Tarikh-eAhmadiyyat V15

Tarikh-eAhmadiyyat V15

تاریخ احمدیت (جلد 15)

1953ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

1953ء کے ایّام ابتلاء میں پاکستانی احمدیوں کا مثالی نمونۂ صبرورضا اور اس کے عظیم برکات اور تحقیقاتی عدالت کی مفصّل رُوداد۔ (پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 16)


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد شانزدهم (14) ۶۱۹۵۳ ریشہ کے ایام ابتداء میں پاکستانی احمدیوں کا مثالی نمونہ صبر ورضا اور اس کی عظیم برکاتے اور تحقیقاتی عدالت کی فضل روداد مؤلفة دوست محمد شاہر

Page 2

نام کتاب مرتبہ موجودہ ایڈیشن تاریخ احمدیت جلد پانزدہم مولانا دوست محمد شاہد 2007 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر : ISBN - 181-7912-122-4 شائع کردہ مطبع TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-15 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-122-4

Page 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جابجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی قو میں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہوگیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے

Page 4

اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۱۶ کوجلد نمبر ۱۵ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت سے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کوحتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تا ہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد پانزدہم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور با برکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی (ناظر نشر و اشاعت قادیان)

Page 5

عنوان مقدمه اخلاق سورہ مظاہر سے نبی کے نام پر فهرست تاریخ احمدیت جلد ششد هم مرتبہ منیر احمد منور شاہد ) پاکستان کے خلاف بغاوت جماعت احمدیہ کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد صفحه 14 عنوان صفحه مکان امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی اور آرٹ پریس، پاک ریسٹورنٹ، شانی کیمسٹ شادی نینشل میڈ یکل مال، بر لاسی سائیکل در کس پنجاب موڈ سٹور ، صرانہ شاپ احمدیہ کمرشل کالج ۲۹ ٣٣ ایک معزز غیر احمدی نوجوان کا دردناک قتل ۳۴ حصہ اول فصل دوم پہلا باب ضلع گوجر انواله احمدیوں کے بیانات اضلا ع راولپنڈی، گوجرانولہ اور سیالکوٹ ضلع میں شوریش کے دوسرے مراکز کی احد می جماعتوں کے واقعات فصل اوّل را ولپنڈی شہر بیت احمدیه را ولپنڈی فصل سوم ضلع سیالکوٹ ۲۴ سیالکوٹ شہر کے واقعات ۲۵ ضلع سیالکورت درد سر مقامات کے واقعات I ٣٠ } } ۶۴ ۶۵

Page 6

پرور ڈسکہ وضع دهید دوالی یمیا نوالہ ، ملیا نوالہ دیگری پریاں موضع ترسکه موضع د یہ دوال سمبر یال LA AL.فصل دوم ضلع رامپور (فیصل آباد) لائلپور شہر کے واقعات مضافات لائلپور کے واقعات ، چک تعمیرہ چک ۲۶۱ ج - ب چک تحصیل جڑانوالہ کاٹت سمندری جڑانوالہ چک نبر و ارگ - ب چک چک ۵۷، جلیانوالہ منتقل گوجره ، چکا تھا نہ منڈیکے بیریاں، وہ ، نین کے تو روے، ترسکہ ۸۹ ستمانه چونڈہ شہزادہ ، کھیوں یا جوده کا حوالہ داتہ نہ یاد گا دوسرا باب ۹۰ فصل سوم ضلع جھنگ او ربوہ اور اس کا ماحول پر فتن ایام میں ۹۲ ۹۳ تعمیرا باب اضلاع من مارع منٹگمری (ساہیوال)، اور لاہور کی امیدی اضلاع شیخو پورہ لائلپور (فیصل آباد) اور جماعتوں کے واقعات جھنگ کی احمدی جماعتوں کے واقعات فصل اقول مضلع منٹگمری (ساہیوال) فصل اول - ضلع شیخو پوره شیخو پورہ شہر 1 ۱۱۲ تا ۳۶ ۱۴۳ ۹۴ اوکاڑہ کے واقعات چشمدید میانات کی روشنی ۱۴۴ تا میں، مضافات اوکاڑہ کے واقعات 10- ۹۶ تا ۱۰۳ لاہور شہر اور اس کے مضافات 101 شاہ کوٹ ہسٹھیالی ، سانگلہ ہل ہمرا جنپور ، فصل دوم - واره برٹن منڈی مرید کے، سید والا ، گر تولہ، بہوڑو ، کا مہور اور اس کے ماحول کے واقعات 1 ننکانہ صاحب آنند ، بڑ کے کریم پورہ ہر با نوالہ رو مارچ رام گلی ، بھائی گیت ۱۵۳ ور تا ۱۶۸

Page 7

116 ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۴ 196 ۲۱۷ ۲۱۹ ۲۳ ج حالات کیا ہور پر ایک طائرانہ نظر ، موسین سال سن در ۱۶۸ فصل سوم - صوبہ سندھ نٹی انار کلی، پرانی انار کلی ، نیل کنید ، راوی روڈ فصل چهارم - مشرقی پاکستان رتن چند روڈ، بھاٹی گیٹ ، چوک مسجد وزیر خاں، ر حال بنگلہ دیش) گھٹی بازار ، بیرون دہلی دروازه، میو ہسپتال اخبارات کے بعض شذرات فلیمنگ روڈ ، گوالمنڈی، میوے یہ لوڈ ، قادیانی اور احمرار سبت روٹی، قلعہ گوجر سنگھ میکلیگن روڈ ، حسرت ناک انجام میکلوڈ روڈ ، 19 مین روڈ ، ٹمپل روڈ رنگ فصل پنجم - حضرت مصلح موعود سوڈا عزیز روڈ ، مصری شاہ کا چھو پورہ کے بیان فرمودہ بعض واقعات 1 چاہ میراں روڈ ، با غبان پورہ، دھر نپورہ ) حصہ دوم سلطان پور، وسن پوره گنج مغلپوره ۱۵ سیدنا حضرت مصلح موعود در خاندان مهدی موعور اور سرکہ سلسلہ کے اہم واقعات پہلا باب 1 66 16A شاہدرہ کے واقعات کوٹ رادھا کشن فسادات پنجاب اور حکومت کی پالیسی جو متھا باب ریاست بہا دلپور صوبہ سرحد صوبہ سندھ حضرت مصلح موعود کی او العربی حضرت مصلح موجود اور مشرقی پاکستان کی احمدی جماعتوں کے واقعات کے روح پر در پیغامات حضرت مصلح موعود کے بیان فرموده پاریخ ایمان ایک ضمنی نوٹ دوسر ا باب افروز واقعات فصل اول.جماعتوں کی صورتحال سے باخبر رہنے کا ریاست بہاولپور انتظام صادق آباد، نارون آباد ، باد لنگر شهر و ۱۸۳ اطلاعات , تیسرا باب فصل دوم - صوبہ سرحد ۱۸ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ کا نوش

Page 8

جناب گورنر صاحب پنجاب کا نوٹس ۲۴۰ دوسری شهادت حضرت مصلح موعود کا پر شرکت جواب ۲۱ حضرت مصلح موعود کے ایک خطبہ جمعہ کی ضبطی ہز ایکسی لینسی گورنر صاحب کو جوابی مراسله ۲۴۲ اخبارات میں ذکر " مرزا بشیر الدین محمود کے نام محکم پانچواں باب مجلس مشاورت ۱۳۲۲ مطابق ۱۹۵۳ ۲۷۹ ۲۴۵ مشاورت ۱۹۵۳ء کے لیے حضرت مصلح موعود ہوم سیکریٹری صاحب پنجاب کو اطلاع ۲۴۵ کار تم نفرمودہ نوٹ خدائی نشان کا ظہور خطبہ جمعہ میں نوٹس پر عارفانہ چھٹا باب تبصره حضرت چو ہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۲۴۰ سیدنا حضرت مصلح موعود کا اہم بیان - ہمارے عقائد ۲۴۹ ریڈیو پاکستان کراچی کا نظریہ ، پاکستانی کی غیرت ایمانی کا ایک واقعہ قصیر خلافت کی تلاشی مخلص احمدیوں کی تلاشیاں اور گرفتاریاں چوتھا باب حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت ۲۵۰ پریس میں بیان کی اشاعت ۲۵۲ خوش کن اقدام ۲۸۵ بعض دوسری شخصیات کے تاثرات ۲۹۰ حصہ سوم ☑ مرزا ناصر احمد صاحب کی گرفتاری اور قید با مشقت اور جمانہ ، صبرو تحمل اور توکل کے تحقیقاتی عدالت میں دکھلائے احمدیت کی حیرت انگیز نمونے ۲۵۴ کامیاب نمائندگی اور حضرت مصلح موعود کا حضرت سیدہ نواب سہا کہ بیگم صاحبہ کے بصیرت افروز بیان اور اس کے اثرات ۲۹۲ دردناک استعار بھارتی پولیس کے تبصرے Yon پہلا باب فسادات پنجاب کی تحقیقات کے لیے عدالت قید و بند میں رضا با لقضاء کا ایمان افروز مظاهره ۲۶۰ پہلی چشم دید شهادت کا قیام نازک مرحله ۲۹۴ ۲۹۷

Page 9

لاہور میں ذیلی دفتر کا قیام ۳۰۰ امام اور سیاست جماعت احمدیہ کا لائحہ عمل ۳۰۵ رسالہ مد قادیانی مسئلہ کا جواب عدالتی کمیشن کے لیے بحث کی لائن کا مختصر خاکہ ۳۰۹ آخری خطاب حضرت مصلح موعود کی ہدایات ٣١١ تیسرا باب حضرت مصلح موعود کا ایک اہم مکتوب ۳۱۲ حضرت مصلح موعود کا عدالتی بیان تحقیقاتی عدالت کی ابتدائی کارروائی ۳۱۹ بجواب سوالات عدالت تاریخ نمار بنوری ۳۸۰ تاریخ حضرت مصلح موعود کا ایک اور مکتوب ۳۲۰ چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جماعت اسلامی کی جرح کے جواب میں دوسرا باب تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات ۲۴ سوران نامرتضی احمدخان میکش نمانده لبس عمل تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کا جواب ۳۴۲ کی جرح کے جواب میں مسئلہ درمی در نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ۳۵۹ مولانا میکش کی خبر رح تار یخ را ۱۵ سوالنمبر ، متعلق اعتراض عدم مهدر دی مسلمانان ۳۵۶ مسٹر نذیر احمد خان ایڈووکیٹ کے مزید سوالات جماعت احمدیہ کی طرف سے لرکی حکومت کی عدالت کی اجازت سے ۳۶۰ تحریری درخواست جو منجانب حضرت تائید عربوں کی امداد انڈونیشیا کی آندا دی ۳۶۰.٣٩٥ ۴۰۵ شدھی کا مقابلہ ،سکھ حملہ آوروں کا مقابلہ اور مرزا البشیر الدین محمود احمد صاحب امام در تمان کی شرارت کا جواب ، بہار اور کلکتہ جماعت احمدیہ عدالت میں داخل کی گئی ۴۰۶ کے فسادات بہار کے فسادات کشمیر کمیٹی ، بونڈری کمیشن ۲۶۲ دوسری تحریری درخواست مورخه ۱۴۳ جنوری کشمیر کی جنگ میں حصہ تقسیم پنجاب کے وقت غیر از جما عت معززین کے شاندار مسلمانوں سے تعاون مولانا محمد علی جوہر کی تصدیق تاثرات نم که سر عدالتی کارروائی کے دوران حضرت سوالنمير اسمتعلق مخالفت پاکستان ۳۶۵ مصلح موجود کے سفر پائے لاہور ۴۰

Page 10

چوتھا باب رپورٹ تحقیقاتی عدالت کا ایک اہم انکشات | ۴۴۹ تحقیقاتی عدالت میں صدر انجمن احمدیہ کی مارشل لاء پر منتج ہونے والے کوائف طرف سے داخل کردہ تبصرے ۴۱۵ صوبائی حکومت اور سیاسی لیڈروں کا طرز تغیر قرآن دیباچو تفسیر قرآن (انگریزی) کا فاضل جج صاحبان کو تحفہ MA عمل حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا رپورٹ کے اختتامی الفاظ اہم بیان ۴۵۰ ۴۵۳ ضادات کی ذمہ داری مطالبات کا بچہ ۴۵۲ ۴۱۹ رپورٹ تحقیقاتی عدالت اور اتراری احمدیوں کا عقیدہ ۴۳ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کے حقوق تحقیقاتی عدالت میں بعض دوسرے بیانات ۲۴ اور علماء ۴۵۹ وکلائے احمدیت کے زور دار بیانات ۲۳۳ الزامات کا جائزہ ۴۵۵ اخبار زمیندار لاہور کے ایڈیٹر مولانا اختر علی مسلم کی تعریف اور تحقیقاتی عدالت ۴۶۳ صاحب کا بیان ۲۱ علماء کے تبصرے اور ان کا جواب ۴۷۱ امم جماعت اسلامی کے سابق لیڈر مولانا امین احسن چھٹا باب اصلاحی کا بیان چیف ایڈیٹر زمیندار مسٹر اے اک شیلی A ۴۴۷ نام نہاد علمائے دین کے افسوسناک بیانات کا شدید ردعمل جناب حمید نظامی مدیر روزنامہ نوائے وقت" علماء اور فتنہ تکفیر جمیعتہ العلمائے ہند کا بیان ہوم سیکریزی حکومت پنجاب کا بیان ۴۴۳ کے ایک متوسل خصوصی کے قلم سے ۳۳۳ مسلمان کی تعریف - ایک غیر جانبدار مہندی سلام سلام سلام پانچواں باب مبصر کے قلم سے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ اور جماعت احمدیہ ایک اہلِ حدیث عالم دین کا نعرہ حق کی بہ نیت و مظلومیت ایک افواہ اور اس کی تردید ۲۴۶ بر صغیر کے ممتاز ادیب اور سکالہ کی رائے ۴۸۹ غیر مسلم دنیا میں اسلام اور پاکستان کی بدنامی ۴۹۰

Page 11

DLA ۵۷۹ ۵۸۳ ۵۸۵ ۵۸۵ حقه چهارم ش والے احباب ضلع راولپنڈی ار کے جماعتی ابتلاء کی عظیم الشان برکات ۴۹۸ ضلع گوجرانوالہ پہلا باب نشانات الہیہ کا ظہور ۴۹۹ ضلع سیالکوٹ སརབ ضلع خوبونه دیو ندیوں کی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اعراض و ضلع لائلپور (فیصل آباد) مقاصد " ۵۱۱ ضلع جھنگ مجلس تحفظ ختم نبوت کی اسلامی خدمات “ ۵۱۲ ضلع لاہور ختم نبوت کے نام پر ڈر لاکھ روپیہ کی بندر بانٹ ۵۱۳ ریاست بہاولپور دوسرا باب صوبہ سندھ جماعت احمدیہ کی ترقی اور استحکام تیسرا باب ضمیمہ نمبرم دفتر اطلاعات سے متعلق جماعت احمدیہ کی عالمی شہرت و عظمت میں اضافہ ۵۴۱ بعض مراسلات ہندوستان کو مسلم پولیس مصری پولیس ۵۴۱ ضمیمہ نمبرہ تحقیقاتی عدالت سے متعلق ۵۵۴ ضروری خط و کتابت امریکی پر لیں عالمی شٹر بھپر مں احمدیت کا ذکر حرف آخر ضمیمہ جات 140 ضمیمہ نمبر شہدائے احمدیت ۱۹۵۳ ضمیمہ نمبر ۲ اسیران راه علی ۱۹۵۳ میمہ نمبرس مقامی جماعتوں کے کوائف بھیجوانے

Page 12

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا تعالیٰ کے فضل اور رسم کے ساتھ هو الت ا فروری سملالہ کے آخر میں مغربی پاکستان خصوصا اس کے صوبہ پنجاب میں فسادات کے شعلے بھڑک اٹھے جس پر اور مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں مارشل لاء کا نفاذ عمل میں آیا.بعد ازاں جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی جیسے فاضل ججان پیش تمل تحقیقاتی عدالت نے اس شورش کے عوامل اور دیگر ضروری احوال و کوائف کی نہایت محنت در فریزی سے چھان بین کی اور اپنی مفصل رپورٹ میں فسادات کی تفصیلات پر روشنی ڈالی اور ان کے پیچھے کار فرما عناصر کو بے نقاب کیا.ان فسادات میں لاقانونیت ، ہنگامہ آرائی اور بد امنی کے اثرات و نتائج میں واضح صورتوں میں اُبھر آئے.اول - اخلاق سونہ مظاہرے.دوم سوم - پاکستان کے خلاف بغاوت.جماعت احمدیہ کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد.

Page 13

اخلاق سوز مظاہرے ان مظاہروں میں اخلاق اور انسانیت کی اقتدار کو کس بے دردی سے پامال کیا گیا ؟ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل بیانات سے بخوبی لگ سکتا ہے.۱ - جناب نصر اللہ خان صاحب عزیز مدیر تسنیم ، جناب ممتاز احمد خاں صاحب مدیر آفاق جناب خلیل احمد صاحب مدیر مغربی پاکستان ، جناب محمد حبیب اللہ صاحب اورج مدیر احسان ، جناب محمد علی صاحب شمسی مدیر سفینہ نے متفقہ بیان دیا کہ :- ور تحفظ ختم نبوت کے مقصد سے ہر مسلمان کو ہمدردی ہے.ختم نبوت سلمان کے ایمان کا جز ہے لیکن اس مقدس مقصد کے نام پر بھنگڑے ، سوانگ رچانا ، مغلظ گالیاں نکالنا اور اخلاق سوز حرکتیں کرنا مسلمانوں کے لیے باعث شرم ہے روزنامہ آفاق " لاہور نے متعد د اداریوں میں اس خلاف اسلام ذہنیت کی پر نہ در منقت کی مثلاً لکھا :- نبی کے نام پر " آج کل لاہور میں بعض بے فکر سے نوجوان تحریک ختم نبوت کی آٹہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پہ جو حرکات کر ر ہے ہیں، کیا کسی حق گو عالم ، لیڈر، رہنما اور ذی اثر انسان میں بہت ہے کہ ان کی روک تھام کے لیے میدان میں نکلے اور ران نوجوانوں کو جن کا خون گریم ملت کے ہزارہ کام آ سکتا ہے) اس لہو ولعب اور غیر شریفانہ انداز سے روکے ، بعض نوجوانوں کا سوانگ بنانا ، ڈنڈے بجانا، بھنگڑا پانا اور اچھل کود کرنا.کیا ان تمام حرکات کو کوئی صحیح العقید مسلمان تحریک ختم نبوت یا مسرور کائنات کے مقدس نام سے کسی طرح وابستہ کر سکتا ہے اور ا روزنامه آفاق لاہور ۴ رما ن ج ۹۵۳اد صفحہ نمبر 4 رج

Page 14

یہ سب کچھ ہو اسی نام پر رہا ہے، کیا یہ تمام حرکات بجائے خود تو این سرور کائنات کی ذیل میں نہیں آتیں ؟ بینوا و توجیہ والے اسی اخبار نے اپنی ۲۳ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت صف میں لکھا.در کوئی شک نہیں کہ تحفظ ناموس رسول پر ہم دنیا کی پیاری سے پیاری چیز قربان کرنا ہی اپنی سعادت سمجھتے ہیں.لیکن ایثار و قربانی جیسی پاکیزہ اور قابلِ رشک چیزوں کے ساتھ ہم کسی طرح بھی ہڑبونگ، ، ہلڑ اور فساد کا پیوند نہیں لگا سکتے ناموس رسالت کا صیح پاس اسی دل کو ہو سکتا ہے جو رسول کی شان رحمت کے حدود کو بھی سمجھتا ہو وہ رحمت جو عالمین کو محیط ہے جس کے دامن حیات آفرین میں طائف کے پتھر مارنیوالے بھی دعائے نیک کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور نگہ کے جانی دشمن بھی یہ پیام سنتے ہیں لا تشریب علیکم اليوم - سڑیونگ ، ہلڑ اور فساد کو رحمت اللعالمین نے کسی طرح کی صورت میں بھی جائزہ قرار نہیں دیا.ختم نبوت کے مسئلے کا تعلق ، ایمان و اعتقاد کی پاکیزگی کبھی کسی اکراہ کی روادار بھی نہیں چہ جائیکہ فتنہ و فساد اس سے وابستہ ہو جائے ، ۴ - اخبار مغربی پاکستان لاہور نے 4 مارچ ۱۹۵۳ء کے اداریہ میں لکھا :.رو خدا اور میں محمد کے نام کے ساتھ انتہائی غلیظ اور قابل نفرت گالیاں دی جاتی ہیں تشدد کے مظاہرے کیئے جاتے ہیں ، گاڑیاں روک لی جاتی ہیں، اور ہر ہجوم کی طرف سے ہر طرح کی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا جاتا ہے.......ہم مسلمانان پنجاب سے گزارش کریں گے کہ وہ مذہب کے معنے غلط نہ سمجھیں اور مذہب کو اس طرح نہ اچھا لیں کہ آپ ختم ہو کہ یہہ جائیں.علماء نے آپ کو غلط بات بنائی ہے.خدا کے لیے ہر شخص مذہب کا ٹھیکیدار نہیں ہو سکتا.مذہب ہر شخص کا اپنا اپنا ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص مسلمان نہیں تو گیا آپ کا اسلام یہ سبق دیتا ہے کہ آپ.شه روزنامه آفاق به ر مارچ ۱۹۵۳ م کالم ۳

Page 15

اُسے نہ یہ دستی مسلمان بنائیں یا اُسے اٹھا کر اپنے ملک سے باہر پھینک دیں.ذرا اپنے اعمال کا جائزہ لیجیے.کیا آپ مسلمان ہیں ؟.ٹھنڈے دل سے غور کیجیئے صرف پچھلے چند دن کے اعمال ہی پر نظر ڈالیے.کیا یہ سچے مسلمان کے اعمال ہو سکتے ہیں ؟ پھر مذہب کے نام پہ یہ ہڑ لونگ کیوں بچائی جارہی ہے ؟ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ احراریوں کی اس پر یونگ، اس راست اقدام اس ختم نبوت کو اسلام سے قطعا کوئی تعلق نہیں.اسلام کا نام بدنام کیا جارہا ہے.اس کا تعلق ضرور کسی سیاسی اعراض سے ہے.......احمراری لیڈر ہوں یا دوسرے جو لوگ بھی مذہب کے نام پر آپ کو اشتعال دلاتے ہیں اور اس طرح آپ کے نازک جذبا سے کھیلتے ہیں تو وہ یقیناً پاکستان کے بدترین دشمن ہیں والے :.۵.راولپنڈی کے مشہور اخبار تعمیر کو اپنے اداریہ میں یہانتک لکھنا پڑا کہ : مرد یہ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو بلند رکھنے کے لیے کون مسلمان ہے جو اپنا سب کچھ قربان کر دینے سے گریز کرے گا ؟ لیکن اس مقدس علم کے نیچے فخش اور بازاری گالیاں سن کر رحمۃ للعالمین کے نام پر اوسٹ مار، توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کی وارداتیں اور ساری دنیا کے لیے امن و سلامتی کا پیغام لانے والے کے پرستار ہونے کے دعویداروں کی جانب سے تشدد اور بدامنی دیکھ کر کس مسلمان کا سر ندامت سے نہیں جھک جائے گا سے حکومت پاکستان نے ۲۷ فروید می ۱۹۵۳ء کو حسب ذیل اعلامیہ جاری کیا.ملک کے بعض حصوں میں احمدیہ فرد کے متعلق جو فرقہ وارانہ تحریک چل رہی ہے اور بڑھ رہی ہے لوگوں کو اس کی خاص خاص باتوں کا اچھی طرح علم ہے.اس ایجی ٹیشن کے چلانے والوں نے اب حکومت کو یہ محکمانہ چیلنج دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ ڈائر یکٹ ایکشن شروع کر دیں گے.یہ ایجی ٹیشن احراریوں نے شروع کیا تھا اور گو بعد میں بعض دوسرے عناصر نے بھی اس کی حمایت شروع کر دی لیکن اب بھی احراری به روز نامیہ مغربی پاکستان لاہور اور مارچ ۱۹۵۳ ۳ که روز نامه تعمیر ا ار مارچ ۳۰۶۱۹۵۳

Page 16

اس کی حمایت کر رہے ہیں اور وہی اسے چلا رہے ہیں.لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے احراز مسلسل اور سختی کے ساتھ مسلمانوں کی تحریک آزادی کی مخالفت کرتے رہے اور انہوں نے ان لیڈروں اور جماعتوں سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا جو حصول پاکستان کی جدوجہد میں مصروف تھے.تقسیم سے قبل بہت سے احرار لیڈروں نے کانگرس اور ان جماعتوں کا ساتھ دیا اور ان سے گہرا تعاون کیا جو مسلمانوں کی جنگ آنزادی میں قائد اعظم مرحوم کے مقابلہ پر صف آرا تھیں.قیام پاکستان کے بعد بھی اپنی انتشار پسند سرگرمیوں کو ترک نہیں کیا.ہمارے پاس اس امر کی معتبر شہا دنہیں ہیں کہ احمرار اب بھی پاکستان کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے.احرار لیڈروں نے پاکستان کے دشمنوں کے اشاروں کر اور ان کی مدد سے مسلمانوں میں انتشار پھیلانے اور پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی ہر مکانی کوشش کی ہے نے کاکا " وزیر دفاع جناب سکندر مرزا صاحب نے ۲۶ فروری ۱۹۵۳ء کو خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان کو خفیہ مکتوب لکھا کہ : - آپ کے ذاتی دشمنوں نے جن میں ملا بھی شامل ہیں جو مسائل کھڑے کر دیئے ہیں اگر سختی سے نہ دبائے گئے تو ملک کی پوری انتظامیہ کو تباہ کر کے رکھ دیں گے.کافی عرصے سے میں اپنی انٹیلی جینس کے آدمیوں کو کراچی میں جلسوں وغیرہ میں بھیج رہا ہوں جہاں آپ کو اور حکومت کو کھلے عام جو گالیاں دی جاتی ہیں وہ انتہائی اشتعال انگیز اور تیز و تند نوعیت کی ہیں......کیا مذہب اسی کا نام ہے کہ سب سے بڑی اسلامی ریاست کی انتظامیہ کی بنیا دوں کو تباہ کر دیا جائے ؟ قاہرہ میں سر ظفر اللہ خاں کا استقبال پورے احترام اور عزت کے ساتھ کیا گیا.وہ تمام عرب ممالک کے مرید ہوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جن کی نظر میں ان کی بہت عزت بھی ہے لیکن کراچی میں عام جلسوں میں انہیں گالیاں دی جارہی ہیں اور ان کی تصویر پر مفلو کا جارہا ہے.گزشتہ رات ا روز نامہ جنگ کراچی یکم مارچ ۱۹۵۳ء

Page 17

ایک گدھے کے جسم کے ساتھ ملا کر ان کا کارٹون بنایا گیا ہے.کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں رپورٹ نہیں ہو رہا ہوگا ؟ پھر ایسی صورت میں بین لاقوامی طور پر پاکستان کی کیا پوزیشن باقی رہ جاتی ہے ؟ اور کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس تمام خرافات کے کیا نتائج نکل رہے ہیں.......خدا کے واسطے ایک جرأت مند لیڈر بنٹے اور فیصلہ کن اقدام اُٹھائیے.صرف ایک دفعہ آپ یہ کر کے دیکھئے بدمعاشوں کے علاوہ پوری قوم آپ کے گرد ہو گی اور پاکستان کا وقار پھر رفعتوں کو چھونے لگے گا ملک نیچے جائے گا یا ہے پاکستان کے خلاف بغاوت یہ شورش ایک مقدس نعرہ کی آٹے میں بپا کی گئی تھی جو کھلی بغاوت پر منتج ہوئی جس نے ملک کے دانشوروں اور محب وطن طبقوں کی آنکھیں کھول دیں اور انہیں بر طا تسلیم کرنا پڑا کہ یر ختم نبوت نہیں بلکہ ختم پاکستان کی تحریک ہے جو پاکستان اور اسلام دشمن طاقتوں کی سازش کا نتیجہ ہے ، جیسا کہ مندرجہ ذیل بیانات سے عیاں ہے - روزنامہ مغربی پاکستان نے نوحہ غم “ کے زیر عنوان ایک اداریہ میں لکھا : - اب تو شاید عوام کو بھی اس امر کا احساس ہو چکا ہو گا کہ یہ راست اقدام مذہب کی محبت کی وجہ سے شروع نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا مقصد کچھ اور ہی ہے....مذہب اور مذہب اسلام جس کی مہندی کے سامنے دنیا کی تمام بندیاں پست ہیں یہ کبھی اجازت نہیں دیتا کہ اس قسم کی ہنگامہ آرائی کی جائے یا دشمن ہماری اس حرکت پر خندہ زن ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے اور وہ اندر ہی اندر بہت شاداں و فرحاں بھی ہیں کہ اس ہنگامہ آرائی سے یقیناً پاکستان کمزور ہو جائے گا اور وہ اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ایک ہی ضرب میں ختم کر دیں گے کہ ہے له معیار تا ۸ رمئی ۱۹۷۶ ه ص ۴۲ - ۱۲۵ ۰۲ روزنامه مغربی پاکستان لاہور I مورخه مار مارچ ۹۵۳اء مدیر کالم مرا

Page 18

A میں کہا:.وزیر اعلی پنجاب جناب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے اپنی ۵ ار اس چ ۱۹۵۳ء کی نشری تقریر ۱۵ مارچ حفاظت ناموس رسول کے مقدس نعرے کی آٹر میں بعض شر پسند اور پاکستان دشمن عناصر نے ایسی وحشیانہ حرکات کیں جن سے اسلام کے نام کو دھبہ لگا اور پاکستان کے مفاد اور قفار کو شدید نقصان پہنچا.ان عناصر نے ہماری پاک مسجدوں کو غلط سیاست کی کھلی سازش کا اکھاڑا بنانے تک سے دریغ نہ کیا.وہ لوگ جو کل تک پاکستان کے الم نشرح دشمن تھے.امن.پسند اور بھولئے شہریوں کی آنکھوں میں نمک ڈالنے میں کامیاب ہو گئے ، ریل گاڑیوں کی پٹڑیاں اکھاڑ دی گئیں تاکہ خوراک کی نقل و حرکت مسدود ہو جائے.تار اور ٹیلیفون کے سلسلے کو منقطع کرنے کی کوشش کی گئی.بیوپاریوں اور محنت مزدوری کرنے والوں کو کام سے جبر آرد کا گیا.دکانیں اور گھر ٹوٹے گئے.عورتوں کی بے عزتی ہوئی ، قتل و غارت کا بازار گرم ہوا.غرضیکہ ہر ممکن طریق سے بدامنی اور انتشار ، دہشت اور ہر اس پھیلا نے کی کوشش کی گئی تاکہ صوبہ کی اقتصادی اور شہری زندگی ختم ہو جائے.آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ یہ تمام کارروائی ایسے وقت میں عمل میں لائی گئی جبکہ ہمارا ملک خصوصاً صوبہ پنجاب ایک نازک اقتصادی دور سے گزر رہا تھا.ایک طرف قدرتی حوادث اور نہروں میں پانی کم ہونے کے باعث خوراک کی کمی کا مسئلہ در پیش تھا دوسری طرف عالمگیر بحران نے تجارت کا بازار سرد کر یہ کھا تھا.اس مصیبت کے وقت پنجاب میں خلفشار پیدا ہونا کوئی اتفاقی سانحہ نہ تھا.بلکہ ایک خوفناک سازش تھی.ہر آندا د قوم کا شیوہ ہے کہ مصیبت کے وقت اتفاق اور اعتماد سے کام لے.ایسے موقع پر سراسیمگی اور خلفشار پھیلانا ملک کے دشمنوں کے سوا اور کسی کا کام نہیں ہو سکتا.ان دشمنوں کے وجود سے آپ اور آپ کی حکومت بے خبر نہیں تھی.یہ لوگ پاکستان کے شروع سے مخالف تھے اور ہر مرحلے پر اس کی ترقی اور بہبودی کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں.....ان کی کھلی بغاوت کا کم از کم ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ ملک کے دشمن بے نقاب ہو گئے اور قوم نے انہیں ان کے اصلی رنگ اور روپ میں دیکھ لیا ہے ، اب یہ خواہ کسی بھیس میں آئیں یا کسی لائحہ عمل کی آٹا لیں

Page 19

ان کا فریب نہ چل سکے گا لیکن افسوس ان لوگوں پر ہے جو لا علمی اور نادانی کے باعث ان غداروں کی سازش کا شکار ہو گئے.جو اُن کے دھوکے میں آکر اپنی قوم اور ملک کا اور خود اپنا مفاد بھول گئے اور اُن کی شیطنت کا آلہ کار بن گئے ک کہا :- وزیر اعلی صاحب نے اس کے بعد ۲۰ مارچ ۱۹۵۳ء کو شجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اس تحریک کے علمبرداروں نے نام نماد راست اقدام جسے میں کھلی بغاوت کہتا ہوں شروع کر کے تشدد کا راستہ اختیار کیا.تحریک کے پہلے تین چار دنوں میں کوئی خاص ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن بعد ازاں یہ تحریک پاکستان دشمن سیاسی علمی اور شرپسند غنڈوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے ۳- گورنر پنجاب جناب ابراہیم اسمعیل چندریگر نے دو مارچ ۱۹۵۳ ء کو ایک نشری تقریر کی جس میں اس ایجی ٹیشن کو کھلی بغاوت قرار دیے ہوئے کہا :- " بدامنی کی یہ تحریک بظاہر ختم نبوت کے تحفظ کے لیے شروع کی گئی لیکن جو مطالبات اس تحریک کے نام پر پیش کئے گئے وہ سراسر سیاسی تھے.عوام کو دھوکہ دینے کے لیے انہیں مذ آبی رنگ دیا گیا.....اس مسئلہ کو بدامنی اور قانون شکنی کی دلیل بنانا اور ڈائر یکٹ ایکشن کی ابتدا کہ نا ایک خطر ناک سازش تھی جس کی بیشتر ذمہ داری جماعت احرار پر عائد ہوتی ہے.یہ وہ جماعت ہے جو شروع سے پاکستان کی دشمن رہی اور قیام پاکستان سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا تر یہ ہو جو اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہ کیا ہو....شرپسند عناصر نے نصرف صوبے کے امن وامان کو تہ و بالا کرنے کی کوشش کی بلکہ قومی اور انفرادی نقصانات کا ایک طویل سلسلہ بھی شروع کر دیا.افسوس کا مقام ہے کہ یہ سب کچھ ناموس رسول اور اسلام کے نام پر کیا جارھا ے پمفلٹ پنجاب میں امن و امان قائم رکھئے " صدا نام ناشر محکہ تعلقات عامہ پنجاب ومد مارچ ۱۹۵۳ء سے " اختبار نوائے وقت لاہور ۲۲ مارچ ۰۶۱۹۵۳

Page 20

تھا مات ۴ - جناب خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان نے پاکستان پارلیمنٹ میں بجٹ اجلاس کے دوران تقریر کرتے ہوئے فرمایا.جن لوگوں نے اس کی راہنمائی کی اور جو اکثریت میں تھے زیادہ تر احراری گروہ سے تعلق رکھتے تھے.یہی لوگ اور ان کے نمائندے ہیں جنہوں نے قائد اعظم کو نعوذ باللہ) کافر اعظم اور پاکستان کو پلیدستان" کہا.جنہوں نے پاکستان کی شدید مخالفت کی اور قیام پاکستان کے بعد بھی سرحد پار کے ساتھ اپنے روابط قائم رکھے یا، انہوں نے غیر اسلامی چالیں اور عیاریاں اختیار کیں اسلام دانسته در ورغ بانی اور جھوٹے پراپیگنڈا کا ہر گز روادار نہیں.اس جھوٹے پروپیگنڈے کے علاوہ جوان لوگوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے خلاف کیا.انہوں نے تو یہ کہنے میں تامل نہیں کیا کہ میں قادیانی ہو گیا ہوں اور میرے ایک بیٹے نے ایک قاریانی لڑکی سے شادی کی ہے حالانکہ انہیں خود معلوم تھا کہ یہ باتیں قطعاً غلط ہیں میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جس حالت میں اسلام بہتان کی اجازت نہیں دیتا ایسی بہتان آمیز بتحریک اسلامی کیونکہ ہوسکتی ہے اور پھر ان حرکات کو بھی پیش نظر رکھیئے جو اس تحریک کے دوران کی گئیں.شہری دفارغ کے مقاصد کے لیے لوگوں کو جو اسلحہ سپرد کیے گئے اور جو تربیت دی گئی وہ فوج اور پولیس کے خلاف استعمال کی گئی.ٹیلیفون کے تار کاٹے ڈالے گئے ، سٹرکیں تھیڑ دی گیئں.مواصلات کے سلسلے میں خلل ڈالا گیا.ڈاکخانے جلائے گئے.موڑ بیں تباہ کر دی گئیں، ریلوے ٹرینیں روکی گئیں.لوکو شیڈ میں انجن بیکار کر دیئے گئے اور ریل کی پٹڑیاں اکھاڑ ڈالی گئیں ،ہے ه اخبار نوائے وقت ۲۳ مارس ح ۱۹۵۳ ء صت لله تقریر خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر اعظم

Page 21

اشتہار - ناشر محکمہ اشتہارات فلم و مطبوعات حکومت پاکستان کراچی ۱۹۵۳ء مطبوعه ما نظر پر ٹنگ پر یس کراچی - کراچی کے سات ممتاز علماء نے انہیں دنوں ایک متفقہ بیان میں تسلیم کیا کہ : - در پنجاب میں جو ہولناک حوادث رونما ہوئے.وہ دشمنان پاکستان کی سوچی سمجھی ہوئی ایک سازش کے نتائج تھے جس کا مدعا یہ تھا کہ تباہ کاری اور دہشت انگیزی کو اس حد تک پہنچایا جائے کہ ملک بھر میں بغاوت اور لاقانونی اور فنڈ سے پن کی آگ بھڑک اُٹھنے میں ہیں یہ مملکت جل کر خاک سیاہ ہو جائے کیا ہے - اختبار سفینہ “ لاہور نے لکھا :- اوار نے تحفظ ناموس رسول کے لیے یہ مجھگڑا شروع نہیں کیا بلکہ اُن کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچاتا ہے یہ لوگ پاکستان کے دشمن ہیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کی وحدت بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کہ پہلے تو اُن کے علی شیرانہ سے کو درہم برہم کریں اور اس کے ساتھ پاکستان کو بھی ختم کریں: شہ 4 - جناب حامد علی خاں ر الحمراء - ۳.ماڈل ٹاؤن لاہور) نے ۳ مارچ ۱۹۵۳ء کے ایک مکتوب میں اس بغاوت کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا :.دو کانگریس کے احراری ایجنٹ پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے آجکل یکا یک تحریک ختم نبوت کے ممبر دارین گئے ہیں.جب کشمیر کی گفتگو شروع ہوتی ہے یہ لوگ جو متحدہ ہند میں نہرو، گاندھی ، پٹیل وغیرھم کے ابدی غلام بننے کی تحریک کے پشت پناہ تھے ظفر اللہ خاں کی قادیانیت کے خلاف اینٹوں، ڈنڈوں اور مغلظات کا جہاد شروع کر دیتے ہیں جو کام تبلیغ سے ہونا چاہیے اسے مخش گالیوں سے انجام دینے کا خیال اسلام - م کے اس محافظوں کا عجیب و غریب کارنامہ ہے.کشمیر کے بعض علاقوں میں قادیانی عقید ے کے لوگوں کی به روز نامہ جنگ کراچی ۲۷ مارچ ۱۹۵۳ء کے اخبار سیفیہ لاہور ۲۷ مارچ ۶۱۹۵۳ مت

Page 22

اکثریت ہے.احمرار جو یکا یک اُن کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں غالباً ہند دوستان کی خفیہ خدمت ہے تاکہ جب پاکستان کے مولوی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے لیں تو مہندوستان دنیا بھر کو بتا سکے کہ کشمیر کے بیشتر حصوں میں اکثریت مسلمانوں کی نہیں.غیر مسلموں کی ہے جنہیں پاکستان خود غیر مسلم کہتا ہے علاوہ انہیں اس تحریک کی کامیالی - پاکستان تمام مغربی ممالک میں انتہا درجے کا تنگ نظر متعصب ملک بھی قرار پائے گا.یہ بھی بھارت کی خدمت ہے تاکہ ہندوستان سے پاکستان کی علیحد گی خود جرم عظیم ثابت کی جا سکے کہ لے مولوی محمد احسن شاہ صاحب صدر انجمن خدام الصوفیہ راولپنڈی نے ایک ٹیکٹ میں لکھا : - تاریخ اسلام کے اوراق اس امر کے شاہد ہیں کہ جب بھی مسلمان سلطنتوں پر نہ وال آیا ، اور جب بھی اسلامی حکومتیں تباہی سے دوچار ہوئیں اُن میں غیروں سے نہ بادہ اپنوں کا ہاتھ تھا.بغداد اور اسپین کی مسلمان حکومتوں کا نہ وال اور سلطنت مغلیہ کی تباہی سب اپنوں ہی کی مرہونِ منت تھی.آج بھی پاکستان کی اسلامی مملکت کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو اپنوں سے.غیر کے مقابلہ میں ہم آج بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط رہیں گر خود اپنے ہی جب دشمنی پر اتر آئیں اور بغل میں چھڑی گھونپنے کی کوشش کریں تو ہر سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی کا مقدس فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اُن وطن کے دشمنوں کے اصلی چہروں پر سے پردہ اٹھائے اور پاکستانی عوام پر صاف اور کھلے طور پر عیاں کرے کہ اُن لوگوں کی اصل حقیقت کیا ہے.جنہوں نے اپنے وطن دشمن اور گھنا د نے چہروں کو قتہ یا اور علمیت دینی کے نقابوں سے ڈھانپ رکھا ہے.اسی مقصد کے لیے ایک سچے مسلمان اور ایک وفادار پاکستانی شہری کی حیثیت سے ہمیں اس فرض کو ادا کر رہا ہوں.میں نے اُن تقدس مابوں کے بھرم کھول دینے کی جرات رندانہ کی ہے جو " اسلام خطرے میں ہے " کا نعرہ لگا کر ملک کے امن وامان کو تہ و بالا کر رہے ہیں اور دانستہ طور پر بیرونی دشمنوں کے آلہ کارہ ه ماهنامه چراغ زاد کراچی فروری ۱۹۵۴ء مت مدیر تعیم صدیقی صاحب

Page 23

بن کر اُن کے لیے راستہ ہموارہ کر رہے ہیں.به نام بها در مہبر اور تقدس تاب جو کچھ اس سے پہلے کرتے رہے ہیں وہ سب پر ظاہر ہے.خراساں کے بعد عراق کا دروازہ تاتاریوں پر ان حضرات ہی نے تو کھولا تھا آخر غرناطہ قرطبه، بغداد ، قسطنطنیہ ، اصفہان اور دلی کی اینٹ سے اینٹ بجوانے میں اپنوں ہی کا تو ہاتھ تھا.تقسیم ملک سے پہلے جو تقدس تاب پاکستان کی مخالفت کیا کرتے تھے وہ ایک عرصہ تک خاموش رہے اور اُس وقت کا انتظار کرتے رہے جب کہ وہ کسی مذمپبی نعرے کی آٹے کر مسلمانان پاکستان کو مشتعل کر کے اپنا سیاسی انتقام لے سکیں اور اس طرح پاکستان کی آزادی کو ختم کروا سکیں موقع مل گیا اور عرصہ سے سوچی سمجھی ہوئی سکیموں پر عمل درآمد کرنے کا وقت آگیا.اس ناپاک مقصد کے لیے ختم نبوت کے مقدس عقیدہ کو بہانا بنا یا گیا اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے فائدہ اٹھا کہ ختم نبوت کے نام پر ملک میں ایک تحریک سول نافرمانی کا آغانہ کہ دیا گیا ، لوگوں کو قانون شکنی پر ابھارا گیا ، انہیں لوٹ مار اور غنڈہ گردی کی تلقین کی اور اس طرح جہاں پاکستان کے امن پسند شہریوں کے جان ومال کے لیے خطرہ پیدا کیا وہاں پر لگے ہاتھوں خود پاکستان کی داخلی و خارجی آزادی کو معرض خطر میں ڈال دیا....پنجاب کی حکومت اور راولپنڈی کے حکام نے ہمیشہ اور ہر حال میں اس تحریک کا احترام کیا.اس کا ثبوت اس بات سے مل سکتا ہے کہ صوبہ کے کسی شہر میں بھی اس وقت تک دفعہ ۱۴۴ یا کر نیو کا نفاذ نہیں کیا گیا جب تک کہ انتشار پسند، وطن دشمن ، غنڈہ عناصر اور اپنی سیاسی اغراض کے لیے اس تحریک کو آلہ کار بنانے والوں نے پُر امن شہریوں کے شہری حقوق کے لیے ایک عظیم خطرہ پیدا نہیں کر دیا ، حکومت کی فراخ دلانہ پالیسی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر تحریک ختم نبوت کی آٹ میں.....لوٹ مار اور غنڈہ گردی کی گئی ، قانون کا مضحکہ اُڑایا گیا، جس طرح حکومت کے ملازمین پر قاتلانہ حملے کئے گئے ، موٹر لاریوں اور مکانات کو آگ لگائی گئی اور حکومت کے نظم ونسق میں ایک منظم سازش کے تحت ابتری پیدا کرنے کی کوشش سے

Page 24

کی گئی.۱۴ ہ وہ لوگ جو کل تک پاکستان کے قیام کو غلط سمجھتے تھے اور آج بھی اپنی روش پر قائم ہیں.جو آج بھی غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار بن کر بے مثال قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی آنهادی کو ختم کر دانا چاہتے ہیں، جو ایک مذہبی تحریک کے پردے میں اپنی سیاست کی دوکان چمکانا چاہتے ہیں.جنہیں پاکستان سے زیادہ مہند دوستان عزیز ہے.جو نانزک حالات کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار اور غنڈہ گردی کہ نا چاہتے ہیں.جو پُر امن شہریوں کے جان و مال کے لیے ایک عظیم خطرہ ہیں اس موقع کو ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتے تھے انہوں نے ایک مقدس مطالبہ کو سول نافرمانی کی شکل دے دی یا.ختم نبوت کی اس نام نہا د تحریک میں مندرجہ ذیل عناصر بر سر پیکار ہیں : - ا.وہ سادہ لوح مسلمان جو عقیدہ ختم نبوت میں اندھا یقین رکھتے ہیں اور جن کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان مولویوں نے اپنے ساتھ لگایا ہوا ہے.۰۲ وہ لوگ جو اس تحریک کو اپنی سیاسی اعتراض کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں..وہ لوگ جو ملک میں بدامنی پھیلا کر لوگوں کو اپنی حکومت سے بنگمان کرنا چاہتے ہیں.۴.وہ لوگ جو اس تحریک کی آڑ میں اپنا سیاسی انتقام لینا چاہتے ہیں.وہ لوگ جو اس بدامنی کا فائدہ اٹھا کر ٹوسٹ مارہ اور غنڈہ گردی کرنا چاہتے ہیں.سب سے پہلے مجھے اُن سادہ لوح مسلمانوں سے کچھ کہنا ہے جن کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان لوگوں نے اپنا آلہ کار بنا رکھا ہے.میرے بھائیو ! " عقیدہ ختم نبوت پر ہر مسلمان کا ایمان ہے.ہماری حکومت کے تمام اراکین اس بات پر متفق ہیں اور اُن کا ایمان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ آیا ہے اور نہ آئے گا.مگر انصاف سے بتائیے ، اپنے دلوں کو ٹویٹے اور کیجیے کہ کی ختم نبوت پر ایمان رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ لوگ جو اس عقید و پر ایمان نہیں رکھتے ان کے گھروں کو آگ لگا دی جائے ؟ انہیں قتل کر دیا جائے ، اور انہیں نوکر یوں سے نکال دیا جائے ؟ اس ملک میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے علاوہ دوسری قومیں

Page 25

10 بھی آباد ہ ہیں اُن میں ہندو، عیسائی، پارسی اور یہودی بھی ہیں یہ لوگ تو ہمارے پیارے نبی پر ایمان ہی نہیں رکھتے ختم نبوت تو ایک علیحدہ چیز ہے.یہ لوگ تو رسول کریم کو نبی ہی نہیں مانتے.کیا صرف اس لیے اُن کے گھروں کو آگ لگا دی جائے، ان کے بچوں کو قتل کردیا جائے ، انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ، اور انہیں نوکریوں سے برطرف کر دیا جائے ؟ اور کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے مذہبی جذبات کو بھڑ کانے والے اور آپ کی سیارہ اوگی سے فائدہ اٹھانے والے بزرگ کون ہیں ؟ اُن کا مقصد کیا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ؟ آئیے میں آپ کو بتاؤں کہ وہ کیا ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں.ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس تحریک کہ اپنی سیاسی اغراض کے لیے ستعمال کرنا چاہتے ہیں ؟ قوم ان کو دھتکار چکی ہے.قوم نے ان کو اعتماد کا اہل نہیں سمجھا اور قوم نہیں نا اہل سمجھتی ہے.اس لیے یہ لوگ اب آپ کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر اس کھوئی ہوئی شہرت و عظمت کو بحال کرنا چاہتے ہیں جو یہ اپنی نا اہلیوں اور نالائقیوں سے کھو چکے ہیں.ان کے بعد کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس تحریک کی آٹڑے کہ ملک میں بدامنی پھیلا کہ لوگوں کو اپنی حکومت سے بدگمان کرنا اور اپنی پارٹی کی حکومت کے لیے راستہ صاف کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ آئینی طور پر تو تمام عمر بر سر اقتدار نہیں آسکتے اور نہ ہی دنیا کے کسی ملک میں آئے ہیں اور اسی لیے تشدد کے حربے استعمال کر کے حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں.ان کا اصلی چہرہ شاید آپ کی نظر سے پوشیدہ ہو، مگرہ میں آپ کو نقاب الٹ کر ان کے درشن کرواتا ہوں.یہ ہیں آپ کے دشمن، آپ کے نظام کے دشمن ، آپ کے ملک کے دشمن اور اسلام کے دشمن کمیونسٹ یہ اگر خدا کو نہیں مانتے مگر وقت پڑنے پر مذہب کی آڑ لینے میں دریغ نہیں کرتے.ظاہر ہے کہ خدا کے نہ ماننے والے کے دل میں ختم نبوت کے عقیدہ سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے مگر یقین جانیے کہ جس مشتمل جلوس نے راولپنڈی شہر کے تھانے پر پھر برسائے تھے اور جو ہجوم تھانے کو آگ لگانے کی غرض سے آیا تھا اس کی قیادت ایک

Page 26

14 کمیونسٹ نوجوان کر رہا تھا.اس کے بعد آپنے اپنے ان دوست نما دشمنوں کی طرف جو اس تحریک کی آٹھ میں اپنا سیاسی انتقام لینا چاہتے ہیں ان میں احراری حضرات قابل ذکر ہیں.مجلس احترامہ کے ان لوگوں نے جس طرح ہندوؤں کے سرمایہ کے بل بوتے پر مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان کی مخالفت کی وہ آپ سے پوشیدہ نہیں.قیام پاکستان سے قبل بھی مجلس احرار کے لیڈر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لیے ختم نبوت کے نعرے کو استعمال کیا کرتے تھے.پاکستان کی مخالفت کے لیے بھی ان حضرات نے اس نعرے کو استعمال کیا اور ایک جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کے مطالبہ کی مخالفت کی.اس مقصد کے لیے اس کے لیڈر غیر مسلموں اور مسلمانوں کے دشمنوں سے بھاری رقمیں رشوت کے طور پر وصول کیا کرتے تھے مگر ان کی تمام تریخالفتوں کے باوجود پاکستان بن گیا.پاکستان کی تشکیل کے کافی عرصہ بعد تک تو یہ اتداری حضرات خاموش رہے اور جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ ان کا ماضی بھول گئے ہیں تو پھر دوبارہ ختم نبوت کے سلسلہ کو آٹینا لیا اور سادہ لوح مسلمانوں کو سا تحفہ ملا کر تحریک سول نافرمانی کا آغاز کر دیا.یہ لوگ بڑے عرصے سے ایسے موقع کی تلاش میں تھے.یہ موقع مل گیا اور اپنا سیاسی انتقام لینے کے لیے ان بزرگوں نے ملک میں بدامنی شروع کرادی.یہ جب بھی پاکستان کے دشمن تھے اور آج بھی ہیں.یہ اُس وقت بھی پاکستان کی مخالفت کا صلہ انعام کی صورت میں مہندووں سے وصول کیا کرتے تھے اور آج بھی اسی ڈگر پہ چل رہے ہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ مجلس احرار نے ولی طور پر پاکستان کے قیام کو قبول نہیں کیا اور وہ اس حقیقت کو اس طرح ملک میں بدامنی پھیلا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ملک میں ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ دشمن طاقتوں کو پاکستان کی آزادی ختم کرنے کا موقعہ مل جائے کالے سه اعلان حق صفحه ۳ تا ۱۲ مطبوعہ تعمیر یہ ٹنگ پر لیس را ولپنڈی

Page 27

کی کہ : - پاکستان کے ایک ممتاز صحافی مسٹر نہ بڈ.اے سلہری نے واضح الفاظ میں یہ حقیقت پیش مد قادیانیوں کے خلاف تحریک کی اصلیت کچھ بھی ہو، لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ اس تحریک نے حکومت کے خلاف ایک کھلی بغارت کی شکل اختیار کرلی تھی.اس تحریک نے تمام پنجاب میں ہلچل پیدا کر دی اور صوبے کا سارا انتظام متزلزل ہو کے رہ گیا جس کے ساتھ قتل و غارت گری اور بہیمانہ کارروائیوں کا بازار گرم ہو گیا اور جائیداد کا بھی نہ یہ دست نقصان ہوا کات جماعت احمدیہ کیخلاف پیلے پیمانے پر تشدد شورش پسندوں نے میں زور اور شدت سے حکومت پاکستان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اسی درجہ طاقت وقوت کے ساتھ معصوم اور نہتے احمدی اُن کے غیض و غضب اور تشدد کا نشانہ بنے.اس طرح پاکستان کے ازلی مخالفوں نے جماعت احمدیہ سے قیام پاکستان کے جہاد میں شرکت کا انتقام لینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.اس زمانہ میں جبکہ ظاہر ین نگاہیں سمجھ رہی تھیں کہ تحریک احمدیت کا نام ونشان تک صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ، جماعت کے اولو العزم امام حضرت مصلح موعود نے ۳ مارچ ۱۹۵۳ ء کو جماعت احمدیہ کے نام پیغام دیا کہ :." آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں.انشاء اللہ فتح ہماری ہے کیا آپ نے گزشتہ چالیس سالی میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا ؟ ، ساری دنیا مجھے چھوڑ د.گردہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا.سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لیے ادامه به ٹائمز آف کراچی دور دسمبر ۱۹۵۴ء.اس اداریہ کا مکمل اردو ترجمہ رسالہ ترجمان القرآن لاہور جنوری 1900 صفحہ ۲ تا ۹ میں شائع شدہ ہے.

Page 28

روڑا آرہا ہے.وہ میرے پاس ہے.وہ مجھ میں ہے.خطرات ہیں اور بہت ہیں.مگر اُس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے.تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کر در سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا یا لے یہ پیغام خدا کے موعود و مقدس خلیفہ نے القائے ربانی کے تحت دیا تھا جس کے بعد خدا تعالیٰ کی تائیدات سماوی کے غیبی سامان پیدا ہوئے مگر جماعت احمدیہ بے شمار مصائب و مشکلات کے طوفانوں میں بھی گھر گئی تھی جس کے دوران خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستانی احمدیوں نے انتہائی مخالفت کے باوجو د صبر و رضا اور ایثار و قربانی کا بے مثال نمونہ دکھلایا جو اس کا واضح ثبوت تھا کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی قائم کر دہ ہے اور انہی قدموں پر چل رہیا ہے جن پر خدائی جماعتیں ہمیشہ ملیتی آئی ہیں اور ترقی کرتی رہی ہیں.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام فلسفه ابتلاء پر بصیرت افروز روشنی ڈالتے ہوئے تحرکیہ فرماتے ہیں کہ : - ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کر کے انکو دکھاتا ہے یہ ابتلاء اس لیے نانول نہیں ہوتا کہ اُن کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحہ عالم سے ان کا نام و نشان مٹادیوے کیونکہ یہ تو ہرگزہ ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزوجل اپنے پیار کرنے والوں.دشمنی کرنے لگے اور اپنے پیچھے اور وفادار عاشقوں کو ذلت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر بر کی طرح اور سخت تاریخی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لیے نازل ہوتا ہے کہ تا اُس بر گزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچا دے.اور اپنی معارت کے باریک دیتے ان کو سکھا رہے.یہی سنت اللہ ہے.جو قدیم سے خدائے تعالیٰ اپنے سے ہفت رونده " فاروق" لاہور - ۲ مار پچ ۱۹۵۳ء صل /

Page 29

14 پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے زیور میں حضرت داؤد کی ابتدائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آنہ مائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبا نہ تضرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب مخز الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتهالات اسی قانونِ قدرت کی تصریح کرتے ہیں : اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء اُن مدارج عالیہ کو ہر گز نہ پاسکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے انہوں نے پالے.ابتلاء نے اُن کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں.اور کیسے پیچھے وفا دار اور عاشق صادق ہیں کہ اُن پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزے اُن پر وارد ہوئے اوروہ ذلیل کیے گئے ، اور جھوٹوں اور مکار وں اور بے عزبہ توں میں شمارہ کیسے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مددوں نے بھی جن کا اُن کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک نہ چھپا لیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مرتبا نہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تیئی ایسا خشک ساد کھلایا کہ گویا وہ اُن پر ذرا مہربان نہیں بلکہ آن کے دشمنوں پر مہربان ہے اور اُن کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طویل کھینچ گیا.ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلاء نازل ہوا.غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدت و سختی سے نازل ہوتی ہے ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں اُن پر ہوئیں پر وہ اپنے بچے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سنست اور شکستہ دل نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا بار اُن پر پڑتا گیا اتنا

Page 30

ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور میں قدر وہ توڑے گئے اُسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا اُسی قدر أن کی ہمت اور شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی.بالاخر وہ اُن تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یا فتہ ہوکر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہو گئے اور عزت اور حرمت کا تاج اُن کے سر پر رکھا گیا اور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے حساب کی طرح معدوم ہو تھے کہ گویا وہ کچھ بھی نہیں تھے عزمن انبیاء و اولیاء ابتلاء سے خالی نہیں ہوتے بلکہ سب سے بڑھ کر انہیں پر ابتلاء نازل ہوتے ہیں اور انہیں کی قوت ایمانی ان آزمائشوں کی برداشت بھی کہتی ہے عوام الناس جیسے خدا تعالے کو شناخت نہیں کر سکتے دیسے اُس کے خالص بندوں کی شناخت سے بھی قاصر ہیں بالخصوص ان محبوبان الہی کی آنہ مائش کے وقتوں میں تو عوام الناس بڑے بڑے دھوکوں میں پڑھاتے ہیں گویا ڈوب ہی جاتے ہیں اور اتنا میر نہیں کر سکتے کہ اُنکے انجام سے منتظر رہیں.عوام کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ جل شانہ حبس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے اُس کی شاخ تراشی اس غرض سے نہیں کہتا کہ اس کو تا بود گر دیوے.بلکہ اس غرض سے کرتا ہے کہ تا دہ پودا پھول اور پھل زیادہ لاوے اور اُس کے برگ اور بار میں برکت ہو.پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاء کی تربیت باطنی اور تکمیل روحانی کے لیے ابتداء کا ان پر دارد ہوتا ضروریات سے ہے اور ابتداء اس قوم کے لیے ایسا لازم حال ہے کہ گویا ان ربانی سپاہیوں کی ایک روحانی در دی ہے، نہیں سے یہ شنا خت کیے جاتے ہیں ہے ه سبز اشتہار صفحه ۱۴۰۱۱ مطبوعہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ ۶ ریاض ہند پریاں امرتسر

Page 31

تاریخ احمدیت کی سولہویں جلد میں ۱۹۵۳ء کے دور ابتلاء کا چار حصوں میں تذکرہ کیا جا رہا ہے.پہلے حصہ میں اُن زمره گداز روح فرسا در دانگیز اور صبر آنها واقعات کی تفصیل درج ہے جو مظلوم احمدیوں کو مختلف صوبوں اضلاع اور مقامات میں پیش آئے یہ تفصیل ایک تو اُن مکتوبات سے اخذ کی گئی ہے جو اس زمانہ میں حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں یا مرکز میں موصول ہوئے ، دوسرے اُن چشم دید بیانات سے جو فسادات کے بعد سلسلہ احمدیہ کے محقق و فاضل جناب مہاشہ ملک فضل حسین صاحب مرحوم نے تصویر کی خصوصی ہدایت پر بڑی محنت اور عرقریزی سے جمع فرمائے تھے.علاوہ انہیں تحقیقاتی عدالت کی مطبوعہ راپورسٹ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے دوسرا حصہ سید نا حضرت مصلح موعود کی حیرت انگیز محنت و ریاضت ، عدیم المثال رہنمائی پیغامات مرکز سے اطلاعات کا انتظام اور خاندان حضرت مسیح موعود کے بے نظیر مبرد استقلال جیسے اہم امور پرمشتمل ہے.تیسرا حصہ تحقیقاتی عدالت میں وکلاء احمدیت کی شاندار نمائندگی اور حضرت مصلح موعود کے ایمان افروز بیان سے متعلق ہے.چوتھے حصہ میں اس جماعتی ابتلاء کی عظیم الشان برکات اور اس کے نتیجہ میں.دینا ہونے والے نصرت خداوندی کے نشانات پر روشنی ڈالی گئی ہے.آخر میں اس دور کی بعض اہم تحریرات ضمیمہ کی صورت میں منسلک کی گئی ہیں.له وفات ۱۸ ستمبر ۱۹۷۵ء

Page 32

حصہ اوّل

Page 33

۲۳ پہلا باب اضلاع راولپنڈی ،گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی احمدی جماعتوں کے واقعات

Page 34

۲۴ فصل اوّل راولپنڈی شہر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں راولپنڈی شہر کے متعلق لکھا ہے کہ : یہاں بھی فسادات کے آغانہ سے پیشتر واقعات کی رفتانہ بالکل صوبے کے دوسرے قصبوں ہی کی مانند تھی......آل پارٹیز مسلم کنونشن کے بعد احراری دوسر ے مذہبی فرقوں کے مبلغوں اور پیروں کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مساجد احمدیوں کے خلات پراپیگینڈا کا مرکز بن گئیں اور جمعہ کے خطبات تو احمدی عقائد کی مذمت د مخالفت کے لیے وقف ہی کر دیئے گئے کیا لے پھر لکھا ہے :- جب 4 مارچ کو سیالکوٹ اور لاہور کے واقعات کے متعلق مبالغہ آمیز افواہیں جھیلیں اور یہ اطلاع موصول ہوئی کہ حکومت پنجاب نے مطالبات منظور کر لیے ہیں اور کراچی کو اس منظور می کی اطلاع دے دی ہے تو صورت حالات بے حد نازک ہوگئی.نوری نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے خیال کیا حکومت نے ہتھیار ڈال دیتے ہیں.چنانچہ جلوس زیادہ جارحانہ ہو گئے اُن کی تعداد بھی بڑھ گئی اور ان کو ٹا بھی چارج سے منتشر کرنا پڑا.ور مارچ کو لیاقت باغ میں ایک اور جلسہ منعقد ہوا.ایک ہجوم نے جلسے کے بعد منتشر ہو کر مری روڈ کا رخ کیا اور احمدیوں کی ایک مسجد اور ایک چھوٹی موٹر کار کو آگنگا دی.اسی شام کو کچھ دیر بعد لوٹ مار اور آتش زنی کے مزید واقعات بھی رونما ہوئے.احمدیہ کمرشل کالج، فور آرٹ پر لیس اور پاک ریسٹوران شہر کے مختلف حصوں میں واقع تھے.لیکن لوگ رپورٹ تحقیقاتی عدالت مش-۱۸۳ مقرر که دو زیر پنجاب ایکٹ ۱۹۵۷۲، برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ ۶ اردو.مطبوعہ انصاف پریس لاہور.

Page 35

۲۵ زبر دستی اُن میں گھس گئے.اور انہوں نے مختلف اشیاء کو لوٹنے جلانے اور تباہ کرنے کی کوشش کی.ایک غیر احمدی نوجوان نور آرٹ پریس میں ملازم تھا.اس کو احمدی سمجھ کر چھڑا مارا گیا اور وہ اسی زخم کی وجہ سے ہلاک ہو گیا.جب صورت حالات سخنت خطر ناک ہو گئی تو ، رما نہ چ کو فوج طلب کر لی گئی اٹ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں راولپنڈی کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے.یہ واقعات کا اجمالی تذکرہ ہے.ذیل میں اس کی کسی قدر تفصیل بعض چشم دید بیانات کی یہ دشمنی میں دمی جاتی ہے.بہت احمدیه را ولپنڈی قائد مجلس خدام الاحمدیہ راولپنڈی چو ہدری عبدالغنی رشد کی حساب بیت احمد یہ رواقع مری روڈ حال شاہراہ رضا شاہ پہلوی) کے سامنے ایک چھت پڑھتے تھے آپ ایک بیان میں لیاقت باغ کے جلسہ کی انتہائی اشتعال انگیز تقریروں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ : - اتنے میں گولڑہ کا قافلہ جلسہ گاہ کے قریب پہنچ چکا تھا.عوام اس کی طرف بھاگے.اور پھر جلوس کی شکل میں یہ قافلہ مری روڈ کی طرف چلا.اس کی راہنمائی....- کر رہا تھا.یہ جلوس نهایت اشتعال انگیز نعرے لگا رہا تھا.جب یہ جلوس بیت انجمن احمدیہ (واقع مری روڈ.راولپنڈی.ناقل) کے قریب پہنچا تو وہاں آکر رک گیا اور نعرے لگانے شروع کر دیئے.دو آدمیوں نے جلوس کو آگے بڑھانے کی کوشش کی مگر جلوس زیادہ مشتعل ہو گیا اتنے میں قرب جوار کے مکانوں سے بہت احمدیہ پر سنگباری شروع ہو گئی اور جلوس نے بھی پتھروں کے ذریعہ بیت احمدیہ کے دروازے توڑنے شروع کیے.جب دروازہ ٹوٹ گیا تو کچھ لوگ اندر گھس گئے اور اندر سے اخبارات اٹھا لائے.کچھ لوگ اتنے میں باہر سے آکر اوپر گیلیری میں چڑھ گئے اور اس عرصہ میں بہت کے سامنے ایک معزز غیر احمدی کی کا نہ تھی.اس کو کسی شخص نے چلا کر موڑا کہ ایک لڑکے نے اینٹ ماری اور بہت سے لوگ اس پر پل پڑے اور کا ر کے رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو مت نے ولادت ۱۹۲۰ء وفات ۲۳ نومبر ۶۱۹۷۶

Page 36

شیشے توڑ دیئے.شیشے توڑنے والوں میں ایک سانولے رنگ کا داڑھی والا شخص بھی تھا.ہم نے جو کہ چھت پر یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ایک شخص کو تھا نے اطلاع کرنے کیلئے بھیج دیا کیونکہ پولیس ابھی تک نہ آئی تھی اور جو دو چار سپاہی پہلے موجود تھے وہ بھی غائب ہو چکے تھے.ہجوم میں سے ایک لڑکے نے کار کا ڈھکنا اٹھا کر ماچس کی تیلیاں جلا کر آگ لگانے کی کوشش کی مگر جب آگ نہ لگ نہ سکی تو کار کو انشا دیا گیا اور جو پیٹرول نکلا اُسے آگ لگا دی.اسی پٹرول کی مدد سے اور بیت کے اندر سے جو گھاس وغیرہ نکالا گیا تھا اس سے بیت کے دروازے کو آگ لگا دی.اسی عرصہ میں کافی لوگ بیت کے اندر گھس چکے تھے اور انہوں نے گیراج کی طرف کا دروازہ بھی توڑ دیا تھا.پھر میں اس کے بعد تھانہ کیطرف گیا کیونکہ آگ کے شعلے بہت بلند ہو چکے تھے.راستہ میں چند لوگ بیت کا بورڈ اٹھائے ہوئے آئے اور انہوں نے وہ چوہدری مولیٰ دار صاحب کے مکان کے قریب گندے نالہ میں پھینک دیا.....جلوس تقریبا پانچ بجے دبعد نماز عصر.ناقل بہت کے سامنے پہنچا تھا اور آگ پانچ بجکر دس منٹ پر لگائی گئی.پہلا شخص پانچ بجکر پندرہ منٹ پر تھانہ گیا.پھر میں اس کے دس منٹ بعد پہنچا.مگر پولیس اور فائر بریگیڈ پونے چھ بجے موقعہ پر پہنچے.جب آگ لگائی جارہی تھی تو اس وقت ایک شخص کی آمرانہ جو کہ اوٹ میں تھا آرہی تھی کہ شاباش مجاہدو.لوٹو بیت احمد یہ مری روڈ راولپنڈی کے اندر اس وقت سید اعجانه احمد شاہ صاحب انسپکٹر بیت المال ربوہ بھی تھے.آپ کا تحریری بیان ہے کہ :- " قریب پانچ بجے شام جلسہ نعروں پر ختم کر کے جلوس کی شکل میں نجوم مری روڈ پر چل پڑا اور انجمن احمد یہ واقع مری روڈ پر جو لیاقت باغ سے دس منٹ کے فاصلہ پر واقع ہے آکر یہ کا......اس وقت انجمن احمدیہ میں عاجز اور عاجز کے علاوہ دس اور احمدی دوست موجود تھے ۱۰ مولانا رشید احمد صاحب چغتان سابق مبلغ بلاد عربیه ۲۰ - چوہدری غلام قادر صاحب آف ربوه - ۳- چوبندی سردارخان صاحب ساکن شہری تحصیل کو ضلع راولپنڈی یہ.چوہڑی ریاض احمد مات کن پنجگرائیں ضلع سیالکوٹ ه حکیم آل احمد صا ترکستانی - - - بایو غلام حیدر صاحب میشر ریلوے گارڈ - ، میاں عبدالسمیع صاحب بدوملہی وغیرہ

Page 37

جن میں تین ضعیف العمر اور ایک سولہ سترہ سالہ لڑکا تھا جلوس کی انجمن کی طرف پیش قدمی کی اطلاع سن کر خاکسار نے انجمن احمدیہ سے باہر ایک احمدی کے مکان پر یہ اطلاع بھیجوا دی که جلوس کا رخ انجمن کی طرف ہے اور انجمن میں موجود دوستوں سے عرض کیا کہ وہ تمام دروازے کھڑکیاں انجمن کی بند کر دیں اور کوئی دوست جلوس کو دیکھنے کی بھی کوشش نہ کرے....جلوس انجمن کے سامنے آکر رکا اور نعرے بلند کر تا رہا.جلوس کے ایک ہجوم نے ہلہ بول دیا.عین اُس وقت جبکہ عمارت کے دروازوں سے یہ سلوک جاری تھا انجمن کے ملحقہ مکانات کی طرف سے پتھراؤ شروع ہوگیا.انجمن احمدیہ کی بیرونی عمارت کو آگ لگا دی گئی.چنانچہ آگ میشم زدن میں لگ گئی.آگ کے دھوئیں اور تپش کی وجہ سے نیب ہم نے دیکھا کہ حملہ آور سب کے سب عمارت سے باہر بھاگ گئے ہیں اور اب اندر رہنا خطرہ سے خالی نہیں تو احمدی احباب انجمن سے ملحقہ ایک مکان کی دیوار پر چڑھے.....ہمارے ساتھ جو بزرگ معمر احمدی دوست تھے ان کو نوجوان سہارا دے کر دوسرے مکان میں لائے دوسرے مکان والوں نے تمام دروازے بند کر رکھے تھے مگر ہمارے کہنے سننے پر انہوں نے دروازہ کھول دیا اور ہمارے ساتھی دوسری طرف نکلنے میں کامیاب ہوئے.باہر نجوم کے کچھ نوجوان موجود تھے جنہوں نے ہمارے دو ایک آدمیوں کو پکڑا اور دھول دیے مارے یہ تمام کا سر والی قریباً نصف گھنٹہ میں ہوئی یا اس آتشزدگی سے بیت کی عمارت کا جو نقصان ہوا وہ تقریباً اٹھائیں سو روپیہ کا تھا اور اور اس کے اندر جو سامان ضائع یا لوٹا یا جلایا گیا رجیسے اختبار.کتابیں.دریاں.قناتیں چار پائیاں سائبان (وغیرہ) اندازا پندرہ سو روپیہ مالیت کا ہوگا.علاوہ ازیں اس کے ملحقہ مکان میں بعض اور احمدی بھی رہتے تھے ان کا جو سامان برباد ہوا وہ (۱۱۲۵) سو گیارہ سو روپیہ کا تھا.اس طرح یہ سارا انقصان قریبا ساڑھے پانچ ہزار روپیہ کا ہوا اس سلسلہ میں جناب ملک برکت اللہ خاں صاحب کا حلفیہ بیان حسب ذیل ہے.میں برکت اللہ خان ولد ملک نیانہ محمد خاں.عارضی سکونت راولپنڈی حلفیہ طور پر بیان "

Page 38

۲۸ دیتا ہوں کہ : - ر مارچ ۱۹۵۳ء بروز جمعہ.میں نمازہ جمعہ پڑھنے کے لیے حسب معمول بہت احمد یہ واقع سری روڈ گیا.نماز پڑھے جانے کے بعد حسب معمول میں نماز عصر تک وہیں رہا.نماز عصر پڑھنے کے بعد ایک صاحب چوہدری یوسف علی صاحب کی دعوت چائے پر میں انکے مکان پر جو کہ بیت احمدیہ کے بالمقابل کی گلی میں ہے چلا گیا.تقریبا ہ نبجے شام ایک بڑا ہجوم جس کی تعداد ۱۵۰۰ سے ۲۰۰ کے درمیان ہوگی لیاقت باغ کی طرف سے بیت احمد یہ کی طرف آیا پہلے کچھ حصہ سیدھا آگے گزر گیا لیکن پھر ایک شخص نے بہت احمدیہ کی منڈیر پر چڑھ کہ ہاتھوں کے اشاروں سے ہجوم کو روکا.اور پھر بیت کے ملحقہ گلی کی جانب بھیجنا شروع کیا.چند لڑکے بہت کی بیرونی منڈیر پر بیٹھ گئے.ہجوم کا اگلا اور فعال حصہ دیاتی اور اجد قسم کے لوگوں کی اکثریت پر مشتمل تھا جو کہ باہر سے منگوائے گئے معلوم ہوتے تھے.ہجوم عجب شور و غل کرتا ہوا آرہا تھا.اور اگلے حصہ میں لوگ بھا گھڑا قسم کا ناچ کرتے ہوئے آرہے تھے.بیت احمدیہ کے دروازے بند تھے.ہجوم نے پتھر اور روڑے دروازوں پر مارنے شروع کر دیئے.جس سے گلی سے ملحقہ دروازہ بالکل ٹوٹ گیا.اس کے بعد دو نوجوان عمارت کے چھے پر چڑھ گئے اور جو بور ڈ آویزاں تھے ان کو اتار پھینکا.علاوہ ازیں عمارت کا بڑا دروازہ بھی ہجوم نے کھول لیا.ایک کا ربیت کے بالکل ساتھ کھڑی تھی.ہجوم نے اُس پر پتھراؤ کرنا شروع کر دیا.ایک شخص نے جو کہ غالبا کار کے مالک کا ملازم ڈرائیور ہو گا کار کوسٹارٹ کر کے ہجوم کی زہد سے باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن ہجوم نے کار کے سامنے اور بازووں پر جمع ہو کر سڑک کے عین درمیان میں روک لیا اور کار پر تیز پتھراؤ کرنا شروع کر دیا.ڈرائیور نے جان کو خطرہ میں دیکھ کوشش ترک کر دی.ازاں بعد کچھ لوگوں نے بیت کے بڑے دردانہ ہے سے چٹائیان نیز تین سائیکلیں نکال کر اور کار کو الٹا کر اس پر رکھ دیں اور کا ر کی گنڈیاں نکال کر کار کو الٹا کہ اس پر رکھ دیں اور کار کی گریاں نکال کر کار کو آگ لگادی." ہجوم کے آنے تک تین سپاہی باور دی بہت کے بالمقابل ۶۰ فٹ کے فاصلے پر کھڑے

Page 39

۲۹ ہوئے تھے لیکن کے آجانے کے بعد وہ غائب ہو گئے.کار کو آگ لگانے کے بعد چند لوگوں نے اُس دروازے اور کمرے کو آگ لگانی شروع کر دی جو ہجوم نے پتھراؤ کر کے تو ڑا تھا.یہ آگ کار کی گریوں اور اخبارات وغیرہ کے ذریعہ لگائی گئی.ان کی آن میں پورا کمرہ اور باہر کا بھیجا شعلوں کی لپیٹ میں آگیا.دوسرے بڑے دروازے سے کافی لوگ بیت کے اندر داخل ہوتے اور باہر نکلتے رہے.جس مکان کے چوبارہ پیر میں کھڑا ہوا تھا اُس کے تقریباً بالقابل مکان کے چوبارے پر سے ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکا ہجوم پر پتھر برساتا رہا.شاید ہجوم کو یہ باور کروا کر مزید مشتعل کرنے کے لیے کہ یہ پتھر احمدی مار رہے ہیں.نماز جمعہ کے بعد مجھے یہ بھی علم ہوا تھا کہ ایک ۵۰S.P کو سول کپڑوں میں نبیت کے ساتھ کی عمارت میں جو کہ P.W.D کا دفتر ہے بٹھایا گیا تھا لیکن نصف گھنٹہ تک نہ تو پولیس جائے واردات پر پہنچی اور نہ ہی فائر بریگیڈ کا انجن اور ہجوم اپنی من مانی کرتا رہا حالانکہ دو نو جوانوں مسمی محمد فاضل اور محمد داحمد را بین چوہدری یوسف علی صاحب مذکور) نے علی الترتیب یکے بعد دیگرے پولیس سٹیشن پر جاکر بھی اطلاع دی.جو کہ جائے وقوعہ سے صرف دو یا تین منٹ کے فاصلہ پر ہے.اتنی دیمہ تک ہجوم کا ایک حصہ اس گلی میں تھی آگیا جس میں وہ مکان واقع تھا.جس میں میں موجود تھا.اور گلی کو دونوں طرف سے بلاک کر لیا.ایک بوڑھا.ہجوم کو ہاتھوں کے اشارے سے بتلارہا تھا کہ اس مکان میں رہنے والا احمدی ہے........بالآخر میں یہ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں مندرجہ بالا بیان اگر ضرورت ہو تو حاضر عدالت ہو کہ حلفاً دینے کے لیے ہر وقت تیار ہوں.فقط الراقم برکت اللہ خان ولد ملک نیازہ محمد خاں بیتہ :.معرفت میاں عطاء اللہ صاحب وکیل بی اے ایل ایل بی کالج.دڈ راولپنڈی شہر." جلومیں اس دن رات کے انکے بابو اللہ بخش مهاب مکان امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی کے مکان پر بھی

Page 40

حملہ آور ہوا.اس نے مکان کے دو در راندوں کو توڑ دیا.بیٹھک کا سامان میز کرسیاں پار چات اور قرآن شریف کے تین نسخے اور دیگر کتابیں جماعت احمدیہ کے مختلف شعبوں کے قائل وغیرہ بازار میں پھینک کر آگ لگادی.اس طرح قریباً پانچ سو روپیہ کا نقصان پہنچایا.بلوائیوں نے بیٹھک سے آگے اندر دن خانہ میں جانے کی بھی از حد کوشش کی مگر خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ حملہ آور اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے.فسادیوں نے اسی روز نور آرٹ پر لیس پر بھی حملہ کیا اور اس کو آگ نور آرٹ پر میں جا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا.اس وحشیانہ بلغارسے اس پریس کے احمدی مالک (مولوی علی محمد صاحب اجمیری) کو بارہ ہزار روپیہ کا نقصان ہوا.پاک ریسٹورنٹ اسی روز ایک اور احمدی دوست عزیز احمد صاحب سیالکوٹی کے پاک ریسٹورنٹ واقع ڈنک بازار پر کبھی دھاوا بولا گیا.اور اُسے بے دردی سے لوٹا گیا اور باقی ماندہ سامان کو توڑ پھوڑ کر بیکار بنا دیا گیا اس حادثہ کے بعد عزیز احمد صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب راولپنڈی کی خدمت میں اس مضمون کی عرضداشت پیش کی کہ : میرا ریسٹورنٹ یعنی پاک ریسٹورنٹ واقع ٹرنک بازار را ولپنڈی جو یہاں کے تمام ہوٹلوں سے امتیازی حیثیت رکھتا تھا اور میں سے دو بڑے مہاجر کنبوں کی شکم بڑی ہور ہی متقی اور جس کی آمدنی سے گورنمنٹ پاکستان کے خزانہ میں ۲۹۶ روپیہ انکم ٹیکس اور مبلغ ۳۰۰ روپے سالانہ سیلز ٹیکس جاتا تھا مورخہ مارین کو بوقت شام مجلس احرار کے کارکنوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو گیا ہے.ہوٹل کا تمام سامان مع سوڈا واٹر فیکٹری کے لوٹ لیا گیا ہے اور ہوٹل کے کمروں کو توڑ پھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ ایک عالی شان ریسٹورنٹ جو شہر میں اپنی مثال آپ تھا کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے.الخ " راولپنڈی کے بوسٹر بازار میں ایک احمدی چو ہدری محمد بشیر صاحب شانی کیمسٹ شاپ ایک انگریزی ادویات کی بہت بڑی در کانجو، شانی نیست شاپ

Page 41

کے نام سے مشہور تھی بلوائیوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو گئی.چنانچہ چوہڑی حد بشیر صاحب کا بیان ہے کہ :.درات کے ساڑھے گیارہ بجے بازار کے چیڑ اسی (جو کیدل) نے اطلاع دی کہ میری درکان تالہ توڑ کر یوئی جاچکی ہے.اس وقت ہر طرف ہنگامہ آرائی تھی.پولیس با سر مچھر رہی تھی لیکن کسی کو منع نہیں کرتی تھی دوسرے دن صبح دس بجے کے قریب میں دوکان پر آیا تو سب چیزیں بکھری ہوئی تھیں.باہر چلی ہوئی اشیاء کی راکھ سڑک پر بکھری ہوئی ادویات جلا ہوا دوسرا سامان پڑا ہوا تھا.اس وقت پولیس کا پہرا بیٹھا ہوا تھا.دوکان کے اندر ٹوٹے ہوئے شیشے ، گیری ہوئی ادویات اور الماریاں ٹوٹی ہوئی حالت میں تھیں.Refrijrater خراب پڑا ہوا تھا.....نقصان کا اندازہ ۳۲۰۰ کے قریب ہے میں کی تفصیل جماعت کو دے دی گئی تھی اور اس کی کاپیاں حکام بالا کو بھی بھیج دی تھیں - نیشنل میڈیکل ہال اور سیر بازار میں انگریزی ادویات کی ایک اور دکان نیشنل میڈیکل بالی تھی جس کے مالک ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب دلسپر حضرت مولوی قطب الدین صاحب تھے.یہ دکان کس طرح حملہ آوروں کے ہاتھوں غارت ہوئی اس کی تفصیل ڈاکٹر صاحب موصوف کے الفاظ میں درج ذیل ہے میری دوکان واقعہ نوہٹر بازار کو برونہ اتوالہ دن کے قریباً بارہ بجے سے لے کری۳ بجے تک تمام سامان.ادویہ کی الماریاں ، فرینچر ، میزیں کرسیاں اور دکان کی ہر ایک چیز دکان سے باہر نکال کر آگ لگا دی اور محلہ کے اکثر لوگوں نے اس واقعہ کو دیکھا.میں خود دکان پر نہ تھا ، کیونکہ حفاظت کا کوئی سامان نہ تھا....میری دکان مکمل طور پر خالی کر دی گئی ہے.ایک پیسہ کی چیز دکان میں نہیں رہی.سجلی کمپنی کا میٹر جو دکان میں تھا اور متعلقہ بجلی کی وائرنگ تمام کی تمام توڑ پھوڑ کر پھینک دیا گیا.دکان بالکل خالی ہے.نقصان کا اندازہ بارہ ہزار روپیہ ہے.برلاس سائیکل ورکس | ایک اور احمدی دوست سردار عمر صاحب کی سائیکلوں کی دکان ایمانیوں نے ملہ کر کے اُسے لوٹ لیا اور ان کو قریباً نه وفات ۱۸ مئی ۶۱۹۸۵

Page 42

ڈیڑھ ہزار روپیہ کا نقصان پہنچایا.- پنجاب موٹر سٹور (راولپنڈی کا پنجاب موز سٹور بھی چونکہ ایک احمدی بشیر احمد صاحب کا این خواجہ غلام نبی صاحب آف ڈیرہ دون کی ملکیت تھا اس لیے یہ بھی شورش پسندوں کی چیرہ دستی درسفاکی کی نذر ہو گیا.شیخ حبیب اللہ صاحب کی دکان صرافہ بھی بلوائیوں کے ہتھے چڑھنے سے صرافہ شاپ نہ رہ سکی.چنانچہ شیخ صاحب کے والد شیخ محمدعبد اللہ صاحب اور میر نے لکھا: د را ولپنڈی میں میرے لڑکے حبیب اللہ کے پاس ایک دکان صرافہ بانہار میں تھی جس میں میرا لیڈ کا صرافی کا کام کیا کرتا تھا.بھرے بازار میں صرف ایک مختصر سی دکان تو مخالفین کو پہلے ہی کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی مگر تحریک کے ایام میں ان کی مرادیں ہر آئیں.۵ تاریخ کی رات تھی اور گیارہ بجے کا وقت (جیسا کہ مجھے میرے ایک غیر احمدی عزیز نے بتلایا ہے جو کہ ہماری دکان کے بالکل قریب رہائش رکھتا ہے) کہ مشتعل ہجوم چوک کی طرف سے اشتعال انگیز نعروں کیساتھ آیا.آناً فاناً ایک دو تین.زیر دست مہتھوڑوں کی چوٹوں کی آواز سنائی دی.میرے عزیز کو یقین ہوگیا کہ اب حبیب کی دکان گئی.دکان کا دروازہ......تھوڑے کی چوٹوں سے جلد ہی ٹوٹ گیا.اندر جاکر ہجوم نے شوکیس اور تصاویر کو تو بری طرح تباہ کیا، اور چاندی کا کچھ نییور جو شو کیس میں تھا اور دکان کی کچھ اشیاء جو کسی کے ہاتھ لگیں اٹھا کر لے گیا.چند منچلے آدمی سیف کو توڑنے میں لگ گئے.تو بعض کا خیال بغیر وقت ضائع کیسے دکان کو نذر آتش کرنے کا ہو گیا.بازار کے پچوکیدار نے اپنی بساط کے مطابق ان کو منع کرنے کی سعی کی مگر جب دیکھا کہ سیف کو توڑنے کے بعد یہ اپنے ارادہ سے باز کم ہی آئیں گے تو فوراً ایک پڑوسی دکاندار کو اس کے گھر پر اطلاع دی.وہ بھاگا بھاگا آیا اور ان لوگوں کو سمجھایا کہ "مرزائی کو جلاتے جلاتے تم لوگ کئی مسلمانوں کو بھی جلاؤ گے.یہ آگ سابہ سے بازار کو اپنی پیٹ میں لے لے گی.اسی اثناء میں بارڈر پولیس پہنچ گئی.پھر کیا تھا مذہبی دیوانے جدھر کسی کا سینگ سمایا بھاگ دوڑے.

Page 43

۳۳ احمدیہ کمرشل کالج احمدیہ کمرشل کا لج کشمیری بازار راولپنڈی کے پر و پر انٹر قاضی بیشتر احمد صاحب بھٹی تحریر فرماتے ہیں نہ د ہمارے مکان احمدیہ کمرشل کالج کی طرف وہ جلوس شام کے بعد پہنچ گیا جو کشمیری بازار رستہ روڈ پر واقع ہے اور کو توالی کے متصل اور جس کے ساتھ ہی احاطہ تحصیل میں اسے.آر پی کا ہیڈ آفس بھی تھا) ہم گھر کے سب افراد عورتیں بچے ابھی مغرب کی نماز سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ وہ جلوس آپہنچا اور آتے ہی کالج کے دروازے اینٹ پتھر سے توڑنے شروع کر دیئے جلوس آنے سے تھوڑا وقت پہلے ہی میں نے اپنے لڑکے حمید احمد کو کو توالی بھیجا کہ جلدی سے چوڑی کریم دا دصاحب سٹی انسپکٹر کو اطلاع کر دو کہ جلوس اس طرف آرہا ہے.وہ گیا لیکن باوجود اس کے تین چار بار بڑے اصرار اور تاکید سے عرض کرنے کے انہوں نے ایک سب انسپکڑا اور دو پولیس مین اس وقت بھیجے جب جیلوس دروازے وغیرہ توڑ پھوڑ کر اندر داخل ہو چکا تھا اور (ٹائپ مشینوں ، پہنچ کرسیوں اور میز وغیرہ کو توڑ کر مع ضروری ریکارڈ اور ٹائپ مشینوں کے پرزہ جات کے ، قرآن مجید مترجم رمولانا احمد رضا خانصاحب بریلوی) مع تفسیر حاشیہ کی وہ کا بیاں سڑک پر نال کے پاس رکھ کر آگ لگادی تھی ، جو ایک غیر احمد می عالم جناب اعجاز ولی صاحب نے برائے درستی کا پیاں مجھے دی تھیں جن میں سے کچھ کی تصحیح باقی تھی باقی مکمل ہو چکی تھیں.خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی کا نشان اس وقت یہ ظاہر ہوا کہ جس کمرے کے تینوں دروازے توڑ کر جلوس والے اندر داخل ہو گئے تھے اس کے ساتھ والے کمرہ ہی میں ہم سب اپنے بال بچوں سمیت اکٹھے کھڑے سب کچھ توڑ پھوڑ کی آوازیں سن رہے تھے اور درمیان میں صرف ایک دروازہ ہی تھا جس کی ایک ہی چٹخنی لگ رہی تھی.اگر کوئی ان میں سے اس دروانہ ہ کو ایک ٹھو کر ہی مار دیتا تو دروازہ کھٹ سے کھل جاتا اور وہ اندر داخل ہو جاتے لیکن اس خدائے ذوالجلال والاکرام نے ہوا اپنے عاجز بندوں کی عاجزانہ پکار کو سُننے اور قبول فرمانے والا ہے عین وقت پر گویا دوڑ کر ہماری مدد فرمائی اورسان بلوائیوں پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ کالج کے کمرے کے اندر دس منٹ سے زیادہ نہ ٹھہر سکے اور جلدی نه وقات ۳۱ دسمبر ۶۱۹۸۲

Page 44

۳۴ نکلنے کی کوشش کی کہ اتنے میں مسلح پولیس بھی آگئی جس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں اور انہوں نے ان کو اشارہ کر کے بٹھا دیا.جب ہمیں شام کے قریب پتہ لگا کہ یت احمد یہ لوگ لگا دی گئی ہے اور تبلوس اب اس طرف آنے والا ہے تو میں نے اپنے بچوں (قامتی کبیر احمد.قاضی حمید احمد) سے کہا کہ ٹائپ مشینیں کالج سے نکال کر اندر رکھ لیں.کیا پتہ وہ سچ مچ ہی نقصان کر دیں مگر دل میں ایک قسم کا اطمینان بھی تھا گو سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہم دیکھ رہے تھے بغیر احد بوجہ سخت بیمار ہونے کے چلنے پھرنے سے بھی ان دنوں معذور تھا.پہلے ہم نے ضروری سامان اور ٹرنک وغیرہ اوپر کی منزل میں رکھ لئے مگر پھر خیال آیا کہ ساتھ ہی اور پیچھے بھی مخالفین کے مکانات ہیں.کہیں اوپر سے دشمن کو راستہ نہ دے دیں.پھر سارا سامان وغیرہ نیچے کمرے ہی میں کے گئے اور قامتی نصیر احمد صاحب کو بڑی مشکل سے نیچے لے آئے لیکن سبب جلوس آہی پہنچا تو پھر جلدی سے قاضی نصیر احمد کو اوپر بڑی مشکل سے پہنچایا اور سب عورتوں اور بچوں کو بھی اس ہنگامہ میں بلوائیوں نے راولپنڈی کی بعض اور بھی احمدی وکانوں کو لوٹا مثلاً وہلی کریانہ ہاؤس، احمدیہ کریانہ سٹور، کشمیر ہوٹل گنج منڈی وغیرہ.ایک معزز غیر احمدی نوجوان خواجہ غلام نبی ما نیب کو کار انور ر آزاد کشمیر حکومت کے پہلے صدر) کا تحریری بیان ہے کہ : کا درد ناک قتل یوں تو کئی مہینوں سے روزانہ احرار کی طرف سے ہمارے محلہ میں احمدیوں کے خلاف جلسے ہوتے رہے اور جلوس ہمارے مکان کے سامنے سے گزر تے ہوئے ہمارے خلاف " مرزائی مردہ باد کے نعرے لگاتے تھے.۲ مارچ ۹۵ کو راولپنڈی میں جیس احرار کے پروگرام کے ماتحت تمام شہر میں احمدیوں کے خلاف جلوس نکالے گئے.بیت احمد یہ راولپنڈی کو آگ لگا دی گئی.اور اسی روز ہمارے مکان واقع مومن پورہ راولپنڈی پر دوبارہ حملہ کیا گیا.پہلی بار مکان کے دروازوں اور ڈھیر کیوں کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی جس پر محلہ میں ہمارے قریبی ہمسایوں نے یہ کہ کر انہیں باز رکھا کہ ان کا مکان جلنے کے ساتھ سارا محلہ جل جائے گا جس پر وہ چلے گئے.مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر ہجوم آیا اور در دازے توڑنے لگا.اس کا ایک حصہ چھت کے راستہ اندر گھس له وفات ۱۷ر جولائی ۶۱۹۷۳

Page 45

۳۵ کر لوٹا اور مارنا چاہتا تھا جیسا کہ ہمیں معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ ہمارے متعلق یہ کیم طے پاگئی تھی کہ کچھ چھت پر سے آئیں گے اور کچھ دروازے توڑ کر اندر گھس آئیں گے اور نعوذ باللہ ہماری مستورات کو جبراً لے جائیں گے اور مجھے اور میرے بھتیجے ارشاد محمد اور بھائی غلام احمد کو قتل کر کے سامان کو لوٹیں گے اور بعد میں مکان کو آ لگا دیں گے مگر خداوند کریم نے ہم پر اپنا فضل و کرم کیا کہ وہ اپنی سکیم میں کیا ب نہ ہو سکے.جس وقت ہو ہم پر یورش کر رہا تھا تو میری بیوی زیب النساء بیگم نے کمال جرات اور بہادری اور بلند حوصلگی سے ان کو ل کا ر اور کہا گیا یہی اسلام ہے کہ تم لوگوں کو لوٹتے اور مارتے پھرتے ہو انہوں نے پتھر پھینکنے شروع کیے.اس پر میری بیوی اور بھانجی مریم سلمانے اُن پر پھر اوپر سے پھینکے تاکہ وہ ایسا ہو جائیں چنانچہ جب ہمارے چھت پر سے اینٹوں کی جوابی بوچھاڑ ہوئی وہ بھاگ کھڑے ہوئے.اسی رات میبکہ ہم پر دوبارہ حملہ ہو چکا تھا میرے ایک غیر احمد می عزیز محمد مقبول شاہ صاحب جو نور آرٹ پر لیس کے مینجر تھے ہمارے متعلق اطلاع پا کہ دریافت حال کے لیے آئے اور صرف دس بارہ منٹ ہمارے ہاں بیٹھے رہے اور پانی کا ایک گلاس بھی پیا اور جب باہر گئے تو ابھی تین چار فرلانگ بھی نہ گزرے تھے کہ ایک ٹولی نے انہیں مجھے سمجھ کر رکہ یہی گا سکا ہے، چھرے مار مار کر شدید زخمی کر دیا اور کپڑے بھی اُتار لیے اور نقدی بھی ہتھیا لی.اس کے ایک روز بعد وہ میونسپل ہسپتال میں فوت ہو گئے.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ - حالانکہ مرحوم نے ان کو بار بار کہا بھی کہ وہ " مرزانی" نہیں ہیں مگر انہوں نے ایک نہ سنی.افسوس کہ ہم میں سے کوئی بھی اُن کو نہ دیکھ سکا.یہ بھی فیصلہ ہو چکا تھا کہ جمعہ کے رو زدہ ہمارے معاملہ میں کامیاب نہ ہو سکے تو سنیچر (ہفتہ) کو میری بار حملہ کر کے وہ ہمیں ختم کر دیں گے لیکن ہم ساری رات عجز و انکسار کے ساتھ دعاؤں میں لگے رہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کر دیا کہ ہم وہاں سے بیچ نکلے اور کرنل عطاء اللہ کے ہاں ملڑی کے ذریعہ پہنچائے گئے جس کا نہیں وہم و گمان بھی نہ تھا.کرنل صاحب کے ہاں سوا مہینہ مقیم رہے.

Page 46

فصل دوم ضلع گوجرانوالہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے :.۲ مارچ کو دس بجے ڈپٹی کشنر کے کرہ عدالت میں سرکاری اور غیر سر کار می آدمیوں کا ایک اجلاس ہوا بسٹی مسلم لیگ کے عہدیداروں نے اس اجلاس میں موقع پاکر لیگ کے اندر اپنے مخالفین کی مذمت کی.اور حکام ضلع کے ساتھ سرگرم تعاون کرنے سے انکار کر دیا.اس مرطے پر لا ہو رہ جانے والی ٹرینوں کو ان ہجوموں نے روکنا شروع کیا جو لاہور جانے والے رضا کاروں کی مشایعت کے لیے ریلوے اسٹیشن پر جمع ہو جاتے تھے.ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پولیس کا ایک دستہ ساتھ لے کر ریلوے سٹیشن پر گئے.اور انہوں نے پچاس رضا کاروں کے ایک دستے کو ٹرین سے اتار کر گر فتار کر لیا.اس پر ہجوم میں جوش پھیل گیا اور اس نے دو دفعہ ٹرین کو روکا.جب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ٹرین کو روانہ کر دینے کی دوسری کوشش کی تو ان پر حملہ کیا گیا جس سے وہ اور چار پولیس میں نہ خمی ہو گئے.جن میں ایک سب انسپکٹر بھی تھا.اسی دن شام کو پانچ ہزار کے ایک جوش میں بھرے ہوئے ہجوم نے ریلوے اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر سندھ ایکسپرس کو روک لیا.سپرنٹنڈنٹ پولیس مجھے پیادہ کانسٹیبلوں کو ساتھ لے کہ اس مقام پر پہنچے لیکن ان پر اینٹوں اور پتھروں کی بوچھاڑ کی گئی.چونکہ اس وقت اندھیرا ہو چکا تھا ،اور اگر ہجوم منتشر نہ ہوتا تو تشدد پر اتر آتا.اور ٹرین کے مسافروں کی پریشانی کا باعث ہوتا.اس لیے سپر نٹنڈنٹ پولیس نے تین پیادہ کانسٹیبلوں کو حکم دیا کہ بارہ راؤنڈ ہوا میں چلائیں.اس سے ہجوم منتشر ہو گیا اور کسی قسم کا جانی نقصات نہ ہوا.اس کے بعد معززین شہر کا ایک اجلاس ریلوے اسٹیشن پر طلب کیا گیا.اگر چہ سه ضلع گوبر افوالله مزاقل)

Page 47

ان میں سے ہر ایک اس غنڈے پن کی مذمت کر رہا تھا لیکن کسی قسم کی عملی امداد کرنے پر آمادہ نہ تھا.کہ مبادا وہ کافر یا مرزائی قرار دیا جائے.چونکہ مجلس عمل کے عہدیداروں نے مجلس عمل کی حمایت کا عہد کر رکھا تھا اس لیے مجلس عمل کے ڈاکٹر نے مٹر منظور حسن ایم ایل اسے سیکر ڈی سٹی مسلم لیگ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک دستے کی قیادت کر کے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کریں.لیگ کے صدر شیخ آفتاب احمد نے تجویز کی کہ شیخ منظور حسن کی فرمتی اور بناوٹی گرفتاری کا انتظام کیا جائے تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ تحریک کو لیگ کی حمایت حاصل ہے.اس پر اتفاق ہو گیا.شیخ منظور حسن گرفتار کیے گئے.اور انہیں پولیس کی ایک جیپ میں بٹھا کر ضلع کے ایک دور دست گوشے میں اُتار دیا گیا.اور کہا گیا کہ وہ چند روز تک گوجرانوالہ واپس نہ آئیں لیکن لوگ اس چال کو سمجھ گئے.اور دوسرے دن کوئی دو سو آدمی شیخ آفتاب احمد کے مکان پر پہنچے اور ان سے کہنے لگے کہ ایک جلوس میں شامل ہوں.وہ زیبہ دستی ایک مکان سے باہر نکالے گئے اور اُن کو ایک جلوس کے ساتھ چلنے پر مجبور کیا گیا.جو مسجد شیرانوالہ باغ کو جا رہا تھا.اس وقت تک مسٹر منظور حسن گوجرانوالہ واپس آچکے تھے اور مسجد شیرانوالہ باغ میں پہنچ کر شورش پسندوں میں شامل ہو چکے تھے.انہوں نے احمدیوں اور حکومت کے خلاف کئی تقریریں کیں.اور سات مسلم لیگ کو نسلروں کو ساتھ لے کر ایک جلوس کی قیادت کی.یہ سب لوگ گرفتار کر لیے گئے.چیف منسٹر کا بیان مورخہ 4 مارچ لاہور کی ہدایات کے مطابق شہر بھر میں نشر کر دیا گیا.سپر نٹنڈنٹ پولیس کو اطلاع ملی کہ ، مارچ کو احمدیوں کے جال دمال پر حملوں کا خطرہ ہے.اس صورت حالات پر فوج سے گفتگو کی گئی.فوج نے تجویز کی کہ دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت عام جلسے اور جلوس ممنوع قرار دیئے جائیں.لیکن سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈپٹی کشن نے اس تجویز کو قبول نہ کیا اور اس کی بجائے فیصلہ کیا کہ فوج اور پولیس کو شہر میں گشت کریں.اس کے بعد شہر میں لا قانونی کے کسی واقعہ کی اطلاع نہیں آئی.سوائے اس کے کہ ایک احمدی کی دکان لوٹنے کی کوشش کی گئی.مارچ کو موضع نند پور میں شورش پسندوں کے ایک پُر غیظ ہجوم نے ایک شخص

Page 48

محمد حسین کو یہ سمجھ کر قتل کر دیا کہ وہ احمد ی ہے.تفتیش سے معلوم ہوا کہ متوفی کے ایک شیمن نے اس کو قتل کرانے کے لیے چال چلی تھی.در مارچ کو مقامی ایم ایل اسے مسجد شیرانوالہ باغ میں طلب کیے گئے اور ان سے درخواست کی گئی کہ لاہور جا کر ہدایات لائیں.یہ ایم ایل اے چیف منسٹر صاحب سے ملے لیکن کوئی قطعی ہدایات نہ لائے.گوجر انوالہ میں فوج کی ایک کمپنی د مارچ کو.دو بٹالین 4 مارچ کو اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کنٹیلری کے دورریز رد دستوں کو لے کر ۸ مارچ کو پہنچ گئے.جب فوج آئی تو ان نعروں سے ان کا خیر مقدم کیا گیا " پاکستانی فوج نے سیالکوٹ میں گولی چلانے سے انکار کر دیا.زندہ باد پاکستانی فوج زندہ با د شورش پسند ہر جگہ یہ اعلان کر یہ ہے تھے کہ وہ کفر کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں.اور کئی مقامات پر ایسے پوسٹر لگائے گئے جن میں پولیس اور فوج سے اپیل کی گئی تھی کہ گولی نہ چلائیں.بلکہ جہاد میں شامل ہو جائیں.ضلع میں کوئی ایک درجن احمدیوں کو مجبور کر دیا گیا کہ اپنے عقیدے سے توبہ کر لیں یات احمدیوں کے بیانات را جناب میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ لامیر جماعت احمدیہ گوجر انوالہ تحریر فرماتے ہیں :- شہر گوجرانوالہ میں بھی ایس کا نفرنسیں جن کے نتیجہ میں محلہ دار اجلاس کیسے گئے جن میں پاس کیا گیا کہ احمدیوں کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جارے اور ان کو اپنے مرد سے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرنے دیئے جائیں....جس کے نتیجہ میں بازار میں دوکانوں پر دو قسم کے بورڈ احرار نے لگوائے جن میں یہ تحریر ہوتا تھا کہ منہ " مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کرو.مرزائیوں کے برتن علیحدہ ہیں “ علاوہ اس کے بعض بعض احمد یوں کی دکانات کے بورڈ پر بھی احرار نے لکھوا دیا کہ یہ دکان مرزائی کی ہے اور ان کے سامنے پکٹنگ لگوائی گئی کہ کوئی غیر احمدی اُن سے سودا نہ خریدے اور اگر کوئی خرید تا رپورٹ تحقیقاتی عدالت مل۱۸ - ۱۸۳ به وفات ۱۴ فروری ۶۱۹۷۷

Page 49

تو اُسے واپس کر دیا جاتا تھا.۱۲۲ فروری ۱۹۵۳ء کو مطالبات نہ مانے جانے کے بعد مجلس عمل کے راست اقدام شروع کرنے کے بعد مجاہدین، جلوس بتا کہ کچہری میں آتے اور تمام کچہریوں کے گرد گہ لگاتے.ختم نبوت زندہ باد - مرزائیت مردہ باد - حکومت مردہ باد کے نعرے لگاتے اور جو گرفتار ہونے کے لیے آتے وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیتے.ایسے جلوس ۴ ر مارچ سے ۱۵ر مارچ تک جاری رہے.جلوس میں با وجود باغیانہ اور اشتعال انگیز نعرے لگائے جانے کے مقامی حکام ایسے جلوسوں کو روکنے کی کوشش نہ کرتے.بالآخر ٹڑی حکام نے آگر سول حکام کو ۱۵ار مارچ کو توجہ دلائی کہ ایسے جلوس بند ہونے چاہئیں.تب جا کہ مقامی حکام نے سختی سے ایسے جلوسوں کو بند کر دیا.پہلے چند بچے کسی احمدی کے مکان کے سامنے آکر احمدیوں کو گندی گالیاں دیتے اور اشتعال انگیز نعرے لگاتے.پھر اُن سے بڑی عمر کے لڑکے آجاتے اور دروازوں پر پتھراؤں شروع کر دیتے اور بالآخر معمر لوگ آتے اور مکانات کے دروازے وغیرہ توڑ کر مکینوں کو ڈانگوں اور چھروں وغیرہ سے ڈراتے اور کہتے کہ احمدیت سے تائب ہو جاؤ ورنہ قتل کر دیئے جاؤ گے اور تمہاری مستورات اٹھائی جائیں گی.اگر کوئی ایسا کرنے سے انکا نہ کرتا تو اس کے مکان کا سامان توڑ پھوڑ دیا جاتا اور لوٹ لیا جاتا اور بعض اوقات آگ لگا دی جاتی.عام طور پر حملہ اور ایک محلہ کے دوسرے محلہ میں جا کر حملہ کرتے.تاکہ پہچانے نہ جائیں اور محلہ والے پاس کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے ماسوائے چند شرفاء کے جو حملہ آوروں کو منع کرتے لیکن حملہ آور اُن کو بھی مار ڈالنے کی دھمکی دیتے جس کی وجہ سے وہ بھی خاموش ہو جاتے.حملہ کرنے سے پہلے افواہیں پھیلائی جاتیں کہ فلاں احمدی کے مکان پر فلاں وقت حملہ کیا جائے گا تا کہ خوف وڈر کی وجہ سے وہ مکان چھوڑ جائے.پولیس چوکیوں پر اطلاع دینے پر پولیس والے جان بوجھ کر جائے واردات کی بجائے دوسرے محلہ میں پہلے جاتے اور یہ پورٹ کر دیتے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے جس کی وجہ سے مقامی حکام بالا سمجھتے کہ احمدیوں کو شہر میں کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے.پولیس کا چھوٹا عملہ حملہ آوروں کی

Page 50

پیٹھ ٹھونکتا.اور اُن کو حملہ کے لیے اکساتا تھا - جناب شیخ نیاز احمد صاحب ریٹائر ڈ انسپکٹر پولیس شورش کے دنوں میں گوجرانوالہ میں اپنے آبائی مکان میں فروکش تھے اور فالج اور دیگر عوارض میں مبتلا ہونے کے باعث صاحب فراش تھے اور چلنے پھرنے سے معذور.انہی ایام میں آپ نے اپنے خط میں لکھا تھا :- یہاں گوجرانوالہ میں لاقانونیت انتہائی صورت اختیار کر چکی ہے.علی الاعلان غنڈے بلا روک ٹوک لوٹ مار کر رہے ہیں اور ملانے کو چہ بہ کوچہ کھلم کھلا تقریریں اشتعال پیگیز کرتے ہیں میں میں وہ لوٹ اور ہر قسم کی سختی احمدیوں سے کرنے کی پر زور الفاظ میں تحریک کرتے پُر ہیں.مقامی افسران بھی اُن سے ملے ہوئے ہیں.سارے شہر میں کہیں بھی پولیس کا آدمی نظر نہ آئے گا.اور غنڈے بغیر کسی روکاوٹ کے من مانی سختیاں احمدیوں پر کہ رہے ہیں......تمہارے مکان پر نہایت شدت سے حملے کیے گئے ہیں.غنڈے سینکڑوں کی تعداد میں ڈھول بجاتے ہوئے لاٹھیوں اور پتھروں سے مسلح.گندی گالیاں دیتے آتے ہیں اور آتے ہی دھاوا کرتے ہیں.دروازوں کو زور زور سے توڑتے ہیں.اینٹیں اور پھر مار کر سخت تشویشناک حالت بر پا ہو جاتی ہے میرے مکان کے روشندان شیشے وغیرہ ٹوٹ گئے ہیں.مکان اینٹوں سے بھرا ہوا ہے.- عبدالحمید صاحب ٹیلر ماسٹر کا تحریری بیان ہے.مورخہ 4 مارچ بروز جمعہ صبح سے ہمارے گھر ٹولیاں آنی شروع ہو گئیں.ہم نے دروازہ بند کر لیا تھا.وہ باہر آکر بد زبانی کرتے اور دروازہ کو اینٹیں اور لاٹھیاں مارتے تھے اور ساتھ ہی کہتے تھے.آج رات کو ان کا مکان بھی جلا دیں گے اور ان کی بے عزتی کریں گے اور یہ ٹولیاں ہر دس منٹ کے بعد چکر لگاتی تھیں اور دروازے پر آ کہ بدزبانی کرتے تھے ہمارا ایک غیر احمدی رشتہ دار ہمارے گھر آیا تو مجمع نے اس کو ہمارہ سے گھر میں نہ آنے دیا اور وہ بیچارہ واپس چلا گیا.اس مجمع یا ٹولیوں میں تہار سے محلہ کا کوئی آدمی شامل نہ تھا.عرب دوسرے محلوں سے آئے ہوئے تھے.محلہ والے گھروں سے باہر نکل کر تماشا مر در دیکھ رہے تھے.""

Page 51

عبد اللطیف صاحب آفت گوجر انوالہ نے بیان دیا کہ :- کمترین کے مکان پر جب جلوس آیا تو ہم گھر پر موجود تھے.اہل جلوس خشت باری کر کے چلے گئے.دوسرے روز جلوس پھر آیا مگر اس وقت ہم گھر میں موجود نہ تھے.صرف عورتیں تھیں اور اندر سے تالا لگا ہوا تھا.جس وقت جلوس ہمارے گھر کے نزدیک آیا اُن کے ہاسھتوں میں لوہے کے سریا تھے.انہوں نے ہمارے گھر کا دروازہ توڑا.پھر بیٹھک کا توڑا.اسکے بعد میٹر توڑا.پھر بجلی کی تاریں کاٹ ڈالیں اور لوٹ مار شروع کر دی.اس وقت جو حالت عورتوں کی بھی وہ خدا ہی جانتا ہے.میرے پاس کارخانہ میں ایک لڑکے نے آگر اطلاع دی کہ تمہارے گھر کا دروازہ توڑ دیا گیا ہے.میں وہیں سے سیدھا پولیس چو کی گھنٹہ گھر گیا اور وہاں اطلاع دی.چو ہدری اسمعیل تھانیدار ملک صاحب سے ٹیلیفون کر رہے تھے کہ اسلام آبادمیں جو مرزائی تھے وہ مسلمان ہو گئے ہیں.باقی تھوڑی سی کسر ہے.جب ٹیلیفون کر چکے تو میں نے دروازہ کھولا اور اُن سے عرض کیا کہ میرا دروازہ توڑ دیا گیا ہے.مجھے اندیشہ ہے کہ شائد میرے بال بچہ کھر مار نہ دیں.پہلے کچھ انتظار کریں.انہوں نے کہا میں کیا کر سکتا ہوں.اتنے جلوس کے آگے میری کیا پیش جاتی ہے.تب میں نے کہا اگر کوئی قتل ہو گیا یا مارا گیا تو اس کے آپ ذمہ دار ہوں گے.پھر سائیکل پر اپنے گھر آ گیا.اس وقت ملوس والے دروازے وغیرہ توڑ پھوڑ کر کے جاچکے تھے ؟ " ۵ - جناب مولا بخش صاحب، محمد لطیف صاحب اور محمد حسین صاحب کا مشترکہ بیان: ر ہمارے مکانات واقع گلی مولوی سراج الدین ایک دوسرے سے ملحق ہیں.فروسی کے اوائل میں ہمارے کانوں میں یہ آوازیں پڑتی تھیں کہ ۲۶ فروری آرہی ہے جو کہ آپ کیلئے شدید اور سخت ہے.چنانچہ ۲۵ فروری کی رات کو قریباً ساڑھے نو بجے ایک سو سے زائد افراد پرمشتمل ایک ہجوم ہمارے مکانوں کے سامنے آکر بے پناہ شور کرنے لگ گیا اور ہمارے دروازوں اور کھڑکیوں پر اینٹیں اور پتھر برسانے لگا.ہم نے انہیں بہتر سمجھایا کہ ان حرکتوں سے باز آجاؤ آخر ہم نے آپ کا کیا بگاڑا ہے لیکن انہوں نے ہماری ایک نہ سنی بلکہ شرارت میں بڑھتے ہی گئے.کبھی جلوس کی شکل میں سامنے بازار چلے

Page 52

جاتے اور کبھی شور مچاتے مکانوں کے سامنے آجاتے اور دروازے اور کھڑکیاں بڑے زور سے کھٹکھٹانے لگتے.گندی اور فحش گالیاں دیتے.یہ حالت تقریباً پون گھنٹہ رہی.بعد میں محلہ میں بسنے والے شریف لوگوں نے بیچ میں پڑ کر اُن کو ہم سے دُور کیا اور کہا یہ طریق کار شریفانہ نہیں.ان کے مجبور کرنے پر ہجوم چلا گیا.متذکرہ بالا وقوعہ کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ہمارے دروازوں کو بیٹا جاتا رہا اور گندی اور بخش گالیاں دی جاتی رہیں.چنانچہ ایک رات ہمارے صدر دروازے پر آویزاں لیٹر بکس بالکل توڑ پھوڑ دیا اور ایڈریس کے بورڈ کو اتار لیا گیا سب سے آخر میں مارچ کی ، تاریخ کو رات کے قریباً پونے دس بجے ہمارے رمولی بخش مکان پر پٹرول چھڑک کر باہر سے آگ لگا دی گئی.لیکن اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہمیں (محمد حسین) فورا پتہ چل گیا اور آگ پر قابو پالیاگیا.چونکہ یہ کام نہایت سرعت سے اور ہم سب نے مل کر کیا اس لیے کسی قسم کا جانی اور مالی نقصان نہیں ہونے پایا.ثم الحمد اللہ.آگ کی خبر سامنے ایک ہمسایہ کے ذریعہ سارے محلہ میں پہنچ گئی اور محلہ کے سرکردہ اشخاص شیخ برکت علی شیخ عاشق حسین اور میاں عبد الحمید صاحب نے تھانہ میں رپورٹ کر دی.تھانہ سے بروقت ذمہ دار حکام تشریف لائے اور انہوں نے موقع پر آگ لگنے کی جگہ کو دیکھا، اور جائزہ لیا اورتسلیم کیا کہ آگ پڑول سے لگائی گئی ہے.آگ لگانے والوں نے ہمارے مکانوں کے دردازوں کو باہر سے کنڈیاں لگاکر بند کر دیا.تاہم جلد باہر نہ نکل سکیں.لیکن خوش قسمتی سے ایک دروازہ کی کنڈی کھلی رہ گئی.اس کے ذریعہ ہم جلد مکان سے نکل آئے.الخ کے تکریم معراج دین صاحب پنساری کا بیان ہے :." میری دکان پر آکر لوگ گالیاں دیتے.آس پاس کی دکانوں پہ آدمی بٹھا کر ہماری دکان سے سودا نہ لینے کی تلقین کی جاتی.بکے ہوئے سودے واپس کرائے جاتے.باقاعدہ پکٹنگ کی جاتی.احمدیت سے تائب ہونے کی دھمکیاں دی گئیں.بصورت دیگر قتل کرنے وکان لوٹنے اور آگ لگانے کی دھمکیاں دی گئیں.بلکہ بعض دفعہ چھڑے بھی دکھائے جاتے.میرا والد میر اسخنت مخالف تھا.اور مجھے تکالیف پہنچانے میں اس نے بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی حتی کہ میرے قتل کی بھی کوشش کی لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں ان تمام مصائب

Page 53

برداشت کرنے کی توفیق بخشی.اور ہم بفضل خدا احمدیت پر قائم رہے.الحمد للہ مکان اور دکان پر خشت باری کی جاتی رہی.میری دکان کی کئی دن تک بند رہی اور ہم اپنے مکان میں مجبوس رہے.بعض عورتوں نے ہمارے مکان پر آکر ہماری عورتوں کو احمدیت سے تائب ہونے کی تلقین کی مگر انہوں نے کہا کہ تم ایسا کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں.مرنا تو ایک ہی دفعہ ہے یا مکرم میاں محمد الدین صاحب بوٹ میکر کا بیان ہے کہ : ہ میری دکان دروازہ ٹھاکر سنگھ کے اندر احراریوں کے گڑھ میں واقع ہے.میری دکان پر اکثر احراری آتے رہتے.مجھے تبلیغ کرتے.میرے جوابات کا جواب نہ پا کر مجھے احمدیت سے تائب ہونے کو کہتے اور میں نہ چلتا تو میرا سودا خراب کرتے.دوسروں کو مجھ سے سودا خریدنے سے منع کرتے.جب پھر بھی میں اُن کا کہنا نہ مانتانب مارنے کی دھمکیاں دیتے.بعض اوقات چھڑے دکھاتے اور کہتے یہ تیرے لیے ہی بنوا رکھے ہیں.جب میں نے اس کی بھی پیپر واہ نہ کی تب میری دکان کے تالوں پر پاخانہ لگا جاتے (اور کافی عرصہ تک روزانہ لگاتے رہے) جو بازار کا بھنگی بھی صاف نہ کرتا اور آخر کار میں خود ہی صاف کیا کرتا پھر مجھے سخت مارتے بھی رہے حتی کہ میرا منہ اور چھاتی کئی دن تک سوجی رہی اور بعض چوٹوں کا مجھ پر ابھی تک اثر ہے.میری بیوی ہر روز سہمی رہتی کہ نہ جانے آج میرے خاوند کا کیا بنتا ہے.ایک دن میرے بچے مبشر احمد رجس کی عمر ۷ / ۸ سال کی تھی) کو اُٹھا کر لے گئے اور کہنے لگے کہ احمدیت سے تائب ہو جاؤ ورنہ ہم اس کو مار ڈالیں گے.میرا بچہ میرے سامنے ہوتا رہا.لیکن میں نے صبر کیا اور احمدیت کو نہ چھوڑا.ان تمام واقعات کی حکومت کے ذمہ دار افسران کو اطلاع دی جاتی رہی لیکن افسران نے کچھ بھی نہ کیا.سوائے اس مشورہ کے کہ میں دکان چھوڑ جاؤں لیکن میں نے دکان نہ چھوڑی.دورانِ تحریک میں ایک دن دہ میرے گھر گئے اور بتایا کہ تمہاری جماعت کے تمام بڑے بڑے افراد احمدیت کو چھوڑ چکے ہیں.تم بھی چھوڑ دو لیکن میں نے ایسا نہ کیا بلکہ احرار کے دفتر میں چلا گیا اور اُن سے بعض مسائل پر گفتگو کی لیکن اُن پر کسی بات کا اثر نہ ہوا.میرے بچہ کو سکول میں مارا بھی گیا لیکن اس نے صبر A

Page 54

۴۴ کیا.غرضیکہ کوئی ایسی تکلیف نہ تھی جو مجھے نہ دی گئی ہو.ایک دن میں ایک شدید دشمن سے ڈر گیا اور نماز ظہر ہیں سخت رویا کہ مونی کریم اب میں کیا کروں.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہی شخص اس دن سے میرا دوست بلکہ میرا محافظ بن گیا.الحمد للہ کہ میں احمدیت پر قائم ہوں " - کرم شیخ صاحب دین صاحب کا بیان ہے کہ ہ سات اور آٹھ مارچ کی درمیانی رات کو قریباً دس بجے شب کے ۱۶ ۷٫ استریوں کا ایک ٹولہ جو کہ چھروں سے مسلح تھا نعرے لگاتے ہوئے ہمارے کارخانہ اور رہائشی مکان کی طرف سوچی سمجھی ہوئی کے ماتحت حملہ کرنے کی غرض سے آیا.ہمارے مکان سے تمیں چالیس گز کے فاصلہ پر بعض شریعت اہل محلہ جو بیدار تھے اور ایک طرح سے پہرہ دے ہے تھے انہیں روک دیا.اللہ تعالیٰ نے اُن پر رعب ڈالا اور وہ واپس چلے گئے.لیکن صبح ہونے پر اہل محلہ نے غالبا شٹریہ لوگوں کے کہنے پر ہمیں یہ کہا کہ فضا بہت خراب ہے اور ہماری طاقت سے باہر ہو چکا ہے.اب آپ خود اپنی حفاظت کا انتظام کر لیں.یا شہر چھوڑ دیں.ہم نے کہا ہم جگہ نہیں چھوڑ سکتے.اللہ ہی ہماری حفاظت کرے گا.وہی حافظ و ناصر ہے.چنانچہ اسی مولیٰ نے ہی ہماری حفاظت فرمائی اور ہم جانی نقصان سے محفوظ رہے.البتہ مالی نقصان ضرور ہوا ہے.وہ اس طرح کہ اس تمام دورانِ شورش میں ہمارے پاس بیرون جات یا شہر سے کوئی بیو پاری ہمارے کارخانہ میں نہیں آیا کیونکہ خفیہ بھی اور ظاہراً بھی ہم پر پکٹنگ لگا رہی ہے.الخ ، ۹ مکرم محمود احمد جان صاحب کا بیان ہے کہ : مد ہار مارچ ء کی رات کو ہمارے کارخانہ ایم اے رشید اینڈ سنٹر کرشن نگر گوجرانوالہ / میں لوگوں نے دو دفعہ آگ لگائی لیکن دونوں دفعہ ہی جلدی قابو پالیا گیا.انداز انقصان تین چار سو روپیہ کا ہوا.اسی رات پولیس کو اطلاع دی گئی تھی.پونیں بعد میں چکر لگاتی رہی مگر اس کے بعد بھی دو تین دفعہ لوگ جلوس کی شکل میں ہمارے کارخانہ کے ارد گرد چکر لگاتے رہے اور گالیاں نکالتے رہے یہ

Page 55

محلہ اسلام آباد کے ایک احمدی کا بیان ہے : ا رما پر یچ ۱۹۵۳ء کو ہم مع بچوں کے سارا دن گھر میں قیدیوں کی طرح گھرے ہوئے تھے اور ہمیں بعض غیر احمدی رشتہ دار ہمیں کھانے کی اشیاء مہیا کرتے رہتے تھے.قریباً تین یا چار بجے بعد دوپہر انداز پاپنی سونڈوں کا ایک مجوم جماعت احمدیہ کے خلاف گندے نعرے مارتا ہوا ہماری گلی میں داخل ہوا.ہمارے ہمارے مرد عورت دروانہوں کے آگے کھڑے ہو کر تماشہ دیکھنے لگ گئے.اور ہجوم نے لاٹھیوں سے مسلح تھا ہماری کھڑکیاں اور دروازے توڑنے شروع کر دیئے.شیشے کے ٹکڑے صحن میں پہنچ رہے تھے.ہم بیٹھک اور ڈیوڑھی کے دروازے کو اندر سے بند کر کے کوٹھے پر چڑھ گئے اور پچھلی طرف سے ہم نے اُترنے کی کوشش کی مگر پچھلی طرف سے سب ہمسایوں نے کنڈیاں لگا رکھی نہیں.آخر چوتھے مکان پر سے میرا بیٹا اُترا.میں نے اس کو کہا کہ پولیس چوکی گھنٹہ گھرمیں جاکر رپورٹ کر دے.ہمارے گھر کو لوٹ رہے ہیں.اور نہیں مارنے اور قتل کرنے کے درپے ہیں.میں خود اپنے ایک رشتہ دار کے گھر چلا گیا.میری بیٹی، بہو نے ایک قریبی رشتہ دار کے گھر جاکر پناہ لی.ہجوم نے ڈیوڑھی کے دروازے کو بڑے زور سے لاٹھیوں کے ساتھ حملہ کیا جس سے ڈیوڑھی کے باہر کا دروازہ کھل گیا.ماب نے بیٹھک کا دروازہ بھی توڑلیا اور تمام کھڑکیاں شیشے اور سامان چکنا چور کر دیا اور تمام سامان جو قریباً دو صد کا تھا برباد کر دیا اور پھر سمی دارو اور عمر حیات نے جس کو ہمارے ایک رشتہ دار نے ہماری حفاظت کے لیے بھیجا تھا.آکر ماب کو باہر نکالا.کوئی پولیس کا سپاہی ہماری مدد کو نہیں آیا.اس وقت گوجر انوالہ میں کوئی گورنمنٹ موجود نہ تھی.پولیس چوکیوں میں بیٹھی ہوئی تماشا دیکھ رہی تھی.حتی کہ اس کے بعد بھی چار پانچ روز تک ایسا ہی حال رہا.پھر ملڑی کی آمد کی وجہ سے لوگوں کو ڈر محسوس ہوا.اور ہم نے آرام کا سانس لیا " - ریل بازار کے ایک احمدی دکاندار کا بیان ہے : ر ہماری دکان ریل بازار میں واقع ہے.۳۲ / نومبر ۱۹۵۳ء کو مجلس عمل کی کانفرنس

Page 56

ہوئی.جس میں احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا.چنانچہ اس فیصلہ کے ماتحت دکانوں پر اس مضمون کے بورڈ مولوی احراری نے لگوائے کہ دو مرزائیوں کا بائیکاٹ کرو اور ہمارا مکمل بائیکاٹ کیا گیا.اور بازار میں دکانداروں اور دلال وغیرہ نے اس تحریک میں مکمل حصہ لیا جو آج تک جاری ہے.جو گاہک سودا لیتے تھے انہیں منع کرتے تھے کہ سودا اس دکان سے نہ لو اور واپس کر دا دیتے تھے.اور جو نہ واپس کرتے تھے ان کی ہتک کرتے تھے.اس سلسلہ میں ایک مولوی جو کہ احراری ہے ہماری دکان کے ساتھ بٹھا دیا تاکہ لوگوں کو اشتعال دلا سکے.اس کے بعد ۲۷ فروری ۱۹۵۳ہ سے ہر روزہ ہماری دکان کے آگے سے جلوس نکلتا جو کہ دکان کے سامنے کھڑا ہو کر فحش گالیاں اور نعرے لگاتا لیکن کوئی آدمی بھی ہماری مدد نہ کرتا.۳۰ مارچ کو جلوس ہماری دکان کے اوریہ آگیا.اور بد زبانی بہت کی.اسی طرح ہمارے مکان پہ بھی ہر روز جلوس کی شکل میں آتے اور شیشے وغیرہ توڑتے.چنانچہ کھڑکیوں اور تمین روشندانوں کے شیشے دان توڑ دیئے اس کے علاوہ مخش گالیاں نکالتے اور پتھر وغیرہ مارتے.ہماری دکان کو کئی ماہ سے بہت نقصان ہو رہا ہے.کوئی خرید و فروخت نہیں ہے ۱۲ - ایک احمدی کلا مقدمہ چنٹ کا بیان ہے.اوائل ۹۵۲لہ سے ہی یار آشنا چلنے پھرتے بری نظر سے دیکھتے اور گالیاں دیتے ہوئے دکان پر آکر بھی گالیاں دینے لگے اور رعب جماتے.ہر کہ ومہ بھی یہی سمجھنے لگا کہ احمدی ایک ذرہ سے بھی حقیر ہیں ایذا رسانی میں حدود سے تجاوز کرنے لگے حتی کہ بائیکاٹ شروع ہو گیا.غالباً چھ ماہ تک دکان سے کوئی مال فروخت نہ ہونے دیا گیا.میں تھوک بزاری کی دکان کرتا ہوں اور انکم ٹیکس گزار ہونے کے باوجود ادنی اونی آدمی دکان پر پکٹنگ کرتے اور گندی گالیاں سامنے کھڑے ہو کر دیتے.....ایک شخص سوئیاں بیچنے والا پٹھان مستقل پکٹنگ پر مقرر تھے...پٹھان سخت جو شیلا تھا.چاقو دکھایا کرتا تھا ملحقہ دکاندار اس کو شاباش کہتے اور اس کی حمایت کرتے.جب کوئی دکان سے مال خرہ بدر تا معا ایک ہنگامہ بہ پا ہو جاتا.پھٹنگ والے مال واپس کرواتے اور بازار راہ گیروں سے بھر جاتا.تمام شہر میں

Page 57

ہر دکان پر مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کرد“ کے بورڈ آویزاں تھے.مخالفوں نے ہماری دکان کے دروازے پر مرزائی اور گندی گالیاں لکھیں.میرا ایک گھر دکان کے بالا خانہ میں تھا.نیاد کے شدید آثار دیکھ کر ریعنی گھر میں اینٹیں پتھر پڑنے لگے.گھر والوں کو گالیاں دینے لگے وغیرہ وغیرہ) اس کو اپنے دوسرے گھر میں جو مالک پورہ میں تھا اکٹھا کر دیا.اب عوام الناس اس گھر میں بھی پتھر روڑے مارنے لگے اور گالیاں دینے لگے.گھر سے چل کر آنا اور پھر دکان پر دن گزارنا اور پھر گھر واپس جاتا یہ تینوں سخت مصیبتیں تھیں.راستہ بھر میں حملہ کا خون ، گندی گالیاں اور اینٹ پتھر کا دھڑکا لگا رہتا تھا.دکان پر بھی اینٹ پتھر پڑنے لگے تھے.گالیاں اور لوٹ مار کا خوف بھی.غرضیکہ وہ نہایت خون اور تکلیف کا وقت تھا.رات کو حملہ کا خون نیند اچاٹ.اسی دوران میں مارچ ۱۹۵۳ آگیا.جلوس نکلنے شروع ہو گئے.جلوس دکان پر ٹھہرتے.ماتم کرتے.گالیاں دیتے.تکلیف انتہاء کو پہنچ گئی.5 مارچ کی صبح کودکان پر آئے تو کسی نے کہا کہ دکان کے اندر بیٹھو.باہر نہ بیٹھو.حملہ ہو جائے گا اور کچھ لوگوں نے کہا کہ آج تم پر حملہ ہو گا.ہم نے دیکھا تو اور احمدی دوستوں کی دکانیں بھی بند تھیں....گھر آگئے.دروازہ بند کیا اور محصور ہوکر رہ گئے.اسی شب محلہ میں جلسہ ہوا.غالباً مولوی...نے فرمایا کوئی مرزائی زندہ نہ رہے.بلکہ ان کا بچہ بھی.اگلے دن صبح کو چھ سات سو افراد کا جتھہ میرے بھائی اور بہنوں کے گھروں پر جو ملحق تھے آیا اور کہا کہ ہم پہلے تم کو ختم کرتے ہیں.پھر مرزائی کو.وہ چونکہ غیر احمدی ہیں اور بہت سرمایہ دار.روتے ہوئے اور چیخیں مارتے ہوئے میرے گھر آ گئے.اور کہا خدا کے لیے ہم کو بچاؤ اور گھر سے باہر نکل کر کہدو کہ میں مسلمان ہوں.مگر میری بڑی بیوی فاطمہ نے کہا کہ ہمارے ٹکڑے ہو جانے دو ہم ایسا نہیں کہیں گے.اس اثناء میں جنتہ اندر ہو گیا اور نعرے مارتے ہوئے مجھے مسجد میں لے گئے اور کلمہ طیبہ پڑھوایا.تمام مسجد بھری ہوئی متقی اور لوگ نعرے لگا رہے تھے کہ مسلمان ہوگیا کہ ۱۳ - ایک احمدی خوشنویس مکرم محمد یوسف صاحب کا بیان ہے در هم ر مارچ ۹۵۳انہ کو ہم دونوں میاں بیوی احراریوں اور مودودیوں کی دھاندلی اور ادھم

Page 58

سے مرعوب ہو کر گکھڑا اپنے ہم زلف کے ہاں چلے گئے مگر وہاں بھی ہم سے وہی سلوک ہوا جس سے ڈر کر یہاں سے گئے تھے.آخر ، ر مارچ کو ایک بجے کے قریب میرا بھتیجا گیا اور کہا کہ تمہارا گھر لوٹا گیا ہے.ہم میاں بیوی تا نگر پر سوار ہوکر ۴ ۲ بجے کے قریب گوجرانوالہ اپنے گھر پہنچے.مکان اور ٹرنکوں کے تالے سب ٹوٹے ہوئے دیکھے.ابھی ہم جائزہ ہی لے رہے تھے کہ کیا نقصان ہوا کہ ایک ہجوم ہاتھوں میں لکڑیاں اور سوئیاں اور پتھر روڑوں سے مسلح دروازہ اور کھڑکیوں پر اپنا غصہ نکالنے لگا.ہم نے اندر سے دروازہ اور کھڑکیاں بند کی ہوئی تھیں.اس ہجوم سے ایک کمبخت دوسرے مکان کو پھیلا نک کرا در دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگیا.اور نیچے آکر ہمارا باہر کا دروازہ کھول دیا.ہجوم بدستور اینٹوں.پتھروں اور لکڑیوں اور سوٹوں سے مکان کو توڑنے میں مشغول تھا.کھڑکیاں ٹوٹ گئیں.ناچار میں دروازے میں گیا اور کہا کہ آپ لوگوں کا اس طرح اُودھم مچانا اور حملہ کرنے کا کیا منشا ہے یہ ہجوم بولا کہ ہم تم کو مسلمان بنا نے آئے ہیں.میں بیٹھک سے قرآن کریم لے کر کھڑا ہو گیا.جو کچھ میں نے ہجوم سے کہا وہ آگے چل کر بیان کروں گا.اس پر ہجوم چلا جاتا ہے قریباً چار بجے میری بیوی پھر جائزہ لینے لگی.اور میں نماز عصر پڑھنے میں مشغول ہو گیا.1 نماز پڑھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ باہر پھر شور و شغب اور نعروں کی گونج اور تڑاک پڑاک کی آواز آئی جو پتھروں.لکڑیوں اور اینٹوں سے مکان کو توڑنے سے پیدا ہو رہی تھی میں نے یا کہ دروازہ کھول دیا اور ہجوم سے کہا کہ آؤ اندر آؤ اور جو کچھ رہ گیا ہے تم لوٹ لو.ہجوم سے گلی اٹی ہوئی تھی.مجھے کہنے لگے ہم نے تم کو مسلمان بنا نا ہے.میں ابھی کچھ کہتے ہی لگا تھا کہ چار نوجوانوں نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ ڈال کر دروازہ سے گلی میں اُتار لیا اور کہا کہ مسجد میں لے جائیں گے.میرے مکان سے قریبا تین فرلانگ پر زینت المساجد ہے.اس میں لے گئے.راستہ میں مجھ سے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے.میں نے کہا محمد یوسف میں گلیوں اور بازاروں میں جلوس کا ہیرو بن گیا.محمد یوسف زندہ باد.پیٹو وٹا ہائے ہائے.جلوس بڑھتا گیا حتی کہ مسجد میں جاتے وقت قریباً ۲ ہزار کا مجمع بن گیا.مکانوں پر عورتیں اور مرد دیکھ رہے تھے مسجد میں خوب رونق ہو گئی اور میں مسجد کے صحن میں بیٹھ گیا.جب منتظمین

Page 59

نے ہجوم کو بٹھا دیا تب میں نے عرض کیا.مولوی صاحبان ! آپ کے مبلغ مجھے کشاں کشاں جو میاں لائے ہیں اب آپ اپنی کارہ والی شروع کریں.عشق از پرده عصمت بیرون آرد زلیخا را پچاس ساتھ مولوی کھڑے تھے اور خلقت بھی منتظر تھی کہ کب سنگباری کا حکم کون دیتا ہے؟.جوم ڈنڈوں سے مسلح.آنکھیں لال لال نکالے حکم کا منتظر تھا.گئے مولوی صاحب آواز سے دینے کہ بلاؤ مولوی صابر کو.بلاؤ مولوی فلاں کو کہ وہ اپنا کام کریں.ہر طرف سے آوانہ آئی کہ مطلوبہ مولوی یہاں نہیں ہیں.آخر ایک مولوی صاحب کو ہجوم نے آسے کہا کہ مولوی صاحب آپ آگے آئیں.مولوی صاحب سر سے ننگے.آنکھ میں پھولا.داڑھی لمبی مکر کرر برڑی.سر پر عمامہ ندارد - قرآن کریم لے کر میرے پاس بیٹھ گئے اور لگے قرآن کریم کی درق گردانی کرنے.جب مطلب کی جگہ کی تلاش میں ذرا دیر ہوئی تو میں نے قرآن کریم مولوی صاحب سے لے لیا اور اُٹھ کھڑا ہوا اور ہجوم کو مخاطب کر کے عرض کی کہ پہلے میری عرض من ہیں.اگر کوئی کسر رہ گئی.کوئی کمی رہ گئی تو آپ بعد ازاں پوری کر لیں.میں نے قرآن کریم کو دائیں ہاتھ سے بلند کیا.اعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبدہ ورسولہ پڑھا.اور کہا کہ قسم ہے مجھے اس اللہ تعالیٰ کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے.جس جگہ قرآن کریم اترا ہے اس کو کہتے ہیں ام القرنی اور میں پر نازل ہوا اس کو کہتے ہیں ابو الا نبیاء اور اس کتاب (قرآن کریم کو کہتے ہیں ام الکتاب.میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قائم النبيين مانتا ہوں اور لا لا إِلَّا الله مع د رسول اللہ پر میرا ایمان ہے.اگر کسی مولوی صاحب کو میرے اسلام میں شک ہو تو وہ اپنے آپ کو جن شرائط کے ماتحت مسلمان سمجھتے ہیں تحریر کریں.میں اس پر دستخط کر دوں گا.ہجوم پر ایک سناٹا چھا جاتا ہے.مولوی صاحبان ایک، دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں.میں نے پگڑی سر سے اُتار دی اور کہا کہ پہلے احرار نے میرے مرکان کو لوٹا.بعد ازاں ایک ہجوم نے میرے مکان کو توڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.اس کو بھی یہی عرض کیا آپ کے یہ مبلغ جاتے ہیں اور مجھے نے آتے ہیں.اگر میرے

Page 60

قتل سے آپ صاحبان دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں تو بندہ حاضر ہے.یہ مسجد یہ شہادت زہے قسمت.ایک مولوی صاحب نے قرآن کریم ایک مسجد کی الماری میں رکھ دیا اور مجھے مسجد کے اندر کر کے دروازے تمام بند کر دیئے.نماز عصر سے فارغ ہو کر جستہ جسته آدمی دروازوں سے جھانک جھانک کر آنے شروع ہوئے.مختلف اعتراض کرتے رہے جو کچھ مجھے آیا جواب دیا.آخر میری رہائی کی تجاویز ہونے لگیں.چونکہ ہمارے امیر صاحب کا گھر نزدیک تھا خطرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے تجویز کی کہ انہیں وہاں پہنچا دیا جائے خیر مجھے وہاں پہنچا دیا گیا اور امیر صاحب قبلہ کو ان الفاظ میں میرا محافظ بنایا کہ لو صاحب آپ اپنا بندہ سنبھالو یا م حضرت حکیم نظام جان صاحب قادیانی شما خود نوشت بیان ہے کہ : - یہ ہمارا امکان اور دکان مین چوک گھنٹہ گھر میں واقع ہیں وہ گلی جس کے کونے پر یہ مکان دکان واقع ہیں شروع میں حکام ضلع نے احمدیوں کے لیے مخصوص کی تھی گو پانچ مکانوں سے زائد پر احمدی قابض نہ ہو سکے لیکن لوگوں میں یہ گلی مرزائیوں کی گلی ہی کے نام سے مشہور ہے اور ہماری دکان کا اشتہار چونکہ الفضل میں باقاعدہ شائع ہوتا رہتا ہے اس لیے ہم خاص طور پر شناسا تھے کہ " یہ مرزائی ہیں".جن دنوں زمیندار اختبار میں ۲۲ فروری تک کی مہلت کا اعلان بڑے طمطراق سے شائع ہوا کرتا تھا ایک دیہاتی ٹائپ کا ملا ہماری دکان پر برابر بیٹھنے لگا.وہ الفضل پڑھتا اور سلسلہ پر اعتراضات کرنے کے علاوہ ہمیں آنے والے خطر ناک طوفان سے بھی خوف ملا کہ بتاتا کہ اب مرزائیت چند روز ہے.اب نہ یہ سلسلہ رہے گا نہ اس سلسلہ کے داعی.اب سب اُمتِ مسلمہ تمہارے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے.اب تم لوگوں کا بچنا مشکل ہے بہتر ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ.ہم نے اُسے کہا کہ ان باتوں سے تم ڈرا کہ ہمیں احمدیت سے روکنا چاہتے ہو یہی باتیں ہمارے ایمان کو زیادہ کرنے والی ولادت: ۶۱۸۸۹ وفات : ۱۳ مئی ۱۹۷۲ ء

Page 61

ہیں.تم ۷۲ فرقوں نے اکٹھے ہو کہ خود بخود ، دیں اور ناجی فرقہ کی نشان دہی کر دی ہے ایک بن کر حملہ کرنے کا ارادہ کر کے فرعون اور جنگ احزاب کا نقشہ پیش کر دیا ہے اور کسر کیا رہ گئی ہے.وہ ملا بہت کہا کرتا.ہم لوگ تمہیں قتل کر دیں گے.مکان جلا دیں گے.اسباب لوٹ لیں گے بہتر ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ مگر ہم یہی کہتے رہے کہ وقت خود بخود نتائج ظاہر کر دے گا اور بتا دے گا کہ حق پر کون اور ناراستی پر کون ہیں.خدا تعالیٰ کن کے ساتھ ہے اور کون خدا تعالیٰ کے دشمن ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ ہم یہیں رہیں گے.مگر تم ایسے نہ رہو گے.لاہور آمدہ خبروں کی وجہ سے شہر میں کشیدگی اور اضطراب بڑھتا جاتا رہا.ہمارے خلاف نفرت اور بغض کے مظاہر ے تو ان بورڈوں سے ہوتے ہی تھے جو تقریبا ہر دکان پر اسلامیانِ پاکستان کا متفقہ مطالبہ کے محرک تھے پہ مرند انیوں کا مکمل بائیکاٹ کرو.اور مراز نیوں کے برتن علیحدہ ہیں.لگائے گئے تھے.بعض ہوٹل والوں نے برتن بھی علیحدہ رکھ لیے تھے.ان بورڈوں سے خواہ مخواہ احمدیوں کیخلاف نفرت اور تعصب پڑھتا تھا اور مقرروں نے تقریروں میں یہ کہا ہوا تھا کہ مرزائی بیوہڑوں اور کتوں سے بھی بدتم ہیں.اب اس کا رد عمل برتنوں کی علیحدگی اور سوشل بائیکاٹ کے بورڈوں کے سامنے آجانے سے کدورت کی شکل اختیار کہہ رہا تھا.- جمعہ کی نماز کے وقت تک ایسی حالت ہو گئی تھی کہ مسجد میں جاتا خالی از خطرہ نہ دکھائی دیتا تھا.جونہی ہم لوگوں پر اُن کی نظر پڑتی وہ مرزائی مرزائی پکارتے.گالیاں نکالتے گند کہتے آوازے کستے کوئی گندی سے گندی گالی نہ رہی جو ہمیں دی نہ جا چکی.اور کوئی گندے سے گندے الفاظ نہ رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت نہ کہے گئے.مسجد میں نمازہ جمعہ کے لیے بہت کم احمدی جاسکے.ہمارا قیافہ صحیح نکلا جمعہ کے بعد جلوس نکلنے لگے.خطبوں میں خوب اُبھارا گیا تھا.شہر بھر میں آگ پھیل گئی اور جلوس نکلنے لگے.ہماری دکان مکان سے ملحق ہے.جب جلوس آتے تو ہم دکان کو کھلا چھوڑ کر پیچھے مکان میں چلے جاتے مگر جمعہ کی نماز کے بعد جبکہ ملک محمد افضل صاحب ہماری دکان پر بیٹھے

Page 62

۵۲ تھے.مسجد سے خطبہ سُن کر آنے والے جلوس نے دکان کے سامنے کچھ اس طرح پرے جمائے کہ ملک صاحب نے دکان بند کر لینے کا مشورہ دیا.وہ لوگ اب زیادہ بھرتے اور گند پر اتر تے آرہے تھے.ہم نے دکان بند کر لی اور مکان میں محبوس ہو گئے.پولیس نے ٹرانسپورٹ کمپنی سے دو دو بسیں مانگی ہوئی تھیں جن پر گر فتار شدگان کو باہر لے جا کر چھوڑا جاتا تھا.مظاہرین نے دھمکا کر اور جلانے کی دھمکی دے کر وہ بسیں خود جب حاصل کر لیں.اور ان پر بیٹھ کر شہر میں نعرے لگاتے.شور مچاتے.گالیاں بکتے.جب اور جہاں جی چاہتا دندناتے پھرتے.اندر بیٹھے بیٹھے طبیعت تنگ آنے لگی.لوگوں کے بیچے باہر ہنستے کھیلتے اور شور مچاتے پھرتے اور مہارے بچے گھروں میں مقید.باہر نکلنے کا یارا نہیں.وہ حیران ہو ہو کر سوچتے یہ دو دن میں کیا ہو گیا کہ ہمارا نکلنا ہی بند ہو گیا.ہم انہیں دلا سا دیتے کہ آجکل دنیا ہم پر تنگ ہو رہی ہے.یہ کھیلنے اور ہنسنے کے نہیں.بلکہ رونے اور دعائیں کرنے کے دن ہیں.دعا کرو کہ ہم امتحان میں کامیاب اور ایمان میں ثابت قدم رہیں.خدا اس آزمائش کو جلد ٹال دے.دشمنوں کو ہدایت بخشے اور وہ صحیح انسان بن کر ہم سے پیش آدیں.جب یہ مصیبت مل جائے گی پھر تم پہلے کی طرح ہنسی کھیل سکو گے.باہر آجا سکو گے.ہفتہ کو بھی چھوٹی لڑکی ریحانہ اسکول چلی گئی تھی.سکول میں لڑکیوں نے مل کر اُسے خوب ما را خوب مارا.خوب مارا.وہ کیوں ؟ اس لیے کہ یہ مرزائی ہے.وہ بیچاری روتی اور مار کھاتی رہی.کسی کے دل میں رسم نہیں آیا کسی نے اُسے نہیں چھڑا یا کسی نے اس کی مدد نہیں کی.کیونکہ وہ مرزائی تھی اور مرزائیوں کو ہلاک بھی کر دیا جائے تو کو مضائقہ نہیں.حکام بے بس تھے.انتظامیہ بے بس تھی.لوگوں میں حکومت اور احمدیت کے خلاف نفرت اور غصہ بڑھ رہا تھا.اشتعال پھیلایا جارہا تھا.مگر کوئی جلسے جلوسوں پر پابندی یا دفعہ نمبر ۱۳ کا نفاذ نہ تھا.غنڈے اور بیچے آتے اور علی الا علمان دروازے توڑتے.پتھر برساتے اور گالیاں دیتے مگر کوئی پولیس نہ آتی.

Page 63

۵۳ ہنگامہ پسند تو جلسوں ہی میں باقاعدہ یہ اعلان کر رہے تھے کہ پولیس ہمارے ساتھ ہے.اور اس بات نے فسادی بجو موں کو بہت وجمرات دلادی تھی.خوف حکومت ہی ختم ہو گیا تھا.پولیس عنقا ہو کہ نہ جانے کہاں جا چھپی تھی جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو کرشنا نگر میں واقع ایک احمدی کے کارخانہ کو آگ لگائی گئی.اور اب اس سے شہ پا کر فسادی ہمارے مکان کے سامنے جمع ہو کر اس تجویز پر عمل کرنے کی تجویزیں کرتے.انہوں نے ہزار کوشش اور طریق سے تمہیں نیچے اُتارنے کی کوشش تھی.ایسی ایسی گالیاں دی تھیں کہ ہم کسی طرح جواب دینے کو سامنے آئیں.مگر وہ ناکام رہے تھے.اب آگ ہی ایک صورت رہ گئی تھی اس مکان سے ہمیں باہر نکالنے کی..ہم نے رات کو پولیس چوکی میں دن بھر کی روداد کی رپورٹ دے کر انتظام کے لیے کہا تو جواب ملا کوئی فکر نہ کریں.ہم لوگ انتظام کرنے لگے ہیں.چوک میں پولیس کی ایک پکٹ قائم کر دی جائے گی جو فسادیوں کو روکے گی.لیکن ہم سمجھتے تھے یہ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں ورنہ اس سیل عظیم میں پولیس سب سے پہلے بہہ گئی تھی.دن بھر اسکا ذکا محبوس احمدیوں کو دھمکا دھمکا کر احمدیت سے پھرانے کی کوشش کی - کی گئی.مکان جلانے کی دھمکیاں.قتل کر دینے کی دھمکیاں.سامان لوٹ لیتے کی دھمکیاں عزت و ناموس برباد کر دینے کی دھمکیاں.انسان دھمکیوں سے مرعوب اس وقت نہیں ہوتا جب وہ دنیاوی تعلقات کو یکسر نظر انداز کر دے.بھول ہی جائے کہ نہ اس کا مکان ہے نہ سامان نہ بیوی ہے نہ بیٹی.اور اگر سمجھے ہیں تو پھر یہ خیال نہ کرے کہ عزت و ناموس بر باد کرنے اور مسکان لوٹنے جلانے کی قوتیں اور قدرتیں انسان اور خود سر بھٹکے ہوئے فسادیوں کے ہاتھ میں ہیں.یہی ایک دھمکی نہیں تھی جو از تعداد کے لیے استعمال ہوئی بلکہ بعض جگہوں پر غلط طور پر مشہور کیا گیا کہ سب بڑے بڑے احمدی دنعوذ باللہ) ارتداد کر چکے ہیں.اُن کے مقابل پر تمہاری پوزیشن ہی کیا ہے.تم بھی احمدیت سے الگ ہو جاؤ.مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ کمیٹی کی ساس صاحبہ ہفتہ کو آئیں.ڈرتے ڈرتے دروازہ کھلوایا اور کہنے لگیں میں آپ

Page 64

لوگوں کا پتہ کرنے آئی تھی.ہمیں کہا جاتا ہے کہ حکیم نظام جان نے بھی احمدیت سے توبہ کرلی ہے سوئم بھی کرلو....ہم نے احمدیت کی پہچان کا اور ثابت قدم رہنے کا یقین دلایا اور کہا کہ یہ لوگ تم کر دھوکا دے رہے ہیں.اُن کے دھو کہ میں نہ آتا.جس وقت پولیس چوکی میں دن بھر کی کارروائی کی رپورٹ دینے کو بڑے لڑکے فضل الرحمن کو بھیجا گیا تو اس وقت انچارج چوکی فون پر کسی سے بات کر رہا تھا اور اطمینان کا اظہار کر رہا تھا کہ فکر کی کوئی بات نہیں.دو تین احمد ی اور یہ مسلمان ہو گئے ہیں.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مرکز می حکومت نہ بھی چاہتی تھی تو بھی پنجاب کے بعض حکام فسادیوں کے ساتھ تھے.کالج کے نو نہالوں نے اتوار کو بھی چھٹی لی اور اپنا فرض پورا کر نے ہمارے مکان تھے ترے.گالیاں دینے اور پتھر چلانے لگے.نکلو باہر کہاں ہو تم.مرزائی کتنے ہائے ائے.مگر اس طرف ایک ہی چپ تھی تھی.گو ہم نے کچھ نہ کچھ جواب کا انتظام کیا ہوا تھا مگر شہر میں ایسے بھی غریب احمدی تھے جو ذراسی حرکت سے ان ظالموں کا نشان رستم ہن کہ ختم ہو سکتے تھے.پہلے پہل فسادیوں کو خیال تھا کہ ہم لوگ مسلح ہیں مگر جب اتنے دن تک ہم نے کوئی جوابی قدم نہ اٹھایا تو انہیں حیرت ہونے لگی کہ ہم کیسے انسان ہیں کہ اس عظیم ہنگامے سے بھی متاثرہ نہیں ہوتے.آخر چند نوجوان جرات کر کے دروازہ کھلوانے پر اتر ہی آئے.کہنے لگے ہم تمہیں مسلمان بنا نے آئے ہیں.دروازہ کھولو......ہمارے ایک ہی جواب پر کہ ہم تم سے زیادہ مسلمان ہیں وہ دروازہ زور زدر سے کھٹکھٹاتے اور توڑنے کی کوشش کرتے رہے.جب ہم کسی صورت دروازہ کھولتے نظر نہ آئے تو انہوں نے ہماری بھینس جو گل میں بندھی تھی کھولنے کا پروگرام بنایا.جب وہ بھینس کی طرف بڑھے تو میں نے بندوق نکال کر ان کا نشانہ سیدھا گیا.ہماری دکان کے سامنے بیٹھنے والا در زی جو اب تک محض نظارہ کر رہا تھا دوڑ کر اُن کے پاس آیا اور حقیقت سے آگاہ کر کے بھاگ جانے کا مشورہ دیا.ہمارا تو ارادہ ہی نہیں تھا کہ گولی چلائی جائے کیونکہ یہ پھر نئے فساد کا پیش خیمہ اور مز یہ تباہی کا باعث بن سکتی معنی مگر اس سے یہ ہوا کہ ہماری خاموشی کا جو وہم غیر مسلح ہونے

Page 65

کا اُن کے دل میں بیٹھ رہا تھا وہ دُور ہو گیا اور پھر انہیں جرات نہ ہو سکی کہ وہ آگر در دازه توڑیں.- اسی دن بابو عبد الکریم صاحب پوسٹما سٹر اور ملک محمد افضل صاحب کے مکانوں کو لوٹ لیا گیا.اس کے بعد فوج کے آجانے سے حالت آہستہ آہستہ سدھرنے لگی.اسی دن مرکز سے ایک خط آیا کہ مضبوطی سے ایمان پر قائم رہیئے.مصیبتوں کے بادل عنقریب پھٹ جائیں گے..بدھ کو پہلے روز ہم نے دکان کھولی.رہی پہلے سے اہتمام کے ساتھ.یوں محسوس ہوا گویا نئی زندگی مل گئی.ہرگز رنے والا یوں نظریں اٹھا اٹھا دیکھتا گویا اُسے ہماری زندگی پر یقین نہیں.جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو.جیسے اُنہیں امید ہی نہیں منتھی کہ یہ دکان جو ایک بار بند ہو گئی ہے پھر بھی کبھی کھلے گی.وہ ملا جو فسادات سے قبل ہی احمدیت کی تباہی کے خواب دیکھا کرتا تھا اس کی ہومی فوت ہو گر گھر ویران کر گئی.جس کی معرفت آیا کرتا تھا اس کی بیوی بھی فوت ہوگئی.اس کی ساری کمائی بیماری پر لگ گئی تھی.اب بچوں کا بوجھ آن پڑا.جس دکان پر بیٹھ کر سکیمیں سوچی جاتی نھیں دہ دکان اس سے چھن گئی مگر احمدیت کا سورج جب ان بادلوں کے چھٹ جانے کے بعد نظر آیا تو وہ پہلے سے زیادہ آب و تاب سے نکلا " ۱۵ - کرم محمد شفیع صاحب کھو کھر مالک وہی کلاتھ ہاؤس کا بیان ہے کہ.: جب احرار شورش نے دروں پر تھی اور ہر طرف سے مخالفت کا زور دن بدن بڑھتا گیا سب دکاندار اور رشتہ دار بلکہ شہر کا اکثر حصہ ہماری مخالفت میں اُٹھ کھڑا ہوا اور یہاں تک کہا گیا کہ ہم دکان بند کرا دیں گے.ہماری دکان کے سامنے کھڑے ہو کر گاہکوں کو کہا کہ ان مرزائیوں سے سودا مدت لو.بعض دفعہ کپڑا کٹوایا ہوا واپس کرا دینا.ہم خاموشی سے کاٹا ہوا کپڑا واپس لیتے.اور بعض احراری دکان کے سامنے کھڑے ہو کر فحش گالیاں دیتے مگر ہم نہایت مہر سے کام لیتے ہوئے دن گزار جاتے.الحمد للہ پھر بھی شام کو کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا کر ہی جاتے اسی طرح ہر یہ وہ جلوس نکلتے اور ہماری دکان کے سامنے خاص کر کھڑے ہو کرنا چھتے کودتے اور گالیاں نکالتے.ایجی ٹیشن کے شروع ہونے سے قبل کئی دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہماری

Page 66

۵۶ وکان لوٹی گئی ہے مگر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہا کہ یا الہی آپ تقدیر کو ٹال بھی سکتے ہیں.اس کے بعد ایک دن ایک نہایت ہی مشتعل ہجوم ہماری بند دکان دیکھ کر تالے توڑنے لگا.مگر ہمارے سامنے والی دکاندار جو ہمارے ہمدرد اور جوان بلکہ پہلوان ہیں وہ کھڑے ہو گئے کہ ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے.اس طرح وہ دکان بفضل تا پنچ گئی.ویسے بھی ہم کافی مال نکال کر ادھر ادھر کر چکے تھے.ایک روز ایک بڑا بھاری بجلوس نکلا.اس روز بڑا خطرہ پیدا ہو گیا کہ آج یہ ھر دوکان پر حملہ کریں گے مگر اللہ تعالیٰ نے جو ہر مشکل میں اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے.اس موقعہ پر بھی اپنی رحمت کا نشان دکھایا اتفاق سے قریباً دس بارہ عورتیں برقعہ پوش راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ہماری دکان کے سامنے چبوتر سے یہ ایک لائن کی شکل میں کھڑی ہو گئیں.اسطرح ان کا حوصلہ نہ پڑا اور جلوس نکل گیا.دن بدن خطرہ بڑھتا گیا اور ہم نے دکان پر آنا بند کر دیا اور گھر میں محبوس ہو گئے بلکہ مسجد میں جانا بھی بند ہو گیا.گھر پر پیغام جا نے لگے احمدیت چھوڑ دو ورنہ میز نہیں بلکہ رشتہ دار بھی دھمکانے لگے.ہاں ابھی دکان پہر کا روبار کرتے ہی تھے کہ ایک روز نہ بر دستی کہا گیا کہ تم اپنے بور ڈپر مرزائی کلاتھ ہاؤس لکھواؤ.خاکسار نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.جمعہ کے دن جب کہ چھٹی ہوتی ہے انہوں نے سفید پینٹ بورڈ پر پھیر کر اس کے اوپر مرزائی کلاتھ ہاؤس لکھ دیا.خیر میں نے کہا کہ چلو دیکھو.اس طرح بھی خدا رزق دیتا ہے یا نہیں.بفضل خدا پھر بھی گاہک سودا لیتے ہی رہے.دوران فساد میں دو دفعہ ہماری پوری بھی ہوئی.وہ ایسے کہ ایک روزہ مولوی نما چند آدمی آئے.مجھے دھیان میں لگا کہ سمر کا ایک ٹکڑالے گئے جو قریباً ۱۵۰ روپے کا تھا.ایک دو آدمی آئے اور کپڑا کٹوا کر جھگڑا کر کے چل دیئے.ایک تو کپڑا کٹوا کر چھوڑ گئے دوسرے ایک پاپلین کا تھان اُٹھا کر لے گئے.اب ان کے پیچھے جانا یا اُن کو پکڑنا ہمارے بس کی بات نہ تھی کیونکہ اگر پکڑتے تو جھگڑا شروع ہو جاتا.غرضیکہ ہر طرح کی تکلیف اٹھا کر بھی مخالفین کے لیے فساد کا کوئی موقعہ پیدا نہ ہونے دیا.ہم بارہ دن تک اپنے گھر پر محبوس رہے.آخر کے تین دن تو نہایت خطر ناک حالت میں گزر ہے.آخری دی سے پہلی رات کو میری لڑکی عزیزہ زہرہ بیگم سلما اللہ تعالیٰ نے خواب

Page 67

دیکھا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام زمین اور آسمان کے درمیان تشریف فرما ہیں.اور حضور پر نور کے بدن مبارک سے نور کی شعائیں نکل کر سارے آسمان اور زمین کو روشن کر رہی ہیں اور بے شمار مخلوق کہہ رہی ہے کہ یہ مسیح موعود آگئے.اسی روز صبح کو عزیزہ زہرہ کا بڑا لڑکا جو آٹھ سال کی عمر کا ہے.کہنے لگا امی سانپ آئے.بین بجی اور بھاگ گئے اور سپاہی آگئے.اسی روز صبح میری طبیعت کی گھبراہٹ جو بھی وہ بالکل جاتی رہی.میں نے سب کو گھر میں کہا کہ فکریہ کرد.کوئی نہ کوئی سامان حفاظت کا ضرور ہو جائے گا.بفضل خدا اسی دن شام کو چار بجے فوج آگئی.اور آتے ہی انہوں نے حفاظت کے سامان کر دیئے." ۱ - کرم جناب اقبال محمد خان صاحب (سابق اسسٹنٹ میٹرو لوجسٹ محکمہ موسمیات پاکستان فرماتے ہیں :.ور میں کراچی سے تبدیل ہو کر یم، مارچ کی صبح کو آٹھ بجے لاہور آیا اور تقریباً پونے سات بجے شام اپنے مکان گجرانوالہ پہنچا.تو گھر میں سنا کہ احراری ہر روزہ شرارنہیں شہر ہی کر رہے ہیں.چنانچہ وہ ہمارے مکان پر بھی گاہ بہ گاہ آتے اور شور و غوغا کر کے چلے جاتے.میرے گھر پر علاوہ میرے ذیل کے افراد تھے.میری لڑکی.میرے ایک لڑکے کی بیوی.میرا ایک لڑکا قریباً ۱۳ ۴۳ بر من کا جو اسلامیہ ہائی سکول گوجرانوالہ میں ساتویں جماعت میں تعلیم پاتا تھا ایک پوتا اور درد پوتیاں یہ تینوں بچے چھ برس سے کم عمر کے تھے.میری گوجرانوالہ میں آمد کے بعد فسادی بیچے جوان اور بوڑھے دن رات میں ایک سے تین مرتبہ روزانہ آتے اور گالی گلوچ کھتے.نازیبا فقر سے دہراتے.چونکہ ہم اپنے مکان کو ہر وقت بند رکھتے تھے اور ضرورت کے وقت ہم باہر بھی جاتے تھے مگر مکان کو اندر سے کنڈی یا قفل سے بند رکھتے تھے.ہمارے محلہ میں شیخ غلام ربانی صاحب سیکرٹری ڈسٹرکٹ بورڈ گوجرانوالہ میرے مکان کے قریب ہی رہتے تھے اور ایک شخص مسمی جلال گوجر جو میرے مکان کے سامنے رہتا تھا یہ دونوں چھے اور سات مارچ ۱۹۵۳ کو برقت شب آئے اور بتایا کہ حالات سخت مخدوش ہیں اور فسادیوں کو آج تک دبایا جاتا رہا ہے مگر اب وہ ان کے اختیار سے باہر نکلتے جا رہے ہیں.ڈر ہے که منادی اُن کے خلاف بھی نہ ہو جائیں.اس لیے انہوں نے مشورہ دیا کہ گھر چھوڑ کر

Page 68

۵۸ - کسی اور جگہ چلے جاویں ورنہ جانی نقصان ہونے کا بھی خطرہ ہے.میں نے 4 مارچ کو ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں اس بارے میں سوچوں گا اور ، مارچ کو میں نے پھر ان کی ہمدردی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں.موت نے ایک دن آنا ہی ہے.اگر ان لوگوں کے ہاتھوں میں میری اور میرے خاندان کی موت ہے اور اللہ تعالے کو بھی یہی منظور ہے تو میں راضی بہ رضاء الہی ہوں.آپ اپنے آپ کو خطرہ میں ہماری وجہ سے نہ ڈالیں.وہ لوگ مجھے بہت سمجھاتے رہے.مگر آخر مایوس ہو کر پہلے گئے.ہم لوگ دعاؤں میں لگے رہے.۸ / مارچ کو قریباً دس بجے میرے گھر میں ایک نابینا اور اس کے ساتھ ایک بچہ بطور مہمان آ گئے.اُن کے آنے کے چند منٹ بعد میرا لڑکا سکول سے آگیا.اس نے بتایا کہ ماسٹر صاحب نے اُسے فسادات کی وجہ سے چھٹی دے دی ہے اور راستے میں اس نے ایک احمدی کے گھر میں لوٹ کھسوٹ ہوتے دیکھی ہے.اور مجمع کہ رہا ہے کہ وہ اب ہمارے گھر پر بھی رہا وابو لنے والے ہیں.میں نے اُسی وقت مکان کے باہر کی طرف کھلنے والے تمام دروازے مقفل کر دیئے اور ریڈیو، کلاک جیسی چیزیں ہاتھوں ہاتھ ایک کو بھڑی میں بند کر کے قفل لگا دیا ہمارے گھر میں ہروقت پانی غسل خانہ کے سکا دے.حمام اور بالٹیوں وغیرہ میں بھرا رہتا تھا تا کہ اگر فسادی آگ لگائیں تو پانی کی مدد سے آگ بجھائی جاسکے.چارہ کرنے کا گنڈاسہ گھر میں تھا اور ایک چھری اور ایک ہاکی تھی.یہ تینوں ہم نے تیار رکھے ہوئے تھے کہ اگر فسادی در دو اون کھڑکیاں توڑ کر گھر لوٹ مار کے لیے داخل ہوں گے تو اُن سے مقابلہ کیا جا دے گا ایک مسہری کے بانس کے ایک سرے پر کپڑے پیٹ کر اوپر سے تار لیٹی ہوئی تھی.ایک ماچی اور تیل کی بوتل یہ تینوں چیزیں صحن میں تیار رکھی تھیں.تاکہ اگر فسادی چھت پر چڑھ کر صحن میں اترنے کی کوشش کریں تو نیچے سے ہی اُن کا آگ کے ساتھ مقابلہ کیا جا دے.ابھی یہ سب چیزیں بمشکل مناسب جگہوں پر رکھی بھی نہ تھیں کہ کم و بیش تین چار سو آدمی شور کرتے ہوئے میرے مکان پر پہنچ گئے اور قریباً دو گھنٹہ تک دروازے.کھڑکیاں توڑ کر مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے اور نازیبا نعرے لگاتے رہے.پڑوسیوں

Page 69

کے مکانوں کے راستے ہمارے مکان کی چھت پر آنے کی کوشش کی مگر انہوں نے اپنے مکانوں میں داخل ہونے سے منع کر دیا.میرے مکان کی کھڑکیاں جو لب سڑک کھتی تھیں اور کھڑکیوں کے دروازہ اور سوراخوں سے ہمیں دیکھتے تھے اور ہم سب لوگ خاموشی کے ساتھ دعاؤں میں لگے ہوئے تھے بچے سہمے ہوئے تھے اور میرے ایک ہاتھ میں گنڈاسہ تھا اور میں کمرے میں ٹہل رہا تھا اور بچوں اور مستورات کو آہستہ آہستہ تلقین بھی کر رہا تھا کہ دل نہیں ہارتا.اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا.اگر فسادی مکان میں داخل ہوانے میں کامیاب ہو گئے تو ڈرنا نہیں جرات سے ان کا مقابلہ ہا کی چھڑی اور لاٹھی سے کرنا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی مددکرے گا اور ان شریروں کو معلوم ہو جائے گا کہ مومن کس قدر دلیر ہوتا ہے.اس وقت ایک شخص کھڑکی کے ایک سوراخ میں سے کھڑکی کے ساتھ آنکھ لگائے دیکھ رہا تھا تو میرے لڑکے نے کہا کہ چرنے کا تکلا (جو بطور ہتھیار ہم نے تیار کہ یہ کھا تھا) اس سوراخ میں ڈال کر اس کی آنکھ پھوڑ دو.میں نے اُسے جواب دیا کہ ہم حملہ نہیں کریں گے.البتہ دفاع جرم نہیں.جو مکان میں داخل ہو گا اُس کو اِس گنڈا سے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دونگا.ہاتھ پاؤں گردن جو بھی اس کھڑکی کے راستے مکان کے اندر آدے گی تو اس کو گنڈاسہ انشاء اللہ تعالیٰ مکان کے اندر رکھے گا اور جسم کا باقی حصہ امکان سے باہر رہے گا.....مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ میری اور میرے خاندان کی مدد کرے گا.کھڑکی کے سوراخ میں سے تا کنے والے شخص نے میری باتیں سنیں.اور میرے ٹہلنا اور گنڈا سے کو جوش میں حرکت دینا دیکھا تو چلا چلا کر کہنے لگا اوزار سے بابا تاں ٹوکا رگنڈاسہ لیے پھر وا ا سے لارے لوگو بڑھا مراد اقبال محمد خال بعمر ۵۸ سال) تو گنڈاسہ لیے پھر رہا ہے.اس کے چند منٹ بعد ہی وہ لوگ کہتے ہوئے منتشر ہو گئے کہ تم نے دروازے نہیں کھولے.وہ لوگ چار بجے سہ پہر کو چھر آئیں گے ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد میرے مہمان گھر جاک رجو گوجرانوالہ شہر سے قریباً دو میل کے فاصلہ پر گاؤں ہے) چلے گئے.اور میں امیر صاحب جماعت احمدیہ گجرانوالہ کے مکان پر گیا اور ان کو مذکورہ بالاقصہ سنایا تب انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ

Page 70

۶۰ میں ایس پی اور ڈی سی کو سارا ماجرا بتاؤں.وہ مجھے بتانے لگے کہ وہ خو دا بھی ابھی ڈی سی کو مل کر آئے ہیں چنانچہ میں ایس پی اور ڈی سی کے پاس رپورٹ کرنے کے لیے روانہ ہوا.راستے میں میرے بڑے بھائی رہتے تھے.میں ان سے ملا.ردہ ریٹائرڈ انسپکٹر پولیس اور ضلع گجرانوالہ کے رضا کاروں کے کمانڈر بھی ہیں) ان کا داماد جو گوجر انوالہ کا ڈی آئی ایسی تھا وہ بھی وہاں موجود تھے میرے بھائی نے مشورہ دیا کہ چار بجے جب مجمع مکان پر آوے تو تم ان سے کہدو کہ ہم احمد ہی نہیں ہیں.میں نے فوراً انہیں کہا کہ مرنا صرف ایک دفعہ ہے.یہ مجھ سے نہ ہو گا...میں اپنے گھر واپس آگیا اور میرا داماد جو گھر جاک میں رہتا ہے مذکورہ مہمانوں سے خبر سن کر میرے مکان پہ آیا ہوا تھا اور میرے بال بچوں کو میرے بھائی کے گھر چلے جانے کو تیار کر رہا تھا.....میرے بال بچے میری اجازت کے بغیر گھر چھوڑنے کو رہنامند نہ تھے.میں نے گھر پہنچ کر بال بچوں کو اپنے داماد کے ہمراہ اپنے بھائی کے گھر روانہ کر دیا.اور خود مکان میں تنہا نماز پڑھنے لگ گیا قریباً پانچ بجے شام موٹروں کی آوازہ میرے کان میں پڑی.تب میں نے مکان کی چھت پر چڑھ کر دیکھا کہ پولیس اور ملی اور محلہ کے لوگ جمع ہیں.ملڑی والوں نے میرے مرکان کے ارد گرد پہرے لگائے ہوئے ہیں.وہ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے کہ مرکان اندر سے بند ہے اور مکان میں کوئی آوازہ بھی نہیں آتی.مجھے چھت پر دیکھ کر انسپکٹر پولیس نے مجھے نیچے آنے کو کہا.چنانچہ میں نیچے آیا.انہوں نے مجھ سے سارا ماجر استا.انہوں بتلایا کہ یہ صاحب فرسٹ کلاس مجسٹریٹ ہیں.وہ خود انسپکٹر پولیس ہیں اور ملڑی کے افران وغیرہ سے بھی تعارف کرایا.میں نے انہیں بتایا کہ میں گرینڈ آفیسر ہوں....غلام ربانی صاحب مذکور بھی دیگر ملوں والوں کے ہمراہ اس وقت موجود تھے مجسٹریٹ صاحب نے فرمایا کہ اگر ذرا سا بھی کوئی واقعہ اس وقت کے بعد ہوا تو پولیس اسٹیشن میں اطلاع کہ دینا التح " ۱۶ مکرم میاں عبد الرحمن صاحب صابر قائد خدام الاحمدیہ گجرانوالہ کا بیان ہے کہ :.مورخہ با ر مارچ بعد دوپہر میری بیوی اپنے ایک سالہ بچے کو دودھ پلا ر ہی معنی اور میں دوسرے له وفات ۱۵ راکتو به ۶۱۹۸۵

Page 71

بچے کو سینے پر لٹا رہا تھا کہ بلوائیوں کا ایک ہجوم آیا جس نے آتے ہی ہمارے مکان کے دروازوں پر پتھر.ڈنڈے اور اینٹیں مارنی شروع کر دیں.ہمارے ایک ہمسایہ نے انہیں کہا کہ وہ تو یہاں ہیں نہیں.لیکن انہوں نے اس کی بات نہ مانی.اور مانتے بھی کیئے جبکہ ہم اندر سے نظر آرہے تھے.ہمارا ایک دروازہ مضبوط تھا اور ایک کمز در لیکن خدا کا کہنا ایسا ہوا کہ مضبوط دروازہ ہی ٹوٹ گیا اور اس وقت ہم نے سمجھا کہ بس ہم گئے.لیکن مین اسی وقت گجرانوالہ کے ایک معززہ غیر احمدی دوست قاضی محمد شریف صاحب مشرقی اور ان کے بھائی آگئے اور انہوں نے ہجوم کو بڑی حکمت عملی سے قابو میں کر لیا جس کی دھبہ سے ہجوم مکان کے اندر نہ آ سکا.اس طرح محض خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہماری جان ومال اور عزت و آبر داور سب سے بڑھ کر قیمتی سے ہمارا ایمان بیچ رہا.اس مجرم کے رو کے جانے کے بعد ایک مولوی صاحب میرے پاس آئے اور بزعم خویش مجھے مسلمان ہونے کو کہا.میں نے کہا مولوی صاحب! مسلمان تو میں پہلے سے ہوں.اس وقت میری بیوی زینب دوسرے کمرہ میں تھی گو اس کی جسمانی ساخت اور صحت کمزور ہے اور بظاہر اس کی طرف سے کمزوری دکھانے کا اندیشہ ہو سکتا تھا.لیکن اس وقت وہ بھو کی شیرنی کی طرح صحن کی طرف جھپٹی اور نہایت بارعب الفاظ میں کہا در خبر دار ڈولیونہ - مرتا اکو واری اسے خبردار! ڈین گالیومت.مرنا ایک ہی دفعہ ہے ناقل) اس کے ان الفاظ سے میرے قسیم میں ایک لہر سی دوڑ گئی.زماں بعد وہ موادی مناب اور ان کے ساتھی خاموشی سے چلے گئے.یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بظا ہر حالات ہماری حفاظت کے تمام ذرائع ختم ہو چکے تھے.مثلاً میرا حقیقی بھائی اس حملہ سے چند منٹ پہلے ہی باہر چلا گیا تھا.اور اس تمام واقعہ کے بعد گھر آیا.ایسے موقعہ پر ہمسایوں سے جو توقع ہو سکتی تھی وہ بھی رائیگاں گئی.جس دروازے پر بوجہ مضبوطی اعتماد تھا وہ بھی ٹوٹ گیا اور بظاہر ہماری حالت یہی تھی عم سیلے سب جاتے رہے اک حضرت نواب ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم اور ذرہ نوازی سے ہماری شب و روز کی

Page 72

۶۲ التجاؤں کو سنا اور ہماری بے کسی کے پیش نظر عیب سے ہماری مدد کی.۱۷ مکرم نور محمد صاحب امینی بنگوی کا بیان ہے کہ : " میں بنگہ ضلع جالندھر کا مہاجر ہوں.....جن دنوں مخالفت اور فسادات کا زور شورہ دیا تھا تو میں نے چند یوم اپنے مکان کا دروازہ بند کر کے اندر ہی رات دن بسر کیے تھے.غیر احمدی لڑکے ہو ان اور نیچے اکٹھے ہو کر میرے مکان کے پاس آکر گالیاں نکالتے اور در دازه پر اینٹیں اور پتھر مارتے.میں اور میرے اہل وعیال صبر سے کام لے کر دعاؤں میں میں مصروف رہتے تھے.ایک جبکہ مخالفت کا زور تھا اور خطرہ بڑھ گیا تھا میری بیوی کے دو حقیقی بھائی جو غیر احمدی ہیں اور احمدیت کے سخنت مخالف اور دشمن ہیں اور میرے مکان کے قرب میں رہتے ہیں انہوں نے میرے پاس ایک لڑکا بھیجا.وہ لڑکا کہنے لگا کہ مجھے ان دونوں نے بھیجا ہے.وہ کہتے ہیں کہ تم اگر اب اپنی خیر چاہتے ہو اور جان بچانا چاہتے ہو تو احمد بہت سے توبہ کر لو.میں نے یہ سن کر لڑکے سے کہا کہ تم ان کو جا کر کہہ دو کہ وہ مجھے یہ تحریر کر دیں کہ تو بہ کرنے سے مجھے موت نہیں آئے گی.جب بے ایمان ہو کر بھی موت آئے گی تو پھر بے ایمانی کی موت سے ایمانداری کی موت نہایت عمدہ اور حد درجہ بہتر ہے.میرا یہ جواب سن کر وہ لڑکا چلا گیا.اس کے بعد پھر میرے پاس کوئی نہیں آیا.اللہ تعالے نے دعاؤں کی برکت سے مجھے اور میرے اہل و عیال کو ہر طرح اپنی پنا ہ اور حفاظت میں رکھا.، ۱۸ مکرم ماسٹر محمد علی صاحب صدر مدرس گونا چور کا بیان ہے کہ : ر ماریچ سر کو در نیجے کے قریب اپنے مکان پر پہنچا.اڑھائی بجے کے قریب ہمارے مکان پر سات آٹھ صد نوجوانوں کا ہجوم جن کے ہاتھوں میں دو دو تین تین ہاتھ ہلے ڈنڈے تھے ہمارے مکان پر حملہ آور ہوئے.آتے ہی انہوں نے گالیاں نکالتی مشروع کر دیں.اور ڈنڈوں سے دروازہ اور کھڑکیاں توڑنی شروع کر دیں.چنانچہ انہوں نے کھڑکیوں کے اوپر کے تمام چھچھے اور ایک کھڑکی توڑ دی.اور پتھراؤ سے کئی شیشے توڑ دیئے.کھڑکی کے توڑنے کے بعد ایک آدمی نے کھڑکی کے اندر ہا تھ بڑھا کہ کھڑکی کے

Page 73

۶۳ سامنے کی چارپائی پر سے ایک بستر باہر کھینچ لیا.تمام مستورات اور بنیچے اوپر کی منزل پر کھڑے ان کی تمام کارروائی دیکھ رہے تھے.میری ہیومی نے اوپر سے انہیں کہا کہ کر لو لوٹ مار! اگر تمہارا اسلام یہی ہے اور لوٹ مار کی اجازت دیتا ہے تو ٹھہر د میں نیچے آکر دروازہ کھول دیتی ہوں.تمام مکان کو لوٹ لو.اس کے بعد کسی آدمی کے کہنے پر اس لڑکے نے بستر کھڑکی کے اندر پھینک دیا.اور ایسی فحش کلامی کرتے ہوئے جس کے اظہار کی اخلاق بھی اجازت نہیں دیتا.چلے گئے." ۱۹.مندرجہ بالا بیانات میں ضمناً بعض احمد می مستورات کے جذبہ ایمانی اور غیرت دینی کا کئی بار تذکرہ ہو چکا ہے.اب آخر میں دو ا در احمد می خواتین کی ثابت قدمی - استقلال اور ایمانی پختگی کا قابل فخر واقعہ مبارک احمد صاحب ناصر سابق دیہاتی مبلغ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ کے الفاظ میں لکھا جاتا ہے :.گور شیرانوالہ کے محلہ گو بند گڑھ میں مستری امام دین صاحب کے گھر صرف اُن کی دو بہوئیں تھیں.صادقہ بیگم صاحبہ اور خورشید بیگم صاحبہ ان ہر دو کے بیچے اُن کے پاس ہی تھے جو کہ اول الذکر کے چار اور دوسری کے دو اور ساتھ ہی گھر میں ایک رشتہ دار نوجوان لڑکی سخت بیمار تھی.جب یہ شورش شروع ہوئی تو انہوں نے بازار سے نئٹی لوہے کی کنڈیاں منگوا کر دروازوں کو خود لگائیں.مکان کا نکل قیمتی سامان گیلری میں بند کر کے اس کی سیڑھی توڑ ڈالی تاکہ کوئی آدمی گیلری پر نہ چڑھ سکے.اس طرح سامان کو محفوظ کر لیا.محلہ کے قریبی آدمی متواتر یہ روزانہ ہر تین چار گھنٹے کے بعد اُن کے پاس آتے اور اپنی طرف سے محبت اور پیار سے یہ کہتے کہ تم صرف احمدیت سے انکار کہ دو.اس سے تمہاری بے عزتی بھی نہ ہوگی.اور نقصان بھی نہ ہوگا.لیکن ان ثابت قدم احمدی خواتین نے ہر دفعہ یہی جواب دیا کہ ہم مر جائیں گی لیکن احمدیت سے انکار ہر گنہ نہ کریں گی یہی سلسلہ متواتر کئی روز تک چلتا رہا.زاں بعد محلہ کے غیر احمد یوں نے بھی کہا کہ تم ہمارے گھروں میں چلی چلو ہم وہاں تمہاری اچھی طرح حفاظت کریں گے مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہم اپنے گھر ہی میں رہیں گی.خواہ کچھ بھی ہو.اس طرح ان کی غیر احمدی رشتہ دار مستورات

Page 74

۶۴ نے بھی احمدیت سے پھلانے کی کئی مرتبہ کوشش کی اور کہتی رہیں کہ یہاں کئی گھرانوں نے احمدیت کو چھوڑ دیا ہے.تم تو اکیلی ہو.اپنے آپ کو بچا لو.لیکن ان کا یہی جواب رہا کہ ہم مریں گی بھی تو احمدیت کی راہ میں ہی مریں گی.ضلع میں شورش کے دوسرے مراکز | رپورٹ تحقیقاتی عدالت میں لکھا ہے.:.و ور ضلع میں شورش کے دوسرے مرا کہ حسب ذیل تھے.1- کامو کے یہ یہاں احمدیوں اور حکومت کے خلاف مظاہر سے اور جلوس مرتب کر نیوالے لطیف احمد مشتی اور حافظ عبد الشکور تھے.جو سرمایہ ضبط کیا گیا اس کی مقدار دس ہزار سات سو بہتر کر دیے تھی.- وزیر آباد -:- یہاں تحریک کی تنظیم کرنے والے مولوی عبد الغفور ہزارومی اور کامریڈ عبدالکریم تھے.یہاں ریل کی پٹڑی پر لکڑی کا ایک لٹھ رکھ کر ایک ٹرین روکی گئی.جو سرمایہ یہاں ضبط کیا گیا اس کی مقدار دو ہزار پانچسو ساٹھ روپے تھی.- حافظ آباد :- یہاں ابو الحسن محمد یحی اور مولوی فضل الہی نے عوام کے جذہ بات کو بھڑکایا..گکھڑا.یہاں ٹرینیں روکی گئیں.۵ - نوشہرہ ورکاں :.ایک پرانا کانگریسی ڈاکٹر محمد اشرف یہاں گڑ بڑ کا ذمہ دار تھا.4 - سوہدرہ : یہاں مولوی عبد المجید اہل حدیث نے عام جلسوں کا اہتمام کیا ہے ریکارڈ مرتبہ ملک فضل حسین صاحب - ۲ - تحقیقاتی رپورٹ ما

Page 75

10 فصل سوم ضلع سیالکوٹ تحقیقاتی عدالٹ کی رپورٹ میں ضلع سیالکوٹ کے اندرسہ احمدی احراری نزاع کی ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈالنے کے بعد یکم مارچ ۱۹۵۳ء کی نسبت لکھا ہے :.یکم مارچ سد کو شہر نے کامل ہڑتال کی اور دس ہزار اشخاص کا ایک ہجوم ریلوے اسٹیشن پر رضا کاروں کے اس پہلے دستے کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہوا جو زیر سر کر دگی مولوی محمد یوسف " ڈائریکٹ الیکشن میں اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے روانہ ہو رہا تھا.اس ہجوم نے بازاروں میں گشت لگایا.احمدیوں کے خلاف نعرے لگائے اور حکومت با لخصوص وزیر اعظم پاکستان کو گالیاں دیں یہ لے صدر انجمن احمدیہ کے عدالتی بیان میں ہے.رو را در امر مارچ ۱۹۵۳ء کو مجلس عمل کے ممبروں کی گرفتاری کی وجہ سے حالات نے منتشر دانہ صورت اختیار کرلی اور حکام کو گولی چلانی پڑی اور فوج بلائی گئی.فوج کی آمد سے قبل دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلوس نکلتے رہے.اور پولیس کی انتہائی کوششوں کے باوجود شرپسند لوگ منتشر نہ ہوئے اور قاتلانہ ہتھیاروں کے ساتھ احمدیوں پر حملے جاری رہے.اور سات اشخاص کو جن میں خواتین بھی شامل تھیں شدید ضربات آئیں اور شہر میں دس احمدیوں کو خوفزدہ کر کے احمدیت سے منحرف کیا گیا تھا نہ پسرور میں دس احمدیوں کو خوفزدہ کر کے یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا گیا کہ انہوں نے احمدیت ترک کر دی ہے.اس....بارہ میں متعلقہ پولیس اسٹیشن کے افسر کے پاس شکایت کی گئی لیکن اس نے دخل دینے سے انکار کر دیا.اس قسم کے لا انتہاء واقعات ضلع ے رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو ما

Page 76

F کے دوسرے مقامات میں ظہور پذیر ہوئے.سیالکوٹ کے احمدیوں کے ایک وفد نے خواجہ محمد صفدر صاحب پریذیڈنٹ مسلم لیگ سے طلاقات کی اور انہیں اس شتعل حالات سے مطلع کیا.خواجہ صاحب نے جواب دیا کہ اگر چہ انف اور شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اور دوسرے مسلم لیگی بے خوف ہو کر احمدیوں کی مدد کریں نگر دولتانہ صاحب کے گزشتہ دورہ پر میں نے اُن سے کہا تھا کہ حالات خطرناک ہوتے جا رہے ہیں.لیکن وزیر اعلیٰ نے مجھے یہ جواب دیا کہ خدشہ کی کوئی بات نہیں.مولویوں کے ہمارے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ صوبائی حکومت کے خلاف کوئی مصیبت کھڑی نہیں کریں گے یہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں سور مارچ کے حالات کا ذکرہ بایں الفاظ میں کیا گیا ہے.دہ دو پہر تک جوم بے انتہا بڑھ گیا اور ٹریفک ڈیوٹی کے پولیس کانسٹیبلوں پر حملے کرنے لگا.اس کے بعد اس نے ایک جلوس کی صورت اختیار کر لی اور اس شخص کی نعش کو ساتھ لے کہ جو دار الشہابیہ میں مارا گیا تھا گشت کرنے لگا.یہ ہجوم سٹی مسلم لیگ کے دفتر میں پہنچا اور اس کی لاہٹر میری لوٹ لی.خواجہ محمد صفدر ایم ایل اے صدر سٹی مسلم لیگ کو اُن کے دفتر سے نکال گیا.ان کا منہ کالا کیا گیا ہے اور ان کو بازاروں میں پھر ایا گیا.آخر کرنل خوشی محمد نے ان کو چھڑایا.ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور تاریخ کے ایک بجے بعد دوپہر سے لے کر ہم تاریخ کے ایک بجے بعد دوپہر تک چوبیس گھنٹے کا کرفیو نافذ کر دیا تھا.لیکن چونکہ پولیس اور فوج کی نفری کم تھی اسلیے - یہ کرفیو عمل میں نہ لایا جاسکا اور کمشنر نے اس کے اوقات تبدیل کر کے دس بجے شب ساڑھے چار بجے صبح تک کر دیئے.اسی شام کو ایک غیر احمدی دوست عبدالحی صاحب قریشی کو جنہوں نے ہجوم کو تشدد سے منع کیا تھا زدو کوب کیا گیا اور اس کا گھر لوٹ لیا گیا.....تیسرے پہر ایک ہجوم نے ایک اے ایس آئی اور ایک کانٹ میل پر یورش کی.اسے.الیں.آئی راه صدر انجمن احمدیہ کے عدالتی بیان میں کہا گیا ہے کہ صد سٹی مسلم لیگ کی تھی یہ توہین آمیز بر تاؤ اس لیے کیا گیا کہ بلوائیوں کے نزدیک خواجہ صا ڈپٹی کمشنر کو سختی کرنے کا مشورہ دیا تھا کا

Page 77

76 کا ریوالور اور کنسٹیبل کی بندوق چھین لی.دو احمدیوں کے چھرا گھونپ دیا گیا اور تین دوسر احمدیوں کے مکانات ہجوم نے لوٹ لیے راہ ان مستند ر پورٹوں کی مزید تفصیل معلوم کرنے کے لیے سیالکوٹ شہر کے واقعات سیالکوٹ شہر کے مخلص احمدیوں کے بعض بیانات مرج ذیل کیسے جاتے ہیں.۱ - کرم مرزا محمد حیات صاحب رهاجر قادیان) صدر حلقہ واٹر ورکس سیالکوٹ رقمطرانہ ہیں:." میرے حلقہ واٹر ورکس میں چوہدری عبد الرشید صاحب ، محمد لطیف خان صاحب حضرت خلیفہ عبد الرحیم صاحب یہ چوہدری محمد لطیف صاحب سیٹھی کرم الہی صاحب حکیم پیر احمد شاہ صاحب اور مولوی برکت علی صاحب کے مکان پر باقاعدہ خشت بار می جاری رہی.میرے اور چو ہدری عبدالرشید صاحب کے مکان کے شیشے اکثر لوٹ گئے.سیٹھی کرم الہی صاحب کے باہر کی لکڑی کی سیڑھی جلا دی گئی.ہمارے مکانوں کے ارد گر د نو جوانوں کے جلوس آتے جاتے رہتے تھے.اور گندے نعرے بلند کر کے اپنی ماؤں بہنوں کو اپنی بے حیائی کا نمونہ دکھایا کرتے تھے.مورخہ ۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو میرا لڑکا مرزا محمد اصغر جس کی عمر قریباً گیارہ سال ہے جب اپنی گلی میں گیا تو اس کو چند نوجوانوں نے گھیر لیا اور ان میں سے ایک نے اس کا یا ز و نچڑا اور اسے چاقو مارنے لگا.تب میرے لڑکے نے آمرانہ دی.ابا جی ! مجھے چا تو مارنے لگا ہے.یہ آواز سُن کر میں نے بھی نہ در سے آوازہ دی.فکر نہ کرنے میں آرہا ہوں.جب یکی نے بندوق اٹھائی تب اُسے دیکھتے ہی وہ نوجوان میرے لڑکے کو چھوڑ کہ بھاگ گئے " ۲ - مکرم محمد احمد صاحب نظام فوٹو گرافر محلہ اسلام پورہ) کا خود نوشت بیان ہے کہ : و ہمارے بھائی صاحب محلہ اسلام آباد میں رہتے تھے.اور ہم محلہ اسلام پورہ میں رہتے ہیں.جب میں اپنے بھائی کے گھر آرہا تھا تو میں نے دیکھا راستہ میں ناصر پال کے مکان کے گرد نے رپورٹ ۱۷۷ ۱۷۸ صفحه - سے ولادت ۱۸۹۳ ء وفات ۱۹ نومبر ۱۹۶۲ء سے ولادت ۱۸۹۳ ء وفات ۱۹ را سیریل ۶۱۹۷۵

Page 78

YA بہت سے غنڈے، ڈنڈے تلواریں اور کلہاڑیاں لیے ہوئے پھر رہے ہیں.جب میں ناصر پال کے مکان کے کونے پر پہنچا تو وہاں سے میں نے گلی میں جانا تھا.ان غنڈوں میں سے ایک لڑکا مجھے جانتا تھا.اس نے مجھے دیکھ لیا اور شور مچا دیا کہ وہ مرزائی جارہا ہے.وہ غنڈے جو ناصر پال کے مکان کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تھے وہ سب میرے پیچھے بھاگے یہاں تک کہ انہوں نے مجھے میرے گھر کے پاس ہی جا کر گھیر لیا اور میرا سائیکل بھی انہوں نے چھین لیا.چھ سات لڑکے تھے جنہوں نے مجھے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مارا.چاقو کا بھی دار کیا مگر مجھے خدا تعالیٰ نے بچا لیا.چا تو میرے سینہ پر تھا کہ میں نے ایک ہا تھ سے چھڑا کر پاس ہی اپنے ایک غیر احمدی دوست کے گھر میں جا گھسا.خون سے میرے کپڑے لت پت تھے.اور میرا چہرہ پہچانا نہ جاتا تھا میں غیر احمدی کے گھر میں گھسا تھا وہ بھی مجھے دھکے دے کر باہر نکال رہے تھے یہاں تک کہ دروازہ اس زور سے بند کیا تھا کہ مشکل سے کھلتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور زور لگانے سے دروازہ کھل گیا اور میں اندر چلا گیا.دروازہ بند کر کے مکان کے ایک کونے میں بیٹھ گیا لیکن غنڈوں نے شور مچایا کہ مرزائی کو باہر نکال دو نہ مکان کو آگ لگا دی جائے گی.میں کمرے میں بھاگتا پھرتا تھا جس سے اُن کے مکان کا فرش خون سے بھر گیا تھا.اسی دوران گلی میں کئی ایک رحم دل آدمی اور دوست جمع ہو گئے جنہوں نے مجھے اندر سے نکالا.جب میں باہر آگیا تب بھی غنڈے حملہ کرنے سے باز نہ آئے اور انہوں نے مجھے پر وار کئے.اس کے بعد مجھے کلمہ پڑھوایا...پھر وہ غنڈے چلے گئے اور شیخ مہر دین احمدی کے گھر جا کر انہیں بھی زخمی کیا " ۳- جناب ناصر احمد صاحب پال تحریر فرماتے ہیں : شهر مارچ سے قبل کئی دنوں سے یہ شور بپا تھا کہ ہمارا مکان سب احمدیوں سے بڑا ہے اور یہ بہت کٹر قسم کے احمدی ہیں.انہیں اس دفعہ بالکل ہی صاف کر دیا جائے گا.بہر کیف ہم نے بھی اپنے بچاؤ کی خاطر مناسب تیاری کرلی تھی.اور راشن وغیرہ بھی ایک ہفتہ کے

Page 79

لیسے اندر ڈال لیا تھا.چنانچہ ۳ مارچ سے محلہ کے باہر گولی وغیرہ چلی اور ایک دو نعشیں اٹھائی گئیں تو لوگوں میں انتقام کی آگ اور بھڑکنے لگی اور ہمارے مکان کے گر د غنڈے قسم کے لوگ اکٹھے ہونے شروع ہو گئے.بالآخر تقریباً ایک بجے کے قریب ایک بہت بڑا ہجوم آیا.جس نے ہمارے دروازوں سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی.مگر وہ ناکام رہا.لیکن جب وہ ہمارے تیسرے دروازے کے راستہ داخل ہونے میں کامیاب ہونے ہی والے تھے اور انہوں نے اُسے توڑ ہی ڈالا تھا کہ ہم تینوں بھائیوں نے چھت پر چڑھ کر ان سے کہا کہ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ ہم اپنی حفاظت اور تمہارے حملہ کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں ہم رائفل اور بندوق بھی چھت پر لے آئے ہیں.اس پر ہجوم نے ہما را رخ چھوڑ دیا.یہ تو عوام کا حال تھا.اب اُن کے خواص یا سرغنوں کی شجاعت و مردانگی کا حال بھی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں پڑھ لیجئے.ایک جگہ سیالکوٹ کے بلوائیوں کی ہلر بازی اور مہنگامہ آرائی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : - ایک آدمی چھرا گھمانا اور ناچتا ہوا باہر نکلا اور گولی کھانے کے لیے سینہ تان کے کھڑا ہو گیا لیکن میں نے اس کو بتایا کہ جب تک وہ فیتے کے دوسری طرف رہے گا اس کو گولی نہیں ماری جائے گی.لیکن جونہی اُس نے نیتہ عبور کیا اُسے گولی مار دی جائے گی.جب گولی چلنی شروع ہوئی تو مجھے وہ کہیں نظر نہ آیا.وہ کہیں ہجوم میں غائب ہو گیا تھا.سہیل فارنگ کے بعد ایک مولوی نے سامنے اگر فوج اور پولیس کو گالیاں دیں اور ان کو کافر کہا.میں نے بگڑ سے کہا کہ لیگل سجائے.چنانچہ جو نبی اس مولوی نے بیگل کی آواز سنی وہ مہجوم پر سے پھلانگتا ہوا پیچھے کی طرف بھاگ گیا یا سلے - - کرم صفدر خان صاحب محلہ بھا بھڑیاں میں مقیم تھے ، مظاہرین نے ان کو انہی کے مکان پر جا پکڑا.وہ بیچارے اپنی جان بچانے کے لیے ادھر اُدھر دوڑے بھاگے مفسدین شه بیان لیفٹینٹ کرنل خوشی محمد صاحب (رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردوص ۱۷۸ )

Page 80

کی گرفت سے نہ نکل سکے.یہ ایک شخص کے چبوترے پر پناہ لینے کے لیے جا پڑھے لیکن اس نے بھی دھکا دے کر انہیں مظاہرین ہی کے حوالہ کر دیا.جنہوں نے اُن پر پے در پے تیز دھار والے آلے سے حملہ کر کے ان کو سخت مجروح کیا اور انہیں مردہ سمجھ کر چلے گئے.بعد میں انہیں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں خدا تعالیٰ نے انہیں شفا عطا فرمائی.انہی کے متعلق ایک اور دوست کا بیان ہے کہ یہ مضرین کے حملہ سے بیچنے کے لیے اپنے ایک معتمد علیہ سید ہمسایہ کے ہاں گئے.اور اس سے پختن پاک کا واسطہ دے کر پناہ مانگی مگر اس نے بجائے پناہ دینے کے ان کی کلائی کو دانتوں سے کاٹ کھایا اور زخمی کر کے مفردین کے حوالہ کر دیا.خود صفدر خان صاحب نے لکھا ہے.میں جب ہسپتال گیا سوائے چند چیزوں کے باقی تمام سامان میرے مکان پہ تین دن تک موجود تھا.اس کے بعد لوگ میرا سامان لوٹ کر لے گئے کا ه - جناب شیر محمد صاحب شمالی صدر بازار سیالکوٹ نے انہی دنوں اپنی ایک چھٹی میں لکھا جیسا کہ حضور کی پہلی چھٹی میں ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے احمدیوں کی مدد کے لیے بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں (یہ نظارہ) یہاں دوستوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کر بار بود د صحیح تنظیم نہ ہونے کے اللہ تعالیٰ کی نصرت کس طرح شامل حال رہی.جن دوستوں نے (دباؤ میں آکر) امتداد اختیار کیا وہ بھی اس تنظیم کے نہ ہونے کی وجہ سے متھا ورنہ عقائد ان کے اب بھی وہی ہیں الخ ".محمد حسین صاحب کا تھا مرچنٹ نے لکھا کہ : مد مورخه هم رمان پچ کو قریبا اربجے دن تھانہ صدرسیالکوٹ کے سامنے جب ہجوم بے قابو ہو گیا تو فوج نے گولی چلائی اور لوگ بھاگے.قریباً تین چار آدمیوں کا ایک ریلا جب ہماری گلی سے بھاگتا ہوا گزرا تو کسی شرارتی نے اُن کو کہا کہ وہ سامنے مرزائی کا گھر ہے راس محلہ ت وفات ۱۸؍ دسمبر ۶۱۹۶۳

Page 81

میں صرف میں ہی احمدی رہتا ہوں) بس پھر کیا تھا سارا ہجوم میر سے گھر پر پل پڑا.اور انیٹوں کی بوچھاڑ شروع کر دی اور میرے مکان کی ڈیوڑھی کا دروازہ توڑنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی مکان کو آگ لگانے کی تیاری بھی شروع کر دی.اس وقت میں اپنے بال بچوں سمیت دعامیں مشغول تھا.وہ چونکہ بڑا نازک وقت تھا اور میں یہ سمجھ چکا تھا کہ اب یہ لوگ ڈیوڑھی توڑ کر مکان کے اندر گھس آئیں گے اور مار دیں گے.اس وقت میں نے اپنے بیوی بچوں کو صرف اور صرف یہ وصیت کی احمدیت یعنی حقیقی اسلام ایک نور ہے جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دنیا میں غالب آکر رہے گا.اور یہ کہ احمدیت مجھے ورثہ میں نہیں ملی بلکہ محض اللہ تعالے نے اپنے فضل سے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.یہ لوگ مجھے اب مار دیں گے اور اگر آپ پر یہ ظلم کریں جو یقینا کریں گے تو کمزوری دکھانا اگر تمہاری بوٹیاں بھی اُڑا دیں تب بھی حضرت مسیح موعود.......کی شان کے خلاف کوئی لفظ زبان پر نہ آنے پائے.اس پر سب نے لبیک کہا.ادھر میں گھبرایا ہوا یہ وصیت کر رہا تھا.ادھر اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرشتے میری مدد کو پہنچ چکے تھے.اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے اس مشتعل ہجوم کو بغیر کوئی نقصان پہنچانے کے واپس بھگا دیا تھا.میں حوصلہ کر کے ڈیوڑھی کی طرف گیا اور اندر سے کان لگا کر آواز سُننے لگا.لیکن وہاں کوئی ہوتا تو آواز آتی.وہ لوگ تو بھاگ چکے تھے.دروازہ کھولا تو باہر اینٹوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور اینٹیں مار مار کر ڈیوڑھی توڑنے کی کوشش کی.اندر کا ایک کنڈا کھل بھی گیا تھا لیکن تالہ جو کہ بہت مضبوط انتخا نہ کھل سکا.باہر نکل کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا.دروازہ بند کر کے اوپر آیا اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا.پھر وہ رات بڑی بے چینی سے گزری.ہمارے ہمائے جو کہ سب کے سب غیر احمدی تھے ہماری زندگی سے مایوس ہو چکے تھے اور سمجھتے تھے کہ رات کو لوگ آکر ہمیں مار ڈالیں گے.لیکن اللہ تعالٰی نے ہر طرح سے ہماری حفاظت فرمائی.اور ہم کو با عزت و سلامت رکھا.الحمد للہ یکا مکرم شیخ عبدالرحیم صاحب پراچہ سیالکوٹ نے اپنی سرگزشت بایں الفاظ لکھ کر دی.له وفات ۱۸ جنوری ۶۱۹۸۹

Page 82

مارپیچ ۱۹۵۳ء میں جبکہ احرار ایجی ٹیشن زوروں پر بھی خاکسار نے مع اہل وعیال ( دو لڑکیاں ایک اہلیہ اور ایک میں ) سیالکوٹ چوک پوربیاں گلی پنڈتاں کا مکان نمبر ۱۷۵ جو کہ میرے نام آلات ، میں رہائش اختیار کی ہوئی تھی یکم مارچ سے ہی ہم پر اپنے پڑوس میں رہنے والے احراریوں کی طرف سے اینٹیں پڑنی شروع ہوگئی تھیں مگریم اردگر درستی باندھ کہ اوپر رضائیاں ڈالتے تھے تاکہ جو بھی پتھر آئے اُن سے ٹکرا کر گر جائے اور اس کا زور ٹوٹ جائے.غالبا سور ما ریخ کو جبکہ گولی چل رہی تھی اور جلوس نکلا ہو ا تھا ہمارے پڑوس میں ایک احمراری مولوی رہتا تھا.اس کے ساتھ کئی اور آدمیوں نے اپنے مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر مجھے بلایا اور کہا کہ ایک جلوس نکلا ہوا ہے جو پٹھان صفدر کو قتل کر آیا ہے اور وہ اب تمہاری طرف آرہا ہے.اس لیے ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ اسی وقت بال بچوں کو نے کر یہاں سے نکل جائیں.بعد میں ہمیں نہ کہنا کہ خبر نہیں ہوئی.میں نے جواب دیا کہ ادھر جلوس نکلا ہوا ہے اور دوسری طرف گولی چل رہی ہے.ایسے حالات میں کسی طرف بھی جانے کے لیے تیار نہیں اور ہم گھر میں ہی مریں گے یا زندہ رہیں گے.بعد میں وہ کہنے لگے تم چلے جاؤ.عورتوں کو کچھ نہیں کیا جائے گا.میں نے جواب دیا کہ میں عورتوں کو چھوڑ کر کسی طرف بھی نہیں جاسکتا.پہلے یں مروں گا.بعد میں میرے بال بچوں کی طرف کوئی دیکھے گا.اس پر وہ چلے گئے ہتھوڑی دیر بعد ان کی عور تمیں آئیں اور انہوں نے کہا کہ اپنی جان بچانی فرض ہے.ہمارا مشورہ یہی ہے کہ آپ "مسلمان" ہو جائیں.میں نے جواب دیا کہ مسلمان تو ہم پہلے سے ہی ہیں.آپ کے کلمہ میں اور ہمارے کلمہ میں ، آپ کے قرآن میں اور ہمارہ سے قرآن میں ، آپ کی نمانہ میں اور بیماری نماز میں کیا فرق ہے ؟ آپ ہر روز ہمیں دیکھتے ہیں پھر انہوں نے نیچے جا کہ دوسرے پڑوسیوں کو بتایا کہ وہ تو کوئی بات بھی نہیں مانتا.نیچے سے سب پڑوسیوں نے مل کر ہمیں بلانا شروع کیا اور کہا کہ تم نیچے اُتر و به ور نہ نیچے سے آگ لگا دیں گے.میں نے اوپر سے جواب دیا میری تو تمہارے ساتھ کوئی دشمنی نہیں اگر آپ لوگوں نے نہیں قتل کرنا ہے تو او پہ آجائیں.اگر آگ لگانی ہے تو لگا دیں.ہمارا مکان جلے گا تو ساتھ ہی آپ کا بھی جلے گا......جو سقہ ہم کو پانی دیتا تھا اس کو بھی محلہ والوں نے

