگلہ میں کشتی کے ذریعہ دورہ کیا.اس گاؤں کی اکثریت اچھوتوں پر مشتمل تھی.یہ وفدان کے لیڈر شری نفس کمار کے مکان پر لے.انہیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ جماعت احمدیہ کے میجر ریلیف کا کام کر رہے ہیں.دند گاؤں میں دودھ اور دوائیں تقسیم کرنے کے بعد نرائن گنج پہنچا اوران کیمپوں کا معائنہ کیا جن میں احمدی نوجوان کام کر رہے تھے.ان نوجوانوں نے کیمپوں میں ڈیوٹی دینے کے علاوہ چار دن کے اندر ۶ار ہزار ٹیکے لگائے سے ۲۵ ماه تبوک استمبر کو مولانا رحمت علی صاحب، مہاشہ محمد عر صاحب اور مولوی محمد اجمل صاحب شاہد ریلیف کے کام کے لئے دوبارہ موضع پگلہ میں گئے اور غریب اور مصیبت زدہ لوگوں میں چاول، دودھ اور ضروری ادویا تقسیم کیں کہ جماعت احمدیہ نے برہمن بڑیہ ، شال سہیل پور اور کروڈا میں بھی ریلیف کا کام کیا.شے احمدی نوجوانوں کے علاوہ لجنہ اماء اللہ کی کارکنات بھی بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور بیگم صاحبہ چہ پدری انوار احمد صاحب کا ہوں ، بیگم صاحبہ شیخ محمود الحسن کی زمیہ ہدایات عورتوں میں ریلیف کا کام کرتی رہیں.شہ مختصر رپورٹ جناب مولوی احد اصیل صاحب شا ہریر بی سلامتی ڈھاکہ نے اپنی مختصر یو نٹ میں کھا کہ ه الفضل ۱۴ تبوک ۱۳۳۳ مش / ستمبر ۱۹۵۴ء ص ۱۸ مکتوب مولوی محمد اجمل صاحب شاهد) بجے رپورٹ سید اعجاز احمد صاحب مبلغ سلسله ، الفضل یکم اخاء ۳۳۳ شش مث الفضل ۱۹ تبوک ۱۳۳۳ ش ص ۸ له الفضل ، را خام ۱۳۳۳ ش ص ۸ ه الفضل ۲۰ را خام ۱۳۳۳ ش ص ۷ الفضل واستمبر ۱۹۵۴ء ص ۸ شه حال امیر و مشنری انچارج احمدیہ مسلم مشن نائیجیریا
۳۰۳ در اس سیلاب کے موقعہ پر خدام الاحمدیہ ڈھاکہ نرائن گنج اور تین گاؤں نے مکرم ڈاکٹر عبدالایمان صاحب نائب صدر خدام الاحدید مردم عبد الجلیل صاحب عشرت قائد ڈھا کہ محمد عمر بشیر احد خان - مکرم مہاشہ محمدمر صاحب اور مولوی سید اعجاز احمد خان کی قیادت میں اپنے اپنے علاقہ میں ریلیف کا کام کیا.حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اس موقعہ پر جماعت کو یہ ہدایت بھجوائی کہ اکٹھے مل کر کام کیا جائے.نیز حضور نے فوری طور پر اپنی طرف سے ایک ہزارہ دو یہ بھی بھجوایا اور مزید رقم بھجوانے کا دعدہ فرمایا.ڈھاکہ الحمین :- ا.ڈھاکہ سے خدام الاحمدیہ کے وفود امدادی کام کے لئے نرائن گنج.دیو بھوگ سو مل پاڑہ دفتر میں با قاعدہ جاتے رہے.ان علاقوں میں تقریباً یکصد رو پر نقد سے زائد تقسیم کرنے کے علاوہ مصیبت لوگوں میں چاول.دال دودھ.اوریات وغیرہ اشیاء تقسیم کی گئیں.- گیارہ خدام نے اپنے آپ کو بطور والنٹیر پیش کیا جن کے نام ریلیف کشنر کے پاس بھیج دیئے گئے.خدام الاحدیہ کے فنڈ سے کافی مقدار میں انجکشن خریدے گئے تاکہ وہ غریب لوگوں کو لگائے جائیں.ہم.ڈھاکہ میں اپنے علاقہ میں صفائی کا پر وگرام بھی خدام الاحمدیہ کی ایک میٹنگ میں سے کیا گیا چنانچھ ڑی بڑی ٹی خرید کراس کو چھڑکے اور صفائی کا کام بھی شروع کیا گیا.نرائن نخ : نرائن گنج میں ہمارے خدام با وجود خود سیلاب سے متاثرہ ہو جانے کے پھر بھی بڑی جانفشانی کے ساتھ ریلیف کے کام میں مصروف رہے اور خدمت خلق کا کام سرانجام دیتے رہے.ا تقریباً پندرہ خدام نے باقاعدہ تین ریف سنٹروں میں ڈیوٹی دی.خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے کام کا بہت اچھا اثر ہے.تمام خدام نے ڈیوٹی کے دوران اپنے بیج با قاعدہ نمایاں طور پر لگائے رکھتے.به خدام کے بعض و خود نرائن گنج کے ارد گرد کے گاؤں میں جاتے رہے اور ان کو انجکشن دینے کے علاوہ دوسری اوریات اور کھانے پینے کی چیزیں دیتے رہے.۴.منکریم قدر الاسلام صاحب جنرل سیکرٹری خدام الاحمدیہ کی زیر قیادت قریباً آٹھ اقدام کا ایک وند سرسندی میں گیا.وفد کے ہمراہ چھ ہزار لوگوں کے لئے انجکشن کے علاوہ کافی مقدار میں ضروری
۳۰۴ اوریات وغیرہ تھیں.تیج گاؤں : تیج گاؤں میں ہمارے خُدام روٹری کلب کے ساتھ مل کر ریلیف کے کام میں مصروف ہیں چنانچہ وہ کیمپوں میں کام کرنے کے علاوہ باہر دیہاتوں میں انجکشن دیتے اور ضروری ادویات تقسیم کرتے ہیں.اس کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں.پرانے کپڑے برتن اور صابن وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ہے بنگلہ پریس نے جماعت احمدیہ کی اس اسلامی خدمت کا خصوصی ذکر کیا.چنانچہ روزنامہ بنگلر پریس میں ذکر سنگبا د ڈھا کہ نے اپنی ۲ ار ستمبر ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں جماعت احمدیہ کی امدادی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے مشرقی پاکستان کے سیلاب زدہ بھائیوں کی مدد کے سلسلہ میں ہر حدی سے کھانا، کپڑا اور نقدی دینے کی اپیل کی ہے.آپ نے اپنی طرف سے بھی انجمن احمدیہ مشرقی پاکستان کی معرفت دو ہزار روپی ارسال فرمایا ہے اور مزید دو پیر پہنچنے کا وعدہ فرمایا ہے.نیز آپ نے مشرقی پاکستان کے لئے ایک سیلاب کمیٹی بنائی ہے.ڈھاکہ، نارائن کینچ اور تین گاؤں کے علاقہ کے دیہات میں انجمن احمدیہ کے والنٹیر گھوم گھوم کر امدادی کام سرانجام دے ہے ہیں ، چاول، دودھ وال اور دوائیاں ان کے ساتھ ہوتی ہیں جنہیں وہ تقسیم کرتے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے سیلاب زدگان میں نقدی بھی تقسیم کی ہے.نارائن گنج کے علاقہ میں پندرہ والنٹیٹرز تین ریلیف کیمپوں میں کام کر رہے ہیں اور سچل باڑھ اور پچکر میں اچھوت اقوام کے سیلاب زدگان کو انہوں نے کھانے کی اشیاء اور دوائیاں بھی پہنچائی ہیں.آٹھ نوجوانوں کی ایک پارٹی نرسندی کے علاقہ میں دوائیں اور ٹیکے وغیرہ دینے کے لئے دورہ کر رہی ہے.پیچ گاؤں کے دانٹیٹرز روٹری کلب والوں کے ساتھ مل کر ریلیف کا کام کر رہے ہیں سے (ترجمہ) اسی طرح بنگلہ کے مشہور اخبارہ ملت" ڈھاکہ نے اپنی ۲۰ ستمبر ۱۹۵۴ ء کی اشاعت میں بنگلہ اور نرسندی ه رساله خالد ربوہ نومبر ۱۹۵۴ء ص ۳۰-۳۱ بحواله الفضل ۱۹ تبرک ۱۳۳۳ مشس / ستمبر ۱۹۵۲ء ص ۸
۳۰۵ میں جماعت احمدیہ کے امدادی کام کا ذکر ان الفاظ میں کیا :- گذشتہ ۲۵ ستمبر کو جماعت احمدیہ کے ریلیف در کرنے کا ایک وفد نرائن گنج کے علاقہ پیلا میں سیلاب زدوں کی امداد کے لئے گیا.رند نے وہاں چاول، دودھ اور ادویات تقسیم کیں جماعت احمدیہ کے ریلیف ور کوز کا جو وند نرسندی میں گیا اُس نے وہاں تقریباً چالیس ہزار افراد کو ٹیکے لگائے ہیں اور ضروری اور یہ تقسیم کی ہیں.علاوہ ازیں یہ وفد نر سندی بازار کی صفائی کا کام بھی عوام کے ساتھ مل کر کر رہا ہے.اے (ترجمہ) سیلاب پنجاب مجالس خدام الاحمدیہ کی خصوصی خدمات ملک و شرق پاکستان کے قیامت خیز طوفان کو کی ہلاکت آفرینیوں سے نجات نہیں ملی تھی کہ ماہ تبرک استمبر کے آخری ہفتہ میں پنجاب کے دریاؤں میں زبردست طغیانی آگئی جس نے لاہور، گوجرانوالہ سیالکوٹ گجرات اور مجنگ کے اضلاع میں زبر دست تباہی مچادی شہری آبادی کے اعتبار سے سب سے زیادہ نقصان لاہور کا ہوا جہاں ہزاروں مہاجرین بے خانماں سینکڑوں جھونپڑیاں بربادا در ہزاروں مکانات منہدم ہو گئے.اور لاکھوں شہری مصیبت عظمی کا شکار ہو گئے.صوبہ پنجاب خصوصا لا ہور اور ر بوہ کی مجالس خدام الاحمدیہ نے اس قومی المیہ کے موقع پر جب وسیع پیمانہ پر امدادی سرگرمیاں انجام دیں وہ اپنی نظیر آپ تھیں.ملک کے مقتدر حضرات اور با اثر اخبارات نے مجلس کی شاندار مساعی پر خراج تحسین ادا کیا.ذیل میں صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ کے الفاظ میں ان صوبہ گیر مدادی سرگرمیوں کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں.خدمت خلق خدام الاحمدیہ کے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے مجلس خدام الا حمرتبہ کے قیام کے وقت اس کی اغراض بیان فرماتے ہوئے سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- غریبوں اور سکینوں کی مددکرد مصرف اپنے مذہب کے غریبوں اور مسکینوں کی بلکہ ہر قوم کے غریبوں اور بے کسوں کی تا دنیا کو معلوم ہو کہ احمدی اخلاق کتنے بلند ہوتے ہیں ؟ که منقول از الفضل ، را خاء ۱۳۳۳ ش ص ۸ الفضل ۱۳ اپریل ۱۹۳۸ء)
پنجاب میں گذشتہ دنوں جو ہولناک سیلاب آیا اور جس سے قریباً سارا پنجاب ہی متاثر ہوا اس موقعہ پر خدام الاحمدیہ کو حضور کے اس ارشاد کی تعمیل کا ایک بہت بڑا موقع میسر آیا اور خام الاحمدیہ کی متعلقہ مجالس نے بھی اس طرف پوری توجہ دے کر اپنی زندگی کا بین ثبوت دیا.پنجاب کے مختلف اضلاع میں جہاں جہاں اس سیلاب نے اپنا زیادہ اثر کیا وہاں مجالس خدام الاحمدیہ کے علاوہ دوسری نظمیں بھی تھیں مگراس طرح منظم طور پر نیکی کے کام میںکسی کوبھی آگے آنے کی توفیق نہ لی اور خداتعالی نے یہ توفیق صرف اس جماعت کے نوجوانوں کو عطا فرمائی.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی لائی ہوئی اعلیٰ تعلیم کے پیش نظر سے گالیاں سن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دیکھاؤ انکسار خدام الاحمدیہ کا کام یہی ہے کہ ہم اپنے مقرہ پروگرام پر عمل کرتے رہیں.یہ نہ دیکھیں کہ لوگ ہماری تعریف کرتے ہیں یا مذمت کرتے ہیں نیکی کے کام اپنا رنگ لائے بغیر نہیں رہ سکتے.خدام الاحمدیہ کی خدمت خلق کے موجودہ کام کو دیکھ کر ہمارے پیارے امام نے بھی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے ہیں چاہتے کہ ہم اپنے اس اعزاز کو نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اسے اس سے بہتر کام کر کے بڑھائیں.اس موقعہ پر میں خدام الاحمدیہ لاہور کے کام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.میری تعریف ان کے کام کی وجہ سے بھی ہے لیکن سب سے بڑی وجہ اس کی یہ ہے کہ انہوں نے وقت کی نبض کو پہچان کے بر وقت ایک نہایت عمدہ قدم اٹھایا گو ان کے ذرائع کی کمی کی وجہ سے ان کی مساعی بہت ہی محدود تھیں.مگر انہوں نے یہ تو ثابت کر دکھایا کہ اگر ان کے ذرائع وسیع ہوتے تو وہ اس سے زیادہ کام کر سکتے تھے.اس کے بعد ربوہ کے خدام کا کام بھی بہت نمایاں اور شاندار ہے سیلاب ان کے اپنے علاقہ میں بھی آیا اور جب تک سیلاب رہا انہوں نے رات دن ایک کر کے کام کیا.اندھیری راتوں میں جبکہ پانی کا زور تھا اور اس میں سانپوں کے ڈسنے کا ہر وقت خطرہ تھا.انہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مسافروں کی مدد کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا.اور اس کے بعد ریلوے لائن پر وقار عمل منایا.اور اب اپنی مساعی کو بڑھا کہ لاہور میں جاکر وہ کام کیا جس سے اپنے تو الگ رہے :
غیروں نے اس کی تعریف کی اور تمام اخبارات میں شور پڑ گیا.اور دنیا خدام الاحمدیہ کے کام سے روشناس ہو گئی.پس به خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اس موقعہ پر ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق دی.اب ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم خدا تعالی کے اس فضل کا شکر یہ اس رنگ میں ادا کریں کہ پہلے سے بڑھ کر خدمت خلق کے فرائض انجام دیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے.آمین.ذیل میں چند ایک مجالس کی مساعی کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے.مجلس ریوه ا.سیلاب کی آمد کی اطلاع قبل از وقت مل جانے کی وجہ سے خدام ملحقہ بارہ دیہات میں مختلف پارٹیوں کی صورت میں پھیل گئے اور سیلاب کی آمد کی اطلاع کے ساتھ ساتھ لوگوں اور ان کے مال مویشی اور سامان خور و نوش کر محفوظ مقامات پر پہنچانے میں پوری تندہی اور جانفشانی سے مصروف عمل رہے جس کی وجہ سے ۱۹۵۰ء کے سیلاب کے مقابلہ میں باوجود زیادہ شدت کے بھی نقصان بہت کم ہوا.۲ سیلاب آنے پر ربوہ اور احمدنگر کے درمیان سڑک پر ایک جگہ جو تقریباً دو فرلانگ چھوٹا ٹکڑا ہے سیلاب کا پانی ایسی تیزی کے ساتھ ہو رہا تھا.جس کی آواز دور دور تک سنائی دیتی تھی اور پانی کے ساتھ بہنے والے خطرناک قسم کے سانہوں نے اس خطرہ کو اور بھی زیادہ خطر ناک بنا دیا تھا.لیکن ربوہ کے خدام نے جان ہتھیلی پر رکھ کر مسافروں کی امداد کی اور انہیں پانی سے پار اتارا.اس کی یہ صورت کی جاتی تھی کہ کچھ خدام آگے موٹے موٹے رستے پکڑ لیتے اور کچھ خدام ان رستوں کا دوسرا سرا پکڑ لیتے اور بچے میں مسافروں کو لے لیتے.اور ان کے ساتھ کچھ خدام سامان اٹھاتے.اور یہ پارٹی مسافروں کو پانی سے پار کرتی.اسی طرح چند خُدام مس کے آگے آگے چلتے تاکہ بس کسی گڑھے وغیرہ میں نہ گر پڑے.خدا تعالیٰ کے فضل سے خدام نے یہ کام سارا سارا دن کیا اور بیک وقت ۵۰ گرام اس ڈیوٹی پر حاضر رہتے اس کے علاوہ کچھ خدام کی ڈیوٹی مسافروں کو کھانا کھلانے اور کھانا پکانے پر تھی.خدام کھانا پکوا کر سڑک پر لاتے اور پریشان حال مسافروں کی خدمت میں پیش کرتے.ان تمام مساعی کا ذکر سرگودھا کے مشہور سہ روزہ اخبار شعلہ نے صفحہ اول پر نمایاں سرخیوں کے ساتھ کیا ہے کے اخبار شعلہ نے اپنے در اکتوبر ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں صفحہ اول پر نمایاں حروف میں لکھا کہ :.بیان کیا جاتا ہے کہ ربوہ اور منگر کے درمیانی حصہ میں حمدیہ جاعت کے رضا کاروان عام مسافروں کی نہایت جانفشانی " سے بہترین و قابل قدر امداد کی جسے عوام و خواص نے بے حد پسند کیا (بحواله الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۵)
یہ ربوہ اور لالیاں کے درمیان ریلوے لائن کو شدید نقصان پہنچا تھا.لائن سیلاب کی شدت کی تاب نہ لاکر بہہ گئی.اور اس جگہ پانی کی گہرائی قریباً ہ افٹ تھی.اس وقت کو دور کرنے کے لئے ربوہ کے خدام نے مجموعی طور پر وقار عمل منایا اور پانچ صد خدام نے صبح سات بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک ریلوے حکام کی حسب منشا بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کیا خوش پوش اور تعلیمیافتہ خدام کا یہ دن بہ درست خلق ریلوے حکام کو متاثر کئے بغیر رہا اورحکام نے خدا کے جذباور کام کو بہت سراہا خدام کے علاوہ بزرگ انصار بھی اپنے خدام کے ساتھ ویسی ہی ندی سے خدام کا ہاتھ بٹا رہے تھے.اور تھے تھے اطفال بڑی مستعدی اور محنت سے اپنے خدام کو پانی پلا رہے تھے..نیز یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کا شعبہ خدمت خلق ابھی تک مصروف عمل ہے.ارد گرد کے غیر یا زردہ علاقوں میں جاکر خدام ادور تقسیم کرنے کے علاوہ دیگر بی ہوتیں بھی بہم پہنچا رہے ہیں.نیز تقریبا یکصد خدام کی پارٹی جس میں نشتر کے قریب عمارتی کام کرنے والے خدام میں لاہور کے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کا کام محلیس خدام الاحمدیہ لاہور کے ساتھ مل کر کر رہے ہیں.ربوہ اور لاہور کے خدام نے ۷۵ مکان (غرباد کے گرے ہوئے نئے سرے سے تعمیر کئے ہیں.جن میں 4 مکان بالکل تیار ہو گئے ہیں اور صرف ، مکانوں کی چھتیں ڈالی جارہی ہیں.وہ بھی مکمل ہو جاتے مگر ان کی کی کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوا.اس کام میں مقامی پولیس نے خدام کے ساتھ بہت اچھا تعاون کیا خاص کر مکرم جناب سید خادم حسین شاہ صاحب اسے ایس آئی اور مکرم جناب بہادر علی شاہ صاحب انچارج تھانہ اچھرہ اور مظفرالدین صاحب کانسٹیبل تھا نہ لوہاری گیٹ اور مکرم شه به خدام ۱۵ اکتو بر ۱۹۵۴ء کی شب کو قائد ربوہ صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی زیر قیادت بذر بعد دریل لاہور پہنچے تھے.الفضل ۱۶ - ۷ار اکتوبر ۱۹۵۴ م ص ۱ ) کے ربوہ کے خدام اور معارصاحب نے تعمیر کانات کے سلسلہمیں ایساشا ندا کام کیا حضرت مصلح موعود نے اس پر اظہار خوشنوی کرتے ہوئے صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (قائد ربوہ) کے نام حسب ذیل تار ربوہ سے ارسال فرمایا :- رہوہ کے خدام تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ مجھے معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگ بہت محنت سے کام کر رہے ہیں مجھے امید ہے کہ آپ آئندہ اور زیادہ جذبہ جوش کے ساتھ کام کرینگے اور جس قدر کہ انسانی طور پر ممکن ہے آپ مخلوق خدا کی بھلائی میں پوری طرح کوشاں ہین کے بعد آپ لوگوں کے ساتھ ہو.(الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۷ رف) مد تفصیل کیلئے ملاحظہ موصاجزادہ مرزاطاہر حمد نا کا بیان (مطبوعہ الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۸)
٣٠٩ چوہدری غلام رسول صاحب میٹر کا نسٹیبیل عنان روڈ نے تو بہت ہی مستعدی اور فرض شناسی سے کام کیا.اور پوری کوشش کی کہ خدام کو ہر قسم کا سامان ہر وقت فراہم ہو.اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے.خدام کی ان مساعی کالاہور کے باشندوں پر خاص اثر ہے اور اکثر لوگ خدام کی اس بے لوث خدمت کو سراہتے پی اور قائدها ربوہ مکرم جناب صاحبزادہ مرزا طاہراحمد صاحب اور قائد صاحب لاہور مکرم جناب سعید احمد صاحب کے گلوں میں لوگوں نے پھولوں کے ہار ڈالے جہاں اکثر لوگ آگے بڑھ بڑھ کر مصالحے کرتے اور نعرہ ہائے تحسین ور آفرین بلند کرتے.مجلس لاہور لاہوں کی قیامت خیز بارش کے ساتھ ہی ساتھ ملحقہ علاقوں میں سیلاب نے جو تباہی مچائی الامان الحفیظ !!! اس موقعہ پر مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد بہت سرعت اور تندہی کے ساتھ سرانجام دی جس کا اعتراف پبلک اور ڈی اثر حضرات کے علاوہ لاہور کے ذی اثر اور انگریزی روزناموں نے کیا.خدام نے لاہور کے نشیبی علاقہ میں بارہ اعدادی مرکز قائم کئے اور مکید اقدام کی ان میں ڈیوٹی لگائی گئی جو اپنے اپنے حلقہ میں مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کرتے جن کے رہنے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی اور کھلے میدانوں میں بڑے تھے.انہیں محفوظ مقامات پر پہنچا یاگیا جن کی تعداد ہ 4 خاندان ہے محمد نگر میں ایک کرسچن لیڈی تیر کہ پانی کو عبور کرنا چاہتی تھیں لیکن اس کی تہمت جواب دے گئی.خدام نے بروقت امداد کر کے ان کو ڈوبنے سے بچایا.اسی طرح سنت نگر میں بھی ایک ڈوبتی ہوئی عورت کو بچایا گیا.نیز ان کے بچے اور بوڑھے آدمی کو بھی بچایا گیا، گرے ہوئے مکانات کا ملبہ جو گلیوں میں راستہ روکے ہوئے تھا.اسے صاف کیا.مکانوں اور دوکانوں کی چھتوں پر مٹی ڈالی گئی بیماروں کے لئے دوا فراہم کی گئی.کپڑے تقسیم کئے گئے.نیز در صد بے خانماں مہاجرین کو محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا.خشک اشیاء تقسیم کی گئیں.اور کھانا پکوا کر تقریباً دو ہزار آدمی کو کھلایا گیا مستورات جو گھر سے باہر نہ جاسکتی تھیں انہیں سوئے سلف لاکر دیئے گئے سیلاب زدہ علاقہ میں وسیع طور پر ادویات ، کپڑے خشک خوراک پکا ہوا کھانا پہنچایا گیا.ٹبال گراؤنڈ میں ۳۰۰ افراد کو ماما تقسیم کیا گیا.مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی مساعی کے پیشی نظر سید نا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ نصرہ العزیز نے کے مساعی کیلئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۷ - ۱۹-۲۱۰۲۰ - ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۴ء
مجلس کو مبلغ پانصد روپیہ مرحمت فرما کر اپنے خدام کی حوصلہ افزائی فرمائی.اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ مرکزہ بہ نے بھی مجلس لاہور کو اپنے تین سو روپے کے عطیہ سے نوازا جس کی بنا پر مجلس نے اپنی مساعی کو اور تیز کر دیا اور مصیبت مکان کے مکانات اور جھونپڑیوں کی تعمیر کے سلسلہ میں خدام نے احباب کی نمایاں طور پر خدمت انجام دی.سیلاب کی وسعت کے مد نظر قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے اپنی اور مجلس کے دیگر خدام کی خدمات حکومت کی خدمت میں پیش کیں جن کو حکومت نے شکریہ کے ساتھ قبول فرمایا اور ریلیف کے کام کو تیزی کے ساتھ جاری رکھنے اور متعلقہ حکام کا تعاون حاصل کرنے کی تلقین کی ہے سیلاب کے ایام میں خدام نے خدا تعالیٰ کے فضل سے دُور دُور کے مقامات پر ریلیف کا کام کیا.جبکہ راستہ میں میلوں پانی ہی پانی نظر آتا تھا خدام پانی عبور کر کے مصیبت زدگان کے پاس گئے اور تحقین کی امداد کا کام کیا.لوگ خدام کی اس بے لوث خدمت پر مبارکباد دیتے رہے.اس کے علاوہ سیلاب میں زخمی اور سانپوں سے ڈسے جانے والے مریضوں کی خدام نے میو ہسپتال میں جاکر بیمار پرسی کی اور پھل تقسیم کئے.خدام نے ملک دشمن عناصر کی پھیلائی ہوئی افواہوں کی تردید کی اور لوگوں کو حوصلہ بلند رکھنے کی تلقین کی.ریلیف کے کام میں جماعت احمدیہ لاہور کے امیر مکرم جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب نے خدام کو ہر طرح اپنے مفید مشوروں سے نوازا اور علاقہ جات کے دورے بھی کئے.اور ازراہ کرم مبلغ تین سو روپے ریلیف کے کام کے لئے مرحمت فرمائے کیسے ایک موقعہ پر خدام کے ریلیف کے کام کے معائنہ کی غرض سے عزت آب گورنر صاف پنجاب مکرم حبیب ابراہیم رحمت اللہ صاحب) کی بیگم صاحبہ تشریف لائیں اور خدام کے بے لوث جذبہ خدمت خلق سے بہت متاثر ہوئیں اور خوشی کا اظہار فرمایا تے ربوہ سے آمدہ یکصد خدام کے ساتھ مقامی خدام نے مل کر بہت تندہی سے گرے ہوئے مکانات کی تعمیر میں حصہ لیا.اور خدا تعالے کے فضل سے 4، مکان نئے تعمیر کئے.لوگوں کے دلوں پر خدام کی ان بے لوث خدمات کا بہت ے ملاحظہ ہو الفضل در اکتوبر ۹۵ ه ص ۱ الفضل ۵ اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۸ الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۴ رص ۱ - ۳ اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۸ شه الفضل و اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۱
اثر ہے.اور لوگ بہت اچھے الفاظ میں خدام کے کام کی تعریف کر رہے ہیں کیے نیز خدام کی ایک پارٹی جس میں دو ڈاکٹر اور ایک انجنیئر ہیں ریلیف کے کام کے سلسلہ میں مان گئے.اور وہاں ملتان اور مجلس خانیوال سے مل کر ریلیف کا کام کیا بلکہ منان و خانیوال یہاں کے خدام نے کبیر والا کے نزدیک ریلیف کیمپ لگایا ہے.اور کافی وسیع علاقہ میں ادویات تقسیم کر ہے ہیں، ایک موقعہ پر جناب ایس ڈی او صاحب خانیوال معیت ڈی ایس پی صاحب تشریف لائے اور اتفاقاً اس وقت خدام ریبیعت کے کام پر باہر جانے کے لئے تیار تھے.اور قائد صاحب ہاتھ میں سیلاب سے متاثر علاقہ کا نفسشر لئے ہوئے ان کو کام کی نوعیت اور راستہ وغیرہ سمجھا رہے تھے.صاحب موصوف نے سب حالات ملاحظہ کر کے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور خدام کے کام کو سراہا.فائدہ صاحب مجلس خدام الاحمدیہ ملتان نے اپنی خدمات جناب ڈپٹی کمشنر صاحب ملتان کی خدمت میں ریلیف کے کام کے لئے پیش کیں.اس کے بعد خدام نے با قا عدہ ریلیف کا کام شروع کردیا ہے جس کا ذکر ملتان کے ایک مشہور اخبانے اور لاہور کے بعض اخبارات نے بھی نمایاں طور پر کیا ہے.لائل پور حالیہ سیلاب میں چنیوٹ لائل پور روڈ تقریباً پا میل تک زیر آب رہی.بعض جگہ چار چار فٹ پانی تھا.پون فرنگ کے قریب ایک جگہ ایسی تھی جس کے دونوں طرف بہت گہرے گڑھے تھے جن میں ۲۰ ستمبر کو ایک راہ گیر ڈوب کر جان بحق ہوا.یہ افسوسناک خبر کر قائد مجلس خدام الاحمدیہ لائل پور ملک بشیر احمد صاحب مکرم مولوی عبد انسان صاحب شاهد ومکرم چوہدری غلام دستگیر صاحب کی سرکردگی میں خدام کی ایک پارٹی گئی.وہاں خدام نے کیمپ لگا یا اور وہاں رہ کر مسافروں اور ان کے اہل وعیال اور سامان کو اپنے سروں پر اٹھا کر بار آثار تے رہے.وہاں پینے کے پانی کی اه ۳ اکتوبر ۱۹۵۴ء کو مجلس کے امدادی کاموں کا شہرہ سن کر بین الاقوامی امدادی انجمن رو SERVICE Civil, InterNATIONAL کے مسٹر ویلفریڈ کورٹ اور اُن کے ایک ساتھی مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے مرکزی امدادی دفتر میں آئے اور مجلس کی خدمات کو بہت سراہا.( الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۴درس (۸) ۱۰/ ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۸ء - سله الفضل ، اکتوبر ۱۹۵۴ء مث الفضل ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۲ - الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۴ء مت
کمیابی کی وجہ سے مسافروں کی پیاس کی تکلیف دور کرنے کے لئے خُدام کافی فاصلہ سے پانی لاتے اور مسافروں کو پلاتے.بھنے ہوئے چنے اور گڑا بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کرتے رہے.جناب ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے خدام کے کیمپ کا معائنہ فرمایا اور خدام کے کام سے بہت متاثر ہوئے.اور خدام کے جذبہ خدمت کی بہت تعریفت کی.جناب تحصیلدار صاحب چنیوٹ نے بھی کیمپ کا معائنہ فرمایا اور خدام کے کام کو سراہا.اور فرمایا کہ زندہ قوم کی یہ ہی علامت ہے.یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ خدام کے آنے سے قبل وہاں ٹانگے والے مسافروں کو ایک روپیرنی سواری لیکر بارہ اتارتے تھے.لیکن خدام کا کیمپ لگنے کے بعد انہوں نے اپنے کرائے کافی حد تک گرا دیئے.پانی کافی اتر جانے کے بعد خدام وہاں سے واپس آئے لیے سیالکوٹ شہر ستمبر کی درمیانی شب جبکہ سب لوگ گہری نیند سو رہے تھے شہر کے شمال کی جانب سے ایک نالہ کا پانی شہر کے دو محلوں پورن نگر اور محلہ واٹر ورکس میں داخل ہوا.خاص کہ محلہ پورن نگر کے حالات بہت زیادہ خراب ہو.لئے خدام نے راتوں رات دونوں محلوں کے لوگوں کو محدوش مکانات سے نکال کر مسجد سامان محفوظ جگہ پہنچا یا یستہ پورن نگر میں ایک مکان کی دیوار بنائی اور مخدوش مکانوں کو درست کیا گیا.محلہ واٹر ورکس میں بھی خدام نے بڑی جانفشانی اور محنت سے راتوں رات گری ہوئی دیواروں کو اور مخدوش مکانوں کو درست کیا محلہ جامع مسجد کے خدام نے ریلوے اسٹیشن جاکر خطرے کا اعلان کیا اور اسٹیشن ماسٹر صاحب کی خدمت میں بھی اپنی خدمات پیش کیں.اکثر مسافروں کو ان کی خواہش کے مطابق محفوظ مقامات پر پہنچایا اور کھانے وغیرہ سے بھی ان کی تواضع بھی گئی.لوگ خدام کی اس بے لوث خدمت کو بہت سراہتے تھے کہ شہر کے حالات قدرے درست ہونے پر خدام کی مختلف ٹولیاں مواضعات میں پھیل گئیں اور سیلاب زدگان کی مراد میں سرگرم عمل ہوگئیں شیطان پور روڈ کی حفاظت کے لئے خدام کی ایک پارٹی جب اپنے بیلچے اور ٹوکریاں اور کھائیں لیکر شہر میں سے گزری تو لوگ حیرت سے خدام کے جذبہ خدمت خلق کو دیکھتے اور خراج تحسین پیش کرتے سلطان پور کے قریب ایک سڑک ٹوٹی ہوئی تھی اور باری تانگہ تو درکنار پیدل آدمی کا گذر بھی مشکل تھا.خدام نے تقریباً دو فرلانگ سے پتھرا کر اور مٹی ڈال له الفضل و اخاء ۳۳۳ آتش / ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۴ء مت الله الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۵۴ دمت الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۴ دمت ۲۰۰ اکتوبر ۱۹۵۴ دمت
۳۱۳ کر سڑک کو ہموارہ کیا اور پانی جو کھڑا تھا خشک ہوا اور ٹریفک جاری ہو سکی.اس کے علاوہ متعدد دیہات ہیں خدام نے سڑکیں درست ہیں اور مکانات کی مرمت کی چیئرمین صاحب ڈسٹرکٹ بورڈ کی خدمت میں خدام نے اپنی خدمات پیش کیں اور جناب ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کی خدمت میں بھی محلیس کی طرف سے اپنی خدمات پیش کیں خدام کی تنظیم اور ضبط و نظم اور جذبہ ایثار و خدمت خلق کو دیکھ کر لوگ مبارک باد پیش کرتے تھے.چک 1 ضلع ملتان ۹۵ سیلاب کی آمد کی خبر سن کر قائد صاحب مقامی نے خُدام کو ساتھ لیکر چکی ہذا کے لوگوں کا سامان محفوظ جگہ پر پہنچایا اور نہایت محنت اور کوشش سے چوک کو سیلاب کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے دن رات ایک کر دیا بند باندھے گئے.پانی کے لئے راستے بنائے.یہاں خدام کی تعداد تھوڑی ہے.یعنی دس خدام ہیں لیکن ان خدام نے چک کو سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لئے تین دن اور تین رات سونا تو در کنار چار پائی پر بیٹھ کر بھی نہ دیکھا نام کی انتھک کوششوں کا نتیجہ تھا کہ چک ہذا سیلاب کے بداثرات سے بہت حد تک محفوظ رہارٹ پنجاب کے اخبارات نے لاہور ، ربوہ اور ملتان کی مجالس خدام کی مساعی پنجاب پریس میں چرار کی جوابات نقل کئے جاتے ہیں.ا "باران زدہ لوگوں کی امداد لاہور ۲۰ ستمبر قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ لاہور مطلع فرماتے ہیں کہ مجلس کے یکصد خدام لاہور کے نشیبی اور دیگر متاثرہ علاقوں میں کام سر انجام دے رہے ہیں.ان علاقوں میں بارہ امدادی مرکز قائم کر دیئے گئے ہیں جن میں دس دس خدام ہر وقت حاضر رہتے ہیں اور موقع پر پہنچ کر امداد ہم پہنچاتے ہیں.آج مجلس نے پٹیالہ گراؤنڈ اور اردگرد کے علاقوں کے چار سو نباہ حال مہاجروں میں مفت ملی تقسیم کیا.علاوہ انہیں گذشتہ دو روز میں ۲۵ گھر کے افراد کو مخدوش جگہوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا.محمد نگر میں ایک کرسچین لیڈی تیر کرپانی کو عبور کرنے کی کوشش کر رہی تھی اسے بر وقت امداد پہنچا کر ڈوبنے سے بچا یا گیا وہ تھک کر بہت ہار چکی تھی.اسی طرح سنت نگر میں له با منامه خالد ربوه نومبر ۱۹۵۴ء ص ۳۴ - ۳۸ - مجلس خدام الاحمدیہ عنان کی مساعی کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۴ ص ۱
بھی ایک ڈور ہتی ہوئی عورت، اس کے پیچھے اور ایک بوڑھے مرد کی جانیں بچائی گئیں مجلس نے مختلف علاقوں میں مکانوں کی چھینٹوں پر مٹی ڈالنے ، گلیوں اور سڑکوں پر گری ہوئی دیواروں کا طلبہ اٹھانے اور کپڑے تقسیم کرنے کے علاوہ بیماروں کے لئے دوا فراہم کی اور پردہ نشین مستورات کو سودا سلف پہنچانے کا انتظام کیا نیز دو سو بے خانماں مہاجرین کو مختلف مکانوں میں پناہ دی گئی اور انہیں کھانا کھلایا گیا ہے ۲ سیلاب زدوں کی امداد لاہور ۳۰ ر ستمبر محلب خدام الاحمدیہ لاہور کی آج کی کارروائی حسب ذیل ہے :-.بعض کوتاہ اندریش، خود فریب اور چالاک افواه باز مختلف قسم کی افواہیں پھیلا کر سادہ لوح عوام کو ہراساں اور پریشان کرتے ہیں.ہمارے خدام کی گشتی پارٹیوں نے مختلف علاقوں میں گھوم پھر کر سیلاب کے تعلق پھیلائی ہوئی افواہوں کی پر زور تردید کی اور عوام کو حوصلے بلند رکھنے کی تلقین کی ہم لاہور کے سنجیدہ طبقہ سے اپیل کرتے نہیں کہ افواہوں کو دبانے کی کوشش کر یں..آج راوی روڈا اور بادی سے ملحقہ تباہ شدہ بستیوں کے مفلوک الحال افراد میں میٹھے چنے اوڑھانے کی خشک چیز تقسیم کیں بستنی شمشان بھومی میں جب ہمارے خدام پہنچے تو وہاں کے مرد اور عور نہیں جمع ہو گئیں.انہوں نے اپنی داستان غم سناتے ہوئے بتایا کہ ابھی تک وہاں کوئی بھی ریلیف پارٹی نہیں پہنچی.ہمارے خدام نے ان میں چنے تقسیم کئے.میو ہسپتال میں باران زدہ زیر علاج زخمیوں مارگزیدوں اور کس مپرسی کی حالت میں مریضوں کی عیادت کرتے ہوئے ان میں پھل تقسیم کئے " سے لاہور میں گرے ہوئے مکانات کی صفائی کا کام لاہور.۴۲ راکتو بر خلس خدام الاحمدیہ لاہور کے امدادی دستے آج بھی وصولی منڈی اور مہاجر آباد میں گرے ہوئے مکانات کا ملبہ اٹھانے اور زمین ہموار کرنے میں مصروف رہے دھرم پورہ میں ایک کنواں بیٹھ گیا ہے اس کی از سر نو مرمت میں بھی خدام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور نہایت جانفشانی به ملت ۲۸ ستمبر ۱۹۵۴ء ص ۴۷ کالم ۵ سے اخبار " ملت لاہور یکم اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۲ کالم ۲
۳۱۵ سے طلبہ اُٹھانے کا کام کیا.خانیوال سے بذریعہ ٹیلی فون اطلاع ملی ہے کہ ڈپٹی کمشنر ملتان کی زیر ہدایت مقامی مجلس عام الاحمدیہ کبیروالا مرکز میں امدادی خدمات انجام دے رہی ہے.گذشتہ دو روز میں سولہ دیہی بستیوں کا دورہ کر کے تقریباً ساڑھے چار سو مریضوں میں ادویات تقسیم کی جاچکی ہیں کہ سالہ مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی خدمات کا اعتراف کی م.ریلیف کمشنر پنجاب کی طرف سے سرگرمیاں جاری رکھنے کی ہدایت لاہور ۴.اکتوبر، ریلیف کمشنر پنجاب مسٹر آئی یو خاں نے آج قائد مجلس خدام الاحد یہ لاہور کے نام ایک خط میں مجلس کی خدمات پیش کرنے پر خدام الاحمدیہ کا شکر یہ ادا کیا ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ حکام سے رابطہ پیدا کر کے متعلقہ علاقوں میں اپنی سرگرمیاں بدستور جاری رکھیں مجلس نے ۲۹ ستمبر کو قائمقام وزیر اعلی سردار عبد الحمید دوستی کے نام تار کے ذریعہ اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے انہیں اپنی امدادی سرگرمیوں سے مطلع کیا تھا.آج امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے مجلس خدام الاحمدی لاہور کو ربوہ سے پانچ سو روپے کی رقم ارسال کی ہے تاکہ وہ سیلاب زدہ علاقے میں اپنے امدادی کام کو اور زیادہ وسیع کر سکیں.کل مجلس خدام لاہور کی ایک امدادی جمعیت نے مل کر محکمہ شہری دفاع پنجاب کے تعاون سے ضلع لا ہور اور شیخو پورہ کے متعد د سرحدی دیہات کا دورہ کر کے سیلاب زدہ لوگوں میں وسیع پیمانے پر کھانے کی خشک اشیار تقسیم کیں.جن دیہاتوں میں نمبرداروں سے مل کر انہوں نے امداد کا کام کیا ان میں شیرے داکوٹ بکستان جائوسی، خاکی، ابدانانی دور کر کے ایک کو کرو گا اور ان نامی بستیاں کیم بوی شامل ہیں.اس کے علاوہ پارٹی نے شہر میں پٹیالہ گراؤنڈ کشمیر روڈ اور وارث روڈ کے بارش زدہ لوگوں کو بھی کھانے کی خشک اشیاء اور ادویہ تقسیم کیں.اس طرح اندازہ انہوں نے تین ہزار افراد کو کھانا کھلایا.روزنامه ملت لاہور ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۴ء صلہ کالم ۳
مجلس کے امدادی کام سے متاثر ہوکہ کی سروس سول انٹرنیشنل کے مشرو الفرید کورٹ اور انکے ایک ساتھی معنی کے مرکزی دفتر میں آئے.انہوں نے امدادی (کام) کی تفصیلات سننے کے بعد مجلس کی خدمات کو سراہا اور امید ظاہر کی کر لیں اپنی امدادی سرگرمیوں کو اسی جذبہ و جوش کے ساتھ آئندہ بھی جاری رکھے گی ا سکے مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے امدادی کام لاہور، راکتو میر.ربوہ سے آئے ہوئے ایک سو سے زائد خدام جن میں ہے معمار بھی شامل ہیں ملیں خدام الاحمر یہ لاہور کے ساتھ مل کر یہاں گرے ہوئے مکانات کی از سر نو تعمیر کر رہے ہیں.یہ خدام تعمیر کا ضرور کی سامان پھاوڑے.ٹوکریاں اور کرائیں وغیرہ ربوہ سے اپنے ساتھ لائے ہیں.کل اور آج انہوں نے پولیس کے زیر انتظام لاہور کے گرد و نواح کی ۱۳ باریش زدہ ہستیوں میں غریب اور نادار لوگوں کے ۳۵ گرے ہوئے مکانات کی بنیادیں اٹھا کر پوری پوری دیواریں کھڑی کر دیں اور ان میں سے بہت سے مکانوں کی چھتیں ڈال کر انہیں کمل بھی کردیا.ان خدام نے جن تیرہ مراکز میکام کیا کہ ان میں لیاقت پارک، احاطہ مکھن سنگھ چوچه صاحب گھمار پوره جنگی باگریاں.بدھو آوا وارث روڈ کا نگرا آبادی علاقہ مند رچونی لعل واقع ملتان روڈ دھوبی منڈی.علاقہ موری دروازہ تھا نہ لوہاری گیٹ اور راوی روڈ کی متعد د بستیاں شامل ہیں “ ہے سیلاب زدوں کے لئے ۷۵ مکانات کی تعمیر لاہور.دار اکتو یہ انسان رپورٹر) بہتر معماروں کے ہمراہ ربوہ سے جو رضا کار سیلاب زدگان ه روز نامه ملت کا ہور ، اکتوبر ۱۹۵۴ م ص ۶ کالم ۲ اخبار المفضل ، اکتوبر ۱۹۵۷ مسفر میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کا اظہار خوشنودی کے زیر عنوان حسب ذیل خبر شائع ہوئی " کریم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے ایک خط کے ذریعہ مکرم قائد صاحب مجلس خدام الاحمر یا ہور کر حضور کی خوشنودی کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا ہے.ملت میں شائع شدہ دوران سیلاب میں خدام الاحمدیہ لاہور کی خدمت خلقی کی سپورٹ ملاحظہ فرماکر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ الہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ خدام کو شکر یہ نیز فرمایا کہ اس قسم کی خدمات اسلامی روح کو بڑھاتی ہیں.جزاکم الله واللهم زدفرد ه روزنامه مغربی پاکستان، لاہور ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۴ مصات
کی امداد کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے، انہوں نے تین دن کے اندر لاہور کی ۱۶ بارش دوستیوں میں غریب و نادار لوگوں کے 20 مکان تعمیر کئے ہیں.اس سلسلے میں پولیس نے اینٹیں اور لکڑی وغیرہ فراہم کی اور بڑی محنت سے نگرانی کے فرائینی سرانجام دیئے.جن نواحی بستیوں اور محلوں میں گرے ہوئے مکان از سر نو تعمیر کئے گئے ہیں ان میں ہال روڈ، لیاقت پارک ، راوی روڈ، شاہدرہ موری دروازه ، پیسہ اخبار سٹریٹ ، دھو بی منڈی.وارث روڈ.اچھرہ.کمہار پورہ اور بھنگی با گھڑیاں وغیرہ کے علاقے شامل ہیں.آج اخباری نمائندوں کی ایک جماعت نے اکثر مکانات میں تعمیر کا کام دیکھا.پولیس کے حکام نے نمائندہ ملت کو بتایا کہ ان رضا کاروں نے مستعدی اور جانفشانی سے تعمیر کا کام کیا ہے کے مکتوب گلستان مجلس خدام الاحمدیہ کے وفد نے آتے ہی سیلاب زدگان کی امداد کیلئے کبیر والا کے علاقہ میں پوری سرگرمی اور گرم جوشی سے کام شروع کر دیا ہے.یہ وفد دو ڈاکٹروں ، ایک سول انجنیر اور زمین اکارڈ پر مشتمل ہے جو بیماروں کا علاج پانی میں گھرے ہوئے اشخاص کو نکالنے اور خشک دودھ ، چھنے ، صابن تیل اور گرم کپڑے وغیرہ بہم پہنچانے کا کام کریں گے.نمائندہ ملت کو مجلس کے قائد نے کہا کہ اُن کے پاس پچاس رضا کار موجود ہیں جو باری باری کام کر یں گے انہوں نے یہ بتایا کہ وہ لاہور اور دیگر علاقوں میں کام کر چکے ہیں اور انہیں اس کام میں خاص مہارت اور تجربہ حاصل ہے.ملتان کا سنجیدہ طبقہ ، جماعت کے اس کام کو سنجیدگی کی نظر سے دیکھ رہا ہے؟ ہے الغرض جماعت احمدیہ کو اپنے محدود ذرائع اور وسائل کے باوجود اپنے پاکستانی بھائیوں کی وسیع پیمانے پر خدمات بجالانے کی توفیق علی اور اسلامی اخوت کا وہ نقشہ ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے آگیا جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے رواج نورین الفاظ میں کھینچا تھا." مثل المؤمن في توادهم وتعاطفهم وتراحمهم مثل الجسد اذا اشتكى منه شى تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى.له ملت ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۴ ممت سے "ملت" ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۶ کالم ۱-۲ سے مسند احمد بن حنبل جلد ۲ ص ۲۷۰
خدمت خلق کے اسلامی مطمع نظر ایک ایمان ارور به مومن کی مودودی کا اس تمام نیافت انسان پر وسیع ہوتا ہے اور وہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں محض اللہ تعالے کی خوشنودی کو مد نظر رکھتا ہے نہ کہ بندوں کی قدر شناسی کو جیسا کہ قرآن عظیم میں ہے.إِنَّمَا نُطْعِكُمْ دَوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شَكُوراه الدهر) ہم صرف رضائے الہی کے لئے تمہیں کھلاتے ہیں تم سے کسی بدلہ اور شکریہ کے طلبگار نہیں ہیں.ایک ایسے مرحلہ پیر جبکہ جماعت احمدیہ پاکستان کی بے لوث اور مثالی خدمات کو پورے ملک میں سراہا جا رہا تھا اور مشرقی اور مغربی حصوں میں اس کی گونج سنائی دے رہی ہے.حضرت مصلح موعود نے ضروری سمجھا کہ دنیا بھر مں پھیلی ہوئی جماعت کو کھول کھول کر بتادیا جائے کہ خدمت خلق کا اسلامی مطمح نظر یہ ہے کہ میں جو کچھ کرنا ہے خدا کی خاطر کرنا ہے.چنانچہ حضور نے یکم افادر اکتوبر یہ منی کے خطبہ حج میں ارشاد فرمایا کہ.۱۹۵۴۰ء یر جمعہ.کئی احمدی اس بات سے چڑ جاتے ہیں کہ جن لوگوں کی ہم مددکرتے ہیں وہی کچھ عرصہ کے بعد ہم سے وشمنی کرنے لگ جاتے ہیں لیکن یہی چیز تو مزہ دیتی ہے کیو نکہ اگر وہ لوگ جن کی خدمت کی جائے مخالفت کرنے لگ جائیں تو ہمارا دل اس بات پر خوش ہوگا کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے انسان کی خاطر نہیں کیا بلکہ اللہ تعالے کی خاطر کیا ہے ابھی اس طوفان میں ایک واقعہ پیش آیا ہے...ایک نہیں لبس سروس کمپنی کے متعلق ہمیشہ یہ شکایت آتی ہے کہ وہ اپنی لاریاں ربوہ میں نہیں ٹھہراتی بلکہ ان کی لاریاں یا تواحد نگر کے قریب ٹھہرتی ہیں یا چنیوٹ کے پاس جا کر ٹھہرتی ہیں تاربورہ سے احمدی سوار نہ ہوں جب طوفان آیا اور سڑک پانی کے نیچے آگئی تو مسافروں کی امداد کرنے کے لئے ربوہ کے خدام سڑک پر گئے.اس بس سروس کمپنی کی ایک لاری پانی میں پھنس گئی یحبب خدام مدد کے لئے گئے تو ڈرائیور نے کہا تم داری کو ہاتھ نہ لگاؤ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں چنانچہ ڈرائیور اور مسافر کافی وقت تک زور لگاتے رہے لیکن داری نہ نکلی.بعد میں وہ مجبور ہو کر خدام کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ لاری نکالنے میں ہماری مدد کی جائے چنانچہ کچھ قدام گئے اور انہوں نے نہایت محنت سے اس لاری کو با ہر نکال دیا ڈرائیور نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ لوگوں نے ہماری خاطر بہت تکلیف برداشت کی ہے اس دوران میں کیسی لڑکے نے یہ کہہ دیا کہ آپ شکر یہ تو ادا کرتے ہیں مگر کیا احمدیوں کو کبھی اپنی لاری میں سوار بھی کریں گے ؟ اس لڑکے
۳۱۹ کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا.کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا تھاخدا تعالیٰ کی خاطر کیا تھا مگر تاہم اس ڈرائیور نے یہ جواب دیا کہ اب ہم پہلے آپ کو بٹھا یا کریں گے پھر اور کسی کو بٹھائیں گے لیکن دل ایک دن میں نہیں بدلا کرتے.دل آہستہ آہستہ بدلتے ہیں اس لئے تم اپنا کام کرتے چلے جاؤ اور اس بات کا خیال نہ آنے دو کہ دوسرے لوگ تمہاری مخالفت کرتے ہیں یا تمہاری خدمت کی قدر کرتے ہیں قرآن کریم میں الہ تعالی بار بار ی سی اس کے الفاظ بیان فرماتا ہے کہ تم نیکی بھی کرد خدا تعالیٰ کی خاطر کرد.اس لئے چاہے تم سود فعہ نیکی کرو اور جن سے تم نیکی کردوہ سو دفعہ تمہاری مخالفت کریں وہ تمہارے دشمن ہوجائیں محرم نیکی کر نہ کرو تم نے جو کچھ کرتا ہے خداتعالی کی خاطر کرنا ہے اور وہی تمہاری نیکی کا بدلہ دے گا.اس دفعہ لاہور کی جماعت نے قربانی کا اچھا نمونہ پیش کیا ہے اور وہاں کے خدام نے قابل تعریفیت کام کیا ہے.مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ اس دفعہ اُن میں بیداری پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے مصیبت زدگان کی خوب مدد کی ہے اب فرض کرد کہ کچھ عرصہ کے بعد لوگ جماعت کے احسان کو بھول جاتے ہیں تب بھی تم اُن سے مشین سلوک کرد کیونکہ تم نے جو کچھ کرنا ہے وہ خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا ہے.اور خدا تعالیٰ تمہار سے کام کو دیکھ رہا ہے اور وہی اس کا اجر دے گا اگر کوئی شخص کسی پر احسان کرتا ہے اور دوسرا شخص اس احسان کو بھول جاتا ہے یا اس کے احسان کی قدر نہیں کرتا تو یہ اس کا قصور ہے تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ تم احسان کرتے چلے جاؤ اور ہمارا خدا ایسا ہے کہ اس نے نیکی کر نیو الے کے لئے ثواب کے اتنے رستے کھولے ہیں کہ اُن کی کوئی حد ہی نہیں اس لئے ایسے فعل پر کسی مسلمان کے دل میں انقباض پیدا ہونا یا نفرت اور حقارت کا جذبہ پیدا ہونا اور دل میں گرہ پڑنا نا جائز ہے اگر کوئی نہیں گالی دیتا ہے تو تمہیں چڑنے کی ضرورت نہیں.اس کی گالی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا.رسول کریم مستے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کو گالی دیتا ہے تو خُدا تعالے کے فرشتے اُسے دُعائیں دیتے ہیں.اب دیکھیو اُس شخص کی گالیوں نے کیا بنانا تھا.اگر کچھ بنانا ہے تو فرشتوں کی ماؤں نے بنانا ہے.میری اپنی یہ حالت ہے کہ مجھے کوئی کتنی گالیاں دے مجھے اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا.میں سمجھتا ہوں کہ ان الفاظ سے میرا کیا بگڑتا ہے.نیز فرمایا :
۳۲۰ یاد رکھو کہ شریف طبقہ ہر قوم میں ہوتا ہے.دہریوں میں بھی شریف ہوتے ہیں پھر مسلمان کے کان میں تو قرآن کریم کے الفاظ رات دن پڑتے رہتے ہیں اس لئے کوئی نہ کوئی درجہ شرافت کا اس میں ضرور موجود ہوتا ہے پس تم کیونکر سمجھتے ہو کہ تمہاری نیکی ان پر اثر نہیں کرے گی ممکن ہے تمہاری نیکی دیکھ کے وہ بھی اس قسم کا کام کرنا شروع کر دیں اور اس طرح ان میں بھی قوم ، ملک اور حکومت کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو جائے اور اگر ایسا ہو جائے تو تمہیں اس بات کا بھی ثواب ملے گا.کہ تم نے نیکی کی اور اس بات کا بھی ثواب ملے گا کہ تمہاری وجہ سے دوسر کئی لوگوں نے نیکی کی برسول کریم صلی الہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگرکسی شخص کے ذریعہ کوئی دوسرا آدمی ہدایت پالیتا ہے تو اسے دو ثواب ملتے ہیں.ایک ثواب تو اس کی اپنی نیکی کا ہوتا ہے اور ایک ثواب اُس شخص کی نیکی کا ملتا ہے جو اس کے ذریعہ ہدایت پاتا ہے.فرض کرو تمہاری وجہ سے پاکستان کے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور تمہاری تعداد ایک لاکھ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم میں سے ہر ایک کو ۸۰۰ آدمیوں کی نیکی کا ثواب ملے گا ایک آدمی کی نیکی بھی بڑی چیز ہوتی ہے اور وہ آسمان اور زمین کو بھر دیتی ہے پھر اگر کسی کے ذریعہ ۸۰۰ اشخاص ہدایت پا جائیں اور ان ۰۰۰ اشخاص کی نیکیوں کا ثواب بھی اسے ملے تو پھر اس کی نیکیوں کو رکھنے کے لئے خدا تعالے یہی سامان کرے تو کرے ورنہ زمین و آسمان میں اس کی نیکیاں سما نہیں سکیں گی.پس دوست اس قسم کے نیکی کے مواقع کو ضائع نہ کریں بلکہ ان مواقع پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خدمت کریں اگر تمہارے عمل کو دیکھ کر دوسرے لوگوں میں بھی نیکی پیدا ہو جائے تو یقینا اس سے سارے ملک کا معبا را خلاق بلند ہو جائے گا رہ الفضل ، اخاد ۳۳۳ اسش بر اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۴-۵ i
۳۲۱ فصل ششم خلفاء کی آسمانی نکا میں جو کچھ رکھتی ہیں وہ دوسروں کو عقل و تدبر اور فہم در کار کے خزانوں دکھائی نہیں دے سکتا حضرت خلیفہ ایسی ثانی الصلح سے فائدہ اٹھانے کی تلقین الموعود اپنے حیرت انگیز نور فراست و بصیرت کی بدولت شروع ہی سے جانتے تھے کہ اس وقت جماعت احمدیہ کے کندھوں پر جو بوجھ ہے اس سے ہزار گنا بوجھ احدیت کی آئندہ نسلوں پر ہوگا.یہی وجہ ہے کہ حضور اوائل خلافت ہی سے جماعت کو توجہ دلاتے آرہے تھے کہ وہ اپنی تفضل و ذہانت کو تیز کرے اور اپنی نئی پود کو بھی روشن دماغ بنائے جضور نے خدام الاحمدیہ میں بھی بعض ایسی شقیں رکھیں جن کی وجہ سے عقل و فکر کی استعدادوں اور قوتوں میں اضافہ ہو اور ہر اگلی نسل اپنے حافظہ اور ذہانت میں پہلی نسل سے آگے ہو.اسی مقصد کے پیش نظر حضور نے، ارستمبر ۷/۱۹۵۴ار تبوک ۱۳۳۳اہش کو ایک مفصل خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں جماعت کو اس دائمی ذمہ داری کی طرف خاص طور پر متوجہ کیا اور محمود غزنوی کے فارم ، آیا نہ اور رنٹی دنیا دریافت کرنے والے) کولمبس کی غیر معمولی ذہانت کے بعض سبق آموز اور دلچسپ واقعات بیان کرنے کے بعد سر مایا : جتنے لیڈر ، بادشاہ اور جرنیل بنے ہیں وہ ظاہری دولت سے نہیں بنے بلکہ خدا داد و دلتوں حافظہ عقل ، فکر اور تدبر سے بنے ہیں.ہمایوں کے پاس ظاہری دولت نہیں تھی.بابر کے پاس ظاہری دولت نہیں تھی ، اکبر کے پاس ظاہری دولت نہیں تھی ، لیکن ان لوگوں نے عقل، فکر اور تدبر کی دولت سے فائدہ اٹھایا اور عظیم الشان کارنامے سرانجام دیے.ان کے مقابلے له منهاج الطالبین ص طبع اول ( تقریر ، ۲ دسمبر ۱۹۲۵ء)
۳۲۲ میں محمد شاہ اور احمد شاہ کے پاس ظاہری دولت تھی لیکن انہوں نے عقل، فکر اور تدبر کی دولت سے فائدہ اٹھایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ذلیل ہو گئے.ہمایوں ، بابر اور اکبر نے خدا کی دی ہوئی دولت سے کام لیا اور وہ جیت گئے.لیکن محمد شاہ اور احمد شاہ نے ان سے کام نہ لیا اور وہ ہار گئے ہیں خدا کی دی ہوئی دولت، ظاہری دولت سے ہزاروں گنا قیمتی ہے.میں نے جماعت کو بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی دولت سے کام لے لیکن افسوس کہ ان کے ذہن اس طرف نہیں جاتے.میں دیکھتا ہوں کہ منقل ، فہم، ذکار اور تدبیر کے خزانے پڑے ہیں لیکن جس طرح قرآن کے خزانوں کو لینے والا کوئی نہیں اسی طرح ان خزانوں کی طرف بھی کسی کی توجہ نہیں مگر جس طرح قرآن کریم کے خزانوں کو لینے کی اگر کوئی کوشش کرتا ہے تو اُسے مل جاتے ہیں.اسی طرح عقل ، ترتبہ اور فہم و ذکار کے خزانے بھی مل سکتے ہیں بشر طیکہ کوئی کوشش کرے " پھر فرمایا :- پس تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی دولت کو استعمال کرد.اگر تم خدا تعالیٰ کی دی ہوئی دولت کو استعمال نہیں کرتے تو تم اس کی دوسری نعمتوں کے امیدوار کیوں ہو؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا مجھے کوئی معجزہ دکھائیں مجھے یاد ہے آپ اس وقت جوش میں آگئے اور فرمایا میر سے دعوئی پر اتنے سال گزر چکے ہیں اور اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے ہزاروں نشانات دکھاتے ہیں تم نے ان نشانات سے کسب فائدہ اٹھایا کہ اب تم نئے نشان سے فائدہ اٹھا لو گے ؟ پس اگر تم خدا تعالیٰ کی دی ہوئی اتنی بڑی دولت سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو نہیں کسی دولت کیسے مل سکتی ہے ؟ ہاں اگر تم خدا تعالیٰ کی دی ہوئی دولت سے فائدہ اٹھاؤ تو نہیں اتنا کچھ مل جائے گاکہ تمہیں خداتعالی سے کچھ اور مانگتے ہوئے شرم آئے گی بلے ۱۹۵۴ چوہدری محمظفراللہ خان جن کا انتخاب عالمی مدال کے جن کی یہی ہے ، اکتو بر در..را ضاء ۳۳۳ امش کو بین الاقوامی عدالت کی اس خالی نشست کے لئے انتخاب ہوا جو مہندوستان کے سر بنی گل نرسنگ راؤ له الفضل درا خار ۱۳۳۳ همش / ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۴ - ۵
۳۲۳ کی وفات کے بعد خالی ہوئی تھی.اسمبلی کے اجلاس میں رائے شماری ہونے پر چھہ ہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب وزیر خارجہ پاکستان کے حق میں ۳۳ اور ہندوستان کے امیدوار جسٹس رادھا د نو د پال کے حق میں ۲۹ آراء شمار ہوئیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہندوستان پر برتری عطافرمائی اور حضرت چوہدری صاحب بین قوامی عدالت کے بیج منتخب ہو گئے حالانکہ ہندوستان نے اپنے امیدوار کو کامیاب کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا.اے اس اعزاز پر اسلامی حلقوں میں بہت خوشی کا اظہار کیا گیا اورسلم پریس نے اس انتخاب کا پُر جوش خیر مقدم کیا.بطور نمونہ چند تاثرات درج ذیل ہیں :- اخبار مسلمان (کراچی) نے 9 اکتوبر ۱۹۵۴ ء کو لکھا: ر بین الاقوامی عدالت کے سابق جج مسٹر بی.این.راؤ کی وفات سے عدالت مذکور میں جو جگر خالی ہوئی تھی اس کے لئے پاکستان اور بھارت کے امیدواروں کے درمیان پچھلے چند ہفتوں سے زبر دست رسہ کشی جاری تھی.یہاں یہ کہ دنیا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ بھار اپنے امیدواروں کی کامیابی پر بہت زیادہ مطمئن بھی تھا.لیکن بھارت کی ساری خوشگوار توقعات اور سیاسی جوڑ توڑنا کام ہو کر رہ گئی جبکہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں خفیہ رائے دہی کے ذریعہ زیر سمحت حج کا انتخاب عمل میں لایا گیا.اور پاکستان کے وزیر خارجہ اپنے حریف کے مقابلہ میں کامیاب ہو گئے.اگر چہ پاکستانی نمائندہ چوہدری ظفر اللہ خان کا انتخاب سخت کش مکش کے بعد مل میں آیا ہے لیکن یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس کے پس منظر میں بھارت اور پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.آج بین الاقوامی رائے عامہ میں پاکستان نے کافی اہمیت حاصل کر لی ہے.اور بتدریج ایک ممتاز مقام کا حامل بھی بن چکا ہے.بین الاقوامی عدالت کے لئے پاکستانی نمائندہ چو ہدری ظفر اللہ خان کا انتخاب بر اور است چند اہم سیاسی نتائج کا علمبردار ہے.یہ سیاسی نتائج مستقبل قریب میں اہم اور نتیجہ خیز ثابت ہوں گے.چوہدری ظفر اللہ خان کی کامیابی بلاشبہ پاکستان کے عالمی وقار اور امن پسند حکمت عملی کی کھلی ہوئی ضمانت ہے.ے، ملاحظہ ہو اخبار ملت لاہور ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۴ء ص ۲ کالم ۴-۵
ہمیں خوشی ہے کہ بین الاقوامی انتخاب کے دشوار گذار مرحلوں میں پاکستان کو شاندار کامیابی حاصل ہو گئی اور اس طرح پاکستان نے عالمی رائے عامہ میں اپنی سیاسی انفرادیت کو زبر دست عدی اکثریت کے ساتھ پھر ایک بار منوالیا.بین الا قوامی عدالت کے جج کا انتخاب در اصل ایک اعزازہ ہے جس کے پس منظر میں منتخب ہونے والے نمائندے کے عظیم وطن کی سیاسی اہمیت انسانیت کی رواداری اور امن پسندی کے عناصر چھلکتے ہیں.اگرچہ اس انتخاب کی میعاد از روئے قانون دس سال کی ہوتی ہے لیکن یہ ایک عارضی انتخاب ہے جو سربی این راؤ آنجہانی کی منفره میعاد کی تکمیل کے لئے عمل میں لایا گیا ہے.جہاں اس انتخاب پر ہمیں خوشی ہے وہیں اس بات کا افسوس بھی ہے کہ پاکستان ایک بہترین سیاست دان اور بین الاقوامی عظیم شخصیت کے تدبر اور اس کی خدمات جلیلہ سے محروم ہو رہا ہے.چوہدری ظفر اللہ خان سے ان کی وزارت کے دوران بعض مسائل کے ضمن میں اختلافات رونما ہوتے رہے ہیں اور بعض انتہا پسندند میں جماعتوں نے چوہدری صاحب موصوف کو وزارت خارجہ سے مٹا دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن ہم شخصی اور مذہبی تصورات اور رحجانات کی اساس پر کسی وزیر کی علیحدگی کے قائل نہیں ہیں اگر پاکستان اس حکمت عملی پر کاربند ہو جاتا تو بلاد اسلامیہ اورا قوام عالم میں پاکستانی عوام کے انداز فکر کی کوتاہی اور پاکستان کی متعصبانہ روش خود اس ملک کے وقار اور نیک نامی کو تباہ کر دینے کا موجب بن جاتی.ایسے نازک مرحلہ پر پاکستان کی قیادت اعلیٰ نے حالات کی روک تھام کی اور چو ہدری صاحب کو برسراقتدار رکھا.اس حقیقت سے انکار نہیں کرنا چاہیئے کہ ایک تجربہ کار عملی سیاست دان کی حیثیت سے چوہدری ظفراللہ خان نے قابل لحاظ کار نے انجام دیئے ہیں.بالخصوص پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے ایوان میں کشمیر اور فلسطین کے متعلقہ کیس میں چوبڑی صاحب نے جو غیر معمولی ذہانت خداداد صلاحیت اور زور خطابت دکھا یا ہے وہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں ناقابل فراموش باب ہے کہا یہ جا رہا ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خان نے اور خارجہ اور بین الا قوامی معاملات میں پاکستان کی کوئی خاص خدمت انجام نہیں دی.لیکن یہ ایک مبالغہ آمیز جھوٹ ہے.آج پاکستان امن پسند اور آزاد دنیا کا ایک اہم اور بنیادی ملک بن چکا ہے.ظاہر ہے کہ پاکستان کا یہ موقف اس خارجی حکمت ہی (کا) رہین منت ہے
۳۲۵ جس کا ہیولا چوہدری ظفر اللہ خاں نے تیار کیا تھا.ہم اس موقع پر اپنی خوش گوار تمناؤں کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے.بھارت کے مقابلہ میں پاکستان کی یہ جیت ایک عظیم کارنامہ سہی لیکن اس کا میابی میں خود بھارت کا وہ اقدام بھی شامل ہے جس کی وجہ سے اس کوناکامی کا منہ دیکھنا پڑیا " کے -۲ اخبار جنگ کراچی نے اکتوبر ۱۹۵۴ء کے ادارتی نوٹ میں لکھا :.بین الاقوامی عدالت کے ایک بیج کی جو جگہ سر نگل راؤ کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی اس پر پاکستان کے وزیر خارجہ چوہدری ظفراللہ خان کا انتخاب ہو گیا.اور اس طرح بھارت کو ایک زبر دست شکست اور پاکستان کو ایک شاندار کامیابی حاصل ہوئی.بھارت نے اس نشست کو برقرار رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا.اور اپنے پورے ذرائع سے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی دونوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کیا اور اس طرح ایک پاکستانی کو وہ اعزاز حاصل ہو سکا جوہ بلاشبہ قابل ناز ہے.اسی کے ساتھ بھارت کو ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑا.وہ سلامتی کونسل کی نشست کے لئے بھی امید دار تھا مگر وہاں بھی اسے ایک سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا.اور بھارت کو صرف ایک اور ایران - پیرو اور بلجیم کو علی الترتیب ۵۶ - ۵۶ - اور ۵۲ ووٹ ملے.اور یوں بھارت سلامتی کونسل کا رکن بھی منتخب نہ ہو سکا، پاکستان کے وزیر خارجہ کا بین الاقوامی عدالت کی رکنیت پر منتخب ہو جانا اور بھارت کے پہلے در پے دو اہم انتخابات میں ناکام ہو جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہندوستان کا بین الاقوامی وقار تیزی کے ساتھ گر رہا ہے جبکہ پاکستان اور دوسرے اسلامی ملکوں کی مقبولیت برابر بڑھ رہی ہے پچھلے دنوں بھارت نے بالتسلسل ایسی حرکتیں کی ہیں جن سے بین الاقوامی رائے عامہ اس سے ناراض ہوتی چلی گئی ہے.اور غیر جانبدار ممالک کو یقین ہو گیا ہے کہ ہندوستان امن کا حامی نہیں بلکہ ایشیا میں بدامنی انتشار اور اختلافات کے بیج بو رہا ہے کشمیر گوا.لنکا اور اس سے پہلے حیدر آباد اور جونا گڑھ وغیرہ کے معاملہ میں بھارت نے جو پالیسی اختیار کی ہے اس نے ش اخبار مسلمان کراچی و اکتوبر ۹۵۴ار بجواله اخبار رفتار زمانہ لاہور ۱۳ نومبر ۱۹۵۴ د می ۲-۳)
بھارت کو ساری دنیا میں تن تنہا کر کے چھوڑ دیا ہے.اسی لئے سلامتی کونسل کے انتخاب میں بھارت کو صرف ایک اور ایران کو ۶ھ ووٹ ملے.یہ اس بات کا اظہار ہے کہ عام دنیا بھارت سے بنی منتظر اور اس کی سرگرمیوں کو بری نظر سے دیکھتی ہے.ہر چند پاکستانی وزیر خارجہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان کی بین الاقوامی عدالت کی رکنیت میں کامیابی کسی نہ کسی درجہ میں ان کی ذاتی کامیابی بھی ہے مگر ساتھ ہی یہ پاکستان کی امن دوستی اور بین الاقوامی ساکھ کے اعتراف کی حیثیت بھی رکھتی ہے.گو پاکستان نے اس انتخاب کے لئے کوئی بڑی کوشش نہ کی تھی اس پر بھی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی دونوں نے بالاتفاق ان کو منتخب کر کے یہ ظاہر کر دیا کہ دنیا کے انصاف پسند عوام پاکستان کو عزت محبت اور دوستی کی نظر سے دیکھتے ہیں.اور انہیں پاکستان کی معقولیت پسندانہ پالیسیوں کا پورا احساس ہے.پاکستان کی یہ کامیابی اور بھارت کی یہ ناکامی ان لوگوں کی نکتہ چینی کا واضح جواب ہے جو بھارت کے بین الاقوامی سیاست کے ماہر خصوصی پنڈت نہرو کی غیر معمولی ذہانتوں بین الاقوامی اثراور مشرق و مغرب کو لڑنے کی پالیسی کو سراہتے کبھی نہیں تھکتے.اور پاکستان کی ہوشمندی معاملہ فہمی اور اصول دوستی کو ہدف تنقید بنایا کرتے ہیں.کشمیر میں بھارت جس بد معاملگی پر چل کر عارضی کا میابی حاصل کر سکا ہے اور سلامتی کونسل کے سلس اقبالی کے باوجود بھارت کی امن دشمنی کو روکنے میں جو نا کامی ہوئی ہے.اسے وہ بھارت کی بین الاقوامی سیاست کی کامیابی اور پاکستان کی ناکامی قرار دیتے ہیں.یہ تو صحیح ہے کہ عارضی طور پر کشمیر میں بھارت بین الاقوامی رائے عامہ کو ٹھکرانے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن معقولیت پسندی اور مفاہمت کیشی سے یہ مسلسل انحراف بہر حال اپنے نتائج پیدا کر کے رہے گا.چنانچہ آج عملا ساری دنیا مہندوستان سے ناراض ہے اور اس کی امن دشمن حرکات کو ملامت کی نظر سے دیکھتی ہے.سلامتی کونسل کے انتخاب اور بین الاقوامی عدالت کی رکنیت کے مقابلہ میں یہ شکست اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کا وقار برابر گر رہا ہے.اور اس کے برعکس پاکستان کو عام دنیا میں محبت اور عزت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے.پہنچ یہ ہے کہ معاملہ فہمی معقولیت پسندی اور امن دوستی بہر حال اپنے نتیجے پیدا کر کے رہتی ہے خواہ یہ نتیجے دیمر ہی میں کیوں نہ نکلیں.بین الاقوامی عدالت کی رکنیت کے لئے انتخاب عدلیہ کے دو متضاد تصورات کو یکجا کرنے کی
کوشش ہے.روس اور چند دوسرے حکموں میں عدلیہ کے بعض یا سارے ارکان کا انتخاب ہونا ہے.روس میں مجھوں کی قانونی لیاقت کو محض ثانوی اہمیت دی جاتی ہے جب کہ دوسرے ملکوں میں انتخاب اور صلاحیت دونوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے.اس ثانی الذکر طریقہ کو بین الاقوامی عدالت کی رکنیت کے انتخاب میں پیش نظر رکھا جاتا ہے اور اُمیدوار کی لیاقت اور صلاحیت قانونی کا لحاظ رکھنے کے ساتھ ہی اس کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے.اور صرف لیاقت ہی فیصلہ کن چیز نہیں بنتی.انہی دونوں پہلوؤں کے پیش نظر یہ انتخاب جہاں وزیر خارجہ کی صلاحیت کا اعتراف ہے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کے اقرار کی حیثیت بھی رکھتا ہے.اور اس لئے اس انتخاب کے نتیجہ کو پاکستان بھر میں دلچسپی اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے گا.اور اس کا میا بی پر ہر حلہ میں اظہارِ اطمینان کیا جائے گا اسے اخبار مغربی پاکستان لاہور ( ار اکتوبر ۱۹۵۴ء) نے حسب ذیل اداریہ سپر د اشاعت کیا :.یہ خبر انتہائی مسرت کے ساتھ سنی جائے گی کہ پاکستان کے وزیر خارجہ چو ہدری محمد ظفر اللہ ان بین الاقوامی عدالت انصاف کے بج منتخب کر لئے گئے ہیں.یہ انتخاب ہر لحاظ سے انتہائی مبارک اور مسعود ہے.سب سے پہلی بات یہ کہ اس انتخاب نے ضمناً یہ ثابت کہ دیا کہ پاکستان کو بین الاقوامی شہرت عربات اور مقبولیت حاصل ہے اور اس چھوٹے رقبہ کی نوزائیدہ سلطنت کو دنیا میں خاصی اہمیت دی جارہی ہے حفاظتی کونسل نے پاکستانی مندوب کو 4 اور بھارت کے مسٹر پال کو ووٹ دے کر یہ ظاہر کر دیا کہ اقوام عالم میں بھارتی خارجہ پالیسی کو دنیا میں قیام امن اور قیام انصاف کے لئے زیادہ موثر نہیں سمجھا جاتا ہے.اب اس بین الاقوامی عہدے پر فائز ہو جانے کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ محترم نمائندگی کے ان فرائض سے سبکدوش کر دیئے جائیں گے.گو یہ امید موسوم ہی ہے کیونکہ مرکزی حکومت یہ بھی سوج سکتی ہے کہ چوہدری صاحب ان دونوں عہدوں کا کام کر سکنے کی پوری اہمیت رکھتے ہیں“ سے - پاکستان مسلم لیگ کے سرکاری اخبار پاکستان سٹینڈرڈ نے اپنی اکتوبر ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں یہ له اخبار جنگ کراچی ، اکتوبر ۱۹۵۴ جوالها خار رفتار زمانہ لاہور ۱۳ نومبر ۱۹۵۴ ، ص ۲ اخبار مغربی پاکستان لاہور ، اکتوبر ۱۹۵۴ مسار جواله اخبار رفتار زمانه لا ہور ۱۳ نومبر ۱۹۵۳ ص ۴۰۳)
اوار پر لکھا.ہینگ کی بین الاقوامی عدالت میں جج کے عہدے کے لئے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کا منتخب ہو جانا کوئی ایسی خوش آئند خبر نہیں ہے.یہ بات کہ پاکستان نے ایک نہایت مرضع عہد ہندوستان کے مقابلہ میں جیت لیا ہے.ہمارے لئے خوشی منانے کی کافی وجہ قرار نہیں دی جاسکتی.پاکستان کو ایسے موقعہ پر چوہدری محمد ظفر اشہ خان کے جانے سے جو نقصان ہوا ہے.بعض مفاد پرست حلقوی کے نزدیک باعث مسرت ہو سکتا ہے.لیکن پورے ملک اور تمام اسلامی دنیا میں اسے شرت سے محسوس کیا جائے گا.اس میں شک نہیں کہ آپ کا انتخاب خود بین الاقوامی عدالت کے لئے بہت بڑے فائدے کا موجب ہے.البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان بھی اپنی شبانہ روز محنت کی بنا پر آرام کے مستحق تھے.آپ کے بعد یقین کوئی قابل آدمی ہی اس عہدے پر مقر کیا جائے گا مگر ان کا بدل ایک طویل عرصہ تک میسر نہیں آسکے گا اور یقیناً اس وقت تک آپ کے بدل کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ کوئی ایسا شخص آگے نہ آئے جو ان کی طرح ہی بیک وقت ایک بڑا سیاستدان ، نامور وکیل عظیم الشان ذہن کا مالک نیز اخلاق کے اعلیٰ اصولوں اور روحانی طاقت اور سیاسی بصیرت کا حامل ہو.آج جبکہ ہم آپ کی خوش قسمتی کے لئے دعا گو ہیں یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آج کا دن پاکستان کے لئے ایک غمناک دن ہے بارہ پاکستان کے مشہور ادیب، نقاد اور مورخ مولانا ر میں احمد جعفری نے اپنے رسالہ ریاض (نومبر ۱۹۵۴ء) میں لکھا:.بین الاقوامی عدالت عالیہ کی جھی چودھری ظفر اللہ خان سربنگل راؤ کی جگہ بین الاقوامی عدالت عالیہ کے بیچ منتخب ہو گئے ہیں.ید انتخاب ہر اعتبار سے مسرت افزاء ہے ہم چودھری صاحب کو اس اعزانہ پر دلی مبارک باد دیتے ہیں.وہ اس منصب پر پہنچ گئے جو ہر اعتبار سے اُن کے شایان شان ہے.وزیر خارجہ کی حیثیت سے چودھری صاحب نے پاکستان کی گراں بہا خدمات انجام دی ہیں بیٹھے لے سیجوالله الفضل لاہور ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۴ / ۱۲ را خاء ۳۳۳ آبش ما
۳۲۹ کٹھن اور نازک مواقع پر انہوں نے اپنی خطابت، قوت استدلال اور قانونی موشگافیوں کو ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ مخالفین بھی عش عش کر اُٹھے.اور داد دینے پر مجبور ہو گئے.چودھری صاحب ذاتی اعتبار سے بھی بڑی خوبیوں کے مالک ہیں.ہمارہے جو ارباب کار اسلامی آئین کا نعرہ بلند کرتے رہتے ہیں وہ ابھی تک وضع اسلامی بھی نہیں اختیار کر سکتے ہیں.اس کے برعکس چودھری صاحب اس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جسے عام طور پر گراہ بلکہ کافر تک کہا جاتا ہے لیکن یہ گمراہ " اور " کا فر" شخص بغیر شرمائے ہوئے داڑھی رکھتا ہے اور اقوام متحدہ کے جلسوں میں علی الاعلان نماز پڑھتا ہے.جے کا قیامت خیز ریلوے حادثہ جب رونما ہوا تو یہ شخص اپنے سیلون میں فجر کی نماز پڑھ رہا تھا.ہم چودھری صاحب کی کامیابی کے لئے دل سے متمنی ہیں، ہماری دعا ہے کہ وہ اس منصب کی شاندار روایات میں شاندار اضافہ کا موجب ہوں اور ہمیں یقین ہے کہ ضرور ایسا ہی ہو گا رہے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب ، اکتوبر ۱۹۳۵ء سے لے کر ۵ فروری ۹۷ تک عالمی عدالت کے جج رہے.اور 19 کے انتخابات میں آپ اس بین الاقوامی عدالت کے نائب صدر بھی منتخب کئے گئے.اس عرصہ رکنیت میں مندرجہ ذیل تنازعات عدالت کے سامنے آئے.ان تنازعات کی سماعت اور فیصلہ میں آپ بھی شامل تھے :- (۱) جنوب مغربی افریقہ مینڈیٹ کے مسائل (تاریخ فیصلہ جات ، جولائی ۱۹۵۵ء یکم جون ۶۹۵۶ (۳) یونیسکو ر UNESCO) کے چار امریکہ افسران کا تنازعہ ( تاریخ فیصلہ ۲۳ اکتوبر (۳) حکومت فرانس اور حکومت ناروے کا تنازعہ.( تاریخ فیصلہ 4 جولائی ۱۶) (۴) حکومت سوئٹزر لینڈ اور حکومت ریاستہائے متحدہ امریکہ کا تنازعہ تاریخ فیصلہ جات ۲۴ اکتوبر ۱۹۵۶ ۲۱۰ مارچ ۱۹۵۹ء ) (۵) حکومت پرتگال اور حکومت ہند کا تنازعہ ( تاریخ فیصلہ جات ۲۰۶ نومبر ۱۹ و ۱۲ اپریل ) نه بحواله الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۵۳ء من
٣٣٠ ر) (4) حکومت ہالینڈ اور حکومت سویڈن کا تنازعه ( تاریخ فیصله ۲۸ نومبر ۲۶۱۹۹۵ (۷) حکومت اسرائیل اور حکومت بلغاریہ کا تنازعه ( تاریخ فیصلہ ۲۶ مئی ۹۵ ایوم (۸) حکومت بلجیم اور حکومت ہالینڈ کا تنازعہ ( تاریخ فیصلہ ۲۰ جون ۱۹۵۶ء) رو).کی بحری حفاظتی کمیٹی کے اراکین کے انتخاب کا تنازعہ.(تاریخ فیصلہ در جون شاء (۱۰).وسطی امریکہ کے دو ممالک ہانڈور اس اور نکار گوا کی حکومتوں کے مابین تنازعہ.د تاریخ فیصله ۱۸ نومبر ۱۹۶۰ ۲۰۶ ان سب تنازعات کی تفصیل حضرت چودھری صاحب کی معرکہ آرا کتاب " تحدیث نعمت ہے رشد تا مثلا ) میں موجود ہے جو بہت دلچسپ اور معلومات افروز ہے.قیام پاکستان کے ابتدائی چند سالوں میں جہاں انڈونیشیا سیلون وقف زندگی کی تحریک اور افریقہ وغیرہ ممالک کے احمدی جوانوں میں وقف زندگی کی طرف رنجان پہلے سے بڑھ گیا وہاں پاکستان میں اس کی طرف بتدریج توجہ کم ہو گئی اور آہستہ آہستہ اس کا احساس مٹنے لگا حتی کہ اس سال ۱۹۵۳ء میں صرف ایک پاکستانی احمدی نوجوان مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوا.جس کی ایک وجہ یہ ہوئی کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے سابق ہیڈ ماسٹر حضرت سیدمحمود اللہ شاہ صاحب مرحوم سال بھر کوشش کرتے رہتے تھے اور حضرت سیدنا المصلح الموعود کی خدمت بابرکت میں یہ اطلاع بھی پہنچاتے رہتے تھے کہ میں نے اتنے طلباء سے وقف کا وعدہ لیا ہے.مگر ان کے بعد یہ التزام و اہتمام نہ رہا.نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک میں صرف ایک احمدی نوجوان کو وقف کرنے کی توفیق مل سکی.اس تشویش انگیز صورت حال کا سید نا حضرت مصلح موعود نے فوری نوٹس لیا اور راور ۱۵ را خاء (اکتوبریاء) کے خطبات وقف زندگی کی تحریک کے لئے وقف کر دیئے جن میں جماعت کے سامنے اصل حقائق رکھے ، اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور تعلیم الاسلام کالج کے احمدی پروفیسروں کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہمیشہ ہی طلبار کو دین کی خاطر زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کرتے ہیں نیز جماعت کو تلقین ے ناشر ڈھا کہ بے نیو لینٹ ایسوسی ایشن ڈھاکہ محمد احمد اکیڈیمی ۱۸ رام گلی نمبر ۳ برانڈرتھ روڈ لاہور.اشاعت اول دسمبر ۶۱۹
٣٣١ فرمائی کہ وہ ضرورت وقت کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اپنے اپنے خاندان کے نوجوانوں کو وقف کریں اور اتنی کثرت سے کریں کہ اگر دس نوجوانوں کی ضرورت ہو تو جماعت سونو جوان پیشش کرے.حضور نے اپنے دراخاء (اکتوبر) کے خطبہ جمعہ میں خاص طور پر اس حقیقت پر زور دیا کہ دین کی خدمت کا ثواب دائمی ہے اور دنیوی مال ایک عارضی اور فانی چیز ہے نیز فرمایا :- پاکستان یا ہندوستان جس میں پاکستان اور بھارت شامل تھے وہ ملک ہے جسے خدا تعالیٰ نے چن لیا ہے اگر خدا تعالیٰ کسی اور ملک کو زیادہ قابل سمجھتا تو وہ اپنا مسیح اس ملک میں مبعوث کرنا.لیکن اس نے اپنے مسیح کی بعثت کے لئے ہمارے ملک کو چین کہ ایک تو ہم پر احسان کیا اور دوسرے ہم پر اعتماد کا اظہار کیا جس کا بدلہ دینا ہم پر فرض ہے.حضرت ابن عباس سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ کسی شخص کے لئے اس قسم کی دعا بھی کرتے ہیں.جس قسم کی دُعا آپ اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں.آپ نے کہا ہاں میں اُس شخص کے لئے اس قسم کی دعا کرتا ہوں جو مجھے آکر یہ کہتا ہے کہ مجھے آپ کے سوا اور کوئی دعا کرنے والا نظر نہیں آتا ایسے شخص کے لئے میں اس قسم کی دعا کرتا ہوں جس قسم کی دعا میں اپنی ذات کے لئے کرتا ہوں.اس لئے کہ اس نے مجھ پر اعتماد کیا ہے اور چونکہ اُس نے مجھے پر اعتماد کیا ہے اس لئے آب میرا فرض ہے کہ اس کے اعتماد کے مطابق اس سے سلوک کیوں.اگر حضرت ابن عباس زید بکر کے لئے اپنی جان لڑا دیتے تھے کہ اس نے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا تو پھر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ خدا تعالٰی نے ہمیں اس لئے چنا کہ ہم اس کے دین کا جھنڈا بلند کریں اور اسے ہر ملک میں گاڑ دیں.لیکن ایک حقیر سی دولت کیلئے ہم اس کے کام کو نظر انداز کر رہے ہیں.آخر پاکستان کتنا بڑا ملک ہے.پاکستان کی حکومت چھوٹی سی حکومت ہے اور پھر اس میں جو حصہ تمہارا ہے وہ کتنا ہے.اس میں تمہارا حصہ تو بہت ہی کم ہے.اس معمولی سی دولت کو خدا تعالے کے انتخاب پر مقدم کر لینا کتنے افسوس کی بات ہے خدا تعالیٰ کا کام بہر حال ہوتا چلا جائے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ تم سے برکت چھین لی جائے گی ہے ۱۲۰ اخار (اکتوبر) کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود نے پہلے تو اس خیال کا رد کیا کہ یہ خدا لالی کا کام ہے اوہ خود کرے گا اس کے بعد آیت قرآنی وَلْتَكُن مِّنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ به روزنامه الفضل ۳ اخار ۱۳۵۳ مش / ۱۹۵۳ متر
۳۳۲ إلى الخير (آل عمران : ۱۰۵) کی روشنی میں واضح کیا کہ دینی جماعتیں وقف کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتیں.چنانچہ حضور نے صحابہ النبی کی مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :- بغیر وقف کے دین کا کام کرنا مشکل ہے جس جماعت میں وقف کا سلسلہ نہ ہو وہ اپنا کام کبھی مستقل طور پر جاری نہیں رکھ سکتی ہم نے تو وقف کی ایک شکل بنا دی ہے ورنہ زندگی وقف کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھے کیا تم سمجھتے ہو کہ صحابہ نے وَلتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلى الخَيْرِ وَيَا مُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ پر عمل نہیں کیا ؟ - حضرت ابو ہریہ نہ کو دیکھ لو انہوں نے آخری زمانہ میں اسلام قبول کیا یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے صرف اڑھائی سال پہلے مسلمان ہوئے.مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابو ہریہ نے غور کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب آخری عمر میں ہیں اور میں بہت دیر کے بعد اسلام میں داخل ہوا ہوں اس لئے اگر میں کچھ سیکھنا چاہتا ہوں تو اس کا طریق یہی ہے کہ میں اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کر دوں.چنانچہ وہ مسجد میں ہی رات دن بیٹھے رہتے.شروع شروع میں اُن کا بھائی گھر سے کھانا بھجوا دیتا تھا.لیکن جب اُس نے دیکھا کہ یہ تو مستقلی طور پر مسجد میں بیٹھے گئے ہیں تو اُس نے کھانا بھیجوانا بند کر دیا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جا کر کہا کہ یا رسول اللہ میرا بھائی تو مستقل طور پر مسجد میں بیٹھ گیا ہے میں عیال دار شخص ہوں میں نے بچوں کا پیٹ بھی پالتا ہے اسے کب تک خرچ دے سکوں گا.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے کہ حضرت ابو ہر میدہ دین کی خدمت کر رہے ہیں اس لئے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بعض دفعہ کسی کو دوسرے کی خاطر یہ ترقی دے دیتا ہے تم ایسا نہ کرو.ممکن ہے کہ ابو ہریرہ کی خاطر ہی اللہ تعالی تمہیں رزق دے رہا ہو.لیکن اس نے آپ کی باتوں کی کوئی پروا نہ کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو ہریرہ خود فرماتے ہیں کہ بعض اوقات مجھے سات سات وقت کے فاقے آجاتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ مسجد سے نہ ہلتے، بلکہ سارا دن وہیں بیٹھے رہتے اور اللہ تعالیٰ اُن کے رزق کا سامان کر دیتا ، اب تم اللہ تعالیٰ کے رزق کے اور معنی کرتے ہو اور صحابہ اس کے اور معنی سمجھتے تھے وہ بے شک دنیا کے کام بھی کرتے تھے الیکن دین کو ہمیشہ مقدم رکھتے تھے یہاں تو گزارہ بھی ملتا ہے چاہے وہ گزارہ کم ہی ہو.لیکن
اُن کو یہ گزارہ بھی نہیں ملتا تھا وہ اپنا اپنا کام کرتے تھے اور پیٹ پالتے تھے لیکن دینی کاموں کو نظر انداز نہیں کرتے تھے بلکہ دینی کام کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیتے تھے.پھر فرمایا : " جب کسی قوم پر خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے اور وہ ترقی کر جاتی ہے تو اُس کے علماء کو ایک نمایاں مقام حاصل ہو جاتا ہے اور در حقیقت اُن کے آگے آنے کا حق ہوتا ہے بشرطیکہ وہ ان کاموں میں حصّہ نہ لیں جو اُن سے تعلق نہیں رکھتے جیسے پچھلے دنوں علماء نے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیا تو وہ ملامت کا ہدف بن گئے.اسی طرح اب بھی علماء اپنا کام چھوڑ کر سیاسیات میں حصہ لیں گے تو وہ لوگوں کی ملامت کا ہدف بن جائیں گے لیکن اگر علما وایسی باتوں میں دخل نہ دیں تو اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ جب بھی کوئی قوم ترقی کرے گی تو علماء بہر حال زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے.یورپ میں دیکھ لو کہ کنٹر برسی کا پادری ایڈورڈ ہفتم کے خلاف ہو گیا تو اسے تخت سے دستبردار ہونا پڑا.اب یہ کتنی طاقت ہے کہ ایک پادری ناراض ہو جاتا ہے تو بادشاہ بھی اس کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا.پس یہ قدرتی بات ہے کہ جب کسی قوم کو عزت ملے گی تو اس کے علماء کو بھی عزت ملے گی " حضور نے خطبہ کے آخر میں تحریک فرمائی کہ :- تم ضرورت وقت کو سمجھو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اپنے اپنے خاندان کے نوجوانوں کو وقف کرو اور یہ وقت اتنی کثرت سے ہونا چاہیے کہ اگر دس نو جوانوں کی ضرورت ہو تو جماعت سو نوجوان پیش کرے برسے حضرت امیر المومنین کی اس تحریک پر کئی مخلص خاندانوں نے لبیک کہا اور متعدد احمدی نوجوانوں نے اپنی جانیں اپنے مقدس امام کے حضور پیش کر دیں.اکتوبر سواء کے آخر سی ایام میں پاکستان کے لئے تحریک کا اور اس کی فوری قبولیت پاکستان شدید سیاسی بحران سے دوریا ہو گیا.اور دستور ساز اسمبلی ایک کھیل بن کر رہ گئی.اور بعض قوانین تو اتنی جلدی جلدی پاس کئے نه.الفضل ١,٢٠ خاء ٣٣٣ امیش ۳۰ اکتوبر ۶۱۹۵۶ ۲۰-۶
۳۳۴ گئے کہ ان کا اسمبلی کے اکثر ممبروں اور حکومت کے افسروں کو بھی پتہ نہ لگ سکا.اور جو فیصلے کئے گئے وہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے منافی تھے.ان کا رروائیوں سے قومی اتحاد کو نقصان پہنچا اور ملک میں ذاتی ، طبقاتی اور صوبائی رقابتوں اور شک وشبہ کے جذبات نمایاں طور پر اگھر آئے اور ملک کا آئینی نظام درہم برہم ہو گیا.اور بعض ہمسایہ ممالک کی طرف سے فوجی مداخلت کا خطرہ پیدا ہو گیا.اس پرستیدنا المصلح الموعود نے اپنے ۲۲ اکتوبر / ۲۲ اخاء کے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کو دعا کی تحریک خاص کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :- ان حالات میں میں تمام جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دعاؤں سے کام لے.آئندہ آٹھ دس دن ہمارے ملک کے لئے نہایت نازک ہیں.دوستوں کا فرض ہے کہ وہ ان ایام میں خاص طور پر دعا کریں کہ جو لوگ بر سر اقتدار میں وہ کوئی ایسا طریق اختیار نہ کر یں جو اسلام کی ترقی ، اس کی قوت اور اس کے استحکام میں روک پیدا کرنے والا ہو.ہمارے خدا میں سب طاقتیں پائی جاتی ہیں.اگران لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے تو وہ ان کی اصلاح کر سکتا ہے اور اگر ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی تو وہ ان کے شہر سے ملک کو بچا سکتا ہے اور وہ اس جنتر کو بھی توڑ سکتا ہے جو ملک کو تباہ کرنے والا ہو.پس خدا تعالے کے سامنے جھکا جائے اور اسی سے دُعائیں کی جائیں کہ الہی یہ کام ہماری طاقت سے یا ہر ہے ہم خود بہت تھوڑے ہیں اور ہماری تعداد بہت ہی تھوڑی ہے ہم ان امور میں دخل نہیں دے سکتے اور نہ ملک کی حفاظت کے لئے کوئی ذریعہ اختیار کر سکتے ہیں.لیکن اکثریت تیرے ہاتھ میں ہے اگر وہ قابل اصلاح ہے تو تو اس کی اصلاح کر سکتا ہے اور اگر وہ قابل اصلاح نہیں تو تو اُن کے درمیان جھگڑے اور تفرقے بھی پیدا کر سکتا ہے.اسے خدا اگر وہ قابل اصلاح نہیں تو تو ان میں تفرقہ ڈال دے تاکہ ملک تباہ ہونے سے بچ جائے اور تا مسلمان آئندہ پیدا ہونے والے خطرات سے محفوظ رہیں اگر تم سچے دل سے دعائیں کرو تو خدا تعالیٰ مسلمانوں کی حفاظت کا سامان پیدا کر دیا لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھتے لیکن تم وہ ہو جنہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ، کانوں سے منا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا بغرض تم نے خدا تعالیٰ کی طاقتوں کی ہر رنگ میں تحقیقات کر لی ہے اگر تم دعاؤں میں لگ جاؤ تو یقیناً یہ بات خدا تعالیٰ کی طاقت سے باہر نہیں وہ ملک کی حفاظت کا کوئی i
۳۳۵ نہ کوئی راستہ پیدا کر دے گا " اس کے بعد حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کا یہ واقعہ سنایا کہ شاہ دہلی نے ایک مہم سے واپسی کے بعد آپ کی گرفتاری کا فیصلہ کر رکھا تھا مگر وہ شہر میں داخل ہونے سے پہلے ایک حادثہ کا شکار ہو گیا ہے پھر حضور نے فرمایا :- پس ہمارا خدا ایسی طاقت رکھتا ہے کہ وہ تمام یہ صرافت دار لوگوں کو جو سمجھتے ہیں کہ ہم جو چاہیں کر لیں راہ راست پر لے آئے.ان کی جانیں ان کی طاقت اور ان کے جتھے سب اس کے قبضہ قدرت میں ہیں.پس تم دعائیں کرو کہ وہ خدا جس نے پاکستان بنایا ہے ایسے طاقتور لوگوں کو جو دانستہ یا نادانستہ ملک سے غداری کر رہے ہیں یا اس کی ترقی کی راہوں کو مسدود کر رہے ہیں راہ راست پر لے آئے.اور اگر وه راه راست پر نہ آئیں تو ان کو آپس میں لڑوا دے اور پاکستان کو کمزور ہونے سے بچالے تاکہ وہ را پر نہ توان میں دے اور کو سے بچائے مسلمان ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رہیں تہ اس خطیہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ :."اگر تمہارا خدا چاہے تو تین دن کے اندر اندر ان لوگوں کی طاقت کو توڑ دے اور بر سر اقتدار لوگ جو اس وقت شرارت کر رہے ہیں ان کے فتنہ سے لوگوں کو بچالے تھے خدا کی قدرت !! حضور نے یہ الفاظ جمعہ کو کہے اور ٹھیک تیسرے دن گورنر جنرل پاکستان ہز ایکسی لینسی ملک غلام محمد صاحب نے ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا.دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور مسٹر محمد علی بوگرا وزیر اعظم پاکستان کو دعوت دی کہ وہ ملک کے نظم ونسق کو موثر طریق پر چلانے کیلئے اپنی کا بینہ کو از سر نو تشکیل دیں چنانچہ انہوں نے ایک نئی کابینہ بنائی جس میں کئی محب وطن شخصیات کو شامل کیا اور بعض ایسے لوگ بھی آگے آگئے جو اگرچہ (حکمران پارٹی) مسلم لیگ کے ممبر نہیں تھے مگر کسی نہ کسی رنگ میں انہوں نے ملک کی خدمت کی تھی.اس طرح ملک کو پیش آمده خطرات وقتی طور پر مل گئے.اور یہ عارضی تغیر سید نا حضرت مصلح موعود اور جماعت احمدیہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں رونما لے."نيا تذكرة الاوليا " ص ۳۳۲ مؤلفہ سید رئیس احمد صاحب جعفری ندوی ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور له الفضل لاہور ۲۶ را خار ۱۳۳۳ ریش مد ۲ - سے.روزنامہ" الفضل" (لاہور) در ماه نبوت ۱۳۳۳ ارتش صد کالم را
ہوا.یہ ایسا غیر معمولی واقعہ تھا کہ لوگ ششدر رہ گئے.مولوی تمیز الدین خان صاحب سپیکر قومی اسمبلی نے عدالت عالیہ کے سامنے اس حکم کو چیلنج کیا.لیکن عدالت نے کثرت رائے سے گورنر جنرل کے فیصلہ کی توثیق کر دی.اگلے سال ایک نئی آئین ساز اسمبلی کا انتخاب عمل میں لایا گیا جس نے چھے ماہ کے اندر آئین مکمل کر دیا جس کا نفاذ ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ ء کو ہوا.اور یہ ملک اسلامیہ جمہوریہ پاکستان" بن گیا.فصل ہفتم حضرت مصلح موعود کا ہو کے متاثرہ علاقوں میں سیدناحضرت علیہ السیسی انانی کالاہور المصلح الموعود چاہتے تھے کہ لاہور میں دورہ اور تعمیری سرگرمیوں پر اظہار خوشنودی خدمت خلق کا جو کام خدام نے کیا ہے.اسے خود بھی ملاحظہ فرمائیں.اس منشاء مبارک کی تکمیل ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۴ء (۳۱ را خار ۱۳۳۳(امین) کی صبح کو ہوئی جبکہ حضور نے علالت طبع کے باوجود دو گھنٹہ تک ان متاثرہ علاقوں کا دورہ فرمایا.جن میں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی امدادی پارٹیاں ایک ماہ سے ریلیف کا کام کر رہی تھیں لیے حضور ۳۰ اکتوبر کو صبح دس بجے بذریعہ کار ربوہ سے لاہور تشریف لائے اور یکم نومبر کی شام کو عازم ربوہ ہوئے.روانگی سے قبل حضور نے مولانا عبد الرحیم صاحب درد ناظر امور عامر صد آئین ۱۹۵۱ احمدیہ کی صاحبزادی رضیبه درد صاحبہ کی تقریب شادی میں شرکت فرمائی.حضور نے جلسہ سالانہ سر پر موصوفہ کا نکاح مکرم مسعود احمد صاحب عاطف چه وقیہ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے ہمراہ پڑھا تھا.والفضل ۲ نومبر ۱۹۹۳ م )
٣٣ حضور انور ان علاقوں کے دورے پر مکرم جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور اور مکرم محمد سعید احمد خانصاحب قائد مجلس لاہور اور بعض دیگر احباب کی معیت میں صبح 4 بجے کے بعد رتن باغ سے روانہ ہوئے.روانہ ہوتے وقت قائد صاحب لاہورتے حضور کی خدمت میں لاہور شہر اور اس کے نواحی علاقوں کا ایک وسیع نقشہ پیش کیا.جس میں ان مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی جن میں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور وہاں کے پریشان حال باشندوں کو گذشتہ ایک ماہ سے ہر ممکن امداد بہم پہنچار ہی تھی.نقشے میں وہ مقامات بھی خاص طور پر نمایاں کر کے دکھائے گئے تھے جن میں لاہور اور ریوہ کے دو صد سے زائد خدام نے ۷۵ سے زائد گرے ہوئے مکانوں کو از سر نو تعمیر کر کے قریباً ایک ہزار افراد کی رہائش کا بندوبست کیا تھا.نقشے پر حضور نے وہ راستہ بھی ملاحظہ فرمایا جس میں سے گزر کر حضور کو متعدد علاقوں کا دورہ فرمانا تھا.سب سے پہلے حضور لیاقت پارک تشریف لے گئے.حضور نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا که مکان سلسلہ وار پلان کے مطابق بنائے گئے ہیں.نیز فرمایا لوگوں کو بارش کی وجہ سے تکلیف تو بہت اٹھانی پڑی لیکن انہیں ایک فائدہ بھی پہنچا ہے.اور وہ یہ کہ اب جھونپڑیوں کی بجائے پکے مکان بن گئے ہیں اور ترتیب وغیرہ کا لحاظ رکھنے کے باعث صفائی وغیرہ بھی آگئی ہے.لیاقت پارک سے حضور خدام کے ہمراہ کشمیر روڈ پہنچے وہاں چھوٹے چھوٹے مکانوں اور جھونپڑیوں کی ایک بستی تھی جس میں کثرت سے مہاجر آباد تھے.یہاں بھی خدام الاحمدیہ لاہور کی امدادی پارٹیاں نہایت مستعدی سے ریلیف کا کام کرتی رہی تھیں.یہاں کے لوگوں نے بڑے اشتیاق سے آگے بڑھ کر حضور سے مصافحہ کیا اور اپنے حالات بیان کئے حضور کو بتا یا گیا کہ یہاں کے لوگ اکثر مقروض ہیں.فرمایا ان لوگوں کو کو آپریٹو طریق کے مطابق کام کرنا چاہیئے.اس سے ان کے لئے بہت سہولت پیدا ہو سکتی ہے.اس کے بعد حضور نے وارث روڈ پہنچ کر نئے تعمیر شدہ مکانات دیکھے.وہاں بھی لوگ استقبال کے لئے نہایت تپاک سے آگے بڑھے.اور خدام کے جذبہ خدمت کو سراہتے ہوئے ممنونیت کا اظہار کیا.وہاں ارد گرد گندہ پانی کھڑا تھا حضور نے فرمایا کہ اس کی صفائی کا بندوبست ہونا چاہیئے.قائد مجلس لاہور نے عرض کیا کہ یہاں کارپوریشن کی معرفت ڈی ڈی.ٹی
۳۳۸ چھڑ کو ا دی گئی تھی.اس پر حضور نے فرمایا ایک آدھ مرتبہ و دائیں پھڑکنا بے فائدہ ہے.جب تک صفائی کا مستقل انتظام نہ ہو.اس وقت تک ان کی تکالیف رفع نہیں ہو سکتیں.حضور وارث روڈ کی بستی میں تعمیر شدہ مکانات دیکھنے کے بعد فیروز پور روڈ پر ذیلدار پارک کے قریب کا نگڑہ آباد میں تشریف لے گئے.اس بستی میں ضلع کانگڑہ کے مہاجر آباد تھے.یہاں حضور نے وہ آٹھ مکانات معائنہ فرمائے جو خدام نے تعمیر کئے تھے.جو نہی لوگوں کو پتہ چلا کہ حضور مکانات کے معائنہ کے لئے یہاں تشریف لائے ہیں وہ گھروں میں سے دوڑتے ہوئے نکلے.اور ان میں سے ہر ایک نے نہایت تپاک کے ساتھ حضور سے مصافحہ کرتے ہوئے اپنے حالات بتائے.یہ لوگ مکانات کی بسرعت تعمیر یہ سرتا پا تشکر بنے ہوئے تھے.ملتان روڈ پر کچے مکانوں کی مہاجر آباد " نامی ایک وسیع لیتی ہے جس میں خدام کھانا اور کپڑے اور ادویات وغیرہ تقسیم کرنے کے علاوہ طلبہ اٹھانے کا کام کرتے رہے تھے.جب حضور اس لیستی میں پہنچے تو وہاں کے لوگ دوڑ کر حضور کے گرد جمع ہوئے.انہوں نے خدام کی امدادی سرگرمیوں کی تعریف کرتے ہوئے حضور سے نہایت احترام کے ساتھ مصافحے کئے اور اپنی متعدد تکالیف بیان کیں.حضور نے ان کی تکالیف کے ازالے کے لئے خدام کو ہدایات دیں.چنانچہ مکرم قائد صاحب نے انہیں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے ریلیف آفس کا پتہ دیا اور ان سے کہا کہ وہ دفتر میں اگر ملیں.اس کے بعد حکام سے رابطہ قائم کر کے یہ تکالیف دور کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی.اس لیستی میں بہت سے کچے مکان تا حال گرے پڑے تھے حضور نے امیر جماعت لاہور سے دریافت فرمایا کہ یہاں مکانات کیوں تعمیر نہیں کئے جا سکے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ امپروومنٹ ٹرسٹ نے ان لوگوں کو مکانات بنانے سے منع کر دیا ہے کیونکہ ٹرسٹ خود سروے کے بعد یہاں اپنی نگرانی میں ایک خاص پلان کے ماتحت تعمیر کرانا چاہتا ہے.اگر یہ ردک نہ ہوتی تو خدام ان مکانات کو بآسانی تعمیر کر سکتے تھے حضور نے خدام کو توجہ دلائی کہ اس بار ہمیں متعلقہ افسران سے مل کہ کہنا چاہیئے کہ یا تو وہ یہاں جلد تعمیر کا کام شروع کریں یا پھر ہمیں اجازت دیں کہ ہم مکانات سیر کرنے میں لوگوں کا ہاتھ بٹائیں تاکہ وہ سردی وغیرہ سے محفوظ ہو سکیں.اس کے بعد حضور ملتان روڈ پر ہی مندر چونی لال سے ملحق ایک نئی بستی میں تشریف لے
۳۳۹ گئے.یہاں خدام نے ۲۶ مکان تعمیر کئے تھے جو ہر طرح معمل حالت میں تھے حضور نے امیر صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ لوگوں کو تھوڑا بہت سامان فراہم کرنے کیلئے کہیں تاکہ ان کے مکانوں کے آگے پردے کی دیواریں کھینچ دی جائیں.اس ضمن میں ایک صاحب مکریم سید نیاز علی صاحب نے دیو اسلامیہ کالج لاہور سے تعلق رکھتے تھے سستے داموں مٹی فراہم کرنے کا ذمہ لیا.انہوں نے بتایا کہ میں نواں کوٹ میں رہتا ہوں.آپ لوگوں کی بر وقت اور بے لوث خدمات مجھے سرکار (حضور) کی زیارت کے لئے یہاں کھینچ لائی ہیں.آپ کے نوجوانوں نے جس درجہ مخت اور جانفشانی سے کام کیا ہے یکیں اس سے بے حد متاثر ہوا ہوں.مجھے ابھی ابھی پتہ لگا کہ آج سرکار اس علاقہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں چنانچہ میں کتنے ہی زیارت سے شرف یاب ہونے کے لئے دوڑا چلا آیا ہوں.حضور ان مکانوں کا معائنہ کرنے کے بعد واپس تشریف لے جا ہی رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے نہایت درد بھرے انداز میں کہا کہ میرے لئے ایک کمرہ تو آپ کے آدمی پہلے ہی بنا چکے ہیں لیکن میری کئی جوان بیٹیاں ہیں اور نیچے ہیں.جن کے واسطے سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے اس لئے میرے واسطے ایک کمرہ اور بنوا دیا جائے ، اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کے پاس نہ اینٹیں ہیں نہ لکڑی اور نہ مٹی وغیرہ.لا حضور نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کا مکان بنوا دیا جائے گا.ساتھ ہی حضور نے مریم قائد صاحب مجلس کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس عورت کے مکان کا تخمینہ آج شام تک ہی پیش کر کے اس کی تعمیر کی منظوری لے لیں.چنانچہ مکرم قائد صاحب کی طرف سے شام کو خرچ کا اندازہ پیش ہونے پر حضور نے ہدایت فرمائی کہ اس عورت کے لئے باقاعدہ ایک پختہ کمرہ تعمیر کر وا دیا جائے اس کے بعد حضور نے دھوبی منڈی واقع پرانی انار کلی کی تنگ گلیوں میں خدام کے ہاتھوں تعمیر شد مکانات کا معائنہ فرمایا اور وہاں کے لوگوں کی شکایات سننے کے بعد رتن باغ واپس تشریف لے آئے.اس یاد گار اور تاریخی دورہ میں جن احباب کو حضور کے ہمراہ جانے کا شرف حاصل ہوا.ان کے نام یہ ہیں :.مکرم چوہدری اسد اللہ خانصاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور.مکرم محمد سعید احمد صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ مکرم شیخ محمد شریف صاحب چوہدری فتح محمد صاحب شیخ نصیر الحق صاحب.ڈاکٹر عبداللہ صاحب سید بہادل شاہ صاحب شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی.مکرم مولوی
۳۰ محمد اشرف صاحب ناصر مرتی سلسلہ ظفر محمود صاحب اور سعید احمد صاحب باجوہ حضور نے بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد " الفضل " کے سٹاف رپورٹر سے ایک ملاقات میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :- در اصل ان علاقوں میں جا کہ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کام کے متعلق جو رپوڑ میں پہنچتی رہی ہیں ان میں مبالغہ تو نہیں کیا گیا.سو مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ معتد بہ کام ہو چکا ہے اور فی الواقعہ جو کام بھی ہوا ہے وہ مفید اور اچھا ہے" ازاں بعد حضور نے سالانہ جلسہ ۳/۶/۱۹۵۴ میش کے موقع پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا :- اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور کی نیم مردہ سی جماعت میں اس سال وہاں کی مجلس خدام الا حمدیہ نے زندگی کی روح پھونک دی ہے اور اس کا سہرا زیادہ تر اس کے قائد محمد سعید احمد صاب اور ان کے چار پانچ رفتار کے سر ہے جنہوں نے بڑی محنت سے کام کیا.گذشتہ سیلاب کے ایام میں نہ صرف به که غیر معمولی طور پر لاہور کی مجلس نے خدمت خلق کا کام کیا بلکہ اسے غیر معمولی طور پر پبلک سے روشناس بھی کرایا.اور اس لحاظ سے اس کا کام واقعی خاص طور پر تعریف کے قابل ہے......سیلاب کے ایام میں لاہور کی مجلس نے جو کام کیا اس کی تعریف بھی کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہر مجلسی کام میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی رہے گی پیٹھ شه روزنامه "الفضل" ٢ / نومبر ۱۹۵۳ ء ص (مطابق ۱۲ نبوت ۱۳۳۳ رمیش ) 1900, ۱۳۳۴ تقریر فرموده ۲۸ دسمبر ۹۵اء مطبوع الفضل د جنوری ۱۹۵۵ و صد ۳۳ میش مرا کالم ٹر
چونتھا باب 1900 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکز به این سے لیکر خدام الاحمدیہ کی تحریک حج تک فصل اول سالانہ اجتماع خدام الاحمد به مرکز بیر تو ۱۹۵۳ ۱۳۳۳ بیش اس سال قدام الاحمدیہ مرکزیہ کا چودھواں سالانہ اجتماع ۵-۶- نومبر ۹۵اء و مطابق یہ کا ۵ ۶ ۷ نبوت ۳۳۳ میش) کو منعقد ہوا.جس میں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے خدام کو اپنے ایمان پر در افتتاحی اور اختتامی خطابات سے نوازا.حضور کی افتتاحی تقریر سے قبل نائب صدرا دل حضرت صاحبزادہ مرزا نا صراحہ صاحب نے پاکستان اور خدام الاحمدیہ کے جھنڈے لہرائے.یہ اجتماع چونکہ ایک ایسے ماحول میں انعقاد پذیر ہوا، جب کہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان اپنے ملک میں ایک منفرد خادم خلق تحریک کی حیثیت سے اُبھر رہی تھی اور اس نے ملک کے صحافتی، سماجی اور سرکاری حلقوں میں اپنی خادمانہ سرگرمیوں کے باعث ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا تھا، اس لئے حضرت مصلح موعود نے بھی اپنی تقاریہ میں سب سے زیادہ زور خدمت خلق ہی کی اہمیت و ضرورت پر دیا جو اس بین الاقوامی تنظیم کے قیام کی بنیادی، غرض و غایت ہے افتتاحی خطاب | چنانچہ حضور نے اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا :.
