Language: UR
1951ء کے سالانہ جلسہء قادیان سے لے کر حضرت سیدنا مصلح موعودؓ کے ایمان افروز اور پُرشوکت پیغام (مورخہ 3 مارچ 1953ء) تک۔۔ (پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 15)
تاریخ احدیت جلد پانزدهم ۹۵ہ (۱۹۵ کے سالانہ جلسہ قادیان سے لے کر حضرت سیدنا مصلح موخود کے ایمان افروز اور پر شوکت پیغام (مورخه سه ر مارچ نشانه) تک دوست محمد شاہد الناشر ۱۹۵۳ ادارة المصنفين ربوع 1969 طبع اول ماه فتح ۱۵ بیمار دسمبر ۱۹۹۵ ۱۳۵۷
نام کتاب مرتبه طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کردہ مطبع تاریخ احمدیت جلد چہار دہم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 2000 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر ISBN - 181-7912-121-6 TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-14 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-121-6
لمصل سید نا حضرت امیر المؤمنین المصلح الموعود جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۵۲ء کو خطاب فرما رہے ہیں حضور کے دائیں جانب : میاں غلام محمد صاحب اختر اور پیچھے بالترتیب محمدعبداللہ خان صاحب، رحمت اللہ صاحب باجوہ ، میجر عزیز احمد صاحب اور بابو شمس الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ پیشاور.
بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر تر قی کرنے والی قومیں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے
اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۱۵ کوجلد نمبر ۱۴ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد چہاردہم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)
بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ وعَلَى عَبْدِهِ المسيح الموعود ۱۵ اریخ احمدیت کی پند تھیں جلد اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے تاریخ احمدیت کی پندرھویں جلد طبع ہو کر احباب کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے نیٹی جلد کو پیش کرتے ہوئے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہے کہ تاریخ احمدیت کی تدوین و اشاعت کے بارے میں جو ذمہ داری سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ادارۃ المصنفین پر ڈالی تھی اس کو ادا کرتے ہوئے ہم ایک قدم اور آگے بڑھ رہے ہیں.تاریخ احمدیت کی پہلی جلد دسمبر ۱۹۵۷ء میں، دوسری جلد دسمبر ۱۹۵۸ء میں اور تیسری جلد دسمبر ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی.اس وقت خیال یہ تھا کہ خلافتِ اولیٰ کے دور کی تاریخ ایک جلد میں اور خلافت ثانیہ کے دور کی تاریخ دو جلدوں میں کمی ہو جائے گی اور تاریخ کی تدوین کا کام ختم ہوجائے گا اور ہم اس بارگاں سے سبکدوش ہو جائیں گے جو سید نا حضرت خلیفہ سیح الثانی مصلح الموعود نے ہمارے کمزور کندھوں پرڈالا تھا لیکن معرض و بو میں وہی آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے انسان کے اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں.خلافت ثانیہ کے واقعات پر مشتمل جب دو جلدیں طبع ہوئیں تو ان میں صرف ۱۹۳۱ ء تک کے واقعات ہی ختم ہو سکے اور ہمارے انداز سے درست ثابت نہ ہوئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تدوین تاریخ کا کام ہوتا رہا اور مز ید جلدیں شائع ہوتی چلی گئیں.اب پندرھویں عبد شائع ہو رہی ہے.اس میں جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء سے لیکر مارچ ۱۹۵۳ء تک کے واقعات کا ذکر آیا ہے.اللہ تعالیٰ ہی کو صحیح علم ہے کہ خلافت ثانیہ کے دور کی تاریخ کو مکمل کرنے میں مزید کتنی جلیوں جو کار ہوں گی کیونکہ واقعاتی تذکرہ کے بعد سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی سیرت پر کچھ لکھنا بھی ضروری ہوگا اور اس کے بعد پھر مخلافت ثالثہ کے دور کے واقعات شروع ہوں گے.اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ جب اُس نے محض اپنے فضل سے پندرہ
بجلدیں شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے تو بقیہ کام کو مکمل کرنے کی توفیق بھی عطافرمائے اور تکمیل کی خوشی سے بہرہ ور کرے (آمین) وَهُوَ عَلى كُلِّ شَى قَدِيرٌ وَبِالْإِجَابَةِ جَدِيرٍ نئی جلد تقریباً چھ صد صفحات پر مشتمل ہے اور گیارہ نایاب تصاویر سے اسے مزین کیا گیا ہے.اعلیٰ سے اعلیٰ کا غذ جو بازار میں دستیاب ہو سکتا تھا اسے حاصل کیا گیا اور کتابت و طباعت کو معیاری بنانے کی پوری کوشش کی گئی.اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ التجا ہے کہ وہ ہماری ان تحقیر مساعی کو قبول فرمائے اور اپنے فضلوں سے نوازے (آمین) ادارہ مصنفین کا ابتداء سے یہ اصول رہا ہے کہ وہ اپنی شائع کردہ کتابوں کو تقریبا لاگت پر احباب کوششیں کرتا ہے نفع حاصل کرنا اس کے مد نظر نہیں ہوتا.اس جلد کی قیمت مقرر کرنے میں اسی اصول کو مد نظر رکھا گیا ہے لیکن پہلے کی نسبت کتابوں کی قیت کا بڑھ جانا ایک ناگزیر امر ہے کیونکہ مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے.کاغذ کی قیمت، کتابت، طباعت اور جلد بندی کی اجر نہیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کتاب کا شائع کرنا کوئی آسان کام نہیں چونکہ سلسلہ کی تاریخ کومحفوظ کرنا نہایت ہی ضروری ہے اس لئے ادارہ پوری کوشش کرتا چلا آیا ہے کہ ہر حال ہر سال تاریخ احمدیت کی ایک جلد پیش کرتا چلا جائے.یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب احباب پورا تعاون فرمائیں اور کتاب کو ہاتھوں ہاتھ خریدیں تا خرچ کردہ رقم واپس آجائے اور انگلی جلد کی تیاری میں استعمال ہوسکے.ادارہ مولف کتاب ہذا مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا شکر گزار ہے کہ انہوں نے رات دن ایک کر کے مواد جمع کیا اور اسے نہایت احسن طریق سے ترتیب دی اور ہر لحاظ سے اسے معیاری بنانے کی کوشش کی فجزاہ اللہ احسن الجزاء.اسی طرح مکرم حمید الدین صاحب کا تب اور دیگر کار کن جنہوں نے کاپی اور پروف ریڈنگ کا کام کیا وہ بھی شکریہ کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنے فضلوں سے نوازے.(آمین) خاکسار ابو المنير نورالحق منیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین.ربوہ دسمبر ۶۱۹۷۵
3 فهرستیامین تاریخ احمدیت جلد پانزدهم عنوان دفاع وطن کا محمد عنوان پہلا باب رسالہ الفرقان کا اجراء جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۵۱ء سے لیکر حضرت دفتر حفاظت مرکز ربوہ میں ۳۴ ۳۵ را سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا کی وفات وزیر اعظم پاکستان کے نام مبارکباد کا پیغام درویشان قادیان کے اہل و عیال کی واپسی ۳۶ تک از ماه دسمبر ۱۹۵۱ ۶ تا ماه اپریل ۶۱۹۵۲ جماعت احمدیہ پشاور کی نئی جامع مسجد قادیان سے رسالہ درویش کا اجراء مذہبی تاریخ کا اہم واقعہ سلسلہ احمدیہ کا مقصد اور ترقی سالانہ جلسہ کی اہمیت فصل اوّل جلسه سالانه قادیان ۶۱۹۵۱ فصل دوم جلیل القدر صحابہ کا انتقال فصل سوم ۱۹۵۱ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات خاندانی سیح موعود میں تقریب استرت مجاہدین احمدیت کا تبلیغی دورہ ریوں میں ٹیلیفون کا اجراء ۳۲ ۳۷ پیغام امام جماعت احمدیہ سیرالیون کے نام ۴۰ سیرالیون دعاؤں کی خاص تحریک جلسہ سیرة النبی میں حضرت مصلح موعود کی ایمان فروند تقویم مبلغین احدیت کی روانگی اور آمد بیرونی ممالک میں احمد می شنوں کی تبلیغی سرگرمیاں نئی مطبوعات (۶۱۹۵۱ ) فصل چهارم خلافت ثانیہ کا انتالیسواں سال ) افتاء کمیٹی کا احیاء.۱۹۵۲۰ ۴۸ ۴۹۱ سوسو سالانہ پروگرام تجویز کرنے کی ہدایت ان
عنوان عنوان صوباتی نظام کو تحکم کرنے کا فریمان کے قیام کا اعلان مکمل مرکزی لائبریری کا منصوبہ ۸۳ AM محاسبہ نفس کی دعوت تبلیغ اسلام کی موثر تحریک ۵۶ اخلاق فاضلہ کے قیام کی بہد و جہد ۵۷ سیرت و شمائل ) قوم کی بے کوٹ خدمات بجا لانے کی تلقین AA فصل شتم حضرت سیدہ نصرت جهان میگردن کا انتقال (مع دوسرا باب ۹۳ چوہدری محمد حسین صاحب کی ریاست خیر پور میں المناک شہادت جلسہ سیا لکوٹ پر لورش فصل پنجم سید نا حضرت مصلح موعودہؓ کا سفر بشیر آباد بیرت 24 جماعت احمدیہ کے جلسہ کراچی سے لیکر مسئلہ اقلیت سے متعلق حضرت مصلح موعود کے وضاحتی را علان تک.فصل اوّل ۱۱۷ افروز خطبات حیدر آباد میں پریس کانفرنس مرکز کی تعلیمی اداروں کو ایک ضروری ہدایت الجزائری نمائندہ احتفال العلماء کی ربوہ میں آمد 119 الحلو السلمین پر شاندار سیکیور فصل ششم حکام کو حالات سے باخبر رکھنے کی واضح ہدایت ۷۵ جماعت احمدیہ کراچی کا جلسہ سالانہ ۱۲۰ جماعت احمدیہ کے خلاف مطالبات کا پر منتظر ۱۲۷ چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب کا پارلیمنٹ میں چیف کمشنر کراچی کی پریس کانفرنس 9 کراچی بار ایسوسی ایشن کا متفقہ بیان اعلان حق 491 حضرت مصلح موعود کی وضاحت خلافت احمدیہ تا حادثہ کراچی اور پاکستان کا محبت وطن پریس متلق بھارت کا مسلم پر ٹیس دفتر مجلس خدام الاعدیہ مرکزی کا افتتاح ۸۳ مصری لیڈر ایسی حلقے مومن کا بیان فصل دوم فصل هفتم ۱۲۹۱ ۱۳۱ ۱۳۳ 145 140 مجلس مشاورت ہو بہو کا القادر بند تعمیر ساید خدا اسے اندر تعلیق کے لئے دعاؤں کی خاص تو کیا ہے کا مستقل نظام اشاعت لٹریچر کے لئے کوکیوں پاکستان میں قانون کا مستقبل - را 129
عنوان عنوان احترام مساجد سے متعلق ایک فقہی مسئلہ اور حضرت نشان انفرادیت کا نمونہ دکھانے کی تلقین مصلح موعود کا موقف.۱۸۲ مسئلہ اقلیت سے متعلق اہم خطبہ عروی احمدیت کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی صبر و مسلوۃ کی پر زور تحریک Ing ١٩٢ تفسیر ا باب فصل سوم مفتیار اس کے فتوای الکفیر سے لیکر ضد تصل موجودہ مسلمان فرقہ احمدیہ کی تحیر کا نیا دور مطالبہ کے ۳ مارچ ۱۹۵۳ء کے پر شوکت پیغام تک از جون ۱۹۸۲ ۱ تا ۳ باری ۱۹۵۳) فصل اوّل غیر مسلم اقلیت پر مختلف سلمان فرقوں کی طرف سے تشویش و اضطراب احمدی علم کلام کی بریت کی امارات اور ایک دلچسپ تجویز نہر سویز کا قضیہ اور چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب فصل چهارم شاہ مصر کی سازش سے ختی مصر کا فتویٰ ۲۹۲ ٣٠٣ حضرت مصلح موعودہ کا نمائندہ ڈیلی میل کو ایک مصری زعماء اور صحافیوں کا زبر دست احتجاج ۳۰۷ مفتی مصر کے لقب کی منسوخی کا مطالبہ اہم انٹرویو.پنجاب مسلم لیگ کونسل کا اجلاس لاہور اور اراکین مصر کا بیان پنجاب مسلم لیگ کی خدمت میں چند معروضات.۲۶۲) مفتی مصر کو پشن دے دی گئی وزیر اعلیٰ پنجاب کا احمدیوں سے متعلق موقوف ۲۶۸ شاه فاروق مصر کا عبرتناک انجام قائد اعظم کا مسلک حضرت مصلح موعود کا بیان فصل تنجبر ۲۷۳ جلا وطنی کا درد ناک منظر مصر لویی کا رد عمل اور تاثرات حضرت مهدی موعود کی پیش گوئی ۳۲۲ ۳۲۳ 4 ۳۲۷ ٣٢٨ ۳۲۹ جماعت احمدیہ کے مرکزی وفد کی جناب وزیر اعظم سید نا حضرت مصلح موعود کا مکتوب اخبار اليوم نا پاکستان سے ملاقات.۲۷۴ کے نام.سردار عبدالرب صاحب نشتر سے، انفرادی ملاقات ۲۸۲ مسئلہ ختم نبوت سے متعلق ایک وضاحتی ابتلاؤں میں لقاء الہی کی بشارت ۲۸۵ بیان.
عنوان فصل دوم عالمی یوم امن کے لئے ویا عنوان مسجد مبارک ربوہ میں درس قصر خلافت کی مستقل عمارت حکومت پاکستان کے اعلان کا خیر مقدم ۳۲۲ خلافت لائبریری کا قیام کا مساجد کو ذکر الہی سے معمور رکھنے کی تحریک ۳۲۵ الفضل میں شذرات کا دلچسپ سلسلہ تحریک حج ۳۲۸ سال مسلم لیگ راوہ کو انعامی کپ ۱۰ گرم " ۴۱۲۱ کرکے آل پاکستان سلم لیگ کا اجلاس ڈھا کہ ۳۵) رسالہ خالد کا اجراء اور حضرت مرزا بشیر احمدیان تبلیغ اسلام کا عالمی ادارہ (تحریک جدید) ۳۵۱ ۴۱۳۱ ۴۱۵ کا خصوصی پیغام گوجرانوالہ میں احمدیوں کا بائیکاٹ اور الاعتصام ۳۵۴ خدمت پاکستان کی خصوصی تحریک حکام گوجرانوالہ سے احمدی وفد کی ملاقات ۳۵۰ یونس اور مراکش کی تحریک آزادی کی حمایت اور حضرت مصلح موعود کا پیغام جماعت احمدیہ دعا.انڈونیشیا کے نام.فصل سوم " چودہ درویش خاندانوں کی واپسی میلفین اسلام کی آمد اور روانگی سالانہ جلسہ قادیان ۱۹۵۲ء اور حضرت بیرونی مشنوں کی سرگرمیاں فصل هفتم کا روح پرور پیغام.فصل چهارم جلسہ سالانہ ریوه ۱۹۵۲ء ، حضرت مصلح موعود خلافتِ ثانیہ کا چالیسواں سال (۱۹۵۳) کی ایمان افروز تقاریر اور پاکستانی پرلیں.۳۶۸ سات روزے رکھنے کی تحریک فصل مجمر اشاعت دین کی تحریک جلیل القدر صحابہ کا انتقال (۱۹۵۲) ۳۸۷ دعاؤں کی تحریک فصل ششم سچائی اختیار کرنے کی تحریک ۱۹۵۲ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات ۴۰۹ کراچی کنونیشن اور ڈائریکٹ ایکشن کا فیصلہ ۴۱۷ " ۴۲۲ خاندان حضرت مسیح موعود میں تقاریب مسترت وا بجماعت اسلامی کے ریخ کہ دار پر ایک نظر ۴۳۵
صفحه عنوان ایک روسی مورخ کا نظریہ عنوان ۴۴۷ نمائندہ المصور قاہرہ کے تاثرات ارباب حل و عقد سے براہ راست رابطہ اور قیام امن کے لئے حضرت مصلح موعود کی پوکت ملاقاتیں." ہدایات - پنجاب مسلم لیگ وزارت کی سیاسی پالیسی ۴۲۲۹) حضرت مصلح موعود کا ایک اہم بیان خالص سیاسی تحریک گٹھ جوڑ کے مقاصد حیرت انگیز انکشان ۴۵۲ الفضل کی جبری بندش ۴۵۳ صوبہ پنجاب فسادات کی لپیٹ میں ۴۵۲) ۴۸۲ ۴۸۹ ختم نبوت کے مقدس نام پر مظاہرے ۴۹۰ پنجاب سول سیکرٹریٹ کا خط مرکزی وزارت سید نا حضرت مصلح موعود کا پُر شوکت پیغام کے نام.4 جماعت احمدیہ کے نام.انسپکٹر جنرل صاحب پولیس پنجاب کا مراسلہ حکومت پنجاب کا نوٹس بنام چیف سیکرٹری پنجاب.پاکستان کی مرکزی کا بلبینہ کی نظر میں مطالبات ۲۵۸ پیغام کے بعد خلاصه ۴۹۲ ۴۹۳ اور ڈائریکٹ ایکشن.حکومت پاکستان کا اعلامیہ ۴۶۱۱ ضمیمہ (اردو) اعلامیہ کی ضرورت و اہمیت بھارتی لیڈروں کے بیان کی روشنی میں.فرست اراکین مجلس افتاده بھارتی پریس اور ایجی ٹیشن ۲۶۹ سید نا حضرت مصلح موعود کا سفر حیدر آباد 4 بھارتی ایجنٹوں کی گرفتاری فہرست اہل قافلہ پاکستان برائے جلسہ ایک امریکی سکالہ کی رہائے ۴۷۰ قادیان ۶۱۹۵۲ - مشرقی پاکستان پریس کی طرف سے راست اقدام فهرست گروپ فوٹو قافله پاکستان ۶۱۹۲۹ کی مذمت اور پس منظر راست اقدام کی دھمکی اور بھارتی مسلمان ۴۷۷ کر گیا ۱۶۱۹۵۰ " ۶۱۹۵۲
A عنوان صفحہ عنوان صفر قافلہ پاکستان برائے سالانہ جلسہ قادیان ضمیمہ (عربی) ۰۶۱۹۵۰ مصری اخبارات و زعماء کی آراء کا عربی متن قافلہ پاکستان برائے سالانہ جلسہ قادیان ضمیمہ (انگریزی) ۰۶۱۹۵۲ سید نا حضرت مصلح موعودہ کی تحریر فرمودہ دعا پاکستان کا انتظار مرائے کیو.این.اور تقریر سید نا الصلح الموعود افریقہ کے شاندار | مستقبل سے متعلق.اخبارہ مٹارا کر اپنی کا اداریہ ہندوستانی احمدیوں کی طرف سے قافلہ سالانہ جلسہ قادیان ۱۹۵ء تا ۶۱۹۵۲ کے متحد و مناظر حضرت مصلح موعود کی تقریر اتحاد السلمین لهام حیدر آباد سندھ حضرت مصلح موعود کا انٹرویو نمائندہ سول اینڈ علما ء سلسلہ احمدیہ کا مرکزی وفد کراچی میں ہو ملٹری گزٹ کو مع وضاحتی بیان کے (انگریزی تان) تصاویر حضرت مصلح موعود کا خطاب سالانہ جیل ۶۱۹۵۲ پر قصر خلافت مسجد مبارک اور خلافت لائبریری کود؟ کا منتظر قافلہ پاکستان برائے سالانہ جلسہ قادیان ۰۶۱۹۴۹ سرورق (719AY)
بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُ، وَنُصَلّى على رسوله الكريم وَعَلَى عَبْدِه السيح الموعود پہلا باب جا لانہ قادیان ۱۳۳۰ بیش ۱۹۵۷ء سے لیکر حضرت سیدہ نصرت جہاں گیر رضی اللہ عنہ کی وفات تک ۱۹۵۱ از ماه فتح این نامه شهادت از ماه براز تا اپریل ا سلام میں مہدی موعود علیہ السّلام کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ علی مذہبی تاریخ کا اہم واقعہ کا مثیر تبلیغی اور روحانی تحریک کا آغاز ہمارے نبی خاتم الا بیاد ی کاریابی گیر اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا زندہ نشان اور مذہبی تاریخ کا نہایت اہم واقعہ سلسلہ احمدیہ کا مقصد قیام سلسہ احمدیہ کا مقصد مہدی موعود علیہ السلام کے الفاظ میں
F یہ ہے کہ :." یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دار النتجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لآرائه الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ہے لے اس آسمانی سلسلہ کی ابتداء اگر چہ سنت ربانی کے مطابق پہلی مخالفت کے باوجود شاندار ترقی خدائی جماعتوں کی طرح تربت، بے کسی اور گنامی کے ماحول میں ہوئی مگر اس کے اثرات ہر قسم کی مخالفت و عداوت کے مضبوط حلقوں کو توڑتے، اور منافرت کی ہولناک خندقوں کو پھاندتے ہوئے ، وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے حتی کہ ۱۹۴۷ء کے اُن خونچکاں اور ہوش ربا واقعات کے باوجود جنہوں نے جماعتی نظم ونسق کی بنیاد تک ہلا ڈالی تھی، چند برسوں کے انڈ اندر قادیان اور ربوہ سے اُٹھنے والی آوازیں دنیا بھر میں گونجنے لگیں اور اسلامی انقلاب کا وہ نقشہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کو ۱۸۹ء میں ایک نئے نظام انٹے آسمان اور نئی زمین کی صورت میں بذریعہ خواب دکھا یا گیا تھا.ایک حقیقت بن کر اُبھر نے لگا.....حضرت اقدس علیہ السّلام فرماتے ہیں :- " کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس مرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درختہ بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پسند اس پر آرام کر رہے ہیں یا سکے جماعت احمدیہ کی اس حیرت انگیز ترقی میں اس کے سالانہ جلسہ کو ہمیشہ سالانہ جلسہ کی اہمیت بھاری دخل رہا ہے جیسا کہحضرت اقدس علیہ السلام نے دسمبر ۱۸۹۹ از حجة الاسلام ما صار اشاعت ۸ مئی ۶۱۸۹۳) مطبوعہ ریاضی ہند پر لیس امرتسره به آئینہ کمالات اسلام " ۵۷۲ - ۵۶ طبع اول (اشاعت ۶۱۸۹۳) و "كتاب البرية" من ، من (اشاعت ۲۴ جنوری ۶۸۸۹۸) سے تانند ول اسیح" حت (اشاعت اگست ۶۱۹۰۹) *
کے اشتہار میں بطور پیش گوئی لکھا :- اس جلسہ کو معمولی انسانی مجلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی.کیونکہ یہ اُس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں " سے جلسہ سالانہ کی اس غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر تاریخ احمدیت کی جلد کا انتقام جلاس سالانہ ریدہ ۳۳۰اہش / ۱۹۵۱ء کے کوائف پر کیا گیا تھا اب موجودہ سیلد کا آغاز اسی سال کے جلسہ قادیان کے واقعات سے کیا جاتا ہے.فصل اوّل جلس الانه قادیان ۱۳۳۰ هش / ۱۹۵۱ء کا سالانہ جلسہ حسب دستور اپنی شاندار اور مخصوص روایات کوائف جلسہ کے ساتھ شروع ہوا اور (۲۶ تا ۲۸ ، وفتح ہیمبر تین روز تک جاری رہا.اس مبارک اجتماع میں بھارت کے جن دور دراز علاقوں سے شمع احمدیت کے پروانے جمع ہوئے اُن کے نام یہ ہیں :- حیدر آباد دکن ، چنتہ کنٹر، کرنول ، یاد گیر، بمبئی ، صورت ، مدراسی، مالا بار، پیشہ مظفر پور حسینا، پرکھوپٹی، مونگیر، سہارنپور، بجو پوره ، امروہہ، بریلی، شاہجہانپور، راٹھ علی پور ننگلہ گھنو، آگرہ ، صالح نگر، ساندھی ، انبیٹہ، کریل، کانپور، انبالہ اور کشمیر.علاوہ ازیں پاکستانی زائرین کا ایک قافلہ بھی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی امارت له تبلیغ رسالت، مجموعه اشتهارات حضرت سیح موعود علیه السلام) جلد ۲ تا مرتبہ حضر میرقاسم علی حمایت مدیر فاروق قادیانی که ولادت ۲۳ اپریل ۱۹۰۲ ء وفات یکم اپریل ۶۱۹۷۳ ) ؛
میں قادیان پہنچا اور مرکز احمدیت کی برکات و فیوض سے مستفیض ہوا.مردانہ جلسہ گاہ کی حاضری سوا گیارہ سو کے قریب تھی جس میں سے آدھے غیر مسلم تھے معلمہ سے ہند وستان کے علاوہ انگلستان ، ہالینڈ اور انڈونیشیا کے بعض احمدسی مجاہدین نے بھی خطاب فرمایا جس سے غیر مسلم متاثر ہوئے اور انہوں نے اسلام کا پیغام سنتے میں دلچسپی کا اظہار کیا.جلسہ میں پریس کا نمائندہ بھی موجو تھا.زمانہ جلسہ گاہ کے طور پر حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کا مکان استعمال کیا گیا جہاں آلہ بیر العقوت کے ذریعہ سے مردانہ جلسہ کی پوری کا رروائی سنائی دیتی تھی.۲۹ رفتم سر دسمبر کو شو خو اتین کا علیحدہ اجلاس بھی منعقد ہوا.غیرمسلم خواتین کی تعداد میں تھی.افسر جلہ کے فرائض صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے انجام دئے اور میچ پاک کی مقد می بستی کے ایثار پیشہ ور ولیش انتظامات جلسہ کے لئے وقف رہے اور مہمانوں کو ہرممکن آرام پہنچانے کی خاطر ہر تکلیف بخوشی گوارا فرمائی.پاکستان کے خوش نصیب زائرین جو فتح کر دسمبر کی درمیانی پاکستانی زائرین کی رانگی شب کو بات کا ہے اور قادیان ہوئے تھے مقامات مقیمہ بوقت پیاز کے کی زیارت اور اس مبارک اجتماع میں شرکت کرتے اور شب و روز عبادتوں اور دعاؤں میں منہمک رہتے کے بعد ۳۱ فتح / دسمبر کی شام کو واپس ہوئے.روانگی سے قبل زائرین کا مسجد اقصٰی میں فوٹو لیا گیا اور اجتماعی دعا ہوئی.پانچ بجے مشام مزار مسیح موعود پر مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل نے اجتماعی دعا کرائی.بعد ازاں سب درویش زائرین کو الوداع کہنے کے لئے بٹالہ والی سٹرک پر تشریف لے گئے اور ٹھیک پونے چھ بجے شام زائرین کی دونوں میں نعرہ ہائے تکبیر ، احمدیت زندہ باد اور حضرت امیر المؤمنین زندہ باد کے درمیان روانہ ہوئیں.اس موقعہ پر رخصت ہونے والوں اور الوداع کہنے والوں کے جو جذبات تھے الفاظ اگی کو بیان کرنے سے قاصر ہیں.پاکستانی قافلہ اُسی شب پاکستانی حدود میں داخل ہو گیا ہے مله ولادت یکم جنوری ۶۱۸۷۹- وفات ہم جنوری ۱۹۶۱ء کریم صلح ۱۳۴۰ اہش ہے کے الفضل ۱۶ صلح و الفضل ۷ صلح ۱۳۳۱ امیش کر ۱۹ و ۲ جنوری ۶۱۹۵۲ به
قافلہ پاکستان برائے جلسہ سالانہ قادیان ۱۳۲۸ھ /۱۹۴۹ء
قافلہ پاکستان برائے جلسہ سالانہ قادیان ۱۳۲۹ھ ۱۹۵۰ء
امیر قافلہ نے واپسی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ امیر قافلہ کے تاثرات ۲۴ دسمبر کی رات کو گیارہ بجے ہمارا قافلہ نہر کا پل عبور کر کے عدد قادیان میں داخل ہوا.جونہی منارہ اسی پر ہماری نگاہ پڑی تو بیعت میں عجیب رقت پیدا ہوئی تقسیم کے وقت مشرقی پنجاب میں مساجد و مقابر اور دینی مدرسوں کی بربادی اور ویرانی کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور جہاں ان کی خستہ حالی سے دل میں ایک درد پیدا ہوا وہاں خدا تعالیٰ کی تحمید و تمجید کی طرف بھی طبیعت مائل ہوئی کہ ایک مقدس بیستی اس خطہ میں ایسی بھی ہے جو اللہ تعالیٰ اور مستند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے معمور ہے.ہمارا قافلہ ابھی قادیان سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر تھا کہ ہم نے وہاں دس بارہ سال کے ایک بچہ کو استقبال کے لئے موجود پایا.حضرت امیر صاحب جماعت احمد یہ قادیان نے اسے یہ استہ دکھانے پر مقرر کیا تھا تا کہ ہماری بڑی بڑی لاریابی ایک خاص راستے سے ہو کر میچ پاکٹ کی بستی میں داخل ہوں وه بچه فردی مترت میں میل ڈیڑھ میل تک لاریوں کے آگے بھاگنا چلا گیا اور اس نے اُس وقت تک دم نہ لیا جب تک قافلہ درویشیوں کی بستی میں جا داخل نہ ہوا.اس بچے کا یہ ولولہ شوق اور جذبہ اخلاص دیکھے کہ ہم بہت متاثر ہوئے.بستی کے سرے پر درویشان قادیاں قافلے کے انتظار میں ہمہ تن شوق بنے کھڑے تھے.لاریوں کے پہنچتے ہی تمام فضا نعرہ تکبیر اور احمدیت زندہ باد کے پر جوش نعروں سے گونج اُٹھی.درویشوں نے ضایت محبت بھرے الفاظ سے ہمیں خوش آمدید کہا اور نہایت درجہ اشتیاق کے عالم میں ہم سے بغلگیر ہوئے قادیانی کی مقدسی لیستی بشیح کے درویشوں کا مسکن، زندہ خدا کی زندہ امانت ہے.وہاں ہمارے رویش بھائی اپنے دن اور رات جس طرح غدا تعالیٰ کے حضور آہ وزاری میں بسر کرتے ہیں اس کے تصور ہی سے روحانی مسرت نصیب ہوتی ہے.ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے یہ عاشق صادق عاید شب بیدار ہیں.آدھی رات کے بعد میاں مولا بخش صاحب باورچی اور سید محمد شریف صاحب سیالکوئی قادیانی کی گلیوں میں نہایت سوز وگداز سے آواز دیتے ہیں کہ میچ پاک کے درویشو !! اٹھو تعجد کا وقت ہو گیا.اٹھو !! اور اپنے مولا کریم کو راضی کر لو چنا نچہ درویش اُٹھتے ہیں اور پہلے بیت الرعا وفات ۲۴ و فا ۱۳۳۳ پیش / ۲۴ جولائی ۶۶۱۹۵۴
با بیت الذکر میں خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہیں پھر چار بجے کے قریب مسجد مبارک میں باجماعت تجد پڑھتے ہیں.اُس وقت میں درد کے ساتھ آخری رکھتیں ادا ہوتی ہیں اور جس سوز و گداز کے ساتھ آہ وزاری کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اُن کی نظیر ملنا محال ہے.یقیناً یہ انعام باقی دنیا سے منقطع ہو جانے کا ہی ہے کہ درویشوں کو انقطاع الی اللہ کی آسمانی اور لازوال دولت حاصل ہے.ان پاکی بندوں کی اس کے سوا کوئی خواہش نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے جلد پورے ہوں اور اسلام کی آخری فتح قریب سے قریب تر آجائے.در ولیش ذکر و شکر کے ساتھ، اپنے دیگر فرائض سے غافل نہیں بہشتی مقبرہ میں چوبیس گھنٹے پہرہ دینا اُن کے معمول میں شامل ہے.وہ تبلیغ اسلام کا کوئی موقع ہاتھ سے بجانے نہیں دیتے.ان کے ریم و ثبات کا اثر ہے کہ دنیا کے دُور دراز علاقوں سے سیاح اور زائرین ہزاروں کی تعداد میں قادیان آتے ہیں.رجسٹر زائرین کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں قریبا تیس ہزا ر ہندو سکھ اور عیسائی اور غیر ملکی باشند سے محض زیارت قادیان کے لئے آپکے ہیں وہ ان کو جی بھر کے تبلیغ کرتے ہیں.انہیں اسلام کا پیغام پہنچاتے اور لڑکچر دیتے ہیں.اس بے بضاعتی کے عالم میں بھی انہوں نے ہندوستان کی احمدی جماعتوں کو منظم کر لیا ہے.انکے مبلغ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں جاتے اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں.الغرض وہ اس ملک میں اسلام کی عظمت کا نشان ہیں اور اس کی سربلندی کی خاطر کوہ وقار بن کر اپنی بیگہ ڈٹے ہوئے ہیں اور اس یقین سے لبریز ہیں کہ بالآخر اسلام ہی دنیا پر غالب آئے گا.اس یقین کے بر ملا اظہار سے وہ قطعاً نہیں ڈرتے بلکہ اپنی تقریروں میں برملا کہتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جبکہ احمدی دنیا میں غالب ہو کہ رہیں گے.یہ خدائی تقدیر ہے جسے دُنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی ہے اه المخصاً از افضل و صلح ۳۳۱ بیش / جنوری ۱۹۵۲ء ص وصت به
فصل دوم جلیل القدر صحابكا انتقال اصحاب مہدی موعود کا پاک گروه ۱۳۲۶ مش / ۱۹۴۷ء کی ہجرت کے بعد بڑی تیزی کے ساتھ اس جہان فانی سے رخصت ہو رہا تھا اور جماعت احمدیہ آئی مبارک وجودوں سے جلد جلد خالی ہونے لگی تھی جن کو تیرہ سو سال کے بعد خدا کے ایک مرسل کا خدا نما چہرہ دیکھنے اور اس کی با برکت صحبت میں بیٹھنے کا موقعہ نصیب ہوا تھا.۳۳۰ امیش / ۱۹۵۱ء میں جو ممتاز بزرگ صحابہ رحلت فرما گئے انکا منتر تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے :- ۱ - حضرت صاحبزادہ حاجی پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی : (ولادت ها در شعبان ۱۳۸۲ تله مطابق ۳ ر جنوری ۶۱۸۲۶- زیارت ۱۱۸۸۴ - بیعت اور جولائی ۶۱۸۹۱- وفات و سر درجنوری ۱۱۹۵۱) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے ازالہ اوہام میں اپنے مخلصین ومحبتیں ہیں آپ کا ذکر نہایت پیارے اور محبت بھرے الفاظ میں کیا ہے حضور تحریر فرماتے ہیں :- حتی فی اللہ صاحبزادہ افتخار احمد.یہ جوان صالح میرے مخلص اور محبت صادق حاجی حرمین شد منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے خلف رشید ہیں اور مقتضائ الوَلَدُ سِر لِأَبِيهِ تمام محاسن اپنے والد بزرگوار کے اپنے اندر رجمع رکھتے ہیں.اور وہ مادہ اُن میں پایا جاتا ہے جو ترقی کرتا کرتا فانیوں کی جماعت میں انسان کو داخل کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ روحانی غذاؤں سے اُن کو حصہ وافر بخشے اور اپنے عاشقانہ ذوق و شوق سے سرمست کرے یا شے نیز فرماتے ہیں:.روایات صحابہ (غیر مطبوعہ رجسٹری ما : سے رجسٹر بیعت (غیر مطبوعہ) ه الفضل لاہور ار صلح ۱۳۳۰ پیش / ۱۱ جنوری ۱۹۵۱ ء ص ب شے ازالہ اوہام علام (طبع اول)
" حاجی افتخار احمد صاحب....اس عاجز سے کمال درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اور آثار رشد و اصلاح و تقوای اُن کے چہرے پر ظاہر ہیں.وہ با وجود منتو گلا نہ گزارہ کے اول درجہ کی خدمت کرتے ہیں اور دل و جان کے ساتھ اس راہ میں حاضر ہیں.بخدا تعالیٰ ان کو ظاہری اور باطنی برکتوں سے متمتع کرے " ہے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خود نوشت سوانح میں ہے :.ر خود نوشت سوانح میری پیدائش بروزمنگل بوقت عصر ۱۴ شعبان ۱۲۸۲ ہجری کی ہے.میرے والد صاحب کو حضرت صاحب کی اطلاع اس وقت ہوئی جبکہ براہین احمدیہ کے تین حصے شائع ہوئے تھے.انہوں نے جب ان تین حصوں کو پڑھا اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کی عقیدت و ارادت آپ کے دل میں تحکم ہو گئی.اس کے بعد براہین احمدیہ حصہ چہارم شائع ہوئی.والد صاحب کی ارادت سے آپ کے اہل و عیال اور مریدین بھی زمرہ معتقدین میں شامل ہو گئے یا "میرے والد صاحب کو اور میرے بھائی منظور محمد صاحب کو اور مجھ کو حضرت صاحب کی ابتدائی زیارت اُس وقت ہوئی جبکہ حضور ۱۸۸۲ء میں سب سے پہلے تین دن کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے تھے میرے والد صاحب اور میرے بھائی صاحب اور یکں اور سب احباب حضور کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر گئے تھے حضور کی پہلی زیارت اسٹیشن پر ہوئی.میرے والد صاحب نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں بغیر بتلائے حضرت صاحب کو بچان لوں گا.ایسا ہی ہوا کہ حضور جب گاڑی سے اُترے بغیر بتلائے والد صاحب نے فرمایا کہ وہ یہ ہیں.“ " حضرت صاحب نے تین روز محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب صوفی کے ہاں جو کہ میرے والد صاحب کے مرید تھے ، قیام فرمایا " حضور تین دن کے بعد لدھیانہ سے تشریف لے گئے.اس کے کچھ عرصہ بعد اطلاع ملی کہ حضرت حنا شادی کے لئے دہلی تشریف لے جائیں گے اور فلاں وقت ریلوے سٹیشن لدھیانہ سے گاڑی گزرے گی.والد صاحب اور لدھیانہ کے احباب پہلے سے سٹیشن پر جا پہنچے لیکن بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ تھا جتنی دیر گاڑی کھڑی رہی حضور پلیٹ فارم پر ٹھرے رہے بحضور کے ساتھ جو احباب آئے تھے میرے خیال میں شاید چھ سات ہوں گے حضور اور ساتھی سب اپنے معمولی سادہ لباس میں تھے.کوئی ایسی علامت ۷۹۳ ے ازالہ اوہام ص (طبع اول : سے یعنی حضرت صوفی احمد جان صاحب نے (ناقل)
9 نہ تھی جس سے یہ ظاہر ہو سکتا کہ یہ دولہا اور یہ اُس کی برات ہے؟" حضور مع رفقاء شاید ۱۰-۱۵ منٹ اور حیا نہ پلیٹ فارم پر کھڑے رہے پھر گاڑی پر سوار ہو کر دہلی درمیانہ روانہ ہو گئے.واپسی کے وقت پھر لدھیانہ سٹیشن پر گاڑی ٹھیری.احباب سے ملاقات کی میرے والد صاحب نے پھلور کے دوٹکٹ پہلے سے لے لئے تھے.میرے بھائی منظور محمد صاحب کو ساتھ لے کر حضور کی گاڑی کے ڈبہ میں سوار ہو گئے میں ساتھ نہیں گیا.پھلور لدھیانہ سے ۵ میل ہے اور انجن بدلتا ہے.گاڑی نصف گھنٹہ وہاں ٹھیری.یہ میرے والد صاحب کا ولی اخلاص تھا جو اس تھوڑے عرصہ کی طاقات کو غنیمت سمجھا.یہ والد صاحب کی حضرت صاحب سے آخری ملاقات تھی کیونکہ اس کے بعد مجھ کو تشریف لے گئے.واپسی کے وقت یہ استہ میں بیمار ہو گئے اور لدھیانہ آگر چند روز بعد 19 ربیع الاول المجری کو وفات پا گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.والد صاحب کی وفات سے تھوڑے عرصہ بعد حضرت صاحب تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لائے تھوڑی دیر قیام فرمایا.والد صاحب مرحوم کی محبت، اخلاص اور دینی خدمت کا ذکر فرماتے رہے.پھر حضور نے مع حاضرین دعا فرمائی حضور نے قرآن شریف کی یہ آیت وَكَانَ ابُوهُمَا صَالِحًا پڑھ کر فرمایا کہ ان دو تو بچوں پر مہربانی کرنے کی یہ وجہ تھی کہ ان کا باپ صالح تھا رہم بھی اپنے باپ کے دو ہی لڑکے ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے بحالی پر بھی فضل فرمائے.آمین) یہ وقت بھی گزر گیا اور حضور کے یہاں صاحبزادہ بشیر احمد صاحب اول تو رد ہوئے حضور کا خط لدھیانہ کے احباب کے نام عقیقہ میں شمولیت کے لئے آیا جس میں حضور نے یہ بھی تحریر فرمایا تھاکہ عقیقہ کا ساتواں دن اتوار کو پڑتا تھا مگر کچھ قدرتی اسباب ایسے پیدا ہو گئے کہ عقیقہ بجائے اتوار کے پیر کے دن ہوا جس سے یہ الہام دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ پورا ہوتا ہے.ہم سب احباب لدھیانہ سے قادیان پہونچے.یہ سفر قادیان کا میرا پہلا سفر تھا اس سے پہلے میں نے قادیان کو نہیں دیکھا تھا مہمان مسجد اقصٰی میں ٹھرے.عقیقہ میں ایک دن یا دو دن باقی تھے کہ بارش شروع ہوئی اور تین دن لگا تار پرستی رہی.قادیان کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہو گیا.صاجزادہ بشیر احمد اول کا عقیقہ بیت العتشکر میں ہوا جو کہ بیت الذکر یعنی مسجد مبارک کے ساتھ کا حضور کے دولت بخانہ کا کمرہ ہے اور جس کا وہی ے مطابق ۲۷ دسمبر ۶۱۸۸۵: که کیف: ۸۳ سے ولادت ، اگست ۶۱۸۸۷
١٠ دروازہ مسجد مبارک کے دہنی طرف آب تک موجود ہے.حاضرین مہمانوں کی تعداد اتنی تھی کہ بیت الفکر میں گنجائش ہو گئی.مجھے یاد ہے کہ صاجزادہ بشیر احمد اول مولوی رحیم بخش صاحب کی گود میں تھے جس وقت کہ حجام نے سر کے بال اُتارے...عقیقہ کے بعد ایک دو دن مہمان ٹھہرے.پانی کا وہی عالم تھا اگر چه بارش بند ہو گئی تھی لیکن راستہ پانی سے لبریز تھا.بیگہ پر اسباب لاد کر احباب پا پیادہ روانہ ہوئے حضور نے پلاؤ کی دیگ ساتھ کر دی تھی مجھے یاد ہے کہ بٹالہ کے راستے میں بعض جگہ پانی کمر تنک پہنچ جاتا تھا.یکہ کے پہلے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے.اسی سال میں ہم بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچ گئے.اسٹیشن بٹالہ پورہ حضرت میر ناصر نواب صاحب رحمتہ اللہ علیہ دو دن سے پانی کی وجہ سے رُکے ہوئے تھے.جب پر پہنچے حضرت میر صاحب کی رخصت بھی ختم ہو چکی تھی، وہ بھی ہمارے ساتھ ریل پر واپس ماشین ہو گئے.کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب معہ اہل بیت لدھیانہ تشریف لے گئے اور ہمارے مکان کے بالکل متصل ایک حویلی میں فروکش ہوئے اور سبعیت کا اعلان کیا" اس کے کچھ عرصہ بعد محمد اللہ تعالیٰ ۱۸۹۳ء کو ئیں مع اہل و عیال ہجرت کر کے قادیان آرہا حضور نے اپنے رہائش ہی کے مکانوں میں جگہ دی....ایک روز حضور نے مجھے فرمایا کہ انسپکٹر مدارس آیا ہوا ہے اس سے کہو کہ قادیان کے سکول میں تم کو رکھ لے....میں نے محض حضور کے ارشاد کی تعمیل میں انسپکڑ سے بل کہ کیا کہ آپ مجھے قادیان کے سکول میں مدرسی کی آسامی دے دیں.انہوں نے میر کی عظیم وغیرہ کا حال پوچھا اور کہا بہت اچھا میں جا کر حکم بھیج دوں گا.اُس نے بجا کر میری تعیناتی کی باضابطہ کاروائی کی اور میں قادیان کے سکول میں مددمی ہو گیا." ان دنوں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (حضرت خلیفہ ثانی - ناقل) خورد سال تھے.حضور نے مجھے فرمایا کہ میاں کو بھی سکول لے جایا کرو لیکن حضرت صاحب کے ارشاد کے مطابق حضور کو بھی ساتھ لے جایا کرتا تھا.“ پانچ سال کے قریب یہاں قادیان میں رہا پھر مع عیال لدھیانہ چلا گیا...پھر ۱۹ ء کو مع اہل و عیال قادیان آیا اور فضل خدا نہیں رہا.۱۹۰۲ء میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت اقدس کی اجازت سے محرری کے کام پر مجھے رکھ لیا لنگر اور سکول کا چندہ اور حضرت صاحب
کے خطوط کا جواب لکھنا میرا کام تھا یفضل خد مسلسل دفتر ڈاک کا کام کرتا رہا یہاں تک کہ ۱۹۲۷ء میں بموجب قواعد ریٹائر ہو گیا.بحمد اللہ اب حضور کے قدموں میں پڑا ہوں اور دعا کرتا ہوں کا من دعا ہائے ہر وبار تو اسے ابر بہاری نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے آپ کی وفات پر لکھا :- حضرت عرفانی کا نوٹ ، جہاں تک میر اعلم ہے کہیں سے سعادت مند اور زاہد تھے ہر دیکھنے میر بچپن والے کو اُن کے پہرہ پر نور نظر آنا تھا.وہ رمضان کا مہینہ خصوصیت سے عبادت میں گزارتے اور اعتکاف کرتے تھے اور تہجد گزار تھے مجھے بارہا اُن کے ساتھ تجد میں شرکت اور سحری میں شریک طعام ہونے کا موقعہ ملا.اُن کے چہرے پر قسم کھیلتا تھا میں نے کبھی اُن کو غصہ کی حالت میں نہیں پایا.وہ اپنے گھر کے کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے تھے اور حضور علیہ السلاة والسلام کے ارشاد خَيْرُ كُم خَيرُكُمْ لا ملا ہے پر جوانی سے بڑھاپے تک مخلصانہ عامل رہے.اولاد کی تربیت اور اولاد پر شفقت کا بھی وہ ایک خاص نمونہ تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اور آپ کے اہلبیت سے انہیں محبت و اخلاص کا نہایت بلند مقام حاصل تھا.وہ تو کل علی اللہ کا ایک خاص درجہ رکھتے تھے.ان کی زندگی کے ابتدائی ایام شہزادوں کی طرح سے گزرے اس لئے کہ اُن کے خاندان کے فیض یافتہ لوگ بڑے اخلاص سے خدمت کرتے تھے لیکن احمدی ہو جانے کے بعد ہی در اصل اُن کے توکل کے مقام کا پتہ لگا وہ نہایت قارنع انسان تھے اور اپنے فرض کو نہایت محنت اور جفاکشی سے ادا کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا قرب انہیں آپ کے گونہ پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے حاصل تھا اس لئے کہ آپ صیغہ ڈاک میں کام کرتے تھے یہ سمجھے ضرت پیر صاحب کا قد لمبا تھا، آپ کی زندگی فروتنی کسر نفسی اور عجز و انکسار دیگر خصائل و شمائل کی مخستم تصویر تھی.فرشتہ صفت بزرگ تھے.خطہ نہایت پاکیزہ اور بہت عمدہ تھا.اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں بے تکلف بات کر لیتے تھے طبیعت پر غور و تشکر کا رنگ غالب تھا.تلخیص روایات صحابہ چندے (غیر مطبوعہ) صراحت : سے ابن ماجہ (ابواب النکاح باب حسن معاشرة النساء ) ص۱۲۳ الفضل ۲۸ صلح ۱۳۳۰ ش / ۲۸ جنوری ۱۹۵۱ء ص :
۱۲ غایت درجہ کم مگن تھے اور فضول اور زائد باتوں سے طبعی نفرت تھی ہمیشہ راضی القضاء رہے اور شدی تکلیف میں بھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے.ان کے جوان لڑکے فوت ہوئے مگر کیا مجال کہ زبان سے اُت تک نکل جائے یا چہرے سے کسی قسم کے درد یا تکلیف کا اظا ر ہو پڑھا ہے اور ضعف کی حالت میں بھی مسجد میں تشریف لاتے.آخری عمر میں زیادہ دیر تک بیٹھ نہ سکتے تھے.جماعت شروع ہونے سے قبل مسجد میں لیٹ بجاتے اور باجماعت نماز کا انتظار فرماتے پہلے کتاب انعامات خداوند کریم جو پر حکمت نصال پر مشتمل ہے آپ ہی کی تصنیف لطیف ہے اور آپ کے صوفیانہ مزاج کا پتہ دیتی ہے.ا حضرت پیر افتخار احمد صاحب کی اولاد کے نام درج ذیل ہیں :- اولاد (۱) پر نظرت قیوم صاحب (وفات ۱۸ جولائی ۱۹۱۷) (۲) پر نظر الحق صاحب سابق خوانی صدر النمو را صد تا لبوه ) - (۳) پیر حبیب احد صاحب (ولادت ۶۱۹۰۱- وفات ۲۶ فتح ۳۲۴۱ اهش / ۲۶ دسمبر ۶۱۹۶۲ ) - (۴) پیر نثار احمد صاحب (وفات ۲۲ اپریل ۶۱۹۱۲ ) - (۵) سعیده بیگم صاحبہ (وفات ۲۰ دسمبر ۲۶۱۹۱۰ - ( ۲) پیر خلیل احمد صاحب مرحوم ( ولادت ۱۳ اگست ۱۹۰۷ ء وفات ۲۰ - امان ۱۳۴۳ مش/ ۲۰ سایپه ۱۹۹۲) - (۷) پیر مر عبدالله صاحب مرحوم شیپر مدرسہ احمدیہ قادیان (۸) پیر عبدا امین صاحب (۹) سلیم بیگم صاحبہ (۱۰) سعیدہ بیگم صاحیہ - -۲- چوہدری امیر محمد خان صاحب متوطن اہرانہ تحصیل و ضلع ہوشیار پور : ربیعت ۱۹۳ وفات ۳ رامان ۱۳۳۰ بهش بر ۳ مارچ ۲۶۱۹۵۱ آپ چوم در ری سکندر خان صاحب کے بیٹے اور چور روی پیر بخشی صاحب عرت با با اولیاء سخی پیرشاه جمال علیہ الرحمہ کے پوتے تھے ضلع ہوشیار پور میں موضع اہرانہ پھلانہ اور پٹھیانہ کی احمدی جماعتیں آپ ہی کی له الفضل ۲ تبلیغ ۱۳۳۰ پیش / ۲ فروری ۶۱۹۵۱ مث : له قادیانی گائیڈ ملت منه ( از میان محمد پایین صاحب تاجر کتب قادیان - اشاعت ۲۵ نومبر ۲۶۱۹۲۰ سے اولاد پر عبد الرحیم صاحب پر سلطان احمد صاحب پیر ہارون احمد صاحب.پیر مبارک احمد صاحب مون لائٹ رہوں).صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولانا بذل الرحمن صاحب فاضل بنگالی مسلخ سلسلہ احمدیہ (وفات فتح ۱۳۲۸ش/ ۳۱ دسمبر ۱۹۴۹ء) - انتہ الحکیم صاحبہ اہلیہ مولانا شیخ نور احمد صاحب نزیر جا م میلاد عربیه کے ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ نے
تبلیغ سے قائم ہوئیں.آپ کے بیٹے چوہدری عبداللہ خان صاحب کی روایت ہے کہ آپ نے بتایا کہ ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط ملا جس میں چند لنگر خانہ کی تحریک تھی میرے پاس اس وقت کوئی روپیہ موجود نہ تھا میں نے اسی وقت حضرت اقدس کی خدمت میں واپسی خط لکھا کہ ایک شخص میری کچھ اراضی خریدنا چاہتا ہے اس کی آمد پیش حضور کر دوں گا.دعا فرمائیں حضور کا اپنے قلیم مبارک سے لکھا ہوا جواب ملا کہ دعا کی گئی اللہ تعالیٰ آپ کی یہ منشاء پوری کرے.اس خط کے چند دن بعد میرا یہ کام ہو گیا اور روپیہ بھی مجھے مل گیا.چنانچہ میں یہ رقم لئے پیدل قادیان کی طرف روانہ ہو گیا.دریائے بیاس کو سمیٹ کے پتن سے پار کیا ہی تھا کہ کانگڑہ کا زلزلہ آ گیا.قادیان پہنچے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے باغ میں تشریف فرما تھے میں نے وہ رقم پولی کی صورت میں حضور کی خدمت میں نذر کر دی.(یہ ۲ اپریل ۱۹۹۵م کا واقعہ ہے ، چوہدری امیر محمد خان صاحب کے نزدیک حضرت مصلح موعود کے حسب ذیل الفاظ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے :- پھر جب زلزلہ آیا اور حضرت اقدش باہر باغ میں تشریف لے گئے اور مہمانوں کی زیادہ آمد و رفت وغیرہ ذالک وجو ہات سے لنگر کا شریح بڑھ گیا تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ قرض لے لیں.فرماتے ہیں کہیں اسی خیالی میں آرہا تھا کہ ایک شخص ملا جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے تھے اور اُس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی اور پھر الگ ہو گیا.اس کی حالت سے میں ہرگز نہ سمجھ سکا کہ اس میں کوئی قیمتی چیز ہوگی لیکن جب گھر آکر دیکھا تو دو سو روپیہ تھا.حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اس کی حالت سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی ساری عمر کا اندوختہ لے آیا.پھر اس نے اپنے لئے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ مکھی پہچانا جاؤں.یہ شاکر کا مقام ہے؟ شہ ۳ منشی حسن دین صاحب رہتاسی -:- ربیعت ۱۸۹۶ وفات ۱۰- امان ۱۳۳۲ پیش له الفضل الاضاء ۳۳۰ پیش / ۱۱ اکتوبر ۱۹۵۱ء مت ہے ید که او جنوری ۱۹۱۲ ء مث کالم ۲ ( تقریر جبل الانہ 1911 بعنوانی مدارج تقولى : روایات صحابہ (غیر مطبوعه) جلد ۱۳ صنا به
۱۴ ار مارچ ۲۶۱۹۵۱ آپ حضرت مسیح موعود کے قدیم صحابی اور بلند پایہ شاعر حضرت منشی گلاب الدین صاحب رہتا ہی کے بیٹے اور خود بھی نغز گواور پر جوش فطرتی شاعر تھے جو عرصہ دراز تک احمدیتے اور اگر دو ادب کی خدمت کرتے رہے.آپ کے اشعار کا مجموعہ کلام حسن کے نام سے شائع شدہ ہے کہ ملی تقسیم ہم19 کے بعد آپ جہلم میں تشریف لے آئے.وفات سے دو ماہ قبل لائلپور میں فروکش ہوئے جہاں بیمار ہو گئے جماعت احمدیہ لائلپور نے ان کے علاج معالجہ اور تیمار داری کی پوری کوشش کی مگر ہماری جان لیوا ثابت ہوئی اور آپ.۱.امان ۱۳۳۰ اہش / ۱۰ مارچ ۱۹۵۱ء کو انتقال فرما گئ اور لائلپور کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے ہے -۴ حضرت شیخ عبد الرشید صاحب بٹالوی :- (ولادت اندازاً ۶۱۸۸۰ زیارت ۲۱۹۰۰ - بیعت ۶۱۹۰۱ - وفات ۲۷ ہجرت ۳۳۰اہش / ۲۷ مئی ۲۶۱۹۵۱ آپ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان مخلص صحابہ میں سے تھے جو عہد شباب کے آغاز میں احمدیت سے وابستہ ہوئے اور باوجود خاندانی مخالفت کے آخر دم تک حق و صداقت کو پھیلانے میں کوشاں رہے.آپ کی بیعت کا موجب عبد اللہ اور چراغ الدین نامی دو شخص تھے جو امر تسر سے بٹالہ آئے اور قادیان جانے کا شوق ظاہر کر کے آپ کو بھی ہمسفر بتانے میں کامیاب ہو گئے.قادیان پہنچے جہاں ان کا ایک رشتہ دار گورنمنٹ کی طرف سے اس خفیہ ڈیوٹی پر تعین تھا کہ آنے والے مہمانوں کے نام نوٹ له الفضل ۱۵- امان ۱۳۳۰ پیش / ۱۵ مارچ ۱۹۵۱ ۶ ص : که حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۸ ستمبر ۱۸۹۲ء کو انہیں تحریر فرما یا : ” بیعت کنندوں کے ۳۵ میں آپکا نام ہے یا « سراج منیر میں حضور نے آپ کی ایک منظم درج فرمائی ہے.۲۳ نومبر ۱۹۲۰ء کو جہلم ہسپتال میں انتقال کیا.قلعہ روہتاس کے دروازہ خواص خوانی کے باہر آپ کا مزار ہے.(الفضل ۲۷ جنوری ۱۱۹۲۱ مش مش ) : سے مرتبہ ڈاکٹر ملک نذیر احمد صاحب ریاضی.بھابڑا بازار را ولپنڈی ؟ ه روزنامه الفضل ۱۵- امان ۳۳۰ اهش کر ۱۵ مارچ ۶۱۹۵۱
JA کر ہے.اُس دن حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین بھیروی نے الحمد کی تفسیر فرمائی جس نے آپ کے دل پر خاص اثر کیا.اس کے بعد آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ گول کمرہ میں کھانا کھانے اور حضور کی زبان مبارک سے نئے سے نئے حقائق و معارف سننے کا شرف بھی حاصل ہوا.حضرت اقد سن علیہ السّلام کے نورانی چہرے اور پر جذب کلام نے آپ پر گرانقش قائم کر دیا اور آپ بار بار قادیان جانے لگے اور پھر جلد ہی حضرت مهدی موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر لی.قبول احمدیت کے بعد آپ پر مخالفت کے گویا پہاڑ ٹوٹ پڑے.اہلحدیث برادری نے قاضیہ حیات تنگ کر دیا.اور تو اور آپ کی والدہ صاحبہ بھی آپ پر بہت سختی کرتی تھیں اور آپ کو عاق کرانے کے درپے ہوگئیں.آپ کے والد صاحب نے شروع میں تو یہ جواب دیا کہ پہلے یہ دین سے سراسر غافل و بی پروا تھا مگر اب نمازی بلکہ تہجد گزار بن گیا ہے ایسے میں کس بات پر عاق کر دوں لیکن بعد ازاں وہ بھی اپنی برادری کے سامنے جھک گئے جس پر آپ کو کئی ماہ تک گھر سے باہر رہنا پڑایک آپ کا وجود جماعت احمدیہ بٹالہ کے لئے ایک ستون کی حیثیت رکھتا تھا چنانچہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب فاضل (سابق سود اگر مل ) تحریر فرماتے ہیں کہ : " بٹالہ میں احمدیت کا مرکزہ ان کا مکان ہی تھا بہت خوش خلق ، مہمان نواز اور سبھی تھے.ساری یر جماعت بٹالہ کے پریذیڈنٹ رہے.بٹالہ میں احمدیوں کے غیروں کے ساتھ متعد د مناظر سے اور جلسے ہوئے ان کا انتظام بھی حضرت شیخ صاحب کے ذمہ ہوتا تھا اور عموماً مہمان نوازی کے فرائض بھی شیخ صاحب ہی سر انجام دیتے تھے ا سے ۵ - میاں محمد صاحب بستی مندرانی تحصیل سنگھڑ ضلع ڈیرہ غازی خان :- ) ولادت ؟ وفات 19 تبوک، ۳۳اہش / ۱۹ ستمبر ۶۱۹۵۱ ) آپ ایک نیک طبع ، غریب النفس مگر دل کے غنی اور وینی غیرت رکھنے والے بزرگ تھے.حضرت اقدس مسیح موعود کے ذکر پر آپ کی آنکھیں اکثر پر نم ہو جایا کرتی تھیں.ناخواندہ ہونے کے باوجود آپ ہمیشہ پر اثر رنگ سے تعلیمیافتہ لوگوں تک پیغام حق پہنچاتے رہے.له العقل هم تبوک ۱۳۳۰ ش رسم ستمبر ۶۱۹۵ صدا مضمون حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ) سے لاہور تاریخ احمدیت ۳۸ موقفه مولا ناشیخ عبد القادر صاحب - طبع اقول ۲۰ فروری ۱۹۶۶ء)
۱۶ آپ دو دفعہ حضور کی زندگی میں دارالامان تشریف لے گئے.جب پہلی بار بیعت کر کے اپنے وطن واپس آئے تو آپ کا بائیکاٹ کر دیا گیا مگر اس مرد خدا نے اپنے حقیقی رزاق کا سہارا کافی سمجھا چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تھے.پورے گنبہ کے اخراجات سر پر تھے اور ذریعہ معاش بند تھا.انہیں ایام کا ذکر کر کے قوال تھے کہ بعض رشتہ داروں نے تکالیف اور تنگی کو دیکھ کرکہا کہ اگر تم بظا ہر ہم لوگوں میں ہی رہتے اور دل میں مرزا صاحب پر اعتقاد رکھتے تو ایسے تنگ نہ ہوتے.آپ نے جواب دیا کہ ایک منافق کی سی زندگی بسر کروں ؟ مجھے بھو کا مرنا منظور ہے لیکن مجھ سے منافقت نہیں ہو سکتی.اگر میں ایسا کروں اور خدا مجھے اندھا کر دے تو اس وقت میرا کون رزاق بنے گا ؟ بیان فرمایا کرتے تھے کہ جب میں پہلے پہل قادریان دار الامان گیا تو ان دنوں مجھ پر گریہ زاری کی طاعات طاری تھی اور لیکن اکثر رویا کرتا تھا.اُن دنوں میرے ہاں اولاد نرینہ نہیں تھی.یکی دل میں یہ خواہش رکھتا تھا کہ حضور سے اس بارے میں دعا کی درخواست کروں گا لیکن انہی دنوں میں حضور نے ایک تقریر فرمائی کہ بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور بعض لوگوں کے خطہ آتے ہیں.کوئی کہتا ہے ہمارے ہاں اولاد نہیں یا حضرت ابدعا فرمائیے ہمیں اللہ تعالیٰ اولاد دے.کوئی اپنی مالی تنگی کے بارے میں کہتا ہے.کوئی اور ایسی ہی خواہش پیش کرتا ہے.گو ہم سب کے لئے دعا کرتے ہیں مگر میرے آنے کی غرض یہ ہے کہ کوئی ایمان سلامت لے جائے مجھے اپنی خواہش کا اظہار کرتے شرم محسوس ہوتی تھی خاموش رہا.لیکن اللہ تعالی نے اس خاموشی کو نواز کر اولاد نرینہ عطا فرمائی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کی برکت تھی لیہ - حضرت میاں محمد الدین صاحب و اصل باقی نویس بلانی ضلع گجرات درویش قادیان: ولادت ۶۱۸۷۲ - بیعت ۶۱۸۹۴- زیارت جون ۶۱۸۹۵ - وفات یکم نبوت ۳۳۰ انش یکم نومبر ۱۹۵۱ء بمقام قادیان) موضع حقیقہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے.د مارچ ۱۸۸۵ء کو ابتدائی حالات پرائمری کا امتحان کھاریاں سے اور جنوری ۱۸۶۸ء میں مڈل کا امتحان ڈنگہ سے پاس کیا.19 جولائی ۱۸۹۰ء کو حلقہ بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات (پنجاب) میں بطور شہواری تعینات ہوئے جہاں ۱۹۰۵ء تک رہے.بعد میں گرد اور قانونگو بن گئے.۱۹۱۰ ء سے لے کر ۱۹۲۹ء تک تحصیل ل الفضل ۲۷ رافاء اس مہیش صلا:
14 کھاریاں میں واصل باقی نویس رہے پھر چار ماہ ضلع دفتر میں تبدیل ہو کر نیشن حاصل کی.ان ایام میں جبکہ آپ نے ملازمت شروع کی آپ کی دینی براہین احمدیہ سے روحانی انقلاب اور عملی حالت سخت ابتر تھی حتی کہ آپ بالکل وہر یہ ہو گئے تھے.اسی دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ممتاز صحابی حضرت مرزا جلال الدین صاحب ہے نے اپنے بیٹوں کو اسلامی لٹریچر بھجوایا جس میں براہین احمدیہ بھی تھی.آپ کو ان کے بڑے صاحبزادہ مرزا محد قسیم صاحبہ کے ذریعہ یہ عظیم الشان کتاب دیکھنے کا موقعہ ملا اور اس کے ابتدائی مطالعہ سے آپکے سب ظلماتی پردے اُٹھ گئے اور ایک ہی رات میں کایا پلٹ گئی.خود فرماتے ہیں :- آریہ ، ہر یہو، دہر یہ لیکچراروں کے بداثر نے مجھے اور مجھے جیسے اور اکثروں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان اثرات کے ماتحت لایعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین پڑھتے پڑھتے جب میں کہتی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں میفہ کے بقیہ حاشیہ پر اور صفحہ ۱۳۹ کے بقیہ حاشیہ نمبر پر پہنچا تو معاً میرٹی ہریت کا فور ہوگئی اور میری آنکھ ایسے گھگی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہو جاتا ہے.سردی کا موسم جنوری ۱۸۹۳ء کی ۱۹ تاریخ تھی آدھی رات کا وقت تھا کہ جب لیکن ہونا چاہیئے اور رہنے " کے مقام پر پہنچا پڑھتے ہی معا توبہ کی.عین جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے میرا ایمان جو ثریا سے شاید او پر ہی گیا ہوا تھا، اتار کر میرے دل میں داخل کیا اور سلمان را سلمان باز کرد کا مصداق بنا یا جس رات میں یکس بحالت گھر داخل ہوا تھا اس کی صبح مجھے پر حالتِ اسلام ہوئی.اس مسلمانی پر میری صبح ہوئی تو میں وہ محمد الدین نہ تھا جو کل شام تک تھا.فطرتا مجھ میں حیا کی خصلت تھی اور وہ اوباشوں کی محبت میں عنقا ہو چکی تھی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حضرت سیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی برکت سے وہی حصلت حیا واپس دی.لیکن اس وقت اس آیت کے پیر کو کے تحت مزے لے رہا تھا لكِنَّ اللهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَهُ اللَيْكُمُ الكفر وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ ه ۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نام سر فہرست ۳۷ پر درج ہے.ضمیمہ انجام آنتم مدا؟) ستمبر ۱۹۰۲ ء کو فوت ہوئے اور 9 ستمبر ۱۹۰۲ء کو جمعہ کے بعد حضرت مسیح موعود نے آپ کا جنازہ غائب پڑھا.حضرت مرزا محمد اشرف صاحب ریٹائرڈ محاسب صدر انجین احمدیہ آپ ہی کے صاجزادے تھے ؟
IA وَنِعْمَة وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمُ (الحجرات : ) (ترجمہ : لیکن اللہ نے تمہاری نگاہ میں ایمان کو پیارا بنایا ہے اور تمہارے دلوں میں اسکو خو بصورت کو کے دکھایا ہے اور تمہاری نگاہ میں گھر اور اطاعت سے نکل جانے اور نافرمانی کرنے کو نا پسند کر کے دکھایا ہے وہی لوگ سیدھے راستہ پر ہیں لیکن اللہ کے فضل اور نعمت سے ہے اور اللہ خوب جانتے والا حکمت والا ہے.میاں محمد دین صاحب اپنے واقعہ صحیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :.واقعہ بیعت " ایمان لانے کے ساتھ ہی قرآن کی عظمت اور محبت نے میرے دل میں ڈیرہ لگایا " گویا علیم شریعت جو ایمان کی چڑھ ہے اس کے حاصل کرنے کا شوق اور مت کرد انگیر ہوا.ازاں بعد سال ۹۶ ۹۳ میں براہین احمدیہ کا ایک دور ختم کیا جو نماز تہجد کے بعد کیا کرتا تھا اور پھر آئینہ کمالات اسلام پڑھا ہو تو شیخ المرام کی تفسیر ہے.حضرت قبلہ منشی مرزا جلال الدین صاحب پیشتر میرفتی رسالہ ۱۲ ساکن بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات دو ماہ کی رخصت لے کر سیالکوٹ چھاؤنی سے بلانی تشریف لائے اور بلانی میں ہی میں پٹواری تھا ان اسے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا جس کا جواب مجھے اکتوبر ۱۸۹۴ ء میں ملا جس میں لکھا تھا کہ ظاہری بیعت بھی ضروری ہے جوئیں نے ۵ - جون ۱۸۹۵ء مسجد مبارک کے چھت پر بالاخانہ کے دروازے کی چوکھٹ کے مشرقی بازو کے ساتھ حضرت صاحب سے کی ؟ مسجد مبارک میں ظہر کی نماز مولوی عبد الکریم صاحب کے اقتدا میں ادا کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ان دنوں نماز ظہر اور عصر کے درمیان اور نماز مغرب اور عشاء کے درمیانی مسجد میں تشریف رکھا کرتے تھے.جب نماز سے فارغ ہو کو حضرت صاحب شمالی دیوار کے ساتھ کھڑ کی (دریچہ ) کے جانب غرب بیٹھے تو میں نے آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھا اور چہرہ اور پیشانی سے نور کی شعاعیں سفید رنگ کی اٹھتی دیکھیں جو بڑی لمیں تھیں اور چھت کو پھاڑ کر آسمان کی طرف جا رہی تھیں میں اس نظارہ سے مسرور اور تصویر حیرت ہو گیا ہے یکن نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ قرآن شریف کیس طرح آئے ؟ آپ نے فرمایا وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (ترجمہ) اور تم توی کر و خدا تمہارا خود استاد ہو جائے گا.ه البقره : ۲۸۳
19 پھر میرے دل میں گذرا کہ میں علم دین سے نا واقف ہوں اور مولوی لوگ مجھے تنگ کریں گئے ہیں کیا کہ ہوگی اور پوچھنے سے بھی شرم کر رہا تھا جو آپ نے بغیر میرے سوال...ایسے بلند لہجہ اور رعب ناک انداز سے فرمایا کہ میں کانپ گیا.فرمایا ہماری کتابوں کو پڑھنے والا کبھی مغلوب نہیں ہو گا پہلے جنوری ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے کتب حضرت میں موجود میں ذکر ساس اصحاب کی فرست مول انجام اسم میں آپ کا ہم ۳۱۳ نام تیسرے نمبر پر درج فرمایا.اسی سال سراج منیر شائع ہوئی جس میں مہمان خانہ قادیان کے چند ہندگان میں بھی آپ کا نام شامل تھا.ازاں بعد ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کے اشتہار (مشمولہ کتاب البریہ ) میں آپ کا نام عملا پر شائع ہوا.آپ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں دو مرتبہ قادیان دار الامان تشریف لے گئے اور اس پاک اور پر انوار اور برکتوں سے معمور بستی میں ایک ایک ماہ تک قیام فرمایا اور حضرت امام الزمان کی بابرکت مجالس سے اکتساب فیض کیا اور حضور کی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کی تازہ بہ تازہ و می شمنی بیت یکم جولائی 19ء کو حضرت اقدمین علیہ السلام کی طرف سے چندہ منارہ اشیح کی خدمات سلسلہ تحریک ہوئی جس میں آپ نے ایک سو روپیہ دیا.۲۳ اکتوبر ۱۹۰۶ ء کو آپ نے اپنی جائیداد کے پانچویں حصہ کی حقیقت کی اور 1909ء میں اپنا حصہ جائیداد ادا بھی کر دیا.بعد میں جو بھائیدا و پیدا کی اس کا اندراج بھی صدر انجمن احمدیہ میں کرا دیا.ازاں بعد اپنی آمد کی بھی وصیت کر دی اور آخر دم تک اس کی ادائیگی کرتے رہے.۱۹۲۹ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کر دی کشمیر فنڈ جمع کیا ضلع گجرات کی جماعتوں کا بجٹ تیار کیا.کچھ عرصہ پہلے سندھ کی اراضیات میں پھر دفتر جائیداد سے روایات صحابہ جلد خشک و م ؟ i سے جنوری ۱۹۰۰ ء تا یکم فروری ۶۱۹۰۰ - یکم نومبر ۱۹۰۱ تا۲۲.دی میرا ۱۹۰ء ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب کی تحریری یادداشتوں سے ماخوذ) سے آپ کی خود نوشت روایات کے حوالہ سے تذکرہ طبع سوم ملت کے قاصد ہے میں کئی المابات محفوظ ہو چکے ہیں.