Page 83

پانی دینے سے روک دیا اور جو خاکہ دب ہمارے ہاں صفائی کر تی تھی اس کو بھی انہوں نے روکا مگر وہ چونکہ عیسائی تھی اس نے اُن کی پرواہ نہ کی اور برابر کام کر تی رہی.نیز فساد کے دنوں میں میری بڑی لڑکی میٹرک کا امتحان دے رہی تھی.امتحان کا سنٹر گورنمنٹ لیڈی اینڈرسن ہائی سکول میں متھا جو ہمارے گھر سے کافی فاصلہ پر تھا.ہر روز صبح کو میں اپنی لڑکی کو لے جا کر سنٹر میں چھوڑ آتا اور بعد میں پھر واپس لایا کرتا تھا.ایک دن جبکہ میں جا رہا تھا ایک جلوس میرے پیچھے بڑی تیزی سے آیا.اور کسی نے کہا کہ یہ مرزائی جا رہا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بہت دی.میں وہیں کھڑا ہو گیا اور انہیں للکارا کہ آؤ جس نے آتا ہے.مگر اس کے بعد پھر کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ میری طرف بڑھے.اس طرح خدا تعالیٰ نے نصرت بالرعب سے میری جان بچالی.الحمد لله چوہدری عبدالرشید صاحب حلقہ واٹر ورکس کا بیان ہے کہ : ایک دن شام کے وقت میرے مکان کو جبکہ میں گھر پر ہی تھا غنڈوں نے گھیر لیا.اور آگ لگانے کی کوشش کی.اس وقت میں اور میرے تایا چوہدری محمد علی صاحب موجود تھے.ہمیں بے حد فکر ہوئی.اس وقت سوائے خدا تعالیٰ کے ہمارا اور کوئی مدد گانہ تھا مریم نے اپنے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے مکان پر رہتے ہوئے ہی اپنی جان دینے کی ٹھان لی.مگر قربان جاؤں اس عالم الغیب پر کہ اچانک ایک جیپ کار اور ٹینک میں چند فوجی افسر اور مسلح گارد نے آکر ان تمام اشخاص کو گھیرے میں لے لیا.اس طرح ہماری جانیں اور مکان بخیر د بخوبی بچ گئے.ہمارے محلہ کی ایک قصائی عورت نے (جو ان دنوں نوجوانوں اور لڑکوں کو اکٹھا کر کے سہارے مکان پر پتھراؤ کرداتی رہتی تھی ) ایک دن شام کے وقت باہر کے دروانہ وں کو بہت زور سے کھٹکھٹایا.چنانچہ میں نے دروازہ کھولنے کے لیے دروازہ کے کنڈے کو ہا تھ لگایا ہی تھا کہ اچانک میرے دل کو کسی غیبی طاقت نے روک دیا.چنانچہ میں نے دروازہ کھولنے کی سجائے دروازہ کے اوپر جو گیلری ہے اس میں جا کر کھڑ کی کھول کر جب دیکھا تو دولڑ کے نوجوان چا تو کھوئے اس انتظار میں کھڑے ہیں کہ میں جو نہی دروازہ کھولوں وہ مجھ پر بے دریغ

Page 84

دار کردیں.مگر الحمدللہ کہاللہ تعالیٰ نے عض اپنے فضل سے اس موقع پر بھی بچا لیا." ایک روز عشاء کے وقت مجھے تایا صاحب نے کہا کہ آؤ نما نہ با جماعت گھر میں ہی ادا کر لیں.ہم پہلے ہی دو تین روز ( خطروں کی وجہ سے بیت الذکر نہ جا سکے تھے.پہلے تو میں تیار ہوگیا مگر اس کے معا بعد میرے منہ سے نکلا کہ آپ اکیلے نماز پڑھ لیں مگر اس سے قبل گھر کے برتن بالٹی وغیرہ پانی سے بھر دیں.چنانچہ انہوں نے پانی بھر کر نماز پڑھنی شروع کر دی اور میں نے مکان کی ایک کھڑکی کے ذریعہ مکان کی حفاظت کی خاطر با ہر دیکھنا شروع کیا ہی منتھا کہ اسے میں لوگوں نے آکر مکان کی ایک بیٹھک کو پٹرول وغیرہ سے آگ لگا دی.چنانچہ اسی وقت میں نے اور تایا صاحب نے بھرے ہوئے پانی سے آگ پر فوری طور پر قابو پالیا.ضلع سیالکوٹ کے دوسرے کو کچھ سیالکوٹ شہر میں ہوا وہی کچھ ضلع سیالکوٹ میں بھی ہوا کیونکہ شہر سیالکوٹ کی طرح ضلع سیالکوٹ کیلئے مقامات کے واقعات بھی الگ مجلس عمل بنائی گئی تھی اور احمدیوں کے خلاف پرا سگنڈہ کرنے کا باقاعدہ انتظر کیا گیا تھا جیسا کہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے.رد مجلس عمل پنجاب کی ہدایت کے مطابق اس ضلع میں ایک مجلس عمل مرتب کی گئی.اس مجلس عمل نے رضا کاروں کی بھرتی اور سرمائے کی فراہمی کا کام شروع کر دیا.صاحبزادہ فیض الحسن ضلع میں " جلسوں کا ایک سلسلہ جاری کر کے شدید پراپیگنڈا کرنے میں مصروف رہے یا سا اسی شدید پراپیگنڈے کا یہ فوری اثر ہوا کہ ضلع سیالکوٹ کے وہ دیہات اور قصبات جہاں احمدی مسلمان اور غیر احمدی مسلمان باہمی شیر و شکر ہو کر کہیں رہے تھے ان میں کسی قسم کا عناد اور عداوت نہ ملتی مگر جب احرار کا پراپیگنڈا شدت اختیار کر گیا تو ضلع بھر میں جابجا فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اُٹھی مگر صرف ان قصبات میں جہاں احمدی تھوڑے تھے.جن دیتا ہے اور قصبات میں کوئی احمدی نہ تھا یا جن میں ان کی اچھی خاصی آیا دی تھی ان تمام مقامات ہیں ہر طرح امن و امان رہا اور کسی قسم کا بھی کوئی فتنہ کھڑا نہ ہوا.ے رپورٹ ص ۱۷۵

Page 85

سب سے پہلے ہم ضلع سیالکوٹ کے مشہور قصبہ سرور کا ذکر کرتے ہیں.یہ وہ مقام پسرور ہے جہاں پنجاب کے وزیر اعلی میاں ممتاز محمد دولتانہ خود گئے اور مجمع عام میں تحریک کی بر ملا حمایت کی جس سے اس تحریک کے داعیوں اور حامیوں کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی.عدالتی رپورٹ میں بھی لکھا ہے کہ : ۲۰ جولائی ۱۵۲ء کو سرور کے مقام پر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کنونش میں چیف منسٹر صاحب نے ایک تقریر کی.جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ تحریک ختم نبوت کی پوری حمایت کرتے میں بشرطیکہ قانون و انتظام کو کوئی خطرہ در پیش نہ ہو الحفيظ لے اس تقریر کے بعد پسر ویر میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ الامان اس قصبہ میں گنتی کے چند احمدی رہتے تھے ان غریبوں کی نہ ندگی اجیرن بنا دی گئی ان کی مخالفت اس نور اور شدت سے ہوئی اور ایسا منظم بائیکاٹ کیا گیا کہ ان کی نہ زندگیاں خطرے میں جا پڑیں اور یہ سب کچھ محض اس لیے ہو رہا تھا کہ احمدی کسی طرح تنگ آکر اپنے عقائد کو خیر باد کہہ کر اُن کی ہاں میں ہاں ملا دیں.اور ان کے ہم خیال و ہم عقیدہ بن جائیں.بعض شورش پسند لیڈر ضلع سیالکوٹ میں جابجا اس قسم کی تقریریں کرتے ہوئے بر ملا یہ کہہ چکے تھے کہ : - - اگر مرزائی اسلام قبول نہیں کریں گے تو ہم اس مقصد کے حصول کے لیے انتہائی کوشش کریں گے اور ایسی صورت میں یہ لوگ زمینوں ، کارخانوں اور بنگلوں کی الاٹمنٹیں کھو بیٹھیں گے بلکہ ربوہ بھی ان کے قبضہ سے نکل جائے گا یہ ہے پسرور کے احمدیوں کے ماحول کا اندازہ لگانے کے لیے ہائی سکول پسرور کے ایک احمدی ٹیچر کی ایک چھٹی کا مختصر سا اقتباس کافی ہے.یہ چھٹی انہوں نے اپنے ایک عزیز کے ہا محقد ربوہ بھجوائی سختی کیونکہ اس وقت جس قسم کی مخالفت احمدیوں کی ہو رہی تھی انہیں اندیشہ تھا کہ مبادا ان کے ے یہ پورٹ اسے رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص ۳۶۲ صح

Page 86

خطوط ڈاکخانہ کے متعصب عملہ کے ہاتھوں تلف ہو جائیں.آپ نے لکھا : - ر خلاصہ سابقہ خطوط کا یہ ہے کہ میں آج اپنے 9 چھوٹے بڑے بچوں سمیت تیرہ روزہ سے گھر میں بند ہوں......بروز جمعہ ۳ بجے سے لے کمرے بجے شام تک سینکڑوں آدمیوں عورتوں اور بچوں کے جلوس نے میرے گھر کے سامنے ماتم کیا اور وہ خش بکا کہ چوڑھے چہار بھی شرمائیں.اس کا بھی اثر نہ دیکھ کر اب میرا مکمل بائیکاٹ ہے.کھانا پینا ، دوا.خاکروب تک کی بندش ہے.اب دو دفعہ کوشش کی گئی ہے کہ ناگہانی حملہ کر کے قتل کر دیں مگر شام سے صبح تک کی چو کسی کو مولیٰ نے حفاظت کا ذریعہ بنا دیا.شہر میں مجسٹریٹ اور ایس پی موجود ہیں چوبیس گھنٹوں میں ایک آدھ بار اُن کا آدمی آتا ہے.اور پوچھ جاتا ہے کوئی تکلیف تو نہیں ؟ کل بعض اشیاء بھی خرید کر دے گئے.ان کی ہمدردی صرف اس حد تک ہے.مگر عملاً شہر پر غنڈوں کی حکومت ہے.جلوس آنرا دانہ پھرتا ہے.پولیس یا ملڑی چو کی میں بیٹھ کر اپنی حفاظت کرتی ہے.بڑی کوشش کی ہے کہ رات کو پرہ کے لیے مد رمل جائے خواہ قیمتا ہی.مگر خروم ہوں کے محترم محمد ابراہیم صاحب عابکہ نائب امیر حلقہ امارت ڈسکہ نے انہی دنوں بذریعہ چھٹی ڈسکہ " ڈسکہ کے کوائف مرکز میں بھجوائے تھے جن میں لکھا:.ور ہمارے ضلع میں شورش انتہائی زوروں پر ہے.گاؤں سے بھی لوگ جنھوں کی صورت میں آتے نہیں بلکہ لائے جاتے ہیں.گاؤں والے مایوس ہو کہ واپس جاتے ہیں کیونکہ آڑ میگت اور خاطر توا منع نہیں کی جاتی.ڈسکہ میں ہڑتالیں بھی ہوتی ہیں اور جلوس بھی نکالے جاتے ہیں.....رات گئے تک نعرے لگائے جاتے ہیں.عورتیں جلوس کے ساتھ میٹی جاتی ہیں اور مخش گالیاں نکالتی ہیں.لڑکوں کے غول کے غول گلی کوچوں میں پھرتے ہیں اور بچہ گندے نعرے لگاتے پھرتے ہیں.احمدیوں کے گھروں کے سامنے سیا پا کیا جاتا ہے.عور نہیں احمد می مردوں پر آوازے کستی ہیں اور مردوں کو چھیڑتی ہیں تاکہ کوئی فساد کی صورت پیدا ہو سکے....ناچتے کور د تھے اور شور مچاتے ہیں.احمدی حضرات پر عورتیں بچے اور مرد اینٹی اور پتھر پھینکتے ہیں.معلوم ہوا ہے کہ چوہدری نذیر احمد کی کو بھی پر بھی پتھر پھینکے گئے ہیں.ہماری جماعت سے چند دوستوں نے کمزور ہی دیکھا کہ ان میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے.باقی دوست ڈٹے ہوئے وفات ۲۰ جنوری ۶۱۹۸۱ -

Page 87

ہیں اور کامل صبر کا نمونہ دکھارہے ہیں.احمد می دوستوں کے پاس ان کے غیر احمد می رشتہ داروں کے وفود بار بار جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدی اب زندہ نہیں رہ سکتے.اس لیے ہمارے ساتھ مل بجاؤ.اس کے علاوہ طرح طرح کے دنیا وی لا لچھے بھی دیتے ہیں.لڑکیوں کا لالچ، سوریہ کا لالچ نمبر یوں کا لالچے.میرے پاس بھور خود آئے انہوں نے مجھے کمیٹی کی ممبری کی آفر بھی کی اور خرچ کرنے کا وعدہ بھی کرتے تھے.الغرض بار بار اس طرح تنگ کیا جارہا ہے.بعض اوقات ایک احمدی کو پندرہ سولہ آدمی اٹھا کر لے جاتے ہیں اور مسجد میں جا کہ کہتے ہیں کہ مسلمان ہو جاؤ" احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا ہے.حتی کہ بھنگیوں کو بھی غلاظت اٹھا نے سے منع کیا گیا ہے.ہماری بیت احمد یہ یہ بھی قبضہ کیے بیٹھے ہیں.مقامی حکام نے کسی قدر ضرور تعاون سے کام لیا ہے.جو بڑا شخص جلوس میں شامل نہیں ہوتا اس کو نہ یہ دستی اٹھاکر لایا جاتا ہے.اور شامل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے.خون اور سہراس بہت پھیلایا جاتا ہے.کبھی کہا جاتا ہے کہ احمد می کیمپوں میں جمع کیے جار ہے ہیں.کبھی کہتے ہیں کہ نہ بوہ جل رہا ہے اور لاکھوں پٹھان ربوہ پر حملہ کرنے آر ہے ہیں.کبھی کہتے ہیں حکومت ابھی اعلان کرنے والی ہے وغیرہ وغیرہ جھوٹ سے از جدہ کام لیا جا رہا ہے.ایک احمدی کو ملتے ہیں اور اسے کہتے ہیں فلاں احمدی مسلمان ہو گیا ہے تم بھی ہو جاؤ.الخ جناب عزیز اللہ صاحب گردد اور قانونگو نے بیان دیا.مد شورش (اختیار) کا دور نہایت ہی تکلیف دہ تھا.میرا ، ڈیوٹی پر ڈسکہ سے گوجرانوالہ جاتے ہی لبوں کے اڈوں پر بائیکاٹ کیا جاتا.مجبورا سائیکل پر سفر آمد و رفت کرنا پڑتا.راستہ میں جلوس نعرے لگاتے ہوئے ملتے سخت نفرت کی نگاہ سے ہم لوگ دیکھے جاتے تھے.بلکہ نقصان جان پہنچانے کے درپہلے بھی ہوتے........گوجرانوالہ میں ہمارے لیے اچھوتوں کی طرح علیحدہ برتن ہوٹلوں میں رکھے گئے......ڈسکہ میں ہمارا کئی ہفتہ تک مکمل بائیکاٹ کیا گیا سبزی ترکاری اور دیگر اشیائے خوردنی ہمیں قطعاً خریدنے کی بندش تھی.عورتیں سیاپے کرتیں.پتھر گھروں میں مارے جاتے.احمدیت کے خلاف گندی سے گندی گالیاں دی جاتیں.ہمارے گھروں میں کوئی عورت یا بچہ داخل نہیں ہو سکتا تھا.سخت نگرانی رکھی جاتی نفتی.قسمت کی ماری ایک مہاجر لڑکی

Page 88

جو کہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی اور اکثر ساگ وغیرہ قیمتاً د سے جایا کرتی تھی.بوجہ غربت اپنا اور اپنے والدین کا پیٹ پالا کرتی تھی.اتفاق سے شورش کے دوران میں ہمارے گھر میں ساگ لے آئی.جب سنگ دے کر گلی میں واپس گئی تو محلہ والوں میں وہ جو تحریک کے علمبردار تھے انہوں نے اس غریب کا منہ کالا کیا اور گھر گھر یہ کہتے ہوئے پھرایا کہ دوبارہ تو ان کا فر مرزائیوں کے ہاں نہیں جاؤ گی ؟ الخے | میاں عبد الرحمان صاحب ولد امام دین صاحب قادیانی نے موضع دھید و والی ڈسکہ سے لکھا کہ : - موضع دهید و والی میں یہاں شیر محمد صاحب موچی جو احمدی نہیں اُن کو دس دن سے اندر بند رکھا ہوا ہے اُن کے پاس نہ آتا ہے نہ دانہ.وہ چپ اندر بیٹھے ہوئے ہیں.ڈسکہ میں میں بھی اور میرے بال بچے بھی پانچ دن مجھو کے رہے.اس کے بعد دوسیر آٹا ملا ہے جسے ہم نے کھایا اور خدا کا شکر ادا کیا.جناب حمید احمد صاحب دیہاتی مبلغ نے مرکز کیہ اطلاع دی کہ : - یمیا نوالہ رو ڈسکہ کے قریب موضع بمبانوالہ کی رپورٹ آئی ہے کہ وہاں آج عورتوں نے جلوس نکالا اور احمدی عورتوں کو مارا لیکن احمد می عورتوں نے کمال بہادری سے کہا کہ خواہ جان سے مار دو مگر احمدیت سے نہیں ہٹیں گی.احمد مسعود نصر اللہ خاں صاحب نے ڈسکہ سے لکھا کہ : - مدرات ہچو ہدری محمد عبد اللہ صاحب بمبانوالہ سے آئے ہیں انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے اور ان کے گھر کے سامنے دس بارہ آدمی لاٹھیوں اور کلہاڑیوں وغیرہ سے مسلم بیٹھے رہے.عبداللہ خان صاحب اور ان کا لیڈ کا موقع پا کہ ڈسکہ آگئے ، الخ میا نوالہ جناب فضل الہی صاحب ریٹائر ڈ پوسٹماسٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں :- دو میں ضلع گورداسپور میں موضع بنی پور کا مہاجر ہوں اور آجکل موضع ملیا نوالہ لا برادر اکبر چو ہدری عبد الواحد صاحب نائب نا ظر اصلاح وارشاد ربوه

Page 89

و.متصل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ رہائش رکھتا ہوں گزشتہ بدامنی کے ایام میں ہمارے ارد گرد تو بہت کچھ گریڈ پر تھی مگر ہمارے گاؤں ملیا نوالا میں مورخہ ۸/۳/۵۳ تک با لکل امن متھا مورخه ۹/۳/۵۳ کو اچانک معلوم ہوا کہ باہر کا ایک متفقہ احمدیوں کے گھروں پر تمہارے گاؤں پر حملہ آور ہو رہا ہے چونکہ ہمیں حضرت خلیفہ ثانی کی ہدایات مل چکی تھیں کہ گھر نہ چھوڑے جائیں ہم دروازے بند کر کے بیٹھ گئے جتھہ آیا جو عموما موضع بمبانوالہ کے گاؤں کے اوباش لوگوں پر مشتمل تھا.اس حقہ کی را اہتمائی دیاں کا مولومی........کر رہا تھا اور دیگر مولوی اس کی اقتدا میں تھے ہمارے گاؤں کے اشرارہ بھی ساتھ شامل ہو گئے اور خاص کہ میرے گھر کے سامنے انہوں خوب سیاپا گیا.مغلظ اور گند سے بھری ہوئی گالیاں ہمارے امام کو دی گئیں اور ہماری بہو بیٹیوں کے نام سے ہے کہ گند اچھالا گیا ۱۰/۳/۵۳ کو نہیں معلوم ہو اکہ گاؤں کا نمبر دار......جو سابقہ گاؤں گہور کلا تھانہ کا مہنوں واں ضلع گورداسپور کا رہنے والا ہے.اور اس طرف ایک کافی عرصہ نمبر 1 میں رھا اور اس کا عموما کام عورتیں اغوا کرنا تھا اور یہاں احمدیوں کا جانی دشمن تھا.اردگرد بدمعاشوں کو سما ہے گھروں پر حملہ آور ہونے کی دعوت دے رہا تھا.گاؤں میں بھی اس نے خوب طور پر خفیہ ہدایات جاری کیں کہ جیب باہر کا جمعہ احمدیوں پر حملہ آور ہو تو سارا گاؤں ان کا ساتھ دے اور وہ یہ کام ڈسکہ کے تحصیلیدار......اور تھانہ دار......کی ہدایات کے حوالہ سے ترتیب دے رہا تھا.مقامی تحصیل دار اور تھانہ دار کی امداد ان لوگوں کو ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی مگر اس کا ثبوت کچھ تو اس دن پولیس کی آمد کے بعد کچھ میری گرفتاری کے بعد جیل میں ملا.۱۰/۱۳ کو ارد گرد کے دیہات بمبانوالہ - جند و ساہی.کوٹ جنڈو گوجرہ کے جتھے ہم پر حملہ آور ہوئے اور ہمارے گاؤں نے ان کی پوری امداد کی مین اسی وقت ڈسکہ سے ۶ سپا ہی خاں عبد العزیز خان ASI کی قیادت میں آگئے اور مجھے تسلی دی کہ آپ فکر نہ کریں ہم سب کچھ ٹھیک کر لیں گے مگر میری موجودگی میں ہی اس جتھہ کے چند سپاہیوں نے گاؤں کے لوگوں کو بھڑ کایا اور احمدیوں کے خلاف ہر ممکن اقدام کے لیے کہا دوسری طرف مجھے کہا گیا کہ ہمارے کے بعد میں ریو مقیم ہو گئے تھے.(وفات) ۳۱ دسمبر ۶۱۹۷۶

Page 90

...لیے فوراً کھانا تیار کراؤ نگر کھانا ہمارا اپنا سپاہی تیار کرے گا.چنانچہ مجھ سے دو مرغ آدھ سیر گھی روپیہ کہا یہ ٹانگا طلب کیا جو میں نے اسی وقت بہتا کر دیا تا.....خبردار نے اپنے گھر سے دیا.یہ کھانا غلام علی لوہار کی دکان میں تیار ہوا.دوسری طرف اے ایس آئی صاحب نے گاؤں کے باہر جا کر اتنے بڑے ہجوم کو اکیلے ہی روکنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا اے ایس آئی سائیکل پر فوراً گاؤں کی طرف اپنی گارد کی طرف بھاگا اور سپاہیوں کو فوراً میرے گھر کے سامنے کھڑا کر دیا.اے ایس آئی صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ مجمع قریبا ۳۰۰۰ کا تھا جس میں ۵۰۰ آدمی مختلف اوزار سے مسلح تھے اور میرے گھر کو نیست دنا بود کرنے کو آئے تھے.سب احمدی میری بیٹک میں جمع تھے جن میں ۱۲ احمدی اپنی جانیں بچا کر جنڈ و ساہی سے آکر میرے پاس پناہ گزیں تھے.پولیس کی موجودگی میں ہجوم نے میرے گھر کے دروازے توڑنے کی کوشش کی مگر پولیس کی مداخلت سے وہ کامیاب نہ ہوئے یہ سب نجوم نہر کے کنارے چلا گیا مگر دوبارہ پلٹا کہ میرے گھر کو کم از کم آگ ہی لگا دی جاوے گھر سے ایس آئی صاحب نے پولیس کو رائفلیں سیدھی کرنے کا حکم دیا تو ہجوم خوفزدہ ہو کر منتشر ہو گیا.اے ایس آئی عبد العزیز کا رویہ بہت اچھا اور نیک نیتی پر تھا.اگر چہ اس کے بعض کا نیٹبل شرارتیوں کے ساتھ تھے.شام کے وقت پولیس ملی گئی سرا کو صبح ہی ایک سپا ہی آیا کہ راؤ صاحب آپ کو بلاتے ہیں مگر امیر جماعت ڈسکہ کو ساتھ لے کر آنا.اُسدن بھی ہمیں اطلاع آچکی تھی کہ آج ہم گاؤں کے منادی میرے گھر پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور یہ سب لوگ میرے گھر کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ ہا تھ اسی.....نمبر دار.....تحصیلدار اور....تھانیدار کا ہے میں گھر کو میں میں چھوٹے چھوٹے بیچے اور عور نہیں تھیں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا مگر اے ایس آئی صاحب کا حکم تھا.گھر کو اللہ کے سپرد کر کے میں امیر صاحب کو ساتھ لے کو راؤ صاحب کے پاس گیا.مگر مجھے دیکھتے ہی راڈ صاحب نے کہا کہ چوہدری نذیر احمد صاحب اس کو منع کر لو یہ علاقہ میں اشتعال پھیلا رہا ہے اور کل جب جتھصہ گزر گیا تو اس نے کہا کہ سنتے آئے تھے اور بھونک کر چلے گئے.میں نے کہا کہ راؤ صاحب ہیں تو گھر بار کی مصائب میں مبتلا تھا مجھے یہ الفاظ کہا سوچھتے ہیں.میں نے یہ الفاظ ہرگز نہیں کہے گر راؤ صاحب کا پارہ Fighest ڈگر ی پر تھا اے ایس آئی یہ صاحب نے مجھے بعض نا علائم الفاظ بھی کہے.جب ان کی طبیعت میں کچھ سکون ہو ا تو کہا کہ کل اگر مک

Page 91

پولیس نہ بھیجتا تو تم سب قتل ہو جاتے ہیں نے تم کو قتل سے بچا دیا ہے اور آج پھر بہت سے دیہات تم پر حملہ آور ہورہے ہیں.چنانچہ اسی وقت پھر انے ایس آئی عبد العزیز صاحب کو حکم دیا کہ کل 4 کانسٹیبل تھے آج ہ لے کہ جاؤ.4 رائفلوں والے اور ۲ ہتھکڑیاں والے اور مجھے کہا کہ تم شام سے پہلے گاؤں میں نہ جانا.چنانچہ ان کی ہدایت کے ماتحت ہیں ڈسکہ میں ہی ٹھہر گیا اور پولیس گاؤں میں چلی گئی.میری غیر حاضری میں پولیس نے پھر احمدیوں سے ۲ مرغ آدھ سیر گھی اور سہ روپیہ کا یہ طلب کیا...احمدیوں نے معذوری ظاہر کی سپاہیوں نے احمدیوں کو ڈانٹا کہ اب تم قتل بھی ہو جاؤ گے تو ہم تمہاری امداد نہیں کریں گے اور آئندہ بھی تمہاری امداد کو تمہارے گاؤں میں نہیں آئیں گے.گاؤں کے نمبردار نے باہر کے حملہ آوروں کو نو را اطلاع دی کہ پولیس آگئی ہے.چنانچہ وہ لوگ ہمارے گاؤں پر حملہ آور ہونے کی بجائے میتر انوالی کی طرف چلے گئے.اے ایس آئی عبد العزیز صاحب نے اس بون بھی بڑی شرافت کا مظاہرہ کیا.گاؤں کے لوگوں اور نمبردار کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کی کہ خبردار اگر تم نے احمدیوں کو کوئی گزند پہنچایا.میں جب ڈسکہ سے آیا تو پولیس جا چکی تھی اور نمبردار گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کر رہا تھا.چنانچہ عصر کے وقت سے لے کر عشاہ کے وقت تک میرے گھر کے سامنے سیاپا اور بد معاشی ہوتی نہ ہی اس ہجوم کا سرغنہ وہی نمبر دارد......اور اس کا لڑکا......تھے اس دن ہم اپنی نمازیں بھی ادا نہ کر سکے.رات مجھے اطلاع ملی کہ نمبر دار مذکور مجھے قتل کرانے کی سازش کر رہا ہے.حتی کہ قاتل بھی مقرر کر دیا گیا ہے.اور راستہ ہماری چھنتوں پر سے ہو کر ہمارے صحن میں کودنے کا بنا یا گیا ہے.....میں بندوق لے کر ساری رات دکان سے بند کر کے بیٹھا رہا ۱۲ مارچ کو پھر نمبر دار نے گاؤں کے لوگوں کو تحصیلدار اور تھانیدار کا حکم سنا سنا کہ گھروں سے نکالا.باہر کے دبیات کو بھی پیغام بھیجا مگر اس سے باہر والے تو نہ آئے مگر گاؤں کے اوباشوں نے نمبر دار کی قیادت میں میرے گھر یہ حملہ کر دیا.اور صبح سے سے شام تک سخنت گندے الفاظ استعمال کرتے اور بھنگڑا ڈالتے رہے.اس دن مجھے اطلاع ملی کہیں بار با خانہ کو بھی نہ سکوں ور نہ مجھے لوہاروں کی دکانوں کے سامنے قتل کر دیا جارے گا.چونکہ نمبر دار کی دشمنی میرے ساتھ حد سے زیادہ تھی کیونکہ پنچائت کے انتخاب میں وہ میرے مقابلہ میں ہار چکا تھا.اور با وجود کئی سفارشوں کے بھی کامیاب نہیں ہوا تھا اس لیے نمبردار کی دشمنی صرف میرے ہی گھر تک محدود تھی.میں 9 مارچ

Page 92

AV سے ۱۵ مارچ تک گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھا مصائب کو برداشت کرتا رہا ، ار مارچ کو صبح ہی پولیس کانسٹیبل آیا کہ...تھا بیدار تم کو بلاتے ہیں میں خوفزدہ تو تھا ہی ڈرتا ہوا گیا کہ رہے تھے لوگوں پر نکلے چلاتے ہو تھے.اب معلوم ہو جائے گا تجھے کس طرح چلائے جاتے ہیں تم بڑے آدمی ہو.بہت بڑے اب سب کچھ معلوم ہو جائے گا......مجھے ۲ بجے کے قریب تحصیل دار......کے پیش کیا گیا تحصیلدار صاحب نے کہا کہ ڈی سی صاحب نے تمہاری بندوق ضبط کر لی ہے.بندوق کہاں ہے میں نے جواب دیا کہ گھر پر ہے.کہا کہ فوراً ایک رقعہ اپنے - لڑکے کے نام تحریر کرو کہ وہ ہمارے کانسٹیبل کو بندوق معہ کارتوس دے دے.میرے رقعہ لکھ دینے پر کانسٹیبل بندوق معد کار توس لے آیا.عشاء کی نمازہ تک میں تھانے میں رہا.عشاء کی نماز کے بعد راؤ صاحب آئے اور کہا کہ اب کوئی کاری سیالکوٹ کو نہیں جاتی اس لیے تم جاؤ کل ۱۸ مارچ کو 9 بجے صبح تھانہ میں حاضر ہو جاؤ.۱۸ ر مارچ کو میں وقت مقررہ پر تھا نہ حاضر ہو گیا.قریبا پا ۲ بجے بعد دوپہر ایک کانسٹیل کے ہمراہ مجھے سیا سکوٹ بھیج دیا گیا کہ تم کو ایس پی کے پیش کرنا ہے قلعہ پر لے جاکہ ڈی سی کے حکم کے ماتحت مجھے گرفتار کر لیا گیا 19 مارچ کو میرا چالان پیرا کے ماتحت کر دیا گیا اور مجھے جیل میں بھیج دیا گیا.جیل میں ایک نئی دنیا دیکھی.گبھراہٹ بہت زیادہ تھی.مجھ پر غنودگی کا اثر زیادہ تھا اور ۳۶ گھنٹہ میں ۲ تولہ میشاپ آتا تھا.جیل میں ہی اسی تحریک کے گرفتار کئی قسم کے لوگ تھے.مولوی لوگ کہتے تھے کہ غنڈوں نے ہماری تحریک کو ناکام بنا دیا اور غنڈے کہتے تھے مولویوں نے ہمیں دھوکہ دے کر گر فتار بلا کہ دیا.دونوں فریقوں کی کشمکش بہت زیادہ بھی عام لوگ کہتے تھے کہ مولویوں نے حکومت سے بہت بڑی رقم کھائی ہے اور ہم کو بلا میں پھنسا دیا.چنانچہ معلوم ہوا کہ مولویوں نے چندہ اکٹھا کرنے کی جو رسید یکھیں چھپوائی منھیں وہ ۱- ۵ ۱۰-۵۰ کی تھیں اور جب کسی سے چندہ وصول کیا جاتا تو اس کی رسید دے کہ اپنے سامنے ہی چاک کر وادی جاتی تھی کہ پولیس کے قابو نہ آجادے.......اس طرح حاجی.....سیالکوٹ والا نے ۲۴ ہزار روپیہ ہضم کیا اور اس طرح جور تم جس نے حاصل کی وہی مہضم کر گیا.جیل میں مولوی عبدالحی اور مولوی عبد التواب ڈسکہ والے دو رات ایک ہی چکی کو ٹھڑی میں میرے ہمراہ رہے انہوں نے وہاں میرے ساتھ ذکر کیا کہ....تحصیلدار اور

Page 93

۸۳ خانہ دار روزانہ شام کو ہمیں بلاتے اور ٹی پیسٹری کھلاتے.دن بھر کی کارگزاری سُنتے اور اگلے دن کی ہدایات دیتے تھے اور یہ سب تحریک ڈسکہ میں ان ہی دو صاحبوں کی ہدایات کے ماتحت چلتی رہی مگر حیرانی ہے کہ ہماری گرفتاری کے وقت ہر دو افسروں نے ہمیں منہ بھی نہ دکھایا اور اندر سے ہی کہلا بھیجا کہ ان کو سیالکوٹ لے جائے.حالانکہ ساری پولیس اور ساری تحصیل ہمارے ساتھ تھی مگر اس وقت کسی نے امداد نہ کی وغیرہ وغیرہ.عام لوگ کہتے تھے کہ مولویوں نے زہر ہلاہلی شربت صندل بنا کر ہمیں پلا دیا اور حکومت کے خلاف ہمیں بھڑ کا یا.رقمیں خود کھا گئے اور اب یہی مولوی خود معافیاں مانگ کر باہر جارہے ہیں اور ہم بلا میں پھنسے ہوئے ہیں.چنانچہ ایک مولوی.....ڈسکہ والا مولوی......چه نمره والا عام نوجوانوں کو تلقین کرتے کہ خبر دار معافی ہرگز نہ مانگا ورنہ قومی غدار کہلاؤ گے اور جب یہ مولوی علیحدہ بیٹھتے تو میرے سامنے ہی کہتے کہ بھائی نور معافی مانگ کر باہر چلیں چنانچہ موقع آنے پر سب مولویوں نے معافی مانگ کر رہائی حاصل کر لی.جب میں جیل میں 9ار مارچ کو گیا تو وہاں معلوم ہوا کہ ۳ مارچ سے اور مارچ تک جتنے لوگ گرفتار ہوئے ان کو......سپرنٹنڈنٹ جیل نے غازی اور مجاہد قرار دے کر ہر قسم کی سہولت ہتا کہ ہر بوڑھے کو پا سیر دودھ اور ایک تکیہ مکھن روزانہ ہر نوجوان کو پا سیر دودھ اور سر کشتی لڑنے والے کو پا پیر ودھ اور ایک ٹکیہ مکھن اور تیل مالش کے لیے مہیا کیا.جاتے ہی پہلے دن نہ ردہ اور پلاؤ سے ان کی تواضع کی.اگلے دن حلوہ کھلایا اور ان کو کہا کہ پھانسی کی کوٹھڑیوں کی طرف اور اخلاقی قیدیوں کے ورکشاپ کی طرف نہ جانا باقی سب جیل تمہاری ہے.مزے سے رہو اور اگر کسی کو تکلیف ہو تو فوراً مجھے کہو.سالن کو تیل کے بگھار کی جگہ مکھن کا بگھار لگتا تھا.ان سہولتوں کے ہوتے ہوئے ان لوگوں نے سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا اس کو گندی گالیاں نکالتی مشروع کیں حتی کہ ۱۲ر مارچ سے ۱۴ر مارچ تک جیل میں خوب مہنگا مہ رہا.گرفتاران نے جیل کے کمبل جلا دیئے.برتن توڑ دیئے.پھولوں والے پودے برباد کر دیئے.جیل کے دروازے توڑ دیئے جس پر ایس پی اور ڈی سی معہ دستہ پولیس آئی اور ان لوگوں کو قابو کیا گیا.........اب میر محمد الدین صاحب لیفٹیننٹ کرنل آئے جن کے آنے پر جیل کا انتظام نہایت اعلیٰ ہو گیا.جیل میں ہم چار احمدی تھے.شیخ عبد الرحمن صاحب وکیل - محمد رفیق جراح - مستری ابراہیم اور خاکسار.جیل کے ملازم یعنی

Page 94

نمبر دار اور سپاہی دوسرے لوگوں کے بہکانے پر ہم پر سختی کا سلوک کرتے اور 10 دن تک ہم چاروں احمدیوں کو سنگین کو ٹھریوں میں اکیلے اکیلے بند رکھا گیا اور سخت واچ کی جاتی کہ ہم احمدی کسی دوسرے احمدی سے بات بھی نہیں کر سکتے تھے.میر صاحب کے آنے پر ہم احمدیوں کو اکٹھا ایک کو ٹھڑی میں کر دیا گیا.ہم لکی نمبرس میں کو ٹھڑی نمبر 10 میں بند تھے کہ انہی دنوں راولپنڈی سے قریباً ہم اسیاسی قیدی تبدیل ہو کر آئے.ان کا سر غنہ ایک مولوی.......غالبا راجہ بازار را ولپنڈی کا تھا یہ مولوی فاضل اور شاید منشی فاضل بھی تھا.ایک دن جبکہ یہ سب لوگ اکٹھے کھڑے باتیں کر رہے تھے اور ان کو معلوم نہیں تھا کہ کوئی احمدی بھی اس تحریک میں گرفتار ہو کہ جیل میں آسکتا ہے....کہہ رہا تھا کہ اب تو بڑی بھی ہمارے ساتھ تھی مگر ہم سے کچھ نہ ہو سکا.چنانچہ جب ہمارا جتھہ گر فتاری کے لیے نکلا تو فوجی سپاہیوں کی طرف سے ہمیں پیغام ملا کہ جب فوج کا دستہ تم کو روکنے کے لیے آگے بڑھے تو تم نے ہم پر حملہ کر دینا اور رائفلوں پر ہاتھ ڈال دینا.ہم رائفلیں چھوڑ کر بھاگ جاویں گے اور پھر تم نے رائفلوں کو جس طرح چاہو استعمال کر لینا.اس بات کی تصدیق راولپنڈی کے دوسرے لوگوں سے بھی ہوئی.مولوی صاحب نے کہا کہ افسوس ہمارے آدمیوں نے کچھ منہ کیا.ایک رات ایک ملنگ کو جو قاتل منخفا ہماری کو ٹھڑی میں بند کر دیا.وہ ۴٫۳ دن ہمارے ساتھ رہا.ایک دن ایک مولوی نے کہا کہ ملنگا تم نے آدمی قتل کرکے خدا کا گناہ کیا تو اس نے کہا کہ علی کا دشمن کا فر مقامیں نے مار دیا.اس مولوی نے کہا کہ اگر تم کو کوئی مرزائی مل جاوے تو پھر کہنے لگاکہ مرزائی.مرزائی کو تو چن چن کر مارنا چاہیے اسی مولوی نے کہا کہ تم تو ۴٫۳ دن سے مرزائیوں میں رہتے اور سوتے ہو.کہنے لگا کہ نہیں یہ تو مسلمین ہیں.نمازیں پڑھتے تہجد پڑھتے ہر وقت عبادت کرتے ہیں.یہ کس طرح مرزائی ہو سکتے ہیں یہ تو بڑے پیکے مسلمین ہیں.اب مجھے پورا مہینہ جیل میں ہو گیا کئی لوگ ضمانت پر جیل سے جاچکے تھے مگر مجھے معلوم ہوا کہ ڈسکہ کا تھا بیدار میرے ساتھ خاص دشمنی کی وجہ سے ریمانڈ پر ریمانڈ لیتا جارہا ہے اور چالان عدالت میں پیش نہیں کرتا یعنی اس کا مقصد یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ عرصہ جیل میں اسی طرح رہ جاؤں چنانچہ بعد مشکل ۲۰ مارچ کو میری ضمانت ہوئی اگر چہ اس وقت بھی ایس آئی میرا ریمانڈ لے چکا تھا باہر آ کہ مجھے معلوم ہوا کہ مجھ پر جو الزام لگائے گئے ہیں ان میں بڑا الزام یہ تھا

Page 95

کہ میں رسول پاک کو گالیاں نکالتا ہوں اور رسول پاک کی ہر وقت تو نہیں کرتا ہوں.لوگوں کو اشتقال دلاتا ہوں وغیرہ.میرے خلاف چوٹی کے گواہ وہی نمبر دار......تھا اور باقی گاؤں کے سات کمی تھے یعنی دو جلاہ.دو تر کھان.ایک موچی.ایک ماں اوریہ ایک دھوبی.حالانکہ گاؤں میں گو ہ.راجپوت آرائیں آوران اور چیہ زمیندار تو میں آباد تھیں.چونکہ گاؤں کے کمی اس نمبردار سے سخت خائف تھے اس لیے وہی گواہ اس کے کہنے پر گواہی کے لیے تیار ہوئے اور وہ بھی میرے رہا ہونے پر کہہ رہے تھے کہ نمبر دارہ نے ہمیں گرفتار کرا دینے کی دھمکی دی ہے اور راؤ نے بھی ڈرایا دھمکایا ہے ورنہ ہم ہرگز گواہی دینا نہیں چاہتے.چنانچہ میرے خلاف صرف دو گواہ ایک نمبردار اور دوسرا.....کلاہ گزر سے اور دونوں کے بیانات متضاد سے متضاد تر ہیں اور عدالت نے حکومت کی نئی پالیسی کے ماتحت مجھ سے ایک تحریر لی اور رہا کہ دیا اب بھی سارا گاؤں اس نمبر دار کے خلاف ہے مگر نمبردار بدستور میرے خلاف اپنی کارروائیوں میں لگا ہوا ہے.چونڈہ کا ایک مولوی جو میونسپل کمشنر بھی تھا ہماری ساتھ والی کو مٹھڑی میں بند تھا اس نے بتا یا کہ تھانہ پھلوارہ کا تھانیدار.....میرے بالمقابل سیج بناکر احمدیوں اور حکومت کے خلاف تقریریں کرتا تھا اور اب وہی تھانیدار عدالت میں میرے خلاف گواہیاں دلوا رہا ہے اگر میں قید ہو گیا تو تھانیدار مذکور کو بھی ساتھ ہی لوں گا اور میں گواہ متھانیدار کے خلاف گزاروں گا کہ یہ بھی حکومت کے خلاف اور احمدیوں کے خلاف مجھ سے کئی گنا زیادہ تقریریں کرتا تھا.اس طرح شکر گڑھ کا ایک مولوی......جو یک چشم تھا کہنے لگا کہ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں نے دو احمدیوں کی جان بچائی اور مقامی تعلیدار نہیں چاہتا تھا کہ ہمیں احمدیوں کی امداد کروں اور اس کے عوض میرا اس نے چالان کر دیا.جیل میں سیالکوٹ کے مولوی........تھے ان کے تہمنشیں ہمیں بتاتے کہ مولویوں نے قریبا ۸۰۰۰۰۰ روپیه دولتانہ صاحب سے لیا ہے.اور یہ روپیہ چیدہ چیدہ مولومی کھا گئے ہیں کاندھلوی صاحب نے کہا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ یہ سب سیاست کی خاطر کیا جارہا ہے تو ہمیں ہر گز اس تحریک میں حصہ نہ لیتا.جیل میں یہ عام مشہور تھا کہ دولتانہ صاحب نے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے پانی کی طرح روپیہ بہایا ہے.بہت سے مولوی ہمارے ساتھ جب بھی گفتگو کرتے تو یہی کہتے کہ بھائی احمدیوں کے ساتھ نہیں کرنا پر خاش نہیں ہم تو صرف گورنمنٹ کے ساتھ ٹکر لینا چاہتے تھے اور اس میں بھی دولتانہ صاحب

Page 96

نے ہمیں دھوکہ دیا.کبھی وہ احمدیوں کے حق میں بیان دیتا رہا اور کبھی ہمارے حق میں بیان دیتا رہا اور حقیقتاً وہ سیاست میں خود غرضی کے گھوڑے پر سوار اپنا کوئی کام نکالنا چاہتا تھا.کوئی کہتا اس نے روٹی میں سے بہت سا روپیہ نکالا اور مولویوں میں تقسیم کیا.کوئی کہتا حکومت کے محاصل میں سے ایک قسم حاصل کی اور دو لاکھ اپنی گرہ سے خرچ کیا اور لوگوں میں تقسیم کیا.احمدیوں کو صرت نشانہ بنایا گیا اصل غز من اس کی سنٹرل حکومت کے ساتھ محرم تھی.غرضیکہ کئی قسم کی باتیں جیل میں سنتے تھے را ولپنڈی والے کسی ایک خفیہ سازش کا نام لیتے تھے جو ہم باوجود کوشش کے معلوم نذکر سکتے کہ وہ کیا سازش تھی.کیونکہ وہ لوگ معلوم کر چکے تھے کہ ہم تین چار وہاں احمد می موجود ہیں ہم میں سے کسی کو دیکھ کہ وہ خاموش ہو جاتے تھے.اور یہ الفاظ تو ہر وقت ہر سیاسی قیدی کی نہ بان پر ہوتے تھے کہ حکومت ہمارے ساتھ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہماری تحریک کامیاب نہ ہو.بلکہ متفقہ طور پر وہاں کے لوگوں کی یہ صدا ہوتی تھی کہ اگر یہ تحریک فیل ہو گئی تو ہم کہہ دیں گے کہ خدا ہے ہی نہیں.یعنی ان لوگوں کو اپنی تحریک کی کامیابی کی یہاں تک اُمید تھی کہ ان کے ذہن اس طرف جاتے ہی نہیں تھے کہ یہ تحریک فیل ہو سکتی ہے.چنانچہ میں دن یہ اعلان ہوا کہ خواجہ صاحب کی وزارت مستفعی ہو گئی ہے تو سب معاندین نے خوشی منائی کہ یہ چال صرف ظفر اللہ خاں کو وزارت سے علیحدہ کرنے کی چلی گئی ہے.پولیس کی نسبت تو ہر شخص حیل کا کہا تھا کہ پولیس مکمل طور پر ہمارے ساتھ ہے.ہمارے گاؤں ملیا نوالا کے ارد گر د سب دیہات میں گرفتاریاں ہوئیں مگر ملیانوالا میں کوئی گرفتار می سوائے میرے نہیں ہوئی کیونکہ یہاں ایک احمدی کو پھاننے کے لیے نمبر وار اور تھانیدار کی سازش تھی.حالانکہ جتنی شرارت بدمعاشوں نے ملیا نوالا ہیں کی کسی دیگر گاؤں میں شاید ہی ہوئی ہو.ہمارے گھروں پر پتھر برسائے گئے اور پھر مشہور کر دیا جاتا کہ احمدی عورتیں جلوس پر پتھر برساتی ہیں.ہم میں سے چھے کس کو نہ یہ دستی تشدد کر کے احمدیت سے محرف کیا گیا اور زبردستی ان کے ہا تھوں میں جھنڈا دیا گیا.اور یہی حال ہمارے ارد گرد کے دیہات میں ہوا.جو احمدیت سے انکار نہیں کرتا تھا اس کو قتل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور گھر بار کو آگ لگانے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں اور یہ سے ہوا تک نہ کوئی قانون تھا اور نہ کوئی حکومت.تحصیلدار اور منھا بیدار کے چپڑاسی اور سپاہی نمیڑ وں کو بلا کرے جاتے تھے اور پھر ہدایات حاصل کر کے جنتے نکالتے تھے.

Page 97

AL بلکہ نمبر داروں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ جلوس نکالیں.تھانیدار نے میرے رو بر دلوگوں کو کہا کہ ہمیں جلوس کو روکنے کا حکم نہیں ورنہ ایک دن میں جتھے روک دیئے جاویں.سنا گیا کہ دولتانہ کیطرف سے خاص آدمی ہدایات لے کر افسران کے پاس آتے تھے اور گوجرانولہ کا ڈی سی تو خود ملوس کے ہمراہ ہو کر نعرے لگاتا تھا.اگر چہ لوگ اس کو بھی گالیاں نکالتے تھے.خاکسار فضل اللی از ملیا نوالہ متصل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کریم بشیر احمد صاحب ولد سلطان احمد صاحب درویش نے لکھا کہ :.دیگری پر یاں | و بندہ ایک ایسے گاؤں میں آباد ہے کہ جو دو اڑھائی سو مسلم جائوں کی آبادی پرمشتمل ہے گاؤں کے معتبر آدمی گرفتار ہونے کی وجہ سے باقی لوگ سخنت جوش میں ہیں اور دن بدن زیادہ تکلیف کا موجب بن رہے ہیں.یہاں ہماری زمین وغیرہ کوئی نہیں.معمولی سی دکان پر گزارہ ہے لیکن اب بیس دن سے دکان بالکل بند ہے.پانی بالکل بند ہے.دُور سے لانا پڑتا ہے.....ان حالات میں جبکہ ہماری ہر طرف سے ناکہ بند ی ہے ایک منٹ بھی یہاں گزارنا مشکل ہے.....باہر اندر جانا سخت خطرہ کا موجب ہے.رات دن اپنے گھر پر ہی بیٹھ کر وقت گزار رہے ہیں ، الخ اسی گاؤں کے ایک اور احمدی محمد منیر صاحب نے لکھا :.اس گاؤں میں ہم صرف دو گھر تھے.ان (مخالف ) لوگوں نے ہم مارچ سے ہمارا پانی بند کر دیا ہے یہاں تک کہ ایک غیر مسلم کے کنویں سے بھی پانی نہیں لینے دیتے تھے اور اگر ہم پیاس کی شدت کی وجہ سے پانی لینے جاتے تھے تو ہمیں گالیاں دی جائیں.ڈرایا دھمکایا جاتا جس کی وجہ سے ہمیں واپس گھر خالی لوٹنا پڑتا.جب ہم گھر آتے تو بچوں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ وہ پیاس کی شدت کی وجہ سے رو رہے ہوتے.۴ تاریخ کو ہمیں بالکل اندر بند کر دیا گیا.ہمارے قتل اور لوٹنے کے منصوبے بنائے گئے جس کی وجہ سے ہمیں از حد پریشان ہو نا پڑا.ہمارے پاس سوائے دعا کے کوئی ہتھیار نہ تھا جس کو ہم استعمال کرتے.اگر کبھی پاس کی جماعت کوشش بھی کرتی تو سخت (محاصرہ) کے باعث وہ (کوئی چیز نہ پہنچا سکتے تھے.14 مارچ بروز جمعہ گاؤں کے شہر بہ لوگوں کی ایک پارٹی جو را فرادر پشتل متقی ہمارے دروازہ پر آئی.اور یہیں عبور کیا گیا کہ مہاسے

Page 98

AA ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرو.ورنہ ہم قتل کر دیں گے.اور پھر پڑکر گھٹنا شروع کر دیا لیکن پھر بھی ہماری طرف سے انکار کیا گیا.آخر کار وہ لاچار ہو کر چلے گئے.زیادہ خطرہ ہو جانے کے باعث ہم نے محقانہ پھلورہ میں اطلاع دی کہ ہمیں نا جائزہ (طور پر) تنگ کیا جا رہا ہے.تھانیدار صاحب مع تین سپاہیوں کے گاؤں میں آئے لیکن انہوں نے کچھ بھی نہ کیا بلکہ مخالفت کی آگ کو اور بھڑکا یا گیا اور تھانیدار صاحب کی موجودگی میں انہوں نے جلوس نکالا.جلوس میں انہوں نے جو گندا چھالا اور حضرت مسیح موعود....کے متعلق جو نازیبا الفاظ استعمال کیے میری زبان زیب نہیں دیتی کہ میں ان کو قلم بند کروں مگر پھر بھی بغرض اطلاع اتنا لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود......کی مصنوعی لاش بنا کر سخت بے حرمتی کی گئی جس کو دیکھ اور سن کر حضور اقدس کے ماننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے.اسی وقت سجدہ میں گر کر دعا کی گئی کہ اے خدا تو ان لوگوں کو ہدایت دے گا الخ موضع ترسکه موضوع تریسکہ تحصیل ڈسکہ کی جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ غلام غوث صاحب نے مورخه اار مارچ ۹۵۳ہ کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ : - ور ہمارے علاقہ میں شورش بہت زیادہ ہے.گاؤں گاؤں میں جلوس نکالے جاتے ہیں احمدیوں کے گھروں کے آگے بکو اس کرتے اور نعرے لگاتے ہیں.کل مار مار پچ کو ہمارے گاؤں میں بھی مولوی...ساکن ہوانہ....نے جلوس نکالا.چار احمدیوں نے کمزوری دکھائی مگر......ان کی بیویوں نے بہت اچھا نمونہ دکھایا.انہوں نے کہا کہ ہم کو طلاق دے دو.ہم احمدیت نہیں چھوڑیں گی.آج کچھ سکون ہے مگر ہمارا پانی گاڑی والوں نے روک رکھا ہے.باہر کے کنووں سے لاتے ہیں.الخ پھر ۱۲ ما سرچ کے خط میں تحریر کیا.مولوی.....ساکن ہوانہ تھا نہ ڈسکہ و مولوی....ساکن و ہیر کے نے ہمارا پانی بند کر دیا.اب ہم بڑی مشکل سے باہر کے کنووں سے پانی لاتے ہیں.ہماری عورتوں کو ڈر کی وجہ سے قضائے حاجت جانے کی بھی سخت تکلیف ہے اور - ار مارچ کو مولوی.....نے آکر جلوس نکالا.گلیوں اور احمدیوں کے گھروں کے رسامنے) نعرے لگاتے اور پیٹتے رہے جس سے ہمارے چھوٹے بچے ڈر کے

Page 99

A مارے سہمے رہے.آگے اب ہر وقت دن رات سخت گبھراہٹ ہے.چاروں طرف سے ہی آواز میں آتی ہیں کہ ہم احمدیوں سے گھروں کو توڑیں گے اور آدمیوں کو شہید کر دیں گے یا | جماعت احمدیہ ویر و والہ کے سیکر ٹڑی مال محمد ابراہیم صاحب نے اطلاع موضع ویر و والہ دی کہ : ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم احمدیت چھوڑ دیں.جب ہم نے یہ قبول نہ کیا نب لوگ جا سکے چیمہ اور آلو مہار سے احرار کا جلوس لے آئے.....اور کہنے لگے کہ تم احمدیت کو خیر باد کہ دو ورنہ سارا گاؤں مل کر تمہارا خاتمہ کر دے گا ہم نے کہا کہ اگر ہمارے سمجہ بچہ کو آپ لوگ شہید کر دیں گے تو ہم پھر بھی یہ بات کہنے کو تیار نہیں ہوں گے.اس کے بعد انہوں نے کہا.اچھا کل ہم تم کو مار دیں گے الخ لے سمبڑیال | جناب خواجہ محمد امین صاحب نے سمبڑیال سے لکھا کہ : بعض مهاجر احمدی مستورات نے بعض مردوں سے زیادہ دلیری دیکھائی ہے مختاریاں زوجہ محمد الدین سکنہ شکار یا چھیاں حال سمبڑیال اور حسن بی بی ہیوہ صابر خان مرحومہ ہمارے گھر پر آئیں.ان کو صحابہ وصحابیات کی مثالیں دے کر سمجھایا گیا تو اس قدر دلیر ہو گئیں کہ بالکل مرنے کو تیار ہو گئیں.البخ گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ سے مریم سید نذیر حسین صاحب نے منڈیکے میریاں.وہ - لکھا.نین کے تو روئے پرسکہ آج تک جو شہری ہم تک پہنچی ہیں جو ہماری تحقیق میں درست ہیں عرض خدمت ہیں.موضع منڈ کے بیریاں جو چونڈہ کے قریب ہے وہاں چوہدری محمد ابراہیم صاحب احمد ی کو جو صرف ایک ہی گھر احمدیوں کا ہے.لوگوں نے جمع ہو کر قتل کی دھنگی دی.اس نے کہا مجھے صرف چند منٹ اجازت دے دو.پھر قتل کر لینا.اس کے چاہ پر ایک چھوٹی سی بیبت الذکر ہے.اس نے وضو کر کے دو رکعت نماز گزاری.بعد میں ان کو کہا کہ آٹا اپنا کام سے اس کار ڈیرہ 19 مارچ ۱۹۵۳ کی مہر ثبت ہے.کے دنات ۲ جولائی ۱۹۵۵ء

Page 100

کر لو.وہ کہنے لگے بیت الذکر سے باہر آؤ.اس نے کہا کہ میں بیت الذکر سے باہر نہیں آؤں گا.آخر تکرار کے بعد انہوں نے کہا کہ اسے قتل نہ کرو.اس کا بائیکاٹ کردے.اس کے اپنے چاہ سے بھی اور دیگر چاہ وغیرہ سے پانی روک دیا.پھر اس نے موضع کھر پہ سے جہاں چوہدری محمد حسین صاحب احمدی ہیں پانی منگوانا شروع کیا.آخر پندرہ تاریخ کو پولیس نے آکر پوری طرح اس کی امداد کی یا موضوع رہ جہاں صرف ایک ہی احمدی تھا اس کو بہت تنگ کیا گیا لیکن وہ بھی خدا کے فضل سے بالکل قائم ہے اور قائم رہے گا.اب وہاں کی حالت درست ہے " ار موضع مین کے تو روٹے میں بھی ایک احمد می عبدالحق تھا.اس نے بہت مردانگی دیکھائی.دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا.اب وہاں بھی حالات درست ہیں.دشمن عنصر نے معافی مانگی یہاں موضع ترمکہ متصل بڑھا گورایہ میں احمدیوں کو بہت تکلیف دی گئی اور مولویوں نے ان کو جبر احمدیت سے پھرانا چاہا.انہوں نے بھی بزدلی سے کام لیا.ان کے ساتھ چند ساعت کے لیے مل گئے اور مولویوں نے کہا کہ اب تمہارا نکاح دوبارہ کیا جائے گا.جب وہ گھروں پر نکاح کے واسطے گئے تو احمدی مستورات کو دروازوں پر پایا.مستورات نے بڑی دلیری سے کہا باہر کھڑے رہو.اندر مت آؤ.مولوی لوگوں نے کہا کہ تمہارے آدمی مسلمان ہو گئے ہیں.اب تمہار سے نکاح دوبارہ کریں گے.ہم اور کچھ نہیں کہتے.ان نیک پہیلیوں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ مرتد ہو گئے میں اور ہمارا انکارح ان سے نہیں ہو سکتا.مولوی اب ان کو لے جاکر کسی اور جگہ نکاح کریں.ہم کو تو اگر ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں تو بھی ہم خدا کے فضل سے احمد می ہی رہیں گی.اس وقت ان کی بہادری کو دیکھ کر وہ احمدی مرد بھی دلیر ہو گئے.اور مولوی لوگوں کو جواب دے دیا اب حالات بہتر ہیں یا چونڈہ چونڈہ سے چوہدری فیروز الدین صاحب انسپکٹر تحریک جدید نے یہ پورٹ بھیجی کہ در موضع چونڈہ تھا نہ پھلورہ کے حالات حسب ذیل ہیں.گاؤں ہذا میں پچھلے دنوں بڑے زور شور سے پراپیگنڈا ہوتا رہا لیکن اب مردوں کے علاوہ مستورات کے ذریعہ بھی جیتھے جلوس کی شکل میں احمدیوں کے مکانات کے پاس آکر بیہودہ بکو اس کی جارہی ہے.سب سے دروازے دھکے دے کر توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے.تمام افراد جماعت کو اس کا ہو گا مل کر

Page 101

ہراساں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.جماعت منظم ہے لیکن غلط افواہوں کی وجہ سے جو کہ منادی کے ذریعہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہوہ پر نزدیک کے دیہات والوں کا حملہ ہو گیا ہے اور مرزائی مسلمان ہو ر ہے ہیں.یہ پراپیگنڈا سن کر بعض کز در احمدی ہراساں ہیں ایک احمدی مسٹمی مولی لیختنق جٹ تلونڈی جھنگلاں والے کے مکان پر پتھر پھینکے گئے اور اس کے گھر کی چار دیواری میں ایک کنویں سے اس کو پانی بھرنا بند کر دیا ہے.اور پانی نکالنے والی بھونی اُتار کرلے گئے ہیں یا ایک موچی محمد شریعت کی جھگی کو آگ لگا کر جلایا گیا ہے جو کہ گاؤں سے باہر کی بیری کے درختوں کے پاس تھی.پچاس ساٹھ آدمیوں کے جتھے سے چند آدمیوں نے مل کر اسکو جھنجھوڑا اور وہ بیچارہ اپنی جان بچا کر گھر آگیا.تھانہ والے کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے ایک تھا نیدا را در تین چار سپاہی اس جگہ متعین ہیں.جس جگہ ٹھہرے ہیں وہاں سے باہر نکل کر دیکھتے ہی نہیں یا X- شہزادہ قریش عبد الحمن صاحب کی طرف سے مرکز میں موضع شہزادہ کی نسبت) مندرجہ ذیل اطلاع موصول ہوئی کہ.اس گاؤں میں صرف تین احمدیوں کے گھر ہیں.باقی سارا گاؤں مخالفت اور ایذا دہی پیراستہ ہے.ایک مکان والے کی بیوی غیر احمدی تھی.وہ سچوں کو لے کر سسرال چلی گئی لیکن اس کا مرد ثابت قدم رہا.ایک گھر والوں کا پانی بند کر دیا ہے اور دوسرے ماسٹر صاحب کی عدم موجودگی میں اُن کے گھرپر حملہ کر دیا اور مستورات کو گھر سے نکل جانے کی دھمکی دی.لیکن ان کی مستورات نے حضور کے ارشاد کے مطابق یہ جواب دے دیا کہ ہم اپنے پیارے آقا کے حکم کے ماتحت یہیں رہیں گی.نکلیں گی نہیں.خواہ ہمیں قتل کر دو.اور ان تینوں گھر والوں کا بازار سے سودا سلقت بینا بالکل بند کر دیا گیا ہے.اور ہر قسم کی ضروریات زندگی سے محروم کر دیا گیا ہے.اسی طرح تنگ کرنے کے دوسرے ذرائع بھی سب اختیار کیے گئے ہیں.محمد منیر صاحب امیر جماعت احمدیہ کھیوہ باجوہ نے لکھا کہ : - کمیوه با توه ور دن بدن زیادہ خطرے کی افواہیں پھیلتی گئیں پسر در بھی میرے ہی حلقہ امارت میں تھا.اور وہاں مخالفین کا بہت زور تھا.ان دنوں تھانیدار نے بھی جواب دے دیا لیکن جب مڑی نے انتظام ہاتھ میں لے لیا تو خطرہ کم ہونا شروع ہوگیا ورنہ پہلے یہی تھا کہ آج کلا سوالہ شہید سکھ.وفات سیکم مئی ۱۹۸۴ء

Page 102

۹۴ میں جلوس جائے گا اور پھر وہاں سے کھیوہ بھی جائے گا لیکن اللہ تعالے کا خاص فضل رہا کہ صرف اور صرف پسر در تک ہی فتنہ و فساد محدود رہا.بعض افراد کلا سوالہ سے نکلے اور ہمارے گاؤں میں آگئے پسرور اور جماعت چو ہر منہ میں چند غنڈوں نے ہمارے پر پذیڈنٹ دین محمد کو قتل کر دینے کی دھمکیاں دیں.اس نے میرے پاس رپورٹ کی تو میں پسرور تھا نہ میں گیا.تھانیدار صا حب نے میرے ساتھ تین ملٹری کے سپاہی اور ایک حوالدار کر دیا.چوہر منڈہ تھانہ سے تقریباً آٹھ میل ہے.وہاں حوالدار نے ان سے باز پرس کی تب انہوں نے انکار کر دیا کہ ہم نے کوئی بات نہیں کی.حوالدار نے ان سے وعدہ لیا کہ اگر اس کے بعد کوئی شکایت ان کی طرف سے ہمیں پہنچی تو تم ذمہ دار ہو گے اور صرف تمہیں ہی گرفتار کر کے لے جایا جائے گا.اس کے بعد بالکل امن ہے.اور کلا سوالہ سے جو دوست نکلے علاقہ مجسٹریٹ نے خود آکر کا سوالہ کے لوگوں سے کہا کہ ان کو خود جا کر واپس لاڈورنہ اگر کوئی ان کا نقصان ہوا تو تم ہی ذمہ دار ہو گئے.تب کلا سوالہ والے خود آکر اُن کو تا نگر میں بھا کرے گئے باقی تمام علاقہ میں خیریت ہے.خطرہ تو ہمیں بھی بہت ہو چکا تھا لیکن کسی نے بعد میں کوئی مظاہرے نہیں کئے میاں کلا سوالها عبد الغنی صاحب عبد قائد مجلس خدام الاحمدیہ کلا سوالہ نے لکھا کہ : - در کلا سوال پسرور سے چار میل کے فاصلہ پر ہے اور احرارہ اور مخالفین تحصیل پسرور کا مرکز ہے.بروز جمعہ پسرور میں نماز جمعہ کے موقعہ پر یہ اعلان ہوا کہ کل کار مارچ کو پسر در سے ایک جلوس جو کئی دیہات میں سے ہوتا ہوا اور احمدیوں کو مسلمان یا ختم کرتا ہوا گلا سوالد پہنچے گا.شام کو 4 بجے پولیس کی طرف سے زبانی مجھے یہ اطلاع ملی کہ جلوس کل کلا سوالہ آرہا ہے اور پولیس اس کا انتظام نہیں کر سکتی.آپ خود کوئی انتظام کر لیں.یہ خبر سن کر بفضلہ تعالی ہم ہر طرح سے مطمئن تھے اور ہمارے دلوں میں کسی قسم کی گھبراہٹ نہ تھی.ہم نے اپنے لیے مناسب انتظام ہر طرح سے کر لیا.اس کے بعد ایک چٹھی پسر در سے جماعت احمرارہ کی جانب سے کلاسوالہ کے دیگر معززین کے نام آئی کہ ہمارا جلوس پہنچ رہا ہے.اگر آپ نے ہمارے جلوس میں شمولیت نہ کی تو تمہاری جان.مال بھی خطرہ میں ہو گا.کلا سوالہ میں دو جماعتیں ہیں.اہلحدیث اور حنفی جماعت حنفی جماعت کا چونکہ نہ ور ہے اور میٹھی بھی حنفی جماعت کے آدمیوں کو ہی ملی تھی.حنفی جماعت یہاں کی

Page 103

.بہت امن پسند ہے.وہ دوست اس چھٹی کو لے کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کل یہ جلوس آرہا ہے.کوئی مناسب تجویز کی جائے تاکہ جلوس خیریت سے گزر جائے اور شور و شر بھی نہ ہو.میں نے کہا کہ آپ کے خیال میں کیا ہونا چاہیئے.انہوں نے کہا کہ تم اپنی جماعت کو سنبھال لو.وہ کسی قسم کی جلوس میں مداخلت نہ کریں.ہم پوری کوشش کریں گے کہ جلوس پر امن طور پر گزر جائے.چنانچہ خاکسار نے جماعت کی مستورات اور بچوں کو دور جگہوں میں محفوظ کر کے مردوں کو دو مناسب جگہوں پر بٹھا دیا.اُس دن اکثر نظریں ہماری طرف اس حسرت سے اُٹھ رہی تھیں کہ آج دو بجے تک یہ (احمدی) لوگ تو ختم ہو جائیں گے اور ان کے مال اسباب پر ہم قابض ہوں گے.اکثر لوگ ہمارے مال مویشی دیکھ دیکھ کر پسند بھی کر رہے تھے کہ آج دو بجے کے بعد یہ سب کچھ ہمارا ہو جائے گا.لوگوں کی زبانی سنا کہ یہ احمد می لوگ خوش کیوں نظر آتے ہیں مگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ ان کی زندگی صرف دو بجے تک ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے چہرے اور ہمارے دلے سوائے چند نام کے احمدیوں کے بہت شگفتہ اور دلیر تھے.بندہ نے اپنی جماعت کو مبر اور برداشت کی بہت تلقین کی اور حضور کے ارشادات جو صبر کے متعلق تھے پڑھ کر سنائے اور کہا کہ ہر طرح امن کو قائم رکھنا ہے اور خرام کی قصبہ کے باہر ڈیوٹی لگا دی ایک خادم کو پسر دور میں مقرر کر دیا کہ وہ بار بار یہ اطلاع دے کہ جلوس کسی تعداد میں ہے اور کیا کرتا آرہا ہے.کچھ خدام کو قریب کی جماعتوں کو اطلاع دینے کے لیے بھی مقرر کر دیا.مگر اس کے بعد کیا ہوا.لوگ تو جلوس کی آمد کی گھڑیاں گن رہے تھے.بارہ بجے ، ایک بجے.دو بجے مگر جلوس نہ آیا.آیا تو کون آیا ؟ ایک وفدا وہ بھی اس لیے کہ وہ رات والا رقعہ واپس لے جائے جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ تمہارے مال جان خطرہ میں ہیں.مگر رقعہ اُن کو نہ ملا.سارا دن بالکل بخریت گزرگیا.اور پانچ بجے شام فوج کے بہت سے سپاہی، علاقہ مجسٹریٹ صاحب اور سپیشل پولیس نے آکر لوگوں کو بہت ڈانٹا مگر ہم نے کلا سوالہ کے شریعت غیر احمدیوں کی سفارش کردی کہ یہ لوگ بہت امن پسند ہیں یا چوہدری بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ دانہ نہید کا نے لکھا کہ :.والہ زید کا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے حلقہ میں بالکل امن و امان ہے.البتہ غلط

Page 104

افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور غلط پروپیگنڈا کیا جاتا ہے.....افواہیں جو پھیلائی جاتی ہیں رہا ہر غیراحمدیوں کے دیہات میں) وہ یہ ہیں کہ احمدیوں نے غیر احمدیوں کے کھیتوں میں مولیشی چھوڑ کر ان کے کھیتوں کو برباد کر دیا ہے.اور غیر احمدیوں کو مار پیٹ رہے ہیں.بالخصوص یہ خبریں میرے حلقہ امارت کے متعلق (جہاں احمدیوں کی کافی آبادی ہے.ناقل ) پھیلائی جاتی ہیں.تاکہ باہر کے دیہات مشتعل ہو کہ ہمارے خلاف جتھہ بندی کر کے امن عامہ کو برباد کر دیں.

Page 105

دوسرا باب اضلاع شیخو یوه ، لا طیور فیصل آباد اور پو جھنگ کی احمدی جماعتوں کے واقعات

Page 106

فصل اوّل ضلع شیخو پوره ۱۹۵ء کے ہنگاموں میں ضلع شیخوپورہ کے احمدیوں کو بھی مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑا اس دور کو احمدیوں نے کس طرح گزارا، اس کا کسی قدر اندازہ مندرجہ ذیل تفصیل سے ہو سکتا یہ شہر دو ہفتے تک بدامنی اور فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا رہا.احمدیوں کا شدید شیخوپورہ شہر بائیکاٹ کیا گیا.ملک محمد ظریف صاحب کو چھرا گھونپائی مگراللہ تعالیٰ نے ان کو بچا لیا.دس ہزار افراد نے شیخ گلزار احمد صاحب پٹواری کے مکان کا محاصرہ کیا اور پھر انہیں احمدیت سے توبہ کرنے کے لیے مجبور کیا گیا مگر انہوں نے صاف کہہ دیا کہ میں " تائب ہونے کی بجائے شہید ہونے کو ترجیح دوں گا.مخالفین کو جب مایوسی ہوئی تو انہیں حیلوں بہانوں سے جیل میں ڈال دیا گیا.جہاں سے وہ ۱۲ر مارچ ۱۹۵۳ء کو دوہزار روپے کی ضمانت پر رہا ہوئے.قاضی بشیر احمد صاحب معتمد مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کوارتداد پر مجبور کیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ شام تک قتل کر دیئے جاؤ گے اور تمہارا امکان اور دکان جلا دی جائے گی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے خلاف بد زبانی بھی کی اس پر ان کی والدہ جوش میں آگئیں اور کہا کہ میرے گھر کی اللہ تعالے خود حفاظت کرے گا.ہمارا ذرا سا بھی نقصان نہ ہو گا خواہ تم کتنا ہی زور لگا لو.نصف گھنڈ کے بعد شہر کے بعض بد قماش لوگوں نے مکان کو نرغے میں لے لیا اور برہنہ ہو کہ ناچنے اور گالیاں دینے لگے.اگلے دن بھی ۲۰۰ کے قریب آدمی مکان کے سامنے آکر نعرے لگانے اور کہنے لگے کہ احمدیت سے توبہ کر لو ورنہ آج تمہارا خاتمہ کہ دیا جائے گا.بعض نے مکان کے صدر دروازہ کے بیچ میں کانے اور مٹی کا تیل لاکر رکھ دیا اس پہ قاضی بشیر احمد صاحب نے مکان کی پچھلی جانب پہلے اپنی والده اند بشیرہ صاحبہ کو اتارکر حکیم ظفر الدین احمد صاحب ولد حکیم عبدالجلیل صاحب بھیڑی سے گھر

Page 107

بھیج دیا اور پھر مکان کو تالا لگا کر خود بھی حکیم صاحب کے گھر یہ کہتے ہوئے چلادیئے کہ دو اگر میرا گھر سیح موعود کو سچا ماننے کی خاطر جلایا جا رہا ہے تو بے شک خوشی سے جلاؤ اور اگر ایک احمدی کی حیثیت سے مجھے یہ دکھ دے رہے ہو تو مجھے یہ دُکھ اور تکلیف بادشاہی سے افضل ہیں یا خدا تعالیٰ نے ان الفاظ سے مخالفین پر ایک رُعب اور مہدت طاری کر دی اور وہ کوئی نقصان نہ کر سکے.شاہ کوٹ :.یہاں ایک احمد ہی دوست کا مکان لوٹا گیا.سٹھیالی : - چک نمبر ۱۶۹ اگر مولا اور جید چک میں بعض احمدیوں کی فصلیں تباہ کر دی گئیں.میں ہر روز جلوس نکلتے اور مظاہرے ہوتے تھے اور احمدیوں کی دکانوں پکٹنگ لگائی گئی.اور مکمل بائیکاٹ کیا گیا.چک چہور ۱۱۷ کے وہ احمدی جو سانگلہ ہل میں کاروبار کرتے تھے.دو تین روز تک شہر نہ جاسکے.۸ مارچ کو جب سانگلہ ہل میں پہلی بار بازار گئے تو میلوس والے خون کا بدلہ خون سے لیں گے" کے نعرے لگا رہے تھے..سانگله بل سانگلہ ہل کے قریبی دیہات میں بھی شورش کے اثرات ظاہر ہوئے مثلاً کوٹ رحمت خان اور موضع کوٹلی چک 1 میں جلوس نکلے اور گالیاں دی گئیں.ان دنوں سانگلہ ہل کے قرب و جوار کے بعضی احمدی جہور مغلیاں ، میں آگئے جن کو اس گاؤں کے احمدیوں نے اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے ان کے دبیات میں دوبارہ بسایا.چک چہور ۱۱۷ پر بھی حملہ کرنے کا مشورہ کیا گیا گر اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو محفوظ رکھا.مرا جنپور چک نمبر ہم میں احمدیوں کے صرف دو گھر تھے جو محصور ہو کر رہ گئے شرپ ناصر غول کے غول ان کے گھروں کے ارد گرد جمع ہو جاتے اور جو منہ میں آتا بکتے چلے جاتے تھے.دار برتن میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب اسٹیشن ماسٹر واربرٹن کا ہر مہروں روپے کا سامان جوان کی عمر بھر کا اندوختنہ منھا، نہایت بے دردی سے لوٹ لیا گیا.منڈی مرید کے.اس جگہ بھی احمدیوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور وہ کئی روز تک اپنے گھروں میں بندر ہے البتہ وہ نمازوں میں ایک دوسرے سے ملتے اور صبر و شکر کا عہد کرتے نیز حضور کے روح پر در پیغامات پڑھتے.شیخ محمد بشیر صاحب آزاد سابق امیر جماعت منڈی مرید کے نے اہل قصبہ کی فلاح و بہبود کے لیے بہت سی خدمات انجام دی تھیں اور عوام پر ان کا گہرا اثر تھا.مگر انہیں بھی

Page 108

۹۸ نہ صرف اپنے مکان میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا گیا بلکہ ایک رات اپنے ایک نمائندے کے ذریعے انہیں پیغام بھیجا گیا کہ لوگ آگ لگانا چاہتے ہیں، وہ احمدیت سے علیحدگی اختیا ر کر کے مسلمان ہو جائیں.شیخ صاحب نے کہا کہ حملہ ہونے کی صورت میں ہم لڑتے ہوئے مارے جائیں گے یہ موقعہ خدا کبھی کبھی دیتا ہے.ہمیں تو صرف مجھو کا پیاسا رکھا جارہا ہے.قرون اولیٰ میں مسلمانوں کو ایسی ایسی روح فرسا تکالیف دی گئیں کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے.پھر کیا دوبارہ ایمان لانے تک کی زندگی کا کچھ پتہ ہے ؟.مرنا تو ایک دن ہے لہذا بجائے بے ایمان ہو کر مرنے کے ، ایمان داری سے کیوں نہ مرا جائے ؟ شیخ صاحب اور ان کے اہل خانہ کی یہ رات خاص طور پر دعائیں کرتے اور شہادت کے لیے تیاری میں گزری.احمدیوں کا یہ بائیکاٹ مسلسل کئی دن تک جاری رہا.بالآخر معززین منڈی نے فیصلہ کیا کہ احمدیوں کو سودا کھانے پینے کا دے دیا جائے دور نہ ہم یہ ید ثابت ہوں گے.گوجر ڈاکخانہ چوہڑ کا نہ کے احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا.گھروں پر سنگیاری کی گئی اور احمدیوں سے بات کرنے والے کے لیے پچاس روپے جرمانہ مقرر کر دیا گیا.ستید والا میں بھی احمدیوں کا سخت بائیکاٹ ہوا.جو لوگ احمدیوں کی دکانوں سے سودا لیتے ان کا منہ کالا کر دیتے.احمدیوں کو ختم کرنے کے برملا نعرے لگائے گئے.سب احمد یا اپنے اپنے گھروں کے کواڑ بند کر کے بیٹھے رہے.گر مولا ننہ و ڈھایاں میں تین چار احمد میں رہتے تھے جن میں سے ایک احمدی کو دھمکی دی گئی کہ بیعت چھوڑ دو ورنہ قتل کر دیں گے اور لوٹ لیں گے مگر اُس احمدی نے جواب دیا کہ مجھے بیشک قتل کردو میں بیعت نہیں چھوڑ سکتا - بہوڑو چک ۱۸ میں سٹھیالی کے احمدیوں کو گالیاں دی گئیں.ننکانہ صاحب - جلسوں جلوسوں میں انتہائی بد نہ بانی کا مظاہرہ کیا گیا احمدیوں کو تنگ کرنے کے لیے نئی سے نئی راہیں اختیار کی گئیں ایک دن یہ منادی کرائی گئی کہ مرزائی استانی نے ہماری لڑکی کو مار مار کہ اس کی ہڈیاں توڑ دی ہیں حالانکہ اس میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں تھی لیکن اس کی آڑ میں ایک احمدی استانی کو معطل کر دیا گیا اور دوسر می احمدی استانیاں گھروں میں محبوس ہو کر رہ

Page 109

۹۹ گئیں.کیونکہ جب وہ باہر جائیں تو اورہائش ان کا بچھا کرتے اور تالیاں بجاتے تھے.مقامی پولیں سب کچھ دیکھتی مگر خاموش تماشائی بنی رہتی.رات کے وقت ایک جلسہ عام میں امیر جماعت ننکانہ صاحب محمد شفیع صاحب کی نسبت یہ بہتان تراشی کی گئی کہ ربوہ سے ایک جیپ آکر اس کو اسلحہ دے گئی ہے ابھی تلاشی لی جادے.چنانچہ پولیس نے رات کو احمدیوں کے مکانوں کا گھیراؤ کر لیا مگر کچھ برآمد نہ ہوا.ننکانہ صاحب اُن دنوں افواہوں کا مرکز ہوا تھا.ایک دن افواہ پھیلائی گئی کہ جڑانوالہ کے امیر جماعت ڈاکٹر محمد انور صاحب کو چھرا گھونپ دیا گیا ہے.دارہ برٹن کے احمدی اسٹیشن ماسٹر قتل کر دیئے گئے ایک لاکھ کا مہتھ یہ لوہ کی طرف جارہا ہے تم کا نہ کے احمدی ربوہ چلے گئے ہیں.جو باقی ہیں وہ تھا نہ میں کیمپ لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں.آنبہ ، مڑ کے اور کرم پورہ میں جہاں جہاں رکتے دکئے احمدی آباد تھے وہاں وہاں نفقہ نے انتہائی صورت اختیار کر لی مگر خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت سے غیر معمولی نفرت کے سامان کر کے حفاظت فرمائی مثلاً ایک جگہ جب نرغے میں پھنسے ہوئے احمدی نے یہ کہدیا کہ جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر لو.احمدیت مجھ سے نہیں چھوٹتی.تو وہاں فوراً پولیس پہنچ گئی.حالانکہ یہ جگہ متھانہ سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر ہوگی.دوسری جگہ جب اشرار بڑے ارادے سے نکل آئے تو کچھ غیر احمدی شرفاء مسلح ہو کر حفاظت کے لیے پہنچ گئے اور تمام رات اُس احمدی کے گھر کا پہرہ دیا.جناب فضل دین صاحب اس گاؤں میں اکیلے احمدی تھے.، رمانہ پچ کو ۱۲ بجے سریا نوالہ دوپہر ایک مشتعل ہوم نے ان کے مکان کا محاصر کر لیا.اور قتل وغارت کی دھمکیاں دے کہ احمدیت سے منحرف کر نا چاہا.مگر انہوں نے بڑی جرات مندی سے کہا قتل کر نا چاہتے ہو تو قتل کر لو گھر لوٹنا چاہتے ہو تو لوٹ لو، میں احمدیت کو نہیں چھوڑ سکتا.اس پر ایک غیر احمدی معزز دوست نے بلوائیوں کو لعن طعن کی اور کہا کہ اس اکیلے احمد ی پر دباؤ ڈال رہے ہو پہلے قرب و جوار کے احمدیوں کو برگشتہ کر لو پھر اس کو بھی اہلسنت کر لینا.اس دوران میں سورج غروب ہو گیا اور گاؤں والوں نے ان کے مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ کر کے اعلان کر دیا کہ ہم صبح کو اس کا خاتمہ کر دیں گے یہ کہ کر شریہ چلے گئے اور فضل دین صاحب ساری رات دعاؤں میں مصروف رہے صبح ہوئی تو ان

Page 110

سے کہا گیا کہ گاؤں سے نکل جاؤ.انہوں نے کہا کہ میں اپنا مکان چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا جس طرح مرضی ہو کر و.اسی اثناء میں دار برٹن سے دو سپاہی پہنچ گئے اور انہوں نے اعلان کروا دیا کہ کوئی شخص اس احمدی کو تکلیف نہ دے اس طرح خدا نے اپنے اس مظلوم بندے کی حفاظت کا خود سامان کر دیا.پیک چو سر شاہ تحصیل ننکانہ میں احمدیوں کا محاصرہ کیا گیا.بھینی شرق پور کے احمدیوں کے خلاف مخالفین نے شرق پور میں سجنت اشتعال پھیلانے کی کوشش کی.موھا سکے میں مکرم چو ہدری عطاء ربی صاحب احمدی کو لوٹنے کے لیے منصوبہ بنایا گیا.مگر موضع ملک پور کے معزز غیر احمدی نمبر دار چودھری شاہ محمد صاحب ان کو اپنے گاؤں میں لے گئے.تیرڈے والی میں سید اصغر حسین صاحب کو ان کے غیر احمدی بھائی نے پناہ دی.سکنہ مہلن وال میں شیخ محمد انور صاحب کے گھر پر حملہ کیا گیا مگر ان کے غیر احمدی بھانجے نے بیچ میں ہوکر اس حملے کو ناکام بنا دیا.تانوں ڈوگر مھمعہ تا جریاں اور شاہ مسکین میں بھی جلد کی سکیمیں بنائی گئیں گر بحمداللہ خیریت رہی.بلکہ مین شورش کے ایام میں نانو ڈوگر میں دو سعید رو میں داخل احمدیت ہوئیں.میاں عبد السلام صاحب احمدی زرگر حال برینی کا بیان ہے : ستید والہ ۳ ورڈ کی شورش کے ایام میں خاکسار ستیہ والہ ضلع شیخو پورہ میں مقیم تھا.اور خدام الاحمدیہ سید والہ کا قائد مجلس تھا.شروع شروع میں جب ہمارے خلاف تحریک شروع ہوئی تو دیواروں پر اور پوسٹروں کے ذریعے ہمارے خلاف مطالبات لکھے گئے یہ مرزائیت کو اقلیت قرابہ دو ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے ہٹاؤ.کلیدی آسامیوں سے ان کو مٹاڈ وغیرہ وغیرہ.اس کے ساتھ ہی منبروں پر ہمارے خلاف وعظوں کے ذریعہ بھڑ کا نا شروع کیا گیا.تقریباً روزانہ ہی ہمارے خلاف زہر اگلتے اور منافرت پھیلاتے رہے.مخالفین میں ایک نوجوان خلیل احمد بی اے بی ٹی بھی تھے جو خوب لوگوں کو بھڑکاتے اور کہتے کہ یہ ہاتھ ناموس ختم نبوت کے لیے لوہے کے کڑے پہنیں گے ، یہ عورتوں کی طرح چوڑیاں پہننے والے نہیں.ان ختم نبوت کے منکروں کو پاکستان سے ختم کر کے رہیں گے وغیرہ وغیر ہ.اس پر سامعین خوب نعرے لگاتے اور

Page 111

جوش و خروش بڑھتا گیا آخر کار ہمارا مکمل بائیکاٹ کیا گیا اور پانی بند ، سودا سلف بند.بولنا بند تھا نگر کئی ایسے معزنہ اور شریف غیر احمدی دوست بھی تھے جو خفیہ طور پر ہمیں سودا سلف گھر پہنچا جاتے تھے.بائیکاٹ اور منافرت روز بروز زور پکڑتی گئی اور مرزائیوں کے مال کو ٹوٹنا اور مارنا کار ثواب قرار دیا گیا تو ان حالات کو دیکھ کہ خاکسار اور خاکسار کا بھائی غلام اللہ اسلم مرحوم دونوں نے ربوہ آکر اپنی نقدی ختنہانہ صدر انجمن احمدیہ میں جمع کرا دی اور لوگوں کا جو زیور سونے چاند کا بنا ہوا تھا اور سونا بھی ربوہ میں عزیزم ضیاء الدین احمد صاحب ولد میاں روشن الدین صاحب کی پیٹی میں رکھ دیا اور خود دونوں بھائی اسی دن واپس سینڈوالہ کے لیے چل پڑے.صبح پہلی بس پر ہم سید والہ پہنچ گئے.اور ساتھ ہی مشہور ہو گیا کہ عبدالسلام اور غلام اللہ ٹیکسی پر ریوہ سے اسلحہ لے آئے ہیں.اور ہمارے سید والہ پہنچنے کے دو دن بعد منتصب لوگوں اور ہماری برادری نے یہ بات پھیلا دی کہ جس طرح ہندؤں کو ملڑی یہاں سے لے گئی تھی اسی طرح ان مرزائیوں کو بیاں سے لے جائے گی.اور جو کچھ تم نے ان سے لیتا ہے فوری طور پر وصول کر لو.اسی طرح لوگ باہر سے بھی اور شہر کے اندر سے بھی جن لوگوں نے ہمیں زیورات دیتے ہوئے تھے مانگنے شروع کر دیئے.اس پر ہم نے اپنے والد میاں غلام محمد صاحب مقامی پریذیڈنٹ جماعت احمدیه کور بوده روانہ کیا کہ آپ وہاں جا کر نہ یورات اور چند ہزار روپے جو ہم نے دیئے تھے نے آئیں.والد صاحب ربوہ پہنچے اور رات ربوہ گزاری اور صبح مال نکلوا کر واپس سید والہ جانے کے لیے روانہ ہوئے.جب جڑانوالہ پہنچے سارا شہر بند تھا.لائیپلیور بھی ہڑتال مھتی.اور جلوس نکل رہے تھے.اور ہمارے اور حکومت پاکستان کے خلاف نعرے بازی ہو رہی تھی جو جلوس جڑانوالہ پھر رہا تھا اس کی راہنمائی ایک احراری غلام رسول صاحب کر رہے تھے.والد صاحب نے منہ پر اپنی پگڑی سے مٹھ مٹھے باندھ لیا اور ہاتھ میں بیگ تھا.مال اور رقم نقد واسکٹ میں تھی اور اڈا پر ایک ٹیکسی میں آکر بیٹھ گئے.ٹیکسی ڈرائیور باگ علی نامی تھا.جس نے جلوس کو جا کر تبلا دیا کہ میری ٹیکسی میں مرزائی بیٹھا ہے.تب سارا جلوس اڈہ کی طرف امڈ آیا.جب جلوس ٹیکسی کے پاس پہنچا تو پہلی نظر غلام رسول صاحب کی والد صاحب پر پڑی.خدا تعالیٰ نے اس کے دل کو بدل دیا اور اس نے والد صاحب کو دیکھتے ہی کہا کہ واہ میاں صاحب آپ اس آگ میں کیوں آگئے ؟.

Page 112

پھر جلوس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ چھوڑ دیا یہ تومیرا اچھا ہے ، مرزائی نہیں.اس طرح جلوس کو لے گیا.اور جلوس کو دوسرے بازار روانہ کر کے والد صاحب کو ساتھ لیا اور ریلوے کی پل سے گزار کہ پیدل راستے سے سید والہ کی سڑک پر روانہ کیا اور اس طرح خدا تعالے نے والد صاحب کو اس کے ذریعہ بال بال بچا لیا.جو لوگ زیور لینے کے لیے خود ہمارے گھر آئے تھے ہم نے اُن کا مال واپس دینا شروع کر دیا.بازار بند ہوتا تھا اور شہر میں کرفیو لگا ہوا تھا.بائیکاٹ مکمل تھا اور باہر سے جو لوگ ہمیں لوٹنے کے لیے جتھوں کی صورت میں آتے.وہ باہر سے ہی لوٹ جاتے ہم لوگ تو کرفیو کی وجہ اور سخت مخالفت کی وجہ سے گھر میں رہتے تھے مگر مخالفوں نے خود ہی یہ افواہ پھیلا دی کہ عبد السلام محاذ کشمیر میں فوجی ٹریننگ لے کر آیا ہے اور قادیان میں بھی وہ تین ماہ ٹریننگ لے کر آیا تھا.اس لیے نہ سمجھو کہ یہ اندر ڈر کے مارے خاموش بیٹھے ہیں.وہ تو اندریم بنا رہے ہیں.تم ان کے گھر حملہ کرنے یا لوٹنے کی کوشش نہ کرنا.ورنہ وہ تمہارے سارے جتھہ کو تباہ کر دے گا.اس طرح دشمن ہمیں خوف وہراس پھیل گیا.اور خدا تعالیٰ نے اُن کے حملوں سے ہمیں محفوظ رکھا.فالحمد للہ.پھر خدا تعالیٰ کا فضل یہ بھی ہوا کہ ہمارے خدام اور انصار بہت ہی مستعد ہو گئے.اور جو کہنے اور سمجھانے پر بھی بہت الذکر میں نہ جاتے تھے وہ اتنے مستعد ہوئے کہ جب حضور کی طرف سے سرکل چٹھیاں آئیں تو اشارہ کرتے ہی سب افراد جماعت منٹوں میں بیت الفکر میں نماز کے وقت آجاتے.اور بہت گریہ وزاری سے دعائیں کرتے.بائیکاٹ اور نعرے بازی اور کرفیو بدستور تھا.کہ اچانک خبر سنی کہ مارشل لاء ملک میں لگ گیا ہے.حالات پر سکون ہوئے تو جو لوگ ہمارے مارنے اور لوٹنے کے درپے تھے وہ پہلے تو کچھ دنوں تک ہمارے ساتھ ندامت کے مارے منہ نیچے کر کے ہماری دکانوں سے گزر جاتے مگر پھر آہستہ آہستہ بولنا اور سلام دعا شروع کر دی.خدا کی شان ! ! خلیل احمد صاحب بی اے.بھائی گریجوایٹ جولوگوں کو بھڑکاتے تھے قیام امن کے بعد ربوہ پہنچے اور ربوہ میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے چوتھی صف میں بیٹھے تھے کہ اچانک اُن پر میری نظر پڑ گئی.یہیں ان کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھتا رہا.نماز جمعہ کے بعد میں ان کے پاس گیا اور وہ میرے گلے لگ گئے اور معانقہ کیا.میں نے کہا کہ آپ کدھر ! ! کہنے لگے کہ میں نے حق پا لیا ہے.احمدیت سچی ہے.میں نے اپنے دل سے عہد کیا تھا کہ اگر احمدی

Page 113

١٠٣ اس محلہ سے پہنچ گئے تو میں ایمان لے آؤں گا.لہذا میں آج ہے احمد می ہوں.اور بیعت کرنے آیا ہوں.چنانچہ وہ بیعت کر کے گئے.اور پھر اپنے والدین کو تبلیغ کی.اور وہ بھی احمدی ہو گئے.اس کے بھائی بھی.یعنی وہ چار پانچ افراد گھر کے احمدی ہو گئے.اس طرح ان کی تبلیغ سے اور بھی کئی سعید روحیں داخل جماعت احمدیہ ہو گئیں.لے ت (تلخیص مراسلہ غیر مطبوعہ

Page 114

L فصل دوم ضلع لائلپور (فیصل آباد) تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے :.سے جنوری ۱۹۵۳ء تک اس ضلع میں بھی احتراری احمدی نزاع کی کیفیت دوسرے اضلاع ہی کی مانند تھی.یکم دسمبر کو یوم میلاد النبی کے موقعہ پر احراریوں نے ایسے جھنڈے بلند کیے جن پر یہ دو مطالبات لکھے تھے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے اور چوہدری ظفر اللہ خان کا مینہ سے بر طرف کیے جائیں.اس کے بعد یہ معمول ہو گیا کہ قبل تھانہ اور بعد نمازہ کی تقریروں میں یہی مطالبات دہرائے جانے لگے.تقریریں نہ صرف احمدیوں کے بلکہ حکومت کے بھی خلاف تھیں...اس دوران میں رضا کار برابر بھرتی کیے جاتے رہے جو قرآن پر حلف اٹھاتے تھے اور اپنے خون ڈائریکٹ ایکشن کے عہد نامے پر دستخط کرتے تھے.....اس تحریک کو بہت سے مسلم لیگیوں کی بھی حمایت حاصل تھی.حقیقت میں لیگ کے بہت سے کو نسلر جماعت احرار سے تعلق رکھتے تھے اور اس تحریک کی حمایت میں عوام پر اثر ڈال رہے تھے.یہ خبر موصول ہوئی کہ لا ہور میں مارشل لاء اعلان کر دیا گیا ہے.شام کو چیف منسٹر کا یہ اعلان پہنچا کہ حکومت پنجاب نے شورش پسندوں کے مطالبات کو تسلیم کر لیا ہے.ان کو حکومت پنجاب کی رائے کے ساتھ مرکز میں بھیج دیا ہے.اور صوبے کا ایک وزیر ان مطالبات کو کابینہ کے سامنے بوجہ احسن پیش کرنے کی غرض سے کراچی جا رہا ہے.شورش پسندوں نے اس اعلان سے یہ سمجھ لیا کہ حکومت نے سہتھیار ڈال دیئے ہیں.چنانچہ انہوں نے اپنی مہم تیز کر دی اور اس کے بعد مسلم لیگی ایم.ایل.اسے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرنے لگے......اسی دوران میں کسی احمدی کے جان و مال کو نقصان نہیں پہنچا.نہ شہر ہیں نہ صنعتی رقبے میں کسی جائیداد کی توڑ پھوڑ کی گئی.پرائیویٹ طور پر گولی چلانے کے صرف دو واقعات ہوئے.دونوں میں احمدیوں نے غلط فہمی کے ماتحت گولی چلا دی تھی.اور دونوں موقعوں

Page 115

پر بعض بچے زخمی ہوئے یا لے رو عدالتی بیان صدر انجین احمدیہ میں ہے کہ : - مارچ ۱۹۵۳ء میں اس خوف سے کہ راست اقدام کے نتیجہ میں سخت شورش برپا کی جائے گی مقامی احمدیوں کا ایک وفد راجہ جہاں داد خانصاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس غرض سے صحیح حالات ان سے بیان کیسے کہ احمدیوں کو پناہ دی جائے اور ان کی حفاظت کی جائے سپر نٹنڈنٹ پولیس نے وفد کی شکایات کی طرف مطلقاً توجہ نہ دی.وفد مایوس لوٹا.۲۲ فروری کو راست اقدام کا نفاذ کیا جانا تھا.اس تاریخ کے بعد احمدیوں کی دکانوں اور مکانوں کی فہرستیں پولیس نے طلب کیں، جو مہیا کی گئیں.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان فہرستوں کا استعمال شورش پسندوں نے احمدیوں کی دوکانوں اور مکانوں کا سراغ لگانے کے لیے کیا.جامع بیت الذكر لائلپور شورش پسندوں کا مرکز تھی جہاں احمدیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے خفیہ منصوبے تیار کیسے جاتے تھے.شہر میں جلوس چکر لگاتے پھرتے تھے اور مرزائی کرتا ہائے ہائے ' کے نعرے لگاتے پھرتے تھے مسٹر ابن حسن صاحب ڈپٹی کمشنر کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی کہ شورش پسند کرفیو اور دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور مسجد میں اپنے پروگرام ترتیب دیتے ہوئے مجلسہ کے انتظام کر رہے ہیں.اس پر انہیں ان شورش پسندوں کو جو مسجد میں جمع تھے منتشر کرنے کے لیے قانونی اقدامات کرنے پڑے.ایک احمدی ایڈووکیٹ مسٹر محمود احمد کے سامنے راجہ جہاں واد سپر نٹنڈنٹ پولیس نے یہ تجویز پیش کی کہ احمدیوں کے لیے شہر سے با مہر ایک رفیوجی کیمپ کھول دیا جائے اور یقین دلایا کہ...احمدی وہاں محفوظ رہیں گے.لیکن یہ تجویز احمدیوں نے منظور نہ کی اور اپنے مکانوں کو نہ چھوڑا.شہر میں مکمل لاقانونیت تھی جبکہ شورش پسند ہزاروں کی تعداد میں جلوس کی شکل میں گھومتے پھرتے تھے.سرکاری عمارتوں پر خشت باری کرتے تھے.اور احمدیوں کی دکانیں اور مکان لوٹتے تھے.ایک بہت بڑا اور تند ہجوم سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ہار پہنا کر جیل کی طرف لے گیا اور ڈپٹی کمتر ے رپورٹ تحقیقاتی عدالت م۱۶۸ تا ص۱۸۹

Page 116

صاحب اس کے ساتھ جانے پر مجبور ہو گئے.پولیس کہیں دکھائی نہ دیتی تھی اور اگر احمدی اس کے پاس پہنچ بھی جاتے تھے تو وہ احمدیوں کی مدد کرنے سے انکار کر دیتی تھی.کرفیو کے اوقات کے دوران میں غلام محمد احمدی کا مکان لوٹا گیا اور اسے زبر دستی مسجد میں لے جایا گیا جہاں اُسے مجبور کیا گیا کہ وہ احمدیت سے ارتداد اختیار کرے لائلپور رفصیل آباد شہر کے واقعات - میاں فضل دین صاحب دوکاندار گلی است کارخانہ بازار) کا بیان ہے.: ور ہم ر ما سرچ کو قریباً ۳٫۲ صد کا جتھہ میرے مکان پر حملہ کے لیے پہنچا.ڈیوڑھی کا دروازہ بلوائیوں نے توڑ دیا اور مکان کے اندر گھس گئے اور جو کچھ گھر میں متھا لوٹ کر لے گئے.ہیں مع مستورات چھت پر چلا گیا اور سیڑھیوں کا دروازہ بند کر لیا.تقریباً نصف گھنٹے کی لوٹ کے بعد تجمتہ واپس چلا گیا.پولیس میں رپورٹ کی گئی مگر کوئی آدمی پولیس کی طرف سے موقعہ دیکھنے کے لیے بھی نہ پہنچا مزید فرماتے ہیں : در موجودہ فسادات کے دنوں میں ، مارچ کو میں باہر گیا ہوا تھا چار بجے شام جلوس ہمارے مکان پر آیا.چند افراد نے دروازہ کھٹکھٹایا.میری والدہ گھر تھیں.انہوں نے دروازہ کھولا.چار پانچ افراد مکان کے اندر داخل ہو گئے اور میری بندوق کیمرہ ، ٹارچ کپڑے وغیرہ اٹھا کیئے گئے پولیس میں رپورٹ کی گئی.پولیس نے تفتیش کی تو بندوق ایک شخص محبوب نامی برا در ملک چیف گلاس ہاؤس کے پاس سے نکلی.بندوق ابھی تک پولیس کے قبضہ میں ہے.محبوب مذکور جماعت اسلامی کا ممبر ہے یا ۲ - والدہ صاحبہ ٹھیکیدار فتح دین صاحب نے بیان دیا کہ سب مورخہ، رمارچ کو میں اور میرا لڑکا جس کی عمر ۲۷ سال کی تھی گھر میں تھے حملہ آوروں نے دجن راہ ان دنوں آپ گل نیرم بازار منگری لائل پور میں رہتے تھے

Page 117

کی تعداد ۵۰۰ کے قریب سبھی حملہ کیا یہ وقت نہیں بجے شام کا تھا.میرے گھر میں ایک شارٹ کن کمرہ میں سامنے لٹک رہی تھی.حملہ آوروں نے اُٹھالی اور کہا کہ تم لوگ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ مار دیا جائے گا.کارخانہ بازار میں (ہمارے نزدیک) ایک احمدی چوہدری فضل الدین کا گھر تھا.ہم اس مکان میں اکٹھے ہو گئے میرے گھر کا سب سامان لوٹ لیا گیا.میرے لڑکے نے تھانہ میں فون کیا تو دوسپاہی آئے جبکہ سامان لوٹا جا چکا تھا.کچھ آدمی وہاں تھے.پولیس نے ان کو کچھ نہیں کہا.مجھے یہ کہا کہ جاؤ اپنے گھر میں.کوئی فکر نہ کرو.حملہ اور مجھے کہتے تھے کہ ہم تمہیں مار دیں گے اور جب تیرے لڑکے تجھے اٹھانے آئیں گے تو ان کو بھی مار دیں گے.تب میں نے وہاں سے آجانا ہی مناسب سمجھا.پولیس نے ہماری کوئی ملہ دنہیں کی یار ۳ - عبد الحمید صاحب نیم ملا کریم بخش صاحب ساکن گل نبرہ محلہ پر تاپ نگر لائل پور لکھتے ہیں کہ یکی عرصہ تین سال سے پرانی غلہ منڈی میں سائیں محمد بشیر احمد کمیشن ایجنٹ کی دکان پر بطور مینم کام کرتا تھا.مارچ ۱۹۵۳ء میں احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی مہم جاری ہوئی.احراری لیڈر میر غلام نبی.حکیم غلام محمد - چوہدری عبد الحمید آڑھتیاں نے سائیں محمد بشیر احمد کو مجبور کیا کہ مجھے ملازمت سے مرزائی ہونے کی وجہ سے علیحدہ کر دے.سو ۴ مارچ کو مجھے علیحدہ کر دیا اور اس وقت سے بیکار ہوں.مجھے اب تک ملازم نہیں ہونے دیتے کا چوہدری غلام جیلانی صاحب نے رجو ان ایام میں گلی نمبر محلہ سنت پورہ لائل پور میں قیام پذیر تھے) تحریر فرمایا : و مارچ سال کے پہلے ہفتہ میں دوبارہ منتظم طور پر فنڈ دگر دی شروع کی گئی.یکم مارچ ر کو قریباً پانچ صد افراد کا ہجوم میرے مکان پر حملہ آور ہوا.انہوں نے اینٹیں پر سائیں اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہونا چاہا مگر کو بٹھے سے میرے رائفل دکھانے پر وہ باز رہے پولیس کو اطلاع دی گئی مگر چو ہدری سردار علی اے ایس آئی انچارج چو کی جھنگ بازار نے مات ت بعد ازاں ربوہ میں مقیم ہو گئے تھے اور یہیں وفات پائی وفات 8 مارچ ۱۹۷۶ء

Page 118

KA جواب دیا کہ میں آپ کی حفاظت نہیں کر سکتا.آپ ربوہ چلے جائیں.ہر روز کئی کئی دفعہ جلوس آئے اور مکان کے آگے نعرے لگاتے اور گالیاں نکالتے مگر ہم اپنے مکان کے کواڑ بند کر کے ہفتہ بھر مقتدر ہے.ہمارا مکمل بائیکاٹ کیا ہوا تھا.اس لیے کھانے پینے کی اشیاء بھی میسر نہیں آتی تھیں.میری لڑکی شمیم شوکت ہو کہ سٹی مسلم گرلز ہائی سکول میں پڑھتی ہے.اس کو دینیات کی استانی نے محض احمدی ہونے کی وجہ سے پیٹا اور دوسری لڑکیوں کو بھی احمدی لڑکیوں کو بیٹے کی تلقین کی.۲۰ را پر بل ۹۵۳ کو پولیس نے میرے مکان کی بلا وجہ تلاشی لی لیکن کوئی چیز قابل مواخذہ قبضہ میں نہ لے سکی.الخ میاں محمد اسماعیل صاحب اپنے تحریری بیان میں اور جولائی سر کو فسادیوں کے حملہ اور غارت گری کا واقعہ بتانے کے بعد لکھتے ہیں : جب احرار نے 19 میں نئے سرے سے منتظم ہو کر احمدیت کے خلاف تحریک جاری کی اور ۲۸ فروری سے جلسے جلوس شروع ہو گئے.تب 4 مارچ کی شام کو میرے مکان محلہ لکڑ منڈی لائلپور پر ہزاروں احراریوں نے حملہ کر دیا.ہم اس وقت مکان میں 4 مردا اور ہم عورتیں تھیں.جن کے نام یہ ہیں.ا محمد اسماعیل (۲) بشیر احمد (۳) ضمیر احمد (۴) شریف احمد (۵) صدیق احمد -- مبارک احمد (پسران خود) (۷) رحمت بی بی اہلیہ خود (۸) بشیراں بیگم اہلیہ بشیر احمد - صفیه بگیم بنت خود (۱۲) بشیر فاخره بنت بشیر احمد سات بجے شام سے 9 بجے رات تک ہمارا بلوائیوں سے مقابلہ ہوتا رہا......مگر جب ہماری اینٹیں ختم ہونے کو تھیں ملیں اس وقت) و پ کے رات کے پولیس آگئی اور اُس نے آکر ہجوم کو منتشر کر دیا.اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر طرح محفوظ رکھا " - جناب فضل عمر صاحب ولد عبداللہ صاحب کا بیان ہے : ریکی ماہ مارچ میں حشمت اللہ ڈپو ہولڈر کے پاس اس کے ڈپو واقعہ گٹو شالہ میں ملازم متصل مورخه د مارچ قریب ساڑے سات بجے صبح میں نے ڈلو کی طرف پانچ صد آدمیوں کا جلوس آتے دیکھا.جلوس کو میں نے دیکھ کر ڈلو کی دکان کو تالا لگا دیا.اور پڑوس میں غیر احمدیوں کے پاس پناہ لی.

Page 119

1:9 نعمت خان نے میری مدد کے لیے مجھے ایک کمرہ میں بند کر کے اُسے تالا لگا دیا.مجھے ڈپو میں میری تلاش میں پہنچا تو اس کو کسی نے بتا دیا کہ میں کمرہ میں بند ہوں.بلوائیوں نے تالاکو توڑ دیا اور مجھے گھسیٹ کر باہر نکالا اور زرد و کوب کرنا شروع کر دیا.مگر مین اس وقت ملڑی کا ٹرک اس طرف آگیا جس کو دیکھ کہ وہ بھاگ گئے یا - مولوی فضل الدین صاحب بنگوری دوکاندار کارخانہ بازار شہری الپور ایک حلفیہ بیان میں لکھتے ہیں.ر مارچ ۱۹۵۳ء کو مخالفین احمدیت احرار وغیرہ نے جلوس نکالا جس میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خلاف نہایت ہی فحش گالیاں اور نعرے لگا رہے تھے اور شہر لائل پور میں ہڑتال کر دادی گئی تھی.اس جلوس نے کارخانہ بانہالہ میں احقر فضل الدین بنگوی نمک فروش کی دکان کو فحش نعرے لگاتے ہوئے دن دہاڑے لوٹ لیا.اور شہداء کی طرح نمک کا ڈھیر جو کہ سر بہ من کے قریب تھا اور دکان کا سب سلمان ترازو اور بیٹے اور بوریاں اور ٹاٹ سب اٹھا کر لے گئے اور بوجہ ہڑتال کے میں دکان پر نہیں آیا.بلکہ اپنے گھر پر ہی رہا تھا تا کہ جلوس والوں کو فتنہ فساد کا موقعہ نہ ملے نگہ باوجود اس کے پھر بھی مشتر پسند دکان سے سب مال اور سامان وغیرہ کو لوٹ کر لے گئے.پھر اس کارخانہ بازار سے گزر کر جلوس ریلوے اسٹیشن لالمپور کی طرف روانہ ہوا اور ان کے راستہ میں احقر کا مکان تھا میں یہ انہوں نے خشت باری کی.اس دوران میں ہمارے ہمسایہ مکرمی محمد الدین صاحب بٹ نے بندہ کو اور میرے بال بچوں کو اپنے گھر میں پناہ دے کہ ہماری پوری پوری حقیقت کی اور جلوس میں اپنے واقف کاروں کو جو شامل تھے لعنت ملامت کر کے پیچھے ہٹا دیا.جزا ہم اللہ احسن الجزاء في الدنيا والآخرة - پھر یہ جلوس آگے ریلوے لائن پر جا کہ اسٹیشن کے قریب نہایت ہی اشتعال انگیز نعرے لگانے لگا جس پر پولیس نے ان کو منتشر ہونے کو کہا مگر جلوس منتشر نہ ہوا.جس پر پولیس نے لا مٹی ه ولادت ۲۰ ر تجون ۶۱۹۰۰ وفات ۸ راگست ۱۹۸۹ ۶

Page 120

11.چارج کی.پھر بھی جلوس منتشر نہ ہوا.آخر شام چار بجے کے قریب پولیس نے گولی چلائی.رمانه چ ۱۹۵۳ء کو باوجود کرفیو کے شرپسندوں نے شام کو جلوس نکالا.افسران نے اُن کو رد کا گروہ باز نہ آئے جس پر چنیوٹ بازار میں گولی چلا کر ان کو منتشر کیا گیا یا شے مولانا محمد اسماعیل صاحب و با گری تھی مری ضلع رامپور کی ذاتی ڈائری میں لکھا ہے :- ۴ مارچ ۶۱۹۵۳ درس دیا.آج دن بھر ہڑتال رہی جس کے متعلق رات مضدین نے اعلان کہ ایا دن بھر غنڈوں اور ہلڑ بازوں کے ہجوم گندے اور مشتعل نعرے لگاتے ہوئے گھومتے رہے.۵ر مارچ ۶۱۹۵۳ درس دیا.شہر کی حالت آج بھی خراب رہی.گو ہڑتال نہیں تھی لیکن لوگوں میں اشتعال شدید پایا جاتا تھا.جگہ جگہ لوگوں کی ٹولیاں فسادات کے متعلق باتیں کرتی پائی گئیں کہ احمدیوں کو لوٹ لینا مار دینا بالکل جاڑا ہے ۶ مارچ ۶۱۹۵۳ - آج احمدی احباب کو مشورہ دیا گیا کہ چونکہ فسادیوں کے ارادے سے اخبار" اعلان دلائلپور موتر خه ۲۲ را پریل شد نے ص ۲۶ پر لکھا کہ کارخانہ بازار میں جو فضل الدین مرزائی نمک فروش کا اڈہ ہے ہم اس کی تبلیغ برداشت نہیں کہ سکتے.لہذا ہم پولیس کو مطلع کرتے ہیں کہ وہ کل صبح نو بجے سے پہلے پہلے کارخانہ بازار سے مرزائیت کے نمک فروشی کے اڈے کو اٹھا دیں ورنہ ہم خود انتظام کریں گے کیا یہ انتظام کس طرح کیا گیا ہےاس کا ذکر تحقیقاتی عدالت کے فاضل ججوں نے بایں الفاظ کیا : - سال انپور میں یوم تشکر ۲۰ اپریل ۱۹۵۱ء کومنایا گیا جہاں ایک بہت بڑے جلسے میں غلام نبی با نماز نے ایک احمدی دکاندار فضل دین کو دھمکی دی کہ تمہارا حشر برا ہو گا.چنانچہ مر مٹی کو دن دہاڑے اس کا تدار پر اس کی دکان کے اندر ہی حملہ کیا گیا “ (رپورٹ ۲۹) سه دفات ۱۴ر اگست ۱۹۸۳ ۶

Page 121

احمد یہ بیت الفضل فیصل آباد فسادات ۱۹۵۳ء کے دوران میں

Page 122

احمدیہ بیت الفضل فیصل آباد فسادات ۱۹۵۳ء کے دوران میں

Page 123

بہت گندے اور امن شکن ہیں اس لیے احمدی احباب اپنے اپنے گھروں کی حفاظت کریں.اور نماز جمعہ بھی گھر پر ہی ادا کریں.بیت الذکر میں صرف چند آدمی جمعہ کے لیے آئے.باقی اپنے گھروں کی حفاظت کرتے رہے.عصر کی نماز کے بعد قریبا چار ہزار آدمیوں کا ہجوم ہماری بیت الذکر پر حملہ اور ہوا.۲۵ منٹ تک انہوں نے ہماری بیت الذکر کو گھیرے رکھا.خشت باری کی.آگ لگانے کے مشورے کیے.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ناکام رہے.حملہ کے وقت خاکسار کے ہمراہ علی حمد خادم بیت الذکر ، بھائی غلام محمد جلد ساز - مستری محمد صدیق اور شیخ عبد المجيد بيت الذكر میں تھے.۷ مارچ ۶۱۹۵۳ آج ربوہ کی طرف سے آنے والی چناب ایکپریس کو فسادیوں کے ہجوم نے طارق آباد کے قریب روک لیا.شور کوٹ کی طرف سے آنے والی گاڑی کو بھی سگنل سے باہر روک لیا گیا.جب ہجوم لوٹ مار، ریل کی پٹریوں کو جلانے اور اکھاڑنے میں مصروف ہو گیا تو پولیس کو مجبور ہو کر گولی چلانا پڑی جس کے بعد شہر کی حالت بہت زیادہ خراب ہو گئی.اور خطرہ بڑھ گیا.چھ بجے شام سے کرفیو لگا دیا گیا لیکن لوگوں نے کرفیو کا مذاق اُڑایا.ه ر مارچ ۶۱۹۵۳ کل فسادیوں اور لوٹ مار کرنے والوں پر جو گولی پولیس کو تنگ اکر چلانی پڑی اور اس میں جو نین آدمی ہلاک ہوئے وہ چونکہ احراریوں کے عظیم الشان شہداء تھے اس لیے بہت بڑے جلوس کے ہمراہ ان کا جنازہ اٹھایا گیا اور خوب مظاہرہ کیا گیا تا کہ فضا نہ بادہ سے زیادہ خراب ہوا اور ملک کا امن بالکل سیر با در ہو جائے.آج شام جب کرفیو لگایا تو ساتھ اعلان کر دیا گیا کہ اگر کسی نے قانون کی بہتک کی تو اُسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا.فسادیوں کے ایک ہوم نے کرفیو توڑا میں پر مڑی کو گولی چلانا پڑی.۹ مارچ ۶۱۹۵۳ کر نیو آر ڈر۳ بجے بعد دوپہر تک لگایا گیا تھا لیکن سمندری روڈ پر فسادیوں کے اجتماع اور ملڑی فائرنگ کی وجہ سے کرفیو کل صبح پانچ بجے تک بڑھا دیا گیا.ے اصل ڈائری میں جو شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے، بیت الذکر کی بجائے مسجد کا لفظ ہے (ناقل)

Page 124

۱۰ مارچ ۶۱۹۵۳ لائلپور کے ڈی سی کے تدبیر اور نیک نیتی سے قیام امن کی کوششوں سے احرار کا فتنہ درب گیا.کہ فیو ارڈر نے فسادیوں کے حوصلے توڑ دیئے.تحقیقاتی عدالت (فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء) کی مضافات لائلپور کے واقعات ہوں میں ضلع لاہور کے متعلق لکھا ہے : رپور.: ہ ضلع کے جن دوسرے قصبوں پر شورش کا اثر ہوا وہ یہ تھے ، چک جھمرہ ، جڑانوالہ، ڈھکوٹ سمندری ، تاندلیانوالہ، گوجرہ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کمالیہ وغیرہ.لیکن ان مقامات پر قوت کے استعمال کی ہرگز مرورت نہیں پڑی اور احمدیوں کے جان ومال کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا ہے لیکن عدالتی بیان صدر انجمن احمدیہ میں لکھا ہے کہ : لائلپور کے مضافات اور دوسرے چکوں میں احمدیوں پر آلات قتل سے حملے کیے جاتے تھے جس کے نتیجہ میں بارہ احمدیوں کو شدید ضربات پہنچیں اور بہت سے احمدیوں کا پولیس نے خلاف قانون چالان کیا کیا ضلع لائلپور کے متعلق رپورٹ اور عدالتی بیان دونوں میں بہت ہی اختصار سے کام لیا گیا ہے حالانکہ شہر لائلپور کی طرح ضلع لائلپور کے قصبات و دیہات میں بھی احمدیوں کے خلاف انتہائی ول آزار ہنگامے کھڑے کیے گئے جیسا کہ مندرجہ ذیل بیانات سے عیاں ہو گا : - چک جهمره | اس بیان جناب محمد یوسف صاحب بھی اسے بی ٹی : چک جھمرہ مکہ میں میں چک مد میں ڈی.بی ہائی سکول چک جھمرہ کا سیکنڈ ماسٹر ہوں اس قصبہ میں تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں مقامی مجلس احماد نے نہایت اشتعال انگیزی سے کام لیا.کوئی مہینہ بھر سے احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ تھا.نہ انہیں بازار سے سودا ملتا تھا نہ وہ کسی جگہ آزادانہ آجا سکتے تھے.دن بھر جلوس نکلتے جن میں جماعت احمدیہ کے بزرگوں کو مخش زین گالیا دی جاتیں اور احمد ہی گھروں کے سامنے ان کی بہو بیٹیوں کے نام لے لے کہ گندے نعرے لگائے جاتے.ے رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص ۱۸۹ (اردو)

Page 125

مورفه ، مارچ بروز هفته به اشتعال انگیزی انتہا تک پہنچ گئی.تقریباً ساڑھے چار بجے بعد دو پر اچانک شہر میں ہرچ گیا.لوگ ادھر سے اُدھر دوڑنے بھاگنے لگے.شور میں صاف آوازیں آ رہی تھیں کہ مجلس عمل نے فیصلہ دیدیا ہے کہ مرزائیوں کو لوٹ لو.مار دو.ان کے مکان جلا دو.میرے مکان کے سامنے ایک مخالف رہتے ہیں.یہ مشتعل ہجوم کو اور زیادہ استعمال دلانے کے لیے میرے مکان کی طرف اشارہ کر کے پکارنے لگے یہاے مسلمانو با تم ان مجاہدوں کی اولاد ہو جو فولادی قلعے توڑ دیتے تھے.کیا تم سے یہ معمولی کھڑکیاں دروازے نہیں ٹوٹتے کا ہجوم میں کچھ اس قدر جوش و خروش تھا کہ لبس یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک لمحہ میں ہی یہ لوگ دروازے توڑ کر اوپر آیا چاہتے ہیں اور ہم سب کو تہ تیغ کر ڈالیں گے.میرے بیوی بچے بے اختیار ہو کہ چیخ پکار کرنے لگے.اس مکان کی نچلی منزل میں ایک مہاجر کنبہ رہتا ہے.یہ گریہ وزاری دیکھ کہ ان کی ایک عورت نے میری بیوی سے اصرار کیا کہ ہم سب سے نیچے چلیں تاکہ وہ ہمیں اپنے مکان کی پچھلی کوٹھڑی میں مقفل کر دے اس طرح شاید بچاؤ کی کوئی صورت پیدا ہو جائے مگر سامنے کی ایک اور ہمسائی نے اسے دیکھ لیا اور وہ پکاری کہ تو انہیں کب تک چھپائے گی.لوگ تو ابھی پہنچ رہے ہیں.چنانچہ ہم نے نیچے جانے سے انکار کر دیا.اس اثنا میں شام کا دھندلکا ہو گیا اور ہم ایک ایک کر کے مکان کھلا چھوڑ کر نکل گئے اور ایک لیے راستے سے کھیتوں میں سے ہوتے ہوتے موضع بھگوان سنگھ والا میں جہاں کہ ایک احمدی زمیندار خاندان بستا ہے گرتے پڑتے پہنچ گئے.دوسرے دور دو اور احمدی خاندان اسی صورت حالات میں وہاں پناہ گزین ہوئے.۳ روز بعد قدرے امن ہونے پر ہم واپس اپنے گھروں میں آگئے.بائیکاٹ پھر بھی جاری رہا اور جلوس نکلتے رہے مگر جوش و خروش کافی مدھم پڑ چکا تھا.مقامی چوکی پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل سید محمد یوسف شاہ اور ایک اور کانسٹیبل منشی سدے خان گاہ گاہ جماعت احمدیہ کے افراد کی خبر گیری گرتے رہے.۳ر اپریل بروز جمعہ اچانک پولیس افسران میرے مکان پر آئے اور تمام مکان کی تلاشی لے لی مگر کسی قسم کا قابل اعتراض لٹریچر بر آمد نہ ہوا ۲ - بیان جناب مولوی عبد الغنی صاحب شریک مجر ڈی.بی.ہائی سکول چک جھمرہ -

Page 126

۱۱۴ مد میر امکان جو کہ ریلوے لائن کے بالکل سامنے ہے اور سرکاری گندم کے گودام کے بالکل متصل ہے میرے پڑوس میں دو آدمی رہتے ہیں.یہ دونوں احراری ہیں.اور انہوں نے لوگوں کو احمدیت کے خلاف سخت اشتعال دلایا.ایک کالڑکا چاقو میرے بچوں کو دکھاتا تھا اور بچوں کو دھمکی دیتا تھا کہ تمہارا پیٹ چاقو سے پھاڑ دوں گا.کئی دفعہ اس نے میرے بچوں کو زد و کوب کیا.ہمارے مکان پر جلوس والے چار پانچ مرتبہ آئے.صرف ایک دفعہ پولیس کے دو سپاہی ساتھ تھے ورنہ پولیس جلوس کے ساتھ نہیں ہوتی تھی.میرے مکان کے سامنے جلوس والے گندی گالیاں نکالتے اور دروازے کھڑکیاں توڑنے کی کوشش کرتے لیکن ہم دروازے اور کھڑکیوں کو اندر سے مضبوطی کے ساتھ دھکیل کر کھڑے رہتے.ایک مرتب انھوں نے دروانے کی حق توڑ پھوڑ ڈالی کھڑکی کھول لی اور میری بیوی اور بیٹی کو دیکھ کر کہنے لگے کہ...ہم مرزائیوں کی بیٹیاں نکال کر لے جائیں گے اور مکانوں کو آگ لگا دیں گے.۸ مارچ بروز اتوار دوپہر کے وقت میرے مکان پر قریبا پچاس آدمیوں نے حملہ کر کے سخت گالیاں دیں اور ہم کو قتل کر دینے کی دھمکیاں دیں.دو گھنٹے بعد میرے بیوی بچے محبوب اپنی کے مکان پر چلے گئے اور ان کے بچوں کے ساتھ ایک ننہ دیکی موضع میں ایک احمدی کے گھر پہنچ گئے.جب تجھمرہ سٹیشن پر لڑی آگئی تب واپس اپنے گھروں میں آگئے اور تم کو دیکھ کر پھر لوگوں نے ہمیں مغلظ گالیاں دیں لیکن ہم نے صبر کیا.بیان سید عبد اللہ شاہ صاحب جنرل مرچنٹ.دکان لے لٹ جانے کے خوف سے مجھے اکثر ایام میں اُسے بند ہی رکھنا پڑتا تھا.مارچ کو حالات نہایت شدت اختیار کر گئے.ریلوے سٹیشن چک جھمرہ پرمشتعل لوگوں نے کئی مسافر گاڑیاں روک دیکھی تھیں.اور اس قدر شور و غوغا بر پا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی.بار مارچ کو حالات اور بگڑ گئے اور کوئی چار بجے شام کے قریب تو اچانک یہ نعرے لگنے لگے.مجلس عمل نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ مرزائیوں کے مکان جلا دو.مرزائیوں کو لوٹ کو مار دو یا ہر لحظہ مکان پر حملہ کا خوف تھا.باہر راستے رُکے ہوئے تھے کسی طرف جان بچا کہ

Page 127

نکل جانا نا ممکن نظر آتا تھا.مجبوراً خدا کا نام لے کر بیوی سمیت مکان میں دیکا بیٹھا رہا.کچھ رات گزرنے پر ایک ہمدرد ہمسائے نے آکر اطلاع دی کہ آپ فوراً مکان سے نکل جائیں سخت خطرہ ہے.چنانچہ میں اپنے بیوی بچوں اور ضعیف والد صاحب کو ساتھ لیسے رات کی تاریکی میں مکان سے نکل گیا اور ہم چھپتے چھپاتے راتوں رات ہے میں فاصلہ طے کر کے نہایت خستہ حالی میں موضع ستھوٹی والہ میں پہنچ گئے.جہاں میرے ایک رشتہ دار رہتے ہیں.دوسرے دن اطلاع ملی کہ واقعی ہمارے مکان سے نکل جانے کے بعد حملہ آور آئے اور دروازہ توڑنے کی کوشش کی.چکیں جلا ڈالیں.ایک ہمسایہ کے گھر کے راستے سے اوپر کو ٹھے پر چڑھ گئے.مگر ہمیں موجو د نہ پا کر غیظ و غضب کی حالت میں واپس لوٹے.ہم ستھوٹی والہ میں تقریباً در ، دن پناہ گزیں رہے.حالات قدرے درست ہونے پر واپس اپنے گھر آئے.ابھی تک اس بائیکاٹ اور اشتعال انگیزی کا میرے کاروبار پر بہت بڑا اثر ہے.....مورخه ۳ ر اپریل کو اچانک میرے مکان کی مکمل تلاشی ہوئی مگر پولیس کو کوئی قابل اعتراض چیز نہ ملی " ۴ - بیان چوہدری عبد الرحمن صاحب = چک نمبر ۲۶/ ج - ب تحصیل لا پلیور | میں چک نمبر ۲۶۱ کا باشندہ ہوں.اس چک میں تین گھر احمدیوں کے ہیں.مورخہ ہم مارچ بوقت چار بجے شام میرے گاؤں کے تین چار صد آڈیوں نے جلوس بنایا اور میرے گھر آئے.جلوس میں شامل آدمیوں نے میرے گھر کی کچی دیوار گرادی.تنور گرا دیا.چبوترا اکھیڑ دیا.گالیاں نکالیں.گھر میں پتھر پھینکے.میری دو لڑکیوں کو مارا.دوسرے دو احمدیوں کے گھروں پر بھی گئے.مگر ان کے گھر میں داخل نہ ہوئے.باہر سے ہی پتھر مارتے رہے.ڈھکوٹ تھانہ میں رپورٹ کی.تھانیدار نے گاؤں کے دس سر کردہ آدمیوں کو بلایا.سمجھایا اور اس طرح امن ہو گیا " چک التحصیل جڑانوالہ | R.B ۵۱ - بیان حکیم رحیم بخش صاحب - میرے چک میں قریباً تیس گھر احمدیوں کے ہیں اور اپنے احمدیوں کی برادری کے قریباً ساٹھ گھر ہیں.مارچ کے پہلے ہفتہ میں تین مولوی کار میں دیہات کا دورہ کر رہے تھے.کار میں لاؤڈ سپیکر تھا.یہ کار مولویوں سمیت ہمارے چک میں قریبا دو بجے

Page 128

دو پہر آئی.ان مولویوں نے نہایت اشتعال انگیز تقریریں کیں.لوگوں کو کہا کہ وہ احمدیوں کو ماریں اور لوٹیں مگر برادری کے نیک اثر کی وجہ سے گاؤں میں شرارت پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے قریب ہم ہر مارچ کو ہمارے گاؤں کے قریباً دس احمدی طلباء لکڑیانوالہ ڈی.بی ڈل سکول میں گئے تو سکول کے طالب علموں نے اُن کو مارا.پولیس کو رپورٹ دی ہیڈ ما سٹرنے ہم سے کہا کہ لڑکوں کو سکول نہ بھیجا کریں.حالات قابو سے باہر ہیں.مورخہ ۳ ر اپریل کو بغیر کسی وجہ کے میرے گھر کی تلاشی لی لیکن پولیس کوئی چیز قابل مواخذہ و اعتراض قبضہ میں نہ لے سکی ؟ ڈھکوٹ = - بیان جناب محمد عبد اللہ صاحب دو میں منڈی ڈھکوٹ میں دکان آڑ بہت کہتا ہوں.دکان مذکورہ میں میرا حصہ دار غیر احمدی مسمی غلام مرتضیٰ متھا.غیر احمدیوں نے میرے حصہ دار کو مجبور کر کے جبر امجھے دکان علیحدہ کروا دیا.اور بائیکاٹ کر دیا.اب میں نے اسی شہر میں دوسری جگہ وکان حاصل کر لی ہے لیکن میرا مکمل بائیکاٹ ہے اور کسی گاہک کو میرے پاس نہیں آنے دیا جاتا.مورخہ ۵ر مارچ کو میرے گاؤں چک نمبر ۱۳۲ میں جلوس نکالا گیا اور میرے گھر پر حملہ کے لیے آئے مگر بعض لوگوں اور پڑوسیوں کے روکنے سے وہ شرارت سے باز رہے “ بچوہدری محمد نواز صاحب آڑھتی نے انہی دنوں بتایا کہ : ء سمندری اور میں احمدی ہوں جوکہ بمقام سمندری آڑہت کرتا ہوں.مارچ سوا کو شورش میں میرا پورا پورا بائیکاٹ کیا گیا اور.....تقریبا چار ہزار روپیہ جو کہ میرا غیر احمدی اصحا کے ذمہ واجب الوصول تھا میرے خلاف پراپیگنڈا کر کے روپیہ منبط اور خرد برد کر وا دیا گیا ہے.بلکہ یہاں تک کہ کسی غیر احمدی دوست کو اب تک بھی میری دکان پر آنے نہیں دیا جا تاکہ اس ناجائز فعل سے مجھے سخت نقصان ہوا ہے.جڑانوالہ ) - جماعت احمدیہ جڑانوالہ کو ایام فسادات میں کن صبر آنہ ما حالات سے دوچار جماعتامی و میں آنها سے ہو نا پڑا ؟ اس کا کسی قدر نقشہ جڑانوالہ کے تین احمدیوں کے بیانات سے سامنے آسکتا ہے.:

Page 129

114 شیخ عبد الرحیم صاحب صرات جڑانوالہ نے بیان دیا کہ " مجھے جو فسادات گزشتہ میں تکالیف پہنچیں ، بعض یہ ہیں : - سب سے پہلے میرا بائیکاٹ کر دیا گیا جواب تک جاری ہے.ایک شخص.....جس کی دکان بزازی ریل بازار میں ہے اس نے میرے./ ۸۸ روپے دینے تھے.اس کی طرف ہیں نے اپنے بھائی کو قرمن وصول کرنے کے لیے بھیجا مگر اس نے کہا اگر مجھ سے روپے مانگے تو میں آپ کا پیٹ پھاڑ دوں گا.اس طرح میرا پانچ سو روپیہ مختلف اشخاص نے نہیں دیا.ایک دفعہ میں نے ٹال سے ایندھن منگوایا اور ایندھن گھر میں رکھوا لیا.ٹال والا زیرہ دستی ۱۵ر افراد کیا تھے آکر گھر سے ایندھن اٹھوا کر لے گیا.اس طرح میں ایک دفعہ گوشت لینے کے لیے گیا تو انہوں نے گوشت دینے سے انکار کر دیا اور ایک شخص احراری دوکان پر بیٹھا بتاتا تھا کہ یہ شخص مرزائی ہے اس کو گوشت نہ دو.اگر دیا تو جوتوں سے مرقت ہوگی.اسی طرح ایک دن سبزی لینے گیا تو سبزی والے نے انکار کر دیا.کچہری بازار میں میری دکان ہے اور یہاں پر اکثر مرانوں کی دکانیں ہیں.اس لیے برادری کی طرف سے میرا ابھی تک مکمل بائیکاٹ ہے اگر کوئی باہر سے گاہک دکان پہ آجائے تو اس کو یہ کہ کر دکان سے لے جاتے ہیں کہ آپ کو شرم نہیں آتی کہ مسلمان ہو کہ مرزائی کی دکان پر جاتے ہیں.اسی طرح ایک بیو پاری جس کا نام عبد المجید زرگر گجرانوالہ کا ہے وہ تمام ھرانوں کی دکانوں کو چاندی کا مال تیار کر کے سپلائی کرتا ہے.میری برادری نے اُس کو آرڈر دیا ہے کہ تم نے عبد الرحیم کو مال دیا تو ہم آپ سے قطع تعلق ہو جائیں گے......اس وقت میری دکان کی حالت یہ ہے اور کاروبار پہ اتنا اثر پڑا ہے کہ کوئی ڈرتا دکان پر قدم نہیں رکھتا.میرے پاس جو کچھ نقدی وغیرہ تھی اسی کو کھا رہا ہوں.گڑ بڑ کے دوران میں میر گھر کے سامنے سے جلوس گزرتے رہے اور گھر کے سامنے ٹھہر کر بہت گالیاں دیتے.گڑ بڑ کے بعد میرے گھر کی تلاشی لی گئی مگر کوئی چیز قابل اعتراض بر آمد نہ ہوئی ہے ۱۰- ایک بیوہ احمدی خاتون محترمہ سردار بیگم صاحبہ نے اپنی درد تاک آپ بیتی مندرجہ ذیل الفاظ میں لکھوائی.میرے خاوند چوہدری دوست محمد خان صاحب ایم.اے (علی گڑھ) بیٹی گولڈ میڈلسٹ

Page 130

LA جڑانوالہ گورنمنٹ ہائی سکول میں سیکنڈ ہیڈ ماسٹر تھے.عرصہ چار سال کا ہو گیا ہے.وہ وفات پا چکے ہیں.میں ہوشیار پور کے ایک معزز گھرانہ سے تعلق رکھتی ہوں اور اب میں جڑانوالہ میں تقسیم ہوں میرے پاس چھوٹا لڑکا جس کی عمر آٹھ نو سال کی ہے رہتا ہے.اور پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے جس دن سے احمدیوں کے خلاف مولویوں نے اعلان کر دیا کہ ان کو مارا پیٹا جائے اور ان کو دُکھ دینا اور مارنا کار ثواب ہے اس دن سے میرے بچے کو اسکول میں دوسرے بچے دُکھ دیتے تھے.جس وقت اس کو اکیلا دیکھتے تو اُسے پڑا تھے.ایک دن میرے بیٹے کو خوب پیٹا گیا اور اُسے کہا گیا کہ جب تک تم چو ہدری ظفر اللہ خاں اور بانی سلسلہ احمدیہ کو گالیاں نہیں نکالو گے ہم تمہیں مارنا بند نہیں کریں گے.آخر ان لڑکوں نے میرے بچے کو اس وقت چھوڑا جب میرے بچے نے چوہدری ظفر اللہ کو غدار کہدیا اور بڑی مشکلوں سے پھوٹ کر روتا رہ دتا گھر آیا.ایک دن بڑے بڑے لڑکے اس کی جوتی اٹھا کرے گئے.جلوس نکلنے کی وجہ سے سب دکانیں بند تھیں.اس لیے اور جوتی خریدی بھی نہ جاسکی اور نہ ہی میرے پاس کوئی آدمی جو تا لاکر دینے والا موجود تھا.ایک رات کچھ لڑ کے میرے مکان میں داخل ہوئے.پھولوں کے گملے اور چند برتن اٹھا کرلے گئے.ان کے علاوہ اور بھی نقصانات ہوئے ہر روز کئی کئی جلوس نکالے جاتے اور ہمارے گھر کے سامنے آکر خوب مظاہرہ کرتے اور خوب ناچتے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور ہم احمدیوں کا سیا پا کیا جاتا.ایک لڑکے کا منہ کالا کر کے اس کو چار پائی پر لٹا کر اسے اٹھاتے پھرتے اور کہتے کہ یہ ظفر اللہ کا جنازہ ہے.ایک آدمی کو جوتوں کا ہار پہنا کر جلوس کے آگے نچایا جاتا اور اُسے گالیاں دی جاتیں کہ یہ مرزا غلام احمد ہے اور ہمارے گھر کے چاروں طرف گھومتے.گندی گالیاں دی جاتیں جو لکھی بھی نہیں جاسکتیں.ئیں اور میرا چھوٹا بچہ دروازے بند کر کے اندر بیٹھے رہتے.پھر مکان پر پتھراؤ کیا جاتا.بہت زور سے پھر ہمارے مکانوں اور کھڑکیوں پر آکر لگتے.ہمارے روشندانوں کے شیشے سب توڑ دیئے گئے جن کی اب تک مرمت نہیں کروائی جا سکی.ایک عورت ہو میرے گھر میں کام کرتی تھی اُسے روپوں کا لالچ دے کر ہمارے گھر میں کام کرنے

Page 131

119 سے روک دیا گیا.ہم احمدیوں سے بائیکاٹ کیا گیا اور سودا سلف دینے سے دوکانداروں کو منع کر دیا گیا.ایک دن میرا بچہ سبنری لینے گیا.دکاندار نے اُسے سبزی دے کر پیسے لے لیے اور بعد ازاں سہنری چھین لی.اور بچہ روتا رہ دتا گھر آ گیا.ہمارے پاس آٹا ختم ہو گیا تھا اور آٹا پسا یا بھی نہیں جا سکتا تھا.اس لیے ہم دو دن بغیر آٹے کے رہے.دو وجود دہلی سے کہا گیا کہ ان کو دودھ نہ دیا کرے مگر وہ وفادار نکلی اور خفیہ طور پر دودھ دے جاتی.بھنگن کو بھی بند کر نے کی کوشش کی گئی.ہم چائے پی کر اندر خاموشی سے بیٹھے رہتے.ایک دن ہمیں ایندھن کی بہت تنگی آئی.ایک دن ہمارے گھر کو آگ لگانے کی سکیم تھی.چند لوگ ہمارے گھر کی طرف آ سکے کچھ اشارے کرتے رہے مگر واللہ اعلم کیا وجہ ہوئی منتشر ہوکر چلے گئے.شاید پولیس والے گشت پر آتے نظر آئے ہوں.ہماری کھڑکیوں کو جالی لگی ہوتی تھیں.یہ سب کچھ نہیں نظر آتا تھا.مجھے ساری ساری رات جاگنا پڑ تا حبس کی وجہ سے میری صحبت خراب ہو گئی اور ابھی تک مکمل درست نہیں ہوئی.نوکرانی کے ہٹائے جانے سے سارا کام خود کر نا پڑتا.دھوبی کے پاس ہمارے کپڑے گئے ہوئے تھے.اس نے کپڑے دینے سے انکار.کر دیا.ایک دن پولیس نے ہمارے مکان پر چھاپہ مارا اور تلاشی لی.صرف میکں اور میرا چھوٹا بچہ اس وقت گھر پر تھے.لوگ ہمارے گھر کے اردگرد جمع ہو گئے.پولیس نے مجھے یہ موقع نہ دیا کہ میں کسی عزیز کو بلا لیتی.جس طرح ڈاکوؤں کے گھر میں داخل ہوتے ہیں راسی طرح ہمارے گھر میں داخل ہوئے.ناقل ) کچہ کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس وقت مجھ پر بہت خوف طاری ہوا.پولیس نے گھر کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر میں سے کوئی بھی قابل اعتراض چیز نہ نکلی.جس وقت پولیس نے چھاپہ مارا اس وقت عصر کا وقت تھا میں نماز پڑھنے لگی تھی.انہوں نے کہا ہمارے ساتھ ہو کر گھر کی تلاشی دلاؤ.میں نے کہا پہلے مجھے عصر کی نماز پڑھ لینے دو سپاہیوں نے مجھے ایسا کرنے سے روکا لیکن تھانیدار نے کہا بی بی پڑھ لو.ایک دن مجھے ہمسایوں میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ آپ بہنوں جیسی ہیں اس لیے آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ مکان چھوڑ کر کہیں چلے جائیں یا احمدیت سے انکار کر دیں.

Page 132

玩 انہوں نے کہا کہ آپ کی یہاں خیر نہیں.پبلک کے تمہارے متعلق بہت بڑے ارادے ہیں.میں نے کہا میں نہ مکان چھوڑ کر جا سکتی ہوں اور نہ احمدیت سے انکار کر سکتی ہوں لیکن میردل میں خوف ضرور تھا کہ کہیں ان لوگوں کو میرے جواب سے طیش نہ آجائے.یہ میں مشکلات جن کا ہمیں سامنا کرنا پڑا.حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک لمبا عر تک میں اور خوف وہراس کی حالت میں رہے یا - بجناب محمد حسین صاحب سیکرٹری امور عامہ جڑانوالہ اپنے ایک بیان میں لکھتے ہیں کہ.ان دنوں عبد الرشید ولد عبد الرحمن مہاجہ طالب علم کو دو دفعہ پیٹا گیا.ایک دفعہ بازار میں بعض دکانداروں نے پیٹا.جب وہ اپنے کام سے وہاں سے گزر رہا تھا اور دوسری دفعہ جب وہ سکول میں تعلیم کے لیے گیا اس کا سر پھوٹ گیا.افتخار احمد طالب علم کو جس کی عمر قریباً آٹھ سال ہے سکول میں لڑکوں نے مار مار کر مجبور کیا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو گالیاں دو اور چوہدری ظفر اللہ خاں کو غدار کہو.اُسے اس وقت تک پیٹتے رہے جب تک اُس نے مجبور ہو کہ چوہدری ظفر اللہ خان کو غدار نہ کہا.نہ ماسٹر نے شکایت شنی اور نہ کسی لڑکے نے اُسے سہچایا.بچہ کئی دن تک سکول نہ گیا.گرل سکول میں احمد می لڑکیوں کو روزانہ گالیاں دی جاتی رہیں یہاں تک کہ سید عنائت علی شاہ زیروی کی لڑکی امتحان میں سے اُٹھ کر گھر کو چلے آنے پر مجبور ہو گئی.اور آئندہ تعلیم سے محروم ہو گئی.میاں محمد شریف صاحب اور چوہدری سردار احمد صاحب کی لڑکیوں کو بھی سکول چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا.انسانی کو جب شکایت کی گئی تو اس نے (اللہ) ہماری لڑکیوں کو ڈانٹا اور کہا تم کو جنتنا پیٹا جائے پھوڑا ہے.تم نے ہزاروں مسلمانوں کو گولیوں سے مرد ایا ہے.ڈاکٹر محمد انور صاحب مروایا امیر جماعت احمدیہ جڑانوالہ کی چھوٹی بچی جو بازار سے کچھ سودا لانے کے لیے جارہی تھی کسی نے اُسے دھکا دیا اور پانچ روپیہ کا نوٹ اس سے چھین لیا کا ہے.ڈاکٹر صاحب موصوف نے محترم ملک فضل حسین صاحب کو بتایا کہ کسی شخص نے میری بچی کو دھکا دیا اور پانچ روپے کا نوٹ چھین کر کہنے لگا کہ مرزائیوں کا سب کچھ چھین لینا جائز ہے اور اپنی راہ چلتا بنا.کسی نے اُسے نہ ٹو کا.وہ بچی روتی ہوئی گھر آئی اور یہ واقعہ سنایا.

Page 133

اسی طرح ڈاکٹر صاحب کے بچے محمد اکرم عمر 4 سال کو بانہارمیں لڑکوں نے پیٹا.نیز میاں عبدالرحیم صاحب صراف کے بچے کو بازار سے گزرتے وقت پیٹا " پچک نمبر ۱۹ اگ رب 11 - میاں فضل دین صاحب قوم جٹ پیشہ زمیندار نے با قرار صالح مندرجہ ذیل بیان دیا کہ : " ہمارے گاؤں چک نمبر 19 اگ رب میں عرصہ دو سال سے زیادہ شدت کے ساتھ ہمارے خلاف ہر قسم کی شرارت کی جارہی ہے.مورخہ ہم ار جولائی ۹۵۷اد کو ایک مخالف نے بلا کر ہماری بے غرقی کی اور ڈرایا کہ احمدیت سے توبہ کرو ورنہ تم سب قتل کر دیئے جاؤ گے ہم اپنے عقائد پر ڈٹے رہے جس پر اولاً ہمارے ساتھ تمام تعلقات منقطع کرلیے.ہمارا حقہ پانی بند کر دیا گیا.کنویں سے پانی لینے سے روک دیا گیا.فرداً فرد اسب احمدیوں کو زدو کوب کرنا شروع کر دیا موجودہ شورش میں تمام گاؤں کے گاؤں نے قرآن کریم اپنی لڑکیوں کے سروں پر نا معقد رکھ کر قسم کھائی کہ ہم لڑکیوں سے بڑا کریں اگر ہم ایک ایک مرزائی قتل نہ کر دیں.یہ واقعہ ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کا ہے ایک شخص نے ہمیں کہا کہ تم نے ہمارے مولوی ککڑ وائے ہیں.اب ہم سے بھلا ایک گھر مرزائیوں کا ختم نہ ہو سکے گا.چنانچہ سب لوگ جلوس کی شکل میں ہمارے گھر کے سامنے اکٹھے ہو گئے اور نہایت مخش قسم کی گالیاں دینی شروع کر دیں.ہم اندر سے دروازے بند کر کے بیٹھے رہے.بعد میں ان میں سے ایک نے کہا کہ ایک مرزائی نے تھانہ میں جا کہ رپورٹ لکھوا دی ہے.یہ سن کر سب جلوس منتشر ہو گیا.اس طرح ہم بچ گئے.پھر ہم رات کو نہ بجے بیچ بیچا کہ تھانہ جڑانوالہ میںپہنچے.انچارج صاحب وہاں گئے اور پچیس آدمیوں کے انگو تھے اس تحریر پر لگوائے کہ وہ آئندہ شورش نہ کریں گے.اس سے پندرہ روز پہلے خاکسار فضل الدین کو بلا کر جوتے لگائے گئے.نذیر احمد کو اس قدر زد و کوب کیا گیا کہ وہ بے ہوش ہو گیا.محمد شریف احمدی کے پیٹ میں چا تو گھونپ دیا گیا مگر خدا کے فضل سے جان سے سب پہنچ گئے " / - ۱۲ - میاں عاشق محمد خان صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چیک ۵۶ - پچک نمبر ۵۶ - ۵۷ ہ نے بیان دیا کہ :- اگر چک ۵۶ - ۵ ه گ - ب تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور کی جماعت احمدیہ کے خلافت کیکم مارچ

Page 134

١٢٣ تاه با رچ مختلف قسم کے مشورے اور خفیہ اجلاس ہوتے رہے.فیصلہ ہوا کہ جو کچھ جمعہ کے خطبہ میں امام مسجد کہے گا اس پر عمل ہو گا.جمعہ کے خطبہ میں مولوی...نے کہا کہ مجامبر اسلام لاہور وغیرہ شہروں میں اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھا رہے ہیں لیکن تم ہو اپنے گھروں میں خواب غفلت ہیں میں سورہے ہو.اب وقت آگیا ہے کہ اس فرقہ مرزائیہ کے ہر فرد کو موت کے گھاٹ اتار دو.کفن سر پر باندھو.اگر مارے گئے تو شہید اور نہ غازی.ثواب آخرت کے علاوہ اس دنیا کی لوٹ سے حصہ پاؤ.مرزائیوں کی عورتیں تم پر بلا نکاح حلال ہیں.اب ہمار می شکر حکومت اور مرزائی دونوں سے ہے.انشاء اللہ ہم ان کو مٹا کے چھوڑیں گے.....بعد نماز جمعہ ایک خوفناک جلوس نکالا گیا جس میں ہے صد نفوس شامل ہوئے کافی تعداد کے پاس مہلک ہتھیار تھے.احمدیوں کے بزرگوں کو دل کھول کر گالی گلوچ کیا گیا اور ہر احمدی کے بند دروازے (کیونکہ احمدیوں نے خوف سے دروار بند کر لیے تھے) کے سامنے پکارا گیا کہ تمہیں ایک دو دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ اپنے غلط عقیدہ کو بدل دو.ورنہ تمہارے گھر بار لوٹ لئے جائیں گے.تمہاری عورتوں کی بے عزتی کی جائے گی اور تمہیں قتل کر دیا جائے گا اور کہا کہ تمہاری عورتوں کی تقسیم اب ہی کر لی ہے.....افراد جماعت کو پابند مسکن کر دیا اور باہر کی دنیا سے ان کا سلسلہ پیغام رسانی توڑ دیا گیا.ہر قسم کی تنگی دی گئی.9 مارچ کو پروگرام پر عمل پیرا ہونے کے لیے بعد دو پر جلوس نکالا گیا.جلوس نہایت خوفناک صورت اختیار کیے ہوئے تھا.ان کے ارادے نہایت بڑے تھے لیکن قدرتاً تمام گاؤں میں افواہ پھیل گئی کہ عاشق محمد خان احمدی چک نمبر ۶ہ نے تھانہ میں اطلاع کی ہوئی ہے اور پولیس آرہی ہے.اس افواہ نے دشمنوں کے منصوبہ کو عملی زنگ اختیار نہ کرنے دیا اور جلوس کو خود ہی پولیس کے خوف سے منتشر کر دیا اور فیصلہ کیا گیا کہ آج کا دن پولیس کا انتظار کر لو اور احمدیوں کے قتل ، لوٹ مار اور عورتوں کی بے عزتی کو کل پر چھوڑ دو.اے ایس آئی چک ۵۵ گراب ۱۰ بجے قبل دو پر پہنچ گئے اور نمبردار (وغیرہ) سے وعدہ لیا کہ ہم ہر قیمت پر گاؤں میں امن قائم رکھیں گے.افسوس با وجود سجالی امن کا اقرار کرنے کے پھر بھی اس جماعت پر یلغار کی گئی جیسا کہ اسی چک کے متعلق محمد حسین خان صاحب سیکر میری امور عامہ جڑانوالہ نے تحریر ی شہادت دی کہ :

Page 135

سے ور چک نمبر ۵۵ ۵۶ میں احمدیوں کو گھیر لیا گیا.تقریباً ساری جماعت کو قتل کرنے کی دھمکی.مجبور کر کے دستخط لے لیے کہ وہ احمدیت سے بانہ آتے ہیں.ماسٹر عاشق محمد صاحب اور سید عنایت علی شاہ صاحب کو بہت پریشان کیا.مکان میں بند رکھا.قتل کرنے کو تیار ہو گئے.ان کی طرف سے جڑانوالہ میں اطلاع آجانے پر ہم نے پولیس بھیجوا دی.پولیس نے حالات پر قابو پا لیا - جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت : چک نمبر ۲۶ تھانہ ستھیانہ احمدی ضلع والہور کا بیان ہے.چک نمبر ۳۶ ستھیانہ میں چند احمدی گھر ہیں.مولویوں نے وہاں جا کر تقریریں کیں.احمدیوں پر حملہ ہوا.بارہ احمدی سخت زخمی ہوئے ٹیکوے ہلم، کلہاڑے ان پر استعمال نہوئے.چار کی حالت ایسی تھی کہ قریب الموت تھے.۱۲۸ مارچ ۱۹۵۳ کو یہ واقعہ ہوا.۲۹ مارچ کو راقم مع ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر رشید احمد صاحب ایمبولینس کا رے کر پہنچے.ڈاکٹر صاحب نے چار آدمیوں کی حالت انتہائی مخدوش پاکر انہیں شہر لائل پور کے ہسپتال میں منتقل کر دیا.۳۵ غیر احمدی زیر دفعہ ۳۰۷/۴۹ زیر چالان نہیں لیکن دوسرے تعمیر ے روز بعد احمدی مجروحین اور ان کے لواحقین کا بھی اسی دفعہ میں چالان کر دیا گیا.دونوں مقدمے عدالت میں ہیں.اس لیے اُن کے متعلق کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی.۱۵ - حمید احمد صاحب ساکن چک نمبر ۳۶ گرب تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور نے لکھا کہ میرے چک میں احمدیوں کے 24 گھر ہیں.ہمارے گاؤں کے مولویوں نے بہت اشتعال پیدا کیا اور گاؤں میں ماہ مارچ ۱۹۵۳ء میں قریباً ہر روزہ جلسہ کیا اور احمدیہ جماعت کے خلاف بہت گندا اچھالا.سخت بد زبانی کرتے.اسی اشتعال پھیلانے کی وجہ سے پولیس نے سر کردہ چار مولویوں کوگرفتار کر لیا اور اس طرح چک میں امن برقرار رکھنے میں پولیس کا میاب ہوئی.یہ چاروں مولوی چند دن کے بعد رہا ہو کر واپس گاؤں میں آگئے اور باقاعدہ تنظیم کے ساتھ حملہ کی تیاری شروع کردی.ہم احمدیوں کا گاؤں کے لوگوں سے بائیکاٹ کروایا.جلوس صبح شام نکالتے ، نہایت خش نا قابل برداشت اور انتہائی اثر انگیز اور اشتعال انگیز گالیاں نکالتے رہے.اور گھروں میں پتھر پھینکتے رہے اور پولیس نے ہماری یہ پورٹ پر دو سپاہی چک میں تقریبا دس یوم رکھے.اور

Page 136

اس طرح ان دنوں ہم اُن کے خطرناک ارادوں سے محفوظ رہے.مورخہ ۲۸ مارچ کو ر بار شدہ مولویوں نے پر وگرام کے مطابق ہمارے آدمیوں پر حملہ کیا.جبکہ وہ خراس پر آٹا پیسنے گئے اور اس طرح 14 آدمیوں کو پر چھوں ، کلہاڑیوں اور ڈانگوں سے زخمی کیا.پولیس موقع پر پہنچ گئی اور (اُن کے ۳۵ آدمیوں کا چالان کیا.دو تین یوم بعد ہمارے خلاف بھی لڑائی کا جعلی پرچہ کرا دیا گیا.اور ہمارے آدمیوں کا چالان کر دیا.تین ماہ تک ہماری ضمانتیں نہ ہوئیں اور گھر پر کوئی کام کرنے والا نہ رہا.وقوعہ کے ڈھائی ماہ بعد ہمارے ایک احمدی محمد یعقوب کے گھر گاؤں والوں نے نقب زنی کی واردات کرادی.الخ محمد شفیع صاحب اسلم نے جلیانوالہ متصل گوجرہ کا مندرجہ ذیل واقعہ جلیانوالہ متصل گوهره انہی دنوں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا کہ :- ] ہمارے گاؤں جلیانوالہ میں گواندر ہی اندر کھچڑی پک رہی تھی مگر بظاہر امن تھاکر، رما ده رچ کو گو تیرے میں حالات زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے دس بارہ مستورات ہمارہ سے ہاں چلی آئیں تاکہ غنڈہ عناصر سے محفوظ رہ سکیں اس پر ہمارے گاؤں میں ایک آگ لگ گئی اور سرکردہ لوگ نہیں کہنے لگے کہ تم نے ان عورتوں کو پناہ کیوں دی ہے چنانچہ سارے گاؤں میں مخالفت بھڑک اٹھی.مستورات کے یہاں آنے میں ایک لطیفہ یہ ہوا کہ ایک عورت اپنا ایک ٹرنک ساتھ لے آئی جو کسی قدر لمبا تھا اور قدرے وزنی بھی.گاؤں کے لوگوں نے سمجھا کہ اس میں اسلحہ ہے اور یہ مرزائیوں نے ہمارے لیے شہر سے مستورات کے بہانے منگوایا ہے اس وہم سے وہ لوگ اپنے مزموم ارادوں سے بانہ رہے گا جناب ملک فضل حسین صاحب کی تحقیق کے مطابق ضلع لائلپور میں اس قسم کی مار وہاٹہ اور جبر و تشدد وہیں ہوا جہاں کہ احمدی اقلیت میں تھے.کمزور و لاچار تھے.برعکس اس کے جس جگہ بھی احمد ی اکثریت میں تھے.یا ان کی اچھی خاصی آبادی تھی یا جہاں تھوڑے ہوتے ہوئے بھی اُن کے دلوں میں جرات و مردانگی کا مادہ کافی موجود تھا.وہاں کسی قسم کا فتنہ وفساد اور مہنگامہ آرائی نہ ہو سکی.بطور مثال سمندری سے تین میل دور چک نمبر ۴۶۹ کا ذکر کافی ہو گا.اس گاؤں میں احمد می بمشکل دس پندرہ ہوں گے.جب احرار نے ان کو جلوس کے ه وقات

Page 137

۱۲۵ ذریعہ تنگ اور پریشان کرنا چاہا تو بقول چو ہدری عبد المجید خان صاحب انہوں نے جلوس کے سامنے نکل کر کہا کہ روز روز کا جھگڑا آج ہی ختم کر لو.لڑ کر دیکھ لیتے ہیں.ان کے اس چیلنج نے دشمن کو حوصلہ کر دیا.اور پھر وہاں نہ جلوس نکلا اورنہ گڑ بڑ ہوئی.

Page 138

فصل سوم ضلع جھنگ جھنگ مگھیا نہ میں شورش کے دوران اصل خطرے کے ایام ہر ے مارچ کے تھے جن میں فتنہ دهناد انتهانی عروج پر تھا.اور اندیشہ تھا کہ جانی ومالی نقصان احمدیوں کا ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے شریروں کا رخ دوسری طرف پلٹ گیا احمدی محفوظ رہے البتہ ان کے خلاف بائی کاٹ اور پکینگ کی تحریک بہت شدید تھی ان دنوں احمدیوں کی بیس کے قریب دکانیں شہر میں تھیں.جو ان کو بند رکھنا پڑیں.ان کی اور کھا چوں کے احمدی مہاجرین کی کئی ایک چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں بند رہیں کیونکہ مزدوروں کور کام کرنے سے روک دیا گیا.اور احمدیوں سے لین دین کرنے والے شخص کے لیے یکصد روپیہ جرمانہ مقرر کیا گیا.میاں بشیر احمد صاحب رنائب امیر جماعت احمدیہ مگھیا نہ - ایجنٹ سٹینڈرڈ و یکم آئل کمپنی جنگ) کی دکانیں ان ایام میں کھلی رہیں مگر سوائے پٹرول پمپ کے کوئی کار دربار نہ ہوا کیونکہ کٹنگ جاری تھی اور پڑول بھی پنجاب ٹرانسپورٹ کے سوا کسی نے نہیں لیا ان کی دکان اور پمپ کے سامنے ہی روزانہ بجلوس اگر اکھاڑا لگاتا اور یہیں سے منتشر ہو جاتا.بالآخر مقامی حکام کے تعاون سے پکٹنگ تا کام ہوگئی اور احمدیوں کا کار دوبارہ پھر سے چل نکلا.اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ مہنگیوں اور حجاموں کو احمدیوں کا کام کرنے سے روک دیا گیا احمدی احباب نے ان تمام حرکتوں کا صبر و استقلال سے مقابلہ کیا ہے را بنگہ ضلع جالندھر کے نواح میں ایک گاؤں ملخص مکتوب چوہدری عبد الفتن صاحب امیر جماعت احمدیه سنگی به بحضور حضرت مصلح موعود (۹ار مارچ ۱۹۵۳ء) مکتوب میاں بشیر احمد صاحب جھنگ مگھیانہ بحضور حضرت المصلح الموعود (۱۶) مارچ ۹۱۹۵۳) رپورٹ مولوی عبد الرحیم صاحب عارف مربی جھنگ مگھیانہ بنام حضرت سید ولی الله شاه صاحب اور مارچ ۱۱۹۵۳)

Page 139

شور کوٹ ان ایام میں بدامنی سے محفوظ رہا اور مجبوس پر امن رہے اور ان میں کسی قسم کا کوئی نا زیبا نعرہ نہیں لگایا گیا جو مقامی حکام کے تعاون اور حسن انتظام کا نتیجہ تھا.ایک شخص نے از راہ شرارت حکیم محمد زاہد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کے خلاف تحصیلدار صاحب کی عدالت میں بیان دیا کہ انہوں نے ہماری عورتوں کو گالیاں دی ہیں مگر یہ واقعہ سرا سر فرضی تھا چنانچہ وہ بری کر دیئے گئے لے بستی وریام گڑھ مہاراجہ، پیر عبدالرحمان بس سٹینڈ اور تھانہ بھوانہ کی احمدی جماعتوں میں بھی خیریت رہی کیے ربوده - احمد نگر اور چنیوٹ اور اس کے ماحول پر کیا بیتی ؟ اس کی کسی قدر تفصیل اب بیان کی جاتی ہے جہاں صوبہ پنجاب کی بہت سی احمدی جماعتوں کو مارچ ۱۹۵۳ء کے فتنہء محشر اور ہنگامہ قیامت سے دوچار ہونا پڑا ، وہاں ربوہ اور اس کا ماحول پر فتن ایام میں بھی بائیکاٹ محاصرہ اور قتل و غارت کی دھمکیوں کے تکلیف دہ ابتلاء میں گزرا.یہ ایام بہت صبر آزما تھے اور کئی تلخ یادیں چھوڑ گئے.اس دور کے احوال و کوائف تاریخ ریدہ اور اس کا ماحول وار درج کیے جاتے ہیں :.۱۳ مارچ ۳ مارچ ۱۹۵۳ء کو مسیح چھ بجے مولانا محمد اسماعیل صاحب دیا گڑھی مربی سلسلہ احمدیہ نے لائلپور سے یہ تحریر میں اطلاع بھجوائی کہ.حالات نہایت مخدوش ہیں.ہر احمدی گھر پر ہر لحظہ حملہ متوقع ہے کل چناب ایکسپرلیں.۳.۳۵ منٹ تک چنیوٹ میں روکے رکھی اور ہر ڈبہ میں احمدیوں کی تلاشی لی گئی تا کہ انہیں بانس کال کر مار دیا جائے.چنیوٹ پولیس یا فوج کا کوئی انتظام نہیں تھا.گاڑی جب لالپور پہنچی تو سگنل سے باہر روک لی گئی اور تین گھنٹے تک روکے رکھی بالآخر گولی چلانا پڑی.۴ مارچ.اس دن چنیوٹ گورنمنٹ گرلز سکول کی معصوم احمد می بچیوں کو جوتیوں سے پیٹا ے مکتوب بحضور حضرت مصلح موعود مرسله حکیم عبد الرحمان صاحب شمس سیکرٹری تبلیغ جماعت احمد یہ شور کوٹ (مورخہ دار مارچ ۱۹۵۳ء) سے کارڈ مولوی عبدالرحیم صاحب عارفت بنام حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر وعوت و تبلیغ ربوه (۱۸ ز مارچ ۶۱۹۵۳ )

Page 140

گیا.رات کو لڑکوں کا جلوس شہر میں گشت کرتا اور مہند دوستان زندہ باد در پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاتا رہا.۱۵ مارچ.صبح کو لائلپور جانے والی چناب ایکسپرلیں جب ربوہ ٹھہری تو انجن پھولوں سے سجا ہوا تھا اور سواریوں کے ہاتھ میں مطبوعہ اور دستی اشتہارات تھے جن پر بناوٹی نبی مردہ باد مرزائیوں کو اقلیت قرار دو ، ظفر اللہ کو اتار دو مجاہد بنو “ کے الفاظ درج تھے گاڑی میں نعرے بھی لگائے گئے.جن سے ملک میں ابھرنے والے فتنہ کے نئے رجحانات کی نشان ہیں ہوتی تھی.مرکز میں لاہور اور سیالکوٹ سے بعضی احمدیوں کی شہادت کی اطلاعیں پہنچیں جس پر شام کو وزیر اعظم پاکستان پنجاب کے چیف سیکر ٹی ، ہوم سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو تار دیئے گئے جن میں لاہور اور سیالکوٹ کے احمدیوں کی تشویشناک صورت حال سے مطلع کیا گیا تھا.ایک تار حفاظت ربوہ کے انتظامات کے لیے ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ کو بھی دیا گیا.انسپکڑ صاحب پولیس اور ایس.ڈی.ایم صاحب چنیوٹ نے بعض احمدیوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے بچوں کا سر دست ہنگامی حالات میں ربوہ کے سکول میں آنا اور جانا بند کر دیں.خطرہ ہے کہ کوئی نقصان نہ ہو جائے.آج بھی چنیوٹ میں جلوس نکلا خیس میں دو تین ہزار مرد اور سو کے قریب عورتیں بھی شامل تھیں چنیوٹ گرلز سکول کی احمدی بچیوں کی فہرست بنائی گئی اور استانیوں نے مشورہ کیا کہ ان کو غنڈوں کے حوالہ کیا جائے گا.۲ مارچ - بجناب شیخ محمد حسین صاحب پنشنر سیکرٹری مال و قائم مقام امیر جماعت احمدیہ چنیوٹ نے سب انسپکٹر صاحب پولیس تھانہ صدر چنیوٹ اور پریذیڈنٹ صاحب میونسپل کمیٹی چنیوٹ کو تحریری درخواست دی که - جماعت احمدیہ کی ہیں بیچیں لڑکیاں ایم بی گرلز مڈل سکول محلہ گڑھا میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اب امتحان سالانہ قریب آگیا ہے گرلز سکول میں استانیوں کی موجودگی میں حنفی مسلمان لڑکیاں احمدی...لڑکیوں کو ہر قسم کی طعن تشنیع اور گالی گلوچ کا مظاہرہ کر کے سخت تنگ کرتی نام وفات ، رجعون ۱۹۷۶ء

Page 141

۱۲۹ ہیں اور دہشت بھی پیدا کر تی ہیں کہ ہم مرزائیوں کو مار ڈالیں گے یہ کریں گے وہ کریں گئے.لہذا مؤدبانہ گزارش ہے کہ فوری طور پر مہاری بچیوں کی حفاظت کا انتظام فرمایا جائے اور دوسری لڑکیوں کو ایسی شیع حرکات کرنے سے روکنے کا انتظام فرمایا جائے مگر اس درخواست پر کوئی کارروائی نہ کی گئی.اسی روز جماعت احمدیہ چنیوٹ کے ایک وفد نے انچارج صاحب تھا نہ چنیوٹ کو یہ عرض داشت بھی پیش کی کہ آج جمعہ کی نماز سب احمدی اپنی بیت الذکر میں ادا کریں گے.خبریں آرہی ہیں کہ مشتعل نوجوانوں کو شرارت کے لیے اکسانے کے علاوہ چاقو ، چھڑے وغیرہ سے مسلح کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس لیے احمدی حلقوں اور احمدیہ بیت الذکر کی حفاظت کا بندوبست کر کے ممنون فرمائیں.انچارچ صاحب نے احمدی وفد سے وعدہ کیا کہ میں ابھی دو تین سپاہی احمد یہ بیت الذکر کے لیے بھیجتا ہوں مگر موقعہ پر نہ صرف ایک سپاہی بھی نہیں بھیجا گیا بلکہ پولیس نے احمدی حلقوں کا گشت کرنا بند کر دیا.نماز جمعہ کے بعد شیخ محمد حسین صاحب اور چو ہدری جمال الدین صاحب.AD.M سے ملے انہوں نے دوران گفتگو کہا ” آپ اطمینان سے اپنے گھروں کو بند کر کے بیٹھے رہیں اگر میں نے پولیس کو لگایا تو اشتعال زیادہ ہوگا میں نے شہر کے بڑے بڑے لوگوں کو تنبیہ کہ دی ہے کہ احمدیوں کو کچھ نہ کہا جائے اور نہ نقصان کیا جائے اگر کسی احمدی کا نقصان ہوا تو ایک نہیں ہزار گولی چلاؤں گا.آپ گھروں میں بیٹھیں جلوس اور بازار میں نہ جائیں یا اس ملاقات کے چند منٹ بعد دس پندرہ ہزار کا ایک جلوس.A.D.M کے پاس پہنچا جس میں احمدیوں کو شدید گالیاں دی جارہی تھیں اور اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے.کا نڈیوال میں صرف ایک گھر احمدی کا تھا جسے لوٹنے کی کوشش کی گئی.اس روز قریبا بجے رو پر کیپٹی چوہدری ظهور سین صاحب میر تقیم واد النصر بود، چنیوٹ سے محمد بذریعہ لاری ربوہ آرہے تھے کہ ایک شخص نے جو لاری میں بیٹھا ہوا تھا دریا عبور کرتے ہی کہا کہ در تاریخ ہی کہا کو بربوہ پر حملہ ہو گا اس حملہ میں فرنیٹر کے پٹھان بھی شامل ہوں گے کیا سه وفات ۱۸ رمئی ۱۹۸۷ء کے حال لندن

Page 142

۱۳۰ کار مارچ.ربوہ کے اسٹیشن ماسٹر ابو بشیر احمد صاحب سے صبح کو بذریعہ تار کسی نے پوچھا کہ مشتا ہے مرزا بشیر الدین کو لاہورمیں گولی مار دی گئی ہے.اسٹیشن ماسٹر صاحب نے تردید کی تو پھر اس نے کسی اور اسٹیشن سے رابطہ قائم کیا اُسے جواب ملا کہ بات درست ہے مگر بشیر احمد جھوٹ بولتا ہے بابو صاحب نے یہ بات بھی سنی.پولیس افسر صاحب چنیوٹ نے بعض احمدیوں سے کہا کہ اب ہمیں بہت خطرہ ہو گیا ہے اس لیے آپ اپنی حفاظت نخود کریں " چنیوٹ کے ایک احمدی عطاء اللہ خاں صاحب نے اطلاع دی کہ انچارج متھانہ اے ڈی ایم وغیرہ وغیرہ عاجز آچکے ہیں تمام احمدیوں کے گھر خدا کے بھروسہ پر ہیں یا قبل ازیں لالیاں کے حالات کنٹرول میں تھے مگر چنیوٹ کے ۱۵ ۱۶٫ افراد نے لالیاں میں بھی سیکا یک اشتعال کی فضا پیدا کر دی.چنانچہ ، مارچ کی صبح یہاں ۲ ہزار کے ایک ہجوم نے چناب ایکسپریس کو روک لیا اور انجن پر چڑھ کر مختلف قسم کے نعرے لگائے گئے.مولوی عبدالحق صاحب بدوملہی کے بیان کے مطابق یہ نعرے تھے :.ہندوستان زندہ باد - پاکستان مرده یا د پولیس سب کچھ دیکھنے کے باوجود بے بس ہو کر کھڑی رہی.تاریخ - ربوہ کے جنوب مشرقی جانب ایک گاؤں چھنیاں ہے جس کے معزنہ غیر احمدیوں نے ان ایام میں بہت اچھا نمونہ دکھایا.اور نہ صرف اہل ربوہ کو اس گاؤں سے باقاعدگی کے ساتھ دودھ پہنچتا رہا بلکہ ربوہ کے بعض احمدی دوکاندار وہاں روزانہ جاتے اور دودھ لاتے رہے.۸ مارچ کو ایک سیاہی نے انہیں یہ کہکہ بائیکاٹ پر اکسانا چاہا کہ یہ بوہ میں خطرہ ہے.دودھ وغیرہ کوئی چیز وہاں لے کر نہ جاؤ لیکن چھپنی کے شرفاء قطعاً بائیکاٹ پر آمادہ نہ ہوئے.محلہ دارالیمن ربوہ کے بعض احمدی احباب اپنی مستورات اندرون شہر چھوڑ گئے تھے.۸ مارچ کو یہ دوست اپنی خواتین بحفاظت واپس اپنے محلہ میں لے آئے.سوائے ایک کے جن کی نسبت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ( جنرل پریذیڈنٹ) نے حضور کی خدمت میں اگلے دن اطلاع دی کہ آج انہوں نے تحریر لکھ دی ہے کہ وہ آج مستورات کو واپس لے جائیں گے.پریذیڈنٹ محلہ کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ ان کی واپسی پر رپورٹ کریں یا

Page 143

۱۳ لالیاں سے ڈاکٹر فضل حق صاحب صدر جماعت احمدیہ نے اطلاع دی کہ آج صبح سے لوگ جمع ہونے شروع ہوئے اس وقت جلوس نکل رہا ہے اور نعرے لگ رہے ہیں پبلک میں اشتعال پایا جاتا ہے.شرفاء پر امن رہنے کی تلقین کر رہے ہیں لیکن مفند پیروانہ باز نہیں آرہے......جماعت کے حوصلے خدا کے فضل وکرم سے بلند ہیں اور ہمیں اللہ تعالی کے وعدوں پر یقین ہے ہمیں معلوم نہیں کہ اُن کے کیا ارادے ہیں ہم ہر قربانی کے لیے تیار ہیں حضرت مصلح موعود نے اس رپورٹ پر اپنے دست مبارک سے لکھا جزاکم اللہ احسن الجزاء ۹ مارچ.مرکز کی طرف سے چھ کارکنان گوجرانوالہ ، لائلپور، لاہور سیالکوٹ ، چنیوٹ اور سر گور پیا کو مفصل ہدایات دیگر روانہ کیے گئے.شام کو نظارت امور عامہ میں حسب ذیل رپورٹ موصول ہوئی کہ : - ند ربوہ کا سب سے پہلے بائیکاٹ کوٹ امیر شاہ کے آدمیوں نے کیا پہلے پہلے دودھ بند کیا پھر دوسری اشیاء.صرف چارہ بعض ہمارے دوست نے آتے تھے آج شام کو جب ہمارے ربوہ کے دوست یعنی غلام حسین گڑے والے کے آدمی چارہ لینے کے لیے گئے تو گاؤں کے آدمیوں نے انہیں چارہ کاٹنے سے منع کر دیا اور کہا کہ......شاہ کا آدمی رجوعہ سے آیا ہے کہ ربوہ والوں کا پورا پورا بائیکاٹ کر دیا گیا، ہے اس لیے چارہ وغیرہ نہیں مل سکتا " مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مبلغ بلاد عربیہ دیپرنسپل جامعہ احمدیہ ان دنوں احمد نگر کے پریذیڈنٹ تھے.آپ نے فسادات کے دوران نہ صرف احمد نگر اور اس کے قرب وجوار میں آباد احمدیوں کو چوکس مستعد اور بیدار رکھا بلکہ مرکز کو احمد نگر اور اس کے ماحول لالیاں، کوٹ قاضی مل سپیرا یکو کے.کوٹ امیر شاہ وغیرہ کی رپورٹ بھجواتے رہے.19 مارچ سے آپ نے حضرت سید نا المصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت اقدس میں براہ راست روزانه دو وقت اطلاعات پہنچانے نہ ایک گاؤں جو کہ ربوہ سے متصل شمالی جانب واقع ہے.

Page 144

کا انتظام بھی کر دیا.۱۳ اس روز حضور کی خدمت بابرکت میں آپ کی حسب ذیل پہلی رپورٹ موصول ہوئی.بسم الله الرحمن الرحیم محمد افضل على رسوله الكريم سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی اید یکم الله بنصره السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاته.احمد نگر میں جماعت کے افراد کو اپنی حفاظت اور مستعدی کے لیے کہا گیا ہے خدام الاحمدیہ کے ماتحت نوجوانوں کی تنظیم کی جا چکی ہے.بہت سے انصار بھی اس تنظیم سے ملحق ہیں مضبوط آدمی یہاں پر نہ ہیں.کل تعداد مردوں کی ۱۵۰ کے قریب ہے مقامی غیر احمدی صاحبان کے چار پانچ لیڈر ہیں.دو یہاں کے پیروں میں سے ہیں.ایک سر براہ نمبر دار ہیں اور ایک برانچ پوسٹا سٹر ہیں ہے.وہ مسلم لیگ کے بھی ممبر ہیں.تین دن قبل ہمارا ایک اجتماع ہوا تھا.جس میں ان لوگوں نے اقرار کیا تھا کہ ہم ہر حالت میں جماعت احمدیہ کے ساتھ ہیں اور کسی صورت میں فساد میں حصہ نہ لیں گے اور نہ کسی کو حصہ لینے دیں گے.ہم نے بھی اپنی طرف سے پورے طور پر ان کی حفاظت کا یقین دلایا تھا.کل صبح ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمارے بعض لوگ ڈر کی وجہ سے احمد نگر سے باہر حیا رہے ہیں.میں نے کہا کہ آپ سب لوگوں کو جمع کریں میں انہیں ہر طرح تسلی دلاتا ہوں.وہ سب پیر خادم حسین صاحب کے مکان پر جمع ہوئے.جماعت کی طرف سے چھ سات آدمی ہم وہاں گئے اور باہمی سمجھوتہ ہوا کہ احمد نگر میں ہم سب مل کر ہر قیمت پر امن قائم رکھیں گے.اس سے انہیں بھی اطمینان ہو گیا.انہوں نے چار ممبر اپنی طرف سے مقرر کیے.اور چار ہمارے ه علیسی صاحب نے رحمت علی صاحب

Page 145

۱۳۳ مقرر ہوئے جن کا کام امن قائم کرنا ہو گا.غیر احمدیوں نے اس کمیٹی کے صدر کے لیے مجھے ہی منتخب کیا ہے.ہماری طرف سے اس کیٹی میں چو ہدری غلام حیدر صاحب، قریشی محمد نذیر صاحب چوہدری علی شیر صاحب اور مولوی ظفر محمد صاحب اور خاکسار مقرر ہوئے ہیں.جماعتی مقامی انتظامات میں عام تنظیم اور خدام کی اعلی نگرانی قائد احمد نگر مولوی عبدالمنان صاحب که قادر آبادی کے سپرد ہے.اور مولوی شریف احمد صاحب خالد گجراتی دفاعی انتظامات کے.نگران ہیں.....کل شام سے پانچ سپاہی پھر احد نگر میں آگئے ہیں انہیں اپنی نگرانی میں ایک کمرہ میں ٹھہرایا گیا ہے.ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام جماعت کے نہ یہ انتظام کیا جا رہا ہے.آج غیر احمدی حلقوں میں ایک افواہ ہے کہ میانوالی کے پٹھانوں کا تین ہزارہ کا ایک مجھے پیدل آرہا ہے اور وہ جتھہ سرگودہا پہنچ چکا ہے.ایک غیر احمدی نے خبر دی ہے کہ مہر محمد حسن صاحبیت نے اس تحریک میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے.اس وقت چنیوٹ سے دو تین آدمی گاؤں کے لوگوں میں پراپیگنڈا کر رہے ہیں اور جھوٹی خبروں سے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کا پورا پتہ کر کے انشاء الله اطلاع دی جائے گی.آج سے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ انشاء اللہ حضور کی اقدس میں روزانہ دو وقت احمد نگر کی رپورٹ براہ راست بھی بھیجی جایا کرے گی انشاء اللہ یہاں پہ مردوں ، عورتوں اور بچوں سب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورا حوصلہ اور ہمت ہے.حضور کے اعلانات روزانہ بیت الذکر میں سنائے جاتے ہیں.خاکسار خادم نا چیز البعد العطاء جالندھری ۱۲ بجے دن ۹۳ کسپرٹینڈنٹ جامعہ احمدیہ وفات (۲۴ مٹی ۱۹۸۱ ی اسم استاد جامعه احمدیه وفات ۱۲ جنوری له تله استاد جامعه احمدیه (وفات ۲۹ ر ا پریل ۱۹۸۲ ء کے مربی سلسله احمدیہ (وفات) ۱۵ / اکتوبر ۱۹۸۸ ء ص مر محمد حسن " ایم ایل اسے لالیاں.

Page 146

۱۳۴ اسی روز چینیوٹ سے جمال الدین احمد صاحب کی یہ رپورٹ پہنچی کہ :.مو صنع کوٹ خدا یار جو چنیوٹ سے تین میل پر ہے وہاں صرف ایک دو گھر احمد می ہیں اور انہیں کل سے سخت پریشان کیا جا رہا ہے انہوں نے ایک درخواست انچارج تھا نہ چینوٹ کے نام ارسال کی ہے مگہ وہ فوری توجہ اور مزدوری امداد کے سختی اور خطرہ میں ہیں " در راه گزر تے احمدیوں پر آوازے کے جاتے ہیں ، گالیاں دی جارہی ہیں اور مختلف افواہیں گرم ہیں.لوٹ مار اور قتل و غارت آگ کی دھمکیاں دی جارہی ہیں عملی طور پر چنیوٹ میں کوئی نقصان احمدیوں کا نہیں ہوائے لالیاں کے احمدی اس روزہ شدید خطرے سے دوچار ہو گئے کیونکہ مخالفین نے بیت الذکر میں جمع ہو کر احمدیوں کے مکانوں کو جلانے اور لوٹنے کا جو منصوبہ باندھا تھا اُس کا آغا نہ کر دیا گیا چنانچہ ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ جماعت نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اس منصوبہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھا : ہماری دعاؤں سے خاص طور پر امداد فرمائیں.مقامی دوستوں کے رشتہ دار ا کٹھے ہو کہ ان کے پاس جاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں تم قتل کیے جاؤ گے ورنہ تم ہمارے ساتھ مل جاؤا نہیں دن رات ڈرا دھمکا رہے ہیں.مہاجروں کو بھی دھمکی دے رہے ہیں ہم ساری رات جاگتے رہتے ہیں کاروبار بند پڑے ہیں مگر نہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین ہے انشاء اللہ ہم اللہ تعالی کے رستہ ہیں ہر قربانی کے لیے تیار ہیں آپ ہماری پشت نہیں دیکھیں گے.بہر کیف آج ان کے ارادے انتہائی خطرناک ہیں اللہ تعالی فتنہ پر دانوں کے ارادوں میں ان کو نا کام کرے ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قربانی کا موقع دیا ہے حضور دعاؤں میں یا درکھیں میں آج اپنا چنده مبلغ پچاس روپیہ بھی سیکرٹری مال شیخ مہر بار صاحب کے ذریعہ بھیج رہا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور بھی اس لحاظ سے سر خرو ہو جاؤں میرے ذمہ کوئی بقایا نہ ہو.برادرم نیز احمد صاحب ولد میاں احمد دین صاحب زرگر بھی اخلاص سے کام کر رہے ہیں کیا ارما پچ - چنیوٹ ، رجوعہ اچھپتی اور کچھی وغیرہ مقامات سے اطلاعات کی فرا ہمی چودھری صلاح الدین احمد صاحب سابق ناظم جائیداد کے شہر دکھتی جو اپنی رپور میں ان دونوں با قاعدہ ناظر لے وفات ۲۴ فروری ۶۱۹۸۷

Page 147

۱۳۵ اصلی صاحب کو اور اس کی نقل حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حضور بھجواتے تھے.چوہدری صاحب موصوف نے رپورٹ دی کہ :.ار آج ملک احمد خاں صاحب کو چھٹیاں دے کر رجوعہ بھیجا گیا.....سید غلام محمد شاہ سابق ایم ایل اے ابن سید سردار حسین شاہ و مہر شاہ سے ملاقات ہوئی.میری چٹھی پڑھ کہ ان ہر دو نے اس امر سے انکار کیا کہ انہوں نے لوگوں کو دودھ وغیرہ لے جانے سے روکا ہے اور نہ ہی انہوں نے کسی قسم کے بائیکاٹ کی ترغیب دلائی ہے.سیدہ غلام محمد شاہ صاحب نے یہ بھی کہا کہ شاید ان کے والد صاحب نے مزارعان وغیرہ کو اس ضمن میں کچھ کہا تھا نیز اس نے کہا کہ "آپ بھی ہم سے ناراض ہیں اور چنیوٹ والوں نے بھی کل ہمارا جنازہ نکالنا ہے.اس وجہ سے کہ ہم گرفتار نہیں ہوئے " ر بھٹڑ جات سے چار پھیرے جو چنیوٹ کے ہیں وہاں بھجوائے گئے.انہوں نے وہاں اپنے رشتہ داروں سے کہا کہ اگر اور مارچ ۱۹۵۳ء کو کوئی خطرہ ہے تو کیا ہم وہاں سے چلے آمین اُن کے رشتہ داروں نے جواب دیا کہ یہ بوہ پر کون حملہ کر سکتا ہے اور کس کی طاقت ہے پتھروں نے کہا کہ پھر بھی اپنے ذمہ دار آدمیوں سے پوچھ لو تم بھی بیچ میں یونہی نہ مارے جائیں.چنانچہ انہوں نے مشرارتی عناصر سے پوچھا جنہوں نے جواب دیا کہ ربوہ پر حملہ کیسے ہو سکتا ہے چنیوٹ والے تو سب بزدل ہیں اور ربوہ کی طرف کوئی منہ نہیں کرتا یا ".جنس قدر اطلاعات حاصل ہوئی ہیں اُن سے میرا تاثر یہ ہے کہ اور مارچ سر والی بات یعنی حملہ کی صورت بہت مشکل ہے ویسے دیہات میں زہر پھیلانے کی کوشش جاری ہے.موضع چھنی کے علاوہ کچھی کی طرف سے بھی کسی قدر دودھ آنا شروع ہو گیا ہے کیا چنیوٹ سے آمدہ ر صبح سات بجے) کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ من شنا ہے کہ رجوعہ سے آنے والے لوگوں نے شہر کے کارکنوں سے مل کر یہ پروگرام بنایا ہے کہ احمد ایوں کو مجبور کر کے کیمپ کی صورت میں تبدیل کر دیا جائے اور شہر سے نکلوا دیا جائے" باہر سے بلائے گئے رضا کاروں اور عوام کے ذریعہ سے فساد ، لوٹ مارہ وغیرہ کرانے کا پروگرام بن رہا ہے اور علانیہ کہا جاتا ہے کہ پولیس کا جبکہ پیر ہ شہر پر نہیں ہے.رائیفلوں

Page 148

والے اب جاچکے ہیں اب کسی کا ڈر ہے اور کب تک انتظار کرو گے یا احمدیوں کو کیمپ میں رکھنے کی تجویز انتہائی مشر انگیز تھی جس کا فوری نوٹس حضرت مصلح موعود نے لیا اور ارشاد فرمایا " فوراً اس کے متعلق ڈی سی کو لکھا جائے اور تار دی جائے یا چنانچہ دفتر امور عامہ کی طرف سے اس کی تعمیل کی گئی.میاں فرزند علی صاحب ملازم تعلیم الاسلام ہائی سکول نے تحریرہ ہی بیان دیا کہ وہ صیح بجے چنیوٹ کی منڈی میں گئے تھے.تین چار آدمیوں نے انہیں زدو کوب کیا اور پکڑ کر منڈی سے باہر نکال دیا.اسی روز با ۸ بجے شام ربوہ میں ایک سہ رکنی اصلاحی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا.جس کے سیکرٹری مولوی غلام باری صاحب سیف پر وفیسر جامعہ احمدیہ مقرر ہوئے.کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ربوہ کے داخلی انتظام کے سلسلہ میں متعد د اصلاحی فیصلے کیے گئے اور قرار پایا کہ اجلاس کے لیے آئندہ کورم دو ممبران کا ہوگا (۲) بعد نماز عصر کمیٹی کا بشرط ضرورت اجلاس ہو گا ۳ مرسری بیان سے کر فیصلہ کر دیا جائے گا.(۴) اجلاس بریت مبارک میں ہوا کرے گا.ار مارچ.پچھلے چند دنوں سے ربوہ پر حملہ ہونے کی افواہیں زور شور سے پھیل چکی تھیں اس لیے اس روز مولانا ابو العطاء صا حب نے احمد نگر سے خاص طور پر لالیاں، کوٹ قاضی، مل سپرا یکو کے اور کوٹ امیر شاہ وغیرہ دیات میں بعضی احمدی و غیر احمدی معززہ دوستوں کو خبر رسانی کے لیے بھیجا.احمد نگر کے مقامی غیر احمدیوں سے معلوم ہوا کہ ابھی تک انہیں کوئی پختہ اطلاع نہیں البتہ عورتوں کے ذریعے یہ افواہ پہنچی کہ گیارہ مارچ کو ربوہ پر جما ہوگا.اس منتقوقع خطرہ کے پیش نظر سید نا حضرت مصلح موعود نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب، اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو مشورہ کے لیے طلب فرمایا چنانچہ حضور نے قائمقام ناظر امور عامہ کے ایک مراسلہ پر اپنے قلم مبارک سے لکھا میاں بشیر احمد صاحب ، مولوی ابوالعطاء ، شاہ صاحب مجھ سے جلد ملیں تا ڈیفنس کے بارے میں غور کر لیا جائے گا اطلاع ملی کہ ایک باور دی شخص جو اپنے آپ کو گورنمنٹ کا آدمی ظاہر کرتا ہے اور گھوڑ سوار ہے.ربوہ سے پرہ میل کے فاصلہ پر موضع ڈاور کی طرف پھر رہا ہے اور لوگوں کو ربوہ کیران

Page 149

دودھ لانے سے روک رہا ہے اس نے یہ افواہ بھی پھیلائی ہے کہ ربوہ والوں نے دودھ پہنچا نیوالی خواتین میں سے ایک کو بری طرح ہلاک کر دیا ہے.حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہ تھی.۱۲ مارچ.پتہ چلا کہ موضع کچھی اور ملحقہ دیہات کے لوگوں پر ربوہ کا معاشی بائیکاٹے کرنے کے لیے سخت دباؤ ڈالا جارہا ہے مگر اس میں انہیں کامیابی نہیں ہوسکی.یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض دبہات میں یہ مشہور کیا جارہا ہے کہ ربوہ میں گندم اور سکی کی گاڑیاں آگئی ہیں نیز دودھ گھی وغیرہ بھی بذریعہ ریل بہتات کے ساتھ پہنچ رہا ہے اس لیے بائیکاٹ کرنے والے صرف اپنا نقصان کر رہے ہیں.چنیوٹ سے چوہدری جمال الدین احمد صاحب نے مفصل رپورٹ بھجوائی کہ یہاں آج احمدیوں کے خلاف مکمل اقتصادی بائیکاٹ شروع ہو گیا ہے.اس دن دکانوں پر بورڈ لگا یا گیا کہ مرزائی اصحاب سے سودا مانگ کر شرمندہ نہ ہوں بازار میں والنٹر ز گھومنے لگے جو دکانداروں کو احمدیوں کے پاس مود افروخت کرنے سے منع کرتے تھے اور ۵۰ روپے جرمانہ کی دھمکی دیتے یا دکان لوٹ لینے کی.احمدی دکانداروں کو سودا اور پھل دینے سے منع کر دیا گیا.ایک احمدی با با فضل الہی صاحب آٹا پسوانے کے لیے گئے تو مشین والوں نے انکار کر دیا.فضا یکدم زیادہ خراب ہوگئی.اشتغال بڑھ گیا.بعض احمدی دکانوں پر تھا کیا گا کھلم کھلا تشدد یعنی احمدیوں کو قتل کرنے یا مرتد کرنے کے لیے دھمکیاں دی جانے لگیں.اور ان کے مکانوں کو نذر آتش کرنے کے اراد سے ظاہر کیے جانے لگے اور شہر مکمل طور پر انارکی کی لپیٹ میں آگیا جس کا اللہ ایہ دگرد کے دیہات میں بھی پوری سرعت سے پھیل گیا.سیکرٹری صاحب امور عامہ جماعت احمد بہ چنیوٹ نے بھی اس دن جو ابتر اور تشویشناک حالات مرکزہ میں ارسال کیسے ان کے آخر میں لکھی کہ ایسے حالات میں جماعت ہے میں ہے چند روز میں بھوک کا شکار ہونا شروع ہو جائیں گے نیز اپنے گھروں میں ہر وقت اندر ہی خطرناک حالات کی بنا پر رہتے ہیں مجبوری کے وقت بانانہ میں جاتے ہیں ہماری حالت قابل رحم ہونے والی ہے خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ جلد مدد کے لیے پہنچے یا حضرت مصلح موعود نے اس رپورٹ پر اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا یہ

Page 150

۱۳۸ احمدی ہو کہ کیا آپ سمجھتے تھے کہ آپ کے گلے میں ہار پہنا ئیں گے کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے گلے میں ہار پڑے تھے " ؟ ۱۳ / مارچ - چنیوٹ میں بعد نماز جمعہ جلوس نکلا میں میں شامل ہونے والوں کی تعداد قریب اس ہزار تھی.لڑی کے سپاہی اڈے سے گزرے تو ان کے خلاف نعرے لگائے گئے.شیخ ظهر حسین صاحب تالمقام امیر جماعت احمدیہ مینوٹ نے سب انسپکڑ صاحب کو جماعت کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں مجبور ہوں میری پشت پر کوئی انہیں.سپاہی جواب دے چکے ہیں فورس طلب کی تھی وہ مل نہیں رہی ایک دوسرے منھا بیدار صاحب نے فرمایا کہ آپ اپنے آدمیوں کو ربوہ کیوں نہیں بھیج دیتے ؟ رز ساڑھے چار بجے شام کی رپورٹ موصول ہوئی کہ غیر احمدی مستورات اپنے تعلق والے گھروں کو از راہ ہمدردی آگاہ کر رہی ہیں کہ آج حملہ ہو گا اور رات کو آگ وغیرہ لگے گی " آج لالیاں میں باہر سے آنے والے ایک مولوی صاحب نے خطبہ جمعہ میں یہ کہکر اشتعال دلایا کہ فلاں جگہ اتنے مسلمان مارے گئے اور فلاں جگہ اتنے.تم یہاں کیا کر رہے ہو کم از کم مرزائیوں کہ سے بائی کاٹ ہی کر دو پھر لوگوں سے اقرار لیا اور ہاتھ اٹھوائے.لالیاں کے مقامی خطیب نے کہا کہ لوگ ہاتھ اٹھاتے ہیں عمل نہیں کرتے اس پر ایک مہاجر نے کہا کہ جو عمل نہ کرے اس کو سزا دیجائے یا دور ہے ایک رپورٹ کے مطابق انہی دنوں اہل چنیوٹ نے لالیاں والوں کو مہندی اور چوڑیاں بھیجوائیں.، پولیس کے بعض سپاہی احمد نگر میں متعین تھے جو فراغت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور رسالے پڑھتے رہتے تھے ان میں سے بعض نے اس روز یہ اظہار کیا کہ ہم پر وفات میچ کا مسئلہ تو بالکل کھل گیا ہے اور حضرت مرزا صاحب کا مبلغ اسلام ہونا بھی ہمیں مسلم ہے مگر مسئلہ نبوت ابھی تک واضح نہیں ہوا.احمد نگر کے احمدیوں نے ہنگامی حالات کی وجہ سے اس روز جمعہ بھی گھروں میں ہی ادا کیا اور حضرت مصلح موعود کا تازہ خطبہ ربوہ کا خلاصہ احباب تک پہنچا دیا گیا.