۳۴۳ اس دفعہ خدام نے طوفان وغیرہ کے موقعہ پر نہایت اعلیٰ درجہ کا کام کیا ہے.آپ انہیں اپنے اجلاس میں اس امر پر غور کرنا چاہیئے کہ اس جذبہ کو جو نہایت مبارک جذبہ ہے اور زیادہ کسی طرح ابھارا جائے ؟.کوئی ایسی خدمت جو صرف رسمی طور پر کی جائے حقیقی خدمت نہیں کہلا سکتی.مثلاً بعض لوگ اپنی رپورٹوں میں لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے کسی کا بوجھ اٹھایا.اب اگر تو کسی مجلس کے تمام نوجوان یا باره پندرہ خدام سارا دن لوگوں کے بوجھ اٹھاتے پھرتے ہوں یا کسی ایک وقت مثلاً عصر کے بعد روزانہ ایسا کرتے ہوں یا گھنٹہ دو گھنٹہ ہر روز اس کام پر خرچ کرتے ہوں تب تو یہ خدمت کہلا سکتی ہے.لیکن اس قسم کی رپورٹ کو میں کبھی نہیں سمجھا کہ اس مہینہ میں ہمارے نوجوانوں نے کسی کا بوجھ اٹھایا.یہ وہ خدمت نہیں جس کا خدام الاحمدیہ کے نظام کے ماتحت تم سے تقاضا کیا جاتا ہے.بلکہ یہ وہ نخدمت ہے جس کا بیجا لانا ہر انسان کے لئے اس کی انسانیت کے لحاظ سے ضروری ہے.در حقیقت مختلف خدمات مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے ہوتی ہیں.مثلاً جو شخص پاکستان میں رہتا ہے اس پر کچھ فرائض پاکستانی ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں.کچھ فرائض ایک انسان ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں.اسی طرح اگر کوئی سرکاری ملازم ہے تو کچھ فرائض اس پر سرکاری ملازم ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں.اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو کچھ فرائض اس پر ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں.اگر کوئی پولیس میں ہے تو کچھ فرائض اس پر پولیس مین ہوتے کی حیثیت سے عایدہ ہوتے ہیں.ایک حیثیت کے کام کو اپنی دوسری حیثیت کے ثبوت میں پیش کرنا محض تمسخر ہوتا ہے مثلاً ایک ڈاکٹر کا یہ لکھنا کہ میں نے ہیں مریضوں کا علاج کیا.تمسخر ہے کیونکہ اس نے جو کام کیا ہے اپنے ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے کیا ہے.خدام الاحمدیہ کا نمبر ہونے کی حیثیت سے نہیں کیا.یا پاکستان کی تائید میں اگر کوئی جلسہ ہوتا ہے یا جلوس نکلتا ہے اور تم اس میں حصہ لیتے ہو اور پھر اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر کرتے ہو تو یہ تمسخر ہے کیونکہ یہ خدمت تم نے ایک پاکستانی ہونے کے لحاظ سے کی ہے.برکت تمہیں تمھی حاصل ہو گی جب تم اپنی ساری حیثیتوں کو نمایاں کر کے کام کہو گے.جب تمہیں ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کام کرنا پڑے تو تم پاکستانی حیثیت کو نمایاں کرد.جب تمہیں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے کام کرنا پڑے تو تم اپنی انسانیت کو نمایاں کر و.مثلاً اگر کوئی چلتے ہوئے گر
۳۴۳ جاتا ہے تو یہ انسانیت کا حق ہے کہ اسے اُٹھایا جائے.اس میں خدام کا کیا سوال ہے ؟ ایک ہندوستانی پر بھی یہ فرض عائدہ ہوتا ہے ایک پنجابی پر بھی یہ قرض مائک ہوتا ہے.ایک چینی اور ایک جاپانی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے.ایک سرحدی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے.پس اگر اتفاقی طور پر کوئی شخص ایسا اتفاقی کام کرتا ہے تو یہ نعدام الاحمدیہ والی خدمت خلق نہیں کہلا سکتی.بلکہ یہ وہ خدمت ہو گی جو ہر انسان پر انسان ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتی ہے.اگر وہ ان فرائض کو ادا نہیں کرتا تو وہ انسانیت سے بھی گر جاتا ہے.پس اپنے پروگراموں پر ایسے رنگ میں عمل کرو جیسے اس دفعہ لاہور کے خدام نے خصوصیت سے نہایت اعلیٰ کام کیا ہے.اسی طرح ربوہ کے تعدام نے بھی اچھا کام کیا ہے بسیالکوٹ کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے.ملتان کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے اور کراچی کے خدام نے بھی بعض اچھے کام کئے ہیں.گودہ نمایاں نظر آنے والے نہیں.پس متواتر اپنے جلسوں اور مجلسوں میں اس امر کو لاؤ کہ تم نے زیادہ سے زیادہ خدمت خلق کرنی ہے اور ایک پروگرام کے ماتحت کرنی ہے.تاکہ ہر شخص کو تمہاری خدمت محسوس ہو.تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ دکھاوا ہے.تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ نمائش ہے.مگر کبھی کبھی نمائش بھی کرنی پڑتی ہے.اگر تمہارے دل کی خوبی اور نیکی کا اقرارہ دنیا نہیں کرتی تو تم مجبور ہو کہ تم لوگوں کو دکھا کر کام کہ وہ تم نے بہت نیکی کی ہے مگر دنیا نے تمہاری نیکی کا کبھی اقرار نہیں کیا.پہلے بھی لوگوں کی مصیبت کے وقت ہم کام کرتے رہے ہیں مگر مخالف یہی کہتا چلا گیا کہ احمدی احمدی کا ہی کام کرتا ہے.کسی دوسرے کا نہیں کرتا.یہ بالکل جھوٹ تھا جو مخالف بولتا تھا.ہم خدمت خلق کا کام کرتے تھے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے خدا کے لئے کیا ہے ہمیں اس کے اظہار کی کیا ضرورت ہے ؟.مگر جب تمہاری اس نیکی کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور تم پر یہ الزام لگایا جانے لگا کہ تم مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں.جب تم پر یہ الزام لگایا جانے لگا کہ تم اپنی قوم کی خدمت کے لئے تیار نہیں تو پھر وہی نیکی بدی بن جائے گی.اگر ہم اس کو چھپائیں.پس اس نیکی کا ہم علی الاعلان اظہار کریں گے.اس لئے نہیں کہ ہم بدلہ لیں بلکہ اس لئے کہ وہ کذاب اور مفتری جو ہم پر الزام لگاتے ہیں ان کا منہ بند ہو.پس مجرم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے ضروری
۳۴۴ تھا کہ ہم اپنے کاموں کا اظہار کرتے.ورنہ پہلے بھی ہمارے آدمی ہر مصیبت میں مسلمانوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں اور ہر مشکل میں ہم نے ان کی مدد کی ہے.یہ کوئی نیا کام نہیں جو ہم نے شروع کیا ہو.جب ہم قادیان میں تھے تو اس وقت بھی ہم خدمت خلق کرتے تھے.1990ء میں جب انفلوانزا پھیلا ہے تو مجھے خلیفہ ہوئے ابھی چار سال ہی ہوئے تھے.اور جماعت بہت تھوڑی تھی.مگر اس وقت ہم نے قادیان کے ارد گرد سات سات میل کے حلقہ میں ہر گھر تک اپنے آدمی بھیجے اور دوائیاں پہنچائیں.اور تمام علاقہ کے لوگوں نے تسلیم کیا کہ اس موقع پر نہ گورنمنٹ نے ان کی خبر لی ہے اور نہ ان کے ہم قوموں نے ان کی خدمت کی ہے.اگر خدمت کی ہے تو صرف جاعت احمدیہ نے.نہیں نے اس وقت طبیبوں کو بھی بلوایا اور ڈاکٹروں کو بھی بلوا لیا.دنیا میں عام طور پر ڈاکٹر بلواؤ تو طبیب اٹھ کر چلا جاتا ہے.اور طبیب بلاؤ تو ڈاکٹر اُٹھ کر چلا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ یہ بات نہیں ہوئی.اور پھر اخلاص کی وجہ سے ہمارا ان پر رحب بھی ہوتا ہے بغرض میں نے ڈاکٹر بھی ا بلوائے حکیم بھی بلوائے اور ہومیو پیچھے بھی بلوائے.اس وقت مرض نئی نئی پیدا ہوئی تھی ڈاکٹروں نے کہا ہم اس مرض کا علاج تو کریں گے مگر ہماری طب میں ابھی اس کی تشخیص نہیں ہوئی.اور لٹریچر بہت ناقص ہے.اطباء کے اصولِ علاج چونکہ کلیات پر مبنی ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بلغمی بخار ہے اور ہم اس کا علاج کر لیں گے.میں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ یہ جھوٹ بولیں یا سچ بولیں.غلط کہیں یا درست کہیں ، بہر حال یہ کہتے ہیں کہ ہماری طب میں اس کا علاج موجود ہے.اس لئے انہیں بھی علاج کا موقعہ دینا چاہیے.چنانچہ میں نے ڈاکٹروں اور حکیموں کو ارد گرد کے دیہات میں بھیجوا دیا.ساتھ مدرسہ احمدیہ کے طالب علم کر دیئے.وہ سات سات میل تک گئے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں آدمیوں کی جان بچ گئی ہے • له " تاریخ احمدیت جلده ۲۳۲ - ۲۳۳ - اخبار " فاروق " قادیان نے ، نومبر تشار کی اشاعت میں نکھار حضرت خلیفہ اسیج کی طرف سے ادویات کا ایک سٹور کھولا گیا ہے جس سے قادیان اور قرب و جوار کے مریضوں کو مفت دوا دی جاتی ہے.اس سٹور میں صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سات سات بجے صبح سے لیکر رات کے دس دس بجے تک کام کیا.اس محنت شاقہ کی وجہ سے آپ کی طبیعت بھی نا سانہ د باقی اگلے صفحہ میں )
۳۴۵ تو ہم خدمت خلق کرتے ہیں اور ہمیشہ سے کرتے چلے آئے ہیں.مگر ہم ڈھنڈور انہیں پیٹتے کہ ہم نے یہ کیا ہے ہم نے وہ کیا ہے مثلاً ملکانوں کی جو ہم نے خدمت کی اس کے متعلق ہم نے کچھ نہیں کہا.لیکن دوسرے لوگوں نے اقرار کیا کہ ہم نے بغیر معمولی کام کیا ہے.مگر ہمارے ان سارے کاموں کے باوجود دشمن نے پھر بھی یہی کہا کہ یہ شروع سے مسلمانوں کے دشمن ہیں.بلکہ بعض عدالتوں نے بھی اس کو تسلیم کر لیا.اور یہ خیال نہ کیا کہ تمام مصیبتوں کے وقت ہمیشہ احمدیوں نے ہی اپنی گردنیں آگے کی ہیں.میں جب دلی میں جایا کرتا تھا تو اکثر یو پی کا کوئی نہ کوئی رئیس مجھے ملتا اور کہتا کہ میں تو آپ کا اس دن سے مداح ہوں جس دن آپ کے لوگوں نے اپنے ہاتھ سے ایک مسلمان عورت کی کھیتی کاٹ کر اسلام کی لاج رکھ لی تھی.اور مسلمانوں کی عظمت قائم کر دی تھی.واقعہ یہ ہے کہ الور یا بھرت پور کی ریاست میں ایک عورت تھی جس کے سارے بیٹے آریہ ہوگئے مگر وہ اسلام پر قائم رہی.مائی جمیا اس کا نام تھا.خان بہادر محمد حسین صاحب سیشی حج اس علاقہ میں تبلیغ کے لئے مقرر تھے.ان کا بیٹا نہایت مخلص احمدی ہے بہر حال جب فصل کٹنے کا وقت آیا تو چونکہ سب گاؤں جو ابقيه حاشيه :-) ہو گئی......میر محمد اسحاق صاحب.....مہمان خانہ میں اور دیگر مریضوں کی تیمار داری میں مصروف رہے.اور ہم ارکاکتو بر کو آپ بیمار ہو گئے اس بیماری نہیں دار الفضل میں حکیم محمد زمان صاحب.بھائی محمود صاحب.ڈاکٹر محمد اسماعیل خانصاحب نے اور دارای مان میں جناب مفتی فضل الرحمن صاحب ، (مولوی) غلام محمد صاحب، ڈاکٹر عبد اللہ صاحب.خواجہ شاہ اعجاز علی صفار ،، حکیم محبوب الرحمن صاحب صاحب بنارسی - حکیم اسماعیل صاحب مولوی قطب الدین صاحب نے نہ صرف قادیان میں بلکہ ارد گرد کے دیہات کے مریضوں کا علاج کما حقہ کیا.اس کے علاوہ تیمار داری میں بہت سے احباب نے مثلاً ھوتی یعقوب صاحب وغیرہ نے حصہ لیا.اور دوائیاں تقسیم کرنے میں ماسٹر محمد جان صاحب نے بہت کام کیا.فیض محمد صاحب برکت علی صاحب - مولوی غلام نبی صاحب محمد دین صاحب مولوی فاضل رحمت علی صاحب نے عرق و شربت بنانے میں مدد دی.جناب ڈاکٹر رشید الدین صاحب کا فیضان عام کربھی جاری دیام شه.یہ ریاست بھرت پور ہی کا واقعہ ہے (ناقل) : کے اخبار فاروق قادیان ، نومبر تا صد بریکٹ کے الفاظ فقرہ کی تکمیل کے لئے ناقل نے اضافہ کئے ہیں.
لم بڑا بھاری تھا آریہ ہو چکا تھا.اور اس کے اپنے بیٹے بھی اسلام چھوڑ چکے تھے.اور وہ عورت اکیلی اسلام پر قائم تھی.اس لئے کوئی شخص اس کی کھیتی کاٹنے کے لئے تیار نہیں تھا.انہوں نے اسے طعنہ دیا اور کہا کہ مائی تیری کھیتی تو اب مولوی ہی کاٹیں گے.احمدیوں کو دیہات میں مولوی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ قرآن اور حدیث کی باتیں کرتے ہیں.شروع میں ملکانہ میں بھی ہمارے آدمیوں کو مولوی کہا جاتا تھا جس طرح یہاں ہمیں مرزائی کہتے ہیں اسی طرح وہاں مولوی کہا جاتا تھا.سرحد اور یو.پی میں عام طور قادیانی کہتے ہیں.جب یہ خط مجھے ملا تو میں نے کہا اب اسلام کی عزت تقاضا کرتی ہے کہ مولوی ہی اس کی کھیتی کائیں.چنانچہ جتنے گریجوایٹ اور بیرسٹر اور وکیل اور ڈاکٹر وہاں تھے میں نے ان سے کہا کہ وہ سب کے سب جمع ہوں اور اس عورت کی کھیتی اپنے ہاتھ سے جا کہ کاٹیں.چنانچہ درجن یا دو درجن کے قریب آدمی جمع ہوئے.جن میں وکلاء بھی تھے ، ڈاکٹر بھی تھے ، گریجوایٹس بھی تھے.علماء بھی تھے اور انہوں نے کھیتی کاٹنی شروع کر دی.لوگ ان کو دیکھنے کے لئے اکٹھے ہو گئے.اور تمام علاقہ میں ایک شور مچ گیا کہ یہ ڈاکٹر صاحب میں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں.یہ جج صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں.یہ وکیل صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں.انہوں نے چونکہ یہ کام کبھی نہیں کیا تھا اس لئے اُن کے ہاتھوں سے خون بہنے لگا.مگر وہ اس وقت تک نہیں ہے جب تک اس کی تمام کھیتی انہوں نے کاٹ نہ لی.یو.پی کے اضلاع میں یہ بات خوب پھیلی.اور کئی رئیسی متواتر مجھے دلی میں ملے.اور انہوں نے کہا کہ ہم تو اسی دن سے احمدیت کی قدر کرتے ہیں جب ہم نے یہ نظارہ دیکھا تھا.اور ایک مسلمان عورت کے لئے آپ کی جماعت نے یہ بغیرت دکھائی کہ جب لوگوں نے اسے کہا کہ اب مولوی ہی تیری کھیتی آکر کاٹیں گے تو آپ نے کہا کہ اب دکھا دے کا مولوی نہیں سچ مچ کا مولوی جائے گا اور اس کی کھیتی کالے گا.تو ہمیشہ ہی ہم مسلمانوں کی خدمت کرتے رہے ہیں مگر ہمیشہ ہم ان خدمات کو چھپاتے رہے ہیں.اور کہتے رہے ہیں کہ ان خدمات کے اظہار کا کیا فائدہ؟ ہم نے جو کچھ کیا ہے خدا کیلئے کیا ہے.انسانوں کے لئے نہیں کیا، مگر آج کہا جا رہا ہے کہ احمدی مسلمانوں کے دشمن ہیں مسلمانوں کی کبھی خدمت نہیں کرتے بفرض اتنے بڑے جھوٹ اور افتراء سے کام لیا جاتا ہے کہ آپ ہم اس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جماعت کے دوستوں سے کہیں کہ اچھا تم بھی اپنی خدمات کو ظاہر کرد.
حضرت مصلح موعود و سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ شاید سے خطاب فرما رہے ہیں
۳۴۷ اور دنیا کو بتادو کہ ہم ملک اور قوم کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.مگر چونکہ ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی خدمات کو ظاہر کریں اس لئے ہم ان کو ظاہر کرتے ہیں.ورنہ ہمارے دل اکسی اظہار پر شرماتے ہیں.پس اپنے پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ ایسے امور پر غور کرو اور ایسی تجاویز سوچو جن کے نتیجہ میں تم ملک اور قوم کی زیادہ سے زیادہ خدمت بجانا کہ اسے حضرت امیر المومنین کی اختتامی تقریر کے ابتدائی حصے بعض اہم انتظامی اختتامی خطاب اور تربیتی نصائح پر مشتمل تھے.اسی تسلسل میں حضور نے صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور سید داؤ د احمد صاحب کو دو سال کے لئے بالترتیب نائب صدر اور نائب صدرت مقرر فرمایا.چونکہ سید داؤ د احمد صاحب جلد ہی انگلستان تشریف لے جا رہے تھے.اس لئے حضور نے یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ اُن کے بعد نائب صدر تک مولوی غلام باری صاحب سیف ہوں گے ☑ پھر حضرت صاحبزادہ ناصر احمد صاحب کو آئندہ کے لئے انصار الله مرکزیہ کا صدر مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ : وہ فوراً انصار اللہ کا اجلاس طلب کریں اور عہدہ دار دن کا انتخاب کر کے میرے سامنے پیش کریں.اور پھر میرا مشورہ لے کر انہیں از سر نو منظم کریں پھر خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کی طرح انصار اللہ کا بھی سالانہ جلسہ کیا کریں لیکن اُن کا انتظام اور قسم کا ہوگا اس اجتماع میں کھیلوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کبڈی اور دوسری کھیلیں ہوتی ہیں انصار احمد کے اجتماع میں درس القرآن کی طرف زیادہ توجہ دی جائے اور زیادہ وقت تعلیم و تدریس پر صرف کیا جائے کیے اس تاریخی ارشاد مبارک کے بعد حضور نے آئندہ کے لئے پہلے سے زیادہ منظم رنگ میں ے روزنامہ " الفصل " لاہور مار فتح ۱۳۳۳ رمیش ۱۷ دسمبر ۱۹۹۲ ۶ ۳-۵- ه سفر انگلستان (اپریل ۱۹۵۵ء تا نومبر ۱۹ء) کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو "سیرت داؤد" مه ناشر الجمعية العلمية "جامعہ احمدیہ ریوه طبع اول مارچ ۶۳ - اخبار " الفصل " ۹ فروری ۹۵۵ در در تبلیغ ۱۳۳۲ مش مت رسالہ "خالد" (ریون) ضروری شواء ص
۳۴۸ خدمت خلق کے وسیع انتظامات کرنے کی ضرورت بیان کی اور فرمایا :.پچھلے دنوں لاہور والوں نے جو کام کیا ہے وہ نہایت قیمتی تھا.لیکن اگر لاہور کی مجلس زیاد منظم ہوتی تو یقینا ان کا کام زیادہ مفید ہو سکتا تھا.اور اگر لاہور والوں کو منظم ہونے کا احساس ہوتا تو اس کا قاعدہ یہ تھا کہ لاہور والے مرکز کو لکھتے کہ وہ اپنا ایک نمائندہ یہاں بھیج دیں.پھر وہ نمائندہ دوسری مجالس کو تاریں دیتا کہ تم لوگ یہاں آکر کام کرو.اس طرح لاہور میں خدمت خلق کا کاس وسیع ہو سکتا تھا.جب میں نے ربوہ سے معمار بھجوائے تو لاہور میں اتنا کام نہیں ہو سکا جس کی ہمیں امید تھی.اور اس کی زیادہ وجہ یہی تھی کہ سامان بہت کم تھا معماروں کو وقت پر سامان میسر نہیں آیا.اگر لاہور والے اس کے متعلق پہلے غور کر لیتے اور ہمیں سامان کا اندازہ لگا کر بھیج دیتے تو یہاں سے معمار کام کا کا اندازہ لگا کر بھیجے جاتے.آب انہوں نے خدمت بھی کی لیکن کام زیادہ نہیں ہوا.اگر سامان کم تھا تو ہم کچھ معمار اس وقت بھیجی دیتے اور باقی معماروں سے کسی اور وقت کام لے لیتے.انسان آنریری خدمت ہر وقت نہیں کر سکتا.آخر اس نے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہوتا ہے.بہر حال اس قسم کے تمام کام اسی وقت محمدگی سے سر انجام دیئے جا سکتے ہیں جب مجالس ایک دوسری سے تعاون کریں سیلاب کے دنوں میں باتی جماعتوں نے بھی کام کیا ہے لیکن لاہور کی جماعت نے جیسی قسم کا کام کیا ہے اس سے انہیں ایک خاص معیار حاصل ہو گیا ہے.موجودہ قائد خدام الاحمدیہ کے اندر وقت کا احساس ہے.میں جب لاہور گیا اور میں نے ربوہ کے معماروں کے بنائے ہوئے مکانوں کو خود دیکھا تو ایک جگہ ایک کمرہ تعمیر کرنے کے لئے میں نے انہیں اندازہ بھیجنے کی ہدایت کی.غور کرنے والے تو شائد اس پر کئی دن لگا دیتے لیکن انہوں نے اندازہ گھنٹوں میں پہنچا دیا.اور پھر اس کی تفصیل بھی ساتھ تھی.پس تم خدمت خلق کے کام کو نمایاں کرد.اور اپنے بجٹ کو ایسے طور پر بنیاد کہ وقت آنے پر کچھ حصہ اس کا خدمت خلق کے کاموں میں صرف کیا جا سکے.قادیان میں یہ ہوتا تھا کہ زیادہ زور عمارتوں پر رہتا تھا.حالانکہ اگر کوئی عمارت بنانی ہی ہے تو پہلے اس کا ایک حصہ بنا لیا جائے.کچھ کچھے کمرے بنائے جائیں.جماعت پڑھنتی جائے گی تو چندہ بھی زیادہ آئے گا
اور اس سے عمارت آہستہ آہستہ مکمل کی جا سکے گی.پس اپنے بجٹ کا ایک حصہ خدمت خلق کے لئے وقف رکھو.جیسے ہلال احمر اور ریڈ کر اس کی سوسائٹیاں کام کر رہی ہیں.اگر تم آہستہ آہستہ ایسے فنڈز جمع کرتے رہو تو ہنگامی طور پر یہ رقوم کام آجائیں گی.مثلاً بنگال میں سیلاب آیا تو جماعت کی طرف سے نہایت اچھا کام کیا گیا.لیکن چونکہ چندہ دیر سے جمع ہوا اس لئے کام ابھی تک جاری ہے.چندہ جب مانگا گیا تھا تو صرف مشرقی پاکستان کا نام لیا گیا تھا.پنجا کا نام لیا گیا تھا.پنجاب کا نام نہیں لیا گیا تاکہ مزید چندہ مانگنے پر جماعت پر مالی بوجھ نہ پڑے.اگر اس قسم کی رقوم پہلے سے جمع ہوتیں تو جمع شده چندہ ہم مشرقی پاکستان پر خرچ کر دیتے اور ان رقوم میں سے ایک حصہ پنجاب میں خرچ کر دیا جاتا.پس ہر سال کے بجٹ میں اس کے لئے بھی کچھ مارجن رکھ لیا جائے اور تھوڑی بہت رقم ضرور الگ رکھی جائے.وہ ہر تم ریزرو ہو گی جو قحط اور سیلاب وغیرہ مواقع پر صرف کی جائیگی.تم اس کا کوئی نام رکھ لو.ہماری عزت صرف یہ ہے کہ اس طرح ہر سال کچھ رقم جمع ہوتی رہے جو کسی حادثہ کے پیش آتے یا کسی بڑی آفت کے وقت خدمت خلق کے کاموں پر خرچ کی جاسکے.جاپان میں زلزلے کثرت سے آتے ہیں.فرض کرو وہاں کوئی ایسا زلزلہ آجائے جس قسم کا زلزلہ پچھلے دنوں آیا تھا اور اس کے نتیجہ میں دو تین ہزار آدمی مر گئے تھے تو ایسے مواقع پر اگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے گورنمنٹ کے واسطہ سے کچھ رقم وہاں بھیج دی جائے تو خود بخود خدام الا حمدیہ کا نام لوگوں کے سامنے آجائے گا.اس قسم کی مدد سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہو جاتی ہے.اور طبائع کے اندر شکریہ کا جذبہ پیدا کر دیتی ہے.اگر اس قسم کے مصائب کے وقت کچھ رقم تار کے ذریعہ بطور مدد بھیج دی جائے تو دوسرے دن ملک کے سب اخبارات میں مجلس کا نام چھپ جائے گا.پچھلے طوفان میں ہی اگر خدام کے مختلف وفود بنادیے جاتے تو تنظیم کے ذریعہ سے باہر کی مجالس سے آدمی منگوا لئے جاتے تو زیادہ سے زیادہ آدمی سیلاب زدہ لوگوں کی امداد کے لئے بھیجے جا سکتے تھے.مثلا سیلاب کا زیادہ زور لمنان سیالکوٹ اور لاہور کے اضلاع میں تھا.اگر ان ضلعوں کی مجالس کو منظم کیا جاتا اور باقی مجالس سے مدد کے لئے مزید آدمی آ گنجائش ،
۳۵۰ جاتے اور انہیں بھی امدادی کاموں کے لئے مختلف جگہوں پر بھیجا جاتا تو پھر ان کا کام زیادہ نمایاں ہو جاتا.پھر یہ بھی چاہئیے کہ حالات کو دیکھ کر غور کیا جائے کہ کیسی رنگ میں کام کرنے کی ضرورت ہے.لاہور میں میں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہ چھپر ڈال کر لوگوں کو پناہ دی جاسکتی تھی.اگر شہر کے اردگرد تالابوں سے تنکے اور گھاس کاٹ کو لایا جاتا تو اس سے بڑی آسانی سے چھپر بنا کر چھت کا کام لیا جا سکتا تھا.اس طرح لکڑی کے جہیا کرنے کی ضرورت نہیں تھی.اسی طرح اس قسم کے مواقع پر پکتے مکانات کی ضرورت نہیں ہوتی.پھسلے کی عمارت کی ضرورت ہوتی ہے.اور لکڑی کی بجائے بانس اور تنکوں کا چھت بنا دیا جاتا ہے.لاہور میں کئی ایسی جگہیں تھیں جہاں سردی سے بچاؤ کیلئے چھت کی ضرورت تھی.یہ سب کام آرگنا ئزیشن سے ہو سکتے تھے.ہمارے محکمہ خدمت خلق کا یہ کام ہے که نه صرف مجالس کو وہ آرگنائز کرے بلکہ اس قسم کا انتظام کرے کہ اگر کسی جگہ کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو کسی طرح ساری جماعت کا زور اس طرف ڈالا جا سکے.آئندہ میرے پاس رپوڑیں آتی رہنی چاہئیں کہ کس طرح خدمت خلق کے کام کو آرگنائز کیا گیا ہے ؟.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض حلقے بنا دیئے بھا ئیں اور ان کی آپس میں آرگنا ئزیشن کی جائے جیسے زونل سیسٹم ہوتا ہے اس طرح صویہ کے مختلف زدن مقرر کر دیئے جائیں.مثلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملتان کے اردگرد سوسوئیل کا ایک زون بنا دیا جائے.اس علاقہ میں آبادی کم ہے.اس لئے اس سے بڑا زون بھی بنایا جا سکتا ہے.پھر ہر زون میں خدمت خلق کا ایک آفیسر مقرر کر دیا جائے.جو مصیبت آنے پر دوسری مجالس کو تار دے دے کہ فلاں جگہ پر مصیبت آئی ہے.امدادی کاموں کے لئے خدام بھیج دیئے جائیں.اس طرح یاد رکھو کہ ہمارا ملک ایسے حالات سے گزر رہا ہے کہ اس میں نہ صرف بڑے طوفان آ سکتے ہیں بلکہ طوفان لائے بھی جا سکتے ہیں.ہم نچلے علاقہ میں ہیں اور ہندوستان کی حکومت اوپر کے علاقوں پر قابض ہے اور وہ پانی چھوڑ کر طوفان لاسکتی ہے.پھر لاہور میں امدادی کاموں کے سلسلہ میں جو دقت پیش آئی تھی اس کے متعلق دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ اس موقعہ پر بھٹہ والوں نے بد دیانتی کی.ان لوگوں نے اس موقعہ پر اینٹ کو مہنگا کر دیا.اگر اس قسم کی تحریک کی جاتی کہ جماعتیں مل کر ان کو توجہ دلائیں کہ ایسے موقعہ پر آپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ مصیبت زدگان کی امداد کریں تو یقیناً وہ کم قیمت پر اینٹ سپلائی کرتے
۳۵۱ میرے نزدیک آئندہ کے لئے ابھی سے لاہور کے بھٹہ والوں سے مل کر انہیں اس بات پر تیار کیا جائے کہ اگر ملک کو آئندہ ایسا حادثہ پیش آیا تو وہ اینٹ کم قیمت پر دیں گے.اور دوسرے گاہکوں پر امدادی کاموں کو ترجیح دیں گے.بے شک اس میں وقت پیش آئے گی اور پہلے ایک آدمی بھی مشکل سے مانے گا.لیکن آہستہ آہستہ کئی لوگ مان لیں گے.اور پھر جو لوگ آپ کی بات مان لیں ان کے نام محفوظ رکھ لئے جائیں.اس طرح اس کام کو منظم کر لیا جائے کہ لے دام الاحمدیہ عالمگیر کیطرف سے الوداعی ایڈریس ، حضرت علی موجود کے اس اختصاصی خطاب اور دعا کے بعد خدام کا ایک خصوصی اجلاس ہوا جس میں خدام الاحمدیہ عالمگیر کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی خدمت میں حسب ذیل الوداعی ایڈریس پیش کیا گیا :- بسم الله الرحمن الرحيم مکرم و محترم نائب صدر صاحب اول - زاد كم الله شرفاً وعزاً السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حساء کا سن وہ مبارک سال ہے جب حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزيزيني مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام فرمایا.احمدیت کی تاریخ شاہد ہے کہ اس تحریک کے ذریعہ احمدی نوجوانوں نے تنظیم اور ملی خدمت کی تربیت حاصل کی.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مبارک تحریک کا قیام حضرت فضل عمر ایدہ اللہ تعالی کے مبارک ہاتھوں سے ہوا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس تحریک کو پروان چڑھانے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی.این سعادت بزور بازو نیست تا نه ببخشد خدائے بخشنده ۱۹۳۹ء سے لیکر ۱۹۴۹ء تک آپ کے ہاتھوں میں اس تحریک کی زمام قیادت رہی.اور پھر وہ مبارک دن بھی جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ اعلان فرمایا ه - اخبار الفضل " ۹ر فروری ۱۹۵۵ و ۱۹ تبلیغ ۱۳۳۳ پیش من
۳۵۲ کہ آئندہ اس تحریک کے صدر خود حضورہ ہوں گے.کتنا اعلیٰ بدل تھا جو اللہ تعالی نے مجلس کو عطا فرمایا.اس کے بعد ۱۹۴۹ء سے لیکر ۱۹۵۴ء کا زمانہ ہے جب آپ نے اس تحریک کی قیادت نائب صدر ہونے کی حیثیت سے سنبھالی.۱۳ ء کا زمانہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے جب اس مجلس کی کوئی تھی.صرف چند نوجوان اس کے ممبر تھے.اور آج کا زمانہ کبھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے جبکہ مجلس کا سالانہ بجٹ پینتیس ہزار ۳۵۰۰۰۱) کے لگ بھگ ہے اور بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں نوجوان اس تنظیم سے تربیت پاکر سیلہ کی اہم خدمات پر مامور ہیں.جب تک بھی احمدی نوجوان اس مبارک تحریک سے بہرہ ور ہوتے ہوئے سلسلہ کی خدمت میں مصروف رہیں گے اللہ تعالٰی آپ کے نام کو زندہ رکھے گا کیونکہ ارشاد نبوی ہے :." الدَّالٌ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ " محترم نائب صدر صاحب ! آپ جبکہ آپ ہم سے جدا ہو کر انصار اللہ کی قیادت سنبھال رہے ہیں.ہم اراکین مجلس عالمگیر و مجلس عاملہ مرکز یہ رنج اور خوشی کے متضاد جذبات اپنے اندر محسوس کرتے ہیں.ہمیں اس امر کا، تیج ہے کہ آپ ہم سے جدا ہو رہے ہیں.لیکن اس بات کی خوشی ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی سابقہ خدمات کو سراہتے ہوئے دوسرے اہم قومی کاموں کی سرانجام دہی آپ کے سپرد فرمائی.مکریم میاں صاحب ! آج جبکہ ہم اس موقعہ پر آپ کو الوداع کہ رہے ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کا انصار اللہ میں جانا آپ کے لئے اور انصار اللہ کے لئے بابرکت فرمائے، آمین.اور آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ بھی اپنی دعاؤں اور مشوروں سے ان چھوٹے بھائیوں کو یاد فرماتے رہا کریں اسے حافظ قرآن ! خدا حافظ و ناصر گے.بہر حال ہم ہیں اراکین مجلس عالمگیر داراکین مجلس عامله مرکزه بدید ص۳۲۹ کے ماہنامه خاطر بهبود دسمبر ۱۹۵۳ و فتح ۱۳۳۳ ش ۲۹ ۳۰
۳۵۳ اس سپاستانہ کے جواب میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک دردانگیز تقریر فرمائی میں نے سننے والوں پر رقت کی کیفیت طاری کر دی.اجتماع کے بعض ضروری کوائف اس اجتماع میں شامل ہونے والے خدا کی کل تعداد الفضل کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق ۱۳۳۲ تھی جن میں مرکزی اداروں میں کام کرنے والے خدام ۲۵۰ اور مقامی مجلس کے خدام ۵۸۹ تھے.مجالس مغربی پاکستان کے علاوہ قادیان " گولڈ کوسٹ (غانا) چین، شمالی لینڈ انڈونیشیا اور مایا کے احمدی تو جوان بھی شریک اجتماع ہوئے.اجتماع کے نگران اعلیٰ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا منو کہ احمد صاحب تھے.اجتماع اس سال بھی ریوہ کے جنوبی جانب کھلے میدان میں ہی ہوا جس کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ کے لئے اور ایک حصہ اطفال الاحمدیہ کے لئے مخصوص تھا.خدام الاحمدیہ والا حصہ پانچ حصوں پر منقسم تھا.ایک حصہ میں مرکزی دفتر اور انتظام کے دیگر شعبہ جیا کے خیمے لگا دیئے گئے اور لنگر خانہ قائم کیا گیا.باقی چار حصے جو اطاعت، صداقت، امانت، اور شجاعت کے نام سے چار بلاکوں کی صورت میں تھے.خدام کی عارضی رہائش کے لئے مخصوص تھے اس سال مقام اجتماع میں ۱۹۴ خیمے نصب کئے گئے جن میں مرکز سی شعبوں کے لئے ۲۷ خدام کی رہائش کے لئے ۱۱۸ اور اطفال کی رہائش کے لئے وہ نیجے تھے.مقام اجتماع کا کل رقیہ تیس ہزار مربع فٹ تھا.اجتماع کے انتظامات کی خاطر متعد د شعبے قائم کئے گئے تھے جن کے حسب ذیل نگران مقرر تھے.1 محکوم حفیظ الرحمن صاحب ڈرافٹسمین محکمہ تعمیرات صد ر انجمن احد به پاکستان.ر تنصیب خیمہ جات دتیاری تیج ) چودھری سعید احمد صاحب عالمگیر مہتمم مال مجلس خدام الاحمدية مركزية (شعبه سپلائی ) سید داؤد احمد صاحب مہتمم خدمت خلق.(شعبه خوراک و طبی امداد ).چودھری شبیر احمد صاحب مہتمم تبلیغ خدام الاحمدیه مرکز بیت (شعیه صفائی در آب رسانی ) ۵ - حسن محمد خان صاحب عارف وکالت تبشیر (شعبه روشنی )
۳۵۴ -4 - A مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ مہم تعلیم و علمی مقابلے - ملک محمد رفیق صاحب معتمد مرکزیه دورزشی مقابلے.رابطہ افسرا مولوی محمد احمد صاحب ثاقب پروفیسر جامعہ احمدیہ ( ناظم اوقات ) مولوی محمد صدیق صاحب انچار ج خلافت لائبریری ( شعبه پیره و دفتر بیرون ) ۱۰.مولوی ناصرالدین صاحب تحریک جدید ( دفتر اندرون ) 1- سید عبد الباسط صاحب نائب معتمد مرکزیہ ردفتر مرکزیہ ہے اس موقع پر پہلی بار رسالہ خالد کا ایک یا تصویر ا در ضخیم " اجتماع نمبر بھی شائع کیا گیا جس سے احمدی نوجوانوں کے علمی وادبی و دینی ذوق کی عکاسی ہوتی تھی.سید نا حضرت مصلح موعود نے خدمت خلق ریزر دفنڈ کے قیام کی اپنے مبارک خطاب میں ہدایت فرمائی تھی.جس کے پیش نظر سالانہ اجتماع کے دوران ہی ریزر و فنڈ کا افتتاح عمل میں آگیا اور فیصلہ شورٹی کے مطابق تعمیر دفتر خدام الاحمدیہ کی مد سے مبلغ ایک ہزار روپیہ اس فنڈ میں منتقل کر دیا گیا اور ساتھ ہی یہ تجویز پاس کی گئی کہ :- ہر خادم سے ریزرو فنڈ خدمت خلق کے لئے ایک سال تک کم از کم ایک آنہ ماہوار کے حساب سے چندہ لیا جائے.کے شوری خدام ال حمدیہ کی یہ تجویز حضور نے منظور فرمائی.اور مجالس کی طرف سے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا.اجتماع کے بعد الوداعی تقاریب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا خدام الاحمدیہ سے سبکدوش ہو کر مجلس حضرت مصلح موعود کی قیمتی هدایات انصاراله مرکزیہ کے عہدہ صدارت پر متاز ہونا.۱۹۹۰ء/۳۳۳ میشن کے اجتماع کا ایک یادگار واقعہ تھا جس نے نو جوانان احمدیت کے ہ قلوب پر بہت گہر سے نقوش چھوڑے.سیدنا حضرت مصلح موعود نے آپ کو ۱۹۳۹ ء میں مجلس 190 ۵۸۵۷ - الفضل " - - ار نوبر ۶/۱۹/ نبوت ۱۳۳۳ امیش.رساله خالد ماه نومبر ۱۹۵۷ در بوت ۱۳۳۳ امیش مه ۵۸ ت - رسالہ "خالد" دسمبر ۱۹۵۴ در فتح ۱۳۳۳ مش در ۳۱
۳۵۵ خدام الاحمدیہ کی قیادت سونپی تھی جب کہ یہ مجلس چند گنتی کے احمدی نوجوانوں تک محدود تھی اور قادیان میں اپنے ابتدائی مراحل طے کر رہی تھی ، آپ نے مجلس کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں اپنی جوانی کا قیمتی حصہ صرف کر دیا.اس میں خدمت دین اور خدمت خلق کے لئے کام کرنے کی امنگ، جوش اور ولولہ پیدا کیا اور پندرہ سال کی انتھک اور اس کوشیا بہ روز کوشش اور دعاؤں سے ایک مثالی قابل رشک اور بلند معیار تک پہنچا دیا.ان عظیم الشان خدمات کی بناء پر خدام میں آپ کے لئے جذبات تشکر و امتنان کا خود بخود اُبھر آنا ایک قدرتی امر تھا یہی وجہ ہے کہ عشاء کے بعد کمیٹی روم دفاتر تحریک جدید میں ایک الوداعی پارٹی دی گئی جس میں نئے سال کے نائب صدر اول و دوم اور نائب صدر صوبہ سرحد کے علاوہ بیش کے قریب قائدین مجالس نے شرکت کی.قائد مجلس مقامی صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاب نے سپاسنامہ پیش کیا اور آپ کی سنہری خدمات کو خراج تحسین ادا کیا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے سپاس نامہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جب کوئی شخص خلوص نیت سے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حقیر سی قربانی بھی پیش کرتا ہے تو وہ اسے خوب نوازتا ہے.آپ نے بھی زندگی میں اس بات کا کئی دفعہ تجربہ کیا ہو گا.مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے تھوڑی سی خدمت کا موقعہ دیا ہے.اور اس دوران میں نے اس بات کا خوب تجربہ کیا.اور خدا تعالیٰ کے سلوک کا لطف اٹھایا ہے.آپ نے بلیلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا.اکتو بر اساء میں غالبا محلہ دار البرکات قادیان میں خدام کا ایک جلسہ تھا جس میں میں نے شریک ہونا تھا.میری بڑی بھی جس کی عمر اس وقت چند ماہ کی تھی بہت بیمار تھی.اور ہم شہر سے باہر قیام پذیر تھے.بچی کی والدہ سخت پریشان اور گھبرائی ہوئی تھی.اس نے مجھے یا ہر جانے سے روکا.لیکن میں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ میں جلسہ میں شرکت سے محروم رہوں.چنانچہ میں نے اپنی سمجھ کے مطابق ، جو میو پیتھک کی ایک دوا بچی کو دی اور خدا تعالے پر تو کل کرتے ہوئے جلسہ ئے.صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ (ولادت ۲۶ اپریل ۱۹۴۰ ۶ ملاحظہ ہو روزنامہ الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۴۶ ص۲)
۳۵۶ میں شرکت کے لئے چلا گیا.واپس آیا تو بچی کی بیماری میں کافی افاقہ تھا.اور یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور اس پر تو حمل کرنے کا نتیجہ تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا اس قسم کے تجربات سے میری زندگی کا کوئی لمحہ خالی نہیں انسان نیک نیت ہو کہ اپنی زندگی کے چند لمحے قربان کرتا ہے تو اگر چہ یہ قربانی خدائے تعالیٰ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی مگر وہ اسے خوب نوازتا ہے اور اپنے بندہ کی ڈھارس بندھاتا ہے.ہم نے پچھلے سال بھی اس کا تجربہ کیا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنا چہرہ دکھایا اور اپنی قدرت سے ہماری جانوں اور مالوں کو محفوظ رکھا.اس کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ خدا تعالے زندہ موجود نہیں ہے تو اسے پاگل نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا ہے.اگر خدا تعالے واقعی زندہ موجود نہیں ہے تو مذہب محض خشک فلسفہ ہے.تو روح کو ہرگز تسکین نہیں دے سکتا موجودہ حالات میں ہم نے اس ہتھیار کو لے کر دنیا پر حملہ کرنا ہے کہ خدا تعالیٰ زندہ موجود ہے.باقی مسائل فروعی حیثیت کے ہیں.اور یہ محاذ ایسا ہے کہ اس میں ہمیں جلد اور نمایاں فتح حاصل ہو سکتی ہے.لیکن ابھی تک ہم اس سے بے توجہی برت رہے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے قائدین کرام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جو کام بھی کریں.خلوص سے کریں.اور جس چیز کو وہ سنجیدہ گی سے بہتر سمجھیں اس سے پیچھے نہ ہٹیں.اگر کسی خادم کو سزا بھی دیتے ہیں تو اس میں بھی خلوص نیت کو پیش نظر رکھیں.اس کا نتیجہ بہت اچھا نکلتا ہے.اس سے نہ صرف نظام کا وقار قائم رہتا ہے بلکہ سزا لینے والا جب اس سہ سنجیدگی سے غور کرتا ہے تو وہ اپنی اصلاح کر لیتا ہے.دین کے بارہ میں لحاظ بے معنی ہے.اس لئے خدام کی اصلاح کرتے ہوئے تم کسی کا لحاظ نہ کرو.ہاں خلوص نیت اور ارادہ نیک رکھو.میرا اپنا تجربہ ہے کہ جن لوگوں کو میں نے مزار میں دیں ان میں سے اسی فیصدی سے زیادہ میرے دوست بن گئے.اور وہ آپ بھی اپنے کاموں میں مجھے سے مشورہ طلب کرتے ہیں.اس تقریر کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے دعا فرمائی.اور قائدین اور مجلس عاملہ مقامی کے ارکان کو شرف مصافی بخشا اور اس طرح یہ تقریب ختم ہوئی ہے اس اولین تقریب کے چند ہفتوں بعد مجلس مرکزیہ نے اپنے دفتر کے وسیع احاطہ میں عصرانہ کا ه اخبار الفضل " ۱۲ نومبر ۱۹۵۳ ۶ رجوت ۱۳۳۳ پیش ص۲
۳۵۷ انتظام کیا جس میں سیدنا حضرت مصلح موعود نے بھی شمولیت فرمائی.تلاوت قرآن کریم کے بعد مولوی محمدصدیق صاحب معتمد خدام الاحمدیہ نے ایڈریس پڑھا جس میں آپ کے عہد صدارت کے زریں کارناموں کا تذکرہ تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایڈریس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ دراصل اللہ تعالے کی خاص تائید اور نصرت کے سبب سے ہی رونما ہوتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے وعده يَنْصُرُكَ رِجَالُ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ کا مشاہدہ میں نے بارہا کیا ہے.ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ ایسے افراد بہم پہنچاتا رہا ہے جو عواقب سے بے پروا ہو کر اور اپنے آپ کو جان جوکھوں میں ڈال کر مفوضہ فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں پس حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالے خود ہی ہمارے کام کر رہا ہے ہمیں صرف ہمت اور ارادہ کی ضرورت ہے آخر میں آپ نے اُن جذبات محبت کا جن کا ایڈریس میں ذکر کیا گیا تھا شکریہ ادا کیا ہے اس کے بعد سید تا حضرت مصلح موعودہ نے خطاب فرمایا اور خدام کو بعض اہم ہدایات سے نوازا جن کو حضور ہی کے الفاظ مبارک میں درج ذیل کیا جاتا ہے :.خدام الاحمدیہ کا قیام ہی اس مقصد کے ماتحت کیا گیا ہے کہ نوجوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھا جائے اور انہیں گرنے سے بچایا جائے ، باغوں میں پھل لگتے ہیں تو اس میں انسانوں کا اختیار نہیں ہوتا اور بے تحاشا لگتے ہیں.مگر خدا لگاتا ہے.انسانوں کا اختیار اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ ان پھلوں کو گرنے سے بچاتا ہے یا اس امر کی نگہداشت کرتا ہے کہ اسے جانور نہ کھا جائیں یا بچے نہ توڑ لیں یا کیڑے اس باغ کو خراب نہ کر دیں اور یہ حفاظت اور نگہداشت اس کی خوبی ہوتی ہے.جہاں تک پھلوں کا سوال ہے اس کا لگا نا خدا کے اختیار میں ہے.لیکن جہاں تک پھلوں کی حفاظت کا سوال ہے وہ انسان کے اختیار میں ہے.لیکن بے وقوف اور نادان باغبان پھلوں کی حفاظت نہیں کرتا.اور وہ ضائع ہو جاتے ہیں.یہاں پاکستان میں ہمیں بھی لائل پور میں ایک بالغ الاٹ ہوا ہے.لاہور کے ایک تاجر نے اس کا ٹھیکہ لیا تھا وہ مجھے ملے تو کہنے لگے کہ بے شک ہم نے بھی نفع اٹھایا ہے لیکن آپ دیکھیں کہ اس باغ میں آپ کہیں بھی کوئی طوطا نظر نہیں آتا.پہلے اس باغ میں ہزارہا طوطے ہوا کرتے تھے مگر اب ایک طوطا بھی نظر نہیں آتا.انچار ج خلافت لائبریری ربوه - سے (ترجمہ) تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف نے الہام کریں گے.کے.اخبار الفضل " ۵ار فتح ۱۳۳۳ پیش ۱۵ دسمبر ۱۹۵۸ در کالم را
۳۵۸ اور اگر کوئی غلطی سے ادھر کا رخ کرے تو چکر کاٹ کر بھاگ جاتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے سے کئی گنا زیادہ پھل پیدا ہوا ہے.اور ہم نے بھی فائدہ اٹھایا اور آپ کو بھی زیادہ پیسے دیئے.تو پھل تو سب باغوں میں آتے ہیں.باغبان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرے.خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اسی لئے کیا گیا ہے کہ بچپن اور نو جوانی میں بعض لوگ بیرونی اثرات کے ماتحت کمزور ہو جاتے ہیں اور ان میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.بعض لوگ دوسری سوسائیٹیوں سے بُرا اثر قبول کر لیتے ہیں اور بعض تربیت کے نقائص کی وجہ سے آوارگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.تعدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ اس بیرونی تغیر کو جاعت احمدیہ میں داخل نہ ہونے دیں.اور اس مقصد کو ہمیشہ نوجوانوں کے سامنے رکھیں جس کے پورا کرنے کے لئے سماعت احمدیہ قائم کی گئی ہے.اگر نوجوانوں میں یہ روح پیدا کر دی جائے تو پھر بے شک شرارت کرنے والے شرارت کرتے رہیں.خواہ اپنے ہوں یا غیر سب کے سب ناکام رہیں گے.دنیا میں بسا اوقات اپنے دوست اور عزیز بھی مختلف غلط فہمیوں کی بناء پر مخالفت پر اتر آتے ہیں........پس خواہ اپنے لوگ مخالفت کریں یا غیر کہیں وہ اپنا کام کئے چلا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے کام اعلیٰ ہیں.اگر میں اس راستہ سے ہٹ جاؤں گا تو ذلیل ہو جاؤں گا.گذشتہ زمانہ میں مسلمان کمزور ہوئے تو اسی وجہ سے کہ اسلام کے باغ میں جو ثمرات اور پھل لگے.ان پھلوں کی انہوں نے حفاظت نہ کی اور وہ گرنے شروع ہو گئے.انہوں نے اسلام میں حاصل ہونے والی عزت پر دنیوی عزتوں کو ترجیح دینی شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی شرکت آہستہ آہستہ مٹ گئی.اگر وہ سمجھتے کہ یورپین سوسائٹی میں شامل ہونا یا ان سوسائیٹیوں میں کسی عزت کے مقام کا مل جانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و تم کی غلامی کے مقابلہ میں بالکل حقیر اور ذلیل چیز ہے تو وہ اُدھر کبھی نہ جاتے پس خدام الاحمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ وہ اسلام کے مقصد کو اپنے سامنے رکھیں تا یورپ کے اثرات اور روس کے اثرات اور دوسرے ہزار دی اثرات ان کی نگاہ میں حقیر نظر آنے لگیں.اور وہ سمجھیں کہ حقیقتی عزت اس کام میں ہے جو خدا نے ان کے سپرد کیا ہے.
۳۵۹ اس کے بعد انصار اللہ مقرر ہیں تاکہ جو خدام میں سے نکل کر ان میں شامل ہو وہ اس کی حفاظت کریں.گویا تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کوئی ٹور کی حفاظت کرتا ہے.اور انصار اللہ کی مثالی ایسی ہے جیسے کوئی بڑے پھیل کی نگہداشت کرتا ہے جہاں تک خدام الاحمدیہ کا سوال ہے وہ بہت چھوٹی بنیاد سے اکٹھے اور بڑھ گئے.مگر مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے اپنی تنظیم نہیں کی، حالانکہ ان کی ترقی کے امکانات زیادہ اور ان کے خطرات کم تھے.لانچیں اور حرمیں زیادہ تر نوجوانی میں پیدا ہوتی ہیں.بڑھاپے میں انسانی کیریکٹر راسخ ہو جاتا ہے اور اس کا قدم آسانی سے ڈگمگا نہیں سکتا.بہر حال خدام نے خوش کن ترقی کی ہے.مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ خدام الاحمدیہ کا دفتر اپنے پاس ایک چارٹ رکھے جس میں یہ دکھایا جائے کہ مجلس کی اس وقت ایک کتنی انجمنیں ہیں کسی کسی جگہ اس کی شاخیں قائم ہیں اور دوران سال ان انجمنوں نے کتنی ترقی کی ہے.اگر اس قسم کا ایک چارٹ موجود تو اس کے دیکھتے ہی فوراً پتہ لگ سکتا ہے کہ نعدام الاحمدیہ تھر تی کر رہے یا گر رہے ہیں.میں نے دیکھا ہے صدر انجمن احمدیہ کی شاخیں ہمیشہ چھ اور سات سو کے درمیان میکر کھاتی رہتی ہیں اور اس تعداد میں کبھی اضافہ نہیں ہوا.اس کی وجہ در حقیقت یہی تھی کہ کوئی ایسا محکمہ نہیں تھا جو اس امر کی نگرانی کرتا اور دیکھتا کہ انجمنیں کیوں ترقی نہیں کر ر ہیں پس ہر سال ایک چارٹ تیار کیا جایا کرے اور پھر اس چارٹ پر شورتی میں بحث ہو کہ فلاں جگہ کیوں کسی آگئی ہے.یا فلاں جگہ جو زیادتی ہوئی ہے وہ کافی نہیں اس سے زیادہ تعداد ہونی چاہیئے تھی.یا اگر پچھلے سال خدام الاحمدیہ کے ایک ہزار ممبر تھے تو اس سال بارہ سو کیوں نہیں ہوئے ؟ اس وقت دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور احمد کی بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہے ہیں.باہر سے آنے والوں کے ذریعہ سے بھی اور نسل کی ترقی کے ذریعہ سے بھی.پس خدام الاحمدیہ کی تعداد ہر سال پچھلے سال سے زیادہ ہونی چاہیئے.اگر یہ پارٹ سالانہ اجتماع پر لگا ہوا ہو تو باہر سے آنے والے خدام کو بھی اس طرف توجہ ہو سکتی ہے.اس کے بعد جب بیرونی مجالس میں توجہ پیدا ہو تو اس قسم کا چارٹ چھپوا دیا جائے.اس چارٹ میں مختلف خانے بنے ہوئے ہوں جن میں مجالس کی ابتداء سے لے کر موجودہ وقت تک کے تمام سالوں کی درجہ بدرجہ ترقی یا تنزل کا ذکر ہو.اگر تم ایسا کرو تو یقیناً تم کسی جگہ ٹھہرو گے نہیں.یورپ اور امریکہ کے لوگ ان باتوں میں بڑے محتاط ہوتے ہیں.
اور وہ بڑی صحت کے ساتھ اعداد و شمار بیان کرتے ہیں.لیکن ہمارے ہاں گڑ بڑ کر دیتے ہیں اور بعض لوگ تو شاید گڑ بڑ کرنا ثواب کا موجب سمجھتے ہیں حالانکہ ان چیزوں کا نتیجہ الٹ ہوتا ہے.اور پھر اس کے نتیجہ میں جھوٹ کی بھی عادت پیدا ہو جاتی ہے.اگر تم چارٹ بناؤ گے تو وہ تمہاری ترقی کے لئے بڑا محرک ہو گا.اور پھر دوسرے لوگوں کو بھی تمہارے کاموں کے ساتھ دلچسپی پیدا ہو جائے گی.اور انہیں بھی احساس ہوگا کہ تم ایک کام کرنے والی جماعت ہو.اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی اور یہ تقریب سعید خدا تعالیٰ کے فضل سے بخیر و خوبی اختتام پذیبہ جوئی سے ار فتح (۱۷ دسمبر) کو حضرت مصلح موعود نے تحریک عدل تحریک جدید کی نسبت اہم خطبہ کی نسبت ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا جس میں واضح کیا کہ تحریک جدید کوئی معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی زبردست کوشش ہے اس لئے جماعت کے نوجوانوں کو پہلوں سے زیادہ قربانی کرنی چاہئیے اور جماعت میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ ہونا چاہئے جو تحریک جدیدہ نہیں شامل نہ ہو.اس سلسلہ میں حضور نے تحریک جدید کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ :- دنیا بھر کو اسلام سے روشناس کرانا معمولی امر نہیں.۱۳ سو سال بیٹی مسلمانوں نے اس قدر کامیابی حاصل کی ہے کہ اس وقت ان کی آبادی دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے، بلکہ اب تو اسلام کو آئے قریباً ۱۴۰۰ سال ہو چکے ہیں اور ان چودہ سو سالوں میں ابھی دنیا کی آبادی کا ہم حقہ مسلمان ہوا ہے.یہ حصہ ابھی باقی ہے.حالات کی تبدیلی اور مسلمانوں کی غفلت اور شہستی کی وجہ سے خدا تعالیٰ تھے ایک نیا سلسلہ قائم کیا ہے تا پرانے فرقوں سے جوشستی اور غفلت ہوئی ہے اس کا ازالہ ہو جائے اور ان کی جگہ ایک نیا فرقہ لے لے جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کی طرف پہلے فرقوں سے زیادہ توجہ دے.تا پہلی شکستی اور غفلت کا ازالہ ہو اور دنیا کی آبادی کا بقیہ سے حصہ بھی اسلام کے نور سے حقیر پائے، اور یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے لئے جتنی بھی قربانی کی جائے کم ہے.خصوصا ہماری موجودہ سه ماهنامه خالد که بوه جنوری ۱۹۹۵ اور صلح ۱۳۳۳ پیش معتا
تعداد کے لحاظ سے تو یہ کام بہت زیادہ ہے.ابھی تک دنیا میں ایک ارب اسی کروڑ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو یا تو اسلام سے متنفر ہیں یا اس کے دشمن ہیں.کم از کم ان میں سے ایک حصہ ایسا ہے جسن تک ابھی تک اسلام کے متعلق کوئی بات نہیں پہنچی..اس وقت ایک بہت بڑا طوفان آیا ہوا ہے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روحانیت پر پردے ڈال دیئے گئے ہیں اگر تمہارے سامنے وہ کتا بیں رکھی جائیں یا تمہیں پڑھ کر سنائی جائیں جو یورپ اور امریکہ میں اسلام کے خلاف لکھی گئی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک سنگدل سے سنگدل مسلمان کی بھی چنچیں نکل جائیں تم جس کی تعریف میں قصائد پڑھتے ہو.جس پر تم دن میں کئی بار درود بھیجتے جو اس کو نہایت حقیر رنگ میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.اسے اس قسم کی گالیاں دی جاتی ہیں کہ دنیا کے کسی ذلیل سے ذلیل انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی جا سکتیں.تم ایک معمولی آدمی کو گالیاں دیتے دیکھ کر فقہ میں آجاتے ہو لیکن تم یہ خیال نہیں کرتے کہ اس شخص کے متعلق جسے تم اپنا بادی را تھا.آقا اور خدا کا فرستادہ سمجھتے ہو لوگوں کو اتنی غلط فہمیاں ہیں کہ صد ہی نہیں.آخر سب لوگ پاگل تو نہیں ہو گئے کہ وہ خواہ مخواہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں.ان میں سے بھی اکثر یہیں حیا اور شرافت پائی جاتی ہے.لیکن بات یہ ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصل حالات اور سوانح سے ناواقف ہیں سینکڑوں سال مسلمان عامل رہے اور دشمن آپ کی شکل کو لوگوں کے سامنے نہایت بھیانک صورت میں پیش کرتا رہا.اور اب ان کے دلوں میں یہ بات جاگزیں ہوگئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انسانیت کے شدید دشمن ہیں...جو یور ہیں لوگ مسلمان بھی ہو جاتے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسیح علیہ السلام سے افضل ہیں.اور آپ کو خدا تعالے نے جو شان عطا فرمائی ہے وہ مسیح علیہ السّلام کو عطا نہیں فرمائی.پتھر کی لکیر کا بدلنا آسان ہے لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دشمنی کو ان کے ذہنوں سے نکالنا بہت مشکل ہے.اس کے لئے جتنی قربانی بھی کی جائے کم ہے.پس تم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو اور اپنی قربانی کو اس کے مطابق بناؤ تا تمہارے کاموں میں برکت ہو، جو مدعا اور مقصد تم نے اپنے سامنے رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے.تم سمجھتے ہو کہ کسی ملک میں مبلغ بھیج دیا تو کام ہو گیا.لیکن تم یہ نہیں سمجھتے کہ اس کے پاس تبلیغ کے لئے کتنا وقت
٣٣ ہے.اتنے وسیع ملک میں وہ اکیلا کیا کر سکتا ہے.امریکہ کی آبادی 4 کروڑ کی ہے.فرض کرو وہاں ایک لاکھ شہر اور قصبات ہیں تو اب اگر ہر شہر اور قصبے میں ہمارا ایک آدمی ہو تب تو کوئی حرکت پیدا ہو سکتی ہے.اگر چہ مبلغین کی یہ تعداد بھی کافی نہیں.لیکن اگر دو دو ہزار میل پر مبلغ بیٹھا ہو اور اس کے پاس لٹریچر بھی نہ جو تو لوگوں کی توجہ اسی کی طرف کیسے ہو سکتی ہے.ہم تو ابھی تک ابتدائی کام بھی نہیں کر سکے، لیکن اصل کام یہ ہے کہ ہم لٹریچر کو تمام دنیا میں پھیلا دیں.تا کہ مخالفین کے حملوں کا جواب دیا جا سکے.لٹریچر کا اس قدراثر ہوتا ہے کہ ہمارے ایک مبلغ ابھی سوئٹزرلینڈ سے آئے ہیں وہ مجھے ملنے کے لئے آئے.تو میں نے ان سے پوچھا کہ ان کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا ہے ؟ انہوں نے کہا آدمی تو بہت تھوڑے ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں.یعنی ابھی تک صرف دس بارہ آدمی اسلام میں داخل ہوئے ہیں.مگر ہم اصل کام اس کو نہیں سمجھتے.بلکہ اصل کام ہم اس کو سمجھتے ہیں کہ پہلے یورپین لٹریچر میں خلاف اسلام باتیں شائع ہو جاتی تھیں تو ان کا کوئی جواب دینے والا نہیں ہوتا تھا.پھر ایک وقت آیا کہ ہم ان باتوں کی اصلاح کرنے لگے.لیکن کوئی اخبار ہمارا مضمون شائع نہیں کرتا تھا.لیکن اس اخبار تک یہ خبر ضرور پہنچ جاتی تھی کہ اس ملک میں اسلام کے حق میں لکھنے والے بھی موجود ہیں.لیکن اب اس حد تک کامیابی ہو چکی ہے کہ اخبارات ہمارے جوابات بھی شائع کر دیتے ہیں.اور یہ اخبار لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں.اس طرح ہماری آوازہ لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے ، بلکہ اب اخبارات اسلام سے تعلق رکھنے والے مضامین اشاعت سے پہلے ہارے پاس بھیج دیتے ہیں کہ آپ اگر کوئی رائے دینیا چاہیں تو دے دیں.عرض دس بارہ آدمیوں کا مسلمان ہو جانا تو کوئی بڑی کامیابی نہیں.اصل کامیابی یہ ہے کہ ملک کے رہنے والوں کو یہ پتہ لگ گیا ہے کہ اگر یہاں اسلام کے مخالف موجود ہیں تو اس کے موید بھی چاہے وہ کتنی کم تعداد میں ہیں.موجود ہیں.لیکن اگر لٹریچر پھیل جائے تو اس سے بھی زیادہ اثر ہو.پس تحریک جدید کوئی معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی کوششوں میں سے ایک زبر دست کوشش ہے اسے ه.روزنامہ " الفضل " کیا ہور ۲۲, دسمبر ۱۹۵۸ / فتح ۱۳۳۳ پیش ۵۲ رش
فصل دوم جلسه سالانه قادیان و جلسه سالانه ر بوه ۱۳۳۳/۶۱۹۵۴ بیش اس سال بھی ۲۶ ۲۷ ۲۸/ دسمبر ۱۹۵۶ء کو قادیان دارالامان اور ربوہ میں سایا نہ جیسے منعقد ہوئے جن کے مختصر کوائف درج ذیل ہیں :- جلسہ قادیان کے لئے سید نا حضرت مصلح موعود نے چوہدری اسد اللہ خان صاحب جلسه قادیان بیرسٹری ہور کو قافلہ پاکستان کا امیر مقرر فرمایا اور ان کے ہاتھ حسب ذیل پیغام ارسال کیا :- جماعت احمدیہ ہندوستان - السلام علیکم و رحمة الله و بركاته اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی مدد کرے اور آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہی اپنے ضرورتوں پر غور کریں اور اپنی مشکلات کے حل سوچیں اور اپنے مستقبل کے لئے پروگرام تجویز کر یں یا درکھیں کہ یہ زمانہ سخت ابتلاؤں کا ہے قوم پر قوم چڑھ رہی ہے اور ملک ملک کے خلاف کھڑا ہے.آپ کو امن کے قیام کے لئے کھڑا کیا گیا ہے.اس لئے وہ کام کریں جن سے امن پیدا ہو اور وہ جماعت پیدا کریں جس کو خدا تعالیٰ پر اعتقاد ہو اور بندوں کی محبت سے بھی سرشار ہو.جو خالق اور مخلوق کے درمیان ایک پل کا کام دے آمین ثم آمین.خاکسار مرزا محمود احمد ۲۳ است حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب حب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے جلسہ کا افتتاح دعا سے کیا اور پھر حضور انور کا ولولہ انگیز پیغام پڑھ کر سنایا جلہ کے کل چھ اجلاس ہوئے جن سے حسب ذیل فاضل مقررین نے خطاب کیا.-1 مولومی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی (۱۱) " ذکر حبیب ".۲- " اسلامی تمدن " ) اخبار "بدر" قادیان در جنوری ۱۵۵ اور در ماه صلح ۱۳۳۳ پیش ) من
م ۳ " - مولوی محمد سلیم صاحب فاضل سابق مبلغ بلاد یو بیہ - (1." بھارت کی ترقی کسی طرح ہو سکتی ہے؟ A کے اگر.۲.جماعت احمدیہ کی بین الاقوامی حیثیت ) گیانی مرزا د ا حمدحسین صاحب مبلغ سلیله.( اردو ہی ہمارا کرشن ۲.وہی ہمارا نانک " ) مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل یاد گیر (سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آله و سلم ) ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مؤلف اصحاب احمد (جماعت کا غیر مسلموں سے سلوک) حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری ناظر تعلیم و تربیت ، درجماعت احمد تر اور دیگر فرقوں میں فرق ) مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ بمبئی.(جماعت اسلامی کے بغیر اسلامی مسلک ) سید اختر احمد صاحب اور نیوی پرو فیسر پٹنہ کالج رونیا کی اقتصادی مشکلات کامل کا ابو المنیر مولوی نورالحق صاحب پروفیسر جامعة المبشرين ربوه.و حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض و غایت، تقسیم ملک کے بعد یہ سب سے زیادہ پر رونق جلسہ تھا جن میں ہندوستان سے تقریباً پونے نہیں ، سو احباب تشریف لائے اور قافلہ پاکستان کے ۱۵۵ احمدیوں نے شرکت کا اعزاز حاصل کیا علاوہ ازیں سینکڑوں غیر مسلم بھی شامل جلسہ ہوئے.خواتین کا جلسہ مردانہ جلسہ گاہ سے متصل مکان میں ہوا، جہاں مردانه پروگرام کا اکثر حصہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ سنا یا گیا.قدوسیوں کی پیاری لیستی جس طرح خاص طور پر جلسہ کے ایام میں دُعاؤں سے معمور اور معطر ہو جاتی ہے اس کے ایمان افروز مناظر اس مرتبہ بھی دیکھنے میں آئے.بیت الدعاء مسجد اقصیٰ مسجد مبارک اور مزار حضرت مسیح موعود غرضیکہ ہر مقدس مقام پر شمع احمدیت کے پروانوں نے پیر سوز دعائیں کیں اور اپنے قیمتی لمحات کو زیادہ سے زیادہ ذکر الہی کے لئے وقف رکھا.ایام جلسہ میں نظارت بیت المال قادیان کی طرف سے شورتی بھی منعقد ہوئی جس میں چندوں کے اضافہ کے ذرائع پر غور کیا گیا.نیز ۲۸ ، دسمبر کی شب کو مسجد مبارک میں ایک اور خصوصی جلسہ ہوا جس مولوی محمد اسماعیل صاحب وکیل یاد گیر اور چودھری اسد اللہ خان صاحب نے سلسلہ احمدیہ کیلئے اموال خرچ کرنے کی تیر جوش تحریک فرمائی.اسی دن سردار گوپال سنگھ صاحب باجوہ نے کوٹھی دارالسّلام میں بعض پاکستانی اور بھارتی احمد یوں نیز مرکزہ قادیان کے عہد یداران کو عصرانہ دیا.اس تقریب پر ضلع گورداسپور کے ایک پرانے کانگریسی لیڈر
۳۶۵ پنڈت گورکھ ناتھ صاحب ایم ایل اے اور اکالی لیڈر گیانی لاب سنگھ صاحب فخر د دارالا نوار تادیان) نے اپنی تقریر دی میں در دیشان قادیان کے نیک نمونہ ، تعاون اور روادارانہ سلوک کی بہت تعریف کی.بعد ازاں چودھری اسدالله خان سید اختر احمد صاحب پر و فیسر پٹنہ کالج اور مولوی محمد سلیم صاحب نے غیر مسلم معززین کے جذبات دخیالات کو سراہا اور سردار گورویال صاحب باجوہ کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اپنی روایات کے مطابق میل جول کا زریں موقع ہم پہنچایا تھا.قافله پاکستان جو ۲۵ دسمبر ہے بے شب پانچ عبوں پر دارد داران مان ہوا تھا.احمدیت کے دائمی مرکز کی برکات سے مستفید ہو کہ ۳۰ دسمبر کو بوقت نو بجے صبح قادیان سے روانہ ہوا.یہ قافلہ آتے دقت دارای نوار میں دائع کو ٹھی ڈاکٹر حاجی خانصاحب کے پاس ٹھہرا تھا اور روانہ بھی نہیں سے ہوا.درویشوں نے اس کا استقبال بھی تکبیر اور اسلام و احمدیت زندہ باد کے نعروں کے ساتھ کیا اور الوداع بھی ہے قافلہ پاکستان کی واپسی کا نظارہ بڑا رقت انگیز تھا.ٹھیک انہیں مبارک ایام میں قادیان جلر ربوہ اور حضرت مصلح موعود کی بیر معارف تقاریہ کے دائی کرنے کا طری بادی والا برت کی ربوہ دارالہجرت میں بھی سالانہ جلسہ کا انعقاد ہوا.اس جلسہ پر نہ صرف علما ، سلسلہ کی ٹھوس علمی تقاریر ہوئیں بلکہ حضرت مصلح موعود نے بھی تین بار خطاب فرمایا - دا، افتتاحی تقریه (۲۶ دسمبر) (۲) مختلف اہم امور سے متعلق تقریبہ (۲۷) دسمبر ) - (۳) "عالم روحانی کے دفائزہ" کے موضوع پر تقریب (۳۸ دسمبر ) حضور انور نے اپنی افتتاحی تقریر میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور افتتاحی تقریب احسان کے ماتحت ایک سال کے بعد پھر ہمیں اس لئے جمع ہونے کا موقع مل ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کا اقرار کریں اور اس کے سامنے اپنی عقیدت کا تحفہ پیش کریں اس نکتہ کی وضاحت کے بعد حضور نے نہایت دلنشیں اور اثر انگیز پیرایہ میں جماعت کو اس کی عظیم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جلسہ کے با برکت ایام کو خشوع اور خضوع اور ذکر الہی سے گزارنے کی ہدایت فرمائی اور اپنے لئے اور اسلامی ممالک کے لئے خصوصی دعا کی تحریک کرتے ہوئے ش اخبار "بدر" "قادیان ۱۴۷ جنوری ۱۹۵۵ ر ( صلح ۱۳۳۴ ش)
ارشاد فرمایا کہ : یہ وقت اسلام کے لئے نہایت نازک ہے اور مختلف اسلامی ممالک اس وقت خطرہ میں ہیں.انڈونیشیا ہے.خود پاکستان بھی ہے، شام ہے مصر ہے.ایران ہے.یہ ممالک اس وقت ایک خطرہ کے دور میں سے گزر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اُن کی حفاظت کرے.چار پانچ سو سال کی غلامی کے بعد اللہ تعالے نے مسلمانوں کو آزادی کا سانس لینے کی توفیق عطا فرمائی ہے.خدا کرے کہ آزادی اُن کے لئے اور دین اسلام کے لئے مبارک ہو اور اُن کی مشکلات دور ہوں اور وہ پھر دنیا میں اسی عورت کے مقام کو حاصل کریں جس عزت کے مقام کو کسی زمانہ میں انہوں نے حاصل کیا تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پیتے سید نا حضرت مصلح موعود نے دوسری ایمان افروز تقریر میں حسب دستویہ دوسری تفریه سابق سال کے اہم واقعات پر جامع تبصرہ فرمایا اور مختلف ضروری امور پر ضمنا روشنی ڈالی یہ معرکہ آراء ترینیتی تقریر جس میں ضمناً کئی بلند پایہ علمی مضامین بھی آگئے تھے انہی دنوں الفضل میں بالاقساط شائع ہو گئی تھتی ہے حضور نے تقریر کے شروع میں اپنی بیماری کا ذکر فرمایا جس کے بعد جلسہ سالانہ بچہ ملاقات رہائش اور لاؤڈ سپیکر کے انتظامات کو بہتر بنانے کی ہدایت فرمائی اور پھر تاکیدی نصیحت کی کہ پولیس رپورٹروں کی سہولت کے لئے ہر ممکن اہتمام کیا جائے اُن کے لئے اچھی جگہ بنائی جائے، انہیں ایسا موقعہ دینا چاہیے کہ وہ تمہارا ایک ایک لفظ لکھیں جو تم نے تبلیغ کے سلسلہ میں کہے ہیں اور تمہیں خوش ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے تبلیغ کا راستہ کھول دیا ہے.پولیس افسر جلسہ میں آپ آتے ہیں اور لکھتے ہیں اور اوپر کے افسران تقریروں کو پڑھتے ہیں.بہر حال وہ جتنا تمہارا ریکارڈ اوپر بھیجیں گے اتنا ہی تمہارے لئے مفید ہوگا.اور اتنی ہی تمہاری تبلیغ ہو گی.مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ اس دفعہ پولیس کی قریباً چالیس پچاس کی نفری آتی ہے اب یہ کتنی اچھی بات ہے کہ تمہارے لئے چائیں پچاس آدمی آگیا جو سننے پر مجبور ہے کیونکہ اس کی ڈیوٹی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ سنے اگر تمہاری باتیں کے اخبار " المفضل کے جنوری ار/ صلح ٣٣٢ مش - ه الفضل" ۱ تا ۱۵ و ۲۵ فروری ۲۷۰ - ۲۸ اکتوبر ۱ تا ۱۳/ نومبر ۱۹۹۵ / ۱۳۳۳ پیش.
سچی اور اچھی ہیں تو اُن میں سے ہی ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جن کے دلوں پر وہ باتیں اثر کریں گی اور وہ صداقت کو قبول کر لیں گے.اس اہم ارشاد کے بعد حضور نے خواتین احمدیت کو مسجد ہالینڈ کے چندہ اور اسلامی پردہ کی طرف توجہ دلائی.بعد ازاں قاتلانہ حملہ کی تفصیلات بیان فرمائیں.تقریر کے دوسرے حصہ میں حضور نے تحریک جدید کے عالمی نظام تبلیغ کی اہمیت و ضرورت واضح فرمائی بتائیں اہم مقامات پر لائبریریاں قائم کرنے کا اعلان فرمایا.ہر شہر، ہر قصبہ ، اور ہر گاؤں میں مساجد تعمیر کرنے کی تحریک فرمائی اور جماعت احمدیہ کو موثر رنگ میں تلقین کی کہ وہ اپنے علمی اور اخلاقی معیار کو بلند سے بلند نہ کرے.اور محنت اور قربانی اور دیانت کو اپنا شعار بنائے.اس پر زور اور پر جوش تقریر کا ایک اقتباس جو تحریک جدید سے متعلق تھا بطور نمونہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- تم تھوڑے سے تھے جب تم دنیا میں نکلے.اور تم نے نکل کر دنیا سے یہ منوالیا کہ اگر اسلام کی عت رکھنے والی کوئی قوم ہے تو صرف احمدی ہیں.تم نے دنیا سے منوالیا کہ اگر عیسائیت کا جھنڈ از بیر کرنے والی کوئی چیز ہے تو وہی دلیلیں ہیں جو مرزا صاحب نے پیش کی ہیں.جب عیسائیت کا نپنے لگی جب وہ تھر تھرانے لگی جب اس نے سمجھا کہ میرا مذہبی سخت مجھ سے چھینا جا رہا ہے اور یہ تخت چھین کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جا رہا ہے تو تم نے کہا ہم اپنی مونچھیں نیچی کرتے ہیں.کیسی افسوس کی بات ہے.یہی تو وقت ہے تمہارے لئے قربانیوں کا.یہی تو وقت ہے تمہارے لئے آگے بڑھنے کار اب جبکہ میدان تمہارے ہاتھ میں آرہا ہے تم میں سے کئی ہیں جو پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں.لیکن یاد رکھو اس قسم کی عزت کا موقع اور اس قسم کی برکت کا موقع اور اس قسم کی رحمت کا موقع اور اس قسم کے خدا تعالیٰ کے قرب کے موقعے ہمیشہ نہیں ملا کرتے سینکڑوں سال میں کبھی یہ موقعے آتے ہیں اور خوش قسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جن کو وہ موقعے مل جائیں.اور وہ اس میں برکتیں حاصل کر لیں.تو جوانوں کو میں خصوصا تو جہ دلاتا ہوں کہ خدام کے ذریعہ سے تم نے بڑے بڑے اچھے کام کرنے شروع کئے ہیں.خدمت خلق کا تم نے ایسا عمدہ لاہور میں مظاہرہ کیا ہے کہ اس کے اوپر بغیر کہ پچھلے باب میں یہ تفصیلات آچکی ہیں.
بھی عش عش کرتا ہے.اور میں اُمید کرتا ہوں کہ تم روزانہ اپنی زندگیوں کو اس طرح سنوارتے پہلے جاؤ گے کہ تمہارا خدمت خلق کا کام بڑھتا چلا جائے.لیکن یہ کام سب سے مقدم ہے کیونکہ اسلام کی خدمت کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو.اور اسلام کی تبلیغ کا دنیا میں پھیلانا.یہ ناممکن کام اگر تم کر دو گے تو دیکھو کہ آئندہ آنے والی نسلیں تمہاری اس خدمت کو دیکھ کہ کسی طرح تم پر اپنی جانیں نچھاور کریں گی.کیا آج تم میں سے کوئی شخص یہ خیال کر سکتا ہے ؟ کیا آج ایشیا میں سے کوئی شخص خیال کر سکتا ہے ؟ کیا آج افریقہ کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے ؟ کیا آج امریکہ کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے ؟ کیا آج چین اور جاپان کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے ؟ یا شمالی علاقوں کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ اسلام غالب آجائے گا اور عیسائیت شکست کھا جائے گی.کیا کوئی شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ ربوہ جو ایک کوردہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.ایک شور زمین والا جس میں اچھی طرح فصل بھی نہیں ہوتی جس میں پانی بھی کوئی نہیں.اس ربوہ میں سے وہ لوگ نکلیں گے جو داشنگٹن اور نیو یارک اور لنڈن اور پیرس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے.تو یہ تمہاری حیثیت ہے کہ کوئی شخص نہ دشمن نہ دوست ، یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا کہ تم دنیا میں یہ کام کر سکتے ہو.مگر تمہارے اندر خدا تعالے نے یہ قابلیت پیدا کر دی ہے.تمہارے لئے خدا تعالیٰ نے یہ وعدے کو دیئے ہیں، بشر طیکہ تم استقلالی کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ اسلام کی خدمت کے لئے تیار ہو.اگر تم اپنے وعدوں پر پورے رہو.اگر تم اپنی بیعت پر قائم رہو تو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تاج تم چھین کے لاؤ گے.اور تم پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پہ رکھو گے.تم تو چند پیسوں کے اوپر ہچکچاتے ہو.مگر خدا کی قسم اگر اپنے ہاتھوں سے اپنی اولادوں اور اپنی بیویوں کو ذبح کرنا پڑے تو یہ کام پھر بھی سمٹتا ہے.پس نو جوانوں کو یہ سوچ لینا چاہئیے کہ ان کے آباء نے قربانیاں کیں اور خدا کے فضل سے وہ اس مقام پر پہنچے.کچھ ان میں سے فوت ہو گئے اور کچھ اپنا بو حمید اٹھائے پہلے جارہے ہیں.میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اب وہ آگے بڑھیں اور اپنی قربانیوں سے یہ ثابت کر دیں کہ آج کی نسل پہلی نسل سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہے جس قوم کا قدم آگے کی طرف بڑھتا ہے وہ قوم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتی ہے.اور جس قوم کی اگلی نسل پیچھے شہتی ہے وہ قوم بھی پیچھے شینی
۳۶۹ شروع ہو جاتی ہے.کچھ عرصہ تک تمہارے بوجھ بڑھتے چلے جائیں گے.کچھ عرصہ تک تمہاری مصیبتیں بھیانک ہوتی چلی جائیں گی.کچھ عرصہ تک تمہارے لئے ناکامیاں ہر قسم کی شکلیں بنا بنا کر تمہارے سامنے آئیں گی.لیکن پھر وہ وقت آئے گا جب آسمان کے فرشتے اُتریں گے.اور وہ کہیں گے لیس ہم نے ان کا دل جتنا دیکھنا تھا دیکھ لیا جتنا امتحان لینا تھا لے لیا.خدا کی مرضی تو پہلے سے یہی تھی کہ ان کو فتح دے دی جائے.جاؤ ان کو فتح دے دو اور تم فاستخانہ طور پر اسلام کی خدمت کرنے والے اور اس کے نشان کو پھر دنیا میں قائم کرنے والے قرار پاؤ گے پینے تیسری تقریر تیسری تقریر میر روحانی کے اہم علمی موضوع پر تھی جس سے قبل حضور نے حسب ذیل پانچ ضروری امور کا تذکرہ فرمایا : ا.اس سال مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے یہ سفارش کی تھی کہ مجلس لا ہور نے چونکہ اس دفعہ غیر معمولی کام کیا ہے اس لئے اس سال اس کو باوجود دوم رہنے کے علم انعامی دیا جائے اور مجلس کراچی چونکہ پہلے ہی سے اچھا کام کرتی چلی آرہی ہے اس لئے اس کو نہ جائے.لیکن حضرت مصلح موعود نے علم اتعامی کا مستحق مجلس کراچی ہی کو قرار دیا اور ارشاد فرمایا کہ : اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لاہور کی جماعت قدام الاحمدیہ نے اس سال بہت عمدہ کام کیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک نیم مردہ سی جماعت تھی جس میں زندگی کی روح پھونک دی گئی اور اس خدمت کا سہرا اُن کے قائد محمد سعید اور اُن کے چار پانچ مدد گاروں پر ہے جنہوں نے محنت کے ساتھ اُن کا ساتھ دیا اس مجلس کی تنظیم میں ان کا ہاتھ بٹا یا پچھلے سیلاب کے موقع پر انہوں نے غیر معمولی طور پر کام کیا اور پھر غیر معمولی طور پر اس کو دنیا کے سامنے روشناس بھی کر دیا پس اس لحاظ سے وہ خاص طور پر تعریف کے قابل ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم اگر نمیر بدل ڈالنے کی رسم ڈال دیں گے تو اس سے سجائے حوصلہ بڑھنے کے اعتراض پیدا ہوگا.ہمیں اُن کے اچھے کام کی مختلف مواقع پر تعریف کر دینی چاہیئے لیکن ساتھ ہی ہم کو یہ امر بھی مد نظر رکھنا چاہیئے کہ جو اول نمبر پر ہے اس کو اول نمبر ہی دیا جائے تاکہ آئندہ دوسرے کسی موقعہ پر کسی کی جنبہ داری یا کسی کی ناجائزہ تائید کا سامان پیدا نہ ہو.پس میں باوجود مجلس کی سفارش کے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لے روزنامہ " الفضل " ربوه ۲۸ اکتوبر ۶۱۹۵۵ ۳-۵
٣٧٠ لواو حسب قاعدہ جماعت کراچی کو دیا جائے.لیکن ساتھ اس کے میں لاہور کی جماعت کی تعریف بھی تمام دوستوں کے سامنے کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ سر جماعت ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرے گی بے (۲).اس موقعہ پر حضور نے اکناف عالم سے آنے والے تہنیت اور دعاؤں کے بر قئے بھی سنائے اور اس تعلق میں مندرجہ ذیل مخلصین کا بطور خاص ذکر کر کے اُن کی مساعی کو سراہا اور اظہار خوشنودی فرما یا :- ستید شاہ محمد صاحب (سو را با یا انڈونیشیا.ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب (جیلٹن بور نیوم احمد سریڈ ورجو گجارنہ انڈونیشیا، سید عبد الرحمن صاحب (کلیولینڈ یونائٹیڈ اسٹیٹس امریکہ) پر و فیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب (کیمبرج - لنڈن ).(۳) حضور نے سلسلہ کے اخبارات و رسائل (الفضل - بدر - ریویو - فرقان - خالد ) کی اہمیت واضح کر کے ان کی توسیع اشاعت کی تحریک فرمائی.نیز کراچی کے " المصلح" اور لاہور کے سول اینڈ ملٹری گزٹ " اور " ملت " کی خریداری کی سفارش بھی کی اور بتایا کہ " ہماری پالیسی یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے.ہماری پالیسی یہ ہے کہ حکومت سے افتراق کو دور کیا جائے اور ان کو ٹکڑے ہونے سے روکا جائے.یہی پالیسی ملت اور سول کی ہے......اور بھی کئی اخبار ہوں گے جو کہ اس طرح ہمارے ساتھ متفق ہوں.ہو سکتا ہے وہ شیعوں کے اخبار ہوں میں نے ایک شیعہ کا اخبار ایک دو دفعہ پڑھا ہے وہ بھی بڑا معقول پالیسی کا تھا اور اس میں بھی اتحاد اور اتفاق اور امن قائم کرنے والے مضمون تھے.ہو سکتا ہے کہ تمہارے علم میں کوئی اور اخبار ہو جو کہ ملک کے لئے مفید ہو ، ہمارے لئے کھائی مفید ہو - مصر نہ ہو اور ہماری خواہ مخواہ مخالفت نہ کرتا ہو.پس ایسے اخباروں کو خرید و تا کہ روپیہ ان لوگوں کی جیبوں میں جائے جو تمہارا گانا کاٹنے کی فکر میں نہ ہوں اسے کی " الفضل " ر جنوری ۱۵۵ ء ) ( ا ر صلح ۱۳۳۴) مینش) ص ۲ - خلف حضرت سید بنز الرحمن صاحب بریلوی (وفات ۱۷ جولائی ۱۹۳۶ ۶) - اخبار " الفضل " ۱۲ جنوری ۱۲/۶۱۹۵۵ صلح ۱۳۳۳ میشی ۳۰
ولم) صدر انجمن احمدیہ کے چھ ناظر اور تحریک جدید کے دو وکلاء پنشنر تھے حضور نے یہ صورت حال جاعت کے سامنے رکھی اور تحریک فرمائی کہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ادھر آنے کی کوشش کریں.اور کم سے کم جب تک نئے نہ آئیں اس وقت تک پنشنر ہی آتے رہیں.۵۵ سال پر پنشن مل جاتی ہے وہ چار پانچ سال کی خدمت کر لیں.(۵) حضور نے 1954 ء میں تحریک فرمائی تھی کہ لوگ اپنی زائد آمد پیدا کر کے سلسلہ کے لئے دیں تاکہ ان پر بھی بوجھ نہ ہوا اور سسیلہ کی تبلیغی مشکلات دور ہوں حضور نے اس موقعہ پر اس اہم تحریک کی طرف جماعت کو دوبارہ توجہ دلائی اور عبد العزیز صاحب مغلپورہ گنج لاہور اور محمد خان ولد چوہدری نواب خان صاحب منصور آباد ضلع تھر پارکر کا نام لے کر بتا یا کہ انہوں نے اس تحریک کے مطابق زائد کام کر کے آمد پیدا کی جو چندہ کے طور پر پیش کر دی ہے بیلے سیند نا حضرت مصلح موعود نے ان اہم امور کا تذکرہ کرنے کے بعد " عالم روحانی کے دفاتر کے موضوع پر معرکہ آرا تقریبہ فرمائی جس میں قرآن مجیدہ کی رو سے بالخصوص مندرجہ ذیل روحانی حقائق پر سیر حاصل روشنی ڈالی :- عالم روحانی کے ڈائری نویں اور ان کا اعلیٰ درجہ کا نظام.خدائی ڈکٹوفون، قیامت کے روز کانوں، آنکھوں، زبانوں ، ہاتھوں، پاؤں اور جلد کی گواہی، عالمی روحانی میں مجرموں کے فیصلہ کی نقول ، مسلمانوں کے لئے خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ایک دائمی مقدس جاگیر بیت اللہ شریف ).ارض مقدس کی اسلامی جاگیر سے متعلق شرائط و قیود - فلسطین پر یہود کا عارضی قبضہ.حضور کی یہ ایمان پرور تقریبہ مندرجہ ذیل پیش گوئی پر ختم ہوئی :- پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہوں گے لازماً اس کے یہ معنے نہیں کہ پھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لارنا اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ سارا نظام جس کو گو.این.او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں اور پھر اس جگہ پر لا کر مسلمانوں کو بسائیں دیکھو !! حدیثوں - الفضل ۱۶ جنوری ١٩٥٥ ء ٣ ( ۱۶ رماه صلح ۱۳۳۲ مش )
۳۷۲ میں بھی یہ پیشگوئی آتی ہے.حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئے گا.اور یہودی اس سے بھاگ کہ پتھروں کے پیچھے چھپ جائیں گے اور جب ایک مسلمان سپاہی پتھر کے پاس سے گزرے گا تو وہ پتھر کہے گا اے مسلمان خدا کے سپاہی ! میرے پیچھے ایک یہودی کافر چھپا ہوا ہے اس کو مار.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی اس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام و نشان بھی نہیں تھا.پس اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں یہودی اس ملک پر قابض ہوں گے ، مگر پھر خدا مسلمانوں کو غلبہ دے گا اور اسلامی لشکر اس ملک میں داخل ہوں گے اور یہودیوں کو چن چین کر چٹانوں کے پیچھے ماریں گے.پس عارضی ہیں اس لئے کہتا ہوں کہ انَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِي الطَّلِحُونے کا حکم موجود ہے مستقل طور پر تو فلسطین عِبَادِی الصَّلِحُونَ کے ہاتھ میں رہتی ہے.سو تعدا تعالیٰ کے عِبادِی الفلاحون محمد رسول اللہ کی امت کے لوگ لازٹا اس ملک میں جائیں گے نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کر سکتے ہیں نہ ایسے ہم کچھ کر سکتے ہیں نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے.یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہو کر رہی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگا لے آئیے - الانبياء or 1.4 : + گے.سیر روحانی " جلد سوم ماه - ۵۳۰ ، ناشر الشركة الاسلامیہ لمٹیڈ ر توه.! i 1
۳۷۳ فصل سوم جلیل القدر صحابہ کا انتقال اس سال کئی جلیل القدر صحابہ وفات پاگئے جن کا تذکرہ مع ان کے مختصر حالات کے ذیل میں کیا جاتا ہے :- ا حضرت خانصاحب ذوالفقار علیخاں صاحب گوهر رامپوری (برادر اکبر علی برادران ) د ولادت اگست ۸۶۹ ایو بیعت دسمبر - وقات ۲۶ فروری شاه ) تاریخ احمدیت جلد سوم مثلا میں آپ کے مختصر کو الف درج کئے جا چکے ہیں.آپ کے خود نوشت حالات قبول احمدیت اخبار الحكم "قادیان مورخه ، اکتوبر وایو میں شائع شدہ ہیں جو بہت روح پر در ہیں.ان میں سے کچھ حقہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- آپ تحریر فرماتے ہیں " میں علماء سے اخبارات میں مضامین اور ناولوں کے ترجمے کیا کرتا تھا.یہ وہ مقام ہے جہاں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابت پہلی بار علم ہوا پہلا اخبار جو ہاتھ میں لیا ریاض الاخبار گورکھپور تھا تو حضرت مرزا غلام احمد کا خط بنام الیگزنڈر رسل ویب سفیر امریکہ مقیم فلپائن آئس لینڈ تھا.میں نے بآواز بلند خط پڑھنا شروع کیا اور اس کے تسخیر کرنے والے، دل پر چوٹ لگانے والے مضامین نے مبہوت و محو کر لیا.ہم تینوں نو عمر، کہیں 19 سال اور باقی دو ۱۷ ، ۱۷ سال کے نقش حیرت بنے ہوئے تھے مضمون کے ختم ہونے پر کچھ دیر سکون رہا.آخر کار نہیں نے کہا ” بھائیو ! تم دونوں گواہ رہنا میں تصدیق کرتا ہوں ے فتحپور مہوں میں جہاں آپ کو پہلی بار حضور کا علم آپ کے کمرہ میں آپ کے چھوٹے بھائی حافظ نوازش علی صاحب اور آپ کے استناد ر حافظ سخاوت حسین صاحب بی اسے سیکنڈ ماسٹر کے چھوٹے بھائی امیر حسین بھی رہتے تھے.یہاں انہیں کی طرف اشارہ ہے.16
لم کے سر که به شخص متصلح زمانہ آخر ہے.آپ نہ کوئی مہدی آنے والا ہے ہمیں ستیدا محمد خان بھی مصلح نہیں میں نہیں مر جاؤں تو تم گواہ رہنا.علی گڑھ کالج شاید میں ایک بار شام کے وقت اپنے وطن کے ایک عربی کے استاد سے جو اسکول میں پڑھاتے تھے اور بورڈنگ میں رہتے تھے.مولوی خلیل احمد صاحب نام تھا.ملنے گیا وہ اور مولوی اسمعیل علی گڑھی کھڑے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ مرزا غلام احمد صاحب آئے اور یہ ہوا اور وہ ہوا.کہیں نے بات کاٹ کر پوچھا کہ پہلے مجھے بتا دیجئے کہ حضرت مرزا صاحب ہیں ؟ کہ تشریف لے گئے ؟ مولوی اسمعیل مجھے یہ بتا دیجئے بنتی ہو کہ میری صورت دیکھنے لگا.نہیں نے کہا کہ مولوی صاحب جواب تو دیجئے تاکہ میں اپنے کام مدنی مصروف ہوں ، آپ اپنا کام کریں.میرے لہجہ میں وہ تحکم تھا جو کالج کے طلباء اسکول کے استادوں کے ساتھ جائزہ سمجھتے تھے اور چونکہ اس کی تقریبہ میں گستاخی تھی حضرت کی شان میں میں مشتعل ہو چکا تھا اسی نے گھیرا کر کہا کہ وہ آج چلے گئے.مجھے اس قدر صدمہ ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتا.میں نے کہا دائے شوعی تقدیر اور آگے کو چھل پڑا اس روز سے میں نے ان سے کبھی بات نہ کی.کالچ سے نکل کہ ملازمت کی فکر دامن گیر ہوئی.اٹا وہ گیا اور کالچ کا رنگ لے کر گیا.لیکچروں ، نظموں اور کھیل و تفریح میں ایام گذاری کی مولوی بشیر الدین صاحب مالک دایڈیٹر " البشير" اٹاوہ کے مکان میں ایک ضرورت خاص سے کچھ دن قیام پذیمہ رہا.ایک سادہ مزاج انسان ، لباس صاف مگر ساده ، سانولا رنگ، چھریہ جسم متین چہرہ تشریف لائے.ایڈیٹر صاحب "البشیر نے مجھے سے ان کا تعارف مستہرانہ لب ولہجہ میں کرایا.آپ قادیانی ہیں تفضل حیدی صاحب شکوه آباد ضلع میں پوری میں تحصیلدار ہیں، میں پہلے تو معمولی طریق سے کھڑے ہو کر مصافحہ کر کے خاموش ہے تعلق سا بیٹھ گیا تھا مگر اس تعارف کے بعد میں کھڑا ہوا اور پھر نہایت ادب سے مصافو کیا اور عرض کیا." حضرت مرزا صاحب کا احترام میرے دل میں بہت کائی ہے، عین سعادت ہے کہ آپ کی زیارت نصیب ہوئی " ایڈیٹر صاحب کا چہرہ حیرت کی تصویر تھا منہ کھلا ہوا اور لب خشک.مجھے گھبرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ان کی حیرت کی وجہ یہ تھی کہ میں اس شہر میں بہترین خوش تقریبہ اور حاضر جواب شوخ طبیعت مشہور تھا.وہ یقین رکھتے تھے کہ نہیں اس معاملہ میں بہت ستم ظریفی سے کام فتح اسلام کو مطبوعہ ۶۱۸۹۱) صفر (۲۹ تا ۳۳ (ماشیہ میں درج شدہ واقعہ مولوی صاحب موصوف ہی کا ہے.
۳۷۵ ٹونگا اور حضور اقدس کی شان میں خدا جانے کیا کیا نہ کہوں گا اب تو بر کسی معاملہ ہوا تو وہ کھو گئے اور اس قدیر ہمت نہ تھی کہ مجھے سے بحث کرتے.مولوی تفضل حسین صاحب مرحوم ومغفور رضی اللہ عنہ حضرت کے بہت پرانے صحابی تھے اور ان کا عشق سلسلہ کے ساتھ مجنونانہ رنگ رکھتا تھا حضرت اقدس علی گڑھ ان کی وجہ سے تشریف فرما ہوئے تھے جو اس زمانہ میں کم نظر آتا ہے بہت ہی محبت سے مجھ سے لے اور فرمایا میرا گھر میں شہر میں ہے کوئی شئے درکار ہو تو منگوا لیا کرتا.وہ وقت گزر گیا.پھر اُن سے ملاقات عرصہ تک نہ ہو سکی.اء میں اکتوبر میں تار پر حکم پہنچنے پر بھون گاؤں تحصیل میں نائب تحصیلدار ہو کر تین ماہ کے لئے گیا.تحصیلدار مولوی تفضل حسین صاحب تھے.ہم دونوں کو جو خوشی حاصل ہوئی وہ ہر احدی اندازه کر سکتا ہے تحصیل بہت بڑی تھی بار تحصیلوں سے حدود ملتے تین سال میں چھ ماہ کے لئے دو تحصیلدار دو نائب تحصیلدار رہتے تھے.اب ہم صرف دو تھے ان کے پاس مقدمات کی یہ کثرت تھی کہ ساٹھ ساٹھ فیصلے روزانہ لکھ کریشنا دیتے تھے.تحصیل کا سارا کام مجھے پر چھوڑ دیا تھا نہیں نے خدا کے فضل سے تین ماہ میں مال گذاری سب بے باق کرادی اور تمام عملے کا معائنہ کر کے ان کو درست کر دیا.رشوت کا بازار مرد پر گیا.حاکم پرگنہ ایک ٹھاکر تھے ان کو اس رقبہ کی روزانہ خبر میں پہنچتی تھیں کیونکہ بڑا حصہ راجپوتوں کی زمینداری کا تھا.میرے بہت مداح تھے.میری مدت نومبر کے آخیر میں ختم ہوتی تھی مگر تحصیل میں چارچ لیتے ہی بعد وقت کچہری تحصیلدار صاحب مرحوم نے ازالہ اوہام مجھے دیا اور کہا کہ ہمیں پڑھ کر سناؤ میں اُن کے مردانہ نشست میں رہتا تھا کیونکہ تنہا تھا.میرے لئے جو مکان تھا.اسے میں نے استعمال نہیں کیا.ازالہ اوہام دو تین دن میں ختم کر دی.یہ پہلی تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تھی جو میری نظر سے گذری.دعوئے مثیل ابن مریم پہ اسی ریاض الاخبار نے شاید میں اعتراض کیا تھا میرے دل میں اُلجھن تھی کہ کسی سے پوچھوں مگر زمانہ نو عمری کا تھا.طالب علمی کی حیثیت - یو پی میں کوئی ذکر و فکر بھی نہ تھا.کسی ملاقات میں نہیں نے ایک مرتبہ مولوی تفضل حسین صاحب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا.انہوں نے رجسٹر بیعت میں آپ کا یوم بیعت ۷ از اپریل شنا درج ہے.مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد را طبع دوم منها ما -
نے سورۂ مزمل کی آیت کریمیہ مَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً.دلیل پیش کی جرح پر کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے بلکہ کچھ چشمگیں ہو گئے.مجھے یہ خلش تھی.ازالہ اوہام کے مطالعہ نے تسکین کر دی اور بیعت کا سوال دل میں فوراً پیدا ہو گیا.میں نے استخارہ کیا.میرے دل میں پڑا کہ ان آیات کو خود قرآن پاک میں غور سے پڑھوں.یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں نے شاہ عبد القادر کا مترجم قرآن شریف لے کر بڑی غور و خوض سے پڑھنا شروع کیا اور چند روز میں سورہ مائدہ کے ختم ہونے تک پوری تسلی ہو گئی.پھر میں نے ایک خط مزید اختیاط کے طور پر نظام الدین حسن صاحب شیخ بریلوی کی خدمت میں پہلی عقیدت خاندان چشتیہ کی بناء پر لکھا اور استدعا کی کہ آپ کو میں صاحب کشف سمجھتا ہوں آپ حضرت رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت مرزا صاحب کے دعاوی کی تصدیق فرما کہ اعلان کر دیں اور مجھے مطلع فرما دیں کیونکہ حضرت اقدس کے استدلال کے آگے ٹھہر تا تعلیم یافتہ بے تعصب لوگوں کا محال سا نظر آتا ہے.اگر دعوئی صحیح ہے تو ایسی نعمت عظمی سے محرومی مسلمانان عالم کو کیوں نصیب ہو.اگر خدانخواستہ دعوئی غلط ہو تو ہم لوگوں کو چیچنا چاہئیے.وہ جواب میں تحر یہ فرماتے ہیں کہ مجھے کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ میں مرزا صاحب کے دعاوی بطلان کروں.عند العقل بعض بعض باتیں قرآن کے خلاف معلوم ہوتی ہیں.واللہ اعلم بالصواب میں تکذیب و بطلان نہیں کر سکتا.میرے پاس یہ خط محفوظ تھا اور شاید آپ بھی ہو.یہی الفاظ تقریبا ہیں پس میرے فیصلے پر کوئی اثر نہ پڑا اب میں نے قصہ بھو گاؤں میں تبلیغ شروع کر دی.شرفائے قصبہ کہنے لگے کہ تحصیلدار صاحب کے ماتحت لوگ محض اُن کے خوش رکھنے کے لئے عقیدت بدل لیتے ہیں بعد میں پھر ویسے ہی ہو جاتے ہیں اور ایک حکیم صاحب کی نظیر بھی پیش کی جو امادہ کے تھے اور بعد میں فرخ آباد جا کہ بعید کے مخالف ہو گئے.میں نے اس کے مناسب جواب دیئے لیکن میں نے ایسے محسوس کیا کہ یہ انہ ان پر غالب ہے.استدلال کا جواب وہ کبھی نہ دے سکے بعض لوگ متائمہ تھے اس زمانہ کی نماز کی لذتیں آج تک یاد ہیں دل چاہتا تھا کہ اک اک گھنٹہ کا سجدہ کریں نماز کی بابت ہنوز علیحدگی کا حکم نہ تھا.اس لئے جلد باز اماموں کے پیچھے نماز پڑھنے سے کوفت ہوتی تھی سوائے جمعہ کے اور کوئی نماز ان کے پیچھے پڑھنا چھوڑ دی تھی ایک دن تحصیلدار صاحب مرحوم و مغفور نے فرمایا کہ بیعت کا خط کیوں نہیں بھیج دیتے ہو؟ میں نے کہا کہ میں تو بیعت کر چکا ہوں مبلغ بنا ہوا ہوں سیمی خط ابھی نہیں بھیجا ہے کسی مصلحت سے فرمایا یہ تو نفاق ہے.مجھے اس لفظ سے بہت تکلیف ہوئی.میں نے
کہا کہ آپ اپنے اس عہدے سے ناجائزہ فائدہ نہ اٹھائیں میری حالت کو نفاق سے اگر کوئی دوسرا تعبیر کرتا تو بہت سخت جواب پاتا.یہ کہہ کر میں اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنا اسباب ان کی مردانہ نشست سے اُٹھا کر اپنے مکان میں رکھ لیا.دوسرے دن صبیح ہی کو انہوں نے معذرت کا پرچہ لکھا اور معافی کی خواہش کی.نہیں نے ان کے محسن ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے ادب و احترام سابق کو پیش کیا.وہ میرے پاس فوراً آگئے اور زبانی عذر کرنے لگے میں نے وجہ عدم تحر یر خط بہت ہنوز ان سے مخفی رکھی جب آخر تو میر میں مدت قائم مقامی ختم ہو گئی میں نے اسی شب میں کہ صبح اس تحصیل کو چھوڑ رہا تھا ایک چو در قر خط اپنے مفصل حال کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھا اور عرض کیا کہ میرا ایمان ہے کہ حضور کا دھورا ہر حق اور صحیح ہے.ہمیں ایسا ایسا گندہ دل اور بد افعال ہوں اور قوت توبۃ النصوح بھی نہیں رکھتا مجھے ڈر ہے کہ سلسلہ میں شامل ہو کر لوگوں کی ٹھوکر کا موجب نہ بنوں حضور مجھے سنبھال لیں تو دل و جان سے حاضر ہوں.شرف بیعت بخشا جاوے حضور اقدس علیه الف الف صلوة والسلام نے قبولیت بیعت کا اظہار فرمایا اور استغفار، لا حول ولا قوة ، درود شریف اور الحمد شریف کثرت سے پڑھنے کی ہدایت فرمائی اور لکھا کہ اللہ تعالے آپ کے ساتھ ہو یہ خط لکھ کر مولوی صاحب مرحوم کو جو سات میل کے فاصلہ پر مصروف تحقیقات سرکاری تھے دے دیا اور عرض کیا کہ اس نے بیعت کو بدنام ہونے سے بچانا تھا.حضرت کے اس آخری جملے کی بدولت صد بانشان اس گنہ گار نے معیت ایزدی کے دیکھے ہیں جو خود افسانہ کا حکم رکھتے ہیں اور اب تک دن رات دیکھتا ہوں.یہ بیعت کا پروانہ آغاز دسمبر نتشار میں ملا تھا.انشاء میں گورداسپور دوران مقدمہ کریم دین میں حضور علیہ السلام کی دست بوسی اور زیارت نصیب ہوئی ۲۴ روز حضور کے دربار میں حاضر رہا.کئی درخواستوں کے مسترد ہونے پر جون ستاد کو ہمراہی مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بٹالہ ریل کے ذریعہ قادیان شریف دار الامان حقیقی کی زیارت نصیب ہوئی کہ یہ ہے میری بیعت کی ابتدائیہ الحكم قادیان ، اکتوبر ۱۹۳۳ء منار
- الحاج ممتاز علی خان حصنا صدیقی درویش قادیان د ولادت قريبا شهداء وفات ۱۹ جولائی ۱۹۵۴) حضرت خانصاحب ذوالفقار علیخان صاحب گوشہر رامپوری کے فرزند ارجمند تھے.اپنے والد ماجد کے انتقال کے قریباً چار ماہ بعد قادیان میں رحلت کر گئے.جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان نے آپ کی وفات پر درج ذیل مضمون سپرد قلم کیا.19.حاجی صاحب کو صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا آپ کے والد بزرگوار نے آپ کو اور آپ کے ایک بھائی ہادی علی خان صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں استواء یا میں مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں تعلیم کے لئے داخل کرا دیا تھا آپ ان خوش قسمت احباب میں سے ہیں جن کا نام رہتی دنیا تک کے لئے حضور کی کتب میں محفوظ ہو گیا ہے.ایک نشان کے تعلق میں آپ گواہوں کے زمرہ میں شمار ہوئے چنانچہ اس نشان کے گواہوں میں حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اول ، حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب - حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت قاضی امیرحسین صاحب حضرت سید ناصر شاہ صاحب حضرت حکیم فضل الدین صاحب - بزرگ صاحب مولوی عبد الستار خانصاحب کابلی اور حضرت پیر منظور محمد صاحب کے اسماء بھی مرقوم ہیں بعض طلباء کے نام بھی ہیں.ان میں کممتاز علی" آپ ہی کا نام درج ہے حضور حقیقۃ الوحی" میں تحر یہ فرماتے ہیں :.(۷) ساتواں نشان - ۲۸ فروری عشاء کی صبح کو یہ الہام ہوا سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی.خوش آمدی نیک آمدی چنانچہ یہ پیش گوئی صبح کو ہی قبل از وقوع تمام جماعت کو سنائی گئی اور جب یہ پیش گوئی سنائی گئی بارش کا نام و نشان نہ تھا اور آسمان پر ایک ناخن کے برابر بھی بادل نہ تھا اور آفتاب اپنی تیزی دکھلا رہا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج بارش بھی ہوگی اور پھر.بارش کے بعد زلزلہ کی خبر دی گئی تھی.پھر ظہر کی نماز کے بعد یک دفعہ بادل آیا اور بارش ہوئی اور رات کو بھی کچھ برسا اور اس رات کو جس کی صبح میں ۳ مارچ کار کی تاریخ تقی زلزلہ آیا جس کی خبریں عام طور پر مجھے پہنچ گئیں.پس اس پیشگوئی کے دونوں پہلو تین دن میں
۳۷۹ پورے ہو گئے " تتمہ حقیقة الوحی مشه ) مرحوم کو تبرکات حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے جمع کرنے کا بہت شوق تھا.چنانچہ نور ہسپتال میں جہاں آپ اپنی علالت کی وجہ سے مستقل طور پر ابتدا میں بطور کارکن اور جنوری ۱ء سے بطور مریض قیام رکھتے تھے اپنے کمرے میں علاوہ تبلیغی چارٹوں کے نہایت احتیاط کے ساتھ قریباً دو در جن مختلف تبرکات رکھے ہوئے تھے.لیکن آپ افسوس سے ذکر کرتے تھے کہ تقسیم ملک کے وقت کسی کے سپرد کئے کہ وہ مغربی پنجاب لے جائیں لیکن وہ ضائع ہو گئے.حاجی صاحب مرحوم ابتداء زندگی میں بطور ڈسپنسر وغیرہ کام کرتے رہے ہیں.بیمار ہونے کے بعد نہایت عسر کی حالت میں ان کا گزارہ ہوتا تھا.آپ نہایت تشکرانہ انداز میں حضرت مصلح موعود حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور ہسپتال ) اور محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب رسب چارچ نور ہسپتال) کی عنایات مشفقانہ کا ذکر کیا کرتے تھے.یہ تنگی عرصہ درویشی میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی لیکن پھر بھی مالی خدمات سلسلہ میں گویا کہ اپنا پیٹ نہایت بری طرح کاٹ کر کرتے تھے پہلے آپ نے بلہ کی وصیت کی ہوئی تھی.لیکن مئی 192 ء سے اسے بڑھا کر ہے کر دیا تھا.اس کے علاوہ تحریک جدید ۱۹۵ء میں بھی حصہ لیتے تھے.اس وقت آپ کو صرف انتیس روپے ماہوار ملتے تھے جس میں سے حصہ وصیت اور چندہ تحریک وضع کر کے اندازہ صرف /۲۳ روپے کھانے پارجات اور دودھ، نائی.دھوبی و غیر کے لئے بیچتے تھے.اس سے ان کی مالی قربانی کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ جس مریض کو اپنی مرض کی نوعیت کے باعث اعلیٰ غذا کی ضرورت ہے لیکن اس کے پاس معمولی اخراجات ہی کے لئے بمشکل رقم ہوتی ہے جب وہ قربانی کرتا ہے تو وہ دوسرے ہزاروں روپیہ چندہ دینے والوں سے کہیں بڑھ چڑھ کہ قربانی کر رہا ہوتا ہے.ہزاروں روپیہ دینے والے اپنی بچت میں سے چندہ دیتے ہیں ان کی رہائش.پوشاک ، غذا.اہل و عیال کی آسودگی.غرضیکہ بالعموم کسی چیز پر بھی ان چندوں کا اثر نہیں پڑتا لیکن ایک شخص کے پاس - ۲۳ روپے ہوتے ہیں کھانے کے لئے پندرہ روپے درکار ہیں اور نائی دھوبی صابن کے لئے تین روپے بقیہ پانچ روپے میں سے ہی اس نے پار چات بنوانے ہیں.اپنی غذا دُودھ وغیرہ کا بھی خیال رکھتا ہے جو بالکل ناممکن ہے.ظاہر ہے جو بھی مالی خدمت سلسلہ کی وہ ایسی حالت میں کرتا ہے.در اصل ٹھو کا ننگا رہ کر اور فاقوں مرکز اور موت سہیٹر کر کرتا ہے اورا سے یقین ہوتا ہے.