صدر امین احمدیہ میں سرگرم عمل رہے.۱۲ تبوک ۳۳۶ایش ۱۲ ستمبر ۱۹۴۷ء کو ہجرت کر کے پاکستان دور درویشی اور وفات آگئے مگر اگلے سال ماہ ہجرت رمنی میں حضرت مصلح موعود کی تحریک پر ٹھیک کہہ کر مستقل طور پر قادیان تشریف لے گئے.در ولیش آپ سے دینی مسائل سیکھتے اور ناظرہ قرآن پڑھتے تھے.بڑھاپے میں بھی بہت ذی ہمت تھے مسجد مبارک سے اتر تے اگر کوئی درویش سہارا دینے کی کوشش کرتا تو آپ منع کرتے اور فرماتے کہ یکس بوڑھا نہیں ہوں.آپ درویشوں کو اکثر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کی باتیں سناتے رہتے تھے.آپ کا دستور تھا کہ جب آپ لنگر خانہ میں کھانا لینے کے لئے جاتے اُس مقدس دور کی کوئی ایک بات ضرور سنا دیتے تھے.آپ نے عمد درویشی کمال صدق وصفا کے ساتھ نبھایا اور وفات کے بعد بہشتی مقبرہ کے قطع صحابہ میں دفن کئے گئے ہے اور ان ابدال میں شامل ہوئے جن کا ذکر حضرت محمدئی موعود علیہ السّلام نے درج ذیل عبارت میں فرمایا ہے :- پنجاب اور مہندوستان سے ہزار ہا سعید لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ایسا ہی سرزمین ریاست امیر کابل سے بہت سے لوگ میری بیعت میں داخل ہوئے ہیں.اور میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہرا رہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے تو یہ کی ہے اور ہزار ہا لوگوں میں بعد بعیت یکں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہر گز ایسا صاف نہیں ہو سکتا.اور یکی حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزار ہا صادق اور ونادار مرید بعیت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فرد اُن میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے " سے اولاد حضرت میاں محمد الدین صاحب کی اولاد :- ا غلام فاطمہ صاحبہ (ولادت ۳۰ تومبر ۶۱۸۹۵) ۲ صوفی غلام محمد صاحب الفضل يكم فتح ۱۳۳۰ پیش سر یکم دسمبر ۱۹۵۱ ء مث و ۱۴ نبوت ۱۳۳۲ اتش // ۱۴ نومبر ۱۹۵۱ء مت : سے حقیقة الوحی ص ۲۳ ۱۵ ۲۳ طبع اول ۱۵ مئی ۱۹۰۷ء مطبع میگزین قادیان ہے نے مبارکی مصلح الدین احمد صاحب واقف زندگی جو وکیل المال ثانی تحریک جدید ہیں آپ ہی کے صاحبزادے ہیں ہے
۲۱ بی بی ایس سی، بی ٹی ریٹائر ڈشیں تعلیم الاسلام ہائی سکول حال ناظر بیت المال (خرج ) (ولادت ۱۹.ٹیچر اکتوبر ۶۱۸۹۸) ۳.ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب (ولادت ۳۰ مارچ ۶۱۹۰۱ ) ۴- زینب بی بی صاحبہ ولادت ۳۱ دسمبر ۱۹۰۳ء) ۵ - آمنہ بی بی صاحبه ( ولادت در دسمبر ۲۶۱۹۰۵ ۶ چوہدری غلام مرتضی صاحب بی.اے ایل ایل بی بیرسٹر وکیل القانون تحریک جدید (ولادت ۲۱ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۷ غلام احمد مرحوم (ولادت ۱۵ اپریل ۱۹۱۲ء وفات ۱۸ مارچ ۱۱۹۳۲) ۸ - چوہدری غلام نبیین صاحب بی ۴ سابق مبلغ اسلام امریکہ (ولادت ۲۸ فروری ۶۱۹۱۵ ) ۹ - امتہ اللہ صاحبہ (ولادت ۱۳ نومبر ۶۱۹۹۲ حضرت حافظ عبد العزیز صاحب متوطن سیالکوٹ چھاؤنی :- (ولادت تقریباً ۱۸۷۳ء بیعت ۸۹۶الله وفات و نبوت ۱۳۳۰ بهش / ۹ نومبر ۶۱۹۵۸ سیالکوٹ چھاؤنی کے ایک موقعہ گھرانے میں پیدا ہوئے.آپ کے والد چوہدری ابتدائی حالات نبی بخش صاحب بہت متدین اور مہمان نواز تھے.آپ نے بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا.آپ نہایت صحت اور خوش الحانی سے کتاب اللہ کی تلاوت کیا کرتے تھے.خاندانی و سجا ہت کے علاوہ اپنی ذاتی خوبیوں کے باعث بچپن ہی سے محبت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.پاکیزہ دینی ماحول میں جوان ہوئے اور عنفوان شباب ہی سے مذہبی مطالعہ کرنے اور دینی مجالس میں بیٹھنے کا شوق تھا.صدر بازار سے آپ شہر سیالکوٹ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا درس سننے کے لئے آیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چر چائنا تو اپنے پیر و مرشد سید سلسلہ احمدیہ میں شمولیت جماعت علی شاہ یا علی پوری رانی سے پوچھا کہ مزا صاحب اپنے دعوے میں کیسے ہیں جواب ملا کہ (نعوذ باللہ) جھوٹے ہیں.آپ نے دلیل مانگی تو پیر صاحب موصوف نے فرمایا مرید کا کام دلیل مانگنا نہیں بس پیز نے کہا اور مرید نے مان لیا مگر حافظ صاحب ہر بات دلیل سے ماننے کے عادی تھے اس طرح اندھا دھند تقلید آپ کے مزاج اور فطرت کے منافی تھی.آپ نے مولوی مبارک علی صاحب سیال کوئی اور پیر صاحب کی دعوت کی.دونوں میں ندی گفت گو ہوئی اس تبادلہ خیالات میں پیر صاحب احمدیت کے علم کلام کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور کوئی تسلی بخش جواب لے بروایت سردار عبدالحمید صاحب آڈیٹر بر اور اصغر سے ولادت ۶۱۸۶۰ وفات ۱۹۳۹ء ( صوفیائے نقشبند از سید امین الدین احمد صاحب ناشر مقبول اکیڈیمی لا ہو ر طبع اول ۶۱۹۷۳ )
۲۲ دینے سے قاصر رہے جس پر آپ اُن کو چھوڑ کر حضرت مہدی موعود کے دامن سے وابستہ ہو گئے.قبول احمدیت کے بعد مخالفت کا سلسلہ لازمی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے قبول احمدیت کے بعد نہ صرف آپ کو ثبات و استقلال بخش بلکہ آپ کے بابرکت وجود سے سیالکوٹ چھاؤنی کی قدیم و فدائی جماعت کو بھی بہت تقویت پہنچی اور آپ کے نیک نمونہ اور تبلینے سے بہت سی سعید رو ھیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں.۱۹۱۴ء میں جبکہ مولوی مبارک علی صاحب جیسے عالم فاضل بھی غیر م العین میں شامل ہو گئے.آپ اس نازک ابتداء میں تحکم چٹان بن کر کھڑے رہے اور دوسرے احباب جماعت کی بھی خلافت سے وابستگی کا موجب بنے.۱۹۲۸ء میں آپ نے اپنا مکان چھاؤنی میں تعمیر کرایا تو دو کمرے نماز با جماعت اور جمعہ کی نیست سے بنوائے.ایک مردوں کے لئے اور ایک عورتوں کے لئے.اس طرح آپ کا مکان مرکز کا کام دینے لگا.اللہ تعالیٰ نے آپ کے مال میں اتنی برکت ڈالی کہ آپ نے اُنکیش مکانات اپنے ورثہ میں چھوڑے.إنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.حضرت حافظ صاحب قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے.ایک دفعہ کیسی بد زبان نے آپ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں تحقیر آمیز الفاظ کہے تو آپکو اتنا صدمہ ہوا کہ بخا ر ہو گیا اور دو دن تک ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہے یہ حضرت مولوی عبد الاسد خان صاحب میرٹھی حضرت مولوی عبد الواحد معانی نمی بھٹی کا بیان نے آپ کی وفات پر سکوں یہ حافظ عبد العزیز صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ صحابہ میں سے تھے.حافظ صاحب رضی اللہ عنہ اور خاکسار نے ایک ہی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.مجھے جہاں تک یاد ہے غالباً نومبر دسمبر ۱۸۹۵ء کے ایام تھے حضرت حافظ صاحب رضی اللہ عنہ پہلے پر جماعت علی شاہ کے مرید تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت بھی زوروں پر تھی.چھاؤنی سیالکوٹ صدر میں مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب احمدی تھے اور ایک اور دوست بھی مولوی صاحب نے ل الفضل در فتح ۱۳۳۰ش/ ۲۸ دسمبر ۱۹۵۷ ء مث مضمون چوہدری شبیر احمد صاحب بی.اسے کا
۲۳ دریس قرآن شریف شروع کیا ہوا تھا اور حافظ صاحب رضی اللہ عنہ درس میں شامل ہوتے.اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل و احسان کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.حضرت مولانا عبد الکریم رضی للہ عنہ کا درس قرآن شریف شہری حکیم حسام الدین رضی اللہ عنہ کی مسجد میں ہوتا تھا یا کسار اور حافظ فضا سردیوں میں صبح ۵ بجے چھاؤنی سے ۱ ۲ ۳ میل کا فاصلہ حل کر مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز صبح پڑھتے اور درس میں شامل ہوتے.اصل میں حافظ صاحب رضی اللہ عنہ کی بیعت کا بڑا سبب یہ ہوا کہ میں نے حافظ صاحب کو تحریک کی کہ پیر صاحب کی دعوت کریں اور مولوی صاحب کو بھی بلائیں (مولوی مبارک علی صاحب) پھر کچھ ذکر ضرور ہو گا.دکھیں گے پیر صاحب کیا فرماتے ہیں.خیر شام کو حافظ صاحب کی بیٹھک میں انتظام ہوا اور پیر صاحب، مولوی صاحب، حاجی حسین بخش صاحب مرید پیر خیش صاحب منشی ال بخش احمدی، محافظ صاحب ، خاکسار ایک یا دو اور دوست تھے غالیا ۷ - ۸ آدمی تھے.پیرسینا نے فرمایا مولوی صاحب کوئی رکوع قرآن شریف کا سنائیں مولوی صاحب نے يَا عِیسے اِنِّي مُتَوَفِّيكَ یہ ہی رکوع سنایا.اس وقت شروع شروع میں حضرت عیسی علیہ السلام ہی زیادہ زیر بحث رہتے تھے آب تو بغیر احمدی صاحبان اس بحث کو چھوڑ بھاگے.جب پیر صاحب اس رکوع کو سن کر کچھ بولے نہیں بلکہ مولوی صاحب کی خوش الحانی کی تعریف کی تو مولوی صاحب نے خود ہی دریافت کیا کہ آپ کا حضرت میرزا صاحب کے متعلق کیا خیال ہے ؟ پیر صاحب نے فرمایا کہ میں نے با واصاحب سے سے پوچھا تھا یعنی اپنے پر صاب سے) با و اصاحب نے کہا وہ کوڑا (جھوٹا) ہے.مولوی صاحب نے کہا کوئی دلیل ؟ پیر صاحب نے کہا با واصاحب کے کہنے پر دلیل کی کچھ ضرورت نہیں ہے.دوسرے دن صبح ہی میں نے اور حافظ صاحب نے بیعت کا خط حضرت اقدس علیہ السّلام کی خدمت شریف میں ارسال کر دیا جس کا جواب حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ تعالی عنہ کی فلم کا لکھا ہوا مجھ کواور حا فظ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کول گیا.الحمدللہ على احسانه - خاکسار اور حافظ عبد العزیز رضی اللہ عنہ بچپن کے دوست تھے.ایک ساتھ قریب ۲۵-۳۰ برس رہے.ایک ہی سکول میں پڑھے بلکہ اُنہیں کے گھر میں رہے.حافظ صاحب رضی اللہ عنہ مجھ سے دو برس بڑے تھے بچپن ہی سے خاموش ، کم سخن سنجیدہ مزاج انیک سیرت اور خوش اخلاق انسان تھے.ہمارے ه آل عمران : ۵۶ سے میدہ شریف کے پیر جناب فقیر محمد صاحب عرف باواجی مراد ہیں :
۲۴۴ محلہ میں نیز سارے بازار یعنی چھاؤنی سیالکوٹ میں بغیر امتیاز مذہب و ملت کیا ہندو کیا مسلمان ہر ایک آپ کو غربت کی نظر سے دیکھتا تھا.یہ بالکل سچی حقیقت ہے اور ہر ایک آپ کا احترام کرتا تھا.باوجود احمدیت کی سخت مخالفت کے آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے کسی مخالف کو آپ کے سامنے احمدیت کے خلاف زبان کھولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی.آپ کی صاف گوئی، راستبازی، نیک چلینی، اخلاص اور تقوی کا ہر ایک مداح تھا.علاوہ چھاؤنی کے چونکہ آپ سنگر کمپنی کے منیجر تھے شہر سیالکوٹ میں بھی بہت آنا جانا رہتا تھا شہر سیالکوٹ کے اکثر و بیشتر لوگ جن سے آپ کو معاملہ پڑتا آپ کے حسن اخلاق ، آپ کے اوصاف حمیدہ کے معترف تھے اور آپ کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آتے تھے.ہمارے ایک دوست مستری نظام الدین صاحب پسپورٹ ورکس سیالکوٹ شہر جو کاروبار کے سلسلہ میں چھاؤنی آتے رہتے تھے اور مولا بخش صاحب بوٹ فروش (جو بعد میں کینیا می ہو گئے، بھی آتے اور حافظ صاحب کی دُکان پر ضرور ٹھیک رہتی.ایک مرتبہ حافظ جی کی نظر مستری نظام الدین صاحب کے موزوں پر پڑ گئی جو پھٹے ہوئے تھے.آپ نے فورا ان کے پھٹے ہوئے موزے اتروا دئیے اور اپنے نئے موزے ان کو اپنائے....جب حضرت سیح موعود علیہ السلام دارالامان سے مولا کام دین کے مقدر میں ملی تشریف لیجا ہے تھے تو لیکن اور محافظ جی رضی اللہ عنہ اور مستری نظام الدین تینوں آدمی وزیر آباد سٹیشن سے اُسی ٹرین میں سوار ہو کر حضور علیہ السلام کے ساتھ ہی جہلم گئے اور حضور علیہ السلام کے قیام جہلم تک وہیں رہے اور ساتھ ہی واپس ہوئے.آہا اسٹیشنوں پر کیا کیا نو مارے دیکھے اور خاص کر جہلم سٹیشن پر پھر کچری احاطہ میں کیا بتاؤں ؟ جن کا بیان کرنا بڑا طویل ہے جس کی اس خط میں گنجائش نہیں ہے.اکثر واقعات میری نوٹ بک میں ہیں جو ذکر حبیب کے وقت دوستوں کو ازدیاد ایمان کے لئے سُناتا ہوں.احاطہ کچہری میں حضور سیح موعود علیہ اسلام کرسی پربیٹھے ہوتے تھے اور باقی دوست دوری پر بیٹھے جاتے اور کچھ دوست چاروں طرف گھیرا باندھ کر کھڑے رہتے حضور تقریر فرماتے.اکثر وبیشتر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے جن میں حافظ صاحب رضی اللہ عنہ اور خاکسار بھی شامل تھے.مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹ والے بھی تھے جنہوں نے قریب ہی تھوڑی دُوری پر مخالفت میں اکھاڑا لگایا ہوا تھا.پھر حضور سیح موعود علیہ السّلام کے لیکچر سیالکوٹ میں بھی حافظ صاحب اور خاکسار شامل ے جنوری ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے :
۲۵ رہے یا اے ڈاکٹر رشید احمد صاحب.ارشاد احمد صاحب شبیر احمد صاحب ہی.اسے بشارت احممات رادار اولاد ہی.اسے شمشاد احمد صاحب.ریاض احمد صاحب.اعجاز احمد صاحب - ذوالفقار احمد صابیت میاد که بیگم صاحبہ سلطان حیدری بیگم صاحبہ اقبال حیدری بیگم صاحبہ تادم تحریر خدا کے فضل و کرم سے حضرت حافظ صاحب کی اولاد کی مجموعی تعداد ۳ ۵ تک جا پہنچی ہے خدائے عز و جل نے مہدی موعود کو بشارت دی تھی :- یکن تیرے خالص اور دلی محبتوں کا گر وہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گاڑ نے - اخوند محمد اکبر خاں صاحب آن ڈیرہ غازیخان : ولادت اپریل ۶۱۸۸۵ - تحریری بیعت ۶۱۹۰۴ - زیارت ۶۱۹۰۵ - وفات هم فتح ۳۳۰ آتش - انش آر دسمبر ۱۶۱۹۵۱ 193ء میں دفتر ضلع ڈیرہ غازی خان میں ملازم ہو کر راجن پور میں تعینات تھے کہ ایک سعید نوجوان حکیم عبد الخالق صاحب سے ملاقات ہوئی حکیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب کا مطالعہ کر چکے تھے اور رسالہ ریویو آن پیلی جز خود آپ کے زیر نظر رہ چکا تھا.دونوں نے تحریک احمدیت پھیلی تحقیق شروع کر دی اور دونوں خوش نصیبوں پر اللہ تعالیٰ نے حق کھول دیا اور انہوں نے اوائل ۱۹۰۴ء میں سبعیت کا خط لکھ دیا.پرانے ڈیرہ غازیخان میں احمدیت کی سخت مخالفت تھی اور اس میں آپ کے خاندان ایک نشان کے ایک بار مورخ پولیس افسر اخوند امیر بخش خان صاحب بہت پیش پیش تھے میراحمدیوں ه مکتوب حضرت مولوی عبد الاحد فان مکان ۳ پیر کالونی بنام چوہدری شبیر احمد صاحب : دندان سازی کی پریکٹس کرتے ہیں ؟ سے ٹرانسپورٹ منیجر وفات ۶۱۹۵۰ ه که وکیل المال اول تحریک کنید ربوه و نائب صدر مجلس انصار الله مرکز یہ ربوہ ( صمت دوم ) : شہ اسسٹنٹ ان ملٹری اکومنٹس کراچی نے متوفی ۱۹۵۱ء غیر شادی شدہ ہونے کی حالت میں وفات پائی ؟ کے ملازم آٹو مینٹس کراچی به شو چیف ٹیک ایر فورس کراچی به شه میڈیکل اسسٹنٹ مسقط نے اشتہار ۲۰ فروری ۸۱۸۸۶ و تذکره مرا ایڈیشن سوم ؟
۲۲ نے احمد یہ مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے سخت ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا اور یہ صاحب ان کے پشت پناہ بنے ہوئے تھے.انہوں نے سب انسپکٹر پولیس ڈیرہ غازیخاں کو اکسایا کہ فریقین کے سر کر دہ لوگوں کی ضمانتیں لی جائیں نی اخوند صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں ایک علیہ لکھا جس میں ان صاحب کی مخالفت کا ذکر کیا کہ ان کو اس قدر عناد ہے کہ اگر اُن کا بس پہلے تو مجھے قتل کر دیں اور ضمانت طلبی کا بھی ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی حضور نے اپنے مبارک ہاتھ سے اس عریضہ کی گشت پر جواب رقم فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہمیں گھرانا نہیں چاہیے دعاکی گئی ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس کا جلد نیک نتیجہ ظاہر ہو گا اور جماعت کو چا ہیئے کہ ضمانت ہرگز نہ دیوے ہائی سجدہ چھوڑنی پڑے تو چھوڑ دی جاوے اور کسی احمدی کے مکان پر یا جماعت نمازوں کا انتظام کر لیا جاوے مگر جماعت کے کسی فرد کو ضمانت ہر گز نہیں دینی چاہئیے.حضور کے اس جواب کے تھوڑے دنوں بعد اخوند امیر بخش خان لقمہ اجل ہو گئے اور صاحب ڈپٹی کمشنر نے سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈیرہ غازیخاں کی رپورٹ پر ایک مسلمان امی.اسے میسی کو مقرر کر دیا کہ وہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مصالحت کرا دے مگر کامیابی نہ ہوئی کی کشمکش جاری تھی کہ آخر دریائے سندھ کی طغیانی سے سارا شہر غرق ہو گیا اور نیا شہر آباد کیا گیا جس میں جماعت احمدیہ نے اپنی نئی مسجد تعمیر کرائی جونئے شہر میں سب سے پہلی مسجد بھی لیے یہ سجدہ فراخ اور کشادہ ہے اور شہر کے مرکزی اور بارونق حقہ میں واقع ہے مسجد میں لائبریری اور مربی سلسلہ کی رہائش کا بھی موجود ہے اور جمعہ کے علاوہ پیلیک جلسے بھی اسی میں منعقد کئے جاتے ہیں.اخوند صاحب نے اپنے زمانہ ملازمت میں خوب پیغام حق پہنچایا.آپ مبلغین سلسلہ کو بلوا کر تقریریں کراتے اور اخراجات خود برداشت کرتے تھے.اپنے افسروں کو ہمیشہ جماعتی لٹریچر دینے مستقل چندوں کے علاوہ سلسلہ کی دیگر مالی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے تھے سلسلہ کے لٹریچر سے گہرا شغف تھا.مرکزی اخبارات، رسائل اور کتب منگواتے اور فرماتے یہی ترکہ میں اپنی اولا کے لئے چھوڑ جاؤں گا.جماعتی کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیتے.آپ کو اپنے رشتہ داروں اور دوسر روایات صحابہ الخیر مطبوعہ جلد ۳ ص ۱۳ بشارات رحمانیہ جلد اول من ۲ - من موقفه مولوى عبد الرحمن صام ينشر المعدوم اخلاق سے روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۳ ص ۱۳ - ۱۲۵ ) خود نوشت روایات اخوند محمد اکبر سمان صاحب ابد ١٣ به
لوگوں سے تکالیف پہنچیں مگر آپ نے ہمیشہ صبر کیا اور دکھ دینے والوں سے نیکی اور احسان کیا.حضرت مصلح موعود اور خاندان حضرت مسیح موعود اور بزرگان سلسلہ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے.جب آپ دوران ملازمت ملتان میں قیام فرما تھے حضرت ام المؤمنین رضی اللہ کا پانچ مرتبہ آپ کے گھر تشریف لائیں.عسر و لیٹر دونوں حالتیں آپ پر آئیں مگر آپ میں شفقت علی خلق اللہ، انفاق فی سبیل اللہ اور مہمان نوازی کے اوصات بدستور قائم رہے.مفوضہ کام نہایت تو قبہ اور محنت سے انجام دیتے آپ کی دیا خدارسی اپنوں اور بیگانوں میں مسلم تھی.۱۹۳۸ء میں نیشن ملی تو قادیان آگئے اور ۱۹۴۰ء میں محلہ دار الفضل میں ہجرت اور وفات اپنا مکان بنا لیا.قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۷ء میں قادیان سے آکر ملتان میں پناہ گزین ہوئے اور ہم راہ فتح ۳۳۰ اہش / ۲ دسمبر ۱۹۵۷ء کو وفات پائی اور ربوہ ہیں دفن کئے گئے لیے ۱- صفیه خانم صاحبہ اہلیہ اخوند محد عبد القادر خان صاحب ایم.اے مرحوم ریٹائرڈ پروفیسر اولاد تعلیم الاسلام کا لج ربوده بشری خانم مرحومه (بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفونی ) -۳- اخوند فیاض احمد خان صاحب حال منیجر سیلز انٹر ہام لمیٹڈ لاہور.ثریا خانم صاحبہ اہلیہ ضیاء الرحمن صدیقی صاحب ملتان رضیه خانم صاحبہ اہلیہ پر وفیسر حفیظ احمد اعوان صاحب خانپور (ضلع رحیم یار خان) - آصفہ خانم صاحبہ اہلیہ پر وفیسر نا صراحمد صاحب پشاور ناصر - فرحت خانم صاحبه - اخوند ریاض احمد خان صاحب ایم ایس سی.حال ربوہ.- - حضرت ملک برکت علی صاحب والد ماجد خالد مدنی علی عبدالامین مانده گرانی ولادت قریباً ۶۱۸۶۹ء - تحریری بیعت ۱۸۹۷ ء - دستی بیشت ۲-۶۱۹۰۱ له الفضل ۲۸ اضاء ۱۳۳۱ بیش صد : که روایات صحابه جلد لا من منه له افضل بر صلح ۳۳۱ ایش حث: نه روایات صحابہ جلد عنا من منٹو
۲۸ وفات ۲۰ ماه فتح ۱۳۳۰ ش / ۱۲۰ دسمبر ۶۱۹۵۱ ) خود نوشت حالات حضرت ملک صاحب اپنے قبول ، حدیت اور سفر قادیان کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.یں گجرات سے تعلیم حاصل کر کے لاہور میں ملازم ہوگیا.وہاں جو دفتر کے کلرک تھے انہوں نے پیر سید جماعت علی شاہ کی بیعت کی اور مجھے بھی تحریک کی یکں نے بھی اُن کے کہنے سے پیر صاحب کی معیت کر لی اور ہر روز صبح و شام دفتر کے وقت کے علاوہ اُن کی محبت میں رہنے لگا.جب عرصہ گزر گیا اور میری طبیعت پر کوئی اثر پیدا نہ ہوا اور نہ ہی یکں نے کوئی روحانی ترقی حاصل کی تو پیر صاحب سے سوال کیا کہ مجھے بیعت کئے ہوئے اس قدر عرصہ گزر گیا ہے مگر میری حالت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی.پیر صاحب نے کہا کہ آپ مجاہدات کریں اور اس حد تک میرا تصور کریں کہ میرا نقش ہر وقت آپکے سامنے رہے پھر آپ کو بارگاہ الہی میں رسائی حاصل ہوگی لیکن عرصہ تک اُن کا تصور بھی کرتا رہا.مجاہدات بھی بڑے کئے مگر کوئی فائدہ حاصل نہ ہو.اونٹنٹ جنرل کے دفتر میں ایک شخص میاں شرف الدین صاحب ہوا کرتے تھے وہ احمدی تو نہ تھے مگر حضرت صاحب کی کتابیں پڑھا کرتے تھے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کو پیر صاحب کی بیعت کئے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا ہے مگر آپ کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی لیکں نے کہا کہ یکس تو ہر روز پیر صاحب کو یہی کہتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ میری حالت ہیں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا.انہوں نے کہا کہ اگر یکیں آپ کو کوئی کتاب دوں تو کیا آپ پڑھیں گے یکی نے کہا ضرور آپ دیں لیکن انشاء اللہ ضرور پڑھوں گا.اس پر انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود على الصلوۃ والسّلام کی ایک کتاب مطالعہ کے لئے دی یکس نے اس کا مطالعہ کیا.پھر انہوں نے دو مسیری دی.یہاں تک کہ چار کتابیں میں نے پڑھ لیں.اس کے بعد ایک دن یکس نے پیر صاحب کی خدمت میں حضرت صاحب کا ذکر اور پوچھا کہ ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے پیر صاحب نے کہا کہ نہ ہم اُن کو اچھا کہتے ہیں نہ ہیرا.میں اس جواب پر بہت متعجب ہوا مگر اُس وقت خاموش ہو گیا.ایک روز پھر نیکوں نے یہی سوال کر دیا.پیر صاحب نے پھر وہی جواب دیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ ا مگر نہ اُنکی کوئی کتاب پڑھو اور نہ وعظ سُنو " لیکن حیران ہوا کہ ایک طرف تو اُن پر اچھا یا برا ہونے سے متعلق الفضل ، صلح ۱۳۳۱ پیش صد سے علی پور سیداں میں سید جماعت علی شاہ کے نام سے دور پر ہم عصر گزرے ہیں یہاں کونسے مراد ہیں اس کی تحقیر یہ نہیں ہو سکتی ہے
۲۹ کوئی فتوئی نہیں لگاتے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ نہ اُن کی کتابیں پڑھو اور نہ وعظ سنور میں نے کہا کہ کیا آپ نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ؟ اس پر پیر صاحب ہوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم ان کی کتابیں پڑھیں علماء نے اُن پر کفر کا فتوئی جو لگا دیا ہے.ان کا یہ جواب سن کر میرے ذہن میں حضرت اقدس کی تحریرات کا نقشہ کھینچ گیا جس میں حضور نے مخالف علماء کے گھر کے فتوی کا ذکر کر کے فرمایا تھا کہ یہ لوگ نہ میری کتابیں پڑھتے ہیں اور نہ میرے خیالات کو انہیں سننے کا موقعہ ملا ہے مگر محض مولوی محمد حسین کے کہنے پر یک طرفہ فتوی لگا دیا ہے.میکں نے دلی میں کہا کہ پیر صاحب کی بھی یہی حالت ہے کہ بالکل یک طرفہ فتوی لگا رہے ہیں.یہ باتیں شنکر میں پیر صاحب سے بدظن ہو گیا اور واپس آکر تحقیقات میں مشغول ہو گیا.ان ایام میں عبد اللہ آتھم کے متعلق حضور کے اشتہارات نکل رہے تھے اور عیسائیوں کی طرف سے بھی اشتہار سے نکلا کرتے تھے.لیکن فریقین کے اشتہارات کو ایک فائل کی صورت میں محفوظ کر رہا تھا میں نے دیکھا کہ حضرت اقدس کی پیش گوئی آتھم کے بارہ میں بالکل صحیح پوری ہو گئی ہے.اس کے بعد دیکھرام کے متعلق حضور کے اشتہارات اور تحریمات نکلنا شروع ہو گئیں ان کو بھی میں فائل میں محفوظ کر تا گیا.ان ہر دو واقعات کے گزرنے کے بعد مجھے حضرت اقدس کی صداقت کے متعلق اطمینان ہو گیا اور میں نے بیعت کا خط لکھ دیا.پھر قریباً ۱۹۰۱ ۱ یا ۱۹۰۲ء میں قادیان بجا کر دستی بیت گیا جب قادیان پہنچے تو مہمان خانہ میں ٹھہرے.دوسرے دن حضرت اقدس نماز ظہر کے لئے تشریف لائے...حضرت اقدس کے زمانہ میں چونکہ مسجد چھوٹی ہوا کرتی تھی اسلئے جب آدمی زیادہ ہوتے تو چھت پر جہاں حضور تشریف فرما ہوتے تھے جہاں کسی کو جگہ مل بہاتی وہ بیٹھ جاتا اور ہمہ تن گوش ہو کر حضور کی باتوں کو نتا.بعض غیر احمدی معترض ہوتے کہ آپ پیر ہیں اور نیچے بیٹھے ہیں مگر مرید شہ نشین پر اوپر بیٹھے ہیں.حضرت صاحب فرماتے کہ معذوری ہے جگہ تنگ ہے لوگ مجھے پوجنے کے لئے نہیں آئے بلکہ تقویٰ اور طہارت کی باتیں سننے کے لئے آئے ہیں اور میں تو انسان پرستی کو دور کرنے کے لئے آیا ہوں.ایک دفعہ جبکہ میں بھجو چرا بنگلہ ہر لوئر جہلم ضلع سرگودہا میں تھا ایک سب ڈویژنل افسر مسٹر ہاور ڈیرے خلاف ہو گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بد دیافت تھا اور پہلے کلرک کے ساتھ مل کر کھایا کرتا
تھا مگر جب میں گیا تو میں نے ایسے بل بنانے سے انکار کر دیا اور کہا آپ میٹ منٹ تک MESUREMENT) (500K میں درج کر کے دے دیں میں بل بنا دوں گا لیکن کتاب میں درج نہیں کروں گا.اس پر وہ بگڑ گیا اور میرے خلاف رپورٹ کر دی اور مجھے معطل کر دیا.وجہ یہ بھی کہ کہیں اس کو بد معاشی کی وجہ سے حل کرتا ہوں لیکن افسر بالا نے لکھا کہ اس پر چارج شیٹ لگاؤ اور جو اب ایکر بھیجو.اس وقت جو جرم مجھ پر لگا یا گیا وہ کوئی بھی مجرم نہ تھا بلکہ اس قسم کی باتیں تھیں کہ اس نے فلاں کا غذ پر دستخط کئے ہیں لیکن لفظ پڑتال نہیں لکھا.ایسی باتوں کا ٹیکس نے مدل جواب دے دیار غیر کیس چل پڑا اور تین مہینہ تک چلتا رہا لیکس نے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے درخواست کی جضور کی طرف سے ایک کارڈ پر جواب آیا کہ دعا کی ہے اللہ تعالی رحم کرے گا یا اتفاق سے یہ خط ایک شخص پر سرام ار سیٹ کے ہاتھ آگیا اور اُس نے پڑھ لیا اُس نے مجھے آکر کہا کہ مقدمہ آپ کے حق میں ہو گیا ہے اور آپ بری ہو گئے ہیں.میں حیران ہوا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے علم ہوا؟ اس نے وہ کارڈ مجھے دیا اور کہا اس پر لکھنا ہوا ہے.میں نے اسے پڑھا اور کہا کہ یہاں تو یہ نہیں لکھا کہ آپ ہری ہو گئے ہیں.وہ بولا کہ اتنے بڑے خدا کے بندے نے آپ کے لئے دعا کی ہے بھلا آپ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کرسی نہ ہوئی؟ چنانچہ اس خط کے مطابق تھوڑے ہی عرصہ کے بعد یکیں بری ہو گیا اور با وجود اس بات کے کہ یکس کلرک تھا اور جھگڑا ایک انگریز سب ڈویژنل افسر کے ساتھ تھا مگر اس مقدمہ کی تفتیش کے لئے سپرنٹنڈنٹ اور چیف انجنیئر مسٹر مینٹن تک آئے اور خوب اچھی طرح سے انکوائری کی اور مجھے بری کیا ہے ملک صاحب نے محکم تر میں ملازمت کر کے ۱۹۲۷ء میں پیشن حاصل کی.و اخلاق و عادات عرصه در از تیک جماعت احمدیہ گجرات کے جنرل سیکرٹری اور پھر امیر رہے.دوران ملازمت اور بعد میں بھی تبلیغ دین کو اپنی غذا بنائے رکھا.آپ کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سلسلہ میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تنقید گزار اور متقی بزرگ تھے باولو العربی اور راست گوئی آپ کا طرہ امتیاز تھا.بہت دعائیں کرنے والے مستجاب الدعوات ، صاحب سے پیمائش کی کتاب : که در جسر " روایات صحابہ (غیر مطبوعه) مجلد نما م ۳ - ص ۵۹) خود نوشت حالات حضرت ملک برکت علی صاحب مورخه ارجون ۶۱۹۳۹ *
کشون و رویا تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام اور حضور کے خلفاء کے ساتھ عشق تھا سلسلے کے لئے غیرت رکھنے والے انسان تھے.دینی اور دنیاوی لحاظ سے کامیاب اور کامران زندگی گزاری وفات تک تبلیغ کا کام سرانجام دیتے رہے.باوجود پیرانہ سالی کے جواں ہمت اور جواں دل تھے اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت کو قبول کیا.آپ کے ذریعہ سے آپ کے خاندان اور متعلقین کا اکثر حصہ احمدیت میں داخل ہوا لیے حضرت ملک صاحب بنے کی بہترین علمی یاد گار آپ کے فرزند خالد احمدیت بہترین علمی یادگار ملک عبدالر مین صاحب خادمہ تھے جن کے تبلیغ معر کے پیش نہ جانور الرحمن زند رہیں گے.خادم صاحب نے اپنی مایہ ناز کتاب "احمدیہ پاکٹ بک کا چھٹا ایڈیشن آپ سے معنون کرتے ہوئے لکھا ہے:.یکن اپنے والد مرحوم مغفور حضرت ملک برکت علی کا نام زیب عنوان کرتا ہوں جن کا عشق دیں اور جوش تبلیغ مجھے ورنہ میں ملا ہے اور مین کی تعلیم و تربیری سے میں مقدارم احمدیت میں شمار ہونے کے قابل بنا لے الفضل لم صلح ۱۳۳۱ امش / ۲۴ جنوری ۶۱۹۵۲ مث مضمون منشی محمد رمضان صاحب احمدی پوسٹل پیشن گجرات سابق مسلح وارد کلرک جماعت احمدیہ گجرات ) کے مندرجہ بالا بزرگ صحابہ کے علاوہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے امیر اور صدر مولانا محمد علی صاحب ایم.اے سابق ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز کی وفات بھی اسی سال ہوئی.ولادت دسمبر ۴۱۸۷۴ - زیارت جنوری ۶۱۸۹۲ - دستی بیعت ۶۱۸۹۷ ہجرت قادیان ۶۸۹۹ - لاہور میں مستقل قیام ۲۰ اپریل ۶۱۹۱۴ - وفات ۱۳ اکتوبر ۶۱۹۵۱ ) تاریخ احمدیت جلد دوم میں آپ کے حالات زندگی کا اجمالی مخا کہ دیا جا چکا ہے.آپ کے فضل سوائے کے لئے ملاحظہ ہوں مجاہد کبیر مولفہ جناب ممتاز احمد صاحب فاروقی بی.ایس سی - ای - ای ستاره خدمت و جناب محمد احمد صاحب ایم.اسے خلف مولا نا محمد علی صاحب مرحوم -
۳۳ فصل سوم ۱۳۳۰ بیش ۱۹۵۱ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات ۲۶ فتح ۱۳۳۰ ش / ۲۶ دسمبر ۱۹۵۷ء کو حر خاندان سیم موجود میں تقریب حسرت مصلی موتو نے سالانہ جلسہ الہ کے استاج سے قبل اپنے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور اپنی صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ کے نکاحوں کا اعلان فرمایا صاجزادہ صاحب کا نکاح حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی بیٹی امتہ القدوس بیگم صاحبہ سے اور صاحبزادی صاحبہ کا پیر معین الدین صاحب ایم.ایس سی این حضرت پیر اکبر علی صابی مرحوم سے ایک ایک ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا تھا.حضور نے خطبہ نکاح میں فرمایا کہ نہیں اپنی لڑکیوں کا نکاح صرف واقفین زندگی سے کر رہا ہوں اور اس رشتہ میں میرے لئے یہی کشش تھی کہ لڑکا واقف زندگی ہے " سے بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دینے والے مجاہدین احمدیت کا تبلیغی دورے ماہرین کے ایک وفدنے صوبہ پنجاب صوبہ سرحدکا کامیا تبلیغی دورہ کیا.وفد نے لائلپور، سیالکوٹ ، جہلم، راولپنڈی کمی پور، نوشہرہ، پشاور اور لاہور جیسے مرکزی شہروں کی انفرادی مجالس اور پبلک جلسوں سے خطاب کیا.اور انڈونیشیا، سنگا پور، مشرق وسطی، افریقہ اور یورپ وغیرہ ممالک میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات کے ایمان افروز او دلچسپ واقعات بیان کئے اور بتایا کہ جماعت احمدیہ کے اسلامی مش مسلمانان عالم خصوصا پاکستان کے وقار اور مفادات کا ہر مکن تحفظ و دفاع کرتے ہیں اور انڈونیشیا کی جنگ آزادی میں احمدیوں نے شاندار کردار ادا کیا ہے.وفد کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ مسلمانان پاکستان کونسا فلسطین نے آپ کی سوارخ ۱۳۴۶ پیش / ۱۹۶۷ء میں ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کے قلم سے تابعین اصحاب حمد جلد میں چھپ چکی ہیں، سے الفضل یکم صلح ۱۳۳۱ ریش ریکم جنوری ۱۹۵۲ء ص :
۳۳ کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کر کے انہیں صیہونی حکومت کے خلاف متحد ہونے کی تلقین کرے.چنانچہ اس پہلو پر بھی خاص زور دیا گیا.و قد جہاں جہاں پہنچا، مقامی جماعتوں نے اس کا پُر جوش استقبال کیا اور اس سے استفادہ کرتے کے لئے عمدہ مواقع پیدا کئے.احمدیوں کی معلومات اور قوت عمل میں اضافہ ہوا اور غیر احمدی معترزین مجاہدین کے کارناموں اور تبلیغی مساعی سے بہت متاثر ہوئے پیلے وفد میں شامل مبلغین کے نام یہ ہیں :.ا حضرت مولانا رحمت علی صاحب نے مبلغ انڈونیشیا ( امیر وفد ) - حضرت مولانا غلام حسین صاحب آباد مبلغ سنگاپور شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ فلسطین و شام ۴.مولوی غلام احمد صاحب میگین عدان - مولوی عنایت اللہ صاحب احمد کی مبلغ مشرقی افریقہ مولوی محمد اسحق صاحب ساقی مبلغ سپین.ربوہ میں ٹیلیفون کا اجراء اخدا تعالی نے اپنے فضل سے ربوہ میں دینی خدمت بجا لانے کی ساری سوتین قلیل ترین عرصہ میں مہیا فرما دیں.ریلوے لائن پہلے ہی ربوہ کے رقبہ میں سے گزرتی تھی بعد کو اسٹیشن بھی قائم ہوگیا اور اسٹیشن، ڈاک خانہ اور تار گھر گھلنے کے بعد اس سال ۲۱ مادہ ہجرت پر مٹی سے ٹیلیفون بھی جاری ہو گیا.ربوہ سے پہلا فون امیر حمایت احمدیہ قادیان کو کیا گیا جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نہ کے درج ذیل الفاظ پر مشتمل تھا :- جماعت کو سلام ، بیماروں کی عیادت اور دعاؤں کی تحریک " سے ماہ و فار جولائی کے وسط میں ہندوستان کی بکتر بند فوجیں مشرقی دفاع وطن کا عہد پنجاب اور ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستانی حدود کے اتنے قریب فاصلہ پر جمع ہوگئیں کہ پاکستان کی سالمیت خطرہ میں پڑ گئی.۳۳۰ اس ا تفصیل الفضل ۱۶ ہجرت / مئی تا هر احسان / جون میں میں ملاحظہ ہوں /جون ه الفصل ۲۳ و ۲۴ ہجرت ۱۳۳۰ ش /۲۴۰۲۳ مئی ۲۱۹۵۱ مگ +
۳۴۲ اس نازک موقع پر مرکز احمدیت ربوہ کی طرف سے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان کے احمدی مادر وطن کے دفاع اور اس کی حفاظت کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے.اس سلسلہ میں ناظر صاحب امور خارجه صدر انجین احمدیہ پاکستان نے وزیر اعظم کے نام حسب ذیل تار ارسال کیا :- پاکستانی سرحدات کے قریب ہندوستانی فوجوں کے جمع ہونے کی خبر سے افسوس ہوا ہم حکومت کو یقین دلاتے ہیں کہ قوم کے اس نازک وقت میں پاکستان کے احمد میں ہر حال میں اپنی حکومت سے پورا پورا تعاون کریں گے اور مادر وطن کے دفاع اور آپکی حفاظت کی خاطر ہر ممکن قربانی کے لئے ہر آن تیار رہیں گے لے صاحب جالندھری رسالہ الفرقان کا اجراء وسط ۱۳۳۰اہش / ۱۹۵۱ء میں مولانا ابو العالة الفرقان" پرنسپل احمدیہ نے جاری فرمایا.اس رسالہ کے تین بنیادی اغراض و مقاصد تھے.1 - قرآن مجید کے حسن کو نمایاں کرنا اور فضائل قرآنی بیان کرنا.غیر مسلموں (آریوں ، عیسائیوں اور بہائیوں وغیرہ ) کے قرآن مجید پر اعتراضات کے جوابات.۳.اہل پاکستان میں آسمان اسباق کے ذریعہ عربی زبان کی ترویج و اشاعت.اس رسالہ کے اولین منیجر حضرت با او فقیر علی صاحب ( والد ماجد مولانا نذیر احمد علی صاحب شہید افریقہ) مقرر کئے گئے.یہ رسالہ چوبیس سال سے نہایت با قاعدگی اور التزام کے ساتھ چیپ رہا ہے اور اپنے بلند پایہ اور حقیقی مضامین کے اعتبار سے رسالہ ریویو آف ریلیجینز اردو کی نمائندگی کرتا ہے.سید نا حضرت مصلح موعودہؓ کی نگاہ میں الفرقان " کو جو علمی افادی اہمیت حاصل تھی اس کا اندازہ حضور کے مندرجہ ذیل ارشاد سے بخوبی ہو سکتا ہے.آپ نے فرمایا :- میرے نزدیک الفرقان جیسا علمی رسالہ تیس چالیس ہزار بلکہ لاکھ تک چھپنا چاہئیے اور اس کی بہت وسیع اشاعت ہونی چاہیے " کے به الفضل ۱۸ و قاب ۱۳ ایش/ ۱۸ جولائی ۱۹۵۱ء ص به که افضل ده صلح ۱۳۳۵ اتش / د جنوری ۶۱۹۵۶
۳۵ حضرت صاحبزادہ مرزا البشیر احمد صاحب ایم.اے نے لکھا :- رسالہ الفرقان بہت عمدہ اور قابل قدر رسالہ ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی اشاعت زیادہ سے زیادہ وسیع ہو کیونکہ اس میں تحقیقی اورعلمی مضامین چھپتے ہیں اور قرآن کے فضائل اور اسلام کے محاسن پر بہت عمدہ طریق پر بحث کی بھاتی ہے.ایک طرح سے یہ رسالہ اس غرض وغایت کو پورا کر رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مد نظر رسالہ ریویو آن ریجنز اُردو ایڈیشن کے جاری کرنے میں تھی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ خواہش بڑی گہری اور خدا کی پیدا کردہ آرزو پر مبنی ہے کہ اگر ایسے رسالہ کی اشاعت ایک لاکھ بھی ہو تو پھر بھی دنیا کی موجودہ ضرورت کے لحاظ سے کم ہے پس میترا و مستطیع احمدی اصحاب کو یہ رسالہ نہ صرف زیادہ سے زیادہ تعداد میں خود خرید نا چاہیے بلکہ اپنی طرف سے نیک دل اور سچائی کی تڑپ رکھنے والے غیراحمدی اور غیرمسلم اصحاب کے نام بھی جاری کرانا چاہیئے تا اس رسالہ کی غرض و غایت بصورت احسن پوری ہو اور اسلام کا آفتاب عالمتاب اپنی پوری شان کے ساتھ ساری دنیا کو اپنے نور سے منور کرے ہے دفتر حفاظت مرکز ربوہ میں دفتر حفاظت مرکز بند جو تقریبا تین برس سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی نگرانی میں جو د ھائی بلڈ نگ دلی ہوئی میں قائم تھا اس سال کے آغا ز میں ربوہ منتقل ہو گیا.اور حضرت میاں صاحب بھی اس تجدید مرکزی رہائش پذیر ہو گئے.اس دفتر کا نام سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی منظوری سے ، رما و شہادت ۳۳۹ نہیں ر ماہ اپریل ۱۹۶۰ء کو خدمت درویشاں رکھا گیا حضور کے الفاظ مبارک یہ تھے خدمت درویشاں نام بدل دیں حضور کا یہ ارشاد اس دفتر میں زیر بے ریکارڈ شدہ ہے." وزیراعظم پاکسان کے نا مبارکباد کا پیغام اپ اور مودی سے لندن میں دولت م صلح / تھی.وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل الفضل ١٨ روفا ۱۳۳۸ پیش / ۱۸ جولائی ۱۹۵۹ء جنگ + له الفضل و صلح ۱۳۳۰ مش / ۱۹ جنوری ۱۹۵۱ء مت +
نہیں کیا جائے گا وہ اس میں شامل نہیں ہوں گے.اس مجرأت مندانہ اقدام پر حضرت خلیفہ اسیح المثانی نے درج ذیل الفاظ میں اُن کو مبارہ کباد کا پیغام دیا :.و آپ نے دولت مشترکہ کے وزراء اعظم کی کانفرنس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کی شمولیت پر زور دیتے ہوئے جس عزم و ثبات کا اظہار کیا ہے لیکن اس پر آپ کو مبارکباد دیتا ہوں.اگر چہ ہماری جماعت کے نزدیک دولت مشترکہ کی رکنیت بھی اہم ہے لیکن اس کے نزدیک یقینا پاکستان کی سلامتی اور حفاظت کا سوال اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے.خیر سگالی کا جذبہ بیشک ایک قابل قدر اور نهایت بیش قیمت پچیز ہے لیکن اپنے ملک کے مفاد کے لئے ثابت قدمی دکھانا بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے.خدا آپ کے ساتھ ہوا ملے عیال اس سال ایک لمبی جد و جہد اور انتظار دروایشان قادیان کے اہل وعیال کی واپسی کے بعد بارہ درویشوں کے اہل وعیال (جو انقلاب ہجرت کے باعث پاکستان میں آگئے تھے ، واپس قادیان جا کر آباد ہو گئے اور یہ سب ان درویشوں کے رشتہ دار تھے جو شروع سے ہندوستان کے باشند سے تھے.ان بارہ خاندانوں مین سے ایک تو کچھ عرصہ قبل قادیان چلا گیا تھا اور باقی ۲۸ ماه احسان / جون کو واپس گئے تھے.ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے صنعت اصحاب احمد اس واقعہ کی تفصیل میں تحریر فرماتے ہیں: ۱۹۴۸ء سے اہل و عیال کی واپسی کے لئے کوشش ہو رہی تھی بالا آخر حکومت ہند کی طرف سے پسند ماہ قبل اہل و عیال منگوانے کی اجازت ملی اور حکومت پاکستان نے بھی اس کی اجازت دیدی.گویا دونوں حکومتوں کے اتفاق رائے سے یہ کام ہوا لیکن گزشتہ ماہ کی ابتداء میں اچانک یے وع فرما اطلاع گورنمنٹ ہند کی طرف سے آئی کہ انجازت کی میعاد گزرچکی ہے.اس میعاد کی ادھر اور اُدھر کے منتظمین کو کوئی اطلاع نہ تھی بلکہ یہ اطلاع تھی کہ کوئی میعاد مقرر نہیں ہے.ہر حال منسوخی کی اطلاع ملنے پر صدر انجمن احمدیہ قادیان نے مکروہ شیخ عبدالحمید صاحب عاجز اور خاکسا اه الفضل لاہور ا صلح ۱۳۳ پیش کرو جنوری ۱۹۵۱ و صدا
کو اس سلسلہ میں دیتی بھیجا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۲۲ جون کو میعاد میں توسیع منظور ہو کر لاہور اطلاع چلی گئی.پاکستان حکومت کی طرف سے میعاد ۳۰ جون تک کی تھی.وقت بہت تنگ تھا اور درویشوں کے اہل و عیال متفرق مقامات پر تھے.ان کے جلد اور ہر وقت پہنچنے کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بہت ہی سعی فرمائی جو خدا کے فضل سے مشکور ہوئی.فجزاه الله احسن الجزاء قریباً سارے دوست جن کے اہل و عیال آرہے تھے.فون پر اطلاع ملنے پر استقبال کے لئے واہگہ بارڈر پر پہنچ گئے نظارت امور عامہ کی طرف سے انتظام کے لئے اخرویم فضل الہی صاحب مقرر تھے.۲۸ جون کو گیارہ درویشوں کے اہل و عیال قریباً ہے 11 بجے دن سرحد پاکستان عبور کر کے سر زمین ہند میں داخل ہوئے جہاں سے لاری کے ذریعہ 4 بجے شام روانہ ہو کر قریباً دو بجے شام بٹالہ اور وہاں سے ہے.ابجے شب بخیریت تمام قادیان پہنچے.سٹرک کی خرابی کی وجہ سے قادیان کے راستہ میں ٹرک کمپنی گیا اس وجہ سے کافی وقت صرف ہو گیا.جوں جوں ان کی آمدیں دیر ہوتی جاتی تھی.درویشوں کا اشتیاق اوریش کر بڑھتا جاتا تھا اور وہ دست بدعا تھے کہ اللہ تعالیٰ قافلہ کو خیریت سے لائے.احمدیہ چوک انند و مکان حضرت صاحبزادہ مرته اعز یز احمد صاحب) میں درویش ہلال عید کی طرح چشم براہ تھے اور قافلہ کی آمد پر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے ، لہ پشاور میں ۱۹۲۳ء سے صرف ایک احمدیہ مسجد کو میر جماعت احمدیہ پشاور کی ٹی جامع مجد تبادشاہ میں بھی اب اس سال حضرت ولیست غلام رسول صاحب رانی کی نہ ملنے سلسلہ عالمیہ احمدیہ کی تحریک پر سول کوارٹرز میں دوسری عالیشان مسجد بینی.اس مسجد کا سنگ بنیاد حضرت مولانا صاحب نے ۲۸ ماہِ شہادت ۱۳۳۰ مش / ۱۲۸ اپریل ۶۱۹۵۷ بروزاتوار صبح آٹھ بجے رکھا بنیاد کے بعد آپ نے احادیث نبوی اور اسلامی واقعات کی روشنی میں تعمیر مسجد میں حصہ لینے کی اہمیت بتائی جس پر احمدی دوستوں نے نہایت اخلاص اور فراخدلی سے چند فراہم کیا.یہ مسجد صوبہ سرحد کی احمدی مساجد میں سب سے وسیع مسجد ہے اور مرکزی حیثیت رکھتی ہے.له روزنامه المفضل ۲۱ وفا ۱۳۳۰ ہش / ۲۱ جولائی ۱۹۵۱ء حدث
۳۸ حضرت مولانا راجیکی صاحب نے حیات قدشتی» جلد سوم صفحه..اپرا ور حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد نے اپنی کتاب تاریخ احمدیہ (سرد) کے صفحہ ۷ و پر اس مسجد کا مذکورہ فرمایا ہے.ا قادیان کے اہل علم و قلم درویشوں نے ۱۲ صلح ۳۲۷ مہیش کر قادیان سے رسالہ درویش کا اجراء ۱۲ جنوری ۱۹۴۸ء کو نزم درویشان کے نام سے ایک علمی مجلس قائم کی جس کا مقصد اسلامی طریق پر فین تقریر سکھانا اور دینی اور علمی قابلیت میں اضافہ کرنا تھا.اس مجلس کے ابتدائی دو تین سال درویشوں میں تقریر ی شوق پیدا کرنے کے لئے وقف رہے ماه فتح ۱۳۲۹ مش/ دسمبر ۱۹۵۰ء میں مجلس کی پہلی تحریری جد و جہد ایک مجموعہ نظم و نثر کی صورت میں سامنے آئی جس کا نام بھی درویشان قادیان" تھا.ازاں بعد بزم نے اپنے اجلاس (مورخہ ہم صلح ہو سوم پیش پر ہ جنوری ۱۹۵۱ء) میں قادیان سے ایک ماہنامہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا.سید نا حضرت مصلح موعود نے اس رسالہ کا نام در ولیش به تجویز فرمایا جس کا پہلا شمارہ ماہ تبوک ۳۰ سم اسمش رستمبر ۱۹۵۷ء میں شائع ہوا.حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اس رسالہ کے لئے حسب ذیل پیغام بذریعہ تارا در سال فرمایا : BAZM-I-DARWESHAN C/ MOBARIK ALI DARUL MASIH QADIAN Whatever service you do to your God or to your faith and country, be earnest, be honest, be straightforward, If your work is don't look upon people to help you for God, God will help you, if not, nobody will help you.KHALIFATUL MASIH RABWAH 26-7-51 ناشر سیٹھ محمد معین الدین صاحب احمدی چنت کنٹر سیدر آباد دکن طبع اول جنوری ۱۹۵۴ و مطبوعه تاری پریس حیدر آباد دکن به سه طبع اول ۱۳۳۸ پیش مطابق ۱۹۵۹ء مطبوعه منظور عام پریس پشاور ؟
۳۹ (ترجمہ) آپ اپنے خدا، مذہب اور ملک کی خاطر جو خدمت بھی انجام دیں اس میں پوری سنجیدگی، دیانتداری اور راستبازی سے کام لیں.انسانی امداد پر انحصار نہ رکھیں.اگر آپ کا کام محض اللہ تے کے لئے ہے تو وہ خود آپ کی تائید و نصرت فرمائے گا ورنہ کوئی فرد آپ کی مدد نہیں کر سکتا.خليفة السبيع ربوه ۲۶ جولائی ۱۹۵۱ء رساله در ولیش نظارت دعوت تبلیغ قادیان کی نگرانی میں چھپتا تھا اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اس کے نگران تھے.مولوی مبارک علی صاحب طالب پوری ، چوہدری سعید احمد صاحب بی اے آنرز، محمد صادق صاحب ناقد لائلپوری نے بالترتیب اس کی ادارت کے اور کرم یونس احمد صاحب اسلام نے تابع و ناشر کے فرائض انجام دئے.ابتدا یہ رسالہ مریم پرنٹنگ پریس امرتسر سے چھپوایا گیا.پھر راما آرٹ پر لیس امرتسر سے طبع ہونے لگا.رسالہ کا سرورق منارہ اسیح کے نہایت دلکش اور خوبصورت فوٹو سے مزین ہوتا تھا.انقلاب ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد مرکز سے شائع ہونے والا یہ پہلا رسالہ تھا اور اسے ہندوستان اور پاکستان کے مشہور احمدی علماء اور ادباء کی علمی وادبی سر پرستی حاصل تھی.اس کے مضمون نگاریں میں حضرت عرفانی الجبیر، حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی ، حضرت مرزا برکت علی صاحب جیسے بزرگی میں ہر اور مولانا ابو العطاء صاحب ، مولوی شریف احمد صاحب امینی، مولوی محمد اسمعیل هنا یادگیری مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری، ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے اور مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی اور مولوی غلام بادی صاحب سیلف پروفیسر جامعہ احمدیہ اور چوہدری محمد شریف صاحب مجاہد بلا در یہ جیسے علماء اور سید اختر احمد صاحب اور نیوی ایم.اسے پٹنہ کالج جیسے ادباء اور شیخ عبد القادر صاحب محقق عیسائیت، سید ارشد علی صاحب لکھنوی اور پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب جیسے فاضل شامل تھے.احمدی شعراء میں سے خاص طور پر چوہدری عبد السلام صاحب اختر، جناب قیس کینائی صاحب جناب مصلح الدین صاحب را جیکی، جناب عبد المنان صاحب ناہید اور جناب ماسٹر پر شیخ صاحب مسکم کا کلام رسالہ کی زینت بنتا رہا.