Page 151

۱۴ مارچ.جامعہ محمدیہ شریف ضلع جھنگ) کے طلبہ نے ربوہ اور احمد نگر کے مضافات میں دورہ کر کے لوگوں کو احمدیوں کے سوشل بائیکاٹ کی تلقین کی.بعض جگہ انہوں نے یہ بھی کہا وزیر اعلیٰ پنجاب رمیاں ممتان محمد خان دولتانہ) ہمارے ساتھ ہیں.چنیوٹ میں جلوس نکالاگی نیز احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے پر زور دیا گیا اور وکانداروں سے کہا گیا کہ جو مرزائیوں کو سودا دیتا پکڑا گیا اس کا منہ کالا کر دیا جائے گا.برجی اور دیگر دسیات میں یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ جو شخص رہورہ جاتا ہے قتل کر دیا جاتا ہے جو بالکل سفید جھوٹ تھا.معلوم ہوا کہ میانوالی سے میں حجتہ کے چنیوٹ پہنچنے کی خبریں آرہی تھیں اُسے سرگودھا سے ہی واپس کر دیا گیا ہے نیز نتیجہ کے بعض لوگوں کو گرفتار کر کے شاہ پور میں چھوڑ دیا گیا ہے.۱۵ مارچ.ماحولی ربوہ کی بعض اطلاعات سے معلوم ہوا کہ عوام میں احراری ایجی ٹیشن کے خلاف نفرت کی ایک رو پیدا ہو رہی ہے اور یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ احرار نے یہ قدم اٹھا کر برا کام کیا ہے.۱۶ مارچ.اس دن ربوہ کے ایک احمدی دودھ فروش بعض دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ربوہ کے قریبی گاؤں رستی والا) سے دودھ لیے آرہے تھے.کہ ۶٫۵ آدمیوں نے ان پر حملہ کر کے دودھ کا برتن چھین لیا.اور پھر پورے گاؤں کو اکٹھا کر لیا ہجوم میں کوئی کہتا ان کو قتل کرد.کوئی کہتا ان کو گڑھا کھود کر دفن کردو.ایک شخص جو اپنے آپ کو سپاہی ظاہر کرتا تھا کہنے لگا کہ اگر انہیں بیاں قتل کر دیا جائے تو حکومت ذمہ دار نہ ہوگی.بہت دیر تک یہ ہنگامہ جاری رہا.آخر بڑی مشکل سے یہ لوگ ربوہ پہنچے مولوی عبد العزیز صاحب بجا مرمتی محتسب بہ بودہ نے اس واقعہ کی اطلاع حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پہنچاتے ہوئے لکھا :.اس واقعہ کی اطلاع انچارج مخھانہ لالیاں کو کر رہا ہوں کہ وہ انسداد فرمائیں یہاں کی ہے.مگارد نے دریائے چناب کے دوسرے کنارے چنیوٹ جھنگ سڑک پر ایک سنی درگاہ مہتمم دبانی مولوی محمد ذاکر صاحب - تاریخ بنیاد الحرم الحرام ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۴ ر مئی ۶۱۹۳۳

Page 152

۱۴ کو توجہ دلائی جائے تو وہ پروا نہیں کرتی کہ یہ کام تھا نہ والوں کا ہے کوٹ امیر شاہ کے ایک شخص...نے آکرہ کہا تھا کہ مجھے روکتے اور دودھ گراتے ہیں.PC کے سپاہی نے کہا یہاں آکر کیوں بتاتے ہو چنانچہ دوسرے روز...وأس) کا منہ کالا کہ کے اُسے کوٹ امیر شاہ میں مارا گیا.کسی مستقیہ آدمی کو بھی.اُسے احمد نگر گارد کے پاس بھیجنا پڑتا ہے والیاں سے تحریر می اطلاع پہنچی کہ ایک شخص نے جو ایک مقامی بااثر شخصیت کا کاروار تھا ڈاکر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ کے بیٹے عطاء الحق سے کہا کہ ہوش کرد - چند دن اور گھوم پھر لو قتل کر دیتے جاؤ گے یا ان ہر دو نا خوشگوار واقعات کے علاوہ مضافات ربوہ میں عام طور پر یہ دن سکون دامن سے گزرا.ار مارچ.اس روز ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ لالیاں کا خط حضور کی خدمت میں موصول ہوا جس میں یہ خوشخبری لکھی تھی اب اللہ تعالی کی رحمت کے دروازے کھل گئے.بالکل سکون ہے ہڑتال بھی ختم ہو گئی ہے یہ احمد نگر میں مقیم تین سپا ہی بعض ایسے دیہات میں گئے جہاں ابھی تک ربوہ کی طرف دودھ لانے میں روکاوٹیں کھڑی کی جارہی تھیں.بائیکاٹ کی پشت پناہی کرنے والوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ مزاحمت نہ ہوگی.اس کارروائی کے نتیجہ میں ربوہ کے معاشرتی محاصرہ کے باقی ماندہ اثرات بھی ختم ہو گئے اور دودھ بلا روک ٹوک آنے لگا.فاطما لہ علی ذالک.بایں ہمہ ملک کے مختلف مقامات پر یہ خبریں بدستور پھیلائی جاتی رہیں.کہ ربوہ میں ایک لاکھ جتھہ جارہا ہے بلکہ کمال ڈیرہ سندھ میں یہ خبر گشت کر رہی تھی کہ ربوہ پر حملہ بھی ہو چکا ہے.فت ۱۸ مارچ.پتہ چلا کہ ضلع سیالکوٹ وغیرہمیں یہ پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ معاذاللہ ربوہ کو جلا دیا گیا ہے اور سب احمدی قتل کر دیئے گئے ہیں.اس پراپیگینڈا کا علم ماسٹر حمید احمد صاحب شناسی مقیم ربوہ کے ایک غیر احمدی رشتہ دار کے ذریعہ ہوا جو اس دن دوپہر کے قریب ان کی خیریت در دنیات کرنے کو ربوہ پہنچے تھے.۲۰ ما سرچ.نماز جمعہ کے بعد چنیوٹ میں جلوس نکالا گیا جس میں گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور میرا انوالہ سے وفات پر مئی ۶۱۹۸۹

Page 153

کے رضا کار بھی شامل تھے.جلوس میں پر ملایہ دھمکی دی گئی کہ حکومت اس وقت ہمارے مطالبات منظور کرے گی جب احمدیوں کے گھر جلائے جائیں گے.۲۱ مارچ.چنیوٹ کے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم تیز تر کر دی گئی احمدیوں کی دکانیں کھلی تھیں مگر گاہوں کو وہاں سے سودا خرید نے نہ دیا جاتا ایک احمدی ٹرتک سانہ نواب الدین صاحب نے بتا یا کہ گاہکوں کو یہ کہکر روکا جاتا ہے کہ یہ مرزائی کی دکان ہے اس سے سودا نہ خریدیں.ایک احمدی کسی غیر احمدی دکاندار سے سودا خرید نے گئے اس نے سودا دے دیا مگر دوسروں نے اسے روک دیا وہ احمدی گھر چلے گئے تھوڑی دیر بعد یہ دکاندار گھی وغیرہ خود احمدی کو دینے جا رہا تھا کہ لوگوں نے اُسے نہ بہ دوستی منع کر دیا.۲۱ ۲۲ مارچ کی درمیانی شب کو چینیوٹ میں ڈھول بجاکر جلوس نکالا گیا جس میں احمدیت ، حضرت چوہدری حمد ظفراللہ خاں صاحب اور وزیر اعظم پاکستان کے خلاف گند اچھالا گیا اور گندے نعرے لگائے گئے.م اور مارچ.چنیوٹ سے رپورٹ ملی کہ سوشل بائیکاٹ تاحال جاری ہے منڈی کے سب آ ہستیوں کی کمیٹی نے منڈی سے احمدیوں کو سودا دینے کے خلاف آڑ ہستیوں سے وعدے لے رکھے ہیں.لہذا منڈی سے احمدیوں کو نہ گندم نہ سبزی دی جاتی ہے ویسے والیں اور سبزی وغیرہ بچوں کے ذریعہ شرفاء سے لے لی جاتی ہے.غنڈوں کے ڈر سے شرفاء بھی احمدیوں کے بڑے آدمیوں کو سودا نہیں دیتے چپکے سے کہ دیتے ہیں کہ کسی بچہ کو بھیج دینا یا

Page 154

تعمیر ا باب اضلاع منٹگمری (ساہیوال) اور لاہور کی احمدی جماعتوں کے واقعات

Page 155

۱۴۳ فصل اوّل ضلع منٹگمری (ساہیوال) تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب کے فاضل رج اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ.اس ضلع میں کسی قدر اہمیت کے واقعات صرف وہ تھے جواد کاڑہ میں پیش آنے پائے اوکاڑہ کے واقعات کا پس منظر صدر انجمن احمدیہ کے عدالتی بیان میں یہ لکھا ہے کہ :- ۱۹۲۹ ء میں احرار نے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے احمدیوں کو گالیاں دینے اور ان پر ظلم وستم ڈھانے کے پرانے ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دیا.اور انہوں نے کانفرنسیں کیں جن میں متواتر یہ بیان کیا گیا کہ احمدی واجب القتل ہیں اور ان کا قتل کرنا ثواب کا کام ہے.ان زمربی تقریروں کا نتیجہ اوکاڑہ کے نہ دیک ایک احمدی مدرس مسمی غلام محمد کے قتل کی صورت میں برآمد ہوا.قائل نے اقبال کیا کہ اُسے مولویوں کی تقریروں نے قتل پر اکسایا ہے.سیش ج نے قرار دیا کہ اُسے مولویوں کی گزشتہ شب کی تقریروں نے متاثر کیا ہے.ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے یہ تقریریں کی تھیں اور جن کے نتیجہ میں قتل کی واردات ہوئی تھی کوئی کارروائی نہ کی گئی یہ رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء میں لکھا ہے کہ : مارچ کو تین ہزار کا ایک ہجوم ریلوے اسٹیشن پر پہنچا اور اس نے ڈاڈن پاکستان میل کو تین گھنے پیک رو کے رکھا.ہجوم نے جنوں کی کھڑکیاں توڑ ڈالیں.ٹرین روکنے والی ویکم کی زنجیریں توڑ ڈالیں اور مسافر عورتوں کو بے آبر د کیا.۱۸ مارچ کو اوکاڑہ کے قریب ٹیلیگراف کے تار کاٹ دیئے گئے.۱۳ اپریل کو جامع ک رپورٹ م19

Page 156

۱۴۷۴ مسجد میں چند اکتش ریز تقریروں کے بعد عورتوں کا ایک جلوس نکلا جو کچھ کہتے اور جھنڈے اٹھائے ہوئے تھیں.پولیس نے کتے چھینے کی کوشش کی میں پر پانچ سو آدمیوں کا ایک پر غلیظ ہجوم پولیس پر پل پڑا.پولیس اس جوم کو پیچھے ہٹا رہی تھی کہ ستر سال کا ایک بوڑھا زخمی ہوا اور ہسپتال میں فوت ہو گیا.- تاریخ کا ایک اور واقعہ بھی ہے اگر چہ اس کا ذکر کسی سرکاری بیان میں موجود نہیں لیکن ہمارے نزدیک اس کے باور نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ حافظ محمد شش سیکر ٹری جماعت احمدیہ چک نمبر رہی دند و او کا ٹیم) اور ان کے کنبے کے اشخاص کو جن میں ایک بی.اسے اور دوسرا بی.اے ایل ایل بی ہے مجبور کیا گیا کہ اپنے عقیدے سے توبہ کریں اور تحریک احمدیہ کے بانی کو گالیاں دیں.پھر چار پانچ سہزار کا ایک ہجوم ان کو اُن کے گاؤں سے جامع میلیہ اوکاڑہ میں لایا جہاں وہ مولوی مینیاء الدین اور سولہ کی معین الدین کے سامنے پیش کیے گئے اور ان سے کہا گیا کہ مولویوں کے سامنے اپنے عقائد سے منحرف ہونے کا اعلان کریں.الخ منہ سے جناب چو ہدر ی حاکم علی صاحب.سیکرٹری جماعت احمدیہ ادکارہ اوکاڑہ کے واقعات میشدید نے انہی دنوں اطلاع دی کہ ملا بیانات کی روشنی میں در سم مارچ کی رات ، ایک احمدی دوکاندار شیخ محمداقبال مینیاری فروش کی دکان جو ایک بڑے لکڑی کے کھوکھا میں تھی، لوٹنے کے بعد اُسے آگ لگا دی.وہ جل کر راکھ ہوگئی.مجسٹریٹ اور پولیس موقع پر پہنچ گئی تھی بعد ازاں شیخ محمد صدیق صاحب آڑھتی کی نئی کو بھی جو زیر تعمیر تھی اس کے دروازے اور کھڑکیاں جلا دی گئیں..مارچ کو حالات زیادہ خراب ہو گئے کیونکہ یہ ٹولیاں تمام راست احمدیوں کے مکانوں کے سامنے بلٹر بازی ، نر سے ، گالی گلوچ تے شور مچاتی اور پتھر مارتی رہیں.چند گھروں سے احمدیوں کو مسجد میں لایا گیا.کے مارچ صبح شہر کے تمام سکول بند کر وا دیئے گئے اور میٹرک کے مقامی تین سنٹروں کے امیدواروں کو بھی پرچہ نہ کرنے دیا اور تمام طلبہ، لڑکے اور دوسرے لوگ جلوس کی شکل میں گلیوں ، بازاروں میں نعرے لگاتے رہے احمدیہ بیت الذکر میں بھی پتھر پھینکے.شہر میں بہت زیادہ خوف و ہراس پھیلایا گیا اور کھلم کھلا اعلان ے تحقیقاتی رپورٹ من 19 و ص 19 سے اصل رپورٹ میں بیت الذکر کیجائے مسجد کا لفظ ہے دناقل

Page 157

۱۴۵ کیا گیا کہ لاہور اور سیالکوٹ کا بدلہ اوکاڑہ میں لیا جائے گا.ہمسایوں نے احمدیوں کو عورتوں کے ذریعہ خوف دلانا شروع کیا کہ آج رات احمدیوں کے مکانوں پر حملہ ہو گا اور ستورات اور بچوں کو قتل کر دیا جائے گا.ملنے والوں کے ذریعہ بطور ہمدردی اور خیر خواہی کے کہلایا گیا کہ ہم تعلقات کی وجہ سے صرف آپ کو اطلاع دے رہے ہیں کہ آپ کے مکان پر حملہ ہو گا میرے تعلقات نے مجبور کیا کہ میں خفیہ آپ کو اطلاع دوں.علاوہ ازیں پانچ پانچ دس کی ٹولیوں میں احمدیوں کے مکانوں کے گرد منڈلانا شروع کیا اور کبھی اس طرف کبھی اُس طرف کھڑے ہو کر آواز کتنے اور مشوروں کی شکل میں باتیں کرنا شروع کر دیا.....اگلے روز....بازاروں میں بذریعہ لاؤڈ سپیکر کہا گیا کہ یہ ے مرزائی مسلمان ہو چکے ہیں.وہ رات کو یقین دلائیں گے.باقی جس مرزائی نے مسلمان ہونا ہو وہ بھی بہت آئے.ہم اس کی حفاظت کریں گے اور اس کے بعد وہ ہمارے بھائی ہوں گے.رات کو چو ہدری غلام قادر صاحب نے پریذیڈنٹ کے مکان کے دروازوں پر سپیرٹ پھینکی گئی.لیکن آگ لگنے سے پہلے پتہ چل گیا.باقی مکانوں کے متعلق بھی افواہ پھیلائی گئی کہ آج رات آگ لگادی جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے گو آج حالات بہتر ہیں لیکن افواہیں بہت خطرناک اور دہشت ناک قسم کی پھیلائی جارہی ہیں.۲ - نصر اللہ خان صاحب باجوہ مالک پیٹرول پمپ اوکاڑہ کا بیان ہے.ر مارچ کا واقعہ ہے ایک جلوس...ستلج کاٹن ملز کی طرف سے لاہور جانے کے لیے دیپالپور چوک سے گزرا...عیب جلوس گزار رہا تھا تو کسی نے بتایا کہ یہ پھول پ مرزائیوں کا ہے.جلوس کے ساتھ پولیس کافی تعداد میں تھی.پولیس والوں کو جب علم ہوا کہ جلوس والے پرپ کو توڑنا چاہتے ہیں تو وہ عمداً آگے نکل گئے اس پر جلوس والوں نے پتھر مار کہ پیٹرول پمپس کی بلارنگ جس کے تین طرف شیشے لگے ہوئے تھے بالکل برباد کر دیا اور پمپ کو بھی خراب کر دیا.۳.شیخ محمد صدیق صاحب لکھتے ہیں.: آغاز ماہ مارچ ۱۹۵۳ء میں ہمارے خلاف بوجہ احمدی ہونے کے بہت شور و شر تھا اور ہم و " نه من حضرت مسیح موعود کے رفقار میں سے تھے ولادت ۱۸۸۵ د بیعت ۱۸۹۷ء وفات کیم اپریل ۱۹۶۶ء

Page 158

۱۴۹ پر مکان میں ، دکان پر ہو ہار پر حملہ کیا گیا.پولیس اور مقامی انسان کو بذریعہ فون مطلع کیا جاتا جا نا کوئی امداد نہ ہوئی.آخر ہمسایوں نے حکمت عملی سے ہمیں اندرون محلہ کے حملوں سے تو بچا لیا مگر محلہ کے باہر ٹیلیفون کے دفتر کے سامنے جو میری کو بھی زیر تعمیر تھی اس کے دروازے کھڑکیاں اور دیگر عمارہ تی سامان جلایا گیا اور توڑ پھوڑ کر تباہ کر دیاگیا.۴ - اوکاڑہ کے ایک احمدی دکاندار شیخ حمد یعقوب صاحب) کا بیان ہے.: 4 تاریخ کو میرے لڑکے محمد اقبال صاحب کے کھو کھا کو مہجوم نے آگ لگا دی.میں سات تاریخ کو جائے وقوع پر دیکھنے گیا.تمام سامان وغیرہ جلا ہوا تھا.نقصان کے باعث مجھے از حد صدمہ ہوا.میں خود تضعیف آدمی ہوں.اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ صدمات کو برداشت کر سکوں.مجھے ایک سپاہی ہمراہ لے کر اپنے مکان پر چھوڑ گیا.میں وہاں نقصان کے غم میں بیٹھا ہی تھا کہ میرے چند عزیز.......جائے وقوعہ پر پہنچے.انہیں ہجوم نے گھیر لیا.خیس طرح وہ اپنی جان بچا کر.لیا.واپس پہنچے انہوں نے اپنی داستان سنائی تو اور بھی صدمہ بڑھ گیا.ابھی ہم اسی حال میں تھے کہ جوم ہمارے دروازے پر اکٹھی ہو گیا اور شور ڈالنے لگا کہ اگر تم پچھنا چاہتے ہو تو احمدیت سے لاتعلقی کا اعلان کر دو ورنہ تمہارے بچے قتل کر دیئے جائیں گے.عورتیں اٹھالی جائیں گی ہم نے کچھ روپیے زیادہ ۶ لوگوں کو ادھار دیا ہوا تھا.اس کی ادائیگی کے متعلق کہدیا کہ وہ نہیں دیا جائے گا یارا - ایک احمد می سوداگر جرم اوکاڑہ نے بیان دیا کہ :.و میرے پاس میرا بیو پاری سود اگر چرم....منتشگیر می کئی بارہ آتا رہتا تھا.شورش کے ایام میں بھی میرے پاس آیا.میرا اور اس کا لین دین تھا.وہ اپنا قرضہ وصول کرنے کی نیت سے آیا تھا.اس نے چھ مارچ کو مجھے کہا کہ اگر تم بیچ سکتے ہو تو بچ جاؤ.گھر سے اپنا سامان وغیرہ سیتھال لو اور بال بچوں کو کسی اور جگہ بھیجد و کیونکہ اب پاکستان میں با مرزائی رہیں گے یا مسلمان.۱۵۰۰ مسلمان کے حصہ میں ایک مرزائی آتا ہے جو ان سے بچ نہیں سکتا.سات مارچ کو آکر مجھ سے کہا کہ میرا حساب چکا دو کیوں کہ اب تم بالکل ختم ہونے والے ہو.میں نے تقریبا پانچ ہزار روپیہ اس کا دینا تھا جس کو میں نے چھپڑا وغیرہ دے کہ پورا کر دیا.جونہی وہ اپنا مال اٹھانے لگا دس پندرہ

Page 159

۱۴۷ منے آگئے اور انہوں نے مجھے اور اس کے مال کو جو میں نے اُسے دیا تھا گھیر لیا اور کہنے لگے کہ ہم مرزائیوں کو اور اُن کے مال کو ہرگزنہ نہیں جانے دیں گے.یہ سب مال تحفظ ختم نبوت کیلئے خرچ ہو گا.مظفر مذکور نے مجھے از حد دہشت زدہ کیا اور مجھ پر لین دین کے معاملہ میں بھی اس قدر سختی کی جو بیان سے باہر ہے کہ گرام.صدر بازار اوکاڑہ کے ایک اور احمدی دکاندار کا بیان ہے کہ جہ شورش کے ایام سے ۱۰-۱۵ دن قبل ہمارا پڑوسی....دکاندار صدر بازار اپنے گاہکوں سے یہ کہتا رہتا تھا کہ ۲۲ فروری کے بعد ان مرزائیوں کو ختم کر دیا جائے گا اور ان کی لڑکیاں اُٹھا کرلے جاویں گے.ہجو گاہک ہمارے پاس آتلا سے کہتا کہ مرزائیوں سے کیوں سودا خریدتا ہے.تیرا منہ کالا کر دریا جاوے گا.۲۳ فروری کے بعد یہ کہتا رہا کہ صرف ایک دو دن کے یہ مہمان ہیں حتی کہ مارچ کی دو تاریخ آگئی صبح دکان کھولتے ہوئے اس نے کہا کہ کل تمام مرزائی ختم کر دیئے جاویں گے.کوئی نظر نہیں آوے گا.اس طرح متواتر ہمیں دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور ہمارے مکان میں ہمارا پڑوسی.....ہمیں بار بار یہ اطلاع دے رہا تھا کہ تمہارے مکان کو آگ لگانے لگے ہیں.تم جلد مسلمان ہو جاؤ ورنہ آگ لگادی جاوے گی.در مامرت کو محمد اقبال کی دکان جو لکڑی کے کھو کھا کی تھی جلا دی گئی.اس وقت ہمارے مکان کے قریب مجلس عمل کے زیر اہتمام ایک جلسہ ہورہا تھا جس میں مولومی...تقریر کر رہا تھا اور ملک کو اشتعال دلار با تھا کہ مرزائیوں کو مار دو.آگ لگا دو.جلادو - پبلک اشتعال میں اگر نعروں پر نعرے لگا رہی تھی اور اس قدر دہشت ناک صورت تھی کہ ابھی نہیں ہمارے مکان اور دکان کو آگ لگا دیجائے گی یا ے.ریل بازار اوکاڑہ کے ایک منیاری فروش احمدی نے بتایا کہ : مورخه مار مارچ ۱۵ بروز میفته جبکہ ہم پر ایک روز قبل ہار مارچ بروز جمعہ المبارک بعد از نماز مغرب ، بجے شام جلوس نے ہمارے مکان پر پتھراؤ کیا اور کھوکھا ملکیتی شیخ محمد اقبال واقع چوڑی گئی ریل بازار کے دروانے اور تختیاں وغیرہ توڑیں تو ہم سب دہشت زدہ ہو کر اپنے مکان کو کھلا چھوڑ کر شیخ رحیم بخش ولد شیخ دیوان احمد ساکن ڈی بلاک کے مکان پر چلے آئے تھے

Page 160

۱۴۸ ہمارے آنے سے تقریبا ایک گھنٹہ بعد کھوکھا مذکور کو آگ لگا دی گئی تھی.صبح سات مارچ کو تقریبا گیارہ بجے دن کے ایک حوالدار صاحب پولیس بلا در دی سفید کپڑوں میں آئے اور ہمیں کہا کہ اپنے مکان کو فضل لگا لو اور وہاں سے اپنا ضروری سامان بھی لے آؤ.ہم اس کے ساتھ چار کس مع ایک بچہ کے اپنے مکان واقع چوڑی گلی ریل بازار کی طرف روانہ ہو گئے.چوڑی گلی کے مشرقی حصہ کی جانب ایک تھانیدار صاحب مع وردی کھڑے تھے انہوں نے ایک حوالدار صاحب کو رہو کا کہ بلا اور دی انہیں تم ساتھ کیوں لائے ہو.ہم نے اپنے مکان پر پہنچ کر سامان ریڑھے پر رکھا تھا کہ ہمارے سامان کو ریڑھے سے اتروا کر رکھ دیا گیا اور کہا گیا کہ ہمارے نوجوان اس قدر گورنمنٹ نے گولیوں سے مار دیئے ہیں اور یہ سب انہی کی باعث ہوا ہے اور ان کو اور ان کے سامان کو کیوں جانے دیں.قریب تھا کہ یہ لوگ اشتعال میں آکر ہم پر حملہ کر دیں کہ ہم اپنے مکان کے اندر چلے گئے اور کواٹر وغیرہ بند کر لیے.ہم میں سے ایک لڑکا پیسے بچا کہ ہمارے بھائی شیخ کے پاس پہنچا اور انہیں اطلاع دی.انہوں نے آکرہ ہجوم کو یہ کہ کر تسلی دی کہ آپ لوگ ان کو ماریں نہیں.یہ سب مسلمان ہو جائیں گے.اور اس طرح سے ہجوم سے کہہ کہ ہمیں چھڑایا اور ہم اپنے مکان پر آگئے.مضافات اوکاڑہ کے واقعات | ا حوالدار محمد ابراہیم صاحب کا بیان ہے.چک نمبر ۳۲ تحصیل اوکاڑہ ضلع مظکمری میں ہم دو عملیوں کے گھر ہیں.ایک میرا اور ایک میرے خسر چوہدری عدالت خان ولد شیر خان قوم راجپوت کا شورش کے ایام میں ہمیں از حد تنگ کیا گیا حتی کہ تمام دیجہ کے مشتر کہ کنویں پر سے پانی لے کر پینے تک نہیں دیا.کئی دنوں تک ہم شہر کے کھالے سے پانی لے کر پیستے کہ ہے.یہ لوگ ملوس اور ہتھہ کی شکل میں ہمارے مکانوں پر آتے.نہایت گندے نعرے لگاتے.اینٹ اور پتھر ہم پر برساتے تھے.ہمیں پنچایت میں بٹھا کر شدید دھمکیوں کے بعد احمدیت سے تائب ہونے پر مجبور کرتے رہے.لیکن ہمارے انکار پر ہمارا سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا.سرفراز حسین صاحب نائب تحصیلدار اوکاڑہ موقع.پر تشریف لے گئے تھے.انہوں نے گاؤں والوں کو سمجھایا.ان کے سامنے اتنا اقرار کیا کہ ہم ان کو کنویں سے نیچے نالی میں برتن رکھوا کر خود پانی دید یا کریں گے.یہ لوگ ہمارے کنویں پر نہ چڑ ہیں.

Page 161

۱۴۹ ہمیں قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں.ہم نے ان تمام باتوں کی رپورٹ تھانہ اوکاڑہ میں دیدی تھی...بعد میں شہر کے کھالے سے بھی پانی لینا بند کر دیا تھا.آخر ہم جوہر سے پانی لے کر پیتے رہے یہ ۲ - محمد خاں صاحب ولد عالم خاں صاحب نے ایک بیان میں لکھا : شورش کے ایام میں ہمارے گاؤں کے چک نمبر ۲۱ تحصیل اوکاڑہ مضلع منٹگمری میں ہم احمدیوں کو جین کا گاؤں میں صرف ایک ہی گھر تھا سخنت تنگ کیا گیا.ہمارے رہائشی مکان واقعہ چیک مذکور کو لوگوں نے جتنے کی صورت میں آکر نذر آتش کر دیا.علاوہ مکان کے اس میں خانگی سامان بھی تھا جو اس کے ساتھ ہی جل گیا یہ واقعہ تقریبا رات کے دس بجے ہوا.مقامی چک کے باشندے جمع ہو کر ایک جلوس میں ہمارے مکان کے سامنے آئے.نہایت گندی گالیاں اور اشتعال انگیر نعرے لگاتے رہے ہمارے مکان کے دروازہ کو پتھر بھی مارے گئے.آخر جلوس ہمارے مکان کے آگے بڑھ گیا جس میں سے پانچ اشخاص.....الگ ہو گئے.واپس آکر انہوں نے ہمارے مکان کو آگ لگا دی.ہمارا مکمل بائیکاٹ کیا گیا جو تقریباً یہ اماہ تک جاری رہا.ہم نے اس واقعہ کی رپورٹ تھانہ اوکاڑہ میں دی تھی.محتمابندار فضل احمد تفتیش کے لیے گیا لیکن موقعہ پر جا کہ کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ الٹا ان لوگوں کے حوصلہ کو بڑھا دیا.دوسرے روز ہم نے مجسٹریٹ صاحب کے سامنے واقعہ کی رپورٹ کی جس پر دوبارہ فضل احمد تھانیدار چک مذکور میں آیا اور مذکورہ بالا پانچ اشخاص میں سے تین کو اپنے ہمراہ تھانہ میں لے آیا.یہاں آکر ان کی ضمانت لے کر چھوڑ دیا..میاں نور محمد صاحب کی شہادت ہے کہ : لا میں چک رہا میں اکیلا احمدی ہوں.اور عرصہ پانچ سال سے اس چک میں رہتا ہوں.موجودہ شورش میں پہلے تو چک کے لوگ خاموش رہے لیکن چھ مارچ کے بعد رات کو جلوس کی شکل میں جمع ہو کر نعرے لگانے شروع کیے گئے.، ہ مارچ ہر دو راتوں کو بہت بڑا مجمع لغرے لگاتا ہوا میرے احاطہ کے گرد جمع ہو گیا.اور زور زور سے نعرے لگانے شروع کیسے گالیاں دیتے رہے اور کہتے رہے کہ باہر نکلو یا مسلمان ہو جاؤ لیکن کوئی آدمی احاطہ کے اندر داخل نہیں ہوا.ہر رات تقریباً دو گھنڈ تک متواتر نعرے لگاتے شور کرتے لگالیاں دیتے اور ڈرانے دھمکانے کے بعد واپس چلے جاتے رہے.لیکن 9 مارچ شام ہوتے ہی ایک بڑا مجمع نعرے

Page 162

۱۵۰ لگاتا ہوا احاطہ کے دروازہ پر پہنچے گیا اور احاطہ میں داخل ہونے کی کوشش کی.لیکن ہم نے کہا کہ احاطہ سے باہر یہ ہیں.اندر نہ آئیں لیکن چونکہ پہلے ہر دو روزہ کے واقعہ کی اطلاع نمبر دار دیہہ کو ساتھ ساتھ دیتے رہے اور اس روزہ صبح نمبر دار نے بھی کہہ دیا کہ تم خود اپنا انتظام کر لو میں آج تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکوں گا.گاؤں کے لوگ میرے بہت خلاف بھی رہے ہیں اور اس روز صبح سویرے سے ہی مختلف قسم کی دھمکی آمیز پیغامات آرہے تھے.لہذا شام کے وقت عورتوں اور بچوں کو قریبی چک نمبر ما 12 میں پہنچا دیا اور سامان مال موسیقی اور تمام دیگر افراد گھر میں ہی موجود ہے.مجمع نے حسب معمول احاطہ کے گرد جمع ہو کر نعرے لگانے اور گالیاں دینی شروع کیں دو تین جگہ آگ لگانے کی کوشش کی.ہم خاموش احاطہ کے اندر بیٹھے رہے.البتہ ان کی منت سماجت کی کہ مکان کو آگ نہ لگائیں اور ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیں لیکن یہ مجمع بڑھتا گیا اور کوئی کہتا آگ لگاؤ.کوئی کہتا مار دو.کوئی کہتا تو یہ کرو.یہ مختلف نعرے لگاتے رہے.آخر دس بجے کے قریب مٹی کا تیل ڈال کر ایک کو مٹھے کو آگ لگا دی.جب آگ کافی بھڑک ابھی تو تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے صبح تھانہ اوکاڑہ میں اطلاع دی گئی تو اے ایس آئی صاحب پولیس موقعہ پر تشریف لائے.مکان جل کر راکھ ہو چکا تھا " م چو ہدری نصیر احمد صاحب نے بیان کیا : چک نمبر ما / ضلع منٹگمری میں احمدیہ جماعت ہے.لیکن اس چک میں بھی نہ یادہ آبادی غیر احمدیوں کی ہے.گردو نواح میں سب غیر احمدیوں کے چک ہیں.تحریک احرار کے زمانہ میں اس علاقہ میں بھی احمدیوں کی مخالفت کی گئی ہے.جلوس نکالے گئے.تعداد اور طاقت کے لحاظ سے ہم غیر احمدیوں کے مقابلہ میں بہت کمزور تھے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور حضور کی دعاؤں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے خود ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ یہ فتنہ کوئی نقصان نہ پہنچا سکا.خود غیر احمدیوں نے یہ مشہور کر دیا کہ چو ہد دی نصیر احمد کے پاس اتنا اسلحہ ہے کہ ہم مقابلہ نہیں کر سکتے.بلکہ کئی لوگوں نے باہر کے لوگوں میں حلفاً یہ کہا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے حالانکہ یہ سب غلط تھا.اس جھوٹی محبری کی بناء پہ پولیس نے میری تلاشی بھی لی.لیکن کوئی جائز چیز بر آمد نہ ہوسکی یہ

Page 163

101 فصل دوم لاہور شہر اور اس کے مضافات اس پر آشوب زمانہ میں تشدد ، قتل و غارت اور آتش زنی کی سب سے ہولناک وارداتیں لاہور میں ہو نہیں.جماعت احمدیہ لاہور پہ ۱۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو کیا بیتی ؟ اس کا نقشہ تحقیقاتی عدالت کے فاضل ججان نے حسب ذیل الفاظ میں کھینچا ہے.اس دن کے واقعات کو دیکھ کر سینٹ بارتھ لو کیوڑے یاد آتا تھا حتی کہ ڈیڑھ بجے بعد دو پر مارشل لاء کا اعلان کر دیا گیا.ایک دن قبل ایک احمدی مدرس قتل کر دیا گیا تھا.14 مارچ کو ایک احمدی محمد شفیع بر ما والا مغل پورہ میں بلاک کر دیا گیا.اور کالج کے ایک احمدی طالب علم کو بھائی دروازہ کے اندر لوگوں نے چھرے مار مار کر قتل کر دیا ایک اور احمدی یار مضر و نه احمدنی) مرزا کریم بیگ کو فلیمنگ روڈ پر چھرا مار دیا گیا اور اس کی نعش : ایک چیتا میں پھینک دی گئی جو فرنیچر کو آگ لگا کر تیار کی گئی تھی.احمدیوں کی جو جائیدادیں اور دوکانیں اس دن لوٹی یا جلائی گئیں رویہ تھیں یہ پاک دیز - شفاء میڈیکل.اور سوکو - موسیٰ اینڈ سنز کی دکان ، راجپوت سائیکل در کسی ملک محمد طفیل اور ملک برکت علی کے چوب عمارتی احاطے اور گودام.مین روڈ پر ملک عبد الرحمن کا مکان مزرنگ روڈ اور ٹمپل روڈ پر پانچ احمدیوں کے مکان جس میں شیخ نور احمد ایڈووکیٹ کا مکان بھی شامل تھا.تیسرے پہر ایک ممتاز ایڈووکیٹ مسٹر بشیر احمد امیر جماعت احمد یہ لاہور کا مکان گھیر لیا گیا ، نجوم اس مکان میں جمال احمد صاحب ( این مستری نذر محمد صاحب) شہید کی عمر ۱۷ سال ۵ دن تھی آپ کو پہلے لاہور میں 1905 امانتاً وفن کیا گیا پھر سیدنا حضرت مصلح موعود کی اجازت سے ہر نومبر کا کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کیسے گئے لاہور تاریخ احمدیت ماه موانه مولانا شیخ عبد القادر صاحب الشناعت فروری کے آپ نہایت مخلص اور دیتی

Page 164

۱۵۲ داخل ہونے ہی والا تھا کہ سٹر بشیر نے اپنے دفاع میں چند گولیاں چلائیں.ایک خاص فوجی عدالت نے اس کے اس فعل پر مقدمہ چلایا.لیکن وہ بری کر دیئے گئے.۷٫۶ مارچ کی رات کو عبد الحکیم مالک پانویہ الیکٹرک اینڈ بیٹری سٹیشن کے مکان پر چھا پہ مارا گیا.اور ان کی بوڑھی والدہ قتل کر دی گئی پیشہ فاضل ججوں نے چھ مارچ کو سینٹ بارتھالو میوڈ سے Day) Saint Bortholomew's قرار دے کر فرانس کی مذمبی تاریخ کے اُن خونچکاں واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جو ۲۴ اگست کو وقوع پذیر ہوئے جبکہ فرانس کے اکثریتی عیسائی فرقہ رومن کیتھولک نے مسیحی کلیسیا کے دینی مصلح مارٹن لیو تھر کے پراٹسٹنٹ معتقدوں کا ر جو ہیوگوناٹ Huguenols کہلاتے تھے نہایت بیدردی سے قتل عام کیا موترخ سولی مقتولین کی تعداد کا اندازہ ستر ہزار بتاتا ہے گرلارڈ کیٹن آٹھ ہزار اور اسے جھے گرانٹ کے خیال میں دس ہزار قتل ہوئے.اس وقت فرانس پر چالیس نہم Charles lx بادشاہ تھا اور کیتھرین ڈی میڈی چی Cathrine De Medici) ملکہ تھی یہ دونوں کیتھولک تھے مگر اُن کے دربار کا ایک مستانہ رکن ایڈمرل ڈی لگنی Coligny پر انسٹنٹ فرقہ سے تعلق رکھتا تھا کیتھرین کو کا لگنی کے روز افزوں اثر کو دیکھے کہ یہ حسد اور خوف پیدا ہوا کہ اگر کوئی تدبیر نہ کی گئی تو بہت جلد اس کا اقتدار نزائل ہو کر امور سلطنت میں وہ بے اثر ہو کر رہ جانے گا.اُس نے پہلے تو کا لگتی و Cloigny ) کو قتل کرانے کی سازش کی جس میں ناکامی کے بعد بادشاہ کے بھائی بہتری اور ہنری ڈیوک گائنز اور پیرس کے دیگر عمامہ کے ساتھ منصوبہ باندھا کہ پیرس کے مذہبی دیوانوں اور عوام کوہ کا لگنی کے ہم مذہب فرقہ کو واجب القتل بتلا کہ اس کے خلاف مشتعل اور برانگیختہ کر دیا جائے.بادشاه چارلس نہم اگر چہ کا لگنی سے محبت والنس رکھتا تھا ، اس کے فرقہ ہو گناٹ (Hugenoi) کو موت کے گھاٹ اتارنے پر آمادہ ہوگیا کیونکہ اس کو باور کرایا گیا کہ خود اس کی زندگی خطرے میں ہے.اس قتل عام کو میڈرڈ اور روم میں فتح قرار دیا گیا اور اس پر بہت خوشیاں منائی گئیں.جماعت احمدیہ کے خلاف بھی ازروئے شریعت مرتد اور سنگسار کیے جانے کا مطالبہ کئی رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص ۱۰۱ 643.Collier's Encyclopaedia Vol Ill Pg مطبوعہ امریکہ و برطانیه ۱۹۶۷ء

Page 165

۱۵۳ سال سے پوری شدت سے جاری تھا اور مرکزی حکومت خصوصا جناب خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر اعظم پر اس کے لیے بالخصوص دباؤ ڈالا گیا تھا مگر خواجہ صاحب احمدیوں کی موت کے پردانہ پر دستخط ☑ کرنے نہ پائے تھے کہ اُن کی حکومت کا تختہ الٹ گیا وگر نہ جیسا کہ انہوں نے اپنے عدالتی بیان میں تسلیم کیا پردہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ : اگر نوے فیصدی علماء اس پر اتفاق کر لیں کہ مرزا غلام احمد کو ماننے والا کا فر ہے اور اس کو سنگسار کر کے بلاک کر دینا چاہیئے تو وہ اس فیصلے کے آگے مرتسلیم خم کر دیں گے پالے لاہور اور اس کے ماحول | بیت باھالو موڑنے کے متمنی ذکرکے بعد ا ہو اور اس کے پھول ماحول پر روشنی ڈالی جاتی ہے.کے واقعات ۶ مایس شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لا ہوں.نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں 4 مارچ ۱۹۵۳ء کو لکھا کہ : شہر کے مختلف حصوں سے انتہا درجہ تشویشناک اطلاعات موصول ہوتی ہیں.کئی بار معراج الدین صاحب کے متعلق یہ پیغام موصول ہوا کہ اگر چہ وہ اپنے بچے اور ستورات کہیں بھجواچکے ہیں لیکن وہ خود اور ان کے بھائی پہلوان معراج الدین خطر ناک حالات میں گھرے ہوئے ہیں.دشمنوں نے نرغہ ڈالا ہوا ہے.اسی طرح مسعود احمد صاحب الفضل کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ وہ بھی دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں ان کا انتظام کیا جائے.مہماشہ فضل حسین صاحب کے گھر کو بھی آگ لگانے کی کوشش ہو رہی تھی.انہوں نے بھی مدد کی درخواستیں بھیجیں.ان تفاصیل میں گزشتہ اٹھتالیس گھنٹوں میں ہر لمحہ ایسے ہی پیغامات موصول ہوتے رہے.اور میں نے اور میرے رفقاء نے ہر ممکن مساعی کی کہ پولیس کے افسران کو مدد کی طرف متوجہ کریں اور کئی بار میاں مظفر احمد صاحب کی وساطت سے بھی کوشش کی لیکن نتیجہ یہ آمد نہ ہوا.اور حالات بد سے بدتر ہوئے گئے.اس وقت یہ حالت ہے کہ ملک برکت علی صاحب ٹمبر مرچنٹ راوی روڈ کی دکان مان محمد طفیل صاحب سود اگر چوب - مستری نذر محمد صاحب آرہ ، مستری موسیٰ صاحب اور چھلے ه رپورٹ تحقیقاتی عدالت می ۳۱۳

Page 166

۱۵۴ محبوب عالم صاحب کی دکانات بیل چکی ہیں.جہاں تک لوٹ کا سوال ہے کئی دکانیں اُٹ چکی ہیں.ہمارے خلص کارکن جنہوں نے موجودہ فتنہ میں اپنی طاقت سے بڑھ کر کام کیا ہے اور جن کی خاص سفارش کرنی چاہتا ہوں و محمود الحسن پاکستان گھی سٹور ہیں.اس وقت ان کی دکان بھی لٹ چکی ہے.اور شہر سے کئی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں......آج شیخ نور احمد صاحب (وکیل) کے حالات بہت تشویشناک صورت اختیار کر گئے ہیں.پرسوں رات اُن کے گھر پر خشت باری ہوئی شیشے توڑ دیئے گئے.گزشتہ شب اُن کے گھر پر حملہ بھی ہوا لیکن زیادہ سنگین حالات رونما نہیں ہوئے.آج حالات زبوں تر ہو گئے اور ان کے بال بچوں کو ایک وکیل صاحب نکال کر لے گئے نہ مجھے اطلاع موصول ہوئی کہ اُن کی جان خطرہ میں ہے :.میرے ساتھ کے کرایہ داروں کا ایک لڑکا ہوائی جہازوں میں ملازم ، اس نے اپنے مکان کے حصہ سے ضروری سامان لے جانے کے لیے ایک ترک منگوایا جس کے ساتھ فوج کے سپاہی بھی تھے.میں نے اس لڑک کو وہاں بھجوا کہ ان کو اپنے ہاں بلوا لیا.وہ ابھی نیچے ہی تھے کہ ان کے گھر کے سامان کو نکال کر آگ لگا دی گئی.اور سیاہ دھواں آسمان سے اٹھتا نظر آیا.وہاں سے تاریخ ہو کر مجمع اُمنڈتا ہوا سا ٹمپل روڈ پر حملہ آور ہوا.گلی والے دروازے کو آگ لگا دی.ٹمپل روڈ والے دروازے کو توڑ کر اس میں داخل ہو گئے.سر عبد القادر کی کو بھٹی پر بھی چڑھ گئے اور مٹرک سے بھی اور اردگرد سے بھی شدید خشت باری شروع کر دی.اس سے پہلے وہ میرے بورڈوں کو آگ لگا چکے تھے اور ساتھ لے بھی گئے تھے.حالات جب بے قابو ہو گئے تو میرے رفیقوں نے جن کے پاس بندوقیں نھیں ہوا میں فائر کئے لیکن اعجاز الحق صاحب جن کی گولی مجمع میں سے کسی کو لگ گئی وہ شاید زخمی ہوا یا مر گیا.ان گولیوں سے مجمع منتشر ہو گیا اور کو بھی آگ لگنے اور جانیں ضائع ہونے سے بچ گئی.اسی عرصہ میں ملک عبد الرحمن صاحب کی کو بھٹی کو بھی لوٹ لیا.اسی طرح ملک عبدالرحمن صاحب جو ڈاکٹر یعقوب صاحب کے بھائی ہیں اور رفعت محمود صاحب صاحب جو لکشمی بلڈ نگر میں بیڈن روڈ اور مال روڈ کے ساتھ لگی ہوئی عمارت میں رہتے ہیں ان کا انخلاء کر کے لے جہاں شیخ بشیر احمد صاحب مقیم تھے

Page 167

100 ٹیل روڈ پر پہنچا دیا گیا ہے اور مختلف جگہوں سے مختلف لوگوں کو لاکر جن کی مجموعی تعداد سو کے لگ بھگ ہے ٹمپل روڈ میں جمع کر دیا گیا ہے.مارشل لاء نافذ ہو چکا ہے.میں مشورہ کے لیے رتن باغ آیا تھا اور کرفیو کی وجہ سے یہیں ٹھہر گیا ہوں یا الخ ۲ - صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے رجو ان فسادات کے دوران لاہور سول سیکرٹریٹ میں تھے اور برتن باغ میں مقیم تھے اور مارچ ۱۹۵۳ء کو حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا : - 4/7/01 یا عمی بسم الله السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته لاہور میں کل سے حالات سخت تشویشناک ہو گئے ہیں.اور بالکل ۱۹۴۷ء کے عادات کا نظارہ نظر آتا ہے.کوئی حکومت معلوم نہیں دیتی.کل اور آج کے واقعات مختصراً درج ہیں.کل ماسٹر منظور احمد صاحب مدرس باغبانپورہ شہید کر دیئے گئے.اسی قسم کی خبر محمد شفیع صاحب برمی کے متعلق ہے.آج صبح را چوت سائیکل در کسی ، مستری موسی کی دوکان شفاء میڈیکو، منیر کی دکان Jrsinco ملک عبدالرحمان صاحب کے گھر کو لوٹا گیا.اور آگ لگائی گئی.ملک عبد الرحمان اپنی فیملی کے ساتھ دوسرے کسی مکانیہ میں جا چکے تھے.ہسپتال میں ممانی جان کا رہنا خطرے سے خالی نہ تھا.کیونکہ وہاں بھی بدمعاشوں نے پہنچنے کی کوشش کی اب انہیں Ambulance کے ذریعہ یہاں مکان رزن باغ پر لایا جارہا ہے.ممانی جان شام کو رتن یا نخ بخیریت پہنچ گئی ہیں.احمدی اپنے گھروں میں مقید ہیں.اور ان کی جان و مال خطرے میں ہے.پولیس قریبا ہے نہیں ہو چکی ہے اور ابھی تک فوج کے سپر دانتظام نہیں کیا گیا.ابھی میں نے گورنمنٹ ہاؤس سے پنہ سلہ حضرت اقم دارد صالحه خانون صاحب بیگم حضرت سید محمد اسحق صاحب دقات ۸ ستمبر ۶۱۹۵۳

Page 168

104 کیا تھا.تو انہوں نے بتایا کہ اس کا فیصلہ ہو رہا ہے.آج صبح یہاں جماعت کے احباب نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جہاں جہاں احمدی اکیلے ہیں.وہ یا تو دوسرے اس محلہ کے احمدی کے گھر چلے جائیں اور یا پھر اپنے اپنے محلہ میں ایک Packet بنا لیں اور وہاں سب اپنی حفاظت کریں.ایک جیپ کا انتظام کر کے پولیس سے مدد کی کوشش کی جا رہی ہے.کہ وہ امداد دیں.تاملہ جات وغیرہ میں گشت کر کے احمدیوں سے Contact قائم رکھا جائے.اور جو مدد ہو سکے دی جاوے.یوں احمدیوں کی آمد و رفت یام مشکل ہے.اور خطرہ سے خالی نہیں.گورمنٹ کا ابھی ابھی اعلان ہوا ہے.کہ پنجاب کی حکومت نے یہ فیصلے کیے ہیں.کہ وہ اس تحریک کے لیڈران سے گفت و شنید کرے.مرکزی حکومت کو سفارش کی جارہی ہے کہ وہ چوہدری صاحب کو مستعفی ہونے پر مجبور کریں.کیونکہ یہ عوام کا مطالبہ ہے.آج شام کو شیخ بشیراحمد صاحب کے مکان پر بھی حملہ ہوا.کوئی ایک ہزار کا ہجوم تھا.پولیس بھی اس وقت موجود نہ تھی اس لیے اپنے والنٹیٹرز نے اس حملہ کو بندوق چلا کر کامیابی کے ساتھ واپس کیا.اب میں یہ خط شام کے ساڑھے آٹھ بجے مکمل کر رہا ہوں.چاروں طرت سے نعروں وغیرہ کی آواز آرہی ہے ابھی تک حالات پوری طرح قابو میں نہیں آئے.گو کچھ فرق پڑتا نظر آرہا ہے.حضور خاص طور پر دعا فرما دیں.اور اگر کوئی ہدایات ہوں تو وہ بھی ارشاد فرما دیں امید ہے کہ آئندہ بارہ گھنٹڈ نیک فوج حالات پر مکمل طور پر قابو پا لے گی.قیوم اور میں کل شام سے رتن باغ آگئے ہیں.بعض دوست ملک عبداللہ خالد اور دوسرے دوست کہ رہے ہیں.کہ یہاں آجاؤ.لیکن باقی عزیزوں کے ساتھ رتن باغ میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے پرسوں اور آج ہمارے سیکر ٹریٹ کے کلرکوں نے بھی ہڑتال کر دی.اور کمپاونڈ کے اندر فرے ه ای و کیف امیرجماعت ام یا اور ماروی، که مراد صاحبزاری بته القیوم بیگم صاحبہ ہ ایڈوکیٹ احمدیہ

Page 169

106 لگانے شروع کر دیئے.مجھے احساس ہے کہ حالات مشرقی پنجاب کے فسادات سے اگر زیادہ نہیں تو اس کے برابر ضرور ہیں.نوٹ :- طالب دعا خاکسار منظفر احمد شام کوئیں نے خالد ملک کو فون کیا تھا اس سے پتہ چلا کہ مرکز نے صوبہ پنجاب کی حکومت کی درخواست کہ چوہدری صاحب کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے ، کو Resist کیا ہے.اب دیکھنے کی بات ہے کہ مرکز کے اس جواب پر صوبہ کی حکومت مزید کیا فیصلہ کرتی ہے ؟ خاکسار مظفر احمد - ملک عبد الرحمن خان صاحب (بر اور ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب) نے اسی رونا میر صاحب جماعت احمدیہ لاہور کو اطلاع دی کہ : اور مارچ علی الصبح سے فضا نہایت مکدر ہو گئی.صبح ہمارے ایک غیر احمد می رشتہ دار نے بتایا کہ تحریک کے سرغنوں نے جن کا صدر مقام مسجد وزیر خاں تھا فیصلہ کیا ہے کہ تحریک راست اقدام ، جن کا رُخ پہلے گورنمنٹ کی طرف تھا آج سے احمدیوں کی طرف بھی ہو گا.اور اس نے ان منصوبوں کا ذکرہ جو احمدیوں کے متعلق ہوئے آگاہ کیا اور بتایا کہ کس طرح جلد ہی احمدیوں کا پہلے لاہور میں ، پھر دیگر نواحی شہروں میں وہی حشر ہو گا جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا ہوا.ارد گرد کی مسموم فضاء کے پیش نظر ہمیں یہ باور کرنے ہیں ذرا بھی تامل نہ تھا اور اسی رشتہ دارہ کے مشورہ سے اپنی حفاظت کے لیے سوچنے لگے.خوش قسمتی سے جس علاقہ میں میری رہائش ہے وہاں اکثر تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ آباد ہیں.اس لیے نسبتاً اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا تھا.البتہ میری معمر والدہ صاحبہ اہمشیرہ اور چھوٹے بھائی ے سختی سے ریڈ کرنا

Page 170

کے بال بچے قلعہ گو بر سنگھ عبدالکریم روڈ کے اس علاقہ میں رہتے تھے جو امرتسر کے سٹورید پیشت اور شرارت پسند لوگوں کی آماجگاہ ہے.اس لیے صبح ۱۰٫۹ بجے کا ر لے کر یکی اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد یعقوب خان آن میو ہسپتال کو وہاں سے....چھپ چھپا کر لے آیا کیونکہ ہمسائیوں تک کی نظر میں آنے والے حالات کی غمانہ ہی کر رہی تھیں.ملازم اور بھانجا وہاں ہی رہ گئے تھے.جب واپس گھر پہنچے تو تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ بعد ملازم وہاں سے بھاگ کر آیا اور بتایا کہ غنڈوں کا ایک گروہ جس کی سرکردگی بعضی خوش پوش نو جوان کر ر ہے ہیں مکان میں گھس کر لوٹ کھسوٹ ہیں مشغول ہے.اور ساتھ ہی کچھ اشیاء گھر کے سامنے رکھ کر نذر آتش کر ر ہے ہیں.یہ خبر سنتے ہی ہیں نے قلعہ گوجر سنگھ کے تھانہ میں فون کیا مگر ایک گھنٹہ متواتر کوشش کرنے کے باوجود نمبر نہ مل سکا.اس کے بعد یعنی پہلے ملازم کے آدھ پون گھنٹہ کے بعد دوسرے ملازم نے جس کو گھر سے صورت حال کا پتہ لینے کے لیے بھیجا تھا اگر اطلاع دی کہ لوٹ گھوٹ اور آتش زدگی کا عمل زور و شور سے جاری ہے محلہ والے ویسے کھڑے ہیں اور مداخلت نہیں کر ر ہے.اس دوران میں تھانہ سول لائن میں فون کیا کہ اس وقت میرے چھوٹے بھائی اور ہمشیرہ کا مکان لوٹا اور جلایا جارہا ہے.خدا کے واسطے اس وقت مدد کرو.جو اگر اس وقت پہنچ سکے تو کچھ نقصان سے بچ جائے گا.وہاں سے اطلاع ملی کہ اس کام کے لیے فلاں نمبر پر فون کر د.اس نمبر سے بتایا گیا کہ اس وقت ان کے پاس فالتو آدمی نہیں سارا عملہ ڈیوٹیوں پر متعین ہے.جس وقت کوئی فارغ ہوگا وہاں بھیج دیا جائے گا......ان سے بھی میں نے منت سماجت کی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی.اس کے بعد میں نے باری باری ڈی ایس پی اور ایس ایس پی کے دفتر اور گھر پر فون کیا مگر ہر جگہ سے یہی اطلاع ملی کہ ڈیوٹی پر گئے ہوئے ہیں.پھر میں نے چیف منسٹر مسٹر دوستانہ کے دولت کدہ پر فون کیا جہاں سے اُن کے پی.اے کو عرض کیا گیا تو اس نے کہا کہ دولتانہ صاحب تو اس وقت گورز صاحب کے بنگلہ پر میٹنگ میں مشغول ہیں البتہ پولیس کے ایک سینٹر آفسر حمن کا نام دریافت کرنے پر بھی انہوں نے نہ بتایا انہیں میں نے فون پر کہا کہ اس وقت میرے بھائی اور ہمشیرہ کا مکان لوٹا جارہا ہے سامان نذر آتش ہورہا ہے ہمسایہ تک تماشائی بنے ہوئے ہیں اگر اس وقت چند سلے سپاہی وہاں پہنچ سکیں تو صورت حال

Page 171

104 جو نازک تر ہو رہی ہے بہتر ہو سکتی ہے.منت اور لجاجت سے اسلام اور انسانیت تک کا واسطہ دے کہا سے مدد کی درخواست کی مگر اس کا یہی جواب تھا کہ ہر جگہ ایسے ہی حالات ہیں اور آگیں لگی ہوئی ہیں.پولیں کسی کسی کی مدد کرے.میں نے کہا بھی کہ ہم احمدی جو اس وقت ظلم کا نشانہ اور تحریر مشق بنے ہوئے چند گفتی کے ہیں لاکھوں کی آبادی میں ہمارا مناسب ہی کیا ہے مگر اس افسر نے یہ کہ کر ٹیلی فون بند کر دیا کہ افسوس ہے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے یاں - شیخ عبدالحمید صاحب نے انہیں دنوں مزنگ سے ایک پوسٹ کارڈمیں حسب ذیل روداد لکھی کہ سن جمعہ کے روز بعد از دو پر ہمارے مکان پر بھی حملہ ہوگیا.مشکل جائیں بجا کر اور ملڑی کا انتظام ہو جانے پر رات کے وقت شیخ بشیر احمد صاحب کی کو بھٹی پر بچوں کولے کر پہنچے.میرے پاس اسی مرکان میں میرا اپنا راشن ڈپو بھی تھا.وہ ڈیو اور مکان کا تمام کار آمد سامان لوٹ لیا گیا.باقی سامان کو برپ سڑک رکھ کر جلا دیا گیا.اسی لوٹ کے باعث ہمارے پاس اوڑھنے کے لئے ایک چادر تک بھی باقی نہیں رہی.مکان کے درو دیوار تک کو بھی جہاں تک حملہ آوروں سے ممکن ہو سکا نقصان پہنچانے کی پوری پوری کوشش کی گئی.اب اس مکان میں رہنا نا ممکن ہو گا.“ شیخ صاحب کے مکان کے بالکل قریب ہی مرنگ کی پولیس چوکی ہے.مگر باوجود اس کے غنڈوں نے چھاپہ مار کر ایک بے کس ، کیلے اور لاچار احمدی کا گھر بار تباہ و برباد کر کے ہی چھوڑا اور انہیں مالی طور پر گیارہ ساڑھے گیارہ ہزار مہوریہ کا نقصان پہنچا گئے.اور وہ پولیں جو فساد سے قبل انہیں ہر طرح مسلی و تشفی دیتی رہی تھی وقت پڑنے پر اُن کے کام نہ آسکی.۴ - جماعت حلقہ گنج (مغلپورہ لاہور کے صدر صاحب نے ایک تحریری بیان میں فسادات لاہور کا پس منظر بتاتے ہوئے لکھا : مذکورہ بالا حالات نے ہمارے حلقہ کی فضاء کو بھی کما حقہ متاثر کیا.یہاں کے لوگ بھی احمدیوں کے خلاف ہو گئے.سب سے پہلا واقعہ باغبانپورہ میں ماسٹر منظور احمد صاحب کی شہادت

Page 172

کا رونما ہوا.جو اختبارات میں آچکا ہے.اس سے اگلے روز احمدیوں کے گھروں پر شریر وں اور بڑ ھاشوں نے جلوس کی شکل میں آ آ کر ہمارے خلاف نعرے لگائے.پتھر پھینکے اور گالیاں دینی شروع کردیں.نتیجہ یہ ہوا کہ احمدی اپنے گھروں میں محصور ہو گئے.ہماری جماعت نے متعدد بار تھانہ مغلپورہ میں جاکر حالات کی نزاکت کی اطلاع دی اور مدد طلب کی مگر متھا نہ والوں نے صاف الفاظ میں اپنی معذوری کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگ سب خلاف ہیں.ہم کچھ نہیں کرسکتے.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمعہ کی صبح کو ہمارے حلقہ راج گڑھ کے ایک نہایت مخلص دوست ، محمد شفیع صاحب جب بيت الذکر سے صبح کی نماز ادا کر کے گھر جا رہے تھے راستہ میں روز روشن میں چاقوؤں.شہید کر دیئے گئے......سا ہو واڑی میں ایک احمدی دوست عظیم تھے شریر لوگوں نے اُن کے مکان پر جاکر اُن کو ڈرایا دھمکایا اور ان سے زبر دستی احمدیت سے توبہ کرائی.وہاں کے مولوی صاحب نے اُن کا دوبارہ نکاح پڑھ کر چھوہارے بھی تقسیم کیے.گلی میرا مکان منبر رام گڑھ میں احمدیوں کا ایک اکیلا مکان تھا.اس پر حملہ کیا گیا.دروازے توڑ دیئے گئے اور چاقوؤں اور چھروں سے مسلح ہو کر غنڈے قتل اور لوٹ کے ارادہ سے اندر داخل ہو گئے دنگر) محلہ کے بعض معززین نے بمشکل ان کو نکالا اور پھر تھانہ میں مدد کے لیے اطلاع کی.(چونکہ اس وقت مارشل لاء لگ چکا تھا.اس لیے فوج کے کہنے پر پولیس کی گارد وہاں جاکر ان کو بحفاظت مغلپورہ لائی جمعہ کے روزہ احمدیوں کی حالت نہایت خطرہ میں تھی.وہ سمٹ سمٹا کر محصور ہو گئے تھے متواتر کئی راتوں سے وہ جاگ رہے تھے اور غنڈے باہر دروازے توڑ رہے تھے پتھر مار رہے تھے.گالیاں دیتے اور اس فکر میں تھے کہ جس طرح ہو سکے احمدیوں کو ختم کیا جائے.احمد می ایک دوسرے کی خیر و عافیت بھی نہیں معلوم کر سکتے.باوجود اس کے کہ اے ابجے مارشل لاء لگ گیا تھا پھر بھی محلہ کے اندرونی حصوں کو خطرہ بدستور تھا جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کو جماعت گنج کے پریذیڈنٹ میاں عبد الحکیم صاحب کی والدہ (جو کہ غیر احمدی تھیں) کو شہید کیا گیا اور ان کا روپیہ اور مال اسباب لوٹ لیا گیا.اُن کے نقصان کا اندازہ نقدی مع دیگر سامان مبلغ بارہ ہزار روپیہ ہے.بابو عبدالکریم صاحب حلقہ گنج مغلپورہ کے مکان کو اسی رات پہلے لوٹا گی اور پھر لوٹنے کے بعد آگ لگائی گئی.ان کے نقصان کا اندازہ -/۶-۳۷ روپیہ ہے.

Page 173

191..احمدیوں کے مکانوں کا پتہ محلہ کے بعض شریروں نے باہر سے آنے والے بدمعاشوں کو بتایا بیستری محمد اسماعیل صاحب اور عبد الرزاق صاحب جو کہ ریلوے کوارٹر مغلپورہ میں رہتے ہیں ان کے کوارٹروں پر حملہ کیا گیا اور ان کو لوٹا گیا.عبد الرزاق صاحب کمیونڈر ریلوے کا اندازہ نقصان ۳۴۸ روپے تھے اُن کے بڑے بھائی کو شریروں نے محض اس لیے مارا کہ وہ ان کے بال بچوں کو محفوظ جگہ لے جانے کے لیے آیا تھا.حالانکہ وہ خود غیر احمدی متھامستری شد اسمعیل صاحب لازم ریلوے کا سامان لوٹ لیا گیا اور اُن کی بھینس بھی کھول کرلے گئے تھے.بھینس تو بعد میں پولیس نے برآمد کرا دی.مگر دیگر نقصان جس کا اندازہ ۱۵۰۰ روپے ہے وہ نہیں پورا کیا گیا.الخ نام گلی - جناب شیخ محمداسماعیل صاحب پانی پتی کا بیان ہے کہ سو L تیار در میرا مکان برانڈرتھ روڈ رام گلی نمبر ۳ میں واقع ہے.جس کے چار در دارے رام گلی نمبرہم میں کھلتے ہیں یہاں یہ مکان رہنمائے تعلیم بلڈنگ کے نام سے مشہور ہے میرے نام مکان کا نچلا حصہ الاٹ ہے.اوپر کے حصوں میں تین غیر احمدی ہمسائے آباد ہیں.ا.فسادات سے بہت پہلے ایک صاحب میرے پاس آئے.اور کہنے لگے." میں اسی محلہ میں رہتا ہوں.اور آپ سے یہ کہنے آیا ہوں.کہ جب موقع آیا.تو ہم لوگ سب سے پہلے آپ کے مکان کو آکہ آگ لگائیں گے.آپ ہوشیار یہ ہیں " میں نے اُن سے کہا کیا آپ کا اسلام یہی کہتا ہے کہ جو اپنا مخالف ہو اُسے پھونک دو فرمانے لگے ”جی ہاں ہمارا اسلام یہی کہتا ہے، میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ بہتر ہے اس وقت تو آپ تشریف لے جائیں.جب موقع ہو گا تو آپ تشریف لے آئیں.اور مکان کو آگ لگا دیں ، میں فسادات کے موقع پر ان کا منتظر رہا.مگر اس وقت یا اس کے بعد آج تک اُن کو نہیں دیکھا.صورت آشنا ہوں.نام نہیں جانتا.- مساوات سے پہلے متعدد مرتبہ نہایت گندے اور خش اشتہارات ہاتھ سے لکھے ہوئے میرے ذاتی لیٹر بکس پہ اور میری گلی کے کھمبوں پر چسپاں کیے گئے.جو محلے کے شریف اصحاب نے اُتار کر پھاڑ دیئے.

Page 174

۱۶۲ فسادات سے دوچار دن پہلے ایک صاحب میرے آئے اور کہنے لگے ” امیر صاحب جماعت احمدیہ لاہور کا حکم ہے کہ آپ اپنے گھر کے تمام افراد کے نام اور عمر وغیرہ ایک کاغذ پر لکھ دیں.تاکہ وہ نام پولیس میں دیگر حفاظت کی تدابیر کی جائیں یا میں نے اُن سے کہا کہ " امیر صاحب کا تحریری حکم سے آیئے.میں ان کا خط پہچانتا ہوں.پھر آپ کو لکھدوں گا یا مگر وہ پھر نہیں آئے.- مساوات کے دنوں میں لوگوں کی ٹولیاں کم تر دن میں اور بیشتر راتوں کو آئیں.اور کتنی کتنی دی تک میرے مکان کے سامنے کھڑے ہو کر نہایت اشتعال انگیز نعرے لگائیں.اور چلی جاتیں یہ سلسلہ رات کے ایک اور دو بجے تک جاری رہتا.ہم لوگ کواڑ مضبوطی سے بند کیے اندر گھر میں بیٹھے رہتے.اور سب کچھ سنتے رہتے.2 - فسادات کے ایام میں اس امر کی برا یہ خبریں ملتی رہ ہیں کہ لوگ ارادہ کر رہے ہیں.کہ رات کو پٹرول ڈال کر تمہارے مکان کو آگ لگا دیں اور بوتلیں لیے پھر رہے ہیں.آخرہ مارچ کو وہ لوگ آگئے.اور مکان کو پھونک دینا چاہا.مگر مشکل یہ آپڑی کہ مکان کی طویہ کی منزلوں میں دوسرے غیر احمدی حضرات رہتے تھے.اور نیچے کی منزل کو آگ لگانے سے اوپر تک تمام مکان جلتا تھا.اس لیے وہ لوگ اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکے.اور مجبوراً چھوڑ کر چلے گئے.اوپر کی منزل میں جو غیر احمدی رہتے ہیں.انہوں نے فسادیوں سے یہ بھی کہا.” تم تو آگ لگا کر چلدو گے.مگر میں سرکاری ملازم ہوں جب بعد میں سرکار مجھ سے جواب طلب کر یگی.کہ تم نے کیوں نہ روکا.تو میں کیا جواب دوں گا.اس کا نتیجہ یہ ہو گا.کہ میں مارا جاؤں گا پھر میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ ان کے گھر میں سوائے قرآن شریف اور دینی کتابوں کے کچھ نہیں.تم قرآن شریف کے نسخوں کو کس طرح جلا سکتے ہو ہے جو قرآن شریعت ان کے پاس ہیں اُن میں سے ایک قرآن انہوں نے مجھے بھی پڑھنے کے لیے دیا تھا.اور وہ میرے پاس ہے کیا اس پر انہوں نے کہا.کہ اچھا وہ قرآن شریف نہیں لا کہ دکھاؤ یہ میں نے اُن صاحب کو چند دن پہلے تفسیر کبیر کی پہلی جلد پڑھنے کے لیے دی تھی.وہ انہوں نے لا کہ بلوائیوں کو دے دی کہ لو دیکھ اس پر بلوائی تغیر کبیر اپنے ساتھ لے گئے.اور مکان کو چھوڑ گئے.بعد کے ایام میں ایک شخص اُن میں سے آیا اور بڑی خاموشی کے ساتھ وہ تفسیر کبیر اُن کو واپس کر گیا.جو انہوں نے مجھے دیدی.

Page 175

١٩٣ فسادات کے ان تمام ایام میں محلہ اور گلی والوں کا بہتا میرے ساتھ بالعموم نہایت شریفانہ رہا.جو کچھ شورش پچائی.وہ عام طور پر باہر کے لوگوں نے بچائی.میں نے ان تمام واقعات میں سے کسی واقعہ کی رپورٹ پولیس میں نہیں کی.کبھی پولیس کو اپنی امداد کے لیے بلایا.الحمد للہ میرا کوئی نقصان ان فسادات کے ایام میں نہیں ہوا.خاکسار ر شیخ محمد اسماعیل پانی بہتی مرکان نمبر ۱۸ رام گلی نمبر ۳ لامور - ۴ جولائی ۱۹۵۳ء 4 - حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب ستوری اپنی کتاب تجلی قدرت میں لکھتے ہیں.: میں جب میں ناصر آباد (سندھ) میں کام کر رہا تھا اس وقت ساری مذہبی پارٹیاں ہمارے خلاف ہو گئیں اور پھر حکومت بھی خلات ہو گئی.اس وقت برخوردار مسعود احمد بھی لاہور میں کام کرتا تھا.اکبری منڈی میں دکان تھی آسٹریلیا بلڈنگ میں ایک سوستر کہ وپیہ پر نچلا حصہ کرایہ پر تھا.اس مکان کے مالک آسٹرلین بلیڈنگ والے خاندان کے ممبر تھے.میں چونکہ اس وقت سندھ میں تھا نا صر آباد کا مینجر لگا ہوا میں نے خواب میں مسعود احمد کو دیکھا جو کہ نہایت پریشان حالت میں تھا اور کہتا تھا کہ ابا جان! آج ہم مہاجر بن گئے.اس وقت دکان کا قرضہ دو لاکھ کے قریب بازار کے ذمہ تھا اور گودام میں جو مکان کے ساتھ تھا ستر ہزار کا مال پڑا ہوا تھا.اس نے کہا آج ہمارے پاس کچھ نہیں رہا.آج مہاجر ہو گئے.اس خواب کے ذریعہ مجھے پریشانی ہو گئی.میں نے صدقہ بھی دیا اور دعا بھی کی اور مسعود احمد کو خط لکھا کہ تمہارے گھر میں کوئی بچہ پیدا ہونے کی تو امید نہیں ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں میں نے اس غرض سے دریافت کیا تھا کہ اگر پیدا ہونے والی لڑکی ہو تو چونکہ لڑکی جہیز میں کچھ لے جاتی ہے.میں نے سمجھا کہ یہ خواب اس طرح بھی پورا ہو سکتا ہے.جب اس نے مجھے یہ جواب دے دیا.ادھر خطرات بڑھ رہے تھے.میں نے دعائیں شروع کر رکھی تھیں چنانچہ مارکیٹ میں جو دکان بھی خطرہ پیدا ہوا کہ لوٹ لی جاوے گی تو مسعود احمد صاحب اپنے تھانہ جات کو گھر لے آئے اور دکان بند کر دی.ان کا دکان پر آنا جانا بھی بند ہو گیا.

Page 176

۱۶۴ دکان کو بند ہوئے ابھی دو تین روز ہوئے تھے کہ شہریوں نے دکان کے تالے توڑ کر جلا دی اور سمجھا کہ بازار میں جو حساب کتاب تھے وہ کا پیاں حساب کی بھی جل گئی ہوں گی.اور وہ بھی نہیں لے سکیں گے.مکان پر یہ حالت ہو گئی کہ جرنیلی سڑک سے فٹ پاتھ کے قریب کوچے میں دروازہ تھا.دن میں دو دو تین تین دفعہ ہزار ہزارہ آدمی سڑک پر پہنچ کر گالیاں دیتے تھے لیکن کوچے کا دروازہ نہیں توڑتے تھے اور آپس میں کہتے تھے کہ اندر صرف دو آدمی ہیں اور ان کے پاس اسلحہ ہے.جتنے کارتوس ہوں گے اتنے تو یہ مار سکتے ہیں نکلنے کے بعد پھر ان کو قابو کیا جا سکتا ہے.جب یہ حالت ہو گئی تو مسعود احمد نے اپنی بیوی سے یہ بات کہی مالک مکان کی بیوی سے یہ بات جا کہ کہو کہ ہمارا ستر ہزار کا مال آپ کے مکان میں پڑا ہے ہم یہ سب سامان آپ کے سپرد کرتے ہیں.براہ مہربانی اپنی موٹر میں پولیس لائن تک پہنچا دیں.ان کی بیوی نے اپنے خاوند سے جا کر دریافت کیا انہوں نے جواب دیا کہ جماعت کے سب لوگوں کے لیے تاریخ مقرر ہے.اس دن یہ سب قتل ہو جاویں گے.....میں اپنی نہیں سہزارہ کی موٹر کیسے تڑوالوں.یہ جواب سن کر جب وہ واپس آئی اور مسعود احمد کو بتایا تو مسعود احمد خود مالک مکان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ ساری جماعت کے لوگ قتل ہو جائیں گے یہ بالکل غلط بات ہے.خدانخواستہ چند آدمی شہید ہو جائیں تو ہو جائیں.باقی آپ کا یہ خیال غلط ہے.اگر آپ مہربانی کرتے تو ہم یہ سب سامان آپ کے پاس چھوڑ کر پہلے جاتے مگر انہوں نے بھی حامی نہ بھری.یہ واپس اپنے مکان میں آگئے.ایک رات گوری مھتی کہ صبح کو قریشی محمد اقبال صاحب لائن افسر موڑے کہ وہاں پہنچے اور ان کی موڑ کے آگے پیچھے دوشین گنوں والی موڑیں تھیں اور انہوں نے آکر کہا کہ فوراً ملدی جلدی چلے آؤ.مکان کو اسی طرح رہنے دو.کوئی سامان زیور کچھ نہیں لیا.صرف چار جوڑے کپڑوں کے رکھے اور وہاں سے چلے گئے.اور پولیس لائن جا کہ مجھے خط لکھ دیا کہ آج ہمارے پاس صرف چار جوڑے کپڑوں کے رہ گئے ہیں.اللہ تعالے کی حکمت کا ملہ سے ان کو پولیس لائن میں گئے ابھی دو دن ہی ہوئے تھےکہ مارشل لاء

Page 177

140 گیا اور فوج نے حکومت سنبھال لی.خطرہ کے دُور ہوتے ہی مسعود احمد صاحب واپس اپنے گھر چلے گئے تو سارا سامان بدستور پڑا تھا.چار پانچ روز کے بعد جب بازار میں امن ہو گیا تو ہم نے دکان کھولی.جن جن لوگوں کے پاس روپیہ تھا اُن سے مطالبہ کیا تو انہوں نے یہی کہا کہ ہمیں یہی کھاتہ دکھاؤ.اُن کو کہ دیا گیاکہ آؤ دیکھ لو.یہی کھا نہ دیکھ کر لوگ حیران تھے کہ دکان تو ساری جلا دی گئی تھی یہ بہی کھاتہ کہاں پڑا تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے دکان بھی بیچاری مکان بھی لہجہان بھی محفوظ رکھ لی.اس واقعہ کا انٹر مالک مکان پر ایسا ہوا کہ انہوں نے سلسلہ کی کتابیں دیکھنی شروع کر دی اور اپنے خاندان کے لوگوں کو احمدیوں سے ملایا کرتے تھے یا اے ما - حضرت ڈاکٹر حافظ عبد الجلیل صاحب شاہجہانپوری کیمسٹ و ڈرگسٹ اندرون موچی دروازہ لکھتے ہیں کہ : - ر میری دکان ۲ مارچ کو لوٹی گئی اور بری طرح صفائی کی گئی یہاں تک کہ دوائیاں لوٹتے اور توڑنے کے بعد میز کرسی تمام سامان دکان کا ضائع کیا اور گھروں کو لے گئے دکان کا فرش اور دیواریں ضائع ہونے سے خراب ہوگئیں اور چھوٹی الماریاں اٹھاکر لے گئے اور بڑی الماری کے شیشے توڑ گئے.یہ نہایت سفاکی اور بربریت کا نمونہ پیش کیا گیا.ان دنوں بعض سائیکل سوار گزرتے تو وہ ساتھیوں سے کہتے کہ یہ دکان مرزائی کی ہے نوٹ کر لو.وغیرہ وغیرہ.افسوس کا مقام ہے کہ جب یہ واقعہ ہوا دن کے اڑھائی بجے تھے اور پولیس اسٹیشن میری دکان سے قریباً ، گز کے فاصلہ پر واقعہ ہے.باوجود پولیس کو علم ہونے کے ٹس سے مس نہ ہوئی اور اپنے فرض منصبی کو پھیلا دیا.جب میں نے متعدد بار پولیس والوں سے پوچھا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہمارے افسران کی طرف سے ہم کو یہی حکم ہے کہ نہ وردی پہنیں اور نہ ہی ہاتھ اٹھلائیں.اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ان پولیس والوں کی بے پروا ہی سے ہم غریب لٹ گئے کا شه در تخیلی قدرت ما تا مٹکا رطبع اول) مؤلفہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب ستوری له - لاد ۱ ۱۸۹ و بیت ۱۹۰۴ ، دفات یکم دسمبر ۶۱۹۷۰

Page 178

174 آپ نے جو نقصان کی تفصیل سرکاری حکام کے سامنے پیش کی وہ قریبا ساڑھے تیں ہزار روپیہ کی تھی.بلوائیوں نے تو آپ کو جان سے مار ڈالنے کا بھی تہیہ کر لیا تھا مگراللہ تعالی نے آپ کو ان موذیوں سے بچایا.بھائی گیٹ اتر ١٩٥٣ - حضرت میاں معراج دین صاحب پہلوان بھائی گیٹ لاہور کا بیان ہے ور مارپیچ ۱۵۳ قتل غارت کرنے اور لوٹ مار اور آتشزدگی کرنے کا آخری دن تھا.ار مارچ کی صبح کو سب دوستوں نے مشورہ کیا کہ اب کیا کہنا چاہیے تو یہ بات قرار پائی کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی خدمت میں جا کر یہ کہیں کہ حالات بہت خراب ہو چکے ہیں آپ کو ئی انتظام کریں لوگوں کے ارادے ہمارے متعلق بہت خطرناک ہیں.اگر کوئی روک تھام نہ کی گئی تو نتیجہ اس کا تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ ہوگا.چنانچہ وفد کے چار دوست پکچہری کی طرف روانہ ہو گئے اور بعد میں لحظہ لحظہ ہجوم بڑھتا گیا اور حالات در زندگی - وحشت اور دیوانگی لیے ہوئے خراب سے خراب تر ہو گئے.اور ادھر یہ ہوا کہ ہمارے نوجوانوں کے عینی شریعت اور ہمدرد دوست اپنے اپنے گھروں میں اُن کو بچوں اور عورتوں سمیت لے گئے.حملہ میٹر نگاں میں صرف ہم چار افراد رہ گئے.معراج دین خاکسار حکیم سراج دین صاحب اور ان کا لڑ کا مبارک احمد طالبعلم ٹی آئی کالج اور ایک لڑکا ناصر احمد طالبعلم ٹی آئی کالج ) مذکورہ بالا حالات کے پیش نظر ہمیں بھی گھر میں دروازے بند کر کے بیٹھنا پڑا.نوبجے کے قریب ہمارے ایک عزیزہ بغیر احمدی نے ہمیں آکر یہ خبر دی کہ اونچی مسجد کے قریب ایک سائیکل سوار نوجوان کو قتل کر دیا گیا ہے.ہمیں یہ سنکر ایک دھکا سا لگا کہ مبارک احمد کی سائیکل ہے کہ نوجوان عبد الستارہ ابھی ابھی کالج کی طرف گیا تھا.کہیں وہی غریب نہ ہو.پھر ہم نے اسی عزیز مذکور سے کہا کہ اچھی طرح دیکھ آؤ کہ مقتول کون ہے ؟.وہ گئے اور م کہ کہا کہ مستری نذر محمد آؤ صاحب کا لڑ کا جمال احمد ہے جسے قتل کر دیا گیا ہے.یہ شنکر ہمیں سخت صدمہ ہوا.مگر ہم مجبور شه ولادت ۱۸۸۰ء وفات ۲۲ مارچ 194۵ء سے اسی حلقہ میں عبد الرحیم صاحب ڈسپینسر کا مکان بھی تھا جو 4 مارچ کو لوٹ لیا گیا

Page 179

۱۹۷ کچھ نہیں کر سکتے تھے چاروں طرف درندگی پھیلی ہوئی تھی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھ کے وہیں بیٹھ رہے.اس کے بعد فرداً فرداً محلہ کے بعض آدمی آتے رہے اور کہتے رہے کہ ہم بے لبس ہیں کچھ نہیں کر سکتے کوئی کہتا کہ ہم کارے آتے ہیں اور تمہیں کسی محفوظ جگہ پہنچا آتے ہیں.کوئی کہے کہ آپ اپنے مکان کے ساتھ والے مکان پر اوپر سے کود کر چلے جائیں اور پھر فلاں گلی میں چلے انی اور پھر لا مکان میں پچلے جائیں تو آپ محفوظ ہو جائیں گے.اور ہم مشتعل فسادیوں سے کہدیں گے کہ وہ تو سنیاں نہیں ہیں کہیں جا چکے ہیں وغیرہ وغیرہ مضحکہ خیز تجویز میں بتاتے رہے.ہم نے ان ے کہا کہ م ب تماشہ دکھانا نہیں چاہتے کہ بھاگتے اور پھیلتے پھریں اس وقت کون ہے جس کی نظر ہم پر گی ہوئی ہیں ہم تو احمد تعالی کے بھروسے پر یہیں رہیں گے وہی ہماری مدد کرے گا.اور ہمارے پاک امام حضرت نخلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہی ارشاد ہے کہ اپنی اپنی جگہ پر ر ہو اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعائیں کرتے رہو وہ ضرور ہماری مدد کرے گا.آپ لوگوں کی اس ہمدردی کا بہت بہت شکریہ.پھر ظہر اور عصر کی نماز میں جمع کر کے ہم نے پڑھیں اور دعائیں کرتے رہے.ڈیڑھ یا دو بجے دن کے مارشل لاء لگ چکا تھا مگر اندرون شہر اس کا کوئی اثر نہ تھا.بدستور اسی طرح شور و غوغا اور ٹولوں کے بڑے جلوسوں کی شکل میں پھر رہے تھے یا" ۹ میستری نذرمحمد صاحب رحمہ پر نگاں اندرون بھائی دروازہ ہم اپنے جواں سال اور نہایت پیارے احمدی بیچے کی شہادت کا دردناک واقعہ بناتے ہوئے لکھا." مارچ کی صبح کو نو بجے حکیم سراج الدین صاحب نے مجھے بلایا.میں اُن کے پاس گیا.انہوں نے کہا کہ ہم تین چار آدمی ڈپٹی کمشنر صاحب کے پاس جاکر کہیں کہ وہ ہم کو لوٹیں دیں.ہم کو بہت خطرہ ہے ان دوستوں کے کتنے پیر میں نے بچوں کو 10 مارچ کو جمعرات کے دن ڈبی بازار اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے ہاں بھیج دیا ہوا تھا.گھر میں میں اور میرا لنڈ کا جمال احمد ہی تھے.14 مارچ کی صبح کو نہیں لوگ آکر کہنے لگے کہ تم کو قتل کر دیا جائے گا.تم اب یہاں سے چلے جاؤ.ہم نے کہا ہم نہیں جائیں گے...میں نے اپنے لڑکے کو کہا کہ تم داتا گنج کے پاس میرے ایک دوست غیر احمدی مام بخش کا گھر ہے.وہاں چلے جاؤ کیونکہ میں کچھری چلا ہوں.شام تمہیں کیا پاکہ کوئی نقصان پہنچائیں.ہم کچہری گئے.مگر وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب نہ ملے کیونکہ وہ آئے ہی نہ تھے.

Page 180

191 پھر میں ڈاکٹر رفیق صاحب جو کہ ڈینٹل سرجن ہیں اُن کے مکان میں آیا تو وہاں ہمارے محلہ کے احمدی مولوی عبد الرحیم صاحب کیا ونڈر اور میاں محمد اقبال صاحب زرگر موجود تھے.تھوڑی دیر کے بعد مولوی عبد الرحیم صاحب کا لڑکا وہاں آیا.اس نے کہا کہ جمال احمد شہید کر دیا گیا ہے.اور اس کی لاش بھی اٹھا کر لے گئے ہیں.......میں اپنی دکان (آرم مشین پر گیا تو وہاں کے غیر احمدی ہمسائے کہنے لگے تم یہاں سے چلے جاؤ.فسادی تمہیں دو تین دفعہ دیکھ گئے ہیں.دو تمہیں قتل کر دیں گے.ہم تمہاری دکان کی حفاظت کریں گے.مگر جب جمعہ کے وقت حفاظت کرنے والے چلے گئے تو بلوائیوں نے پیچھے سے آکہ آگ لگا دی.جس سے ہماری رعمارتی لکڑی کی) دوکان مشتری.لکڑی.درخت وغیرہ سب جل کر راکھ ہو گئے.......حجب مارشل لاء کی وجہ سے کچھ امن ہو گیا تو ہم گھر آئے دیکھا ہمارے گھر کا سارے کا سارا سامان لٹ چکا تھا حتی کہ کپڑے کا ایک ٹکڑا تک نہ بچا تھا.جمال احمد کے قتل کی رپورٹ محمد صادق نے دیدی جس کا اور یہ ذکر آیا ہے.گھر کی روٹ کی رپورٹ میں نے جا کر میاں محمد شفیع صاحب کو دی.جو کہ ہمارے علاقہ کے تھانیدار تھے اور بھائی گیٹ کی پولیس چوکی کے انچارج تھے الخ کا محترم نذر محمد صاحب ایک اور بیان میں تحریہ فرماتے ہیں : دمیرالڑ کا جمال احمد نہایت خوبصورت شریف طبع اور نیک صالح تھا یہ تعلیم الاسلام کا لج فسٹ ائیر میں تعلیم حاصل کرتا تھا.جس دن انہوں نے شہید کیا امدن نماز جمال احمد نے بہت لمبی پڑھی میں نے اس سے پوچھا کہ جمال احمد تم نے نمازہ بہت لمبی پڑھی ہے تو وہ خاموش ہوگیا.حالات لاہور پر ایک طائرانہ نظر تفصیل بیانات قلمبند ہو چکے اب جماعت احمدیہ نامور کی مالی و جانی قربانیوں کا جائزہ لینے کے لیے ہوتا ہر مارچ ١٩٥١ تک کے حالات لاہور نیہ ایک طائرانہ نظر ڈالی جاتی ہے.یہ جائز ہ مندرجہ ذیل علاقوں پرمشتمل ہے.: راوی روڈ.رتن چندھوڈ.بھائی گیٹ.چوک مسجد وزیر خاں گئی بازارہ بیرونی دہلی دروازه موہن لال روڈ.نئی انار کلی.پرانی انار کلی.نیلا گنبد - میو ہسپتال - خواجہ دل محمد روڈر فلیمنگ روڈ.ریلوے روڈ.نسبت روڈ قلعہ گوجر سنگھ میکلیگن روڈ.میکلوڈ روڈ میں روڈ.

Page 181

149 ٹمپل روڈ.مزنگ روڈ.عزیز روڈ.مصری شاہ کا چھو پورہ - سلطان پورہ - محله دسن پورہ - گنج مغلپورہ.باغبانپورہ.نئی آبادی دھرمپورہ.ر مارچ کو ملک برکت علی صاحب کی ٹمبر کی دکان اور مسکان نذر آتش کر دیا گیا.راوی روڈ تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا نقصان ہوا.اسی طرح ملک محمد طفیل اینڈ سنہ نیر مرچنٹ کا قیمتی سامان بھی جل کر راکھ ہوگیا.رتن چند روڈ بلوائیوں نے 4 ر ما سرچ کو محمد یونس صاحب کی نمبر کی دوکان جلا دی.جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے اس حلقہ کے احمدیوں کو بھی بلوائیوں کی چیرہ دستیوں کا بھائی گیٹ شکار ہونا پڑا علاوہ ازیں ہر مارچ کو ایک نہایت مخلص احمدی نوجوان جمال احمد صاحب طالبعلیم تعلیم الاسلام کا لج شہید کر دیئے گئے.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یوک مسجد وزیر خان 1901 ه رمانه چ ۹۵۳ه بروز جمعہ قریباً ایکے دن بلوائیوں نے مسعود احمد صاب اور محبوب عالم اینڈ سنز کے مکان کو لوٹنے کے بعد آگ لگادی.اسی طرح نیلا گنبد میں دکان "محبوب عالم اینڈ سنز کا سامان لوٹ کر لے گئے اور عمارت کو نذر آتش کر دیا.گھٹی بازار.یہاں حافظ رحمت الہی صاحب کی دکان تھی جو کوئی اور جلائی گئی.بیرون دھلی دروازه مارچ کو ایک غضبناک ہجوم نے جو ایک سو افراد پر مشتمل تھا.احمدیہ بیت الذکر دہلی دروازہ پر حملہ کیا اور سلسلہ احمدیہ کے مشہور پر مبلغ مولانا ابوالبشارت عبد الغفور صاحب بلوائیوں میں گھر گئے.عبد القدیر صاحب ہارون (ولد ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی) کو قریباً سو افراد خاندان سمیت ر مارچ ۱۹۵۳ء کی صبح کو عوام کے بے پناہ جوش و خروش کی بناء پر پر ۶ ماڈل ٹاؤن میں منتقل ہوتا پڑا اور اسی رات ان کا مکان نذیر آتش کر دیا گیا.

Page 182

16 ہدایت اللہ صاحب کارکن انشاء پر لیں موہن لال روڈ لاہور کا مکان لوٹ لیا موہن لال روڈ گیا اور چار پائیاں اور بستر جلا دیئے گئے.بعد ازاں ایک مولوی صاحب نے تمام محلہ میں یہ فتویٰ دے دیا کہ یہ لوگ واجب القتل ہیں اور ان کا سامان لوٹنا اور جلانا جائز ہے رمانہ پچ کو ایچ نیانہ احمد صاحب کی کپڑے کی مشہور فرم" الفردوس ( بی ) نٹی انار کلی فسادکی نذر ہو گئی اور اس کا نہایت قیمتی سامان، کپڑے اور فرنیچر لوٹ لیا گیا.اس حلقہ کے معزز اور شریف غیر احمدی ہمسایوں نے محبت اور رواداری کا بہت پرانی انار کی عمدہ نمونہ دکھایا جسکی وجہ سے افراد جماعت ہر قسم کے جانی اور مالی نقصان عمدہ قسم اور سے محفوظ رہے، تاہم انہیں ہراساں اور پریشان کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی اور جلوسوں میں نہایت گندے نعرے لگائے جاتے تھے.اس حلقہ میں مندرجہ ذیل احمدی رہائش پذہ پر تھے.شیخ عبداللطیف صاحب - شیخ عبدالرشید صاحب ، شیخ عبدالرحیم صاحب (۶) بھگوان سٹریٹ) چوہدری اکبر علی صاحب (۶) تا بجر روڈ) منور احمد صاحب ( ۵۲ مدنی چند سٹریٹ) میاں شریف احمد صاحب (۱۳ لاج روڈ) - محمد یونس صاحب (۸) چرچ روڈ چو ہدری عبد الغنی صاحب ( ۱۲ پام سٹریٹ) ڈاکٹر اعجاز احمد صاحب (کپور منتقلہ ہاؤس) مقدم الذکر چار احمدیوں کے سوا باقی سب کو دو تین روز کے لیے اپنے مکانات چھوڑ کر جانا پڑا.بلوائیوں نے ان کے مکانات پر نشان دہی کی اور ان کو لوٹنا اور آگ لگا نا چاہا مگر ہمسایوں کی مخالفت کے باعث وہ اس منصوبے میں ناکام رہے.۶ مار پچا س کو چو ہدری اکبر علی صاحب کے مکان کو نذر آتش کرنے کی دھمکی دی گئی.انہوں نے کہا کہ یہ مکان میر انہیں بلکہ حکومت پاکستان کا ہے اس کے بعد محلے میں سے بعض لوگوں نے آپ کو احمدیت سے توبہ کرنے کی نصیحت" کی مگر آپ نے انکار کیا تو انہوں نے دو چار دن کے لیے مکان چھوڑنے کو کہا ان کے بیٹے منور علی صاحب کو مٹا گیا بلکہ حملہ آوروں نے اُن پر چاہو سے وار کرنے کی بھی کوشش کی.چو ہد ری اکبر علی صاحب نے انہیں للکارا اور وہ بھاگ گئے.مارچ کی تاریخ نیلا گنبد اور خواجہ دل محمد روڈ کے احمدیوں کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی چنانچہ اس روز حکیم عبدالرحیم صاحب کی دکان پہ ایک احمدی مرزا کریم بیگ اے میاں منور علی تا آب انگلستان میں قیام پذیہ میں اور سلسلہ کی خدمت مجالا رہے ہیں.

Page 183

161 صاحب دل جواہر بیگ صاحب کو شہید کرنے اور ان کی نعش جلا دینے کے بعد حکیم صاحب کا مکان دکان لوٹ کی گئی.نور علی خان صاحب رواه حکیم یوسف علی خان صاحب) کا دواخانہ مفرح حیات، رقائم شده ) تباہ کر دیا گیا مکان و دکان ڈاکٹر نور محمد صاحب، قاضی محمد صادق صاحب ٹوپی والا کی دکان مستری موسیٰ اینڈ سنز کی دکان اور رہائشی مکان سب نہایت بے دردی سے جلائے اور لوٹ لیے گئے محمد احمد صاحب کا سب سامان لوٹ لیا گیا اور ان کی کار نذر آتش کر دی گئی.یہ جمعہ کے روز اابجے صبح کا واقعہ ہے.حملہ آوروں نے بر ماریا کو عبدالعزیز صاحب کا پاک ریز ایکس ریز کلینک ہوتا اور میوہسپتال عمارت کو آگ لگادی.فلیمنگ روڈ نگاوی - مارچ 12 و بعد نمازہ جمعہ بلوائیوں نے محمد یحی صاحب اور مبارک احمد صاب لہ مکان کا تمام قیمتی اثاثہ لوٹ لیا اور باقی سامان گھر کے سامنے رکھ کر آاگ تو بودی عبد اللطیف صاحب دو لور حاجی عبد الکریم صاحب کا گودام گوالمنڈی ریلوے روڈ چوک برت خانہ کے چھ کمروں میں تھا جسے بلوائیوں نے اور مارچ لوٹا اور چلا دیا.اسی طرح عبدالرشید صاحب کے مکان کا قیمتی سامان حملہ آوروں کے ہاتھوں لٹ گیا.192 ء کو بلوائیوں نے سمیع اللہ بھٹی صاحب کی دکان شفا میڈیکو نسبت روڈ 4 نسبت روڈا ہو ر چوک میو ہسپتال کو پیے جی بھر کے لوٹا اور پھر نذیر آتش کر دیا.رمایه ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب کے بھائی اور ہمشیرہ کا مکان ٹوٹا اور سامان جلایا قلعہ گوبر سنگها في مستور التي صاحب سیلز انسپکٹر ریلوے اسپید دام پارک عبدالکریم روڈ) کے مکان میں لوٹ مار اور آتشزدگی کی داردات ہوئیں.

Page 184

164 میکلیگن روڈ 4 مارچ کو ہجوم نے عبد الکریم خانصاحب بی اے کے گھر کا سامان جلا دیا.اکبر علی صاحب کی دکان کارنسٹور ۵ ر مارچ ۵۳ راء کو بلوائیوں میکلوڈ روڈ نے ملا کر خاکستر کر ڈالی.A ور مارپیچ ۴ پیکے شام دو سو سے زائد طلائی چاند بیگم صاحبہ کے مکان میں ۱۹ مین روڈ ڈیڑھ گھنٹے تک لوٹ مار کرتے رہے اور تمام نیستی سامان ہتھیائے گئے اور دروازے اور کھڑکیاں توڑ ڈالیں.۶۵ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور کی کو بھٹی کے علاوہ اس 40 ٹمپل روڈ حلقہ کے دوسرے احمدی بھی حملہ آوروں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے.مثلاً عبدالحمید صاحب ناظم دفتر جماعت احمدیہ کے مکان پہ بلوائیوں نے شدید حملہ کیا اور مکان کا تمام سامان لوٹ لیا اور فرنیچر وغیرہ مع قیمتی کتب کے جن میں قرآن مجید کے چند نسخے بھی تھے بر لپ سڑک جلا دیا گیا ان کا راشن ڈپو بھی لوٹ لیا گیا.به ر مامیچ ۱۹۵۳ء کو ہوائیوں نے کو بھی غیر م کی بالائی منزل پر حملہ کیا مزنگ روڈ | اور سعد احمد خان صاحب د کلرک پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور) محمود احمد خان صاحب ایم اے (ایکسائز انسپکٹر سنٹرل ایکسائن) مسعود د ابراہیم صاحبہ ایم.اے بی ٹی رسیکنڈ ہیڈ مسٹرس گورنمنٹ ہائی سکول فار گر از فیروز پور روڈ) کا قیمتی سامان اٹھا کر لے گئے.عزیز روڈ مصری شاه حکیر محمد الدین صاحب کا محمدی دواخانہ لوٹ لیا گیا.سعدالدین ر مارچ کو مستری اللہ بخش صاحب دوکاندار سائیکل مرمت کو کا چھو پورہ چاہ میراں روڈ ان کے رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں نے مجبور کیا کہ وہ وقتی طور پراحمدیت چھوڑ دیں مگر انہوں نے جواب دیا میری لڑکیاں اور بچے میری آنکھوں کے سامنے اٹھا کر لے جاؤا ذرا نہیں ایک طرف سے چیر نا شروع کر دو اور سارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو تب بھی احمدیت چھوڑنے کو کبھی تیار نہیں ہو سکتا.

Page 185

مورخه در مارچ کو مستری صاحب مع ماسٹر غلام نبی صاحب مصری شاہ کے تھانہ میں گئے اور کہا کہ ہماری حفاظت کے لیے کیا انتظام کر سکتے ہیں.جواب ملا کہ ہم تمہاری کوئی حفاظت نہیں سکتے ہمیں تھانہ سے باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں تم یہاں سے آدھ گھنٹڈ کے اندر اندر نکل جاؤ ورنہ قتل کر دیئے جاؤ گے اس کے بعد یہ لوگ اپنے رشتہ داروں کی مدد سے نکلے بہت سے لوگ ہا تھوں میں چھڑے لے کہ اُن کے قتل کے لیے بیٹھے تھے.فتنہ پر دانوں نے ان کے مکان کو آگ لگا دی جو مستری صاحب کے غیر احمدی والدین نے سمجھا دی.سلطان پوره سیخ فیروز دین صاحب اور عبدالحمید صاحب کے کارخانہ کا نقصان کیا گیا.اس محلہ میں صوفی عطاء اللہ صاحب کا مکان ، جو گلی با عمر دین روڈ پر ) مله دوستن پوره واقع مقاغارت گری کا نشانہ بنایا گیا..حلقہ گنج مغلپورہ مار چ ہ ہیں کہ بلا کا منظر پیش کر رہا تھا.جہاں کئی گنج مغلپوره احمدیوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا.سب سے پہلا واقعہ ماسٹر منظور احمد صاحب کی شہادت کا رونا ہوا.اس کے اگلے روز احمدیوں کے گھروں پر پتھر پھینکنے اور گالیاں دینا شروع کی گئیں.نتیجہ یہ ہوا کہ احدی اپنے گھروں میں بند ہو گئے.14 مارچ کی صبح کو قلعه راج گڑھ کے ایک نہایت مخلص احمد می مکرم محمد شفیع صاحب بیت الذکر مغل پورہ سے نماز فجر ادا کر کے گھر واپس تشریف لے جارہے تھے کہ انہیں سفاکانہ طور پر چاقوؤں سے شہید کر دیا گیا.احمدی متواتر کئی راتوں سے جاگ رہے تھے.اُس روز ان کی حالت نہایت خطرہ میں تھی.وہ سمٹ سمٹا کر تین چار جگہ میں محصور ہو گئے.شریر اور فتنہ پردان ان کے دروازے توڑتے، پتھر مارتے اور گالیاں دیتے تھے.اور اس فکر میں تھے کہ جس طرح ہو سکے احمدیوں کو ختم کیا جائے.احمدیوں کے لیے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنا بھی نا ممکن ہو گیا.بلکہ یہ ابجے کے قریب مارشل لاء لگ جانے کے باوجود محلہ کے اندرونی حصوں کو بدستور خطرہ لاحق تھا.بالبوعبدالکریم صاحب کا مکان لوٹ گیا اور پھر اسے آگ لگا دی گئی میستری محمد اسماعیل مصاب د عبد الرزاق صاحب کمیونڈر کے ریلوے کوارٹر پر بھی حملہ کر کے اس کو لوٹا گیا.عبدالرزاق صاحب

Page 186

16M کے غیر احمدی بڑے بھائی کو محض اس لیے مارا پیٹا گیا کہ وہ ان کے بال بچوں کو محفوظ جگہ پہنچانے آئے تھے میستری محمد اسماعیل صاحب لازم ریلوے کا سامان لوٹ لیا گیا اور دو بھینسیں کھول کر کے گئے.ایک طالب علم عبد الرشید صاحب ولد ماسٹر چراغ دین صاحب نبی پورہ میں رہتے تھے.وہ اپنی بھاوج اور اس کے بچوں کو محفوظ جگہ پہنچانے کے لیے گھر جا رہے تھے کہ راستہ پر اکستی توے آدمیوں کے ایک ہجوم نے حملہ کر کے اتنا نہ دو کوب کیا کہ وہ بے چارے گر گئے.قریب تھا ان کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا جاتا کہ کسی نے ان لوگوں سے کہ دیا کہ ملڑی آگئی اس پر وہ لوگ بھاگ گئے اور اس معصوم بچے کی جان بچ گئی.جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب میں میاں عبد الحکیم صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کنج میخوره کی و غیر احمدی والدہ صاحبہ قتل کر دی گئیں اور روپیہ پیسہ اور مال داسباب لوٹ لیا گیا.کرم ماسٹر منظوراحمد صاحب کی درد ناک شہادت کے بعد بیاں فسادات نہ ور باغبان پورہ پکڑے گئے اور تھانے والوں نے کہا کہ عوام بھرے ہوئے ہیں.ہم کچھ درد نہیں کر سکتے اس پر بعض دوست اپنے گھروں میں رہے اور بعض دوستوں نے اور جگہ پناہ لی.جتھے آتے اور مکانوں پر حملہ کرتے اور قتل کی دھمکیاں اور گالیاں دیتے تھے.ان لوگوں کے پاس تلواریں ، یہ چھیاں، مٹی کا تیل اور لاٹھیاں ہوتی تھیں.اس حلقہ میں جن احمدیوں کا سامان لوٹا گیا ان کے نام یہ ہیں : مستری محمد اسماعیل صاحب.ماسٹر منظور احمد صاحب شہید - فضلدین صاحب - خدا بخش صاحب اس حلقہ میں احمدیوں کے مالی نقصان کی تفصیل یہ ہے کہ محمد یسین صاحب فیروز پوری دھرم پورہ اپنا مکان بند کر کے دوسری جگہ چلے گئے تھے.ان کے جانے کے بعد ان کے مکان میں ریشمی پارچات، نقدی اور کچھ برتن اور راشن چوری کر لیا گیا.محمد رفیق صاحب کفش سانہ کی دکان لوٹی گئی اور کچھ سامان با ہر نکال کر نذر آتش کر دیا گیا.بابو غلام محمد صاحب ریٹائر ڈ کلرک اسٹڈیفنس ڈپو کی دکان میں موجود ایف اے.بی اے کی کورس کی تمام کتابیں تلف کر دی اور اکثر کم کر دی گئیں.اور پرچون کی دکان کی مختلف اشتہار لوٹ لی گئیں.شام سندر گلی نمبر میں محمد یاسین خاں صاحب اکیلے احمد ہی تھے جنہیں فسادات کے دوران اپنا مکان

Page 187

160 مقفل کر کے اپنے بھائی کے گھر جانا پڑا.لوگوں نے ان کی چھت پر سے ہوکر اندرونی تالا توڑا.اور سامان نکال کرے گئے.شیخ محمد علی صاحب انبالوی کے ایک خط سے پتہ چلتا ہے کہ : لاہور میں ایک احمدی حوالدار عبد الغفور صاحب ولد الہی بخش رساکن موضع اول خیر کوٹ شہاب دین شاہدرہ) ڈیوٹی کے دوران ۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو شہید کر دیئے گئے.اس شہید کے چھوٹے بھائی عبد الحمید صاحب قادیان میں درویش تھے.شاہدرہ کے واقعات لاہور کے نواحی علاقوں میں سے ایک مشہور قصبہ شاہدرہ ہے.وہاں کے نہایت ہی کمزور.بے لیں.اور لاچار احمدیوں کے ساتھ جس قسم کا مستند و از سلوک ہوا.اس کے لیے انہی جمہور اور مظلوم لوگوں میں سے دو اصحاب کی مندرجہ ذیل چھٹیاں پڑھ لینا کافی ہوگا.ماسٹر غلام محمد صاحب ٹیچر ہائی سکول شاہدرہ نے لکھا کہ :- دور اور مارچ کو ہمیں صبح سے ہی خبریں آنی شروع ہوگئی تھیں کہ جمعہ کے بعد شاہدرہ کے احمدیوں کو قتل کر دیا جائے گا اور ان کی عورہ توں کی بے حرمتی کر کے قتل کر دیا جائے گا.اور اس مطلب کے لیے لاہور سے بھی مولویوں کا جتھہ آئے گا.ابھی جمعہ کا وقت نہیں ہوا ست که بازار سے شور اُٹھا کہ مجھہ آگیا ہے.میں اس وقت پولیس چوکی کی طرف جارہا تھا اور ہسپتال کے موڑ پر تھا.چنانچہ شور سن کر واپس آ گیا.بال بچوں کو اطلاع دی جتھہ آیا ہے.نعرے لگ رہے تھے.ظفر اللہ مردہ باد.ناظم الدین مردہ باد.ایک مصنوعی جنازہ چارپائی پر اٹھایا ہوا ہے.تھا اور ہائے ہائے کہ رہے تھے.میرے مکان کے دروازے کو اس قدر زور زور سے دھکے دیئے کہ اس کے قبضے اکھڑ گئے اور دروازہ پر پتھر اور اینٹیں زور زور سے چلائی گئیں بخش گالیاں دے رہے تھے.اس قدر گالیاں اور ایسی گالیاں کہ اس سے پیشتر ایسی مکروہ گالیاں میرے کانوں نے نہ سنی تھیں میری حویلی کی دیواروں کی اینٹیں اکھاڑ کر کافی دیوار گرادی.دو دفعہ جلوس آیا اور مکروہ حرکتیں کرتا رہا اور کہتا رہا کہ جمعہ کے بعد تم کو قتل کر دیا جائے گا ورنہ مرزا کو چھوڑ دو اور مسلمان ہو جاؤ.یہ جلوس لیے لیے چھروں اور کلہاڑوں سے

Page 188

164 سے مسلے تھا.خیر جلوس چلا گیا.جلوس کے بعد میں پولیس چوکی میں دوڑ گیا.اس وقت چوکی میں صرف و دسپاہی اور ایک حوالدار تھے.میں نے حوالدار کو کہا کہ جمعہ کے بعد ہمیں قتل کر دیا جائیگا آپ کوئی انتظام کریں.اس نے کہا میں کچھ نہیں کر سکتا میرے پاس کچھ نہیں.آپ اپنے گھر جاویں اور اپنا خور انتظام کریں.اس کے بعد میں اپنے پریذیڈنٹ صاحب کے پاس اُن کے مطلب میں گیا.اس وقت اُن کے پاس بعض لوگ بیٹھے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اب تم قتل کیسے جاؤ گے.صرف بچنے کی صورت یہی ہے کہ مسلمان ہو جاؤ یا کہیں چھپ جاؤ.لیکن جہاں چھپو گے ان کی بھی خیر نہیں.یہ باتیں سن کر میں گھر آ گیا.اور گھر والوں کو بتایا کہ مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ.ڈاکٹر بخاری نے مجھے اس سے پیشتر کہا تھا کہ خطرہ کی صورت میں میرے گھر آ جاؤ.چنانچہ ہم نے اُن کی ہمشیرہ کے کہنے پر اُن کے گھر چلے گئے اور اپنا گھر خالی چھوڑ دیا.- حکیم مختار احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ شاہدرہ نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا ہے مورخہ 4 مارچ کو جماعت احمدیہ شاہدہ پر دشمنوں نے اچانک حملہ کیا اور تمام احمدیوں کے گھروں کو گھیر لیا.....قریبا دس بارہ ہزار کا مسلح جلوس نکلا جو بندوقوں، چھروں پر چھیوں اور آگ لگانے کے سامان سے مسلح تھا.تمام رستے انہوں نے بند کر دیئے تھے اور پولیس مقامی اُن کی ہمنوا تھی.کوئی چارہ نہ دیکھتے ہوئے میرے غیر احمدی چند دوستوں نے مجھے کہا کہ اس وقت بچاؤ کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم باہر جا کر لوگوں کو کہتے ہیں کہ حکیم مختاب احمد ہمارا اہم خیال ہو گیا ہے جب ہم حالات بہتر دیکھیں.تو پھر تم کو باہر بلا لیں گے تم باہر آ جانا.چنانچہ آدھ گھنٹہ کے بعد مجھے باہر بلایا گیا.میرے مکان سے باہر آتے ہی ان لوگوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے.(حکیم مختار احمد زندہ باد) اس آواز نے تمام شہر میں سکون پیدا کر دیا اور لوگوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا.پھر مجھے ایک جامع مسجد میں لے گئے میرے رفقا ر نے وہاں بھی خود ہی شور مچا دیا کہ حکیم مرزائی نہیں رہا.پھر مجھے کہاگیا کہ جمعہ کا خطبہ پڑھو.چنانچہ میں نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا.اس میں میں نے یہ کہا کہ میں رسول کریم صلعم کو خاتم النبیین مانتا ہوں اور کار پڑھ کر کہا اس کلمہ کا قائل ہوں.اس کے علاوہ احمدیت کے خلاف یا حضرت مسیح موعود کے

Page 189

166 پر خلاف کوئی بات نہیں کہی اور نہ کسی نے کہلوائی کیونکہ میرے ساتھیوں نے جو مجھے بچانا چاہتے تھے میرے ایک ایک فقرہ پر نعرے لگائے تاکہ شور پڑا ر ہے اور کسی اور طرف کسی کا دھیان نہ ہو.پھر ہم لوگ مسجد سے باہر آگئے اور لوگ دوسرے احمدیوں کو پکڑ کہ لاتے رہے اور میں اُن سے یہ کہتا تھا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے آپ کو منظور ہے وہ بھی حقیقت کو سمجھ گئے تھے.سب نے یہی کہا کہ ہاں ہم کو منظور ہے.اس پر لوگ نعرے لگاتے رہے........اس کے بعد جب ملڑی کا انتظام ہو گیا تو تمام جماعت اپنی پہلی سطح پر آگئی ہے.ہماری دونوں پیوست از کر پر مخالفین نے قبضہ کر لیا تھا.وہ بھی ان سے واپس لے لی گئی ہیں.دوسرے جمعہ کی نماز ہیں نے پڑھائی تھی.سب احمدیوں اور غیر احمدیوں نے میری اقتدا میں نمازہ پڑھی تھی ماہ کوٹ رادھا کشن جناب محمد فقیر اللہ خاں صاحب ریٹائرڈ) ڈپٹی انسپیکٹر سکولز نے تحقیقاتی عدالت میں حسب ذیل درخواست پیش کی کہ : - یہاں احمدیوں کے صرف تین گھر ہیں.کئی دنوں سے ہم سُن رہے تھے کہ ہر ایک کو قتل کر دیا جائے گا.مخالفت کی ہوا اس قدر مسموم ہو چکی تھی کہ لوگ بڑی نظر سے ہمیں دیکھنے لگے.پہلے جلسے ہوئے.احراری لیکچراروں نے احمدی جماعت اور ہمارے بزرگوں کے خلاف جس قدر ہو سکا گندہ دہنی سے کام لیا اور " زمیندار کی روزانہ اشاعت نے ہمارے خلاف بہت زہر اگلا.جلوس جو بڑی شان سے نکالے جاتے تھے یوں معلوم ہو تا تھا کہ ہماری زندگیاں امن میں نہیں ہیں...مجبر نے ہمیں خبر دی کہ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ خیر نہیں.چنانچہ میں مع اہل و عیال ۱۸ مارچ کو لاہور جانے کے خیال سے اسٹیشن کوٹ رادھا کش کے پلیٹ فارم پر جاپہنچا.جلوس نکل رہا تھا.اس کے سینکڑوں افراد پلیٹ فارم کا جنگلا بھاند کر میری طرف پکے.مرزائی، مرزائی پکارتے ہوئے مجھے مہینہ میں لے لیا.میں پلیٹ فارم کے ایک طرت ٹہل رہا تھا.میں نے اپنا رخ اسٹیشن ماسٹر صاحب کے کمرہ کی طرف کر لیا.اگر عملہ اسٹیشن بتعاون ن کر تا تو میں یقینا سخت خطرہ میں تھا.خیر پاتے ہی پولیس کے کچھ سپاہی بھی آگئے لیکن وہ ہجوم کے له خوا جناب حکیم مختار احمد صاحب شاہد ره مما ورسالة السمع الثاني الصح الوعود

Page 190

12A پیچھے ہی رہے.دراصل پولیس خود خائف تھی.ملڑی کے کارندے پہنچ چکے تھے.گاڑی کے آنے کی خبر پاتے ہی کہ ملڑی کا دستہ اس کے ساتھ آئے گا لوگ منتشر ہو گئے ہم امن کے ساتھ لاہور پہنچے.اور بڑے اطمینان کے ساتھ لاہور میں پھرنے اور رہنے لگے.مارشل لاء اپنا قبضہ جما چکا تھا.اگر مارشل لاء نافذ نہ ہوتا تو یقیناً احمدیوں کے گھرانے بڑی طرح ذبح کیے جاتے.اُن کے مکانات ندید آتش ہوتے.میں نے لاہور پہنچے کہ اپنی سرگزشت تحریر کر کے سپر نٹنڈنٹ صاحب کی خدمت میں بھیجی.دوسری درخواست واپس آکر یہاں سے بھیجی.مہربانی فرما کہ میری دونوں درخواستیں دفتر پولیس سے بر آمد کہا کہ ملاحظہ فرمائیں.پولیس نے کیا کارروائی کتنے عرصہ کے بعد کی پولیس با کل بے کار ہو چکی تھی.عوام الناس سے ڈرتی تھی.L صوبہ پنجاب کی چند احمدی جماعتوں کے درد ناک فسادات پنجاب اور حکومت کی پالیسی اور زہرہ گداز واقعات بیان ہو چکے ہیں اب آخر میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس دور میں پنجاب کی دولتانہ حکومت کی پالیسی یہ تھی که با وجود گرفتند فساد جنگل کی آگ کی طرح پورے صوبہ کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھے وہ اپنی سیاسی مصلحت کی بناء پر حالات کو چھپاتی تھی اور قیام امن کے لیے یہ پراپیگنڈا کر رہی تھی کہ صوبہ میں امن وامان ہے اور سٹورش کو کچل دیا گیا ہے چنانچہ سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۲ ماه و قا ۱۳۳۳ بش بمطابق ۳ جولائی 1923ء کو ناصر آبا د سندھ میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ان دنوں گورنمنٹ کی پالیسی یہ تھی کہ حالات کو چھپایا جائے اور دبایا جائے اور لوگوں پر یہ ظاہر کیا جائے کہ ہر طرح امن ہے اور اس میں وہ معذور بھی کیونکہ پولیٹکل اصول کے مطابق تسلیم کیا گیاہے کہ اگر فتنہ و فساد کی خبریں پھیلیں تو لوگوں میں اور بھی جوش پھیل جاتا ہے پس گورنمنٹ کے اکثر حکام کی یہ کا رروائی کسی بد نیتی پر مبنی نہیں تھی بلکہ مصلحت اس بات کا تقاضا کہتی تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باہر کی جماعتیں مرکز اور پنجاب کے حالات سے ناواقف رہیں یہاں تک کہ جب حکومت نے دیکھا کہ خطوں کے ذریعہ ناظر دعوہ و تبلیغ باہر کی جماعتوں کو اپنے حالات سے اطلاع دیتے ہیں تو انہوں نے ان خطوط کو بھی کسی قانونی عذر کے ماتحت روک دیا.....

Page 191

149 ان دنوں پنجاب کے اکثر اضلاع کے احمدیوں کی حالت ایسی ہی تھی جیسے لومڑ کا شکار کرنے کے لیے شکاری کتے اس کے پیچھے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں.اور لومڑ اپنی جان بچانے کے لیے کبھی اِدھر بھاگتا ہے اور کبھی اُدھر بھاگتا ہے ان ایام میں لاریاں کھڑی کر کہ کے احمدیوں کو نکالا جاتا اور انہیں پیٹا جاتا.اسی طرح زنجیریں کھینچے کر گاڑیوں کو روک لیا جاتا اور پھر تلاشی لی جاتی کہ گاڑی میں کوئی احمدی تو نہیں اور اگر کوئی نظر آتا تو اسے مارا پیٹا جاتا.اسی طرح ہزاروں ہزار کے جتھے ہیں کہ دیہات میں نکل جاتے اور گاؤں کے دس دس پندرہ پندرہ احمدیوں پر حملہ کر دیتے یا اگر ایک گھری کسی احمدی کا ہوتا تو اسی گھر پر حملہ کر دیتے ، مال و اسباب لوٹ لیتے.احمدیوں کو مارتے پیٹتے اور بعض شہروں میں احمدیوں کے گھروں کو آگ بھی لگائی گئی بیسیوں جگہوں پر احمدیوں کے لیے پانی روک دیا گیا اور وہ تین تین چار چار دن تک ایسی حالت میں رہے کہ انہیں پانی کا ایک قطرہ تک بھی نہیں مل سکا.اسی طرح بعض جگہ ہفتہ ہفتہ دو دو ہفتے وہ بازار سے سودا بھی نہیں خرید سکے.بیرونی جماعتیں ان حالات سے ناواقف تھیں.وہ گورنمنٹ کے اعلانوں کو ٹنکہ کہ ہر طرح امن ہے اور خیریت ہے خوش ہو جاتی تھیں.حالانکہ جس وقت خیریت کے اعلان ہوتے تھے وہی سب سے زیادہ احمدیوں کے لیے خطرے کا وقت ہوتا تھا لیکن جیسا کہ ہیں نے بتایا ہے حکومت کے اکثر افسروں کی نیت نیک تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ملک میں یہ خبریں پھیلیں کہ لوگ احمدیوں پر سختی کر رہے ہیں تو دوسرے جگہوں کے لوگ بھی ان پر سختی کرنے لگ جائیں گے اس لیے امن کے قیام کے لیے مزوری ہے کہ متواتر یہ اعلان کیے جائیں کہ سب جگہ امن ہے تاکہ شور دب جائے اور لوگ سمجھ جائیں کہ جب سب جگہ امن ہے تو یہیں فساد کرنے کی کیا ضرورت ہے ؛الپس ہم ان میں سے اکثر کی نیت پر شبہ نہیں کرتے.ہمیں سیاسیات کا علم ہے اور ہم نے تاریخ کا بھی مطالعہ کیا ہوا ہے.ہم جانتے ہیں کہ تمام حکومتیں ایسا ہی کہتی ہیں کیونکہ علم النفس کے ماتحت لوگوں کے جوش اسی وقت ٹھنڈے ہوتے ہیں جب

Page 192

+ انہیں معلوم ہو کہ سب جگہ امن ہے اگر انہیں پتہ لگے کہ بعض مقامات پر امن نہیں تو وہ خود بھی اس سے نہیں بیٹھے کیونکہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کوئی شورش نہ کی تو لوگ ہمیں طعنہ دیں گے کہ تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا اسی وجہ سے حکومتوں کا عام دستور یہی ہے کہ ابتداء میں جو خبریں نکل جائیں سو نکل جائیں.بعد میں وہ یہ پروپیگنڈا شروع کر دیتی ہیں کہ سب جگہ امن قائم ہو گیا ہے تاکہ ایک جگہ کے لوگ دوسری جگہوں کی خبریں سن کر بیٹھ جائیں اور فتنہ و فساد کو ترک کر دیں بہر حال ان حالات میں سے دو اڑھائی ماہ کے قریب ہماری جماعت گزری.بسا اوقات ہمیں بیرونی جماعتوں کی طرف سے چٹھیاں پہنچتی تھیں کہ الحمد للہ پنجاب میں امن قائم ہو گیا ہے اور جماعت کے خلاف شورش دب گئی ہے.مگر اسی وقت ہمیں پنجاب کی مختلف اطراف سے یہ اطلاعات پیش رہی ہوتی تھیں کہ فلاں کا گھر لوٹ لیا گیا ہے.فلاں جگہ عورتوں اور بچوں پر پہلے کیسے جارہے ہیں اور انہیں بیچا بچا کر محفوظ مقامات پر پہنچایا جارہا ہے.فلاں کا گھر جلا دیا گیا ہے مگرہ باہر کی جماعتوں کی طرف سے مبارکباد اور خوشی کے خطوط پہنچ رہے ہوتے تھے.کہ الحمد للہ گورنمنٹ کے اعلانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ہر طرح خیریت ہے.لیں آپ لوگ اس مصیبت کا اندازہ نہیں لگا سکتے جس میں سے پنجاب کے لوگوں کو گزرنا پڑا.کیونکہ سندھ سرحد اور بنگال میں ان فسادات کا ہزارواں حصہ بھی ظاہر نہیں ہوا جو پنجاب میں ظاہر ہوئے.اس وجہ سے یہاں کے لوگ امن میں رہے اور خیریت سے رہے لیکن باوجود اس کے کہ ان فسادات نے پنجاب میں انتہائی نازک صورت اختیار کر لی تھی.وہ وہ تغییرات جو گورنمنٹ میں پیدا ہوئے ان کی وجہ سے بھی اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ حکام کا ایک حصہ ایسا تھا جو دیانت دار تھا اور اپنے فرائض کو ادا کرنا چاہتا تھا.یہ فتنہ آخر دب گیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس فتنہ کی روح ابھی باقی ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اگر آئندہ فتنہ اُٹھے تو وہ شاید پنجاب کی بجائے سندھ میں پیدا ہو یا بنگال میں پید امور اسکن ہے پنجاب میں ہی پیدا ہو کیونکہ ہمیں نظریہ آتا

Page 193

IN ہے کہ اس دفعہ جو فتنہ اٹھا ہے یہ خالص مذہبی نہیں تھا بلکہ سیاسی تھا.ہمارے ملک میں حکومت لیگ کی ہے اور لیگ کی حکومت جب سے پاکستان بنا ہے برابر ملتی چلی جارہی ہے اور بظاہر آثار ایسے نظر آتے ہیں کہ ایک لمبے عرصہ تک مسلم لیگ کی حکومت ہی قائم رہے گی لیکن بد قسمتی سے لیگ کے کارکنوں کا ایک حصہ جس نے پاکستان بننے کے وقت بڑی قربانی کی تھی.اپنے دوسرے ساتھیوں سے اختلاف ہو جانے کی وجہ سے لیگ سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہوگیا مگر چونکہ اس وقت بی نیا پاکستان بنا تھا ملک کا بیشتر حصہ یہ چاہتا تھا کہ ہمارے ملک میں زیادہ پارٹیاں نہ بنیں اور نظم و نسق ایک ہی ہاتھ میں رہے چنانچہ باوجود اس کے کہ یہ جدا ہونے والے مشہورہ آدمی تھے اور انہیں خیال تھا کہ اکثریت ان کا ساتھ دے گی.لوگوں نے ان کا ساتھ نہ دیا.اس میں کوئی مشیر نہیں کہ ان کی قربانیاں بڑی تھیں وہ ملک کے خیر خواہ بھی تھے.انہیں لوگوں میں رسوخ بھی حاصل تھا.اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم لیگ سے الگ ہو گئے تو لیگ کا اکثر حصہ ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گا لیکن لوگوں کے دلوں میں جو یہ احساس پیدا ہو چکا تھا کہ زمانہ نازک ہے ہمیں اس نازک زمانہ میں اپنے اندر تفرقہ پیدا نہیں کرنا چاہیے یہ اتنا مضبوط ثابت ہوا کہ وہ لیگ باہر نکل کر ایک عضو بے کار بن کر رہ گئے اور اکثریت نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا جب انہوں نے دیکھا کہ ہم سیاسیات کے ذریعہ لیگ کو شکست نہیں دے سکے بوجہ اس کے کہ مسلمانوں میں اتحاد کا جذبہ موجود ہے اور وہ اپنی حکومت کے قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ اب ہمیں کوئی اور تدبیر اختیار کرنی چاہیئے اور ایسے رستہ سے حکومت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں عوام کی تا نمید سہارے ساتھ شامل ہو.چنانچہ اس غرض کے لیے انہوں کے علماء کو چنا تا کہ لوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ حکومت اور لیگ کی مخالفت ہے بلکہ وہ یہ مجھیں کہ یہ مخالفت صرف مذہب اور لا مذہبی کی ہے اور اس غفلت اور جہالت میں وہ اپنے اصل موقف کو چھوڑ دیں اور ایسے مواقع پیدا کر دیں جو

Page 194

۱۸۲ بعد میں ان لوگوں کے لیے حکومت سنبھالنے کا موجب بن جائیں ، لہ خطہ جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرموده ۳ جولائی ۱۹۵۳، بمقام ناصر آباد سندھ بجواله روزنامه المصلح کراچی ۱۴ جولائی ۱۹۵۳، ص۳)

Page 195

چوتھا باب ریاست بہاولپور، صوبہ سرحد ، صوبہ سندھ اور مشرقی پاکستان کی احمد می جماعتوں کے واقعا حضرت مصلح موجود بیان فرموده با پنج ایمان افروز واقعات نے 1400 سے اس خط میں بنگلہ دیش کے نام سے مستغل حکومت قائم ہو چکی ہے

Page 196

JAY فصل اوّل ریاست بهاولپور اگر چہ ریاست بہاولپور میں حکومت نے امن قائم رکھنے کی پوری کوشش کی مگر شہری آبادیوں اور اُن مقامات پر جہاں احمدی اِسے رُکتے تھے نچلے درجہ کے حکام کی جانداری اور بزدلی کے باعث شور وسر بلند رہا اور فضایت سموم رہی.یہاں منڈی میں چوہدری محمد شریف صاحب، چوہدری محمد امین صاحب کمینٹ اینٹی صادق آباد کی واحد احمدی دکان تھی جس کومشتعل ہجوم نے زبر دست بند کرا دیا اور پولیس اکل خاموش رہی.شہر یارون آبا د اور اس کے ملحقہ چکوک نمبر دے ، چک نمبر ۹ ، بارون آبا دا در مطلقه چلوک نہ یا کڑا.چک نمبر تیم ، چک نمبر ۱۵۲ با کڑا.چک نمبر 2 -A چک نمر نبیلہ چک نمبر ہیں اور چک نمبر تعلیم ک احمدیوں کو تکالیف پہنچائی گئیں اور چک نمبر پلیم کے احمدیوں پر حملہ بھی کیا گیا.چک نمبر ہتھیلی میں شرپسندوں نے اشتعال انگیز نعرے لگائے اور معیقی، محمدیوں کو پکڑ کر و کمکی دی گئی کہ یا تومسلمان ہو جاؤ ورنہ ہم تم کو مار ڈالیں گے.ایک احمدی پیر شد صاحب نے کمال جرات ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ "بے شک تم مجھے مالہ ڈالو لیکن احمدیت خدا تعالے کی طرف سے ہے اس لیے میں احمدیت کو جان سے عزیز سمجھتا ہوں اور احمدیت کو نہیں چھوڑونگا.اس پر ایک شخص نے کہا کہ اچھا اس کو کل تک مہلت دیجائے لیکن وہ لوگ پھر واپس نہ آئے..بہاولنگر شہر مضلع ریاست کے اندر مخالفت کا زیا دہ تر زور ان دنوں ضلع بہاولنگر میں تھا جہاں احمدی زمینداروں کی فصلیں فروخت ہونا بند ہوگئیں

Page 197

۱۸۴ احسان کی دکانوں پر پکٹنگ بٹھا دی گئی جس سے جماعت کو ہزاروں روپہلے ماہوار کا نقصان ہوا.بہاولنگر میں تین چار احمدی گھر تھے جن میں امیر ضلع بہاولنگر شیخ اقبال الدین صاحب بھی شامل تھے.جن کے مکان پر پتھراؤ ہوا اور آپ کئی دن گھر میں محصور اور بیرونی حالات سے بے خبر رہے.

Page 198

1AQ دو فصل دوم صوبہ سرحد ان دونوں صوبہ سرحد میں سلم لیگی حکومت تھی اور اس کے وزیر اعلیٰ خان عبد القیوم خان تھے جنہوں نے اپنی حب الوطنی ، فرم شناسی اور حسن تدبیر و انتظام کی بہت اعلیٰ اور قابل تعریف مثال قائم کی انہوں نے امن و امان کے قیام کے لیے نہ صرف سرحد اسمبلی میں بلکہ مانسہرہ، ایبٹ آباد ، بالاکوٹ وغیرہ مقامات پر نہایت زور دار اور مؤثر تقریر میں ہیں چنانچہ سید عبید الرحیم شاہ صاحب نے بھگاہ مضلع مانسہرہ سے ۲۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا کہ ۱۴ مارچ ، کو وزیر اعلی سرحد نے مانسہرہ ابیٹ آباد میں تقریر ہی کہیں.کل ۱۵ مارچ کو بالا کوٹ میں تقریب کی پنجاب کے واقعات کی انہوں نے پر زور مذمت کی، لوگوں کو پر امن رہنے کی تلقین کی موجودہ فتنہ کا بانی ، پاکستان کے دشمن عناصر کو قرار دیا.اکثر شریف لوگوں نے اس فتنہ کو سخت ناپسند کیا ہے یہ اسی طرح پیر محمد زمان شاہ صاحب نے مانسہرہ سے ہار مارچ ۱۹۵۳ کے مکتوب میں حضور کو اطلاع کنیم اما در وزیر اعلیٰ کی تقریبہ مانسہرہ میں ہوئی یہ تقریر بڑے جوش سے اور رعب و دبدبہ سے کی گئی.نہایت معقول تقریر تھی.دلائل سے بھی لوگوں کو سمجھایا کہ یہ تحر یک سیاسی تحریک ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں.سب مسلمان رسول خدا کو خاتم النبیین یعنی کرتے کرتے ہیں.پنجاب کا بتایا کہ یہ شرارت پنجاب سے شروع ہوئی ہے اور اب پنجاب میں گولی چل رہی ہے.مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے ایسا نہ ہو کہ یہاں بھی گورنمنٹ کو سخت کارروائی کرنی پڑے.دو دن پہلے بھی تم پر گولی چلتی تھی مگر حکام نے تم سے مہربانی کی اس تقریر کا اثر لوگوں پر اچھا معلوم ہوتا تھا.وزیر اعلی سرحد خان عبد القیوم خان صاحب نے تقریریں ہی نہیں کیں بلکہ اپنی کامیاب حکمت عملی اور مضبوط اقدامات کے ساتھ صوبہ بھر میں بد امنی اور شور شخص اور فساد کو کچل کے رکھ دیا اور

Page 199

TAY سے خدا کے فضل و کرم سے صوبہ سرحد کے اضلاع پشاور ، کیمیل پور ، اٹک ، مردان ، ہزارہ سکوت بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی احمدی جماعتیں اس شور وشر میں جانی و مالی نقصانات بالکل محفوظ رہیں اور پشاور، اچینی پایاں - بازید خیل ، شیخ محمدی ، چار سده ، مردان ایبٹ آباد ، مانسہرہ ، پچھے گلہ اہل ، کوہاٹ اور بنوں کی جماعتوں کے احوال و کوائف خاص طور پر مرکز پہنچے.

Page 200

فصل سوم صوبہ سندھ صوبہ سرحد کی طرح سندھ حکومت نے بھی امن بر قرار رکھا اور فرض شناسی کا ثبوت دیا.سندھی پریس نے احرار می ایجی ٹیشن کی پر زور مذمت کی.سندھ کے مشہور لیڈر پیر پگاڑہ صاحب نے اس سلسلہ میں ایک پر زور بیان دیا : ་ When asked as to his reactions the Anti Ahmedi Movement, Pir Sahib declared that his own Jamaat as also such sections of the Sindhi community as were inclined to listen to him ought to have nothing to do with any movement intended to divide and separate one Pakistani from the other.He was happy to say that his Jamaat had to a man, kept it self aloof from that disruptive movement.Also Sindhis as а community.He, however, regretted that some refugee Maulanas who had made Sind their Habitat were trying

Page 201

to set the Indus on fire but this "They would not be allowed to do" "Sind", maintained He: "Must become a source of strength to Pakistan and to those who run the nation's Affairs.If the Government machinery cannot deal with mischievous Maulanas, the society shall on my own part I am prepared to take upon myself the whole responsibility in this behalf, if only the Government allows me to do so.We cannot, in the interests of our security and freedom, allow a handful of fanatics and mischief-mongers to set fire to the whole country."1 1.The Sind Observer March 19, 1953 P.No.1 C.No.1

Page 202

١٨٩ یعنی پیر صاحب سے دریافت کیا گیا کہ اینٹی احمدیہ تحریک کے متعلق آپ کا رد عمل کیا ہے ؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ میری اپنی جماعت اور سندھی فرقہ کے وہ لوگ جو ان کی باتوں کو سننے کے حق میں ہیں ان سب کا ایک ایسی تحریک سے جو ایک پاکستانی کو دوسرے پاکستانیوں سے جدا کرتی ہے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے.انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بیان کرنے میں خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ میری ساری جماعت مسلم لیگ اس فساد انگیز تحریک بالکل الگ تھلک رہی ہے.اسی طرح تمام سندھی بھی اس سے الگ رہے ہیں مگر انہوں نے افسوس وہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ پناہ گزین مولانا، جنہوں نے سندھ کو اپنا وطن بنا رکھا ہے دریائے سندھ کو آگ لگانا چاہتے ہیں مگر اُن کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی.انہوں نے اصرار سے کہا کہ سندھ کو پاکستان کے لیے طاقت دینے کا ذریعہ بنایا جائے گا.اور یہ ان لوگوں کے لیے طاقت بخش ثابت ہو گا جو قوم کی باگ ڈور کو سنبھالتے ہیں.اگر گورنمنٹ کی مشینری شرارت پسند علماء کو قابو میں نہیں رکھ سکتی.تو معاشرہ اُن کو قابو کرے گا.میرا اپنا تو یہ حال ہے کہ میں اس معاملے میں ساری ذمہ داری اپنے سر لینے کو تیار ہوں بشرطیکہ گورنمنٹ پاکستان بھی مجھے یہ ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت دے دے ہم اپنی حفاظت اور آزادی کے تحفظ کی خاطر چند ایک سر پھرے مذہبی دیوانوں کو اور مفسدانہ طبع لوگوں کو یہ اجازت نہیں ے سکتے کہ وہ سارے ملک کو آگ لگا دیں یانہ پیر بگاڑ و صاحب کا یہ بیان سندھ کے سب اخباروں میں شائع ہوا.علاوہ ازیں جناب علی احمد صاحب بروہی ایڈیٹر منشور اور جنرل سیکرٹری انجمن مدیران جرائد سکھر نے ختم نبوت یا ختم پاکستان کے عنوان سے ایک پوسٹر شائع کیا جس میں لکھا کہ :- ختم نبوت ہر مسلمان کا ایمان ہے اور جو لوگ اس حقیقت کو نہیں مانتے ان کو سمجھانا اور دلیل دے کر قائل کرنا چاہیے.لیکن بعض حضرات تبلیغ کرنے کی بجائے اشتعال انگیز تقریریں کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر ان کو قانون توڑنے اور گرفتار ہونے پر نے اخبار The Sind Observer کراچی ۱۹ مارچ ۹۵۳ رص

Page 203

19.ابھار رہے ہیں.چنانچہ پنجاب میں لوٹ مار کرنے ڈاکٹھا نے جلانے قومی دولت تباہ کرنے اور بدامنی پھیلانے کے بڑے دردناک واقعات ہوئے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن ختم نبوت کی تحریک کی اثر میں پاکستان کو ختم کرنا چاہتے ہیں.دشمنوں کے جال میں نہ آئے ان کی بیا زش ناکام بنایئے "..خدا کے فضل و کرم سے صوبہ سندھ کے احمدی ۱۹۵۳ء کے المناک ابتداء میں بہت حد تک محفوظ رہے البتہ مندرجہ ذیل چند مقامات پر بعض احمدیوں کو دوقتی تکالیف کا سامتا کرنا پڑا.ام میر پور خاص ضلع محقر بار کہ میں بعض شریہ ایم این بسنڈیکیٹ کی مائش گاہ کے گرد جمع ہوئے اور فتنہ کھڑا کرنا چاہا.مگر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ایک معزز غیر احمدی فقیر محمد صاحب منگریوں کی مداخلت پر یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا - میر پور خاص سے پانچ چھ میل پر ڈیرہ غازی خان کے ایک احمدی اللہ بخش صاحب اور ان کے والد پر حملہ کیا گیا اور ان کو لاٹھیاں ماری گئیں حملہ آوروں نے کہا کہ یہاں سے بھاگ جاؤ.۳- فوکوٹ ضلع مقر پاس کہ میں ایک احمدی نوجوان کو بیٹا گیا.ایک سندھی احمدی نصرت آباد میں کام کرتے تھے جنکی نسبت جھوٹی رپورٹ کی گئی کہ اس نے ڈاک پر چھا پہ مارا ہے حالانکہ وہ نوکوٹ میں موجود ہی نہ تھا.۴.سکھر میں بعض پنجابی علماء نے شورش پیدا کر نے کے لیے قدم رکھا مگر جلد ہی بھاگ گئے.مکرم علی محمد نجم صاحب نمائندہ جماعت محمد آبا د اسٹیٹ ضلع متھر یاد کر سندھ نے مار مارچ ۱۹۵۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے ملاقات کی اور پھر مرکزہ کو تحریر ی طور پر آگاہ کیا کہ ایک با اثر زمیندار یہ اشتعال انگیز باتیں کر رہا ہے کہ احمدیوں کو قتل کر کے اُن کی زمینوں پر قبضہ کر لو ان لوگوں کی لالچی نظریں جماعت احمد یہ گنری کی فیکٹری اور نہ مینوں پر ہیں.تھور و ضلع تھر پارک میں ایک ہی احمدی تھے.لوگوں نے ان پر سختی کی اور اعداد کے لیے مجبور کیا مگر انہوں نے سختی برداشت کی مگر ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا.چک ما اضلع تھر پارکر میں فقہ کے ان ایام میں انى مهين من اراد اهانتك :

Page 204

۱۹۱ کا نشان ظاہر ہوا.ڈگری کے قریب ایک سکول کا عربی ٹیچر حضرت سیح موعود علیہ السلام کی شان اقدس میں انتہائی بے باکی سے گالیاں دیتا اور ایک احمدی طالب علم جمیل را بن حکیم نور محمد صاحب ٹنڈو غلام علی ضلع بدین) کو زد و کوب کرتا تھا.احمدی طالب علم نے اپنے والد کی نصیحت پر عمل کر کے صبر کیا.چند دن کے بعد وہ ٹیچر ایک شرمناک اخلاقی جرم میں پکڑا گیا اور جوتوں سے اس کی پٹائی کی گئی.کنری ضلع مقر بار کہ سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک احمد می جو اکیلے گاؤں میں رہتے تھے.کزی آنے کے لیے گھر سے نکلے.تو چند غیر احمدی ان کا رستہ روک کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا احمدیت کو ترک کر دو یا ہم تمہیں ختم کر دیں گے.احمدی دوست نے انہیں جواب دیا کہ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے اگر ہمیں اس لیے مارنا چاہتے ہو کہ ہم کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور خانہ ، روزہ، حج زکورہ پر عامل ہیں تو بے شک ماہ لو.اس بات کا ایسا فوری اثر ہوا کہ انہوں نے رستہ چھوڑ دیا.دار العلوم ٹنڈو الہ یار ضلع حیدر آباد سندھ کے دیوبندی علماء نے ان دنوں احمدیوں کے خلاف نہ صرف اشتعال انگیز تقریریں کیں بلکہ جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ چوہدری عنایت ارحمن صاحب ر زمیندار انجنیئرنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی) کو قتل کرنے کے وعظ کئے.ایک دوست امجد علی خان صاحب کو جو تین ماہ قبل احمدی ہوئے تھے.قتل کی دھمکی دی گئی مگر انہوں نے دلیری سے سے جواب دیا کہ حق کے لیے جان چلی جائے تو پروا نہیں.کو مٹھ مولی پخش رڈاکخانہ و یہ ماہ کھنڈ ضلع نواب شاہ) کے احمدیوں پر حملہ کی افواہ پھیلائی گئی مگر خدا کے فضل سے امن رہا..کمال ڈیرہ ضلع نواب شاہ کے علاقہ میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ یہ وہ پر بھی حملہ ہوا ہے.تحصیل کنڈیارہ میں دو مخالف پارٹیوں نے احمدیوں کے خلاف شرارت کا ارادہ کیا مگر تحصیلدار صاحب نے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا.

Page 205

۱۹۴ فصل چهارم مشرقی پاکستان (مال بنگله دیش) فسادات پنجاب کے دوران مشرقی پاکستان میں امن و امان رہا.مولانا سید اعجاز احمد صاحب فاصل مبلغ مشرقی پاکستان نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ۲ مارچ ۱۹۵۳ء کو بذریعہ مکتوب اطلاع دی کہ مشرقی پاکستان کے انگریزی اور بنگلہ پولیس نے احرار ایجی ٹیشن کی پر زور مذمت کی البتہ عوامی لیگ کے آرگن" اتفاق نے اغماض برتا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا بھی اس فتنہ میں ہا تھ ہے.مولانا نے یہ بھی عرض کیا کہ : "اخبار الفضل کے بند ہو جانے کی وجہ سے مرکز سلسلہ اور جماعت کے صحیح حالات سے ہم لوگ بالکل بے خبر ہو رہے ہیں.براہ کرم حضور مرکز سلسلہ اور جماعت کے تازہ کوائف حالات سے ہم لوگوں کو باخبر رکھنے کا کوئی موزوں انتظام فرمائیں : اس پر حضورہ کے اریشا و پہ مرکز کی طرف سے اطلاعات بھجوانے کا باقاعدہ انتظام کیا گیا.ان پر فتن ایام میں مشرقی پاکستان کے احمدیوں نے پریس اور ملک کے دوسرے حلقوں کو ضروری لٹریچر پہنچا دیا اور انفرادی و اجتماعی دعائیں کیں اور روزے رکھے.جیسا کہ جناب احسان اللہ شکوار 1904 صاحب سیکر ڈری تعلیم و تبلیغ انجمن احمدیہ مشرقی پاکستان کے ورما رح سند کے مکتوب کے درج ذیل الفاظ سے معلوم ہوتا ہے : " بفضلہ تعالی مشرقی پاکستان کے تمام اخبارات ہماری تائید میں ہیں.اخبارات کے اداریہ کو ترجمہ کر کے حضور کی خدمت میں ارسال کیا جارہا ہے.ہم حالات کے موافق کام کر رہے ہیں تمام اختباری دفتر میں (لا قیام پاکستان اور جماعت احمدید له (۲) جناب اصغر بھٹی کے مضمون مولفه مدانا جلال الدین ناب شمسی سابق مبلغ بلاد عربی و انگلستان

Page 206

۱۹۳ ۱۳۱ پاکستان کسی راہ پر.ان سب کا بنگلہ میں ترجمہ دیا گیا ہے.اور ڈھاکہ زائن گنے شہر میں اور باہر بھی بذریعہ جہانہ، ریل ، لانچر نہ ڈاک کی ترسیل جاری ہے.نرائن گیج میں دو روزے رکھے گئے اور اجتماعی دعا بھی جاری ہے.مشرقی پاکستان کی تمام جماعتوں کو بھی روزے رکھنے اور اجتماعی دعا کرنے کے لیے تاکید کی گئی کا اخبارات کے بعض شذرات ۱ - اخبار" ڈھاکہ نے ہر ماسپ ح ۱۹۵۳ء کو اپنے اداریہ میں احرار کے فتنہ کے خلاف حسب ذیل شذرہ لکھا : - قادیانی اور احرار (ترجمہ) موجودہ بین الاقوامی حالات پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کو تنگ دازہ میں فی در کرنے کے لیے فضا میں مکدر کیسے میانے کی کوشش ہو رہی ہے.اسی لفظۂ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے چونکہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے.اس لیے وہ غیر رسمی طور پر پاکستان کے خلاف ہیں.ان حالات میں پاکستانی عوام کو متحد اور متفق رہنا ہی پاکستان کی حفاظت کا باعث ہے.دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان ایک نئی حکومت ہے.اس کی مضبوطی اور ترقی لازمی ہے.لیکن اب تک ممکن نہ ہو سکا.اس لیے ہم سب کو متفق ہو کہ اس کی مضبوطی اور اتحکام کی کوشش کرنی چاہیئے.ان حالات میں احمدیوں کے خلاف احرار می فتنہ حکومت اور اسلام کے سر ہے بڑے مفاد کے لیے مضر ہے.خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ ۱۶, فروری کو احرارہ ایک عام جلسہ میں جمع ہوئے اور وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خاں کو وزارت سے بر طرف کیے جانے کی اور قادیانی فرقہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی آواز اٹھائی.اور ڈائریکٹ ایکشن عمل میں لانے کے عزم کیے ہوئے ہیں.حکومت پاکستان کو بطور چلینج کے یہ اعلان کیا گیا.حکومت نے اس قسم کے فتنہ برپا کرنے والے گیارہ مولویوں کو گرفتار کر لیا.اور ان

Page 207

۱۹۴ گرفتاریوں کی وجہ سے احراریوں میں غیظ و غضب پھیل گیا.اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں جلوس نکالے گئے اب تک حکومت نے ایک ہزار احراریوں کو گرفتار کر لیا ہے.احرائیوں اور احمدیوں کے ر روز نامہ کی اشاعت بند کر دی گئی ہے.حالات قابو میں کر لیے گئے ہیں.یہ صحیح ہے کہ ہمارا کسی کسی جگہ احمدیوں کے ساتھ اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی اصولوں میں ان کے ساتھ ہمارا کوئی اختلاف نہیں.مہستی باری تعالیٰ پر ایمان ہی احمدیوں یا قادیانیوں کا اصل اصول ہے..........احترار کی مامنی کی تاریخ ہر پاکستانی کو یاد ہے انہوں نے پاکستانی تحریک کے خلاف جو کارروائی کی اس بنا پر ہم موجودہ حرکات کو پاکستان کے استحکام کے خلاف دشمنوں کی تائید سمجھتے ہیں.اسب احراریوں کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اقرار کریں اور اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ اسلام اور حکومت کے خلاف ان کی یہ بغاوت پاکستانی معاف نہیں کریں گے.(۲) مشہور اخبار "آزاد" (بنگالی) کی اشاعت مورخہ ۱۳ ، ما سرچ لہو میں حسب ذیل اداریہ شائع ہوا.حسرت ناک انجام میاں ممتا نہ دولتانہ ہے.ار مارچ کے ایک بیان میں کہا ہے کہ احمدیوں کے خلاف تحریک کے بہانے پر فساد برپا کرنے والے باغیوں نے موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دینے کی سازش کی تھی اور یکدم مسلمانوں کے اندر تفرقہ ڈال کر پاکستان کے امن اور یک جہتی پر حملہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے.تاہم مرکزی اور صوبائی حکومت حسب ضرورت کارروائی کے لیے مستعد ہیں.ملکی آئین اور نظم و نسق بر فرانہ رکھنا نیز ہر ایک کی جان ومال کی حفاظت حکومت کا اولین فرض ہے.دولتانہ کے مذکورہ بیانات کے ساتھ اطاعت پسند عناصر کے کسی فرد کو اختلاف نہیں ہو سکتا.لیکن چند ماہ سے ملک کی مختلف جگہوں میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس پہ ہر پاکستانی کو

Page 208

190 فکر لاحق ہو گئی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کر گزشتہ سال کے گیارہ فروری کے واقعہ اور کراچی اور پنجاب کے موجود ہنگامے کے وقت دیکھا گیا کہ سول گورنمنٹ نے مجبور ہو کر امن عامہ کی حفاظت اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی خاطر ملٹری کو بلایا.اور اسے معاملہ سونپ دیا.دولتانہ کے بیان سے ظاہر ہے کہ شروع شروع میں انہوں نے ہنگامہ برپا کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتہ کی کوشش کی.فقط اسی کوشش میں ہی وہ ناکام نہیں ہوئے بلکہ ملکی آئین اور نظم ونسق کو بر قرار رکھنے میں بھی سخت نا کام ہوئے.بالآخر ملٹری کو بلا کر اس کے ہاتھ میں معاملہ سونپ دیا.ہر بار ملکی آئین کی حفاظت کے لیے فوج کو بلانا اور مارشل لاء جاری کرنا کوئی قابل تعریف بات نہیں.امن و امان اور علی کھیتی برباد کرنے والوں کو کھلی چھٹی دینے سے عام زندگی میں امن پیدا نہیں ہو سکتا.اس لیے اب حکام اور سول کو اس معاملہ میں غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے.اتنے دن تو صرف طلباء پر ہی قانون شکنی کا الزام تھا.اب تو نام نہا د علما بھی اسی کی تقلید کر رہے ہیں.ہم یہ بھی نہیں کہ سکتے کہ حکام نے بھی اپنی لیاقت کا ثبوت دیا.اخباری جرنلسٹ کے ایک گروہ کی کارروائی قابل تعریف نہیں بلکہ انہوں نے تو ملکی کھیتی بر باد کر نے میں مدددی سیاسی چال بازوں کا نام لینا بھی ضروری ہے.یہ سب مل کر ایک لعنتی چکمہ بن گیا.اور اس میں پھنس کر عوام کی زندگی اور ملک کی بہبودی بر باد ہونے لگی تھی.نازیبا حرکت اور قانون شکنی کو کسی طبقہ کی تائید حاصل نہیں لیکن جس فعل سے امن و امان اور ملکی نظم و نسق کی بربادی کا خطرہ ہوائی تم کی تحریک کو ابتداء ہی میں سختی سے دبا دینا حکومت کے لیے ضروری ہے نام نہاد علماء کے فتنہ سے ملک کا امن و امان اور مفاد خطرہ میں پڑ جائیں گے.دولتانہ کو پہلے ہی اسے بھانپ لینا چاہیئے تھا.لیکن اُلٹا انہوں نے اُن کے ساتھ مفاہمت اور سمجھوتہ کی کوشش کی.یہ ان کی کمزوری اور نا عاقبت اندیشی کی علامت ہے.ماضی سے بے نیازہ ہو کہ عہد جدید کی واقفیت کا گھمنڈ جیس کو لاحق ہے.اس کے ساتھ جس طرح مفاہمت نہیں ہو سکتی اسی طرح عہد حاضر سے ناواقف قدامت پسندوں کے ساتھ بھی کسی طرح سمجھوتہ نہیں ہو سکتا.کیا دولتانہ کو یہ بات نہیں سو تھی.کہ جمہوریت کے نام پر کسی کے ساتھ نارواسلوک یا کسی پر کوئی تعلیم زبردستی ٹھونس دینا جیسا کہ جمہوری اصول کے خلاف ہے اسی طرح مذہبی لبادہ اوڑ حرکہ

Page 209

194 مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنا اور ملکی یکجہتی کو توڑنا بھی جمہوریت کے خلاف ہے.کوئی بھی اس کی تائید نہیں کر سکتا.متفرق فرقوں میں جو جنگ کی آوازہیں کسی جا رہی ہیں کیا واقعی یہ نمونہ کی لڑائی ہے یا سیاسی ہیر پھیر.مختلف گروہوں میں جو نازی خیالات نمودار ہورہے ہیں وہ ملک کے لیے مستقبل میں خطرہ کی نشاندہی کرتے ہیں.ہم سب کسی توجہ اُدھر مبذول کراتے ہیں.حسرت ناک انجام سے ملک کو بچاتا تعلیم یافتہ طبقہ حقیقی علماء اور حکومت کے کارندوں کا فرض ہے.ہم سب کی خدمت میں اس کے لیے غور و فکر کی گزارش کرتے ہیں ستر جمہ )

Page 210

196 فصل پنجم حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ بعض واقعات اب آخر میں ۱۹۵۳ء کے بعض ایسے ایمان افروز واقعات درج کیے جاتے ہیں جن کا تذکرہ سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا اور جو حضور کی زندگی میں ہی سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں محفوظ ہو گئے.فرمایا احمدی جماعت سیاسی جماعت کبھی نہیں ہو ئی.وہ ساری دنیا میں صرف پہلا واقعہ | مذہبی کام کرتی ہے.زیادہ تم احمدی پاکستان میں رہتے ہیں.مگر یہاں بھی کبھی اس نے کسی سیاسی پارٹی سے تعلقات قائم نہیں کیے.انہیں صرف اپنے اصول کے مطابق حکومت سے تعاون کر نا آتا ہے اس موقع پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا.میں جبکہ سارے پنجاب میں فساد تھا حکومت کے پاس رپور میں کی جاتی تھیں کہ احمدیوں نے اپنے بچاؤ کے لیے بڑا سامان رکھا ہوا ہے ہے.اس لیے گورنمنٹ کی طرف سے کبھی کبھی سی آئی ڈی کے افسر بوہ آجاتے ہ اس ضمن میں امیر شریعت احرار سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی تقاریر کے بعض اقتباس ملاحظہ ہوں.لان میں مطالبہ کرتا ہوں کہ یہ بوہ کی خود مختارہ ریاست پر چھاپہ مار بیٹے استی سہزار ایکٹر یہ قبے کے ایک ایک مربع فٹ میں ہزاروں فتنے مدفون ہیں ، ہزاروں سازشیں ہیں.خطرناک منصوبے ہیں.عت اسلامیہ کی تخریب کے سامان ہیں.....حکومت اب بھی راتوں رات چھاپے مارے تو اسے بہت کچھ مل سکتا ہے، تقریبہ لا ہو ریٹی 1920 ء) (۲) قادیانی بی کے امتیوں نے یہود میں ایک میتوانہی حکومت قائم کر رکھی ہے اور ان کے اس نظام کے تحت ربوہ میں اسلحہ تیار ہورہا ہے.زمین دوز قلع تعمیر ہورہے ہیں...دریا چناب کے کنارے ربوہ کو ایک قلعہ بندشہر نایا جاتا ہے پاکستان کی لو مکویت میں اس متوازی حکومت کا قیام نا قابل برداشت ہے" تقریر نا ہو.اگست ۱۹۵۷ - زد بر تشریعیت ۵۲ - ۱۰۹ مرتب مرزا غلام نبی مان جانباز ناشر کته بره بیرون دیلی

Page 211

۱۹۸ تھے.چنانچہ ایک واقعہ ایک سی آئی ڈی کا افسر آیا ایک پٹھان لڑکے کو اس نے دیکھا کہ وہ بیوقوف سا ہے اور اس کی تعلیم اچھی نہیں ہے.اس لیے اس نے خیال کیا کہ اس نوجوان سے بات معلوم ہو جائے گی چنانچہ اس نے اسے کہ تم مجھے وہ جگہ دکھاؤ جہاں تم نے لڑائی کا سامان رکھا ہوا ہے.اس لڑکے نے کہا تم میرے ساتھ آجا طی چنانچہ اس لڑکے نے اس سی آئی ڈی افسر کو ساتھ لیا اور ایک مسجد میں لے گیا.وہاں قرآن کریم کا درس ہو رہا تھا.اس لڑکے نے کہا یہ ہماری لڑائی کی تیاری ہے.+ اس افسر نے کہا یہ کیا تیاری ہے.میں نے تو پوچھا تھا کہ وہ جگہ دکھاؤ جہاں تمہارے ہتھیار پڑے ہوئے ہیں.وہ لڑکا اُسے پھر ایک اور مسجد میں لے گیا.وہاں بھی قرآن کریم کا درس ہو رہا تھا.اس افسر نے کہا تم نے پھر غلطی کی ہے.تم مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں تم نے مقابلہ کے لیے سامان جمع کیا ہوا ہے.تم لوگ کمزور ہو اس لیے تم نے مقابلہ کے لیے ضروری تیاری کی ہو گی.وہ لڑکا کہنے لگا اچھا آؤ میں تمہیں اور جگہ دکھاؤں.جہاں ہمارا فوجی سامان پڑا ہے.وہ افسر خوش ہو گیا اور اس کے ساتھ ہو لیا.چنا نچہ وہ پھر اُسے ایک اور مسجد میں لے گیا.وہاں بھی قرآن کریم کا درس ہو رہا تھا.وہ آخر کہنے لگا تم مجھے پھر ایسی جگہ لے آئے ہو جہاں قرآن کریم کا درس ہو رہا ہے اس لڑکے نے کہا نہیں تو یہی فوجی سامان دیا جاتا ہے اور یہ میں نے تمہیں دیکھا دیا ہے.باقی رہا ظاہری سامان.سو میں تو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ سر جھکاؤ اور مار کھاؤ.یہ کہہ کر اس نے اپنے سر سے ٹوپی اتاری اور اپنے سرپر چیست مار کر سر جھکا لیا اور کہا ہمیں تو بس یہی سکھایا جاتا ہے کہ مخالف کے آگے اپنا سمجھے جادو وہ افسر کہنے لگا اس طرح تو لوگ تمہیں مار دیں گے.وہ پٹھان لڑکا کہنے لگا پھر کیا ہو گا ہمیں شہادت نصیب ہو گی اور کیا ہو گا.اس پر وہ افسر بالیوس ہو کر چلا گیا.وہ افسر سمجھتا ہو گا کہ شاید یہ لڑکا بہت ہیو قوت ہے لیکن تھا وہ بڑا عقلمند.دین کے لیے مارا جانا عزت کی بات ہوتی ہے.ذلت نہیں ہوتی.قرآن کے ذریعہ مقابلہ کر نا ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے.تلوار اور بندوق قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی.جس کے ساتھ قرآن ہے اس کے ساتھ سب کچھ ہے.اور جس کے ساتھ قرآن نہیں ساری کے تو پنچانے ، ہوائی جہاز اور گولہ بارود بھی اس کے پاس موجود ہوں تو اُسے کوئی فائدہ

Page 212

199 نہیں دے سکتے.جس کے پاس قرآن کریم ہے اور جس کے پاس خدا ہے اُسے دنیا کے کسی تو پی اے ہوائی جہاز ، بندوقوں اور تلواروں کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیوی تو بچانے ، بندوقیں اور تلواریں خداتعالی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں تلے ۱۹۵۳ء میں جب فسادات ہوئے تو بعض احمدی دوسرے احمدیوں کی خبر دوسرا واقعہ لینے کے لیے بچاس پچاس میں تک خطرہ کے علاقہمیں سے گزر کر گئے اورانہوں نے احمدیوں کی مدد کی.ایک عورت ہمارے پاس سیالکوٹ کے علاقہ سے آئی.اور اس نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں دو تین احمدی ہیں جن کو لوگ باہر نکلنے نہیں دیتے اور اگر نکلیں تو ان کو مارتے ہیں.آخر میں نے سوچا کہ میں خود ان کے حالات سے آپ کو اطلاع دوں.چنانچہ میں پیدل چل کر سیالکوٹ پہنچی اور پھر سیالکوٹ سے ربوہ آئی.اس پر میں نے اُسی وقت ایک قافلہ تیا ر کیا جس میں کچھ ربوہ کے دوست تھے اور کچھ باہر کے اور میں نے انہیں کہا کہ جاؤ اور ان دوستوں کی خبر لو.اسی طرح سیالکوٹ کی جماعت سے بھی کہو کہ وہ ان کا خیال رکھے ہے تیرا واقعہ دو لا ہور میں ہی ایک گھر پر غیر احمد می حملہ کرنے آگئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے اس مکان کو جلا دینا اور احمدیوں کو مار ڈالتا ہے.اس پر ایک غیر احمدی عورت اس مکان کی دہلیز کے آگے لیٹ گئی اور کہنے لگی پہلے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر لو.پھر پیٹیک آگے بڑھ کر احمدیوں کو مار لینا ورنہ جب تک میں زندہ ہوں میں تمہیں آگے نہیں بڑھنے دوں گی اس طرح ایک دوست نے ستایا کہ ان کے گھر پر حملہ ہوا اور مخالفین کا بہت بڑا ہجوم ان کے مکان کی طرف آیا.وہ اس وقت یہ آمدہ میں بیٹھے ہوئے تھے.اتنے میں وہ کیا دیکھتے ہیں کہ جب حملہ کرنے والے قریب آئے تو ایک نوجوان جواُنکے آگے آگے تھا گالیاں دیتے ہوئے مکان کی طرف بڑھا اور کہنے لگا ان مرزا نیوں کو مار دو گر جس وقت وہ لوگ مکان کے پاس پہنچے تھے تو وہ نوجوان سب کو مرنے کے لیے کہ دیتا اور اس کے مڑجانے کی وجہ سے دوسرے لوگ که روزنامه الفتن سر شهادت ۱۳۷۳ ۱۳ اپریل ۱۹۵۹ ، ۲۰ کالم ۳ - ۴۲ ه الفضل ۱۲۸ جون ۱۹۵۶ ءمت ایضا س ر اکتوبر ۱۹۵۸ دست

Page 213

بھی مڑ جاتے تھے.آخر کچھ دیر کے بعد وہ سب لوگ واپس چلے گئے.اتنے میں ان کے دوسرے پھاٹک کی طرف سے ایک مستری داخل ہو ا جو ان کے ماتحت کام کرتا تھا اور جسے انہوں نے ہی طازم کر وایا تھا.تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ ان لوگوں کے آگے آگے کون نوجوان تھا.ہمیں نے دیکھا ہے کہ پہلے وہ گالیاں دیتے ہوئے آگے بڑھتا مگر پھر وہ اندر اس کا ساتھی دونوں مڑھاتے اور ان کے مڑ جانے کی وجہ سے باقی ہجوم بھی مڑ جاتا.وہ کہنے لگا یہ دونوں میرے بیٹے تھے.میں نے انہیں بلا کہ کہا تھا کہ مجھے پتہ ہے کہ نکل اُن کے مکان پر حملہ ہونا ہے مگر انہوں نے مجھ پر یہ احسان کیا ہوا ہے کہ انہوں نے مجھے بھی ملازم کر وایا ہے.اور تمہیں بھی.اب تمہارا فرض ہے کہ تم اس احسان کا بدلہ اتارو.یہ لڑ کے ہوشیار تھے.انہوں نے پتہ لگا لیا کہ کس وقت حملہ ہونا ہے اور خود ان میں شامل ہو کر آگے آگے ہو گئے اور کہنے لگے چلو ہم بتائیں کہ تم نے کس گھر پر حملہ کرنا ہے.مگر جب وہ گالیاں دیتے ہوئے قریب آتے تو کہتے مرزائی کے گھر میں کیا رکھا ہے.چلو ہم تمہیں اور گھر بتاتے ہیں جن کے سیف رویوں سے بھرے پڑے ہیں اور جہاں بڑا سامان ہے.اور اس طرح وہ ان کو واپس لے گئے اور آپ کا گھر بچ گیا ہے گوجرانوالہ کے ایک احمدی کا یہ واقعہ حضور نے کئی بار بیان فرمایا.: چوتھا واقعہ ! در ایک پرانے احمد میں تھے جو سترہ پچھتر سال کی عمر کے تھے.ان کے پاس بھی گاؤں کے لوگ پہنچے اور کہنے لگے کہ چلوا در مسجد میں چل کہ تو بہ کرو.اس نے کہا ہم تو ہر روز تو بہ کرتے ہیں.آج مجھ سے نئی تو بہ کو لنسی کر وانے لگے ہو.وہ کہنے لگے ہماری مراد اس تو بہ سے نہیں بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم احمدیت تو یہ کہ دو.وہ کہنے لگا میں اپنے سارے گناہوں سے تمہارے سامنے تو بہ کمرتا ہوں.لوگ خوش خوش واپس چلے گئے اور انہوں نے اپنے مولوی سے جا کہ کہا کہ ہم تو اس سے تو یہ کہ دوا آئے ہیں.اس نے کہا کس طرح وہ کہنے لگے اس نے سب کے سامنے کہہ دیا ہے کہ میں اپنے سارے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں." الفضل ۲۸ جون ۱۹۵۶ء ص ۲ - ۳

Page 214

وہ کہنے لگا اسی قسم کی تو بہ تو وہ تم سے بھی زیادہ کرتے ہیں.اگر اس نے واقعہ میں جمعیت سے توبہ کر لی ہے تو پھر ا سے مسجد میں لاؤ اور میرے پیچھے نماز پڑھاؤ.چنانچہ وہ پھر اس کے پاس گئے.وہ انہیں دیکھ کر کہنے لگا کہ اب پھر تم کیوں آ انہوں نے کہا ہم اس لیے آئے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ مسجد میں چل کر نمازنہ پیر ہیں تاکہ ہمیں یقین ہو کہ آپ نے احمدیت سے توبہ کر لی ہے.وہ کہنے لگا میں نے تو اس لیے تو یہ کی تھی کہ مرزا صاحب کہتے تھے نمازیں پڑھو.روزے رکھو.زکواۃ دو.حج کرو.جھوٹ نہ بولو.شراب نہ پیٹو.جوانہ کھیلو.کہنچتیاں نہ پنچواؤ.اب تم نے جب تو یہ کہ والی تو میں خوش ہو گیا کہ چلو نمازیں بھی چھوٹیں.روزے بھی گئے.زکواۃ بھی معاف ہوئی.حج بھی گیا.اب دن رات شراب پیٹں گے.جوا کھیلیں گے.کنچنیوں کے ناچ دیکھیں گے گر تم تو پھر نمازیں پڑھانے کے لیے آگئے ہو.اگر نمازیں ہی پڑھانی تھیں تو یہ نمازیں تو مرزا صاحب بھی پڑھایا کرتے تھے پھر تو بہ کرنے کا فائدہ کیا ہوا.وہ شرمندہ ہو کر اپنے مولوی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ سارا واقعہ اُسے سنایا.وہ کہنے لگا میں نے تم سے پہلے ہی کہدیا تھا کہ اس نے ضرور کوئی چالاکی کی ہے ورنہ اگر اس نے تو یہ کی ہوتی تو یہاں آکر ہمارے پیچھے نماز کیوں نہ پڑھتا.اس شخص کے بیٹے کے دل میں ایمان زیادہ تھا.اُسے جب اپنے باپ کا یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوا اور اس نے اپنے باپ کو کہا کہ تم نے اتنی کمزوری بھی کیوں دکھائی.کئی بیٹے مخلص ہوتے ہمیں اور ماں باپ کمزور ہوتے ہیں اور کئی ماں باپ مخلص ہوتے ہیں اور بیٹے کر دور ہوتے ہیں لیکن بہر حال اصل خوبی یہی ہے کہ قوم کو ہزاروں بلکہ لاکھوں لوں تک تو کل اور ایمان کی زندگی نصیب ہوا اور اس کے افراد خدا تعالیٰ کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑے رکھیں کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے جُدا ہو نا انہیں گوارا نہ ہویا نے (حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 215

۲۰۲ پانچواں واقعہ فرمایا :- در گزیشت شورش میں بعض جگہ ہماری جماعت کی مستورات نے ایسی بہادری دکھائی کہ جب شرارتی عنصر نے انہیں پکڑا اور احمدیت سے منحرف کرنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ تم ہمیں مار دو میں اس کی پردہ نہیں بلکہ اگر تم ہمارے جسم کے ستر ستر ٹکڑے ٹکڑے کر دو تب بھی ہمیں خوشی ہے کیونکہ ہمارے ستر ٹکڑے ہی خدا تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہوں گے لے ة المصلح اور وفات سیا / ۲۸ جولائی ۱۹۵۳ : ۲۰ حاشیہ ص ۲۰ به روز نامه الفضل ۳ اخاء ۳۲۶له مطابق ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۸ ص۲ المفضل ۱۸ اپریل 14 ما ایضاً خالد جنوری 1992 ء مشعل راه طبع دوم من و صلاح - ناشر مجلس خدام الاحمد به مرکزیہ -

Page 216

حصہ دوم سیدنا حضرت مصلح موعود اور خاندان مهدی موعود اور مرکز سلسله کے اہم واقعات

Page 217

۲۰۵ پہلا باب حضرت مصلح موعود کی اولوالعزمی جناب الہی کی طرف سے سید نا حضرت مسیح موعود کو بتایا گیا تھاکہ مصلح موعود " اپنے کاموں میں اولو العزم نکلے گا.یہ عظیم الشان خبر ۱۹۵۳ ء کے انتہائی تلخ ، پر فتن اور تشویش انگیز دور میں بھی اس شان سے پوری ہوئی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.حضور اپنی عمر کے چونسٹھویں سال میں داخل ہو چکے تھے اور اُن دونوں کمزور بھی تھے اور بیمار بھی بایں ہمہ آپ کو مسلسل چھے ماہ کے قریب رات کے دو دو تین تین بجے تک کام کرنا پڑا کوئی رات ہی ایسی آئی ہوگی جب آپ چند گھنٹے سو سکے ہوں ورنہ اکثر رات جاگتے جاگتے کٹ جاتی تھی کہ حضور کی یہ عدیم النظیر اولوالعزمی اور بے مثال جفا کشی آئندہ نسلوں کے لیے قیامت تک مشعل راہ کا کام دے گی.حضرت مصلح موعود کے روح پر و پیغامات اُن پر فتن ایام میں جبکہ ہر طرف تاریخی ہی تاریخی دکھائی دیتی تھی حضرت مصلح موعود کا مقدس وجود ایک عظیم الشان نور تھا جس کی برکت سے جماعت کے نیک دل بزرگوں ) نے اپنے قلوب و اذہان پر فرشتوں کے نزول کو دیکھا اور انتہائی خطرات کے باوجود سکینت ، اطمینان اور بشاشت ایمان کے انوار سے معمور رہی.سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنی دعاؤں اور تدابیر کو انتہاء تک پہنچانے کے علاوہ جماعت احمدیہ کو پہلے دور پلے اپنے روح پر دور پیغامات سے نوازا.ان پیغامات نے پر مردہ به اشتہار حضرت مسیح موعود ۱۵ جولائی ۱۱۸۸۸ له الفضل ۹ر فروری ۱۹۵۵ رمت

Page 218

۲۰۶ دلوں میں زندگی کی برقی لہر دوڑا دی.ان تاریخی پیغامات کا آغاز ۲۸ور فروری سلا کو اور اختتام ۲۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو ہوا.یہ پیغامات جو اس دور کی تاریخ کا ایک قیمتی سرمایہ ہے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں :.بسم الله الرحمن الرحیم تخمدة وتصلى على رسوله الكريم پہلا پیغام وعلى عبد المسيح الموعود برادران جماعت احمدیہ ! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ نے سنا ہو گا کہ حکومت پاکستان نے مجبور ہو کر احتدار درکہ کو کراچی میں گرفتار کر لیا ہے.اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی گرفتاریاں شروع ہیں چونکہ اس ایجی ٹیشن کا موجب احرار کی طرف سے جماعت احمدیہ کو ظاہر کیا جارہا تھا.اس لیے ممکن ہے کہ بعض کمز در طبع احمدی ان خبروں کوشن کہ مجالس یا ریلوے سفروں میں بالا ری کے سفروں میں یا تحریہ یا تقریر کے ذریعہ سے ایسی لاف زنی کریں جس میں کہ ان واقعات پر خوشی کا اظہار ہو.اور بعض طبائع میں اس کے خلاف غم و غصہ پیدا ہو.اس لیے میں تمام احباب کو ان کے اخلاقی اور مذہبی فرم کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے دن حبیب آتے ہیں تو مومن خوشی اور لاف و گزران سے کام نہیں لیتے بلکہ دعاؤں اور استغفار سے کام لیتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے گند بھی صاف کرے اور ان کے مخالفوں کو بھی سمجھ دے کہ آخر وہ بھی ان کے بھائی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ اے دل تو نیز خاطرا بناں نگاہ دار تاثر کنند دعوای جت به بمیرم به یعنی اے دل تو ان مسلمانوں کے جذبات کا بھی خیال رکھا کر جو تیرے مخالف ہیں کیونکہ آخر وہ بھی میرے آقا اور پیغمبر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعوی لکھتے ہیں.کے بل " العام " کا لفظ سہو لکھا گیا ہے.دراصل یہ شعر حضور علیہ السلام کا رقیم فرمودہ ہے جو حضور کی کتاب ازالہ اوہام “ میں درج ہے.(صفحہ ۱۶۴ طبع اقول)

Page 219

риво ہم میں خواہ کتنے ہی اختلاف ہوں ہم اس امر کو نظر اندازہ نہیں کر سکتے کہ سب مسلمان کہلانے والے ہمارے آقا کی امت سے ہیں.اور امت خواہ کتنی بھی گنہگار ہو اُن کی تکلیف کا رخ صب امت کو ضرور ہوتا ہے.جس طرح اولاد خواہ کتنی ہی غلطی کر ے ان کی تکلیف کا اثر والدین پر ہوتا ہے پس ہمیں اُن لوگوں کے لیے بھی دعا کر نی چاہیے ابو غلط فہمیوں میں مبتلا ہو کر ہماری مخالفت کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنی چاہیئے کہ وہ ان کو ایسے راستہ پر چلنے کی توفیق دے کہ وہ خود بھی عدالیوں سے بچیں.اور حکومت کے لیے بھی پریشانی کا موجب نہ بنیں.اللہ تعالے نے ایک لمبے عرصہ کے بعد مہند دوستانی مسلمانوں کو آزادی اور حکومت بخشتی ہے.ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ حکومت کو ضعف نہ پہنچے.اور خدا تعالیٰ سے دعا کہ نی چاہیئے کہ ہمیں اور دوسرے پاکستانی مسلمانوں کو وہ ایسے اعمال کی توفیق دے کہ جس سے پاکستان مضبوط ہو.اور غیروں میں ہماری عزت بڑے.اور ہم عالم اسلام کی تقویت اور اتحاد کا موجب بن جائیں.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد خلیفة المسیح الثانی ده بوده ۲۸ فروری ۱۹۵۳ » اعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ دوسرا پیغام بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم b هد البہ خدا کے فضل اور رسم کے ساتھ میرو برادران اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَهُ الفضل کو ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا ہے.احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے.پس دعائیں کرو.اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو.اس میں سب طاقت ہے.ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے.اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہتے دیں گے.آپ بھی دعا کرتے رہیں.میں بھی دعا کرتا ہوں.انشاء اللہ فتح ہماری ہے.کیا آپ نے گذشتہ چالیس

Page 220

سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا ؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا.سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لیے دوڑا آرہا ہے.وہ میرے پاس ہے.وہ مجھ میں ہے.خطرات ہیں اور بہت ہیں.مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے.تم اپنے نفسوں کو سنبھا لو.اور نیکی اختیار کر وسلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا.) خاکسار مرزا محمود احمد الله مولانا محمد شفیع صاحب اثر م ب متسابق مدیر فاروق و مبلغ انڈونیشیا.ایک ضمنی نوٹ سو بیان ہے کہ :- ۲۷ فروری ۹۵۳اد کو حکومت پنجاب کے ایک حکم کے مطابق روزنامہ الفضل مجو اس وقت لاہور سے شائع ہوتا تھا ایک سال کے لیے جبراً بند کر دیا گیا تھا.اُس وقت اتفاق سے لاہور ہی میں ہمارے ایک اور دوست کے پاس ایک ہفت روزہ اخبار " فاروق کے نام کا ڈیکل ریش تھا.فیصلہ کیا گیا کہ الفضل کی بندش سے جو فوری طور پر خلا پیدا ہوگیا ہے اُسے پورا کرنے کے لیے فی الحال فاروقی سے فائدہ اٹھا لیا جائے.اُن دنوں بہ عاجز نیا نیا شاہد کا امتحان پاس کر کے جامعہ احمدیہ سے فارغ ہوا تھا.اور وکالت تبشیر تحریک جدید میں رپورٹ کر چکا تھا جہاں میری تقریری اس وقت سیرالیون کے لیے ہو چکی تھی.۲ ماریا کی شام کو اچانک حضرت سیدہ زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جو اس وقت ناظر دعوۃ و تبلیغ تھے کے دستخطوں سے مجھے یہ ارشاد موصول ہوا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تمہیں فاروق کا ایڈیٹر مقرر فرمایا ہے.تم کل صبح فوراً لا ہور جاکر کام شروع کر دو اور جانے سے پہلے حضور اقدس سے مل کر جاؤ.اس ہدایت کی تعمیل میں انگلی صبح و بجے خاکسار قصر خلافت حاضر ہوا.حضور کی خدمت میں اپنے به هفت روزه " فاروق لاہور، جلد نمبرا مؤرخہ ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صفحه اول : به وفات ۲۹ پارچ سے وفات ۱۲ مئی ۹۶

Page 221

۲۰۹ حاضر ہونے کی اطلاع بھجوائی.دفتر کی طرف سے اوپر جانے والی سیٹر ہیوں میں میں کھڑا تھا کہ حضور نفس نفیس فوراً ہی تشریف لائے.دروازہ خود کھولا.حضور اس وقت ننگے سر تھے.ململ کا سفید کھلا کر تہ اور شلوار پہنے ہوئے ، ہاتھ میں ایک کا غذ تھا.خاکسار نے سلام عرض کیا اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا.حضور نے فرمایا الفضل بند ہو گیا ہے.اب ناروق جاری ہو رہا ہے تم ابھی لاہور جا کر فوراً کام شروع کر دو اور میرا یہ پیغام جاتے ہی صفحہ اول پر شائع کر دو.بعد میں تمہیں اور ہدایات ملتی رہیں گی.یہ فرماتے ہی وہ کا غذ جس پر حضور کا اپنے قلم سے لکھا ہوا پیغام تھا مجھے عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میں ایک دفعہ اسے حضور کے سامنے ہی پڑھ لوں.تاکہ حضور کی تحریر پڑھنے میں اگر مجھے کوئی مشکل ہو تو وہ دور ہو جائے اور اخبار میں شائع کرتے وقت کوئی غلطی نہ ہو جائے.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں اُسی وقت خاکسار نے حضور کا وہ پیغام پڑھا بلکہ پڑھ کر حضور کوشنا یا اور الحمد للہ کہ میرے پڑھنے اور سنانے سے حضور اقدس کو ایک گونہ اطمینان ہوا اور مجھے لاہور جاتے کی اجازت مرحمت فرمائی.اور فرمایا کہ میں اپنے کام کی رپورٹ جلد جلد حضور کی خدمت میں بھیجتا رہوں.چنانچہ اُسی وقت خاکسار لاہور کے لیے روانہ ہو گیا.اور وہ پیغام میں میں یہ ذکر تھا کہ خدا میری مدد کے لیے دوڑتا ہوا آرہا ہے " فاروق کے پہلے شمارہ کے صفحہ اول پر ملی قلم سے شائع کر دیا گیا.” فاروق کے اس پہلے پرچہ پر تاریخ اشاعت ۲ مارچ درج ہے.ویسے یہ شائع ر مارچ ہی کو ہوا تھا.اس کے بعد ابھی تین دن بھی نہ گزرے تھے کہ لاہور میں مارشل لاء لگ گیا.اور فی الحقیقت اس وقت یہی معلوم ہوتا تھا کہ خدا اپنے مظلوم اور بے گناہ بندوں کی حفاظت کے لیے دوڑ کر آگیا ہے.تین دن قبل حضور کے اس پیغام کی اشاعت اور اسکے معا بعد کے حالات ہر احمدی کے ایمان و استقامت کو بڑھانے اور اللہ تعالیٰ کی ہستی پر تو کل اور یقین اور خدائی نصرت و تائید کا ایک نہایت عظیم الشان منہ بولتا نشان تھے...اگر چہ ہفت روزہ فاروق کی زندگی اُس وقت کے حالات کی وجہ سے بہت مختصر ثابت ہوئی لیکن اس کی پہلی اشاعت میں ہی حضور کے اس تاریخی پیغام نے اسے سلسلہ کی تاریخ میں زندہ جاوید بنادیا ہے یا سلہ نه غیر مطبوعه (ریکار دشعبه تاریخ احمدیت)

Page 222

۲۱۰ تیسر ا پیغام برادران ! بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَهَى عَلَى رَسُولِي الكَرِيمِ هُوَ ال تے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ امیر السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَة میری طبیعت ابھی خراب ہے.مگر کھانسی کو کل آرام رہا.صنعت زیادہ رہا.درس القرآن بعد از عصر حسب قاعدہ دیا گیا.جماعتوں کی طرف سے جو اطلاعات ملی ہیں.ان سے معلوم ہوا کہ لاہور سیالکوٹ، لائلپور کے شہروں اور سیالکوٹ کے بعض دیہات میں شورش زیادہ رہی.ملتان میں بھی افواہیں پھیلیں، لیکن خیریت رہی.اکثر جگہ افسران ک انتظام اچھا رہا.بعض جگہ انہوں نے بز ولی لکھائی.کراچی میں امن رہا.سندھ میں افسران نے جلد جلد دورے کر کے معاملات کو سنبھالے رکھا.صوبہ سرحد کے افسران و حکام نے خوب مستعدی سے فتنہ کا مقابلہ کیا.بلوچستان میں اصل بلوچیوں نے پر امن طریق اختیار کیا.صرف وہاں کے پنجابی عنصر میں ہی تحفظ ختم نبوت کے نام پر سیاسی اعراض کے حصول کا جوش پایا جاتا ہے.بنگال بالکل پر امن ہے.اختبارات اور سیاسی پارٹیاں حتی کہ با اللہ علماء تک اچھا نمونہ دکھا رہے ہیں.فالحمد اللہ و جز اہم اللہ.اخبار فاروق مل گیا ہو گا.ہم روزانہ اخبار کی فکر میں ہیں.آپ لوگ صبر سے کام لیں.دعادی میں لگے ہیں.فتنہ کی جگہوں سے بچیں.ایک دوسرے کی خبر لیتے ہیں.مرکز سے تعلق بڑھانے چاہیں.افسروں سے تعاون کریں.اور خد افعالی پر پورا تو کل کریں کہ وہ جو آخر تنگ صبر سے کام لے گا اور ایمان پر قائم رہے گا ، وہی دائمی جنت کا وارث ہو گا.اور خدا تعالے کا قرب حاصل کرے گا.خوش قسمت ہو تم کہ جنت تمہارے قریب کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے تمہارے لیے کھولے گئے ہیں.خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے لیے انتز رہے ہیں اور اس کی نصرت بارش کی طرح برس رہی ہے جس کی آنکھیں ہیں وہ دیکھتا ہے اور جو اندھا ہے اسے تو کچھ بھی نظرنہیں آتا.تم اپنی آنکھیں کھو لو، اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھو تم سے پہلے لوگ تم سے بہت زیادہ مصیبتوں کا شکار ہوئے مگر انہوں نے اُف تک نہ کی اور ہمت سے آگے بڑھ گئے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی گود میں انہوں نے جگہ پانی تمہارے لیے

Page 223

PI بھی وہی برکتیں موجود ہیں.صرف آگے بڑھنے اور اٹھانے کی ضرورت ہے.خداتعالی تمہارے ساتھ ہو.میں نے آج رات ایک خواب دیکھا جوہ اسی بارہ میں معلوم ہوتا ہے میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے ان کے لڑکے میاں عبد السلام بیٹھے ہیں یہی موجودہ عمر اور اسی طرح کی داڑھی ہے مگہ نہ یادہ تراشی ہوئی.بجائے حضرت خلیفہ اول کی طرف منہ کرنے کے پہلو بدل کر بیٹھے ہیں اور حضرت خلیفہ اول ان پر خطاہو ہے میں ورکر سے ہی کہ ایسی بیوہ نظمیں شاکر داری پریشان کر دیا ہے.میں نے بیٹھ کر دیکھا تو عزیزم عبد السلام کی پیٹھ کے پیچھے دو کاغذ پڑے ہیں میں نے ایک کو اٹھا کر دیکھا تو اس پر کئی شعر لکھے ہیں.ایک مصرعہ ہے، آہستہ آہستہ آخر یہ کر چین گھر پر آیا ریا پہنچا میں اسے پڑھکر ہنس پڑا اور میں نے حضرت خلیفہ اول سے کہا کہ یہ میاں عبد السلام کی تقریر تو نہیں وہ آپ کو مومن جی کے شعر سنا کر خوش کر رہے تھے.پھر میں نے کہا کہ مومن چی راصل نام خدا بخش پیالہ کے رہنے والے بوجہ سادہ طبیعت کے لوگ مومن جی کہتے ہیں مگر جاگتی دنیا میں انہوں نے شاید کبھی شعر نہیں کہا یا میں نے نہیں سنا ، کچھ ایسے پڑھے لکھے تو میں نہیں ہوش میں آتے ہیں تو شعر کہنے لگ جاتے ہیں جن کا نہ وزن ہوتا ہے.نہ مضمون.یہ لڑکے ان کے شعروں پر مذاق اڑاتے ہیں.اسی وجہ سے میاں عبد السلام نے آپ کو یہ شعر سنا دیئے تھے.یہ بات سن کر حضرت خلیفہ اول بھی ہنسنے لگ گئے اور سمجھ گئے کہ میاں عبد السلام کا یہ فعل ان کو خوش کرنے کے لیے تھا.پھر پوچھنے لگے آخر اس مصرعہ کا مطلب کیا ہوا.میں نے کہا کہ انہوں نے کہیں سنا ہوگا کہ مسیح کو کرائسٹ کہتے ہیں وزن کی تو خیر نہیں ضرورت ہی نہیں.ذرا شعر کو رایزنی آراستہ کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود کو کرائسٹ کہنا چاہا مگر چونکہ کرائسٹ نہیں آتا محت کر میچین لکھ دیا اور مطلب یہ ہے کہ مسیح آہستہ آہستہ اپنے مقام پر پہنچے گیا.اس پر آپ اور ہئے.اس کے بعد یکدم حضرت خلیفہ اول غائب ہو گئے اور ان کی جگہ حضرت راماں جان ، آگئیں اور آپ نے کہا کہ میاں ! تم نے یہ کیا لکھا ہے کہ تم پاہی تو نہیں ہو مگر ہم تم کو سپاہیوں کی جگہ کھڑا کر یں گے ، میں نے کہا یہ میں نے مومن جی کی نسبت کہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دن میں گھوڑے پر سوار تھا کہ گھوڑے نے یکدم منہ زوری اختیار کی اور قریب تھا کہ مجھے لیکر بھاگ جاتا اتنے میں آگے بڑھ کر مومن کی نے اس کی باگ منہ کے پاس سے پکڑ لی.اس پر گھوڑا اور بد کا.اس

Page 224

۲۱۲ نے زور سے چھلانگ لگائی مگر مومن میں ساتھ ہی اچھلے اور باگ نہ چھوڑی.گھوڑی نے اپنی لگی نگیں بٹھا کر ان کو کچلنا چاہا.اس پر میں نے نہ دور سے کہا کہ چھوڑ دو گھوڑے کو چھوڑ دو ورنہ مرجاؤ گے لیکن انہوں نے مضبوطی سے گھوڑے کو کپڑے دیکھا.چھوڑا نہیں.آخر تھوڑی دیر شرارت کر کے گھوڑا ٹھیک ہو گیا تب میں نے کہا کہ مومن جی تم سپاہی تو نہیں ہو مگر ہم تمکو سپاہی کی جگہ کھڑا کریں گے“ پھر میری آنکھ کھل گئی.اس رویا میں مومن جی کے لفظ سے خاص شخص مرا در نہیں بلکہ سادہ لوح وسن مراد ہے.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وجیہ کلبی کی صورت میں جبریل کو دیکھا تھا.اسی طرح جماعت (نیک لوگوں) مومن جی کی صورت نہیں دیکھائی گئی ہے اور مطلب یہ ہے کہ مومن ایک طرت تو اتنا سادہ لوح ہوتا ہے کہ جوش ایمانی میں یہ بھی نہیں دیکھتا کہ اس کے شعر میں وزن ہے یا نہیں اپنے دل کے جوش کے اظہار کے لیے بے پرواہ ہو کہ نکل کھڑا ہوتا ہے.لوگ اس پر ہنتے ہیں مگر اس کی سنجیدگی میں فرق نہیں آتا وہ خدا کی باتیں پہنچاتا جاتا ہے.دوسری طرف نرم اور سادہ اور کمزور ہونے کے باوجود اسلام اور اس کے نظام کی قیمت اس کے دل میں اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنی جان کے خوف سے بے پرواہ ہو کہ خدمت دین میں لگ جاتا ہے اور مصائب سے ڈرتا نہیں.مشکلات سے گھراتا نہیں معنی کہ اپنے لوگ بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب وہ مارا جائے گا.کچلا جائے گا لیکن خدا تعالیٰ اس کے اخلاص کو ضائع ہونے نہیں دیتا.فرشتے اس کی مدد کو اترتے ہیں اور وہ آفتوں سے اسے بچاتے ہیں اور خود سری کی روح کو توڑنے ہیں وہ کامیاب ہو جاتا ہے.تب آسمانی گروہ کو کہنا پڑتا ہے کہ تم سپاہی تو نہیں ہو مگر ہم تم کو سپاہیوں کی جگہ کھڑا کریں گے." والسلام خاکساره مرز امحمود احمد د امام جماعت احمدیہ) اس بلیٹن کے ساتھ جناب ناظر صاحب دعوت در تبلیغ نے مندرجہ ذیل ہدایت دی : یہ بلیٹی میں جس کے پاس پہنچے وہ آگے دوسروں تک پہنچائے اور پہنچا تا چلا جائے تاکہ جماعت کی گبھراہٹ دور ہواور وہ حالات سے واقف رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اطلاع ملی ہے کہ سیالکوٹ میں دو احمدی شہید کر دیئے گئے ہیں نے کہ یہ اطلاع خلاط ثابت ہوئی (مرتب)

Page 225

۲۱۳ زین العابدین - ولی اللہ ناظر دعوت و تبلیغ 11 14/0 ٣٢ ۵۳ چوتھا پیغام اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رسم کے ساتھ امیر برادران هالك السلام عليكم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَهُ افسوس کے ساتھہ اطلاع دیتا ہوں کہ الفضل کے بند ہو جانے اور ریلوں اور لاریوں کی روک کی وجہ سے تین دن سے نہ آپ کو ہماری خبر ہے اور نہ ہمیں آپ کی.لاہور پسیا لکوٹ اور راولپنڈی میں بعضی احمدی شہید کیے گئے ہیں اور بعض کی دکانوں کو لوٹا گیا اور جلایا گیا.افسوس ہے کہ بلیٹن بھی آپ کو ارسال نہیں کیا جا سکا.ناظر اور عامہ لاہور الفضل کے لیے کوشش کرنے گئے تھے.مگر جا کر اپنے گھر بیٹھ گئے کیونکہ الفضل کے فون سے اطلاع ملی ہے کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کہ وہ الفضل کے لیے کیا کر رہے ہیں.ریوں اور لاریوں میں احمدیوں پر حملے کیے جارہے ہیں لیکن اصل خطر ناک بات یہ ہے کہ اب یہ لوگ اپنے اصل مقاصد کی طرف آرہے ہیں.سرکاری عمارتوں اور سرکاری مال پر حملہ کیا جارہا ہے سرگودہا اور جھنگ کے بعض مقامات پر مہندوستان زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے.کھیکی اللہ ایک ڈین پر چڑھے ہوئے افراد نے پاکستانی فوج مردہ باد کے نعرے لگائے اس سے ملک دشمنی اور غداری کی روح کا صاف پتہ چلتا ہے.مگر اس حالت میں بھی بعض جگہوں سے خطوط مل رہے ہیں.پھر نہ معلوم جماعت کیوں خاموش ہے اور خطوں کے ذریعے سے اطلاع نہیں دیتی ؟.خدائی جماعتوں پہ یہ دن آیا کرتے ہیں پس گھرانے کی بات نہیں.اپنے لیے اور اپنے ملک اور حکومت کے لیے دعا کہ تے رہو.اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ ہو.والسلام مصل مطابق اصل

Page 226

۲۱۴ در مارچ ۱۹۵۳ء خاکسار مرز امحمود احمد د امام جماعت احمدید جس جس کو یہ خط ملے تحریر و تقریر ا تمام جماعتوں میں پھیلائے.پانچواں پیغام بسم اللهِ الرَّحْمَنِ التَدِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِ الكَرِيمِ بسم برادران ! هو الن خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ امد مامين السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةِ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ حالات پہلے سے درستی پر آر ہے ہیں.ساٹھ فیصدی جگہوں سے خبریں یہی آرہی ہیں کہ حالات درست ہورہے ہیں.۲۵ فیصدی کے قریب خبریں یہ ہیں کہ فسادات ابھی اپنے دستور پر قائم ہیں اور پندرہ فیصدی جگہوں سے یہ خبریں ہیں کہ فساد یا تو نیا پیدا ہورہا ہے یا بڑھ رہا ہے.بہر حال ان ساری خبروں کا نتیجہ یہ ہے کہ نصف سے زیادہ فساد دب چکا ہے اور خدا کے فضل سے امید ہے کہ ہفتہ عشره تک به فساد دب جائے گا.قریب میں گندم پیدا ہو نیوالی ہے اور زمیندار مجبور ہو گا کہ وہ گندم کی کٹائی کرے اس طرح کپاس کی کاشت کا وقت بھی قریب آرہا ہے غالباً ان دنوں میں مولوی نہ مینداروں کو مجبور نہیں کہ سکتا کہ وہ اپنا کام چھوڑے اور اگر وہ زمیندار کو مجبور کرے گا تو اگلی دو فصیلیں اس قدر تباہ ہو جائیں گی کہ پنجابی کو نہ پہنتے کو کیڑاٹے گا.نہ کھانے کو روٹی ملے گی اور اس تباہی کی ذمہ داری بھی طور پر مولویوں اور مود و ولیوں پہ ہو گی.گو یہ فتنہ پرداز لوگ غصے سے اس وقت اندھے ہو رہے ہیں.پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اتنی جرات کرنی ان کے لیے مشکل ہوگی.کیونکہ تین چار جینے کے بعد اس کے نتائج نکلنے پر ملک اس قدر مخالف ہو جائے گی کہ وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل ہی نہ رہیں گے.ہیں ہمت اور استقلال سے کام لو.اصل چیز جرات اور ایمان ہے ہمارے مخالفوں میں سے احمدیوں کو مارنے والوں کو بھی یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر میں نے مارا تو پھانسی چڑھوں گا یا اگر مقامی حکام مجھے نہیں پکڑیں گے تو ملک کی تباہی کو دیکھتے ہوئے مرکز دخل دیگا اور میں گولیوں کا شکار بنوں گا پس مارنے والے کے دل میں مرنے والے سے کم ڈر نہیں

Page 227

۲۱۵ بلکہ اُسے موت کے علاوہ کبھی کبھی خدائی سزا کا بھی خیال آسکتا ہے.پس ہمت اور بہادری سے کام لو اور اپنی عاقبت کو بگاڑو نہیں.خدا تعالیٰ نے غیر معمولی ثواب کے مواقع آپ کے لیے بہم پہنچائے ہیں.اس موقعہ کو انہ ولی اور کمزوری سے جو شخص ضائع کرتا ہے.وہ بہت بد بخت آدمی ہے.کاش وہ پیدا نہ ہوتا تا کہ اس کی سیاہی سے دنیا دا غدار نہ ہوتی.اب مودودی آگے آرہے ہیں ان پر نگاہ رکھو اور ان کے تمام حالات سے دفتر کو آگاہ رکھو الن کے لیڈروں کے ناموں سے اطلاع دو ان کے تقریر کرنے والوں سے مطلع کرد اور ان کی تقاریرہ کا خلاصہ ہمارے پاس بھجواؤ.وہ پولیس اور فوج کو ہمارے خلاف مسموم کرنا چاہتے ہیں.اس بات کی بھی نگرانی رکھو یا سے چھٹا پیغام اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسولي الكريم عوال برادران ! خدا کے فضل اور رسم کے ساتھ صير السلام عليكم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ احباب مجماعت کو معلوم ہے کہ اس وقت جماعت پر ایک نازک موقعہ آیا ہوا ہے ، گورمنٹ اپنی طرف سے کوشش کر رہی ہے کہ فتنہ کو دور کرے.در حقیقت یہ گورنمنٹ کا ہی کام ہے لیکن بعض دفعہ بعض کمزور طبائع ایسی باتیں بھی کر بیٹھا کرتی ہیں کہ گورنمنٹ کی تدابیر کو بطور طعن مخالفوں کے سامنے کر دیتی ہیں یا اور قسم کی باتیں کر دیتی ہیں جو بعض جو شیلی طبیعتوں کے لیے اشتعال کا موجب ہو جاتا کرتی ہیں اور فساد پھر پیدا ہوجاتا ہے اور حکومت کے لیے مشکل پیدا ہو جاتی ہے پس میں دوستوں کو ان کے فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسے موقعہ پر قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق لہ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو رسالہ ان گرفتاریوں کا پس منظر ناشر اے قادر صاحب

Page 228

میر اور دعا سے کام لیں اور کچھ کہنا ہے تو اپنے خدا سے کہیں ، لوگوں کے سامنے ایسی کوئی بات نہ کریں کہ جس سے اشتعال پیدا ہو اور فساد کی صورت پیدا ہو کر حکومت کے لیے مشکلات کا موجب ہو.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد - خليفة المسيح

Page 229

دوسرا باب جماعتوں کی صورتحال سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے اس دور میں کمال حکمت گل سے ایسا نظام قائم فرما رکھا تھا کہ پاکستانی جماعتوں باخبر رہنے کا انتظام کے بدلتے ہوئے حالات بکہ بعض اوقات ان کی خبر بیات و تفصیلات تک آپ تک پہنچ جاتی تھیں.ایک طرف مرکزی اداروں میں سے خصوصاً امور عامہ کے کارک نظارت دعوت و تبلیغ کے مبلغین کرام، نظارت بیت المال کے انسپکٹر صاحبان ان دنوں سرتا پا جد و جہد بنے رہے.دوسری طرف مقامی جماعتوں کے امراء صدور اور دیگر ذمہ دار عہدیداران نے حتی الامکان اپنے پیارے آقا اور مرکز سلسلہ کو اپنے کوائف سے آگاہ رکھا جیسا کہ مفصل ذکر آچکا ہے.ربوہ کے بعد میں مقام پر ان ایام میں خاندان مهدی موعود کے اکثر قابل احترام بزرگ اور وجود قیام پذیر تھے وہ لاہور کا رتن باغ تھا جو جماعت لاہور سے متعلق اطلاعات کا اہم ترین مرکزہ تھا.مرکز سے سائیکلوسٹائل خطوط کا خاص انتظام اسیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے مشہور پیغام مورخه سور مارچ ۱۹۵۳ء میں الفضل کی بندش کا ذکر کرنے کے بعد وعدہ فرمایا تھا کہ :.نه ہم خائف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے لے حضرت اقدس نے اس وعدہ کی تکمیل کے لیے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ سر مارچ ہی کو اسی نگرانی میں ودفتر اطلاعات کا قیام فرمایا اور اس کا انچار ج راقم الحروف ردوست محمد شاہد) کو مقرر کیا.به دفتر احاطہ قصر خلافت میں قائم کیا گیا.۲۰ مارچ کو اس کا نام حضور نے بدل دیا اور اسے دفتر ریکارڈ سے موسوم فرمایا.اس نئے دفتر کے حسب ذیل فرائضی تھے.شه فاروق سه ر مارچ ۱۹۵۳ء صبا

Page 230

MIA ۱- ایجی ٹیشن سے متعلق اندرون ملک سے آنے والی ڈاک کا ریکارہ ڈرکھنا.۲.تازہ اطلاعات کا خلاصہ تیارہ کر کے حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں پیش کرنا.- حکام وقت کو حالات سے باخبر رکھنے اور مشرقی پاکستان کی احمدی جماعتوں کو مرکزی کوائف سے مطلع کرنے کے لیے الگ الگ اطلاعات کا انتخاب کر نا اور پھر بالترتیب حضرت مولانا عبد از میم صاحب درد ناظر امور عامہ اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر تالیف و تصنیف کو بھجوانا.احمدی جماعتوں کو مرکزی اور جماعتی اطلاعات سے باخبر رہ کھنے کی خاطر ضروری معلومات مرتب کرنا.موخر الذکر معلومات سیدنا حضرت مصلح موعه و نهایت احتیاط اور باقاعدگی سے ملاحظہ فرماتے اور حضور کی منظوری کے بعد ان کو نظارت دعوت و تبلیغ میں مجھجوا دیا جاتا تھا جہاں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ ان کو اپنی نگرانی میں سائیکو سٹائل کر استے اور پھر اولین فرمت میں بیرونی جماعتوں میں بھجوا دیتے تھے.جناب محمد یوسف صاحب سابق کارکن نظارت دعوت و تبلیغ حال آڈیٹر صد را نمین احمدیہ کا بیان ہے کہ :.ر جماعتوں سے رابطہ کے لیے خطوط بھیجنے کا ہی ذریعہ باقی رہ گیا چنانچہ خطوط کے ذریعے احباب جماعت سے رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا.ان خطوط کی چھپائی اور ترسیل کا کام میرے ذمہ ہوا.میں ان دنوں صیغہ نشر و اشاعت میں منھا مجھے ایک دفتری اور ایک مددگار کارکن ملا ہوا تھا.خط کا مضمون مغرب کے قریب مل جاتا.عشاء کی نمانہ سے فارغ ہو کر ہم لوگ دفتر پہنچ جاتے.میں موصولہ مضمون کو سٹینسل پر لکھتا اور پھر خود سائیکل سٹائل مشین پر ا سے چھاپتا تھا یہ شین پرانی طرز کی تھی (جو مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ سے عاریتاً حاصل کی متقی) اس لیے چھپائی پر بہت وقت صرف ہوتا تھا.جماعتوں کے کچھ پتے چھپے ہوئے موجود تھے کچھ ہاتھ سے لکھے جاتے یہ سب کچھ تیار کر کے لے وفات ، دسمبر ۱۹۵۵ ۶ ۶ سے وفات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۶ که محمد طیف مستعال کارکن جائیداد

Page 231

۲۱۹ لفافے ڈاک کے ذریعہ بھیجنے کے لیے کبھی نماز فجر تک کبھی اس سے پہلے تیار کر لیتے.اگر کبھی کام جلدی ختم ہو جا تا تو نماز فجر سے قبل کچھ آرام کر لیتے صبح پھر دفتر کے وقت حاضر ہو کر پورا وقت دفتر کے کام میں مصروف رہتے.چونکہ قریباً ساری رات ہی جاگنا پڑتا تھا اس لیے بھوک بھی لگ جاتی تھی اس کے لیے ہم نے یہ انتظام کیا کہ چائے یا قہوہ جو بھی میسر آئے گھر سے لے آتے اور جب بھوک محسوس ہوتی تو اسے گرم کر کے پیٹتے ، کھانے پینے کی چیزیں بوجہ فسادات ربوہ نہیں آرہی تھیں چائے یا قہوہ کیساتھ کبھی چنے ابلے ہوئے اور کبھی یہ میسر نہ آتے تو خالی چائے یا قہوہ پی کر گزارا کر لیتے تھے.ان خطوط میں جماعتی خبروں کے علاوہ مرکزی اداروں کے اعلانات اور بعض دیگر اہم رپورٹیں بھی شامل کی جاتی تھیں.حضرت مصلح موعود کی واضح ہدایت یہ تھی کہ اس میں کوئی ہر اس پھیلا نے والی خبر نہیں ہونی چاہیئے.حضور نے اس پہنچتی سے کار بند رکھنے کے لیے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلیٰ کو خاص طور پریہ اس امر کی تاکید فرما ر کھی تھی.یہ خطوط اپنی افادیت کے اعتبار سے مرکزی خبر نامہ کی حیثیت رکھتے تھے جن سے سب پاکستانی جماعتوں کا رابطہ اپنے مرکز سے قائم رہا اور یہ جہاں جہاں بھی پہنچے جماعتوں میں استقلال اور بشاشت اور صبر کی نئی روح پیدا ہوگئی.یہ انتظام ۳۰ مارچ ۱۹۵۳ تک یعنی کراچی سے روزنامہ" المصلح" کے شروع ہونے تک جاری رہا اور ساتھ ہی دفتر اطلاعات بھی ختم کر دیا گیا.ر" ذیل میں بعض بلیٹن منہ ضروری ہدایات کے درج کیے جاتے ہیں :- بلیٹن علی جماعت کے لیے ) برادران جماعت اطلاعات " السلام علیکم ورحمة الله و بر کانده ریوه ۱۰ ر ماریچ - حضرت اقدس.....ایده الله منصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین

Page 232

رپورٹ یہ ہے کہ نزلہ نسبتا آرام ہے.مگر گلے میں درد ہے.اور سردرد کی تکلیف ہے.احباب کرام دعا فرما دیں.حضور انور نے آج اور کل ڈیرہ اسماعیل خاں.لاہور ضلع شیخو پورہ ضلع لائل پور.ڈھاکہ مجرات اور راولپنڈی کے متعدد احباب کو شرف ملاقات بخشا.سیالکوٹ کے متعلق بعض احمدیوں کے جانی نقصان کی خبریں مشہور ہوگئی تھیں.لیکن چودھری نذیر احمد صاحب کا نار موصول ہوا ہے کہ تمام احباب خیر بہت سے ہیں.فالحمد للہ.کراچی کے مسٹر شریح الدین رنگران ایڈاک کمیٹی سیکر ٹری سٹوڈنٹس فیڈریشن - اخبار سندھ آبزرور - ڈان ایوننگ سٹار سب نے موجودہ ہنگامہ کی مذمت کی ہے.نیز مشرقی پاکستان سے بھی خبر ملی ہے کہ وہاں کا انگریزی و بنگلہ پریس پنجاب ایجی ٹیشن کے خلاف آوانہ بند کر رہا ہے.کراچی جماعت نے " المصلح کا روزانہ ڈیکلریشن حاصل کر لیا ہے.نیز ایک برقی پر میں بھی وہاں خرید نے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں.ربوہ میں ڈاک تار اور فون کا انتظام حسب دستور با قاعدہ موجود ہے.گاڑیاں قریبا وقت پر آ رہی ہیں اور آج سے بہ بوہ اور سرگو دریا کے درمیان بسوں کی ایک سپیشل سروس بھی شرو ع ہورہی ہے.بعض شرپسند عناصر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ اور ربوہ کے متعلق مختلف قسم کی افواہیں پھیلا رہتے ہیں.ان مکروہ ہتھکنڈوں کے استعمال کی عرض جماعت کو پریشان کرنا ہے.ان عناصر کو معلوم ہونا چاہیئے کہ احمدیوں کو پریشان کرنے کا یہ طریق نہ اب تک کامیاب ہوا ہے.اور نہ انشاء اللہ کبھی آئندہ کامیاب ہو سکتا ہے.جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں.مرکز احمدیت میں ہر طرح خیریت ہے.احباب جماعت اپنے اپنے حالات کے متعلق ڈاک کے ذریعہ باقاعدگی سے اطلاع دیتے رہیں.انشاء اللہ مرکز پوری ذمہ داری سے اس سلسلہ میں اپنے فرائض کی سرانجام دہی کرے گا.اللہ تعالی آپ کا ہر دم حامی و ناصر ہو.اور مسرتوں کی لانہ دال دولت سے مالا مال فرما دے.(دستخط) زین العابدین ولی اللہ ١١٠ 11-1-11 F- وفات ۲۱ دسمبر ۶۱۹۶۴ ایڈیشنل ناظر اعلی

Page 233

۲۲۱ اطلاعا.ربود ۱۲ مار 11903 - حضرت اقدس...ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین یہ پورٹ یہ ہے کہ " نقرس کی تکلیف شروع ہے.پاؤں میں جو زخم منھا.وہ ابھی باقی ہے احباب صحت کاملہ کے لیے دعا فرما دیں.آج حضور انور نے سیالکوٹ، گوجرانوالہ ، شیخو پورہ کے اضلاع شہر پشاور اور ریاست بہاولپورہ کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا.آج اور کل مرکزہ میں کوٹ رحمت خال ، پریم کوٹ ، مانگٹ اور نیچے ، لا پور ،گجرات جو سکہ میانوالی، ملتان، مگھیانہ اور دوسرے مقامات سے جماعتوں کی خیریت کے متعلق اطلاعات موصول ہوئیں.ان خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے فضل سے اکثر جماعتیں موجودہ حالات میں بڑے میر و استقلال سے کام لے رہی ہیں.اور خدا کے فضل سے مراسمیگی کے کوئی آثار نہیں ہیں.لاہور لائلپور اور راولپنڈی کی جماعتوں نے مصائب کے طوفانوں میں ہمت و استقلال کا نہایت عمدہ نمونہ دکھایا ہے.را ولپنڈی میں بعض سرکاری افسروں نے ہمارے احمدی ملازمین کو یہ پیشکش کی کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے ایک محفوظ کیمپ قائم کرا دیتے ہیں.مگر انہوں نے کہا کہ وہ اپنے آقا کے حکم کی تعمیل میں اپنے اپنے گھروں میں مرجانا منظور کر سکتے ہیں.مگر کیمپ میں جانا منظور نہیں کر سکتے.ایک جماعت نے لکھا " یہاں کی جماعت میں خدا کے فضل کوئی گھیرا ہٹ نہیں.لیکن نہیں ہر وقت مرکز کا خیال ہے.پچھلے دنوں ایک جگہ سے کسی دوست نے لکھا.کہ یہاں شرارت بڑھ رہ ہی ہے.اس پر حضرت اقدس....ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ جواب رقم فرمایا:.ان شرارتوں کو پکڑنے والا آسمان پر زندہ خدا موجود ہے.نند و خدا کس طرح شرارتوں کو پکڑتا ہے.اور انسانی تدبیریں خدائی تقدیر وں سے مکہا کہ پاش پاش ہو جاتی ہیں.اس کا نظارہ پہلے ہم نے ہزار وں مرتبہ کیا ہے.کیا اس کے بعد بھی ہمیں کوئی فکر دامنگیر ہو سکتا ہے.نہیں اور ہر گز نہیں.احباب ربوہ کی خدمت میں ہدیہ سلام پیش کرتے ہیں.اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہو.شرپسندوں کے شر سے محفوظ رکھے.آپ ہمیں اپنی خیریت کے متعلق جلدی جلدی

Page 234

۲۲۲ اطلاع دیا کریں.کیونکہ تاخیر سے تشویش ہوتی ہے.رو ستخط) زین العابدین ولی اللہ ناظر دعوت و تبلیغ ریوه ہم الله ارحمن الرحیم ما و افصل مسل رسوله الكريم والسلام على عبده المسيح الموعود برادرم ! اسلام علیکم ورحمة الله به کاندا.خدا کرے کہ آپ اور دیگر جملہ برادران احمدیت بخیر و عافیت ہوں.سید نا حضرت مصلح موعود د ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ حضور کے پاؤں میں تکلیف کچھ زیادہ ہے مگر کھانسی میں کمی ہے.اللہ تعالیٰ ہمارہ سے آقا و صحت کاملہ عاجلہ بخشتے اور ہزاروں برکتوں اور کامرانیوں کے ساتھ لمبی عمر عطا فرما دے آج اور کل حضور پر نور نے خانیوال لالمپور - ہر گھٹنا.لالہ موسی - چک پیار.کراچی محمد آباد اسٹیٹ سندھ اور مسلم کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا.مربی دین متی مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے گولڈ کوسٹ رافریقہ) سے یہ خوشکن اطلاع دی ہے کہ کماسی میں جماعت احمدیہ کے بیرون پاکستان میں سب سے پہلے کا لج کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے.انہوں نے مزید خبردی ہے کہ اس تقریب پر علاقہ کے بڑے بڑے رڈ سا کے علاوہ شانٹی کے بادشاہ بھی شامل ہوئے سنگ بنیاد کی تقریب کا آغانہ کلام پاک کی تلاوت سے کیا گیا.وکیل المال ثانی تحریک جدید تریہ فرماتے ہیں کہ امر ما رچ کو سید نا حضرت...ایده الله تعالیٰ کی خدمت میں سو فیصدی چندہ ادا کرنے والے مخلصین جماعت کی پہلی فہرست بغر من دعا پیش کی جائے گی.آپ تمام احباب جماعت کو اس کی اطلاع دیدیں اور پھر زور تحریک فرما دیں کہ احباب اپنے وعدوں کو حتی الوسع جلد تو ادا فرمائیں.ہم میں سے کسے معلوم نہیں کہ تحریک جدید کے ذریعہ دنیا کے تمام بیرونی ممالک میں تبلیغ دین حق کا وسیع کام ہو رہا ہے.رہبوت الذکر ناقل) تعمیر ہورہی ہیں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے قیام کے لیے دنیا کی مختلف زبانوں میں لٹریچر شائع کیا جارہا ہے

Page 235

پس سر فرد جماعت کا اولین فرض ہے کہ وہ اس مقدس کام کو جاری رکھنے اور اس کو وسیع کرنے میں ہرممکن کوشش سے کام لیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ حصہ ہے.مشکلات ضرور میں مگر ان مشکلات پر قابو پانے کا بھی یہی طریق ہے کہ ہم خدا کے دین کی شاعت کہیں اس طرح خدا عرش سے ہماری حفاظت کرے گا اور ہمیں اپنی برکتوں سے نوازے گا.براہ کرم تمام احبات جماعت تک یہ مکتوب بھی پہنچا دیں اور احباب ربوہ کا ہدیہ سلام بھی.خدا آپ کے ساتھ ہوا ور خدمت دین اور خدمت ملک درقوم کی توفیق بخشے آمین.والسلام ناظر دعوة و تبلیغ ربوه ۳-۳-۱۷ بسم الله الرحمن الرحيم محمدہ و نصلی علی رسوله الكريم والسلام على عبده المسيح الموعود السلام علیکم ورحمتہ اللہ ویہ کا نہ برادرم ! حضرت اقدس......ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تانہ ہ ترین رپورٹ مظہر ہے کہ کھانسی کو آرام ہے.ٹانگ کی دردمیں اضافہ ہے اور پاؤں کی درد میں بھی قدرے تخفیف ہے اللہ تعالیٰ حضور کو صحت کاملہ عاجلہ بخشے.آج حضور نے سیالکوٹ - گوجرانوالہ چکوال اور لاہور کے بعض خدام کو مشرف ملاقات بخشا اور اوکاڑہ.سکھر - گوگیرہ - کنری.کوٹے مریم یارخاں.پنڈی گھیپ لیاقت پور اور دوسری جماعتوں کے متعدد خطوط حضور کی خدمت میں موصول ہوئے.الحمد للہ کہ بحیثیت مجموعی حالات پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں.ہمارے محبوب وطن اور محبوب جماعت پر منڈلانے والے بادل اب آہستہ آہستہ چھٹ رہے ہیں اور خدا کے فضل سے مطلع صاف ہو رہا ہے.لیکن ابھی حالات پوری طرح تسلی بخش نہیں.احباب کو ہوشیار رہنا چاہیے اور دعائیں جاری رکھتی چا ہیں.لاہور کی ایک معتز نہ غیر احمدی خاتون نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی اید اللہ بنصرہ العزیز سے بذریعہ مکتوب یہ استفسار کیا ہے کہ آپ نے شاہ میں اپنی ایک نظریہ میں جو یہ فرمایا تھا کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور.اُن کا خدا اور ہے اور ہمارا اور.ہمارا حج اور ہے اور شہ دنقل مطابق اصل.اصل لفظ افاقہ ہے سہو کتابت کی وجہ سے اضافہ لکھا گیا ہے.مرتب

Page 236

۲۲۷ اُن کا حج اور اس عبارت کا کیا مقصد ہے ؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے قلم مبارک سے آج اس کا مندرجہ ذیل جواب قسم فرمایا ہے :.یہ تقریر اسی ہی ہے جیسے کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اُس کی نمانہ نہیں ہوتی حالانکہ سارے حنفی سورہ فاتحہ نہیں پڑھنے.بعض دفعہ زور دینے کے لیے یہ الفاظ کہے جاتے ہیں اور مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ لوگ مغز کی طرف توجہ نہیں دیتے.یہی مراد اس تقریر کی ہے یعنی عام طور پر مسلمان نماز جلد جلد پڑھتے ہیں حج کو غریب جاتے ہیں.جن پہ حج فرض ہے وہ نہیں جاتے.پس مراد یہ نہیں کہ مسائل الگ الگ ہیں بلکہ نمازہ.حج.زکواۃ ہماری اور دوسروں کی ایک ہے.میری تقریر کا منشاء اس بات پر نہ دور دیتا ہے کہ ان لوگوں میں اسلام کی شرائط پوری کرنے کی طرف سے سستی ہے تم شرائط کو پورا کرو " براہ کرم اپنی اور جملہ احباب کی خیریت سے اطلاع دیں اور مندرجہ بالا کتوب ان تک پہنچا کہ شکریہ کا موقعہ بخشیں.اللہ تعالیٰ آپ سب یہ اپنی بے انتہا رحمتوں کے دروازے کھولے اور مشکلات و مصائب کے راستے ہمیشہ کے لیے بند کر دے.آمین.على والسلام ناظر دعوة و تبلیغ ربوده ۳-۳-۱۹ بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى عن رسوله الكريم والسلام على عبد المسيح الموعود برادرم با السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ سید نا حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ نصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ پاؤں کا زخم مندمل ہورہا ہے اور دوسرے عموار من میں بھی افاقہ ہے ؛ فالحمد لہ علی ذالك آج حضور پر نور نے نہایت ہی لطیف پیرایہ میں دوستوں گھر دعا اور انایت الی اللہ کی طرف توجہ دلائی اور ارشاد فرمایا کہ تمارا فرض ہے کہ ہم خوشی تمنی ، رینج و راحت اور عمر بسر میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کیا کریں اور سر حال میں اُسی سے مدد و نصرت کے طلب گار ہوں کیونکہ وہی

Page 237

۲۲۵ ہمارا سہارا ہے.حضور نے خطبہ کے آغانہ میں فرمایا کہ دنیا میں جب کبھی کسی شخص کو کوئی تکلیف یا خوشی پہنچتی ہے تو وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کی طرف دوڑتا ہے اور فطرتا چاہتا ہے کہ وہ انہیں بھی اپنے یہ پیج اور راحت میں شریک کرے.اسی فطری جذبہ کے ماتحت شادی بیاہ پر تمام رشتہ دار اکٹھے ہو جاتے ہیں اور موت کے مواقع پر بھی برا اور یوں کا اجتماع ہوتا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ جذ بہ خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے اور اور یہی وجہ ہے کہ ایک بچہ کو باہر کھیلتے ہوئے اگر شیشے کا چمکتا ہوا نکڑ نبھی مل جاتا ہے تو وہ خوشی میں دوڑ کر نورا ماں کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اماں مجھے یہ مکڑا ملا ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص بچے کو ذراسی بھی تکلیف پہنچاتا ہے تو اس صورت میں بھی رہ اپنی ماں کی طرف بھاگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میری ماں مجھے بچائے گی.یہ مثال بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا کہ جس طرح بچہ مصیبت اور خوشی کے وقت اپنی ماں کی طرف بھاگتا ہے.اسی طرح ایک سپنا مومن بھی اپنی تکلیف اور خوشی کی گھڑیوں میں اپنے مالک حقیقی اور اپنے قادر مطلق خدا کی طرف بھاگتا اور اس کے آستانہ پر اپنا مرکھ دیتا ہے.اسی لیے ہمارا آقا سید نا حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ہر تکلیف اور مصیبت کے وقت انّا لِلَّهِ دَانَا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھیں میں کے یہ معنی ہیں کہ ہماری مصیبت کو دور کر نے والا خدا کے سوا کوئی نہیں اس لیے ہم اس کی طرف جاتے اور اپنی سے مدد کی درخواست کرتے ہیں.اسی طرح حضور آتے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تمہیں کوئی خوشی اور راحت پہنچے تو الحمد للہ کہو جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے خدا یہ انعام تیری ہی وجہ سے ہمیں عطا ہوا ہے ،اور تو ہی ہماری شکر گند زری کا حقیقی حقدار ہے.گر فرمایا کہ جس طرح فانز العقل بچے خوشی اور غمی میں اپنی ماں کی طرف نہیں دوڑ تے اسی طرح خاتم العقل انسان بھی دعا اور عبادت سے غافل رہتے ہیں لیکن وہ لوگ جو عقل و دانش کے مالک ہوتے ہیں اُن کے لبوں پر خوشی کے وقت بھی خدا کا ذکر ہونا ہے اور مصیبت کے وقت بھی اسی کی یاد ہوتی ہے.