کہ یہ چند روزہ زندگی تو گزر جائے گی دائمی زندگی کے لئے زاد راہ بنانا ضروری ہے جو اعلائے کلمتہ اللہ کی خاطر تکلیف سہیڑ کر ہی کیا جا سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت آئے سکا کہ اُحد کے برابہ کی ہوئی قربانی کا وہ ثواب نہ ہو گا جو آج نہایت ہی قلیل قربانی کا ہے اور حضور کے اس ارشاد کی وجہ ایک طرف اس وقت اسلام کی بے انتہار بے چارگی اور دوسری طرف قربانی کرنے والوں کی انتہائی غربت تھی اور وہ گویا بری طرح فاقہ اختیار کر کے خدمت اسلام کرتے تھے اس لئے ان کی قربانی کا مقام نہایت ہی اعلیٰ وارفع اور قابل صد رشک تھا.حاجی ممتاز علی خاں صاحب کی قربانی کا بھی یہی رنگ تھا.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو قبول فرمایا اور انجام بخیر ہوا.اور بہشتی مقبرہ ان کا مدفن ہوا.اس قربانی کی اور بھی زیادہ اہمیت ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نہایت اعلیٰ خاندان کے فرد تھے آپ کے والد بزرگوار مہند دستان کے مایہ نازہ لیڈروں مولانا محمد علی صاحب اور مولانا شوکت علی صاحب کے برادر اکبر تھے.ان سب کی ذاتی وجاہت کے علاوہ بھی یہ خاندان رامپور میں ممتاز حیثیت کا مالک تھا.آپ کو بھی ۱۹۴۷ء میں مجبوراً ہجرت کرنی پڑی تھی لیکن پھر ۱۹۳۶ء میں واپس قادیان اس نیست کے ساتھ آگئے تھے کہ قادیان ہی میں ان کو موت نصیب ہو آپ کی وفات ۱۹ جولائی ۱۹۵۴ء کو ہوئی.اس روز تقریبا بارہ گھنٹے متواتر موسلا دھار بارش ہوئی اور پھر اگلے روز بھی قریبا پانچ گھنٹے بارش ہوئی.۱۹۴۶ء اور سن ۱۹۵ ء کی بارشوں سے بھی یہ بارش بڑھ گئی اب تو نہ صرف ریل کی بیٹری کی روک بھی تھی کہ اسے کاٹا نہیں گیا تھا اور بو بڑی صاحب کی طرف نہر بھی بن چکی ہے.باوجود اس کے شہر قادیان نہ صرف مفصلات سے بلکہ باہر کے محلوں سے بھی منقطع ہو گیا تھا ریتی چھلہ سے ریلوے اسٹیشن اور نصرت گرلز اسکول تک پانی ہی پانی تھا اسی طرح بڑے باغ اور بہشتی مقبرہ میں بھی قادیان میں بہت سے مکانات گر پڑے.موضع رسول پور متصل قادیان کے باشندگان کو کوٹھوں پر پناہ لینی پڑی وہ چاہتے تھے کہ ریلوے لائن کے نیچے سے پانی گزر نے کے لئے زمین کاٹ دیں لیکن پولیس کی طرف سے اجازت نہیں ملی ایسی حالت میں کہ بہشتی مقبرہ کی قبروں کا ایک حقہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا قبر بنانا بہت مشکل تھا چند جوان ہمت دوستوں نے بند باندھ کر قطعہ میں سے پانی باہر نکالا اور بعد وقت قبر کھودی لحد بن نہیں سکتی تھی اس لئے بھیٹے رکھ کر اسے بند کیا گیا.۲۰ جولائی کو گیارہ بجے قبل دو پر محترم مولوی عبد الرحمن
صاحب جٹ امیر مقامی نے نماز جنازہ پڑھائی اور قیر پر بعد تدفین محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے دعا کرائی بیٹے حضرت میاں فیروز دین منا سیا لکوئی والد میاں گلاب دین مب) ☑ ر ولادت قریبا ع هرا بیعت ۱۸۹۳ء تھے وقات ۲۸ فروری ۶۱۹۵۷ ) آپ کے خاندان میں سب سے پہلے آپ کے دادا میاں نظام الدین صاحب نے احمدیت قبول کی.آپ جماعت احمدیہ سیالکوٹ کے اُن خوش قسمت صحابہ میں سے تھے جنہیں جنوری ۱۹ء کے سفر جہلم اور اکتوبر 9ء کے سفر سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معیت کا شرف حاصل ہوا.سفر سیالکوٹ کے موقع پر آپ حضور کے استقبال کے لئے گوجرانوالہ آگئے تھے.میاں صاحب موصوف نے ۱۵ جون ۱۹۳۶ء کو ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ :- تمیرے دادا صاحب کا نام میاں نظام الدین صاحب تھا جس زمانہ میں حضرت اقدس علیہ اسلام یہاں ملازمت کے سلسلہ میں تشریف اے تھے میرے دادا صاحب نے انکوھار سال گجر میں کان کرایہ پرے کر دیاتھا حضور علی الصلاة والسلام نے میرے دادا صاحب سے ایک چھ ماشہ کی انگوٹھی بنوا کر بھی گھر بھیجی تھی میرے دادا صاحب کے ساتھ حضر علیہ الصلوۃ والسلام کے گہرے تعلقات تھے.دادا صاحب کی وفات ہار میں ہوئی.وہ فرمایا کرتے تھے کہ جس زمانہ حضرت اقدس یہاں ملازم تھے وہ اتوار کے روز بارہ پچھتر میں جو عیسائیوں کا مرکز ہے کتابیں لے کر بحث مباحثہ کے لئے تشریف لے جاتے تھے جس مکان میں حضور رہتے تھے صرف اس وقت لوگوں کو پتہ لگتا تھا جب کہ حضور کچہری میں تشریف لے جاتے تھے یا واپس آتے تھے.باقی وقت اندر ہی گزارتے تھے یہاں ایک حکیم منصب علی صاحب رہا کرتے تھے وہ حضرت صاحب سے ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے ایک وفعہ انہوں نے حضور علیہ السّلام کی خدمت میں عرض کی کہ میں کیمیا گری جانتا ہوں اگر حضور چاہیں تو میں سکھانے کے لئے تیار ہوں.مگر حضور نے فرمایا کہ یہ کیا بلا ہے مجھے اس , ه هفت روزه بدر" قادیان ۲۸ جولائی ۱۹۵۳ء من رم ۲ روایات صحابہ ر غیر مطبوعہ) جلدت ۱۲۵ : کے ریکارڈ بہشتی مقبره الفضل ، نومبر ۱۹۵۴ء من : شه روایات صحابہ جلد نا مث ۱۲ تا ۱۳۰ میں تفصیل ملاحظه موف
۳۸۲ کی ضرورت نہیں.جب حضور علیہ السّلام نے مسیحیت کا دعوی کیا تو میرے دادا صاحب نے کچھ عرصہ بعد حضور علیہ السّلام کی بیعت کرلی اور سارے خاندان کو کہا کہ میں ان کا اس زمانہ سے واقف ہوں جب کہ حضور علیہ کی یہاں ملازم تھے.اس لئے آپ لوگ میرے سامنے بیعت کر لیں.یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا.چنانچہ 19ء میں ہمارے سارے خاندان نے بیعت کرلی.سب سے پہلے ہمارے چچا میاں میران بخش صاحب نے ہم تمام کی طرف سے بیعت کا خط لکھا.پھر ہم سارے قادیان گئے اور جا کر بیعت کی شہداء کے جلسہ سالانہ میں جلسہ مسجد اقصی میں ہوا تھا سیالکوٹ کی جماعت کو رہائش کے لئے مسجد مبارک میں جگہ ملی تھی کھانے کی ایک ہی دیگ تمام لوگوں کے لئے تیار کی گئی تھی.میٹھا پلاؤ پکا یا گیا تھا.جس وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے مجھے، میاں فیروز الدین صاحب، میاں میران بخش صاب حاجی فضل الدین صاحب اور میاں عبد العزیز صاحب کو مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر چڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ آب میں سمجھتا ہوں کہ سارا سیالکوٹ احمدی ہو گیا ہے جب کہ میاں نظام الدین کے خاندان کے افراد یہاں آگئے ہیں.ہے کہ آپ کے خلف الرشید حضرت بابو فضل الدین صاحب ریٹائرڈ سپر نٹنڈنٹ لا ہور کی روایت میرے والد محترم میاں فیروز الدین صاحب رضی اللہ عنہ مدفون بہشتی مقبرہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم جب پہلی مرتبہ شہر آیت میں قادیان گئے تو حضور کی دستی بیعت سے بھی مشرف ہوئے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی چونکہ والدمحترم کے ہموطن تھے اس لئے اُن کے ساتھ بے تکلفی تھی.فرمایا کرتے تھے کہ ہم حضرت مولوی صاحب موصوف کے ساتھ مسجد مبارک کے ساتھ ملحقہ کو ٹھری میں میٹھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد کا وہاں سے گزر ہوا.ہم نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ صاحبزادہ کہاں تعلیم به روایات صحابہ جلدت ما ر غیر مطبوعه - سه ولادت ۱۲ فروری شعراء وفات ۱۲ ر ستمبر رس تاریخ احمدیت لاہور ص ۲۰۲ ریکارڈ بہشتی مقیرہ کے یہ واقعہ شہداء کا ہے.(ناقل ).
حاصل کر رہے ہیں.آپ نے فرمایا.جہاں اس کا باپ تعلیم حاصل کرتا ہے اپنے مرزا محمد احسن بیگ صاحب را جستهان د ولادت قریبا شهداء - سبعیت ۲۰ اگست ۱ اندازه ای وفات ۲۵ مارچ ۱۹۵۳ ) مرزا محمد احسن بیگ صاحب مرزا اعظم بیگ صاحب کے پوتے تھے جن کے والد ماجد مرزا محمد بیگ صاب کو حضرت مسیح موعود کی بڑی بہن حضرت مراد بیگم صاحبہ کے ساتھ شادی کی سعادت حاصل ہوئی.حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ لکھا :- مرحوم صحابی تھے.حضرت تائی صاحبہ کی چھوٹی ہمشیرہ کے صاحبزادہ تھے حضر مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو بہت عزیز تھے.بعض سفروں میں حضور اُن کو اپنے ہمراہ رتھ میں بٹھلاتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ حضور بٹالہ سے واپس تشریف لا رہے تھے تو بٹالہ قادیان سڑک پر موضع او ان بالمقابل والہ گرسنتھیاں کے قریب حضور کو پیشاب کی حاجت ہوئی اور میں نے پانی کا لوٹا بھر کہ پیش کردیا اور دوسری طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا.حضور ابھی تاریخ نہیں ہوئے تھے کہ ایک ادارہ سانڈھ حضور پر حملہ آور ہونے کے لئے لپکا.میرے پاس لا کھٹی تھی جو نہیں نے اس پینہ بڑا تڑ لگائیں اور وہ بھاگ گیا.اس سفر میں بھی مرحوم حضور کے ہمراہ رکھے میں سوار تھے اور کوئی دو سال کی بات ہے کہ انہوں نے ایک خط میں اس واقعہ کی طرف اشارہ بھی کیا تھا.حضور نے مرحوم کے پاس خاطر مجھے اُن کے پاس کا مٹہ بھیج دیا تھا جب بھی یکیں واپسی کا ارادہ کرتا مرحوم حضور کی خدمت میں لکھ دیتے اور حضور کا ارشاد مجھے آتا میاں عبدالرحمن ہماری خوشی چاہتے ہو تو مرزا احسن بیگ کے پاس رہو.اس پر میں ٹھہر جاتا.کم و بیش چار سال تک ان کے پاس مرا قیام رہا.گو درمیان میں تھوڑے تھوڑے عرصہ کے لئے قادیان آنے کا موقعہ بھی ملتا رہا.۴ دسمبر عشاء کو ایک چیتے نے مجھے زخمی کر دیا اور اس وجہ سے ه تاریخ احمدیت لاہور من ۲-۲۰۵ راز مولانا شیخ عبد القادر صاحب) - ۰۳ الحکم ۲۳ اگست سنشاه - کے محترمہ حرمت بی بی صاحبہ اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم ( برادر اکبر حضرت مسیح موعود) حضرت مسیح موعود کوتاء میں الہام ہوا." "تائی آئی یہ الہام اس طور پر پورا ہوا کہ آپ 1914ء میں حضرت علیہ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئیں.
۶۵ لم ۳۸ نہیں وہاں سے واپس آگیا.مرحوم کی عمر پینسٹھ برس کی ہوگی مرحوم کے شاندار کے سوا اس مقام پر کوئی احمدی نہیں ہے ؟ آپ کو حضرت مصلح موعود کی ذات مقدس کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات کا شرف حاصل تھا.حضور نے ایک بار رویا میں دیکھا کہ آپ آئے ہیں.یہ خواب غیر معمولی رنگ میں کسی طرح بہت جلد پوری ہو گئی ؟ اس کا ذکر حضور ہی کے الفاظ میں پڑھتے.حضور نے ہم اپریل ۱۹۲۲ء کو مجلس عرفان کے دوران فرمایا :- بعض دفعہ اللہ تعالے ایمان کی مضبوطی کے سامان بہت جلد پیدا کر دیتا ہے.گذشتہ دو دن چونکہ بارش ہوتی رہی ہے.اس لئے میں بیٹھے نہ سکا.ہفتہ کے دن مغرب کی نماز کے بعد ہم یہاں بیٹھے اور میں نے دوستوں کو ایک رویا سنایا تھا.میں نے کہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مرزا احسن بیگ صاحب آئے ہیں اسی طرح پیر احسن الدین صاحب ڈپٹی کمشنر کے متعلق دیکھا کہ انہوں نے مجھے بلا بھیجا ہے.میں نے اس کی تعبیر یہ کی تھی کہ کوئی احسن بات ظاہر ہونے والی ہے اگر خواب میں جب کسی شخص کے متعلق دیکھا جائے کہ وہ آیا ہے تو اس سے مراد بعض دفعہ اس سے تعلق رکھنے والا کوئی واقعہ بھی ہوتا ہے.مجھے یاد نہیں کہ میں نے پچھلے بیس سال میں ایک دفعہ بھی مرزا احسن بیگ کو خواب میں دیکھا ہو لگے ادھر میں نے یہ رویا دیکھا اور ادھر دوسری صبح یہ اطلاع آئی کہ مرزا احسن بیگ صاحب کی بیٹی قادیان آتی ہوئی گاڑی میں گم ہوگئی ہیں.مرزا افضل بیگ صاحب اپنے لڑکے کے رخصتانہ کے لئے وہاں گئے تھے.اور وہ اُن کی لڑکی کو رخصت کرا کے لا رہے تھے کہ راستہ میں گاڑی کا وہ حصہ جس میں مستورات سوار تھیں ریلوے دالوں نے وہ گاڑی سے کاٹ کر کسی اور گاڑی کے ساتھ لگا دیا اور وہ گاڑی دوسری طرف چلی گئی.پس مرزا احسن بیگ صاحب کا رویا میں آنا در حقیقت ہی تعبیر رکھتا تھا.پھر اُدھر یہ واقعہ ہوا اور ادھر آج رات ہی مجھے رڈیا میں یہ تمام نظارہ دیکھا گیا.اب تو مرزا افضل بیگ صاحب آپکے ہیں.مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ آ رہے ہیں اور مجھے یہ معلوم تھا کہ کہاں یہ واقعہ ہوا.مگر آج رات جب کہ میں نے ان کے لئے دعا کی تو مجھے دکھا گیا کہ اصل واقعہ یہ ہوا ہے کہ ایک اسٹیشن پر ان کی گاڑی کٹ کر کسی اور طرف لگ گئی لے ہفت روزہ " بدر" قادیان 2 اپریل ۱۹۵۴ء جنگ کالم ۲ -
۳۸۵ ہے اور جدھر وہ آرہے تھے اس کے بجائے مشرق کی طرف چلی گئی ہے.چنانچہ آج دوپہر دو بجے کے قریب ان کے محلہ کی ایک عورت ہمارے گھر میں آئی اور اس نے ذکر کیا کہ وہ لوگ رات ۱۲ سجے آگئے ہیں اور واقعہ یوں ہوا تھا کہ ریلوے والوں نے گاڑی کا وہ حقہ کاٹ کہہ ایک دوسری گاڑی کے ساتھ لگا دیا.جو اگرے کو چلی گئی.اس طرح مرزا افضل بیگ تو دہلی پہنچ گئے اور اُن کی بہو اگرے جا پہنچیں.میں نے بھی یہی دیکھا تھا.کہ گاڑی کٹ کو مشرق کی طرف چلی گئی ہے.اس طرح دونوں خواہیں پوری ہو گئیں.گاڑی کا کٹ جانا بھی پورا ہو گیا اور مرزا احسن بیگ صاحب کا آنا بھی پورا ہو گیا.کیونکہ اُن کی بیٹی آگرے سے مل گئی اور قادیان پہنچ گئی ہے آپ حضرت مرزا ناصر علی صاحب کے داماد تھے.اُن کی بڑی بیٹی ممتاز بیگم صاحبہ پیراکبرعلی صاحب سے بیاہی گئیں اور دوسری بیٹی شریف بیگم صاحبہ آپ کے عقد میں آئیں.اولاد : 1).مرزا اشرف بیگ صاحب (۱) (۲) - زرینہ بیگم صاحبہ (۳) سلیمہ بیگم صاحیت (لم).مرزا اطہر بیگ صاحب (بقید حیات (۵) - ناصرہ بیگم صاحبہ ۵ حضرت مولوی مہرالدین صاحب لالہ موسیٰ ر بیعت اگست ۶۸۹۴ وفات ۲ مئی ۱۹۵۷ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳ صحابہ کبار میں آپ کا نمبر ۲۰۴ ہے ضمیر انجام انتم مسل) آپ سلسلہ احمدیہ کے ممتاز بزرگ عالم دین حضرت مولانا یہ بان الدین صاحب جہلمی کے شاگردوں میں سے تھے.لالہ موسیٰ میں احمدیت کا بیچ آپ ہی کے ہاتھوں بویا گیا.لالہ موسیٰ میں آنے والے احمدی مسافر اکثر آپ کے پاس ٹھہرتے تھے.اور آپ کمال محبت اور شوق سے اُن کی خدمت بجا لاتے تھے اور اخبار الفضل قادیان ۲۱ ر اپریل ۱۹۴۳ ۶ صفحه را.ے.حضرت مصلح موعود کے مذکورہ بالا بیان میں مرزا احسن بیگ صاحب کی جس بیٹی کی شادی کا ذکر ہے.وہ سیہ بیگم صاحبہ ہیں جو مرزا افضل بیگ کے فرزند مرزا ارشد بیگ صاحب کے ساتھ بیاہی گئیں.الفضل ١٧ رجون ١٩٥٢ ٣.
اپنوں اور بیگانوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے لیے آپ اپنے قبول احمدیت کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :- میں لالہ موسیٰ میں گارڈنگ روم میں خانساماں تھا اور وہاں سے جہلم سودا لینے کے لئے جایا کرتا تھا.۱۸۹۳ء میں حضرت مولوی برہان الدین صاحب حیلمی سے قرآن مجید پڑھا کرتا تھا.وہ اس وقت احمدی تھے.میں نے ان سے حضور کے دعوئی کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم آپ جا کہ حضرت صاحب کو دیکھو اور اُن سے لو کیونکہ تمہاری مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کو کہا جائے کہ یہ روپیہ کھرا ہے تو پھر وہ جاکر پتھر پر مارتا ہے تاکہ کھرے کھوٹے کی شناخت کرے تو بہتر یہ ہے کہ تم پہلے جا کہ آپ دیکھ لو اس کے بعد میں چار یوم کی رخصت لیکر قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.مغرب کا وقت تھا.اور حضور مسجد مبارک کی چھت پر تشریف رکھتے تھے.اس وقت مسجد میں صرف چھ آدمی ہی بیٹھ سکتے تھے اور دو آدمی اس کی منڈیر پر بیٹھ سکتے تھے.مولا تا حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مہر الدین کی بیعت منظور فرمائیں.حضور نے فرمایا ابھی نہیں.حکیم صاحب نے پھر اصرار کیا کہ شاید پھر حضور کو فرصت نہ ملے مگر حضور اس پر خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا.مولوی برہان الدین صاحب جو قادیان میرے آنے سے پہلے ہی آئے ہوئے تھے وہ بھی اس وقت پاس بیٹھے تھے.انہوں نے کہا کہ حضور جیسا فرماتے ہیں وہی درست ہے میرے خیال میں میری بیعت اس دن اس لئے نہ لی کہ دوسرے دن عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی کے پورا ہونے کی تاریخ تھی.چنانچہ دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ السّلام غالباً ظہر کے وقت مسجد میں ایک کاغذ پر ایک مضمون لکھ کر لائے جسے حضور نے مسجد میں پڑھ کر شنایا کہ مجھے اللہ تعالے نے خبر دی ہے کہ آختم نہیں کرے گا کیونکہ اس نے حق کی طرف رجوع کر لیا ہے اور میں پر خار جنگلوں میں چلوں گا نازک پاؤں والے جو میرے ساتھ نہیں چل سکتے وہ ابھی سے علیحدہ ہو جائیں ہے چار دن کے بعد قادیان سے واپس اپنے وطن چلا گیا.وہاں سے پھر میں تین چار ماہ کے بعد غالباً اگست میں قادیان آیا.میرے دل میں راستے میں بہت سے شبہات اٹھتے تھے کہ جس کے پاس تم جا رہے ہو وہ شاید ملے یا نہ ملے تو اس صورت میں تمہارے جانے کا کیا فائدہ ؟ پھر میں نے له الفضل ٢٠ جون ١٩٥٣ ء مث.سے انوار الاسلام ص ۲
بٹالہ سے پیدل چل کر نہر یہ نماز ظہر ادا کی عصر کے وقت میں قادیان پہنچا.مجھے خیال آیا کہ میں مسجد مبارک میں جاؤں اور کسی واقف سے بات چیت کروں.اس لئے میں سیدھا مسجد مبارک میں آیا جب میں سیڑھیوں کے اوپر پہنچا تو دیکھا کہ حضور کھڑے ہیں.میں نے السّلام علیکم عرض کیا اور حضور نے مصافحہ کیا اور پیچھے ہٹ کر حضور اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے.اس وقت میرے راستے کے سارے شبہات مٹ گئے کیونکہ میں تو یہ خیال کرتا تھا کہ شاید حضور ملیں گے بھی یا نہیں.مگر یہاں پر اس کے بر خلاف حضور مجھ سے شفقت کی باتیں کرنے لگے حضور نے پوچھا کہ آپ اپنے وطی میں کیا کرتے ہیں میں نے عرض کیا کہ کار ڈنگ روم میں خانساماں ہوں حضور نے وہاں کے کھانوں کی تفصیلات دریافت فرمائیں.اس کے بعد میں نے بیعت کے لئے عرض کی حضور نے فرمایا کہ آپ نے آگے بیعت نہیں کی تھی میں نے عرض کیا کہ حضور نہیں.آپ نے مجھے واپس کر دیا تھا.حضور نے اسی وقت میری بیعت منظور فرمائی....اس کے بعد میں پھر ایک دفعہ قادیان آیا یہ غالباً نتشار کا ذکر ہے.قمر الدین صاحب جہلمی گھڑی ساز میرے ساتھ آئے تھے انہوں نے کہا کہ میں بیعت کرنے کے لئے آیا تھا اور اب میرا دل نہیں چاہتا.تو ہم نے ڈاکٹر عبداللہ کے ذریعے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ ملاقات کا کچھ وقت مل جائے.حضور علیہ السلام نے عصر کے وقت ہمیں وقت عنایت فرمایا اور اندر مکان کے بر آمدے میں بلوالیا.گرمی کا موسم تھا حضور نے غرارہ پہنا ہوا تھا.ململ کا کرتہ تھا اور رومی ٹوپی تھی حضور نے فرمایا کہ کیا کہتا ہے.ڈاکٹر عبد اللہ نے کہا کہ حضور یہ قمر الدین کہتا ہے میں بیعت کرنے کے لئے آیا تھا اور میرا آب جی نہیں چاہتا.کیونکہ مجھے دل میں قبض ہو گئی ہے حضور نے اس پر فرمایا کہ ہاں ضرور قبض ہونی چاہیے.کیونکہ ایمان بازار سے نہیں ملتا کہ انسان پھر خرید لے گا مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہاں سے یہ قبض لے کر جائیں گے تو اس میں اور بھی زیادتی ہوگی آپ کو چاہیے کہ جب تک یہ کیفیت دور نہ ہو یہاں سے نہ جائیں کیونکہ جب دنیا کے کام بگڑ جائیں تو تم چھوڑ نہیں دیتے اس کے سنوارنے کی کوشش کرتے ہو اور یہ ایمان کا معاملہ ہے کیا تم سے ایسا ہی چھوڑ دو گے یہ تو ٹھیک نہ ہوگا.ہم پر وا نہیں کرتے کوئی بڑا سے بڑا عالم جب ہم قرآن پیش کرتے ہیں تو یا وہ اس کا جواب دے گا یا مان لے گا.دو ہی صورتیں ہیں اگر وہ جواب بھی نہ دے اور مانے بھی نہیں تو شرارت اس کی ثابت ہو جائے گی.اس پر مجھے بھی
ایک وہم ہوا کرتا تھا کہ ہم قرآن کی آیت کسی عیسائی کے سامنے پیش کریں تو وہ کہ سکتا ہے کہ میرا قرآن پر ایمان نہیں.ہمارے لئے یہ اتمام حجت نہیں ہو سکتا اس وقت مرے دہم کا لبس حضور نے ازالہ کر دیا حالانکہ شرم کے مارے میں نے سوال پیش نہیں کیا آپ نے اس تقریر کے ضمن میں یہ فرما دیا کہ ہم اس کی پروا نہیں کرتے کہ کوئی یہودی یا نصرانی ہو یا آریہ ہو اور وہ کہ دے کہ قرآن ہمارے لئے حجبت نہیں ہو سکتا کیونکہ ہمارا اس پر ایمان نہیں.ہم کہتے ہیں کہ وہ وجہ بیان کم وجس سے تمہارا اس پر ایمان نہیں.اگر وجہ بھی بیان نہ کر سکو اور ایمان بھی نہ لاؤ تو اتمام حجبت تم پر ہوگیا یا تم مدرکہ کے اپنی بریت ثابت کرو یا پھر مان لو تو اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو اتمام حجبت تم پر ہو گیا.اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے اور ہم باہر آگئے.اس کے بعد ایک دفعہ عید کے موقع پر قادیان آیا داس کا سن یاد نہیں) تو حضور نے مسجد اقصی میں عید کے موقع پر فرمایا کہ میرے گاؤں کے جو لوگ ہیں ان کو دعوت جسمانی دی جائے اور اس کے بعد روحانی دعوت دی جائے.اس پر مولوی محمد احسن امروہوی اور مولوی نورالدین صاحب اُن کو سمجھانے کے لئے لگائے جائیں تو میں نے عرض کیا کہ حضور اس کے لئے مولوی محمد احسن امر وتوی موزوں نہیں ہیں.مولوی برہان الدین جہلمی موزوں ہیں کہ وہ پنجابی میں تقریر کرتے ہیں.حضور علیہ السّلام نے میری اس تجویز کو منظور فرمایا اور مولوی به بان الدین صاحب جہلمی نے پنجابی میں تقریبہ کی.اس روز پچیس آدمی نے بیعت کی اس پر حضور بہت خوش ہوئے لیے - حضرت میرزا محمد رمضان علی صاحب پشاوری ر ولادت قریبا ء بیعت عشاء - وفات ۱۸ جون ۱۹۵۶ یوم آپ نسیبا فاروقی اور مذہب شیعہ تھے.شروع جوانی میں ہی تکمیل دینیات کر کے صوفیاء کی صحبت اختیار کی.اصلاح نفس اور صفائی قلب کے واسطے مجاہدات کا آغاز کیا.کچھ عرصہ علم توجہ کی طرف بھی راغب رہے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مولانا غلام حسن خان کے فیض اور شاگرد ی کا اثر تھا کہ آپ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے اور عبادات اور تقوی شعاری تربیت روایات صحابه جلدی صدات هم
میں خوب ترقی کی.آپ کے اخلاق حسنہ خاموش تبلیغ اور دعاؤں کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے کئی سعید روحوں کو صداقت قبول کرنے کی توفیق ملی ہے چنانچہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی قاضی خیل ہوتی ضلع مردان سابق امیر جماعت سرحد تحر یہ فرماتے ہیں :." آپ کے توسط تبلیغ اور صحبت صالح سے آپ کے خالہ زاد بھائی محترم نذر علی خاں صاحب میرزا یوسف علی خانصاحب اور میرزا رجب علی خان صاحب پسران مرزا تو روز علی خان صاحب کشمیری محلہ چڑ وہ کو ہان پشاور اء میں احمدی ہوئے اور محترم میرزا نذر علی مرحوم نے شیعہ مذہب کی تردید میں کثرت سے مضامین اور رسائل شائع کئے.آپ کے توسط سے میرزا شیر علی خان خلف میرزا رجب علی خان صاحب ساکن کوچه گل بادشاہ شہر پشاور جو سوات لیوی میں جمعدار تھے.اور شیعہ سے احمدی ہوئے میرزا محمد سلطان صاحب اور میرزا محمد شریف خان اور صوفی محمد اسمعیل صاحب احمد کی ہوئے حضرت میرزا رمضان علی صاحب خطر نا نہایت حلیم الطبع ، بر دو بار ، صوفی منش مرنجان هر نیج انسان تھے تہجد خوان، پرہیز گار، خیر خواہ اور ہمدرد تھے.قرآن کریم کی تلاوت کا بڑا شوق تھا.محترم میرزا نذر علی خان بھی خوش الحان اور ذوق و شوق سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے آپ کی مجلس میں کشوف و رویا اور الہام کا تذکرہ رہتا اور خود بھی صاحب کشف و الہام تھے.اکثر و عاون میں لگے رہتے بمستجاب الدعوات تھے...آپ نے احمدیت کی وجہ سے ہر طرح کی اذیت صبر و تحمل سے بر داشت کی آپ کو صوفیت اور صوفیاء سے انس رہا ہے آپ کا جنازہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب نے پڑھایا اور آپ کو پشاور کے احمد یہ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا.اولاد : (۱) میرزا عبدالواحد صاحب مرحوم - (۲) میرزا عبد اللہ جان صاحب مرحوم کے (۳) میرزا نثار احمد صاحب ن غیر مطبوعہ مکتوب میرزا نثار احمد صاحب فاروقی پشاور ده را پریل شواء ) - سه تاریخ احمدیه سر حد ما - (از حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ سرحد) مطبوعه منظور عام پریس پشاور سے یہ دونوں غیر شادی شده فرزند آپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے مگر آپ ہمیشہ راضی بقضا ہے اور نہایت میر وشکر سے یہ صدمات برداشت کئے ہے.موصوف بقید حیات اور صاحب اولاد ہیں.آپ کو حیلہ سالانہ اور بعض مرکزی اجتماعات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فارسی کلام سنانے کے کئی مواقع میسر آئے.
٣٩٠ if حضرت حکیم محمد حسین صاحب "مریم عیسی " رولادت تقریبا بعیت دار - وفات ۱۲۰ اکتوبر سایر سام آپ سلسلہ احمدیہ کے پر جوش مبلغ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے زمانہ مبارک میں آپ کی تبلیغ سے کئی لوگ احمدی ہوئے.آپ کو ۳۱۳ اصحاب میں شمولیت کا فخر بھی حاصل تھا.حضور اقدس علیہ السلام نے ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام اور ضمیمہ انجام آتھم کی فہرستوں میں آپ کا نام بالترتیب نمبر ۲۵ اور نمبر ۱ ۲۷ پر درج فرمایا ہے آپ لاہور کے بہت بڑے رئیس خاندان میں سے تھے.آپ کے مورث اعلیٰ شاہان مغلیہ میں سے تھے.جن کو ایک زمانہ تک صوبہ پنجاب کی حکومت کا کام سپرد تھا حکیم موصوف کے پردادا نواب الہی بخش صاحب تھے.آپ کے چھوٹے بھائی نواب محمد سلطان صاحب تھے جن کی لاہور میں سرائے سلطان لنڈا بازار اور کوچہ سلطان وغیرہ مشہور جگہیں ہیں حکیم صاحب موصوف کے والد بزرگوار حضرت میاں چراغ الدین صاحب رضی اللہ عنہ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے اولین صحابہ میں سے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے والد بزرگوار بھی پنجاب کے نامور ریسوں میں سے تھے.سرکار انگریزی کے عہد حکومت میں جب پنجاب کے بڑے رؤسا کو کسی تقریب کے لئے سرکاری طور پو لاہور بلایا جاتا تھا تو وہ روسا نواب محمد سلطان صاحب مرحوم کے رئیس خانہ میں جو لاہور ریلوے سٹیشن کے سامنے واقع تھا ر جہاں آجکل برگزرا ہوٹل ہے) رہا کرتے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود کے والد بزرگوار کو میاں محمد سلطان صاحب مرحوم سے دوستی اور محبت کا تعلق تھا.جب کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السّلام بچپن میں اپنے والد کے ہمراہ رئیس خانہ میں تشریف لاتے تو وہ ہمیشہ میاں چراغ الدین صاحب رجو میاں محمد سلطان صاحب مرحوم کے بھائی کے پوتے تھے ) اور میاں فیروز الدین صاحب (جو میاں محمد سلطان کے متبنیٰ تھے) کے ساتھ مل کر خدا کی محبت کے حصول کے ذرائع پر اور دینی امور پر باتیں کرتے.اور اکٹھے نمازیں پڑھا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کو دونوں سے محبت تھی.سه رسه طبي مائة عامل ملت (مرتبہ حضرت حکیم محمد حسین صاحب ) اخبار الفضل ۳۰ اکتوبر ۳۰/۶۱۹۵۳ را خاء ۱۳۳۳ پیش
۳۹۱ اور حضور کے دعوے پر حضرت میاں چراغ الدین صاحب مرحوم اور حضرت میاں فیروز الدین صاحب مرحوم نے حضور کی بیعت بھی کر لی تھی.حضرت میاں چراغ الدین صاحب کئی بار بیان کیا کرتے تھے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جب ان کے مکان پر فروکش ہوتے تو اکثر حضور ان سے یوں مخاطب ہوا کرتے تھے کہ میاں صاحب تو میرے بچپن کے رفیقوں میں سے نہایت پیارے رفیق ہیں جو خدا نے مجھے دیتے ہیں وغیرہ.حضرت میاں چھراغ دین صاحب بچپن سے ہی صوفی منش ، سادگی پسند، مسکین طبع نیک دل اور باخدا انسان تھے.حضرت حکیم محمد حسین صاحب مریم عیسی ، حضرت میاں چراغ الدین صاحب رئیس لاہور کے پہلے اور سب سے بڑے لڑکے تھے.میاں چراغ الدین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حکیم صاحب موصوف نے پیدائش کے بعد دو سال تک چلنا اور بولنا نہیں سیکھا تھا.جس کی وجہ سے میاں چراغ دین صاحب کو سخت تشویش تھی.جب حکیم صاحب کی عمر دو سال ہو گئی تو اتفاقا حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کسی کام کے سلسلہ میں لاہور تشریف لائے اور میاں چراغ دین صاحب سے بھی ملے تو میاں چراغ دین صاحب حضرت اقدس کو گھر لے آئے اور اپنے بیٹے کو اٹھا کہ حضر مسیح موعود علیہ السلام کی گود میں ڈال کر عرض کیا کہ یہ بچہ نہ اب تک بولتا ہے اور نہ چلتا ہے حضور اس کے لئے دعا فرمائیں.چنانچہ حضور نے ان کو گود میں لئے ہوئے لمبی دعا کی.اور اس کے بعد میاں چراغ دین صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ یہ سچہ بڑا بولنے والا ہو گا.اور اپنی کثیر اولاد کی کئی نسلیں دیکھے گا.چنانچہ اس کے بعد بہت جلد آپ نے بولنا اور چلنا شروع کر دیا.آپ ساری عمر بلند آواز سے بولنے کے عادی تھے اور تبلیغ کرتے ہوئے کبھی تھکتے نہ تھے.خدا نے آپ کو اپنی اولاد کی چار نسلیں دکھلائیں جو آپ کی وفات کے وقت سینکڑوں کی تعداد میں تھی اس طرح حضرت مسیح موعود عل الصلوة والسّلام کا فرمان حرف بحرف پورا ہوا ہے حضرت حکیم صاحب ۱۸۹ء میں داخل بیعت ہوئے اور حضرت مسیح موعود کی ہدایت پر ر ہم علیسی" کا اصل نسخہ تیار کر کے بڑی شہرت پائی اور ملک بھر میں مرہم عیسی ہی کے نام سے موسوم ہوئے.چنانچہ آپ اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھتے ہیں :- له الفضل - دسمبر 2ء ص ر مضمون ماسٹر نذیر حسین صاحب چغتائی)
۳۹۲ اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کا چرچا ہوا تو ہم قادیان پہنچے.اور وہاں دینی علوم حاصل کرنے کا بہت بڑا موقع ملا.اور کئی مسائل میں شرح صدر حاصل ہوئی.اور اسی سلسلہ میں حضرت امام زمان کی بیعت میں داخل ہو گیا بداء کا ذکر ہے اس زمانے میں حضرت مولوی نورالدین صاحب نہایت ہی بے نظیر عالم اور بہت ہی بڑے ذیشان طبیب تھے.اور مجھے ان سے اتنی محبت ہوگئی کہ میں ہر وقت ان کے پاس ہی بیٹھنا پسند کرتا تھا.وہ دین اور طب کے علم میں سمندر تھے.اور ایک فرشتہ خصلت دلربا نہایت حسین سفید ریش.اور بہت ہی بڑے بزرگ تھے.وہ قرآن مجیدہ کا درس ہمیشہ عصر کی نماز کے بعد دیا کرتے تھے.اور وہ درس اس قسم کا بے نظیر ہوتا تھا کہ کہیں نے اپنی ساری عمر میں ایسا درس کسی بڑے سے بڑے عالم کا بھی نہ سنا تھا.میں بڑے بڑے دوسرے مولویوں کے درس میں بھی جایا کہتا تھا مگر جو معارف اور حقائق حضرت سید تا نورالدین اعظم کے درس میں تھے وہ کہیں بھی نہ پائے جاتے تھے.میں اپنی عادت کے مطابق زور سے سلام علیکم کہا کرتا تھا.اور میرے ہاتھ بڑھانے سے حضرت استاذی بھی نہایت محبت سے ہاتھ بڑھایا کرتے تھے.بہر حال ہم نے جو لذت اور جو شرف اور جو لطف علم طب اور علم دین کا قادیان میں حاصل کیا تھا.اس کا نتیجہ ہے کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں علی وجہ البصیرت قرآن کا ایسا والہ و شیدا ہو گیا ہوں کہ میں قرآن پاک کی ایک آیت سننے کے ساتھ ہی وجہ کی حالت میں آجاتا ہوں.میں نے حضرت استاذی حکیم نور الدین صاحب سے باوجو د علم طب کے پڑھنے اور خود مطلب کرنے کے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ میں طلب پڑھنے کے لئے ہی حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں.اس پر حضور نے فرمایا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں بہر حال اگر تم شوق سے پڑھنا چاہتے ہو تو ضرور پڑھو.میری طبیعت ان دنوں میں بہت جو شیلی تھی اور میں ہر ایک بات کے متعلق اعتراض کیا کرتا تھا.جس کا وہ نہایت ہی تسلی بخش جواب دیا کرتے تھے.اور حق تو یہ ہے کہ یہ خدا کے ہی کام ہوتے ہیں اسی نے ہی ایسے اسباب اپنے فضل سے جہیا فرما دیئے کہ ہمیں ایسے بڑے بزرگوں سے بھی استفادہ اور تعلیم حاصل کرنے کی توفیق ملی.حضرت امام سید تا مسیح موعود کے دستِ مبارک پر بعیت کرنے کے بعد میں نے جوش بھرے اور دردمندانہ آواز سے کہا کہ میں گلی گلی اور کوچے کوچے اور شہر بہ شہر پھر کر بھی اس بات کی تبلیغ کروں گا کہ حضرت مسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ اسرائیلی نبی فوت ہو چکے ہیں اور آنیوالے
۳۹۳ میں موجود حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیه صلوات من ربہ و رحمتہ ہیں.حضرت والد صاحب بزرگوار بھی یہی چاہتے تھے کہ میں حضرت سید نا حکیم نور الدین صاحب کی خدمت میں سر وقت حاضر رہوں.ان کے براہے تو کسی نے ہو تا تھا ان کے شاگردوں میں سے سب سے بڑھ کہ نام پاؤں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت والد بزرگوار کی یہ تمنا پوری ہوئی.ان دنوں ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا.اور حضور مسیح موعود نے مرہم عیسی کے متعلق انکشاف فرمایا کہ یہ حضرت مسیح کے صلیبی زخموں کے لئے بنائی گئی تھی.اس وقت میں نے قرا با دین میں اس کے اصل نسخہ کے متعلق تلاش شروع کی کیونکہ اس کے مختلف نسخے تھے کسی نسخہ میں ایک دوائی تھی اور کسی میں دوسری اور کسی میں کسی دوائی کا بدل لکھا ہوا تھا.میری طبیعت میں چونکہ خاص خفنتجو کا مادہ ہے اس لئے میں نے لاہور کی پبلک لائبریری کی جو بعجائب گھر کے سامنے ہے تمام قراباد نیون کو پڑھنا شروع کیا.خدا کی شان ہے کہ میں نے جتنے نسخے مرہم عیسی کے دیکھے ایک کتاب کے دوسری کتاب کے ساتھ وہ نسخے نہیں ملتے تھے.کہیں اور ان کا اختلاف تھا اور کہیں دواؤں کا آخر تماش کرتے کرتے لائبریری میں سے ایک انگریزی طبی ڈکشنری سے یہ اصل تسخہ مل گیا.اور اس میں تمام نام جو دوائیں مرہم عیسی میں پڑتی تھیں وہ انگریزی میں لکھے ہوئے تھے جب میں نے مرہم بنانے کا ارادہ کیا تو پہلے میں نے تمام دیسی عطاروں اور دوا خانوں سے مزہم عیسی کی دوائیں تلاش کرتی شروع کیں مگر ان میں جاؤ شیر سکبینج اور زراوند طویل کہیں سے دستیاب نہ ہوئی.آخر میں نے انگریزی نام جو ان دواؤں کے تھے اور وہ یہ تھے.ارسٹولو چیالا نگاه دزراوند طویل ) اوپو پونک کائی رونم رجاؤ شیر رجاؤشیں سنگا ببینم ر سكنج بیز تین دوائیں ہم نے خاص ولایت سے منگوانے کا آرڈر دے دیا.ولایت میں ARISTOELCHIA LONGA کے فارسی نام گاؤ شیر: انگریزی نام O SALBANUM لفات كبير حقہ دوم طلا مؤلف حكم محمد بیرالدین شیخ الجامعہ جامعہ طبیہ د ہلی طبع سوم ۱۲۵ / ۹۳۶اد - SAGABANUM تے
۳۹۴ بیروز ویلکم ایک بہت بڑی کمپنی مشہور دوا فروش کی تھی اس سے یہ دوائیں منگوائیں.اور نہ پونڈ یونٹ بلکہ بیش، پیش پونڈ تک منگوائیں.جس پر میرا ایک ہزار روپیہ خرچ ہو گیا.اس وقت میں نے یہ دوائی اصلی اجزاء کے ساتھ بنائی شروع کی.اور خدا کے فضل سے میں اس کے بنانے میں کامیاب ہو گیا.اور اصل دوا جہتیا ہو گئی یعنی اصل نسخہ مرہم عیسی کا تیار ہو گیا.اور میں نے اس دوا کا اشتہار اس رنگ میں دینا شروع کیا کہ ایک تو اس سے تبلیغ کا پہلو نکلے اور دوسرا عیسائیت پر محبت تمام ہو اور خدا کا کلام قرآن ما قتلوه وما صليون، صحیح اور بالکل خدا کا سچا کلام ثابت ہو اور عیسائی دنیا معلوم کرنے کہ قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ بالکل حق ہے.چنانچہ نہیں نے اشتہار کی یہ صورت بنائی کہ اشتہار کے سرے پر تو مریم عبیسی مر ہم خوار ہیں.مرہم رسل موٹے حروف کے ساتھ چھپوایا اور اشتہار کے درمیان میں حضرت مسیح عیسی ابن مریم کی وہ تصویر جو گرجوں میں لٹکی ہوتی ہے اور حواریوں کی وہ تصویر جو حضرت مسیح کے ساتھ دکھائی جاتی ہے اور حضرت میچ کے ہاتھوں میں وہی صلیب پر میخیں ٹھوکنے کے نشان جو وہ حواریوں کو دکھا رہے ہیں اور ان حواریوں میں سے ایک حواری کا طبیب ہونا جیسا کہ لوقا کے متعلق کے انجیلوں میں لکھا ہے پیارا طبیب - وہ بارہ حواری اور بارہ دوائیں اور پرانے وقت کا وہی کھرل اور کوٹہ اور دوائیں بنانے کی ترکیب حضرت مسیح کے صلیبی زخموں کے لئے جو یہ مرہم بنائی گئی تھی.اس کا رنگ دے کر اس تصویر کے نیچے اس مرہم کے فوائد درج کئے گئے تھے.اور میں اس وقت بھائی دروازہ میں اس مکان میں رہتا تھا جو والد صاحب بزرگوار نے مجھے علیحدہ بنا کر دیا تھا.اس تصویر والے اشتہار کے ساتھ ایک بہت بڑا پوسٹر بہت بڑی ٹوٹی جلی قلم سے نہایت خوش خط اس زمانے میں میاں و بہت بڑے خوشنویس تھے ، ان کے ہاتھ سے لکھوا کر اور گلاب سنگھ کے پولیس میں چھپوا کر اس مرہم کی وجہ تسمیہ یہ لکھی تھی کہ مرہم عیسی اس کو اس لئے کہتے ہیں کہ جب حضرت مسیح صلیب پر سے زندہ بچ گئے حواریوں نے حضرت مسیح کے صلیبی زخموں پر لگانے کے لئے الہام الہی کے ماتحت اس مرہم کو بنایا تھا.حضرت مسیح تو بیماروں کو اچھا کرتے تھے مگر اس مرہم نے حضرت ہیں کو چنگا کر دیا.اس اشتہار کا نکلنا تھا کہ تمام عیسائی دنیا کے اندر ایک تہلکہ مچ گیا.اس زمانے میں لاہور کے جو ڈپٹی کمشنر تھے وہ سلطان پورہ کیمپ میں گئے ہوئے تھے وہاں انہوں نے ایک
۳۹۵ پولیس کے بڑے آفیسر کو میرے پتے پر میرے مکان پر یہ کہلا کر بھیجا کہ اس اشتہار کو جو تم نے شائع کیا ہے اس کو فورا تمام درو دیوار سے اتار دو ورنہ تمہیں گر فتار کیا جائے گا.اس زمانہ میں خواجہ کمال الدین صاحب وکیل اور کالی پرسن ایک بنگالی وکیل.ان دونوں کو میں نے اس مقدمہ کی پیروی کے لئے مقرر کر لیا.والد صاحب بزرگوار چونکہ نہایت ہی رقیق القلب تھے انہوں نے سمجھا کہ شاید میرے بیٹے کو کہیں قید ہی نہ کر لیا جائے اور کوئی سزا ہی نہ دی جائے.رات دن روتے رہتے تھنے اور مجھ سے کہتے تھے کہ تم نے ایسا اشتہار کیوں نکالا.مگر میرے دل کے اندر اس قدر خوشی اور اس قدر مسرت اور اس قدر جوش تھا کہ میں والد صاحب بزرگوار سے عرض کہتا تھا کہ آپ گھیرائیں نہیں اللہ تعالیٰ بہت بڑا فضل کرنے والا ہے.اُدھر حضرت امام سیدنا مسیح موعود اس اشتہار کو دیکھ کر بڑے خوش تھے.اور ہر تاریخ پر جو اس مقدمہ کی ہوا کرتی تھی میں حضرت صاحب کے پاس جایا کرتے تا تھا.اور وہ بھی اس قدر خوش تھے کہ میں ان کی خوشی کو بیان نہیں کر سکتا.صبح کی سیر کے وقت جب حضرت مسیح موعود دوستوں کے ہمراہ جایا کرتے تھے تو ڈاکٹر نور محمد نے جو کہ کوچہ چڑیماریاں لاہور.لوہاری دروازہ میں رہا کرتے تھے آگے بڑھ کر حضرت سے عرض کیا کہ حضور اگر فرمائیں تو میں بھی اس کا اشتہار دوں اور محمد حسین کے ساتھ میں بھی ان کے اس مقدمہ میں شریک ہو جاؤں ، تو حضرت نے بڑی نفرت سے فرمایا کہ آپ ہرگزہ یہ اشتہار نہیں نکال سکتے.جس کا حصہ تھا اللہ تعالے نے اسی سے یہ کام کرایا ہے.اس اشتہار کے واقعات بہت ہی عجیب ہیں.سیالکوٹ اور لاہور کی اخباروں میں اس مقدمے کا اتنا چہ چا ہوا کہ حمد ہی ہوگئی.اخباروں نے اس بات پر زور دیا کہ امہات المومنین جو عیسائیوں نے شائع کی ہے.جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات اور حضور کی خانگی زندگی پر نہایت ناپاک اور دور از صداقت جو حملے کئے گئے ہیں ان کے مقابل پر اشتہار عیسائیوں کے لئے ایک سبق ہے.ان کو اس اشتہار سے جو واقعات کے مطابق اور صحیح تاریخ کے ساتھ لکھا گیا ہے اور حق بات بیان کی گئی ہے اس قدر غیظ و غضب کیوں ہوا کہ تمام عیسائی پبلک ہی بغاوت کے لئے تیار ہو گئی.فرض ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں ہم پہنچے.خواجہ کمال الدین صاحب اور کالی پریس بنگالی میری طرف سے وکیل تھے.انہوں نے ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں یہ بیان کیا کہ اشتہار جو دیواروں پر لگ چکے ہیں وہ اتنی کثرت سے چسپاں ہیں کہ با وجود ساری جماعت احمدیہ کی کوشش کے ہم ان کو ایک دن
۳۹۶ کے اندر نہیں اتار سکتے.ڈپٹی کمشنر اپنے عملے کو حکم دے کہ وہ اشتہار دیواروں پر سے اتارے.اس کے جواب میں ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا کہ میں اپنا حکم نہیں بدل سکتا.پھر ہم اوپیہ کی کچہری میں سیشن جج کے پاس پہنچے اور اس مقدمہ کی اپیل وہاں دائر کر دی.چنانچہ جب میں مقدمے کی پیروی کے لئے وکیلوں کو لے کر سیشن جج کی عدالت میں گیا تو اس نے تصویر والا اشتہار دیکھ کر اس قدر غضب کا اظہار کیا کہ بیان نہیں ہو سکتا.اور اس نے ہمارے مقدمے کے متعلق کوئی اپیل نہ سنی اور اس کو خارج کر دیا.اور پھر ہم ہائی کورٹ میں پہنچے.ہائیکورٹ میں جب یہ مقدمہ پیش ہوا تو عیسائیوں کی طرف سے لاٹ پادری اور دوسرے عیسائی مناد بھی موجود تھے.حضرت مسیح موعود نے جوں کے سامنے پیش کر نے کے لئے ایک عرضداشت اپنی قلم مبارک سے لکھ کر دی تھی گھر یا عیسائیوں پر محبت تمام کر دی.اس میں حضور نے ایک ایسی بے نظیر بات لکھی منفی کہ جس کا کوئی جواب لاٹ پادری بھی نہیں دے سکتا تھا حضور نے اس میں یہ لکھا تھا کہ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نے صلیب کے بعد اپنے صلیبی زخم حواریوں کو دکھائے تھے.اور جواریوں میں سے ایک طبیب بھی تھا.چنانچہ لوقا کے متعلق انجیلوں میں لکھا ہے پیارا طبیب طب کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ یہ مرہم مسیح کے لئے بنائی گئی تھی.اور حضرت بیتی کی زندگی میں سوائے صلیب کے واقعہ کے کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس کے لئے حضرت عیسی کے لئے مرہم بنائی جاتی.پس انجیلیں بتاتی ہیں کہ حضرت مسیح کے ہاتھوں میں صلیبی زخم تھے اور طب کی کتابیں بتاتی ہیں کہ وہ زخم اس مرہم سے اچھے ہوئے تھے.ہائیکورٹ میں اس مقدمہ کو سننے کے لئے بہت بڑی مخلوق جمع تھی.اور حضرت والدم بزرگوار میاں چراغ الدین صاحب رضی اللہ عنہ اور میرے بھائی اور میرے چچا اور دوسرے تمام رشتہ دار اس مقدمہ کو سننے کے لئے ہائیکورٹ میں گئے ہوئے تھے.اس وقت حج ایک انگریز تھا جس کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا تھا.اس نے حضرت مسیح کی اشتہار میں تصویر دیکھ کر اور مریم عیسی کے بڑے اشتہار پوسٹر اور انگریزی اشتہار جو میں نے الگ بطور سینڈیل کے تقسیم کیا ہوا تھا.اس کو دیکھ کر وہ الیسا بر ہم ہوا اور غصہ میں بھر گیا.اور اسی غصہ کی حالت میں اس نے کہا
۳۹۷ کہ اس اشتہار کے لکھنے والا کون ہے ؟.میں جج کے سامنے حاضر ہوا مگر اس کو غصے کے اندر کچھ نظر نہ آیا.پھر میں بیٹھ گیا.پھر اس نے کہا کہ کس نے یہ اشتہار شائع کیا.پھر میں اُٹھ کھڑا ہوا اور میں نے کہا کہ یہ اشتہار میں نے شائع کیا ہے.وہ اپنے غیظ و غضب میں اس قدر بھرا بیٹھا تھا کہ میں با وجود اس کے سامنے دو دفعہ پیش ہونے کے اس کو پھر بھی نظر نہ آیا کہ اشتہار دینے والا میں ہوں.پھر اس نے تیسری دفعہ کہا کہ کون ہے جس نے یہ اشتہار شائع کیا ہے.پھر میں اٹھا تو میرے وکیل کالی پرسن نے جج کو مخاطب کیا اور کہا کہ کیا یہ عدالتیں ہیں کہ تین دفعہ میرا موکل کھڑا ہوا ہے اور اُس نے کہا کہ میں نے اشتہار دیا ہے مگر بھیج کو نظر تک نہیں آیا.اس وقت تمام گیلری کے اندر ایک شور مچ گیا.اور اس کے ساتھ ایک دوسرا حج اس مقدمے کو سننے کے لئے آگیا.اس وقت حضرت امام سیدنا مسیح موعود کا لکھا ہوا وہ مضمون پڑھ کر سنایا گیا.جس کا ترجمہ خواجہ کمال الدین صاحب نے بتا کہ دیا تھا.تو سارے پادری اور عیسائی حیران رہ گئے کیونکہ اس میں بتایا گیا تھا کہ انجیل بتاتی ہے کہ حضرت میں کے صلیبی زخم تھے جو انہوں نے اپنے حواریوں کو صلیب پر سے زندہ اتنہ آنے کے بعد دکھائے تھے.اور حواریوں میں سے ایک حواری طبیب بھی تھا جس کا نام لوقا تھا.الہام الہی کی بنا پر اس مریم کو بنایاگیا تھا.اور حضرت مسیح کے صلیبی زخم بھی اسی سے اچھے ہوئے تھے.اس کے بعد اس بات پر بحث ہوئی کہ مریم عینی کا نام کچھ اور رکھ کر اس کو فروخت کیا جائے.اس وقت ہم نے اپنے وکیلوں کو سمجھا دیا ہوا تھا کہ اگر کوئی ایسی بات پیش ہو جس سے اس مرہم کو دوسرے نام سے موسوم کرنے کے لئے حج اپنا فیصلہ لکھے تو ان کو بتایا جائے کہ اس طرح تو بہت سی دواؤں کے متعلق ہائیکورٹ کو ایک قانون بنانا پڑے گا.آج عیسائی لوگ مرہم عیسی کے نام سے بھی رنجیدہ ہوتے ہیں تو کل ہند و سوسائٹی سگاؤ زبان کے نام سے بھی رنجیدہ ہوگی.اور حکومت کی لجسلیٹو اسمبلی کو مندرجہ ذیل دواؤں کے نام بدلانے کے لئے ایک قانون نافذہ کرنا پڑے گا.کیونکہ ہندو لوگ گاؤ زبان اور گئو دنتی کا لفظ اپنے مذہب کے خلاف سمجھتے ہیں.اسی طرح عیسائی عود صلیب اور پنجہ مریم کے نام سے چڑتے ہیں.اور بھی بے شمار نام ہیں جن کے نام مذہبی نقطہ نظر کے رو سے ہر مذہب والا اس کو سننے کے لئے تیار نہیں ہے.اس لئے یہ قانون نیا بنانا پڑے گا.کہ یہ یہ دوائیں جو اس نام کی مشہور ہیں ان کا نام بدلنا چاہئیے.اگر ہائیکورٹ الیسا کوئی قانون بنائے گا.تو ہم بھی اس مریم کا نام بدل لیں گے.طب کی کتابوں میں سے نہ یہ نام محو ہو سکتے ہیں.اور نہ دوسرے کوئی
٣٩٨ نام ان کے مقرر ہو سکتے ہیں.آخری بڑی حیث و بحث کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ نام تو یہی رہ ہے مگر وجہ تسمیہ اس مریم کی یہ نہ لکھی جائے کہ حضرت مسیح کے صلیبی زخموں کو چنگا کرنے کے لئے حواریوں نے اس کو بنایا تھا حضرت مسیے تو دوسرے بیماروں کو چنگا کرتے تھے.اس مرہم نے حضرت عیسی کو چنگا کر دیا.بہر حال جب یہ فیصلہ ہو چکا تو ہم نے پوسٹروں میں سے اس کی وجہ تسمیہ نکال دی اور اس کی بجائے یہ لکھا کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسی کے لئے بنائی تھی اور یہ مرہم سرطان - خنازیہ بواسیر.طاعون اور تمام قسم کے زہر یلے چھوڑو کے لئے اکسیر ہے.اس کامیابی پر تمام اخباروں نے ہمیں مبارک باد دی.اور اسی مرہم کی وجہ سے ہندوستان انگلستان اور تمام دوسرے ممالک میں میرا نام مرہم عیسی مشہور ہو گیا اور مرہم کی اتنی بکری ہوئی کہ ہزاروں روپے ہم نے اس کی وجہ سے کمائے.دواخانہ میں اس دوائی کے ذریعے دوسری دواؤں کو بھی بہت شہرت حاصل ہو گئی اور ہم نے اپنے دواخانہ کا نام بھی دواخانہ مرہم عیسی رکھا.اور اسی نام سے تمام ہندوستان اور دوسرے تمام ملکوں میں یہ دوا خانہ مشہور ہے کیا آپ کی وفات پر ماسٹر نذیر حسین صاحب چغتائی نے ایک مضمون میں تحریر فرمایا کہ :- حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے طب میں شاگر د بھی تھے اور آپ سے والہانہ محبت بھی رکھتے تھے حضرت خلیفہ مسیح اول کو بھی آپ سے بے حد درجہ کی محبت تھی حضرت خلیفہ اول نے اپنی وفات سے چند دن پہلے جبکہ خاکسار اور والدم بزرگوار اور دادا صاحب حضرت میاں چراغ الدین صاحب ان کے پاس تھے مجھے مخاطب کر کے فرمایا :- مجھے حکیم محمد حسین صاحب مر ہم عیسی بہت پیارے ہیں گھر میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ میرے بعد مجھے چھوڑ دیں گے.میری محبت نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کے لئے دعا کروں کہ خدا اس تقدیر کو بدل دے.تو مجھے بتلایا گیا کہ گیارہ کے بعد یہ پھر میرے ہو جائیں گے.پھر مجھے مخاطب کمہ کے فرمایا کہ میاں نذیہ تم نے گیارہ کا خیال رکھنا ہے.اس وقت دادا صاحب حضرت میاں چراغ دین صاحب بھی موجود تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کو خدا لے کتاب طبی مائة عامل مصنفہ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی مٹتا حس مث تا مشا : ا مطبوعہ استعمال پریس لاہور.مارچ ۶۹ ) -
۳۹۹ نے یہ بھی بتا دیا ہو گا کہ وہ والد صاحب کی بیعت خلافت ثانیہ کے وقت زندہ نہ ہوں گے اسلئے حضور تے مجھے فرمایا اور میاں چراغ دین صاحب کو اس کے لئے مخاطب نہیں کیا ، چنانچہ ایسا ہی ہوا.والد صاحب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بغیر مبایعین جماعت کے لیڈروں میں جا ملے اور گیارہ سال بڑے زور سے مبایعین کی مخالفت کی.میں گیارہویں سال میں حضرت خلیفہ ثانی کی اگر بیعت کر لی.اور اس طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وہ بات پوری ہوگئی.الحمد لله على ذلك.حضرت میاں چراغ الدین صاحب ۱۲ ء میں فوت ہوئے تھے اور والد صاحب نے ۱۹۳۵ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کی بیعت کی تھی پیسہ حضرت مصلح موعودؓ کو آپ کی بیعت پر بہت خوشی ہوئی.اور حضور نے آپ کی درخواست ببعیت کے جواب میں حسب ذیل خط ارقام فرمایا :- حکم می حکیم محمد حسین صاحب ! السّلام علیکم.آپ کا بیعت کا خط پڑھ کہ مجھے نہایت خوشی ہوئی.دو وجہ سے ایک تو اس تعلق کی وجہ سے جو اس فتنہ سے پہلے آپ میں اور مجھے میں تھا.آپ کو جو محبت مجھ سے تھی اور جس خلوص سے آپ میرے ساتھ رہتے تھے.وہ حالت اور موجودہ حالت اس قدر متبائن تھی کہ دل کو اس پر صدمہ اور افسوس ہوتا تھا گو میں خیال کرتا ہوں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی.اگر بعض نہایت ہی محبت کر نیوالے احباب اس موقع پر الگ ہو کر مقابل پر کھڑے نہ ہوتے تو شاید دشمنوں کا یہ اعتراض کہ میں نے کوئی سازش کی تھی.بعض لوگوں کے دلوں میں کھٹکتا رہتا.مگر بعض ایسے لوگوں کا فریق مخالف سے جا ملتا جو ہر وقت پاس رہنے والے تھے اور ہر قسم کے کاموں سے واقف تھے.اور ان کا اقرار کر نا کہ میں نے کوئی سازش نہیں کی.خدا تعالیٰ نے میرے لئے بریت کا ذریعہ بنا دیا.بہر حال پہلے تعلق کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے آپ کے بیعت کرنے سے بہت خوشی ہوئی.دوسرا سبب آپ کے والد صاحب کا تعلق ہے.ان کا تعلق اور ان کی محبت عدیم المثال ہے وہ ان خاص لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے آپ کو لیے جان کر کے مسیح موعود علیہ السلام کے سپرد کر دیا رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ ان کے اخلاص اور پھر اس محبت کی وجہ سے جو مجھے ان سے بھی مجھے اس امر کی دہری خوشی ہوئی ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ له الفضل لم, وسمير ١٩٥٢ ء ما
م آج مرحوم کی روح بھی خوش ہو گی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ عقائد میں جس قدر اختلاف ہے.اللہ تعالے اس کو دور فرما کہ ایسی حقیقی صفائی فرمائے جس کے بعد کوئی کدورت باقی نہ رہے.اور ہم سب کا خاتمہ بالخیر کرنے اور اپنے عذاب سے پناہ میں رکھے.اللهم آمین خاکسار مرزا محمود احمد " له مولانا شیخ عبد القادر صاحب (سابق سوداگر مل ) " لاہور تاریخ احمدیت " میں تحریر فرماتے ہیں کہ : حضرت حکیم مرہم مینی صاحب قرآن مجید کے عاشق تھے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح موعود علیہ السّلام حضرت خلیفہ المسیح الاول اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے از حد محبت رکھتے تھے.چنانچہ حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ منصرہ العزیز کو جب ایک شقی القلب مخالف نے نماز کے بعد مسجد مبارک ربوہ کے محراب میں گردن پر چاقو مارا تو آپ یہ سن کر بے چین ہو گئے ہسپتال میں بیمار تھے.آنکھ کا تازہ تازہ اپریشن ہوا تھا.مگر آپ اُسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور جب تک ربوہ پہنچ کر حضرت خلیفہ المسیح کی عیادت نہیں کر لی چین نہیں لیا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام اور حضرت خلیفہ المسیح الاول کے احسانات سُناتے وقت اکثر آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے پہلے حضرت حکیم صاحب تہجد گزار اور شب بیدار بزرگ تھے.نماز با جماعت کے سختی سے پابند تھے.خلوت میں استغفار اور ذکر الہی کرنا اُن کا عمر بھر معمول رہا.نہایت درجہ جہمان نواز، الین دین کے معاملات میں صاف اور مخلوق خدا کے شفیق و ہمدرد !! - صحت آخر دم تک نہایت اعلیٰ تھی اور کوئی اُن کی صحت کو دیکھ کر ان کی اچانک موت کا خیال نہیں کر سکتا تھا.۲۸ اکتوبر ۹۵ او کو اپنی ساری اولاد کو اپنے پاس بلایا اور سب کو پابند دین رہنے کی وصیت فرمائی اور رات کو حرکت قلب کے بند ہونے سے انتقال کر گئے.اگلے دن جماعتِ احمدیہ لاہور کے کثیر ا حباب نے مولانا عبد القادر صاحب مبلغ سلسلہ کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کی بعد ازاں آپ کی نعش بذریعہ لاری ربوہ لائی گئی.ه الفضل قادیان ۱۵ ستمبر ۱۹۲۵ م کالم ۳ کو کی کے لاہور تاریخ احمدیت ۱۲۳ مطبوعه ۲۰ فروری ۶۱۹۶۷
امكم جہاں آپ مقیرہ بہشتی کے قطعہ خاص میں صحابہ کے ساتھ دفن کر دیئے گئے پہلے حضرت حکیم صاحب کی طبی خدمات ناقابل فراموش ہیں بہت سے پیچیدہ اور خطرناک امراض میں مبتلا مریض آپ کے زیر علاج رہے اور خدا کے فضل سے شفا یاب ہوئے ملک کے کئی طبی اداروں کے صدر رہے.مدت دراز تک رسالہ حکیم حاذق “ کی کامیاب ادارت کی اور اکا بہ طبیب سے خراج تحسین وصول کیا.آپ کے قلم سے مختلف امراض اور جدید تجربات کے متعلق بہت سے مضامین چوٹی کے طبی رسالوں میں شائع ہوئے جن کی ترتیب و تدوین سے ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے.آپ کی طبیتی تالیفات یہ ہیں :- طبي مأة عامل - طبی اربعین - بیاض مرہم عیسی شاہی طبی فارما کو پیا - افادات مطب اولاد (4) نورالدین - مجربات خاندان حکیماں لاہور مجربات خصوصی.(1) ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چغتائی: رپیدائش سمر جنوری شعراء وفات 4 مئی ۱۹۶۶ (۲) مرزا نذیر حسین صاحب ( پیدائش ۱۰ اگست شده ) (۳) عبد الرحمن صاحب چغتائی انجینر (پیدائش ۲۵ دسمبر شده وفات ۱۵ اپریل ) - (لم) حکیم احمد حسین صاحب (پیدا کش ۲۶ جون شاه ).(۵) رابعه میگیم مرحومه ( پیدا کش ۲۰ منی شده.وفات ۱۲۸ اپریل ۹۷) عائشہ بیگم صاحبہ (پیدائش ۲۵ مارچ ).(۷) سعیده بیگم صاحبہ (پیدائش اپریل سنده (۸) جمیده بگیم مرحومه د پیدائش جنوری انشاء ، وفات دار اکتوبر ) (۹) صغری بیگم صاحبہ د پیدائش ۲۴ جولائی ۱۹۱۳ء ).(۱۰) محمد احمد صاحب (پیدائش اور دسمبر ) را حکیم محمد عیسی صاحب پیدائش ۲۳ دسمبر ۱۹ ) - (۱۲) محمد بجلی صاحب (سپیدائش کم مارچ ۱۹۳(۶) (۱۳) محمد ذکریا صاحب پیدائش یکم جولائی ۱۹ (۱۴) محمد الیاس صاحب ریپ اکشی ۱۲ اکتوبر ) (۱۵) محمد ادریس صاحب ) - دیپیدائش ۲۶ جون ۸۹۲ ) - (۱۶) - آدم عبد الواسع صاحب (پیدائش ۱۹ دسمبر ۱۹۳۳) - شه حضرت حکیم صاحب نے تین شادیاں کی تھیں جن میں سے ستائیں پیچھے پیدا ہوئے ، گیارہ بچے ابتدائی عمر میں فوت ہو گئے.جو زندہ موجود نہیں ان کے نام اوپر درج ہو چکے ہیں.الفضل ۳۰ اکتوبر و لمر دسمبر ۱۹۵۴
م ر حضرت حافظ احمد دین صاحب ڈنگوی ولی حکیم به بخش صاحب - د ولادت قريبا شهداء بیعت شراء وفات ۱۸-۱۹ نومبر ۴۱۹۵۷ حضرت حافظ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ : جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دھونی فرمایا تو میرے بعد میرے استاد کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ خود قادیان جا کر دیکھا جائے...اس وقت ہر جگہ یہ مشہور تھا کہ مرزا صاحب کے پاس کوئی جادو ہے.جو کوئی بھی قادیان جاتا ہے اسے جادو والی روٹی کھل دی جاتی ہے.اور پھر وہ بغیر بیعت کئے واپس نہیں آتا.اس خیال کی بناء پر میں نے اور میرے استاد نے تین چار دنوں کی خوراک اپنے ساتھ لے لی تاکہ قادیان کی روٹی کھائیں ہی نہ.جب قادیان کی طرف روانہ ہوئے تمام راستے میں یہی سوچتے آئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا کیا سوال کریں گے ؟ جس وقت ہم قادیان پہنچے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السّلام مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور تقریر فرمار ہے تھے.ہم بھی خاموشی سے مجلس میں جا کر بیٹھ گئے.مرحوم فرماتے تھے کہ جو جو سوال دل میں سوچ کر گئے تھے.انہیں سوالوں کا جواب حضور دے رہے تھے.ہم حیرت سے حضور کا چہرہ دیکھنے لگے اور اسی وقت بیعت سے مشرف ہو گئے.حضرت حافظ صاحب شروع ہی سے جماعت احمدیہ ڈنگہ کے امیر اور سیکرٹری مال چلے آتے تھے اور وفات تک ان عہدوں پر فائز رہے.نہایت رقیق القلب ، بہت نیک، پابند صوم و صلواة بلکہ تہجد گزار تھے.اور اُن کا گھر گویا جماعت ڈنگہ کا مرکز تھا جہاں عیدین ،جمعہ اور پانچوں وقفت کی نمازیں ادا ہوتی تھیں.بہت سے احمدی بچوں اور بچیوں نے آپ سے قرآن مجید پڑھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت نیک فطرت عطا کی تھی.علم طلب میں ماہر تھے گو ان کا روزگار.اس علم پہ نہ تھا مگر ہر وقت مختلف دوائیاں آپ کے پاس رہتی تھیں اور آپ انہیں حاجتمندوں کو مفت دیا کرتے تھے اور اگر کوئی شخص آدھی رات کے وقت بھی آجاتا تو آپ فوراً اُس کے علاج کے لئے مستعد ہو جاتے تھے.آپ حضرت ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب مہاجہ قادیان کے حقیقی بھائی تھے یہ حضرت بھائی صاحب نے انشاء له الفضل ۲۱ ستمبر از تبوک اش ۲۵۵
میں حضرت مسیح موعود کی زیارت و بعیت کی.مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے آپ کی وفات پر لکھا کہ :- حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے پرانے صحابہ میں سے ہر ایک کی وفات جماعت کے لئے ایک قومی سانحہ سے کم نہیں ہے.کیونکہ یہی وہ مقدس وجو د ہیں جنہوں نے تحریک احمدیت کے آغاز میں خدا کے مامور کو شناخت کیا.اس کے انوار و برکات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.اس کے کلمات طیبات کو اپنے کانوں سے سنا.اللہ تعالیٰ اپنی خاص رضا کے عطر سے ان مقدسوں کو ممسوح فرمائے.آمین.ڈنگہ ضلع گجرات میں سلسلہ احمدیہ کے اولین تمدام میں حضرت حافظ احمد دین صاحب ایک ممتاز مقام رکھتے تھے.آپ کی زندگی زاہدانہ اور تقویٰ کے بلند مقام پر بھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس کے بعد ہمیشہ احمدیت کی تبلیغ میں ہمہ تن مصروف رہے.قول کی بجائے زیادہ تر اپنے نیک عمل اور صالح اسوہ سے آپ نے اسلام کی تبلیغ کی.آپ نے اپنی اولاد کی نہایت اچھی تربیت کی جو ان کے لئے باقیات صالحات میں ہیں.آپ کی اولاد میں مکرم جناب محمد الدین صاحب اسسٹنٹ میڈیکل آفیسر عارف والا ضلع منٹگمری اور میاں غلام محمد صاحب ٹیلر ماسٹر سرگودھا کے علاوہ دو صاحبزادیاں ہیں حضرت حافظ صاحب مرحوم کی ایک نواسی برادرم مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب فاضل مبلغ انڈونیشیا کے نکاح میں ہیں.اور اس وقت اپنے خاوند کے ہمراہ خدمات دینیہ میں مصروف ہیں.مورخہ چار نومبر کی رات کو آپ کا انتقال پچاسی سال کی عمر میں ڈنگہ میں ہوا.بیماری کے عرصہ میں حضرت حافظ صاحب کے بیچوں اور بچیوں نے ان کی پوری خدمت کی جزاهم الله - وقات کے وقت مکرم ڈاکٹر صاحب ان کی نعش کو ربوہ لائے اور سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے ۲۰ نومیر کو دس بجے صبح حضرت حافظ صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی.اور حضرت حافظ صاحب مرحوم کو موٹیوں کے بہشتی مقبرہ کے قطعۂ صحابہ میں دفن کیا گیا ہے اولاد : 1) ایم غلام محمد صاحب ٹیلیہ ماسٹر جہاجرہ قادیان - ڈاکٹر محمد دین صاحب رحال امیر جماعت احمد به ضلع وہاڑی صوبہ پنجاب - پاکستان ) الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۵۴ء ص ۶
۴۰۴ (۱) صابرہ بیگم صاحبہ (اہلیہ بابو عبد اللطيف صاحب ).(۴) پاخیزه بیگم صاحبہ (اہلیہ ڈاکٹر مبارک احمد صاحب ).ان بلند پایہ صحابہ کے علاوہ اس بعض دیگر مخلصین احمدیت کی وفات سال مندرجہ ذیل مخلصین احمدیت بھی وفات پاگئے :.١- الحاج السيد عبدالروف الحصنى دمشقی : - (دفات ۲۴ اپریل ۹۵ ) - آپ جماعت احمدیہ دمشق کے سابق امیر اور السید منیر الحصنی (موجودہ امیر وشق) کے چھوٹے بھائی اور الهام يُصَلُّونَ عَلَيْكَ ابْدَالُ الشام" کے مصداق تھے جیسا کہ مکرم شیخ نور احمد صاحب منير مبشر بلا د عربیہ کے مندرجہ ذیل مطبوعہ نوٹ سے نمایاں ہے.آپ فرماتے ہیں جہ الحاج مرحوم جماعت دمشق میں اخلاص اور ایثار کا نمونہ تھے بسلسلہ کی تمام مالی تحریکات میں ایک مثال رکھتے تھے.ہفتہ واری میٹنگ میں شمولیت ، نماز جمعہ میں باقاعدگی ، ضیافت خندہ پیشانی سنجیدگی اولاد کی تربیت ، چغلی سے نفرت ان کی نمایاں خوبیاں تھیں قدرنا نورانی شکل رکھتے تھے.انہی اوصاف کی وجہ سے جماعت دمشق نے ان کو پریزیڈنٹ منتخب کیا.مرحوم خدام سلسلہ سے محبت رکھتے تھے سلسلہ کے کئی مبلغین کرام مین کو مشق سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے ان کو مشہور اور تاریخی مقامات کی زیارت کرواتے.اُن کے ساتھ ہوا خوری کے لئے نکلتے اور ان کی ملاقات کے لئے بار بار آتے مجھے دمشق میں تین سال رہنے کا اتفاق ہوا اور میں نے مرحوم کو سلسلہ کے لئے قابل قدر اور مفید وجود پایا.ایک دفعہ الحاج عبد الرؤف اور عاجز دمشق کے سر سبز مقام ربوہ گئے.راستے میں کہنے لگے.کہ احمدیت کا مجھ پہ بہت بڑا احسان ہے احمدیت نے مجھے صحیح راستہ پر چلا دیا.قرآن کریم سے ان کو عشق تھا.تفاسیر سننے کے ہمیشہ مشتاق تھے.کانوں میں نقص کی وجہ سے وہ اونچی سنتے اس لئے وہ پاس بیٹھ کر اور خاص توجہ سے سننے کے عادی ہو چکے تھے تجوید اور قرأت سیکھا کرتے حج دوسری مرتبہ کہنے کا ارادہ تھا.اور حج سے واپسی پر حضرت سید نا خلیفہ اسیح الثانی ایده الله مبصرہ العزیز اصحاب امسیح الموعود علیہ السّلام اور قادیان کی زیارت کرنے کے خواہش مند تھے افسوس کہ ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی.
۰۵م ان کا ایک نمایاں وصف جو قابل رشک و اقتداء ہے وہ اولاد کی تربیت کرنا ہے جمعہ کی نماز میں آپ اپنے تمام بچوں کو ساتھ لاتے.الحاج مرحوم نے اپنے گھر میں احمدیت کا ماحول پیدا کر دیا تھا.ان کا گھرانہ اس لحاظ سے قابل رشک تھا.لے ۲ محترم جناب خان بہادر سعد اللہ خاں صاحب.خشک احمدی رئیس اعظم موضع صور امیرو تھا نہ نظام پور ضلع پشاور وفات ۳۱ اگست ۱۹ ء - حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر صو سرحد تحریہ فرماتے ہیں :- " آپ ملک خوشحال خان خٹک ڈشہور خان قوم د شا عر زبان پشتو و فارسی بزمانه اورنگ زیب عالمگیر گذرے تھے ) کی نسل سے تھے.اور قوم خٹک میں قدوقامت خوبصورت اندام اور جوان رعنا ہونے کی وجہ سے دلکش انسان تھے.نہایت متین سنجیدہ طبع اور حسن اخلاق کا مجسمہ تھے ہر شخص سے خواہ امیر ہو یا غریب حسن سلوک سے پیش آتے گویادہ اسی کے ہیں.بستی طبیع.فیاض ، مہمان نواز، مسافر نواز - خوش طبع سلامت رو انسان تھے.اپنی قوم خٹک ضلع پشاور و کوہاٹ میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے.اور قوم ان کی دلدادہ اور قدر دان تھی ابا عن جد رئیس قوم تھے.روساء ملک میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.موضع خوشحال گڑھ ضلع کو بات آپ کی جاگیر تھی.دو شادیاں کیں.مگر اولاد نہ تھی.آپ سوات میں عرصہ دراز تک صوبیدار میجر رہے مالا کنڈ آپ کا صدر مقام تھا.سوات پر انگریزوں کا قبضہ شہداء میں ہوا.تالیا پہلا صوبیدار میجر شہزادہ محمد نادر جان درانی ساکن پشاور تھا اور ان کے بعد غالبا نشا ء میں خان بہادر صاحب دوسرے صوبیدار میجر ہوئے جو اس تک رہے.آپ کی پیدائش غالبا ماء کے قریب ہوئی.آپ نے اپنے زمانہ کے لحاظ سے فارسی اردو میں تعلیم پائی.اور سوات میں خدا جانے کب مگر غالباً آغاز جوانی میں ملازم ہوئے بانشاء سے صوبیدار میجر ہوئے خدمات حسنہ کے باعث حکومت وقت نے خان بہادر کا خطاب دیا.مالا کنڈ میں آپ کی قیام گاہ حکام ایجینسی و عہدیداران کی تفریح گاہ تھی جہاں مہمان نوازی کے واسطے لنگر خانہ ہر وقت جاری رہتا اور چائے کا دور سلسل جاری رہتا.ه روزنامه الفضل لاہور ۱۶ رجون ۱۹۵۴ و مث.
ان ایام میں میرے محترم حافظ حضرت منظفر احمد صاحب کلانوری سوات بمقام مالا کنڈ ہے حوالدار تھے.جو پابند صوم و صلوۃ تھے.تہجد خوان اور حافظ قرآن تھے اور خاکسار کی تحریک سے بمقام کوچہ بہار شاہ پشا در رجہاں انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی نذیر حسین صاحب ساکنان کلانور کے گھر شادی کی تھی.یہ شادی ان کا نکاح ثانی تھی ، حضرت احمد قادیانی علیہ السّلام کی بیعت کی تھی.محترم حافظ حضرت مظفر احمد صاحب نے موقع پا کر ایک دن شاء میں خان بہادر موصوف کو اُن کے روز مرہ زندگی گذارنے کی طرزہ کی طرف متوجہ کیا اور ان کے اصلاح کرنے کی طرف توجہ دلائی.اور کہا کہ آپ چالیس دن باقاعدہ نماز باجماعت پڑھیں اور تہجد بھی پڑھا کریں اور درس قرآن کریم کم از کم ایک رکوع روزانہ کر یں.اگریہ صورت پسند نہ آئے تو پھر موجودہ زندگی کا اختیار کر لینا تو مشکل نہیں.چنانچہ خان موصوف جو فطرتاً نیک اور سعید انسان تھے انہوں نے یہ مشورہ قبول کر لیا.اور تمام فضولیات اور لغویات جو خلاف شریعت تھیں ترک کر کے بڑے اخلاص سے پابندی صوم و صلوٰۃ کی طرف مائل ہوئے.اور چالیس دن تک بڑے انہماک سے یہ نیا مشغلہ جاری رکھا.اپنے سابقہ طرز عمل سے تو بہ کر کے حضرت مولوی نور الدین خلیفہ مسیح اول رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر داخل احمدیت ہوئے.یہ اشارہ تھا.الحمد للہ.وہ تبدیلی اختیار کی کہ آپ ولی اللہ بن گئے.ایک دفعہ مالا کنڈ کے قدیمی دوست قاضی محمد احمد جان صاحب جو احمدیت کے مخالف تھے اور قابل عبرت سزا پاچکے تھے چند اور افسر ساتھ لے کر خان بہادر موصوف کے پاس بطور جرگہ آئے.اور کہا کہ خان صاحب ہم کو یہ سن کر کہ آپ احمدی ہوئے ہیں سخت صدمہ اور افسوس ہوا ہے.کیا اچھا ہو گا اگر آپ پھر تو بہ کر لیں.خان بہادر صاحب نے جواب دیا کہ جب میں آپ کی طرح مسلمان تھا تو آپ کو معلوم ہے کہ آپ صاحبان کی مہربانی سے نہ نماز پڑھتا نہ تہجد نہ قرآن کریم سے کوئی واقفیت یا تعلق تھا سارا دن تائش اور شطر نیچے میں گذرتا اور لڑکے آکر ناچتے.خدا بھلا کرے ہمارے مولوی مظفر احمد صاحب کا جن کے نیک نصائح اور پاک صحبت نے اس گندی زندگی سے بیزار کرا کہ پابند نماز و تہجد کیا.اور درس قرآن کا شوق دلایا.اگر اسلام یہ نہیں جو احمدیت کے ذریعے حاصل ہوا اور اسلام دراصل وہ تھا جو میں آپ لوگوں کی رفاقت میں اختیار کر چکا تھا.تو مجھے یہ کفر اسلام سے پسندیدہ ہے.اس پر وہ لوگ شرمندہ ہوئے اور اُٹھ کر چلے گئے.بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ کو غصہ نہ آتا تھا بڑی نرمی اور معقولیت اور میٹھی زبان میں معترض کو جواب
۰۷م.....امیرو میں صرف وہی احمدیت کا روشن ستارہ تھا جو قریباً نوے سال کی عمر میں آسمان احمدیت پر چوالیس سال چمک کر مدہم پڑ گیا.اللهم اغفره وارحمه وادخله في الجنة.آمين ۳- منشی محمد خالد صاحب صد جماعت احمدیہ جھانسی یوپی بھارت رونات ستمبر.جناب گیانی عباد اللہ صاحب آپ کی قابل رشک مومنانہ زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :- مرحوم نہایت مخلص احمدی تھے سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ سے انہیں والہانہ عقیدت تھی.خاکسار کو ان سے غالباً سن ۱۹ ء میں تعارف حاصل ہوا تھا.آپ جی.آئی پی نہیں ڈرافٹسمین تھے.پاکستان بننے سے قبل نظارت دعوت و تبلیغ نے یوپی اور سی پی وغیرہ علاقوں میں تبلیغ اسلام کی غرض سے ایک وفد بھجوایا تھا.یہ وفد کئی سال تک اِن علاقوں میں تبلیغ اسلام کا فریضہ حسب توفیق ادا کرتا رہا.خاکسار بھی ایک ضمیر تھا.جب ہم دورہ کرتے ہوئے پہلی مرتبہ جھانسی گئے تو اتفاقی سے ان دنوں محمد خالد صاحب مکرم کسی خاص کام کی وجہ سے بمبئی تشریف لے گئے ہوئے تھے.ہم جتنے دن مجھانسی میں ٹھہرے مخلص باپ کے مخلص بچوں نے ہمارا ہر طرح خیال رکھا اور کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہونے دی ابن کا ایک لڑکا تو اپنا تمام کام چھوڑ کر ہمارے ساتھ رہا.ہمیں وہاں ہی معلوم ہوا کہ منشی محمد خالد صاحب مکرم نے سو سال سے بیعت کی ہوتی ہے.لیکن بعض وجوہات کی بنا پہ وہ قادیان کی ایک مرتبہ بھی زیارت نہ کر سکے ہم ان کی بغیر حاضری میں تین چار دن جھانسی ٹھہرے اور صداقت اسلام وغیرہ مسائل پر تقریریں کر کے اپنے پروگرام کے مطابق بھوپال چلے گئے جاتے ہوئے ہم ایک مختصر سا رفعہ لکہ کہ ان کے لئے رکھے گئے اس میں صرف اتنا ہی مرقوم تھا :- به ہم جھانسی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے مگر آپ سے ملاقات نہ ہوسکی.اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری آپ سے پہلی ملاقات قادیان میں جلسہ سالانہ پر ہو.یہ ہماری طرف سے انہیں اصل میں جلسہ سالانہ پر قادیان آنے کی ایک دعوت تھی جسے انہوں له روزنامه " الفضل " ريوه بكم اكتوبر سواء من - ه - "بدر" قادیان ۴ ستمبر ا مت کا لم.
نے بخوشی قبول کر لیا اور ہمیں جواب دیا کہ خواہ کچھ ہو.میں اس دفعہ انشاء اللہ ضرور قادیان آؤں گا اور دیار محبوب کی زیارت کروں گا.چنانچہ وہ حسب وعدہ جلسہ سالانہ پر تشریف لائے اخلاص تو ان میں پہلے ہی بہت تھا.لیکن وہ سب غائبانہ تھا.جب انہوں نے دیار محبوب اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کی تو انہیں ایسی لذت محسوس ہوئی کہ پھر وہ ہر سال جلسہ سالانہ پر تشریف لاتے رہے چونکہ خدا کے فضل و کرم سے ان کے بال بیچے کافی تھے اس لئے وہ باری باری اپنے بچوں کو قادیان ساتھ لاتے رہے اس طرح انہوں نے ایک مرتبہ اپنے تمام بچوں کو قادیان کی زیارت کروا دی.اور اس کی بے حد خوشی منائی کہ میرے تمام بچوں نے خدا کے پیارے مسیح کی بسنتی دیکھ لی ہے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ احمد کی زیارت کر لی ہے.وہ جب بھی ہمیں ملتے بہت محبت سے ملتے.ہمیں بسلسلہ تبلیغ متعدد مرتبہ جھانسی جانے کا اتفاق ہوا.ہر مرتبہ وہ ہمیں اپنے پاس ٹھہراتے اور ہمارے آنے پر بہت خوشی محسوس کرتے ہم جتنے دن وہاں ٹھہرتے وہ ہمیں اپنے حلقہ احباب سے ملواتے اور تبلیغی مجالس قائم کرواتے ایک دو مرتبہ تو انہوں نے اپنے مکان کے سامنے جلسہ کر وا کہ ہماری تقریریں بھی کروائی تھیں.خدا کے فضل وکرم سے جھانسی میں ان کی نیکی کی اچھی شہرت تھی اور لوگ ان کا کافی احترام کرتے تھے.جھانسی میں ان کا مکان کافی کھلی جگہ میں تھا.اس کے ایک حصہ میں انہوں نے ایک اچھی مسجد بھی بنوائی ہوئی تھی.اس مسجد میں بیک وقت سو ڈیڑھ سو آدمی نماز پڑھ سکتے تھے.اس مسجد کا نام انہوں نے بعض خوابوں کی بنا پر احمدیہ نورانی مسجد" رکھا ہوا تھا.یہ مسجد انہوں نے بغیر کسی اور صاحب سے کوئی امداد لئے خود آپ ہی آہستہ آہستہ بنائی تھی.چنانچہ جب ہم پہلی مرتبہ جھانسی گئے تو ان کے بچوں نے ہمیں بتایا کہ ہمارے والد صاحب کا ارادہ یہاں مسجد بنانے کا ہے دوسری مرتبہ ہم گئے تو وہاں چھوٹی چھوٹی دیواریں بنائی ہوئی تھیں جو کہ پتھر اور چونہ سے بہت خوبصورت تعمیر کی ہوئی تھیں.تیسری مرتبہ ہم گئے تو وہ دیواریں چھت تک پہونچ چکی تھیں.لیکن ابھی ان پر چھت نہیں ڈالی گئی تھی.چوتھی مرتبہ ہمارے جانے سے قبل اس مسجد پر چھت بھی ڈالی جا چکی تھی اور خدا کے فضل وکرم سے مسجد مکمل ہو چکی تھی، چنانچہ ہم سب نے مل کر وہاں ایک جمعہ بھی پڑھا تھا جو مولا نا عبد المالک خان صاحب نے پڑھایا تھا اس جمعہ کی نماز میں محمد خالد صاحب کرم کے تمام بال بیچے شامل ہوئے تھے.
۴۹ اس بات سے انہیں جتنی خوشی ہوئی تھی اسے میں پورے طور پر بیان کرنے سے قاصر ہوں باوجود اس کے کہ وہاں مقامی لحاظ سے صرف اُن کا ایک ہی گھر احمدی تھا.پھر بھی انہوں نے اچھی بڑی اور خوبصورت مسجد بنائی تھی وہ اکثر ہمیں یہ بتایا کرتے تھے کہ اس مسجد کو میرے سب بیوی بچوں نے مل کر تعمیر کیا ہے.اور اس کی تعمیر کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے خوشی خوشی کیا ہے.انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ ہم نے صرف ایک معمار باہر سے لگایا ہوا تھا.باقی سب کام ہم خود کیا کرتے تھے.اور اینٹیں اور گارا اٹھاتے وقت خدا کے حضور یہ دعائیں کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ہم نے تیرا گھر بنانے کا تہیہ کیا ہے اب تیرا کام یہ ہے کہ آپ اس آبادی کے لئے یہاں ایک ایسی جماعت پیدا کر دے جو تیرے امام کی اطاعت میں تبلیغ اسلام کا فریضہ بجا لانے والی ہو.ان کی اہلیہ محترمہ بھی ایک پاکباز اور راستباز خاتون ہیں وہ گھر میں روڑی کو ٹتے وقت اور مسجد کی تعمیر کے دوسرے کام کرتے وقت قرآن مجید کی آیات تلاوت کیا کرتی تھیں اور خدا کے حضور دعائیں کیا کرتی تھیں اس طرح ان سب نے مل کر جھانسی کے محلہ علی غول میں خدا کا گھر تعمیر کیا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں اس وقت تک لاکھوں کروڑوں مسجدیں بنائی جا چکی ہیں اور آئندہ بھی لاکھوں اور کروڑوں مسجدیں بنائی جائیں گی لیکن جس رنگ میں منشی محمد خالد مرحوم نے جھانسی میں احمدیہ نورانی مسجد تعمیر کی ہے وہ سنت ابراہیمی کا ایک عملی نمونہ ہے.اللہ تعالے اُن کے درجات بلند کرے.آمین ثم آمین به م خان بهادر نواب احمد نواز جنگ بها در حیدر آباد کسی روفات ، بیری) مکرم شیخ محمود الحسن صاحب (۶/۲۹۵ سرور روڈ لاہور چھاؤنی پاکستان ) کا بیان ہے :- حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب احمدی ہونے کے بعد اپنے تمام قریبی رشتہ داروں کو احمدیت کی تبلیغ متواتر کیا کرتے تھے چنانچہ ان کی بڑی بہو فیض النساء بیگم کے نانا حضرت ابراہیم بھائی الہ دین نے احمدیت قبول کی اور صاحب کشف و رڈیا کے مدارج پر فیضیاب ہوئے اس طرح اپنے سمدھی حضرت فاضل بھائی ابراہیم کو بھی احمدیت کی قبولیت کی سعادت نصیب ہوئی، مگر اُن کی دلی خواہش تھی کہ اُن کے تین سوتیلے بھائی جو سب اُن سے چھوٹے تھے وہ بھی اس سعادت سے حصہ روز نامہ الفضل " لاہور ۲۱۰ زنبوک و راشد بمطابق ۲۱ ر ستمبر ۱۹۵۷ء مث.ے •
ام پادیں ان کے سب سے چھوٹے بھائی سیٹھ قاسم علی صاحب اسماعیلی مذہب ترک کر کے اہل حدیث جماعت میں شامل ہو گئے اور آخر وقت تک اس مسلک پر قائم رہے اُن سے بڑے بھائی سیٹھ غلام حسین اسماعیلی عقیدے پر قائم رہے.اُن کے تیسرے بھائی جو عمر کے لحاظ سے دوئم نمبر پر تھے اور جس کا نام احمد علاؤ الدین تھا.کاروباری دنیا میں بہت کامیاب رہے پہلے سرکار انگریزی کی طرف سے خان بہادر اور بعد میں 8.5-0 کے خطابات عطا ہوئے اور عہد عثمانیہ کے آخری دور میں نواب احمد نواز جنگ کے خطاب سے سرفراز ہوئے ان کی طرف حضرت قبلہ سیٹھ صاحب کی ہمیشہ توجہ رہی چنانچہ ایک طرف تو سر آغا خان کی طرف سے وہ ریاست حیدر آباد کی اسماعیلی جماعت کے وزیہ تھے تو دوسری طرف حضرت مصلح موعودؓ سے بے حد عقیدت رکھتے تھے اور تحریک جدید کے مجاہدین میں آخر وقت تک شامل رہے اور جب کبھی انہیں کاروبار میں منافع ہوتا تو ایک خطیر رقم حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کرتے چنانچہ جب لاء میں حضرت مصلح موعود حیدر آباد دکن کی سیاحت پر گئے تو نواب احمد نواز جنگ کو حضور نے میزبانی کا شرف عطا کیا.اس عرصے میں وہ سر کار نظام کے ساتھ کئی بڑی صنعتوں میں ۴۹ فیصد کے تناسب سے حصہ دار بن گئے.اس کاروبار میں میر لائق علی بھی شامل تھے حضرت قبلہ سیٹھ صاحب کے متواتر اصرار پر انہوں نے شہداء سے قبل کسی وقت مخفی بیعت بھی کر لی اور اس کے اعلانیہ اظہار کو بمدہ اخفا میں رکھنے کے لئے یہ عذر کیا کہ چونکہ سرکار نظام کاروبار میں سینٹر پارٹنر ہیں اور احمدیت سے بغض رکھتے ہیں لہذا بیت کے اعلانیہ اظہار سے اُن کے کاروبار کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے لیکن جب ستمبر کہ میں ہندوستان نے حیدر آباد پر قبضہ کر لیا تو نظام حیدر آباد کی سرکار کے جو اه بر جیسے ان صنعتوں میں تھے وہ کانگریسی گورنمنٹ نے ضبط کر کے بر لا اینڈ کو کے ہاتھ فروخت کر دیئے.اُدھر میر لائق علی سیاسی وجوہ کی بنا پر پہلے نظر بند ہوئے اور بعد میں فرار ہو کہ پاکستان آگئے.ہندوستانی حکومت نے اس شیبہ کی بنا پہ کہ میرا لائق علی کے فرار میں نواب صاحب کا ہاتھ ہے انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا.اور کچھ عرصے بعد رہا کر دیا.نواب صاحب اس صدمے سے بہت مضمحل ہوئے اور ۱۹۵۷ء میں انتقال کر گئے مگر ۱۹۴۶ء میں جبکہ نظام حیدر آباد کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا.
ادر نواب صاحب مرحوم کے کاروبار چہ اُن کے یعنی دباؤ کا مزید کوئی اندیشہ نہ تھا حضرت مصلح موعود نے سیٹھ عبد الله الا دین صاحب کو لکھا." اس رمضان میں خصوصیت سے آپ کے لئے اور احمد بھائی کے لئے دعائیں کرتا رہا ہوں....احمد بھائی کے لئے اب مناسب تو یہی ہے کہ جب وہ نظام والا بہت ٹوٹ گیا ہے تو اب وہ مخفی بیعت کو ترک کر کے ظاہر ہو جائیں آخر اللہ تعالیٰ نے ان کے ہمجولی والے ثبت کو تو توڑ دیا ہے اب تو اُن کو خدا کی راہ سے ہی عزت ملے گی اور جس طرح ان کے اندر اخلاص پایا جاتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ یہ قدم اٹھائیں تو گو انہیں مزید قربانیاں کرنی پڑیں گی مگر دین دونیا کی برکات بھی بہت ملیں گی مگر چونکہ اُن کے دل پر دنیا کی محبت کا رنگ ابھی ہے اس لئے میں زور نہیں دیا کہ رہا سہا تعلق بھی کمزور نہ پڑ جائے اور اللہ تعالے سے ہی دعا کرتا ہوں کہ وہ اُن کو قیمت بخشے والسلام.خاکسار مرزا محمود احمد نواب صاحب کے مخفی بیعت کے بارے میں حال ہی میں چو ہدری صاحب دسر محمد ظفراللہ خا نصاب سے لاہور میں گفتگو ہوئی تو انہوں نے فرمایا :- مجھے نواب صاحب ریعنی قبلہ سیٹھ صاحب کے بھائی ) کی متقی بیعت کا علم تھا میں نے اُن سے کہا کہ آپ اپنی بیعت کا اعلانیہ اظہار کیوں نہیں کرتے تو نواب صاحب نے جواب دیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اگر اس کی نگاہ میں میرا ایسا کرنا بہتر ہے تو مجھے ہمت دے اس پر میں نے پوچھا کہ جب آپ فراخی رزق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں تو کیا اس وقت بھی یہ شرط لگاتے ہیں کہ اسے اللہ اگر تو میرے لئے فراخی کہ رزق کو بہتر جانتا ہے تو فراخی عطا کر انہوں نے کہا نہیں اس پر اس موقعہ پر تو میں بلا شرط دعا کرتا ہوں یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے ؟
۴۱۲ فصل چهارم ۱۳۳۳ پیش کے بعض متفرق مگر اہم واقت ۶۱۹۵۴ خدا تعالیٰ کے پاک وعدوں کے مطابق ۱۹۵۴ء خاندان حضرت مسیح موعود میں اضافہ سال میں خاندانی حضرت مسیح موعود می توانی اور اضافے کا موجب ہوا اور بوستان احمد میں اس سال دو نئے پھول کھلے.یعنی : (1) امته العلیم صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب رولادت ۲۵ اکتوبر ۱۹۹۴ یوالی (۲) مرزا طبیب احمد صاحب این صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب رولادت ۱۶ دسمبر ۹۵ ای اله سندھ کے ایک احمدی دوست فضل اللى صاحب ارشد نے حج فت ر خدام الاحمد تیم سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی کی خدمت میں تجویز بھجوائی کہ مجلس تخدام الاحمدیہ مرزہ یہ ایک فنڈ قائم کرے جس میں زیادہ سے زیادہ خدام شامل ہوں جو ایک روپیہ سالانہ چندہ ادا کریں.اس طرح جو رقم جمع ہو اس سے ہر سال کم از کم ایک احمدی کو حج بیت اللہ کرایا جائے.حضور نے اس تجویز پر اظہار خوشنودی کیا اور فرمایا کہ فی الحال یہ تحریک کی جائے کہ جو شخص چھ سو روپیہ خود ادا کرے اسے اس فنڈ سے مزید چھے سو روپے دیئے جائیں گے تاکہ وہ حج کر کے آسکے.اس ارشاد مبارک کی تعمیل میں سال ۱۹۵ ء کے شروع میں حج فنڈ مجلس خدام الاحمدیہ کی تقرامانت کھول دی گئی شیشے اس مبارک تحریک کی بدولت متعدد احمدیوں کو فریضہ حج بجالانے کی توفیق ملی ہے ے اخبار "بدر" کا دیان ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۸ ء ص - الفضل " لاہور ۲۹ اکتوبر ۱۹۵۴ء ما " الفضل" ۳۱ دسمبر ۹۵ صاب: " الفضل " صلح ۱۳۳۳ ارامش (۸ جنوری ۱۹۹۳ء) مت ٣ ه که مثلا وا، ملک عزیز محمد صاحب ریٹائر ڈ ڈرافٹمیں پورن نگر سیالکوٹ (۹۵۵ ).) باسٹر عبد الرحمن صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ ننکانہ (۱۹۵۷ء) رباتی اگلے متصور ہے )
۱۳ ۲۷ گورنر جنرل پاکستان کو ولندیزی ترجمہ و سال بر / جنوری به کوسیدنا تر آن کا محقہ حضرت مصلح موعود کی طرف سے جماعت احمدیہ کے ایک وقد نے مکرم مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کی قیادت میں ولندینہ کی ترجمہ قرآن کا ایک نعتہ ہز ایکسی لینسی گورنر جنرل پاکستان جناب غلام محمد صاحب کی خدمت میں پیش کیا.وفد صا حبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے علاوہ مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے ایڈیٹر تفسیر القرآن انگریزی - مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا اور مکرم مولوی عبدالمالک خان صاحب مبلغ سلسلہ پشتمل تھا.یہ ترجمہ قرآن جماعت احمدیہ کی طرف سے 19 ء میں ہالینڈ کے دارلحکومت ہیگ سے شائع ہوا تھا بسلسلہ کے ایک مخالف ہفت روزہ " المنبر نے اس واقعہ پر حسب ذیل نوٹ لکھا :.p پہلا ضابطہ قیام و ارتقاء یہ ہے وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأرض پردہ چیز جو انسانیت کے لئے نفع رساں ہو اسے زمین پر قیام وبقاء عطا ہوتا ہے.رحیم و رحمان کی رحمت کا ہوش اور دوام متقاضی ہے کہ انسانیت بڑھے پھولے اور تماقی پائے.اسی مقصد کیلئے کائنات میں نفع رسانی" کا عنصر سب پر غالب رکھا گیا ہے.اور جس چیز میں یہ جو ہر جب تک موجود رہتا ہے.اس کی حفاظت عنا صر فطرت کے ذمہ بطور فرض عائد ہے.دوخت کے پتے خواہ کانٹے دار درختوں کے ہوں یا پھل دار اشجار کے جب تک زہریلی گیسوں کو جذب کرتے اور صحت اور ہوا باہر پھینکتے رہتے ہیں.درخت کی جڑ انہیں غذا بہم پہنچاتی رہتی ہے لیکن جو نہی ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے.ٹہنیاں انہیں اپنے جسم سے کاٹ دیتی ہیں اور وہ ایندھن کی شکل بقیه حاشید : (۳) ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل سابق مبلغ اٹلی - مغربی افریقہ.(سم) قریشی محمد مطیع اللہ صاحب آف سیالکوٹ (۱۹۵۰) (۵) نذیر احمد صاحب کلا تھے مرچنٹ گولبازار ربوہ (۱۹۶۴) ) چوہدری محمد رمضان صاحب برادر چوہدری محمدحسین صاحب موذن مسجد مبارک دیوه (۱۹۶۷) در ساله خالد فردری شاء آخری سرورق ہی عه مه چون شام آخری سرورق اکتوبر ذات ) المصلح" کراچی ۱۲۰ صلح ۱۳۳۳ ش / جنوری ۹۵۳اء صل - له سورة الرعد : ۱۸
तात میں بھاڑوں اور چولہوں میں ڈال دیئے جاتے ہیں.قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جو ہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جد وجہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں.یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی نہ بانوں میں پیش کرتے ہیں.تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں.ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو.اسلام کو امن وسلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں...یہ امر قابل اعتراف ہے کہ " فَلْيُبلغ الشَّاهِدُ الْغَائِب.کا فرض جو امت محمدیہ پر عاید کیا گیا تھا آنت کی کوتاہی کے باعث معطل یا کم از کم نیم معتقل تھا.اس باطل گروہ کے ذریعہ اسلام اور صاحب اسلام کا رسمی تعارف اور بعض حصوں میں تفصیلی تعارف ان کے ذریعہ کہ ایا جا رہا ہے اور جب تک کوئی صحیح العقیدہ گر وہ آگے بڑھے کہ کرہ ارضی کے تمام باشندوں میں اسلام کی دعوت کا بیڑہ نہیں اٹھالیتا، عین ممکن ہے کہ صرف اسی کام کے لئے اس جماعت کو نعمت زندگی عطا کی جائے.غیر مسلم ممالک میں قرآنی تراجم اور اسلامی تبلیغ کا کام صرف اسی اصول " نفع رسانی کی وجہ سے قادیانیت کے بقاء اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے ظاہری حیثیت سے بھی اس کی وجہ سے قادیانیوں کی ساکھ قائم ہے.ایک عبرت انگیز واقعہ خود ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوا بر۹۵ ارومی جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ میں علم اور اسلامی مسائل سے دل بہلا رہے تھے اور تمام مسلم جائتیں قادیانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی جد وجہد میں مصروف تھیں.قادیانی عین انہی دنوں ڈچ اور بعض دوسری غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ قرآن کو مکمل کر چکے تھے.اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر نیزلی پاکستان مسٹر غلام محمد اور جسٹس منیر کی خدمت میں یہ تراجم پیش کئے.گویا وہ بزبانِ حال و قال یہ کہ رہے تھے کہ ہم ہیں وہ غیر مسلم اور خارج از ملت اسلامیر جماعت جو اس وقت جبکہ ہمیں آپ لوگ کافر قرار دینے کے لئے پر تول رہے ہیں.ہم غیر مسلموں کے سامنے قرآن اُن کی مادری زبان میں پیش کر رہے ہیں.J غور فرمایئے ان لوگوں کا تاثر کیا ہوگا ؟ اور قادیانیوں کا یہ کام ان کی زندگی اور ترقی میں کسی حد تک ممد و معاون ہے ا سکے لے ہفت روزہ " المنبر لائل پور ۲ ر مار پی ء منا
مسیر احمد یہ دارالذکر گاہور کا عہ کے بعد لاہور میں جماعت کی تعداد ترقی کرگئی سنگ بنیاد ہوئی تو حضرت مصلح موعود نے تحریک فرمائی کہ اب اور مسجد احمدیه بیرون دہلی دروازه با لکلی ناکافی ثابت یہاں کی مسجد ان کی ضرورت کے لئے کافی نہیں.انہیں کوئی اور مسجد بنانی چاہئیے.اس تحریک مخلصین جماعت نے جوش اور اخلاص سے لبیک کہا اور بہت جلد ۲۲ ہزار کے وعدے ہوئے اور وصولی بھی تقریبا ۱۶ ۱۷ ہزار کی ہوگئی لیکن جماعت زمین نہ خرید سکی اور معاملہ التواء میں پڑھتا چلا گیا.جس پر حضور نے ۱۵ جنوری ۱۹۵۷ء کو رتن باغ لاہور میں خاص اسی غرض سے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور لاہور کے دوستوں کو نصیحت فرمائی کہ " وہ جلدی مسجد بنائیں.اس کے لئے تم زیادہ انتظار نہ کرو.معمولی چار دیواری بناڈ اور نماز پڑھنی شروع کر دو نیز فرمایا." یہ نئی مسجد بھی کسی وقت تمہارے لئے تنگ ہو جائے گی.اس لئے تم جامع مسجد کسی کو نہ کہو تمہیں کیا معلوم کہ خدا تعالے یہاں احمدیت کو کتنی ترقی دینا چاہتا ہے ؟.فرض کرو تم دو یا چار کنال میں جامع مسجد بنا دو اور لاہور کے دس لاکھ آدمیوں میں سے دو لاکھ احمدی ہو جائیں تو اسمیں جمعہ کی نماز کہاں پڑھ سکتے ہیں ؟.ان کے لئے تو پچاس ایکڑ میں مسجد بنانی پڑے گی.پس ابھی کوئی نام نہ رکھو.میں اپنی ضروریات کے لئے ایک نئی مسجد بنا لو یہ حضور کے اس اثر انگیز خطبے نے جماعت لاہور کے اندر ایک نئی روح پھونک دی اور خدا کے فضل سے گڑھی شاہو میں چھ کنال زمین کا ایک مناسب اور با موقعہ قطعہ بھی خرید لیا گیا.سنگ بنیاد کے لئے حضور تے ۲۲ فروری ۱۹۵۴ء کا دن مقر فرمایا.مجلس عاملہ خدام ان حمت لاہو ں نے بنیاد کھودی اور سڑک سے سٹیج تک اور سٹیج سے جائے بنیاد تک ایک راستہ بنایا جو قریبا پانچ سوفٹ لمبا تھا.نیز دریوں.شامیانوں اور قناتوں کا انتظام کیا اور سڑک سے جائے بنیاد تک معروف اور مخلص خدام دو رویہ قطار میں کھڑے تھے کہ حضرت مصلح موعود رتن باغ سے دس بجے تشریف لائے.حضور نے پہلی زیر تجویز جگہ کی بجائے ایک دوسری جگہ بنیاد کیلئے پسند فرمائی اور وہیں حضور نے اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا اور حاضرین ه "بدر" قادیان ۱۴ مارچ ۱۹۵۷ ه - - لا ہور تاریخ احمدیت مشتی از مکرم شیخ عبد القادر صاحب
الم سمیت دعا فرمائی بینه یہ وہ ہی مسجد ہے جواب علامہ اقبال روڈ پر دارالذکر کے نام سے مشہور ہے.مسجد دارالذکر کی بنیاد محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور کے عہد امارت میں رکھی گئی مگر اس کی تکمیل چو ہدری اسد اللہ خان صاحب کے زمانہ امارت میں ہوئی کیا چوہدری صاب نے چندہ کی فراہمی کے لئے ایک مسجد کمیٹی بنائی جس نے مختلف حلقوں میں دورے کر کے چندہ فراہم کیا.اور نہ صرف مختلف مواقع پر سرکردہ احباب کو برادر است تحریک کی بلکہ اپنے خطبات میں متواتر اور مسلسل گپر زور طریقے سے احباب جماعت کو اس جماعتی فریضہ کی طرف توجہ دلائی.مولانا شیخ عبد القادر صاحب کی کتاب " لاہور تاریخ احمدیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فروری ۱۹۶۶ء تک تین لاکھ روپے اس عالی شان مسجد کی تعمیر پر خرچ ہوئے.جلالة الملک شاہ سعود جماعت احمدیہ کراچی جاعت احمدیہ کراچی کے ایک دفد نے ۵ ر ا پریل شاہ کو شاہ سعود ابن عبد العزیز کے ایک وفد کی ملاقات حکمران سعودی عرب سے ملاقات کر کے جماعت کی طرف سے ان کی آمد پر مبارکباد دی شاہ سعود نے جماعت کے دفد سے مل کہ اظہار خوشنودی فرمایا.وند مولوی عبد المالک خانصاحب مبلغ کراچی جنرل سیکرٹری صاحب جماعت کراچی.مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ وسیکرٹری تبلیغ کراچی اور مولوی نور الحق صاحب انور سابق نائب وكيل التبشیر پشتمل تھا.جب شاہ موصوف کو بتایا گیا کہ مولوی نور الحق صاحب انور فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے لئے امریکہ جا رہے ہیں تو شاہ موصوف نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی کامیابی کے لئے دعا کی جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلسلہ کی کتب کا ایک سیٹ بھی پیش کیا گیا ہے ربوہ میں بجلی کی رو کا افتتاح ورجون شاہ کو ربوہ میں نما ز عشاء کے بعد بجلی کی کمونٹ کا افتتاح ہوا.آئی.سی ڈی کمپنی لمٹیڈ ربوہ کے زیر انتظام مسجد مبارک کے ہفت روزہ "بدر" قادیان ۱۴ مئی ۱۹۵۳ و به سے آپ مئی ۱۹۵۷ ء میں لاہور کے امیر مقرر ہوئے.سے " الفضل ۲۰ را پریل سه و "بدر" قادیان مه رمئی ۱۹۵۳ و مش - ۱۹۵۴ イ
کی پیشانی اور بڑے دروازہ پر مختلف رنگوں کے بلب لگائے گئے تھے اور شارخ صدر پر کھمبوں کے ساتھ ٹیو ہیں نصب تھیں.جو نہی بجلی کی رو آئی.مسجد مبارک اور شارع صدر جگمگا اُٹھے اور ربوہ بقعہ نور بن گیا.اس موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے کثیر احباب سمیت دعا فرمائی ہے ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد کوہ ہمالیہ کی دوسری ایک احمدی کوہ پیما کی کامیابی بلندتری اور انتہائی دشوار گدار و یا این کاروانی چوٹی گاڑوں آسٹن MOUNT GOD WIN AUSTIN (K.2) ہے.اس چوٹی کو سہ سے کمر کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں جو اس سال بار آور ہوئیں اور اس جولائی کو اسے ترکہ لیا گیا ہے اس کامیاب نہم کا سہرا جس اطالوی ٹیم کے سر رہا اس کے ایک اہم ممبر پاکستانی کوہ پیما اور مخلص احمدی جوان کرنل محمد عطاء اللہ صاحب بھی تھے نه روزنامه الفضل " لاہور ۱۳ ۱۷ جون ۲۰۱۵.سے " مغربی پاکستان " لاہور ۵ ر ا گست ۱۹۵۳ مل.ے.کرنل محمد عطاء اللہ صاحب 192 ء میں پیدا ہوئے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے پنجاب میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم لاہور میں حاصل کی 1917ء میں ایم بی بی ایس کا امتحان میڈیکل کالج لاہور سے امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور مزید تعلیم انگلینڈ میں حاصل کی جہاں سے دیگر اعلیٰ ڈگریوں کے علاوہ آنکھ کے ماہر بن کر لاہور تشریف لائے برا ۱۹۳ ء میں آپ کو نوچ میں کمیشن ملا.آپ میڈیکل کور کے افسر ہونے کے علاوہ ڈیرہ اسمعیل خان سہری پور اور پشاور میں سپرنٹنڈنٹ جیل بھی رہ چکے تھے.دوسری جنگ عظیم میں سینکڑوں افسروں میں سے منتخب کرنے کے بعد آپ کو اپنی قابلیت اور حسین انتظام کی وجہ سے ہمیں فیلڈ ہسپتال کا کمانڈنگ افسر بنا کر ایران کے محاذ پر بھیجا گیا.اس محاذ کے اعلیٰ حکام آپ کی غیر معمولی قابلیت اور حسن انتظام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ہر مشکل کام میں آپ کی خدمات جلیلہ سے فائدہ اٹھایا گیا چنا نچو مصیبت زدگان کے انخلاء کا کام آپ کے سپرد کیا گیا جسے آپ نے بطریق احسن انجام دیا.زاں بعد جب ایران میں خوراک کے مسئلہ نے نازک صورت اختیار کی تو آپ کو ایرانی محکمہ خوراک کا انچارج بطور
مالم کئی سال سے یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ جامعتہ المبشرین کی پختہ عمارت کی نباید در نی ریزی درسی و کارت مرکز میں جامعہ دوسری گاہوں کی المبشرین جیسی اہم درس گاہ کی پختہ عمارت بھی تعمیر ہے.اس سال اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب مہیا فرما دیئے.مکرم مولوی ابو العطاء صاحب پرنسپل جامعة المبشرین اور دیگر اساتذہ جامعہ کی تحریک پر جماعت کے کئی مخیر دوستوں نے اس کے لئے چندہ دیا اور تحریک جدید کی نگرانی میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے مغربی جانب بنیادوں کی کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا.سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے سفر کراچی دسندھ پر جانے سے ایک روز قبل در احسان سرحون کو تین بنیادی اینٹوں پر دعا فرما دی اور ۲۵ ظہور / اگست ان کو حضرت مولوی غلام رسول ۶۱۹۵۴ صاحب نے یہ تینوں مبارک اینٹیں بطور نمیاد رکھیں.پھر ایک ایک اینٹ مندرجہ ذیل بزرگوں کے ہاتھوں رکھی گئی :- حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظرا علی.حضرت مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم و تربیت بقیه حاشیه : حکومت کے مشیر اور وزیر کے مقرر کیا گیا ہے.آپ نے اپنے محسن انتظام سے ملک کو قحط کے خطرہ سے بچا لیا.ان خدمات کے صلہ میں حکومت نے آپ کو اور بی.اسی E.0.8 ) کا خطاب دیا تقسیم ہند کے بعد کشمیر کے محاذ پر آپ کو ڈائرکٹر آف میڈیکل سروستر مقرر کیا گیا.سواء میں ہمالیہ کی دوسرے نمبر کی اونچی چوٹی پر چڑھائی کے لئے جو امریکی فہم گئی تھی.آپ اس کے ساتھ بھی تھے.مگر یہ فہم ناکام واپس آئی.1920ء میں آپ اطالوی مہم میں شریک ہوئے اور بفضلہ تعالیٰ کامیاب و بامراد واپس آئے.نئی دہلی کے مشہور اخبار سٹیٹمن کے ساتھی ایڈیٹر مسٹر آئین سٹیفنز نے اپنی کتاب O.B.HORNED MOON میں موصوف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ :.آپ ذرا اندازہ کیجئے.ایک چھوٹے قد گٹھے ہوئے جسم کے چاق و چوبند انسان کا جس کے سر سے بال قدرے غائب عمدہ گیند نما پیشانی.دونوں آنکھوں کے درمیان کافی فاصلہ مناسب خد و خال - حاضر الخیالی کا مجسمہ ٹھوڑی پر خشخشی داڑھی.یہ لینن کی شکل ہے جیسا کہ اس کی تصاویر سے ظاہر ہے.یہی تفصیل کرنل عطاء اللہ پی.اے ایم سی کی ہے جن کے ساتھ میں نے آزاد کشمیر کا !