۱۳۳۱ ش / ۱۹۵۲ ء میں ادارہ درویش کا دفتر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی بلڈنگ میں قائم تھا اور بریم درویشاں کی لائبریر کی بھی نہیں تھی.سلے یہ ماہنامه ماه اخفاء ۱۳۳۱ پیش / اکتوبر ۱۹۵۲ء تک جاری رہا اور پھر اقتصادی مشکلات کے باعث بند کر دیا گیا.ہے حضرت مصلح موعود نے جماعت احمدیہ سیرالیون پیغام امام جماعت احمد در سیرالیون کے نام کے سالانہ مجلس ۳۲ پیش / ۱۹۵۱ کے لئے احمدیہ مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا :- بر اور این جماعت احمدیہ ملک سیرالیون !! ۱۳۳۰ کر نَحْمَدُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ یہ پیغام یکی آپ کے پیش جلسہ کے لئے بھجوا رہا ہوں.آپ کے ملک میں مغربی افریقہ کے 71981 ممالک میں سب سے آخر میں تبلیغ شروع ہوئی ہے لیکن آپ کا ملک چار طرف سے ایسے علاقوں سے گھرا ہوا ہے جو احمدیت سے نا آشنا ہیں.پس آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے اور آپ کے لئے کام کے مواقع بھی بہت پیدا ہو جاتے ہیں پیس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی محنت اور کوشش کو بڑھائیں اور نہ صرف اپنے علاقہ میں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں بلکہ لائیبر با او فرنچ افریقی علاقوں میں بھی تبلیغ کا کام اپنے ذمہ لیں مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے فرائض کو ادا کریں گے تو آپ کے لئے آخرت میں بہت ساتواب جمع ہو جائے گا اور اس دُنیا میں آپ شمالی افریقہ کے رہنما بن جائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اسلام کی تعلیم پر پیچھے طور پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور اخلاص اور قربانی اور اتحاد اور نظام کے احترام کا مادہ آپ میں پیدا کرے.خاکسانه دو خط) مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی کے نے ماہنامه درویش اکتوبر ۱۹۵۷ء ص ۳ : که بار ۱ ۲ ۲۸۰ دسمبر ۶۱۹۵۲ ص ۴۲۳ t سے الفصل ہم شہادت ۱۳۳۱ بیش / اپریل ۶۱۹۵۲ هنگ ܀
انم دعاؤں کی خاص تحرک امریکایی ایران اور ایران از ایمان بھی ہے اسی لئے سید نا حضرت امیر المؤمنين الصلح الموعود نئے سے نئے انداز میں جماعت احمدیہ کو اس نقطۂ مرکزہ یہ کی اہمیت و ضرورت کا احساس تازہ رکھتے تھے.اس مستقل دستور کے مطابق آپنے ۲۸ تبوک ۱۳۳۰ اہش / ۲۸ ستمبر ۱۹۵۱ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- " خدا تعالیٰ جس کی نصرت پر آتا ہے کوئی طاقت اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی پس اگر دنیوی امور میں وہ اس طرح مدد کرتا ہے تو وہ دینی باتوں میں کس طرح مدد کرے گا ؟...پس راتوں کو اٹھو خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور انکسار کرو.پھر ہی نہیں کہ خود دعا کرو بلکہ یہ دعا بھی کہو کہ ساری جماعت کو دعا کا ہتھیار مل جائے.ایک سپاہی جیت نہیں سکتا جیتی فوج ہی ہے.اسی طرح اگر ایک فرد دعا کریگا تو اُس کا اتنا فائدہ نہیں ہو گا جتنا ایک جماعت کی دعا کا فائدہ ہو گا تم خود بھی دعا کرو اور پھر ساری جماعت کے لئے بھی دعا کرو کہ خدا تعالیٰ انہیں دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہر احمدی کے دل میں یقین پیدا ہو جائے کہ دعا ایک کارگر وسیلہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے.جماعت کے سب افراد میں ایک آگ سی لگ جائے.ہر احمدی اپنے گھر پر دعا کر رہا ہو پھر دیکھو خدا تعالیٰ کا فضل کس طرح نازل ہوتا ہے ؟“ لے جلسہ سیرة النبی میں حضرت مصلح موعودگی در ماه نبوت ۱۳۳۰ ش / ۱۸ نومبر ۱۹ کو پاکستان کے طول و عرض میں جماعت احمدیہ کے ایمان افروز تقریر زیر اہتمام وسیع پیمانے پر سیرۃ النبی کے جلسے منعقد ہوئے.اس تقریب پر حضرت مصلح موعود نے ربوہ میں ایک معرکۃ الآرا و تقریر فرمائی جس میں سورہ علق کی سب سے پہلی قرآنی وحی سے نہایت لطیف استدلال کر کے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم کے ارفع و اعلیٰ اور عدیم المثال خلق عظیم کا روح پرور نقشہ کھینچا ہے الفضل ، ارنبوت ۱۳۳۰ پیش / ۱۷ نومبر ۱۹۵۱ء ص ۲ پوری تقریره الفضل ۲۵ سامان ۱۳۳۱ ایش/ ۲۵ مارچ ۱۹۵۲ء میں شائع شدہ ہے ؛
۴۲ ر اس سال مندرجہ ذیل مجاهدین احمدیت لغرض تبلیغ مبلغین احمدیت کی روانگی اور ام اسلام بیرونی مال کو روانہ ہوئے :- ا.مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب مشیر برائے سیلون.روانگی ۱۶.وفا ۱۳۳۰ مش ) شیخ نور احمد صاحب منیر (برائے لبنان.روانگی در ظهور ۳۳۰ ہش ) مولوی غلام احمد صاحب میشر (برائے حلب.روانگی 4 ظهور ۳۳۰ اہش ) " ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل (برائے سیرالیون- روانگی ۲۴ تنبوک ۳۳۰ اہش ) علاوہ ازین مکرم چوہدری عبد الرحمن صاحب ( مبلغ لندن) مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب مبلغ جرمنی) مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب (مبلغ گولڈ کوسٹ) مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب (مبلغ فرانس) مکرم ملک احسان اللہ صاحب (مبلغ مغربی افریقہ مکرم قریشی مقبول احمد صاحب اسلخ انگلستان) اور مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی (مبلغ اُردن و شام و لبنان) اعلائے کلمہ اسلام کا فریضہ بجالانے کے بعد مرکز میں واپس تشریف لائے لیے لبنان - لبنان میں احمدیت کا بیج پرونی ممالک میں احمدی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں ۱۳۲۹ ہش / ۱۹۵۰ء میں بویا گیا جہاں مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کو اُردن و شام میں دعوت حق دینے کے بعد بھجوایا گیا تھا اور جن کے ذریعہ سید فائز الشہابی داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے.یہ پہلے لبنانی تھے جنہیں احمدیت کی نعمت نصیب ہوئی.ان کے بعد اس سال السید حسن احمد قزق ، السیدہ فخریہ زوجہ حسن اور الحاج حسین قزق نے بیعت کی اور لبنان میں مقامی احمدیوں کی ایک مختصر جماعت قائم ہو گئی.مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی نے پریس اور نیوز ایجنسی سے رابطہ قائم کیا اور ملک کی متاز شخصیتوں (مثلاً رفیق بے قصار، لبنانی قانون دان مسٹرفوا در رزق ڈاکٹر عمر فروخ وغیرہ سے ملاقاتیں کیں اور ان تک تحریک احمدیت کی آواز پہنچائی.آپ نے لبنان کے علمی حلقوں میں کشتی نوح، استقصاء حمامة البشری، اسلامی اصول کی فلاسفی ، ابطال الوہیت اور پیام احمدیت کی بھی اشاعت کی.اه الفضل ۲۱ روفا ۳۳۰ رش حث الفضل ۱۸ر ظهور ۱۳۳۰ پیش مث ، الفضل ۲۸ تبوک ۳۳۰ اش ما الفضل ١٠ نبوت ۱۳۳۰ مش حب الفضل ۱۱ فتح ۱۳۳۰ ش مرا، الفضل يكم صالح ۱۳۳۰ ش صدا
هم مهم انا پینا کئی صاحب اس سال اس مرکز میں آئے اوران کی جگہ جناب شیخ نور محمد صاحب غیر تشریف لے گئے.امریکہ.یہ سال امریکہ مشن کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں واشنگٹن کے اندر ایک تین منزلہ مکان خرید کر مسجد فضل کا قیام ہوا.یہ مسجد دار التبلیغ اور لائبریری کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے.اور امریکہ بھر میں تربیت و اصلاح تبلیغ اسلام اور لٹریچر کی تقسیم واشاعت کا مضبوط اور فعال مرکز ہے.اس مسجد میں با اثر طبقہ کے مسلمانوں کے علاوہ نامور غیرمسلم شخصیتوں کی آمدکا باقاعدہ سلسلہ جاری رہتا ہے.تمام امریکن مشنوں پر کنٹرول اور ان کی تنظیم، ان کے چندوں کے انفرادی حسابات احباب جماعت کے خطوط اور غیر مسلم اصحاب کے سوالوں کے جوابات، امریکن پولیس میں اسلام کے تعلق غلط فہمیوں کی اشاعت پر ان کی تصیح کا انتظام، اہم اداروں، لائبریریوں، یونیورسٹیوں سے رابطہ مستشرقین سے تعلقات کا قیام، اور اسلام و احمدیت کے لٹریچر کی وسیع تقسیم و اشاعت وغیرہ سب امور مسجد فضل امریکہ کی دینی سرگرمیوں کا ایک مستقل حصہ ہیں تعمیر مسجد کے بعد نئی دنیا کے تین ہزار میل پر پھیلے ہوئے لمبے محاذ پر اشاعت اسلام کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہو گئی.سالہ امریکن احمدیوں کی چوتھی سالانہ کنونشن یکم، از تبوک /ستمبر کو کلیولینڈ میں منعقد ہوئی جس میں دو سومند و مبین نے شرکت کی کنونشن میں تربیتی تقاریر کے علاوہ گزشتہ سال کی کارگزاری اور آئندہ سال کے پروگرام پر بھی خور دوست کر کیا گیا.تے اس سال امریکہ مشن کی طرف سے حضرت مصلح موعود کی مندرجہ ذیل تحریرات شائع کی گئیں :.ا.کمپیوٹزم اینڈ ڈیمو کریسی j WHY I BELIEVE IN ISLAM-F ( حضرت مصلح موعود) ( حضرت مصلح موعود) سر احمدیت یعنی حقیقی اسلام (اس کے امریکن ایڈیشن کے لئے حضرت مصلح موعود نے ایک دیباچہ بھی رقم فرمایا ) له الفضل ۲۵ تبلیغ ۱۳۳۰ پیش / فروری ۶۱۹۵۱ هسته تا صد و در انتقاد ۳۳۰ اش کر اکتوبر ۱۹۰۵ء صدر له الفضل و صلح ۱۳۳۱ش/ جنوری ۱۹۵۲ء ص :
ک ISLAMIC مام PRINCIPLES AS THE BASIS OF MORAL CULTURE" و مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے واشنگٹن کے اخبارہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ۲۲ تاریخ ۱۹۵۱ء کے ادارتی نوٹ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے متعلق ایک نازیبا فقرہ اور بے بنیاد محاورہ استعمال کیا جس پر احد یہ مشن کی طرف سے پرزور احتجاج کیا گیا مکرم چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر انچار مینی اسلام امریکہ لے ایڈیٹر کے نام خط لکھا اور اس افسوسناک حرکت کو آنحضرت کی تو ہین اور دنیا بھر کے ۳۵ میں مسلمانوں کی دل آزاری کے مترادف قرار دیا.یہ خط واشنگٹن پوسٹ نے ۲۶ مارچ کو قارئین کے کالم میں "M4 SLIMS کے عنوان سے من و عن شائع کر دیا."OFFENCE TO اس موثر احتجاج کا ذکر امریکن رسالہ PATHFINDER نے ۱۸ اپریل ۱۹۵۷ء کے پرچہ میں بھی کیا.نائیجیریا.اس سال مکرم مولوی نورمحمد صاحب سیم سیفی انچارچ مشن نے تحریک احمدیت سے روشناس کرنے اور مرکز احمدیت اور دیگر جماعتی خبروں کو بر وقت افراد جماعت تک پہنچانے کے لئے لینگوس سے دی نائیجیر یا احمدیہ بلیٹن" (THE NIGERIA AAMADIYYA BULLETIN) جاری کیا جو پہلے سائیکلوسٹائل ہوتا تھا پھرلا اگست ۱۹۵۱ء سے پر لیس میں چھپنے لگا بلیٹن کو ابتدائی پریس مراحل میں ہی ایسی غیر معمولی قبولیت حاصل ہوئی کہ اسے دسمبر 1901ء میں "THE TRUTH " کے نام سے ایک باتصویر ماہوار اخبار کی صورت دے دی گئی جس پر حضرت مصلح موعود نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے تحریر فرمایا : اخبار ٹروتھ کا اجراء خوشکن ہے خدا کرے اس میں ترقی ہو.اختیار کو اچھا بتائیں یہ آمد کا بہترین ذریعہ ہو سکتا ہے.اپنا پر لیں بھی بنانے کی کوشش کریں اس کے ذریعہ بہت کامیابی ہو سکتی ہے.آپ پہلی تجارت پر لیس کے ذریعہ ہی شروع کریں.اس ملک له الفضل اد ا خانه ۳۳۰ امش / اکتوبر ۱۹۵۱ء صدا ؟ سے سے ان اخبارات کے تراشے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ نہیں ہے
۴۵ میں پولیس کی زیادہ ضرورت ہے.اس کے بعد تحریر فرمایا: " TRUTH کا پرچہ ملا.بہت بڑی کامیابی ہے.خدا کرے اس سے بڑا ہو پھر حضور نے اس دلی خواہش کا اظہار فرمایا کہ : میں سمجھتا تھا کہ آپ کا اخبار ہفتہ وار ہے آپ معلوم ہوا نا ہوار ہے.اللہ تعالے جلد ہفتہ وار کرنے کی توفیق بخشے اور خدا کرے پھر روزانہ ہو جائے " اس ارشاد پر جولائی ۱۹۵۲ء میں پرچہ کے سائز کو دگنا کر کے اسے ہفتہ وار کر دیا گیا.یہ اخیار نائیجیریا میں پہلا سلم اخبار ہے جو اب تک نہایت کامیابی سے خشکی، قومی اور کی خدمات بجا لا رہا ہے.حضرت امیر المؤمنین نے نے ہفتہ وار ایڈیشن پر لکھا :- اللہ تعالیٰ ہفتہ واری اخبار مبارک کر سے.نائب ضرور رکھیں اور پریس کو اور سکول کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں.ملک کی آزادی سے پہلے زبر دست جماعت بنائیں چار پانچ لاکھ کی جماعت تو شروع میں ضرور ہونی چاہیے " سے انڈونیشیا.انڈونیشیا میں تحریک احمدیت کو اس سال انڈونیشیا کے طول و عرض میں کئی اعتبار سے نمایاں کامیابی نصیب ہوئی اور ترقی کے نئے دروازے کھل گئے.دوران سال قریباً آٹھ سو نفوس مہدی موعود کی جماعت میں شامل ہوئے.ملک کی احمدی جماعتوں میں تنظیم اور کمیتی کا دور جدید شروع ہوا اور اُن کے چندوں میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ با قاعدگی پیدا ہو گئی چنانچہ اس سال پہلے سالوں کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ آمد ہوئی.اس کے علاوہ طلوعی چندوں کی کئی مدات میں انفرادی اور اجتماعی طور پر جماعت انڈونیشیا نے اپنے اخلاص و قربانی کا شاندار نمونہ پیش کیا.گزشتہ مالی سال میں چونسٹھ ہزار آٹھ سو چھتیس روپے چندہ عام اور حصہ آمدیمین جمع ہوئے جبکہ ان مدات میں اس سال ہجرت مئی سے لیکر اتحاد / اکتوبر تک کی صرف ششما ہی آمد باون ہزار روپیہ ہوئی.مه رساله تحریک جدید صلح ۱۳۵۳ ش / جنوری ۱۹۷۴ء منا ، طلا به سه ماه هجرت ۳۲۹ اہش / مئی ۱۹۵۰ء تا ماه شهادت ۱۳۳۰ مش / اپریل ۱ ۶۱۹۵ +
۴۶ اس سال تا کملایا میں جماعت نے ایک با موقعہ جگہ زمین اور مکان خرید کر اسے دارہ التینے میں تبدیل کر دیا، جا کر تا کی خستہ مسجد ایک وسیع اور پختہ مسجد کی صورت میں از سر نو تعمیر کی گئی.اس کے پہلو میں مبلغ کے لئے رہائشی مکان اور اس کے اوپر مہمان خانہ بنایا گیا.پاڈا انگ کے ایک گہرا نے احمدی تاجر با گنڈا ذکریا صاحب نے اپنی گیرہ سے ایک یا موقعہ اور وسیع قطعہ زمینی اور مکان خرید کر جماعت کے نام وقف کر دیا.ا تین ۳۳ ایش / فروری ۱۹۵۱ء میں جا کرتا میں مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی گئی جس کے چند ماہ بعد مجلس اپنا رسالہ سینار اسلام (I NAR ISLAMکہ ) جاری کرنے میں کامیاب ہو گئی.احمدی مبلغین کو دوران سال کئی ایک انڈونیش مین لیڈروں ، حکام اور دوسری بڑی شخصیتوں سے ملاقاتوں کا موقعہ ملا مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ اس سال بھی حسب سابق ملک کے پہلے صدر مملکت ڈاکٹر سکار نو (SUKARNO) کی طرف سے کئی تقریبوں پر مدعو تھے.شاہ صاحب کا تعارف ڈاکٹر سکارنو سے پہلی بار بارچ ۱۹۴۷ء میں ہوا تھا جبکہ آپ نے تبلیغی مقاصد کے لئے جو گجا کرتا میں ان کے محل میں ملاقات کی اور لڑ پچر پیش کیا.اس سال کا اہم واقعہ جماعتہائے انڈونیشیا کی تیسری سالانہ کا نفرنس کی کا انعقاد ہے جو ۲۸-۲۷ - ۲۹ ماه فتح / دسمبر کو پاؤڈانگ (سماٹرا ) میں ہوئی پہلی دو کانفرنسیں جاو امیں ہوئیں جہاں احمدیوں کی تعداد زیادہ ہے اور ذرائع آمد و رفت میں سہولتیں بھی ہیں لیکن سماٹر میں معاملہ اسکے برعکس تھا اور بیا و ا سے آنے والوں کے پندرہ میں دن صرف ہوتے تھے.مرکزی عہدیداران میں نوے فیصدی سرکاری ملازم تھے جن کے لئے اتنی چھٹی کا طنا مشکل تھا پھر اخراجات سفر کا سوال الگ تھا لیکن ان مشکلات کے باوجود یہ کانفرنس نہایت کامیاب اور ازدیاد ایمان کا باعث ہوئی.پہلے روز مکرم استید شاه محمد صاحب رئیس المبلغین ، مکرم مولوی عبد الواحد صاحب ، مکرم مولوی امام الدین صاحب ، مکرم مولوی محمد ایوب صاحب ، مکرم مولوی ذینی دحلان صاحب، مکرم سوکری بر مادی ها نے ان کے صاجزاد سے بختیار ذکریا صاحب ربوہ میں دینی علم حاصل کرتے رہتے ہیں وہ سے پہلی سالانہ کانفرنس ۹-۱۰ ۱۱ ماه فتح ۱۳۲۸ ایش/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو جا کرتا ہیں اور دوسری ۲۴-۲۵.۲۶ فتح ۱۳۲۹ اش / دسمبر ۱۹۵۰ء کو بانڈونگ میں ہوئی ؟
۴۷ پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ انڈونیشیا اور دیگر نمائندگان جماعت نے خطاب فرمایا.دوسرے دو دن جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی ترقی و بہبود کے لئے بعض تجاویز زیر غور لائی گئیں اور ایک لاکھ چوراسی ہزار روپیہ کا بجٹ منظور کیا گیا.یہ پہلا موقعہ تھا جبکہ جماعت کی آمد و خروج کا تفصیلی بحث جماعتی نمائندوں کے سامنے رکھا گیا.بیٹ کے اعلان پر پریس کے رپورٹر ٹیران رہ گئے کہ ایک چھوٹی سی جماعت کیسی قدر اخلاص اور جوش سے اتنی بھاری رقم ادا کرنے کا وعدہ کر رہی ہے.آخری اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ چوتھی سالانہ کا نفرنس تا کملایا میں ہو گی.اس اجلاس میں مبلغین احمدیت نے دوبارہ اپنے خیالات کا اظہار کیا.آخر میں جماعت پاڈانگ کے مخلص پریزیڈنٹ جناب ابو بکر نے درد ناک تقریر کی جس سے اکثر احباب میشیم پر آپ ہو گئے.کانفرنس ایک لمبی اور پرسوز دعا پر اختتام پذیر ہوئی.اگلے روز پاڈ انگ کے ایک بڑے سینما ہال کیپیٹل میں جماعت کا تبلیغی جلسہ ہوا جس کی تفصیلی رو داد مقامی پریس اور ریڈیو دونوں نے نشر کی.مجاہدین انڈونیشیا ہمیشہ ہی اپنے اپنے رنگ میں پاکستان کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہے ہیں.احمد ونیشیا میں پاکستان لیگ کا قیام سید شاہ محمد صاحب کی کوشش سے ہوا.آپ اُن دنوں مرکزی آل انڈیا پاکستان لیگ کے وائس پریذیڈنٹ بھی تھے جو گجا کرتا جس زمانہ میں جمہوریہ انڈونیشیا کا دار الحکومت تھا.آپ کو پاکستان کے لئے شاندار جد و جہد کرنے کا موقعہ ملا.اس مرکزی شہر میں آپ نے اس محنت سے ملک و قوم کی خدمت کی کہ معلوم ہوتا تھا آپ پاکستان کے باقاعدہ نمائندہ ہیں.ڈاکٹر ملک عمر حیات صاحب سابق سفیر پاکستان برائے انڈونیشیا جو گیا کرتا کے دورہ پھر تشریف لے گئے تو آپ کو مقامی اکابرین کے ذریعہ شاہ صاحب کی ان سنہری خدمات کا علم ہوا اور آپ بہت متاثر ہوئے.اس سال ڈاکٹر صاحب اپنے دورے ہیں جہاں جہاں بھی تشریف لے گئے مبلغین سلسلہ اور دیگر احمدی افراد نے ان سے پورا پورا تعاون کیا خاص طور مکرم ڈاکٹر عبد الغفور صباحب احمدی سرا بایا نے (جن کی پر خلوص خدمات کو خود ڈاکٹر ملک عمر حیات صاحب نے خراج تحسین ادا کیا) بالی میں میاں عبدالحی صاحب بہلنے جزیرہ باکی نے ان کے اعزاز میں ایک پارٹی دی جس میں مقامی حکام ور وسار بھی مدعو تھے تا سکھلایا میں پاکستان لیگ کے صدر محرم ملک عزیز احمد صاحب
تھے جنہوں نے اس سال ماہ ظہور / اگست میں پاکستان کے متعلق ایک مختصر کتاب بھی تصنیف فرمائی ہے شام است امیر المعنی امیر جماعت احمدیہ شام کے قلم سے عشرات العلماء في مُخَالَفَةِ الْأَحْمَديَّة" کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی.اس سال بر صغیر پاک و ہند میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مندرجہ ذیل کتب شائع نئی مطبوعات ہوئیں جن سے مسلسل کے لٹر پھر میں مفید اضافہ ہوا.ا اسلام اور مذہبی رواداری تقریر مولانا جلال الدین صاحب شمسی (رض) ۲- اصحاب احمد جلد اول ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان) ٣ - كتاب الآداب (حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضا) ۴ - حیات احمد جلد دوم نمبر سوم (حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ) -۵- حیات قدسی - حصہ اول - دوم (حضرت مولانا غلام رسول صاحب را یکی ) اسلامی خلافت کا صحیح نظریہ (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) اشتراکیت اور اسلام (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) ۸ - اسلام اور اشتراکیت (چوہدری سردار احمد صاحب بزمی مولولیفاضل جامعہ احمدیہ کے ۹ - تعلیم العقائد و الاعمال پر خطبات“ (خطبات حضرت مصلح موعود کا سلسلہ مرتبہ ادارہ ترقی اسلام سکندر آباد دکن )._^.1 - یومیہ ۱۳۳۰ مش / ۱۹۵۱ء (نظارت دعوت و تبلیغ کی تیار کردہ سالانہ ڈائری) ان کتابوں کے علاوہ صیغہ نشر و اشاعت ربوہ کی طرف سے حضرت مصلح موعود کی کتاب " احمدیت کا پیغام بر انگریزی ساڑھے سات ہزار کی تعداد میں شائع کی گئی نیز اہم مختلف عنوانات کے تحت ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ اور ٹریکٹ بھی چھپوائے گئے ہیں له الفضل ۷ تا ۱۳ رامان ۱۳۳۱ ایش / مارچ ۱۹۵۲ء (تلخیص) ت حال انگلستان سے تفصیلی رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت ۵۲-۱۹۵۱ء صبات میں درج ہے.YA
فصل چهارم افت کمیٹی کا حیاء سالانہ پروگرام بنانے اور صوبجاتی نظام کو مستحکم کرنے کا فرمان تبلیغ اسلام کی موت تحریک اخلاق فاضلہ کے قیام کی جدو جہد بے کو قومی خدمات بجالانے کی تلمتین چوہدری محمدحسین صاحب کی المناک شہادت جلس سیالکوٹ پر نظم یورش خلافت ثانیہ کا انتالیسواں سال ۳۳۱ آتش (۱۹۵۲ء) سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعود نے ۱۳۲۲ ش /۶۱۹۴۳ افت کمیٹی کا احیاء میں فقہ اسلامی کےمختلف مسائل پر یورون کر کرنے کے لئے ایک افتاء کمیٹی قائم فرمائی تھی جس کا احیاء اس سال عمل میں آیا اور اس کے دور کو کا پہلا صدر بلک سیف المعمول صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ و پرنسپل جامعہ المبشرین کو اور پہلا سیکرٹری مولانا جلال الدین حنا شمسیہ کو مقررہ فرمایا.اس سلسلہ میں حضور کے قلم سے افضل ار صلح ۱۳۳۱ ہش کو حسب ذیل اعلان شائع ہوا :- جیسا کہ جلسہ پر اعلان کیا گیا تھا فقہی مسائل پر پکائی غور کرنے اور فیصلہ کرنے کے لئے ولایت احمدیہ کی ایک کمیٹی مقرر کی جاتی ہے.تمام اہم مسائل پر فتوئی اس کمیٹی کے غور کرنے کے بعد شائع کی بجائے گا.مه " تاریخ احمدیت جلد ۹ ۳۵۰ - ۲۵ به
ایسے فتاوی خلیفہ وقت کی تصدیق کے بعد شائع ہوں گے اور صرف انہی امور کے متعلق شائع ہوں گے جن کو ہم سمجھا گیا ہو.ایسے فتاوی جب تک ان کے اندر کوئی تبدیلی نہ کی گئی ہو یا سیخ نہ کی گئی ہو جماعت احمدیہ کی قضاء کو پابند کرنے والے ہوں گے اور وہ ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گی.ہاں وہ ان کی تشریح کرنے میں آزاد ہو گی لیکن اگر وہ تشریح غلط ہو تو ہی ملیں فتوئی دہندہ اس تشریح کو غلط قرار دے سکتی ہے.اس کمیٹی کے ممبر فی الحال مندرجہ ذیل ہوں گے :.ار مولوی سیف الرحمن صاحب پر سپل جامعتہ المبشرین ۲- مولوی جلال الدین صاحب شمس - مولوی راجیکی صاحب ہم مولوی ابوالعطاء صاحب ۵ مولوی محمد احمد صاحب ثاقب - مولوی محمد احمد صاحب جلبیل نمائنده قضاء - مولوی تاج دین صاحب نمائندہ قضا مولوی نذیر احمد صاحب پر و فیسر جامعہ احمدیہ - مولوی محمد صدیق حنا پر و فیسر جامعه المشرکین ۱۰ مولوی خورشید احمد صاحب پروفیسر بجامعة المبشرين ۱۱- مرزا بشیر احمد صاحب ۱۴ مرنا ناصر احمد صاحب ۱۳ مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودہا ۱۴ شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ لائلپور -۱۵ چوہدری عزیز احمد صاحب سب حج.ان میر ان کا اعلان سال بہ سال خلیفہ وقت کی طرف سے ہوا کرے گا اور ایک سال کے لئے یہ عمیر نامزد کئے جایا کریں گے مناسب ہوگا کہ کچھ نہ کچھ میر اس میں سے بد لے جایا کریں تاکہ جماعت کے کے امور کے کے مختلف طبقوں کے لوگوں کی تربیت ہوتی رہا کرے.خاص امور کے متعلق خلیفہ وقت اس انجمن کا اختلاس اپنی نگرانی میں کروائے گا لیکن عام طور پر یہ کمیٹی اپنا اجلاس اپنے مقررہ صدر کی صدارت میں کیا کرے گی لیکن اس کے فیصلوں کا اعلان خلیفہ وقت کے دستخطوں سے ہوا کرے گا اور ایسے ہی فیصلے سند سمجھے جایا کریں گے سر دست راس کمیٹی کے صدر جامعتہ المبشرین کے پرنسپل ملک سیف الرحمن صاحب ہوں گے اور اس کے سیکرٹری مولوی جلال الدین صاحب شمس.مرزا محمو د احمد خلیفة المسیح الثانی ہے ه محترم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل مراد ہیں (ناقل) نہ t ہے.۱۳۱ اہش ۱۹۵۲ء سے لیکر ۱۳۵۴ پیش / ۱۹۷۵ تک کے مبران کمیٹی کی فہرست شامل ضمیمہ ہے.یا
اه یہ کلیں جس کی بنیاد سید نا محمود جسے خلیفہ موجودہ کے مقدس ہاتھوں سے رکھی گئی تھی.خدا کے فضل سے آپ بھی تخلیفہ وقت کی زیر نگرانی گرانقد رفقہی خدمات بجا لا رہی ہے.صدر انجین احمدیہ پاکستان کے قاعدہ کے مطابق جن امور میں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے و حدیت تشکری کے بھی قتمنی ہوتے ہیں ان کے بارے میں مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے فتوئی کی بجائے بھی مجلس افتاء فیصلہ کرتی ہے.مجلس افتاء کے سال میں کم از کم چار اجلاس ضرور منعقد ہوتے ہیں.اجلاس کا کورم دمنی مقرر ے لیے عمران مجلس کے لئے حکم ہے کہ وہ بیماری یا عدالت میں پیشی کے سوا بہر حال شریک اجلاس ہوں یا کم از کم سیکرٹری مجلس کو اجلاس سے ایک روز قبل اپنی معذوری سے مطلع کر دیں ورنہ وہ غیر حاضر متصور ہونگے ایسے رکن سے باز پرس ہو سکے گی لیے مجلس افتاء کے فیصلہ ۲۸ ماہ شہادت ۱۳۴۱ پیش / اپریل ۱۹۶۲ء) کے مطابق اگر کوئی ایسا مسئلہ خلیں افتاء کے زیر بحث آئے جو کسی رکن مجلس کے تنازع متدائرہ قضاء پر اثر انداز ہوتا ہو تو وہ رکن اس مسئلہ کی بحث اور فیصلہ میں شریک نہیں ہو سکتا ہے مخلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں جن مسائل پر مجلس افتاء نے غور و فکر کیا ان میں سود او را نشونی کا مسئلہ خاص طور پر قابل ذکر ہے.اول الذکر مسئلہ پر مولوی ابو العطاء صاحب، صاحبزادہ مرتدا طاہر احمد صاحب اور ملک سیف الرحمن صاحب نے ٹویں اور پر مغر تحقیقی مقالے لکھے جو مجلس افتاء کی طرف سے اسلام اور ریو" کے عنوان سے شائع شدہ ہیں.صالح ۱۳۳۱اہش / جنوری ۱۹۵۲ء کو سال کا پہلا سالانہ پروگرام تجویز کرنے کی ہدایت جمعہ تھا جس میں حضرت امیر المؤمنين الصلح الموعود نے تاکیدی ہدایت فرمائی کہ جماعتی ادارے ہر سال اپنا پر وگرام شروع سے بھی تجویز کر لیا کریں اور پھر اس پر سختی سے عمل پیرا ہوں، چنانچہ فرمایا : فیصلہ ۵ ہجرت ۱۳۳۶ آرش رمئی ۶۱۹۵۷ ۱۹۵۰ء سے فیصلہ ۲۷ ہجرت ۱۳۲۱ پیش / مئی ۱۹۶۲ء : سے فیصلہ ۲ تبوک ۱۳۴۰ مش / مستمبر ۱۹۶۱ء سے مجلس افتاء اور اس کے فرائض مگر شائع کرد؟ دار الافتاء ربود ضلع جھنگ) : :
۵۲ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پر اب یہ نیا سال چڑھ رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے دعوئی کے لحاظ سے باسٹھواں سال ہے اور بعیت کے لحاظ سے چونسٹھواں سال ہے.بیعت پر گویا ۶۳ سال گذر گئے ہیں اور دعوئی کے لحاظ سے جماعت پر ا۶ سال گزر گئے ہیں.اسکے منے یہ ہیں کہ ہماری جماعت کی عمر صدی کے نصف سے آگے بڑھ رہی ہے.مگر کیا ہم جہاں عمر کے لحاظ سے نصف صدی سے اُوپر بار ہے ہیں وہاں ہم ترقی کے لحاظ سے بھی نصف صدی سے اوپر بجا ہے ہیں یا نہیں جہاں تک جماعت کے متعدد ممالک میں پھیل جانے کا سوال ہے ہماری ترقی قابل کتیں و فخر ہے مگر جہاں تک تعداد کا سوال ہے ہماری جماعت ابھی بہت پیچھے ہے.جہاں تک مرکزی طاقت کا سوال ہے ہم اخلاقی اور عقلی طور پر اپنی پوزیشن قائم کر چکے ہیں مگر جہاں تک نفوذ کا سوال ہے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں مگر ہماری مخالفت ترقی کر رہی ہے اور آپ ان گروہوں اور جماعتوں میں بھی پھیل رہی ہے جو پہلے ہمیں نظر انداز کر دیتی تھیں یا ہمارے افعال کو خوشی کی نگاہ سے تھیں.نہیں آنے والے سال میں ہمیں مزید جد وجہد کی ضرورت ہے ہمیں ایک انقلابی تغیر پیدا کرنے کی ضرورت ہے.ایک انقلابی تغیر پیدا کئے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.یہ انقلاب ہمارے دماغوں میں پیدا ہونا چاہیئے ہماری روحوں میں پیدا ہونا چاہیئے.ہمارے دلوں میں پیدا ہونا چاہیے.ہمارے افکار اور جذبات میں پیدا ہونا چاہیئے ہم اپنے دلوں ، روحول او دماغوں میں عظیم الشان انقلاب پیدا کئے بغیر اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے یاکم از کم اس مقام کو جلدی حاصل نہیں کر سکتے جس کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے میں جھتا ہوں کہ ہمیں ہر سال اپنے لئے ایک پروگرام مقرر کرنا چاہیے اور اسے پورا کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئیے...ہماری جماعت ایک جہاد کرنے والی جماعت ہے بیشک ہم تلوار کے اس جہاد کے مخالف ہیں جو کسی ناکردہ گناہ پر تلوار پھلانے کی اجازت دیتا ہے مگر ہم سے زیادہ اس جہاد کا قائل کوئی نہیں جو جہاد ذہنوں جذبات اور روحوں سے کیا جاتا ہے میں حقیقتا اگر کوئی جماعت جہاد کی قائل ہے تو وہ صرف ہماری جماعت ہی ہے لے الفضل الصلح ۳۳۱ مش ح ب
۵۳ متحدہ ہندوستان میں جماعت احمدیہ کا ھو جاتی صوبجاتی نظام کو تحکم کرنے کا فرمان نظام ۱۹۳۳ء میں معرض وجود میں آیا تھا یہ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے علاوہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے صوبوں میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی صوبائی انجمنیں خوش اسلوبی سے کام کر رہی تھیں.اس سال سید نا حضرت مصلح موجودہ نے پنجاب میں بھی صوبائی امارت قائم فرمائی جس کے انتخاب کے لئے صوبہ کے جملہ اضلاع اور اُن کے ساتھ دو دو سیکرٹریوں نے حصہ لیا.یہ انتخا ربوہ کی پہلی مسجد مبارک میں ہوا جو اس وقت کچھی بنی ہوئی تھی.اس انتخاب میں مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودہا صوبائی امیر مقر ر ہوئے صوبائی امارت اگرچہ صرف ایک سال کے لئے قائم کی گئی تھی مگر جب پہلا تجربہ کامیاب رہا تو اس کو مستقل حیثیت دے دی گئی.صوبائی امیر کے فرائض اب تک مرزاعب والحق صاحب نہیں انجام دے رہے ہیں.کے حضرت صلح موعود نے ۱۳۳۱ اہش / ۱۹۵۲ء کے پہلے خطبہ جمعہ میں مکرم مرزاعبدالحق صاحب اور ان کے رفقاء کار کی مساعی پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :- پہلے پنجاب کا صوبہ، صوبجاتی نظام سے باہر تھا لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے پنجاب کو بھی صوبجاتی نظام میں شامل کر دیا گیا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ صوبہ پنجاب کے لئے یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ اسے ابتداء میں ہی ایسے کا رکن مل گئے جو اپنے اندر قربانی اور ایثار کی روح رکھتے ہیں مگر خالی اچھے کارکنوں کا مل جاتا کوئی چیز نہیں ہے.ضرورت ہے کہ تمام کارکن اپنا پروگرام مقر کریں اور پھر اس کے لئے وقت مقررہ کریں اور اسے پورا کرنے کی کوشش کریں.یہ امر ضرور مد نظر رکھا جائے کہ پروگرام ایسانہ ہوکہ جس پر عمل نہ کیا جا سکے بعض لوگ خیالی تجاویز بنا لیتے ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ انہیں پورا نہیں کر سکیں گے.پر وگرام ایسا ہونا چاہیئے جسکو وہ مالی لحاظ سے افراد کے لحاظ سے، اور وقت کے لحاظ سے پورا کر سکتے ہیں یعنی عملی پروگرام ہونا چاہیئے، ایسا پروگرام تجویز نہ کیا جائے کہ جس کو مالی لحاظ سے جاری نہ کیا جا سکے.ایسا پروگرام تجویز ه مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء ص ۳: کے تابعین اصحاب احمد جلد، ملت مولفہ ملک صلاح الدین صاحبة ایم.اسے ، مطبوعہ شہادت ۳۵۰ امیش / ۱۹۷۱ء، ناشر ا حمدیہ بک ڈپو دار الرحمت شرقی ربوہ :
۵۴ نہ کیا جائے جس کے لئے اتنے کارکنوں کی ضرورت ہو جو بیتا نہ ہو سکیں یا ایسا پروگرام ہو جس کے لئے زیادہ وقت کی ضرورت ہو.ہر کام معقول اور طاقت کے مطابق ہونا چاہیئے ہماری جو طاقت اور قوت ہے اسی کے مطابق ہم کوئی پروگرام بنا سکتے ہیں اور اپنی طاقت کو خواہ وہ کتنی ہی قلیل ہو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.پروگرام ایسا ہونا چاہیئے جو عقلی لحاظ سے، مالی لحاظ سے ، وقت اور افراد کے لحاظ سے، ممکن ہو.پھر گوری کوشش کی جائے کہ جو تجویزا اور میں نے شروع سال میں بنائی جائے اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا جائے.صوبجاتی نظام کے لحاظ سے بھی ایک پروگرام کی ضرورت ہے.پہلا تجربہ ہم یہ کریں گے کہ امداد کو بلا کر شواری کریں گے اور باہمی مشورہ سے ان کے علاقوں کے لئے ایک پروگرام تجویز کریں گے یہ کام نظارت علیا کا ہوتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد امراء کو بلا کر مشورہ لے اور اُن کے لئے ایک پروگرام مقرر کرے پھر آئن ہر سال پیر جیلس ہوا کرے.اور پھر آہستہ آہستہ بیرونی ممالک میں سے بھی اگر کسی میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ وہ اس مجلس میں شریک ہو سکے تو پھر وہ شریک ہوا کرے اور اس طرح اسے ایک عالمگیر ادارہ بنا دیا جائے " کے ار ماه صلح ۱۳۳۱ ش / جنوری ۱۹۵۲ء کو حضرت مصلح موعود محاسبہ نفس کی دعوت نے احجاب جماعت کو اس پولیس اور وقت کی قیمت پہچانے کی تلقین کی اور فرمایا : یکن سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ہر انسان کے اندر کوئی وقت مستی کا آجاتا ہے اور کوئی وقت چستی کا آجاتا ہے.چونکہ اللہ تعالیٰ کا نام باسط بھی ہے اور قابض بھی ہے اس لئے وہ کبھی انسان کی فطرت میں قبض پیدا کر دیتا ہے اور کبھی لبسط پید ا کر دیتا ہے.اس حالت کا علاج ہیں ہوا کرتا ہے کہ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور اپنے گردوپیش کے حالات کا بھی محاسبہ کرتا رہے.اسی لئے صوفیاء نے محاسبہ نفس کو ضروری قرار دیا ہے.میرے دل میں خیال گزرا ہے کہ اگر ہم اپنے تمام وقت کا جائزہ لیتے رہتے تو شاید ہم بہت سی مستیوں سے نے تجویز ( PLAN) : کے الفضل ( صلح (۳۳ اش / جنوری ۱۹۵۲ء ص - من :
۵۵ محفوظ رہتے کیسی شاعر نے کہا ہے.غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی یعنی گھڑیال سے وقت کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ فلان کی عمر زیادہ ہوگئی لیکن در اصل اس کی عمر کم ہو جاتی ہے.فرض کرو کسی کی ۶ سال عمر مقدر تھی وہ جب پیدا ہوا تو اس کی عمر کے ساٹھ سال باقی تھے لیکن جب وہ ایک سال کا ہو گیا تو اس کی ایک سال عمر گھٹ گئی جب وہ دو سال کا ہو گیا تو اس کی دو سال عمر گھٹ گئی جب وہ دس سال کا ہوگیا تو اس کی دس سال گھر گھٹ گئی.جب وہ پینی سال کا ہو گیا تو اس کی بہنیں سال عمرگھٹ گئی.غرض ہر وقت جو اس پر گزرتا ہے وہ اس کی عمر کو گھٹاتا ہے.اسی طرح ہماری زندگی ہے.ہمارے بہت سے اوقات یونہی گزر جاتے ہیں اور ہم خیال تک نہیں کرتے کہ ہمارا وقت ضائع ہو رہا ہے.مثلاً کل مجھے خیال آیا کہ کسی وقت ہم جلسہ سالانہ کی تیاریاں کر رہے تھے.رات دن کا رکن اس کام میں لگے ہوئے تھے اور خیال کر رہے تھے کہ جملہ مسالانہ آئے گا تو مہمان آئیں گے.اُن کے ٹھہرانے اور ان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان ہم نے کرنا ہے.وہ دن آئے.دوست آئے ہم سے ملے جلے اور چلے بھی گئے ہم دل میں خوش ہوئے کہ ایک سال ختم ہو گیا ہے مگر سوچنے والی یہ بات تھی کہ ہم نے نئے سال کو کیس طرح گزارنا ہے.جو سال گزر گیا وہ تو کوتاہیوں سمیت گزرگیا.اصل چیز تو آنے والا سال ہے.کل مجھے خیال آیا کہ یا تو ہم اتنے جوش اور زور شور سے آئندہ جلسہ کی تیاریاں کر رہے تھے اور یا اب اس جلسہ پر چودہ دن گزر گئے ہیں اور ابھی ہم بیکار بیٹھے ہیں.چودہ دن کے معنے دو ہفتے کے ہیں ۵۲ ہفتوں کا سال ہوتا ہے دو ہفتے گزر جانے کا مطلب یہ ہوا کہ سال کا 14 واں حصہ گزر گیا لیکن ابھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ وہ جلسہ سالانہ کی کوفت دُور کر رہے ہیں.دو ہفتے اور گزر گئے تو سال کا تیرھواں حصہ گزر جائے گا لیکن نئے سال کے لئے شورا شوری شروع نہیں ہوگی چودہ دن اور گزر جائیں گے تو سال کا گیارہ فیصدی حصہ گزر جائے گا.اور چودہ دن اور گزر گئے تو سال کا پندرہ فیصدی حصہ گزرجائے گا.غرض بہت تھوڑی تھوڑی غفلت کے ساتھ ایک بہت بڑی چیز ہمارے ہاتھ سے نکل بھاتی ہے.پس ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں.ہر سال جو ہم پر آئے ۱۴ ۱۴
۵۶ بجائے پھلے سال کے ہم آئندہ سال پر نظر رکھیں.ہر دن ہم سوچیں کہ کام ۳۶۵ دنوں میں سے ایک دن گزر گیا ہے ہم نے کس قدر کام کرتا تھا اس میں سے کس قدر کام ہم نے کر لیا ہے اور کس قدر کام کرنا باقی ہے ؟ اگر ہم اس طرح غور کرنا شروع کر دیں تو ہم اپنے وقت کو پوری طرح استعمال کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم سنجیدگی کے ساتھ غور کریں یہ ہے تحریک جدید کا نظام دنیا بھرمیں تبلیغ اسلام کی غرض سے قائم تبلیغ اسلام کی موثر تحریک اسلام موثر کیا گیا تھا یہی وجہ تھی کہ حضرت مصلح موعود ہمیشہ اس کے مالی جہاد میں شرکت کو بڑی اہمیت دیتے تھے.اس سلسلہ میں حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۱۸ صلح ۱۳۳۱ پیش کر جنوری ۱۹۵۲ء میں جماعت کو نصیحت فرمائی کہ :." جس جہاد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے پیش کیا تھا اور جو جہاد ہم کر رہے ہیں وہ کیسی وقت بھی بہٹ نہیں سکتا ہر وقت نماز یا جہاد اور ذکر الہی ضروری ہیں.جہاد کے معنے ہیں اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنا اور غیر مسلموں کو اسلام میں لانے کے لئے تبلیغ کرنا اور روزوشب جماعت سے ہمارا یہی خطاب ہوتا ہے ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ تم دوسرے لوگوں کو تبلیغ کے ذریعہ سلمان بناؤ.ہمارا جہاد وہ ہے جو نماز کی طرح روزانہ ہو رہا ہے اور جو احمدی اِس جہاد میں حصہ لیں گے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جہاد کر رہے ہیں لیکن جو لوگ اس جہاد میں حصہ نہیں لیں گے ہم ان کے متعلق فتوی تو نہیں دیتے لیکن جس طرح نماز نہ پڑھنے والا سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اسی طرح اسلام کی اشاعت کے لئے قربانی نہ کرنے والا بھی سچا مسلمان یا سچا احمدی نہیں کہلا سکتا.لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مقدمات میں کس طرح اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں.اب کفر و اسلام کے مقدمہ میں جو حصہ نہیں لیتا اور اسے نعلی سمجھتا ہے وہ کیسے سچا مسلمان کہلا سکتا ہے ؟ تحریک جدید تفضلی اس لئے ہے کہ ہم اس میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دیتے لیکن فرض اس لحاظ سے ہے کہ اگر تمہیں احمدیت سے سچی محبت ہے تو تحریک جدید میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے.جب ماں بچہ کے لئے رات کو جاگتی ہے تو کون کہتا ہے کہ اس کے لئے رات کو بھاگنا فرض ہے.بچہ کی خاطر رات کو بھاگنا قرض نہیں لفل ہے لیکن اسے رات کو بھاگنے سے کون روک سکتا ہے ؟ جس سے محبت ہوتی ہے اُس کی خاطر ہر الفضل ۳ تبلیغ ۳۳۱اہش / فروری ۱۹۵۲ء ص :
شخص قربانی کرتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنا فرض نہیں نفل ہے.اسی طرح جو شخص اسلام اور احمدیت سے سچی محبت رکھتا ہے وہ یہ نہیں کہے گا کہ ان کی اشاعت کی خاطر قربانی کرنا فرض نہیں بلکہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے قربانی کرنا اسے فرض سے بھی زیادہ پیارا لگے گا کیونکہ وہ سمجے گا کہ ایسا کرنے سے اسلام کو دوبارہ شوکت و عظمت حاصل ہو جائے گی بلکہ جب تبلیغ جہاد کا ایک حصہ ہے تو اس میں حصہ لینا فرض ہی کہلانے کا مستحق ہے یا اے اخلاق فاضلہ کے قیام کی جدوجہد اصلی این جوری ۱۹۹۲ کوکسین مهر ۱۲۵ ۱۳۳۱ / حضرت کیا اور ایک توی اخلاق کو یہ اسنج کرنے کے لئے ہمیں اجتماعی جد و جہد کی ضرورت ہے.چنانچہ حضور نے خطبہ کے پہلے حصہ میں فرمایا کہ :.ہم نے دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کرتا ہے کہ اخلاق فاضلہ دنیا سے مٹ گئے تھے آپ جماعتِ احمدیہ اخلاق فاضلہ پر قائم ہے اور ہر نیا تغیر جو رو نما ہوتا ہے، ہر خرابی جو پیدا ہوتی ہے اس سے اگر ہم بھی متاثر ہو جاتے ہیں تو ہم دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیسے کر سکتے ہیں ہمیں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے جرائم میں قومی اثر کبھی ضرور داخل ہوتا ہے مثلاً چوری ہے ، ڈاکہ ہے، یہ ایک شخص کا فعل نہیں ہوتا بلکہ ایسا فعل کرنے والوں کو اس کے ہمسائے بھی جانتے ہیں.اگر سارے لوگوں کے اندر غیرت پیدا ہو جائے اور احساس پیدا ہو جائے تو ایسے لوگوں کا پکڑا جا نا آسان ہے.مثلاً حرام خوری ہے دکاندار ٹھگی کرتے ہیں وہ اچھی چیز میں خراب چیز کی آمیزش کر دیتے ہیں تو اس کا ہر گاہک کو پتہ ہوتا ہے.اگر شخص بجائے یہ کہنے کے کہ مجھے مصیبت اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور کہے کہ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا تو دیکھ لیں ایسے لوگ فوراً اپنی اصلاح کرلیں گے یہ خطیہ کے آخر میں اس نکتہ معرفت کی طرف متوبقہ فرمایا :- شیطانی کاموں کے لئے قربانی اور ایثار کی ضرورت نہیں ہوتی قربانی اور ایثار کی ضرورت خدائی کاموں کے لئے ہوتی ہے شیطانی کو نبی بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی شیطانی باتیں خود بخود الفضل ۲۴ صلح ۱۳۳۱ امیش کر جنوری ۱۹۵۲ء ص - ص :
چلتی جاتی ہیں کیونکہ ان میں ہر ایک کو مزا ملتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نبی بھیجتا ہے.انہیں ماریں پڑتی ہیں.دکھ دیئے جاتے ہیں اور بعض اوقات انہیں جانیں دینی پڑتی ہیں.اس طرح بڑی قربانی اور ایشیار کے بعد ایک جماعت بنتی ہے اور شیطان اُسے پھر خراب کر دیتا ہے.انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں ترقی کی لیکن جب ان کا زمانہ ختم ہونے کا وقت آیا تو شیطان نے کتنی جلدی انہیں ختم کر دیا ؟ عرض شیطانی آوازہ کی طرف لوگ جلد آتے ہیں کیونکہ انہیں تر قیمہ ملتا ہے وہ آخرت کو بھولی جاتے ہیں.اس لئے میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو مجھے اور قومی احساس پیدا کرے پانے قوم کی بے لوث خدمات بجالانے کی تلقین میلیون ریالی و استار حضرت مصلح موعود نے ۱۳۳۱ فروری ۱۹۵۲ء کے خطبہ جمعہ میں بتایا کہ قومی خدمات اپنے اندر بھاری برکات رکھتی ہیں.اس ضمن میں ان کے فوائد اور بلند معیار کی وضاحت درج ذیل الفاظ ہیں فرمائی : ایک لیڈری شیطان بن کر ملتی ہے اور ایک لیڈری خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے.ان دونوں میں کتنا فرق ہے.دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ تھوڑے ہوتے ہیں جن کو فریب دھوکہ بازی اور منصوبہ بازی کے بغیر لیڈ رہی مل جائے بعض لوگ قوم کی خدمت کرتے ہیں اور این طرح آگے آجاتے ہیں مثلاً سرسید علی گڑھی ، مولانا محمد علی جوہر، میاں فضل حسینی اور قائد القسم محمد علی جناح ، سراقبالیہ یہ وہ لوگ تھے جن کو تمام مسلمان جانتے ہیں.انہوں نے اپنی ذاتی اغراض کے لئے کوئی کام نہیں کیا بلکہ محض قوم کی خدمت کی نتیجہ یہ ہوا کہ خد اتعالیٰ انہیں آگے لے آیا مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں ورنہ چھوٹی چھوٹی انجمنوں تک میں ہزاروی ریشہ دوانیاں ہوتی ہیں کہ کسی طرح کوئی خاص پارٹی آگے آجائے اور غرض یہ ہوتی ہے کہ زید یا بلکہ اس المین کے لیڈر بھی جائیں سیکرٹری بن جائیں یا انہیں کوئی اور مشہدہ مل جائے.ایسے آدمی جنہوں نے قوم کی خدمت کی اور آگے آئے وہ کروڑوں کی جماعت میں درجنوں اور بیسیوں کے اندر ہی رہ جاتے ہیں لیکن ہماری جماعت میں بغیر کسی تقسیم کے دھوکہ، فریب اور منصوبہ کے آپ ہی آپ نظام کے ماتحت کچھ لوگ اور پر له الفضل ۱۵ تبلیغ ۳۳۱ ایش/ فروری ۶۱۹۵۲ ص ، من به له وفات ۶۱۸۹۸ سے وفات ۶۱۹۳۱ ؛ نه وفات ۶۱۹۳۶ : شه وفات استمبر ۱۹۴۸ شه وفات ۲۰ را بپریل ۶۱۹۳۸
۵۹ آ جاتے ہیں اور جماعت کی باگ ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے.ان کی زندگیوں میں تو ایک تغیر ہونا چاہئے تھا جس طرح خدا تعالیٰ نے ان سے سلوک کیا ہے اور انہیں بلا استحقاق قوم کا لیڈر بنا دیا ہے اسی طرح ان کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے لیڈر بنیں جن کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہو.ان کے کام اپنے نفس کی خاطر نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ان کے کردار ان کے افعال ، ان کے اخلاق اور ان کے طریق خالصہ مذہب کے لئے وقف ہوں.اور جب کسی کی زندگی خا لصہ کسی مذہب یا جماعت کے لئے ہو جاتی ہے تو اس کے عمل میں دیوانگی پیدا ہو جاتی ہے.وہ ڈاک خانہ بن کر نہیں رہ جاتا کہ چند خطوط کا جواب دے دیا اور مجھ لیا کہ بڑا کام کیا ہے بلکہ ایسا شخص رات دن کیمیں سوچتا ہے کہ کس کس طرح یکی اپنی قوم کو اونچا کروں جس کی وسعہ سے اُسنے عزت ملی ہے حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالٰی کی خاطر جو خدمات کی جاتی ہیں وہ پہلے در پے نفع لاتی ہیں ان کی یہ خدمت بھی بلا معاوضہ نہیں ہوتی.فرضی که و جماعت اب تین لاکھ کی ہے اور وہ قربانی کرتے ہیں اور تعداد تین لاکھ سے چھ لاکھ ہو جاتی ہے، تو انہوں نے صرف قوم کی خدمت نہیں کی انہوں نے اپنی خدمت بھی کی ہے.وہ پہلے تین لاکھ کے لیڈر تھے اب چھ لاکھ کے لیڈر ہو گئے.اگر وہ اور قربانی کریں اور تعداد بارہ لاکھ ہو جائے تو یہ خدمت اسلام کی بھی ہوگی مگر ساتھ ہی اپنی خدمت بھی ہو گی کیونکہ کل وہ کچھ لاکھ کے لیڈر تھے تو آج وہ بارہ لاکھ کے لیڈر بن گئے ہیں.غرض ان کے اندر ایسی دیوانگی ہونی چاہئیے جو دوسری قوموں میں نہ ملے ہے چوہدری محمد حسین صاحب کی نیکم فروری ۱۹۵۲ء سے احراری لیڈروں نے سندھ کو اپنی اشتعال انگیز سر گر میوں کا مرکز بنا لیا اور کانفرنس ریاست خیر پور میں المناک شہاد منعقد کرکے صوبہ کی فضا کو اس درجہ مندر کر دیا کہ.فروری ۱۹۵۲ء کو ایک مخلص احمدی چوہدری محمد حسین صاحب گیسٹ ریاست خیر پور میرس سندھ پر قاتلانہ حملہ کر دیا گیا.چوہدری صاحب کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں آپ ۲۲ فروری ۱۹۵۲ء کو رحلت کر گئے پہلے له الفضل ۱۷ تنبلین ۳۳۱ ہش / فروری ۱۱۹۵۷ ۲۰ ، ص : ن الفضل مامان ۳۳۱ مش / مارچ ۱۹۵۲ء ص به
جماعت احمدیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ ۱۶- انت الی ۱۳۳۱ پیش پر جلس سیالکوٹ پر یورش فروری ۱۹۵۲ء کو قرار پایا تھا اور احمدیوں کی کثیر تعداد بیرونی مقامات اور مصافات سے اس میں شرکت کے لئے پہنچ چکی تھی کہ بعض احراری علماء نے پہلے تو احمدیوں کے واجب القتل ہونے کا فتوئی نشر کیا پھر ایک ہجوم میں یہ اعلان کر کے کہ ہم احمدیوں کا جلسہ نہیں ہونے دیں گے جلسہ گاہ کا رخ کر لیا اور جونہی پہلا اجلاس ختم ہوا اور سامحسین جلسہ گاہ سے باہر نکلے تو ان پر شدید سنگ باری کی گئی جس سے چالیس سے زائد افراد بری طرح مجروح ہوئے.اس کے بعد بلوائیوں نے بازار میں متعدد اشخاص کو مارا پیٹا اور گلیوں میں بھی تشدد سے کام لیا.رات کو ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ نے جماعت احمدیہ کے ارکان کو بلایا اور مشورہ دیا کہ جلسہ احمدیہ مسجد میں کر لیں لیکن جماعت سیالکوٹ نے اس رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اگلے روز کا پروگرام منسوخ کر دیا.ہے لے اس موقعہ پر مقامی جماعت کی طرف سے صاحب ڈپٹی کمشنر کو یہ مراسلہ بھیجا گیا :- ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ہجائے اپنی جلسہ گاہ گئے مسجد میں جا کر جلسہ کرنا کسی حالت میں بھی مناسب نہیں اور ہمارے حق کو ضائع کرنے کے مترادف ہے ہم نے بار بار آپ کی خدمت میں عرض کی کہ ہم خطرہ بھی برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن پہلی مرتبہ کے التواء کے بعد دوسری بار ایک نہایت ہی مختصر اجمل اس کو کافی سمجھنا ہمارے لئے مشکل ہے ہم یقینا اس بات کے حقدار ہیں کہ اس تعاون کے بعد جو ہم نے پچھلی بار کھایا تھا اس دفعہ حالات کی مشکلات کو برداشت کر کے ہمارے لئے سلسہ کرنا ممکن کیا جاتا.اس جلسہ میں شرکت کے لئے بعض دوست باہر کے اضلاع سے آئے ہوئے تھے ہم حکومت کو یقیناً مشکلات میں پھنسا نا نہیں چاہتے لیکن اس کا یہ اثر ضرور ہو گا کہ ایسا شرارت پسند عنصر جو ہر ممکن طریق سے حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور زیادہ دلیر ہو جائے گا اور امن پسند لوگوں کیلئے اپنے حقوق کی حفاظت مشکل ہو جائے گی پر حال آنچی انتظامی معذوریوں کے پیش نظر ہمارے لئے بجز اس کے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ ہم اپنا بقیہ پروگرام منسوخ کر دیں" الفضل ۱۹ تبلیغ ۳۳۱ارتش / فروری ۶۱۹۵۲ ما
فصل عن نجم سیدنا حضرت مصلح موعود کا سفر شیر آبادند بصیرت افروز خطبات حیدر آباد میں پریس کانفرنس اتحاد السلمین پر • شاندار لیکچر سیدنا حضرت امیر المومنين الصلح الموعود اراضي سندھ کی نگرانی اور حسابات کی پڑتال کرنے کارکنوں کو ہدایات دینے اور بہت سے تربیتی و تبلیغی امور کی انجام دہی کے لئے سالہا سال سے سندھ تشریف لے جارہے تھے حضور حسب سابق اس سال بین ۳۴۰ نفوس پر مشتمل قافلہ سمیت ۲۵ تبلیغ فروری کو بشیر آباد سندھ تشریف لے گئے اور ایک ماہ کے کامیاب دورہ کے بعد ۲۶ امان/ مارچ کو ربوہ میں رونق افروز ہوئے.حضور نے اس سفر کے دوران مولانا جلال الدین صاحب شمشن کو امیر مقامی نامز د فرمایا اے ۱۳۳۱ اہش / ۱۹۵۲ء کے باہر کت سفیر سندھ کے واقعات میں سے تین کا ذکر ضروری ہے.ا.خطبات جمعہ پریس کانفرنس - اتحاد السلمین پر لیکچر دور این سفر حضور نے اپنے خطبات میں احباب جماعت کو بہت قیمتی بصیرت افروز خطبات نصائح فرمائیں جن کا ملخص یہ تھا کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرو تبلیغ کہ وہ جماعت کو وسیع کرتے چلے جاؤ ہمیشہ اپنے کاموں میں محبت اور قتل کا توازن قائم رکھو اور اخلاق فاضلہ کا بہترین نمونہ بنو.الفضل ، تبلیغ و ۲۸ امان ۱۳۳۱ همش (مطابق ۲۷ فروری ۲۸ مارچ ۶۱۹۵۲ )
۶۲ حضور نے ۲۵ امان / مارچ کو ایک پر یس کا نفرنس سے خطاب فرمایا جس کی پریس کانفرنس تعداد اخبار المصلح کراچی (مورخہ ۲۸ مارچ ۱۹۵۲ء) کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے:.حضرت امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے گزشتہ روز حیدرآباد میں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :- یکن تو سمجھتا ہوں کہ مہاجر و انصار کی تعریف کو ختم کرنا چاہئیے اور ہمیں اس کی بجائے پاکستانی کے لفظ کو استعمال میں لانا چاہیے.میں ذاتی طور پر تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتا ہوں کہ ہنڈوں نے ہمیں مسلمان سمجھ کر نکال دیا مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں پاکستان میں حفاظت کی جگہ دے دی یا زبان کے مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا : میں اصولاً تو یہی سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی زبان لازمی طور پر اردو ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ ضروری ہے کہ بنگالیوں کی دلجوئی کر کے ان کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے جذبات رکھے جائیں اور زبان کے سوال کو موجودہ حالات میں اُٹھانا اور خواہ مخواہ اس مسئلہ کو اختلاف کی بنیاد بنانا درست نہیں " ایک سوال کے جواب میں مسئلہ جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا :- " ہم قرآن کریم کو مانتے ہیں.لامحالہ جو چیز قرآن کریم میں ہوگی وہی ہمارا عقیدہ اور مسلک ہوگا ہاں اس کی توضیح اور مفہوم میں فرق ہو سکتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد دشمنوں کے عملوں کے دفاع کا نام ہے اور ایک دفعہ دفاعی جنگ شروع ہو جانے کے بعد اقدام بھی لازیا اس کا ایک حصہ بن جائے گا یا پاکستان میں آئندہ ماہ ہونے والی اسلامی ممالک کے وزراء اعظم کی کانفرنس کے متعلق آپ نے فرمایا :- جہاں تک میرا خیال ہے اس کا نفرنس میں باہمی عام مسائل پر عام مشورہ ہوگا اور اسکے فیصلے سب پر عائد نہیں کئے جائیں گے.بہر حال یہ اقدام نہایت خوشکن ہے اور آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ ہے کہ ه روزنامه الفضل ۲ شهادت ۱۳۳۱ مش / ۱۲ پریل ۲۱۹۵۲ ۳۰
سیدنا حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعودی تقر بر عنوان اتحاد بین السلمین کا ایک منظر (حضور کے پیچھے دائیں طرف جناب چوہدری عبد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی.اور بائیں طرف مکرم سید احمد علی شاہ صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کھڑے ہیں ) حضرت مصلح موعود کے سفر ناصر آباد کے دو اہم فوٹو
۶۳ لیکے قیام حیدر آباد کا اہم ترین واقعہ امیر المومنین حضرت مصلح موعود کا اتحاد المسلمین کے موضوع پر عظیم الشان نیچر ہے جو ۲ اتحاد اسلمین تنظیم الشان میری پر امان کر مارچ کو پولیس کا نفرنس کے بعد تھیو سافیکل ہال میں ہوا.داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا قریباً ایک ہزار ٹکٹ غیر احمدی معززین میں تقسیم کئے گئے جلسہ میں آلہ نشر الصوت کا خاطر خواہ انتظام تھا.ہال کا اندرونی حصہ اس قدر پر تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی حتی کہ احمدی اور غیر احمدی احباب کثیر تعدا د میں دونوں طرف باغ اور صحن میں بیٹھے یا کھڑے کھڑے آخر وقت تک پوری تو تعبہ ، دلجمعی اور سکون کے ساتھ تقریر سنتے رہے مستورات کے لئے ہال کے ایک ملحقہ کمرہ میں الگ پردہ کا بندوبست تھا.جناب ایم.اے محافظ بارایٹ لاء ہیرہ آباد کی صدارت میں کارروائی مشروع ہوئی.سب سے پہلے مولوی سید احمد علی شاہ صاحب مبلغ سائلہ نے تلاوت فرمائی پھر مبارک احمد صاحب نے کلا می شود سے ایک نظم پڑھی.ازاں بعد صدر جلسہ نے حضر ت صلح موعود کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے اس تقریب پر اظہار مسرت و شادمانی کیا اور فرمایا :- " ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسلام میں جماعت احمدیہ جیسی ایک جماعت موجود ہے جس کے کارنامے طویل ہیں.اس جماعت نے اسلام کو جس جوش و خروش سے یورپ میں پیش کیا ہے وہ اس کا ہی حصہ ہے اور ہم سب مسلمان اس کے ممنون ہیں.اس جماعت کے ایک ممبر آنریل چوہدری محمد ظفراللہ خان حکومت میں شامل ہیں.اس نمبر نے دُنیا میں پاکستان کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں اور دنیا میں پاکستان کا نام بلند کرنے اور اسلامی ممالک کو متحد بنائے ہیں عظیم الشان کامیابی حاصل کی ہے یہ میر ساری اسلامی مونیا کے لئے ایک قابل فخر ہستی ہے.آج اس عظیم الشان جماعت کے عظیم الشان لیڈر کی تقریر سننے کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں.اور میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ آج صدارت کے لئے تجھے چنا گیا.اس کے بعد حضور اقدس نے اتحاد السلمین کے موضوع پر سوا گھنٹہ کے قریب ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی.اس تقریر کے ضرور ہی حصے درج ذیل کئے جاتے ہیں :- آپ ان دوان ایران شده ضلع حید ر آر او مال داروں کے نامی میلے
۶۴ اتحاد عربی لفظ ہے اور وحدت سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں کھیتی اختیار اتحاد اور اس کا فلسفہ کر لینا.یہ لفظ بتاتا ہے کہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ بہت سی چیزیں ہیں اور انہوں نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو کھو کہ اجتماعیت اختیار کریں گی.عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مطالب کو اس طرح بیانی کرتی ہے کہ ایک لفظ کے اندر سارا فلسفہ بیان کر دیا جاتا ہے.استاد نے اُردو زبان میں آکر اپنے معنی کھو دیتے ہیں لیکن عربی زبان میں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے فلسفہ کو جاننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ بولنے والا کئی باتیں تسلیم کرتا ہے." اجتماعیت اور ملت کا جو احساس اسلام نے پیدا کیا ہے وہ کیسی "1 اسلام اور اجتماعیت اور مذہب نے پیدا نہیں کیا.صرف اسلام ہی ایک ایسا نہ ہیب ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو اجتماعیت کی طرف تو جہ دلائی ہے مثلاً اسلام میں ایک کلمہ ہے جو ہر سلمان کے لئے ماننا ضروری ہے.بیشک اسلامی فرقوں میں اختلاف پایا جاتا ہے.مثلاً ہماری جماعت کو بھی دوسرے فرقوں سے اختلاف ہے لیکن کوئی احمدی ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ میں کلم طیبہ نہیں مانتا.پھر شیعوں کو سنیوں سے اختلاف ہے اور سنیوں کو شیعوں سے اختلاف ہے.لیکن شستی یا شیعہ کو یہ جرات نہیں کہ وہ کلمہ سے انکار کرتے ہے.تم کسی اسلامی فرقہ میں پہلے جاؤ اور اُن سے پوچھ لو وہ کلمہ سے باہر نہیں جائیں گے.ہر ایک مسلمان یہ یہ کہے گا کہ ہمارا ایک کلمہ ہے او ر و DNA TALANIANDENT اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ہے.ہر خص جو مسلمان ہو گا وہ اس بارہ میں دوسرے مسلمانوں سے متحد ہو گا شیعہ سنیوں سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ کے بارہ میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہو گایش تی شیعہ سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلم میں دونوں متحد ہوں گے اور یہ کلمہ صرف مسلمانوں میں ہے اور کسی مذہب میں نہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک عیسائی کو ATLANT TEN الا اللہ کہنا نہیں آتا.ایک عیسائی بھی لا الہ الا اللہ کہہ سکتا ہے لیکن ان کا اپنا کوئی ایسا کلمہ نہیں جس میں بتایا گیا ہو کہ خدا تین ہیں.تم کیسی مشن میں پہلے جاؤ اور عیسائیوں سے پوچھو کہ کیا تمہارا بھی کوئی کلمہ ہے تو وہ یہی جواب دیں گے کہ ہمارا کوئی کلمہ نہیں.وہ یہ کہ ہی نہیں سکتے کہ ہمارا کوئی کلمہ ہے کیونکہ ان کے ہاں مذہب کا ضروری حصہ وہ لوگ بھی ہیں جو تین خدا مانتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو با وجود عیسائی ہونے کے ایک