Page 238

۲۲۶.......برا و گرم به مکتوب تمام احباب جماعت تک پہنچا دیں اور کوشش کریں کہ احبا جماعت پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ ان ایام میں تہجد کا بھی التزام کریں اور اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ ذکر الہی اور دعاؤں کے لیے وقف رکھیں.خدا تعالیٰ ہمیں بے شمار رحمتیں اور برکتیں دینے کا فیصلہ کر چکا ہے.اے کاش ہم اس کے وفادار ثابت ہوں اور اس کے دامن سے لپٹ کہ ان برکتوں کے طالب ہوں جو ہمیشہ صادقوں کے لیے مقدر ہیں.والسلام ناظر دعوة وتبليغ نه بوه ۳۲ ۲۰۰۳ بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلى على رسوله الكريم والسلام على عبد المسيح الموعود برادرم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ.سید تا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق نانہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ عام طبیعت اچھی ہے پاؤں میں درد ہے اللہ تعالیٰ حضور کو صحت کاملہ عاجلہ بخشے." احباب یہ خبر سن کر بے حد خوشی محسوس کر یں گے کہ درس قرآن کی وہ پاک محفل جس سے جماعت کئی دنوں سے محروم تھی کل ہفتہ سے پھر شروع ہو گئی ہے چنانچہ کل حضور نے سورۃ مریم ع کی بعض آیات کی لطیف تغییر بیان فرمائی اور بائیبل کے مقابل قرآن مجید کے نظریات کی صداقت کو تاریخ اور عقل کی روشنی میں ثابت کر دکھایا کہ مسیح کی پیدائش جیسا کہ بائیبل میں آیا ہے دسمبر میں نہیں ہوئی بلکہ ایسے موسم میں ہوئی جب کھجوریں کہتی ہیں.نیروبی را فریضہ) سے مبلغ احمدیت جناب شیخ مبارک احمد صاحب نے بذریعہ مکتوب احباب جماعت کو یہ مژدہ سنایا ہے کہ قرآن کریم کے سوا میلی ترجمہ کے آخری مسودات پر لیس کے سپرد کر دیے گئے ہیں اور خدا کے فضل سے اُمید ہے کہ ماہ اڈیڑھ ماہ تک قرآن کریم کا ترجمہ چھپ کر تیار ہو جائے گا.احباب دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ جناب شیخ صاحب موصوف کی اس دینی است کو قبول فرما ہے اور قرآن کی روشن تعلیمات کی بدولت افریقہ کا تاریک بہت اعظم جگمگا اٹھے.شیخ صاحب موصوف نے اپنے مکتوب میں نیروبی کے مشہورہ روزہ نامہ ڈیلی کرانیکل کے تراشنے بھی ارسال کیے ہیں جن میں پنجاب کی موجودہ ایجی ٹیشن کا ذکر ہے اور لکھا ہے کہ اس ایجی ٹیشن

Page 239

۲۲۷ کی وجہ سے افریقہ کے غیر مسلم عناصر پر یہ اثر ہے کہ پاکستان کے عوام میں مذہبی آزادی نہیں ہے اور جبر و اکراہ سے کام لیا جاتا ہے.ان کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان میں باہمی اختلافات اسقدر بڑھ گئے کہ انہیں مضبوطی سے دبانے کی ضرورت ہے.یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ چند فتنہ پر دانہ لوگوں کی وجہ سے ہمارا محبوب وطن بدنام ہو گیا ہے یقیناً یہ چند لوگوں کا ذاتی فعل ہے اس سے پاکستانی حکومت پر الزام لگا نا ظلم ہوگا.سرحد کے وزیر اعلی خان عبدالقیوم خان صاحب نے حالیہ سرحد اسمبلی کے اجلاس میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ صوبہ کے امن کو ہر قیمت پر بر قرار رکھیں گے.وزیر اعلیٰ نے مسلم لیگی نمبروں سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں جا کہ لوگوں کو سمجھائیں کہ مذہب کی آلٹر میں خلاف اسلام حرکات کا ارتکاب کرنے والے پاکستان کے دشمن ہیں.آج کی ڈاک میں احباب جماعت نے گزشتہ ہنگامہ کے سلسلہ میں کئی ایمان افروز واقعات کی اطلاع دی ہے جن کو پڑھ کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کا نہ ندہ یقین حاصل ہوتا ہے.مثلا ضلع شیخوپورہ کے احمدی دوست لکھتے ہیں کہ ایک جگہ چند تنہا اور بے کس احمدیوں پر بے حد سختی کی گئی اور ان کو محاصرہ میں لے لیا گیا.ایک احمدی نے کہا کہ آپ لوگ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کر گزریں احمدیت تو مجھ سے نہیں چھوٹ سکتی.احمدی - وست یہ الفاظ کتنے ہی پائے تھے کہ وہاں پولیس پہنچے گئی حالانکہ یہ جگہ متھانہ سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر ہے.بعض دوسرے مقامات پر احمدیوں کو بچانے کے لیے غیر احمدی مشرفا حفاظت کے لیے آگئے اور شرپسند عناصر کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا چنانچہ ایک احمدی خاتون نے لکھا ہے کہ وہ اپنے مکان پر اپنے بچوں سمیت رہتی تھیں کہ تین دفعہ مکان پر حملہ کرنے کی تیاری کی گئی مگر انہیں خدا نے بتایا کہ وہ محفوظ رہیں گی چنانچہ جب آخری بار جلوس آیا تو محلہ کے تشریف لوگ از خود اس خیال سے مقابلہ کے لیے آگے آگئے کہ ایک عورت کو مکان سے نکلوا دینا ایک مسلمان کی شرافت سے بعید ہے..اسی طرح ایک احمد می دوکاندار جمعہ پڑھنے کے لیے گئے ہوئے تھے کہ اس اثناء میں ہجوم نے دکان پر دھاوا بول دیا مگر سا تھے ہی بعض شریعت غیر احمدی دوکاندار تھے انہوں نے ہجوم کا مقابلہ کیا

Page 240

۲۲۸ اور اس طرح سے اُسے ناکامی اٹھانی پڑی.بعض مقلات پر محض عزم و استقلال کے اظہار سے مخدوش فضا جہاں گئی مشتلا شیخو بو کے ایک گاؤں میں بعض لوگوں نے احمدیوں کو قتل کی دھمکی دی مگر انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں ذبح کر دیں ہمارے بچوں کو تہ تیغ کر دیں مگر ہم صداقت کو نہیں چھوڑیں گے اس پہ یہ لوگ اپنے ارادوں کی تکمیل سے دستکش ہو گئے.غرضیکہ اسی ہنگامہ کے دوران میں خدا تعالیٰ نے بعض جگہوں پر غیر معمولی اسباب نصرت پیدا کر کے اپنے بندوں کی اپنے ہاتھ سے مدد فرمائی جس کے لیے ہم اس کا جس قدر بھی شکریہ ادا کریں بہت کم ہے.ضلع سرگودہا کے ایک احمدی دوست اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ مودو دیوں اور بعض دوسرے مخالفین جماعتوں میں کچھ ایسے نوجوان پھیلا رہے ہیں جو شرارت کی غرض سے جھوٹے طور پہ احمدیت کی طرف منسوب ہو جاتے ہیں.براہ کرم یہ مکتوب تمام احباب جماعت تک پہنچا دیں اور اپنے علاقہ کی خیریت سے جلد جلد اطلاع دیتے رہیں.والسلام ناظر دعوة وتبلیغ ربوه ۳۳۲ - ۲۲ بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم والسلام على اعبده السيح الموعود برادرم ! السلام علیکم ورحمة الله وبركاته اله و سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ انگوٹھے کا زخم ابھی ہے.مگر طبیعت نسبتا اچھی ہے.خداتعالی ہمارے مقدس آقا کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشنے اور حافظ و ناصر ہو.پنجاب کے گذشتہ ہنگامہ میں جماعت کی بعض احمدی مستورات نے ہمت و استقلال کا جو قابل رشک نمونہ دکھایا ہے ناممکن ہے کہ احمدیت کی تاریخ میں انہیں فراموش کیا جا سکے.اس سلسلہ میں آج کی ڈاک سے گو یا نوالہ اور شہزادہ مضلع سیالکوٹ سے دو اور واقعات کی اطلاع لی ہے.ان دو واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دو جگہ پہ احمدی مستورات اکیلی تھیں کہ بہت بڑا

Page 241

۲۲۹ جوم حملہ آور ہوگیا اور اس نے قتل وغارت کی دھمکی دی مگر اندر سے صرف ایک ہی آواز آئی اور وہ یہ کہ ہم اپنے آقا کے حکم کے ماتحت گھر میں رہیں گے احمدیت کو نہیں چھوڑیں گے خواہ میں قتل کر دیا جائے یا ما را سامان لوٹتے لیا جائے.اس آواز میں کچھ ایسا اثر تھا کہ ہجوم کا رخ پلٹ گیا اور شرمند لوگ واپس چلے گئے.لاہور کے ایک احمدی دوست جنہیں حالیہ فسادات میں دکان کے مل جانے کی وجہ سے تقریباً بیس ہزار روپیہ کا نقصان ہوا ہے سیدنا حضرت مصلح موعود نہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اخلاص و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں.جو مال ہمارا گیا ہے ہم خوش ہیں کہ حریت کے نام پر گیا ہے.ان تمام واقعات سے جو ہماری آنکھوں نے دیکھے سہارا ایمان اور بھی مضبوط ہوا.حضور دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ایمان کی حالت میں موت نصیب کرے یا آمین بیرونی جماعتوں سے آمدہ خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک بہت سی جگہوں پر افواہیں پھیلانے کی باقا عدہ مہم جاری ہے مثلاً ضلع سیالکوٹ کے ایک حصہ میں یہ افواہ پھیلائی جارہ ہی ہے کہ ربوہ کو جلا دیا گیا ہے اور جو احمدی وہاں تھے انہیں یا تو زندہ جلا دیا گیا یا قتل کر دیا ہے اسی ضلع کے بعض دوسرے مقامات پر یہ چھہ چا کیا جارہا ہے کہ ۵ لاکھ پٹھان ربوہ پر حملہ کرتے ہے ہیں.تعجب ہے کہ اگر نعوذ باشد ریوہ واقعی جل چکا ہے تو وہ لاکھ پٹھانوں کو یہاں حملہ کیلئے آنے کی کیا ضرورت پڑی ہے ؟ دوستوں کو جھوٹی افواہوں کی طرف سے بہت ہوشیار رہتا چاہیے.سیکرٹری صاحب مجلس مشاورت کی طرف سے جماعتوں کو یہ اطلاع بھجوائی جا رہی ہے کہ قواعد کے لحاظ سے جماعتوں کو پہلے جتنی تعداد میں نمائندے بھیجوانے کا حق تھا اس دفعہ انہیں اس سے نصف تعداد میں نمائندے بھجوانے چاہیں.نیز یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر وقتی حالات کے ماتحت امیر یا صدر کو اپنی جگہ چھورنا مناسب نہ ہو تو وہ اپنی جگہ کوئی دوسرا ذمہ دارینا شده مشاهد ے لیے بھجوا سکتے ہیں.ضلع سرگودہا کے ایک احمدی دوست کی اطلاع کے مطابق معہ دودی ہماری جماعتوں میں بعض ایسے نوجوان پھیلا رہے ہیں جو فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے احمدیت قبول کر لیتے ہیں اور

Page 242

۲۳۰ درپردہ مخالف ہوتے ہیں.امید ہے دوست اس قسم کے منصوبوں سے ہوشیار رہیں گے.براہ کرم یہ مکتوب تمام احباب جماعت تک پہنچا دیں.والسلام ناظر دعوة وتبليغ - مد بوه عاليم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم والسلام على عبده السيح الموز برکاته برادرم ! السلام علیکم ورحمه الشده و به کاندا سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ پاؤں کے زخم میں ابھی کچھ تکلیف ہے اور کھانسی بھی ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے آتا کو صحت کاملہ عاجلہ بخشے.آج حضور پر نور نے ضلع شیخو پورہ جھنگ اور سرگودہا کے بعض خدام کو شرف طلاقات بخشا اور باوجود علالت طبع کے عصر کے بعد قرآن کا درس بھی دیا.صوفی محمد رفیع صاحب سکھر سے اطلاع دیتے ہیں کہ سندھ کے مشہور لیڈر پیر پگاڑو نے اپنے ایک بیان میں حالیہ ایجی ٹیشن کی پر زور مذمت کی ہے.پیر پگاڑو کا یہ اعلان سندھ کے کئی اخبارات نے شائع کیا ہے.دوستوں کی اطلاع کے لیے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے ۴۷ سال قبل اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ :- ا یہ مت خیال کرد که خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہا تحفہ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھوٹے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تاخد انتہاری آنہ مائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت ہیں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتداء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اُسکو جہنم تک پہنچائے گی.اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لیے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر یک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور پھٹا کریں گی

Page 243

۲۳۱ اور دنیا ان سے سخت کہ ابہت سے پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروان سے اُن پر کھولے جائیں گے یا الوصیت متر و طبع اول دسمبر ۶۱۹۰۵ ) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا یہ روح پر وسکلام احباب جماعت تک پہنچا دیں اور انہیں صبر و استقامت سے کام لینے اور اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین کر ہیں اور دوستوں کو تحریک کریں کہ وہ ان ایام میں قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود کی کتب کے مطالعہ کی طرف خاص توجہ دیں اور دعاؤں پر بہت زور دیا جائے اور جو دوست روزہ کی توفیق رکھتے ہوں وہ ہر وزہ بھی رکھیں کیونکہ روزہ کی حالت میں دعا ز یا دہ قبول ہوتی ہے.والسلام ناظر دعوت و تبلیع - ربوده ۲۵/۳/۳ علیم اللہ الرحمن الرحيم محمدہ و نصلى على رسوله الكريم والسلام على عبده السيح المود برادرم ! السلام عليكم ورحمة الله و بركاته سید نا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الورود کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ نقرس کا دورہ پھر شروع ہو گیا ہے.دائیں پاؤں کا انگوٹھا متورم ہو گیا ، اور حرکت مشکل ہو گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور انور کو صحت کاملہ دعا جلہ بختے.احباب یہ سن کر خوشی محسوس کریں گے کہ مولوی احمد شاہ صاحب نائیجیریامیں پانچ سال تنک تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دیتے کے بعد 4 را پریل کو بذریعہ بحری جہانہ کراچی پہنچ رہے ہیں.مولوی صاحب موصوف کے ساتھ جرمنی کے ایک نو مسلم دوست عمر ہوفر صاحب بھی تشریف لا رہے ہیں.عمر ہو فرصاحب ربوہ میں قرآن مجید اور اسلامیات کی تعلیم حاصل کریں گے اور پھر اپنے ملک کو نو یہ اسلام سے منور کرنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالٰی ہمار سے ان بھائیوں کو خیریت سے یہاں پہنچائے.سیرالیون کے مبلغ مولوی محمد صدیق صاحب شاہد کے ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلی بچی ه نام عائشہ اپنی صاحبہ امیگیم مقصود احمد صاحب قمر سابق مبلغ تنزانید)

Page 244

۲۳۲ تولد ہوئی ہے.دوست دعا فرمائیں کہ نو مولودہ دین کی خادمہ بنے اور والدین کے لیے قرۃ العین ثابت ہو.جرمنی سے اطلاع ملی ہے کہ جرمنی کے مبلغ چو ہدری عبد اللطیف صاحب نے نیور برگ کے ایک سال میں اسلامی تعلیمات کے موضوع پر کامیاب لیکچر دیا.صدارت کے فرائض جرمنی کے ڈاکٹر وینر نے سر انجام دیئے.چوہدری صاحب موصوف کی کوششوں سے ایک جرمن لیڈی کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کی بھی اطلاع موصول ہوئی ہے.سیلون سے آمدہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مبلغ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نہایت تندہی سے تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں.انہوں نے حال ہی میں سیلون گورنمنٹ کے محکمہ خوراک کے ایک رکن محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ ممبر، ریلوے کلرک ، پوسٹ آفس کے ملازمین اور ایک اساتذہ سے بھی ملاقات کی اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچایا.اللہ تعالیٰ مولوی صاحب کے مقاصد اور مساعی میں برکت دے.مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے جاکہ تا رانڈونیشیا) سے اطلاع دی ہے کہ انڈونیشیا کی جماعتیں پاکستان سے متعلقہ خبروں کے باعث کئی دنوں سے دعاؤں پر خاص زور دے رہی ہیں.........لاہور سے شیخ بشیر احمد صاحب اور ان کے رفقاء اور محمد عبد اللہ ایم.الیس سی اور ان کے رفقاء کے متعلق خبر موصول ہوئی ہے کہ وہ خدا کے فضل سے بری ہو گئے ہیں اور خیریت سے ہیں.فالحمد للہ علی ذالک - براہ کرم یه مکتوب احباب جماعت تک پہنچا دیں.والسلام ناظر دعوة وتبلیغ - ربوده ۳۳ ۳ - ۱۲۶ بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم والسلام على عبد المسيح الموعود برادرم ! السلام عليكم ورحمة الله و بركاته سيدنا واما منا حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق آج شام کی رپورٹ یہ ہے کہ نقرس کی درد کا خاصہ شدید دورہ ہوا ہے اور حضور چل پھر نہیں سکتے.“

Page 245

۲۳۳ اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب آقا کو ہر تکلیف سے محفوظ رکھے اور صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے.آمین مکرم شیخ ناصر احد صاحب مبلغ سوئٹزر لینڈ تے سوئٹزر لینڈ سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں چند استفسارات بغرض جواب تحریر کیے ہیں.شیخ صاحب موصوف کے پیش کرده استضارات اور حضور انور کے لطیف جوابات آپ کے اضافہ علم کی خاطر درج ذیل ہیں ا سوال - اگر شراب کا استعمال ہر صورت اور ہر مقدار میں برا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس کی حرمت اسلام سے پہلے کسی نبی کے ذریعہ نہ ہوئی اور اگر پہلے جائز تھی تو کیا بائبل کی رو انبیاء بھی اس کا استعمال کرتے تھے ؟ جواب.کیا ہر زمانہ میں ایک سی ضرورت ہوتی ہے اس طرح تو دنیا کی تمام حکومتوں کے قوانین رڈ کرنے ہوں گے.سے ۲ سوال.قرآن کریم میں جانوردوں کے خون کی حرمت کا ذکر ہے.کیا یہ حرمت صرف اس وجہ سے ہے کہ خون کا استعمال بطور خوراک کے صحت کے لیے مضر ہے ؟ جواب.کسی نے صحت کا ذکر نہیں کیا.اس کا اللہ روحانیت پر پڑتا ہے.کبھی مردار خور اور خون کھانے والا روحانیت کے مقام تک نہیں پہنچائے سوال.بعض عیسائیوں کو ہر سال ایسٹر کے دنوں میں مسیح علیہ السلام کے واقع صلیب کی یا د ہیں بین اُن مقامات پر زخم پھوٹتے ہیں جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم مبارک پر کیل ٹھونکے گئے تھے.بعض لوگ ایسے واقعات کو اپنے مذہب کی صداقت کے طور پر پیشش کرتے ہیں اس کی تو منیح فرمائی جائے.جواب.محض دھوکہ ہے اس قسم کے قصے قبروں کے مجاوروں نے بھی بنا رکھے ہیں ان کو کیوں نہیں مانتے ہو سوال.نمازوں کے انتقات میں مغربی ممالک میں مسلمانوں کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جب تک موجودہ صنعتی نظام رائج ہے کام کے دوران میں نما نہ کی چھٹی کا ملنا ناممکن ہے.اس مشکل کا حل کیا ہو ؟ جواب.کون سا کام بغیر مشکلات کے ہوتا ہے جہاں نا قابل تلافی مشکل ہو دیاں جمع کا

Page 246

۲۳۴ مسئلا موجو د ہے پھر شکل کیا ہے کیا ربوہ میں الحمد للہ خیریت ہے اور عموماً جماعتوں کی طرف سے بھی خیر بیت کی اطلاع آرہی ہے بگو مورودی اصحاب مختلف رنگوں میں فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں.دوستوں کو مہوشیار اور محتاط رہنے اور دعاؤں کی تلقین کرتے رہیں.والسلام شیخ عبد القادر مولوی فاضل شیوه پریا ۳ ۳ ۲۸۷ بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود برادرم ! السلام علیکم ورحمة الله و برکاته سید نا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق آج شام کی پر پھٹ یہ ہے کہ پاؤں میں درد ابھی باقی ہے.اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کو صحت کاملہ دعا جلہ بخشے.آج حضور پر نور نے لاہور ، بقا پور، دوالمیال ، لالہ موسیٰ ، سرگودہا ، وزیر آباد اور لائلپور کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا.ضلع لائلپور کے ایک دوست ایک مکتوب میں مقامی جماعت کے کوائف کے متعلق لکھتے ہیں کہ :.کہیں کہیں یہ افواہ بھی پھیلائی جاتی ہے کہ فلاں فلاں آدمی احمدیت سے تائب ہو گیا ہے.الیسی دو تین اطلاعیں ہمارے پاس آئیں.ہم نے آدمی بھیج کہ پتہ کیا تو ان افواہوں میں ذرہ بھی صداقت نظر نہ آئی بلکہ اپنے دوستوں کو پہلے سے زیادہ احمدیت پر پابند پایا یہی دوست مقامی جماعت کی اپنی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :.در نمازہ ان میں حاضری کافی ہوتی ہے.دعائیں بہت کی جاتی ہیں.زیادہ سے زیادہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے پر زور دیا جاتا ہے تا لوگ ہمارے اخلاق کی وجہ سے خود بخود ہماری طرف کچھے چلے آئیں.حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ کی کتب سے اخلاق کے بارہ میں اقتباسات پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق اور حسین معاملات کا تذکرہ کر کے اخلاق کی درستی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے سو الحمد للہ کہ جماعت اخلاق میں ترقی کر رہی ہے اور اپنی حالت میں بہتری پیدا ہورہا ہے.جس کا غیر از جماعت لوگوں پر بہت اچھا اثر ہے " سه وفات ۱۸ اومبر ۱۹۶۶

Page 247

۲۳۵ یہی دوست آخر میں لکھتے ہیں:." ہم نے تو ان ابتلاؤں کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے واضح نشانات بلکہ خود زندہ خدا کو دیکھ لیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صداقت پر زندہ رہ سکھے اور اسی پر موت دے یاا مرکز سلالہ میں خدا کے فضل و کرم سے ہر طرح خیرو عافیت ہے.آپ یہ مکتوب اپنے حلقہ احباب تک پہنچا دیں اور دعاؤں کی تلقین کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہر دم آپ کا حامی و ناصر ہو.والسلام خاکسار احمد خان نیستیم مجلس قیام امن، احمد نگر

Page 248

۲۳۶ تیسرا باب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ کانونش را در ۱۲ کو ایڈ یعنی جمرات ۲ مارچ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے حسب ذیل نوٹس جاری کیا :.No.104 Dated 12-3-53 From G.M.Mansoor Esquire, P.C.S., To, Addl.District Magistrate, Jhang, Camp at Chiniot.The Secretary To the Khalifatul Masih, Rabwah.Sir, I have the honour to inform you that after delegating all the essential powers of a District Magistrate to me, I have been directed by the District Magistrate, Jhang that you will excercise full control over the despatch of telegrams from Rabwah to out stations including India, which do not comment, infer, and state the conditions adversely, in regard to the "Direct Action" movement in this province.I hope you will appreciate that such comments, inferences and statements issued by you are detrimental to peace of the country.It is needless for me to mention that I have in my possession documentry evidence corroborating the facts I now ask you to excercise full control over.I have etc etc Sir, Your most obedient servant, Sd/- G.M.Mansoor P.C.S., Addl.District Magistrate, Jhang at Chiniot.

Page 249

۲۳۷ نمبر ۱۰۴ مورخه ۱۲۳۲۵۳ منجانب جی ایم منصور پی سی.ایس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ چنیوٹ کیمپ.بخدمت سیکریٹری صاحب جناب عالی ! خليفة المسيح ربوده میں آپ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے تمام خصوصی اختیارات مجھے تفویض ہو جانے کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ نے مجھے ہدایت دی ہے کہ آپ کے یہ گوش گزار کر دوں کہ وہ تمام تارہ جو ربوہ سے بیرونی سٹیشنوں بشمول انڈیا کو ارسال کیے جائیں ان میں اس صوبہ میں جاری " راست اقدام کی تحریک کے سلسلہ میں کھوئی تبصرہ نہ ہو، کوئی نتیجہ نہ اخذ کیا گیا ہو.اور حالات پر کوئی مخالفانہ بیان نہ ہو.ایسے تاروں کی ترسیل پہ آپ مکمل کنٹرول قائم کریں گے.مجھے امید ہے کہ آپ کو اس امر کا احساس ہو گا کہ ایسے تبصرے ، نتائج یا بیانات کا ذکرہ اگر آپ کی طرف سے ہو گا تو وہ ملک کے امن کے لیے مضر ثابت ہوگا.مجھے اس امر کے بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں کہ میرے پاس ایسی تحریری شہادت موجود ہے جس سے وہ امور ثابت ہو جاتے ہیں جن پر مکمل کنٹرول قائم کرنے کے بارے میں میں آپ کو اب ہدایت دے رہا ہوں.یکی ہوں نہایت تابعدار آپ کا خادم دستخط - جیا.ایم.منصورہ پی.سی.ایس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ (چنیوٹ)

Page 250

جواب حضرت مصلی موعود کی ہدایت پر نظارت اور عامہ نے اس نوٹس کا حسب ذیل جواب دیا بہ From Το Sir, Nazir Umoor Amma, Ahmadiyya Community Pakistan, Rabwah.No.196 Dated 12th March, 1953.G.M.Mansoor, Esq., P.C.S., Additional District Magistrate Jhang, Camp at Chiniot.Your letter No.104 dated 12-3-53 has just been received.I have the honour to reply to the same as follows:- We do fully appreciate the gravity of the present situation and are following the policy of full cooperation with the authorities as far as it lies in our power.In order, however, to facilitate our cooperation I would ask you to kindly let me know the nature and contents of the telegram or telegrams to which objection has been taken as well as the names of the senders.Further, your letter does not make it clear whether we are also not to send any telegraphic information regarding the state of affairs prevailing and the dangers facing the members of our Community at different places in the Punjab to the Deputy Commissioners concerned, Secretaries of the Punjab Government, Inspector General of Police Punjab, or the officials of the Central Government.Do such telegrams also come under your instructions? I hope you will very kindly let us know about the two above mentioned questions at your earliest convenience.Assuring you again of our best co-operation.I have the honour to be Sir, Your most obedient servant, (Ijaz Nasrullah Khan) Nazir Umoor Amma Rabwah..

Page 251

۲۳۹ منجانب ناظر امور عامه جماعت احمدیہ پاکستان سه بوده نمبر ۱۹۶ - مورخه ۱۲ر ما سر چ ۱۹۵۳ بخدمت جناب جی.ایم.منصور صاحب پی یسی.ایسی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ.چنیوٹ کیمپ.جناب عالی.آپ کا مراسلہ نمبر ۱۰۴ مورخ ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ ء ا بھی ملا.اس کا جواب درج ذیل سطور میں) ملاحظہ فرمائیے.موجودہ صورتحال کی نزاکت کا ہمیں پوری طرح احساس ہے اور جیہانتک ہمارے اختیار میں ہے ہم حکومت سے کمل تعاون کی پالیسی پر کار بند ہیں.تا ہم اس تعاون کو سہل بنانے کی غرض سے ہیں جناب سے درخواست کروں گا کہ میں تار یا تاروں کو قابل اعتراض سمجھا گیا ہے ان کی نوعیت اور مواد سے مجھے مطلع کیا جائے.نیز تار بھیجنے والوں کے اسماء سے بھی اطلاع دی جائے.علاوہ انہیں آپ کے مراسلہ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ آیا جوحالات اب پیدا ہو گئے ہیں اور جو خطرات ہماری جماعت کے افراد کو مختلف مقامات پر درپیش ہیں ان کے بارے میں متعلقہ ڈپٹی کمشنروں ، پنجاب گورنمنٹ کے سیکرٹریوں.انسیکٹر جنرل پولیس پنجاب یا مرکزی حکومت کے عہدہ داروں کو تامہ کے ذریعہ اطلاعات دینے کی بھی ممانعت ہے ؟ کیا ایسے تاروں پہ بھی آپ کی ہدایات حاوی ہیں ؟ مجھے امید ہے کہ آپ مہربانی فرما کہ مندرجہ بالا دونوں وضاحت طلب امور کے بارے میں جلد از جلد مطلع فرمائیں گے.آخر میں پھر ہم آپ کو اپنے بہترین تعاون کا یقین دلاتے ہیں.یں ہوں جناب کا ادنی اخف دم راعجاز نصر اللہ خاں) ناظر امور عامه ربوہ

Page 252

۲۴۰ ابھی اس مراسلہ پر چند دن ہی گزرے تھے کہ صوبہ جناب گورنر صاحب پنجاب کا نوٹس امیر مرکزی مشینری بھی حرکت میں آگئی اور ہوم سیکرڑی حکومت پنجاب نے جناب گورز صاحب پنجاب کی طرف سے ۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو حضرت مصلح موعود کے نام پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ 90ء کی دفعہ عہ کے تحت ایک نوٹس جاری کر دیا جو حضرت مصلح موعود کے اس پیغام کی بناء پر دیا گیا تھا جو فاسدقی لاہور مار مار یا ستاندر کے صفحہ (ایک) پر شائع ہوا اور جس میں بشارت دی گئی تھی کہ خدا میری مدد کے لیے دوڑا آرہا ہے.یہ نوٹس حسب ذیل الفاظ میں تھا.5306 - BDSB Whereas the Governor of the Punjab is satisfied that with a view to preventing Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad, the Head of 'Ahmadiyya' sect, from acting in a manner prejudicial to the public safety and the maintenance of public order, it is necessary to direct the said Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad to abstain from making any speech or publishing any statement or report relating to the Ahrar-Ahmadiyya controversy or the anti-Ahmadiyya agitation or any matter likely to promote feelings of hatred or enmity between various classes; Now, therefore, in exercise of the powers conferred clause (d) of sub-section (1) of section 5 of the Punjab Public Safety Act, 1949, the Governor of the Punjab is pleased to direct the aforesaid Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad to abstain from making any speech or publishing any statement or the report relating to the Ahrar-Ahmadiyya controversy or the anti-Ahmadiyya agitation or any matter likely to promote feelings of hatred or enmity between different classes.By order of the Governor of the Punjab, (Sd) S.Ghiasud Din Ahmad, Home Secretary to Govt.Punjab.Dated 18th March, 1953.

Page 253

۲۴۱ نمبر ۵۳۰۶.بی ڈی ایس بی ہر گاہ کہ گورنر پنجاب کو یہ قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد سر براہ فرقہ احمدیہ کو ایسے طرز عمل سے روکا جائے جو عوامی حفاظت کے خلاف ہو اور امن عامہ میں خلل اندانہ ہونے کا موجب ہو اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد موصوف کو ہدایت کی جائے کہ وہ احرار - احمدی تنازع یا جماعت احمدیہ کے خلاف ایجی ٹیشن یا اور کسی امر کے بارے میں جس سے مختلف طبقات کے مابین منافرت یا دشمنی کے جذبات کے ابھرنے کا امکان ہو تقریر کر نے یا بیان یا رپورٹ شائع کرنے سے احترازنہ کریں.لہذا پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ مجریہ ۱۹۴۹ء کی دفعہہ کی ذیلی دفعہ اجتزرو) کے تعویض کہ وہ اختیارات کے مطابق گورنر پنجاب متذکرہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ احراره احمدی تنازعہ یا جماعت احمدیہ کے خلاف ایجی ٹیشن یا اور کسی امر کے بارے میں جس سے مختلف طبقات کے درمیان منافرت یا دشمنی کے جذبات ابھرنے کا امکان ہو کوئی تقریر کرنے یا بیان دینے یار پورٹ شائع کرنے سے احترانہ کریں.محکم گورز پنجاب ر دستخط) الیں.غنیات الدین احمد موم سیکرٹری گورنر پنجاب مورخه ۸ ار مارچ ۱۹۵۳ حکومت پنجاب کی خصوصی ہدایت پر وار مارچ حضرت صل عود کا پر شوکت جوابا انا ۱۹۵۳ء کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس جھنگ نبوه پہنچے اور گورز پنجاب کا یہ نوٹس حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بغرض تعمیل پیش کیا حضور نے نوش تو لے لیا مگر ساتھ ہی نہایت پر جلال اندازہ میں ارشاد فرمایا :- " آپ اس وقت اکیلے مجھ سے ملنے آئے ہیں اور کوئی خطرہ محسوس کیے بغیر میرے پاس پہنچ گئے ہیں اسی لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ گورنمنٹ آپ کی پشت پر ہے پھر اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ گورنمنٹ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے حکومت آپ کی مدد کرے گی.تو کیا میں جو خدا تعالیٰ کا مقررہ کردہ خلیفہ ہوں

Page 254

۲۴۲ مجھے یقین نہیں ہونا چاہیئے کہ خدا میری مدد کرے گا.بے شک میری گردن آپ کے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے.آپ کے گورنر نے میرے ساتھ جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا اب میرا خدا اپنا ہا تھ دکھائے گا یات حضرت مصلح موعود نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب ہز ایکسی لین گورنر یا کو جوابی مراسلہ پولیس نے جنگ کے واپس جانے کے بعد عرب تاب گورنر صاحب پنجاب کو اپنے مبارک دستخط سے حسب ذیل جوانی مراسلہ From M.B.Mahmud Ahmad, بھی بھیجا.To Head of the Ahmadiyya Community, Rabwah, Distt.Jhang.Dated 20th March, 1953.His Excellency The Governer of the Punjab Lahore.Your Excellency, On the afternoon of Thursday 19th March, the D.S.P.Jhang served on me a notice signed by the Home Secretary Punjab under Your Excellency's order under the safety Act 1949 Clause (d) of Sub section (1) of Section 5.Though I do not understand the reason of this notice specially when aggressors like Maulvi Maududi of Jamaat-i-Islami are even more vigorously distributing literature against the Ahmadiyya Community and declaring that all actions taken by the Government to suppress lawlessness are unjust and cruel and that they will make them fail and still no action has been taken against them as far as I know.And further.ه خطبه فرموده ۱۵اگست ۱۹۵۸ء مطبوعه الفضل ۵ رستمبر ۱۹۵۸ ۶ ص۲

Page 255

rumours are being spread every day either about my murder or Rabwah having been burnt or that Ahmadies have recanted all over which cause great anxiety in the minds of the Ahmadies.In the circumstances I think that some misunderstanding is the cause of this notice.But whether there is any misunderstanding or not, as Islam enjoines on us to obey the orders of the Government of the day I will obey the orders to the best of my knowledge and reason and leave the matter of my honour to God who has ordered me to obey the Government.I pray to God that He may reveal the truth to you and vindicate my honour and help Pakistan in these difficult times.I have the honour to be, Sir, Your most obedient servant, (Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad) Head of the Ahmadiyya Community.

Page 256

انہ ایم بی محمود احمد امام جماعت احمدیہ ربوہ (ضلع جھنگ) مورفته - ۲ مارچ ۱۹۵۳ء ر بخدمت جناب عزت مآب گورنر صاحب پنجاب.لاہور جناب عالی جمعرات مورخہ ۱۹ار مارچ کو بعد دو پہر ڈی.الیں.پی جھنگ نے ایک حکمنامہ سے مجھے اطلاع دی ہے جس پر آں عزت مآب کے حکم کے تحت ہوم سیکر ٹی پنجاب کے دستخط تھے اور جو سیفٹی ایکٹ مجریہ ۱۹۳۹ء کی دفعہہ کی ذیلی دفعہ اجر رو) کے تحت جاری کیا گیا تھا.مجھے اس رنوٹس) حکم نامہ کے جاری کیے جانے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی بالخصوص جب کہ جماعت اسلامی کے مولوی مودودی صاحب جیسے جارح افراد پہلے سے بھی نہ یادہ جوش خروش سے جماعت احمدیہ کے خلاف لٹریچر تقسیم کرنے میں مصروف ہیں اور اس امر کا برملا اعلان کہ رہے ہیں کہ حکومت نے لاقانونیت کو دبانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ تمام کے تمام غیر منصفانہ اور ظالمانہ ہیں اور یہ کہ انہوں نے ان کو نا کام کر دینے کا تہیہ کیا ہوا ہے.تاہم جہاں تک میرا علم ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے.علاوہ انہیں روزانہ اس اس کی افوا میں پھیلائی جارہی ہیں کہ مجھے قتل کر دیا گیا ہے یا ربوہ کو جلا دیا گیا ہے یا یہ کہ ہر جگہ کے احمدی اپنے عقائد سے دستبردار ہو گئے ہیں اور ان افواہوں سے احمدیوں کو بے حد فکر لاحق ہو رہا ہے.ان امور کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ یہ نوٹس کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے لیکن اس سے قطع نظر کہ یہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے یا نہیں چونکہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ حکومت وقت کے احکام کی تعمیل کی جانے میں اپنے علم اور سمجھ کے مطابق ہر طرح ان احکام کی تعمیل کروں گا اور اپنی عزت کا معاملہ خدا پر چھوڑتا ہوں جس نے مجھے حکومت کے احکامات کی تعمیل کا ارشاد فرمایا ہے.میں خدا تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ پر حق کھول دے میری عزبات کی لاج رکھے اوران پریشان کن اللہ میں پاکستان کی مدد فرمائے.میں ہوں جناب کا تابعدار مرز البشير الدين محمود احمد ) امام جماعت احمدیة

Page 257

۲۴۵ اس نوٹس کی خبر پنجاب پر یس نے بڑے طمطراق سے شائع کی چنانچہ اخبارات میں ذکر این اختبار نوائے وقت دلا ہوں) نے لکھا نہ مرزا بشیر الدین محمود کے نام حکم لاہور ۲۷ مارچ.ایک سرکاری اعلان مظہر ہے کہ حکومت پنجاب نے تحریک قادیان کے امیر مرزا بشیر الدین محمود کو حکم دیا ہے کہ وہ احرار اور قادیانیوں کے اختلافات یا قادیانیوں کے خلاف تحریک کے بارہ میں کسی قسم کا بیان ، تقریر یا اطلاع یا کوئی ایسا مواد شائع نہ کریں جس سے مختلف طبقوں میں نفرت یا دشمنی کے جذبات پیدا ہونے کا اندیشہ ہو.یہ حکم پنجاب سیفٹی ایکٹ کی دفعہہ کے ماتحت دیا گیا ہے یہ ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب کو اطلاع) ہوم سیکرٹری گورنمنٹ جاب جناب فی الدین ) احمد صاحب نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس جھنگ کو ہدایت کی تھی کہ وہ جناب گورنر صاحب پنجاب کا نوٹس پہنچانے کے علاوہ (حضرت) امام جماعت احمدیہ سے یہ بھی کہیں کہ آپ تمام احمدیوں کو حکم دیں کہ وہ احراری تنازع یا جماعت احمدیہ کے خلاف شورش کے بارے میں نہ لکھیں نہ کہیں.سیدنا حضرت مصلح موعود نے اس ضمن میں ہوم سیکر ٹری صاحب پنجاب کے نام From To Mirza Bashirud-Din Mahmud Ahmad, Head of the Ahmadiyya Community, Rabwah, Distt.Jhang.Dated 20the March, 1953, Home secretary of Punjab, Lahore.حسب ذیل جیٹھی لکھی.Dear Sir, I was told by the D.S.P.Jhang that you instructed him to convey to me ے نوائے وقت ۲۹ / مارچ ۱۹۵۳ : صلا

Page 258

۲۴۶ that I should instuct all Ahmadies that they should not say or publish any statement or report about Ahrar-Ahmadiyya controversy or Anti-Ahmadiyya agitation.I have told him that as His Excellency has ordered me to refrain from saying or publishing anything about matters which are likely to promote feelings of hatred etc 1 cannot do that.It is possible that whatever I write may contain something which, though not objectionable in my opinion, may be objectionable in the opinion of the Government.You know that about three weeks back D.C.Jhang asked me to issue orders to the community to remain peaceful and I did it.But at that time I was a free agent which now I am not.I have the honour to be, Sir, (Sd)(Mirza Bashirud-Din Mahmud Ahmad) منجانب مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ ربوہ ضلع جھنگ مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۵۳ بخدمت جناب ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب.لاہور جناب من! ڈی ایس پی صاحب جھنگ نے مجھے بلایا ہے کہ آپ نے انہیں یہ ہدایت دی محتی کہ وہ مجھے اس امر سے مطلع کریں کہ میں تمام احمد یوں کو حکم دوں کہ وہ احرار - احمدی تنازع یا جماعت احمدیہ کے خلاف ایجی ٹیشن کے بارے میں نہ تو کوئی بات کہیں اور نہ کوئی بیان یا رپورٹ شائع کریں.میں نے انہیں جواب دیا ہے کہ چونکہ عربت تاب گورنر صاحب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں کوئی ایسی بات نہ کہوں نہ شائع کروں جس سے اشتعال پیدا ہونے کا امکان ہے اس لیے میں اس حکم کی تعمیل سے معذور ہوں.کیونکہ اس امر کا امکان ہے کہ جو کچھ میں لکھوں وہ اگرچہ میری دانست میں قابل اعتراض نہ ہو لیکن حکومت کی نگاہ میں وہ قابل اعتراض مشتہر ہے.آپ جانتے ہیں کہ قریباً تین ہفتہ قبل ڈی.سی.جھنگ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اپنی جماعت کے افراد کو پر امن رہنے کی ہدایت جاری کروں اور میں نے ایسی ہدایت جاری کر دی تھی.اس وقت ایسی ہدایت جاری کرنے پر مجھ پر کوئی پابندی نہ تھی لیکن اب مجھ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے.خاکسانه دستخط (مرز البشير الدين محمود احمد)

Page 259

استند تا حضرت معلم و خون اور مارین ان کو دی پر شدت خدائی انشان کا ظہور صاحب پولیس جنگ کو قوت یقین سے بریہ مین الفاظ میں قبل از وقت خبر دے دی تھی.وہ چند دنوں کے اندر اندر ایسے حیرت انگیز طریق پر پوری ہوئی کہ ایک عالم انگشت بدنداں رہ گیا.پاکستان کی مرکزی حکومت کے حکم سے مسٹر آئی آئی چند دیگر کو جو اس وقت گورنر پنجاب تھے بر طرف کر دیا گیا اور ان کی جگہ میاں امین الدین صاحب گورز پنجاب مقریہ ہوئے جنہوں نے یکم مئی ۱۹۵۳ء کو یہ ظالمانہ لوٹ واپس لے لیا.اس درست اور مبنی یہ النضاف اقدام پر جماعت احمدیہ کی طرف سے گورنر صاحب پنجاب اور حکومت پاکستان کو مبارکبا د دی گئی اور اس حقیقت پر ایک بار پھر مہر تصدیق ثبت ہوگئی کہ سه جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اسے رو بہ زار ونزار حضرت مصلح موعود نے اگلے سال سال ۴ر احسان بعد خطبہ جمعہ می نوش پر عارفانہ بصرہ | اش رو جو اس کے خلا جمعہ کے ۳۳ مش رجون ۱۹۵۳ء خطبہ دوران چند دیگر صاحب کے نوٹس پر عارفانہ تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا : انسان کے ساتھ جو والدین کا تعلق ہے وہی تعلق حکومت کا ہے.اگر حکومت کہتی ہے کہ تم فلاں جگہ کھڑے ہو جاؤ تو ہم اس کے حکم کی اطاعت کہ میں گئے اور اس جگہ کھڑے ہو جائیں گے اگر وہ کہتی ہے فلاں کام کردہ تو ہم کر دیں گے.لیکن اگر وہ کہے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق فلاں بات مت کہو تو ہم اس کی اطاعت نہیں کریں گے یہاں حکومت کے قوانین ختم ہو جاتے ہیں اس کے بعد وہ بے شک ڈنڈا چلائے لیکن خدا تعالی کہتا ہے تم اس کی اطاعت نہ کرو تم رہی کہو جو میں کہتا ہوں مثلاً اگر تم کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ قادر ہے تو بے شک حکومت یہ قانون بنا دے کہ تم خدا تعالٰی کو قادر نہ کہو کیونکہ ایسا کہنے سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو قادر تسلیم نہیں کرتے پھر بھی خدا تعالیٰ کا حکم یہی ہوگا کہ تم اسے قادر کہتے نہ ہو.گزشتہ سال میں نے ایک اعلان میں کہا تھا کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد اور نصرت

Page 260

۲۴۸ کو آرہا ہے وہ چلا آرہا ہے وہ روڑ تا آرہا ہے.اس پر حکومت نے مجھے نوٹس دیا کہ تم نے ایسا کیوں کہا ؟ اس سے دوسرے لوگوں کو اشتعال آیا ہے.ہاں نوٹس دینے والے افسر نے اپنی اصلاح کر لی کہ اس نے کہا تم احمدار کے متعلق کوئی ذکر نہ کرو.اگر وہ مجھے یہ حکم دیتے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مرد کو آرہا ہے یا یہ کم کردہ مدد کو نہیں آتا تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس بات کو تسلیم کر لینے پر آمادہ نہ کر سکتی.اس لیے کہ وہ اس طرح کا حکم دے کہ قرآن کریم پر حکومت کرنا چاہتے اور یہ ایسا حکم تھا جس کا اتنا جائنہ نہ ہوتا.اگر کو ئی حکومت یہ کہے کہ تم خدا تعالیٰ کو ایک نہ سمجھو تو ہم کہیں گے عقائد کے بارے میں تمہاری حکومت نہیں چلتی.تمہاری حکومت ایسے امور میں چلے گی جو دنیوی ہوں.مثلاً کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ تم لوگوں کو خوب مارو تو حکومت اس پر ایکشن لے سکتی ہے لیکن اس لحاظ سے نہیں کہ وہ ایسا عقیدہ کیوں رکھتا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اس عقیدہ کو عملی جامہ پہنا رہا ہے حکومت اعمال پر کنٹرول کر سکتی ہے عقائد پر نہیں.قرآن کریم میں بہت زیادہ زور ماں باپ کی اطاعت پر دیا گیا ہے لیکن جب عقیدہ کے بارے میں ان کی بات بھی نہ ماننے کا حکم ہے تو اور کسی کی بات کیوں مانی جائے.پس جو چیزی خدا تعالی کی طرف سے فرمن کی گئی ہیں انہیں پورا کر و.جب انسان ایسے امور میں دخل دے جن میں اسے دخل نہیں دینا چاہیئے تو اس کی اطاعت ست کرو لیکن اگر کوئی حکومت یا فردا اپنے غرور میں آکر کہے کہ میں ان میں ضرور دخل دوں گا تو پھر جیسے کہا جاتا ہے کہ ملاں کی دوڑ میت تک تو مومن خدا تعالیٰ کے پاس چلا جاتا ہے اور مسجد کسی ماں کو بچاتے یا نہ بچائے خدا تعالیٰ اپنے مومن بندہ کو مزدور بچا لیتا ہے.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہایت واضح ہے.پس ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ یہ یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ اسے بچائے گا چاہے کوئی اسے پھانسی یہ ہی چڑھا دے وہ پھانسی پر بھی یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ اُسے بچائے گا.جب تک کوئی شخص اس قسم کا یقین نہیں رکھتا اس کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا ہے (حاشیہ اگلے صفحہ پر)

Page 261

۲۴۹ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانصاحب الاری یکی بیٹی کے دوران جوہری میں مر رہا ہے ایجی چو خور ایسے آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ اور ملک محمد عبداللہ صاحب کی غیرت ایمانی کا ایک واقعہ مولوی فاضل کا رکن نظارت تالیف و تصنیف کو کئی بار مرکز سلسلہ کے نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے کراچی میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان سے ملاقات کا موقعہ ملا.بلکہ ملک صاحب موصوت تو محض اسی محرم کی پاداش میں ڈیڑھ ماہ تک جھنگ اور لاہور میں قید بھی رہے سیلہ محترم ملک صاحب کا بیان ہے کہ.ایک بار میں جب چو ہدری صاحب خدمت میں حاضر ہوا تو حالات بہت نازک تھے اور یہ خبر گرم تھی کہ ربوہ سے تمام چیدہ چیدہ افراد گرفتار کر لیے جائیں گے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا نام سر فہرست ہے اگر ایسا واقعہ ہو انہیں تھا) جناب چوہدری صاحب کو کہیں سے اطلاع مل گئی تھی.اس ملاقات میں جب پیغامات وغیرہ ختم ہو گئے اور میں واپس آنے لگا تو چو ہدری صاحب نے مجھے دوبارہ بٹھا لیا.اور فرمایا کہ مجھے ایسی خبر لی ہے.بعض اوقات صو بائی حکومت از خود ایسا سخت قدم اٹھالیتی ہے اور مرکزی حکومت کو بعد میں اطلاع ملتی ہے آپ میری طرف سے حضور کی خدمت میں یہ گزارش کردیں کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ ہوگیا تو میں ایک منٹ کے لیے بھی اپنے عہدہ پر نہیں رہوں گا اور مستعفی ہو کہ ربوہ آجاؤں گا.چوہدری صاحب کی آوازہ اس وقت بہت گلو گیر تھی.خود میری کیفیت بھی چو ہدری صاحب کے اس پہلے پایاں اخلاص کی وجہ سے بے حد متاثر تھی.نیز چو ہدری صاحب نے فرمایا کہ حضرت اقدس کا خیال ہے کہ میں ربوہ کی گرمی میں نہیں رہ سکوں گا.یہ سب باتیں عام حالات کی ہیں.خاص حالات میں انسان ہر طرح کی قربانی کر لینا ہے.میں نے جناب بقیه حاشیه ۲۴۸ سه خطبه جمعه فرموده ۲ احسان ۱۳۳۳ مش - الفضل ۲۲ احسان ۱۳۳۳ میش ۲۳ جون ۱۹۵۴ء بن سابق ناظر ایوان صدر انجن احمدیه ربوده - دفات ۲۴ جون ۶۱۹۸۲ : سے ریٹائرڈ لیکچرار ۱ تعلیم الاسلام کالج آپ کے خود نوشت حالات امیری شامل ضمیمہ ہیں کہ وفات ار تمبر ۶۱۹۸۵

Page 262

چوہدری صاحب کا یہ پیغام ربوہ آتے ہی حضورہ کی خدمت میں دے دیات نے یکم اپریل ۱۹۵۳ء کا واقعہ ہے کہ جناب ابراراحمد صاحب سپرنٹنڈنٹ قصر خلافت کی تلاشی صاحب پولیس ضلع جھنگ مع ڈی ایس جھنگ بھاری گارد کے ساتھ قصر خلافت میں آگئے.چونکہ حضرت مصلح موعود کی عظیم شخصیت ان دنوں احیاہ کے ہم نوا افسروں کی تنقید کا اصل مرکز بنی ہوئی تھی اور آپ کا وجود مقدس مخالفین احمدیت اور دشمنان پاکستان کی نگاہ میں خار کی طرح کھٹک رہا تھا اس لیے ضلع کے ایک ذمہ دار پولیس افسر کی من گارد آمد تے عام طور یہ سمجھا گیا کہ حکومت حضرت مصلح موعود کو گرفتار کرنا چاہتی ہے مگر جیسا کہ بعد میں پتہ چلا پولیس افسر صاحب گرفتاری کے لیے نہیں.بلکہ قصر خلافت کی تلاشی کے لیے بھجوائے گئے تھے.چنانچہ مولوی عبد الرحمن صاحب انور کر پرائیویٹ سیکر ٹری حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا چشم دید بیان ہے کہ :.۱۹۵۳ میں جب.D.S.P صاحب دیده قصر خلافت میں آئے اور پولیس کی گار بھی آئی متقی خطرہ تھا کہ کہیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو گرفتار کرنے کا منصوبہ نہ ہو.انہوں نے حضور سے ملاقات کا کہا.حضور نے احتیاطاً حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی ساتھ ہی بلانے کا فرمایا.جب D.S.P صاحب کو جو لدھیانہ کے شہزادہ فیملی سے تعلق رکھتے تھے.اور یہ بلانا تھا تو اس سے پہلے حضور نے مجھے یاد فرمایا میں اس وقت پرائیویٹ سیکرٹری تھا.میں سیڑھیوں سے چڑھ کر مشرقی برآمدہ میں اوپر گیا جہاں حضور بیٹھ کر ملاقات فرما یا کرتے تھے حضور سامنے کے کمرہ سے جو حضور کا بیڈروم تھا.مجھے اسی کمرہ میں لے گئے.پھر کمرہ سے نکل کر غربی لیے برآئندہ میں ساتھ لے گئے اور مجھے فرمایا کہ میں تم کو صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ خطرہ ہے کہ یہ لوگ مجھے گرفتار کرنے نہ آئے ہوں.اس لیے تم اپنی ذمہ داری کو سمجھنا کہ تم میرے پرائیویٹ سیکرٹری ہو.اور صرف اس قدیر فرماکر حضور مجھے واپسی شرقی جانب کے بہ آمدہ میں لے آئے اور فرمایا : S-P ، صائب F کو بلا لو.چنانچہ ۲۰۰۴ صاحب آئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی ہمراہ تھے.وہ اندر گئے له غیر مطبوعہ مکتوب جناب ملک محمد عبد الله صاحب ربوده (مورخه ۲۰ مارچ ۶۱۹۷۵ )

Page 263

۲۵۱ تو میں سیڑھیوں میں آگیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیاگیا.حضور نے مشرقی بر آمدہ میں ان سے ملاقات کی.تھوڑا عرصہ کی خاموشی کے بعد جب کچھ خوش گفتاری اور ہنسنے کی آوازیں میرے کانوں میں آئیں تو میرے دل کو کسی حد تک تسلی ہوئی.بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت صاحب کے مکان کی تلاشی لیتے آئے تھے.D.S.P صاحب تکلفت برتتے تھے کہ وہ تو مجبوراً حکومت کے احکام کی تعمیل میں آگئے ہیں اور نہ تلاشی کی ضرورت نہیں.لیکن حضور نے ان کو مجبور کیا کہ اگہ تلاشی لیے بغیر لکھ دیں گے کہ آپ نے تلاشی لی ہے تو حضور نے فرمایا میں حکومت کو اطلاع دے دونگا کہ انہوں نے فرمنی رپورٹ کی ہے تلاشی نہیں لی چنانچہ انہوں نے اپنے ہمرا ہی انسپکٹر کو کہا کہ وہ تلاشی ہے چنانچہ اس نے تلاسنٹی کی تاکہ ان کی رپورٹہ درست ہو یا ٹ خود حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود نے ۵ ار اگست ۱۹۵۸ء کے خطبہ جمعہ میں اس اہم واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ : انہی ایام میں جب کہ ابھی فتنہ کے آثار باقی تھے.سپرنٹنڈنٹ پولیس ضلع جھنگ ڈی.الیں.پی کو ساتھ لے کر میرے مکان کی تلاشی کے لیے آئے چونکہ سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈی.ایس.پی سے گورنرپنجاب کے نوٹس والا واقعہ سن چکے تھے.اور وہ دیکھ چکے تھے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے چند دنوں کے اندر اندر میری بات کو پورا کر دیا.ادریسٹ چندریگر کو پنجاب سے رخصت کر دیا گیا.اور پھر اس سے پہلے میری طرف سے یہ بھی شائع ہو چکا تھا کہ میرا خدا میری مدد کے لیے دوڑا چلا آرہا ہے اس لیے وہ اتنے متائثر تھے کہ مجھے کہنے لگے ہمیں حکم تو یہ ہے کہ عورتوں والے حصہ کی بھی تلائٹی لی جائے گمہ مجھے کسی تلاشی کی ضرورت نہیں میں گورنمنٹ کو لکھ دوں گا کہ میں نے تلاشی لے لی ہے.میں نے کہا اگر آپ ایسا میں گے تو میں اخبار میں اعلان کر دوں گا یہ بالکل غلط ہے.انہوں نے کوئی تلاشی نہیں لی.آپ اندر چلیں اور ایک ایک چیز کو دیکھیں تاکہ آپ کے دل میں کوئی شبہ نہ رہے چنانچہ وہ اندر گئے اور انہوں نے ڈپٹی سپر فنڈنٹ پولیس سے کہا کہ رہ کا غذات کو دیکھ لیں یا ہے.نه غیر مطبوعه خط مولوی عبد الرحمن صاحب انور سه خطبہ جمعہ حضرت خلیفة المسیح الثانی فرموده ۱۹۵۸ د بحواله روز نامه الفضل در ستمبر ۱۹۵۸

Page 264

لاہور کے اخبار نوائے وقت رسم را پریل ۹۵ ایر صفحه علا) اور بعض دیگر مشہور اخبارات میں اس خانہ تلاشی کی خبریں بڑے جلی عنوانوں سے شائع ہوئیں.مخلص احمدیوں کی تلاشیاں اور گرفتاریں ایک ایران شد و صرفافت کی کمائی کے علاوہ کو صدر انجمن احمدیہ کے مرکزی دفاتہ کی تلاشی لی گئی اور حضرت سید زین العابد بین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ کو گرفتار کر کے ضمانت پر بہا کر دیا گیا نیز پرلیں امیر جنسی پاونس ایکٹ کی دفعہ اکے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا.حکومت پنجاب نے اس سلسلہ میں حسب ذیل اعلان جارہی کیا : ریوں میں احمدیہ فرقہ کے ناظم دعوت تبلیغ سید زین العابدین کے خلاف پریس امیر منی پادر ایکٹ کی دفعہ ا سکے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اس سے پہلے پولیس نے سید زین العابدین احمدیہ فرقہ کے امیر مرزا بشیر الدین محمود اور نائب ناظم بیوت تبلیغ مسٹر عبدالمجید کے دفتر اور مکان کی تلاشی لی اور کئی دستاویزات پر جن میں بعضی نا جائز خبرنامے بھی شامل ہیں قبضہ کر لیا سیته زین العابدین کو گرفتار کر کے بعد میں ضمانت پر رہا کہ دیا گیا ہے ** اس واقعہ کا ذکر جناب ابرار احمد صاحب رسابق سپر نٹنڈنٹ پولیس مضلع جھنگ) نے اپنی سوانح میں بھی کیا ہے چنانچہ ربوہ کے زیر عنوان لکھا ہے ۳۰ مارچ کو میں شہزادہ جبیب احمد ڈی ایس پی کے ہمراہ ربوہ گیا جہاں میاں زین العابدین ولی اللہ ناظم دعوت تبلیغ کی گرفتاری صوبائی حکم کے تحت عمل میں لائی گئی.اگلے روز میں نے بھاری گا.کے تعاون سے ربوہ میں جماعت احمدیہ کے تمام دفاتر کی تلاشی لی کیونکہ پر لیس ایمر جنسی پاورز ایکٹ ۱۹۳۱ء کے تحت تھانہ لاریان دلالیاں - ناقل مقدسه ۳۴ مورخه ۳۰ مارچ ۹۵۳لہ درج ہوا تھا.چیند بولین قبضہ میں لئے آئندہ تفتیش کے سلسلہ میں مرزا بشیر الدین محمود صاحب امیر جماعت احمدیہ سے ۲۴ را پریل ۹۳ د کو ہمراہ ڈی ایس پی ملنے گیا.اس تحریک ہیں جہاں سلہ "نوائے وقت لاہور ۴ را پریل ۱۵۳ اصل کالم ۲ - ۵

Page 265

صو بائی حکومت ٹوٹی مرکزی حکومت بھی ۱۲ اپریل ۱۹۵۳ء کی ختم ہوگئی.مسٹر محمد علی بوگرا ملک کے نئے وزیر اعظم مقرر ہوئے اس مرحلہ پر تحریک بھی سردی گئی تھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا پیالے یکم اپریل کوہ یہ بوہ کے علاوہ لاہور کے بعض احمدیوں کی بھی تلاشی لی گئی.چنانچہ لاہور میں جناب ثاقب صاحب زیر وی مدیہ لاہور کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارا گیا.مارشل لاء والوں کا اصل ارادہ تو جناب ثاقب صاحب کو گرفتار کرنے کا تھا مگر وہ با وجود انتہائی کوشش کے کامیاب نہ ہو سکے اور ان کی بجائے اُن کے بھائی محترم محمد بشیر صاحب زیر دی کو ٹرک میں بٹھا کر میڈیکل ہوسٹل نیلا گنبد کے کیمپ میں لے گئے.اس روز لا ہور سے مندرجہ ذیلی احمد یوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں مرزا مظفر احمد صاحب ( ابن حضرت مرزا قدرت اللہ صاحب الحمد صالح صاحب.ملک برکت علی صاحب محمد مکی صاحب دنیل اگنیمه سیشیخ فضل حق صاحب حکیم مراحدین صاحب کے چند روز بعد رسم را پریل کو راولپنڈی کے ایک مخلص احمدی رشیداحمد صاحب بٹ کے مکان کی تلاشی لی گئی اور ایک دیسی پستول اور کار توس بر آمد کر کے مقدمہ رجسٹر کر لیا گیا ہے.سے نقوش زندگی ص ۱۲۱ - ۱۲۰ ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشر نہ لاہور.حیدرآباد.کراچی.سہ اخبار نوائے وقت لاہور ۳ اپریل ۹۵ است سے نوائے وقت لاہور ، اپریل ۱۹۵۳ ص: روفات حکیم سراج الدین ماه ۲ دسمبر ۱۱۹۷) کر

Page 266

۲۵٫۲ چوتھا باب حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مرزا ناصر احمد نجات یکم اپریل سوار کو پیش آنے والے واقعات میں کی گرفتاری اور قید بامشقت اور جرمانہ المناک ترین واقعہ جس نے دنیا بھر کے احمدیوں کو نڈ یا دیا یہ تھا کہ ندین باغ لاہور سے حضرت مسیح موعود کے لخت جگر حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مصلح موعود کے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر حمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کالج لاہور گر فتار کر لیے گئے اور فوجی عدالت نے انہیں مارشل لاء ضوابط نمبر 1 کے تحت بالترتیب ایک سال قید بامشقت اور پانچ ہزار روپیہ جرمانہ اور پانچ سال قید با مشقت اور پانچ سوروپیہ جرمانہ کی سزا دی یہ اور قریباً دو ماہ کے بعد ۲۸ مئی ۱۹۵۳ کو رہا کئے گئے تے صبر تحمل اور توکل کے حیرت انگیز منو نے جناب بشارت احمد صاحب جوئیہ ریٹار ڈیفینٹ اور منو کرنل کا بیان ہے کہ سنہ میں یہاں اپنے ہم پیشہ دوافسروں کا ذکر کروں گا.نام مصلحتاً نہیں لے رہا مگر واقعات بالکل درست ہیں اور عین ان کے بیان کے مطابق ہیں.ایک لیفٹیننٹ (جواب بریگیڈیر ہیں) نے بتایا کہ ۹۵ او میں ان کو رات کے وقت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو جو اس وقت لاہور میں پرنسیاں تعلیم الاسلام کالج تھے رتن باغ کی عمارت سے گرفتار کرنے کے لیے وارنٹ دیئے گئے.یہ افسر وقت مقررہ به رین باغ گئے تو انہوں نے مکان کی دوسری منزل کے ایک کمرہ سے پر دو ں سے نکلتی ہوئی روشنی کو دیکھ کر کچھ تعجب کا اظہار کی گھنٹی ہائی.ایک خادم پانچ منٹ کے اندر اندر نیچے اُتھا.جب حضرت مرزا صاحب کے متعلق معلوم کیا کہ کیا کر رہے ہیں تو جواب ملا کہ نماز پڑھ رہے ہیں.سے نوائے وقت لاہور اور اپریل ۱۹۵۳ ، صفحه علا ینہ سے نوائے وقت لاہور مارا پھر پل د و مرا و راپریل ۱۹۵۳ د ماہ سے المصلح کراچی ۲۹ رمئی ۱۹۵۳ ءوسل

Page 267

۲۵۵ یہ صاحب بہت حیران ہوئے پھر سنبھلے بہت جلد حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.جب حضور کو وارنٹ گرفتاری دیکھائے تو حضور نے فرمایا اگر اجازت ہو تو میں اٹیچی کیس لے لوں پھر گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور ساتھ میں پڑے.اس افسر کو دو ایک روزہ کے بعد ایک بڑے عالم دین کی گرفتاری کے وارنٹ ملے وقت گرفتاری تقریباً پہلے والا.ان کے گھر پہنچے گھنٹی اور دروازے کھٹکھٹاتے رہے مگر کافی دیر تک کوئی جواب نہ ملا کافی وقت کے بعد ایک نوکر آنکھیں ملتا ہوا آیا.جب مولانا کے متعلق معلوم کیا تو جواب ملا سورہے ہیں.کافی تگ و دو کے بعد مولانا سے ملاقات ہوئی.جب وارنٹ گرفتاری دکھائے تو اسلامی اور عربی اصطلاحات میں کوسنے لگے بڑی بحث مباحثہ کے بعد جب ان مولانا کو گاڑی میں لے چلے تو یہ لیفٹیننٹ دل ہی دل میں سوچتے رہے کہ ایک "کا فرما تو تہجد پڑھ رہا تھا اور توکل کا اعلیٰ نمونہ خاموشی سے پیش کرتا گیا دوسری طرفت بزنم خود به عالم دین محمل، تو کل اور بردباری سے قطعاً عاری.دوسرے واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جب اس گرفتاری سے متعلقہ حضور رحمہ اللہ کے مقدمہ کا فیصلہ ہوچکا تھا اور آپ کو سزاسنائی گئی.یہ واقعہ سنانے والے ایک کیپشن مصاب تھے جو اس بلوچ رجمنٹ سے ہی تعلق رکھتے تھے جس میں خاکسار بھی تعینات تھا وہ ایک روز میرے گھر تشریف لائے 1977ء کی بات ہے.باتوں باتوں میں انہیں میرے احمدی ہونے کا علم ہوا.یہ کیپٹن صاحب پوچھنے لگے کہ آجکل آپ کے خلیفہ کون ہیں جب میں نے حضرت مرزا صاحب کا نام لیا تو یکدم سکتے ہیں آگئے کہنے لگے میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ آپ کی جماعت واقعی خدائی سایہ کے نیچے اور روحانی ہاتھوں میں ہے پھر انہوں نے یہ واقعہ بتایا.اُن کی ڈیوٹی 1923ء کے مارشل لاء میں تھی ان کے فرائض میں ایک کام یہ تھا کہ جن لوگوں کے مقدمات کے فیصلے مکمل ہوتے تو کسی افسر کو مقررہ کرتے کہ جیل میں جا کہ اُسے سزا سنا آئیں جن افسروں کو یہ کام دیا جاتا وہ اپنے عجیب و غریب مشاہدات بیان کرتے کہ ایک صاحب جن کو سزا سنائی گئی.غیظ و غضب میں آگئے ایک اور صاحب سکتے میں آگئے.بلکہ شہید مایوس ہو گئے.بعض اپنی بے گناہی اور معصومیت کا واسطہ دینے لگتے وغیرہ وغیرہ.میرے پلیٹن وال اس کیپٹن کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اگر موقعہ ملا تو وہ بھی کسی کو لے جناب سید ابو الاعلی مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی نہیں ۲۰ مارچ ۱۹۵۳ کو گرفتار کیا گیا تھا دنا قل)

Page 268

۲۵۶ سزاسنائیں اور دیکھیں کہ کسی قسم کے تاثر کا اظہار ہوتا ہے.ایک بعد دو سپر ایک فائل ان کو ملی جس میں ایک قیدی کے خلاف فیصلہ درج تھا اور کوئی افسر فوری طور پر موجود نہیں تھا.انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور خود جیل پہنچ گئے.فائل سے نام پڑھا.یہ نام گرامی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا تھا.یہ کیپٹن ان سے بالکل واقف نہ تھے علیک سلیک کے بعد چارج شیٹ اور مزا انگریزی میں پڑھ کر سنائی ان کیپیٹین صاحب کے دماغ میں تھا کہ دیکھیں ان صاحب کا ردعمل دیگر لوگوں کی نسبت کیسا ہو گا جب یہ کیپٹین صاحب ساری کار والی انگریزی میں سنا چکے تو حضرت مرزا صاحب نے جانے کی اجازت چاہی.نہ تعجب نہ حیرانگی.دیگر اہٹ نہ کوئی تاثر نہ فکر، نہ نظم.کیپٹن صاحب تو کسی عجیب و غریب رد عمل کے منتظر تھے.نورا بولے آپ شاید انگریزی نہ سمجھے ہوں لیکن اُردو میں پڑھ کر سناتا ہوں.اس پر اس کو وقار اور متوکل انسان نے فرما یا کیپٹن صاحب آپ کی مہربانی میں آکسفورڈ کا گریجویٹ ہوں تو الٹ ان کیپٹین صاحب پر کپکپی کا عالم طاری ہو گیا.سزا اور جرمانہ بہت شدید تھے گو جرم صرف ایک خاندانی زیبائشی خنجر کو گھر میں رکھنے کا تھا.اسے حضرت سیدہ نواب مبارک بیگم جنت کے دردناک اشعار ان بزرگ شخصیتوں کی اسیری کے اندوہناک سانحہ پر حضرت سیدہ نواب مبارک بیگم صاحبہ نے درج ذیل در دناک اشعار کہے له الفضل در اکتوبر ۱۹۸۳ ۲

Page 269

٢٥٠ (۱) عکرد یہ اشارہ وہ ہے جو حضرت خلیفتہ ایسے ثالث کا اور حضرت صاجزادہ مرزا شریف احمد رضوی کی قید یر ا کہ میں قادیانی بھنے کو کے تھے پر مصلحتاً شائع نہ کرئے گئے ا سوقت چلاؤ کوئی جا کے مزار مبع پر نصرت جہاں کی گود کے بالوں کو لے گئے (3) یو به صفات دشتی به مین به مکرو زور قیدی بنا کے شہر مشالوں کونے گئے 2 آقا تمھارے باغ میں داخل ہوئے عدد گلزار احمدی کے نہالوں کو لے گئے (4) جائے گرفت کیا تھے نہ آئی تو بد سرشت و علیہ لگا کے نیک فعالوں کونے گئے مبارکه

Page 270

۲۵۸ بھارتی پریس کے تبصرے اس غیر دانشمندانہ اقدام کا نہایت افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس کے نتیجہ میں پاکستان کی بیرونی دنیا میں سخت بد نامی توٹی جو پاکستان کے ہر محب وطن احمدی کے لیے مزید قلبی وذہنی اذیت کا موجب بنی.ا - اخبار ریاست دہلی نے " احمدی جماعت کا کارخانہ اسلحہ سازی کے زیر عنوان لکھا.پچھلے دنوں اخبارات میں ایک اطلاع شائع ہوئی تھی کہ احمدی جماعت کے لاہور کے ہیڈ کوارٹر کی مارشل لاء کے حکام نے تلاشی لی اور وہاں سے اسلحہ ساز می کا کارخانہ اور تیار شدہ اسلحہ ملائیں کے جرم میں احمدی جماعت کے پیشوا کے صاحبزادے اور بھائی کو مارشل لاء کے ماتحت پانچ اور ایک برس قید اور پانچ پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کی سزائیں ہوئیں.اس سلسلہ میں لاہور کے ایک دوست نے اصل حالات بھیجے ہیں جو یہ ہیں.احمدی جماعت کے موجودہ پیشوا کے بڑے لڑکے مرزا ناصراحمد اکسفورڈ یونیورسٹی کے ایم اے ہیں.اور آپ لاہور کے ٹی آئی کالج کے پرنسپل تھے اور آپ کی شادی موجودہ نواب مالیر کوٹلہ کے چچا کی صاحبزادی سے ہوئی اور جب شادی ہوئی تو آپ کے خسر نے آپ کو زیورات اور مخالف کے ساتھ ایک خنجر بھی دیا جس کا دستہ سنہری تھا اور جو مالیر کوٹلہ کے شاہی خاندان کی نادر اشیاء میں سے تھا.قانون کے مطابق ہندوستان کے ہر والئے ریاست اور اس کے خاندان کے لوگ ایکٹ اسلحہ سے مستثنی ہیں اور اس لحاظ سے مرزا ناصر احمد کی بیوی بھی نواب مالیر کوٹلہ کی تقریبی عزیزہ ہونے کے باعث قانوناً ایکٹ اسلحہ سے مستشفی ہیں.مگر لاہور کے مارشل لا ء کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیئے کہ جب تلاشی ہوئی تو یہ منجر زمین کی پوزیشن ایکٹ اسلحہ کے مطابق بھی آلو ساگ یا گوشت کاٹنے والی ایک چھری سے زیادہ نہ ہونی چاہیے تھی) بیگم مرزا ناصر احمد کے زیورات میں پڑا تھا جس کو فوجی حکام نے حاصل کر کے مرزا ناصر احد پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا اور آپ کو پانچ سال قید سخت اور پانچ ہزار و یہ جرمانے کی سزا دی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہ گریجویٹ اور لاکھوں احمدیوں کے پیشوا کا بیٹا آج لاہور کے سنٹرل جیل میں بطور قیدی کے اب بان بیٹ رہا ہے.یہ کیفیت تو مرزا ناصر احمد اور آپ کے مقدمہ اور سزا کے متعلق ہے.اب دوسرا واقعہ

Page 271

۲۵۹ سینے.مرزا شریف احمد احمدی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد کے صاحبزا دے اور احمدی جماعت کے موجودہ پیش ہوا کے حقیقی بھائی ہیں.یہ بزرگ جن کی عمر باسٹھ برس کی ہے لاہور میں بندوق سازی کے ایک کارخانہ کے مالک ہیں اور یہ کارخانہ پاکستان گورنمنٹ سے لائسنس حاصل کر کے جاری کیا گیا.چنانچہ اس فرم کو ایک فوج افسر نے نمونہ کے طور پر ایک کہ پچا دی.کیونکہ پاکستان گورنمنٹ اس نمونہ کی کہ میں تیار کرانا چاہتی تھی.اور اس کرپ کے متعلق جو خط وکی آیت محکمہ فوج سے ہوئی وہ مرزا شریف احمد کے پاس موجود ہے.جسے عدالت میں داخل کیا گیا گر مرزا مشریف احمد کو اس کرپ کے ناجائزہ رکھنے کے جرم میں ایک سال قید سخت اور پانچ ہزار ور یہ جرمانے کی سزا دی گئی.مارشل لاء کی فوجی عدالت کا ایسے مقدمات میں پانچ پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دینا تو خیر قابل در گزر ہے کیونکہ پاکستان اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہے اور اس طریقہ سے روپیہ حاصل کرکے یہ ملک اپنے فوجی اخراجات کسی نہ کسی حد تک پورے کر سکتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ اوپر کے دو مقدمات کو اگر کسی انصاف پسند عدالت یا غیر جانبدار ملک کے سامنے پیش کیا جائے تو پاکستان گورنمنٹ کی کیا پوزیشن ہو.اور کیا دنیا کا کوئی معقولیت پسند شخص اس شرمناک دور استبداد کو برداشت کر سکتا ہے اور کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہبی پاگل پن میں پاکستان کے عوام کے علاوہ وہاں کے حکام بھی مبتلا ہیں جو چھری رکھنے کے جرم میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کو پانچ پانچ برس قید سخت کی سزا دے رہے ہیں.اوپر کی سزاؤں کے متعلق ہم نے غور کیا ہے اور غور کرنے کے بعد ہماری رائے ہے کہ یہ سزائیں احمد می جماعت کی بنیا دوں کو زیادہ مضبوط کرنے کا باعث ہوں گی اور احمدیوں کو خدا کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ ان بے گناہوں کو قربانی کا موقعہ نصیب ہوا اور ایسی قربانیاں یقینا احمدیت میں ایک دوامی زندگی پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہیں کیا ہے -- اخبار" ہند و لاتے بعنوان " پاکستان نے گھٹنے ٹیک دیتے " حسب ذیل نوٹ سپر در قلم ه اخبار ریاست و علی مؤرخہ ۱۲۷ اپریل ۱۹۵۳ء مده کالم على

Page 272

کیا کہ : پاکستان میں مذہبی تنگہ لی نے ان احمدیوں کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا جو پاکستان بنانے میں سب سے آگے تھے.اس مذہبی جنون نے بھیانک شکل اختیار کر لی اور بھی پنجاب سے بڑی بھیانک خبریں آرہی ہیں لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان سرکار کو بھی اس جنون کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے.چنانچہ پہلی اپریل کو مارشل لاء افسروں نے لاہور میں احمدیوں کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مارا اور احمدیوں کے خلیفہ کے بھائی شریعت احمد اور بیٹے ناصر احمد کو گرفتار کر لیا.چارہ اور احمدی لیڈر منظفر احمد محمد صالح محمد بشیر اور محمد یحی کو بھی گرفتار کر لیا گیا.احمدیوں کے خلیفہ کے بیٹے کے گھر کی تلاشی لینے پر ایک خنجر نکلا ہے.وہ لاہور کے تعلیم الا سلام کا بچے کے پرنسپل تھے.خنجر ر کھنے کے جرم میں انہیں پانچ برس قید اور پانچ ہزار روپیہ جرمانہ یا جرمانہ ادا نہ کر سکتے پر مزید سات سال قید کی سزا دی گئی.احمدیوں کے اتنے بڑے لیڈر کو ذرا سے جرم کے لیے اتنی کڑی سزا دے کہ غالباً پاکستان سرکار مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو انصاف پسند ثابت کرنا چاہتی ہے لیکن اس سے ایک بات واضح ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کے مذہبی جنوں کے سامنے پاکستان سرکار کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں.احمدیوں کی حالت نجیب ہے.ایک تو وہ لوٹ مار.قتل اور تباہی کا شکا رہنے.دوسرے اب سرکار بھی ذرا ذرا سے بہانے ڈھونڈھ کر انہیں اپنی سخت گیری کا شکار بنانے لگی ہے ہے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب قید وبند میں رضا بالقضا کا ایمان افروز مظاہرہ رضیفہ ایسیح الثالث نے بیان فرمایاکہ: حبب ہمیں 125ء میں ظالمانہ طریق پر کپڑ کرے گئے تھے تو ہمارے پہننے کے لیئے کھدر کے موٹے موٹے کپڑے نے آنے کہ تمہیں سی کلاس دینی ہے دل میں سوچا کہ خدا کے لیے یہ کھدہ کیا کانٹوں کے کپڑے دیں تو وہ بھی پہن لیں گے.مگر ہند و جالندھر اور نئی دہلی ۱۲ / اپریل ۱۹۵۳)

Page 273

۲۹۱ لطف یہ کہ پتہ نہیں وہ کپڑے کس سے اور کہاں سے لائے گئے تھے.چنانچہ ہم نے وہ کپڑے پہنے تو زور سے سانس لینے پر ان کے دھاگے ٹوٹ گئے اور سلائی کھل گئی یوں لگتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی گڑیوں کو پہنانے والے کپڑے ہیں تم نے کہا ہم راضی برضائے الہی ہیں.لے پہلی چشم دید شهادت اس سلسلہ میں دو اور اہم چشم دید شاد میں دریا کی جاتی ہیں.پہلی اور تفصیلی شہادت تکریم محمد بشیر صاحب زیروی کی ہے آپ تحریر فرماتے ہیں کہ : جس دن میری گرفتاری ہوئی اسی دن حضور انور اور حضرت میاں شریف احمد صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی جس کے بعد چند دن ہم نے اکٹھے سنٹرل جیل میں گزارے اور بفضلہ تعالیٰ ان پر استوب دنوں کا ایک ایک لمحہ رجو آپ کے ساتھ گزرا) میرے لیے ہمیشہ ہی انہ دیا دائمیان کا باعث ہوا آج کی صحبت میں اپنی یادوں کا دہرانا مقصود ہے.جس دن جماعت کے بعض اکابر کے گھروں کی تلاشیاں اور گرفتاریاں ہوئیں.اسی دن بھائی جان ناقت اس زیدی کے گھر اور دفتر کی بھی تلاشی ہوئی.ان میں اس عاجبتہ کے علاوہ حضور پر نور اور حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب بھی تھے.جب ہمیں میڈیکل ہوسٹل کے نیلا گنبد کے بڑے گیٹ پر کھلے کیم پسے لیکر جیل بھیجنے کے لیے کٹھا کیا گیا تو وہاں اس عاجز کی ملاقات حضرت میاں صاحبان سے ہوئی.دیکھتے ہی زمین پیروں تلے سے نکل گئی اور ذہن پر بوجھ اور بڑھ گیا اور رت ہے.لیکن جلد اپنا سارا دکھ بھول کر سارا ذہن اس طرف منتقل ہو گیا کہ حکام کی یہ کتنی بڑی جسارت ہے.ہی دل نے یہ کہ کر حوصلہ بڑھایا.کہ ان کا آنا ہم سب کے لیے بابرکت ثابت ہوگا کیونکہ ہم بھی اب اس زمرے میں شامل ہوں گے جن کے لیے اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل نازل ہوں گے.نیز اگر جیل میں ایک ہی جگہ ہوئے تو آپ کی مقبول دعاؤں سے حصہ پائیں گے اور ان کے طفیل اس مصیبت سے جلد چھٹکارا حاصل ہو گا.رفتہ رفتہ یہ احساس پختہ ہو گیا کہ آپ کی گر فتار می تجاری رستگاری کا باعث له الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۷۳ : صفحه نمبر ۳

Page 274

۲۹۲ بنے گی لیکن اس کے باوجود بے چینی تھی کہ ہر لمحہ بڑھ رہی تھی.وہاں سے ہمیں ایک ڈک میں بٹھا کر جیل کی طرف لے گئے.حضرت میاں ناصر احمد صاحب نے لڑک میں بیٹھتے ہی بلند آوازہ میں قرآنی دعا لا إلهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ اتظیمین کاکا درد شروع کر دیا.جبس سے دلوں میں سکینت و اطمینان کی لہر دوڑنا شروع ہوگئی.عمر کے لحاظ سے حضرت میاں شریف احمد صاحب ہم سب میں بڑے تھے اور صحت کے لحاظ سے بھی کمز ور دیگر حوصلہ کے اعتبار سے از ما مضبوط او مستحکم کہ جب ہمارے چہروں کو پریشان یا ہیں اضطراب سے دعائیں کرتے دیکھتے تو فوراً ہماری دلی گھبراہٹ کو بھانپ جاتے اور حضرت میاں ناصر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب سے فرماتے یہ بچے تو مجھے دل چھورتے معلوم ہوتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں.چنانچہ حضرت میاں صاحب ہمیں اپنے مخصوص انداز میں ہر آنے والے وقت کے لیے تیار کرتے رہتے.مجھے ان کی یہ ادا کبھی نہیں بھولے گی کہ جب ہم میں سے ایک نوجوان نے اپنے بیان میں کسی قدر جھوٹ ملایا تو حضرت میاں شریف احمد صاحب بیاب ہو گئے.اس کے بعد آپ بار بار فرماتے کہ اب یہ سزا سے نہیں بچ سکتا.اس نے اپنا ثواب بھی ضائع کر لیا.اور پھر ہم میں سے ایک ایک سے مل کہ فرماتے، بیٹا ہم خدا کی خاطر یہاں آتے ہیں.یہ ہمارے ایمانوں کی آزمائش ہے.اگر ہم آزمائش میں پورے نہ اترے تو ہم جیسا بد نصیب کوئی نہ ہو گا.اور اگر اس نمائش میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے اگر ہم نے جھوٹ بولا تو اس کی نصرت سے محروم ہو جائیں گے خواہ کتنی بڑی سزا مل جائے مگر پیسے کا دامن کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑنا.اللہ اللہ کیسی صداقت شعار تھیں یہ ہستیاں کہ جہان بڑے بڑے جبتہ پوش اور دیندار سمجھے جانے والے لوگ بڑے بڑے جھوٹے گھڑتے ہیں اور حیلوں بہانوں کا ایک طومار باندھ کر اپنے جرم پر پر وہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں بھی یہ ہمیں ہر حالت میں اور ہر قیمت پر سچ بولنے کی تلقین فرماتی تھیں.آپ نے ہمیں اس تکرار سے اس بات کی تلقین کی کہ بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا جیسے آپ کو اس معاملہ میں کچھ درہم سا ہو گیا ہے.ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ حضرت میاں صاحب ! آپ میری طرف سے بالکل مطمئن ہیں کیونکہ میر اکیس ہی ایسا ہے کہ بغیر بیج بوئے میرا گزارہ ہی نہیں اور دوسرے مجھے جھوٹ بولنا آتا ہی نہیں.آپ اطمینان رکھیں ہیں انشاء اللہ ہر حال میں پہنچ ہی بولوں گا.

Page 275

۲۹۳ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نفرت تو اسی لمحہ میں ہمارے ساتھ ہو گئی تھی جب مارشل لاء حکام کے ذہن میں خیال بھی گزرا ہو گا کہ اب گرفتاریوں میں توازن قائم رکھنے کے لیے جماعت احمدیہ کے افراد کو بھی پکڑا جائے.بلکہ یہ جسارت بھی کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ہاتھ ڈالا جائے ہمارے گھر سے مارشل لاء والے در اصل بھائی جان رثاقب زیر دی) کو گر فتار کرنے کے لیے آئے تھے مگر قدرت نے مجھ سے ایک ایسی غلطی کروائی جس سے ان کی ساری توجہ میری طرف منتقل ہو گئی اور مجھے گرفتار کر لیا گیا اور باوجود ارادے اور پروگرام کے بھائی جان رثاقب زیر وی پر ہاتھ نہ ڈال سکے.اس کے بعد مجھے ڈک میں بٹھا کر میڈیکل ہوسٹل نیلا گنبد کے کیمپ میں لایا گیا وہاں ایک اور احمد می نوجوان مکرم محمد یکی صاحب رجو غالباً حکیم محمد حسین صاحب مرہم بھلے والے) کے خاندان سے تھے.سے طاقت ہوئی.ہم دونوں نے مل کر ظہر کی نمازہ باجماعت ادا کی اور خوب گریہ وزاری سے دعا کی توفیق علی جیس سے ذہنی بوجود قدیر سے ہلکا ہوا.عصر کے بعد ہمیں باہر لایا گیا.توان دو مقدس ہستیوں کی زیارت ہوئی تو انہیں دیکھ کر لوں کو ایک گونہ تسلی ہوئی کہ ہم اکیلے نہیں ہیں ہمارے ریسندگا ر بھی ہمارے ساتھ ہی ہیں.جیل کے سامنے گاڑی سے اترتے ہی میرے شہر کے ایک دوست میرے سامنے تھے جن کے ذریعہ بھائی جان کو فوری طور پر یہ اطلاع مل گئی.کہ ہم کہاں ہیں اور کرفیو کے باوجود انہوں نے فورا ہی وہ اطلاع حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کو پہنچا دی جیل میں ہمیں ایسی کو مٹھڑیوں میں بند کیا گیا جن کے سامنے والی کو بھڑیوں میں ایسے پابجولاں قیدی بند تھے جن کو عدالتوں کی طرف سے " سزائے موت سنائی جا چکی تھی اور اب وہ اپنی اپیلوں کے فیصلوں کے انتظار میں تھے.لہذا وہ ساری رات وقفہ وقف سے مختلف قسم کے دعائیہ نعروں میں گزارتے اور اس طرح ہمیں بھی دُعا کی طرف متوجہ کرتے رہتے.پہلی رات نہایت ہی کرب میں گزری صبح ہوئی ہمیں ان کو پٹھڑیوں سے باہر نکالا گیا ہم ضروری حاجات سے فارغ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہوئے.اور باہر اپنے کمبل بچھا کر بیٹھ گئے حضرت میاں ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے میری اُداسی دیکھ کر فرمایا سورۃ ملک یاد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور یا د ہے فرمایا سنا و چنانچہ اس عاجز نے سُنائی.پھر فرمایا کوئی خواب

Page 276

۲۶۴ آئی ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور آئی ہے.یہ فرمایا سناؤ " چنانچہ میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے دیکھا ہے.در کہ ہمارے لیے ایک ریلوے لائن تیار ہوئی ہے جس کے بائیں پہلو سے ایک چھوٹی سی لائن تیار ہوئی ہے جیسے کہ ڈالی وغیرہ کے لیے ہوتی ہے وہ صرف میرے لیے ہے.اس کے آگے جو بین لائن ہے.اس کے ساتھ کچھ لوگ پچھلا ہوا مزید لوہا دائیں جانب چمٹا رہے ہیں کیکا یہ سنتے ہی آپ نے فرمایا کہ آپ تو انیٹر یشن (Interrogation) میں رہا ہو جائیں گے مگر اس سے آگے آپ خاموش ہو گئے.اس طرح جیسے کہ کچھ حصہ تعبیر کا ان کے ذہن میں اپنے متعلق ہو جس کو آپ بیان نہیں فرمانا چاہتے.یہ محسوس کر کے میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کے لیے بھی تو اس میں رہائی کی خوشخبری ہے کیونکہ ریو سے لائن منزل مقصود کی طرف لے جاتی ہے اور ہماری منزل اس وقت رہائی ہی ہے.فرمایا دوست ہے مگر آپ نے پھر بھی آگئے تعبیر بیان نہیں فرمائی.اصل میں میرے ذہن سے خواب میں لائن کے ساتھ جو مزید لوٹا لگایا جا رہا تھا اس کی تعبیر او جھیل تھی.جو سزا کی طرف اشارہ تھا.یعنی باقیوں کو سزا تو ہو گی مگر وہ بھی جلد رہا ہو جائیں گے اور پوری منزا نہیں گزاریں گے.اتنے میں ناشتے کا وقت ہوگیا چنانچہ جیل سے ہمارا ناشتہ آگیا جو کا نے اُبلے ہوئے چنوں ریالوں سے بھی زیادہ سیاہ کا تھا.میں نے ان بہنوں کی طرف کچھ نہ کچھی سی نگاہوں دیکھا کہ کیا اب ہمیں یہ کھانے ہوں گے.حضرت میاں صاحب فور میرے چہرے کے تاثرات ہی سے میرے دل کی کیفیت اور میرا تر دو بھانپ گئے اور فوراً ان کو چادر پرہاتھ سے بھیرنے کے بعد انہیں خود مزے لے لے کر کھانا شروع کر دیا.آپ کھاتے بھی جاتے تھے.اور فرماتے بھی جاتے تھے یہ بشیر صاحب! دیکھئے یہ تو بے حد لذیذ ہیں.اللہ اللہ ! آپ نے ہمیں کسی کسی طرح تکلیف کے ان دنوں کو حوصلہ اور بشاشت سے گزارنے کے بعد آداب سکھائے ان کا ہا تھ دستر خوان کی طرف بڑھ جانے کے بعد بھلا کس کی مجال متقی جو نہ کھائے چنانچہ میں نے بھی کھانا مشروع کر دیا.اپنے اس عمل سے گویا آپ نے بڑے لطیعت اندازہ میں مجھے یہ بات ذہن نشین کرا دی کہ ہم جیل میں میں اور پھر مارشل لاء کی جیل میں.گھر یہ نہیں ہیں.

Page 277

۲۶۵ اس لیے ہمیں بشاشت کے ساتھ حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھل جانا چاہیئے غالباً اسی دن کو دوپہر سے حضرت اقدس کے گھر سے کھانا شروع ہو گیا.جو اس قدیر ہوتا تھا ، کہ ہم سب سیر ہو کہ کھا لیتے تھے.تو پھر بھی پہنچ جاتا تھا گویا کہ جیل میں بھی ہم لوگ حضرت مسیح موعود کے لنگر سے ہی کھاتے تھے ).یہاں بھی ہماری دلجوئی مد نظر یہ ہی کھا نام تا تو آپ سارا کھانا میرے مہرد فرما دیتے اور فرماتے " ساقی صاحب سے تقسیم کریں اور خود میرے گھر سے آیا ہوا کھانا لے بیٹھتے کہ میں تو یہ کھاؤں گا ، جو نہایت ہی سادہ سا ہوتا تھا اور جس میں بعض اوقات صرف ڈبل روٹی کے چند ٹکڑے ہوتے میرے اصرار کے باوجود میرا وہ سادہ سا کھانا حضور خود تناول فرماتے اور ر تن باغ سے آیا ہوا کھانا ہم کھاتے الحمد للہ چنوں کے اس ناشتے کے بعد جیل سے ہم نے کچھ نہیں سایاری ممکن ہے کہ قارئین کے لیے یہ باتیں معمولی ہوں مگر مجھے نا چیز وحسّاس کے لیے جیل میں یہ اتنی بڑی تھی کہ میرے قلب و روح اس پر آج بھی اس روح پرفتوح کی عظمتوں کو دھراتے رہتے ہیں.یہ وقت تھا جب ہر شخص رب نفسی رت نفسی با کے عالم میں تھا.مگر حضور پر نور ہمارے لیے شفقتوں کا پہاڑ بن گئے.اللہ تعالیٰ حضور کے درجات میں بیش بہا اضافہ فرمائے اور علی علیین میں اپنے قرب میں جگہ دے اور کروٹ کروٹ راحتیں نصیب کرے.حضور پر نور اور حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب جب تک ہمارے پاس رہے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں اداس اور غمگین نہیں ہونے دیا اور ہمیں واقعات سنا سنا کہ ہمارے حوصلے بلند فرماتے کہ ہے گویا جیل میں بھی ہر روز مجلس علم د عرفان جمتی رہی.ایک دن مجھے پریشان سا دیکھ کہ نہایت ہی بے تکلفی سے فرمانے لگے بشر ! تمہیں پانچ سال قید ہو گی یہ سن کر بہن نے بھی اُسی بے تکلفی سے عرض کیا کہ میاں صاحب! آپ خدا کے فضل سے خود بھی بزرگ ہیں پھر بزرگوں کی اور نا ر بھی ہیں.میرے حق میں اس پاکیزہ منہ سے تو کلمہ خیر ارشاد فرمائیں فرمانے لگے میرا مطلب ہے Think Worst" جھیل میں میں نے آپ کو ایک لمحہ کے لیے بھی پریشان نہیں پایا.بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا.کہ

Page 278

744 جیل میں اس مرد سجران کی صحت روز برور بہتر ہو رہی ہے.میں نے ایک دن عرضن کیا کہ چونکہ میری گرفتاری اچانک اور بالکل غیر متوقع تھی اور میرے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا کہ کبھی میں بھی گرفتارہ ہو جاؤں گا اس لیے پہلے پہل میں بہت پریشان ہو گیا.اور میری بھوک پیاس بالکل ختم ہوگئی.لہذا ناشتہ بھی نہ کر پایا.مارشل لاء حکام نے گو کھانا دیا بھی مگر ما سوائے کپ چائے کے میں کچھ نہ کھا سکا.یہ سن کر حضور نے فرمایا.جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میں نے پہلے نہایت ہی اطمینان سے غسل کیا پھر سیر ہو کر ناشتہ کیا کیونکہ ایسے وقتوں میں مجھے خوب بھوک لگتی ہے.اس کے بعد کپڑے تبدیل کیے نیز فرمایا خدا کے فضل سے میرے جو ہر بحران میں کھلتے ہیں.اور میری اندرونی طاقتیں نمایاں ہونا شروع ہو جاتی ہیں ہر وقت خوش رہتے اور ہمیں خوش رکھنے کی کوشش فرماتے اور ہمارے ذہنوں میں یہ احساس پیدا کرتے رہتے کہ یہ آزمائش اللہ تعالی کی طرف سے ہے.اس میں کامیابی کے بعد ہم پہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کی بے شمارہ بارشیں ہوں گی.لہذا ہمیں استقلال کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ ان لمحات کو مسکراتے ہوئے گزارنا چاہیے.اللہ اللہ کیا ہی پاکیزہ اور پیارا دل تھا.جو ہر وقت سلسلہ پر ہر طرح قربان ہونے کے لیے مستعد رہتا تھا.ایسا بھی نہیں کہ حضور پر نور جیل میں دعائیں نہیں کرتے تھے.دعائیں کرتے تھے.دعائیں تو وہ ہر سانس کرتے تھے مگر اس طرح کہ ان کی کسی حرکت سے یہ ظاہر نہ ہو کہ ان پر کسی قسم کی گھبراہٹ ہے دراصل آپ کے اپنے رب سے راز و نیانہ تنہائی میں ہوتے تھے.میں نے بھی اسی غلط فہمی میں ایک دن آپ کو کرب سے دعا کی طرف راغب کرنے کے لیے عرض کیا حضور اگر اجازت دیں تو یہ عاجز آپ کو دریائے فرمایا ہاں ہاں چنانچہ میں نے دبانا شروع کیا پھر میں نے عرض کیا کہ حضور کچھ سناؤں بھی فرمایا ضرورت نا ہی چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ دعائیہ اشعار جو مجھے یاد تھے سنانے شروع کیے.میں اشعار سناتا رہا.اور حضور بڑے انہماک سے سنتے رہے اور ان کا اثہ اپنے دل و دماغ پر لیتے رہے اور ساتھ ساتھ دعائیں بھی فرماتے رہے.زیادر ہے اس وقت ہمارے سوا ہمارے پاس اور کوئی نہ تھا جب میں استعارہ پڑھتے پڑھتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر پر پہنچا ہے

Page 279

۲۷ میرے زخموں پر لگا مرحم کہ میں یہ بجو نہ ہوں میری فریام دن کوشن بیکن ہوگیا زار و نترا تو آپ کی کیفیت کچھ اور ہی ہو گئی اور میں چپکے سے باہر چلا گیا اور حضور دیر تک اپنے رب سے راز و نیاز فرماتے رہے اور یہی میرا مقصد تھا.اور اپنی دعاؤں ہی کے طفیل ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مدارت بن گئے جمعہ کا دن تھا اس دن میری انٹروگیشن (internation مخفی اور حضرت میاں صاحبان کی ڈایل تھی.اس عاجز کی پردہ پوشی کے لیے اللہ تعالٰی نے یہ سامان فرمایا کہ اسی کا نہ میں میں میں آپ کو سنٹرل جیل سے بوسٹل جیل میں لایا گیا.اس عاجہ کو بھی لایا گیا.راستے میں حضور ہدایات دیتے رہے.کہ کسی سے بھی فضول باتیں نہیں کرنی بلکہ کوشش کریں کہ کسی سے کوئی بات ہی نہ ہو.نیند استغفار پر زور دیں.گویا اپنے سے زیادہ میری فکر تھی.* بوشل جیل پہنچے تو بھائی جان رثاقب نزیز ) پہلے ہی پہنچ چکے تھے دن رات کی دوڑ دھوپ نے ان کی صحت پر بھی بہت برا اثر ڈالا تھا.ویسے لا ہور کی بندش کے باعث بھی کچھ کبیدہ خاطر تھے مگر خدا کے فضل سے حوصلہ بہت بلند تھا اور اپنے رب کے فضلوں پر یقین محکم چنانچہ دیر تک میرا بھی حوصلہ بڑھاتے رہے اور فرمایا با لکل فکر نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب ٹھیک ہوگا.نیز نصیحت کی کہ اگر کوئی سوال کرے تو Orthodox) ہو.اس کا جواب نہ دینا ممکن ہے کوئی ماہر نفسیات آج تم پر سوال کرے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.تھوڑی دیر کے بعد ایک تھانیدار صاحب میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے کہنے لگے کہ بھائی آپ کیوں گرفتار ہوئے ؟ میں نے عرض کیا کہ بس گرفتار کر لیا گیا.اور کیوں ہوئے یہ تو آپ لوگ بہتر سمجھتے ہیں.کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے پاس ایک تحریہ تھی جسے تم نے پچھاڑ کر کھا لیا.چونکہ اس میں جھوٹ کی ملاوٹ تھی میں نے فوراً اسے اصل واقعہ بیان کرکے عرض کیا کہ یہ اصل بات ہے نگر باقی آپ نے اپنی طرف سے ملایا ہے.آپ لوگ کیوں اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر لوگوں کو سزائیں دلواتے ہیں.اگر مجھے مزا ہو گئی تو آپ کو کیاٹے گا ، کچھ تو خدا کا خوف کہ و.کہنے ے ہفت روزہ لاہور

Page 280

لگے اگر آپ سے زیادتی ہوئی ہے تو وہ مارشل لاء کی طرف سے ہے.پولیس کی طرف سے نہیں چنانچہ بعد میں معلوم ہوا کہ میری رہائی میں ان کی رپورٹ کا بھی دخل منتھا.بریگیڈ پیرمرزا ، انٹروگیشن (Interogation) پر مامور تھے وہ نہایت شریف انسان تھے.انہوں نے مجھ سے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد مشورے کے طور پر کہا کہ اگر آپ کا ٹرائل ہو تو وہاں یہ کہتا کہ میں نے یہ مضمون ایک اور مضمون لکھنے کے لیے نقل کیا تھا غالبا وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میں واقعات سے ہٹ کر بھی کچھ کہ سکتا ہوں کہ نہیں ، میں نے یہ عرض کیا کہ نہیں جناب ! یہ بات واقعات کے خلاف ہے.اصل بات اتنی ہی ہے.جو میں نے آپ سے پہلے عرض کر دی ہے کہ میں نے یہ مضمون اس لیے نقل کیا تھا کہ میرا ارادہ تھا کہ اسے الفضل کو بعینہ بھیج دوں گا کیونکہ اسی قسم کی ایک قسط پہلے بھی الفضل میں شائع ہو چکی تھی.مگر میں نے اسے نقل تو کر لیا مگر الفضل کو بھیج نہ سکا اور اسی طرح پچھلے چھ ماہ سے میرے پاس پڑا تھا.بار بار انہوں نے مختلف پیراؤں میں چکر دے کر اصل واقعہ کے خلاف مجھ سے کہلوانے کی کوشش کی مگر میں نے وہی کہا جو اصل بات متقی اور پیچ کا دامن نہ چھوڑا.بعد میں معلوم ہوا کہ بریگیڈ سیر صاحب نے نہ صرف اس عاجز کی سفارش کر دی بلکہ اس انسپکٹر پولیس کو جو مجھے گرفتارہ کر کے لایا تھا بھائی جان کے سامنے ہی بہت سخت سست کہا بلکہ بہت بے عزباتی کی.میرے اس کیس کی تفصیلات تو اور بھی ہیں مگر یہاں چونکہ مقصود اپنے کیس کی تفصیلات بیان کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد حضرت میاں صاحبان کی زندگی کے ان پہلوؤں کے ذکر خیر سے روحوں کو سیراب کرنا ہے.جن کو میں نے جیل میں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور جن کا لیکن عینی شاہد ہوں اس لیے یکیں ، اپنے کیس کی مزید تفصیلات یہیں چھوڑتا ہوں.اس عاجزیہ کو حضرت میاں صاحبان کی معیت میں بہتر گھنٹے سے زیادہ ہی رہنے کا موقع ملا اور میں نے آپ کو بہت قریب سے خوب خوب ہی دیکھا ہر لمحہ اور ہر آن اُن کی رفاقت ہمارے ایمانوں میں اضافہ کا باعث بنی رہی.اور آج تک میرے دل و دماغ پیر کا لنقش فی الحجر ہے اس کے بعد آپ بی (B) کلاس میں چلے گئے.جس سے ہم خوش تو تھے کیونکہ آپ کا سی (c) کلاس میں ہونا ویسے بھی آپ کے مقام و منصب کے منافی تھا.لیکن ہم آپ کی رفاقت حسنہ

Page 281

۲۶۹ سے محروم ہو گئے جس کے باعث ہم مسلول بھی تھے.مگر اب ہمارے حوصلے اتنے بلند تھے کہ ہمارے لیے جو کچھ بھی ہونے والا متاہم اس کے لیے انشراح صدر سے پوری طرح تیار تھے.یہ بات کیسے نہیں معلوم کہ جب کسی پر کیس بن جائے تو خواہ پیر ہو یا فقیر، سیاست دان ہو یا عالم دین کوئی کاروباری انسان ہو یا ملازم وکیل صاحبان ان کو جیسے جیسے بیان پڑھاتے اور سکھاتے ہیں.ساتھ کے ساتھ دیسی ہی تبدیلیاں اُن کے بیانوں میں ہوتی چلی جاتی ہیں.کیونکہ ان کی عرض تو صرف سزا سے بچنا ہوتا ہے.خواہ اس سے بچنے کے لیے کتنا ہی جھوٹ بولنا پڑے.مگر ہمارے کیس تو مارشل لاء کے کیس تھے.اور پھیر ۱۹۵۲ء کے مارشل لاء کے جس میں سزا ایسی دی جاتی تھی کہ سننے والوں کے سن کر ہی دل دہل جاتے تھے.ایسے وقت میں ہمیں ان دنوں بزرگوں کی طرف سے ہمیشہ یہ تلقین کی جاتی کہ صرف سچ ہی بولنا ہے.خواہ کتنی بھی سزا کیوں نہ ہو جائے.یہ صرف اللہ تعالیٰ کے ایسے برگزیدہ بندوں ہی کا شیوہ ہوتا ہے.جن کی نگا ہوں میں اپنے اب کی رضا کے حصول کے سوا کوئی شے نہ ہو.یہ خدا کا فضل ہے کہ آپ کے ارشادات کے مطابق اس عاجز کو سچ ہی بولنے کی توفیق ملی.اور جھوٹ بولنے والوں کا منہ سیاہ ہوا.یہ عاجز تین دن کے بعد ہی رہا ہو گیا اور حضرت میاں صاحبان کو سزائیں سنا دی گیئیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی دن خواب میں ظاہر فرما دیا تھا.عین اسی کے مطابق یہ عاجز تو اینٹروگیشن interogationi) میں رہائی پا گیا اور حضرت میاں صاحبان چند ماہ بعد رہا ہو گئے.میں نے ان تین دنوں میں ان پاک وجودوں سے یہ سیکھا کہ کس طرح استقلال کے ساتھ مصائب کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور پھر یہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالے احق کی حمایت کرتا ہے یہ دن جماعت کے ہر ایک فرد کے لیے بے حد آزمائش کے دن تھے سر دل بے چین اور سر آنکھ خدا کے حضور گریاں تھی، مگر مومن کسی طرح ان آنہ مائشوں سے گزرتے ہیں.اس کا صحیح نموندان دو پاک وجودوں میں ہم نے پایا.ان دونوں وجودوں نے ایسے ایسے طریقوں سے سچ کی تلقین فرمائی کہ ہمیں سچ مچ ایک مضبوط اور مستحکم چٹان بنا دیا اے ت خالد ربوه اسید نا ناصر نمبر ص ۲۲۵ تا صد ۲۵

Page 282

کریم ملک عبد الرب صاحب (ابن حضرت ملک غلام نبی صاحب) ساکن دوسری شہادت را با قیمت عزب ربوہ کا تحریری بیان ہے کہ یہ ۱۹۵۳ء میں جبکہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ) اور حضرت مرز ا شریف احد صاحب کو قید کیا گیا.میں اُس وقت مجھ جھیل (بلوچستان) میں تھا.ازاں بعد مجھے سنٹرل جیل لاہور میں منتقل کیا گیا.چند دنوں کے بعد مجھے راشن کا منشی بنا دیا گیا.میرے ہمراہ دو غیر احمدی نے جن کی ڈیوٹی جھیل میں مولانا اختر علی خاں صاحب کے ساتھ تھی.انہوں نے ایک روز مجھے بتایا کہ حضرت صاحب رحضرت خلیفة المسیح الثانی کے بیٹے اور بھائی بھی یہاں قید ہیں تو میں دوڑتا ہوا احضور کی کو مھری کی طرت گیا چونکہ میں منشی تھا اس لیے مجھے آنے جانے میں کوئی کہ دک نہ تھی.مجھے جیل میں میں چاہتا تھا کہ مجھے لاہور جیل منتقل نہ کیا جائے مگر یہ خدائی تصرف تھا کہ مجھے اُن دنوں لاہور سنٹرل جیل میں لے جایا گیا جبکہ حضورا در میاں شریف احمد صاحب بھی وہاں تھے.اس طرح خدا نے حضور سے ذاتی تعلق کا ایک موقعہ پیدا کر دیا.آپ کا کمرہ بہت چھوٹا سا تھا.میں روزانہ ملاقات کے لیے جاتا.اپنے کام سے فارغ ہو کہ میں حضور کے پاس جا کر بیٹھارہ بہتا.حضور اور حضرت مرزا مشریف احمد صاحب کے چہرے پر کرب، گھیرا ہٹ یا بے چینی کا کسی قسم کا تاثرمیں نے نہیں دیکھا.ہر وقت حضور کا چہرہ مہشاش بشاش رہتا تھا.حضور زیادہ تر اپنے کمرہ میں ہی رہتے یا کبھی کبھار کو مٹھڑی سے باہر چھوٹے سے صحن میں ہوتے.کئی مرتبہ جب حضرت مرزدہ الشریف احمد صاحب کو دبانا چاہا.میاں صاحب حضور کی طرف اشارہ کر کے فرماتے کہ میری بجائے میاں صاحب کو دباؤ“ اس وقت تو اس اشارہ کا مطلب پتہ نہ چلا مگر ۱۲ سال بعد جبکہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب مسند خلافت پر متمکن ہوئے حضرت مرزه الشریف احمد صاحب کی خدا داد بصیرت کا پتہ چلا.چنانچہ اس طرح قریباً روزانہ ہی حصورہ کو دبانے کا موقعہ ملتا.حضور اکثر اپنے راشن کا کچھ حصہ جو بسکٹ اور گھی وغیرہ پیش تمل ہوتا خاکسار کو مرحمت کے تاریخ وفات یکم جنوری ۶۱۹۸۰

Page 283

فرما دیتے.حضور کی رہائی کے چند دن بعد ہم بھی رہا کر دیئے گئے حضورہ اس وقت رتن باغ میں تھے حضور کو اطلاع ہوئی تو حضور نوراً تشریف لے آئے.حضور کے ہاتھوں پر راکھ تھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ حضور خود برتن دھوتے دھوتے تشریف لے آئے ہیں.حضور نے خود ہی پانی وغیرہ بنا کہ ہمیں پلایا کیونکہ حضرت بیگم صاحبہ ہسپتال میں بیمار تھیں.جیل کے دنوں کی رفاقت کی وجہ سے حضور نے قبل از خلافت اور بعد از خلافت حبس شفقت اور محبت کا سلوک مجھ سے فرمایا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی.مجھے اتنا پیار میرے والدین نے بھی شاید نہ دیا ہو.چنا نچہ جب بھی حضور سے ملا تو حضور نے اپنے رفقاء سے میرا تعارف" جیل کے ساتھی" کے نام سے کہ دایا.جب حضور سے ملنا ہوتا اکثر بغیر نام لکھوائے حضور سے ملا اور یونی حضور کو میری آمد کی اطلاع ہوئی محضور نے فوراً مجھے شرت ملاقات بخشا.اسی طرح حضور نے سہ میں میری شادی کے موقعہ پر میری برات میں بھی شرکت فرمائی اور از راه شفقت دعوت ولیمہ میں بھی شرکت فرمائی.یہ اسی خاص تعلق اور شفقت کا بھی نتیجہ تھا کہ جب میری دوسری بچی پید ا ہوئی اور میں نام کھانے کے لیے حاضر ہوا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ دوسری بھی بچی پیدا ہوئی ہے.اب لڑکے کے لیے دعا کریں ؟ائیں نے عرض کیا کہ ضرور چنانچہ حضور نے دعا فرمائی اور دسمبر سالہ کو الله کے فضل اور حضور کی خاص دعاؤں کے نتیجہ میں بچہ پیدا ہوا جس کا نام حضور نے اند راہ کرم ملک عبد القیوم" رکھا.حضور کی عنایات اور محبت کا کہاں تک ذکروں کہ سفینہ چاہیئے اس بحر بیکراں کے لیے.والسلام ملک عبدالرب ۱۰ اکتوبر ۶۱۹۸۰

Page 284

ملک محمد عبد اللہ صاحب مولوی فاضل ان دنوں نظارات یک محمد عبداللہ صاحب کی نظر بندی | تالیف و تصنیف کے مصنف کے فرائض انجام دے رہے تھے حضرت مصلح موعود نے صوبہ پنجاب کے حالات کی اطلاع حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب تک پہنچانے کا کام آپ کے سپرد فرمایا ہوا تھا کہ اسی دوران آپ کو بھی گرفتار کر لیا گیا.آپ ڈیڑھ ماہ تک پہلے پندرہ دن جھنگ میں اور بعد انساں لاہور میں نظر بندر لکھے گئے.چنانچہ ملک صاحب موصوف تحریر فرماتے ہیں محترم مکرم حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا قیام کراچی میں تھا.پنجاب میں جو حالات جماعت کے خلاف پیدا کیے جارہے تھے اور جو کارروائیاں کی جاتی تھیں ان کی اطلاع جناب چوہدری صاحب کراچی دینے کے لیے خاکسار کو تجویز کیا گیا.چنانچہ مارچ کی ۹٫۸ تاریخ کو حضرت مصلح موعود نے شام کے وقت اس عاجز کو قصر خلافت میں بلایا.وہاں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی موجود تھے.انہوں نے فرمایا کہ صبح تم نے کراچی جانا ہے اور کچھ مزوری خطوط وہاں پہنچاتے ہیں.اس کے لیے ایک بڑی جیبوں والی صدری تیار کروائیں اور صبح پیناسب ایکسپریس سے پہلے یہاں پر آجائیں.چنانچہ میں نے رات ہی کو ایک صدری تیارہ کر والی اور صبح حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.میں نے کاغذات صدری کی بڑی جیب میں ڈالے اور پہلی مرتبہ حضور نے خود اپنے دست مبارک سے اس جیب پر بکسوا لگا کر اسے بند کیا اور دعا کے بعد اس عاجز کو رخصت کیا.میں نے وقفہ وقفہ کے بعد چار دفعہ کراچی کا سفر کیا.وقت صرف دو تین دن کا ہوتا تھا.کراچی سے دوسرے دن ہی واپسی ہو جاتی تھی جب میں تیسری دفعہ کراچی جانے لگا تو حضور مصلح موعود نے فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ پنجاب پولیس آپ کا تعاقب کر رہی ہے.اس لیے دو آدمیوں کو میرے ساتھ سفر میں ملتان چھاؤنی تک کر دیا.ایک چوہدری فیرا نہ دین صاحب جو اب انسپکٹر تحریک جدید ہیں اور دوسرے چوہدری نصیر احمد صاحب.یہ بھی اس وقت تحریک جدید کے کارکن تھے.دو Safty Pin

Page 285

آدمیوں کے ساتھ کرنے کے متعلق حضور نے فرمایا کہ اگر راستہ میں کسی جگہ گر فتاری ہو جائے تو ایک آدمی میرے پیچھے جائے گا کہ پولیس آپ کو کہاں لے جاتی ہے اور دوسرا آدمی واپس آکہ مرکز میں اطلاع دے گا.اس کے بعد جب میں چوتھے سفر سے کراچی سے واپس آیا ان ایام میں میری رہائش کوارٹونز صدر انجمن احمدیہ میں تھی.میں مغرب کی نماز بہت مبارک میں ادا کر کے آرہا تھا کہ ایک شخص نے بتلا یا کہ آپ کے کوارٹر پر چار سپاہی اور ایک پولیس آفیسر کھڑے ہیں.یہ وسط اپریل کی بات ہے.صحیح تاریخ اب یاد نہیں رہی.پولیس آفیسر کا نام شیخ ابرار احمد تھا.انہوں نے مجھے بتلایا کہ آپ کی نظر بندی کے احکام ہیں.رات کوارٹر ہی میں قیام کیا اور صبح یہ مجھے لاہور لے گئے شیخ صاحب بہت شریف پولیس افسر تھے.سفر کے دوران میری ضرورت کا بہت خیال رکھتے رہے.لاہور میں ایک بہترین ہوٹل میں کھانا کھلایا.لاہور میں سیکرٹریٹ میں وہ مجھے برآمدہ میں چھوڑ کر خود اپنے بڑے افسر ہوم سیکریڑی سے ملنے گئے.میں دردانہہ کے قریب ہی کھڑا تھا.ایک افسر نے انہیں کہا کہ آپ نظر بند کو بغیر کسی نگرانی کے ہی چھوڑ آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں ان کا ذمہ دار ہوں.یہ بہت شریف لوگ اور قانون کے پابند ہیں.اور یہ نظر بند ہیں قیدی تو نہیں ہیں.ہوم سیکریٹری صاحب نے مجھے بی کلاس دینے کا فیصلہ کیا اور لاہور سے مجھے جھنگ میں لایا گیا.پندرہ دن میں جھنگ میں رہا.تھانے ہی میں ایک کو مٹھری میں مجھے رکھا گیا.صبح شام صحن میں پھرنے کی اجازت مفتی.کھانے کا انتظام جماعت بھنگ نے کیا.اس کے بعد جھنگ سے مجھے لاہور لے جایا گیا اور وہاں پانچ ون میں سنٹرل جیل میں رہا.یہاں ایک مبند و نظر بند تھے.بخشی صاحب انہیں کہتے تھے.بڑے زندہ دل اور ادب نوازنہ آدمی تھے.جیل کے حکام ان کا بہت خیال رکھتے تھے.معلوم ہوا کہ وہ بڑے اچھے خاندان سے ہیں اور پنڈت ہر رنگ کے پیغام ان کے لیے آتے ہیں.واللہ اعلم بالصواب.اسی جیل کے ایک حصہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب تھے...جیل میں ہمارا رابطہ کھانا لانے والے قیدیوں کے ذریعہ قائم تھا لیکن

Page 286

پانچ دن کے بعد مجھے یہاں سے پوسٹل جیل میں تبدیل کر دیا گیا.بورسٹل جیل میں بچوں کا ایک سکول ہے اس سے ملحق دو کرے پختہ بنے ہوئے تھے جن کے آگے بر آمدہ اور ایک وسیع صحن تھا.یہاں مجھے اکیلے کھا گیا.سکول کے احاطہ کی طرف ایک بڑا آہنی گیٹ تھا.یہ حصہ اور کمرے جن میں میں فروکش تھا.معلوم ہوا کہ یہ خان عبد الغفار سرحدی گا مذھی کے لیے بنایا گیا تھا.وہ یہاں پر نظر بند تھے اور مختوڑا عرصہ ہوا کہ انہیں یہاں سے تبدیل کیا گیا ہے.بوسٹل جیل کے اسسٹنٹ سپر نٹنڈنٹ ان دنوں شیخ نذیر احمد صاحب تھے جو ایک نوجوان آدمی تھے.بڑے خوش اخلاق اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے.ہر دوسرے تیسرے روز عصر کے بعد تشریف لاتے اور کافی دیر باتیں کرتے رہتے.بار بار دریافت کرتے کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے.کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتلائیں.میں نے انہیں ایک دن کما کر تکلیف یہ ہے کہ میں یہاں سارا دن بیکار یہ ہتا ہوں.مجھے کوئی کام دے دیں.اس پر انہوں نے کہا کہ آپ تو ہمارے پاس امانت ہیں.کام کیسے دے سکتے ہیں.اس پر میں نے کہا کہ مجھے کچھکتا ہیں ہی منگوا دیں اور کوئی ایک اختیارہ.چنانچہ اس بات کا انہوں نے دو ایک دن میں ہی انتظام کہ دیا.جزا ہم اللہ تعالیٰ.بوسٹل جیل میں کھانے کا انتظام معقول تھا.میری بی کلاس تھی.دونوں وقت کھانے میں گوشت ہو تا تھا.اور ناغہ کے دن انڈے ہوتے تھے.ایک وقت چپاتی کے ساتھ چاول بھی ہوتے تھے.عصر کے وقت روزانہ دودھ اور کھانڈ مہیا کرتے اور ہفتہ میں دو تین بار موسم کا پھل بھی دیتے تھے.ڈیڑھ ماہ کے بعد رمضان کے ایام میں مجھے رہا کر دیا گیا.اس عرصہ میں حضرت مصلح موعود کی شفقت اور احسان ناقابل فراموش ہے.میرے متعلق آپ کا دفتر امور عامہ والوں کو بار بار ارشاد ہوتا کہ اس کا خیال رکھا جائے.اور میری بیوی بچوں کے متعلق الگ تاکید کی جاتی.میری اہلیہ صاحبہ گھر سے بہت کم باہر نکلتی ہیں.میری نظر بندی کے دوران حضرت مرز البشیر احمد صاحب اور حضور صلح موعود کے ہاں جاتی تو وہ انہیں بڑی تسلی اور تشفی فرماتے.اسی طرح حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ده رزانه کوارٹر پر تشریف لاکه خیریت اور ضروریات کے متعلق پوچھتے.ربوہ میں جب شام کے وقت پولیس میرے مکان پر

Page 287

۲۷۵ پر آئی توحضرت انس کو بھی اور اطلاع ہو ئی کہ مجھے نظربند کر لیا گیا ہے.مگرم قاضی عبدالرحمن صاحب کیریری بہشتی مقبرہ نے حضور کا یہ پیغام مجھے دیا کہ پریشانی اور گھبراہٹ کی ضرورت نہیں اور آپ کے بیوی بچوں کا ہر طرح خیال رکھا جائے گا.میں اس وقت پولیس کے ہمراہ کو اربڑ کے سامنے سڑک پر کھڑا تھا.میں نے مکرم قاضی صاحب سے کاغذ کا ٹکڑا اور پنسل لی اور کا غذیر حدیث مشریف کے یہ الفاظ لکھ دیئے کہ نُزْتُ وَرَب اللعبة اور قاضی صاحب سے درخواست کی کہ میرا یہ پیغام حضور تک پہنچا دیں.جب میں نظر بندی سے رہا ہو کہ ربوہ آیا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے فرمایا کہ آپ کے فزت ورب الكعبة “ کے الفاظ خوب تھے اور حضور نے اُسے بڑا پسند فرمایا.اسی زمانہ کا تذکرہ ہے کہ حضرت مولوی محمد دین صاحب صدر انجمن احمدیہ (جو اس وقت آپ ناظر تعلیم تھے جو میرے ساتھ بڑی ہی شفقت اور مہربانی کا برتاؤ رکھتے ہیں.اور آپ کا مکان میرے مکان کے قریب ہی تھا.آپ نے مجھے بتلایا کہ جن دنوں تم نظر بند تھے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی لاہور میں نظر بند تھے.ایک دن امور عامہ کا کوئی کارکن صاحبزادہ صاحب سے لاہور میں ملاقات کر کے آئے.اور وہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں آئے.میں بھی حضور کے پاس بیٹھا تھا.اس کارکن نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خیریت اور حالات کی اطلاع دی تو حضور نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے.وہ ملک عبد اللہ غریب کے متعلق بھی بہتر کریں کہ ان کا کیا حال ہے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ غریب کا لفظ مجھے خاص طور پر یاد ہے.الله الله ! اکس قدر مہربان اور شفیق آتا ہے کہ اپنے فرزند کی خیریت کی خبر کے ساتھ ایک اونٹی خادم کا کس قدر خیال ہے کہ اس کی خبر گیری کی تاکید کی جاتی ہے.اس کے رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا.یہ تاریخی کلمات صحابی رسول حضرت حرام بن ملمان نے اس وقت کیسے تھے جبکہ آپ کو غزوہ اُحد کے ایک بد بخت کا فر نے نیزہ مارا اور آپ کے جسم مبارک سے خون کا فوارہ چھوٹ گیا اور آپ شہید ہو گئے د صیحیح بخاری مصری ج ۳ ص ۲۰ (حالات غزوه احد )

Page 288

نظر بندی سے رہا ہو کہ جب میں ربوہ آیا تو مغرب کی نماز کے بعد حضور نے بیت المبارک ہیں جب مجھے دیکھا تو شرت مصالحہ بخشا اور میری خیر و عافیت کے متعلق دریافت فرماتے رہے بعد ازاں چند دن کے بعد مجھے قصر خلافت میں بلا کہ شرف ملاقات بخشا اور نظر بندی کے تفصیلی کو الف سنے میں نے عرض کیا کہ نریندی کے دوران لاہور میں صرف ایک دفعہ ایک آفسر میرے پاس آئے تھے.انہوں نے چند منٹ میرے ساتھ باتیں کیں.اور دریافت کیا کہ آپ چو ہدری ظفر اللہ خانصاحب سے کراچی ملنے جاتے تھے.میں نے انہیں جواب دیا کہ جناب چوہدری صاحب سے سیدی واقعیت ایک بلے عرصہ سے ہے.اور ملکی تقسیم سے پہلے قادیان میں ان کی سکنی اراضی کا.نگران اور فروخت کنندہ رہا ہوں اور قادیان میں جب بھی چوہدری صاحب تشریف لاتے، میں اُن سے متعدد بار ملاقات کہ تا.اب کراچی میں بھی.میں جب جاتا ہوں تو اگر موقعہ ملے تو ان سے لاقات ہوتی ہے.اس کے بعد کوئی بات نہیں ہوئی کالے ر اپریل ۱۹۵۳ء کو حکومت پنجاب نے حضرت حضرت مصلح موعود کے ایک خطبہ جمعہ کی نسبی مسیح موعود کا یک اب جو تم ضبط کرلیا.مینلب خطبہ جمعہ سے خطبہ مولوی سلطان احمدرضا پیر کوئی زود نویس نے مرتب کیا تھا اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اُسے اور آرٹ پر لیس راولپنڈی میں چھپوانے کے لیے بھجوایا تھا.مگہ 9ار مارچ کے نوٹس کے پیش نظر ایک خصوصی تار کے ذریعہ اس کی چھپوائی اور اشاعت رکھ دی گئی تھی.پریس میں یہ خبر دی گئی کہ گویا یہ خطبہ نور آرٹ پریس راولپنڈی سے چھپ کر شائع ہو چکا تھا حالانکہ یہ بالکل خلاف واقعہ بات تھی.یہ تفصیلات نہیں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے درج ذیل مراسلہ سے بھی ملتی ہیں جو آپ نے ا پریل ۱۹۵۳ء کو انسپکٹر جنرل صاحب پولیس پنجاب کے نام لکھا لے غیر مطبوعہ مکتوب جناب ملک محمد عبد اللہ صاحب ریٹائرڈ لیکچرار تعلیم الاسلام کا بج ربوہ مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۷۵ ء سابق قائد مال مجلس انصار اللہ مرکزہ یہ ربوہ) سے بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعود نے یہ خطبہ جمعہ ۲ یا ۱۳ مار ۱۹۵۳ء کو ارشاد فرمایا تھا

Page 289

From 746 To Sir, Syed Zainul Abedin Wali Ullah Shah, Nazir Dawat-o-Tabligh, Ahmadiyya Community Rabwah Dated 7th April 1953 The Inspector General of Police, Punjab Lahore "In today's issue of the Civil and Military Gazette on page 6, I have read the Government notification that the Khutba Juma delivered by the Head of the Ahmadiyya Community was printed at the Noor Art Press Rawalpindi and that the same has been proscribed by the Government.In this connection I have the honour to bring to your notice the fact that I did indeed send the afore-said Khutba for printing at Rawalpindi but before its printing was completed and before its publication the Head of the Ahmadiyya Community received a notice under the Punjab Safety Act from the Governor Punjab.As a result of that I was immediately directed to stop the aforesaid printing and publication whereupon I sent an express telegram to the Manager Noor Art Press Rawalpindi to stop the printing and publication of the said Khutba.The said Manager received my telegram in time and stopped printing before it was completed.The Police reached the Noor Art Press only after the Manager had received the said telegram.The Khutba was thus never published and the part-printed copies of it were taken away by the police." Under the circumstances it is extremely regrettable that the facts have not been rightly and fully stated in the said notification and I am finding myself humiliated before the Head and members of our community showing that I allowed the printing of the said Khutba in spite of clear and timely instructions.I have the honour to be, Sir, Your most obedient servant, (Sd/-) (Syed Zainul Abedin Wali Ullah Shah) Nazir Dawat-o-Tabligh Rabwah

Page 290

انه سید زین العابدین ولی اللہ شاہ ناظر دعوت و تبلیغ جماعت احمدیہ زیوه تخدمت انسپکٹر جنرل صاحب پولیس.پنجاب.لاہور جناب عالی مورخه ما را بپریل ۱۹۵۳ سول می گرٹ کی آج کی اشاعت کے صفہ ، پر میں نے گورنمنٹ کا یہ اعلامیہ پڑھا ہے کہ جماعت احمدیہ کے سربراہ نے جو خطبہ جمعہ دیا وہ نور آرٹ پر لیس راولپنڈی میں شائع ہوا اور گورنمنٹ نے اسے بحق سرکاره منبطہ کہ لیا ہے.اس سلسلہ میں ہیں جناب کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ میں نے متذکرہ بالا حظہ چھپوانے کیلئے راولپنڈی ضرور بھجوایا تھا لیکن اس کی چھپوائی مکمل ہونے اور اس کی اشاعت تھالیکن کی سے قبل جماعت احمدیہ کے سربراہ کو گورنمنٹ پنجاب کی طرف سے سیفٹی ایکٹ کے ماتحت ایک نوٹس موصول ہوا.چنانچہ مجھے فوراً ہدایت دی گئی کہ میں منتذ کرہ صدر خطبہ کی چھپوائی اور اشاعت کو فی الفور روک دوں.بنا بریں میں نے نور آرٹ پر لیس راولپنڈی کے مینجر کھر ایکسپریس تار کے ذریعہ ہدایت کی کہ متذکرہ خطبہ کی چھپوائی اور اشاعت فوراً روک دی جائے.مینجرمانہ کور کو میرا تاره به وقت مل گیا اور اس نے چھپوائی کا کام تکمیل سے قبل ہی روک دیا.پولیس، نور آرٹ پولیس میں اس تار کے ملنے کے بعد پہنچی جو مینجر کر دیا گیا تھا.اس طرح مذکورہ خطبہ کی اشاعت ہوئی ہی نہیں اور جزوی طور پر جتنا حصہ چھپ چکا تھا اس کی مطبوعہ کاپیاں پولیس لے گئی.ان حالات میں یہ امر نہایت درجہ قابل افسوس ہے کہ مذکورہ حکمنامہ میں واقعات کو صحیح اور مکمل طورسہ یہ بیان نہیں کیا گیا.اور مجھے امام جماعت احمدیہ اور اپنی جماعت کے ممبران کے سامنے اس وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑی کہ میں نے واضح اور بر وقت ہدایات مل جانے کے باوجود متذکرہ خطبہ کی چھپوائی کیوں ہونے دی.میں ہوں جناب کا ادنی خادم و ستحظ رحضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ ربوه

Page 291

٢٤٩ پانچواں باب مجلس مشاورت سے ۱۳ مطابق ۱۹۵۳ء کے مجلس مشاورت کے مطابق 190 ء بھی مشاورت ہے ۱۳ ۶۱۹۵۳ لیے سو / ۵٫۴ شہادت اپریل کی تاریخی مفر منتیں مگر سید نا حضرت مصلح موعود کے نام گورنر صاحب پنجاب کے نوٹس (موریہ مار مار چ ۱۹۵۴) کے باعث ملتوی کر دی گئی ہے لیکن جب حکومت پنجاب نے یہ نوٹس واپس لے لیا تو حضور نے فیصلہ فرمایا کہ اسی کو شور مٹی کا صرف یک روزہ اجلاس منعقد ہو.اس ضمن میں حضور نے 4 مئی ۱۹۵۳ء کو حسب ذیل اعلان جاری فرمایا : مجلس شوری ۱۹۵۳ء کے متعلق ضروری اعلان تمام جماعت لائے احمدیہ پاکستان و ممالک غیر کو اطلاع دی جاتی ہے کہ چونکہ گورنمنٹ نے سیفٹی ایکٹ کا نوٹس جو میرے نام جاری کیا تھانہ الپس لے لیا ہے.اس لیے اعلان کیا جاتا ہے کہ کی مجلس شوری اور مئی بروز ہفتہ منعقد کی جائے گی.یہ شور مٹی بہت مختصر ہوگی اور اس میں (اول) محیطے پر غور کیا جائے گا (روم) اس امر پر غور کیا جائے گا کہ موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے طلبائے سے اشتعال کو دور کرنے اوربہ پاکستان کے مختلف فرقوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی غرض سے احمدیہ جماعت کے تبلیغی پر وگرام میں اگر ضروری سمجھا جائے تو مناسب تبدیل کیجائے اور ایسے طریق اختیار کیے جائیں جو جماعت احمدیہ کی طرف سے قیام امن میں امداد دینے کے لیے مناسب اقدام ہوں اور اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داریوں میں بھی کسی قسم کا خلل نہ آئے (سوم) کوئی ایسا امر حو صدر انجمن احمدیہ یا تحریک جدید میرے مشورہ کے بعد مجلس میں پیش کرنا چاہیں.تمام احباب کو یاد رکھنا چاہیئے کہ چونکہ نمبر ۲ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر گفتگو کر تے المصلح ، کراچی اور اپریل سه اصل

Page 292

۲۸۰ وقت جماعت کے مختلف نمائندوں کو ایسے امور کے متعلق بھی گفتگو کرنی پڑے گی جن کے متعلق پبلک میں گفتگو کرنا نا مناسب ہوگا یا شاید بعض لوگ ایسے اہم مسئلہ کے متعلق عام مجلس میں رائے دینے سے بھی ہچکچاہئیں.اس لیے یہ بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ اس شور مٹی میں سوائے نمائندوں کے اور کسی شخص کو آنے کی اجازت نہیں ہو گی.اس لیے مشورہ کی کے دن کوئی غیر نمائندہ دوست باہر سے تشریف نہ لائیں کیونکہ انہیں شوری کے لیے زائرین کا ٹکٹ نہیں مل سکے گا.مناسب تو یہ تھا کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ شوری پنجاب سے باہر منعقد کی جائے.لیکن چونکہ گرمی یکدم زیادہ ہو گئی ہے اور میری صحت کمزور ہورہی ہے با ہر کسی جگہ فور رہائش اور طلبہ گاہ کا انتظام بھی مشکل ہوگا اس لیے مجبورا گرہ بوہ میں ہی اس شوری کے انعقاد کا فیصلہ کرتا ہوں.سیکرٹری شور مٹی کی طرف سے الگ نوٹس سب جماعتوں کو جلد بھجوادیا جائے گا خاکساره مرز امحمود احمد (خلیفة المسیح) دیوه ۶ رمئی ۱۹۵۳ ءوسه یہ مجلس مشاورت حسب پروگرام ۱۶ ماه مجرت رمئی کو ربوہ میں منعقد ہوئی جس میں حضور نے بجٹ پر مشورہ طلب کرنے کے علاوہ ۱۹۵۳ ء کی ایجی ٹیشن اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے حالات پر روشنی ڈالی.اس مشاورت کی روداد طبع نہیں ہوئی.نہ اس کا کوئی ریکار ڈ ہے البتہ اس موقعہ کے لیے حضرت مصلح موعود کا ایک رسم فرمودہ نوٹ جو حضور نے کچی پنسل سے تحریر فرمایا تھا محفوظ شکل میں موجود ہے.جس سے کسی قدر اندانہہ ہو سکتا ہے کہ اس اہم فجلس میں حضور نے کیا گیا ارشاد فرمایا.مولوی عبد الرحمن صاحب انور در سیکر ٹری مجلس مشاورت کو یہ نوٹ مشاورت کے اختتام پر اس میٹر سے ملا تھا جو اس وقت حضرت مصلح موعود کے سامنے رکھا تھا.المصلح و محبت ۱۳۳۲) و رمئی ۱۹۵۳) مت

Page 293

۲۸۱ مشاورت ۱۹۵۳ء کیلئے حضرت مصلح موعود کار قم فرمودہ نوٹ ہ ہمارے آدمیوں کی گرفتاریاں کیمپ بنانے کی کوشش تبلیغ کا ارادہ ظاہر کرنے پر گرفتاری رسالہ چھاپنے کے لیے جانے پر گرفتدی میدانوٹس حضرت مسیح موعود کی کتب کی ضبطی تلاشیوں میں مانگٹ اوچے کا واقعہ ایک جگہ احمدیوں پر حملہ بہت سے زخمی ہوئے مگر احمدیوں کو ساتھ پکڑا گیا ہے منافقت ۱.رپورٹ پولیس اور فوج کو ۲ - میاں شریف احمد صاحب کے خلاف سازش ۳ - منافق گروه ربوہ میں اس کے مقابل اخلاص کا اظہار.چندہ کی طرف توجہ عورتوں تک کا اخلاص مبلغین میں سے مولوی محمد اسماعیل صاحب کا اچھا نمونہ ان سے اتر کہ مولوی عبدالغفور صاحب ایک احمدی کے حالات پوچھنے پر ایک فوجی افسر کے..دوسری قسم کے میں اصلاح اور سلسلہ اور ملک کے فائدہ کے لیے مشورہ رنگا ڈر کر نہیں اور کے ! اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈروں گا اور احمدیت کی عظمت اور سچائی کے ثبوت کے لیے اپنی جان لڑا دوں گا یہ ۲۶ رگ رب متصل ستیا نہ بنگلہ تحصیل جڑانوالہ ضلع لائیور کے احمد می مراد ہیں دبر وایت مولانا محمد اسماعیل صاحب ودیا لگڑی) سابق مبلغ لالپور (فیصل آباد)

Page 294

۲۸۳ باشر اس مجلس مشاورت کا ایک خوشتا اور شیرین پل ایک سید نا حضرت مصلح موعود کا اہم بیان | اہم بیان کی شکل میں ظاہر ہو ا جو ملیس کی درخواست پر حضرت مصلح موعود نے جاری فرما یا اور جس کا مکمل متن یہ ہے :." ہمارے عقائد ہم اس دنیا کا بادشاہ قادر مطلق لافانی اور لاثانی اللہ تعالی کو سمجھتے ہیں.ہم یقین رکھتے ہیں کہ صرف اسلام اللہ تعالے کا سچا دین ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتاب ہے اور اس میں فرشتوں.آسمانی صحیفوں.بعثت انبیاء ، بعث بعد الموت اور تقدیر خیر وشر کا جس طرح ذکر آیا ہے.وہ سب حق اور درست ہے.اور ہم اس پیر کامل ایمان رکھتے ہیں ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام نبیوں کا سردار سمجھتے ہیں اور خاتم النبیتی تسلیم کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ آپ پر نازل شدہ شریعت بنی نوع انسان کے لیے آخری شریعت ہے.جیسے کوئی انسان تو بدل ہی نہیں سکتا بلکہ خود خداوند کریم نے بھی اسے تبدیل نہ کرنے کا وعدہ فرمایا ہے شریعت محمد کا کوئی حکم قیامت تک منسوخ نہیں ہو گا اوراس کا ہر کم حجلہ شرائط کے ساتھا اور حملہ شرائط کے مطابق قیامت تک قابل عمل رہے گا.قرآن کریم بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ اور احادیث صحیحہ کی پابندی اپنے اوپر لازمی اور ضروری سمجھتے ہیں.اور اس سے ذرا بھی انحراف کو گناہ سمجھتے ہیں.ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام و اہل بیت اطہار کو تعلیمات قرآنی اور اخلاق محمدی کے مطابق ایک اعلیٰ اسوہ سمجھتے ہیں.جو شخص ان کے طریق سے منحرف ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے منحرف ہوتا ہے.

Page 295

YAP ہم دیہی نما نہ پڑھتے ہیں.اور وہی روزے رکھتے ہیں.اور وہی زکواۃ ادا کرتے ہیں.وہی حج ادا کرتے ہیں.اور اسی قبلہ کو تمام مسلمانوں کا مرکزہ رمامن سمجھتے ہیں.جو قرآن مجید سنت رسول و احادیث نبوی اور اقوال صحابہ سے ثابت ہے.ہم خود بھی امت محمدیہ میں شامل ہیں.اور سلسلہ احمدیہ کے بانی بھی اس اُمت میں شامل تھے وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے تھے.اور ہم احمدی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کا کلمہ نہیں پڑھتے.جو شخص ایسا نہ کرے ہمارے عقیدہ میں قرآنی تعلیم کے خلاف عمل کرنے والا اور اسلام سے انکانہ کرنے والا ہے.ہم ہر کلر گو گو است محمدیہ کا جند سمجھتے ہیں.ہم ہر اس شخص کو امت محمدیہ کا فرد اور میزو قرار دیتے ہیں جو کلمہ طیبہ پڑھتا ہو اور کعبہ مکرمہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے.ہم تمام بنی نوع انسان کی ہمدردی اور خدمت کو خصوصاً تمام مسلمانوں کی ہمدردی اور خدمت کو خواہ وہ کسی ملک میں رہتے ہوں.یا کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں اپنا فرض سمجھتے ہیں.ہم اس پر ہمیشہ عمل کرتے آئے ہیں.اور ہمیشہ عمل کرتے رہیں گے.ہماری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ سب انسانوں سے عموماً اور تمام مسلمانوں سے خصوصاً خوشگوار اور روادارانہ تعلقات رکھیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم آئندہ بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے.اور ہر قسم کے فتنے سے بچیں گے اور کوشش کریں گے کہ ہماری کسی غلطی کی وجہ سے طبائع میں اشتعال پیدا نہ ہو.جماعت احمدیہ سیاسی جماعت نہیں ہے ہم سیاسی جماعت نہیں اور من حیث الجماعت سیاست سے بچے رہنا پسند کرتے ہیں.ہم خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں.کہ من حیث الجماعت وہ ہمیں ان امور سے بچائے رکھے.تاکہ اس دور میں جبکہ عام طور پر دنیا دین کو چھوڑ رہی ہے.یہیں اسلام کی خدمت کی توفیق ملتی رہے.اور غیر مسلم اقوام کو اسلام کی طرف لانے کا کام ہم سے سرانجام پاتا رہے.حکومت اور ملک کو مضبوط کرنا ہمارا اصول ہے

Page 296

YAN جماعت احمدیہ کا اصول ہے کہ حکومت اور ملک کو مظبوط کیا جائے.اور مسلمانوں کے فرقوں میں مودت اور یگانگت پیدا کی جائے.قرار داد مقاصد متعلقہ دستور اساسی پاکستان یا تفصیلات دستور اساسی پاکستان میں جو اساسی اصول منظور ہو چکے ہیں یا ہوں ان کو نظر انداز کئے بغیر ہم سمجھتے ہیں کہ ان دنوں ملک میں میں قسم کی تشویش د شورش پیدا کردے گئی ہے.اسے دیکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے لیے بھی ضروری ہے.کہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھائے جو طبیعتوں میں سکون پیدا کرنے اور اشتعال ٹھنڈا کرنے میں محمد ہو.تحریر و تقریر میں انتہائی نرمی اختیار کی جائے پس ہم جماعت ہائے احمدیہ افراد جماعت سے درخواست کرتے ہیں.کہ وہ (1) جماعتی جلسوں کو بیت اندکی یا اپنے ہاں یا کرایہ پر لیے ہوئے ہال یا اپنے پرائیومیٹ احاطوں یا یا کرایہ پر لیے ہوئے احاطوں تک محدود رکھیں.تا کسی قسم کے اشتعال کا موقعہ پیدانہ ہو.(۲) جہاں پبلک جلسوں کی ضرورت پیش آجائے اور اگر حکام کی طرف سے اجازت کی ضرورت ہو اور اجازت مل جائے ) تو ایسے جلسوں میں متنازعہ عقائد کو زیر بحث نہ لایا جائے اور کسی ایسے طریق کو روانہ رکھا جائے.جس کے نتیجہ مں فتنہ اور اشتعال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو.بلکہ تمام مواقع پر تقریه در تحریمہ میں انتہائی نرمی در شفقت اختیار کی جائے.اور اعلیٰ اخلاق شرافت ، مردت رواداری اور محبت کے طریق کو مد نظر رکھتے ہوئے خیالات کا اظہار کیا جائے..اس عرصہ میں پاکستان کے اندر مباحثہ اور مناظرہ کے طریق کو بالکل بند کر دیا جائے جماعتہائے احمدیہ اور افراد جماعت اس امر کی پوری احتیاط کریں کہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے ساتھ متنازعہ عقائد پر مباحثہ اور مناظرہ نہ کیا جائے تبدیلی عقیدہ کی غرض سے جماعت کی طرف سے کوئی اقدام نہ کیا جاے اس کے یہ منی ہرگز نہیں کہ جماعت کی طرف سے اخبارات رسائل اور کتب میں احمد یہ عقائد کی تشریح اور توضیح پر کوئی روک ہوگی یا اعتراضات کا مناسب جواب نہ دیا جائے گا.لیکن کوئی غیر احمدی ان کی خریداری یا مطالعہ پرمجبور نہیں.اور ن یہ مراد ہے کہ شخصی گفتگو میں سوال کے جواب میں عقائد کی وضاحت سے پر ہیز کیا جائے.سے متن میں مسجد کا لفظ ہے (ناقل ؟

Page 297

PAO سرکاری ملازم حکومت کی ہدایات کی پوری پابندی کریں سرکاری آفیسروں اور ملازمین پر خصوصیت سے ان ہدایات کی پابندی لازم ہے.جو حکومت کی طرف سے ان کے متعلق جاری ہوں.اور جن امور میں ان پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد کی جائے ان کی تعمیل میں سر مو فرق نہ آنا چاہیئے.ایمان اور دیانت کا یہی تقا منا ہے.کہ جب کوئی شخص حکومت کی ملازمت اختیار کرتا ہے.تو ملازمت کا قبول کرنا ہی اس کی طرف سے عہد ہوتا ہے.کہ وہ اپنے فرائض کو سرگرمی اخلاص اور دیانت کے ساتھ ادا کرتا رہے گا اور حکومت کی جاری شدہ تمام ہدایات کی پوری پابندی کرے گا.اس عہد کی خلاف ورزی اسے حکومت کی طرف سے بھی قابل مواخذہ بناتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے روبرو بھی وہ جوابدہ ہوتا ہے اور اپنے ایمان اور تعلق باللہ کو خطرہ میں ڈالتا ہے.اللہ تعا آتا ہے ملک کا اور امت محمدیہ کا حافظ و ناصر ہو.اور ہمیں اس راستہ پر قائم رکھے جو اس کی رضا کا رستہ ہے آمین بلے ۱ جون ستاد کو یہ یڈیو پاکستان کراچی نے یہ خبر نشر ریڈیو پاکستان کراچی کا نشریہ کی کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے ایک اعلان میں جماعت احمدیہ کے افراد کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے عام جلسوں میں اعتقادی اختلافات کو زیر بحث نہ لائیں آپ نے فرمایا جماعت احمدیہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے جماعت کے ان افراد کے متعلق جو سرکاری ملازم ہیں آپ نے فرمایا کہ حکومت وقتاً فوقتاً جو ہدایات جاری کرتی رہتی ہے وہ ان سب پر عمل کریں یا سے پاکستانی پریس میں بیان کی اشاعت یہ کن بیان ایوسی ہینڈ پریس آف پاکستان پپ کے ذریعہ المصلح» (کراچی) کے علاوہ "ملت" لاہور (۱۸ جون ۱۹۵۳) میں بھی شائع ہوا اور ملک میں اس کی خاصی شہرت ہوئی.حتی کہ پنجاب کے روزنامه المصلح کراچی مورخه ۸ در احسان ۱۳۳۳ ۱۸ جون ۱۹۵۳ء ص ۳ - ۸ الفضل و رحمان ۱۳۳۵ ۱۹۵۶ ص ۳ دسته روزنامه المصلح (کراچی) ، ارجون موج 19 وصل

Page 298

۲۸۲ بعض مشہور اخبارات نے بھی اس کا خیر مقدم کیا.(1) روزنامه آفاق" لاہور مورخہ ۲۱ جون ۱۹۵۳ء نے قادیانیوں کے امام کا بیان " کے زیر عنوان حسب ذیل ادارہ یہ سپر د قلم کیا.قادیانیوں کے امام مرزا بشیر الدین محمود صاحب کا ایک بیان اخبارات میں آیا ہے.اس بیان میں مرزا صاحب نے نہایت شرح صدر کے ساتھ ان تمام شکوک و اعتراضات کو یہ فتح کرنے کی کوشش فرمائی ہے.جو عام طور پر اُن کی جماعت کے متعلق کئے جاتے ہیں اور جنہوں نے گزشتہ ایام میں ایک نہایت خطرناک صورت اختیار کر لی تھی.مرزا صا حب کا ارشاد ہے کہ وہ ۱- رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین اور آپ کی شریعت کو آخری مانتے ہیں.۲.دہی اعتقاد رکھتے ہیں تجہ توحید نبوت اور قیامت کے متعلق عام مسلمانوں کا ہے..وہ.وہی اعمال بجا لاتے ہیں جو دوسرے مسلمان بجا لاتے ہیں..وہ مسلمانوں کے خصوصاً اور عام انسانوں کے عموماً ہمدرد اور بہی خواہ ہیں.- وہ کلمہ گو اہل قبلہ کو امت محمدیہ کا فرد اور جزو سمجھتے ہیں.• یہ پنجگانہ نکات اپنی جگہ بہت خوب ہیں اور انہیں پڑھ کر اکثر مسلمان ایک سے زائد بار سومیں گے کہ اگر ان لوگوں کے عقائد یہی ہیں تو قدر مشترک بہت زیادہ ہے.لیکن مرزا صاحب اگر ان نکات کے ساتھ ہی ایک نکنند کی وضاحت اور سبھی فرما دیتے تو اختلافات کی وہ خلیج جو عام مسلمانوں اور اُن کی جماعت کے درمیان دیر سے حائل ہے اور پچھلے دنوں بہت وسیع ہوگئی تھی، بڑی حد تک بیٹ سکتی تھی اور وہ نکتہ یہ ہے کہ جو مسلمان مرزا غلام احمد صاحب کو نہیں مانتے ، ان کا مقام و منصب قادیانیوں کے نزدیک کیا ہے ؟ آیا قادیانی حضرات ان سے دین و دنیا کے معاملات میں ایسا تعاون کر سکتے ہیں جو باوجود فروعی اختلافات رکھنے کے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں نظر آتا ہے ، اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو پھر امام جماعت احمدیہ کا بیان بڑی حدتک موربہ ہو جاتا ہے.رہی یہ بات کہ خاتم النبیین کے معنومی تصویر میں قادیانی حضرات کونسی تاویل کرتے ہیں اس کا جواب مولانا عبد الماجد نے یہ دیا تھا کہ تا دیل خواہ کیسی ہی رکیک جود، کذب و انکار کے مترادف نہیں ہوتی.ہمیں معلوم نہیں کہ عامتہ المسلمین کے نز دیک مولانا

Page 299

ریا بادی کا ارشاد کس حد تک قابل قبول ہے ؟.لیکن مرزا غلام احمد کے نہ ماننے والے کے متعلق قادیانیوں.کا نقطہ نظر معلوم ہو جائے تو اختلاف کی حدیں بڑی مدتک سمٹ سکتی ہیں اور نہ اس بیان سے متعلق وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ میں مقصد کے لیے یہ شائع کیا گیا ہے اُسے بوجہ احسن پورا کر سکے گا بينوا وتوجروا ۲.میاںمحمد شفیع صاحب نے اخبارہ آٹار“ (لاہور) ۲۰ رجون ۱۹۵۳ء میں لکھا.: ۳ سالہ ذہین و فطین مرزا بشیر الدین محمود احمد نے مسلمانوں کے متعلق اپنی جماعت کے مؤقف کی ایک بیان میں وضاحت کی ہے.انہوں نے بانی سلسلہ اور جماعت کے مذہبی عقائد کی بھی اس بیان میں تو منیح کی ہے.رکیا اچھا ہوتا کہ لاہور کے اختبارات اس بیان کا مفصل متن چھاپ دیتے تاکہ عوام اور خواص اسے پڑھو کہ خود کوئی رائے قائم کر سکتے) پاکستان کے مذہبی طبقوں کا اس بیان کے متعلق کیارہ تو عمل ہوگا ؟.میں اس سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.میرے نز دیک اس بیان کا اہم ترین حصہ وہ ہے جس میں مرزا صاحب نے اپنی جماعت کے ارکان کو تلقین کی ہے کہ وہ تبد علی عقیدہ کی عرض سے کوئی اقدام نہ کریں اور کہ وہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے ساتھ متنازعہ عقائد پر مباحثہ اور مناظرہ نہ کریں اور یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ خاتم النبین تسلیم کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان پر خدا کے جو احکام نازل ہونے وہ آخری تھے ا ہے لے آفاق اور جون ۱۹۵۳ ء ص ۳ به سه آثاره لاہور ۲۰ جون ۱۹۵۳ء ص و لا ہور کی ڈائری ملاخبار کے مینجنگ ایڈیٹر مولوی اختر علی خاں)

Page 300

YAA.اختیار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے لکھا من "Welcome Gesture In issuing a detailed statement about the Ahmadiyya beliefs and a directive to his community to stop all religious controversies, the Head of the Ahmadiyya movement, Mirza Bashirud-Din Mahmud Ahmad has made a most helpful contribution towards the easing of the bitterness created as result of the recent anti- Ahmadiyya agitation.Deviation even by an hair's breadth from the way chalked out by the Quran and Sunnah, says the Ahmadiyya leader, is, according to his creed, a sin.All those who recite the "Kalima" are looked upon by his community as belonging to and part of the "Ummat" of the Holy Prophet.These declarations Should go a long way to dispel misunderstandings.That there are differences between the Ahmadies and the orthodox Ulema on certain religious points is perfectly true.But there are equally great, even greater differences among other sects.If we start probing into those differences, there would be no end to them and Pakistan would be reduced to a Babel of confusion.Solidarity of the "Millat", to our mind, is the highest objective if Islam.To sacrifice national solidarity and weaken a national State is the greatest "Kufr".There should be no other interpretation of Islam and "Kunfr" in Pakistan.And that, we are quite clear in our mind, is the essence of the Quranic teachings.We doubt that the Ahmadiyya Chief's clarifications will at all pacify the Ulema who, according to Iqbal, would need something to quarrel about even in Heaven.But sensible sections of public opinion should find food for thought in it.Unless we learn to stand united, despite our differences, we are doomed as a free people.Any outside wire- pulling can plunge Pakistan into a conflagration, by working up sectarian passions between any two sects: ("Civil & Military Gazette", Lahore 18-6-1953)

Page 301

۲۸۹ خوش کن اقدام (ترجمہ) جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جماعت کے عقائد سے متعلق ایک مفصل بیان جاری کر کے مذہبی مناقشات کو دور کرنے اور حالیہ امینی احمدیہ تحریک کے ذریعہ پیدا کی گئی تلخی کو رفع کرنے کے لئے ایک نہایت مفید اقدام کیا ہے.امام جماعت احمدیہ نے کہا ہے کہ قرآن مجید اور سنت کے طریق کار سے ذرہ بھر انحراف ان کے نزدیک گناہ ہے تمام کلمہ گو آپ کے اور آپ کی جماعت کے نہ دیک مسلمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل اور اس کا حصہ ہیں آپ کا یہ اعلان غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے ایک بہت ہی دور رس اقدام ہے.یہ درست ہے کہ احمدیوں اور قدامت پسند علماء کے مابین بعض مذہبی امور میں اختلاف ہے تاہم دیگر فرقوں کے درمیان اس سے بھی بڑھ کہ اختلافات پائے جاتے ہیں.اگر ہم ان اختلافات کی چھان بین کرنے لگیں تو ان کی کوئی انتہاء نہ ہوگی اور پاکستان انتشار کا ملغوبہ بن کر رہ جائے گا.ہمارے خیال میں ملت کی پچھتی اسلام کا سب سے بڑا مطمح نظر ہے اس قومی یک جہتی کو کھونا اور ملک کو کمزور کرنا سب سے بڑا کفر ہے.پاکستان میں اسلام اور کفر کی اس کے سوا کوئی توجیہ نہیں ہونی چاہیئے، اور ہم اس بات کے کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہی قرآنی تعلیمات کا خلاصہ ہے.ہمیں شبہ ہے کہ احمدیہ جماعت کے سربراہ کی یہ تصریح اُن علماء کرام کو نسلی دے سکے گی ہو جو علامہ اقبال کے نظریہ کیمطابق جنت میں بھی کسی ایسی چیز کی تلاش میں ہوں گے جو جھگڑے کا باعث ہو.تاہم عوام کے اندر دانشور طبقہ کے لیے اس میں یقینا لمحہ فکریہ کی گنجائش ہے..سبب تک ہم اپنے تمام اختلافات کے با وجود متحد نہیں ہو جاتے ، ایک آزاد قوم کی حیثیت سے ہمارا مستقبل مخدوش ہو جائے گا بیرونی دنیا کی کوئی بھی طاقت کسی بھی

Page 302

۲۹۰ دو فرتوں کے درمیان فرقہ وارانہ اشتعال پھیلاکر پاکستان کو ایک نہ سمجھنے والی آگ میں دھکیل سکتی ہے.بعض دوسری شخصیات کے تاثرات پاکستان کے ایک معروف اہل قلم جناب ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے لکھا.جماعت احمدیہ کے موجودہ امام جناب میاں محمود احمد صاحب غیر معمولی فہم و فراست اور علم و تدبر کے مالک ہیں.نزاکت وقت کو محسوس کرتے ہوئے آج سے ایک ہفتہ پہلے رجون ۱۹۵۳د کے آخر میں) آپ نے ایک طویل بیان اخبارات کے حوالے کیا جس میں اعلان فرمایا : - اول : کہ ہم مسلمان ہیں.دیگر مسلمانوں سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں.ہمارا رسول ایک کتاب ایک.قبلہ ایک.تمدن ایک.روایات ایک اور سب کچھ ایک.یہ ایک نہایت مبارک اقدام ہے.اللہ کرے کہ احمدی و غیر احمدی کے مصنوعی اختلافات ختم ہو جائیں اور ہم سب مل کر پاکستان کے استحکام اور قرآنی اقدار کے احیاء کے لیے کام کریں.گزشتہ ستر برس میں احمدی کو غیر احمدی سے جدا کرنے کے لیے کئی ہزار صفحات میپرد قلم ہوئے اور انہیں ملانے کے لیے شاید ایک لفظ بھی کسی زبان سے نہ نکلا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے جنازے اور نمازیں ایک دوسرے سے الگ ہو گئیں.رشتے کٹ گئے اور کفر و اسلام کے پہاڑ درمیان میں حائل ہو گئے.جناب مرزا میاں محمود احمد صاحب کا یہ بیان اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مصالحت کی طرف یہ پہلا جرات مندانہ قدم ہے یہ لے ۱۹۵۳ء کی احراری تحریک کے سرگرم لیڈر اور اخبار زمیندار کے ایڈیٹر مولانا اختر علی خاں صاحب نے تحقیقاتی عدالت میں بیان دیا کہ : - احمدیوں نے.......اپنے تحریری بیان میں جو اعلانات کیسے ہیں اور جنہیں مٹی 1923ء میں جس طرح شائع کیا گیا.ان سے تنازعہ ختم ہو جاتا ہے اور احمدیوں راه حرف محرمانه مؤلفہ ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب بر تن ص ۵٫۱۴ اسن اشاعت ۱۹۵۴ء به ابهتمام شیخ نیاز احمد یہ نر و پیشر علی پرنٹنگ پریس اسپتال روڈ لاہور.

Page 303

۲۹۱ کو اب دائرہ اسلام سے خارج نہیں سمجھا جا سکتا.اگر احمدیوں کے خلاف تحریک دوبارہ شروع ہو تو میں اس میں یقینا شامل نہیں ہوں گا یا نہ سله اختبار ملت (لاہور) اور اکتوبر ۱۹۵۳ء ص ۲ کالم بم

Page 304

۲۹۳ حصہ سوم تحقیقاتی عدالت میں وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی اور حضرت مصلح موعود کا بصیرت افروز بیان اور اس کے اثرات

Page 305

۲۹۴ پہلا باب فسادات پنجاب کی تحقیق کیلئے عدالت کا قیام گورنر ناب جناب میں مین این مصیب انے اور جوان سوار کو یک ترور نیس جاری کیا جس کے تحت فسادات پنجاب کی تحقیقات کے لیے ایک عدالت قائم کی.اور چیف بستی محمد منیر اور جسٹس ایم.آر کیانی کو اس کا میر مقرر کیا گیا.اور ہدایت کی گئی کہ وہ مندرجہ ذیل امور کی چھان بین کریں : - ا.وہ کیا کو الف تھے جن کی وجہ سے 14 مارچ ۹ہ کو لاہورمیں مارشل لا ء کا اعلان کرنا پڑا.۲- فسادات کی ذمہ داری کس پر ہے ؟ صوبے کے سول حکام نے فسادات کے حفظ ما تقدم یا تدارک کے لیے جو تدابیر اختیا رکیں ، آیا وہ کافی مخفیں یا نا کافی ؟ عدالت نے اپنے دائرہ تحقیقات میں شروع میں ہی غیر معمولی وسعت پیدا کر لی اور حکومت پنجاب صور سلم لیگ مجلس احرار، مجلس عمل اور جماعت اسلامی کے علاوہ صدر انجمن احمد یہ ربوہ ! اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کو بھی کارروائی عدالت میں فریق بنا لیا.اور ہدایت کی کہ وہ تحقیقات کے دائرہ شرائط کے متعلق تحریری بیانات داخل کریں جن میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں.تحقیقاتی عدالت نے دوران تحقیقات متعلقہ اداروں سے مندرجہ ذیل دس سوالات کے بوابات بھی طلب کئے.ا ظهور مسیح و مہدی کا ذکر قرآن مجید اور احادیث ہیں.۲ - کیا مسیح جن کا آئندہ ظہور تسلیم کیا گیا ہے وہی علی بن مریم ہوں گے یا کوئی اور؟ ۳ - (النت) کیا مسیح اور مہدی کا درجہ نبی کا ہو گا ؟ رب) انہیں وحی و الہام بھی ہوگا ہے ۴.کیا ان میں سے ایک یا دونوں قرآن یا سنت کے کسی قانون کو منسوخ کریں گے ؟ ہ پیغمبر کو کس طریق پر وحی آتی تھی.اور کیا حضرت جبرائیل مرئی صورت میں آنحضرت صلی اللہ

Page 306

۲۹۵ علیہ وسلم کے سامنے آتے تھے ؟ یا مسلم پارٹیز کنونشن نے خاتم الانبیاء کی جو تشریح اور وضاحت کی ہے کیا وہ مسلم عقیدہ کا ہمیشہ جزو رہی ہے ؟ قرآن در سنت کے وہ حوالے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی سیاسی اور مذہبی نظام میں غیر مسلموں کو ایک غیر ملکی عنصر کے طور پر قرار دیا گیا ہے.اور اگر ایسا ہے تو حسیں حد تک اُن کو الگ رکھا گیا ہے اس کی تائید میں تاریخی حوالے پیش کئے جائیں.اسی طرح اس پر روشنی ڈالی جائے کہ کیا غیر مسلموں کو پبلک میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی اجازت تھی یا نہیں؟ اور کس حد تک ایک قوم یا فرد کے گناہ دوسری قوم یا فرد سپہ ڈالے جاسکتے ہیں ؟ - ڈائریکٹ المیشن کا جواز ۹.احمدیوں کی مطبوعات جو عامتہ المسلمین کے مذہبی جذبات واحسانات کی تو ہین کرتی ہیں.۱۰.دیگر مسلمانوں کی مطبوعات جن سے احمدیوں کے عقائد کی تو ہین ہوتی ہے ان دس سوالات کے علاوہ جو تمام متعلقہ جماعتوں سے کئے گئے تحقیقاتی عدالت نے بالخصوص صدر انجمن احمدیہ کو ضابطہ کی کارروائی کے آغازہ ہی میں حسب ذیل سات سوالات کے تحریری جوابات داخل کرنے کی ہدایت کی :- سوال نمبرا : - سبو مسلمان مرزا غلام احمد صا حب کو نبی بمعنی ملکم اور مامور من اللہ نہیں مانتے کیا وہ مومن اور مسلمان ہیں ؟ سوال نمبر :.کیا ایسے شخص کا فر ہیں ؟ سوال نمیہ :.ایسے کا فر ہونے کے دنیا اور آخرت میں کیا نتائج ہیں ؟ سوال نمیشد : - کیا مرزا صاحب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اور اسی ذریعہ سے الہام ہوتا ہے.سوال نمبشر :1) کیا احمدیہ عقیدہ میں یہ شامل ہے کہ ایسے اشخاص کا جنازہ جومرزا صاحب یقین نہیں رکھتے Infructuolis ہے.رب) کیا احمد یہ عقائد میں انیسی نماز جنازہ کے خلاف کوئی حکم موجود ہے ؟

Page 307

سوال نبت مٹ گیا احمدی اور غیر احمدی میں شادی جائز ہے ؟ ب کیا احمدی عقیدہ میں اسی شادی کے خلات ممانعت کا کوئی حکم موجو د ہے ؟ سوال نمیشد - احمدیہ فرقہ کے نزدیک امیر المومنین کی Significance کیا ہے ؟ تحقیقاتی عدالت کی طرف سے درج ذیل مزید دس سوالات کے جوابات صدر انجمن احمد یہ ربوہ کو داخل کرنے کا حکم دیا گیا.یہ سوالات دوسرے فریقوں کے تحریری بیانات کی روشنی میں مرتب کئے گئے تھے :.ا.انہوں نے اسلام میں انتیوں پر دھی اور نزول جبرئیل کے وجود کوتسلیم کیا ہے حالانکہ غیرتی پر وحی نازل ہو سکتی ہے نہ بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جبرئیل نازل ہو سکتا ہے.ایسے عقیدے والا رسول کریم مسلم کی بنک کرتا ہے.۲.انہوں نے نبوت کا دعومنی کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی بنک کی ہے (۳) انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور مسیح ناصری کی وفات کا اعلان کر کے مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے..انہوں نے ایک نئی اُمت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج از اسلام کہا ہے اس لیے مسلمانوں کو اشتعال آتا ہے - انہوں نے اپنے مخالفوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے روکا ہے ان کا جنازہ پڑھنے سے روکا ہے اور ان کو لڑکیاں دینے سے روکا ہے 4- انہوں نے ایک غیر مسلم حکومت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی ہے اور اس کی تائیدیں جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے..انہوں نے مسلمان حکومتوں اور مسلمان تحریکوں سے کبھی ہمدردی نہیں کی..انہوں نے مسلمانوں کو عموماً اور مسلمان علماء کو خصوصاً سخت گالیاں دی ہیں.۹.انہوں نے مسلمانوں سے الگ رہنے کی کوششیں کیں مثلا کر بوہ بنایا.۱۰ - احمدی پاکستان کے مخالف ہیں اور عقلاً بھی وہ مخالف ہونے چاہئیں کیونکہ وہ ایک امام کو مانتے ہیں اور اس طرح وہ ایک متوازی حکومت بنانے کے مجرم ہیں.

Page 308

نازک مرحلہ یہ محلہ کئی اعتبار سے فسادات کے ایام سے بھی بڑھ کر نانک بلکہ حضرت مصلح یہ موعود کے الفاظ میں جماعت احمدیہ کے لیے موت اور زندگی کا سوال ہے تھا.جب کے دو پہلو ابتداء ہی میں تشویش پیدا کر رہے تھے :.اول : تحقیقاتی عدالت کے اعلان سے معلوم ہوتا تھا کہ دو اس تحقیقات کا مقصد اس سے زیادہ سمجھتی ہے جتنا کہ حکومت کے ابتدائی اعلان سے ظاہر ہوتا تھا اور اس نوعیت کی تحقیقات میں یہ زبر دست خطرہ تھا کہ بعض لوگ حقائق کو بگاڑ کر اس انکوائر می کو مذ ہبی اختلافات اچھالنے کا موجب ہی نہ بنا دیں.خصوصاً جبکہ یہ دونوں فاضل جج صاحبان اپنے مسلک کے اعتبار سے احمدیت سے اختلاف رکھتے تھے.دوم : عوام میں علماء نے ایک خاص منصوبے کے تحت جماعت احمدیہ کے خلاف بغض و عناد کا زہر بھر دیا تھا.اور مارشل لاء میں ماخوذ علماء اور زعماء کی نظر بندی کو احمدیت کے خلا نفرت اور اشتعال پیدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا اور تمام جماعتیں اس روح کے ساتھ مجمع ہو گئیں کہ تحقیقاتی عدالت میں احمدیوں کو فسادات کا ذمہ دار مظہر کہ انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دلوا دیا جائے.چنانچہ جناب سید بنز دانی جالندھری کا بیان ہے کہ:.مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں احمدیوں کے خلاف فرقہ وار فساد ہوا.......احمدیوں کے خلاف فرقہ ور ضاد تو مارشل لاء نے چند لمحوں میں ختم کر دیا.جہاں تک آئندہ کا تعلق تھا مستقبل قریب میں کوئی نیا فرقہ دار فساد کی اسکن ان کو نا ممکن نظر آرہا تھا.اس لیے کچھ منفی طبع مولوی بہت پریشان تھے.اور اسی قسم کے نئے امکانات پیدا کرنے کی سوچ رہے تھے کہ اتنے میں خبر آئی کہ حکومت نے احمدیوں کے خلاف یہ پا شدہ فسادات کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے دو حج منیر انکوائری کمیٹی کے نام سے مقرر کر دیئے ہیں جن کے سامنے ہر مکتب فکر کے مولویوں کو اپنا نقطہ نگاہ پیش کرنے کی عام اجازت ہو گی.اس سے انہوں نے یہ سمجھے کہ کہ اب احمدیوں کو دائرہ اسلام سے آئینی طور پر خارج قرار دلانے کا موقع ہاتھ آگیا ہے.کچھ مولویوں نے خود اپنے درمیان کتوب اور اصلی مور نام مرا بزانی مرزا بشیراحمد صاحب موصوله در جولائی ۱۹۵۳ء

Page 309

۲۹۸ شدید اختلاف عقائد رکھتے ہوئے اس منفی کہام کے لیے منتظم ہونا قبول کر لیا اور وقت آنے پر اس کمیٹی کے روبرو پیش ہونے لگے.مولانا محمد علم الدین سالک بڑی سختی سے صنفی عقائد کے پابند تھے اور عقائداً احمدیوں سے شدید اختلاف رکھتے تھے اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں تھی.ایک دن ایک مولوی صاحب جو اتفاق سے دیو بندی بھی تھے.مولانا کے پاس تشریف لے گئے اور درخواست کی کہ انکوائری کمیٹی کے ہاتھوں احمدیوں کو غیر مسلم قرار ولانے کے لیے وہ اس کیٹی کے روبہ و خود پیش ہوں اور اپنے دوسرے رفقاء علماء کو بھی ایسا کرنے کے لیے کہیں بعد میں مولانا نے جو کچھ بتایا اس کے مطابق ان مولوی صاحب اور مولانا کے درمیان حسب ذیل گفتگو ہوئی.مولانا علم الدین سالک مرحوم.ہمیں آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہوں.لیکن آپ یہ فرمائیں کہ آپ کی اور میری کوشش سے اگر احمدی خارج از اسلام قرار دے دیئے جائیں تو کیا تمام عالم اسلام کی تطہیر ہو جائے گی اس کے بعد کوئی کافر عنصر مسلمانوں میں باقی تو نہیں رہ جائے گا.غیر ممالک میں احمدی تبلیغی مشنوں کے بدلے کیا انتظام ہوگا.مولوی صاحب نہیں.یہ تو ہماری ابتداء ہے انشاء اللہ رفتہ رفتہ ہم سب کا فر عناصر کو مسلمانوں سے خارج کرالیں گے.پہلے احمدیوں سے ٹیسٹ لیں.دوسروں کی پھر سوچیں گے.مولا نا علم الدین سالک مرحوم شیعوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؛ کیا آپ ان کو مسلمانوں میں شامل رہنے دیں گے ؟ مولوی صاحب.ہم سمجھتے ہیں کہ احمد می لوگ ختم نبوت کو نہیں مانتے.مگر وہ بانی جماعت احمدیہ کو امتی نبی اور تابع شریعت محمدی بنا کر اپنے حق میں کچھ منطقی صورت پیدا کر لیتے ہیں.شیعہ فرقہ امام کو نبی سے بڑا ماننا ہے.اور وہ امام کی آمد کا منتظر ہے اس سے حضور سرور کائنات کی دوہری توہین ہوتی ہے.یعنی اس کے عقیدہ کے مطابق امام ضرور آئے گا اور امام میں سے بڑا ہو گا.چنانچہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے محض اس بنا پر صرف شیعہ فرقہ کو منکر ختم نبوت قرار دے کر کا فرگردا نا ہے.شیعوں کے بعد اہل حدیث کا نمبر آتا ہے یہ فرقہ حضور سرور کائنات کے مقام کو گھٹاتا اور قبروں کی عزت سے منع کرتا ہے.ان قبروں سے یہ سہو ہے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی چاہیئے ملاحظہ ہو آپ کی کتاب تفہیمات الہلیہ جلد ۲ مت کیڈ علی شاہ دی الله جلد آبا ۱۹۶۷ء

Page 310

۲۹۹ میں حضور سرور کائنات اور صحابہ اجمعین کے روضے بھی آتے ہیں.پھر اس فرقہ کو کسی طرح مسلمان شمار کیا جا سکتا ہے ، پس مسلمانوں کی مکمل تطہیر اس وقت ہو گی جبب احمدی شیعہ ، المجدیہ تینوں " فرقے غیر اسلامی اقلیتیں بنا دی جائیں گی.لیکن اس کام کی ابتداء احمدیوں سے ہونی چاہیئے “ مولا نا علم الدین سالک فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کی گفتگو جب اس مقام پر پہنچی تو مجھے خیال آیا که دیو بندی فرقہ نے بڑے بڑے جید علماء پیدا کیے جنہوں نے اسلام کی عظمت کو چار چاند لگائے اور اب بھی اس کے ایسے علماء موجود ہیں یہ مولوی صاحب خود بھی دیو بندی ہیں.مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ ایک دوسرے دیو بندی مولوی صاحب سے ان کی شہر یہ دشمنی ہے اس لیے میں مولوی صاحب سے کہا : غالباً آپ نے مسلمانوں کے تمام عقائد پر غور نہیں کیا ورنہ شائد آپ بریلوی فرقہ کو بھی غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حق میں ہوتے.خیر اس بات کو چھوڑیئے.آپ یہ فرمائیں کہ فلاں دیوبندی) مولوی صاحب کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے کیا وہ اس قابل ہیں کہ ان کو مسلمانوں کے زمرہ میں رہنے دیا جائے کئے اس پر مولوی صاحب بہت جبر نہ ہوئے اور فرمایا.اس مولوی میں ایمان کا یکسر فقدان ہے.اس سے بھی نپٹ لیں گے مگر سب کے بعد.بات اس وقت احمدیوں کی ہورہی ہے.آپ اُن کے خلاف گواہی دیجیے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دلا کر مسلمانوں کی تطہیر کا آغانہ کر دیجیئے.اللہ آپ کو جزائے خیر دے گائے مولا نا علم الدین سالک فرمانے لگے ہیں نے مولوی صاحب کی گفتگو سے دو نتیجے اخذ کئے.ا.عقائد کی بنا پر مسلمانوں کے کسی فرقہ کو بھی آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا گیا تو تخریب اسلام کی یہ ابتداء ہو گی.آئندہ مختلف موقعوں پر کوئی اسلامی فرقہ اس قسم کی انتقامی کارروائی سے محفوظ نہیں رہ سکے گا.جس سے عالم اسلام انتشار کا شکار ہوکر رہ جائے گا..اس سلسلہ میں سب سے پہلا وار احمد یوں پر ہے.اس لیے احمدی فرقہ دوسرے فرقوں بالخصوص شیعہ اور اہل حدیث کے درمیان ایک بفرسٹیٹ (Buffer State) کی حیثیت رکھتا ہے.احمدی مغلوب ہو گئے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا.تو اس کے بعد

Page 311

٣٠٠ دوسرے دو فرقوں کی شامت آنا ضروری ہے.چنانچہ میں نے مولوی صاحب سے معذرت کر دی کہ میں گواہ کے طور پر پیش نہیں ہو سکتا.اس منفی کام میں مجھے علیحدہ ہی رہنے دیجئے اس انکل اس قسم کا ایک واقعہ جناب ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ایم.اے.پی.ایک.ڈی نے اپنے رسالہ اقبال اور ملا ، میں درج کیا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے مجھ سے حال ہی میں بیان کیا کہ ایک ٹلائے اعظم اور عالم مقتدر سے جو کچھ عرصہ ہوا بہت تذبذب اور سوچ بچار کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے ہیں میں نے ایک اسلامی فرقے کے متعلق دریافت کیا.انہوں نے فتویٰ دیا کہ ان میں جو عالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں وہ واجب التعزیہ ہیں.ایک اور فرقے کی نسبت پوچھا جس میں کروڑ پتی تاجر بہت ہیں فرمایا کہ وہ سب واجب القتل ہیں.یہی عالم اُن تئیس بنیس معلماء میں پیش پیش اور کرتا دہر تا تھے جنہوں نے اپنے اسلامی مجوزہ دستور میں یہ لازمی قرار دیا کہ ہر اسلامی فرقے کو تسلیم کر لیا جا سوائے ایک کے جس کو اسلام سے خارج سمجھا جائے.ہیں تو وہ بھی واجب القتل ، مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں موقع آئے گا تو دیکھا جائیگا انہیں میں سے ایک دوسرے سربراہ عالم دین نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے جھاد فی سبیل اللہ ایک فرقے کے خلاف شروع کیا ہے اس میں کامیابی کے بعد انشاء اللہ دوسروں کی خبر لی جائے گی کیا ہے صدر انجن احمد به پاکستان نے معاملہ کی نزاکت واہمیت کے پیش نظر لاہور میں ذیلی دفتر کا قیام اسی بشیر احمد صاحب ریڈ وکیٹ کو مٹی واقعی میں موڈ ہے) بھٹی ٹمپل لاہور) کے اندر ایک دفتر قائم کر دیا.ان دنوں قمر الا نبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلی تھے اور حضرت مصلح موعود نے تحقیقاتی عدالت سے متعلقہ امور کی نگرانی آپ ہی کے سپرد فرمار کھی سے رسالہ انقلاب نو“.لاہور.جلد مبرم شمارہ نمبر ہے ص نمبر ۳۳ یکم اپریل تا اور اپریل ۱۹۶۳ء ه اقبال اور ملا ابيع مضتم ص ۱۸ - ۱۹ نانر بزم اقبال، زمینگھ دراس گارڈن ، کلب روڈ ، لاہور.

Page 312

٣٠١ تھی.آپ نے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ کی معیت میں اپنے اہم فرائض کو سات آٹھ ماہ تک جبس بصیرت ، خوش اسلوبی اور جانفشانی سے ادا کیا اس کا اندازہ صرف وہی مخلصین جماعت لگا سکتے ہیں جنہیں اس زمانے میں آپ کے ماتحت کام کرنے کا موقعہ نصیب ہوا.علاوہ ازیں اس دور کے ریکار ڈ میں آپ کے قلم مبارک سے جو ہدایات اور ارشادات اور خط و کتابت موجود ہے اس سے قطعی طور پر پتہ چلتا ہے کہ آپ نے حضرت المصلح الموعود کے احکام کی بجا آوری میں جزئیات اور تفصیلات تک کو بھی ملحوظ رکھا ہے بلاشبہ یہ ایک عظیم معرکہ تھا جس میں آپ کی عظیم الشان خدمات ہمیشہ نرین الفاظ سے لکھی جائیں گی.جناب منظور احمد صاحب قریشی کا تحریری بیان ہے کہ : در جماعت احمدیہ نے جن دنوں اپنا کیس تحقیقاتی عدالت کے روبہ و پیش کیا میں اس زمانہ میں چوک نسبت روڈ لاہور پر بطور ٹائپسٹ کام کرتا تھا.ہماری جماعت نے مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور کی کو بھی واقع ۱۳ ٹمپل روڈ لاہور میں اپنا دفتر قائم کیا ہوا تھا.جماعت کو بعض ٹائپسٹ کی ضرورت پیش آئی تو لاہور سے مجھے اور ایک اور صاحب خلیل احمد - قریشی پنجاب سیکر ٹریٹ کو اور ربوہ سے حسن محمد خان صاحب عادت کو بلوایا گیا.ہم روزانہ صبح کو بھی پر پہنچے جاتے تھے.ہمیں مسورہ دیا جاتا تھا اور ہم اسے ٹائپ کرتے جاتے تھے اور پھر اصلاح کر کے دوبار و ٹائپ کرایا جاتا تھا.ٹائپ شدہ مسودہ پر حضرت مولانا عبدالرحیم در د صاحب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور ملک عبد الرحمن صاحب خادم ایڈووکیٹ گجرات وغیرہ راه والد ماجد ڈاکٹر قریشی لطیف احمد صاحب ہارٹ سپیشلسٹ فضل عمر مبینال) ولادت ۱۵ جولائی ۱۹۱۳ء - مولد ریاست اور تعلیم اجمیر شریف میں حاصل کی پھر فوج میں ملازم ہو گئے قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے ۲۵ دسمبر ۱۹۴۷ء سے لیکر 4 ار مارچ ۱۹۸۷ د تک لاہور میں ٹائپ کا کام کیا.آپ کے ادارہ کا نام ٹائپ کا رنہ تھا.آپ مولانا عبد المالک خاں صاحب مربی سلسلہ کے سمبندھی ہیں.آج کل آپ اپنے صاحبزادہ قریشی لطیف احمد صاحب کی کو بھی ۱ دارالعلوم وسطی ریوہ میں قیام پذیر ہیں.١٨ و

Page 313

٢٠٢ نظر ثانی فرماتے اور تصحیح ترمیم اور اضافہ کے بعد اسے دوبارہ ٹائپ کیا جاتا تھا.یہ کام رات گئے تک - ہوارہ بنا تھا.تقریبا دس روز تک یا زیادہ ہم مسیح سے شام تک کام کرتے رہتے تھے ہم تینوں نے تمام ٹائپ کا کام ہاتھ میں لے لیا.مسودے بنتے رہے اور ٹائپ ہوتے رہے.مگر جو بیان صدرہ انجمین احمدیہ ربوہ کی طرف سے دائر ہونا تھا وہ میرے حوالے کیا گیا اور میں نے اُسے بہت ہی احتیاط سے ٹائپ کیا اور وہی داخل عدالت کیا گیا.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب در دوا اور شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور نے میری بہت تعریف کی اور میرے کام کو بہت پسند فرمایا.اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے مجھے یہ سعادت عطا کی اور مجھے ان بزرگوں کی دعاؤں میں شامل کیا.محترم شیخ صاحب نے مجھ سے کئی مرتبہ ٹائپ کا معاوضہ لینے کے لیے اصرار فرمایا لیکن میں نے قطعی انکار کر دیا کہ یہ لسلہ کا مبارک کام تھا اور اس کے ثواب میں حصہ دار ہونا میرے نزدیک ایک عظیم سعادت منفی داشه حضرت سیدنا المصلح الموعود کی خدمت اقدس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے لكها.بسم الله الرحمن الرحیم سيدنا ! محمدة وتصلى على سوالب الكريم السلام علیکم درحمة الله وبركاته آج شیخ بشیر احمد صاحب کا خط لاہور سے آیا ہے کہ کام کی سہولت کے لیے مختلف شعبوں کے انچار ج نامزد ہو جانے چاہئیں تا ذمہ داری کا زیادہ احساس ہو اور باہم تعاون بھی رہے.انتظام تو پہلے سے موجود ہے لیکن اگر حضور پسند فرماویں تو کیا نہ یادہ تعین کیا تقد مندرجہ ذیل تنظیم جاری کردی جائے ؟ ه تحریری بیان مورخه ۳ جولائی ۱۹۹

Page 314

ا.مرکزی دفتر کا انچار ج ناظر اعلی جمعیت ناظر امور خارجہ ارشاد حضرت مصلح موعود درست ہے) مقدمہ کی قانونی پیروی کے انچارج شیخ بشیر احمد صاحب بمعیت چوہدری اسد اللہ خان صاحب جو شیخ صاحب کی غیر حاضری میں انچارج بھی ہوں گے.عمومی نائب خادم صاحب ہوں گے.درست ہے بشرطیکہ میری سکیم میں رخنہ نہ پڑ سے ملا ارشاد حضرت مصلح موعود) دین اور علمی حوالہ جات و تبصرہ جات کے انچارج شمس صادر بے معیت مولوی ابو العطار صاحب مولوی صدیق صاحب - خادم صاحب بھی حسب ضرورت امداد کریں گے.درست ہے" ارشاد حضرت المصلح الموعود) - دفتر کے انچارج چوہدری غلام مرتضی صاحب.نقول کے حصول کا کام بھی انہی کے سپرد ہو گا.ز درست ہے ارشاد حضرت مصلح موعود سه خالد احمدیت ملک عبد الرحمن صاحب خادم گجراتی (ناقل) سے جنہیں مطلوبہ کے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی سالانہ رپورٹ ۵۴-۱۹۵۳ء ص میں لکھا ہے.فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی کارروائی کے سلسلہ میں شاء سے قبل کے اخبارات و رسائل قادیان سے منگوائے گئے اور ان میں سے مفید مطلب حوالہ جات عدالت میں پیش کرنے کے لیے بیتا کئے گئے.نیز تحقیقاتی عدالت کی کارروائی کے سلسلہ میں علما و سلسله وطلباء جامعة المبشرين ربوه و طلباء جامعه احمدیہ احمد نگر کثرت سے تلاش حوالہ بات کی عرض سے لائبریری میں آتے ٹریچر ہم پہنچایا جاتا رہا.اس سلسلہ میں لائبر یہ ہی کا تمام عملہ کئی کئی گھنٹے دن کو اور رات کو سبھی زائد دقت دیتا رہا اور لائبریہ ہی کھلی رکھی جاتی رہی عدالتی کاروائی کے سلسلہ میں مولوی محمد صدیق صاحب انچارج لائبریری در ایک مددگاه کارکن انبر یہی تسلیم اللہ صاحب) بہت ہی ضروری کتب نے کر اکتوبر ۶۱۹۵۳ ۱ مارچ ۱۹۵۲ تک پانچ ماہ لاہور میں رہتے اور وہاں دن رات کام میں مصروف رہے.اس عرصہ میں دن اور رات کے کسی حصہ میں جب بھی ضرورت پڑی.ربوہ سے لائبریری کے کارکنان لاہور کتب بھجواتے رہے.

Page 315

۳۰۴ ۵- تمام کام حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بصرہ کی ہدایات کے ماتحت اور حضور کے استصواب کے ساتھ کیا جائے گا.بسم الله الرحمن الرحیم سيدنا ! خاکسار مرز البشير احمد 16/9/05 محمودة ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمہ اللہ وبر کاشته شیخ بشیر اص صاحب کے ایک سابقہ خط کی بنا پر عظیم اورتقسیم کار کے متعلق حضور کی ہدایات کی روشنی میں ایک نوٹ تیار کر کے جملہ کارکنان کی خدمت میں بھجوایا گیا ہے.اس پر شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے تازہ خط مورخہ ۱۲۳ اگست ۱۹۵۴ زمین در امور کے متعلق مزید وضاحت چاہی ہے تاکام ہمیں مزید سہولت پیدا ہونے کا رستہ کھلے.تابیات شیخ صاحب، یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ وہ مقدمہ کی قانونی پیروی کے انچارج ہیں اور انہوں نے عدالت میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے پیروی کرنی ہوتی ہے اس لیے اس امر کی صراحت ہونی چاہیئے کہ اگر کسی امر میں قانونی تکمیل کی غرض سے شیخ صاحب کوئی بات شمس صاحب یا چوری کام مرتضی صاحب سے کہیں تو وہ اس کی تعمیل کریں نا کام میں روک اور تعویق نہ پیدا ہو.میرے خیال میں یہ درست ہے اس کی صراحت کر دینی چاہیے باقی یا دینی امور کی حفاظت کا سوال سودہ ذیل کے حصہ میں آجاتی ہے..دوسری وضاحت یہ چاہتے ہیں کہ شیخ صاحب کی قانونی قیادت کے متعلق جو حضور کا یہ نوٹ ہے کہ :.درست سے بشیر طیکہ میری سکیم میں رخنہ نہ پڑے یا اس سے کیا مراد ہے تا شیخ صاحب پوری پابندی اختیار کر سکیں سو اس کے متعلق بھی بات واضح ہے کہ حضور کی طرف سے اس وقت تک جو ہدایات جاری ہو چکی ہیں یا آئندہ ہوں وہی حضور کی.سکیم سے مثلاً (الف) عدالت کے سات سوالوں کے جواب میں جو کچھ حضور کی منظوری کے بعد عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے.اس کی روح اور مقصد کے خلاف کوئی بات نہ ہو.

Page 316

(ب) جماعت اور خلافت کے وقار کے خلاف کوئی بات نہ کہی جائے.(ج) اگر فریق مخالف کی طرف سے کوئی مزعومہ تضاد حضور اور حضرت مسیح موعود کے بیانات میں پیش کیا جائے یا حضور کی اپنی تحریروں اور اعلانوں میں کوئی مزعومہ تضاد پیش کیا جائے تو ایسے تضاد کو تسلیم نہ کیا جائے اور بہر حال ایسے امر کا جواب حضور سے پوچھ کر دیا جائے.(2) دینی اور مذہبی امور اور حوالہ جات کو پیش کرتے ہوئے چوہدری اسد اللہ خان صاحب کو آگے کر دیا جائے یا وہ نہ ہوں تو خادم صاحب اور شمس صاحب کے مشورہ سے کام کیا جائے.وغیرہ وغیرہ مطابق ہدایت بالا کہ کوئی بات حضور کی کسی جاری شدہ ہدایات کے خلاف نہ ہو.خاکار ارشاد حضرت مصلح موعود ) مرزا البشير احمد ۲۹ مرے نزدیک تو ٹھیک جواب ہے“.شیخ صاحب.چوہدری اسد اللہ خان صاحب - درد صاحب - خادم صاحب شمس صاحب اور چو ہدری غلام مرتضیٰ صاحب کے نام ہارا بہت جاری کی گئی.مر البشير احمد تحقیقاتی عدالت کے طریق کار کی روشنی میں صدر انجمن احمدیہ جماعت احمدیہ کالائحہ عمل پاکستان نے ابتدا ہی میں ایک عمل لائحہ عمل مرتب کرلیا تھا جو حسب ذیل الفاظ میں تھا : بسم الله الرحمن الرحيم محمده ونصلى على رسوله الكريم تحقیقاتی کمیشن برائے گزشتہ مفادات کے متعلق جماعت احمدیہ کالا تحمل جون و جولائی ۱۹۵۳ء حکومت پنجاب نے جو تحقیقاتی کمیشن گزشتہ فسادات کے بارے میں تحقیق کرنے کے لیے مقرر کیا ہے.اور کمیشن نے اپنے کام کے متعلق جو طریق کار تجویز کر کے شائع کیا ہے.

Page 317

۳۰۶ اس کے ماتحت کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ کی صحیح پوزیشن واضح کرنے اور جماعت کی مظلومیت کو آشکار کرنے کے لیے مندرجہ ذیل لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے.اس پنجاب کے جن اضلاع میں فسادات کا زور ہاہے اور جماعت کے افراد کے خلاف عملی اقدامات کر کے جانوں یا مالوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے.ریعنی لاہور.لائل پور سیالکوٹ - گوتبرانوالہ راولپنڈی.ملتان اور منٹگمری) ان کے امراء کو پہلے بھی لکھا جا چکا ہے اور مزید تاکید سے لکھا جائے کہ وہ اپنے علاقہ میں مساوات کے موجباب ( قریب والجید) اور فسادات کی نوعیت اور فسادات کے دوران میں جماعت احمدیہ کے جانی اور مالی نقصات وغیرہ وغیرہ کے بارے میں مکمل اور تفصیلی رپورٹ کریں.یہ رپورٹ ، ارجولائی ۱۵۳ تک ضرور مرکز میں پہنچ جائے.اس رپورٹ میں مخالفوں کی کارہ والیوں اور ریشہ دوانیوں اور اشتعال انگیزیوں اور ان کے تاریخ کو اچھی طرح بے نقاب کیا جائے.اور نیز بتایا جائے کہ کون کون لوگ اس فتنہ میں پیش پیش رہے ہیں.- خاص آدمی مقرر کر کے مخالفوں کے اختبارات اور رسائل وغیرہ سے ایسی تحریریں معہ ضروری حوالہ جات جمع کی جائیں جن میں جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز پراپیگنڈا کیا گیا ہو.اور انراد جماعت کے خلاف عوام الناس کو ابھارا اور اکسایا گیا ہو.ایسے حوالہ جات خصوصیت ۱۹۵۲ اور ۱۹۵۲ء سے تعلق رکھنے والے جمع کیے جائیں تا مخالفوں کی اشتعال انگیزی با کل عریاں ہو جائے نیز حضرت امام جماعت کو جود دھمکی آمیز خطوط آتے رہے ہیں اور ان میں سے بعض کی رپورٹ حکومت کو بھجوائی جاتی رہی ہے اس کا ریکارڈ جمع کیا جائے.صیغه نظارت امور عامه وخارجہ ربوہ اپنے موجودہ ریکار دست مدد لینے کے علاوہ اوپر کی ہر دو قسم کے مواد سے مدد لے کر کمشن کے اعلان کے مطابق دو قسم کی مفصل رپورٹیں تیار کرے جن میں سے ایک رپورٹ میں فسادات کے موجبات اور محرکات اور بواعث رقریب و بعید) کی مکمل تشریح اور نقدین درج کی جائے.اور جماعت کی مظلومیت کو آشکارا کیا جائے اور بتایا جائے کہ ختم نبوت وغیرہ کے مقدس عقیدہ کو رجس پر جماعت احمدیہ دل و جان سے ایمان لاتی ہے، محض ایک بہانہ بنایا گیا ہے.ور نہ مخالفین کی اصل عرض جماعت احمدیہ کے خلاف عوام الناس کو اکسا کر اپنے مخصوص مفاد حاصل کرنا اور جماعت کو نقصان پہنچانا تھی.حالانکہ جماعت احمد یہ ختم نبوت کے عقیدہ پر پورا پورا ایمان لاتی ہے.اور ساتھ بہ

Page 318

ستر سال اپنے عقائد کی معقول تشریح پیش کرتی چلی آتی ہے.یہ بھی اشارہ کر دیا جائے کہ مجلس احرار کی اصل عرض پاکستان کو کمزور کر نا اور مہندوستان کے لیے رستہ صاف کرنا تھی دو مری سرپورٹ میں گزشتہ فسادات میں جماعت کے جانی ومالی نقصانات کی تفصیل صحیح صحیح صورت میں پیش کی جائے یہ دو رپوریٹیں.ارجولائی سوار یک مکمل ہو کر ان پر بحث ہو جانی چاہیئے.اس لیے یہ کام با توقف شروع کر دینا چاہیئے.۴- نظارت امور عامہ جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش ہونے کے لیے ایک قابل وکیل مقرر کرے.(چوہدری اسد اللہ خانصاحب یا شیخ بشیر احمد صاحب یا کوئی اور) جو مکمل تیاری کے بعد جماعت کی طرف سے مقرہ تواریخ پر پیش ہو.اس وکیل کی مدد کے لیے دو جونیئر وکیل رچو ہدری غلام مرتضی صاحب اور شیخ نور احمد صاحب بطور سولیٹر مقر کیے جائیں جو تمام مزدوری ریکارڈ اور شادات کا مطالعہ کر کے وکیل کی بحث کے لیے مواد تیار کرے.حسب ضرورت ملک عبد الرحمن صاحب خادم سے بھی مدد لی جائے..جماعت کی طرف سے چند سمجھ دار اہل الرائے اور با حیثیت اصحاب کو بطور گواہ تیار کیا جائے جو کیشن کے سامنے پیش ہو کہ فسادات کے موجبات اور تفصیلات اور جماعت کے نقصانات وغیرہ کے بارہ میں شہادت دیں.اس گواہی کے لیے ناظر صاحب امور عامہ دور و صاحب) میاں ناصر احمد صاحب.شیخ نور احمد صاحب - چوہدری اسد اللہ خان صاحب یا شیخ کبیر احمد صاحب ریعنی ان دونوں میں سے جو بطور وکیل مقریہ ہو اس کے علاوہ دوسرا چو ہدری نذیر احمد صاحب باجوہ سیالکوٹ پیشیخ محمد احمد صاحب لائلپور.میر محمد بخش صاحب گوجرانوالہ.میاں عطاء اللہ صاحب پنڈی.چوہدری محمد شریف صاحب منتگری (برائے ادکارہ اور ملتان کا کوئی نمائندہ مثلاً عبد الرحمن صاحب کلا ق مرچنٹ یا میاں عبد الرحیم مناسب پراچہ اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم، در و صاحب اور خادم صاحب عمومی گواہ ہوں گے اور باقی اپنے اپنے علاقہ کے مخصوص گواہ ہوں گے.ان کی طرف سے بروقت درخواست بھجوا دینی چاہیئے.اسی طرح اگر کوئی با حیثیت شریف غیر احمدی گواہ مختلف علاقوں سے تیار کئے جاسکیں تو اس کے لئے ضروری کوشش کی جائے.ایسے لوگوں کی جماعت کے حق میں گواہی بہت مفید ہوسکتی ہے.ایسے اسباب اپنی شہادت براہ راست پیش کریں.4.وکلاء اور گواہ صاحبان نتیاری میں مندرجہ ذیل امور کو خصوصیت سے مدنظر رکھیں.