وام حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب حضرت مولوی علی احمد صاحب بھاگلپوری ایم.اسے پروفیسر جامعہ المبشرين - مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعة المبشرين.بعد ازاں تمام حاضرین نے دعا کی ہے لجامعة جامعة المبشمرین کی یہ سختہ عمارت نہایت تیزی سے مکمل کی گئی اور اس عمارت میں قریبا سات سال تک تعلیم و تعلیم کا سلسلہ جاری رہا.ازاں بعد سید داؤ داحمد صاحب پرنسپل جامعه که کی کوشش سے جب جامعہ کی موجودہ شاندار عمارت تیار ہوئی اور ۳ دسمبر 19ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے دست مبارک سے اس کا افتتاح ہوا تو جامعہ کی پہلی عمارت دارالاقامہ (ہوسٹل کے طور پر استعمال ہونے لگی.لیکن یہ عمارت اب ہوسٹل کی ضروریات کے لئے بھی منتفی نہ رہی تھی اس لئے سید داؤ واحد صاحب پرنسپل جامعہ نے اس کی جگہ جدید طرز کے ایک نہایت وسیع ہوسٹل کی تعمیر شروع کروادی جو ان کی وفات (۱۲۵/۲۴ اپریل ۹۷ روم کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچی کہیے بقیه حاشیه: بہت سا سفر کیا ہے.وہ محکمانہ دورے پر تھے.کشمیر کی جنگ کے دوران میں انہوں نے اپنا بہت سا وقت کشمیر میں صرف کیا تھا.ہسپتالوں کا انتظام ، ایمبولینسیں بیماریا.سویلین، عوام ، زخمی رضا کاروں کے لئے طبی انتظام میں منہمک رہتے.کرنل عطاء اللہ صاحب نہایت قوی دل کے مالک اور وسیع النظر جرمن نسل کے انسانوں کی طرح گھٹے ہوئے جسم والے ہیں.جہاں تک یکیں نے دیکھا ان کا اپنے ماتحت افسروں سے برتاؤ ضبط اور انتظام کو قائم رکھتے ہوئے نہایت ہمدردانہ تھا.چونکہ وہ کشمیر کے ساتھ بطور ڈاکٹر نہ کہ سیاست دان ابتداء سے ہی وابستہ رہے ہیں اس لئے آزاد کشمیر کے سفر کے دوران میں ان کے ساتھ تبادلہ خیالات کرنے سے مجھے اپنے قائم کردہ تازہ تازہ نقطہ ہائے نگاہ کو پرکھنے کا کافی موقعہ مل گیا.(ترجمہ) (روز نامہ الفضل کی جور از ظهور ۱۳۳۳ بیش اگست ۱۹۵۳ء مش ) "الفضل" ۲۹ اگست ۲۶۱۹۵۴ شہ یادر ہے کہ یکم جولائی کاء کو سید نا حضرت مصلح موعود نے فیصلہ صادر فرمایا کہ جامعہ ادویہ کو جامعہ المشریک میں مدغم کر کے ایک ادارہ بنا دیا جائے حضور نے سید داؤ د احمد صاحب کو اس نے جامعہ احمدیہ کا یہ پرنسپل مقرر فرمایا.سے تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو سیرت داؤد " ما تامل ناشر الجميعة العلمية بالجامعة الاحمديد برلوه
كوستيدنا تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی نئی اور ان کوستی الاصليه ، رفیق الموعود کے دست مبارک سے تعلیم الاسلام کا میچ ریبوں کی عمارت کا افتتاح نئی عمارت کا افتتاح ہوا.اس موقعہ پر حضور نے ایک نہایت ہی بیمه و قار تقریب میں کالج کے طلباء سے ڈیڑھ گھنٹہ تک ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا جس میں انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور اس طرح اپنے کالج کی اسلامی ہدایات برقرار رکھنے کی طرف نہایت موثر پیرائے میں توجہ دلائی اور نصیحت فرمائی کہ اگر وہ اسلامی ضابطہ اخلاق کو ابو مرقسم کے فرقہ وارانہ اختلافات سے لیا ہے، اپنا شعار بنا لیں اور اپنی زندگیوں کو اسلامی رنگ میں رنگین کر لیں تو وہ صحیح معنوں میں ملک و قوم کے معمار کہلانے کے مستحق ہو جائیں گے اور اُن کا نفع رساں وجود قومی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بر پا کرنے کا موجب بن جائے گا.اس ضمن میں حضور نے علم کی تعریف حصول علم کے ذرائع اور پھر قول و فعل میں مطابقت کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور قرآن کریم کے نقطہ نگاہ سے علم کے ہر شعبہ کی اہمیت کو نہایت وضاحت سے بیان فرمایا.اس تقریب میں اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ مصدر تخمین احمدیہ کے ناظر اور تحریک جدید کے وکلاء صاحیان اسلسلہ کے سب مرکزی تعلیمی اداروں کے ممیران اسٹاف اور بعض دیگر سیقہ جات کے انچارج بھی تشریف لائے ہوئے تھے علاوہ ازیں گورنمنٹ کالج سرگودھا اور اسلامیہ کالج چنیوٹ کے پرنسپل اور سٹاف کے بعض دیگر ممبران نے بھی شرکت فرمائی.خطاب کے بعد حضور نے کالج کے جملہ طلباء اور باہر سے آئے ہوئے بعض احباب کو شرف مصافحہ بخشا پھر تعلیم الاسلام کالج ہوٹل میں جہانوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا تناول فرمایا اور پھر واپس تشریف لے گئے یہ راس مبارک تقریب کے مفصل واقعات " تاریخ احمدیت جلد نا صفحه ۱۱۴ - ۱۱۸ میں آچکے ہیں.) ۱۹۵۲ء / ۱۳۳۳ ش میں جماعت احمدیہ کے نشتوں بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں اسان اور راجیہ بیان اور مسلمانوں کی خدمات نے کا نور پھیلانے بیجا لانے کی کوششیں برا یہ جاری رکھیں اور اس کے بہت شاندار نتائج پیدا ہوئے.اس سلسلہ میں بعض مشنوں کے چند ضروری واقعات اور کوائف کا تذکرہ ضروری ہے ۱۹۵۵ له الفضل امراءة.روداد" الفضل اور مبرا رفتم و حضرت امیر المومنین کی تقریر کا منتن).
تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی افتتاحی تقریب کے موقع پرگروپ فوٹو
حضرت مصلح موعود کا لج اسٹاف سے مصافحہ فرما رہے ہیں
اسلم انڈونیشیا مشن : مغربی جیادا کا گاؤں بانس اور MANIS LOR چرمی بون شہر کے قریب واقع ہے.اس گاؤں میں تبلیغ کی ابتداد ایک ایسے مخلص احمدی کے ذریعہ ہوئی جو باہر کے علاقہ سے متعین ہو کہ وہاں آیا تھا.پہلے پہل جب ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہوئی تو اسے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.مگر احمدیوں کے استقلال کو دیکھ کر کئی سعید الفطرت احمدی ہو گئے اور بالآختہ اس سال چند دنوں میں ہی یہ پورا گاؤں آغوش احمدیت میں آگیا.اس وقت گاڑی میں لینے والے بالغ افراد کی تعداد ہم تھی.اس گاؤں کی تبلیغ میں جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے مقامی مبلغ جناب حاجی بصری حسن صاحب کی مخلصانہ کوششوں کا بہت دخل تھائیے مشرقی افریقہ مشن : شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ و امیر جماعت احمدیہ مشرقی افریقہ نے سلطان زنجبار سید خلیفہ بن بارود کی خدمت میں اُن کی ۷۵ دیں یوم پیدائش پر مبارکباد اور نیک جذبات کا تار دیا جس کا شکریہ انہوں نے اپنے ایک بہتی پیغام میں ادا کیا.علاوہ ازیں مبلغ سلسلہ مولادی جلال الدین صاحب قمر اور چوہدری مختار احمد صاحب ای از پرمشتمل ایک وفد نے ان کو سواحیلی ترجمۃ القرآن" کا تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے نہایت مسرت کے ساتھ قبول کیا ہے یامنشن دی مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن ایسٹ افریقہ (THE MUSLIM (WELFARE ASSOCIATION EAST AFRICA مشرقی افریقہ کے مسلمانوں کی ایک مشہور سو سائٹی کا نام ہے جس کے سرپرست اُن دنوں اسماعیلی فرقہ کے مشہور لیڈر سر آغا خاں تھے.اس سوسائٹی کا ایک وند خیرسگالی ۲۳ احسان جون کو لیگوس (نائیجیریا، میں پہنچا وفد پانچ ارکان مشتمل تھا اور اس کے لیڈر مسٹر عبد الکریم می میٹر آن دار السلام تھے.شام کو لیگوس کے ممتاز مسلمانوں کا ایک نمائندہ اجلاس منعقد ہوا جس میں مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی امیر جماعت ہاتے احمد یہ نائیجیریا نے بھی شرکت کی.اجلاس کا افتتاح لیگوس ٹاؤن کو نسل کے ایک ممبر نے کیا.الحاج اسے کے لاگوڈا A.K.LAGANDA له الفضل و تبوك ۳۳ لا مش / ۹ رستمیر ١٩٥ء من مضمون حافظ قدرت اللہ صاحب سیکرٹری اللہ احمدیہ مسلم مشن انڈونیشیا.الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۹۲ء/ اخاء ۱۳۳۳ پیش حد
۴۲۳ سیکرٹری مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن لیگوس نائیجیریا نے مسلمانوں کی زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے وفد کو بتایا کہ :.ہ ہمارے آباء و اجداد تعلیم سے بالکل بے بہرہ تھے وہ صرف نام کے مسلمان تھے.اسلام کی حقیقت اور فلاسفی کا انہیں ذرہ بھر بھی علم نہ تھا اگر احمدیت ہمارے ملک میں داخل نہ ہوتی تو مکھی تھا کہ ہم کبھی کے عیسائی بن چکے ہوتے اور آج نائیجیریا میں اسلام کا نام و نشان نہ ملتا لیکن جب سے احمدیت نے ہمارے ملک میں پاؤں رکھا ہے نہ صرف یہ کہ ہمیں عیسائیت کے پنجہ سے نجات ملی بلکہ ہم نے زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی اور اسی کے طفیل آج آپ لوگ چند ایک پڑھے لکھے مسلمانوں سے مل سکتے ہیں.جماعت احمدیہ ہی ایک ایسی جماعت ہے جس کے نائیجیریا میں سب سے پہلا سکول جاری کیا " ایک اور غیر احمدی مقرر نے نائیجیر یا پولیس کا ذکر کرتے ہوئے وفد کو بتایا کہ اگر چہ نائیجیریا میں مسلمان اکثریت میں نہیں لیکن حال یہ ہے کہ آج تک اُن میں سے کوئی بھی اس قابل نہ ہوا کہ ایک مسلمان اخبار جاری کرے جس کے ذریعے ہماری اولادیں اسلام کی صحیح روح کو سمجھ سکیں اگر کسی کو توفیق ملی ہے تو وہ صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس نے ایک اخبار THE TRUTH جاری کر رکھا ہے.اگلے روز یہ وفد مسلم کانگریں آف نائیجیریا کی دعوت پہ نائیجیریا کے سب سے بڑے شہر ابادان میں گیا.کانگریس کے جنرل سیکرٹری نے بذریعہ تار مکرم سیفی صاحب کو شمولیت کی دعوت دی جس پر آپ بھی تشریف لے گئے.اسی روز شام کے دس ہزار مسلمانوں کا ایک جلسہ عام منعقد ہوا جس میں لیگوس کے مسلم زعماء نے خطاب کیا.مکرم سیفی صاحب کی دوسری تقریر تھی آپ نے وفد کا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا کہ وفد کی آمد ہمارے لئے ایک سبق ہے اور وہ یہ کہ مسلمان خواہ دنیا کے کسی خطہ سے تعلق رکھیں خواہ مختلف زبانیں بولنے والے ہوں یا مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہوں جب تک وہ مسلمان ہیں سب کے سب ایک ہیں کیونکہ ہمارا خدا ایک ہمارا رسول ایک اور ہماری کتاب ایک ہے.آپ کی تقریر از حد پسند کی گئی اور صدر جلسہ نے بھی اسے خوب سراہا اور کم از کم چار دفعہ حاضرین کو بتایا کہ جناب سیفی صاحب چونکہ مشتری ہیں اس لئے اگر دوسرے مقرر ان جیسی عمدہ تقریر نہ بھی کر سکیں تو تعجب کی بات نہیں.اس یاد گار تقریر کے بعد چند اور تقاریر ہوئیں اور سات بجے شب کے قریب جلسہ
۴۲۳ اختتام پذیر ہوا اور ممبران و قد نائیجیریا میں سہ روزہ قیام کے بعد گولڈ کوسٹ (فانا) کی طرف روانہ ہو گیا + مکرم نسیم سیفی صاحب اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :.احمد یہ جماعت کو مغربی افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی عظیم الشان کامیابی نصیب ہوئی ہے کہ اس نے دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں بھی ایک امید کی شعاع پیدا کر دی ہے ان کے بعض افراد کے دل میں بھی یہ جذبہ موجزن ہو گیا ہے کہ مغربی افریقہ میں اسلام کی چلتی گاڑی کو ہاتھ لگا ہی دینا چاہیئے.چنانچہ اس جذبہ کے ماتحت مشرقی افریقہ کے پاکستانی اور مہندوستانی مسلمانوں کا ایک وفد سیٹھ کریم جی کی قیادت میں نائیجیریا پہنچا.اگرچہ ٹروتھ " TRUTH جمعہ کے روز شائع ہوتا تھا لیکن ان کی آمد کے پیش نظر اور ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے میں نے اس ہفتہ پرچہ بدہ ہی کے روز شائع کر دیا.کیونکہ وہ اس دن لیگوس پہنچ رہے تھے.کثیر تعداد میں مسلمان ہوائی اور پر پہنچے ہوئے تھے کہیں بھی اس استقبال میں کسی سے پیچھے نہ تھا.مجھے تو ہمیشہ یہ خواہش رہی تھی کہ دوسرے مسلمان بھی آگے آئیں اور جس قدر بھی اور جیسی رنگ میں بھی ممکن ہو اسلام کی خدمت کر کے احمدیہ جماعت کا ہاتھ بٹائیں.چنانچہ میں نے اس وفد کے لیگوس پہنچنے پر ان کے استقبال کے لئے اپنا اخبار ٹروتھ جس کے پہلے صفحہ کی سب سے بڑی خبر اس وفد کی آمد تھی پیش کیا.و قد ہوائی اڈہ سے سیدھا میگوس کے مقامی حاکم DBA ADELE I کے محل پہنچا، وہاں ایک چھوٹی سی تقریب منعقد کی گئی اور اس کے بعد انہیں ان کی جائے رہائش پر لے جایا گیا.شام کے وقت لیگوس کے تمام مفتقد مسلمان ان سے ملاقات کے لئے مدعو تھے محسن اتفاق دیکھئے کہ جب لیگوس کے مسلمانوں کی طرف سے انہیں ایڈریس (غیر رسمی، پیش کیا جانے لگا یا یوں کہئے کہ جب لگوس کے مسلمانوں کا تعارف کرایا جانے لگا تو مقرر نے نصف گھنٹہ تک احمد یہ جماعت ہی کی مساعی کو پیش کیا.انہوں نے بتایا کہ کسی طرح احمد یہ جماعت کے نائیجیریا میں قیام سے قبل عام مسلمانوں کی سماجی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی جارہی تھی.اپنے آپ کو مسلمان کہلانا کاری دارد والا معاملہ تھا کیونکہ نے روزنامہ الفضل ریوه ٣ اخاء ١٣٣٣ میش ۳ اکتوبر ۲۳۶۱۹۹۶ سے غیر مطبوعہ سوانح -.
۴۲۴ مسلمان کہلا کر پھر کوئی شخص معاشرہ میں عزت کی نگاہ سے نہ دیکھا جا سکتا تھا حتی کہ اگر کوئی شخص رومی ٹوپی پہن کر باہر نکلتا تھا تو سب لوگوں کی کیفیت یہ رہتی تھی کہ وہ اس پر پتھراؤ کرنے کے درپے نظر آتے تھے اس منقرر نے (ان کا نام مسٹر اے کے لاگوڈا تھا ، وضاحت کے ساتھ بنایا کہ جب سے احمدیہ جماعت نے کام شروع کیا ہے اور سکولوں کا آغاز کیا ہے نائیجیریا کے مسلمانوں کی حالت بالکل بدل گئی ہے.اور اب تو وہ اللہ کے فضل سے گردن اونچی کر کے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور یہ کہ وہ وقت قریب ہے جب اسلام دنیا میں اپنی جگہ پیدا کر کے رہے گا.اس سے اگلے روز آبادان I BADAN میں مسلم کانگریس آف نائیجیریا نے اس وفد کے استقبال کا انتظام کیا ہوا تھا میں بھی وہاں مدعو تھا.ابادان لیگوس سے کوئی سوا سو میل کے فاصلہ پر ہے، بارش کی وجہ سے سڑک خراب تھی.راستے میں کئی جگہوں پر موٹروں کو رک رک کر چلنا پڑتا تھا.چنانچہ میں اور میرے ساتھی کسی قدر تاخیر کے ساتھ آبادان پہنچے لیکن یہ تاخیر بھی ایک رنگ میں مفید اور دلچسپ ثابت ہوئی جب میں ابادان کی حدود میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کچھ فاصلہ پر ایک جلوس جا رہا ہے.حاجیوں نے اپنے زرق برق لباسوں سے جلوس کی شان دوبالا کر رکھی ہے ابھی میری موٹر ذرا ہی آگے بڑھی تھی کہ جلوس رک گیا اور مسلم کانگریس کے سیکرٹری حاجی انشولا صاحب دوڑتے ہوئے میری طرف آئے اور مجھے موٹر سے اتار کر جلوس کی طرف لے گئے.وفد کے اراکین کچھ متحیر نظر آرہے تھے غالبا ان کو اس بات کی امید نہ تھی کہ ایک احمدی مبلغ کا اتنا خیال رکھا جاتا ہوگا لیکن رسولا صاحب تو جانتے تھے کہ میں نے ہر ممکن کوشش کر کے مسلم کانگریس کے نام کو آگے بڑھایا تھا اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ مسلم کانگریس میرا خیال نہ رکھے.بہر حال جلوس جامع مسجد میں پہنچا اور وہاں استقبالیہ جلسہ منعقد کیا گیا اور ایک لکھا ہوا ایڈریس وفد کی خدمت میں پیش کیا گیا.ایڈریس پیش کرنے والوں نے وہیں ایڈریس پر دستخط کئے اور ان میں سے پہلے مجھ سے دستخط کروائے گئے.شام کے وقت لیگوس میں گلو در میموریل ہال میں انہیں استقبالیہ دیا جانے والا تھا چنانچہ اباد ان کے استقبالیہ جلسہ میں شرکت کے بعد میں لیگوس پہنچا.گلو در پانی میں مقامی حاکم او با اڈیلے OBAADELE · نے تقریرہ کی اور اس کے بعد میں نے تقریبیہ کی.میں نے اپنی تقریر میں چند ایک باتیں تو وفد سے کہیں اور چند ایک باتیں مقامی مسلمانوں سے.اس کے بعد فیڈرل حکومت کے وزیر تعلیم (جو بعد میں شمالی نائیجیریا کے گورنر مقرر
۴۲۵ 1900 ہوئے) نے تقریر کی اور پھر ایک دو اصحاب کو بھی اظہار خیال کا موقعہ دیا گیا.۲ شواء سے نائیجیریا کے مغربی علاقہ میں جبری تعلیم کا سٹم رائج کیا جار ہا تھا یونٹ کی اس نئی سکیم سے مسلمان سخت پریشان ہوئے وجہ یہ کہ مسلمانوں کے پاس دینیات پڑھانے کے لئے ایسے اساتذہ کا ہونا ضروری تھا جو حکومت کے قانون کے مطابق قابل DUALIFIED توں مگر عملی صورت یہ تھی کہ دینیات پڑھانے والوں میں سے پانچ فیصد لوگ بھی تجربہ کار نہیں تھے جس کے نتیجہ میں یہ خطرہ یقینی نظر آنے لگا.کہ مسلمان اسکولوں میں دینیات پڑھانے کا انتظام نہ ہو سکے گا اور نائیجیریا کے مسلمانوں کی نئی نسل اپنے مذہب سے بے گانہ محض رہ جائے گی.اس مشکل کو حل کرنے کے لئے مسلمان اسکولوں کے پروپرائٹرز کا ایک خصوصی اجلاس ہوا.جس میں مولوی مبارک احمد صاحب سانتی مبلغ نائیجیریا بھی شامل ہوئے اور فیصلہ ہوا کہ حکومت سے پرزور اپیل کی جائے کہ وہ مسلمان سکولوں میں دینیات پڑھانے کا انتظام کرے.کونسل نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ بہت جلد مسلمان اسکولوں کے لئے دینیات کا نصاب مقر رکھ کے محکم تعلیم میں بھیجا جائے اس بروقت اقدام کا خاطر خواہ اثر ہوا اور حکومت نے بعض ایسے کالج کھولنے کا فیصلہ کر لیا جن میں وبی اور دیگر مشرقی زبانیں پڑھانے کا انتظام کیا گیا تھا اور اُن کے فارغ التحصیل طلبا و حکومت کے ہاں بھی مستند سمجھے جانے لگے یہ سیرالیون مشن:.اس سال مشن نے مالی تحریکات خصوصا زکوۃ کی وصولی کی طرف خاص توجہ دی جس کے نتیجہ میں بعض دوستوں نے نمایاں قربانی کا نمونہ دکھایا اور ایک گراں قدر رقم چندہ زکوۃ کے طور پر ادا کی.چنانچہ ایک شامی بھائی ستیدا میں خلیل صاحب اور ایک افریقین بھائی مسٹرسلیمان سے نے سو سو پاؤنڈ پیش کیا.دو مقامات پر نئی مساجد قائم ہوئیں اور با ما BAMA اور دوسری قالا FALA میں.اگر چہ قال میں پہلے سے ایک مسجد موجود تھی.مگر وہ نہایت خستہ حالت میں اور صرف گھاس پھونس کی تھی.اس سال خدا تعالے کے فضل سے ۵۳ افراد کا جماعت سیرالیون میں اضافہ ہوا جن میں سے ایک " الفصل " ۲۸ تبوک ۱۳۳۳ مش ص۲
۴۲۶ شامی مسٹر مصطفے احدرہ بھی تھے.یہ دوست آٹھ دس سال سے زیر تبلیغ تھے.سالانہ کانفرنس کے موقعہ بچہ انہیں بیعت کرنے کی توفیق ملی اور فارم بیعت پیر کر کے حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے ان کے احمدیت قبول کرنے میں شامی احمدی دوست استید حسن محمد ابراہیم صاحب الحسینی کا بھی بہت دخل تھا، الستید حی ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے ۱۹۳۶ء میں مکرم نذیر احمد صاحب علی کو دعوت دی کہ ان کے خرچ پر مینڈے کے علاقے میں تشریف لائیں اور یوی تبلیغ احمدیت کی بنیاد پڑی چنانچہ بعد میں ایک جانات کے سوا سب جماعتیں اسی علاقہ میں قائم ہوئیں.جماعت احمد یہ سیرالیون کی چھٹی سالانہ کا نفرنس مورخہ ، ار دسمبر کاء کو شروع ہو کہ ۱۹ار دسمبر کو بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی.کانفرنس حسب معمول جماعت کے مرکز بو میں منعقد ہوئی.ملک کے طول و عرض سے احمدی احباب شرکت کے لئے تشریف لائے مختلف مذہب و ملت کے متعدد احباب بھی اس میں شامل ہوئے.تین دن کی کانفرنس میں گل چھ اجلاس ہوئے جس سے مندرجہ ذیل مبلغین اور مخلصین نے خطاب فرمایا.مکرم نذیر احمد علی صاحب امیر جماعت ہائے احمدیہ سیرالیون.مسٹر ابوبکر معلم مدرسہ احمدیہ ہو.مسٹر موسی سودی لوکل مبلغ.مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری.مولوی محمد صدیقی صاحب شاہد گورداسپوری مسٹر علی رو جوز - مسٹر الفا شریف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ہو.الفا محمد ادریس.الفاشیخو بنگورہ مسٹر محمد ہونگے ہیڈ ماسٹر احمد یہ سکول رو کو پر.کانفرنس کے ایک اجلاس کی صدرات پیرامونٹ چیف الحاج المامی سوری پریزیڈنٹ جماعت ہائے احمد یہ سیرالیون نے کی.کانفرنس میں ایک مشاورتی کا نفرنس بھی ہوئی.اس موقعہ پر ۴۵ احباب نے ڈیڑھ ڈیڑھ ماہ تبلیغ کے لئے وقف کیا اور ایک عربی اور دینی سکول یو میں کھولنے کا فیصلہ ہوا.تحریک جدید دفتر دوم کے نئے سال کے چالیس پونڈ کے وعدے ہوئے جن میں سے ۳۳ پونڈ نقد ادا کئے گئے اسی طرح بو جماعت کے پریزیڈنٹ مسٹر الفا شریف نے لوکل مشن کی مالی حالت کو سدھارنے کے لئے ایک ہنگامی اپیل کی جس پر ایک سو تیس پونڈ کے وعدے ہوئے جن میں سے ساٹھ پونڈ نقد ادا ہو گئے ایک کانفرنس میں ۳ ہم جماعتوں کے ۲۰۰ نمائندوں نے شرکت کی اور کانفرنس کے انتظامات اور جہمان نوازی میں جماعت احمدیہ ہو الفضل ربوه - ۲۱ جنوری ۳۰ مارچ ۵۵ء مت
کی مساعی قابل قدر تھیں.۴۲۷ شاهم مشن : ملک شام کے مشہور اخبار صوت العرب کی ۲۵ دسمبر ۱۹۵۷ء کی اشاعت میں شام کے ممتاز قانون دان محمد آفندی اشوا کا خیال افروز مضمون شائع ہوا جس کا ترجمہ مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے :.دمشق کے مشہور روزنامہ " العلم " نے اپنی اشاعت مورخہ ۱۹ر دسمبر ء میں اپنے ایک نامہ نگار کی طرف سے مفتی عام دشتی کا ایک بیان شائع کیا ہے جس میں انہوں نے عام الناس کو احمدیت کے قبول کرنے سے روکا ہے کیونکہ مفتی صاحب کے خیال کے مطابق احمدی عقائد قرآن مجید اور سنت کے خلاف ہیں لیکن جناب مفتی صاحب نے احمدیت کے مخالف قرآن و سنت ہونے کے بارے میں کوئی معین چیز ذکر نہیں فرمائی.چونکہ احمدی لوگ ہی تمام براعظموں میں اسلام کو پھیلا رہے ہیں اور سب کو قرآن کریم اور سنت نبوٹی کی طرف بلاتے ہیں اس لئے میں جناب مفتی صاحب سے التماس کرتا ہوں کہ وہ کم از کم ایک چیز تو ایسی ذکر فرمائیں جو احمدیوں کے عقائد میں داخل ہو.اور مفتی صاحب اس کے مخالف قرآن و سنت ہونے پر کوئی دلیل قائم کر سکیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے ایک ایسا فتوئی پیش کیا ہے جس پر کوئی دلیل اور برہان قائم نہیں.گذشتہ دنوں شاہ فاروق کے علیحدہ کئے جانے سے قبل کی بات ہے کہ مصر کے بہت سے مشہور لوگ احمد یوں کو سچا مسلمان قرار دے چکے ہیں جب مصر کے سابق مفتی نے آنریل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے بارے میں ایک فتوی دیا تھا تو مصر کے مشاہیر نے چودھری محمد ظفر اللہ خان کی تائید میں اور مصر کے سابق مفتی کے خلاف بیانات شائع کئے.ان مشاہیر میں سابق ترین مفتی علامہ علام لضار الاستاذ محمد ابراہیم سالم چیف جسٹس عدالت عالیہ شرعیہ.الاستاذ عبد الرحمن عزام سابق جنرل سیکرٹری عرب لیگ اور الاستاذ خالد محمد خالد محترم اور بہت سے دیگر علماء شامل ہیں.علاوہ ازیں ملک شام میں احمدیت کے ماننے والوں میں تمام مشہور اور قابل ذکر شاہی خاندانوں کے لوگ موجود ہیں.چنانچہ ان لوگوں میں المالکی العظم - المرادي.شبيب - المحضى الساعاتي الجيبات
الارنا دودا - سوقيه - القباني - النو بلاتی - سلطان - الدار كشلى - الجابي - المسيروان - اتركي الشريف با کبیر - البسطی.اور الشوا وغیرہ خاندانوں کے لوگ شامل ہیں.اور ان تمام لوگوں نے احمدیت کو پورے اطمینان ، مکمل تحقیق اور کامل یقین کے ساتھ قبول کیا ہے اور یہ لوگ ہمیشہ حکمت اور وعظ حسنہ کے ساتھ دعوت الی اللہ کر رہے ہیں اور ان لوگوں کی گفتگو ہمیشہ یا دلیل اور با سلوب احسن ہوتی ہے.یہ لوگ جبر اور تشدد کے اس دھمکی آمیز طریق کو اس طرح حرام جانتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور نبی پاک صلے اللّہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں اسے حرام ٹھہرایا ہے یہ جبرو تشدد کا طریق وہی ہے جسے اس زمانہ میں اسلام کے نام سے پیش کرنے والے بہت سے فرقے ممالک اسلامیہ میں پائے جاتے ہیں حال ہی میں پاکستان اور مصر میں ان لوگوں نے حکومت کے خلاف اسی طریق پر ناکام کوششیں کی ہیں.احمدی لوگ ہر ملک اور ہر حکومت میں جہاں مذہبی آزادی قائم ہے ملکی قوانین کی پوری پوری اطاعت کرتے ہیں کیونکہ قرآن مجید کا یہی حکم ہے نیز اسلام کی اشاعت اور امن کا قیام اسی کے ساتھ وابستہ ہے.اسلام رعایا میں سے کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی حکومت سے خیانت سے پیش آئے اور اس کے خلاف دل میں منصوبے باندھے اور قانون شکنی کرے در آنحالیکہ وہ حکومت عقیدہ اور خیال کی پوری پوری آزادی دے رہی ہو.پس اس صورت میں جبکہ احمدی لوگ ہر جگہ پر قائم شدہ حکومت کے نہایت و قادار ہیں مفتی شام کا شامی گورنمنٹ کو احمدیوں کے خلاف اکسانا مفتی صاحب کے لئے مفید ثابت نہیں ہو سکتا اس طرح جناب کا احمدیوں کے خلاف فتوی بھی انہیں اپنے عقیدے سے منحرف نہیں کر سکتا کیونکہ وہ لوگ احمدیت کو حقیقی اسلام یقین کرتے ہیں اور جناب مفتی صاحب نے اپنے فتوی کے سچا ہونے پر ابھی تک کوئی دلیل پیش نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے ہمارے مبلغ الاستاذ منبر المحضی کے ان سوالات کا جواب دیا ہے جو انہوں نے روزنامہ العلم " مورخہ 1 جولائی ۱۹۵۷ ء اور بعد ازاں رساله جامعه مورخہ ۲۲ مئی ۹۵۳اء میں شائع کیئے تھے اور جنہیں حال ہی میں انہوں نے اپنے ٹریکٹ " الجماعة الاحمديه والا نکلیز " میں چھاپ کر علماء کرام کے سامنے پیش کیا ہے.میں نے بطور ایک حق پرست وکیل کے قسم کھا رکھی ہے کہ میں صرف اس امر کا دفاع کرونگا
۲۹م جسے میں حق سمجھوں گا.لہذا میں جناب مفتی صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ انہوں نے احمدیوں کے خلاف جو فتوی دیا ہے اس کے درست ہونے پر کوئی دلیل قائم کر دیں کیونکہ قرآن مجید جو ہم سب کے نزدیک کامل حکم کی حیثیت رکھتا ہے.فرماتا ہے.قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنْتُمْ صَادِقِينَ.اگر تم سچے ہو تو اپنے دعوئی پر دلیل پیش کرو ہے.دار سے.میں جرمن مشن : حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود کے ارشاد مبارک کے پیش نظر جماعت احمدیہ کے یور میں نشتر کے مشنری انچار ج کئی سال سے ایک مقام پر اکٹھے ہو کہ سال بھر کے کام کا جائزہ لینے اور تبلیغ کے کام میں وسعت پیدا کرنے کے ذرائع پر غور و فکر کرنے کے لئے جمع ہوتے آ رہے تھے.چنانچہ اس سال یہ سعادت جرمنی مشن کو حاصل ہوئی.ہمبرگ میں یورپین مشنز کی یہ کانفرنس سے ۲۰ نومیر راہ تک جاری رہی یا ہمی خورد فکر کے علاوہ اس موقعہ پر تبلیغی رنگ بفضلہ تعالے وسیع طور پر پراپیگنڈا کرنے کا انتظام کیا گیا.موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہ دار ٹو میر کو پریس کانفرنس اور 19 نومبر کو وسیع طور پر تبلیغی میٹنگ کا انتظام کیا گیا مبلغ جرمنی چوہدری عبد اللطیف صاحب کے علاوہ سوئٹزر لینڈ سے شیخ ناصر احمد صاحب ہالینڈ سے مولوی غلام احمد صاحب بشیر اور سپین سے چوہدری کرم اللہ صاحب ظفر نے کانفرنس میں شمولیت اختیار کی کانفرنس کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل جرمن نیوز ایجنسی نے اپنے نیوز بلیٹن کے ذریعے کا نفرنس کی اطلاع بڑی بڑی اخباروں کو بھیجوائی اور کئی ایک اخبارات نے اس خیر کو کانفرنس کے شروع ہونے سے پہلے ہی شائع کر دیا اور شامل ہونے والے مشنری انچارج کے نام بھی شائع کئے.اٹھارہ نومبر کو پریس کانفرنس منعقد کی گئی اس کا نفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے گورنمنٹ کے پریس سیکشن والوں سے تعاون حاصل کیا گیا اور ان کی وساطت سے ہمبرگ کی اخبارات اور پولیس کو دعوت نامے بھیجوائے گئے.یہ کانفرنس ہمبرگ کے سب سے بڑے ہوٹل ATLANTIC میں شام ۲ بجے منعقد ہوئی.ہمبرگ کے تمام روزانہ اخبارات اور بعض ہفتہ وار اخبارات کے نمائندوں کے علاوہ چھ معروف نیوز ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہوئے بعض دیگر نامور جرنلسٹ اور ممبرگ کے ایک مشہور تشرق DR.ABEL بھی تشریف لائے ہوئے تھے.یہ دوست جرمن نیوز ایجنسی کے اسلامی ممالک کے له " الفضل " ربوه ۲۴ فروری ۱۹۵۵ ص۳
۴۳۰ نمائندے تھے کانفرنس کی کارووائی شروع کرتے ہوئے چو ہدری عبد اللطیف صاحب نے برادران کا پریس والوں سے تعارف کرایا اور اپنی افتتاحی تقریر میں اسلامی تعلیمات کا مختصر طور پر ذکر کرتے ہوئے یورپ میں مشنوں کے قیام کی غرض وغایت بتائی.اس کے بعد شیخ ناصر احمد صاحب نے ایک دلچسپ تقریر میں جماعت احمدیہ کی کامیاب تبلیغی مساعی پر روشنی ڈالی بعد ازاں ڈیڑھ گھنٹہ تک پریس والوں نے مختلف سوالات دریافت کئے جن کے جوابات دیئے گئے.گفتگو کے دوران خدا کے فضل وکرم سے اسلامی تعلیمات کے متعدد پہلوؤں پر سیر کی بحث کرنے کا موقعہ ملا.اگلے روز ہمبرگ کے تمام اہم روزنامہ اخبارات نے اس پریس کانفرنس کا نمایاں طور پر اپنے ایڈیٹوریل کالموں میں ذکر کیا اور چھ اخبارات نے مبلغین کے فوٹو بھی شائع کئے ایک روز نامہ اخبار نے اس پریس کانفرنس کا ذکرہ اللہ کے شتری ہمبرگ میں" کے زیر عنوان حسب ذیل الفاظ میں کیا :- جماعت احمدیہ کے مشنوں کا مقصد اسلامی تعلیمات کی تمام دنیا میں اشاعت ہے اور اسلامی تعلیمات کے بارہ میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہے " ایک دوسرے اخبار نے فوٹو شائع کرنے کے علاوہ پر یس کا نفرنس کی خیر پر حسب ذیل عنوانات قائم کئے.پانچ اسلامی مشنری ہمبرگ میں.اسلام کی طرف سے دنیا کو فتح کرنے کا سو ہم آگے چل کر اس اخبار تے لکھا." اسلام پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو ورثہ میں حصہ دار قرار دیا ہے جب ایک مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے تو وہ اسے اپنا فرض سمجھتا ہے کہ وہ ان سب سے ایک جیسا سلوک کرے اس لئے ایک مسلم غیر معمولی حالات میں تعداد ازدواج پر عمل کر کے قربانی کا ثبوت دیتا ہے پہلے سب سے موثر اور دلچسپ تبصرہ ایک عیسائی اخبار کا تھا جس نے لکھا :- عیسائی مشن اور چرچ کے لئے ایک اہم سوال یہ سوال عیسائی دنیا کو اپنے سامنے رکھنا چاہئیے کہ اسلام نہ صرف اپنی اشاعت کے اولین دور میں عظیم روحانی اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس زمانہ میں اپنے تبلیغی مشنوں کے ذریعہ یورپ میں بہت اہمیت اختیار کر رہا ہے.انہی دنوں اسلامی مشنوں کے انچارج ہمبرگ میں جمع ہوئے تھے تا کہ وہ اسلام کو کامیاب طور پر یورپ میں پھیلا نے کے ذرائع پر غور کر سیکسی جرمنی، انگلینڈ ہالینڈ سوئٹزر لینڈ اور اسپین میں اسلام کی تبلیغ آئندہ تقاریر اور لٹریچر کے ذریعے زیادہ زور شور ه اخبار" الفصل "ریوه درجنوری ۱۹۵۶ء مٹ اور مشبہ
۴۳۱ سے کی جائے گی.جرمنی میں اسلام کی کامیابی کا میدان زیادہ وسیع ہے.چند سال کے اندر اندر ہمیرگ میں مسجد بھی تعمیر کی جائے گی.ان واقعات سے ہمیں آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں.ویسے اس بارہ میں اختیاری بلند کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں.اسلام گذشتہ تیرہ صدیوں میں اتحاد یا ہمی اور موثر اشاعت کے ذریعے اپنے آپ کو ایک عالمی طاقت ثابت کر چکا ہے ان حالات میں عیسائی دنیا کو ایک بہت بڑا اور مشکل ترین مرحلہ درپیش ہے ( ترجمہ ) امریکہ مشن -: اس سال امریکہ کی احمدی جماعتوں کی ساتویں کامیاب سالا نہ کنونیشن لم - دار تبوک رستمبر کو پٹس برگ میں منعقد ہوئی.یہ وہی شہر ہے جہاں احمدی مجاہد مرزا منور احمد صاحب مرحوم نے ۱۵ ستمبر کو تبلیغ اسلام کرتے ہوئے راہ مولیٰ میں اپنی بھان دی تھی.کنونشن کے منتظم مولوی عبد القادر صاحب ضیغم تھے.ر تبوک / ستمبر کو 10 بجے مشن ہاؤس پٹس برگ میں چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ.انچارج امریکہ نے کانفرنس کا افتتاح فرمایا جس میں آپ نے بتایا کہ چند روز قبل یہاں کرسچن کونسل آف ورلڈ چرچز THE CHRIS TAIN COUNCIL OF WORLD CHURCHES اجلاس ہورہا تھا جس میں عیسائیت کا پیغام دنیا کو پہنچانے کی ترکیبیں سوچی جارہی تھیں آپ ہم اکتاف عالم میں اسلام کی اشاعت کے لئے جمع ہوئے ہیں.عیسائیوں کے ذرائع ابلاغ نہایت وسیع اور تعداد بہت زیادہ ہے اس کے مقابل ہم تعداد اور وسائل دونوں اعتبار سے انتہائی کمزور ہیں مگر ہمیں خدا تعالی کی نصرت پر پورا یقین ہے.پس آؤ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے ہمارے ارادوں اور کوششوں میں برکت ڈالے اور ہم سے اسلام کی خدمت کا صحیح طور پر کام ہے.اس افتتاحی خطاب اور دعا کے بعد پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں چوہدری خلیل احمد صاحب ناظر، عبد الشکور حسین مناب داشنگٹن) - نور الاسلام صاحب (شکاگو ) اور بشارت احمد صاحب متغیر ایم اے نے سوالات کے دلچسپ جواب دیئے اور دوسرے اجلاس میں مختلف مرکزی سیکرٹریوں نے اپنے اپنے شعبوں کی سالانہ رپورٹیں پیش کیں.نیز مختلف قرار دادیں پاس کی گئیں.روزنامه الفضل ریوه در جنوری ۱۹۵۵ ء ما که این مرزا نذیر حسین صاحب چغتائی لاہور.
۴۳۲ اگلے روز ده ستمبر / نیوک، صبح کو بیک وقت تین اجلاس ہوئے.فائنینس FINANCE کمیٹی کا اجلاس مشن ہاڈس ہیں.خدام الاحمدیہ کا احمدیہ مسجد میں اور لجنہ اماء اللہ امریکہ کا اجلاس دائی.این سی اے ہالی YN.C.A HALL ہیں.ان اجلاسوں کی صدرات کے فرائض بالترتیب چو ہدری خلیل اور امر صاحب مبلغ انچارج ، محترم چوہدری غلام سین صاحب اور محترمہ مریم بشیر صاحب اشکاگو) نے انجام دیئے.کانفرنس کا آخری اجلاس نماز ظہر وعصر کے بعد ہو ا جس میں سید نا حضرت المصلح الموعود کی زبان مبارک سے انگریزی میں ریکارڈ شدہ ایک تقریر سنائی گئی جو " ڈیما کریسی او کیونرم" DEMOCRACY AND COMMUNISM کے موضوع پر تھی.اس یاد گار تقریر کے بعد مولوی نورالحق صاحب انور، چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر اور چو ہدری غلام یسین صاحب نے خطاب فرمایا کنونشن کے دوران تین افراد مسلمان ہوئے.تقاریر کے بعد دعا کے ساتھ کنونشن کا اختتام ہوا.بعد ازاں رات کے وقت قادیان کے جلسہ سالانہ کی ایک فلم اصحاب حضرت مسیح موعود کی تصاویہ اور قادیان کے بعض تصویری مناظر دکھائے گئے.اس کنونیشن کی رپورٹ مکریم بشارت احمد صاحب تغیر ایم.اے نے مرتب کر کے الفضل کو بھیجوائی اور اس کے آخر میں لکھا :- ہر پہلو سے یہ ایک کامیاب کنونیش کہاں نے کا ستحتی ہے.مختلف جگہوں سے آئے ہوئے احمدی بھائیوں میں اکثر اخلاص کا اچھا نمونہ پیش کر رہے تھے.امریکہ جیسے دنیا دار اور عیش وعشرت میں ڈوبے ہوئے ملک میں یہ اسلام کے مجھے، یہ داڑھی والے چہرے اور چادر پوش خواتین عام امریکی باشندوں.بہت مختلف دکھائی دے رہے تھے.یہ مٹھی بھر اسلام کے پر وانے امریکہ جیسے وسیع ملک میں آٹے میں نمک بھی نہیں گرانشاء اللہ یہی وہ ستون ثابت ہوں گے جن پر امریکہ میں اسلام کی عظیم الشان عمارت کھڑی ہو گی.خدا کرے اسلام کا جھنڈا سب دنیا میں بلند ہو اور ساری دنیا لا اله الا الله سے گونج اُٹھے.آمین رہے بین الاقوامی عدالت انصاف ہاور فورڈ کالج امریکی سے چودھری مختظفر اللہ خانصاب کا خطاب له الفضل ۱۹ اتحاد ۱۳۳۳ رمیش مث (THE INTERNATIONAL
(COURT OF JUSTic E میں تقریر کے بعد سے محترم چودھری محمد ظفراللہ خانصاحب کو کئی ایک یو نیورسٹیوں کی طرف سے خطاب کرنے کی دعوتیں آئیکی جن میں سے بعض کو آپ نے اپنی دوسری مصروفیات کے باوجود منظور فرمایا ان میں ایک دعوت کو یکرز QUAKERS کے مشہور کالج اور فورڈ HAVER FORD کی طرف سے تھی جو اس فرقہ کا ایک مرکزی ادارہ ہے اور مذہبی امور میں خاص دلچسپی رکھتا ہے.حضرت چودھری صاحب نے اسلام سے متعلق دو روز تک ان کی مختلف میٹنگز اور کلاستر میں شاندار تقاریر کیں.اس سلسلے میں اس کا سچ کے ڈیپارٹمنٹ آف پولٹیکل سائیں DEPARTMENT OF POLITICAL SCIENCE کے پروفیسر فیلڈ ہیوی لینڈ PROFESSOR FIELD HAVI LAND نے آپ کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا: در مکرم جناب ! میں اس خط کے ذریعے ایک دفعہ پھر یہ موقع حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی اس نوازش کا شکریہ ادا کروں جو آپ نے اپنے مصروف پروگرام سے HAVE FORD کالج کے لئے وقت نکالی کہ ہم یہ فرمائی ہے.آپ کے تشریف لے جانے کے بعد کالج کے کئی ایک طلباء نے جن کو آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا مجھے بتایا کہ وہ آپ سے گفتگو کے شرف سے کسی قدر مفتخر محسوس کرتے ہیں.کالج کی تاریخ میں ایسے مواقع کم ہی آئے ہیں جبکہ ایک سپیکر نے اس اتھارٹی کے ساتھ اور پھر اس قدر وضاحت اور صاف گوئی کے ساتھ اسلام اور دوسرے متعلقہ مسائل پر اظہار خیال کیا ہو.یہاں پر متفقہ طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ فلپس پروگرام کے ماتحت آپ کی تشریف آوری ہمارے لئے ایک کامیاب ترین تقریب تھی.یں امید کرتا ہوں کہ آپ ان مصروفیات سے تھک نہیں گئے ہوں گے.ہم میں سے اکثر کو اس لحاظ سے افسوس ہے کہ عالمیم سیاست میں اب آپ کی اس قدر دانا اور زیرک آواز اتنی سرگرم نہیں رہے گی جتنی کہ ماضی میں رہی ہے ، مگر ہمیں یہ احساس ہے کہ آپ اس بلند عزت کے واقعی مستحق ہیں جو آپ کو دی گئی ہے.ہم آپ کے نئے کام میں آپ کی شاندار کامیابی کے متمنی ہیں ویسے (ترجمہ) له الفضل لاہور ۱۰ر فتح ۱۳۳۳ بیش / ۱۰ / دسمبر ۱۹۵۳
۴۳۴ ۱۹۵۴ و ۱۳۳۳ میشی میں جو مجاہد بین احمدیت مبلغین احمدیت کی مرکز سے وانگی اور واپسی اعلائے کلمہ اسلام کے لئے بیرونی ممالک میں تشریف لے گئے اُن کے اسمائے گرامی یہ ہیں ا، ڈاکٹر بدرالدین صاحب مبلغ یورنیو (روانگی برائے بوریو از کراچی مورخہ اور جنوری ۵۳ والے (۲) چوہدری کرم الہی صاحب ظفر مبلغ پین در وانگی از ربوه مورخه ۲۱ مارچ ۱۹۹۸ و سه (۳).مولوی محمد سعید صاحب انصاری مبلغ بو زیور روانگی برائے انٹر نیشیا مورفعه لم ا اپریل ۹۵ ای اسکے رام، مولوی نور الحق صاحب انور - دروانگی برائے امریکہ از ریوه ۱۲ را پریل ۱۹۵۴ یو ہے (۵) مکرم نذیر احمد صاحب علی امیرو انچارج مبلغ سیرالیون دردانگی برائے سیرا لیون از ربوده و می در سام صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب (روانگی از ربوہ برائے انڈونیشیا ارجون ۱۹۵۳ وات حضرت مصلح موعود نے اپنے ایک خط میں مکرم رئیس التبلیغ صاحب انڈونیشیا کے نام تحریر فرمایا کہ "عزیزم مرزا رفیع احمد اور اس کی بیوی انڈونیشیا آرہے ہیں.میں نے انڈونیشیا کو ان کے لئے اس لئے چنا ہے کہ تا اس ملک کے لوگوں پر اپنی محبت کا اظہار کروں کہ شہ (4) (^) سید شاه محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا دروانگی برائے انڈونیشیا از ریوه ۱۹ اکتور ارم سید محمود احمد صاحب ناصر دروانگی از ربوہ برائے انگلستان ۱۲ نومبر ۹۵ رو شد (۹) سید جواد علی صاحب دردانگی برائے امریکه از ریوه مورخه ۱۳ نومبر ۱۹۹۶ و ه مسٹر عبد الشکور کنترے دروانگی برائے امریکہ از ربوه مورخه ۱۳ دسمبر ۱۹۵۳ ء الله (1+) "المصلح" کراچی مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۵۷ء صت سے سے ہے کے ریکارڈ وکالت تبشیر ربوه.له " الفضل " در جون ۱۹۵۳ء صا "الفضل" راگست ۱۹۵۴ ه.شه " الفضل ١٠ اکتوبر ۹۵ء ما شهرته " الفضل بار نومبر شراء ص.شه ریکارڈ وکالت تبشیر ربوه.
۴۳۵ (1) (۳) جو مبلغین تبلیغی خدمات بنجا لانے کے بعد مرکز میں واپس تشریف لائے.وہ یہ تھے :- مکرم نذیر احمد صاحب مبشر امیر مبلغ انچارج گولڈ کوسٹ (آمد کراچی مورخہ ۲۷ فروری شاء الیه سید ولی اللہ شاہ صاحب مبلغ مشرقی افریق.(آمد ربوه ۲۹ مارچ ۱۹۵۶ ای (۳) مولوی صالح محمد صاحب مبلغ گولڈ کوسٹ (ریوں میں آمد مورخہ ۲۷ را پریل ۱۹۵۳ ء است دلم چوہدری تحلیل احمد صاحب ناصر انچارج امریکہ مشن آمد ریوه دار مئی ۱۹۵۷ در شد (۵) چوہدری نذیر احمد صاحب رائے ونڈی مبلغ سیرالیون (آمد ریوه ۲۲ جولائی ۱۹۵۳ وات (4) شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئٹرز لینڈ (آمد ریده ار دسمبر ۱۹۵۳ ء اے (6) قاضی مبارک احمد صاحب (آمد ربوه از شام اارد سمبر اشاره داشه مولوی عبدالکریم صاحب مبلغ سیرالیون دآمد ربوه ۲۹ دسمبر س ا وا (^) اشاعتی اعتبار سے بھی یہ سال بہت با برکت سال ثابت ہوا.کیونکہ اس نیا لٹریچر کے دوران بہت سی مفید اور گیر از معلومات کتابیں شائع کی گئی جو یہ ہیں.-(>> شان خاتم النبيين راز مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ) حیات بقا پوری حقہ دوم از حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری (۳) نبیوں کا سردار دارد و ترجمہ دیباچہ تفسیر القرآن انگریزی از حضرت مصلح موعود ) (۴) - " سیر روحانی " جلد اول از حضرت مصلح موعود ) (۵) - " مسئلہ وحی دنبوت کے متعلق اسلامی نظریه (از افاضات حضرت المصلح الموعودة ) (4)." قادیانی مسئلہ کا جواب " داز سید نا المصلح الموعود نور الله مزنده ) مودودی صاحب کے بیان پر صدر انجمن احمدیہ کا تبصره" راز مولانا جلال الدین صاحب خمس من - 1 ار محاسن کلام محمود (از جناب اختر گوبند پوری ) (۹) مسلمان عورت کی بلندشان را از حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد " المصلح" کراچی مورخه ۱۲ مارچ ۹۵۳ از مٹ ء سے ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ " الفضل لاہور ۱۲ مئی ۱۹۵۳ء ٢٠ سے " الفضل لاہور ۲۳ متی ۵۶۱۹۵۴ ث " الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۵۷ ء شهر کارت ریکارڈ وکالت تبشیر د یوه -
باشم کم (۱۰) رساله حج و از حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب بہاولپوری ) (1) ر سال " معیار شناخت انبیاء راز مولوی غلام باری صاحب سیف پر دنیسر جامعة المينشرين ربوہ ).اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بلند پایہ تفریہ" اسلامی اصول کی فلاسفی" کا ایک نیا ایڈیشن بھی الشركة الاسلامیہ ربوہ کی طرف سے شائع کیا گیا.حضرت مصلح موعودؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۵۳ہ کے موقع پر مندرجہ بالا کتب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : اس سال کچھ نئی کتا ہیں اور لٹریچر شائع ہوا ہے.جن میں سے ایک کتاب مسئلہ ختم نبوت پر قاضی محمد نذیر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے لکھی ہے.نہیں نے اب تو یہ کتاب نہیں دیکھی لیکن جب انہوں نے یہ مضمون لکھنے کا ارادہ کیا تھا تو وہ اس کے ہیڈ نگ بنا کہ میرے پاس لائے تھے.اور مجھے سے انہوں نے مشورہ کیا تھا.میرا اثر یہی ہے کہ یہ کتاب اچھی اور اس زمانہ کے لحاظ سے مفید ہو سکتی ہے.میں نے ان کو سمجھایا تھا کہ ہمارے ہاں پہلے جو طریق رہا ہے کہ بعض بے اختیاطیوں کی وجہ سے لوگوں کو خواہ مخواہ ٹھو کہ لگی اس سے آپ کو پہنچنا چاہیئے.جب صداقت پہلے بھی آپ لوگ پیش کرتے تھے اور اب بھی پیش کرتے ہیں تو کیوں نہ ایسے الفاظ میں اس کو پیش کیا جائے جو دوسروں کے لئے تکلیف دہ نہ ہوں یا کم سے کم ان کو پیچھے پھرانے والے نہ ہوں.دوسری کتاب " حیات بقا پوری ہے.اس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض قتادے بھی جمع کئے ہیں.نہ معلوم وہ ہیں جن میں وہ بھی اس وقت بیٹھے ہوتے تھے یا ان کو پسند تھے کہ انہوں نے لکھ لئے لیکن اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض خیالات اور لے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کتاب پر حسب ذیل تبصرہ لکھا ہے حال ہی میں ایک کتاب " شان خاتم النبیین " مصنفہ محترمی قاضی محمد نذیر صاحب پرنسپل جامعه احمدیه شائع ہوئی ہے دراصل یہ کتاب قاضی صاحب موصوف کی ایک تقریر کی تو سیع ہے جو انہوں نے جیسے الیانہ ۱۹۵ء کے موقعہ پر کی تھی اور میں نے اس تقریر کے خاتمہ پر محترم قاضی صاحب کو اس کامیاب تقریر پر 1 i
۳۷م آپ کے اذکار بعض مسائل کے متعلق نہایت اعلیٰ درجہ کے لکھے گئے ہیں بلکہ ایک حوالہ تو ایسا ہے جس کی ہم کو تلاش رہی اور پہلے ہم کو نہ ملا.اس میں ہمیں مل گیا.یہ بھی اچھی دلچسپ کتاب ہے.اسی طرح مرکز میں کتب کی اشاعت کے لئے دو کمپنیاں بنائی گئی ہیں...جو کمپنی انگریزی اور دوسری غیر زبانوں کا لٹریچر تیار کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے...اس وقت تک ان کی طرف سے ڈچ ترجمہ قرآن اور جرمن ترجمة القرآن شائع ہو چکا ہے اور انگریزی ترجمہ القرآن کل مجھے ملا ہے اس موقعہ پر حضور نے انگریزی ترجمۃ القرآن کی کاپی لوگوں کو دکھائی اور فرمایا ، یہ ابھی مکمل نہیں ہے.انہوں نے اس کی جلد بندی صرف جلسہ کے لوگوں کو دکھانے کے لئے کر دی ہے.ورنہ اس میں ابھی دیا چہ شامل ہونا ہے.پولیس والوں نے کہا ہے کہ ان دنوں ہمیں کرسمس کا کام ہے.ہم اس وقت نہیں چھاپ سکتے.تین مہینہ کے بعد چھاپیں گے.اس لئے انہوں نے یہ شکل آپ لوگوں کو دکھانے کے لئے بھیج دی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ کئی لوگ ساری جلدوں میں قرآن شریف نہیں خرید سکتے اور پڑھ بھی نہیں سکتے.اس لئے یہ ترجمہ انشاء اللہ مفید ثابت ہوگا اور انگریزی جاننے والے ملکوں مثلاً انگلینڈ اور امریکہ اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے اعلیٰ درجہ کی تبلیغ بقیه حاشیه :) مبارک باد دیتے ہوئے تحریک کی تھی کہ اگر اس تقریر کو مناسب نظر ثانی کے بعد کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے تو انشاء اللہ بہت مفید ہوگا.اور مجھے دلی خوشی ہوئی کہ بالآخر یہ تقریر ایک مستقل رسالہ کی صورت میں شائع ہو گئی ہے.قاضی صاحب نے اس دلچسپ اور علمی تصنیف میں حضور سرور کائنات خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے اصلی علیہ سلم کے مقام ختم نبوت کے متعلق بہت سیر کن بحث کی ہے اور ملائل تعلیم اور عقلیہ کی رو سے یہ بات ثابت کی ہے کہ حضور سرور عالم کا مقام ختم نبوت ایک ایسا بلند اور ارفع مقام ہے جو نہ صرف تمام دوسرے نبیوں کے لئے گل سرسید کا حکم رکھتا ہے بلکہ حقیقہ" یہ ایک عدیم المثال قدرتی ایشا ہے جس سے پانی حاصل کر کے تمام پہلی اور مچھلی نہریں روحانی کھیتوں کو سیراب کر رہی ہیں ضمنا اس کتاب میں یہ بحث بھی کافی صورت میں آگئی ہے کہ ختم نبوت کے مقام کا جو تصور آج کل دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے وہ اس عجیب و غریب مقام کی صحیح اور حقیقی تشریح نہیں ہے اور نہ اس میں اُس غیر معمولی بلندی کا نظریہ موجود ہے جو اس عدیم المثالی مقام کا مرکزی نقطہ ہے." (روز نامہ الفضل " ریوه بر جنوری ۹۵۵اء ت )
ہو سکے گی.....اسی طرح دوسری کمپنی جوار دو لٹریچر کیلئے قائم ہوتی ہے انہوں نے بھی اس سال بہت سی کتا بیں شائع کی ہیں.ایک تو نبیوں کا سردار رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات ہیں.در اصل میری کتاب دیباچہ تفسیر القرآن انگریزی “ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جولا لف تھی اس کا یہ اردو ترجمہ ہے اور اس کا نام انہوں نے نبیوں کا سردار " رکھا ہے.یہ ۳۲۰ صفحہ کی کتاب ہے.....اسی طرح اس کمپنی کی طرف سے اس سال " اسلامی اصول کی فلاسفی " " سیر دھانی " مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ " "رسالہ حج " اور رسالہ معیار شناخت انبیاء یہ چھ کتابیں شائع کی ہیں." اسلامی اصول کی فلاسفی مدت سے نہیں مل رہی تھی.یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ کتاب بڑی مبارک ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کا لوگوں کے دلوں پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے سیر روحانی " میری تقریروں کا مجموعہ ہے.ایک حصہ اس کا پہلے شائع ہوا تھا جس میں میری پہلی تقریر تھی.اب تک گیارہ عنوانات پر تقریریں ہو چکی ہیں.بہر حال جو پہلی تقریر تھی وہ تو شائع ہو گئی تھی لیکن آپ میں نے فیصلہ کیا کہ الگ الگ تقریریں شائع کرنا ٹھیک نہیں.تین جلدوں میں سب مضمون شائع کر دیا جائے سو اس جلد میں میری پہلی تقریر کو شامل کر کے جو الگ شائع ہو چکی تھی.دو سال کی تقریریں مزید بر آن شامل کر دی گئی ہیں اور اب یہ جلد ۳۲۷ صفحہ کی ہو گئی ہے.اگلے سال انشاء اللہ اس کی دوسری جلد شائع کر دی جائے گی.مصالح سب موجود ہے.پھر جب یہ تقریریں ختم ہو جائیں گی تو تیسری جلد شائع ہو جائے گی.مسئلہ وحی دنبوت کے متعلق اسلامی نظریہ " وہ بیان ہے جو انکوائری کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور ان کے کہنے پر سوالات کا جواب لکھا گیا تھا.....پس یہ کتا بیں ہیں جن کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.ان کے علاوہ کچھ کتابیں سید محمد سعید صاحب سلیم نے شائع کی ہیں.ان میں سے بھی بعض ایسی ہیں جو اصل میں سلسلہ کی طرف سے لکھوائی گئی ہیں بہر حال وہ کتا ہیں یہ ہیں :- قادیانی مسئلہ کا جواب.مودودی صاحب کے بیان پر صدر انجمن احمدیہ کا تبصره دری بھی ہائیکورٹ کے کہتے پر لکھا گیا ؟ محاسن کلام محمود اور مسلمان عورت کی بلند شان.....i
۴۳۹ به چو محاسن کلام محمود " کتاب ہے اس پر مجھے اس لئے خوشی ہے کہ ہماری جماعت کے ایک نوجوان ادیب نے اسے لکھا ہے.لوگوں میں عادت ہوتی ہے کہ جب وہ ذرا آگے بڑھنا شروع کرتے ہیں تو ان کو خیال ہوتا ہے کہ کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے اس حلقہ میں ہماری بد نامی ہو جائے مگر اس نوجوان کی تہمت ہے کہ اس نے شاعری کا شوق رکھتے ہوئے یہ کتاب لکھ دی اور وہ نہیں ڈرا کہ دوسرے شاعر جن کی مجلسوں میں میں جاتا ہوں وہ مجھے کیا کہیں گے.یوں میرے دل میں خود خیال آیا کہنا تھا کہ میرے اکثر شعر در حقیقت کسی آیت کا ترجمہ ہوتے ہیں یا کسی حدیث کا ترجمہ ہوتے ہیں یا کسی فلسفیانہ اعتراض کا جواب ہوتے ہیں.لیکن لوگ عام طور پر اگر صرف وزن میں تریم پایا جاتا ہے اور موسیقی پائی جاتی ہے تو شن کر ہا ہا کہ لیتے ہیں.مجھے کئی دفعہ خیال آتا تھا کہ لوگ سمجھنے کی طرف کم توجہ کرتے ہیں.اگر کوئی شخص اس طرف توجہ کرے تو شاید یہ زیادہ مفید ہو سکے.چنانچہ اس نواجوان نے یہ پہلی کوشش کی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ اور کوشش کرنے والے کوشش کریں گے یا انہی کو تو فیق مل جائے گی اور یا پھر اور لوگ پیدا ہو جائیں گے.در حقیقت اگر دیکھا جائے تو میرے اشعار میں سے ایک کافی حصہ بلکہ میں سمجھتا ہوں ایک چوتھائی یا ایک ثلث حصہ ایسا نکلے گا جو در حقیقت قرآن شریف کی آیتوں کی تفسیر ہے یا حدیثوں کی تفسیر ہے لیکن ان میں بھی لفظ پھر مختصر ہی استعمال ہوئے ہیں ورنہ شعر نہیں بنتا، شعر کے چند لفظوں میں ایک بڑے مضمون کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا یا اسی طرح کئی تصوف کی باتیں ہیں جن کو ایک چھوٹے سے نکننہ میں حل کیا گیا ہے.مثلاً اس نوجوان نے بھی ایک شعر اس میں درج کیا ہے اور اس کو اس شکل میں پیش کیا ہے کہ دیکھو یہ بڑا ادبی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تصوف کا یہ ایک پرا نا سوال ہے کہ خلق عالم کس طرح ہوا.اس سوال کا جواب اس شعر میں دیا گیا ہے جو درحقیقت ایک فلسفیانہ بات کا جواب ہے کہ اصل میں ہمارے منہ د یک خلق عالم کا ذریعہ یہ ہے اگر اس کو کوئی زیادہ غور کے ساتھ دیکھے تو اسے پتہ چل سکتا ہے بے شک انسان جب محبت کی دھن میں ہوتا ہے تو اس میں کئی خیالات عام جذباتی بھی آجاتے ہیں.لیکن کچھ ایسے بھی خیالات ہوتے ہیں جن میں فلسفہ یا حکمت بیان کرنے کی کوشش ہوتی ہے کالے که روزنامه الفضل ربوه ۲۵ اکتوبر ۶۱۹۵۵ ۳۰-۴
مام مندرجہ بالا لٹریچر کے علاوہ جو پاکستان میں شائع ہوا.سیٹھ محمد معین الدین صاحب چنت گنٹہ حیدر آباد دکن (بھات) نے حضرت مولوی غلام رسول صاحب فاضل را جیکی کی خود نوشت اور ایمان افروز سوانح حیات قدسی حصہ سوم شائع کرائی..به کتاب حضرت مولوی صاحب کی تبلیغی مہمات، ایمان کو جلا بخشنے والے حالات اور الہی تائیدات کے بہت سے واقعات پرمشتمل تھی حضرت صاحبزادہ مرز المبشیر احمد صاحب نے اپنے ایک خط میں حضرت مولوی صاحب کو لکھا آج آپ کا رسالہ حیات قدسی حصہ سوئم مرزا عزیز احمد صاحب نے لا کر دیا ہے اور میں نے پڑھنا شروع کیا ہے.مبارک ہو بہت رواج پر در مضامیں ہیں.ایسی کتابوں کی احمدیوں اور بغیر احمدیوں میں بکثرت اشاعت ہونی چاہیئے.مناظرانہ باتوں کی نسبت اس قسم کے روحانی مذاکرات کا زیادہ اثر ہوتا ہے اللہ تعالے آپ کی عمر اور علم میں برکت عطا کرے اسے الحاج مولوی عزیز الرحمن صاحب قبل منگلا اس سال جو خوش نصیب تحریک حریت کا قبول احمدیت سے وابستہ ہوئے اُن میں ایک ممتاز شخصیت الحاج مولوی حافظ عزیز الرحمن صاحب فاضل مشکل کی ہے.جو جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موجود کے دست مبارک پر بعیت کر کے داخل احمریت ہوئے اور ضلع جھنگ میں بہت سی نئی جماعتوں کو قائم کرنے کا موجب ہوئے.اور اب اپریل ایر سے مربی سلسلہ احمدیہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں.محترم مولوی صاحب موصوف چک منگلا کے رہنے والے ہیں.جو ریلوے اسٹیشن سو بھا کہ ضلع سرگودھا کے میں مشرق میں دو میل کے فاصلہ پر واقع ہے یورصہ ہوا ایک جید عالم اور دیوبند کے فارغ التحصیل پیر منور الدین صاحب رساکن بھو چھال کلاں ضلع جہلم ، اس گاؤں میں رہائش پذیر ہو گئے.اور وہاں ایک مدرسہ جاری کر دیا جس میں ارد گرد کے طلباء نے کافی تعداد میں داخل ہو کہ تحصیل علم کیا.مکریم مولوی عزیز الرحمن صاحب نے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد مذکورہ مدرسی میں داخل ہو کہ ابتدائی طور پر عربی علوم کی تحصیل کی.بعد ازاں ایک مشہور عالم مولوی نصیر الدین حساب ه "بدر ۲۱ تا ۲۸ نومبر و ۷ دسمبر ۱۹۵۶ء
الم لهم ساکن جکڑالہ پھر مکرم مولوی حبیب الرحمن صاحب ساکن کھلانٹ ضلع ہزارہ سے صرف و نحو.معانی فقہ اور کتب حدیث پڑھیں.مکرم مولوی صاحب موصوف کو احمدیت کا تعارف اس طرح ہوا کہ اُن کے استاد مکرتم پیر منور الدین صاحب ایک دفعہ لاہور تشریف لے گئے.وہاں انہوں نے علماء کو ملنے کا پروگرام بنایا.اس سلسلہ میں وہ مریم مولوی محمد علی صاحب امیر انجمن احمدیہ انجمن اشاعت السلام لاہور کے پاس بھی احمد یہ بلڈنگس تشریف لے گئے.وہاں ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعادی کے متعلق بات چیت ہوئی.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ان کو کافی تعداد میں کتب اپنی گیرہ سے خرید کر پیش کیں.واپس آکر مکرم پیر صاحب نے ان کتابوں کا مطالعہ شروع کیا.مکرم مولوی عزیز الرحمن صاحب چونکہ ان کی لائبریری کے منتظم تھے.اس لئے ان کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کا موقعہ ملا.آپ نے اپنی مطبوعہ سوانح عمری میں تحریر فرمایا ہے :.در عام طور پر میں ایک کتاب پڑھتا جاتا تھا اور پیر صاحب لیٹے لیٹے سنتے جاتے.نتیجہ یہ ہوا کہ براہین احمدیہ کے پہلے حصہ سے لیکر شاید تک کی تمام کتا ہیں ہم نے خوب مطالعہ کر لیں اور چونکہ یہی کتابیں ہمیں لاہور سے ملی تھیں.علاوہ ازیں مولوی محمد علی صاحب کی اپنی لکھی ہوئی چند کتابیں مثلاً " النبوة في الاسلام" وغیرہ جن میں جماعت کے اختلافی مسائل پر بحث تھی.ان کتابوں کے ذریعہ سے ہمیں علم ہوا کہ مرزا صاحب کی جماعت کے دو گروہ ہیں.اور ان کے درمیان یہ اختلافی مسائل ہیں مسئلہ نبوت مسئلہ خلافت - پیشگوئی مصلح موعود وغیرہ.لیکن اس زمانہ میں ہم مرزا صاحب کا ترجمان مولوی محمد علی صاحب کو سمجھتے تھے......وہی عقائد ہمارے دلوں میں گڑ گئے کہ مرزا صاب ایک نیک آدمی ہیں نبی نہیں.نہ ہی آپ کے بعد خلافت کی ضرورت ہے.ہمارے ان عقاید کا علم جب ہمارے دوسرے علماء کو ہوا تو لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی واں بھچراں سے کئی بزرگ علماء چک منگلا آنے شروع ہوئے.مثلاً مولوی غلام اللہ خان صاحب - قاعنی شمس الدین صاحب قاضی نور محمد صاحب مولوی شہاب الدین صاحب اور بے شمار علماء حضرات.ہمارے ساتھ ان کا یہ جھگڑا ہوتا کہ تم مرزا صاحب کو کا فرکیوں نہیں کہتے.ہم کہتے ہم احمدی نہیں صرف مرزا صاحب کو کافر نہیں کہتے.وہ کہتے جو مرزا صاحب کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے.ہم کہتے کہ ہمیں سمجھاؤ مرزا صاحب کیوں کافر ہیں.وہ دلائل دیتے ہم ان کو جواب دیتے کہ
یہ وجوہ کا فر بنانے کے لئے کافی نہیں.چونکہ پیر صاحب کی طرف سے حوالہ جات وغیرہ پیش کرنے والا میں تھا مجھے اچھی مزا دلت ہوتی گئی اور مسائل ذہن نشین ہوتے گئے.ہوتے ہوتے پیر صاحب کے تمام مریدوں کے عقاید سختہ ہو گئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور حضرت مرزا صاحب نیک انسان ہیں لیکن ہمیں ان کی بیعت کی ضرورت نہیں.اور مرزا صاحب کو نیک بزرگ مانتے ہوئے ہمیں اپنی پیری مریدی کا سلسلہ قائم رکھنا چاہیئے.ایک مرید کی دعوت پر پیر منور الدین صاحب سلانوالی تشریف لے گئے.اور وہاں تقسیم ملک کے بعد کافی مہاجر آباد ہو چکے تھے اور وہ لوگ ہمارے عقاید سے واقف ہو چکے تھے.انہوں نے ہمیں مرزائی مشہور کر دیا اور ہمارے ساتھ مناظرہ کی طرح ڈالی.پیر صاحب بھی جو شیلے آدمی تھے انہوں نے لکھ دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.اور مرزا صاحب اپنے تمام دعاوی میں بیچتے ہیں.اس پر مناظرہ رکھا گیا.انہوں نے راتوں رات مولوی بلوالئے.ہمیں نہ اس قسم کے مناظروں کا پتہ.نہ پورے دلائل کا علم بہر حال دوسرے دن عبد اللہ معمار امرتسری ان کی طرف سے مناظر مقرر ہوا.اور خاکسار عزیز الرحمن پیر صاحب کی طرف سے مناظر مقرب ہوا.مجھے کہیں سے احمدیہ پاکٹ بک بھی مل گئی.ویسے بھی وفات مسیح کے دلائل ایک کاپی پر جمع کر رکھے تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے مناظرہ بہت اچھا رہا.اور یہ بھی عجیب قسم کا مناظرہ تھا نہ ہم احمدی نہ لاہوری نہ قادیانی اور وفات مسیح اور صداقت حضرت مرزا صاحب پر مناظرہ کر رہے ہیں.لیکن اصل میں خدا تعالیٰ ہمیں ٹرینینگ دے رہا تھا، کہ تم نے احمدی بن کر تبلیغ کرنی ہے، ابھی سے تیاری اور مشق کرلو.انہیں ایام میں ربوہ مرکت و احمد تیت جب ہمارے علاقہ میں آیا د ہونا شروع ہوا اور سرگودھا شہر میں بھی کافی احمدی احباب آگئے تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تصنیفات اکٹھی کرنی شروع کیں.برا نہیں احمدیہ حصہ پنجم پڑھی.حقیقت الوحی پڑھی.نبوت کا مسئلہ حل ہو گیا.ان دنوں میں نے مسئله مصلح موعود میلہ خلافت پر دونوں جماعتوں کا لٹریچر پڑھا.خدا تعالے نے مجھ پر حق واضح کر دیا کہ خلافت بر حق.اور حضرت مرزا صاحب کی تحریرات کی روشنی میں مصلح موعود میرا پیارا
م م اس کے بعد میرا اور میرے استاد پیر صاحب کا اختلاف شروع ہوا.وہ اسی عقیدے پر جم گئے کہ مرزا صاحب نبی نہیں اور نہ ہی خلافت کی ضرورت ہے اور نہ ہی بیعت کی ضرورت ہے.اور خاکسار ان مسائل کی تہ تک پہنچ گیا.آب میں اعتقادا احمدی ہو چکا تھا.لیکن پیر صاحب کو چھوڑنا بہت مشکل تھا.کیونکہ ان کے ہم پر بہت سے احسانات تھے اور ان کا رعب بھی اتنا تھا کہ ان کو چھوڑنا کارے دار د تھا لیکن لٹریچر کے ذریعہ سے اب حق واضح ہو چکا تھا.میں ایک دفعہ لا ہور گیا وہاں جو دعا مل بلڈنگ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شہید کی ہجرت کے بعد رہائش پذیر تھے شام کی نماز میں نے حضور کی اقتداء میں ادا کی اور مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب نے میرا تعارف کرایا.نماز کے بعد ان دنوں حضور نفسیات پر کچھ لیکچر دیا کرتے تھے اور کافی دوست جمع ہو جایا کرتے.حضور کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر اور حضور کے طرز گفتگو نے مجھے کچھ ایسا گرویدہ کیا کہ میں رونے لگ گیلہ حضور نے علاقہ پوچھا تعلیم پوچھی میں نے سب کچھ بتایا.لیکن اس ملاقات اور حضور کی نگہ نے مجھے اپنا مطیع بنالیا - قال الشاعر : آن دل که ام نمودی از خوبرد جواناں دیرینہ سال پیرے بردش بیک نگا ہے اب میں نے علیحدگی میں پیر صاحب سے بات چیت مؤدبانہ انداز میں شروع کی.اور اپنے دلائل دینے شروع کئے کہ جناب ! جب حضرت عیسی وفات پا چکے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مرزا صاحب مسیح موعود ہیں تو پھر خدا کے مامور کے مقابلہ میں آپ کو اپنی گری چھوڑ دینی چاہیے اور بیعت میں شامل ہونا چاہیئے.لیکن یہ قدم اٹھانا ان کے لئے بہت مشکل تھا.اور ہمیں پیر صاحب کا چھوڑنا بہت مشکل تھا.اسی کشمکش میں 90 ہیں میں نے حج کا ارادہ کیا.اور اس سفر میں میری ایک عرض یہ تھی کہ اس معاملہ کے متعلق مقامات مقدسہ پر دعا کروں گا.مجھے بیس دن کراچی ٹھہرنا پڑا کیونکہ ہمارا جہاز لیٹ ہو گیا تھا.میں جمعہ کی نماز احمد یہ ہال میں جا کہ پڑھتا اور رات دن سلسلہ کی کتب کا مطالعہ کرتا.مجھے یاد ہے کہ دعوۃ الامیرا اور ذکر الہی میں نے وہاں ہی کسی احمدی دکاندار سے خریدیں اور سفر حج پر ساتھ لے گیا.ہاں مرقاۃ الیقین بھی ہر وقت
اپنے پاس رکھتا تھا.اور اس کا بار بار مطالعہ کرتا تھا.شن رکھا تھا کہ خانہ کعبہ پر پہلی بار نظر ڈالنے کے وقت جو دعا کی جائے قبول ہوتی ہے.بہزاد و دعائیں مانگین.دا، خدا یا عمر بھر جو دعا مانگوں قبول فرمانا.(۲) جماعت احمدیہ قادیان میں شامل ہو نا اگر تیری رضا کا موجب ہے تو مجھے ضرور داخل فرمانا.یوں تو بیت الله مدینه منوره - منی ونات و غیره تمام مقامات مقدسہ پر دعائیں کیں لیکن یوم عرفہ یعنی حج کے دن تو خصوصاً دعا کا موقعہ ملا.عرفات کے میدان میں تقریبا آٹھ تو بجے پہنچ گیا تھا.دوپہر کے بعد ظہر و عصر جمع کر کے احرام کی حالت میں ایک مشکیزہ پانی کا کندے پر ڈالے اور کاپی دعاؤں کی ساتھ لئے ایک چھتری لے کر جیل رحمت پر چڑھ گیا.جہاں حضرت سرور کائنات علیہ الصلوۃ والسّلام نے خطبہ دیا تھا.خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے اس مقام پاک پھر حج کے دن کھڑے ہو کہ قرآنی دعاؤں اور احادیشی دھاریں کے ساتھ ساتھ اپنے خدا سے یوں مخاطب ہوا.مولا کریم میں گنہگار پاکستان سے تیرے اس متبرک مقام پر اس لئے آیا ہوں کہ میرے گناہ پخش اور اگر حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی تیرا سچا مسیح موعود ہے اور اس کی جماعت میں شامل ہوتا ضروری ہے تو مجھے اس جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.اے میرے مالک اگر قیامت کے روز تو مجھ سے سوال کرے گا کہ تو نے مسیح موعود کو کیوں نہ مانا.تو اس کا ذمہ دار تو ہوگا.میں رونے گرتے پڑتے تیرے در پر پہنچ گیا ہوں آب آئندہ تو راستہ کھول ، جو حالت دعا اور حالت گریہ اس وقت مجھ پر طاری ہوئی مجھے ساری عمر نہیں بھولے گی.واپس آکر دو سال متوانتره کرم پیر صاحب سے بحث و مکالمہ ہوتا رہا اور اس عرصہ میں مجھے کئی خوا میں بھی آئیں.جن کو میں نوٹ کر لیتا.اور میری عقیدت حضرت خلیفہ آسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یوٹا فیوگا بڑھتی گئی.آخر میں نے حتمی فیصلہ کر لیا.اور خدا تعالیٰ نے میرے اندر قوت بھر دی کہ خواہ پیر صاحب ناراض ہوں اب خدا تعالیٰ نے عقلی، علمی، روحانی طور پر مجھ پر حجت پوری کر دی ہے اب اگر مداہنت سے کام لوں تو شاید سلب ایمان کا معاملہ نہ ہو جائے.پس ہو کے جلسہ سالانہ پر یہ خاکسار حضور کی دستی بیعت سے مشرف ہوا.اور میرے ساتھ رائے احمد بخش ولد احمد منگلا نے بھی بیعت کی.اور بعد میں خاکسار کے ذریعہ سے در کردم
۴۴۵ پیر نورالدین صاحب کے تمام مرید سوائے چند ایک کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے داخل بس ملاحظہ ہو گئے.فالحمد لله رب العلمين؟ نه حضرت مصلح موعوددؓ نے اجتماع انصار الله مرکز تیر ۱۹۹۶ء کے دوران فرمایا :- آج کل ضلع جھنگ کے بعض نئے احمدی ہوئے ہیں ان میں سے ایک مولوی عزیز الرحمن صاحب ہیں جو عربی کے بڑے عالم ہیں " سے مولوی عزیز الرحمن صاحب کا قبول احمدیت اور آپ کے ذریعہ سے پیر منور الدین صاحب کے قریبا تمام مریدوں کا نور احمدیت سے منور ہونا تائید الہی کا چمکتا ہوا نشان ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :- یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے زمانہ میں یہ علاقہ جس میں ہما را مرکز ہے اس میں کوئی احمدی نہیں تھا.آپ کی وفات کے قریب عرصہ میں یہاں صرف ایک احمدی تھا لیکن اب ضلع جھنگ میں ہزاروں احمدی موجود میں 19ء میں جبکہ ہم ہجرت کر کے یہاں آگئے تھے.اس علاقے کے صرف پانچے چھ احمدی تھے اب دو تین ہزار احمدی ہوچکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں داخل ہو نیوالے ایسے آسودہ حال لوگ ہیں کہ حیرت آتی ہے کہ اللہ تعالے نے کسی طرح ان مال دار دن کو احمیت کی طرف ہدایت دیدی.ملاقات کے وقت ہر شخص جو اس علاقہ کا آتا ہے اس سے دریافت کیا جائے کہ تمہاری کتنی نہ مین ہے تو وہ کہتا ہے ۱۰ مریعے یا ۲۰ مریعے یا ہم مریعے اور اس وقت مریعے کی قیمت ۱۵۰ ہزار روپیہ ہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے پاس آٹھ سریعے سے کم زمین ہوتی ہے، اگر ٹوٹل کیا جائے تو میرے خیال میں یہاں ایک ہزار مربع جماعت کا ہو گیا ہے گویا پانچ کروڑ کی جائیداد صرف اس ضلع میں پیدا ہوگئی ہے اور یہ انقلاب ایک تھوڑے سے عرصہ میں ہوا ہے.صرف تین سال کی بات ہے کہ جب یہ انقلاب ہوا.اب دیکھ لو یہ معجزہ ہے یا نہیں.پہلے اس علاقہ میں جس میں احمدی نہیں ایک پیر منور الدین صاحب تھے.وہ قادیان بھی گئے تھے.واپس آکر انہوں نے اپنے مریدوں کو کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب کی بات سچی معلوم ہوتی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام یقینا وفات پا گئے ہیں مگر جب اُن ے قبول احمدیت کی داستان از الحاج مولوی عزیز الرحمن صاحب مشکل ص ۱۰ مش ناشر مکتبہ سلطان مقام ربوه.له الفضل ريوه ۲۷ مارچ ۶۹۵۶ م.