ឋ خدا کے قائل ہیں لیکن ہمارا ہرشخص لا اله الا اللہ میں دوسرے مسلمانوں سے اتحاد رکھتا ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص لا اله الا اللہ کے خلاف کی تعلیم کو مانتا ہو اور وہ اسلام میں بھی رہے ہے.ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳۷۰ سال قبل فرما دیا تھا کہ ہمارا کلمہ لا اله الا الله ہے اور اس میں اسلام کا خلاصہ آگیا ہے.باقی لوگ ابھی ٹکریں مار رہے ہیں کہ ہمارا کلمہ کیا ہے ؟ اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے جو مسلمانوں کے سوا دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں پھر اسلام میں ایک قبیلہ پایا جاتا ہے لیکن اسلام کے سوا کسی مذہب میں قبلہ نہیں پایا قبلہ جاتا بیشک ہندوؤں کے پاس سومناتھ کا مندر موجود ہے لیکن یہ ایسی چیز میں بی نا کے پاس سوناتھ کا ان موجود ہے لیکن یہ ایسی چنینی جی پر سارے ہند و جمع ہو جائیں عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی کوئی قبلہ نہیں وہ یروشلم کی مسجد کو بطور قبلہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ تو حضرت موسی علیہ السلام کے پانچ سو سال بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے بنائی تھی.حضرت داؤد علیہ السّلام سے پانچ سو سال قبل یہودیوں کے پاس کونسا قبلہ تھا ہمارے پاس پہلے سے قبلہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ظاہر ہوئے تو آپ نے بتا دیا کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے اور اس طرح مسلمانوں پر کوئی دن ایسا نہیں آیا جب ان کے پاس کوئی قبلہ نہ ہو.یہ نہیں کہ ایک سال، دو سال یا دس سال کے بعد قبلہ کا حکم ہوا ہو بلکہ پہلے دن سے بتا دیا گیا ہے کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے.اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے جو دوسرے مذہب والوں کو حاصل نہیں یا نماز باجماعت پھر نماز با جماعت ہے.اسلام نماز بھی انفرادی نماز نہیں بلکہ ایک قومی نماز ہے.پہلے صفوں میں سیدھے کھڑے ہو جاؤ.قبلہ رخ ہو.اقامت ہو پھر ایک امام ہو.امام کھڑا ہو تو مقتدی کھڑا ہو امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجد ہیں چلا جائے.یہ خصوصیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے.اور مذاہب میں نہیں.بہ عیسائیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور نہ یہودیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے.عیسائی اور یہودی اکٹھے تو ہو جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے لئے اکٹھا ہونے کا کہاں حکم ہے ؟ ساری تورات یں اکٹھے ہو کر عبادت کرنے کا حکم نہیں ملتا.تورات میں نہیں آتا ہے کہ کامل عبادت یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے لئے قربانی پیش کرو.باقی یہ کہ عبادت کے لئے تم اکٹھے ہو جاؤ ایسا کوئی حکم شد
۶۶ پرانوں اور ویدوں میں موجود ہے اور نہ ایسا حکم تو رات اور انجیل میں پایا جاتا ہے؟ ب" صرف اسلام ہی ایسا نہ ہب ہے جو کہتا ہے پہلے اذان دو پھر اس طرح مسجد میں آؤ.اذان سید میں صفوں میں کھڑے ہو جاؤ.پھر قبیلہ کی طرف منہ کر وہ سامنے ایک امام ہو.جو ر کرتے امامیہ سے وہی حرکت مقندی بھی کرے امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں پہلے جائیں امام کھڑا ہو تو مقتدی بھی کھڑے ہو جائیں.اس طرح ساری قوم امام کے تابع ہو جاتی ہے اور یہ طاقت ہٹلر میں بھی نہیں تھی کہ اس کے اشارہ سے سارے لوگ مجھک جائیں لیکن یہاں یہ بات پائی جاتی ہے کہ امام رکوع میں جاتا ہے تو سارے مقتدی رکوع میں پہلے جاتے ہیں.امام سجدہ میں جاتا ہے تو سارے لوگ سجدہ میں پہلے بجاتے ہیں.گو یا خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت بخشی ہے جس نے اجتماعیت کی ایسی تحکم روح قائم کر دی ہے جس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی.پھر حج ہے یہ خصوصیت بھی صرف اسلام میں ہے.بیشک ہندو لوگ یا ترا کے لئے جاتے حج ج ہیں لیکن بیا تر این بیسیوں ہیں، کوئی شخص یاترا نہیں اور نہ ایسی تعلیم ہے کہ جس شخص کے پاس سرمایہ ہو.پھر امن ہو اس کے لئے کوئی روک نہ ہو.ایسا شخص اگر حج نہیں کرتا تو وہ گنہگار ہے یہ اجتماعیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے.باقی لوگ یا ترا گئے تب بھی بزرگ ہیں اور اگر یا تراکونہ گئے تب بھی بزرگ ہیں.زكاة کو پھر زکوۃ ہے.اسلام میں جیسی زکوۃ پائی جاتی ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی بے شک یہودیوں میں بھی زکوٰۃ پائی جاتی ہے لیکن اس میں اتنی باریکیاں نہیں پائی جاتیں جتنی باریکیاں اسلامی زکواۃ میں پائی جاتی ہیں.اسلامی زکوۃ کے اخراجات کو نہایت وسیع طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس میں قومی ترقی کی ہر چیز آجاتی ہے.اس میں کلیت کا رنگ پایا جاتا ہے او یہ بات یہودی زکوۃ میں نہیں پائی جاتی.اسلامی زکواۃ میں ہر قسم کے غرباء کا حق مقرر کر دیا گیا ہے مثلاً ایک شخص کے پاس تجارت کے لئے سرمایہ نہیں تو اسلام کہتا ہے اسے کچھ سرمایہ دے دو.ایک دردی ہے وہ درزی کا کام جانتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی مشین نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو.ایک شخص کو یگہ چلانا آتا ہے لیکن اس کے پاس روپیہ نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکواۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو.اس طرح ایک مسافر آتا ہے وہ مالدار ہوتا ہے
لیکن وہ شہر میں جاتا ہے اور اس کا مال چوری ہو جاتا ہے اور وہ گھر سے بھی رو پر منگوا نہیں سکتا تو اسلام کہتا ہے کہ زکوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو.ایک غریب آدمی قید ہو جاتا ہے.اسکے بچوں کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تو اسلام کہتا ہے کہ زکواۃ میں سے اسے بھی کچھ دیر گویا اسلام نے زکواۃ کے نظام کو اس قدر وسیع کیا ہے اور اتنا نرم رکھا ہے کہ ہر قوم اور ہر گروہ کے لوگ اس کی طرح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں کہ کسی کا سر بھی نیچا نہ ہو کیونکہ بڑی زکواۃ حکومت خود دیگی.مثلاً زمین ہے.زمین کی زکوۃ یکی ذاتی طور پر نہیں دے سکتا بلکہ یہ زکواۃ گورنمنٹ کے پاس جمع کرائی جائے گی اور وہ آگے مستحقین تقسیم کرے گی.اگر حکومت اس رقم میں سے کچھ میرے ہمسایہ کو دیتی ہے تو اگرچہ وہ میری رقم ہو گی لیکن میرا اہمسایہ ایسے گورنمنٹ سے حاصل کرے گا.اس طرح وہ میرا ممنون نہیں ہوگا اور میرے سامنے نظریں نیچی نہیں کرے گا گویا زکوۃ لینے کے نتیجہ میں جو تغیر پیدا ہوتی ہے وہ پیدا نہیں ہوگی.قرض اسلامی زکواۃ میں اس امر کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ غریب کی نظر نیچی نہ ہو.اور باوجود مد دینے کے وہ امیر ہمسایہ کو کہ سکے کہ میں نے تجھ سے مدد نہیں لی " پھر قضاء ہے یہ بھی اسلام کی ہی ایک خصوصیت ہے اور یہ خصوصیت بھی اس بات کی قضاء ایک دلیل ہے کہ اسلام اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے.ایک فرد اگر کسی کو ڈنڈا مارے تو قضاء اسے کہے گی کہ تم قاضی کے پاس بھاؤ وہ اسے ڈنڈا مارے گا یہاں تک کہ اسلام میں بدکاری کی سزا سخت ہے لیکن اس کے لئے بھی اسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ تم سزا کو اپنے ہاتھ میں نہ لو بلکہ معاملہ قاضی کے پاس لے جاؤ وہ سزا دے گا.ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.اس وقت یہودی سزا پر عمل کیا جاتا تھا.ہاں شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر خاوند دیکھے کہ اس کی بیوی بد کاری کر رہی ہے تو کیا اسے حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مارڈالے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ہے اسے خود سزا دینے کا حق نہیں.موسوی شریعت میں زنا کی سزا قتل تھی اور اس وقت تک اس بارہ میں موسوی شریعت کے مطابق ہی عمل کیا جاتا تھا.اُس شخص نے عرض کیا جب زنا کی سزا قتل ہے تو خاوند سیب اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو بد کاری کرتے ہوئے دیکھے تو کیوں نہ اُسے قتل کر دے ؟ رسول کریم مه ابو داؤد (كتاب المحدود)
Ул صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے سزاد ینے کا حق نہیں سزا دینے کا حق قاضی کو ہے.اگر وہ اپنی بیوی کو بد کاری کرتے ہوئے دیکھتا ہے اور اسے قتل کر دیتا ہے تو اُسے قاتل سمجھ کر موت کی سزادی جائیگی اب دیکھو اسلام اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اسلام یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہمیں بدلہ لیتے میں جلد بازی سے کام تو نہیں لیا گیا.کیا جرم کی تحقیق کے سامان پوری طرح مہیا کئے ہیں ؟ اور یہ باتیں قاضی دیکھ سکتا ہے دوسرا نہیں.اگر چہ یہ انفرادی حتی ہے لیکن کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے لے.مجرم کو سزا صرف حکومت کے ذریعہ ہی دلائی جا سکتی ہے ؟ پھر فرضیت جہاد ہے.جہاد بھی اکیلا شخص نہیں کر سکتا بلکہ جب جہاد فرض ہو گا تو ساری جہا د قوم لڑے گی پیس جہاد بھی ایک اجتماعی چیز ہے.اسلام کہتا ہے کہ جب امام کہے کہ آپ جہاد کا موقعہ ہے تو ہر سلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فرمینیہ کو پورا کرے اور اگر کوئی مسلمان اس فرض کو گورا نہیں کرتا تو وہ شریعت اور قانون کا مجرم ہے یہ ایک اجتماعی محکم ہے پس جو شخص یہ کتا ہے کہ اسلام انفرادی مذہب ہے وہ غلطی پر ہے.اسلام انفرادی مذہب نہیں بلکہ اجتماعی جهاد مذہب ہے." اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام ایک طرف تو انفرادیت کی حقیقت انفرادیت و اجتماعیت سر تسلیم کرتا ہے اور نہ صرف تسلیم کرتا بلکہ اسے ضروری قرار دیتا ہے اورده و دو تیری طرف وہ اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے یہ دونوں چیزیں اکٹھی کیسے ہوسکتی ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ تضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مددگار ہیں.ان دونوں کو جمع کئے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی.جس مذہب نے صرف انفرادیت کی تعلیم دی ہے وہ بھی تباہ ہوا ہے.کوئی مذہب اور کوئی حکومت اپنے لئے ترقی کا راستہ نہیں کھول سکتی جب تک وہ ان دونوں چیزوں پر بیک وقت تکمیل ہو کر رہی ہو.اگلے زمانہ میں خدا سے تعلق محض انفرادیت کے طور پر ہوتا تھا لیکن صحیح راستہ انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان ہے.جیسے اگلے جہان میں ایک پُل صراط ہوگی یہ اس دُنیا کی پل صراط ہے.اسلام دونوں چیزوں کو ایک وقت میں بیان کرتا ہے.ایک طرف وہ انسان کو انتا بند کرتا ہے کہ اسے عرش پر پہنچا دیتا ہے اور اس کے درمیان اور خدا تعالیٰ کے درمیان کوئی
44 واسطہ باقی نہیں رہتا اور دوسری طرف جس طرح یونانی جب لڑتے ہیں تو وہ آپس میں ایک کو دوسرے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں تا کہ وہ اگر مریں تو اکٹھے مریں اسی طرح اسلام بھی ایک انسان کو دوسرے کے ساتھ باندھ دیتا ہے پیس حقیقت یہی ہے کہ اتحاد موجودہ حالات اور افراد سے اتحاد کا نام ہے.اتحاد اس بات کا نام ہے کہ موجودہ حالات اور افراد سے کام لیا جائے اور ترقی کے معنی یہ ہیں کہ موجودہ حالات اور افراد میں اختلاف پیدا کیا جائے جب تک تجربہ اور تھیوری سے اختلاف نہیں کیا جاتا اس وقت تک ترقی نہیں ہو سکتی.غرض انفرادیت کے بغیر ترقی مشکل ہے اور اتحاد کے بغیر امن قائم رکھنا مشکل ہے.قرآن کریم نے ان دونوں کو تسلیم کیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے واطیعوا قرآن مجید کی تعلیم اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَارَهُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذَهَبَ المُكُمْ وَاصْبِرُوا اِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ (انفال : ٤٤) ائے مسلمانو! تم آپس میں اختلاف نہ کرو.اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے تو کمزور ہو جاؤ گے اور دشمن سے شکست کھا جاؤ گے.تم ہمیشہ اکٹھے رہنا اور ایک دوسرے کے مدد گار رہنا.واصبا روا اور چونکہ اکٹھے رہنے میں تمہیں کئی مشکلات پیش آئیں گی اس لئے تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا.جب تم اجتماعیت کی طرف آؤ گے تو کئی جھگڑے پیدا ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی شکوہ پیدا ہو جایا کرتا تھا.ایک دفعہ آپ مال غنیمت تقسیم فرما ر ہے تھے ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اسے شخص اگر این انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا؟ حضرت عرض بھی وہاں موجود تھے آپ نے تلوار نکال لی اور عرض کیا یا رسول اللہ آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن کاٹ دوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانے دو اس شخص نے بے شک غلطی کی ہے لیکن اگر اس کی گردن کاٹ دی گئی تو لوگ کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتا ہے لیے پس اگر اُس زمانہ کے لوگ بھی شکوہ کر دیتے تھے اور اختلاف کا اظہار کر دیتے تھے تو پاکستان اور شام اور عراق اور ارون کے لوگ کیوں نہیں کر سکتے ؟ غلطیاں ہو جاتی ہیں اور لوگ شکوہ بھی کرتے ہیں پھر تم کیا کرو لے مسند احمد بن مقبل جلد ۳۵۳۵۳
از فرمایا واصبر واتم صبر کرو.اور مجھ پر امید رکھو ئیں خود اس کا بدلہ دوں گا.پھر فرماتا ہے واعتصموا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ( آل عمران رکوع 11) اے مسلما نو ا تم سارے مل کواللہ تعالٰی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو.اگر تم نے تفرقہ کیا تو اس کے نتیجہ میں تمہاری طاقت زائل ہو جائے گی.یہ اجتماعی اتحاد کی دعوت ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے مذہب کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں وہ بے دین ہیں.گویا قرآن کریم اختلاف و اتحاد دونوں کو تسلیم کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے کلام میں بھی اختلاف اور اتحاد دونوں کو تعلیم کیا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَهُ به میری امت کا اختلاف رحمت ہے.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اختلاف کو بجائے عذاب کے رحمت قرار دیتے ہیں اور اختلاف کرنے والے دونوں فریق کو اپنی امت قرار دیتے ہیں.لیکن دوسری طرف آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ جماعت سے بالشت بھر بھی علیحد ہوا وہ ہم میں سے نہیں.گویا آپ نے ایک طرف یہ کہا کہ اختلاف رحمت ہے اور دوسری طرف یہ کہا کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہو گا وہ ہم میں سے نہیں یعنی وہ مسلمان نہیں رہے گا.ایک صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ جب تفرقہ ہو گا تو میں کیا کروں.کیا میں تلوار لوں اور لوگوں کا مقابلہ کروں.آپ نے فرمایا نہیں.اُس صحابی نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ پھر یں کیا کروں.تو آپ نے فرمایا...جس طرف جماعت ہے ہو تم اسی طرف پہلے جھاؤ.گویا آپ نے ایک طرف انفرادیت پر اس قدر زور دیا ہے کہ اختلاف امت کو رحمت قرار دے دیا اور دوسری طرف یہ شدت ہے کہ اگر تم پر ظلم بھی کیا جائے تب بھی تم اختلاف نہ کرو بلکہ جماعت کا ساتھ دو.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم دونوں نے اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا ہے یہ..له "كنوز الحقائق » (از حضرت علامه امام عبد الرؤوف مناوی) نے ابو داؤد میں ہے " مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِيْدَ شِرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِسْلَامِ عَنْ عُقِهِ ذ کتاب السنه) بخاری کتاب الاحکام میں ہے کس اَحَدٌ يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبُرَا فَيَمُونَ الأَمَات مِسْتَةً جَاهِلِيَّةِ " แ سے بخاری کتاب الفتن کے الفاظ ہیں" تلزِمْ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ
► اگر ہم اکٹھے ہوکر بیٹھ جائیں گے تو آہستہ آہستہ اتحادکی گئی صورتیں پہلا اسلامی اصول اتحاد نہیں آئیں گی.الا مردہ باد خلال زندہ باد کے نعروں سے کچھ نہیں بنتا.اگر کوئی نقطہ مرکزی ایسا ہے جس پر اتحاد ہو سکتا ہے تو اس کو لے لو کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اختلافا قائم رکھو بلکہ بعض دفعہ یہاں تک کہتا ہے کہ ہم اختلافات رکھنے میں تمہاری مدد کریں گے.پھر یہ بیوقوفی کی بات ہے کہ ہم ان اختلافات کی وجہ سے اتحاد کو چھوڑ دیں.میں نے عملی طور پر بھی اس کا بحریہ کیا ہے.جب تحریک خلافت کا جھگڑا شروع ہوا اور مولانا محمد علی اور شوکت علی نے یہ تحریک شروع کی کہ انگریزوں کو کہا جائے کہ وہ سلطان ترکی کو جسے ہم مسلمان خلف تسلیم کرتے ہیں کچھ نہ کہیں ورنہ ہم سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں گے تو انہوں نے باقی مسلمانوں کو بھی دعوت دی کہ وہ اس تحریک میں ان کے ساتھ شامل ہوں اور اس کے تعلق میں لکھنو میں ایک جلسہ کیا گیا یکی نے جب اس بات پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ شیعہ اور اہل حدیث سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے اور نہ خوارج سے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں اور پھر ہم احمدی بھی اس بات کے خلاف ہیں.ہمارا ہیڈ خود خلیفہ ہوتا ہے.یکس نے خیال کیا کہ یہ سارے لوگ یہ بات کیوں کہیں گے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ مانتے ہیں اس لئے اگر تم نے اس پر ہاتھ ڈالا تو ہم سب متحد ہو کر اس کی امداد کریں گے.یکی نے جلسہ میں شرکت کے لئے ایک وفد لکھنو بھیجا اور انہیں تحریری پیغام بھجوایا کہ اگرم اسی صورت میں انگریزوں کے پاس جاؤ گے تو وہ کہیں گے کہ خوارج ، اہل حدیث اور شیعہ مسلمان عبد الحمید کو اپنا خلیفہ نہیں مانتے تم کیسے کہتے ہو کہ وہ سب مسلمانوں کا خلیفہ ہے ؟ میں نے کہا تم کیوں کہو کہ سلطان ترکی جسے مسلمانوں کی اکثریت تخلیفہ تسلیم کرتی ہے اور باقی مسلمان بھی ان کا احترام کرتے ہیں اگر تم نے اسے کچھ کہا تو ہم سب مسلمان مل کر تمہارا مقابلہ کریں گے.اگر تم یوں کہو گے تو کام بن جائے گا کیسی احمدی شیعہ یا اہل حدیث کو یہ جرأت نہیں ہو سکے گی کہ وہ کہے سلطان عبد الحمید کو مار دو.وہ دل میں بے شک ہے لیکن اس کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا.مولانا شوکت علی کی طبیعت جو شیلی تھی جب وفد میرا خط لے کر گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تفرقہ کی بات ہے.پندرہ دن کے بعد اہل حدیث کی طرف سے اعلان شائع ہوا کہ ہم سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے شیعوں کی طرف.ے یہ پیغام ترکی کا مستقبل اور سلمانوں کا فرض" کے نام سے چھپا ہوا ہے یہ
۷۲ بھی اس قسم کا اعلان شائع ہوا اور پھر سر پھٹول شروع ہوگئی.خوارج اس ملک میں موجود نہیں تھے ورنہ وہ بھی اس قسم کا اعلان کر دیتے اور پھر سال ڈیڑھ سال کے بعد خود ترکوں نے بھی اسے جواب دے دیا تین چار سال کے بعد شملہ میں ہم سب ملے تو مولانا محمد علی نے کہا کتنا اچھا کام تھا لیکن آخر ہم اس میں ناکام ہو گئے مسلمانوں میں تفرقہ ہو گیا اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے کہیں نے کہا مولانا میں نے مشورہ دے دیا تھا کہ یہ نہ لکھا جائے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو خلیفہ مانتے ہیں کیونکہ اہل حدیث ، خوارج شیعہ اور ہم احمدی اسے خلیفہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ کہا جائے کہ سلطان ترکی جس کو مسلمانوں میں سے اکثریت خلیفہ مانتی ہے اور جو خلیفہ نہیں مانتے وہ بھی ان کا احترام کرتے ہیں.اگر میری بات مان لی بھائی تو یہ ناکامی نہ ہوتی.انہوں نے کہا آپ نے یہ مشورہ ہمیں دیا ہی نہیں.لیکن نے کہا آپ کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کو دیا تھا مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ کی.یکی نے کہا اگر آپ میرا مشورہ مان لیتے تو اہل حدیث ، خوارج اور شیعہ کو شکایت پیدا نہ ہوتی.آپ یہ لکھتے کہ اکثریت مسلمانوں کی سلطان ترکی کو خلیفہ مانتی ہے اور اقلیت اسے اپنے اقتدار کا نشان مانتی ہے.وہ افسوس کرنے لگے کہ مجھے پہلے کیوں نہ بتایا.پیس شیعہ ، کشتی اور منفی، وہابی اور احمدی اور غیر احمدی کے اختلاف کو چھوڑ دیا جائے اور ان کی اتحاد کی باتوں کو لے لیا جائے یہی اتحاد کا اصول ہے.ا دوسرا اصول اتحاد کا یہ ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پرقربان دوسرا اسلامی اصول اتحاد کر دیا جائے.اگر تم دیکھتے ہو کہ ہر بات میں اتحاد نہیں ہوسکتا تو تم چھوٹی باتوں کو چھوڑ دو اور بڑی باتوں کو نے لو.دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جہاں توحید کا ذکر کرتا ہے وہاں مان باپ کا بھی ذکر کرتا ہے اور ان کی اطاعت اور فرمانبرداری پر زور دیتا ہے لیکن جب انبیاء دنیا میں آئے اور ان کی قوم نے یہ کہا کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے تو خد اتعالیٰ نے یہاں تک کہ دیا کہ کیا تم جاہلوں کی بات مانتے ہو.باپ داد سے کی نفرت بے شک بڑی ہے لیکن جب ان کا مقابلہ خدا تعالیٰ سے ہو جائے تو انہیں چھوڑ دیں" عالمی اسلام کو دعوت اتحاد میں ان دونوں باتوں پر حل کیا جائے تو اتار ہوسکتا ہے اتحاد اس وقت پاکستان ، لبنان ، عراق، ارداوی، شام، مصر،
۷۳ لیبیا، ایران، افغانستان، انڈونیشیا اور سعودی عرب یہ گیارہ مسلم ممالک ہیں جو آزاد ہیں اور ان سب میں اختلافات پائے جاتے ہیں.اگر انہوں نے آپس میں اتحاد کرتا ہے تو پھر اختلافات کو بر قرار رکھتے ہوئے ان کا فرض ہے کہ وہ سوچیں اور غور کریں کہ کیا کوئی ایسا پوائنٹ بھی ہے جیس پر وہ متحد ہو سکتے ہیں اور اگر کوئی ایسا پوائنٹ مل جائے تو وہ اس پر اکٹھے ہو جائیں اور کہیں کہ ہم یہ بات نہیں ہونے دیں گے.مثلاً یہ سب ممالک اس بات پر اتحاد کرلیں کہ ہم کس مسلم ملک کو خلام نہیں رہنے دیں گے اور بجائے اس کے کہ اس بات کا انتظار کریں کہ پہلے ہمارے آپس کے اختلافات دور ہو جائیں وہ سب مل کر اس بات پر اتحاد کر لیں کہ وہ کسی ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گئے اور سب مل کر اس کی آزادی کی جد و جہد کریں گے نہیں طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دی تھی کہ آؤ ہم توحید پر جو ہم سب میں مشترک ہے متحد ہو جائیں، اسی طرح ہم سب مسلمان اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ ہم کسی کو غلام نہیں رہنے دیں گے اختلافات بعد میں دیکھے جائیں گے.اسی طرح پاکستان کے مسلمانوں کے آپس کے جھگڑے ہیں اور ان میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن ان سب ممالک میں کوئی چیز مشترکی بھی ہے وہ اس پر متحد ہو سکتے ہیں مثلاً کبھی بات لے لو کہ ہم نے پاکستان کو ہندوؤں سے بچاتا ہے یا کشمیر حاصل کرتا ہے تم ان چیزوں کو لے لو اور بجائے آپس میں اختلاف کرنے کے ان چیزوں پر متحد ہو جاؤ بعد میں ملنے ملانے سے دوسرے اختلافات بھی دور ہو جائیں گے...عالم اسلامی کا اتحاد بھی اسی طرح ہوگا.اگر مسلم ممالک آپس میں اتحاد کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ اختلاف کے با وجود ہم دشمن سے اکٹھے ہو کر لڑیں گے اور ہم بھی اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ ہا بھی اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے سے لڑیں گے نہیں لا نازک زمانہ کی خبر لا رہا ہے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں کو کھولیں اور خطابات کو دیکھیں، اور کم از کم اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مٹنے نہیں دیں گے یہ لہ نه روزنامه الفضل ریوه ۱۹۱۲ فتح ۱۳۲۱ پیش مطابق ۱۹۱۳ دسمبر ۰۶۱۹۶۲
اس پر از معلومات خطاب کے بعد بعض غیر احمدی معززین غیر احمدی معززین کے تاثرات نے فرط محبت سے حضور سے مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ آج کی تقریر سننے کے بعد ہمارے بہت سے شکوک وشبہات رفع ہو گئے ہیں.دیگر کوائف راس یادگار اور تاریخی موقع پر جن مقامات کے احمدی تشریف لائے ان کے نام یہ ہیں :- کراچی ،بدین ، میر پور خاص، نواب شاہ، سکھر، روہڑی ، کرونڈی خیر پور اسٹیٹ)، سانگھڑ پڈعیدن ، ٹنڈو الہ یار، باندھی ، لاکھا روڈ، نبی سر روڈ، ڈگری ، کوٹ احمدیاں اور احمدیہ اسٹیٹس.چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی اور قائد و نائب قائد مجلس خدام الاحمدیہ کو اچھی نے بھی جماعت کی خاصی تعداد اور قریباً ڈیڑھ سو خدام کے ساتھ شرکت کی اور انتظامی اور حفاظتی امور میں مقامی جماعت سے مخلصانہ تعاون کیا.اسی طرح محرم ماسٹر رحمت اللہ صاحب دیگر این اعلیٰ) پریذیڈنٹ حیدر آباد ، مکرم سید احمد علی شاہ صاحب مبلغ حیدر آباد، مکرم مولوی غلام احمد صاحب فرج مبلغ بالائی سندھ، مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب سیکرٹری تبلیغ ، مکریم با بو عبد الخفا صاحب کانپوری، مکرم ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب اپنے اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوشاں رہے لیے له الفضل ۳۰ رامان یکم شہادت شہادت ۱۳۳۱ پیش (مطابق بسر مارچ کیم و دار اپریل ۲۶۱۹۵۲ بابو عبد الغفار صاحب نے خور و نوش کے سامان اور لاؤڈ سپیکر کی فراہمی کے علاوہ حضور کی تقریر بھی ریکارڈ کی.قیام گاہ اور ٹرانسپورٹ کا انتظام ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب کے سپرد تھا اور ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب پولیس کا نفرنس اور معززین کی ملاقات کے منتظم تھے ؟
فصل شـ حکام وقت کو حالات سے باخبر رکھنے کی واضح ہدایت چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحبکے پارلیمنٹ میں اعلان حق خلافت احمدیہ متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی وضاحت دفتر مخدّام الاحمدیہ مرکز یہ کا افتتاح حکام کو حالات با برکھنے کی ان ہدایت پاکستان میں اب تک کئی احدی جام شہادت واضح نوش کر چکے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مخالفت کا دباؤ بڑھتا جارہا تھا.لہذا سیدنامحمود خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے ہر ایمان ۱۳۳۱اہش کے خطبہ جمعہ میں واضح رنگ میں یہ ہدایت دی کہ ہر صورت میں احباب جماعت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ حکام وقت کو ہمیشہ حالات سے باخبر رکھیں.چنانچہ فرمایا:.جہاں تک قانون کا سوال ہے میرے نزدیک صاف بات ہے کہ جماعت کو ایسے افعال کی طرف بار بار توجہ دلانی چاہیے کیونکہ حکومت کے ذمہ دار افراد نے خواہ وہ اپنی ذمہ داری ادانہ کریں جو نام اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے ان کا فرض ہے کہ وہ اس طرف توبہ کریں.اگر جماعتیں انہیں ر اس طرف توجہ نہ دلائیں تو وہ دنیا کے سامنے کہہ سکتے ہیں کہ ہم حالات سے واقف نہیں تھے بلکہ وہ خدا تعالٰی کے سامنے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم تیرے بندوں کی حفاظت کے لئے تیار تھے لیکن انہوں نے ہمیں بتایا ہی نہیں پس دنیا کے دربار میں اور خدا تعالٰی کے دربار میں بھی حکومت کے آفیسروں پر محبت پوری کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر ضلع اور ہر صوبہ کے حکام اور گورنمنٹ پاکستان کے سامنے
متواتر اپنے حالات رکھیں اور قطعا اس بات کا خیال نہ کریں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا جتنی دیر سے نتیجہ نکلے گا اتنا ہی وہ انہیں مجرم بنانے اور خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے کا موجب ہوگا.دنیا کی حکومت حقیقتی گرفت کر سکتی ہے خدا تعالیٰ کی حکومت یقیناً اس سے زیادہ گرفت کر سکتی ہے لیکن کیسی شخص پر محبت تمام کر دینا سب سے بڑا کام ہے خودسر، جوشیلے اور ہو توں لوگ اسے فضول سمجھتے ہیں لیکن عقل مند لوگ جانتے ہیں کہ سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ کسی شخص پر محبت پوری ہو جائے اور اس کے ساتھیوں اور دوسرے لوگوں پر محبت پوری ہو جائے اس کے بعد وہ خواہ عمل نہ کرے اس کے لئے یہی سزا کافی ہے.پھر خدا تعالیٰ جو سزا دے گا وہ الگ ہے.لیکن ان لوگوں سے متفق نہیں ہوں جو کہتے ہیں کہ حکومت نے پہلے کیا کیا ہے کہ ہم پھر اس کے پاس جائیں.یہاں اس بات کا سوال نہیں کہ وہ کوئی علاج بھی کرتے ہیں یا نہیں.یہ لوگ ہم پر مقرر کر دئے گئے ہیں اور انہیں خدا تعالیٰ نے ہم پر چھا کم مقرر کیا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی انہیں اسی نام سے مخاطب کریں اور کہیں کہ تم ہمارے حاکم ہوا اور امن قائم رکھنا تمہارا فرض ہے.اور اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کریں تو ہم دوبارہ انکے پاس جائیں گے اور انہیں اس طرف تو بقیہ دلائیں گے " جو لوگ مادی چیزوں کو لیتے ہیں وہ کسی افسر کے موقومت ہو جائے اور اس کے ڈیمس ہو جائے کا نام سزا رکھتے ہیں بے شک وہ مزا ہے لیکن وہ سرا گھٹیا درجہ کی ہے کسی شخص کا مجرم ثابت ہو جانا، اس کا غیر ذمہ دار قرار پانا اور فرض ناشناس قرار پاتا اس کے ڈومس ہو جائے اور حقل ہو جانے سے زیادہ خطرناک ہے.کتنے آدمی ہیں جو معطل ہوئے لیکن بعد میں آنے والوں نے انہیں بکری قرار دیا.پرانے زمانے میں کئی کمانڈر اپنی کمانوں سے الگ ہوئے.کئی بادشاہ اپنی بادشاہتوں سے الگ ہوئے لیکن بعد کی تاریخ نے انہیں بری قرار دے دیا.وہ کتنے سال تھے جو انہوں نے تکلیف میں گزار ہے یہی دس بارہ سال وہ تکلیف میں رہے اور انہوں نے ذلت کو برداشت کیا لیکن بعد کی تاریخ نے انہیں اتنا اچھا لا کہ وہی معطل شدہ کمانڈر اور بادشاہ عربات والے قرار پائے.اس کے مقابلہ میں کتنے بڑے سرکش با دشاہ اور کمانڈر گزرے ہیں جنہیں اپنے وقت میں طاقت، قوت اور دبدبہ حاصل تھا، انہوں نے ماتحتوں پر ظلم بھی گئے لیکن سینکڑوں اور ہزاروں سال گزر گئے کوئی شخص انہیں اچھا نہیں سمجھتا.ہر تاریخ پڑھنے والا انہیں ملامت کرتا
LL ہے اور انہیں حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے.ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کی اولاد بھی اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا پسند نہیں کرتی.اگر تم پر کوئی شخص ظلم اور تعدی کرتا ہے اور تم مجھے ہو کہ افسر فرض شناس ہے اور وہ تمہاری درد بھی کرے گا تو پھر بھی وہ اس وقت تک ظلم کو نہیں مٹا سکتا جب تک کہ وہ وقت نہ آجائے جو خدا تعالیٰ نے اسے مٹانے کے لئے مقرر کیا ہے.ایک صداقت کی دشمنی محض یہ نہیں ہوتی کہ اس کے قبول کرنے والے کو مارا جائے بلکہ شمنی یہ ہوتی ہے کہ اسے جھوٹا کہا جائے.اب کیا حکومتیں کیسی کو چھوٹا کہنے سے روک سکتی ہیں ؟ اگر وہ جیسے روک دیں گی تو لوگ گھروں میں بیٹھے باتوں باتوں میں جھوٹا کہیں گے اور اگر حکومت اور زیادہ دبائے گی تو وہ دلوں میں جھوٹا کہیں گے اب دلوں میں برا منانے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے ؟ اگر ایک شخص صداقت سے محروم ہے، ده نا واقف ہے اس لئے وہ صداقت سے شمنی کرتا ہے اور وہ شیطان کے ہاتھ میں پڑ گیا ہے.تو جب تک اس کا دل صاف نہ ہو اس کی دشمنی کو دور نہیں کیا جاسکتا اور جس دن اس کا دل صاف ہو جائے گا تو کیا ایسی طاقت ہے یا کوئی ایسی حکومت ہے جو اس سے مخالفت کروا سکے؟ جو لوگ احمدیت کے دشمن ہیں حکومت اگر چاہے بھی تو ان کے دلوں سے دشمنی کو نہیں نکال سکتی.اسی طرح جن لوگوں نے احمدیت کو قبول کر لیا ہے اگر حکومت بچا ہے بھی تو بھی ان کے دلوں سے بانی سلسلہ احمدیہ کی محبت کو نہیں نکال سکتی.ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے، اور جب ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے تو حکومت پر نظر رکھنی فضول ہے.تمہاری فتح دلوں کی فتح ہے اور جب دل فتح ہو جائیں گے تو تمہیں فتح حاصل ہو جائے گی.اگر تم نے دلوں کو فتح کر لیا تو تم دیکھو گے کہ یہی افسر جو آج تمہارے خلاف دوسروں کو اُکساتے ہیں ہاتھ جوڑ کر تمہارے سامنے کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے ہم تو آپ کے ہمیشہ سے مفادم ہیں " آخر کوئی حکومت برسیم ہویا غیر مسلم بڑی ہو یا اچھی اس کے بنتے ہیں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- تُونِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن
تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ لِه یعنی حکومت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکومت دیتا ہے وہ میں سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے.لوگ کہتے ہیں فلان شخص نے لڑائی کر کے حکومت لے لی ہے، فلاں شخص نے غصب کر کے حکومت لے لی ہے یا فلاں شخص نے بغاوت کر کے محکومت کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے، لیکن ہر حکومت میں خدا تعالیٰ کی مرضی ضرور شامل ہوتی ہے.جس طرح انسان کی پیدائش میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے جس طرح انسان کی موت میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے.جس طرح رزق میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے اسی طرح اس کی مرضی حکومت میں بھی شامل ہوتی ہے پیشک اس میں انسانی اعمالی کا بھی دخل ہے.بیشک اس میں انسانی کوششوں ، ہستیوں اور غفلتوں کا بھی دخل ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ ہماری طرف سے ہے.جس طرح موت اور حیات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اسی طرح حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا بھی بعد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.کسی قوم کی موت اور حیات اس کا ٹوٹ جاتا اور بنتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.جب ہم کہتے ہیں تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ نَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ لَشَاءُ - تو حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا بھی بعد اتعالیٰ کے اختیار میں ہوا.اور جس قدرا کے ہاتھ میں حکومت کا قائم کرنا ہے جس خدا کے ہاتھ میں حکومتوں کا بنتا اور ٹوٹنا ہے وہی خدا حکم دیتا ہے کہ تم اپنی تکلیفیں افسران بالا کے سامنے لے جاؤ اور اس سے فائدہ نہ اُٹھانا بیوقوفی ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم مذہبی لحاظ سے بار بار اپنی تکالیف گورنمنٹ تک پہنچائیں.اس طرح اگر کوئی افسر فرض شناس ہو گا تو وہ ہماری مدد بھی کرے گا اور میں فائدہ پہنچائے گا.لیکن اگر وہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گا تو تم بغدا تعالٰی کے سامنے یہ کہہ سکو گے کہ اسے خدا جو ذریعہ اصلاح کا تو نے بتایا تھا وہ ہم نے اختیار کیا ہے یا پھر تم یہ بات بھی مت بھولو کہ تمہارا تو حمل خدا تعالیٰ پر ہے حکومت پر نہیں پھر جہاں تمہارا یہ ه آل عمران : ۲۸
۷۹ فرض ہے کہ ان امور کو حکومت کے سامنے لے جاؤ وہاں اگر تمہیں مایوسی نظر آتی ہے تو مایوس مت ہو کیونکہ اصل بادشاہ خدا تعالیٰ ہے اور جو فیصلہ بادشاہ کرے گا وہی ہو گا انسان جو فیصلہ کرے گا وہ نہیں ہوگا.ایک افسر کی غلطی کی وجہ سے حکام کو توجہ دلانا چھوڑ نہ دو اور ایک افسر کی غفلت کی وجہ سے فائدہ اُٹھانا ترک نہ کرو محض چند افسران کا اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہونا ایسی چیز نہیں کہ تم حکام کے کام سے غافل ہو جاؤ تم انہیں تو قبہ ولاتے رہو اور ان کے پاس اپنی شکایات بنے جاؤ لیکن تمہارا ایمان تبھی مکمل ہو گا جب تم اپنی شکایات حکومت کے سامنے پیش تو کرو، تم ان امور کو لے کر افسران کے پاس جاؤ تو ضرور لیکن یہ خیال مت کرو کہ اگر وہ توجہ نہ کریں گے تو تم کو نقصان پہنچے گا.اگر یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے تو خدا تعالیٰ نے ہی اسے پورا کرنا ہے.جس دن تمہیں یہ یقین ہو جائیگا کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور وہ اسے ضرور کرے گا تو م موجودہ مخالفت سے گھراؤ گے نہیں پر انسان میں تھوڑی بہت شرافت ضرور ہوتی ہے تم اگر متواتر افسروں کے پاس بھاتے رہو گے تو ایک نہ ایک دن وہ شرما جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا نہیں کیا لیکن یہ لوگ اپنا فرض ادا کئے جارہے ہیں اور جب تم خدا تعالیٰ پر توکل کرو گے تو تم جانتے ہو کہ خداتعالی تمام رحمتوں اور فضلوں کا منبع ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ایک جماعت کو خود قائم کرے اور پھر اسے مٹا دے اس سے بڑی بے دینی اور بدظنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں چھوڑ رہے گا یا آخر میں حضور نے قوت و یقین سے لبریز الفاظ میں پیش گوئی فرمائی کہ : اگر تم نیکی اور معیارِ دین کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہو گے تو وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کبھی نہیں چھوڑے گا.اگر دنیا کی ساری طاقتیں بھی تمہاری مدد کرنے سے انکار کر دیں تو خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا.اس کے فرشتے آسمان سے اُتریں گئے اور تمہاری مدد کے سامان پیدا کریں گے یا اے مارچ ۱۹۵۲ء کا واقعہ ہے کہ چوری محمدظفر اللہ خان مینا کا پارلیمنٹ میں اعلان حق پاکستان میں بائیں باز کے بین له الفضل ۲۳ ہجرت ۱۳۳۱ پیش / ۲۳ مئی ۱۹۵۲ء ص ، ص : بعض
۸۰ لیڈروں نے پاکستان کی پارلیمنٹ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کی کہ برطانیہ اور امریکہ کے وامن سے بندگی ہوئی ہے.نیز کہا :- ہیں." وزیر خارجہ کا ریکارڈ یہ ہے کہ تین سال تک برطانوی سامراجیت کے سامنے سجدہ رینہ رہے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنے جواب میں پہلے تو چند ایک مثالیں پیش کیں جن میں پاکستان نے بڑی بڑی طاقتوں کی سخت سے سخت مخالفت کے علی الرغم مسلم ممالک کی آزادی کے لئے حمائت کی اور ان کو مدد دی.آپ نے کہا ان میں سے لیبیا، ایریٹیریا، سمالی لینڈا مرا کو ، ٹیونس اور انڈونیشیا بعض مثالیں ہیں.آپ نے ان لیڈروں کو دعوت دی کہ وہ ان مشرق وسطی کے ممالک کا دور کریں تو انہیں معلوم ہوگا کہ ان ممالک کا ہر ایک انسان معترف ہے کہ جہاں کہیں بھی آزادی، حریت اور سامراجیت کے خلاف لڑائی اور نو آبادیاتی پالیسی کی مخالفت کا سوال پیدا ہوا پاکستان ہمیشہ صف اول میں رہتا ہے.آپ نے فرمایا کہ مصری برطانوی جھگڑے میں پاکستان کا موقف یہ تھا کہ کوئی ایسا فیصلہ ہو جین سے مصری عوام کی پوری پوری تسلی ہو اور جو مصر کے وقار، عزت نفس اور علوشان کے شایاں ہو.آپ نے یہ بھی کہا کہ برطانوی ایرانی جھگڑے میں ہماری تمام جد و جہد اس اصول کے پیش نظر رہی ہے کہ اس امر کو غیر مبہم الفاظ میں تسلیم کر لیا جائے کہ ایران کو اپنی تیل کی صنعت کو قومی بنانے کا حق حاصل ہے اور یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ قومی بنانے کا اقدام اب منشورع نہیں کیا.جا سکتا.حضرت چوہدری صاحب نے برطانوی سامراجیت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے اعتراض کے جواب میں واضح لفظوں میں اعلان کیا کہ :.لیکن کبھی کسی کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوا خواہ کوئی حکومت ہو یا ایک بادشاہ بارعایا سوائے اس کے کہ جو شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے.اور چونکہ میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہوں میں کسی دوسرے کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا ہے پھر فرمایا : یں نے ہرگز کبھی کسی کے پاس کسی عہدے یا مرتبے کے لئے درخواست نہیں کی.وزارت خارجہ
جھے پیش کی گئی جیسا کہ میں غیرمنقسم ہندوستان میں اس عہدہ پر فائز تھا اور مجھے اس عزت افزائی کا فخر ہے کہ جو مجھے پاکستان کی تاریخ کے ایسے نازک مرحلے پر اس کی حقیر سی خدمت کرنے کا موقعہ دینے سے کی گئی ہے یا اے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل (۲۵) حضر مصلح موعود کی وضاحت فتح ۱۳۳۰ ش / ۲۵ دسمبر ۶۱۹۵۷ ) میں اسلامی مخلافت خلافتِ احمدیہ سے متعلق کا نظریہ کے زیر عنوان ایک پیر مغز مقالہ تحریر فرمایا جس میں یہ ذوقی بات بھی شامل ہو گئی کہ یہ اہل تقدیر ظاہر ہو کر رہے گی کہ کسی وقت احمدیت کی خلافت بھی موکیت کو جگہ دے کر دیکھے ہوئے جائے گی یہ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو یہ نظر یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصریحات اور جماعتی مسلک کے منافی معلوم ہوا اور آپ نے حضرت مصلح موعوددؓ کی خدمت میں بھی اپنی رائے عرض کر دی جس پر حضور پر نور نے موجودہ اور آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لئے حسب ذیل وضاحتی نوٹ سپر و قلم فرمایا.اعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَلَعَلَى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خُدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هى اللـ خلافت عارضی ہے یا ستقل؟ ساختی یزم مرزا منصور احمد نے میری توبہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے اور لکھا ہے کہ غالباً اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر کیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق عارضی اور وقتی ہے.یکس نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا اس خط کی بناء پر میں نے مضمون کا وہ حصہ نکال کرشنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت خلافت کے بارہ میں پیش نہیں کی گئی.ه اخبار سول اینڈ ملٹری گیٹ لاہورہا ہو ایچ ۶۱۹۵۲ مثا ترجمه و تلخیص) بحواله انفصال ۲۹ با مه چ ۱۹۵۲ روست گے یہ مقالہ اسلامی خلافت کا صحیح نظریہ" کے نام سے شائع شدہ ہے ؟
AY مرزا بشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے اس حدیث میں قانون نہیں بیان کیا گیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے حالات کے متعلق پیش گوئی کی گئی ہے اور پیش گوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے سب اوقات کے متعلق نہیں ہوتی.یہ امرکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مستبدہ نے ہوتا تھا اور ایسا ہی ہو گیا.اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا.قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت ایک انعام ہے.پس جبتک کوئی قوم اس انجام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسے ملتا رہے گا.پس جہاں کام کئے اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپنے آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کر دے لیکن اس اصل سے یہ بات ہر گز نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ بھانا لازمی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آرہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنوں میں حضرت شیخ کا خلیفہ نہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ اُمت عیسوی بھی صحیح معنوں میں شیخ کی اُمت نہیں.پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ما ضرور ہے بلکہ ہم تو یہ کھتے ہیں کہ جیسے موٹی کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسی علیہ السّلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی، اسی طرح گورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت محمدیہ تو اتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن سید محمدی کی خلافت سیح موسوی کی طرح ایک غیر معینہ وجہ تک چلتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل ہے جو امور کر تکمیل اور خوبی پر دلالت کرتے ہیں سوائے ان امور کے کہ جن سے بعض ابتلاء ملے ہوتے ہیں.ان میں علاقہ محمدیت علاقہ موسویت پر غالب آجاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کر دیتا ہے جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکایا گیا لیکن سیح ثانی صلیب پر نہیں لڑکا یا گیا کیونکہ مسیح اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اور مسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی.خلافت چونکہ ایک انعام ہے ابتلا نہیں اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ بیج اول کی اُمت کو ملیں کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں
۸۳ اور مسیح ثانی کی گشت پر محمد سی برکات ہیں.پس جہاں میرے نزدیک یہ بحث نہ صرف یہ کہ بیکار ہے بلکہ خطر ناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بخشیں شروع کر دیں وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لیے عرصہ تک پہلے گی جس کا قیاس بھی اِس وقت نہیں کیا جا سکتا اور اگر خدانخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو و حقیقی وقفہ نہیں ہوگا بلکہ ایسا ہی وقفہ ہو گا جیسے دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھسی جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں.کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ ان حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں تھا لے دفتر مجلس خدام الان نوجوانانِ احمدیت کی عالمی تنظیم خدام الاحمدیہ کے مرکزی دفتر کی بنیا د سید نا حضرت مصلح موعود نے ہر ماہ تبلیغ ۱۳۳۱ اہش / ۶ فروری ۱۹۵۲ء کو اپنے دست مبارک سے رکھی.قریباً پانچ ہزار روپیہ کی لاگت سے دفتر کے دو کمر سے اور ان کے آگے آٹھ فٹ چوڑا ہر آمدہ ، ایک سٹور اور ایک چوکیدار کا کمرہ تعمیر ہو چکا تو مورخہ ۵- اپریل ۱۹۵۲ء (مطابق ۵ شهادت ۳۳۱ اسش ، کو دفتر اپنی عمارت میں منتقل ہو گیا.اس روز سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی نے بعد نماز عصر دفتر میں تشریف لا کر افتتاحی دعا کی.دعا سے قبل حضور نے مجلس کے دفتر بنانے پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور اسے جلد مکمل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اس موقعہ پر حضور نے ایک مختصر مگر ایمان افروز خطاب کیا جس میں فرمایا :- اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگوں میں رہنا چاہیئے اور اپنا کام کرتے پچھلے بنانا چاہیئے ہم چوہوں اور چھوٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتے ہیں.شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو انسان ان کا تیار کیا ہوا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کا مینا رہتی ہیں.اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے به روزنامه الفضل ۳ شهادت ۳۳۱ ایش/ ۳ اپریل ۱۱۹۵۲ ص ۳ + سے روزنامه الفضل ۱۷ شهادت ۱۳۳۱ مش / ۱۶- اپریل ۱۹۵۲ء
مر جائیں.اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں تمہیں خدا تعالیٰ نے رکھا ہے تمہیں اسی میں فورا کام شروع کر دینا چاہئیے.اگر خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جا کر کام شروع کرد و لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو دیکھے نہ ڈالو.مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یا نخک کہ اسے موت آجاتی ہے.گویا مومن کے لئے کا م ختم کرنے کا وقت موت ہوتی ہے ؟ اسے لئے کام فصل مفتیم مجلس مشاورت ۳۳۱ آتش /۱۹۵۲ء کا انعقاد چنده تعمیر سعد کا منتقل نظام اشاعت لٹریچر کیلئے دو کمپنیو کی • قیام کا اعلان.مکمل مرکزی لائبریری کا منصو ۱۳-۱۲-۱۱ ماه شهادت ۳۳۱ آتش مجلس مشاورت ۳۳۱ آتش او اور ایل اپریل ۱۹۹۲ و جاعت احمدیہ کی اہش فیصلے کو تینتیسویں مجلس مشاورت کا ربوہ میں انعقاد ہوا.حضرت مصلح موعود نے افتتاح مشاورت سے قبل خطبہ جمعہ بلی صحت خطبه جمعه من نصیحت میں فرمائی کہ :." جب تک کسی قوم کے افراد اپنے اعداد صحیح تبدیلی پیدا نہ کریں، وہ اپنے اندر سچا تقولی نہ پیدا کریں ، وہ اپنے اندر در میانہ روش کی روح پیدا نہ کریں یا وہ اپنے اندر سوچنے اور شکر کرنیکی مشعل راه م۳ (خدام الاحمدیہ سے تعلق سیدناحضرت امیر المومنين خلية اسم الثاني الصلح الموعود في اله عنہ کے خطبات و تقاریر کا مجموعہ شائے کو دلیلیں خدام الاحمدی مرکزی اور پاکستان) تاریخ اشاعت در نشریه
۸۵ روج پیدانہ کریں یا وہ اپنے اندر عقل اور دانائی سے کام لینے کی روح پیدا نہ کریں ، اس کے نمائندہ سے بھی در حقیقت صحیح رستہ اور سچائی سے ایسے ہی دور ہوں گے جیسے اس جماعت کے افراد جن کا کوئی نمائندہ نہیں ہوتا.پس یہ جو ہم شوری کرتے ہیں وہ اس غرض کو تو پورا کرتی ہے کہ اگر جماعت کے افراد صحیح ہوں تو شورای مفید ہو سکتی ہے لیکن اس غرض کو پورا نہیں کرتی کہ اس کے افراد ٹھیک ہوں افراد کا ٹھیک ہونا ان کے اپنے ارادے اور کوشش کے صحیح ہونے پر مبنی ہے.یہ وہ کام ہے جو آپ لوگ کر سکتے ہیں کوئی نمائندہ نہیں کر سکتا.دل کی اصلاح کے لئے انسان کی اپنی بعد وجہد کی ضرورت ہے.اس کی اپنی کوشش کی ضرورت ہے.اگر تم ٹھیک ہو جاؤ تو تمہاری شوری اور مشورے بھی ٹھیک ہو جائیں اور پھر صحیح مشورے پورے بھی ہو جائیں کیونکہ اگر تم صحیح ہو گے تو تم اپنے مشوروں کو پورا کرنے کی کوشش کرو گے یہ لے مشاورت دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہال میں منعقد ہوئی جس مشاورت کے عمومی کوائف میں سے نمائندوں نے شرکت فرمائی.بیرونی مالک میں سے ۳۷۳ راس مرتبہ جرمنی، امریکہ، سوڈان، انڈونیشیا اور چین کے نمائندے بھی شامل ہوئے فیصلہ ہوا کہ آئندہ سال نیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے قریباً تیرہ لاکھ روپیہ خرچ کیا جائے بعد رامین کا میزانیہ جس کی منظوری حضرت امام ہمام نے عطا فرمائی پندرہ لاکھ 24 ہزار روپیہ پشتمل تھا.اس تقریب پر حضور نے تعمیر مساجد کے چندہ کی فراہمی چند تعمیر مساجد کا مستقل نظام کے لئے ایک مستقل نظام تجویز فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ (1) ملازم ہمیشہ اپنی سالانہ ترقی کے پہلے ماہ کی رقم (۲) بڑے پیشہ ور ایک مہینے کی آمد کا پانچواں حصہ (۳) چھوٹے پیشہ ور مہینے کی کسی معینہ تاریخ کی مزدوری کا دسوای حصہ (۴) تاجر اصحاب مہینہ کے پہلے سودا کا منافع اس میں دیا کریں.اور (۵) زمیندار احباب ہر فصل پر ایکٹر زمین میں سے ایک کرم کے برابر چندہ تعمیر مساجد ادا کیا کریں.مندرجہ بالا طبقوں کے نمائندوں نے خلیفہ وقت کے سامنے بشاشت کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ مجوزہ نظام کے مطابق بالالتزام چندہ دیا کریں گے.اس موقعہ پر سیالکوٹ کے ایک تاجر دوست الفصل ۲۳ شهادت ۳۳۱ آش ص :
лу خواجہ محمد یعقوب صاحب نے حضور کی خدمت میں ایک سو روپیہ اس فنڈ کے لئے پیش کیا جس پر حضور کی خدمت بابرکت میں نقدی پیش کرنے کی ایک عام رو پیدا ہوگئی اور حضور کے اردگرد اتنا ہجوم ہو گیا کہ نظم و ضبط کی خاطر انہیں قطاروں میں کھڑا کرنا پڑا چنا نچہ دیکھتے ہی دیکھتے چار ہزار سے زائد روپیه نقد اور ایک ہزار روپیہ سے زائد کے وعدے وصول ہو گئے.خواتین کی طرف سے /۹۰/۶ نقد کے علاوہ دو طلائی انگوٹھیاں بھی حضور کی خدمت میں پیش ہوئیں.چندہ دینے کا یہ سلسلہ ابھی پورے جوش و خروش سے بھاری تھا کہ حضور نے مجلس کی کارروائی کی خاطر اسے روک دینے کا اعلان کیا اور ارشاد فرمایا کہ مسجد فنڈ کے مزید چندے اور وعدے بعد میں دئے جائیں لیے سب سے پہلے احمدی تاجر جنہوں نے مشاورت کے معا بعد اس مالی جہاد میں حصہ لیا اور ڈھائی سور و پیر اس مد میں بھیجوایا حضرت شیخ کریم بخش صاحب آف کوئٹہ کے فرزند شیخ محمد اقبال صاحب ہیں جن کا ذکر خصوصی خود حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ ۲۶ ہجرت ۱۳۳۱اہش میں فرمایا.قیام کا انہوں نے اس شادی پہ اشاعت اشاعت لٹریچر کیئے دوکیوں کے قیام کا اعلان کر کے نئے صدر بھی حمیدہ اور لڑیچر کے انجمن تحریک تجدید کی دو اشاعتی کمپنیوں کے قیام کا بھی اعلان فرمایا.ایک کمپنی اردو لٹریچر کے لئے اور ایک کمپنی غیر ملکی زبانوں خصوصاً عربی زبان کے لٹریچر کے لئے !! کمپنیوں کے سرمایہ کی نسبت حضور نے پر فیصلہ فرمایا کہ: مخلافت جوبلی فنڈ کا روپیہ جو دولاکھ ستر ہزار کے قریب ہے کیں اس کمپنی کو دیتا ہوں جو صدر انجین احمدیہ کی ہوگی.اس کے علاوہ گزشتہ سالوں میں صدر انجمن احد یہ چھ ہزار روپیہ سالانہ مجھے گزارہ کے لئے قرض کے طور پر دیتی رہی ہے بعض سالوں میں اس سے کم رقم بھی لی ہے ہر حال آپ لوگ مجھے امداد کے طور پر وہ رقم دینا چاہتے تھے اور میں نے قرض کے طور پر لی.اب میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو بھی جب یکی اورا کر نے کے قابل ہوسکوں تو اس مد میں ادا کر دوں.اس رقم کو ملاکر تین لاکھ ستر ہزار بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ رقم جمع ہو جائے گی کچھ سرمایہ پہلے سے اس مد میں فروخت کتب سے حاصل ہو چکا ہے اسے ملا کہ قریباً چار لاکھ روپیہ کا سرمایہ ہو جاتا ہے.جب کمپنی جاری ہو تو اس له الفضل ۷ شهادت ۳۳۱ آہش ص : الفضل ۱۳- احسان ۳۳۱ اش صدا
AL وقت ایک لاکھ کے حصے اگر صاحب توفیق احباب خرید لیں تو پانچ لاکھ سرمایہ ہو جائے گا اور یہ اتنا بڑا سرنا یہ ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا پر یس اور کافی کتب شائع کی جا سکتی ہیں یسر دست یکں اس غرض کے لئے چار لاکھ سرمایہ کی ہی اجازت دیتا ہوں، اگر ضرورت پڑی تو بعد میں اس رقم کو بڑھنا یا بھی جاسکتا ہے.جب اس کمپنی کی وجہ سے آمد شروع ہوگئی تو چونکہ خلافت جوبلی فنڈ کے روپیہ پر اس کی بنیا د رکھی گئی ہے اور یکں نے اس فنڈ سے وظائف دینے کا بھی اعلان کیا تھا اس لئے آمد کے پیدا ہونے پر اس کا ایک حصہ وظائف میں بھی جا سکتا ہے.اب رہ گئی تحریک بعدید کی چار لاکھ روپیہ کی کمپنی حسین کا کام اُردو کے سوا دوسری زبانوں میں لٹریچر شائع کرنا ہو گا، اس کمپنی کے سرمایہ کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے غیر نہ بانوں میں تراجم کا کام چونکہ اس کا حصہ ہے اور اس کا سرمایہ ہماری جماعت دنئی سال سے جمع کر چکی ہے جود و لاکھ کے قریب ہے اس لئے میں یہ یصلہ کرتا ہوں کہ تراجم قرآن کا دو لاکھ روپیہ اس کمپنی کو دے دیا جائے.وہ تراجم بھی یہی کمپنی شائع کرے گی اور اس کے علاوہ دوسرا لٹریچر بھی یہ کمپنی شائع کرے.باقی کولاکھ روپیہ رہ گیا اس کے لئے میرے ذہن میں ایک اور مورت ہے، اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور وہ کام بن جائے تو اس کمپنی کے لئے بھی پورا سرما بہ حاصل ہو سکتا ہے، میرے ذہن میں جو صورت ہے وہ ایسی نہیں کہ فوری طور پر روپیہ مل جائے لیکن ہر حال اگر کوشش کی جائے تو مجھے امید ہے کہ دو لاکھ روپیہ ہمیں مل جائے گا.اس کے لئے ایک زمین کو فروخت کرنے کی ضرورت ہے جو مجھے کیسی دوست نے تحفہ کے طور پر پیش کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ تحفہ بھی اس طرف منتقل کر دوں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کئے جائیں یا لے اس عظیم الشان سکیم کے مطابق" الشركة الاسلامیہ" اور " دی اورینٹل اینڈ ریلیجین پیشنگ کارپوریشن لمیٹیڈ کے نام سے دو مستقل اشاعتی ادارے معرض وجود میں آئے جن کی بدولت مسلسلہ احمدیہ کا اُردو عربی اور انگریزی لٹریچر کثیر تعداد میں چھپ کر منظر عام پر آچکا ہے لیئے اس مشاورت کو خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس ایک مکمل مرکزی لائبریری کا منصوبہ میں حضور نے پہلی بار جماعت احمدیہ کے سامنے ایک ہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۳ ء کا اتنا بے کے تفصیل اپنے مقام پر آئے گی :.