Page 319

(الف) فسادات کا پس منظر کیا تھا اور وہ کونسی وجوہات تھیں جنہوں نے بالآخر فساد کی صورت پیدا کر دی رہیں.خطبات خفیہ ریشہ دوانیوں وغیرہ سب کو مد نظر رکھا جائے.اب فسادات کی نوعیت اور تفصیل کی تھی اور فسادیوں کا طریق کار کیا تھا بعیں سے منظم اور سوچی سمجھی ہوئی سکیم پر روشنی پڑتی ہو.(ج) کون کون سے لوگ فسادات میں پیش پیش تھے اور ان کا طریق کار کیا تھا.(3) فسادات کیساتھ احرار اور مودودیوں کا خاص تعلق کیا رہا ہے.(0) علاقہ میں احمدیوں کا جانی اور مالی نقصان کیا ہوا ہے ۱۹۵۷ ، ۹۵۳ ، ہر دو کے متعلق تفصیل تیار ہونی چاہیئے.(2) علاقہ کے کن کن احمدیوں کو جبر اور تشدد سے احمدیت سے منحرف کیا گیا.(ن) فسادات کے دوران میں علاقہ کے سرکاری حکام کا رویہ کیا رہا.(ح) علاقہ کے شریف غیر احمدی احباب کا مشریفانہ رویہ کیا رہا.(ط) آئندہ کے متعلق امکانی خطرات اور ان کے انسداد کے لیے کیا تجاویز مناسب ہیں..چونکہ کشش نے پندرہ جولائی ایک رپورٹیں اور گواہوں کے نام مانگے ہیں اس لیے پور میں استوائی تک تیار ہو جانی چاہئیں اور گواہوں کی طرف سے درخواست چلی جانی چاہیئے تا اس کے بعد ایک دو دن میں وکلاء اور دیگر واقف کاروں سے مشورہ کر کے بر وقت داخل کرائی جاسکے.وکلاء اور گواہوں کو بلا توقف تیاری کی ہدایت بھجواکر ایک اطلاع پہلے بھی جاچکی ہے، کام پر لگا دیا جائے.اور ان کے کام کی مسلسل نگرانی رکھی جائے تاکسی قسم کی غفلت نہ ہو.- معاوضہ پر کام کرنے والوں کے ساتھ ان کے معاوضہ کا ابھی سے فیصلہ کر لینا چاہیئے تابعد میں کوئی غلط فہمی نہ پیدا ہو مثلاً وکیل رجو مدری اسد اللہ خالصاحب یا شیخ بشیر احمد صاحب) اور جونیئر وکیل دشیخ نور احمد صاحب) کے معاوضہ کا فیصلہ کیا جاوے اور حضرت صاحب یا انجمن سے بر وقت منظوری حاصل کر لی جائے.۹- جملہ کارروائی کے ساتھ ساتھ حضرت صاحب کی خدمت میں رپورٹ بجھوائی جاتی رہے.بہ لائحہ عمل صرف سرسری ہے.جو محمبل صورت میں تیار کیا گیا ہے.دفتر مرکزی اور د کلا مادر گواہیان

Page 320

اور امراء صاحبان کا یہ امن ہوگا کہ کشن کی رمز آن بیفرانی دیکھ کر اور پھر کش کے تجویز کردہ طریق کار کا مطالعہ کر کے جو مزید کارروائی ضروری زوده بر وقت سر انجام دے کر عنداللہ ماجور ہوں تا دنیا پر جماعت احمدیہ کی بہت اور مظلومیت ثابت ہو اور مخالفین کے مظالم آشکارا ہو جائیں.بحث کے خطوط کا مختصر خاکہ صدر انجمن حمدیہ پاکستان نے اس مسئلہ پر بھی گہرا نور فکر کیا کہ وکلائے احمدیت کی طرف سے بحث کی لائن کیا ہونی چاہیئے ؟ ؟ اس سلسلہ میں جو مختصر خاکہ تیار کیا گیا وہ درج ذیل ہے.: محمدہ و نصلی علی رسوله الكريم بسم الله الرحمن الله همیم وعلى عبد المسيح الموعود عدالتی کمشن کے لئے بحث کی لائن کا مختصر خاکہ ا.اسلام اور احمدیت کی باہمی نسبت کیا ہے ؟ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ اسلام ہی - کے احیاء اور تجدید کا دوسرا نام ہے ۲ - بانی سلسلہ احمدیہ کا منصب اور جماعت کے عقائد (مسیح اور مہدی کا عقیدہ) بانی سلسلہ کی بعثت قرآن اور حدیث کی پیش گوئیوں کے مطابق ہوئی ہے.۳ - بانی سلسلہ احمدیہ نے کب دھو نے کیا ؟ جماعت احمدیہ کے آغانہ کی تاریخ اور مولویوں کی مخالفت کی ابتداء اور ناگوار فتوے باندی.۴ - اُمت محمدیہ میں دی اور الہام کا سلسلہ ۵ - نزول جبر نبیل اور وحی کی اقسام 4 - بانی سلسلہ احمدیہ کا لی اور امتی نبوت کا دعوی اور عقیدہ ختم نبوت کی تشریح ے.سابق علماء اسلام کی طرف سے ختم نبوت کی تشریح.ہر زمانہ سے مثالیں پیش کی جائیں.مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ کی بنیاد بغاوت اور تشریعی نبوت کا دعومی مھتی نہ کہ کچھ اور.۹ - کفر و اسلام غیر احمدیوں کی حقیقت.اسلام اور کفر کی دو تعریفیں ہیں.ایک ظاہر ی اور ایک حقیقی.^

Page 321

۳۱۰ کفر کے فتویٰ میں غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی..خدا کے نزدیک آخرت میں قابل مواخذہ ہونے کا اصول محض عقیدہ کا غلط ہونا نہیں بلکہ مسارب عقیدہ پر اتمام حجت اور عقیدہ میں دیانتداری ہے.۱۲ - اقتداء نماز کا مسئلہ.اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی نماز میں بہر حال زیادہ منتفی امام کو تر جیح دی جاتی ہے.۱۳ - جنازہ کا مسئلہ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی.۱۴ - احمدیوں کے جنازوں کے ساتھ غیر احمدیوں کا اخلاق سوز سلوک.• ۵ ریشته ناطہ کا مسئلہ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی رشتہ میں خیالات اور عقائد کی ہم آہنگی دیکھی جاتی ہے.- 14.جہاد کے مسئلہ کے متعلق جماعت احمدیہ کا عقیدہ جماعت احمدیہ کے نزدیک کوئی اسلامی حکم منسوخ نہیں اور نہ قیامت تک ہو سکتا ہے.ا.سخت کلامی کے الزام کی تردید اور تشریح اور اس بارے میں خود بانی سلسلہ احمدیہ کا اعلان - - ۱۸ - حضرت مسیح محرمی اور امام حسین کی بنگ کا غلط الزام اور اس کی تشریح.۱۹ - آنحضرت مسلم پر فضیلت کا مفتر یا نہ الزام.آپ کے مقابل پر بانی سلسلہ احمدیہ کا مقام خادم اور شاگرد کا تھا.۲۰.ملک میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کا باطل الزام اور اس کی تردید.۲۱ - کوئٹہ کا خطبہ اور ملازمتوں پر قبضہ کرنے کا غلط الزام اور اس کی تشریح.۲۲ - حکومت برطانیہ کے ساتھ سانہ بانہ کا اتہام اور برطانیہ کی وفاداری کی نشر کیے اور اس بارے میں جماعت کا اصولی نظریہ.پاکستان بننے کی مخالفت کا الزام.جماعت نے ہر حال میں مسلمانوں کا ساتھ دیا.۲۲ - متوازی حکومت قائم کرنے کا الزام.جماعتی تنظیم سے غلط استداللہ.۲۵.بوہ کا مرکز علیحدہ قائم کرنے کا سوال مرکز کا قیام جماعتی تنظیم کا حصہ ہے مگر پھر بھی ربوہ

Page 322

کی رہائش مقررہ شرائط کے ماتحت دوسروں کے لیے بھی کھلی ہے.۲۶ - قتل مرند کا مسئلہ.مرتد کے لفظ کی تشریح.۲۷ - جماعت احمدیہ کا حق شہر بیت اور شہریت کا اسلامی نظریہ.۲۸.ہر جماعت کو اپنے عقائد اور خیالات کی تبلیغ کا حق ہے.تبلیغ کے متعلق جماعت احمدیہ کا پر امن نظر یہ.خیالات کا پُر امن تبادلہ ملک کی ذہنی اور علمی اور عملی ترقی کے لیے مفید ہے ( اخْتَلَافُ أُمّتى رَحْمَةٌ) - ۲۹ - جماعت احمدیہ کی شاندار اسلامی خدمات (اندرون ملک میں اور بیرون ملک میں)..جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کے متعلق غیر از جماعت لوگوں کے تعریفی اعلانات - ۱ - جماعت احمدیہ کی مخالف پارٹیاں اور ان کی ہم آہنگی.۳۲.جماعت اسلامی کے نظریات اور امن شکن کارروائیاں.۳۳ - احداسہ اور مجلس عمل کے نظریات اور امن شکن کارروانیاں.۳۴ - راست اقدام کے نظریہ کی حقیقت اور اسلام کی رو سے اس کا عدم جواز.۳۵ - گزشتہ فسادات میں جماعت اسلامی اور ساحرانہ اور مجلس عمل کی ذمہ داری.۳۶ - مساوات کا بروقت انسداد نہ کرنے کے متعلق حکومت کی ذمہ داری (اور صوبہ کی حکومت کی خاص ذمہ داری ) ه مضادات ایک منظم اور سوچی بھی سکیم کے ماتحت ہوئے.۳۸ - منادات کا بھیانک نفسہ اور اگر خدانخواستہ یہ فسادات کامیاب ہوتے.تو ان کے نتائج ملک کے لیے تباہ کن ہوتے.۳۹ - اگر حکومت وقت پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتی تو سول انتظام کے ماتحت بھی فسادات کا انسداد کر سکتی مفتی مگر حالات پیش آمدہ میں مارشل لاء کا نفانہ ناگزیر ہو گیا..اس قسم کے فسادات کا بیرونی دنیا پر انتہائی طور پر ناگوار ائشه حضرت مصلح موعود کی ہدایات حضرت اقدس صلی المحمود نے منترت صاحبزادہ صاحب کو اپنے خطوط میں قدم قدم پر بیش بہا اورقیمتی بات پربات

Page 323

۳۱۲ سے توانسا.مثلاً ۱۳ را گست ۱۹۵۳ء کو تحر یہ فرمایا : - ١٣/٨/٠٣ ریم السلام علیکم ورحمة الله وبركاته مد یہ موقعہ ایسا ہے کہ ایک ایسا ہی شخص جماعت کی نمائندگی کر سکتا ہے میں کا دل گداز اور ایمان سے پر ہو بغیر ایمان کی زیادتی اور عقیدت کی فراوانی کے کوئی شخص اس فرض کو اس وقت ادا نہیں کر سکتا.کمیشن کی کارروائی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود اور ان کے خلفاء کے رویہ اور نیتوں کے متعلق محملے کیے جائیں گے.........اس وقت تو دو شخص کھڑا ہونا چاہیئے جس کا دل سلسلہ کی غیرت سے بھر پور ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ کی مہتک کی باتوں کو دیکھ کر پاؤں سے سرنگ شعلہ اٹھتا ہوا محسوس کرے بات کرتے وقت اس کی آوازہ میں لرزش اور آنکھوں میں چمک اور بانی ہو یہ وہ شخص ہے جو اس وقت کا حق ادا کر سکتا ہے.ہم حق پر ہیں خدا ہمارے ساتھ ہے.ہم کسی سے ڈرتے نہیں نہ کسی انجام سے فون کرتے ہیں لیکن بات کو مسیحی طور پر پیش کرنا ہمارے ذمہ ہے اور خدا تعالیٰ کے آگے ہمیں جواب دینا پڑے گا اس سلسلہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود کا درج ذیل حضر مصلح موعود کا ایک اہم مکتوب مغرب خاص اہمیت رکھتاہے مکتوب حضور نے اپنے حرم حضرت سیدہ امتم منین صاحب مدظلہ العالی کو املاء کرایا تھا.جو سندھ سے ، جولائی ۱۹۵۳ء کو موصول ہوا.السلام علیکم ورحمه الله نذیر علی صاحب آئے.تین خط انہوں نے دیئے سول پہلے پڑھ چکا تھا.کورٹ کے ڈیکلریشن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس انکوائری کا مقصد اس سے زیادہ وہ سمجھتے ہیں جتنا کہ گورنمنٹ کے اعلان سے معلوم ہوتا تھا اور اس انکوائری میں خطرہ ہے کہ بعض لوگ بات کو بگاڑ کہ اس انکوائری کو مذہبی اختلاف اچھالنے کا موجب نہ بنائیں.حجز دونوں ہوشیار ہیں لیکن بعض دفعہ وکلاء ہوشیار بچوں کو بھی ادھر سے اُدھر سے جاتے ہیں.........ہماری طرف سے یہ مواد پوری طرح بہتا ہونا چاہیئے کہ دو تین سال سے یہ کار ہوائی ہور ہی تھی مگر حکومت نے کچھ نہیں کیا کوٹہ کا قتل سب سے پہلے ہوا.جلسہ خلیفہ المسیح کے گھر کے سامنے کیا گیا اس میں تقریریں یہ کی گئیں کہ مرزا صاحب نے تو ایسے دعوے نہیں کیے تھے مگر ان کے لڑکے نے ایسی

Page 324

باتیں کرنی شروع کیں کیونکہ وفات یافتہ کے متعلق لوگوں کے جوش کام نہیں آسکتے لیکن زندوں کے متعلق آسکتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک احمدی ڈاکٹر میری مورد توکسی مریض کو دیکھ کہ آرہا تھا اور میں نے ہجوم دیکھ کر اپنی کار کھڑی کر لی تھی مشتعل ہجوم نے پہچان کہ ہزاروں آدمیوں کے جلسے سے صرف چند گز کے فاصلہ پہلے جا کر مار دیا.لیکن یا دیود اس کے کہ واقعہ جلسہ گاہ کے قریب ہوا ہزاروں آدمیوں کے پاس ہوا پھر مجرم نہیں پکڑے گئے.پھر اوکاڑہ میں ایک احمدی کو مار دیا گیا یہ بھی مولویوں کے اکسانے پر ہوا خود مجرم نے اقرارہ کیا کہ مولویوں نے کہا تھا کہ ان لوگوں کو ختم کرنا ثواب کا کام ہے.اس کے بعد راولپنڈی میں واقعہ ہوا.دن دھاڑے ایک احمدی کو جاتے ہوئے پبلک سیر گاہ پر مار دیا گیا اور وہاں بھی وہی وجیہ احمدیوں کے اشتعال دلانے کی منفی یہ چار قتل چار سال میں ہوئے اور ایک نوعیت کے ہوئے لیکن جو انگیخت کرنے والے تھے اُن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی بلکہ ان کی امداد کی گئی.چنانچہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد دو سال ہوئے غیاث الدین صاحب کو جو اس وقت گورز کے سیکرٹری تھے ان کو ملے تو انہوں نے بتایا کہ آپ لوگ قربان علی خان صاحب انسپکٹر جنرل پولیس سے بھی میں انہوں نے بڑے زور سے گورنمنٹ میں رپورٹ کی ہے کہ جب تک منبع کو نہیں پکڑا جائے گا.یہ فسادات دور نہیں ہوں گے.احمدی کم ہیں اگر عوام الناس نے مولویوں کے جوش دلانے پر ایک ایک احمدی کو مارا اور خود پھانسی بھی چڑھ گیا تو تیجہ کیا نکلے گا نہ انضامن قائم ہوگا نہ امن جو لوگ اکسار ہے ہیں اُن کو کچڑ نا چاہیے چنانچہ ان کی تحریک پر احمدیہ جماعت کا ایک وفد قربان علی خان صاحب سے بھی ملا اور انہوں نے اسی کے خیالات کا اظہار کیار اس وفد میں غالباً شیخ بشیر احمد صاحب اور در و صاحب شامل تھے وہ تفصیلات بتا سکتے ہیں) اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو عیاث صاحب کا نام چھوڑا جاسکتا ہے.کیونکہ شاید ان پہ الزام آئے کہ گورنمنٹ سیکرٹ آوٹ کئے ہیں، لیکن با وجود ان تمام کوششوں کے نتیجہ کچھ نہ نکلا اور گورنمنٹ نے کوئی ایکشن نہ لیا اور جب چیف سیکرڑی سے ہمارے وفد طے تو انہوں نے کہا کہ وہ قانون لاؤ جس کے ماتحت ہم اڈیٹروں یا لیڈروں کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں جب کہا گیا کہ قانوں کے ذمہ دار تو آپ ہیں تو انہوں نے کہا کہ کوئی عام قانون نہیں جس کے ماتحت ہم ان لوگوں پر ہاتھ ڈال سکیں اور خاص قانونوں کو ہم استعمال نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے اشتعال بڑھے گا.یجب ۹۵۲ کے وسط میں ۱۴۴ دفعہ لگائی گئی تو مختلف مقامات

Page 325

۳۱۴ کے وفد جب حکومت کے افسروں سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ ہم کو ایک طرف یہ اختیارات دیئے گئے ہیں دوسری طرف ہم کو مؤثر قدم اٹھانے سے روکا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیفٹی ایکٹ کو استعمال نہیں کرتا جو ۱۴۴ دفعہ توڑے اگر مناسب ہو تو اس کے خلاف قدم اٹھانا ہے.چند دنوں کے بعد ہی اس ہدایت کو واپس لے لیا گیا اور دولتانہ صاحب نے اعلان کیا کہ ہم نے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی جو قدم اٹھایا ہے ضلع کے افسروں نے اپنی ذمہ داری سے اٹھایا ہے ریہ تقریر چھپی ہوئی سے تلاش کریں، چنانچہ فوراً سب لوگ چھوڑ دیئے گئے اور شورش پھر تیز ہونی شروع ہو گئی جب افسران ضلع کو پھر توجہ دلائی گئی تو بعض افسران نے تو یہ کہ کر ٹال دیا کہ کوئی شور وغیرہ نہیں ہے.آپ کو وہم ہے.ضلع گور با انوالہ کے م.s نے صاف لفظوں میں ہمارے وفد سے کہا کہ شورش ہے لیکن ہم کچھ کرنے کو تیار نہیں ہم نے جب امن قائم کرنا چاہا تو ہم کو پبلک کی نظروں میں ذلیل کر دیا اور علی الاعلان حکومت نے پردے پر دے میں نہیں Condemnd کیا اب جو کچھ کہنا ہے جاکر پنجاب حکومت سے کہو ہم کچھ کرنے کو تیار نہیں اور آخر میں یہاں تک کہا کہ بے شک جا کر میرا نام نے دو کہ میں نے یہ بات کہی ہے.بعض افسروں نے یہاں تک کہا کہ ہمیں پو لیس کے محکمہ سے ہدایت آئی ہے کہ گورنمنٹ نے پولیس کو بدنام کیا ہے آئندہ ایسے مواقع سے پولیس کو الگ رکھو.اس سپر نٹنڈنٹ کی ملاقات کے بعد ہمارا وفد مچھر چیف سیکر ٹڑی سے ملا اور ان کو بتایا کہ پولیس کی یہ روایت ہے اور ڈپٹی کمشنر احرار کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ دو دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھے رہتے ہیں اور جب ہماراد قد جاتا ہے تو اس کو ملنے سے انکار کر دیتا ہے.چیف سیکر ٹری نے یہی کہا کہ ہماری اطلاعات یہی ہیں کہ فساد کو ئی نہیں ہو گا آپ کو یونہی دہم ہو رہا ہے اور ہم ڈپٹی کمشنر سے کہ دیں گے کہ وہ آپ کے وفد سے بھی ملا کر سے اور احرار سے اس طرح کے بے تکلفانہ تعلقات نہ یہ کھا کرے بلکہ ہم سارے اضلاع میں ایسی ہدایات بھیجوا دیں گے لیکن بعدمیں گوجرانوالہ سے بھی معلوم ہوا کہ نہ وہاں کوئی ہدایت دی گئی اور نہ ڈپٹی کمشن کو بلکہ الجھایا گیا اور نہ اور کسی ضلع میں ہدایت دی گئی ہے.چنانچہ اس ضلع میں شدید فساد ہوا اور لوگوں کو مجبور کر کے احمدیت سے پھر جانے کا اعلان کروایا گیا گو اب وہ سب واپس آچکے ہیں سوائے ایک کے جو معافی مانگ رہا ہے مگر ابھی تک جماعت نے اسے معاف نہیں کیا.سپرنٹنڈنٹ پولیس گوجرانوالہ نے جو کچھ کہا تھا اس کے مطابق عمل کیا تمام فسادات کے دوران میں کسی قسم کا کوئی علاج نہیں کیا کسی احمدی کی حفاظت نہیں کی اور گویا

Page 326

۳۱۵ پولیس کو تمام اعتراضات سے بالا رکھا.لائلپور کے سپر نٹنڈنٹ پولیس نے ایک رپورٹ کے موقعہ پر جماعت احمدیہ کے وفد اور ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں کہا احمد کی غلط کہ رہے ہیں کوئی فساد نہیں ہو رہا.یہ بالکل خلاف واقعہ با ہیں کہ رہے ہیں جب جماعت احمدیہ کے وفد نے نہ در دیا کہ فلاں جگہ پر فساد ہوتا ہے اور احمدیوں کی دکان لوئی جارہی ہے تو سپر نٹنڈنٹ پولیس نے ڈپٹی کمشنر کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر ان کی بات ٹھیک ہے تو میری داڑھی منڈوا دیجئے اور مجھے ذلیل کر دایئے.اس کے بعد جب اسی موقعہ پر ہماری جماعت کے آدمی اور وہ سپر نٹنڈنٹ جمع ہوئے اور اسے رکھا یا گیا کہ یہ دکان دیکھو ٹوٹی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی ہے کیا اب تم تیار ہو کہ اپنی داڑھی منڈواؤ اور ذلیل ہو تو ہنس کر چلا گیا.تمام اضلاع میں پولیس فسادوں اور سے پہلے احمدیوں کی اس میں مانگیں کہ ہمیں تمہاری حفاظت کا حکم آیا ہے بعض لوگ جو امام جماعت احمدیہ سے مشورہ لینے کے لیے گئے تو انہوں نے مشورہ دیا کہ ہرگز لسٹیں نہ دینا یہ دشمنوں تک پہنچ جائیں گی چنانچہ ایسی جگہوں پر احمدی بالعموم لوٹے جانے سے بچ گئے لیکن جہاں جہاں جماعت احمدیہ کے افردوں نے سادہ لوحی سے نہیں دے دیں وہاں غیر معروف احمدیوں تک کے مکان لوٹے گئے اور لاہور کے ایک غیر احمدی نے ہمیں بتایا کہ اس نے وہی بیست تو جماعت احمدیہ نے پولیس کو دی تھی فسادیوں کے ہاتھ میں دیکھی.اگر کورٹ اس نام کو ظاہر نہ کرے اور پوچھنا ہو تو معنی پوچھے تو ہم اس کا نام بھی بنا سکتے ہیں اگر اسے خطرہ نہ ہو تو ممکن ہے کہ وہ صحیح گواہی دے دے (مولوی عبد الغفور صاحب سے اس شخص کے نام کا پتہ لیا جا سکتا ہے لنڈے بازار اور کشمیری بازدارہ کے قریب کا رہنے والا ہے غیر احمد ی ہے لیکن چندہ دیتا ہے اس کی دکان بھی احمدیت کے الزام کے پیچھے لوٹنے لگے تھے یہ یہ رپورٹ سندھ آنے سے چند دن پہلے مجھے ملی تھی.سیالکوٹ میں فسادات شروع ہونے سے پہلے ہماری جماعت کا وفد سلم لیگ کے پر بینڈنٹ خواجهد محمد صفدر صاحب سے ملا اور کہا کہ ہماری جماعت ہمیشہ لیگ کی مدد کرتی رہی ہے اب یہ نازک وقت ہم پر آیا ہے کیا ہماری جماعت یہ سمجھے کہ اس وقت لیگ بھی وفاداری دکھائے گی اور سماری مدد کرنے کی یا وہ دشمنوں سے مل کر ہم پر حملہ کرے گی انہوں نے کہا انصاف کا تو ہی تقاضا ہے کہ ہم - آپ کی مدد کریں لیکن دولتانہ صاحب آرہے ہیں میں ان سے مل کہ آپ کی بات کا جواب دوں گا.دو نانہ صاحب کے جانے کے بعد انہوں نے بتایا کہ : دلتانہ صاحب بات تلاگئے ہیں اور کہا کہ جب

Page 327

تک مرکزہ ہماری اس بات میں راہ نمائی نہ کرے ہم کچھ نہیں کر سکتے Laws order صوبوں سے متعلق ہیں راسی سلسلہ میں دولتانہ صاحب سے جو وعدہ ملا تھا اس کی باتیں بھی نوٹ کی جائیں) راولپنڈی میں جو قتل ہوا.قاتل نے شروع میں یہ بیان دیا کہ مولویوں نے جو تقریریں کی تھیں اس کے نتیجہ میں میں نے مارا ہے لیکن پولیس نے اس بیان کو حذف کر دیا اور اس کو ذاتی جھگڑے کی شکل دینی چاہی ایک دوسرا پولیس افسر بیان کے وقت چوکی پر موجود تھا افسران بالا کو توجہ دلانے پر اس کا بیان لیا گیا اور اس نے سچی بات بتادی گر پھر بھی یہ بیان شامل نہ کیا گیا جب سپر نٹنڈنٹ پولیس کو مل کر اس طرف توجہ بلائی گئی تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ آپ کے قائدے کے لیے ہم نے اس بیان کو حذرت کر دیا اس سے شور پڑے گا اور آپ کے خلاف ایجی ٹیشن بڑھے گی.یہاں ہم نے انسپکٹر جنرل صاحب پولیس کو اپنی رپورٹ میں یہ بات لکھ دی ہے.اوکاڑہ میں ڈپٹی کمشنر اور سپر نٹنڈنٹ پولیس نے اور لائلپور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس نے عوام سے گلے میں ہار ڈلوائے اور وہی نعرے لگائے جو پبلک لگائی تھی.اسی طرح بعض اور لوگوں کے متعلق بھی رپورٹیں ملی ہیں.ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں چو ہدری مسعود احمد جو وہاں کی ایک نہایت ہی معنرنہ فیملی کا ممبر ہے انہی فسادات کے سلسلہ میں تھانیدار نے اس کو بلا کر ذلیل کیا اور با وجود اس کے گھر پر مظاہر ہ ہونے کے اس کی کسی قسم کی مدونہ کی اسی طرح یعنی ایسے احمدیوں کو پکڑوایا اور دھمکیاں دیں جو اپنی جگہ پر اکیلے دکیلے تھے اور کسی قسم کا زور ان کا نہیں تھا.جب مرکزہ احمدیہ کی طرف سے آئی جی پولیس میاں انور علی صاحب کو اس کے متعلق شکایت کی گئی تو صرف یہ کارروائی ہوئی کہ ایک احمدی فوجی افسر جو ڈسکہ سے گزرتے ہوئے چوہدری مسعود احمد صاحب سے ملا تھا اور اس نے اسے تسلی وی معنی کہ گھبرانے کی بات نہیں یہ دن گزر جائیں گے.اس کے خلاف پولیس نے فوج میں رپورٹ کی.اور لوگوں سے تاریں بھی دلوائیں کہ اس فوجی افسر نے بڑا اشتعال دلایا ہے اور بڑا اسلحہ بھی مسعود کو دیا ہے چنانچہ وہ فوجی افسر اپنے عہدہ سے معطل کیا گیا اور اس کے خلاف انکوائری کی گئی.تب ہم نے سمجھ لیا کہ آئی.میں کو کسی قسم کی شکائت کر تا نقصان دہ ہے اس کا نتیجہ نیک نہیں نکل سکتا.آئی جی صاحب کے پاس سپرنٹنڈنٹ گوجرانوالہ کی بھی شکائت کی گئی تھی اور اس کا نتیجہ بھی یہی نکلا تھا کہ اس کے بعد سختی بڑھ گئی تھی.جماعت مودودی نے قادیانی مسئلہ" کے نام سے ایک کتاب شائع کی جو کسی نہ بانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور کئی لاکھ شائع ہو چکی ہے.لیکن حکومت پنجاب نے فوراً بی نام

Page 328

۳۱۷ جماعت احمدیہ کو نوٹس دے دیا کہ ایسے مسائل کے متعلق وہ کوئی تحر یہ نہیں شائع کر سکتے اور ان کی عرض یہ بھی کہ جماعت احمدیہ کے خلاف زہر پھیلتا رہے اور وہ کوئی جواب نہ دے سکے جب حکومت کو توجہ دلائی گئی کہ آخر یہ نوٹس کس بناء پر ملا ہے تو چیف سیکرٹری صاحب نے جواب دیا کہ الفضل میں ان کا ایک مضمون چھپا ہے جس میں ان کا یہ فقرہ درج ہے کہ گھیراؤ نہیں فتح آخر ماری ہو گی چونکہ ایسے مضامین سے ملک کا امن بالکل بر باد ہو سکتا ہے.اس لیے ان کو نوٹس دیا گیا.عدالت اس جواب سے سمجھ سکتی ہے کہ دراصل نوٹس کا یہ موجب نہیں تھا.بلکہ اس کا موجب کچھ اور ہی منظار بوہ سے لوگوں کی اطلاع کے لیے احمدیوں کے اطمینان کے لیے بذریعہ خطوط اطلاعات بھجوائی جاتی تھیں کہ وہ صبر سے کام لیں اور دعاؤں سے کام میں حکومت نے اس بناء پر ناظر عورت بلیغ اور امام جماعت احمدیہ کی تلاشی لی اور بعد میں امام جماعت احمدیہ سے اس بات کا جواب طلب کیا کہ فلاں فلاں خط سائیکلو سٹائل پر کیوں شائع ہوا یہ چار مضمون تھے.لطف یہ ہے کہ ان میں سے دو خود گورنمنٹ کی درخواست پر شائع کئے گئے تھے ایک ہوم سیکریڑی اور ڈپٹی کمشنر کی درخواست پر اور ایک ہوم سیکرٹری اور چیف سیکرٹری کی درخواست پر.ایک دفعہ تھانیدار اس کی تحقیقات کے لیے آیا اور دوسری دفعہ ڈی.ایں.پی اس کی تحقیقات کے لیے آیا.امام جماعت احمدیہ نے جب توجہ دلائی کہ ڈپٹی کمشنر خود میرے پاس یہ درخواست لے کر آیا تھا کہ یہ اعلان شائع کرو ہوم سیکرٹری کی به خواہش ہے پھر یہ شائع میں نے نہیں کیا.محکمہ نے کیا ہے پھر اس کے بارہ میں مجھ سے کیوں پوچھا جاتا ہے اور جو دوسرا اعلان شائع ہوا ہے اس کے متعلق ڈی.ایس پی صاحب سے کہا کہ اس کے شائع کرنے کے متعلق آپ نے آ کے مجھے ہوم سیکرٹری کا پیغام پہنچایا تھالیکن میں نے یہ جواب دیا تھا کہ میں گورنمنٹ کی تحریہ کے بغیر ایسا شائع کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ سیفٹی ایکٹ کا نوٹس دیتے ہی مجھ سے یہ درخواست کرنا بتاتا ہے کہ مجھ کو سیفٹی ایکٹ میں پھنسانے کی کوشش کی جار ہی ہے لیکن اس کے بعد مشورہ کے نتیجہ میں مولوی عبد الرحیم صاحب در دو ناظر امور عامہ ہوم سیکرٹری سے ملے اور انہوں نے کہا ہم نے ایسی کوئی بیٹی نہیں بھجوائی.شاید چیف سیکر ٹی نے بھوائی ہو پھر انہوں نے درد صاحب کو چیف سیکرٹری سے ملوایا اور چیف سیکرٹری نے کہا کہ ہاں میں نے ایسی ایک چیٹی بھجوائی ہے ایسا اعلان کرنے میں کیا حرج ہے.درد صاحب نے کہا کہ اس میں

Page 329

۳۱۸ یہی درج ہے کہ امام جماعت احمدیہ کو جن باتوں کے ذکر کرنے سے آپ نے سیفٹی ایکٹ کے ماتحت منع کیا ہے انہی کے متعلق آپ اُن سے اعلان کروانا چاہتے ہیں پیس آپ تحریہ دے دیں تو میں اُن سے اعلان کروانے کی کوشش کروں گا.چیف سیکرٹری نے کہا اچھا پھر مسودہ بناکر بھجوا دیں ہی اس کی تصدیق کرونگا اس تصدیق شدہ مسودہ کو شائع کرنے کے خلاف اب یہ کارنہ والی کی جارہی ہے اور با وجود اس کے کی جارہی ہے کہ تھانیدار کو کھو کہ یہ دے دیا گیا کہ یہ اعلان گورنمنٹ کی خواہش پر اور چیف سیکریڑی کے حکم سے کیا گیا ہے.کیا میاں انور علی صاحب لاہو رہیں چیف سیکرٹری صاحب سے نہیں پوچھ سکتے تھے.جو یہاں جھنگ میں ڈی.ایس.پی سے تحقیقات کروا رہے ہیں.اس پر ڈی ایس.پی صاحب نے کہا کہ ہم تو حکم کے بندے ہیں.جو کچھ افسروں نے لکھ بھیجا ہے اس کی تعمیل ہم نے کرنی ہے اس پر امام جماعت احمدیہ نے ان کو کہا کہ یا درکھیں ایک بالا حکومت بھی آسمان پر ہے وہ ان فلموں کا بدلہ لے گی.ملک عبداللہ صاحب کا واقعہ بھی لکھیں کہ ایک ایسے اشتہار کی بناء پر جس کو روک دیا گیا تھا ان کو سیفٹی ایکٹ کے ماتحت گرفتار کر لیا گیا پھر وہ واقعہ بھی لائیں کہ زمیندار کے بدلہ میں آثار کی اجازت دے دی گئی لیکن " الفضل کی اجازت نہ دی گئی پھر میاں شریف احمد صاحب اور ناصر احمد صاحب کا واقعہ بھی لائیں پھر ان Accidents کو بھی لائیں جو ان دنوں میں ظہور پذیر ہوئے.ربوہ پر حملہ کی تیاری ہوئی.باہر سے جھتے آئے اور ان کو کئی کئی مضلعوں میں سے گزرنے دیا گیا گور بوہ پر وہ حملہ نہ کر سکے مگر اشتعال پیدا کرتے رہے جس سے مقامی جماعتوں کو نقصان پہنچا.ربوہ کے اردگر مکمل بائیکاٹ کیا گیا ایک ہفتہ تک نہ دودھ ملانہ تہ کاری ملی اور نا ر ضروریات زندگی جوایہ دگر دسے ملتی تھیں ملیں.بچوں.بوڑھوں اور بیماروں نے سخت تکلیف.دن گزارے.بعض غیر احمدی ملازموں یا تعلق داروں سے بہت تھوڑی مقدار میں چیزیں ہیتا ہو سکیں جو بڑہ کو بھی کافی نہ نہیں.کئی دن تک کئی جگہ پر احمدیوں کو پانی میسر نہ آسکا.ملکوں ان کو روک دیا گیا.بعض جگہ پر ہفتہ ہفتہ دو ہفتہ تک کھانے پینے کی چیزیں لوگوں کو نہ ملتی نہیں دیل میں اگر کوئی احمدی مل جاتا تو اسے قتل کی دھمکیاں دی جاتیں ریل سے پھینک دینے کی دھمکیاں دی جاتیں (مولوی اسماعیل ودیا لگڑھی کا واقعہ اور بہت سے واقعات) ان واقعات کو پوری طرح سے یہ

Page 330

۳۱۹ ان واقعات سے جمع کریں جو مولوی دوست محمد صاحب کے پاس تھے.یہ احتیاط سے کام کرنے چاہئیں ہمارے لیے موت اور زندگی کا سوال ہے.یہ روز نامہ آفاق “ لاہور کی ۶ اگست ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت کی ابتدائی کارروائی اشاعت میں لکھا ہے :- پنجاب میں.ورقادیانیت کی تحریک کے سلسلہ میں حالیہ فسادات کی تحقیقات کرنے والا کمیشن ختم نبوت کے متعلق عقائد کا اختلاف معلوم کرنے کے لیے قادیانی فرقہ اور مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے سترہ ممتاز علماء کے بیانات کمیشن کے لاہور کے اجلاس میں بند کمرہ میں قلمبند کرے گا تحقیقاتی عدالت نے سات سوالوں پر مشتمل ایک سوال نامہ صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے نام جاری کیا ہے.اور انہیں ہدایت کی گئی ہے.کہ وہ جماعت احمدیہ کے عقائد کے حوالہ سے اور فرقہ احمدیہ کے سربراہ سے مشورہ کے بعد سترہ اگست تک ان سوالات کے جواب پیش کریں تحقیقاتی عدالت نے آج کے اجلاس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو حکم دیا ہے کہ مارشل لا کے دوران میں خاص فوجی عدالتوں نے مولانا اختر علی خان مولانا ابوالعلیٰ مودودی مولانا عبد الستار نیازی اور مسٹر احمد سعید کرمانی کے خلاف مقدمات میں جو احکامات اور فیصلہ صادر کیسے تھے.ان کی مصدقہ نقول عدالت میں پیش کی جائیں.تحقیقاتی عدالت نے جو چیف جسٹس مسٹر محمد منیر اور مسٹر جسٹس ایم آر کیانی پرشت تمل ہے مسٹر عبدالعزیز خاں ایڈووکیٹ جنرل کو مزید حکم دیا ہے کہ رو قادیانیت کی تحریک اور حالیہ فسادات کے متعلق اگر پنجاب کے محکمہ تعلقات عامہ میں کوئی فائل رکھی گئی ہو.تو وہ بھی عدالت میں پیش کی جائے.عدالت نے صد بر انجمن احمدیہ یہ بوہ کی جانب سے مسٹر بشیر احمد در جماعت اسلامی کی جانب سے مسٹر مہندر سن صدیقی کو اجازت دے دی ہے.کہ وہ مطلوبہ دستاویزات کا مطالعہ کر سکتے ہیں.سین سنترہ علماء کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے ان کے نام یہ ہیں.مولانا ابو العلیٰ مودودی امیر جماعت اسلامی مولانا عطا اللہ شاہ بخاری مجلس احرار - مولانا ابو الحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیت علمائے پاکستان، مولانا داؤ د غزنوی اہل حدیث مولانامحمد ذاکر تنظیم اہل سنت

Page 331

و الجماعت مولانا نور الحسن شاہ بخاری.مولانا حافظ کفایت حسین اداره تحفظ حقوق شیعه - پیر قمر الدین جمعیت المشائخ مٹر قیمہ مصطفیٰ اسلام لیگ.مولانا محمد ادریس جامعہ اشرفیہ مولانا احمد علی صدر جمعیت علمائے اسلام...مغربی پاکستان مولانا سید سلیمان ندوی.مولانا عبد الماجد بدایونی اور مفتی محمد شفیع دیوبندی کراچی.مفتی محمد اور میں جامعہ اشرفیہ یہ سوالنامہ عدالت نے اس لیے جاری کیا ہے.کہ وہ اس مسئلہ پر مسلمانوں کے مختلف مکتبہ ہائے فکر کے علمائے کے عقائد میں باہمی اختلاف معلوم کرنا ضرور جھتی ہے.عدالت اپنے آپ کو اس متنازعہ مذہبی سٹار پر فیصلہ صادر کرنے کا اہل نہیں مجھی.لیکن چونکہ حالیہ تضادات اس مسئلہ پر قادیانیوں اور مسلمانوں کے باہمی عقائد میں اختلاف ہی کا نتیجہ تھے.اس لیے عدالت نے ضروری سمجھا کہ اس کے متعلق مختلف فرقوں کے درمیان عقائد کا اختلاف معلوم کیا جائے.تحقیقاتی عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو مزید حکم دیا ہے.کہ مولانا اختر علی خاں ، مولانا مودودی - مولانا عبدالستار نیازی ، اور مسٹر ابوسعید کرمانی کے بیانات کی نقول بھی عدالت میں پیش کی جائیں.عدالت نے مولانا عبد الستار نیازی کی یہ درخواست بھی منظور کرلی ہے.کہ انہیں اپنا بیان پیش کرنے کے لیے ، ار اگست تک کی مہلت دی جائے.فریقین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے بیانات مری میں تحقیقاتی عدالت کے دفتر میں یا لاہور ہائی کورٹ کے جسٹرار کے دفتر میں پیش کریں.عدالت نے فریقین سے مزید درخواست کی کہ وہ ارا اگست سے پہلے اپنے گواہوں کی فہرست اور ایسے لوگوں یا گواہوں پر جرح کے متعلق درخواستیں پیش کر دیں.جو عدالت کی کارروائی سے تعلق نہیں رکھتے.عدالت کی ہدایت کے مطابق گواہوں کی فہرست میں ہر گواہ کے متعلق اس کی گواہی کا منشا بیان کیا جائے کے سد مندر جہ ذیل خط استند نا حضرت مصلح موعود نے ، اگست حضرت مصلح موعود کا ایک اور مکتوب ] ۱۹۵۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نام سندھ سے تحریر فرمایا : - ے آفاق لاہور.۱۶ اگست ۵ میں اکالم ۴-۶

Page 332

۳۲۱ عزیزم /۸/۵۳ السلام علیکم ورحمته الله وبرکاته سکل ڈاک اور سول سے میں یہ حیرتناک خبر ملی کہ کمیشن نے مولویوں والے سوالات احمدیوں سے کچھ ہیں.آج تار تو دے دی گئی ہے مگر نہ معلوم تار کے راستے خراب میں پہنچے گی یا نہیں.اب آدمی کے ہا تھے یہ خط بھجوایا جا رہا ہے.مرے نزدیک فوراً کمیشن کے سامنے یہ درخواست دے دینی چاہیئے.اس علماء سے یہ سوال کیا جائے.کیا جماعت کے بانی اور جماعت احمدیہ پر کفر - امتداد - زندیقیت.الحاد.بے ایمانی - جنانت - شرارت بشیطان کے چیلے ہونے ابو جہل کی نسل سے ہونے.ان کے نکاحوں کے ٹوٹنے.ان کی اولا د ولد الہ نا ہونے ان کے مسجدوں میں داخل ہونے سے مسجد کے پلید ہو جانے.ان کے مقبروں میں دفن ہونے کے جائز نہ ہونے اور اگر دفن ہو جائیں تو مرد نے نکال کر باہر پھینک دینے کے فتوے علماء نے الہ اور اس کے بعد دیتے ہیں یا نہیں اور اگر احمدیوں نے ان کے ان فتووں کا کوئی جواب دیا ہے تو کیا پورے دس سال ان فتووں کے سننے کے بعد نہیں دیا.داگر علماء کو انکار ہو تو ہیں یہ فتوے پیش کرنے کی اجازت دی جائے) کیا مسلمانوں کے ہر فرقہ کے دوسرے فرقہ کے خلاف کفتر الحاد منہ فقہ - ارتداد وغیرہ کے فتوے موجود نہیں ہیں.لاگر علماء کو انکار ہو تو ہم کو یہ فتوے پیش کرنے کی اجازت دی جائے) کیا خوارج جن کی عمان میں بھی حکومت تھی اور نہ بنجار میں بھی حکومت ہے اور جن کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات ہیں اور جن کے ہم مذہب افراد کراچی میں بھی موجود ہیں.کیا ان کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ ہر کبیرہ گناہ کا مرتکب کا فر ہو جاتا ہے اور جہنمی ہوتا ہے اور یہ کہ حضرت عثمان منی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کبائر کے مجرم تھے اور اس وجہ سے ان کے آباء نے حضرت عثمان کو مسلمانوں کے مقبرہ میں دفن ہونے سے روک دیا تھا.آخر کئی دن کے بعد رات کے وقت مقبرہ کے کونے میں ان کو دفن کیا گیا.کیا ان لوگوں کے خلاف اور ان کی حکومتوں کے خلاف علماء نے فتوے دیئے شه بهروز نامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ“ لاہور سے یہ سات سوالات تھے جن کے جوابات حضرت مصلح موعود نے تحریر فرمائے تھے جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے.

Page 333

۳۲۲ اور ان کی حکومتوں سے قطع تعلق کرنے کا مشورہ دیا اور ان کے خلاف ہنگامے گئے (اگر ان واقعات سے علما کو انکار ہو تو ہم اسلامی لٹریچر پیش کرنے کو تیار ہیں) ہم یہ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ بہاء اللہ نے قرآن کے منسوخ ہونے کا اعلان کیا کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ختم ہو جانے کا اعلان کیا اور اپنے خدا کے مظہر ہونے کا اعلان کیا اوربہاء اللہ کی قبر کو سجدہ کرنے کو ان کے نائب عبد البہاء نے جائز کہا ہے.بہاء اللہ کے اتباع سینکروں کی تعداد میں کراچی میں موجود ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں پاکستان کے دوسرے حصوں میں موجود ہیں کیا ان لوگوں کے خلاف علماء نے فتوے دیئے.کوئی ہنگامہ برپا کیا.اور ایجی ٹیشن کئے اور کب کیے راگر جو عقائد ہم نے بہائیوں کی طرف منسوب کیے ہیں اس بیان کی صحت سے علماء کو انکار ہو تو ہم لٹریچر پیش کرنے کو تیار ہیں).ه - شیعہ مذہب کی رو سے حضرت ابو بکرین - حضرت عمر.حضرت عثمان " تینوں فاسق تھے.صحابہ کی اکثریت فاسق تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو یاں بھی قابل اعتراض تھیں.کیا علماء نے ایسے عقیدے رکھنے والوں کے خلاف کوئی احتجاج کیا یا ان عقائد کو برداشت کے قابل سمجھ لیا اگر شیعہ عقائد کے متعلق ہمارا یہ بیان غلط ہے تو ہم شیعہ لٹریچر سے اس کے حوالے پیش کرنے کو تیار ہیں.ہم یہ بھی لکھ دینا چاہتے ہیں کہ شیعوں کا ایک اگر وہ جو اقلیت میں ہے.ان عقائد سے پاک ہے.کیا علماء کو یہ معلوم ہے کہ نہیں ہے کہ شیعہ مذہب کے عقیدہ میں رجعت کا ایک عقیدہ ہے جس کی رو سے امام مہدی کے زمانہ میں تمام انبیاء دوبارہ ظاہر ہوں گے اور ان کی اطاعت کریں گے اور تمام صحابہ کو زندہ کیا جائے گا اور ان کو کوڑے لگوائے جائیں گے.کیا علماء کے نزدیک یه عقیده اشتعال دلانے والا نہیں.اگر ہے تو اس کے خلاف انہوں نے کیا اجتجاج کیا اور کی ہنگامے کیے.ے.کیا علماء کے نزدیک مسیح ناصری نہ ندہ ہیں اور دوبارہ دنیا پر آئیں گے اور کیا دہ اس وقت نبی ہوں گے یا نہیں ہوں گے اور ان کے منکر مومن ہوں گے.کافر ہوں گے اگر کافر کہلائیں گے تو کیا ان کے

Page 334

خلاف احتجاج اور ہنگامہ خیزی جائز ہو گی.اور کیا اس عقیدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی تنک ہے یا نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے دل دیکھتے ہیں یا نہیں.ہم ان سوالات سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ احمدیوں کے متعلق اگر کوئی بات ہے تو وہ پرانی بات ہے نئی پیدا نہیں ہوئی تین سال سے کوئی ایسا لٹریچر شائع نہیں ہوا جس سے قیاس بعید کر کے بھی ایسے الفاظ نکالے جاسکیں.دوسرے احمد یہ جماعت کی طرف سے کوئی ایسا لفظ میں کو کھینچ تان کر بھی اشتعال انگیز کہا جا سکے اس وقت تک استعمال نہیں کیا گیا.جب تک سال تک متواتر خلاف اخلاق.خلاف شریعت - خلاف انسانیت الفاظ احمدیوں کے خلاف استعمال نہیں کیے گئے..یہ کہ اس کے مشابہ صورتیں مسلمانوں کے ہر فرقہ میں پائی جاتی ہیں.لیکن علماء نے اس پر کوئی ہنگامہ خیزی ہوئی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ احمدیت کے خلاف شورش محض سیاسی تھی اور محض ظفر اللہ خاں کے وزیر ہونے کی وجہ سے متقی اور سیاسی اعراض کے ماتحت سیاسی لوگوں نے شروع کروائی تھی.یہ کہ ایسے لٹریچر کے متعلق شور کرنا جو کبھی بھی مسلمانوں میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ صرف احمدیہ جماعت کے دو فرقوں کے اختلاف کے متعلق پرائیویٹ طور پر شائع کیا گیا اور میں میں استعمال ہونیوالے الفاظ ان اصطلاحات کے مطابق نہیں تھے جو کہ مسلمانوں میں رائج ہیں بلکہ ان اصطلاحات کے مطابق تھے جو کہ صرف احمدیوں کے نزدیک مسلمہ تھیں اس لٹریچر کے غلط معنے کرنے اور ان اصطلاحات کے وہ معنے کرنے جو کہ اس وقت عام مسلمانوں میں رائج تھے مگر احمد می ان معنوں کے خلاف تھے صاف بتاتا ہے کہ اشتعال کی وجہ موجود نہیں تھی بلکہ اشتعال پیدا کیا گیا اور عوام انساس کو بھڑ کا یا گیا.اگر اشتعال حقیقی ہوتا تو وہ عوام الناس میں پہلے ہوتا مگر یہ اشتعال تو کئی سال جیسے کہ کر کے شہر بہ شہر پھر پھر کے مولویوں نے پیدا کیا اور غلط باتیں منسوب کر کے پیدا کیا.“

Page 335

دوسرا باب حضرت مصلح موعود نے صرف ہدایات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے قلم مبارک سے تین نہایت اہم دستاویزات تحریر فرمائیں جو تحریری بیانات کی شکل میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے داخل عدالت کی گئی تھیں.چین کی تفصیل یہ ہے :.تحقیقاتی تحق کمشن سرسات سوالوں کے جوابات نیہ جوابات ایڈوکیٹ صدر انجن احمد یہ ربوہ کے ذریعہ ۱۲۹ اگست ۱۹۵۳ء کو عدالت میں داخل کیسے گئے اور بعد ازاں ان کو پہلے اخبار المصلح کراچی مورخہ دار نومبر ۱۹۵۳ء میں نذیر اشاعت کیا گیا.اور.پھر دارالتقلید اردو بازار لاہور نے مندرجہ بالا عنوان ہی سے رسالہ کی شکل میں اس کو بہت کثرت سے شائع کیا.اس نہایت اہم دستاویز کا متن درج ذیل ہے :- ذیل میں ان سات سوالوں کا جواب درج کیا جاتا ہے جو حکومت پنجاب کے مقرر کردہ تحقیقاتی کمیشن نے گزشتہ مساوات کی تحقیق کے تعلق میں صدر انجمن احمد یہ ربوہ سے کیسے تھے اور صدر انجمن احمدیہ نے ان سوالوں کا جواب تیار کرا کے اپنے وکیل کے ذریعہ عدالت میں داخل کیا : موالنمبر: جومسلمان مرزا غلام احمد صاحب کو نبی یعنی علم اور مامور من اللہ نہیں مانتے کیا وہ مومن اور مسلمان ہیں ؟ جواب: مسلم اور مومن، قرآن مجید کے محاورات کو دیکھتے ہوئے دو الگ الگ منے رکھتے ہیں.مسلم نام امت محمدیہ کے افراد کا ہے اور " ایمان" در اصل اس روحانی اور قلبی کیفیت کا نام ہے میں کو کوئی دوسرا جان نہیں سکتا.خدا تعالیٰ ہی اس سے واقف ہوتا ہے.جہاں تک لفظ مسلم کا تعلق ہے قرآن کریم کی آیت ھو ستمكم المسلمين (سورة ع ع )

Page 336

۳۲۵ کے مطابق امت محمدیہ کا ہر فر مسلم کہلانے کا سختی ہے.اس تعریف کی تاکید اس حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے كه من صلى صلواتنا واستقبل قبلتنا واهل ذبيحتنا نذالك المسلم الذي ذمة الله وذمة رسوله ربخاری بحوالہ مشکوة کتاب الایمان ملا مطبع اصبح المطابع یعنی جو شخص بھی ہمارے قبلہ ویعنی کعبہ کی طرف منہ کر کے مسلمانوں کی سی نماز پڑھے اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھائے پس وہ مسلمان ہے جس کو خدا اور اس کے رسول کی حفاظت حاصل ہے: باقی رہا مومن، سوکسی کو مومن قرار دینا درحقیقت صرف خداتعالی کا کام ہے.عام اصطلاح میں مسلم اور مومن ایک معنوں میں استعمال ہو جاتے ہیں لیکن در حقیقت " مومن" خاص ہے اور مسلم ، عام.پس ہر مومن مسلم ، ضرور ہو گا لیکن ہرمسلم کا مومن ہونا ضروری نہیں.مندرجہ بالا تشریح کے مطابق جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے اور آپ کی "امت" میں سے ہونے کا اقرار کرتا ہے وہ اپنے کسی عقیدہ یا عمل کی دانستہ یا نادانستہ غلطی کی وجہ سے اس نام سے محروم نہیں ہوسکتا.ظاہر ہے کہ اس تشریح کے مطابق اور قرآن کریم کی آیت ھو شمکہ المسلمین کے تحت کسی شخص کو حضرت بائی سلسلہ احمدیہ کو نہ ماننے کی وجہ سے غیرمسلم نہیں کہا جاسکتا.ممکن ہے ہماری بعض سابقہ تحریرات سے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اس سے متعلق ہم کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہماری ان بعض سابقہ تحریرات میں جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں وہ ہماری مخصوص ہیں.عام محاورہ کو جومسلمانوں میں رائج ہے استعمال نہیں کیا گیا.کیونکہ ہم نے اس مسئلہ پر یہ کتا میں غیر احمدیوں کو مخاطب کر کے شائع نہیں کیں بلکہ ہماری یہ تحریرات جماعت کے ایک حصہ کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہیں اس لیے ان تحریرات میں ان اصطلاحات کو مد نظر رکھنا ضروری نہیں تھا جو دوسرے مسلمانوں میں رائج ہیں.ہمارے اس عقیدہ کی تائید کی کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کونہ مانے والا مسلمان مسلمان ہی کہلائے گا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات سے بھی ہوتی ہے چنانچہ ملاحظہ ہو آپ کا الہام ر مسلمان را مسلمان یا نه کردند (حقیقة الوحی مثنا مطبوعه له) یعنی آپ کی بعثت کی عرض مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنانا ہے ایک دوسرے الہام میں خدا تھانے نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو یہ دعا سکھلائی ہے :.

Page 337

رَبِّ أَصْلِمُ أُمَّةً مُحَمَّدٍ" تحفه بغداد صفحه ۲۳ مطبوعه ۵۱۳۱۱) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تمام کتابوں میں ان تمام مسلمانوں کو جو آپ کی جماعت میں داخل نہیں مسلمان کہ کر ہی خطاب کیا ہے کیونکہ وہ اسلام کی عمومی تعریف کے مطابق کلمہ طیبہ پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں.اسی طرح موجودہ امام جماعت احمد یہ بھی اُن کو سلمان کے لفظ سے خطاب کرتے ہیں.رسلاً ملاحظہ ہو الفضل 19 مئی 19ء والفضل ١٨ ستمبر ۲ و غيره) ہاں آنحضرت صلعم نے بھی فرمایا ہے "یاتی علی الناس زمان لا يبقى من الاسلام إلا اسمه (مشکوۃ کتاب العلم، یعنی لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا.یہ حدیث اسی زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے چنانچہ جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی بھی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو جو ان کی جماعت میں شامل نہیں ہیں صرف رسمی اور اسمی مسلمان قرار دیتے ہیں چنانچہ وہ مسلمانوں کی دو قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.دنیا میں جومسلمان پائے گئے ہیں یا آج پائے جاتے ہیں ان سب کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے ایک قسم کے مسلمان وہ جوخدا اور رسول کا اقرار کر کے اسلام کو بحیثیت اپنے مذہب کے مان لیں مگر اپنے اس مذہب کو اپنی کھلی زندگی کا محض ایک جز داور ایک شعبہ ہی بنا کر رکھیں اس مخصوص جز د اور شعبے میں تو اسلام کے ساتھ عقیدت ہو.لیکن فی الواقعہ ان کو اسلام سے کوئی علاقہ نہ ہو.دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اور اپنے سارے وجود کو اسلام کے اندر پوری طرح دے دیں.ان کی ساری حیثیتیں ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت میں گم ہو جائیں...پیرو سم کے مسلمان حقیقت میں انکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں.چاہے قانونی حیثیت سے دونوں پر لفظ مسلمان کا اطلاق یکساں ہو " در ساله موسومه به و داد جماعت اسلامی حصہ سوم صفحه ۷۸ تا ۸۰) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :- یہ انبوہ عظیم میں کومسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999 فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق و باطل کی تمیز سے آشنا ہیں نہان کا اخلاقی نقطۂ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق سے ملاحظہ ہور سالہ پیغام ملا مصنفہ مئی مشتله صدا، ۱۷ ۱۸ مطبوعه ۱۳ بار دوم به

Page 338

تبدیل ہوا ہے باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو میں مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے.ر مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکس جمعه سوم بار ششم صفحه ۱۰۵/ ۱۰۶) اسی طرح موجودہ دور کے مسلمانوں کے متعلق اہلحدیث کا خیال بھی ملاحظہ فرما یا جاوے.نواب صدیق حسن خال صاحب بھوپالوی اپنی کتاب اقتراب الساعۃ کے صفحہ پر تخریبہ فرماتے ہیں.اب اسلام کا صرف نام.قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے.مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں.علماء اس امت کے بدتمان کے ہیں جو نیچے آسمان کے ہیں.انہی میں سے فتنے نکلتے ہیں انہی کے اندر پھر کر جاتے ہیں.(اقتراب الساعة ص۱۲) پھر جناب علامہ ڈاکٹر سر محمداقبال نے موجودہ مسلمانوں کے متعلق اپنا خیال ان اشعار میں بیان فرمایا ہے کہ : سے مشور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں سلم موجود و منع میں تم ہو نصار کی تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغاں بھی مور تم سبھی کچھ ہو تاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟ ر بانگ درا ایڈیشن د واز و هم ص۲۲۶ جواب شکوه) پھر صرف نام کے طور پر اسلام کے باقی رہنے کے متعلق مولانا حالی کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمایا جا سے ہے رها دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی ر مسدس حالی مطبوعہ تاج کمپنی ص۲۶) پھر سید عطاء اللہ صاحب بخاری کمیونزم اور اسلام کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے متعلق سب ذیل بیان دیتے ہیں :- مقابلہ توتی ہو کہ اسلام کہیں موجود بھی ہو.ہمارا اسلام ! ہم نے اسلام کے نام پر جو کچھ اختیار کر رکھا ہے وہ تو صریح کفر ہے.ہمارے دل دین کی محبت سے عاری.ہماری آنکھیں بصیرت.نا آشنا اور کان سچی بات سننے سے گریزاں سے بید لی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں ہمارا اسلام ؟ سے

Page 339

۳۲۸ بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے یہ اسلام جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے کیا یہی اسلام ہے جو نبی نے سکھایا تھا یہ کیا ہماری رفتار، گفتار کہ دار میں وہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا ہے.......یہ روزے یہ نمازیں جو ہم میں سے بعض پڑھتے ہیں ان کے پڑھنے میں ہم کتنا وقت صرف کر رہے ہیں ، جو مصلے پر کھڑا ہے وہ قرآن سنانا نہیں جانتا اور جو سنتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ کیا سُن رہے ہیں اور باقی ۲۳ گھنٹے ہم کیا کرتے ہیں ؟ میں کہتا ہوں گورنری سے گداگری تک مجھے ایک بات ہی بتلاؤ جو کہ قرآن اور اسلام کے مطابق ہوتی ہے ؟ ہمارا تو سارا نظام کفر ہے.قرآن کے مقابلہ میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے.قرآن صرف تعویذ کیلئے.قسم کھانے کے لیے ہے یا ا تقریر سید عطاء اللہ شاہ بخاری آزاد ۹ر دسمبر ۱۹۲۹ ، صفحه ۱ و ۲) مندرجہ بالاحوالجات سے کفر و اسلام کے مسئلہ کے متعلق جماعت احمدیہ کا مسلک اور اس کے مقابلہ پر موجودہ زمانے کے دوسرے مسلمان فرقوں کا طریق واضح اور عیاں ہے.سوالنمبر: کیا ایسے شخص کا فر ہیں ؟ جواب : "کافر" کے معنے عربی زبان میں نہ ماننے والے کے ہیں.پس جو شخص کسی چیز کو نہیں مانتا اس کے پہلے عربی زبان میں "کافر" کا لفظ ہی استعمال ہو گا.پیس ایسے شخص کو جب تک وہ یہ کہتا ہے کہ میں فلاں چیز کو نہیں مانتا اس کو اس چیز کا کافر ہی سمجھا جائے گا.چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آئمہ اہل بیت کا انکار کرنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں :.من عرفنا كان مومنا - من انكرنا كان كافراً - من لم يعرفنا و لم ينكرنا كان ضالاً انصافی شرح الاصول الکافی باب فرض الطاعة الأمة كتاب الجنة جزر و صاله مطبوعہ نولکشور) یعنی میں نے ہم آئمہ اہل بیت کو شناخت کر لیا وہ مومن ہے اور میں نے ہارا انکار کیا وہ کافر ہے اور جو ہمیں نہ ماننا ہے اور نہ انکار کرتا ہے وہ مال ہے.اس ارشاد سے حضرت امام صاحب کی یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ ایسا شخص امت محمدیہ سے خارج ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے اوپر تشریح کی ہے یہی مراد ہو سکتی ہے کہ آئمہ اہل بیت کے درجہ کا منکر ہے ہما رے

Page 340

۳۲۹ نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مامور من اللہ کے انکار کے ہرگز یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ایسے لوگ اللہ تعالے اور رسول کریم صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہو کہ امت محمدیہ سے خارج ہیں یا یہ کہ مسلمانوں کے معاشرہ سے خارج کر دیئے گئے ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :.اول ایک یہ کفر کر ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا.روم : دوسرے یہ کفر کہ مثلا و مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اسکو با وجود اتمام محبت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارہ میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے کیا رحقیقة الوحی ص ۷ ۱ مطبوعہ ۱۹) ی بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اس قسم کے فتووں میں بھی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ یا آپ کی جماعت کی طرف سے ابتداء نہیں ہوئی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ غیر احمدی علماء نے اپنے فتووں میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو آپ کے ابتدائے دعوے سال ۱۸۹۰ء سے ہی نہ صرف کافر قرار دیا بلکہ مرندہ زندیق الحمد ابلیس کہ درقبال - کذاب، وغیرہ الفاظ بھی استعمال کئے اور اس قسم کے اور بہت سے گندے ناموں سے آپ کو یاد کیا گیا.اس قسم کے فقرے لکھے گئے اور کتابیں چھاپی گئیں اشتہارات پمفلٹوں کے ذریعہ سے ان فتووں کو لوگوں میں پھیلا دیا گیا اور ظاہر ہے کہ جو شخص کسی پر اس طرح پہلے حملہ کرتا ہے وہ پھر اس قسم کے جواب کا مستحق بھی ہو جاتا ہے اور اس صورت میں اسے اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہیے، دوسرے کو الزام دینے کا اسے کوئی حق نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں : - (1) ایمار جل قال لاخي كافر فقد باء بها احدهما - (ترنزی کتاب الایمان متا) (ب) اذا كفر احدكم أخاه فقر باء بها احدهما (صحیح مسلم سمحواله كنوز الحقائق للمنادى مطبوعہ مصریہ حاشیہ جامع الصغیر جلد ا صت) یعنی جو شخص اپنے بھائی کو کافر کے تو ان میں سے ایک مزدور کا فر ہوگا اگر وہ شخص ہے کافر کہا گیا ہے کافر نہیں ہے تو کہنے والا کافر ہو گا.

Page 341

۳۳۰ (ج)) ما اكفر رجل رجلا قط الاباء بها احدهما.ر ابن حبان فی محمد بحوالہ جامع الصغیر مصنفہ حضرت امام سیوطی مطبوعہ مصر جلد ۱۳۳۲) یعنی دو (مسلمان) آدمیوں میں سے ایک آدمی اگر دوسرے کو کافر قرار دے تو لازمی ہے کہ ان میں سے ایک ضرورہ کافر ہو جائے گا.غرضیکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف سے اس قسم کے فتوں میں کبھی ابتداء نہیں ہوئی چنا نچہ آپ فرماتے ہیں کہ : - پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے ہمیں کروڑ مسلمانوں اور کلمہ گویوں کو کافر ٹھرایا حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی خود ہی ان کے علما د نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتووں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے منہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی ان کے نزدیک گناہ ہوگیا کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا ؟ اگر کوئی ایسا کاغذ یا کوئی اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتومی کفر سے پہلے شائع ہوا ہے میں میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کا فر ٹھہرایا سے تو رہ پیش کریں.دور نہ خود سو پر نہیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو مظہر ائیں آپ اور پھر تم پر یہ الزام لگا میں کہ گو یا ہم نے تمام کمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کسی قدر ولا زا ر ہے ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے اور پھر جبکہ ہمیں اپنے فتووں کے ذریعہ سے کا فر ٹھہرا چکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہو گئے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کے نوکفر الٹ کر اس پر پڑتا ہے.تو اس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ مو جب انہی کے اقرار کے ہم ان کو کافر کہتے (حقیقة الوحی مطبوعه 2 من ۱۲۱ پھر اس بات کے ثبوت میں کہ فتوی کفر کی ابتداء علماء کی طرف سے ہوئی نہ کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ذیل کے چند فتوے بطور مثال درج ہیں.ی مولوی عبدالحق صاحب غزنوبی رو مولا ا وا او غزنوی صاحب کے علم بزرگوار تھے) نے لکھا ہے کہ: و اس میں شک نہیں کہ مرزا قادیانی کا مز ہے چھپا مرتد ہے گمراہ ہے گمراہ کنندہ - محمد ہے.دجال ہے وسوسہ ڈالنے والا.وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا " رفتو نے علماء ہند و پنجاب اشاعت السہ جلد

Page 342

اس قسم کا فتویٰ پنجاب و مہند کے قریباً دوصد مولویوں سے لے کر شائع کیا گیا.(ب) اس فتوے سے بھی کئی سال پہلے علمائے لدھیانہ نے ۸ء میں تکفیر کا مندرجہ ذیل فتویٰ صادر کیا.حسن کا ذکر قاضی فضل احمد صاحب کورٹ انسپکٹر لدھیانہ نے اپنی کتاب کلہ فضل رحمانی مطبوعہ دہلی پین پر لیں لامور اللہ مہ م ) میں کیا ہے ۱۲ توار باہمی تکفیر کے بارے میں علماء کے چند فتوے درج ذیل ہیں : - من انكر امامة ابى بكر الصديق فهو كافر وكذلك من انكر خلافة عمر رفتاوی عالمگیر به جلد ۲ ص ۲۸۳ مطبع مجید کانپور ) به یعنی جو شخص حضرت ابوبکر صدیق کی امامت اور حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے وہ کافر ہے.اسی طرح جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابوالاعلی صاحب مودودی نے بے علم و بے عمل مسلمان کو میں کا علم و عمل کا فر جیسا ہو اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو کا فر ہی قرار دیا ہے اور اس کا حشر بھی کافرون والا بتایا ہے یعنی اس کو سنجات سے محروم اور قابل مواخذہ قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں:.ر ہر شخص ہو مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا ہے جس کا نام مسلمان کا سا ہے جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ مسلمان در حقیقت وہ شخص ہے جو اسلام کو جانتا ہو اور پھر جان بوجھ کر اسکو مانتا ہو ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصل فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پر شاد ہے اور یہ عبد اللہ ہے اس لیے وہ کا فر ہے اور یہ مسلمان (خطبات مودودی ملت) اسی طرح دوسرے مسلمان فرقوں کے علماء ایک دوسرے کو کافر اور جہنمی کہتے ہیں شیعہ اثنا عشریہ کے متعلق علماء المسنت والجماعت اور علماء دیوبند متفقہ طور پر مندرجہ ذیل فتوی صادر کرتے ہیں:.مہ شیعہ اثنا عشریہ قطعاً خارج از اسلام میں شیعوں کے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز اور ان کا ذبیمه ترام.ان کا چندہ مسجد میں دینا ناروا ہے.ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ، رفتو ی شائع کرده مولوی عبدالشکور صاحب مدیر النجم مکھتی (نوٹ:.اس فتویٰ میں دیگر علماء کے علاوہ دیوبند کی تصدیق بھی شامل ہے جس کی شہادت مولانا محمد شفیع صاحب مفتی دیو بند سے لی جاسکتی ہے.مندرجہ بالا فتوی کی عبارت سے خالص مذہبی اختلافات ہی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ شیعہ فرقہ کے خلاف شدید

Page 343

غلیظ و غضب کا اظہار پایا جاتا ہے علاوہ ازیں اہلسنت و الجماعت کے مسلمہ گزشتہ بزرگان واولیا ء نے بھی حضرات شیعہ کے بارے میں فتویٰ کفر دیا ہے حوالجات ذیل ملاحظہ ہوں.(3) حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمہ الل یار کا توی فر بخلاف اصحاب شیعہ اثنا عشریہ - (مکتوبات امام ربانی جلد نمبرات مکتوب نجار چرام) اب حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہعلیہ کا فتوی رغنیتہ الطالبين مع زبدة السالکین شاه او نه دستگیری اردو ترجها غنیتہ الطالبین شائع کردہ ملک سراج دین اینڈ سنز لاہور بار چهارم مطبوعہ پنجاب پولیس منا ۱۳۷ باب بعنوان محمد مصطفے" کی امانت کی فضلیت اور بزرگی ) اسی طرح اہلسنت والجماعت کے بریلوی فرقہ کے علماء مندرجہ ذیل فتوی علمائے دیوبند کے خلاف صادر کرچکے ہیں :- (1) حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی اور علمائے حرمین شریفین کے دستخطوں سے بیوی شائع ہوا ہے.وبالجملة هؤلاء الطوائف كلّهم كفار مرتدون خارجون عن الاسلام يا جماع المسلمين " رحسام الحرمين على منحر الكفر والمين مع سلیس ترجمہ اردو سمی بنام تاریخ بین احکام و تصدیقات، اعلام ۲۵ لایه مطبع اہل سنت والجماعة بریلی ۳۲۲اره با ساول ما منعنف مولوی احمد رضا خاں بہ بیوی) یعنی یہ سب گرده یعنی گنگوهبه متخانویه - نانو تو یہ دیوبندیہ وغیرہ مسلمانوں کے اجماع کی رو سے کفار مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور اس کتاب کے ٹائیٹل پیج پر لکھا ہے.حبس در سالہ بذاء میں مسلمانوں کو آفتاب کی طرح روشن کر دکھایا کہ طائفہ قادیانیہ گنگوھی.تھانو یہ نانو تو یہ و دیوبندیہ و انشا ہم نے خدا اور رسول کی شان کو کیا کچھ گھٹا یا علمائے حرمین شریفین نے باجماع امت ان سب کو زندیق و مرتد فرمایا ان کو مولوی در کنار مسلمان جاننے یا ان کے پاس بیٹھنے ان سے بات کرنے زمہر و حرام و تباہ کن اسلام بتلایا.(ب) پھر اسی کتاب میں مولانامحمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیوبند مولوی اشرف علی صاحب تھانوی

Page 344

مولوی محمود الحسن صاحب و دیگر دیوبندی خیال کے علماء کی نسبت یہ فتوی درج ہے کہ :.یہ قطعا مرتد اور کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کفر اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جوان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں شک کرے وہ بھی اپنی جیسا مرتد کا فر ہے......ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے نہیں نماز نہ پڑھنے دیں......جان کو کافر نہ کہے گا وہ خود کافر ہو جائے گا اور اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہو گی ازدرہ کے شریعت ترکہ نہ پائیگی " یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ فتوے حضرت مولانا احمد رضاخاں صاحب آف بریلی کا شائع کردہ ہے جو فرقہ حیفہ بریلویہ کے بانی اور مولانا ابوالحسنات صاحب صدر جمعیتہ العلمائے پاکستان وصدر مجلس عمل نیز ان کے والد مولوی دیدار علی صاحب کے پیر ومرشد تھے اس فتوے کے بارے میں مولانا ابوالحسنات صاحب سے دریافت کیا جا سکتا ہے.اور یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ان کے پیرو مرشد کے اس فتوے کے بعد که دیو بندی بالاجماع کا فر ہیں انہیں کیا شبہ ہے ؟ آیا یہ کہ ان کے پیر نے غلطی کی تھی یا یہ کہ اجماع کوئی دلیل نہیں ہوتا ؟ (ج) وہابیہ دیوبند یہ اپنی عبارتوں میں نام اولیاء انبیاء حتے کہ حضرت سید الاولین والا خرین صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خاص ذات باری تعالیٰ کی اہانت و مہتک کرنے کی وجہ سے قطع امرند کا فر ہیں اوران کا ارتداد و کفر سخت سخت سجت الله درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جوان مرتدوں اور کافروں کے انتداد د کفر میں شک کرے وہ بھی اپنی جیسا مرند و کا فر ہے مسلمانوں کو چاہیئے کہ ان سے بالکل ہی محتر از مجتنب ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر ہی کیا اپنے چھے بھی انکو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ ہی اپنی مسجدوں میں گھنے دیں نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ہی ان کی شادی و غمنی میں شریک ہوں نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں مریں تو گاڑتے تو اپنے میں شرکت نہ کریں مسلمانوں کے قبرستان میں نہ دیں.(ملاحظہ ہو تین سو علمائے المبسنت والجماعت کا متفقہ فتوے مطبوعہ حسن برقی پریس اشتیاق منزل نمبر۶۳ میو روڈ لکھنو) اس پر بس نہیں بلکہ علما کرام ومفتیان اہلسنت والجماعت اہلحدیث سلمانوں کے متعلق بھی اسی قسم کا فوٹے دیا ہے کہ :.بدعت کھر والے شقی ان کے کفر پہ آگاہی لازم ہے اسلام کے نام کو بہر دہ بنائے ہیں.مرتد ہیں باجماع امت اسلام سے خارج ہیں جوان کے اقوال کا معتقد ہوگا کا فردگراہ ہو گا کچھ شک نہیں کہ یہ خارجی ہیں اور

Page 345

۳۳۴ ان کے گھر میں کوئی شبہ نہیں.ان کے پیچھے نمانہ پڑھنا ان کے جنازہ کی خانہ پڑھنا ان کے ہاتھ کا زیادہ کھانا اور تمام معاملات میں ان کا حکم بعینہ وہی ہے جو مرند کاه رفتو نے عطاء کرام مشتہرہ مر اشتہار شیخ مہر محمد قادری باغ مولوی انوار لکھنو مو سشوال ۱۳۵۳ھ جس پر ستر علماء کے دستخط ہیں جن میں مولوی سیداحمد ناظم انجمن حزب الاحناف ریر اور حقیقی مولوی ابوالحسنات صاحب مولانا ابوالحنات - سید محمد احمد خطیب مسجد وزیر خاں مولوی عبد القادر بدایونی اور پیر جماعت علی شاہ صاحب مجددی محدث علی پور بھی شامل ہیں.سوال نمبر :- ایسے کا فر ہونے کے دنیا اور آخرت میں کیا نتائج ہیں ؟ جواب : اسلامی شریعت کی رو سے ایسے کافر کی کوئی دنیوی سزا مقرر نہیں وہ اسلامی حکومت میں ویسے ہی حقوق رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے ہوتے ہیں اسی طرح وہ عام معاشرہ کے معامہ میں بھی وہ وہی حقوق رکھتا ہے رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے ہیں.ہاں خالص اسلامی حکومت میں وہ حکومت کا ہیڈ نہیں ہو سکتا.باقی رہے اخروی نتائج.سوان نتائج کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے بالکل ممکن ہے کہ کسی حکومت کی وجہ سے ایک مسلمان کہلا نیوالے نسان کو تو خدا تعالیٰ سزا دیدے اور کافر کہلانے والے انسان کو اللہ تعالیٰ بخش دے.اگر کافر کے لیے یقینی طور پر دائمی جہنمی ہونا لازمی ہے تو پھر کسی کو کافر قرار دینا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے.سوالنمیشه: کیا مرزا صاحب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اور اسی ذریعہ سے الہام ہوتا تھا ؟ جواب: ہمارے نزدیک حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل وحی قرآن مجید ہے قرآن کریم کی دحی کے متعلق ہمیں قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حفاظت کے خاص سامان کیے جاتے ہیں ہمارے نزدیک حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو نبی گزرے ہیں ان کی وحی بھی اس رنگ کی نہیں ہوتی تھی اور حضرت بانی جماعت احمدیہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے آپ کی وحی بھی قرآن کریم کے تابع تھی بہر حال وہ ذرائع جو اللہ تعالیٰ اس وحی کے بھیجنے کے لیے استعمال کرتا تھا وہ ان ذرائع سے نیچے ہوں گے جو قرآن کریم کے لیے استعمال کیے جاتے تھے لیکن یہ محض ایک عقلی بات ہے واقعاتی بات نہیں جس کے متعلق ہم شہادت دے سکیں بعمل قرآنی آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ پر قیاس کر کے یہ جواب دے رہے اپنی حقیقت کو پوری طرح معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں البتہ ہم ضرور تسلیم کرتے

Page 346

۳۳۵ ہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر وحی الہی ہوتی تھی اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وحی الہلی نہ صرف مامور وں بلکہ غیر ماموروں کو بھی ہوتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف وحی نازل ہونے کا ذکرہ آیا ہے (ملاحظہ ہو سورہ قصص رکوع پارہ ۲۰) اور حضرت مریم علیہ السلام کے متعلق بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ ان کے پاس خدا تعالیٰ کا کلام لے کر آئے (سورۃ آل عمران و مریم ع ۲) پس وحی اور فرشتوں کا اترنا مامور من اللہ کے علاوہ غیر مامور وں کے لیے بھی ثابت ہے ہندوستان میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے والے اور اس کی بنیاد قائم کرنے والے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سے د میدم روح القدس اندر معین می دمد من نے گویم مگر من جیسے ثانی شدم دیوان حضرت خواجہ معین الدین اجمیر نئی ) یہ عرض کرنا مناسب ہے کہ مسلمانوں کی اصطلاح میں روح القدس" حضرت جبرئیل کا نام ہے.ر ملاحظہ ہو نعت کی مستند ترین کتاب مفردات القرآن مصنفہ امام راغب زیر لفظ روح مرده ۲۰ مطبع مفیه مرد تفسیر روح المعانی جلد اول ص ۲۶ ، ملا مطبوعہ مصر اور تفسیر صافی جلد اول پاره اول ما نیز تفسیر کبیر مصنفہ حضرت امام رازی جلده مش۲۵ و جلد ۳ ص ۶۹ مطبوعہ مصر و تفسیر مدارک النتريل النسفي جلد را مست ۹ مطبوعہ مصر) ان کے علاوہ اسلام میں سینکڑوں اولیاء اللہ مثلا سید عبدالقادرجیلانی رحمة اللہ علیہ اور حضرت سید احمد صاحب سرہندی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ و غیر هم علی قدر مراتب ملهم من اللہ تھے.ومی تین طریقوں سے ہوتی ہے ان کا ذکہ قرآن کریم کی آیت مَا كَانَ لِبَشَرِ أَن يُكَلِّمُهُ اللَّهُ الأوحيا أو مِنْ وَاحِجَابِ ادْيُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوْحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُه ر صورة شوری عه یاره (۲۵) میں بیان ہوا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیا و اولیاء پہ انہی طریقوں سے وحی نازل ہوتی ہے البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وحی میں ایک فرق تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی شریعت جدیدہ والی نازل ہوتی تھی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وحی غیر تشریعی اور علی ہے یعنی یہ نعمت آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ کے فیض سے

Page 347

٣٣ ملی ہے ماسوا اس کے دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ قرآنی وحی کے ماننے کے لیے باقی سلسلہ احمدیہ کی تصدیق کی ضرورت نہیں بلکہ اگر قرآن مجید حضرت بانی اسلسلہ احمدیہ کی تصدیق نہ کرتا ہو تو ہم ہرگز ان پر ایمان نہ لانے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی وحی اور آنحضرت صلی اللہ وسلم کی وحی میں بلحاظ مرتبہ فرق کیا ہے آپ فرماتے ہیں:.در سنو خدا کی لعنت ان پر جو دعوے کریں کہ وہ قرآن کی مثل لا سکتے ہیں قرآن کریم معجزہ ہے جس کی مثل کوئی انس دین نہیں لاسکتا اور اس میں وہ معارف اور خوبیاں جمع ہیں جنہیں انسانی علم جمع نہیں کرسکتا بلکہ دہ الیسی وحی ہے کہ اس کی مثل اور کوئی وحی نہیں اگر چہ رحمان کی طرف سے اس کے بعد کوئی اور وحی بھی مواس لیے کہ وحی رسانی میں خدا کی تجلیات ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالی کی تجلی جیسا کہ خاتم الانبیاء صلی الہ علیہ وسلم پر ہوئی ہے ایسی کسی پرنہ پہلے ہوئی اورنہ پیچھے ہو گی.اردو ترجمہ از عربی عبات المد والتبصر الن پر ایسی سوالنمیش (1) کیا احمد یہ عقیدہ میں یہ شامل ہے کہ ایسے اشخاص کا جنازہ جو مرزا صاحب پر یقین نہیں Infructuous ہے؟ اب کیا احمد یہ عقائد میں ایسی نماز جنازہ کے خلاف کوئی حکم موجود ہے ؟ " جواب : 15 احمدیہ کر یڈ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو شخص حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہیں مانتا اس کے حق میں نماز جنازہ "Infructuous" ہے.(ب) دوسری شق کا جواب یہ ہے کہ گو اس وقت تک جماعتی فیصلہ یہی رہا ہے کہ غیر از جماعت لوگوں کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے لیکن اب اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر اپنے قلم سے لکھی ہوئی ملی ہے جس کا حوالہ ایک مرتبہ شاہ میں دیا گیا تھا اور حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس کے متعلق اسی وقت اعلان فرما دیا تھا کہ اصل تحریہ کے ملنے پر اس کے متعلق غور کیا جائے گا لیکن وہ اصل خط اس وقت نہ مل سکا.اب ایک صاحب نے اطلاع دی ہے کہ ان کے والد مرحوم کے کا غذات میں سے اصل خط مل گیا ہے میں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا کفر با کذب نہ ہو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ جنازہ صرف دعا ہے.لیکن با دو جو د جنازے کے بارے میں جماعت کے سابق طریقہ کے غیر احمدی مرحومین کے لیے دعائیں کرنے میں جماعت نے کبھی اجتناب نہیں کیا چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ اور اکابرین جماعت ست با حاصل پہ سے ڈاکٹر میجر محمد شاہنواز خانصاحب مراد ہیں.

Page 348

احمدیہ نے بعض غیر احمدی دوفات یافتہ اصحاب کے لیے دعا کی ہے چنانچہ جی معین الدین سیکر ٹی حکومت پاکستان کے والد صاحب جو احمدی نہ تھے) کی وفات پر حضرت امام جماعت احمدیہ ان کے گھر تعزیت کے لیے تشریف نے گئے اور ان سے میاں معین الدین کے ماموں صاحب نے یہ فاتحہ کے لیے کہا تو آپ نے فرمایا کہ فاتحہ میں تو دعامانگنے والا اپنے لیے دعا کرتا ہے یہ موقعہ تو وفات یافتہ کے لیے دعا کرنے کا ہوتا ہے اس پر متوفی کے رشتہ داروں نے کہا کہ ہماری یہی عرض ہے فاتحہ کا لفظ رسما بول دیا ہے تو آپ نے متوفی نے رشتہ داروں سے مل کر میتونی کے لیے دعافرمائی اسی طرح مصر عبد القادر مرحوم کی وفات پر جب حضرت امام جماعت احمدیہ تعزیت کے واسطے ان کی کو بھی پر تشریف لے گئے تو ان کے حق میں بھی دعا فرمائی.اس جگہ یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ممانعت جنازہ کے بارے میں بھی سبقت ہمارے مخالفین نے ہی کی چنانچہ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کا فتوے شاء میں بایں الفاظ اشاعۃ السنہ میں شائع ہو چکا ہے :- اب مسلمانوں کو چاہیئے کہ ایسے وقبال کذاب سے احترانہ کریں اور نہ ان کے پیچھے اقتداء کریں اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں.ررسالہ اشاعت السنه نمیره جلد نمبر ۳ مطبوعه مساء " اسی طرح شاہ میں مولانا عبدالاحد صاحب خانپوری لکھے ہیں :- جب طائفہ مرزائیہ امرتسر میں بہت خوار و ذلیل ہوئے جمعہ دجماعات سے نکالے گئے اور میں مسجد میں جمع ہو کر نمازیں پڑھتے تھے اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کیے گئے اور جہاں قیصری باغ میں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکما روک دیئے گئے تو نہایت تنگ ہو کہ مرزائے قادیان سے اجازت مانگی کہ مسجد نئی تیار کریں تب مرزا نے ان کو کہا کہ صبر کرو ہیں لوگوں سے صلح کرتا ہوں اگر صلح ہوگئی تو سجد بنانے کی حالیت نہیں اور نیز اور بہت سی ونتیں اٹھائیں معاملہ دیتاؤ مسلمان سے بند ہو گیا عورتیں حکومد محظوبیہ بوجہ مرزائیت کے بھی گئیں مردے ان کے بے تجہیز وتکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں رہائے گئے یہ راظہار مخادعه مسلمه تاوریانی بجواب اشتار مصالحت پولارس ثانی مست مولفہ مولوی عبد الاحد خانپوری مطبوعه مطبع چودھویں صدی راولپنڈی ) اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ احمدیوں نے مسجدیں نہیں چھوڑیں بلکہ ان کو مسجدوں سے نکالا گیا

Page 349

مندرجہ بالا احمدیوں نے نکاح سے نہیں روکا بلکہ ان کے نکاح توڑے گئے احمدیوں نے جنازہ سے نہیں روکا بلکہ انکو جنازہ سے باز رکھا گیا لیکن باوجود اس کے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے آخری کوشش یہی کی کہ باقی مسلمانوں سے صلح ہو جائے لیکن جب با وجود ان تمام کوششوں کے ناکامی ہوئی تو جیسا کہ مولوی عبدالاحد صاحب کی بالا عبارت میں اقرار کیا گیا ہے تب بامر مجبوری فتنے سے بچنے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جوابی کارروائی کرنی پڑی.پھر اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ دیگر فرقوں نے بھی ایک دوسرے فرقہ والوں کے جنازہ کی حرمت و امتناع کے فتوے دیئے ہیں چنانچہ علمائے اہلسنت والجماعت و علمائے دیو بند نے شید فرقہ والوں کے جنازہ کو نہ صرف حام اور ناجائز قرار دیا ہے کہ ان کو اپنے جنازہ میں شریک ہونے کی بھی مافت کی ہے چنانچہ مولانا عبد الشکور صاحب مدیر النجم " کا فتوے ملاحظہ ہو.آپ لکھتے ہیں:.ان کا جنازہ پڑھایا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ہے ان کی مذہبی تعلیم ان کی کتابوں میں یہ ہے کہ سنیوں کے جنازہ میں شریک ہو کر یہ دعا کرنی چاہیئے کہ یا اللہ ! اس قبر کو الگ سے بھر دے اس پر عذاب نازل گریه لاحظہ ہو رسالہ موسومہ بہ علمائے کرام کا فتوی در باب ارتداد شیعه اثنا عشریه مت) (ب) نیز مولانا ریاض الدین صاحب مفتی دارالعلوم دیو بند لکھتے ہیں :.شادی نمی جنازہ کی شرکت ہرگز نہ کی جائے ایسے عقیدہ کے شیعہ کا فر ہی نہیں بلکہ اکھر ہیں.فتو ی علمائے کرام متہ ) (ج) اس کے بالمقابل شیعہ صاحبان کے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے شیعہ صاحبان کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگرکسی غیر شیعہ کی نماز جنازہ میں شامل ہونا پڑ جائے تو متوفی کے لیے مندرجہ ذیل دعا کرے.قَالَ إِن كَانَ جَاعِدًا لِلْحَقِّ فَقُلْ اللَّهُمْ إِمْلَا جَوْنَهُ نَارًا وَقَبْرَهُ نَارًا وَسَلَّطْ عَلَيْهِ الْحَيَّاتَ وَالْعَقَارِبَ وَذَلِكَ قَالَهُ ابو جَعْفَرِ عَلَيْهِ السّلامُ لا مَرَةٍ سَوءٍ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ صَلَّى عَلَيْهَا ملاحہ و شیعہ حضرات کی مستند ترین کتاب فروع الکانی کتاب الجنائز جلد امت اباب الصلاة على الناصب مصنفہ حضرت محمد یعقوب کلینی مطبوعه نولکشور)

Page 350

۳۳۹ اے اللہ ! اس کا پیٹ آگ سے بھر دے اور اس پر سانپ اور بچھو مسلط کر یہی وہ دعا ہے جو حضرت امام جعفر صادق نے بنو امیہ کی ایک غیر شیعہ عورت کے بارے میں کی تھی.سوال نمبر دیا گیا احمدی اور غیر احمدی میں شادی جائز ہے ؟ (2) اب کیا احمدی عقیدہ میں ایسی شادی کے خلافت ممانعت کا کوئی حکم موجود ہے ؟ جواب : کسی احمد می مرد کی غیر احمدی لڑکی سے شادی کی کوئی ممانعت نہیں البتہ احمدی لڑکی کے غیر احمدی مرد سے نکاح کو ضرور رو کا جاتا ہے لیکن باوجود اس کے اگر کسی احمدی لڑکی اور غیر احمدی مرد کا نکلا ہو جائے تو اسے کا لعدم قرار نہیں دیا جاتا اور اولاد کو جائز سمجھا جاتا ہے.اس تعلق میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہماری طرف سے ممانعت کی ابتداء نہیں ہوئی بلکہ اس میں بھی غیر احمدی علماء نے ہی سبقت کی اور اس میں شدت اختیار کی.(1) چنانچہ سب سے پہلے مولوی محمد عبداللہ صاحب اور مولوی عبد العزیز صاحب مشہور مفتیان لدھیانہ نے یہ فتوی دیا.در خلاصہ مطلب ہماری تحریر ات قدیمہ جدیدہ کا ہی ہے کہ جو شخص ریعنی مرزا غلام احمدی مرتد ہے اور اہل اسلام کو ایسے شخص سے ارتباط رکھنا حرام ہے ایسے ہی جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں اور ان کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان کی عورتوں سے نکاح کرے (ملاحظہ ہو رہ سالہ اشاعۃ السنہ جلد ۳ اصه مطبوعہ ۱۸۹۵) (ب) جب عقیدت فرقه قادیانی بسبب کفر و الحاد و زندقه وارتداد موا تو میجر اس عقیدت مندی ان کی ہیویاں ان کے نکاحوں سے باہر ہو گئیں اور جب تک وہ تو بہ منصورح نہ کریں تب تک ان کی اولادیں سب حرامی ہوں گی.دمهر صداقت المعروف با حکام شریعت منا مطبوعه بر رای) علاوہ ازیں یہ من کرنا بھی ضروری ہے کہ در اصل غیر احمدیوں سے ممانعت نکاح کی بنا احمدیت سے بغض اور عداوت رکھنے والوں کے اثر سے لڑکیوں کو بچانا تھا کیونکہ تجربے نے یہ بتایا ہے کہ وہ احمدی لڑکیاں جو غیر احمدیوں میں بیاہی جاتی ہیں ان کو احمدیوں سے ملنے نہیں دیا جاتا احمدی تحریکوں میں چندے دینے سے ہوگا جاتا ہے اور بعض گھرانے تو اتنے جاہل ہوتے ہیں کہ لڑکی پی اس وجہ سے سختی کرتے ہیں کہ وہ نماز کیوں پڑھتی

Page 351

۳۴۰ ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ اس طرح ہم پر جادو کر تی ہے حقیقہ نکاح کا مسلہ ایک سوشل قسم کا مسئلہ ایسے سائل میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی کو کہاں آرام رہے گا اور کہاں اسے مذہبی امور میں ضمیر کی آزادی ہوگی اور اس پر نا جائزہ دباؤ تو نہیں ڈالا جائے گا میں سے اس کے عقائد دینیہ خطرے میں پڑ جائیں لیکن باوجود در نفت کے اگر کوئی احمدی اپنی لڑکی کا نکاح غیر احمدی مرد سے کر دے تو اس کے نکاح کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا.پھر یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ رشتہ ناطہ کے مسئلہ میں بھی ہماری جماعت اپنے طرز عمل میں منفرد نہیں بلکہ مسلمانوں کے دوسرے فرقے اور جماعتیں بھی اس طرفہ عمل کو اختیار کیے ہوئے ہیں بلکہ بعض تو آپس میں ایسی شدت اختیار کر چکے ہیں وہ دوسرے کے آدمی سے ازدواجی تعلق کو حرام اور اولاد کو ناجائز قرار دیتے ہیں چنانچہ اہلسنت والجماعت شیعہ اثنا عشریہ سے مناکحت کو حرام قرار دیا ہے:.(1) علماء دیوبند اور علماء اہلحدیث کا فتوے ملاحظہ ہو :- دستی لڑکی شیعہ کے گھر پہنچتے ہی طرح طرح کے ظلم وستم کا نشانہ بن کر مجبور ہو جاتی ہے کہ شیعہ ہوجائے یہ خرابی علاوہ اس ارتکاب حرام کے ہے جو نا جائز نکاح کے سبب ہوتا ہے......لہذا شیعوں کے ساتھ مناکحت قطع نا جائزہ انکا ذبیحہ حرام.ان کا چندہ مسجد میں لینانا روا ہے ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو جنازہ میں شریک کرنا جائزہ نہیں.ملاحظہ ہو علمائے کرام کا فتوی در باب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ شائع کردہ مولانامحمدعبد الشکور صامدير النجم السلام اب نیز بعد یلوی فرقہ میں کے ساتھہ مولانا ابو الحسنات صاحب صدر مجلس عمل کا تعلق ہے کے نزدیک بھی شیعہ سے مناکحت او زنا سے مترادف ہے چنانچہ برقر الرفضہ میں لکھا ہے، بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیجہ مردار ہے ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے اگر مردوستی اور عورت ان خبیثوں ہی کی ہو جب بھی ہرگز نکاح نہ ہوگا.محض زنا ہو گا اور اولاد ولد البہ نا " ہو گی یہ درو الرفضہ تصنیف حضرت مولانا احمد رضاخان صاحب بریلوی مطبوعه ۱۳۳ھ ما) ہم نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ کہ اس فتوی میں حضر مولانا احمدرضا خانصاحب بانی فرقہ بریلویہ کا ہے شور حضرات کو نہ صرف کا فرقرار دیا گیا ہے بلکہ ہیوریوں اور عیسائیوں سے بھ بد تر قرار دیا گیا ہے کیونکہ قرآن مجید کی سو سے کتابیہ عورت کیساتھ مسلم مرد کا نکاح جائز ہے لیکن صحت کودا احمدرضا خاتما کے نزدیک شیر موت کیا تو سٹی مڑ کا کام تھا مرام احمد نا جائز ہے.

Page 352

3 (ج) اسی طرح اہلِ شیعہ کے نزدیک اہلسنت والجماعت سے مناکحت ناجائز ہے چنانچہ حضرات شیعہ کی حدیث کی نہایت مستند کتاب الفروع الکافی میں لکھا ہے :.عن الفضل بن یسار قال قلت له بی عبد الله عليه السلام ان لا أتى اختا عارفة على راينا وليس على راينا بالبصرة الاقليل فانتجها من لا يرى راينا قال لا والفروغ الكافي من جامع الکافی جلد ۲ کتاب النکاح صلام امطبوعه نولکشور) یعنی فضل بن یسار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام ابو عبد اللہ سے عرض کیا کہ میری اہلیہ کی ایک بہن ہے تو ہماری ہم خیال ہے لیکن بصرہ میں جہاں ہم رہتے ہیں شیعہ لوگ بہت تھوڑے ہیں کیا ہمیں اس کا کسی غیر شیعہ سے بیاہ کہ دوں با حضرت امام نے فرمایا ” نہیں (2) اسی طرح " امیر جماعت اسلامی کے نزدیک ایسے لوگوں کے لیے ان کی جماعت میں کوئی جگہ نہیں جو اپنی لڑکی یا لڑکے کی شادی کرتے وقت دین کا خیال نہ رکھیں.روئیداد جماعت اسلامی حصہ سوم ما ) سوالنمرہ احمدیہ فرقہ کے نزدیک امیر المومنین کی Significance کیا ہے ؟ جواب: ہمارے امام کے عہدے کا اصل نام امام جماعت احمدیہ اور خلیفہ المسیح ہے لیکن بعض لوگ انہیں امیر المومنین بھی لکھتے ہیں اور ایسا ہی ہے جیسا کہ مولانا ابوالا علی صاحب مودودی امیر جماعت اسلامی کہلاتے ہیں یا سید عطاء اللہ شاہ بخاری امیر شریعت کہلاتے ہیں غالبا مودودی صاحب اور ان کی جھا نے یہ مراد نہیں لی ہوئی کہ باقی لوگ اسلامی جماعت سے باہر ہیں یا کا فر ہیں.نہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ماننے والوں نے یہ مراد لی ہوگی کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری شریعت پر حاکم ہیں اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہی شریعت ہوتی ہے.جب کوئی احمدی حضرت امام جماعت احمدیہ کے لیے امیرالمومنین" کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد یہی ہوتی ہے کہ آپ ان لوگوں کے جو بانی سلسلہ احمدیہ کو مانتے ہیں امیر ہیں لوگ اپنی عقیدت میں اپنے لینڈیوں کے کئی نام رکھ لیتے ہیں بعض تو کلی طور پر غلط ہوتے ہیں بعض جزوی طور پر مسیح ہوتے ہیں بعض کلی طور پر میچ ہوتے ہیں کوئی معقول آدمی ان باتوں کے پیچھے نہیں پڑتا جب تک کہ انیسی بات کو ایمان کا جند و قرار دیگر اس کے لیے دلائل اور برا ہیں نہ پیش کیے جائیں سابق مسلمانوں نے بھی بعض

Page 353

۳۴۲ ہ کو امیرالمومنین کے الفاظ سے یادکیا ہے چنانچہ ولانامحمدذکر یا شیخ الحدیث مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور اپنی کتاب موسوعہ مقدمہ اوجز المسالک شرح موطا امام مالک کے صغریم مطبوعہ میمونہ سہارنپور شاہ اور میں امام قطان اور یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.مالك امير المومنين في الحديث ، یعنی امام مالک فن حدیث میں امیر المومنین ہیں کا اسی طرح حضرت سفیان ثوری کے متعلق حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی امام شعبہ اور امام ابن علقمہ اور امام ابن معین اور بہت سے علماء کی سند پس اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں :- سفيان امیر المومنين في الحديث " یعنی حضرت سفیان ثوری فن حدیث میں امیرالمؤمنین ہیں.» (تهذيب التهذيب مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن جلد عله ص ۱۱۳) احمدیہ انجین اشاعت اسلام لاہور کے سابق امیر مولانا محمد علی صاحب مرحوم کو بھی ان کے بعض اتباع امیرالمؤمنین لکھتے ہیں.پر وفیسر الیاس برنی صاحب نے اپنی کتاب " قادیانی مذہب مطبوعہ اشرف پر ملنگ پریس لاہور بار ششم صفحه و تمهید اول میں موجودہ نظام صاحب دوکن کو امیر المومنین، لکھا ہے مزید برآں بعض لوگ اس قسم کے نام رکھ لیتے ہیں جیسے ابو الا علی ، حالانکہ " الا علی اللہ تعالے کا نام ہے : ایر دوکیٹ صدرانجمن اسمک دبیر ربوہ Murree/ Lahore Advocate of the Sadr Dated 29th August 1953 Anjuman Ahmadiyya Rabwah.تحقیقاتی کمیشن کے تین سکسوالوں کا جواب اس نہایت اہم بیان میں مندرجہ ذیل میں سے سوالوں کے جواب حضرت مصلح موعود نے سپرد فلم فرمائے :-

Page 354

(1) وہ حالات جن کی وجہ سے مارشل لاء نافذ کرنا پڑا (۲) صوبجاتی گورنمنٹ نے جو ذرائع فسادات کے نہ ہونے دینے کے لیے اختیار کیے آیا وہ کافی تھے یا نہیں ؟ (۳) صوبجاتی حکومت نے جب یہ فساد ظاہر ہو گئے تو ان کے دبانے کے لیے جو تجاویز اختیار کیں آیا وہ کافی تھیں یا نہیں تھیں ؟ به تحریری بیان غیر مطبوعہ اور بیچنہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے لی.اعوذ بالله من الشيطان بسم الل الرحمن الرحیم نحوه ونصلی علی رسولہ المر ميم خدا کے فضل اور رسم کیسا تھھ سوالات :- ا.وہ حالات جن کی وجہ سے مارشل لاء نافذ کر نا پڑا.صوبہ جاتی گورنمنٹ نے جو ذرائع فسادات کے نہ ہونے دینے کے لیے اختیار کیے.آیا وہ کافی تھے.یا نہیں.صوبہ جاتی حکومت نے جب یہ فساد ظا ہر ہو گئے.تو ان کے دبانے کے لیے جو تجاویز اختیار کیں.آیا وہ کافی تھیں یا نہیں تھیں.جوابات :- مارشل لاء کے جاری کرنے کی ضرورت جن امور کیو جہ سے پیش آئی کوہ وہ واقعات تھے جو فروری کے آخری ہفتہ اور مارچ کے ابتدائی ہفتہ میں لاہور میں ظاہر ہوئے اور جنہیں موسماتی حکومت مؤتمر لے اس تحریری بیان کا اصل مسودہ حضرت مصلح موعود نے ۲۸ جنوری ۱۹۵۳ء کو لکھوایا تھا مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم سابق انچارج شعبہ زر دنویسی کے ہاتھ کا لکھا ہوا اور حضرت مصلح موعود کے قلم مبارک سے اصلاح شدہ ہے.

Page 355

لام ام اس طور پر دبانہ کی.اگر یہ واقعات ظاہر نہ ہوتے.یا اگر صوبجاتی حکومت ان کو دبانے میں کامیاب ہو جاتی تو مارشل لاء کے جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی.اس سوال کا جواب دینے میں کچھ نہ کچھ ذکر حکومت کا بھی آجاتا ہے کیونکہ ایسے بڑے پیمانہ پر فسادات جن کو پولیس نہ دبا سکے اور انتظامی عملہ نا کام ہو جائے دو ہی وجہ سے پیدا ہوا کرتے ہیں یا تو صیغہ اخبر رسانی کی شدید غفلت اور نا قابلیت کیوجہ سے یا عملہ انتظام کی عدم توجہ کی وجہ سے.کیونکہ ایسے موقعہ پر جب کہ سول اور پولیس نا کام ہو جائے اور فوج کو دخل دینا پڑے.یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آبادی کی ایک کثیر تعداد اس میں شامل تھی یا آبادی کی ایک معقول تعداد ایسی منظم صورت میں فساد پر آمادہ تھی کہ فساد کی وسعت کی وجہ سے عام قانون کے ذریعہ سے اسے دبایا نہیں جاسکتا تھا.اور یہ دونوں حالتیں یکدم نہیں پیدا ہو سکتیں.ایک لیسے عرصہ کی تیاری کے بعد پیدا ہو سکتی ہیں.اور ایک لمبے عرصہ کی تنظیم کے بعد یا ایک لمبے عرصہ کے اشتعال کے بعد ہی رونما ہو سکتی ہیں.دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں بھی سول معاملات میں فرج کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جب تک کہ معاملہ ہاتھوں سے نہیں نکل جاتا اور یہ ہمیشہ ہی عرصہ دراز تک نفرت کے جذبات کے سلگتے رہنے اور ایک عرصہ تک محفتی تنظیم کے بعد ہی ہوتا ہے.تیسری صورت وہ ہوا کرتی ہے.جبکہ کوئی ظالم شخص اپنے اشتعال سے مجبور ہو کر باز دست فوج کو استعمال کرتا ہے تاریخ میں اس کی بھی مثالیں ملتی ہیں.لیکن موجودہ مارشل لاء اس تعبیر می قسم میں شامل نہیں اس لیے لاء اینڈ آرڈر کی ذفتہ وار پنجاب حکومت متقی اور پنجاب حکومت نے ہ اور 4 (مارچ کو یہ یہ محسوس کر لیا تھا.کہ اب ہم امن کو اپنے ذرائع سے قائم نہیں رکھ سکتے اور مرکز کو دخل دیتے کی ضرورت ہے پس چونکہ اس فیصلہ کی بنیاد صوبائی حکومت کے ساتھ تعلق رکھتی تھی اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ مرکزی یا فوجی افسروں نے فوری اشتغال کے ماتحت ایک کام کر لیا.حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی.پس لاز مائیہی مانا پڑے گا.کہ وہ حالات جو فروری کے آخر یا مارچ کے شروع میں ظاہر ہوئے.ایک لمبی انگیخت کے نتیجہ میں تھے اور ایک باضابطہ تنظیم کے ماتحت تھے جس کیوجہ سے بادجود اس کے کہ ہزاروں کی تعداد میں پولیس موجود تھی سینکڑوں کی تعداد میں انتظامی افسر موجود تھے.پھر بھی وہ لاہور کے فسادات کو روکنے کے قابل نہیں ہوئے.

Page 356

یر بھی بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی.کہ جیسا کہ شہادتوں سے ثابت ہے.لاہور میں فسادات میں حصہ لینے والے صرفت لامبور کے باشندے نہیں تھے.بلکہ زیادہ تر حملے کرنے والے لوگ وہ تھے.جو کہ باہر سے منگوائے گئے تھے.پس اس بات کو دیکھ کر لاہور کے مارشل لاء کے جاری کرنے کے موجبات کو صرف لاہور تک محدود نہیں کیا جائے گا.بلکہ پنجاب کے دوسرے علاقوں پر بھی نظر ڈالنی پڑے گی اگر بیر نجات سے سینکڑوں کی تعداد میں جھتے نہ آتے تو پولیس کے لیے انتظام مشکل نہ ہوتا.پولیس کا انتظام زیادہ تر اس بات پر مبنی ہوتا ہے کہ وہ لوکل آدمیوں کی طبیعتوں اور ان کے چال چلن کو جانتی ہے اور وہ جھتی ہے کر کس محلہ میں کون کون لوگ سے اس قسم کی شرارت کر سکتے ہیں اور پھیلا سکتے ہیں.نہیں وہ ان کو گرفتار کہ لیتی ہے اور اس طرح شورش کی جڑ کو کچل دیتی ہے لیکن گزشتہ فسادات میں پارٹیشن کے زمانہ کے فسادات سے سبق سیکھتے ہوئے ان فسادات کے بانیوں نے جہاں جہاں بھی فساد ہوا.وہاں باہر سے آدمی لاکہ جمع کر دیئے تھے.تاکہ پولیس ان سے معاملہ کرتے وقت صحیح اندازہ نہ کر سکے اور مقامی شورش پسند لوگ جن کو وہ جانتی ہے ان کی گرفتارہ ہی سے شورش کو دبا نہ سکے.پنجا ہے دوسرے علاقوں میں بھی جہاں جہاں شورش کی گئی.اسی رنگ میں کام کیا گیا.کہ جس گاؤں میں شورش کرنی ہوتی تھی.وہاں ارد گرد کے گاؤں سے آدمی لائے جاتے تھے اور مقامی گاؤں والے بظاہر خاموش بیٹھے رہتے تھے.لیں جو کچھ لاہور میں ہوا.وہ کبھی نہیں ہو سکتا تھا.اگر اضلاع میں اس کی بنیاد نہ رکھی جاتی.اور اگر حکومت اس فتنہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے تمام اضلاع میں تعاون پیدا کر دیتی تو یہ فسادات یا تو رونما نہ ہوتے یا ظاہر ہوتے ہی دبا دیئے جاتے.ہم اس بات میں نہیں پڑنا چاہتے کہ زید یا بر کس پر ان فسادات کی زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں.کہ نہ اس طرح ہمارے مقتول واپس لائے جا سکتے ہیں.نہ ہمارے جلائے ہوئے مکان بنائے جاسکتے ہیں نہ ہمارے ٹوٹے ہوئے مال ہم کو واپس دیئے جا سکتے ہیں.حقیقت یہ ہے.کہ مناء کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ لوگ جن کا فساد میں فائدہ ہوتا ہے.لیکن اگر یہ ظاہر ہو جائے کہ وہ فساد میں شامل ہیں تو وہ اس فائدے سے محروم ہو جاتے ہیں دوسرے وہ لوگ فساد کروانا چاہتے ہیں اور فساد کروانے کی عزت خود حاصل کرنا چاہتے ہیں.ان لوگوں کا فائدہ اسی میں ہوتا ہے کہ ان کا نام آگے آئے اور لوگوں کو معلوم ہو.کہ وہ اس کام میں حصہ لے رہے ہیں.

Page 357

۳۴۶ اگر گورنمنٹ کا کوئی براہ راست وخل ان فسادات میں تھا تو گورنمنٹ پہلے گروہ میں آجاتی ہے.اگر کسی دقت بھی یہ ظاہر ہو جاتا.کہ وہ ان فسادات کو انگیخت کر رہی ہے تو جس غرض سے وہ ان مساوات میں حصہ لے سکتی تھی.وہ اس غرض سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوجاتی تھی.اس لیے لانہ ما اگر حکومت بحیثیت حکومت یا اسکے کچھ افسران فسادات میں حصہ لینا چاہتے تھے تو وہ یقیناً اسے مخفی رکھتے تھے اور جو بات مخفی رکھی جاتی ہے اس کا پتہ لگا آسان نہیں ہوتا مضادات کے دنوں میں ہماری جماعت کو مختلف رپور میں منی میں بھی ایک افسر کے متعلق کبھی دوسرے افسر کے متعلق کبھی صوبجاتی حکومت کے متعلق کبھی مرکزی حکومت کے متعلق کبھی ہمیں یہ خیال پیدا ہوتا تھا.کہ فلاں افسر یا صوبجاتی حکومت اس کی ذمہ دار ہے کبھی ایک دوسری رپورٹ کی بناء پر ہم یہ سمجھتے تھے.کہ کوئی دوسرا افسر اور مرکزی حکومت اس کی زائرار ہے (چونکہ ہمارے آدمی حکومت کے زمہ دار عہدوں پر فائز نہیں تھے.اس لیے ہمیں حقیقت حال کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا تھا.اس لیے ہماری جماعت کا طریقہ یہی تھا.کہ ہر قسم کے افسروں سے تعاون کرنا اور بعض دفعہ یہ خیال کرتے ہوئے بھی کہ وہ ان فسادات میں حصہ لیتے ہیں ان کے پاس اپنی شکایت نے جانا.اور اگر کسی کے منہ سے کوئی بات، رانصاف کی نکل جائے تو اس کی تعریف کر دینا.تاکہ شائد اسی تعریت کے ذریعہ سے آئندہ اس کے شر سے نجات مل جائے ہماری مثال تو اس جانور کی سی تھی.جس کے پیچھے چاروں طرف سے شکاری کتے لگ جاتے ہیں اور وہ مختلف طریقوں سے اپنی جان سجانے کی کوشش کرتا ہے.پس ہم معین صورت میں کسی شخص پر الزام نہیں لگا سکتے.مارشل لاء سے پہلے بھی ہم پر سختیاں کی گئیں اور ہمارے لیے یہ نتیجہ نکالنا بالکل ممکن تھا کہ اس کا اصل موجب کون شخص تھا ہاں ہم شہادتوں کو دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں.کہ صوبیجانی حکویت میں قطعی طور پر بے عملی پانی جاتی تھی.ہمیں یہ سن کر نہایت ہی تعجب ہوا ہے.کہ اس وقت کے وزہ پر اعلیٰ کا صرف یہی خیال تھا که داول) ان کو اس امر کے متعلق رہی کا ہہ دائی کرنی چاہیئے جس کے متعلق ان کے مانخت رپورٹ کریں.ا مسودہ پر دھبہ کی وجہ سے پڑھا نہیں گیا اس لیے اندازا لکھا گیا ہے

Page 358

ی) جب کوئی معاملہ زیر بحث آئے تو ان کے لیے یہ کافی تھا کہ وہ اپ نہ افسروں کے ساتھ تبادلہ خیال کے بعد ودرست یا غلہ کوئی حکم دیدیں.ان کے نزدیک اس بات کی کوئی ضرورت نہیں معنی کہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ وہ حکم نائز بھی بجھا ہے یا نہیں.(ج) ان کے نزدیک انصاف کا تقاضا اس سے پورا ہو جاتا تھا کہ اگر ظالم و مظلوم دونوں کو ایک کشتی میں سوار کر دیا جائے اور اس طرح دنیا پر ظاہر کیا جائے کہ وہ سب قسم کے لوگوں کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں اور یہی کیفیت ہم کو لاہور کے انتظامیہ حکام میں نظر آتی ہے اور یہیں فساد سب سے زیادہ ہوا ہے گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لاہور میں جو ذمہ دار افسر تھا.اس کے نزدیک بھی اور پہر کے ہی اصولی قابل عمل تھے اور انہی یہ وہ عمل کرتا رہا ہے.شاید جرمنی کے مشہور چانسلر پرینس بسمارک کا بہ قول ہے کہ افسر اس لیے مقرر کیے جاتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا مانحت عملہ قواعد اور حکام کی پابندی کرتا ہے مگران شہادتوں کے پڑھنے سے ہمیں یہ علوم ہوتا ہے کہ افسر اس لیے مقرر کیے جاتے ہیں کہ وہ ایک فیصلہ کر یں اور پھر کبھی نہ دیکھیں کہ اس پر عمل ہوا ہے یا پہلے مقرر کیے جاتے ہیں کہ وہ اس انتظار میں رہیں کہ ان کے ماتحت افسر کوئی کارروائی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں.اگر وہ کارروائی کرنا چا ہیں.تو پھر مناسب طور پر وہ اس کا روائی کو بستہ ہیں پیسٹ دینے کی کوشش کریں اور اگر وہ کوئی کارروائی نہ کروانا چاہیں تو وہ اس انتظار میں رہیں کہ کبھی وہ عمل کی طرف متوجہ ہوں گے یا نہیں.جہاں تک ہمار می عقل کام دینی ہے دنیا کی ادنیٰ سے ادنی حکومت بھی ان اصول کے ماتحت نہیں مل سکتی.پس ہمارے نزدیک حکومت کی بے حسی اور عدم توجہی اور عدم تنظیم ان فسادات کی ذمہ وار ہے.لیکن اصل :مہ داری ان لوگوں پر آتی ہے جو کرا اپنے ارادوں کو ظاہر کر تے تھے لوگوں کو فساد کے لیے اکساتے تھے اور اس بارہ میں تنظیم کر رہے تھے.یہ کہد بنا کہ کوئی شخص ایسے الفاظ نہیں بولتا تھا.جن سے وہ قانون کی زد میں آئے درست نہیں.کیونکہ اول تو اخباروں کے کٹنگز اور تقریروں کے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ بولے جاتے تھے.دوسرے ایسے واقع پر یہ نہیں دیکھا جاتا.کہ الفاظ کیا بولے جاتے تھے.دیکھ یہ جانتا ہے کہ کس ماحول میں وہ بولے جاتے تھے اور کیا زمینیت وہ لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے تھے.اگر حضرت مصلح و تو یہاں سورہ کے حاشی میں تھی کے دوران لکھا.بعض حوالہ جات

Page 359

یہ ثابت ہو جا کہ ایک خاص ذہنیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک خاص سکیم کے ماتحت بو فتنہ و فساد کو پیدا کرنے میں محد ہو سکتی ہے.کچھ الفاظ بولے جاتے تھے جن میں رائج الوقت قانون سے بچنے کی بھی کوشش کی جاتی تھی تو یقینا الفاظ خواہ کچھ ہی ہوں اس بات کو ماننا پڑے گا کہ فساد کے لیے لوگوں تو تیار کیا گیا اور متواتر تیار کیاگیا اور پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ عین فساد کے دلوں میں جلسوں کی حد سے نکل کر ایک مقرر تنظیم کے ماتحت سارا فساد آگیا تو ما نا پڑتا ہے کہ جولوگ جلسوں میں محتاط الفاظ استعمال کرتے بھی تھے اپنی خلوت میں دوسرے کام کرتے تھے.اگر ایسا نہیں تھا تو اچانک شورش ایک انتظام کے ماتحت کس طرح آگئی اور اس کو باقاعدہ لیڈر کہاں سے مل گئے آخر وہ کیا بات تھی کہ جلسوں میں تو محض لوگوں کو ختم نبوت کی اہمیت بتائی جاتی تھی لیکن فسادات کے شروع ہوتے ہی جیتے لاہور کی طرف بڑھنے شروع ہوئے.ایک شخص نے آکر مسجد وزیر خان میں راہنمائی اور رامیری سنبھال لی.اور لوگ اس کا حکم ماننے لگ گئے اور دوسروں نے دوسرے علاقوں میں باگ ڈور سنبھال لی جس دن شورش کرنی ہوتی تھی مختلف طرف سے مجھے نکلتے تھے لیکن شورش ایک یا دو مقامات پر کی جاتی تھی جب گرفتاریاں ہوتی تھیں تو تلورش پسند لیڈر وہاں سے بھاگتے تھے اور ان کو پناہ دینے کے لیے پہلے سے جگہیں موجود ہوتی تھیں.حکومت کو بیکار بنانے کے لیے ریلوں اور لاریوں پر خصوصیت کے ساتھ حملے کیے جاتے تھے.تمام بڑے شہروں میں گاؤں کی طرف سے جتھے آتے تھے جیسے لائلپور میں گو جرہ اور سمندری وغیرہ سے اور سرگودہا میں میانوالی اور سکیسر کے علاقوں سے اور لاہور میں راولپنڈی، " لائیوں اور دوسرے شہروں سے گویا لاہور میں تو لالپور، راولپنڈی، سرگودہا اور ملتان کے شہروں کو استعمال کیا جارہا تھا اور لائلپور.سرگودہا ، راولپنڈی ملتان وغیرہ میں اردگرد کے دیہات کے لوگوں کو ستعمال کیا جاتا تھا.کیا یہ بات بغیرکی تنظیم کے ہوسکتی تھی اور کیا تنظیم بغیر کسی نظم کے ہوسکتی تھی.میں یہ حالات صاف بتاتے ہیں کہ تقریروں میں کچھ اور کہا جاتا تھا گو جوش کی حالت میں وہ بھی اصل حقیقت کی غمازہ ہی کر جاتی تھیں لیکن پرائیویٹ طور پر اور رنگ میں تیاری کی جارہی تھی.پس منادات کی اصل ذمہ دار جماعت اسلامی.جماعت احرار اور مجلس عمل تھی.ان کے کارکنوں نے متواترہ لوگوں میں یہ جوش پیدا کیا کہ احمدی اسلام کو نباہ کر رہے ہیں.پاکستان کے غدار ہیں.غیر حکومتوں کے ایجنٹ ہیں گویا دہ دو ہی چیزیں جو پاکستانی مسلمانوں کو پیاری ہوسکتی ہیں.

Page 360

۳۴۹ یعنی اسلام اور پاکستان دونوں کی عزت اور ایک دونوں کی ذات احمدیوں سے خطرہ میں ہے.ظاہر ہے کہ ان تقریر وں کے نتیجہ میں عوام الناس میں اتنا اشتعال پیدا ہو جانا ضروری تھا کہ وہ اپنی دونوں پیاری چیزوں کے بچانے کے لیے اس دشمن کو مٹا دیتے جس کے ہاتھوں سے ان دونوں چیزوں کو خطرہ بتایا جاتا تھا ضرورت صرف اس بات کی تھی کہ انڈر گراؤنڈ طور پر کچھ ایسے لوگ بھی مقرر کیے جاتے جو اس طوفان کو ایک خاص انتظام کے ماتحت اور ایک خاص لائن پر چلا دیتے جب طبائع میں اشتعال پیدا ہو جائے تو وہ لیڈر کی اطاعت کے لیے پوری طرح آمادہ ہو جاتے ہیں اس طرح تنظیم کے لیے بستہ کھول دیا گیا تھا ان لوگوںکو یہ اتفاقی سہولت میسر آگئی کہ پنجاب کے صوبہ کی حکومت دانستہ یا نادانستہ ایسے طریق عمل کو اختیار کرنے لگی جو دنیا کی کسی مہذب حکومت میں بھی استعمال نہیں کیا جاتا اور جس کا ذکر ہم اور یہ کہ آئے ہیں اس دوران میں بدقسمتی سے پاکستان کی مرکزی حکومت میں ایک ایسا وز یر اعظم آگیا جو منہ ہی جوش رکھتا تھا اور علما کا حد سے زیادہ احترام اس کے دل میں تھا اور انتہا درجہ کا سادہ اور طبیعت کا شریف تھا اتفاقی طور پر کچھ علماء اس کے پاس پہنچے اور اس کے ادب اور احترام کو دیکھ کر انہوں نے محسوس کیا کہ کامیابی کا ایک اور راستہ بھی ان کے سامنے کھل سکتا ہے.ہمیں ان فسادات کے دلوں میں جو کچھ معلومات حاصل ہوئیں یا ہوسکتی تھیں.خواہ مخالفوں کے کیمپ سے یا اپنے وفود سے جو کہ پاکستان کے وزیر اعظم سے ملے یہی معلوم ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم سادہ اور شریف آدمی تھے ہمیں کبھی بھی اُن کے متعلق ریسوس نہیں ہوا کہ وہ شرارت یا فساد کے لیے کوئی کام کرتے تھے مگر علماء کا ادب اور احترام اور ان کی سادگی اور دوسری طرف علماء کا فساد پر آمادہ ہو جاتا ان کو دھکیل کر ایسے مقام پر لے گیا.جبکہ وہ نادانستہ طور پر اس فساد کو آگ دینے والے بن گئے.پاکستان میں اس وزیر اعظم کے آنے سے پہلے علماء کے دل میں یہ طمع کبھی نہیں پیدا ہوا کہ آئندہ حکومت اُن سے ڈر کر ان کی پالیسیاں چلائے گی لیکن اس وزیر اعظم کے زمانہ میں یہ طمع علماء کے دل میں پیدا ہوگیا.مولانا مودودی جو کہ پہلے کانگرسی تھے پھر مند و نوازہ تھے اور پاکستان بننے کے وقت پاکستان کے مخالف تھے.آخری دن تک ان کی پاکستان رے حضرت مصلح موعود نے یہاں حاشیہ میں ہدایت دی کہ ہر مناسب حوالہ جات

Page 361

میں آنے کی تجویہ نہیں تھی وہ پاکستان کو مسلمانوں کے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے.انکی جماعت کی بنیاد سرے سے ہی سیا سی ہے اور ان کا نظریہ یہی ہے کہ جس طرح ہو حکومت پر قبضہ کیا جائے اور پھر ان کے سمجھے ہوئے اسلامی نظام کو چلایا جائے ان کے اس نظریہ کی وجہ سے دوسری پارٹیوں سے مایوس شده سیاسی آدمی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ پارٹی جو جلد سے جلد حکومت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اس کے ذریعہ سے ہم کو بھی رسوخ حاصل ہو جائے گا.اور چونکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ بعد میں اسلامی نظام قائم کیا جائے گا اس لیے مذہب کی طرف مائل ہونے والے لوگ بھی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں.ان کا انجمن اخوان المسلمین کے ساتھ متعلق بھی ظاہر کرتا ہے کہ در حقیقت ان کا مطلوب بھی سیاست ہے ان کا طریق عمل بھی بالکل اُسی رنگ کا ہے.مثلاً اسی کمیشن کے سامنے ولانا مووی صاحب تو یہ کہتے ہیں کہ شاد تو م ہی تھا اور ان کی جماعت اسلامی یہ کہتی ہے کہ اس فساد کے موجبات سیاسی تھے.یہ اختلاف دیانتداری کے ساتھ نہیں ہو سکتا اگر تو جماعت اسلامی پہلے ہوتی اور مولانا مودودی بعد میں اگر اس کے پریذیڈنٹ بن جاتے.تب تو نفسیاتی طور پر اس اختلاف کو حل کیا جاسکتا تھا.مگر حقیقت یہ ہے کہ مو از نامورودی ہی نے جماعت اسلامی بنائی ہے اور اب بھی گو انہیں ایکس امیر (Examir) کیا جاتا ہے لیکن جیلخانہ میں بھی انہی سے مشورے کیسے جاتے ہیں کیو نکمان کو مزاج شناس رسول کا درجہ دیا جاتا ہے ربیان امین احسن اصلاحی) اگر اتنا اہم اختلاف پیدا ہو گیا تھا تو یہ تعاون با ہمی کیسے جاری ہے جماعت اخوان المسلمین نے بھی مصر میں یہی طریقہ اختیار کیا ہوا ہے جنرل نجیب کے برسراقتدار آنے پر انہوں نے اعلان کر دیا کہ ان کی جماعت مذہبی جماعت ہے لیکن ایک حصہ اسے سیاسی قرار دیتا رہا اور اب ساری جماعت ہی سیاسیات میں الجھ کر مصر کی قائم شدہ حکومت جس کے ذریعہ سے اس کے لیے آزادی کا حصول ممکن ہو گیا ہے.اس کے خلاف کھڑی ہو گئی اور جماعت اسلامی کے صدر صاحب جنرل نجیب کو نا نہیتے ہیں کہ جو الزام تم اخوان المسلمین پر لگاتے ہو وہ غلط ہے.عجیب بات ہے کہ مصر کی حکومت مصر کے بعض لوگوں پر ایک الزام لگاتی ہے اور واقعات کی بناء پر الزام لگاتی ہے لیکن پاکستان کی جماعت اسلامی بغیر اس کے کہ ان لوگوں سے وافقت ہو بغیر اس کے کہ کام سے واقف راہ حضرت مصلح موعود نے یہاں حاشیہ میں تحریر فرمایا مر حوالہ"

Page 362

۳۵۱ ہوا صدر مصر کو تار دیتی ہے کہ تمہاری غلطی ہے یہ لوگ ایسے نہیں ہیں یہ صاف بتا تا ہے کہ دونوں تحریکیں سیاسی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کا بازو ہیں.مذہب کا صرف نام رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے جب اس تحریک فسادات نے زور پکڑا اور جماعت اسلامی نے یہ محسوس کیا کہ اس ذریعہ سے وہ حکومت کے کچھ لوں کی نظرمیں بھی پسندیدہ ہو جائیں گے اور عوام الناس میں بھی ان کو قبولیت حاصل کرنے کا موقع میسر آ جائے گا.تو وہ اس تحریک میں شامل ہو گئے.ہمیں تعجب ہے کہ مسٹر انور علی صاحب آئی بھی پولیس مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے متعلق تو یہ کہتے ہیں کہ لائلپور کی تقریر میں ان کا یہ کہنا کہ اس اس رنگ میں فساد ظاہر ہوں گئے یہ بتاتا ہے کہ وہ ان فسادات کی سکیم میں شامل تھے.لیکن مولانا مودودی صاحب کی لاہور کی نظریہ جس میں وہ یہ کہتے این که اگر حکومت نے یہ باتیں نہ مانیں تو جس رنگ میں پازیشن کے وقت فسادات ہوئے تھے اسی رنگ میں فسادات ہوں گے اس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق مجھے یہ شبہ نہیں تھا کہ وہ کوئی سیاسی کام گورنمنٹ کے خلاف کرتے ہیں تعجب ہے ایک ہی قسم کی تقریر میں دو شخص کرتے ہیں اور ایک سے اور نتیجہ نکالاجاتا ہے اور دوسری سے اور.حالانکہ مولانا مودودی نے جس قسم کے فسادات کی طرف اشارہ کیا تھا.منادات تفصیلاً اسی رنگ میں پیش آئے.بالو وہ الہام کے مدعی ہوتے کہ خدا تعالے نے مجھے ایسا بتا یا ہے تب ہم اس امر کی تحقیقات کرتے مگر وہ لو الہام کے منکر ہیں.آخر انہیں کیونکر پتہ لگا تھا.کہ اُسی رنگ میں فسادات ہوں گے جس رنگ میں پازیشون کے زمانہ میں فسادات ہوئے تھے.فسادات کے مختلف پہر دن (Pettern) ہوتے ہیں اور ہر وقت اور ہر ملک میں ایک قسم کے فسادات ظاہر نہیں ہوتے.گزشتہ پا میشن کے زمانہ میں فساد کا ایک معتین طریق تھا جو ہندوؤں اور سکھوں نے مقرر کیا تھا.مغربی پنجاب میں بھی فسادات ہوئے مگر وہ اس رنگ میں نہیں ہوئے ان کا رنگ بالکل اور تھا.مگر جو فسادات پچھلے دنوں میں ہوئے ان کا پیڑن رہی تھا جو کہ مشرقی پنجاب میں استعمال کیا گیا تھا اور اس کی طرف مولانا مودودی صاحب نے اشارہ کیا تھا.رمن یہ ایک حقیقت ہے کہ باوجود نشہ اللہ اور ۵۳؛ میں جماعت احمدیہ کی طرف ے حضرت مصلح موعود کے قلم سے یہاں حاشیہ میں لفظ حوالہ لکھا ہے

Page 363

۳۵۲ سے متواتر پوسٹ کرنے کے حکومت نے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا.اس نے روم کے بادشاہ نبرد کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ Rome burns but Nero plays with his fiddle آخر وجہ کیا ہے کہ جبکہ جماعت احمدیہ متواتہ فسادات کے پیدا ہونے کے امکان کی طرف حکومت کو توجہ دلاتی رہی.حکومت انہیں یہ طفل تسلیاں دیتی رہی کہ فسادات کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہ کہ جب کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے گا.ہم اسے پکڑ لیں گے لیکن جب فساد کی صریح انگیخت بعض لوگ کرتے تھے.تو کبھی لوکل افسروں کے توجہ دلانے پر یہ کہ دیاجا تا تھا کہ یہ آدمی اہم نہیں حالانکہ فسادات کے لیے ملکی اہمیت نہیں دیکھی جاتی علاقائی اہمیت دیکھی جاتی ہے اور کبھی یہ کہ دیا جاتا کہ اگر اس وقت کسی کو پکڑا گیا تو شورش بڑھ جائے گی.حالانکہ شورش کے بڑھنے کا خطرہ تو زمانہ کی لمبائی کے ساتھ لمبا ہوتا ہے اس وقت خاموش رہنے کے یہ معنی تھے کہ شورش کے بڑھنے کو اور موقعہ دیا جائے حالانکہ شہادتوں سے صاف ثابت ہے کہ مرکز می حکومت سے دو ٹوک فیصلہ چاہنے کی کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور کبھی یہ کہ دیا جاتا کہ چونکہ مرکزی حکومت نے ابھی تک اصل مسئلہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا اس لیے ہمارا دخل دینا مناسب نہیں کبھی انسپکٹر جنرل پولیس توجہ دلا تا تو خاموشی اختیار کی جاتی.اور سمجھ لیا جاتا کہ ہم ایک دفعہ فیصلہ کر چکے ہیں.اب مزیلہ اظہار رائے کی ضرورت نہیں کبھی مقامی حکام یا پولیس اگر بعض لوگوں کو پکڑ لیتی تو ہماری حکومت ان کو اس لیے رہا کرنے کا آرڈر دے دیتی کہ دہ لوگ اب پچھلے کام پر پیشمان ہیں.حالانکہ گزشتہ تاریخ احرار کی اس کے خلاف متقی جیسا کہ شہادتوں سے ثابت ہے اور متقبل نے بھی اس خیال کو غلط ثابت کر دیا.یہ کہنا بھی درست نہیں کر ان لوگوں نے اصلاح کی یہ شہادتیں اور لٹریچر اس کے خلاف ہے.گویا ایک لاکھ یا دولاکھ پاکستانیوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں تھی.اس کے لیے حکومت کو کسی قدم کے اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی.آخر اگر کسی نے ملک میں کوئی غیر آئینی تقریر نہیں کی تھی اگر تمام لیڈر لوگوں کو امن سے رہنے اور احمدیوں سے یہاں حضور نے اس فقرہ کا اپنے قلم سے اضافہ فرمایا نہ حوالہ سیالکوٹ کا واقعہ کے یہاں حضور نے حاشیہ پہا اپنے قلم سے لکھا حوالہ جات کان

Page 364

۳۵۳ کی جان کی حفاظت کرنے کا وعدہ کر رہے تھے اور حکومت کو ان کے وعدوں پر اعتبار تھا تو یہ کس طرح ہوا که احمدی قتل کیے گئے.اور ان کی جائیدادیں تباہ کر دی گئیں.ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی.اور کئی جگہ پر انہیں مجورکرکے ان سے احمدیت تحرک کر دائی گئی ہم نہیں کہ سکتے کہ کوئی احمدی اپنے عقیدہ کو ترک نہیں کر سکتا.دنیا میں ہمیشہ سے ہی لوگ اپنے عقائد چھوڑتے آئے ہیں اگر کوئی احمدی بھی اپنا عقیدہ چھوڑ دے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن وجہ کیا ہے کہ احمدیت کو ترک کرنے کا خیال ان دنوں میں پیدا ہونا شروع ہوا.جن دنوں میں چاروں طرفت احمدیت کے خلاف قتل اور غارت کا بازار گرم تھا ہم مثال کے طور پر راولپنڈی.سیالکوٹ ، اوکاڑہ ، ملتان ، گوجرانوالہ.شاہدرہ - لاہور - اور لالپونہ کے واقعات کو پیش کرتے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ انہی فسادات کے ایام میں جماعت اسلامی جوامن و امان کے قیام کی واحد ٹھیکیدارا اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اس کے سیکریڑی نے مندرجہ ذیل خط امام جماعت احمدیہ کو لکھا.امیر جماعت اسلامی تاریخ ۱۹ مارچ ۶۱۹۵۳/ شمار نمبر ۱۰۳۹ - کریمی - السلام على من اتبع على الهدى مندرجہ ذیل حضرات نے قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کیا ہے انہوں نے تحریری طور پر دفتر ہذا کو اطلاع دی ہے.کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا.اور نہ ہی کسی ڈر اور خوف سے انہوں نے توبہ کی ہے بلکہ برضا و رغبت اور پوری طرح سمجھ کر اسلام قبول کیا ہے (1) فضل الرحمن صاحب سپروائزر ۵۰۰۰ مکان ۷/۵۳۰ کالج روڈ راولپنڈی (۲) بچوہدری احمد علی خان (۳) حفظ الرحمن صاحب (۴) عطاء الرحمن صاحب (۵) سمیع الرحمن صاحب (4) مطیع الر حمن صاحب لے یہاں حضور نے حاشیہ پر اپنے قلم سے لکھا ، حوالہ جات 11

Page 365

۳۵۴ (6) ساجده خانم بنت فضل الر حمن صاحب (A) ممتاز بیگم زوجہ فضل الرحمن صاحب (۹) سردار بیگم زوجیہ احمد علی خانصاحب (۱۰) فیات میگیم بنت احمد علی خانصاحب # رو سخط) صدیق الحسن گیلانی تیم مطلقه را ولپنڈی اس خط سے ظاہر ہے کہ عین ان فسادات کے ایام میں یہ امران آدمیوں پر ظاہر ہوا.کہ احمدی عقائد غلط ہیں اور جماعت اسلامی کے عقائد درست ہیں اور جماعت اسلامی کے راولپنڈی کے سیکرٹری صاحب نے غیر معمولی طور پر یہ ضرورت بھی محسوس کی کہ امام جماعت احمدیہ کو اطلاع دیں.کہ بغیر جبر داکراہ کے ایام میں اس قدر یہ آدمی جماعت احمدیہ سے بیزار ہو کر اسلامی جماعت کے سیکرٹری کے پاس تو بہ کا اظہار کرتے ہیں اس خط سے خوب واضح ہے کہ جبر و اکراہ بالکل استعمال نہیں کیا گیا اور جبر واکراہ کے ساتھ اسلامی جماعت کا کوئی بھی تعلق نہیں تھا.اتفاقی طور پر نبر و اکراہ کے دنوں میں بغیر جبر و اکراہ کے بارہ آدمیوں پر راتوں رات احمدیت کی غلطی ثابت ہوگئی.اور بغیر اس کے کہ جماعت اسلامی کا کوئی بھی ان فسادات سے تعلق ہو.وہ لوگ دوڑ کر جماعت اسلامی کے سیکڑی کے پاس پہنچے اور ان کو ایک تحریر دیدی.جماعت احمدیہ کے اوپر صرف یہ الزام ہے کہ بعض موقعوں پر اس نے حملوں کا جواب کیوں نیا.حالانکہ جواب دینا تو انسان کو اپنی جان بچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے اگر جواب نہ دیں تو لوگوں رحقیقت روشن کسی طرح ہو.مثلا اسی کمیشن کے سامنے مولانامر تھے صاحب میکنش نے امام جماعت احمدیہ تے سوال کیا.کہ ہم تو آپ کو اس لیے کافر کہتے ہیں کہ آپ کا فر ہیں.آپ ہمیں کس لیے کافر کہتے ہیں.ان کی عرض یہ تھی کہ احمدی چونکہ دوسروں کو کافر کہتے ہیں اس لیے لوگوں کے دلوں میں اشتعال آتا ہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ کفر کی ایک ایسی تشریح پیش کی گئی جس پر وہ اعتراض نہیں کر سکتے تھے.اس لیے ان کو اپنا سوال اس رنگ میں ڈھالنا پڑا.کہ ہم تو آپ کو کا فرسمجھ کر کافر کہتے ہیں.آپ کہیں کا مرکیوں کہتے ہیں.گویا ان کے نزدیک علما و احرار و مجلس عمل و جماعت اسلامی بیشک ے حاشیہ میں یہاں حضور نے بوقت نظر ثانی تعداد کا لفظ لکھا

Page 366

۳۵۵ احمدیوں کو کافر سمجھیں اور کہیں اس سے فساد کا کوئی احتمال نہیں.لیکن اگر احمدی جماعت جوابی طور پر بھی انہیں کافر کہے.تو اس سے فساد کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے.ان فسادات کے سیاسی ہونے کا ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف سراسر جھوٹ بولا جاتا تھا.اگر جماعت احمدیہ کے عقائد غلط تھے.تو ان کو بیان کرنا کافی تھا.جھوٹ بنانے له کی کیا ضرورت تھی.ملا متواتر یہ کہا جاتا تھا.کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے.حالانکہ یہ سراسر افتراء تھا.احمد ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم انہیں مانتے تھے ، اور مانتے ہیں احمدی اور قیامت تک مانتے رہیں گے کیونکہ قرآن کریم میں سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین کا گیا ہے.اور احمدی قرآن کریم کو مانتے تھے.مانتے ہیں اور قیامت تک مانتے رہیں گے.اور بیعت میں بھی ختم نبوت کا اقرار لیا جاتا ہے.اس جھوٹ کے بنانے کی وجہ یہی معنی کہ علماء جانتے تھے کہ اس کے بغیر لوگوں کو غصہ نہیں دلایا جا سکتا.اسی طرح لوگوں کے سامنے یہ کہا جاتا تھا کہ احمدی بغیر احمدی کو کافر کہتے ہیں اور یہ کبھی بھی نہیں کہا جاتا تھا کہ ہم نے دس سال تک ان کو کافر کہا ہے کہیے اس کے بعد انہوں نے ہمیں کافر کہنا شروع کیا ہے اور نہ کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ کفر کے جو معنی ہم کرتے ہیں.احمدی وہ مہینے نہیں کرتے.احمدی فلاں معنے کہتے ہیں (جو حضرت امام جماعت احمدیہ کے خطبہ مطبوعہ الفضل نئی ۱۹۳۵ء میں بیان کیے گئے ہیں میں کے صاف معنے یہ ہیں کہ مذہب کا دفاع مقصود نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر ایک فتنہ پیدا کرنا مقصود تھا ورنہ کیا خدا جھوٹ کا محتاج ہوتا ہے کیا خدا دھوکہ بازی کا محتاج ہوتا ہے.اسی طرح یہ کہا جاتا تھا کہ احمدی جماعت مسلمانوں کی سیاست سے کٹ گئی ہے.کیونکہ وہ تہار سے جنازے نہیں پڑھتی اور یہ کبھی بھی نہیں کہا گیا کہ ہم نے احمدیوں کو سیاست سے کاٹ دیا ہے کیونکہ ہم نے ان کے جنازے پڑھنے سے لوگوں کو روک دیا ہے اگر وہ ان باتوں کو ظاہر کرتے تو لوگوں کو یہ علوم ہوجاتا کہ علماء کا مقام یہ ہے کہ کثیر التعداد جماعت ہو چاہے کرے اسے جائز ہے اور قلیل استعداد جماعت کو صحیح طور پر اپنے دفاع کرنے کی بھی اجازت نہیں اور عقل مند لوگ سمجھ جاتے کہ یہ مذہبی جھگڑا نہیں.سیاسی جھگڑا ہے ہم کورٹ سے درخواست انکا یہاں حضور نے حاشیہ پر رکھا حوالہ پن سے یکم مئی (ناقل) ”

Page 367

۳۵۶ کرتے ہیں کہ اس فتنہ کو دور کرنے کا ایک آسان ذریعہ یہ ہے کہ وہ علماء کو بھی مجبور کرے اور ہمیں بھی مجبور کرے کہ جو فتویٰ ان کے ہمارے بارے میں ہیں وہ بھی اکٹھے کر دیئے جائیں اور جو فتوی ہمارے ان کے بارہ میں ہیں وہ بھی اکٹھے کر دیئے جائیں اور ان کی وہ شائع شدہ تنتشر بجات بھی شامل کی جائیں جو دونوں فریق آج سے پہلے کر چکے ہیں اور پھر ان فتووں کو جماعت احرار مجلس عمل.جماعت اسلامی اور جماعت احمدیہ کے خرچ پر شائع کیا جائے اور آئندہ یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ سوائے اس مجموعی کتاب کے ان فتووں کے مضمون کے متعلق اور کوئی بات کسی کو کہنے یا لکھنے کی اجازت نہیں ہو گی ہم خود اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں ہم اس کتاب آدھا خرچ دینے کے لیے تیار ہیں مگر ہمیں یقین ہے که به مولوی صاحبان جو جماعت احرار، جماعت اسلامی اور جماعت عمل کے نمائندے ہیں کبھی اس بات پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے.عرض کلی طور پر ان مساوات کی ذمہ داری جماعت اسلامی.مجلس احرار اور مجلس عمل پر ہے جماعت احرار نے ابتداء کی.مجلس عمل نے اس کو عالمگیر بنانے کی کوشش کی اور جماعت اسلامی ٹوٹ کی امید میں آگے آگے چلنے لگ گئی.حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی ایام کی سستی اور غفلت نے حکومت کو ایک ایسے مقام پر کھڑا کہ دیا کہ اگر وہ چاہتی بھی تو ان فسادات سے بچ نہیں سکتی تھی.پہلے انہوں نے غفلت برتی پھر انہوں نے اس فساد کو ایک دوسرے کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی اور آخر میں انہوں نے سمجھا ک اگر عطاء کو کچھ میں کہا گی تو عوامی بیگ وغیرہ مسلم لیگ کو مکمل دیں گی اور طاقت دور ہو جائیں گی.یہ علماء قائد اعظم کے زمانہ میں بھی موجود تھے.مگر انہوں نے ان کو منہ نہیں لگایا.بار بار عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اپنی تقریروں میں بیان کرتے رہے ہیں.کہ میں نے اپنی داڑھی قائد اعظم کے بوٹ پر کی مگر پھر بھی ان ک دل نہ پی جائے وہی عطاء اللہ شاہ بخاری اب بھی تھے اور وہی قائد اعظم والی حکومت اب بھی تھی.صرف قائد اعظم فوت ہو گئے تھے.اور ان کے نمائندے کام کر رہے تھے.آخر کیا وجہ ہے کہ وه هر دو دلیر نہ ڈرا.اور یہ علماء اس کے ڈر کے مارے اپنے گھروں میں چھپے میٹھے رہے.لیکن سه آزاد ۴ ار نومبر ۶۱۹۴۹ جلد ۷ ۵۳ "

Page 368

۳۵۷ اس کے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہی یہ اسی شخص کے کام کو تباہ کرنے کے لیے آگے نکل آئے.جس کے بوٹ پر یہ ڈاڑھیاں رگڑا کرتے تھے.درحقیقت یہ جو کچھ کیا گیا.ہمارے نزدیک تو دانستہ تھا.لیکن اگر کوئی ہمارے ساتھ اتفاق نہ کرے تو ا ہے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ نا دانستہ طور پر بند دو کے ہاتھ کو مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا اس کا ثبوت پیج کا حوالہ ہے.اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اس وقت غیر احمدی بھی احمدیت کی تائید کرنے لگے تھے اور اس کا علاج کرنے کے لیے ہندوؤں کو پکارا گیا تھا.اس کے معابعد جماعت احمرار پیدا ہوئی اور پھر چند سال میں جماعت اسلامی تیج کے مضمون اس کے وقت اور ان دونوں جماعتوں کے ظہور کے وقت اور ان کے طریق عمل سے ظاہر ہے کہ یہ ہندووں کا خود کاشتہ پودا ہے.نیز بیس رنگ میں یہ کوشش پاکستان بننے کے بعد کی گئی اس سے بھی ظاہر ہے کہ متعصب ہندوؤں کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے ایسا کیا گیا کیونکہ تمام ضاد کی بڑ یہ اصل ہے کہ ایک مینارٹی کو کیا حق ہے کہ وہ ایک مہیجار ٹی کے مقابلہ میں اپنی رائے ظاہر کرے.ر آفاق کی مثال اور اسلام کو ایسی بھیانک صورت میں پیش کیا گیا کہ کوئی منصف مزاج آدمی اس کی معقولیت کا قائل نہیں ہو سکتا.اور مہندوستان اور پاکستان میں ایک ایسا مواد پیدا کر دیا گیا.کہ اگرخدا خواست پاکستان اور ہندوستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کا مسلمان ہمارے خلاف ہوگا.کیونکہ ہندو پر پر ظاہر کیا گیا ہے کہ اسلامی عقیدہ کے مطابق وہ اس کا وفادار نہیں ہو سکتا اور اسے اس الزام کو دور کرنے کے لیے ضرورت سے بھی زیادہ وفا داری کا اظہار کر نا پڑے گا.ورنہ وہ تباہ ہو جائے گا.ادھر پاکستان کا ہندو ان خیالات کے سننے کے بعد جو ایک اسلامی حکومت کے متعلق ان علماء نے ظاہر کیے ہیں.پاکستان کی وفاداری کے جذبات اپنے اندر پیدا نہیں کر سکے گا.در حقیقت پاکستان کو مضبوط کرنے والی اور پاکستان کے مندر کو سچا پاکستانی بنانے والی اور مہندوستان کے مسلمان کو خونریزی سے بچانے والی اور بزدل بنانے سے محفوظ رکھنے والی پالیسی رہی ہے جو کہ 41474 ا تیج ۲۵ جولان مفصل حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو تاثرات قادیان ص ۲۲۱ سے ۲۲۳ ان ملک فضل حسین صاحب مرحوم کہ یہاں حاشیہ پر حضور نے لکھی جماعت اسلامی اور احرار وغیرہ کا طرز عمل "

Page 369

اسلام کی اس تشریح سے ثابت ہوتی ہے جو سم بیان کرتے ہیں اور میسی کو قائد اعظم بھی اپنی زندگی میں بیان کرتے رہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت میں کسی اقلیت یا غیر اقلیت کو کوئی خوف نہیں بلکہ تمام قوموں کے لیے کیساں آزادی اور یکساں کاروبار کے مواقع نصیب ہیں اور غیر اسلامی حکومت میں رہنے والے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی حکومت سے تعاون اور اس کی فرمانبرداری کریں.مودودی صاحب اپنے بیان میں یہ لکھتے ہیں کہ احمدیوں نے ملازمتوں پر قبضہ کر لیا ہے حالانکہ انہوں نے اس کا کوئی ثبوت ہم نہیں پہنچایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گنی با تمزء كذبا أن يحدث بكل ما سَمِعَ سے جو شخص سنی سنائی بات کو پیش کر دیتا ہے.اس کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی ثبوت کافی ہے.یہ بات سرا سر غلط ہے.سو فیصد غلط ہے.لیکن اگر صحیح بھی ہو تو مازتیں بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ سے ملتی ہیں اور پبلک سروس کمیشن میں آج تک ایک بھی احمدی نمبر نہیں ہوا.نہ صوبجاتی پبلک سروس کمیشن میں اور نہ مرکزی پبلک سروس کمیشن ہیں.اگر اسلام ساری قوموں کے حقوق کی حفاظت کا حکم دیتا ہے تو جبکہ پاکستانی حکومت امتحانوں اور انٹر ویو کے ذریعہ سے ملازم رکھتی ہے.تو فرض کردو.اگر کسی خکہ میں احمدی اپنی تعداد سے دس یا پندرہ یا بیس فیصدی یا پچاس فیصدی زائد بھی ہو جاتے ہیں تو یہ اعتراض کی کونسی بات ہے.خود پاکستان کی گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے اور اس قانون کے بنائے ہوئے رستہ سے اگر احمدی طلبہ مینیا اور تمائشوں اور تاش اور شطر نج سے اجتناب کرتے ہوئے محنت اور کوشش سے آگے نکل جاتے ہیں تو اس کو پولیٹیکل سٹنٹ بتانے اور شور مچانے کی کیا وجہ ہے ؟ اور جھوٹ بول کر ایک کو سو بنا دینا صاف بتا تا ہے.کہ ماہ مہب اس کا باعث نہیں.سیاست اس کا باعث ہے کیونکہ خدا کو جھوٹ کی ضرورت نہیں.پھر مولانا مودودی صاحب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تجارت پر احمدی قابض ہو چکے ہیں زراعت پہ احمدی قابض ہو چکے ہیں.صنعت و حرفت پر احمدی قابض ہو چکے ہیں یہ بات بھی صراصر جھوٹ ہے.ایک مذہبی جماعت کا لیڈر ہوتے ہوئے ، اس قدر جھوٹ سے کام لینا ہماری عقل سے الجامع الصغير للسيوطى حرت الكاف

Page 370

۳۵۹ باہر ہے.لاہور ہمارے صوبہ کا مرکز ہے.اگر پولیس کو حکم دیا جائے.کہ بازاروں میں سے دکانوں کی اعداد شماری کرے اور دیکھے کہ ان میں سے احمدی کہتے ہیں تو کورٹ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس جماعت اسلامی کے لیڈر نے نشر مناک غیر اسلامی حرکت کی ہے.مندرجہ بالا قیمتی مضمون کی روشنی میں صدر انجمن احمد یہ ریلوہ نے اپنا بیان انگریزی میں ترجمہ کراکر تحقیقاتی عدالت میں داخل کرایا.) مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ تحقیقاتی عدالت نے صدر انجمن احمدیہ سے علاوہ سات سوالوں کے جواب کے دین اور سوانات کے جوابات طلب کئے جن کا تفصیلی ذکر اوپر آچکا ہے سیدناحضرت مصلح موعود نے ان دس سوالات کے جوابات بھی نہایت شرح وبسط سے رقم فرمائے جو داخل عدالت کیے جانے کے بعد عنوان بالا سے الشركة الاسلامیہ لمٹیڈ ربوہ نے کتابی شکل میں بھی شائع کر دیئے.یہ جوابات بڑی تقطیع کے ۲۰۰ صفحات پر محیط ہیں.جین میں صرف اسلام کے بنیادی نظریہ متعلق مسلم نبوت پر روشنی ڈالی گئی سے بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف اہم اعتراضات کی حقیقت بھی پوری شان کیساتھ نمایاں کی گئی ہے.بطور نمونه سوالنمبر اور ۱۰ کے جوابات کے حضور کے الفاظ مبارک میں ہدیہ قارئین کیے جاتے ہیں.سوالنمبر متعلق اعتراض عدم همدردی مسلمانان ہفتم.یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مسلمان حکومتوں اور مسلمان تحریکوں سے کبھی ہمدردی نہیں کی.افسوس ہے کہ جماعت اسلامی مجلس عمل اور احرار نے اس معاملہ میں بھی غلط بیانی سے کام لیا ہے.ہمارے زمانے کی بڑی بڑی مشہور اسلامی حکومتیں ترکی عرب مصر، ایران ، افغانستان اور انڈو نیشیا ہیں.بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں صرف ترکی کی حکومت محقی جو مسلمانوں کے سامنے آئی تھی.ایران تو بالکل نظر اندازہ تھا اور افغانستان ایک رنگ میں انگریزوں کے مالسخت حکومت مخفی.بانی سلسلہ احمدیہ کے سامنے کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں ترکی اور یورپ کی بڑی طاقتوں کو آپس میں لڑنا پڑا ہو سوائے

Page 371

اس جنگ کے جو کہ یونان کے ساتھ ہوئی تھی.اور بانی سلسلہ احمدیہ نے اس معاملہ میں جماعت احمدیہ کیطرف سے کی حکمت کی تائیداری کے سات مہندی کانادا کیا تھا.آپ کے بعد دوسری جنگ لڑکی اور اٹلی کے درمیان ہوئی معبس میں جماعت احمدیہ نے لڑکی - ہمدردی ظاہر کی اور اٹلی کے خلاف جذبات کا اظہار کیا تیسری جنگ لڑ کی اور اتحادی قوموں کے ساتھ ہوئی جس میں لڑکی اپنی اعتراض کے لیے نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ جرمنی کی تائید کے لیے کھڑا ہوا تھا.لازما اتحادی قوموں نے اپنی اپنی حکومتوں کی مدد کی.وہ وقت کسی ہمدردی کے اظہار کا تھا ہی نہیں.تمام مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا.ٹمر کی کی شکست کے بعد تحریک خلافت پیدا ہوئی.لیکن اپنے ہاتھوں سے لڑکی کی حکومت کو تباہ کرنے کے بعد خلافت کا شور مچاتا، یہ تو کوئی پسندیدہ طریق نہیں تھا مگر اسی وقت بھی موجودہ امام جماعت احمدیہ نے لڑکی کی تائید میں دو ٹریکٹ لکھے جن میں سے ایک کا نام اسٹرکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض ہے اور دوسرے کا نام " معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ ہے.پھر جب عربوں کے ساتھ یور میں لوگوں نے معاہدہ کیا تو اس پر بھی امام جماعت عربوں کی امداد ) احمدیہ نے سختی سے اپنے خیالات کا اظہارہ کیا اور کہا کہ عربوں کے ساتھ انگریزوں نے ظلم کیا ہے اور ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے (یہ مضامین الفضل مورخه ۹ ربون و ۱۲۰ جون ۲۵ ماه میں شائع ہو ئے ہیں) پھر انڈونیشیا کی آزادی کا سوال پیدا ہوا تو اس میں بھی احمدی جماعت نے انڈونیشیا کی آزادی | انڈونیشیا کی آزادی کی پوری طرح تائید کی اور انڈونیشیا کی زمین اُسی طرح احمدی عبتان وطن کے خون سے رنگین ہے جس طرح کہ غیر احمدی محتان وطن کے خون سے.اور اسی کا نتیجہ تھا کہ انڈونیشین ایمبسیڈر دسفیر نے اپنی حکومت کی طرف سے گزشتہ فسادات کے موقع پر حکومت پاکستان کے فارن منسٹر کے خلاف شورش پید ا ہو نے پر انڈونیشین حکومت کی پسندیدگی کو ظاہر کیا.یہ انڈونیشین ایمبسیڈر احمدی نہیں تھا اور اب تک وہی ایمبیسیڈر ہے.نہیں افسوس ہے کہ مجلس عمل کے نمائندہ شمسی صاحب نے اس کو راپنی نا جائہ اعراض پوری کرنے کے لیے) احمدی قرار

Page 372

دیا ہے.حالانکہ جس شخص کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ احمدی ہے وہ کبھی بھی ایمبسیڈر نہیں ہوا.وہ موجودہ فسادات سے پہلے اور موجودہ ایمبیسیڈر سے پہلے انچارج کی حیثیت میں پاکستان میں رہا ہے اور ان فسادات سے پہلے بدل کر عراق میں بطور منسٹر کے چلاگیا تھا مگر یہ بتانے کے لیے کہ گویا بیرونی دنیا میں ان مظالم پر کوئی نفرت نہیں پیدا ہوئی تھی اگر کسی نے دلچسپی بھی لی تھی تو وہ صرف ایک احمدی تھا یہ جھوٹ بولا گیا کہ انڈونیشین ایمبیسیڈر فساد کے وقت میں احمدی تھا.فسادات کے وقت میں جو ایمبسیڈر مھارہ آج بھی ہے اور وہ نہ اس وقت احمدی تھا اور نہ اس وقت تک ہے.شادی کا مقابلہ ہندوستان میں جب ملکا نہ میں آمریوں نے لوگوں کو شدہ کر تا شروع کیا تھا اس کا وقت احمدی ہی سنتے جو مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ اس معاملہ کے دوران میں ہم احمدیت کی تبلیغ نہیں کریں گے (الفضل و مارچ ۱۹۲۳ء و الفضل ۲۶ / اپریل ۱۹۲۳) چنانچہ بیس ہزار کے قریب آدمیوں کو وہ واپس لائے اور وہ آج تک بھی حنفی ہیں، احمدی نہیں اور اس وقت ملکا نہ لیڈروں نے ہمارے اس کام کا اقرار کیا اور اس کی پبلک میں گواہی دی رو یکھو الفضل ۹ ا پریل ۱۹۲۳ و الفضل ۱۶ را بپریل ۱۹۲۳ء چوہدری نذیر احمد صاحب) ۱۹۲۷ء میں جب لاہور سکھ حملہ آوروں کا مقابلہ اور کرتمان کی شرارت کا جواب میں مسجد سے نکلتے ہوئے چند مسلمانوں پر سکھوں نے بلا وجہ حملہ کر دیا تو اس وقت بھی احمدی ہی اس مقابلہ کے لیے آگے آئے.الفضل ۱۳ رمئی ۱۹۲۷) اور در سمان" کی شرارت کا جواب بھی احمدیوں نے ہی دیا رالفضل - ارجون ) چنانچہ ان ہی کی کوششوں کے نتیجہ میں ۵۳ الصف کا قانون بنا.ورتمان کے ایڈیٹر کو مزا لی اور یہ وہی زمانہ ہے جبکہ احرار معرض وجود میں آرہے تھے مگر ابھی انہوں نے اپنا نام احرار اختیار نہیں کیا تھا.بہار اور ملکہ کے فسادات پھر جب بھی بیمار اور مکہ کے فسادات ہوئے تو اس وقت مسلمانوں کی تائید میں امام جماعت احمدیہ نے انگریزی میں ٹریکٹ لکھ کر انگلستان میں شائع کیا اور انگلستان کے کئی اخبارات نے ان سے متا ثر ہوکر مسلمانوں کی تائید میں نوٹ لکھے.

Page 373

بہار کے فسادات سب بہار کے فسادات ہوئے اور بہت سے مسلمان مارے گئے تو قائد اعظم کی چندہ کی تحریک کا سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے خیر مقدم کیا اور یہ پیش کیا کہ وہ اپنی تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ چندہ دیں گے چنانچہ انہوں نے چندہ دیا اور نصرت امام کے فن میں نیاوران نوجوانوں کان کی میں اور ان قائد اعظم کے فنڈ میں چندہ دیا بلکہ خود یہاں وفد بھیجے جو مسلمانوں کوان کی جگہوں میں بسائیں اور ان کے حقوق اُن کو دلائیں (الفضل مورخه ۴ مئی ۱۹۲۶) کشمیر کمیٹی کمنٹ جب کشمیر یوں پر ظلم ہوا تو اس وقت بھی آگے آنے والی جماعت، میر میں جماعت احمدیہ ہی تھی.خود علامہ اقبال نے کشمیر کمیٹی کا صدر امام جماعت حمدیہ کو بنوایا دو سال تک احمدی وکیل مفت کشمیر کے مقدمے لڑتے رہے مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک جتنے مقدمے اُن دنوں میں مسلمانوں پر کیے گئے اور منی گرفتاریاں مسلمانوں کی ہوئیں ان میں سے پچانوے فیصد ی مقدمے احمدیوں نے لڑے اور گرفتار شدگان کی تعداد میں سے انٹی فیصدی کو رہا کیا کیا حالانکہ احمد می وکیلوں کی تعداد غیر احمدی وکیلوں کے مقابلہ میں شاید ایک فیصدی ہوگی.رالفضل ۲۵ جون ۹۳۲ سه و الفضل ۱۲ جولائی ۳۳د والعضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۲ و اصله الفضل ۲۳ اگست ۱۹۳۲ و الفضل ، ستمبر ۹۳۳ مرد والفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۳۲ م ) بونڈری کمیشن برندی کیٹ کے موقع پر امام کی نظر ایوی ایشن کےسامنے میں ہونے کے لیے صرف چوہدری ظفر اللہ خاں پہ پڑی.اور جب لیگ نے دیکھا کہ کانگریس شرارت کر کے سکھوں اور بعض اور قوموں کو آگے لارہی ہے ، یہ بتانے کے لیے کہ ساری قومیں مسلمانوں کے خلاف ہیں تو لیگ کے کہنے پر جماعت احمدیہ نے بھی اپنا وفد بونڈری کمیشن کے سامنے پیش کیا.اور اس بات کا اظہار کیا کہ جماعت احمد یہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہے.اور وہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ ضلع جس میں ان کا سنٹر ہے وہ پاکستان میں جائے.ضلع گورداسپور کی ساری آبادی میں مسلمان ہراہ فیصدی تھے اگر احمدی کا فر قرار دے کے اس میں سے نکال دیئے جاتے جیسا کہ احراریوں کا تقاضا تھا تو ضلع گورداسپور کی کل مسلمان آبادی چھیالیس فیصدی رہ جاتی سنتی اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے لیگ نے چاہا کہ احمدی وفد میپیش ہو.اور اس ضرورت کے ماتحت احمدی و ند پیش ہوا اور اس نے صفائی سے کہہ دیا کہ ہم مسلمانوں کا حصہ ہیں اورمسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں

Page 374

اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ بونڈری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی صرف ایگ یا کانگریس کو اجازت مھتی اور دوسری کوئی جماعت انہی کی اجازت سے پیش ہوسکتی تھی.کشمیر کی جنگ میں حصہ جب پارٹیشن ہوئی اور کشمیر میں لڑائی شروع ہوئی تو احمدی جماعتہی تھی تو را منظم طور پر اس جنگ میں شرکت کے لیے گئی.اور انہوں نے تین سال تک برابر اس محاذ کو سنبھالے رکھا جو کہ کشمیر کا سخت ترین محاذ تھائیاں تک کہ فوجی حکام کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اس لڑائی کے لیے عرصے میں احمدی فوج نے ایک انچ زمین بھی دشمن کے ہاتھ میں نہیں جانے دی.دیکھو اعلان کمانڈر انچیف افواج پاکستان از الفضل ۲۳ جون ۹۵) اس وقت مولانا مودودی یہ اعلان کر رہے تھے کر کشمیر کا جہاد ناجائز ہے.د ترجمان القرآن جون ۱۹۲۸، ص۱۱۹) ہم ان کے فتوی سے متفق ہیں کہ یہ مذہبی جہاد نہ تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو اپنی جان اور مال کی حفاظت کے لیے لڑتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے پس یہ جنگ اسلام کی تعلیم کے مطابق منع نہ تھی بلکہ پسندیدہ معنی اور یہ احراری علماء احمدیوں کی پیٹھ میں خنجر گھو پینے کی کوشش کر رہے تھے اور احمدی فوج کی بدنامی کے لیے پورا زور لگا رہے تھے.تقسیم پنجاب کے وقت مسلمانوں سے تعاون پر گیتی تنظیم بنا کے مفادات کے گزشتہ موقعہ پہ جماعت احمدیہ نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جو لقا دن کیا ہے اس کے متعلق ہم مندرجہ ذیل شما ر میں اپنے حال کے مخالفین کی ہی پیش کرتے ہیں.اخباریہ زمیندار ۱۳ اکتوبر ۹ہ کے اداریہ میں لکھتا ہے :.اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزائیوں نے مسلمانوں کی خدمت قابل شکر یہ طریقہ پر اداکیے ۲۰ ستمبر ۲ کا اخبار زمیندار لکھتا ہے :- قادیان میں ایک لاکھ پناہ گزین موجود ہیں.ار اکتوبر ۹۴اد کے اختبار زمیندار نے لکھا : - م کل صبح ہندوستانی فوج کے ایک بڑے افسر نے معہ تین بریگیڈیر کے قادیان کا دورہ کیا.اس

Page 375

پارٹی کا متفقہ بیان ہے کہ قادیان کے تمام حصے صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں ہر جگہ ہو کا عالم ہے البتہ تہمین علاقے ایسے ہیں جہاں ایسے مسلمان دکھائے دیئے جو کفار کے مقابلہ میں اپنی جانیں قربان کرنے کا عزم صمیم کر چکے ہیں.ان لوگوں کے چہروں سے بشاشات ٹپکتی ہے.......پناہ گزینوں کی حالت بہت اہتر ہے مقامی ملڑی نے انہیں خوراک دینے سے انکار کر دیا ہے اور احمدی انجمن سے کہا ہے کہ وہ ان مصیبت نہ دوں کی خوراک کا انتظام کرے.چنانچہ انجمن اپنا راش کم کر کے ان پناہ گزینوں کوخوراک دے رہی ہے.نه مینداره و راکتو بره الله) اس سوال کے جواب کے آخر میں ہم جماعت احمدیہ کے متعلق مولانا محمد علی جوہر کی تصدیق مامان اعمال مولانامحمد علی جوہر مرقوم کی رائے بیان کر دینا ضروری سمجھتے ہیں.مولانامحمدعلی ایسے بڑے لیڈر تھے کہ قائد اعظم اور مولانامحمد علی کے مقابلہ میں اور کوئی سیاسی لیڈ نہیں ھہر سکتا.اور اسلام کی اتنی غیرت رکھتے تھے کہ دشمن بھی ان کی اس خوبی کو تسلیم کرتے تھے.انہوں نے اپنے اخبار ہمدرد دہلی مورخہ ۲۶ ستمبر ۱۹۲۷ء میں لکھا : - نا شکر گزاری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین مسعود احمد صاحب اور ان کی اس منظم حیات کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی سمہودی کے لیے وقف کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت تک اگر ایک جانب سلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی تنظیم د تجارت میں بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل مواد اعظم اسلام کے لیے بالعموم اور ان اشخاص کے لیے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بلند بانگ و در باطن، پیچ دعاوں کے خوگر ہیں ، مشعل راہ ثابت ہو گا را نجاته بمدرد، ولی مورخه ۲۴ ستمبر ۶۱۹۲۷ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مولانا محمدعلی جو ہر کے نز دیک نہ صرف جماعت احمدیہ کلی طور پر مسلمانوں کی بہوری میں لگی ہوئی تھی اور مسلمانوں کی تنظیم اور جماعت کی ترقی کے لیے کوشش کر رہ ہی معنی بلکہ

Page 376

اُن کے نزدیک مسلمان علماء کے لیے ضروری تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کے کاموں میں اس کی تردید نہیں بلکہ تائید کریںاور تائید ہی نہیں اس کے نقش قدم پر چلیں یا لے سوالنمین متعلق مخالفت پاکستان وسم :.یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف ہیں اور عقلا میں وہ مخالفت ہونے چاہئیں کیونکہ وہ ایک نام کو مانتے ہیں اور اس طرح وہ ایک متوازہ ہی حکومت بنانے کے عظیم ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ امام کو مانا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے نام اور سیاست رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص امام کی بیعت میں نہ ہو وہ اپنی زندگی رائیگان کر دیتا ہے رکنز العمال جلد است و جلد ۳ منت۲) اور امام کا ہونا بڑی اچھی بات ہے اس کے بغیر تو کوئی انتظام ہو ہی نہیں سکتا جو لوگ امام کو سیاست کا حتی دیتے ہیں، اُن پر تو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ وہ ایک متواند می حکومت بناتے ہیں لیکن جو لوگ اپنے امام کو سیاست کا ستی نہیں دیتے ، ان پر یہ اعتراض کسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ایک متوازی حکومت بناتے ہیں.جماعت احمدیہ کا تو اعتقاد یہ ہے کہ جس حکومت کے تحت میں رہو اس حکومت کی اطاعت کرو.کیسی عجیب بات ہے کہ انگریز کے وقت میں تواس امر پر نہ وہ دیا جاتا اور بڑے شدومد سے یہ پراپیگنڈا کیا جاتا کہ احمدی اسلام کے غدار ہیں کیونکہ انگریز کی اطاعت کرتے ہیں اور پاکستان میں آکہ اس کے بالکل بر خلاف یہ کہا جارہا ہے کہ احمدی پاکستان کے خلاف متوازی حکومت بنا رہے ہیں.ایک ہی تعلیم داد جگہ پر دو مختلف نتیجے کسی طرح پیدا کر سکتی ہے ؟.احمد می تعلیم کی رو سے تو صرف احمدی جماعت ہی نہیں بلکہ احمدی جماعت کا امام بھی پاکستان کی حکومت کے تابع ہیں.اور ان کا فرض ہے کہ پاکستان کی حکومت کے تابع رہیں باقی رہا یہ بے وقوقی کا سوال کہ اگر کسی وقت امام حکومت کے خلاف حکم دے تو پھر احمدی کیا کریں گے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اس شخص کو امام تسلیم کرتے ہیں جو سب سے زیادہ شریعیت کی پابندی " ه مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ از افاضات حضرت امام جماعت احمدیہ الناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹیڈ منا تا ما

Page 377

کرنے والا اور دوسروں کو پابند بنانے والا ہو لیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف حکم دے کل اگر کوئی کہے کہ اگر تمہارا مذہب پوری اور ڈاکہ ڈالنے کا حکم دے تو تم کیا کرو گے ؟.تو ہم اس کو بھی یہی جواب دیں گے کہ ہمارا مذہب چوری اور ڈاکہ کا حکم دے ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اس کی روح کے خلاف ہے.اگر یہ اعتراض پڑتا ہے تو مودودی صاحب پر البتہ پڑتا ہے ہو امیہ بھی ہیں اور سیاست بھی اُن کے مقاصد میں داخل ہے ان کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے خلاف ہوئے تور ان کی جماعت کیا کرے گی یے سلے مولانا سید ابو الا علی صاحب مودودی نے عین فسادات پنجاب رسالہ قادیانی مسئلہ کا جواب کے دوران اپنے مضمون ، قادیانی مسئلہ کو ہے ترجمان القرآن میں اور پھر مستقل رسالہ کی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں شائع کیا تھا.تحقیقاتی عدالت میں یہ رسالہ بھی زیر بیست آیا اور مودودی صاحب اور ان کی جماعت نے اُسی کی بنیاد پر تحریری و تقریری بیانات عدالت میں دینے.ویسے بھی ملک کے ایک طبقے پر اس نے ایسا گہرا اثر ڈالا کہ احمدیت کے خلاف نفرت و حقارت کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہو گئی لہذا حضرت مصلح موعود نے اس کے جواب میں بھی انہیں دنوں قلم اٹھایا اور رسالہ قادیانی مسئلہ کے تمام ضروری اعتراضات کے مسکت و مدلل جوابات دیئے اور کیا ختم نبوت اسئلہ کفر و اسلام اسکله جنازہ مسئلہ جہاد ، اور دیگر اہم مدرسی یا سیاسی مسائل پر نہایت جامع اندازہ میں روشنی ڈالی.تصور کا منشاء مبارک چونکہ محض حقائق کو پیش کرنا تھا اس لیے مولانا مودودی کے اعتراضات کی حقیقت نمایاں کرنے کے بعد نہایت در داور اندوہ میں ڈوبے ہوئے الفاظ میں مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ امت مسلمہ کے مفاد کا تقاضا ہی ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں زیادہ سے نہ یادہ اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تا عیسائی حکومتیں مسلمان ممالک کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکیں نیز مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی کہ وہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی بجائے اپنے مذہبی لیڈروں - لے مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسلامک ائیڈیالوی امامته النشر الاسلامیہ لیڈر یوه ۲۰ ۲۰۸

Page 378

میں تقوی اور خشیت اللہ پیدا کر کے ان کو عدل و انصاف اور رواداری کا سبق سکھائیں کہ اسلام کی خدمت کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے.چنانچہ حضور نے آخری خطاب کے زیر عنوان تحریر فرمایا: - آخری خطاب مولانا مودودی صاحب نے قادیانی مسئلہ لکھ کر ملک میں خطر ناک تفرقہ اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے.جہاں تک مولانا مودودی صاحب کے اپنے مفاد کا سوال ہے.اس کے مطابق تو یہ کوشش بالکل جائز اور درست ہے کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں صاف لکھ چکے ہیں کہ صالح جماعت کا یہ فرض ہے کہ ہر ذریعہ سے حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے کیونکہ حکومت پر قبضہ کیے بغیر کوئی پروگرام ملک میں جاری نہیں ہو سکتا.لیکن جہاں تک مسلمانوں کے مفاد اور امت مسلمہ کے مفاد کا سوال ہے.یقیناً یہ کوشش نہایت نا پسندیدہ اور خلاف عقل ہے مسلمان جن خطر ناک حالات میں سے گزر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اس وقتہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ متحد کرنے اور مسلمانوں کی سیاسی ضرورتوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے.بغیر اتحاد کے اس وقت مسلمان سیاسی دنیا میں سر نہیں اٹھا سکتا.اس وقت بیسیوں ایسے علاقے موجود ہیں جن کی آبا دی مسلمان ہے.جو سیاسی طور پر آزاد ہونے کی اہمیت رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے وہ آزاد نہیں.وہ غیر مسلموں کے قبضہ میں ہیں اور بیسیوں ایسے ممالک اور علاقے موجود ہیں جہاں کے مسلمان موجودہ حالات میں علیحدہ سیاسی وجود دینے کے قابل نہیں ہیں.لیکن انہیں ایسی آزادی بھی حاصل نہیں جو کسی ملک کے اچھے شہری کو حاصل ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے بلکہ ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں معزز شہریوں کی حیثیت حاصل نہیں ہے اور جو علاقے مسلمانوں کے آزاد ہیں انہوں نے بھی ابھی پوری طاقت حاصل نہیں کی بلکہ وہ تیسرے درجیہ کی طاقتیں کہلا سکتے ہیں.دنیا کی زبر دست طاقتوں کے مقابلہ میں ان کو کوئی حیثیت حاصل نہیں.حالانکہ ایک زمانہ وہ تھا جب مسلمان ساری دنیا پر حاکم تھا جب مسلمان پر ظلم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا.مسلمان پر ظلم کرنے کے نتیجہ میں ساری دنیا

Page 379

۳۶۸ میں شور پڑ جاتا تھا.لیکن آج عیسانی پر ظلم کرنے سے تو ساری دنیا میں مشور پڑ سکتا ہے.مسلمان پر ظلم کرنے سے ساری دنیا میں شور نہیں پڑ سکتا.عیسائی کسی ملک میں بھی رہتا ہو اگر اس پر ظلم کیا جائے تو عیسائی حکومتیں اس میں دخل دینا اپنا سیاسی حق قرار دیتی ہیں.لیکن اگر کسی مسلمان پر غیر مسلم حکومت ظلم کرتی ہے اور مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو انہیں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ غیر ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیا جا سکتا.گویا عیسائیت کی طاقت کی وجہ سے عیسائیوں کے لیے اور سیاسی اصول کارفرما ہیں لیکن مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے سیاسی دنیا ان کے لیے اور اصول تجویز کرتی ہے.ایسے زمانہ میں مسلمانوں کا متفق اور متحد ہونا نہایت ضروری ہے اور چھوٹی اور بڑی جماعت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیئے.الیکشن میں ممبر کو اپنے جیتنے کی سچی خواہش ہوتی ہے اور وہ ادنیٰ سے ادنی انسان کے پاس بھی جاتا ہے اور اس کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.مسلمان حکومتوں کا معاملہ الیکشن جیتنے کی خواہش سے کم نہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم کو اس معاملہ میں چھوٹی جماعتوں کی ضرورت نہیں.وہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کو اسلامی حکومتوں کے طاقتور بنانے کی اتنی بھی خواہش نہیں منی ایک الیکشن لڑنے والے کو اپنے جیتنے کی خواہش ہوتی ہے.پس وہ بچی خیر خواہی کا نہ مفہوم سمجھتا ہے اور نہ اس کو مسلمانوں سے سچی خیر خواہی ہے.اس مودودی صاحب نے قادیانی مسئلہ لکھ کر قادیانی جماعت کا بھانڈا نہیں پھوڑا.اپنی اسلامی محبت کا بھانڈا پھوڑا ہے اور اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا پردہ نانش کیا ہے.کاش وہ اسلام کی گزشتہ ہزار سال کی تاریخ دیکھتے اور انہیں یہ معلوم ہوتا کہ کس طرح مسلمانوں کو پھاڑ پھاڑ کر اسلام تباہ کیا گیا.اور پھاڑنے کے یہ معنے نہیں تھے کہ ان میں اختلاف عقیدہ پیدا کیا گیا تھا.کیونکہ اختلاف عقیدہ کبھی بھی فتنہ پر دانوں نے پیدا نہیں کیا.بلکہ اختلاف عقیدہ علماء وفقہاء کی دیدہ ریزیوں کا نتیجہ تھا.پھاڑنے کے منے یہ تھے کہ اختلاف عقیدہ کی بناء پر بعض جماعتوں کو الگ کر کے اسلام کو نقصان پہنچایا گیا تھا.تاریخ موجود ہے.ہر آدمی اس کی ورق گردانی کر کے اس نتیجہ کی صحت کو سمجھ سکتا ہے پس حقیقت یہ ہے کہ قادیانی مسئلہ کا حل اس طرح نہیں کیا جا سکتا ہو مولانا مودودی صاحب نے تجویز کیا ہے.یعنی پہلے تو احمدیوں کو اسلام سے خارج کر کے ایک علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے اور پھر وہ سلسلہ شروع ہو جائے جو ایک ہزار سال سے اسلام میں چلا آیا ہے یعنی پھر آغا خانیوں کوہ اسلام سے خارج کیا جائے بھر پو ہوں

Page 380

کو اسلام سے خارج کیا جائے.پھر شیعوں کو اسلام سے خارج کیا جائے.پھر اہلحدیث کو اسلام سے خارج کیا جائے.پھر یہ لولیوں کو اسلام سے خارج کیا جائے.پھر دیوبندیوں کو اسلام سے خارج کیا جائے اور پھر مولانا مودودی کے اتباع کی حکومت قائم کی جائے مولانا مودودی کے اتباع کی حکومت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقیناً نہیں بنے گی.لیکن پھر ایک دفعہ دنیا میں وہی تباہی کا دور شروع ہو جائے گا.جوگزشتہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں میں جاری رہا اور وہ طاقت جو پچھلے پچیس سال میں مسلمانوں نے ململ کی ہے بالکل جاتی رہے گی.اور مسلمان پھر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگ جائیں گے اور جماعت اسلامی کے پیرو اپنے دل میں خوش ہوں گے کہ ہماری حکومت قائم ہو رہی ہے لیکن ایسا تو نہ ہوگا.ان اسلامی حکومتیں کمزور ہوکر پھر ایک رلعمنہ کی صورت میں.یا تو روس کے ملتی میں جائیں گی یا مغربی حکومتوں کے گلے میں جا پڑیں گی.خدا اسلام کے بدخواہوں کا منہ کالا کرے اور اسلام کو اس دن پلر گلے کے دیکھنے سے محفوظ رکھے.مولانا مودودی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس کی بجائے صحیح طریقہ ملک میں امن قائم کرنے کا یہ ہے کہ:.اسلام کی طرف منسوب ہونے والے مختلف فرقے ، خواہ اپنے اپنے مخصوص نظریات کے ما تحت دوسرے فرقوں کے متعلق مذہبی لحاظ سے کچھ ہی خیال رکھتے ہوں یعنی خواہ انہیں سچا مسلمان سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں مسلمانوں کے ملی اتحاد کی خاطر اور اسلام کو فرقہ وارانہ انتشار سے بچانے کی عرض سے ان سب کو کلی طبیہ کی ظاہری حد بندی کے ماتحت بلا استثناء مسلمان تسلیم کیا جائے اور اس میں شیعہ بستی.اہلحدیث.اہل قرآن.اہل ظاہر.اہل باطن - حنفی.مالکی جنبلی.شافعی - احمدی اور غیر احمدی میں کوئی فرق نہ کیا جائے..اگر اس ایک ہی طریق کو استعمال نہیں کرنا.جس کے بغیر مسلمانوں کو ترقی حاصل نہیں ہوسکتی.تو پھر احمدیوں کو اقلیت قرابہ دینے سے کچھ نہیں بنتا.کیونکہ جیساکہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں.ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا دشمن ہو رہا ہے اور اسلام کی خیر خواہی دلوں میں نہیں ہے.صرف اپنے فرقوں کی خیر خواہی دلوں میں ہے.اس لیے یہ اپریشن صرف احمدیت پر ختم نہیں ہو جائے گا احمدیت پر تجربہ کر لینے والا ڈاکٹر بعد میں دوسرے فرقوں پر اس نسخہ کو آندمائے گا.پس ایک ہی دفعہ یہ

Page 381

٣٧٠ فیصلہ کر دینا چاہیئے کہ اس اسلامی حکومت میں فلاں فرقہ کے لوگ رہ سکتے ہیں.دوسروں کے لیے گنجائش نہیں.تاکہ باقی سب فرقے ابھی سے اپنے مستقبل کے متعلق غور کر لیں اور دنیا کو بھی معلوم ہو جائے کہ علامہ پاکستان کسی قسم کی حکومت یہاں قائم کرنا چاہتے ہیں..اور اگر یہ نہیں کرنا اور واقعہ میں یہ ایک خطرناک بات ہے تو پھر ہم تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کہیں گے کہ وہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی بجائے مولوی صاحبان کے دل میں تقویمی اور خشیت اللہ کی روح پیدا کر نے کی کوشش کریں.اور ان کو یہ سبق سکھائیں کہ عدل اور انصاف اور یہ وا داری کا طریق سب سے بہتر طریق ہے اور اسلام کی خدمت کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے..اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ جب ان کے استاد علماء کی حالت خراب ہو گئی تو شاگہ رہی استاد کی کرسی پر بیٹھیں اور اپنے سابق اساتذہ کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائیں.کہ اسلام مزید ضعف اور تباہی سے بچ جائے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا ہاتھ پکڑے اور ان کی مدد اسی طرح کرے جس طرح ابتدائی تین سو سال میں اس نے مسلمانوں کی مدد کی تھی.اللهم امين له اگر چہ قادیانی مسئلہ کا جواب نومبر ۱۹۵۳ را تک لکھا جاچکا تھا لیکن اس کی اشاعت ملکی حالات اور دیگر مصالح کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی اور بعد ازاں اسے پنجاب کی بجائے کراچی سے شائع کیا گیا.یہ جواب انجین احمدیہ کراچی کی طرف سے چھوایا گیا اور یہ ولا التقلید ہی ملکانی محل فرو روڈ پوسٹ کیس نمبر ۲۱ ، کراچی نے شائع کیا.سے مولا امور وی کے سالہ ادیانی مسلہ کا جواب میں ۱۲۰ تا ۱۲۶ طبع اقول ناشر دار التجلی کراچی

Page 382

تیسرا باب حضرت مصلح موعود کا عدالتی بیان سیدنا حضرت المصلح الموعود امام جماعت احمدیہ کو تحقیقاتی عدالت نے بطور گواہ بلایا اور ۱۳-۱۴ جنوری ۱۹۵۷ء کو لاہور ہائی کورٹ میں حضور کی شہادت قلمبند کی گئی.پہلے خود فاضل جج صاحبان نے مختلف سوالات پوچھے اور اس کے بعد چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جماعت اسلامی اور مولانا مرتضی احمد خان صاحب میکنشی نمائندہ مجلس عمل نے جرح کی.جرح کے دوران عدالت عالیہ نے بھی بعض سوالات کیے.آخر میں عدالت کی اجازت سے چوہدری نذیر احمد صاحب نے چند مزید سوالات پوچھے.اس بیان کے دوسرے روز حضور کی طرف سے دو تحریری وضاحتیں بھی داخل عدالت کی گئیں.یہ پر معارف بیان جو تین دن جاری رہا.عدالت عالیہ نے انگریز ہی نہ بان میں املاء کر ایا حسیں کا اردو ترجمہ سندھ ساگر اکادمی کرا چی خبر نے " سعید آرٹ پر لیں جہد آباد در سندھ اسے چھپوا کر شائع کیا.یہ رسالہ احمدیہ کتابستان کی مندرجہ ذیل شاخوں سے مل سکتا تھا : - 1- رسالہ روڈ.حیدر آباد (سند) - (۳- ۳۶ سنت نگر.لاہور پنجاب - ۳۱ میگرین لائن صدر کراچی.حضرت سیدنا المصلح الموعود کے اس معرکة الآراء عدالتی بیان کا اردو ترجمہ صیغہ نشر و اشاعت ربوہ نے انہیں دنوں ٹریکٹ کی شکل میں شائع کر دیا تھا میں کامل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے:." تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان بجواب سوالات عدالت بتاریخ ۱۳ جنوری ۱۹۵۳ء سوال به کیا ده تحریری بیان جو ۲۲ جولائی ۱۹۵۳ کو صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اس عدالت

Page 383

میں پیش کیا گیا اور میں کی تصدیق مرزا عزیز احمد نے کی اور جس پر مسٹر بشیر احمد.مسٹر اسد اللہ خاں اور سٹر غلام مرتضیٰ کے دستخط ہیں.وہ صحیح طور پر آپ کی جماعت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے ؟ جواب :.جی ہاں.ایسی امکانی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوئے جو سہو آگرہ گئی ہو.سوال و ہ تحقیقاتی عدالت نے آپ کی انجمن سے کچھ سوالات پوچھے تھے جن کا جواب اگز بٹ ۳۲۲ کی صورت میں موجود ہے.کیا یہ جواب بھی صحیح طور پر آپ کی جماعت کے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے ؟ جواب : - جاہاں.یہ جواب مجھے دکھایا گیاتھا اور یہ نیری جماعت کے نظریات کی میع طور پر ترجمانی کرتا ہے.لیکن اس دستاویز کے بار میں بھی کسی امکانی سو نظر کے متعلق وہی رعایت ملحوظ رکھی جانی چاہیئے.سوال: - مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے بیان کے جواب میں بھی اس عدالت کے سامنے ایک بیان.دستاویز ۳۲۳ - پیش کیا گیا تھا.کیا آپ نے اس بیان کو دیکھ لیا تھا.؟ جواب :.یہ بیان مجھ سے مشورہ لینے کے بعد تیار کیا گیا تھا اور غالباً میں نے اس کو پڑھا بھی تھا.اس کے متعلق بھی وہی رعایت مد نظر ر کھتے ہوئے جن کا ئیں نے دوسری دو دستا ویزات کے متعلق ذکر کیا ہے یہ مجھا جانا چاہیے کہ یہ اس جماعت کے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے جس کا میں امیر ہوں.سوال.رسول کون ہوتا ہے ؟ جواب:- رسول اُسے کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے کسی خاص مقصد کے لیے انسانوں کی رہنمائی کی غرض سے مامور کیا ہو.سوال :.کیا نبی اور رسول میں کوئی فرق ہے ؟ جواب :.صفات کے لحاظ سے دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں.دیہی شخص اس لحاظ سے کہ وہ اللہ تعالے کی طرف سے پیغام لاتا ہے رسول کہلائے گا.لیکن ان لوگوں کے لحاظ سے جن کی طرف وہ خدائی پیغام لاتا ہے.وہ نبی کہلائے گا.اس طرح دہی ایک شخص رسول بھی ہو گا اور نبی بھی.سوال : آپ کے نزدیک آدم سے لے کر اب تک کتنے رسول یا نبی گزرے ہیں ؟ جواب : - غالباً اس بارہ میں کوئی بات قطعی طور پر نہیں کہی جاسکتی.احادیث میں ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بیان ہوئی ہے سوال : کیا آدم - نوع.ابراہیم.موسی اور علی رسول تھے.؟

Page 384

جواب : - آدم کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے.ان کو بعض لوگ صرف نبی یعین کرتے ہیں اور رسول نہیں سمجھتے.مگر میرے نزدیک یہ سب رسول بھی تھے اور نبی بھی سوال :.ولی کس کو کہتے ہیں ؟ جواب : یہ وہ جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوتا ہے.سوال :.اور محدث کون ہوتا ہے ؟ جواب :.وہ جس سے اللہ کلام کرتا ہے.سوال :.اور مجتہد کس کو کہتے ہیں ؟ جواب:.وہ جو اصلاح اور تجدید کرتا ہے محدث ہی کا دوسرا نام مجدد ہے.سوال - کیا ولی محدث.یا مجدد کو وحی ہو سکتی ہے ہے جواب : جی ہاں.: : سوال : اُن پہ وحی کس طرح نازل ہوتی ہے ؟ جواب : - وحی کے معنی اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو وحی پانے والے پر مختلف طریق سے نازل ہو سکتا ہے.وحی کے نازل ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جس پر دھی نازل ہوتی ہے اس کے سامنے ایک فرشتہ کام ہوتا ہے.دوسرا طریق یہ ہے کہ میں شخص پر وحی نازل ہوتی ہے وہ بعض الفاظ سنتا ہے لیکن کام کرنے والے کو نہیں دیکھتا ھی کا تیسرا طریق من وَرَاءِ حِجَاب ہے اپر دے کے پیچھے سے) یعینی رڈیا کے ذریعہ ہے.سوال : کیا فرشتوں کے سردار حضرت جبریل کسی ولی.محدث یا مجدد یہ وحی لا سکتے ہیں ؟ جواب : - جی ہاں ، بلکہ متذکرہ بالا اشخاص کے علاوہ دیگر افراد پر بھی.سوال : ایک ولی - محدث یا مجدد پر نازل ہونے والی وحی کا کیا مومنتورغ ہو سکتا ہے ؟ جواب :.جس پر وحی نازل ہوتی ہو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار یا آئندہ آنے والے واقعات کی خبر پا کسی سیلی نازل شدہ کتاب کے متن کی وضاحت.سوال : کیا ہمارے نبی کریم پر صرف جبریل کے ذریعہ ہی وحی آندل ہوتی معنی ؟ جواب :.یہ درست نہیں ہے.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر دمی حضرت جبریل ہی لاتے تھے

Page 385

۳۷۴ ہاں یہ درست ہے کہ وحی خواہ ایک نبی یادلی یا محدث یا مجتہ پر نازل ہو وہ حضرت جبریل کی نگرانی نازل ہوتی ہے.سوال :.وحی اور الہام میں کیا فرق ہے ؟ جواب : - کو دا فرق نہیں.سوال: - کیا مرزا غلام احمد صاحب پر جبریل دمی لاتے تھے ؟ جواب : میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ سپر وحی حضرت جبریل کی نگرانی سے نازل ہوتی ہے جعزت.مرندا صاحب کے ایک الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جبر تل ایک دفعہ اُن پر نظر آنے والی صورت میں ظاہر ہوئے تھے.سوال : سے کیا مرز اصاحب اصطلاحی (Dagmatie) معنوں میں نبی تھے ؟ جواب ہیں نبی کی کوئی اصطلاحی (Dagmatie) تعریف نہیں جانتا.میں اس شخص کونی سمجھتا ہوں جس کو اللہ تعالیٰ نے نبی کہا ہو سوال : کیا اللہ تعالے نے مرزا صاحب کو نبی کہا ہے ؟ جواب :.جی ہاں.سوال : - مرزا صاحب نے پہلی مرتبہ کب کہا کہ وہ نبی ہیں ؟ مہربانی فرماکر اسکی تاریخ بتائیے اور اس بارہ میں اُن کی کسی تحریر کا حوالہ دیجیے.جواب : جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے انداز میں نبی ہونے کا دعوی کیا.سوال.کیا ایک نبی کے ظہور سے ایک نئی امت پیدا ہوتی ہے.جواب : جی نہیں.سوال : کیا اس کے آنے سے ایک نئی جماعت پیدا ہوتی ہے ؟ جواب : جی ہاں.سوال : - کیا ایک نئے نبی پر ایمان لانا دوسرے لوگوں کے متعلق اُس کے ماننے والوں کے رویہ پر اثر انداز نہیں ہوتا ؟ جواب: - اگر تو آنے والا نبی صاحب شریعت ہے تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہے لیکن اگر وہ کوئی نئی شریعت نہیں لاتا تو دوسروں کے متعلق اس کے ماننے والوں کے رویہ کا انحصار اس سلوک پر ہو گا.جو دوسرے لوگ ان کے ساتھ کرتے ہیں.

Page 386

۳۷۵ سوال :.کیا دوسرے مفہوم کے لحاظ سے احمدمی ایک بندا گانہ کام نہیں ہیں ؟ جواب :.ہم کوئی نئی اُمت نہیں ہیں بکہ مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہیں.سوال : کیا ایک احمدی کی اولین وفا دار ہی اپنی مملکت کے ساتھ ہوتی ہے یا کہ اپنی جماعت کے امیر کے ساتھ ؟ جواب:.یہ بات ہمارے عقیدہ کا حصہ ہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہوں اس کی حکومت کی اطاعت کریں.سوال: کیا شملہ سے پہلے مرنہ اغلام احمد صاحب نے بار بار نہیں کہا تھا.کہ وہ نبی نہیں مرزا غلام نے ہیں.اور یہ کہ اُن کی وحی وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت ہے ؟ جواب :.انہوں نے شاید میں لکھا تھا کہ اس وقت تک ان کا یہ خیال تھا کہ ایک شخص صرف اس صورت میں ہی نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ نہیں بتلایا کہ نبی ہونے کے لیے شریعت کا لانا ضروری شرط نہیں اور یہ کہ ایک شخص نئی شریعیت لانے کے بغیر بھی نبی ہو سکتا ہے.سوال : کیا مرزا غلام احمد صاحب معصوم تھے ؟ جواب : - اگر تو لفظ معصوم کے معنے یہ ہیں کہ نبی کبھی بھی کوئی غلطی نہیں کہ سکتا.تو ان معنوں کے لحاظ سے کوئی فرد بشر بھی معصوم نہیں حتی کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان معنوں کے لحاظ سے معصوم نہ تھے.جب نہ تھے.جب معصوم کا لفظ نبی کے متعلق بولا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس شریعت کے کسی حکم کی جس کا وہ پابند ہو خلاف ورزی نہیں کر سکتا.دوسروں لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی قسم کے گناہ کا خواہ وہ کبیرہ ہو یا صغیرہ مرتکب نہیں ہو سکتا بلکہ وہ مکروہات کا بھی مرتکب نہیں ہو سکتا.کئی نہی ایسے گزرے ہیں جو کوئی نئی متشریعیت نہیں لائے تھے.وہ امور شریعت سے تعلق نہ رکھتے ہوں اُن کے بارہ میں نبی اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے مثلاً دو فریق مقدمہ کے درمیان تنازعہ کے بارہ میں اس سے غلط فیصلہ کا صادر ہونا ناممکن نہیں ہے.سوال :.آپ اس سوال کا جواب کس رنگ میں دے سکتے ہیں کہ آیا مرزا غلام احمد صاحب کسی مفہوم کے مطابق معصوم تھے ؟

Page 387

جواب ہے وہ ان معنوں میں معصوم تھے کہ وہ کوئی صغیرہ یا کبیرہ گناہ نہیں کر سکتے تھے.سوال : - کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ دوسرے انسانوں کی طرح مرزا صاحب بھی روز حساب اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہوں گے ؟ جواب : - قیاس یہی ہے کہ انہیں اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا پڑے گا.ہمارے نبی کریم نے کہا ہے کہ آپ کی اُمت میں کثیر التعداد ایسے لوگ ہیں جو نبی نہیں ہیں گروہ یوم الحساب کو حساب نے ستنشی ہوں گے.سوال ء.موت کے بعد انبیاء پہ کیا گزرتی ہے ؟ کیا وہ دوسرے انسانوں کی طرح یوم الحساب تک قبروں میں رہتے ہیں یا کہ سید ھے فرنموس یا اعتراف میں چلے جاتے ہیں ؟ جواب :.میرے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ انبیاء موت کے بعد سید ھے فردوس یا اعراف میں چلے جاتے ہیں.لیکن یہ درست ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قریب تر ایک خاص مقام پر پہنچائے جاتے ہیں.چونکہ مرزا غلام احمد صاحب نبی تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُن سے بھی عام احمدیوں کی طرح نہیں بلکہ خاص سلوک کیا ہو گا.سوال: کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ جب آدمی مرجاتا ہے تو منکہ نیکی قبریں اس کے پاس آتے ہیں ؟ جواب :.منکر و نکیر دو فرشتے ہیں.لیکن میرا یہ عقیدہ نہیں کہ وہ قبر میں مردوں سے سوالات کرنے کے لیے جسمانی صورت میں ظاہر ہوں گے.سوال و.منکر ونظیر قبر میں کیوں آتے ہیں ؟ جواب :.مرنے والے کو اس کے گزشتہ اعمال کی خبر دینے کے لیے.سوال :.کیا آپ کے خیال میں منکر دیگیر مرزا غلام احمد صاحب کی قبر میں بھی آئے تھے ؟ جواب : میرے پاس اس بات کے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں.سوال : کیا وہ نور جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو معاف کرنے کے بعد اُس میں داخل کیا تھا مرزا صاحب کو بھی ورثہ میں ملا ہے ؟ جواب : : مجھے کسی ایسی تھیوری کا علم نہیں.قرآن کریم یاکسی صحیح حدیث میں کی ایسے واقعہ کا ذکر نہیں سوال : کیا قرآن کریم میں مسیح یا مہدی کے متعلق کوئی واضح پیشگوئی موجود ہے ؟

Page 388

جواب:.ان کا ذکر قرآن کریم میں نام لے کر موجود نہیں.سوال نہ کیا احادیث مسیح اور مہدی کے ظہور پر متفق ہیں ؟ جواب : ایسی کوئی حدیث موجود نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ کوئی میرے ظاہر نہیں ہو گا.یہاں تک مہدی کا تعلق ہے بعض حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اور سیح ایک ہی ہیں.سوال : کیا تمام مسلمان متفقہ طور پر ان احادیث کو مانتے ہیں؟ جواب یہ جی نہیں.سوال : - کیا ان احادیث سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مسیح اور مہدی دو علیحدہ علیحد شخص ہوں گئے جواب:.ہاں البعض احادیث سے ایسا ظاہر ہوتا ہے.سوال : - ان احادیث کے مطابق جن میں مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی کی گئی ہے اقبال کے قتل اور یاجوج وماجوج کی تباہی کے کتنا عرصہ بعد اسرافیل اپنا پہلا صور پھونکے گا ؟ جواب :.میں ان احادیث کو کوئی اہمیت نہیں دیتا - سوال:.کیا آپ ان احادیث کو مانتے ہیں تین میں دخیال اور یا جوج وماجوج کا ذکر ہے ؟ جواب :.اس سوال کا جواب دینے کے لیے مجھے ان احادیث کی پڑتال کرنا ہو گی.وقال.یا جوج وماجوج کا ذکر قرآن کریم میں موجو د ہے سوال : کیا سی یا مصدمی کو نبی کا رتبہ حاصل ہوگا ؟ جواب:.جی ہاں.سوال:.کیا وہ دنیوی بادشاہ ہوں گے ؟ جواب :.میرے نزدیک نہیں.سوال: - کیا اس مفہوم کی کوئی حدیث ہے کہ مسیح جہاد یا جزیہ کے متعلق قانون منسوخ کر دے گا ؟ جواب : - ایک حدیث جزیہ کے متعلق ہے اور دوسری "حرب' کے متعلق.ہم جزیہ کے متعلق حدیث کو تر جیح دیتے ہیں اور دوسری کو اس کی وضاحت سمجھتے ہیں ہم نہیں سمجھتے کہ جو الفاظ يحتى يصنع مدیث میں استعمال ہوئے ہیں ان کے معنے منسوخ کرنے کے ہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ اس لفظ کے معنے التوا کے ہیں..

Page 389

سوال: - کیا مرزا غلام احمد صاحب نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعونی کیا؟ جواب : جی ہاں.سوال : کیا مسیح یا مہدی کے ظہور پر ایمان لانا مسلمانوں کے عقیدہ کا ضروری جز د ہے ؟ جواب: - جی ہاں.اگر کوئی شخص یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ دعومی درست ہے تو اسے مانتا اس پر فرض ہو جاتا ہے.سوال : کیا دین اسلام ایک سیاسی مذہبی نظام ہے ؟ ہو اسب :.یہ ایک مذہبی نظام ہے مگر اس میں کچھ سیاسی احکام بھی ہیں جو اس مذہبی نظام کا حصہ ہیں اور جن کا ماننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا دو سر سے احکام کا.سوال :.اس نظام میں کفار کی حیثیت کیا ہے ؟ جواب : - کفارہ کو دہی حیثیت حاصل ہو گی جو مسلمانوں کو.سوال : - کافر کسے کہتے ہیں ؟ جواب کا فرادر مومن اور کم نسبتی الفاظ ہیں اور ایک دو جبر کے ساتھ متعلق ہیں انکا کوئی جدا گانہ معین مفہوم نہیں.قرآن کریم میں کا فرکا لفظ اللہ تعلی کے تعلق میں بھی استمال ہوا ہے دس انور کے تھی میں بھی اسطرح مون کا لفظ ان کے قتل میں بھی اسمال ہوتے سوال :.کیا اسلامی نظام میں کفار یعنی غیر مسلموں کو یہ معنی حاصل ہے کہ وہ قانون سازی اور قانون کے نفاذ میں حصہ لیں اور کیا وہ اعلیٰ انتظامی ذمہ داری کے عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں ؟ جواب : - میرے نزدیک قرآن نے جس حکومت کو خالص اسلامی حکومت کہا ہے اس کا قیام موجودہ حالات میں ناممکن ہے.اسلامی حکومت کی اس تعریف کے مطابق یہ ضروری ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ایک سیاسی مدت میں منسلک ہوں مگر موجودہ حالات میں یہ صورت بالکل ناقابل عمل ہے.سوال : کیا کبھی اسلامی حکومت قائم رہی بھی ہے ؟ جواب : جی ہاں خلفائے راشدین کی اسلامی جمہوریت کے زمانہ میں.سوال : - اس جمہوریہ میں کفار کی کیا حیثیت بھی ہا کیا وہ قانون سازہ ہی اور نفاق قانون میں حصہ لے سکتے تھے اور کیا وہ انتظامیہ کی اعلی ذمہ داریوں کے عہدوں پر تمکن ہو سکتے تھے ؟ جواب : - یہ سوال اُس وقت پیدا ہی نہیں ہو اتھا کیونکہ اسلامی جمہوریہ کے دور میں مسلمانوں اور

Page 390

٣٩ کفار میں سلسل جنگ جاری رہی.اور جو کفار مفتوع ہو جاتے تھے اسلامی مملکت میں انہیں وحی حقوق حاصل ہو جاتے تھے جو مسلمانوں کو حاصل ہوتے تھے.اُن دنوں آج کل جیسی منتخب شدہ اسمبلیاں موجود نہ تھیں سوال : کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں عدلیہ علیحدہ ہوتی منفی ؟ جواب :.ان دنوں سب سے بڑی عدلیہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.سوال : کیا اسلامی طرز کی حکومت میں ایک کا فر کو حق حاصل ہے کہ وہ کھلے طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرے ؟ جواب : جی ہاں.سوال :- اسلامی مملکت میں اگر کوئی مسلمان مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے بعد دیانتداری کے ساتھ اسلام کو ترک کرکے کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیتا ہے مثلاً عیسائی یا دہر یہ ہو جاتا ہے.تو کیا مرہ اس مملکت کی رعایا کے حقوق سے محروم ہو جاتا ہے ؟ جواب :.میرے نزدیک تو ایسا نہیں.لیکن اسلام میں دوسرے ایسے فرقے پائے جاتے ہیں جو ایسے شخص کو موت کی سزا دینے کا عقیدہ رکھتے ہیں.سوال: - اگر کوئی شخص مرزا غلام احمد صاحب کے عادی پر واجبی غور کرنے کے بعد یا نداری سے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ آپ کا دعوے غلط تھا.تو کیا پھر بھی وہ مسلمان رہے گا ؟ جواب : جی ہاں.عام اصطلاح میں وہ پھر بھی مسلمان سمجھا جائے گا.سوال: کیا آپ کے نہ دیا.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سزا دے گا جو غلط مذہبی خیالات با عقائد رکھتے ہوں ؟ لیکن دیانتداری سے ایسا کرتے ہوں ؟ جواب: خیر نزدیک بهزا و جزا کا اصول دیانتداری اور نیک نیتی پر مبنی ہے نہ کہ عقیدہ کی صداقت پر.سوال :.کیا ایک اسلامی حکومت کا یہ مذہبی فرمن ہے کہ وہ تمام مسلمانوں سے قرآن اور سنت کے تمام احکام کی جن میں حقوق اللہ کے متعلق قوانین بھی شامل ہیں پابندی کرائے ؟ جواب :.اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ گناہ کی ذمہ داری انفرادی ہے اور ایک شخص صرت ان ہی گناہوں کا ذمہ دار ہوتا ہے جن کا وہ خود مرتکب ہوتا ہے.اس لیے اگر اسلامی مملکت میں کوئی شخص قرآن وسنت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا وہ خود ہی جواب دہ ہے.

Page 391

بجواب سوالات عدالت بتاریح نم / جنوری سوال : کل آپ نے کہا تھا کہ گناہ کی ذمہ داری انفرادی ہوتی ہے.فرض کیجئے کہ میں ایک مسلم حکومت کا شہری ہوں اور میں ایک دوسرے شخص کو قرآن وسنت کی کوئی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھتا ہوں.کیا میرا یہ مذہبی فرض ہے کہ ہمیں اُسے اس خلاف ورزی سے لوگوں.مذہبی فرمن کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہیں اُسے ایسا کرنے سے نہ روکوں تو میں خو د بھی گنہگار ہوں گا ؟ جواب :.آپ کا فرض صرف اس شخص کو نصیحت کرتا ہے.سوال : - اگرین صاحب امر ہوں تو کیا پھر بھی یہی صورت ہوگی ؟ جواب :.پھر بھی آپ کا یہ مذہبی فرض نہیں کہ آپ اس شخص کو ایسا کرنے سے جبراً روکیں.سوال :.اگر میں صاحب امر ہوں تو کیا میرا یہ فرض ہوگا کہ میں ایسا دنیاوی قانون بناؤں جو اس قسم کی خلاف ورنہ یوں کو قابل سزا قرار دے ؟ جواب : - جی نہیں.ایسا کہ نا آپ کا مذہبی فرض نہیں ہو گا.لیکن ایسا قانون بنانے کا آپ کو اختیار حاصل ہوگا.سوال :.کیا ایک سچے نبی کا انکار کفر نہیں ؟ جواب : - : ہاں یہ کفر ہے.لیکن کفر دو قسم کا ہوتا ہے ایک وہ جس سے کوئی شخص ملت سے خارج ہو جاتا ہے دوسرا وہ جس سے وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا.کلمہ طیبہ کا انکار پہلی قسم کا کفر ہے.دوسری قسم کا کفر اس سے کم درجے کی بد عقیدگیوں سے پیدا ہوتا ہے.سوال : کیا ایسا شخص جو ایسے نبی کو نہیں مانتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آیا ہو اگلے جہان میں سزا کا مستوجب ہو گا ؟ جواب: ہم ایسے شخص کو گنہگار تو سجھتے ہیں مگریہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو سزا دے گا یا نہیں.اس کا فیصلہ کر نا خدا کا کام ہے.سوال : کیا آپ خاتم النبین میں خاتم کوات کی فتح سے پڑھتے ہیں یا کسرہ سے با جواب :.دونوں درست ہیں.

Page 392

سوال :.اس اصطلاح کے صحیح معنے کیا ہیں ؟ جواب :.اگر اسے ت" کی زبہ سے پڑھا جائے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہمارے نبی کہ یم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے نبیوں کی زینت ہیں جس طرح انگہ مٹی انسان کے لیے زینت ہوتی ہے.اگر اسے کسرہ سے پڑھا جائے تو نعت کہتی ہے کہ اس صورت میں بھی اس کا یہی مفہوم ہو گا مگر اس سے وہ شخص بھی مراد ہو گا جو کسی چیز کو اختتام تک پہنچا د ہے.اس مفہوم کے مطابق اس کا یہ مطلب ہوگا کہ خاتم النتین آخری نبی ہیں مگر اس صورت میں لفظ النبیین سے مراد وہ نبی ہونگے جین کے ساتھ شریعت ناندل ہو یعنی تشریعی نبی.سوال : - مرزا غلام احمد صاحب کن معنوں میں نبی تھے ؟ جواب :.میں اس سوال کا جواب پہلے دے چکا ہوں کہ وہ اس لیے نبی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں اُن کا نام بنی رکھا ہے.سوال : - کیا مرزا غلام احمد صاحب کے روحانی درجہ کا کوئی اور شخص آئندہ آسکتا ہے ؟ جواب :.اس کا امکان ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا اللہ تعالی آئندہ ایسے اشخاص مبحوث کرے گا یا نہیں.سوال : کیا عورت نبی ہو سکتی ہے جواب : - احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت نبی نہیں ہوسکتی.سوال :.کیا آپ کی جماعت میں کسی عورت نے اس منصب پر ہونے کا دعوی کیا ؟ جواب :.میرے علم کے مطابق نہیں.سوال نہ کیا جہم ابدی ہے ؟ جواب :.نہیں.سوال: کیا ہم کوئی جانور ہے یا تحرک شی یا کوئی مقررہ مقام ؟ جواب:.جہنم صرف ایک روح سے تعلق رکھنے والی کیفیت ہے.سوال :.امام غزالی نے جہنم کو ایک جانور سے تشبیہ دی ہے.کیا یہ درست ہے ؟ جواب :.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ مجازا استعمال کیا گیا ہے.

Page 393

۳۸۲ سوال :.اسلام کے بعض نکتہ چین کہتے کہ اسلام جیسا کہ ایک معمولی عالم دین اسے سمجھتا ہے ذہنی غلامی کو دائمی شکل دیتا ہے کیونکہ وہ دیانتداری سے مخالفت کرنے والوں کو چاہے وہ کتنے ہی دیانتدار ہوں ہمیشہ کے لیے جہنمی قرار دیتا ہے.جواب : - میری رائے میں اسلام ہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جو جہنم کو ابدی نہیں سمجھتا.سوال : - کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت ان لوگوں تک بھی وسیع ہو گی جو مسلمان نہیں ہیں ؟ جواب : - یقینا - سوال : - کیا قوم کا موجودہ نظر یہ کہ ایک ریاست کے مختلف مذاہب کے ماننے والے شہریوں کو مساوی سیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں اسلام میں پایا جا تا ہے ؟ جواب : - يقيناً - سوال :.ایک غیر مسلم حکومت میں ایک مسلمان کا اس صورت میں کیا فرض ہے اگر یہ حکومت کوئی ایسا قانون بنائے جو قرآن وسنت کے خلاف ہو ؟ بنواب : - اگر حکومت قانون بناتے وقت وہ اختیارات استعمال کرے جو وہ بحیثیت حکومت استعمال کر سکتی ہے تو مسلمانوں کو اس قانون کی تعمیل کرنی چاہیئے لیکن اگر یہ قانون پرسنل مومثلا اگر بیہ قانون مسلمانوں کو نمازہ پڑھنے سے روکے تو چونکہ یہ ایک بہت اہم سوال ہے اس لیے مسلمانوں کو ایسا ملک چھوڑ دینا چاہیے.ایکن اگر سوال معمولی نوعیت کا ہو مثلاً وراثت.شادی وغیرہ کا معاملہ ہو تو مسلمان کو اس قانون کو تسلیم کر لینا چاہیئے.سوال : کیا ایک مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کا وفا دار ہوسکتا ہے ؟ جواب : - يقينا - سوال :.اگر وہ ایک غیر مسلم حکومت کی فوج میں ہو اور اسے ایک مسلم حکومت کے ساتھ لڑنے کے لیے کہا جائے تو اس صورت میں اس کا کیا فرض ہوگا ؟ جواب :.یہ اس کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ آیا مسلم مملکت حق پر ہے یا نہیں.اگر وہ سمجھے کہ سلم حکومت حق پر ہے تب اس کا فرض ہے کہ وہ استعفاء دیدے ، یا جیسا کہ بعض دوسرے ممالک

Page 394

میں دستور ہے.یہ اعلان کر دے کہ ایسی جنگ میں شمولیت بیری ضمیر کے خلاف ہے.سوال : کیا آپ کا یہ ایمان ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب بھی اپنی معنوں میں شیع ہوں گے جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شفیع سمجھا جاتا ہے ؟ جواب:.جی نہیں.چوہدری نذیر احد صاحب ایڈووکیٹ جماعت اسلامی کی سع کے جواب میں سوال :- آپ کی جماعت میں الفضل کو کیا حیثیت حاصل ہے ؟ اور آپ کا اس سے کیا تعلیقی ہے؟ جواب : یہ صحیح ہے کہ اس اخبار کو میں نے جاری کیا تھا لیکن میں نے دو تین سال بعد اپنا تعلق اس سے منقطع کر لیا تھا.غالباً ایسا میں نے اللہ یا ستہ میں کیا تھا یہ اسید انجمن احمد یہ ربوہ کی ملکیت ہے.سوال: کیا ست 910لمہ کے بعد آپ کے اختیار میں یہ بات تھی کہ آپ اس کی اشاعت کو روک دیں ؟ جواب:.جی ہاں.اس اعتبار سے کہ جماعت میری وفادار ہے اور اگر میں انہیں کہوں کہ وہ اس پر چہ کو نہ خریدیں تو اس کی اشاعت خود بخود بند ہو جائے گی.عدالت کا سوال :.کیا آپ انجمن کو مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اس کی اشاعت کو بند کر دے ؟ جواب:.میں انجمن کو بھی مشورہ دے سکتا ہوں جو اس کی مالک ہے کہ وہ پکی اشاعت کو روک وکیل کے سوال : کیا آپ مومن اور سلم کی اس تعریف سے اتفاق رکھتے ہیں جو صدر انجمن احمد یہ ربوہ نے عدالت کے ایک سوال کے جواب میں دی تھی ؟ جواب :.ہاں.سوال: - کیا آپ اپریل سلالہ میں تشید الا زبان کے ایڈیٹر تھے ؟ جواب :.ہاں.