کے مربیہ جماعت میں داخل ہونے لگے تو انہیں ہماری جماعت سے بغض پیدا ہو گیا کیونکہ ہماری وجہ سے اُن کی آمدن کم ہوگئی.کمجا تو اُن کی یہ حالت تھی کہ اس علاقہ میں ان کی تیری عزت اور قدر کی جاتی تھی اور کجا یہ کہ جب اُن کے تمام مرید احمدی ہو گئے تو انہیں رہنے کے لئے کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی.آخر ایک دوست صالح محمد صاحب نے انہیں اپنے بنگلہ میں ٹھہرایا اور پھر وہ اپنے وطن واپس چلے گئے.غرض اللہ تعالیٰ احمدیت کی تائید میں ہمیشہ نشانات دکھاتا چلا آرہا ہے کہ فصل پنجم خلافت ثانیہ کا بیالیسواں سال ۱۳۳۳ ۱۹۵) اس باب کے ساتھ ہم خلافت ثانیہ کے بیالیسویں سال میں قدم رکھتے ۱۹۵۵ء کا پہلا خطبہ جمعہ ہیں.۱۹۵۵ سید نا حضرت مصلح موعود کا ہمیشہ یہ طریقہ تھا کہ ہر سال کے شروع میں جماعت کو اس کی بڑھتی ہوئی نئی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے تھے.اس دستور کے مطابق حضور نے سال نو کے پہلے خطبہ مسجد د فرموده ، جنوری شام میں مخلصین کو تحریک فرمائی کہ وہ نئے سال کو اس عزم اور ارادے کے ساتھ شروع کریں کہ ہم نے محنت کرنی ہے اور ہماری صحت ہی سے اعلیٰ نتائج پیدا ہوں گے اور واضح فرمایا کہ محنت اور قربانی کے بغیر خدا تعالے کی مدد نہیں آیا کرتی چنانچہ فرمایا :- تم یہ ارادہ کر لو کہ تم اس سال میں ہر جگہ شور مچاؤ گے کہ عمل کرو.عمل کرو.عمل کرو اور یہ خیال دل سے نکال دو گے کہ تمہارے کاموں کا خراب نتیجہ خدا تعالے کی طرف سے نکلتا ہے.اگر تم سچی محنت کرو گے تو لازمی طور پر اس کا اعلی نتیجہ نکلے گا اگر تمہارے کسی کام کا برا نتیجہ نکلتا ہے تو اس کا ل الازبار لذوات الخمار حصہ دوم ملا مرتبہ حضرت سیده مریم صدیقه مصاحبه صدر لجنہ اماء الله مر کز ید.i ! i
۴۴۷..موجب تم خود ہو.خدا تعالے بناتا ہے تم ضائع کرتے ہو.وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء: () بیماری تم خود لاتے ہو شفا خدا تعالے دیتا ہے.پس جب بھی کوئی کام ٹوٹے گا تمہاری طرف سے ٹوٹے گا اور جب بھی کوئی کام بنے گا تو وہ خدا تعالیٰ بنائے گا.اگر تم یہ نکتہ سمجھ لو تو تمہاری حالت بدل جائیگی.احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے میں تین میری عادتیں ہیں جن کو ترک کرنے کی میں اپنے اندر طاقت نہیں پاتا.آپ کوئی ایسا طریق بتائیں جس کے اختیار کرنے سے میں اِن بُری عادات سے چھٹکارا حاصل کر سکوں.ان تین برسی عادات میں سے ایک جھوٹ بھی تھا.آپ نے فرمایا تم میری ایک بات مان لو.دو کا میں ذمہ لینا ہوں تم ایک عیب چھوڑ دو یعنی جھوٹ بولنا.اس نے کہا بہت اچھا اور چلا گیا.کچھ مدت کے بعد وہ شخص دوبارہ آیا.آپ نے دریافت فرمایا آپ تمہارا کیا حال ہے.اس نے کہا یا رسول اللہ جھوٹ کے چھوڑے سے سارے عیب چھوٹ گئے.میں جب بھی کوئی غلطی کرنے لگتا تو خیال آتا تھا کہ میں لوگوں کو کیا جواب ڈونگا ؟ اگر سچ بولوں گا تو لوگ میرا پھل کہیں گے اور اگر جھوٹ ہوں تو اپنا عہد توڑوں گا.اس طرح محض جھوٹ نہ بولنے کی برکت سے میں سب عیوب سے نجات پا گیا ہوں.اسی طرح اگر تم اس سال محض یہ عہد کر لو کہ ہم نے محنت کرنی ہے اور ہماری محنت سے ہی اعلی نتائج پیدا ہوں گے اور اگر ہمارے کسی کام کے اعلیٰ نتائج پیدا نہ ہوئے تو ہمیں اقرار کرنا ہو گا کہ ہم نے محنت نہیں کی یا کوئی حماقت کی ہے جس کی وجہ سے ہماری محنت کا صحیح نتیجہ نہیں نکلا تو تمہاری کایا پلٹ سکتی ہے پس تم یہ سال اس نئے ارادہ اور عزم سے شروع کرد.اس نتیجہ میں تم اگلا سال اس سے بھی نیک اور اعلیٰ ارادہ سے شروع کرو گے اور تم اپنے ایمانوں میں ایسی پختگی دیکھو گے جس کو کوئی شخص توڑ نہیں سکے گا اللہ اس خطہ کی نیست حضور نے یہ ہدایت فرمائی کہ ہر جماعت جمعہ میں یہ خطبہ سنائے اور پھر تمام افراد سے عہد لے کہ وہ صحیح محنت کی عادت ڈالیں گے اور اپنے دعوئی کو تب سچ سمجھیں گے جب اس کے اعلیٰ نتائج نکلیں.اگر اعلیٰ نتائج نہ نکلیں تو اقرار کریں گے کہ انہوں نے صحیح محنت نہیں کی 2 له روزنامه الفضل ربوه ۲۶ جنوری ۱۹۵۵ اور صلح ۱۳۳۲ ریش مث کے.روزنامہ الفضل " ریوه ۲۶ جنوری ۱۹۵۵ و صلح ۱۳۳۲ پیش ص۳
اسی تسلسل میں حضور نے ۲۱ جنوری ۱۹۵۵ء کو ایک اور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جماعت کے ہر فرد کو دوبارہ یہ تاکید فرمائی کہ اسے یہ عہد کر لینا چاہیئے کہ وہ سخت سے کام کرے گا عقل سے محنت کرے گا اور اور اپنے آپ کو ہر کام کے نتیجے کا ذمہ دار قرار دے گا حضور کا یہ خطبہ الفضل ور فروری 90ء کی اشاعت میں چھپا اور اس کی نسبت بھی حضور کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ :- یہ خطبہ ایک دفعہ ہر مسجد احمدیہ میں سنایا جائے اسی طرح ایک ایک مرتبہ ہر جگہ کی خدام الی حمدیہ کی مجلس میں بھی سنایا جائے.حضرت مصلح موعود کی طرف سے جماعتہا اور انڈونیشیا کیلئے جمعتہائے مصری المانیشیا کے نائب صدر مکریم راڈن ایک قیمتی نیترک ہدایت صاحب اوائل ۱۹۵۵ء میں مرکز سلسلہ ربوہ میں ایک ماہ سے زائد عرصہ مقیم رہنے کے بعد جب واپس اپنے وطن تشریف لے جانے لگے تو انہوں نے حضرت اقدس المصلح الموعوددؓ سے خواہش کی کہ جماعت ہائے احمدیہ انڈونیشیا کے لئے انہیں کوئی تبرک عنایت فرمایا جائے بحضور نے ان کی خواہش کے احترام میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی تصنیف حقیقۃ الوحی کے مسودہ کا ایک حصہ جو آٹھ صفحات پرمشتمل تھا.اپنے پاس سے عنایت فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ اصل مسودہ کا عکس مرکز میں محفوظ رکھا جائے چنانچہ حضور کی اس ہدایت کی تعمیل میں اس کے عکس کی تین کا پیاں لی گئیں جو خلافت لائیر بیری ریوہ میں محفوظ ہیں.اور پھر اصل تیرک دو رومالوں میں لپیٹ کر اور ڈیئے میں بند کر کے چناب ایکسپریس کی روانگی سے قبل ۱۳ فروری شہداء کو مکرم راڈن صاحب ہدایت کے سپرد کر دیا گیا اس تبرک کے ساتھ حضرت المصلح الموعود نے جماعت احمدیہ انڈونیشیا کو ایک خط بھی لکھا جس کی نقل ذیل میں درج کی جاتی ہے." جماعت احمدیہ انڈونیشیا ! خدا تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کا نہ آپ کی جماعت کے اخلاص اور محبت احمدیت کو دیکھ کو میں ایک تبرکی حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا آپ کو بھجواتا ہوں اور یہ آپ کی ایک تحریر ہے جو لے یہ سودہ حقیقة الوحی طبع اول کے 9 تامل سے متعلق ہے جس کے شروع میں العام الحافظ كل من في الدار درج ہے اور آخر میں وہی مسیح موعود کہلائے گا منہ " کی عبارت ہے.}
آپ کے اپنے دستِ مبارک کی لکھی ہوئی ہے.در حقیقت یہ آپ کی کتاب حقیقۃ الوحی کے مسودہ کا ایک حصہ ہے مگر اس کے بارے میں یاد رہے کہ یہ تحریر قلم برداشتہ ہے حقیقت الوحی کے چھپتے وقت اصلی کا ہوں اور مطبوعہ کلام کا مقابلہ کرنے پر، اور ترجموں پر نظر ثانی کرنے پر اصلاح کی گئی اس لئے تحقیر ہوتی مطبوعہ اور اس مسودہ میں کچھ قلیل سا فرق ہو گیا ہے.ایسے اختلاف کے بارہ میں یاد رکھنا چاہیئے کہ جو حقیقۃ الوحی میں چھپا ہے.وہ اصل ہے اور جو اس مسودہ میں ہے وہ اس کے تابع ہے.یہ مسودہ بطور تیرک زیادہ قدر وقیمت رکھتا ہے اور حقیقۃ الوحی کا مطبوعہ کلام بطور صحت زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی قدر سمجھنے اور کرنے کی توفیق بخشے.والسلام خاکسار - مرزا محمود احمد.حضور نے یہ مکتوب مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر مولوی فاضل انچارج شعبہ زود نویسی کو لکھوایا اور اس کے آخر میں حضور انور نے اپنے قلم مبارک سے اس پر دستخط ثبت فرمائے ہے فارغ التحصیل شد بین کیلئے نئی سکیم سید نا حضرت مصلح موجود نے اس سال کے شروع میں فارغ التحصیل طلبائے جامعہ کے لئے ایک نئی سکیم جاری فرمائی جس کا اعلان ۱۳۸ جنوری شہداء کے خطبہ جمعہ میں درج ذیل الفاظ میں فرمایا :- میری تجویز یہ ہے کہ جو طالب علم مبلغین کلاس پاس کر لیں انہیں تبلیغ کے کام پر لگانے سے پہلے تین تین ماہ کے لئے کم سے کم چار دفاتر میں کام کرنے کا موقع دیا جائے.مثلاً تین ماہ وہ بیت المال میں کام کریں، تین ماہ نظارت امور عامہ میں تین ماہ دعوت و تبلیغ میں کام کریں تین ماہ کسی اور دفتر میں کام کریں اور اگر آدمی زیادہ ہو جائیں تو اس ایک سال کے عرصہ کو دو سال تک بڑھا دیا جائے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا ذہن صرف مولویت تک محدود نہیں رہے گا.بلکہ صحابہ کرام کی طرح اُن کے اندر دفتری کاموں ، تجارت، صنعت اور زراعت، سیاست، اقتصاد معاشرت پر غور کرنے کی عادت پیدا ہو جائے گی اُن کے اندر مال کے انتظام اور اس میں ترقی دینے، جماعت کی حالت کو سدھارنے اور تعلیم وغیرہ کی قابلیت بھی پیدا ہو جائے گی.انہیں مختلف محکموں کے کام کا پتہ لگ جائے گا اور ضرورت پڑنے پر وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے اگر ہمارے که روزنامه الفضل ریوه ۲۲ دسمبر ۳۶۱۹۶۷
۴۵۰ پاس اس قسم کے مبلغ تیار ہو جائیں تو جب تک ہم کوئی نیا مشن نہیں کھولتے ہم ان سے دوسرے محکموں میں کام لے سکتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ ہم انہیں امور عامہ زراعت، تجارت یا کسی اور محکمہ میں نائب ناظر لگا دیں یا نائب ناظر نہیں تو سپرنٹنڈنٹ ہی لگا دیں اور وقت پر وکالت اور نظارت ان کے سپرد کر دیں اس سے ہمارا خرچ بہت حد تک کم ہو جائے گا.ایک شخص جس نے زراعت کے محکمہ میں کام کیا ہو، وہ اگر کسی ایسے ملک میں بھیجا جاتا ہے جہاں لوگوں کا زیادہ تر گزارہ زراعت پر ہے تو وہ بوجہ اپنے تجربہ کے تبلیغ کے علاوہ جماعت کی زرعی حالت کو بھی درست کرے گا بہت سے ممالک ایسے ہیں جو زراعت، صنعت اور تجارت میں ابھی پاکستان سے بہت پیچھے ہیں.یورپ اور امریکہ تو بہت آگے جاچکے ہیں لیکن ایشیا اور افریقہ میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جن کی حالت پاکستان کی نسبت بہت خراب ہے.اگر ہمارے مبلغ اس قسم کے کام سیکھ کر وہاں جائیں تو دوسرے ممالک میں جا کر نہ صرف وہ جماعت کے لئے مفید وجود ثابت ہوں گے بلکہ گورنمنٹ کی نظر میں بھی اور پبلک کی نظر میں بھی وہ ملک کے لئے مفید ہوں گے اور وہ سمجھے گی کہ یہ لوگ صرف مولوی نہیں بلکہ ایک زمیندار صناع اور تاجر بھی ہیں اور اگر یہ طریق اختیار کر لیا جائے کہ فارغ وقت میں مبلغین کو کسی اور کام پر لگا دیا جائے تو یہ خطرہ نہیں ہوگا کہ زیادہ آدمیوں کو کہاں لگائیں.پھر یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ مبلغین کو بی اے کرا کے جرنلسٹ یا استاد بنا دیا جائے...میں نے بارہا اس طرف توجہ دلائی کہ مبلغین کو طب سکھائی جائے.اگر ایسا انتظام کیا جائے تو بہت تھوڑی سی توجہ سے وہ طبیب بن جائینگے پہلے حضور کی اس مفید سکیم کے مطابق جامعتہ المبیشترین میں دیسی طب اور ٹیکہ لگانے کا کام سکھایا جانے لگا اور حضور کے ارشاد پر دو شاہد ربوہ کے قریب الاٹ شدہ زمین پر زراعت کے کام پر لگا دیئے گئے جنہوں نے بڑی محنت سے کام کیا.یہ خدمت جن شاہدین کو سپرد کی گئی اُن میں سے ایک چوہدری رشید الدین صاحب اور دوسرے چو ہدری محمد اشرف صاحب تھے.مقدم الذکر بعد میں نائیجیریا اور لائبیریا میں تبلیغی خدمات بجا لاتے رہے اور اب مرکز میں ہیں.کے روزنامہ " الفضل" ریوه ۳ فروری شاء ص۲
اهم صد امین احمد کے لئے واقفین کی تحریک ورودی شاد و کوحضرت امام مامان این دیل ستخر یک فرمائی: اب تک صرف تحریک جدید کے لئے واققین لئے جاتے تھے اب ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ صدر انجمن کے لئے بھی واقفین زندگی کی تحریک کی جائے.پس اس بارہ میں کہیں اعلان کرتا ہوں کہ مخلص احباب اپنے آپ کو سلسلہ کے لئے پیش کریں عام رہنمائی کے لئے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مندرجہ ذیل قسم کے احباب کارآمد ہو سکیں گے :.اول پر ایم اے ایل ایل بی ڈاکٹر دوم : بی اے بی ٹی.سوم ایسے افراد جن کو انتظامی کاموں کا تجربہ ہو خواہ پیشتر ہوں.چہارم : ایسے احباب جو تجارتی یا صنعتی دلچسپی رکھتے ہوں خواہ مڈل تک کی تعلیم ہو گزارہ کے متعلق ہر ایک واقف کو صدر انجمن احمد یہ اطلاع دے گی کہ کسی اصل پر وہ گزارہ دے سکتی ہے.مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ہے ضرورت زمانہ کے مطابق لٹریچر تیارکرنے کا ارشاد یا حضرت مصلح موعود نے ہر فرد کیا ن کو ارشاد فرمایا کہ سلسلہ احمدیہ کے علما اور مبلغین کا فرض ہے کہ وہ ایسے رنگ میں لٹریچر تیار کریں جو زمانے کی ضرورت کے مطابق ہو چنانچہ حضور تے اس روز خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا :- میں علماء کو کہتا ہوں کہ وہ نئے طریق کلام کو جاری کریں اور سائنس اقتصادیات اور سیاسی ترقی کے نتیجہ میں جو د ساوس لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گئے ہیں ان کو مد نظر رکھ کر لٹریچر تیار کریں اور پھر اسے شائع کرا کے لائبریریوں میں رکھوائیں.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعثت کا مقصد پورا ہو سکتا ہے اگر ہم موجودہ د سارس کو دور نہ کریں اور اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے ان کا ازالہ نہ کریں تو ہمارا لٹریچر مفید نہیں ہو سکتا.........رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف لوگوں سے مختلف طریق سے گفتگو فرماتے تھے.عورتوں سے اور رنگ میں کلام فرماتے مردوں سے اور رنگ میں بات کرتے.مہاجروں سے اور رنگ میں گفتگو فرماتے اور انصار سے کلام فرماتے تو آپ کا رنگ اور ہوتا.ایک ہی بات کو سننے والوں کی نسبت سے چکر دے کر بیان فرماتے اور اس ه روزنامه " الفضل " ربوه ۸ فردری ۱۹۵۵ء ٣٥ -
رنگ میں کہتے کہ وہ خوبصورت نظر آتی مہاجروں کا ذکر آتا تو آپ فرماتے ہیں جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے وطن چھوڑ دیئے اپنے مال چھوڑ دیئے.ان سے اچھا اور کون ہو سکتا ہے.اور انصار سے گفتگو فرماتے تو آپ اس رنگ میں گفتگو فرماتے کہ جن لوگوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے محض خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے مال پیش کر دیئے ان پر اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے ان سے اچھا اور کون ہو سکتا ہے.اس طرح دونوں فریق خوش ہوتے اور اپنی اپنی جگہ قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے.پس مبلغین اور دوسرے علماء کا کام ہے کہ وہ اس قسم کا لٹریچر تیار کریں جس کی اس زمانہ میں ضرورت ہے وہ اس طرز پر تصنیف نہ کریں جس طرز پر پچھلے علماء تصنیف کرتے چلے آئے ہیں.اگر تم نماز کی صرف رکعات اور سجدے بیان کرتے ہو تو یورپ دالوں کی سمجھ میں تمہاری بات نہیں آسکتی لیکن اگر تم اس طرز سے یہ بات پیش کرو کہ نماز سے تمہارے اخلاق احساسات اور جذبات پر یہ اثر پڑتا ہے تو یورپ والوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے گی اور وہ تمہاری بات سننے کے لئے تیار ہو جائیں گے کیونکہ وہ علم النفس کو سمجھتے ہیں.کوئی زمانہ تھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے نماز پڑھو تو لوگ بات مان لیتے تھے لیکن اب اگر کہا جائے کہ خدا کہنا ہے نماز پڑھو تو لوگ کہیں گے خدا تعالے کو نماز کی کیا ضرورت ہے ہر اک زمانہ کی زبان الگ الگ ہوتی ہے اور اپنی بات سمجھانے کے لئے اس زبان میں بات کرنی پڑتی ہے جسے لوگ سمجھتے ہوں.ایک بزرگ نے اپنے پاس بیٹھنے والوں سے دریافت کیا کہ جنت کیوں اچھی ہے تو کسی نے کہا اس میں بڑی بڑی نعماء ملیں گی اس لئے وہ اچھی ہے.کسی نے کہا جنت میں مومن کو دائمی زندگی ملے گی اس لئے وہ اچھی ہے.مغرض ہر ایک نے کوئی نہ کوئی وجہ بیان کر دی ہے اس بزرگ نے کہا کہ میرے لئے دوزخ اور جنت دونوں برابر ہیں.اگر خدا تعالیٰ مجھے دوزخ میں ڈالتا ہے تو میرے نزدیک دوزخ اچھی ہے.اور اگر خدا تعالیٰ مجھے جنت میں ڈالتا ہے تو میرے نزدیک جنت اچھی ہے یہ ایک عشقیہ رنگ تھا جو آج کل نہیں چلتا اب اگر کہیں کہ مومن کو جنت ملے گی تو لوگ کہتے ہیں جنت کہاں ہے کسی جگہ ہے.خدا تعالیٰ نے جنت کیوں بنائی ہے غرض اس زمانہ میں پرانے جوابات سے لوگ مطمئن نہیں ہوتے صرف یہ کہہ دینا کہ خدا تعالے خوش ہو گا لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے کافی نہیں.تصوف آئے گا تو یہ باتیں لوگ مان لیں گے اس سے پہلے نہیں.کسی زمانہ میں اگر یہ کہا جاتا تھا کہ خدا تعالے ہمیں دوزخ
۴۵۳ میں بھی ڈال دے تو ہم اس پر راضی ہیں تو جسم پر جذبہ ایمان سے کپکپی آجاتی تھی لیکن اب یوروپ والے اس بات پر نہیں پڑتے ہیں ہاں وہ مادی زبان اور علم النفس کی بات کو فورا مان جاتے ہیں.باقی باتوں کے ماننے کے لئے وہ تیار نہیں ہوتے اس لئے قرآن کریم نے دونوں قسم کی باتوں کو لیا ہے.اس نے عشقیہ رنگ کو بھی لیا ہے.جیسے فرمایا اے رسولی جس نے تیرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اس نے گویا میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور علم النفس کو بھی لیا ہے کہ فرمایا ہم جو حکم دیتے ہیں وہ تمہارے فائدے کے لئے دیتے ہیں ہمیں اپنا کوئی فائدہ مد نظر نہیں ہوتا.اسی طرح بعض جگہوں پر آمرانہ طرز عمل بھی اختیار کیا گیا ہے پس ہر زمانہ میں الگ الگ زبان ہوتی ہے آمریت اور جمہوریت دونوں باتیں قرآن کریم میں موجود ہیں لیکن ایک وقت میں اور ایک قوم کے سامنے ایک ہی بات پر زور دیا جا سکتا ہے دونوں پر نہیں.پس تم اس رنگ میں لڑیچر تیار کرو پھر جب لڑیچر تیار ہو جائے تو جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس لٹریچر کو پھیلائے یہ سله.له.روزنامه "الفضل " ربوه ۱۷ فروری ۱۹۵۵ و ا تبلیغ ۱۳۳۳ میش ۲۰-۵
پانچواں باب حضرت مصلح موعود کی تشویشناک علالت.علاج کیلئے یورپ جانے کا فیصلہ روح پر در پیغامات کا سلسلہ حضور انور کا دوسرا سفر یورپ کراچی ، عشق ، بیروت ، زیورک ، تنبور نبرگ ہمبرگ اور ہالینڈ میں شاندار تربیتی اور تبلیغی مساعی لنڈن میں مبلغین اسلام کی عالمی کانفرنس سعید روحوں کا قبول اسلام • لنڈن کے کئی اجتماعات و تقاریر سے ایمان افروز خطاب و جماعت احمدیہ نائیجیریا کے دو رکنی وفد کی حضرت امام حمام سے ملاقات پاکستان میں مراجعت ربوہ میں فقید المثال استقبال مبارک سفر کا مبارک اختتام
۴۵۵ فصل اوّل ۲۶ فروری ۱۹۵۵ء کا آفتاب غروب ہوتے حضرت مصلح موعود کی تشویشناک حالت می خم داندہ اور کب والم کی ایک تاریک رات ہی پوری دنیا ئے احمدیت پر چھا گئی.احمدی بے چین دل اور مضطرب روح کے ساتھ مندا کے حضور سجدہ ریز ہو گئے اور اپنے محبوب اور مقدس آقا کی شفایابی کے لئے دعائیں کرتے ہوئے آنکھ کے پانی سے اپنی سجدہ گاہوں کو تر کر دیا.واقعہ یہ ہوا کہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثاني المصلح الموعود قصر خلافت میں نماز مغرب کے بعد لیٹے ہوئے تھے.پونے سات بجے کا وقت تھا.حضور کی حرم حضرت سیدہ اتم ستیری حضور کے ساتھ تھیں.آپ نے اٹھنا چاہا کہ فورا گر پڑے اور بے ہوشی طاری ہو گئی حضرت سیدہ نے بڑی مشکل سے حضور کو سہارا دے کر چار پائی پر لٹایا.اس وقت حضور کے جسم مبارک کا بایاں حقہ بے حسی کی حالت میں تھا.آواز لڑکھڑا رہی تھی اور کرب کی حالت تھی حضور کا بلڈ پریشر جو 16.عام طور پر ایک سو بینی کے قریب رہتا تھا.ایک سوشتر تک پہنچ چکا تھا.حضور بول سکتے تھے.مگر آواز صاف نہیں تھی.نو بجے شب کے قریب حضور کی حالت میں کسی قدر افاقہ ہوا اور جیسی بتدریج واپس آنے لگی.اور گیارہ بجے کے قریب بیماری کے بہت سے اثرات زائل ہوگئے.بلڈ پریشر کم ہونے لگا اور زبان پر بھی بیماری کا بہت خفیف سا اثر رہ گیا.اور حضور اپنی بائیں ٹانگ اور سا بازو کو حرکت دینے لگے بلے حضور کی اس متوحش بیماری کی اطلاع ملتے ہی بے شمار دوست انتہائی کیے تابی اور دلولہ اخلاص کے ساتھ دیوانہ وار دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں پہنچ گئے.اور بہت سے اجتماعی طور پر دعا کرنے کے لئے مسجد مبارک اور دیگر مساجد میں جمع ہو گئے.اور ساتھ ہی صدقے کے طور پر بکرے ذبیح کئے جانے لگے.یہ گویا حشر کی رات تھی جو ربوہ کی تمام آبادی نے نوافل اور دعاؤں میں شه ضمیمه روزنامه الفضل ریوه ۲۷ فروری ۱۹۵۵ء مٹ
۴۵۶ گزار دی.ابتدائی علاج کے لئے صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب انچارج فضل عمر بسپتال حضور کی خدمت میں حاضر رہے.اُن کے ساتھ ڈاکٹر کیپٹن محمد رمضان صاحب بھی تھے.ا، جس روز بیماری کا حملہ ہو اس سے پہلے ڈاکٹر محمد اسلم صاحب پیر زادہ لاہور کو ریوہ چلنے کے لئے کہا گیا باوجودیکہ رات کا وقت تھا اور ربوہ رات کے ایک بجے پہنچنے کا امکان تھا مگر انہوں نے بلا تامل منظور کر لیا اور رات کے ایک بجے پہنچ کر معائنہ کیا اور علاج تجویز کیا.(۲) ڈاکٹر پیر زادہ صاحب نے تین دن کے بعد پھر دیکھنے آنا تھا مگر حضرت صاحب نے خانصاحب ڈاکٹر محمد یوسف صاحب کو بھی بایں الفاظ یاد فرماتے ہوئے بلا بھیجا کہ وہ بھی ہمارے خاندان کے پرانے معالج ہیں اور تعلق رکھتے ہیں.(۳) ڈاکٹر پیر زادہ صاحب اور ڈاکٹر خانصاحب محمد یوسف صاحب کا علاج جاری تھا اور علاج سے فائدہ بھی حصہ رہا تھا لیکن حضور نے از خود ڈاکٹر کرنل الہی بخش صاحب کا نام بھی لیا فرمایا انہیں بھی بلا لیا جائے.کرنل صاحب موصوف نے بعد معائنہ نہایت محبت کے لہجے میں مرزور طریق پر اطمینان دلایا کہ حضرت صاحب! آپ کو کوئی فالج PARALYsis کا مرض نہیں ہے آپ قطعا فکر نہ کریں.جب دوسری بار دیکھنے کے لئے ربوہ آئے تو اپنے سامنے حضور کو کھڑا کر کے ٹہلوایا.دم، ڈاکٹر کرنل الی بخش صاحب کی ہدایت کے مطابق دو ہفتے تک علاج جاری رہا اور صحت میں ترقی ہو رہی تھی مگر پھر خانصاحب ڈاکٹر محمد یوسف کی یاد دل میں آئی اور لاہور پہنچنے پر مشورہ کیلئے بلایا مشورہ کیا تھا گویا ملنا مقصود تھا.(۵) کرنل الملی بخش صاحب اور خانصاحب ڈاکٹر محمد یوسف صاحب سے دوبارہ سہ بارہ منشوره لیا جا چکا تھا اور مناسب علاج جاری تھا کہ ڈاکٹر پیرزادہ صاحب کی پھر یاد دل میں آئی اور تیسری بار پھر بلا بھیجا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور انہیں گویا صرف اپنے علاج کے مشورہ کے لئے نہیں بلا رہے بلکہ خود انہیں دیکھنا چاہتے ہیں.(4) کرنل الہی بخش صاحب نے مختلف قسم کے امتحان قارورہ دنوں کے تجویز کئے اور ڈاکٹر غلامحمد نے حضور ۹ مارچ کو ربوہ سے لاہور تشریف لے گئے اور 14 مارچ کو واپس آئے.درپورٹ فقد آئین احمدیہ ۱۹۵۵-۳ء مث )
صاحب انچارج کلینیکل لیبارٹری میو ہسپتال سے امتحانات کروانے تجویز کئے حضرت صاحب نے فورا انہیں ربوہ لانے کے لئے لاہور موٹر بھیجوا دی اور ساتھ ہی ذکر کیا کہ یہ عموما ہمارے کنبہ کے لوگوں.فیس نہیں لیتے جب موٹر ان کو لانے کے لئے لاہور پہنچی تو یہ فورا ہی تیار ہو کر ربوہ آگئے اور خوشی خوشی امتحان کے لئے خون لیا اور ان کے واپسی کے وقت حضور تے ان کو ایک معقول رقم دینے کی سخت تاکید کی.رقم دینے والے شخص نے باصرار نوٹوی والا لفافہ ان کی جیب میں ڈال دیا مگر وہ بھی رقم واپس کرنے میں عجیب طور سے کامیاب ہو گئے وہ اس طرح کہ موٹر پر سوار ہونے سے قبل لفافہ کو جو بظا ہر ایک چھٹی کی شکل میں تھا.صاحب زادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو ہاتھ میں دے کہ بھاگ کر موٹر پر سوار ہو گئے اور شیشے بند کر لئے اور موٹر کو چلوا دیا.حضرت صاحبزادہ مرزا البشیر احمد صاحب بیماری کی تشخیص کے متعلق ڈاکٹر صاحبان کی رائے بیماری کے ابتدائی کلمات سےحضور کے کوائف سے جماعت کو باقاعدگی کے ساتھ بذریعہ الفضل آگاہ فرما رہے تھے.آپ نے در مار تا ۱۹۵۵ کو بذریہ مضمون مخلصین جماعت کو یہ اطلاع دی کہ :- خدا کے فضل سے حضرت صاحب کی حالت میں مزید ا فاقہ کی صورت پیدا ہوئی ہے اور بائیں بازو کے اثر میں تخفیف پیدا ہونے کے علاوہ اعصابی حالت میں بھی افاقہ محسوس ہو رہا ہے.چنانچہ کل صبح ڈاکٹر کرنل الہی بخش صاحب نے لاہور سے اگر حضرت صاحب کا معائنہ کرنے کے بعد رفتار صحت کے متعلق تسلی کا اظہار کیا.اور اتنے دنوں کے بعد حضور کولیستر سے سہارے کے ساتھ اٹھا کہ آرام کرسی پر بٹھا یا گیا.اور اس کے بعد تین چار قدم سہارے سے چلایا بھی گیا جس کی وجہ سے حضور کی طبیعت میں مزید بشاشت پیدا ہوئی.یہ سب ہمارے آسمانی آقا کے فضل و کرم اور دوستوں کی دردمندانہ و عادی کا نتیجہ ہے وَإِن شَكَرْتُمْ لَا زِيدَ تَكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ الْوَكِيل پچھلے سال مخلصین جماعت ڈاکٹروں کی طاقت بغرض علاج یورپ با امریکہ جانی کا متفقہ مشورہ نے میسی مشاورت تشاء مجلس ۱۹۵۲ء کے موقع پر حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور بغرض علاج امریکہ تشریف لے جائیں اور ساتھ ہی ایک له روزه نامه الفضل ریوه ۳۰ را بپریل ۵۵۵ او منت : که روزنامه الفضل ریوه ار مارچ ۱۹۵۵ء ص
۴۵۸ خاصی رقم اخراجات سفر کے لئے پیش کر دی جو حضور کے ہمراہ جانے والے خادموں کے لئے تھی، لیکن خلفاء کوئی جماعتی قدم خدا تعالے کے اذن کے بغیر نہیں اٹھا سکتے اور چونکہ مثبت الہی میں بیرونی سفر کی آئندہ وقت کے لئے مقدر تھا.اس لئے نو دس ماہ گزرنے کے باوجو د حضور کو اس مشورہ کو قبول کرنے میں سراسر تائل رہا ہے لیکن جب لاہور کے چیدہ ڈاکٹروں نے علاج کے لئے یورپ یا امریکہ جانے کا مشورہ دیا تو حضور کا ذہن بھی خدا تعالیٰ کے تصرف خاص سے اس طرف منتقل ہو گیا اور خود استخارہ کرنے کے علاوہ مندرجہ ذیل احباب سے بھی استخارہ کرنے کے لئے ارشاد فرمایا :- (1) ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب.(۲) حضرت مفتی محمد صادق صاحب.(۳) حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب.(۴) حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی - (۵) حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری.(4) صوفی محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکولی آخر جب دعاؤں کے بعد جناب الہی کی طرف سے حضور کو اطمینات یورپ جانے کا فیصلہ علی نصیب ہوا توحضور نے بھی پیشود، قبول فرمایا گرامریکہ جانے کے قلب نصیب یہ مگر لئے زر مبادلہ کی دقتوں کی وجہ سے حضور نے امریکہ کی بجائے یورپ تشریف لے جانے کا فیصلہ کیا.کیونکہ حضور کو بتایا گیا کہ یورپ میں علاج بہت اعلیٰ ہو گیا ہے خصوصا سوئٹرزلینڈ کے ڈاکٹر امریکہ جا جا کر سیکھ کہ آ رہے ہیں.اور اقوام متحدہ کی طرف سے یورپ کے ہسپتال بھی آپ ٹوڈیٹ : Up To) DATE ہو گئے ہیں کہ حضرت مصلح موعود نے سفر یورپ کا فیصلہ کرنے کے ساتھ یہ بھی فیصلہ فرما یا کہ اپنے اہل بیت کو بھی شریک سفر رکھیں گے چنانچہ حضور نے انہی دنوں حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے نام ایک مکتوب میں لکھا: میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں یورپ ہو آؤں تاکہ میں کام کے قابل ہو جاؤں ایسی حالت میں میں بیوی بچوں کو پچھے نہیں چھوڑ سکتا.اس لئے سب کو ساتھ لئے جا رہا ہوں.انشاء اللہ.لوگوں کی نگاہ میں اتنے بڑے قافلے کو لے جانا مجیب معلوم ہوتا ہے مگر میرا یقین ہے کہ وہ مجیب خدا ان حالات میں بھی میرے لئے نے رپورٹ مجلس مشاورت ۹۵ : ما الفضل ۳۰ / اپریل ۱۹۵۵ ء.سے مکتوب حضرت مصلح موعود بنام سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مطبوعه ۱۶ ر ماری ۱۹۵۹ من
۴۵۹ عجائب ہی دکھائے گا انشاء ال مشکلات رائی کائی ہو جائیں گی آسمان گرائے گا اور زمین اُگائے گی اور خدا کے فرشتے ہر جگہ پر انتظام کرتے پھریں گے کیوں کہ آخر وہ میرے دوست اور ساتھی ہیں.خدا تعالے نے ہارے درمیان دوستی اور بھائی چارہ پیدا کیا ہے.پس آسمان پر جبرائیل اور زمینی پر جبرائیل کے مظہر میرے کام میں لگیں گے پھر مجھے فکر کسی بات کی ہو.فکریں عارضی آتی ہیں مگر خدا تعالئے ان فکروں کو بھی نرم کر دے گا ولایت میں ہمارا پتہ و ہی ہو گا جو ہمارا مشن کا پتہ ہے.آپ سہولت سے وہاں خط بھجوا سکتے ہیں.اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو آپ کو اطلاع دے دوں گا.ان دنوں آپ کا خاندان بھی بہت دُعاؤ کی کا محتاج ہے انشاء اللہ اس سفر میں آپ کے خاندان کو دعاؤں میں یاد رکھوں گا.آپ میری زندگی کے سفر کے ساتھتی ہیں پھر میں آپ کو کسی طرح بھول سکتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس اللہ تعالی نے سید عبدالرحمن نے اللہ رکھا مدراسی کی شکل میں اپنے فرشتے بھیجوائے تھے میرے پاس اللہ تعالے نے آپ کی شکل میں فرشتے بھیجوائے ہیں.اس لئے لازما جب بھی کوئی فرشتہ آئے گا.تو آپ کو یاد کیا جائے گا کیونکہ بھائی بھائی اور دوست دوستوں کو یاد رکھتے ہیں.جن کو خدا ملائے ان کا رشتہ کوئی نہیں توڑ سکتا اللہ تعالے سے دعا ہے کہ اللہ تعالے آپ کی اولاد میں بھی آپ جیسا اخلاص پیدا کرے بلکہ آپ سے بھی بڑھ کر جو دنیوی برکات آپ کو اور آپ کے بھائیوں کو نصیب ہوئی تھی وہ آپ آپ کی اولاد کی طرف منتقل ہو جائیں.اللہ تعالے احمد بھائی مرحوم کی اہلیہ مکرمہ کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی اولاد پر بھی بڑے فضل کرنے اور اُن کو اپنی ماں بہنوں کی خدمت کی توفیق بخشے تا ان کے باپ کی روح خوش رہے.ہندوستان کی جماعت کا خیال رکھیں آپ کی طبیعت میں جو شرم و حیا ہے اس کی وجہ سے کہیں آپ پر کام کی ذمہ داری نہیں ڈالنا.مگر وقت آگیا ہے کہ آپ آگے آکر جماعت کو مضبوط کریں.اور مرکز قادیان کو مضبوط کرنے کی سعی فرمائیں.میں نے اپنا ایک بیٹا اس وادی غیر ذریعے میں بسا دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو کام کی توفیق دے اور آپ دونوں مل کر اس وسیع ملک کے باوا آدم ثابت ہوں.ایک دن آنے والا ہے کہ ان ملکوں میں آپ لوگوں ہی کی روحانی اور جسمانی نسل ہو گی آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ وفاداری کا سلوک کیا.حالانکہ آپ انسان اور کمزور تھے.خدا تعالے جو طاقتور اور مالک ساز و سامان ہے وہ کسی طرح آپ سے بے وفائی کر سکتا ہے.اگر وہ آپ سے بے وفائی کرے گا.تو گویا مجھ سے پہلے وفائی کرے گا مگر مجھ سے لیے وفائی نہ پہلے اس نے کی نہ آئندہ کرے گا.وہ میرے دائیں بھی بائیں بھی آگے بھی پیچھے بھی
سر کے اوپر بھی اور دل کے اندر بھی ہے.ہر ایک شخص جو میری طرف ہاتھ بڑھاتا ہے اور جو مجھ پر زبان چلاتا ہے خدا کی طرف چلاتا ہے اس کی ماں اسے نہ جنتی تو اچھا تھا.اسکی درد ناک حالت پر فرشتے رحم کریں.دستخط مرزا محمود احمد الله جدید حضرت مصلح موعود کو جماعت احمدیہ کے ہر فرد سے روح پرور پیغامات کا جدید سلسلہ بے مثل محبت تھی جو اپنی ذاتی تکلیف کے ہر موقعہ پر بھی ایک تیز فوارہ کی طرح پھوٹ پڑتی تھی یہی وجہ ہے کہ اس بیماری کے اثرات جتنی شدت کے ساتھ ظاہر ہوئے اتنے ہی شدید احساسات ایک روحانی باپ کی حیثیت میں آپ کے شفیق و حلیم دل میں جماعت کے لئے پیدا ہو گئے اور آپ نے مخلصین جاموت کو حالات سے برابر مطلع رکھنے کے لئے پیغامات کا ایک نیا سلسلہ جاری فرما دیا..اس تعلق میں حضور کی طرف سے اور مارچ 1940ء کو پہلا پیغام جو دیا پہلا پیغام گیا.اس میں آپ نے اپنی بیماری کی نوعیت اور ڈاکٹروں کی رائے کا مورخه از ماری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- برادران! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکانه.ڈاکٹری مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ میں اہل وعیال اور دفتری عملہ کو لے کر کچھ عرصہ کے لئے یورپ چلا جاؤں تاکہ جلدی اس مرض کی روک تھام ہو جائے پہلے امریکہ کا خیال تھا مگر چونکہ امریکہ کا ایک چینج نہیں ملتا اس لئے اس ارادہ کو چھوڑنا پڑا لیکن یورپین علاقہ میں انگریزی سکہ چل جاتا ہے اور برطانوی کامن ویلتھ کے مختلف علاقوں میں ہماری جماعت خدا کے فضل سے کافی تعداد میں موجود ہے مثلاً افریقہ کے کئی علاقے وغیرہ وغیرہ.اس لئے یورپ جانے میں مشکلات بہت کم ہیں.میں نے عزیزم چودھری ظفر اللہ خانصاحب کو مشورہ کے لئے تار دی تو انہوں نے تار میں جواب دیا کہ خدا کے فضل سے یورپ کے بعض ممالک میں علاج کی بہت سی سہولتیں پیدا ہوگئی ہیں اور کامل سامان مل سکتا ہے اس لئے پیشتر اس کے کہ تکلیف بڑھ جائے میں یورپ چلا جاؤں اور وہاں کے ڈاکٹروں سے علاج کراؤں تاکہ میں اچھا ہو کہ خطبہ بھی دے سکوں.تفسیر بھی مکمل کر سکوں له روزنامه الفضل ربوه ۱۷ مارچ ۶۱۹۵۵ ص۲ |
الم اور جماعتی ترقی کے لئے جس غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ قائم رہے چونکہ سکہ کی دقتیں یورپ کے سفر میں ہمارے راستے میں اس قدر روک نہیں ہوں گی جس قدر امریکہ کے سفر میں ہو سکتی ہیں.اس لئے اس سفر کے لئے ممکن ہے کہ اگر سلسلہ کے پاس روپیہ ہو تو گورنمنٹ کے طرف سے غیر ملکی سکہ مل جائے یا اگر ہماری افریقہ کی جماعتیں اخلاص کا ثبوت دیں تو غیر ملکی سکہ کی بہت سی مشکلات اِن کے ذریعہ سے پوری ہو جائیں گی کیونکہ ان کے پاس وہی سکہ ہے جو یورپ میں چلتا ہے جب میں سہ میں انگلینڈ گیا تھا تو ہندوستان کی مالی حالت بہت خراب تھی اور بند دستانی جماعت اخراجات سفر به داشت نہیں کر سکتی تھی اس وقت زیادہ ایسٹ افریقہ عراق اور چند اور غیر ممالک کے احمدیوں نے اکثر حصہ بوجھے کا اٹھایا تھا.قادیان کی انجمن ہمارے کھانے پینے کے لئے بھی خرچ نہیں بھجوا سکتی تھی.مگر اللہ تعالیٰ نے افریقہ اور عرب کی جماعتوں کے اندر اس قدر اخلاص اور ایمان پیدا کر دیا کہ سارے قافلہ کے کھانے اور تبلیغ کا خرچ نہیں ادا کرتا تھا یا یوں کہو اللہ تعالے میرے ذریعہ سے ادا کرتا تھا.واقعہ اس طرح ہوا کہ میں نے مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ایسٹ افریقہ کے چند دوستوں کو لکھا کہ مجھے سفر کی ضرورتوں اور جماعت کے وفد کے اخراجات کے لئے کچھ انگریزی سکہ قرض کے طور پر دیدیں.وہ آدمی تو تھوڑے سے تھے مجھے یاد ہے کہ اس وقت تک ایسی حیثیت کے آدمی چند تھے.جہاں تک مجھے یاد ہے میاں اکبر علی صاحب بستید معراج الدین صاحب اور بابو محمد عالم صاحب مبا سوی ایسی حالت میں تھے کہ کچھ قرض دے سکیں لیکن ایمان دنیا کے خزانوں سے بڑا ہوتا ہے ایمان نے ان کی تمام مالی کمزوریوں کو دور کر دیا مجھے یاد ہے کہ بابو اکبر علی صاحب نے اپنی نتجارت کا ایک حصہ نیلام کر دیا اور روپیہ مجھے قرض بھجوا دیا چونکہ یہ جماعتی حساب میں تھا جماعت نے ادا کر دیا مگر اس وقت ایک عجیب لطیفہ ہوا جو خدا کی قدرت کا نمونہ تھا.عراق میں ہمارے صرف ایک احمدی دوست تھے اور اُن کی مالی حالت کچھ اچھی نہیں تھی میں نے اُن کو خط لکھا انہوں نے اپنے کسی اور دوست سے ذکر کر دیا ایک دن لنڈن کے ایک بنک نے مجھے اطلاع دی کہ تمہارے نام اتنے سو پونڈ آیا ہے.میں نے سمجھا کہ قادیان نے مبلغین کے قافلہ کا خرچ بھیجوایا ہے لیکن دریافت کرنے پر بینک نے بتایا کہ قادیان یا ہندوستان سے وہ روپیہ نہیں آیا بلکہ عراق سے آیا ہے میں نے بیت المالی قادیان کو اطلاع دی کہ آپ لوگوں نے قرض کی تحریک کی تھی اور میں نے بھی اس کی تصدیق کی تھی اس سلسلہ میں روپیہ آنا شروع ہوا ہے آپ نوٹ کر لیں اور چونکہ بعد میں ادا کرتا ہے اور عراق کا پتہ ان کو بنا دیا
۴۶۲ کہ یہاں سے اتنے سو پونڈ آیا ہے.جب میں ہندوستان واپس آیا تو میں نے اس وقت کے ناظر صاحب بیت المال سے کہا کہ کیا اس روپیہ کا پتہ لیا ہے انہوں نے کہا کہ ہم رجسٹریاں لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں.سارے احمدی انکار ہی ہیں کہ ہم نے روپیہ نہیں بھیجا.میں نے اس سعید غیر احمدی کو خط لکھنے شروع کئے کہ اتنا روپیہ آپ کی طرف سے ملا ہے یا غالباً اس قرضہ کی تحریک کے نتیجہ میں ہے جو بیت المال کی طرف سے کی گئی تھی.آپ اطلاع دیں تاکہ سلسلہ اس کو اپنے حساب میں درج کرلے لیکن کئی ماہ مسلسل رجسٹری خطوط بھیجوانے کے بعد ایک جواب آیا اور وہ جواب یہ آیا کہ آپ کو غلطی لگی ہے کہ میں نے سلسلہ احمدیہ کو کوئی قرض دیا ہے چھ سو یا آٹھ سو پونڈ انہوں نے لکھے کہ میں نے لنڈن بنک کے ذریعہ آپ کو بھجوائے تھے مگر وہ بیت المال کو قرض نہیں بھجوائے تھے بلکہ وہ آپ کو نذرانہ تھے.اس خط کے وصول ہونے پر میری حیرت کی حد نہ رہی کہ اس غیر احمدی کو امر تعالے نے وہ توفیق دی جو کئی احمدیوں کو بھی نہ ملی تھی ممکن ہے کہ غیر احمدیوں میں کوئی مال دار ہو مگر میرے علم میں تو غیر احمدیوں میں بھی کوئی اتنا مال دار نہیں تھا جو اس بشاشت سے چھ سو یا آٹھ سو پونڈ نزرانہ بھیجوا دے مگر بہر حال چونکہ وہ سلسلہ کے لئے مدنظر تھا اور وہ بھیجنے والا غیر احمدی تھا اس لئے میں نے نوٹ کر لیا کہ یہ روپیہ سلسلہ کا ہے اور مسجد لنڈن کے حساب میں میں نے وہ رقم بنک میں جمع کرا دی اور حساب کر کے گذشتہ سال تحریک جدید کو مسجد لنڈن کے حساب میں ۷۳۱ یا ۷۵۰ پونڈ ادا کر دیئے.جس سے مسجد لنڈن کی مرمت وغیرہ ہوئی.بہر حال اس طرح میں بھی اپنے قرض سے سبکدوش ہوا.اور مرقت بھی ہوگئی اور خدا تعالے نے مجھے توفیق بخشی کہ میں اس کے احسان کی قدر اس صورت میں ظاہر کروں کہ وہ رو پیر خانہ خدا کے بنانے پر خرچ ہو جائے.اس وقت ہماری جماعت اس وقت سے کئی گنا زیادہ ہے بلکہ شاید نہیں گئے زیادہ ہے اور اگر مرکز احمدیت کی تحریک پر وہ لوگ بھی انگریزی سکہ سے ہماری مدد کریں خواہ قرض کے طور پر ہی ہو تو یہ سفر بها را آسانی سے گزر جاتا ہے چونکہ میں بیماری کی وجہ سے جارہا ہوں اس لئے امید ہے کہ ونٹ کی طرف سے بہت سا انگریزی سکہ خریدنے کی اجازت مل جائے گی لیکن وہ لوگ جن پر پاکستانی قانون نہیں چلتا اگر انگریزی سکہ ہمیں بہتا کر دیں تو انٹر نیشنل قانون کے ماتحت یہ جرم نہیں اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنے فرض کو سمجھ سکیں.ادا کر سکیں.تاکہ اگر وحی جلی ان پر نازل نہیں ہوئی
تو وحی خفی تو ان پر نازلی ہو جائے.حضرت مسیح موعود علی الصلوة والسلام کا الہام ہے يَنْصُرُكَ يجال نُوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ عنقریب تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن پہ ہم دھی کریں گے گویا جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی درد کرتا تھا وہ وحی کے ماتحت کر تا تھا یہی معاملہ خدا کا میرے ساتھ رہا ہے میں نے تو ہمیشہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ پکڑا ہے اور اس سے کہا ہے کہ اپنے نوکر کو دوسروں کی ڈیوڑھی سے مانگ کر گزارہ کرنے پر مجبور مت کرے.اس میں نوکر کی بہتک نہیں.آقا کی متک ہے.اگر میرا نوکر دوسرے کے گھر سے روٹی مانگے تو میری عزت برباد کرتا ہے اس لئے کبھی انسان کے مال پر نہ میں نے نظر رکھی ہے اور نہ آئندہ کبھی رکھوں گا.اللہ تعالے نے ہمیشہ میری خود ہی مدد کی ہے اور آئندہ بھی وہی مدد کرے گا کسی نے میری مدد نہیں کی کہ خدا تعالیٰ نے اس سے بیسیوں گئے اس کی مدد نہ کی ہو.درجنوں مثالیں اس کی موجود ہیں جو چاہے میں اس کا ثبوت دے سکتا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ شبہ کرے کہ میں لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے یہ بات کر رہا ہوں آخر وہ اس کا کیا جواب دے گا.کہ ایک شخص جو بالکل غریب حالت میں تھا اس نے میری مد کی تو اللہ تعال نے اس کو دولت دے دی یا اس کی اولاد کو اتنی تعلیم دلا دی کہ وہ صاحب اثر ورسوش بن گیا.خیالی ہے خدا توفیق دے تو اپریل میں ہوائی جہاز کے ذریعہ سے جاؤں احباب دعا کریں کہ اللہ تعالے اس کے لئے راستہ کھول دے اور اگر یہ سفر اللہ تعالے کے منشاء کے بموجب ہے تو اس کو صحت کا موجب بنائے دوستوں نے سفر امریکہ کے لئے گذشتہ شورکی پر ایک چندہ کی تحریک کی تھی.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حفاظت خاص یعنی جماعت احمدیہ کے امام کی حفاظت کے لئے جو ر قوم تجویز کی گئی تھیں گو کانی روپیہ اس میں آیا ہے مگر جتنی ضرورت ہے اتنا نہیں آیا.اس لئے میں اپنے محبتوں اور مخلصوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ فیصلہ جو خود ان کا ہے کم سے کم اسے پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ غیروں کے سامنے شرم اور ذلت محسوس نہ ہو.اس موقعہ پر میں یہ کہنے میں بھی فخر محسوس کرتا ہوں کہ مجھے جوش کوہ پیدا ہوا تھا کہ اس سال تحریک جدید کے وعدے پورے نہیں آرہے خدا تعالے نے جماعت کو اس شکوہ کے دُور کرنے کی توفیق بخش دی ہے.اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے آج کی تاریخ تک قریباً چھ ہزار کے وعدے زائد آچکے ہیں اور موجودہ رفتار پر قیاس رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ میعاد کے آخر تک اللہ تعالے کی مدد اور نصرت
سے چالیس پچاس ہزار روپے کے وعدے بڑھ جائیں گے.دنیا کی نظروں میں یہ بات عجیب ہے مگر خدائے عجیب کی نظر میں یہ بات عجیب نہیں.کیونکہ اس کے مخلص بندوں کے ہاتھوں سے ایسے معجزے ہمیشہ ہی ظاہر ہوتے چلے آئے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہو تے پہلے جائیں گے پہلے بھی تعدا تعالیٰ ایسے ہی بنوں کے چہروں سے نظر آنا رہا ہے اور اب ہمارے زمانہ میں بھی ایسے ہی انسانوں کے چہروں سے خدا نظر آئے گا اور ان کے دلوں اور ایمانوں سے ایسے معجزے ظاہر نہیں ہوں گے بلکہ برسیں گے منکر انکار کرتے چلے جائیں گے.جبرائیل کا قافلہ بڑھتا جائے گا اور آخریوش تک پہنچ کر دم لے گا.عرش کا راستہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اپنی امت کے لئے کھول دیا ہوا ہے.آپ کوئی ماں ایسا بیٹا نہیں جینے گی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھولا ہوا راستہ بند کر سکے شیطان حسد سے مرجائے گا.مگر خدا تعالیٰ کی مدد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطانی حسد کی آگ سے بچالے گی دوزخ چاہے گندھک کی آگ کی بنی ہوئی ہو یا حسد کی آگ سے صاحب الخلق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس سے محفوظ کیا گیا ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا.دوزخ کے شرار سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے لئے ہیں اس کے دوستوں کے لئے کوثر کا خوش گوار پانی اور جنت کے ٹھنڈے سائے ہیں صرف اتنی ضرورت ہے کہ وہ ہمت کر کے ان سالوں کے نیچے جا بیٹھیں اور آگے بڑھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ستم کے ہاتھ سے کوثر کا پانی لے لیں.لوگ اپنے باپ کی زمینوں اور مکانوں کو نہیں چھوڑتے اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں تک جاتے ہیں کہ ہمارا اور ثہ ہمیں دلوایا جائے اگر مسلمانوں میں سے کوئی بد سخت اپنے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثہ کو نظر انداز کرتا ہے تو اس پر افسوس ہے اس کو تو فیڈرل کورٹ تک نہیں بلکہ عرش کی عدالت تک اپنے مقدمہ کو لے جانا چاہئیے اور اپنا ورثہ لے کہ چھوڑنا چاہیئے.اگر وہ ہمت نہ ہارے گا اگر وہ دل نہ چھوڑے گا، تو محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ سلم کا ویر اس کو ملے گا اور ضرور ملے گا.صاحب العرش کی عدالت کسی کو اس کے حق سے محروم نہیں کرتی اور محمدرسول قد صلی الہ علیہ وسلم کا روحانی باپ دنیا کے ظالم دادوں کی طرح اپنے پوتوں کو طبعی حق سے محروم نہیں کرتا بلکہ جب وہ اس سے اپیل کرتے ہیں وہ اُن کے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ اُن کو دیتا ہے بلکہ ورثہ کے حصہ سے بھی بڑھ کر دیتا ہے کیونکہ وہ رحیم و کریم ہے اور وہ رحیم کریم به برداشت نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولیم کی وفات کے بعد اُن کی روحانی اولاد اپنے
۴۶۵ ورثہ سے محروم ہو جائے.سو دوستو بڑھو کہ تمہیں ترقی دی جائے گی.قربانی کرو کہ تمہیں دائمی زندگی عطا کی جائے گی.اپنے فرض کو پہچانو کہ خدا تعالیٰ اس سے بڑھ کر اپنے فرض کو پہچانے گا اور جب وہ وقت آئے گا تو نہ صرف تمہارے گھر برکتوں سے بھر جائیں گے بلکہ سردہ گوشت کا لوتھڑا جو تمہارے جسم سے نکلے گا اس کو بھی برکتوں کی چادر میں لپیٹ کر بھیجا جائے گا اور جو تمہارے ہمسائے میں رہے گا اس پر بھی برکتیں نازل ہوں گی جو تم سے محبت کرے گا اس سے خدا تعالے محبت کرے گا اور جو تم سے دشمنی کرے گا اس سے خدا تعالیٰ دشمنی کرے گا.میں نے آپ کو کبھی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے باہر جانے کی سکیم بتائیں یہ سکیم آپ لوگوں کی طرف سے پیش ہوئی آپ نے ہی اسے منظور کیا میں نے ایک لفظ بھی اس کے حق میں نہیں کہا اب آپ کا فرض ہے کہ تکلیف اٹھا کر بھی جو ریزولیوشن آپ نے پاس کیا تھا اس کو پورا کریں دوستوں کو ئیں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ قادیان میں ایک امانت قنڈ کی میں نے تجویز کی تھی اور وہ یہ تھی کہ قادیان کی ترقی کے لئے احباب کثرت سے امانتیں قادیان میں جمع کروائیں خاص خاص وقت پر اپنی اغراض کے لئے خلیفہ وقت اور جماعت بوقت ضرورت کچھ قرض لے لیا کریں گے اس سے احباب کا روپیہ بھی محفوظ رہے گا اور بغیر ایک پیسہ چندہ لئے جماعت کے کام ترقی کرتے رہیں گے.قادیان میں اسی تحریک کے مطابق ترقی کرتے کرتے ستائیس لاکھ روپیہ اس امانت میں پہنچ گیا تھا اور بغیر ایک پیسہ کی مدد کے احباب کرام سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق پا جاتے تھے.چنانچہ اس تحریک کا نتیجہ تھا کہ پارٹیشن کے بعد جب سارا پنجاب لٹ گیا تو جماعت احمدیہ کے افراد محفوظ رہے اور ان کو اس امانت کے ذریعے دوباره پاکستان میں پاؤں جمانے کا موقع مل گیا....اگر اب بھی دوست میری بات کو مانیں گے تو انشاء اللہ بڑی بڑی برکتیں حاصل کریں گے.انہیں اغراض کے مانحت روپیہ جمع کرانا ہوگا.جو میں نے اوپر بیان کی ہیں تحریک ، صدر احمین احمدیہ اور میں انشاء اللہ ذاتی طور پر ان امانتوں کے واپس کرنے کے ذمہ دار ہوں گے جس طرح پہلے دور میں ذمہ دار تھے اور ایک ایک پیسہ احباب کو ادا کر دیا تھا.روپیہ کا گھر میں پڑا رہنا یا سونے کی صورت میں عورتوں کے پاس رہنا قومی ترقی کے لئے روک ہے اس لئے اپنی اولادوں کی ترقی کی خاطر ان کی تعلیم اور پیشیوں کی ترقی کے خاطر اپنی آمدن میں سے تھوڑی ہو یا بہت پس انداز کرنے کی عادت ڈالیں اور امانت کے طور پر تحریک جعدہ بد یا صدر انجمن
کے خزانہ میں جمع کراتے رہیں.اور اس کا نام امانت خاص رکھیں.یہ امانت اوپر کے بیان کردہ اعراض کے لئے ہو گی صرف اتنا فرق ہو گا کہ پوشخص اپنی امانت میں سے دس ہزار روپیہ یا اس سے زائد لینا چاہے.اسے عام طور پر سات دن کا نوٹی دینا ہوگا.مگر یہ ضروری نہیں امانت داروں کی ضرورت کے مطابق فوری رو پہ بھی ادا کر دیا جائے گا.مگر جو لوگ چند سو یا ہزار لینا چاہیں گے ان کو بغیر کسی نوٹس کے فوری طور پر روپیہ ادا ہو جائے گا.میں امید رکھتا ہوں کہ سلسلہ کی تمام خواتین اور مرد میری اس تحریک پر لبیک کہیں گے اور بغیر پیسہ خرچ کرنے کے دین ودنیا کے لئے ثواب عظیم کمائیں گے اور انشاء اللہ یہ امانت ان کی مالی ترقی کا بھی موجب بنے گی اور اس کے لئے سکیم آئندہ بنائی جائے گی.چونکہ یہ ایک موقت امانت ہوگی جس کے لئے آٹھ دن کے نوٹس کی شرط ہو گی یہ قرضہ بن جائے گا اور زکوٰۃ سے آزاد ہو جائے گا اور ان کے کام میں کوئی نقص نہیں ہوگا.اگر جماعت کے مرد اور عورتیں اس طرف توجہ کریں تو پندرہ ہمیں لاکھ روپیہ چند روز میں جمع ہونا مشکل نہیں.اور یورپ کا سفر اور سلسلہ کے کام بسہولت جاری رہ سکیں گے اور مالی اعتبار سے بھی مجھے بے فکری.رہے گی.میں اس وقت بالکل بے کار ہوں اور ایک منٹ نہیں سوچ سکتا اس لئے اپنے پرانے حق کی بنار پر جو پچاس برس سے زیادہ عرصہ کا ہے ، تمام بہنوں اور بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بے عملی کی زندگی سے بچائے کیونکہ اگر یہ زندگی خدانخواستہ لمبی ہوتی ہے تو مجھے اپنی زندگی سے موت بھلی معلوم ہو گی تو میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے خدا جب میرا وجود اس دنیا کے لئے بے کار ہے تو تو مجھے اپنے پاس جگہ دے جہاں میں کام کر سکوں.سو اگر چاہتے ہو کہ میری نگرانی میں اسلام کی فتح کا دن دیکھو تو دعاؤں اور قربانیوں میں لگ جاؤ تاکہ خدا تمہاری مدد کرے.اور جو کام ہم نے مل کر شروع کیا تھا وہ ہم اپنی آنکھوں سے کامیاب طور پر پورا ہوتا دیکھیں میں امید کرتا ہوں کہ اس امانت کی تحریک کے متعلق مجھے بار بار تحریک کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی.بلکہ احباب جماعت اور خواتین خود ہی یہ تحریک اپنے دوستوں میں کرتے رہیں گے اور اس کو زندہ رکھیں گے.جب کہ میں میں نے لندن کا سفر کیا تھا تو اس قدر مالی تنگی ہو گئی تھی کہ تبلیغ کے لئے جو وفد گیا تھا اس کا خرچ بھی مجھے کو ہی دینا پڑا تھا.گھر اب ڈاکٹروں کی ہدایت ہے کہ فکر بالکل نہ کریں.すす
الم اگر یہ تجویز کامیاب ہو جائے تو میری فکر بھی دور ہو جائے اور اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اس نیکی میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے.والسلام، خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی یا الله دوسرا پیغام ده از مارچ ۱۹۵۵ ۶) سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے ۱۵ مارچ کی شب کو لاہور سے احباب جماعت کے نام ایک انگریزی پیغام موصول ہوا جس کا ترجمہ درج ذیل ہے :- اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آپ میں رو بصحت ہوں.اگرچہ کل شام بہت پریشانی رہی.گا ہے گا ہے دل کا حملہ ہوتا رہا لیکن ڈاکٹروں کی متفقہ رائے یہ تھی کہ یہ صرف دل سے ظاہری فعل سے تعلق رکھتے والے معمولی حملے تھے کسی قسم کی دل کی عضوی اور اندرونی خرابی سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا.بلکہ ان کی وجہ صرف معدے اور ہاضمے کی خرابی تھی.ان حملوں کے باوجود انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ مجھے لارنس گارڈن میں سیر کے لئے جانا چاہیئے.چنانچہ میں سیر کے لئے گیا اور اس کا میری صحت پر بہت خوشگوار اثر پڑا.جب ہم سیر سے واپس آئے تو عام حالت بہت اچھی تھی.لیکن سابقہ حملے کی وجہ سے دماغ میں ایک قسم کا خوف سا بیٹھ گیا تھا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کئی گھنٹے تک میرے پاس رہے اور نبض دیکھتے رہے اس سے دل میں اعتماد بحال ہو گیا.اور میں کئی گھنٹے گہری نیند سویا.صبح حالت نسبتاً بہتر تھی.میں اپنے کمرے میں ٹہلتا رہا.دن میں بہت سے ڈاکٹروں کو مشورے کے لئے بلایا گیا.ان میں ایک جرمن ڈاکٹر بھی شامل تھا.جرمن ڈاکٹر نے برقی مشین کے ذریعہ دل کے فعل کا عکس (کارڈیو گرام) اتارا.وہ بھی حتمی طور پر ڈاکٹر کرنل الہی بخش کی اس رائے سے متفق تھا کہ حملے کی شدت خواہ کسی بھی نوعیت کی بھی خدا تعالی کے فضل سے اب دُور ہو چکی ہے اور اس قسم کے میرے اثرات باقی نہیں ہیں کہ جن سے بیماری کا نشان لتا ہو اور یہ کہ آپ میرے لئے صرف یہ علاج ہے کہ میں تبدیلی آب و ہوا کے لئے ملک سے باہر چلا جاؤں اور اپنی بیماری کے متعلق سب کچھ بھلا دوں.مکمل آرام اور ہر قسم کے تفکرات کو بھلا دینے کے بعد میرا جسم اور دماغ معمول کے مطابق کام شروع کر دے گا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں پوری..ه اخبار روزنامه الفضل گریوه ۱۳ مارچ ۱۹۵۵ ء ما ، مث امت " ار مارچ ۱۹۵۵ء -
طرح صحت مند ہو جاؤں گا.میں نے اس سے کہا کہ تفکرات کو بھلا دینے کی تلقین تو آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا مشکل ہے.لیکن اس نے اصرار کیا کہ ایسا کرنا ہی پڑے گا.اور اس کے آغاز کے طور پر مجھے تمام ملاقاتیں وغیرہ بند کر دینی چاہئیں اور اپنے دوستوں اور احباب سے دور کہیں باہر چلا جانا چاہیئے.میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ میں اس کی ہدایت کے مطابق ایسا کرنے کی پوری کوشش کروں گا لیکن اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے احباب کی دعاؤں اور ان کی مدد کی ضرورت ہے.خدا ہمارا حامی وناصر ہو جس طرح کہ وہ پہلے بھی ہماری نصرت فرماتا رہا ہے بلکہ اس سے کہیں بڑھ کہ اس کی مدرد ہمارے شامل حال رہے ! آمین خلیفة أسبح ) حضور نے اپنے پہلے سفر یورپ کے دوران حضرت قائم مقام امیر اور ناظر علی النقر و مولانا شیر علی صاحب بی.اے کو امیر مقامی مقرر فرمایا تھا.اس سفر میں یہ سعادت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے حصہ میں آئی چنانچہ حضور نے روانگی سے قبل اعلان فرمایا کہ میں چونکہ بیماری کے علاج کے لئے یورپ جا رہا ہوں اس لئے میری غیر حاضری میں قائمقام امیر مرزا بشیر احمد صاحب اور ناظر اعلیٰ اختر صاحب رمیاں غلام محمد صاحب اختر) ہوں گے تحریک اور صدر انجمن کے تعاون اور صحیح کام کے لئے میں نے کچھ ہدایات دیدی ہیں میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ کہیں نے جو نئے ناظر اعلیٰ اور مقامی امیر مقر کئے ہیں ان کی بھی تمام افسر اطاعت کریں گے.اور اُن سے تعاون کریں گے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تا احکام ثانی صدر انجمین احمدیہ سے تعلق رکھنے والے تمام کاموں میں صدر انجمن کا حکم آخری ہو گا.اور تحریک جدید سے متعلقہ تمام کاموں میں تحریک جدید کا فیصلہ آخری سمجھا جائے گا.میں امید کرتا ہوں کہ ہر ایک افسر اور ہر ایک انجمن بغیر جنبہ داری اور بغیر رعایت کے اور بغیر دوستی کے خیال کے اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کرے گی ، قادیان سے تعلق رکھنے والے سب امور میں صدر انجمن قادیان کا حکم آخری ہوگا مگر اس کی نگرانی کا حق میاں بشیر احمد صاحب کو ہو گا بنگر وہ کسی شخص کو وہاں سے آنے کی اجازت نہیں دے سکیں گے.یہ فیصلہ ہر حال میری زندگی میں مجھ سے تعلق رکھے گا.مرزا محمود احمد - خلیفہ المسیح الثانی ١٨ ه روزنامه الفضل گرتوه ۱۷ مارچ ء ما که روز نامه افضل ریوه ۲۴ مارچ ۶۹۵۵ ۲۰.
اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ تیسرا پیغام بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُ لَا وَنَصَلَى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيم.مورخه ۲۱ مارچ ۱۹۵۵ء خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الن سامير احباب جماعت - السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کانتر آپ کو یہ اطلاع ہو چکی ہے کہ ڈاکٹروں نے مجھے علاج کے لئے یورپ جانے کا مشورہ دیا ہے میرے پہلے اعلان سے ایک غلط فہمی ہوئی ہے.پہلے اعلان میں یہ لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹروں نے مجھے اپنے خاندان سمیت جانے کا مشورہ دیا ہے.اس پر ایک احمدی ڈاکٹر صاحب مجھے ملے اور انہوں نے کہا کہ مشورہ کے وقت میں موجود تھا.انہوں نے خاندان کا لفظ نہیں بولا تھا صرف آپ کے لئے کہا تھا.یہ بات ان کی ٹھیک تھی.اصل بات یہ ہے کہ ان کا مشورہ یہ تھا کہ میں علاج کے لئے یورپ جاؤں اور ہر قسم کے تفکرات سے بچنے کی کوشش کروں.میں اپنی طبیعت کی بناء پر جانتا تھا کہ اس حالت میں میں اگر باہر گیا تو میری بیویوں اور بچوں کے دل میں شدید اضطراب ہو گا کہ نہ معلوم اتنی دور کیا واقعہ گذر جائے اور اپنی طبیعت کے لحاظ سے میں یہ بھی جانتا تھا کہ بیوی بچوں کے ان تفکرات کو میں برداشت نہیں کر سکوں گا اس لئے مشورہ کے آخری حقیہ کی بنا پر میں یہی سمجھتا تھا کہ مجھے اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے جانا چاہیے تاکہ سفر میں مجھے ان کی تکلیف لاحق نہ ہو چنانچہ اس کے بعد مجھے ایک اور ڈاکٹر ملے وہ احمدی تو نہیں ہیں لیکن بہت ہی محبت رکھتے ہیں.انہوں نے میری رائے سن کہ اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ آپ میرا نام لے کر بے شک ڈاکٹروں کو بتادیں کہ اگر آپ ان کے بغیر گئے تو آپ کے تفکرات بڑھ جائیں گے کم نہیں ہوں گے.بہر حال میں کچھ انجمن اور تحریک کے عملہ کو ساتھ لے کر جو وہاں تعلیم کے لئے جا رہے ہیں یا مستلغ ہو کر جا رہے ہیں اور اپنی بیویوں اور بعض بچوں کو لے کر جا رہا ہوں.میرے پہلے اعلان کے بعد مجھے پہلے در پے دل کی تکلیف کے حملے ہوئے جن میں بعض اتنے شدید تھے کہ بعض وقتوں میں مکیں سمجھتا تھا کہ میں ایک منٹ یا ڈیڑھ منٹ سے زیادہ کسی صورت میں زندہ نہیں رہ سکتا.جب ڈاکٹروں کو بلا کے دکھایا گیا تو انہوں نے آئے لگا کر اور نبضیں دیکھ کر یہی رائے قائم کی کہ بیماری دل کی نہیں ہے بلکہ اعصاب اور معدہ کی ہے لیکن تکلیف اور احساس کے لحاظ سے دونوں
بیماریوں میں فرق نہیں.اگر اس خیال سے بیماری کو دیکھا جائے کہ بیمار کیا محسوس کر رہا ہے تو پھر ویسی ہی یہ خطر ناک ہے جیسی وہ خطر ناک ہے چنا نچہ ایک اور ڈاکٹر نے جب یہی بات کہی تو میں نے اُن سے کہا کہ بتائیے میں فکر کس طرح نہ کروں جبکہ میرا دل محسوس کر رہا ہے کہ میری حالت خطرے میں ہے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ جب تک آپ سے زیادہ دباغی طاقت والا ڈاکٹر آپ کو ماننے پر مجبور نہ کر دے.آپ معذور ہیں میں کیا کہہ سکتا ہوں آپ کو یہ یقینی دلا دیا کہ اس وقت آپ خطرے سے باہر ہیں.یہ کسی ایسے ڈاکٹر کے اختیار میں نہیں جو اپنی دماغی قوت کے لحاظ سے آپ سے زیادہ نہ ہو.بہر حال اس مشورہ کے بعد بعض ربوہ کے ہمارے احمدی ڈاکٹر جو تھے انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ابھی نہیں جانا چاہیئے.ابھی سردی ہے اور یہ مرض سردی سے ہی متاثر ہوتی ہے.میں نے اس پر سوئٹزر لینڈ اور اٹلی اور ہالینڈ اور انگلینڈ تاریں دیں جن کے جوابات بذریعہ تار آئے کہ ہم نے یہاں کے ڈاکٹروں سے مشورہ کر لیا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ کی بیماری کا علاج یہاں بڑی حد تک ہو سکتا ہے اور یہاں کا موسم ہرگز آپ کی بیماری کے خلاف نہیں آپ فورا آجائیں یہاں ہر قسم کا انتظام ہسپتال وغیرہ کا موجود ہے.یورپ کے ملکوں کے رہنے والے ڈاکٹروں کی ان تاروں سے ریوہ کے ڈاکٹروں کے منہ بند ہو گئے کیونکہ سردی میں تو وہ رہ رہے ہیں.ربوہ والے تو نہیں رہ رہے.ربوہ والے تو اپنے موسم پر قیاس کرتے ہیں پھر وہ لوگ ان بیماریوں کے ماہر بھی ہیں.عزیزم شیخ ناصر احمد نے سوئٹزر لینڈ سے تار دی ہے کہ میں نے معین صورت میں یہانی کے ڈاکٹروں سے مشورہ کر لیا ہے اور وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ یہاں آجائیں ہم علاج کر سکتے ہیں.اور یہاں ہر قسم کی سہولتیں بہتا ہیں.قریباً اسی مفہوم کی تار انگلینڈ سے بھی آئی ہے اس لئے میں نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے.میر انسان جو پیدا ہوا ہے اس نے کرنا ہے اُن گھڑیوں میں جب میں محسوس کرتا تھا کہ میرا دل ڈوبا کہ ڈوبا مجھے یہ غم نہیں تھا کہ میں اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں مجھے یہ غم تھا کہ میں آپ لوگوں کو چھوڑ رہا ہوں اور مجھے یہ نظر آرہا تھا کہ ابھی ہماری جماعت میں وہ آدمی نہیں پیدا ہوا جو آپ کی نگرانی ایک باپ کی شکل میں کرے میرا د مارغ بوجھ نہیں برداشت کر سکتا تھا مگر اس وقت میں برابر یہ دعا کرتا رہا کہ اے میرے خدا جو میرا حقیقی باپ اور آسمانی باپ ہے مجھے اپنے بچوں کی فکر نہیں کہ وہ
الم تقیم رہ جائیں گے.مجھے اس کی فکر ہے کہ وہ جماعت جو سینکڑوں سال کے بعد تیرے مامور نے بنائی تھی وہ یتیم رہ جائے گی اگر تو مجھے ہنستی دلا دے کہ ان کے ٹیم کا میں انتظام کر دوں گا تو پھر میری نہ تکلیف کی گھڑیاں سہل ہو جائیں مگر تو مجھ سے یہ کس طرح اُمید کر سکتا ہے کہ یہ لاکھوں روحانی بیچے جو تو نے مجھے دیئے ہیں جن کے دشمن چیتے پیتے پر دنیا میں موجود ہیں اور جن کو ختم کرنے کے لئے ہر وقت شیطانی نیزے اٹھے رہے ہیں جب میرے بعد ان نیزوں کو اپنی چھاتی پر کھانے والا کوئی نہیں رہے گا تو تو ہی بتا کہ میں اس بات کو کس طرح برداشت کرلوں.مجھے موت کا ڈر نہیں مجھے اُن لوگوں کے تقسیم ہو جانے کا ڈر ہے جنہوں نے تیرے نام کو روشن کرنے کے لئے پچاس سال متواتر قربانیاں کیں ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا دنیا نے ان کو کمائی سے محروم کر دیا تھا.پھر بھی وہ ہر اس آواز پر آگے بڑھے جو تیرے نام کے روشن کرنے کے لئے ہیں نے اٹھائی تھی.اب اسے میرے وفادار آقا ! میں تجھے تیری ہی وفاداری کی قسم دیتا ہوں.ان کمزوروں نے اپنی کمزوریوں کے باوجود سمجھ سے وفاداری کی تو طاقتور ہوتے ہوئے اُن سے بے وفائی نہ کیجیو کہ یہ بات تیری شان کے شایاں نہیں اور تیری پاکیزہ صفات کے مطابق نہیں.مکیں ان لوگوں کو تیری امانت میں دیتا ہوں.اسے سب امینوں سے بڑے امین ، اس امانت میں خیانت نہ کیجیو اور اس امانت کو پوری وفاداری کے ساتھ سنبھال کر رکھیں.ڈاکٹر مجھے کہتے ہیں فکر مت کرو لیکن میں اس امانت کا فکر کسی طرح نہ کروں جسے میں نے پچاس سال سے زیادہ عرصہ تک اپنے سینہ میں چھپائے رکھا اور سر عزیز ترین شے سے زیادہ عزیز سمجھا.اسے میرے عزیز و ا تم سے کو تار میاں بھی صادر ہوئیں تم سے قصور بھی ہوئے مگر میں نے یہ دیکھا کہ ہمیشہ ہی خدا تعالے کی آواز پر تم نے لبیک کہا تم موت کی وادیوں میں سے گزر کر بھی خدا تعالیٰ کی طرف دور سے رہے ہو.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا خدا تمہیں بے کسی اور بے بسی کی موت نہیں دے گا.ڈاکٹروں کی رائے تو یہی ہے کہ میری بیماری صرف عوارض کی بیماری ہے حقیقت کی بیماری نہیں لیکن جو کچھ بھی ہو ہمارا خدا سچا خدا ہے.زندہ خدا ہے.وفا دار خدا ہے.تم ہمیشہ اس پر تو کل رکھو اور اپنی اولاد کو بھی اس پر توکل رکھنے کی تلقین کرو اور اس دعا کے طریقہ کو یاد رکھو جو میں نے اوپر بیان کیا ہے.میں نے ساری عمر جب بھی اس رنگ میں اخلاص کے ساتھ دعا کی ہے نہیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس دعا
۴۴۷۲ کے قبول ہونے میں دیر ہوئی ہو.اگر تم اس رنگ میں اپنے رب سے محبت کرو گے اور اس کی طرف جھکو گے تو وہ ہمیشہ تمہاری مدد کے لئے آسمان سے اترتا رہے گا.ایک دولت میں تمہیں دیتا ہوں ایسی دولت جو کبھی ختم نہیں ہوگی.ایک علاج تمہیں عطا کرتا ہوں وہ علاج جو کسی بیماری میں خطا نہیں کرے گا.ایک عصا میں تمہارے حوالے کرتا ہوں ایسا عصا جو تمہاری عمر کی انتہائی کمزوری میں بھی تمہیں سہارا دے گا اور تمہاری کمر کو سیدھا کرے گا.اسے خدا تو اپنے ان بندوں کے ساتھ ہو.جب انہوں نے میری آواز پر لبیک کہی تو انہوں نے میری آواز پر لبیک نہیں کہی بلکہ تیری آواز پر لبیک کہیں.اسے وفادار اور صادق الوعد خدا اسے وفادار اور سچے وعدے والے خدا تو ہمیشہ ان کے اور ان کی اولادوں کے ساتھ رہیں اور ان کو کبھی نہ چھوڑیو.شمن ان پر کبھی غالب نہ آئے اور یہ کبھی ایسی مایوسی کا دن نہ دیکھیں جس میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں سب سہاروں سے محروم ہو گیا ہوں.یہ ہمیشہ محسوس کریں کہ تو ان کے دل میں بیٹھا ہے ان کے دماغ میں بیٹھا ہے اور ان کے پہلو میں کھڑا ہے اللهم آمين بعض ڈاکٹر جو زیادہ ماہر نہیں ہیں وہ تو میرے جانے پر گھیراتے ہیں مگر ماہر ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ جلدی جاؤ اور جلدی آؤ.بہر حال ہر شخص کے رتبہ کے مطابق اس کی بات پر یقین کیا جاتا ہے.میں ان ماہرین کی رائے پر اختیار کرتے ہوئے اور اللہ تعالے پر تو کل کرتے ہوئے جاتا ہوں خدا کرے میرا یہ سفر صرف میرے لئے نہ ہو بلکہ اسلام کے لئے ہو اور خدا کے دین کے لئے ہو اور خدا کہ ہے کہ میری عدم موجودگی میں تم غم نہ دیکھو اور جب میں لوٹوں تو خدا تعالے کی مدد اور نصرت میرے بھی ساتھ ہو اور تمہارے بھی ساتھ ہو.ہم سب خدا کی گود میں ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے پاس کھڑے ہوں.مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ۲۱ اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ چوتھا پیغام بسم الله الرحمن الرحيم نَحْمَدُهُ وَنَصَلَى عَلَى رَسُولِهِ الكريم ۱۹۵۵ مورند ۱۲۷ مارچ ها را هُوَ النَّ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ احباب جماعت احمدیہ - السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.ضمیمہ روزنامه الفضل ریوه ۲۲ مارچ ۱۹۵۵ء ملت ۲
۴۷۳ کئی دن کی تاروں کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ مجھے روانہ ہوجانا چاہئے میں انشاء اشد کل ۲۳ مارچ کو بدھ کے دن لاہور جا رہا ہوں تاکہ وہاں سے کراچی جاؤں.احباب کو چاہیے کہ دعاؤں میں لگے رہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اِن کا حافظ و ناصر ہو.میں بھی انشاء اللہ جس حد تک مجھے توفیق ملی ، دعائیں کرتا جاؤں گا.مجھے ایک حد تک تشویش تو ہے لیکن مایوسی نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کے جواب میں اپنی مدد ضرور بھیجے گا اور معجزانہ رنگ میں مدد بھیجے گا اگر میری دعاؤں کی تائید میں جماعت کی دعائیں بھی شامل رہیں تو انشاء الله تاثیر بڑھ جائے گی احباب کو خوب یا د رکھنا چاہیے کہ جب کبھی ذمہ دار افسر ادھر ادھر ہوتا ہے تو شریر لوگ فتنہ پیدا کرتے ہیں ہماری جماعت بھی ایسے شریروں سے خالی نہیں بعض لوگ اپنے لئے درجہ چاہتے ہیں.بعض لوگ اپنے لئے شہرت چاہتے ہیں ایسا کوئی شخص بھی پیدا ہو یا کوئی بھی آواز اٹھائے خواہ کسی گاؤں میں یا شہر میں یا علاقہ میں تو اس کی بات کو کبھی برداشت نہ کریں.کبھی یہ نہ سمجھیں کہ یہ معمولی بات ہے.فساد کوئی بھی معمولی نہیں ہوتا حدیثیں اس پر شاہد ہیں جب کوئی شخص اختلافی آواز اُٹھائے فورا لاحول اور استغفار پڑھیں اور خواہ آپ عمر میں سب سے چھوٹے ہوں اور درجے میں سب سے چھوٹے ہوں اور خواہ آپ کے بزرگ اس فتنہ انداز کی بات کی تائید کر رہے ہوں فورا مجلس میں کھڑے ہو جائیں اور لاحول پڑھ کر کہدیں کہ ہم نے احمدیت کو خدا کے لئے اختیار کیا تھا.ہمارا آسمانی باپ خدا ہے اور ہمارے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں.جماعت میں فتنہ پھیلانے والی بات اگر ہمارے عزیز ترین وجود سے بھی ظاہر ہوئی تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے.عبد اللہ بن ابی ابن سلول کتنا بڑا منافق تھا قرآن کریم میں متعدد آیات اس کی منافقت کے لئے بیان کی گئی ہیں ایک جنگ میں جب اس نے بعض صحابہؓ کی کمزوری دیکھی اور کہا کہ مدینہ چل لو وہاں پہنچتے ہی جو مدینہ کا سب سے بڑا معزز آدمی ہے یعنی نعوذ بالله عبد اللہ بن ابی ابن سلول وہ مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا.تو عبداللہ ابن ابی ابن سلول کا بیٹا بھی اس جگہ پر موجود تھا.وہ دوڑتا ہوا رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ میں آپ کو بتاتا ہوں.میرے باپ نے آج کیسی خباثت کی ہے.پھر اس نے کہا یا رسول اللہ میں سمجھتا ہوں میرے باپ کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں اگر آپ یہ
معلم واجب فیصلہ کریں تو اس کے پورا کرنے کا مجھے حکم دیں تا ایسانہ ہو کہ کوئی اور مسلمان ایسا کر بیٹھے تو میرے دل میں منافقت پیدا ہو اور اس کا بغض میرے دل میں پیدا ہو جائے.رسول کریم صل اللہ علیہ ستم نے فرمایا ہمارا ارادہ یہ نہیں ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو چونکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے یہ کہا تھا کہ مدینہ پہنچنے دو.مدینہ کا سب سے معزز آدمی یعنی عبد اللہ بن ابی ابن سلول مدینہ کے رہنے ذلیل آدمی یعنی نعوذ باشد متر رسول اللہ صل الله علوم تم کو وہاں سے نکال دے گا عبداللہ بن ابی این سکول کے لڑکے نے تلوار نکال لی اور مدینہ کے دروان کے آگے کھڑا ہو گیا اور اپنے باپ کو مخاطب کر کے کہا اے باپ تو نے فقرہ کہا تھا خدا کی قسم میں وہ وقت ہی نہیں آنے دونگا کہ تو اس بات کو پوراکرنے کا ارادہ کیے تو ایک قدم بھی آگے بڑھنے کی کوشش کو.میں اپنی تلوار سے تیرا سر کاٹ دوں گا.صرف ایک صورت تیرے مدینہ میں داخل ہونے کی ہے.اپنی سواری سے اتر آ اور زمین پر کھڑے ہو کہ کہ کہ مدینہ کا سب سے معزز آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے.اور سب سے ذلیل وجود یکیں ہوں.اگر تو یہ کہے گا تو میں تجھے مدینہ میں داخل ہونے دوں گا ورنہ تجھے قتل کردوں گا.عبید اللہ بن ابی ابن سلول اپنے بیٹے کے ایمان کو دیکھ کر ایسا مرعوب ہوا کہ فورا اپنے اونٹ سے اتر آیا اور اس نے وہی فقرے کہے جو اس کے بیٹے نے کہے تھے تب اس کے بیٹے نے اسے مدینہ میں داخل ہونے دیا.سو دین کے معاملہ میں باپ دادا استاد پیر کی بھی کوئی حیثیت نہیں جو کہتا ہے دین کی حقارت کرد تم اس کا مقابلہ کرو اگر تمہارے ٹکڑے ٹکڑے بھی ہو جائیں تو خوشی سے اس موت کو قبول کرو کیونکہ وہ موت تمہاری نہیں تمہارے دشمن کی ہے.حدیثوں میں آتا ہے آخری زمانہ میں دبال ایک مومن کو قتل کرے گا پھر اس کو زندہ کرنے گا.پھر اس کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا لیکن خدا اس کو توفیق نہیں دے گا.سویا درکھو کہ وہ مروت جو تم خدا کے لئے قبول کرو گے وہ موت آخری نہیں ہوگی اس کے بعد خدا تمہیں پھر زندہ کو لیگا اور تمہیں دین کی خدمت کی توفیق دے گا.پس اسے نوجوانو ! اسے خدام الاحمدیہ کے ممبر و ! میری اس نصیحت کو یاد رکھو عبداللہ بن ابی ابن سلول کے بیٹے کے واقعہ کو یاد رکھو.حدیث دقبال کو یا درکھو.اگر تم خدا کے لئے موت قبول کرو گے تو خدا تم کو ایسی زندگی دے گا جس کو کوئی ختم نہیں کر سکے گا.اللہ تعالے تم کو سچا مومن اور سچا بندہ بننے کی توفیق دے.اللهم آمین.خاکسار.مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ۲۲ ه روزنامه الفضل کیوں (ضمیمہ ) ۲۳ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۲ -
۴۷۵ فصل دوم سید نا حضرت مصلح موعود قبل از میں ۱۹۳۳ میں ویمبلے کا نفرنس میں شرکت کے لئے یورپ تشریف لے گئے تھے.اس اعتبار سے یہ حضور کے عہد خلافت کا دوسرا اور آخری سفر یورپ تھا جس کا آغاز ۲۳ مارچ شہداء کو اور اختتام ۲۵ ستمبر ۹۵ ایء کو ہوا.یہ سفر حضور نے اگرچہ يعرض صلاح اختیار فرمایا تاہم اپنی برکات اور تاثیرات کے نتیجہ میں یورپ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی مضبوط بنیاد ثابت ہوا.اکتیس سال پہلے کا ایک رویا ریاست برودہ کے ایک غیر احدی رئیں نواب سید صدر الدین صاحب حسین خان صاحب نے ۱۹۲۴ ء میں یہ خواب دیکھا کہ :.ایک مکان میں اسباب بندھا رکھا ہے اور اہل خانہ کسی بڑے سفر کی تیاری میں مصروف ہیں.اتنے میں دیکھا کہ صاحب خانہ بھی نہایت مصروفیت کی شان سے سامان درست کر رہے ہیں.آخر میں انہوں نے فرمایا.جہاز تیار کرو اور یہ اسباب ان پر لا دو.عرض کیا.حضور کہاں کا ارادہ ہے فرمایا یورپ جاتا ہوں.علاج کرنا ہے.یہ دریافت کیا گیا.آپ کا اسم شریف ؟ فرمایا میرا نام عمر ابن الخطاب ہے یہ حضرت فضل عمر کا یہ سفر یورپ ۱۹۲۳ء کے اس رحمانی خواب کی ایک شاندار عملی تعبیر تھا اور مجیب بات یہ ہے کہ اس کا فیصلہ بھی غیر از جماعت ڈاکٹروں کے پیہم اصرار اور مشورے کی بناء پر کیا گیا.سفر یورپ کا آغازه در ماریا شاہ کو سینا حضرت خلیفہ تاسیسی انسانی علاج کے لئے یورپ جانے کے ارادے سے صبح نو بجے بذریعہ کار لا ہور تشریف لے گئے.۲۳ ۲۰ جولائی ۱۹۲۴ و تا ۲۴ تومیری ۹۳ و تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد پنجم من ۳۵ ۰ تا مه ۴۳.سے رسالہ صوفی بحوالہ روزنامہ الفضل " قادیان در اکتوبر ۱۹۲۳ء من
صدر انجمن اور تحریک جدید کے ناظرہ وکلاء صاحبان دیگر شعبہ جات کے افسران پھلوں کے پریذیڈنٹ صاحبان اور اہالیان ربوہ نے کثیر تعداد میں قصر خلافت کے باہر جمع ہو کہ محبت دارا دت اور اخلاص و عقیدت کے گہرے جذبات اور در دو سوز میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کے ساتھ اپنے محبوب امام کو رخصت کیا.تمام احباب اپنے آقا کی اس عارضی جدائی پر بے چین ہوئے جا رہے تھے اور عجیب اضطراب کے عالم میں زیر لب نہایت درجہ عاجزی اور الحاج سے رب العزت کے حضور دعائیں کر رہے تھے کہ اسے خدا تو اس مقدس وجود کا جو تیری ہی عنایت اور تیری ہی شفقت سے ہمارے لئے سایہ رحمت ہے ہر گھڑی اور ہر لمحہ نگہبان ہو اور اُسے اپنے خاص الخاص فضل کے تحت اپنی بارگاہ سے شفائے کامل و عاجل عطا کرتا کہ بہت جلد ہمارے درمیان پھر رونق افروز ہو کہ ہمارے دلوں کو شاد کام کرے اور اس کے وجود کی برکت سے ہم میں خداست اسلام کا ایک نیا جوش اور نیا دولولہ پیدا ہو کہ جو دنیا کی کایا پلٹ دے.قصر خلاقت سے روانگی حضور نو بجے سے چند منٹ قبل قصر خلافت کے اس دروازے سے باہر تشریف لائے جو مسجد مبارک کے عقب کی جانب ہے.تمام احباب جماعت قصر خلافت کے باہر راستے کے دونوں طرف صف بستہ کھڑے زیر لب دعاؤں میں مصروف تھے سید داؤ د احمد صاحب کے کندھے کا سہارا لے کر حضور موٹر کار میں سوار ہوئے کارہ کی پچھلی سیٹ پر رونق افروز ہونے کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی درد و سوز میں ڈوبی ہوئی دُعاؤں کا یہ روح پرور نظارہ ایک خاص کیفیت کا حامل تھا.احباب کرام حضور ایدہ اللہ کی اقتداء میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفر کے بابرکت ہونے اور کامل شفایابی کے بعد حضور کے سنخیر و عافیت واپس آنے کے لئے اس قدر عاجزی اور الی ہے سے دعائیں کر رہے تھے کہ مسجد مبارک اور قصر خلافت سے ملحقہ سارا علاقہ ہچکیوں اور سسکیوں کی دردانگیز آوازوں سے گونج رہا تھا اور ہر دل گواہی دے رہا تھا کہ مولا کریم اور اس کے محبوب بندوں کا یہ دازه نیاز انشاء اللہ العزیز اثر لائے بغیر نہ رہے گا.دُعا کے اختتام پر ہر آنکھ سے آنسو رواں تھے اور ہر فرد اپنے محبوب آقا کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیتاب تھا.ٹھیک نو بجے جب حضور کی کار حرکت میں آئی تمام صدقے کے طور پر بکروں کی قربانی فضای امان اله تعالی در سلامت روی و باز آئی فی ، اور کی آوازوں سے گونج اٹھی.موٹر کے حرکت میں آتے ہی مسجد مبارک کے عقب میں صدر انجمن احمدیہ اور
تحریک جدید کی طرف سے دو بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.ایک بکرا صدر انجمن کی طرف سے مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور دوسرا بکر انتحر یک جدید کی طرف سے قائم مقام وکیل اعلی جناب چوہدری غلام مرتضی صاحب نے ذبح کیا.حضور کی کار قافلے کی دوسری کاروں کے ہمراہ آہستہ آہستہ روانہ ہوئی.احباب جماعت جو قصر خلافت کے دروازے سے لے کہ چنیوٹ جانے والی پختہ سڑک تک دورو بہ کھڑے ہوئے تھے پر نم آنکھوں کے ساتھ بلند آواز سے السلام علیکم امیرالمؤمنین" اور فی امان اللہ تعالٰی " کہتے جاتے تھے حضور کی کار جونہی احاطہ مسجد مبارک کے صدر دروازے سے باہر آئی.ربوہ کی مقامی جماعت کی طرف سے دو بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے لے کہ چنیوٹ جانے والی پختہ سڑک تک احباب کے ہجوم کا یہ عالم تھا کہ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا.حضور قصر خلافت سے روانہ ہونے کے بعد حضرت سیدہ نصرت جہاں کے مزار مبارک پر ڈھا رہے موموں کے فیرستان میںحضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے مزار مبارک پر دعا کے لئے تشریف لے گئے.مزار مبارک کی چار دیواری کے با ہر دروازے کے عین سامنے موٹر میں بیٹھے ہوئے ہی حضور نے دعا فرمائی جس میں خاندان حضرت مسیح موعود کے اکثر افراد اور بعض خدام شریک ہوئے دُعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور لاہور روانہ ہوئے جب حضور کی کار قافلے کی دوسری کاروں کے ساتھ پختہ سڑک پر پہنچی تو ربوہ کے تمام احباب دوڑ دوڑ کر پھر پختہ سڑک کے دورویہ جمع ہو چکے تھے اور قطاروں کا یہ سلسلہ جانب مشرق قریب قریب پہاڑیوں تک پھیلا ہوا تھا جب تک حضور کی کار سٹرک پر دو پہاڑیوں کے درمیان سے گزر کر حد نگاہ سے دور نہ چلی گئی.احباب جماعت شرک پر کھڑے کار کی طرف دیکھتے رہے اور پھر سفر کے بابرکت ہونے اور کامل صحت کے ساتھ حضور کے واپس تشریف لانے کے بارے میں دُعائیں کرتے ہوئے ربوہ واپس لوٹے اس وقت دیگر دعاؤں کے ساتھ اکثر احباب یہ شعر بھی بار بار پڑھ رہے تھے.به سفر رفتنت مبارک باد بسلامت روی و باز آئی.1404 اخبار روزنامه الفضل گریوه ۲۴ مارچ ۱۹۵۵ و صدا
۴۷۸ لاہور سے کراچی حضرت مصلح موعود اسی روز بخیریت لاہور پہنچے اور رتن باغ میں قیام فرما ہوئے.۲۶ مارچ کو صبح ساڑھے چھ بجے حضور رتن باغ سے روانہ ہوئے.روانگی سے قبل احباب جماعت کے ساتھ حضور نے پر سوز دعا کی اور اسٹیشن پر تشریف لے گئے جہاں عشاق خلافت کا ایک بہت بڑا ہجوم الوداع کہنے کے لئے موجود تھا.اسٹیشن پر حضور تے دوبارہ اجتماعی دعا کروائی.ہر شخص اپنے پیارے اور محسن آقا کی بیماری کے باعث سخت غمگین اور پریشان خاطر تھا.حضور خیبر میل کے ذریعہ اگلے روز ۲۷ مارچ کو سنخیر و عافیت کراچی پہنچے اور مالیر میں رہائش پذیر ہوئے لیے م در اپریل کا دن قیام کراچی کے دوران ایک یادگار دن تھا کیونکہ اس روز حضور نے اپنی فرودگاہ میں بیماری کے جملہ کے بعد پہلی بار نماز کی امامت کی اور ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں.اسی خوشی میں قیام جگہ کے جملہ اصحاب نے شکرانے کے طور پر ایک بکرا ذبح کیا اور اس کا گوشت تقسیم کر لیا.اس کے بعد حضور عام طور پر نمازیں پڑھانے لگے.نماز کے بعد کے بعض اوقات حضور خدام کے درمیان بھی تشریف فرما ہوتے اور اپنے کلمات طیبات سے نوازنے سے جو نہی حضرت مصلح موعود ربوہ سے سفر ملک میں لیے بنیاد اور جھوٹی افوائیں اور یورپ کے ارادہ سے کراچی تشریف لے گئے بعض حضرت امیر مقامی کے دو زور دار مضامین مخالفین کی طرف سے حضور کے متعلق بعض جھوٹی اور بے بنیاد افواہیں مشہور کر دی گئیں.اور جلد ہی پنجاب اور کراچی کے پولیس میں اُن کو خاص اہتمام سے جگہ بھی دی جانے لگی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب امیر مقامی نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے حسب ذیل دو زور دار اور مسکت و مدتل مضامین سپرد قلم فرمائے :.دا، جیسا کہ احباب جماعت کو معلوم ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایده الله بنصره العزيز سفر یورپ کے ارادہ سے کراچی تشریف لے گئے ہوئے ہیں اور وہاں سے انشاء اللہ عنقریب یورپ روانہ ہو جائیں گے.جماعت کے دوستوں کو اس موقعہ پر خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں کہ له الفضل " ۲۶ مارچ ۲۹ مارچ ۱۹۵۶ء صار له الفضل " در اپریل ۱۹۵۵ ما " الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۵۵ء ما
کراچی سے یورپ کے لیے روانگی Photo Speed Co HYDERABAD SING
پاکستان دیا ہور اسٹیشن سےحضرت مصلح موعود کی سفریورپ کیلئے روانگی
۴۷۹ اگر اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ سفر مقدر ہے تو وہ اپنے فضل وکرم سے حضور کو خیربیت کے ساتھ لے جائے اور پوری طرح صحت یاب کر کے کامیاب اور بامراد واپس لے آئے اور حضور کے اس سفر کو دین و دنیا اور ظاہر و باطن اور حال مستقبل کے لحاظ سے مفید اور بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ کرے.آمین یا ارحم الراحمين.جیسا کہ میں نے اپنے ایک سابقہ اعلان میں ذکر کیا تھا حضور کی یہ بیماری اعصابی نوعیت کی ہے جو کثرت کار اور کثرتِ افکار کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے...اس وقت حضور کو آج کل کامل جسمانی اور دماغی سکون کی ضرورت ہے.اس لئے دوستوں کو دعاؤں کے علاوہ یہ بھی احتیاط رکھنی چاہیے.کہ ان ایام میں حضور کی خدمت میں کوئی ایسا خط یا رپورٹ نہ بھجوائی جائے جو کسی جہت سے فکر او تشویش پیدا کرنے کا موجب ہو کیونکہ موجودہ حالت کا یہ تقاضا ہے کہ ان ایام میں تمام فکروں اور بوجھوں کو جماعت خود اپنے سر اور کندھوں پر لے لے اور اپنے امام کو ڈاکٹری مشورہ کے مطابق ہر قسم کے فکر اور تشویش سے آزاد رہ کر سکون حاصل کرنے کا موقعہ دے.امید ہے کہ سب دوست اس پہلو کو خصوصیت کے ساتھ مد نظر رکھ کر حضرت صاحب کی صحت کی بحالی میں معمولی ہاتھ بٹاتے ہوئے عند اللہ ماجور ہوں گے.اس موقعہ پر احباب کی خدمت میں یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ تاریخ اور ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح سے پتہ چلتا ہے ایسے موقعوں پر جب کہ امام کسی دور دراز کے سفر پر بو بیرون از جماعت مخالفین اور اندرون جماعت منافقین امام کی غیر حاضری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مختلف قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنے برپا کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلعم کے سفر تبوک کے موقعہ پر ہوا.اس لئے احباب جماعت کو عموٹا اور امراء جماعت اور صدر صاحبان کو خصوصاً اس امکانی خطرے کی طرف سے بھی ہوشیار رہنا چاہئیے اور اپنے مخصوص اتحاد اور قربانی اور پوکی اور احساس ذمہ واری اور بیدار مغزی سے ثابت کر دینا چاہئیے کہ کوئی اندرونی یا بیرونی خطرہ انہیں خدا کے فضل سے غفلت کی حالت میں نہیں پاسکتا اور نہ ان کے پائے ثبات میں کسی قسم کی لغزش پیدا کر سکتا ہے.لبعض مخالفین ابھی سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے پیش آمدہ سفر کے متعلق بعض جھوٹی اور بے بنیاد افواہیں مشہور کر رہے ہیں بلکہ بعض افواہوں کو تو اخباروں تک میں بھی جگہ دے کہ
۴۸۰ فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اس قسم کی افواہوں کے متعلق بھی جماعت کے ذمہ دار طبقہ بلکہ ہر احمدی کو ہوشیار رہنا چاہیے جیسا کہ شخص جانتا ہے حضور کا یہ سفر حلاج اور صحت کی غرض سے ہے اور ایسے موقعہ پر عزیزوں کی معتدبہ تعداد اور مناسب عملہ کو ساتھ لے جانے کا خیالی آنا ایک طبیعی امر ہے اور آپ تو ابتدائی تجویز شدہ تعداد میں آخری نظر ثانی کے وقت کافی کمی بھی کی جار ہی ہے.بہر حال اس قسم کے سفر کو جو خالصہ علاج اور صحت کی غرض سے اختیار کیا جارہا ہے.بے بنیادا فواہوں کا نشانہ بنانا اس گندی ذہنیت کا مظہر ہے جو بد قسمتی سے ملک کے ایک طبقہ میں ہمارے متعلق پائی جاتی ہے مگر یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ خدا کے فضل سے ملک کا شریف اور سمجھ دار طبقہ اس قسم کے خلاف اخلاق رجحانات سے پاک ہے اور بعض عقائد میں اختلاف کے باوجود ہمارے ساتھ انصاف اور ہمدردی کا رویہ رکھتا ہے چنانچہ موجودہ بیماری میں بھی کثیر التعدا د خیر احمدی اصحاب نے حضرت صاحب کی عیادت میں حصہ لیتے ہوئے دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے اور ہمارا اور سب بہی خواہاں ملک و ملت کا حافظ و ناصر ہو.آمین خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۳ را پریل ۱۹۵۵ بوسه (۳) پنجاب اور کراچی کے بعض اخباروں میں اس قسم کے فتنہ انگیز نوٹ شائع ہوئے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کے ربوہ سے تشریف لے جانے کے بعد ربوہ میں نعوذ یا مٹر پارٹی بازی اور سازشوں کا میدان گرم ہے اور مختلف پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہیں اور نوجوان سروں پر کفن باند ھے پھرتے ہیں اور ہر لحظہ خون ریزی کا خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ جماعت کے احباب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ رپورٹیں از سرتا پا افتراء اور سو فیصد جھوٹ ہیں.جو ہمارے ایسے مخالفین نے جنہیں جھوٹ سے کوئی پر ہیز نہیں اپنے قدیم طریق کے مطابق حضرت خلیفہ آج الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے مشہور کرنی شروع کی ہیں تا کہ ایک طرف تو جماعت کمزور ہو رہی ہو اور دوسری طرف خود جماعت کے سادہ لوح اور نا واقف طبقہ کے دلوں میں یہ گھیرا ہٹ اور بے چینی پیدا کی جائے کہ نہ معلوم جماعت کے مرکز میں کیا ہو رہا ہے جس سے ہم دور افتادہ لوگ بالکل بے خبر ہیں.له - روزنامه الفضل ربوه ۵ اپریل ۱۹۵۵ ء ما
امام اس دلیل قسم کی فتنہ انگیزی اور افتراء پردازی کے جواب میں جو ایسے وقت میں کی جارہی ہے جبکہ ملکی حالات ہر قسم کے ختنہ پیدا کرنے والے انتشار سے قطعی اجتناب کے متقاضی ہیں.ان مخالف حضرات سے تو صرف اس قدر عرض کرنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ بہر رنگے کہ خوا ہی جامعه می پوش من انداز قدت را می شناسم یعنی اسے ہمارے مہر بانو با تم جس رنگ کا بھی جامہ پہننا چا ہو پہن لو ہم تمہیں تمہارے لباس کے رنگ سے نہیں بلکہ تمہارے قدوقامت کے انداز سے پہچانتے ہیں کہ اللهم انا نجعلك في نحورهم وتعوذ بك من شرورهم ونتوكل عليك ولا حول ولا قوة الا بك.باقی رہا جماعت کا سوال سو علاقہ دار امراء اور صدر صاحبان کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقہ میں ناواقف اور دور افتادہ دوستوں کو اس قسم کے فتنوں کے متعلق با خبر اور ہوشیار رکھیں اور انہیں بتا دیں کہ یہ سب جھوٹا اور مفتریا نہ پراپیگنڈا ہے جو بعض مخالفین کی طرف سے جماعت اور مرکز کے خلاف کیا جا رہا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ یہ پراپیگنڈا ان خدشات کی عملی تصدیق ہے جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزہ نے سفر پر جانے سے قبل جماعت پر ظاہر کر کے اسے متنبہ کیا تھا کہ امام کی غیر حاضری میں اس قسم کے فتنے اُٹھ سکتے ہیں.جماعت کو اس خطرہ کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے.ہماری جماعت خدا کے فضل سے اور حضرت افضل الرسل محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی کی پیشگوئی کے مطابق ایک ہاتھ پر جمع ہوکر اخوت اور اتحاد اور راستی اور صداقت کے طریق پر قائم ہے اور ہر قسم کے فتنوں سے الگ رہ کر امن اور آشتی کے رنگ میں اسلام کی خدمت بجا لانا چاہتی ہے اور یہی اس کا واحد مقصد و منتہا ہے پس ہمیں چاہیے کہ ہر قسم کی انتشار پیدا کرنے والی باتوں سے الگ رہ کر اپنی پوری توجہ اور پوری کوشش اور پوری طاقت کے ساتھ اس مرکزہ می نقطہ پر قائم رہیں جو خدائے علیم و قدیر نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے اور جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے اس مقصد کے حصول کا طریق صبر و صلوٰۃ ہے.صبر کے معنے ایک طرف دوسروں کے مظالم پر ضبط نفس سے کام لینا اور دوسری طرف نیکیوں پر مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہنا ہے.اور صلواۃ کے معنی ایک طرف اپنی کوششوں کی کامیابی کے لئے خدا سے دردمندانہ دعائیں کرتے
رہنا اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی اُمت کی اصلاح اور بہبودی کی مغرض سے درود بھیجتا ہے اور غور کیا جائے تو یہی دو چار ستون ہیں جن پر ایک مومن کے ایمان اور اس کی سعی و جہد کا استحصار ہے.پس دوستوں کو چاہیے کہ ان ایام میں خاص طور پر دعاؤں اور صدقہ و خیرات سے کام لیں اپنے اندر تقویٰ اور طہارت نفس پیدا کریں اور اپنے ہمسایوں اور ماحول کے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک بلکہ غیر معمولی احسان سے پیش آئیں.ان اور اتحاد اور تعاون با ہمی کا کامل نمونہ دیکھا گئیں اور کوئی ایسی بات نہ کریں جو اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے خلاف اور موجودہ ملکی حالات میں حکومت کے لئے کسی جہت سے پریشانی کا باعث ہو.وکان الله معنا و محكم اجمعين.دالسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۱۸ ر ا پریل ۱۹۵۵ ء.هر ۰۷ ۱۹۰۸ اپریل شده و بمطابق ۹۰۸۰۷ شهادت ۱۳۳۲ پانچواں پیغام کور بوہ میں جماعت احمدیہ کی چھتیسویں مجلس مشاورت کا انعقاد میل مورخه ۶ را پریل ۱۹۵۵ء میں آیا.اس دفعہ کی یہ مجلس ہے رونق سی تھی کیونکہ حضور اس وقت سفر یورپ سے قبل کہ اچھی میں رونق افروز تھے.حضرت مصلح موعود کو اس کا پوری شدت سے احساس تھا اور اسی لئے حضور نے مناسب سمجھا کہ ایک تحریر کے ذریعہ سے نمائندگان جماعت کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیں اس غرض کے لئے حضور نے حسب ذیل پیغام لکھوایا جو مشاورت کے اجلاس دوم میں مرزا عبد الحق صاحب (امیر صوبائی پنجاب ) صدر مجلس مشاورت نے پڑھ کر سنایا یے أعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تحدة ونصلى على رَسُولِيهِ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّ سامير احباب جماعت احمدیہ ! السلام عليكم و رحمة الله وبركاته پہلی بات تو میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ شوری میری غیر حاضری میں آرہی ہے.پہلے سال میں بوجہ زخم کے میں شورٹی میں پورا حصہ نہیں لے سکا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مشق کروادی مگر میں محسوس الے روزنامہ المفضل ربوہ ۲۱ اپریل ۹۵۵ اوج سے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء مکتا ۹.