AA ایسی مکمل اور تجدید لٹریچر سے آراستہ لائبریری کا منصوبہ رکھا جو سلسلہ احمدیہ کی جمع علمی و تبلیغی ضرورت میں اس کو خود کفیل بنا دے.حضرت مصلح موعود کے ذہن میں جماعت احمدیہ کی مرکز کی لائیر یہ ہی اور اس کے کارکنوں کے فرائض کا نقشہ کیا تھا ؟ اس کی تفصیل حضور انور کے مبارک الفاظ ہی میں درج ذیل کی جاتی ہے.فرمایا :- لائبریری ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی تبلیغی جماعت اس کے بغیر کام نہیں کر سکتی...یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ ہیں تبلیغ اسلام مخالفوں کے اعتراضات کے جواب تو بیت یہ سب کام لائبریری ہی سے تعلق رکھتے ہیں.اس وقت تک جتنا کام ہو رہا ہے یا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی لائبریری سے ہو رہا ہے اور یا پھر میری لائبریری سے ہو رہا ہے لیکں نے اپنے طور پر بہت سی کتابیں جمع کی ہوئی ہیں جن پر میرا انچاس ساٹھ بلکہ ستر ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو کتابوں کا شوق تھا اور آپ نے بھی ہزاروں کتابیں اٹھی کی ہوئی تھی.وہ کام آتی ہیں لیکن وہ جماعت جو ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کے کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے اس کے علوم کی بنیاد کسی دوسرے شخص کی لائبریری پر ہونا عقل کے بالکل خلاف ہے.ہمارے پاس تو اتنی مکمل لائبریری ہونی چاہیئے کہ جس قسم کی مکمل مذہبی لائبریری کسی دوسری جگہ نہ ہو مگر ہمارا خانہ اس بارہ میں بالکل خالی ہے.پچھلے سال لائبریری کی مدمیں میں نے کچھ تم رکھوائی تھی مگر وہ زیادہ ترا الماریوں وغیرہ پر ہی صرف ہوگئی.شائد بارہ چودہ سو روپیہ الماریوں پر صرف ہو گیا تھا باقی جو روپیہ بچا اس میں سے ایک کتاب ہی آٹھ سو اسی روپیہ میں آئی ہے اور جو باقی کتابیں منگوائی گئی ہیں ان کی قیمت سردوست امانت سے قرض لے کر دی گئی ہے.مرض میں نے ایک خاصی رقم کتابوں کے جمع کرنے پر خرچ کی ہے تقسیم کے وقت قادیان میں میری لائبریری کی بہت سی کتابیں رہ گئیں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی لائیر بوی کا بھی ایک اچھا خاصہ حصہ وہیں رہ گیا اور گورنمنٹ نے اس لائبریری کو تالا لگا دیا میرے بیٹے چونکہ وہاں موجود تھے اس لئے لیکن شروع ہجرت میں ان کو لکھتا رہا کہ میری کتابیں بھیجوانے کی کوشش کرو چنانچہ انہوں نے میری بہت سی کتب بھجوا دیں لیکن انہیں کے نمائندوں نے ہوشیاری سے کام نہ لیا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی کتابوں کا اکثر حصہ وہیں رہ گیا...
۸۹ پھر دنیا میں نئی سے نئی کتابیں نکل رہی ہیں اور ان کتابوں کا منگوانا بھی ضروری ہے صرف مذہب سے تعلق رکھنے والی ہی نہیں بلکہ تاریخی اور ادبی کتابیں منگوانا بھی لائبریہ ہی کی تکمیل کے لئے ضروری ہوتا ہے.میرا اندازہ یہ ہے کہ اچھی لائبریری وہ ہو سکتی ہے جس میں کم سے کم ایک لاکھ پہلے منتخب کردہ کتب کی موجود ہو.اور اگر ایک جلد کی اوسط قیمت ۲۵ روپے لگائی جائے تو میرے نزدیک صرف ایک لائبریری کے لئے پچیس لاکھ روپیہ ہونا چاہیے لیکن ظاہر ہے کہ پچیس لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی ہم میں ہمت نہیں.ایسی صورت میں یہی طریق رہ جاتا ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق اس بوجھ کو اٹھائیں اور اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ اس کام کو اپنے سامنے ھیں اور اپنی لائبریری کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرتے پہلے جائیں.لائبریری کا بجٹ بھی پرائیویٹ سیکرٹری کے پیٹ میں ہو گا گو اس کے خرچ کا تعلق لائبریری سے ہو گا.عام طور پر ہمارا طریق یہ ہے کہ جب ہم یکھتے ہیں کہ ہم میں کسی کام کی تہمت نہیں تو ہم اس کام کو کرتے ہی نہیں حالانکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیئے.پیس کی تجویز کروں گا کہ فائنانس کمیٹی ان تمام حالات کو دیکھ لے اور پیٹ میں اس کی گنجائش رکھتے.اور جماعت کو بھی اس بات کی اجازت ہوگی کہ اگر وہ دیکھے کہ میری کوئی تجویز ضروری تھی مگر فائنانس کمیٹی نے اس طرف توجہ نہیں دی تو وہ ترمیم کے طور پر اس کو بیان مجلس میں پیش کر دے میری تجویز یہ ہے کہ سیر دوست ہم کو دنس ہزار روپیہ سالانہ کے خرچ سے لائبریری کے کام کو شروع کر دینا چاہیئے لیکن دس ہزار روپیہ سالانہ خرچ کرنے کے بھی یہ معنے ہیں کہ ہم اڑھائی سو سال میں پچیس لاکھ روپے کی کتابیں اکٹھی کر سکیں گے.پس میرا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ہمیشہ دن ہزار روپیہ پر ہی کھڑے رہنا چاہئیے جوں جوں ہماری تبلیغ بڑھے گی اور چندہ میں زیادتی ہو گی یہ رقم بھی بڑھتی چلی جائے گی.چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ چاہیے تو ہم اس خرچ کو کسی وقت لاکھ دو لاکھ بلکہ دس پندرہ لاکھ سالانہ بھی کر سکتے ہیں.یہ دن ہزار و پیر صرف کتابوں کے لئے ہو گا.عملہ جو تھوڑا بہت پہلے بجٹ میں رکھا جا چکا ہے وہ الگ ہوگا شائد اس میں بھی کچھ زیادتی کرنی پڑے گی کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ لائبر یہ مین کے طور پر صرف ایک ہی نیا آدمی کھا گیا ہے حالانکہ وہاں کم از کم دو آدمی اور ہونے چاہئیں.له FINANCE COMMITTY (مانیات کی نیتی)
۹۰ لائبریرین کا کام ایسا ہے کہ اس کے لئے آجکل پاس شدہ آدمی رکھے جاتے ہیں.پہلے انسان گریجوایٹ ہو اور پھر لائبریری کا امتحان پاس کرے تب وہ لائبریرین لگایا جاتا ہے ورنہ نہیں لائبریرین کے معنے محض چپڑاسی یا کتابوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے نہیں ہوتے بلکہ لائبریرین کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مختلف مضامین کی کتابوں سے واقف ہو اور جب اس سے پوچھا جائے کہ فلاں فلاں مضمون پر کون کون سی کتابیں دیکھنی چاہئیں تو وہ فوراً ان کتابوں کے نام بتا سکے اور پوچھنے والے کی رہنمائی کر سکے کہ اسے کسی کتاب سے کسی قسم کی مدد مل سکتی ہے یا لائبریری میں ہر فن کے جاننے والے آدمی ہونے چاہئیں.ان کا کام یہ ہو کہ وہ کتابیں پڑھتے رہیں اور ان کے خلاصے نکالتے رہیں اور ان خلاصوں کو ایک جگہ منتھی کرنے پہلے جائیں.اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب لوگوں کو ان کتابوں کے حوالوں کی ضرورت ہوگی وہ خلاصہ سے فور ضروری باتیں اخذ کر لیں گے مثلاً ہماری جماعت کا یہ ایک معروف مسئلہ ہے کہ حضرت شیخ کشمیر گئے تھے.اب شیخ کے کشمیر جانے کا کچھ عرصہ انجیلوں سے تعلق رکھتا ہے کچھ انجیلوں کی تفسیروں میں محبت آئیگی کہ یہ جو لکھا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی طرف نہیں بھیجا گیا، اس میں کھوئی ہوئی بھیڑوں سے بنی اسرائیل کے کون کون سے قبائل مراد ہیں اور شیح ان کی تلاش کے لئے کہاں کہاں گئے ؟ یا یہ جولکھا ہے کہ شیخ گھر میں غائب ہو گیا اس کے کیا معنے ہیں ؟ یہ فقرہ بنا تا ہے کہ اس میں شیخ کے سفر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.عرض جو لوگی تفسیر کریں گے اُن کا ذہن اس طرف ضرور جائے گا کہ ان ففروں کا اصل کیا ہے ؟ اور وہ اس پر بحث کریں گے.جس طرح ہمارے ہاں تفسیریں ہیں اسی طرح عیسائیوں میں بھی سینکڑوں تفسیریں ہیں.اب جو لائبریرین مقرر ہوں گے ان میں سے وہ جو عیسائی لڑ پچر پر مقرر کیا جائے گا اس کا کام یہ ہوگا کہ وہ زائد وقت میں تمام تفاسیر پر نظر ڈالتا چلا جائے اور ان کے انڈکس تیار کرتا چلا جائے جس وقت ہم کو کسی تحقیق کی ضرورت ہو گی ہم انچارج کو بلا کر کہیں گے کہ کتابوں پریشان لگا کر لاؤ کہ مفسرین نے اِس بارہ میں کہاں کہاں بحث کی ہے.پھر یہی مضمون تاریخوں میں بھی آتا ہے چنانچہ اس کے بعد تاریخوں کے ماہر کو بلایا جائے گا اور اسے کہا جائے گا کہ اس اس مضمون کے متعلق تاریخی کتابوں پر نشان لگا کر لاؤ.اس طرح کتاب لکھنے والا آسانی اور سہولت کے ساتھ کتاب لکھ لے گا.کتاب والے کا یہ فن ہو گا کہ وہ اپنی کتاب کے لئے چند
۹۱ اصول تجویز کرے اور پھر اپنے مضمون کو ترتیب دے اور اسے ایسی عبارت میں لکھے جو مونر اور اونشین ہو.گویا لڑنے والا حصہ اور ہوگا اور گولہ بارو د تیار کرنے والا حصہ اور ہو گا.کیا تم نے کبھی کوئی سپاہی ایسا دیکھا ہے جسے لڑائی پر جانے کا حکم ملے تو وہ کار توس بنانا شروع کر دے یا بندوق بنانا شروع کہ دے.کیا کبھی تم نے کبھی دیکھا کہ کسی کو د ترس مقرر کیا گیا ہو تو ساتھ ہی اسے یہ کہا گیا ہو کہ اب جغرافیہ پر ایسی کتاب لکھ دو جو پڑھانے کے کام آسکے." ہمیشہ اصل کام والا حصہ الگ ہوتا ہے اور تعاونی حصّہ الگ ہوتا ہے ؛ در حقیقت لائبریرین کے عہدہ پر ایسے آدمی ہونے چاہئیں جو صرف و نحو کا علم رکھتے ہوں، تاریخ جانتے ہوں ، حدیث ، فقہ، اصول فقہ ، تفسیر قرآن اور اصولی تغیر سے تعلق رکھنے والے تمام علوم سے آگاہ ہوں اور جب مصنفین کو حوالہ جات وغیرہ کی ضرورت ہو تو وہ کتابیں نکال نکال کہ ان کے سامنے رکھتے پہلے جائیں.جیسے لڑنے کے لئے سپاہی بھاتا ہے تو اُسے و روی تم سلا کر دیتے ہوا اسے گولہ بارود خود تیار کر کے دیتے ہو.اس کے بعد ہمیں ضرورت ہوگی کہ جرمن جاننے والے آدمی ہمارے پاس موجود ہوں.فرانسیسی بجاننے والے ہمارے پاس موجود ہوں، انگریزی جاننے والے ہمارے پاس موجود ہوں.اسی طرح عربی علوم کے جاننے والے لوگ موجود ہوں.کوئی تفسیر کا ماہر ہو.کوئی حدیث کا ماہر ہو.کوئی گفت کا ماہر ہو اور ان کا کام یہی ہو کہ وہ رات دن ان کتابوں کا مطالعہ کرتے رہیں اور ان کے خلاصے تیار کرتے رہیں.پھر کچھ لوگ ایسے ہوں جو سلسلہ کے خلاف دشمنوں کا شائع کر دہ لڑ پچر ہی پڑھتے رہیں.کچھ لوگ ایسے ہوں جو وفات مسیح وغیرہ کے متعلق نئے دلائل کی جستجو میں مشغول رہنے والے ہوں.اب تو اس مسئلہ پر کچھ لکھتے ہوئے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ یہ ضمون پامال ہو چکا ہے لیکن بعض دفعہ کوئی نیا نکتہ بھی ذہن میں آجاتا ہے بعض دفعہ کوئی نیا اعتراض آ جاتا ہے جس کے متعلق انسان سمجھ لیتا ہے کہ اس کا حل ہونا ضروری ہے.یہ لائبریرین کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ فلاں فلاں مسائل پر ہمارے علماء نے روشنی نہیں ڈالی یا ان کو این این کتابوں سے مدد مل سکتی ہے.گویا لائبریری ایک آرڈینینس ڈپو یا سپلائی ڈپو ہے جو مبلغین اور علماء سلسلہ کی مدد کے لئے ضروری ہے.یہ کام بہت بڑا ہے.لیکن جب حساب لگاتا ہوں تو میرا اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے پاس
۹۲ ایک لا کھ کتاب ہو تو ہمارے پاس پچاس آدمی لائبریرین ہونا چاہیئے جن میں سے کچھ نئی کتابوں کے پڑھنے میں لگا رہے، کچھ پرانی کتابوں کے خلاصے تیار کرنے میں لگا ر ہے، کچھ ایسے ہوں جو طلباء کے لئے نئی نئی کتابوں کے ضروری مضامین الگ کرتے چلے جائیں تاکہ وہ تھوڑے سے وقت میں ان پر نظر ڈال کر اپنے علم کو بڑھا سکیں.حقیقت یہ ہے کہ طالبعلموں کو جو سکولوں اور کالجوں میں کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان سے دنیا میں وہ کوئی مفید کام نہیں کر سکتے کیونکہ وہ صرف ابتدائی کتا بیں ہوتی ہیں مگر پھر بھی کسی کالج اور سکول سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ہر طالب علم کولاکھ لاکھ ڈو ڈولا کھ کتاب پڑھا دے.یہ لائبریرین کا کام ہوتا ہے کہ وہ ایسے خلاصے نکال کر رکھیں کہ جن پر طلباء کا نظر ڈالنا ضروری ہو.اور جن سے تھوڑے وقت میں ہی وہ زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہوں" " عرض یہ کام نہایت اہم ہے اس کے بغیر ہماری جماعت کی علمی ترقی نہیں ہوسکتی.مرکزی لائبریری یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی لائبریری بھی اسی میں شامل ہو جائے گی اور پھر میری کتابیں بھی آخر آپ لوگوں کے ہی کام آتی ہیں.اس طرح پانچ سات سال میں اس قدر رکھتا ہیں جمع کر لی جائیں کہ ہر قسم کے علوم ہمارے پاس محفوظ ہو جائیں لے کے حضرت امير المؤمنين الصلح الموعود نے مشاورت کے پر اثر اختتامی اختتامی خطاب خطاب میں جماعت احمدیہ کے بین الاقوامی نصب العین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:.ہمارامقابلہ اڑھائی کروڑیا تین کروڑ سے نہیں بلکہ ہمارا مقابلہ اڑھائی ارب سے ہے اور یہ مقابلہ کم نہیں.جو حالت آپ لوگوں کی ہے وہی حالت ہماری ہے.ہم نے دنیا میں تبلیغ کرتی ہے ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صد تا مشاو نه جیسا کہ ۱۳۳۱اہش / ۱۹۵۲ء کے واقعات کی آخری فصل میں ذکر آ رہا ہے حضرت مصلح موعود نے اس منصوبہ کی داغ بیل کے طور پر اپنی ذاتی لائبریری اور صدر انجین احمدیہ کی لائبریری کو مدغم کر کے خلاف لائبریری قائم فرما دی جس نے خلافت ثانیہ کی علمی ضروریات کو پورا کرنے ہیں اہم کردار ادا کیا.ازاں بعد حضرت خلیفہ السیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۸ صلح ۱۳۴۹ اتش / ۸ استیوری 19ء کو خلافت لائبر میری ربوہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور اسر الفاء ۱۳۵۰ پیش ۳ اکتوبر ۱۹۷۱ء کو ان کا انفتاح فرمایاره و تفصیل خلافت نمائشہ کے حالات میں آئے گی ؟
۹۳ حوصلہ پست نہ کیجئے اور یہ مت کہئے کہ فلاں رعایت ملے گی تو کام ہو گا.اگر پنجاب والے حوصلہ چھوڑ دیں تو کام ہی رک جائے.تم اپنا کام بھی کرو اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی تبلیغ کا کام کر وہ کسی مومن کے ذمہ کوئی خاص گھر نہیں، کوئی خاص گاؤں نہیں ، کوئی خاص شہر نہیں، کوئی خاص ملک نہیں بلکہ ساری دنیا ہے ہے فصل شتم حضرت سید نصرت جهان بینی کا انتقال می محمدی علیہ السلام کے یوم وصال ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کی طرح ہے اپریل ۱۹۵۲ء کی درد بھری رات بھی سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی.یہ وہ رات تھی جس میں جماعت احمدیہ اور مہدی موعود کے درمیان وہ زندہ واسطہ جو حضرت ام المومنین سیده نصرت جہاں بیگم کے مقدس وجود کی شکل میں اب تک باقی تھا آپ کی وفات کے ساتھ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا.حضرت سید و نصرت جهان بیگم موم مسیح پاک قریباً دو ماہ سے بیمار تھیں.ڈاکٹرتی شخص علالت کے مطابق گردوں کے فعل میں نقص پیدا ہو جانے سے بیماری کا آغاز ہوا اور پھر اس کا اثر ویل پر اور تنفس پر پڑنا شروع ہوا بیماری کے حملے وقتاً فوقتاً بڑی شدت اختیار کرتے رہے لیکن آپ نے ان تمام شدید حملوں میں نہ صرف کا مل صبر و شکر کا نمونہ دیکھا یا بلکہ بیماری کا بھی نہایت ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا.اس موصہ میں لاہور سے علی الترتیب ڈاکٹر کرنل ضیاء اللہ صاحب، ڈاکٹر غلام محمد صاحب بلوچ اور ڈاکٹر محمد یوسف صاحب علاج کے لئے بلائے جاتے رہے.ان کے ساتھ مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب بھی ہوتے تھے لیکن وقتی افاقہ کے سوا بیماری میں کوئی تخفیف ے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ و اصلا ( یہاں اشارہ بنگالی احمدیوں کی طرف ہے جن کے امیر صاحب صوبائی نے مشاورت ہمیں بعض مطالبات پیشی کہتے تھے ) :
۹۴ کی صورت پیدا نہ ہوئی.اس کے بعد حکیم محمدحسن صاحب قرشی کو بھی بلا کر دکھایا گیا جن کے ساتھ حکیم محمد حسین صاحب مرسم عیسی بھی تھے لیکن ان کے علاج سے بھی کوئی تخفیف کی صورت پیدا نہ ہوئی.مقامی طور پر ڈاکٹر صا حبزادہ مرزا منور احمد صاحب بھی معالج تھے جن کے ساتھ بعد میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی شامل ہو گئے اور چند دن کے لئے درمیان میں ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب نے بھی علاج میں حصہ لیا.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک خواتین او نونهال نهایت تندہی کے ساتھ خدمت میں لگے رہے.بالآخر ۲ شہادت ۳۳۱ امش / ۲۰ اپریل ۱۹۵۲ء کی صبح کو ساڑھے تین بجے کے قریب دل میں ضعف کے آثار پیدا ہوئے جو فوری علاج کے نتیجہ میں کسی قدر کم ہو گئے مگر دن بھر دل کی کمزوری کے حملے ہوتے رہے.اس عرصہ میں حضرت سیدہ کے ہوش و حواس خدا کے فضل سے اچھی طرح قائم رہے.صرف کبھی کبھی عارضی غفلت سی آتی تھی جو جلد دور ہو جاتی تھی.رات پونے نو بجے آپ نے دل میں زیادہ تکلیف محسوس کی اور اس کے ساتھ ہی نظام تنفس میں خلل آنا شروع ہو گیا اور نبض کمزور پڑنے لگی.ڈاکٹر صا حبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے خود ہی ٹیکے وغیرہ لگائے مگر کوئی افاقہ کی صورت پیدا نہ ہوئی.اس وقت حضرت اہاں جانی نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ قرآن شریف پڑھو چنا نچہ حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے چھوٹے صاحبزادے میر محمود احمد صاحب نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا.اس وقت حضرت امیرالمونی خلیفة المسیح الثانی الصلح الموعودہؓ آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے آپ نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا دعا کریں چنانچہ حضور بعض قرآنی دعائیں کسی قدر اونچی آواز سے دیرہ تک پڑھتے رہے.اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود حضرت اماں جان مصروف دعا ہیں.آپ کی نفیض اس وقت بیحد کمزور ہو چکی تھی بلکہ اکثر اوقات محسوس تک نہیں ہوتی تھی لیکن ہوش و حواس بدستور قائم تھے اور کبھی کبھی آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد نظر ڈالتی تھیں اور آنکھوں میں شناخت کے آثار بھی واضح طور پر موجود تھے.حضرت امیر المومنین تھوڑے وقفہ کے لئے باہر تشریف لے گئے تو حضرت مرزا بشیر احد صا حدیث ، حضرت سیدہ کے سامنے بیٹھ کر دعائیں کرتے رہے.اس وقت بھی آپ آنکھ کھول کر دیکھتی تھیں ے حال پر و فیسر بھا معہ احمدیہ دیوہ *
۹۵ اور المینا معلوم ہوتا تھا کہ دعا میں مصروف ہیں.دیگر عزیز بھی چار پائی کے اردگرد موجود تھے اور اپنے اپنے رنگ میں دعائیں کرتے اور حسب ضرورت خدمت بجالاتے تھے.سوا گیارہ بجے شب کے بعد آپ نے اشارہ کروٹ بدلنے کی خواہش ظاہر فرمائی لیکن کروٹ بدلتے ہی بعض کی حالت زیادہ مخدوش ہو گئی اور چند منٹ کے بعد تنفس زیادہ کمزور ہونا شروع ہو گیا.بالآخر ساڑھے گیارہ بجے شب آپ کی روح اپنے مولا لئے حقیقی کے حضور پہنچ گئی.انا وفات اللَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - 6 بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل کو جان فدا کر وفات کے وقت آپ کی مبشر اولاد میں سے حضرت امیر المؤمنین الصلح الموعود ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت سیدہ نواب مبار که میگم صاحبہ اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ آپ کے پاس موجود تھے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب چند روز قبل ربوہ آکر لاہور واپس تشریف لے گئے تھے اور وفات کی خبر پانے کے بعد ربوہ پہنچے بیلے خاندان سیح موعود کے دیگر افراد اور مجملہ امراء جماعت کو اس بیرونی احباب کو اطلاع اندوہناک حادری کی فی الورد اطلاع بذریعہ ایکسپریس تا دیدی گئی.تار کے الفاظ یہ تھے :- "HAZRAT UMMUL-MUMENEEN PASSED AWAY ELEVEN THIRTY TONIGHT-INNALILLAH JANAZA 5 A.M.TUESDAY MORNING” (ترجمہ) ریوه اپریل (سوا بارہ بجے شب ) حضرت ام المؤمنین رضی الله عنها آج شب ساڑھے گیارہ بجے انتقال فرما گئیں.اِنَّا لِلهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ - نماز جنازہ منگل کو صبح پانچ بجے ادا کی جائے گی.که روزنامه افضل لاہور ۲۳ شهادت ۳۳۱ امتش مطابق ۲۳ را پریل ۱۹۵۲ء ص : صل
۹۶ صبح سوا آٹھ بجے ریڈیو پاکستان لاہور نے حضرت سیدہ محمد وعبہ کی وفات کی :- ریڈیو پر خبر خبر حسب ذیل الفاظ میں نشر کی :.یہ ہم افسوس سے اعلان کرتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی توجیہ محترمہ گذشتہ رات ساڑھے گیارہ بجے ربوہ میں انتقال کرگئیں.آپ جماعت احمدیہ کے موجودہ امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی والدہ ہیں.جنازہ کل صبح ۵ بجے ربوہ میں ہوگا یا اے آپ ایک تھان قادیان دارالامان سے بوقت ہجرت ساتھ لائی ہوئی تھیں اور اکثر فرمایا تکفین کرتی تھیں کہ میں نے اسے اپنے کفن کے لئے رکھا ہوا ہے.علاوہ ازیں حضرت مہنگی معهود و مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا ایک تریک گرت بھی ملک کا آپ نے محفوظ رکھا ہوا تھا چنانچہ غسل کے بعد پہلے یہ مبارک گرتہ اور پھر کفن پہنایا گیا.حضرت امام تمام سید نا اصلح الموعود نے ہزاروں احمدیوں کی ربوہ میں مضطر با ارشاد فرمایا کہ جنازہ ۲۲ اپریل کی صبح کو ہو تا کہ دوست زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہو سکیں چنانچہ ۲۲ اپریل کی صبح تک ملک کے چاروں اطراف سے ہزاروں کی تعداد میں احمدی مرد و زن ربوہ میں پہنچ چکے تھے اور پشاور سے لیکر کراچی تک کی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے.۲۱ اپریٹی کی شام کو حضرت سیدہ کی نعش مبارک کی زیارت کا موقع مستورات کو دیا گیا.قریباً ڈیڑھ ہزار مستورات نے زیارت کا شرف حاصل کیا اور ابھی ایک بڑی تعدا د باقی رہ گئی.حضرت سیدہ کا جنازہ اندرون بخانہ سے اٹھا کر چھے میکر جنازہ اور تدفین کا دردناک نظر ایک منٹ پر تابوت میں باہر لایا گیا.اس وقت خاندان مسیح موعود کے زخم رسیدہ جگر گوشے اسے تھامے ہوئے تھے.تابوت کو ایک چار پائی پر رکھ دیا گیا جس کے دونوں طرف لیے بانس بندھے ہوئے تھے.اُس وقت تک ملک کے کونے کونے سے ہزاروں احمدی مرد و زن پہنچ چکے تھے جو اپنی مادر شفق کے لئے سوز و گداز سے دعائیں کرنے میں مصروف تھے.چھ بجکر پانچ منٹ پر جنازہ اٹھایا گیا جبکہ سیدنا حضرت امیر المومنین الصلح الموعود لے روزنامہ الفضل لاہور ۲۱ شہادت ۱۳۳۱ مش صدا ہے
۹۷ حضرت مرزا بشیر احمصاحبت اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے متعدد دیگر افراد جنات سے کو کندھا دے رہے تھے اور ساتھ ساتھ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی دعائیں بعض اوقات خاموشی کے ساتھ اور بعض اوقات کسی قدر بلند آواز سے دہرارہے تھے.چونکہ احباب بہت بڑی تعداد میں آچکے تھے اور ہر دوست کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کا متمنی تھا اس لئے رستے میں یہ انتظام کیا گیا کہ اعلان کر کے باری باری مختلف دوستوں کو کندھا دینے کا موقع دیا جائے.چنانچہ صحابہ مسیح موعود، امرائے صوبجات، اصلاح یا ان کے نمائندگان بیرونی ممالک کے مبلغین، غیر ملکی طلباء، کارکنان صدر انجمن احمدیہ و تحریک جدید، مدارس، بیجا اس ظلام الاحمدی انصار اللہ کے نمائندگان اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے علاوہ مختلف مقامات کی جماعتوں نے بھی وقفے وقفے سے جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کی.سیدنا حضرت امیر المومنین حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض افراد نے شروع سے آخری تک کندھا دئے رکھا.چھ بجکر چھپتی منٹ پر تابوت جنازہ گاہ میں پہنچ گیا، جو موصیبیوں کے قبرستان کے ایک حصہ میں مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر کی مساعی سے قبلہ رخ خطوط لگا کر تیار کی گئی تھی مینوں کی درستی اور گنتی کے بعد سات بجبکہ پانچ منٹ پر سید نا حضرت امیر المومنین مصلح موعود نے نماز جنازہ شروع فرمائی جو سات بجکر سترہ منٹ تک جاری رہی.نماز میں رقت کا ایک ایسا عالم طاری تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا.نماز جنازہ کے بعد تابوت مجوزہ قبر تک لیجایا گیا جہاں اتاں بھائی کو امانتاً دفن کرنا تھا.قبر کے لئے حضور کے منشاء کے ماتحت قبرستان موصیاں ربوہ کا ایک قطعہ مخصوص کر دیا گیا تھا.ہمجوم بہت زیادہ تھا اس لئے نظم وضبط کی خاطر مجوزہ قبر کے اردگرد ایک بڑا حلقہ قائم کر دیا گیا جس میں جماعت کے مختلف طبقوں کے نمائندگان کو بلا لیا گیا چنانچہ صحابہ کرام مختلف علاقوں کے امراء، افسران صیفہ جائے بیرونی مبلغین غیر ملکی طلباء اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کو اس حلقہ میں میلا کر شمولیت کا موقع دیا گیا.ہوئے آٹھ بجے تابوت کو قبر میں اتارا گیا.اس وقت سید نا حضرت مصلح موعود اور تمام حاضر الوقت
۹۸ اصحاب نهایت رفت اور سوز و گداز کے ساتھ دعاؤں میں مصروف تھے.رقت کا یہ سماں اپنے اندر ایک خاص روحانی کیفیت رکھتا تھا.تابوت پر چھت ڈالنے کے بعد حضرت امیر المومنین نے ۸ بجکر ۲۲ منٹ پر قبر یہ اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی جس کی تمام احباب نے اشباع کی جب قبر تیار ہوگئی تو حضور نے پھر مسنون طریق پر مختصر دعا فرمائی.نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے احباب کا اندازہ نامہ نگار الفضل کی رائے کے مطابق چھ سات ہزار تھا جو پاکستان کے ہر علاقہ اور ہر گوشہ سے تشریف لائے تھے.علاوہ ازیں پندرہ سولہ وہ غیر ملکی طلباء بھی شامل تھے جو دنیا کے مختلف حصوں سے دین سیکھنے اور خدمت دین میں اپنی زندگی میر کرنے کے لئے ربوہ آئے ہوئے تھے.ان غیر ملکی طلبہ میں چلین ، جاوا ، سماٹرا ، ملایا ، برما، شام، مصر، سوڈان، ہمیشہ، مغربی افریقہ، جرمنی، انگلستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے طلبہ شامل تھے لیے اگلے روز ریڈیو پاکستان سے ۲۲ اپریل ۵۲ ، بوقت ۵ بجکر ۲۰ منٹ شام ریڈیو میں خبر حسب ذیل خبر نشر کی گئی.و آج زیرہ میں سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ سیدہ نصرت جہاں بیگم کو سپرد خاک کر دیا گیا.ان کی وفات کل (۱۲۰ اپریل یہ وزرا توار) ربوہ میں ہوئی تھی.ایک بڑے مجمع نے جنازہ میں شرکت کی.نماز جنازہ ان کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے پڑھائی.آپ سلسلہ احمدیہ کے موجودہ امام ہیں یا پاکستانی پر میں نے حضرت سیدہ موصوفہ کی وفات پر اطلاعات شائع پریس میں اطلاعات کہیں.اس سلسلہ میں لاہور کے اخبارات میں سے احسان ، آفاق، خاتون امروز سول اینڈ ملٹری گزٹ اور پاکستان ٹائمز خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ا چنانچه روزنامه احسان (لاہور) نے ۲۴ اپریل ۱۹۵۳ء کو لکھا :- مرزا غلام احمد کی بیوہ ربوہ میں دفن کر دی گئیں لاہور ۲۲- اپریل - بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد کی اہلیہ نصرت جہاں سکیم کو آج صبح ربوہ میں به روزنامه الفضل لاہور ۲۳ شهادت ۱۳۵۱ مش مطابق ۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء ص ۲۵
44 سپرد خاک کر دیا گیا.آپ نے اتوار کی شب کو ربوہ ہی میں انتقال کیا تھا.(نامہ نگار)" -۲- روزنامہ آفاق" لاہور (مورخہ ۲۴.اپریل ۱۹۵۲ء) کی خبر:- بانی احمدیت کی بیوہ کا انتقال لاہور ۲۲ اپریل.مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمد ہیت کی بیوہ نصرت جہاں بیگم کا پرسوں شب ۸۶ برس کی عمر میں انتقال ہو گیا.نصرت جہاں بیگم احمدی فرقہ کے موجودہ خلیفہ مرزہ البشیر الدین محمود احمد کی والدہ تھیں.ان کی تدفین آج ربوہ میں ہوگئی.(ا پ ) - روزنامہ خاتون مورنے مور اپریل ۱۹۵۲ء کی شاعت میں بعنوان مرزا بشیرالدین کی والدہ کا انتقال" لکھا :- " 4 د لاہور ۲۲ اپریل - بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی اہلیہ سیدہ نصرت جہان کیم کو آج صبح ربوہ میں سپر د خاک کر دیا گیا.آپ نے اتوار کی شب کو ربوہ ہی میں وفات پائی تھی.نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزا البشیر الدین صاحب امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی یا -۴- روزنامه امروز لاہور (۲۴ اپریل ۱۹۵۲ء) کے نامہ نگار نے لکھا :- بانی جماعت احمدیہ کی زوجہ محترمہ سپر د خاک کر دی گئیں لاہور ۲۲ اپریل.مرزا غلام احمد بانی جماعت احمدیہ کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کو جو اتوار کی شب وفات پاگئی تھیں آج صبح ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا.نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزہ البشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی جس میں ہزار ہا افراد نے شرکت کی.مرحومہ کو احمدیہ جماعت میں کافی بلند مقام حاصل تھا.تقاصد کی تکمیل میں نصف صدی سے زائد عرصہ تک سر گرم عمل رہیں." ۵ - اخبار دی سول اینڈ ملٹری گزٹ (۲۳.اپریل ۱۹۵۲ء) کی خیر کا متن یہ تھا :- MIRZA GHULAM AHMAD'S WIDOW LAID TO REST (From a Correspondent) RABWAH, April -The body of Sayyeda Nusrat
Jahan Begum widow of late Mirza Ghulam Ahmad, founder of the Ahmadiyya Movement who breathed her last on Sunday night was laid to rest this morning at Rabwah.The funeral prayer was led by her eldest son, Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad, the present Head of the community and was attended by several thousand people from all classes of society.Besides members of the Ahmadiyya community from various parts of the country, a large number of the general public reached Rabwah to join the funeral.The deceased lady was held in high esteem in the Ahmadiyya community for her association for over half a century with the work of her husband, the founder of the Ahmadiyya Movement.Condolence messages are pouring in from all parts of Pakistan India and the word including Indonesia, the Middle East, Europe and America where the follower of the movement are spread.(ترجم) (حضرت) مرزا غلام احمد (صاحب) کی بیوہ کو سپردخاک کر دیا گیا ریده ۲۲ اپریل.سعیدہ نصرت جہاں بیگم بود مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ کی بیوہ تھیں گذشتہ اتوار کی رات کو وفات پاگئیں اور آج صبح انہیں ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا.آپ کی نماز جنازہ اُن کے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد جو کہ جماعت کے موجودہ سربراہ ہیں نے پڑھائی اور جنازہ میں جماعت کے ہر طبقہ کے ہزاروں افراد نے شرکت کی.ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے جماعت احمدیہ کے ممبران کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کثیر تعداد میں نماز جنازہ میں شرکت کے لئے ربوہ پہنچے.مرحومہ کا اپنے شوہر محترم کے کام کے ساتھ نصف صدی سے زائد تعلق کی وجہ سے بہت بلند مقام تھا.پاک وہند کے ہر حصے سے اور دنیا کے دیگر ممالک مثلاً انڈونیشیا، مشرق اوسط، یورپ اور امریکہ سے جہاں جہاں بھی جماعت کے ممبران موجود ہیں تعزیتی پیغامات موصول ہو رہے ہیں.اخبار دی پاکستان ٹائمز (۲۳ اپریل ۱۹۵۲ کے حسب ذیل الفاظ میں غیر دی :
BEGUM MIRZA GHULAM AHMAD LAID TO REST The body of Sayyeda Nusrat Jahan Begum, the con- sort of late Mirza Ghulam Ahmad, the Founder of the Ahmadiyya Movement, whose sad demise took place on Sun- day night, was laid to rest on Tuesday morning at Rebwah.The funeral prayer was led by her eldest son, Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad, the present Head of the com- munity and was attended by several thousand people belong- ing to all classes of society.Not only devoted members of the Ahmadiyya Community from various parts of the country flocked to the headquarter but also a large number of well- wishers and relations joined the burial rites.(ترجمه) بیگم (حضرت مرزا غلام احمد (صاحب) کو سپرد خاک کر دیا گیا سیده تر جهان بیگامانی سال اودی کو جو اتوارکی شب کو فوت ہو گئی تھیں منگل کی صبح ربوہ میں سپر د خاک کر دیا گیا.نماز جنازہ آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی جس میں جماعت کے ہر طبقہ کے ہزاروں افراد شریک ہوئے.تجہیز و تکفین کی رسومات میں شریک ہونے کے لئے نہ صرف جماعت احمدیہ کے مخلصین ہی تشریف لائے بلکہ دوسرے بہی خواہان اور متعلقین بھی کثیر تعدا د میں حاضر ہوئے.حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی وفات حسرت آیات پر تعزیتی تاریں اور خطوط جماعت کے تخلص میں کی طرف سے جی میں صحابی بھی شامل تھے، جن اور غیر محال بھی، بچے بھی شامل تھے اور بوڑھے بھی عورتیں بھی شامل تھیں اور مرد بھی، خاندان مسیح موعود کے مختلف افراد کے نام بے شمارہ تارا اور خطوط پہنچے.یہ ہمدردی کے پیغامات نہ صرت غربی اور شرقی پاکستان کے ہر حصہ سے بلکہ قادیان اور دیگی اور لکھنو اور حیدر آباد اور مالیر کوٹلہ اور مونگیر اور ا محکمہ تار نے تاروں کی کثرت دیکھ کر حضرت سیدہ کی بیماری کے ایام ہی سے ایک اور سگنیٹر عارضی طور پر ربوہ میں متعین کر دیا تھا ( الفضل ۲۳ شهادت (۳۳) ایش)
٤٠٣ کلکتہ اور بیٹی اور مدراس اور ہندوستان کے دوسرے جموں اور بلاد عربی اور تیر اعظم ایشیا اور افریقہ اور یورپ اور امریکہ کے مختلف ملکوں سے اس طرح چلے آرہے تھے جس طرح ایک قدرتی نہر اپنے طبعی بہاؤ میں بہتی چلی جاتی ہے.اور پھر ان اصحاب میں صرف ہماری جماعت کے دوست ہی شامل نہیں تھے بلکہ غیر مبائع اور غیر احمدی اور غیر مسلم سب طبقات کے لوگ شامل تھے.اظہار ہمدردی کے لئے بعض غیر احمدی معززین اور غیر مبارح اصحاب مثلا مرزا مسعود بیگ صاحب لاہور سے اور مکرم عبداللہ جان صاحب پشاور سے ربوہ تشریف لائے یہ سید نا حضرت مصلح موعود د حضرت حضرت ام المومنین کا مقام سید محمود کی نظریں ام المومنین کی وفات کا ذکر • کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- " اس سال احمدیت کی تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہوا ہے اور وہ ہے حضرت ام ال نین کی وفات.ان کا وجود ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے درمیان میں ایک زنجیر کی طرح تھا اولاد کے ذریعے بھی ایک تعلق اور واسطہ ہوتا ہے مگر وہ اور طرح کا ہوتا ہے.اولاد کو ہم ایک رخت کا پھول تو کر سکتے ہیں مگرا سے اس درخت کا اپنا حصہ نہیں کہا جا سکتا.پس حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں اور یہ واسطہ ان کی وفات سے ختم ہو گیا.پھر حضرت ام المومنین کے وجود کی اہمیت عام حالات سے بھی زیادہ تھی کیونکہ ان کے متعلق خدا تعالیٰ نے قبل از وقت بشارتیں اور خبریں دیں چنانچہ انجیل میں آنے والے سیج کو آدم کیا گیا ہے.اس میں میں بھی اشارہ تھا کہ جس رنگ میں خوا آدم کی شریک کیا تھیں اسی طرح مسیح موعود کی بیوی بھی اس کی شریک کار ہوگی.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ آنے والا سے شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہو گی.اب شادی تو مہر نبی کرتا ہے.صاف ظاہر ہے کہ اس خبر میں ہیں اشارہ تھا کہ اس کی بیوی کو یہ خصوصیت حاصل ہو گی کہ وہ اس کے کام میں اس کی شریک ہوگی.اسی طرح دلّی میں ایک مشہور بزرگ خواجہ میر ناصر گزرے ہیں ان کے متعلق آتا ہے کہ ان کے پاس کشمت میں حضرت امام حسن نے تشریف لائے اور انہوں نے به روز نامہ الفضل لاہور ۳۰ر شهادت ۳۳۱ ایش جنگ ہے 1
١٠٣ ایک روحانیت کی خلعت دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تحفہ ایسا ہے جس میں تم مخصوص ہو.اس کی ابتداء تم سے کی بھاتی ہے اور اس کا خاتمہ مہدی کے طور پر ہوگا چنانچہ یہ کشف اس طرح پورا ہوا کہ آپ کی ہی اولاد میں سے حضرت اُم المومنین کا وجود پیدا ہوا.یہ کشف خواجہ ناصر نذیر فراق کے بیٹے خواجہ ناصر خلیق نے اپنی کتاب میخانہ درد (ص) میں درج کیا ہے " ہے حضرت ام المومنین کے شمائل واخلاق او حضرت سیدہ کے شمائل واخلاق اور بلند سیرت بلند سیرت کے متعلق سب سے جامع اور سب سے زیادہ مختصر کلام وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کی زبان مبارک پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا یعنی اذکر نعمتی رائیت خديجتي هذا من رحمة ربك میری نعمت کو یاد کر کہ تو نے میری خدیجہ کو دیکھا یہ تیرے رب کی رحمت ہے.اس مختصر فقرہ کی کسی قدر تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے الفاظ میں دی بجاتی ہے.ا - حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں:.حضرت آقای جهان رضی اللہ عنہا کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود دو امتیازی خصوصیات علیہ اسلام کے ساتھ ان کی شادی خاص الٹی تحریک کے ماتحت ہوئی تھی اور دوسرا امتیاز یہ حاصل ہے کہ یہ شادی ۱۸۸۴ء میں ہوئی.اور یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی مجددیت کا اعلان فرمایا تھا اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت اماں جان مرحوم مغفورہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ حیات رہیں اور حضرت مسیح موعود اُنہیں انتہاء در رعد محبت اور انتہاء درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دلداری فرماتے تھے کیونکہ جضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبر دست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے خاص منشاء کے ماتحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جان کو مخصوص نسبت ہے.چنانچہ لے متن کے لئے ملاحظہ ہو تا ریخ احمدیت جلد ۲ ص۵۱ الفضل ۳۱ فتح ۱۳۳۱ ایش / ۳۱ دسمبر ۱۹۵۲ء جنگ : الحجم ۲ ۱۲ اگست ۱۹۰۰ ء ما بحوالہ تذکرہ ص ۳۷ ایڈیشن سوم ؛
۱۰۴ بعض اوقات حضرت اماں جان بھی محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں کہ میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے جس پر حضرت مسیح موعود شکرا کو فرماتے تھے کہ ہاں یہ ٹھیک ہے.دوسری طرف حضرت امال جان بھی حضرت مسیح موعود کے متعلق کامل محبت اور کامل لیگا نگت کے مقام پر فائز تھیں اور گھر میں کیوں نظر آتا تھا کہ گویا ڈو سینوں میں ایک میل کام کر رہا ہے.حضرت آقای جان رضی اللہ عنہا کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی نیکی اور تقوی کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں مگر اس جیگر میں صرف اشارہ کے طور پر نمونہ چند باتوں کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں.آپ کی نیکی اور دینداری کا متقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا.عبادات میں شعف پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے حضرت اماں جان نماز تہجد اور نماز شیخی کی بھی بے سود پابند تھیں اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کر تی تھیں کہ دیکھنے والوں کے دلوں میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقعہ ملتا تھا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں.میں گوری بصیرت کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی) کی یہ پیاری کیفیت کہ جُعِلَتْ قُرَّةٌ عَيني في الصلوة یعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے) حضرت اماں جان کو بھی اپنے آقا سے ورثے میں ملی تھی.پھر دعا میں بھی حضرت اماں جان کو بے حد شغف تھا.اپنی اولاد اور دوسرے عزیزوں بلکہ ساری حاجات کے لئے جیسے وہ اولاد کی طرح مجھتی تھیں بڑے درد و سوز کے ساتھ دعا فرمایا کرتی تھیں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی.اولاد کے متعلق حضرت اناں جان کی دعا کا نمونہ ان اشعار سے ظاہر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اماں جان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کی طرف سے اور گویا انہی کی زبان سے فرمائے.خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ عرض کرتے ہیں کوئی ضائع نہیں ہوتا جو تیر ا طالب ہے : کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جو یاں تیرا آسمان پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں ؟ کوئی ہو جائے اگر بن رو فرماں تیرا اس جہاں میں ہی وہ جنت میں ہے بے دیئے گماں نہ وہ جو ایک مختہ تو کل سے ہے جہاں تیرا کے نسائی باب النساء مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۱۲۸ ، ۱۹۹، ۲۸۵ :
۱۰۵ میری اولاد کو تو ایسی ہی کر دے پیارے یہ دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرہ نمایاں تیرا محمر دے ، رزق دے، اور عافیت و صحت بھی ؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وہ عرفان تیرا اپنی ذاتی دعاؤں میں جو کلمہ حضرت اماں جائی کی زبان پر سب سے زیادہ آتا تھا وہ یہ سنون دعا تھی کہ : يا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَعِيتُ یعنی اسے میرے زندہ خدا اور میرے زندگی بخش آقا این تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں یہ وہی جذبہ ہے جس کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر فرمایا ہے کہ سے تری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر مری جاں تیرے فضلوں کی پسند گیر جماعتی چندوں میں بھی حضرت اقای جان رضی اللہ عنہا بڑے ذوق و شوق مالی جہاد میں شمولیت سے حصہ لیتی ھیں اور بین اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ تبلیغ کو چندہ دیتی تھیں تحریک تجدید کا چندہ جس سے بیرونی ممالک میں اشاعت اسلام کا کام سرانجام پاتا ہے اُس کے اعلان کے لئے ہمیشہ ہمہ تن منتظر رہتی تھیں اور اعلان ہوتے ہی بلا توقف اپنا وعدہ لکھا دیتی تھیں بلکہ وعدہ کے ساتھ ہی نقد ادائیگی بھی کر دیتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں وعدہ جب تک ادا نہ ہو بجائے دل پر بوجھ رہتا ہے.دوسرے چندوں میں بھی یہی ذوق و شوق کا عالم تھا.صدقہ و خیرات اور غریبوں کی امداد بھی حضرت اماں جان نور اللہ مرقدها کا صدقہ و خیرات محمد نمایاں خلق تھا اور اس میں وہ خاص لذت پاتی تھیں اور اس کثرت کے ساتھ غیروں کی امداد کرتی تھیں کہ یہ کثرت بہت کم لوگوں میں دیکھی گئی ہے.جو شخص بھی ان کے پاس اپنی مصیبت کا ذکر لے کر آتا تھا حضرت اماں جان اپنے مقدور سے بڑھ کر اس کی امداد فرماتی تھیں اور کئی دفعہ ایسے خفیہ رنگ میں مدد کرتی تھیں کہ کسی اور کو پتہ تک نہیں چلتا تھا.اسی ذیل میں ان کا یہ طریق بھی تھا کہ بعض اوقات تیم بچوں اور بچیوں کو اپنے مکان پر بلا کر کھانا کھلاتی تھیں اور بعض اوقات ان کے گھروں پر بھی کھانا بھجوا دیتی تھیں.ایک دفعہ ایک واقف کار شخص سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کو کسی ایسے
شخص (احمد نی یا خیر احمدی مسلم یا غیرمسلم) کا علم ہے جو قرض کی وجہ سے قید بھگت رہا ہو ا وائل زمانے میں ایسے سول قیدی بھی ہوا کرتے تھے) اور جب اس نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ تلاش کرتا، یکن اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں تا قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کر سکوں کہ معذور قیدیوں کی مدد بھی کار ثواب ہے.قرض مانگنے والوں کو فراخدلی کے ساتھ قرض بھی دیتی تھیں مگر یہ دیکھ لیتی تھیں کہ قرض سے مدد قرض مانگنے والا کوئی ایسا شخص کو نہیں جو عادی طور پر قرض مانگا کرتا ہے او ھر قرض کی رقم واپس نہیں کیا کرتا ایسے شخص کو قرض دینے سے پر ہیز کیا کرتی تھیں تا کہ اس کی یہ تیری عادت ترقی نہ کرے مگر ایسے شخص کو بھی حسب گنجائش امداد دے دیا کرتی تھیں.ایک دفعہ میرے سامنے ایک عورت نے اُن سے کچھ قرض مانگا اس وقت اتفاق سے حضرت اماں جان کے پاس اس قرض کی گنجائش نہیں تھی مجھ سے فرمانے لگیں میاں ! دوہ اپنے بچوں کو اکثر میں کہ کر پکارتی تھیں تمہارے پاس اتنی رقم ہو تو اسے قرض دے دو یہ عورت لین دین میں صاف ہے یا چنانچہ میں نے مطلوبہ رقم دیدی اور پھر اس غریب عورت نے تنگدستی کے با وجود عین وقت پر اپنا قرض واپس کر دیا جو آجکل کے اکثر نو جوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے.حضرت امان جان تورا الله مرقد ھا کو اسلامی احکام کے ینائی کی پرورش و تربیت ماتحت قسیم بچوں کی پرورش اور تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا میں نے جب سے ہوش سنبھاتے ان کے سایہ عاطفت میں ہمیشہ کسی نہ کسی قسیم لڑکی باڑ کے کوپلتے دیکھا اور وہ ٹیمیوں کو نوکروں کی طرح نہیں رکھتی تھیں بلکہ ان کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ اُن کے آرام و آسائش اور ان کی تعلیم و تربیت اور اُن کے واجبی اکرام اور عزت نفس کا بھی بت خیال رکھتی تھیں.اس طرح ان کے ذریعہ بس یوں تیم بچے جماعت کے مفید وجود بن گئے.بسا اوقات اپنے ہاتھوں سے تیموں کی خدمت کرتی تھیں مثلا یتیم بچوں کو نہلانا ، ان کے بالوں کو کی کھلی کرنا اور کپڑے بدلوانا وغیرہ وغیرہ.مجھے یقین ہے کہ حضرت اماں جان رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت سے انشاء اللہ ضرور حصہ پائیں گی کہ آنا و گا فیل الیتیم گھا نہیں ہے A CIVIL ه بخاری (کتاب الطلاق - كتاب الادب) مسلم (كتاب المزيد ) :
1.6 یعنی قیامت کے دن میں اور قسموں کی پرورش کرنے والا شخص اس طرح اکٹھے ہوں گے جس طرح کہ ا ایک ہاتھ کی دو انگلیاں باہم پیوست ہوتی ہیں.امہمان نوازی بھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھلہ اپنے مهمان نوازی عزیزوں اور دوسرے لوگوں کو اکثر کھانے پر بلاتی رہتی تھیں اور اگر گھر میں کوئی خاص چیز بکتی تھی تو ان کے گھروں میں بھی بھجوا دیتی تھیں.بنا کسار راقم الحروف کو علیحدہ گھر ہونے کے باوجود حضرت اماں جھان نے اتنی دفعہ گھر سے کھانا بھجوایا ہے کہ اس کا شمار نا ممکن ہے.اور اگر کوئی عزیہ یا کوئی دوسری خاتون کھانے کے وقت حضرت اماں جان کے گھر میں جاتی تھیں تو حضرت اماں جہان کا اصرار ہوتا تھا کہ کھانا کھا کر واپس جاؤ چنا نچہ اکثر اوقات زبر دستی روک لیتی تھیں.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہمان نوازی ان کی روح کی غذا ہے.عیدوں کے دن حضرت اناں جان کا دستور تھا کہ اپنے سارے خاندان کو اپنے پاس کھانے کی دعوت دیتی تھیں اور ایسے موقعوں پر کھانا پکوانے اور کھانا کھلانے کی بذات خود نگرانی فرمائی تھیں اور اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ فلمای عزیزہ کو کیا چیز مرغوب ہے اور اس صورت میں حتی الوسع وہ چیز ضرو ریکواتی تھیں.جب آخری عمر میں زیادہ کمزور ہو گئیں تو مجھے ایک دن حسرت کے ساتھ فرمایا کہ اب مجھ میں ایسے اہتمام کی طاقت نہیں رہی میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھ سے رقم لے لے اور میری طرف سے کھانے کا انتظام کر دے.وفات سے کچھ عرصہ قبل جب کہ حضرت اماں جان بے حد کمزور ہو چکی تھیں اور کافی بیمار تھیں مجھے ہماری بڑی عمانی صاحبہ نے جو اُن دنوں میں حضرت اماں جان کے پاس اُن کی عیادت کے لئے ٹھری ہوئی تھیں فرمایا کہ آج آپ یہاں روزہ کھولیں.میں نے خیال کیا کہ شاید یہ اپنی طرف سے حضرت اتاں جان کی خوشی اور ان کا دل بہلانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہیں چنانچہ میکی وقت پر وہاں چلا گیا تو دیکھا کہ بڑے اہتمام سے افطاری کا سامان تیار کر کے رکھا گیا ہے.اس وقت ممانی صاحبہ نے بتایا کہ مکی نے تو اتان جان کی طرف سے اُن کے کہنے پر آپ کی یہ دعوت دی تھی.محنت کی عادت حضرت اماں جان رضی اللہ ناہیں بے حد مفت کی عادت تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں راحت پاتی تھیں.میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے بارہا کھانا پکاتے ، چرخہ کاتنے ، نوار بکتے بلکہ بھینسوں کے آگے پھارہ تک ڈالتے دیکھا
ہے بعض اوقات خود بھنگنوں کے سر پر کھڑے ہو کر صفائی کرواتی تھیں اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں.گھر میں اپنے ہاتھ سے پھولوں کے پودے یا سیم کی بیل یا دوائی کی غرض سے گلو کی بیل لگانے کا بھی شوق تھا اور عموما انہیں اپنے ہاتھ سے پانی دیتی تھیں.مرضیوں کی عبادت مریضوں کی عادت کایہ عالم تھاکہ جب کبھی کسی حد عورت کے متعلق رینشتیں احمدی کہ وہ بیمار ہے تو بلا امتیاز غریب و امیر خود اس کے مکان پر جا کر عبادت فرماتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق تسلی دیا کرتی تھیں کہ گھبراؤ نہیں بخدا کے فضل سے اچھی ہو جاؤ گی.ان اخلاق فاضلہ کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدی عورتیں حضرت امالی جان پر جان چھڑکتی تھیں اور اُن کے ساتھ اپنی حقیقی ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت کہتی تھیں.اور جب کوئی منکر کی بات پیش آتی تھی یا کسی امر میں مشورہ لینا ہوتا تھا تو حضرت اماں جان کے پاس دوڑی آتی تھیں.اس میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ حضرت اتان جان کا مبارک وجود احمدی مستورات کے لئے ایک بھاری ستون تھا.بلکہ حق یہ ہے کہ ان کا وجود محبت اور شفقت کا ایک بلند اور مضبوط مینار تھا جس کے سایہ میں احمدی خواتین بے انداز راحت اور برکت اور ہمت اور تسلی پاتی تھیں.امگر غالباً حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے تقولی اور توکل تقوی اور توکل کے دو واقعات اور دینداری اور اخلاق کی بلندی کا سب سے زیادہ شانظر اظہار ذیل کے دو واقعات میں نظر آتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض اقرباء پر اتمام حجت کی غرض سے خدا سے علم پا کر محدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو اس وقت حضرت مسیح موعود نے ایک دلا دیکھا کہ حضرت اماں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی گریہ و زاری اور سونہ و گداز سے یہ دعا فرما رہی ہیں کہ خدایا ! تو اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور اپنی قدرت نمائی سے پورا فرما جب وہ دعا سے فارغ ہوئیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن سے دریافت فرما یا کہ تم یہ دعا کہ رہی تھیں اور تم جانتی ہو کہ اس کے نتیجہ میں تم پر سوکی آتی ہے ؟ حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرما یا خواہ کچھ ہو تجھے اپنی تکلیف کی پروا نہیں میری خوشی اسی میں ہے کہ خدا کے منہ کی بات اور آپ کی پیشگوئی کو بری ہو.دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کس شان کا ایمان اور کس بلند اخلاقی کا مظاہرہ اور
1.4 کیسی تقویٰ کا مقام ہے کہ اپنی ذاتی راحت اور ذاتی خوشی کو کلین قربان کر کے محض خدا کی رضا کو تلاش کیا جا رہا ہے اور شاید منجملہ دوسری باتوں کے یہ ان کی اسی بے نظیر قربانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشروط پیش گوئی کو اس کی ظاہری صورت سے بدل کر دوسرے رنگ میں پورا فرما دیا.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی اور یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے، اور آپکے آخری سانس تھے تو حضرت آنان جان نور الله مَرُقَدَهَا وَرَفَعَهَا فِي أَعْلَى عِلین آپ کی چارپائی کے قریب فرش پر آکر بیٹھ گئیں اور خدا سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ :- خدایا ! یہ تو اب ہمیں چھوڑ رہے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑ یو یا یہ ایک خاص انداز کا کلام تھا جس سے مراد یہ تھی کہ تو ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور دل اس یقین سے پر تھا کہ ایسا ہی ہوگا.اللہ اللہ! خاوند کی وفات پر اور خاوند بھی وہ جو گویا ظاہری لحاظ سے ان کی ساری قسمت کا بانی اور ان کی تمام راحت کا مرکز تھا تو کل ، ایمان اور صبر کا یہ مقام دنیا کی بے مثال چیزوں میں سے ایک نہایت درخشاں نمونہ ہے.مجھے اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ بے حد پیارا اور مضبوطی کے لحاظ سے گویا فولادی نوعیت کا قول یاد آ رہا ہے جو آپ نے کامل توحید کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی وفات پر فرمایا کہ: " اَلا مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كان يعبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَي لَا يَمُوتُ له یعنی اے مسلمانو بشنو کہ جو شخص محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں مگر جو شخص خدا کا پرستار ہے وہ یقین رکھے کہ بخدا زندہ ہے اس پر کبھی موت نہیں آئے گی یا سکے ل بخاری کتاب الغزوات ( باب وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) سے چار تقریریں ص؟ تا مثنا مولفه قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناشر شعبئه - نشرو اشاعت نظارت اصلاح وارشاد صدرانجمن احمد به پاکستان (طبع دوم دسمبر ۱۱۹۶۶)
١١٠ ۲ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:.صرف اس لئے نہیں کہ اتقان جان رضی اللہ عنہا غیر معمولی غیر معمولی محبت کرنے والی ماں محبت کرنے والی ماں تھیں اور اس لئے نہیں کہ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو محض ذکر خیر کے طور پر آپ کا تاریخی پہلو لکھا جائے.اور اس لئے بھی نہیں کہ مجھے اُن سے بے حد محبت تھی ( اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح میں اُن کی مجدائی کو برداشت کر رہی ہوں، بلکہ حق اور محض حق ہے کہ حضرت آقای جان کو خدا تعالیٰ نے سچے بچے اس قابل بنایا تھا کہ وہ اُن کو اپنے مامور کے لئے چن لے اور اس وجود کو اپنی خاص اہمت“ قرار دے کر اپنے مرسل کو خطا فرمائے.صابر و شاکره | آپ نهایت در جہ صابرہ اور شاکرہ تھیں.آپ کا قلب غیر معمولی طور پر صحات اور وسیلے تھا کیسی کے لئے خواہ اُس سے کتنی تکلیف پہنچی ہو آپ کے دل پر میل نہ آتا تھا.کان میں پڑی ہوئی رنج وہ بات کو اس صبر سے پی جاتی تھیں کہ حیرت ہوتی تھی اور ایسا برتاؤ کرتی تھیں کہ کسی دوسرے کو کبھی کسی بات کے دوہرانے کی جرات نہ ہوتی تھی شکوہ چلی غیبت کسی بھی رنگ میں نہ کبھی آپ نے کیا نہ اس کو پسند کیا.اس صفت کو اس اعلیٰ اور کامل رنگ میں کبھی کسی میں میں نے نہیں دیکھا.آخر دنیا میں کبھی کوئی بات کوئی کیسی کی کر ہی لیتا ہے مگر زبان پر کسی کے لئے کوئی لفظ نہیں آتے سنا.حضرت اماں جان نہ سے جہاں کسی نے مجلس میں کسی کی بطور شکایت بات شروع کی اور آنے شفقت فور آلو کا جیتی کہ اپنے ملازموں کی شکایت جو خود آپ کے وجود کے ہی آرام کے سلسلے میں تنگ آکر کبھی کی جاتی پیچھے سے سننا پسند نہ کرتی تھیں.اپنے ملازموں پر انتہائی شفقت فرماتی تھیں.آخری ایام میں جب آواز نکلنا محال تھا مائی عائشہ (والدہ مجید احمد مرحوم در ویش قادیانی ) کی آواز کسی سے جھگڑنے کی کان میں آئی.بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور بدقت فرمایا ٹائی کیوں روٹی ؟ " یکی نے کہا نہیں اتان جان روٹی تو نہیں یوں ہی کسی سے بات کر رہی تھی.مگر جو در د حضرت آتاں جان کی آواز میں اُس وقت مائی کے لئے تھا وہ آج تک مجھے بے چین کر دیتا ہے.آپ نے کئی لڑکیوں اور لڑکوں کو پرورش کیا اور سب سے بہت ہی مشفقت و محبت کا برتاؤ تھا.خود
H اپنے ہاتھ سے اُن کا کام کیا کرتی تھیں اور کھلانے پلانے ، آرام کا خیال رکھنے کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا مگر تربیت کا بھی بہت خیال رکھتیں اور زبانی نصیحت اکثر فرماتیں.ایک لڑکی تھی، مجھے یاد ہے میں اُن دنوں حضرت اناں بھائی کے پاس تھی.وہ رات کو تہجد کے وقت سے اٹھ بیٹھتی اور حضرت اماں جان سے سوالات کرنے اور لفظوں کے معنے پوچھنا شروع کرتی اور آپ اُس کی ہر بات کا جواب صبر اور خندہ پیشانی سے دیا کرتیں ہمیں نے اُس کو سمجھایا کہ اس وقت نہ ستا یا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے بعد آپ نے بہت زیادہ صبر و تحمل کا نمونہ دکھا یا مگر آپ کی جدائی کو میں طرح آپ محسوس کرتی رہیں اس کو جو لوگ جانتے ہیں وہ اس صبر کو اور بھی حیرت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے.آپ اکثر سفر یہ بھی جاتی تھیں اور بظاہر اپنے آپ کو حضرت سیح موعود سے غیر معمولی محبت بہت پہلائے رکھتی تھیں.باغ وغیرہ یا باہر گاؤں میں پھرنے کو بھی عورتوں کولے کر جانا یا گھرمیں کچھ نہ کچھ کام کرواتے رہنا، کھانا پکوانا اور اکثر غرباء میں تقسیم کرنا ( جو آپ کا بہت مرغوب کام تھا ، لوگوں کا آنا جانا اپنی اولاد کی دلچسپیاں یہ سب کچھ تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد پورا سکون آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا.حصان معلوم ہوتاتھا کہ کوئی اپنا وقت کاٹ رہا ہے.ایک سفر ہے جس کو طے کرنا ہے.کچھ کام ہیں جو جلدی جلدی کرتے ہیں.غرض بظاہر ایک صبر کی چٹان ہونے کے باوجود ایک قسم کی گھبراہٹ سی بھی تھی جو آپ پر طار کی رہتی تھی مگر ہم لوگوں کے لئے تو گویا وہ ہر غم اپنے سینہ میں چھپا کر خود سینہ سپر ہو گئی تھیں مول میں طوفان اس درد جدائی کے اُٹھتے اور اس کو دبا لیتیں اور سب کی خوشی کے سامان کرتیں.مجھے ذاتی علم ہے کہ جب کوئی بچہ گھر میں پیدا ہوتا تو خوشی کے ساتھ ایک رکی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی جدائی کا آپ کے دل میں تازہ ہو جاتا اور وہ آپ کو اس بچہ کی آمد پر یاد کرتیں.یکن اپنے لئے ہی دیکھتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد چشمه محبت ایک چشمہ ہے ایسے حد محبت کا جو اتاں جان کے دل میں پھوٹ پڑا ہے اور بار بار فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے آیا تمہاری ہر بات مان لیتے اور میرے اعتراض کرنے پر بھی فرمایا کرتے تھے کہ لڑکیاں تو چار دن کی مہمان ہیں.یہ کیا یاد کرے گی جو یہ کہتی ہے وہی کروی مرض یہ محبت“ بھی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی محبت تھی جو آپ کے دل میں موجزن تھی.