Page 395

۳۸۴ سوال :.کی آپ نے جن خیالات کا آج یا کل اظہار کیا ہے ان خیالات سے کسی رنگ میں مختلف ہیں جو آپ نے اپریل سے میں تشخید الاذھان کے دیباچہ میں ظاہر گئے تھے ؟ جواب :.نہیں.سوال : - کیا آپ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں جو آپ نے کتاب آئینہ صداقت کے پہلے باب میں صفحہ ۳۵ پر ظاہر کیا تھا.یعنی یہ کہ تمام وہ مسلمان جنہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت نہیں کی خواہ انہوں نے مرزا صاحب کا نام بھی نہ سنا ہو وہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ؟ جواب: نہ یہ بات خود اس بیان سے ظاہر ہے کہ میں ان لوگوں کو جو میرے ذہن میں نہیں مسلمان سمجھتا ہوں.پس جب میں کافر کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دوسری قسم کے کافر ہوتے ہیں جن کی میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں.یعنی وہ جو ملت سے خارج نہیں.جب میں کہتا ہوں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ نظر یہ ہوتا ہے جس کا اظہار کتاب مفردات راغب کے صفحہ ۲۴۰ پر کیا گیا ہے.جہاں اسلام کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں ایک دون الا بیان اور دوسرے فوق الایمان دون الایمان میں وہ مسلمان شامل ہیں جن کے اسلام کا درجہ ایمان سے کم ہے.فوق الایمان میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو ایمان میں اس درجہ ممتانہ ہوتے ہیں کہ وہ معمولی ایمان سے بلند تہ ہوتے ہیں.اس لیے جب میں نے یہ کہا تھا کہ بعض لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ مسلمان تھے جو فسوق الایمان کی تعریف کے ماتحت آتے ہیں مشکواۃ میں بھی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جوشخص کسی ظالم کی مدد کرتا اور اس کی حمایت کرتا ہے وہ اسلام سے خارج ہے.- سوال : موجودہ ایجی ٹیشن کے شروع ہونے سے پہلے کیا آپ ان مسلمانوں کو جو مرزا غلام احمد صاحب کو نہیں مانتے کا فراور دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہتے رہے ؟ جواب :.ہاں میں یہ کہتا رہاہوں اور ساتھ ہی میں "کافر" اور خارج انہ دائرہ اسلام کی اصطلاحوں کے اس مفہوم کی بھی وضاحت کرتا رہا ہوں جس میں یہ اصطلاح میں استعمال کی گئیں.حوال : کیا یہ صحیح نہیں کہ موجودہ ایجی ٹیشن شروع ہونے سے قبل آپ اپنی جماعت کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ وہ غیر احمدی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھیں اور غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھیں اور غیر

Page 396

۳۸۵ احمدیوں سے اپنی لڑکیوں کی شادی نہ کریں ؟ جواب :.میں یہ سب کچھ غیر احمدی علماء کے اسی قسم کے فتووں کے جواب میں کہتارہا ہوں بکہ میں نے ان سے کہ کہا ہے.کیونکہ جزا و سینہ سینہ کہا.سوال :.آپ نے اب اپنی شہادت میں کہا ہے کہ جو شخص نیک نیتی کے ساتھ مرزا غلام احمد صاحب کو نہیں مانتا.وہ پھر بھی مسلمان رہتا ہے.کیا شروع سے آپ کا یہی نظریہ رہا ہے ؟ جواب : ھاں.سوال : کیا احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان اختلافات بنیادی ہیں ؟ جواب : اگر لفظ بنیادی کا وہی مفہوم ہے جو ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کا لیا ہے تب یہ اختلافات بنیادی نہیں ہیں.سوال : اگر لفظ بنیادی عام معنوں میں لیا جائے تو پھر ؟ جواب :.عام معنوں میں اس کا مطلب "اہم ہے.لیکن اس مفہوم کے لحاظ سے بھی اختلاف بنیادی نہیں ہیں بلکہ فروعی ہیں.عدالت کا سوال : احمدیوں کی تعداد پاکستان میں کتنی ہے ؟ جواب : - دو اور تین لاکھ کے درمیان.وکیل کے سوال :.کیا کتاب تحفہ گولڑویہ جوستمبر 19 میں شائع ہوئی تھی مرزا غلام احمد صاحب کی تصنیف ہے ؟ جواب :.جی ہاں.سوال :.کیا آپ کو یہ معلوم ہے یا نہیں کہ جس عقیدہ کا ذیل کے پیرا میں ذکر ہے وہ عامتہ المسلمین کا عقیدہ ہے :- جیسا کہ مومن کے لیے دوسرے احکام الہی پر ایمان لانا فرض ہے.ایسا ہی اس بات پر ایمان فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں.ایک بحث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے.دوسرا بعث احمدی جو کہ جمالی رنگ نہیں ہے یا جواب:.عامتہ المسلمین کے نز دیک اس کا اطلاق صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہوتا ہے

Page 397

۳۸۶ لیکن ہمارے نزدیک اس کا اطلاق اصلی طور پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے.لیکن عملی طور پر مرزا غلام احمد صاحب پر بھی ہوتا ہے سوال : - ازراہ کرم ۲۱ اگست نام کے افضل کے صفحہ نمبر ے کے کالم نمبرا کہ ملاحظہ فرمایئے جہاں آپ نے اپنی جماعت اور غیر احمدیوں میں فرق بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ : ورنہ حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ اُن کا اسلام اور ہے اور ہما ما اور ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور ہمارا حج اور ہے اور اُن کا حج اورہ.اسی طرح اُن سے ہر بات میں اختلاف ہے کہ کیا یہ صحیح ہے ؟ جواب:.اس وقت جب یہ عبارت، شائع ہوئی تھی میرا کوئی ڈائر می نویس نہیں تھا اس لیے یکی یقین سے نہیں کہ سکتاکہ میری بات کو صحیح طور پر رپورٹ کیا گیا ہے یا نہیں.تاہم اس کا مجازی رنگ میں مطلب لینا چاہیئے.میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم زیادہ خلوص سے عمل کرتے ہیں.سوال : کیا آپ نے انوار خلافت کے صفحہ ۹۳ یہ کہا ہے کہ : " اب ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے اس نیچے اُن کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہیئے.لیکن اگر کسی غیر احمدی چھوٹا بچہ مر جائے تو اُس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ توسیح موعود کا ملکفر نہیں.میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا ہے جواب:.ہاں.لیکن یہ بات میں نے اس لیے کہی معنی کہ غیر احمدی علماء نے یہ فتوی دیا تھا کہ احمدیوں کے بچوں کو بھی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا جائے.واقعہ یہ ہے کہ احمدی عورتوں اور بچوں کی نعشیں قبروں سے اکھاڑ کر باہر پھینکی گئیں.چونکہ اُن کا فتقو می اب تک قائم ہے اس لیے میرا فتوی بھی قائم ہے.البتہ اب ہمیں بانی سلسلہ کا ایک فتوی ملا ہے جس کے مطابق ممکن ہے کہ غور و خوض کے بعد پہلے فتوی میں ترمیم کر دی جائے.سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ مرند اعلام احد صاحب نے حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۶۳ پر لکھا ہے کہ :.علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا.وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا یہ اول

Page 398

۳۸۷ جواب :.ہاں.یہ الفاظ اپنے عام معنوں میں استعمال ہوئے ہیں.سوال: - ۱۹۴۲ء میں قیام پاکستان کے متعلق آپ کا طرز عمل کیا تھا با کیا یہ صحیح ہے کہ ارتون لہ کو آپ نے ملفوظات میں کہا تھا کہ :- پاکستان اور آنها د حکومت کا مطالبہ ہند دستان کی غلامی کو مضبوط کرنے والی زنجیریں ہیں.جواب: ہاں.لیکن میں نے یہ اس لیے کہا تھا کہ میرے اور مولانا مودودی سمیت کئی سر کردہ مسلمانوں کی یہ رائے تھی کہ قیام پاکستان کا مطالبہ ہندوستان کی آزادی کو مشکل بنا دے گا.ان دونوں پاکستان کے قیام کو نا مکن سمجھا جاتا تھا.کیونکہ انگریز ایسی مملکت کے قیام کے خلاف تھے.سوال : کیا جیسا کہ الفضل مورخہ ۵ اگست ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا تھا آپ نے یہ کہا تھا کہ :.(العف) اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہند وسلم سوال اُٹھ جائے اور ساری تومیں شیر و شکر ہو کر ر ہیں تاکہ ملک کے حصے بخرے نہ ہوں.بیشک یہ کام بہت مشکل ہے مگر اس کے نتائج بھی بہت شاندار ہیں یا اب ممکن ہے عارضی طور پر افتراق ہو اور کچھ وقت کے لیے دونوں قومیں بدا ابدا ئیں گر یہ حالت عار منی ہوگی اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جلد دور ہو جائے.(ج) بہر حال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ مہندوستان بنے اور ساری تو میں باہم شیر و شکر ہو کہ رہیں جواب : الفضل مورخنده را پریل سکول میں میری نظر نہ مسیح طور پر رپورٹ نہیں ہوئی.صحیح رپورٹ ۱۲ اپریل سہ میں شائع ہوئی ہے.سوال : - کیا آپ کی جماعت میں کوئی ملا بھی ہے ؟ جواب: - "ملا" کا لفظ "مولوی کا مترادف ہے.اور یہ لفظ تحقیر کے لیے استعمال نہیں ہوتا.ملا علی قاری.ملا شور بازار اور ملا باقر جو تمام معروف شخصیتیں ہیں ملا کہلاتے ہیں اور اس میں فخر محسوس کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں.سوال و.کیا آپ نے سندھ سے واپسی پر کوئی پریس انٹرویو دیا تھا جو ہارا اپریل ۹۲ کے الفضل میں شائع ہوا.اوریہ میں میں آپ سے ایک اخباری نمائندہ نے ایک سوال کیا اور آپ نے اس کا جواب دیا ؟

Page 399

٣٨٨ سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان عمل ممکن ہے ؟ جس کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اس سوال کو دیکھا جائے تو پاکستان ممکن ہے لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ملک کے حصے بخرے کرنے کی ضرورت نہیں.جواب :.یہ صحیح ہے کہ ایک اخباری نمائندے نے مجھ سے ایک سوال کیا تھا مذکورہ بالا الفاظ اس کا ایک اقتباس ہے جو کچھ اس میں کہا گیا د تقسیم کے سوال پر میری ذاتی رائے تھی.سوال :.کیا آپ نے ہم ارمئی ۱۹۴۷ء کو نماز مغرب کے بعد اپنی مجلس علم و عرفان میں مندرجہ ذیل الفاظ کہے جو ار سی 19 ء کے الفضل میں شائع ہوئے ؟ میں قبل انہیں بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالے کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے لیکن اگر قوموں کی غیر معمولی منافرت کی وجہ سے عامر منی طور پر الگ بھی ہونا پڑے تو یہ اور بات ہے.بسا اوقات عضو ماؤف کو ڈاکٹر کاٹ دینے کا بھی مشورہ دیتے ہیں.لیکن یہ خوشی سے نہیں ہوتا بلکہ مجبوری اور معذوری کے عالم میں اور صروف اُسی وقت جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو.اور اگر پھر یہ معلوم ہو جائے کہ ماؤف عضو کی جگہ نیا لگ سکتا ہے.تو کون سا جاہل انسان اس کے لیے کوشش نہیں کرے گا.اس طرح ہندوستان کی تقسیم یہ اگر ہم رضامند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری ہے.اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ یہ کسی نہ کسی طرح جلد نہ متحد ہو جائے کیا جواب : نہیں میں نے بالکل انہی الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا تھا.جو کچھ میں نے کہا اُسے بہت متک غلط طور پر پیش کیا گیا ہے.جس شخص نے میری نظریہ کی رپورٹ مرتب کی.یعنی منیر احمد.وہ کبھی میرا ڈائری نویں نہیں رہا.اس بارے میں میرے صحیح جبالات الفضل موڑ ضہ اور مئی ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئے تھے جو مندرجہ ذیل ہیں:.ان حالات کے پیش نظر ان مسلمانوں) کا حق ہے کہ مطالبہ کریں.اور ہر دیانتدارہ کا فرض ہے کہ خواہ اس میں اس کا نقصان ہو مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید کرے.بے شک تمہیں مسلمانوں کی طرف سے بھی بعض اوقات تکالیف پہنچے

Page 400

۳۸۹ جاتی ہیں.اور تم تسلیم کرلیتے ہیں کہ شاہد وہ ہمیں پھانسی پر چڑھا دیں گے.لیکن میں مہندوؤں سے پوچھت ہوں کہ تم لوگوں نے ہمیں کب سکھ دیا تھا.تم لوگوں نے بہین کب آرام پہنچایا تھا.اور تم لوگوں نے کب ہمارہ سے ساتھ ہمدردی کی تھی یا ؟ سوال : کیا آپ نے جو کچھ ارمئی ۱۹۴۷ 2 کے الفضل میں شائع ہوا اس کی تردید کی ؟ جواب :.جو کچھ اس میں بیان ہوا تھا.اور مٹی سٹ ۱۲ ء کے الفضل میں عملاً اس کی تمدید کردی گئی تھی.سوال: - الفضل بریر شائع شدہ الفاظ ۱۴ ہجرت کا کیا مطلب ہے ؟ جواب :.اس سے ۴ ارمٹی مراد ہے.: عدالت کا سوال: - آپ اس مہینے کو ہجرت کیوں کہتے ہیں ؟ جواب :.کیونکہ تاریخ بہلاتی ہے کہ رسول کریم کی ہجرت ما و مٹی میں ہوئی تھی.وکیل کے سوال :.کیا آپ سن ہجری استعمال کرتے ہیں یا کہ عیسوی کیلنڈر ؟ جواب :.ہم نے صرف یہ کیا ہے کہ شمسی مہینوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مختلف واقعات کے اعتبار سے مختلف نام دیدئے ہیں.سوال: - کیا آپ نے جیسا کہ ۱۲ نومبر 2 کے الفضل میں درج ہے اپنے آپ کو اقلیت قرار دیا جانے کا مطالبہ کیا تھا ؟ جواب:.نہیں اصل واقعات یہ ہیں کہ جب ۱۹۲۶ء میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئے تو حکومت نے مختلف فرقہ وارانہ پارٹیوں سے استفسارات کیے.اور تمام مسلمانوں کو ایک جماعت قرار دیا.اس پر بھی مسلم لیگیوں کی طرف سے ہمیں کہا گیا کہ یہ انگریز کی ایک چال ہے جس نے اس طرح غیر مسلم جماعتوں کی تعداد بڑھا دی ہے.اور مسلمانوں کو صرف ایک پارٹی ہی تصور کیا ہے اس پر ہم نے گورنمنٹ سے احتجاج کیا کہ کیوں احمدیوں سے بھی ایک پارٹی کی حیثیت میں استضار نہیں کیا گیا.حکومت نے جواب دیا کہ ہم ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک مذہبی جماعت ہیں.سوال: کیا مارچ فاصلہ کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ایک اجلاس میں آپ نے وہ بیان دیا تھا جس کا ذکر رسالہ عرفان الہی کے صفحہ ۹۳ پتہ انتقام لینے کا زمانہ کے زیر عنوان کیا گیا ہے اور

Page 401

جس میں کہا گیا ہے کہ :.اب زمانہ بدل گیا ہے.دیکھو پہلے جوسی آیا تھا اسے دشمنوں نے صلیب پر چڑھایا ینگ اب مسیح اس لیے آیا تا اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارے یا ہے جواب: - حال مگر اقتباس والے اس فقرے کی تشریح کتاب کے صفحہ ۱۰۱و ۰۲ اپر کی گئی ہے.جہاں میں نے کہا ہے کہ :.دو لیکن کیا ہمیں اس کا کچھ جواب نہیں دینا چاہیئے اور اس خون کا بدلہ نہیں لینا چاہیئے.لیکن اسی طریق سے جو حضرت مسیح موعود نے ہمیں بتا دیا ہے اور جو یہ ہے.کہ کابل کی سرزمین سے اگر احمدیت کا ایک پودا کاٹا گیا ہے تو اب خدا تعالیٰ اس کی بجائے ہزاروں پودے وہاں لگائے گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سید عبداللطیف صاحب شہید کے قتل کا بدلہ یہ نہیں رکھا گیا کہ ہم اُن کے قاتلوں کو قتل کریں اور ان کے خون بہائیں.کیونکہ قتل کرنا ہمارا کام نہیں.ہمیں خدا نے پر امن ذرائع سے کام کرنے کے لیے کھڑا کیا ہے نہ کہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لیے.یہیں ہمارا انتقام یہ ہے کہ اُن کے اور ان کی نسلوں کے دلوں میں احمدیت کا بیج بوئیں اور انہیں احمدی بنائیں.اور جس چیز کو وہ مٹانا چاہتے ہیں.اس کو ہم قائم کر دیں.اگر اب ہمارا یہ کام ہے کہ ان کے خون کا بدلہ لیں.اور اُن کے قاتل جس چیز کو مٹانا چاہتے ہیں اُسے قائم کر دیں.اور چونکہ خدا کی برگزیدہ جماعتوں میں شامل ہونے والے اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں کہ اپنے دشمنوں پر احسان کرتے ہیں.اس لیے ہمارا بھی یہ کام نہیں ہے کہ سید عبد اللطیف صاحب کے قتل کرنے والوں کو دنیا سے مٹا دیں اور قتل کر دیں بلکہ یہ ہے کہ انہیں ہمیشہ کے لیے قائم کر دیں اور ابدی زندگی کے مالک بنا دیں اور اس کا طریق یہ ہے کہ انہیں احمد می بنائیں یہ عدالت کا سوال : - اس سیاق و سباق میں احمدیت سے کیا مراد ہے ؟ جواب : احمدیت سے مراد اسلام کی وہ تشریح ہے جو احمد یہ جماعت کے بانی نے کی.وکیل کے سوال :.کیا آپ نے الفضل کے دار جولائی ۱۹۵۳ء کے شمارہ میں ایک مقالہ افتتاحیہ جو " خونی ملا کے آخری دن " کے عنوان سے شائع ہوا دیکھا ہے جس میں مندرجہ ذیل الفاظ آتے ہیں یہ

Page 402

در ہاں آخری وقت آن پہنچا ہے ان تمام علماء حق کے خون کا بدلہ لینے کا جن کو شروع سے یہ خونی کلا قتل کر واتے آئے ہیں.ان سب کے خون کا بدلہ لیا جائے گا را اعطاء اللہ شاہ بخاری سے (۲) ملا بدایونی سے (۳) ملا احتشام الحق سے (ہم) کلا محمد شفیع سے (ہ) کلا مودودی ( پانچویں سوار) سے " جواب :.ہاں.اس تحریر کے متعلق منٹگمری کے ایک آدمی کی طرف سے ایک شکایت میرے پاس پہنچی تھی اور میں نے اس کے متعلق متعلقہ ناظر سے جواب طلبی کی تھی اُس نے مجھے بتلایا تھا کہ اس نے ایڈیٹر کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ اس کی تردید کرے.سوال: - کیا دہ تر دید آپ کے علم میں آئی ؟ جواب: - نہیں.لیکن ابھی ابھی مجھے ، اگست 1122 کے الفضل کا ایک آرٹیکل جس کا عنوان ایک عملی کا ازالہ ہے دکھا یا گیا ہے جس میں مذکورہ بالا تحریر کی تشریح کر دی گئی تھی.عدالت کا سوال :.اس ادارتی مقالہ میں مین مولویوں کو ملا کہا گیا ہے کیا انہوں نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ احمدی مرندہ اور واجب القتل ہیں ؟ جواب :.میں صرف یہ جانتا ہوں کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے یہ رائے ظاہر کی تھی.وکیل کے سوال :.کیا آپ نے جون 1919 کے تشحمید الازبان کے صفحہ نمبر ۳ پر مندرجہ ذیل عبارت کسی مفتی ؟ خلیفہ ہو تو جو پہلا ہو اس کی بیعت ہو.جو بعد میں دوسرا پہلے کے مقابل پر کھڑا ہو جائے جیسے لاہور میں ہے.تو اسے قتل کر دو.مگر یہ قتل کا حکم تب ہے کہ حبیب سلطنت اپنی ہو.اب اس حکومت میں ہم ایسا نہیں کر سکتے یا.جواب: جی نہیں ! ڈائری نویس نو آموز تھا.میں نے جو کچھ کہا اسے اس نے غلط طور پر پیش کیا.در حقیقت جو کچھ میں نے کہا تھا.میں نے اس کی توضیح اس وقت کر دی تھی جب احمدیوں کی لاہوری پارٹی نے حکومت سے شکایت کی تھی اور حکومت نے مجھ سے اس کی وضاحت چاہی تھی.سوال :.کیا آپ کی جماعت خالص مذہبی جماعت ہے یا کہ سیاسی مفتی ؟

Page 403

جواب :.اصل میں تو یہ مذہبی جماعت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا دماغ عطا کیا ہے کہ حبب بھی کوئی سیاسی مسئلہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ بیکار نہیں رہ سکتا.سوال :.کیا آپ نے کوٹہ میں اپنے خطبہ جمعہ میں وہ تقریر راگنز بٹ ڈی - امی ۳۲۲) کی تھی.جود الفضل کے ۱۳ اگست ۹۷ہ کے پرچہ میں شائع ہوتی ہے ؟ جواب: - جی ہاں.سوال :.آپ نے جب اپنی تقریر میں ذیل کے الفاظ کہے تو اس سے آپ کی کیا مراد تھی ؟ یا در کو تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ہماری Base مضبوط نہ ہو.پہلے Base مضبوط مو تو تبلیغ ہوسکتی ہے جواب :.یہ الفاظ اپنی تشریح آپ کرتے ہیں.سوال :.اور آپ نے جب یہ کہا تھا کہ بلوچستان کو احمدی بنایا جائے تاکہ ہم کم از کم ایک صوبہ کو تو اپنا کہ میں تو اس سے آپ کا کیا مطلب تھا جواب:.میرے ایسا کہنے کے دو سبب تھے (1) موجودہ نواب قلات کے دادا احمدی تھے اور (۲) بلوچستان ایک چھوٹا سا صوبہ ہے سوال: - کیا آپ نے اپنے خطبہ جمعہ میں مندرجہ ذیل الفاظ کہے تھے جو الفضل ۱۲۲ اکتو بر شد روستا دینہ ڈی - ای -۲۱) میں شائع ہوئے ہیں ؟ میں یہ جانتا ہوں کہ اب یہ صوبہ ہمارے ہاتھوں سے بھل نہیں سکتا.یہ ہمارا ہی شکار ہو گا.دنیا کی سارہ ہی قومیں مل کر بھی ہم سے یہ علاقہ چھین نہیں سکتیں : جواب:.جی ہاں.لیکن اس عبارت کو اس کے لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہیئے.یہاںی مستقبل کا ذکر ہے.میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ چونکہ اس صوبہ میں ایک احمدی فوجی افسر قتل ہوا ہے اس لئے یہ صوبہ لانہ گا احمدی ہو کہ رہے گا.سوال : کیا ر یوہ ایک خالص احمدی نو آبادی ہے ؟ جواب : - یہ زمین صدر انجمن احمدیہ نے خریدی تھی اور اُسی کی ملکیت ہے.انجمن کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے متعلق جو چاہے انتظام کرے.لیکن بعض غیر احمدیوں نے بھی زمین خریدنے کے لیے

Page 404

۳۹۳ درخواست و می تھی.اس پر انجن نے کہا کہ اسے اچھے مسائیوں کی موجودگی پر کوئی اعتراضی نہیں.سوال :.کیا کسی غیر احمدی نے زمین خریدی ؟ جواب :.مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک غیر احمدی نے زمین خریدی ہے.لیکن مجھے اس کا کوئی ذاتی علم نہیں.سوال :.فسادات کے دوران میں آپ کہاں تھے ؟ جواب :.نہ بوہ میں.سوال: - کیا جو واقعات لاہور میں پیش آئے.ایسے کوئی واقعات ربوہ میں بھی ہوئے ؟ جواب:.نہیں.سوال:.کیا آپ اپنی جماعت کے لوگوں سے یہ بات متواتر کہتے رہے ہیں کہ اُن کا اصل وطن قادیان ہے؟ اور بالآخر انہوں نے وہاں ہی جانا ہے ؟ جواب: - ہر مسلمان کی یہ خواہش ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے وطن کو واپس حاصل کرے.سوال : کیا مہندوستان میں بھی احمدیہ جماعت ہے ؟ جواب :.ھاں.سوال: - برطانوی حکومت کے متعلق احمدیہ جماعت کے بانی کا کیا رویہ تھا.جواب:.میں پہلے ہی کہ چکا ہوں کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق انسان جس ملک میں رہے ان شرائط کے ماتحت جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اس کی حکومت کا وفادار رہنا چاہیے.سوال: کیا یہ امر واقع ہے کہ بغداد پر انگریزوں کے قبضہ ہونے پر قادیان میں خوشیاں منائی گئیں ؟ جواب :.یہ قطعاً غلط ہے.سوال: - کیا آپ کے نظریہ کے مطابق قائم شدہ اسلامی سلطنت میں کوئی غیر احمدی اس مملکت کار نہیں ہوسکتا ہے ؟ جواب : - جی ہاں.پاکستان مصر وغیرہ جیسی حکومت میں ہو سکتا ہے.سوال :.فرض کیجیئے کہ پاکستان ایک مذہبی مملکت نہیں.تو کیا آپ کے نزدیک ایک غیر مسلم یہاں رئیس مملکت ہو سکتا ہے ؟

Page 405

جواب:.یہ تو قانون ساز اسمبلی کی اکثریت ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ رئیس مملکت مسلمان ہو یا غیر مسلم.سوال:.کیا آپ اپنی جماعت کے لوگوں سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کا معاشرہ دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہونا چاہیئے ؟ جواب :.جی نہیں.سوال :.کیا آپ نے اپنی جماعت کے لوگوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان میں سر کاری عہدوں پر قبضہ کر لیں ؟ جواب :.جی نہیں.سوال :.کیا جنگی لحاظ سے بہ بوہ کے جائے وقوع کو کوئی خاص اہمیت حاصل ہے ؟ جواب: - جی ہاں.حکومت پاکستان کے ہاتھوں میں یہ ایک جنگی اہمیت والا مقام ہو گا.سوال: - کیا آپ نے جیسا کہ الفضل مورخہ 9 نومبر وار صفحہ ہ پہ چھپا ہے ربوہ میں ایک پریس کانفرنس میں یہ بیان دیا تھا کہ : - گو یہ زمین موجودہ حالت میں واقعی مہنگی ہے اور اس میں کوئی جاذبیت نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اسے ایک نہایت شاندار شہر کی صورت میں تبدیل کرنے کا تہیہ کر چکے جو دفاعی لحاظ سے بھی پاکستان میں محفوظ ترین مقام ہوگا " جواب :.میں پانچ سال کے عرصہ کے بعد بتا نہیں سکتا کہ کانفرنس میں میرے اصل الفاظ کیا تھے.عدالت کا سوال : کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ربوہ کو جنگی لحاظ سے کوئی اہمیت حاصل ہے ؟ جواب :.ربوہ کے درمیان سے موٹر سٹرک اور ریل دونوں گزارتی ہیں.اس لیے اسے حکومت پاکستان کے خلاف جنگی اہمیت رکھنے والا مقام خیال نہیں کیا جاسکتا.لیکن دوسرے لوگوں کے لحاظ سے اسے ہمارے لیے خاص اہمیت ضرور حاصل ہے.کیونکہ چنیوٹ کی طرف سے جو دریا کے دوسری جانب واقع ہے اس پر حملہ نہیں ہو سکتا.

Page 406

مولانا مرتضی احمد خان میکنش نماینده مجلس عمل کی جرح کے جواب میں سوال : مسیلمہ بن الحجیب کے دعوئی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ جواب :.اس کا دعوی جھوٹا تھا.سوال: - کیا وہ کلمہ پڑھتا تھا ؟ جواب :.نہیں.سوال :.کیا وہ مسلمان تھا ؟ جواب :.نہیں.سوال : - حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۱ پر لکھا ہوا ہے کہ : - ۱۲۴ ر پھر ماسوائے اس کے کیا کسی مرتد کے ارتداد سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ سلسلہ میں میں سے یہ مرتد خارج ہو احق نہیں ہے.کیا ہمارے مخالف علماء کو خبر نہیں کہ کئی بد بخت حضرت موسی کے زمانہ میں اُن سے مرتد ہو گئے پھر کئی لوگ حضرت عیسی سے مرتد ہوئے.اور پھر کئی بد بخت اور بد قسمت ہمارے نبی مسلم کے عہد میں آپؐ سے مرتد ہو گئے چنانچہ مسیلمہ کذاب بھی مرتدین میں سے ایک تھا.کیا آپ کی رائے میں مسیلمہ مرند تھا ہے جواب:.ہاں جب میں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں تھا اس سے میری مراد یہ تھی کہ دعوی نبوت کے بعد وہ مسلمان نہیں رہا تھا.سوال: - کیا آپ نے اسود عنسی سجاح بنیہ کا ذبہ.طلیحہ اسد می کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ہے ؟ جواب : هال - سوال : - کیا ان تمام اشخاص نے جن میں ایک عورت بھی تھی نبوت کا دعوی کیا تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے ان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ؟ جواب : نہیں.صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے.ان اشخاص نے جن میں سے ہر ایک نے

Page 407

دعوی نبوت کیا مسلمانوں پر حملے کیے جس پرمسلمانوں نے اس کے جواب میں ان کو شکست دی.سوال :.کیا حسب ذیل اشخاص نے وقتاً فوقتاً نبوت کا دعو ملی کیا تھا ؟ - حارث ومشقی ۶۸۵-۵کہ نے خلیفہ عبد الملک کے زمانہ ۲- مغیرہ بن سعید الامبلی ۷۳۳ - ۲۱ - ابو منصور الاجلی ۲۱۰۷۲۴ عدد ۴- اسحاق الاخراس المغربی ۵۲۷۵ A ه نه ابو عیسی اسحاق اصفهانی ۵۵۲ على محمد خارجی - حاملين من الله ما عکاسی محمود واحد گیلانی ۱۵۸۶۱۵۲ ء و - محمد علی باب ١٨٥٠ جواب : - محمد علی باب کے سوا دوسرے لوگوں کے متعلق وثوق کے ساتھ نہیں کہ سکتا محمد علی باب نے اپنے آپ کو نبی نہیں کہا تھا بلکہ مہدی موعود کہا تھا.سوال :.آپ نے تشریعی اور غیر تشریعی نبی کا مربیان فرما دیا.مہربانی کر کے ظلی نبی اور پیروزی نبی کی بھی تعریف کر دیجیئے.جواب : - ان اصطلاحات سے مراد یہ ہے کہ ایسا شخص جس کے متعلق ان اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے وہ خود بعض مخصوص صفات نہیں رکھتا.بلکہ یہ صفات اس میں منعکس رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں.سوال : - کیا مرزا غلام احمد صاحب نے تشریعی نبی ہونے کا دعوی کیا تھا ؟ جواب :.نہیں.سوال : یہ کیا مرزا غلام احمد صاحب نے اربعین حصہ چہارم کی درد میں یہ نہیں لکھا کہ :- ۸۴ ماسوائے اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند اوامر اور نہی بیان کیے اور اپنی اُمت کے لیے ایک قانون مقر یہ کیا دی صاحب شریعت "

Page 408

زاریان مرز اور اب تازیان سالح دعسان سلام ملاقات سلام در شوره شون بیانات بود یا اینکه واست شی خیاله حال سیم دو راند به سرا خیلی اسطوانه گشتم و رویا دارم که اصحاب مرا از شاعر عاطی با طرف فراموش نکرده بحق اینروز کام ہمیشہ دنیای بیر و رمز شده فرسوده ممنون پزشکی به ساخته باشند - من بر مال خود را امن در سن گیر شما میدانم کرد را که خاک را بسیار بیا کنند.انے دیس باقی بوس ورد ا جون ورا سلام یک سر سو رفت سیاسی امورات درز رو می خورد میر خدا داد خان صاحب سابق والی قلات کا بیعت نامہ

Page 409

ہو گیا.پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں.کیونکہ میری دی ہیں اوامر بھی ہیں اور نہی بھی.مثلاً یہ الہام قل للمومنين يغضوا من أبصار هـــم ريحفظوا فروجهم ذلك ازكى لهم - یہ الہام براہین احمدیہ میں درج ہے.اور اس میں امر بھی اور نہی بھی.اور اس پر تئیس برس کی مدت بھی گزر گئی.اور ایسا ہی ابتک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نبی بھی.اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان هذا يعني KNKOLANAGE الاولى - صحف إبراهيم وموسى یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی وجود ہے.اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امرا ور ر نہی کا ذکر ہو.تو یہ بھی باطل ہے کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی.عرض یہ سب خیالات فضول اور کوتاہ اندیشیاں ہیں ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے تاہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعے سے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو.جھوٹی گواہی نہ دوزنا مذ کر دی خون نہ کر داور ظاہر ہے کہ ایسا کر نا شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے.پھر وہ ولیل تمہاری کیسی گاڈ خورد ہو گئی.کہ اگر کوئی شریعت لا دے اور مفتری ہو تو تیس برس تک زندہ نہیں رہ سکتا چونکہ میری تعلیم میں امر بھی اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے.اس لیے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا ہے جیسا کہ ایک الہام کی عبادت ہے واصنع الفلك با عيننا و دينا.ان الذين يبايعونك انما يبايعون الله يد الله فوق اید هم.یعنی اس تعلیم اور تجدید کی کشتی کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری دحی سے بنا.جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں.یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.اب دیکھو خدا نے میری دی اور تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں

Page 410

۳۹۸ کے لیے مدار نجات مظہرایا.جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھے اور رجب کے کان ہوں وہ سننے کا جواب: ہاں.لیکن انہوں نے ایک بعد کی کتاب میں اس کی تشریح کی ہے مرگواہ نے ایک کتاب سے پڑھ کر سنایا ) سوال : کیا مرزا غلام احمد صاحب نے ان لوگوں کو مرتد کہا ہے جو احمدی بننے کے بعد اپنے قیدے سے پھر گئے ؟ جواب : - مرتد کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایسا شخص جو واپس لوٹ جائے.مولانا مودودی صاحب نے مبھی یہ اصطلاح استعمال کی ہے.سوال: کیا آپ مرزا غلام احمد صاحب کو اُن مامورین میں شمار کرتے ہیں جن کا ما نامسلمان کہلانے کے لیے ضروری ہے ؟ جواب :.میں اس سوال کا جواب پہلے دے چکا ہوں.کوئی شخص جو مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان نہیں لاتا دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا.سوال : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کتنے سچے نبی گزرے ہیں ؟ جواب:.میں کسی کو نہیں جانتا مگر اس اعتبار سے کہ ہمارے رسول کریم کی حدیث کے مطابق آپ کی امت کے علماء تک میں آپ کی عظمت اور شان کا انعکاس ہوتا ہے سینکڑوں اور ہزاروں ہو چکے ہوں گے.سوال: کیا آپ اس حدیث کو سنا تسلیم کرتے ہیں ؟ جواب: ھاں.سوال : - کیا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب ہمارے رسول کہ ہم کے سوا سب ابنیاء سے افضل تھے جواب:.ہم ان کے متعلق صرف حضرت مسیح ناصری سے افضل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں.مولانا میکش کی جرح بتاریخ ۴ ۱۵۵ سوال:.یہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ عیسی بن مریم رسیح ناصری) قیامت سے پہلے پھر

Page 411

۳۹۹ دوبارہ ظاہر ہوں گے.اس کے متعلق آپ کا عقیدہ کیا ہے ؟ جواب : یہ بات غلط ہے کہ یہ مسلمانوں کا منفقہ عقیدہ ہے مسلمانوں کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت سیخ ناصر می طبعی موت سے وفات پاگئے.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی بن مریم خود دوبارہ مبعوث نہیں ہوں گے.بلکہ ایک دوسرا شخص جو ان سے مشابہت رکھتا ہو گا اور ان کی صفات کا حامل ہو گا آئے گا.عدالت کا سوال :.کیا حضرت عیسی کے زمانے میں سیو دی کسی مسیح کے منتظر تھے ؟ جواب:.جی ہاں.وہ ایک مسیح کی آمد کے منتظر تھے.مگر اس سے پہلے الیاس نے آنا تھا جس نے آسمان سے اسی خاکی جسم کے ساتھ نازل ہونا تھا.سوال :.کیا حضرت عیسی ہی یہ مسیح تھے ؟ جواب :.ہمارے عقیدہ کے مطابق وہی مسیح تھے لیکن یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق نہیں.سوال: - کیا حضرت عیسی ناصری نے کبھی مسیح موعود ہونے کا دعومی کیا ؟ جواب: جی ھاں.سوال:- یہودیوں نے خدا کو ایک تاجر کی شکل میں پیش کیا تھا اور یہ کہ کہ اس کے واحد اجارہ دارین گئے تھے کہ خدا نے ابراہیم سے عہد کیا تھا کہ وہ کنعان کی نرمین دوبارہ انہیں دے گا.اسی طرح پولوس کے ماننے والے عیسائیوں نے خدا پہ اپنا پہلا حق رمن جتا یا.اور اس حق رمین کی وجہ گال گو تھا کی پہاڑی پر حضرت مسیح کا پھانسی پانا فرار دی.اب مولانا مرتضیٰ احمد میکش اور ان کے ساتھ دوسرے علمائے دین دعوی کرتے ہیں کہ خدا پر پہلا حق رمین اُن کا ہے.اور اس رہن کی قیمت یہ قرار دی گئی ہے کہ ذہنی غلامی اختیار کر لی جائے.کیا آپ بھی مرزا غلام احمد صاحب کی نبوت پر ایمان لانے کی وجہ سے خدا پر کسی مخصوص اور علیحدہ حق رہن کا دعوی رسکتے ہیں ؟ جواب :.ہم نا تو کسی ایسے حقی رہن کو مانتے ہیں اور نہ اس کے دعویدار ہیں.مولانا میکنش کے سوال : آپ نے کل فرمایا تھا.کہ مرزا غلام احمد صاحب نے صرف عیسی بن مریم پر اپنے آپ کو فضلیت دی ہے.مگر ۴ و ۱۶ اپریل ۱۵ ۹ہ کے الفضل (دستاویز ڈی - ای ۳۲۵) میں مرزا صاحب کی ، اراپریل ۱۹۰۳ء کی ڈائری سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے :.

Page 412

۴۰۰ کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے ہیں.وہ سب حضرت رسول کریم میں ان سحر پڑھ کر موجود تھے.اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کہ میم سے ظلی طور پر ہم کو عطا کیے گئے.اور اس لیے ہمارا نام آدم.ابراہیم - موسی - نوح - داؤد - یوسف سلیمان بیجھی.عیسی وغیرہ ہے.چنانچہ ابراہیم ہمارا نام اس واسطے ہے کہ حضرت ابراہیم ایسے مقام میں پیدا ہوئے تھے کہ وہ بت خانہ تھا اور لوگ بت پرست تھے.اور اب بھی لوگوں کا یہی حال ہے.کیا اس عبارت سے ثابت نہیں ہو تا کہ مرزا صاحب کا دعوی تھا کہ آپ ان تمام انبیاء سے جن کا اس عبارت میں ذکر ہے افضل ہیں ؟ کان جواب :.ان دونوں مرزا صاحب کوئی باقاعدہ ڈائری نہ رکھتے تھے.یہ اقتباس تو کسی رپورٹر کا کھا ہوا ہے.لیکن یہ فرض کرتے ہوئے کہ یہ یہ پورٹ صحیح ہے.اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا.کہ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو دوسرے انبیا ء پر فضیلت دی ہے.اس کا مطلب تو صرف ان صفات کو گنوا تا ہے جو مرزا صاحب اور دوسرے انبیاء میں مشترک تھیں.سوال :.عام مسلمان تو احمدیوں کا اس لیے جنازہ نہیں پڑھتے کہ وہ احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں.آپ بتایئے کہ احمدی جو غیر احمدیوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے اس کی اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہے.جین کا آپ قبل ازیں اظہار کر چکے ہیں.کہ آپ نے جوابی کارروائی کے طور پر یہ طریق اختیار کیا ہے ؟ جواب: - بڑا سبب تو جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں یہ ہے کہ ہم غیر احمدیوں کا جنازہ ایسے نہیں پڑھتے کہ وہ احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے دعوی کے دس سال بعد تک نہ صرف مرزا غلام احمد صاحب نے احمدیوں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ غیر احمدیوں کے جنازے پڑھیں.بلکہ خود بھی ایسی نماز جنازہ میں شریک ہوتے رہے.اور دوسرا سبب جو اصل میں پہلے سبب کا حصہ ہی ہے یہ ہے.کہ ایک منطقہ اور مسلمہ حدیث کے مطابق جو شخص دوسرے مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے.سوال: کیا غیر احمدی امام کے پیچھے نمانہ پڑھنے سے انکار کرنے پہ بھی آپ کے سابقہ جواب کا اطلاق ہوتا ہے ؟

Page 413

جواب: - ھاں.سوال:.از راہ کرم القول الفصل کے صفحہ ۴۵ کو ملاحظہ فرما ہے جس میں حسب ذیل عبارت ہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ کا حکم آیا.حسین کے بعد نمازہ غیروں کے پیچھے حرام کی گئی.اور اب صرف منع نہ تھی بلکہ حرام تھی اور حقیقی حرمت صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے کیا اس عبارت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ احمدیوں کو غیر احمدی امام کے پیچھے نمازہ پڑھنے کی ممانعت کی وجہ کچھ اور ہے ؟ جواب:.اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس وجہ سے احمدیوں کو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا اس کی بعد میں وحی کے ذریعہ بھی تصدیق کر دی گئی سوال : آپ نے انوار خلافت کے صفحہ پر اس ممانعت کی ایک مختلف وجہ بیان کی ہے متعلقہ عبارت یہ ہے.ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور اُن کے پیچھے نماز نہ پڑھیں.کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں.یہ دین کا معاملہ ہے.اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں.جواب: میں پہلے کہ چکا ہوں کہ کفر کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو ایک شخص کو ملت سے خارج نہیں کرتی.ہمارے نبی کریم نے فرمایا ہے کہ ہمیں ایسے شخص کو اپنا امام بنا نا چاہیئے جو دوسروں سے زیادہ نیک اور صالح ہو.ایک نبی کے انکار سے انسان کی نیکی کمز ور ہو جاتی ہے.سوال : - آپ نے فرمایا ہے کہ کفر اور اسلام اضافتی الفاظ ہیں.کیا یہ صحیح نہیں کہ الفاظ کھر.کافر کافرون - کافرین - کفارہ الکفرۃ قرآن کریم میں ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں.یعنی ایسے اشخاص کے متعلق جو اُمت سے باہر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ؟ جواب : میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ لفظ قرآن کریم میں ایک ہی معنوں میں استعمال نہیں ہوا.کل میں نے قرآن کریم سے ہی اس کی ایک مثال پیش کی تھی.سوال: - ازراہ کرم ذکر الہی کے صفحہ ۳۲ے کو دیکھنے میں میں حسب ذیل عبارت آتی ہے :.میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں دو گروہ ہیں.ایک مومن.دوسر سے کافر.پس جو حضرت

Page 414

۴۰۲ میسیج موجود پر ایمان لانے والے ہیں وہ مومن ہیں.اور جو بیماری نہیں لائے خواہ ان کے نہ لانے کی کوئی وجہ ہو وہ کا فر ہیں.کیا یہاں لفظ " کافر مومن کے مقابل پر استعمال نہیں ہوا ؟ جواب:.اس عبارت میں مومن سے مراد وہ شخص ہے جو مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لاتا ہے.اور کافر سے مراد وہ شخص ہے جو آپ کا انکار کرتا ہے.عدالت کا سوال :- تو کیا مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لانا جزو ایمان ہے ؟ جواب: - جی نہیں.یہاں پر لفظ مومن صرف مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لانے کے مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے نہ کہ اسلام کے بنیادی عقیدوں پر ایمان لانے کے مفہوم میں.سوال : - کیا جب کفر کے لفظ کے استعمال سے غلط فہمی اور تلخی پیدا ہونے کا احتمال ہے.تو یہ بہتر نہیں ہوگا کہ یا تو اس کے استعمال کو قطعی طور پہ ترک کر دیا جائے یا اس کے استعمال میں بہت اختیاط برتی جائے ؟ جواب : - ہم ۱۹۲۲ء سے اس سے اجتناب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.مولانا میکش کے سوال : - کیا آپ نے اپنی جماعت کے متعلق کبھی امت کا لفظ استعمال کیا ہے ؟ جواب :.میرا عقیدہ ہے کہ احمد می علیحدہ امت نہیں ہیں.اور اگر کہیں امت کا لفظ احمدیوں کے متعلق استعمال ہوا ہے تو بے توجہی سے ہوا ہوگا اور اس سے اصل مرا د جماعت ہے.سوال : - ۱۳ اگست ۱۹۴۷ کا الفضل دیکھئے.اس میں حسب ذیل عبارت ہے :.اللہ تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپرد کیا وہ کسی اور امت کے سپرد نہیں کیا.پہلے انبیاء میں سے کوئی نبی ایک لاکھ کی طرف آیا.کوئی نبی دو لاکھ کی طرف آیا اور کوئی دس لاکھ کی طرفت آیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم سوا لاکھ تھی یا ہوسکتا ہے کہ عرب کی آبادی آپ کے زمانہ میں دو تین لاکھ ہو.بس یہی آپ کے پہلے مخاطب تھے.لیکن ہمارے چھٹتے ہی چالیس کروڑ مخاطب ہیں.

Page 415

یہاں کن معنوں میں آپ نے لفظ " امت استعمال کیا ہے ؟ بجواب یہاں میں نے لفظ اُمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے استعمال کیا ہے.سوال: کیا آپ انگریزوں کے اس لیے ممنون احسان نہیں ہیں کہ ان کے عہد حکومت میں آپ کے مخصوص عقائد پھولے پھلے.اور کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ اُن کے شکر گزار نہ رہیں ؟ جواب: شکر گزاری ایک اخلاقی فرض ہے اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں.یہ صیح ہے کہ ہم اُن کے احسان مند ہیں اور یہ اس منصفانہ سلوک کی وجہ سے ہے جو انہوں نے ہر ایک کے ساتھ کیا.جن میں ہم بھی شامل ہیں.سوال :.کیا مرزا غلام احمد صاحب نے انگریزوں کو منون کرنے کے لیے بلاد اسلامیہ میں اشاعت کی غرض سے جہاد کے خلاف اتنی کتابیں نہیں لکھیں جن سے کم و بیش پچاس الماریاں بھر جائیں ؟ جواب : - مرزا صاحب نے جو کچھ لکھا اس حرم سے لکھا کہ اس سے اُن غلط فہمیوں کو دور کیا جائے جو مسلمانوں کے خلاف دوسرے مذاہب میں پائی جاتی تھیں.یہ تصانیف کئی موضوعات و امین پر مشتمل ہیں.جن کے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں.ضمناً ان میں مسمار جہاد بھی شامل تھا مضامین سیر لیکن اس مخصوص مسئلہ پر انہوں نے صرف چند صفحات پر مشتمل ایک رسالہ لکھا تھا.سوال: - کیا مندرجہ ذیل شعر میں مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ پر فضیلت نہیں دی؟ له خسف القمر المنير و إن لي - غسا القمران المشرقان ا تنكر یعنی رسول اکرم کے لیے صرف چاند کو گرہن لگا.لیکن میرے لیے سورج اور چاند دونوں گہنا گئے الخ جواب : اس شعر میں صرف اس حدیث کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مہدی کے وقت ماہ رمضان میں چاند اور سورج دونوں کو گرہن لگے گا.سوال :.کیا آپ نے کبھی عام مسلمانوں کو ابو جہل کہا اور اپنی جماعت کو اقلیت قرانہ دیا ؟ بجواب : یہ سمجھ نہیں ہے کہ میں عام مسلمانوں کو ابو جہل کی پارٹی قرار دیتا ہوں.لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ ہماری جماعت تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑی ہے.عدالت کا سوال :.پاکستان میں کتنے احمدی کلیدی اسامیوں پر فائز ہیں ؟

Page 416

جواب :.میرے نزدیک توجہ ہدری ظفر اللہ خان کے علاوہ کوئی احمدی ایسی اسامی پہ فائدہ نہیں جسے کلیدی کہا جاسکے.سوال: - فضائیہ یجریہ - بری فوج میں افسروں کی تعداد کیا ہے ؟ جواب :- بری فوج میں ہرا ایا ۲ فی صدی ہوں گے.ہوائی فوج میں کوئی پانچ فی صدی اور بجری فوج میں بڑافی صدی.سوال : کیا مسٹر لال شاہ بخارہ ہی احمدی ہیں ؟ جواب : - جی نہیں.سوال :.کیا جنرل حیاء الدین احمدی ہیں ؟ جواب :.وہ کبھی احمدی تھے.لیکن میں وثوق سے نہیں کر سکتا کہ وہ اب بھی احمدی ہیں یا نہیں.سوال : کیا مسٹر غلام احمد پرنسپل گورنمنٹ کالج را دلینڈ ی احمدی ہیں ؟ جواب :.جی نہیں.سوال و ہ کیا پاکستان میں موجودہ انڈونیشین سفیر کے پیشرو احمدی تھے ؟ جواب :.وہ احمدیوں کی قادیانی جماعت سے تو یقینا تعلق نہ رکھتے تھے.مگر میں نہیں کہ سکتا کہ وہ لاہوری جماعت سے تعلق رکھتے تھے یا نہیں.بہر حال ۱۹۵۳ء میں انڈو نیشین سفیر یقیناً احمدی نہ تھے مولانا میکش کے سوال :.کیا آپ نے اپنے ایک خطبہ میں وہ الفاظ کہے جن کی رپورٹ الفضل مورخہ ر جنوری ۱۹۵۳ و د دستا ویزہ ڈی.امی ۳۲۶) میں شائع ہوئی ہے؟ جواب:.میں رپورٹ کے الفاظ کے متعلق تو وثوق سے کچھ نہیں کہ سکتا.لیکن یہ رپورٹ بہت حد تک ان الفاظ کے مفہوم کی آئینہ دار ہے جو میں نے کہے.میں نے یہ سب کچھ آفاق مورخہ 4 دسمبراہ 14د کے ایک مقالہ کے جواب میں کہا تھا.سوال :.اس رپورٹ میں آپ یا آپ کے کسی جانشین کے پاکستان کے فاتح ہونے کی طرف اشارہ ہے ؟ - جواب : - آپ رپورٹ کو غلط طور پر پیش کر ر ہے ہیں.اس میں ایسی کوئی بات نہیں.عدالت کانوٹ :.اس یقین دلانے کے باوجود کہ مرزا غلام احمد صاحب بیا گواہ کی کہی ہوئی کوئی

Page 417

بات یا جماعت احمدیہ کے شائع کردہ لٹریچر کو عدالت ایک مستقل شہادت کی صورت میں تسلیم کریگی اس وقت تک جو بھی سوالات کئے گئے ہیں وہ تقریبا سب کے سب ایسی ہی تحریروں سے متعلق ہیں.یہ محض تضیع اوقات ہے.اور ہم اس بارہ میں مزید سوالات کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں.تلت کی مسٹر نذیر احمد خال صاحب ایڈووکیٹ کے مزدی والا عدا المجازر سے سوال :.سول پلڑی گزٹ کے ۲۳ فروری ۱۹۵۳ء کے پرچہ میں آپ کا ایک بیان شائع ہوا تھا کیا خواجہ نذیر احمد ایڈووکیٹ اس بیان کے شائع ہونے سے قبل یا بعد آپ سے ملے تھے ؟ جواب : - ھاں.وہ اس بیان کی اشاعت سے ایک یا دو دن قبل مجھ سے ملے تھے.سوال : - کیا خواجہ نذیر احمد نے دوبارہ کسی وقت مارچ کے مہینہ میں آپ سے ملاقات کی ؟ جواب :.ہاں.وہ دوبارہ بھی مجھ سے ملے تھے.لیکن مجھے تاریخ یاد نہیں.وہ پہلی طاقات کے ایک یا دو ماہ بعد ملے ہوں گے.سوال :.کیا انہوں نے آپ کو خواجہ ناظم الدین کا کوئی پیغام دیا تھا ؟ جواب :.نہیں.انہوں نے خواجہ ناظم الدین کا کوئی ذکر نہیں کیا.انہوں نے صرف یہ کہا تھا.کہ کراچی میں ان کی گفتگو بعض اہم شخصیتوں سے ہوئی ہے.میرا اپنا خیال یہ تھا کہ وہ گور زجنرل سے لے تھے.سوال: - کیا انہوں نے مولانا مودودی کا نام لیا تھا ؟ جواب :.نہیں.

Page 418

تری در اونجا مرزابشیرالدین جو والد صاحب امام جماعت احمدید عدالت میں داخل کی گئی جناب عالی! مظہر کے بیان روبرو عدالت مورخہ ۱۴ر جوری ۱۹۹۲ء میں چند جوابات چونکہ ایسے اصطلاحی الفاظ پر مشتمل تھے جو عام استعمال میں نہیں آتے.اس لئے اُن کا ترجمہ شاید پورے طور پر مظہر کے مفہوم کا حال نہ ہو.یا بصورت دیگر فریقین غلط تعبیر کی کوشش نہ کرسکیں.یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مظہر اپنے اصلی الفاظ کو دہرا دے اور اپنا منشاء واضح کر دے.اس لیے درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل جوابات بعد تصدیق صحت شامل مثل فرمائے جاویں.سوال پر صفحہ ۳ ۱ یہ ہے.سوال : اگر لفظ بنیادی عام معنی میں استعمال ہو تو پھر ؟ جواب :.عام معلوم کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی "اہم " کے ہیں لیکن اس معصوم کی روتے بھی یہ اختلافات حقیقتا بنیا دی نہیں.اور انہیں فروسٹی کہا جا سکتا ہے.سوال به صفحه ۳۲ و ۳۳ یہ ہے :- سوال :.آپ نے تشریعی اور غیر تشریعی نبی کا فرق بیان کر دیا ہے.اب کیا آپ مہربانی کر کے خلی اور مجروزی نبی کی تشریح فرمائیں گے ؟ بجواب:.ان اصطلاحات کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس کی نسبت یہ اصطلاحات استعمال کی جائیں دو بعض مخصوص صفات کا براہ راست حامل نہیں ہوتا.بلکہ اپنے منبوع سے روحانی ورثہ پاتے ہوئے انعکاسی رنگ میں یہ صفات حاصل کرتا ہے.سوال پر صفحہ ۳۱ یہ ہے سوال :- کیا آپ کے خیال میں مسیلمہ کذاب مرند تھا ؟ جواب : ھاں.جب میں نے یہ کہا ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھا.تو اس سے میری مراد یہی ہے کہ و تشریعی نبوت کے دعوے کے بعد مسلمان نہیں رہا تھا.وہ

Page 419

۴۰۷ 1900 دوسری تحریری درخواست مورخه ۱۴۲ جنوری ۱۹۵۳ء جو منجانب حضرت مرزابشیرالدین محمد امام جماعت احمد عدت میں دخل کیانی جناب عالی! میں نے کل جو بیان عصمت انبیاء کے متعلق دیا تھا.میرے دل میں شک تھا کہ شاید میں پور می طرح اپنے مافی الضمیر کو واضح نہیں کر سکا.عدالت کے بعد صدر انجمن احمدیہ کے وکلاء سے مشورہ کرنے پر انہوں نے بھی اس رائے کا اظہار کیا.اس لیے میں آج اس سوال کے متعلق اپنا اور جماعت احمدیہ کا عقیدہ بیان کر کے درخواست کرتا ہوں کہ میرے بیان میں کل کے درج شدہ الفاظ کی جگہ ان الفاظ کو درج کیا جائے.بانی سلسلہ احمدیہ نے متواتر اور شدت سے اپنی جماعت کو یہ تعلیم دی ہے کہ تمام انبیاء عصوم ہوتے ہیں.اور صغیرہ اور کبیرہ کسی قسم کا گناہ بھی اُن سے سرزد نہیں ہوتا.اور رسول کریم صلی اللہ علیه وسلم بوجہ سردار انبیاء ہونے کے سب نبیوں سے زیادہ معصوم تھے.اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا کے آخری انسان تک کوئی شخص آپ کی معصومیت کے مقام کے قریب بھی نہیں پہنچانہ پہنچ سکے گا.قرآن کریم نے آپ کی معصومیت کے مقام کی بارفع شان بتائی ہے کہ آپ پر نازل شدہ کتاب قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے لا يمسه إلا المُطَرُونَ (پاک لوگوں کے سوا اس کتاب کے مضامین تک کوئی نہیں پہنچ سکتا) یعنی قرآن کریم کے سمجھنے کے لیے بھی ایک درجہ معصومیت کی ضرورت ہے.پس کیا شان ہو گی اُس ذاتِ والا کی جس کے دل پر ایسی عظیم القدر کتاب نازل ہوئی.اسی طرح فرماتا ہے کہ آپکو اللہ تعالیٰ نے مبعوث ہیں اسی لیے فرمایا تھا کہ آپ اپنے ساتھ ملنے والوں کو پاک کریں.چنانچہ فرماتا ہے وَيُزَكِّيهِمْ (اور یہ رسول اپنے مخاطبوں کو پاک کرے گا) اور آپ کے اہل بیت و آل مطہرہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم ان کی طرف برائی منسوب کرنے والوں کے الزامات سے اُن کو پاک ثابت کریں گے.اور ان کی پاکیزگی کو ظاہر کر دیں گے.اور وہ دو حدیثیں بخاری اور مسلم کی جوئیں نے بیان کی تھیں رجن میں سے ایک میں رسول کریم

Page 420

۴۰۸ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمُورِ دُنیا کم یعنی تم لوگ اپنے دنیوی امور کو بہتر سمجھ سکتے ہو.اور دوسری میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص مجھے چھو کہ دے کر اپنے حق میں فیصلہ کر والے تو اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا کر دوسرے کا حق لینا چاہے گا تو وہ آگ کھائے گا) وہ اس بات کے اظہار کے لیے بیان کی گئی تحقین کہ جو غیرمسلم مصنفین اس قسم کی حدیثوں سے آپ کی معصومیت کے خلاف استدلال کرتے ہیں وہ حق پر نہیں.ان احادیث میں آپ نے صرف اپنی بیشتر تیت کا اظہار کیا ہے ان سے آپ کی معصومیت کے خلاف استدلال کرنا درست نہیں اور جس شخص کے متعلق خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ مَارَهُيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِن الله ت می رجب تو نے پھینکا تو تو نے نہیں پھینکا بلکہ خود خدا ہی نے پھینکا) اس کا اپنی بشریت کا علی الاعلان اقرار اس کے درجہ کے بلند ہونے اور اس کے اخلاق کے بے عیب ہونے پر دلالت کرتا ہے کسی عجیب یا نقص پر دلالت نہیں کرتا ہے تمت (بحوالہ تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان در ستادم ناشر :- سندھ ساگرا کادمی - کراچی نمبر ۳ و پر نر سعید آرٹے پریس حیدر آباد) پر مسٹ نمبر ۳۳۳ اگست ۱۵۳ غیر از جماعت معززین کے شاندار تاثرات سید حضرت علی موجود کے اس بصیرت افروز مصلح بیان کا پبلک میں بہت چرچا ہوا.اور بہت غیر از جماعت معززین نے بھی اس پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا جس کا ذکر ہمیں اس دور کے خطوط سے ملتا ہے جو ان دنوں بعض مخلصین جماعت نے حضرت اقدس مصلح موعود کی خدمت میں میں لکھے.اور جو یہ ہیں :.ا.جناب چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ ایڈووکیٹ کرشن بھون ، لیاقت علی روڈ لالپور نے اپنے مکتوب مورخہ ۸ ار جنوری شیر میں لکھا:.میرے پیارے آقا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته حضور کا بیان چھپنے کے بعد آج ہی ہم لوگوں کو طے ہیں.ہر وکیل ہو ملتا ہے تعریف کرتا ہے.اه حال فیصل آباد

Page 421

بے حد تعریف اور اپنے اپنے رنگ میں کوئی اپنی خفت مٹانے کے لیے اپنے وکیلوں کو کوستا ہے اور اور کہتا ہے کہ پاکستان کا چوٹی کا وکیل ایسی جرح کے لیے چاہیے تھا.کوئی کہتا ہے کہ ایسا مولوی تلاش کرنا تھا جس کو دینی و دنیوی علوم پر عبور ہوتا.کوئی مظہر علی اظہر اور میکش کو کوستا ہے اور نالائق بیان کرتا ہے اور بعض یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ واقعی ایسا بیان ذہانت کا شاہکار ہے.میر قیوم نے کہا کہ خیال است ا سے کوئی متفق ہو یا نہ ہونگرہ بیان کو پڑھ کر یہ احساس شدید ہوتا ہے کہ بیان نہایت Straight ہے اور پوری دیانت و امانت سے اپنی رائے کا اظہار ہے.کوئی بات چھپائی نہیں.کہنے لگا مرزا صاحب کا عدات میں آنا پاکستان کے تمام علماء کو کھلا چیلنج تھا کہ آؤ مجھ پر جس طرح کا چاہو سوال کر لو.ان وادیوں میانه به دست شکست ہے کہ کچھ بھی اپنے مطلب کی بات پوچھ نہ سکے یا ایک نے کہا کہ یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ مرزا صاحب پاکستان میں واحد عالم ہیں.بیان میں تناقض قطعا نہیں ، ایک نے کہا میں تو حیران ہوں کہ مرزا صاحب نے ایک دو سوال میں ہی جرح کرنے والے کو" "Dirarm" کر دیا کہ ایک نے کہا واقعی سرنہ اصاحب نے کسی کو چلنے نہیں دیا ایک نے باک وکیل نے کہا کہ مرزا صاحب کے بیان سے تو اب بھی متفق نہیں مگر یہ تسلیم کر گیا ہوں کہ ایسا ذہین اور دیانتدار آدمی کوئی اور نہیں ایک نے کہا کہ دو میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ مرند اصاحب کے عقیدے اور ہی مگر جواب ایسے صحیح اندازہ میں دیئے ہیں کہ کسی کے پتے کچھ نہیں پڑا یا لوگ حیران ہیں کہ اس قدر اختصار، اس قدر مختصر جواب ، اور ایسے مشکل اور حیران کن مسائل کے متعلق.ایک کہنے لگا کہ یہ بیان تو مذہبی Terminalogy کی ڈکشنری ہے کہ انگریزوں کی تعریف کے متعلق سوال کا جواب تو بے حد سراہا جاتا ہے نہ کہتے ہیں، لو بھائی یہاں سے بھی پہنچ گئے یہ اس سوال کو توپ کا درجہ دیتے تھے.باقی جنازہ.نماز کے متعلق سوالوں کے جواب دپیسا کچھ تنقیح نہیں کرتے.ہر جواب کو لاجواب سمجھتے ہیں اور ملاؤں کو گالیاں دیتے ہیں کہ اگر کچھ قرآن، حدیث اور کتب میں ان عقائدہ کے خلاف تھا تو کیوں نہ اس وقت مرزا صاحب کے پیش کیا.بڑی مجلس میں ہوئی تھی.ایک وکیل نے کہا یہ بات کہتی یہ ہے کہ مرزائیوں کے عقائد بڑے Riltanal ہیں.انہوں نے مذہب کو Ratialise اه صاف صاف اور دیانتدارانہ : سلہ غیر مسلح نہ سکے اصطلاحا کے عقل سے ہم اسنک

Page 422

کر دیا ہے اب ہم وہاں کیا پیش کرتے کہ عیسی آسمان سے زندہ اترنا ہے.اس سائنس کے زمانہ میں کون مانے گا ؟ گلے اپنے مولویوں اور وکیلوں پر درست نہیں.مرزائیوں کے عقائد عقل اور دلیل پر ملیتی ہیں ؟ ایک مہنس کر کہنے لگا " مجھے تو ڈر ہے کہ منیر بھی مرزائی نہ ہو جائے ؟ حضور میں نے یہ اس لیے لکھا کہ بیان کا اخبارات میں آنے سے قبل بے حد Suspense تھی.لوگ سبھی اخبار کو چھینتے تھے کہ آج بیان آیا ہوگا ، انگریزی کی اخبارات گاؤں گاؤں میں گئی ہیں منصورہ کا بیان پڑھنے کے لیے.اور لوگ ہم کو اپنے خیال کے مطابق ڈراتے تھے.اب پتہ چلے گا.اب پول کھلیں گے.اب حقیقت واضح ہوگی.اللہ نے ہماری مدد کی اور فتح مبین دی.کس قدر خوش قسمت ہیں کہ اپنی آنکھوں سے معجزہ پر معجزہ دیکھ رہے ہیں کسی قدیر روح پرور اور ایمان افرو نہ یہ زمانہ ہے.اپنے میں تو کوئی ایسی خوبی نہیں.بزرگوں کی نیکی اور ایمان کی وجہ سے یہ دولت ہم کولی.خدا اس کی قدر و قیمت اور اہمیت کا صحیح احساس پیدا کرے اور ہمارا عمل درست ہوئیا - جناب پیر بوردی محمد شریعت صاحب وکیل متشکریمی امیر جماعت احمدیہ مشکگری نے اپنے مورخہ ۱۹؎ جنوری انوالہ میں لکھا :- تحقیقاتی کمیشن کے رو بہ و حضور کے بیان کی تو رو میداد اخبارات میں چھپی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا ہے کہ حضور کی شہادت ایسے رنگ میں ہوئی کہ مخالفین کے تمام اعتراضات خود بخو وصاف ہو گئے ہیں.مجلس عمل والوں نے ہی حضورہ کو شہادت کے لیے بلوایا تھا اور ان کی اور مو دو دیوں کی تمام کی تمام تدابیر خاک میں مل گئیں.انہوں نے جو اعتراضات کی تو ہیں گاڑہ ہی ہوئی متقیں سب ساکت ہو گئیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان اور اُس کا نشان ہے : ۳- جناب گیانی عباداللہ صاحت سے ۲۱ جنوری ۹۵۳اہ کو لکھا: - خاکساره دو چار دن سے لاہور آیا ہوا ہے.یہاں مجھے مختلف خیالات کے متعدد لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے.آجکل یہاں پر جہاں بھی دو چارہ پڑھے لکھے لوگ جمع ہوں.حضور کے بیان کا تذکرہ کے انتظار کی پریشانی سے حال ساہیوال : سے سکھ مذہب کے محقق سابق مینجر روزنامه الفضل ربوہ - گیانی صاحب موصوف ان دنوں مکان نمبر ۲۵۳ نیز و اڈہ قلعہ میہاں سنگھ گوجرانوالہ میں بطور مبلغ مقیم تھے.

Page 423

ہوتا ہے جن دنوں وہ بیان اخباروں میں چھپے ہیں اخبار ہاتھوں ہاتھہ کہتے رہے.بلکہ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگوں نے تو اخبارہ نہ یادہ قیمت پر بھی خریدے ہیں.پڑھا لکھا طبقہ جن میں بعض کمیونسٹ بھی شامل ہیں یہ کہ رہا ہے کہ اگر تو اسلام کی یہی تعلیم ہے و حضور نے بیان کی ہے تو پھر یہ اسلام ایسا ہے جو مستقبل میں قابل قبول ہوگا.مولوی کا اسلام تو بہت گھناؤنا ہے.اس کے لیے کوئی جگہ نہیں.مجھے جن مسائل سے متعلق لوگوں سے گفتگو کرنے کا موقعہ ملا ہے اُن میں سے ایک تو کفر و اسلام ہے پڑھے لکھے لوگوں کو کفر و اسلام کی حضور کی یہ تشریح کہ یہ نسبتی چیزیں ہیں بہت پسند آئی ہے.الغرض جہاں تک حضورہ کے بیان کا پڑھے لکھے لوگوں پر اثر ہے وہ بہت ہی شاندار ہے.اور اکثر لوگ حضور کے بیان کردہ مسائل پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں.“ ۴ - جناب شیخ محمد احمد صاحب منظر امیر جماعت احمدیہ ضلع لائل پور نے اپنے مکتوب مورخہ 19 جنوری ۱۹۵ء میں حضرت مصلح الموعود کی خدمت اقدس میں لکھا: - حضور کے بیان کا اثر تعلیم یافتہ طبقہ پر بہت گہرا ہوا ہے.اتنا گہرا کہ اندازہ بھی مشکل سے ہو سکتا ہے.ایک سب نجح جو بیان کے وقت عدالت میں موجود تھا.اس کا قول ہے کہ اگر ایمان مضبوط نہ ہو تو آمدی ہونے کو اس وقت جی چاہتا تھا.اس بیان سے بہت سی غلط فہمیاں احرار کی پھیلائی ہوئی دور ہو چکی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی مصلحت تھی کہ حضور کو بیان کے لیے طلب کیا گیا.بہت سے پیچیدہ مسائل کے حل ہونے کا لوگ اعتراف کرتے ہیں.غرضیکہ تائید الہی اور نصرت بالرعب کا سماں ہے و الحمد للہ علی ذالک.اپنی اخلاقی اور قانونی شکست کا بھی لوگ ذکر کرتے ہیں.محترم شیخ صاحب نے اس کے بعد اپنے مکتوب مورخه ۲۸ جنوری ۱۹۵۴ء میں مزید لکھا :- " عاجز نے پہلے جو تو پیغہ حضور کے بیان کے متعلق عام لوگوں کے تاثرات کے بارہ میں لکھا تھا وہ لائلپور سے متعلق تھا نہ کہ صرف لاہور کے بارے میں.- A ا یہ واقعہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں نے مجھ سے از خود کئی بار ذکر کیا ہے.یہاں بھی اور مقاماتے ہیں بھی.کہ حضور کا بیان واضح صاف صاف.اور صداقت پر مبنی ہے.اور ہر لفظ کے حال فیصل آبادنیا کے انگر اصل خلا میں مقامات لکھا ہے جو سم تعلم ہی ہو سکتا ہے.

Page 424

قانون کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے جبکہ مولویوں کی بے مائیگی اور جہالت ظاہر ہوچکی ہے.(1) کل ہی کا واقعہ ہے کہ ایک وکیل نے جو مولویوں کے خاندان سے ہے اور دینی واقفیت رکھنے والا ہے.خود بخود مجھے کہا.کہ اس بیان کے بعد پڑھے لکھے لوگوں کو تو ضرور احمد ی ہو جانا چاہیے.مولویوں کے پاس خرافات کے سوا کچھ نہیں.یہ اظہار رائے اس نے از خود کیا.اسی طرح اور بہت سے لوگوں سے ذکر آیا.(۳) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معصومیت کے بارے میں حضور کے بیان سے کلی طبع لوگوں رنے) غلط فہمی پھیلانی چاہی تھی.لا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيْنا - کے مطابق.لیکن معاً بعد درخواست جو دی گئی ہے.اس کا بہت عمدہ اثر نکلا ہے.(م) بعض لوگوں کا یہ بھی خیال پا یا گیا کہ یہ کل ایک دفعہ پھر شور مچائیں گے.ابھی دبے ہوئے اور مجبور ہیں.واللہ اعلم.(۵) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتاب ختم نبوت کی حقیقت بھی بہت اچھا اثر پیدا کرہی ہے.یہاں پر ہم نے./ ۱۵۰ روپے کی کتب تقسیم کی تھیں.4) ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی چھوٹی کتب عمدہ طور پر طبع کردا کے مفت یا برائے نام اس وقت پھیلائی جاویں.کاغذ کی گرانی ایک مانفع اس وقت ہے.یہ ضرور ہے کہ لوگ مسائل کی ٹوہ میں لگے ہوئے ہیں.بعض لوگ کتا ہیں دیکھنا چاہتے ہیں.ایک بڑے زمیندار نے مجھ سے کہا کہ ہمیں کتا ہیں رد - ایسا نہو کہ ہم غفلت میں اپنی عاقبت خراب کہ بیٹھیں." جناب عبد الجلیل صاحب عشرت دبر اور مولانا عبدالمجید صاحب سالک سابق ایڈیٹر روزنامہ انقلاب - لاہور) نے مورخہ ۲۶ جنوری ۱۹۵۳ء کو ڈھاکہ سے حضورہ کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا:.د حضور نے جو بیان تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دیا ہے.اس کو یہاں کے اخبار Morning" News نے شائع کیا ہے.حالانکہ اس اخبار نے پہلے کوئی بیان ہو کمیٹی کے سامنے دیا گیا تھا.شائع نہیں کیا یہ ماشاء اللہ حضور کا بیان نہایت ایمان افزا - جرأت مندانہ.عالمانہ ہے اور الہی تامید سے یہ لفظ اصل مکتوب میں نہیں ہیں.بغرض وضاحت اضافہ کیسے گئے ہیں دنا قل)

Page 425

۱۳ اپنے ساتھ رکھتا ہے.مر می چو ہدری صاحب کا بیان بھی اس اخبار نے شائع کیا ہے.وہ بھی بہت عمدہ ہے اللہ تعالیٰ اس تحقیقات کے نتائج جماعت احمدیہ کے لیے بے شمار برکات وحسنات کا موجب بنائے آمین.جناب مسعود احمد خان صاحب دہلوی اسسٹنٹ ایڈیٹر روز نامہ المصلح کراچی نے مورخہ ۱۸ مارچ ۱۹۵۷ ی کو درج ذیل مکتوب حضور کی خدمت اقدس میں لکھا جس میں کراچی کے حلقوں میں عدالتی بیان کی نسبت ہو تاثرات ابھر رہے تھے اُن کا تذکرہ کیا :- ا آج کل یہاں حضور کے عدالتی بیان کا بہت چرچاہے خصوصاً اُردو کے اخبارات صبح ہی صبح سب فروخت ہو جاتے ہیں اور دوپہر کے بعد کسی قیمت پر بھی نہیں ملتے.ان دنوں یہاں لاہور کے ار و د روز نامہ ملت کی مانگ بہت بڑھ گئی ہے.صبح نو بجے کے قریب یہ یہاں پہنچتا ہے اور پہنچتے ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتا ہے.لوگوں کا خیال یہ ہے کہ "ملت" میں جو بیان چھپ رھا ہے وہ زیادہ صحیح اور مستند ہے.کل جب ایک یک مثال پر محنت کا پرچہ مانگا گی تو دکاندار نے بتایا کہ پہ چپہ آتے ہی پک جاتا ہے بعد میں لوگ ایک ایک روپیہ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں پھر بھی انہیں پر چہ نہیں ملتا..میں دفتر میں سے وقت نکال کہ کل اور آج اخبار نویسوں سے ملنے پر لیس روم گیا تھا.اخبار نویوں میں یہاں عام خیال یہی ہے کہ بیان بہت سوچ سمجھ کر دیا گیا ہے اور مذہبی عقائد کے لحاظ سے بہت national ہے.میں نے جن اخبار نویسوں سے بات کی انہوں نے کہا کہ عدالت یں پیش کہ وہ تحریری بیانوں کی وجہ سے غلط یا صحیح عام طور پر یہ تاثر پھیل گیا تھا کہ گویا حالات سے ڈر کرہ احمدیوں نے عقائد میں تبدیلی کرلی ہے لیکن عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے بانی بیان کے بعد یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیئے کہ عقائد میں تبدیلی کی گئی ہے.زبانی بیان سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ تحریرات کو تو غلط معنی پہنائے جاتے تھے اُن کی تردید کر کے انہیں درست رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی یہ نے بعد ازاں مدیہ روزنامه الفضل" ربوه : سه معقول

Page 426

سید نا حضرت مصلح موعود نے عدالتی کارروائی کے دوران عدالتی کارروائی کے دوران پانچ بار لاہور کا سفر اختیار فرمایا جس میں سے ایک سفر تو با مصلح موعود کے سفر با گا ہو وہ تھا جو حضور نے اپنے عدالتی بیان کے لیے کیا.اور جو ۲ تا ، ار جنوری 20 میں ہوا.دیگر سفر مندرجہ ذیل ایام میں تھے :.۲۰۱ نومبر تا ۲۶ نومبر ۱۹۵۳ ۲ ۲۹ جنوری تا ۴ فروری ۹۵ اید ۳ - ۱۵ر فروندی تا ۲۳ / فروری ۱۹۵۳ء ۲۶ فروری تا یکم مارچ ۱۹۵۷ یون یہ جملہ سفر حضور نے محض اس لیے اختیار فرمائے کہ وکلائے احمد نیت اور علمائے سلسلہ کو ضروری ہدایات سے نوازیں اور سر مزوری مرحلے پر براہ راست راہنمائی اور نگرانی فرماتے رہیں.جس سے حضور کی کارروائی سے متعلق ذاتی دلچسپی ظاہر ہے سه ر پورٹ سالانہ صدر تین احمدیہ پاکستان ربوده بابت سال ۵۴ - ۱۹۵۳ ء مث i ! I i i

Page 427

چوتھا باب تحقیقاتی عدالت میں صدر انجن احمدیہ کیطرف سے داخل کردہ تبصرے تحقیقاتی عدالت میں صدر انجمن احمد یہ ربوہ کی طرف سے مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی کے تحریر می بیان پر تبصرہ ہے کہ تحقیقاتی عدالت کے دینی اسوالات کے جوابات اور مولانا مورروی صاحب کے جوابات پر تبصرہ ، نیز مجلس احرار کے تحریری بیان پر تبصرہ بھی شامل ریکارڈ کیا گیا یہ یہ سہرستہ تبصرے مولانا جلال الدین صاحب شمس نے تحریہ فرمانے تھے جن کو بعد میں الشركة الاسلامیہ لمٹیڈ ربوہ نے شائع کردیا مولانا ابوالاعلی مودودی کے بیان پر تبصرہ ایسا شاندار اور مدل و مسکت تھا کہ غیر احمدی حلقوں میں بھی اس کو بہت پسند کیا گیا.یہیں کے ثبوت میں بطور نمونہ ایک خط درج ذیل کیا جاتا ہے جو سید محمد احمد صاحب جیلانی نے حضرت مصلح موعور کی خدمت میں لاہور سے ۱۲۴ اکتوبر ۱۹۵۳ء کو لکھا تھا.مکرمی و مهتر می جناب میاں صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ بعد ادائے آداب کے عرض ہے کہ ویسے تو میں بہت عرصہ سے آپ کی جماعت سے واقف ہوں لیکن عملی کوئی وابستگی نہیں ہے گو میرا خیال ہمیشہ آپ کی جماعت کے لوگوں کے متعلق اچھا ہی رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان کو اچھا ہی پایا ہے لیکن یہ رازہ مری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہے اور نہ ہی میں نے پورے طور سے سمجھنے کی کوشش کی ایک سرسری خیال میں تھا کہ یہ لوگ اچھے ہیں.پچھلے فسادات میں جو کچھ پنجاب میں ہوا اس سے میں خوب واقف ہوں اور غالباً پنجاب کے ہر طبقہ ل به تبصرہ پہلے روزنامه المصلح کراچی را دسمبر ۱۹۵۳ء ۲ فتح ۱۳۳۲اہش کی ایک خاص اشاعت میں چھپا ه و به رپورٹ سالانہ صدر انجین احمدیہ پاکستان سراوه بابت سال ۵۴ - ۱۹۵۳ صفحه ۳۳

Page 428

کو اس کا علم ہے جو کچھ بھی ہوا اس کے متعلق ذکر کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کا کچھ مان ہے اور اس راز کا افشار ہونا بھی ضروری تھا جو اس رنگ میں ہوا.اس کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ ہر طبقہ کے ذی علم اور فرمی عقل مع علمائے کرام دنیا کے سامنے اپنی اپنی قابلیت کے ساتھ نمایاں ہونے لگے اور بعض تو اس منہ تک نمایاں ہوئے کہ ان کا اندرونی بھانڈا پھوٹ گیا.میں تحقیقاتی کمیشن کی تمام سہ پورٹوں کا بغور مطالعہ کر رہا ہوں اور اس کے ایک ایک لفظ کو دن پڑھتا ہوں ایک خاص قسم کی ویسی سی پیدا ہو گئی ہے.روزانہ کچھ نہ کچھ پڑھ کر دوسرے دن کے لیے مچھر بے تاب ہو جاتا ہوں اس دوران میں مجھ پر ہر ایک کی پوزیشن اپنی عقل کے بموجب واضح ہو گئی اور میں نے تعصب کو بالائے طاق رکھ کر یہ ضرور سمجھ لیا ہے کہ حق پر کون ہے.یہ میرے لیے ایک عجوبہ بات ہوئی ہے اگر تحقیقاتی کمیشن نہ ہوتا تو شاید میری معلومات میں اتنا اضافہ نہ ہوتا اور نہ ہی میں بہت سی باتوں کو سمجھ سکتا تھا.میں نے مولانا مووروی صاحب کا بیان اخباروں میں پڑھا جو کہ انہوں نے عدالت میں داخل کیا ہے اور اس کے پڑھنے کے بعد میں نے خصوص کیا کہ میں اس سے متائثر ہوا ہوں لیکن کچھ دن کے وقفہ کے بعد اخبار ملت میں میری نظر سے وہ تبصرہ بھی گزرا جو کہ احمدیہ جماعت کی طرف سے عدالت میں داخل ہوا ہے.ابھی اس سلسلہ کی قسطیں باقی ہیں.مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ مولانا مودودی صاحب نے جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ اس کے سامنے ماند ہے اور اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا ہے میں نے جو تبصرہ پڑھا ہے اس میں دلائل اور براہین سے باتیں کی گئی ہیں نہ کہ یوں ہی.اس تبصرے کے پڑھنے کے بعد میرے مطالعہ میں بے انتہاء اضافہ ہوا.بہت سے شکوک رفع ہوئے اور اب میں کم از کم اس مقام پر نہ رہا.جس پر میں تحقیقات سے پہلے تھا.اس کے علاوہ میں نے آپ کے عقیدہ کے متعلق سوالات کے جوابات بھی غور سے پڑھتے ہیں جن سے مرے بہت سے شکوک رفع ہوئے ہیں.میں یہ سمجھتا ہوں اور انصاف کا بھی یہ ہی تقاضا ہے کہ میں طرح سے اسلامی جماعت کے لوگ مولانا مودودی صاحب کے بیان کو پمفلٹ کی شکل میں تقسیم کر رہے ہیں اس طرح مری خواہش بھی یہ ہے کہ آپ کی جماعت کی طرف سے اس تبصرے کو پمفلٹ کی شکل میں تقسیم کیا جا رے.میرا اس لکھنے کا منشاء صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگ راستی اور امن کی طرف آجائیں اور ان کو کم از کم

Page 429

یہ پتہ چل جائے کہ میں جماعت کے خلاف یہ مہنگامہ برپا ہوا تھا وہ کم از کم آئن اور صلح پسند ہے اور اس کے عقائد کم از کم کم از کم اتنے اشتعال انگیزی سے بھرے ہوئے نہیں ہیں جتنان کو سمجھا جارہا ہے مجھے امید ہے کہ آپ ضرور اس سلسلہ میں بہتر سے بہتر جدوجہد فرمائیں گے اور میں طرح مرا دل و دماغ صاف ہو گیا.میں سمجھتا ہوں جو لوگ کہ فطرت صحیحہ کے مالک ہیں وہ بھی حقیقت سے آشنا ہو جائیں گے.میں ایک غیر احمدی ہونے کی حیثیت سے آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں اور آپ کے عقیدے کے مطابق میں آپ سے دعا کے لیے جرات کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر آپ کی جماعت کا قدیم سچائی پر ہے تو وہ مجھ پر بھی آشکار کر دے.فقط.والسلام.طالب دعا (سید محمد احمد جیلانی.سابقہ انسپکٹر سنٹرل ایکسائز و لینڈ کسٹم مکان نمبرہ گلی نمبرا ہر و پارک سنت نگر.لاہور ) کتاب در تحقیقاتی عدالت کے دس سوالوں کا جواب اور مولانا مودودی کے جوابات پر تبصرہ کے مندرجات کا اندازہ کرنے کے لیے بطور نمونہ پسند عنوانات ملاحظہ ہوں :- ظہور میں مندی کا ذکر قرآن اور حدیث میں ظہور مہدی کے متعلق احادیث ، وفات مسیح توفی کے معنے ، اجماع کی حقیقت ، مسئلہ بیرون ، قائد امت کون ہوگا ؟ د قبال کے خانہ کعبہ کے طوات سے مراد، مسیح موعود کے نبی ہونے کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبيين ما نا کیوں ضروری ہے ؟ تفسیر خَاتَمُ النَّبِيِّينَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ اور احا دیث، قرآن مجید کی اردو سے ڈائر یکٹ ایکشن نا جائز ہے ، احادیث کی روتے بھی ڈائریکٹ، ایکیشن جائزہ نہیں ؛ ان سطور سے واضح ہے کہ تحقیقاتی عدالت کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں کتنا شاندار اضافہ ہوا.حق یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے متعدد کتابیں اور رسائل منادات پنجاب کے زمانہ تک اشاعت پذیر ہو چکے تھے مگر تحقیقاتی عدالت کی کارروائی کے نتیجہ میں چند ماہ کے اندر اندر جس قدر غیر معمولی محنت اور تحقیق و تخص کے ساتھ بنیادی اور اہم مضامین پرمشتمل مبسوط لتر بر مرتب اور شائع کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے.

Page 430

MA تغیر قرآن و دریاچه قرآن (انگریزی) | حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر صاحب نے اور فتح احمد ۱۳۳۲ ش ۲۱ ر د سمبر ۱۹۵۳ء کو سیدنا حضرت کاف منل جج صاحبان کو تحفہ مصلح موعود کی خدمت بابرکت میں حسب ذین مکتوب لکھا :.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم سید نا را السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ شیخ بشیر احمد صاحب کی تجویز ہے کہ جماعت کی خدمات دینی کا اثر پیدا کرنے کے لیے تفسیر قرآن مجید انگریزی کی دو جلدیں اور دیباچہ قرآن مجید انگریزی مطبوعہ امریکہ کے دو نسخے ج صاحبان کو تحفہ پیش کر دیئے جائیں اور ترجمہ قرآن مجید بزبان سواحیلی اور ترجمہ بزبان ڈرچ دکھا دیا جائے.سو حضور اس کی اجازت فرما دیں.نیز ڈچ ترجمہ جو حضور کے پاس ہے وہ چند دن کے لیے عنایت فرماویں.خاکسار مرزا بشیر احمد ۱۲/۱۲/۵۳ سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنے قلم مبارک سے یہ الفاظ لکھے ے مناسب ہو گا، مرے دل میں خود بھی یہ خیال آیا تھا " چنا نچہ حضرت امام مہمام کی اجازت سے جماعت احمدیہ کی طرف سے تفسیر قرآن اور دیباچہ قرآن (انگریزی) کاردرمانی تحفہ فاضل جج صاحبان کو پیش کر دیا گیا اور سواحیلی اور ڈچ تراجم قرآن دکھا دیئے گئے.جناب مولوی عبد الرحیم صاحب اشرف مدير المنبر نے اس اہم واقعہ کا ذکر نہایت اثر انگیز الفاظ میں کیا ہے لکھتے ہیں :.پہلا ضابطہ قیام وارتقاء یہ ہے وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ نَيْمَكُتُ فِي الْأَرْضِ ہر وہ چیز جو انسانیت کے لیے نفع رساں ہوا سے زمین پہ قیام وبقاء عطاء ہوتا ہے..

Page 431

۴۱۹ قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جو سر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدوجہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں.یہ لوگ قرآن مجید کو غیرملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں : تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں.سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں.ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہور اسلام کو امن اور سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں.غیر مسلم ممالک میں قرآنی تراجم اور اسلامی تبلیغ کا کام صرف اسی اصول " نفع رسائی کی وجہ - قادیانیت کے بقا اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے.ظاہری حیثیت سے بھی اس کی وجہ - قاد یا نبیوں کی ساکھ قائم ہے.ایک عبرت انگیز واقعہ خود ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوا ا میں جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ میں علم اور اسلامی مسائل سے دل بہلا رہے تھے اور تمام مسلم جماعتیں قادیانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھیں قادیانی میں انہی دنوں ڈچ اور بعض دوسری غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ قرآن کو مکمل کر چکے تھے اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام محمد اور جسٹس منیر کی خدمت میں یہ تراجم پیش کئے گو بادہ بزبان حال و قال یہ کہہ رہے تھے کہ ہم ہیں وہ غیر مسلم اور خارج از ملت اسلامیہ جماعت جو اس وقت جبگ بیلی آپ لوگ کافرہ قرار دینے کے لیے پر تول رہے ہیں ، ہم غیر مسلموں کے سامنے قرآن اُن کی مادری زبان میں پیش کر رہے ہیں کاسٹ تحقیقاتی عدالت میں حضرت جویری حضرت چو باری مظفر اللہ خان صاحب کا اہم بیان عمر ظفراللہ خان صاحب کا بیان ۱۹ جنوری ۹۵ کر ہوا جس سے ملک میں جماعت احمدیہ اور آپ کی ذات کی نسبت پھیلائی ہوئی متعدد غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا.اور نہایت برجستہ اپر حکمت اور قانونی زبان میں پہلی بار عدالت اور عوام سفت روزة الزنا اور فصل با هر مارچ ۱۹۵۷ صفحه ۱ کالم ۱-۲ گورنر جنرل پاکستان کی خدمت میں ولندیزی ترجمہ کا ایک منفہ جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے ، ۱۲ جنوری ۱۹۵۴ء کو پیش کیا تھا وفد کی قیادت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے کی دالمصلح کراچی ۱۳۰ جنوری ۱۹۵۴ ء صلا)

Page 432

۴۲۰ کے سامنے بعض بنیادی ملکی اور دینی مسائل صحیح صورت میں سامنے آئے.ذیل میں حضرت چوہدری صاحب کے اس فاضلانہ بیان کے ضروری حصے اخبار" ملت" سے درج کیے جاتے ہیں :.لاہور - ۱۹ جنوری پاکستان کے وزیر خارجہ چو ہدری ظفراللہ خاں نے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عادات میں کہا ہے کہ قادیانیوں کے خلاف پوری تحریک کے دوران میں میں نے اس وقت کے وزیراعظم سے یہ بات مکمل طور پر واضح کر دی تھی کہ میں ایک لمحہ کا نوٹس ملنے پر بھی استعفے دینے کے لیے تیار ہوں.مجلس احرار کی جانب سے جرح کے دوران میں چو ہدری ظفر اللہ خاں نے کہا کہ میں نے یہ پیشکش اس لیے کی تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین اگر یہ سمجھیں کہ میں ایک بوجھ ہوں یا کسی اور وجہ سے مجھے مستعفی ہو جانا اور حکومت کو چھوڑ دینا چاہیے تو میں ایک لمحے کے نوٹس پر بھی علیحدہ ہونے کے لیے تیار تھا.چوہدری ظفر اللہ خان کو جماعت اسلامی نے گواہی کے لیے نامزد کیا تھا انہوں نے کہا کہ متعدد لوگوں نے تحریک کے زمانے میں مجھے یہ رائے دی تھی کہ مجھے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیئے.انہوں نے کہا کہ مجھے ملک کے باہر سے یہ تجویہ نہیں موصول ہوئی مفتی کہ ہمیں چلا آئیں...چودھری محمد ظفر اللہ خاں سے سب سے پہلے جماعت اسلامی کی جانب سے چودھری نذیر احمد خان نے سوالات کیے.انہوں نے سوال کیا کہ وہ پاکستانی کا بینہ کے علم میں یہ سوال لائے ہیں کہ پاکستان میں ان کے فرقے سے کسی طرح کا سلوک کیا جارہا ہے اور اس سوال کا جواب اگر اثبات میں ہے تو یہ بتلا ہے کہ آپ یہ بات کا بینہ کے علم میں کب لائے تھے چودھری ظفر اللہ خان نے جواب دیا کہ جس وقت تحریک جاری تھی ممکن ہے میں نے اس سوال کے بعض پہلوؤں کا کابینہ میں ذکر کیا ہو.لیکن میں نے کابینہ سے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ اس پر ایک معینہ معاملہ کی حیثیت سے بحث کر ہے.سوال :.کیا آپ کا بلینہ کے کسی اجلاس میں مرحوم لیاقت علی خاں کے علم میں یہ بات لائے تھے کہ آپ کے فرقے سے جس طرح کا سلوک کیا جارہا ہے اس کے خلافت آپ کو بعض شکائتیں ہیں.؟ جواب :.مجھے کوئی بات قطعی طور پر یاد نہیں ہے.

Page 433

سوال :.خواجہ ناظم الدین نے کہا ہے کہ ایسا مرحوم قائد ملت کے زمانے میں ہوا تھا کہ آپ کا بینہ کے علم میں یہ بات لائے تھے کہ تین احمدیوں کو قتل کر دیا گیا ہے کیا یہ درست ہے؟ جواب:.مجھے یاد ہے کہ کسی معاملے کے سلسلے میں میں نے اس معاملہ کا ذکر موجودہ گور نہ جنرل سے کیا تھا جو اس زمانے میں وزیر مالیات تھے.میرا خیال ہے کہ اس وقت ہم ملک سے باہر تھے.اپنی واپسی پر انہوں نے اس معاملہ کا ذکر اس وقت کے وزیر اعظم سے کیا تھا اور مکن ہے کہ اس کے پیش نظر کوئی تحقیقات کی گئی ہو.سوال:.کیا آپ کے علم میں پاکستانی کا بلینہ نے ، یا د راگست ۱۹۵۲ ء کو یا اس کے لگ بھگ تحریک پر بحث کی مفتی ؟ جواب:.میں اگر کراچی میں ہوتا اور مجھے کابینہ کے اجلاس کی اطلاع نہ دی جاتی تو کا بینہ کا کو ئی با قاعدہ اجلاس نہیں ہو سکتا تھا لیکن میرا خیال ہے کہ بعض مواقع پر خواجہ ناظم الدین نے اپنے بہین رفقاء کو تحریک کے سلسلہ میں مشورے کے لیے بلایا تھا.ان مواقع پر مجھے نہیں بلایا گیا...سوائل :- جہانگیر پارک میں یہ تقریر کرنے سے پہلے کیا آپ نے خواجہ ناظم الدین سے کوئی گفتگو کی محتی ؟ جواب : - خواجہ صاحب نے مجھ سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ متعدد لوگوں نے اس جلسے میں میری شرکت پر اعتراض کیا تھا.سوال :.کیا انہوں نے آپ کی متوقع تقریر کے متعلق کچھ کہا تھا ؟ جواب:.انہوں نے تجویز کیا تھا کہ میں اگر جسے رہیں) تقر یہ نہ کہوں تو بہتر ہوگا.سوال :.آپ نے کیا کہا ؟ جواب:.میں نے کہا کہ اب میرا تقریہ نہ کہ نامیرے لیے اُلجھن کا باعث ہوگا کیونکہ مقر کی حیثیت سے میرے نام کا پہلے ہی اعلان کیا جا چکا ہے لیکن میں اگر اس پوزیشن میں نہ ہوتا تو ضرور ان کی تجویز منظور کر لیتا اور وہاں نہ جاتا.عدالت کے ایک سوال پر گواہ نے کہا کہ وہ ایک جلسہ عام تھا.مسٹر نذیر احمد کے سوالات دربارہ شروع ہونے پر انہوں نے کہا کہ یہ پہلا جلسہ عام نہیں تھا جو ان کے فرقے نے کیا تھا.ربوہ اور دوسرے مقامات پر متعد د عام جلسے ہوئے تھے.

Page 434

سوال:- خواجہ ناظم الدین نے عدالت میں اپنی گواہی میں حسب ذیل الفاظ کہے ہے مجھے قطعی طور پر یاد ہے کہ ان سے ایک تبادلۂ خیال کے دوران میں چو ہدری ظفراللہ خان نے مجھ سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ان کے عقیدے کے مطابق میں کافر ہوں لیکن سیاسی معاشرتی اور دوسرے مقاصد کے پیش نظر وہ مجھے مسلمان سمجھ سکتے ہیں یا کیا آپ نے یہ کہا تھا ؟ جواب :.عقید سے سے متعلق پوزیشن کی تشریح سے ممکن ہے انہوں نے بہ نتیجہ اخذ کیا ہو.عدالت نے گواہ سے کہا کہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جیکب آباد کی ایک مسجد کے خطیب مولوی محو اسحق سے اگست ماہ میں ایک گفتگو کے دوران میں انہوں (گواہ) نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں (گواہ کو ایک کافر حکومت کا ایک مسلمان طازم یا ایک مسلمان حکومت کا ایک کا فر ملازم سمجھا جا سکتا ہے.یه دریافت کرنے پر کہ یہ بیان کیا درست ہے ؟ چو ہدری ظفر اللہ خاں نے کہا کہ مجھے اس پر بہت زیادہ شک ہے سوال: - کیا خواجہ نذیر احمد نے آپ سے مارچ 1923 میں ملاقات کی مفتی یا جواب :.ممکن ہے انہوں نے ملاقات کی ہو.سوال : کیا تینوں مطالبات کے متعلق فرقے کے امیر کی پوزیشن کی تشریح کے سلسلہ میں آپ د دنوں میں گفتگو ہوئی تھی ؟ جواب:.انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ بعض تشریحات کے متعلق فرقے کے امیر سے ملاقات کی معنی یا ان کا ملاقات کرنے کا ارادہ تھا.گوراہ نے کہا کہ انہوں نے بعض تشریحات تجویز کی تھیں اور میری رائے دریافت کی تھی.میں نے ان سے کہا کہ میں اپنی رائے ظاہر نہیں کر سکتا اس لیے انہیں اس معاملہ پر فرقے کے امیر سے گفتگو کرنی چاہیے.سوال :- فرقے کے سلسلے میں آپ کی پوزیشن کیا ہے ؟ خواجہ نذیر احمد آپ سے ملنے کیوں گئے تھے ؟ جواب:.میں ایک معمولی رکن ہوں اور فرقے میں میری کوئی خاص پوزیشن نہیں ہے.مجھے معلوم

Page 435

۳۳ نہیں کہ خواجہ نذیر احمد اس معامہ میں مجھ سے مشورہ کرنے کیوں آئے تھے.؟ سوال : کیا انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ امیر جماعت اگر عام مسلمانوں کو آئندہ کا فرنہ کہیں تو مکن ہے مزید تبادلۂ خیال کے لیے بنیا د پیدا ہو جائے.جواب :.مجھے یہ یاد ہے کہ انہوں نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ وہ اور ان کے ایک رفیق پہلے ہی ربوہ جاچکے تھے اور امیر جماعت سے ملاقات کر چکے تھے اور انہوں نے اس موضوع پر ایک بیان جاری کر دیا تھا.میرا خیال ہے کہ انہوں نے مجھ سے یہ تجویز پیش نہیں کی تھیں.انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ امیر جماعت نے جو بیان جاری کیا تھا اس سے اس پہلو کے متعلق پوزیشن واضح ہوگئی تھی.سوال یہ کہا گیا ہے کہ لاہور جلد اور بار بار آکر اور اپنے فرقہ کو اس کے رویہ کے متعلق مشورہ دے کہ آپ نے اس تحقیقات سے متعلق معاملات میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا ہے.کیا یہ درست ہے؟ جواب.ایک تحقیقات کے زیادہ تر یھتے ہیں ملک کے باہر رہا ہوں.ملک سے باہر جانے سے قبل میر سے لاہور آنے کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ تحقیقاتی عدالت کے متعلق فرقے کو کیا رویہ اختیار کرنا اور کیا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیئے نہ اس کا مقصد اپنے فرقے کے اراکین کو - مشورہ دینا تھا.سوال: - کیا مذہبی امور میں آپ کو عام طور پر اپنے فرقے کے امیر سے اتفاق ہے ؟ جواب :.جی ہاں.ان امور پر جن کا سختی کے ساتھ عقیدے سے تعلق ہے.سوال :.امیر جماعت کی کیا پوزیشن ہے جواب:.عقائد کے متعلق وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ فرقے کے لیے قانون کی حیثیت رکھتا ہے.سوال :.کیا یہ حقیقت ہے کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی ؟ بجواب :.میں اصل نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوا لیکن میں جنازے کے جلوس کے ساتھ تھا.یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ نماز جنازہ مرحوم مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی جن کے خیال کے مطابق میں کا فرا در مرتد تھا.اور مجھے سزائے موت دے دینی چاہیئے تھی.سوال :.اس زمین کو حاصل کرنے کے لیے جس پر ربوہ واقع ہے کیا آپ کو کسی شکل میں ذریعہ بنایا

Page 436

۳۲۴ گیا تھا یا آپ نے فرقے کی کوئی مادہ کی مفتی ؟ جواب :.میرا خیال ہے کہ اراضی کے حصول کی اصل گفت وشنید میں کسی موقع پر میں نے کوئی حصہ نہیں لیا تھا.اراضی کے حصول کے بعد بعض دشواریاں پیدا ہو گئی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ میں نے ان کے متعلق مسٹر دولتانہ اور مسٹر دستی سے بھی بات کی تھی.سوال : کیا آپ تقسیم سے پہلے مسلم لیگ کے رکن تھے ؟ جواب: - ۱۹۳۷ء میں فیڈرل کورٹ کا رنج بننے سے پہلے میں مسلم لیگ کا رکن تھا مگر مرکز می کا بینہ کی رکنیت کے دوران میں میں نے مسلم لیگ کی کارروائیوں میں سرگرمی سے حصہ نہیں لیا تھا.سوال: - ۱۹۲۶ء میں مسلم لیگ کی ہدایات کے مطابق کیا آپ نے اپنا خطاب واپس کیا تھا ؟ جواب:.مجھے اس طرح کی کسی ہدایت کا کوئی علم نہیں ہے لیکن میں نے تقسیم کے بعد عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا خطاب استعمال نہیں کیا ہے.سوال: - ایک شکایت یہ ہے کہ سرکاری دفاتر میں خواہ وہ آپ کی اپنی وزارت کے ہوں یا کسی دوسرے محکمے کے آپ اپنے فرقے کے اراکین کو ترجیح دیتے رہے ہیں ؟ جواب :.جہاں تک میری اپنی وزارت کا تعلق ہے پوزیشن یہ ہے کہ فارن سروس کے لیے ہیں خود کوئی تقریر نہیں کرتا.فارن سروس کے لیے تمام تقرریاں پبلک مردی کمیشن کی سفارش پر کی جاتی ہیں اس لیے میرے علم کے مطابق فارن سروس کے استی یا سو افراد میں سے احمدیہ فرقے کے صرف ہم ارکان ہیں.ان میں سے ایک پہلے ہی سے وزارت میں تھا اور میرے خیال میں وہ بھارت سے آپ سے کر کے آیا تھا.وہ تقسیم سے پہلے ہی سے سرکاری ملازم تھا.میرے وزیر خارجہ ہونے سے پہلے وہ وزارت میں تھا.ان میں سے ایک تقسیم سے پہلے ہونے والے مقابلے کے امتحان کے ذریعہ منتخب ہو ا تھا.وہ بعد میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہوئے تھے.لیکن اپنے انتخاب کے وقت وہ دونوں سرکاری ملازم تھے.تقسیم کے بعد ملازم ہونے والے تین افراد میں سے دو کے متعلق مجھے ان کی ملازمت کے بعد تک یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ احمدی ہیں لے سہوا نے لکھا ہے سے OPT ( اختیار - انتخاب - پسند)

Page 437

۴۲۵ صرف ان دود اسامیوں پر مجھے خود کسی آدمی کو فر کرنے کا اختیار ہے.یعنی میرا پرائیویٹ سیکریٹری اور میرا پرسنل اسسٹنٹ اور ان دونوں اسامیوں میں سے ایک پر کبھی کوئی احمدی مامور نہیں ہوا.وزارت میں یا دوسرے ملکوں کی منسٹر یل اسامیوں کے لیے بھرتی سے مجھے کوئی تعلق نہیں ہے اور جہاں تک مجھے علم ہے ممالک غیر میں ہمارے مشن کی منٹریل اسامیوں پر صرف تین احمدی ہیں ان میں سے کسی ایک کی بھرتی سے مجھے کوئی مطلب نہیں تھا.ان میں سے دو تقسیم سے پہلے مٹیریل اسامیوں پر ملازم تھے اور میرا خیال ہے کہ تیسرے کو ملک کے باہر ہی مھرتی کیا گیا تھا.جہانتک اس کا تعلق ہے اس کے سرکاری ملازم ہونے کے کافی دیر بعد تک مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ وہ احمدی ہیں.جہاں تک دو سر می تمام وزارتوں میں سرکاری ملازمتوں پر افسروں کے گریڈ کی بھرتی کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ یہ بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتا ہے.اور میں نے کسی شخص کی ملازمت کے لیے خواہ وہ احمدی ہو یا غیر احمدی براہ راست یا بالواسطہ طور پر پبلک سروس کمیشن کے کسی رکن پر اللہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی.جہاں تک مجھے معلوم ہے مرکز یا صوبوں میں تقسیم سے قبل یا اُس کے بعد پبلک سروس کمیشن کا چیر مین یا اس کا رکن احمدی نہیں ہوا.سوال: - کیا وزارت صنعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل چو ہدری بشیر احمد اور محکمہ خوراک کے جائنٹ سیکرٹری شیخ اعجاز احمد آپ کے دوست اور احمدی ہیں ؟ ہیں.جواب :.جی ہاں ! وہ میرے دوست اور احمد می ہیں.شیخ اعجاز احمداب ریٹائرڈ ہو چکے سوال: - کیا آپ نے انہیں پہلے سرکاری طازمت دلائی تھی ؟ جواب :.جی نہیں ہے ۲.یہ منادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں وزیر خارجہ پاکستان چوہدری محمد ظفراللہ خان نے Ministerial ۲۱ جنوری ۱۹۵۳ء مراده وزارتی : سه اخبار روزنامه لایت لاہور مورخہ

Page 438

مارشل لاء کے ایام میں مرزا ناصر احمد (صاحب) اور مرزا شریف احمد (صاحب) کی مزایابی کے اسباب کے متعلق عدالت کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا جہانتک مجھے علم ہے ان پر یہ الزام تھے.مرزا ناصر احمد (صاحب) نے مارشل لاء کے ایک حکم پر عمل نہ کیا تھا اور اپنے اسلحہ کا اعلان نہ کیا تھا چونکہ ان کے پاس باقاعدہ اجازت نامہ موجود متھا لیکن ان کے مکان کی تلاشی لی گئی اور ان کی بیگم کے صندوق سے ایک مرضع منجر بہ آمد کہ لیا گیا.جو کہ ایک خاندانی نشانی کے طور پر موجود تھا کیونکہ ان کی بیوی کے والد کا تعلق مالیر کوٹلہ خوانین سے تھا.وہ نواب سر ذو الفقار علی مرحوم کے بڑے بھائی تھے اور نواب آف مالیر کوٹلہ سے ان کی قریبی رشتہ داری تھی.یہ خنجر شادی پہ باپ نے اپنی بیٹی کو دیا تھا اس بنا ء سیر ان کی بیوی نے دوسرے جواہرات کے ساتھ یہ مرفوع خبر بھی اپنے صندوق میں رکھ چھوڑا تھا.مرزا نا صراحد ائیم اسے راہ کسن) پرنسپل تعلیم الاسلام کالیج کو ہ سال قید با مشقت اور دس ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دی گئی.مرزا شریف احمد کی سزا کا پس منظر بھی کچھ ایسا ہی تھا.انہوں نے اپنے اسلحہ کی اطلاع دے دی تھی اور اس کا پیر مٹ حاصل کر لیا تھا.ان کے مکان کی تلاشی لی گئی وہ پریشان مینوفیکچرنگ کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر تھے.کمپنی کے پاس مینو فیکچرنگ کے لیے لائسنس معبود تھا.اس رجسٹرڈ کمپنی کا دفتر ان کے مکان کے ایک کمرے میں تھا.پچھلے سال فوجی حکام کی طرف.سنگینوں کا نمونہ پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا.انہوں نے حکم کی تعمیل کی لیکن بعد انہاں یہ نمونہ اس رپورٹ کے مرا و واپس کر دیا گیا کہ جس قسم کی خصوصیات درکار تھیں یہ اس کے مطابق نہیں.اس رپورٹ میں نمونہ کی خامیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا اور یہ نمونہ کے ساتھ منسلک ملتی چنانچہ اس حالت میں الماری سے جو کمپنی کے رجسٹرڈ دفتر میں موجود تھی یہ نمونہ بہ آمدکر لیا گیا اس نمونہ کی بناء پر مرزا شریف احمد کو ایک سال قید با مشقت اور دس ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دی گئی.....مجلس احرار کی طرف سے مسٹر مظہر علی اظہر نے جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا انہوں نے احمدی ہال کراچی میں روستا و بیز ڈی.ای.119) تقریر کی تھی.چو ہدری ظفر اللہ خان نے جواب دیا میں نے کئی موقعوں پر جمعہ کا خطبہ دیا ہے بعض اوقات ہیں نے اپنی جماعت کے اجتماعات کو بھی خطاب کیا ہے.یہ رپورٹ امکانی طور پر صحیح نہیں کیونکہ اس

Page 439

۴۲۷ میں دو ایک واقعات کو جن کا میں نے ذکر کیا غلط رنگ میں پیش کیا گیا اور جہاں تک اپنے عہدہ کے متعلق میرے رویہ کا تعلق ہے میں اسے ایک بہت بڑا اعزا نہ سمجھنا ہوں جو خدا وند تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے یہ چیز قابلیت اور صلاحیت کی بناء پر نہیں میں اسے ایک امانت تصویر کرتا ہوں اور ذمہ داری بھی جھے یکیں معمولی نہیں سمجھتا اور دوسری طرف یہ بالکل واضح ہے کہ وزیر اعظم اپنے کسی سامنفی سے استعفے طلب کر سکتے ہیں جب یہ تحریک شروع ہوئی تو میں نے نہایت واضح لفظوں میں اس وقت (کے ) وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو یہ بتایا تھا کہ اگر وہ بار سمجھیں تو میں علیحدہ ہونے کے لیے ہر وقت تیار ہوں جہانتک اس رپورٹ کا تعلق ہے اتنا حصہ بالکل صحیح ہے اور میری پوزیشن کو واضح کرتا ہے پیارے در مولا نا مرتضی احمد خان میکش نے مجلس عمل کی طرف سے جرح کی.سوال: - ۱۹۲۷ء میں جب آپ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے جنیوا گئے تھے کہا جاتا ہے کہ عرب ڈیلی گیٹوں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ اپنے قیام میں چند دن کی توسیع کر دیں تو آپ نے انہیں کیا جواب دیا تھا.؟ جواب: - اس سوال کا اصطلاحی جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی اسمبلی کا کوئی اجلاس ۱۹۴۷ء میں بینیوا میں نعقد نہ ہوا تھا.اجلاس نیو بارک سے باہر منعقد ہو ا تھا ایک کسی اور فلشنگ میڈوز میں.اس سوال میں میں واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے.فلسطین کا مسئلہ اجلاس میں پیش ہوا.اس پر خوب بحث ہوئی اور کمیٹیوں میں اس پہ آراء شمار می بھی ہوئی.ان میں سے ایک سب کمیٹی کا میں صدر تھا.اجلاس کے خاتمہ پر عرب ریاستوں کے نمائندوں کو معلوم ہوا کہ میں اجلاس کے خاتمہ سے پہلے واپس جانا چاہتا ہوں.انہوں نے درخواست کی کہ میں اجلاس کے خاتمہ تک وہاں رہوں میں اس وقت نواب بھو پال کا آئینی مشیر تھا.پاکستان کی حکومت کا میں رکن نہ تھا.درحقیقت بہت سا کام ختم ہو چکا تھا.پاکستانی ڈیلی گیشن کے دو مہبروں کو خود میں نے واپس پاکستان جانے کی اجازت دے دی تھی اگر میں اس وقت آجا تا تو بھی ہمارے ڈیلی گیشن کے دو تین ارکان وہاں تھے جو اس قسم کی رسمی کارروائی کی نمائندگی کر سکتے تھے جب میں وہاں تھا.ه روزنامه "لمت لاہور ۲۲ جنوری ۱۹۵۴ ۶ ص۲

Page 440

۴۳۸ مشرقی پنجاب میں ہوناک قسم کے فسادات شرر نا ہونے اور مسلمانوں پر ظلم ستم توڑے گئے.قادیان کئی سال سے میرا گھر تھا.اس پر بھی حملہ کیا گیا.میرا گھر لوٹ لیا گیا.میری عدم موجودگی میں میری ایک ہی بہن کا انتقال ہو گیا.مجھ سے چھوٹا بھائی تپ دق کا شکار ہورہا تھا.یہ سب باتیں تھیں جن کی بناء پر مجھے جلد آنا تھا.حب سے میں نواب مجود پال کا ملازم ہوا تھا میں نے اپنے وقت کا کافی حصہ پاکستان کے مفاد کے لیے وقف کیا.پہلے سرحدی کمیشن میں کام کیا.اس کے بعد اقوام متحدہ کی اسمبلی میں میں پاکستان کی نمائندگی کرتا رہا.بھوپالی میں میں نے بہت کم وقت صرف کیا.جب عرب ڈیلی گیٹوں نے مجھ سے یہ کہا کہ میں کچھ دیر اور قیام کروں تو میں نے نواب مجبو پال اور قادیان کی صورت حالات پر پوری روشنی ڈالی.انہوں نے یہ تجویز کی کہ وہ نواب مجھو پال اور صدر انجمن احمدیہ سے درخواست کریں.وہ مجھے وہاں رہنے کی ہدایت کریں چنانچہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر انہوں نے ان دو اصحاب سے اجازت حاصل کر لی تو کیا میں ٹھٹروں گا ؟ میں نے کہا میں غور کروں گا چنانچہ انہوں نے نواب بھوپال اور صدر انجمین احمدیہ کو تار ارسال کیے.ان دونوں نے یہ ہدایت ناکہ میں جلسہ کے اختتام تک وہاں رہوں چنانچہ میں وہاں رہا.جب میں واپس پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا بھائی موت کے دروازے پر ہے میں کچھ کر سکا تو اتنا کہ اس کا ہاتھ دبا کر اسے ہمیشہ کے لیے الوداع کہی..میرے نزدیک سوال یہ ہے کہ میں نے نواب مجھو پال اور صدر انجمن احمدیہ کی بجائے کیوں نہ پاکستان گورنمنٹ سے مشورہ لینے کے لیے کہا اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا میں پہلے کہ چکا ہوں میں نواب مجبو پال کا ملازم تھا اور میری سرکاری ڈیوٹی وہاں لگائی گئی تھی.میرا خا ندانی مفاد قادیان میں تھا اور اُسے شدید نقصان پہنچا.سوال : - کیا آپ نے عرب ڈیلی گیٹوں کو کہا تھا کہ جب وہ صدر انجمن احمدیہ کو تار دیں تو لفظ " امیر المومنین لکھیں.جواب : - جی نہیں ہو سکتا ہے کہ میں نے گفتگو کے دوران میں اپنے طور پر یہ الفاظ استعمال کیسے ہوں.سوال :.کیاآپ انہیں یہ بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان جیسے اسلامی مک میں واقعی ایک امیر المومنین ہو؟

Page 441

۴۲۹ جواب: - جیا نہیں.سوال: - 201ء میں جب آپ پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے امریکہ گئے تھے توکیا آپ نے احد یہ جماعت کی شائع کہ وہ تفسیر قرآن مجید کا ایک نسخہ صدر ٹرومین کو پیش کی تھی.جواب :.میں ان دنوں واشنگٹن میں تھا.جب صدر ٹرومین نے قوم کے نام ایک پیام دیا تھا.اس کے دوسرے دن ٹرومین سے میری ملاقات ہونے والی معتی چنانچہ اس ملاقات میں میں نے ان کی تقریبہ پر کچھ تبصرہ کیا اور ایک در اصول کے بارے میں جن کی انہوں نے مکالت کی تھی میں نے کہا کہ اس سلسلے میں قرآن مجید کی کچھ آئمیں یاد آگئی ہیں میں نے انگریزی میں انہیں وہ آنتیں سنا بھی دیں.صدر ٹرومین نے کہا کہ انہیں اس سے بڑی دلچسپی ہے اور وہ قرآن مجید میں یہ آئیں دیکھنا چاہتے ہیں.چنانچہ میں نے دوسرے دن قرآن مجید کے انگریزی ترجمے کی ایک جلد انہیں بھیجوا دی.یہ جلد جو جماعت (احمدیہ) کی شائع کہ وہ معنی میں نے واشنگٹن ہی سے حاصل کی تھی.سوال: - روزنامہ زمیندارہ میں جو چٹھیاں شائع ہوئی ہیں ان پر اپنے پتہ میں آپ نے اپنے نام کے ساتھ "سمر" کے خطاب کا استعمال کیا ہے ؟ جواب :- ڈاک کی تقسیم میں سہولت کے لیے ایسا کیا گیا تھا.سوال: کیا سردار عبد الرب نشتر نے کا بینہ کے ایک اجلاس میں جو اگست ۱۹۵۲ء میں منعقد ہوا اور جس کی صدارت آپ نے کی.آپ کو یہ کہا تھا کہ آپ کی جماعت ایک ایسی جماعت ہے جس کے متعلق مذہبی تبلیغ کی شکایات موصول ہو رہی ہیں ؟ جواب :.جب میں کابینہ کے اجلاس میں پہنچا تو ایک سیکرٹری نے مجھے بتایا کہ خواجہ ناظم الدین معیل ہیں اور وہ اجلاس میں شرکت نہ کر سکیں گے.انہوں نے مجھے ایک مشورہ دیا اور کہا خواجہ صاحب چاہتے ہیں کہ اسے کابینہ کے اجلاس میں مسودہ پیش کر کے منظور کرایا جائے میں نے اُسے پڑھا اس میں صرف ایک فرقہ کا ذکرہ تھا اور وہ احمدی فرقہ تھا.یہ اس لحاظ سے غیر منصفانہ منتھا کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں.اس پر سردار عبدالرب نشتر نے فرمایا کہ اعلان میں یہ دریا نہیں لیکن اس قسم کی شکائتیں موصول ہوئی ہیں.میں نے اس پر جواب دیا کہ جہانتک شکایت کا تعلق ہے یہ صرف ایک فرقہ کے خلاف ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر کسی اور فرقہ کے متعلق اس قسم کی شکایت ہو تو ہم اس میں زمیم کرتے

Page 442

ہیں.میں نے اس پر انہیں کہا کہ جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت ہے جس کے متعلق حکومت کی پالیسی واضح ہے کہ اگر کوئی سرکاری طازیم اس جماعت کا رکن بنے گا وہ قواعد و منوابط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا.انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تو صرف پیش لفظ ہے ورنہ اعلان کا جو ہدائتی حصہ ہے وہ سب فرقوں کے متعلق ہے سوال : - آپ کو باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لیے کس نے مقرر کیا تھا.جواب: مجھے قائد اعظم نے جو پال سے بلایا تھا اور کہا تھا کہ میں باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کروں.سوال :.کیا آپ نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے اپنے دلائل میں یہ کہا تھا کہ احمدی مسلمانوں سے الگ ایک فرقہ ہیں.؟ جواب :.جی نہیں جہانتک مجھے یاد ہے باؤنڈری کمیشن سے خطاب کے دوران میں اگر میں نے قادیان، احمدیہ تحریک یا احمدیہ فرقے کے متعلق کوئی ذکر کیا ہو تو وہ اس دلیل کو وزنی بنانے کے لیے تھا کہ ضلع گورداسپور کو مغربی پنجاب کا ایک حصہ ہونا چاہیئے اور اُسے پاکستان میں ہی ہونا چاہیے.سوال:.جہانگیر پارک میں آپ کی تقریر کے لیے زندہ مذہب کا موضوع کس نے منتخب کیا ؟ جواب :.میں نے خود.سوال :.آپ نے یہ موضوع کیوں چنا ؟ جواب : میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو دوسرے مذاہب سے نمایاں کرنے والی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں بنیادی تعلیمات کو تازہ رکھنے کے ذرائع اور قرآن سے اس قسم کے فلسفے کو جس کی ضرورت وقتا فوقتا ہو پیش کرتا ہے کسی اور مذہب میں یہ خصوصیت نہیں دوسرے مذاہب تو صرف انسانی تاریخ کی وقتی ضرورت کے لیے تھے.سوال: - مولانا میکش نے اپنی جرح میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے سامنے آپ عربوں کا مقدمہ پیش کرنا نہیں چاہتے تھے کیا پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے آپ نے اقوام متحدہ میں اب تک کبھی ایسے معاملات میں کوئی دلچسپی لی ہے.جو دنیا نے اسلام کے لیے کوئی

Page 443

اہمیت رکھتے ہوں ؟ جواب :.جس دن سے پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا ہے میں جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد کی قیادت کرتا آرہا ہوں.جب کبھی وہاں مسلمانوں کے عام مفاد کا مسئلہ آیا ہے مثلاً مسئلہ فلسطین.مسئلہ لیبیا - اریر یا.سمالی لینڈ.مراکش اور تیونس ان تمام مسائل میں میں نے ذاتی دلچسپی لی اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی طرف سے ان ممالک کے مقدمات کی پیروی کو نہ صرف ان مالک نے بلکه دیگر تمام مسلم ممالک نے بھی سراہا اور اس کی تعریف بھی کی.سوال: - سان فرانسسکو میں آپ نے جو تقریر کی تھی وہ آپ کو یاد ہے ؟ جواب :- جی ھاں.سوال :- کیا آپ نے اس تقریر میں اسلام کے متعلق کچھ کہا تھا؟ اگر کچھ کہا تھا نوکیا اس تقریہ میں ایک فرقہ واری رحجان کی جھلک نہ تھی ؟ جواب: - جاپانی معاہدے کا ایک پہلو جو ان مالک میں بھی بحث و تمحیص کا موضوع بن گیا تھا.جو اس معاہدے کے حق میں تھے ، وہ یہ تھا کہ جاپان سے بہت فیاضانہ سلوک کیا جا رہا ہے.دوسری طرف ایک یہ رجحان تھا کہ انسانی تاریخ میں ایک مفتوح دشمن سے امریکہ کے فیاضانہ سلوک کو انسان تا ریخ کا ایک بے مثال واقعہ قرار دیا جائے.اس پہ میں نے اپنی تقریہ میں بتایا کہ ایک مفتوح وشن کے ساتھ ایک فیاضانہ معاہدے کی سب سے درخشاں مثال وہ حسن سلوک ہے جو پیغمبر اسلام نے مفتوح قریش کے ساتھ معاہدہ مکہ کے موقع پر کیا تھا.میری اس تقریر کا نہ صرف ان مدبروں پر جو وہاں جمع تھے بلکہ سارے امریکہ پر گہرا اثر ہوا.کیونکہ یہ تقریر سارے امریکہ پر نہ صرف نشر کی جارہی تھی بلکہ ٹیلی ویژن پر اس کارروائی کا منظر بھی دکھایا جار ہا تھا.اس صدا کی ایک بازگشت جو مجھ تک پہنچی اور جس کا احداث نعمت کے طور پر میں ذکر کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ حبیب اس معاملے پر آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں بحث ہوئی تو اپوزیشن پارٹی نے اس معاہدے پر دکھائی ہوئی فیاضی کی طرف حکومت کو متوجہ کیا.جس کے جواب میں برسر اقتدار پارٹی کے ایک رکن نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس موقعہ پہ انہیں اس سہر پر عمل کرنا چاہیئے.جس پر پیغمبر اسلام نے فتح مکہ کے موقعہ پر عمل کیا تھا.مجھے یقین ہے کہ یہ حوالہ میری تقریہ ہی سے دیا گیا تھا.

Page 444

۱۹۵ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس پیرس میں میں نے جو تقریبہ کی معھی اس پہ جماعت اسلامی کی نکتہ چینی کا میں جواب دینا چاہتا ہوں جس میں میں نے ایک برطانوی نو آبادی میں ایک احمدی کے ساتھ بدسلوکی کا شکوہ کیا تھا.میں نے مسلمانوں کے اس مفاد کا کوئی ذکر نہیں کیا جس میں مسلمانوں کے مفادات مغربی ممالک کے خلاف تھے.میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ میری اس تقریہ کا زیادہ تر حصہ نو آبادیاتی نظام کے دونوں سیاسی اور اقتصادی پہلووؤں کی مذمت سے متعلق تھا.وہ مذمت بہت پر زور بھی اور اسے بڑے جوش سے ظاہر کیا گیا تھا اس مذمت کے سلسلے میں نو آبادیاتی نظام کی دفتریت کے تکبر کی مثال دیتے ہوئے میں نے ایک برطانوی نو آبادی میں ایک پاکستانی کے ساتھ بدسلوکی کی مثال دی.میں حلفیہ تو نہیں کہ سکتا کیونکہ میں اس وقت اپنے حافظے کو انہہ نہیں کر سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا تھا.کہ وہ شخص احمد می تھا.بہر حال اس واقع کا ذکر صرف رو بلدیاتی نظام کی برائیوں کے اظہار کے لیے کیا گیا تھا یا اسی اجلاس کے دوران میں مراکش اور تیونس کے مسئلے کو ایجنڈا میں شامل کرنے کا سوال پیش ہوا.اس موقع پر میری ہی تقر یہ سب سے نمایاں تھی جس میں میں نے امریکہ اور دیگران ممالک کے طرز عمل کی مذمت کی تھی جو ان مسائل کو ایجنڈا میں شامل کرنے کے خلاف تھے.مجھے خاص طور پر یہ بات بھی یاد ہے کہ میں نے جب سے یہ کہا کہ اگر ان مسائل پر غور کرنے سے انکار کیا گیا تو مراکش میں قتل دونوں ہو گا.اور اس کی تمام تر ذمہ داری امریکی مندوب پر ہوگی میں نے مجھ سے پہلے تقریر کی تھی.جس شدت کے ساتھ اس کی مذمت کی گئی تھی اس کے باعث امریکی مندوب کا رنگ زرد پڑ گیا تھا.ان حالات میں یہ کہنا بڑی نا انصافی کی بات ہے کہ میں نے ایک احمدی کی وکالت کی جس کے ساتھ بد سلوکی ہوئی تھی مگر عام مسلمانوں کے مسائل کی طرف کوئی توجیہ نہیں دی اه روزه نامه ملت لاہور مورخہ ۲۲ جنوری ۱۹۵۴ ۶ مت

Page 445

سید نا حضرت المصلح الموعود کے ایمان افروز عدالتی بیان و کرائے احمدیت کے زور دار بیانات کے بی سی سے کر عدالت ہی میں نہیں پریس بعد میں بھی احمدیت کا ملک گیر چہ چا ہوا، مسلمی اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت دکھائے احمدیت کے زورسہ دار بیانات کو حاصل ہے.اس معرز نہ عدالت میں مدر انجمن احمدیہ کی طرف سے نمائندگی کی سعادت جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ (سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور) اور خالد احمد ثبت ملک عبد الرحمن صاحب خادم گجراتی پلیڈ.امیر جماعت احمد یہ گجرات کو نصیب ہوئی.جناب شیخ بیر احمد صاحب نے ۲۲ ۲۳ را در ۲۴ فروری یاد کو مفصل بیان دیا جس میں را خیار قمت لاہور کے نامہ نگار کے مطابق) آپ نے نہایت واشگاف الفاظ میں اپنے اس دعوئی کے دلائل پیش کیے کہ یہ ایک غیر متنازعہ حقیقت ہے کہ فسادات احرار نے کرائے تھے.نیز یہ کہ مطالبات مقصد کی دیانتدار ہی پر مبنی نہیں تھے اور پاکستان کو ختم کرنے کے لیے مذہب کو آلہ کار بنایا گیا تھا اور جماعت اسلامی نے ایسا طریق کار اختیار کیا کہ اس کے اراکین اس بات کے قائل ہو جائیں کہ حکومت کا تختہ الٹ دنیا ان کی مذہبی ذمہ داری ہے.انہوں نے واضح کیا کہ مولانا مودوی اور ان کے پیرو پوری طرح سے محسوس کرتے تھے کہ تحریک جس نے..حکومت کی شاہلی اور بے عملی کی وجہ سے شدت اختیار کر لی معنی ریاست کے تھی وجود کو خطرے میں ڈال دے گیا.اور ملک میں وسیع پیمانے پر ایسے ہولناک فسادات ہوں گے جو تقسیم سے پہلے کے ہندومسلم فسادات سے بھی زیادہ سنگین ہوں گے.انہوں نے دولتانہ حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ نے تحریک کے خطرناک سُرخ کے امکانات کی طرف حکومت کی توجیہ وقتاً فرقنا مبذول کرائی.لیکن پہلے سے منصوبہ تیار کر کے چلائی جانے اور مذہب کے نام پر اٹھائی جانے والی تحریک کے محرکین کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہ کیا گیا.نہ اشتعال انگیز پراپیگنڈے کے سوکھنے کے لیے کوئی کارروائی کی گئی.اور تحریک کے خطرناک مضمرات سے واقف ہونے کے باوجود شورش کو بڑھ جانے کا موقع دیا گیا.اور مرزا پانے والے لیڈروں کی رھائی اور دفعہ ۱۴۴ ہٹا لینے کے باعث صورت حال بد سے بدتر ہو گئی.انہوں نے کہا مجھے نیک نیتی کیسا تھے

Page 446

۴۳۴ یقین ہے کہ عام لوگ دلائل کے ساتھ قائل کیے جاسکتے تھے اور انہیں ان افسوسناک واقعات کا ذمہ دار فرار نہیں دیا جا سکتا جن کا منتہی لاہور میں مارشل لاء کا نفاذ تھا.در اصل عوام کے مذہبی شعور کے محافظ ہونے کے دعویداروں نے اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے اس تحریک کو ہوا دی جس کی وجہ سے جان و مال کا نقصان ہوا پس احمدیوں پہ الزام لگا اور اصل اپنے احساس گناہ کو معقول بنانے کی کوشش کے مترادف ہے.آپ نے فرمایا احمدی جماعت کے ہر رکن کی تن من دھن سے یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پوری دنیا کو اپنے مذہبی نظریات پر لے آئے.احمدی پہنتے اسلام کو پیش کرتے ہیں اور قرآن مجید نے ہر مومن کو حکم دیا ہے کہ وہ اس حق و صداقت کا مشعل بردار بن جائے جس کی تبلیغ حضرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور جسے آنحضرت ہی نے دنیا میں پھیلایا تھا.اس مقصد کا حصول روحانی فتح کے سوا کچھ نہیں.آپ نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کا اصل مقصد عیسائیوں کو مشرف بہ اسلام کرنا ہے یہ تحریک احمدیت کے علم کلام کی حقانیت ثابت کرنے اور اعتراضات کے جوابات کی حقیقت واضح کرنے کا فریضہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم کے سپر د تھا جسے انہوں نے نہایت عمدگی اور پیر شوکت اور پر ار رنگ میں ادا کیا.یہ خالی احمدیت کا بیان اپنے اندر اس درجہ گہر ی تحقیق اور غیر معولی تخلص کا رنگ لیے ہوئے تھا کہ فاضل جج صاحبان کی قابلیت اور لیاقت پر عش عش کر اُٹھے اور اپنی رپورٹ میں آپ کا نام ہے کہ آپ کا شکریہ ادا کیا بلکہ آپ کی نسبت لکھا کہ آپ نے کتب قدیمیہ کی تلاش و تنجس میں بڑی محنت کی ہے.ہیں: خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس آپ کی خدمات جلیلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ر تحقیقائی عدالت کے سلسلہ میں بھی انہوں نے ہمارے ساتھ چھ سات ماہ کام کیا.روزانہ گرات سے لاہور آیا گئے اور آخری بحث میں بھی حصہ لیا.بحث کے لیے تحقیقاتی عدالت نے دوسروں کی نسبت سے ہمیں تھوڑا وقت دیا تھا.لیکن خادم صاحب مرحوم نے تھوڑے سے وقت میں نہایت نه اخبار دست لاہور ۲۴ ۲۵ ۲۶ فروری ۶۱۹۵۴ سے رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو صفحه ، د ۲۱ -

Page 447

۴۳۵ قابلیت کے ساتھ دوسری پارٹیوں کے اعتراضات کے ایسے دندان شکن جواب دیتے کہ تحقیقاتی عدالت کے جج صاحبان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.چنانچہ تحقیقاتی عدالت کے صدر نے اس امر کا اظہار کیا کہ خادم صاحب نے بہت اچھی بحث کی ہے.تحقیقاتی عدالت کی مطبوعہ رپورٹ میں زیر عنوان اسلامی اصطلاحات کا استعمال ان کا ذکر کیا ہے یا لے جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء امیر جماعت احمدیہ لاہور جنہوں نے خود بھی اس طویل تحقیقات کے دوران میں اوّل سے آخر تک جماعت احمدیہ کے مقدمہ کی پیروی کرتے ہیں اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کر دیں اور جن کی بیش بہا امداد و اعانت کا اعتراف فاضل جج صاحبان نے اپنی مطبوعہ ر پورس سے میں بھی کیا.آپ اپنی چشم دید شہادت کی بناء پر تحریر فرماتے ہیں بہ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں مکرم ملک صاحب مرحوم نہایت نڈر تھے اور اُن کی زبان اور نطق میں اللہ تعالیٰ نے بے اندازہ برکت رکھی تھی.فسادات پنجاب (۱۹۵۳) کے تحقیقاتی کمیشن کے رو برو دینی حصہ کو پیش کرنے میں حبس بے کوٹ اور جرات مندانہ انداز میں آپ نے جماعت احمدیہ کی وکالت کی وہ فاضل ججان سے بھی خراج عقیدت حاصل کر گئی جس کا انہوں نے اپنی رپورٹ میں نہایت زور دار الفاظ میں ذکر کیا ہے.جتنی دیر ملک صاحب تقریر کرتے رہے تمام سامعین گویا مسحور ہی رہے یا سے اسی طرح جناب ثاقب صاحب زیروی مدیر هفت روزه " لاہور نے "خادم - مجاہد احمدیت کے زیر عنوان ایک مضمون میں لکھا:.ایک متعصب غیر احمدی نے بھری بزم میں کہا تھا کہ اسلام پر اعتراض کا جواب دے کر خادم کا چہرہ یوں کھل اُٹھتا ہے جیسے گلاب کا پھول" پھر یاد آئے اینٹی احمدیہ فسادات کی انکوائری کے وہ دن حسب اُس شیر کی وہاڑ سن کر مخالف سر نیو ڈھائے بیٹھے تھے اور شہباز احمدیت بات بات پر ان کے فرسودہ سه روزنامه الفضل ربوه در سی ۱۳۳۷ پیش من بہ سے رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو سٹ 41957 ه روزنامه الفضل" ربوه در امان سیا ۳ سوان من است $140

Page 448

دلائل کے تانے بانے کو توڑ مروڑ کر پرے پھینک رہا تھا.ماحول دم بخود تھا اور جج صاحبان اس کے علم کی وسعتوں پر حیران تھے کے سلے بلک عبد الرحمن صاحب خادم گجراتی کے بیان کا ایک مجمیل ساخلاصه اعتبار ملت " لاہور نے اپنی ۲۸ فروری اور یکم مارچ ۱۹۵۲ء کی اشاعتوں میں سپرد قلم کیا جو حسب ذیل ہے :- امید مولانا میکش کے بعد صدر انجمن احمدیہ یہ بوہ کے وکیل مسٹر عبدالرحمن خادم نے اپنے دلائل دینا شروع کیے.اور خدا کی قسم کھاتے ہوئے کہا کہ ان کا فرقہ اور اس کے بانی یہ یقین رکھتے ہیں کہ محمد عربی سے برابر می کرنے کا دعوی کرنے والا کوئی بھی آدمی کا فر ہے.انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ احمدی مرزا غلام احمدکو اور اپنے آپ کو آنحضرت احمدیوں کا عقیدہ جو خاتم انہی میں علم سمجتے ہیں انہوں نے کہا احمدی ختم نبوت کے عقیدے میں یقین رکھتے ہیں اگر چہ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ اس کی ترجمانی مختلف طریقے سے کرتے ہیں.مبوہ کے وکیل نے عدالت کے سامنے اس امر کا اظہار کیا کہ فسادات کی وجہ مذہب قرار نہیں دیا جا سکتا.انہوں نے کہا کہ انہیں اس سے انکار نہیں ہے کہ احمدیوں اور مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں عقیدہ کے اختلافات موجود ہیں انہوں نے کہا کہ مذکورہ بالا حقیقت کا ثبوت یہی ہے کہ احمدی ایک الگ فرقہ بناتے ہیں.مر خادم نے کہا یہ حقیقت کہ بعض لوگ عقیدہ کے معاملہ میں احمدیوں سے اختلاف رکھتے ہیں.لوٹ مار کرنے اور قتل کرنے کا جوازہ بہتا نہیں کرتی انہوں نے کہا اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.نہ ہی کوئی مذہب یا ضمیر اس کی اجازت دیتا ہے.انہوں نے یہ تھیوری پیش کی کہ جب تک بعض دلچسپی رکھنے والے.........مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے مذہبی اختلافات کو استعمال نہ کریں اس وقت تک خطہ میں امن و امان کو نقصان نہیں پہنچ سکتا اور فسادات نہیں ہو سکتے..مسٹر خادم نے کہا کہ گزشتہ ستر برس میں مہندوستان اور پاکستان میں کسی غیر احمدی کی طرف سے کسی کسی ایک احمد می کو نہیں مارا گیا.یا احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان کو نا جھگڑا اور تنازعہ نہیں ہوا جبکہ به روز نامه" العضل" ٣٠ صلح ٣٣ من م ٣ جنوری ۱۱۹۵۸

Page 449

۳۷ دوسرے فرقوں میں جواب احمدیوں کی مخالفت میں متحد ہیں کئی بار فساد ہوئے.انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت اس لیے اور بھی زیادہ واضح ہوتی ہے اور اس کی طرف زیادہ نظر جاتی ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ عدالت کے سامنے شکایات میں اشتعال انگیز تحریز ی چیزیں پیش کی گئی ہیں وہ دسیوں برس پرانی ہیں.وکیل نے کہا یہ بات انسانی فہم سے بالا ہے کہ ضروری اور مارچ ۹۵۳ہ کو یکا یک تمام دوسرے فرقوں پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ احمدیوں کا پراپیگنڈا اور تبلیغ اور خود احمدی اس قدر اشتعال انگیزی کر رہے ہیں کہ ان کو برداشت نہیں کیا جا سکتا.مسٹر خادم نے کہا کہ یہ خیال سیح ہے کہ اسلامی تصورات کے مطابق مملکت پاکستان کے قیام نے تمام نظر یہ بدل ڈالا ہے اور یہ کہ تقسیم کے بعد مسلمانوں کے دوسرے فرقے دوسرے معاملات میں اس قدر مصروف تھے کہ وہ اس مسئلے پر جسے احد یہ فتنہ کہا جاتا ہے زیادہ توجہ صرف نہیں کر سکے.انہوں نے کہا تقسیم کے فوراً بعد جب حکومت اور عوام کے مر سر مسئلہ کشمیر اور مہاجرین کی آبادکاری کے مسائل کا بوجھ پڑا ہوا تھا اس وقت شیعوں اور سنیوں میں کم از کم چار بار فسادات ہوئے.وکیل نے کہا کہ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ خیال نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد حقائق پر ہے کہ احمد می اور دوسرے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ مل کہ امن سے نہیں رہ سکتے.انہوں نے یہ خیال پیش کیا کہ حالیہ مہنگاموں کی وجوہات کچھ اور ہی ہوں گی.مسٹر خادم نے کہا کہ شروع میں جب احدارہ کو اپنی طاقت کے متعلق شک تھاوہ یہ خیال ظاہر کہ رہے تھے کہ ان کو اور احمدیوں کو اپنے اپنے جلسے کرنے کی اجازت دی جائے لیکن جونہی ان کو کافی امداد حاصل ہوگئی.انہوں نے اپنا موقف تبدیل کر لیا.انہوں نے کہا جہاں تک ختم نبوت کے عقیدہ کا تعلق ہے احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں.اختلاف صرف اس عقیدہ کی تشریح کے سلسلے میں ہے وکیل نے کہا : عقیدے کے سلسلے میں احمدیوں کا نقطہ نظر دوسرے مسلمانوں کے لیے نیا نہیں.اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر انہوں نے مسلمان عالموں کی بہت سی تحریریں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان تحریروں کے متعلق چاہے کچھ بھی کہا جانے بہر حال یہ تو صاف ظاہر ہے کہ ان کو اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں سمجھا جاتا رہا.اور یہ کہ برسوں سے ان کے خیالات کو برداشت کیا جاتا رہا ہے.

Page 450

انہوں نے کہا احمدیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک اتنی نہیں بن جائے گا جبکہ دوسرے فرقوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک نبی کا دوبارہ ظہور ہو گا جو امتی ہوگا.ابھی انہوں نے اپنے دلائل ختم نہیں کیسے تھے کہ عدالت کا اجلاس ختم ہو گیا سیلہ لام - ۲۶ فروری.صدر انجمن احمدیہ زبوہ کے وکیل مسٹر عبد الرحمن خادم نے آج یہاں فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں کہا کہ متعد ومسلمان علماء نے ماضی میں ختم نبوت کی وہی تشریح کی تھی جو احمدیوں نے پیش کی ہے.اپنے دعوی کے ثبوت میں انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابیہ وسلم کے عہد سے دور حال تک علماء کی تحریر وں کا حوالہ دیا.انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کے بار سجود کہ عین علماء نے یہ رائے ظاہر کی تھی وہ احمدی نہیں ان کی رائے کے اظہار پر انہیں کا فر نہیں قرار دیا گیا.مسٹر خادم نے کہا کہ مسیلمہ پر حملہ اس لیے نہیں کیا گیا تھا کہ اس نے نبوت کا دعوی کیا تھا.بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک اسلامی ریاست میں اس نے دوسری باتوں کے علاوہ ہم سہزار افراد کی ایک فوج تیار کی تھی اور کئی مسلمانوں کو بلاک کر دیا تھا.انہوں نے زور دے کر کہا کہ جن لوگوں نے ختم نبوت کی مختلف تشریح پیش کی ان کے پاس اس کے اسباب موجود تھے اور قرآن مجید میں ایسی آنتیں موجود ہیں جو ایسی تشریح کی بنیاد بن سکتی ہیں.لاہور - ۲۷ فروری صدر انجین احمدیہ ربوہ کے وکیل مسٹر عبدالرحمن خادم نے آج یہاں فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں اس الزام کی تردید کی کہ مرزا غلام احمد صاحب نے قرآن ، اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے مسٹر خادم کے دلائل کے بعد فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی کارروائی ختم ہوگئی.انہوں نے کہا یہ خیال کرتا بالکل غلط ہو گا کہ میرے فرقے نے یہ پوزیشن فسادات کے بعد اختیار کی ہے.اس سلسلہ میں میرا فرقہ عام مسلمانوں کے ساتھ مکمل اتفاق رکھتا ہے کہ کسی کو قرآن مجید اور رسولِ به روزنامه " ملت لاہور مورخه ۲۸ فروری ۱۹۵۴ امت سے ایضاً مره

Page 451

کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے.مسٹر خادم نے کہا کہ احمد یہ فرقہ گزشتہ میں چالیس برس ہے اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن واضح کر رہا ہے که مرزا غلام احمد صاحب اور ان کے پیروکار اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت خود اختیاری کے لیے جنگ کے خلاف نہیں ہیں.لیکن بدقسمتی سے جماعت کے خلاف پر دیسیگنڈا جاری رہا.صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے وکیل نے کہا کہ جہاد کے تصور کو بڑی کثرت سے غلط طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے اور اس کا مطلب یہ لیا جاتا رہا ہے کہ مسلمان مذہبی اختلافات کو جہاد شروع کرنے اور ان لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے جو مسلمانوں کے عقائد سے اتفاقا متفق نہیں ہیں کافی وجہ سمجھتے ہیں.نزول مسیح کے عقیدے کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر خادم نے کہا کہ قرآن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام) ابن مریم ایک طبعی موت مرے تھے اور یہودیوں کے عقیدے کے برعکس ان کی موت صلیب پر واقع نہیں ہوئی تھی.انہوں نے کہا کہ یہودی پاتے ہیں کہ علیلی (علیہ السلام) ابن مریم کی موت صلیب پر واقع ہوئی کیونکہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام پر خدا کا قہر نازل ہوا تھا.اور وہ صلیب پر ایک ذلت آمیز موت مرے.انہوں نے کہا کہ یہودی نظر یہ با لکل غلط ہے کیونکہ قرآن مجید اور حدیث نبوی میں نبی کے دوبارہ ظہور کی طرف اشارہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ میرا فرقہ مانتا ہے کہ ایک امتی نبی بن جائے گا.صدر ضمن احمد بید بوہ کے وکیل نے کہا کہ احمدیوں کے خلاف یہ الزام ہے کہ انہوں نے (بعض اسلامی) اصطلا میں استعمال کر کے اسلام کی پیروڈی کی ہے.بالکل غلط ہے یہ اصطلاحات بعض مسلمان اولیا ء کے لیے استعمال کی جاتی رہیں ہیں.لیکن عام مسلمانوں نے اسے کبھی اشتعال انگیز خیال نہیں کیا تھا.انہوں نے کہا کہ ۱۹۴۷ء کے فسادات کے دوران میں عام مسلمانوں کا سلوک بہت شاندار رھا.اور انہوں نے جان ومال کی حفاظت کے لیے اپنے احمد می ہمسایوں کی مدد کی.انہوں نے کہا کہ جماعت کے خلاف جھوٹے اور معاندانہ پراپیگنڈے کے ذریعے یہ فسادات محدود نے چند لوگوں نے کرائے.احمدیوں کے خلاف دوسرے الزامات میں کہا گیا ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو کافر Parody مضحکہ خیزه نقل

Page 452

۴۳۰ سمجھتے ہیں.انہوں نے کہاکہ یہ بالکل غلط ہے اس کے برعکس مسلمانوں کے بعض فرقے ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے رہے ہیں.مسٹر خادم نے کہا کہ جماعت اسلامی اور مولانا موروپی نے جن کا موقف یہ تھا کہ احمدیوں کے بارے میں مطالبات پر تمام علماء متفق تھے.احمدیوں کے نظر بیٹے کی نقل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن فرق صرفت یہ تھا کہ جماعت اسلامی تشدد کے ذریعے سیاسی اقتدار حاصل کرنے میں یقین رکھتی تھی.انہوں نے کہا کہ اگر ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کو اتنا عزیز بتا کہ وہ اس کی تشریح کے اختلاف تک برداشت نہیں کر سکتے تھے تو اس سلسلہ میں گزشتہ کئی صدیوں سے بعض مشہور مسلمان علماء کا اختلاف کیوں برداشت کیا جاتا رھا تھا ؟ وکیل نے کہا کہ مسلمانوں کا ہر فرقہ کسی نہ کسی اصول پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہے لیکن انہیں اقلیت قرار دینا کبھی خیال نہیں کیا گیا تھا.یہاں تک گر گزشتہ ستر برس سے احمدیوں کو بھی مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھا جاتا رہا تھا انہوں نے کہا کہ یہ بات انتہائی تعجب خیز ہے کہ یکدم یہ کہا جانے لگا کہ احمدیوں کو بالکل ہی برداشت نہیں کیا جا سکتا.صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے وکیل نے یہ بتانے کے لیے کہ مرزا غلام احمد صاحب کی وفات پر انہیں شاندار خراج تحسین پیش کیا گیا ، بعض مسلم اخبارات پڑھ کر سنانے کالے ت تحقیقاتی عدالت میں جن اصحاب نے بیانات دیئے بیانا) تحقیقاتی عدالت میں بعض دوسرے بیا نا امنی ایمانی در کیا کام سرکاری د غیر سرکاری وکلاء صحافی ، علماء سیاسی لیڈر اور عوام غرضیکہ ملک کے ہر طبقہ سے تعلق رکھتے تھے.ان بیانات کا ایک حصہ جہاں عدالت اور ملک کے سامنے بہت سی نئی معلومات داکتشافات کا موجب بنا وہاں بعض بیانات سے کئی اہم اور دلچسپ امور بھی منظر عام پر آئے.مثلاً :- ه روز نامه ملت لاہور مورخہ یکم مارچ ۱۹۵۲، ص۹

Page 453

ا حکومت پنجاب کے وکیل جناب چوہدری فضل الہی صاحب نے اشارہ بتایا کہ : مرد دولتانہ کی اس سیاست بازی کا مقصد صرف داخلی نہ تھا بلکہ بین الاقوامی سیاسیات سے بھی متعلق تھا.ان کا مقصد یہ تھا کہ خواجہ ناظم الدین کو اقتدار کی کرسی سے اتار پھینکیں خود انا قیادت میں ایک مرکز می حکومت قائم کر یں اللہ پاکستان کو ایک کمیونسٹ مملکت بنا دیں پیشہ اخبار زمیندار لاہور کے ایڈیٹر مولانا اختر علی صابیان انہوں نے اپنے بیان میں بتایا مسلم پارٹیز کنونشن کا اجلاس میں جواہر نے طلب کیا تھا ماں کی جنگ یٹی میں بھی احرار کی غالب اکثریت تھی.مولانا نے یہ بھی بیان کیا کہ تحریک ختم نبوت میں احرار پیش پیش تھے کیونکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شہرت بحال کرنا چاہتے تھے.س.کیا آپ کے دعوی اسلام سے یہ بات مطابقت رکھتی ہے کہ پروپیگنڈا کی خاطر موقع بہ موقع جھوٹ بولا جائے ہے ج.ہر سیاست دان جھوٹ بولتا ہے.س.کیا آپ نے یہ جھوٹ سیاست دان کی حیثیت سے بولا تھا یا ایک مسلمان کی حیثیت سے ؟ ج.ایک مسلمان کے نزدیک مذہب اور سیاست دو مختلف چیز نہیں ہیں.بلکہ دونوں ایک ہی ہیں.سی.کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر ایک مسلمان سیاست دان جھوٹ بولے تو وہ مسلمان کی حیثیت سے جھوٹ بولتا ہے ؟ ج.جب آپ سیاستدانوں کو جھوٹ بولنے کا حق دیتے ہیں تو علماء کو اس حق سے محروم کیوں رکھتے ہیں ؟ " کہ لے سابق صدر مملکت پاکستان کے رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردد ۳۰۴۷ سه آفاق ۳۰ اکتر به ۱۹۵۳، صفحہ ۲ کالم ما ے ایضا ، کالم عل

Page 454

جماعت اسلامی کے سابق لیڈر مولانا امین ان اصلاحی کابین انہوں نے مسلمانوں کو دو زمروں میں تقسیم کیا.سیاسی مسلمان اور تحقیقی مسلمان.اس کے بعد انہوں نے ان دس عناصر کی تفصیل بیان کی جو کسی کو سیاسی مسلمان بنانے کے لیے ضروری ہیں.اور کہا کہ وہ اگر ان تمام شرائط کو اچھا کرے تو وہ اسلامی ریاست کے تمام شہری حقوق کا مستحق ہو جاتا ہے.انہوں نے کہا کہ سیاسی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس کا عقیدہ خدا کی وحدانیت پر ہو.رسول اللہ کو خاتم النبیین مانتا ہو اور وہ زندگی کے تمام مسائل کے متعلق اُن کے حکم کو آخری سمجھتا ہو.یہ اصول ما نتا ہو کہ ہر خیر اور ہر شہر کو خدا پیدا کرتا ہے.اس کا عقیدہ قیامت پر امن اور قرآن کو خدا کا آخری صحیفہ سمجھتا ہو.انہوں نے کہا کہ سیاسی مسلمان کو ہر سال حج کرنا چاہیئے.زکوۃ ادا کرنی چاہیئے.مسلمانوں کی طرح نماز پڑھنی چاہیے.اسلامی معاشرہ کے تمام قواعد ظاہرہ پر عمل کرنا اور روزہ رکھنا چاہیئے.گواہ نے کہا کہ مذکورہ بالا شرائط میں سے کوئی ایک بھی شرط پوری نہ کی جائے تو متعلقہ شخص سیاسی مسلمان نہیں رہ جاتا.بعد میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی شخص ان دس اصولوں پر عقیدہ رکھتا ہوں تو یہ اس کے مسلمان ہونے کے لیے کافی ہے قطع نظر اس حقیقت کے کہ وہ ان پر عمل کرتا ہے یا نہیں لال حکومت پنجاب کی طرف کی طرف سے مسٹر فضل الہی کی جرح کے جواب میں گواہ نے کہا کہ جون اور جولائی کے مہینے میں تحریک کے سلسلے میں کچھ بد نظمیاں ہوئی تھیں.لیکن جماعت کو اس پر بہت زیادہ تشویش ہوئی تھی.کیونکہ یہ خیال کیا گیا تھا کہ ایک دفعہ عوام اگر دھمکی بانتشدد سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو گئے تو اس ملک میں پھر کوئی چیز پر امن طریقے پر کرنی ناممکن ہو جائے گی.یہ بھی محسوس کیا گی کہ یہاں تشدد پر اترنے کا رجحان موجود ہے.ہم نے مجلس عمل میں اس لیے شمولیت کی بھی کیونکہ ہمارا اخبال تھا کہ چونکہ مجلس میں شورش پسند عنصر موجود ہے.اور ہماری جماعت کے لیے یہ ضروری تھا کہ اس عنصر به روز نامه ، قلت لاہور اور نومبر ۱۹۵۳ صدا i

Page 455

کو تشدد کے ذرائع استعمال کرنے سے بانہ رکھا جائے کالے ستیکی صاحب نے پر سپلم دیدہ واقعہ بیان کیا :- چیف ایڈیٹر زمیندار مسٹر ہے.آری شیلی | انا ادارہ اور میاں ممتاز محمد خاں کے درمیان ایک شریفانہ معاہدہ کرنے کے سوال پر میری موجودگی میں بحث کی گئی تھی.احرار کی طرف سے صاحبزادہ فیض الحسن اور سید عطاء اللہ شاہ بنجار می اور دوسری طرف سے مولانا اختر علی خاں نے باتیں کی تھیں سمجھوتہ یہ ہوا تھا کہ احمرار احمدیوں کے خلاف تحریک جاری رکھیں گے.اور مسٹر دولتانہ صوبے میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے.اس کے بدلے میں احرار کو انتخابات اور دوسرے معاملات میں مسٹر دولتانہ کی حمایت کرنی تھی.یہ معاہدہ غالباً جولانی شاء میں مسٹر دولتانہ کی مرمی سے واپسی کے بعد ہوا تھا یہ نہ ملک کے نامور صحافی جناب حمید نظامی جناب مجید نظامی ما مدیر دنا نوائے وقت لاہور کا بیان صاحب کے بیان کا ایک حصہ : - " سوال:.کیا آپ مطالبات کے حق میں تھے ؟ جواب :.جی نہیں.ہر گز نہیں.انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ان مطالبات کے خلافت کچھ نہیں لکھا.مسٹر حمید نظامی نے کہا میرا جواب دہی ہے جو میں نے مسٹر غیاث الدین احمد مہوم سیکرٹری اور خندان قربان علی خان انسپکٹر جنرل پولیس کو دیا تھا کہ اگر میں نے صاف اور واضح لفظوں میں ان مطالب کے خلاف لکھا ہوتا تو مجھے کسی تحفظ کی توقع نہ تھی.اور میرا دفتر محکمہ تعلقات عامہ کے اشارہ پر ملا کہ راکھ کر دیا ہوتا.جو اس تحریک کو ہوا دے رہا تھا.سوال سے:.اگر آپ نے ان مطالبات کی مخالفت کی ہوتی تو کیا آپ کے اخبار کی اشاعت کم نہ ہوتی؟ جواب:.میں نے کبھی اخبار کی فروخت کو اپنی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونے دیا.سوال : کیا آپ کو کسی ذاتی نقصان کا خدشہ تھا ؟ لے " ملت ۲ نومبر ۱۹۵۳ ء مٹہ کالم ۵ و به ملت ۱۳در نومبر ۱۹۵۳ ۶ مث کالم ۳

Page 456

لام سلام سلام جواب: جی ہاں مجھے کئی مخطوطے جن میں مجھے قتل کی دھمکی دی گئی تھی.سوال :.کیا آپ نے اس دھمکی کا کسی سے ذکر کیا.مثال کے طور پر وزیر اعظم.مسٹر گورمانی اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے ؟ جواب :.جی ہاں میں نے اس کا ذکر مسٹر گورمانی اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے کیا.سوال :.آپ ان مطالبات کے خلات کیوں مجھے ؟ جواب:.میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ یہ مطالبات بعض سیاسی طالع آزماؤں نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کیسے تھے.سوال کیا آپ مطالبات سے متفق ہیں ؟ جواب :.اب کوئی مطالبہ ہی نہیں.سوال : کیا آپ سمجھتے ہیں کہ احمدی اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں اقلیت قرار دیا جائے ؟ جواب :.ہر گنہ نہیں.سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ وزیر خارجہ کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا جائے ؟ جواب :.جی نہیں.سوال :.کیا آپ سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کو کلیدی ملازمتوں سے علیحدہ کر دیا جائے ؟ جواب:.ایسی تجویز تو مہند و شہریوں کے متعلق بھی پیش نہیں کرنی چاہیے لے مسٹر غیاث الدین احمد صاحب ہوم سیکرٹری ہوم سیکر بڑی حکومت پنجاب کا بیان حکومت پنجاب نے کہا.سیکرٹری : - اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ قادیانیوں کے خلاف تحریک کے مبلغ ، محرک احدادہ تھے.انہوں نے عدالت سے کہا کہ وہ عوام کے مذہبی جذبات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے اس سیاسی غرض سے کام لے رہے تھے تاکہ وہ سیاسی طور پر دوبارہ زندہ ہو جائیں...انہوں نے کہا کہ ختم رسالت پر مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے.لیکن احرار تحریک پھیلانا اور یہ ظاہر کرنا به روزنامه مات لاہور ۲۵ دسمبر ۹۵۳ ر مت کالم شد

Page 457

۴۴۵ چاہتے تھے کہ تحریک صرف انہیں کی تخلیق نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان اس کے پیچھے ہے.انہوں نے کہا کہ ماضی میں انہوں نے اس موضوع کو اپنی واحد سیاسی اجارہ داری بنا رکھا تھا.لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ وہ سیاسی طور پر مٹ جائیں گے تو انہوں نے اس مسئلہ کو عوام کی دلچسپی کا سوال بنا دیا.گواہ کے بیان کے مطابق ان کا خیال یہ تھا کہ اگر مطالبات منظور کہ لیے گئے وہ اپنی ذاتی فتح کا دعوی کریں کیونکہ وہ اس مسئلہ کے بانی تھے لیکن کوئی نقصان پہنچا تو شخص اس میں شریک ہوگا اے که روزنامه ملت او مور ۹ جنوری ۱۹۹۲

Page 458

۴۴۶ پانچواں باب تحقیقاتی عدالت کی کارروائی یکم جولائی ۱۹۵۳ء سے مشروع ہو کر ۲۸ فروری ۱۹۵۳ تک جاری رہی.کل ۱۱۷ اجلاس ہوئے.حین میں ۹۲ اجلاس مشہادتوں کی سماعت اور اندراج کے لیے مخصوص رہے.شہادت ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ء کو ختم ہوئی اور اس مقدمے پر بحث کا آغاز یکم فروری کواور انتقام ۱۲۸ فروری ۹۵ یہ کو ہوا.اس تحقیقات کا ریکار ڈ تحریری بیانات ۳۶۰۰ صفحات اور شہادت کے ۲۷۰۰ صفحات پر مشتمل ہے.تین سو انتالیس دستاویزیں رسماً عدالت میں پیش کی گئیں.اور شہادت اور سحبت کے دوران میں کثیر التعداد کتابوں ، کتابچوں ، رسالوں اور اخباروں کے حوالے دیئے گئے.علاوہ بریں عدالت کو کثیر التعداد چھٹیاں بھی وصول ہوئیں جو کئی کئی صفحوں پر لکھی ہوئی تھیں.اور چند کی میخوامت تو سو صفحے سے بھی زیادہ مفتی.عدالت نے ایک ایک میٹھی کو نہایت احتیاط سے پڑھا اور پانچ ہفتوں میں اپنے تار یا فکر مرتب کیے اور رپورٹ قلمبند کی جو انگریزی میں اور اپریل ۱۹۵۳ء کو شائع کر دی گئی.یہ رپورٹ بڑی تقطیع کے ۲۰۷ صفحات اور تقریبا ایک لاکھ الفاظ پر مشتمل تھی.بعد میں اس کا اردو ایڈیشن بھی شائع کیا گیا.اگر چه حالات سراسر نا موافق تھے اور ماحول انتہائی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ اور مخالفت تمام خداتعالی کے فضل وکرم اور حضرت جماعت احمدیہ کی بریت و مظلومیت مصلح موعود کے تحریری و تقریری بیانات کے نتیجہ میں معرز نہ عدالت کے سامنے صداقت بہت حد تک آشکار ہوگئی.حق کا بول بالا ہوا.جماعت احمدیہ کی یہ تیت، اور مظلومیت ثابت ہوئی اور اس کے مخالفین کے مظالم اور خفیہ منصو بے پوری طرح بے نقاب لے رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات منادات پنجاب ۱۹۵۳ صفحه ۲۰

Page 459

ہو گئے.اور ہوئے بھی حکومت پنجاب کے ذریعے جس نے سرکاری سطح پر آٹھ ماہ تک فسادات پنجاب کی تحقیقات پر لاکھوں روپیہ اپنے بجٹ سے صرف کیا اور پھر فاضل جج صاحبان کی مستند ہ پورٹ کے اردو اور انگریزی ایڈیشن زر کثیر سے چھپوا کر ملک بھر میں شائع کیے.یہ رپورٹ در حقیقت ۹۵۳لہ کے فسادات کی مفصل تاریخ ہے.جس یہ اُس دور کے پاکستانی پریس نے فاضل ججوں کو نہ بر دست خراج تحسین ادا کیا.ملک کے صحافیوں اور دانشور وں نے بالاتفاق اس کو ایک تاریخی دستاد یہ تسلیم کیا ہے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ جماعت احمدیہ کی مظلومیت اور اس کے خلاف الزامات کی بریت سے بریز ہے مثلاً فاضل میچوں نے احمدیوں کے خلاف صوبائی حکومت کے افسوسناک طرز عمل کا نقشہ کھینچتے ہوئے اپنی رائے حسب ذیل الفاظ میں دی : - دو احراریوں سے تو ایسا بہ تار کیا گیا گویا وہ خاندان کے افراد ہیں اور احمدیوں کو اجنبی سمجھا گیا.احراریوں کا رویہ اُس بچے کا سا تھا جس کو اس کا باپ کسی اجنبی کو پیٹنے پر مزا کی دھمکی دیتا ہے اور وہ بچہ یہ جان کر کہ اُسے مزا نہ دی جائے گی اجنبی کو پھر پیٹنے لگتا ہے.اس کے بعد چونکہ دوسرے لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں اس لیے باپ محض پریشان ہو کر بیٹے کو مارتا ہے لیکن نرمی سے تا کہ اُسے چوٹ نہ لگے.اس ایک افواہ اور اس کی تردید فاضل جوں نے ان چالوں کابھی ذکر کی ہے جو شورش پسندوں نے حکام کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے اختیار کر رکھی تھیں مثلاً ایک یہ چال بیان کی کہ : - مدیہ افواہ پھیلائی گئی کہ احمدی موٹر کاروں میں سوار ہو کر اندھا دھند لوگوں پر گولیاں چلا رہے ہیں کا لہ نوائے وقت لاہور (۲۳ - ۲۵ را پر پل ۱۹۵۴ء) لمنت الامور (۲۵-۲۹ اپریل ۱۹۵۲ء) رساله کامود لاہور ۲۶ را بپریل ۶۱۹۵۴) زمیندار سدھار ملتان ریم مئی ۱۹۵۴ء) رساله اقدام لاہور ( ۱۹ مئی ۱۹۵۴ء) تفصیل کے لیے طاخطہ ہو کتاب "Chief Justice Mohammed Munir" ۲۲ تا ح ۲۳۵ شه رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو ص۲۲۲

Page 460

۴۴۸ فاضل جج اس افواہ سے متعلق لکھتے ہیں :- ا ید بیان که بعضی احمد می فوجی وردیاں پہنے ایک جیپ میں سوار ہو کہ لوگوں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنا رہے تھے.ہمارے سامنے موضوع ثبوت بنایا گیا اور اس کی تائید میں متعدد گواہ پیش کیئے گئے.اگر چہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک پر اسرار گاڑی میں بعضی نا معلوم آدمی اس دن شہر میں گھومتے رہے لیکن ہمارے سینے اس امر کی کوئی شہادت نہیں کہ اس گاڑی میں احمد می سوار تھے بادہ گاڑی کسی احمدی کی ملکیت تھی کیلئے جماعت احمدیہ کے امام اور دوسرے بزرگوں کو احراری لیڈروں نے فحش اور اخلاق سوز گالیاں دیں.اس کا ذکر فاضل جج صاحبان نے درج ذیل الفاظ میں کیا ہے :- ایک اردو اخبار مزدور عمان سے شائع ہوتا ہے جس کا ایڈیٹر سید ابوذر بخاری ہے جو مشہور اواری لیڈر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بیٹا ہے.اس اختبار کی غالب توجہ صرف احمدیوں کے خلاف تحریک پر مرکز رہی ہے.اس نے اپنی اشاعت مورخہ ۱۳ رجون 1927 میں ایک مضمون شائع کیا جس میں جماعت احمدیہ کے امام کے متعلق عربی خط میں ایک ایسی نیست اور بازاری بات لکھی کہ ہماری شائستگی ہمیں اس کی تصریح کی اجازت نہیں دیتی.اگر یہ الفاظ احمدی جماعت کے کسی فرد کے سامنے کہے جاتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ کس کی کھوپڑی توڑ دی جاتی تو ہمیں اس پہ ذرا بھی تعجب نہ ہوتا.جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ پرلے درجے کے مکروہ اور مبتذل ذوق کا ثبوت ہیں.اور ان میں اس مقدس زبان کی نہایت گستاخانہ تضحیک کی گئی ہے جو قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کی زبان ہے.اُس زمانہ میں در آزاد " احراریوں کا ترجمان تھا.فاضل جج صاحبان اس اخبار کی شرمناک اشتعال انگیزیوں کا ذکرہ کر کے لکھتے ہیں :.ور آزاد احراریوں کا اخبار ہے جس کے ایڈیٹر ماسٹر تاج الدین انصاری ہیں.اس اخبار نے اپنے آخانہ ہی سے اپنے کالموں میں احمدیوں اور ان کے عقائد اور ان کے لیڈروں کے خلاف نہایت بازاری ، ناشائستہ اور زمر علی مہم جاری کر رکھی تھی.چونکہ حکومت پنجاب نے اس کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا تھا اس لیے مرکزی حکومت نے اپنی بیٹی نمبری - Poll ۲۲/۱/۵۱ مورخہ ۲۷ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ م۱۵۹ به من تحقیقاتی عدالت ص ۸۰ - ۸۸

Page 461

۴۴۹ مٹی 10 ء میں اس اخبار سے بعض مضامین کے تراشے منسلک کر کے اُن کی طرف حکومت پنجاب کی توجیہ مبذول کرائی......لیکن اس اخبار کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی اور حکومت پنجاب نے اپنی سیٹھی ڈی.اور نمبری PRAY ۷۸۸ مورخه ۳۰ اگست ۱۹۵۳ء میں مرکزہ ہی حکومت کو صرف یہ اطلاع دے دی کہ اخبار مذکور کو شدید تنبیہ کر دی گئی ہے یا لے سپورت تحقیقاتی عدات کا ایک اہم نشان انا انا انا نان نان راست میگر را دارد فاضل رج صاحبان نے رپورٹ گوجرانوالہ کے حالات بیان کرتے ہوئے یہ ہم ایک میان کیا کہ جولائی ۱۵ کی ایک منو انفرنس میں ایک مقرر نے حضرت امام جماعت احمدیہ کے قتل پر اکسایا اور احمد می کوقتل کرنا موجب رضائے الہی قرار دیا.رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں.در جولائی 1924ء میں ایک اور کانفرنس ہوئی جس میں صاحبزادہ فیض الحسن نے یہ اعلان کیا کر کسی حمدی کو قتل کرنا رضائے الہی کا موجب ہے جب کا نفرنس ختم ہوئی تو مولانا اختر علی خان کے اعزاز میں ایک دعوت چائے دی گئی جس میں ڈپٹی کمشنر اور سلم لیگی لیڈر بھی شامل ہوئے بعد میں احمدیوں نے ڈپٹی کمشنر سے شکایت کی کہ اس کا نفرین میں ایک مقرر نے حاضرین کو امام جماعت احمدیہ کے قتل پر اکسایا تھا یا ہے یہ اشتعال انگیز ہاں جو معلوم نہیں شورش کے ایام میں کس کس شکل میں اور کس کس مقام پر کی گئیں پنجاب کی مسلم لیگی حکومت نے ان کو ذرہ برا یہ کوئی حیثیت نہ دی ، بالاخره رنگ لائیں اور - ار مارچ ۱۹۵۷ کو یعنی تحقیقاتی عدالت میں بیان کے صرف دو ماہ کے اندر حضرت مصلح موعود پر ایک بد بخت نے بیت مبارک ربوہ میں نماز عصر کے بعد چاقو سے حملہ کر دیا.اس دردناک حادثہ کی تفصیل تاریخ احمدیت کی یادیں جلد میں اُرہی ہے.رہ کو الف کیا تھے جو 4 مارچ ۱۹۵۳ٹ کو لاہور میں ماکوان مارشل لاء پر منتج ہونے والے کوائف مارشل لاء کے نفاذ کا موجب ہوئے ؟ ؟ فاضل جمی صاحبان نے اس ضمن میں لکھا : - کے ے رپورٹ تحقیقاتی عدالت مریام سے رپورٹ تحقیقاتی عدالت منادات پنجاب ۹۵۳ء منها داردد)

Page 462

یہ امر تمام جماعتوں کے نزدیک مسلم ہے کہ ہر مارچ کو جو کوائف موجود تھے ان میں حالات کو نوج کے حوالے اور سول اقتدار کو فوج کے ماتحت کر دینا بالکل ناگزیر ہو چکا تھا.سول کے حکام جو عام حالات میں قانون و انتظام کے قیام کے ذمہ دار ہوتے ہیں کا ملا بے بس ہو چکے تھے اور ان میں 4 مارچ کو پیدا ہونے والی صورت حالات کا مقابلہ کرنے کی کوئی خواہش اور اہلیت باقی نہ رہی تھی.نظم حکومت کی مشینری بالکل بگڑ چکی تھی اور کوئی شخص مجرموں کو گر فتار کر کے یا ارتکاب جرم کو روک کر قانون کو نافذ العمل کرنے کی ذمہ داری لینے پر آمادہ یا خواہاں نہ تھا.انسانوں کے بڑے بڑے مجمعوں نے سنجو معمولی حالات میں معقول اور سنجیدہ شہریوں پر شتمل تھے ایسے سرکش اور جنوں زدہ بچوموں کی شکل اختیار کر لی تھی جن کا واحد جد یہ یہ تھا کہ قانون کی نافرمانی کریں اور حکومت وقت کو جھکنے پر مجبور کر دیں.اس کے ساتھ ہی معاشرے کے ادئی اور ذلیل عناصر موجودہ بد نظمی اور ابتری سے فائدہ اٹھا کر جنگل کے درندوں کی طرح لوگوں قتل کر رہے تھے.ان کی املاک کو لوٹ رہے مجھے اور قیمتی جائیداد کو نذر آتش کر رہے تھے محض اس لیے کہ یہ ایک دلچسپ تما شا تھا.یا کسی خیالی دشمن سے بدلا لیا جا رہا تھا.پوری مشینری جو معاشرے کو زندہ رکھتی ہے پرزہ پرزہ ہو چکی تھی.اور مجنون انسانوں کو دوبارہ ہوش میں لانے اور بے میں شہریوں کی حفاظت کرنے کے لیے ضرور ی ہو گیا تھا کہ سخت سے سخت تدابیر اختیار کی جائیں گویا مارشل لاء کے نفاظ کی براہ راست ذمہ دار فسادات تھے " 1 اس کھلی بغاوت کے دوران صوبائی حکومت صوبائی حکومت اور سیاسی لیڈروں کا طرز عمل اور لاہور کے سیاسی بیٹیوں کا طرز صل عمل کیا تھا ؟ اس پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ حسب ذیل روشنی ڈالتی ہے :- ر در مارچ کی سہ پہر کو گورنمنٹ ہاؤس میں شہریوں کا جو اجلاس ہوا اس میں کوئی لیڈر کوئی سیاسی آدمی اور کوئی شہری اس پر آمادہ نہ ہوا کہ شہریوں سے عقل و ہوش اختیار کرنے کی اپیل پر دستخط کرے.سب خوفزدہ تھے کہ ایسا کرنے سے وہ عوام میں نا مقبول ہو جائیں گے.ٹوائی ہجوم نے کو توالی کا محاصرہ کر رکھا تھا اور ہر مارچ کی شام کو وزراء د حکام کے اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے ان کا مطلب پولیس نے یہ سمجھا کہ گولی چلانا بالکل بند کر دیا جائے.لہذا بلوائی ہجوم نے کوتوالی کا محاصرہ جاری رکھا.ہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ اردوس ۱۹۲ ۶۱۹۳

Page 463

اور اور مارچ کی صبح کو حکومت کی مشینری میں پورے سقوط کے آثار نظر آنے لگے.یہاں تک کر کورت نے طوائف الماء کی کے آگے کھلم کھلا ہتھیار ڈال دینے کا اعلان کر دیا.اس دن صبح کو چیف منسٹر کا بیان محض میکیاولیت کا ایک نمونہ تھا.لیکن یہ چال کامیاب نہ ہوسکی.صورت حالات بالکل قابو سے باہر ہوگئی اور شہریوں نے محسوس کیا کہ ان کے جان و مال کو سخت خطرہ درپیش ہے الخ “ لے سہ پہر کے جلسہ میں گورزا اور چیف منسٹر کے ایماء پر انسپکٹر جنرل پولیس نے صورت حالات کی معضل کیفیت بیان کی.ان کے بعد دوا اور مقررین یعنی مولانا ابوالاعلی مودودی اور مسٹر احمد سعید کرمانی ایم ایل اے نے تقریریں کیں.مولانا نے صورت حالات کو حکومت اور عوام کے درمیان خانہ جنگی سے تعبیر کیا اور بتایا کہ جب تک حکومت عوام کے مطالبات کے متعلق خور کرنے پر آمادگی ظاہر نہ کرے گی میں کسی اپیل میں تشریک نہیں ہو سکتا ہے انہی کے متعلق ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ :.جماعت اسلامی کے لیڈر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے حکومت کی ان سر توڑ کوششوں میں جو وہ ر مارچ کو فسادات کے روکنے کے لیے کر رہی تھی کسی قسم کا تعاون پیش نہ کیا......اس کے برعکس مولانا نے سرکشانہ رویہ اختیار کیا تمام واقعات کا الزام حکومت پر عائد کیا اور فسادی عناصر کو تشدد کا شکار کہ کر ان سے عام ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کی.گورنمنٹ ہاؤس میں انہوں نے جور دیہ اختیار کیا اس کے متعلق جو شہادت پیش ہوئی ہے اس سے ہم یہی اثر قبول کر سکتے ہیں کہ وہ پورے نظام حکومت کے انہدام کی توقع کر رہے تھے اور حکومت کی متوقع پر یشانی پر بغلیں بجارہے تھے.اس نے ان فسادات کو فرو کرنے کے لیے ہو نہایت سرعت سے نہایت تشویش انگیز صورت اختیار کر رہے تھے قوت کا استعمال کیا.سید فردوس شاہ کو ہم کی شام کو ایک عضب ناک ہجوم نے مسجد وزیر خاں کے اندر یا با سر قتل کر دیا.یہ بعد میں ہونے والے واقعات کا محض ایک پیش خیمہ تھا لیکن اس حادثے کے بعد بھی جماعت اسلامی نے نہ اظہار تاسف کیا نہ اس وحشیانہ قتل کی مذمت میں ایک لفظ کہا بلکہ اس کے برعکس اس جماعت کے بانی نے آگ اور خون کے اس ہولناک ہنگامے کے سه ر پورٹ م۳ ۲۵ ب سه رپورٹ ص۱۶۳ : ۳ رپورٹ تحقیقاتی عدالت ۲۵۰

Page 464

۴۵۲ در میان " قادیانی مسئلہ کا بم پھینک دیا لے تحقیقاتی عدالت کے بنیادی فرائض میں یہ شامل محتا کہ وہ تحقیق و تفتیش فسادات کی ذمہ داری کے بعد رائے قائم رہے کہ سادات کی ذمہ داری کس جماعت یا رو پر عائد ہوتی ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے فاضل جج صاحبان نے اگر چہ بعض واقعات کی طرف اشارہ کر کے یہ لکھا کہ :.اُن کے خلاف عام شورش کا موقع خود انہیں کے طرز عمل نے بہم پہنچا یا ہے نگر بایں ہمہ انہوں نے واضح لفظوں میں یہ فیصلہ دیا :.احمد می براہ راست فسادات کے لیے ذمہ دار نہ تھے کیونکہ فسادات حکومت کے ماسو اقدام کا نتیجہ تھے جو حکومت نے اس پروگرام کے خلاف کیا تھا جو ڈائر یکٹ ایکشن کی قرارداد کے ماتحت آل مسلم پارٹیز کنونشن نے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا ا سے اس کے مقابل فاضل ججوں نے اپنی تحقیقات کی بناء پر مندرجہ ذیل جما عنتوں یا اداروں کو فسادات پنچا؟ کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا :- (1) مجلس احراره (۲) جماعت اسلامی (۳) آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونش کرا چا ) آل مسلم پارٹیز کنونشن لاہور (ہ) تعلیمات اسلامی بورڈ کراچی کے ممبر (4) صوبائی مسلم لیگ (۷) مرکزی حکومت (۸) محکمہ اسلامیات (۹) اخبارات مطالبات کا بے فائل کا سامان سے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا.خواجہ ناظم الدین نے اپنی شہادت میں ایک نہایت موزوں تشبیہ استعمال کی ہے.اور شکایت کی ہے کہ مسٹر دولتانہ چاہتے تھے کہ میں " ننھے کو لیے رہوں، اگر مطالبات کو ایک ننھے بچے سے تشبیہ دی جائے.تو فرمہ داری کے پورے موضوع کو ایک فقرے میں بیان کیا جا سکتا ہے.مثلاً احرار نے ایک بچہ جنا جسے انہوں نے متبثی بنانے کے لیے علماء کی خدمت ے رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر ۱ ، ۲ : شه رپورٹ تحقیقاتی عدالت صرا۲۸ ایضاً ص ۲۷۹

Page 465

میں پیش کیا.علماء نے اس کا باپ بنا منظور کر لی.لیکن مسٹر دوستان نے سمجھ لیا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر پنجاب میں شرارت کر دے گا لہذا انہوں نے اس کو ایک نہر میں بہا دیا.جو میر نور احمد کی مددستے کھو دی گئی تھی.اور جس کو پانی اخباروں اور خود مستر دولتانہ نے بہیا کیا تھا.جب یہ بچہ حضرت موسیٰ کی طرح بہتا ہوا خواجہ ناظم الدین تک پہنچا تو انہوں نے دیکھا کہ بچہ خوبصورت تو ہے.لیکن اس کے چہرے پر ایک مین جین اور ایک غیر معلوم سی ناگواری نظر آتی ہے.چنانچہ انہوں نے اس کو گود میں لینے سے انکار کیا.اور پرے پھینک دیا.اس پر نیچے نے ایڑیاں رگڑنا اور شور مچانا شروع کردیا.اس شور نے اس کی پیدائش کے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.اور خواجہ ناظم الدین اور مٹر و دولتانہ دونوں کو موقوف کرا دیا.یہ بچہ ابھی زندہ ہے اور راہ دیکھ رہا ہے کہ کوئی آئے اور اسے اٹھا کر گود میں لے لے.اس مملکت خدا داد پاکستان میں سیاسی ڈاکو ؤں.طالع آنہ ماؤں اور گنام اور بے حیثیت آدمیوں.غرض سب کے لیے کوئی نہ کوئی کر دنگار موجود ہے.ہمارے سامنے صرف دو ایسے آدمی ہیں، جنہوں نے اس خستم کا روزگار قبول کرنے سے انکار کیا ہے.یعنی سردار بہادر خان وزیر مواصلات اور مسٹر حمید نظامی ایڈمیر" نوائے وقت" انہوں نے اس بچے کو اور اس کے تمام نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا یہ ہے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ مندرجہ ذیل فقرات پر ختم ہوتی ہے رپورٹ کے اختتامی الفاظ ہمارا خیا ہے کہ یہ مطلبات بغیر کسی مذہبی احتیاط کے بغیر امن عامہ کو خطرے میں ڈالے اور بغیر حیات عامہ کو صدمہ پہنچائے مسترد کیے جا سکتے تھے.لیکن ہمارے نزدیک قانون و انتظام کی صورت حالات کے مقاصد کے لیے ان کا جواب دینا بالکل ضروری نہ تھا.وہ صورت حالات تو ایک سادہ حکم امتناعی کے نفاذ ہی سے بہت بہتر ہو گئی تھی رگوده حکم بہت ناکافی تھا، لیکن جب جولائی ۱۵ء کے بعد احرار اور علماء کے ہر قول و فعل کی طرف سے کامل ہے پر دائی کا رویہ اختیار کر لیا گیا، تو وہ صورت حالات مچھر بگڑتی چلی گئی.بلکہ اس کے بر عکس چیف منسٹر کی ان تقریروں کی وجہ سے یہ بگاڑ اور بھی نہ یادہ ہو گیا.جن میں انہوں نے علی الاعلات ک تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ مک۳۰

Page 466

۴۵۴ یہ خیال ظاہر کیا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں.اخبارات نے یقینا ڈائر یکٹر تعلقات عامہ کی حوصلہ افزائی سے شورش کی آگ کو ہوا دی اور ہم ڈاکٹر قریشی کے اس خیال سے متفق ہیں کہ مسٹر دولتانہ ہرگزہ اس امر سے بے خبر نہ ہو سکتے تھے.کہ اخبارات کیا کر رہے ہیں.اردو کے چار اخباروں کو ان کے ہزاروں پر چوں کے عوض بڑی بڑی رقمیں دی گئیں اور وہ پرچے بھی شاید خرید سے نہ گئے.اور یہ سب کچھ ایک پرانی پالیسی کی تعمیل میں کیا گیا.کہ حکومت کی حمایت کرنے والے اخباروں کی سر پرستی کی جائے اور اگر چہ یہی اخبارات سب سے زیادہ سٹورش انگیزی کر رہے تھے.لیکن بجولائی 1907ء میں ان کے معاہدوں کی تجدید کر دی گئی اور مسٹر دولتانہ کو اس کا علم تھا دو لاکھ روپے کی رقم تو امی نے ناخواندہ یا نوں کی تعلیم کے لیے منظور کی تھی مسٹر و دولتانہ کے احکام کے ماتحت ان چار اختاروں کی خریداری کیلئے منتقل کرلی گئی.اور کہا گیا کہ اس سکیم کو خفیہ رکھا جائے.ڈار کیٹر نے نہایت خیرہ پیشی سے ہمارے سامنے بیان کیا کہ بی سیم خواندگی کو ترقی دینے کے لیے نہیں بلکہ خاص قسم کے اخباروں کی امداد کے لیے وضع کی گئی تھی.زمیندار" با وجود اس امر کے کہ وہ جولائی ۱۹۵۲ء کے بعد بھی جب ڈاکٹر قریشی نے مسٹر و دلتانہ سے شکایت کی متقی ، برابر نفرت کی تلقین و اشاعت کرتا رہا.گویا مامور من اللہ سمجھا جاتا رہا اور اس کے خلاف اقدام اس وقت تک ملتوی ہوتا رہا سبب آخراس التواء کی کوئی گنجائش نہ رہی.کیونکہ مرکز نے سخت شکایت کی تھی.احراریوں کے آرگن آزاد کی طرف مرکز نے بار بار صوبائی حکومت کو توجہ دلائی اور صوبائی حکومت نے ہر دفعہ محنی تنبیہ پر اکتفا کیا.مجلس عمل کے چیلنج کو دونوں میں سے کسی حکومت نے بھی سنجیدگی سے قابلِ توجہ نہ سمجھا.خواجہ ناظم الدین آخری لمحے تک اسی اُمید میں رہے کہ غیب سے کوئی اچھا سامان ہو جائے گا.اور صوبائی حکومت مطمئن رہی کہ شورش کا آغانہ کراچی میں ہو گا.آخر کار حب الٹی میٹم.ذکر دیا گیا.تو پوری صورت حالات کو بالکل تھیٹر کے ایک پر امن تماشے کی طرح سمجھا گیا.جس میں مطمئن سامعین کی دلچسپی کے لیے سٹیج پر جلوس نکالے اور نعرے لگانے جا رہے ہوں.لاہور میں جلوس قریب قریب روزانہ نکلتے ہیں.اور کوئی شخص ان کی پرواہ بھی نہیں کرتا.جرگے بہت ہو رہے تھے.اور کارروائی بالکل مفقود تھی ، پولیس بھی موجود دھتی اور فوج بھی موجود تھی.اور جیسا کہ آفسر نے کہا ہر شخص صورت حالات کے متعلق گہرے غور وخوض میں مصروف تھا اور ہر شخص کو معلوم تھا.کہ

Page 467

۴۵۵ کیا کرنا چاہیئے.ہرشخص محسوس کر رہا تھا کہ فوج خصہ کام انجام دے سکتی تھی لیکن کس کو بہ معلوم نہ تھا کہ ایسا کیوں نہ ہوا.بعض کہتے ہیں کہ وہ تین تھے اور چو تھا ان کا کتا تھا.دوسرے کہتے ہیں کہ وہ پانچ سھتے اور چھٹا ان کا کتا تھا.لوگ یونہی قیاسی باتیں کرتے ہیں.......تو کہدے کہ میرا خدا بہتر جانتا ہے (کہف) ہمیں یقین واثق ہے کہ اگر احرار کے مسئلے کو سیاسی مصالح سے الگ ہو کر محض قانون د انتظام کا مسئلہ قرار دیا جاتا تو صرف ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایک سپر نٹنڈنٹ پولیس ان کے تدارک کے لیے کافی تھے.چنانچہ وہ طاقت جسے انسانی ضمیر کہتے ہیں.ہمیں یہ سوال کرنے کی ترغیب دیتی ہے.کہ آیا ہمارے سیاسی ارتقاد کے موجودہ مرحلے پر قانون و انتظام کا مسئلہ اس جمہوری ہم بستر سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا جسے وزارتی حکومت کہتے ہیں.اور جس کے سینے پر ہر وقت کا بوس سوار رہتا ہے.لیکن اگر جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ قانون و انتظام کو سیاسی اعتراض کے ماتحت کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ ہی علیم وخبیر ہے کہ کیا ہوگا اور یہاں ہم رپورٹ کو ختم کرتے ہیں یہ لے رپورٹ تحقیقاتی عدالت ار احراری از آن کا جائزہ اور میٹر تک میں جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کے لیے جو الزامات جماعت احمدیہ پر مسلسل عائد کر رہے تھے.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں اُن کا جائزہ بھی لیا گیا.مثلاً رپورٹ میں لکھا ہے :.احرار می تقرین کئی دفعہ اپنی تقریروں میں کہ چکے ہیں کہ مرزا محمود احمد اور چوہدری ظفر اللہ خاں کی غداری ہی کی وجہ سے ضلع گورداسپور بھارت میں شامل ہو گیا اور پاکستان کو نہ مل سکان سے فاصل مجوں نے اس الزام کو سراسر جھوٹا قرار دیا اور اپنی رپورٹ میں لکھا:.احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزامات لگانے گئے ہیں کہ بونڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپوبہ اس لیے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے ایک خاص تحقیقاتی رپورٹ میں ۳۲۴ تا ۴۲۵ : سه رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص ۱۲۵ - ۱۲۶

Page 468

۴۵۶ مدیہ اختیار کیا اور چو ہدری ظفر اللہ خاں نے جنہیں قائد اعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کیے لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا نمبر تھا اس بہادرانہ جد وجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کر نا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چو ہدری ظفر اللہ خاں نے گھر یہ داسپور کے معاملے میں کی تھی.یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر وباہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلے.دلچسپی ہو رہ شوق سے اس ریکار ڈ کا معائنہ کر سکتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں.ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں اُن کا ذکر میں اندازہ میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے لہ ۱۹۵۳ء کی ساری شورش ستحفظ ختم نبوت کے نام پر اٹھائی گئی تھی.فاضل جوں نے اپنی رپورٹ میں جماعت احمدیہ کا ذکر کر کے لکھا : - ہمارے سامنے تو موقف اختیار کیا گیا ہے وہ واضح طور پر یہ ہے کہ مرزا غلام احمد اپنے آپ کو محض اس لیے نبی کہتے تھے کہ اُن کو ایک الہام میں اللہ تعالیٰ نے نبی کر کے مخاطب کیا تھا.وہ کوئی نیا قانون یا ضابطہ نہیں لائے.انہوں نے اصلی اور پرانی شریعت میں نہ کوئی تنسیخ کی ہے نہ اضافہ کیا ہے.اور مرزا صاحب کی وحی پر ایمان نہ لانے سے کوئی شخص خارج از اسلام قرار نہیں دیا جا سکتا ہ سے فاضل ججوں نے مسئلہ وفات درحیات مسیح کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کا یہ عقبہ درج کیا ہے کہ :." میری صلیب پر نہیں ، بلکہ عام حالات میں طبعی موت مرے تھے.اُن کے حصائل رکھنے والا ایک اور آدمی موعود تھا.چنانچہ وہ مرزا غلام احمد کی شخصیت میں ظہور کہ چکا ہے.دہ نامور علماء دائمہ کی کئی تحریرات اپنے اس عقیدہ کی تائید میں پیش کرتے ہیں کہ روزہ قیامت سے پیشتر جویی موعود ظاہر ہونے والا تھا خود مسیح نہیں بلکہ مثیل مسیح ہو گائے سے سے رپورٹ تحقیقاتی عدالت ۲ : ۲ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۹۹ سے رپورٹ تحقیقاتی عدالت، صفحه ۲۰۲

Page 469

۴۵۷ بہت سے یہ مکروہ پراپیگنڈا بھی کیا جارہا تھا کہ معاذ اللہ احمد می جہاد اسلامی کے منکر ہیں.اور یہ کہ بانی جماعت احمدیہ نے اس عباد کو جو قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور اسلام کی روح رواں ہے منسوخ کر دیا ہے.فاضل جج صاحبان نے اس بارے میں بالوضاحت لکھا کہ :.جہاں تک عقیدہ جھاد کا تعلق ہے احمدیوں کا خیال یہ ہے کہ میں جہاد کو جہاد بالسیف کہتے ہیں وہ صرف اپنے دفاع میں جائز ہے اور مرزا غلام احمد (صاحب) نے اس مسئلہ پر اپنا خیال پیش کرتے ہوئے محض ایک عقیدہ مرتب کر لیا ہے جو قرآن مجید ہی کی متعدد آیات پر مبنی اور براہ راست اسی سے ماخوذ ہے (فاضل ججوں نے وہ آیات بھی اس سے قبل نقل کر دیں.ناقل ) اور مرزا صاحب قرآن مجید کے کسی قاعدے یا کسی درایت کو منسوخ وموقوف کرنے کے مدعی نہیں ہیں راسل غیر احمدی علما ءکے عدالت میں جہاد کے متعلق حضرت بانی جماعت احمدیہ کے بعض اقوال و اقتباسات پیش کیے تھے.فاضل ججوں نے ان کا ذکر کر کے لکھا: - د احمدیوں کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جو الفاظ و تصریحات استعمال کی گئی ہمیں اُن میں تنسیخ کا مفہوم نہیں بلکہ قرآن مجید کے ایک عقیدے کی تعبیر و توجیہ ہے جو صدیوں سے غلط فہمی کا شکار بنارہا ہے اور بہر کیف ان الفاظ کی تعمیر دوسرے لوگ کچھ بھی کریں احمدیوں نے اس کا مطلب ہمیشہ یہی سمجھا ہے کہ ان میں کوئی نیا عقیدہ رائج نہیں کیا گیا.بلکہ اسی اصلی اور ابتدائی عقیدے کا اعادہ ہے جو قرآن مجید میں موجود ہے اور مرزا غلام احمد (صاحب) نے صرف پرانے عقیدے کی پاکیزگی کو میل کچیل سے پاک کر دیا.جماعت احمدیہ نے اس سلسلہ میں بضع الحرب ، کی حدیث بھی پیش کی ہے اور کہا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی تحریرات میں کسی قانون کو منسوخ نہیں کیا.بلکہ اس حدیث کے مطابق صرف قتال کو معطل کر دیا ہے.یہ نکتہ بے حد اہم ہے کہ جماعت احمدیہ اپنے قیام کے آغازہ ہی سے یہ عقیدہ پیش کرتی آرہی ہے کہ اسلام آزادی مله ره پورت تحقیقاتی عدالت می ۲۰۵ : ۲ د رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر ۲۰۶ -

Page 470

فکر کا علمبر دار ہے اور اس میں محض ارتداد کی سزا ہرگزہ قتل نہیں.عدالت میں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا اور مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی دیوبندی کے رسالہ " اشتہاب کو بڑی اہمیت دی گئی جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے.فاضل ججوں نے جماعت احمدیہ کے نظریہ کی پر نور تائید کرتے ہوئے لکھا :.بر ارتداد کے لیے سزائے موت بہت دُور رس متعلقات کی حامل ہے.اور اس سے اسلام مذہبی جنونیوں کا دین ظاہر ہوتا ہے جس میں حریت فکر مستوجب سزا ہے.قرآن تو بار بار عقل و فکر پر زور دیتا ہے.رواداری کی تلقین کرتا ہے اور مذہبی امور میں جبر و اکراہ کے خلاف تعلیم دیتا ہے لیکن ارتداد کے متعلق جو عقیدہ اس کتابچے میں پیش کیا گیا ہے.وہ آزادی فکر کی جڑ پر ضرب لگا رہا ہے.کیونکہ اس میں یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ جو شخص پیدائشی مسلمان ہو یا خود اسلام قبول کر چکا ہو وہ اگر اس خیال سے مذہب کے موضوع پر فکر کرے کہ تجود مذہب اسے پسند آئے اس کو اختیار کرے تو وہ سزائے موت کا مستوجب ہوگا.اس اعتبار سے اسلام کامل ذہنی فالج کا پیکر بن جاتا ہے.اور اگر اس کی سیہ کا یہ بیان مسیح ہے کہ عرب کے وسیع رقبے بار ہا انسانی خون سے رنگین ہوئے تھے تو اس سے یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ عین اس زمانے میں بھی جب اسلام عظمت و شوکت کے نقطہ عروج پر تھا اور پورا عرب اس کے زیر نگیں تھا اس ملک میں بے شمار ایسے لوگ موجود تھے جو اس مذہب سے منحرف ہو گئے تھے اور انہوں نے اس کے نظام کے ماتحت رہنے پر موت کو ترجیح دی مفتی کا ہے ورزی داخل کیا جنہوں نے حکومت پنجاب کو اس کتابچہ کی منبعی کا مشورہ دیا تھا اور جو خود بھی دینی امور میں خاص مہارت رکھتے ہیں ذکر کر کے فاضل جج لکھتے ہیں کہ: - انہوں نے مزدور یہ سوچا ہوگا کہ اس کتابچے کے مصنف نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ اس نظیر پر مبنی ہے جو عہد نامہ حقیق کے فرات ۲۶ ۲۷ ۲۸ میں مذکور ہے اور میں کے متعلق رپورٹ تحقیقاتی عدالت، ص۲۳۷

Page 471

۴۵۹ قرآن کی دوسری سورۃ کی تو نوای آیت میں بجز دی سا اشارہ کیا گیا ہے.اس نتیجے کا اطلاق اسلام سے ارتداد پر نہیں ہو سکتا.اور چونکہ قرآن مجید میں استعداد پر سزائے موت کی کوئی واضح آیت موجود نہیں اس لیے کتابچے کے مصنف کی رائے بالکل غلط ہے بلکہ اس کے برعکس ایک تو سورہ کافرون کی چھت مختصر آیات میں اور دوسری سورۃ کی آیت لا اکراہ کی تہہ میں جو معلوم ہے اس سے دوہ نظر یہ بالکل غلط ثابت ہوتا ہے جو انتخاب میں قائم کیا گیا ہے.نیز لکھا:.سورہ کا فردن صرف تین الفاظ پر مشتمل ہے.اس کی کوئی آیت چھے الفاظ سے زیادہ کی نہیں.اس سورت میں وہ بنیادی خصوصیت واضح کی گئی ہے جو کہ دار انسانی میں ابتدائے آفرنیش سے موجود ہے.اور "لا اکراہ “ والی آیت میں جس کا متعلقہ صرف کو الفاظ پر شتل ہے ذہن انسانی کی ذمہ داری کا قاعدہ ایسی صحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بہتر صحت ممکن نہیں.یہ دونوں متن جو الہام الہی کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں، انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے اس اصول کی بنیاد واساس ہیں جس کو معاشرہ انسانی نے صدیوں کی جنگ و پیکار اور نفرت و خونریزی کے بعد اختیار کیا ہے اور قرار دیا ہے کہ یہ انسان کے اہم ترین بنیادی حقوق میں سے ہے لیکن ہمارے علمار محققین اسلام کو جنگجوئی سے کبھی الگ نہیں کریں گے یا سلہ مخالف علما ء چونکہ یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کے حقوق اور علماء احمدیوں کو اقلیت قرار دے کر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو وزارت خارجہ سے اور دوسرے احمدیوں کو کلیدی عہدوں سے بنایا جائے اس لیے فاضل عدالت کے سامنے یہ اہم نکتہ بھی زیر غور آیا کہ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کیا حیثیت حاصل ہوگی ؟ آیا انہیں دہی حقوق شہریت حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو ہوں گے ؟ اور انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ ے دو رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۲۳۷ / ۲۳۸

Page 472

کا حق ہو گا یا نہیں ؟ا فاصل بیج لکھتے ہیں :." اگر ہم اسلامی دستور نافذ کریں گے تو پاکستان میں غیر مسلموں کا موقف کیا ہوگا ہے متاز علماء کی رائے یہ ہے کہ پاکستان کی اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کی حیثیت زمیتوں کی سی ہوگی اور وہ پاکستان کے پورے شہری نہ ہوں گے کیونکہ ان کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہوں گے.وضع قوانین میں اُن کی کوئی آوازہ نہ ہو گی.قانون کے نفاذ میں اُن کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور انہیں سرکاری عہدوں پہ فائز ہونے کا کوئی حق نہ ہو گا یا ہے فاضل رج مولانا عبد الحامد صاحب بدایونی کی شہادت سے متعلقہ فقرات درج کر کے یہ د پس اس عالم دین کی شہادت کی رو سے پاکستان کے غیر مسلم نہ تو شہری ہوں گے انہیں زمیوں یا معاہدوں کی حیثیت حاصل ہوگی یا سے امیر شریعت احرار جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ ٹیکن نہیں کہ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کا وفادار ہو.اسی طرح چار کروڑ مہندوستانی مسلمانوں کے لیے بھی یہ مکن نہیں کہ وہ اپنی مملکت کے وفادار شہری ہوں یاسے اس بیان پر فاضل جج لکھتے ہیں :.یہ جواب اس نظریے کے بالکل مطابق ہے جو ہمارے سامنے پر زور طریق پر پیش کیا گیا ہے.لیکن اگر پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دستور کی بنیاد مذہب پر رکھتے تو ہی حق اپنے ملکوں کو بھی دینا ہوگا.جن میں مسلمان کافی بڑی اقلیتوں پر مشتمل ہیں یا جو کسی ایسے ملک میں غالب اکثریت رکھتے ہیں جن میں حاکمیت کسی غیر مسلم قوم کو حاصل ہے.اسے پی جب پاکستان کی اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کا یہ موقف ہوگا تو رو عمل کے طور پر اس کے بعض نتائج ان مسلمانوں پر ضرور اثر انداز ہوں گے جو غیر مسلم مملکتوں میں آباد ہیں.اس لیے عدالت نے علماء سے یہ سوال کیا کہ اگر پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ شہریت کے معاملات میں مسلموں سے ش کر پورٹ تحقیقاتی عدالت، صفحه ۲۲۹ : سه ر پورٹ تحقیقاتی عدالت مستحمر منبر ۲۳۱ سے ایضاً مر ۲۲۵ سے رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۲۴۵

Page 473

مختلف سلوک کیا جائے.تو گیا علماء کو اس امر پہ اعتراض ہو گا ؟ مولانا ابو الحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیۃ العلماء پاکستان نے یہ جواب دیا کہ ہندووں کو جو ندوستان میں اکثریت رکھتے ہیں.ہندو دھرم کے ماتحت مملکت قائم کرنے کا حق ہے اور اگر اس نظام حکومت میں منو شاستر کے ماتحت مسلمانوں سے ملیچھوں یا شودروں کا سا سلوک کریں تو ان پر مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا.اسی طرح مولانا مودودی صاحب نے کہا :- یقینا مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا کہ حکومت کے اس نظام میں مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں کا سا سلوک کیا جائے ان پر منو کے قوانین کا اطلاق کیا جائے اور انہیں حکومت میں حصہ اور شہریت کے حقوق قطعاً نہ دیئے جائیں لے میاں طفیل محمد قسیم جماعت اسلامی کے متعلق رپورٹ کہتی ہے کہ :.اس گواہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے.کہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت اپنے ملک کی سرکاری فازمتوں میں مسلمانوں کو آسامیاں پیش بھی کر رہے.تو ان کا فرض ہو گا کہ ان کو قبول کرنے سے انکار کردین" ہے غازی سراج الدین صاحب میر نے جب یہ جواب دیا کہ ہمسایہ ملک اپنے سیاسی نظام کو اپنے مذہب پر مبنی قرار دے سکتا ہے.تو عدالت نے اس سے سوال کیا.سوال : کیا آپ کا تیق تسلیم کرتے ہیں.کہ وہ تمام مسلمانان ہند کو شور اور میچ قرار د سے دیں اور انہیں کسی قسم کا شہری حق نہ دیں.جواب :.ہم انتہائی کوشش کریں گے.کہ ایسی حرکت سے پہلے ہی اُن کی سیاسی حاکمیت ختم کر دی جائے.ہم مہندوستان کے مقابلے میں بہت طاقتور ہیں.ہم ضرور اتنے مضبوط ہوں گے کہ ہندوستان کو ایسا کرنے سے روک دیں " سبب غازی صاحب نے عدالت کے سوال پر یہ جواب دیا کہ تبلیغ اسلامی مذہبی فرائٹن میں سے ہے اور مسلمانان ہند کا بھی فرمن ہے کہ علی الاعلان اپنے مذہب کی تبلیغ کریں.اور ان کو اس کا حق حاصل لہ رپورٹ تحقیقاتی عدالت م۲۲۵ : ۲ رپورٹ تحقیقاتی عدالت مت ۲۴

Page 474

ہونا چاہیئے تو عدالت نے سوال کیا.سوال انه اگر من دوستانی مملکت درمی بنیاد پر قائم کر دی جائے اور وہ اپنے مسلم باشندوں کو تبلیغ مذہب کے حق سے محروم کردے تو کیا ہوگا ؟ جواب : - اگر مہند وستان کوئی ایسا قانون وضع کرے گا تو چونکہ میں تحریک توسیع پر ایمان رکھتا ہوں.اس لیے ہندوستان پر حملہ کر کے اس کو فتح کر لوں گا.اس پر عدالت نے یہ ریمارک لکھا ہے :.گر یا مذہبی وجوہ کی بناء پر امتیازی سلوک کی باہم مساوات کا یہ جواب ہے یا پھر فاضل ججوں نے اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کی ہے.ہمارے سامنے جس نظریے کی حمایت کی گئی ہے.اس کو اگر مہندوستان کے مسلمان اختیار کر لیں تو وہ مملکت کے سرکاری عہدوں سے کا ملا محروم ہو جائیں گے اور صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی ان کا یہی حشر ہو گا جہاں غیر مسلم حکومتیں قائم ہیں مسلمان ہر جگہ دائمی طور پر مشتبہ ہو جائیں گے.اور فوج میں بھرتی نہ کیے جائیں گے.کیونکہ اس نظریہ کے مطابق کسی مسلم ملک اور کسی غیر مسلم ملک کے درمیان جنگ ہونے کی صورت میں غیر مسلم ملک کے مسلم سپاہیوں کے لیے " کوئی چارہ نہیں کہ یا تو مسلم ملک کا ساتھ دیں یا اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں کے سلے فاضل ججوں کو نہایت افسوس سے ان کے دائرہ نگاہ کی تنگی کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھنا پڑا :- علماء نے ہم سے صاف صاف کہ دیا ہے (اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے آنسو بہانا تو ایک طرف رہا آنکھ تک نہیں چھپکی کہ جب تک ہمارے خاص نمونے کا اسلام یہاں رائج ہے.ہم کو اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں کا کیا حشر ہو گا صرف ایک مثال مسن لیجیے." امیر شریعت نے کہا " باقی ۶۴ کروٹریہ عدد ان کا اپنا ہے ) کو اپنی تقدیر کا فیصد خود کرنا چاہیے..لہذا جن لوگوں کو صرف یہیں کی کھیتیوں کی نہیں بلکہ چین اور پیرو کی فصلوں کی دیکھ بھال کرنی ہے ان کے لیے اشد ضروری ہے کہ تمام اطراف کے مفادات کا خیال رکھیں 4 سے پھر فاضل ججوں نے اپنی رائے ظاہر کی ہے.له به پورت تحقیقاتی عدالت م ۲۴۶ م ۲۳ رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۳۲۲