۴۸۳ کرتا ہوں کہ ابھی آپ لوگوں میں اتنی طاقت نہیں پیدا ہوئی کہ میری غیر موجودگی میں اپنی ذمہ داری پر پورا کام کر سکیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ایسی طاقت بھی پیدا کر دے اور مجھے بھی ایسی صحت بخشے کہ آپ سے مل کر اسلام کی فتح کی بنیادیں رکھ سکوں جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے پچھلے چند دنوں سے میری طبیعت زیادہ خراب ہونے لگ گئی تھی مگر دو دن سے پھر سبحالی کی طرف قدم جلدی جلدی اُٹھ رہا ہے چنانچہ اس وقت بھی کہ میں یہ پیغام لکھوا رہا ہوں میں کمرہ میں ٹہل رہا ہوں اور میرے قدم آسانی کے ساتھ چل رہے ہیں پہلے جو بیماری کے حملہ کے بعد دماغ خالی خالی معلوم ہوتا تھا کل سے وقفہ وقفہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بھی نیک تغیر پیدا ہو رہا ہے اور میں بعض اوقات محسوس کرتا ہوں کہ نہیں سوچ سکتا ہوں اور پچھلے واقعات کا تسلسل میرے دماغ میں شروع ہو جاتا ہے بلکہ کہ اچھی آتی دفعہ ریل میں ایک سورۃ میرے دماغ میں آئی جس کے بعض حقے لوگوں سے اب تک حل نہیں ہو سکے تھے اور باوجود بیماری کے اس سورۃ کی شرح اور بسط میں نے کرنی شروع کی اور وہ تغییر عمدگی کے ساتھ حل ہونی شروع ہو گئی تب میں نے اللہ تعالے سے دعا کی اے خدا ! ابھی دنیا تک تیرا قرآن صحیح طور پر نہیں پہنچا اور قرآن کے بغیر نہ اسلام ہے نہ مسلمانوں کی زندگی.تو مجھے پھر سے تو فیق سیخش کہ میں قرآن کے بقیہ حصہ کی تفسیر کر دوں اور دنیا پھر ایک لمبے عرصے کے لئے قرآن شریف سے واقف ہو جائے اور اس پر عامل ہو جائے اور اس کی عاشق ہو جائے.بہر حال آج میری طبیعت پچھلے چند دن سے بہت اچھی معلوم ہوتی ہے کچھ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سفر کی پریشانیاں جو پیدا ہورہی تھیں وہ دُور ہو رہی ہیں.پچھلے دنوں اختر صاحب اور مشتاق احمد صاحب باجوہ جو کام کے لئے جاتے تھے تو اپنی نا تجربہ کاری کی وجہ سے یہ نہیں سمجھتے تھے کہ فورا رپورٹ نہ پہنچی تو مجھے صدمہ ہوگا دو چار دن کے تجربہ کے بعد میں نے خود اس بات کو محسوس کر لیا اور انہیں ہدایت کر دی کہ جب وہ باہر جایا کریں تو ایک زائدہ آدمی لے کر جایا کریں اور ا سے اس وقت کی رپورٹ دے کر میرے پاس بھیجوا دیا کریں تا کہ مجھے پتہ لگتا رہے جب سے اس پر عمل ہوا.میری گھبراہٹ اور پریشانی دور ہونی شروع ہو گئی اور آب خدا تعالیٰ کے فضل سے طبیعت میں سکون ہے خدا نے یہ بھی فضل کیا کہ جہاز کے ٹکٹوں کے ملنے کے غیر معمولی سامان ہو گئے اور ایک چینج کے ملنے کے سامان بھی پیدا ہو گئے.اس موقعہ پر اسلامی ملکوں کے بعض نمائندوں نے غیر معمولی شرافت کا ثبوت دیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے ان کے
لم درام ملکوں کو عزت اور ترقی بخشے.اس واقعہ سے طبیعت میں اور بھی زیادہ سکون پیدا ہوا اور پریشانی دور ہوئی.خدا کرے کہ مسلمانوں میں پھر سے اتحاد پیدا ہو جائے اور پھر سے وہ گذشتہ عروج کو حاصل کرنے لگ جائیں اور اسلام کے نام میں وہی رتب پیدا ہو جائے جو آج سے ہزارہ بارہ سو سال پہلے تھا میں اس دن کے دیکھنے کا متمنی ہوں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں.جب سعودی عراقی شامی اور لبنانی ، ترک.مصری اور یمینی سو رہے ہوتے ہیں میں ان کے لئے دعا کر رہا ہوتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ دعائیں قبول ہوں گی خدا تعالئے ان کو پھر ضائع شدہ عروج بخشے گا اور پھر محمد رسول اللہ رصلی الہ علیہ وسلم) کی قوم ہمارے لئے فخر و مباہات کا موجب بن جائے گی خدا کرے جلد ایسا ہو.میں شورٹی میں آنے والے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے سجٹ اور دوسری باتوں پر غور کریں اس سال دس بارہ دن لگا کر میں نے خود سجٹ کو حل کیا ہے اس لئے سبجٹ میں دوستوں کو زیادہ تبدیلی نہیں کرنی چاہیے میرا خیال ہے کہ میری ہماری کا موجب وہ محنت بھی تھی جو تحریک اور انجمن کے بجٹوں کو ٹھیک کرنے کے لئے مجھے کرنی پڑی.میں تو بیمار ہو گیا مگر میری وہ محنت کئی سال تک آمد و خرچ کے توازن کو ٹھیک کر دے گی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہوا اور آپ کو ان فرائض کے پورا کرنے کی توفیق دے جن کا آپ وعدہ کر چکے ہیں اور جن کے بغیر جماعت کی قریب کی ترقی ناممکن ہے.۱۲ مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی اب اسے مجھے مشورہ دیا گیا ہے کہ مجھے ہوائی جہاز کے ذریعہ سفر کرنا چاہیئے سو ہم چھٹا پیغام انشاء اللہ کراچی سے ۳۰ اپریل کو نصف شب کے قریب روانہ ہو کہ یکم مئی مهور در ۲ را پریل ۹۵ کو دشن پہنچیں گے.اس سے قبل ہمارے قافلے کا ایک حصہ کراچی..سے براہ راست لندن جائے گا اور انشاء اللہ ۲۷ اپریل کو وہاں پہنچ جائے گا.احباب دعا کریں کہ اللہ تعالے اس سفر کو با برکت کرے اور میری صحت بہتر ہو جائے اور میں تفسیر القرآن کا کام مکمل کر سکوں.(خلیفہ اسیح ) نوٹ: یہ تار کراچی سے ۱۲ اپریل کو صبح ، بیچے چلی مگر ربوہ میں ہمار اپریل کی شام کو پہنچی کیک ۱۴ ل روزنامه الفضل زیوه ۱۰ اپریل ۱۹۵۵ء ملت ۲ : که روزنامه الفضل ربوه ۱۶ را به بیل ها و صد کالم را
مورخه ۱۳ را پریل ۱۹۵۵ء برادران با میں چند روز میں ہوائی جہاز کے ذریعے سفر یورپ پر ساتواں پیغام جا رہا ہوں، چونکہ کچھ دن پیشتر ایک ہوائی جہاز جس میں ایک درجن کے قریب چینی وزراء سفر کر رہے تھے گر کر تباہ ہو گیا ہے اس لئے قدرتی طور پر میرا بسیار ذہن کسی قدر گھبراہٹ محسوس کرتا ہے.لیکن سفر اس موسم میں بہتر خیال کیا جاتا ہے.اس لئے میں اپنے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے ہوائی سفر کو ہی ترجیح دیتا ہوں.وہ جو کچھ ہمارے ساتھ کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے اور اگر ہم کسی وقت مایوس ہوتے ہیں تو یہ ہماری اپنی ہی غلطی اور کم نگاہی کی وجہ سے ہوتا ہے.خدا آپ بھی اور آئندہ بھی ہر حال میں آپ کے ساتھ ہو.میں آپ کو اپنے خدا کے سپرد کرتا ہوں جس نے آج تک کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا ہے.(مرزا محمود احمد) نوٹ: یہ تار کراچی سے ۳ ار اپریل کو رات پونے بارہ بجے کے قریب چلی مگر ربوہ میں ہمارا اپریل کی شام کو پہنچی ہے ۱۵ر اپریل کو جمعہ سے قبل حضور نے جماعت احمدیہ کے آٹھواں پیغام موخه دار اپریل کا نام حسب ذیل پیغام جاری فرمایا.العود يا للهو مِنَ الشَّيطن الرجيم بسْمِ الله الرحمن الرحيم هو النـ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران ! السلام عليكم ورحمة الله و بركانه نَحْمَدُها نحمده ونصلى على رسوله الكريم سامير آج پندرہ تاریخ ہے.اور اگر خدا تعالیٰ نے خیریت رکھی تو ہم انشاء اللہ پندرہ دن بعد یعنی ۳۰ اور یکم کی درمیانی رات کو ہوائی جہاز سے روانہ ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل میں نے ظہر اور عصر کی نماز جمع کر کے جماعت کے ساتھ پڑھائی گو ئیں سجدے اور رکوع کے درمیان بھول جاتا تھا مگر میں نے اپنے ساتھ دوستوں کو بٹھا دیا تھا کہ مجھے یاد کراتے جائیں بہر حال چار رکعتیں کھڑے ہو کہ میں پڑھا سکا.آج جمعہ ہے اور انشاء اللہ ارادہ ہے کہ میں جمعہ کی نماز بھی پڑھاؤں.یہ بات میں له روزنامه الفضل گریوه ۱۶ ر ا پریل ۱۹۵۵ء صا کالم سے
MAY بد پر ہیزی سے نہیں کر رہا بلکہ ڈاکٹر نے مجھے حکم دیا ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھاؤں اور یہ ڈاکٹر بھی غیر احمدی ڈاکٹر ہے احمدی نہیں گو اس نے تاکید کر دی ہے خطبہ اونچی آواز سے نہ ہو.لاوڈ سپیکر کے ذریعے سے ہو اور پانچ منٹ سے زیادہ نہ ہو آدمی پاس بیٹھے رہیں جو پانچ منٹ کے بعد روک دیں.پچھلے چند دنوں سے خدا کے فضل سے طبیعت اچھی ہوتی چلی گئی گو دل کی کمزوری کے دور سے بعض دنوں میں ہوتے رہے آج پہلی دفعہ ایک خواب چھوٹی سی آئی اور مجھے یاد رہ گئی.میں نے دیکھا کہ دو نوجوان مجھے ملنے آئے ہیں اور میں نے اُن کو ملاقات کا وقت دیا ہے اور اُن کے ساتھ کوئی اُن کے پروفیسر بھی ہیں کچھ دیر کے بعد نیم خوابی کی حالت ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ ابھی وہ طالب علم اور اُن کے پروفیسر ملنے نہیں آئے اور میں نے اپنی بیوی کو کہا اور وقت پوچھا انہوں نے کہا گیارہ بجے ہیں پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ دو طالب علم جنہوں نے وقت مقرر کیا تھا وہ نہیں آئے انہوں نے کہا نہیں آئے پھر میں نیند کے زور سے دوبارہ سو گیا ہر سال اس وقت دماغ پر بوجھ کسی قدر کم معلوم ہوتا تھا.اور میں محسوس کرتا تھا کہ خیالات معطل ہونے کی جو کیفیت پیدا ہو گئی تھی.اس میں کمی آگئی ہے بہر حال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے گو بہت آہستہ مگر پھر بھی طبیعت بحالی کی طرف مائل ہے.اگر انجمن اور تحریک کے افسروں نے مجھے دق نہ کیا تو شاید صحت اور جلدی ٹھیک ہو جائے گی وہ ضروری ہدایت پر عمل کرنے اور ضروری رپوڑیں بھیجنے میں کوتا ہی کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ آپ کی صحت کے پیش نظر ایسا کرتے ہیں حال تکہ رپورٹ وقت پر آئے تو اس سے طبیعت میں سکون پیدا ہوتا ہے.بہر حال احباب دعا کرتے رہیں.یورپین ڈاکٹروں کی رائے کا علم تو وہاں جا کہ ہی ہوگا فی الحال ہوائی سفر کا طبیعت پر بوجھے ہے کیونکہ مجھے اس کی عادت نہیں تندرست آدمی بھی اس کا بوجھ محسوس کرتا ہے تو اعصابی بیمار تو اور بھی زیادہ کمزور ہوتا ہے لیکن دوسرا کوئی کراستہ اس وقت ممکن نہیں تھا.اللہ تعالیٰ خیریت سے پہنچائے اور خیریت سے واپس لائے تو علاج اور دوستوں کی طاقات طبیعت میں اچھی تبدیلی پیدا کر دے گی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے فرائض کے صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق دے اور اسلام سے ایسی وابستگی ہو کہ دنیا کا کوئی ظلم اور تشدد آپ کو اپنے عہد سے پھر نہ سکے اور اللہ تعالے ایسی عقل آپ کو عطا فرمائے کہ آپ کو وہ صحیح راستہ ہمیشہ روشن نظر آتا رہے جو خدا تعالیٰ کے کاموں کو چلانے اور اسلام کے قائم کرنے میں محمد ہو سکتا ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی صدرا لے - روزنامه الفضل ربوه ۲۰ اپریل ۹۵۵ء ما
۴۷ پیغام پہلا خطبہ تھا : لکھوانے کے بعد حضور نے درج ذیل مختصر خطبہ ارشاد فرمایا جو بیماری کے بعد حضور کا تشہد اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- پرسوں تک تو میں چار پائی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہا مگر کل جو لیڈی ڈاکٹر علاج کے لئے آئیں رمیں ان کے والد مرحوم سے جو مولانا محمد علی صاحب مرحوم اور ڈاکٹر انصاری صاحب کے واقف اور دوست تھے ) واقف تھا انہوں نے اعصابی بیماریوں کے علاج کی تعلیم امریکہ سے کی ہے.نہایت سنجیدہ اور توجہ سے علاج کرنے کی عادت ہے اس لئے کرنل سعید صاحب سر جن سندھ نے میری گردن کے علاج کے لئے انہیں بھجوایا تھا وہ گورنر جنرل صاحب کی بھی معالجہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل میں کیا ڈال کہ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ باہر جا کر نماز پڑھا کریں میں نے کہا کہ مجھے تو باہر جانے میں کمزوری محسوس ہوتی ہے لیکن انہوں نے کہا کہ آپ کو صرف سیڑھیوں سے اترنے کی تکلیف ہوگی لیکن باہر جانے سے آپ کا دل بھی لگے گا اور آپ کی جماعت کے دوست بھی خوشی محسوس کریں گے.پھر انہوں نے اصرار کیا کہ کل جمعہ ہے آپ جمعہ کی نماز بھی پڑھائیں.میں نے کہا مجھے تو گلے کی تکلیف ہے اس لئے میں زیادہ بول بھی نہیں سکوں گا.لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ آپ تھوڑا بولیں اس سے آپ کی جماعت بھی خوش ہو گی اور آپ کی تفریح بھی ہو جائے گی.میں نے بتایا کہ مجھے تو لمبا بولنے کی عادت ہے اور اگر بولنا شروع کر دں تو دیر تک بولتا چلا جاتا ہوں.انہوں نے پھر کہا کہ آپ اپنے پاس دونوں طرف دو آدمی بیٹھا لیں جو تھوڑی دیر کے بعد کرنہ سے پکڑ کر آپ کو کھینچ کر بتا دیں اور آپ تقریر ختم کر دیں میں نے کہا یہ کس کو جرات ہو سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے بیٹوں میں سے کسی کو پاس بٹھا لیں میں نے کہا کہ میں تو ان کی طرف اگر غضب سے دیکھوں بھی تو وہ پہلے ہی سے بہت دُور بھاگ رہے ہوں گے لیکن چونکہ انہوں نے پھر بھی اصرار کیا اس لئے میں نے خیال کیا کہ یہ بھی کوئی الہی تحریک ہی ہوگی اس لئے میں نے ان کی بات مان لی اور فیصلہ کیا کہ میں جمعہ کی نماز پڑ ھاؤں گا.کل ظہر اور عصر کی نماز بھی میں نے اس لئے باہر پڑھائی مفتی بہر حالی اس طرح وہ بھی اس کے ثواب میں شریک ہو گئیں اور آپ لوگوں کی بھی خواہش پوری ہوگئی.چند دنوں کے اندر اندر ہم انشاء اللہ چلے جائیں گے پھر اللہ تعالے جانتا ہے کہ کون ملے گا اور کون نہیں.میں جاتے ہوئے جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس ایک ایسا خزانہ
مردم ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے اور وہ خزانہ دعا کا ہے ہم نے ہمیشہ اس سے پہاڑ اڑتے اور سمندر خشک ہوتے دیکھے ہیں اس خزانہ کو مضبوطی سے پکڑو اور ہاتھ سے جانے نہ دو ورنہ اس کی مثال ایسی ہوگی جیسی کسی کو سونے کی کان ملے اور وہ اسے چھوڑ کر سمندر کے کنارے کوڑیاں چھننے کے لئے چلا جائے...اللہ تعالے آپ کا حامی و ناصر ہو.اور ہر حالت میں اور ہر موقعہ پر اور ہر زمانہ میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوتے ۱۹ اپریل ۱۹۵۷ء کو حضور نے نہ صرف پیغام دیا بلکہ اپنے قلم مبارک سے اپنی صحت کے متعلق ایک ضروری نوٹ بھی تحریر فرمایا.دونوں کا متن درج ذیل ہے :- ☑ أعود يا ملعومين الشَّيْطَنِ الرَّحِيم نواں پیغام بنو اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ بسم الله الرحمن الرحيم.نَحْمَدُهُ وَنَتَلَى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ مورخه ۱۹ر اپریل 1909) هو الله خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کانته سامير آب انشاء اللہ چند دن میں ہم یورپ روانہ ہونے والے ہیں اور ممکن ہے کہ جب یہ مضمون شائع ہو تو روانہ ہو چکے ہوں یا روانہ ہونے والے ہوں مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض مفسد اور شر پسند لوگ یہ مشہور کر رہے ہیں کہ گویا میرا بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جانا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ گویا میرے نزدیک ربوہ خدانخواستہ اب تباہ ہونے والا ہے.جو احمدی یا غیر احمد کی یہ خیال رکھتا ہے وہ خود تباہ ہو نیوالا ہے.ربوہ تباہ ہونے والا نہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالے ایسے شہراتی لوگوں کو ذلیل اور رسوا کر دے گا، اور وہ اس تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے جس تباہی کی انہوں نے ربوہ اور اس کے رہنے والوں کے متعلق خیر دی تھی.اس نظارہ کو دیکھنے کے بعد کہ قادیان کی تمام آبادی کو میں سبحفاظت نکال کر لے گیا.اور کئی سال تک بے سامانی میں ان کے کھانے پینے کا سامان کیا اور سینکڑوں احمدیوں کی لاکھوں روپے کی امانتیں محفاظت اُن کے گھروں تک پہنچا دیں اور یہ دیکھتے ہوئے کہ باوجود ہر قسم کی مخالفت کے اور کلتی ہے سامانی کے میں نے ہزاروں آدمیوں کو ربوہ میں بہا دیا اور کالج اور اسکول بھی بنوا دیئے اور زنانہ کالج بھی بنوا دیا جو قادیان میں نہیں تھا اور سختہ دفتر بھی بنوا دئیے جو قادیان میں نہیں تھے.اور خدا کے له روزنامه الفضل ربوه ۲۰ را بپریل ۱۹۵۵ ۲
فضل سے سختہ جامعہ المیثمرین بھی بن رہا ہے ان تمام باتوں کو دیکھنے کے بعد اگر کوئی احمدی یہ خیال کرتا ہے کہ میں ربوہ چھوڑ کر بھاگ گیا ہوں اور ربوہ تباہ ہونے والا ہے تو اس بدبخت کو کوئی زمینی طاقت نہیں بچا سکتی کیونکہ جس نے خدا تعالٰی کو دیکھ کر انکار کیا اس کے دل میں ایمان اور دماغ میں عقل کوئی شخص نہیں پیدا کر سکتا.میں جب انسان ہوں تو بیماری سے بالا نہیں اور جب میں ایسی بیماری میں مبتلا ہوں جس کے متعلق چھ سات چوٹی کے ڈاکٹروں نے کہا ہے جو احمدی نہیں تھے کہ یہ محنت شاقہ کا نتیجہ ہے بلکہ ایک ڈاکٹر نے تو یہ بھی کہا کہ اگر میرا ایس چلتا تو میں دو سال پہلے ان کو پکڑ کو نکال دیتا کہ کیوں انہوں نے جبرا آپ کو کام سے نہیں روکا.پس ان منافقین کے اعتراضوں کا یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی خلیفہ محنت کرتے کرتے بیمار ہو جائے تو اس کو یہ بھی اجازت نہیں کہ وہ علاج کے لئے باہر جائے.اور اگر وہ باہر جائے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ جماعت کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے.اگر ان خبیثوں کے احتراق میں کوئی صداقت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خلافت ایک لعنت ہے.مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میرے با ہر علاج کرانے سے مجھے کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں مگر مجھے اس بات کا یقینی علم ہے کہ جن منافق احمدیوں کے دل میں ایسا خیال گذرا ہے اُن کے گھروں کو خدا تعالے برباد کر کے چھوڑے گا اور ربوہ کی موجودگی اور ترقی میں اپنے گھروں کو برباد ہوتے دیکھیں گے.میں نے کبھی خدائی کا دعوئی نہیں کیا کہ میں خواہ کتنی محنت تم لوگوں کے لئے کر وں نہ میں تیار ہونگا نہ مجھے صلاح کی ضرورت ہوگی مجھے پہلے تو بیماری کے حملہ کی شدت کی وجہ سے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ بیماری کا حملہ کسی طرح ہوا اور کسی دن ہوا.بعد میں لوگوں سے باتیں کرنے سے مجھے پتہ لگا کہ یہ حملہ ہفتہ کے دن ہوا تھا اور عور توں میں درس قرآن دینے کے بعد ہوا تھا پس میرا تصور صرف یہ ہے کہ میں نے باوجود کمزور اور بیمار ہونے کے تمہاری بیویوں اور لڑکیوں کو خدا کا کلام سنایا.اگر میرا قصور یہی ہے کہ جیسا کہ ظاہر ہے تو سمجھ لو کہ اس اعتراض کے بدلہ میں خدا تعالیٰ کی بے حد نصرت مجھے ملے گی اور خدا تعالے کا بے حد غضب ایسے معترضین پر نازل ہوگا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں سارے کارکن نکال کر اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ دو ڈاکٹر میرے ساتھ جا رہے ہیں لیکن ایک مزید ڈاکٹر کو ربوہ کے کام کے لئے میں نے
خدمات وقف کرنے کے لئے آمادہ کیا ہے اور وہ اس وقت ربوہ میں کام کر رہا ہے جو دو ڈاکٹر میں اپنے ساتھ لے جارہا ہوں.ان میں سے ایک میرا بیٹا ہے جس کو میں نے اپنے خرچ سے پڑھوا کر احمد یہ جماعت کے لئے وقف کیا جب کہ سینکڑوں دوسرے ڈاکٹر اس خرچ پر دو جہینہ کے لئے بھی آنے کو تیار نہیں تھے.اگران معترضین کے دل میں دیانت ہے تو آٹھ سال کے لئے نہیں صرف چھے چھ مہینے کے لئے اپنے رشتہ داروں کو خدمت جماعت کے لئے لے آئیں اور منور احمد سے دگنا گزارہ لے لیں اب بھی میں اسے اپنے خرچ پر لے جارہا ہوں تاکہ وہاں وہ بڑے بڑے ہسپتالوں میں نئی دریافتیں سیکھ کر آئے اور ربوہ پہنچ کر جاعت کی خدمت کرے پس اس کا لے جانا بھی آپ لوگوں پر احسان ہے کیونکہ اس کا خرچ میں خود دے رہا ہوں اور اس کے علم کا فائدہ آپ کو پہنچے گا.جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے دنیا کے آخر میں جنت بھی قریب آجائے گی اور دوزخ بھی قریب آجائے گی.میں نے ساری عمر کوشش کی کہ قریب آئی ہوئی جنت میں تم داخل ہو جاؤ اگر تم میں سے بعض پھر بھی دوزخ ہی میں گھسنے کی کوشش کریں تو میں تو حسرت بھرے دل سے انا للہ ہی پڑھ سکتا ہوں اور کیا کر سکتا ہوں.خدا تعالیٰ تمہاری آنکھیں کھولے اور ان دشمنوں کی بھی آنکھیں کھولے جو حدیت پر چھوٹے اعتراض کرتے ہیں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفه آبیع الثانی از کراچی 1 اپنی صحت سے متعلق حضور کا قیم فرمودہ نوٹ کیوں طبیعت بہتر ہورہی ہے.مگر ارضی مورخه ۱۹ اپریل ۱۹۵۵ء طور پر طبیعت گرتی ہے.ویسے مرض کے بعض حصوں کی زیادتی معلوم ہوتی ہے بعینی بائیں بازو کی حرکت میں جو آسانی پیدا ہو گئی تھی.اس میں کمی آگئی ہے.مٹی بناتے وقت انگلیاں سیدھی ہوتے لگ گئی تھیں.اب پھر مرنے لگ گئی ہیں.لیکن یہ فرق بھی ہے کہ پہلے میں بائیں ہاتھ کی مدد سے آزار بند باندھ نہیں سکتا تھا.اب میں باندھنے پر قادر ہوگیا ہوں.کسی قدر عجیب سا معلوم ہوتا ہے مگر باندھ لیتا ہوں.اسی طرح پہلے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پوری جیسی نہیں تھی.جب انگلیاں میں ملاتا تھا.معلوم ہوتا تھا کہ کچھ حس میں فرق ہے دائیں ہاتھ کی تشہد کی انگلی اور انگوٹھے سے کوئی چیز نہیں پڑی روزنامه الفضل " ریوه ۲۳ اپریل ۱۹۵۵ء ص
۴۹۱ جاتی تھی.پھسل جاتی تھی آپ تشہد کی انگلی اور انگوٹھے سے سوٹی پکڑ بھی لیتا ہوں اور اٹھا کر دوسری جگہ رکھ بھی دیتا ہوں ، مگر انگلیوں کے بند کرنے میں ید نمائی ابھی تک قائم ہے.احباب دعا کرتے رہیں.اب ہمارے یورپ کی طرف سفر کرنے کا وقت قریب آگیا ہے.آج یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ وہاں کی سردی مضر تو نہیں ہوگی.اس وقت ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ جنوبی یورپ کی سردی مضر نہیں ہو گی.بلکہ اگر گرمی کا خیال رکھا جائے.تو مفید ہو گی.کچھ دنوں سے بائیں کندھے میں بھی درد ہے.جس کو ڈاکٹر محض تھکان قرار دیتے ہیں.کہتے ہیں کہ بیماری کی وجہ سے خون کا دورہ پورا نہیں ہوتا.اس لئے جس بازو پر آپ زیادہ لیٹے رہتے ہیں.اس میں درد ہونے لگتا ہے.ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ جب وہ حملہ ہوا جیسے فالج سمجھا گیا تھا.تو اس کے بعد میں بائیں ہاتھ میں قینچی نہیں پکڑ سکتا تھا.اور انگلیوں میں اتنا ضعف تھا.کہ میں قینچی کے سوراخوں میں انگلیاں اور انگوٹھا ڈال کر کھول نہیں سکتا نہ بند کر سکتا تھا.اس کے نتیجہ میں یکں ناخن نہیں کاٹ سکتا تھا.مگر اس وقت کہ میں حال لکھوا رہا ہوں.میں نے قینچی کے سوراخوں میں ہاتھ ڈالا ہوا ہے.اس کو کھول بھی رہا ہوں.بند بھی کر رہا ہوں.اور بعض دفعہ ناخن کاٹنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہوں.مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۱۹ – ۴ - ۵۵.بوقت و بجے صبح.از کراچی باسه - برادران.السّلام عليكم ورحمته الله و بركاته.دسواں پیغام آج ۲۰ تاریخ ہے اور انشاء اللہ ۳۰ کو ہم جا رہے ہیں.گرمی ان دونوں.۹۵۵ مورخه ۲۰ را پریل شاہ کراچی میں بڑی شدید پڑ رہی ہے اور اس وجہ سے طبیعت میں کمزوری محسوس ہوتی ہے.....چونکہ ہوائی سفر قریب آرہا تھا اس لئے خیال کیا گیا کہ ایک دفعہ دل کے ماہرڈاکٹروں سے پھر مشورہ کر لیا جائے.چنانچہ کراچی کے سب سے بڑے ماہر قلب ڈاکٹر ایم شاہ صاحب جو اس فن کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور امریکہ سے خاص طور پر اس کا مطالعہ کر کے آئے ہیں، سے خواہش کی گئی کہ وہ ایک دفعہ جانے سے پہلے آلہ تحقیق قلب سے دل کا پھر مطالعہ کر لیں چونکہ اس آلہ کا گھر پر لانا ناممکن تھا اس لئے ہسپتال میں دکھانے کا فیصلہ ہوا چنانچہ میں آج صبح دس بجے وہاں گیا.ڈاکٹر شاہ ل - الفضل ۲۴ را پریل ۶۱۹۵۵
۴۹۲ صاحب نے نہایت محبت اور توجہ سے آلہ تحقیق قلب لگا کر دل کی حرکات کا مطالعہ کیا اور آلہ کھولنے کے بعد میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ مبارک ہو دل سو فیصد ٹھیک ہے پھر فرمایا کہ ہوائی سفر کا فیصلہ نہایت مبارک ہے.میں آپ کو یہی مشورہ دینا چاہتا تھا مگر ڈرتا تھا کہ آپ کسی وجہ سے اس سفر سے گھبراتے نہ ہوں.مگر دل یہی چاہتا تھا کہ آپ ہوائی سفر کریں تا کہ سفر کی کوفت نہ ہو اور علاج جلدی ہو جائے ہر سال ماہر ڈاکٹروں کے مشورہ سے ہوائی سفر کا فیصلہ ہوا ہے.انشاء اللہ چند روز میں چل پڑیں گے میں امید کرتا ہوں کہ جماعت نمازوں، دعاؤں میں لگی رہے گی اور ہر فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہے گی اور خدا تعالیٰ سے اتنی محبت کرے گی کہ خدا اس کا ہو جائے گا.جہاں تک احساس کا سوال ہے میری طبیعت محسوس کرتی ہے کہ اگر گرمی کچھ کم ہو جائے تو انشاء اللہ طبیعت بہت جلد بحال ہونے لگ جائے گی.آج میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے پھر ظہر عصر کی نماز پڑھائی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلی بار تھی کہ ساری نماز ٹھیک پڑھائی اور کوئی غلطی نہ ہوئی.آج میں نے یورپ کی تبلیغ پر بھی غور کیا اور مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ میں خیریت سے وہاں پہنچا تو یورپ کی تبلیغ میں نمایاں تبدیلی ہو جائے گی.میں جب میں نے سفر کیا تو گو میں نوجوان تھا اور مضبوط تھا مگر اتنا تجربہ کار نہیں تھا.لیکن اب کمزور اور نا تواں ہوں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک وسیع تجربہ میری پشت پر ہے اور میرا دماغ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے تھوڑا بہت کام کرنے لگ گیا ہے خدا تعالے مدد فرمائے تو انشاء اللہ برکت رحمت اور فضل کے دروازے کھلیں گے اور اسلام ترقی کی طرف قدم اٹھائے گا انشاء اللہ.انشاء اللہ.انشاء اللہ.اسے خدا ایسا ہی ہو تیرا دین پھر اپنی جگہ حاصل کرلے اور کفر پھر غار میں اپنا سر چھپالے میرا ارادہ ہے کہ میں یوروپ اور امریکہ کے تمام مبلغین کو اکٹھا کرکے قضیبہ زمین بر سرز میں طے کرنے کی کوشش کروں گا مگر ابھی منزل مقصود کے درمیان ایک بہت بڑا سمندر حائل ہے جس کو پار کروانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر مبنی ہے.کیا تعجب ہے کہ اللہ تعالے ہمیں اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھنا نصیب کر دے اور ہماری موتیں ہماری پیدائشوں سے زیادہ مبارک ہوں اور کامیابی ہمارے قدم چومے اور ہم رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے فاتح جرنیل بن جائیں اور قیامت کے دن تمام دنیا کی حکومت کی کنجیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رکھنے کا فخر حاصل کریں.اپنے فرض کو سمجھو اور رسول کریم
۳۹۳ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار سپاہیوں کی طرح کفر کے مقابلے کے لئے طیار ہو جاؤ.خدا تعالے تمہارے ساتھ ہوا اور تمہارے خاندانوں کی زندگیوں کو با برکت بنائے آمین اللهم آمین.مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی از کراچی کی ۲۰ مدیر صدق جدید" کا خراج تحسین حضور کے اس پیغام کو پڑے کہ برصغیر کے مشہور کے عالم دین مولانا عبد الله جد صاحب دریا آبادی نے اپنے اخبار" صدق جدید مورخہ - ارجون ش۱۹۹ ء میں آپ کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا کہ :- جماعت احمدیہ (قادیانی) کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے قلم سے اپنی جماعت کے نام سفر یورپ پر روانہ ہوتے وقت :- آج میں نے یورپ کی تبلیغ پر بھی غور کیا.اور مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ میں خیریت سے وہاں پہونچا تو یورپ کی تبلیغ میں نمایاں تبدیلی ہو جائے گی ۱۹۳۳ء میں جب میں نے سفر کیا تو میں نوجوان تھا اور مضبو تھا مگر اتنا تجربہ کار نہیں تھا، آپ کو کمزور اور ناتواں ہوں لیکن خدا کے فضل سے آب وسیع تجربہ میری پشت پر ہے......خدا تعالے مدد فرمائے تو انشاء اللہ برکت اور رحمت اور فضل کے دروازے کھلیں گے اور اسلام تو قی کی طرف قدم بڑھائے گا انشاء اللہ تعالے اے خدا ایسا ہی ہو تیرا دین پھر سے اپنی جگہ حاصل کر لئے اور کفر پھر غار میں اپنا سر چھپالے، میرا ارادہ ہے کہ میں یوروپ اور امریکہ کے تمام مبلغین کو اکٹھا کر کے قضیہ زمین پہ سر نہ میں طے کرنے کی کوشش کروں گا.مگر ابھی منزل مقصود کے درمیان ایک بہت بڑا سمندر حائل ہے جس کو پار کرنا محض اللہ تعالے کے فضل پر مبنی ہے کیا تعجب ہے کہ ہمیں اللہ تعالے اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھنا نصیب کر دے اور ہماری موتیں ہماری پیدائشوں سے زیادہ مبارک ہوں اور کامیابی ہمارے قدم چومے اور ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فاتح جرنیل بن جائیں اور قیامت کے دن تمام دنیا کی حکومت کی کنجیاں رسول صل اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا رکھنے کا فخر حاصل ہو.اپنے لاء فرض کو سمجھو اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے وفادار سپاہیوں کی طرح کفر کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاؤ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو..ه روزنامه الفضل گریوه ۲۶ را پریل ۱۹۵۵ صدا
۴۹۴ خدمت اسلام کے دلولہ جس کسی کی بھی زبان سے ادا ہوں.بہر مالی باعث مسرت و موجب شکر ہی ہوتے ہیں.یہ مسرت بدرجہا زاید ہوتی اگر یہ الفاظ اہل سنت کے کسی عالم کی زبان - ޖ یورپ کی روانگی کے وقت ادا ہوتے " صدق جدید ۱۰ جون ۹۵۵ ونه انہی دنوں حضور کو بنگال سے بعض نام نہاد احمد یو بنگالی احمدیوں کے نام خصوصی پیغام کی نسبت افسوسناک اطلاعات تھیں جس پر حضور پہنچیں نے جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان کے نام حسب ذیل خصوصی پیغام دیا :- هُوَ النَّ بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ سامير میرے بنگالی کے احمدی بھائیو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته.جب کسی قوم کے افراد اختلافات کو ہوا دینا شروع کر دیتے ہیں تو وہ انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں اور اُن کا کردار پست ہو کر رہ جاتا ہے چنانچہ دیکھ لو جب مسلمانوں کے دل متحد نہ رہے تو دنیا بھر میں اُن کا وقار زائل ہو گیا بالآخر ۱۳۰ سال کے ادبار کے بعد خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو بھیجا اور چاہا کہ مسلمان پھر ان کے ذریعے متحد ہو جائیں.مجھے حال ہی میں ایک رپورٹ ملی ہے کہ (لوگ) اس خیال کو ہوا دے رہے ہیں کہ چونکہ خلیفہ غلطی کو سکتا ہے اس لئے اس کی اطاعت حکم کا درجہ نہیں رکھتی.....مذکورہ بالا خیال اگر چہ بظاہر معمولی نظر آتا ہے لیکن یہی خیال تھا جو گذشتہ زمانہ میں بالآخر مسلمانوں کی تباہی کا باعث بنا.بظا ہر سادہ نظر آنے والے یہی اصول تمہاری جماعت کو بھی تباہ کرنے کا موجب بن سکتے ہیں.پس ان حالات میں سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ میں یہ اعلان کروں کہ میں ہر سچے احمدی سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ ان لوگولی کو میرا پیرو نہ سمجھے بلکہ انہیں آزاد اور میرے منصب کا باغی تصویر کرے، اگر یہ لوگ حق پر ہیں تو انہیں اس اعلان پر خوش ہونا چاہیے اور جو غلطی میں نے کی ہے اور جس چیز کو میں نے تباہ کیا ہے انہیں اس کی اصلاح اور اس کی تعمیر کے لئے کمر بستہ ہو جانا چاہیئے اور اپنے ایمان اور اپنے عمل کی فوقیت ظاہر کرنی چاہیئے.الے بحوالہ روز نامه " الفضل " ربوه ۲۵ جون ۱۹۵۵ء ص۳
پس میں اس امید کے ساتھ جماعت احمدیہ بنگال کے نام یہ خط ارسال کر رہا ہوں کہ اگر وہ اپنے مرکز اور اپنے خلیفہ سے محبت رکھتے ہیں تو وہ کسی قسم کا شک کئے بغیر حتمی طور پر ان سے اپنا تعلق منقطع کر لیں گے ان سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہ رکھیں گے اور پورے وثوق کے ساتھ اُن کے خیالات کی تردید کریں گے اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے صحت عطا کر دی تو میں انشاء اللہ بنگال سے اس بدی کو مٹانے کی پوری کوشش کروں گا لیکن اگر اللہ تعالے کا منشاء کچھ اور ہے تو پھر بھی وہ تم سے ایسا ہی سلوک کرے گا جیسا سلوک تم میرے ساتھ روا رکھو گے یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں اپنی عزت کا بدلہ لوں یہ خدا کا کام ہے.اگر نہیں جھوٹا ہوں تو پھر تمہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر میں اس دنیا میں خدا کا بر حق نمائندہ ہوں تو پھر اس لعنت سے ڈرو جو تمہارا پیچھا کرتی چلی آرہی ہے اپنے قدموں پر نگاہ رکھو ایسا نہ ہو کہ احمدیت پر سے تمہارا لفظی ایمان بھی جاتا رہے اللہ تعالے یقینا احمدیت کی حفاظت کرے گا وہ قادر و توانا ایسے لوگوں کو آگے لائے گا جو ہوں گے تو تم ہی میں سے لیکن وہ قربانیوں میں تم سے بہت آگے ہوں گے.اور اس طرح ان کی قربانیوں کے ذریعہ احمدیت اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوگی.احمدیت کی ترقی کا انحصار نہ مجسٹریٹوں پر ہے اور نہ سب رجسٹراروں پر اور ان میں سے کوئی بھی نہیں جو اللہ تعالے کی گرفت سے باہر ہو نہ وہ جو ڈیٹی کے عہدے پر فائز ہوں اور نہ وہ جو سب رجسٹرار ہوں.میں نہیں کہتا ہوں کہ تم خدائی سزا کا انتظار کرو میں جانتا ہوں کہ وہ آرہی ہے آسمانوں والا خدا میرے ساتھ ہے اس لئے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خدائی فیصلے کا انتظار کرو اور پھر حقی کو پہنچانو میں تم سے صرف یہ کہتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے اور جو کوئی بھی میرے خلاف اٹھتا ہے وہ یقینا خدا کی طرف سے سزا پائے گا اور اس کا اور اس کی پارٹی کا اثر و رسوخ اسے خدا کے غضب سے نہیں بچا سکے گا تمہارے لئے ابھی غور وفکر سے کام لینے اور خدائی منشاء کو جو قرآن میں مذکور ہے سمجھنے کا موقع ہے اگر تم وقت پر ایسا نہیں کروگے تو پھر تمہاری تباہی تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے.مرز البشير الدين محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی و مصلح موجود " مالیر کراچی کے روز نامہ الفضل یوه ۲۱ اپریل ۶۱۹۵۵ ص۲
لريد اس پیغام کی اشاعت پر بنگال کے ربوہ میں مقیم احباب ربوہ میں نسیم بنگالیوں کا اخلاص کلمہ کی طرف سے حضور کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب پہنچا...جس کے لفظ لفظ سے صحبت ٹپکتی تھی :- بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نحمده ونصلى على رسوله الكريم وَ عَلى عَبْدِ المَسيح الموعود امامنا و مطاعنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمة الله و بركانه.ہم ربوہ میں مقیم بنگالی اہالیان کو جاعت بنگال کے نام حضور پر نور کے درد بھرے پیغام کو پڑھ کو سخت صدمہ پہنچا.زیادہ صدمہ ہمیں اس وجہ سے بھی ہوا کہ بنگال کے بعض ایسے افراد سے جو جماعت کے لئے اخلاص رکھنے والے سمجھے جاتے تھے ایسی نازیبا حرکت سرزد ہوئی جو سب کے لئے مقام عبرت ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کو محفوظ رکھے اور اطاعت میں کامل بنائے (آمین یا رب العالمین).ہم ان لوگوں سے جو جماعت کے لئے فتنہ کا موجب بنے ہیں خواہ وہ کتنے ہی اثر و رسوخ رکھتے والے ہوں ان کے اس طرز عمل پر اظہار نفرت کرتے ہیں اور حضور کو اپنی وفاداری کا پورا یقین دلاتے ہیں کہ حضور کے مہر ارشاد پر چلتے ہوئے ہر ایسے فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم ہر وقت تیار ہیں حضور پیر نور سے ہماری مودبانہ گذارش ہے کہ اس دور افتادہ جماعت پر جس کا اکثر حصہ مرکز میں آکر حضور کے فیوض سے بذات خود مستفیض نہیں ہو سکتا اور ہمیں یقین ہے کہ ان کے اخلاص اور صدق دوقا میں کوئی کمی نہیں ہے اور باوجود بعض کوتاہ بین افراد سے ایسی فتنہ پر در حرکت سرزد ہونے کے حضور کے اونی اشارہ پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہیں حضور پر نور پدرانہ رحم فرما کر دعا فرمائیں کہ اللہ تعالے ان کو اور ہمیں ہدایت کی راہ پر چلائے اور خلافت کے حقیقی منصب کو سمجھتے ہوئے اس کی برکات سے ہمیشہ اور پورا پورا مستفیض ہونے کی توفیق بخشے.اللہ تعالے احضور کے اس سفر یورپ کو بابرکت فرمائے اور صحت کاملہ کے ساتھ جلد واپس لائے اور حضور نے اپنے پیغام میں بنگال سے جن بدلیوں کو دور کرنے کا ذکر فرمایا ہے اللہ تعالے وہ دن بہت جلد لائے جب حضور واپس تشریف لا کر اپنے اس نیک و با برکت ارادہ کو پورا فرمائیں اور بنگال بدیوں
سے پاک ہو کہ خیرو برکت کا گہوارہ بن جائے.آمین ثم آمین ریوه ہم ہیں حضور کے ادنی ترین خادم بنگالی اہالیان مقیم ریوہ فرمایا : ۲۲ اپریل ۱۹۵۵ء کا خطبہ جمعہ آج رات مجھے شدید تکلیف تھی.ہاتھ کی مٹھی تک بند نہ ہوتی تھی اور سر بھی خالی خالی محسوس ہوتا تھا.جس وقت ذرا آرام آیا تو خواہش ہوئی کہ تذکرہ جو حضرت صاحب کے الہامات کا مجموعہ ہے اسے پڑھوں میں نے اسے یونہی کھولا اور کسی خاص انداز سے کے بغیر ایک جگہ سے پڑھنا شروع کیا تو میری بیماری اور میرے شام کی طرف سفر کرنے کا بھی اس میں ذکر تھا.اسی طرح بنی اسرائیل کے آخری زمانہ میں انگریزوں کی مدد سے فلسطین میں داخل ہونے کا بھی ذکر تھا.ان الہامات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہود کا اس علاقہ میں آنا مسلمانوں اور خصوصا عربوں کے لئے سخت نقصان دہ ہوگا.مگر یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالے ان خطرناک نتائج کو کچھ عرصہ کے لئے ٹلا دیگا اور پھر اللہ تعالیٰ کی فتح اور نصرت آنی شروع ہو گی.پھر یہ بھی دیکھا کہ اللہ تعالے احمدیت کے پاؤں عرب ممالک میں حمادے گا.گو وہاں مبشرات کے ساتھ منذرات کا بھی ذکر ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ منذرات کے پہلوؤں کو کم کر دے اور مبشرات کو بڑھا دے تو کوئی تعجب نہیں کہ ہمارا وہاں جانا اسلام احمدیت اور عربوں کے لئے مفید ہو مگر چونکہ حضرت صاحب کے الہامات میں منذرات کا بھی ذکر ہے اس لئے دوستوں کو دکھا ئیں بھی کرنی چاہئیں.اسے ۲۷ را پریل کو حضور نے کراچی سے حسب ذیل گیارھواں پیغام مورخہ ۲۷ را بریلی شده پیغام ارسال فرمایا :- بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ هوا اب خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.نَحْمَدُهُ وَنَصَلَ عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ سامير ه روزنامه " الفضل" ربوه مرمتی ۱۹۵۵ء مث کے روزنامہ " الفضل " ریوه ۲۷ اپریل ۱۹۵۵ء ها
ہمارا پہلا قافلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوائی جہاز کے ذریعہ قاہرہ پہنچ چکا ہے.۲۹ کو میں انشاء اللہ تعالیٰ رات کے ساڑھے بارہ بجے بقیہ قافلہ کے ساتھ دمشق روانہ ہوں گا.وہاں سے انشاء اللہ تعالیٰ دوسری تار دی جائے گی.احباب جماعت نے خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے فکر سے بچانے کی کوشش کی ہے.الا ماشاء الله بعض اشخاص کے جنہوں نے باوجو د سفر اور بیماری کے نیش زنی سے پر ہیز نہیں کیا.لیکن تھوڑے بہت تو ساری قوم میں ہی مجرم ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلص گروہ ہی جیتے گا اور وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ میری بیماری کی وجہ سے انہیں سر اٹھانے کا موقعہ مل گیا ہے نا کام ونامراد ہوں گے اور خدا تعالے مخلص حصہ کا ساتھ دے گا.اور دن رات کے کسی حصہ میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا.خدا تعالیٰ کے فضل سے کراچی آنا بہت مفید ثابت ہوا ہے.اور یہاں یوروپ کے علاج کے متعلق نہایت مفید مشورے حاصل ہوئے ہیں اور ڈاکٹروں نے نہایت محبت سے علاج کے مثبت اور منفی پہلو سمجھا دیتے ہیں.اب صرف ایک تشخیص جاتی ہے ڈاکٹروں کی رائے یہ ہے کہ وہ تشخیص یوروپ میں ہی ہو سکتی ہے.اور یہ کہ اگر وہ بھی تسلی دلانے والی ہو تو انشاء اللہ بیماری کا کوئی حصہ بھی تشویش ناک باقی نہیں رہے گا.بلکہ جب کل یکی نے ایک مشہور اعصابی بیماریوں کے ماہر سے مشورہ لیا کہ اگر تشخیص کے بعد ڈاکٹر وہاں علاج تجویز کر دیں اور میں واپس آنا مفید سمجھوں تو کیا ان کے نزدیک باقی علاج کراچی میں ہو سکے گا.تو انہوں نے جواب دیا.کہ جب مکمل تشخیص کے بعد نسخہ بھی وہ تجویز کر دیں تو ان کی اجازت اور حالات کے مطابق اگر میں کراچی آجاؤں تو بقیہ علاج وہ امید کرتے ہیں یہاں ہو سکے گا.مگر اس میں استحصار وہاں کے ڈاکٹروں کی رائے پر کرنا چاہیئے.اگر جماعت کے احباب کی دعائیں اللہ تعالیٰ سُن لے تو کوئی تعقیب نہیں.ایسی صورت نکل آئے کہ میں چند دن یا چند ہفتے اس وقت کے قیاس سے پہلے آسکوں.والعلم عنداللہ گو زور ان کا یہی ہے کہ وہاں کی آب وہوا سے فائدہ اٹھانا چاہیئے جو اس مرض کے لئے بہت فائدہ مند ہے.بعض علاجوں کے متعلق انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ سخت تکلیف دہ ہیں.اگر وہاں کے ڈاکٹر وہ علاج تشخیص کریں تو اس سے انکار کر دیا جائے.اور کہا جائے کہ ہم یہ علاج کراچی میں کروالیں گے.جہاں یہ سب سامان موجود ہے.مگر ان کی رائے یہی ہے کہ ایسے سخت علاج کی ضرورت پیش نہیں آئے
کراچی ائر پورٹ پر مصافحہ Photo Speed Co.HYDERABAD SING
Moto Speed Co.HYDERABAD SIND کراچی سے سفر یورپ کے لیے روانگی
۴۹۹ گی.انشاء الله.مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی و الله کراچی سے مشق کے لئے روانگی ۱۳ اور ۳۰ اپریل کی درمیانی شب کو سید نا حضرت مصلح موعود خلیق اسیح الثانی سفر یورپ کے ارادہ سے کے ایل ایم کے طیارہ کے ذریعہ کراچی سے مشتق کے لئے روانہ ہوئے حضور کے ساتھ سیدہ ام متین صاحبہ سیدہ خبر آ یا صاحبہ، صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبہ اور صاحبزادی امتہ اتنی صاحبہ کے علاوہ عزت مآب چودھری سر محمد ظفر اللہ خانصاحب بھی تھے.ڈرگ روڈ کے ہوائی اڈہ سے پونے دو بجے شب حضور کا طیارہ دمشق کے لئے روانہ ہوا اس موقعہ پر کراچی کی جماعت کے کثیر احباب کے علاوہ بیرو نجات مثلی سندھ بلوچستان اور پنجاب کی کئی جماعتوں کے دوست بھی بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے حضور پر نور کی روانگی کے سلسلہ میں سب سے پہلی اجتماعی دعارات کے نو بجے حضور کی قیام گاہ رکوئٹہ وال بلڈنگ ماکیر، پر ہوئی اس تقریب کے متعلق مقامی جماعت کے جنرل سیکرٹری میجر شمیم احمد صاحب کی طرف سے مطبوعہ اعلان کے ذریعے احباب جماعت کو قبل از وقت اطلاع کر دی گئی تھی.اس طرح جمعہ کی نماز میں بھی یہ تکرار احباب کو آگاہ کر دیا گیا تھا.ساڑھے آٹھ بجے شبت تک حضور کے قیام گاہ کے صحن میں مقامی اور بیرونی جماعتوں سے آئے ہوئے احباب جمع ہو چکے تھے ان کے بیٹھنے کے لئے باقاعدہ دریوں اور فرش وغیرہ کا معقول انتظام تھا.- حضور کی تشریف آوری سے قبل مولانا عبد المالک خانصاحب مبلغ سنیلہ نے حسب ذیل دعائیں لاؤڈ سپیکر پر پڑھیں اور احباب کو ان کے دہرانے کی تلقین کی یہ دعائیں سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموجود نے خاصی اس موقعہ کے لئے خود انہیں لکھوائی تھیں.- اللّهُمَّ اخْرِجُهُمْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَادْخِلَهُمْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لَهُمْ مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا - ٢ رَبِّ كُلِّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْهُمْ وَانْصُرُهُمْ وَارْحَمْهُمْ.يَا حَفِيظٌ يَا عَزِيزُ يَا رَفِيق.له الفضل ٢ متى ١٩٥٥ء.ه حال ناظر اصلاح وارشاد ربوه
فِي حِفَاظَةِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ.ارْجِعُوا سَالِمينَ فَانِمِينَ تَحْتَ رَحْمَةِ اللَّهِ.اسی طرح سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی دو مشہور نظم بھی خوش الحانی سے پڑھی گئی جس میں حضور نے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور دیگر اولاد کے لئے دعا فرمائی ہے.سوا نو بجے تھے کہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی خدام میں تشریف لائے اور کرسی پر بیٹھ کر مجمع سمیت لیبی اور پُر سوز دعا فرمائی دُعا کا یہ نظارہ حد درجہ ایمان افروز اور رقت انگیز تھا اور اس کی کیفیت کا اندازہ کچھ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر شریک ہونے کی سعادت عطا فرمائی تھی.دعا کے بعد حضور جب واپس تشریف لے گئے تو احباب جماعت بھی کیسوں اور کاروں وغیرہ کے ذریعے ہوائی مستقر کی طرف جانا شروع ہو گئے ساڑھے گیارہ بجے تک ہوائی مستقر میں احباب اور خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے محبوب آقا کو الوداع کہنے کے لئے جمع ہو چکی تھی سوا گیارہ بجے شب حضور پر نور بذریعہ کار اپنی قیام گاہ سے ہوائی مستقر کے لئے کروانہ ہوئے اس موقعہ پر نامی جماعت اور صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے دو بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.ائیر پورٹ پر ملاقاتیوں کے احاطہ میں احباب جماعت قطار در قطار اپنے محبوب اور محسن آقا کی انتظار میں چشم براہ تھے کہ حضور تشریف لے آئے حضور کرسی پر بیٹھ گئے اور احباب جماعت تے باری باری مصافحہ اور زیارت کا شرف حاصل کرنا شروع کیا.دو تین صفوں کے احباب یہ شرف حاصل کر چکے تھے کہ حضور نے اپنی طبیعت کی کمزوری کی بنا پر مصافحہ سے معذوری کا اظہار فرمایا، چنانچه باقی دوست ایک ایک کر کے حضور کے سامنے سے گزرتے گئے اور حضور کی خدمت میں ہدیہ سلام و عقیدت اور درخواست دعا پیش کرتے رہے.یہاں سے فراغت کے بعد حضور اور قافلہ کے دیگر اراکین کسٹم کے کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں سفر سے متعلقہ بعض ضوابط کی تکمیل ضروری تھی اور اس کے بعد حضور پھر واپس اسی جگہ تشریف لے آئے اور جہاز تک جانے سے پہلے مختلف احباب جماعت سے گفتگو فرماتے رہے چونکہ تھوڑی دیر تک حضور ہوائی جہازہ تک جانے والے تھے اس لئے زیادہ تر احباب ائیر پورٹ کی عمارت کی اوپر کی گیلری میں چلے گئے جہاں سے وہ حضور کو طیارہ
میں سوار ہوتے اور پھر طیارہ کو اڑتے ہوئے بآسانی دیکھ سکتے تھے.ا بیجھے شب حضور محترم چودھری محمد ظفراللہ خانصاحب اور دیگر ساتھیوں کی معیت میں جہاز پر سوار ہونے کے لئے تشریف لے گئے جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اور اس سے قبل بھی کئی مواقع پر بعض دوستوں نے تصاویر اتاریں.حضور جہاز میں تشریف رکھ چکے تھے کہ حسب پروگرام امیر مقامی جناب چودھری عبد اللہ معا تصاحب کی قیادت میں اجتماعی دعا شروع ہوئی.ابھی دُعا ختم ہی ہوئی تھی کہ جہاز حرکت میں آیا اور پونے دو بجے شب کراچی کی سرزمین سے دمشق کے لئے روانہ ہوگیا.جب تک کالے کالے آسمان پر جہاز کی سُرخ روشنیاں نظر آتی رہیں عاشقان محمود دھڑکتے ہوئے دلوں اور پُر نم آنکھوں سے زیر لب دعا کرتے ہوئے اپنی جگہوں پر کھڑے جہاز کو دیکھتے رہے.اس موقعہ پر بھی مقامی جماعت کی طرف سے دو بکر سے بطور صدقہ ذبیح کئے گئے.حضور کی روانگی کے موقعہ پر پیر و نجات سے جو احباب شریک ہوئے ان میں سے بعض کے اسمار یہ ہیں :- حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی از قاریان - چوہدری انور حسین صاحب شیخو پوره خواجہ محمد یعقوب صاحب سیالکوٹ.صوفی محمد رفیع صاحب سکھر.چوہدری شریف احمد صاحب خانیوال.میاں عبد الرحیم صاحب پراچہ ملتان چوہدری عزیز الله صاحب ظفر آباد، بابو عبد الغفار صاحب حیدر آباد سنده منشی محکم دین صاحب باڑہ.بابوسلیم اللہ صاحب میر پور خاص حاجی عبد الرحمن صاحب پینڈنٹنٹ رئیس باندھی چوہدری فضل احمد صاحب محمود آباد - مولوی غلام احمد صاحب فرخ نواب شاه نیه امیر مقامی حضرت صاحبزاده میرزا بشیر احمد صاحب کی تحریک پر ربوہ میں اجتماعی دعائیں ۲۹ ر اپریل کی رات کو سفر یورپ کے لئے حضور کی روانگی کے موقعہ پر ربوہ میں مقامی جماعت کی طرف سے صدقہ کا انتظام کیا گیا.نیز رات کو ایک بجے جب کہ حضور نے ہوائی جہاز کے ذریعہ کراچی سے داشتن روانہ ہونا تھا اہل ربوہ نے مسجدوں میں جمع ہو کر سفر یورپ کے با برکت ہونے کے متعلق نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں.ان خصوصی دعاؤں کو اجتماعی رنگ دینے کے لئے محلہ جات کے پریذیڈنٹ صاحبان کے روزنامه الفضل " ربوه ۱۹ رمتی شهواء مت
>> زیر انتظام رات کے ساڑھے بارہ بجے ربوہ کے تمام احباب کو جگا کر انہیں مسجدوں میں جمع ہونے کی ہدایت کی گئی اور انہیں بتایا گیا جب مسجد مبارک کے لاؤڈ سپیکر سے دُعا کے شروع ہونے کا اعلان ہو تو محلوں کی تمام مساجد میں بھی غیر اسی وقت دعا شروع کر دی جائے اور اس وقت تک جاری رہے کہ جب مسجد مبارک کے لاؤڈ سپیکر سے اختتام دعا کا اعلان ہو.ریلوہ کے مقامی احباب رات کو ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہی مساجد میں جمع ہونے شروع ہو گئے.ایک سجنے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے کہ مسجد مبارک کے لاؤڈ سپیکر سے دُعا کے آغاز کا اعلان ہوا اور اس اعلان کے ساتھ ہی ربوہ کی تمام آبادی اللہ تعالیٰ کے حضور ان دعاؤں میں مصروف ہو گئی کہ اللہ تعالے کے خاص فضل کے تحت حضور خیریت کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچیں اور کامل صحت یابی کے بعد بخیر و عافیت واپس تشریف لائیبی درد و سوز میں ڈوبی ہوئی یہ اجتماعی دعا جو مسجد مبارک میں مکرم قاضی محمد نذیر صاحیان کلوری پرنسپل جامعہ احمدیہ نے کرائی ہیں منٹ تک جاری رہی اور اس طرح شب کو ٹھیک سوا بجے اختتام پذیر ہوئی اس کے بعد ا حباب کرام اپنے محبوب آقا کی سفر پر پنجیریت روانگی اور کامیاب و بامراد واپسی کے لئے دعائیں کرتے ہوئے اپنے گھروں کو واپس لوٹے اور اکثر احباب نے سحری کے وقت تک کا موصہ نوافل پڑھنے اور اپنے اپنے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنے میں گزارا.علاوہ ازیں گذشتہ رات نماز تراویح کے بعد بھی تمام مساجد میں اجتماعی دعا کی گئی بنیے حضرت خليفة أسبح الثاني المصلح الموعود بروز مشق میں دروداه رفت روزہ قیام حضرت ہفتہ بتاریخ ۳۰ را بدیل تقریباً سات بجے بلاییه وچ ہوائی جہاز مشق کے ہوائی اڈہ پر وارد ہوئے.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ پرائیویٹ سیکرٹری ۲۸ اپریل سے یہاں موجود تھے.احباب جماعت حضور کی آمد کے لیے تابی سے منتظر تھے کئی ایک کو اس بارہ میں رویا میں بھی بشارات مل چکی تھیں.کل جمعہ میں خاصا اجتماع تھا.ہمارے محترم دوست استاذ السيد عمير الحصنی صاحب نے استقبال کے بارہ میں احباب کو ہدایات دیں احباب جماعت کھونا انتہا درجہ کے مصروف اور اکثر ذمہ داری کے مناصب پر مقرر ہیں.لیکن کچھ تو صبح ہی زاویۃ الحصنی میں رجہاں جماعت کا مرکز ہے) پہنچ گئے اور پھر اکٹھے الحاج سید بدرالدین الحصنی صاحب کے مکان پر له - روزنامه الفضل ربوده یکم مئی ۶۱۹۵۵ مل
حضرت مصلح موعود لنڈن میں
حضرت مصلح موعود کا نزول دمشق ۱۹۵۵ بیروت کے فضائی مستقر پر JAI
۵۰۳ پہنچے جہاں دوسرے دوست پہلے ہی پہنچ چکے تھے کاروں کا انتظام کیا گیا اور سات بجے سے قبل ہوائی اڈہ پر جا پہنچے.سید منیر الحسنی صاحب ، چوہدری مشتاق احمد صاحب یا جوہ اور ایک اور دوست جنہیں طیارہ کی سیڑھی کے دروازے پر جانے کی اجازت تھی آگے بڑھے.حضور تشریف لائے اور شرف معالم سختا، پھر حضور اپنے احباب کے اجتماع میں سہارا لئے ہوئے پولیس کے دفتر میں جہاں پاسپورٹ وغیرہ چیک کئے جاتے ہیں تشریف فرما ہو گئے اور استاذ منیر الحصنی پاس ہی کھڑے ہو کر باری باری احباب کا تعارف کرواتے گئے.حضرت سیدہ امر امتہ المتین صاحبہ ، حضرت سیده مهر آیا صاحبہ، صاحبزادی امة الجمیل اور صاحبزادی امتہ المنین کے استقبال کے لئے المحارج بدر الدین المحصنی کے خاندان کی مستورات تشریف لائی ہوئی تھیں.انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور اپنے قابل احترام جہانوں کو لے کو بلا تاخیر گھر کو روانہ ہوگئیں.تھوڑی دیر کے بعد جب پاسپورٹ چیک ہو گئے تو حضور بھی اپنے خدام کے ہمراہ المحارج بدر الدین صاحب کے مکان کو روانہ ہو گئے اور چند میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اپنے میزبان کے مکان پر پہنچ گئے.حضور کا قیام بالا خانہ پر ہوا جو نہایت صاف ستھرا آرام دہ تھا اور اپنے آقا کے قدموں تلے آنکھیں سمجھانے والے حصنی خاندان کو میزبانی کا شرف حاصل ہوا الحاج بدالدین صاحب کا ریشمی کپڑے کا کارخانہ ہے آپ ہمارے دمشق کے مبلغ انچارچ السید منیر الحصنی کے چھوٹے بھائی ہیں.حضور تھوڑی دیر ڈرائنگ روم میں بیٹھے اور پھر اندر آرام فرمانے کے لئے تشریف لے گئے.حضور قریبا سات روز تک وشق میں رونق افروز رہے.دوران قیام کے بعض کو ائف بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا.۳۰ اپریل ۱۹۵۵ ۶: حضور نماز ظہر کے لئے تشریف لائے اور سفر کی تکان کے باوجود مشق کے مخلص احمدیوں کے طبعی اشتیاق کے پیش نظر مجلس میں تقریبا دو گھنٹے تشریف فرمار ہے اور مختلف امور پر اظہار خیال فرماتے رہے.یکم مئی ۱۹۵۵ ۶: دو پہر کو کھانے سے قبل دمشق سے تین چار میل کے فاصلہ پر ایک باغ المنشية " مع اہل بیت تشریف لے گئے.صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب.چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب رسید منیر الحصنی صاحب اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کو بھی شرف معیت حاصل ہوا.اس بات میں بہنے والی نہر کے کنارے کے ساتھ نشست گاہیں بنی ہوئی تھیں.
حضور کچھ وقت وہاں تشریف فرما رہے اور پھر واپس تشریف لائے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور اس کے بعد مخلصین کو مصافحہ کا موقعہ عطا فرمایا.تقریباً ساڑھے پانچ بجے ڈاکٹر یوسف الموصلی صاحب معائنہ کے لئے تشریف لائے انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ حضور کو مکمل آرام کی ضرورت ہے اور یہی اصل علاج ہے.شیخ نور احمد صاحب منیر جو ان دنوں بیروت (لبنان) میں مبلغ احمدیت کے فرائض انجام دے رہے تھے ایک روز قبل شرف ملاقات حاصل کر چکے تھے اس روز بھی لبنان کی جماعت کے ایک اور دوست کے ساتھ آئے تا حضور کی خدمت میں اصرار کے ساتھ یہ درخواست کریں کہ حضور بیروت میں بھی تشریف لاویں اور جماعت کو زیارت کا موقع دیں.حضور نے از راه شفقت بیروت میں قیام منظور فرمالیا.۲ مئی ۱۹۵۵ء :- اس روز حضور نے ظہر و عصر کی نماز کے بعد بعض شامی اور فلسطینی احباب سے مسئلہ فلسطین کے بارہ میں سوجی میں گفتگو فرمائی.نیز مشرق وسطی میں سلسلہ کی ترقی کے بارہ میں بعض سکیموں پر غور کیا اور اصحاب الرائے سے مشورہ فرمایا.مئی ۱۹۵۵ء : اس دن حضور نے امیر مقامی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نام ایک مکتوب تحریر فرمایا جس میں سفر دمشق اور آئندہ پروگرام پر روشنی ڈالنے کے علاوہ السید منیر الحصنی اور ان کے مخلص خاندان کی عقیدت و محبت کا نہایت پیارا نقشہ کھینچا گیا تھا.مذکورہ مکتوب کے الفاظ یہ تھے.وشق.عزیزم مرزا البشیر احمد صاحب السلام عليكم ورحمة الله آج وشق آئے تیسرا دن ہے ہوائی جہاز میں تو اس حادثہ کے سوا کہ اس کے کمبل گلوبند کی طرح چھوٹے عرض کے تھے اور کسی طرح بدن کو نہیں ڈھانک سکتے تھے خیریت رہی، سردی کے مارے ساری رات جاگا اور پھر ہم ہونے لگا کہ شاید مجھے دوبارہ حملہ ہوا ہے.چودھری ظفر اللہ خان صاحب ساری رات مجھے کمبلوں سے ڈھانکتے رہے مگر یہ اُن کے بیس کی بات نہ تھی آخر جب میں بہت نڈھال ہو گیا تو میں نے چودھری صاحب کی طرف دیکھا جو ساتھ کی کرسی ہے تھے تو اُن کا چہرہ مجھے بہت نڈھال نظر آیا اور مجھے یہ وہم ہوگیا کہ چوہدری صاحب بھی بیمار ہو گئے ہیں ، آخر میں نے منور احمد سے کہہ کہ نیند کی دوائی منگوائی چودھری صاحب
نے قہوہ منگوا کر دیا وہ گرم گرم پیا ایک ایسپرین کی پڑیا کھائی تو پھر جا کہ نیند آئی اور ایسی گہری نیند آئی کہ جب چودھری صاحب صبح کی نماز پڑھ چکے تو میں جا گا.چو دھری صاحب نے عذر کیا کہ آپ کی بیماری اور بے چینی کی وجہ سے میں نے آپ کو نماز کیلئے نہیں جگایا بہر حال قضائے حاجت کے بعد کرسی پر نماز ادا کی اور پھر ناشتہ کیا.اتنے میں روشنی ہو چکی تھی.دُور دُور سے عرب اور شام کی زمینیں نظر آرہی تھیں بہر حال بقیہ سفر نہایت عمدگی سے کٹا اور ہم سات بجے دمشق پہنچ گئے امیرو ڈروم پر دمشق کی جماعت کے احباب تشریف لائے ہوئے تھے جو سب بہت اخلاص سے ملے برادرم منیر الحسنی بھی جماعت کے ساتھ تشریف لائے ہوئے تھے.ایرو ڈروم کے ہالی میں جا کر بیٹھ گئے جہاں پاکستان کے منسٹر بھی چوہدری ظفر اللہ خانصاحب کے ملنے کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے مستورات کے لئے برادرم سید بعد الدين الحصنی جو منیر الحصنی کے چھوٹے بھائی ہیں ، کی مستورات تشریف لائی ہوئی تھیں.مستورات کو گھرلے گئیں پیچھے پیچھے ہم بھی پہنچ گئے محبت اور اخلاص کی وجہ سے بدرالدین الحصنی نے سارا گھر ہمارے لئے خالی کر دیا ہے اس وقت ہم اس میں ہیں جس محبت سے یہ سارا خاندان ہماری خدمت کہ رہا ہے اس کی مثال پاکستان میں شکل سے ملتی ہے.میرا درم سید بدرالدین حصنی شام کے بہت بڑے تاجر ہیں لیکن خدمت میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ اپنے اخلاص کی وجہ سے وہ تصادم زیادہ نظر ده آتے ہیں رئیس کم نظر آتے ہیں یہاں چونکہ سردی بہت ہے اور یورپ کی طرح HEATING SYSTEM نہیں ہے.مجھے سردی کی وجہ سے زیادہ تکلیف ہوگئی ہے.یہاں کے قابل ڈاکٹر کو بلا یا گیا جس کے معائنہ کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ وہ واقعی قابل ہے.فرانس کا پڑھا ہوا ہے.بعض امور جو تجربہ سے بیماری کو بڑھانے والے ہوتے ہیں اس نے اُن کو بہت جلدی اخذ کر لیا منور احمد نے بتایا کہ جب ڈاکٹر کو فیس دینے لگے تویستید منیر الحصنی صاحب نے بڑے زور سے روکا یہ ہمارا خاندان کا ڈاکٹر ہے ہم اس کو سالانہ فیس ادا کرتے ہیں اس کو فیس نہ دیں اس سے معلوم ہوا کہ یہاں بھی بڑے خاندان یوروپ کی طرح ڈاکٹروں کو ماہانہ یا سالانہ فیس ادا کرتے ہیں اور ہر دفعہ آنے پر الگ فیس نہیں دی جاتی.اب یہ پروگرام ہے کہ انشاء اللہ سات تاریخ کو ہم بیروت جائیں گے اور آٹے کو اٹلی روانہ ہوں گے.چودھری صاحب انشاء اللہ ساتھ ہی ہوں گے ان کی ہمراہی بہت تسلی اور آسائش کا موجب رہی ہے.اللہ تعالے اُن کو جزائے خیر دے.دلوں میں ایسی محبت کا پیدا کرنا محض اللہ تعالے کا ہی کام ہے.
۵۰۶ انسان کی طاقت نہیں اس لئے ہم اللہ تعالے کے ہی شاکر ہیں کہ اس نے ہمارے لئے وہ کچھ پیدا کر دیا جو دوسرے انسانوں کو باوجود ہم سے ہزاروں گنے طاقت رکھنے کے حاصل نہیں.ایک دن یہاں بھی شدید دورہ ہوا تھا مگر خدا کے فضل سے کم ہو گیا اب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ملک میں پہنچے کہ جہاں HEATING SYSTEM ہوتا ہے.بیماری کے ایک حصہ کو کافی فائدہ ہوگا جو حملہ یہاں آکر ہو اوہ زیادہ تر دماغی تھا.یعنی جسم پر حملہ ہونے کی بجائے دماغ پر لگتا تھا بڑی سخت گھر مٹ تھی.اس وقت یہ دل چاہتا تھا کہ اڑ کر اپنے وطن چلا جاؤں مگر مجبوری اور مغدوری تھی ادھر علاج کا مقام بھی بہت قریب آگیا تھا اس لئے عقل کہتی تھی اب سفر کی غرض کو پورا کرو شاید اللہ تعالی گلی صحت ہی عطا فرمادے اور جسم آئندہ کام کے قابل ہو جائے.انشاء اللہ ہم اب آٹھ یا نو تاریخ کو تا ریا خط کے ذریعہ سوئٹزر لینڈ سے اپنے حالات لکھیں گے.احباب دعاؤں میں مشغول رہیں کیونکہ علاج کا مرحلہ تو اب قریب آرہا ہے اس سے پہلے تو سفر ہی سفر تھا.سب احباب جماعت احمدیہ اور عزیزوں اور رشتہ داروں کو السّلام علیکم.مرزا محمود احمد یا اے اس روز حضور نے نماز ظہر سے قبل سیدہ نجمیہ ربیت الحسن الجابي مرحوم ) کا نکاح سيد عبد القباني کے ساتھ ایک ہزار لیرہ سوری مہر معجل اور پانچ صد لیرہ سوری مہر موصل پر پڑھا اور اس کے بابرکت ہونے کی دعا فرمائی.یہ پہلا نکاح تھا جو حضور نے ایک شامی احمدی کا ایک شامی خاتون کے ساتھ پڑھایا.نماز ظہر کے بعد حضور مجلس معرفان میں رونق افروز رہے اور شامی احباب سے بلا تکلف عربی زبان میں گفتگو فرماتے رہے.ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور ہمارا جی چاہتا تھا کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوں اور حضور کی زیارت کریں لیکن اس کی ہمت نہ تھی ہمارا اللہ خود حضور کو ہمارے پاس لے آیا یہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی بات تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ صرف متکلم ہی نہیں بلکہ مجلس میں ہر موجود شخص کا یہی احساس تھا حضور نے فرمایا ہاں ایسا ہو جاتا ہے اور پھر ایک حکایت سنائی کہ ایک شہر میں اللہ کا ایک معذور بندہ رہا تھا اس سے دور ایک ولی اللہ تھا اس معذور بزرگ کے دل ہے.روزنامه المفضل ربوه ۱۰ مئی ۱۹۵۵ منت ۲ -
۵۰۷ کی خواہش تھی کہ کسی طرح اس ولی اللہ سے ملاقات ہو لیکن وہ جا نہ سکتا تھا.اور ولی اللہ کو بلانے کی جرات نہ تھی آخر ایک دن وہ ولی خود اس کے پاس آگئے وہ بڑا حیران ہوا.پوچھا آپ کیسے آئے کہا سلطان کی طرف سے مجھے حاضری کا حکم پہنچا تھا اس لئے آیا ہوں اس بزرگ نے عرض کیا نہیں خدا تعالے مجھے معذور کی زیارت کے لئے آپ کو لایا ہے چنانچہ تھوڑی دیر بعد ایک پیغامبر آیا اس نے بتایا کہ وہ فلاں صاحب کے لئے یہ شاہی حکم لے کہ جا رہا ہے کہ ان کو نہیں بلا یا گیا بلکہ غلطی سے حکم ان کے پاس پہنچ گیا تھا.لہذا وہ تکلیف نہ کریں اس بزرگ نے جواب دیا تم فکر نہ کرو وہ یہاں ہی ہیں.اور یہ اطلاع ان کو پہنچ گئی.پس حضور نے فرمایا کہ خدا تعالے خود اپنے بندوں کی خواہش کے پورا کرنے کا سامان پیدا کر دیتا ہے حضور مختلف احباب سے حالات دریافت فرماتے رہے اس دوران میں قطروں کا ذکر آیا الف لیلہ میں دمشق کے عطروں کا بڑا ذکر آتا ہے احباب نے عرض کیا کہ یہاں تو فرانسیسی عطر زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں لیکن بعض عطر مثلاً گلاب اور چنبیلی خاصے اچھے ہیں.بعض لوگوں کے اخلاص کا بھی عجیب رنگ ہوتا ہے.الحاج سید بدرالدین الحسنی نے کسی کو مختلف قسم کے عطر لانے کی ہدایت کردی اور چند منٹ بعد مختلف عطر وہ حضور کی خدمت میں پیش کر رہے تھے حضور نے مختلف عطروں کو سونگھتے ہی بتا دیا کہ یہ سب کیمیکل الیسنس کے ہیں.رات کے کھانا کی سید منیر الحصنی کے مرحوم بھائی سید عبدالروف الحصنی کے ہاں دعوت تھی.السید عبدالروف المحصنی کے بڑے بیٹے سید نادر المحصنی اپنے خاندان کے لئے اخلاص کا ایک عمدہ نمونہ تھے حضور کی طبیعت شگفتہ تھی اور اس شگفتگی سے ساری جھلس باغ و بہار نہیں رہی.لطائف کا سلسلہ چلتا رہا.کھانا تناول فرمانے کے بعد حضور نے دعا فرمائی.پھر سید نادر الحصنی کے چھوٹے بھائی السيد نور الدین الحصنی صاحب نے سورہ والضحی کی نہایت خوش الحانی سے تلاوت کی.کم مئی 20 ء :- کو حضور ملک شام میں سلسلہ احمدیہ کی ترقی کی سکیم پر غور فرماتے رہے - مئی شہداء کو حضور نماز ظہر وعصر کے بعد مجلس میں تشریف فرما ر ہے اور بہائیوں کے متعلق السید رشدی السیطی سے حالات دریافت کئے.دعوتِ عشائیہ السید منیر مالکی کے ہاں تھی جس میں حضور نے شرکت فرمائی.کئی ایک شامی احباب بھی مدعو تھے ہے الله ئے.روزنامه الفضل ربوه ١۵ متى ١٩٥٥ء ٣.
۵۰۸ رمئی ۱۹۵۵ء کو جمعہ کا دن تھا.حضور چونکہ ہفتہ کے روز بیروت روانہ ہو رہے تھے اسلئے صبح سے ہی کثرت سے احباب حضور کی فرودگاہ پر تشریف لانے لگے.جماعت نے اس تاریخی موقعہ کی یادگار ظاہری طور پر محفوظ کرنے کے لئے فوٹو گرافر کا انتظام کیا جس نے مختلف فوٹو لینے شروع کئے اس اثنا میں نمازہ جمعہ کا وقت ہو گیا.الحارج بدر الدین صاحب کو یہ بھی سعادت حاصل ہوئی کہ حضرت المصلح الموعود ان کے مکان میں ہی جمعہ پڑھائیں.حضور نے فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک مختصر خطبہ جمعہ پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے تقریباً نصف صدی قبل جب کہ آپ میں سے اکثر بھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے حضرت مسیح موعود کو الہام فرمایا دعُونَ لَكَ ابْدَالُ الشَّامِ وَ عِبَادُ اللهِ مِنَ العَرَبِهِ یعنی تیرے لئے شام کے ابدالی اور میوب کے نیک بندے دُعائیں کرتے ہیں آج تمہارے وجود میں یہ نشان پورا ہو رہا ہے.نماز جمعہ کے بعد حضور کچھ وقت مجلس میں رونق افروز رہے بستید محمد ذکی صاحب نے تلاوت ' قرآن کریم کی.السید محمود الربانی نے حضرت مسیح موعود کا عربی قصیدہ پڑھا اور پھر السید ابراہیم الجبان نے حضرت مصلح موعود کی شان مبارک میں ایک شاندار قصیدہ پڑھا جو اُن کی قلبی واردات کا آیکیدوا را در اخلاص کا مرقع تھا.اس یادگار تقریب کے کئی فوٹو لئے گئے اور دُعا پر یہ تقریب ختم ہوئی ہے دمشق کی مخلص احمدی جماعت نے زاویۃ الحصنی شاغور میں حضور کے اعزاز میں دعوت عشائیہ کا اہتمام کیا تھا.مگر شام کے وقت حضور کی طبیعت ناساز تھی.اس لئے حضور اس میں شریک نہ ہو سکے.احباب کھانے سے فارغ ہو کر حضور کی قیام گاہ پر حاضر ہو گئے حضور تقریباً پون گھنٹہ احباب میں تشریفہ قرار ہے اور انہیں شرف مصافحہ و معانقہ بخشا.مكتوبات احمد به جليدا ول صفحه 4 - - مکمل قصيده " الفضل " وارمتى ٩٥٥اء صفحہ ۳ پر شائع شدہ ہے.
۵۰۹ ۱۹۲۳ء اور شاہ کے مشق کا موازنہ حضرت علیم و دو تشہد میں میں نبی داشتن ہوے تھے مگر اکتیس سال قبل کے دمشق اور موجودہ دمشق میں ایک بھاری فرق تھا.۱۹۲۷ء میں یہاں کوئی دمشقی احمدی نہ تھا اور حالات اس درجہ مخالف تھے کہ دشقی عالم الشیخ عبد القادر المغربی نے حضور سے کہا آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہو گا.کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو.ہم سے زیادہ قرآن وحدیث کے معنی سمجھنے کی اہمیت نہیں رکھتا.اولو العزم فضل عمر اس چیلینج پر خاموش نہ رہ سکے اور فرمایا ، اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہوگا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں.اور دیکھوں خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے.اللہ اللہ کسی تو کل علی اللہ اور کس عزم کا اظہا رتھا جس نے خدا کے فضلوں کو ایسی تیزی سے جذب کیا کہ اب جو اکتیس سال کے بعد وہی اولوالعزم اور متوکل اور مسیح محمدی کا لخت جگر اور پسر موعود دشت میں وارد ہوا تو مخلصین احمدیت کی ایک بے مثال جماعت قائم ہو چکی تھی.اور حضور کے عاشق خدام اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اس کے ہاتھ کو بوسہ دینے کے لئے اور اس کے روح پیر در کلمات سننے کے لئے اور اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے اور اس سے تعارف کا فخر حاصل کرنے اور اس کی دُعاؤں کے حصول کیلئے تڑپتے تھے اور خدا کے اس موعود خلیفہ کے در کی پاسبانی کے لئے فخر و عزت محسوس کر رہے تھے بلے مشق سے بیروت سیدنا با محمود المصلح الموعود ایک ہفتہ دشتق میں قیام فرمانے اور اس کی فضاؤں کو اپنے انوار و برکات سے معطر کرنے کے بعد ، رفتی کو سوا سات بجے صبح دمشق سے بیروت کے لئے روانہ ہو گئے.حضور کے ساتھ مشق کی جماعت کے مخلصین کی ایک تعداد سید میرا المحصنی صاحب کی قیات میں بیروت آئی ان مخلصین کے اسماء حسب ذیل ہیں :- محمد الشواء پلیدر - سعید القبانی.علاؤ الدین تو بجاتی.ذكر يا الشواء سليم حسن الجابي ه تاریخ احمدیت جلد پنجم مسالم و مکالم گے متى ہے." الفضل" ۱۵ مئی ۱۹۵۵ء ۳۰ - - -
۵۱۰ نادر المحصنی - ابراہیم الجبان محمد ذکی - حضور شورہ سے بعلبک دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے وہاں پر ان آثار قدیمہ کو پوری دلچسپی سے دیکھا کچھ دیر پہلے قرآن کریم اور قصیدہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام شناء شتورہ میں کھانا کھایا.لبنان کی مخلص جماعت کے نمائندگان کا ایک وفد حضور کے استقبالی کے لئے دمشق بیروت کی سڑک پر عالیہ صحت افزا پہاڑی مقام سے آگے تقریباً بارہ میل کے فاصلہ پر گیا ہو اتھا.اس میں مکرم شیخ نور احمد صاحب شیر میشهر اسلامی - محمد توفیق الصفری صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ لبنان - الشيخ عبد الرحمن البرجاوي صاحب - عدنان المحصنى صاحب - توفيق محمد صفری صاحب - مرزا جمال احمد صاحب ابو الولید شہاب الدین اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ شامل تھے حضور کا قافلہ تقریباً ڈیڑھ بجے عالیہ پہنچا.ان کے ہمراہ بیروت میں مریم محمد در جنانی صاحب کے مکان پر پہنچے جہاں حضور کے ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا تھا.حضور کی پیشوائی اور ملاقات کے لئے لبنان کے احمدی دوست طرابلس اور پر چاہے بعد بہت کے آئے ہوئے تھے جو نہی حضور کی کار دروازہ پر پہنچی دوستوں نے کہنا شروع کر دیا جَاءَ مَوْلَانَا الخليفة اور دوستوں نے حضور کو اھلاق سَهْلا و مرحبا کہا حضور کی آمد ان ممالک میں غیر متوقع تھی اس لئے دوستوں کو حضور کی ملاقات سے انتہائی خوشی تھی اور سب دوست حضور کی صحت عاملہ اور عمر طویل کے لئے دعا گو تھے.ڈاکٹری ہدایت کے پیش نظر حضور نے آتے ہی آرام فرمایا اور سو گئے.چائے نوشی کے بعد حضور ظہر و عصر کی نمازیں پڑھانے کے لئے تشریف لائے دوستوں نے حضور کی اقتدا میں نماز پڑھی نماز کے بعد حضور نے بعض مقامی امور کے متعلق استفسار فرمایا اور شیخ نور احمد صاحب میر نے لبنان کے جملہ احباب کا تعارف حضور سے کرایا تمام دوستوں نے حضور سے مصافحہ کیا سیکرٹری محمد توفیق الصفدی صاحب نے ایک مخصر ایڈریس حضور کی خدمت مبارک میں پیش کیا.جس میں حضور کی آمد پر جماعت نے اپنے آقا کو مرحبا کہا تھا.اور اپنے جذبات عقیدت کا اظہار کیا 1900 ے.یہ ایڈریس "الفصل 19 مئی شہداء ص میں چھپا ہوا ہے.
اور حضور کی کامل شفاء کے لئے دعا کی.السید محمد توفیق الصفدی کے بعد السید نجم الدین نے بھی ایک قصیدہ پیش کیا.ازاں بعید حضرت مصلح موعود نے الشیخ عبد الرحمن البر جادی کی درخواست پر جماعت احمدیه بر جا کی مرکزی عمارت کے لئے بنیادی پتھر پر ہاتھ اُٹھا کر دعا فرمائی.- بر جا کے علاوہ طرابلس الشام سے بھی محمد ابراہیم عقیلی صاحب اپنے بچوں کے ہمراہ آئے ہوئے تھے حضور اُن کے حالات دریافت فرماتے رہے.یہ مختصر مجلس برخاست ہوئی تو دوستوں نے دوبارہ مصافحہ کیا.اور پھر حضور ساحل سمندر کی طرف تشریف لے گئے اور نئے بیروت کے بعض حصوں کو دیکھا.اس وقت چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور مکرم تو فیق محمد صفری صاحب کو حضور کی کار میں بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی حضور لبنان میں سلسلہ کی ترقی کے لئے بعض امور پر تبصرہ فرماتے رہے.مغرب کی آذان ہو چکی تھی.حضور سیر سے واپس تشریف لائے.نماز مغرب و عشاء پڑھائیں اور بعض نئے دوستوں کو شرف ملاقات بخشا.ایک زیر تبلیغ عیسائی دوست کمیل مشلوب نے بھی حضور سے مصافحہ کیا.مصافحہ کے بعد اس شخص نے ایک دوست سے کہا وَ اللَّهِ لَقَدِ انْشَرَحَ فَلَى من زِيَادَةِ هَذَا الشَّخص.بخدا اس شخص کی ملاقات سے میرے دل میں انشراح پیدا ہوا ہے سیے یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ بیروت کے جنرل سیکرٹری محمد توفيق الصفدی صاحب اور محمد در جناتی صاحب ساری رات اخلاص اور متعدی سے پہرہ کے فرائض سر انجام دیتے رہے.بیروت سے زیورک تک مرضی کو پونے سات سمجھے مکان سے امیر پورٹ کے لئے روانگی کا وقت مقرر تھا.دمشق اور بیروت کی جماعت کے احباب جمع ہونے شروع ہو گئے روانگی کا وقت قریب آ گیا.لبنانی فلسطینی اور شامی جماعت نے بڑھ بڑھ کہ آقا کے ہاتھوں کو عقیدت اور محبت کے بوسے دیئے.پروگرام کے مطابق کاروی کا قافلہ ائیر پورٹ کو روانہ ہوا جب ایر پورٹ پر حضور کار سے 1900 الفضل وارمئى ٩٥٥اء والفضل ١٠ رجون ٩٥٥اء ص٣ -
۵۱۲ اترنے لگے ڈرائیور نے تیزی سے اپنا دروازہ کھولا حضور کا ہاتھ اس پر تھا اس نے بے اختیاطی کی اور جلدی سے حضور کا دروازہ کھولنے کے لئے اسے بند کر دیا حضور کی انگلی اس میں آگئی.حضور کی لیے چینی کے ساتھ جماعت بے چین ہو گئی.ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے پٹی کی.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ زیادہ زخم نہ آیا.ڈرائیور گو احمدی نہیں تھا لیکن عقیدت مندوں کے اجتماع سے متاثر تھا اور سخت نادم تھا کہ اس تھا کہ اس کی لیے احتیاطی سے حضور کی انگلی پر زخم آیا.حضور ائیر پورٹ کے ہال میں تشریف فرما تھے.اور زخمی انگلی والا ہاتھے سلنگ میں تھا اس ڈرائیور نے حضور کی خدمت میں حاضری کی اجازت چاہی اور موقعہ پا کر بڑھ کر حضور کے زخمی ہاتھ کو بوسہ دے کر اپنی ندامت کا اظہار کیا.سامان دیکھا گیا.پاسپور چیک ہو گئے ہوائی جہاز میں سیٹوں کے کارڈ لئے گئے اور حضور اس کمرہ انتظار میں تشریف لے گئے.جہاں سے نکل کر ہوائی جہاز کو جاتا تھا.سوائے سید منیر الحصنى صاحب شیخ نور احمد صاحب منير اور چند اور دوستوں کے باقی کو باہر سے ہی حضرت صاحب کو رخصت کرنا پڑا احباب کی زبانوں پر دعائیں تھیں آنکھوں سے رقت ہویدا تھی.ان کا محبوب آقا اُن سے جدا ہو رہا تھا حضور کرہ انتظار سے باہر ہوائی جہاز کے لئے روانہ ہونے لگے.سید منیر الحصنی اور دوسرے دوست پھر اس دروازہ کی طرف بڑھے اور دُعاؤں کے ساتھ پھر اپنے آقا کا ہاتھ چوما حضور نے سید منیر الحصنی صاحب کو عربی میں فرمایا کہ تمام دوستوں کو میرا سلام پہنچا دیں.حضور اور قافلہ بشمول چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب ہوائی جہاز میں سوار ہو گئے.حضور کے ساتھ مکرم چودھری ظفر اللہ خانصاحب بیٹھے حضور کی طبیعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی رہی.تقریبا ساڑھے گیارہ بجے ہوائی جہاز یونان کے دارالخلافہ ایتھنز میں پہونچا.حضور نے بمعہ قافلہ ائیر پورٹ کے ریسٹوران میں وقفہ کا وقت گزارا.ساڑھے بارہ بجے پھر جہاز پر روم کے لئے سوار ہوئے اور اڑھائی بجے تقریباً روم پہنچے جہاں ایک دوست استقبال کے لئے موجود تھے علیحدہ کمرہ کا نشست کے لئے انتظام تھا.مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب روم سے سیدھے ایک گھنٹے کے وقفہ کے بعد ایمسٹرڈم کو روانہ ہو گئے.اور حضور تقریبا ساڑھے تین گھنٹے بعد شام کے چھ بج کو پانچ منٹ پر ۲۰۰۹ کے جہاز پر جینوا کے لئے روانہ ہوئے.مطلع ابر آلود ہوگیا تھا.
۵۱۳ بجلی کڑک رہی تھی.اور دل میں خوف تھا کہ کہیں خوائی موسم کے باعث حضور کو طیارہ میں تکلیف نہ ہو.مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بھی بار بار کہتے کہ دعا کرو مطلع صاف ہو جائے اور خیریت رہے.ہوائی جہاز کے شروع کے سفر میں کچھ ہچکولے محسوس ہوئے لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پرواز میں کامل سکون رہا.طیارہ ایلیس پہاڑ پر سے گزرا تو تقریباً ۱۸ ہزار فٹ کی بلندی سے پرواز کو ر ہا تھا.پائلٹ نے طیارہ کو اس بلند پہاڑ کے پہلو میں سے گزارا تا کہ مسافر پو را نظارہ حاصل کر سکیں حضور اس نظارہ سے محظوظ ہوتے رہے طیارہ کے جینوا پہنچنے کا وقت ساڑھے آٹھ بجھے تھا.لیکن مقررہ وقت سے کچھ قبل ہی اُتر آیا.طیارہ کے دروازہ پر شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئٹزر لینڈ اور چودھری نصیر احمد صاحب استقبال کے لئے موجود تھے.مائکر ولبس جو جماعت نے چودھری نبی احمد آف ماڈرن موٹرز کی وساطت سے جرمنی سے لی ہے.ائیر پورٹ کے دروازے پر موجود تھی.قافلہ دو لیکیو ہوٹل HOTEL DELECU جنیوا میں پہنچا.یہ ہوٹل جنیوا کی مشہور تھیل کے کنارے واقع ہے اور درمیانہ درجہ کے ہوٹلوں میں سے اچھا آرام دہ ہے.رات ہوٹل میں گزارنے کے بعد اگلے دن صبح تھوڑے وقت کے لئے جنیوا کی سیر کے لئے تشریف لے گئے.پھر نو بج کر دس منٹ کی گاڑی پر حضور بمعہ اہل وعیال و شیخ ناصر احمد صاحب زیورک کے لئے روانہ ہوئے لیے و مٹی کو حضور تقریباً ایک بجے زیورچ پہنچے اور کاروں میں سوار ہو کہ قافلہ اپنی جائے رہا ئش 2.BEEONIAN STRASSE میں آیا.حضور نے زیورچ پہنچنے کے بعد پونے چھ بجے شام امیر مقامی حضرت مرزا البشیر احمد صاحب کے نام تار ارسال فرمایا کہ مدہم خدا کے فضل سے اہل وعیال کے ساتھ بخیریت زیور پہ پہنچے گئے ہیں.جینوں سے آگے تمام انتظامات شیخ ناصر احمد (مبلغ سلسلہ) نے کئے تھے جو کہ بہت عمدہ تھے.شروع میں مکان میں تازہ روغن ہونے کی وجہ سے کچھ تکلیف ہوئی لیکن چند گھنٹے کے بعد یہ تکلیف رفع ہو گئی.بیروت میں بھی تمام انتظامات اچھے تھے.دمشق کے دوست ہمیں رخصت کرنے کے لئے بیروت آئے ه روز نامه الفضل گریوه ۲۲ متی ۶۱۹۹۹ ۳۰ - ۴ -
۵۱۴ ہوئے تھے.چودھری ظفر اللہ خالصا حب روم تک ہمارے ساتھ آئے اور پھر وہاں سے بیگ رہالینڈ روانہ ہوگئے.ان کا ساتھ خدا کے فضل سے ایک نعمت ثابت ہوا.اللہ تعالیٰ تمام ان دوستوں پر فضل فرمائے جنہوں نے اس سفر کے تعلق میں مدد کی ہے.اب عنقریب یہاں ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جائے گا.احباب خاص دعائیں جاری رکھیں کیونکہ یہ میر سے علاج کی کوششوں کا آخری مرحلہ ہے.خليفة السيح الله اگلے دن ۱۰ مٹی کو ۳ بجے ڈاکٹر پروفیسر روسیو PROFESSOR PROSSER نے جو زیور کہ ہسپتال KANTONSPITZEL میں کام کر رہے تھے.وقت مقرر تھا حضور اور خاندان و خدام کی طبیعت میں فکر تھا اور دعائیں کرتے تھے کہ خدا تعالے حضور کے مرض کی صحیح تشخیص اور اس کے علاج کا سامان بنا ئے وقت مقررہ پر حضور ڈاکٹر روسیو کے پاس پہنچے وہ نہایت تپاک سے پیش آیا بڑی توجہ سے حضور کے کیس کے نوٹس لئے اور مختلف معانوں کی تاریخیں مقرر کیں.ڈاکٹر پرو فیسر روسیو یہاں کے ایک ماہر طبیب تھے.ہز ایکسی لنسی مسٹر غلام محمد سابق گورنر جنرل پاکستان نے بھی ان سے ہی علاج کروایا تھا.ار مٹی کو اسی تسلسل میں میں سر کے مختلف ایکس ریزہ لئے گئے حضور اس معائنہ کے بعد تشریف لائے تو بہت تعریف فرمائی فرمایا یہاں بہت ہی اچھا معائنہ کرتے ہیں.اس خوبی سے ایکس ریز لئے گئے کہ کوئی حصہ نہیں چھوڑا.ار مٹی کو ڈاکٹر روسیو کے انتظام کے ماتحت کوئی معائنہ نہ تھا لیکن حضور نے ایک ہومیو پیتیک ڈاکٹر گیرل ( CISEL) سے ملنے کا وقت مقرر کروایا ہوا تھا.حضور صبح نو بجے ان سے ملے یہ بڑا زندہ دل طبیب تھا.خود ہنستا اور حضور کو ہنساتا رہا اور توجہ سے حالات سنے اور ادویہ تجویز کیں لیکن یہ معلوم ہونے پر کہ حضور خود بھی ہو میو پیتھی سے واقف ہیں حضور کو اپنی ادویہ کی الماری دکھائی اور حضور نے اسے مختلف ادویہ بتائیں جو حضور استعمال فرما چکے تھے.حضور وہاں سے فارغ ہو کر کچھ وقت کے لے بازار کی طرف تشریف لے گئے اور پھر پچھلے پہر حضور باہر سیر کے لئے گئے ایک خوشنما مقام BELVOIR PARK نامی ایک ریستوران ه - روزنامه الفضل " ریوه ۱۲ مئی ۶۱۹۵۵ صدا
۵۱۵ SCHWEIZERische FachschALE FURDAS GOSTGEWERE تھا.جس کے ساتھ درسگاہ تھی.جس میں سروس کے کام کی ٹریننگ دی جاتی تھی اس کے مینجر نے حضور کو دیکھتے ہی خیال کیا کہ یہ کوئی عظیم شخصیت ہے اور درخواست کی کہ حضور کا فوٹو لینے کی اجازت دی جائے اور ساتھ ہی معرض کیا کہ یہ پریس کے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے ہی حضور کی آمد کی یاد گار کے طور پر ہوگا حضور نے اجازت دے دی پھر اس نے حضور کے دستخط اپنی کتاب میں لینے چاہے حضور نے وہ بھی فرما دیئے.اس بوصہ میں سلسلہ کی ڈاک بھی آئی.حضور نے ملاحظہ فرمائی اور جواب لکھوائے حضوران ایام میں چونکہ یورپ میں تبلیغ کو کامیاب طور پر وسیع کرنے کے سوال پر غور فرمارہے تھے.اس لئے حضور نے حکم دیا کہ یورپ کے مبلغین اور امریکہ کے دو پرانے مبلغین اور مکرم ملک محمد شریف صاحب سابق مبلغ اطالیہ کو لکھ دیا جائے کہ وہ تار ملنے پر کانفرنس کے لئے آنے کے واسطے تیار رہیں.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب جو کراچی سے سیدھے لنڈن تشریف لے گئے تھے حضور کی ہدایت کے ماتحت ، ارمئی کو زیورک پہنچے گئے اور علاج کے متعلق مشوروں میں شامل ہو گئے لیے بارھواں پیغام پاکستان، ہندوستان اور دنیا کے تمام احمدی بھائیوں کو عبید مورخہ 19 مئی ۱۹۵۵ء مبارک ہو.ہمیں ان سب کی مشکلات اور تکالیف کے دُور ہونے اور روحانی ترقی کے لئے دعا کرتا ہوں خليفة المسيح ر از زیورچ ۱۹ مئی ۶۹۵۹) خدا کا شکر ہے تمام طبی ٹسٹ مکمل ہو گئے ہیں اور بیماری متعین کر تیرھواں پیغام لی گئی ہے مشہور معالج ڈاکٹر لوسیو DR.BOS10 نے رپورٹوں ۱۹۵۵ء ۱ مورخہ ۲۰ مئی 200ء اپ کے شب کا مطالعہ کرنے کے بعد آج اپنی تشخیص سے مطلع کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خون اور شریانیں اور باقی ہر چیز معمول کے مطابق پائی گئی ہیں لیکن یہ کہ مجھے بہت زیادہ آرام کرنا چاہیئے اور اگر مکن ہو سکے تو مجھے یہاں کچھ زیادہ عرصہ قیام کرنا چاہئے پھر یہ کہ لے - روزنامه " الفضل ربوه ۲۴ رمئی ۱۹۵۵ ۶ صت کے.روزنامہ " الفضل " ربوه ۲۲ متی ۱۹۵۵ء مرا
۵۱۶ ده میری تقریر یں مختصر ہونی چاہئیں.انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ سال حملے کے نتیجے میں زخم لگا تھا خطرناک تھا اور یہ کہ سرجن کی رائے درست نہیں تھی.ایکسرے فوٹو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چاقو کی نوک گردن میں ٹوٹ گئی تھی جواب بھی اندر موجود ہے اور ریڑھ کی ہڈی رسپائنل کارڈ (SPINAL CORD ) کے قریب ہے خدا کا شکر ہے کہ جن خطرناکی معائنوں سے بچنے کی کوشش کی جارہی تھی اُن کی ضرورت باقی نہیں رہی میرا مکمل آرام دوستوں کے ہاتھ میں ہے اگر دوست میری پوری طرح مدد کریں تو ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق کچھ مزید کام کر سکتا ہوں اگر دوستوں نے تعاون نہ کیا تو خطرہ موجود ہے.خليفة السيح" سورہ فاتحہ سے تعلق چار پر معارف خطبات زیور پہ میں حضور نے چار پر معارف خطبات جمعہ اس موضوع پر ارشاد فرمائے کہ سورۃ فاتحہ میں کمیونزم اور کیپٹلزم کے مقابلہ کے لئے کیا کر بیان کئے گئے ہیں حضور کے ان خطبات کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے : - ۱ خطبه جمعه ۲۰ مئی ۱۹۵۵ء) " چند سال ہوئے کہ میں ایک دفعہ برف دیکھنے کے لئے ڈلہوزی گیا وہاں پر میں دوپہر کے وقت تھوڑی دیر کے لئے بیٹھا تو مجھے الہام ہوا کہ دنیا میں امن کے قیام اور کمیونزم کے مقابلہ کے لئے سارے گر سورہ فاتحہ میں موجود ہیں.مجھے اس کی تفسیر سمجھائی گئی جو معرفاتی طور پر تھی نہ تفصیلی طور پر عرفان کے معنے یہ ہیں کہ دل میں ملکہ پیدا کر دیا جاتا ہے لیکن وہ تفصیل الفاظ میں نہیں نازل ہوتی کچھ دنوں کے بعد دوستوں سے اس کا ذکر آیا اور وہ پوچھتے رہے کہ اس کی کیا تفسیر ہے میں نے کہا کہ میں کبھی اس کے متعلق مفصل رسالہ لکھوں گا.خصوصا جب مخالف دھوئی کرے کہ اس کے پاس ان دونوں کے جواب موجود ہیں.لیکن خدا تعالے کی مثبت تھی کہ مجھے اب تک یہ رسالہ لکھنے کا موقعہ نہ ملا.اب جب کہ میں بیمار ہو گیا ہوں اور بظاہر اس کا موقعہ ملنا مشکل ہے میں نے مناسب سمجھا که خواہ اشارہ ہی چند الفاظ میں ہو ئیں اس کا مضمون بیان کرتا رہوں تا دہ علماء کے کام آئے اور وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں.ه روزنامه الفضل " ریوه ۲۴ مئی ۱۹۵۵ ء ما
پہلی بات سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت الحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِین میں بیان کی گئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ سب تعریفیں اللہ تعالے کے لئے ہی ہیں اور اس کی وجہ آیت کے پچھلے حقیہ میں بتائی گئی ہے کہ وہ رب العالمین ہے یعنی تمام کے تمام افراد کے ساتھ اس کا سلوک ربوبیت کا ہے طبعیت کی کمزوری کی وجہ سے ربوبیت اور عالمیت کے متعلق کچھ نہیں کہ سکتا موٹا مفہوم مختصراً یہ ہے کہ ہر قسم کی مرح کا وہی مستحق ہوتا ہے اور ہر قسم کی مدرج لوگ اس کی کرتے ہیں جس کی ربوبیت کسی خاص قوم اور فرقہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ وسیع ہوتی ہے مثلاً امریکہ اور روس کی حکومت ہے.امریکہ اپنے آپ کو ڈیما کریسی کا لیڈر سمجھتا ہے اور روس اپنے آپ کو عوامی تحریکوں کا لیڈر سمجھتا ہے لیکن اگر دونوں کو دیکھا جائے تو امریکنوں کی ساری طاقت امریکنوں کی ترقی پر خرچ ہوتی ہے اور روس کی ساری طاقت روسیوں کی ترقی پر خرچ ہوتی ہے روس ان لوگوں کے لئے کچھ نہیں کرتا جو دنیا کے دُور کناروں پر بس رہے ہیں اور دنیا کی تمام آسائشوں سے محروم ہیں اور نہ امریکہ اس بارہ میں کچھ کرتا ہے روس کرتا ہے تو یہی کہ اپنے خیالات دوسرے لوگوں میں پھیلا دیتا ہے تا وہ لوگ اپنی حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں اسی طرح اگر امریکن دوسرے لوگوں کو امداد دیتے ہیں تو اس میں بھی اپنے فوائد مد نظر ہوتے ہیں اگر اس امداد سے وہ ملک اپنے حالات کو درست بھی کر لے تو پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکے گا.کہ امریکہ نے دوسرے لوگوں کی مدد کی.بلکہ وہ بھی ان کی اپنی ہی مدد ہو گی.اس طرح روس بھی ہر دوسرے ملک کو مدد دیتے وقت اپنے فوائد کو بھی ملحوظ رکھتا ہے نہ کہ عوام الناس کے فوائد کو حقیقی مدح اس وقت ہوتی ہے جب بغیر غرض کے لوگوں کو اونچا کیا جائے جیسے اللہ تعالے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تمہاری عبادتیں مجھے فائدہ نہیں پہنچانتیں اور تمہاری قربانیوں کا گوشت مجھے نہیں پہنچتا بلکہ تم یا تمہارے ہمسائے کھاتے ہیں.مجھے صرف تمہارے دل کی صفائی کی ضرورت ہے حقیقی تعریف کے مستحق وہی حکومت ہوگی جو اس آیت کے ماتحت کام چلائے گی.اور وہی ٹھیک امن قائم کر سکے گی.مثلاً اگر روس بغیر اپنا رسوخ قائم کرنے کے صرف غرباء کو اٹھانے کے لئے روپیہ خرچ کرے تو یقینا روس کی سچی محبت قائم ہوگی لیکن موجودہ حالات میں حقیقی محبت قائم نہیں ہوتی.جس کو امریکہ سے فائدہ پہنچ جاتا ہے وہ اس کی تعریف کرتا ہے جس کو روس سے فائدہ پہنچ جاتا ہے وہ اس کی تعریف کرتا ہے نہ یہ فائدہ مکمل نہ یہ تعریف کامل.کامل
يله تعریف اُسی وقت ہوتی ہے جب الحمد للہ پر عمل کیا جائے سورہ فاتحہ میں تمام گر بیان کئے گئے ہیں ، سب سے پہلا موٹا کر یہ بیان کیا ہے کہ خدمت خلق کہو اور بلا غرض اور بلا ذاتی فائدہ کی خواہش کے خدمت کرو.اگر ایسا کرو گے تو ہر شخص تمہاری تعریف کرے گا لیکن اگر کوئی صرف ایک طبقہ کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو وہی طبقہ اس کی تعریف کرے گا.مثلاً کوئی حکومت لیسر کو اٹھاتی ہے..تو لیبر ہی اس کی تعریف کریں گے بڑے اور درمیانہ درجہ کے نہیں کریں گے اور اگر کوئی حکومت درمیانہ اور بڑے درجہ کو اٹھانے کی کوشش کرے تو یہ طبقے ہی تعریف کریں گے لیبر نہیں کریں گے کیونکہ وہ حکومت رب العالمین نہیں بلکہ فرقہ کی اور جماعت کی ربّ ہے حقیقی حکومت وہی ہے جو تمام طبقوں کو بلکہ قوم کو بھی بھلا دے کیا اس تعلیم پر عمل کرنے کے بعد دنیا میں امن کے مٹنے کا شائبہ بھی ہو سکتا ہے ؟ اور کیا کوئی ایسی قوم کا دشمن بھی ہو سکتا ہے ؟ دوسرے وجوہ سے دشمن ہو جائے تو ممکن ہے لیکن اس فعل کی وجہ سے دشمن نہیں ہو سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا.لیکن پھر بھی بعض لوگ آپ کے دشمن ہیں.مگر اس وجہ سے نہیں کہ آپ نے غریبوں کو کیوں اونچا کیا بلکہ مذہبی تعصب کی وجہ سے اس لئے کہ آپ نے نماز روزہ حج اور زکواۃ کی کیوں تعلیم دی.اسی طرح اگر آج لوگ احمدیت کے دشمن ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ احمدی نیتیموں کی پرورش کرتے ہیں غریبوں کی امداد کرتے ہیں اور بیواؤں سے حسن سلوک کرتے ہیں اور خدام الاحمدیہ سر ایک کی مدد کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام نے مسیح موعود ہونے کا دعونی کیا ایسا مخالف شقی القلب ہے جس کا کوئی علاج نہیں رہے - - خطبہ جمعہ ۲۷ مئی ۱۹۵۵ء) میں نے پچھلے خطے میں بیان کیا تھا کہ مجھے رویا میں بنایا گیا کہ سورۃ فاتح میں دنیا کے امن اور کمیونزم اور کیپیٹلزم کے جھگڑے کے استیصال کے گر بتائے گئے ہیں اور مکی نے سب سے پہلے سورہ فاتحہ کی پہلی آیت الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينِ الرَّحْمَنِ الرحيم سے ایک نسخہ بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جو الحَمدُ کہا گیا ہے تو وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ رب العالمین ہے جب تک کوئی شخص رب العالمین نہ ہو.چاہے اپنی پارٹی کے ساتھ وہ کتنا ہی اچھا سلوک کیوں نہ کرتا ہو وہ الحمد کا مستحق نہیں ہو سکتا.الحمد لے - روزنامه الفضل "ریوه ۳۱ مئی ۲۰۶۱۹۵۵
۵۱۹ کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو پارٹیوں سے بالا ہو اور ہر قوم اور ملت سے اس کا سلوک انصاف اور رحم والا ہو.اس سلسلے میں میں نے بتایا تھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم تو اس صنعت کے ظاہر کرنے میں سب سے بانی تھے لیکن آپ پر بھی اعتراض ہوئے لیکن وہ اعتراض اس قسم کے نہیں تھے جو معقول ہوں بلکہ بغیر معقول اعتراض تھے جو اپنی ذات میں اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ یہ چسپاں نہیں ہوتے ہیں آج اس سلسلہ میں ایک مثال بیان کرتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن ابو سفیان تھا.جب آپ نے ہر قل کو خط لکھا تو ہر قل بادشاہ نے کہا.دیکھو جس شخص نے خط لکھا ہے اس کی قوم کے کوئی لوگ اس ملک میں ہیں تو معلوم ہوا کہ ابوسفیان ان دنوں اپنے قافلہ سمیت تجارت کے لئے آیا ہوا ہے جب اس کو پتہ لگا تو اس نے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور ابو سفیان کو آگے کھڑا کیا اور اس کے ساتھیوں کو پیچھے اور کہا کہ دیکھو میں بادشاہ ہوں میرے سامنے جھوٹ بولنا بر اسخت سزا کا مستوجب بنا دیتا ہے ، میں اس سے سوال کروں گا.اگر یہ کسی وقت جھوٹ بولے تو فوراً مجھے بتا دیا کہ جھوٹ بولا ہے.ابو سفیان کہتا ہے کہ ہر قل نے پہلے مجھ سے یہ سوال کیا کہ بتاؤ نبوت کے دعوئی سے پہلے اس شخص کے اخلاق کیسے تھے تو میں نے کہا کہ بڑے اچھے تھے تو اُس نے کہا میں تھے یہ سوال اس لئے کیا تھا کہ موت کے دعوئی کے بعد تو تمہاری دشمنی ہوگئی پس دعوئی سے پہلے کی گواہی ہی سچی گواہی ہو سکتی ہے بعد کی گواہی تو دشمنی کے ماتحت ہوگی.پھر اس نے پوچھا کہ جب اس نے دھوئی کیا تو اس دعوی کرنے کے بعد تم نے اس کا رویہ کیسا دیکھا ؟ کیا اس نے کبھی تم سے جھوٹ بولا تو وہ کہنے لگا کہ نہیں اس کے ساتھ ہمارے کئی معاہد ے ہوئے ہیں کبھی اس نے وعدہ شکنی نہیں کی لڑائیوں کے بعد جب بھی معاہدہ ہوا اس نے اسے پورا کیا تو آب گویا یہ ایک شدید ترین دشمن کی گواہی ہے جو در حقیقت انعامات کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ مزا کا مستحق ہوتا ہے اس لئے اس کو شکوہ زیادہ پیدا ہو سکتا ہے اور بہت ممکن تھا کہ وہ اعتراض کو تا بلکہ وہ خود بھی کہتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ نہیں جھوٹ بول کر اعتراض کر دوں مگر چونکہ بادشاہ نے میرے پیچھے ساتھی کھڑے کئے ہوئے تھے میں ڈرا کہ اگر میں نے جھوٹ بولا تو انہوں نے بول پڑتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے.اسی طرح آپ نے ایک وفعہ اموال غنیمت تقسیم کئے تو ایک شخص بولا تِلْكَ قِسْمَةٌ مَا
۵۲۰ أريد بِهَا وَجْهَ الله یعنی یہ ایسی تقسیم تھی جس میں خدا تعالیٰ کی رضا کو یہ نظر نہیں رکھا گیا.آپ یہ ایک اعتراض ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ وہ تقسیم جس میں خدا تعالے کی رضا کو مد نظر نہ کھا جائے چند قسم کی ہو سکتی ہے مثال ایسی تقسیم کہ اپنے آپ انسان مال کھا جائے یا ایسی تقسیم میں میں رشتہ داروں کو مال دیدے یا ایسی تقسیم کہ جس نے اعتراض کیا ہے اس کا حق مارا جائے تبھی وہ غلط ہو سکتی ہے لیکن اس نے ایک مثال بھی پیش نہیں کی آپ بکو اس کرنے کو تو ہر شخص بکو اس کر سکتا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ جب اس نے کہا ما اريد بِهَا وَجہ اللہ تو کیا اس نے کوئی مثال پیش کی ؟ کہ میرا حق مجھے نہیں دیا یا کیا اس نے یہ مثال پیش کی کہ آپ نے اپنا حصہ اتنا نکال لیا جو جائز نہیں تھا یا اپنے رشتہ داروں کو اتنا مال دے دیا جو جائز نہیں تھا کوئی ایک مثال پیش نہیں کی.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے فقرہ نے ہی بتا دیا کہ وہ جھوٹا الزام لگا رہا تھا ورنہ ان تینوں مثالوں میں کوئی مثال تو بتاتا جس میں ناجائز سلوک ہوتا ہے یا یہ بتاتا کہ آپ نے مال زیادہ لے لیا باید کہ اپنے رشتہ داروں کو مال دے دیا جس کے وہ مستحق نہیں تھے یا یہ کہ میں مستحق تھا مجھے نہیں دیا تو نہ رشتہ داروں کی مثال پیش کرتا ہے.اور نہ اپنی مثال پیش کرتا ہے جس سے ثابت ہو کہ اس کا اعتراض معقول تھا پس پتہ لگا کہ در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رب العالمین والی قلی صفت پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ محض اپنی حماقت کا اقرار کرتا ہے تو اس قسم کے اعتراضات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل رب العالمین ہوتے کو زیادہ ثابت کرتے ہیں اگر واقعہ میں کوئی غلطی ہوئی تھی تو وہ بتاتا کیوں نا کہ یہ غلطی ہوئی ہے اس کا نہ بتانا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بھی جانتا تھا کہ آپ رب العالمین ہیں اور میں اعتراض کر ہی نہیں سکتا نہ میں یہ کہ سکتا ہوں کہ میرا حق نہیں دیا کیونکہ جھوٹا بنوں گا نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اپنے رشتہ داروں کو دے دیا ہے نہ یہ کہ حضور نے خود لے لیا ہے کیونکہ لوگ کہیں گے کہ بتا تو سہی کہاں لے لیا گو اس کا اپنا فقرہ ہی یہ بتاتا ہے کہ وہ حضور کو صنعت رب العالمین کا ظل سمجھا ہے اس لئے اعتراض کا ہوتا اس بات کی علامت نہیں کہ آپ الحمد کے مستحق نہیں وہ اعتراض اتنا غیر معقول تھا کہ اپنی ذات میں ثابت کر رہا تھا کہ آپ رَبِّ العالمین کے ظل ہیں اور اس لئے آپ الْحَمْدُ لِلهِ کے بھی ظل ہیں اور ہر قسم کی تعریفوں کے مستحق ہیں اسے لے روزنامہ الفضل ریوه ۱۶ جون ۶۱۹۵۵ مت.
۵۲۱ - خطبه جمعه ۳ جون ۱۹۵۵ ۶) " آج میں دوسری آیت کو لیتا ہوں یعنی الرحمن الرحیم کو.فرمایا کہ خدا تعالے کی تعریف اس لئے ہے کہ وہ رحمان اور رحیم ہے، جو رحمان اور رحیم ہو گا وہ ساری قوموں کی تعریف کا مستحق ہو گا.رحمن کے معنے قرآن کریم کی رو سے یہ معلوم ہوتے ہیں کہ جس نے کوئی نیک کام اور کوئی خدمت نہ کی ہو اس کے ساتھ بھی حسن سلوکی کرنے والا اور جس کے پاس کچھ نہ ہو اسے وہ ذرائع جتا کر کے دینے والا ہو جن ذرائع کی وجہ سے وہ اعلیٰ ترقی حاصل کرے سکے اور رحیم کے معنی یہ ہیں کہ ہر شخص جو کام کرتا ہے اس کے کام کا بدلہ متواتر جاری ہے.دنیا میں اس کی مثال پیشن میں ملتی ہے یعنی ایک آدمی نوکری کرتا ہے پھر بیس بائیس یا چالیس سال کے بعد وہ گورنمنٹ کا کام چھوڑ دیتا ہے تو اس کو پیشن مل جاتی ہے رحیم کا یہی مطلب ہے کہ جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو اس کا بدلہ جاری رکھتا ہے بار بار دیتا ہے تو نیشن ایک اونی امثال ہے.قرآن کریم کی رو سے رحیمیت کے معنے پنشن سے بہت زیادہ ہیں کیوں کہ منیش تنخواہ سے آدھی ہوتی ہے بعض دفعہ وہ گزارہ کے لئے کافی نہیں ہوتی یا پھر بڑھاپے میں جو امداد دی جاتی ہے وہ بھی گزارہ کے لئے کافی نہیں ہوتی کہ انسان آرام سے بڑھاپے میں گزارہ کر سکے صرف اتنا ہی ہوتا ہے جو اس کو ملتا ہے مگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کریں گے یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کریں گے انہیں جنت ملے گی اور جنت کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے دَلَهُمْ فِيْهَا مَا يَشَاؤُن نیز فرماتا ہے وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُون یعنی جو کچھ ان کے دل میں خواہش پیدا ہوگی یا زبان پر آئے گی وہ انہیں مل جائے گی بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے لیکن انسان اس کو زبان پر لانے کی جرات نہیں کرتا وہ سمجھتا ہے کہ یہ بہت بڑا مطالبہ ہے تو باوجود دل میں خواہش ہونے کے کیونکہ وہ بیان نہیں کرتا اس لئے وہ پوری نہیں ہوتی اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان ممنہ سے ایک بات کہتا ہے لیکن دل میں جانتا ہے کہ یہ میرا حق نہیں اس لئے اللہ تعالے نے دونوں معنے بیان فرما دیئے کہ جنت میں لَهُمْ فِيْهَا مَا يَشَاءُونَ بھی ہوگا اور لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَعُونَ بھی یعنی جو دل میں خواہش ہوگی وہ بھی پوری ہو جائے گی.پھر ہو سکتا ہے کہ رجنت کی ضروریات کا علم انسان کو یہاں نہیں ہوتا، انسان وہاں ایسی چیزیں مانگے جو اچھی ہوں اور اس کو مل جائیں گی لیکن وہ نا واقفی
۵۲۲ میں یہ نہ سمجھتا ہو کہ وہ اس کے بیوی بچوں کے لئے بھی کافی ہوں گی یا نہیں تو قرآن کریم میں اللہ تعالے فرماتا ہے کہ جو کوئی مومن جس درجہ کا مستحق ہوگا.اس کے بیوی بچے اور اولاد اور ساتھی بھی وہیں رکھے جائیں گے گویا نہ صرف اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا کہ اس کی ضرورتیں پوری کی جائیں ملکہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے دوست رشتہ داروں کی ضرورتیں پوری کی جائیں گی اب دیکھ لو پنشن کا اس کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں پھر فرماتا ہے کہ جنت ہمیشہ رہنے والی ہے اور نیشن میں تو گورنمنٹ پراویڈنٹ فنڈ کا اندازہ کرتی ہے پھر پنشن مقرر کرتی ہے کہ اگر ہم اس کو پراویڈنٹ فنڈ دیتے تو عام طور پر اتنی عمر میں لوگ سر جایا کرتے ہیں تو اس کا حساب لگا لیا اور اس کا سود لگا کر پیسے دے دیئے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہاں وہ ہمیشہ ہی زندہ رکھے جائیں گے گویا پیشن دائمی ہو گی اول پیش دائمی ہوگی.دوم پنشن اس کی سب ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہو گی سو تم وہ پینشن ایسی ہوگی کہ اس کی ضرورتوں کو ہی پورا نہ کرے گی بلکہ سارے اہل و عیال کی ضروریات کو پورا کرے گی اگر اولاد بڑھتی چلی جاتی ہے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں ہوتی چلی جاتی ہیں تو شیشی والے کہیں گے کہ ہم نے کہاں سے حساب کر کے دیتا ہے مگر وہ فرماتا ہے کہ وہ سب بھی اسی مقام پر رکھے جائیں گے اور جو حق اس کو دیئے جائیں گے وہ اُن کو بھی دیئے جائیں گے جنہوں نے خدمت نہیں کی.اگر دنیوی حکومتیں ان اصولوں کو قبول کر لیں تو وہ بھی الحمد کی مستحق ہو جائیں گی اور ان میں لڑائی جھگڑے اور فساد بند ہو جائیں گے اور ان کے دشمن باقی نہ رہیں گے.اگر الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ والی حکومت کو کوئی دشمن ٹانا چاہے تو اس کا مطلب ہوا نا کہ آپ بھی مرے ، یہ تو ہمیں بتاتی ہے کہ نہ صرف کام کرنے والے زندہ رکھے جائیں بلکہ جو کام نہیں کرتے وہ بھی زندہ رکھے جائیں آپ اگر کوئی گورنمنٹ یہ طاقت اختیار کر لے اور پھر اسے وسیع کیا جائے تو صرف اپنے ملک کے لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ باقی لوگوں کے لئے بھی.لازمی بات ہے کہ اس حکومت کا دنیا میں کوئی دشمن ایسا پاگل کون مل سکتا ہے جو اپنے گلے پر آپ چھری پھیرنے لگ جائے اگر دنیا اس اصول پر عمل کرے تو سارے جھگڑے کیپیٹلزم اور کمیونزم کے ختم ہو جاتے ہیں بہلے ه - روزنامه الفصل ریوه ۲۲ جون ۱۹۵۵ ه م ، منگ
۵۲۳ ۱۹۵۵ء ارد م دخطیه جمعہ ارجون 1920ء میں کئی جمعوں سے سورہ فاتحہ کے متعلق یہ بیان کر رہا ہوں کہ اس میں اللہ تعالے نے وہ گر بیان کئے ہیں جن سے کیپٹلزم اور کمیونزم کا مقاب کیا جاسکتا ہے آج بھی اس سلسلہ میں ایک کڑی میں نے بیان کرنی تھی لیکن بوجہ اس کے کہ ہم سفر کی تیاری کر رہے ہیں طبیعت میں کچھ پریشانی سی ہے اس لئے وہ سارے پہلو جو میں بیان کرنا چاہتا تھا بیان نہیں کرتا صرف مختصراً کچھ کہہ دیتا ہوں.....آج مالِكِ يَوْمِ الدِّينِ والا حصہ ہے دُنیا میں حکومت کی بڑی غرض یہی سمجھی جاتی ہے کہ وہ ہنگامی حالات EMERGENCIES میں کام آئے عام حالات میں افراد خود اپنا انتظام کو لیتے ہیں حکومت کا کام یہی ہوتا ہے کہ جب ایک جتھہ اور گروہ یا ایک قوم کوئی نشرارت کرے تو اس وقت اس کو سنبھال لے لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ حکومت ایسے کام سے عہدہ یہ آ نہیں ہوتی...اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ الہی حکومت جو المحمند کی مستحق ہوتی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ مالك يوم الدین ہوتی ہے.اس کے بہت سے پہلو ہیں لیکن میں ایک پہلو کو لیتا ہوں.یوم الدین کے لفظی معنے تو جزا سزا کے وقت کے مالک ہیں لیکن اصل مطلب یہ ہے کہ قومی یا مجموعی خرابی یا مجموعی طور پر اچھے کام کے اجزاء اور فیصلہ کے وقت انفرادی واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں ان کے روکنے یا اِن کے جزا دینے سے نہ گورنمنٹ ڈرتی ہے نہ اس پر ان کا کوئی بوجھ ہوتا ہے اصل میں قومی واقعات ہی ایسے آتے ہیں جنہیں یوم الدین کہنا چاہئے.ایسے وقت میں بعض دفعہ گورنمنٹ ڈر جاتی ہے کہ پبلک ہم سے کل پوچھے گی یا بعض دفعہ وہ جزا دینے سے کوتا ہی کہ جاتی ہے کیونکہ جزا اس کی طاقت سے بڑھ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ جزا سزا کے دن کا مالک ہے.دنیوی حکومتیں جزا سزا کے دن کی جج تو ہوتی ہیں مالک نہیں ہوتیں.خدا تعالے جب جزا سزا دیتا ہے تو اسے کسی کا ڈر نہیں ہوتا.وہ مجبور نہیں ہوتا کہ کسی کو جزا دے یا سزا د سے لیکن ایک جج ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ عام عقل یہ کہتی ہے کہ کوئی قوم جو مجرم ہے وہ کسی وقت پکڑی جاتی ہے تو کل کو وہ پھر شرارت کرے گی جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں کو یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ لا تَشْرِيْبَ عَلَيكُم الْيَوْمَا يه لا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم والا سلوک مَابيه ایک بھی نہیں کر سکتا کیونکہ عام عقل یہ کہتی ہے کہ کوئی قوم جو مجرم ہو جب وہ کسی وقت پکڑی جائے تو
۵۲۴ اسے سزا دینی چاہئیے وگرنہ کل وہ پھر شرارت کرے گی لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تو مالک ہیں دنیوی حکومتیں اس لئے مجبور ہیں کہ اول تو وہ مالک نہیں دوسرے انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ کل کو کیا ہو جائے گا.اگر آج عفو کر دیا تو ممکن ہے کل شرارت ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم مالک ہیں آج کے دن کے بھی اور جب کل آئے گا تو ہم مالک نہیں کل کے دن کے بھی ہمیں یہ ڈر نہیں کہ کل کو یہ لوگ اپنی شرارت میں کامیاب ہو جائیں گے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں سے فرمایا کہ لا تقریب عَلَيْكُمُ الْيَوْم ظاہری عقل نے کہا کہ آپ نے بڑی تا دانی کی وہ قوم جو تیرہ سال سے تکالیف دے رہی تھی اور جس کی شرارتیں متواتر چلی آرہی تھیں آج وہ اتفاقاً قابو میں آگئی ہے اور یہ اسے معاف کر رہے ہیں کل کو اگر پھر انہوں نے شرارت کی تو پھر کیا ہو گا چنانچہ عملی نمونہ بھی خدا تعالیٰ نے دکھلا دیا لا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم کہلانے والا بھی مالک تھا اس لئے جو خرابیاں اس کے نتیجے میں عقلی طور پر پیدا ہو سکتیں تھیں وہ بھی پیدا ہوئیں تو مالک یوم الدین میں بتایا کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے جس سے حمد حاصل ہوتی ہے اگر کوئی حکومت مالك يوم الدين بھی کر رہے جس طرح خدا تعالى مالك يوم الدين بن کر حکومت کرتا ہے تو پھر عوام الناس میں اور پبلک میں اور ارد گرد کے لوگوں میں بعض کبھی پیدا نہیں ہو سکتا بلکہ تعریف ہی ہوتی ہے کہ بڑے اچھے ہیں تو فرماتا ہے کہ الحمد حاصل ہوتی ہے.مالك يوم الدین سے جو مالک یوم الدین نہیں اُسے الْحَمْدُ نہیں ملتی جورت العالمين نہیں اسے الحمد نہیں ملتی ہو رحمن نہیں اُسے الحمد نہیں ملتی.جو رحیم نہیں اُسے الحمید نہیں ملتی.الحمد تبھی ملتی ہے جب کہ وہ رب العالمین کی صنعت کا مظہر ہو.رحمانیت کا مظہر ہو.رحیمیت کا مظہر ہو اور مالك ليوم السد تین کا مظہر ہویے بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ چودھواں پیغام مورخ ۲۲ مئی و انحمده ونصلى على رَسُولِهِ الكريم ، وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْد.۱۹۵۵ موال خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ امیر ه روزنامه " الفضل " ریوه ۳۰ جون ۶۱۹۵۵ مرمت.
۵۲۵ زیور برج ۲۲ مئی ۱۹۵۵ء برادران ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبر کاتہ.سالہا سال کی بات ہے کس نے خواب دیکھی تھی اور وہ اخبار میں کئی دفعہ چھپ بھی چکی ہے میں نے دیکھا کہ میں کرسی پر بیٹھا ہوں اور سامنے ایک بڑا قالین ہے اور اس قالین پر عزیزیم چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب عزیزم چو ہدری عبد الله خانصاحب اور عزیزم چوہدری اسد اللہ خان صاحب لیٹے ہوئے ہیں.سران کے میری طرف ہیں اور پاؤں دوسری طرف ہیں اور سینہ کے بل لیٹے ہوئے ہیں اور میں دل میں کہتا ہوں کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں.عزیزم چوہدری ظفر اللہ خانصاحب نے ساری عمر دین کی تقدمت میں لگائی ہے اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا ہے.میری بیماری کے موقعہ پر تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کو اپنے بیٹا ہونے کو ثابت کرنے کا موقعہ دیا بلکہ میرے لئے فرشتہ رحمت بنا دیا وہ میری محبت میں یورپ سے چل کر کراچی آئے اور میرے ساتھ چلنے اور میری صحت کا خیال رکھنے کے ارادہ سے آئے چنانچہ ان کی وجہ سے سفر بہت اچھی طرح کٹا اور بہت سی باتوں میں آرام رہا آخر کوئی انسان پندرہ بیس سال پہلے تین نوجوانوں کے متعلق اپنے پاس سے کس طرح ایسی خیر دے سکتا تھا.دُنیا کا کون سا ایسا مذہبی انسان ہے جس کے ساتھ محض مذہبی تعلق کی وجہ سے کسی شخص نے جو اتنی بڑی پوزیشن رکھتا ہو جتنی چودھری ظفر اللہ خان صاحب رکھتے ہیں اس اخلاص کا ثبوت دیا ہو کیا یہ نشان نہیں ؟ مخالف مولوی اور پیر گالیاں تو مجھے دیتے ہیں مگر کیا وہ اس قسم کے نشان کی مثال بھی پیش کر سکتے ہیں کیا کسی مخالف اور پیر نے ۲۰ سال پہلے کسی نوجوان کے متعلق ایسی خبر دی اور بیس سال تک وہ خیر پوری ہوتی رہی اور کیا کسی ایسے مولوی اور پیر کی خدمت کا موقعہ خدا تعالیٰ نے کسی ایسے شخص کو دیا جو چودھری ظفر اللہ خانصاحب کی پوزیشن رکھتا تھا اللہ تعالے ان کی خدمت کو بغیر معاوضہ کے نہیں چھوڑے گا.اور اُن کی محبت کو قبول کرے گا اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں اس کا ایسا معاوضہ دے گا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی اس پر رشک کریں گے کیونکہ وہ خدا شکور ہے اور کسی کا احسان نہیں اٹھاتا اس نے ایک عامیہ بندہ کی محبت کا اظہار کیا اور اس کا بوجھ خود اٹھانے کا وعدہ کیا اب یقینا جو اس کی خدمت کرے گا خدا تعالے اس کی خدمت کو قبول کرے گا.اور دین و دنیا میں اس کو ترقی دے گا.وہ صادق الوعد ہے اور رحمان و رحیم ہے.اب
دو اڑھائی مہینے میں ہماری واپسی کا وقت قریب آجائے گا.احباب دعا کریں خیریت سے ہم پاکستان واپس آئیں اور وہاں بھی اللہ تعالیٰ ہر طرح خیریت کے سامان پیدا کرے.اس وقت جب کہ میں یہ پیغام لکھوا رہا ہوں.میری طبیعت بہت اچھی معلوم ہورہی ہے گو یہاں بارش بہت ہے مگر یہاں کی آب و ہوا نے بہت اچھا اثر میری طبیعت پر ڈالا ہے اگر SOUTH میں جگہ مل جاتی تو اس سے بھی اچھا اثر پڑتا ممکن ہے آئندہ مختصر قافلہ کے ساتھ دس بارہ دن کے لئے پھر ڈاکٹری مشورہ کے لئے آنا پڑے کیونکہ ڈاکٹر نے کہا ہے مجھے وقتا فوقتا دکھاتے رہو.مرزا محمود احمد الله ۲۹ مئی ۹۵اء ( مطابق ۲۹ رمضان کو ربوہ میں رتوں کی دردناک اجتماعی دعا اور حسب معمول درس قرآن مجید کے مقام پر حضرت مرزا اس کا نظارہ عالم رویا میں بشیر احمد صاحب نے اجتماعی دعا کرائی حضور کی غیر حاضری کو اس موقعہ پر اہل ربوہ نے بہت محسوس کیا.اور اپنے آقا اور روحانی باپ کی جدائی نے ان پر سوز و رقت کی خاص کیفیت طاری کر دی.چند لمحوں میں ہی گریہ وزاری تفریح اور خشوع و خضور کا ایسا سماں بندھ گیا جس کو الفاظ ادا نہیں کر سکتے احباب اس قدر تڑپ الحاج اور گڑ گڑاہٹ کے ساتھ دعا کر رہے تھے کہ بعض غیر احمدی دوستوں نے اس گریہ دلیکا رکو نصف میل کے لگ بھگ فاصلے سے سُنا اور اس پر حیرت کا اظہار کیا.یہ تفریح اور عاجزی اور گریہ و زاری اور تڑپ ان مخصوص دعاؤں کی خصوصیت کا رنگ رکھتی تھی جو قبولیت کا درجہ پالیتی ہیں.دعا کرنے والوں کی حالت ایسی تھی جیسے کسی کو ذبح کر دیا گیا اور وہ چل رہا ہو اور حقیقت ایسی دعائیں ہی عرش الہی کو ہلا دیتی اور اللہ تعالیٰ کی محبت و رحمت کو آسمان سے کھینچ لاتی ہیں.یہ منتظر مانہ دعائیں خدا کو ایسی مقبول ہوئیں کہ اس نے اپنے پیارے خلیفہ اور امام برحق سینا حضر مصلح موعود کو زیورچ شہر میں اپنے خدام کی حالت کا نظارہ عالم رویا میں دکھا دیا.چنانچہ حضور نے فرمایا :- له - روزنامہ " الفضل " ریوه ۲۹ رمتی ۱۹۵۵ء من.کے روزنامه " الفضل " دیوه ٢٣ - جون ۱۹۵۵ء ۳۰ -
۵۲۷ ۱۲۳ اور ۲۴ مئی کی درمیانی رات کو میں نے رویا میں دیکھا کہ ہزاروں ہزار آدمی جماعت کے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور میرے لئے دُعا کر رہے ہیں وہ اتنا دردناک نظارہ تھا کہ اس سے میرا دل دہل گیا.اور میری طبیعت پھر خراب ہوگئی.یہی وجہ تھی کہ با وجود ارادہ کے میں عبید پڑھانے نہیں جاسکا چونکہ اس رویا میں میرے لئے ایک دہشت تھی اور اب بھی اس کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے میں سفر میں اس رویا کو لکھ کر بھیجوانا پسند نہیں کرتا.اس عرصہ میں رہوں سے خطوط آئے ہیں ان میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ آخری رمضان کی شام کو جو د عا کی گئی وہ ربوہ میں ایک غیر معمولی دعا تھی.اورمعلوم ہوتا تھا گویا عرش بھی پل گیا ہو گا.ان خطوں میں بھی گویا میری رویا کا نقشہ کھینچا گیا تھا.جزى الله سَاكِنِي رَبوَة خَيْرُال حب حضور نے زیورچ سے مئی شور میں نا فرمان علی این ناظرها ربوہ میں بکثرت درخت لگوانے کی تاکید - کو حسب ذیل مکتوب لکھا جس میں تاکید فرمائی کہ اہل ربوہ کی صحت کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت لگوائے جائیں.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريميم BEGONIEN STRASSE 2 ZURICH, 57.SWITZER Land مکرمی اختر صاحب السلام علیکم ورحمتہ الہ و برکاته ریوہ میں لوگوں کی صحت کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے نہایت ضروری ہیں اور درخت بغیر پانی کے نہیں لگ سکتے آپ فوری طور پر صدر انجمن میں یہ معاملہ رکھ کر پاس کرائیں کہ پہلے ٹیوب ویل کو درست کرایا جائے.بلکہ بہتر ہو کہ بجلی کا انجن اس کی جگہ فوری لگ جائے تاکہ پانی یا افراط مہیا ہو سکے اور پہلے لگے ہوئے درخت سوکھ نہ جائیں اس کے علاوہ مزید ٹیوب ویل بھی جلدی لگائے جانے ضروری ہیں اس بارہ میں کسی واقف سے مشورہ کر کے فوری اپنی رپورٹ بھیجوائیں کہ کسی کسی جگہ ٹیوب ویل لگ سکیں گے جن سے تمام ربوہ کی سڑکوں پر پودوں کے لئے پانی آسانی سے دیا جا سکے.له - روز نامہ " الفضل " ریوه ۱۴ جون ۱۹۵۵ء ص ٣.