١١٢ اس کے بعد میری زندگی میں ایک دوسرا مرحلہ آیا یعنی میرے میاں مرحوم کی وفات ! ان کے بعد ایک بار اور میں نے اس چشمہ محبت کو پورے زور سے پھوٹتے دیکھا جیسے بارش برستے برستے یکدم ایک چھڑا کے سے گرنے لگتی ہے.اُس وقت وہی بابرکت ہستی تھی ، وہی رحمت و شفقت کا مجسمہ تھا جو بظاہر اس دنیا میں خدا تعالٰی رفیق اعلیٰ در حیم و کریم ذات کے بعد میرا رفیق ثابت ہوا، جس کے پیار نے میرے زخیم ولی پر مرسم رکھا جس نے مجھے بھلا دیا تھا کہ یکی اب ایک بیوہ ہوں بلکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں کہیں جا کہ پھر آغوش مادر میں واپس آگئی ہوں.آپ دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو میرا منہ دیکھے کہ اداس تو نہیں ہے.اب کوئی ایسا نہیں جو میرے احساس کو مجھے میرے دُکھ کو اپنے دل پر پیتا ہوا دُ کھ محسوس کرے.خدا سب عزیزوں کو سلامت رکھتے.میرے بھائیوں کی عمر میں اپنے فضل سے خاص برکت دے مگر یہ خصوصیت جو خدا نے ماں کے وجود میں بخشی ہے اس کا بدل تو کوئی خود اس نے ہی پیدا نہیں کیا اور میری ماں تو ایک بے بدل ماں تھیں سب مومنوں کی ماں.ہزاروں رحمتیں لمحہ بلکہ بڑھتی ہوئی رحمتیں ہمیشہ ہمیشہ آپ پر نازل ہوتی رہیں.وہ تو آب خاموش ہیں مگر ہم جبتک خدا اگلی سے نہ ملائے گا اُن کی جدائی کی کھٹک برا بر محسوس کرتے رہیں گے.سے عمر بھر کا ہمنش بجای بن کے یہ تڑپائے گی وہ نہ آئیں گی مگر یا د چلی آئے گی اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے ہم سب کے لئے زیادہ ہی زیادہ ان دعاؤں کو جو حضرت مسیح موجود نے ہمارے لئے فرمائیں (اور حضرت اماں جان نے جو سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا ) قبول فرمائے اور ایسا ہو کہ گویا وہ دعائیں جاری ہیں اور ہر گھڑی مقبول ہو رہی ہیں، آمین ، اور ہم سب کو اس قابل بنائے کہ ہم ان فصلوں کے بجاذب نہیں جو ہمارے لئے مانگے بجاتے رہے.تم آمین.حضرت اباں بھائی کو ہماری تعریف کی حاجت نہیں خدا نے جس وجود کی تعریف کر دی اس کو اور کیا چاہیئے مگر ہمارا ابھی فرض ہے کہ جو عمر بھر دیکھا اُس کو آئندہ ہونے والوں کے لئے ظاہر کردیں.آپ ایک نمایاں شان کے ساتھ صابرہ تھیں اور خدا تعالیٰ کی رضا پر خوشی سے راضی ہونیوالی تکالیف کا حوصلہ سے مقابلہ کرنے والی ابھی کسی کا شکوہ شکایت زبان پر نہ لانے والی کیسی سے پہنچے ہوئے رینج کو مہر بہ لب ہو کہ ایسی خاموشی سے برداشت کرنے اور مٹا ڈالنے والی کہ و ہٹ
ہی جاتا تھا.۱۱۳ جس سے تکلیف پہنچتی اس پر اپنی مہربانی اس طرح جاری رکھتیں بلکہ زیادہ حتی کہ وہ امر اوروں کے بھی دلوں سے محمد ہو جاتا.خشیت الہی کرنے کرنا و خضوع سے بہت ما بہت نمازیں ادا کرنے والی ، بہت میں میں بھی جلدی جلدی نماز نہیں دیکھا.تہجد اور اشراق بھی جب تک طاقت رہی ہمیشہ با قاعدہ ادا فرماتی رہیں.دوسرے اوقات میں بھی بہت دعا کرتی تھیں.اکثر بلند آواز سے دعا بے اختیار اس طرح آپ کی زبان سے نکلتی گویا کسی کا دم گھٹ کر یکدم رکا ہو اسانس نکلے.بہت ہی بیقراری اور تڑپ سے دعا فرماتی تھیں.کبھی کبھی موزوں نیم شعر الفاظ میں اور کبھی مصرع یا شعر کی صورت میں بھی دعا فرماتی تھیں اسی درد اور تڑپ سے ایک بار لاہور میں غیر آباد مسجد کو دیکھ کر ایک آہ کے ساتھ فرمایاغ اللي مسجدیں آباد ہوں گر جائیں ، گر جائیں آپ کی دعاؤں میں سب آپ کی احمدی اولاد شریک ہوتی.اکثر اکیسوی کا نام لے کر بے قرار ہو کر دعا کرتیں جن کا بظا ہر کسی کو خیال تک نہ ہوتا.ایک بار لیٹے لیٹے اس طرح کرب سے یا اللہ کہا کہ میں گھبرا گئی مگر اس کے بعد کا فقرہ کیا تھا ؟ یہ کہ میرے تیر کو بیٹا دے خدا نے آپ کے تیتر مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب نیر) کو اُس کے بعد محمودہ کڑکی سے دو بیٹے عطا فرمائے.خدا نیکی اور زندگی اُن کو بخشے ، سب جماعت سے محبت دلی فرماتی تھیں اور خصوصا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے زمانہ کے لوگوں سے آپ کو بہت ہی پیار تھا.ان کی اولادوں کو اب تک دیکھ کر شاد ہو جاتی تھیں.شاید آپ میں سے امیض کو پورا احساس نہ ہو مجھے پوچھیں آپ سچ مچے ایک اعلیٰ نعمت سے، ایک ہزار ماں سے بہتر ماں سے محروم ہو گئے ہیں.ہر چھوٹے بڑے کی خوشی اور تکلیف میں بدل شریک ہوتی تھیں.جب تک طاقت رہی یعنی زمانہ قریب ہجرت تک جب باہر جاتیں اکثر گھروں میں ملنے جاتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے آپ کا میں عمل تھا مجھے کئی واقعات یاد ہیں کہ کسی کے گھر تھر پیدا ے بانی نائیجیریا مشن (وفات ، استمبر ۱۹۴۸ء مفصل بحمالات تاریخ احمدیت جبار سوم ما ۲ طبع اول میں درج ہیں :
۱۱۴ ہوا ہے اور آپ برا بر اُن کی تکلیف کے وقت میں زیچہ کے پاس رہیں اور یہی طریق بعد میں جبتک ہمت رہی جاری رہا.خاص چیز جو کھاتیں بہت گھلی اورضرور سب میں قسیم کرتیں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں چونکہ لوگ کم تھے تو سب کو گھروں سے بلا کر اکثر ساتھ ہی کھلوایا کرتی تھیں.خیرات کثرت سے فرماتی تھیں.غرباء کو کھانا کھلانا آپ کو بہت پسند تھا.حضرت خیرات و فیاضی مسیح موعود کے پسند کی چیز تو ضرور کھلایا کرتی تھیں.اور گھر میں روزمرہ جب کوئی چیز سامنے آتی تو اول اول دنوں میں تو بہت فرمایا کرتی تھیں کہ یہ چیز آپ کو پسند تھی تو تم کھاؤ! ہاتھ سے کام کرنے میں ہرگز کبھی آپ کو عار نہ تھا.قادیان سے آتے وقت بھی ہاتھ سے کام کرنا برابر خود کوئی نہ کوئی کام کرتی تھیں.باورچی خانہ جا کر خود کچھ پکا لینا، چیز خود ہی جا کر کیسوں میں سے نکالنا، کسی کو بہت کم کہتی تھیں، خود ہی کام کرنے لگتی تھیں.جب تک کمزوری ود سے نہ پڑھی سہارا لینا ہرگز پسند نہیں فرماتی تھیں کوئی سہارا دینا چاہتا تو نہیں دینے دیتیں کہ یکن خود پیالوں کی سہارا نہ دو.ایک خاص بات آپ کی اپنی بچپن سے مجھے یاد ہے کہ جن ایام میں آپ نے نماز نہیں پڑھنی ذکر الہی ہوتی تھی اُس وقت کو کبھی باتوں وغیرہ میں ضائع نہیں فرماتی تھیں برابر مقررہ اوقات نماز میں تنہا ٹہل کر یا بیٹھ کر دعا اور ذکر الہی کرتی تھیں اور پھر ہمیشہ میں نے اس امر کا التزام دیکھا.جن لڑکیوں کو پالا اُن کی جوئیں نکالنا کنگھی کرنا یہ کام اکثر خود ہی کھاتی تھیں نظافت پسندی اور باوجود نہایت صفائی پسند ہونے کے گھر نہیں کھاتی تھیں.صاف لیاس، پاکیزہ بہتر اور خوشبو آپ کو بے حد پسند تھی مگر ان چیزوں کا شخص کبھی اس درجہ کو نہیں پہنچا کہ آپ کے اوقات نماز یا دعا یا ذکر میں خارج ہوا ہو.خطر کا استعمال مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام بھی عطر اور چنبیلی کا تیل آپ کے لئے خاص طور پر منگایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد آپ نے اپنا عطر کا صندوقچہ مجھے پاس بلا کر تیسرے روز دے دیا تھا ( جو یکیں نے بھاوجوں میں تقسیم کر دیا تھا) زمانہ عدت میں آپ نے خوشبو نہیں استعمال کی نہ زیور ہی کوئی پہنا.
۱۱۵ سفید لباس پہنتی تھیں مگر ان میلا نہیں مجھے یاد ہے جس دن ایام عدت ختم ہوئے آپ نے غسل کیا ، صاحت لباس پہنا، عطر لگا یا اور اس دن جو کیفیت صدمہ کی اور پھر ضبط آپ کے چہرہ سے مترشح تھا وہ تحریر میں نہیں آسکتا.آپ کا رونا نمازوں کا رونا ، دعاؤں کا رونا ہوتا تھا ویسے نہیں.روزانہ کشتی تغیر جاتیں اور نہایت رقت سے دعائیں کرتیں.وہ آپ کی حالت دیکھی نہیں جایا کرتی تھی میں مقام میں آخری آرام کرنے کے لئے آپ کی روح چالیس سال تڑپ سے انتظار کرتی رہی اور دل جس زمین کو دیکھ دیکھے کر بے قرار ہوتا رہا اُس میں آپ کے جسد مبارک کا فی الحال رکھا جانا تقدیر الہی کے مطابق نہ تھا.دل بے چین ہو جاتا ہے جب یاد کرتی ہوں کہ قادیان سے آنے کا صدمہ بھی میرا اور تحمل سے برداشت کر بجانے والی میری اماں بھائی کس بے قراری سے وہاں سے آکر بار بار کہا کرتی تھیں کہ مجھے قادیان مرور پہنچاتا یہاں نہ رکھ لینا (یعنی بعد وفات) اگر کوئی گھبراہٹ ظاہراً دیکھی تو لیس ایک اسی بات کے لئے ! سخت گرب پیدا ہوتا ہے اِس خیال سے کہ یہ آرزو حضرت اماں جان داغ ہجرت میں وفات کی پورانہ ہونا اور اُن کا ہجرت میں واری جدائی دینا بے شک پیشگوئی کی اور داغ کے مطابق ہوا مگر کہیں ہم لوگوں کی شامت اعمال تو اس وقت کو نز دیک نہیں کھینچ لائی ہیں منشاء المی تھا اور ضرور تھا.جو ہونا تھا وہ ہوا مگر آپ تو مخدا کرے وہ دن بھی جلد ہی لائے کہ حضرت امان جانی کی تمنا کو پورا کرنے والے آپ لوگ نہیں اور ہم سب اس طرح حضرت اماں جانیے کو اُن کے اصل مقام میں لے جائیں جس طرح جانا ان کے شایان شان ہے (آمین) بہت سال ہوئے حضرت سید نا بھائی صاحب نے ایک دن مجھے ایک دعا اور اُس کی قبولیت کہا تھا کہ "یکی بھی یہ دعا کیا کرتا ہوں تم بھی کیا کرو کہ امالی جانی کو خداتعالی مدت دراز تک سلامت رکھے مگر اب امانی جانی ہم میں سے کسی کا صدمہ نہ دیکھیں یا میں نے اُس دن سے اس دعا کو ہمیشہ یاد رکھا اور اپنی خاص اِس دعا کے ساتھ کہ ایسا وقت اس حالت میں نہ آئے کہ میں اماں جان سے دُور ہوں.میں سالہا سال مالیر کوٹلہ وہی کو بار بار اور جلد جلد آتی تھی کیونکہ حضرت اماں جانی اور اس گھر کو، بھائیوں کو دیکھے بغیر مجھے چکن ہی نہ آتا تھا مگر جب بھی وہاں ہوتی حضرت اماں جان کے متعلق تو تمات مجھے چکن سے نہ رہنے دیتے.لیکں نے میاں مرحوم سے صاف کر یہ گھا یعنی سید نا حضرت مصلح موعود :
114 تھا کہ میں یہاں آپ کا ساتھ دے کہ رہتی تو ہوں لیکن اگر کبھی اماں جان کی علالت کی خبر مجھے ملی تو ہرگز نہ مجھے کسی اجازت کی حاجت ہوگی نہ کوئی ساتھ ڈھونڈنے کی لیکن ایک منٹ بھی پھر نہیں ٹھہروں کی خواہ اکیلئے چل پڑنے کی صورت ہو ہمیشہ ہر حال میں میں نے ایک رقم الگ محفوظ رکھی اس نیت سے کہ اماں جائی کو خدا نہ کرے کبھی تکلیف ہو تو کسی روپیہ کے انتظام کے لئے میرا گھنٹہ بھر بھی ضائع نہ ہو.الحمد للہ ! کہ وہ دعا بھی خدا تعالیٰ نے قبول فرمائی خدمت کے قابل گو ہیں نہ رہی تھی مگر پاس رہی.منہ دیکھتی رہی اور وہ پاکیزہ نعمت الہی جو مجھے دنیا میں لانے کا ذریعہ ایک دن بنی تھی میری آنکھوں کے سامنے میرے ہاتھوں میں اس دنیا سے رخصت ہو کر محبوب حقیقی سے بھائی ڈالے ار چن تاریخی شخصیت ا چھی لیاتونے مجھے اپنے سیما کے لئے " آپ میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جس نے یہ دعائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام والصلوة بزبان حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نہ پڑھی ہوگی.یہ مصرعہ آپ کو اس وجود کی اہمیت اور بزرگی کا مرتبہ بجھانے کے لئے کافی ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے مسیحا کے لئے چن کر چھانٹ لیا وہ کیا چیز ہوگی ؟ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کا وجود بھی اس زمانہ کی مستورات کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نمونہ بنا کر اپنے مرسل مسیح موعود اور مہدی معہود کے لئے رفیق حیات منتخب فرما کر بھیجا تھا اور آپ کی تمام حیات آپ کی زندگی کا ہر پہلو اس پر روشن شہادت دیتا رہا اور دے رہا ہے اور ہمیشہ تاریخ احمدیت پر مہر درخشاں کی مانند چمک دکھلا کر شہادت دیتا رہے گا یا ہے سے مهم شه روزنامه الفضل ۱۱ هجرت ۱۳۳۱ انش / ۱۱ مئی ۱۹۵۲ء ص۲۲۳ : له نصرت المحق ناشر خدام الا حديثه بود صلاه ۱۳۱۳ طبع اول : سہ آپ کی سوانے اور سیرت پر مشتمل لٹریچر شائع ہو چکا ہے شکلا (1) سیرت نصرت جہاں میگیم محمد اول (مصنف شیخ محمود احد صاحب عرفانی باید سر دیر الم طبع اول دسمبر ۱۹۲۳ مطبوعی انتظامی پریس حیدر آباد دکن (۲) سیرت نصرت جهان میگیم حصہ دوم (مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر موتین تاریخ اشاعت ۲۵ جولائی ۱۹۴۵ء مطبوعہ انتظامی پر ایس حیدر آباد دکن).(۳) نصرت الحق (ناشر چوہدری عبد العزیز صاحب واقف زندگی متهم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ مرکز ہے.ان کتابوں کے علاوہ وسط ۳۳۱ آتش ۱۹۵۲ میں رسالہ معیات اور رسالہ درویش کے خصوصی نمبر کے اخلاق و شمائل پر شائع کئے گئے :
114 دوسرا باب جماعت احمدیہ کے جلسہ کراچی سے ایک مسلہ اقلی سے متعلق حضرت مصلح موعود کے ضامتی اعلان تک فصل اوّل مرکز تعلیمی اداروں کوایک ضروری برایت الجزائری نمانده احتفال العلماء کی ربوہ میں آمد و جماعت احمدیہ کا مبینہ کراچی مخالف عناصر کا ہنگامہ اور پاکستان اور بیرونی ممالک میں اس کا وسیع و عمل ر تعلیمی ہدایات چونکہ سلسلہ احمدیہ کے مرکز کی تعلیمی اداروں سے ز تعلیمی اداروں کوایک ضروری ہدایت فارس تحصیل ہونے والے جانوں کو علم و اخلاقی اعتبار سے بہت بلند معیار پر ہونا چاہئیے اس لئے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے ہر ہجرت
HA ۱۳۳۱ اہش / مئی ۱۹۵۲ء کو بذریعہ خطبہ جمعہ واضح ہدایت دی کہ ہمارے مرکزی سکولوں اور کالجوں کے منتظمین کا فرض اولین ہے کہ وہ آئندہ نسل کی ایسے بہترین رنگ میں تربیت کریں کہ وہ مستقبل میں اسلام کے لئے مفید وجود بن سکیں.چنانچہ حضور نے فرمایا :- اساتذہ کا فرض ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ اُن کی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں تو وہ اُن کے ماں باپ سے مشورہ کریں اور ان کی اصلاح کی تدابیر سو ہیں مگر یہ طریق صرف اُن لڑکوں کے متعلق اختیار کیا جاسکتا ہے جو بورڈنگ میں نہیں رہتے.جو لڑ کے بورڈنگ میں رہتے ہیں ان کی تو سو فصیدی ذمہ داری اساتذہ اور نگران عملہ پر ہی عائد ہوتی ہے.یہی ضرورت یکن سمجھتا ہوں دینیات کے مدارس میں بھی ہے.وہاں بھی ہیں غفلت پائی جاتی ہے.لڑکے تعلیم پارہے ہوتے ہیں اور ہم یہ مجھ رہے ہوتے ہیں کہ میں مبلغ تیار ہو جائیں گے مگر ہوتا یہ ہے کہ بیس بے دین یا میں لکھتے یا نہیں ناکارہ یا بیس جاہل پیدا ہو جاتے ہیں." اُستاد کا کام نہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے کو ریس کو جوکہ ا کرے بلکہ اُس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ زائد سٹڈی کروائے.کوئی طالب علم صحیح طور پر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا جب تک اُس کا مطالعہ اس قدر وسیع نہ ہو کہ وہ اگر ایک کتاب مدرسہ کی پڑھتا ہو تو دس کتابیں باہر کی پڑھتا ہو.باہر کا علم ہی اصل علم ہوتا ہے.استاد کا پڑھایا ہوا علم صرف علم کے حصول کے لئے محمد ہوتا ہے، سہارا ہوتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعہ وہ سارے علوم پر حاوی ہو سکے.دنیا میں کوئی ڈاکٹر نہیں بھی سکتا اگر وہ اتنی ہی کتابیں پڑھنے پر اکتفا کرے جتنی اسے کالج میں پڑھائی بھاتی ہیں.دُنیا میں کوئی وکیل وکیل نہیں بن سکتا اگر وہ صرف اتنی کتابوں پر ہی انحصار رکھے مبنی اُسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں.دُنیا میں کوئی مبلغ مبلغ نہیں بن سکتا اگر وہ صرف انہی کتابوں تک اپنے علم کو محدود رکھے جو اسے مدرسہ میں پڑھائی جاتی ہیں.وہی ڈاکٹر ، وہی وکیل اور وہی مبلغ کامیاب ہو سکتا ہے جو رات اور دن اپنے فن کی کتابوں کا مطالعہ رکھتا ہے اور ہمیشہ اپنے علم کو بڑھاتا رہتا ہے.پس جب تک ریسر پے ورک کے طور پر نئی نئی کتابوں کا مطالعہ نہ رکھا جائے اُس وقت تک لڑکوں کی تعلیمی حالت ترقی نہیں کر سکتی یہ ہے RESEARCH WORK : له الفضل یکم احسان ۱۳۳۱ اہش مٹ ہے تے
119 کراچی میں احتفالی علماء اسلام کا ایک الجزائری نمائندہ احتفال العلماء کی ربوہ میں آمد.سر دروازه اجلاس ۱۶-۱۷-۱۸ فروری ۱۹۵۲ء کو منعقد ہوا جس میں مسلم ممالک کے ہم علماء نے شرکت کی.۲۱ علماء پاکستان کے تھے اور ۲۲ ایران، انڈونیشیا، عراق، افغانستان، مصر، شام، ہندوستان اور الجیریا سے تشریف لائے.اجلاس نے متفقہ قرارداد کے ذریعہ استعماری طاقتوں کوخبردار کیا کہ کشمیر اور تمام دوسرے اسلامی مالک کے متعلق اپنی پالیسی فور ابدل لیں ورنہ امن عالم خطرہ میں پڑ جائے گا لے اجلاس میں الجدائمہ کی نمائندگی علامہ محمد بشیر الابراہیمی الجزائری نے کی جو اس ملک کے ایک مقتدر عالم اور قریباً ۳۰ اسکولوں کے نگران و ناظم تھے.علامہ موصوف اجلاس کے بعد کراچی میں کچھ عرصہ قیام کے بعد در ہجرت ۱۳۳۱اہش / مئی ۱۹۵۲ء کو مرکزیہ احمدیت میں تشریف لائے.آپ کے اعزاز میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہال میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں ریوہ جلسہ کے عربی دان بزرگ اور اصحاب خصوصیت سے شامل ہوئے.تلاوت قرآن عظیم کے بعد الجزائری مندوب کے ترجمان محمد عادل قدوسی صاحب نے آپ کا تعارف کرایا.پھر اہل ربوہ کی طرف سے مکرم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مبلغ بلا دیویہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ نے خوش آمدید کہا.آپ نے سب سے پہلے معزز مہمان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ گرمی کے موسم میں سفر کی صعوبتیں برداوات کرکے ربوہ تشریف لائے جہاں نئی بستی ہونے کی وجہ سے نہ اشجار ہیں نہ پانی کی کثرت اور نہ یہ کوئی بڑا شہر ہے گو انشاء اللہ بہت جلد ربوہ ایک بڑا شہر بن جائے گا لیکن فی الحال اس کی حیثیت ایک چھوٹی می لیستی کی ہے جس میں شہروں جیسے آرام و سامان میسر نہیں آسکتے.ازاں بعد آپ نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کے تمام مر چھوٹے اور بڑے، مرد اور عورتیں سب کے دماغ میں صرف ایک ہی بات سمائی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانا اور تمام مسلمانوں کو وحدت کے رشتہ میں پرونا ہے.مولانا ابو العطاء صاحب کی تقریر کے بعد جناب علامہ محمد شبیر ابہ اہمی نے الجزائر مسلمانوں کی فرانسیسی انقلاب کے خلاف تحریک آزادی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی جد و جہد آزادی پر روشنی لے زمیندار (لاہور) ۱۹ - فروری ۱۹۵۲ء ص :
۱۲۰ ڈالی اور بتایا کہ کس طرح طویل جد و جہد کے بعد الجزائمہ کو غلامی سے نجات ملی.تقریر کا دوسرا حصہ تربیتی رنگ کا تھا جس میں آپ نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ مسلمان قوم پر جو آجکل نکبت و ادبار کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالے کو اس قوم کے ساتھ کوئی دشمنی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ سلمانوں نے اسلامی تعلیم مھلادی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان مسلمان نہیں رہے اور آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جہاں آپ یورپ میں اسلامی تعلیمات پھیلاتے ہیں وہاں مسلمانوں کی اصلاح کو مقدم کریں.لیکن آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمان علماء کی حالت خصوصاً اعمال کے لحاظ سے نہایت ناگفتہ یہ ہے وہی ساری خرابی کے ذمہ دار ہیں.وہ اسلام کی روح کو بھلا بیٹھے ہیں آپ کو ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیئے.آخر میں آپ نے فرمایا یہاں یکی اجنبیت محسوس نہیں کرتا کیونکہ کثرت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو عربی زبان مادری زبان کی طرح بول سکتے ہیں.آپ کی تقریر کے بعد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے صدارتی خطاب میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور دعا پر یہ تقریب ختم ہوئی بیہ اب ہم اس سال کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے جماعت احمدیہ کراچی کا سالانہ جلسہ تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر آن پہنے ہیں جہاں سے حالات نے یکا یک پلٹا کھایا اور اہل پاکستان عمومًا اور جماعت احمدیہ پاکستان خصوصاً ایک سنگین اور تشویش انگیز صورتِ حال سے دو چار ہو گئے.واقعہ یوں ہوا کہ جماعت احمدیہ کراچی کا سالانہ جلسہ ۱۷ و ۱۸ مئی بروز ہفتہ و اتوار بعد نماز مغرب جهانگیر پارک میں مقرر تھا جس کا اعلان دو پوسٹروں، ہینڈیل اور دعوتی خطوط کے ذریعہ اچھی طرح سے کیا گیا.پوسٹروں کے شائع ہوتے ہی ایک طرف تو مسجدوں میں تقریریں کر کے عوام الناس کو اشتعال دلانے اور جلسہ کو ناکام بنانے کے لئے ہرنا جائز طریق استعمال کرنے کی ترغیب دلائی گئی، دوسری طرف ذمہ دار حکام پر تاروں وغیرہ کے ذریعہ زور دیا گیا کہ وہ اس جلسہ کے انعقاد کی اجازت نہ دیں لیکن اس میں صریح ناکامی ہوئی.له الفضل زار ہجرت ۱۳۳۱ پیش کر ۱۱ مئی ۱۹۵۲ء صدر ہے
پروگرام کے مطابق پہلے دن کے اجلاس میں تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد پہلا اجلاس محترم عومه ری عبدالله خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے افتتاحی چوہدری خطاب فرمایا.اس کے بعد حسب ذیل موضوعات پر تقاریر ہوئیں: ا.قرآن کو نیم کے کامل ہونے کے دلائل مولانا ابو العطاء صاحب فاضل مبلغ بنا و تربيه ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب آف ہو گا ۳.اتحاد بین المسلمين کیا یہ وہی زمانہ ہے جس میں سیچ موجودوم مولانا جلال الدین صاحب شستن بینیخ باید گریه مهدی مسعود کا ظہور مقد رتھا ؟ و انگلستان ۴.حیات مسیح علیہ السلام کے عقیدہ سے اسلام سید احمد علی شاہ صاحب سیالکوئی ہے اسلام کو کیا نقصان پہنچا ہے ؟ صاحب صدر کی تقریر شروع ہوتے ہی بعض لوگوں نے آوازے کسنے ، نعرے لگانے اور گالیاں دینی شروع کر دیں پولیس نے ان لوگوں کو جو ایک پروگرام کے ماتحت جلسہ گاہ کی مختلف سمتوں ہیں پھیلے ہوئے تھے ایک طرف دھکیلنا شروع کیا تا کہ انہیں جلسہ گاہ کے باہر نکال دے لیکن جب یہ لوگ تشدد پر اتر آئے اور پولیس پر بھی پتھراؤ شروع کر دیا تو پولیس کو مجبور الاٹھی چارج کرنا پڑا.ہر تقریر کے دوران شرپسند باہر والوں کو اکسا کہ اندر لے آتے اور پھر شور مچانا شروع کر دیتے جس سے ان کی غرض یہ ہوتی کہ تقریریں نہ ہو سکیں اور جلسہ بند ہو جائے لیکن جب اس مقصد میں کامیابی نہ ہوسکی تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ آوازے گئے ، نعرے لگائے بلکہ سخت سے سخت گندی اور فحش گالیاں دیں، تالیاں پیٹیں سیٹیاں بجائیں اور رقص کرنا شروع کر دیا.یہ وہ وقت تھا جب کہ مولانا ابو العطاء صاحب قرآن کریم کے کامل ہونے کے دلائل بیان کر رہے تھے.اس ہنگامہ آرائی کے باوجود سامعین علیہ خصوصاً غیر از هیات معززین اور شرفاء جو محض تقریریں سننے کی غرض سے تشریف لائے ہوئے تھے آخر تک نہایت پیپسی اور ذوق و شوق کے ساتھ تقریریں سنتے رہے.اس کے بعد جونہی صاحب صدر نے اجلاس اول کی کاروائی کے خاتمہ کا اعلان کیا ایک جتھے آگے بڑھا اور آن رتیوں کو جو پولیس نے سٹیج کے گرد لغرض حفاظت باندھی تھیں پھلانگ کر سٹیج پر حملہ کرنا چاہا جس پر پولیس کی ایک بڑی جمعیت نے اندر جانے سے روک دیا.اس موقعہ پر ان لوگوں نے لے یادر ہے احرار کے مذہبی راہ نماؤں کا فتوای احمدیوں کی نسبت یہ ہے کہ اُن کی واہیات (باقی اگلے صفویہ)
۱۲۲ پولیس پر پتھر وغیرہ پھینکے اور مقابلہ کیا لیکن پولیس نے انہیں پیچھے ہٹا دیا اور ان کا ایک آدمی بھی حفاظتی لائن کے اندر داخل نہ ہو سکا.اس ہنگامہ میں جماعت کے بعض احباب کو بھی نہیں یہ حکم تھا کہ وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہیں پولیس کے لاٹھی چارج سے چوٹیں آئیں.اس سے قبل بجلی کی تاریں کلٹ دی گئیں.لاؤڈ سپیکر گرا دیا گیا لیکن چونکہ سٹیج پر لاؤڈ سپیکر ٹھیک کام کر رہا تھا اس لئے وہ اپنی اس حرکت سے بھی جلسہ کو خراب نہ کر سکے جلسہ ختم ہونے کے بعد لوگ باہر جانے لگے تو بعضی احمدیوں کی کاروں پر بلکہ اُس کار پر بھی جس میں علماء کرام تشریف لے جارہے تھے پتھر پھینکے گئے جس سے کا بروں کے شیشے ٹوٹ گئے اور بعض کو سخت نقصان پہنچا.دوسرے دن اتوار کی صبح کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب نے جہانگیر پارک کے چاؤں دوسرا اجلاس طرف آدھ آدھ میل تک دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی اور تمام شہر میں اعلان کرایا کہ احمدیہ جماعت کا جلسہ جہانگیر پارک میں بدستور منعقد ہو گا لیکن پارک کے ارد گرد و قصه ۱۴۴ نافذ کر دی گئی ہے کوئی آدمی لاٹھی وغیرہ ساتھ لے کر نہ آئے اور پانچ سے نہ اٹلہ آدمی با ہر جمع نہ ہوں.دوسرے دن کے جلسے میں تلاوت قرآن کریم اور تنظیم کے بعد حسب ذیل موضوعات پر تقاریر ہوئیں :- ا.جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات مولانا عبد المالک خان صاحب ۲.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل احمدیہ کو مولانا ابو العطاء صاحب نقطہ نگاہ سے.چو ہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان نے اسلام زندہ مذہب ہے.ا.مخالفین احمدیت کے اعتراضات کے جوابات.مولانا جلال الدین صاحب شمس انخلا میں دوم میں بھی شور و غوفا بلند کرتے ہیں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی.ایں ہمہ لیکس کی کاروائی بدستور جاری رہی.اس روز سامعین کی تعداد سات آٹھ ہزار کے قریب تھی جلسہ میں چیف کشتر صاحب بقیہ کاش می فر گذشتہ :.مت منو اگر ہو سکے تو اپنی جماعت سے خارج کر دو بحث کر کے ساکت گیر تا اگر ہو سکے ضرور ہے ورنہ ہاتھ سے اُن کو جواب دوی" تذكرة المهرشید حصہ اول هنا سوانح مولوی رشید احمد صاحب گنگویسی مولفہ مولوی محمد عاشق باشی صاحب میرٹھی ناشتہ حافظ محمد مقبول اٹھی صاحب طبع دوم مطبع محبوب المطابع دہلی)
irt آئی جی پولیس ، سپرنٹنڈنٹ ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ، ڈسٹرکٹ اور ایڈیشل مجسٹریٹ وغیرہ اعلیٰ حکام بھی موجود تھے.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تقریشی شروع ہوتے ہی باہر کے لوگوں کو اندر آنے سے روگ دیا گیا اور اُن لوگوں کو جو ایک بھاری تعداد میں با ہر جمع ہو کر نعرے لگارہے تھے اور شور مچا رہے تھے پولیس نے سمجھایا کہ دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت اُن کا وہاں آنا خلاف قانون ہے لیکن اس کا الٹ نتیجہ بر آمد ہوا اور غضبناک ہجوم تشدد پر اتر آیا مجبوراً پولیس کو بھی کئی بار اشک آور گیس استعمال کر نا پڑی جین کے بعد بلوائیوں نے شیزان ہوٹل کو آگ لگادی، شاہنواز موٹرز کے شوروم پر سنگباری کر کے شیشے توڑ وئے اور نئی موٹروں کو نقصان پہنچایا، احمدیہ فرنیچر ہاؤس میں آگ لگا دی بلوائیوں نے بہت ڈر روڈ پر احمدیہ لائبریزی اور احمدیہ ہال (احمدیہ سجد) کو بھی جلانے کی کوشش کی اور گو فائر بریگیڈ نے موقع پر پہنچ کر آگ بجھا دی لیکن اس کے با وجود ان مقامات پر ہزاروں روپے کا نقصان ہو گیا.اس وقت اپنے دیتے احمدیوں کو بھی ظلم کا تختہ مشق بنایا گیا.ایک نوجوان کے سر پر سخت چوٹیں آئیں.ایک احمدی نوجوان پر چاقو سے قاتلانہ حملہ کیا گیا مگر وہ خدا کے فضل سے محفوظ رہے.احمدیوں کا صبر و تقتل اس نہایت دل آزار اور اشتعال انگیز فضا میں احمدیوں نے صبر و تحمل اور اطاعت و فرمانبرداری کا جو نمونہ دکھا یا وہ اپنی نظیر آپ تھا فحش گوئی اور گالیوں کی بوچھاڑ میں بھی ہر احمدی نے قانون کا احترام ضروری سمجھا اور شروع سے آخر تک پورے وقار کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ کر قال اللہ اور قال الرسول کی اس پاکیزہ مجلس سے ہر کن استفادہ کیا.جلئیے کراچی کے موقعہ پر مطار سلسلہ چوہدری مد ظفراللہ خان ایک ایمان اوری ایران این بیاید و پیاز معلومات تھیں خصوصا چوہدری محمد ظفر اللہ بخاری صاحب کا خطاب بہت ایمان افروز تھا جس میں آپ نے علمی اور واقعاتی دلائل سے روز روشن کی طرح ثابت کیا کہ دنیا میں صرف اسلام ہی زندہ مذہب ہے به تقریر کا خلاصہ افضل اور ہجرت ۱۳۳۱ امت میں شائع شدہ ہے ایضاً تحدیث نعمت ماده مو فر مودودی محمد ظفر اللہ خان صاحب طبع بول دسمبر > ۱۹ و مطبع جسارت پرنٹر نہ ۲۳ سریکہ روڈ کا ہو رہے
۱۲۴ آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف صاحب شریعت نہیں بنایا بلکہ آپکو خاتم النبیین کا بے مثال مقام عطا فرمایا اور وہ کتاب بخشی جو منتصر سی کتاب ہونے کے با وجود معانی و مطالب میں غیر محدود ہے اور ایک صحیفہ میں گویا کئی سمند رہن ہیں.ان حقائق پر روشنی ڈالنے کے بعد آپ نے قرآن مجید کی اس خصوصیت کو پیش کیا کہ خدا تعالیٰ نے اس کے نزول کے ساتھ ہی اس کی لفظی ، لغوی اور معنوی ہر اعتبار سے حفاظت کا وعدہ فرمایا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :- انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ له میں نے یہی اس ذکر کو نازل کیا اور نیکی ہی اس کی حفاظت کرونگا قرآن مجید کی معنوی حفاظت کے ضمن میں آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے منظوم اور عارفان کلام میں سے متعدد اشعار پڑھے جن میں حضرت اقدس علیہ السلام نے ضایت وجد آفریں اور روح پرو انداز میں خدا تعالی قرآن مجید خاتم الانبیاء حمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے فضائل و محاسن کا تذکرہ فرمایا ہے.چوہدری صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں واضح فرمایا کہ احمدیت خدا کا لگایا ہوا پودا ہے.یہ پودا قرآنی وعدہ کے عین مطابق اسلام کی حفاظت کے لئے لگایا گیا ہے اور اس غرض سے لگایا گیا ہے تا اس زمانہ میں بھی اسلام کا زندہ مذہب ہونا ، قرآن کا زندہ کتاب ہونا اور خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ رسول ہو نا پوری دنیا پر ظاہر ہو جائے.تحقیقاتی عدالت کی رپور میں ا ا ا ا ا ا ا ا ر ات یا عدالت می باید کراچی تحقیقاتی ۱۹۵۳ء میں اور چوہدری صاحب کی تقریر کا خاص طور پر ذکر کیا ہے چنانچہ لکھا ہے :- در کراچی میں اشتہار دیا گیا کہ انجمن احمدیہ کراچی کا ایک علیہ ۱۸۰۱۷ مئی ۱۹۵۲ء کو جہانگیر پارک میں منعقد ہوگا اور اس میں دوسرے مقررین کے علاوہ چوہدری ظفر اللہ خان بھی تقریر کریں گے اگر چہ یہ جلسہ انجمن احمدیہ کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا لیکن یہ جلسہ عام تھا جس میں جمہور کا کوئی فرد بھی تقریریں سننے کے لئے شریک ہو سکتا تھا.اس جلسے سے چند روز پہلے خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم سورة الحجر آیت :10
۱۲۵ نے اس امر کے خلاف اپنی ناپسندی کا اظہار کیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان نے ایک فرقہ وار جلسہ عام میں شرکت کا ارادہ کیا ہے لیکن چوہدری ظفر اللہ نے خواجہ ناظم الدین سے کہا کہ نیکی انجمن سے وعدہ کر چکا ہوں اگر چند روز پہلے مجھے یہ مشورہ دیا جاتا تو یکی مجلسے میں شریک نہ ہوتا لیکن وعدہ کر لینے کے بعد یکیں اس جلسہ میں تقریر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں.اور اگر اس کے باوجود بھی وزیر اعظم اس بات پر مصر ہوں کہ مجھے جلسے میں شامل نہ ہونا چاہیئے تو میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کو تیار ہوں.اس جیسے کے پہلے اجلاس پر عوام کی طرف سے ناراضی کا مظاہرہ کیا گیا اور اجلاس کی کارروائی میں مداخلت کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن ۱۸ مئی کو قیام امن کے لئے خاص انتظامات کئے گئے اور چوہدری ظفر اللہ خاں نے اس عنوان پر تقریر کی کہ اسلام زندہ مذہب ہے ؟ ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت سے اسلام کی برتری اور خیمیت کے مسئلے پر یہ ایک فاضلانہ تقریر تھی مقرر نے واضح کیا کہ قرآن آخری الہامی کتاب ہے جس میں عالم انسانیت کے لئے آخری ضابطہ حیات مہیا کیا گیا ہے کوئی بعد میں آنے والا ضابطہ اس کو موقوف نہیں کر سکتا.پیغمبر اسلام صلعم خاتم النبیین ہیں جنہوں کو نے عالم انسالی کو اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام پہنچایا ہے اور اس کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا جونئی شریعت کا حامل ہو یا قرآنی شریعت کے کسی قانون کو منسوخ کر سکے.احمدیوں کے مسلک کے متعلق پوری تقریر میں صرف اتنا اشارہ کیا گیا تھا کہ رسول اللہ کے وعدے کے مطابق ایسے اشخاص آتے رہیں گے جو اللہ تعالی کی طرف سے تجدید دین پر مامور ہوں گے تاکہ اصلی دین اسلام کی پاکیزگی کو محفوظ کرنے کی غرض سے اس کی اصلاح و تجدید کریں اور اگر اس میں کوئی غلطی فرو گذاشت یا بدعت راہ پاگئی ہو تو اس کو دور کر دیں.مقرر نے دعوی کیا کہ مرزا غلام احمد اسی قسم کے مجدد تھے.تقریر کے آخر میں انہوں نے کہا کہ احمدیت ایک ایسا پودا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود لگایا ہے اور اب جڑ پکڑ گیا ہے تاکہ قرآن کے وعدے کی تکمیل میں اسلام کی حفاظت کا ضامن ہو یا سے چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب اپنی خود نوشت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کا بیان سواری مری میں واقع کراچی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.اے رپورٹ تحقیقاتی عدالت نسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صت، ما اُردو ایڈیشن :
۱۲۶ ۱۹۵۲۰ء کے جماعت احمدیہ کراچی کے سالانہ جلسے میں مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا گیا تھا میں نے اپنی تقریر کا عنوان" اسلام زندہ مذہب ہے انتخاب کیا.جب جلسے کا دن قریب آیا تو بعض عناصر کی طرف سے جیسے کے خلاف اور خصوصا میرے تقریر کرنے کے خلاف آواز اٹھائی گئی.جلسے کے دن تک یہ مخالفت بظاہر ایک منتظم صورت اختیار کر گلی میں نے تقریر کی.دوران نظری میں کچھ فاصلے سے شور و شعب کے ذریعے جلسے کی کاروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش بھاری رہی کچھ آوازے بھی کئے گئے.تقریب کے بعد میں اپنے مکان پر واپس آگیا.جہاں تک اہم ہے گو کسی قدر بد مزگی تو پیدا کی گئی لیکن الحمد شہد کوئی فساد نہیں ہوا.وقتاً فوقتاً جماعت احمدیہ کے جلسوں یا دیگر سر گر میوں کے خلاف مختلف مقامات پور جوش کا مظاہرہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی جہاں کہیں ایسی صورت پیدا ہوتی رہی جماعت کار ایل بفضل اللہ امن پسندی کا رہا.جماعت کی طرف سے کبھی خلاف و قاریا موجب استعمال کا رروائی یا حرکت ظہور میں نہیں آئی تیجہ ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ دو چار روز میں مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا.اس موقعہ پر خلاف معمول ایک تو متعدد عناصر نے مل کر مخالفت کا ایک محاذ قائم کر لیا اور دوسرے مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑنے کی بجائے زور پکڑتا گیا اور بعض دوسرے مقامات پر بھی تائیدی مظاہر سے شروع ہو گئے.رفتہ رفتہ اس محاذ کی طرف سے ایک فرست مطالبات کی تیار کی گئی اور کثرت سے عوام کے دستخطوں کے ساتھ بذریعہ ڈاک حکومت کو پہنچائی جانے لگی...یہ سلسلہ جاری تھا کہ میں اقوام متحدہ کی اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے نیو یارک پھل گیا.میری غیر حاضری میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل کا تو مجھے کوئی ذاتی علم نہیں کیونکہ اس نوع کی بہت کم کوئی خیر مجھے امریکہ اپنی سیکھیں ور ایسی پر معلوم ہوا کہ یہ تحریک بہت زور پکڑ چکی ہے.امریکہ بجانے سے پہلے بھی اور امریکہ سے واپسی کے بعد بھی یکس نے خواجہ ناظم الدین صاحب کی خدمت میں گزارش کی کہ اگر میرے وزارت خارجہ سے علیحدہ ہو جانے سے آپ کے لئے سہولت ہو جاتی ہے تو لیکن آپ کی خدمت میں اپنا استعفے پیش کر دیتا ہوں لیکن خواجہ صاحب نے اسے پسند نہ فرمایا بلکہ کہا کہ تمہارا استعفیٰ دینے سے مشکل حل نہیں ہوگی بلکہ اور پڑھے گی.جو صورت حال پیدا کر دی گئی وہ ہر چند مجھ پر گراں تھی لیکن اقامة فى ما اقام الله (جمال اللہ تعالی کھڑا
۱۲۷ کرنے وہاں قائم رہنا کا مقدسی ارشاد اور فرض کی ادائیگی کا احساس ترکی خدمت کے رستے میں روک تھے اے تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب کے فاضل ججوں جماعت احمدیہ کے خلاف بین مطالبات نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے احادیوں نے ان موقعہ سے جس کا وہ مدت سے انتظار کر رہے تھے خوب فائدہ اٹھا یا یہ اس سلسلہ میں احرار نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ کراچی میں ہیں مختلف علماء کو فوراً جمع کر کے خفیہ مشورہ کیا اور ۲ جون ۱۹۵۲ء کو ایک کا نفرنس میں مندرجہ ذیل مطالبات تشکیل دیئے :- احمدی غیر مسلم اقلیت قرار دئے جائیں.۲ - چوہور محمد ظفراللہ خان صاحب وزیر خارجہ کے عہدہ سے بر طرف کئے بجائیں.ہ احمدیوں کو تمام کلیدی اسامیوں سے ہٹا دیا جائے.جو مطالبات ایک اسلامی مملکت کے اخذ یہ آتش زنی، ہلڑ بازی اور قانون شکنی کی پس منظر کوکھ سے جنم لیں اُن کے صحیح خد و خال کا پہچاننا چنداں مشکل نہیں تاہم مذکورہ مطالبات کے حقیقی این منظر کہ سمجھنے کے لئے پاکستان کے ایک سوشلسٹ ویب عبد اللہ ملک صاحب کا مت درجہ ذیل تجزیہ بہت ممد و معاون ہو گا.آپ لکھتے ہیں:.قادیانیوں کے خلاف مجلس احرار کی تحریک کو ایک مذہبی تحریک کے طور پر سمجھنے کی کوشش ہمیشہ کی بجاتی رہی ہے لیکن تمام تقدس کے باوجود یہ مذہبی تحریکیں سیاسی اور اقتصادی تقاضوں کی استان اور ضرورتوں کے لئے اوپر کا خول ہوتی ہیں کبھی یہ تحریکیں عوامی خواہشات کا مظہر بن جاتی ہیں تو کبھی یہ بدترین قسم کے رجعت پسند طبقوں کے ہاتھ کا ہتھیار بن جاتی ہیں چنانچہ خود احرار کے قائد بھی اس DAY تحدیث نعمت ماه و ماه - مؤلفہ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب - اشاعت اول دسمبر ۱۹۷۱ ء مطبع چہارت پرنٹرز، ۲۴ سرکلر روڈ لاہور، ناشر ڈھا کہ بے نیولینٹ ایسوسی ایشن.ڈھا کہ کے رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فرادات پنجاب ۶۱۹۵۳ اردو صنت ، مطبوعہ انصان پریس لاہور :
۱۲۸ تحریک کے سیاسی تقاضوں کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے " اے عبداللہ ملک صاحب کے اس نظریہ کی مکمل تائید خود زعمائے احرار کے مستقل عقیدہ و مسلک سے بھی ہوتی ہے چنانچہ مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب فتنہ قادیان کے زیر عنوان تردید فرماتے ہیں :.لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ احرار کو کیا ہو گیا کہ مذہب کی کل کل میں پھنس گئے یہاں بھینس کو کون نکلا ہے جو نہ نکلیں گے ؟ مگر یہ کون لوگ ہیں وہی جن کا دل غریبوں کی مصیبتوں سے خون کے آنسو روتا ہے.وہ مذہب اسلام سے بھی بیزار ہیں اس لئے کہ اس کی ساری تاریخ شہنشاہیت اور بجاگیرداری کی دردناک کہانی ہے.کسی کو کیا پڑی کہ وہ شہنشاہیت کے خس و خاشاک کے ڈھیر کی چھان بین کر کے اسلام کی سوئی کو ڈھونڈے تا کہ انسانیت کی بچاک دامانی کا رفو کر سکے.اس کے پالس کارل مارکس کے سائنٹفک سوشلزم کا ہتھیار موجود ہے وہ اس کے ذریعہ سے امراء اور سرمایہ داروں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اسے اسلام کی اتنی لمبی تاریخ میں سے چند سال کے اوراق کو ڈھونڈ کہ اپنی زندگی کے پروگرام بنانے کی فرصت کہاں ؟“ ہے احراری لیڈروں نے اسی بناء پر متحدہ ہندوستان میں اعلان کیا تھا :.اسلام کے باغی پاکستان سے ہم اس ہندو ہندوستان کو پسند کریں گے جہاں نماز روزہ کی اجازت کے ساتھ اسلام کے باقی عدل وانصاف کے پروگرام کے مطابق نظام حکومت ہوگا یعنی ہر شخص کو صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صدیق اکبر اور فاروق اعظم کی زندگی کی پیروی میں محض ضروریات زندگی مہیا کی جائیں گی اور کسی کو کسی دوسرے پر سیاسی یا اقتصادی فوقیت نہ ہوگی یا امراء اور سلاطین کی لوٹ کھسوٹ سے لوگوں کو بچاتا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مشن ے پنجاب کی سیاسی تحریکیں ۲۰ از عبدالله ملک صاحب ناشر نگارشات پبلیشر طبع اول یکم جنوری ۱۹۷۱ ء مطبع علمی پر تنگ پریس لاہور : سے " تاریخ احرار صد از چوہدری افضل حتی صاحب طبع اول ام ۱۹ ء طبع ثانی ۶۱۹۶۸- ناشر دفتر مکتبہ مجلس احرار اسلام پاکستان کا شانہ معاویہ ۲۳۲ کوٹ تعلق شاه ملتان، دفتر مجلس اورابر اسلام پاکستان مقابل شاہ محمد غوث بیرون دہلی دروازہ لاہور شهر به
تھا.اپین ار محمد علی جناح اسلام کے اقتصادی اور سیاسی نظام کے خلاف کسی سرمایہ داری کے نظام کو چلائے تو نفع کیا اور اگر جواہر لحل اور گاندھی خلفائے راشدین کی پیروی میں سوسائٹی میں نابرابری کے سارے نقوش کو مٹاتے چلے جائیں تو بطور مسلمان کے تمہیں نقصان کیا ہے اے پھر لکھا :.مچنین احرار کا ہر دستور عمل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کیا جاتا ہے اس لئے پاکستانی کے مسئلے پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ جان لینا چاہئیے کہ اسلام دنیا میں کسی قسم کی جغرافیائی سیم یا وطنوں کا تعین کرنے نہیں آیا..ہم وطنی تقسیم کے قائل نہیں ہم تو صرف ایک ہی تقسیم کے قائل ہیں اور وہ ہے دولت کی منصفانہ تقسیم کئے ا مندرجہ بالا احراری مسلک و عقیدہ کی روشنی میں چیف کشنر کراچی کی پریس کانفرس نگاری کی ایک اصول اپنی نظر میں کرنے کے بعداب ہم اس کے اندرون و بیرون ملک سر و عمل کی طرف آتے ہیں اور سب سے پہلے یہ بتاتے ہیں کہ طلبہ کے اگلے روز 19 مئی کو کراچی کے چیف کشتر مسٹر ابو طالب نقوی نے ایک پر یس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:.انیمین احمدیہ کراچی کے زیر انتظام دو جلسے ہوئے پولیس کی اطلاع کے مطابق ان جلسوں میں گڑبڑ کا اندیشہ تھا اس لئے جہانگیر پارک میں پولیس کی جمعیت تعینات کر دی گئی تھی.ارمٹی کو الضامة خود امیر شریعت احداث جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے قیام پاکستان کے بعد کہا:.سیاستدانوں نے جغرافیائی نقشہ اُٹھا کہ اس پر ضرب و تقسیم کی ہے لیکن اس کی بدولت " بڑی مدت کے لئے انسان مر گیا ہے.بر عظیم میں تبلیغ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے ہم نے سیاسی حقوق کے حصول کی خاطر دینی فرائض سے بغاوت کر دی ہے.یہ پاکستان سیاسی نیز بدوں کی آماجگاہ ہوں کے رہے گا یہ کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری ها موقعہ شورش کا شمیری مدیر چٹان مطبوعہ چٹان پرنٹنگ پریس مر و میکلوڈ روڈ لاہور)
۱۳۰ حسب معمول گڑ بڑ ہوئی اور جو لوگ گڑ بڑ کے ذمہ دار تھے انہیں گرفتار کر کے تھانے پہنچا دیا گیا.اس رات کو جلسہ گاہ میں پتھراؤ بھی ہوا تھا جس سے پولیس کے اس پاہی زخمی ہوئے.گرفتار شدگان کو خلیفہ ختم ہونے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا.ارمئی کو جلسہ گاہ کے باہر مہنگامہ ہوا اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کو محکم ہوا اور گیس استعمال کرنا پڑی جس ہجوم کو پولیس نے جہانگیر پارک کے قریب منتشر کیا تھا اُس نے شیزان ریسٹورنٹ کے شیشے وغیرہ توڑ ڈالے اور اندر گھس کر فرنیچر کو آگ لگانے کی ناکام کوشش کی.اس کے بعد ہجوم نے شاہ نواز موٹر ز کمپنی کی دکان کے شیشے توڑے اور احمدیہ فرنیچر اسٹور کو آگ لگادی میں سے ایک ہزار روپے کا نقصان ہوا.کل رات کے ہنگامہ میں گل ساٹھ آدمی گرفتار ہوئے اور اُن کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی.ہجوم کا رویہ بہت زیادہ قابل اعتراض تھا اور وہ اپنے اس رویہ کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتے.یہ ضروری ہے کہ ہر پاکستانی کو قانونی حدود ہیں رہتے ہوئے اپنے مذہبی اعتقادات پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے.قادیانیوں کے ان دونوں جلسوں کی کارروائی پولیس کے رپورٹروں نے قلم بند کی ہے اور اگر مقررین نے اپنی تقاریر میں کوئی قابل اعتراض بات کہی ہے تو حکومت ان کے خلاف کا رروائی کرے گی لیکن کسی شہری کو یہ حق نہیں پہنچنا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کو غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرے لیکن یہ تنبیہ کو چکا ہوں کہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا...چیف کمشنر نے بتایا کہ ان کے پاس جلسے سے کئی روز قبل اس قسم کے تار آئے تھے کہ جیسے میں گڑ بڑ ہو گی اور ان کا خیال تھا کہ اس گڑ بڑ میں کسی جماعت کا ہاتھ ہے.انہوں نے کہا کہ گرفتار ہونے والوں میں مجلس احرار کے چند کارکن ہیں اور اس امر کی تحقیق ہو رہی ہے کہ اور کسی جماعت کا اس میں ہاتھ ہے یا نہیں.بر نقوی نے کہا " غنڈوں اور کرایہ کے آدمیوں کے ذریعہ ہنگامہ کرایا گیا تھا...انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جن اشخاص یا جماعتوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ لوگوں کو اس قسم کا ہنگامہ کرنے پر اُکسایا تھا اُن کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی بھائے گی..چیف کمشنر نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر کراچی میں ہندو کوئی جلسہ کر کے اسلام پر تبصرہ کریں تو حکومت انہیں آسکی اجازت دے گی ؟ " کہا ضرور بشر طیکہ وہ قانونی حدود سے باہر نہ بوائیں اسے به جنگ کراچی اور مئی ۶۱۹۵۲ - شیخ حسام الدین صاحب صدر مجلس احرار نے (بقیہ حاشیہ اگلے مصر پر)
۱۳۱ کراچی بار ایسوسی ایشن کے ۴۷ وکلاء نے چیفیت کراچی بار ایسوسی ایشن کا متفقہ بیان کمشنر صاحب کراچی کی پالیسی کی تائید میں تفقہ طور پر حسب ذیل بیان جاری کیا:.ا.ہم مند وبعد ذیل دستخط کنندگان ممبران انجمن وکلاء کراچی نے بعض متعصب افراد کے نہایت ہی افسوسناک اور نا خوشگوار رویہ اور اس سے پیدا شدہ غنڈہ گردی کے متعلق چیف کمشنر صاحب صوبہ کراچی و دیگر اداروں کے متعدد بیانات پر انتہائی غور و خوض کیا ہے.- پاکستان جو انجام کار ایک خالص اسلامی مملکت یا سیکولر سٹیٹ بنے، اس کا قیام ایک بات کی ضمانت اور مسلم لیگ کی یقین دہانی پر ہوا تھا کہ پاکستان مختلف اقلیتوں اور فرقہ جات کے تمام جائینہ حقوق کی حفاظت کرے گا لہذا اب حکومت کا یہ مقدس فرض ہے کہ وہ ان تمام مواعید اور یقین دہانیوں پر کاربند رہے.کوئی مملکت اپنی ہستی کے قیام کا ثبوت جھوٹے بیانات اور بہانہ تراشیوں سے نہیں دے سکتی.۳.ہر قسم کی جمہوریت جس کا دستور تحریری ہو یا غیر تحریری ہر شہری کو بلا لحاظ عقیدہ، رنگ مذہب اور ملت تقریر و تحریر جد وجہد اور مذہبی رسومات کی بجا آوری کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے اب ان وعدوں کا احترام نہ کرتا جو اس وقت کئے گئے جب پاکستان مجمل مسلم فرقوں کی متحدہ بعد محمد سے حاصل کیا جارہا تھا ایک اخلاقی اور مذہبی مجرم ہے.ہ.ہر اچھی حکومت کا سب سے مقدم کام یہ ہے کہ وہ اپنے آہنی اور مضبوط ذرائع سے لاقانونیت ، غنڈہ گردی اور تباہ کن سرگرمیوں کا قلع قمع کرے، چاہے وہ کسی شکل میں یاکسی طبقہ سے نمودار ہوں ایسے اقدامات مملکت کے مختلف شہریوں کے دل میں اعلی نظام مملکت کی بابت اعتماد اور وثوق کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے اور بھی زیادہ ضروری ہیں.بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ ہے.اس بیان پر کہا کراچی کا ایک کشتر صرف کشتر ہے مفتی نہیں اسے فتوئی پینے کا کوئی حق نہیں ہے تم اسے سازش کہ کہ یاد فرمارہے ہو ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے کیسی گوشے میں مرزائیوں کا کوئی جلسہ نہ ہونے دیں گے کیا آزاد لاہور ۲۳ مئی ۱۹۵۲ء مٹ کا کم علم
۱۳۲ در ایک اعلیٰ محکومت کے بقاء کا انحصار صرف اس کے دلکش فلسفہ اور نظریات پر نہیں ہوتا جو اوراق پر مکتوب ہوں یالا سیلکی سے نشر کئے بیائیں بلکہ اس کا انحصار ہر فرد چاہے وہ اقلیتی فرقہ سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہوں کے اس درجہ ایقان پر ہے جو اسے ملکی قوانین کی رو سے اپنے اظہار خیالات اور عملی جد وجہد کی ادائیگی کے لئے دئے گئے قانونی حقوق کے متعلق تحاصل ہے.4 ہمیں علاقی دار الحکومت ہیں جو پاکستانی قوم اور اس کے احساس کا منظر ہے کسی غنڈہ گردی کو برداشت نہیں کرنا چاہیئے.اگر مختلف فرقوں کے درمیان سند بات منافرت کو پھیلانے کی اجازت دی گئی تو یہ مملکت کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہوگا.یم میشہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیئے کہ وقت کی نزاکت اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستان کے شہریوں میں ایسی حالت میں جبکہ ہم دشمنوں سے گھرے ہوئے ہیں اتحاد کے جذبات کی ہمت افزائی کی بجائے اور اندرون مملکت ایک مضبوط چٹان کی مانند یک جہتی پیدا کی جائے..ہر گروہ سے جو کسی حیلہ سے پھوٹ پیدا کرے مذہبی اختلافات کی آگ کو ہوا د سے کرانا ر کی پھیلائے مملکت کے انتہائی خطرناک دشمن کا سا سلوک کیا جائے.۱۰.ہم عوام سے مستدعی ہیں کہ وہ ہر گمراہ کن تحریک سے اجتناب کریں جو ملک کے اتحاد کو کمزور اور اس کی پرسکون فضا کو زہر آلود کرے.ا اہم چیف کمشنر صاحب صوبہ کراچی کے امن اور قانون کی برقراری کے سلسلہ نہیں اختیار کئے گئے طرز عمل اور بیان کی پرزور حمایت کرتے ہیں جو انہوں نے اس مقصد پر قیام امن کے بارے میں دیا ہے.دستخط ایڈووکیٹ و وکلاء صاحبان وام سید بشیر احمد رضوی (۲) ثروت حسین (۳) فاروقی صاحب (۴) محمد معجز علی (۵) ایم ہے جمیعنی (4) زیڈ اپنی نقوی (۷) ایسی علی حسین (۸) عبد الحکیم خان (۹) ایم خان (۱۰) انعام الحق (11) شیخ عبد الغنی (۱۲) اے، ایسے قریشی سیکریٹری (۱۳) ایس ایم.ایسی حسینی (۱۴) امیر حسن علی رضوی (۱۵) آسمانند جوشی (۱۶) ایسی جعفر حسین (۱۷) ایم آری عباسی (۱۸) پی ، الیف کھلنانی.