Page 475

۴۶۳ " آج مسلمان یاد ماضی کا لبادہ اوڑھے.تعدیوں کا بھاری بوجھ اپنی پشت پر لادے ، مایوس دمبہوت ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور فیصلہ نہیں کر سکتا کہ دونوں میں سے کسی موڑ کا رخ کرے.دین کی وہ تاندگی اور سادگی جس نے ایک زمانے میں اس کے ذہن کو عزم مصمم اور اس کے عضلات کو لچک عطا کی تھی آج اس کو حاصل نہیں ہے اس کے پاس : فتوحات حاصل کرنے کے وسائل ہیں نہ اہلیت ہے اور نہ ایسے مالک ہی موجود ہیں جن کو فتح کیا جا سکےمسلمان بالکل نہیں سمجھتا کہ جو تو میں آج اس کے خلاف صف آراء ہیں.وہ ان قوتوں سے بالکل مختلف ہیں جن سے اس کو ابتدائے اسلام میں جنگ کرنی پڑی تھی اور اس کے اپنے آباء و اجداد ہی کی راہ نمائی سے ذہن انسانی نے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں جن کے سمجھنے سے وہ قاصر ہے........صرف ایک ہی چیز ہے جو اسلام کو ایک مانیا را تصور کی حیثیت سے محفوظ رکھی سکتی ہے اور مسلمان کو جو آج صندو قدامت کا پیکر بنا ہوا ہے.دنیا ئے حال اور دنیا ئے مستقبل کا شہری بنا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی نئی تاویل و تشکیل دلیرانہ کی جائے جو زندہ حقائق کو مردہ تصورات سے الگ کر دے.......اگر ہم جہاں رہتی کی ضرورت ہے دہاں مہتھوڑا استعمال کرنا چاہیں گے اور اسلام سے ان عقد وں کے مل کرنے کی توقع رکھیں گے جن کومل کرنا اس کا بھی منصوریہ تھا مایوس نامرادی اور دل شکستگی برابر ہمارے شامل حال رہے گی.وہ مقدس دین حبس کا نام اسلام ہے برابر زندہ رہے گا.خواہ ہمارے لیڈر اس کو نافذ کرنے کے لیے موجود نہ بھی ہوں.دین اسلام فرد ہیں.اس کی روح اور اس کے نقطہ نگاہ ہیں اور مہد سے لحد تک خدا اور بندوں کے ساتھ تعلقات میں زندہ ہے اور زندہ رہے گا اور ہمارے ارباب سیاست کو خوب سمجھ لینا چاہیئے کہ اگر احکام اپنی ایک انسان کو مسلمان نہیں رکھ سکتے.تو ان کے قوانین یہ کام انجام نہیں دے سکتے ہیں وسلم کی تعریف اور تحقیقاتی عدالت اب ہم تحقیقات عدالت کی بات اس حصہ کی طرف آتے پاور ہیں جو ہمارے نزدیک آئینی و مذہبی اعتبار سے سب سے اہم ہے.اور وہ یہ کہ اسلامی ریاست میں مسلم کی تعریف کیا ہے ؛ فاضل جج لکھتے ہیں:.جمہوریہ اسلامی کے دوران میں رئیس مملکت یعنی خلیفہ ایک ایسے نظام انتخاب کے ے رپورٹ تحقیقاتی عدادت صفحه ۲۵۰ / ۲۵۱

Page 476

ماتحت منتخب کیا جاتا تھا جو زمانہ حاضر کے انتخاب سے قطعا مختلف تھا.اور اس کی بنیاد نہ بالغوں کے حق رائے دہی پہ اور نہ عمومی نمائندگی کی کسی اور ہئیت پر تھی.اس کی جو بیدت کی جاتی محتی جسے ملت اطاعت کہنا چاہیئے اُسے ایک مقدس معاہدہ کی حیثیت حاصل بھی اور جب وہ اجماع الامت یعنی لوگوں کے اتفاق آراء سے منتخب ہو جاتا تھا تو جائز حکومت کے تمام شعبوں کا سرچشمہ بن جاتا تھا.اس کے بعد اس کو اور صرف اس کو حکومت کرنے کا حق ہوتا تھا وہ اپنے بعض اختیارات اپنے ناموں کو تفویض کر سکتا تھا.اور اپنے گر دایسے اشخاص کے ایک گروہ کو جمع کر لیتا تھا جو علم و تقوی میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے.اس گروہ کو مجلس شور مٹی یا اہل الحمل والعقد کہتے تھے.اس نظام کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ کفارہ اُن وجوہ کے ماتحت جو واضح تھے اور جن کے بیان کی حاجت نہیں اس مجلس میں دخل حاصل نہیں کر سکتے تھے اور خلیفہ اپنے اختیارات گفتار کو بالکل تفویض نہ کر سکتا تھا.خلیفہ حقیقی رئیس مملکت اور تمام اختیارات کا حامل ہوتا تھا اور زمانہ حاضر کی کسی جمہوری مملکت کے صدر کی طرح ایک بے اختیار فرونہ تھا جس کا فرمن صرف اتنا ہوتا ہے کہ اپنے وزیر اعظم اور کابینہ کے فیصلوں پر دستخط کردئے.وہ غیر مسلموں کو اہم عہدوں پر مقرر نہ کر سکتا تھا نہ قانون کی تعبیر با تنفیذ میں ان کو کوئی جگہ دے سکتا تھا.اور وضع قوانین کا کام ان کے سپرد کرنا تو قانونی اعتبار سے بالکل ہی ناممکن تھا.جب صورت حال یہ ہے تو مملکت کو لازماً کوئی ایسا انتظام کرنا ہوگا کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق معنی ہو سکے اور اس کے تاریخ پر عمل درآمد کیا اور جاسکے لہذا یہ مسئلہ بنیاد من طور پہ اہم ہے کہ فلاں شخص مسلم ہے یا غیر مسلم کے سلے فاضل جج صاحبان نے اس نہیں منظر میں علماء سے کیا کیا سوالات کیے علماء نے ان کے کیا جواب ہے؟ اور فاضل جج ان کے افکار و نظریات کو سن کہ کسی نتیجے پر پہنچے ؟ اس کی تفصیل ہمیں مطبوعہ.پورٹ کے درج ذیل الفاظ میں منی ہے.ہم نے اکثر ممتا نہ علماء سے یہ سوال کیا.کہ دہ مسلم کی تعریف کریں.اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر شده رپورٹ تحقیقاتی عدالت ما ۲۳

Page 477

مختلف فرقوں کے علماء احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے ذہن میں نہ صرف اس فیصلے کی وجوہ بالکل روشن ہوں گی.بلکہ وہ مسلم کی تعریف بھی قطعی طور پر کر سکیں گے کیونکہ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ فلاں شخص یا جماعت دائرہ اسلام سے خارج ہے.تو اس سے لازم آتا ہے.کہ دعوی کرنے والے کے ذہن میں اس امر کا واضح تصویہ موجود ہو کہ مسلم کس کو کہتے ہیں ؟ تحقیقات کے اس حصے کا نتیجہ با لکل اطمینان بخش نہیں نکلا.اور اگر ایسے سادہ معاملے کے متعلق بھی ہمارے علماء کے دماغوں میں اس قدیر ژولیدگی موجود ہے.تو آسانی سے تصور کیا جا سکتا ہے..کہ زیادہ پیچیدہ معاملات کے متعلق ان کے اختلافات کا کیا حال ہوگا.ذیل میں ہم مسلم کی تعریف ہر عالم کے اپنے الفاظ میں درج کر تے ہیں.اس تعریف کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہر گواہ کو واضح طور پر سمجھا دیا گیا تھا.کہ آپ وہ قلیل سے قلیل شرایط بیان کھے جن کی تکمیل سے کسی شخص کو مسلم کہلانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے.اور یہ تعریفت اس اصول پر مبنی ہونی چاہیے جس کے مطابق گرائمر میں کسی اصطلاح کی تعریف کی جاتی ہے.نتیجہ ملاحظہ ہو.مولانا ابو الحسنات محمد احمد قادر می صدر جمعیت العلمائے پاکستان سوال :.مسلم کی تعریف کیا ہے ؟ جواب: - اول وہ توحید الہی پر ایمان رکھتا ہو.دوم و پیغمبر اسلام کو اور تمام انبیاء سابقین کو خدا کا سچا نبی مانتا ہو.سوم - اس کا ایمان ہو کہ پیغمبر اسلام مسلم انبیاء میں آخری نبی ہیں (خاتم النبیین، چہارم اس کا ایمان ہو کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام پیغمبر اسلام مسلم پر نازل کیا.پنجم دہ پیغمبر اسلام صلعم کی ہدایات کے واجب الاطاعت ہونے پر ایمان رکھتا ہوی ششم.وہ قیامت پر ایمان رکھتا سوال :.کیا تارک الصلواۃ مسلم ہوتا ہے ؟ جواب :.جی ہاں.لیکن منکر صلواۃ مسلم نہیں ہو سکتا.مولانا احمد علی صدر جمعیتہ العلماء اسلام مغربی پاکستان.سوال :.از راہ کرم مسلم کی تعریف کیجئے.جواب:- دو شخص مسلم ہے.جو د) قرآن پر ایمان رکھتا ہو.اور (۲) رسول اللہ صلعم کے ارشادات پر ایمان رکھتا ہو.ہر شخص جو ان دو شرطوں کو پورا کرتا ہے مسلم کہلانے کا حقدار ہے.اور اس کے لیے

Page 478

اس سے زیادہ عقیدے اور اس سے زیادہ عمل کی ضرورت نہیں ہے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی امیر جماعت اسلامی - سوال :.از راہ کرم مسلم کی تعریف کیجیے ؟ جواب: - دو شخص مسلم ہے جو (1) توحید پر (۲) تمام انبیاء پر (۳) تمام اسلامی کتابوں پر روی ملائکہ پر (۵) یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو.سوال : کیا ان باتوں کے محض زبانی اقرار سے کسی شخص کو مسلم کہلانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے.اور آیا ایک مسلم مملکت ہیں اس سے وہ سلوک کیا جائے گا جو مسلمان سے کیا جاتا ہے.جواب : جی ہاں.سوال :- اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہوں تو کیا کسی شخص کو اس کے عقیدے کے وجود پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے ؟ جواب: جو پانچ مشرائط میں نے بیان کی ہیں وہ بنیادی ہیں جو شخص ان شرائط میں سے کسی شرط میں تبدیلی کر ے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا.غازی معراج الدین منیر : سوال :.از راہ کرم مسلم کی تعریف کیجیے : جواب یہ میں ہر اس شخص کو مسلمن سمجھتا ہوں جو کلمہ لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ پر ایمان کا اقرار کرتا ہے اور رسول پاک صلعم کے نقش قدم پر چل کر زندگی بسر کرتا ہے " مفتی محمد اور لیس جامعہ اشرفیہ میلہ گنید - لاہور - سوال :.از راہ کرم مسلمان کی تعریف کیجیئے ؟ جواب: لفظ مسلمان فارسی کا لفظ ہے.مسلم کے لیے فارسی میں جو لفظ مسلمان بولا جاتا ہے اس میں اور لفظ مومن میں فرق ہے.میرے لیے یہ ناممکن ہے کہ میں لفظ مومن کی مکمل تعریف کروں.کیونکہ اس امر کی وضاحت کے لیے بے شمار صفحات درکار ہیں.کہ مومن کیا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اقرار کرتا ہے.وہ مسلم ہے.اس کو توحید الہی ، رسالت انبیاء اور یوم قیامت پر ایمان رکھنا چاہیئے جو شخص اذان با قربانی پر ایمان نہیں رکھتا.وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.اس طرح بیشمار

Page 479

دیگر اور بھی ہیں جو ہمارے نبی کریم سے ہم کو تو ان کے ساتھ پہنچے ہیں مسلم ہونے کے لیے ان سب امور پر ایمان لانا ضروری ہے.میرے لیے یہ قریب قریب ناممکن ہے.کہ ان تمام امور کی مکمل فہرست پیش کروں حافظ کفایت حسین - اداره تحفظ حقوق شیعه :- سوال :.مسلمان کون ہے ؟ جواب : جو شخص (۱) توحید (۲) نبوت اور (۳) قیامت پر ایمان رکھتا ہے.وہ مسلمان کہلانے کا حقدار ہے.یہ تین بنیادی عقائد ہیں جن کا اقرار کرنے والا مسلمان کہلا سکتا ہے.ان تین بنیادی عقائد کے معاملے میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں.ان تین عقیدوں پر ایمان رکھنے کے علاوہ بعضی اور امور ہیں.جن کو ضروریات دین کہتے ہیں مسلمان کہلانے کا حقدار بننے کے لیے ان کی تکمیل ضروری ہے.ان ضروریات کے تعین اور شمار کے لیے مجھے دردن چاہیں.لیکن مثال کے طور پر میں یہ بیان کہ دینا چاہتا ہوں.کہ احترام کلام الله - وجوب نانه.وجوب روزہ.وجوب حج مع الشرائط اور دوسرے بے شمار امور ضروریات دین میں شامل ہیں : مولانا عبد الحامد بدایونی.صدر جمعیت العلمائے پاکستان : -.سوال :.آپ کے نزدیک مسلمان کون ہے ؟ جواب: - جو شخص ضروریات دین پر ایمان رکھتا ہے وہ مومن ہے اور ہر مومن مسلمان کہلانے کا حقدار ہے سوال: - مروریات دین کون کون سی ہیں ؟ جواب : جو شخص پہنچی ارکان اسلام پر اور ہمارے رسول پاک مسلم پر ایمان رکھتا ہے وہ ضروریات کو پورا کرتا ہے.سوال: آیا ان پنچ ارکان اسلام کے علاوہ دوسرے اعمال کا بھی اس امر سے کوئی تعلق ہے کہ کوئی مشخص مسلمان ہے.یا دائرہ اسلام سے خارج ہے : رنوٹ: گواہ کو سمجھا دیا گیا تھا کہ دوسرے اعمال ت وہ منوابط اخلاقی مراد ہیں جو زمانہ حاضر کے معاشرے میں مجھے سمجھے جاتے ہیں) جواب : یقینا تعلق ہے سوال :.پھر آپ ایسے شخص کو مسلمان نہیں کہیں گے جو ارکان خمسہ اور رسالت پیغمبر اسلام پر تو کو جو پر

Page 480

ایمان رکھتا ہے لیکن دوسرے لوگوں کی چیزیں چرا لیتا ہے جو مال اس کے سپرد کیا جائے اس کو غین کہ لیتا ہے اپنے ہمسائے کی بیوی سے متعلق نیست بد ر کھتا ہے.اور اپنے محسن سے انتہائی نا شکری کا مرتکب ہوتا ہے ؟ جواب : - ایسا شخص اگر ان عقیدوں پر ایمان رکھتا ہے.جو ابھی بیان کیے گئے ہیں.تو ان تمام اعمال کے باوجود وہ مسلمان ہو گائے مولانا محمد علی کان معلومی دار الشہابیہ سیالکوٹ.سوال :- ازراہ کرم مسلمان کی تعریف کیجئے : جواب : جو شخص نبی کریم مسلم کے احکام کی تعمیل میں تمام ضروریات دین کو بجالاتا ہے وہ مسلمان ہے.سوال - کیا آپ ضروریات دین کی تعریف کر سکتے ہیں ؟ جواب : مروریات دین ہر مسلمان کو معلوم ہیں خواہ دینی علم نہ رکھتا ہو.سوال - کیا آپ مزوریات دین کو شمار کر سکتے ہیں ؟ جواب :.وہ اتنی بے شمار ہیں کہ ان کا ذکر بے حد دشوار ہے ، میں ان ضروریات کو شمار نہیں کر سکے بعض ضروریات دین کا ذکر کیا جا سکتا ہے مثلا صوم و صلواۃ وغیرہ مولانا امین احسن اصلاحی : سوال : مسلمان کون ہے :.جواب: مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں.ایک سیاسی مسلمان، دوسرے حقیقی مسلمان سیاسی مسلمان کہلانے کی عزم سے ایک شخص کے لیے ضروری ہے کہ (1) توحید الہی پر ایان رکھتا ہو ا ہار رسول پاک کو خاتم النبیین مانتا ہو.یعنی اپنی زندگی کے متعلق تمام معاملات میں ان کو آخری سند تسلیم کر تا ہو.(۳) ایمان رکھتا - ہو کہ سر خیر وشتر اللہ کی طرف سے ہے.(۲) روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو.(۵) قرآن مجید کو آخری الہام الہی یقین کرتا ہو.(1) مکہ معظمہ کا حج کرتا ہو.(۷) زکواۃ ادا کرتا ہو.(۸) مسلمانوں کی طرح نما نہ پڑھتا ہو.(۹) اسلامی معاشرے کے ظاہری قواعد کی تعمیل کرتا ہو.(۱۰) روزہ رکھتا ہو.جو شخصان تمام شرائط کو پورا کرتا ہو.وہ ایک اسلامی مملکت کے پورے شہری کے حقوق کا مستحق ہے.اگر وہ ان میں سے کوئی شرط پوری نہ کرے گا.تو وہ سیاسی مسلمان نہ ہوگا.(پھر کہا اگر کوئی شخص ان دس امور i

Page 481

۴۶۹ پر ایمان کا محض اقرار ہی کرتا ہو.گوان پر عمل کرتا ہو یا نہ کرتا ہو.تو یہ اس کے مسلمان ہونے کے لیے کافی ہے.حقیقی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کے تمام احکام پر عین اس طرح ایمان رکھتا ہو.اور عمل کرتا ہو.جس طرح وہ احکام و ہدایات اس پر عائد کیے گئے ہیں.سوال :.کیا آپ یہ کہیں گے کہ صرف حقیقی مسلمان ہی مرد صالح ہے ہے جواب : جی ہاں.سوال :.اگر ہم آپ کے ارشاد سے یہ مجھیں کہ آپ کے نز دیک سیاسی مسلمان کہلانے کے لیے صرت عقیدہ کافی ہے.اور حقیقی مسلمان بننے کے لیے عقیدے کے علاوہ عمل بھی ضروری ہے.ہے.تو کیا آپ کے نزدیک ہم نے آپ کا مفہوم صحیح طور سے سمجھا ہے ؟ جواب: - جیا نہیں آپ میرا مطلب مجھے طور پر نہیں سمجھے.سیاسی مسلمان کے معاملہ میں بھی عمل ضروری ہے.میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان عقائد کے مطابق عمل نہیں کرتا.جو ایک سیاسی مسلمان کے لیے ضروری ہیں.تو وہ سیاسی مسلمانوں کے دائرے سے خارج ہو جائے گا.سوال : - اگر کوئی سیاسی مسلمان ان باتوں پر ایمان نہ رکھتا ہو.جن کو آپ نے مزوری بتایا ہے تو کیا آپ اس شخص کو بے دین، کہیں گے ؟ جواب: جی نہیں میں اسے محض " بے عمل کہوں گا.صدر انجن احد بہ ربوہ کی طرف سے جو تحریری بیان پیش کیا گیا.اس میں سلم کی تعریف یہ کی گئی کہ مسلم در شخص ہے جو رسول پاک صلعم کی امت سے تعلق رکھتا ہے.اور کلمہ طیبہ پر ایمان کا اقرار کرتا ہے.ان مستعد و تعریفوں کو جو علماء نے پیش کی ہیں.پیش نظر رکھ کر کہا ہماری طرف سے کسی تبصرے کی ضرورت ہے ؟ بجز اس کے کہ دین کے کوئی ور عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں.اگر ہم اپنی طرف سے مسلم" کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے.اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسرں • نے پیش کی ہیں.تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا.اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں.تو ہم اُس عالم کے نز دیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے یہ

Page 482

۴۷۰ اسلامی مملکت میں ارتداد کی سزا موت ہے اس پر علماء عملاً متفق الرائے ہیں (ملاحظہ ہو مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیت العلمائے پاکستان پنجاب - مولانا احمد علی صدر جمعیت العلماء اسلام مغربی پاکستان.مولانا ابو الاعلیٰ مودودی بانی و سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان مفتی محداد الیس جامعہ اشرفیہ لاہور در کن جمیعتہ العلماء پاکستان مولانا داؤد غزنوی صدر جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان مولانا عبد الحکیم قاسمی جمعیت العلماء اسلام پنجاب.اور مسٹر ابراہیم علی چشتی کی شہادتیں) اس عقیدے کے مطابق چوہدری ظفر اللہ خان نے اگر اپنے موجودہ مذہبی عقائد ورثے میں حاصل نہیں کیسے بلکہ وہ خود اپنی رضا مندی سے احمدی ہوئے تھے.تو ان کو بلاک کر دینا چا ہیئے.اور اگر مولانا ابو الحسنات سید محمد احمد قادری یا رضا احمد خاں بریلوی یا اُن بے شمار علماء میں سے کوئی صاحب جو رفتو می د ۱۴ EX DE) کے خوبصورت درخت کے ہر پتے پر مرقوم دکھائے گئے ہیں) ایسی اسلامی مملکت کے رئیں بن جائیں.تو یہی انجام دیو بندیوں اور وہابیوں کا ہوگا.جن میں مولانا محمد شفیع دیوبندی ممبر بورڈ تعلیمات اسلامی ملحقہ دستور سانہ اسمبلی پاکستان اور مولانا واط و غزنوی بھی شامل ہیں.اور اگر مولانامحمد شفیع دیو بندی رئیس مملکت مقرر ہو جائیں تو وہ ان لوگوں کو جنہوں نے دیو بندیوں کو کافر قرار دیا ہے.دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں گے اور اگر وہ لوگ مرتد کی تعریف میں آئیں گے یعنی انہوں نے اپنے مذہبی عقائدہ ورثہ میں حاصل نہ کیسے ہوں گے ، بلکہ خود اپنا عقیدہ بدل لیا ہو گا.تو مفتی صاحب ان کو موت کی سزا دے دیں گے.جب دیو بندیوں کا ایک فتویٰ (13) EX.DE) عبس میں اثنا عشری شیعوں کو کافر و مرتد قرار دیا گیا ہے.عدالت میں پیش ہوا تو کہا گیا کہ یہ اصل نہیں.بلکہ مصنوعی ہے لیکن جب مفتی محمد شفیع نے اس امر کے متعلق دیو بند سے استفسار کیا تو اس دار العلوم کے دفتر سے اس فتوی کی ایک نقل موصول ہو گئی.جس پہ وارالعلوم کے تمام اساتذہ کے دستخط ثبت تھے.اور ان میں مفتی محمد شفیع صاحب کے دستخط بھی شامل تھے.اس فتوے میں لکھا ہے.کہ جو لوگ حضرت صدیق اکبر کی صاحبیت پر ایمان نہیں رکھتے.جو لوگ حضرت عائشہ صدیقہ کے قاذف ہیں اور جو لوگ قرآن میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں دہ کافر ہیں.اس تمام بحث کا آخر می نتیجہ یہ ہے.کہ شیعہ سنتی - دیوبندی.اہل حدیث اور بریلوی لوگوں میں

Page 483

سے کوئی بھی مسلم نہیں اور اگر مملکت کی حکومت ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہو جو دوسری جماعت کو کافر سمجھتی ہے تو جہاں کوئی شخص ایک عقیدے کو بدل کر دوسرا اختیار کرے گا اس کو اسلامی مملکت میں لاز ماموت کی سزا دی جائے گی اور جب یہ حقیقت مد نظر رکھی جائے کہ ہمارے سامنے مسلم کی تعریف کے معاملے میں کوئی دو عالم بھی متفق الرائے نہیں ہو سکے تو اس عقیدے کے نتایج کا قیاس کرنے کے لیے کسی خاص قوت متخیلہ کی ضرورت نہیں.اگر علماء کی پیش کی ہوئی تعریفوں میں سے ہر تعریف کو معتبر سمجھا جائے.پھر انہیں تحلیل و تحویل کے قاعدے کے ماتحت لایا جائے اور نمونے کے طور پر الزام کی وہ شکل اختیار کی جائے جو گلیلیو کے خلاف انکو یڈیشن کے فیصلے میں اختیار کی گئی متقی تو ان وجوہ کی تعداد بے شمار ہو جائے گی جن کی بناء پر کسی شخص کا ارتداد ثابت کیا جا سکے، لے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ نے احمدیت اور پاکستان علماء کے تبصرے اور ان کا جواب کے مخالف فر میں لیڈروں کی کاروائیوں کو جس طرح طشت از بام کیا اُس نے اُن کے حامیوں میں صف ماتم بچھا دی اور ان کی طرف سے محاسبہ اور تبصرہ کے نام سے دو کتابیں شائع کین مین میں نام نہاد علماء کی شکست اور بے آبروٹی پر پردہ ڈالنے اور مظلوم احمدیوں کو ملزم گرداننے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر کے نام سے اپریل ۱۹۵۵ء میں ایک مبسوط کتاب شائع کی جس میں نہ صرف یہ التزام فرمایا کہ ہر معاملہ میں تحقیقاتی عدالت کی رائے بلا کم و کاست در ج کہ دی جائے بلکہ مولفین تبصرہ کی مغالطہ انگیزیوں کا پردہ چاک کر دیا جائے.سے رپورٹ تحقیقاتی عدالت (اردو) ص ۲۳۱ تا ۲۳۷ شه - (1) " تبصره از نعیم صدیقی صاحب د سعید احمد ملک صاحب لز با شهر مرکزی مکتبہ جاعت اسلامی پاکستان) (۲) محاسبه از مولانا مرتضی احمد صاحب میکش -

Page 484

چھٹا باب خدا کی قدرت ، وہ علماء جو تحقیقاتی عدالت کی کارروائی نام نہاد علمائے دین کے افسوسناک میں اس جوش خروش کے ساتھ شامل ہوئے تھے کہ بیانات کا شدید رد عمل وہ احمدیوں کو تحقیقات کیش سے غیر مسلم اقلیت تسلیم کرا کے چھوڑیں گے عدالت میں مسلم کی تعریف کرنے سے قاصر رہے.جس کا پاکستان اور بیرونی ممالک میں شدید رد عمل رونما ہوا.جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے.اس رد عمل کا اندازہ کرنے کے لیے صرف چند تاثرات کا مطالعہ کافی ہو گا :- -1 علماء اور فتنہ تکفیر جمعیتہ العلمائے ہند کے ایک متوسل خصوصی کے قلم سے حضرت مدیر صدق جدید دامت برکاتہم پاکستان کو تو چھوڑیئے اینٹی احمد یہ تحریک نے علماء کرام کو اپنوں اور غیروں کی نظروں میں اس قدر ذلیل اور رسوا کیا ہے کہ مجموعی حیثیت سے اس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں مل سکتی.حق یہ ہے کہ پاکستان کے علماء نے اپنی گردنمیں خود اپنے ہاتھوں سے کائی ہیں.اور اپنے وقار پر خودی خاک اڑائی ہے ، لطعہ یہ ہے کہ اس حادثہ کا اعتراف دوسرے لوگ تو کر لیں گے خود علماء کرام ہرگز نہ کریں گے.حق کا ناحق سودا ران کے سر پر ہمیشہ سوار رہا ہے انہوں نے اپنی غلطیوں سے سلطنتیں تباہ کر ڈالی ہیں............ان کی تکفیر بازی اُن کی اور مسلمانوں کی قبر کھو دیھکی ہے.ان لاہور میں جو تحقیقاتی کمیشن علماء کرام سے شہادتیں لے رہا ہے اس نے نہ صرف علماء کے وقار ہی کو بلکہ علم وفضل کو بھی بے نقاب کر ڈالا ہے.شہادت دینے گئے تھے اس بات کی کہ قادیانی کافر ہیں

Page 485

۴۷۳ اور بتا یہ آئے کہ خیریت سے وہ خود بھی دوسروں کی نظروں میں کافر ہی قرار پائے ہیں.اور وہ تکفیر بازی کی مشق آپس ہی میں ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں.مثلاً مولانا محمد علی کا نامعلومی نے شہادت لیتے ہوئے بعض سوالات کے جواب میں فرمایا کہ ابتدائے اسلام ہی سے علماء ایک دوسرے کو کافر کہتے آئے ہیں.مسلمانوں نے جبرو قدر کے مسئلہ پر ایک دوسرے کو کافر لکھا ہے.معتزلہ اور اہل قرآن دونوں کا فر ہیں علماء نے امام ابن تیمیہ اور عبد الوھاب کو بھی کافر قرار دیا ہے.علماء نے دیوبندی علماء کی تھی تکفیر کی ہے.(نوائے وقت ۲۴٫۲۳ اکتوبر ۱۹۵۳) سبحان اللہ سرکاری کمیشن کو باور کرایا جارہا ہے کہ خود مکفر علماء بھی گھر سے نہیں بچے اور انہوں نے تکفیر کے تیروں سے کسی بڑے چھوٹے کو نہیں چھوڑا عدالت تو یہ معلوم کرنا چاہتی منفی کہ جو علماء قادیانیوں کو بڑھ چڑھ کہ کافر کہ رہے ہیں وہ خود بھی مسلمان ہیں یا نہیں ؟ا خوش قسمتی سے علماء کرام نے عدالت کی یہ خواہش بھی پوری کی.اور باتوں ہی باتوں میں اگل گئے کہ خیریت سے وہ بھی دوسرے کی نظروں میں کا فر ہی رہے.اور دوسرے ان کی نظروں میں خارج از ملت.خیر ! یہ تو علماء کا بھولا پن تھا.کہ آپس کی باتیں جوں کے سامنے کہہ بیٹھے اور یوں قادیانیوں کا بوجھ ہلکا ہوا.افسوسناک چیز تو یہ ہے کہ علماء نے ایک دوسرے کے خلاف باتیں کہیں اور ایک نے دوسرے کے نظریہ، فیصلہ اور فتومنی کو جھٹلایا اور مسٹروں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع دیا.........لوان محترم ! اللہ علماء کو تکفیر بازی سے رد کیے.ورنہ اس گروہ کا انجام بخیر نظر نہیں آتا.کچھ امید تھی که جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اپنا مسلک اعتدال، تکفیر کے میدان سے الگ رکھیں گے.اور اس بارہ میں علماء کی کچھ ایسی اصلاح کر میا ئیں گے کہ یہ فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے.مگر افسوس ہے کہ اینٹی قادیانی تحریک میں وہ ایسے گرے کہ ان کی ریفارمیشن کا سارا مھرم کھل گیا.اگر کرو میں روا باشد ہی ان کا مسلک تھا تو انہیں مسلمانوں پر الفاظ کا جادو تو نہ چلانا چاہیئے تھا.یہیں آگہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قدرت نے مدیر " صدق جدید کو ہی کار پیدا نہیں کیا ہے انہوں نے تکفیر بازی کے اس دور میں جس دور رس نگا ہی کا ثبوت دیتے ہوئے فتنہ تکفیر پر ضرب لگائی ہے اس پر ہم تو کیا شاید کوئی آنے والا مجدد ہی داد دے سکے گا.مدیر صدق جدید کی

Page 486

مانم یہ جرات تو اپنے مرشد رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے بھی ماند نہ پڑ سکی.اس لیے تو موصوف سے درخواست ہے کہ اس فتنہ سے سختی کے ساتھ بانہ پریس کریں.اور مسلمان فرقوں کو اس امتحان سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دیں.تاکہ ایک طرف علماء کا وقار قائم رہے دوسری طرف خدا ، رسول ، کتاب اور یوم آخرة پر ایمان لانے والے اور کلمہ شہادت کے مشریک نہ بہ دستی اسلام سے باہر نہ کیے جا سکیں.مدیر صدق کے بعد کوئی نظر نہیں آتا جو اس میدان میں اپنی جرات کا ثبوت دے سکے.اگر موصوف نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے کوئی مستقل منصوبہ نہیں بنایا تو قدرت کی باتیں تو دوسری ہیں علماء کو اس کا احساس دلانے والا سبھی ڈھونڈے سے نہ مل سکے گا ہ ۶ صدق جدید لکھنو د جنوری ۶۹۵۷ شده و ستاره ڈ بحوالہ رسالہ الفرقان ربوہ جنوری - اخبار ٹائیمز (Times) کراچی نے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر حسب ذیل نوٹ سپر اشاعت کیا : - The Times of Karachi 30th April, 1954 "The Court of Inquiry has unerringly put its finger on every weak spot.Apart from indicating the factual and moral responsibility involved in the conduct of persons and organisations, the Court has felt it necessary to examine the psychological foundations that made the Ahrar appeal irresistible.The Court subjected the Ulema who appeared before it to searching questions on doctrinal matters.Almost every Maulvi was asked to state the irreducible minimum of beliefs necessary to make one a Muslim.Almost each reply differed from the other.The representative of Jamaat-i-Islami even wanted notice to answer the question.The divergence of the Ulema's replies is regrettable since it relates to the very fundamentals of the Faith.But that in spite of their irreconcilable doctrinal differences the Ulema were able to forge a united front against Ahmadis calls pointed attention to the characteristic aims and activities of the Ahmadis themselves that made this possible.The replies on the subjects of "Jehad", "apostasy." and the status of non- Muslims, have to be studies in the light of the plainest

Page 487

Quranic injunctions and for their bearing on the constitutional responsibilities of the Pakistani State.The elucidation of the concepts of sovereignty, legislation, interpretation etc., constitute a stimulating invitation to the reconstruction of Islamic political thought.This part of the Court of Inquiry is of much more than local or ephemeral interest.The Court has pleaded for a "bold re-orientation of Islam" if this sublime Faith is to be rid of "archaic incongruities" and to regain its vitality as a "world Idea".The Muslim mind has to be brought into proper relationship with the modern environment, if it is to be immunised against the forces of ignorance that can sway it in the holy name of religion.The weak mental foundations of the community could not have been demonstrated more painfully than by the fact that the very people who had stubbornly opposed the very conception of the Islamic State claimed immediately after the establishment of Pakistan the right to build up the new State on Islamic patterns and were successful in imposing upon the people and causing bloodshed and destruction.The report of the Court of Inquiry will naturally direct the thoughts of the people in various directions.The evidence examined by the Court implicates many individuals, holding important places in different walks of life in serious charges.The Inquiry has exposed those who provoked the disturbances; those who plotted them; those who demoralised the administration, abdicated before the forces of lawlessness, and poisoned and corrupted public life.The country will naturally ask whether this colossal exposure will be the end of the matter.Determined action is called for if this God-given State is not to remain a haven for "political brigands, adventurers and non-entities." This elaborate and incisive report is not labour lost."Chief Justice Muhammed Munir" by Nazir Hussain Chaudhri p.221-222 Reserch Society of Pakistan, Lahore.March 1973.

Page 488

تحقیقاتی عدالت نے کسی غلطی کے بغیر اپنی انگلی ہر ایک کمز ور جگہ پر رکھی ہے.ایک طرف تو مچ صاحبان نے واقعاتی اور اخلاقی ذمہ داری جو افراد اور تنظیموں پر عائد ہوتی تھی.اس کی طرف اشارہ کیا ہے.تو دوسری طرف عدالت نے ضروری سمجھا ہے.کہ ان نفسیاتی محرکات کا تجزیہ کرے.جس نے احمدار کی اپیل کو نا قابل مزاحمت بنا دیا تھا.عدالت نے ان علماء پر جو اس کے سامنے پیش ہوئے تھے.ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں کڑی جرح کی.قریبا ہر ایک مولوی صاحب سے دریافت کیا گیا کہ وہ نا قابل تخفیف فقرات اور اقل ترین الفاظ میں اپنے وہ عقائد بیان کرے سجود ایک شخص کومسلمان بنانے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں.اس سوال کے جتنے بھی جواب دیئے گئے اُن میں سے قریبا ہر ایک جواب دوسرے جوابوں سے مختلف تھا.جماعت اسلامی کے نمائندے نے تو بہ کہا.کہ مجھے اس سوال کا جواب دینے کے لیے قبل انہ وقت نوٹس دیا جانا چاہیئے تھا علماء کے ان جوابوں کا اختلاف قابل افسوس ہے.کیونکہ یہ سوال بھار مذہب کی اصل بنیاد سے تعلق رکھتا ہے.لیکن باوجود اپنے نا قابل اتفاق فرقہ وارانہ اختلافات کے علماء اس قابل ہو گئے تھے کہ وہ احمدیوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ بروئے کار لا سکیں.اور یہ بات ہماری گرمی توجہ کو اس طرف مبذول کراتی ہے.کہ احمدیوں کے خصوصی عزائم اور مشاغل خود ملی اعتراض تھے.جنہوں نے یہ صورت حال پیدا کی.مسئلہ جہاد ارتداد اور اسلام میں ایک غیر مسلم کا درجہ وغیرہ اس قسم کے سوالات کے جوابات کو قرآن شریعت کے سادہ ترین احکامات کی روشنی میں مطالعہ کرنا ہوگا.اور نیز یہ بھی دیکھنا ہوگا.کہ پاکستانی مملکت کی آئینی ذمہ داریوں پر اُن کا کیا اثر پڑتا ہے.حکومت - قانون سازی.ترجمانی وغیرہ کے تصورات اور ان کی تشریح و توضیح ایک سیاسی مکتب فکر کی دوبارہ تعمیر کے لیے کافی خوش کن دعوت ثابت ہوگی.تحقیقاتی عدالت کا یہ حصہ مقامی یا تقلیل العمر دلچسپی کا موجب نہیں ہے.عدالت نے زور دیا ہے کہ اسلام کی جرات مندانہ تجدید کی جائے تاکہ ہم اس با جمال مذہب کو تمام فرسودہ اور بے معنی لغویات سے پاک کر سکیں.اور اس کی قوت، حیات کو ایک عالمگیر مثالی تخیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں.

Page 489

عالم اگر تو ہم نے اس مذہب کو جہالت کی تمام طاقتوں کے حملہ سے محفوظ رکھنا ہے.جو اس کو منہ سب کے مقدس نام پر متاثر کر سکتی ہیں تو ضروری ہے کہ دل مسلم کو جدید ماحول کے ساتھ ایک مناسب رشتہ میں منسلک کیا جائے.اسلامی برادری کی کمزور دماغی بنیادیں اس سے زیادہ واضح اور در دناک طور سے ظاہر نہیں کی جا سکتی تھیں جیسا کہ اس امر واقعہ سے ظاہر ہے ، کہ وہی لوگ جنہوں نے اسلامی ریاست کے تصویر و قیام کی اس شد و مد سے مخالفت کی تھی.انہوں نے اس ریاست کے وجود میں آنے کے فوراً بعد اپنا یہ حق جتا با ہ ہم لوگ اس ریاست کو اسلامی نمونے پر قائم کریں گے اور مھر وہ لوگوں کو مرعوب کرنے میں کامیاب ہو گئے.اور خون ریزی کی اور تباہی پیدا کی.اس تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ قدرتی طور پر لوگوں کے خیالات کو مختلف سمتوں میں جانے کی ہدایت کرے گیا.عدالت نے جس شہادت کو قلمبند کیا ہے.اس میں بہت سے افراد ملوث ہیں جو کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ممتاز جگہوں پر فائز ہیں.یہ رپورٹ ان لوگوں پر بڑے خطر ناک الزام عائد کرتی ہے.اس انکوائری نے ان لوگوں کو بے نقاب کیا ہے جنہوں نے فسادات کو ہوا دی.اُن کو بھی جنہوں نے سازشیں کیں.وہ لوگ بھی جنہوں نے انتظامیہ کو بے اثر کیا.اور لاقانونی طاقتوں کے آگے سرنگوں ہوئے.اور پبلک زندگی کو مسموم اور خراب کیا.قدرتی طور پر ملک سوال کر لے گا.کہ کیا اتنا بڑا عظیم الشان انکشاف یہیں تک محدود رہے گا.ریا اس پر کوئی کارروائی ہو گی ) ایک پر عزم کا رروائی کی ضرورت ہے.اگر ہم نے اس خدا دا د سلطنت کو سیاسی مجرموں.ڈاکوؤں اور فہم انگیزوں اور نا کارہ لوگوں کی پشت پتا نہیں بنا نا ہے یہ مفصل اور کاٹ کرنے والی رپورٹ وقت ضائع کرنے والی چیز نہیں ہے.م اخبار الاعتصام لاہورہ کا راکتوبر ۱۹۵۵ء نے لکھا : - ہم آج مسلمانوں کے سامنے ایک معمہ برائے حل پیش کرتے ہیں.جس کے حل پر کوئی فیس نہیں اور صحیح مل پر انعام ہم تو کیا دیں گے.خود صحیح حل بصورت " حیات طیبہ انشاء اللہ دے گا.اچھا تو لیجئے.ختم نبوت ایجی ٹیشن کی تحقیقاتی کمیٹی کے صدر مسٹر جسٹس منیر نے سُنا ہے.کہ اپنار پورٹ

Page 490

میں یہ انکشا نہ کیا ہے.کیا جتنے علماء اس تحقیقات میں شہادت دینے تشریف لائے.ہر ایک سے یہ سوال کیا گیا.کہ دو مسلمان کی تعریف کیا ہے ؟ ؟ اس کے جواب میں دو علماء بھی متفق نہ پائے گئے.حتی که مولوی امین احسن اصلاحی صاحب بھی مسلمان کی تعریف میں اپنے امیر مولانا ابوالاعلی مودودی صاحب سے متفق نہ نکلے.مشاہدات یہ بتا رہے ہیں.کہ مسلمان جھوٹ بولے ، دھوکہ کرے ، فریب کرے ، قتل کرے اور ہی کرے ، شراب پیئے ، زنا کرے ، غیبت کرے ، بہتان اٹھائے ، عیب لگائے ، اغوا کرے ، غداری کرے ، نمازہ نہ پڑھے ، روزے نہ رکھے ، زکواۃ نہ دے، غیر اللہ کو مسجد سے کرے غرض یہ کہ جو جی چاہے کرتا پھرے.نہ ایجان بگڑ سے نہ اسلام جائے کہ قرآن کریم میں اوامر ہیں، نواہی ہیں، ملال ہیں ، حرام ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی المات اور اتباع کے فرمان ہیں.اخوت اسلامی کے لوازم نہیں ، حقوق اور فرائض ہیں.مگر ان پر عمل کس کا ہے؟ یہ اتنی ضخیم کتاب ہدایت کیوں نازل ہوئی یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اتنی تکالیف اور اتنے مصائب کیوں اٹھائے یا جس مذہب کے ماننے والے مندرجہ بالا تمام امور کے ارتکاب پر بھی جنت کے سختی رہیں.اس کی مخالفت کی ضرورت کیا تھی ؟.آج مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا معمہ یہ ہے کہ " اسلام ہے کیا ؟ کیا قرآن مبین ادر را حادیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بنایا جائے گا.کہ." اسلام نے کیا ہے ؟ اور مسلمان کی صحیح تعریف کیا ہے ؟ بینوا.تو جر دا ہے - مولانا عبد الماجد صاحب دریا آبادی مدیر صدف جدید" نے " خارجیت کی جارحیت کے مدیر عنوان لکھا : - N انٹی احمدیہ بلوں کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دو سوالوں کے دو جواب : - (۱) کیا آپ ہندوؤں کا جن کی عمارت میں اکثریت ہے.یہ جی تسلیم کریں گے کہ وہ اپنے ملک کو مہندو دھارمک کی ریاست بنائیں ؟ جواب.جی ہاں.کیا اس طرز حکومت میں سو سمرتی کے مطابق مسلمانوں سے ملیچھوں یا شودروں کا لہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور ، اکتوبر ۱۹۵۵ء ص ۵ کالم لا

Page 491

۴۷۹ سا سلوک ہونے پر آپ کو کچھ اعتراض تو نہیں ہو گا.پنجاب میں نہیں.(۳) اگر پاکستان میں اس قسم کی اسلامی حکومت قائم ہو جائے تو کیا آپ مندروں کو اجازت دیں گے کہ وہ اپنا آئین اپنے مذہب کی بنیاد پر بنائیں.جواب.یقیناً بھارت میں اس قسم کی حکومت مسلمانوں سے سودوں اور ملیچھوں کا سا سلوک بھی کرے اور ان پر منو کے قوانین نافذہ کہ کے انہیں حقوق شہریت سے محروم اور حکومت میں حصہ لینے کے نا اہل قرار دے ڈالے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا.یہ دو نو جوا بات آپ کو یقین آئے گا کہ کن کی زبان سے عطا ہوئے ہیں.پہلا جواب صدر جمعیتہ العالم پاکستان ابو الحسنات مولانامحمد احمد قادری رضوی ربہ بلوی کا ہے اور دوسرا با نی دامیر جماعت اسلامی مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کا - انا لله ثم انا الله عمر ناؤ یہ کس نے ڈبوئی با خضر نے مسلمانان ہند کا بڑے سے بڑا دشمن بھی کیا اس سے بڑھ کر کوئی جواب دے سکتا تھا.فریاد بجز مالک حقیقی اور کس سے کیجیے :.کسی شہادت کے ساتھ تم کروڑ کلمہ گو ان کو سیاسی موت کا حکم سنایا جا رہا ہے، اور ان میں سے ایک جمعیتہ العلماء پاکستان کے صدر ہیں.اور دوسرے جماعت اسلامی کے بانی و امیر نا.اور مولانا مودودی کا یہ پہلا کریم مسلمانان ہند پر نہیں.کئی سال ہوئے ایک اور فتومنی بھی تو کچھ اسی قسم کا دے چکے ہیں.کہ ہندی مسلمانوں کے ساتھ رشتہ ازدواج جائز نہیں ! دہی مبند دستمان جس میں صرف رسمی اور نسلی مسلمان ہی نہیں.ہزار ہا ہزار صالحین یعنی جماعت اسلامی کے ارکان بھی آباد ہیں.جارحیت کی اس حد تک تو شاید خارجیت بھی اپنے دور اول میں نہیں پہنچی معتی (صدق جدید ۲۸ مئی ۱۹۵۳ - جماعت اسلامی کے راہنما مولانا سید ابوالا علی صاحب مودودی نے (ارجون 1902ء کو شیخوپورہ میں ایک سپاسنامے کے جواب میں کہا کہ : - له صدق جدید ۲۸ مئی ۱۹۵۴ء مسجداله الفرقان ربوہ جولائی ۱۹۵۳ ص ۴۸

Page 492

->> ہ فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں کھلم کھلا علماء کو خوار کرنے کا سامان ہو رہا تھا اور جب تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ شائع ہوئی تو ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ اس میں علماء کی کیا گت بنائی گئی اور اس رپورٹ کی اشاعت پہ سب کو سانپ سونگھ گیا یا لے بھارت کے ایک سنی عالم کا مندرجہ ذیل مقالہ لکھنو کے رسالہ" صدتی جدید" میں 4 اور ۲۰ وسمہ ۱۹۵۷ء کی اشاعتوں میں اشاعت پذیر ہوا : - مسلمان کی تعریف" ایک غیر جانبدار ہندی مبصر کے قلم سے) یاد ہوگا کہ مغربی پاکستان میں جو ایجی ٹیشن قادیانیوں کے خلاف ہوا.اس کا کیا نتیجہ نکلا بہ مارشل لاء لگا.علماء جیل میں ڈالے گئے.ایک تحقیقاتی عدالت قائم ہوئی جس میں بہت سے علماء اہل حدیث دیوبندی بریلوی - شیعہ ) نے شہادتیں دیں.عدالت نے سب سے پوچھا کہ اسلام کی رو سے مسلم کی تعریف کیا ہے.عمر بھر درس و تدریس اور فتویٰ دینے والے علماء اس سوال پر بہت چکرائے مشکل سے جواب دے سکے اور متضاد جوابات دے کر خود ایک دوسرے کی تکذیب کر بیٹھے.کوئی ضروریات دین کی حد تک گیا ہے جو شخص ضروریات دین کو مانے وہ مسلمان ہے مگر دین کیا ہیں ؟ ان کی فہرست کوئی عالم پیش نہ کر سکا.چند علماء نے یہ کہہ کر پیچھا چھڑایا کہ عدالت نے اس سوال پر غور کرنے کی مہلت نہیں دی.گویا ساری مہر مسلمان کی تعریف سے بے نیاز اور غافل رہے اور غفلت میں لاکھوں بندگان خدا کو کافر بنا ڈالا.حال ہی میں سنی شیعہ جھگڑے چلے جن میں جانوں کا اتلاف ہوا.نہ معلوم آئندہ کیا ہو.ہم ذیل میں لفظ مسلم ، کے سلسلہ میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں شاید اس سے پاکستان کے علماء کوئی فائدہ اٹھا سکیں اور انہیں لفظ مسلم کی تعریف کیلئے کچھ مواد مل جائے به روزنامه مالت لاہور ۱۲۱ جون ۹۵۵اء صلا

Page 493

FAL لاہور کے معاصر آنرا د نے سوال اٹھایا ہے کہ جب صدر مملکت کے لیے مسلمان ہونا شرط ہے تو لفظ مسلمان کی آئینی تعریف بھی قانون میں شامل ہونی چاہیئے.اور جبکہ رائے و مہند دل کو مسلمان اور نا مسلمان کے خانوں میں تقسیم کیا جارہا ہے ،..........مسلمان کی تعریف اور بھی ضروری ہوگئی ہے.اور یہ رائے دہندوں کی تقسیم بالکل بیکار ہو جائے گی اور فلاں فرقہ کو بھی وریہ کی مسلمانوں میں شامل کہہ لیا جائے گا.(روز نامه آنداد - ۱۸ نومبر ۱۹۵۶) بیشک لفظ مسلمان کی تعریف ضرور شائع ہونی چاہیئے.مگر اس کی تعریف علماء کرام ہی فرمائیں گئے تو ہو گی.اس کے صرف دو طریقے ہو سکتے ہیں اول یہ کہ جس فرقہ کو اسلام سے خارج کرنا یا اسے کافر قرار دیتا ہوا سے پہلے سے ذہن میں محفوظ رکھیں اور پھر مسلمان کی کوئی ایسی تعریف نکالیں جس میں صرف وہی فرقے داخل ہو سکیں جن کو تعریف کرنے والے داخل کرنا چائیں.مگر یہ طریقہ اختیارہ کرنے سے علماء کو بڑا تکلف کرنا ہو گا.پہلے سے مسلمان کی تعریف کیے بغیر یہ فیصلہ کر لینا کہ فلاں فرقہ اسلام سے خارج ہے اور پھر اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کتاب وسنت کے ساتھ زور آزمائی کرنا بڑی محنت اور اور سامحقہ ہی بڑی بد دیانتی چاہتا ہے.اگر ہر فرقہ نے دوسرے فرقہ کو اسلام سے نکالنے کے لیے لفظ مسلمان کی کوئی میں مانی تعریف کی تو کسی ایک تعریف پر بھی اتفاق نہ ہو سکے گا اور نتیجہ میں کوئی فرقہ بھی مسلمان ثابت نہ ہوگا.لیجیے میدان صاف اور لفظ مسلمان کی تعریف معلق - روز روز کے جھگڑوں سے نجات اور مسلمان در گور و مسلمانی در کتاب.دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کتاب وسنت کے الفاظ میں پہلے سے فیصلہ کیے بغیر ایمانداری سے سلمان کی تعریف تلاش کر لی جائے.نہ تو زمین میں یہ ہو کہ فلاں فرقہ کو ضرور مسلمان ثابت کرنا ہے.نہ یہ کہ فلاں فرقہ کو اسلام سے نکالنا ہے.کتاب اللہ اور اقوال پیغمبر سے انہی کے الفاظ میں مسلمان کی تعریت اخذ کر لی جائے.اور اس بات کی کوئی پروا نہ کی جائے کہ اس کی رو سے کون مسلمان اور کون کا فر قرار پاتا ہے.جو فرقہ بھی اس تعریف میں آتا ہوا سے آنے دو اور جو اس سے نکلتا ہوا اسے نکل جانے دو نہ تو کسی کو زبر دستی داخل کرو اور نہ نہ بہ دستی نکالو.اگر کوئی تعریف سب

Page 494

کو اسلام کی آغوش میں لیتی ہے تو تم بھی اسے گلے لگاؤ اور اسے دھکے دینے کی کوشش نہ کرو.کتاب وسنت میں لفظ مسلم کی کوئی متفق علیہ تعریف موجود ہے ؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے ؟ علمائے کرام نے کتاب وسنت کا گہرا مطالعہ اور اس کا منشاء معلوم کر کے ایک عقیدہ مقرر کیا ہے اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص اس عقیدے کو سچے دل سے مانتا ہے وہ مسلمان ہے خواہ اس کا تعلق کسی فرقہ سے کہ وہ عقیدہ یہ ہے." میں اللہ پہ ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اس بات پہ کہ خیر دشتر کا وہی مالک ہے اور اس پر کہ مرنے کے بعد جینا یہ حق ہے ایمان لاتا ہوں." اگر یہی عقیدہ ایک مسلم کی کسوٹی ہے تو ہر فرقہ سے پوچھو کہ وہ اس عقیدہ کی تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں اگر ایمان رکھتا ہے تو اسے مسلمان سمجھو، اور تفصیلات کو علام الجنوب کے حوالے کرد.کسی کو یہ حق نہیں کہ پھر ایسے فرقہ کو اسلام سے خارج کر دے اور اس عقیدے کو بے نتیجہ اور بے اثر بنائے.اگر اس استدلالی اور استبانی عقیدہ سے کام نہیں چل سکتا.تو پھر کتاب اللہ سے کتاب اللہ کے الفاظ میں پوچھ اور قرآن کریم سے لفظ مسلم کی تعریف نکالو.قرآن سر زمانہ میں بولنے والی کتاب ہے.ناممکن ہے کہ ضرورت کے وقت وہ ہمیں لفظ مسلم کی تعریعت سے آگاہ نہ کرے اور ہمیں مسلمان کی تعریف نہ بتائے.ہم نے جب اس مقصد کے لیے قرآن حکیم سے پوچھا تو اس نے بتایا : بله إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيْمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوة وَمِمَّا نہ مقالہ میں صرف ترتبہ آیات درج ہے آیات کا متن مقالہ کی افادیت میں اضافہ کے لیے بڑھایا گیا.-

Page 495

رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ، أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّاه رسورۃ انفال (ع ۱ ) مومن وہ ہیں کہ ذکر الہی کے وقت ان کے دلوں میں خون پیدا ہوتا ہے اور جب آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھتا ہے.اور وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہیں اور نمازہ قائم کرتے اور خدا کے بخشے ہوئے رزق کو خرچ کرتے ہیں.یہی لوگ ہیں بیچے ایمان والے.د قرآن پ ع ۱۵) (٢) فَا لَمْ يَسْتَجِيبُو الكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَانْ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ فَهَلْ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ٥ (۲) ہو.(هود- ع ۲) اگر وہ تمہاری بات کا جواب نہ دے سکیں تو سمجھ لو کہ یہ قرآن خدا کے مسلم کے مطابق اُترا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں.پس کیا تم مسلمان ر قرآن (۲۶) (۳) وَ اِذْ اَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُونَ.المائده ع١٥) اور ہم نے حواریوں کو وحی کی کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائیں.انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں.ر قرآن پ ع ۵) (٣) قُلْ إِنَّمَا يُوحَى إِلَى انَّمَا الهُكُمْ اللهُ وَاحِدٌ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَه (الانبیاء (ع) کہہ دو کہ مجھ کو تو یہی حکم ملا ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے.پس کیا تم اسلام قبول کرتے ہو.( قرآن ع ) (ه) فَإِنْ تَابُوا وَاقَامُوا الصَّلوةَ وَآتَوُا الزَّعُوةَ فَإِخْوَانَكُمْ في الدِّينِ.(توبه ۲ ع)

Page 496

۴۸۴ اگر وہ تائب ہو کر نمازہ قائم کریں اور زکواۃ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں.ر قرآن پ ع ) (4) فَا مِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّنِ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.(اعراف (۲۰) پس تم اللہ اور اُس کے نبی امی کی رسالت پر ایمان لاڈ جو خود بھی اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان لایا ہے.اور تم اس کی پیر دی کہ وہ تا کہ ہدایت پاؤ.(قرآن شد ع ١٠) اب خواہ آپ کسی ایک آیت سے لفظ مسلم " اور مومن کی تعریف اخذ کریں یا تمام آیات کو ملا کر کوئی نتیجہ نکالیں ، خلاصہ یہی ہے کہ جو شخص خدا کی توحید اور صاحب قرآن کی رسالت کا قائل ہے نمانہ قائم کرتا اور نہ کواۃ ادا کرتا ہے وہ مسلمان ہے ، سچا مومن ہے ، مسلمانوں کا بھائی ہے.ہدایت یافتہ ہے اور سواری تو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لا کہ لوگوں کو گوا دنیا تے ہیں کہ بِاثْنَا مُسْلِمُونَ - قرآن کے بعد صاحب قرآن کی طرف آئیے اور دیکھیئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس کو مسلم قرار دیا ہے :- (۱) حضرت جبرئیل نے پوچھا ایمان کیا ہے ؟ فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر اللہ کے فرشتوں پر، اس کی ملاقات پر ، اس کے رسولوں پر ، دوسری زندگی پر یقین کرو.فرشتے نے پوچھا اور اسلام ؛ فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کردہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نه کرد - نماز قائم کرد، زکواۃ ادا کر دی.رمضان کے روزے رکھو.(بخاری کتاب الایمان) (۲) اسلام کی بنیادی پانچ چیزوں پر ہے.اس بات کی شہادت کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں I

Page 497

ار محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں.نمازہ کا قیام - زکواۃ کی ادائیگی.بیت اللہ کا حج.رمضان کے روزے.ہے.(بخاری کتاب الایمان) - جس شخص نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کو مانا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ سلمان ر مشکلاق - مسلم کی تعریف میں خدا نے بعد کچھ بتایا ہے کیا صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دوسری راہ اختیار کی با ایمان کی تعریف میں اور مسلم کی تعریف میں اسلام کی بنیا دیں کیا ہیں ؟ اس کا اجمال قرآن میں اور تفصیل صاحب قرآن کے فرمان میں ہے.پس جو شخص جو فرقہ ایمان و اسلام کی ان تمام باتوں کو مانتا ہے.وہ سچا مسلمان اور پکا ایماندار ہے.کسی کو حق نہیں کہ کچھ اپنی طرف سے بڑھا کر کسی کو اسلام سے خارج کرے اور کتاب اللہ اور ارشادات رسول سے تجاوز کر کے صرف اپنے اسلام کاڈھنڈورا پیٹے.البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آیات اور احادیث مسلم کی تعریف میں کار آمد نہیں ہو سکتیں.کچھ اور آیات اور احادیث ہیں جو لفظ مسلم کی تعریف میں قول فیصل کا حکم رکھتی ہیں.اگر ایسا ہے تو وہ آیات اور احادیث پیش کرو اور ان میں اپنی طرف سے کچھ نہ ملاؤ.مطلب یہ ہے کہ اسلام سے اس فرقہ کو خارج کر د جسے کتاب اللہ اور اقوالِ رسول اللہ " خارج کریں اور ان فرقوں کو سلمان سمجھو جن کو خدا اور رسول مسلمان قرار دیں.ایک حرف کی کمی بیشی نہ کرو - الحفاظ اور ان کا صحیح مفہوم جوں کا توں رہنے دو.اور پھر دیکھو کہ اسلام میں کون داخل ہوتا اور اس سے کون خارج ہوتا ہے.اس موقعہ پر علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول بھی یادرکھنے کے قابل ہے :.بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ایک صاحب کو ایک مسلمان غلام آنها دکرنا تھا.وہ احمق سی کوئی جبشیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے اور دریافت کیا کہ کیا یہ مسلمان ہے ؟ آپ نے اس سے پوچھا کہ خدا کہاں ہے ؟ اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھادی آپ نے ان صاحب سے فرمایا لے جاؤ یہ مسلمان ہے.اللہ اکبر ! اسلام کی حقیقت پر کتنے پہ دے پڑ گئے ہیں آپ اسلام کے لیے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دینا کافی سمجھتے ہیں.لیکن ہمارے نہ دیک، آج کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہو سکتا.جب تک کہ نسفی کے بندھے ہوئے عطا کا پر حرفاً حرفا آمنت نہ

Page 498

کہتا جائے کیا (رسالہ اہلسنت والجماعت (ص ۲۳) اسلام اور ایمان کے مقابلہ میں کفر اور انکار ہے.جو مسلمان نہیں رہ نامسلمان ہے اور یعلوم ہو چکا ہے کہ مسلمان کون ہے اور اس کے لیے کن باتوں کا مانا ضروری ہے.پس میں شخص کو ان باتوں سے انکار ہے وہ نامسلمان ہے.یہ بات اتنی واضح ہے جس پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں رہتی.تاہم وضاحت کے لیے یہ کہنا شاید نا مناسب نہ ہو گا کہ کفر کی بنیا د انکار و تکذیب ہے الشاويلُ فَرْعُ القبول رتاویل قبول و تسلیم ہی کی ایک شکل ہے) امام غزالی فرماتے ہیں :.أَمَّا الْوَصِيَّةُ فَاَنْ تَكُنَّ لِسَانَكَ عَن تَلْفِيْرِاهْلِ الْقِبْلَةِ ما اَمْكَنَكَ مَادًا مُوا قائلين لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ غَيْرُ مُنَافِقِينَ لَهَا وَالْمُنَا فَقَةٌ تَجْوِيزُهُمُ الْكَذِبَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُذْرٍ أو بِغَيْرِ مُدْرٍ فَإِنَّ التَّكْفِيرَ فِيْهِ خَطَرُ وَ السكوتُ لا خَطَرَ فِيهِ - دا لتفرقة بين الاسلام والزندقہ مت ) (ترجمہ) میری نصیحت یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے اہل قبلہ کی تکفیر سے اپنی زبان کو رو کو جب تک کہ وه لا اله الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے قائل رہیں اور اس کے خلاف نہ کریں اور خلاف یہ کہ حضور صلعم کو کسی عذر یا بغیر عذر کے کا ذب قرار دیں.کیونکہ کسی کو کافر کہنے میں بڑے خطرات ہیں اور سکوت میں کوئی خطرہ نہیں ہے.چونکہ امام صاحب نے مسئلہ تکفیر کی گہری ریسرچ کی ہے اور کتاب التفرقہ اسی موضوع پر لکھی ہے.اس لیے انہوں نے اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ مسلمانوں کے فرقے جب

Page 499

ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں تو اس کے لیے انکار و تکذیب ہی کا حربہ استعمال کرتے ہیں.مگر جب تک قائل خود انکار نہ کر دے اور اپنی طرف سے تکذیب کا یقین نہ دلائے.اسے مکذب و یکفر قرار نہیں دیا جا سکتا.امام صاحب فرماتے ہیں :- ہر فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کرتا ہے.اور اس پر رسول کی تکذیب کی تہمت دھرتا ہے.منبلی اشعری کو کافر لکھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے خدا کے لیے اوپر کی جہت اور عرش پر بیٹھنے کی تکذیب کی ہے اور اشعری منبلی کو اس لیے کافر کہتا ہے کہ وہ خدا کی تشبیہ کا قائل ہے.حالانکہ رسول نے تو لَيْسَ كَمِثْلِهِ کہا ہے.اس لیے وہ رسول کی تکذیب کرتا ہے اور اشعری معتزلی کو اس بنا پر کافر بتاتا ہے کہ اس نے خدا کے دیدار ہونے اور خدا میں علم و قدرت اور دیگر صفات کے قائم بالذات ہونے سے انکار کرنے میں رسول کی تکذیب کی ہے اور معتزلی اس خیال سے اشعری کو کافر بتاتا ہے که صفات کو عین ذات نه ماننا تكثير في الذات ہے.اور توحید باری کی تکذیب رسول اللہ کی تکذیب ہے : التفرقة بين الاسلام والزندقہ ص ۲۳) به سطور اہل پاکستان کے ان علماء کے لیے لکھی گئی ہیں جو حکومت سے لفظ مسلم کی تعریف کرانا چاہتے ہیں.اگر چہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ وہ تعریف سے پہلے بعض فرقوں کو خارج از اسلام قرار دینے کے لیے بے چین ہیں اور تعریف بھی ایسی من مانی کرانا چاہتے ہیں کہ جن کو وہ مسلمان کہنا نہیں چاہتے وہ مسلمان ثابت نہ ہوں.اس الجھن کو دور کرنے کے لیے یہ سطور پیش کی جارہی ہیں.ناظرین یقین فرمالیں کہ مضمون نگار صاحب نہ "قادیانی ہیں نہ " رافضی" نه " وہابی نہ در بدعتی نه " پر دیزی نہ چکڑالوی" نه " خارجی» نه «مودودی - بلکہ ٹھیٹھ اہل سنت ہیں.- جمعية العلماء سے تعلق رکھنے والے ہیں." - چیف جسٹس قدیر الدین صاحب نے لکھا :- اسلام کسی ایک دین کا نام ہے یا طرح طرح کے بہت سے دین اور بہت سی شریعتوں

Page 500

۴۸۸ کو ملا کر ان کا نام اسلام رکھ دیا گیا ہے ؟ به سوال ان سب لوگوں کے لیے اہم ہے.جو اپنے آپ کو سچے دل سے مسلمان بھی کہتے ہیں.اور اسلام سے محبت بھی رکھتے ہیں.کیونکہ ہمارے ملک میں یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا کہ مسلمان کن عقائد کے رکھنے والوں کو کہتے ہیں.چنانچہ ہمارے دستور میں مسلمان کی تعریف (Deination) شامل نہیں ہو سکی.اس لیے شق نمبر ۲۶۰ کے جزہ نمبر ۳ میں غیر مسلم کی تعریف شامل کی گئی ہے.اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ سوال کہ مسلمان کس کو کہتے ہیں؟ کھل کر ۱۹۵۳ء میں اُس وقت سامنے آیا.جب قادیانیوں کے خلاف پنجاب میں فسادات مجھےئے اور ایک تحقیقی عدالت مقرر کی گئی کہ ان فسادات کے اسباب کی تفتیش کرے.اس عدالت کے صدر جناب محمد منیر تھے جو اس وقت چیف بس مشس تھے اور ایک رکن کیانی صاحب مرحوم تھے.ہجو اس وقت پنجاب ہائی کورٹ کے جج تھے.اس عدالت نے ملک کے تقریبا تمام فرقوں کے سرکردہ علماء کو بطور گواہ کے بلایا ، جو فرقے اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے.چنانچہ وہ سب پیش ہوئے اور سب سے یہ سوال کیا گیا کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے ؟ ہر ایک کا جواب منیر رپورٹ میں درج ہے.- ان جواہرات کو غور سے دیکھا جائے.تو معلوم ہو گا کہ ان میں سے کوئی سبھی یہ کہ کر مطمئن نہیں ہوا کہ اللہ کو ایک مانتا اور محمد کو اس کا سچا پیغمبر مانا ایک مسلمان کا عقیدہ ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ اور شرائط شامل کی گئیں وجہ یہ تھی کہ اگر وہ مشرائط نہ لگاتے تو مچھر دونوں میں جو اختلاف ہے اس کی بنیاد قائم نہ ہو سکتی.ہر فرقے کے عالم نے ان عقائد کا ذکر کسی نہ کسی طرح سے مسلمان کی تعریف میں کرنا ضروری سمجھا.جن کو وہ اپنے فرقے کی خصوصیت سمجھتے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان کی تعریف میں فرقوں کی تعریفیں شامل ہوتی رہیں.دوسرے الفاظ میں اسلام فرقوں کا ایک مجموعہ نظر آنے لگا اور خالص اسلام کی تعریفت مسلمان کی تعریف کے ساتھ الجھد کہ رہ گئی ہے ر در نامه جنگ کراچی ۱۶ رمئی ۱۶ بحوالہ ہفت روزہ لاہور ر جلد نمبر ۲۵ شماره نمبر ۲۲ ۳۱ ر مئی ته لاله و صفحه نمبر ۱۵

Page 501

پنجاب کے مشہور اہلحدیث خاندان کے چشم و ایک اہلحدیث عالم دین کا نعرہ حق چراغ مولانا غلام علی الدین کھوی نے اگو پر نمبر 1 ہر متصل پتو کی ضلع لاہور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :- ہر وہ شخص جو پنجگانہ نماز ادا کرتا ہے مسلمان ہے خواہ وہ کوئی بھی عقیدہ رکھتا ہو.....تحقیقاتی عدالت میں کسی عالم دین کو مسلمان کی تعریف کرنا نہیں آئی.حالانکہ حدیث کی رو سے مسلمان وہ جو حدیث من صلى صلوتنا واستقبل قبلتنا رَاكَلَ ذَبِيحَنا پر عامل ہے.اخبار الاعتصام لکھتا ہے کہ :.اس موقع پر انہوں نے تمام علماء کو جاہل قرار دیا ایک شخص نے اٹھا کر کہا کہ قادیانیوں کے بارہ میں جناب کا کیا خیال ہے ؟ جبکہ وہ اس حدیث پر بھی عامل ہیں یا مولانا نے فورا جواب دیا کہ وہ مسلمان ہیں کے لئے ۹۱ - میاں محمد طفیل اینڈ میر رسالہ نقوش و بر صغیر کے تمتاز ادیب اور سکالر کی رائے سیکرٹری جنرل پاکتان رانا گڑ نے کھا.مجھے یا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی کو کافر اور کسی کو مسلمان کہیں جبکہ آج تک یہی پسند نہ چلا ہو کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے.۱۹۵۳ء میں احمدی ایجی ٹیشن کے خلاف بجو انکوائر می کمیٹی بیٹی تھی اس نے تمام علما ء سے سوال کیا تھا کہ پہلے یہ بنا بیٹے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے وہاں مختلف عقائد کے علماء جمع تھے.سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ کہ رہ گئے اس لیے کہ مسلمانوں میں بھی تو کئی عقیدوں کے لوگ ہیں جیسے شیعی، خارجی معتزلی، وہابی ، احمد می رسائی ، نیچرمی وغیرہ.ہمارا مولوی تو دوسرے عقیدے والے کو پھٹ سے کا فر کہہ دیتا ہے.مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہم مولویوں کی نظر میں مسلمان نہیں ہیں اسلیے کہ جو خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان رکھتاگی کافر کیسے ** له مکتوب محمد یوسف ناظم جمعیتہ الحدیث گوہر عم متصل پتھر کی ضلع لاہور رہفت روزہ الاعتصام لاہور ۲۶ نومبر ۱۹۵۳ ء م در کالم على

Page 502

ہو جاتا ہے لے • تحقیقاتی عدالت میں علماء کے طرفہ عمل تنگ نظری غیرمسلم دنیامیں سلا اور پاکستان کی بدنامی تست باوری کم مائیل کے مظاہر نے جہاں بر صغیر کے مسلمان حلقوں میں ان کے خلا سخت نفرت و حقایت کے جذبات پیدا کیے وہاں اس کا یہ فسوسناک تمیم بی بر برود که غیرمسلم دنیا میں بھی اسلام اور پاکستان کی سخت بدنامی ہوئی.اس حقیقت میں صرف چند تخریبات کا ذکرہ کافی ہو گا.ا مشہور مستشرق پر و فیسر ولفرڈ کانٹ ویل سمتھ world, (Wilfred Cantwell Smith) نے لکھا : the "The Court of Inquiry, and subsequently the was presented with the sorry spectacle of of whom agreed on two no Muslim divines definition of a Muslim, and who yet were practically unanimous that all who disagreed should be put to death." Islam in Modern History by Wilfred Cantwell Smith-1957 Princeton University Press, Princeton, New Jersey, USA, page, 233.تحقیقاتی عدالت اور بعد میں دنیا کے سامنے یہ افسوسناک نظارہ پیش کیا گیا کہ کوئی سے دو علماء بھی مسلمان کی تعریف پر آپس میں متفق نہ ہو سکے اور اس کے باوجود وہ سب اس بات پر عملی طور پر متفق تھے اور یک آواز تھے کہ جو شخص بھی ان کے نکتہ نگاہ سے اختلاف کر سے اُسے قتل کر دیا جائے.1 ( آپ " من سلا ۳ دوسرا ایڈیشن مصنف محمد طفیل ایڈیٹر نقوش سیکرٹری جنرل پاکستان رائٹر نہ گلڈ

Page 503

نے لکھا:..مسٹر ایم اے کر انڈکر (M.A.Karandikar) The committee later on converted itself into a Council of Action.The agitation later on took an ugly turn resulting in the imposition of martial law and appointment of a commission of enquiry headed by Justice M.Munir and Justice M.R.Kayani.Their report is famous as the Munir Report.The controversy is summarised in the Report: 'In am Islamic state or in Islam there is a fundamental distinction between the rights of Muslim and non-Muslim subjects and one distinction which may at once be mentioned is that the non-Muslims cannot be associated with the business of administration in the higher sphere.Therefore, if the Ahmadis were not Muslims but Kafirs, they could not occupy any of the high offices in the state and as a deduction from the proposition two of the demands required the dismissal of Choudhary Zafrulla Khan and other Ahmadis who were occupying key positions in the State.and the third required the declaration of Ahmadis as a non-Muslim minority.' While giving their evidence, different ulama claimed that in the Islamic state, the non-Muslims 'would have no voice in the making of laws, no right to administer the law, no right to hold public office, no right to be employed in the army, judiciary, ministry or any post involving the reposing of confidence.' When confronted with the question as to whether the Muslims should be treated in the same manner in India, Moududi and other ulama categorically stated that they had no objection if the Muslims were treated as mlechhas and shudras in India.This was the Qurban theory in practice.They were.however, forthright enough to admit that a true Mussalman (as they understood the term) could not be a faithful citizen of any non-Muslim government.Maulana Tajuddin Ansari stated that the Islamic ideology would not let them remain in India for a minute.Maulana Abul Hasnat

Page 504

Mr Sayyid Muhammad Ahmad Qadri, of the J.U.1.Pakistan stated that in the event of a war between India and Pakistan, the Indian Muslims were duty bound to side with Pakistan.This view was corroborated by Maulana Moududi.Some ulama stated during the enquiry that in an Islamic State portrait painting, photographing of human beings, sculpture, playing of cards, music, dancing, acting and all cinema and dramatic performances will have to be banned.Maulana Abul Hasnat stated that a policeman or soldier would have the right to disobey any command from his superiors on the ground of religion.He added that the policeman or the soldier was free to decide himself whether a particular command was contrary to religion or not.It was only during a war between Pakistan and another non-Muslim country that the soldier was not free to decide for himself: in such an eventuality, he would have to depend on the fatwa of the ulama.Maulana Abdul Hanif Badayuni and some others considered that the dissection of dead bodies in the Medical college or for postmortem was antithetical to Islam.The ulama of the different shades materially differed from each other when asked to define a Muslim.The Report summarizes the curious position: 'Keeping in view the several definitions given by the ulama, need we make any comment except that no two learned divines are agreed on this fundamental.If we attempt our own definition as each learned divine has done and that definition differs from that given by all others, we unanimously go out of the fold of Islam.And if we adopt the definition given by any one of the ulama, we remain Muslims according to the view of that alim but Kafirs according to the definition of every one else.Islam in India's Transition to Modernity.by M.A.Karandikar, pp: 284-285.Eastern Publishers 25/216 Darakhshan Society, Malir.KARACHI 7.

Page 505

۴۹۳ اس را تراری) کمیٹی نے بعد میں جب اپنے آپ کو راست اقدام کرنے والی کمیٹی میں بدل دیا تر ایجی ٹیشن نے ایک انتہائی بد نما رخ اختیار کرلیا.تحقیقاتی کمیشن جسٹس منیر اور جسٹس ایم آر کیانی کی سر کر دگی میں مقرر کیا گیا.ان کی رپورٹ منیر رپورٹ کے نام سے مشہور ہے اس قضیہ کو اس رپورٹ میں مختصر یوں بیان کیا گیا ہے - ایک اسلامی ریاست میں یا یوں کہیے کہ اسلام میں مسلمان اور غیر مسلمان رعایا کے حقوق میں ایک بنیادی امتیاز ہے.جسے فوراً بیان کیا جا سکتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ غیر مسلمان کو ریاست کے اعلیٰ انتظامی امور میں شامل نہیں کیا جا سکتا.اس لیے اگر احمد می مسلمان نہیں ہیں.بلکہ کافر ہیں.تو وہ کسی بھی اعلیٰ ریاستی منصب پر فائز نہیں رہ سکتے.اور مطالبہ کی شرط عل است بطور استنباط یہ دو مطالبے کیے گئے.کہ چوہدری ظفر اللہ خان کو ہر طرف کیا جائے.اور دوسرے احمد ہی جو ریاست کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں.انہیں بر خواست کیا جائے.اور تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.اپنی شہادت کے دوران مختلف علماء نے یہ دعوی کیا.کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی قانون سازی نہیں کوئی آواز نہ ہوگی.اور وہ قانون کی تنفیذ میں کوئی اختیار نہ رکھیں گے.اور کسی پبلک عہدہ پر مقرر نہ کیے جا سکیں گے.فوج ، عدالت.وزارت میں یا کسی ایسی اسامی پر جہاں اعتماد کا سوال ہو ملازم نہیں رکھتے جائیں گے.اور جب ان کے سامنے یہ سوال پلیٹی کیا گیا.کہ آیا مسلمانوں سے بھی ہندوستان میں ایسا ہی سلوک کیا جائے.تو مودودی اور دوسرے علماء.نے بے لاگ جواب دیا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا اگر مہندوستان میں مسلمانوں سے بیلیچھوں یا شودروں والا سلوک کیا جائے.یہ قرآنی نظریے کی عملی شکل تھی.اُنہوں نے اس بات میں بھی نہایت بے باکی سے اعتراف کیا.کہ ایک سچا مسلمان رجیسا کہ ان کے خیال میں ایک سنچا مسلمان ہونا چاہیئے) کسی دوسرے غیر مسلم ریاست کا دفادار شہری بن کر نہیں رہ سکتا.مولانا تاج الدین النسار می نے بیان کیا.کہ اسلامی نظریے کے تحت تو وہ ایک منٹ کے لیے بھی ہندوستان میں قیام نہیں کر سکتے.جمعیت العلماء پاکستان کے مولانا ابو الحسنات محمداحمد قادری نے بیان کیا.کہ پاک رہند کے درمیان جنگ کی صورت میں مسلمانان

Page 506

مندر کا لازمی فرض ہوگا.کہ وہ پاکستان کی حمایت کریں.اس بیان پہ مولانا مودودی نے صادر فرمایا.تحقیقات کے دوران بعض علماء نے بیان کیا کہ ایک اسلامی ریاست میں مصوری.انسانوں کی فوٹو اتارنا - مجتمہ سازی - تاش کھیلنا - موسیقی - رقص - ایکٹنگ اور ہر طرح کے سینما اور ڈرامائی کردار حکم امتناعی لگانا ہوگا.مولانا ابوالحسنات نے بیان کیا.کہ ایک پولیس مین یا فوجی ملازم کو اپنے مذہب کی بناء پر اختیار ہو گا.کہ وہ اپنے اعلیٰ افسران کے کسی بھی حکم کو ماننے سے انکار کردے انہوں نے مزید یہ فرمایا.کہ ایک نوجی با پو لیس بین اس بات میں آزاد ہوگا کہ وہ خود فیصلہ کرے.کہ آیا اس کے افسر کا کوئی خاص حکم مشروع (محمدی) کے مخالف ہے یا نہیں.سوائے اس کے کہ پاکستان کی کسی غیر مسلم ملک سے جنگ کی صورت میں کسی فوجی ملازم کو یہ اختیار نہ ہو گا.کہ دہ از خود فیصلہ کرے بلکہ ایسی صورت میں اس کو چاہیئے کہ وہ علماء (اسلام ) کے فتوی پر انحصار کرے.مولانا عبد الحامد بدایونی اور کچھ دوسرے علماء کے خیال میں مردوں کی چیڑ پھاڑ جو میڈ یکل کالجوں میں ہوتی ہے یا پوسٹ مارٹم وغیرہ خلاف اسلام ہیں.جب علماء سے یہ کہا گیا کہ مسلمان کی تعریف بیان کہیں.ا تو اس میں بھی مختلف خیالات کے علماء کا آپس میں مادی اختلاف تھا..پورٹ اس کیفیت کو اختصار یوں بیان کرتی ہے." اُن بہت سی تعریفوں کے پیش نظر جو کہ علماء نے پیش کی ہیں.کیا ہمیں کسی تبصرے کی ضرورت ہے سوائے اس کے کہ کوئی بھی دو مقدس عالم اس بنیادی اصول پر متفق نہ تھے.اگر ہم خود اسلام کی تعریف پیش کرنے کی کوشش کریں.جیسا کہ سر فاضل عالم دین نے کی ہے اور ہماری تعریف ان سے مختلف موجود ، سروں نے کی ہے تو ہم متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج اور اگر ہم کسی ایک عالم کی بتائی ہوئی تعریف کو قبول کر لیں.تو ہم صرف اس ایک عالم کی تعریف کے مطابق ہی مسلمان رہتے ہیں.لیکن باقی تمام علماء کی تعریفوں کے مطابق ہم کافر بن جاتے ہیں.!

Page 507

- ایک روسی مولف طایا نہ یمن (Tayazinkin) نے اخبار میں لکھا کہ : - مؤلعت طا The Manchester Guardian (8th January 1955) of But what is an Islamic Constitution? The present Chief Justice of the Federal Court, Mr.Justice Munir, has considered the problem in his report on the Lahore disturbances 1953 where the Ahmdis were massacred in the name of orthodoxy."What is then the Islamic State of which everybody talks so much and nobody thinks?" He asks.He goes on to discuss the definition, implications and corollaries of Islam, though somewhat handicapped by the fact that the scores of Moslem pundits, Mullahs and Scholars who gave evidence could not agree even over what makes a man Mussalman, let alone a State Islamic." Chief Justice Muhammad Munir P.216, by Nazir Hussain Chaudhri, Publisher: Research Society of Pakistan, Lahore, First Edition, March, 1973.بحوالہ کتاب چیف جسٹس محمد منیر مرتبه ناظر حسین چو ہدری ، شائع کردہ سوسائٹی آف پاکستان پنجاب یونیورسٹی لاہور ، ص۲۱۷ طبع اول ۱۹۷۳

Page 508

۴۹۶ اسلامی آئٹی کیا ہے ؟ فیڈرل کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس مینز نے اپنی * تحقیقاتی رپورٹ میں اس مسئلہ پر غور کیا ہے.جو انہوں نے ۱۹۵۳ء میں لاہور کے فسادات کے بارے میں لکھی ہے.ران فسادات میں احمدیوں کا قدامت پسندی کے نام پر قتل عام کیا گیا تھا.اُس نے دریافت کیا ہے " آخر وہ اسلامی ریاست کیا ہے جس کے بارے میں مر شخص اتنی باتیں کہتا ہے.اور کوئی سوچتا نہیں یا پھر وہ آگے چل کر اسلام کی تعریف اُس کے مبادی.اور اس کے بدیہی نتایج پر بحث کرتا ہے.اگر چہ وہ اس امر سے کسی قدر مشکل ہیں پڑ گیا ہے کہ بیسوں مسلم پنڈت کلا اور عالم لوگ جنہوں نے راس کی عدالت میں) گراہیاں دی تھیں.وہ لوگ صرف اس بات پر آپس میں اتفاق نہ کر سکے.کہ ایک شخص کو مسلمان بنانے کے لیے کن باتوں کی ضرورت ہے.چہ جائیکے وہ یہ بیان کر سکتے کہ اسلامی ریاست کیا ہوتی ہے..ایک اور روسی ملکر مسٹر ایم ٹی سینیٹش (A1.1.Stepants کے معتد روانہ نظریات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ۴ M.T.نے علماء The the case was to ዝ not confined themselves ulama have theorising, and from time to time have gone over to in 1953, when parctical steps.Such fourteen of their organisations, including the leading launched parteis.Jamaat-i Islami and Ahrar campaign against the Ahmadiya sect.Playing up their differences on questions of faith (whereas the real reason lay in the political sturggle between different bourgeois and landlord groups), the ulama raised the following demands: for the Ahmadiya to be declared a non-Muslim sect; for Chaudhury Zafrullah Khan to be the removed from the post of foreign minister on grounds of his membership in the sect; for all Ahmadis to be dismissed from their government offices.was The stand taken by the ulama did not meet with It a sympathetic reception in official circles.undemocratic and contradictory to the denounced spirit of Islam; which could not be blamed for the fact as

Page 509

that "the pages of Muhammadan history are stained with the blood of many cruel persecutions." 1 علماء نے اپنے آپ کو نظریات قائم کرنے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ وقتاً فوقتاً عمل اقدام بھی کرتے رہے.چنانچہ ۱۹۵۳ء میں بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جبکہ ان کی چود تنظیموں.بنشمولیت احرار اور جماعت اسلامی نے جو اس ایجی ٹیشن میں نمایاں کردار ادا کر رہی تھیں فرقہ احمدیہ کے خلاف ایک زبر دست مہم کا آغاز کیا.اگر چہ حقیقی اختلاف اس سیاسی کشمکش میں مضمر تھا جو شہری متوسط طبقہ اور جاگیر دار طبقے میں جاری تھی مگر اس موقع پر علماء نے مذہ نہی مسائل پر اختلافات کو ہوا دی اور مندرجہ ذیل مطالبات پیش کر دیئے.ایک یہ کہ احمدیوں کو ایک غیر مسلم فرقہ قرار دیا جائے.دوسرے یہ کہ اس فرقے کا ایک رکن ہونے کی بناء پر چو ہدری ظفر احمد خان کو وزارت خارجہ سے ہٹا دیا جائے.تیسرے یہ کہ تمام احمدیوں کو سرکاری عہدوں سے برطرف کیا جائے.علماء کے اس مؤقف کو سرکاری حلقوں میں پذیرائی حاصل نہ ہوئی بلکہ اس کو غیر جمہوری اور مدرج اسلام کے متضاد سمجھتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی.ویسے اس کی وجہ سے علماء کو موس و الزام بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ اس قسم کی بعض ظالمانہ ایذا رسانیوں کے خون سے داغدار ہے.1 PAKISTAN.Philosoply and Sociolołgy, p p: 98-99 By 1.Stepanyants, Published by: U.S.S..R.Academy of Sciences, Institute of Philosophy

Page 510

حصہ چہارم ہ کے جماعتی سلام کی عظیم مشان برکات

Page 511

۴۹۹ پہلا باب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے " ای میت میں مستقبل میں رونما ہونے والے تغیرات اور جماعتی ابتلاؤں اور اُن کے نتائج کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ :.یہ سمت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیچ ہو جوزین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے نا خدا تمہاری آنہ مالش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.......وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور مٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازہے ان پر کھولے جائیں گے یا لے اس پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے 1920ء کے جماعتی ابتلاء میں جن برکات سے اپنی پاک جماعت کو نوازا اُن میں سے بعض کا ذکر پہلے آچکا ہے.اس باب میں چار مزید برکات کا ذرا تفصیل اور شرح وبسط سے ذکر کیا جاتا ہے:.اول :- نشاناتِ الہیہ کا ظہور.دوم : جماعت احمدیہ کی ترقی داستحکام.له رساله " الوصیت طبع سوم من مطبوعہ ۹ جولائی ۰۶۱۹۰۸

Page 512

سوم : - جماعت احمدیہ کی عالمی شہرت میں اضافہ چہارم : جماعت احمدیہ کی بے مثال اخلاقی قوت اور بند کیریکٹر کا اظہار نشانات البتہ کا ظہور $1496 اول: - سید نا حضرت مہدی معہود مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سر جنوری شما کو حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کو لکھا :- و خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مبشر الہام مجھے ہوا ہے انى مع الافواج انيك بغتة " ترجمہ : یعنی میں فوجوں کے ساتھ ناگاہ تیرے پاس آنے والا ہوں یہ کسی عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے" نے اس کے بعد یہ الہام حضر مسیح موعود علیہ السلام پر کئی بار نازل ہوا.۲۸ اپریل شاہ کو جب اس کا نزول ہوا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ الہام اس کی خبر حضرت صاحبزادہ مرزا رالدین (خلیفہ المسیح الثانی کو بھی دی گئی.چنانچہ بد را اپریل 2ء میں لکھا ہے.اسی شب صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب نے خواب دیکھا تھا کہ حضرت کو انى منع الافواج أتيك بغتة الہام ہوا صبح اُٹھ کر ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ بے شک یہ الہام ہوا ہے یا نہ اس تعترف الہی میں واضح حکمت یہی تھی کہ اس نوع کا ایک عظیم الشان نشان حضرت مصلح موعود کے دور خلافت میں مقدر تھا.چنانچہ جب اس کے ظہور کا وقت آن پہنچا تو ** سے مکتور بات احمدیہ جلد پنجم حصہ اول مٹ مکتوب ۱۳ مرتبه حضرت شیخ یعقوب علی صاب تراب) ناشر دفتر الحکم دسمبر ۱۹۱۸ء طبع اول.کے مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر کبیر رالزلزال من ۴۴ ، مش ۴۴ از حضرت مصلح موعود مطبو عمد ضیا والا سلام پریس قادیان ۲۵ دسمبر ۶۱۹۴۶

Page 513

۵۰۱ حضور نے یہ پر شوکت پیشگوئی فرمائی کہ مہ خدا مدد کے لیے دوڑا آرہا ہے ، اس پیشگوئی کے تیسرے روزہ اور مارچ سوار کو مارشل لا و ماند ہو گیا اور فرمیں لا محور میں داخل ہوگئیں.چھ مارچ کو جمعہ تھا.اُدھر دن طلوع ہوا رادھر خدا کی مظلوم جماعت کو مٹا دینے کے منصوبے ہونے لگے.اس وقت کشتی احمدیت خطرناک گرداب میں ہچکولے کھا رہی تھی اور اس کا پیچ نکلنا کسی معجزہ کے بغیر ناممکن دکھائی دیتا تھا.ایسے نازک وقت میں الہام انى مع الافواج اتيك بغتة اور حضرت مصلح موعود کی پیشگوئی کے عین مطابق خدا تعالی کی آسمانی تائید دنفرت کا یکا یک نزول ہوا اور ٹھیک بارہ بجے کے قریب لاہور میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا اور پاکستان کی بہادر اور محب وطن فوج چند گھنٹے کے اندر اندر امن قائم کر نے میں کامیاب ہو گئی بصورت دیگر پاکستان اور جماعت احمدیہ کا جو حشر ہوتا اس کا تصویر کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے میں.ناظم مارشل لا ء میجر منزل معظم نے سچ کہا تھا کہ :- ور مارچ کو فوج نے اور ڈیڑھ گھنٹہ انتظام نہ سنبھالا ہوتا تو یہاں مکمل تباہی، لوٹ مار قتل و غارت اور زنا بالجبر کا دور دورہ ہوتا اور کسی کی عزت اور وقار محفوظ نہ تھا یہ ہے یہ مارشل لاء دار مٹی سارہ کو صبح ۳ بجے اٹھایا گیا.ناظم مارشال ایمیجر جنزل معظم نے ۴ درمئی کو اپنی نشری تقریہ میں کہا :- در ایل پنجاب اور خاص کر اہل لاہور کو ان حالات کا اچھی طرح علم ہے جن میں فوج کو شہری حکام کی مدد کے لیے آنا پڑا.جبکہ ہر طرف بدامنی کے بادل چھائے ہوئے تھے.ریلیوں کی پڑیاں اکھاڑے جانے ٹیلیفون اور ٹیلی گراف کے تار کاٹے جانے اور عام ٹریفک میں مداخلت کیے جانے کی خبریں برابر آرہی تھیں.لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا.عرض کہ 14 مارچ کی اس صبح کو لاہور میں کسی بھی شہری کی جان ومال کو محفوظ نہیں سمجھا جا سکتا تھا.چند خود غرض انسانوں نے اپنے مفاد کے لیے جھوٹی باتوں سے کام لے کر اور مذہب کی آڑ لیتے ہوئے نادان عوام کے جذبات کو پاگل پن کی حد تک ابھار دیا تھا.انہوں نے اپنی تحریک کو بظاہر مذہب کا رنگ لہ تلمت اور دسمبر ۱۹۵۳ و م ا ر اس پر چھہ میں مارشل لاء کے نفاذ کی تاریخ نہ مارچ چھپی تھی جو غلط ہے)

Page 514

۵۰۲ اس لیے دیا تھا تا کہ نا واقف لوگ اُن کے جال میں پھنس سکیں.اب اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہا کہ ان کی یہ تحریک سارے ملک کے خلاف ایک مکمل سانه ش تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں یداسنی پھیلانے کے بعد حکومت کو بالکل بیکار کر دیا جائے.یہ کام صرف ملک کے دشمنوں کا ہی ہو سکتا ہے ہے تحریک پاکستان کے ایک عظیم رہنا جناب حمید نظامی نے اپنے اخبار نوائے وقت میں فوج کا شکریہ کے زیر عنوان لکھا : - یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر مار پچ رس۱۹۵۳ء) کو لاہور شہر میں سول نظم دنستی پوری طرح تباہ ہو چکا تھا اور اگر چند گھنٹے اور مارشل لاء نافذ نہ کیا جاتا تو پاکستان کے اس قدیم ترین تاریخی شہر میں بلا امتیاز عقیدہ کسی شہری کے جان ومال کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہ تھی.ہمیں یہ کتنے میں کوئی قاتل نہیں کہ اگر لاہور کے حالات کو بہ وقت ر بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہو گا کہ آخری وقت پر سنبھال نہ لیا جاتا تو لا قانونیت کی آگ سارے صوبہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی.اس اعتبار سے فوج نے صرف لاہور کو ہی نہیں سارے صوبہ کو بچا لیا ہے.ہم پاکستانی فوج کا نہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں یات دوم : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ۱۸۹۲ء میں الہام ہوا کہ انى مهين من اراد اهانتك » له جناب مولوی عبد الرحیم صاحب الشرفت مدير المنبر لائل پور (فیصل آباد ) تحر فرماتے ہیں :.قادیانیوں کے ہاں یہ بات عقیدے کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ جو گردہ اور شخص مرزا غلام احمد کی نبوت کو چیلنج کرتا ہے یا قا دیانی جماعت کی مخالفت کے در پہلے ہوتا ہے وہ انجام کار ذلیل و خوار ہوتا ہے.اس پر مرزا غلام احمد صاحب کا یہ الہام ہر قادیانی کے دردِ زبان ہے.انى مه من ارادا ان میں ہر اس شخص کو ذلیل کروں گا.جو تیری لے نوائے وقت ۱۶ مئی 993 ملا نے نوائے وقت لاہور ، ارمئی ۱۹۵۳ء سے آئینہ کمالات اسلام صلا طبع اوّل

Page 515

تذلیل کے در پے ہو گا.....بکا اس کے بعد لکھا : - قادیانی جماعت ان تمام مخالفتوں کے علی الرغم بڑھتی چلی گئی اور آج مخالفت کے جتنے طوفان اس کے خلاف اٹھے ان کی لہریں تو آہستہ آہستہ ابھرتی رہیں لیکن یہ گردہ پھیلتا چلا گیا...خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کام کا جواب نعروں سے مسلسل جد وجہد کا توڑ اشتعال انگیزی سے علمی سطح پر مساعی کو ناکام بنانے کا داعیہ صرف پھیپتیوں، بے ہودہ جلوسوں اور ناکارہ ہنگاموں سے پورا نہیں ہو سکتا.اس کے لیے جب تک وہ اندازہ اختیار نہ کیا جائے جس سے فکری اور عملی تقاضے پورے ہوں ہنگامہ خیزی کا نتیجہ وہی برآمد ہو گا جس پر مرنا صاحب کا الہام " انی مهين من ارادا ما نتك صادق آئے گا.جو لوگ اس طرز پر مثبت کام نہیں کر سکتے وہ قادیانی تحریک کے صحیح حامی و مددگار ہیں وہ اس نہج پر جتنا کام کر یں گے اس سے یہ تحریک تقویت حاصل کرے گی کے کی انیٹی احد یہ تحریک میں شورش پسند علما کی باطنی کیفیت جس طرح ملک کے ہر طبقہ کے سامنے آشکارا ہوئی اور ان کے اخلاق و ایمان کا سارا مجرم کھل گیا.وہ بھی اس الہام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت تھا چنانچہ جامعہ رشیدیہ منٹگمری (ساہیوال) کے صدر تحریر فرماتے ہیں:." ختم نبوت کے زمانہ میں تمام علماء کا کھرا کھوٹ قوم نے دیکھ لیا ہوا ہے، سے اس اجمال کی تفصیل تو بہت طویل ہے بطور نمونہ صرف چند واقعات کا ذکر کافی ہوگا.انٹیلی جنین میور د کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایم اے چوہدری کی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ :- ۱۹۵۳ء میں جب قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی تو میں لاہور میں تھا...ایک واقعہ یاد ہے یو نیورسٹی کے سامنے بدمعاش ننگے ناچے تحریک کا ابھی آغاز تھا اس لیے تعلیمی ادارے کھلے ہوئے تھے انہوں نے اچھل اچھل کر ختم نبوت کے فرے لگائے له المنیر ، راگست ۱۹۵۵ء ص ۱۰-۴-۱ شه رسالہ تعلیم القرآن راولپنڈی) جولائی اگست ۱۹۶۰ ء ما ۱۳ بحواله رساله " الفرقان ربوہ اگست ۱۹۶۰ء ص ۳۲

Page 516

اور لڑکیوں کے سامنے نگے ناچے بیچی بات ہے مجھے بہت بڑا لگا اور بڑی غیرت آئی کہ نام میں پاک رسول کا اور یوں گے تا ہیں چنانچہ میں نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور ان کی خوب گو شمالی کی اس پر میرے خلاف افواہ پھیلا دی گئی کہ بیتا بیانی ہے چنانچہ ایک روز آدھی رات کو کسی منچلے نے جنگلے سے آکر میرے خیمہ کو آگ دگارمی......تحریک کے دوران عام لوگوں کا جوش دیدنی تھا ناموس محمد پر کٹ مرنے کا ایسا بے پناہ جذبہ تھا کہ تمام تر سختیوں کے باوجود کسی مرید پیر اس میں کوئی کمی نہ آئی لیکن افسوس کہ ان کے لیڈر بودے نکلے اور انہیں ناکامی در سوائی کا سامنا کرنا پڑا.اس تحریک کے دوران سیاست دانوں اور علماء حضرات کا ایک عجیب اور افسوسناک رخ دیکھنے میں آیا وہی لوگ جو بڑھ پڑھ کر گرما گرم تقریریں کرتے اور نعرے لگاتے تھے کہ جو بھی ہو کسی کو گولی نہیں لگے گی لیکن حقیقتاً جب گولی چلی تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہی لوگ تھے جنہوں نے سب سے پہلے راہ فرار اختیار کی.دکانیں بند تھیں ، انہوں نے دکانوں کے بھڑوں کے آگے گئے شختوں کے نیچے سے اور نالیوں میں سے گزر کر اپنی جان بچائی.چند جذباتی نوجوان سینے تان کر سامنے آئے لیکن یہ بھاگ نکلنے مارشل لاء لگا تو لیڈر غائب ہی ہو گئے جیسے ان کا کبھی دنجود ہی نہ رہا ہو بیست.چھپ گئے یا ادھر اُدھر بھاگ گئے.....ایک اور لیڈر کا بتا ؤں جو آج بھی حیات ہیں اور بڑے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں.جب مارشل لاء لگا تو وہ مسجد وزیر خاں میں تھے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے اور ان کی تلاش ہونے لگی انہوں نے ڈاڑھی منڈوا دی اور چھپ گئے لیکن جلد ہی پکڑے گئے لیتے لیے وقت ۲۵ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ علا پر حسب ذیل خبر شائع ہوئی تھی :- ہوا.پنجاب اسمبلی کے ایک رکن مولانا عبدالست زنانه می آج قصور میں گرفتار کر لیے گئے.نے دوست احمد بیگرین نیم تا با فروری ۱۹۸۵ء مرت ص

Page 517

۵۰۵ پولیس قادیانیوں کے خلاف حالیہ ایجی ٹیشن کے سلسلہ میں مولانا نیازی کی تلاش میں تھی انہوں نے اس نرمی سے کہ انہیں کوئی پہچان نہ سکے والا ھی اور مونچھیں صاف کرا دی تھیں.یا در ہے کہ پنجاب کے حالیہ واقعات سے مولانا نیازی کو گہرا تعلق ہے وہ اپنے حامیوں کو بے سہارا چھوڑ کر مسجد وزیر خان سے بھاگ گئے تھے.اس کے بعد وہ اِدھر اُدھر پھرتے رہے اور آج گرفتار کر لیے گئے.گرفتاری کے وقت وہ ایک مکان میں سورہے تھے یا پھر جو قائدین ، میلیانوں میں گئے انہوں نے وہاں جس طرز عمل یا اخلاق کا مظاہرہ کیا اس سے اُن کے عقیدت مندوں کو سخت ٹھیس پہنچی چنانچہ " ابن انشاء اپنے ایک مقالہ میں رقم طرانہ ہیں :.اور ہمارے ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ جب میں جیل میں تھا تو بہت سے لوگ ختم نبوت کی تحریک کے سلسلہ میں جیل میں آگئے.ان میں کچھ بڑے ناموں والے مولوی بھی تھے.میں ان دنوں قرآن اور عربی زبان پڑھا کرتا تھا ایک روز ایک آیت کے معنوں میں اٹکا تو ایک لیڈر مولوی سے پوچھا کہ مولانا ذرار مہنمائی فرمائیے بہت دیر تک بیٹھے قرآن شریف کے اس صفحہ کو تکتے رہتے آخر کہنے لگے درمیاں سچی بات یہ ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں ہے کسی اورست پو چھوا تبھی تو میر کیش کے سامنے اکثر کی مسجد ہوئی.ان لیڈروں کے علاوہ جو کارکن اس تحریک کے سلسلے میں آئے تھے بہت مخلص اور نیک تھے.ان میں سے ایک خدا کا بندہ جو لاہورہ کا پہلوان ہے ایک روز ان دوست کے پاس آیا اور بولا شاہ جی میرے جی میں آتی ہے کہ ان لیڈروں کو چھرا مار دوں.میں نے کہا ارے یہ کیا کہ رہے ہو ؟ بولا یہاں پاس آکر ان کی حقیقت معلوم ہوئی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے اور جلد رہائی کے لیے یا اونچی کلاس کے لیے لڑتے ہیں کبھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ ہم لوگوں کا حال احوال ہی پوچھ لیں کہ میاں تم لوگوں کو کھانے کو ٹھیک ملتا ہے پہلے پاکستان کے صحافی مجیب الرحمن صاحب شامی نے رسالہ ہفت روزہ زندگی میں ۱۹۵۳ء کی سے جنگ کراچی دار نومبر ۱۹۶۷ء سجواله الفرقان ربوه فروری ۱۹۶۸ ۶ ص۴۶

Page 518

۵۰۶ ایجی ٹیشن میں حصہ لینے والے راولپنڈی کے ایک عالم دین اور شیخ القرآن" کے ایک مکتوب کا عکس شائع کیا جو وزیر اعظم فیروز خان نون اور آئی جی سے رہائی کی سفارش کے لیے تھا.شامی صاحب نے اس خط پر یہ تبصرہ کیا کہ :.ر یہ مولانا صاحب تحریک ختم نبوت کے زمانے میں قید ہوئے اور قید کے دوران.....یہ خط تحریر کیا.اس خط کو پڑھیے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آجکل منبر رسول پر بیٹھنے والے بعض حضرات کے دل دین کی محبت سے کس قدر خالی ہیں اور انہیں اپنے کاروبار کا کتنا خوف لاحق ہے.منبر پر کھڑے ہو کر ختم نبوت کے لیے جان دینے کے دعوی دار جیل میں پہنچے تو سارا دعویٰ علم و فضل دھرے کا دھرا رہ گیا یا شه جیل خانوں میں ان لوگوں پر کیا بیتی؟ اس سلسلہ میں جامعہ اشرفیہ کے صدر مدرس جناب مولوی محمد ادریس صاحب کاندھلوی نے تحقیقاتی عدالت میں یہ بیان دیا کہ :.ر ڈپٹی کمشنر مسلح پولیس کی گارد کے معیت میں جیل آئے.اس وقت علماء اور دوسر ممتاز اصحاب بیرکوں میں نظر بند تھے.ڈپٹی کمشنر نے انہیں بیرکوں سے باہر نکالا اور انہیں پانچ پانچ کے گروپ میں کو کھڑیوں میں بند کر دیا.....ان کو ٹھڑیوں میں علماء اور دوسرے ممتانہ اصحاب کو بری طرح پیٹا گیا ہے شورش کا شمیری صاحب مدیرہ چٹان " لاہور لکھتے ہیں :.انگریزوں کے زمانہ میں لاہور کا شاہی قلعہ سیاسی اسیروں کے خلاف استعمال ہوتا تھا.اس تحریک میں بھی کئی علماء کو گرفتار کر کے قلعہ میں لے جایا گیا وہاں......ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس......نے ان علماء کے خلاف اس قسم کی واہیات زبان استعمال کی کہ ایک شریف آدمی تخلیہ میں بھی اس کا تصور نہیں کر سکتا الخ اسے کے رسالہ زندگی، لاہور ، ہر جولائی ، ۱۹ ء صفحہ ۲۰٫۲۹ سے اخبار ڈالئے وقت نہ کر اکتوبر ۱۹۵۳ء مت کا م ۳ " ۱۹۷۰ء کالم ه سید عطاء اله شاه بخاری ص ۲۳ طبع دوم نویر ۱۹۷۳ از ناشر کته بیان مہر میکلو ڈروڈ لاہور انوٹ) اس اقتباس کے اگلے فقرے عمدا چھوڑ دیئے گئے ہیں کیونکہ تاریخ احمدیت کے پاکیزہ اوراق اسے نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتے)

Page 519

ایجی ٹیشن کے اصل محرک اور بانی مبانی احراری زعماء تھے.جناب نعیم صدیقی صادر نے اُن کے ریخ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا :- بد قسمتی سے اس مسئلے کو گزشتہ کئی سال سے ایسے عناصرے کے چل رہے تھے جو ایک طرف اپنے سیاسی کردار کے لحاظ سے تعلیم یافتہ حلقوں میں کبھی وقار نہیں پا سکے.پھر ان کی ذہنی سطح ایسی تھی کہ وہ اس مسئلہ کی توضیح کے لیے ٹھوس اوله استدلال کرنے میں ناکام رہے.مزید بر آرہے مصیبت یہ بھی کہ ان کی زبان اور ان کا انداز بیان بسا اوقات رکاکت اور اقتبندال تمسخر اور استہزا کے مد کو چھو جانے کی وجہ سے کبھی اپنیل نہیں کر سکا.یہ عناصر اس کو سمجھ حال تک پہنچانے کے لیے اس سے کھیلتے پہلے آئے ہیں.لیکن اس سے مسئلہ کی اہمیت، نزاکت اور سنجیدگی کی نفی نہیں ہو جاتی.ایک کیس کو پیش کرنے میں ایک وکیل اگر تا کام رہا ہے تو ضروری نہیں خود کیسی ہی کو بے جان اور بے وزن سمجھا جانے لگے.مزید مشکل یہ کہ یہ عناصر مسئلہ کے حل کے لیے عوام کو تربیت دے دے کہ اور منظم کر کر کے کوئی منصوبہ بند دستوری جد و جہد کرنے کی صلاحیتوں سے خالی تھے.اور ان کا طریقہ صرفت اندھا جوش و خروش پھیلا دیتا رہا ہے.چنانچہ اللہ سے برابر آتشیں تقاریر کے ذریعہ عوام کو جذباتی تحریک دلا رہے تھے.اس خطرے کو دیکھ کہ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ عوام کے جذبات کو دستوری جدو جہد کی رودگاہ میں سنبھالا جا سکے لیکن ہماری اصلاحی کوششوں کے علی الرغم طوفان پھوٹ پڑا.اور اس کی لہریں اس طرح امڈ پڑیں کہ خود اس طوفان کے بپا کرنے والوں کے قابو سے بھی باہر ہو گئیں.جو سشیلی تقریروں میں جو کچھ پیش آتا ہے وہ سب کچھ یہاں بھی پیش آیا.ایک تو یہ کہ جب عوام جذبات کی لہروں میں بہنے لگے تو ان کو سہارا دینے والا کوئی نہ تھا.وہ رہنمائی کے لیے ادھر اُدھر دیکھتے تھے لیکن رہنمائی کے لیے کوئی نظم سرے سے تھا ہی نہیں.تحریک کے مجاہدین جو ہار پہنے نعرے لگاتے جیل جانے کے لیے بے چین نظر آتے تھے وہ جیل پہنچنے کے فوراً ہی بعد گھبرا گھبرا کر دریافت کرنے له نقل مطابق اصلی

Page 520

لگتے کہ اب راہ نجات کیا ہے اور پھر راہ نجات صرف معافی ناموں کے بل پر کھلتی نظر آتی تو جو کچھ کوئی لکھواتا لکھ کر پیش کر دیتے.ایک طرف گولیاں کھانے کے لیے شجاعت کا اظہار تھا تو دوسری طرف رخساروں سے ڈھلکتے ہوئے آنسو تھے اور لبوں سے اٹھنے والی آہیں تھیں.جلوسوں میں ناموس رسول کے پر دانے جس شان سے آگے بڑھتے تھے اس کا سارا مجرم بھیل کے اندر جا کر کھل جاتا.جب اُن کے سیرت وکردار کے گوشے بے نقاب ہونے لگتے.ابتدائے عشق کے مرحلوں میں دنیا کی دنیا ساتھ ہوتی.لیکن جب فوجی عدالتوں کی طرف سے سینکڑوں افراد کو لمبی لمبی مزائے قید دے دی گئی تو آگے کے ان مشکل مقامات میں ان کا اور ان کے بیوی بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا.یہاں پہنچ کر نوبت یہ آجاتی کہ جن ہستیوں کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتے لگاتے گلے سوکھ جاتے ، ان کے لیے موٹی موٹی گالیاں گونجتی سنائی دیتیں.تحریک اسلام کے ایک بنیادی عقیدے کے تحفظ کے لیے اٹھائی گئی تھی.مگر اس کے دوران میں آتشزنی اور لوٹ مار کا وہ ہنگامہ اہل پڑا کہ جس پر جتنا افسوس بھی کیا جائے کم ہے.شہر شہر میں ہمیش بہار میں چندہ کے طور پر جمع کی گئی تھیں لیکن رسید پرچھے اور حساب کتاب کا سلسلہ ہی سرے سے نہ تھا.چنانچہ جس کے ہاتھ جو کچھ آگیا غائب ہو گیا.آج نہ کوئی حساب مانگنے والا ہے نہ جانے والا.ان واقعات نے تحریک کو بدنام کیا.مقصد کو بدنام کیا.دین کو بدنام کیا.ان واقعات نے پاکستان کے دینی عناصر کی قوت گھتائی ہے اور ملحد عناصر کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں.بلکہ بیچ میں تو خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ خود اسلامی دستور کے لیے جو جد و جہد نا بہت اہم مراحل میں داخل ہو چکی ہے اُسے بھی سخت نقصان پہنچے گاٹ نے ممتاز سنی عالم دین مولانا غلام مہر علی صاحب گولڑوی نے اپنی کتاب " دیوبندی مذہب ہیں حب احراری علماء اور ان کے ادعائے تحفظ ختم نبوت پر زبردست تنقید کی چنانچہ لکھا:- ایک مجلس عمل بنی.صدر مولانا ابوالحنات مرحوم اور صدر رضا کاران حضرت قبر ماجرا دیا ه چراغ راه " کراچی مارچ سواء مشار(۱۹)

Page 521

۵۰۹ اور سیکرٹری مجلس عمل داود غزنوی منتخب ہوئے.دیو بندی چندہ خوری کے لیے از خود منتخب ہو گئے حضور خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ اور مطالبات مذکورہ سے تمام فرقوں کے علماء کو اتفاق تھا.مگر ایجی ٹیشن یعنی سول نافرمانی کر کے جیلوں میں جانے کے مسئلہ میں دیوبندی در شنی اور غیر مقلد ہر فرقہ کے اکثر علماء کو اس کے شرعی جوانہ میں اختلاف تھا اور وہ کافر کی بیخ کنی کے لیے اپنے آپ کو محبوس کرانے کو وہ تلقوا بايديكم الى التهلكة کا مصداق قرار دیتے تھے.جیسا کہ افاضات الیومیہ میں مولوی اشرف علی تھانوی بھی اسے حرام قرار دے چکے تھے.اس لیے رضا کار تحریک میں امید سے بہت کم لوگ شریک ہوئے مگر مارچ ۱۹۵۳ء کو تحریک شروع ہو گئی سب سے اول ریئمیں اہل سنتہ حضرت مولانا صاجزادہ رضا کار ے کہ کراچی روانہ ہوئے.اور گرفتار کر لیے گئے.بعدہ اکثر شہروں سے رضا کار مظاہرے کرتے اور روانہ ہوتے رہے اور راستوں میں گرفتار کر لیے جاتے رہے.پھر یکے بعد دیگرے مولانا ابو الحسنات مولوی عطاء اللہ شاہ ، مولوی محمد علی جالندھری کو گر فتار کر کے بمعہ صاحب زادہ صاحب مدظلہ سب کو سکھر جیل میں محبوس کر دیا گیا.قاضی احسان احمد شجاع آبادی گرفتاری سے بچنے کے لیے پہلے شجاع آباد سے بھاگ کہ کہیں روپوش ہو گئے.مبینہ طور پر سب سے پہلے مولوی محمد علی جالندھری جیل میں بدل گئے اور حکومت سے عرض معرد من کر کے پیرول پر بالفاظ دیگر تحریک سے معانی ہو کہ جیل سے نکل گئے تحریک کمزور پڑ گئی ، نئے رضا کاروں کا سلسلہ بند ہو گیا اور محبوس رضا کاروں نے حکومت سے مایوس ہو کر مختلف ذرائع سے جیلوں سے باہر آنا شروع کر دیا مگہ رضا کاروں کے اس انفرادی تقدم و تاخر سے مطالبات کی قائمی پر کوئی الہ نہ پڑا.اور عوام کی نظریں مرکز کے قائدین پر مرکوز و حوصلے پختہ اور مولانا ابولحسنات مرحوم و صاحب زادہ صاحب ابھی سکھر جیل میں عزم صمیم لیے مطالبات پر قائم تھے کہ دیوبندی مولو اجرت عطاء اللہ شاہ بخاری محمد علی جالندھری داؤد غزنوی نے.امئی 90 مطابق ۲۵ شعبان ۱۳۴ھ کو تحریک سے مکمل استعفا کا اعلان کر کے تمام تحریک اور مطالبات کا خاتمہ کر دیا.ان کا یہ عجیب و غریب اور بے سر و پا بیان جنگ کراچی میں شائع ہوا.مولوی داؤد کے بیان کے چند الفاظ یہ ہیں.

Page 522

۵۱۰ ہم سب بشمول عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانامحمد جالندھری اس بات پر متفق ہیں کہ مرکز اور صوبہ میں وزارتی تبدیلی کے بعد ہم کو ہر قسم کی سول نافرمانی بند کر دینا چاہیئے.روز نامہ جنگ کراچی - ارمٹی سد) دیوبندی مولویوں کا یہ بیان فہمیدہ لوگوں کو سمجھ میں نہیں آیا، اور اس سے ان کے کسی مخفی دنیاوی پر وگرام کے خدشات پیدا ہو گئے.کیونکہ مطالبات مذکورہ واجبی اور دائمی تھے ، صرف وزارت کی تبدیلی پر مقصد برآمدی کا اظہار اور مطالبات سے دست برداری بعید از فہم تھی.کیا تحریک سے مقصد وزارت کی تبدیلی تھی اور میں........حکومت نے تو مرزائیوں کو کافر تقرار نہ دیا.البتہ دیو بندیوں نے الٹا تحریک ختم نبوت کے رضا کاروں کو کافر ضرور بنا دیا.چنانچہ مورخه ۲۳ / اکتوبر ۹۶ که مطابق ۲۲ جمادی الاول ۱۳۲۸ھ کو دیو بندیوں کی مسجد مدینہ چاک منڈی چشتیاں شریف کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے انہیں مولوی محمد علی صاحب نے ایک جاہل نابکار کے اشارے پر یا اجرت وعظ کے اضافہ کے لالچ میں یہ الفاظ کہ ڈالے کہ جن لوگوں نے تحریک میں معافیاں مانگی نھیں وہ مسلمان نہیں رہتے ، ان کے پیچھے نمانہ نہ جائز ہے.الخ.مولوی صاحب کو شاید یہ الفاظ کہتے خیال نہیں آیا کہ وہ خود بھی اور ان کی ساری برادری اس کفر کی زد میں آگئی ، کہ وہ خود پیرول (معانی) پر جیل سے نکلے اور اکثر دیو بندی بھی مختلف طریقوں سے قبل از میعاد سزا یا فیصلہ تحریک جیلوں سے بھاگے.چنانچہ مولوی صاحب کے اس معاندانہ فتوے کے بعد بعض لوگوں نے دیوبندی فرقہ کے معتمد مفتیوں سے جو فتوے طلب کیے اور انہوں نے اصل جواب دے کر جالندھری صاحب اور دیوبندیوں کی مکاری کا بھانڈا پھوڑا وہ مختصراً بالفاظ ملاحظہ ہو.سوال :- کیا فرماتے ہیں علمائے دین دریں مسئلہ کہ ہمارے چپک کے امام مسجد منا جو کہ عالم فاضل ہیں وہ تحریک خلاف مرزائیت 190 ء میں رضا کاروں کے ساتھ جیل میں گئے تھے.پھر وہ معافی مانگ کر باہر آگئے تھے رالی قولہ دریافت طلب یہ امر ہے کہ جن لوگوں نے معافیاں مانگی منتیں وہ مسلمان رہے یا نہیں، اور ان کی امامت نماز شرعاً جائز ہے یا نہیں.(مختصراً) الجواب علی امام موصوف کی اقتداء میں نماز درست ہے زندہ عبد الستار عفی عنہ

Page 523

۵۱۱ نائب مفتی خیر المدارس ملتان - ۲ اس تحریک کے اختتام پر کانی حضرات نے معافی مانگ کر رہائی حاصل کی.لہذا اس وجہ سے ان پر ملامت نہیں کی جا سکتی.فقط والجواب صحیح.عبد الله عفا اللہ عنہ مفتی خیر المدارس ملتان - ٥ الله سوال:- (مذکور) (قهر مدرسه خیر المدارس ملتان) الجواب اگر امام مذکور میں اور کوئی خلاف شروع باتیں نہ ہوں تو اس کی اقتداء میں نما نہ پڑھا درست ہے.فقط والسلام - بندہ احمد عفا اللہ عنہ نائب مفتی مدرسہ قاسم العلوم ملتان - (هر (مدرسه) ان دونوں فتووں کو پڑھ لیجیے اور مولوی عبداللہ صاحب کے الفاظ کا فی حضرات بھی بغور پڑھ لیجئے.یہ کافی حضرات کون تھے ظاہر ہے کہ یہ اسی حضرت فرقہ کے ہی تھے، ہم ان کی طویل فہرست یہاں دینا فضول سمجھتے ہیں کیونکہ وقت گزر گیا ، اور دفن شدہ مرد سے اکھیڑنا بے فائدہ کام ہے اور پھر یہ ذاتیات پر اتر آنے کا معاملہ ویسے بھی اخلاقیات سے باہر ہے یہ تو دیو بندیوں کا ہی شیوہ ہے کہ جب وہ علمائے اہل سنت پر کوئی اعتقادی گرفت نہیں کر سکتے تو ذاتیات کو موضوع بحث بنا کر اپنی امت کو خوش کیا کرتے ہیں.عرض صرف یہ کہنا تھا کہ مسلمان کو کافر کہنا خود کفر ہے اب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے مفتی آپس میں نیٹ لیں کہ ان میں کون مسلمان ہے اور کون نہیں اور انہیں سنیوں پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے اپنے گھر کی پڑتال بھی کر لینا چاہیئے.سد اتنی نہ بڑھا پا کئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ دیو بندیوں کی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اغراض ومقاصد حصول مربعہ جات زمین.آڑھت کی دکانیں ویر بندی کہتے ہیں کہ ہم ہی تحفظ ختم نبوت کے خھیکیدار میں واقعی سنی بریلویوں نے اس کو

Page 524

۵۱۲ پیٹ پرستی کا کار دوبارہ بناکر ختم نبوت کے روپیہ سے کاروبار کبھی نہیں چلا یا البند سنی علماء کی مخلصانہ تبلیغی سرگرمیاں محتاج تعارف نہیں..دور نہ جائیے تحریک ختم نبوت ۹۵۳ میں ہی عطاء اللہ شاہ بخاری و محمد علی جالندھری اہلسنت کے مقتدر علماء حضرت مجاہد اعظم مولنا ابو الحسنات رحمۃ اللہ علیہ خطیب مسجد وزیر خان لاہور صدر مجلس عمل اور شیر بیشه خطابت حضرت ہمیشہ مولانا صاحبزادہ فیض الحسن شاہ منظلہ کی جوتیاں چاٹا کرتے تھے اور انہیں کے نام پر دیو بندی دو لاکھ روپیہ لوگوں سے بٹور کر ثواب دارین سے مشرف ہوئے تھے...مجلس تحفظ ختم نبوت کی اسلامی خدا دیوبندیوں کے ہر کام میں زراندوزی کا ہی مقصد در پیش ہوتا ہے چنانچہ ختم نبوت کا صدر.مشہور قصہ خوانی مولوی محمد علی جالندھری میں نے دو تین کا روباری حصہ دار مبلغ بھی اپنے ساتھ نتھی کر رکھے ہیں لاکھوں روپیہ نبی کے ناموس کے نام پر جمع کر کے زمین کے مریعے اور آڑ بہت کی دکانوں سے مشرف ہو کر نعیم دارین واجر جمیل سے ثواب تعلیم حاصل فرما چکے ہیں چنانچہ دیوبندی فرقہ کے مرشد اعظم جناب منشی عبد الکریم شورش کشمیری اپنے رسالہ چٹان میں اپنے ہی مرید د مخلص مولوی محمد علی جالندھری کے متعلق لکھنا ہے د و در مولوی محمد علی جالندھری) ہمارے لیے اب بھی اسی طرح محترم ہے جس طرح پہلے تھے.لیکن ایک چیز ہے مولان محمد علی کی ذات دوسری چیز ہے مجلس تحفظ ختم نبوت تیسری چیز ہے اس مجلس کے نام پر جمع کردہ روپیہ الخ راس کے چند مسطور بعد پر شورش صاحب لکھتے ہیں) مولنا محمد علی جالندھری بہر حال اس مجلس اور اس روپیہ کے امین بنے ہوئے ہیں اب اگر وہ اس مجلس کو اپنی ذات تک محدود کر لیں اور جس مقصد کے لیے یہ روپیہ جمع ہوا ہے یا ہو رہا ہے اس مقصد پر صرف نہ ہو بلکہ اس کے بر عکس ان کے مشاہرہ میں صرف ہو یا اس سے اراضی خرید لی جائے یا اس سے آٹہ بہت کی جائے اور جس عظیم مقصد کا روپیہ ہے وہ عظیم مقصد روز بروز مجروح ہو رہے تو ہمارے کرم فرما ہی ہمیں بتائیں کہ اصلاح احوال

Page 525

۵۱۳ اور احتساب جماعت کا کون سا طریقہ ان کے نزدیک سخن و موزوں ہے.مقصد روپیہ جمع کرنا تنخواہیں بانٹنا اور اثر بہت چلانا یا تحفظ ختم نبوت الخ ر هفت روزه رساله چینان لامور اشاعت ۲۳ ر مار په ۶۱۹۶۶ ناظرین غور فرمائیں کہ یہ سب رونا ان کے گھر سے رویا جا رہا ہے اور اس سے واضح ہے کہ تحفظ ختم نبوت کا دیو بندی مقصد کیا ہے اور روپیہ ان کے تقوی کا کس طرح دیوالہ نکال رہا ہے.ختم نبوت کے نام پر دولاکھ روپیہ کی بنہ بانٹ " حکومت سے مرزائیوں کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے لیے مارچ ۱۱۵۳ میں عظیم عالم المسمنت حضرت مولانا ابوالحسنات سید محمد شاہ صاحب خطیب جامع مسجد وزیر خان لاہور کی صدارت میں ایک تحریک چلی دیو بندی مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری و محمد علی جالندھری نے بھی تحریک میں شمولیت حاصل کر کے اسی تحریک کے نام پر ملک کے مختلف شہروں سے لاکھ روپیہ جمع کر لیا کہ یہ روپیہ رضا کاروں اور تحریک کے ضروری مصارف پر خرچ کیا جائے گا حکومت پاکستان اس تحریک کے خلاف تھی اس لیے اس نے اس تحریک کے مشہور افراد حضرت مولنا ابوالحسنات مرحوم و حضرت مولنا صا حبزادہ فیض الحسن شادها مدخلا اور مولوی عطا الله شاه محمد علی کو گر فسانہ کر کے سکھر جیل بھیجد یا مبینہ طور پہ مولوی عطا اللہ شاہ گرفتاری کے دست یہ دو لاکھ روپیہ اپنے بیٹے کے سپرد کر گئے کہ اس خواب دارین کی پورمی نگرانی کرنا نہاری پشتوں کے لیے کافی ہوگا مگر حسب جیل میں محمد علی جالندھری کو پتہ چلا کہ اس روپیہ یہ عطا اللہ شاہ بخاری وحدہ لاشریک قابض ہو رہا ہے تو جالندھری صاحب کا ہارٹ فیل ہو نے لگا بخاری صاحب سے کہنے لگے کہ تحریک لو گرم کرنے کے لیے میرا جیل سے باہر جانا ضروری ہے بخاری سادب بھی معاملہ سمجھ گئے کہ یہ جرات بعض اس روپیہ سے پیٹ گرم کرنے کے لیے کی جارہی ہے انہوں نے بہتیں سمجھایا گر باندھری صاحب بالا خرد پیرول ضمانت و معافی پر جیل سے نکل آئے عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے اپنے فرزند ارجمند کو پیغام بھیجا کہ محمدعلی روپیہ پر نا تھے

Page 526

۵۱۴ صات کرنے کے لیے باہر آچکا ہے.خبر دار ہو جاؤ محمد علی روپیہ پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے سکھر جیل سے معافی لے کر آرہا ہے.بخاری کا بیٹا یہ جانکاہ خبر سن کر روپیہ لے کر مظفر گڑھ بھاگ گیا ادھر جالندھری صاحب کو دست پر دست آئے جا رہے تھے کہ تحریک ختم ہوگئی اور بخاری صاحب نے آئندہ خطرات سے بچنے کے لیے جالندھری کو بالبہ کا حصہ دے کر باہمی بندر بانٹ کر کے یہ تمام روپیہ معنم کہ گئے.صدر مجلس عمل مولنا ابو الحسنات نے بار بار *** اس روپیہ کا حساب مانگا.چنانچہ جمعیتہ العلمائے پاکستان کے داعی رسالہ سوا دا کا ہوں جو کہ مولنا ابو الحسنات کی سرپرستی میں چھپتا تھا کے ایڈیٹر مولنا معین الدین نے بذریعہ رسالہ ہذا بارہا اس دولاکھ روپیہ کے حساب کا مطالعہ کیا چنانچہ اسی مطالبہ کو سواد اعظم مجریہ ، نومبر مطابق ۸ جمادی الآخر ۱۳۸۳ ، ۱۹۶۲ء میں دہرایا گیا.مگر دیو بندیوں کو ایسا سانپ سونگھ گیا.آج تک صدائے بازگشت نہ اٹھٹی اور بقبول شورش کشمیری زمینیں اور آڑھت کی دکانیں بنائی گئیں 4 سالہ - سوم: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام ۲۹ جولائی لیہ کو مومنوں پر ابتلا آنے اور آسمانی نوجوں سے اُن کی نصرت کیئے جانے کی خوشخبری دی گئی پھر بعد اس کے الہام ہوا ” مخالفوں میں پھوٹ“ سے یہ پیشگوئی بھی اس زمانہ میں کمال وضاحت اور صفائی سے پوری ہوئی.۱۹۵۳ء کی شورش میں مجلس احرار اور جماعت اسلامی دونوں ہی سب سے نمایاں اور پیش پیش تھیں اور انہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا.لیکن ایجی ٹیشن بری طرح ناکام ہوگئی اور لیڈر گرفتار کر لیے گئے.کچھ عرصہ بعد جب سے اصحاب رہا ہوئے تو با هم بر سر پیکار ہو گئے اور ایک دوسرے کے خلاف قلمی اور اسانی جنگ کا وسیع محاذ کھول دیا.لے دیوبندی مذہب صفحه ۴۴۴ تا ۲۵۱ ناشر کتب خانہ مہر بہ مہر منزل منڈی پشتیاں شریف ضلع بہاولنگر ۱۳۷۵ / ۱۹۵۶ء سے تریاق القلوب صفحه ۹۱ طبع اول مطبوعہ قادیان تذکره به چهارم م۲۰۰ / ۱۹۷۷ ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر میں ریوه.

Page 527

چنانچہ مولانا سید ابو الا علی صاحب مودودی امیر و بانی جماعت اسلامی نے احراریوں کی ستریک ختم نبوت کی نسبت اپنی رائے یہ دی کہ : - اس کارروائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہو گئیں.ایک یہ کہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں ہے.بلکہ نام اور سہرے کا ہے.اور یہ لوگ مسلمانوں کی جان ومال کو اپنی اغراض کے لیے جوئے کے داؤں پر لگا دینا چاہتے ہیں.دوسرے یہ کہ رات کو بالاتفاق ایک قرار داد طے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر ساز باز کیا ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود لکھ لائے ہیں جو ہر حال کنونشن کی مقرر کردہ سبجیکٹس کمیٹی کا مرتب کیا ہوا نہیں ہے میں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور ان طریقوں سے کیا جائے اس میں کبھی خیر نہیں ہو سکتی اور اپنی اعراض کے لیے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جو سلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کہ میں اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہو سکتے ہے لا ہفت روزہ المنبر - ار جولائی ۱۹۵۵ ءمت.اس بیان پر جناب حمید نظامی صاحب مدیر اخبار نوائے وقت لاہور) نے حسب ذیل ادارتی نوٹ سپرد قلم کیا.آن ۲۳/۲۰ ماه بعد اس انکشاف سے تو ایک عام آدمی اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ آپ کے سامنے بھی سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں نام اور سہرے کا تھا اور آپ اپنی اعزام کے لیے خدا اور رسول کے نام سے کھیل رہے تھے اور آپ نے بھی مسلمانوں کے جان ومال کو اپنی اعزامی کیلئے داؤ پر لگا دیا کہ دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ جو پوری محبت اسلامیہ کی انقلابی قیادت کے دعویدار اور امارت کے مدعی ہیں کیا آپ ایسے ہی ڈھلمل یقین آدمی ہیں کہ خود اپنے قول کے مطابق آپ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ میں نے فوراً یہ رائے قائم کی کہ مجھے اٹھ کہ ابھی کنونیشن سے علیحد گی کیا اعلان کر دینا چاہیے چنانچہ میں نے.....لیکن چند ہی منٹ بعد دوسرا خیال میرے ذہن میں آیا....اور آپ نے اپنی رائے بدل دی اور آپ کو فیشن سے بچنے رہے اور اب پورے سوا در سال بعد آپ کو یہ خیال آیا کہ آپ کو مسلمانوں کو اس خطرہ سے خبر دار کر دینا چاہیے اخروہی فرمائیے باقی ملا حاشیہ پر )

Page 528

جماعت اسلامی کے ہفت روزہ ترجمان المنیر نے رنس کے ایڈیٹر حکیم مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف تھے) یہ لکھا :.کہ ہے احراری تو ہم اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس بد نصیب گروہ نے تحفظ ختم نبوت کے نعرہ کو اپنے سیاسی کردار کی طرح بکاؤ مال بنا رکھا ہے.ان لوگوں کی اکثریت کو نہ ندا کا خوف ہے نہ تعلق کی شرم نہ یہ پیغمبر کی نگاہ خشمگیں سے ڈرتے ہیں اور نہ انہیں جلال کبر بانی سے کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے.ان پاسبان ختم نبوت نے لائل پور کی اسی گراونڈ میں پک لپک کر یہ جملے کہے ہیں.الحاج ناظم الدین اتم نے حاجی کہلا کہ اور نمازی بن کر اسلام اور ختم نبوت کا بیڑا غرق کیا ہے تم سے ہزار بارہ وہ بے دین ہے نانہ اور غیر حاجی دوستانہ اچھا جس نے اپنی وزارت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کا ساتھ دیا ہے.اور آج یہی گروہ ہے جو دولتانہ کو ختم نبوت کا غدار کہتے نہیں تھکتا.اور پھر احراری وہی حضرات ہیں جنہوں نے مارشل لاء کے دوران مخلص نوجوان مسلمانوں کو کر نیو اور دفر ۱۲۴ کی مخالفت پر اکسا کہ مسجدوں سے سر پر کفن بند ھوا کہ با ہر نکالا اور ان کی لاشوں کو فوج کی گولیوں سے تڑپتا دیکھ کہ یہ کہا کہ :.میں تحریک کو خون سے نہ سینچا جائے وہ تحریک کبھی عوامی تحریک میں بھی نہیں سکتی لیکن جب ان " علمبر داران حریت کو چند ہفتے کے لیے جیلوں میں رجہاں انہیں بی کلاس میں تین چھٹانک گوشت ایک چھٹانک گھی.چھٹانک دودھ چھ چھٹانک آٹا اور تیسرے دن فروٹ کھانے کے لیے ملتے تھے) رہنا پڑا تو ان کی اکثریت نے سینکڑوں مرتبہ زبانی اور دسیوں دفعہ تحریری طور پر لکھ دیا کہ در ہم کبھی بھی حکومت کے خلاف نہ تھے نہ ہم نے سول نافرمانی کو آج تک جائز سمجھا ہے اور نہ آئندہ کبھی بھی اسے جائز سمجھیں گے نیز کہ ہم حکومت کے پیچھے د نادار ہیں اور ہم عہد کرتے ہیں کہ کسی تحریک میں کبھی حصہ نہیں لیں گے.بقیہ حاشیہ مثل :- کہ ایسے ڈھلمل یقین اور مہذب کیریکٹر کے لیڈر کے متعلق اس امر کی کیا منمانت ہے کہ وہ آئندہ کسی ایسے ہی کر انس کے وقت قوم کی کشتی کو عین مسنجر بار میں نہ جاؤ بوئے گا.(نوائے وقتہ ور جولائی ۱۹۵۵ء ص ۲۳)

Page 529

016 آج یہ غازی ہیں جو ختم نبوت کا نعرہ لگا کر پھر میدان سیاست میں آنا چاہتے ہیں.سلہ مزید لکھا :.تحفظ ختم نبترت ہور یا مجلس احرار.ان دونوں کے نام سے آج تک تا ریا نیت کے خلاف جو کچھ کیا گیا ہے اس نے قادیانی مسئلے کو الجھایا ہے.ان حضرات کے اختیار کردہ طرز عمل نے راہ حق سے بھٹکنے والے قادیانیوں کو اپنے عقائد میں پختگی کا مواد فراہم کیا ہے اور جو لوگ مذہب تھے انہیں بد عقیدگی کی جانب مزید دھکیلا ہے.استہزا ، اشتعال انگیزی، یاوہ گوئی ، بے سروپا لفاظی ، اس مقدس نام کے ذریعہ مالی علین لا دینی سیاست کے داؤ پھیر، خلوص سے محروم اظہار جذبات ، مثبت اخلاق فاضلہ سے تہی کردار نا خدا ترسی سے بھر پور مخالفت کسی بھی غلط تحریک کو ختم نہیں کر سکتی اور ملت اسلامیہ پاکستان کی ایک اہم محرومی یہ ہے کہ مجلس احرارہ" اور " تحفظ ختم نبوت کے نام سے جو کچھ کیا گیا ہے اس کا اکثر و بیشتر حصہ اپنی عنوانات کی تفصیل ہے لہ تحفظ ختم نبوت کے فنڈ اور اس کے فنڈ سے حامل کیے گئے باتنخواہ "مبلغین کو جماعت اسلامی کے خلاف تقاریہ کی ٹرینگ کا اہتمام کیا گیا جس کی زمام کار مولوی لال حسین ایسے " محتاط" اور شیریں مقال مناظر کے ہاتھوں میں سونپی گئی.اور یہ کام بھی انہی کے سپرد کیا گیا کہ وہ ہر شہر میں سیاسی کارکنوں کی میٹنگیں بلائیں اور ان میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف نفرت و حقارت پھیلانے کا کام کریں.ان مجالس میں مسلم لیگ ، آزاد پاکستان پارٹی جناح عوامی لیگ کے کارکنوں کو بلایا جاتا اور اہل حدیث ، دیو بندی اور یہ علوی حضرات کو دعوت دی جاتی.انہیں یکجا کر کے مذہبی اور سیاسی اختلافات کے علاوہ یہ بات عام طور پر کہی جاتی رہی کہ جماعت اسلامی کا کہ دار اس کے قائد ابو الاعلی امور دری کے اس طرز عمل سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مودودی صاحب میسج مجلس عمل کے اجلاسوں میں شریک ہو تے اور رات نہ المنیر لائل پور.اور جولائی ۱۹۵۶ متہ کالم ۳٫۲ المنیر لائل پور - در جولائی ۱۹۵۶ م کالم ۲

Page 530

کو ناظم الدین سے ملاقا نہیں کرتے.اور آخری مرتبہ مودودی صاحب نے تحریک تحفظ ختم نبوت سے یہ عظیم غداری کی کہ ناظم الدین سے یہ جا کہ کہا کہ جماعت اسلامی تحریک سے الگ ہے.آپ ہو چاہیں ان لوگوں سے سلوک کر سکتے ہیں.چنانچہ اسی مشورہ پر ۲۶ فروری کو مجلس عمل کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد نوبت مارشل لاء تک پہنچی جس میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی.اگر مودودی صاحب تحریک سے غداری نہ کرتے تو نہ کوئی نوجوان قتل ہوتا الخ اسلہ اسی اخبار نے سید عطاء اللہ شاہ صاحب کی ایک تقریبہ پر حسب ذیل نوٹ دیا کہ : - شاہ صاحب نے کہا کہ حضور خاتم النبیین نے میرے نام پیغام دیا ہے کہ میں ختم نبوت کے مسئلہ کو کامیابی سے چلاؤں......شاہ صاحب کی جانب منسوب کہ وہ الفاظ اگر صحیح ہیں یا انہوں نے اس مفہوم کو بیان کیا ہے کہ حضور سرور کائنات روحی و نفسی خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منتخب فرمایا کہ وہ ختم نبوت کی حفاظت کریں اور اب شاہ صاحب اسی ارشا در سالت کی تعمیل کے لیے شہر شہر گھوم پھر رہے ہیں تو ہم دُکھ بھرے دل سے کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے حضور اقدس کی شان میں (نادانستہ) ایسی گستاخی کی ہے جس سے رہ جتنی جلدی توبہ کر لیں ان کے لیے بہتر ہے.شاہ صاحب کی اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ سید العرب والعجم صلی اللہ علیہ وسلم شاہ صاحب کی ان تقریر وں کو جو تحفظ ختم نبوت کے نام پر آج تک کرتے رہے اور اب کہ رہے ہیں منظوری وپسندیدگی حاصل ہے اور اسی وجہ سے انہیں دربار رسالت سے یہ امتیاز عطا ہوا ہے کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے انہیں اس عظیم کام کے لیے منتخب فرمایا گیا ہے اور ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر مولانا سید عطاءاللہ شاہ صاحب کی یہ تقریریں موجودہ قادیانیت کے خلاف کر رہے ہیں رجن میں سے آیات کی تلاوت اور ان کے بعض مطالب کی تبلیغ کا حصہ جو فی الحقیقت ان کی تقریر وں کا...رانی استثنیٰ کہ لیا جائے) اگر انہیں دربار رسالت کی ހ لے المنیر، در جولائی ۹۵۵اء صفحہ ۹: حاشیہ صفحہ ۵۱۹ پر

Page 531

事 پسندیدگی حاصل ہے تو ہم اس اسلام کو جو کتاب وسنت میں پیش کیا گیا ہے اور جس میں ذہن ، قلب زبان اور اعضاء کو مسئولیت سے ڈرایا گیا ہے خیر باد کہنے کو تیار ہیں.ہمارے نزدیک شاہ صاحب نے نہایت غلط سہارا لیا ہے اور مسلمانوں میں جو عقیدت رحمتہ اللعالمین بابی هو دائی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود ہے اس سے نہایت غلط قسم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے.اور پھر اس میں جب ہم مزید دیکھتے ہیں کہ وہ اس خواب سے مراد یہ لیتے ہیں کہ " تحفظ ختم نبوت' کے نام پر جو نظم (4) انہوں نے قائم کر رکھا ہے حضور خاتم النبیین روحی و نفسی خداہ اس تنظیم کی تائید فرما رہے ہیں تو ہماری روح لرز جاتی ہے.اگر خدانخواستہ یہ نظم اور اس کے تخت متعین کردہ مبلغین کا کام اور اس کے نام پر حاصل کیے گئے صدقات ، زکوائیں.اور چندے اس بری طرح صرف ہونے کے باوجود انہیں پیغمبر امین کی پسندیدگی حاصل ہے تو ناگز یہ ہے کہ ان تمام احادیث رسالت تاب کو خیر باد کہ دیا جائے جن میں آپ نے مسلمانوں کے مال کے احترام کی اہمیت بیان فرمائی ہے اور جن میں اموال المسلمین میں خیانت کو حرام اور موجب مزا بتلایا گیا ہے کہ دوسری طرف احرار رہنماؤں نے جماعت اسلامی کے امیر و بانی پر تحریک ختم نبوت سے غداری اور منافقت کے الزامات لگائے چنانچہ تاجدین صاحب انصاری نے بیان دیا کہ :.۱۸ جنوری سے لیکر ۲۶ فروری تک مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب تحریک کا بغور مطالعہ کرتے رہے.وہ یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ اگر حکومت مسلمانوں کے مطالبات آخری وقت هاشیه بقیه مشاه : بیان تقریروں کا ایک نمونہ قاضی محمد اسلم صاحب سیف فاضل عربی کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے موصوف شاہ جی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں آپ نے متعدد بار متعدد مقامات پر اپنی تقریروں میں خواجہ ناظم الدین اور ملک غلام محمد مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا اسے خواجہ صاحب اور اسے ملک صاحب اگر تم میری یہ معمولی سی در خواست مان نوریعنی عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھاؤ تو میں اپنی اس سفید ریش سے تمہارے پاؤں صاف کروں گا یہ رسالہ تنظیم الحدیث لاہور ۲۹ ستمبر ۱۹۶۱ء مش ) لے ہفت روزہ المنیر و مار پا ۵ ست کالم ۲۱

Page 532

بھی تسلیم کر لیتی ہے تو جماعت اسلامی تحریک میں موجود ہے.کراچی میں مولانا سلطان احمد نائب امیر جماعت اسلامی یعنی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے خلیفہ صاحب فوج ظفر موج کے کمانداروں میں بہ نفس نفیس موجود ہیں.خود مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب قادیانی مسئلہ لکھ کر تحریک میں شمولیت کا دستاویزی ثبوت لیے کھڑے ہیں.حتی کہ مارشل لاء کے نفاذ سے ایک روزہ پہلے گورنمنٹ ہاؤس میں بیچ کی دیوانہ پر کھڑے گورنمنٹ کو اس امید پر آنکھیں دکھا رہے ہیں کہ شاید مسلمانوں کے متفقہ مطالبات دو ایک روز تک مانے جانے والے ہیں......مگر جب مارشل لاء کا اعلان ہونے لگا مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی دیوار کے اس پار کر دیئے گئے اور فرمانے لگے کہ میرا اس تحریک سے کیا واسطہ؟ یہ تو چند خود عرض ہے ایمان اور غداروں کی تحریک ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ دیوار سے کودتے وقت مولانا کا دامن کسی کیل میں پھنس کر اچاک ہو گیا ہے وہ دو سال تک جیل میں بیٹھ کر رفو کرتے رہے.آگے سے پھٹا ہوا د امن چیرہ دستیوں کی اب بھی غمازہ ہی کرتا ہے اور مولانا ہیں کہ اپنی صفائی میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں اور کہے چلے جارہے ہیں کہ میں پاکبا نہ ہوں.میری جماعت صالحین کی جماعت ہے باقی سب چور ہیں، علامہ ہیں ، خود غرض ہیں.پھر مولانا مودودی کو مخاطب کر کے لکھا : - تصویر والا کنونشن میں شرکت کے بعد ہی مسلمانوں کو مالوم ہوا کہ آپ ہجو اسلام اسلام پکار کہ اسلامی دستور کا نعرہ لگا ر ہے ہیں.آپ کیا ہیں ؟ آپ کی اصل خواہش کیا ہے ؟ پہلاک نے آپ کو تحریک ختم نبوت میں اچھی طرح جان پہچان لیا ہے.اب آپ یہ بھی دیکھے لیں گے کہ پبلک آپ سے کیا کچھ دریافت کرتی ہے.آپ تو بڑے آدمی ہیں.اپنی صفائی میں آپ نے کوئی معقول دلیل پیش نہیں فرمائی.کسی حبیب تراش نے پکڑے جانے کے بعد کبھی یہ صفائی پیش نہیں کی کہ مستغیث نے مجھے قریب ہی کیوں آنے دیا تھا.بہر حال آپ دلدل میں پھنس گئے ہیں.جتنا نہ ور لگایئے گا.اُسی قدر زیادہ سنتے چلے جایئے گا.میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ اپنی غلطی یا تحریک ختم نبوت سے غداری کا اقرار کرنے سے رہے بحث کے لیے آپ کے پاس درہ سب سامان موجو دہے میں سے آپ کافی عرصہ سحت جاری رکھ سکتے ہیں مگر ہمیں

Page 533

۵۲۱ اس بحث سے مطلب؟ جہانتک پبلک کی معلومات کا تعلق سے ہم نے پبلک سے یہی کہتے سنا ہے کہ آپ نے تحریک ختم نبوت سے غداری کی ہے اس وقت آپ اور آپ کی جماعت منا فقت سے کام لے رہے تھے اور اب آپ مات کر رہے ہیں اے خود سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے کہا کہ : اس تحریک میں جو کچھ ہوا میں ذمہ دار ہوں غلط ہوا یا صحیح ذمہ داری میرے سر ہے ارے یکس مودودی نہیں ہوں.بد دیانت نہیں ہوں......آج وہ کہتے ہیں میں تحریک میں شامل نہیں تھا میں کہتا ہوں شامل تھا اور اگر مودودی شامل نہیں تھا تو میں اُن سے حلفیہ بیان کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر اعلان کر دیں یہ ہے دیانت ہزاروں شہید ہوئے.سکوؤں کے سہاگ لٹے ، کئی یتیم ہوئے ، کنی اُجڑ گئے.......ہزاروں کو مروا کر کہوں میں شامل نہیں تھا کیا یہی دین ہے اسے تم سے تو کافر گلیلوی اچھا تھا جس نے زہر کا پیالہ پی لیا اتے اس پر لیس نہیں شاہ جی نے لائلپور کی ایک کانفرنس میں جناب سید ابو الا علی صاحب مودودی کو غدار، دروغ گو اور مستحق سزا مجرم گرداننے کے بعد ان کو مباہلے کا کھلا چیلنج.بھی دے دیاست جماعت اسلامی کو احرار اور ان کے ہم نوا علماء ہند و پاک نے کا فرد محمد بکہ دجال تنک قرار دے دیا اس طرح تکفیر میں حریہ کو جناب مودودی صاحب اور ان کی جماعت نے نہایت بے دردی سے جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کیا تھا اس کا رُخ پوری قوت و شدت سے ان کی طرف ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فتووں کے انبار لگ گئے مله بیان صادق ، ص ۳۲ ۱۳۵ از تاج الدین صاحب انصاری لدھیانوی نا شر کتبہ مجلس احرار اسلام پاکستان کاشانه معادیه ۳ یا کوٹ تعلی شاه لمنان شهر طبع ثانی فرم ۱۳۸۸ مدار اپریل ۱۹۶۹ طبع مکتبه جدید پریس لابور سے خطبات امیر شریعت مش۱۲ وحث ۱۲ مرتبہ مرزا غلام نبی صاحب جا نبانه ناشر مکتبہ تبصره بیرون ولی گیٹ لاہور : المنیر لائیور 4 جولائی ۱۹۵۵ رص ۹

Page 534

۵۲۲ اس بیرونی بلغازہ کے علاوہ جماعت اسلامی کی صفوں میں زبر دست انتشار پیدا ہو گیا اور کئی عمائدین مثلاً مولانا امین احسن صاحب اصلاحی محمد امیر جماعت اسلامی ملک سعید صاحب (ایڈیٹر تسنیم و امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب) عبد الغفار صاحب اور مولانا عبد الرحیم اشرف مدير المنبر نے علیحدگی اختیار کر لی.الا مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے سولہ سالہ تجربہ و مشاہدہ کی بناء پر لکھا : جماعت اسلامی کے متعلق تو ہماری ایماندارانہ رائے یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے لیے اس ملک میں اس سے زیادہ مصر جماعت کوئی نہیں.متحدہ محاذ کی اسلام دشمن جماعتیں اسلام کی مخالفت بے دلیل کریں گی اور جماعت اسلامی کے امیر صاحب اور ان کے اتباع ان کے لیے اپنی نرالی فقاہت سے شرعی دلیلیں ایجاد کریں گے.دین اور عقل دونوں سے بعید تر جماعت اس ملک میں اگر کوئی ہے تو جماعت اسلامی ہے یہ جماعت اب صحیح فکر اور صحیح عمل کی توفیق سے محروم ہو چکی ہے اس کی ہر بات الٹی ہوتی ہے اور جو قدم بھی یہ اٹھاتی ہے اس سے اپنی بے راہ روی اور ضلالت کا ثبوت مہیتا کرتی ہے اسے سعید ملک صاحب ایڈیٹر تسنیم نے اپنے بیان میں کہا :- ہ جماعتی لٹریچر میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ اسلامی تحریک کو چلانے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ مخاطب آبادی میں اسلام کے اصولوں کا شعور اور ان پر پلنے کا شدید داعیہ پیدا کر دیا جائے تا آنکہ ایک مرحلے پر پہنچ کردہ آبادی فطری طور پر اسلام کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے اپنا ہے.یہ بات کھل کہ کہہ دی گئی تھی کہ یہ کام محض سیاسی ہنگاموں سے ہوگا اور نہ صرفت انتخابات کے ذریعے حصول اقتدار کی کوششوں سے.لیکن ابھی قوم میں اسلامی اصولوں کا ابتدائی تصویر بھی پیدا نہ ہوا تھا اور اس نے اسلامی اصول اخلاق اور سیاست کو اختیار کرنے پرمعمولی سی آمادگی کا اظہار بھی نہ کیا تھا کہ آپ نے بنیادی کام سے صرف نظر کر کے تحریک کو پوری انتخابی کالج کے لیے لمحہ فکریہ راز مولانا امین احسن اصلاحی صہ مٹہ مث طبوعہ آفتاب عالم پر لیس لاہور

Page 535

۵۲۳ طرح سیاسی ہنگامہ آرائیوں میں الجھا دیا حتی کہ اسلامی نظام کی حیثیت ہمارے ہاں محض ایک نفر سے کی رہ گئی اے حکیم عبدالرحیم صاحب اشرف نے جماعت اسلامی سے خروج کے بعد پے در پلے تنقیدی مضامین لکھے جن میں واضح الفاظ میں بتایا کہ " مولانا مودودی صاحب نے اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور قرآن کی چار بنیادی اصطلا میں اسے حسن اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تھا وہ اب ایک ایسے اسلام کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس کی روح تعلق باللہ، اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید ، ایمان بالغیب اللہ تعالیٰ کی عبادات میں انہماک اتقویٰ کی حقیقت کو پانے کے اساسات پر مبنی نہیں بلکہ اس کی حقیقی روح اسلام کے سیاسی نظام کو قائم کرنا ہے اور جماعت کے اندر اصل قیمت صرف اس چیز کی ہے کہ پر دیگنڈے ، نشرو اشاعت مخالفین کی سرکوبی ، اخبارات میں نمایاں ہونے ، دوسرے.دوسرے سے گٹھ جوڑ کرنے کی صلاحیت کی مقدار کس قدر پائی جاتی ہے؟.......رہا طریق کار اور وسائل تو وہ چونکہ مقصود بالذات نہیں ہیں اس لیے ان میں اگر کچھ اجزاء باطل، جھوٹ ، فریب ، فساد انگیزی اور اسلام کی عام تعلیمات کی رو سے ناجائز کر دہ باتوں کے شامل ہو جائیں تو انہیں بوقت ضرورت اختیار کیا جا سکتا ہے بالفاظ دیگر جماعت جس فلسفہ میکا دلی کے استیصال کے لیے اٹھتی تھی.یہی اس کا محور فکر د عمل بن رہے ہیں.اسی پر اکتفا نہیں میں جماعت کے قائدین کا موقف یہ سمجھتا ہوں کہ وہ ان تمام باتوں کے جوانہ کے لیے قرآن اور حدیث سے استدلال کہیں اور اپنی ہر غلطی کو اسوۂ رسالت سے سند جوانہ عطا کریں جماعت اسلامی کے ایک سابق رکن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے احراری تحریک میں مولانا مودودی اور ان کے رفقاء کی شرکت کو بے اصولے پن اور عوام پرستی کا شاہکار قرار دیتے ہوئے لکھا:.که روزنامه تسنیم لامبور و مجبوری کا سا کام نمبر ۲ ۱۹۵۶ء ه المنبر ۴ اکتوبر ۱۹۵۷ء مستری

Page 536

۵۲۴ اس داستان کا المناک ترین باب مسئلہ قادیانیت میں جماعت اسلامی کا طرز عمل ہے.اس کے دوران جماعت اور اس کے قائدین نے میں طرح اپنے اصولوں کی بجائے عوام کے چشم دا برد کے اشاروں پر حرکت کی ہے اسے دیکھ کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اتنی قلیل مدت میں ایک جماعت کا مزاج اس درجہ بھی بدل سکتا ہے ؟......یہ مسئلہ کوئی آج کی پیدا وار نہیں تھا..لیکن.....اپنے تاسیس کے دن سے لے....کر تک پورے گیارہ بارہ سال جماعت اسلامی نے بحیثیت جماعت یا اس کے اکابرین نے بحیثیت افراد اس پر کوئی علمی اقدام کرنا تو کجا زبان سے ایک حرف تک نہ نکالا بلکہ ایک اصولی اسلامی جماعت کی حیثیت سے اپنے دور اول میں اس نے ایسی باتیں کیں کہ جن سے قادیانیوں کی تکفیر کی براہ راست نہ سہی بالواسطہ صفر در سمت شکنی ہوتی ہے ؟ ملاحظہ ہو تکفیر بغیر اتمام حجت سے متعلق جماعت کا نقطۂ نظر ص ۵۲) لیکن جب سنہ میں زعمائے احرار نے اسے واقعی ایک مسئلہ بنالیا اور عوام کے جذبات کو مشتعل کر لیا نواب جب کہ اصول پرستی اور مردانگی کا تقاضا یہ تھا کہ.....لوگوں کو بتایا جاتا کہ تم خواہ مخواہ مشتعل کیے جارہے ہو.نہ یہ مسئلہ اتنی اہمیت رکھتا ہے اور نہ اس کے حل کی صورت وہ ہے کہ جو اختیار کی جارہی ہے.اور اگر عوام اسے رو کر تے تو کم از کم انی بری" کہ کر الگ ہو جاتا.جماعت اسلامی نے اپنی اصول پسندی اور اصول پرستی کو ذبح کر کے حق گوئی سے جی کراتے اور روباہی کا ثبوت دیتے ہوئے جو طرز عمل اختیار کیا وہ بے اصولے پن اور عوام خوفی کی عملی تصویر ہے چنانچہ قا دیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ ہشت نکاتی مطالبے میں نویں سکتے کی حیثیت سے کر لیا گیا اور مجلس عمل کے ساتھ تعاون شروع کر دیا گیا اور ان لوگوں کی قیادت قبول کر لی گئی کہ جن کے پاس بیٹھتے ہوئے بھی بقول یکے از بزرگان جماعت جماعت کے زعماء کو گھن آتی تھی اور مین کے 66 حقیقی ارادوں اور عزائم پر سے بعد میں مولانا مودودی نے " بیان حقیقت میں پر دے اٹھا !.....صرف یہی نہیں کہ عوام کے " تقومی " کی وجہ سے جماعت نے اس معاملہ میں حصہ لینا شروع کر دیا بلکہ ان کی بارگاہ میں " احسان کا درجہ حاصل کرنے کی سعی شروع ہو گئی اور قادیانی

Page 537

۵۲۵ مسئلہ تصنیف ہوا جس میں عوام کے مطالبات کی وجوہات اور ان کے دلائل کو مولانا مودودی صاحب نے پرزور انداز میں پیش کیا.اس کتاب کے آخری پیرے میں یہ ار عوام پرستی جس طرح چھلکی پڑتی ہے وہ قابلِ دید ہے.جذبہ عوام پرستی کی انتہاء ہے کہ ان خامیوں اور خرابیوں کو بھی خوشنما الفاظ کے پر دے میں چھپا کر پیٹھ ٹھونکی جارہی ہے کہ تم سے کچھ غلطیاں تو مز در سرزد ہو رہی ہیں لیکن گھراؤ نہیں ! اس میں تمہارا قصور تھوڑا ہی ہے !.اس کے بعد جب " احرار کے ساتھ مزید چلنا نا ممکن ہو گیا اور مجلس عمل سے علیحدگی نگز یہ ہو گئی تو سبھی اس امتیاط کے ساتھ علیحدگی کا اعلان کیا گیا کہ عوام اسی مھترے میں یہ ہیں کہ ہم نے اپنے حصے کا کام اپنے ذقے لے لیا ہے؟ آخر عوام کی ناراضی مول لینا کوئی آسان کام نہ تھا.پھر جب معاملہ تحقیقاتی عدالت میں آیا تو اس وقت مولانا مودودی صاحب نے حالات کو بگاڑنے کی ذمہ داری میں حکومت اور قادیانیوں کے ساتھ ساتھ احرار کو بھی شریک کیا ! یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تینوں برابر کے ذمہ دار تھے تو آج سے قبل آپ ساری ذمہ داری حکومت اور قادیانیوں پر کیوں ڈالتے رہے ؟ کچھ تو آپ نے احرار کے بارے میں بھی فرمایا ہوتا ! اور جماعت اسلامی کو من حیث الجماعت تو اس " قول ثقیل " کے کہ گزر زنے کی پھر بھی ہمت نہ ہوئی.جماعت نے اپنے بیان میں ساری ذمہ داری صرف حکومت اور قادیا نون ہی پر ڈالی.تحقیقاتی عدالت میں مولانا اور جماعت نے اپنے آپ کو ان سارے معاملات میں بالکل بری الذمہ مظہرانے کی کوشش کی اور اس کے لیے سارا زور اس استدلال پر صرف کیا کہ ہم نے مجلس عمل سے علیحدگی اختیار کر لی تھی.لیکن میں اس معاملے میں تحقیقاتی عدالت کے اس فیصلے کو بالکل صحیح سمجھتا ہوں کہ.......جماعت اسلامی ذمہ داری ہیں احرار کے ساتھ برابر کی شریک ہے...........اس کے بعد جب تک مقدمات چلتے رہے اور عوام کے جذبات میں اس مسئلہ

Page 538

۵۲۶ پر حرارت باقی رہی جماعت کے رسائل و اخبارات اس مسئلہ پیر سلسل لکھتے رہے جب قضا ٹھنڈی ہو گئی جماعت نے بھی مسئلہ کا نام لینا بند کر دیا اور آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ مرے سے پیدا ہوا ہی نہیں تھا ! یہ پوری داستان بے اصولے پن اور عوام پرستی کا شاہکار نہیں تو اور کیا ہے ؟" سے مجلس احمرارہ اور جماعت اسلامی کی جنگ زرگری زور شور سے جاری تھی کہ دوسرے مکاتیب فکر کے علماء بھی میدان تکفیر و تفسیق میں اتر پڑے اور کفر سازی کی مہم یکا یک نہ دور پکڑ گئی میں پر مولانا حکیم عبد الرحیم صاحب اشرت مدير المنبر نے حسب ذیل حقیقت افروز نوٹ سپرد قلم فرمایا :- ختم نبوت کا ایک لازمی تقاضا یہ تھا کہ امت محمد به بنیان مرصوصی کی حیثیت سے قائم على الحق رہتی.اس کے جملہ مکاتیب فکر اور تمام فرقوں کے مابین دین کی اساسات کچہ اس نوع کا اتحاد ہوتا جس نوع کا اتحاد ایک صحیح الذ من اسمت میں ہونا ناگزیر تھا لیکن غور کیجئے کیا ایسا ہوا ہے بلاشبہ ہم نے متعد د مراحل پر اتحاد امت کے تصور کو پیش کیا اور سب سے زیادہ قادیانیوں کے خلاف مناظرہ کے سٹیج سے ڈائرکٹ ایکشن کے ویرانے تک ہم نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کے تمام فرقے - یکجان ہیں لیکن کیا حقیقتاً ایسا تھا.کیا حالات کی شدید سے شدید تر نامساعدت کے باوجود ہماری تلوار تکفیر نیام میں داخل ہوئی ؟ کیا ہولناک سے ہولناک تر واقعات نے ہمارے فتاوی کی جنگ کو ٹھنڈا کیا.کیا کسی مرحلہ پر بھی ہمارا فرقہ حق پر ہے اور باقی تمام جہنم کا ایندھن ہیں کے نعرہ سے کان نامانوس ہوئے ؟ اگر ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تو بتائیے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنے والی امت کے اگر تمام فرقے " کافر ہیں اور ہر ایک دوسرے کو میبنی کہتا ہے تولا محالہ ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو سب کو اس کفر اور جہنم سے نکال سہ تحریک جماعت اسلامی از ڈاکٹر اسرار احمد ایم اے ایم بی بی ایس شائع کر دہ دارالاشاعت الاسلامیہ کرشن نگر را بورس ۱۸۸ تا ۱۹۳ طبع اول محرم الحرام ۸۶ ۳واعد اپریل ۱۹۶۶ء سے المنیر و مارچ ۱۹۵۶ درس i i

Page 539

۵۲۷ کر اسلام اور جنت کا یقین دلا سکے یا اے چهارم : - خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو منہ میں اپنے الہام سے یہ خبر دی کہ :- ہ جو شخص تیری طرف تیر چلائے گا میں اسی تیر سے اس کا کام تمام کرونگا، اسے 1203ء میں یہ انعام حبس عبرتناک رنگ میں ظہور پذیر ہوا اس کا کسی قدر اندازه مندرجہ ذیل اقتباسات سے بخوبی لگ سکتا ہے.- ا.ہفت روزہ " آثارہ لاہور (۲۲ تا ۲۰ جون ۹۷۲) نے لکھا :- 2ء میں ختم نبوت کے نام پر جو سیاسی کھیل کھیلا گیا اس کی ہولناک یا دیں ابھی قومی مد ذہن سے محو نہیں ہوئیں.جن سیاسی لیڈروں اور شرعی جیب کتروں نے ختم نبوت کے عقیدے کو سیاسی یا مالی منفعت کا ذریعہ بنایا ان کا وجود صفحۂ ہستی سے اس طرح مٹا کہ آج کوئی ان کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے والابھی نہیں.ان میں سے جو لوگ ابھی نہ ندہ ہیں وہ لیس زندگی کی سانسیں پوری کرے ہے میں ان کا نہ کوئی حال ہے نہ مستقبل.ان کے سیاسی اقتدار پر فائز رہنے کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے.ان کے مذہبی شیوخ بننے کے تمام امکانات معدوم ہو گئے.ختم نبوت کا عقیدہ بیچ کر انہوں نے جو ڈھیروں روپیہ اپنی تھیلیوں میں داخل کیا تھا اس نے ان کے گھروں کو جہنم کے انگاروں سے بھر دیا ہے اب یہ لوگ خود اپنے جناز سے اٹھائے پھرتے ہیں لیکن ایسا کوئی قبرستان نہیں ملتا جہاں وہ اپنی لاشوں کو دفن کر سکیں یہ ۲.رسالہ آثار نے اس تمہید کے بعد نمونہ بعض نمایاں شخصیات کا بھی ذکر کیا ہے.چنانچہ اس دور کے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب میاں ممتاز صاحب دولتانہ کی نسبت لکھا : - ہ ختم نبوت کی تحریک کو سیاسی مقاصد کے لیے ایکسپلائٹ کرنے والوں کے سرخیل تھے انہوں نے بعض اخبارات اور شرعی جیب کتروں کو صوبائی حکومت کے خزانے سے جس کے وہ سربراہ تھے لاکھوں روپے اس مقصد کے لیے دیئے کہ وہ له المنیر ۱۹ مارچ ۱۹۵۷ء ص ۵ - نے براہین احمدیہ حصہ پنجم مش طبع اوّل.

Page 540

۵۲۸ عقیقہ کے نام پر ملک میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑ کہ میں جب یہ آگ بھڑ کی تو خود ممتاز دولتانہ میل مجھے ان کا شاندار سیاسی مستقبل به باد ہو گیا وہ آج بھی زندہ ہیں مگر اس حال میں کہ جسے ایوان شہی کے اندر ہونا چاہیئے تھا آج وہ اس کے دروازے پر پیٹی باندھے کھڑا ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے ان کا انجام کیا ہو گا لے به هفت روزه آثار (۲۴ تا ۳۰ سجون ۱۹۷۴ ۶ صت مولا نا اختر علی خاں صاحب (خلف مولانا ظفر علی صاحب) ایڈیٹر زمیندار کی نسبت لکھا: - مرحوم روز نامہ زمیندار کے مالک تھے انہوں نے ختم نبوت کے نام پر حکومت سے بھی لاکھوں روپے لیے اور عمرام سے بھی ڈھیروں روپے چندہ وصول کیا.انہوں نے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے ختم نبوت کے نام پر ایک ایک روپے کے نوٹ چھاپ لیے تھے.جنہیں لوگوں کو دے کر ان سے اصلی نوٹ بطور چندہ لیے جاتے تھے.جس زمانہ میں انہوں نے ختم نبوت کے عقیدے کو روپیہ کمانے کا ذریعہ بنایا وہ میکلوڈ روڈ پر ایک عالیشان بلڈنگ کے مالک تھے ان کے پاس دو تین کاریں بھی تھیں.اور زمیندار بھی اچھا خاصا چل رہا تھا گر یونہی انہوں نے ختم نبوت کے نام پہ مر میہ خوردبرد کیا بہت ہی تھوڑے ہے کیا عرصہ کے اندر نہ ان کی بلڈنگ رہی ، نہ اخبار رہا اور نہ وہ خود رہے ان کی بلڈ نگ پک کر ایک ہوٹل بن گئی.زمین را صفحہ ہستی سے یوں محو ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں.اور مولانا اختر علی گمنامی کی حالت میں اس طرح مرے کہ کرم آباد میں ان کا جنازہ پڑھنے کے لیے بھی نہیں نہیں آدمی میسر نہ آئے :.ہفت روزہ چٹان لاہور نے ۱۳ جولائی ۱۹۶۲ء (ص) (۵) کی اشاعت میں اخبار زمیندار کی نیلام شدہ بلڈنگ کا فوٹو شائع کیا اور اس کے نیچے ایک عبرت انگیز نوٹ لکھا جو یہ ہے: کا یہ کبھی روز نامہ زمیندار کا دفتر تھا ر یہاں وہ شخص رہتا تھا جس نے ربع صدی تک برطانوی سامراج کومل کارا.ہماری آزادی ے ہفت روزه آثار ۲۴ تا ۳۰ جون ۱۹۷۴ء صفحه ۸

Page 541

۵۲۹ کے لیے گیارہ سال قید فرنگ میں رہا.لاکھوں روپے ضبط کرائے.عیس کا ضبط شدہ پر لیس آج بھی بورسٹل جیل کے سرکاری پریس میں موجود ہے اور جہاں اس کا پوتا مسعود علی خان اور کس مینجر کی حیثیت سے با ملازم ہے.یہ بلڈنگ اسی ظفر علی خاں کی ہے.ظفر علی خاں جس نے پنجاب کے سیاسی دویرانوں کو رنگ وروغن بخشا جس نے ہمیں حریت آشنا کیا میں نے تبکروں میں آذان دی.لیکن جب آزادی کا آفتاب طلوع ہوا تو وہ صرف دو چراغ محفل تھا.قلم کی آبرد صنعت کاروں " کو منتقل ہو گئی.اخبارات عظیم الشان عمارتوں کے استحصال خانوں میں باندار کی جنس ہو گئے اور یہ مارت جو قومی یادگار ہونی چاہیئے تھی قرض میں نیلام ہوگئی.اب ستم ظریفی حالات نے اس کو زمیندار ہوٹل میں بدل ڈالا ہے جہاں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں.جی ہاں انہی کمروں میں بیٹھ کر ظفر علی خاں نے بارگاہ رسالت تاب میں ہدیہ ہائے عقیدت پیش کیے تھے اب اس کے در و دیوار دیدہ ہائے عبرت سے رجبل رشید کا انتظار کر رہے ہیں کیا سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری امیر شریعت احرار نے اس ایجی ٹیشن میں سب سے نمایاں حصہ لیا اُن کے جوش کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے متعد دبار اور متعدد مقامات پر خواجہ ناظم الدین فضا

Page 542

۵۳۰ اور ملک غلام محمد صاحب مرحوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ :.اگر تم.....عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کی ذمہ دار می اٹھالو ریعنی احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دو.ناقل ) تو میں اپنی اس سفید ریش سے تمہارے پاؤں صاف کروں گا یا ٹ زندگی کے آخری ایام میں شاہ جی کے عقیدتمندوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک روارکھا وہ ایک عبرت انگیز داستان ہے جس کا پتہ ان کے مذکورہ انٹرویو سے ملتا ہے جو انہوں نے اپنی وفات سے قریباً ڈیڑھ برس قبل روزنامه امرونہ ملتان کے سٹاف رپورٹر کو دیا.سٹاف کہ پورٹڈنے سوال کیا.ان دنوں جب کہ آپ اس قدر بیمار ہیں اور پبلک لائن سے بھی ریٹائر ہو چکے ہیں کبھی دیرینہ رفقاء میں سے کوئی ملنے آیا ، - آپ جواب میں مسکرا دیے اور فرمایا :- جب تک یہ کتیا (زبان) بھونکتی تھی.سارا بر صغیر ہند و پاک ارادت مند تھا.اس نے مجھو کا چھوڑ دیا ہے تو کسی کو بیتہ ہی نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں یا ھے مجلس احرار جو ۱۹۵۳ء کی تحریک میں نفس ناطقہ اور رواں بھی اپنوں کی نگاہ میں بھی لاشہ بے جان بن کے رہ گئی.چنانچہ احرار کے سابق جنرل سیکر ڈی شورش کا شمیری صاحب کو لکھنا پڑا کہن یہ واقعہ یہ ہے کہ مجلس احرار به لحاظ جماعت تاریخ کے حوالے ہو چکی ہے اب اس کا ذہنی وجود تو بعض روایتوں اور حکایتوں کی وجہ سے ملک کے عوامی دماغوں میں موجود ہے لیکن (1) نہ اس کی کوئی تنظیم ہے.(۳) نہ اس کا کوئی مربوط شیرازہ ن ہے (س) نہ اس فضا میں اڑنے کے لیے اس کے بال و پر ہیں.ہ ہماری ایمانداری سے رائے ہے کہ اب احرار کا زمانہ بیت چکا ہے اور مرحوم ماضی میں زندگی بسر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ا سکے که هفت رونده تنظیم الحدیث لاجور منہ کالم : سه امروز رعتان، ۱۵ اکتوبر ۱۹۶۱ء بجواله حیات امیر شریعہ م۲۲ موافقہ جناب غلام نبی صاحب جانیانه طبع انواع نومبر ۱۹۶۲ ۶ - ناشر مکتبه تبصره گلشن کالونی شاد باغ لاہور سے اختبار چٹان" لاہور ۲۵ مارچ ۱۳ ۱۹ عصف

Page 543

۵۳۱ دوسرا باب جماعت احمدیہ کی ترقی اور استحکام ۱۹۵۳ ء کے فسادات تو اس لیے رونما ہوئے تھے تا جماعت احمدیہ کو صفحہ روزہ گار سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے مگر عملاً یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ نے صبر و رضا کا بہترین نمونہ پیش کر کے نہ صرف خدا کے کئی نشان اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیئے بلکہ اللہ تعالی نے ان کی حقیر قربانیوں کو نوانہ تے ہوئے تائید و نصرت کے ایسے سامان پیدا کیئے کہ قائم شدہ جماعتیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئیں اور بعض نئی جماعتوں کا قیام بھی عمل میں آیا خصوصاً ربوہ کے ماحول میں چک منگلہ کے مشہور پر منور الدین صاحب کے خلیفہ مجاز الحاج حافظ مولانا عزیز الرحمن صاحب منگلا جیسے عالم ربانی نے حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کرلی اور پھر ان کے ذریعہ ہزاروں مرید حلقہ بگوش احمد بیت ہوئے اور اس علاقہ یں يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ اَفَوَاجًا کا روح پر در نظارہ آنکھوں کے سامنے آگیا حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام کے زمانہ میں یہ علاقہ جس میں ہمارا مرکز ہے اس میں کوئی احمدی نہیں تھا.آپ کی وفات کے قریب عرصہ میں یہاں صرف ایک احمدی تھا لیکن اب ضلع جھنگ میں ہزاروں احمدی موجود ہیں.سٹالہ میں جبکہ ہم ہجرت کر کے یہاں آگئے تھے اس علاقہ کے صرف پانچ چھ احمدی تھے.لیکن دو تین ہزار احمدی ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں داخل ہونے والے ایسے آسودہ لوگ ہیں کہ حیرت ه تاریخ وفات ۲۹ جون ۶۱۹

Page 544

۵۳۲ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان مال داروں کو احمدیت کی طرف ہدایت دے دی.لاقات کے وقت ہر شخص جو اس علاقہ کا آتا ہے اس سے دریافت کیا جائے کہ تمہاری کشتی " زمین ہے تو وہ کہتا کہ دس مریعے یا بیس مربعے یا چالیس مربعے اور اس وقت مربعے کی قیمت ۵۰، ۶۰ ہزار روپیہ ہے.بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے پاس آٹھ مریعے سے کم نہ مین ہوتی ہے.اگر ٹوٹل کیا جائے تو میرے خیال میں یہاں ایک ہزار مربع جماعت کا ہو گیا ہے گو یا پانچ کروڑ کی جائیداد صرف اس ضلع میں پیدا ہوگئی ہے.اور یہ انقلاب ایک تھوڑے سے عرصہ میں ہوا ہے.صرف تین سال کی بات ہے کہ جب یہ انقلاب ہوا.اب دیکھ لو یہ معجزہ ہے یا نہیں.پہلے اس علاقہ میں جس میں احمدی ہیں ایک پید منور الدین صاحب تھے وہ قادیان بھی گئے تھے.واپس آکر انہوں نے اپنے مریدوں کو کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب کی بات سچی معلوم ہوتی ہے.حضرت عیسی علیہ السّلام یقینا وفات پاگئے ہیں مگر سبب اُن کے مریدہ جماعت میں داخل ہو نے لگے تو انہیں ہماری جماعت سے بغض پیدا ہو گیا.کیونکہ ہماری وجہ سے اُن کی آمدن کم ہو گئی.کجا تو اُن کی یہ حالت تھی کہ علاقہ میں ان کی بڑی عزت اور قدر کی جاتی تھی اور کجا یہ کہ جب اُن کے تمام مرید احمدی ہو گئے تو انہیں رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی.آخر ایک دوست صالح محمد صاحب نے انہیں اپنے بنگلہ میں ٹھہرایا اور پھر وہ اپنے وطن واپس چلے گئے.مومن اللہ تعالیٰ احمدیت کی تائید میں ہمیشہ نشانات دکھلانا چلا آیا ہے.لہ کے بعد جماعت احمدیہ کو جو حیرت انگیر ترقیات پاکستان اور بیرون ممالک میں ہوئی اس کا دا منح اقرارہ غیر از جماعت کے ممتاز ادیبوں، عالموں بلکہ جماعت اسلامی اور احراری حلقوں کی طرف سے کیا گیا.بطور ثبوت چند تاثرات و آبداء درج ذیل کیے جاتے ہیں.۱ - شیخ محمد اکرام صاحب ایم اے مورخ پاکستان نے “ موج کوثر میں لکھا :- له الازهار لذوات الخمار من ۲ حصہ دوم طبع دوم (مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز میں ناشر - دفتر لجنہ اماء الله مرکز به سه بوده

Page 545

۵۳۳ لا عام مسلمانوں نے جس انداز سے قادیانیوں کی مخالفت کی ہے اس سے اس جماعت کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا فائدہ.قرآن نے مسلمانوں بلکہ مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان فوقیت پانے کا طریقہ یہ بتایا تھا کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں اور اللہ انہیں جزا دے گا.انسانی زندگی کا یہ اٹل قانون دور حاضر کے بعض مناظرین نے پوری طرح نہیں سمجھا.عیب جوئی ، مخالفت اور تشدد سے دوسرے فرقوں اور جماعتوں کی ترقی بند نہیں ہو سکتی جو فرد اپنی جماعت کی ترقی چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک کاموں میں دوسروں سے بڑھ جائے.ہمارے بزرگوں نے عام مسلمانوں کو نظم و نسق ، مذہبی جوش اور تبلیغ اسلام میں مرزائیوں پر فوقیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھائی بلکہ بیشتر فوں اور عام مخالفت سے فتنہ قادیان کا ستہ باب کرنا چاہا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کے ساتھ بے جا سختی کی جائے تو اس میں ایثار اور قربانی کی خواہش بڑھ جاتی ہے چنا نچہ جب کبھی عام مسلمانوں نے قادیانیوں کی مخالفت میں معمولی اخلاق ، اسلامی تہذیب اور رواداری کو ترک کیا ہے تو اُن کی مخالفت سے قادیانیوں کو فائدہ ہی پہنچا ہے.اُن کی جماعت میں ایثار اور قربانی کی طاقت بڑھ گئی اور اُن کے عقائد اور بھی مستحکم ہو گئے ہیں نہ لے.ایڈیٹر صاحب " اخبار صداقت گوجرہ نے اعترا منہ کیا :- احرار کی تحریک ناکامیوں سے پڑ ہے.دور جانے کی کیا ضر درست.ختم نبوت کا تحفظ آپ کے سامنے ہے ست تو کار زمیں رانکو ساختی که با آسمان نیز به داختی ربوہ موجود.اس کے کالج اور سکول موجود یہ نہیں ) اخبار اور مبلغ توجو ان کا عقید: اجرائے نبوت موجود.......حق کو مثانے والے آپ اله موج کوثر مر ۱۹ مؤلف جناب شیخ محمد ایم ایم سے نایا اور پشاور ای بی والا

Page 546

کون و سه ۵۳۴ - مولانا عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر النبر نے اپنے اخبار میں متعدد بار جماعت احمدیہ روز افزوں ترقی اور استحکام کا بر ملا اظہار فرمایا چنانچہ لکھا:.المنبر ۲۳ فروری ۱۹۵۴ء ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا.لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی.مرزا صاحب کے بالمقابل جین لوگوں نے کام کیا ان میں سے اکثر تقومی ، تعلق باللہ دیانت، خلوص، علم اور اللہ کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے.سید نذیر حسین صاحب دہلوی ، مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی، مولانا قاضی سید سلیمان منصور پوری ، مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی ، مولانا عبد الجبار غزنوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر رحمھم اللہ وغفر لہم کے بارے ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر ورسوخ بھی اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں........اگر چہ یہ الفاظ سنے اور پڑھنے والوں کے لیے تکلیف دہ ہوں گے.......لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان کا بہ (نور اللہ مرقدهم و بر مضاجعهم) کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے.متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتے رہے.تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں رگزشتہ ہفتہ روس اور امریکہ کے دو سائنسدان ربوہ وارد ہوئے ) اور دوسری جانب سہ کے عظیم تر ہنگامہ کے باد جو قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس "صداقت گوجره، ۲ جون ۱۹۵۸ء سجواله رساله الفرقان ریوه اگست ۱۹۵۰ء مت

Page 547

۵۳۵ ۵۷ ۱۹۵۷ء کا بجٹ لاکھ روپیہ کا ہو ۵۳ الر کے وسیع ترین فسادات کے بعد جن لوگوں کو یہ رہم لاحق ہو گیا ہے کہ قادیانیت ختم ہو گئی یا اس کی ترقی رک گئی.انہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ بلدیاتی اداروں میں بلکہ ربعض اطلاعات کی بناء پر مغربی پاکستان اسمبلی میں قادیانی ممبر منتخب ہو گئے ہے ہفت روزہ المنبر ۲ مارچ ۱۹۵۶ ء (ب) قادیانیوں نے گزشتہ بیچاس سال میں اندرون اور بیرون ملک اپنی قومی زندگی کو قائم رکھنے اور قادیانی تحریک کو عام کرنے کے سلسلہ میں جو جد وجہد کی ہے اس کا یہ پہلو نمایاں ہے کہ انہوں نے اس کے لیے ایثار و قربانی سے کام لیا ہے.ملک میں ہزاروں اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اس نئے مذہب کی خاطر اپنی برادریوں سے علیحدگی اختیار کی.دنیوی نقصانات برداشت کیے اور جان و مال کی قربانیاں پیش کیں ؟ ہ ہم کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ قادیانی عوام میں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اخلاص کے ساتھ اس سراب کو حقیقت سمجھ کہ اس کے لیے جان و مال اور دنیوی وسائل و علائق کی قربانی پیش کرتی ہے.یہی وہ لوگ ہیں جن کے بعض افراد نے کابل میں سزائے موت کو لبیک کہا.بیرون ملک دور دراز علاقوں میں غربت و افلاس کی زندگی اختیار کی تقسیم ملک کے وقت مشرقی پنجاب کی یہ واحد جماعت تھی جس کے سرکاری خزانہ میں اپنے معتقدین کے لاکھوں.ویسے جمع تھے اور جب یہاں مہاجرین کی اکثریت بے سہارا ہو کہ آئی تو قادیانیوں کا یہ سرمایہ جوں کا توں محفوظ پہنچ چکا تھا اور اس سے ہزاروں قادیانی بغیر کسی کاوش کے از سر نو بحال ہو گئے.پھر یہ موضوع بھی مستحق توجہ ہے کہ یہ وہ واحد جماعت ہے جس کے ۲۱۳ - افراد تقسیم کے بعد سے آج تک قادیان میں موجود ہیں اور وہاں اپنے مشن کے لیے کوشاں بھی ہیں اور منہ بط المنبر ۲۳ فروری ۱۹۵۶ صفحه ۱۰

Page 548

۵۳۶ بھی...قادیانی تنظیم کا تیسرا پہلو وہ تبلیغی نظام ہے جس نے اس جماعت کو بین الا قوامی جماعت بنا دیا ہے.اس سلسلہ میں یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ بھارت، کشمیر انڈونیشیا.اسرائیل - جرمنی.ہالینڈ.سوئٹزر لینڈ.امریکہ - برطانیہ.دمشق.نائیجیریا.افریقی علاقے اور پاکستان کی تمام قادیانی جماعتیں مرزا محمود احمد صاحب کو اپنا امیر اور خلیفہ تسلیم کرتی ہیں اور ان کے بعض دوسرے ممالک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں روپوں کی جائیدادیں " صدر انجمن احمد یہ ربوہ" اور " صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام وقف کر رکھی ہیں لے المنير 4 جولائی تاء (ج) اس وقت جو گوشش تحفظ ختم نبوت کے نام سے قادیانیت کے خلاف جاری ہے قطع نظر اس سے کہ اس کوشش کا اصل محرک خلوص ، خدا کے دین کی حفاظت کا جذبہ ہے یا حقیقی وجہ معاشی اور منفی ذہن کے رجحانات کا مظاہرہ ہے ہماری رائے میں یہ کوشش نہ صرف یہ کہ اس مسئلہ کے مل کرنے کے لیے مفید نہیں ہے بلکہ ہم علی وجہ البصیرت کامل یقین د اذعان کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ جدوجہد قادیانی شجرہ کے بار آور ہونے کے لیے مفید کھاد کی حیثیت رکھتی ہے.(2) اخبار المنبر نے نہ کی اشاعت میں اعتراف کیا کہ :- ١٩٥٣ ۱۹۵۳ء کے بعد احمدیت کی ترقی کے بعد جو غلطیاں ، ہم سے سرزد ہوئیں، ان میں ایک فاش غلطی یہ تھی کہ ہم میں سے بہت سے حضرات نے ، اس غیر واقعاتی تاثر کو خوب خوب عام کیا کہ سرا کی تحریک سے قادیانیت ختم یا کم انہ کم ہے الٹر ہو چکی ہے ، در آنحالیکہ قادیانی ملک کی بیشتر کلیدی آسامیوں پر چھاتے چلے گئے.س بانت روزه ایمیٹر ۲ مارچ ۱۹۵۶ء صفحه فرانسه المنبر 4 جولائی ۱۹۵۶ ء مٹ کالم علا و

Page 549

۵۳۷ ہر قابل ذکر اور اہم محکمے ہیں، ان کے ممتاز افراد گھے اور انہوں نے اپنے اپنے دائرہ کار کے اور میں قادیانی کارکنوں کی ٹیمیں جمع کر لیں.صدر ہاؤس اور وزارت عظمیٰ کے ایوان ہی میں نہیں ، ان بڑے عہدہ داروں کے نجی عملے تک میں قادیانیوں کو موثر قوت بننے کا موقعہ میسر آیا.ملک کی معیشت پر قادیانیوں کو فیصلہ کن پوزیشن حاصل ہوئی اور اس سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اپنی جماعت کے بیشمار افراد کو مالا مال کر دیا.ملک کے اہم ترین مناصب پر فائز ہونے کے بعد، قادیانیوں نے بیرون ملکوں، بالخصوص بڑی طاقتوں سے اپنے روابط مستحکم کیسے اور بیشتر ممالک میں انہوں نے انتہائی منظم طریقے پر یہ پرو پیگنڈہ کیا کہ پاکستان کی حکومت ، قادیانی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے.سر ظفر اللہ سے ایم ایم احمد اور عبد السلام تک، بڑے قادیانیوں نے وزارت خارجہ اور دنیا بھر کے پاکستانی سفارت خانوں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا.ان سفارت خانوں کے ذریعہ، دنیا کے بیشتر ممالک میں..- سرکاری دسائل واثر در سوخ کو قادیانیت کی تبلیغ واشاعت کیلئے بے محابا استعمال کیا گیا.تادیبانی اکابر نے ملک کے تمام مناصب کو اپنے عقائد کی تبلیغ ، اپنے سیاسی مشن کی تکمیل اور مسلمانوں کے خلاف یہود اور دوسرے سامراجی عناصر کی سازشوں کی تکمیل کے لیے استعمال کیا.ایک اہم تر مقصد قادیانیوں کے سامنے یہ تھا کہ سفارتی مناصب کو ا تمام ملکوں سے براہ راست روابط کا ذریعہ بنایا جائے اور انہیں اس میں اس حد تک کامیابی ہوئی کہ وہ نہ صرف یہ کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں، پاکستان کے نمائندوں کی حیثیت سے معروف ہوئے ، بلکہ وہ پاکستان کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ اسلام کی نمائندگی و تر جمانی کے منصب پر فائزہ بھی سمجھے جانے لگے اور ان کے عمل اورہ پر دیگنڈے سے یہ تاثر عام ہوگیا کہ اس وقت دنیا میں صرف قادیانی ہی تبلیغ واشاعت اسلام ، کا علم تھامے ہوئے ہیں.

Page 550

۵۳۸ اندرون ملک قادیانیت کا فروغ ! اندرون ملک، قادیانیوں کو اس حد تک فروغ حاصل ہوا کہ :-..تقسیم ملک کے کچھ عرصہ بعد تک ان کا جو مرکز می بجٹ ایک ڈیڑھ لاکھ کا تھا، اب دو اڑھائی کروڑ تک جا پہنچا اور انہوں نے اس سال کے آغانہ میں، اپنی 20 سالہ جوبلی منانے کے لیے.اکروڑ کی رقم کے وعدے اپنے خلیفے کے حضور پیش کیے.ہ فوج میں ان کا اثر اس حد تک بڑھا کہ بہ خطرہ ہر ہوش مند کو محسوس ہونے لگا کہ اگر اب یہاں خدانخواستہ کوئی فوجی انقلاب آتا ہے تو کہیں وہ " قادیانی حکومت کی صورت میں نہ ہو" قادیانیوں نے مسلم معاشرے میں اس حد تک نفوذ حاصل کیا کہ علمائے دین کے متفقہ فتقومی اور متعدد عدالتوں کے قطعی فیصلوں کے برعکس، ہزاروں مسلم خاندانوں نے قادیانیوں سے رشتے ناطے کے روابط قائم کیے اور ایک اہم تعداد ہمارے اہل سیاست اور اصحاب مال جاو کی ایسی اس ملک میں موجود ہے، جونیم نادریانی یا کم ان کے قادیانیوں کے خلاف ہر قسم کے جاذبہ مغائرت سے تہی دامن ہے اور وہ یہ بات ان کے لیے اچنبھے کی ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور ان سے معاشرتی تعلقات شرعا ممنوع ہیں.قادیانیوں کی یہ ترقی، اگر چہ مسلمانوں کی دین سے دوری کے باعث مھتی مگر اس میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ قادیانی ایک گرمجوش جماعت کی حیثیت سے مسلسل اور مہم مصروف تبلیغ واشاعت تھے اور اس امت کے افراد نے فی الواقعہ ، اپنے باطل مقصد سے لگن ، اس کے لیے محنت اور ایثار سے بھی کام لیا اور اس...گردہ کے بیشتر افراد...اپنے مشن میں مخلص تھے، اور یہی اخلاص انہیں ہر وقت عمل کے تسلسل پر مجبور کرتا رہا.۴ - ایک احراری لیڈر مولانا عبید اللہ احراز صدر مجلس احرار اسلام پاکستان لانپور نے جماعت احمدیہ کے اتحاد تنظیم اور ایثار کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا :.