ضروری ہے موجودہ درختوں سے بھی دس پندرہ گئے بلکہ زیادہ درخت لگائے جائیں سجلی سے آپ کام بہت آسان ہو گیا ہے.مرزا محمود احمد سرمئی کو حضور ڈاکٹر شمٹ ہو میو میتھے سے مشورہ لینے کے لئے زیورک جنیوا کا دوبارہ سفر سے جینوا تشریف لے گئے اور یکم جون کو واپس زیور ک آگئے نے حضرت مصلح موعود نے ۱۵ جون ۹۵۵اء کو ایک زیورپ کے احمدی احباب سے خطاب ہی پارٹی کے موقعہ پر زیور پا کے احمدی احباب سے انگریزی میں خطاب فرمایا جس کا ترجمہ بعد میں شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ انچارج سوئٹزر لینڈ نے جرمن زبان میں کیا.حضور نے فرمایا :- میرے دوستو اور بھائیو.......السلام عليكم ورحمة الله و بركاته.- میں ایک سخت بیماری کے بعد تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں اس بیماری کے دوران میں بعض اوقات مجھے یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ شاید یکیں تمہیں کبھی دیکھنے کے قابل نہ ہو سکوں گا لیکن خدا تعالے نے مجھے تم سے ملنے کا موقعہ جہتیا فرما دیا ہے میری بڑی خواہش تھی کہ میں تم سے ملوں بالکل اسی طرح جس طرح ایک باپ کو اپنے بچوں سے ملنے کی خواہش ہوتی ہے.خدا تعالے نے تمہیں میرے روحانی فرزند بنایا ہے اس لئے تم سے میری محبت کا رشتہ طبعا دنیاوی بیٹوں سے زیادہ مضبوط ہے.آج سے تیس سال قبل روم سے براستہ میلان فرانس جاتے ہوئے میں تمہارے ملک سے گذرا تھا لیکن میں یہاں پر قیام نہ کر سکا تھا.میں نے اس وقت درخت جھیلیں اور ندیاں دیکھی تھیں.اور خیال کیا تھا کہ سوئٹزر لینڈ انتہائی خوبصورت ملک ہے جس میں اس قسم کے ہرے بھرے منظر عمدہ جھیلیں اور سرسبز درخت ہیں.میں اس وقت یہ نہ جانتا تھا کہ اس ملک میں بھی ایسی وفادار اور مخلص دل رکھنے والی روحیں پیدا ہوں گی.جو خدا تعالیٰ کے حضور جھکیں گی.اور اس کی ہدایت کو حاصل کریں گی.لیکن آپ میں اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں اور اس پر میں بہت ہی خوشی محسوس کر رہا ہوں یکی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے تمہیں صراط مستقیم پر چلائے اور تم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کہ "الفضل " ۲۶ ستمبر ۱۹۵۵ء
۵۲۹ لو اور تم اس کے اس طرح پیارے بن جاؤ جس طرح بچے اپنے باپ کو پیارے ہوتے ہیں اگر تم خدا تعالیٰ کی ہدایات پر عمل کرو گے تو تمہاری تعداد آہستہ آہستہ بڑھ جائے گی.اور تم اس دنیا پر غالب آجاؤ گے (انشاء اللہ تعالیٰ ) تمہارا ملک ایک صنعتی ملک ہے گو یہ بہت اہمیت رکھتا ہے تاہم یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اگر تم خدا تعالے کی ہدایات پر عمل کرو گے تو بڑے ملک بھی تم پر رشک کرنے لگیں گے.اور خدا تعالیٰ تمہیں ہمیشہ کے لئے زیادہ سے زیادہ شان و شوکت عطا فرمائے گا ہے ٹیلی ویژن پر انٹرویو اور ایک اور ایک درجون کا دن ہمیشہ یادگار رہے گا.کیونکہ اس روز سوئس ٹیلیوشین کے ذریعہ حضور کا انٹرویو نشر ہوا.لوگوسلا وین کا قبول اسلام حضور نے یہ انٹرویو انگریزی زبان میں دیا جس کا ترجمہ شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئٹزر لینڈ نے جرمن زبان میں کر کے سُنایا حضور نے سفر یورپ کی غرض ، رمضان المبارک کی اہمیت.جماعت احمدیہ کی تبلیغی جد وجہد اور اس کی ضرورت سے تعلق سوالات کے جوابات دیئے.علاوہ ازیں لوگو سلاویہ کا ایک باشندہ حضور کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو اسے زیورک سے جرمنی تک ہی حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود سوئٹزرلینڈ میں ایک ماہ تک قیام فرمانے کے بعد زیورچ سے ، ارجون ۹۵۵ ایر کو بذریعہ کار جنوبی سوئٹزرلینڈ کے مقام لوگانو کو روانہ ہو گئے حضور اار جون کو اٹلی کے مشہور شہر وینس میں پہنچے اور ہم ارجون کو وینس سے اننتر بروک (آسٹریا ، تشریف لے گئے.۵ ارجون کو حضور آسٹریا سے جرمنی چلے گئے.4 بجے کے قریب حضور نیور سرگ پہنچے.جہاں چو ہدری عبد اللطیف صاحب مبلغ جرمنی اور کئی اور مخلصین حضور کے استقبال کے لئے موجود تھے.نیور نبرگ میں پندرہ مرد اور عورتیں احمدی نو مسلم تھے اور وہ سب کے سب اخلاص اور محبت سے سرشار تھے.اس مقام پر حضور نے نو مسلمین کے ساتھ جرمنی میں تبلیغ اسلام کے موضوع پر تبادلہ خیالات بھی فرمایا.ے.روزنامہ " الفضل " ربوہ ۲۲ جون ۶۱۹۵۵ مت کے - روزنامہ "الفضل" ریوه ارجون شاء صل
۵۳۰ ۷ ارجون کو حضور نیور نبرگ سے روانہ ہوئے اور مارجون کو پانچ بجے کے قریب ہیگ پہنچے جہاں مقامی مبلغ مولوی غلام احمد صاحب بشیر اور مکریم موں نا محمد ایوب صاحب سماٹری اور گئی تو مسلم دوست حضور کے استقبال کے لئے موجود تھے.گئے ۱۹ تا ۲۴ جون حضور ہائینڈ میں قیام فرمار ہے ہے اور پھر دوبارہ جرمنی تشریف لے حضور ۱۲۵ جون کو شام کے چار بج کر دس منٹ پر سیدہ ام منتیبی صاحبہ اسید هر آیا ، صاحبزادی امنه الجمیل اور احبزادی امتہ المتین صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بیر داؤ د احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا مبارک امریتا اور ان کی بیگم صاحبہ اور محترمی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی معیت میں ہمبرگ کے ہوائی مستقر پر ہوائی جہاز سے اُتر کے چودھری عبد اللطیف صاحب کے علاوہ برادرم عبد الکریم صاحب ڈنگر.برادرم عبد الحمید صاحب ڈنگر و DANSAR ) ، ایک پاکستانی دوست محمود الہی صاحب اور برادرم عبد الکریم صاحب کی اہلیہ محترمہ ہوائی اڈہ کے اندر موجود دیکھتے اور حضور کو ہوائی اڈہ سے اترتے ہی اَهْلاً وَ سَهَا مَرْحَبًا کیا اور مٹر اور مسٹرڈ نگر نے حضور کی خدمت میں پھول پیش کئے کیسٹر وغیرہ سے فارغ ہو کر حضور ۵ بجے ہوٹل میں پہنچے جہاں دیگر احباب جماعت موجود تھے.حضور نصف گھنٹہ کے بعد ملاقات کے کمرہ میں تشریف لے آئے.پہلے ہمبرگ کے ایک مشہور جرنلسٹ مسٹر ( PIRATH) نے اپنے فوٹو گرافر کے ساتھ حضور کا انٹرویو لیا اور کئی ایک فوٹو لئے اس کے بعد ایک گھنٹہ تک حضور پر نور احباب جماعت سے مشن کے استحکام کے متعلق تبادلہ خیالات فرماتے رہے اور دیگر ضروری امور کے علاوہ ہمبرگ میں مسجد کی تعمیر کے متعلق تفصیلی گفتگو فرمائی اور بعد ازاں شام کے کھانے کے لئے تمام قافلہ کے ساتھ چودھری عبدالطیف صاحب کے ہاں تشریف لائے اور محبت اور پیار کے ساتھ بچوں کے ساتھ باتیں فرماتے رہے.ایک نامور ستشرق کی بعیت ۲۶ جون بروز اتوار صبح دس بجے حضور اپنے ڈاکٹری میانہ کے لئے چوہدری عبد اللطیف صاحب کے علاوہ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے ہمراہ ہمبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر PROF.DR.N.PETHE کے مکان پر تشریف لے گئے.پر وفیسر مذکور نے حضور کا مکمل لے روزنامه الفضل " گریوه ۲۶ ستمبر ۶۱۹۵۵ صد
۵۳۱ معائنہ کیا اور حضور کی صحت کی ترقی کی رفتار پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا واپس تشریف لاکھ حضور نے کچھ آرام فرمایا اور اس کے بعد KIEL سے آئے ہوئے جرمنی کے بہت بڑے مستشرق اور KAMAOUR سے ایسی موثر گفتگو فرمائی کہ اُس نے اُسی روز حضور پر نور کے ہاتھ پر بیعت کر لی - بیعت لینے کے بعد حضور نے فرمایا "خدا تعالیٰ نے غالباً مجھ کو ہمبرگ اس لئے لایا تھا کہ آپ میرے ہاتھ پر اسلام قبول کریں حضور نے ان کا اسلامی نام زبیر تجویز فرمایا.CONTI PRESS کا ایک نمائندہ حضور سے ملاقات کے لئے آیا اور بہت سے فوٹو لے ہمبرگ کے ایک نامور جرمن مستشرق ڈاکٹر AHEL حضور سے ملاقات کے لئے آئے اور نصف گھنٹہ تک حضور ان سے عربی میں گفتگو فرماتے رہے بعد میں حضور نے اُن کی زبان دانی کی تعریف فرمائی.ان ملاقاتوں سے فارغ ہونے پر حضور نماز کے لئے تشریف لائے.لوکل احمدی بھی نماز کے لئے آئے ہوئے تھے حضور نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.نمازہ کے بعد ہو ور سے آئے ہوئے احمدی دوست جو پریس فوٹو گرافر ہیں نے کثرت سے فوٹو لئے حضور قریبا ایک گھنٹہ مجلس میں رونق افروز رہے اور لوکل احمدیوں سے مختلف امور کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے حسب ضرورت جرمن میں ترجمہ چو ہدری عبد اللطیف صاحب کرتے رہے.حضور نے دیگر امور کے متعلق علاوہ مسجد تعمیر کرنے کے بارہ میں پھر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اور جلد از جلد زمین کے حصول کی تاکید فرمائی.شام کے قریب حضور سب کے ساتھ سیر کے لئے تشریف لے گئے اور ہمبرگ کی بندرگاہ دیکھی بعد ازاں حضور از رو ذرہ نوازی شام کے کھانے کیلئے پھر معہ قافلہ چوہدری عبد اللطیف صاحب کے ہاں تشریف لائے اور انہیں اپنی محبت اور شفقت سے نوازا.۲۷ جون بروز سوموار پہلے حضور خرید و فروخت کے لئے تشریف لے گئے اور کئی ایک ضروری اشیاء خرید فرمائیں اس کے بعد ہوٹل تشریف لائے اور CLANEN شہر سے آئے ہوئے ایک احمدی دوست KRETZCH MAR سے ملاقات فرمائی حضور کی بلند پایہ شخصیت کے پیش نظر ہمبرگ گورنمنٹ نے بھی RECEPTION کا انتظام کیا اور حضور ہمبرگ گورنمنٹ کے نمائندگان کو ملنے کے لئے دس بیچ کر پینتالیس (۱۰ - ۴۵ منٹ پر ٹاؤن ہال تشریف لے گئے اور وزیر تعمیر مسٹر FISENNE اور گورنمنٹ کے سیکرٹری جنرل مسٹر Joss
۵۳۲ نے حضور سے ملاقات کی.حضور نے ان سے بیس منٹ تک گفتگو فرمائی اس موقعہ پر - CONTI) (PRESS کے نمائندہ نے کثرت سے فوٹو لئے جو ہمبرگ کے دوروز نامہ اخبارات میں شائع ہوئے ر ان دونوں تصاویر کو حضور نے بہت پسند فرمایا ( اس ملاقات سے فارغ ہونے کے بعد حضور ہمبرگ کے مشہور سرجن (PROF.DR.JUN PER ) سے مشورہ کے لئے تشریف لے گئے.پروفیسر مذکور نے ایکس رے فوٹو دیکھنے کے بعد کہا کہ چاتو کی جو نوک اندر رہ گئی ہے اس کو نکالنے کی ضرورت نہیں اس سے حضور پُرنور کی تسلی ہو گئی.یہ خدا کا خاص فضل ہے کہ دوبارہ اپریشن کی ضرورت ڈاکٹری رائے میں پیش نہیں آئی.دوپہر کے کھانے کا انتظام برادرم عبدالکریم ڈنگر نے کیا.مقامی جماعت کی طرف سے حضور کے اعزاز میں دعوت اسی روز نام کے ساڑھے سات بجے حضور کے اعزاز میں ہمبرگ کی جماعت نے دعوت بچائے کا انتظام کیا جس میں احمدی احباب کے علاوہ ہمبرگ کے معززین نے بھی شرکت کی.پولیس کے نمائندے بھی شامل ہوئے اور انہوں نے فوٹو بھی لئے.برادرم عبدالکریم صاحب ڈنگر نے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے کھڑے ہو کر ایک خاص دلولہ اور روحانی کیفیت کے ساتھ نصف گھنٹہ تک انگریزی زبان میں تقریر فرمائی جس میں احمدی احباب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ربوہ مرکز احمدیت کی تعمیر کی تفاصیل بیان فرمائیں کہ کسی طرح ایک سنجر علاقہ حسیں میں صرف تین (TENT) ابتدا میں تھے خدا تعالیٰ نے ایک پر رونق شہر بسا دیا حضور نے فرمایا اس میگہ پینے کا پانی نام کو نہ تھا اور وہاں کے پانی کو جب معائنہ کے لئے لاہور بھجوایا گیا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ پانی انسانوں کے لئے مضر ہے حضور نے فرمایا کہ خدا تعالے نے مجھے اس وقت الہانا بتایا کہ یہاں میٹھا پینے کا پانی ضرور جیتا ہو گا.اور اب وہاں خدائی وعدے کے مطابق پینے کے پانی کی کمی نہیں اور یہ خدا تعالے کے زندہ ہونے اور احمدیت کی صداقت کا متین نشان ہے اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ جرمن قوم کا کیرکٹر بلند ہے اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتنی جلدی تعمیر کر لیا ہے.حضور نے فرمایا کہ حجر من قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلد از جلد السلام کو جو خود اسی روم کو بند کرنے کے لئے تعلیم دیتا ہے قبول کرے گی حضور نے فرمایا کہ میں اس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
۵۳۳ کا پیرو کار ہوں جس نے دنیا میں امن اور رواداری کو قائم کرنے کی پوری کوشش کی اور اپنے مخالفین جنہوں نے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا کو فاتح ہونے کی حیثیت میں کی طرح معاف کر دیا حضور نے فرمایا کہ اسلام اس روا داری کی تعلیم کا حامل ہے اور اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی اسلام قومیت اور رنگ و نسل کی تمیز سے بالا ہے اور دنیا میں عالمگیر برادری اور اخوت کو قائم کرنے کے لئے زریں اصول پیش کرتا ہے حضور کی اس محبت بھری تقریر کا جرمن ترجمہ چوہڑ ی عبد اللطیف صاحب نے بعد میں کیا.حاضرین نے حضور کی تقریر کو بہت پسند کیا.ہمبرگ کی ایک روز نامہ اخبار HAMBURGAR ANGEIGER اختیارات میں پھر چا نے اپنی اشاعت مورخہ ۱۲۸ جون ۱۹۵۵ء میں حضور کی اس تقریر اور ہمبرگ گورنمنٹ کی طرف سے خوش آمدید کا ذکر ایک نہایت اچھے فوٹو کے ساتھ حسب ذیل الفاظ میں کیا.امیر المومنین ٹاؤن ہال میں " احمدیہ جماعت کے امام حضرت مرزا محمود احمد صاحب (تصویر بائیں طرف) لوکل ٹاؤن ہال MINISTER VON FUEMNE نے خوش آمدید کہا.۶۶ سال کی عمر کے امیر المومنین نے کل جماعت کی طرف سے دی ہوئی دعوت چائے کے موقعہ پر بیان کیا کہ ربوہ کی تعمیر کس طرح شاء میں مخالف حالات میں ہوئی ایک بے آب و گیاہ گاؤں سے کس طرح یہ ایک بڑا شہر بنا جس میں آب مختلف کالج اور مشتری کالج تعمیر ہو چکے ہیں.اسلام صلح اور امن کا مذہب ہے.اور عالمگیر اخوت کو قائم کرنے کے لئے اصول پیش کرتا ہے اس لئے اسلام یورپ کے لئے مناسب حال مذہب ہے.اور خاص طور پر جرمنی کے لئے عالمگیر مذہب ہونے کی بناء پر اسلام کا مستقبل جنین میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے.اسلامی روح جرمنی میں زندہ ہے.احمدیہ جماعت کا جرمنی میں مرکزہ ہمبرگ ہے اور اس کے تبلیغی مشن مختلف ممالک میں موجود ہیں.اس روز نامہ کے علاوہ جرمنی کے دیگر بیسیوں اخبارات میں بھی حضور کی آمد کی خبر کم و بیشی مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع ہوئی : اسلامی خلیفہ بطور مہمان ہمبرگ میں حضرت مرزا محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ تین روز کے لئے بطور جہان تشریف لائے.ان کا ایک خطاب امیر المومنین بھی ہے.۶۶ سال کی عمر کے
۵۳۴ خلیفہ ربوہ پاکستان سے آئے ہیں.اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے بیٹے بھی ہیں.ہمبرگ گورنمنٹ کے ایک وزیر MINISTER VON FLS ENNE نے انہیں ٹاؤن ہال میں خوش آمدید کہا : اکثر اخبارات نے یہ خبر حضور کے فوٹو کے ساتھ شائع کی.۲۸ جون بروز منگل بھی حضور نے جماعت کے بعض افراد سے گفتگو فرمائی اور ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں.شام کو سیر کے لئے تشریف لے گئے.بعد ازاں حضور مع قافلہ عشائیہ میں شرکت کے لئے چودھری عبد اللطیف صاحب مبلغ کے ہاں تشریف کے گئے.مبلغ حرمتی کی مخلص خدمت پر انبار خوشنودی اسی دن چودھری عبد الطیف کا مبلغ کی جرمنی نے حضور کی خدمت اقدس میں مشن GUEST Book دستخط کے لئے پیش کی اس پر حضور نے اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل ریمارکس درج فرمائے :- السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ Dear Abdul Latif, Your success in Germany is wonderful and miraculous.You have won the hearts of German people and this could not be done by your efforts.It is surely God's work.Some converts are wonderfully zealous in Islam and pure hearted, May God give you more and more converts and open the hearts of German people for Islam and your hands and help you to erect a fitting mosque in Humburg and make it a centre for German people and specially German Muslims, Amen 1 Europe is certainly going to be muslim as is foretold by Promised Messiah.As this prophecy is going to be fulfilled through you, it will be a great blessings for you and your family.May God bless the German Muslims and increase their number to million and million and millions, untill they become majority in Germany.Mirza Mahmood Ahmad 28, June, 1955 ل روزنامه الفضل دیده ۱۵ جولائی ۱۹۰۵ء ۳-۴-
۵۳۵ (ترجمه) بر عزیزم عبد اللطيف - السّلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ.جور مبنی میں تمہاری کامیابی حیرت انگیز ہے اور معجزانہ رنگ رکھتی ہے.تم نے جو منی کے رہنے والوں کے دلوں کو فتح کیا ہے اور یہ کام صرف تمہاری کوششوں سے نہیں ہو سکتا تھا.یہ یقینی طور پر خدا کا کام ہے.بعض تو مسلم نہایت جوشیلے اور مخلص ہیں.خدا تعالیٰ تمہیں زیادہ سے زیادہ نو مسلم عطا فرمائے.اور تمہارے ذریعہ جرمنی کے لوگوں کے دل اسلام کے لئے کھول دے اور خدا تعالے تمہیں ہمبرگ میں ایک موزوں مسجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو جرمنی کے تمام لوگوں کے لئے اور خاص طور پر یہاں کے تو مسلموں کے لئے ایک مرکز بنائے.آمین.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام کی پیشگوئی کے مطابق یورپ یقینی طور پر اسلام کی طرف رجوع کر رہا ہے.چونکہ یہ پیشگوئی تمہارے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہے اس لئے یہ تمہارے لئے تمہارے خاندان کے لئے بہت بڑی برکت کا موجب ہوگی.خدا تعالے جرمنی کے نو مسلموں کو اپنی برکات میں سے حصہ عطا فرمائے اور ان کو لاکھوں لاکھ کی تعداد میں بڑھاتا چلا جائے یہاں تک کہ جرمنی میں ان کی اکثریت ہو جائے.آمین.دو ستخط مرزا بشیر الدین محمود احمد - ۱۲۸ جون ۵۵ ۹ ایول جرمنی سے دوبارہ بالیٹ میں اور دو موجود حضور ۲۹ جون کو بذریعہ ہوائی جہاز دوبارہ بیگ رہالینڈ میں تشریف فرما ہوئے.بیگ میں حضور نے اپنے تین روزہ قیام میں علاوہ دیگر دینی مصروفیات کے یکم جولائی کو ایک معرکہ آراء خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.یہ خطبہ درج ذیل کیا جاتا ہے :.برادران کل صبح میں آپ کے ملک سے جا رہا ہوں.طبعی طور پر یہ جدائی مجھے پر شاق گند رہی ہے.افسوس ہے کہ میں یہاں ایسے وقت میں آیا جبکہ میں بیمار تھا اور اس بیماری کی وجہ سے میری نظر کان اور قوت یاد داشت کافی حد تک اثر پذیر ہیں.اس لئے میں احباب کے چہروں اور ان کے ناموں کو بہت جلد بھول جاتا ہوں.مجھے ڈر ہے کہ میرے بھائی محسوس نہ کریں کہ میں ان کی طرف توجہ نہیں کرتا حالا نکہ یہ بالکل غلط ہے.واقعہ یہ ہے کہ میں بعض اوقات ان کے چہروں کو بھول جاتا ہوں اور دوسروں سے له - روزنامه الفضل ربوه ۱۵ جولائی ۱۹۰۹ء مت
پوچھتا ہوں کہ وہ صاحب کون ہیں " پس یہ بات صرف میری بیماری کی وجہ سے ہے.عدم توجہ کی وجہ سے نہیں ہے.عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہماری خدا تعالے کی طرف سے آتی ہے حالانکہ در حقیقت بیماری خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ خود ہماری غلطیوں کی وجہ سے آتی ہے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ میری ہماری اس سخت کام کی وجہ سے آئی ہے جو میں نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر کیا تھا تقریبا ایک ماہ تک میں ساری ساری رات پڑھتا رہا اور لیکچروں کی تیاری کے لئے نوٹ لیتا رہا.اور میری اکس عمر کے لحاظ سے یہ بہت زیادہ کام تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں اس سے قبل بہت زیادہ کام کرتا رہا ہوں.لیکن آپ میری صحت ویسی نہیں ہے جیسے جوانی کے ایام میں تھی ایک ڈاکٹر نے مجھے بتلایا کہ اگر چند سال قبل مجھے اس قدر کام نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا تو غالبا اس بیماری کا حملہ نہ ہوتا.برادران ! خدا تعالے ہی بہتر جانتا ہے پھر کب ہم ایک دوسرے سے ملیں گے لیکن مجھے امید ہے کہ ہمارے دل ہمیشہ ایک دوسرے سے قریب رہیں گے.یکیں یہاں تھوڑے عرصہ کے لئے آیا تھا.اور جلد ہی آپ لوگوں سے رخصت ہو رہا ہوں اور موجودہ حالات میں تین یہ خیال نہیں کر سکتا کہ دوبارہ جلد آپ کے پاس آ سکوں گا اگر بچہ میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ انشاء اللہ سفر سے واپسی پر ایک دن کے لئے یہاں مسجد کی افتضاحی تقریب میں شمولیت کے لئے آؤں گا اگر ایسا ہوا تو اُمید کرتا ہوں کہ تقریباً ایک ماہ تک میں ایک دو دن کے لئے یہاں آؤں گا اور دوبارہ آپ سے مل کہ اپنے دل کو خوش کر سکوں گا.برادران - چونکہ میں ایک دور دراز کے مقام پر رہتا ہوں اس لئے یہ بات آپ لوگوں کے لئے بہت مشکل ہے کہ آپ کثرت سے میرے پاس آ سکیں اسی طرح یہ بات میرے لئے بھی اس کمر میں اور اس ہماری کی حالت میں ناممکن ہے کہ میں تمہارے پاس بار بار آسکوں اس لئے طبعی طور پر میری یہ خواہش ہے کہ جو کچھ میں کہو وہ آپ اچھی طرح یاد رکھیں.اگر میں آپ لوگوں کے پاس بار بار آنے کے قابل ہوتا تو میں خیال کرتا کہ جو کچھ میں آپ کہتا ہوں انہیں باتوں کو میں اپنی دوبارہ آمد کے موقع پر دہراؤں گا لیکن چونکہ دوسرا موقعہ ابھی بہت فاصلہ پر ہے اس لئے طبعی طور پر
۵۳۷ میری به انتہائی خواہش ہے کہ جو کچھ میں آپ سے کہوں آپ اس کو یاد کریں اور اس بلند معیار تک پہنچ جائیں جو اسلام آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے.یکی سمجھتا ہوں کہ اگر آپ لوگ اس کے لئے کوشش کریں تو آسانی کے ساتھ کر سکتے ہیں ایسی جماعت جس میں مسٹر صادق و انڈر لینڈ اور مسٹر عبد اللطیف ڈی لائین جیسے جو شیلے کا رکن موجود ہوں وہ ضرور ایسا کر سکتی ہے یہ تو جوان اپنے یقین اور ایمان میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ انسان ان کے چہروں سے ہی اس جوش کا اندازہ لگا سکتا ہے جو ان کے دلوں میں اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ واشاعت کے لئے پایا جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب بھی دنیا میں سچائی آتی ہے تو وہ ہمیشہ ایک بیچ کی طرح آتی ہے.جب میں نوجوانی کو پہنچا تو اس وقت میں نے اپنا ایک اخبار الفضل نامی جاری کیا تھا بلکہ اس سے بھی پہلے جب میں صرف چودہ سال کی عمر کا تھا تو میں نے ایک ماہوار رسالہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے نکاں تھا.اور پہلا مضمون جو میں نے اس میں لکھا.اس کا مضمون یہ تھا کہ تم یہ نہ دیکھو کہ اس وقت کتنے احمدی ہیں بلکہ تم قدرت کے کام کی طرف دیکھو تم دیکھتے ہو کہ یہ بڑے بڑے جنگلات جو سینکڑوں میل میں پھیلے ہوئے ہیں یہ صرف چھوٹے سے بیچ سے شروع ہوئے ہیں اسی طرح ایک چھوٹا سا بیچ اس زمین میں ہو یا گیا.اور اس نے اس زمین میں جڑیں پکڑ لی ہیں اور اب اس سے ایک عظیم الشان درخت پیدا ہوا ہے مگر آئندہ اس درخت سے اور بیچ پیدا ہوں گے اور وہ زمین پر گریں گے.اور ایک درخت کی جگہ کئی درخت اگیں گے اور اس طرح آہستہ آہستہ ان چھوٹے چھوٹے بیجوں سے بڑے بڑے باغات پیدا ہو جائیں گے یہی حالت سچائی کی ہوتی ہے جب میری عمر انیس سال کی تھی تو احمدیوں کی تعداد صرف چند سو تھی اس وقت میں نے کہا کہ اگر چہ اس وقت ہم صرف چند سو ہیں لیکن ایک وقت آئے گا جب کہ ہم ہزاروں پھر لاکھوں پھر کر وڑوں کی تعداد میں ہو جائیں گے.اب تم اس زمانہ پر جس وقت میں نے بیضمون لکھا نظر ڈالو اور جماعت کی موجودہ حالت کو دیکھو تمہیں پتہ لگے گا کہ ہماری جماعت نے کیسی حیرت انگیز ترقی کی ہے.ایک ملکہ سالانہ میں جبکہ قادیان میں احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے ان کی تعداد صرف سات سو تھی لیکن اب ہر سال جلسہ سالانہ پر پچاس ہزار لوگ صرف اس کے شاگرد اور خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہیں.یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے اس
۵۳۸ زمانہ میں ان سات سو میں کوئی ایک بھی غیر ملکی نہیں تھا.اب اس زمانہ میں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر افریقہ.امریکہ، یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے لوگ موجود ہوتے ہیں وہ صرف اس لئے جوق در جوتی آتے ہیں.تاکہ وہ آقا کو نہیں بلکہ اس کے شاگرد کو دیکھیں اور بانی جماعت کو نہیں بلکہ اس کے خلیفہ کی زیارت کریں.یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کسی طرح خدا تعالے نے ہر قوم کے لوگوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ڈال دی ہے لیکن ابھی صرف ابتدا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی ایک کتاب ہے جو تھوڑا ہی موصہ ہوا میں پڑھ رہا تھا لیکن آپ میں نہیں پڑھ سکتا.کیونکہ اب میری آنکھیں کمزور ہیں اگرچہ صرف چند ماہ گذرے میں نے دیکھا کہ میں نے بعض اوقات پوری پوری رات بیٹھ کر تقریباً ایک سو کتب کا مطالعہ کیا تھا.لیکن آپ میں ایک صفحہ بھی نہیں پڑھ سکتا.بہر حال ایک دن میں حضرت مسیح موعود کے الہامات کی کتاب (تذکرہ ) رہا تھا کہ ایک جگہ مجھے آپ کی یہ تحریر نظر آئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ میرے ماننے والے بڑھنے شروع ہوں گے اور وہ تمام دنیا میں پھیل جائیں گے اور وہ اس قدر ترقی کریں گے کہ دوسرے تدا جب یعنی عیسائیت ہندومت اور بدھ مت وغیرہ کے ماننے والے میری جماعت کے مقابلہ میں چھوٹے چھوٹے گروہ بن کر رہ جائیں گے.پس پچاس ساٹھ ہزار لوگ جو ہر سال میری زیارت اور میری باتیں سننے کے لئے مرکز میں آتے ہیں ان لوگوں کے مقابلہ میں جو آئندہ ہمارے مرکز میں بانی جماعت احمدیہ سے عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے آئیں گے کچھ بھی نہیں.پس میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ لوگ خدا تعالے کے ہاتھ میں ایک آلہ بن جائیں گے اور اس کی تعلیمات کو اس ملک میں پھیلائیں گے.اور یہ بات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آپ لوگ اپنے آپ کو منظم نہیں کر لیتے یہ بات یاد رکھو کہ خدا تعالے کی تمام برکات اطاعت اور تنظیم سے وابستہ ہیں، آپ لوگ ابھی تک اسلام کی تعلیمات سے ناواقف ہیں لیکن یہ ناواقفیت ان مبلغین کے ذریعہ سے ہو ہم یہاں بھیجیں گے انشاء اللہ جلد دور ہو جائے گی.دنیا نے کوشش کی کہ وہ موسی اور عیبی اور دوسرے انبیاء علیہم السّلام) کو ناکام بنا دے لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہی.دنیا نے ہٹلر کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب ہوگئی کیونکہ خدا تعالے کی تائید اس کے ساتھ نہ منفی اگر خدا تعالے اس کے ساتھ ہوتا تو
۵۳۹ وہ ضرور روس اور امریکہ کی فوجوں کو تباہ کر دیتا اور اس کو فتح عطا کر تا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ نصرت حاصل نہیں ہوئی اس لئے ثابت ہو گیا کہ میلہ موسیٰ اور عیسی (علیہم السّلام) کی طرح خدا تعالے کے برگزیدہ انسانوں میں سے نہ تھا.اگر ہٹلر جیسا انسان ان لوگوں کو منظم کر سکتا ہے تو تم جو ایک سچے مذہب کے ماننے والے ہو کیوں منظم نہیں ہو سکتے اگر تم ایسا نہیں کرتے تو یہ تمہاری اپنی غلطی ہے.بیس اس موقعہ سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے آپ کو منظم کرو تم اپنے میں سے مختلف ممبروں کو مال تعلیم - استقبال اور غربلہ کی خیر گیری کے لئے انتخاب کرو اور یہ نہ خیال کرو کہ تم تھوڑے ہو تم پر بھی ضروری فرائض عائد ہوتے ہیں جو کثیر التعداد افراد پر عائد ہوا کرتے ہیں.مرکز میں ہمارے پاس ہر روز کثرت کے ساتھ مہمان آتے رہتے ہیں جن کا کھاتا اور رہائش کا انتظام جماعت کرتی ہے اس طرح دو سو سے زائد بیوگان اور یتیم بیچتے ہیں جن کا تمام خرچ جائت برداشت کرتی ہے.اس وقت تم دنیا کے سب سے بڑے ملک امریکہ میں بھی یہ نہیں پاؤ گے کہ وہاں غرباء کو مفت تعلیم دی جاتی ہو جیسا کہ ہمارے ہاں دی جاتی ہوتی ہے.ابھی مجھے ربوہ سے اطلاع ملی ہے کہ اسال یونیورسٹی کے امتحانات کے نتائج صرف ۲۲ فیصد ہی نکلے.لیکن ہمارے ربوہ کی لڑکیوں کے کالج (جامعہ نصرت کا نتیجہ ۶۳ فیصد ہی رہا اور ان پاس ہوتے والی طالبات میں سے اکثر وہ ہیں جیوں کی فیسیں ہر ماہ میں خود ادا کر تا تھا وہ کالج کی فیسیں جہیا نہیں کر سکتی تھیں.لیکن ہم نے ان کے اخراجات کو برداشت کیا اور اس طرح عورتوں کی تعلیم کو ترقی دی اس سے پہلے قادیان ایک وقت میں عورتوں کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز تھا.وہاں پر کل تعلیم کا باسٹھ فیصد ہی تھا.لڑکوں کی تعلیم کا تناسب نوے فیصدی تھا.اور عورتوں کی تعلیم کا انتاسب سو فیصدی تھا.لوگ کہتے ہیں کہ کوئی قوم پردہ میں ترقی نہیں کر سکتی.لیکن ہماری طرف دیکھو کہ ہماری بچیوں کو جو عورتیں پڑھاتی ہیں وہ بھی پردہ کی پابند ہیں.خود میری اپنی بیوی کالج کی پرنسپل ہے وہ عربی میں ایم اے ہے اور وہ اس کام کا کچھ معاوضہ نہیں لیتی لیکن وہ خود بھی پردہ کرتی ہیں اور لڑکیاں بھی ہر وہ میں رہتی ہیں.اگر ضرورت کے موقعہ پر کالج میں بعض مرد تعلیم کے لئے لگائے جاتے ہیں تو وہ بھی پردہ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھاتے ہیں اور لڑکیاں بھی پردہ میں ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود یونیورسٹی کے
۵۴۰ ۲۲ فیصدی نتائج کے مقابل میں ان کا نتیجہ ۶۳ فیصدی ہے حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی عورتیں پختہ ارادہ اور عزم کر لیں گی وہ علم حاصل کرلیں گی.اور دنیا کو دکھا دیں گی کہ پردہ میں کرہ کر بھی ہر چیز حاصل کی جا سکتی ہے.بعض بڑے بڑے کالج ہیں جن کی گورنمنٹ مدد کرتی ہے اور جن میں امریکہ اور لنڈن وغیر سے آئے ہوئے پر و فیسر پڑھاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا نتیجہ صرف ۲۲ فیصد ہی ہے.لیکن ہماری عورتوں کے نتائج تریسٹھ فیصدی ہیں اور یہ چیز صرف عزم اور عملی عروج کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اگر تم بھی مشکلات پر عبور کر دینے کے لئے پختہ عزم کر لو تو تم لوگوں کو یہ بتا سکتے ہو کہ اسلامی قوانین تہ تی حاصل کرنے میں روک نہیں ہیں.تم میں بعض ایسے نوجوان ہیں جن کے چہرے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اسلام سے محبت رکھتے ہیں.پس تم پہلے پختہ ارادہ کرو کہ تم اسلامی تعلیم پر عمل کرو گے اور پھر کوئی ایسا آدمی تلاش کرو جو تمہ میں سیدھے راستہ کی طرف چلائے اور اگر کوئی شخص تمہاری اور تمہار بھائیوں کی راہنمائی کرے گا تو تم بھی اسی طرح کامیابی حاصل کر لو گے جس طرح ہماری جماعت کی لڑکیاں کامیاب ہوئی ہیں.پس اپنے دلوں میں تبدیلی پیدا کرو تاکہ خدا تعالے تمہارے حالات میں بھی تبدیلی پیدا کر سے تمہارے حالات تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ ان کا انحصار تمہارے دل پہنچے اگر تم اپنے دلوں میں تغیر پیدا کر لو تو یقیناً خدا تعالیٰ کی مدد تمہارے پاس آئے گی اور غم کا میابی حاصل کر لو گے تم سے جدا ہوتے ہوئے میں آخری بار تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دلوں سے شکستی کو دور کرو اور پر دم کر لو کہ تم سچائی کو دنیا میں پھیلا دو گے اور اس کو ہر انسان کے دل اور دماغ میں ڈال دو گے گر اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھو گے جب تک تم اس کام کو سرانجام نہ دو گے.خدا تعالے تمہاری بھی مدد کرے اور میری بھی.اگر چہ میں کمزور ہوں اور بیماری کی وجہ سے میری قوت یاد داشت کافی حد تک اثر پذیر ہے.تاہم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں جس قدر میری زندگی باقی ہے اس میں سچائی کی اشاعت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کر سکوں اور میری موت اس گھوڑے کی طرح نہ ہو جو اپنی گاڑی کے آگے گیر پڑتا ہے بلکہ اس گھوڑے کی طرح ہو جو آخری وقت تک اپنے کام کو کرنا چلا جاتا اور گاڑی کو اپنی منزل کی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے.
میں دلی طور پر چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے ایسی بیماری سے محفوظ رکھے جو مجھے ناکارہ کم دے تاکہ میں اپنے آخری سانس تک انسانیت کی خدمت کرتا چلا جاؤں اپلے فصل سوم ہالینڈ سے لنڈن میں تشریف آوری لنڈن میں حضور کی زیر صدارت مبلغین اسلام کی عالمی کانفرنس مالٹا کے ایک انجنیر کا قبول اسلام جماعت احمدیہ نائیجیریا کی عقیدت سفر یورپ سے مراجعت اور مرکز احمدیت ربوہ میں حضور کی آمدا ور فقید المثال استقبال ہالینڈ سے روانگی اور لندن میں حضور مع اہل بیت و خدام بیگ سے بخیر بیت ۳ جولائی کو لنڈن پہنچے.مقامی جماعت کے مخلص احباب امام تشریف آوری مسجد لنڈن مولود احمد خان صاحب کی قیادت میں بندرگاہ پر موجود تھے جنہوں نے حضور کا پر تپاک خیر مقدم کیا حضور کے قافلہ نے بندرگاہ سے مسجد احمدیہ لندن تک کا فاصلہ چھ کا روں میں طے کیا.مسجد احمدیہ میں بھی احباب حضور کے استقبال کے لئے منتظر تھے جنہیں حضور نے شرف مصافحہ بخشا.ہے.روزنامہ " الفضل گریوه 19 اگست ۵ مترم
۵۴۲ ایڈیٹر صاحب الفضل" کے نام مکتوب ایک طویل سفرکی وجہ سے حضور کی طبیعت لندن کے ابتدائی ایا میر قیام میں بہت ناساز رہی جس کی تفصیل حضور نے درج ذیل مکتوب میں تحریر فرمائی جو آپ نے شیخ روشن دین صاحب تنویر ایڈیٹر الفضل کے نام تحریہ فرمایا تھا مکرمی ایڈیٹر صاحب الفضل : السلام عليكم ورحمة الله و بركانه - انگلستان اگر پہلے طبیعت خراب ہو گئی تھی.مگر آہستہ آہستہ اب ٹھیک ہو رہی ہے مگر شدید نزلہ اور کھانسی جو شروع ہوئے تھے ابھی تک جاری میں گو چکی کی طرف مائل ہیں.شکر ہے کہ کچھ دیسی دوائیں جن سے مجھے فائدہ ہوتا تھا.لنڈن میں مجھے مل گئیں اور کچھ نزلہ اور کھانسی کے جوشاند سے خدمت خلق سے لیکر، اختر صاحب نے لنڈن بھجوا دیئے ہیں ابھی ملے نہیں.میں گے تو ان کا استعمال کریں گے.آج ۱۳ اور ہم ار جولائی کے درمیان میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کمرہ گرم کرنے کی انگیٹھی ہے جیسی کہ ہندوستان میں مکانوں میں ہوتی ہے.صاف ہے دیر سے اس میں آگ نہیں جلی اور اس کو صاف کر لیا گیا ہے شاید ہی مطلب ہے کہ ہندوستان میں آج کل سخت گرمی ہے اور چھے نہینے های انگیٹھیوں میں الگ نہیں ملتی.اس انگیٹھی پر میرا کوئی پوتا یا نواسہ پیٹ کے بل لیٹا ہوا ہے.میں نے اپنے کسی بچہ کا بچہ اسے سمجھا اور ا سے آواز دی کہ ادھر آؤ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ بچہ تو ابھی بہت چھوٹا ہے یہ جواب کی طرح دے گا اور آئے گا.پھر معا خیال آیا کہ یہ میرے بڑ کے انور احمد کا بچہ احسن احمد ہے میری آوازہ سن کر اُس نے اپنی ٹانگیں ٹیڑھی کر کے زمین پر رکھ لیں اور پھر میرے پاس آگیا اور میں نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا.شاید اس خواب کی یہ تعمیر ہو کہ میرے کسی اور بچہ کے ہاں لڑکا ہو.یا احسن کے لفظ سے یہ تعبیر ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے کامل صحت سختے اور اس کے فضل سے بعید نہیں ہے والسلام مرزا محمود احمد سے وہاں خلیفة المسیح الثانی حال لنڈن ۱۴۵ لنڈن میں مبلغین اسلام کی عالمی کانفرنس لندن میں حضور کا سب سے اہم کارنامہ ۲۲ تا ۲۴ ر جولائی ۱۹۵۵ء وہ عظیم الشان تبلیغی کا نفرنس ہے جو له روزنامه الفضل ریوه ۲۱ جولائی ۹۵۵ و ما
۵۴۳ تاریخ اسلام میں ایک انقلاب انگیز سنگ میل کی حیثیت سے کبھی فراموش نہیں کی جا سکے گی اور جس کے نتیجے میں تغیر اسلامی دنیا میں تبلیغ کا ایک نیا دور شروع ہوا.کانفرنس | غیر معمولی اہمیت کے باعث حضور نے کانفرنس شروع ہونے سے ایک دن پہلے مندرجہ ذیل یہ قبیہ کے ذریعہ تمام احمدیوں کو دعائے خاص کی تحریک فرمائی.پٹنی - (لندن) ۲۱ جولائی.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد کی پہلی تری دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے لنڈن میں ایک نہایت اہم اور عظیم الشان کا نفرنس شروع ہو رہی ہے.کانفرنس میں امریکہ.غرب الہند افریقہ اور یورپ کے قریباً تمام اہم ممالک میں متعین احمدی مبلغین شامل ہوں گے.۲۲ جولائی سے چودھری محمد ظفر اللہ خان بھی اس کا نفرنس میں شامل ہو رہے ہیں دوست کا نفرنس کی نمایاں اور اس کے وسیع ترین کامیاب نتائج کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور درد دل ا خلیفہ اسی ان سے دعا کریں.اس کا نفرنس کا فیصلہ در اصل حضور نے زیورچ میں ہی وسط جون کے قریب کر لیا تھا.چنانچہ یورپ امریکہ اور نائیجیریا کے مبلغین کو وہاں سے ایجینٹا بمعہ ایک سوالنامہ کے بھجوا دیا گیا تھا تا سب اپنے اپنے ہاں دوسرے مبلغوں اور جماعتوں سے مشورہ کر کے پوری تیاری کے ساتھ کانفرنس میں شامل ہوں.اس کا نفرنس کے پانچ اجلاس ہوئے اور سب میں حضور نے شرکت فرمائی.کانفرنس میں ایک ایک ملک کی رپورٹ کو لے کر سبحث و تمحیص کی گئی.موجودہ مشنوں کی مضبوطی اور ترقی.اسلامی لٹریچر کی تیاری اور اشاعت اور نئی مساجد کی تعمیر کے متعلق اہم فیصلہ جات کئے گئے.سیدنا حضرت المصلح الموعود یکمال شفقت ایک ایک تجویز کے متعلق راہنمائی اور ہدایات دیتے رہے.کانفرنس کے موقعہ پر آنے والے مبلغین الگ بھی حضرت اقدس سے ملتے رہے اور اپنی مشکلات پیش کر کے راہ نمائی حاصل کرتے رہے یہ سکے نه روزنامه " الفصل "ریده ۲۲ جولائی ۶۱۹۵۵ مت.ہے.روزنامہ " الفصل " ربع مورخه ۴ از اکتوبر ۱۹ م کالم را -
۵ ۴۴ ۴ کانفرنس کے کامیاب اختتام پر اخبار المفضلی نے اپنی اور جودان شاد کی بات ۳۷ اساسات میں کا نفرنس کے اختتام پر درج ذیل الفاظ میں اخبار الفضل میں فضل خیر منتقل خبر شائع کی : :.لنڈن میں دنیا بھر کے بر اعظموں کے مبلغین اسلام کی جو تاریخی کا نفرنس سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کی نگرانی میں ہو رہی تھی وہ ۲۴ جولائی کو نہایت کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی.کانفرنس میں یورپ، امریکہ اور افریقہ میں تبلیغی مساعی کو تیز کرنے اور اسلامی لٹریچر کی وسیع اشاعت کے متعلق نہایت اہم اور دور رس فیصلے کئے گئے اس موقعہ پر تمام نمائندگان نے حضور کی ہدایت کے ماتحت اپنی زندگیوں کو اسلام کے لئے وقف کرنے کا از سر نو عہد کیا.آمدہ بہ قبوں کا مکمل ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے :- لنڈن ۲۳ جولائی (آٹھ بج کر اٹھارہ منٹ شب) دنیا کے تمام بر اعظموں سے آنے والے مبلغین اسلام کی کانفرنس کے اجلاس گذشتہ دو روز کامیابی کے ساتھ ہوتے رہے والْحَمْد لله ).حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے نے دونوں روز صبح اور شام کے اجلاسوں میں شرکت فرمائی اور ضروری ہدایات سے سرفراز فرمایا.چودھری ظفر اللہ خانصاحب نے بھی یورپ اور افریقہ میں تبلیغ اسلام - اسلامی لٹریچر کی اشاعت اور تعلیمی اسکیموں سے تعلق بحث میں حصہ لیا.کل کے اجلاس میں تیر اعظم امریکہ میں تبلیغی مساعی کو وسعت دینے کے علاوہ دیگر اہم امور کے متعلق بھی غور خوض ہوگا.مشتاق احمد باجوہ ، لنڈن ۲۴ جولائی.اسی کہ ۱۸ منٹ نشب ) " آج بعد دو پہر مبلغین اسلام کی کانفرنس بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوگئی.افریقہ اور مغربی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کو تیز سے تیز تر کرنے کے لئے ضروری ذرائع فراہم کرنے کے متعلق آخری رپورٹ کافی بحث و تمحیص کے بعد منظور کر لی گئی.ان تجاویز کو جلد عملی جامہ پہنانے کے لئے نہایت اہم اور دور رس قیصلے کئے گئے نیز آئندہ کام کرنے کے متعلق بھی اہم تجاویز منظور کی گئیں کانفرنس کے اختتام پر کارکنوں اور نمائندگان نے از سر تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگیوں کو
۵۴۵ وقف کرنے کا عہد کیا.چوہدری محمد ظفراللہ خانصاحب کانفرنس کے اختتام پر امریکہ روانہ ہو رہے ہیں - رمشتاق احمد باجوه سه اخبار المنیر لائل پور کا تبصرہ پر زور دار تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :- لائل پور ( حال فیصل آباد) کے مشہور مخالف احمدیت ہفت روزہ المنیر نے اس عظیم الشان عالمی کانفرنس کیا ایسی تحریک کو اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے ؟ کیا ایسے منظم ادارے کو خواہ وہ سو فیصدی بد دیانتی پر قائم ہو گدھے اور کتنے کے جلوس نکالنے سے ناکام بنایا جا سکتا ہے ؟ کیا یورپ وایشیا میں ایک پلین کے تحت کام کرنے والے باطل کو کہاوتوں کی پھبتیوں اور استہزا کے فقہوں سے دنیا بدر کیا جا سکتا ہے ؟ ؟ ؟ آئیے ہم آپ کو تازہ صورت حال سے آگاہ کریں.لنڈن ۲۱ جولائی حضرت محمد صلی اللہ علیہ کو تم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لنڈن کا نفرنس کے بعد پہلی مرتبہ دنیابھر و زمانہ کے بعد کل پہلی مرتبہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے لنڈن میں ایک نہایت اہم اور عظیم الشان کانفرنس منعقد ہو رہی ہے کا نفرنس میں امریکہ مغرب الہند افریقہ اور یورپ کے قریباً تمام اہم ممالک میں متعین احمدی مبلغین شامل ہوں گے.۲۲ جولائی سے چودھری محمد ظفر اللہ خانصاحب بھی اس کا نفرنس میں شامل ہو رہے ہیں ؟ ر الفضل ۲۴ جولائی ششر ) اس کے بعد ۲۶ جولائی کے الفضل میں حسب ذیل برقیہ شائع ہوتا ہے :.آج برطانیہ میں دنیا کے تمام بر اعظموں سے آنے والے مبلغین اسلام کی کانفرنس کے پہلے دن کی کاروائی کا میاب طور پر اختتام پذیر ہوئی " الحمد للہ.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے باوجود اس کے کہ طبی مشورے کے لئے ڈاکٹر کے ساتھ وقت مقرر ہو چکا تھا صبح اور شام دونوں اجلاسوں میں کئی گھنٹے تک شرکت فرمائی کا نفرنس کے روز نامہ الفضل ریوه ۲۷ جولائی ۹۵۵ یو مت
میں تمام شنوں کی رپورٹوں پر سیر حاصل بحث کی گئی مغربی ممالک میں اسلام کے پیغام پہنچانے کی تجاویز کے علاوہ کا نفرنس میں تمام دنیا میں وسیع پیمانہ پر اسلامی لٹریچر کی اشاعت بعض سنئے مقامات پر مساجد کی تعمیر نئے مشنوں کا قیام اور موجودہ مشنوں کی توسیع کے متعلق غور و خوض کیا گیا.آخری اطلاع ۲۲ جولائی کے بعد ۱۲۳ اور ۲۴ جولائی کے حسب ذیل دو تار ملاحظہ ہو رلندن ۲۳ جولائی نشہ آٹھ بجکر اٹھارہ منٹ شب ) دنیا کے تمام بر اعظموں سے آنے والے مبلغین اسلام کی کانفرنس کے اجلاس گذشتہ دو روز کامیابی کے ساتھ ہوتے رہے.الحمد للہ.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے دونوں روز صبح اور شام کے اجلاسوں میں شرکت فرمائی اور ضروری ہدایات سے سرفراز فرمایا.چودھری ظفر اللہ خانصاحب نے بھی یورپ اور افریقہ میں تبلیغ اسلام اسلامی لٹریچر کی اشاعت اور تعلیمی اسکیموں سے متعلق بحث میں حصہ لیا کل کے اجلاس میں ہر اعظم امریکہ میں تبلیغی مساعی کو وسعت دینے کے علاوہ دو اہم امور کے متعلق بھی غور و خوض ہوگا.النڈن ۲۴ جولائی ۱۲ بیچ کر اٹھارہ منٹ شب ) آج بعد دوپہر مبلغین اسلام کی کا نفرنس بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوگئی.افریقہ اور مغربی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کو تیز سے تیز تر کرنے کے لئے ضروری ذرائع فراہم کرنے کے متعلق آخری رپورٹ کافی بحث تمحیص کے بعد منظور کر لی گئی.ان تجاویز کو جلد عملی جامہ پہنانے کے لئے نہایت اہم اور دور رس فیصلے کئے گئے.نیز آئندہ کام کرنے کے متعلق بھی اہم تجاویز منظور کی گئیں کا نفرنس کے اختتام پر کارکنوں اور نمائندگان نے از سر نو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کرنے کا عہد کیا.چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کا نفرنس کے اختتام پر امریکہ روانہ ہو رہے ہیں.اس پروگرام کو کی جذبات کے ساتھ اپنا نے کا عزم ہے.الفضل ۲۰ جولائی ششہ میں وکیل المال تحریک جدید ربوہ کا ایک اعلان شائع ہوتا ہے جس کی سرخی مد ہے اس
احمدیہ جماعت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کا وقت آگیا " خدا تعالیٰ ہمارے لئے وہ دن قریب سے قریب تر لانا چاہتا ہے جب ہم نے اسلام کی لڑائی کو اس کے اختتام اور کامیاب اختتام تک پہنچاتا ہے اب کسی ایک ملک یا دو ملکوں کا سوال نہیں.ایک مبلغ یا دو مبلغوں کا سوال نہیں اب سر دھڑ کی بازی لگانے کا سوال ہے.یا کفر جیتے گا اور ہم مریں گے یا گھر مرے گا اور ہم جیتیں گے درمیان میں اب بات نہیں رہ سکتی " لمی فشكرته ! خدا را غور کیجئے کتنی دور رس سکیم ہے.تمام دنیا میں وسیع پیمانہ پر اسلامی لٹریچر کی اشاعت ایک ایسی شق کو سامنے رکھیے اور بتلائیے کہ آپ کی یہ شور و غل بپا کرنے والی جماعتیں اس کا توڑ کیا مہیا کر رہی ہیں ؟ اور جیسی معیاری تقاریہ ہمارے ہاں قادیانیوں کے خلاف کی جا رہی ہیں کیا وہ اس منصوبہ بندی کا توڑ ہو سکتی ہیں.خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کام کا جواب نعروں سے ؟ مسلسل جد وجہد کا توڑ اشتعال انگیزی سے.علمی سطح پر مساعی کو ناکام بنانے کا داعیہ صرف پھیتیوں ، بے ہو وہ جلوسوں ، اور نا کارہ ہنگاموں سے پورا نہیں ہو سکتا.اس کے لئے جب تک وہ انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے فکری اور عملی تقاضے پورے ہوں ہنگامہ خیزی کا نتیجہ وہی بر آمد ہو گا جس پر مرزا صاحب کا الہام اني ممين من اراد اهانتك صادق آئے گا.جو لوگ اس طرز پر مثبت کام نہیں کر سکتے وہ قادیانی تحریک کے صحیح حامی اور مددگار ہیں وہ اس نہج پر جتنا کام کریں گے اس سے یہ تحریک تقویت حاصل کرے گی رات حضرت مصلح موعود کا پر شوکت اعلان اس جگہ یہ بتانا ضروری ہے کہ اخبار المنیر نے پر ! اپنے تبصرہ میں وکیل المال کا جو اقتباس درج کیا ہے.وہ دراصل حضرت مصلح موعود کے خطبہ جمعہ ۱۳۰ نومیران شاہ سے ماخوذ ہے ، حضور کا یہ خطبہ تحریک جدید سے متعلق تھا جس میں آپ نے اس عالمی تحریک کا پس منظر بیان کر کے نہایت پر شوکت انداز میں فرمایا تھا :- آج میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اٹھارہ یا انیس سال کا کوئی سوال نہیں ہم نے لے ہفت روزہ المنیر لائل پور (حال فیصل آباد) راگست ۹۵۵ منار هم د ۱۱
۵۴۸ تمام دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنی ہے اور یہ کام ہم سے ہماری دائمی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے.اس وقت مغرب میں بھی ہمارے مبلغ موجود ہیں اور مشرق میں بھی.شمال میں بھی ہمارے مبلغ موجود ہیں اور جنوب میں بھی.آج ہر ملک اور سہر قوم میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا گاڑا جا رہا ہے.ابھی ہمارے مبلغ تھوڑے ہیں اور ہمیں بار بار ان کو مدد بھجوائی پیڑ نے گی.اسی طرح جس طرح شام اور ایران کے اسلامی لشکروں کو کمک کی ضرورت پڑتی تھی ایران میں جب مسلمانوں کو ایک جنگ میں شکست ہوئی تو اس وقت مدینہ میں مزید فوج بھیجوانے کے لئے اعلان کیا گیا.مگر مدینہ اور اس کے نواح میں کوئی فوج نہیں تھی.جو مسلمانوں کی مدد کے لئے بھجوائی جاتی.یہی کیفیت اس وقت ہماری ہو گی ہمیں بھی اس طرح جس طرح ایک بھٹیارہ پتے اور سوکھی شاخیں اپنی بھٹی میں جھونکتا چلا جاتا ہے اسلام کی اشاعت کے لئے متواتر اور مسلسل اپنا روپیہ بھی چھونکنا پڑے گا اپنے آدمی بھی جھونکے پڑیں گے.اپنی کتابیں بھی جھونکنی پڑیں گی.اپنا لٹریچر بھی جھونکنا پڑے گا.اور اس راستہ میں تمہیں کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا پڑے گا.شیطان اپنی کو سی کو آسانی سے نہیں چھوڑ سکتا اس وقت خدا کے تخت پر شیطان ممکن ہے.اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تختہ پر شیطان کے ساتھیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ اسے آسانی سے نہیں چھوڑ سکتے وہ لڑیں گے اور پورے زور کے ساتھ ہمارا مقابلہ کریں گے اور ہم کو بھی اپنا سب کچھ اس راہ میں قربان کر دینا پڑے گا.بہر حال جب یہ چیز واضح ہو جائے اور اس لڑائی کی اہمیت کو انسان سمجھ لے تو اس کے بعد تین یا دس یا انہیں کا سوال کوئی احمق ہی کر سکتا ہے.جب ہم نے یہ تحریک شروع کی تھی اس وقت ہم اس کے نتائج سے ایسے ہی نا واقف تھے جیسے مکہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ و تم سے معاہدہ کرنے والے انصار اپنے معاہدہ کی حقیقت سے ناواقف تھے.جیسے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر اسلام کا شاندار مستقبل ابھی پورے طور پر روشن نہیں ہوا تھا اسی طرح ہم پر بھی اس تحریک کا مستقبل اس وقت روشن نہیں ہوا.پس میں نے تم سے اس طرح وعدہ لیا جس طرح انصار سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے وعدہ لیا تھا.اور تم نے اس طرح اقرار کیا جس طرح انصا نے معاہدہ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اقرار کیا تھا.لیکن جب زمانہ نے پردے اُٹھا دیئے.قدرت نے انکشاف کر دیا تو نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ وعدہ رہا اور
۵۴۹ نہ انصار کا معاہدہ معاہدہ رہا.آپ دنیا ہی بدل چکی تھی.آب ساری دنیا کو فتح کرنے کا سوال تھا.آپ ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کا سوال تھا.اب مدینہ کے اندریا مدینہ سے باہر کا کوئی سوال نہ تھا.آپ ہر جگہ یہ لڑائی لڑی جانے والی تھی.اس طرح اب ہمارے لئے یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے لئے وہ دن قریب سے قریب تر لانا چا ہتا ہے.جب ہم نے اسلام کی لڑائی کو اس کے اختتام اور کامیاب اختتام تک پہونچانا ہے آپ کسی ایک ملک یا دو ملکوں کا سوال نہیں.اب کسی ایک مبلغ یاد و مبلغوں کا سوال نہیں اب سر دھڑ کی بازی لگانے کا سوال ہے یا کفر جیتے گا اور ہم مریں گے یا کفر مرے گا اور ہم جیتیں گے ہے مالٹا کے ایک انجنیر نے جو لنڈن میں مقیم تھے.مالٹا کے ایک انجنیئر کا قبول اسلام ۲۷ جولان کوستی ناحضرت مصلح موعود کے ست مبارک پر اسلام قبول کیا.اس طرح مالٹا میں بھی جماعت احمدیہ کی بنیاد پڑ گئی لیے مورخہ ۲۹ جولائی ۱۹۵۵ء ۲۹ جولائی کو حضور نے جماعت کے نام عید الاضحیہ پندرھواں پیغام موریشی در وجود الفت صبح کے موقعہ پر مبارک باد کا پیغام دیا جو اس سفر کر ۲۹ منٹ کے اعتبار سے پندرھواں اور آخری پیغام تھا.اور اس کے الفاظ یہ تھے :- تمام بھائیوں کو عید الا ضحیہ مبارک ہو میری صحت بفضلہ ترقی کر رہی ہے لیکن قدرے بیماری ابھی باقی ہے.احباب دردِ دل کے ساتھ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالٰی ہمیں وہ حقیقی عید کا دن بھی دکھائے جبکہ تمام مذاہب پر اسلام کو فتح نصیب ہو گی پاتے ۳۰ جولائی کو حضور نے لندن میں نماز عید الاضحیہ پڑھائی اور ایک لطیف خطبه عيد الاضحيه ا خطبہ ارشاد فرمایا.اس خطہ میں حضور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے واقعہ کا ذکر فرمایا اور اسلام میں یہ قربانی جو اہمیت رکھتی ہے.اس کی تشریح کی حضور نے مغربی اقوام کو تلقین فرمائی کہ وہ بھی ان برگزیدہ ہستیوں کی طرح خدا تعالیٰ کی خاطر اور دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے اپنے آپ کو ه روزنامه الفضل ربوه ۱۴ دسمبر ۱۹۵۱ء ص - ش ہے.الفضل کے یوں ۳۱ جولائی ۱۹۵۶ء صاب ۳ " الفضل" ۳ ر اگست ۹۵ء من ۱۹۵۵
۵۵۰ وقف کر دیں.حضور نے اسلام کی یقینی اور قطعی فتح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.ایک دن ضرور آئے گا جبکہ آسمان پر صرف ایک خدا اور زمین پر صرف ایک قوم ہوگی.عید کی تقریب میں تقریبا پانچ صد اصحاب شامل ہوئے.جہانوں میں ارجنٹائی.ہیٹی اور چلی کے سفراء - لندن کے مقامی مسیر سر فرینک براؤون اور دیگر بعض اہم شخصیتیں مثالی سپریچولسٹ ڈیسمنڈ نٹا خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آخر میں امام مسجد لندن مولو د احمد خان صاحب نے تمام جہانوں کا شکریہ ادا کیا اور حضور کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضور کے میار کی عظیم اور روح پرور وجود کی وجہ سے اس تقریب کی برکات میں بہت اضافہ ہو گیا ہے راست عید کے بعد ڈسمنڈ شا کی ملاقات حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :- میں جب انگلستان اپنے علاج کے لئے گیا تو عید کی تقریب پر ڈسمنڈ شابھی آیا.جب میں واپس گھر کی طرف آیا.اور اندر داخل ہونے لگا.تو مجھے اپنے پیچھے کی طرف سے آہٹ آئی.میں نے مڑ کر دیکھا.تو ڈسمنڈ شا آرہا تھا میں نے کہا تم تو رخصت ہو گئے تھے کہنے لگا میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا تھا.میں نے چاہا کہ آپ سے پوچھ لوں.میں نے کہا پوچھو.کیا سوال ہے.کہنے لگا جب میں یہ تقریر کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے امن پسند نبی ہیں.تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری زبان سے خدا بول رہا ہے.مگر لوگوں پر اثر نہیں ہوتا.میں نے کہا ڈسمنڈ تا خدا جب بولتا ہے تو دل میں بولتا ہے.اور تم لوگوں کے کان میں بولتے ہو.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کان سے من کہ دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں.جس دن خدا لوگوں کے دلوں میں بھی بولا ان پر بھی اثر ہو جائے گا.وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا معلوم ہوتا ہے بات یہی ہے کہیں نے کہا تم انتظار کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگو کہ جب تم بولا کرو.تو خدا تعالیٰ صرف تمہاری زبان سے نہ بولے.بلکہ لوگوں کے دلوں میں بھی بولے ، جس دن وہ لوگوں کے دلوں میں بھی بولنے لگے گا.لمبی چوڑی تقریروں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی.سارا یوروپ ه روز نامه" الفصل " دیوه ۳ اگست ۹۵۵اء من
اده تمہاری بات ماننے لگ جائے گا مطلع جماعت احمید نائیجیریا کے نمائندہ وفد کی ملاق ۴ ر اگست کو جماعت احمدیه نائیجر با مغربی افریقی) کا ایک نمائندہ وفد حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا جو مسٹر عبدالغفور کلور A.KuKu وائس پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ نائیجریا اور جناب نسیم سیفی صاحب مبلغ مغربی افریقہ وایڈیٹر اخبار ٹروتھ ( TRUTH) پر مشتمل تھا.مسٹر کونے کھڑے ہو کر نہایت بے تابی کے ساتھ حضور کی خدمت میں اپنے جذبات عقیدت پیش کئے اور عرض کیا کہ حضور ہمارے روحانی باپ ہیں اور ہم حضور کے پیچھے ہیں ہماری شدید خواہش ہے کہ حضور نائیجیریا تشریف لائیں اور اپنے روحانی بچوں کو اپنی شفقت و محبت نوازیں.حضور کی بیماری ہمارے لئے باعث تشویش رہی ہے اور ہم حضور کے لئے دعا گو رہے ہیں حضور نے فرمایا کہ بے شک آپ سب میرے روحانی بجتے ہیں اور میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے پاس جاؤں میری صحت اس کی اجازت نہیں دیتی.مسٹر لکو نے عرض کیا کہ میں الفاظ میں اظہار نہیں کر سکتا کہ میں کسی قدر خوش ہوں اور خدا کا شکر گزار ہوں کہ مجھے خود اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ارجمند اور خلیفہ المسیح کو دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی فالحمد لله.اس کے بعد محترم جناب نسیم سیفی صاحب نے جماعت کا مکتوب حضور کی خدمت میں پیش کیا.اس میں یہ بھی تحریر تھا.کہ جماعت نائیجیریا اپنی محبت و عقیدت کی نشانی کے طور پہ نائیجریا کی بنی ہوئی ایک چھڑی حضور کی خدمت میں اپنے نمائندہ کے ذریعہ پیش کرتی ہے، نیز درخواست کرتی ہے کہ حضور جماعت نائیجیریا کو اپنی چھڑی تبر کا مرحمت فرمائیں تا جماعت اس محبت کی نشانی کو محفوظ رکھ سکے حضور نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا.نائیجریا کی چھڑی قبول فرمائی اور اپنی چھڑی مٹر ککو کو عطا فرما دی ، جو انہوں نے کھڑے ہو کر ہاتھ میں لی اور وفور عقیدت کے ساتھ اپنے سینہ سے لگالی.اس وقت اُن پر سرور اور وحید کی ایک عجیب کیفیت طاری تھی اور وہ زبان سے لیے ساختگی کے ساتھ بار بار الحمد للہ کہہ رہے تھے کہیے به.روزنامه " الفضل" ۱۸ اپریل ء - خطبات محمود جلد اول ۳۴ - ناشر فضل عمر فاؤنڈیشن ربوه کے - اخبار" الفضل " ربوه ۱۲ اگست ۱۹۵۵
اس ملاقات کی مستقل یادگار ایک فوٹو بھی ہے جو رسالہ خالد" ربوہ رفتی ۱۹۵۵ء میں چھپا اور جس میں حضور کے ساتھ مسٹر کو بھی موجود ہیں.یہ متبرک چھڑی لیگوس کے احمد یہ مشن ہاؤس میں اب تک محفوظ ہے اور امیر جماعت نائیجریا مختلف، ہم تقاریب پر اُس سے برکت حاصل کرتے اور جلسوں یا معززین سے ملاقات کے وقت استعمال کرتے ہیں • ایڈیٹر ماہنامہ لیٹین ورلڈ (EASTERN WORLD, کی ملاقات د/ اگست کو برطانیہ کے ایک موقر ماہنامہ EASTERN) WORLD کے ایڈیٹر حضور کی ملاقات کے لئے آئے.یہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی اور حضور نے انہیں جماعت احمدیہ کے حالات بتلائے.جن کو سُن کر وہ حد درجہ متاثر ہوئے.وہ اس امر سے حیران تھے کہ کسی طرح حضور کے ذریعہ قلیل وقت میں ایک مہاجر جماعت کا نیا مرکز قائم ہو گیا اور اس میں درس گاہیں اور دفاتر بھی تعمیر ہو گئے اور جماعت از سر نو مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہو گئی ہے اسی روز حضور نے زنجبار کے دو طلبا مسٹر سالم اور مسٹر احمد طلبائے زنجبار کی ملاقا کو شرف ملاقات بنتا جفو نے مختصر طور پر اتحاد اسلامی کے حضور موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا جن کا ان کی طبیعت پر گہرا اثر معلوم ہوتا تھا ہے حضرت اماں جان کے انتقال پر پیغام تعزیت حضور کو لندن میں یہ اطلاع موصول ہوئی کہ حضرت اماں جان حرم حضرت مولانا نورالدین خلیفہ المسیح الاوّل ۶ - اگست ۱۹۵۵ء کی درمیانی شب کو انتقال کر گئی ہیں اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - اس المناک حادثہ پر حضور نے پیغام تعزیت ارسال فرمایا کہ : اماں جی کی خبر سن کر بہت افسوس ہوا تمام خاندان تک میری طرف سے تعزیت کا پیغام پہنچا دیں خدا تعالیٰ اُن کی روح کو بلند درجات عطا فرمائے ان کو صالحہ بیگم صاحبہ ( المیہ میر محمد اسحق صاحب مرحوم) کی قبر کے ساتھ دفن کیا جائے اسے الفضل " ۱۲ اگست ۱۹۵۵ ء م : ۳ " الفضل ".ا ر اگست راء منا
۵۵۳ ایک سوئس کا قبول اسلام ار اگست کو ایک سوکس دوست جن کا نام MR STUDER تھا اور جو حضور کے ہمراہ بطور ڈرائیور سوئٹزرلینڈ سے آئے تھے.حضور کی بیعت کرتے ہوئے اسلام میں داخل ہوئے.جو تو مسلم دوست اپنی حرینی زبان کے علاوہ اطالوی، فرانسیسی اور انگریزی بھی جانتے تھے یہ ناظر اعلیٰ ربوہ کے نام مکتوب اور اسی روز حضور نے مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر واپسی کے پروگرام سے اطلاع ما را علی رتبہ کے نام ایک مکتوب رقم فرمایا میں ناظر کے آخر میں ان الفاظ میں اپنی واپسی کے پروگرام سے اطلاع دی :- ہم اگست تک لنڈن میں نہیں اور ۳۰ اگست تک زیورچ میں.انشاء اللہ پھر ۳ ستمبر تک بیروت اور انشاء اللہ 4 ستمبر کو بیروت سے کراچی جائیں گے.حضرت مصلح موعود کا لنڈن سے ایک ضروری اعلان لنڈن سے سید نا حضرت مصلح موعود نے اعلان فرمایا :- ۱۷ اگست کو ایک برقیہ پیغام کے ذریعے یونکہ ڈاکٹروں نے مجھے مکمل طور پر آرام کرنے کا مشورہ دیا ہے.اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جب تک ڈاکٹر مجھے کام شروع کرنے کا مشورہ نہ دیں اس وقت تک کیلئے میں صدر انجمن احمد یہ ربوہ اور صدر انجمن احمد یہ کراچی کو یہ اختیار دیتا ہوں کہ وہ میرے سجائے کام کرتی رہیں.۲۴ خلیفہ اس قافلہ کی پہلی پارٹی کراچی میں سہور اگست مشاور کو حضورکے مبارک تافل کی پہلی پارٹی بخیر بیت لندن سے کراچی پہنچ گئی.اس پارٹی میں حضرت ام ناصر (حرم اول) اور حضرت ام وسیم (حرم ثانی) کے علاوہ آپ کے بعض صاحبزادگان نیز قریشی عبدالرشید صاحب وکیل التجارت بھی شامل تھے سے له " الفضل" ۱۸ اگست ۱۹۵۵ ء م : له الفضل " ٢٠ راگست ٩٥٥اء من سے - الفضل ۲۸ اگست ۱۹۵۵ء م، سر ستمبر ۱۹۵۷ء ص.
۵۵۴ حضر میں صلح موعود کا ایک عظیم الشان ۱۲۵ اگست شداد کو جاعت احمدیہ انگلستان نے حضور کے اعزانہ میں گر دونر ہاؤس کے وسیع ہال اجتماع سے خطاب میں ایک دعوت کا اہتمام کیا.امام مسجد لندن مولود احمد خانصاحب نے حضور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے تمام اراکین جماعت کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنی زندگی اسلامی اصول کے مطابق ڈھالیں، پاکستانی افراد کو تلقین فرمائی کہ وہ اپنے آپ کو پورے طور پر پاکستان کی وفادار اور دیانتدار رعایا ثابت کریں اور یورپین باشندوں سے فرمایا کہ وہ مادی اسباب کی بجائے خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ دیں.صرف اسی صورت میں اٹیم ہم جیسی خطرناک طاقتیں بھی تباہی و بر بادی کی بجائے امن قائم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں.اس دعوت میں لنڈن کے میر سرفرانس لو.پاکستان کے بہائی کمشنر محمد میرخان اور پارلیمنٹ کے ممبر سر جیول ٹینڈ اور متعدد دیگر ممتاز شخصیتوں نے شرکت کی لیے لنڈن سے کراچی تک حضرت مصلح موعود لنڈن میں ایک ماہ چوبیس دن قیام پذیر رہنے کے بعد ۲۶ اگست کو لنڈن سے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے.۲۷ اگست کو زیورچ میں وارد ہوئے ۲۸ اگست ایک الود اسکی دعوت سے خطاب فرمایا.اور پیشگوئی فرمائی کہ عنقریب وہ وقت آئے گا جبکہ مغربی اقوام اسلام کو قبول کر لیں گی کیے ۲۹ اگست کو ڈاکٹر روز بیئر نے حضور کا آخری معائنہ کیا اور حضور کی صحت کو مکمل طور پر تسلی بخش قرار دیا گیے ۳۱ اگست کو حضور نے زیورچ کے ایک مشہور علمی ادارہ ) FREECS OYCEAM) میں اسلام کی روح اور اس کے بنیادی اصول" کے موضوع پر انگریزی زبان میں ایک بصیرت افروز لیکچر دیا اور پھرہ ستمبر کو بغیریت وارد کراچی ہوئے یہ جو نہی کراچی سے یہ خبر ربوہ پہنچی صدر انجمن احمدیہ اور امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضور کی خدمت میں اہل ربوہ کی طرف سے حسب ذیل تار دیا." ہم حضور کا پر تپاک خیر مقدم کرتے ہیں.اللہ تعالے حضور کی صحت زندگی اور کام میں له الفضل ۲۵ اگست ٩٥٥اء ما ۱۵۵ ه روزنامه الفضل ۳۱ اگست ١٩٥٥ ء ما سے - روزنامه الفضل بیکم ستمبر امت کے روز نامہ الفضل ۷ - ۸ ستمبر له من
برکت دے.اہل ربوہ حضور کی خدمت میں تہہ دل سے مبارک با دعرض کرتے اور دعا کی درخواست کرتے ہیں.مرزا بشیر احمد الله دوشنبہ ہے مبارک دو شنیہ اصل پرو گرام کے مطابق حضورکی کراچی میں واپسی پر ستمبر بروز مشکل مقر یعنی مگر آخری وقت پر کسی ناگزیر تبدیلی کی وجہ سے حضور کراچی میں مقررہ وقت سے ایک دن پہلے ہی یعنی پیر کے روز پہنچ گئے.اس طرح اس سفر پر بھی حضرت مسیح موعود کا پیش گوئی مصلح موعود سے متعلق الہام " دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ کمال صفائی کے ساتھ صادق آگیا.قادیان میں جشن مسرت احمدیت کے دائمی مرکزے.قادیان.میں بھی سید نا حضرت مصلح موعود کی سفر یورپ سے کراچی میں کامیاب اور باعافیت مراجعت کی 4- ار ستمبر ۱۹۵۵ خیرہ ستمبر کو پہنچ گئی جس سے دیار حبیب کے تمام درویشوں میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی اور سب نے خدا کی حمد و ثنا کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مبارکباد دی.طے شدہ پروگرام کے مطابق اسی روز عصر کی نماز کے بعد مغیرہ بہشتی میں تمام درویشوں نے لمبی پر سوز اجتماعی دعا کی.اسی روز رات کے وقت منارہ مسیح کے آٹھوں بجلی کے بڑے بڑے لیمپ روشن کئے گئے جن کی روشنی سارے قادیان کو بقعہ نور بنا رہی تھی.اور تصویری زبان میں مہر دیکھنے والے کو اس امر کی دعوت دے رہی تھی کہ باوجود انقلاب زمانہ کے قادیان کا نور بدستور اکناف عالم میں پھیل رہا ہے اور احمدیت کے دائمی مرکز سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے سامان ہو رہے ہیں.منارہ اسی پر رنگارنگ کی جھنڈیاں الگ اپنی بہار دکھا رہی تھیں.سلسلہ کی مرکز میں عمارات کے علاوہ درویشان کرام نے خاص طور پر اپنے اپنے گھروں پر چراغاں کا انتظام کر رکھا تھا.کہ احمدیہ محلہ کے بازار گلی کوچے نھے ننھے چراغوں سے جگہ کا رہے تھے.اگلے روز یعنی ۷ ستمبر کو اس خوشی میں تمام دفانتر صدر انجین احمدیہ میں تعطیل تھی اور حب اعلان ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے صبح مسجد اقصی میں زیر صدارت حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ امیر مقامی جلسہ تشکر و تہنیت منعقد ہوا جس میں تلاوت قرآن کریم کے بعد چو ہدری محمود احمد سے یہ الفضل کے ستمبر 1920 ء من کالم را جسے " الفضل" ۲۶ ستمبر ۹۵۵ مت -
صاحب مبشر کی تیار کردہ نظم ملک بشیر احمد صاحب ناصر نے خوش الحانی سے سنائی جس میں مبشر صاحہ نے درویشان قادیان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے حضور کی یا صحت و سلامتی کا میاب مراجعت پر مبارکباد پیش کی.پہلی تقریبہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نے فرمائی جس میں آپ نے بیان کیا کہ ہم لوگ کیوں حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی سے محبت رکھتے ہیں اور کیوں محبت رکھنی چاہیئے.اور پھر اس محبت کا کیا تقاضا ہے اور کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے.اس سلسلہ میں آپ نے درویشان کرام کو مقامات مقدسہ میں قیام کی غرض و غایت کما حقہ پورا کرنے اور اپنے تئیں پہلے سے بڑھ چڑھ کر خدمات دینیہ میں منہمک کرنے کی تلقین فرمائی کہ یہی اصل ذرائع ہیں.جن سے حضور کی خوشنودی اور نتیجہ حضور کی بحالی صحت موقوف ہے.ده سری تقریر حضرت حکیم خلیل احمد صاحب ناظر تعلیم و تربیت نے فرمائی.آپ نے اپنی تقریر کے پہلے حصے میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفر یورپ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خود حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے الہامات ، ورؤیا و کشوف اور بڑودہ کے بزرگ کی رویا جو چالیں سال قبل رسالہ صوفی میں شائع ہوئی تھی کا ذکر کر کے بتا یا کہ کس طرح یہ تمام باتیں پوری ہوئیں.تقریر کے دوسرے حصے میں محترم حکیم صاحب نے آیت قرآنى آمَا الذَ بَدُ فَيَذْهَبُ جاؤ اور أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمُلتُ في الأرض کی لطیف تفسیر فرماتے ہوئے ان مخالفتوں کا ذکر فرمایا جو سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد وقتا فوقتا اٹھتی رہیں.اور ہر موقعہ پر خدا کا کلام آما الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء نہایت شان کے ساتھ پورا ہوتا رہا آپ کی یہ تقریر نہایت موثر و مرکل تھی.بعده صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے وہ سپاسنامہ پڑھ کر سنا یا جو درویشان قادیان اور جماعتہائے ہندوستان کی طرف سے سفر یورپ سے کامیاب مراجعت پر بطور تہنیت و درخواست دعا تیار کیا گیا تھا.حاضرین نے اسے سن کر اس سے اتفاق کیا.- اسی قسم کا ایک اور سپاسنامہ مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے تیار کردہ مکرم مولوی محو حفیظ صاحب بقا پوری نے پڑھ کر سنایا اور اراکین مجلس خدام الاحمدیہ نے اس سے اتفاق کیا.
۵۵۷ بعده محترم امیر صاحب مقامی نے صدارتی تقریر میں حضور کے لئے مزید دعاؤں کی تحریک فرمائی اور بالآخر یونس احمد صاحب اسلم نے درثمین سے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا اپنی اولاد کے حق میں دعائیہ منظوم کلام سنایا اور بعدہ جلسہ برخواست ہوا.پروگرام کے مطابق اس روز شام کا کھانا تمام درویشان نے مل کر کھانا تھا.چنانچہ نصرت گرلز سکول ریعنی مرزا گل محمد صاحب کے مکان ) میں بعد عصر مستورات کے اجتماعی کھانے کا انتظام کیا گیا جس میں حلقہ درویشان کی جملہ مستورات اور چھوٹی عمر کے نیچے شریک ہوئے.اس موقعہ پر محترقه سیده امتہ القدوس بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ نے وہ سپاسنامہ بھی پڑھ کر سنایا جو لجنہ کی طرف سے حضور کی خدمت میں پیش کیا جانے والا تھا.بعد میں اجتماعی دعا ہوئی مغرب کی نماز کے بعد صحن بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں جملہ درویشان بھی اجتماعی کھاتے میں شریک ہوئے اس موقعہ پر شہر کے بعض غیر مسلم معززین بھی مدعو تھے.کھانے کے بعد اجتماعی دعا ہوئی اور کے ستمبر کو بھی منارہ مسیح کے آٹھوں بجلی کے لیمپ روشن کئے گئے اور اس طرح جشن مسرت کی یہ تقریب بفضلہ تعالئے سخیر وخوبی اختتام پذیر ہوئی ہے درویشان قادیان کے جذبات حضرت قادیان دارالامان کے درویشوں کا سپاسنامہ خاص طور پر ان جذبات عقیدت و فدائیت کی پوری عکاسی کر رہا تھا جو خدا کے مسیح کی بستی کے اُن عشاق محمود کے قلوب و ارواح میں بحر بیکراں کی طرح موجزن تھے.اس تاریخی سپاسنامہ کا متن یہ تھا :- بحضور امام همام فضل عمر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمداسي الثاني بالتعال منبره العريق بر موقع واپسی سفر یورپ ستید ناد اما منا و مرشد تا اید کم الله منصره العزيني.السلام عليكم ورحمة الله و بركانه هم درویشان قادیان حضور پر نور کی خدمت عالیہ میں سفر یورپ سے مع اہل بیت و خدام واپس تشریف آوری پر مبار کیا عرض کرتے ہیں جب حضور علاج اور صحت کی درستی کے لئے عازم یورپ ہوئے اس وقت حضور کے در ولیش خدام بوجہ حالات کی مجبوری کے خود حاضر خدمت ہو کہ حضور کو رخصت نہ کر سکے.لیکن حضور ے.ہفت روزہ "بدر" قادیان ۴ ار ستمبر ۱۹۵۵ ما
۵۵۸ کی تشویشناک بیماری اور دور دراز سفر کی وجہ سے ہمارے سب کے دل غم اور فکر سے بھرے ہوئے تھے اور اس دوران میں ہم محسن حقیقی اور شانی مطلق خدا کے حضور آپ کے لئے دردمندانہ دعاؤں میں مصروف رہے یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ اس نے جماعت پر جو ابھی کمزور اور ناتوان ہے.بالخصوص اور بنی نوع انسان پر بالعموم رحم فرماتے ہوئے حضور کو صحت عطا فرما کر جلد واپس تشریف لانے کی توفیق بخشی.الحمد للہ.سید نا حضور کا یہ سفر جہاں اور بہت سے فیوض وبرکات کا موجب ہوا ہے وہاں اس سفر میں حضور کے دوبارہ ورود دمشق سے ایک دفعہ پھر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی ہے.نیز علاوہ اور پشگوئیوں کے نواب سید صدر الدین رئیس ریاست بڑودہ کا آج سے چالیں بیالیس سال پیشتر کا خواب لفظی طور پر پورا ہوا ہے جو رسالہ " صوفی " میں شائع شدہ ہے.جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ.ایک صاحب مقر جہاز کی تیاری میں مصروف ہیں اور فرماتے ہیں کہ یورپ جاتا ہوں.علاج کرتا ہے.اور میرا نام عمر بن الخطاب ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے جس طرح حضور کے پہلے سفروں کو با برکت کیا.اور ان کو اسلام اور احمدیت کی ترقی کا باعث بنایا اسی طرح با وجود علالت طبع کے حضور کا یہ سفر بھی ہر طرح سے مفید اور با برکت ثابت ہوا جس میں حضور کو علاوہ یورپ کے ماہرڈاکٹروں سے اپنی علالت کے متعلق طبی مشورہ حاصل کرنے کے مغرب کے تثلیت کدوں میں اسلامی توحید ورسالت کی تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے انتظام کا موقعہ ملا.اور اہل یورپ کے کانوں میں ایک دفعہ پھر حضور کی آواز گونجی میری طرف چلے آئیں طبیب روحانی کہ ان کے دردوں دکھوں کیلئے طبیب ہوں میں امامنا إحضور نے اس سفر میں روانہ ہوتے وقت اعلان فرمایا تھا کہ میں یورپ میں جا کر تیلیغ اسلام کو وسیع کرنے کے لئے ہر موقع تجاویز د انتظامات کروں گا.اور قصہ زمین بر سر زمین طے کروں گا حضور کے اس اعلان کو ہندوستان اور پاکستان کے کئی اخبارات و رسائل نے نقل کیا."
۵۵۹ اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ کاش ! آپ کے سوا کسی اور مسلمان لیڈر کو ایسے پاکیزہ خیالات اور ہمدردی اسلام کے جذبہ کے اظہار کا موقع ملتا.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ باوجود ناسازی طبع کے حضور نے لنڈن میں مبلغین اسلام کی کانفرنسی اپنی صدارت میں منعقد فرما کر تبلیغ و اشاعت اسلام کے متعلق مفید اور کار آمد مشورے دیئے اور یورپ کے موجودہ حالات کو خود مشاہدہ کر کے یورپ و امریکہ میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے اہم فیصلے فرمائے اور اس طرح اللہ تعالے نے حضور کو اپنے نیک ارادہ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق سیخشی.ہم یقین رکھتے ہیں کہ حضور کا جہاد عظیم عنقریب اپنے شیریں پھل لائے گا.اور دنیا جلد ہی مغرب سے آفتاب اسلام کو پوری آب و تاب سے طلوع ہوتے دیکھ لے گی وَاللهُ يَفْعَلُ مَا یرید سیدنا حضور کے سفر یورپ سے پاکستان میں بخیر و عافیت واپسی جہاں ہمارے دلوں میں مسرت و شادمانی کے جذبات موجزن کرنے کا باعث بنی ہے وہاں ہم مہجور درویشان کی یہ تمنا بھی شدت اختیار کر گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کرَآدُكَ إِلَى مَعَادِ کا وعدہ جلد پورا کرے اور حضور پر نور اپنی عظمت اور جلالت شان کے ساتھ تخت گاو رسول میں واپس تشریف لا کہ رونق افروز ہوں اور الدار مسیح موعود علی السلام پھر امن است در مکان محبت سرائے ما " کا منظر پیش کرے وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيز آخر میں ہم خاکساران حضور کی خدمت عالیہ میں مودبانہ عرض کرتے ہیں کہ حضور ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کے ماتحت قادیان میں رہتے اور خدمت دین و مقام تار مقدسہ بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ایسا بیچ بنائے جس کے ذریعہ سے نہ صرف ہند سوتان میں بلکہ تمام دنیا میں اسلام اور احمدیت کے شاندار درخت پیدا ہوں اور ہمیں ہر قسم کی کشتیوں کو تاہیوں اور گناہوں سے بچائے اور مقامات مقدسہ کی اور ہماری ہر طرح سے حفاظت فرما کے آمین حضور کی خدمت اقدس میں یہ بھی گزارش ہے کہ اگرچہ یہ ایڈریس درویشان قادیان کی طرف سے ہے اور بوجہ وقت کی قلت کے دوسری ہندوستانی جماعتوں کو اس میں با قاعدہ شمولیت کے لئے اطلاع نہیں دی جا سکی لیکن مرکزہ قادیان سے وابستہ جمیلہ احباب جماعت احمدیہ ہندوستان حضور کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت میں کسی طرح ہم سے کم نہیں اور وہ ان جذبات
کے اظہار میں ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہیں.والسلام حضور کے ادنی خدام در وایشان قادیان مورفہ اور شمشیری نمائندگان جماعت ہائے احمدیہ پاکستان کا دور ایشان تا دیان کی طرح پاکستان کے احمدیوں کی خوشیوں اور مسرتوں کی کوئی حد خلوص و فدائیت سے لبریز سپاس نامہ نہ رہی تھی اور حضرت مصلح موعود کی سفر یورپ سے مظفر و منصور اور با صحت اور بامراد واپسی سے نہ صرف اُن کے ایمان وعرفان میں زبردست اضافہ ہوا بلکہ وہ نظام خلافت کے پہلے سے بڑھ کر خدائی اور شیدائی بن گئے.اس روحانی انقلاب کی ایک نمایاں ملک اس سپاس نامہ سے عیاں ہوئی جو ستمبر 19ء کو سوا دس بجے صیح احمدیہ مشن ہاؤس کراچی کی نو تعمیر عمارت میں چو ہدری عبداللہ خان صاحب امیر کراچی نے جماعتہا ئے احمدیہ پاکستان کی طرف سے حضور کی خدمت اقدس میں پیش کیا.اس پہ اخلاص و محبت سپاس نامہ کا متن درج ذیل ہے در بسم الله الرحمن الرحيم شهرة وتصلى على رسوله الكريم ستید تا حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی اید کم شد تعالی بصره واطلع شموس طالحکم - السلام علیکم ورحمتہ احمد و میر کانتر دار سید نا ! ہم نمائندگان جماعتہائے احمدیہ پاکستان مغربی و شرقی حضور کی با خیریت و با صحت والیسی پہ اللہ کا ہزار ہزار شکر ادا کرتے ہیں خدائے عرب و حل کا جماعت احمد یہ بچہ یہ بے انتہاء احسان ہے کہ اس نے جماعت کو حضور ایتد کم اللہ تعالیٰ کی بہترین قیادت میں اکناف عالم میں تبلیغ و اشاعت دین کی تو فیق سختی ہے اور وہ اپنے فضل سے اپنے سلسلہ کو دن بدن ترقی عطا فرما رہا ہے الحمد لله على ذالك (۲) سید نا ! پانچ ماہ کا عرصہ گذرا کہ حضور کو علالت کے باعث پاکستان سے باہر بلا د یورپ میں بغرض علاج تشریف لے جانا پڑا جضور کا یہ سفر تمام احمدی افراد کے لئے نہایت قلق و اضطراب کا موجب تھا حضور کے تمام خدام اپنے دل کی گہرائیوں سے ہر لمحہ حضور کی شفایابی کے لئے بارگاہ انہ دی میں سرا پا دعا بنے رہے ہیں جس کا ایک نظارہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو دوران سفر حالت کشف میں بھی دکھایا.الے ہفت روزہ "بدر" قادیان ۱۴ ر ستمبر ۶ مه.
۵۶۱ اور آج جب کہ حضور اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفایابی حاصل کر کے واپس پاکستان تشریف لائے ہیں بساری جماعت کے دل اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لا رہے ہیں.اور ہم تمام جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے حضور کے اس قدوم میمنت لزوم پر خوشی و مسرت کے لئے کراچی میں حاضر ہوئے ہیں.(۳) سید نا ! جماعت نے سر ہر مرحلہ میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار تائیدات کے نشانات مشاہدہ کئے ہیں اور اللہ تعالی کی زمیہ دست نصرت و حمایت کو حضور اید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزنیہ کے لئے کار فرما دیکھا ہے اب اس بیماری میں بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے نشانات و معجزات مشاہدہ کئے ہیں جس سے جماعت کے دلوں میں ازدیاد ایمان ویقین کی ایک تازہ لہر دوڑ گئی ہے اللہ تعالے نے عاجز بندوں کی دعاؤں اور ان کی زار می کوشن کہ ایسے سامان پیدا فرمائے کہ حضور کے مرض کی صحیح تشخیص ہو کہ صحیح طور پر علاج ہو سکا.اور خدائے ارحم الراحمین نے اپنے غیر معمولی فصل سے حضور کو صحت و شفا بخشی وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الشافي الكافي.(لم) سید نا حضور نے اسلام اور جماعت کے لئے جو ان تھک محنت کی ہے اور جس طرح دن رات اس راہ میں اپنے آپ کو قربان کیا ہے جماعت کو اس کا کچھ کچھ اندازہ ہے اب ڈاکٹری مشورہ کے مطابق حضور کو کافی آرام کرنے کی ضرورت ہے ہم حضور کے قدام نہایت ادب سے درخواست کرتے ہیں کہ حضور ڈاکٹری مشورہ کے مطابق پوری طرح آرام فرما ئیں سب جماعتیں حضور کی گراں مایہ صحت کے پیش نظر اقرار کرتی ہیں کہ اپنے جذبات کو ایک حد تک دیا کر بھی حضور کے آرام کے لئے ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد حضور کو کامل صحت عطا فرمائے اور صحت وعافیت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے اور حضور کے عہد مبارک میں اسلام کو بیش از بیش ترقی و نفوذ عطا فرمائے اور جماعت کو حضور کی زیر ہدایت پورے جوش اور پورے خلوص سے کام کرنے کی توفیق بخشے.آمین ثم آمین ه سید تا با حضور کا یہ سفر اللہ تعالیٰ کی بشارت کے ماتحت ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت سے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ اپنے پیارے اور مقرب بندوں کا ہر آن حامی و محافظ ہے.احادیث نبویہ میں دمشق میں نزول مسیح کے ساتھ دو زرد چادروں کا بھی ذکر ہے بے شک حضور کے ۱۹۲۳ء کے سفر دمشق سے یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے مگر واقعات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیشگوئی شه واو کے سفر میں زیادہ نمایاں طور پر اور پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی ہے.
۵۶۲ اس مرتبہ حضور نے پاکستان سے طیارہ میں سفر فرمایا اور پہلی منزل وشق ہی مقرر ہوئی حضور نے دمشق میں طیارہ سے نزول فرمایا اور اس وقت حضور علالت کی وجہ سے تعبیری زبان میں دو زرد چادروں میں ملبوس تھے سو یہ سفر منجملہ دیگر نشانات کے اس عظیم الشان نشان کے ظہور کا بھی موجب ہوا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.(۷) سید نا را به درست ہے کہ حضور کا یہ سفر در حقیقت بغرض علاج تھا مگر واقعات سے یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ یہ سفر الہی مشیت کے مطابق بلاد عربیہ اور بلا د غربیہ میں تبلیغ اسلام کے استحکام کے لئے تھا.حضور نے علالت طبع کے باوجود بلا دعر بیہ اور یورپ کے تمام شنوں کے لئے ہدایات دے کر ان میں ایک نئی روح پیدا فرما دی ہے حضور نے یورپ و امریکہ اور افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے نئی اور موثر سکیم بنانے کے لئے جس تاریخی کانفرنس کا انعقاد فرمایا ہے وہ ہمیشہ کے لئے مشعل راہ ثابت ہو گی.اور انشاء اللہ حضور کی مقرر کردہ لائنوں پر کام کرنے سے اسلام کی اشاعت اور ترقی کے لئے غیر معمولی سامان پیدا ہوتے جائیں گے اسی طرح سید نا حضرت مسیح موجود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی درباره مصلح موعود کا مزید ظہور اس سفر کے ذریعہ سے اللہ تعالے نے فرما دیا ہے اللہ تعالے حضور کی اس جدوجہد میں غیر معمولی برکت پیدا فرمائے اور اسلام کے جھنڈے کو ساری دنیا میں بلند سے بلند تر فرمائے آمین ثم آمین.(6) سید نا ! ہم حضور کے خدام حضور کی اس یا صحت واپسی کو اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان احسان یقین کرتے ہیں اور اسے ایک غیر معمولی نشان الہی سمجھتے ہیں اس لئے اس موقعہ پر ہم صمیم قلب سے حضور کی اس با صحت واپسی پر حضور کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور خدائے بزرگ ویزتر کے آستانه پر شکر گزار اور درمندانہ دلوں کے ساتھ اس نعمت میں مزید اضافہ کے لئے دست بدعا ہیں اللہ تعالیٰ حضور کو کامیاب ترین اور پوری صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے اور ہمارے سروں پر حضور کا سایہ لمبے عرصہ تک قائم رکھے اللهُمَّ مَتِّعْنَا بِطُولِ حَيَاةِ اِمَامِ الْهُمَامِ وَ ايدة وانصره نَصْرًا عَظِيمًا اللَّهُمْ آمِين - ہم ہیں حضور کے خدام نمائندگان جماعت ہائے احمدیہ پاکستان
۵۶۳ (1) ڈاکٹر عبد الصمد خان نمائندہ مشرقی پاکستان (۲) بدیع الزمان نمائندہ مشرقی پاکستان.(۳) قاضی محمد یوسف امیر جماعت ہائے صوبہ سرحد - (۴) محمد رفیع صوفی امیر جماعتہائے اپر سندھ (۵) احمد الدین امیر جماعت ہائے لوئر سندھ.(۶) - مرزا عبدالحق امیر جماعت ہائے صوبہ پنجاب.(۷) شیخ کریم بخش امیر جماعت ہائے احمدیہ بلوچستان.(۸).چودھری عبدالله خان امیر جماعت احمدیه کراچی - - (۹) هر زار بیز احمد نمائنده صدر انجمن احمدیہ پاکستان دو تحریک جدید به حضر م یصلح موعود کی بصیرت افروز تقریر ایڈریس پڑھے جانے کے بعد حضور نے جو بصیرت افروز تقریر فرمائی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ میں ان تمام جماعتوں کے لئے دعا کہتا ہوں جن کے نمائندے اس وقت کراچی میں تشریف لائے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کا حافظ و ناصر ہو چونکہ یہ ایک اہم موقعہ ہے اس لئے میں اس وقت کچھ ضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں جو ان ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق ہیں جنہوں نے وہاں مجھے دیکھا ہے.ڈاکٹر روسٹی جن کا علاج تھا انہوں نے مجھے ایک بات کہی ہے یوں تو یورپ کے بعض دوسرے ممالک میں اور بھی کئی ڈاکٹروں نے مجھے دیکھا ہے حیر مین ڈاکٹروں نے بھی دیکھا ہے.لیکن اصل علاج ڈاکٹر روسی کا تھا جو زیورک کے یونیورسٹی ہاسپٹل کے میڈیکل ڈائرکٹر ہیں پہلے بھی انہوں نے مجھے متواتر کہا تھا مگر چلتے وقت انہوں نے خصوصیت سے کہا کہ یہ بات ایک بار پھر میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کے اندر اللہ تعالے نے ایک معین طاقت رکھی ہے اور وہ اس طاقت کے مطابق کام کر سکتا ہے.اس سے زیادہ نہیں آپ نے اپنی گذشتہ عمر نارمل حالت سے ڈیڑھ سو فیصدی زیادہ کام کیا ہے اب میں آپ کی بیماری کی آخری حالت کو دیکھ کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نارمل حالت سے ڈیڑھ سو فیصدی زیادہ کام کر چکے ہیں تو اب ایک نارمل آدمی کی صلاحیت کے مطابق کام کریں لیکن اس سے زیادہ کام نہ کریں.آپ کو اب آرام کی زیادہ ضرورت ہے.آپ آرام کریں.اور طبیعت کو ہمیشہ خوش رکھیں در نہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی صحت میں جو نہتی ہو رہی ہے وہ ضائع ہو جائے.دوستوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو یہ باتیں اچھی طرح سمجھا دیں تاکہ ڈاکٹری مشورہ کے مطابق وہ میری صحت کے لئے کسی تشویش کا موجب نہ بنیں.ل - روز نامه" المفضل " ریوہ - ارستمبر ۱۹۵۵ ء.
۵۶۴ اس کے بعد حضور نے مغرب میں تبلیغ اسلام کے موضوع پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار فرمایا اور بتایا کہ کس طرح ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی سچائی اثر کرتی چلی جا رہی ہے اور وہ قرآنی تعلیم کی افضلیت اور اس کی برتری کے قائل ہوتے جا رہے ہیں حضور نے جماعت کو مسلسل قربانیوں کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :- اگر کسی سلسلہ کا صرف ایک فرد پر انحصار ہو تو آج نہیں تو کل وہ سلسلہ ختم ہو جائیگا.لیکن اگر جماعت کا ہر فرد اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کرے اور وہ اور اس کی اولا د اسلام کی اشاعت کے لئے مسلسل کوشش کرتی چلی جائے تو ایک لمبے عرصے تک یہ سلسلہ مند ہو سکتا ہے اور بہت جلد اسلام دنیا پر غالب آ سکتا ہے.یہ یاد رکھو کہ ابتدا میں ترقی ہمیشہ آہستگی کے ساتھ ہوتی ہے.لیکن الہی سنت یہ ہے کہ کچھ وقفہ کے بعد بڑے زور کے ساتھ بند ٹوٹتا ہے اور لاکھوں لاکھ لوگ سچے مذہب میں شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں پس اپنی جد وجہد کو جاری رکھو.اور اس دن کا انتظار کرو جب خدائی نصرت اور اس کی مدد کا وقت آجائے گا.اگر ہماری بیانات نے قربانی کی اس سیرٹ کو قائم رکھا تو جب کامیابی کا وقت آئے گا.تو وہ لوگ جو ہمت ہار کر بیٹھ چکے ہوں گے.حسرت کریں گے کہ کاش ہم ہمت نہ ہارتے اور ہم بھی اس فتح میں شریک ہوجاتے.خطبات جمعہ میں تبلیغ اسلام کیلئے خصوصی تحریک قیام کراچی کے دوران حضور انور نے احمدیہ ہال میں تین خطبات ارشاد فرمائے اور تینوں میں ہی مغربی ممالک کے اندر تبلیغ اسلام کی مہم کو تیز تر کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلائی.پہلا خطبہ (و ستمبر) زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُن پیشگوئیوں سے متعلق تھا جو حضور کے اس سفر یورپ کے تعلق میں اشاعت اسلام کے بارہ میں تھیں حضور نے خطبہ میں فرمایا کہ آب مغربی ممالک میں اسلام کی طرف واضح رجحانات پیدا ہو رہے ہیں فصل تیار ہو رہی ہے اب صرف فصل کاٹنے والوں کی ضرورت ہے کیے (۲).دوسرے خطیہ (4 ار ستمبر) میں بھی حضور نے مغربی ممالک میں تبلیغ کے لئے وقف کی پر زور تحریک فرمائی اور جماعت کو اس سلسلے میں انتہائی جدوجہد کی تلقین کی اور ان جوانوں کے لئے برکت کی ہے.روزنامہ المفضل بریوه استمبر ا م : له روزنامه الفضل" ربوه ٣ استمر له من
۵۶۵ دعا کی جو اس خدمت کے لئے پہلی کر کے آگے آئیں.(۳) تیسرے خطبہ (۲۳ ستمبر) میں حضور نے احباب جماعت کو مزید قربانیوں اور خدمت اسلام کے لئے زندگیاں وقف کرنے کی ایک بار پھر تحریک فرمائی.اور فرمایا یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کو ہیم اس مقام اور مرتبہ کو حاصل کر سکتے ہیں جو ہمارے آبا و اجداد کو بلا نماز جمعہ کے بعد حضور نے کریم فضل الرحمن صاحب مجاہد افریقہ، کریم مولوی عبد المغنی خان صاحب اور مکرم ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی سے یہ احباب حضور کے سفر یورپ کے دوران وفات پا گئے تھے.مسلم فرقوں سے مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کی ستمبر کی سہ پہر کو جاعت احمدیہ کراچی کی طرف سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودة پرزور اپیل کو بیچ لگژری ہوٹل REACH LUXURY HOTEL میں ایک دعوت دی گئی.جس میں کثیر التعداد اصحاب شریک ہوئے احباب کی درخواست پر حضور نے جہانوں سے خطاب فرمایا جو قریبا ایک گھنٹہ تک نہایت درجہ خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنا گیا اپنے سفر یورپ کے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے تمام مسلمان فرقوں سے گپر زور اپیل کی کردہ مغربی ممالک میں غیر مسلموں کو تبلیغ کی تنظیم اور توسیع کے ذریعہ اسلام کی طرف کھینچنے اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم پہنچانے کی طرف توجہ دیں.یہ تقریب بہت کامیاب رہی اور تمام معزز مہمان حضور کے ایمان افروز خطاب سے از حد متاثر ہوئے سیکھ حضر میں صلح موعود کا مرکز احمدیت میں درود اور اہل ربوہ اسی دن ہی سے کہ جب حضور نے اور ۵ ستمبر کو دوشنبہ کے روز کراچی میں ورود شمع خلاف کے پروانوں کا فقید المثال استقبال فرمایا تھا حضور کی آمد کا بیتابی سے انتظار کر رہے تھے وہ حضور کو خوش آمدید کہنے کے شوق میں دیدہ و دل فرش راہ کئے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے.۲۵ ستمبر کو پانچ بجے سہ پہر کو یہ اطلاع ملنے پر کہ حضور چناب ایکسپریس کے ذریعہ رات کو ربوہ تشریف لا رہے ہیں.اہل ربوہ ریلوے اسٹیشن سے قصر خلافت تک اس راستے پر جو خوش آمدید ے روز نامہ الفضل " وبوه ٢٠ / ستمبر ۱۵ء صار کے روز نامہ الفضل" ٢٥ ستمبر ١٩٥٥ من سے " - روزنامه " الفضل ریوه ۲۴ ستمبر ۹۵ ما -
| کی سجی ہوئی محرابوں اور رنگ برنگ کی جھنڈیوں سے آراستہ تھا جمع ہونے شروع ہو گئے.ہر چند کہ وہ اس خبر کو سننے کے ہر آن منتظر تھے تاہم حضور کی تشریف آوری کی خبر انہیں اچانک ملی.سوا پانچ بجے سہ پہر کے قریب جب احباب عصر کی نماز پڑھ کر اپنے گھروں کو واپس لوٹے ہی تھے مسجد مبارک کے لاؤڈ سپیکر سے استقبال کمیٹی کے سیکرٹری مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر دحالی ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ نے یہ اعلان کیا کہ ستید تا حضرت المصلح موعود آج شام چناب ایکسپیریں سے ربوہ تشریف لا رہے ہیں احباب استقبال کی سعادت حاصل کرنے کے لئے مقررہ راستے پر اپنے اپنے حلقوں میں پہنچ جائیں.اس اعلان کا ہوتا تھا کہ سارے ربوہ میں خوشی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے اس راستے پر آجمع ہوئے جو استقبال کے لئے مقرر کیا گیا تھا وہ محلہ وار نظام کے تحت اپنے اپنے صدر صاحبان کی قیادت میں سروقد ایستادہ اس معین لمحے کے منتظر تھے کہ جب حضور ربوہ کی سرزمین میں درود فرمانے کے بعد ان کے درمیان سے گزرتے ہوئے قصر خلافت کی طرف روانہ ہوں.اور وہ خود شرف دیر سے سرفراز ہو کر صمیم قلب سے اھلا و سھلا مرحبا.کہنے کی سعادت حاصل کریں.راستوں کی سجاوٹ ، مشتاقان دید کا اجتماع ایک جھلک دیکھنے کی تڑپ میں چہروں پر ایک کیف آور اور اضطراب نیز در و دیوار کے چپے چپے پر چراغاں کا دلکش منظر ربوہ اور اس کے ماحول کو محو حیرت گئے دے رہا تھا.اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا اس ماحول کا ذرہ ذرہ حضرت نواب مبارکہ بیگم کے الفاظ میں یہ کہہ رہا ہے کہ صد مبارک آرہے ہیں آج وہ روز و شب بے چین تھے جن کے لئے آگ آخر خدا کے فضل سے دن گنا کرتے تھے جس دن کے لئے یہ قطعہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے خاص اسی تقریب کے لئے کہا تھا.جو" الفضل " کے " خیر مقدم نمبر میں شائع ہوا.