۱۳۳ (۱۹) انہیں.ایم احمد (۲۰) مسٹر رھنا (۲۱) سید ممتاز الدین (۲۲) قاضی خورشید علی (۲۳) شبیر حسین (۲۴) نصیر حسین (۲۵) آغا علی حیدر (۲۶) محمد علی خان (۲۷) کبیر الدین منال (۲۸) محمد جلال الدین (۲۹) فیض الجلیل (۳) مسٹر کرمانی (۳۱) پی اے بین والا (۳۲) محمد حسن صدیقی صدر ( سوم ایس ایم نور الحسن (۳۴) افتخار الدین (۳۵) عبدالمجید (۳۶) حافظ محمد صدیقی (۳۷) ایم نجم الدین قریشی.(۳۸) حید ر حسین (۳۹) محمد داؤد (۴۰) سید اسے رفیق سابق صدر (۴۱) حیات احمد خاں.(۴۲) ایم فصیح الدین (۴۳) ایم ایس قریشی (۴۴) عبد المجید خان (۴۵) عبد الرؤف (۴۶) استید معزز حسین (۴۷) کے اسے قدوائی.حادثہ کراچی اور کنونیشن کار و عمل مغربی حادثہ کراچی اور پاکستان کا محب وطن پر لیں پاکستان کے محب وطن اور تین سنجیده بیت پولیس پر بھی کہا شدید ہوا اور نہ صرف کراچی بلکہ دوسرے صوبوں کے اخبارات نے بھی اس کی پر نزور دمت کی بلکہ کراچی کے بعض اخبارات نے تو مخدشہ ظاہر کیا کہ اس ہنگامہ آرائی کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ کام کر رہا ہے اور کسی بیرونی سازش کا نتیجہ ہے.مشہور مسلم لیگی راہ نما سردار شوکت حیات کا کہنا ہے " تحریک ختم نبوت بھی ایک سازش کا نتیجہ تھی.یہ تحریک مرکزی حکومت کے سی ایس پی افسروں نے چلائی تم نے ذیل میں بطور نمونہ بعض اخبارات و رسائل کے تبصرے درج کئے جاتے ہیں.1- کراچی کے ہفتہ وار اخبارہ ایونگ سٹار نے ۲۴ مئی ۱۹۵۲ء کو صفحہ اول پر ایک کراچی مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا KARACHI RIOTS" "WHO DIRECTED (کراچی کے بلوں میں کیس کا ہاتھ تھا ہی اس مضمون کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے :.احمدیہ کا نفرنس کے دوران جو اکا دُکا فسادات ہوئے اور جن کے نتیجہ میں کئی گرفتاریاں ہوئیں.کئی لوگ زخمی ہوئے اور ایسے ناخوشگوار حالات پیدا ہوئے جن سے کراچی کا پر سکون ماحول کبھی آلودہ نہ ہوا تھا بہترین سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ کام کر رہا ہے.ه روزنامه مشرق لاہور ۵ چون ۱۹۷۰ ء مث
۱۳۴ ران بد نما مظاہروں کے لئے جو وقت منتخب کیا گیا وہ بہت اہمیت رکھتا ہے.اور یہ وہ وقت تھا جبکہ امریکی شہ پر منعقدہ MPO تما شا بری طرح ناکام ہو چکا تھا.جس طریق پر ہ کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی تذلیل کی گئی.نہ صرف عوام اور پریس کی طرف سے بلکہ حکومت کی طرف سے بھی امریکینوں کو یہ بہت تلخ محسوس ہوا ہے.غالب خیال نہیں کیا جاتا ہے کہ وزیر خارجہ چو ہدری محمد ظفر اللہ خان کی وجہ سے ہوا ہے.زخم خوردہ امریکیوں کے لئے اس سے بہتر اور کوئی موقع ندیل سکا کہ وہ عوام کو وزیر خارجہ کے خلاف بھڑکا سکیں.احمدیہ کا نفرنس گلی MPO کے کھنڈرات پر منعقد ہو رہی ہے.MPO کا پنڈال ابھی تک گر ایا جا رہا ہے اور ایسی جہانگیر پارک میں ہی چوہدری ظفر اللہ خان کو اپنی زندگی کا بدترین مظاہرہ دیکھنا پڑار اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ امریکن سفارت خانہ اور ان کے قونصل خانے اس ملک میں ہمیشہ وہی کردار ادا کرتے رہے ہیں جو بین الا قوامی سیاست کے حلقوں میں ادا کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں.گزشتہ کئی ہفتوں سے امریکنوں کو سرکاری یا نیم سرکاری پریس کی ناخوش گوار تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.جہانگیر پارک میں کراچی کو جو نظارہ دیکھنا پڑا وہ پخت وحشت ناک تھا شہر میں اس قدر بے لگامی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی.آنسو گیس یا لاٹھی چارج اس شہر میں عملی طور پر کبھی دیکھنے میں نہیں آئے.جو بات اِسے اور بھی بد تر بنا رہی ہے وہ یہ کہ یہ ایک مذہبی کا نفرنس کا موقعہ تھا.باوجود اس امر کے کہ اس کے پیچھے ایک غیر ملکی ہاتھ تھا ایک بدنما داغ یہ ہے کہ ایک مخالف گروہ ایک کا نفر نس درہم برہم کر رہا ہے اور پولیس ہنگامہ کو فرو کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو ایک ملک کے دارالسلطنت کی توہین ہے یہ راسی اخبار نے ۱۹ جون ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں حسب ذیل ادار یہ بھی لکھا:.ہم نہایت سختی سے ان تمام لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو جہانگیر پارک میں غنڈہ گردی کے لے مضمون کا متن کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ درج کیا جا رہا ہے ؟
۱۳۵ مرتکب ہوئے ہیں.انہوں نے اسلام کو خاص نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان اور پاکستانیوں کی یک جہتی کو برباد کرنا چاہا ہے.فرقہ دارانہ مذہبی اختلافات و فسادات اور بغیر مقصد مسلمان کے ہاتھوں مسلمانوں کی جان شمال کی تباہی نے ماضی میں اسلام اور مسلمانوں کو ایک نہیں نقصان پہنچایا ہے اور ایسا رویہ یقیناً ہماری عزیزہ آزادی کو خطرہ میں ڈال دے گا.اسلام نے کبھی بھی اجازت نہیں دی کہ کسی دوسرے پر اپنے خیالات جبر کے ساتھ ٹھونسے بھائیں اور متضاد نظریوں کو دلائل اور بات چیت سے حمل نہ کیا جائے.بدقسمتی سے لوگوں کے ایک طبقے نے تبلیغ کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا اور اسے ایک ثانوی حیثیت دے کر زیادہ زور عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے پر ھر رفت کیا جا رہا ہے.سیاسی معروضات اس طبقہ کو تبلیغ کی طرف تو یہ نہیں کرنے دیتیں.یہ طبقہ دلائل کا جواب تشدد سے دینا چاہتا ہے یہ قابل مذمت ہے اور بد امنی اور قانون شکنی کو ہر گز برداشت نہیں کیا جانا چا ہئیے.اب وقت آگیا ہے کہ ایسے آدمیوں میں جو خدا تعالیٰ کا پیغام مذہبی جماعتوں کے پلیٹ فارسیوں سے عوام کو بجھاتے ہیں اور ان سیاسی گرگوں میں جو نہ سہی پلیٹ فارموں کو اپنے مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں امتیاز کیا جائے.آخر الذکر لوگ عوام کے مذہبی جذبات کو خطرناک حد تک بھڑکا کہ ایسے کام ان سے کراتے ہیں جن سے اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کی عزت پر بیٹر لگتا ہے ایسے لوگوں کو مسلمانوں کو ہر گز کوئی پناہ نہیں دینی چاہیے لیے ۲ - ہفت روزہ مسلم آواز کراچی (۱۹) مینی ۱۹۵۲ء) نے لکھا.کل ایک ہفتہ وار میری نظروں سے گزرا جس میں فرقہ قادیانی کی مخالفت میں شرافت سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کئے گئے تھے مضمون نگار کے مضمون کو دیکھ کر شخص یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ مضمون نگار کو ابھی یہ ہی نہیں معلوم کہ ارکان اسلام کیا کیا ہیں ایسی حالت میں کسی فرقہ کے خلاف علم اٹھانا ہی نہایت واہیات طریقہ ہے مہم مضمون نگار سے صاف صاف کہہ دینا بہتر سمجھتے ہیں کہ پاکستان تمام فرقوں کا ملک ہے.دوسروں پر انگشت نمائی کرنے سے بہتر ہے کہ وہ کے ترجمہ ایوننگ سٹار کراچی و در جون ۱۹۵۲ و به
۱۳۹ گریبان خود دیکھے.یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے اور تمہارے مقابلہ میں اس فرقہ کا ہر فرد اپنے طریقہ طر جیب کا سختی سے پابندگی احکام خداوندی کو بجالانے والا ہے ہم لوگ نہ تو نماز روزہ کے پابنتیں اور نہ کسی نیک کام کے عادی صرف زبانی جمع خروج کے علاوہ باقی اللہ کا نام.اس گمراہ کن پراپیگینڈہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ارمٹی کی رات کو جہانگیر پارک کے جلسہ میں ہنگامہ ہوا.اول تو ہمارے انڈے پر اٹھنے والے مولوی دوسرے ہم تعلیم یافتہ اخبار نویس حضرات بلا وجہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں نتائج سے بے خبر رہتے ہوئے ایسا خطر ناک پراپیگینڈہ کرتے ہیں جو کسی وقت بھی بجائے فائدہ کے ملک و ملت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گا.پاکستان میں شہرشخص اور ہر فرقہ کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور رہے گی کیا اچھا ہوتا کہ اگر اسلام کے تمام فرقے قائد اعظم کے اصول عمل، اتحا دا و تنظیم پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوشش کریں " ۳.اخبار ڈان انگریزی نے مریضہ اور مئی ۱۹۵۲ ء کی اشاعت میں لکھا:.گذشتہ دنوں کراچی میں مسلسل دو روز تک تشدد کا جو شرمناک مظاہرہ ہوتا رہا ہے اسے محض اتفاقی حادثہ قرار نہیں دیا جا سکتا.اس سے تعصب اور قانون شکنی کے اس خطرناک رجحان کی نشان وہی ہوتی ہے جو ملک میں دن بدن بڑھتا جارہا ہے.پاکستان کی مذہبی اور سیاسی زندگی میں مسلمہ خوبیوں کے انحطاط پذیر ہوئے اور رواداری کی بجائے قریب قریب لاقانونیت کی سی کیفیت پیدا ہونے کی ذمہ داری ہمارے بہت سے مذہبی اور سیاسی لیڈروں پر عائد ہوتی ہے لیکن ان سے کہیں زیادہ اس صورت حال کی خود حکومت ذمہ دار ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی اصول اور اسلامی اتحاد کی ضرورت اور اس کی اہمیت بیان کرتے ہیں لوگوں کی زبان نہیں تھکتی لیکن عجب یستم ظریفی ہے کہ اس بارے میں کوئی بجتنا زیادہ چرب زبان واقع ہوا ہے اتنا ہی وہ رواداری کے اصولوں کو نواک میں ملانے اور لوگوں کو خود آشتہ و پر اکسانے میں پیش پیش نظر آتا ہے.حالانکہ مذہبی آزادی اور رواداری کے جذبات ہی اسلام کی اصل روح ہے.رواداری کے اصول کو بخاک میں ملانے والے یہ چرب زبان لوگ اسلام اسلام کیکارنے کے باوجود مسلمانوں کے درمیان تشتت و افتراق کی خلیج دن بدن وسیع کر رہے ہیں اور پھر اس پر
۱۳۷ استزاد یہ کہ ہماری حکومت جو اپنی ذات میں ملی اختیارات مجتمع کرنا چاہتی ہے ایسے شرکب عناصر کے بر وقت انسداد کے لئے معمولی اختیارات کے استعمال سے بھی گریزاں ہے.گذشتہ اتوار کو بے شک حکومت نے سخت قدم اُٹھایا اور صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے کراچی میں پولیس کی کافی تجمعیت موجود تھی لیکن اگر ہماری حکومت زیادہ مستعد ہوتی ، یا سخت اقدام کے لئے ہر وقت جرات مندی سے کام لیتی تو یقیناً وہ فتنہ جسے روکنے کے لئے بال آخر یہ سب کچھ انتظامات کرنے پڑے بہت پہلے ہی دیا دیا جاتا.یہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ حکام اس فتنہ سے جو اندر ہی اندر پرورش پا رہا تھا بے خبر تھے یا ان کے لئے چند لوگوں کی نشان دہی ممکن نہ تھی جو اعلانیہ یا در پردہ فتنہ پردازی کی مہم کو ہوا دینے میں مصروف تھے ہمیں اس بحث سے کوئی واسطہ نہیں کہ مذہبی اعتبار سے کسی فرقہ کا موقف زیادہ صحیح ہے اور کس کا کم لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک مہذب سوسائٹی میں کیسی مذہب یا سیاسی جماعت کے اس حق کا احترام لازمی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تبلیغ کر سکے البتہ یہ ضروری ہوگا کہ ایسا کرتے ہیں مروجہ قانون اور عام ضابطہ کی خلاف ورزی نہ ہو.جہاں تک اس قضیہ کا تعلق ہے احمدیوں کو پبلک جلسے کرنے کا اتنا ہی حتی ہے جتنا ان کے مخالفین کو ہے.اگر یہ حق استعمال کرتے ہیں ان دونوں میں سے کوئی ایک قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس بارے میں اصلاحی قدم اٹھانا حکومت کا کام ہے نہ عوام الناس کا.اسی طرح اگر دوسرے فرقوں کے لوگ بھی اسی طرح ایسے ہی جرم کا ارتکاب کریں تو بھی اصلاح بحال کی یہی صورت ہوگی.برخلاف اس کے اگر نوبت یہاں تک پہنچ بھائے کہ کوئی فرقہ یا گرو حقیقی یا محض خیالی و بعد اشتعال کو آڑ بنا کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس طرح معاشرے کا وجود ہی معرض خطر میں پڑھائے گا.لیکن کیا کیا بجائے کافی مکروہ حد تک پاکستان کے مختلف حصوں میں ایسا ہی کچھ وقوع میں آتا رہا ہے.اس ہفتہ کے واقعات سے قطع نظر پہلے ہی ہم تعصب و عدم داداری کے اس جذبہ کا بعض نمایاں اور واضح صورتوں میں مشاہدہ کرتے رہے ہیں بعض لوگوں کو کھلم کھلا قتل کی دھمکیاں دی گئیں.ان کا زیادہ سے زیادہ قصور یہ تھا کہ انہوں نے مذہبی امور سے تعلق رکھنے والے معاملات میں اظہار خیال کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیا.اسی طرح تقریر و تحریر کے ذریعہ على الاعلان تشدد کا پرچار کیا گیا لیکن حکومت کمال بے تعلقی سے اس صورت حال کا نظارہ کرتی رہی
۱۳۸ مذہب کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی بعض عناصر کی جرات کا یہ عالم ہے کہ وہ تشدد سے کام کر قانون کے پر نچے اڑا سکتے ہیں اور حتی کہ سیطر اقتدار کو بھی تہ و بالا کر سکتے ہیں.کیا یہی وہ طریق ہے جس پر چل کر ہم اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ؟ اس تمام صورت حال کا علاج کیا ہے ؟ اس کا علاج خود معاشرے میں موجود ہے.ضروری ہے کہ ہر فرقہ کے افراد اس بڑھتے ہوئے خطرے کو جو ان کی پر امن زندگی کو دن بدن لاحق ہوتا جا رہا ہے پوری شدت سے محسوس کریں اور ان عناصر کی قطعاً ہمت افزائی نہ کریں ہو مذہب کے نام پر ناجائز انتفاع کی خاطر انہیں آلہ کار بنا رہے ہیں.ہمارا پر لیں اور بالخصوص اُردو اور دوسری قومی زبانوں کے اشتہارات اس گند کو روکنے میں بڑی خدمت سر انجام دے سکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں اس کے سوا بھی چارہ نہیں کہ حکومت ختنہ پردازوں کے خلاف سخت اور موثر اقدامات کرے اور آئندہ اس امر کا انتظار ترکی کر دے کہ حالات ناز کی صورت اختیار کریں تو وہ حفاظتی سامان اشک آور گئیں اور حکومتی رعب و داب کے نشانوں سے مسلح پولیس کی مدد سے حالات پر قابو پائے.یہ زریں دستور العمل کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں، کتوں اور طغروں کی شکل میں لکھوا کر وزراء اور دیگر حکام کے کروں میں آویزاں کر دینا چاہیئے بعض لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اونچے منصب داروں اور بعض مذہب کے نام کو اچھال کرنا جائز فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان ملی بھگت پھیلا رہی ہے وہ تمام لوگ جو اپنے اپنے مخصوص حلقہ میں نمایاں شخصیت رکھتے ہیں یقیناً اس بات کے حقدار ہیں کہ معاشرے میں ان کی عزت و توقیر کو محفوظ رکھا جائے اور با لخصوص جہاں تک حقیقی علماء کا تعلق ہے کوئی ان کے احترام سے روگردانی نہیں کر سکتا.اگر ان میں سے کوئی عالم اور بالخصوص پیشہ ور قسم کے وہ ملاں جو روشن دماغی اور بیدار مغربی سے یکسر محروم ہیں اور جن کا کاروبار ہی لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ہے اگر انہیں اس بات کی اجازت وی گئی که از خود افت یا را اعلیٰ کی حیثیت اختیار کرلیں اور کوئی ان کے بہکائے ہوئے یا کرایہ پر بلایم رکھے ہوئے کھیتوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے بغیر ان کے خلاف لب کشائی نہ کر سکے تو پھر پاکستانی کا اللہ ہی حافظ ہے.بین الا قوامی لحاظ سے ہمارے وقار کو پہلے ہی کافی صدمہ پہنچا ہے اس ہفتہ کے واقعات اس میں اور اضافہ کا سبب ہوں گے.کیا ہم امید رکھیں کہ خواجہ ناظم الدین صاحب
نے یہاں اور بہت سے معاملات کو سلجھا کہ اپنے ہم وتدبر کا بہت بہم پہنچایا ہے.آپ بھی مملکت کی کشتی کو تعصب و تنفر کے متلاطم سمند ر سے نکال کر امن و عافیت کی بندرگاہ پر جلد واپس لے آئیں گے ؟ وان نے ایک اور اشاعت میں لکھا :.گزشتہ ہفتہ کے شرمناک واقعات میں جو فتہ پنہاں تھا وہ آپ کسی نہ کسی شکل میں برابر سر اٹھا رہا ہے.یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بعض عناصر اپنی خطرناک سرگرمیوں سے ابھی دستکش نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی پبلک کو روزانہ مشورہ دینے والے بعض مشیروں العینی اخبارات نے انعام میمی اور مجھ بوجھ کا ثبوت بہم پہنچایا ہے.اس حقیقت سے قطع نظر کہ عوامی زندگی کے چشمے برابر زہر آلود کئے جا رہے ہیں ان حرکات سے بیرونی ممالک میں بھی ہمارے قومی وقار کو سخت صدمہ پہنچ رہا ہے کہ چی کے چیف کمشنر نے فتنہ پر واروں کو زیر دست تنبیہ کی ہے اور ساتھ ہی حکومت کے اس عزم کا اعلان کیا ہے کہ ان شورش پسندوں کو فتنہ انگیزی کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی فی الحقیقت الینا ہی ہونا چاہئے تھا.گزشتہ اتوار کی شب کو جو سخت اقدامات کئے گئے ان کے متعلق سستی شہرت کے دلدادہ تقریر و تحریر کے ذریعہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ کہیں اس میں شک نہیں ان اقدامات نے ایک حد تک یہ اعتماد بحال کر دیا ہے کہ حکومت میں حکمرانی کی صلاحیت موجود ہے لیکن جیسا کہ ہم نے گزشتہ مضمون میں بھی اشارہ کیا تھا یہی نہیں کہ حکومت کو بہت دیر میں ہوش آیا بلکہ خدشہ یہ ہے کہ اس کی یہ بیداری شرر نا پائیدار کی طرح دیر پا ثابت نہ ہو.چیف کمشنر نے اپنے بیان میں اِس امر کا اعتراف کیا کہ عالیہ فساد کرائے کے غنڈوں کے ذریعہ بو پا ہوا تھا اگر یہ میچ ہے تو پھر ضرور ایسے لوگ ہونے چاہئیں جنہوں نے کرایہ پر ان غنڈوں کی قدمات حاصل کیں.ہم پوچھتے ہیں ان لوگوں کی نشان دہی کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟ اور اگر ان کی نشان دہی ہو چکی ہے تو پھر ان کے خلاف کیا کا رروائی عمل میں آئی ہے ، یہ خیال کر نا عبث ہے کہ ہرقسم کے ہنگامی اور غیر ہنگامی قوانین وضع کر لینے کے بعد حکومت میں اچانک ایک ایسا فطری تغیر رونما ہوتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال سے خود ہی کترانے لگی ہے حقیقت الا مریہ ہے کہ حکومت نے اب تک اِس بارے میں کوئی معین پالیسی ہی وضع نہیں کی اور نہ ہی اس میں اتنی الامر ہمت ہے ہمیں اس کا امکان بھی نظر آ رہا ہے کہ کہیں حکومت ایک مرتبہ پھر بے تعلقی اور لاپر واہی
کی اسی کو میں نہ یہ بہائے.اگر ایسا ہوا تو حکومت پھر ملک کو لاقانونیت اور نراج سے ہمکنار کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی اور عوام الناس کے جذبات سے کھیلنے والوں کے حوصلے جو پہلے ہی کافی بڑھے ہوئے ہیں اور زیادہ بلند ہو جائیں گے ہمارے نزدیک ایسے خطر ناک رجحانات کا سد باب سخت قسم کی مثبت پالیسی سے ہی کیا جا سکتا ہے گاہے گاہے اشک آور گیس استعمال کرنے سے نہیں.اگر سریت خاص قسم کے مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں لے جانا اور معمول کے مطابق ان کے خلاف چارہ جوئی کرنا ممکن نہیں ہے تو متعلقہ تعزیری قوانین میں یقیناً ترمیم ہونی چاہیئے تعزیرات کا موجودہ مجموعہ برطانوی راج کی یادگار ہے اور ان ہی سے ہم کو ورثہ میں ملا ہے.اس میں سے بعض خطرناک جرائم کی شرا کا جنہوں نے بعد میں معین صورت اختیار کی ہے کوئی ذکر نہیں ہے.مثال کے طور پر اس سے کسی کو اتفاق نہ ہوگا کہ ایسی نشتر و آمیز دھمکیاں جن کا مقصد دوسروں پر خاص قسم کے مذہبی یا سیاسی نظریات ٹھونسنا ہو یا دوسرے طبقۂ خیال کے لوگوں کو تحریر و تقریر اور تمدنی میل جول کی آزادی سے محروم کرنا ہو جرائم کی فہرست میں شمار ہوتی سچاہئیں اور وہ لوگ جو اعلانیہ طور پر مجرم کا ارتکاب کئے بغیر بالواسطہ یا بلا واسطہ ایسی لاقانونیت کو ہوا دیتے ہیں انہیں بھی ملزم گردانت چاہئیے.اگر موجودہ تعزیری قوانین میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ ان کے تحت ایسے لوگوں پر عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکے تو جرائم کی از سر و وضاحت ہونی چاہئے یا نئے جرائم کی تعیین عمل میں آنی چائے تاکہ عدالتیں ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں.اس کام کے لئے ضروری نہیں کہ میں کالے کو قبر سے نکال کر اسے پھر زندہ کیا بجائے خود اپنے ملک میں ایسے ماہر قانون دان موجود ہیں جو یہ کام بآسانی کر سکتے ہیں.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حکومت اس کام کو سر انجام دینے کا عزم کرلے.رہا جہوری دور سو اس کے لئے بھی حکومت اتنی ہے میں نہیں ہے جتنا کہ اس کے بعض ترجمان اسے ظاہر کرتے ہیں.بعض مخصوص قسم کے مذہبی دیوانوں کے ہاتھوں پاکستان کو حال ہی میں مہلک قسم کا جو نقصان پہنچا ہے ان میں سے ایک ملک کے نامور وزیر یا ربیعہ کے خلاف گند اچھالنے کی مہم ہے.حالانکہ جھا تک بیرونی دنیا میں پاکستان کی شہرت اور وقار کو چار چاند لگانے کا سوال ہے موجودہ قائدین میں سے کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکے.ان کو بدنام کرنے کی قسم اگر عاقبت تا انریش نذر میں دیوانگی کی
۱۴۱ پیداوار ہے تو یہ جذبہ قومی استحکام کے لئے اتنا ہی مضر ہے جتنا کہ یہ خود اسلام کی اصل روح کے منافی ہے ہمارے موجودہ مقاصد کے پیش نظر قطعی غیر ضروری ہے کہ مذہبی مناقشات کا دروازہ کھولا جائے لیکن ہم پورے انشراح کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ چوہدری محمد ظفراللہ خان کے خلاف ہنگامہ بر پا کرنے والے سیاسی اغراض کے تحت ایسا کر رہے ہیں اور مذہب کو محض روغن قاز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے اصل مقاصد پر پردہ پڑا رہے.کوئی ہوشمند پاکستانی یہ خیال نہیں کر سکتا که چو ہدری محمد ظفر اللہ خان کا کسی فرقہ سے تعلق ملک کی خارجہ پالیسی پر کوئی خفیف سے خفیف اثر بھی ڈانی سکتا ہے.ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کی خارجہ پالیسی یا اس کی خامیوں پر نکتہ چینی کرے اور اگر چہ خارجہ پالیسی اور اس کی جزئیات کی تمام تر ذمہ داری مجموعی طور پر کا بینہ پر عائد ہوتی ہے پھر بھی وزیر خارجہ کی حیثیت میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو زیر تنقید لایا جا سکتا ہے لیکن ان کو بدنام کرنے والوں کا طرز عمل یہ نہیں ہے.وہ جملہ کرنے میں حدود سے تجاوز کر رہے ہیں.چوہدری صاحب کے اپنے خیالات خواہ کچھ ہی ہوں لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ امر ان کے لئے موجب اطمینان ہوگا کہ ان کو بد نام کرنے والے اہل دانش کی نظر میں خود اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں منہ لگایا جائے.قوم ان لوگوں کے حق میں جو پورے خلوص اور انہماک کے ساتھ اس کی خدمت کر رہے ہیں اتنی نات کر گزارہ نہیں ہو سکتی کہ وہ معدودے چند رجعت پسندی کی غوغہ آرائی سے گمراہ ہو جائے اور پھر ان گنے چنے لوگوں کی غوغہ آرائی سے جو جہالت کے محدود متعفن ما حول میں پھنسے ہوئے ہیں اور کنوئیں کے مینڈک کی طرح ساری کائنات کو اس تک ہی محدود سمجھتے ہیں " سے -- اخبار سندھ آبزرور (۲۰ مئی ۱۹۵۲ء میں حسب ذیل نوٹ شائع ہوا :- "جماعت احمدیہ کے جلسہ سے بہت سے اہم امور ہمارے سامنے آگئے ہیں جن کا فیصلہ عوام کے ذہنوں سے اُلجھی دُور کرنے اور ایسے واقعات کے سد باب کے لئے اسی وقت کرنا ضروری ہے.اس کی وجہ اس ضرورت سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری میں دستور ساز کی مقررہ کہ وہ سب کمیٹی بنیادی اصول کی تدوین کر رہی ہے لہذا یہ فیصلے اس رہنمائی کے لئے بہت محمد ثابت ہوں گے سہولت کے لئے ان امور کو دو حصوں میں منقسم کر دینا چاہئیے ایک وہ جو خاص اس واقعہ سے تعلق رکھتے ہیں روزنامہ ڈان کراچی مورشه ۲۲ مئی ۱۹۵۲ء ( ترجمه)
اور دوسرے جن کا اثر مستقبل پر پڑنے والا ہے.جہاں تک موجودہ حادثہ کا تعلق ہے دو نظر یے ہمارے سامنے ہیں.جماعت احمدیہ کا دعوئی ہے کہ قرار داد مقاصد کے مطابق رجس کی تشریح لیاقت علی مرحوم نے مارچ ۹۴۹، کوئی ان کو سیا ہے کرنے اور اپنے خیالات کے اظہار و اشاعت کا پورا حق حاصل ہے.یہ جلسہ حکام متعلقہ کی اجازت کے ساتھ خاص پنڈال میں منعقد کیا گیا تھا.جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ احمدیوں کے خیالات سے ان کے جذبات مجروح ہوں گے وہ پیسہ میں شرکت کے لئے مجبور نہ تھے چنانچہ ہجوم کا نقش دا رویہ قانون کی خلاف ورزی ہے امدا ان کے خلاف موثر کارروائی ہونی چاہئیے.برعکس اس کے علماء کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو اس تنہم کے جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چا ہئے تھی.قادیانیوں کے عقائد مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں اور ان کی اشاعت سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے میں جلسہ میں جو تقریریں کی گئیں وہ اشتعال انگیز تھیں.پولیس کا اقدام اس اشتعال انگیزی میں اضافہ کا باعث ثابت ہوا چند قادیانیوں کے لئے سولہ لاکھ مسلمانوں کو قربان نہیں کیا جا سکتا.قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں اس لئے ان کو اقلیت قرار دیا جائے.گرفتار شدگان نے چونکہ مشتعل ہو کر ہنگامہ برپا کیا اس لئے ان کو رہا کیا جائے.ان ہر دو قسم کے خیالات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور نا قابل اتفاق ہیں.جہاں احمدی اپنے خیالات کو آزادانہ استعمال کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور کشتہ دکرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کو ضروری خیال کرتے ہیں وہاں دوسری طرف علماء کا یہ فتوئی ہے کہ احمدیوں کو عام ملبے کرنے اور اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں کیونکہ دیسی سے اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں لہذا جنہوں نے ان کے جلسہ میں تشدد کیا ہے ان کو رہا کیا جائے.ان حالات میں حکومت کو یہ فیصلہ کرنا چاہیئے.ا.کیا وہ فرقے اور مذاہب جو اکثریت کے خلافت عقائد رکھتے ہیں اس بات کے مجاز ہیں کہ وہ اپنے عقائد کی آزاد اور تبلیغ کر میں خواہ اس سے اکثر تین کے دل مجروع ہی کیوں نہ ہوں ؟ پرٹیکس اس کے کیا اکثر یرہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقلیت کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اپنے خیالات اعتقادات کی اشاعت کریں.حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو حکومت تا تونی
حیثیت دے گی اور جو نہ مانے گا اُس کے خلاف تعزیری کارروائی کرتے گی ؟ ہے.کیا حکومت کا مذہب اسلام ہے اگر ایسا ہے تو وہ کسی فرقہ سے اپنے آپ کو وابستہ اور کون سے فقہ پر عمل کرے گی.کیا وہ کسی خاص فرقہ اور فقہ کی تائید کرنے گی ایسی صورت میں کیا مخالف فقہ رکھنے والوں کو ریاست کے فقہ کی آزادانہ مخالفت کرنے کا حق دیا جائے گا ؟ ۵.کیا حکومت ایسے معاملات میں اکثریت کی اتباع کرے گی یا اپنے خیالات کو خواہ وہ اکثریت کے خیالات کے خلاف ہوں نافذ کرے گی ؟.مذہب کے معاملہ میں قرار داد مقاصد کے تحت عطا کر وہ حقوق کی کونسی حدود مقر کی جائیگی ؟ ے.متنازعہ فیہ امور کے تصفیہ کے لئے کو انسا ذریعہ مقرر کیا جائے گا ؟ مندرجہ بالا امور کا فیصلہ صاف صاف ہونا چاہیے اور لوگوں کے حقوق شہر نیت کی صدور تعلی کہ دینی چاہئیے.تذبدب اور تامل سے اور زیادہ اُلجھنیں پیدا ہوں گی جس سے بسا اوقات خود حکومت کی اپنی پوزیشن نازک ہو جائے گی.قرار داد مقاصد اور لیاقت علی تھاں صاحب مرحوم کے بیان میں صرف اجمالی طور پر ان اصولوں کا خاکہ کھینچا گیا ہے اور تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے.یہ وہ خلاء ہے جس سے یہ تمامتر الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں جتنی جلدی اس اعضاء کو گورا کر دیا جائے گا اتنا ہی ہماری مملکت کے لئے مفید ہوگا.بالآخر ہم پھر یہ تجویز کرتے ہیں کہ جہانگیر پارک میں جلسہ کے دوران میں جو ہنگامہ ہوا اس کی پوری پوری تحقیقات کی بجائے اور قانون کے مطابق جو بھی اس کا ذمہ دار ہے خواہ وہ احمدی ہو یا غیر احمدی اس کے خلاف کارروائی کی جائے.ساتھ ہی جن لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور اشتعال کے عذر کو عدالت کے فیصلے پر چھوڑا جائے.ی سول اینڈ ملٹری گزٹ" کراچی کے 19 مئی ۱۹۵۳ء کے پرچہ میں سیہ کاری کے تحت ایک مقاله افتتاحیہ شائع ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے.(1) مئی کو ہفتہ کے روز ایک لیے لگام نکوم نے جہانگیر پارک میں احمدیوں کے جلسہ ہے.ایہ دست ہلہ بول دیا اور منہ میں کف لا لا کر چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے خلاف نعرے لگائے.ان کے اس طرز عمل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ تدریسی تعصب کا مکروہ جذبہ جو بینی
۱۴۴ اور روحانی آزادی کے حق میں زہر کا درجہ رکھتا ہے ظلم روا رکھنے میں کیا کچھ گل نہیں کھلا سکتا.ظاہر ہے کہ ہجوم نے تشدد اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ اِس لئے کیا کہ وہ بعض مخصوص روحانی اور اخلاقی نظریات کے پبلک اظہار اور خارجہ پالیسی کے مزعومہ نقائص کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے تھے حالا نکہ جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے ہمیں صف اول کی چند نامور ہستیوں میں سے ایک ہستی کی راہنمائی اور نگرانی حاصل ہے جس کو بجا طور پر ایشیا بھر میں علم و دانش اور فہم و فرات کا منظر قرار دیا جا سکتا ہے.اس سر پھرے ہجوم نے یہ نعرے بلند کئے کہ قادیانی برطانیہ کے ایجنٹ ہیں ظفر اللہ کو وزارت خارجہ سے الگ کر دو اور ساتھ ہی پرامن جلسہ پر پتھراؤ بھی کیا.ان کی یہ نعرہ بازی اور شور سنتی ان کے اس خوفناک رجحان کو بے نقاب کر رہی تھی کہ وہ لوگوں کو اتنی بھی آزادی دینے کے روادار نہیں ہیں کہ وہ مظاہرین کے مخصوص عقائد و نظریات کے سوا کوئی اور عقیدہ یا نظریہ اختیار کر سکیں ہمیں احمدیت یا کسی دوسرے فرقے کے مذہبی معتقدات کے متعلق بحث کی ضرورت نہیں.البتہ مسلمہ طور پر ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جلیسوں وغیرہ کے ذریعہ اپنے مخصوص مذہبی عقائد و نظریات کی تبلیغ کر سکے.معلوم ہوتا ہے کہ ملائیت ہر قسم کی انفرادی اور اجتماعی آزادی کو پنج وبن سے اکھاڑ پھینکنے ا پر کر بستہ ہوچکی ہے اور اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اس نے ضروری خیال کیا ہے کہ پوری طرح مسلح ہو کہ علی الاعلان میدان میں نکل آئے.ہمارے ملک میں ملا انزم کا قریب ان لوگوں پر بآسانی چل جاتا ہے جو احیائے دین کے تو دل سے حامی ہیں لیکن ان کے ذہنوں میں اسکی ماہیت اور اہمیت کا صرت ایک مبہم سا تصور ہے.جہاں تک اس کے بالہ وہ علیہ کا تعلق ہے مذہبی تعصب نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے اور وہ اس کے صحیح جذبات سے بالکل عاری ہیں.ایک جمہوری حکومت شخصی آزادی کی اس حد تک، اجازت نہیں دے سکتی کہ لوگ فساد برپا کر کے فرقہ وارانہ امن کو خاک میں ملا کر یہ کھ دیں حکومت کے قیام کی غرض وغایت ہی یہ ہے کہ وہ اس کو برقرار رکھے.بالخصوص وہ اس ذمہ داری کو تو کبھی فراموش کر ہی نہیں سکتی کہ وہ مذہبی اور سیاسی اعتبار سے ہر طبقہ خیال کے لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کہ وہ اپنے خیالات کا پوری آزادی
۱۴۵ اور نے پاکی سے اظہار کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے میں انہیں تشدد آمیز دھمکیوں اور مظاہروں کے خلات قانون کی پوری پوری حمایت حاصل ہوگی جمهوری خیالات کی صحت مند نشو و نما کے لئے ضروری ہے که قانونا شخصی آزادی کی محدود تعین کر دی جائیں اور باقاعدہ ان کی وضاحت کر کے ہر قسم کا اور ہام دور کر دیا جائے.شخصی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ انسان اپنے نظریات اور رجحانات کو دوسروں پر پانچر ٹھونسنے کی کوشش کرے کسی کو بدگوئی اور تذلیل و تحقیر کی اجازت دینا جمہوری آزادی کے یکسر منافی ہے.اس سے جہاں دوسروں کی آزادی میں رخنہ پڑتا ہے وہاں جماعتی تحفظ اور مفاد عامہ کو بھی سخت نقصان پہنچتا ہے.مظاہرین نے ایک ایسی ہستی کو ہرت سلامت بنایا جو ان اسلامی نظریات پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں کسی دوسرے سے پیچھے نہیں ہے جن کا یہ مظاہرین خود اپنے آپ کو علمبر دار سمجھتے ہیں اور پھر اسے شاندار قومی و ملی خدمات کی وجہ سے بیرونی دنیا میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.ان لوگوں نے ایسی قابل قدر شخصیت کے خلاف بدگوئی سے کام لے کر احسان فراموشی کار انتہائی شرمناک مظاہرہ کیا.چوہدری محمد ظفر اللہ تعالی نے جو اس وقت اقوام عالم میں دنیا ئے ا اسلام کے عظیم ترین سیاستدان تسلیم کئے جاتے ہیں پاکستان کی خدمت بجا لانے میں حیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا ہے.اقوام متحدہ کے سامنے ملک کا معاملہ پیش کرنے کا سوال ہو یا مسلمان قوموں کے نظریات و مقاصد کو فروغ دینے کا مسلہ میں نمک کے قیام کا تذکرہ ہونا گیا کی پسماندہ قوموں کے حق خود اختیاری کی تائید کا ذکر ہر حال جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے انہوں نے پاکستان کی عظمت و وقار میں وہ گرانقدر اضافہ کیا ہے کہ جس کی مثال ملنی محال ہے.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں ان نادر روزگار مدتیرین میں سے ایک ہیں جن کی سیاسی پیش سیفیوں میں رومانی بصیرت کا عنصر نمایاں طور پر غالب نظر آتا ہے.ایمان ویقین اور باطنی پاکیزگی کے باہمی انتزاج نے ان کے ضمیر اور قول و فعل میں کامل مطابقت پیدا کر دی ہے وہ موجودہ وقت کے اچھے ہوئے سیاسی مسائل کو ذہبی عرفان کی مدد سے حل کرتے ہیں لیکن ان کی باطنی پر فردی اور رومانی بصیرت نام بنا و صوفیاء کی کرامات اور فاسد قسم کے مذہبی جنون سے یکسر پاک ہے
۱۴۶ تاریخ سے گھر سے مطالعہ اور دوربینی کی خُدا داد صلاحیت نے ان کے نقطۂ نظر میں ایسا توازن پیدا کر دیا ہے جو بلاشبہ کمال کی حد تک پہنچا ہوا ہے.ایک ایسا شخص جس کی باطنی تربیت کا معیار ہے بعد بلند ہو جس میں عجز و انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو جس کی حب الوطنی اور میں کا جذیہ وفاداری حد درجہ پختہ اور تحکم ہو اور جو کمال خاموشی سے تعمیر ملت میں ہمہ تن مصروف ہو ایسے شخص کے لئے دل میں محبت و اخلاص اور احسان مندی کے گہرے جذبات کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا.اس پر برطانیہ کا پٹھوں ہونے کا الزام لگا نا حق و عادات کا خون نہیں تو اور کیا ہے.( اس کے سوا کیا کہا جائے کہ اس الزام تراشی کا کوئی فاسد اور بد نما داغ ہی مرتکب ہو سکتا ہے.اگر ایسا واجب التعظیم شخص بھی حاسدوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کی نہ دو سے محفوظ نہیں رہ سکتا تو سمجھ لینا چاہئیے کہ یہ پر ہوئی صورت حال اس دور میں انسانی سیہ کاری کی انتہائی کست حالت پر دلالت کرتی ہے ۶ - اخبار نئی روشنی نے اپنی ۲۵ مئی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:.ے ارمٹی اور ارمٹی کو کراچی میں فرقہ احمدی کے جلسے منعقد ہوئے.ان جلسوں میں جونا خوشگوار واقعات پیش آئے اس قدر شرمناک ہیں کہ کوئی شخص تردید کی جرات نہیں کر سکتا.فرقہ احمد یہ آج سے نہیں برسوں سے اس برصغیر ہند و پاکستان میں موجود ہے اور اس فرقہ کے عالم وجو وہیں آنے سے لے کر آج تک سینکڑوی مناظرے احمد یولی اور عام مسلمانوں کے درمیان ہوئے.اختلافات پیدا ہوئے.سوال و جواب کے سلسلے جاری ہوئے لیکن کوئی غیر سنجیدہ اور تکلیف دہ قسم کا حادثہ پیش نہیں آیا بلکہ ہر موقعہ پر ضبط و نظم کا خیال رکھا گیا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا.احمدیوں کے متذکرہ جلسہ سے کچھ ہی دن قبل رام باغ میں ختم نبوت کا نفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں فرقہ احمدیہ کے خلاف انتہائی زہر افشانی کی گئی تھی مگر ان جلسوں میں کسی قسم کا کوئی ندام نہیں ہوا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو جلسہ کا نظم و نسق بر قرار رکھنا مشکل ہو جاتا جس کے معنی یہ ہوئے کہ احمدیوں نے انتہائی صبر و سکون کے ساتھ جلسہ کی کارروائیوں کو جاری رہنے دیا.کوشش یہ کی کہ اُن کا کوئی فرد اس میں شریک نہ ہو اور اگر شریک ہو بھی تو نہایت صبر و سکوں کے ساتھ جلسہ
۱۴۷ کی کارروائی کوشنے.اس کے بڑٹیکس احمدیوں کے جلسہ میں چند بیشتر پسند عناصر نے مجمع کو اکٹھا کر کے ایسے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے کی کوشیش کی جو انتہائی شرمناک متصور ہوتے ہیں.ہم ان حضرات سے براہ راست مخاطب ہو کو یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر ان میں مخالفانہ نظریات کو سننے کی جرات نہیں تھی تو وہ جلسہ گاہ میں شرکت کی غرض سے گئے کیوں ؟ اور یہ کہ کیا اختلافات کو ٹانے اور اپنے نظریات کو سمجھانے کا یہی طریقہ کا رہے ؟ کہ شہر میں بد امنی پھیلا دی بجائے اور دکانوں اور ہوٹلوں کو آگ لگا دی بجائے ؟ اس ہنگامہ میں شیزان ریسٹورنٹ، احمدیہ فرنیچر مارٹ اور شاہنواز لمیٹڈ کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی.یہ سمجھ کر کہ یہ سارے ادارے احمدیوں کی ملکیت ہیں ان اداروں کو آگ لگا کر عام مسلمانوں نے جس غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی.اس قسم کی غیر فرقہ وارانہ حرکت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کی گئی ہے اور ہم وثوق کے مات یہ نہیں کر سکتے کہ اس میں کسی کا ہاتھ ہے یا عوام نے خود ایسا کیا ہے لیکن صرف اس قدر کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ ہوا نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے ہمیں عوام کے جذبات کا احترام ہے لیکن ہم کسی ایسی حرکت کی اجازت نہیں دے سکتے جس سے پاکستان کا من خطر سے میں پڑے اور نہ ہی ہمیں یہ توقع رکھنا چاہیے کہ کوئی پاکستانی پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا.اس نا خوشگوار واقعہ سے کوئی اور نتیجہ برآمد ہو یا نہ ہو.یہ تلخ حقیقت ضرور سامنے آتی ہے کہ کراچی میں ایک بھی ایسی شخصیت نہیں ہے جو عوام کو ایسے موقعوں پر صحیح راہ دکھا سکے.کراچی میں عوام کے محبوب قائدین کا کال شہید ملت کی یاد کو اور تازہ کر رہا ہے ہمیں یقین ہے کہ آج قائد ملت لیاقت علی خاں زندہ ہوتے تو پولیس کو اشک آور گئیں اور لاٹھی چارج کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ان کا صرف ایک جملہ عوام کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی ہوتا بلکہ ہم اس قدر کہنے کے لئے تیار ہیں کہ ان کی موجودگی میں ایسا واقعہ سرے سے رونما ہی نہ ہو سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ ہمارے درمیان سے دانستہ طور پر ہٹا دئے گئے جن کے بعد ایسا واقعہ پیش آگیا اور وہ بھی پاکستان کے دارالخلافہ میں جس کے متعلق یہ اندیشہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ آگ کہیں دوسرے شہروں میں نہ پہنچ جائے اس لئے کہ جو چیز مرکز سے شروع ہوتی ہے وہ دوسرے شہروں میں ضرور پھلنے پھولنے
کے مواقع تلاش کرتی ہے.ہمیں سب سے زیادہ حیرت تو اس امریرہ ہے کہ مرکزی وزراء میں سے کسی نے اس واقعہ سے ہیں نہیں لی.یقینا مرکزی کابینہ میں ایک شخصیتیں ایسی بھی موجود ہیں جن کی قدر و منزلت عوام کی نظر میں بے انتہا ہے اور جن کو عوام کا اعلیٰ ترین اعتماد حاصل ہے.اگر اس وقت مسلم لیگ زندہ ہوتی اور سر کاری جماعت نہ بن چکی ہوتی تو ایسے موقعوں پر صدر مسلم لیگ کے فرائض نہایت اہم مسلم لیگ کے پرانے کارکن.آج اگر میدان عمل میں ہوتے تو یقیناً پاکستان کی اس قدر بے عزتی نہ ہوتی.افسوس کہ علماء اسلام بھی اپنے گھروں میں بیٹھے رہے بلکہ ہم تو اس خیال کے حامی ہیں کہ اس واقعہ نے مذہب اسلام کو بد نام کیا ہے کیونکہ آج عام مسلمانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی اختلافی نظریہ کو سنتے کی اہلیت نہیں رکھتے اور مخالفین کے لئے کیچڑ اچھالنے کا موقعہ فراہم کر دیا گیا ہے.کیا ہم اپنی حکومت سے توقع رکھیں کہ وہ اس ناخوشگوار واقعہ کے سلسلہ میں نہایت سخت اقدام سے بھی گریز نہ میں کر رہے گی.یہ اور اس فتنہ کے اُٹھانے والوں کو انتہائی عبرتناک سزائیں دے کر ملک میں اس آگ کو پھیلنے سے روک دے گی ہمیں خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان سے قومی توقع ہے کہ وہ ایں شہر کو کچلنے کے لئے ہر ذریعہ استعمال کریں گے اور ان مولویوں کے فتنہ کا قلع قمع کر دیں گے جنہوں نے غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کر مسلم خون کی ارزانی کا ثبوت دیا تھا.اگر پاکستان میں غیر مسلم مہندوستان کی فرقہ وارانہ روایات کو دہرایا گیا تو ہمارا دعوی ہے کہ پاکستان تباہ ہو جائے گاز عام مسلمانوں کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے ان کو سوچنا چاہیئے کہ جن شہر پسندوں نے یہ حرکت کی ہے کیا انہوں نے احمدیت کے قلع قمع کرنے کا یہ صحیح راستہ اختیار کیا ہے.کہاں ہیں مفتی محمد شفیع صاحب که بر این سید سلیمان ندوی، مولانا احتشام الحق اور صدر پاکستان کم بیگ کہاں ہیں ؟ یہ سب کیوں نہیں اس موقعہ پر پہنچے ؟ اور کہاں ہیں کہ اچھی مسلم لیگ کی صدارت کے امیدوار اگر یہ سوچی بھی تجویز اور پروگرام نہیں ہے او بر انگیختہ مسلمانوں کو کیوں نہیں سمجھایا گیا کیا اس عوامی حکومت کے پاس گئیں مارنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا.شرپسندوں کو سمجھانے کی ضرورت تھی اگر ان کو کوئی عوامی شخصیت سمجھانے والی ہوتی تو یہ ہنگامہ اس قدر شدید
119 صورت اختیار نہ کرتا ہم ان افراد کی جنہوں نے اس میں حصہ لیا ہے یا جنہوں نے اس کا پروگرام بنایا ہے سخت مذمت کرتے ہیں.ہفت روزہ " پیام مشرق (۸- جون ۱۹۵۲م) نے لکھا :- پاکستان کا باشعور طبقہ بہت عرصہ سے یہ سوچ رہا ہے کہ مملکت اسلامیہ دولت خدا داد پاکستان کا کیا مفہوم ہے اور اسلامی حکومت کا نعرہ کمزور حکومت کے ایوانوں میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ کیا اسلامی حکومت سے مراد ایک ایسا نظام ہے جہاں صرف مولانا بدایونی ہی شہریت کے پورے حقوق کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں یا قرار داد مقاصد کی چھاؤں میں سوامی کلو گانند بھی پاکستان کے شہری ہونے کا دعوئی کر سکتے ہیں ؟ آج پانچ سال کے بعد یہ سوال اس وجہ سے اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ شہرت و اقت دار کے بھوکے پاکستان کے نام نہادونگا اور مولوی پاکستان کی سالمیت کے لئے ایک مستقل خطرہ بن کر اس کے سامنے آگئے ہیں اور آج ہی ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس اجتماعی قومیت کو باقی رکھنے کے لئے ہمارا آئیندہ قدم کیا ہونا چاہیئے.احمد یہ عقائد سے ہمیں شدید اختلاف ہے اور ہم کبھی بھی ان کے ہمنوا نہیں ہو سکتے لیکن پچھلے دنوں جہانگیر پارک کراچی میں سالانہ کا نفرنس میں شرپسند عناصر نے اسلامی حکومت کا نام لے کر جس طرح قرار داد مقاصد کو ننگا کیا ہے ساری دنیا کے جمہوریت پسند انسانوں کی نگاہ میں اسلام ایک متعصب ملا کا ایک پر فریب سیاسی عقیدہ بن کر رہ گیا ہے.اسلام دنیا کے ہر انسان کے لئے امین اور خوشحالی کا پیغام لے کر آیا تھا.پاکستان کے ان تنگ نظر اور مفاد پرست ملاؤں نے اس مقدس تعلیم کو محض کارخانوں اور وزارتوں کی ہوس ہیں ہد نام کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ہے.۲ جون ۱۹۵۲ء کو آل مسلم پارٹیز کنونشن کے نام سے تھیا سوفیکل ہال کراچی میں علماء کرام کا ایک جلسہ منعقد ہوا.کارکنان جلسہ میں بہت سے ایسے علماء کے نام بھی درج ہیں جن کی مذہبی خدمات آج کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں اور بر صغیر پاک و ہند کا ہر مسلمان ان کا ذکر آنے پر عقیدت سے سر جھکا دیتا ہے.ہم ان کے تقدس اور ملیت کا پورا احترام کرتے ہوئے ان سے یہ دریافت کرلے کی جرات ضرور کریں گے کہ احمدیوں کے نہ سہی
۱۵۰ عقائد کچھ بھی ہوں لیکن وہ پاکستان کے آزاد شہری ہیں یا نہیں ؟ اگر اسلامی جمہوریت کے اصولوں کے تحت ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو فتح مکہ کے بعد مکہ کی آزاد شهرت فراخ دلی سے بخشی جا سکتی ہے تو احمد یہ عقائد کے پیرو تو پھر بھی خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں.ویسے وہ بھی اگر سر ظفر اللہ کی شرخ ٹوپی کو نعوذباللہ خدا مان لیں تو بھی پاکستان دنیا کے نعت پر کتبہ بن کر نہیں بلکہ ایک آزاد جمہوریت بن کر ابھرا ہے.کیسی پاکستان کے ٹھیکیدار یا مذہب کے رکھوالے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان کو محض احمدی ہونے کی بناء پر پاکستان کا غدار قرار دیدے.پاکستان کے اصل غدار لمبی عبائیں قبائیں پہنے ہوئے وہ دشمن اسلام افراد ہیں تو لاکھوں پاکستانی شہریوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کر کے انہیں پانچویں کالم والوں کی ایک بڑی فوج بنا دینا چاہتے ہیں.آل مسلم پارٹیز کنونشن نے ایک قرار داد کے ذریعہ مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان ممالک اسلامیہ اور کشمیر کے مفادات کے پیش نظر وزیر خارجہ سر ظفراللہ کو کابینہ سے فوری علیحدہ کر دیا جائے کیونکہ وہ پاکستان اور بہندوستان کو دوبارہ اکٹھا بنانے پر عقیدہ رکھتے ہیں.کیوں نہیں قائد اعظم یا قائد ملت کی زندگی میں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ تمہارا انتخاب غلط ہے اور وزیر خارجہ کی وفاداری مشکوک ہے ؟ شاید وجہ یہ ہو کہ ان قائدین کے آہنی ہاتھوں کا شکنجہ مضبوط اور ایک مولانا چند ماہ جیل میں رہ کر اور انتہائی گریہ وزاری کے بعد معافی مانگ کر یہ مجھے چکے تھے کہ بین الاقوامی سیاست اور ملائی ذہنیت میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن آنریبل خواجہ ناظم الدین کی اس وزارت میں جہاں عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے، انہیں بدامنی کی تلقین کرنے اور امن کی بحالی پر پولیس کے رویہ پر قرار داد نذقت منظور کرنے والے شر پسندوں کو پاکستانی شمی کے الزام میں گرفتار نہیں کیا جاتا وہاں قائد اعظم کے زمانہ کا زمین و آسمان والا فرق خودبخود ایک سراب میں تبدیل ہو جانا چا ہئے تھا چنانچہ آئی مسلم پارٹیز کنونشن کی ساری قراردادیں اس سراب کے پس منظر ہی یہ پیشیں کی گئیں اور اگر حکومت کو اب بھی ہوش نہ آیا تو ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے اور خود مستفید ہونے کے لئے یہ نام نہاد علماء ایک اتنا بڑا ہنگامہ شروع کرا دیں گے کہ پولیس کے اشک آور گیس کے گولے بھی کوئی مدد نہ کریں گے.