Page 551

۵۳۹ مجلس احرار کے علاوہ بعض دیگر دینی جماعتوں نے بھی مسئلہ ختم نبوت کی تبلیغ اور تعلیم میں سرگرم حصہ لیا ہے اور لے رہی ہیں مگر ہم عملاً دیکھ رہے ہیں.کہ مسلمان ختم نبوت کے مسئلہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے بھی قرآن و سنت کو نظر انداز کر کے کمیونزم اور سوشلزم کی راہ اختیار کہ رہتے ہیں.اکابرین مختلف حیلوں بہانوں سے سوشلزم میں ملک کی فلاح اور نجات بیان کر رہے ہیں.اس طرح عملاً مسئلہ ختم نبوت کی نفی کی جارہی ہے.اور یہ حادثہ اس لیے رونا ہوتا دکھائی دے رہا ہے.کہ مسئلہ ختم نبوت کے اکابرین کی تقریروں اور عمل کے درمیان ایک طویل مسافت ہے.تضاد ہے.ہم آہنگی کا فقدان ہے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ اللہ کی دستی کو.مضبوطی سے تھام لو اتحاد اور تنظیم کو ستحکم کردہ مگر ہم صوبائی ،انسانی اور نسلی بنوں کی پرستش کر کے ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے ہیں.باہمی اعتماد نہ ہو تو باہمی اخوت کس طرح ہو سکتی ہے.مسئلہ ختم نبوت کی ضرورت مرزا غلام احمد قادیانی کی تنظیم اور نظریات کے پیش نظر ہوئی مسئلہ ختم بنوت میں زیادہ تر جماعت احمدیہ ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے.مگر جماعت احمدیہ نے جس طرح خود کو منظم اور تحکم کر رکھا ہے ان کے مقابلہ میں مجلس احرار یا کوئی اور جماعت اس قدر منتظم اور متحد نہیں.جماعت احمدیہ سیاسی اقتصادی معاشرتی اور عسکری لحاظ سے طاقت دو جماعت ہے، پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر اس کی تنظیم کا ایک مضبوط نظام قائم ہے.اس جماعت کا ہر فرد اپنے عقیدہ اور عمل میں راسخ ہے.فنڈز کے لیے اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوتی.ایک نظام کے تحت از خود ان کے فنڈز میں روپیہ جمع ہوتا ہے.ایک منصوبہ کے تحت خرچ کیا جاتا ہے.جماعت کے پسماندہ افراد کی ہر طرح امداد اور اعانت کی جاتی ہے.مقابلہ مجلس احرار اور دیگر دینی جماعتیں ہمیشہ فنڈ نہ ہونے کا شکوہ کرتی ہیں.اور فنڈز کی کمی کے باعث وہ کما حقہ خدمات سر انجام نہیں دے سکتیں.جماعت احمدیہ میں استحاد تنظیم اور ایک دوسرے کے لیے ایثار کا جذبہ ہے.لیکن ہمارے ہاں تنظیم اتحاد اور ایثار میں کوئی سے بھی نہیں.دوسرے معنوں میں خلوص اور عمل کا فقدان ہے اس وقت پاکستان کا ہر فرد یہ محسوس کر رہا ہے.کہ جماعت احمد یہ ایک زبر دست طاقت

Page 552

۵۴۰ بن چکی ہے.اس کی وجہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کہ معلوم کر سکتے ہیں.مسئلہ ختم نبوت کے منکر تو خاموشی سے اپنی صفوں کو منظم کرتے رہے.اور ختم نبوت پر ایمان رکھنے والے اپنی صفوں میں انتشار پیدا کرتے رہے اللہ راہ پمفلٹ در مجلس احرار کی تبلیغی سرگرمیاں اور اس کا اجمالی خالہ ، صفحہ مرتب : - محمد ظاہر لدھیانوی محمد عالم منهاس لدھیانوی - شائع کردہ : محمد اشرف ناظم مجلس احراره اسلام گوجرانوانه ۶ ستمبر ۶۱۹۷۲ :

Page 553

۵۴۱ تیسرا باب جماعت احمدیہ کی عالمی شہرت و عظمت میں اضافہ ر کے دور ابتلاء کی تیسری عظیم الشان برکت یہ تھی کہ بیرونی ممالک میں اس کی شہرت وقار اور عظمت میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ عالمی پریس نے جماعت احمدیہ کے حق میں کھلے بندوں آواز بلند کی اور اس کی مظلومیت کے چرچے دنیا کے ہر گوشے میں ہونے لگے.اس سلسلے میں بعض بیرونی ممالک کے اخبارات کے تاثرات اور ان کے قاریٹی کی آراء کا نمونہ ذکر کیا جاتا ہے.ا - اخبار حقیقت" لکھنو نے اپنی ۳ ۴ ر ا س په ۹۵۳ ہندوستان کا مسلم پریس کی اشاعت میں مندرجہ ذیل اداریہ تحریر کیا.اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے تقریباً چھ سات ماہ کے سکون اور خاموشی کے بعد ایک بار پھر پاکستان کے نا عاقبت اندیشن مولویوں اور کٹھ ملاؤں نے وہی شر انگیز ایجی ٹیشن پھر شروع کر دیا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی شیرازہ بندی کو پاش پاش کر دیتا ہے.ان مولویوں ، ملاؤں اور خود ساختہ مولاناؤں کا مطالبہ یہ ہے کہ فرقہ احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور سر ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ کے عہدہ سے ہٹا دیا جائے ان احمقوں کے نزدیک پاکستان گورنمنٹ کے اس اعلان کر دینے سے کہ احمدی غیر مسلم ہیں ساری دنیا ان کا غیر مسلم ہونا تسلیم کرلے گی.لاکھوں افراد کی ایک کلمہ گو جماعت کو خدا کی وحدانیت ، رسول کی رسالت اور شریعت اسلامیہ کی خود ان مولویوں

Page 554

۵۴۲ اور مولانا دل سے کہیں زیادہ سختی کے ساتھ پابند ہو.بیک گردش قلم خارج از اسلام قرار دے دینا ایسی افسوسناک بلکہ شرمناک جسارت ہے جس کی اسلام کی ۱۳۰۰ سال کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی.غور کیجیئے کہ ایک شخص جو خدا اور رسول کا کلمہ پڑھتا ہے اسلامی شریعت پر عمل کرتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے کسی کو کیا حق حاصل ہے کہ اس کو محض اس بناء پر خارج از اسلام قرار دید ہے کہ ختم نبوت کے بارے میں اس کا عقیدہ عام مسلمانوں کے عقیدہ سے کچھ مختلف ہے.کراچی اور لاہور میں جن لوگوں نے اس فتنہ کو اٹھایا ہے وہ پاکستان کے دوست نہیں ہیں بلکہ نہایت خطرناک دشمن ہیں.ہمارے خیال میں راولپنڈی کی سازش سے کم مضرت رساں اور خطرناک یہ شورش نہیں ہے.اس وقت پاکستان گورنمنٹ کا فرض ہے کہ اس قسم کی فتنہ انگیز تحریکوں کو قطعی کچل دے ورنہ اگر مولویوں اور کٹھ ملاؤں کی رسی ڈھیلی کر دی گئی تو یہ فتنہ احمدیوں کے بعد دوسرہ اسلامی فرقوں کو بھی سمیٹ لے گا.یقین کیجئے کہ ملاوں کو اگر اس ایجی ٹیشن میں حکومت کی گز درمی یا زمی کی وجہ سے کچھ بھی کامیابی ہوئی تو پھر اس فرقہ وار تعصب کے سیلاب سے دوسرے مسلم فرقوں کا محفوظ رہنا بھی محال ہو گا اور پھر اس کا انجام پاکستان کے لیے جس قدر تباہی اور مہلک ہوگا اس کا اندا نہ سمجھدار شخص ہی کر سکتا ہے." کراچی اور لاہور کی تازہ خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی سے حکومتیں اس خطر ناک فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں چنانچہ کراچی اور لاہور میں اب تک کم و بیش ڈیڑھ ہزار گرفتاریاں ہو گیا ہیں اور لاہور کے کئی روزانہ اردو وانباتا کی اشاعت، ایک ایک سال تک روک دی گئی.مولانا اختر علی خان ایڈیٹر زمیندار“ اور اس تحریک کے دوسرے کئی سرغنہ گرفتار کر لیے گئے ہیں.حکومت پوری مستعدی اور سختی کے ساتھ اس فتنہ انگیز تحریک کو کچل دینے کا قطعی فیصلہ کر چکی ہے جیسا کہ لاہور اور کراچی کے تازہ سرکاری بیانات میں اعلان کر دیا گیا یقینا پاکستان گورنٹ کو ایسا ہی کرنا چاہیئے.وگرنہ اگر ه نقل مطابق اصل تباہ کن ہونا چاہیے )

Page 555

۵۴۳ اس موقع کیا ذرا بھی کمزوری کا اظہار کیا تو شورش پسندوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے.اور پھر تو پاکستان کا زیادہ عرصہ تک سلامت رہنا قطعی ناممکن ہو جائے گا لے اسی اخبار نے ہار مارچ 1903ء کی انشائیں بعنوان ” قادیانی اور پاکستان“ مندرجہ ذیل اداریہ لکھا :.در قادیانیوں یا احمدیوں کے خلاف پاکستان کے ایک طبقے میں جو شورش گذشتہ کئی سال سے بر پا کر رکھی گئی ہے وہ روز بروز (زور) پکڑتی جا رہی ہے.ابتداء اس میدان میں صرف احراری ہی پیش پیش نظر آرہے تھے اور اب تو جمعیت العلماء پاکستان نیوز پیرس ایڈیٹس کا نفرنس شریک ہو گئے ہیں اور یہ مطالبہ ان کی طرف سے انتہائی شد و مد کے ساتھ شروع کر دیا گیا ہے کہ ظفر اللہ خان وزیر خارجہ پاکستان کو وزارت سے ہٹا دیا جائے.قادیانیوں کو سرکاری طور پر ایک اقلیت والی قوم قرار دیا جائے.یہ ایجی ٹیشن اس مرتبہ ان کل جماعتوں کے اشتراک عمل سے اس زور شور کے ساتھ اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان کی تازہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس سلسلہ میں روزانہ ہر ہر مقام پر متعدد گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور گرفتار شدگان کی مجموعی تعداد ہزار وں سے تجاوز ہو چکی ہے.راست اقدام کے لیے جو مجلس حمل مقرر کی گئی تھی اس کے منگل اراکین گرفتار ہو چکے ہیں لیکن یہ شورش گھٹنے کا نام نہیں لیتی.ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان پاکستانی افراد کی اس ذہنیت کی کیا تادیل کی جائے کہ جس سے ان کے اس طرز عمل کا کسی پہلو سے کوئی جوانہ نکل سکے.سوچنے کی بات ہے کہ مسلمانوں میں ایک دو نہیں بہتر فرقے ہیں.اگر ہر ہر فرقہ کے خلاف اسی قسم کا ایجی ٹیشن بر پا کر دیا جائے تو اس سے مسلمانوں کی عصبیت و مرکز بیت مجروح ہو گی یا نہیں ؟ اور اگر ہر فرقہ دائرہ اسلام سے یونہی نارج قرار دے دیا گیا تو پھر اسلام کے لوا برداروں کی تعداد کتنی کم ہو جائے گی ؟ مانا کہ ان کے عقائد عام اسلامی عقائد سے کسی قدر مختلف ہیں.مانا کہ مرزا غلام احمد ساب " سه سجواله بدر قادیان ۱۴ر مارچ ۱۹۵۳ء ص ۹

Page 556

۵۴۴ قادیانی کو مسیح موعود مانتے ہیں لیکن جب تک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، خاتم النبیین کی رسالت اور آپ کے خاتم النبیین ہونے پر ان کا ایمان وایقان ہے اس وقت تک دائرہ اسلام سے انہیں کوئی خارج نہیں کر سکتا اور یوں حرف گیری پیراگر کوئی آئے تو ہر ہر فرقہ کے عقیدے کے بارے میں وہ ایک نہیں ۲۱ بانہیں نکال سکتا ہے.حیرت تو یہ ہے کہ پاکستان کی جمعیت العلماء بشمول اس کے صدر مولانا عبد الحامد صاحب قادری بدایونی کے سب کے سب احراریوں کی اس جماعت کے ہمنوا اور ہمخیال ہو گئے ہیں کہ جس کا منشا ہی مسلمانوں کی مرکز بیت کو توڑنا اور اس کی عصبیت کو نقصان پہنچانا ہے.جس زمانہ میں ہندوستان میں مسلم لیگ کا دور شباب تھا اور اس کے لیڈران کانگرس سے مطالبہ پاکستان کے سلسلہ میں اُلجھے ہوئے تھے یہی جماعت احرار مسلم لیگ کا ساتھ دینے کی بجائے اس کے مخالف کیمپ میں تھی اور ہر طریقے سے مسلمانوں کے اس مطالبہ کو روندنے اور پامال کرنے کی کوشش کر رہی تھی.یہی عطاء اللہ شاہ بخاری کہ جو آج اس تحریک کے ہیرو بنے ہوئے ہیں اپنی سوتیا نہ تقریروں اور اپنی دریدہ دہنیوں سے مسلم لیگی لیڈران کی ٹوپیاں اچھالنے نہیں لگے ہوئے تھے.اور اب تشکیل پاکستان کے بعد انہوں نے اپنی گرم بازاری کے قیام اور اپنی قدیمی نفرت و عداوت کی آگ کو بجھانے کے لیے ہاں ایک ایسی شرمناک فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ میں کو کسی طریقے پر جائز وحق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا.پاکستان کی نو مولود سلطنت کو یو نہی کیا کم انکار لاحق ہیں کہ جن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن پر ان کی زندگی اور موت کا سوال اٹکا ہوا ہے.ایسی صورت میں اس قسم کا کوئی ایجی ٹیشن وہاں شروع کرنا اس کے ساتھ کسی پہلو سے دوستی کا مترادف نہیں ہو سکتا.حکومت پاکستان اس وقت تک اس معاملے میں جس مضبوطی اور استقلال کے ساتھ اپنی پالیسی پر قائم ہے ، ده بہت زیادہ مسرت بخش ہے اور اُسے یقیناً اس معاملہ میں ایک اپنے بھی اپنی پالیسی سے نہ ہٹنا چاہیئے کالے نه بحوالہ ہفت روزه بدر رقادیان) ۱۴ار مارچ ۱۹۵۳ ۶ صف

Page 557

۵۴۵ ۲ - اختبار خلافت بمبئی" (مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۵۳ء) نے اپنے اداریہ میں لکھا :.احمدی تحریک کی مخالفت میں پاکستان میں جس قسم کے مجنونانہ جوش وخروش کا مظاہرہ ہورہا ہے.اس کو کوئی ذی ہوش اور ذی فہم مسلمان پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا.عقائد کا اختلاف ایک الگ) نشئی ہے.لیکن عقائد کے اختلاف میں اتنی شدت اور سجرانی کا مظاہرہ کسی قوم کے توازن رباعی کے صحیح ہونے کی علامت نہیں.پاکستان میں احمدی تحریک نئی نہیں ہے.تقریبا پچاس برس یا اس سے بھی زیادہ زمانے سے ہندوستان میں احمدی عقائد کے لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں.وہ اپنے خیالات اور عقائد کی تبلیغ بھی کرتے رہے.لیکن کسی دور میں ان کے خلاف اتنی شدت کے ساتھ عوامی مخالفت ظہور میں نہیں آئی.جتنی کہ پچھلے چند ہفتوں سے پاکستان میں ظاہر ہو رہی ہے.کسی مذہبی جذبے میں اگر سیاسی اعراض اور اختلافات بھی شامل ہو جائیں تو وہ نہایت امن سوز اور خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے.پاکستان میں احمدی تحریک کے خلاف عوام کے جوش و خروش کے جو مظاہرے ہو رہے ہیں.ہمارا خیال ہے کہ وہ محض مذہبی عقائد کے اختلاف تک محدود نہیں ہیں.بلکہ ان کی پشت پر سیاسی اعراض اور جماعتی اختلافات بھی کام کر رہے ہیں.اگر اسی قسم کے مظاہرے اسی طرح ہوتے رہے.اور عوام کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی آزادی دی جاتی رہی.تو کسی منظم حکومت کا قیام ہی دشوار نظر آتا ہے افسوس ہے کہ اس وقت جبکہ پاکستان کو سینکڑوں خارجی اور داخلی مشکلات سے سابقہ ہے.ملک کے تحفظ اور استحکام اور ترقی اور بہبودی کے بہت سے مسائل درپیش ہیں.اتنے وسیع پیمانے پر اندرونی خلفشار برپا ہے.اس وقت تو پاکستان کی پوری اجتماعی توت ترتی اور تعمیر کے کاموں میں صرف ہونی چاہیئے تھی.بجائے اس کے ہو کیا رہا ہے ؟ ہر طرف مذہبی جنون کے مظاہرے.ہنگا ہے.گرفتاریاں قتل.خونریزی.حکومت امن قائم رکھنے کے لیے اور احمد میں فرقہ کے افراد کے جان ومال کے تحفظ کے لیے جو کچھ کر رہی ہے.وہ اس کا فرض ہے.اس کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیئے.ہر مہذب حکومت ان حالات میں ہی کرے گی.لیکن ملک میں جب کوئی مذہبی تحریک مد اعتدال سے متجاوز ہو جاتی ہے اور اس کو سختی سے

Page 558

دبانے کے لیے حکومت کی طرف سے سخت تدابیر اختیار کی جاتی ہیں تو ان کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ عوام کے جذبات کی شدت اور بڑھ جاتی ہے.حکومت پاکستان کا موجودہ ہیجان اور سحران کا مقابلہ بڑی ہوش مندی اور اعتدال کار کے ساتھ کرنا چاہیئے.صرف طاقت کے استعمال ہی سے یہ سجران دور نہیں ہو سکتا.ضرورت اس کی بھی ہے.کہ تمام حالات اور واقعات کا بتجزیہ کیا جائے اور ان اسباب کی صحیح چھان بین کی جائے سنو موجودہ مذہبی منافرت کے باعث ہوئے.ان شکایات کی تحقیق بھی بے لاگ طور پر کی جائے.جو پاکستان کے احمدی فرقہ کے حکام اور آفیسران کی زیادتیوں کے متعلق ہیں.جو شیلے عوام کو پر امن طور پر سمجھایا جائے کہ اسلام میں کے وہ نام لیوا ہیں.دسیے رواداری کی تعلیم دیتا ہے.قرآن پاک میں صاف طور پر بتا دیا گیا ہے کہ لا اکراہ فی الدین دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں.ہر فرد کو یہ آزادی اسلام نے دی ہے.کہ وہ نجات کے جس راستہ کو بہتر سمجھتا ہے.اپنے لیے اختیار کہ ہے.اسلام کی پوری تاریخ رواداری سے بھری ہوئی ہے.اس کے ہوتے ہوئے ایک ایسے ملک میں جہاں ایک بڑی اسلامی اکثریت موجود ہے.ایک کمزور اور اقلیت کے فرقے پر ایسے وحشیانہ مظالم کا ہونا ایک ایسا فعل ہے جس پر جتنا بھی اظہار نفرت کیا جائے کم ہے.ہمیں احمدی عقائد کے حسن و قبح کے متعلق اس شذرے میں رائے زنی نہیں کرتی ہے.نہ ہمیں اس پر بحث کرنا ہے.کہ احمدی فرقہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا نہیں.ہم میں حقیقت پر زور دینا چاہتے ہیں.وہ یہ ہے کہ احمدی عقائد رکھنے والے حضرات کو یہ پورا حق ہے کہ وہ آزادی اور بے فکرمی کے ساتھ رہ کہ پاکستان میں محفوظ زندگی گزاریں.اور کوئی قوت اور جماعت خواہ وہ ملک کی سب سے بڑی اکثریت ہی کیوں نہ ہو یہ حق نہیں رکھتی.کہ وہ اس آزادی کو ان سے چھین سکیں.اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے.کہ جو مختلف خبریں ان ہنگاموں کے متعلق پاکستان سے آرہی ہیں.کہاں تک صحیح ہیں ؟ا لیکن میں حد تک بھی صحیح ہیں.وہ کچھ کم افسوسناک نہیں.عوام کے جذبات حبیب بے قالبہ ہو جاتے ہیں.جنون کی خوفناک حد تک پہنچ جاتے ہیں.خدا کہ سے کہ پاکستان کے جنون زدہ عوام کو ہوش آئے.اور پاکستان سے جلد ان فتنوں کا سدباب ہو جائے.جو پاکستان کی سالمیت کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں اے (حاشیہ م ۵۲ پر )

Page 559

۵۴۷ - روز نامہ " اقدام " حیدر آباد نے مورخہ ۲۴ جوادی الثانی ۱۳۲۱ ھ ا ار مارچ ۱۹۵۳ء کو مندرجہ ذیل افتتاحیہ تحریر کیا ہے.اسلام اس مقدس تحریک کا نام ہے جو وسعت نظر فراخ دلی.انسانیت دوستی اور جمهوریت نوازی میں اپنی مثال نہیں رکھتی.پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت اسلام کے اصولوں کی نگہبانی کا دعوی کرتی ہے.اسلام کو صر فرو و بلند کرنے کی آس نہ ومند ہے.اور اسلامی قوانین و احکامات کی بہ دشمنی میں اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کے اعلانوں سے اپنی نہ بانہیں خشک کرتی رہتی ہے.قائد اعظم علیہ الرحمہ سے لے کر شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خاں تک کی یہ تمنا تھی.کہ پاکستان ایک ایسی اسلامی مملکت بن جائے جس کے فرماں رواؤں کی زندگی میں خلفائے راشدین کی زندگی کی جھلک پورے آب و تاب کے ساتھ موجود ہو.اور جس کے مسلمان شہری اس ریگ زار عرب کے مسلمانوں کا نمونہ بن جائیں.جنہوں نے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ساری دنیا میں امن وچین، شرافت و نیکی، وسعت نظرا در انسانیت و شرافت کی نعمتیں بکھیر دی تھیں.قائد اعظم یا نواب زادہ کی زندگی تک تو یہ تمنا پوری نہیں ہوئی.اور ان دونوں اکابرین کے بعد اگر کچھ ہوا تو پاکستان میں یہ ہوا.کہ پاکستانی حکمرانوں کے ایک طبقے اور پاکستانی مسلمانوں کی قابل ذکر تعداد نے ان جاہل عربوں کی نقل اتارنی شروع کر دی جو اسلام سے پہلے دل آزاری ، تنگ نظری اور خون خرابے کو اپنے قبیلوں کا وقار بنائے ہوئے تھے اور عقائد کے نام پر کٹ مراد دوسروں کے عقائد کو متاثر کرنا ، انسان کی فکر و نظر کی آزاد ازادی پر میرے یٹھا نا جن کا شعار ہوچکا تھا.پاکستان ایک اسلامی طرز کی جمہوریت کے قیام کے لیے بے تاب ہے.اور ایک ایسی جمہوریت کی نمائندگی کا دعویدار ہے.جس میں سر فرد کو مساوات سرخیال کو اناودی اور ہر عقیدہ کو بے خطر ماحول میں پروان چڑھنے کا موقعہ حاصل رہے میکن لاہور سے لے کر اچھی تک کے حالیہ ہنگامے کیا اس دعوے کی تکذیب نہیں کرتے.کیا یہ ثابت نہیں کر ر ہے ہیں.کہ ہنگامہ آرائی کے ماہرین اسلام سے دُور اور بہت دور ہو چکے ہیں.اور ایسی حاشیه مت له بجوداله بدر قادیان ۲۱ مارچ ۵ ست

Page 560

۵۴۸ حرکتیں ان سے سرزد ہو رہی ہیں.جو خود اسلام کی روح کو مضطرب کیے بغیر نہیں رہ سکتیں احمدی ہو یا مہدوی.شیعہ ہو یا سنی حنفی ہو یا منیلی ہر ایک کو اس کی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے اندازہ میں سوچے اور اپنی پسند کو دوسروں کی پسند ہمہ ترجیح دے.اگر کچھ لوگ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے.یہ ان کی صوابدید ہے.اور یہ ان کا اپنا اعتقاد ہے.پاکستان کے وہ علمائے دین اور مفتیان شرع متین جو احمدی و غیر احمدی کے عنوان پر قتل و غارتگری کو ہوا دے رہے ہیں.ہمیں جواب دیں.کہ دوسروں کے عقائد میں مداخلت کرنا.دوسروں کی صوابدید پر پہرے بٹھانا اور دوسروں کے اندازہ فکر کو متاثر کرنا کہاں کی مسلمانی ہے.یہ اسلام کا کون سا اصول یہ ہے.اور یہ رسول کہ علم کی کسی تعلیم کی تعمیل میں ہورہا ہے.ہمیں معلوم ہے نبی کریم نے دل آنداری کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے.اور دوسروں کے عقائد کی تضحیک سے شدت کے ساتھ روکا ہے اس انداز کریسی و نیک نفسی کے خلاف جانیوالے غور کریں.کہ وہ خود کہاں تک سچے مسلمان اور نبی کریم کے حقیقی پر ور اور شیدائی ہیں.اعتقاد کا معاملہ دنیادی نہیں، دینی اور صد فیصدی دینی معاملہ ہے.اور اس معاملے میں حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کی جسارت انسان نہیں کر سکتا.یہ صرف خدائے قدوس ہی کرے گا.اگر کوئی غلط راستے پر پل رہا ہے.اور غلط روی پر مصر ہے.تو وہ خدا کے حضور میں خود جواب وہ ہے.بنی کریم نے بھی کبھی کسی کے ساتھ سختی نہیں کی.اور نہ ہی اسلام کی طرف گم کردہ راہوں کو بلایا ہے.اور حبیب خود پائی اسلام نے جبر و اکراہ سے کام نہیں لیا.تو اسلام کے نام لیواؤں کو تشدد اور زیر دستی کا پردانہ کس طرح دیا جا سکتا ہے.ہمیں حیرت تو اس بات پر ہے.کہ احمدی و غیر احمدی کے اس فتنہ کو ہوا دینے والوں میں ان علمائے دین کے نام بھی نظر آرہے ہیں.جو " اسلام کی حقیقی سپرٹ پیدا کرنے کے لیے تحریکیں چلا رہے ہیں.جو طاغوتی نظام معاشرت کے خلاف جنگ کے بہت بڑے رہنما مانے جاتے ہیں.اور تو ہر چیز کو اسلام اور قرآن کی روشنی میں رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں.اور جو اپنے مخصوص گروہ کے ساتھ اس امر کی دھواں دھار کوشش کر رہے ہیں.کہ پاکستان کا دستور اسلامی دستور ہو.اور قرآن اور فرمودات محمدی کی یہ دشمنی میں اس کی ترتیب عمل میں آئے ہمیں حیرت اس سے ہو رہی ہے.کہ یہ سب ہنگامہ آرائی قطعی اسلامی سپرٹ کے خلاف ہے اور فرمودات

Page 561

۵۴۹ محمدی کا سایہ تک اس پر نہیں پڑ سکتا.ان حالات کی موجودگی میں کیا سہارا یہ خیال ٹھیک نہیں ہے کہ یہ ساری فتنہ سامانی ہوس اقتدار کی آسودگی کے لیے ہورہی ہے شخصی منافرت اور کشمکش برتری نے اس فتنہ کو اپنا سہارا بنالیا ہے.؟ اس امر کے امکانات بھی موجود ہیں کہ پاکستان کے دشمن پاکستان سے اپنی استحصالی آرزؤں کو وابستہ رکھنے والوں نے چند ملاؤں کو اپنا آلہ کار بناکہ اور چند حکمرانوں کو مقامات بلند کے جھانسے دے کہ پاکستان کے نظم وضبط کو درہم برہم کرنے کے لیے یہ کھیل شروع کر رکھا ہے.چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو پاکستان کے ہوشمند شہریوں، فرض شناس حکمرانوں اور خود آگاه و مخلص رہنماؤں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کی پرزور مذمت کریں اور اس غیر اسلامی ہنگامہ آرائی کو سختی کے ساتھ کچلنے اور دبانے کی کوشش کریں اور تا ترک کی طرح ان ملاؤں کو عبرتناک سزائیں دیں جو اس - شتر فتن کے خالق ہیں اور اسلام کے نام پر اسلام کی روح کو مسخ کر رہے ہیں یا اے اخبار رہبر، کانپور) نے اپنی ۱۴ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل مقالہ شائع کیا.در مشہور یہ ہے کہ پاکستان میں احراریوں نے احمدیوں کے خلاف مذہب کے نام پر جو سیاسی ہنگامہ بر پاکر رکھا ہے وہ سارے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے لیکن جہاں تک اخبار می اطلاعات کا تعلق ہے یہ آگ پنجابی مدود رہیں جس تیزی سے لگی ہوئی ہے وہ کسی وہ اور صوبے میں نہیں ہے.اس کی وجہ ایک تو صوبائی تعصب ہے.دوسری پنجابی مسلمانوں کی قدیم تو ہم پرستی ہے.پنجابی پاکستانی مرکزی حکومت سے کبھی مطمئن نہیں ہوا.اس کے بس میں ہوتا تو اس قسم کے ہنگامے اس سے بہت پہلے کہ کے مرکزی حکومت میں انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کرتا در بهنگام خواہ کم ہو یا زیادہ پاکستان میں جس طرح شروع ہوا ہے وہ افسوس ناک ہے.اور اس سے بڑھ کر رونے کی بات یہ ہے کہ احراریوں کے اس سیاسی جال میں علماء کرام پھنس گئے ہیں اور جو مسئلہ آئینی جدو جہد سے حل ہو سکتا تھا اس کے لیے غیر آئینی راستہ اختیار کرنے پر ندور نه بحوالہ ہفت روزه بدر ( قادیان) ، را پریل ۱۹۵۳ء ص ۶

Page 562

دے رہے ہیں.سمجھ میں نہیں آتا کہ احمدیوں کو کس قانون کی کسی دفعہ کی رو سے اقلیت قرار دیئے جانے اور کس جرم کی پاداش میں وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا جارہا ہے.اب اگر کہا جائے کہ پاکستان اسلامی (غیر احمدی) ریاست ہے تو سب سے بڑی رکاوٹ تو یہی ہے که پاکستان کا دستور مملکت ہی نہیں ہے.جس کی کسی وضعہ سے اسلامی مملکت کا ہونا ثابت ہو.سمجھداری کی بات یہ تھی کہ پہلے قانون بنانے پر زور دیا جاتا اور اسلامی شرعی قوانین نافذ کروائے جاتے اور نفاذ میں یہ سوال بھی اٹھتا تو غور کے قابل بنتا.علماء نے ایسا نہیں کیا.اور سیاسی مکرو فریب کے شکار ہو گئے.حقیقت یہ ہے کہ آج علماء سو کی افسوسناک سیاست سے ملت اسلامیہ تنگ آچکی ہے.وہ اس الحاد دو بیدینی کے شاکی ہیں.جو مسلمانوں کے مغربی تعلیم یافتہ میں عام ہوتی جا رہی ہے.لیکن وہ یہ بھولتے ہیں.کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو مذہب سے دور کرنے میں مغربی تعلیم کا اتنا ہا تھہ نہیں ہے جتنا کہ ان اجارہ داران دین وملت کا ہاتھ ہے.جو اپنے دنیاوی اعتراض کی تکمیل کے لیے علماء کی مسند پر بیٹھ گئے ہیں.اگر آج کمیونسٹ بیدین نظر آتا ہے تو ہمیں مارکس کی مادہ پرستی کا اتنا ہاتھہ نہیں ہے.جتنا کہ زارینہ کے اس سازشی اور غلط کار پادری کا ہاتھ ہے.جس نے مذہب کو حکومت کا کھلوتا بنا دیا تھا.ہمارے نمائشی مولویوں کی قدامت پسندی - کفر سازی - تنگ نظری اور شدید قسم کی متعصبانہ روش نے تعلیم یافتہ طبقہ کو کٹھ ملاؤں و علم و محتاطین ہی سے نہیں بلکہ ان میں مذہب کی جانب سے بھی بیزاری پیدا کر دی ہے.پاکستان کے علماء بھی روائتی کٹھ ملاؤں کی بدولت ایک غلط کہ دار پیش کر رہے ہیں ، اس طرح وہ احمدیوں کے مقابلہ میں خود اسلام کو نقصان پہنچانے کے باعث بن رہے میں تعلیم یافتہ مسلمان حبیب اس قسم کی حرکتوں کو دیکھتے ہیں.اور مذہب کے نام پر علماء کرام کی تنگ نظرانہ روش کا مشاہدہ کرتے ہیں ، تو اس میں نفس مذہب کی جانب سے مایوسی پھیل جاتی ہے.اور کٹھ ملاؤں کی سیاسی چال کی بدولت علماء کہ اس کی عزت کا خاتمہ ہو جاتا ہے.ترکی میں علماء کی تنگ نظری نے جو نتائج پیدا کئے.وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں.ایران میں جو حشر ہوا.وہ ہمارے سامنے ہے.اور شام ومصر میں جو حالات پیدا ہوئے.ان سے بھی ہم واقف ہیں.بد قسمتی سے پاکستانی علماء بھی اسی راہ پر چل پڑے ہیں.جسے پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کر سکتا.وہ ملک کی سالمیت پر کوئی دار دیکھ کر خاموش نہیں

Page 563

رہ سکتا.ظاہر ہے کہ جب یہ طبقہ میدان میں آئے گا.تو علماء کرام کے ساتھ ہی اسلام کو بھی اسی شر سے دوچار ہونا پڑے گا.جس کا ایک ادنیٰ مظاہرہ ہم تو نی میں دیکھ چکے ہیں.سیاست نہیں تخریبی مقاصد کے لیے مذہب کا استدلال حد درجہ نقصان دہ ہوا کرتا ہے.پاکستان میں آج مذہب کو تخریبی سیاست کا آلہ کار بنایا جارہا ہے.یہ چیز مذہب کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی.اور آج نہیں تو کل پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ مذہب کے خلاف صف آرا ہو جائے گا.جس کے نتیجہ میں کم از کم یہ تومزور ہو جائے گا.کہ پاکستان کو ایک اسلامی اور مثالی سٹیٹ بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا.اسلامی سٹیٹ کی جگہ دیسی ہی سیکولر حکومت وجود میں آجائے گی.جیسی کہ منزل خلافت اسلامی کے بعد ترکی میں وجود میں لائی گئی.اگر پاکستانی علماء اسے پسند نہیں کرتے کہ پاکستان غیر مذہبی ریاست بنا دی جائے.اور وہ واقعی ایک مثالی مذہبی سٹیٹ کے قیام کے خواہشمند ہیں تو ان کو اپنی موجود و تنگ نظری ترک کرنا پڑے گی.مذہب کے نام پہ فتنہ آرائی کا راستہ بھوڑنا پڑیگا.پیر پرستوں صوبائی متعصبین کو تختہ مشق نہیں بنایا جائے گا ئے لئے ه - رسالہ " معارف "راعظم گڑھ) نے لکھا :- مغربی پاکستان میں قادیانیوں کی مخالفت جو شکل اختیار کر گئی ہے وہ بھی مذہب ، قانون اور اخلاق کسی حیثیت سے بھی صحیح نہیں ہے.قادیانیوں کی شرعی حیثیت سے بحث نہیں مگر ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ اس وقت کیا جا سکتا تھا جب پاکستان میں اسلامی دستور نافذ ہو چکا ہوتا مگر ابھی تک تو وہاں ۱۳۵ پہلے کا ایکٹ ہی چل رہا ہے جس کی نگاہ میں سب فرقے برابر ہیں اور اس کی رو سے اس قسم کا مطالبہ ہی کرنا صحیح نہیں.اور اگر اسلامی دستور بھی نافذ ہوتا تو وہ بھی اس فتنہ وفساد کی اجازت نہیں دے سکتا تھا جو مذہب کے نام پر پر پا کیا گیا.کوئی ایسی تحریک میں سے ملک کا امن وامان خطرہ میں پڑ جائے اور لوگوں کی جان ومال اور عزت و آبرو کی حرمت احمد جائے مذہب کی خدمت نہیں بلکہ اس کو بدنام کرنا ہے.پنجاب میں اسلام کے نام پر جو جرائم کیسے گئے ہیں ان کی اجازت اس کا کون سا قانون دیتا ہے اور اس سے اس کی کیا خدمت ہوئی اور اس + نے بحوالہ بدر ۲۱ رما پر ۱۹۵۳ء مٹ : ۲ یہاں سہواً ۱۹۵۳ ء لکھا تھا.

Page 564

۵۵۲ کے بعد فوج کے ہاتھوں جو زیا دتیاں ہوئیں اس کی ذمہ داری بھی اس تحریک کے رہنماؤں کے سر ہے.اگر اسلام کی خدمت اسی طرح ہوتی رہی تو ملک ہی باقی نہ رہ جائے گا.اسلامی قانون کہاں نافذ کیا جائیگا حصول اقتدار کے لیے مذہب کو وسیلہ بنا تا خود بڑ اندر ہی جرم ہے.مذہب کے نام پر جو کچھ کیاگیا ہے اس کی اجازت تو لامذ ہبی بھی نہیں دے سکتی ہے.اس سے انکار نہیں کہ اسلام کے اصل محافظ دپاسبان علماء ہیں مگر ان کو اس زمانہ کے ارباب سیاست سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان کا آلہ کار نہ بننے چاہئیں.پنجاب میں جو کچھ ہوا اس میں مذہب سے زیادہ سیاست کو دخل ہے مگر افسوس یہ ہے کہ یہ ساری شورش مذہب کے نام پر کی گئی جس کی ذمہ داری سے علماء بھی بری نہیں شاہ گجراتی ہفت روزہ " وطن، (بمبئی) کے ایڈیٹر مکرم جناب سیف صاحب پالمپوری نے ارمئی 90لہ کی اشاعت میں جماعت احمدیہ کے بارے میں بعض سوالات کے جواب میں لکھا:."وطن" ہر کلمہ گو انسان کو مسلمان مانتا ہے جو شخص اللہ تعالی اور اس کی کتابوں پر ایمان رکھتا ہو اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتا ہو.یہ وطن کے خیال میں وہ پکا مسلمان ہے خواہ وہ مسلمان قادیانی ہو خواہ وہابی خواہ شیعہ اور خواہ سنتی ہو.اس قسم کا سوال پوچھ کر فرقہ بندی اور فرقہ پرستی کو ظاہر کرنا ہماری پالیسی کے خلاف ہے." وطن " ان جھگڑوں کو نہیں مانتا.یہ کام تو ان لوگوں کا ہے جو اسلام کے دشمن ہیں فتنہ پر دانہ ہیں.وطن ایسی فتنہ پردازی کے ہمنت مخالف ہے اور اُسے بہت بری نظر سے دیکھتا ہے.پاکستان میں قادیانی مذہب والے بڑے عہدوں پر ہیں.اس کے متعلق وطن کے پاس کوئی جواب نہیں.کیونکہ وطن، ایسی فرقہ بندی اور فرقہ پرستی کو مانتا ہی نہیں.اب رہا یہ سوال کہ پاکستان میں قادیانی مذہب کا زور شور سے پر چار ہو رہا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ قادیانی مذہب کا تو پر چار نہیں ہو رہا مگر قادیانیوں کے خلاف کچھ عرصہ پہلے کانی پر چار رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں بار بار طوفان اٹھا.ملاؤں نے اپنا نام تو دینا کیا مگر اسلام کو شرمندہ کیا.اب اگر ملا ذرا بھی شرم وحیا رکھتا ہے تو اس کے بعد وہ اب کبھی فرقہ بندی اور فرقہ پرستی میں دلچسپی ہے.پاکستان میں فرقہ بندی زیادہ ملاں بندی ہو به رساله معارف البریل ۱۹۵۳ء صفحه ۲۴۳ و ۲۴۴ بحواله بدر مار جولائی ۶۱۹۵۳ مش

Page 565

۵۵۳ گئی ہے.ایک ہے" مشراب بندی بو صرف ایک انسان یا ایک خاندان کو خراب کرتی ہے مگر ملاں بندی اور ان کی فتنہ پردازی تو ساری قوم کو غرق کر رہی ہے.اور اب ساری قوم اور سارے ملک کو تباہ دریہ باد کر سکتی ہے " ہے روز نامہ ملال نوا نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۸ مارچ سلہ میں قادیانی اور پاکستان “ کے عنوان سے درج ذیل اداریہ سپر د اشاعت کیا : - پاکستان میں جو واقعات رونما ہور ہے ہیں.ان کا کوئی براہ راست تعلق اسلامی تعلیمات سے نہیں ہے.اسلام ان بھیانک جرائم سے بری ہے اور اللہ اور اس کے رسول ان تحرکات کے مخالف ہیں قادیانیوں کے عقائد اگر گمراہی پر مبنی ہیں.اور اگر وہ اسلام کے پردہ میں کفر پھیلا رہے ہیں تومسلمانوں کے لیے تبلیغ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں.وہ قادیانیوں کے ایک ایک جلسہ کے مقابلہ میں رس دس جلسے کر سکتے ہیں.ایک ایک قادیانی رسالہ کے مقابلہ میں دس دس رسائل شائع کر سکتے ہیں.اور ان کی ایک تغیر کے مقابلہ میں دس دس تفسیریں لکھ سکتے ہیں.اسلام نے اصلاح کے لیے تبلیغ کا طریق کار مقرر کیا ہے.یہ کہیں نہیں کہا کہ جو تمہارے نقطہ نظر سے اتفاق نہ کریں ان کے گھر جلاؤ ان کو پکڑ پکڑ کے ذبح کر ڈالو اور ان کی عورتوں پر بھی دست درازی شهر د عا که دد- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاء راشدین جب نوجوں کو دفاعی جہاد کے لیے بھیجتے ہیں تو یہ نصیحت ضرور کرتے تھے.کہ عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں پر دست درازی نہ کرنا اس امر کا پر اسکان موجود ہے.کہ قادیانیوں سے نپٹ کہ بوہروں اور اسمعیلی فوجوں پر مذہب کے نام ت ہا مخقر صاف کیا جائے گا.پھر اہل حدیث پر نزلہ گرے گا.پھر شیعوں پہ مصیبت آئے گی.اور پھر بیوی ایک دوسرے کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے "جہاد" فرمائیں گے.اور اس کے بعد ان کا نہر آئیگا.جو تقدیر کے قائل نہیں.یا جو اللہ کے عرش پر ہونے کے خاص معنی لیتے ہیں.پھر زمین کو گول کہنے والوں کی گردن ماری جائے گی.عرض کہ یہ مار کاٹ کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ پاکستان کے طول و عرض میں صرف شیطان باقی رہ جائے گا جو انار لامیری اه ترجمه از اخبار وطن گجراتی - ارمئی ۱۹۵۳ء مت بجواله اخبار" بدر" "قادیان ۲۱ رمئی ۱۹۵۳ء صدر

Page 566

Dor کا نعرہ لگائے گا.خود مولوی آپس میں کٹ مریں گے.اور ہر ایک مرتے وقت یہ ہی تصویر کرتا جائے گا.که لیس ادھر روح نے جسم خاکی سے پرواز کی اور اُدھر باغ جنت کے دروازہ پر رمضنوان نے استقبال کیا.پھر کیا ہے ہزاروں حسین و جمیل حوریں ہوگی.اور عیش وعشرت کی وہ رنگ رلیاں جن کا ایک حقیر نمونہ واجد علی شاہ کی زندگی میں پایا جاتا تھا.خوب سمجھ لو کہ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے.یہ مولویا نہ ذہن کا کرشمہ ہے.اور دوسرے ملکوں میں بھی اسلام کے چہرہ پہ یہ مولوی ہی کی کولتار مل رہے ہیں.آج ساری دنیا میں غیر مسلم ان وافقات سے ایک ہی نتیجہ نکال رہے ہیں.اور وہ یہ کہ اسلام اور تعصب مترادف ہیں.اور یہ کہ قرآن و قتل کے درمیان ایسا گہرا رشتہ ہے کہ چولی دامن کا ساتھ ہے.جب اسلام کے روحانی لیڈروں کا یہ حال.تو بابو راد پٹیل یا دوسرے ایسے مخالفوں کی شکایت کیوں کیجئے کہتے ہیں کہ غیروں نے کیا ہمکو تباہ بنده پر ور کہیں پہنوں ہی کا یہ کام نہ ہو لے مصر می پریس (انه علی بهادر خان) مصر کے مشہور صحافی جناب عبد القادر حمزہ نے پاکستان میں مذہب کے عنوان سے اختبار البلاغ میں ایک خصوصی مقالہ سپر واشاعت کیا جس کا خلاصہ اخبار مدینہ منور (۲۸ مارچ ۱۹۵۳) میں حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوا.: مہ قاہرہ ۱۲۳ تاریخ اخبار البلاغ کے پر ویرائٹر عبد القادر حمزہ پچھلے دنوں مصری اخبار ٹولیوں کے وفد کے رکن کی حیثیت سے پاکستان گئے تھے.آپ نے اپنے اخبار کے صفحہ اول پر ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے علماء اور دوسرے لوگ عوام کے کورانہ عقائد سے بے جا استفادہ کر رہے ہیں ه بجواله مدرسه ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ است

Page 567

ههه آج کل پاکستان اسی لعنت میں مبتلا ہے جس میں مصر مبتلا رہ چکا ہے.یعنی کچھ لوگ ( علماء) سیاسی اثر بڑھانے کے لیے مذہب سے بیجا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں.اور ایسے معاملات (سیاسیات) میں دخل دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو اُن سے تعلق نہیں رکھتے.محض اس دعو مٹی کی بناء پر کہ ہم علماء ہیں دوسرے لوگ بھی عوام کے مذہبی احساسات سے بجا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں ان لوگوں پر دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی نسبت مذہب کا اثر زیادہ غالب ہے انہوں نے کہا کہ پاکستانی مسلمان قرآن پڑھتا ہے.اور وہ اس کی بعض سورتوں کو از پیر کی کو یہ کر لیتا ہے.لیکن وہ نہ قرآن کے معانی و مطالب کو سمجھتا ہے اور نہ اسلام کے متعلق کسی دوسری کتاب کو.نہ عربی زبان جانتا ہے اس لیے خواندہ ہونے کے باوجود ناخواندہ ہوتا ہے.اس لیے یہ کہنا صحیح رہے) کہ عام پاکستانی محض مذہبی طور پر مسلمان ہیں اور ان سے مذہب کے نام پر یا اس کے متعلق جو کچھ کہ دیا جاتا ہے اس پر یقین کر لیتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دورہ میں جو فرقہ وارانہ گڑ بڑ دیکھی اس کا بڑا سبب یہی تھا کہ مسلمان اسلام کی صحیح سپرٹ سے نا آشنا ہیں.میرا مقصد نہ احمدیوں کی صفائی پیش کرتا ہے اور نہ ان کے مخالفوں پر نکتہ چینی کرنا.اگر ایسی صورت میں کہ اختلافی بحث ، بلوے اور آتش زنی کی شکل اختیار کرنے اور بیگناہ لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جانے لگے تو افسوس ہوتا ہے.اگر پاکستانی مسلمان زیادہ ہو جائیں اور تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بڑھ جائے تو ایسے قابل اعتراض اعمال کا رونما ہونا نا ممکن ہو جائے گا.ضرورت ہے کہ جہاں جدید علوم و فنون حاصل کیے جائیں وہاں قرآن کے معانی ومفہوم سے قریب تر ہونے کی کوشش کی جائے.لہ امریکہ کے اخبار "Cleveland - Plain Dealer" نے اپنی ، مارچ ۱۹۵۳ء امریکی پریس کی اشاعت میں ڈبلیو.جی ہے.ڈلڈ ائن (W, G.Dildine) کا حسب ذیل نوٹ دیا.سے بحواله بدر قادیان ، ر ا پریل ۱۹۹۳ است : سے مسٹر ڈلڈ ائن ایشیا کے رسالہ میں ڈیلر کے شان نمبر تھے جو ۱۹۵۰ ء - 1901 ء میں شائع ہوتا رہا.اس کے بعد وہ اس علاقہ میں نیو زدیک اور دوسرے رسالوں کے نامہ نگار خصوصی کے فرائض انجام دینے لگے.

Page 568

009 Cleveland Plain Dealer, Tuesday, March 17, 1953.Reds Spur Religious Agitation in Pakistan.By W.G.Dildine Karachi, March 16- The last two week's bloody rioting in Pakistan, all in the name of religion, appears to bear out opinion of Government officials in the highest level that Communists are assuming tactical direction of the most reactionary and bigoted religious groups.This trend is causing acule distress 10 the progressive Western minded Muslims who have guided this nation's destinies since it was created by partition from India in 1947.Today in Pakistan, long considered a bulwark against Communism because of its pious population and progressive administration, the pattern of Communist penetration and action is beginning to bear striking and ominous resemblance to that developed in Iran (Persia) during the past three years.In both Countries the Reds have made use student organisations and fanatic religious groups.And in both the aim has been to create distrust and disunity between geographical sections and especially among government leaders.Iran's murderous Fidavan Islam.led by Ayatullah Kashani, has its Pakistani counterparts.They are the Ahrar ("true") group and the Jamaat-i-Islami.which simply means Islamic organisation.

Page 569

006 AHRAR STARTS RIOTS It is the Ahrar which has touched off the mob action which has brought about the first, imposition of Martial law in Pakistan history.Martial law has thus far been applied only in Lahore, capital of the wheat- growing Punjab.most populous province of West Pakistan.It was imposed following a series of mob- killings, looting of post offices and shops, arson and disruption of communications.Ahrar is led by mullahs, Moslem priests.Pakistan was separated from India on the basis of the Moslem faith of its inhabitants and immigrants, and the mullahs have long sought a greater voice in direction of government.They have resented the western orientation and religious liberalism of government leaders of the dominant Moslem League party.As a stick to beat the government, they have seized upon the long-standing Ahmedi controversy.The Ahmadis, also, called Qadianis, are considered heretics by orthodox Moslems because they proclaim their founder, dead 40 years, as a true prophet.Orthodox Moslems believe Muhammad was the last of the prophets.Ahrar demands that the government declare the Qadianis to be a non-Moslem minority, placing them

Page 570

DDA upon separate electoral lists.They also demand removal from government of Sir Zafrullah khan, foreign minister and Pakistan's chief spokesman in the world area.Ahrar charges that Zafrullah has sponsored Qadiani infiltration of government posts.The Qadianis are a small group in Pakistan, numbering but a few hundred thousand.But, like other religious minorities, they are closely knit, successful in business and wealthy, owning newspapers, lands and business.To jealousy thus provoked among the less fortunate, especially in times of economic stress, is added resentment of the fact that Qadianis almost alone among Moslem sects, are an actively proselyting missionary group, using every possible means to propagate their faith.In their search for converts, Qadiani missionaries have gone to every part of the world, including most large cities of the United States.The Qadiani agitation is an issue which can be used to inflame large masses of the population, and demonstrations, some peaceful, some bloody, have occurred in the last few days, in all the large cities of West Pakistan.There are few Qadianis in East Pakistan.This capital is full of wildly varying interpretations of the Ahrar business, one of the weirdest being the Socialist contention that America is

Page 571

009 secretly backing the campaign against Sir Zafṛullah on the ground that the foreign minister is a supposed carrier of British influence.Most opinion here, however, is agreed that the communists have most to gain from the removal of Zafrullah and also from smearing the Qadianis.The sect is a pushing, progressive group with international connections and a strong paralled is drawn between persecution of Qadianis here and crackdown Jews in Russia.on the Author of this article is a former plain Dealer staff member who wrote for this paper from Asia in 1950 and 1951.He is now back in that area as special correspondent for News Week and other publications.

Page 572

07.کلیولینڈ پین ڈیلیر، ار مارچ ۱۹۵۳ء کمیونٹ پاکستان میں مذہبی یمین کو ہوا دے رہے ہیں (ڈبلیو - جی.ڈلدائن) کراچی ۱۶ مارچ.گذشتہ دو مفتیوں کی خونریز ہنگامہ انگیزی جو پاکستان میں سراسر مذہب کے نام پر کی گئی ، وہ اعلیٰ ترین سطح کے سرکاری افسران کی اس رائے کی تصدیق معلوم ہوتی ہے کہ کمیونسٹ ہمارے ملک کے مذہبی گروہوں کے نہایت متعصب اور محبت پسند عناصر کی شاطرانہ رہنمائی کر رہے ہیں اور یہ رخ ان مغرب زدہ ترقی پسند مسلم لیڈروں کو بہت پریشان کر رہا ہے جنہوں نے کہ اس ملک کی قسمتوں کی قیادت اس دن سے کی ہتہ جب سے یہ انڈیا سے بذریعہ تقسیم الگ ہوا تھا.آجکل پاکستان میں جسں کو لمبے عرصہ سے اس کی عبادت گزار آبادی اور ترقی پسند حکومت کی وجہ سے کمیونزم کے خلاف ایک قلعہ سمجھا گیا تھا کمیونسٹ دخل اندازی اور کمیونسٹ اثر پذیری اس صورت حال سے ایک نفرت انگیز اور نمایاں مماثلت اختیار کرتی جارہی ہے تہجد ایران میں گزشتہ تین سالوں میں انہوں نے پیدا کی تھی.دونوں ممالک میں کمیونسٹوں نے طلباء کی تنظیموں اور بعض دیوا نے مذہبی گروہوں کو استعمال کیا.دونوں ملکوں میں اُن کا مقصد یہ رہا ہے کہ بے اعتمادی پیدا کریں اور جغرا نیائی گرد موں خصوصاً گورنمنٹ کے لیڈروں کے درمیان نا چاتی پیدا کریں.ایران کے قاتلانہ فدایان اسلام جن کے لیڈر آیت اللہ کا شانی ہیں پاکستان میں اپنے مماثل عناصر رکھتے ہیں وہ گردہ احرار (سچے) اور جماعت اسلامی نہیں رحین کا مطلب سادہ طور پر اسلامی تنظیم ہے) احرار فسادات کو شروع کرتے ہیں یہ احرار ہی تو ہیں جنہوں نے عوامی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں تاریخ پاکستان کا پلا مارشل لاء نافذ ہوا.مگر تاحال یہ مارشل لاء صرف لاہور میں جاری ہوا ہے جو گندم اگانے والے

Page 573

041.پنجاب کا دارالسلطنت اور مغربی پاکستان کا سب سے زیادہ گنجان آباد صوبہ ہے.یہ مارشل لاء عام سلسلۂ قتل و غارت، لوٹ مار، ڈاک خانوں اور دکانوں کی لوٹ کھسوٹ آتش زنی اور مواصلات کے درہم برہم ہونے پر لگایا گیا.احرار کے لیڈر طلایعنی دینی پیشوا ہیں.پاکستان کو انڈیا سے اس لیے الگ کیا گیا کہ اس کے باشندے اور مہاجرین ایک جداگانہ مذہب یعنی اسلام کے پیرو کار تھے.اور کلی لوگ لیے عرصہ سے گورنمنٹ کی انتظامیہ میں دخیل ہونے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں.انہوں نے غالب مسلم لیگ کی گورنمنٹ کے لیڈروں کی مغرب نوانہ طرفہ حکومت اور مذہبی رواداری کی ہمیشہ سے مخالفت کی ہے جو ہر دلعزیز مسلم لیگ پارٹی کے لیڈروں نے شروع سے اپنائی ہے گورنمنٹ کو شکست دینے کے لیے بطور ایک چھڑی کے انہوں نے لیے عرصہ سے قائم پہلے آتے مسئلہ احمدی نزاع کا کھڑا کر لیا ہے.احمد می جن کو قادیانی بھی کہا جاتا ہے ان کو قدامت پسند مسلمانوں کے منہ سے مرتد کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا بانی جس کو فوت ہوئے ۴۰ برس بیت چکے ہیں " ایک سچا نبی ہے".قدامت پسند مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی تھے احرار کا مطالبہ ہے کہ گورنمنٹ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دے.اور ان کو جدا گانہ انتخابی فہرست پیر ڈال دے ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ سرمحمد ظفراللہ خان جو کہ وزیر خارجہ پاکستان اور اس ملک کے سب سے بڑے نمائندہ یا وکیل دنیا کے اکھاڑہ میں ہیں احرار نے الزام لگا یا کہ چوپی محمد ظفر اللہ نے قادیانیوں کو سرکاری ملازمتیں دلانے کی سر پرستی کی ہے.قادیانی پاکستان میں ایک مختصر گروہ ہیں جن کی تعداد چند لاکھ ہوگی مگر دوسری مذہبی اقلیتوں کی طرح وہ باہم گہرے طور پر متحد ہیں.وہ کاروبار میں کامیاب اور متمول ہیں.اخباروں ، زمینوں اور تجارت کے مالک ہیں.اس لیے کم خوش قسمت لوگوں کے اندر ان کی رقابت پیدا ہوئی خصوصا آج کل جبکہ معاشی دباؤ کا سامنا ہے پھر اس امر کا مزید غصہ بھی ہے کہ قادیانی صرف اکیلے ہی تمام مسلمانوں کے فرقوں میں سے ایک مستعد تبلیغی گروپ اور دوسروں کا مذہب تبدیل کروانے کا شغف رکھتے ہیں اور یہ لوگ ہر ممکن ذریعہ سے اپنے مذہب کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں.نیا مذہب تبدیل کرنے والوں کی تلاش میں قادیانی مبلغ مشمول

Page 574

۵۶۲ امریکہ کے بڑے بڑے شہروں کے دُنیا کے ہر حصہ میں پہنچے ہوئے ہیں.قادیانی ایجی ٹیشن ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو استعمال کر کے پاکستانی آبادی کے ایک کثیر حصے کو بھڑ کا یا جا سکتا ہے اور گذشتہ چند ایام میں مظاہر سے کچھ بامن اور کچھ خوزیز ) مغربی پاکستان کے تمام شہروں میں ہوئے ہیں.مگر مشرقی پاکستان میں بہت کم احمدی ہیں.(لا ہور کا دارالحکومت احراری مشغلہ کی درجہ بدرجہ مختلف کی جانیوالی توجیہات سے پر ہے جن میں سے ایک نہایت ہی پر اسرار توجیہہ وہ سوشلسٹ و عومی ہے جو امریکہ اس بناء پہ کہ سر محمد ظفر اللہ خان خفیہ طور بر طانوی اثر در مورخ کے حامل شخص ہیں پوشیدہ طور پر ان کے خلاف مہم چلا رہا ہے.تاہم اکثر آراء اس بات پر متفق ہیں.کہ کمیونسٹوں کو چوہدری ظفر اللہ کے مٹانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا.اور نہ ہی قادیانیوں کو داغدا رکرنے سے اُن کو کچھ فائدہ ہوگا.یہ فرقہ جدو جہد کرنے والا.ترقی پسند گروہ ہے.جو بین الاقوامی تعلقات رکھتا ہے.اور قادیانیوں کی اس ملک میں ایذا دہی اور روس میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم کے درمیاں قومی مشابت بتائی جاتی ہے.عالمی لٹریچر میں احمدیت کا ذکر ۱۹۵۳ء میں جماعت احمدیہ کو اس درجہ نمایاں حیثیت حاصل ہو گئی کہ مشرقی و عربی دنیا کے مفکرین ، مورخین اور اہل قلم شخصیتوں نے اس دور کے حوالہ سے تحریک احمدیت کا خصوصی ذکر کیا اور یہ ایک ایسی غیر معمولی بات تھی کہ اگر احمدی لاکھوں روپے بھی خرچ کرتے تو حاصل نہ ہو سکتی.اس ضمن میں چند ستحریرات کا ذکر کافی ہوگا.ا.بھارت کے ممتاز کشمیری مورخ جناب پریم ناتھ برانڈ نے اپنی کتاب رکشمیر میں جد جہد آزادی “Struggle for freedom in Kashmir” میں احراری تحریک کا ذکرہ بایں الفاظ کیا.

Page 575

۵۶۳ When the report of the Basic Principles Committee was published the religion-ridden and other bigoted Muslims of Pakistan felt jubilant at their success in having installed reaction on crest of politics in their country and also for having deprived non- Muslims of the fundamental right to get elected to the highest office in the State.Thus emboldened the reactionaries headed by mullahs started a campaign that the Ahmadis should also be declared as поп- Muslim and therefore a minority in Pakistan.That is an old demand of the orthodox mullahs.What is the sin that the Ahmadis have committed to deserve this punishment? They call themselves Muslims and have faith in the Quran, the Sunnah and the prophet.Only they hold that every age has its prophets and do not believe in the tenet that Mohammad was the last prophet that God had deputed for mankind.It is not for me to say what is right and what is wrong about this belief.But there can be no two opinions that in a democratic state every one has the right to believe in what he thinks true and proper.But for the triumphant mullahs and their violent followers it was enough to kick up trouble.In the beginning of 1953 Ahmadi.agitation gained momentum and gigantic proportions within weeks.20 anti- assum, d Having yielded before Mullahism while framing the Basic Principles Committee's Report became difficult for the Nazimud-Din Government to discountenance, much less suppress, this dangerous, vicious and anti-democratic agitation.Indeed, some responsible League leaders only fanned the flames of fanaticism by vehemently supporting the principle that "Mohammed is the last prophet" and any one who did not subscribe to this view could not claim to be a

Page 576

OYN Muslim.Not even one member of the ruling party had the courage to announce publicly that it was the birth right of everyone, including a Muslim, to disagree with any belief however sacred in the eyes of the Muslims."Politicians were playing with fire", stated Anwar Ali, Inspector-General of Police in West Punjab before the Court of Inquiry, "by arousing religious feelings of a fanatical population.All political parties, including the Muslim League, tried to make political capital out of the situation.No politician had the strength to say that the (public) demands were unreasonable; on the other hand they all placed themselves on the crest of an agitational wave.Politicians in this country do not consider any weapon too low." It is no wonder that the agitation took a most virulent and violent form.What carnage, what holocausts, and what destruction was wrought in the name of Islam in West Pakistan especially in the Punjab during those dark and terrible days of March and April.Hundreds of Ahmadis were looted, dozens of their villages were burnt, men and women were roasted alive and thousands were rendered homeless.There was a reign of terror for this small Muslim Community."What happened in Lahore and elsewhere in the Punjab should make us hang our heads down in shame", confessed Ghulam Mohammed, Governor General of Pakistan.Ultimately when the civil administration failed to deal with the disturbances Nazim-ud-Din Government was obliged to hand over the area to the army and impose martial law on it to restore normalcy.Just as the followers of Jan Sangh, Mahasabha and other Hindu Communal parties think that by adoption of a secular constitution for the country a great boon has been conferred on the Muslims in India,

Page 577

040 similarly there is a wide spread belief in Pakistan that by becoming non-communal in their outlook Pakistani Muslims would be putting their Hindu compatriots under great obligation.That is an unwarranted attitude.Secularism is primarily in the interests of all people and the majority community benefits from it the most.Without secularism democracy cannot flourish in modern times.The absence of secularism might harm the religious minorities first of all but it will not take long before, one after the other, different sections of the majority also fall prey to fanaticism and bigotry in the country.Many Pakistanis have now learned that lesson as a res 't of recent bitter experience.Had the Pakistan Government committed the fatal mistake of yielding before the anti-Ahmadi agitation fanatics would have demanded exclusion of other sections from the fold of Islam, till at last none but fanatics would be counted as Muslims.That would be the sure path to ruin and annihilation.The danger has not wholly vanished yet.So long as the idea of building a religious State is not totally abandoned the possibility of fanaticism raising its evil head will remain.It is for lovers of democracy to be fully warned about it.This so far as the basic principles of the Pakistan.Constitution are concerned.Has the country made any progress in other sphere? Struggle for Freedom in Kashmir, by Prem Nath Bazaz pp.602-604, Kashmir Publishing Company, Delhi, 1954.

Page 578

۵۶۶ جب بنیادی حقوق کی کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی تو پاکستان کے مذہب پرست اور دوسرے متعصب مسلمان اس امر پر بڑے خوش تھے کہ انہیں اپنے ملک کی سیاسیات کے سر پر رجعت پسندی ٹھونسنے میں بڑی کامیابی ہوئی ہے اور اس امر یہ بھی کہ انہوں نے اس طرح غیر مسلموں کو اُن کے اس بنیادی حق سے کہ وہ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے منتخب ہو سکتے ہیں محروم کر دیا ہے.اس طرح جرات پاکہ ان رجعت پسندوں نے جن کی راہنمائی ملاؤں کے ہاتھ میں تھی ایک یہ تحریک چلائی کہ احمدیوں کو بھی غیر مسلم قرار دے دیا جائے تاکہ وہ پاکستان کی ایک اقلیت قرار پائیں یہ تقلید پسند کلاؤں کا ایک پرانا مطالبہ ہے.احمدیوں نے بھلا کون سا قصور کیا ہے کہ انہیں اس سزا کا مستوجب قرار دیا جائے ؟ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں سنت اور رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم) پر یقین رکھتے ہیں.ان کا صرف یہ اعتقاد ہے کہ ہر زمانہ میں نبی ہو سکتا ہے اور وہ اس خیال کو رد کرتے ہیں کہ محمد رصلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں جو خدا تعالے نے بندوں کی راہنمائی کے لیے مبعوث کیے.یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں اس امر پر بحث کر دی کہ یہ اعتقاد کس حد تک درست یا غلط ہے لیکن اس بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ ایک جمہوری ریاست میں ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ در ہیں چیز کوحتی اور درست سمجھتا ہے.اس پر اعتقاد رکھے.لیکن کامیابی کے نشہ میں محصور ملاؤں اور ان کے تشدد پسند ساتھیوں کے لیے یہ بات ختنہ پیدا کرنے کے لیے کافی مخی.سر کے آغانہ میں احمدیوں کے خلاف ایجی ٹیشن شروع کی گئی اس نے زور پکڑنا شروع کر دیا اور چند مفتوں میں ہی وہ بڑی بھیانک صورت اختیار کر گئی.بنیادی حقوق کی کمیٹی کی رپورٹ مرتب کرتے وقت چونکہ ملاؤں کے انٹر کو قبول کر لیا گیا تھا اس لیے ناظم الہ دین کی حکومت کیلئے اس خطر ناک نظرت انگیز اور خلاف جمہورمیں بی ٹیشن کو دبانا تو الگ رہا اس کی مذمت کرنا بھی مشکل ہوگیا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض ذمہ دار لیگی لیڈروں نے تعصب کی اس آگ کو اس اصول کی بشدت تائید کر کے ہوا دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آخری نبی ہیں اور کوئی شخص جو اس نظر کی تائید نہیں کرتا وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا.حکمران

Page 579

پارٹی کے کسی ایک مہبر کو بھی یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ کھلم کھلا یہ اعلان کرے کہ بیشمول ایک مسلمان کے ہر شخص کا یہ پیدائشی حق ہے کہ وہ کسی بھی اعتقاد سے اختلاف کرے خواہ وہ مسلمانوں کی نگاہ ہیں کس قدر ہی مقدس کیوں نہ ہو.تحقیقاتی عدالت کے سامنے مسٹر انور علی انسپکٹر جنرل پولیس مغربی پاکستان نے یہ بیان دیا کہ سیاستدان آگ کا کھیل کھیل رہے تھے جبکہ وہ متعصب عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کر رہے تھے.تمام سیاسی پارٹیوں نے اور ان میں مسلم لیگ بھی شامل ہے اس امر کی کوشش کی اس صورت حال سے سیاسی رنگ میں فائدہ اٹھائیں کسی سیاستدان میں یہ جرأت نہ تھی کہ وہ کہتا کہ عوامی مطالبات غیر معقول ہیں.اس کے بر عکس سب نے اپنے آپ کو اس ہیجان خیز تحریک کی چوٹی پر بطور رہنما کے رکھنا پسند کیا.اس ملک کے سیاستدان کسی بھی حمدیہ کے استعمال کو رنا جائز و نا پسندیدہ نہیں سمجھتے نہ بناء برین یہ امر قابل استعجاب نہیں کہ اس تحریک نے بڑی ہلاکت آفرین اور شدید شکل اختیار کر لی.مارچ اپریل کے ان تاریک اور ہولناک ایام میں مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب میں اسلام کے نام پر بے حساب کشت و خون آگ سے اتلاف جان ہو اتنا ہی اور یہ باری روا رکھی گئی.سینکڑوں احمدیوں کو لوٹا گیا.ان کے درجنوں دیہات کو نذر آتش کیا گیا، مردوں اور عورتوں کو نہ ندہ جلایا گیا اور ہزاروں کو بے خانماں کہ دیا گیا.مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت کے لیے خوف وہراس کی فضا پیدا کر دی گئی - رسٹر) غلام محمد گورنر جنرل پاکستان کو بہ تقسیم کرنا پڑا کہ جو کچھ لاہور میں اور پنجاب کے دوسرے مقامات پر ہوا وہ ہمارے سروں کو ندامت سے جھکا دینے کے لیے کافی ہے" بالآ خرجوب سول انتظامیہ ان فسادات کو دبانے میں ناکام ہوگئی تو ناظم الدین حکومت اس امر پر مجبور ہوگئی کہ اس علاقہ کا نظم و نسق فوج کے حوالے کر دے اور اس میں مارشل لاء لگا دیا جائے تاکہ حالات محمول پر آسکیں.جس طرح جن سنگھ، مہا سبھا کے پیروکار اور دوسری ہند و فرقہ وارانہ پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ ملک کے لیے لادینی طرز حکومت اختیار کر لینے سے ہندوستان کے مسلمانوں پر ایک بہت بڑا احسان کیا گیا اسی طرح پاکستان می بھی وسیع طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر پاکستان کے مسلمان اپنے نقطہ نظر میں غیر فرقہ دارا نہ ہو جائیں تو وہ اپنے ہندو مہموطنوں پر بڑا احسان کریں گے یہ نقطہ

Page 580

AYA نظر قطعی طور پر غلط ہے.لادینی نظام بنیادی طور پر سب لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے اور اکثریتی فرقہ کو اس سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے.موجودہ دور میں جمہور بیت ، لادینیت کے بغیر پنپ نہیں سکتی ملک میں لادینیت کی غیر موجودگی سے بے شک ابتداء میں مذہبی اقلیتوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے لیکن بہت جلد اکثریتی طبقہ کے مختلف فرقے بھی یکے بعد دیگرے تعصب اور نا ہی جنون کا شکار ہو جاتے ہیں.بہت سے پاکستانیوں نے بھی تازہ تلخ تجربہ کے بعد یہ سبق اب سیکھ لیا ہے.اگر حکومت پاکستان احمدیوں کے خلاف چلائی گئی تحریک کے سامنے ٹھک جانے کی خطر ناک غلطی کر بیٹھتی تو مذہبی مجنونوں نے مطالبہ کرنا تھا کہ دوسرے فرقوں کو بھی اسلام کے دائرہ سے خارج کیا جائے.بیان تک کہ صرت ایسے جنونی ہی مسلمان سمجھے جاتے اور باقی سب خارج ہو جاتے.یہ تباہی اور بربادی کا یقینی راستہ ہوتا.یہ خطرہ ابھی تک پوری طرح ٹلا نہیں ہے.جب تک کہ مذہبی ریاست قائم کرنے کا تصویر مکمل طور پر ترک نہ کر دیا جائے گا.اس وقت تک تعصب کو اپنا پر فتن سر اٹھانے کا امکان باقی رہے گا.یہ سب آئین پاکستان کے بنیادی حقوق کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے لیکن کیا اس ملک نے دوسرے شعبوں میں بھی کوئی ترقی کی ہے.؟

Page 581

079 ۲.مسٹرڈ انٹر و لیبر (Donald Wilber) نے اپنی کتاب پاکستان (pakistan) میں پاکستان(Pakistan) جماعت احمدیہ کی نسبت لکھا :.Even in the case of the Qadianis, however, the hositility towards the Ahmadiyya Movement did not stem primarily from its theology but from its social aspects.It has a strong and closely knit organisation.With high corporate enthusiasm its members devote themselves to the service of the community.They strictly enforce purdah, encourage polygamy; have an ascetic morality that disapproves of all worldly indulgence; collect alms from their rich for their poor; have a very high literacy rate; find jobs for their members; and run their own mosques, courts, schools, and welfare institutions, for which they impose heavy taxes.In 1947 they were the best educated Moslem group native, to the area which became West Pakistan.As a result, they were drawn upon to fill many posts in the foreign ministry and other departments of the new government.The widespread belief that Ahmadiyya find all their members government jobs, give scholarships to all their university students, and care only about other Ahmadiyyas is certainly an exaggeration.Yet the strong internal cohesion of the group did involve external aloofness and it was this social exclusiveness a that brought about the antagonism between themselves and the rest of the Moslems.Submerged for while during the hight of Hindu-Muslim communalism, this social animosity was strong enough that after 1947 a semipolitical group, the Ahrars, could fan it into violence by focusing attention doctrinal differences mentioned above.on the "Pakistan" p.96-97 by Donald N.Wilber, HRAF Press, New Haven,

Page 582

02.در بہر حال قادیانیوں کے معاملے میں بھی دیکھا گیا ہے کہ احد یہ تحریک سے جو عداوت پائی جاتی ہے وہ بنیادی طور پر اس کے دینی عقائدہ کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس کے بعض معاشرتی پہلوؤں کی وجہ سے تھی.احمدیہ تنظیم بڑی مضبوط اور مربوط ہے اس کے ممبران اس بلند مقصد کی خاطر پورے جوش سے اپنی جماعت کے لیے وقف ہیں.وہ سختی سے پردہ کے پابند ہیں.کثرت ازدواج کے حامی ہیں نہ اہدانہ اخلاقیات کے حامل ہیں اور درنیومی آسائشوں سے لطف اندورنہ ہو کر رہ جانے کو پسند نہیں کرتے.وہ اپنے امراء سے چندہ لے کہ اپنے عزباء پر خرچ کر دیتے ہیں ان میں خواندگی کی شرح بہت اونچی ہے وہ اپنے ممبران کے لیے روزگار فراہم کرتے اور اپنی مہماجد - عدالتیں.سکول اور یہ فاہی امرارہ سے خود چلاتے ہیں جس کے لیے وہ اپنے ممبران پر بھاری ٹیکس لگاتے ہیں.۱۴ ء میں رہ اس علاقہ میں جو بعد میں مغربی پاکستان کہلایا.عرب سے سے بہتر تعلیم یافتہ اسلامی گروہ سمجھے جاتے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ وزارت خارجہ میں کئی اسامیوں پر تعینات کیے گئے اور نئی گورنمنٹ پاکستان کے کئی دوسرے محکموں میں بھی ان ول کی خدمات سے فائدہ اُٹھا یا گیا " یہ ایک عام خیال ہے کہ احمدی لوگ اپنے تمام ممبران کے لیے سرکاری ملازمتیں ڈھونڈ کر ان کو دلواتے ہیں اور اپنے تمام یو نیورسٹی طلبا کو وظائف دیتے اور صرف احمدی احباب کی ہی غور و پرداخت کرتے ہیں.یقیناً یہ ایک بہت مبالغہ آمیز خیال ہے.تاہم اس گردہ کا اندرونی طور پر مضبوط اتصال بیرونی لحاظ سے ان کے بیکار تنہا رہ جانے کا موجب بن گیا.چنانچہ معاشرتی لحاظ سے ان کا الگ تھلگ رہ جانا اُن کے اور بانی مسلمانوں کے درمیان دشمنی کو بروئے کار لایا.ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کی انتہائی تباہ کاریوں کے دوران گو یہ دشمنی تھوڑی دیر کے لیے دب گئی تھی لیکن ۱۹۲۶ ء میں تقسیم ملک کے بعد یہ معاشرتی عناد اتنا بڑھ گیا کہ ایک نیم سیاسی گردہ یعنی احرار نے اس عناد کو با آسانی ہوا دیگر عام دنگا فساد " میں بدل دیا اور عوام کی توجیہ کو عقائد کے محولا بالا اختلافات پر مرتکز کر دیا.

Page 583

061 نے اپنی کتاب (پاکستان) - برطانیوی مؤلف مسٹر ایان سٹیفنز (lan Stephens) Rakistan میں لکھا :- Serious anti-Ahmadi rioting raged for days in Lahore in March 1953, necessitating imposition of martial law.In part, this complex episode had little really to do with disapproval of the Ahmadis' doctrines, and was a political side-wind from the controversy then blowing in Karachi over the federal shape, and Islamic flavour, of Pakistan's proposed new Ahmadis however are a vigorous lot.active in proselytising; and much of the contemporary Muslim religious propaganda which Christian missionaries, not very successfully, find themselves struggling against outside Asia in Africa, for instance is of Ahmadi derivation.Constitution.Pakistan by Ian Stephens, London: Ernest Benn Limited P.59, 1963.

Page 584

مارچ ۱۹۵۳ء میں شدید اینٹی احمدیہ فسادات لاہور میں کئی روز تک بڑھتے چلے گئے جو مارشل لاو پر منتج ہوئے.یہ پیچیدہ صورت حال لحضن احمدیوں کے عقائد کے ساتھ نارا مثل کی بناء پر ہرگز نہ ناراضگی ستی بلکہ در اصل یہ ایک یک طرفہ سیاسی رو متقی اس بحث کے متعلق جو کراچی میں چل رہی تھی کہ در فاقی نظام کی شکل کیا ہو.اس کو اسلامی رنگ میں کیسے سمویا جائے اور پاکستان کے مجوزہ نئے آئین کی نوعیت کیا ہونی چاہیئے.احمدی ایک مستعد گروہ ہیں جو تبلیغ میں ماہر ہیں.اور موجودہ زمانے میں مندین مسلمانوں کا اکثر و بیشتر پراپیگنڈا جس کا مقابلہ عیسائی مبلغین کو ایشیا کے باہر مثلاً افریقہ وغیرہ میں در پیش ہے احمدیہ فرقہ ہی کی طرف سے کیا جاتا ہے.حرف آخر ال آخر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سہ کے بھاری ابتلاء کی ایک عظیم الشان برکت یہ بھی بھی کہ اس کے نتیجہ میں احمدیوں کی بے مثال اخلاقی قوت اور بلند کیریکٹر کا سکہ اپنوں اور بیگانوں پر بیٹھ گیا.لہ کے فسادات کے موقعہ پر سمندری رضلع فیصل آباد) سے دو مولوی صاحبان بھاگ کر کوئٹہ پہنچے اور کئی بڑے لوگوں کے پاس پناہ کے لیے گئے کیونکہ مارشل لاء کی طرف سے ان کے دارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے تھے.مگر کسی نے ان کو پناہ نہ دی.آخرو، ایک احمدی ٹیچر ماسٹر عبدالحلیم صاحب کے پاس آئے.انہوں نے انہیں اپنے مکان پر ٹھہرایا اور خوب خاطر و مدارات کی.مولوی صاحبان نے احمدیت کے خلاف بھی باتیں کیں.ماسٹر صاحب نامونٹی سے سنتے رہے.دوسر سے روز ان مولویوں نے لوگوں سے، ذکر کیا کہ ہیں توماسٹر صاحب نے پناہ دی ہے جبکہ باقی مسلمان علماء اور امراء ہمیں پناہ دینے سے ڈر گئے.لوگوں نے ان مولویوں کو بتایا کہ ماسٹر صاحب تو قادیانی ہیں.مولوی صاحبان بہت شرمسار تھے.اور رات کے کھانے پر ماسٹر صاحب سے جھینپتے ہوئے کہا کہ ہم نے بڑی زیادتی کی ہے مگر آپ نے نہایت اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دیا.اگلے روز انہوں نے مسجد

Page 585

میں اعلان کیا کہ اس شہر میں فلاں ماسٹر صاحب حقیقی مسلمان ہیں.اس پر عوام ان کے مخالف ہو گئے ہنگامہ کے خطرہ کے پیش نظر انہیں قید کر دیا گیا.پھر ماسٹر صاحب نے انہیں چھڑایا.اور وہ مولوی صاحبان آزاد علاقہ کی طرف چلے گئے.لے وہلی کے غیر مسلم صحافی سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے انہی دنوں اپنے اخبار ریاست میں جماعت احمدیہ کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا: - " آج احمدیوں کے خلاف پنجاب میں بالکل دہی کچھ ہو رہا ہے جو ء میں وہاں سکھوں اور ہندوؤں کے خلاف ہوا تھا.جو لوگ احمدیوں کے مذہبی کیریکٹر اور اُن کے بلند شعار سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر دنیا کے تمام احمدی ہلاک ہو جائیں ، ان کی تمام جائیداد لوٹ لی جائے.صرف ایک احمد می زندہ بیچا جائے اور اس احمد می سے یہ کہا جائے کہ اگر تم بھی اپنا مذہبی شعار تبدیل نہ کرو گے تو تمہارا بھی.یہی حشر ہوگا تو یقینا زندہ رہنے والا یہ واحد احمدی بھی اپنے شعار کو نہیں چھوڑ سکتا.یہ مرنا اور تباہ ہونا قبول کرے گا " سے ے ماہنامہ الفرقان بوه ستمبر اره منم کے اخبار "ریاست وہلی ۱۶ مارچ ۵۳ ص

Page 586

ضمیمہ جات تاریخ احمدیت جلد شانه دهم)

Page 587

۵۷۵ ضمیمہ نمبرا شہدائے احمدیت (۱۹۵۳ء) کرم ماسٹر منظور احمد صاحب مدرس باغبانپوره لاهور د مارچ ۱۹۵۳ ۲- مکرم محمد شفیع صاحب پر مادرائے مغلپورہ - لاہور - ۶ ر مارچ ۱۹۵۳ -- مریم جان محمد صاحب طالب علم تعلیم الاسلام کالی بھائی گیٹ لا محمد اور مار تا ۱۹۵۳ -- مکرم مرزا کریم بیگ صاحب فلیمنگ روڈ - لاہور - ۶ ر مار په ۱۹۵۳ -٥ - کرم حوالداله عبد الغفور صاحب ولد اپنی منشی صاحب لاهور در مارچ ۱۹۵۳ء A 4.لاہور کے ایک علاقہ میں ایک احمدی عطار ۱۸ مارچ ۱۹۵۳ - نام معلوم نہیں ران کے علاوہ مولوی عبدالحکیم صاحب صدر جماعت احمدیہ گنج مغلپورہ کی بوڑھی والدہ جو غیر احمدی تھیں نہایت بے رحمی سے قتل کر دی گئیں)

Page 588

-4 لاہور ضمیمہ نمبر ۲ اسیران راه مولی (۱۹۵۳ء) حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب (خلف الرشید حضرت مسیح موعود) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر سپیل تعلیم الاسلام کالج لاہور مرزا مظفر احمد صاحب ر ابن مرزا قدرت اللہ صاحب) محمد بشیر صاحب زیر دی.- محمد صالح صاحب -.محمد يحيا صاحب.۱۷ ملک برکت علی صاحب.- حکیم سراجدین صاحب.ریوه 4 - ملک عبدالرب صاحب ۱۰- جناب ملک محمد عبد اللہ صاحب ناضل کارکن نظارت تصنیف دا شاعت ربوه ضلع سیالکوٹ ۱۱- چو ہدری فضل الہی صاحب ملیا نوالہ ننز و ڈسکہ سیالکوٹ

Page 589

۱۲ شیخ عبدالرحمن صاحب وکیل.محمد رفیق صاحب جراح - ۱۴ مستری ابراہیم صاحب.ضمیمہ نمبر ۳ مقامی جماعتوں کے کوائف بھیجوانے والے احباب ذیل میں مغربی پاکستان کے ان مخلصی کی ایک فہرست دی جاتی ہے جنہوں نے ۱۹۵۲ء کے پر آشوب زمانہ میں مرکز احمدیت کو مقامی احمدیوں کے حالات و کوائف سے باخبر رکھا اور جن کی رپورٹیں سید نا حضرت مصلح موعود یا سلسلہ احمدیہ کے مرکزی اداروں کو موصول ہوئیں.ضلع راولپنڈی ا بابو اللہ بخش صاحب جماعت احمدیہ راولپنڈی.۲.جناب میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی.- قاضی بشیر احمد صاحب بھیٹی کشمیری بازار راولپنڈی.۴.چوہدری بشیر احمد صاحب پسر چوہدری فقیر محمد صاحب مرحوم راولپنڈی.- - پیر انوار الدین صاحب راولپنڈی.- محمد عالم صاحب ڈھوک رتہ راولپنڈی شہر.خواجہ غلام نبی صاحب گلکار راولپنڈی.- سید اعجاز احمد شاہ صاحب مقیم راولپنڈی انسپکٹر بیت المال راولپنڈی دی (حلف سرحد - و اضلاع ، جہلم، راولپنڈی ، کیمبل پور ، میانوالی)

Page 590

- غلام احمد صاحب پریذیڈنٹ چنگا بنگیال تحصیل گوجرخان ضلع گوجرانوالہ ۱- میرمحمد بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع گوجرانوالہ - 1 F.- A - - میاں غلام احمد صاحب امیاں نصیر احمد صاحب سوداگران چرم و زیر آباد شیخ نیاز محمد صاحب پینشنز انسپکٹر پولیس گوجرانوالہ.- محمد علی صاحب مانگٹ دینے سے.شریف صاحب کشمیری گلی گوردوارہ گوجر انواله - میاں جھنڈا خاں صاحب پریذیڈنٹ مچھلو کی براستہ قلعہ دیدارسنگھ - - بشیر احمد صاحب سیکریٹری مال مبارک احمد صاحب ناصر سابق دبیاتی مبلغ ترگڑی سکے گونه ۹ - محمد الدین صاحب قائد خدام الاحمدیہ درسیکرٹری دعوت و تبلیغ تر گڑی.۱۰ - غلام رسول صاحب دیہاتی مبلغ مدرسہ چھٹہ ڈا کھانہ کوٹ ہر ضلع گوجرانوالہ.- صیاء الدین صاحب پریذیڈنٹ حافظ آباد -۱۲- مولوی محمد حسین صاحب عربی میجر کی شیر سنگھ آبادی حاکم رائے گوجرانوالہ.۱۳ - چه پدری ظفر علی صاحب پر یذیڈنٹ، جماعت احمد یہ گھڑ.-۱۴- چوہدری محمد حسین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ بھڑی شاہ.۱۵ - محمد عبداللہ صاحب باجوہ پریذیڈنٹ، جماعت احمدیہ کا مونکی.سے آپ اور مارچ ۱۹۵۳ء کو موضع مانگٹ سے بذریعہ سائیکل رادہ آئے تامرکز کے حالات کا پتہ کریں اور مقامی جماعت کے کوائف مرکز تک پہنچائیں.کے اس جماعت کی طرف سے ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء کو عطاء الرحمن صاحب آن اوردھو وال بطور نمائندہ دیره ہ پہنچے اور حالات سے مطلع کیا.

Page 591

۵۷۹ - نصر اللہ خاں صاحب سیکرٹری مال انجمن احمد یہ تولیکی -.۱۷- چوہدری محمد شریف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ فیروزوالا ۱۸ - سچو ہدری فضل احمد صاحب با جودہ کوسٹ عنایت خان تھانہ صدر وزیر آباد ضلع سیالکوٹ خارم عسلی صاحب نائب پریذیڈنٹ جا دست احمد یہ کلاس والا تحصیل پسرور ۲.ماسٹر مولی دراد صاحب پریذیڈنٹ شہزادہ ڈاکخانہ خاص براستہ چونڈہ غلام فرید صاحب پریذیڈنٹ چک دھار و دالی.- عنایت اللہ صاحب امیر جماعت بہلولپور ضلع سیالکوٹ میاں محمد ابراہیم صاحب عابد نائب امیر حلقہ امارت ڈسکہ ملک سراج الدین صاحب سمیٹریال خواجہ محمد امین صاحب ۸ - سید نذیر حسین صاحب گھٹیالیاں.A ۹ - ڈاکٹر شیر محمد عالی صاحب صدر بازار سیا لکوٹ چھاؤنی سیالکوٹ -١٠- عبد الحمید بٹ صاحب سیکرٹری مال نارووال.غلام رسول صاحب پریذیڈنٹ موضع سلدیاں تھا نہ تار دوال ۱۲ - میر محمد ابراہیم صاحب پنشنز پر یذیڈنٹ و سیکرٹری مال جماعت احمدیہ پر در ۱۳ - بالجو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ ۱۴ محمد ابراہیم صاحب سیکرٹری مال ویر و والہ -10 حکیم اللہ دتہ صاحب امیر جماعت احمدیہ در گانوالی ۱۶ - سرور محمد خاں صاحب - 16 - عبد الحمید صاحب بٹ سیکرٹری مال جماعت احمدیہ نار دوال ۱۸ - مسعود نصر اللہ خاں صاحب سیکرٹری امور عامہ ڈسکہ.

Page 592

۱۹ چوہد می دین محمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت چھوڑ منہ ۲۰ - ماسٹر محمد شریف صاحب میانوالی خانانوالی.۲۱ - عنایت اللہ خان صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ دھرگ ۲۲ - عبد الغفور صاحب ظفر دال - ۲ - محمد نصیر احمد صا حب امیر جماعت احمدیہ کھیوہ باجوہ مرزا غلام نبی صاحب پورن نگر سیا لکوٹ.- - حکیم مرزا محمد حیات صاحب سیکر ٹی وصایا وصدر حلقہ واٹر ورکس سیالکوٹ.۲ - محمد منیر صاحب ڈوگریاں ہریاں ڈاکخانہ خاص تحصیل پسرور ۲۰ - بشیر احمد صاحب -YA چوہدری غلام غوث صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ترسه تحصیل ڈسکہ ۲۹ - خورشید عالم صاحب عزیز پور ڈگری ٣٠ - عبد الغنی صاحب عبد قائد مجلس خدام الاحمدیہ کلا سوالہ فیروز الدین صاحب امرتسری انسپیکر تحریک جدید رفتیم سیالکوٹ) ۳۱ - فریشی نورالحسن صاحب سیکرٹری مال جماعت احمد یہ کوٹلی سر نرائن ڈاکخانہ پیر و میک L -1 چو ہدری محمد انور حسین صاحب ایڈووکیٹ ایر ضلع شیخوپورہ غلام اللہ صاحب اسلم سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ سید والا چوہدری منظور حسین صاحب امیر جماعت احمد یہ سانگلہ ہل جو ٹھیک ۱۷ محمد نذیر صاحب پیچیکی.قاضی عبد الحمید صاحب احمدی سیکر ٹری مال کوٹ رحمت خاں ۶ - محمد اسماعیل صاحب چهور چک ۴۵ - محمد شفیع صاحب ننکانہ صاحب.

Page 593

DAI A A شیخ محمد علی صاحب انبالوی منڈی چوہڑ کا نہ - شیخ محمد عبد اللہ صاحب دار برشن احمد دین صاحب پٹیالہ دوست محمد - - H ۱۲ شیخ محمد بشیر صاحب آزاد انبالوی رائس ڈیلر منڈی مرید کے غلام سرور صاحب قائد خدام الاحمدیہ چک 19 پچھا ہے والی ۱۳ - عمر دین صاحب امیر جماعت احمدیہ کو جمہ ڈاکخانہ چوہر کا نہ ۱۴ - سید لال شاہ صاحب امیر جماعت احمدیہ وارد بر من ۱۵- محمد صادق صاحب چک ۱۷ بہوڑو.١ - فضل حسین انسپکٹر تحریک جدید مقیم سید والا شیخ گلزار احمد صاحب پٹواری شیخو پوره 14 - 16 -11 مولوی مہر الدین صاحب مبلغ دعوت و تبلیغ بھینی شهر قصور ۱۹ قاضی بشیر احمد صاحب جنرل سیکرڑی مجلس خدام الاحمدیہ شیخو لوید.فضل الدین صاحب احمدی دکاندار موضع سر یا نوالہ - ضلع لائلپورنے ا.حضرت شیخ محمد احمد صاحب منظر امیر جماعت احمد یہ ضلع لائلپور تے ۲- مولانا محمد اسماعیل صاحب دیا لگڑھی مبلغ جماعت احمدیہ لائلپور ۳.اقبال حسین صاحب ہیڈ ماسٹر ڈی بی ہائی سکول ٹوبہ ٹیک سنگھ -۴- محمد حسین صاحب چک نمبر 41 گ ب ڈاکخانہ خاص تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ - عبد العزیز صاحب اثر ہتی پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گوجره - غلام حسین صاحب پریذیڈنٹ کرتار پور چک نمبر ه ای له سه حال فیصل آباد ۶۶۹ گر

Page 594

DAY -A حکیم خوش محمد صاحب سیکر ڈی مال کر تار بود چیک نهر ها حکیم رحیم بخش صاحب مبلع لاٹھیا نوالہ نمبر ۱۹۹ منشی خدا بخش صاحب چک نمبر ۳۶۷ جلیا نوالہ R.D ۱۰ - نعمت اللہ صاحب پٹواری حال چک نمبر ۲۴۳ گ اب براستہ ماموں کانجوی -11 علی احمد صاحب سیکرٹری مال چک نمبر ۶۴۴ ۱۲- محمد جعفر صاحب مدرس بگھرال ساکن ڈھومپال نعمت خان صاحب ریٹا ڈ ڈسٹرکٹ سیشن بج چک ۲۳۰ رکھ برانچ ۱۴- محمد دین صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ چک ۵۶۴ تحصیل جڑانوالہ عنایت اللہ صاحب امیر جماعت احمدیہ پہلو لیپور ۱۶.خواجہ محمد احمد صاحب مسلم شراکت جڑانوالہ ۱۷- عبد المجید خاں صاحب سمندری 16.1 شیخ محمد یوسف صاحب بہت فضل لائلپور ۱۹.منشی بشیر احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک ۹۶ گرب ۲۰، غلام رسول صاحب سیکر ڈی جماعت احمدیہ چک ۲۰۹ تحصیل سمندری -۲۱ - محمد مشتاق صاحب چک نمبر ، اگ رب براسته تاندلیانوالہ ۲۲- عبد الرحمن صاحب چک ۵۰ ج رب سٹھیالہ ضلع لائلپور ۲۳.حاکم علی صاحب پریذیڈنٹ چک ۵۵ ۵۶ گر رب تحصیل جڑانوالہ ۲۴- فتح محمد صاحب سندھ ویجی ٹیبل آئل کمپنی ٹینڈ گرجرہ ۲۵- محمد شریف صاحب جڑانوالہ ۲۶.ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم جلیانوالہ ڈا کھا نہ گوجرہ محمد مشتاق صاحب چک نمبر ، اگ رب رام سنگھ والی براسته تاندلیانواله 114 ۲۸ نجات احمد صاحب پریزیڈنٹ گوالہ ۲۹ بشیر احمد صاحب سیکہ ڈی مال چک ۱۹۵ جنڈا نوالہ

Page 595

DAr.ڈاکٹر محمد انور صاحب پریذیڈنٹ جڑانوالہ ۳۱- غلام محمد صاحب چک ۲۳۸ گ ب - بھر تھے ڈاکخانہ تاندلیا نوالہ ۳۲- چوہدری مردارخان صاحب پر یذیڈنٹ کتھو والی چک ۲۱۲ ج رب عبد الحی صاحب آرین مرچنٹ منڈی بازار تا ندر لیا نوالہ منڈی ۳۴- مولوی بشیر احد صاحب زاہد.لال دین کا کر دار احمد صاحب TALWATANT NOT گھسیٹ ! ۳۵- انو راحمد صاحب سیکرٹری مال جماعت احمد چک نمبر ضلع فیصل آباد ۳.محمد یعقوب صاحب جنرل سیکر ٹی جماعت احمدیہ چک نمبر ۱۲ ج ب گو کھو دال..بشیر احمد صاحب سیکرٹری مال چک ۱۹۵.رکھ جنڈا والا -۲- عبد الرحمن صاحب پریذیڈنٹ چاک ۴۶۹ تحصیل سمندری ۹ - عبد الغنی صاحب صراف منڈی پیر محل م - محمد حسین خان صاحب سیکرٹری امور عاصمہ جڑانوالہ ۴۱- رشید احمد صاحب سامی سیکرٹری جماعت احمدیہ قادر آباد چیک نمبر ہی سے براستہ گوجره - غلام محمد صاحب چک ۴۳۸ سم - نور محمد صاحب پریذیڈنٹ چک شیر کا.۴۴ - عبد الحمید صاحب پریذیڈنٹ جماعت دنجوان نذیر احمد صاحب سیکریٹری مال چک نمبر 11 ضلع جھنگ شیخ محمد حسین صاحب پینشنر قائمقام امیر جماعت احمدیہ چنیوٹ -- جمال الدین احمد صاحب چنیوٹ ومه عطاء اللہ خان صاحب - عبد الکریم صاحب سبیکہ لڑی امور عامه چنیوٹ چوہدری عبد الغنی صاحب امیر جماعت احمد یہ جھنگ

Page 596

DAY میاں محمد بشیر احمد صاحب ایجنٹ اسٹینڈرڈ آئل کمپنی جھنگ -- سراج الدین صاحب فضل سٹریٹ مگھیا نہ مولوی عبد الرحیم صاحب عارف مگھیانہ A - عبدالرحمن صاحب محامد گوہر شاہ جھنگ مگھیا نہ ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ لالیاں ۱۱- مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ احمد نگر.-1 ماسٹر غلام حیدر صاحب سپر نٹنڈنٹ مدرسہ احمدیہ احمد نگر مولوی ظفر محمد صاحب استاذ مدرسه احمدیه " حکیم عبد الرحمان صاحب شمس کسیکه نرمی جماعت احمدیہ شور کوٹ شہر ضلع لاہور شیخ بیشتر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور صاحبزادہ مرزا منظفر احمد صاحب لاہور ریاست بہاولپور ا چوہدری خورشید احمد صاحب لیاقت پور امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع رحیم یار خاں شیخ اقبال الدین صاحب امیر جماعت احمد به بعاد لنگر ۳.رحمت علی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک نمبر شد ضلع رحیم یارخاں عزیز محمد خاں صاحب سپر نٹنڈنٹ دفتر چیف انجینر بہاولپور چوہدری فرزند علی صاحب صادق نائب امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع رحیم بادخال.کوٹ فرزند علی ضلع رحیم یارخان میر احمد صاحب سیکرٹری مال چک نمبر 2 منڈی بارون آباد ضلع بہاولنگر غلام قادر صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ چک نمبر نیا ڈاکخانه فقیر والی ضلع بہاولنگر

Page 597

۵۸۵ - محمد عبد اللہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کوٹ فرزند علی ضلع رحیم یارخاں صوبہ سندھ حضرت صوفی محمد رفیع صاحب (ریٹائرڈ) ڈی ایس پی سکھر ۲- مولانا غلام حسین صاحب ایاز سابق مجاہد احمدیت سنگا پور مبلغ سلسلہ کنزی قریشی عبد الر حمن صاحب ٹیچر ریلوے ہائی سکول سکھر فضل الرحمن صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ سانگھڑ فضل الدین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ناصر آباد اسٹیٹ.شیخ احمد دین صاحب پر اونشنل سیکرٹری تبلیغ سندھ کزی ملک عنایت اللہ صاحب سیکرٹری تعلیم وتربیت بدین - ملک بشیر احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ جیکب آباد سندھ چوہدری عنایت الرحمن صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ٹنڈوالہ یار ۱۰ - سلطان احمد صاحب سیکرٹری مال جماعت گوٹھ مولا نخش مضلع نواب شاہ سندھ ۱۱ - محمد عثمان صاحب ہمیں آباد -11 - حضرت حکیم محمد موحصیل صاحب کمال ڈیرہ سندھ صوبہ سرحد ۱ - حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ہوتی مردان امیر جماعت احمدیہ سرحد -- شہاب الدین صانعیر جماعت احمدیه مردان غلام سرور خان صاحب بالاکوٹ سہزارہ 1 - مولوی عبد الکریم صاحب پشاور - سید عبدالرحیم شاہ صاحب بھنگاہ تحصیل مانسہرہ -4 محمد احمد خان صاحب ولد خان میر صاحب افغان مثل ضلع کوہاٹ -4

Page 598

۵۸۶ ^ ۷- پیر محمد نه مان شاہ صاحب مانسہرہ - ریٹائرڈ صوبیدار سلیم اللہ صاحب رسلیم برادرند) نوشہرہ و عبد اللطیف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ دانہ (ہزارہ) ۱۰- محمد علی صاحب در رانی وکیل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چار سدہ

Page 599

DAL نمیمه نمبر ۴ دفتر اطلاعات سے متعلق بعض مراسلات -- ارشاد حضرت مصلح موعود از قلم حض رسیده ام متین مها دفتر اطلاعات کل بھی کچھ خط بھجوائے تھے ان کے متعلتی ہدایت ہے کہ پڑھ کر پھر متعلقہ دفاتر میں کھجوانے کہ ہیں کیونکہ جواب انہوں نے بھیجو انے ہیں نیز کوئی ہر اس پھیلانے والی خبر نہ بھیجوائی جائے.بسم الله الرحمن الرحیم محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم سیدنا حضرت خلیفة المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ال نام علی کم درحمه الله و بركاته منسلکہ بلیٹن تو ایسا ریکارڈ ہے جس میں سے عند الضرورت حکام صوبائی (ہوم سیکری.آئی جی) اور مرکزی حکام (پرائم منسٹر.وزیر داخلہ اور وزیر اعظم اور چوہدری محمد ظفر اللہ خالصاحب) کو حضور کی ہدایت کے ماتحت چھٹی لکھتے وقت اس سے ضروری اقتباس حاصل کرنا ہے یہ جماعتوں کے لیے مقصود نہیں.بلکہ اس سے ضرورت کے مطابق معلومات اخذ کرتی ہیں اور اسی عرض کے لیے اس کی آٹھ نو کا پیاں کروائی گئی ہیں.مولوی دوست محور ، سب یہ حضور کو دکھا چکے ہیں.اطلا عا عرض ہے..اس تعلق میں اختلاف اس بات پر ہے کہ حکام سے خط و کتابت نظارت، امور عامہ کرے گیا نہ کہ کوئی اور نظارت.

Page 600

۵۸۸ چوہدری اعجاز نصر اللہ صاحب کو بلا کر ان سے تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور یہی صورت مناسب ہے کہ ایسی اطلاعات دفتر میں بطور ریکا رڈر ہیں گی.عند الضرورت حکام کے ساتھ خط و کتابت کرتے وقت مناسب اقتباس وہ لے لیں گے.اس تعلق میں دریافت طلب یہ امر ہے کہ آیا یہ اطلاعات کا ریکارڈ مولوی دوست محمد صاحب کے پاس رہیگا یا نظارت امور عامہ کے پاس.اعجازہ احب کا خیال ہے کہ یہ ریکارڈ مولوی دوست محمد صاحب کے پاس رہے.اور وہ عند الضرورت ان سے لے لیں گے.جہاں تک مجھے یاد ہے حضور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حکام کو ساتھ کے ساتھ مظالم کے متعلق اطلاعات دی جاتی بھی ضروری ہیں اندرین صورت نظارت امور عامہ کی طرف سے بذریعہ چھٹی حکام کو ساتھ کے ساتھ لکھا جانا چاہیئے.١٩/٣ والسلام.خاکسار (دستخط حضرت سید زین العابدین دلی اللہ (شاہ صاحب) - ۳ - ۱۲ ایڈیشنل ناظر اعلی » بسم الله الرحمن الرحيم کرمی مولوی دوست محمد صاحب فاضل السلام عليكم ورحمة الله آج تقسیم کار کے متعلق حضرت صاحب نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ امور متعلقہ بنگال دیعنی جن امور کا بنگال پر اثر پڑتا ہو) وہ خطوط میں سے نقل کر کے مولوی جلال الدین صاحب شمس کو بھجوایا جایا کریں اور وہ امور جن کا ملک کے نظم و نسق پر اور مرکزی حکومت پر اثر پڑتا ہے اور ان کے ساتھ تعلق ہے وہ خطوط میں سے نقل کر کے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ کو بھجوائے جایا کریں اور اس کے علاوہ عام امور جو جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور انہیں ہوشیار کرنے یا ان کی ہمت افزائی وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ نقل کر کے مید ولی اللہ شاہ i ----

Page 601

DAQ شاہ صاحب کو بھجوائے جائیں تاکہ یہ سہرسہ اصحاب اپنے اپنے دائرہ میں مناسب کارروائی کر سکیں اور ریکارڈ بھی رکھ سکیں.19/F والسلام خاکسار رو تحظ) مرزا بشیر احمد ناظر اعلیٰ " ١٩/٣/٥٣ بسم الله الرحمن الرحیم مکریمی مولوی دوست محمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ آئندہ ابتدائی خطوط مرتب کرنے میں جہاں اس بات کو نوٹ کیا جائے کہ فلاں جگہ افسروں کا رویہ اچھا نہیں رہا وہاں لاز گا اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ اگر کسی جگہ افسروں کا رویہ اچھا رہا ہو تو اس کا بھی ذکر کیا جائے تاکہ دونوں پہلو آ جائیں یعنی نقص کا پہلو اصلاحی غرض سے اور تعریف کا پہلو ہمت افزائی اور شکر گزاری کے لحاظ سے.آئندہ اس ہدایت کو ضرور مد نظر رکھیں.والسلام (دستخط) مرزا بشیر احمد a ۱۶/۳/۵۲ ناظر اعلی ، ۹۲۲۷ D/P بسم الله الرحمن الرحیم مکریی مولوی دوست محمد صاحب تحدة وتصلى على رسوله الكريم السلام علیکم در رحمتہ اللہ و رحمة الله وبرکاته حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آئندہ سے آپ کے ! دفتر کا نام دفتر " ریکارڈ ہوگا دفتر اطلاعات نہیں ہوگا.

Page 602

۱/۳/۵۳ ۵۹۰ خاکسار عبد الرحمن انور پرائیویٹ سیکرٹری ۰۲۰/۳/۵۳ حضرت خلیفة المسیح الثانی کریم مولوی دوست محمد صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته جہان خاں صاحب کے ایک خط کا اقتباس جس کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا ہے روزانہ خطوط میں یہ مضمون جائے یا نقل کر کے آپ کی خدمت میں ارسال ہے ۲۱/۳/۵۳ والسلام ردستخط) مرز البشير احمد ناظرا علی صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوه نقل اقتباس خط جهان خان صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ چک نمبر 9 شمالی ضلع سرگودہا منڈی بھلوال چک نمبر 9 شمالی سے پر امیل کے فاصلہ پر ہے وہاں تین چار دکاندار مودودی.جماعت کے ہیں ان کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی جماعت کو باقاعدہ چندہ وغیرہ دیتے ہیں گر یہ لوگ منافق طرز کے ہیں ہم اور باتیں بھی معلوم کرنے کی کوشش کریں گے دوسرے مجھے خود چھٹی لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ دشمن نے کچھ ایسے نوجوان پھیلا رکھے ہیں جو باہر جماعتوں کے حالات معلوم کریں اور وہ جھوٹے احمدی بننے کی کوشش کرتے ہیں.دو تین دن ہوئے.یہاں ایک نوجوان ہمارے پاس آیا اور بیٹھ کر کچھ دیر کے بعد کہنے لگا کہ میں نے احمدی ہونا ہے مجھے احمدی بنا دو اور خط لکھو کہ حضرت صاحب سبیعت کر لیں یا حضرت صاحب کے پاس خط دیگر مجھے بھیج دو.ہم نے سمجھ لیا کہ دشمن کا آدمی ہے پھر اچھی طرح معلوم کرنے سے پورا شک ہو گیا کہ یہ آدمی خراب ہے اس لیے جناب کی آگاہی کے لیے لکھا جاتا ہے کہ ایسے احمدیوں سے باخبر رہیں.دوسرے لاہور والی جماعت اس مشورش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ پرسوں ہی مجھے ایک ٹریکٹ عراق بغداد سے آیا ہے جس کا عنوان ہے نئے

Page 603

۵۹۱ میابی بشیر الدین محمود احمد کے نام کھلی چھٹی.جس میں ساری جماعت کو فتنہ محمودی قرار دیا ہے اس ٹریکٹ کے پچھنے کی کوئی تاریخ نہیں ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹریکٹ اسی موقعہ کیلئے انہوں نے چھپوا کر رکھا تھا.جو باہر ملکوں سے جماعت کے نام بھیج رہے ہیں ؟ - A بسم اللہ الرحمن الرحیم دفتر پرائیویٹ سیکرٹری مولوی دوست محمد صاحب مخمدة ولصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمه الله و بركاته موجودہ ہنگامی ڈاک کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے دریافت کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ یہ حضور کی ابتداء ہدایت تھی لیکن جبکہ اب حضور چھٹی پر جس کا نام لکھیں پہلے ان کو چھٹی جایا کرے پھر وہ خود اس چھٹی کو دفتر ریکارڈ میں بھیج دیا کرے گا.چنانچہ فرمایا وہ خود بھی ان چھٹیوں کو جن پر ان کا نام ہوتا ہے بعد ملاحظہ دفتر ریکارڈ میں بھیج دیتے ہیں اطلاعاً عرض خاکسار ہے عبد الرحمن انور ۲۸/۳/۵۳ مر می مولوی دوست محمد صاحب دفتر ریکارڈ السلام علیکم (1) صرف آپ کی اطلاع کے لیے لکھا جاتا ہے کہ لاہور سے خبر لی ہے.کل رات مودودی صاحب مع اپنے بیس میں ساتھیوں کے گر فتار ہو گئے ہیں.(۲) نیز کراچی سے اطلاع ملی ہے کہ المصلح کے چھپنے کا انتظام ہو گیا ہے انشاء اللہ پرسوں سے نکلنا شروع ہو جائے گا.(۳) پرسوں شام کو ریڈیو نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ حکومت پنجاب نے حضرت صاحب کو سیفٹی ایکٹ کے ماتحت ہدایت کی ہے کہ موجودہ ایجی ٹیشن کے متعلق کچھ نہ لکھا جائے

Page 604

" ٢٩/٣/٥٣ ۵۹۲ اور نہ کوئی تقریر کی جائے.مرزا بشیر احمد مو الناصر " مکر می مولوی دوست محمد صاحب السلام عليكم ورحمة الله روزانہ خط بہت احتیاط سے تیار ہونا چاہیے اس میں ایک تو لازماً حضرت صاحب اور ربوہ کی خیریت درج ہو اور خاص خاص بیرونی خبریں درج ہوں مگر کوئی بات ایسی نہ ہو جو تشویش پیدا کرنے والی ہو یا حکام کی نظر میں قابلِ اعتراض سمجھی جائے.اس معاملہ میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے.سرشک والی بات چھوڑ دیں.دیسے اپنے طور پر ریکارڈ ساری اطلاعات کا دفتر میں رہنا چاہیے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۱۲۹/۳/۵۳

Page 605

۵۹۳ ضمیمہ نمبشر تحقیقاتی عدالت سے متعلق ضروری خط وکتابت مندرجه فریل گشتی مراسلہ بصیغه در جبری حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ نے ۲ جولائی ۱۹۵۳ء کو مندرجہ ذیل احباب کے نام ارسال کیا اس مراسلہ کا متن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم کا رہین منت تھا.۱- حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رپر نسلی تعلیم الاسلام کا لی لا ہور) ۲ - شیخ نور احمد صاحب (لاہور) شیخ محمد احمد صاحب را ملیون امیر جماعت احمدیہ لالپورت چه در انور حسین صاحب رشیخوپورہ) امیر جماعت احمدیہ شیخو پوره میر محمد بخش صاحب امیر جماعت احمد یہ گوجرانوالہ ۶ - بچوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ رسیالکوٹ) ایڈووکیٹ سیالکوٹ " میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی ملک عبدالرحمن صاحب خادم ایڈووکیٹ گجرات چوہدری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ (منٹگمری ۱۰ چو ہد ر محمد حسین صاحب جماعت احمدیہ ملتان شهر سه حال فیصل آباد : سے حال ساہیوال

Page 606

۵۹۴ V/6/DY ربون بسم الله الرحمن الرحیم نکه می محترمی نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمة الله و بركاته آپ کو معلوم ہے کہ حکومت پنجاب نے صوبہ کے گزشتہ مفادات کی تحقیق کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا ہے جس کے ممبر جسٹس محمد منیرا در مسٹر جسٹس کیانی امیر مقرر ہوئے ہیں اور حکومت نے اس تحقیق میں جماعت احمدیہ اور مجلس احرار جماعت اسلامی اور صوبائی مسلم لیگ کو بھی پارٹی بنایا اور شہادت کے لیے بلایا ہے.سو اس تعلق میں آپ کو بھی جماعت کی طرف سے شہادت کے لیے منتخب کیا گیا.پس آپ مہربانی کر کے اس بارہ میں مکمل تیاری کر لیں.تا آخری فیصلہ ہونے پر آپ کو پیش کیا جا سکے.منجملہ دیگر متعلقہ امور کے ذیل کے امور کے متعلق خاص طور پر تیاری ہونی چاہیئے.ضادات کا پس منظر کیا تھا.اور وہ کون سی وجوہات تھیں.جنہوں نے بالآخر فساد کی صورت پیدا کر دی رپر ہیں.خطبات اور خفیہ ریشہ دوانیاں وغیرہ سب کو مد نظر رکھا جائے) ۲.فسادات کی نوعیت اور تفصیل کیا تھی.اور فسادیوں کا طریق کار کیا تھا.رجس سے منظم اور سوجی سبھی سکیم پر روشنی پڑے) - آپ کے علاقہ میں احمدیوں کا جانی اور مالی نقصان کیا ہوا سالہ ۱۹۵۳ء (ہر دو نقضات کو شامل کیا جائے اور حتی الوسع پوری تفصیل دی جائے) نیز مارشل لاء نے سجن لوگوں کو نقصانات کا معاوضہ دیا ہے اس کی تشریح کی جائے کہ کتنوں میں سے کتنے احمدی تھے اور ان کے نقصان کے مقابلہ میں یہ معاوضہ کیا حیثیت رکھتا ہے.۴.کون کون سے لوگ فسادات میں آگے تھے.- علاقہ کے سرکاری حکام کا کیا رو بہ رہا.ہ فہرست ان لوگوں کی جنہیں فسادات میں تشدد کر کے جماعت احمدیہ سے مغفرت کرایا گیا.- مساوات کے ساتھ مود و دیوں کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق.- ان امور کے متعلق معین اور مفصل تیاری ہونی چاہیئے ہم آپ کمیشن کے سامنے پختہ صورت

Page 607

۵۹۵ میں شہادت دے سکیں اور ہر قسم کی جرح کے لیے تیار ہیں.ناظر امور عامہ.یہ بوہ حسب ذیل چٹھی متعلقہ ہدایات تحقیقاتی کمیشن بھی انہیں دنوں نظارت امویہ عامہ کی طرف سے لکھی گئی اور مندرجہ ذیل امراو جماعت کو دستی پہنچائی گئی.ا چوہدری محمد انور حسین صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت شیخو پورہ - ۱- شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لائل پور حال رفیصل آباد - ] ۳ - ملک عبد الرحمن صاحب خادم به گجرات." -۴- میر محمد بخش صاحب امیر جماعت گوجرانوالہ - بابو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ.4 - مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی پنجاب سرگودہا.میاں اللہ بخش صاحب امیر جماعت احمدیه را ولپنڈی..L - A چوہدری محمد حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ ملتان.ربوه الا را بسم الله الرحمن الرحيم بخدمت امیر صاحب ! نحمده و تعالى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمته الله ویره کانه آپ کو اخبارات سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ حکومت پنجاب نے گذشتہ فسادات کے متعلق ایک تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کیا ہے جس کے ممبر جسٹس منیر اور جسٹس کیانی ہوں گے اس تحقیق میں جات احمدیہ اور مجلس احرار، جماعت اسلامی اور صوبائی مسلم لیگ کو بھی ایک پارٹی بنایا گیا ہے پس ضروری ہے کہ اس تحقیق کے پیش نظر بہت جلد پوری پوری تیاری کی جائے.تیاری میں ذیل کے امور مدنظر رہنے چاہئیں.1.آپ کے علاقہ میں فسادات کا پس منظر کیا تھا ؟ اور وہ کون سی وجوہات تھیں جنہوں نے - ٹے سہواً اسلامی کی بجائے اسلام لکھا ہے

Page 608

۵۹۶ بالآخر فساد کی صورت پیدا کر دی رپرلیں اور خطباب اور خفیہ ریشہ دوانیاں وغیرہ سب کو مد نظر رکھا جائے) نیز احتیاطاً فتوی کفر وغیرہ میں غیر احمدیوں کی طرف سے پہل ثابت کرنے کے یلیے فتادی جمع کیے جائیں.- عادات کی نوعیت اور تفصیل کیا تھی اور فسادیوں کا طریق کار کیا تھا.جس سے منتظم اور سوچی سمجھی ہوئی سکیم پر روشنی پڑے.- کون لوگ فسادات میں آگے آگے تھے..آپ کے علاقہ میں جماعت کا جہانی اور مالی نقصان کیا کیا ہوار ہے اور سواء ہردو کے نقصانات کو شامل کیا جائے اور حتی الو سے پوری تفصیل دی جائے) نیز مارشل لا دالوں کے منظور کردہ معاوضہ پر روشنی ڈالی جائے کہ کل افراد میں کتنے احمدی تھے اور یہ معاوضہ اصل نقصان کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ - علاقہ کے سرکاری حکام کارویہ کیا رہا؟ ۱۹۵۳ فہرست اُن احمدیوں کی جن پر تشدد کر کے جماعت سے منحرف کرایا گیا.۷- اگر علاقہ میں کوئی غیر احمدی معزز ہمارے حق میں شہادت کے لیے تیار ہو سکیں تو انہیں تیار کیا جائے اس کا بہت اچھا اثر ہو سکتا ہے.- A فسادات میں موددویوں کا براہ راست یا بالواسطہ جو تعلق ثابت ہو اس کے متعلق تیاری کیجائے ان امور کے متعلق معین اور مفصل تحقیق ہونی چاہیئے تا کمیشن کے سامنے پیش کی جا سکے.یہ رپورٹ خاص آدمی کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ - ارجولائی تک ہمارے پاس پہنچ جائے.(ناظر امور عامه ربوہ) ہدایات حضرت مصلح موعود (مورد ۵ جولائی ۱۹۵۳) فرمایا.1 - وکلاء شیخ صاحب تو ہوں گے ہی.دو تین آدمی لگنے چاہیں تا کہ اگر ایک کسی معذوری کی وجہ سے کام نہ کر سکے تو دوسرے صاحب ساتھ ہوں.گجرات کے ظہور الدین بہت اچھے

Page 609

۵۹۷ ہیں جیسا کہ شیخ صاحب نے نوٹ کیا ہے.خصوصاً وقار کے لحاظ سے.جونیئر وکیل p aid ہونا چاہیے ایونی Commentry سے کام کرنے والا نہ ہو اور اتنے بھی جمع نہ ہوں کہ کام نہ ہو سکے..خادم صاحب بطور گواہ اچھے رہیں گے.میاں عطاء اللہ صاحب شاید موزوں نہ ہوا چوہدری انور حسین صاحب کا غالباً زیادہ اثر نہ ہو گا.شیخ محمد احمد صاحب نخواہ کام نہ کر دیں ان کا منشوہ بہت اچھا ہے..کورٹ کو خواہ وسیع اختیار دیا گیا ہے اور قانون شہادت کی پابندی لازمی نہیں لیکن بہاری طرف سے اس معاملہ میں احتیاط ہونا لازم ہے.تا ایسا نہ ہو کہ ہمارا کیس weak ہو جائے یعنی کسنی سنائی بات پر واقعہ کا انحصار نہ رکھا جائے.گواہ ایسا ہونا چاہیئے جو اپنے آپ کبھی بات یا بیتی بیان کر سکے ہاں جہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہو کہ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے تو عمومی سرنگ میں یہ کہا جا سکتا ہے مگر بہتر اور محتاط طریق یہی ہے کہ معین اور مخصوص شہادت ہو.احرار کا ذکر کرتے ہوئے عناد یا طعنہ زنی یا جارحانہ طریق نہ اختیار کیا جاوے وقار کے ساتھ بے شک جذبات اور افسوس میں ڈوبی ہوئی بات ہو لیکن بنایا یہ جاوے کہ احرار نے یہ کہا یا گیا.- دوسرا فریق بے شک یہ کوشش کرے گا کہ ہر ختم کی باتیں زیر تنقیح آئیں لیکن ہماری طرف سے واقعاتی رنگ غالب ہونا چاہیئے.4 - حکومت کے افسران کے متعلق یہ یا در بنا چاہیئے کہ حتی الور سے کسی کا نام نہ آئے سوائے اس کے کہ جرح میں پوچھا جاوے تو بتانا پڑے اس میں دشمنی اور عناد کی بات نہ کی جاوے اگر کچھ کہنا ہی ہو تو مختلف افسروں کا رویہ بیان کر کے اس طرف توجہ دلائی جاوے کہ فلاں افسر کارویہ مختلف متھا.خواہ مخواہ تعریف بھی نہ ہو.افسروں کو جو خط لکھے گئے وہ بے شک پیش کی جائیں.ہماری طرف سے مقدمہ ایسے رنگ میں پیش کیا جاوے کہ عدالت مجبور ہو کہ فریق مخالفت کے متعلق سخت Remarks کہ سے اگر خود بھڑاس نکا مالی جا دئے تو عدالت اپنے

Page 610

٥٩٨ آپ کو کسی حد تک سبکدوش سمجھتی ہے.- Statement مختصر ہو لیں نہ ہو.Presentation ہمارا بہت Careful ہونا چاہیئے.ان کی اشتعال انگیزی کو نمایاں کیا جائے.حوالہ جات واقتباسات کے ساتھ.۱۰ - غیر احمدی چونکہ پوری طرح ہمارے نقطہ نظر کو سمجھ نہیں سکتا اس لیے ہمارے اپنے آدمی کو پیش ہونا چاہیئے.کر می شد بسم الله الرحمن الرحيم السلام علیکم ورحمته الله وبیر کا تدار 1- کیا آپ نے قائد صاحب خدام کو کچھ والنٹیر لینے کے لیے لکھ دیا ہے یا ابھی نہیں لکھا ہے تو کیا جواب آیا ہے ؟ ۲ - ارشاد صاحب کلرک ہیں ، چپڑاسی نہیں ان سے بھی لکھنے پڑھنے کا کام لینا چاہیئے.۳ - ماشہ صاحب اور مولوی عبد الغفور صاحب اور مسعود صاحب ہر قسم کے حوالے نکال کر آپ کو دے سکتے ہیں ان کی ڈیوٹی لگا دیں..نوٹ وغیرہ جو شیخ صاحب طلب فرمائیں آپ اور شیخ نور احمد صاحب تیار فرمائیں.اگر کسی اور آدمی کی ضرورت ہوا اطلاع دیں تا اس کا بھی انتظام کر دیا جائے.۵ - دوست محمد صاحب اپنے کا فذات لیکہ آج ربوہ سے یہاں پہنچ جائیں گے.تعجب ہے آج عدالت میں گئے ہی نہیں میرے نزدیک وہاں جانا نہایت ضروری ہے خاکسار ۹/۷/۵۳ عبد الرحیم درد 9/6/05 جواب وصول پایا بوقت چار بجے شام - خاکسار مرزا سمیع احمد ظفر نه مکتوب بنام چو مهدی غلام مرتضی صاحب وکیل - 9/6/07

Page 611

ووه ارشاد مبارک حضرت مصلح موعود بنام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب عزیزم کردی ہے السلام علیکم ورحم الله وبر کا تدار نوٹ مع ہدایات واپس ارسال ہے ان کو دیکھ لیں اور بہت احتیاط کے ساتھ کام کریں.معاملہ نهایت نازک اور اہم ہے میرے نزدیک چو ہدری صاحب کی بہت سی باتیں وزنی ہیں.قانونی اور تجرباتی نقطہ نگاہ سے ہم ان کو نظر انداز نہیں کر سکتے.ہم اپنی بات بھی نہیں چھوڑ سکتے گریم کورٹ سے یہ بھی امید نہیں کر سکتے کہ وہ بر سر قتدار حکومت کے خلاف واضح الفاظ میں کوئی رائے ظاہر کرے.پس ہمیں پختہ اور ثابت شدہ حقائق احرار اور مود و دیوں کے خلاف پیش کرنے چاہیں اور جو واقعات چیف سیکرڑی.ہوم سیکریٹری یا آئی جی سے گزرے ہیں ان کو بیان کر دینا چاہیئے.گورنمنٹ کا براہ راست نام نہیں لینا چاہیئے، نتیجہ واضح آپ ہی ہو جاتا ہے.خواجہ ناظم الدین صاب کا خطہ پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ مفید ہے میں چو ہدری صاحب سے اس بات میں متفق ہوں کہ میاں عطاء اللہ کو بطور وکیل یا گواہ پیش کرنا مفید نہیں ہو گا.وہ بہت ذکی الحسن ہیں اور بعض دفعہ انسان انکی افسردگی کو دور کرنے کیلئے اپنے فرمن کی ادائیگی میں کوتاہی کر بیٹھتا ہے.(دستخط حضرت صاحب) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب موصولہ لاہور ۱۵/۷/۵۳ کے خطوط سيدنا ! بسم الله الرحمن الرحیم السلام علیکم در حمه اند و برکاته ا در و صاحب اور شمس صاحب تو اس وقت لاہور روانہ ہو رہے ہیں لیکن تجویز ہے کہ ه بنام حضرت مرزا البشیر احمد صاحب

Page 612

۶۰۰ مولوی صدیق صاحب بھی ضروری کتابیں لے کر شمس صاحب کی امداد اور وقت پر حوالہ جات کی تلاش کے لیے چنڈی کے واسطے لاہور چلے جائیں اس کے لیے حضور کی اجازت کی ضرورت ہے احمد می علماء کی شہادت کا معاملہ وکلاء پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ اگر پسند کریں اور ضرورت ہو تو شمس صاحب اور خادم صاحب کو پیش کردیں.ویسے شہادت والے امور تحریری بیان میں تو پیش کر ہی دیئے گئے ہیں خاکسار مرزا بشیر احمد فرمایا مولوی صدیق صاحب چلے جائیں.سيدنا (ارشاد حضرت مصلح موعود ) امد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کا نت حضور کے ارشاد کے ماتحت شیخ بشیر احمد صاحب کو ان کی فیس کے متعلق پوچھا گیا تھا.ان کا جواب لف ہذا ہے بعد ملاحظہ واپس ارسال فرما یا جاوے.خاک از مرزا بشیر احمد ۱۵۳ ۱۹ 13 - Ternple Road Lahore 18-9-53 Phone 2301 Sh.Bashir Ahmad Senior Advocate Federal Court and Advocate High Court محترمی حضرت میاں صاحب السلام علیکم ورحم الله و به کان.کرمت نامہ ملا - عبد الغفار صاحب مری موجودگی میں کوہ مری واپس نہیں آئے اور نہ ہی

Page 613

آپ کا کوئی مضون بصیغہ رحیری مجھے ارسال کیا ہے.میں نے تو جہاں تک میرا حافظہ مری راہنمائی کرتا ہے کسی فرد سے بھی بالواسطہ یا بلا وسطہ معاوضہ کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی مرے ذہن میں کبھی یہ خیال آیا ہے اس لیے جہاں تک مری ذات کا تعلق ہے یہ سوال پیدا نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ کی ستاری غیر معمولی حالات میں میرا ساتھ دیتی جارہی ہے اور اپنے فضل اور احسان سے مجھے برابر رزق دیتی جارہی ہے اگر چہ قطعاً میں اس کا مستحق نہیں دعا فرمائیں مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جو اس کی ناراضگی کا موجب ہو اور مجھے ایسے اعمال کی توفیق ملتی جائے جو اس کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتی رہیں مرے گناہ معاف فرمائے اور انجام بخیر ہو.امید ہے کہ میرا پہلا خط آپ کو مل چکا ہو گا.مرے ساتھ کوئی ایسا عملہ نہیں کہ اگر الہ دو میں خط لکھوں تو نقل ہی کر سکوں اس لیے انگریزی میں لکھ دیتا ہوں.اگر چہ کئی مرتبہ ندامت کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اردو خط کا جواب انگریزی میں بھجوا رہا ہوں.آپ کی کریما نہ بیعت ہے امید کرتا ہوں کہ بار خاطر نہ ہوگا.خاکساره شیخ بشیر احمد عفی عنہ مکتوب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب هُوَ النَّاصِرُ سیدنا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کل کے نوائے وقت میں مولوی مودودی کے اس بیان کی نقل چھپی ہے.جو مودودی صاب نے جماعت احمدیہ کے خلاف عدالت میں دیا ہے.شاید اور اخباروں میں بھی چھپے.چونکہ مودودی کو ملمع سازی کا فن آتا ہے.اور تحریہ عموماً واضح اور متعلقہ امور پر مشتمل ہوتی ہے اس لیے بعض دوست جو جلدی میں یکطرفہ رائے کے عادی ہوتے ہیں.وہ گھبرا جاتے ہیں........اس کا ازالہ ہونا چاہیے سو اس صورت میں اس بات پر غور ہونا چاہیئے کہ کیا اس کے جواب میں اپنا جواب چھاپ دیا جائے.ہمارا جواب دو ٹکڑوں میں سے ایک حوالوں کے انکار و اقرار

Page 614

کی صورت میں اور دوسرا مفصل تبصرہ تیار کردہ شمس صاحب.ہر دو جوابوں کو حضور دیکھ کر منظور فرما چکے ہیں.حضور نے ارشادفرمایا ' اطلاع ہوئی جز اہم اللہ و السلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۱۲/۱۰/۵۳ ارشا د حضرت مصلح موعود بقلم سیده ام متین صاحبه) میں متواتر کہ چکا ہوں.کہ آپ وکیلوں سے اس بارے میں پوچھیے کہ چھپوایا جائے یا نہیں اگر ان کے نز دیک چھپوانے میں حرج نہ ہو.تو عدالت کے سامنے یہ معاملہ پیش کر دیں کہ اب دوسرے لوگ چھاپ رہے ہیں تو ہم بھی چھاپنے پر مجبور ہیں.مکتوب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیدنا هو الناصر السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته کل لاہور کے وکلاء دوست کہہ گئے تھے کہ اب جواب میں ہماری طرف سے بھی جوابات کی اشاعت ہونی چاہیئے، خصوصاً مودودی صاحب کے بیان کا جواب.آج محترمی مرزا عبد الحق صاحب کے ساتھ بات ہوئی تو انہوں نے اس کی پر زور تائید کی کہ اب پبلک میں جواب کا انتظار ہے.خصوصاً انہوں نے کہا کہ سات سوالوں والا مفصل جواب المصلح بھی بھی شائع ہو جانا چاہیئے.سو اگر حضور ا جازت دیں تو کیا سات سوالوں والا جواب المصلح میں اشاعت کے لیے بھجوا دیا جائے.یہ جواب حضور کا دیکھا ہوا بلکہ تیار کیا ہوا ہے.البتہ جنازہ دالے سوال میں اس نوٹ کے دینے کی ضرورت ہوگی کہ امام احمدی ہونا چاہیئے.خاکسار مرز البشیر احمد 14/10r چھپوا دیا جائے آخر امام کا جھگڑا اس وقت پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے.فتویٰ تو دیا ہی نہیں گیا.آئندہ غور کرنے کا لکھا ہے.اس کے لئے امام کا کیا سوال ہے.(ارشاد حضرت مصلح موعود ) بعض دیگر اہم خطوط : تحقیقاتی عدالت کے سلسلہ میں بعض دیگر اہم خطوط درج ذیل کئے جاتے ہیں.

Page 615

1 - بسم اللہ الرحمن الرحیم ۶۰۳ محمدة وصلى على رسوله الكريم سخدمت محترم مکرم حضرت میاں صاحب السلام علیکم ورحمة الله و به کا تها.........اس وقت حسب ذیل عملہ یہاں کام کر رہا ہے.ا مکرم در و صاحب ۲- کریم مولوی جلال الدین صاحب شمس ۰۳ مولوی محمد صدیق صاحب ۴ مرزا عبد السميع صاحب کلرک ۵ - سید داؤ د احمد صاحب کلرک به پچوہدری نورالدین صاحب کلارک -- عاید حسین صاحب ٹائپسٹ ۰۸ سلیم اللہ مددگار کارکن لائبریه ی A ۹ - باورچی ۱۰ - ڈرائیور.جو آج واپس چلا گیا ۱۱ مولوی عبد الغفور صاحب لاہور ۱۲ مولوی محمد اشرف صاحب.لاہور ہوا.ان کے علاوہ دو تین اور احباب مثلاً ایک مزیلہ ٹا پیسٹ اور دوسرے کارکن ہوتے ہیں.۱۴ باہر سے جب وکلا ء آجا دیں تو مزید خرچ ہوتا ہے.-۱۵ خاکسار - غلام مرتضی از لاہور - ۴/۱۱/۵۳

Page 616

بسم اللہ الر حمن الرحیم نده وقتی علی رسولہ الکریم دفتر پرائیویٹ سیکر ٹی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تبصرہ بخدمت مریم محترم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته حضور ایدہ اللہ نصرہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضور کارا وہ کل دوپہر کو لاہور کے لیے روانہ ہونے کا ہے.آپ اور ملک غلام فرید صاحب اور مرزا مبارک احمد صاحب بھی لاہور جائیں گے.نیز فرمایا کہ غالباً مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو مقامی امیر اس عرصہ میں تجویز کرنا ہو گا.خاکسار عبدالرحمن انور - پرائیویٹ سیکر ٹی ۱۱/۱/۵۲ حضرت خلیفة المسیح الثانی - بسم الله الرحمن الرحیم سيدنا ! نحمده ونصلی علی رسولہ الکریم السلام عليكم ورحمة الله و بركاته -۱ خاص خاص دوستوں کو دعا کی تحریک کر دی ہے.۲.مگر کئی دوست پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اپنے طور پر شہادت کے موقع پر لاہور جائیں تو اس میں کوئی ردک تو نہیں سو اس بارے میں ہدایت فرمائی جائے.۳.میری ذاتی رائے یہ کہ کمرہ عدالت کے اندر جانے کا تو سوال ہی نہیں بلکہ باہر کے احاطہ میں بھی غالباً پولیس لوگوں کے ہجوم کو روکے گی اور ویسے بھی اس موقعہ پر جماعت کی طرف سے کسی قسم کا Demonstration وغیرہ نہیں ہونا چاہیئے اور تعداد کی غیر معمولی کثرت بھی ایک رنگ کا مظاہرہ ہی ہوتا ہے.غالباً عدالت بھی اسے پسند نہیں کرے گی اور اس سے بالمقابل مظاہرہ کی بھی بنیاد قائم ہوتی ہے..البتہ حضور کے ارشاد سے جامعہ مبشرین کے طلبہ اور اساتذہ جارہے ہیں اور باقی انتظام حسب ضرورت لاہور کے دوستوں کے ذریعہ ہو جا ئے گاجس کے لیے عزیز میاں مبارک احمد

Page 617

انتظام کر رہے ہیں.ہ میں نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کو علی الحساب ۵۰۰.P دے دیا ہے اور اس قدر رقم زائد میں نے جا رہا ہوں جو ملک غلام فرید صاحب کے سپرد کر دی ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۱۲/۱/۵۴ فرمایا ٹھیک ہے آپ کی بات“ λ- سیدنا یا زارشاد حضرت مصلح موعود) بسم الله الرحمن الرحيم السلام علیکم ورحمة الله و به کاندا درد صاحب نے کہا تھا کہ اطلاع کر دی جائے کہ گواہی بیٹھ کر ہوتی ہے جس کے لیے چیف جج فورا گواہ کو کہ دیتے ہیں کہ بیٹھے.- ہر سوال خواہ جج کی طرف سے ہو یا کسی وکیل کی طرف سے اس کا جواب حج کی طرف مخاطب ہو کر دیا جاتا ہے گو سوال سننے کے وقت سوال کرنے والے وکیل کی طرف مذکر لیا جاتا ہے..ہر سوال اور جواب پر حج صاحب نور د سوال و جواب املا کراتے ہیں اور اس کے لیے ہر سوال اور ہر جواب کے بعد خفیف سا وقفہ ہوتا ہے.شیخ صاحب کہتے ہیں کہ گواہ اپنے پاس ضروری نوٹ رکھ سکتا ہے ۵ - شیخ صاحب نور ج صاحبان سے کہہ دیں گے کہ چونکہ سب حوالہ جات یاد نہیں ہوتے اس لیے وہ حسب ضرورت بعد میں پیش کر دیئے جائیں گے..میاں مبارک احمد رستہ دیکھنے اور چو ہدری اسد اللہ خاں صاحب سے مقامی دوستوں کے متعلق مشورہ لینے کے لیے گئے ہیں کہ اگر زیادہ وسیع اجازت ہو تو مقامی دوستوں میں سے کس کس کو رکھ لیا جائے.محمد اقبال صاحب سب انسپکڑ نے بھی اپنی ڈیوٹی ہائی کورٹ میں لگوالی ہے.

Page 618

-a خاکسار مرزا بشیر احمد ۱۳/۱/۵۴ پانچ آدمی اگر ہوں تو آپ ، ملک صاحب ، ناصر احمد ، مولوی ابوالعطاء اور اندر سیرہ کیلئے مبارک احمد یا ظہر گر سمجھا دیا جائے صرف آنکھ سے کام لیں کورٹ کا ادب مد نظر رکھیں یہ ارشا د حضرت مصلح موعود ) بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نمبر ء بخدمت مکرم محترم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضور جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد لاہور روانہ ہو رہے ہیں.آپ اور دیگر علماء کرام ساتھ ہوں گے یعنی مولوی ابوالعطاء صاحب مولوی سیف الرحمن صاحب - مولوی محمد یعقوب صاحب - ملک غلام فرید صاحب اور مولوی نذیر احمد علی صاحب کو کراچی تار بھجوائی جارہی ہے کہ وہ جمعہ کی شام تک لاہور پہنچ جائیں.نیز حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر با دورچی کا اپنا انتظام کر لیا جاوے تو لوگوں کی وطبیعی کا موجب ہو گا اور کھانا بھی اچھا مل سکے گا.نیز فرمایا جامعة المبشرین کے طلبہ کی اس دفعہ ضرورت نہ ہوگی.خاکسار عبد الرحمن انور ۲۷/۱/۵۴ 4- بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نقل على رسوله الكريم زیوه دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصره بادرت کردم محترم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب السلام عليكم ورحمة الله و بركاته حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ملک غلام فرید صاحب اور مولوی

Page 619

نذیر احمد علی صاحب کو اطلاع بذریعہ تار دے دی جاوے کہ وہ جمعہ کے دن لاہور پہنچ جائیں.حضور بھی اس تاریخ لاہور پہنچ رہے ہیں.خاکسار عبد الرحمن النور تار دی گئی.مرزا بشیر احمد ۲۷/۱/۵۴ پرائیویٹ سیکرٹری ۲۷/۱/۵۴ حضرت خلیفة المسیح الثانی مهر بسم اللہ الرحمن الرحيم بخدمت اقدس حضرت میاں صاحب السلام عليكم ورحمة الله کر می شیخ بشیر احمد صاحب بحث کر رہے ہیں اور نہایت، اطمینان سے کر رہے ہیں اور حضور کے فرمودہ نوٹ کے متعلق حوالہ جات پیش کر رہے (ہیں) - A PM والسلام خاکسار - غلام مرتتنی نام at بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدمت اقدس حضرت میاں صاحب ٣/٢/ السلام عليكم ورحمة الله و از کانتر آج مورخه ۲۴ فروری ۵۴ار بوقت دس بجے صبح کرم شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنی بحث ختم کی.اس کے بعد مسٹر یعقوب علی صاحب نے جواب دیا اور اس کے بعد چوہدری محمد حسین چیمه وکیل انجمن احمدیہ اشاعت اسلام نے....اپنا کیس پیش کیا.چیف صاحب نے فرمایا کہ پنچ کے بعد مذہبی حصہ کی بحث شروع ہو گی.عدالت سوالات کرے گی اور ہر فریق ے سہواً 3 لکھا گیا ہے اصل میں 1927ء ہے

Page 620

۶۰۸ کو اس کے جوابات دیتے ہوں گے.چنانچہ آج بعد دوپہر مولانامر تضی احمد مکیش نے مجلس عمل کی طرف سے ملے شروع کیا.چیف صاحب نے بھی فرمایا کہ یہ مذہبی حصہ بحث کا ہفتہ تک یعنی ۲۰ فروری را تک ختم ہو جائے گا.شیخ بشیر احمد صاحب نے آج Aggressive تبلیغ کے متعلق سحبت کی اور بلوچستان والے خطبہ جمعہ کی وضاحب بھی کی.دوران بحث میں کیانی صاحب نے فرمایا کہ تبلیغ کرنا آپ مذہبی فرض سمجھتے ہیں.اس لیے ہم اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے ہاں یہ فیصلہ ہمارا کام ہے کہ آیا ایک خاص تحریہ Aggressive تبلیغ ہے یا نہیں.شیخ صاحب کی بحث کے دوران میں کیانی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ ایک دوست کی حیثیت سے میرے پاس اگر تبلیغ کرتے ہیں تو سیکیش صاحب کو اس پر معترض نہیں ہونا چاہیئے.چیف صاحب نے بھی اُن کی تائید کی بہر حال شیخ صاحب نے نہایت مؤثر طریق پر بحث کی.میکشی صاحب نے آج بعد دو پر مذہبی حصہ پر حوالہ جات پیش کئے.کل سوال نمبر ۷ اور Politics Religion سوال پر بحث ہو گی.بظاہر نظر آتا ہے کہ کل بارہ بجے تک میکشی صاحب اور مولوی مظہر علی اظہر اپنی بحث ختم کرلیں گے اور بعد دو پر ہماری باری شروع ہو جائے گی.نہ آج ٹیلیفون پر آپ کو اطلاع دینے کی کوشش کی لیکن Connection مل سکا.والسلام خاکسار غلام مرتضی انہ لاہور " نوٹ منجانب حضرت مرز البشیر احمد صاحب.۲۴/۲/۵۴ فوری بحضور سید نا مرسل ہو آخری فقرہ میں شاید جلدی آنے کا اشارہ ہے گو شاید جاتے جاتے بحث ختم ہو جائے.چوہدری صاحب بھی کل صبح یہاں آرہے ہیں.خاکر مرزا بشیر احمد ۲۵/۲/۵۴ بوقت صبح " د جواب منجانب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب) لے یہاں کوئی لفظ چھوٹ گیا ہے تاقل.

Page 621

۶۰۹ حضور نے فرمایا ہے کہ لاہور فون کر کے معلوم کیا جائے کہ کیا اب بھی ہمارے دہاں آنے کی خاکسار ضرورت رہ گئی ہے -9 بسم اللہ الرحمن الرحيم عبد الرحمن النور ۲۵/۲/۵۴ سنحمده ونصلى على رسوله الكريميم لاہور میں شیخ بشیر احمد صاحب کے نمبر پر فون کیا جائے کہ چو ہدری غلام مرتضی صاحب کا خط آیا ہے کہ سمیت جلدی جلدی ختم ہورہی ہے اور غالباً ہماری بحث کی باری آج بعد دو پر آجائیگی اس پر حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اب کیا ہمارے وہاں آنے کی ضرورت رہ گئی ہے.نیز کہدیا جائے کہ غالباً اگر آج دوپہر کو ہماری بحث شروع ہو تو موجودہ رفتار کے لحاظ سے آج شام تک یا کل دوپہر تک ختم بھی ہو جائے گی ار جینٹ فون کیا جائے اور فون پر در وصاحب با شیخ صاحب یا خادم صا حب ایا جو دری نام رفتی صاحب کو بلایا جائے اور ان کا جواب نوٹ کر لیا جائے.ایک وقت میں صرف دو آدمیوں کا نام دیا جا سکتا ہے اگر گھر پر نہ ملیں تو بار روم ہائی کورٹ ک نمبر پر بلالیا جائے وہ چیف جج کے کمرے میں ہوں گے.خاکسار مرز البشير احمد ۲/۵۴/ ۲۵ 10 - بسم اللہ الرحمن الرحيم مخمرة وتصل على رسوله الكريم سيدنا ! السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ خط والا آدمی لاہور پہنچ گیا ہے اور اس پر لاہور سے شیخ بیٹیر احمد صاحب نے حسب ذیل فون کیا ہے :.خادم صاحب نے دو پر سے بعد بھی ختم نبوت پر بحث کی اور بعض آیات اور حوالہ جات پیش کیے اور ابھی یہ بحث ختم نہیں ہوئی انشاء اللہ ہماری بہت ہفتہ تک تو یقینی جاری رہے گی اور اس کے آگے بھی جاری رہنے کی اُمید ہے.خاور تم صاحب نے اچھی بحث کی ہے بہتر یہی ہے کہ حضور تشریف لے ہی آدیں.بچوں نے کہا ہے کہ ختم نبوت کے موضوع کو

Page 622

41.بہت اہمیت دی گئی ہے اس لیے ہم اس موضوع پر مفصل بحث سُننا چاہتے ہیں.حضور کے خط میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے.ان کا امکان نہیں ہے حضور تشریف لے آئیں.نیز کہا مولوی ابوالعطاء صاحب سے کتاب تحقیق الجہا د لیتے آئیں.خاکسار مرز البشیر احمد ۲۵/۲/۵۲

Page 623

اشاریہ جلد شانزدهم مرتبه به ریاض محمود با جوه شاید شخصیات مقامات کتابیات 1 ۲۶ ۳۶

Page 624

اسماء ابن حجر عسقلانی، حافظ این حسن حضرت آدم علیہ السلام ۳۷۶,۳۷۲ ۴۰۰ ابن علقمه ، امام ۳۴۲ ۱۳۴۲ آفتاب احمد شیخ ابن معین را مام آل احمد ترکستان ، حکیم البوالبشارت عبد الغفور ۳۱۵/۲۸۱/۱۶۹ آئی آئی چندریگیر ۶۰۳/۵۹۸ ابوالحسن محمد يحي ابرار احمد ابوالعلی مودودی ۳۱۹٫۲۵۵٫۲۴۴ ۲۷۳٫۲۵۲٫۲۵۰ ۳۲۰ ۳۳۱,۳۲۰ ۳۴۹۰۳۴۰ تا ۳۵۱ حضرت ابراہیم علیہ السلام ۳۹۹۳۵۲ ۲۰۰ ۳۷۲,۳۶۹,۳۶۷/۳۶۶/۳۶۳,۳۵۸ ۲۰۰٫۳۹۹ ابراہیم، مستری ابراہیم علی چشتی ابن انشاء ابن تیمیه ، امام ۴۱۶٫۴۱۵٫۴۰۵۳۹۸,۳۹۱/۳۸۷ ۵۰۷۸۳ | ۴۷۰٫۴۶۶٫۴۶۱۴۵۱٫۲۴۰٫۴۳۳ 0.0 ۴۷۳ ۴۷۳ ۴۹۲/۰۹/۲۷۸ تا ۵۱۵,۴۹۴ ۵۱۰ تا ۵۲۳/۵۲۱ تا ۱۶۰۲/۲۰۱۵۹۱٫۵۲۰

Page 625

ابو العطاء جالندھری ۱۳۱ ۱۳۳ ۱۳۶ احمد علی خان چوہدری ۶۱۰/۵۸۴/۳۰ احمد مسعود نصر اللہ خاں رضہ ۳۵۳ LA ابوبکر صدیق ۱۳۲۲ ۴۷۰/۳۳۱ اختر علی خان ، مولانا ۲۷۰ / ۲۹۰٫۲۸۷ الوحيل ابو ذر سجاری رسید ۵۲۳۱۴۴۹۴۴۳۴۴۱,۳۲۰,۳۱۹ ٢٠٣,٣٢١ ۵۴۲۳۴۱ ابو عبد اللہ، امام ۳۴۱ ارشاد ابو علی اسحاق اصفهانی ۳۹۶ ارشاد محمد ۳۵ احتشام الحق ، علاً ۳۹۱ اسحاق ان خراس المغربي احسان احمد شجاع آبادی ، قاضی ۵۰۹ اسد اللہ خان، چوہدری احسان اللہ شکور ۳۰۵۳۰۳ ۲۰۵٫۴۳۵,۳۷۲,۳۰۰,۳۰۷ ۱۹۲ احمد ، مولوی اب اسرار احمد ، ڈاکٹر احمد خان ، ملک ۱۳۵ اسود عنسی احمد خان نشستیم ۲۳۵ اشرف علی تھانوی ۵۲۳ ۳۹۵ ۵۰۹۳۳۲ احمد دین اشتیاق حسین قریشی ، ڈاکٹر ۴۵۴٫۴۴۴ احمد دین ، شیخ ۵۸۵ اصغر حسین ، سید احمد رضا خان بریلوی ۳۴۰,۳۳۳۳۳۲ اعجانه احمد ، ڈاکٹر ۴۰ اعجاز احمد ، شیخ احمد سر مهندسی مجدد الف ثانی ، سید ۳۳۵ اعجاز احمد ، مولانا سید احمد سعید کرمانی ۴۵۱۳۲۰۳۱۹ اعجاز احمد شاه احمد شاہ، حکیم پیر اعجاز الحق احمد شاہ ، مولوی ۲۳۱ اعجاز نصر الله احمد علی ، مولانا ۳۲۰ ۴۶۵ ۴۰۰ اعجاز ولی 1.16.۴۲۵ ۱۹۲ ۵۲۹ ۱۵۴ ۵۸۸ /۲۳۹

Page 626

۲۹۴۱۳۴۷ 06L ۵۳ 16 ۲۴۵ ۲۴۱ ۱۵۲ امین الدین ، میاں اعظم جبل افتخار احمد ۵۰۱ انور الدین پیر ، اقبال حسین اقبال محمد خان ۱۳۰ انور احمد اقبال الدین شیخ ۵۸۴/۱۸۴ انورشاہ دیوبندی انور علی ، میاں ۵۹/۵۷ النور علی آئی جی پولیس اکبر عسلی اے اگر شبلی اکبر علی چوہدری ۱۷۰ ایان سٹیفنز الطاف حسین حالی ۳۲۷ ایک نیا ز احمد الله بخش 19.الیس غیاث الدین احمد اللہ بخش الله بخش ، میاں انکین لارڈ الله بخش مستری ۱۷۲ ایم آر کیانی پیش ۳۱۹/۲۹۴/۲ اللہ دہ ، حکیم ۶۰۸۵۹۵/۵۹۴۴٩٣/٤٩١/٤٨٨ حضرت الیاس علیہ السلام ۳۹۹ ایم.اے چوہدری الیاس برنی ، پر وفیسر ۳۲۲ ایم.اے کر انڈکر ۱۶۷ ایم ٹی ٹینش 196 ۵۰۳ ۴۹۱ ۴۹۶ ۱۵۳٫۱۵۲ 1+1 ۲۹ امام بخش امام دین امستری أمة القيوم ۱۵۶ امجد سلی ، ماسٹر ۶۲ بار تھالو میوڈے امجد علی خان ۱۹۱ باقر لا ام داؤد صالحه خاتون ۱۵۵ باگ علی ام منین سیده ۱۰۲٫۵۸۷,۳۱۲ بخشی امین احسن اصلاحی ۴۶۸,۴۲۲,۳۵۰ برکت اللہ خان، ملک ۵۲۲

Page 627

برکت علی ، ملک.لاہور ۱۵۳/۱۵۱/ ۱۶۹ | بشیر احمد - جند انوالہ ۵۰۶۲۵۳ بسمارک، پرین بشیر احمد، چوہدری.دانہ زید کا ۵۴۳۵۰۲ ۹۳ ۴۷ بشیر احد، چو ہدری.ڈپٹی ڈائر یکٹر وزارت صحت بشارت احمد جوئیہ ، کرنل ۲۵۴ ۴۲۵ بشیر الدین محمود احمد، مرزا خلیفہ ایسے انسانی بشیر احمد - دیگری ہریاں به ۱۲۱,۱۷ ۲۹/ ۱۲۴ ۱۳۰/۱۲۷ تا ۱۳۲ بشیر احمد ، قاضی راولپنڈی نم ۱۳ تا ۱۳۹-۱۵۱ ۱۵۳/ ۱۵۵/ ۱۶۷ بشیر احمد، قاضی شیخو پوره ۱۷۸/۱۷۷/ ۱۸۵٫۱۸۲٫۱۸۱ / ۱۹۰ بشیر احمد ، ملک.سندھ ۱۲۰۵۲۰۳/۱۹۷۱۹۲ ۲۱۲/۲۰۸/۲۰۷ بیشتر احمد، منشی 168 ۵۸۰,۸۷ ۳۳ ۵۸۲ ۱۰ ۲۱۴ ۲۱۶ تا ۲۴۰۲۳۸٫۲۳۴ تا۲۳۲ بشیر احمد ، میاں فیصل آباد.۲۴۴ تا ۲۴۷ ۲۴۹ تا ۲٫۲۵۲ ۲۷۴/۲۷ بشیر احمد ، میاں - مگھیانہ تا ۲۰۹/۲۷۶ تا ۲۸۷/۲۸۶/۲۸۲ / ۲۸۹ بیشتر احمد ابن خواجه غلام نبی ۱۲۹۷٫۲۹۲٫۲۹۰ ۱۳۰ ۳۰۱ تا ۳۰۴ بشیر احمد این چو ہدری فقیر محمد ۳۱۳/۳۱ /۳۲۲۳۲۴,۳۲۱,۳۲۰ | بشیر احمد ایڈووکیٹ ، شیخ ۱۵۱ تا ۱۵۶/۱۵۴ ۱۳۲۳ ۱۳۴۵ ۳۲۹/ ۱۳۵۱ ۳۶۶/۳۵۹ ۱۷۲٫۱۵۹/ ۳۰۰٫۲۳۲ تا ۳۰۷/۳۰۵ ۴۰۶/۳۱ تا ۴۱۵٫۴۱۴/۲۱۱۴۰۸ ۱۴۳۳/۴۱۸/۳۷۲/۳۱۹۳۱۳٫۳۰۸.۴۵۵٫۴۴۹۴۴۶/۲۳۳/۴۱۸ ۶۰۱/۶۰۰/۵۸۴ ۶۰۰۰ تا ۶۰۹ ۵۰۰ ۵۰۱ / ۵۸۷/۵۰۰/۵۳۱ بیشتر احمد ایم - است ، مرزا ۱۳۶/ ۲۱۹ ۵۸۹ تا ۶۰۴۶۰۲۶۰۰ تا ۶۰۰ بشیراں بیگم بشیر احمد ، بابو بشیر احمد ، پھلو کی j.A 1+ ۳۰۰,۲۹ ۴۱۸/۴۱۲,۳۲۰۳۰۵۳۰/۳۰۲ ۵۸۹ تا ۵۹۳ ۶۰۴۶۰۲۶۰۰۵۹۹ ۶۰۲تا ۶۱۰ !

Page 628

بشیر احمد بھٹی ALL بشیر احمد زاہد ج بهادر خان، سردار ۴۵۳ | جعفر صادق، امام بہاء الله ۳۳۸۳۲۸ جلال الدین شمس ۱۳۰- ۳۰۳۱۲۱۸/۱۹۲ تا ۴۷۱۰۴۳۴٫۴۱۵٫۳۰۵ ۵۹۹٫۵۸۸٫ ۵۶۲ جماعت علی شاہ ، پیر پٹیل ، راڈ 000,11 ۵۵۴/۱۱ جلال گجر پریم ناتھ بزانه پگاڑا پیر پولوس ١٣٣٤ ۱۸۹/۱۰۷ ۲۳۰ جمال احمد ۱۶۶۰۱۵ تا ۵۰۵/۱۶۹ ٣٩٩ جمال الدین ، چوہدری ۱۳۴/۱۲۹، ۵۸۳/۱۳۶ جمیل ابن حکیم نور محمد جواہر لال نہرو تاجدین انصاری ۵۱۹/۴۹۳۴۴۸ | جهان خان جهان را دخان ، راحیه 191 ٥٩٠ 1-0 جی.ایم منصور ردمین ۴۲۹ جھنڈا خان، میاں چ ثاقب زیر دی ۲۵۳ / ۲۶۳/۲۶۱ چارلس نهم ۴۳۵٫۲۲۷ چاند بیگم ثناء اللہ امرتسری ۵۳۴ ه ALA ۱۵۲ ۱۷۲

Page 629

حارت و شقی حاکم علی حاکم علی ، چو ہدری حامد علی خان ۳۹۶ خاوی سین، پیر DAY اتخادم حسین خدابخش ۱۴۴ خدا بخش ، منشی خ ا حضرت خضر علیہ السلام حاملين من الله ما عکاسی ٣۹۶ خلیل احمد حبیب احمد، شهزاده.۲۵۲ خلیل احمد بی.اسے بی ٹی حبیب اللہ ، شیخ ۳۲ خلیل احمد قریبتی حرام بن ملحان خورشید احمد، چوہدری حسن بی بی خورشید بیگیم حسن محمد خال عارف ۳۰۱ خورشید عالم حسین ، امام حشمت الله حفظ الرحمن ۳۱۰ خوشی محمد ، کرنل ۳۵۳ حمید احمد حمید احمد - بمبانوالہ حمید احمد ، قاضی حمید احمد سنیاسی ۱۲۳ حضرت داؤد علیہ السلام راڈر احمد، سید 069 ۵۸۲ ٣٠١ ۶۹۶۶ ۴۰۰٫۱۹ ۲۰۳ داؤد غزنوی ، مولانا ۱۳۱۹ ۴۷۰٫۳۳۰ ۳۳ ۵۰۹ ۱۴۰ حمید نظامی ۵۱۵/۵۰۲/۴۴۳ دحیہ کلبی حیاء الدین ، جنرل ۴۰۴ دستی دوست محمد خان ، چو ہار کی ۲۱۲ ۴۲۴ 116

Page 630

٢٥٣ ۱۵۴ 19A ۲۶ 12 دوست محمد شاہد - مؤرخ احمدیت ۳۱۹/۲۱۷ رحیم بخش داد شیخ دیوان احمد ۵۹۸٫۵۹۲۲۵۸۸ دیدار علی مولوی دین محمد، چوہدری دیوان سنگھ مفتون ڈانلڈ ولبر } رشید احمد ، ڈاکٹر ۳۳۳ رشید احمد بٹ ۵۸۰۹۲ رشید احمد چغتائی ۵۰۳ رشید احمد ساسی رفعت محمود رفیق، ڈاکٹر ۵۶۹ ریاض احمد، چوہدری ڈلڈ ائن ، ڈیلیو.جی ۵۵۵/ ۵۵۶ ریاض الدین ، مولانا ڈی کا لگنی ، ایڈمرل ۱۵۲ ز ; زیرہ بیگم ذو الفقار علی ، نواب سر ۴۲۶ زیڈ اے سلہری زین العابدین ولی الله شاه رسید ۱۲۶ ۱۲۶ ۲۵۲۲۲۳۲۲۰ ۲۱۸ ۰۲۱۳ ۱۲۰۸ ۳۵ ۲۵۴ رازی ، امام ٣٣٥ راعت ، امام ۳۳۵ زينب النساء بیگم رحمت الہلی ، حافظ ۱۶۹ زینب اہلیہ میاں عبد الرحمان صابر رحمت بی بی 1-A س رحمت علی رحمت علی یوسٹا سٹر ساجده خانم رحیم بخش ، حکیم ۱۱۵ / ۵۸۲ سجاح بلید کا زید

Page 631

١٦٠٣,٣٠٣ ۵۳۴ ۴۸۵,۳۲۰ ۳۵۳ 141 ۱۵۲ ۳۳۷ ۵۵۲ سدے خان، منشی ۱۳ سلیم الله - نوشہرہ سراج الدین ۱۵۳ ۱۶۶ ۱۶۷ سیم الله مدد گار کارکن سراج الدین نہ نگھیا نہ سراج الدین ، ملک حضرت سلیمان علیہ السلام ۵۸۴ سلیمان منصور پوری رسید و، سلیمان ندوی سید سراج الدین منیر ، نمازی ۴۲۶٫۴۶۱ سمیع الرحمان سردار احمد چوہدری سمع اللہ بھٹی مر دار احمد ، گھسیٹ پورہ ۵۸۳ سولی ، مورخ سردار بیگیم 116 سید احمد ، مولوی سردار بیگم زوجہ احمد علی خان سردار خان ، چوہدری سردار خان ، چوہدری.بہری کہوٹہ کردار علی ، چوہدری بردار محمد ۳۵۷ سیف الرحمان ملک 1.6 ۳۱ سیف پالمپوری ش شاہ محمد، چوہدری ۱۴۸ شاہ ولی اللہ محدث مروی ۵،۹ شعر احمد عثمانی ، مولانا ۲۵۸٫۴۲۳ سر فرار حسین سر در محمد خان سعید احمد ملک ٤٤١ ٥٢٢ شريح الدين سفیان ثور می رود سکندر مرزا سلطان احمد ، مولانا ۲۲۰ شریف احمد ، مرزا ۲۵۴ ۲۵۷ ۲۵۹ تا ۲۶۲ ٣١٨/٢٨/٢٤۳۲۷۰/۲۶۵ ۵۷۶۴۲۶ 14 شریعت احمد ، میاں.فیصل آباد DAD ۲۷۶ شریعت احمد میاں.لاہور سلطان احمد نواب شاہ سلطان احمد پیر کوئی

Page 632

۳۱۹ 67.60.49 ۱۳۵ ۱۳۴ ۱۴۴ PLA ۴۹۵ ۳۹۵ 06A ۵۲۹٫۵۲۸ ۵۸۴۱۳۳ ۲۴۹ شریعت احمد امینی ۵۳ صفدر حسن صدیقی شریف احمد باجوہ ، چو ہدری ۴۰۸ صفدر خان شریف احمد خالد شریف کشمیری صفیہ بیگم ۵۷۸ صلاح الدین ، چو ہدری شعبه ، امام ض شمیم شرکت شہاب الدین - مردان ۵۸۵ ضمیر احمد ، میاں شور بازار ، کایا ۳۸۷ ضیاء الدین مولوی شورش کشمیری ۵۱۴/۵۱۲۵۰۶ مینیاء الدین آن حافظ آباد منیاء الدین ولد میاں روشن دین b 069.60 LA شیر فهمت عالی شیر محمد مومیا ص صابر، مولوی صاحب دین شیخ صاحبزاده ، مولانا صادقه میگیم صالح محمد طایا زنکن طفیل محمد ، میاں ۴۹ طلیحہ اسدی سام سم ۶۳ ظفر الدین حکیم ظ ۵۳۲ ظفر علی ، چوہدری صدیق احمد ، میاں ۱۰۸ ظفر علی خاں ، مولانا صدیق الحسن گیلانی ۳۵۴ ظفر محمد ظفر صدیق حسن خاں ، نواب ۳۲۷ ظہور احمد ، چوہدری ۳۲۷

Page 633

160,14- 16F 160 167 109 ظہور الدین ایڈووکیٹ ۵۹۶ عبدالحکیم ، میاں عابد حسین ع عبد الحکیم ایم اے ، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم قاسمی ،مولانا الحميد عاشق محمد خاں، میاں ۱۲۱ تا ۱۲۳ عبد الحمید - در دلیش قادیان عائشہ الہی ۲۳۱ عبد الحمید - سلطان پوره عائشہ صدیقہ رض ۴۰۰ عبد الحمید شیخ عباد الله گیانی ۴۱۰ عبد الحمید، قاضی عبد الاحد خانپوری ۳۳۷ ۳۳۸ عبد الحمید.و نجوان عبد البهاء عبد التواب ، مولوی عبد الجبار غزنوی عبد الجلیل شاہجہا نوری عبد الجليل عشرت ۳۲۲ عبد الحمید آهستی ، چوہدری ۲ عبدالحمید بٹ ۵۳۴ عبد الحمید ٹیلر ماسٹر 140 عبد الحمید منیم ۱۲ عبد الحنيف بدایونی ، مولانا عبد الحامد بدایونی ، مولانا ۴۶۰,۳۹۱ عبد الحئی ، مولوی عبد الحق ، مولوی عبد الحی آئرن مرچنٹ ۵۸۳ 1.6 ۵۹ 1-6 ۴۹۲ AY OPP ۳۰ عبدالرب ، ملک ۵۷۶/۲۷۱۳۷۰ عبدالحی.نین کے تو روبے ۱۰ عبدالرب نشتر ، مهردار عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزها ۶۰۲/۵۹۵ عبد الرحمان - جھنگ منگھیا نہ عبد الحق غزنوی عبد الحكيم عبدالحکیم ، مولوی ۳۳۰ | عبد الرحمان ، چوہدری ۱۵۲ عبد الرحمان - سنتھالہ عبد الرحمان - سمندری ٤٢٩ ۵۸۴ ۱۱۵ ۱۵۸۳ ļ

Page 634

عبدالرحمن ، قریشی.سکھر عبد الرحیم پراچہ ، شیخ آمار ۳۰۷ عبدالرحمن ، قریشی.شہزادہ ۹۱ عبدالرحیم درد ایم اے ۳۰۲/۳۰۱/۲۱۸ عبد الرحمن - ملتان " عباد الرحمان ، ملک ۱۵۵/۱۵۴/۱۵۱ ۵۹۸ ۲۰۳٫۵۹۹٫ ۲۰۵ ۲۰۹ 106 عبدالرحیم ڈسپنسر عبد الرحمن ، میاں عبد الرحیم شاہ ۵۸۵ ۱۸۵ عبد الرحمن انور ۲۸۰/۲۵۱/۲۵۰ عبدالرحیم شبلی عبدالرحیم صراف ۱/۶۰۴,۵۹۱,۵۹۰ ۴۴۳ 116 عبد الرحیم عارف ۱۲۶، ۱۲۷, ۵۸۴ عبد الرحمن خادم ۳۰۵۳۰۳,۳۰۱ عبد الرحیم کمہار نڈر ۴۳۲۳۰۷ تا ۵۹۵٫۵۹۳/۴۴۰ عبدالرزاق کمپاؤنڈر 4-9,4.01096 عبد الرشید ، چوہدری عبد الرحمن شمس ۵۸۴/۱۲۷ عبد الرشید ، شیخ عبدالرحمان صابر ۶۰ عبد الرشید - لاہور 14A 67,46 16 161 عبد الرحمن سیکرٹری بہشتی مقبرہ ، قاضی ۲۷۵ عبدالرشید ولد عبد الرحمن عبد الرحمن مدراسی ۵۰۰ عبدالرشید ولد ماسٹر چراغ دین عبد الرحمان وکیل، شیخ ۵۷۷,۸۳ عبدالستار - لاہور ۱۲۰ 16N عبدالرحیم، حکیم ۱۷۰ عبد الستار - ملتان ۵۱۱ عبد الرحیم ، خلیفه عبد الستار نیازی ۵۰۵٫۵۰۴,۳۲۰۳۱۹ عبد الرحیم ، شیخ 16- عبد السلام ، ڈاکٹر عبدالرحیم اشرف ۵۰۲/۲۱۸ ۵۲۲۵۱۶ عبد السلام ، میاں ۵۲۴٫۵۲۶٫۵۲۳ عبد السلام زندگی ۱۰۰ تا ۱۰۲

Page 635

141 16- ام 3 ٢٩٠ この ۳۳۰/۱۵۴ ۲۳۴,۱۵۱ ۳۳۴ ۳۳۵ ۳۳۲ ۵۵۴ ۱۶۹ ۲۲۵,۱۸۵ 167,190 ۱۵۷/۱۵۶ ۱۲ عبدالسمیع ، میاں عبد الشكور ، حافظ عبد الغنى عبد ۶۴ عبد القادر سر عبد الشكور - دير الغيم، لکھنو ۳۳۱ عبد القادر، مولانا شیخ ۳۴۰۳۳۸ عبد العزيز - لاہور عبد القادر بدایونی ۱۷۱ عبد القادر جیلانی عبد العزیز ، مولوی ۲۳۹ عبد القادر حمزه عبد العزیز آڑھتی ۵۸۱ عبد القدیر ہارون چغتائی عبد العزیز بجھا مری ۱۳۹ عبد القيوم ، ملک عبد العزبية خان وه تاام عبد القيوم خال خال عبدالعزیز خاں.ایڈووکیٹ جنرل ۳۱۹ عبد الکریم ، بابو عبد الغفار عبد الکریم.چنیوٹ عبد الغفار - مری عبد الغفار خاں خان الغفور، حوالدار ۵۲۲ 4.عبدالکریم ، کامریڈ عبد الکریم پوسٹماسٹر ۵۷۵ عبد اللطیف چوہدری عبد الغفور آف ظفروال ۵۸۰ عبد اللطیف ، چو ہدری.لاہور عبد الغفور ولد الني بخش 140 ۶۴ 16 اللطیف شیخ عبد اللطیف گوجرانوالہ عبد الغفور ہزاروی عبدالغنی ، چوہدری.لاہور عبد اللطيف - ہزارہ عبد الغنی ، چوہدری لنگھیا نه ۱۲۶/ ۵۸۳ عبد اللطیف شهید ، صاحبزاده عبد عبد الغنی ، مولوی نہ عبد الغنی رشدی ، چو نادری عبد الغنی صراف ۱۳) عبد الند، ملک ۲۵ عبد اللہ ، مولوی عبد اللہ خالد، ملک :

Page 636

عبداللہ شاہ عبد الماجد باراليوني عبد الماجد دریا آبادی عبد المالک خان ، مولانا عبد المجید - ربوه عبدالمجيد ، شیخ عبد المجید ، مولوی عبد المجید خاں عبدالمجید زرگر ۱۱۴ عطاء الحق ۲۸۶ ۲۲۰ عطاء الرحمن - او د ھوال ۴۷۸ عطاء الرحمان - راولپنڈی ۳۰۱ عطاء اللہ ، صوفی ۲۵۲ = عطاء اللہ ، کرنل ۱۴۰ ۳۵۳ 164 ۳۵ خطار اللہ ایڈووکیٹ امیاں ۱۲۹ ۳۰۷ ۶۴ عطاء اللہ خاں ۵۸۲۱۲۵ عطاء اللہ شاہ بخاری رسید ۱۹۷، ۳۲۷۳۱۹ ۴۴۳٫۳۹۱,۳۵۵/۳۵۱/۳۴۱۳۲۸ ۵۱۹,۵۱۰۰۵۰۹/۵۰۶۴۶۰ ،۴۴۸ ۵۴۴٫۵۳۰٫۵۲۹٫۵۲۱٫۵۱۹ /۵۱۸/۵۱۳ • DAY ٢٨٤ ۳۲۱٫۸۴ i ۳۹۶ ۴۱۲ عبد المجید سالک عبد المنان قادر آبادی عبد الواحد ، چوہدری عبدالوہاب ۴۷۳ عطاور بی چوہدری بد السميع احمد ظفر ۶۰۳/۵۹۸ علی احمد عبید اللہ احراری عثمان غنی رض ۵۳۸ علی احمد بردسی علی بهادر خاں عدالت خان چوہدری ۱۴۸ علی شیر ، چوہدری عزیز احمد مرزا عزیز احمد سیالکوئی عزیز الرحمن مشگلا عزیز اللہ گرداور عزیز محمد خاں ۳۷۲/۲۶۳ علی قاری ، کلی ۵۳۱ ،، علی کرم الله وجهه على محمد عل محمد اجمیری، مولوی ۵۸۴ علی محمد خارجی

Page 637

۱۴ ۳۳۱٫۳۲۲ ۱۲۳۱۲۳۰ ۲۱۱/۲۰۶ /۳۰۵ /۲۰۳ /۲۰۱ ۱۹۰ ۲۶۶٫۳۶۵ ۱۲۶۳/۲۵۹۱۲۵۴/۲۳۴ ۱۳۱۴۳۱٢,٣٠٥,٢٩۶/۲۹۵۲۸۷/۲۸۱ ۴۵ علی محمد منیم عمر ابن الخطاب عمر حیات عمر دین عنایت الرحمان ، چو ہدری ۱۹۱/ ۵۸۵ ۳۸۳ تا ۳۹۸٫۳۹۶/۳۹۰۳۸۶ تا عنایت اللہ - بہلولپور ۵۸۲,۵۷۹ ۴۳۸,۴۳۶/۴/۲/۴۰۷۴۰۴/۲۰۳/۴۰۱ عنایت اللہ ، ملک.بدین عنایت اللہ خاں.دھر گیانہ کی ۵۰۲٫۵۰۰٫۴۹۹ ،۴۵۷ /۴۵۶٫۴۴۰ ۵۰۵ ۵۴۸٫۵۴۳/۵۲۹٫۵۲۷ عنایت علی شاه زیر وی ۱۲۳/۱۲۰ غلام الله السلم حضرت عیسی علیہ السلام ۲۹۴٫۲۳۳ غلام باری سیف ۳۹۸٫۳۹۵٫۳۷۲٫۳۱۰٫۲۹۹ تا غلام ربانی ۵۳۲/۴۳۹,۴۰۰ " غلام رسول - احراری ۵۸۰,۱۰ = $ DLA DAY 1.6 ۲۹۰ DAD ۲۶ DAN عیسی نمبر دار احمد نگر ۱۳۲ غلام رسول.دیہاتی مبلغ غ غلام رسول سمندری غلام جیلانی ، چوہدری غزالی، امام ۴۸۰۶/۱۳۸۱ غلام جیلانی ، برق علام احمد - جنگا بنگیال ۵۷۸ غلام حسین غلام احمد - راولپنڈی ۴۰۴ غلام حسین - کرتار پور ۵۷۸ غلام حسین ایاز غلام احمد، میاں غلام احمد قادیانی مرزا مسیح موعود علیہ السلام غلام حیدر ، بابو ۱۸ ۱۲۱۰ ۱۵۰ ۹۶/۰۸/۲۱ ۹۷ غلام حیدر ، چوہدری ۱۲۰/۱۲۸ ۱۳۸/ ۱۵۳٫۱۴۵/ ۱۹۱ غلام حیدر، ماسٹر

Page 638

10 غلام سرور غلام سر در خان غلام علی اور ہار غلام غوث غلام فرید ۵۸۱ غلام مہر علی گولڑوی ۵۸۵ A.غلام محی الدین لکھوی غلام بینی ، مرنه ! ۵۸۰/۸۸ غلام نبی.مصری شاہ لاہور ۵۷۹ غلام نبی ، میر 069 ۴۸۹ DA.1.6 غلام فرید ملک ۶۰۴ تا ۲۰۶ غلام نبی جانبانه ، مرزا ۱۱۰, ۵۲۱٫۱۹۷ ۵۲۹ ۱۴۵ غلام قادر ، چوہدری غلام قادر چک یا بہاولنگر ۵۸۴ غلام نبی گلکار ، خواجه ۵۷۷/۳۴ ۲۶ غوث محمد ، حکیم ۱۴۳ غیاث الدین احمد ۴۲۴۲۴۲۳/۳۱۳ غلام قادر، چوہدری.ربوہ علام محمد - اوکاڑہ غلام محمد ، بایو ۱۷۴ غیاث بیگیم غلام - تاندلیانوالہ OAF علام محمد حکیم ن ۳۵۴ ۲۹/ ۵۱۹ فتح دین، ٹھیکیدار غلام محمد - گورز جنرل ۲۱۹/ ۵۱۹ ۵۶۷ ۱۵۶۴٫۵۳۰ نتج محمد غلام محمد ، ماسٹر غلام محمد ، میاں 160 فردوس شاه رسید ۱۰۱ فرزند علی ، میاں = غلام محمد احمدی غلام محمد جلد سازه غلام محمد شاہ 1.9 فرزند علی صادق ،چو ہدری فضل احمد، قاضی ۱۳۵ فضل احمد باجوہ غلام مرتضی، چوہدری ۳۰۵٫۳۰۴٫۳۰۳ فضل احمد تھا بیندار ۶۰۳/۵۹۸/۳۷۲,۳۷ /۶۰۷ تا ۲۰۹ | فضل الدین 1.4 DAY ۴۵۱ ۵۰۴ ۱۴۹

Page 639

19 فضل الدین ،چوہدری فضل الدین.سریا نوالہ : فضل عمر ولد عبد الله فقیر محمد منگریو + A 19- ۹ ۰ ۱۱۰۱ فیروز الدین امرتسری ۱۲۷۲/۹۰ ۵۸۰ فضل الدین بنگوی ۱۰۹ فضل الرحمان.سانگھڑ ۵۸۵ فیروز خان نون فضل الرحمان سپر وائر ۳۵۳ فیروز دین ، شیخ فضل الہی، با بیا فضل الہی پوسٹماسٹر ۵۰۶ فيض الحسن ، صاحبزاده ۲۴۹/۲۴۳۱۷۴ ۵۱۳٫۵۱۲ LA ۵۹۵ ,۵۷۹ ۲۳۲ ۱۶۵ ۱۶۳ ۴۴۳۳۱۳ ۳۴۲ ٣٢٠ 46 060,16 فضل الہی ، چوہدری فضل الہلی ، چوہدری.سابق صدر پاکستان ق قاسم الدين، بابو فضل الہی ، مولوی ۶۴ قدرت اللہ حافظ فضل بن بسار ۳۴۱ قدرت اللہ سفوری فضل حق ، ڈاکٹر ۱۳۱، ۱۴۰٫۱۳۴ قدیر الدین جبس قربان علی خان فضل حق ، شیخ فضل حسين ۲۵۳ قطان، امام قمر الدین، پیر فضل حسین ، ملک ۱۲۲/۱۲۰/۶۴/۲۱ قیصر مصطفیٰ فضل دین.لاہور ۱۴ فضل دین ، میاں فیصل آباد ۱۰۹ کبیر احمد، قاضی فضل دین آن سریا نواله ۹۹ کرم الہی سیٹی فضل دین حبٹ ۱۲۱ کریم بیگ، مرزا

Page 640

کفایت حسین ، حافظ کیتھرین ڈی میڈی چی گاندھی 14 ۴۶۷۱۳۲۰ مبارک احمد مرزا ۴۱۹/ ۷۰۴ / ۶۰۵ ۱۵۲ مبارک احمد ، میاں فیصل آباد |}.مبارک احمد ناصر مبارک احمد ولد حکیم سرا جدین مبارکہ بیگم ، سیدہ نواب 1.A 267,47 ۲۵۷٫۲۵۶ گرانٹ اسے ھے ۱۵۲ مبشر احمد - گوجر انوالہ ۵۸۱/۹۶ مجیب الرحمن شامی گلزار احمد پٹواری ل لال دین لال شاه لال شاه سنجاری لطیف احمد شتی 100 م م محبوب محبوب عالم 1.4 ۱۵۴ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۳ تا ۵ / ۱۳۸/۱۵ ۱۲۳۴/۲۲۵/۲۲۴۲۲۲/۲۱۲/۲۰۶/۱۸۵ ۲۹۴,۲۸۹,۲۸۵,۲۸۶/۲۸۳ ۲۸۲ ۳۳۳۱۳۲۹۳۲۳۳۲۲۳۱۰/۲۹۶ لطیف احمد، قریشی.ڈاکٹر ۳۰۱ تا ۳۷۳/۳۶۵/۳۵۸۰۳۵۵۳۳۶ لیاقت علی خان ۲۲۰ ، ۵۴۷ ۳۷۹۳۷۶/۳۷۵ تا ۳۸۳/۳۸۱ تا ۳۸۶ مارٹن لیو مقر مالک ، امام مبارک احمد ، شیخ مبارک احمد.لاہور ١٣٩٥/٣٨٩ ٤٠٢/٢٠٠/٣٩٨/٣٩٤ ۴۳۴٫۴۱۹ ،۴۲۱۷۴۰۸/۰۷/۰۳ ۴۵ ۵۰۹/۵۰۴/۲۸۸ ،۴۸۵/۴۸۴ /۴۷۸ ۱۵۴ ۵۵۲٫۵۲۸/۵۳۹٫۵۲۶٫۵۱۹٫۵۱۸ ۳۴۲ 161 محمد ابراہیم ، چوہدری

Page 641

محمد ابراہیم حوالدار محمد البدانیم ، میر ۱۴۸ محمد اسمعیل ، ڈاکٹر ۵۷۹ محمد اسمعیل ، مستری محمد ابراہیم.دیبہ والہ ۵۷۹,۸۹ محمد اسمٹیل ، مولوی محمد ابراہیم عابد ۵۷۹,۷۶ محمد اسملیل، میاں محمد احسن شاه محمد احمد ، خواجه 069,64 ٣١ ۲۱ 1.A محمد اسمعیل دیا نگڑھی ۱۱۰ / ۱۲۷/ ۱۳۱۸ ۵۸۱ ۵۸۲ محمد اسمعیل پانی پتی ، شیخ محمد احمد ، سید ۵۱۳۱۳۳۴ محمد اسمعیل میر ۱۶۳ /۱۹۱ محمد احمد.لاہور - ا، محمد اشرف ، ڈاکٹر محمد احمد جیلانی رسید ۴۱۷ محمد الشرف.لاہور محمد احمد خان ۵۸۵ | محمد اشرف محمد احمد قادری ، البو الحسنات سید ۳۱۹ محمد اصغر، مرزا ۳۳۴ ۳۴۷۰/۱۳۳۴/ ۴۷۰۴۶۵/۴۶۱ محمد افضل ، ملک ۴۲۹۲٫۴۷۹ تا ۵۰۹/۵۰۸۴۹۴ محمد اقبال ، ڈاکٹر سر ۵۱۴ ۱۵۱۲ ۳۶۲ محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ، شیخ ۱۲۳ محمد اقبال، شیخ ۵۹۵/۵۹۳/۵۸۱۷۱۱/۳۰ محمد اقبال قریشی محمد احمد نظام محمد اقبال - اوکاڑہ محمد ادریس مفتی ۳۲۰ ۴۷۰ محمد اقبال زرگر، میاں محمد ادریس کاندھلوی ۵۰۶ محمد اکرم - گوجرانوالہ ۶۴ ۵۴۰ ۳۲۷۲۸۹ ۶۰۵ ۱۶۴ ۱۴۷٫۱۴۶ 197 ۱۲۱ محمد اسحاق ، مولوی ۴۲۲ محمد اکرم ایم اے ، شیخ ۵۳۲ /۵۳۳.محمد اسلم سیف ، قاضی ۵۱۹ محمد الدین - ترگڑی محمد اسماعیل محمد الدین ، حکیم OLA

Page 642

19 محمد الدین، میاں ۴۳ محمد حسین ، ٹوبہ ٹیک سنگھ محمد الدین، میر حسین - جڑانوالہ محمد الدین بٹ ۱۰۹ محمد حسین ، چوہدری ۱۲۰ DZA محمد امین، چوہدری پرسین چو ہد ری.ملتان ۵۹۵/۵۹۳ محمد امین ، خواجه ۵۷۹,۸۹ محمد حسین ، حکیم - مرسم عیسی محمد انور ، ڈاکٹر ۱۲۰٫۹۹/ ۵۸۳ محمد حسین - سیالکوٹ.محمد النور شیخ محمد حسین شیخ محمد انور حسین، چوہدری ۵۹۳/۵۸۰ محمد حسین - گوبر الواله 096,090 محمد بخشش ، حافظ محمد حسین.نندی پور ۱۴۴ محمد حسین بٹالوی محمد بخش ایڈووکیٹ ، میر ۳۸، ۵۷۸,۳۰۷ محمد حسین چیمبر محمد حسین خان 1 محمد بشیر، چوہدری ۳۱/۳۰ محمد خان ولد عالم خان محمد بشیر آزاد، شیخ ۵۸۱/۹۷ محمد دین ، مهر اومی ۵۸۳/۱۳۸,۱۲۹,۱۲۸ ۵۳ ۶۰۰ ۱۲۹ ۵۸۳۱۲۲ ۱۴۹ ۲۷۵ محمد بشیر احمد ، سائیں 1+4 محمد ذاکر، مولانا ۳۱۹ /۱۳۹ محمد بشیر احمد ، میاں ۵۸۴ محمد ذکر یا آن سهارنپور ۳۴۲ محمد بشیر زیر وی ۲۵۳ محمد رفیع ، صوفی.سکھر ۵۸۵/۲۳۰ محمد ره فیق جراح ۵۸۲ محمد رفیق کفش سازه محمد جعفر محمد حبیب اللہ اوج محمد زاہد، حکیم محمد حیات ، مرزا ، محمد زمان شاه ، پیر 064,AY 16M ١٢ ۵۸۶۱۸۵ محمد حیات ، مرزدا.سیالکوٹ ۵۸۰ محمد شاہنواز خان ، ڈاکٹر

Page 643

محمد شریف.جڑانوالہ ۱۲۰, ۵۸۲ محمد صدیق ، مستری محمد شریف ، چو ہدری.صادق آباد JAM محمد صدیق آڑھتی ، شیخ ۱۴۲/ ۱۴۵ محمد شریف چوہدری - فیروزه واله ۵۷۹ محمد صدیق گورداسپوری محمد شریف ، ماسٹر محمد شریف احمدی ، قاضی محمد شریف موچی - چونڈہ ۵۸۰ محمد صفدر ، خواجه 41 ۳۱۵/۶۶ ۵۴۰ محمد طاہر لدھیانوی 1 محمد طفیل ، میاں.ایڈیٹر نقوش ۴۹۰٫۴۸۹ محمد شریف ایڈووکیٹ ، چو ہدری ۳۰۷ محمد طفیل ، ملک ۱۶۹/۱۵۳/۱۵۱ ۹۶ ۵۹۳,۴۱۰ محمد ظریف ، ملک محمد شفیع ، ملا ۹۱ محمد ظفر اللہ خان مصر جو مری ۸۶/۱۱/۷/۶ محمد شفیع ، میاں ۱۵۶/۱۴۱ ۱۲۸ ۱۲۰/۱۱۸/۱۰۴/۱۰۰ محمد شفیع.ننکانہ صاحب ۵۸۰٫۹۹ ۳۲۳٫۲۷۶۲۷۲,۲۵۰٫۲۴۹/۱۹۳ محمد شفیع اسلم ، ماسٹر ۵۸۲/۱۲۴ ۳۶۲ ۴۰۰ ۱۳۱۹ ۳۲۵/۴۲۲/۲۲۰ محمد شفیع الشرف ۱۴۹۷/۴۹۶/۴۹۱٫۴۵۶٫۴۵۵۴۲۶ محمد شفیع بر می ۱۵۱/ ۱۵۵/ ۱۶۰ ۵۵۹٫۵۵۰٫۵۵۰٫۵۴۳٫۵۴۱ /۵۳۷۰ محمد شفیع محقا نیدار ، میاں ۲۸) محمد عالم.ڈھوک رتہ 066 محمد شفیع دیو بندی ، مفتی ۴۷۰,۳۲۰ محمد عالم منهاس لدھیانوی محمد شفیع کھوکھر ٥٥ محمد عبد اللہ ، چوہدری محمد صادقی.ہوڑوچک محمد صادق.لاہور ۱ محمد عبد الله - کونٹ فرزند علی محمد عبد الله ، شیخ.دار به من ۵۴۰ LA DAD محمد صالح ۵۷۶/۲۶۰/۲۵۳ محمد عبد الله ، ملک ۲۵۰٫۲۴۹ ۵۷۶ محمد صدیق ، چو ہدری - لا بشر بربین ۱۳۰۳ ۶۰۰ محمد عبد اللہ ملک - مولوی فاضل ۲۷۵٫۲۷۲ ٣٣٩

Page 644

محمد عبد اللہ ایم.ایس سی.لاہور محمد عبد الله ، باجوہ محمد عثمان محمد عظیم ۲۳۲ محمد فقیر اللہ ماں ۵۷۸ محمد قاسم نانوتوی ۵۸۵ محمد لطیف ، چوبداری 14* محمد لطیف - کار کن محمد علم الدین سالک ۲۹۸/ ۲۹۹ محمد لطیف - گیر حیر انواله محمد علی محمد علی ، چوہدری ۵۱۴ محمد محسن ، مهر محمد مشتاق محمد علی.مانگٹ اونچے ۵۷۸ محمد مقبول شاہ 166 46 ۲۱۸ الم ۵۸۲ ۱۷۵ محمد منیر، بیش ۲۹۴/۲/ ۱۳۱۹ ۴۱۹ ۳۵ محمد علی انبالوی ، شیخ.لاہور محمد علی انبالوی، شیخ.پوسٹر گانہ محمد علی ایم.اے ، مولوی محمد علی باب محمد علی بوگرا 160 DAI ۳۴۲ ۵۹۴/۴۹۶۴۹۳/۴۹۱۴۸۸,۴ ۳۹۶ محمد منیر، ڈوگری ہریاں ۲۵۳ محمد منیر.کھیوہ باجوہ محمد علی جالندھری ، مولوی ۵۰۹ تا ۱۳ ۵ محمد موصیل ، حکیم محمد علی جناح ، قائد اعظم ۳۵۶٫۶ محمد نذیر، قریشی ، ۱۳۵۸ ۴۳۰۴۲۳۳۶۴/۳۶۲ محمد نذیر پیچیکی ۵۴۷۴۹۷۴۵۶ محمد نوازہ آڑھتی محمد علی جو ہر ۳۶۴ محمد نصیر احمد محمد علی درانی ۵۸۶ محمد یسین خان محمد علی شمسی محمد يعقوب DALAL ۹۱ ۱۳۳ ۱۲۴ محمد علی کاندھلوی ، مولانا ۴۷۳,۴۶۸ محمد یعقوب، ڈاکٹر ۱۷۱/۱۵۸/۱۵۴ محمد فاضل ۲۹ محمد یعقوب شیخ

Page 645

۱۵۴ 141 166,164 ۲۳۵ ۳۵ ۵۳۲ ۲۲ ۵۸۳ محمد الحسن ۲۰۶ محمود الحسن ، مولومی ۳۴۳ محمود الہی ۳۳۸ محمود واحد گیلانی مختاراں زوجہ محمد الدین مختار احمد ، حکیم PIA محمد یعقوب کو کھوال محمد یعقوب ، مولوی محمد یعقوب طاہر محمد یعقوب کلینی محمد یوسف ، آڈیٹر محمد یوسف بی.اسے.بھائی محمد یوسف خود مشغولیس ۴۴٫۴۷ حضرت مریم علیہ السلام محمد یوسف شیخ محمد یوسف ، مولوی ۶۵ مریم صدیقہ ، سیده دائم متین) محمد یوسف شاه ١١٣ مرتضی احمد خاں میکشی ۴۰۹/۲۰۴,۴۰۲ /۳٩٩/٣٩٠١٣٩٥ ۶۰۸/۴۷۱/۴۳۶٢٣٠,٣٢٧ ۵۹۸ ۱۱۶۹/۱۶۵ ۱۶۳/۱۵۳ 147 ۴۱۳ ۱۵۲۹ ۴۰۶ ۳۹۵ ۳۰۹ مسعود مسعود احمد مسعود احمد ، چور پادری مسعود احمد خال محمد یوسف ہوتی، قاضی محمد یولس.پرانی انار کلی 16.محمد یونس.رتن چند روڈ لاہور ۱۶۹ 141 ۲۵۳ ۲۹ مسعود احمد خان دہلوی ۳۱۳ مسعود علی خان مسعود نصر اللہ خاں ∙1-0 محمد یحی محمد یحیا.فلیمنگ روڈ لاہور محمد یحیا.نیلا گنبد لاہور محمود احمد.راولپنڈی محمود احمد ، میجر ڈاکٹر محمود احمد ایڈووکیٹ محمود احمد جان ۴۴ مسعوده ابراهیم محمود احمد جیلانی، سید ۴۱۵ میله گذاب ۴۳۸ 144 محمود احمد خاں ایم.اے

Page 646

مشتاق گورمانی ۴۴۴ منظور احمد قریشی مطبع الرحمان ۳۵۳ منظور احمد، ماسٹر ۱۷۴/۱۲/۱۵۵ مظفر احمد، مرزا ۱۵۳ ۱۵۵ ۱۵۶ 060 منظور من ایم.ایل.اسے منظفر احمد مرزا - ابن مرزا قدرت الله ۲۵۳ منظور حسین ، چوہدری مظهر على أظهر معراج دین پنساری معراج دین سیلوان منور احمد ۶۰۸/۴۲۶۴۰۹ | منور الدین ، پیر ۴۲ منور علی ، میاں ۱۶۹ ۱۵۳ منیر لاہور ۵۸۰ 16 ۵۳۲٫۵۳۱ 16.۱۵۵ معين الدين معین الدین ، مولوی، او کاره ۳۳۷ منیر احمد ۱۴۴ میر احمد - چک شیشه بهاولنگر معین الدین ، مولانا.ایڈیر " سواد اعظم میر احمد زرگر " ند ۳۸۸ OMN ۱۳۴ حضرت موسیٰ علیہ السلام ۳۷۲, ۴۰۰۳۹۵ معین الدین چشتی اجمیری ، خواجه ۳۳۵ ۴۵۳ مغیرہ بن سعید الاجلی ۳۹۶ موسی، مستری مقصود احمد قمر.سابق مبلغ تنزانید ۲۳۱ مولا بخش ۱۵۵۱۵۳ ممتاز احمد خاں.ایڈیٹر آفاق مولی بخش جبٹ مستانه میگیم ۳۵۴ مولا داد ، چوہدری مولی دادن ماسٹر ممتانه محمد خان و دلتانه ۸۵۷۵/۶۶/۸ مومن جی (خدا بخش) ۱۸۷ ۱۳۹ ۱۵۸ / ۱۹۴ ۱۹۵ / ۳۱۴ تا | مهرالدین، مولوی ۲۴۱۱۴۲۲/۳۱۹ ۴۵۲۱۲۲۳ تا مهردین ، شیخ i مجھے ۵۲۸,۵۲۷/۵۱۶/۴۵۴ مہر شاہ ۲۶ ۲۱۲۲۱۱ DAI

Page 647

مہر یار ناصر احمد شیخ ناصر احمد.لاہور ۲۴ ۱۳۴ نذیر احمد ایڈووکیٹ ممبر جماعت اسلامی امام نذیر احمد باجوہ، چوہدری ۲۲۰، ۳۰۷ نذیر احمد علی مولوی ناصر احمد، مرزا خلیفة المسیح الثالث ۲۵۴ نذیر احمد منتشر A ۲۵۰ تا ۲۷۰/۲۶۳/۲۶۲/۲۶۰۲۵۰ رحسین رسید ۵۷۶۴۲۲۶/۳۱۸٫۳۰۷/۲۷۵٫۲۷۳ نذیر حسین دہلوی ۵۹۳ نصر اللہ خاں ناصر احمد پال ۶۷/ ۶۸ نصر اللہ خان باجوہ ناظر حسین ، چوہدری ۴۹۵ نصر اللہ خان عزیز ۶۰۶ ۱۴۵ ناظم الدین ، خواهیه ۱۵۳/۸۶/۱۰/۶ نصرت جہاں بیگیم رسیده ۲۵۷/۲۱۱ ۴۲۲۲۲۲۰۴۰۵ (۴۲۹۱۴۲۷ ۴۴۱ نصیر احمد ، چوہدری ۵۱۸٫۵۱۶٫۴۵۳٫۴۵۲ (۵۲۹,۵۱۹ نصیر احمد باجوه ، چوبداری ٢٤٣ 10." ۵۹۹٫۵۶۷ نجات احمد DAY نصیر احمد، قاضی نصیر احمد ، میاں نذر محمد، مستری ۱۵۳/ ۱۶۸/۱۶۷ نظام جان ، حکیم نازیه احمد ۱۲۱ نعمت خال نذیر احمد - چک ۶۱ فیصل آباد ۵۸۳ نعمت خاں.فیصل آباد نذیر احمد ، چوہدری - ڈسکہ نعمت اللہ پٹواری نذیر احمد، چوہدری - ملکانه ۳۶۱ نعمت اللہ شاہ ولی نذیر احمد ، شیخ ۲۷۴ نعیم صدیقی سم OLA ۵۰ ۵۰۷٫۴۱

Page 648

16 ۴۵ ۲۳۲ ۱۵۲ ۴۰۰ ۳۳ ۲۹۷ 4-6 > ? ? ۲۸ ۴۰۰ وارو ویزر، ڈاکٹر ۲۵ نواب دین.چنیوٹ ३ حضرت نوح علیہ السلام ۴۰۰٫۳۷۲ نور احمد امیر ۴۵۳ نور احمد ایڈوکیٹ ، شیخ ۱۵۴/۱۵۱ ۵۹۸/۵۹۳/۳۰۸/۳۰ نور الحسن ، قریشی نور الحسن شاہ بخاری نور الدین ، چوہدری ۳۲۰ ہدایت الله ۶۰۳ ہنری ڈیوک گائے نور الدین ، حکیم مولانا خلیفة المسیح الاول ی ٢١ نور علی خاں ۱۱ حضرت یحیا علیہ السلام نور محمد ۵۸۳ بيحيى بن معين نور محمد ، ڈاکٹر یزدانی جالندھری ، سید نور محمد ، میاں ۱۴۹ یعقوب علی نور محمد امینی نیاز محمد ، شیخ نیرو - بادشاه روم ۳۵۲ ۶۲ یعقوب علی تراب، شیخ ۵۷۸/۴۰ حضرت یوسف علیہ السلام یوسف علی ، چوہده می

Page 649

آسٹریلیا آنبه ۲۶ مقامات افغانستان امرتسر ۳۵۹ ۴۳۱ امریکہ ۵۳۶/۴۳۲/۴۳۱/۴۲۹ 49 انڈونیشیا ۵۳۶,۳۶۰,۳۵۹/۲۳۲ انگلستان ایک اوکاڑہ ۴۳ تا ۳۱۳/۲۲۳/۱۵۱ اٹلی ٣٩٠ اچینی پایاں ۱۸۶ ایبٹ آباد 100 احمد نگر ۱۳۱۱۲۶ ۱۲ ۱۳۱ تا ۱۳۳ ایران ٢٥٩ ار شیریا اسرائیل اصفهان ۴۳۱ ۵۳۶ ۱۳ ایشیا افریقہ ۵۷۲/۲۲۷۲۲۶ بازید خیل JAY

Page 650

بالاکوٹ ۱۸۵ برطانیہ ۵۳۶ بستی دریام ١٢ پاکستان ۵٫۲ تا ۱۱۴ ۱۱۶ ۱۳۰/۱۲/۱۷ بصره بغداد بقاپور براڈ کے ۵۹۰ ۱۳۹۳ ۲۳۴ "" ۱۹۷/۱۹۴/۱۹۳ ۱۹۰ ۱۰۹ ۱۱۸۱ /۱۳۶ ۲۲۷۲۲۲۲۲۰/۲۱۸/۲۱۳/۲۰۷ ۲۴۷۲۳۲ ۲۵۸ تا ۲۰۹/۲۷۹,۲۶۰ بلوچستان ۳۶۰ تا ۳۸۷۳۶۶۳۶۵۳۶۲ بمبانوالہ ۴۰۴ /۴۰۳ ۱۳۹۴ ۱۳۹۳/۳۸۸ بیٹی ۴۲۷٫۴۱۲/۲۰۹۳۶۱ تا ۴۳۶٫۴۳۳/۴۳۱ بنگال بنگله دیش نوں بنی پور ۱۲۱۰ /۱۸۰ ۱۹۳ ۱۹۲ ,۱۸۲ JAY ۵۷۵۶۸۵۶۶۵۶۳ ۲۵۶۰٫۵۵۰ ۵۴۱۵۳۹٫۵۳۶۱ تا ۳۵۴۸۰۵۴۶ بہاولپور پیخورد بہاولنگر پشیاله ہوڑو چک نمبر ۱۸ ۹۸ پریم کوٹ ۱۹۰ ۲۱۱ ۲۲۱ بھگوان سنگھ والا بھوانہ ١٢ پشاور مجھو پال پسرور ۹۲/۹۱/۰۵/۲۵ ۲۲۱۱۸۶ ۴۳۰ پنجاب ۱۳/۱۱/۸/۲/ ۱۷ ۱۲۷/۲۴ بھینی شرق پور 1.۱۵۷ ۱۰۸ تا ۱۹۷٫۱۹۵٫۱۹۲٫۱۸۰

Page 651

۱۱۲ ۱۰۱ ۱۹ ۱۲۴ ۳۰۶/۲۷۲/۲۴۴۱۲۴۱/۲۴۰/۲۲۸ مخطط تا جریاں ۴۱۵٫۳۷۰,۳۶۳۳۵۱,۳۴۹ ج ۵۷۳ حاکیتا پنڈی گھیپ ۲۲۳ جرمنی پیرس ۱۵۲ جڑانوالہ پید ا عبد الرحمان ۱۴۰/۱۲۱ /۱۱۸/۱۱ بھیگل ۱۸۶ جلیانوالہ پهلواره ۸۵ جنڈو ساہی مسلم تاندلیانوالہ تر ڈے والی ترسکه ترکی جید چک ۱۱۲ جھنگ ۸۸تا ۹۰ ۲۲۲ 96 ۲۳۰٫۲۱۳/۱۲۸۱۲۶٫۹۵ ۲۴۶/۲۴۲۲۳۹/۲۳۷/۲۳۶ ۵۵۱,۳۶۰,۳۵۹ جھنگ مگھا نہ تر گرامی تلونڈمی جهنگلاں تیونس ٹ ٹنڈوالہ یار ٹوبہ ٹیک سنگھ ۶۳ ۹۱ ۴۳۲۴۳۱ چارسده 191 چ چک نمبر 9 شمالی سرگودہا بارون آباد چاپ ۲۱ اوکاڑہ ۱۱۲ چک ۳۲ او کاژه 09.۱۸۳ دسم

Page 652

۲۹ چک ۳۶ گ ب فیصل آباد ۲۸۱ چنیوٹ ۱۲۷ تا ۱۳۱ ۱۳۳۱ تا ۱۳۹ ٩٠,٨٩٨٥ 96,116 ۱۳۵ ۱۳۴ ۱۳۰ ٣١ ۲۲۲ ۹۳ ۵۳۶ 9- LA ۳۹۴ ,۱۴۱ ۱۲۳ b.چھوٹا ۱۵۰ چوہر منڈھ ۱۸۳ چک ۳۶ سنتھیا نہ چک میشه بارون آباد چکش اوکاڑہ چک ۷۹ ہر با کڑا ہارون آباد چک پیش کارون آباد چکه بارون آباد TAP چک ۵۷ - ۵۶ گـب ۱۲۱ تا ۱۲۳ چھنی ده | چک ۱۹اگ.ب 14+ چکه بارون آباد چک ۱۹۹ گر مولا چک ۱۷۰ متر پار کر یک ایم بارون آباد 96 19- IAP JAP رمغليار چھنیاں ح حافظ آباد حیدر آباد خ چک شو چک ۱۸۳ خانیوال 14 خراسان چک ۲۶۱ رجب چک ۴۹۹ سمندری 110 110 ۱۲۴ چک بنیار ۲۲۲ دانه زیاد کا چک جھمرہ چک چوسٹر شاہ مشق 1 رو الميال چک منگل چکوال رہہ دهید و والی

Page 653

۲۵۲۲۴۹ ۲۰۴/۲۷۰/۲۵۳ تا ۲۷۶ ۱۴۵ ۳۱۰/۳۰۶/۳۰۳ ۱۳۰۱ ۱۳۹۲ ۱۲۰۰ ۳۱۸ ۳۱۹ ۳۹۲ تا ۴۱۵٫۳۹۴ ۴۲۱ ڈاور ۵۳۴/۵۳۱۴۴۹۱۴۳۹ ڈجکوٹ ۱۲/۱۱۵٫۱۱۲ار ڈسکہ ۷۸/۰۶ تا ۲۲۱۸۴/۸۱ رجوعه ۱۳۵ /۱۳۴/۱۳۱ روس ڈیرہ اسماعیل خان (AY بروم ۵۵۹٫۵۳۴ lar ڈیرہ غازی خان 19.ڈھا کہ س ۲۲۰/۱۹۳ ڑھا سکے ۱۰۰ سان فرانسسکو ڈبگر می پریاں AL سانگلہ ہل ۴۳۱ 46 ساہیوال ۱۳۹۱/۰۶/۱۴۶/۱۴۳/۱۴۲ ستھوٹی والہ راولپنڈی ۲۴۱۲۳/۱۵/۱۳/۱۲ ۲۵, ۱۳۰٫۲۵ ۲۱۳/۸۴۳۴/۳۲ ستی والا ۲۲۰ ۳۰۶۲۷۸/۲۷۶/۲۵۳۲۲۱ سٹھیالی ۵۴۲٫۳۵۳٫۳۴۸/۳۱۳ 110 ۱۲۲۵/۱۸۶,۱۸۵ ۱۸۳/۱۸۲ ریوه ۹۷۵، ۹۱ رو در ۱۰۱ سرگودها ۱۳۹۱۳۳/۱۳۱, ۲۲۳/۲۱۳ ۲۲۲,۲۱۳,۱۳۹/۱۳۳/۱۳۱ ۱۱/۱۰۲/ ۱۲۷ تا ۱۳۱ - ۱۳۵ تا ۱۴۰ ۳۲۸/۲۳۴۲۳۰۲۲۹ سر با نوالہ ۱۵۱ ۱۹۱ ۱۹۷ ۱۹۹ ۲۱۹٫۲۱۷ تا ۲۲۱ ۳۳۱۲۲۹ ۲۴۴۲۳۷۲۳۴ سکھر 19 ۵۱۳/۵۰۹۲۲۳/۱۹۰

Page 654

شیخ محمدی LAY ۹ شیخو پوره ۲۲۰٫۹۶/۹۵ ۲۲۱ ۱۸۳ TH ٣٥٩ ۳۲۱ ص ۳۴۸ ,۱۲۴/۱۱/۱ سمالی لینڈ سمبڑیال سمندری سندھ ۱۸۰۰۱۶۳ ۱۸۲ ۱۸۷ ۳۷۱٫۲۳۰/۲۲۲۲۱۰/۱۹۰٫۱۸۹ صادق آباد b له 6 ۶۴ سو ہزارہ سوئٹزر لینڈ سیالکوٹ ۲۳ ۲۴ ۶۵ تا ۴/۶۷، طارق آباد عراق ۱۴۰/۱۳۱ /۱۲/۸۷/۰۲/۰۹/۰۵ ۲۲۰/۲۱۳/۲۱۲/۲۱۰/۱۹۹ ۱۴۵ ۳۵۳/۳۰۶۲۲۹ ۲۲۳ ۲۲۱ سید والا روز ۱۰۰ تا ۱۰۲ عرب عمان ۲۳۱ 96 ۱۰۰ فرانس فلسطين 107 ۴۳۱ ۴۲۷ ۹۱ ۲۲۸ فیصل آباد (لائلپور) ۹۵ ۱۰۶٫۱۰۴/۱۰۱ سیرالیون سیلون شادده شاہ کوٹ شام سکین شورکوٹ شہزادہ

Page 655

۹۱ تا ۹۳ سلام نظام سلام 191 191 ووم ۱۴۰,۱۳۶/۳۱ ۱۳۴ 166 ۵۷۲,۳۹۲ TAY ۱۳۷ /۱۳۵ ۱۳۴ ۹۱ ۵۳۶۴۳۷ ۲۱۰ ۲۲۰ تا ۲۲۲ ۳۱۵,۳۰۶۰۲۳۳ کلا سواله ۵۲۱,۳۱۱,۴۰۸/۳۵۳/۳۱۶ ق کلاه اکیاسی کمال ڈیرہ قادیان ۳۹۳/۲۷۶/۲۵۷/۱۰۲ کمالیه ۵۳۲/۴۲۸ ۱۳۹۳ ۱۳۹۴ کنڈیاره کنری قاہرہ کنعان ۱۳ قرطبہ قسطنطنیہ ۱۳ کوٹ امیر شاہ کوٹ خدایار کوٹ رادھا کشن کابل ۳۹۰ کوٹ رحمت خاں کامونکے ماه کوٹ رحیم یارخاں کانڈیوال ۱۲۹ کوٹ قاضی کراچی پور ۱۱/ ۲۴ ۵۷ / ۱۹۵ کوہاٹ ۲۳۱/۲۲۲,۲۲۰۲۱۰ ۲۰۶ i کوئٹ کیمبل پور ۳۲۲ ۱۳۷۰ ۳۷۱ ز تو۴ ۵۴۷۵ کیچی ۵۶۰۰۵۵۶ / ۶۰۶٫۵۷۲/۵۷۱ کھانچوں کرم پونده ۹۹ کھیوہ باجوہ کشمیر ۱۲/۱۱/ ۱۱۲/ ۳۶۳/۳۶۲

Page 656

گ ۵۹۶۴۳۴۲۲۱۲۲۰ لالہ موسیٰ ۹۸ لائیاں ل ۱٣۶/۱۳۴ /۱۳۱ ۱۳۰ ۱۲۷ ۱۳۸ تا ۲۵۲/۱۴۰ ۲رسور ۲۴ ۳۶ تا ۳۸ A لاہور 141 ۱۴۵ /۱۴۲/۱۳۱/۱۲۸ ۱۲۲ ۵۱ ۹۸ مجرات گر مولا گڑھ مہاراجہ گوٹھ مولی بخش گوجه گوجر انوالہ ۳۶,۲۳ تا ۵۷۴۸٫۴۰۳۸ ۱۵۳/۱۵۱، ۱۵۷٫۱۵۵/ ۱۹۸٫۱۵۹ ۱۱۵۳/۱۵۱۵۷,۳۸,۴۰٫۳۸ ار ۲۱۳ ۲۱۰ ۳۲۰ ۱۰۸ /۱۹۹ /۱۷۸/۱۷۵ ۲۲۱۲۰۰ /۱۴۰۰۱۳۱۸۷۱۹۱ ۲۳۴,۲۳۲,۲۲۹,۲۲۳/۲۲۰/۲۱۷ ۱۳۵۳/۳۱۶/۳۱۴/۳۰۶ ,۲۲۸ ۲۲۳ ۴۴۹ گوجرہ ۱۲۴۴ ۲۵۲/۲۴۹ تا ۲۵۸٫۲۵۴ تا ۳۰۰,۲۹۷/۲۹۴۲۸۷۰ تا ۳۰۲ گورداسپور ۴۳۰٫۳۶۲/۷۸ ۱۳۴۷۳۴۵,۳۴۴/۳۱۹,۳۱۵۳۰۶ ۳۹۱۷۱/۳۶۱۳۵۹,۳۵۳,۳۴۸ ۴۲۸۴۳۴/۴۲۳/۴۱۵۲۴۱۳۴۱ ۱۳۹۳ ۴۸۱۴۷۲,۴۵۰ ۵۰۱ تا ۵۰۵,۵۰۳ ۵۷۲,۵۶۷۰۵۶۰۵۴۷۱۵۴۲٫۵۰۶ ۲۲۳ لدھیان ٹکٹ یا نوالہ لیاقت پور ^ ۲۲۳ 69 ۴۵۵ گوگیره گولڈ کوسٹ (نما نا) گولڑہ گونا چور گوکلا گھٹیالیاں گھر جاک

Page 657

۲۳۱ ۱۳۹۰۳۳ ۱۵۲ 19.I CA ۱۰۰ Apy ۱۹۳ ۶۴ ۲۳۲ ۴۲ ۴۲۹ ۲۳۴۱۶۴ ن ليبيا مالیر کوٹلہ مانسہرہ مانگت و نیچے محمد آباد سٹیٹ مراکش مروان مری ۴۳۱ میلین وال میانوالی میڈرڈ ۲۵ ۴۲۶ میر پور خاص 1A/IND ۲۳۱۲۲۱ ۲۲۲ ناصر آباد (سندھ) ۴۳۱ ۴۳۲ نانوں ڈوگر (AY ۴۴۳ نرائن گنج ۳۹۳,۳۵۹,۳۵۱٫۳۵۰ نند پور مصر ننکانہ صاحب مظفر گڑھ ۵۱۴ نوشہرہ ورکان مکه ۴۳۱ نیروبی نگھانہ ۲۲۱ نین کے تو روئے لمتان ۱۲۱۰ ۱۲۲۱ ۳۴۸,۳۰۶ نیورمبرگ مل سیرا ۱۳۱، ۱۳۶ نیویارک ملک پور میا نوالہ ۷۸۶/۰۹/۰۸ دار برن منڈیکی بیریاں واشنگٹن منڈی مرید کے ۹۷ وزیر آباد

Page 658

دبیر ویر دواله هارون آباد ہالینڈ ہزارہ ہمرا جنپور چک ۴۰ ہوا نہ AA ۱۲ از ۲۱۳٫۱۳۰٫۱۲۸ بند دستان ۳۸۸ ۱۳۸۷/۳۶۱۳۵۷ ۲۰۶ ۲۵ ۵۳۴,۴۹۳/۴۶۲ /۴۵۵ ۱۴۳۷/۳۹۳ ۵۶۲٫۵ ۲۴٫۵۳ Dry (Aч ی کیو کے 46 ^^ ۹۷ پورپ ۱۳۶ /۱۳۱ ٣٥٩

Page 659

۳۶ روح المعاني صافی کتابیات نفسیه ۳۳۵ ۳۳۵ ۳۳۵ كنوز الحالي مسلم : صحیح مشكوة ۳۲۹ ۴۰۷ ،۳۲۹ ۳۳۴ ۳۲۶۳۲۵ کتب حضرت مسیح موعود مدارک التنزيل النسفى حدیث آئینہ کمالات اسلام اربعین حصہ چہارم اوجز المسالک شرح موطا امام مالک ۳۴۲ از الها وهام ۵۰۲ ۳۹۶ بخاری شریف ، صحیح ۴۸۵/۴۸۴ ترمذی جامع الصغير کنز العمال ۴۰۷٫۳۲۵۲۷۵ الوميت الهدى والتبصرة المن يرى ۳۲۹ برا همین احمدیه ۳۳۰/ ۳۵۸ پیغام صلح ۳۶۵ تریاق القلوب ۱۵۲۷,۳۹۷ ۳۲۶

Page 660

MI تذکرہ تحفہ بغداد تحفہ گوار و به ویہ ۵۱۴ كتب مصنفین سلسله ۳۸۵ تأثرات قادیان حقیقة الوحی ۳۲۹/۳۲۵ ۳۳۰ تاریخ احمدیت تاریخ احمدیت لاہور 101 ۲۰ تجلی قدرت ۵۰۰ تحقیقاتی عدالت کے دس سوالوں کا جواب اور ۳۹۵۱۳۸۶ سبز اشتہار مکتوبات احمدیہ مولانا مودودی کے جوابات پر تبصرہ کتب خلفاء سلسلہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر ۴۷۱ ۳۸۴ ختم نبوت کی حقیقت ام ۵۳۲ قادیانی مسئلہ کا جواب ۴۰۱ قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ فقہ اسلامیات الصوف ، کلام ۳۳۲ ۳۳۱۳۳۸ ٣٠٠ ٢٩٨ ۳۳۱ ۵۰۰,۳۳۵ آئینہ صداقت الازهار لذوات الخمار القول الفصل انوار خلافت تفسير كبير لڑکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض ۳۶۰ الصافی شرح الاصول الکافی عرفان اللي ۳۸۹ حسام الحرمين على صخر الكفر والمين مسئلہ وحی دنبوت کے متعلق اسلامی نظریہ فتاوی عالمگیر فروع الکافی معاہدہ ترکیہ اورمسلمانوں کا آئندہ رویہ اقبال اور ملا اقتراب الساعة تفہیمات الہیہ خطبات مودودی

Page 661

مسدس حالی ۳۲۷ حیات امیر شریعت مکتوبات امام ربانی ۳۳۲ دیوبند مذہب ۵۳۰٫۵۲۹ مال مہر صداقت المعروف با حکام شریعت رپورٹ تحقیقاتی عدالت ۳۶۲۵٫۲۴ ٣٣٩ تحفه دستگیریه ۳۳۲ ۶۴۱۳۸ تا ۱۰۵٫۱۰۴٫۷۵٫۶۹۶۶ ۴۳۴ ۱۵۳ ۱۵۰ ۱۴۴ /۱۴۳/۱۱۲ دیوان حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ۱۴۴۱۰۴۳۵ ۴۴۶ تا ۴۵۵/۴۵۳ تا ۳۳۵ ۴۴ را ما ۴ غنیة الطالبين مع زبدة السالکین ۳۳۲ رو داد جماعت اسلامی التفرقة بين الاسلام والزندقہ ۴۸۷/۲۸۶ سٹرگل نار فریڈم ان کشمیر تهذيب التهذيب رو الرفضہ ۳۲۶ ۵۶۲ ۳۲۲ مجلس احرار کی تبلیغی سرگرمیاں اور اس کا اجمالہ خاکہ ۵۴۰ ۳۴۰ علماء کرام کا فتومی در باب ارتداد شیعه اثناعشری مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ا ۳۴۰۳۳۸ موج کوثر سیرت و تاریخ كتب مخالفین سلسله ۵۳۳٫۵۳۲ اسلام ان انڈیا نہ ٹرانزیشن ٹو ماڈرینٹی ۴۹۲ اظہار مخاوعه مسیلمہ قادیانی اسلام ان ماڈرن مسٹری ۴۰ بجواب اشتہار مصالحت پولوس ثانی ۳۳۷ بیان صادق پاکستان پاکستان کس راه پر ستخر یک جماعت اسلامی ۵۲۱ حرف مجرمانه ۵۷۱۵۶۹ خطبات امیر شریعت ۱۹۳ قادیانی مذہب ۲۹۰ ۵۲۱ ۳۴۲ ۵۲۶ قادیانی مسئله ۳۶۶ تا ۵۲۵/۳۷۰٫۳۶۸ چیف جسٹس محمد منیر ۳۹۵/۴۷۵٫۴۴۷ کلمه فضل رحمانی ۳۳۱

Page 662

محاسبہ ٤٤١ اخبار آفاق - لاہور ۲۸۷/۲۸۶/۴/۳ میاں بشیر الدین محمود احمد کے نام کھلی چھٹی ۵۹۱ ۳۲۰٫۳۱۹/ ۱۴۰۴ ۴۴۱ اخبار آرگی اتفاق.ڈھاکہ كتب سياسيات انتخابی کالج کے لیے لمحہ فکریہ انجیل ۱۹۲ رسالہ اشاعۃ السنة - لاہور ٣٣٤,٣٣٠ ۵۲۲ ٣٣٩ كتب اہلِ کتاب 19 اخبار اعلان - فیصل آباد " اقدام - حیدر آباد رساله اقدام.لاہور الاعتصام.لاہور ۴۸۹ ۲۲۶ 11.۵۴۷ زبور ۱۹ اخبار البلاغ.قاہرہ گفت، ادب، النسائیکلوپیڈیا مفردات القرآن بانگ درا کولیٹرز انسائیکلو پیڈیا اخبارات در سائل رساله الشهاب - لاہور " ۵۵۴ ۴۵۰ الفرقان - ربوه ۵۰۳/۴۷۹/۴۷۴ ۵۷۳/۵۳۴/۵۰۵ ۳۲۷ اخبار الفضل - ربوه ۱۵۲ ۱۹۹ ۱۹۲ ۲۱۷/۲۱۳۲۰۹۲۳۰۷/۲۰۵,۲۰۲/۲۰۰ ۳۶۳۲۳۶۰/۳۵۵ /۳۲۶/۳۱۸,۳۱۷ اخبار - آثار - لاہور ۳۸۷/ ۳۱۸ ۳۸۶/۳۸۳ تا ۳۹۹۳۹۲۳۸۹ ۵۲۸۵۲۷ ١٤٣٩/٤٣٥/٤١٣۴۱۰/۴۰۴ /۴۰۲ ه آزاد - بنگال ۱۹۴/ ۴۴۸/۱۳۵۶ رساله المصلح کراچی ۲۰۲/۱۸۱/ ۲۱۹ ۴۸۱۴۵۴ ۴۱۳٫۳۸۵/۲۸۰,٢٧٩/٢٥٤,٢٢٠

Page 663

3 ۶۰۲۴۱۹٫۴۱۵ اختبار جنگ - کراچی ۶ را در ۵۱۰/۵۰۵ رساله المنبر - فیصل آباد ۵۰۲/۴۱۹ کی کو لاہور ۴۸۸ ۵۳۴٫۵۱۵۵۰۳ تا ۵۳۶ رساله چنان - لاہور ۵۱۳/۵۱۲/۵۰۶ رساله المنير - فیصل آباد ۵۱۰ تا ۵۱۹ " ۲۳ ۵۲۶٫۵ ۵۳۶/۵۳۵٫۵۲۷۰ رساله چراغ زاد - کراچی اخبار امروز - ملتان ۵۳۰ اخبار حقیقت.لکھنو الم." انقلاب - لاہور ام رساله خالد - دیوه ۲۶۹۲۰۲ رسالہ انقلاب کو.لاہور اخبار خلافت - بمبئی ۵۴۵ اہلسنت والجماعت کراچی ۴۸۶ - دی سندھ آبزرور - کراچی ۱۸۸/ ۱۸۹ اخبار ایوننگ سٹار - کراچی " ۲۲۰ بدر - قادیان ۵۴۳ / ۵۴۴ در دی مانچسٹر گارڈین ۰۵۵ ۱۵۵۱۰۵۴۹ ۰۵۴۷ ڈان.کراچی رسالہ ترجمان القرآن - لاہور ۱۷, ۳۶۳ ، ڈھاکہ اخبار تسنیم - لاہور ڈیلی کرانیکل - نبرد بی ۵۲۴ رہبر - کانپور ۱۹۲ ۵۴۹ رساله تشخید الا زبان ربوه ۳۸۲/۳۸۳ در سیاست - دیلی ۵۷۳۲۵۹٫۲۵۸ رساله مالہ تعلیم القرآن راولپنڈی ۵۰۳ اخبار متعمیر.راولپنڈی ، زمیندار - لاہور ۱۷۷,۵۰ ۳۱۸.۲۵۴۴۴۱۴۲۹ ۲۶۴۰۳۶۳ رسالہ تنظیم الحدیث ، لاہور ۵۳۰۵۱۹ « زمیندار سدھار - ملتان اخبار تیج.دہلی ر ٹائمز آف کراچی ۳۵۷ رسالہ زندگی.لاہور ۴۷۴ ۱۷ اخبار سفینہ.لاہور ۴۴ ۰۶۵۰۵ [1

Page 664

رسالہ سواد الکلم والا ہے.۵۱۴ اخبار مغربی پاکستان لاہور ۷/۵/۷ اخبار سول اینڈ لڑی گزٹ.لاہور ۲۷۸ " ملت.لاہور ۲۸۵ ۴۱۳۱۲۹۱ در ۴۰۵٫۳۲۱۲۸۸ را صداقت ، گوجره ۴۳۲,۴۲۷,۴۲۵/۴۲۰/۴۱۶ تا ۴۳۶۴۳۴ ۵۳۴٫۵۳۳ ۴۴۲٫۲۴۰٫۴۳۸ تا ۱۵۰۱/۲۸۰۴۴۵۰۴۴۵ صدق جدید - لکھنو ۴۷۲ تا ۴ ۴۷۴٫۴۷ تا رساله نقوش زندگی.لاہور ۲۵۳ / ۴۹۰۴۸۹ ۴۸۰ اخبار نوائے وقت لاہور ۲۴۵٫۱۰٫۹ فاروق - لاہور ۲۰۸/۱۸ تا ۲۱۰ ۲۵۲ تا ۱۲۵۴ ۴۴۷ ۵۰۴/۵۰۲/۴۷۳ ۵۱۶۵۱۵۵۰۶ کلیولینڈ میں ڈیلر امریکہ ۵۵۶۵۵۵ رسالہ نیوز دیک رسالہ لاہور ۲۸۸۲۴۷۴۳۵,۲۶۷ در تمان - امرتسر اخبار مارننگ نیوزہ.ڈھاکہ ه مدینه بجنور مزدور - عنان رسالہ معارف - اعظم گڑھ را معیار ۴۱۲ ۵۵۴ ۵۵۲٫۵۵۱ اخبار وطن کمیٹی ملال نو 彪 4 ہمدرد.دہلی ہندو - جالندھر ههه ۵۵۲ ۵۵۳ ۲۶۰

Page 664