۵۶۷ ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر جو بجلی کے قمقموں سے بقعہ نور بنا ہوا تھا.امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے علاوہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد ربوہ میں مقیم ناظر اور وکلاء صاحبان اور استقبالیہ کمیٹی کے جملہ ارکان حضور کے خیر مقدم کی سعادت حاصل کرنے کے لئے پہلے ہی سے موجود تھے.یہ سب حضور کی سنخیر و عافیت واپسی صحت و سلامتی اور درازئی عمر کے لئے زیر لب دعائیں کرنے میں مصروف تھے کہ سات بجے شب کے قریب یکا یک دور سے فضا میں گاڑی کی روشنی نمودار ہوئی.روشنی کا نمودار ہونا تھا کہ تمام احباب کے چہرے جو پورے نظم وضبط کے ساتھ کھڑے تھے خوشی اور مسرت سے کھل گئے.ہر چند کہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوا چاہتی تھیں پھر بھی جذبہ شوق کے ہجوم سے سب میں ایک میر کیف اضطراب کی لہر دوڑ گئی.آن کی آن میں گاڑی پلیٹ فارم سے آن لگی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور استقبالیہ کمیٹی کے ارکان آگے بڑھے اور ان کے پیچھے پیچھے سب کے دل قدم اٹھاتے ہوئے ڈبے تک جا پہنچے جس میں حضور رونق افروز تھے.تمام فضا اللہ اکبر اور امیر المومنین زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی اُدھر مجلس اطفال الاحمدیہ کے ایک گروپ نے جو پندرہ اطفال پوشتمل تھا حضرت مسیح موعود کے حسب ذیل اشعار خوش الحانی سے پڑھ کر ایک سماں باندھ دیا ہے لختِ جگہ ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر و دولت کہ دور ہر اندھیرا دن ہوں مرادوں والے پر نور ہو سو میرا به روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي چونکہ ان دنوں ربوہ کے اسٹیشن پر ابھی کرسی دار پختہ پلیٹ فارم نہیں بنا تھا.اس لئے ڈبہ کے ساتھ لکڑی کا ایک زینہ لگا دیا گیا.حضور نے دروازہ کھولتے ہی اس زینے کو مٹانے کا حکم دیا اور زینہ مٹنے کے بعد حضور گاڑی کے پائیدانوں پر قدم رکھتے ہوئے نیچے اُترے جو نہی حضور نے ربوہ کی سرزمین پہ قدم رکھا مجلس استقبالیہ کی طرف سے ایک بکرا بطور صدقہ ذبح کیا گیا.اور عزباء میں تقدیمی تقسیم کی گئی.سب سے پہلے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضور کا خیر مقدم کرتے ہوئے آگے بڑھ کر حضور پر نور سے مصافحہ کیا، بعدة استقبالیہ کمیٹی کے صدر ( اور نمائندہ خدام ان حمدیہ و
۵۶۸ و انصار ) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور کمیٹی کے دیگر ارکان مصافحہ سے مشرف ہوئے پھر حضرت اقدس صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور دیگر احباب کے ہمراہ اس جگہ تشریف لائے جہاں صحابہ کرام اور ناظر و وکلاء صاحبان حضور کے استقبال کے لئے صف ایستادہ تھے حضور کے ساتھ مصافحہ کا شرف حاصل کرتے ہوئے ضعیف العمر صحابہ کی حالت غیر ہوئی جاتی تھی خوشی مسرت سے اُن پر رقت کا عالم طاری تھا.ان میں سے بعض بے اختیار ہو کر ہاتھ پھیلاتے ہوئے حضور کی طرف دوڑ پڑے بیچ پاک کے ان حواریوں کا اپنے اس امام کی طرف بے تابانہ بڑھنا جو حسن اور احسان میں خود مسیح پاک کا نظیر تھا ایک ایسے روح پرور منظر کا حامل تھا جس کی یاد کبھی بھی نہیں بھول سکتی حضور نے صحابہ کرام کو شرف دید اور شرف مصافح سے نوازتے ہوئے اُن سے اُن کا احوال پوچھا اور بالخصوص حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری سے جو کافی کمزور ہو رہے تھے ان کی صحت کے متعلق تفصیلی رنگ میں دریافت فرمایا.بعدہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضور سے صدر انجمن احمدیہ کے ناظر اور تحریک جدید کے وکلاء صاحبان کا تعارف کرایا.اور حضور ان سب کو شرف مصافحہ سے نوازنے کے بعد قصر خلافت کی طرف روانہ ہونے کے لئے موٹر کار میں سوار ہوئے.حضور جو نہی موٹر کار میں تشریف فرما ہوئے ہولانا جلال الدین صاحب شمس نے استقبالیہ کمیٹی کی طرف سے حضور کی خدمت میں کمیٹی کی طرف سے تبیین صفحات پر شتمل الفضل کا شاندار اور با تصویر خیر مقدم نمبر " پیش کیا.جو مغربی اقوام کو برکت بخشنے کے بعد حضور کی مرکز سلسلہ میں یا صحت اور کامیاب دیامراد واپسی کے موقع پر مولانا شمسی صاحب کی زیر نگرانی ادارہ الفضل نے شائع کیا.• اس کے بعد حضور دیگر اہل قافلہ کے ہمراہ موٹر کاروں میں قصر خلافت کی طرف روانہ ہوئے سب ت مولانا جلال الدین صاحب شمسی رنمائندہ صدر انجمن احمدیه ، صاحبزادہ میاں عبد المنان صاحب عمر ایم اے انمائندہ تحریک جدید) چوہدری محمد عبد الله صاحب (نمائندہ لوکل انجیمین احمد یه دیوه ) - چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر حال ناظره یوان (نمائندہ صدر را نمین احمدیه ) حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب انمائندہ میونسپل کمیٹی ربوہ ).چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه (نمائندہ تحریک جدید) -
۵۶۹ سے انگلی کار میں عقیمی سیٹ پر حضور تشریف فرما تھے اور حضور کے ساتھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیٹھے ہوئے تھے.کار کی اگلی سیٹ پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب تھے.اس کے پیچھے بعض خدام اور عملے کے دیگر افراد کی کار تھی.تمبیری کار میں حضور کے قدیم طبی خادم حضرت ڈاکٹر حشمت الله خالی صاحب (جنہیں اس سفر یورپ میں بھی حضور کی ہر کالی کا شرف حاصل ہوا) کے علاوہ جائنٹ ناظر اعلیٰ میاں غلام محمد صاحب اختر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد مولانا جلال الدین صاحب شمس.کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ اور مکرم چودھری ظہور احمد صاحب آڈیٹر ر حال ناظر دیوان صدر انجمن (احمدیہ ) سوار تھے.پچھلی کار میں سیدہ حضرت اسم ناصر حرم اول حضرت المصلح موعود اور صا حبزادی امتہ الجمیل بیگم تھیں.اس کار کے پیچھے سیدہ اتم متین صاحبہ حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ اور صاحبزادی امتہ المتین میگیم کی کار تھی.اس سے پچھلی کار میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب آپ کی بیگم صاحبہ اور بچے تھے.اپنی کار کو صاحبزادہ موصوف خود ڈرائیو کر رہے تھے.آخری کار میں ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی بیگم صاحبہ اور بیچے تھے.حضور کی کار دیگر کاروں کے ہمراہ خراماں خراماں قصر خلافت کی جانب روانہ ہوئی بسب سے پہلے کار اسٹیشن کے عقب میں استقبالیہ کمیٹی کی طرف سے تعمیر کردہ گیسٹ میں سے ہو کر گزری جس بچہ السّلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کا طغری آویزاں تھا.اور حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات لکھے ہوئے تھے.یہاں بھی چند اطفال مکرم مولانا ابو المنير نورالحق صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ کی زہرہ نگرانی حضرت مسیح موعود کے دعائیہ اشعار نہایت خوش الحانی سے پڑھ پڑھ کر حضور کو خوش آمدید کہنے کی سعادت حاصل کر رہے تھے.اس گیٹ میں سے گزرنے کے بعد حضور کی کار محلہ دار الرحمت شرقی کی درمیانی سڑک پر پہنچی وہاں کاریں جانب شرق کراسنگ پر آئیں اور پھر گول بازار میں سے ہوتی ہو ئیں ، فانت صدر انجمین احمدیہ اور تحریک جدید کی درمیانی سڑک طے کرنے کے بعد دائیں جانب مڑتے ہوئے احاطہ مسجد مبارک کے صدر دروازے کے راستے قصر خلافت کے قریب آکر رکھیں.یہ تمام راسته خوش آمدید کی خوبصورت محرابوں رنگ دار جھنڈیوں اور بجلی کے دلکش قمقموں سے سجا ہو ا تھا نیز مکانوں کی چھتوں پر منڈیروں کے ساتھ ساتھ دُور دُور تک مٹی کے ننھے ننھے چراغوں نے اپنی بے قرار روشنی کے ساتھ ایک عجیب
۵۷۰ پرکیف سماں باندھ رکھا تھا.بالخصوص گولبازار کی سج دھج اور روشنی قابل دید تھی.صدر انجین احمدیہ تحریک جدید.لجنہ اماءاللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کے مرکزی دفاتر بجلی کے رنگ دار قمقموں اور خوش آمدید کے روشن حروف سے جگمگ جگمگ کر رہے تھے.راستے میں صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید دفتر پرائیویٹ سیکرٹری و خلافت لائبریری اور محلہ جات نے اپنی طرف سے علیحدہ علیحدہ خوش آمدید کی نہایت خوش نما محرابیں بنائی ہوئی تھیں جس پر مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور اشعار کپڑوں پر نہایت دلکش انداز میں لکھے ہوئے تھے.کہیں اے فخر رسل قرب تو معلوم شد دیر آمده زره دور آمده.کا طغری آویزاں تھا تو کہیں اَهْلاً وَ سَهْلاً وَ مَرْحَبًا کے الفاظ لکھ کر دلی جذبات کا اظہار کیا گیا تھا.کہیں " آمدنت باعث آبادی ما " کا مصرعہ اپنی طرف متوجہ کرتا تھا.کہیں" نور آتا ہے نور کا الہام اپنی روشنی سے لگا ہوں کو خیرہ کر رہا تھا.دارالصدر شرقی میں مولوی عبداللطیف صاحب ٹھیکیدار اور سردار رحمت اللہ صاحب نے بھی اپنے طور پر خوش نما اور رنگین دروازے لگا کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور بالخصوص ڈاکٹر فرزند علی صاحب جنرل پریذیڈنٹ ربوہ نے احاطہ مسجد مبارک کے صدر دروازے پر خاص اپنی طرف سے بڑے اہتمام سے سبز رنگ کا دروازہ نصب کر کے اس طور پر استقبال میں شریک ہونے کی سعادت حاصل کی.ریلوے اسٹیشن سے لے کر احاطہ مسجد مبارک کے صدر دروازے تک مسلسل اہل ریوہ اپنے محبوب آقا کی ایک جھلک دیکھنے اور دل کی گہرائیوں سے اخلاقَ سَهْلاً وَ مَرْحَبًا.کہنے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے سراپا انتظار بنے کھڑے تھے حضور کی کار دوسری کاروں کے ہمراہ اسٹیشن سے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی جب اس راستے سے گزرنی شروع ہوئی تو احباب پر خوشی ومسرت کا جو عالم طاری ہوا اور جس جوش وخروش کے ساتھ نعرے لگا لگا کر انہوں نے حضور کو خوش آمدید کہا.وہ ہ اپنی نظیر آپ ہی ہے قدم قدم پر فضا السّلام علیکم ورحمته الله و بركاته ، اهلا و سهلاو مَرْحَباً - الله اكبر.:: - اسلام زنده باد احمدیت زنده باد.امیر المومنین زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتی تھی.اور نعرے لگانے والوں کے ساتھ ساتھ ہر شخص کی نگاہیں اس اشتیاق کے ساتھ
استقبال کے لئے آگے بڑھتی تھیں کہ سب سے پہلے وہی شرف زیارت سے مشرف ہوں اس وقت کی کیفیت نہایت ہی عجیب اور ولولہ انگیز تھی.جب حضور کی کار احاطہ مسجد مبارک کے صدر دروار پر پہنچی تو احباب نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے نعرے لگانے بند کر دیئے اور ۳۰ اطفال کی ایک اور پارٹی نے جو محمد اسحاق صاحب خلیل ابن مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب قلیل مبلغ مغربی افریقیه کی زیر نگرانی وہاں متعین تھی.حضرت مسیح موعود علیہ سلام کی تحریہ فرمودہ آمین کے دعائیہ اشعار پڑھنے شروع کر دیئے.حضور ایدہ اللہ کی کا ر احاطہ میں داخل ہو کہ مسجد مبارک کے عقب میں قصر خلافت کے مشرقی دروازے پر آکر رک گئی.موٹر کار سے اترنے کے بعد حضور پہلے محراب کے دروازے میں سے مسجد مبارک میں رجس کے در و دیوار سجلی کے قمقموں سے بقعہ نور بنے ہوئے تھے ) تشریف لے گئے اس وقت صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب.میاں غلام محمد صاحب اختر اور مولانا جلال الدین صاحب شمس بھی حضور کے ہمراہ مسجد میں داخل ہوئے.باقی احباب باہر ہی کھڑے رہے حضور نے اس حال میں کہ یہ چاروں اصحاب حضور کے پیچھے کھڑے تھے محراب میں قبلہ رخ ہو کر نہایت رقت انگیز دعا کرائی.جس میں باہر کھڑے ہوئے احباب بھی شریک تھے.دُعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور تمام احباب کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کا نا کہ کر ساڑھے سات بجے شب قصر خلافت میں تشریف لے گئے اور احباب اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور حضور کی صحت و سلامتی اور درازی عمر کے لئے دعائیں کرتے ہوئے گھروں کو لوٹے.دیر گئے رات تک ربوہ کے گلی کوچوں اور بازاروں میں رونق رہی.چراغاں کے باعث ریوں کی وہ وادی جو آج سے چند سال قبل بالکل لیے آب و گیاہ محنتی چراغاں کی وجہ سے جگ مگ کر رہی تھی.چاند کی چٹکی ہوئی روشنی میں چراغاں کے باعث یوں معلوم ہو رہا تھا کہ آسمان و زمین سے نور کی متصل بارش ہو رہی ہے اس میں اہل ربوہ کے لئے ایک عظیم الشان نشان تھا اور وہ یہ کہ سیمی نفس جس کے دم سے مغرب میں اسلام کا سورج طلوع ہوا ہے.“ تور آتا ہے نور " کے الہام کے بموجب مغربی ملکوں کو منور کرنے اور وہاں کے اسیروں کی رستگاری کا سامان مہیا کرنے کے بعد ان کے دلوں کو پھر جلا بخشنے کے لئے ان کے درمیان واپس آیا ہے.اس کے آنے پر وہ چراغاں کے منظر میں نور
۵۷۲ آتا ہے نور کی عملی تفسیر مشاہدہ کر رہے تھے.یوں تو تمام محلوں کی گلیوں اور مشرکوں پر بجلی کی روشنی کا اہتمام کیا گیا تھا اور اہل ربوہ نے اپنے گھروں کی چھتوں پر بھی دیئے جل کو چراغاں کی تھی لیکن مسجد مبارک ، ملحقہ عمارتوں ، دفاتر صدرانجمن احمدیه ، تحریک جدید ، دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزی ، تعلیم الاسلام کالیج ، فضل عمر ہوسٹل ، جامعہ نصرت تعلیم الاسلام ہائی سکول ، فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ، نصرت گرلز ہائی سکول، دارالضیافت، اور دفتر مجلس خدام الاحمد به مرکزیہ کی روشنی کی بات ہی اور تھی.ربوہ کی میرا نوار لبستی کا یہ نظارہ نہایت درجہ روح پرور تھا.اگرچہ اہل ربوہ اس وقت اپنے اپنے گھروں اور مسجدوں میں نوافل پڑھنے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں مصروف تھے.پھر بھی گھروں کی بلندیوں پر لگے ہوئے بجلی کے بڑے بڑے بلب راستوں کی روشنی اور بعض بڑی بڑی عمارتوں پر بجلی کے قمقموں کی ضیا پاشی آنکھوں کے سامنے ایک بڑے اور ترقی یافتہ شہر کا منظر پیش کر رہی تھی.اور بالخصوص ربوہ کی جنوب مشرقی پہاڑی پر تیز روشنی کا جو اہتمام کیا گیا تھا وہ ایک روشن قندیل کی مانند جھلملا رہی تھی اور ایک ایسی کیفیت پیدا کر رہی تھی کہ گویا آسمان کا کوئی روشن ستارہ نیچے ہو کر زمین کے قریب آگیا ہے.اور اس کی بستی میں رہنے والوں کو ایک نئی صبح صادق کا مژدہ سنا رہا ہے لیے مبارک سفر کا مبارک اختتام الفرض می را بالا می بشارت کے مطابق داده در حیم وکریم برگرد جس طرح الہامی خداوند برتر کا یہ موعود خلیفہ مبارک تھا.اسی طرح اس کے سفر یورپ کا اختتام بھی ہر اعتبار سے مبارک ثابت ہوا جس کے قدم قدم پر آسمانی نصر توں، برکتوں ، تائیدوں کا غیر معمولی اجتماع ہوا جو حضرت مصلح موعود کی حقانیت کا چمکتا ہوا اقتداری نشان اور حضور کے مرتبہ بقا کی بلند رفعتوں کا آئینہ دار تھا کیونکہ سید نا حضرت مسیح موعود صاف طور پر تحریر فرماتے ہیں :.ان اقتداری خوارق کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ شخص شدت اتصال کی وجہ سے خدائے عز و جل کے رنگ سے کلی طور پر رنگین ہو جاتا ہے اور تجلیات الہیہ اس پر دائمی قبضہ کر لیتے ہیں اور محبوب حقیقی حجب حائلہ کو درمیان سے اٹھا کہ نہایت شدید قرب کی وجہ سے ہم آغوش ہوجاتا ل - روزنامه الفضل ربوه ۲۷ ستمبر ۹۵ مدت ۲ دقت.
۵۷۳ ہے.اور جیسا کہ وہ خود مبارک ہے ایسا ہی اس کے اقوال وافعال و حرکات اور سکنات اور خوراک اور پوشاک اور مکان اور زمان اور اس کے جمیع لوازم میں برکت رکھ دیتا ہے نب ہر یک چیز جو اس سے مس کرتی ہے بغیر اس کے جو یہ دعا کرے برکت پاتی ہے.اس کے مکان میں برکت ہوتی ہے اس کے دروازوں کے آستانے برکت سے بھرے ہوتے ہیں.اس کے گھر کے دروازوں پر برکت برستی ہے جو ہر دم اس کو مشاہدہ ہوتی ہے اور اس کی خوشبو اس کو آتی ہے جب یہ سفر کرے تو خدا تعالیٰ مع اپنی تمام برکتوں کے اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب یہ گھر میں آوے تو ایک دنیا نور کی ساتھ لاتا ہے.غرض یہ عجیب انسان ہوتا ہے جس کی گنہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا ہے 49 لے.آئینہ کمالات اسلام مد
تاریخ احمدیت جلد فریم -- فهرست قافلہ پاکستان برائے جلسہ سالانہ قادیان تشله حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے قافلہ پاکستان کی مندرجہ ذیل فہرست روزنامہ المصلح" کراچی ۱۹ر دسمبر ۱۹۵۳ء / فتح ۳۳۲اہش میں شائع کرائی اور اس کے شروع میں تحریر فرمایا کہ :- قادیان جانے والا قافلہ انشاء اللہ زیر فیصلہ حکومت ۲۵ دسمبر ۱۹۵۳ء برونه جمعہ بوقت نو بجے صبح لاہور سے روانہ ہو گا.اس کے لیے ذیل کے اصحاب (مرد و زن) کا انتخاب کیا گیا ہے سومندرجہ ذیل اصحاب کو ۲۴ ؍ دسمبر بروز جمعرات کی شام تک یا زیادہ سے زیادہ ۲۵؍ دسمبر بروز جمعہ کو صبح آٹھ بجے تک لاہور پہنچکر میرے دفتر میں اپنی حاضری کی رپورٹ کرنی چاہیے جو جود حامل بلڈنگ بالمقابل رتن باغ کا ہور میں عارضی طور پر کھولا جارہا ہے ہر شخص کے پاس گرم بستر اور کرا یہ وغیرہ کی رقم مبلغ ہمیں روپے موجود ہونی چاہیے جو میرے دفتر میں روانگی سے قبل با خذ رسید جمع کرانی ضروری ہوگی البتہ جو دوست گذشتہ سال بھی قافلہ میں گئے تھے ان سے ہمیں روپے کی بجائے صرف سولہ روپے وصول کئے بجائیں گے.اس میں آنے جانے کا کرایہ اور پاسپورٹ کی فیس شامل ہے قافلہ کے امیر چو ہدری اسد اللہ خانصاب
ا بیرسٹر لاہور ہوں گے.قادیان سے قافلہ کی واپسی انشاء الله ۳۰ دسمبر بروز بدھ شام کو ہوگی.پس دوستوں کو اس کے مطابق فرصت نکال کر شامل ہونا چاہیئے.وَكَانَ اللهُ مَعَهُمْ أَجْمَعِينَ " چوہدری اسد اللہ خاں صاحب ایڈووکیٹ لاہور -۲- سعید احمد صاحب ابن بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار درویش ریوه مر پیر بشیر احمد صاحب معرفت بدر سلطان صاحب ربوه - مهردین صاحب دہلوی محلہ الف ریوہ - چوہدری غلام حیدر صاحب مانگا ضلع سیالکوٹ -4 -11 - ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب ریو از باغ لاہور مولوی فضل دین صاحب بنگوی نمک فروش لائل پور ماسٹر محمد یحیی صاحب سید والا ضلع شیخوپورہ - مولوی خلیل الرحمن صاحب ربوہ حال پشاور ۱۰ - حمید الدین صاحب پسر مولوی خلیل الرحمن صاحب ربوہ حال پشاور زینب بیگم صاحبہ اہلیہ ماسٹرمحمد شفیع صاحب اسلم جلیانوالہ لائل پور ۱۲ مریم بیگم صاحبہ بنت علیا مرحوم چک نمبر ۲۹۵ گ ب ضلع لائل پور بابو فضل دین صاحب ریٹائرڈ سپر نٹنڈنٹ ہائی کورٹ لاہور فاطمه بی بی صاحبہ بنت مهردین صاحب کوٹ مرزا جان گوجرانوالہ سکینہ بی بی صاحبہ اہلیہ منشی یعقوب علی صاحب گھنو کے جہ ضلع سیالکوٹ غلام بی بی صاحبہ زوجه سردار محمد صاحب چک نمبر ۱۸ سہوڑ و ضلع شیخوپورہ -16 سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ بھائی بشیر محمد صاحب درویش اوکاڑا سردار بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری نور احمد صاحب دانہ زید کا سیالکوٹ مریم بیگم صاحبه زوجه منتری محمد اسماعیل صاحب در ولیش ربوه - آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالرحیم صاحب در ولیش ریوه
رحمت بی بی صاحبہ زوجیہ چوہدری غلام محمد صاحب چک نمبر ۹۹ شمالی سرگودها اللہ رکھی صاحبه بیوه مرزها محمد کریم صاحب ربوه آمنہ بی بی صاحبہ والدہ قاضی عبد الحمید صاحب درویش ریوه -۲۴ مرزا واحد حسین صاحب تلونڈی را ہوالی گوجرانوالہ ۲۵- ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب بلاک نمبر ۱۲ سرگودھا چوہدری غلام محمد صاحب چک نمبر ۹۹ شمالی سرگودها • ۲۷ خان صاحب میاں محمد یوسف خان صاحب نمبر ۲۸۱ فیروز پور روڈ لاہور محمد شعیب ضیاء ابن میاں محمد یوسف خانصاحب نمبر ۱ ۲۸ فیروز پور روڈ لاہور ۲۹- مولانا مولوی ابوالعطاء صاحب ربوہ ضلع جھنگ ۳۰ نذیره بی بی صاحبہ بہت جلال دین صاحب در پیش ربوه حمید اللہ صاحب پیسر نذیره بی بی صاحبہ مذکور ربوه ۳۲- صابره بی بی صاحبہ زوجہ نذیر احمد صاحب شاد ریوه حال ٹھری (سندھ) ۳۳ - رفیق احمد صاحب ابن نذیر احمد صاحب شاد مذکورہ ۳۴ - فاطمہ صاحبہ (والده عبد الحمید ) البوالخیر شیخوپورہ ۳۵ عبد الواحد صاحب پسر فاطمہ صاحبہ مذکورہ ابوالخیر شیخوپورہ - رقیه صادق بیگم صاحبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ربوه ۳۷ احمد صادق صاحب ابن حضرت.حسن بی بی صاحبه زوجه فضل دین صاحب چک نمبر ۵۵ گ ب لائل پور -۳۹ امتہ الحمید صاحبہ بنت عبدالرحمن صاحب در پیش ام." " " " " حبیبہ بیگم صاحبہ المیہ قریشی بشیر احمد صاحب دھرم پورہ لاہور نعیم احمد صاحب پسر " " -۴۲ نیاز بیگم صاحبه زوجه مواری فضل دین صاحب بگوی سوار خانه بازار لائل پور بیگی کارخانه یا عبد الحمید صاحب بن فضل دین صاحب در ولیش موتی والا لائل پور م
-۴۴- خدیجه بی بی صاحبه والده قریشی عطاء الرحمن صاحب درویش راولپنڈی -۴۵ علمیہ صاحبہ زوجہ رحیم بخش صاحب شاہدرہ -0° استانی عائشہ بیگم صاحبه زوجه مولوی غلام مصطفے صاحب بد و مهموی ربوه مشیت خاتون صاحبہ اہلیہ مولوی غلام احمد صا حب بد و ملهوی ربوه ۴۸ باخبره خاتون صاحبه بنت غلام ربانی صاحب مرحوم ربوه ۲۹- خوله بیگم صاحبه بنت مولوی عبد القادر صاحب ایم اے نسبت روڈ لاہور امیر بی بی صاحبه والده مولوی برکت علی صاحبه درویش نصیره ضلع گجرات رمضان بی بی نیت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی مرحوم احمد نگر ۵۲ - بشیرہ بیگم صاحبہ بنت عبداللہ صاحب در ولیش محله دارالیمین ریوه ۵۳ به زینب بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری بشیر احمد صاحب دانہ زید کا سیالکوٹ ۵۴- صاحب بی بی صاحبہ زوجہ حافظ محمد عبد اللہ صاحب پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ ۵۵ - غلام فاطمہ صاحبہ بیوہ عبداللہ صاحب مالی مرحوم دارالخواتین ریوہ ۵۶ - ہاجرہ بی بی صاحبہ بنت محمد علی صاحب چک نمبر ۸) ہوڑ وضلع شیخوپورہ ۵۷ نور بی بی صاحبہ والد مستری عبدالغفور صاحب در ولیش ریوه نذیر احمد صاحب ابن عبد الغفور صاحب مذکور ربوہ ۵۹- سیدہ نصرت بانو صاحبہ المیہ ڈاکٹر عطر دین صاحب در دلش ربوہ حال کراچی نور جهان بیگم صاحبه البیه مولوی بشارت احمد صاحب واز بر سوگ منٹگمری الا امینه تعمیم صاحبہ بنت مرزا محمد کریم صاحب دارالخواتین ربوه کرم بی بی صاحبہ اللبیہ فتح محمد صاحب بھڈال ضلع سیالکوٹ کریم بی بی عرف مائی کیوں محلہ دارالخواتین ربوده ۶۴ اللہ اللہ بیگم صاحبہ المیہ چو ہدری محمد اسحاق صاحب چک نمبر ۲۰۱۶ گر گھر وال ضلع لامپور با جیره بی بی صاحبہ اہلیہ خیر دین های سایق ذیلدار چک نمبر ۲۹۵ لامل پور - - ناصر احمد صاحب ابن چوہدری خیر د بین صاحب مذکور ! │
عائشہ بی بی صاحبہ زوجہ احمد دین صاحب آڑہ ضلع گجرات بھاگن صاحبہ بیوہ محمد بخش صاحب مرحوم ربوہ حال چاه موسیٰ والا بہا ولپور -۹ خدیجه بی بی صاحبہ بیت اللی بخش صاحب ربوہ حال محمود آباد سندھ زینب بی بی صاحبہ بنت حکیم اللہ بخش صاحب ربوہ -61 سعید بگیرم صاحبہ بنت قاضی عبد الرزاق صاحب مرحوم ریوه ۷۲ - سعیدہ بیگم صاحبہ بنت بچو ہدری غلام محمد صاحب چک نمبر ۹۹ شمالی سرگودھا ۷۳- سید ممتاز صاحبه زوجه سید محمد شریف صاحب در دلیش سیالکوٹ - امنه الرحیم صاحبہ بنت خواجہ عبدالرحمن صاحب ہجن ضلع سرگودھا ۷۵ امتہ الحفیظ صاحبہ بنت خواجہ محمد عبد اللہ صاحب دوکاندار ریون 4 - امتہ الحفیظ صاحبہ بنت قاضی عبدالعزیز صاحب مرحوم ربوہ ۷۷ بیگم بی بی صاحبه والده مبارک احمد صاحب دفتر نظارت علیا ریوه.-- اللہ جوائی صاحبہ اللہ فضلی فنی صاحب دوکاندار ربوہ چراغ بی بی صاحبہ نبت بڑھا صاحب چک نمبر 4 گ ب لائل پور ۰۸ چراغ بی بی صاحبہ بنت عیسی خان صاحب ربوہ حال کرنڈی سندھ محمد حسین صاحب این غلام محمد صاحب مدرس شادی وال گجرات ۸۲- محمد نواز صاحب ہسپتال ضلع اٹک ۰۳ - جمال دین صاحب بین دو خانه شیخو پوره - مولوی غلام احمد صاحب بدوماهوی لالیاں ضلع جھنگ شیخ ذکاءاللہ صاحب فوٹو گرافر منتشگری - محمد عبد اللہ صاحب دوکاندار ظفر وال سیالکوٹ • AL نذیر احمد صاحب حلوائی بد وملہی ضلع سیالکوٹ ملک محمد ابراہیم صاحب محله کریم پورہ لالہ موسیٰ ۸۹ - قریشی محمود احمد صاحب ۴۹ الیف ماڈل ٹاون لاہور
مرزا عبدالحق صاحب مدرس ڈی.جی ہائی سکول اجنالہ گھرات ۹۱- ڈاکٹر محمد احمد صاحب ابن خان میر صاحب ربوہ حال محل (کوہاٹ ) ۹۲ - مولوی بشارت احمد صاحب ابن مولوی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ قادریان لیہ ضلع مظفر گڑھ ۹۳- خواجه عبدلکریم صاحب پان فروش ریوه -۹۴- مولوی البوالمبارک محمد عبد اللہ صاحب پسرور ضلع سیالکوٹ -۹۵ رحمت خان صاحب ابن علی محمد صاحب اور حمہ ضلع سرگودھا ۹۶ شیخ اللہ بخش صاحب بزانہ لائلپور ۹۷- محمد صادق صاحب ابن بهاول بخش صاحب چک نمبر ایل ۵/۳ ضلع جھنگ - سید پیراحمد شاہ صاحب دلد حاجی احمد صاحب سیالکوٹ ۹۹- چوہدری محمد یوسف صاحب مالو کے بھگت سیالکوٹ بابا شمشیر خان صاحب محله الف ربوه - 1- ماسٹر خیرالدین صاحب ریٹائرڈ پی ای ایس سیالکوٹ شہر ۱۰۲ - زینب بی بی صاحبہ ریو ۱- مائی جانو دالده فتح محمد صاحب در ولیش ربوه -۱- بھاگ دین صاحب محلہ دو مرجی پسر در ۱۰۵ عبدالمنان صاحب گریانه فروش ربوه منظور احمد صاحب این فتح دین صاحب شیخ پور گجرات -1-4 حمید الدین صاحب این عزیز الدین صاحب ربوہ حال کرنڈی سندھ ۱۰۸- ۱۱۹ - برکت اللہ خاں صاحب ابن نیاز محمد صاحب چک نمبر ۱۹ اکستو وال ضلع منٹگمری میاں محمد اسماعیل صاحب گھی فروش لائل پور -١١٢ منتری ناصر احمد صاحب سائیکل ڈیلر احمد نگر جھنگ میاں اللہ دتہ صاحب سکرٹری مال سیالکوٹ شہر فضل دین صاحب ابن میاں محمد صاحب چک سکندر گجرات
۱۱۳- لال دین صاحب ابن احمد بخش صاحب گورنمنٹ ہائی سکول پسرور ۱۱۴ خواجہ محمد عبد اللہ صاحب ہجن ضلع سرگودھا -110 عبدالحمید صاحب ابن محمد بخش صاحب اور حمه ضلع سرگودھا 114 - حاجی عبد الکریم صاحب داد غلام حیدر خان صاحب ربوہ حال کراچی مرزا اسلام اللہ صاحب ابن مرزا غلام اللہ صاحب ریوه حافظ محمد عبد اللہ صاحب پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانہ الہ ۱۹ - شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگرہ ہاؤس گوجرانوالہ شیخ سعید احمد صاحب دواخانہ خدمت خلق رهبوه ۱۲۱- محمد ارشاد صاحب ابن سردار خان صاحب مسلتکه ضلع گوس بانو سید عبدالحمید صاحب پسر ڈاکٹر عطر دین صاحب در دیش پریم نگر چوہدری قائم دین صاحب ابن وزیر خاں صاحب چک نمبر ۶۶ آرابی لائل پور سید منظور علی شاہ صاحب کچری روڈ سیالکوٹ ۱۲۵.ماسٹر محمد انور صاحب نواں کوٹ ضلع شیخو پورہ - ماسٹر محمد ابراہیم صاحب بی اے ربوہ ۱۲- چوہدری عبداللہ صاحب ولد نواب دین صاحب چک نمبر ۲۱۹ گنڈا سنگھ والا لامل پور محمد صدیق صاحب کمیشن ایجنٹ غلہ منڈی لگھر گوجرانوالہ -۱۷۹ رحیم بخش صاحب دوکاندار سید واله ضلع شیخو پوره ۱۳۰ - چوہدری غلام مصطفے صاحب چک نمبر ۷۸ راگ نب لائل پور فتح محمد صاحب مڑھ بلوچاں شیخو پورہ ۱۳۲ - محمد ادریس صاحب ابن عبد الحق صاحب نور ربوہ حال کرنڈی سندھ ۱۳۳- چوہدری گریم داد صاحب ابن علی اکبر صاحب چک نمبر ۶ آرابی لائل پور ۱۳۴- فضل احمد صاحب ولد حاجی احمد صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور ۱۳۵.ڈاکٹر عبدالمغنی صاحب معرفت صوفی خدا بخش صاحب وبود
-144 چو ہدری بشیر احمد صاحب دا تا زید کا ضلع سیالکوٹ ۱۳۷ ماسٹر رشید احمد صاحب چونڈہ ضلع سیالکوٹ شیخ نورا محمد صاحب ایڈووکیٹ مزنگ روڈ لاہور ۱۳۹ چوہدری نورمحمد صاحب ابن عبداللہ صاحب چک نمبر ۴۳ استنبیائی ضلع لائل پور ۱۴۰- چوہدری نذیر احمد خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ بورڈ منٹگمری ۱۴۱ عبد الرحیم صاحب درق ساز شام نگر لاہور حمید احمد صاحب ابن بھائی شیر محمد صاحب منٹگمری ۱۴۳- قریشی قمراحمد صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور ۱۴۴- قریشی بشیر احمد صاحب اکو ٹنٹ فضل عمر ہوسٹل لا ہو.سید مسعور مبارک شاہ صاحب ربوده ۱۴۱ رسید احمد صاحب ظفر ابن حکیم خلیل احمد صا حب لا ہو ر حال کراچی ۱۴۱- ملک محمد امین صاحب محله کریم پورہ لالہ موسی گھبرات حافظ فتح محمد صاحب چک نمبر ۹۸ شمالی سرگودها ۱۳۹ شیخ فضل حسین صاحب بزانه کارخانه بازار لائل پور ۱۵۰- محمد عرفان صاحب اپیل نویس ربوہ حال مانسهره (سرحد) ۱۵۱ محمد ارشاد صاحب بشیر ربوہ ضلع جھنگ ۱۵۲ - عبد الباسط صاحب ابن عبدالرحیم صاحب در ولیش دیوه ۱۵۳- محمد اسحاق صاحب واقفت زندگی دفتر محاسب ربوه ۱۵۴ - مقبول احمد صاحب ذبیح متعلم جامعہ احمدیہ ریوہ منشی عبدالحق صاحب کا تب ریوہ -100 ۱۵۶- محمد اسحاق صاحب ابن منشی عبدالحق صاحب مذکور -104 دا مبارک احمد صاحب ظفر ابن سعید احمد صاحب نسبت روڈ لاہور شیخ محمد اکرم صاحب گول منشی محله لائل پور !
خدا بخش صاحب حجام ڈسکہ کلاں ضلع سیالکوٹ حفیظ احمد صاحب ابن خدا بخش صاحب مذکور مولوی محمد اسماعیل صاحب د یا لگڑھی مسجد احمدیہ لامل پور غلام نبی صاحب ابن نظام الدین صاحب ٹھیکیدار ربوہ ۱۶۳ - چوہدری میراحمد صاحب ابن صدر دین صاحب چک نمبر 4 ج ب لائلپور ۱۶۴ - عباس بن عبد القادر صاحب نسبت روڈ لاہورہ کریم الدین صاحب ابن جلال دین صاحب چک نمبر ۱۲۱ ج ب لائل پور ۱۶۵ - ۱۶۶- مولوی عبد المالک خاں صاحب ربوہ حال کراچی ۱.ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ربوہ محمد اسطخنق صاحب ابن محمد اسمعیل صاحب درویش ملازم گورنمنٹ پریس لاہور ۱۶۹- محمد بوٹے خاں صاحب معرفت چوہدری محمد انور صاحب ہیرس روڈ سیالکوٹ - فضل کریم صاحب اکمل ابن غلام احمد صاحب مدرس نواں کوٹ شیخو پوره -14+ 11- چوہدری عطا محمد صاحب ریٹائرڈ تحصیلدار ربوہ ۱۷۲ ملک عزیز احمد صاحب پنشنر ایس ڈی او ۲ میکلوڈ روڈ لاہور ۱۷۳- میاں عبدالحکیم صاحب والد عبدالسلام صاحب درویش در گانوالی سیالکوٹ شعیب احمد صاحب استلم جلیا نوالہ چک نمبر 4 مو لائلپور م ٠١٤ - سید شفیق احمد صاحب خاور ابن سید محمد شریف صاحب چنبہ ہاؤس لاہور.۱۷۶ - حمید اللہ صاحب صابر ابن میاں سراج الدین صاحب در دلیش ریبوه ۱۷۷- عبدالباری صاحب ابن چوہدری عبدالحمید صاحب در ویش ربوه ۱۰- چوہدری محمد میل صاحب ابن محمد بخش صاحب مرحوم ربوہ حال چاه موسی والا بہاولپور -16A ۱۷۹ سردار محمد صاحب چک نمبر ۱۸ ہوڑو ضلع شیخو پوره ۱۸۰ مهته عبد الرزاق صاحب ربوہ حال کراچی - عالم خان صاحب ابن سمندر خان صاحب ربوه حال مانسهره
۱۸۲- مرزا حمید احمد صاحب تحسین این مرزا نذیر علی صاحب ربوہ -۱۸۳- حاجی اللہ بخش صاحب چندر کے منگولے ضلع سیالکوٹ ۱۸۴- مولوی محمد اسماعیل صاحب اسلم واقف زندگی ربوہ خدا بخش صاحب ابن چراغ دین صاحب باغبانپورہ لاہور بشیر احمد صاحب ابن عبد الکریم صاحب درویش ریوه ۱۸۷- سید امین احمد صاحب ابن حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم عنایت اللہ صاحب ابن میران بخش صاحب شیخ پور ضلع گجرات -AA i چوہدری نذیر احمد صاحب ابن اکبر علی صاحب بصیرانوالہ گجرات کربوه ۱۹۰ - محمد عالم صاحب این کریم داد صاحب ربوه حال این ، ڈبلیو ، آلہ ایجنسی مانسهره ۱۹۱ - مبارک احمد صاحب دفتر نظارت علیاء ربوه ۱۹۲ - مستری محمد صدیق صاحب ابن احمد دین صاحب ربوه مولوی عبدالحق صاحب نور ربوہ حال کہنڈی سندھ ۱۹۴.نور دین صاحب واقفت زندگی وکالت قانون ربوه ۱۹۵ - سید عبد الحئی صاحب ابن عبد المنان صاحب جامعة المبشرين ربوه ۱۹۶ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے ربوہ بشارت احمد صاحب ابن حسن محمد صاحب کوٹ رحمت خان شیخوپورہ ۱۰- صالحه بی بی صاحبہ زوجہ منتری عبدالرحمن صاحب بٹہ سیداں سیالکوٹ شہر ١٩٩ - لعل خان صاحب ولد احمد خاں صاحب کھاریاں ضلع گجرات ناصر احمد ولد سراج دین در ولیش ربوہ حال کو ہاٹ لے کے روز نامه المصلح" کراچی مورخه ۱۹ / دسمبر ۱۹۵۳ ر صلح ۳۳۲ امتش صفحه ۳ و ۴
1 تصویر قافلہ پاکستان برائے جلاس سالانہ قادیان ۱۳۳۲/۶۱۹۵۳ش دائیں سے بائیں.نیچے سے پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے اصحاب -} خواجہ عبد الکریم صاحب سابق در ولیش (حال گوشجره ) خواجه ناصر احمد صاحب اپیسر مولوی محمد عبد اللہ صاحب در ولیش - ۴ - ؟ بشیر احمد صاحب ابن عبد الکریم صاحب درویش قادیان مولوی خلیل الرحمن صاحب له بوه حال پیشاور مستری ناصر احمد صاحب سائیکل ڈیر احمد نگر ضلع جھنگ حال چنیوٹ دوسری قطار میں بیٹھے ہوئے صحاب ۱ - ۲ - چوہدری عطا محمد صاحب مرحوم ریٹائرڈ تحصیلدار سیکرٹری تعمیر ربوہ حضرت ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب بلاک نمبر ۱۷ سرگودھا -۴ مولوی محمد اسمعیل صاحب اسلم حال صدر محله دارالیمین ربوه - ۵- ؟ تکریم گیانی مرزا واحد حسین صاحب نے مبلغ سلسلہ احمدیہ تلونڈی را ہوالی ملک عزیز احمد صاحب پنشنر ایس ڈی او ر ۲ میکلوڈ روڈ لاہور • - حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب مرزا عبدالحق صاحب مدرس ڈی بی ہائی سکول اجنالہ گجرات مولانا غلام احمد صاحب فاضل بد و ملهوی لالیاں ضلع جھنگ - • 1
.حضرت منشی عبدالحق صاحب نے کاتب ( والد ماجد مولانا ابو المنير نور الحق صاحب ربوہ ) -۱۴ مولوی عبد الباسط صاحب رابن میاں عبدالرحیم صاحب درویش دیانت سوٹڈ افیکٹری قادیان) حاجی اللہ بخش صاحب چند ر کے منگولے 9-16-9714 پہلی قطار میں کھڑے ہوئے اصحاب خواجہ محمد عبد اللہ صاحب گول بازار ربوہ حال راولپنڈی - شیخ نور احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور جناب ماسٹر محمد ابراہیم صاحب جمونی بی.اے ربوہ حال مبلغ امریکہ - بھاگ دین صاحب محلہ او بر جی پسرور - حافظ فتح محمد صاحب چک نمبر ۹۸ شمالی سرگودھا (حال لاہور ) ، تا ۱۴ ؟ -10 ✔ صاحب دین صاحب ڈھینگڑہ ہاؤس گو برا نوالہ ۱۶ - محمد عبد اللہ صاحب ظفروال -14.مولا نا محمد اسمعیل صاحب فاضل دیاں گڑھی مبلغ سلسلہ لائلپور حال انچارج شعبہ ریشته نامه سیوه ۲۱ حضرت حاجی عبدالکریم صاحب ولد غلام حیدر خان صاحب کراچی حضرت بابو فضل دین صاحب نے سیالکوٹی ریٹائرڈ سپر نٹنڈنٹ ہائی کورٹ لاہور عبدالرحیم صاحب ورق ساز شام نگر لاہور دوستر کی قطار میں کھڑے ہوئے اصحاب مولا نا عبدالمالک خانصاحب مربی سلسلہ احمدیہ کراچی حال ناظر اصلاح داره شاد در بوه)
-4 - A ١١- ۱۲- ؟ - - - جناب میاں محمد معیل صاحب دارا پوری کارخانه بازار لائلپور مکرم محمد یوسف صاحب مالو کے بھگت (والد ماجد محمد عیسی صاحب مبلغ مشرقی افریقہ ) ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب لاہور شیخ سعید احمد صاحب آف ڈیرہ دون دوا خانه خدمت خلق ربوه پیر بشیر احمد صاحب مرحوم ماڈل ٹاؤن آن ڈیرہ دون حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعتہ المبشرين ربوہ مولانا کے بالکل سامنے عبدالحمید ڈا پڑھا چوہدری محمد اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر لاہور امیر قافلہ حضرت خانصاحب میاں محمد یوسف صاحب ۲۸۱ فیروز پور روڈ لاہور حضرت سید پیر احمد صاحب ہوشیار پوری سیالکوٹ ۱۳ - حضرت ماسٹر غیر دین صاحب بے ریٹائرڈ پی.اسی.انہیں سیالکوٹ شہر -۱۴- چوہدری قائم خان صاحب گھسیٹ پوره - ۹۱۵ ۱۶ - ؟ - غلام نبی صاحب پسر ٹھیکیدار نظام دین صاحب - محمد اسحاق صاحب مرحوم و اقف زندگی دفتر محاسب ربوه ( برادر مولانامحمد اسمعیل صاب منیر مبلغ سیرالیون -A سیلون و ماریشیس) و -١٩ مرزا حمید احمد صاحب تحسین ابن مرزا نذیر علی صاحب ریوه -۲۰ - عبد الباری صاحب ابن چوہدری عبدالحمید صاحب نے درویش قادیان تغییری قطار میں کھڑے ہوئے اصحاب ۱ تا ۹۵ - حافظ محمد عبد اللہ صاحب مرحوم پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ ( والد ماجید دوست محمد شاہد ) - -6 مولوی محمد عرفان صاحب اپیل نویس مانسهره - - ؟ با با شمشیر خان صاحب محله دارالیمین ربوه A
۱۴ | }- دا.نور دین صاحب با جوه واقف زندگی وکالت قانون تحریکت جدید ربوه مبارک احمد صاحب کارکن نظارت علیا ر بوه - ۱۲ تا ۱۴ ؛ ماسٹر محمد بیٹی صاحب سید والا ضلع شیخو پوره حال دارالیمین ریوه پچوتھی قطار میں کھڑے ہوئے اصحاب - - ☑1 ۳ - محمد بوٹے خان صاحب نے سابق مؤذن مسجد اقصی قادیان ہیرس روڈ سیالکوٹ - 6 نذیر احمد صاحب حلوائی مرحوم بد و علی ضلع سیالکوٹ - -- شیخ فضل حسین صاحب بزاز مرحوم کارخانه بازار لائلپور A - - ۱۰ - شیخ اللہ بخش صاحب بزاز لانپور مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح متعلم جامعہ احمدیہ ۱ - ۱۳ عبدالمنان صاحب گریانه فروش حال با زاره ربوه - ۱۴ تا ۱۱۹ • پانچویں رآخری اقطار میں کھڑے ہوئے اصحاب - ۲ - ۰ - ۳ - محترم جناب سید الحی صاحب کا شمیری جامعه المبشرين ربوه حال ایڈیٹر ماہنامہ انصار الله" مولوی فضل الدین صاحب بنگوی کارخانه بازار لائلپور حال ربوه - -A - 6 مرزا اعظم بیگ صاحب آف لنگروال شیخ محمد اکرم صاحب گول منشی محله لا ملپور - - بشارت احمد صاحب مرحوم ابن حضرت مولانا عبد الرحمن صاب جٹ امیر جماعت احمدیہ قادیان - تمر احمد صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور - عبد الحمید صاحب پسر ڈاکٹر عطر دین صاحب مرحوم درویش قادیان -
حضرت مصلی و پرپر مل متعلق ترمیم موعود کی ہویا اور اس بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی مراسلت دفتر محفوظ بقلم حضرت خلیفہ اسیح الثانی فی بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ بعالی خدمت حضور پر نور حضرت خلیفہ مسیح ثانی ایدہ اللہ تعالی السلام عليكم وَرَحْمَة الله وبركاته :- ادباً عرض ہے کہ ۱۹۴۲ یا ۵۴۳لہ کا واقعہ ہے کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ایک دن مجھے فرمایا کہ مجھے ایک بات کا ہمیشہ فکر رہتا ہے.میں نے عرض کیا کہ کس بات کا فکر رہتا ہے ؟ جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عالم رویا میں دیکھا تھا کہ محمود کے کپڑوں پر خون کے چھینٹے (یا دجھتے ) پڑے ہوئے ہیں اس کا مجھے ہمیشہ فکر رہتا ہے.جب عرفانی صاحب قبلہ یہ الفاظ منہ سے بول رہے تھے ان کا چہرہ غم سے زرد ہوگیا تھا.میں نے یہ واقعہ اپنے چچا زاد بھائی ملک غلام فرید صاحب ایم.اے سے بیان کر دیا تھا اور اس واقعہ سے بہت پہلے بیان کیا تھا.حضور کا خادم ملک بشیر علی کنجاہی سے ۱۳
14 0/C DP 12940 17/3/54 شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی السلام علیکم ! حضرت اقدس امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق تحر یہ ہے کہ ملک غلام فرید صاحب آپ کی طرف منسوب کر کے ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رویا دیکھی تھی تھیں میں حضرت مسیح الموعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے کپڑوں پر خون کے دھبتے دیکھے تھے.حضور اقدس دریافت فرماتے ہیں کہ آپ اس روایت کے صحیح الفاظ لکھ کر فوراً بھجوائیں.رجسٹرڈ - AD ليسم الله الرحمن الرحيم والسلام خاکسار محمد شریف اشرف ۱۶ 14 اسسٹنٹ پرائیوٹ سیکر ٹری حضرت خلیفہ المسیح الثانی" محمد و وتصلى على رسوله الكريم ستیدی دامامی السلام علیکم ورحمة الله وبركاته کریم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو حسب استفسار حضور لکھا گیا تھا کہ حضور کے کپڑوں پر خون کے چھینٹوں کے متعلق جو روایت ان کی طرف منسوب کی جاتی ہے اس کے متعلق مطلع فرما دیں.چنانچہ اس کے متعلق ان کی آمدہ چٹھی ارسال خدمت حضور ہے.اس پر سرخ فلم سے یہ ہدایت تحریر ہے :.دستخط خاکساره عبدالرحمان انور ۳۱ پرائیوٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرمایا به خط محفوظ رکھا جاوے.انور سے ۳۱
18 السم الله الرحمن الرحيم نَحْمَدُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيهِ الہ دین بلڈ نگ سکندر آباد دکن (بھارت ) ۲۵ ؍ مارچ ۱۹۵۴ء مخدومی و مکرمی السلام عليكم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاته :- آپ کا رجسٹر ڈ ککتوب محمولہ فوٹو خان قلات ملا - جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنُ الْجَزَاء - اسی میں میری ایک روایت کے متعلق بھی حضرت نے دریافت فرمایا ہے جواباً عرض ہے ۱۸۹۸ء کے موسم سرما کی بات ہے کہ میں نے حضرت امیرالمؤمنین کے متعلق ایک رڈیا دیکھی.آپ تو اس وقت بچے ہی تھے.رڈیا یہ تھی کہ آپ ایک نہایت شاندار شاہانہ لباس پہنے ہوئے ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت میر محمد اسحق یہ بھی اعلیٰ درجہ کے لباس میں ہیں.اُن کے لباس میں ایسا امتیاز تھا کہ وہ گویا سپہ سالار ہیں.اس کے بعد مجھے ایک کاغذ دکھا یا گیا جس پر اوپر سے نیچے تک ایک ایک سطر میں یہ الفاظ درج تھے :- نظام الملا پولیٹیکل ایڈوائزر وہ دن آگئے " ان الفاظ میں سے آخری وہ دن آگئے " سے متعلق میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اُس الہام کی تشریح ہے جو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا براہین میں درج ہے." THE DAYS WILL COME When God will come With His Army." یہ فجر کی نماز کے بعد کا واقعہ ہے.اُن دنوں حضرت اقدس اکثر نماز فجر کے بعد تشریف فرما ہوتے کوئی تازہ العام یا رڈیا ہوتی تو سناتے.بعض لوگ اپنی خواب سناتے اور کبھی آپ مناسب وقت تقریر فرماتے.
A میں جب یہ رویا سنا چکا تو حضرت اقدس نے معاً (میرے آخری الفاظ ختم ہوتے ہی ) بڑے جوش سے فرمایا دعا کرو اور آپ نے بڑی لمبی دعا کی.اور فرمایا دئیں آپ کے بیان کو قریب ترین الفاظ میں بیان کرتا ہوں ممکن ہے کچھ کم و بیش ہو مگر مفہوم بالکل یہی ہے ) :- میں نے بھی محمود کے متعلق بعض خواب دیکھے ہیں اور الہامات بھی ہیں جو اپنے وقت پر پورے ہونگے.میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ اس کا نام مسجد پر لکھا ہوا ہے اور ایک مرتبہ سرخی سے اس کا نام لکھا ہوا دیکھا.ایک مرتبہ اس کے کپڑوں پر خون کے دھتے یا چھینٹے دیکھے.فرما یا خوابوں کی تعبیر اپنے وقت پر ہوتی ہے جو لوگ بڑے ہوتے ہیں.ان کے دشمن بھی بہت ہوتے ہیں اس لیے میں نے دعا کی ہے کہ ہر امر برکات کا موجب ہو.یہ کہ کر آپ تشریف لے گئے.مجھے یہ تو یاد نہیں آتا کہ اخبار میں شائع ہوا یا نہیں مگر میں نے اپنی رؤیا اپنی نوٹ بک میں درج کی تھی اور حضرت کا ارشاد بھی.یہ تو اصل واقعہ ہے.مجھے پر اپنی اس رڈیا کی بناء پر یہ یقین تھا کہ یہ کوئی عظیم الشان وجود ہو گا اور اس کی مخالفت ہوگی اور یہ وہم کبھی کم نہ ہوا کہ آپ پر قاتلانہ حملہ ہو گا اس خیال کا اظہار عام طور پر میں نے نہیں کیا اس لیے کہ مختلف مذاق کے لوگ ہوتے ہیں اور بعض اوقات غلط نتائج پیدا کرتے ہیں لیکن میں مخفی طور پر آپ کی نگرانی کرتا رہا ، چنانچہ جب آپ شکار کو جانے لگے تو تنہا چلے جاتے تھے.مجھے محسوس ہوا کہ دیہاتی جاہل ہوتے ہیں ایسا نہ ہو کوئی بلا وجہ حملہ کر دے یا آپ کو سخت سست کہدے میں نے اور مفتی فضل رحمن مرحوم نے اس اندیشہ کی بناء پر فیصلہ کیا کہ ہم کو ساتھ جانا چاہئیے تنہا نہ جائیں اور ہم نے عرض کر کے اجازت لے لی.یہ حضرت خلیفہ اول کا عہد خلافت تھا، اس کے بعد جب آپ خلیفہ ہوئے i
تو اندر باہر مختلف قسم کے انداز مخالفت نمایاں ہوئے.میں جب تک قادیان میں رہا اپنے وسائل کے لحاظ سے مخفی طور پر نگرانی کرتا رہا.جب مخالفت کی شدت مستریوں کے فتنہ سے شروع ہو کر احراریوں کے ہنگاموں میں تبدیل ہوگئی.تو میں نے مرحوم محمود احمد اپنے بیٹے کو مامور کیا کہ مخفی دشمنوں کی سازشوں اور حرکات سکنات کا علم کھلی آنکھ رکھ کر کرو.اس مقصد کے لیے بعض خاص ذرائع بھی استعمال کئے جاتے رہے.قادیان کے بعض آدمیوں سے روزانہ اطلاعات کی جاتی تھیں اور پنڈت سری ناتھ کو خاص طور پر بیرونی حلقہ احرار کی خبروں کے لیے مقرر کر رکھا تھا.غرض مجھے ہمیشہ یہ خطرہ تھا.جب میں یہاں آیا اور دشمنوں کی کارستانیوں کا کس قدر علم ہوتا رہا تو میں نے مکرم بھائی عبدالرحمن قادیانی کو لکھی کہ آپ خاص طور پر حضرت کی نگرانی رکھیں باڈی گارڈ کے بھروسہ پر رہ کر غافل نہ ہوں.ہماری سب سے قیمتی متناع یہی ہے اور ہر قیمت پر اس کی حفاظت جہاں تک اسباب کا تعلق ہے ہم پر فرض ہے.یہ خلاصہ ہے اُن بعض خطوط کا جو میں نے بھائی جی کو لکھے اور وہ میرے کہنے کے بغیر ہی احساس شریف رکھتے تھے اور کبھی غافل نہیں رہے.پھر جب ملک بشیر علی صاحب ابن عم ملک غلام فرید صاحب ان کا سپارشی خط کیکر میرے پاس آئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے ان کے کاروباری معاملہ میں اللہ اخلاقی مدد کی توفیق دی وہ اکثر میرے پاس آتے اور ہم گھنٹوں سلسلہ کے متعلق باتیں کرتے.اس سلسلہ میں دشمنوں کی متحدہ کوششوں کا ذکر بھی آتا اور میں نے یہ بھی ان سے صراحتاً کہا کہ ہمارے خلاف وہاں خطرناک شورشیں ہونگی اور اسی سلسلہ میں یہ بھی کہا کرنا کہ بعض باتیں بیان کرنے کی نہیں ہوتیں اس لیے کہ ہر شخص ایسا نہیں ہوتا کہ صحیح رنگ میں اس کا مفہوم سمجھ لے اگر مجھے پر یہ اثر ہمیشہ قائم رہا کہ حضرت اقدس کے بعض کشوف اور
الہامات و مبشرات کی ضمن میں ایسے اشارات ہیں کہ حضرت پر قاتلانہ حملہ ہو ئیں اسے صراحتاً نہ کہتا بلکہ خطرات کے رنگ میں ظاہر کرتا اور مجھے یاد نہیں کہ جب میں نے ذکر کیا ہو تو میری حالت خود اس اندیشہ سے غیر نہ ہو گئی ہو.یہ خود ملک بشیر ہی بتا سکتے ہیں کہ اس واقعہ کے تصور سے میرا کیا حال ہوتا اور میں نے اکثر دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ میری زندگی میں ایسا واقعہ نہ ہو اور اگر یہ تقدیر مبرم ہے تو اس کی صورت تبدیل کر دے، میں نے حضرت اقدس کے کشف و الہامات کی بناء پر اور بعض دوسرے حالات کے ماتحت متاثر ہو کہ اسے تقدیر مبرم ہی یقین کیا مگر یہ بھی یقین تھا کہ اس کی صورت کچھ اور ہوگی.مثلاً میں سمجھتا تھا کہ اید خواب میں ایسا ہو جاوے جیسے اس واقعہ کا یقین تھا آپ کی سلامتی کے لیے بھی دل پُرامید تھا.ان تاثرات کی بناء بھی بعض الہامات تھے.شا میرا یہ یقین رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الہامات جو آپ کی ذات کے متعلق سمجھے جاتے رہے اُن کا ظہور حضرت خلیفہ المسح ثانی کے وجود میں ہونا مقدر تھا جیسے خواتین مبارکہ کا نکاح میں آنا.کثرت اولاد کا ہونا وغیرہ.اس طرح سلامت بر تو اے مرد سلامت حضرت اقدس کو تو دوَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ كا الهام ہو چکا تھا.بہر حال مقادیر اللہ جس رنگ میں وہ چاہے پوری ہوتی ہیں.میں یہ لمبا قصہ آپ کے استفسار کے سلسلہ میں لکھ گیا اللہ تعالیٰ اس پاک وجود کو صحت و سلامتی کے ساتھ لمبی عمر دے اور ہمکو توفیق بخشے کہ اس کی وہ قدر کریں جو حق قدر ہے.وزا کے لیے کوشش کر رہا ہوں، گو مالی مشکلات ہیں تا ہم دل بے چین ہے کہ آپ کو ایک مرتبہ دیکھ لوں.اللہ تعالیٰ سامان اور مواقع میسر فرمائے.میرے تاثرات میں حضرت کی عمر ۷۸ - ۸۰ - یا ۸۲ ہوگی.اللہ کرے کہ اس سے بھی زیادہ ہو.خاکسار یعقوب علی عرفانی
حملہ کے عینی گواہوں کے عدالت میں بیانات انگریزی سے ترجمہ ) سرکار بنام عبدالحمید نمبرا زیر دفعه ۳۰۷ تعزیرات پاکستان سرکاری گواہ نمبر ا.A.کد ON غلام مرتضیٰ ولد غلام مصطفی راجپوت عمر ۳۵ سال فزیکل ٹرنینگ انسٹرکٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ریوہ ار مارچ ۱۹۵۴ء کو چار بجے شام کے قریب میں نے عصر کی نمازہ (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام فرقہ احمدیہ کے پیچھے مسجد مبارک ربوہ میں پڑھی.میں پہلی صف میں تھا، ملزم نے بھی نمازہ پہلی صف میں ادا کی اور وہ میری بائیں جانب مجھ سے چوتھے نمبر پر تھا ، ملزم اُس شخص کے بائیں طرف کھڑا تھا جو (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود کے بالکل پیچھے تھا، نماز پڑھا کر (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود احمد مسجد کے اُس دروازہ سے جانے لگے جو محراب میں ہے اور جہاں سے (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود کے گھر کو راستہ جاتا ہے ، پھر ملزم نے جو کہ اس وقت عدالت میں موجود ہے اور جس کو میں پہچانتا ہوں یا علی" کا نعرہ لگاتے ہوئے یکدم (حضر) مرزا بشیر الدین محمود احمد پر حملہ کر دیا.میں نے اُسے چاقو سے (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی گردن کے دائیں طرف پیچھے سے ضرب لگاتے ہوئے دیکھا.اس زخم کے لگنے پر (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود احمد منہ کے بل گرنے لگے تھے.جبکہ پہریدار اقبال احمد نے آپ کو گرنے سے بچا لیا.ملک ولایت خان صاحب - ماسٹر فقیر اللہ صاحب ، عبدالحکیم صاحب.قاضی عبد السّلام صاحب عزم کو پکڑنے کے لیے دوڑے اس اثنا میں ملزم نے دوسری بار (حضر) مرزا البشیر الدین محمود احمد پر چاقو کی ضرب لگانے کا قصد کیا لیکن چونکہ اقبال احمد صاحب اس *
- دوران (حضرت مرزا صاحب اور حملہ آور کے درمیان حائل ہو چکے تھے.اس لیے چھا تو کی ضرب اقبال احمد (صاحب) کے بائیں کان پر پڑی اور ضرب سے بائیں کان پر چاقو کا زخم آیا.میں نے پھر ملزم کو مضبوطی سے اپنے بازووں میں جکڑ لیا ، ملزم نے اپنے آپ کو چھڑانے کی مجنونانہ کوشش کی اور اس دوران مجھے بھی چاقو کی تیز نوک کی ضربات سے بائیں آنکھ کے نیچے اور گال پر زخم آئے.میں نے ملزم کو اُن اشخاص کی مدد سے جنکے نام اوپر گنوائے گئے ہیں مغلوب کر لیا اور ہم نے اسے جکڑ لیا.ولایت خان رصاحب) سرکاری گواہ نے عبدالحمید مترسم کے ہاتھ سے چا تو چھین لیا اور یہ چا تو اب عدالت میں پیش کردہ.زیر 1 - P موجود ہے.عدالت میں پیش کردہ 1 - P کی دھار ایک طرف کو مڑ گئی تھی جب اُسے ملزم کے ہاتھ سے چھینا گیا (حضرت ) مرزا البشیر الدین محمود احمد کو پکڑ کر آپ کو آپ کے گھر لے جایا گیا ، جو کہ محراب کے دروازے سے ۳۰ فٹ کے فاصلہ پر ہے.(حضرت ) مرزا بشیر الدین محمود احمد عزم کی طرف مڑے نہیں تھے کہ اس کا چہرہ دیکھتے.مرزا صاحب کی عمر 4 اور 20 سال کے درمیان ہے.ساڑھے چار بجے شام کے قریب میں نے رقعہ.P.A جو عدالت میں پیش کردہ ہے.لالیاں پولیس اسٹیشن کو لکھا.جس میں پولیس کو اس واقعہ کی اطلاع دی.یہ میرے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کا مضمون درست ہے.یہ عبد العزیز محتسب صاحب کے ذریعہ تھانہ پولیس کو بھجوایا گیا تھا.لالیاں سے پولیس چھ بجے شام کے قریب آئی.ہم نے ملزم کو ان کے حوالے کر دیا.ملک ولایت خان نے چاتو 1-P عدالت میں پیشیکہ وہ پیش کیا.میرا معائنہ لالیاں میں ڈاکٹر نے کیا تھا.NIL XXN R.O.& A-C.M.I.C.Sec 30.JhaNG, LALIAN.12 5.1954
۲۳ ONS.A, سرکاری گواہ نمبر ۲ ڈاکٹر ریاض قدیر سرجن میو ہسپتال لاہور ۱۰ مارچ ۱۹۵۴ ء کو مرزا مظفر احمد صاحب (مرزا بشیر الدین محمود احمد کے بھتیجے) لاہور میں میرے پاس آئے اور وہ مجھے اپنے ہمراہ ربوہ لے گئے.تاکہ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد کا معائنہ کروں اور ان کی دیکھ بھال کروں.ر مارچ ۱۹۵۴ ء کو گیارہ بجکہ پندرہ منٹ رات کے وقت میں نے (حضرت ) مز البشیرالدین محمود احمد کا معائنہ ربوہ میں آپ کی جائے رہائش پر کیا.میں نے آپ کے بدن پر مندرجہ ذیل زخم پائے.نبرا - گردن کے پچھلے حصہ پر چوڑے رخ قطع کرتا ہوا سوا دو اپنے لمبا ز غم تھا.جو سیا جا چکا تھا.دائیں کان کے پیچھے دو انگل چوڑا اور گدی کے بیرونی ابھار کے نیچے ساڑھے تین انگل چھوڑا از خم تھا) نمبر ٢- ایک سوجی ہوئی خراش ساڑھے تین انچہ نظر کی اسی زخم کے ارد گرد اس کے نچلے حصہ بہ ہر خاص طور پر نمایاں تھی.مجھے بتایا گیا کہ سوجن بڑھ گئی ہے.زخم کے ٹانکے لگانے کے بعد مجھے شبہ ہوا کہ رقم کے اندر سے خون اب بھی جاری ہو رہا ہو گا.اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ زخم کو دوبارہ کھولوں ۳/۵۴/ ۱۱ کو سوا تین بجے صبح زخم کھولا گیا.اس سے پہلے جو تیاری ضروری تھی 03 کرلی گئی تھی.زخم کھولنے پر میں نے دیکھا کہ زخم چھرا ہوا تھا اور سیاہ رنگ کے خون کے لو تھڑوں سے پُر تھا اور ایک درمیانے سائز کی شریان کے زخم سے خون تیزی سے بہ رہا تھا.اس کے علاوہ زخم کی گہرائی سے اور سٹر نومے ٹائڈ (STER NO.MATOID) عضلات کے قطع شدہ سروں سے بھی عام خون بھاری تھا.یہ زخم سوا دو انچہ گہرا تھا.اُن نسوں کو لے مقدمہ کے ریکارڈ میں فیض قدیر درج ہے.
جن میں سے خون جاری تھا.باندھ دیا گیا اور جو عضلات کٹ گئے تھے.اُن کوسی دیا گیا.گیس پیک ( GAS PACK) ڈرمیٹنگ ٹیوب DRAINING TUBE) زخم کے اندر رکھ دی گئی اور ٹانکے لگا دیئے گئے اور جلد کو سی دیا گیا زخم تازہ تھا اور ہو سکتا ہے کہ چار بجے شام کے قریب اکسی دن زخم لگا ہو..5.8 عدالت میں پیشیکر دو میری معائنہ رپورٹ ہے جو کہ میں نے پولیس کی درخواست پر ۱/۳/۵۴ کو تیار کی تھی.یعنی سب انسپکٹر انچارج پولیس سٹیشن لالیاں کے مطالبہ پر یہ 1 - 8 - P عدالت میں پیش کردہ ہے.زخم نمبرا ہو سکتا ہے.چاقو سے لگا ہو.1.P - عدالت میں پیشیکر دہ زخم نمبر میری رائے میں حملہ آور کے ہاتھ اور اس کی پوری طاقت کے ساتھ ملاپ سے ہوا.یا چا تو کے کند حصے کی ضرب سے یا سیٹے ہوئے زخم میں خون کے جمع ہو جانے کی وجہ سے ہوا.ضروری شہ رگ کی شریان S TENO-MASTOID حملے کے نیچے واقع ہے.یہ رگ زخمی ہونے سے بچ گئی اگر یہ رگ کٹ جاتی اور فوری طور پر طبی امداد نہ ملتی تو اس صورت میں زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا.زخم نمیرا نمبر ہ کی نوعیت سادہ تھی.میں لاہور سے زخم دیکھنے کے لیے تین دفعہ دلوہ آیا.میں نے ٹانکے کھولے.زخم تسلی بخش طور سے اچھا ہو رہا تھا.XXN-NIL X XN عدالت سے.مرزا بشیر الدین محمود احمد کے جسم پر لگے ہوئے زخم زندگی کے لیے عام حالات میں خطرہ کا موجب نہیں ہو سکتے تھے.اس سے میری مراد یہ ہے کہ بروقت اور صحیح طبی امداد ملنے کی صورت میں یہ زخم زندگی کے لیے خطرے کا موجب نہیں تھے.
۲۵ ON SA سرکاری گواہ نمبر ۳ ڈاکٹر مرزا منور احمد ایم بی بی.ایس.میڈیکل آفیسر آن میلیتھے نوٹی فائیڈ ایریاکمیٹی بلدیہ باور اور اسٹنٹ انچارج نور ہسپتال ریوہ مورخہ دس مارچ ۱۹۵۴ء کو چار بجے شام کے کچھ منٹ بعد میں نے (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کا قصر خلافت میں طبی معائنہ کیا اور مندرجہ ذیل زخم آپ کے جسم پر پائے.ایک کٹا ہوا کھلا زخم تقریباً ہم اپنے لمبا گردن کے پچھلی طرف دائیں حصہ پر دائیں کان کے تقریباً دو انگل پیچھے اور گرمی کے ساڑھے تین انگل نیچے.اس زخم سے خون بہت کثرت سے یہ رہا تھا اور مریض صدمہ یافتہ تھا اس لیے میں نے فوری طور پر خون روکنے کے لیے تین پٹیاں باندھیں.جب میں پٹیاں باندھ رہا تھا.تو میں نے محسوس کیا.کہ زخم کافی گہرا ہے، لیکن میں زخم کی صحیح گہرائی معلوم نہ کر سکا.کیونکہ اُس وقت پہلا اور فوری مقصد یہ تھا کہ خون کو بند کیا جائے.ورنہ اگر خون بلا روک ٹوک بنتا رہتا تو ایک خطرناک صورت حال پیدا ہوسکتی تھی.یہ زخم کسی تیز دھار والے آلہ سے لگا یا گیا تھا اور غالباً زخم لگنے کا وقفہ پندرہ نہیں منٹ ہوگا.ہو سکتا ہے کہ یہ زخم اسی چاتو کا ہو جو ۱۰.۴ عدالت میں پیشیکر وہ ہے.PC عدالت میں پیشیکردہ معائنہ رپورٹ میری ہے.میری رائے میں یہ زخم جس کا میں نے معائنہ کیا تھا.زندگی کے لیے خطرہ کا موجب تھا.اس دن نصف شب سے تھوڑا عرصہ قبل لاہور سے ڈاکٹر ریاض قدیر ربوہ آئے اور انہوں نے (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود احمد کا معائنہ کیا اور زخم کو کھول کر میری موجودگی میں سیا - اُن کے آنے سے پہلے کسی اور شخص نے زخم پر میرے لگائے ہوئے ٹانکوں کو نہیں چھوا.Nic X X N
x عدالت میں نے زخم کو ٹانکے لگانے سے پہلے اس کی گہرائی ناپنے کے لیے ٹولا نہیں تھا ، میں نے کس کر پٹی باندھ دی تھی تاکہ خون بند ہو جائے.سرکاری گواه نمیر سهم R.O A.c M.i.C.SEC30.Jhang CAMP AT LALIAN, 12-5-54 On S.A ڈاکٹر بشیر احمد - اے.ایم.اوسول ہسپتال لالیاں مورخه ۱۱/۳/۵۴ بوقت ۴۰ صبح میں نے عبدالحمید ابن منصب دار کا معائنہ کیا.ملزم لعمر تقریبا ۱۵/۱۶ سال جو کہ اس وقت عدالت میں موجو د ہے.جو کہ جنگ دالا کا باشندہ ہے.اُسے ایف سی نمبر ام محمد شاہ ۱۰/۳/۵۴ کو بوقت 9 بجے شام لایا.امتحانی رپورٹ میں تحریر کرده ممیزه اشارات (نشانات) عزم کے جسم پر پورے مطابق آتے تھے.میں نے اُس کے جسم پر مندرجہ ذیل زخم پائے.نوسطی بکھری ہوئی خراشیں گردن کے اوپر نصف حصے کے سامنے اور پہلوؤں پر جوتے تو تھے سے لیکر 7 x پر سائنز کی ہیں.گیا.یعنی کمبھری ہوئی خراشیں پیٹھ کے نچلے یا حصہ پر جن میں سے ہر ایک خراش ے بدن سے لیکر نہ ہو یہ بہک تھی.ایک سیدھی سطحی افقی کاٹ ہے کلبی بائیں انگلی شہادت کی بنیاد سے نیچے ہتھیلی کی سطح پر مذکورہ زخم معمولی تھے اور جو میں گھنٹوں کے اندر اندر لگائے گئے تھے.نمبرا اور نمبر 4 کسی کند ہتھیار سے لگائے گئے تھے اور نمبر ۳ کسی تیز دھار والے آلہ سے لگایا گیا تھا.نمبرا انگلیوں کے ناخنوں سے لگائے گئے تھے.P.D عدالت میں پیش کردہ میری ڈاکٹری قانونی رپورٹ کی سوارین کا پی ہے.نمبرا اور نمبر ۲ زخم فرار ہونیکی خاطر کوشش
کرتے ہوئے آسکتے ہیں.زخم نمبر ۳ چاقو سے آسکتا ہے.عدالت میں پیش کردہ 1-P ہے.مورخه ۱/۳/۵۴ ابوقت ۱۰ صبح میں نے اقبال ابن نور ماہی بعمر تقریباً ۳۰ برس کا معائنہ کیا جو کہ ربوہ کا باشندہ ہے جیسے کہ ایف سی محمد شاہ لایا تھا اور اس کے جسم پر مندرجہ ذیل زخم پائے.ایک ناسور (کھلا زخم ہے " جو بائیں کان کے سوراخ کے ابھار کو کاٹنے سے بنا تھا x + ب - ایک عمودی کاٹ کا زخم بائیں کان کی گولائی میں سے ہے ہو لیے سائز کا.ج ایک محمودی کاٹ کا زخم ہے کہ لمبا اور کھال کی موٹائی جتنا گہرا اور نصف اپنے چوڑا اپنی بڑی چوڑائی میں بائیں جڑے کے پیچھے اور نچلی سطح پر.محولہ بالا تینوں زخم - ب - ج ایک ہی ضرب کا نتیجہ تھے.زخم سادہ تھے اور ہمہ گھنٹوں کے اندر کسی نیز نو گذار آلے سے لگائے گئے تھے.شناختی نشان نمبرا چاند کی صورت ایک پرانے زخم کا نشان ہے وہ کا دائیں آنکھ کے باہر کے زاویے میں.۱-P - نمبر ۲ گردن کے وسط میں بائیں طرف ایک تل یا نشہ یہ ہوا ہے عدالت میں پیش کردہ PE میری ڈاکٹری قانونی رپورٹ کی درست کار بن کاپی ہے زیر بحث زخم چاقو کی ضرب کی وجہ سے ہو سکتے ہیں جو عدالت میں پیش کردہ 1-P ہے.میں نے غلام مرتضیٰ ابن چوہدری غلام مصطف العمر تقریباً ۱۳۵ برس) جو کہ ربوہ کا مکین ہے کا بتاریخ ۱۱/۳/۵۴ بوقت ، بجے صبح جیسے کہ ایف سی محمد شاہ لایا تھا.معائنہ کیا اور مندرجہ ذیل رخم اس کے جسم پر میں نے پائے.چار سٹی لکیر دار کھرے ہوئے خراش کے زخم ہر ایک اُن میں سے تم اپے سے لے کہ x " تک سائنہ کا تھا.یہ سب ناک کے بائیں طرف اور بائیں رخسار پر تھے.زخم سادہ تھا اور چومیں گھنٹے کے دوران کسی گند نوکدار سنتھیار کے ذریعے لگایا A گیا تھا مثلاً انگلیوں کے ناخن اور کسی کشمکش کا نتیجہ بھی ہو سکتے تھے.شناختی نشان.ایک تل ہے کہ یہ ناک کے بائیں طرف درمیان میں.
-☑ ایک پرانے زخم کا نشان ہے الم کا پیشانی کے داہنی جانب اہرو کے نزدیک عدالت میں پیشیکرده P.E میری ڈاکٹری قانونی رپورٹ کی درست کاربن کاپی ہے.XXN NIL ON S.A.R.O.AND M.j.C.SEE 30 Jhang AT Lalian 12.5-79 سرکاری گواه نمبر ۵ اقبال احمد ابن نور ماہی بھٹی عمر ۳۰ برس پہریدار (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد تاریخ ۱۰/۳/۵۴ میں نے نماز عصر پہلی صف میں ادا کی.میں (حضرت ) مرزا بشیر الدین محمود احمد کے پیچھے ذرا سی داہنی جانب پہلی صف میں کھڑا تھا.ملزم عبدالحمید جو کہ عدالت میں موجود ہے.جیسے کہ میں اب پہنچا تا ہوں.اسی صف میں کھڑا تھا.میرے اور اس کے درمیان تین افراد تھے.نماز (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود احمد کی امامت میں ادا کی گئی.نمانہ کے بعد میں نے محراب میں دروازہ کھولا.میں نے اُن کے جوتے دروازے میں رکھے.جب میں ہوتے لکھ رہا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ جیسے (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود احمد نے کسی قسم کی ضرب کھائی ہے اور آپ چہرے کے بل گرا چاہتے ہیں.میں نے فوراً انہیں رسنبھالا.اس وقت (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی گردن کی داہنی جانب پر ایک زخم سے خون بہ رہا تھا.میں نے مزم عبد الحمید کو (حضرت) مرزا صاحب کے پیچھے دیکھا.جب میں نے اپنے بائیں کان کے نزدیک گردن کی جانب کسی تیز دھار آلہ کی ضرب محسوس کی.اس وقت میں نے مرزا صاحب کو سہارا دیا ہوا تھا.اس وقت غلام مرتضی.P نے ملزم کو قابو میں کر لیا.اس کے بعد میں نے (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو سہارا ! |
۲۹ دے کر دروازے کے راستہ دوسرے گواہوں کی مدد سے انہیں اُن کی قیام گاہ پر پہنچا دیا میرا ڈاکٹری معائنہ کیا گیا.جب میرے بائیں کان اور گردن کے ایک حصے پر چوٹ اور زخم لگا تو میں اپنے حملہ آور کو نہ دیکھ سکا.X X N NiL R.O.AND A.C M.I.C.SEC: 30 VHANG CAMP LALIAN S.A.ON 12.5.1954 سرکاری گواہ نمبر 4 ولایت خان ابن ملک حسن خان ذات ریحان لعمر ۴۸ برس نائب آڈیٹر- تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان بتاریخ ۱۰/۳/۱۹۵۴ میں ان بہت سے لوگوں میں شامل تھا، جو نماز عصر ادا کرنے کے لیے مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے.نماز (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود احمد نے پڑھائی (میں) ان سے تین یا چارفٹ کے فاصلہ پر تھا.ملزم عبدالحمید بھی جو کہ اس وقت عدالت میں موجود ہے اور جیسے کہ میں پہچانتا ہوں پہلی صف میں دوران نماز مجھ سے تین یا چار افراد کے فاصلہ پر کھڑا تھا.وہ (حضرت مرزا صاحب کے پیچھے تھا.نمازہ کے بعد جبکہ (حضرت) مرزا صاحب محراب والے راستہ سے مسجد سے جانا چاہتے تھے رتب ) ملزم نے جو کہ اس وقت ایک کمبل لپیٹے ہوئے تھا.عدالت میں پیش کردہ 1-P چاقو نکال لیا اور یا علی" کا نعرہ لگا کر اُس نے عدالت میں پیش کردہ - چاتو کی مدد سے (حضرت ) مرزا بشیر الدین محمود احمد کی گردن پر ایک زخم لگایا.(حضرت) مرزا صاحب آگے کی طرف گر گئے ، لیکن اقبال احمد.p نے اُن کو سہارا دیا.تب عزم نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد و عدالت میں چنگیرد.M P-I
چاتو کی مدد سے مزید ایک ضرب لگانا چاہی، لیکن یہ ضرب اقبال احمد..P کے کان پر لگی.جو کہ اُس وقت (حضرت مرزا صاحب کو سنبھالے ہوئے تھا.قبل اس کے کہ ملزم تیری P.1.کوشش کرتا.گواہ غلام مرتضیٰ نے عزم کو کمر سے پکڑ لیا اور میں نے عدالت میں پیش کردہ.چا تو ملزم کے ہاتھ سے چھین لیا.عدالت میں پیش کردہ ۱۰.P چاقو کا پھل ایک طرف کو مڑ گیا تھا.دوسرے لوگ (حضرت) مرزا صاحب کو اُن کے گھرنے گئے ، ہم نے عزم کو گھیرے رکھا اور اُسے مسجد ہی میں رکھا.تب گواہ غلام مرتضیٰ نے تحریری طور پر اس بات کی اطلاع لالیاں پولیس سٹیشن کو دی.پولیس پہنچ گئی.میں نے عدالت میں پیش کر دہ چا تو 1.P پیش کر دیا.پولیس نے عدالت میں پیش کردہ میمو.P تیار کیا.جو کہ درست ہے اور اس پر میرے دستخط ثبت ہیں.تب اسے پولیس نے ایک سر بمہر پارسل میں بند کر دیا.عدالت میں پیشیکرده ۴.۱ اس وقت خون آلود تھا.XX N Nil R.O.AND A.C M.I.C SEC : 30 JHANG At Lalian 12.5-1954, سرکاری گواہ نمبر ON SA عبدالحکیم الکی، ابن مولوی عبدالرحیم صاحب ذات بٹ لعمر ۲۱ سال طالب علم جامعتہ المبشر بن ریود تاریخ ۱۰/۳/۱۹۵۴ میں اُس نماز عصر میں شامل تھا.جو (حضرت مرزا البشیر الدین محمود احمد نے پڑھائی.میں پہلی صف میں تھا.ملزم عبد الحمید نجیسے کہ میں پہچانتا ہوں.میری بائیں طرف دوا ومیوں کے پرے کھڑا تھا.نمازہ کے بعد گواہ اقبال احمد نے محراب میں حضرت مرزا صاحب کے لیے دروازہ کھولا.ملتزم نے جو اس وقت ایک کمبل لپیٹے ہوئے تھا.(حضرت)
I مرزا صاحب پر ایک دار کیا.اُن کی گردن پر لگنے والے زخم سے خون بہ نکلا.آپ لڑکھڑا گئے لیکن اقبال احمد نے اُن کو سہارا دیا.تب ملزم نے (حضرت مرزا صاحب کو مزید ایک ضرب لگانے کا ارادہ کیا.اس ضرب سے اقبال احمد کے بائیں کان پر ایک زخم لگا.تب گواہ غلام مرتضی نے ملزم کو پکڑ لیا.اس وقت میں نے عدالت میں پیش کردہ ۱۰.P چا تو مزم کے ہاتھ میں دیکھا.اُس وقت یہ خون آلود تھا، ملک ولایت خان نے اُس وقت عزم کے ہاتھ سے چا تو چھین لیا XXN Nil R.O.AND A.C M.I.C.SEC.30.Shang CAMP AT Lalia N 12.5-1954 سرکاری گواہ نمبر ۸ ON 5.A عبد الرحمان ابن محمد عبداللہ ذات ریحان بعمر ۴۰ سال پرائیوٹ سیکرٹری (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام فرقہ احمدیہ کوہ میں نے عدالت میں پیش کردہ P.H اور 1-P.H فارم پولیس کے رو برو پیش کئے.ایک میمو دور بارہ تیار کیا گیا.مجھے یاد نہیں کہ اس قسم کا کوئی میمو تیار کیا گیا تھا.نوٹ : ایسا کوئی میمو فائل میں موجود نہیں.XXN Nil R.O.AND M.C M.I.C.SEC 30 JHANG CAMP LaLian 12.5.1954
۳۲ ON سرکاری گواہ نمبر ۹ A.که واد د احمد ابن محمد المعیل ذات ارائیں لعمر ۲۵ سال کلرک پرائیوٹ سیکرٹری مرزا البشیر الدین محمود احمد ر بوه بتاریخ ۱۰/۳/۱۹۵۴ تقریباً ۱۵ - ۸ تا ۳۰ - ۸ بجے صبح عبدالحمید ان افراد میں شامل تھا.جہنوں نے (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سے ملاقات کرنی تھی.میں نے عبدالحمید مزم سے اُس کے نام کے بارہ میں دریافت کیا اور اس نے اپنا نام عبدالحمید مبتلا یا جب میں نے اس سے ملاقات کرنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے مجھے بلایا کہ وہ ملازمت کی تلاش میں ہے.میں نے جواب دیا کہ فی الحال کوئی آسامی موجود نہیں.اس پر ملزم نے کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ اسے باضابطہ طور پر ربوہ کے سکول میں داخل کر لیا جائے.جس پر میں نے اسے بتایا کہ ہم کسی قسم کا کوئی سکول نہیں چلا رہے.ملزم نے اصرار کیا اور کہا کہ وہ احمدی جماعت میں شامل ہونے اور بعیت کرنے کے لیے آیا ہے.میں نے احمد دین چپڑاسی کو بلایا تا وہ عزم کو اس مقصد کے لیے ایک طبع شدہ فارم مہیا کرے.تب میں اپنے دوسرے کام میں مشغول ہوگیا.XXN NIL R.O.AND A.C M.i.c.SEE : 30 JHANG CAMP LALIAN 12-5-1954 ON S.A سرکاری گواہ نمبر ۱۰ احمد دین ابن محمد دین ذات ملک بعمر ۲۲ سال چیڑ اسی پرائیوٹ سیکرٹری (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود احمد و توعہ کے روز تقریباً کہ بچے صبح زیر ہدایت گواہ داؤد احمد میں نے ایک طبع شدہ فارم
عدالت میں پیش کردہ PH ملزم عبدالحمید کو مہیا کیا جو کہ اس وقت عدالت میں موجود ہے اور جیسے میں پہچانتا ہوں.اُس نے سُرخ پنسل سے میری موجودگی میں اندراجات کئے اس کے بعد اس پر اپنے انگوٹھے کا نشان ثبت کیا.میں نے اسے بتایا کہ درست طریق یہ تھا کہ فارم کو سیاہی سے پر کیا جاتا ، بعد ازاں میں نے اسے عدالت میں پیش کردہ الر دنیا کیا عزم نے یہ فارم سیا ہی سے پڑ گیا اور میری نگاہوں کے سامنے اس پر اپنے دستخط ثبت کئے.ملزم نے عدالت میں پیش کر وہ P.H کو توڑ مروڑا اور پھینک دیا.میں نے اسے ایک تختے پر رکھ دیا..H/1 م تب میں نے عدالت میں پیشیکردہ ابر 1.در فارم کو اُس کمبس میں جو کہ اس قسم کے فارموں کے لیے مختص ہے.لکھ دیا ، ملزم نے دوبارہ کہا کہ اس کو مذکورہ تمہیں میں رکھو.XXN Nil بذریعہ کورٹ جس سُرخ پنسل سے عزم نے عدالت میں پیش کردہ PH اندراجات کئے تھے وہ پہلے ہی سے عزم کے پاس تھی.اس نے عدالت میں پیش کردہ PHA اس قلم اور سیاہی سے پر کیا جو کہ اُس جگہ پر اس قسم کے فارم پر کرنے کے لیے رکھا ہتا ہے.R.O.AND M.I.C.SEE : 30 At Lalian HÀNG 12.5-1954 سرکاری گواہ نمبر 1 ON S-A.(حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (امام) فرقہ احمدیہ یہ بوہ میں نے بتاریخ ۱۰/۳/۱۹۵۴ کو عصر کی نماز کی امامت مسجد مبارک ربوہ میں تقریباً ۳ بجے تا ۳۰-۳ بجے سہ پہر کی.نمازہ کے بعد میں محراب میں دروازے کی طرف چلا.میں دروازے تک پہنچ گیا.مجھے کامل طور سے یاد نہیں کہ آیا میں ایک قدم دروازے سے باہر نکال چکا تھا یا کہ نہیں.اغلب قرین قیاس یہی ہے کہ میں ایک قدم دروازے سے باہر نکال
چکا تھا.میں نے محسوس کیا کہ کوئی چیز طاقت کے ساتھ میری گردن سے ٹکرائی ہے اس سے قبل میں نے کسی قسم کا نعرہ نہیں سنا تھا.میں نے چوٹ کھانے کے بعد دوران سر محسوس کیا اور جب میں کچھ سنبھلا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص مجھے سہارا دیئے ہوئے تھا.اس دوران سر کی حالت میں مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ جو شخص مجھے سہارا دیئے ہوئے تھا اس کے کان پر زخم لگا ہے.زخم لگنے کے بعد غیر ارادی طور پر میں نے اپنا ہا تھے اس جگہ پر رکھا جہاں ضرب لگی تھی.اس شخص نے جو کہ مجھے سنبھالے ہوئے تھا غالباً اس خیال سے کہ شائد میں اپنے تقسیم.پر پورا قابو پا چکا ہوں مجھے چھوڑ دیا لیکن میں ضرب کے دھکے سے آگے کو گر گیا.تب دوسرے افراد میری مدد کو آئے اور مجھے دروازے کے باہر لائے.ضرب کے بعد میں نے دوران سر محسوس کیا اور چونکہ میں بوجہ دوران سر پوری طرح سمجھ نہیں سکا تھا کہ کیا ہوا ہے اس لیے یکیں نے وہاں موجود لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا واقعہ ہوا ہے.تب مجھے دویا تین افراد نے بتایا کہ مجھ پر چاقو سے حملہ کیا گیا ہے.اُس وقت میں نے اپنا وہ ہاتھ ہٹا لیا جو میں نے اس جگہ پر رکھا ہوا تھا جہاں ضرب لگی تھی.جب میں نے ہاتھے کی طرف دیکھا تو وہ خون آلود تھا.ان لوگوں نے میری توجہ میرے کپڑوں کی طرف بھی مبذول کرائی.میں نے دیکھا کہ میرے کپڑے بھی خون میں لت پت تھے.میں نے لوگوں سے کہا کہ مجھے میرے گھر لے چلیں.انہوں نے ایسا ہی کیا.مرزا منور احمد مقامی ایم او آن این اے سی ربوہ نے میرے نہ خم کا معاینہ کیا.انہوں نے میرے زخم کو ٹانکے لگا دیئے تقریباً گیارہ بجے رات ڈاکٹر ریاض قدیم لاہور سے آگئے اور ٹانکہ شدہ زخم کے معاینہ کے بعد انہوں نے ٹانگوں پر اطمینان کا اظہار نہ کیا اور انہوں نے کہا کہ زخم کے اندر سے نعون بہ رہا ہے.انہوں نے زخم کو کھولا اور اس کو دوبارہ ٹانکے لگائے.ٹانکے آٹھ دن بعد کھول دیئے گئے اور ۱۲ یا ۱۳ دن کے بعد ٹیوب کو الگ کر دیا گیا اور زخم قریباً ۱۸ دن کے بعد مندمل ہو گیا.xx Nil × × N بذریعہ عدالت.مجھے یاد نہیں کہ میں نے ملزم عبدالحمید کو جو کہ اس وقت عدالت میں موجود !
ہے نماز سے قبل یا نماز کے دوران دیکھا ہو.جو ضرب مجھے لگی تھی وہ حملہ آور کے ذریعے مجھے پیچھے سے لگائی گئی تھی.میں نے ملزم کو چاقو سے زخم لگاتے نہیں دیکھا وقوعہ سے قبل عزم نے مجھ سے ملاقات نہیں کی تھی.مجھے یاد نہیں کر کسی شخص نے مجھے ملزم کے بارہ میں وقوعہ سے قبل کسی قسم کی کوئی اطلاع دی ہو.اس بیان کی سماعت کے دوران گواہ نے عدالت کو بتایا کہ مسجد کے دروازے کے آگے کچھ سیڑھیاں ہیں جن کے ساتھ ڈیٹ فٹ بلند منڈیر ہے.لوگوں نے انہی سیڑھیوں کی منڈیر پر سے ان کی مدد کی تھی.R.O.AND A.C M.i.C.SEC : 30 Jhang LALIAN 12.5-1954 ملزم پر جرح کی جائے M.I.C.SEC : 30 JHANG LALIAN 12.5 - 1954 بیان عبدالحمید ابن منصب دار ذات بحت لعمر ه ا ۱۵ سال W.0.طالب علم کلاس نہم سٹی مسلم ہائی سکول لائلپور.مکین چک نمیز ۲۲ جنگ ال...سوال کیا تم بتاریخ ۱۰/۳/۱۹۵۴ تقریباً کہ بجے صبح داؤد احمد سر کار می گواہ کو (حضر) مرزا بشیر الدین محمود احمد سے ملاقات کے سلسلے میں ) ملے تھے.جواب میں ملاقات کے ضمن میں ایک شخص سے ملا تھا ، لیکن میں نہیں جانتا کہ آیا اس کا نام داؤد احمد ہے.سوال کیا تم نے اس روز اور اس وقت داؤ د احمد کو کہا تھا کہ تم احمد یہ فرقہ میں شامل ہونا چاہتے ہو.
ہاں.میں نے اس آدمی کو کہا تھا کہ میں فرقہ احمد یہ میں شامل ہونا چاہتا ہوں اور کہا تھا کہ اس مقصد کی خاطر مجھے فارم دیئے جائیں.•H P.H.سوال کیا تم نے متذکرہ بالا تاریخ کو اور تقریباً اسی وقت عدالت میں پیشیکرده..اور 1 P.H سرکاری گواہ احمد دین سے وصول کئے تھے اور عدالت میں پیش کردہ ۲۰۱۶ کو پنسل سے پڑ کیا تھا اور اس پر اپنے انگوٹھے کا نشان لگایا تھا اور پھر بعد میں جب تمہیں ایک اور فارم کو پر کرنے کے لیے کہا گیا تو تم نے عدالت میں پیش کردہ.P.H کے اندراجات سیا ہی سے پر کئے تھے.جواب ہاں.میں نے عدالت میں پیش کردہ PH اور PH سرکاری گواه احمد دین سے وصول کئے تھے.میں نے عدالت میں پیش کردہ - P.H سکتہ کی پنسل سے پُر کیا تھا اور اپنے انگوٹھے کا نشان 1/2.P عدالت میں پیشکر دہ پر ثبت کیا تھا.میں نے عدالت میں پیش کردہ ۱/P.H میں اندراجات سیاہی سے لکھے اور یہ میرے ہاتھ کی لکھائی ہے..سوال کیا یہ درست ہے کہ تم نے عدالت میں پیش کردہ PH میں اپنا نام عبدالکریم ابن عبدالرحیم جٹ لکھا اور عدالت میں پیش کر دہ 1 P.H میں عبد الرحیم ابن عبد الکریم جٹ (لکھا ) ؟ جواب ہاں 03.+ سوال کیا یہ درست ہے کہ بتاریخ ١٠/٣/١٩٥٧ تقریباً ۴ بجے شام تم نے ۲۱۰/۳/۱۹۵۴ ایک چاقو عدالت میں پیش کردہ 1.P کے ساتھ (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (امام) فرقہ احمدیہ ربوہ کی گردن پر دائیں طرف جو کہ عضو رئیسہ ہے اس نیت سے اور ان حالات میں زخم لگایا کہ اگر تمہارے اس فعل سے اُن کی وفات ہو جاتی تو تم قتل کے مجرم ہوتے.جواب ہاں.میں نے مرزا بشیر الدین محمود احمد کی گردن پر اُن کو قتل کرنے کی نیت سے چاقو سے زخم لگا یا تھا.میں نے اُن پر قاتلانہ حملہ اس لیے کیا کہ میں نے محسوس
E اور گیا.کہ انہوں نے میرے محبوب مقدس رسول کی شان میں گستاخی کی ہے میں اپنی جان ناموس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی خاطر قربان کر دینا چاہتا تھا.سوال کیا تم کچھ اور کہنا چاہتے ہو ؟ جواب میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا اور میں کوئی وفا علی وکیل نہیں کرونگا.CAMP Lalian DATED 12.5.1954 ی طور پر دفعہ ۳۰۷ پی پی سی کے تحت ملزم کے خلاف مقدمہ بنتا ہے.بدیں وجہ فرد جرم لگائی جائے.
فهرست قافله قادیان ۱۹۵۳ء -۱- ایمینه بی بی صاحبہ بنت حسین بخش صاحب چک ۸۸ لائلپور -۲ امتہ الحفیظ صاحبہ بنت چوہدری اسد اللہ نعال صاحب ایڈووکیٹ لاہور -۳- چوہدری اسد اللہ خاں صاحب ایڈووکیٹ - امیر قافلہ - 1 کنال پارک لاہور آمنه بیگم صاحبہ بنت شہاب الدین صاحب مرحوم مینا پور سیالکوٹ -٥ - آمنہ بیگم صاحبہ بیوہ ڈاکٹر محمد اشرف صاحب مرحوم معرفت پر وفیسر محمد افضل صاحب انصار گلی منٹگمری - ابو المنیر مولوی نورالحق صاحب ولد منشی عبدالحق صاحب کا تب محلہ دارالصدر ربوہ - مینرالحق صاحب پسر مولوی نور الحق صاحب - امتہ القیوم صاحبہ بنت ڈاکٹر بشیر احمد صاحب در دیش معرفت محمد احمد صاحب تعلیم الاسلام کا بج ربوہ امته البشر بیگم صاحبہ زوجہ عبد المغنی صاحب راولپنڈی.ڈاکٹر اقبال احمد خان صاحب مظفر گڑھ امتہ الرشید صاحبہ بنت عبدالرحیم صاحب درویش.دارالرحمت ربوه -۱۲- آمنه بیگم صاحبه زوجه -۱۳- عبدالسلام صاحب پسر " " -۱۴ امتہ السمیع صاحبہ زوجہ مرزا عبداللطیف صاحب درویش محله دارالیمین ربوه - عبدالحمید صاحب ابن بشیر احمد صاحب ابن " -10 -14 -14 نصیرہ بیگم صاحبہ بنت " " " " # 4 " 4 " " ۱۸ - احمد گل پراچہ صاحب ولد میاں فیض بخش صاحب ۴۵۱/۱۷ ناظم آباد کراچی - A " ۱۹- پیوہدری احمد مسعود نصر اللہ خانصاحب دلد چوہدری احمد سر اللہ خانصاحب مرحوم ڈسکہ ضلع سیالکوٹ
۳۹ مرزا اعظم بیگ صاحب ولد مرزا رسول بیگ صاحب اقبال روڈ ٹنڈو آدم سندھ ۲۱- بشیراں بی بی صاحبه زوجه محمد حسین صاحب دارالسیمین ربوه برکت بی بی زوجہ اللہ رکھا صاحب مرحوم سیمنٹ بلڈ نگ لاہور بشری بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری اسد اللہ خان صاحب ایڈووکیٹ لاہور ۲۴- چوہدری بشیر احمد صاحب ولد چوہدری محمد عبداللہ خانصاحب مرحوم دانہ زید کا ضلع سیالکوٹ - پروفیسر بشارت الرحمن صاحب ایم.اسے تعلیم الاسلام کالج لاہور -۲۶ - بلقیس اسلم صاحبہ بنت ماسٹر محمد شفیع صاحب جلیانوالہ براستہ گوجرہ ضلع لائلپور برکت بی بی صاحبہ بنت منگل صاحب مرحوم مارکیٹ روڈ نواب شاہ سندھ بیگم بی بی صاحبہ زوجہ محمدعبداللہ صاحب گلی گوردوارہ آبادی حاکم رائے گوجرانوالہ -۷۹- بلقیس بیگم صاحبہ زوجہ ماسٹر محمد انور صاحب محلہ دارالصدر ربوده ۳۰ امته المتین صاحبه بنت " # بشیراں بی بی صاحبہ بنت عبدالرحیم صاحب درویش کرنڈی سندھ سردار بشیر احمد صاحب ایس ڈی او ولد (حضرت) سردار عبدالرحمن صاحب مرحوم ۲۶ لٹن روڈ لاہور ۳۳- بشیر احمد صاحب پسر عبدالکریم صاحب درویش ربوہ ضلع جھنگ - ثناء اللہ صاحب ولد عبدالحق نور صاحب کونڈی سندھ ۳۵- جنت بی بی صاحبه زوجه سکندر علی صاحب محلہ بھیجران مگھیا نہ جھنگ ۳۶- عبد الغفور صاحب ولد ۳۷- حبیبہ بیگم صاحبه بیوه محمد اسماعیل صاحب انصار گلی منتشگری ۱۳۸ با جیره بی بی صاحبه زوجه چو ہدری غلام محمد صاحب بقا پور ضلع گوجرانوالہ -۳۹ حمیده بیگم صاحبه زوجه پیر شیر عالم صاحب گولیکی ضلع گجرات ۴۰ - حاکم بی بی صاحبہ زوجہ چو ہدری سائیں دتہ صاحب سٹھیا لی چک نمبر ۲۵ ضلع شیخو پوره ۴۱ باجره بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری حبیب اللہ صاحب کرنڈی سندھ H ۴۲.مبشر احمد صاحب ولد
۲۳ - حاکم بی بی صاحبہ زوجہ سائیں صاحب سیمنٹ بلڈنگ لاہور ۴۴- حفیظہ بی بی صاحبہ زوجہ سائیں صاحب " -۲۵ حمیده بیگم صاحبه زوجہ مرزا اعظم بیگ صاحب اقبال روڈ ٹنڈو آدم سندھ ۴۶- شاہین قیصر صاحبہ بنت " - بشری نصرت N 4 -۴۸ خدیجه بی بی مصاحبه زوجه حافظ محمد امین صاحب راولپنڈی ۴۹ دارد احمد صا حب ولد شاہ محمد صا حب نمبر دار دهار د والی چک ۳۳ ضلع شیخو پوره ملک روشن دین صاحب ولد گرم دین صاحب دارالسیمین ربوه ۵۱- ماسٹر رشید احمد صاحب ولد علی بخش صاحب ڈی.بی ہائی سکول چونڈہ سیالکوٹ رشیده بیگم صاحبه زوجه محمد امین صاحب انصاره گلی منٹگمری -OF ۵۳- منور احمد صاحب پسر " ۵۴ - رضیہ سلطانہ صاحبہ بنت حافظ محمد امین صاحب ڈھوک دتہ راولپنڈی ریشیم بی بی صاحبہ بیوہ محمد عبداللہ صاحب پورن نگر سیالکوٹ -۵۶ رحیم بی بی صاحبه زوجه شیخ فضل حسین صاحب کارخانه بازار لائلپور -00 ۵۷ امته الباسط صاحبه بنت -QA H رحیم بی بی صاحبہ زوجہ منشی محمد صاحب ریل بازار لائلپور ۵۹ - غلام نبی صاحب پسر -** ریشیم بی بی صاحبہ زوجہ شاہ محمد صاحب نمبر دار دهار و والی چک نمبر ۳۳ شیخو پوره 4 - زینب بی بی صاحبہ زوجہ بشیر احمد صاحب دانہ زید کا ضلع سیالکوٹ -۶۲ زہرہ بی بی صاحبہ زوجہ ثناء اللہ صاحب کرنڈی سندھ نصیر احمد صاحب پسر - حفیظہ حفیظہ بیگم صاحبہ بنت رضیہ بیگم صاحبہ بنت کی کو "
ام -۶۶- رشیداں بی بی صاحبہ بنت عزیز الدین صاحب کرنڈی سندھ - رقیه بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری غلام قادر صاحب چک نمبر ۸۴ الف بہاولپور سکینه بیا بی صاحبه زوجه منشی یعقوب علی صاحب گھنو کے حجہ سیالکوٹ -۶۹- سلیمہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری شریف احمد صاحب اکینال پارک لاہور -47 سعید احمد صاحب با جوه ولد " سلطان صلاح الدین صاحب فاتح ولد ڈاکٹر گوہر دین صاحب ڈھوک رتہ راولپنڈی - مرزا سعید احمد صاحب سعید ولد مرزا محمد زمان صاحب در ویش تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ - سیف اللہ سیف صاحب ولد سردار خان صاحب مرحوم ملازم دفتر بیلی ربوه ۷۴- سلیمہ بیگم صاحبہ زوجہ ماسٹر غلام رسول صاحب محله دارالیمین ربوه 169 -66 -CA سردار بی بی صاحبه زوجه شیخ فضل احمد صاحب کارخانه بازار لائلپور کریم احمد صاحب پسر " کرو گیر سلیمہ بی بی بنت نور محمد صاحب سابق در دیش محله دارالرحمت ریوه سکینه بیگم صاحبه زوجہ مرزا فتح دین صاحب دفتر پرائیوٹ سیکرٹری ربوہ ، شمیم صاحبہ زوجہ چوہدری اعجاز نصر اللہ خانصاحب 11 کینال پارک لاہور ۸۰- چوہدری شمشیر علی صاحب ولد چوہدری فتح شیر صاحب نائب تحصیلدار سلانوالی ضلع سرگودها ۸۱- چوہدری شیر محمد صاحب ولد چوہدری ابراہیم صاحب چک ۳۸ جنوبی ضلع سرگودہا -۸۲- شیر محمد صاحب ولد غلام محمد صاحب زرگرستید والا ضلع شیخو پوره ۸۰ سیکینه بی بی صاحبہ بنت مولوی برکت علی صاحب در ولیش نمیره ضلع گجرات سردار بیگم صاحبه زوجہ مرزا برکت علی صاحب انند پورہ گوالمنڈی راولپنڈی -AP ۸۵- ☑Aч AL صابره بی بی صاحبہ زوجہ نذیر احمد صاحب شاد ٹھری سندھ رفیق احمد صاحب بسر کوئی " " " " صدیقہ عرف صدیقین صاحبه زوجه قدرت اللہ صاحب سمندری ضلع لائلپور ۸۸ صفیہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری علی محمد صاحب گھنو کے حجہ ضلع سیالکوٹ
۸۹ - مبارک علی صاحب پسر چوہدری علی محمد صاحب گھنٹو کے حجہ ضلع سیالکوٹ ۹۰ مرزا عبد الرشید صاحب ولد مرزا محمد عبداللہ صاحب در ویش وکالت مال ربوه ۹۱ - عبداللطيف صاحب اسلم ولد نور محمد صاحب سابق در ویش دارالرحمت ربوده -۹۲- قریشی عبد الغنی صاحب ولد قطب الدین صاحب مرحوم - جنرل سٹور ربوہ ۹۳ - ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ولد سردار بڑھا سنگھ صاحب کراچی -۹۴- عبدالرحمن صاحب قریشی ولد قریشی غلام محی الدین صاحب بنگلہ نمبر ۳۴ سکھر سندھ ۹۵ - چوہدری عبداللہ خان صاحب ولد چوہدری پیر محمد صاحب قلعہ صوبا سنگھ ضلع سیالکوٹ ۹۶ - عبدالحق صاحب ولد شہاب الدین صاحب محله الف ربوه " کو گھر 96- ڈاکٹر عبدالقد درس صاحب دلد رحیم بخش صاحب مرحوم مارکیٹ روڈ سندھ ۹.ڈاکٹر عبد المغنی صاحب ولد بابو عبد الغنی صاحب میڈیکل آفیسر سنٹر جیل راولپنڈی ٩٩ - عبد الشکور صاحب ولد حافظ محمد امین صاحب ڈھوک رتہ راولپنڈی شیخ عبدالمجید صاحب ولد شیخ رحمت اللہ صاحب بزاز امین پور بازار لائلپور 11 - عائشه می بی صاحبہ زوجہ عبد الستار صاحب ولد اللي بخش صاحب مرحوم کلاتھ مرچنٹ کونڈی سندھ عبد القدیر صاحب ولد چویدری شیر محمد صاحب چک ۳۸ جنوبی سرگودها ۱۰۲ ملک عزیز احمد صاحب ولد نور الدین صاحب مرحوم دار الصدر ربوه ۱۰۰ عظیم قادر صاحب زرگر ولد موادی برکت ملی صاحب سانگلہ ہل ضلع شیخو پوره - مرزا عنائت اللہ صاحب استلم ولد مرزا اسلام اللہ صاحب میر تعلیم الاسلام ہائی سکول ریبوه عبدالحق صاحب ولد چوہدری دین محمد صاحب پنڈی بھاگو سیالکوٹ -1.4 -11- عبدالحق صاحب شاکر ولد حکیم شیر محمد صاحب و کالت مال ربوه ملک عبدالرحمن صاحب داد ملک عمر دین صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ بدین ضلع حیدر آباد سندھ عزیزہ زاہدہ ملک صاحبه زوجه ملک محمد شفیع صاحب خالد چک نمبر ۱۹ منٹگمری عالم بی بی صاحبه زوجه چنین دین صاحب مرحوم دارا الصدر ربوه
- امتد الحبیب صاحبہ بنت ملک محمد شفیع صاحب خاکه چک ۱۹ منٹگمری ۱۱۳- عائشہ بی بی صاحبہ زوجہ اللہ دتہ صاحب 11 کینال پارک لاہور - غلام محمد صاحب زرگر ولد محمد قاسم صاحب مرحوم بگیر والہ سیالکوٹ ۱۱۵ - غلام رسول صاحب ولد محمد خان صاحب متعلم جامعہ احمدیہ احمد نگر ضلع جھنگ -114 ۱۱۶- غلام رسول صاحب ولد خوشی محمد صاحب ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول ریوہ شیخ غلام احمد صاحب ابن شیخ برکت علی صاحب مرحوم انچارج سول ڈسپنسری بصیر ہو غلام قادر صاحب ولد چوہدی عبدالرحیم صاحب مرحوم چک ۸۴ الف ضلع بہاولپور -HA ۱۱ فیض احمد اسلم صاحب ولد چوہدری مبارک علی صاحب کوٹ برکت علی ضلع ملتان ڈاکٹر فرزند علی صاحب ولد میاں حسین بخش صاحب محله دارا لرحمت ربوه ۱۲۱ شیخ فضل حسین صاحب ولد محمد عبداللہ صاحب بزانہ کا رخانہ بازار لائل پور ۱۲۲ - چوہدری فضل احمد صاحب ولد محمد دین صاحب مرحوم نائب ناظر تعلیم و تربیت ربوده ۱۲۳- شیخ فضل احمد صاحب ولد شیخ برکت علی صاحب مرحوم کارخانه با زار لائل پور ۱۲۴- خورشید احمد صاحب ولد شیخ فضل احمد صاحب کارخانه بازارها نیکپور ۱۲- فضل بی بی صاحبہ زوجہ شیخ الله بخش صاحب معرفت مسجد احمدیہ لائل پور -۱۲۶- سیده فرحت نسیم صاحبہ بنت سید بادل شاہ صاحب ۴۰۰ نسبت روڈ لاہور ۱۷۷ مولوی فضل دین صاحب بنگوی ولد کالوخان صاحب محله مومن پورہ لائلپور ۱۳۸ - کریم بی بی صاحبہ زوجہ نورمحمد صاحب مرحوم محله دارالیمین ربوه ۱۲۹ مک گل محمد صاحب ولد علی محمد صاحب مرحوم دفتر قضاء ربوه ۱۳۰ - ماسٹر کمال دین صاحب ولد محمد علی صاحب مرحوم ملمو کے ضلع سیالکوٹ ستید مبارک احمد شاہ صاحب ولد حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب دفتر بیت المال ربوه ۱۳۲- مهران بی بی صاحبہ زوجہ محمد ابراہیم صاحب ملہو کے ضلع سیالکوٹ ۱۳۳- منظور احمد صاحب پسر » " ۱۳۴- محمد یوسف صاحب ولد منشی نور محمد صاحب کونڈی سندھ
د سوار - شیخ محمد نصیب صاحب ولد شیخ قطب دین صاحب، مرحوم خانقاہ ڈوگراں ضلع شیخو پوره ڈاکٹر ممتاز نبی صاحب ولد چوہدری غلام عباس صاحب مرحوم پنڈ دادنخان ضلع جہلم ۱۳۷- محمد یعقوب صاحب ولد میاں الہی بخش صاحب ٹھیکیدار بھٹہ سیالکوٹ " مرزا محمد یوسف صاحب ای انه ولد مرزا محمد دین صاحب بد و مهمی ضلع سیالکوٹ ۱۳۹ - چوہدری محمد حسین صاحب ولد چوہدری شاه محمد صاحب مرحوم کتھو والی چک ۳۱۲ ضلع لائلپور ۱۴۰- مریم بی بی صاحبہ منت اللہ بخش صاحب مرحوم کتھو والی چک ۳۱۲ ضلع لامپور ۱۴۱- مهران بی بی صاحبہ بیوه فضل دین صاحب مرحوم در رویش محله دار این رابوه ۱۴۲- چوہدری محمد بوٹا صاحب ولد چوہدری بدرالدین صاحب مرحوم درد کا نداره درلوده -۱۴- مریم بی بی صاحبہ زوجہ عنایت اللہ صاحب معرفت مبارک احمد صاحب نظارت علیاء ربوہ ۱۴۴- برکت اللہ صاحب پسر ۱۴۵- محمد احمد صاحب ولد میر الدین صاحب تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب ولد حضرت مولوی قطب الدین صاحب مرحوم راولپنڈی ۱۴۷- محمد عبد اللہ صاحب ولد گرم دین صاحب پارچه فروش محله الف ربوه محمد شریف صاحب ولد چوہدری رحیم بخش صاحب ٹیچر کھوکھر والی ضلع سیالکوٹ -۱۴۹- محمد رمضان صاحب ولد چوہدری غلام محمد صاحب بقا پور ضلع گوجرانوالہ محمد عبد الله صاحب ولد مهتاب صاحب مرحوم چک نمبر ۱۰۱ بگو والہ جنڈیالہ ضلع لائلپور ۱۵۱ مختار احمد صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب " ۱۵۲- محمد بی بی صاحبہ بیوه مولا بخش صاحب مرحوم دارالصدر ریوه ۱۵۳- مولا بخش صاحب ولد فضل دین صاحب مرحوم خانقاہ ڈوگراں ضلع شیخوپورہ -100 -100 -104 شیخ محمد منشی صاحب ولد محمد بخش صاحب مرحوم ریل بازار لامپور مهرالدین صاحب حجام ولد پیراں دتہ صاحب مرحوم معرفت مسجد احمدیہ لائلپور سید محمد میاں سلیم شاہ صاحب داد سید محمد علی صاحب نواب شاہ سندھ محمد اسمعیل صاحب ولد غلام حسین صاحب سمندری ضلع لائل پور
۴۵ ۱۵۸- منظور حسین صاحب ولد اللہ رکھا صاحب سانگلا ہی ضلع شیخو پورہ •14.محمد شریف صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب گلی گوردوارہ آبادی حاکم رائے.گوجرانوالہ محمودہ بیگم صاحبه زوجه ملک نیاز محمد صاحب چک 119 7.0.R نشگری 141- محمد اخلاق قریشی صاحب ولد محمد عمر صاحب پنشنز 2208 بستی راولپنڈی صوفی محمد رفیع صاحب دلد صوفی محمد علی صاحب رٹا رٹرڈ.ڈی.انہیں.پی سکھر سندھ ۱۶۳.چوہدری محمد حسین صاحب ولد چوهدری خیر الدین ماه چک هم جنوبی سرگودها ۱۶۴ نذیراں بی بی صاحبہ زوجہ محمد حسین صاحب محله الصفت ربوه ۱۷۵ - مشتاق احمد صاحب سپر.ناصرہ بیگم صاحبہ بہت چو ہدری بشیر احمد صاحب ۱۱ کینال پارک لاہور ۱۷ نصیرہ بیگم صاحبہ زوجہ محمود احمد صاحب چک ۳۱۲ ج ب کتھور والی ضلع لاکپور نسیمہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر بشیر احمد صاحب در ولیش معرفت محمد احمد صاحب تعلیم الاسلام کالج ریبوه -144 -14A ۱۶۹ نواب دین صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب مکان نمبر ۷۴ محلہ گڑھا چنیوٹ ۱۷۰ نذیراں بی بی صاحبه زوجه لعل دین صاحب ریل بازار لائل پور 161- محمد صدیق صاحب پسر قریشی نورالدین صاحب ولد قریشی حبیب احمد صاحب جھنگی محلہ راولپنڈی -۱۷ - مرزا نذیر علی صاحب ولد مرزا محمد علی صاحب محلہ دارالصدر ربوہ ۱۷- نور النساء بیگم صاحبه زوجه غلام محمد صاحب با در چی جامعه المبشرين ربوده نیاز بیگم صاحبه زوجه مولوی فضل دین صاحب بنگری محمد مومن پورہ لائلپور محمود احمد صاحب دلد چوہدری محمد دین صاحب کتھو والی چک ۳۱۲ ضلع لائلپور -160 -160 -۱۷۷ مرزا محمد دین صاحب ولد مرزا بدر الدین صاحب گجو چک ضلع گوجرانواله ملک محمد شفیع صاحب ولد ملک مهر علی صاحب نائب مختار عام صدر انجمن احمدیه ربوه ۱۷۹- محمد سلطان اکبر صاحب ولد چوہدری ہدایت اللہ صاحب تعلیم الاسلام کا لج ربوہ - محمود احمد صاحب ولد چوہدری غلام رسول صاحب لکھا نوالی ضلع سیالکوٹ.1A.
۱۸۱- محمد امین صاحب ولد مولوی برکت علی صاحب علی صاحب درویش لاہور چھاؤنی ۱۸۲ مبارکه شوکت صاحبہ بنت قاضی عبدالعزیز صاحب مرحوم ربود ۱۳- ولد ایم سمیع اللہ صاحب ولد گلاب دین صاحب کمیٹی بازار سانگلا بل ضلع شیخو پوره ۱۸۴ ماسٹر محمد شفیع صاحب ولد دین محمد صاحب چک ۲۵ شهیالی ضلع شیخو پوره شیخ محمد علی صاحب ولد دوست محمد صاحب قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ ۱۸۶- محمد بار صاحب ولد محمد لقمان خان صاحب سندھ پیجیٹیبل آئل کمپنی گوجرہ ضلع لا مشہور -IAD مرزا محمد حکیم صاحب ولد مرزا محمد کریم صاحب محله دارالرحمت ربوده ۱۸۸- محمد صادق صاحب ولد بہاول بخش صاحب چک ۵ احمد پور سیال ضلع جھنگ.محمودہ بیگم صاحبہ زوجہ اللہ بخش صاحب مالو کے بھگت ضلع سیالکوٹ ۱۹۰ - محمد داؤد میاں صاحب ولد خان صاحب میاں محمد یوسف صاحب ۲۸۱ فیروز پور روڈل ہور ۱۹۱- خان صاحب میاں محمد یوسف صاحب ولد میاں ہدایت اللہ صاحب مرحوم ۰۱۹ محمد شعیب ضیاء صاحب پیر میاں محمد یوسف صاحب ولد میاں ہدایت اللہ صاحب مرحوم سے ۱۹۳- مرزا منظور احمد صاحب ولد مرزا غلام اللہ صاحب نسیم آباد کرزی سندھ ۱۹۴ مقصوده بیگم صاحبہ زوجہ محمد احمد صاحب حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ ۱۹۵ - شہناز اختر صاحبہ بنت محمد احمد صاحب ۱۹۶- محمود اے صاحب سید ولد سید مقبول حسین مرحوم ۱۴ - ۱۵ ا مکانی محل کراچی ۱۹۷- محمد سعید احمد صاحب ہی.اسے ولد صوفی محمد رفیق احمد صاحب مکان نمبر ۱۲ دھرم پورہ لاہور ۱۹۸ - سید منیر احمد خلیل صاحب ولد سید علی احمد صاحب میڈیکل آفیسر بھر جوگی ضلع کمیل پور ۱۹۹- مرزا واحد حسین صاحب ولد مرزا حسین بیگ صاحب تلونڈی را ہوالی ضلع گوجرانوالہ سید ولایت شاہ صاحب ولد سید محمد رمضان شاہ صاحب انسپکٹر وصایا ربوہ لے کی کو " له روزنامه الفضل ۱۵؍ دسمبر ۱۹۵۴ء صفحه ۵ - ۶