۱۵۱ پاکستان دشمن ملاؤں کی نظر میں سہ محمد ظفر اللہ اور احمد یہ فرقہ کے لاتعداد پیر و محض اس وجہ سے پاکستان کے غدار قرار دیئے گئے ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے احمدیہ فرقہ کے مذہبی عقائد سے پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کو اختلاف ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ ہم اعلان کر دیں کہ وہ تمام فرقے جو ہمارے مذہبی عقائد کو تسلیم نہیں کرتے قابل گردی زدنی ہیں اور ان پر کسی طرح اعتماد نہیں کیا جا سکتا.کل یہ اعتراض بھی ہو سکتا ہے کہ شیعہ فرقہ کے مذہبی عقائد سے پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کو اختلاف ہے لہذا ان کے کسی آدمی کو پاکستان کا کوئی اہم عہدہ نہیں دیا جا سکتا.اسی طرح آغا خانی، مهدوی، ذکری ، ہندو، عیسائی، پارسی اور وہ تمام لوگ جو اپنی اجتماعی جد و جہد اور پوری توانائی سے پاکستانی قومیت کی تخلیق کر رہے ہیں پاکستان کے غدار قرار دئے جا سکتے ہیں ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ قبل اس کے کہ تعصب کی یہ آگ بھڑک کو اپنے ہی گھر کو بھلا ڈالے اس کے خلاف سخت انسدادی تدابیر اختیار کی جائیں.سر چوہدری محمد ظفر اللہ وزیر خارجہ پاکستان کے خلاف عام طور پر انگریز نوازی کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے ہمیں انتہائی افسوس ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ کا بینہ سے چوہدری سر ظفر اللہ کی علیحدگی کا پر زور مطالبہ کر کے یہ مجھے لیتا ہے کہ سر ظفر اللہ کی علیحدگی سے انگریز نوازی ختم ہو جائے گی.سر ظفر اللہ کی خارجہ پالیسی خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ کی خارجہ پالیسی ہے.مرکزی حکومت جس حکمت عملی کا تعین کرتی ہے وزیر خارجہ پاکستان ان بنیادوں پر اپنی تقاریر کا خاکہ تیار کرتے ہیں.یہ تو انتہائی بچپن ہو گا کہ ہم سامنے کی چیزوں کو دیکھ کر بھڑک اُٹھیں اور ان اندرونی دھاروں سے چشم پوشی اختیار کریں جو ان حالات کی اصل ذمہ دار ہیں.ہفت روزه شیراز (۲۶ مئی ۱۹۵۲ء) نے زیر عنوان " کراچی کا ہنگامہ لکھا.قادیانی جماعت کے سالانہ اجتماعات کے موقع پر کراچی میں جو ہنگامہ ہوا ہے اس نے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ جب تک تنگ نظر متعصب مذہبی باغیوں کو ڈھیل دی جاتی
۱۵۲ رہے گی پاکستان کی سالمیت خطرے میں رہے گی.کراچی کے بعض علمائے اسلام کا بیان ہے کہ اس ہنگامہ کا سبب قادیانی جماعت کی دل آزاد اور اشتعال انگیز تقریریں تھیں.اور مسٹر ابو طالب نقوی چیف کمشن کا اعلان یہ ہے کہ ہنگامہ ایک منظم سازش کے ماتحت کرایا گیا.اوراگر پولیس کی پوری طاقت استعمال نہ کی جاتی تو خدا جانے قادیانیوں کے خلاف یہ گڑ بڑ کیا رخ اختیار کرتی کہ نقوی صاحب نے اپنے بیان میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ اس ہنگامہ کی وسعت اور اس کے پس منظر کی طرف انتشار ہے کئے ہیں چیف کمشنر کے وضاحتی بیان کی تردید مفتی محمد شفیع ، مولانا احتشام الحق ، مفتی جعفر حسین در کن پارلیمنٹ اور مولانا لال حسین اختر نے کی ہے اور اشتعال انگیزی کا سر چشمہ قادیانی جماعت کے مقریروں بلکہ خود چوہدری سرمحمد ظفر اللہ صاحب کو قرار دیا ہے.ان متضاد بیانات کی موجودگی میں بیک وقت کو قطعی نتیجہ تک پہنچنا مشکل ہے تاہم اگر سنجیدگی اور احتیاط کے ساتھ صورت حالات کا تجزیہ کیا جائے تو چند" واضح حقائق تک پہنچنا چنداں مشکل نہیں رہتا.بھلا اس بات سے کون واقف نہیں کہ پورے پاکستان میں قادیانی جماعت کی تعداد چند لاکھ (شاید یہ اندازہ بھی زیادہ ہے) سے زیادہ نہیں.اور اس قلیل تعداد کو ہمیشہ ایک عظیم ترین مخالفت سے دو چار رہنا پڑتا ہے مرزا غلام احمد صاحب کے متعلق قادیانیوں کے کیا عقائد ہیں؟ وہ ان کی مجددیت کے قائل ہیں یا نبوت کے ؟ وہ ختم رسالت کے عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں یانہیں؟ یہ تمام باحث علمی و تقویتی نوعیت رکھتے ہیں اور بینصب علماء کا ہے کہ وہ ان عقائد کی تردید اور اصلاح کریں.اور جو گراہ لوگ تم دراست کے عقید ے میں متذبذب ہیں ان کو راہ راست پر لائیں.لیکن یہ بحث و مباحثہ مناظرہ و مکالمہ کی حدود تک رہنا چاہیے.بے شک جو شخص ختم رسالت کے عقیدے کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں.اس باب میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں لیکن قادیانی اپنی صفائی میں کیا کہتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ تحمل کے ساتھ اُسے شنین اور جہاں جہاں انہیں اعتقادی طور پر غلط پائیں نرمی کے ساتھ منقبہ اور محبت کے ساتھ خبر دار کریں.یہ تو ہے اصلاح نفوس اور امر بالمعروف کا وہ طریقہ جو اسلام نے تسلیم کیا ہے اور قرآن مجید میں بار بار اس کا اعادہ کیا گیا ہے.غنڈہ گردی اور جہالت کا راستہ یہ ہے کہ لاٹھیاں لے کر مخالف عقیدہ رکھنے والوں پر دھاوا بول دیا بھائے اور ڈنڈے کے زور سے انکی اصلاح کی جائے.افسوس یہ ہے کہ بعض حلقوں نے قادیانیوں کی اصلاح کے لئے یہیں دوسزار اکستر
۱۵۳ اختیار کر رکھا ہے جس کے نتائے ، جہانگیر پارک کے جلسے میں ظاہر ہو گئے ہم ہر گئے اس الزام کو نا نے کے لئے تیار نہیں کہ قادیانیوں کے جلسہ میں اشتعال انگیزی کی گئی.مولانا احتشام الحق صاحب اور ان کے دوسرے رفقاء نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سو ڈیڑھ سو قادیانیوں کی خوشنودی کے لئے کراچی کے سولہ لاکھ باشندوں کو کچلا نہیں سما سکتا اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جلسہ میں قادیانیوں کی تعدا د سو ڈیڑھ سو سے زائد نہ تھی.انصاف کیجئے کہ مخالفت کے ایسے عظیم طوفان میں مٹھی بھر انسانوں کو اشتعال انگیزی اور بد زبانی کی جرات ہو سکتی ہے ؟ نہیں یہ الزام کوئی شخص تسلیم نہیں کر سکتے اس سلسلہ میں چیف کمشنر نے جو وضاحت کی ہے صرف وہی قابل تسلیم ہے.ہمیں معلوم ہے کہ کافی عرصہ سے قادیانیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر اشتعال انگیزی کی جارہی ہے اور اس پر جوش مخالفت کے سبب پنجاب میں کہیں کہیں چند نا خوشگوار حوادث بھی کہیں آئے.چند ماہ قبل کراچی میں اینٹی قادیانی اجتماعات ہوئے تھے انہوں نے بھی مخالفانہ احساسات کو کافی بھڑکایا.اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے ایک مشتعل ہجوم نے پولیس سے مڈبھیڑ کے بعد شیزان ریسٹورنٹ، احمدیہ فرنیچر سٹور، احمدیہ لائبرید کی اور بعض دوسرے ایسے اداروں کو جن کے متعلق احمدی ملکیت ہونے کا شبہ تھا آگ لگانے کی کوشش کی اور اگر کراچی ایڈ منسٹریشن اس موقع پر غیر معمولی احتیاطی تدابیر نہ اختیار کرتا اور پولیس وسیع پیمانے پر حرکت میں نہ لائی جاتی تو خدا جانے کراچی میں کیا کیا مناظر دیکھنے میں آتے ہم ایک طرف تو حضرت علماء کرام کے روشن خیال طبقہ سے درخواست کریں گے کہ وہ خدا اور رسول کے لئے میدان میں آئیں اور جاہلوں کو موقع نہ دیں کہ وہ دس لاکھ انسانوں کے خون سے خریدی ہوئی اس گراں مایہ مملکت کے اتحاد ، سالمیت اور آزادی کو خطرہ میں ڈال دیں اور دوسری طرف حکومت پاکستان سے اصرار کریں گے کہ مذہبی اشتعال انگیزی کے مقابل اس کا رویہ اب تک تحمیل اور نرمی کا رہا ہے.یہ رویہ ایک دن پوری قوم کو خطرے میں ڈال دے گا جہاں تک قادیانیوں کا تعلق ہے ہم اس کے حامی ہیں کہ ان کے عقائد کی تردید مؤثر طور پر کی بھانی چاہیئے اس کا طریقہ یہ ہے کہ علماء اسلام تحقیق و علم کے میدان میں ان کا مقابلہ کریں لیکن یہ غنڈہ گردی ، یہ یلوے، یہ اشتعال انگیزیاں ہمیں صاف لفظوں میں اعلان کرنا چاہیئے کہ پاکستان میں ان میں مخالف سے پر لاٹھیاں برسانے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے یا
۱۵۴ (6) شیراز نے علماء کنونشن کے مطالبات پر حسب ذیل رائے کا اظہار کیا :- کراچی میں علمائے کرام اور مفتیان عظام کے ایک کنونشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ " چونکہ سر محمد ظفراللہ قادیانی ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان سے کوئی دلچسپی اور ہمدردی نہیں ہو سکتی اس لئے انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے عہدے سے الگ کہ دیا جائے اور قادیانیوں کو پاکستان میں ایک مذہبی اقلیت قرار دے دیا جائے؟ حضرات علمائے کرام نے جس بناء پر چوہدری صاحب کی برخواستگی کا مطالبہ کیا ہے ہم اس بنیاد کو پاکستان کی سالمیت ، خوشحالی، ترقی اور اتحاد کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں.اس سلسلہ میں ہماری سوچی بھی رائے یہ ہے کہ ہمارے واجب الاحترام علماء نے اس کنونشن میں جو مطالبہ کیا ہے وہ ملک اور رات کے لئے سخت تباہ کن ہے " قادیانیت کو "پاکستانیت کا حریف اور ہر قادیانی کو اینٹی پاکستان قرار دینا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے کوئی باشعور پاکستانی اتفاق نہیں کر سکتا.اس موقع پر جبکہ ابھی ہم اپنے قومی وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ایک شدید جنگ لڑ رہے ہیں نرمی بنیادوں پر ایک اس قسم کے ہنگامے گرم کرنا اور سیاسیات کو خواہ مخواہ فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھنا یا اجتماعی خود کشی کا سامان فراہم کرنا ہے ہم اس ملک کے سمجھدار طبقے سے درخواست کریں گے کہ وہ میدان میں آئے اور بغیر کسی تو تخف اور تامل کے اس قسم کے مضحکہ انگیز مطالبوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے.حکومت کو بھی زیادہ عرصہ تک اس سلسلہ میں مجہول پالیسی اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی.اس کا فرض ہے کہ اور کسی سبب سے نہیں تو اپنے وزیر خارجہ کی پوزیشن کے تحفظ ہی کے لئے حرکت میں آئے اور ان مرعبان دین سے صاف الفاظ میں کہہ دے کہ تم فقہی تاویلات کی بناء پر سلمانوں کو کافر یا مومن بناتے ہو لیکن تمہیں یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ تم پوری قوم کے مفادات سے (اس قسم کے مطالبات کر کے کھیلوٹا لے ہفت روزه تارا (۲۲ جون ۱۹۵۲ء) نے علماء کی کنونشن کی نسبت لکھا :- کراچی میں حالی میں مفتیان عظام اور علماء کرام کا ایک عظیم الشان کنونشن ہوا اور حکومت سے ہفت روزه شیراز ، کراچی ۵ مروان ۹۶۱۹۵۲
100 سے مطالبہ کیا گیا کہ (خلاصہ یہ ہے) چونکہ منظفر اللہ قادیانی ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان سے کوئی ڈی پی اور ہمدردی نہیں اس لئے انہیں پاکستان کی وزارت نما ریجہ کے عہدے سے الگ کر دیا جائے اور قادیانیوں کو پاکستان میں ایک مذہبی اقلیت قرار دے دیا بجائے " ہنسی ہنسی میں بعض اوقات طول پکڑ جاتی ہے بات اس مطالبہ پر بحث کرنے اور لکھنے کے لئے تو بہت کچھ ہے مگر مختصر اہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ قومی حکومت کی مخارجہ پالیسی سے نا مطمئن ہو کر حضرات علماء کرام نے جن بنیادوں پر وزیر خارجہ کی می خواستی طلب کی ہے وہ بنیا دیں پاکستان کی سالمیت ، خوشحالی اتہ تھی اور اتحاد کے لئے نشتر اور زہر ہلاہل کا حکم رکھتی ہیں.اور ہمارے واجب الاحترام علماء نے اس کنونشن میں جو مطالبہ کیا ہے وہ ملک اور ملت کے لئے انتہائی تباہ کن ہے.ہر قادیانی کو اینٹی پاکستان اور قادیانیت کو پاکستانیت کا تضاد ٹھرانا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے کوئی با شعور پاکستانی اتفاق نہیں کر سکتا.ایسے حالات میں جبکہ ہمیں اپنا قومی وجود قائم رکھنے کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں ایک جنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے فریبی بنیادوں پر اس قسم کے ہنگامے برپا کرنا اور سیاسیات کو مذہبی رنگ دے کر فرقہ پرستی کی آگ میں چھونکنا کہاں کی دانشمندی ہے بلکہ مضحکہ خیز ہے.ہم ملک کے دانشمند اور باشعور طبقہ سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ میدان عمل میں آئیں اور اس قسم کے مضحکہ انگیز مطالبات کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور بلاتا تل و توقف حکومت کے اس مجہول پالیسی اختیار کرنے پر آداب سیاست کا خیال رکھتے ہوئے احتجاج کریں کا ہے ۹.سہ روزہ " رہبر " (۳۰ میٹی ۱۹۵۲ء) نے لکھا:.بہاولپور احرار سے قائم ہی ادارے مجلس احرار جیب سے قائم ہوئی ہے تب ہی سے بندرگاہی احرار کے مسلمانوں کے سواد اعظم مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مخالفت کرنا اپنا شیوہ ملی قرار دے رکھا ہے.قیام پاکستان کے بعد خیال تھا کہ یہ بزرگ اپنے رویہ میں خوشگوار تبدیلی کر کے محنت کا ساتھ دیں گئے لیکن قسمت کی ے ہفت روزه تارا کراچی ۲۶ جون ۲۶۱۹۵۲
۱۵۶ بدنصیبی ہے کہ ایسے لوگوں سے کوئی بھلائی کی توقع کیونکر ہوسکتی ہے جنہوں نے جنم ہی ہندو کا نگر میں کی گود اور سیٹھ ڈالمیا کی دولت کی تجوریوں میں لیا ہوا اور نہوں نے اس بات کی قسم کھا رکھی ہو کہ انہوں نے ہمیشہ ملت کے خلاف ہی محاذ قائم کر کے ملت کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا ہی اپنا فریضنہ ملی تصور کر رکھا ہو.کہیں قادیانیوں کی مخالفت کے بہانے سے تبلیغی کا نفرنس اور کہیں ختم نبوت کانفرنسوں کے نام پر بڑے بڑے اجتماع کہ کئےمسلمانوں میں وزیر خارجہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کی جاتی ہے اور کئی حیلے بہانے تلاش کر کے پاکستان کی وحدت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے.بزرگان حوار اگر تبلیغ اور تحفظ نبوت تک ہی اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھیں اور قادیانیوں کی مذہبی نقطہ نگاہ سے ہی مخالفت کریں تو ہم جیسے حنفی العقیدہ لوگ بھی ان کا ضرور ساتھ دیں لیکن قوم و ملک کی بدنصیبی ہے کہ اس احرار ہی ٹولے نے یہ ڈرامہ صرف اپنے ان احراری زعماء کے ایمار پر (جو پاکستان کے قیام کے بعد بھارت میں اپنے ہند و آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے پچھلے گئے تھے اور بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کو ختم کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، پاکستان کے مسلمانوں کو حکومت پاکستان کے خلاف اکسانے کے لئے کھیلنا شروع کر رکھا ہے.حال ہی میں معاصر عزیز " نوائے وقت“ لاہور کی ایک خبر کے مطابق احراری امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ بخاری نے یہ اعلان پیشاور کے ایک عام اجتماع میں کیا ہے کہ "یکس ہوں قائد اعظم اور میرے مرکزی دفتر کے چپڑاسی کا نام بھی قائد اعظم ہے، اور ساتھ ہی حکومت پاکستان کو چیلنج بھی دیا ہے کہ اگر حکومت میں طاقت ہے تو تو ہیں قائد اعظم کے سلسلے میں میرے خلاف مقدمہ چلائے یا قائد اعظم مرحوم کی زندگی میں بھی یہ اعدادی بزرگ مرحوم کو کا فراعظم کے نام سے خطاب کرتے رہے لیکن پاکستان کے بانی کی وفات کے بعد ابھی لوگوں کو اتنی ہمت اور جرات ہو گئی ہے کہ وہ ہر سمبر عام مسلمانوں کے اجتماع میں پیشا در پیسے غیور شہر میں قائد اعظم مرحوم کی توہین کرنے کے بعد حکومت پاکستان کو چیلنج دے رہے ہیں.آپ دیکھنا تو یہ ہیں کہ حکومت پاکستان میں واقعی کوئی غیرت اور طاقت ہے کہ وہ اپنے سب سے بڑے رہنما کی تو ہین کو مخاموشی اور بے غیرتی سے برداشت کر لیتی ہے یا اس گستاخی کے خلاف کوئی عملی اقدام کرتی ہے تا کہ آئندہ کسی دوسرے شخص کو ایسی گستاخی اور ذلالت کی جرات ہی نہ ہو ور نہ یہ چنگاری جس کی داغ بیل احرارینی بزرگوں نے آج پشاور کیسے شہر میں دیکھی کہیں پاکستان کے
104 سارے خرمین امن کو جلا کر خاکستر نہ کر دے کیونکہ بھارتی حکومت صرف اسی وقت کے انتظار میں ہے کہ بانی پاکستان اور حکومت پاکستان کے خلاف پاکستانیوں کے جذبات کو ابھار کر پاکستان میں اختلاف پیدا کر کے حکومت پاکستان کے خلاف عوام میں جذبات نفرت پیدا کر کے پاکستان پر حملہ کر کے پاکستان کو خدانخواستہ ختم کر دیا جائے جن کی ابتداء ہندوؤں کے دیرینہ زرخرید غلاموں اور اینٹوں نے پشاور سے کر دی ہے.اس لئے حکومت پاکستان کو سختی سے اس فتنہ کو جلد سے جلد دبا دینا چاہیے ور نہ بند ہیں پچھتانے سے کچھ نہ ہو گا.وما علینا الا البلاغ لے ۱۰.کراچی کے فساد پر کوئٹہ کے پارسی اخبار کوئٹہ ٹائمز نے مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۵۷ء کا کوئٹہ باور :- ہنگامہ کراچی کے وہ مگر وہ واقعات جو حال ہی میں رونما ہوئے ایک مہذب ملک کے لئے شرم کا باعث ہیں.صاف ظاہر ہے کہ ان کی ترمیں مذہبی تعصب اور عدم رواداری کا جذبہ کار فرما ہے.یہ جہالت اور تعصب کی بدولت ہے کہ مذہب کے نام پر عدم رواداری کا سند یہ پروان چڑھتا ہے.تاریخ عالم پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے آپ کو بآسانی معلوم ہو جائے گا کہ جب کبھی کسی ملک میں مذہب کی آڑ میں ظلم اور ایذا رسانی کا دور دورہ ہوا تو ترقی کی راہیں اس ملک پر مسدود ہوگئیں.مذہب کے نام پر ظلم روا رکھنے سے انسانی فطرت مسخ ہو جاتی ہے اور جس ملک میں بھی یہ دور دورہ ہو وہ دنیا میں ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے.فرقہ وارانہ تنگ نظری نے جہاں راہ پائی وہیں آنکھوں پر عقب کی پٹی بندھی.ایک مہذب اور روشن خیال قوم مذہب کے نام پر کبھی ظلم روا نہیں رکھتی علم انسان کے نقطہ نظر میں وسعت پیدا کر دیتا ہے اور انسان کیوں محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ ایک مقدس ماحول میں زندگی کیسر کر رہا ہے.پس ایک ایسی قوم ہی جو جہالت کی تاریکیوں میں رینگ رہی ہو نہ ہی غلامی کو برداشت کر سکتی ہے.تاریخ ایسی واضح مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ نیک دل بادشاہوں نے رواداری کی بدولت بڑی تنظیم سلطنتیں قائم کیں اور بعد میں آنے والوں نے عدم رواداری کے ہاتھوں انہیں سفاک میں ملا دیا.یہ کہتے ہوئے دشمنای اسلام کی زبان نہیں تھنکتی کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے یا اس کی له سه روزه ریر بہاولپور ۳۰ مئی ۱۶۱۹۵۲
۱۵۸ تبلیغ و اشاعت میں تلوار کا بہت بڑا دخل ہے.جو لوگ گزشتہ ہفتہ کے ہولناک واقعات کے ذمہ دار ہیں افسوس کہ انہوں نے اپنی حماقت سے ایسے دشمنان اسلام کی خود ہی تائید کر کے ان کے ہاتھ مضبوط کئے.رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم) نے اپنے ماننے والوں کو بار بار تاکید کی ہے کہ وہ رواداری کے اوصاف سے اپنے آپ کو متصف کریں لیکن کیا کیا جائے تعصب اور غیظ و غضب کی گرمی نے ان لوگوں کو اندھا کر رکھا ہے.بانی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی روشن دماغی کا یہ ایک بین ثبوت ہے کہ آپ نے ہمیشہ اشاعت دین کی راہ میں طاقت استعمال نہ کرنے کی تعلیم دی.یہ جھگڑا دیہی اور غیر مذہبی لوگوں کے درمیان نہیں ہے یہ جھگڑا ہے جہالت اور علم کے درمیان نام نہاد مولویوں کے اندھے مقلدوں اور ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اسلام کی مینیج روح اپنے اندر جذب کی ہوئی ہے.جہاں تک مذہب اور مملکت کا تعلق ہے حکومت پر بعض فرائض عائد ہوتے ہیں.ایسے تعصب کے قلعے سر کرنے میں ہر ممکن امداد کرنی چاہئیے.اگر کٹر اور متعصب لوگوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا گیا تو لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ حکومت بھی ان عناصر سے باز پرس کرنے سے خوف کھاتی ہے جو لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں.اس سے ایسے عناصر کی گردنیں اور اکڑ جائیں گی اور پھر آگے چل کر انہیں کیفر کردار تک پہنچا تا آسمانی نہ رہے گا.اس برباد کرنے والوں کے لئے ایک ہی قانون ہے.قانون شکنی کرنے والوں میں سے کسی کو بھی اس کے نتائج بھگتنے کے ستنقلی قرار نہ دینا چاہیے.پشاور ۱۱- اخبار تنظیم پشاور (۲۰ مئی ۱۹۵۲ء) نے لکھا :.حضرت قائد اعظم اور مسلمانان پاکستان و ہند کے محبوب مطالبہ پاکستان کے وقت سے لے کر قیام پاکستان سے کافی عرصہ تک ہندوؤں کے اشارہ پر پاکستان، قائد اعظم اور پاکستان کے حامی مسلمانوں کو جو بے نقطہ اور ان گنت گالیاں سے جماعت احرار نے سنائی ہیں امید ہے سلمان ایں کے شورش کا شمیری صاحب سابق جنرل سیکرٹری مجلس احرار لکھتے ہیں :.احرار اپنے طبقاتی مزاج کے مطابق ملک کی سالمیت کو مسلمانوں کے طبقہ امراء کی سیاست قرار دیتے اور گفتنی و ناگفتنی سب کہی جاتے تھے ان کا خیال تھا کہ ملک کی تقسیم سے (باقی اگلے صفور)
۱۵۹ پاکستان ابھی تک انہیں نہ بھولے ہوں گے.غرضیکہ پاکستان کے قیام کی مخالفت میں احرار بزرگوں نسی ترکش کا زہر میں مجھا ہوا کوئی ایسا تیر باقی نہ رہا تھا جو انہوں نے استعمال نہ کیا ہو.پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کو منظور تھا.پاکستان قائم ہوا اور اب انشاء اللہ ٹھوس اور ستحکم بنیادوں پر اسکی تعمیر کا سلسلہ بھاری ہے.نا معلوم آب اللہ تعالیٰ پاکستان کے مسلمانوں سے ناراض ہو گئے ہیں کہ انہوں نے اب پاکستان کی تخریب کے لئے شاید ایک دوسرے قائد اعظم پیدا کر دئے ہیں جن کا کام پہلے سرے سے پاکستان کے قیام کی مخالفت تھا اور اب ان کا کام پاکستان میں رہنے والوں کو آپس میں لڑا کر تخریب پاکستان ہے.پیر عطاء اللہ صاحب پاکستان کے ہر حصہ میں ختم نبوت کا نفرنسیں منعقد کر کے اپنے آپ کو قائد اعظم ظاہر کر رہے ہیں حالانکہ ختم نبوت کے مسئلہ سے مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہے کہ حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں.آپؐ کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو وہ غلط کارا اور جھوٹا ہے اور مسلمانوں سے نہیں.اگر مرزائی کا فرم ہند و کافروں سے کٹ کر پاکستان کے مومن مسلمانوں کے سایہ میں آگئے ہیں تو کیا ہمارا اسلام اور آئین ہمیں میں اجازت دیتا ہے کہ اختلافی عقائد کی بنا پر ہم ایک فرقہ کی زندگی دوبھر کر دیں.سادہ لوح جوشیلے مذہب اور اسلام کے نام پر کٹ مرنے اور مارنے والے مسلمانوں کو یہ جوش اور اشتعال دلاتے پھریں کہ مرزائیوں کو قتل کرنا عین ثواب اور اسلام دوستی ہے.مرزائیوں سے حضرت شاہ صاحب کو در حقیقت اتنی نفرت ہے یا نہیں البتہ پاکستان سے آپ کی دشمنی مسلہ ہے.آپ لوگ پاکستان کو باہر کی سلمانی دنیا اور جمہوری ممالک میں بد نام تنگ نظر بقیه حاشیه صفحه گذشته : کہیں انسب دولت کی تقسیم ہے...اسلام کا نام لے کر کیسی ٹکڑے میں کسی یزید جیسے مسلمان کے لئے تخت سلطنت بچھانے کے حق میں نہ تھے.ان کے نزدیک ایسا سوچنا یا کرنا اسلام سے غداری کے ہم معنی تھا کہ اسید عطاء اللہ شاہ بخاری (سوانح افکار) می ۲۹ مؤلفه شورش کا شمیری ایڈیشن دوم نومبر ۱۹۷۳ء مطبوعات چٹان ۸ میکلوڈ روڈلاہور طباعت چٹان پرنٹنگ پریس لاہور) سہ شاہ صاحب موصوف نے لاہور کی ایک تقریر میں کہا :- پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے یا د رپورٹ تحقیقاتی عدالت (باقی اگلے صفحہ ہیں)
14- اور غیر اسلامی حکومت ثابت کرنا چاہتے ہیں.آپ کو خود بخود قائد اعظم بن کر تخریب پاکستان کی اجازہ نہیں دی جا سکتی.مرزائی کا فرسہی لیکن پاکستان کے باشندے اور اپنے آپ کو وفادار شہری ظاہر کر رہے ہیں.اور حضرت قائد اعظم نے احمدیوں کے وجود کو پاکستان کے لئے مفید پا کر اکثر موقعہ پیران سے پاکستان کے لئے امدا دیں بھی محاصل کی ہیں اور پاکستان سے اپنا تعلق وانس ثابت کرنے کے لئے اپنے مرکز کو چھوڑنے اور کروڑوں روپیہ کی جائدادیں چھوڑ کر مرزائی کا فروں نے اپنی جانیں پاکستان کی خدمت کے لئے پیش کی ہیں.حضرت قائد اعظم نے سر ظفر اللہ کو ایک قابل وفادار پاکستانی سمجھتے ہوئے وزارت خارجہ کا ایک نہایت اہم اور ذمہ دار عمدہ پیش کیا تھا چنانچہ اپنی بے نظیر دماغی صلاحیتوں اور قانونی قابلیتوں کے باعث نہ صرف خود ظفر اللہ اقوام عالم میں ہمہ گیر ہر دلعزیزی حاصل کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کے وقار اور غربت کو بھی بچار چاند لگا دئے ہیں.البتہ اگر حکومت کو اب ان کی خدمات کی ضرورت نہ ہو تو ان سے استعفیٰ مانگا جا سکتا ہے اور مرزائیوں کو ایک علیحدہ اور اقلیتی فرقہ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی پاکستان کے مرزائیوں کو ان کے عقائد، جان ومال کے تحفظ اور دوسرے شہری و ملکی حقوق کی مراعات دینی ہوں گی.نا معلوم حکومت کن سیاسی مصلحتوں کی بناء پر بقیه بعات صفحه گذشته : برائے فسادات پنجاب ۶۱۹۵۳ مه ۲۷ اردو؟ شاہ صاحب کے سیاسی پیشوا جناب مولانا ابوالکلام آزاد کا مسلک اہنی کے لفظوں میں یہ ہے:.یکن اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ پاکستان کا لفظ ہی میری طبیعت قبول نہیں کرتی.اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا ایک حصہ تو پاک ہے اور باقی ناپاک، پاک اور نا پاک کی بنیاد پر کسی قطعہ ارض کی تقسیم قطعاً غیر اسلامی اور روح اسلام کے بالکل منافی ہے " ر اس کے مقابل وطن الیہود کی تائید میں لکھتے ہیں.جہاں تک یہودیوں کے قومی وطن کا مطالبہ ہے اس سے ہمدردی کی جا سکتی ہے کیونکہ وہ صاری دنیا میں گھرے ہوئے ہیں اور کسی علاقہ میں بھی وہاں کے نظم و انصرام پر کوئی اثرنہیں رکھتے لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت اس سے بالکل مختلف ہے ! آزادی ہند (ترجمہ) ۲۵ " NDIA WINS FREEDOM" از مولانا ابوالکلام آزاد مترجم مولانا این حمد جعفری - ناشر مقبول اکیڈیمی شاہ عالم مارکیٹ لا ہور)
۱۶۱ اموش نے قائد اعظم کے تحریری پروگرام کا تماشہ دیکھ رہی ہے ہمارے خیال میں اس موقعہ پر حکومت ناقابل تلافی سیاسی غلطیوں سے کام لے رہی ہے.یہی نیا قائد اعظم کل کہے گا جو اسلامی آئی ہم بچاہتے ہیں پاکستان کے موجودہ حکمران صحیح اسلامی آئین نہیں بنا سکے.لہذا جس حکومت کا آئین اسلامی نہ ہو وہ مسلمان نہیں کہلا سکتی ہیں قائد اعظم ہوں“ کا خطاب حاصل کرنے کے باعث احمد اور مذہبی جھگڑوں کے ذریعہ تخریب پاکستان کے مواقع پیدا کر رہی ہے اور وہ ایک مذہبی جماعت کا لبادہ پہین کر اپنے لئے ایک وسیع سیاسی میدان پیدا کرنا چاہتی ہے.پھر ہماری حکومت مذہبی رو میں بہتے ہوئے مسلمانوں کے خیالات و عقائد کا جو احرار اس وقت ان میں پیدا کر رہے ہیں مقابلہ نہ کر سکے گی.دعام ہے کہ اللہ تعالٰی حکومت اور مسلمانوں کو اسلامی اور اخلاقی شعور پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے او چور دروازوں سے داخل ہونے کی بجائے احرار کے لئے بھی سیاسی اقتدار کی کوئی راہ نکالے تا کہ پاکستان تخریبی سرگرمیوں کا اڈہ بننے سے بچے سکے " ۱۲- اخبار امروز ( ۲۲ مئی ۱۹۵۲ء) نے کراچی کا ہنگامہ کے زیر عنوان حسب ذیل لاہور شذرہ سپرد قلم کیا :- جہانگیر پارک کراچی میں جماعت احمدیہ کے جلسہ عام میں جو ہنگامہ ہوا وہ ہر اعتبار سے افرینا کی ہے اور ایک آزاد و مہذب قوم کے شایان شان نہیں.زمہ دار قوموں کے افراد انتہائی اشتعال کے عالم میں بھی اپنے فرائض کا خیال رکھتے ہیں اور تہذیب و تمدن کی حدود سے آگے نہیں بڑھتے کیونکہ جبر و تشدد کے ذریعہ نہ تو کوئی مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور نہ عقائد ہی میں کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے تاہم یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ اس فوری اشتعال کے اسباب و علل کیا ہیں کیونکہ جب تک ہم کو علت غائی کا علم نہ ہو ہم اس حادثے کے متعلق صحیح رائے قائم نہیں کر سکتے.ہجوم کے طرز عمل سے یہ حقیقت بالکل آشکارا ہو جاتی ہے کہ وہ انتہائی مشتعل تھا اور اس قدر بے قابو تھا کہ پولیس کے لاٹھی چارج کے باوجود اس نے جلسہ کو درہم برہم کرنے کی ہم کوشش کی.قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا خشت باری ہوئی.لوگوں کے چوٹیں آئیں.شامیا نے پھٹے.کارون لاؤڈ سپیکروں اور روشنیوں کو نقصان پہنچا.گرفتاریاں ہوئیں منتظمین کا باہر نکلنا مشکل تھا.مرض ہے کہ سوا گیارہ بجے رات تک میدان کار زار کا نقشہ جمارہا.
۱۲۲ قطع نظر اس سے کہ اس اشتعال کے اسباب کیا تھے ؟ کسی شہری کو اس کا حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لئے اس لئے اس کی جس قدر ندمت کی بجائے کم ہے کیونکہ اگر یہ شخص ایسی طرح عمل کرتا رہے تو نظم و نسق تباہ ہو جائے گا اور لاقانونیت اور مزاج کی کیفیت پیدا ہو جائے گی.رہا یہ سوال کہ یہ واقعہ پیش ہی کیوں آیا تو اس کی ظاہری وجہ یہ علوم ہوتی ہے جیسا کہ کراچی کے اخبارات میں مذکور ہے کہ جلسہ کی اجازت اس بناء پر دی گئی تھی کہ اس میں اختلافی امور پر کچھ نہ کہا جائے گا لیکن اس کے باوجود مقررین نے اختلافی مسائل پر تقریریں کیں مجمع نے احتجاج کیا مگر انہوں نے اس کے جذبا و احساسات کا احترام نہیں کیا.اگر یہ واقعات میے ہیں تو ہمیں یہ کہتے ہیں ذرا بھی قائل نہیں ک منتظمین اور مقررین علیہ نے انتہائی غیر ذمہ داری اور فرض ناشناسی کا ثبوت دیا.اگر وہ حدود سے تجاوز نہ کرتے تو غالباً یہ افسوسناک واقعہ ظہور پذیر نہ ہوتا جس طرح مشتعل ہجوم کو قانون شکنی کا حتی نہیں تھا اسی طرح منتظمین و مقررین بھی اس کے مجاز نہیں تھے کہ وہ ان شرائط سے روگردانی کریں جو اس جلسے کے انعقاد کے لئے لازمی قرار دی جا چکی تھیں لیکن اس سلسلے میں شر خص یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر منتظمین اور مقررین کی طرف سے عہد شکنی کا مظاہرہ ہوا تھا.حاضرین نے اعتراض کیا تھا اور مقررین نے اس کی پروا نہیں کی تھی تو نظم ونسق کے ذمہ دار خاموش کیوں رہے.اس واقعہ کا ایک پہلو جو ان سب سے زیادہ اہم اور نتیجہ خیز ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کی آویزشان کی حوصلہ افزائی ہوئی تو اس سے قوم کی وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی جس سے ملک دشمن عناصر خوب فائدہ اُٹھائیں گے اس لئے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کریں.پاکستان میں مختلف مذاہب کے پیرو اور مختلف عقائد رکھنے والے لوگ بستے ہیں انہیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب اور عقیدے پر چلیں لیکن کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے فرقے کی دل آزادی پر اُتر آئے اور دوسرے فرقہ کے جذبات و احساسات کا خیال نہ رکھے کیونکہ اگر اس کی کھلی چھٹی دے دی بھائے تو پھر ملک میں ہنگاموں کالا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا اور بعدال و قتال کا بازار ہمیشہ گرم رہے گا جو ملک کے مستقبیل کے لئے کسی طرح بھی مفید نہیں.اس لئے ہمیں یقین ہے کہ ملک کے تمام ذمہ دار سنجیدہ اور وطن دوست حضرات اس واقعہ کی
دقت کریں گے.ساتھ ہی ہم کراچی کے حکام کو بھی مشورہ دیں گئے کہ وہ اس مہنگامہ کی نہایت احتیاط سے تحقیقات کریں اور طرفین کے رویہ کا جائزہ لیں لے امروز نامہ آفاق دیکم جون ۱۹۵۲ء) نے لکھا : - احمدیوں کے خلاف عام مسلمانوں کو جو شکایات ہیں ان میں سب سے بڑی شکایت تو یہی ہے کہ وہ حضرت سرور کائنات کے بعد اجرائے نبوت کے قائل ہیں بحالانکہ خاتم النبیین کا مطلب ۴۰۰ سال سے یہی سمجھا جا رہا ہے کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.اس کے علاوہ احمدیوں کا یہ شیوہ بھی مسلمانوں کو بہت ناگوار ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے سوا کسی دوسر نے سلمان کے لئے دعائے مغفرت نہیں کرتے نہ کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز سمجھتے ہیں لیکن اگر جذبات کی ہنگامہ آرائی سے الگ ہو کر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو دوسرے مسلمان فرقوں کے اختلافات بھی کچھ کم تکلیف دہ نہیں ہیں شیعہ حضرات صدیق اکبر، فاروق اعظم ، عثمان غنی کو غاصب و ظالم کمر کر نا گفتہ بہ کلمات سے یاد کرتے ہیں میٹیوں کے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی.گو وہ کسی وقت منافقت سے شامل صلوۃ ہو بھی بھاویں یا کسی شستی کی نماز جنازہ بھی پڑھ لیں لیکن ان کے عقائد کا یہ تقاضا نہیں ہے.یہ میلوی عقید ہے کے لوگ اہل حدیث کے نزدیک پرلے درجے کے مشرک ہیں جو انسانوں کی روحوں اور مردوں کی قبروں کو قبیلہ مُراد مانتے ہیں اور بے شمار ایسی رسوم کے پابند ہیں جن کی اصل دین میں موجود نہیں ہے.دنیائے اسلام میں بعض ایسے فرقے بھی مسلم معاشرے کا ہجر ولا ینفک سمجھے جاتے ہیں جن کے عقائد سواد اعظم کے سخت خلاف ہیں.مثلاً آغا خانی ، بہائی اور دروزی لیکن ہندوستان، ایران ، پاکستان ، شام وغیرہ میں وہ بات اسلامی ہی سمجھے جاتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ احمدیوں کے بارے میں مسلمان مہر اور رواداری سے کام نہ لیں اور لَكُمْ دِينَكُمْ وَلي دین کہہ کر ان سے تعرض نہ کریں.اگر مذہبی فرقوں کے درمیان جنگ و شقاق کا ہنگامہ بھاری رہا تو ظاہر ہے کہ اس سے کلمہ گولیوں کے اتحاد کی بنیاد کمزور ہو جائے گی لیکن ان جوشیلے حضرات سے متفق نہیں ہوں جو یہ کہنے کے عادی ہیں کہ احمدی ہندوؤں سکھوں ، عیسائیوں ، یہودیوں سے بھی زیادہ بڑے ہیں.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو شخص توحید الہی ، نبوت محمدی ، حشر نشر، سرا، جزاء قرآن اور کعبہ کا قائل ہے اداریہ روزنامه امروز لاہور مورخہ ۲۲ مئی ۶۱۹۵۲ :
۱۶۴ اور نماز روزہ ، زکوۃ، حج اور تمام احکام فقہی میں سواد اعظم سے منقشابہ ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ کفار سے زیادہ کیوں کر تیرا ہو سکتا ہے اور ملت سے خارج کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے بڑے بڑے عظیم الشان آئمہ اسلام نے تو نہایت شدید اختلافات کی حالت میں بھی دوسروں سے انتہائی رواداری کا ثبوت دیا ہے.اور خود امام ابو حنیفہ کا یہ ارشاد مشہور ہے کہ جس شخص میں ننانوے وجوہ کفر کی اور ایک وجہ اسلام کی بھی موجود ہو اس کو کافر کہنے سے پر ہیز کرنا چاہیے.خیر تھے مذہبی مسائل کی پیچیپ د گیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور نہ آج کل ان بھول بھلیوں میں اپنے آپ کو کھو دینے کا زمانہ ہے یکیں تو یہ کہتا ہوں کہ پاکستان میں ملتِ اسلامیہ کے اندر فرقہ پرستی کی آگ کو ہوا دینا ملت اور بہبود وطن کے خلاف ہو گا.جب پاکستان کے ہندوؤں ، اچھوتوں عیسائیوں پارسیوں کے شہری حقوق مسلمانوں کے برابر ہیں اور ان کے جان و مال و آبرو کی حفاظت اور تحریر و تقریر و اجتماع کی آزادی کی ضامن و کفیل خود حکومت پاکستان ہے البشر طیکہ وہ قانون ملکی کی خلاف ورزی نہ کریں تو پر اللہ اور رسول کا کلمہ پڑھنے والی جماعتوں کو وہ تمام حقوق اور آزادیاں کیوں حاصل نہیں.عیسائیوں کی تو تبلیغی جماعتیں مثلا میشن اسکول.وائی.ایم سی.اسے سالویشن آرمی و سکتی فوج تک پاکستان میں اپنا کام آزادانہ طور پر کر رہی ہیں اور ان سے کوئی معترض نہیں ہوتا پھر مرزائیوں سے معترض کے کیا معنی؟ بعض متعصب مولوی اور ان کے جوشیلے پیرو یہ کہنے کی تو جرات نہیں کر سکتے کہ فلاں فرقے کے تمام مردوں، عورتوں اور بچوں کو پاکستان بدر کر دیا جائے اور اگر وہ ایسا مطالبہ بھی کریں تو اہل عقل میں سے کون ہے جو ان کا ہم زبان ہو سکے.پھر جب تمام حنفیوں، وہابیوں ، بریلویوں، شیعوں ، مرزائیوں ، ہندوؤں ، عیسائیوں اور اچھوتوں کو اسی ملک میں رہتا ہے اور یہیں مرنا گڑنا ہے اور پاکستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے ان سب کے حقوق مساوی ہیں تو سمجھے میں نہیں آتا کہ ان قوموں اور فرقوں کی آپس میں ہنگامہ آرائی کر نا کسی اعتبار سے پاکستان کے لئے مفید ہے.ہمارے بعض علماء گھر اس امر کا اندازہ نہیں کہ کراچی میں مرزائیوں کے جیسے پر ہزاروں مسلمانوں کی یورش سے ہم دنیا بھر کے ممالک میں بعد دریہ بدنام ہوئے ہیں اور حریت رائے اور جمہوریت
۱۶۵ کے بلند بانگ دعووں کی کس طرح قلعی کھلی ہے.بخدا کے لئے اپنے وطن کو اقوام عالم میں بدنام و رسوا نہ کرو تم اپنے عقائد پر قائم رہو اور دوسروں کو اپنے عقائد پر قائم رہنے کا حق دو عیسی بدین خود موسی بدین خود بعض علماء کا صرف یہ کہ دنیا کافی نہیں ہے، ہجوم نے جو کچھ کیا برا کیا ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا یا علماء اسلامی شائستگی اور اخلاق کے امین ہیں.انہیں چاہیئے کہ اختلاف عقائد کو الگ رکھ کر عامتہ اسلمین کو اس طرح احتجاج کی بنا پر سختی سے ڈانٹیں اور ملک بھر کی مسجدوں سے یہ آواز بلند کریں کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہونا چاہیئے کیونکہ یہ احکام اسلام، وقارِ اسلام اور اخلاقی اسلام کے منافی ہے اور اس سے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ مولوی کبھی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ہر فتنہ فساد کا ہنگامہ اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور وہ خلوت میں اسی پر بغلیں بجا رہا ہے.قانون امن کی طاقتوں کو بلا خون لومنہ لائمہ قانون و انتظام کو تباہ کرنے والوں کے خلاف شدید کارروائی کرنی چاہئیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ ہر صحیح الدماغ اور ذمہ دار پاکستانی اس اقدام میں ان کا حامی ہوگا.حکومت کے صیغہ داخلہ کو مذہبی فرقہ آرائی کے ذمہ داروں اور اشتعال انگیز واعظوں اؤ مقرروں پر نہایت کڑی نظر رکھنی چاہیئے خواہ وہ کسی فرقہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں.احراری ہوں یا مرزائی جو بھی فتنہ انگیزی کے درپے ہو اس کے ساتھ قانونی سلوک ہونا چاہئیے " ۱۴.ہفت روزہ بلیاک کی ٹیکم جون ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں حسب ذیل ٹوٹ ها: " قارئین کو ریڈیو پاکستان اور روزانہ اخبارات کے ذریعہ سے معلوم ہو چکا ہو گا کہ ہے.۱۸ مئی ۱۹۵۲ء کو کراچی کے جہانگیر پارک کے اندر اسلام ایک زندہ مذہب ہے، کہنے والے کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگائے گئے جلسہ میں پتھراؤ کیا گیا جس سے حالات کافی مخدوش ہو گئے.ہمارے ایک احراری بزرگ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہمارا لب و لہجہ احرار کے بارے میں نہایت تند و تلخ ہوتا ہے اس لئے ہم ان کے عہد بات کا خیال رکھتے ہوئے نہایت نرم الفاظ میں کچھ
۱۶۶ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں.مجلس احمراری یہ گرگٹ جماعت جو مرغ با دنما کی طرح اپنا رخ بدلتی رہتی ہے جسے کل اپنا آج کا مسلک غلط نظر آتا ہے اور پرسوں آج کا مسلک راست معلوم ہوتا ہے جسے خود یہ علم نہیں کہ وہ چاہتی کیا تھی اور چاہتی کیا ہے جس کے مقدس " لیڈران کرام ۱۵ اگست تک سیاست کا رخ معلوم نہ کر سکے اور ان سے کسی سمجھ بوجھ کی توقع رکھی جاسکتی ہے جس کا وجود ہی محض اس لئے معرض ظہور میں لایا گیا کہ کچھ خود غرض لوگ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لئے اس جماعت کو بطور حربہ استعمال کریں جس نے ہر موقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ غداری کی جس نے نظریہ پاکستان کا مذاق اڑا یا کبھی تو یہ جماعت سیاسی ہے کبھی نہ ہی.پھر سیاسی.پھر مذہبی.غرضیکہ ناصبیوں کی یہ جماعت گرگٹ کی طرح رنگ ہی بدلتی نظر آئی " مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اور تخریبی کارروائیاں کرنا اس جماعت کا پرانا مشغلہ ہے جس پر نهایت استقلال کے ساتھ آج تک قائم ہے.کراچی کے تلخ واقعات بھی اسی روش کا نتیجہ ہیں.آج قائد اعظم علیہ الرحمہ کی روح مسلمانوں سے پوچھ رہی ہے کہ کیا میں نے تمہیں اتحاد اور تنظیم کا یہی سبق دیا تھا جس کا مظاہرہ تم مسلمان بھائیوں کے ساتھ کر رہے ہو.ہمیں بتایا جائے کہ آخر احمدیوں کا قصور کیا تھا وہ ان کے جلسہ میں پتھراؤ کیوں کیا گیا ؟ اس جلسہ میں موضوع تقریر ہی تھا اسلام ایک زندہ مذہب ہے " کیا ان مفسدین کو اس چیز سے اختلاف ہے؟ آخر یہ متشددانہ رویہ کیوں اختیار کیا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ سلمانوں سے پی پی ہے نہ اسلام سے.انہیں صرف اپنے ہی موضوع سے دلچسپی ہے.فساد ! ان کی گذشتہ روایات بھی یہی کہتی ہیں.انہوں نے ہر اس موقعہ پر فساد کیا اور کرایا جہاں مسلمان آپس میں مل بیٹھے کبھی شیعہ سنی فتنہ کو ہوا دی گئی کبھی میرے صحابہ کی راگنی الا پی گئی کبھی رڈ مرزائیت کے نام پر فتنہ میں جھاگ لا لا کر مظاہرے کئے گئے.اس وقت تو یہ تخریبی کارروائیاں انگریز کراتا تھا کیونکہ اس کا مفاد ہی اسی میں تھا کہ لڑاؤ اور حکومت کرو میگر اب ؟ اب یہ نتیجہ ہے ہماری حکومت کی نرم پالیسی کا.ان بھیڑیوں کے منہ کو انسانی خون لگ چکا
۱۶۷ ہے یہ اب بھی بر معصوم کی تلاش میں ہیں.ہم حکومت سے امن، اتحاد تنظیم اور انسانیت کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ اس فتنہ کوئی الغور دبا دیا جائے ورنہ یہ آئے دن کے فسادات نہ صرف حکومت کے لئے دردسر کا موضوع ہیں بلکہ عامہ السلمین میں بھی بد ولی تشکلک اور عدم اعتماد کی ایک لہر پیدا کر دیں گے جو قوم کوکئی حصوں میں تقسیم کر کے بلی شیرازہ پارہ پارہ کرنے کا باعث ہوں گے ہم مانتے ہیں کہ یہ پاکستانی سوریا بڑے بہادر ہیں.کاش ! حکومت ابھی سے ان کی فہرست مرتب کرے تاکہ جب کبھی جہاد کشمیر کا وقت آئے تو انہیں محاذ پر بھیج کر ان کی خدمات سے فائدہ اُٹھایا جا سکے.حکومیت پاکستان کے دلی کراچی میں حکومت پاکستان کا مند ین اور متقی وزیر خارجہ ایک جلسہ کے اندر اسلام کی افضلیت پر تقریر فرما رہا ہے اور اس جلسہ گاہ کے باہر چند شورید پسر کرایہ پر لائے ہوئے مفسد گڑ بڑ پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں.یہ یقینی بات ہے کہ ایک ایسے عیسہ میں جہاں اسلام کی فضیلت بیان کی جھائی مقصود ہو غیر مسلم اور بیرونی ممالک کے سفراء ومعززین بھی مدعو ہوں گے.صرف یہ تصور کیجیئے کہ جب ہمارا وزیر خارجہ ہو.این.اومیں اور دیگر ممالک میں اپنی مدتل تقاریر سے ان لوگوں کو محو حیرت بنا کر خراج تحسین حاصل کرتا ہوگا.اور پھر ان ممالک کے معززین جو کراچی میں مقیم ہیں اور عیسہ کے اندر ہمارے وزیر خارجہ کی اس طرح گت بنتی دیکھتے ہوں گے تو ان کی مقبولیت کے متعلق ان کا تاثر کیا ہوگا؟ اگر ہمارے وزیر خارجہ کا وقار ان لوگوں کی نظروں کے سامنے خاک میں ملا دیا جائے تو کیا ہمار ملک کا وقار قائم رہ سکتا ہے ؟ اگر یہ کوئی انتخابی جلسہ ہوتا یا الیکشن کے سلسلہ میں کوئی اجتماع ہوتا تو بھی مفسرین کی یہ حرکت قابل برداشت نہ ہوتی لیکن لیکن یہ ایک خالص مذہبی جلسہ تھا مفسدین کی روش یقینا سعد درجہ افسوسناک ہے.ہمیں آپ یہ اندازہ لگاتا ہوگا کہ آئندہ کے لئے حکومت اس سلسلہ میں کیا پالیسی مقرر کرتی ہے؟ دیکھتا یہ ہے کہ عدالت میں یہ معاملہ ملزمان کے سزا پانے بابر کی ہو جانے پر ہی ختم ہو جائے گا یا اس حادثہ کی روشنی میں آئندہ کے لئے اس قسم کی تخریبی سرگرمیوں کے استیصال کے لئے بھی حکومت کوئی اقدامات کرتی ہے ؟ لے I ہفت روزه بیباک سر گو دریا یکم جون ۶۱۹۵۲
14A سیالکوٹ 鹪 ۱۵ اخبار در نجف سیالکوٹ نے حادثہ کراچی کے زیر عنوان اپنی ٹیم جون ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا :.۱۷ ۱۸ مٹی کو جہانگیر پارک کو اچی میں احمدیوں کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر اکثریتی عوام نے جو ناز بیا مظاہرہ کیا ہے وہ ہر حساس پاکستانی کے لئے موجب مذمت ہے.مملکت پاکستان نئے جذبات اور بلند ترین قدروں کی اساس پر قائم ہوئی ہے جس کی صیانت اور مزید استحکام ہر محب وطن کا اولین فریضہ ہونا چاہیئے ہمیں، احمد تیت سے کوئی دلچسپی نہیں، اور نہ ان کا کوئی مسئلہ ہمارے مسائل سے میل کھاتا ہے بلکہ بلا خوف تردید ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ شیعی مسلمان جس شدت سے احمدیت کی نفی کرتے ہیں مسلمانوں کے کسی فرقہ کے معتقدات میں اتنی سختی نہیں کیونکہ شیعہ عصمت انبیاء اور نفی و جو د امام عصر کا راسخ عقیدہ رکھتے ہیں.بر خلاف اس کے دوسرے فرقوں میں یہ اصول کچھی شہنی کی طرح لچکدار ہیں.اند امسلمانوں کے عام مکاتب کو کسی نہ کسی گنجائش کے سیب ممکن ہے برداشت بھی کر لیں مگر تشیع تو کسی صورت بھی احمدیت وغیرہ کو کوئی جگہ نہیں دے سکتا اس کے باوجود شیعہ علماء پر لیس اور عوام نے کسی لمحہ مخالفت میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہیں کیا جس سے شرمناک فرقہ واریت کی ہمت بڑھتی.کیا حقیقت نہیں کہ مجلس احرار (جس کا مقصد وحید احمدیت کا استیصال ہے ) کا اسٹیج ایک عرصہ تک بد زبانی اور غیر مہذب طریق جدل کا اکھاڑہ بنا رہا مگر جب سے شیعہ علماء کو مدعو کیا جانے لگا اسی پلیٹ فارم پر مثالی شائستگی پیدا ہوگئی.شیعہ علماء وَجَادِ لَهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَن کے قرآنی فلسفہ سے اچھی طرح واقف او وَجَادِلُهُمْ اس پر عامل ہیں.اسی طرح شیعہ پر لیں بھی اپنی روایتی متانت کو ہاتھ سے نہیں بجائے دیتا.عوام خواہ کسی فرقے کے ہوں ان ہی دو ذرائع سے اثر قبول کرتے ہیں.افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثریت کے علماء اور پریس نے اپنے عوام کو اس درجہ اشتعال دلایا ہے کہ جب کبھی بھی انہیں موقعہ ملتا ہے دوسرے فرقوں کے مقابلہ میں کوہ آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑتے ہیں.جہانگیر پارک کا حادثہ یقینا تکلیف دہ ہے لیکن ہم اس کی ذمہ داری کیسی پر عائد کئے بغیر تمام پاکستانی عوام کی خدمت میں عرض کریں گے کہ پاکستان کی تخلیق میں اقلیت کے مفہوم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس مملکت کے ارباب بست و کشاد کا دعوی بھی ہے کہ سبز پر تم کا سایہ اقلیتوں
199 کی آسودگی کا ضامن ہے لہذا کسی خام خیالی کے باعث غلط راہیں اختیار کر کے کوئی ایسی صورت پیدا کرنے کی کوشش نہ کرنا چاہیئے جس سے ملک کی نیک نامی پر آنچ آئے.جمہور کو چاہیے کہ وہ مسٹر طالب نقوی چیف کمشنر کراچی کے ان الفاظ پر توجہ دیں اور ہمیشہ کے لئے انہیں مشعل راہ بنائیں کہ :- " مرزائی بھی پاکستانی ہیں اور انہیں بھی اجلاس منعقد کرنے کا حق اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک کہ وہ مرتبہ قانون کی خلاف ورزی نہ کریں حکومت کسی شخص کو یہا جازت نہیں دے سکتی کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے یا ساتھ ہی ہم علمائے کرام کی خدمت میں بھی گزارش پیش کریں گے کہ وہ جواز وعدم جواز کی بہت میٹر کر بجارحانہ ذہنیتوں کی حوصلہ افزائی نہ فرمائیں نیز پریس کو بھی اپنے واجبات اور ملک کے حالات کا حسان کرنا چاہیے.اس سلسلہ میں ہر مئی کو کراچی میں مجلس ختم نبوت کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں طبقہ علماء نے جو بیان دیا ہے اسے ہم کم از کم پاکستانی معیار کے علماء کے اذہان کا نتیجہ نہیں کر سکتے.راس کا نفرنس میں ہمارے ایک ذمہ دار عالم مولانا مفتی جعفر حسین صاحب قبلہ بھی شریک تھے اس اعتبار سے مولانائے موصوف بھی ایک حد تک مسئول ہیں جس کا ہمیں سخت ملال ہے.اور بصد ادب و احترام ہم قبلہ وکعبہ کی خدمت میں کنجی ہیں کہ وہ آئندہ ایسی کسی نشست میں شمولیت نہیں فرمائیں گے جس میں شعوری طور پر قرار داد مقاصد کا پاس اور اقلیتوں کے لئے جذبہ احترام موجودہ ہو.اس وقت سواد اعظم کے علماء صرف احمدیت کے خلاف اپنی جذبہ دارانہ ذہنیت کا استعمال کر رہے ہیں مگر ان کے بگڑے ہوئے تیور شیعوں کو بھی للکار سکتے ہیں اور فضا اعلان کر رہی ہے؟ آج وہ کل ہماری باری ہے.است روزنامه آزاد" (مشرقی پاکستان) مورخہ ۲۰ مئی ۱۹۵۲ء نے لکھا.مشرقی پاکستان | معلوم ہوا ہے کہ مسلمانوں کا ایک فریق کراچی میں ایک جگہ متواتر داو دن سے اپنا (سالانہ جلسہ کر رہا ہے اور ایک اور فریق کے لوگ جلسہ گاہ پر حملہ کر کے روک ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں.دوسرے دن وزیر خارجہ پاکستان چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تقریر کو له در نجف الجوال روزنامه الفضل لاہور مورشه ۳ - جون ۱۹۵۲ء ص ہے
14.رہے تھے کہ عین اس وقت دوسرے فریق نے گڑ بڑ ڈالنے کے لئے جملہ کر دیا.اگر یہ خبر صحیح ہے تو اس سے بعض لوگوں کی لے میری اور عدم رواداری ہی ثابت ہوتی ہے کسی معاملہ میں خاص کر مذہبی معاملات میں عدم رواداری اسلامی تعلیم کی روح کے بالکل خلاف ہے.پاکستان اور اسلامی دنیا کے کسی کو نہ میں بھی ایسی ذہنیت کا وجود بڑے اچنبھے کی بات ہے.ان دنوں جب کہ تمام اسلامی دنیا کے اتحاد کے خواب کو امر واقع اور حقیقت مشہودہ بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں.ایسے نازک وقت میں فرقہ وارانہ مناقشات کو ہوا دینا اتحاد و یگانگت کی تمام تدبیروں کو ملیا میٹ کرنے کا موجب ہوگا.جب مسلمان کے لئے غیر مذاہب کے لوگوں کو محض اختلاف عقائد کی بناء پر تکلیف دینا اسلامی شریعت میں نا جائز ہے تو خود کسی مسلمان کو اختلاف عقائد کی وجہ سے کوئی دُکھ یا تکلیف دینا کہاں جائز ہو سکتا ہے؟ اختلاف خواہ کسی وجہ سے بھی ہو جنگل کا قانون یعنی یہ دستور کہ اپنی دادرسی آپ ہی کر لو اور جس سے اختلاف ہو اس کو بار کر تباہ کر دو قومی ترقی کے لئے ایک بہت بڑی سینہ کراہ ہے.آج پاکستان کے ہر مرد اور ہر عورت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ مسلمان اپنے علم و عمل اور ریا ضمت ہی کے ذریعہ سے دوسروں کو ختم کر سکتے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے اسے (ترجمہ) بھارت کا مسلم پریس ار اس حادثہ کی بازگشت بھارت میں بھی شنی ا چنا نچند اخبار حقیقت (لکھنو) نے ۲۳ مئی ۱۹۵۲ء کے شمارہ میں ہنگامہ کیا ہی کی نذرت کرتے ہوئے لکھا:.گرامی کا فرقہ وارفساد ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کے بنانے میں جن مسلم جماعتوں نے نمایاں حصہ لیا اور اس عد و جدیدی مسلم لیگ کی بہت زیادہ مدد کی ان میں پیش پیش جماعت احمدیہ قادیان بھی رہی ہے.اس جماعت کے افراد نے آنکھیں بند کر کے اور بغیر انجام پر غور کئے پاکستان بنائے جانے کی حمایت کی.آج اسی پاکستان میں اس کے لئے موصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور اس کو ایک غیر مسلم ے بحوالہ روزنامہ الفضل لا ہور مورخه از تبوک ۳۳۱ ایش مشه
141 قلیت قرار دیئے بجانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے.اس سے بحث نہیں کہ قادیانی جماعت کے مذہبی عقائد کیا ہیں ؟ لیکن جب یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر فرقہ کو یکساں مذہبی آزادی حاصل ہے تو پھر قادیانیوں پر اس قدر تشدد کیوں کیا جا رہا ہے ؟ خاص کر اچی میں پچھلے ہفتہ جو افسوسناک واقعہ پیش آیا اور جس کے نتیجہ میں ایک سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے اور بھا یہ جا آتشزدگی اور لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے.کیا یہ پاکستانیوں کے اس دعوئی کی قطعی تردید نہیں ہے کہ وہاں ہر ایک کو نہ ہی آزادی حاصل ہے؟ دیکھنا ہے کہ قادیانیوں کے بعد اور کسی فرقہ پر پاکستان کے مذہبی دیوانوں کا نزلہ گرتا ہے ؟" لے اخبار حقیقت کے اسی پر چھہ میں درج ذیل خبر بھی شائع ہوئی :." کراچی میں قادیانی ابھی تک اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلے آگ لگانے کی اکا دکا وارداتیں.پولیس کا وسیع انتظام کراچی ۲۲ میٹی.قادیانیوں میں ابھی تک خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے.وہ ابھی تک اپنے گھروں سے باہر نکلتے گھبراتے ہیں.ان کا کاروبار ابھی تک بند ہے.ان کی حفاظت کے لیے انکے مکانوں پر پولیس بٹھا دی گئی ہے پھر بھی کہیں کہیں آگ لگانے کی اکا ؤ گا واردات ہو رہی ہے.جہانگیر پارک میں بلوہ کے سلسلہ میں جو تین سو اشخاص گرفتار کئے گئے تھے ان میں سے پولیس نے صرف ساٹھ اشخاص کو حراست میں رکھا ہے اور باقی کو چھوڑ دیا ہے.کل پولیس افسروں کی ایک کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام صورت حالات پر غور کیا گیا.ہنڈ روڈ پر احمدیہ ایسوسی ایشن کی لائبریری با لکل بند پڑی ہے اس کے باہر پولیس کا پہرہ ہے.کراچی کے کمشنر نے ایک بیان میں کہا کہ قادیانیوں اور غیر قادیانیوں کے درمیان سنیچر اور اتوار کو جو تصادم ہوا ہے اس کے پس پشت ایک آرگنائزیشن کام کر رہی ہے.آپ نے کہا کہ حکومت کو اس بلوہ کا پہلے ہی علم تھا.حکام کو نا معلوم اشخاص کی طرف سے پہلے ہی مطلع کر دیا گیا تھا کہ جلسوں میں جھگڑا کیا جائے گا ہے انه مولانا عبد الماجد دریا آبادی نے اپنے ہفتہ وار اخبار صدق تجدید لکھنو (۲ جون ۹۵۲ ه روزنامه " حقیقت" لکھنؤ ۳۳ مئی ۱۹۵۲ء ص : که روزنامه حقیقت "الکھنو ۲۳ مئی ۱۹۵۲ء ص 4
۱۷۲ میں چوہدری صاحب کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے یہ نوٹ لکھا: "} تبلیغ غیروں کی مجلس میں سر ظفر اللہ خان وزیر خارجہ پاکستان کا بیان ۲ جون کی پولیس کا نفرنس کراچی میں میرے اُوپر بارہا یہ اعتراض ہو چکا ہے کہ میں ملکی اور بین الملکی معاملات میں قرآن اور ئے حدیث کو پیش کیوں کر دیتا ہوں حالانکہ اگر ملکی اور بین الملکی مسائل کو دینی سند مل جائے تو بہتر ہی ہوا کرے.چنانچہ اس وقت بھی اس اعتراض کا مزید خطرہ لے کر میں کہتا ہوں کہ ہمیں تو تعلیم اس کی ملی ہے کہ تعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الاثم والعدوان اور ہمارے پیغمبر کاقول ہے جس کی پیرس میں جنرل اسمبلی میں پچھلے نومبر کو پیشش بھی کر چکا ہوں کہ انصر اخاك ظالما او مظلومات المزيه کاش یہی کشیدہ عرب اور مصر اور عراق اور ایران اور شرق پر دن اور شام اور افغانستان کے نمائندوں کا بھی ہوتا.کاش ان میں بھی جرات غیروں کے سامنے اپنے ہاں کی چیزوں کے پیش کرنے کی ہوتی! اور ایک تو نمائندہ پاکستان اپنے منفرد ہونے کی بناء پر غیروں کی مجلس میں پیشک عجیب سا معلوم ہوتا ہوگا اور اسی لئے اس کا استحقاق اجر بھی کہیں بڑھ رہا ہو گا، غیروں کی مجلس میں بے باکانہ تبلیغ دین کی یہ سنت قائم کی ہوئی مولنا محمد علی کی ہے.اور ایک بار مرحوم وزیر اعظم پاکستان نے بھی اس کا حق امریکہ میں ادا کیا تھا اور اب تو اونچے حلقوں میں یہ وزیر خارجہ پاکستان کے حکم سے بنی قائم ہے ا سکے ۳ - رساله مولوی، دہلی (بابت ماہ جولائی ۱۹۵۳ء) نے اس واقعہ پر ایک درد انگیز مقالہ سپر واشاعت کیا جس کا معنی یہ ہے:..آپ اپنی تاریخ پر چاہے بہت فخر کیجیے.آپ سلف صالحین کی حیات طیبہ پڑھ کر کتنا ہی رقص کیلئے مگر اس کی حیثیت پدرم سلطان بود سے ہر گز زیادہ نہ ہوگی.اسی اپنی گشندہ امتاع کو بروئے کار کانے اور اپنی بے چارگی کے بند بھی توڑنے کے لئے تو اسے راہبران دی متین اور اسے مجاہدین اسلام مانده ام : سے بخاری کتاب المظالم : " صدق جدید لکھنو ۲ چون ۶۱۹۵۲ بحوالہ روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۲۹ جون ۱۹۵۲ء هش :
۱۷۳ آپ نے تقسیم کی مانگ کی تھی اور سدا نئے اگر یہ اس کا فضل تھا، تو آپ کو اس نے نواز دیا.آج پورے پانچ سال ہو گئے کہ آپ آزاد ہیں.اپنے حاضر اور استقبال کے پورے مالک ہیں.آپ کے معاملات میں کوئی مداخلت کرنے والا بھی نہیں ہے.اللہ کے واسطے بتائیے کہ آپ نے ہم پسماندہ بھارت کے مسلمانوں کی نسبت سے زیادہ کونسا قدم اسلام کی طرف اٹھایا اور وہ کونسی بات کی جس سے آپ کے دعوی کی ذراسی بھی سچائی دنیا پر روشن ہوئی.الاه ثم اه :- دہلی.یورپی سی پی ہیملٹی.مدر اس کے مسلمانوں نے آپ کی ہمنوائی میں پورا پور حصہ.یہ جان کر یہ بوجھ کر کہ اس سے ہمیں مادی نفع تو در کنار ہماری غلامی کے طوق اور بوجھل ہوں گے ہماری بیریاں اب سے ہزار درجہ گراں بارہوں گی ہماری دنیا وی عورتیں خاک میں ملیں گی ہمارے اعزہ ہم سے جدا ہوں گے ہماری ٹھیں ہی تازیانوں سے زخمی نہ ہوں گی ہم پر پیٹ کی ماریں بھی پڑیں گی.ہم رکھوال اکثریت کی فیاضی سے بھی پوری طرح واقف تھے اور ان کی تنگ نظریاں بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل نہ تھیں.اور وہ مصیبت جو ہم پر آئی اور آرہی ہے اور شاید ابھی پوری نہ ہوئی ہو وہ ہماری توقع سے چاہے شدید ہو لیکن غیر متوقع ہر گز نہ تھی.پھر اسے سرفروشان اسلام ! یہ بربادی ہم نے کیوں قبول کی ہم پاگل تو نہ تھے صرف ایک لگن تھی اور وہ یہ کہ اس آزادی کے بعد یہ مجاہدین اور شیدایان اسلام قرونِ اولیٰ کا اسلام زندہ کریں گے.دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو گا.ہدایت کے چشمے پھوٹ نکلیں گے.رشد کی چمکا ہٹ غنی کی ظلمت کو نابود کر دے گی.یہ ہمارا اسلامی وطن حرم محترم ہو گا.یہاں انسانی خون ہی نہیں اسکے پسینہ کا ہر قطرہ محترم ہوگا اور دنیا کو یہ بتلا دینے کے پورے اسباب وسائل ہمارے ہاتھ میں ہونگے کہ امن ایٹم ہوں.جراثیم ہوں.اہر کی گیسوں سے قائم نہیں ہوسکتا کہ یہ سب شیطانی ہتھیار ہیں رحمانی ہتھیار تو ایثار ہے.انسانی ہمدردی ہے.انسانی برابری ہے.ادائے حقوق العباد ہے.اور دیکھو کہ ہم دنیا کی ہر مادی اعتباع سے تہی دست ہیں لیکن پھر بھی پوری دنیا سے مالدار ہیں کہ خدا کی تائید ہے.اُس کا فضل ہمارے ساتھ ہے.وکفی باللہ وکیلا.یہ تھا وہ خواب جس پر ہم نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا.اسے اونچے ایوانوں میں رہنے والے یہ اہنمائی اسے صوفہ اور قالینوں کو زینت دینے والے مجاہدو! اور اسے کفن بر دوش مسلمانو!
۱۷۴ تم ہم سے کیا کہہ کر گئے تھے اور اب کیا کر رہے ہو.ابتدائی صعوبات کے زمانہ کو چھوڑ کر جب خدائے تم کو اپنے کرم سے بے خوف کیا یعنی کیا تم کو حکومت دی تم نے اس کے افضال کا کونسا قرضہ چکایا ؟ ہمارے دل کتنے دردمند ہیں ہم تم کو یہ نہیں بتا سکتے اور بتانا بھی نہیں چاہتے ہم یہاں کتنے بے عزت ہیں اس کا استفسار بھی تم سے مقصود نہیں کہ اس بے عزتی کے ذمہ دار تم ہو اور تم سے گلہ بھی نہیں کرتے کہ تم اس کے اہل نہیں.تم سے کوئی مدد بھی نہیں چاہتے کہ تمہارے پاس دھرا کیا ہے ؟ تم نے متاع ایمان و اسلام کو ہی زنگ آلو بنا دیا تو پھر تمہارے پاس کیا رکھا ہے جو ہماری مد کرو گے ہم فاقوں کو برداشت کر لیتے ہیں کہ روزہ ہم کو اس پر صبر دلا دیتا ہے.ہم اس بے عزتی کو بھی سہار لیتے ہیں کہ بھارت کا فروتر سے فروتر غیر مسلم آج اس دور میں ہم سے زیادہ معزز ہے.آج ہمارے آگے ہاتھ پھیلانے والا ہم کو بے تکلف گالی دیتا ہے اور ہم خاموش ہو جاتے ہیں.ہم معمولی سی چپقلش میں اکثریت اور اس کے بعد پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہیں.پھر جیل بھی ہم ہی جاتے ہیں.ہماری منقولہ متاع یہاں بیٹے لینے والوں نے چھین لی اور غیر منقولہ محافظین جائداد نے اپنی حفاظت میں لے لیں ہم نہایت محنت شاقہ کے بعد مٹھی بھر آن جوں توں حاصل کر لیتے ہیں اور پیٹ کی آگ بجھا لیتے ہیں.ہمارے خاندان متفرق ہوئے.مائیں اولاد سے دُور ہوئیں.خاوند بیویوں سے پیدا ہوئے بہنیں بھائیوں کی مورتوں کو ترس گئیں.بچے باپ کے بیتے جی تیم ہو گئے.اس پرچھرہ یہ کہ آنے جانے کے راستے ہم پر بند ہو گئے ہم نے ان طبیعی تلملاہٹوں اور فطری ہے چنیوں کو نیچی نظروں سے قبول کر لیا.تمہاری طرف تو کیا دیکھتے ہم نے تو آسمان کی طرف نظر نہیں اُٹھائی اور کھل کو آہ بھی نہ کی.یہ سب کہانیاں نہیں کیسی ڈرامہ کی ٹریجیڈی کے ٹکڑے نہیں.اسے مجاہدین ! اسلام حقیقت ہے اور اس کا بھارت کے مسلمان کا ہر دل گواہ ہے.یہ سب ہم نے برداشت کیا.جو نہیں برداشت ہو سکتا وہ یہ -- کہ ہمارے غیر مسلم بھائی ہمارے دل و دماغ میں بھائے چھوتے ہیں کہ یہ ہے تمہارا پاکستان.اس کے لئے تم نے ہم سے لڑائی مول لی.تم تو کہتے تھے کہ اسلام بڑا روا دار مذہب ہے اس میں انسانی خون اور آبرو کی بڑی عزت ہے.کیا ہیں رواداری ہے کہ غیر سم تو کیا تم مسلم کے بھی تھوڑے سے اختلاف کو نہیں بخش سکتے.تمہارے بھائیوں نے اپنے ہی قوم اور وطن کے بھائیوں کو ذرا سے بل بوتے پر کیا ناچ نچایا.ان کے میلسہ گاہ میں پہنچے گئے جو انہوں نے تمہاری
160 حکومت میں تمہاری اجازت لے کر کیا تم نے اُن کو رسوا کیا.ان کا جلسہ درہم برہم کیا.اس پر یہی نہں نہیں ان کی دکانوں کو آگ لگائی.اُن کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں.یہ وہ مرزائی ہیں جن کا تمہارا دینی اختلاف ہے.جب ان کی زیست حرام کر سکتے ہو تو غیرمسلموں پر گیا آفت دو ڈھاؤ گے ؟ وہ تمہارا الزام اسلام پر لگاتے ہیں اور ان کو لگانا بھی چاہئے کیونکہ نہ انہوں نے قرآن پڑھا ہے نہ اسلامی تعلیم کا مطالعہ کیا ہاں ان کو تمہارا وہ وعولی آج بھی یا د ہے کہ ہم با اختیار ہوئے تو ہماری حکومت کی تشکیل اسلامی ہوگی اور ان کا اب یہ بھنا کون غلط بتا سکتا ہے کہ جوکچھ تم کہتے ہو اور کرتے ہو اسلام نہیں ہے سو سے مصر کی وفد پارٹی کے ایک راہنما اور شعوب السلمین میری مصری لیڈر اس میلے امن کا بیان کے مندوب اس پھلنے مومن نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری ظفراللہ خاں کی خدمات صرف پاکستان کے وزیر خارجہ کی نہیں ہیں بلکہ آپ شرق وسطی اور بالخصوص مصر اور عرب دنیا کے بھی وزیر خارجہ ہیں.وہ بہت بڑے مدیر ہیں انہوں نے اقوام متحدہ میں تونس، مراکش، ایران اور مصر کی حمایت کر کے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے چوہدری جناب ے بحوالہ روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۷ ارجولائی ۱۹۵۲ء ہے ہے مسلم پر پیس کے علاوہ بھارت کے مشہور غیرمسلم صحافی سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون اخبار ریاست دہلی (۲۶) مئی ۱۹۵۲ء) میں لکھا :- " چوہدری سر محمد ظفراللہ خان کے حالات اور اُن کے کیریکٹر سے جو لوگ واقف ہیں وہ اقرار کریں گے کہ جہاں تک مذہبی خیالات کا سوال ہے پاکستان کی وزارت تو کیا دنیا کے تمام ممالک کی وزارتیں بھی ان کے پاؤں میں لغزش پیدا نہیں کر سکتیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ اپنے خیالات کو چھوڑ دیں.حادیہ کراچی سے متعلق اکثر و بیشتر تیرے احراری ناپاک سازش ( مولانہ ملک محمد اکبر علی صاحب واقف زندگی سے ماخوذ ہیں.ناشر مکتبہ تحریک انار کلی لاہور - طبع اول +
۱۷۶ پر جملہ پوری اسلامی دنیا پر حملہ ہو گا لے سکے ه روزنامه آفاق" (لاہور) ۲۵ مئی ۶۱۹۵۲ * کے چوہدری محد ظفر اللہ خان کے عہد وزارت کی خارجہ پالیسی کی نسبت چو ہد ری محمد علی صاحب سابق وزیر انظم پاکستان کا بیان ہے کہ :.عالیم اسلام کی آزادی، استحکام، خوشحالی اور اتحاد کے لئے کوشاں رہنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مستقل مقصد ہے.حکومت پاکستان کا ایک اولین اقدام یہ تھا کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں ایک خیر سگالی وفد بھیجا گیا.پاکستان نے فلسطین میں عربوں کے حقوق کو اپنا مسئلہ سمجھا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خالی اس کے فصیح ترین ترجمان تھے.علاوہ ازیں انڈونیشیا، ملایا ، سوڈان ، لیبیا، تونس، مراکش، نائیجیریا اور الجزائر کی آزادی کی مکمل حمایت کی گئی.مغربی ایریان کے مسئلے پر پاکستان نے انڈونیشیا کا پورا ساتھ دیا کئی مسلم ملکوں کے ساتھ دوستی کے معاہدے کئے گئے اور ثقافتی ارتباط کا انتظام کیا گیا ہے.مؤتمر عالمیم اسلامی کی تنظیم مل میں لائی گئی.۱۹۴۹ء میں کراچی میں بین الاقوامی اقتصادی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں اسلم ملکوں کے نمائندہ سے شامل ہوئے تھے.کانفرنس نے اتفاق رائے سے اسلامی ایوان ہائے صنعت و تجارت کا بین الا قوامی وفاق قائم کرنے کا فیصلہ کیا ا ظہور پاکستان حمام اسی کتاب میں انہوں نے چوہدری محمد ظفر اللہ خان کی خدمات کشمیر کا تذکرہ بایں الفاظ کیا ہے.و سلامتی کونسل نے ۵ار جنوری ۱۹۴۸ء کو ہندوستان کی شکایت اور پاکستان کے جواب کی سماعت شروع کی.ظفر اللہ خان نے مقدمہ کی ایسی اصلی وکالت کی کہ سلامتی کونسل کو یقین آگیا که مسئلہ محض کشمیر سے نام نہاد حملہ آوروں کو نکال دینے کا نہیں ہے جیسا کہ ہندوستان کا نمائندہ اسے باور کرانا چاہتا تھا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے تعلقات کو منصفان اور پھر امن اساس پر استوار کیا جائے اور تنازع کشمیر کو ریاست کے عوام کی مرضی کے مطابق محل کیا جائے یہ ظور پاکستان از چوہدری محمدعلی صاحب مترجمه بشیر احمد صاحب ارشد - ناشر مکتب کا رواں کچہری روڈ لاہور طبع ثانی ۱۹۷۲ء مسعود پرنٹرز لاہور منت۳)
122 فصل دوم خُدا سے زندہ تعلق کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک رسالہ اکستان اوکرایو کا مقالہ ایک فقہی مسئلہ میں حضرت مصلح موعود کی واضح راہنمائی عروج احمدیت کی پیشگوئی صبر صلواۃ کی پر زور تلقین..سے تعلق جماعتوں اور سلسلوں کےلئے نگا سے زندہ تلی کیلئے دعاؤں کی خاص ترکی استان اور انوں کا زمانہ خدا ابتلاؤں مخالفتوں سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا موسم ہوتا ہے.یہی وہ مشہوری دور ہوتا ہے جس میں خدا کے پیچھے بندوں کا اپنے مولیٰ سے تعلق پختہ اور تحکم ہوتا ہے اور سلسلہ احمدیہ میں یہ نظارے ابتداء سے اب تک مسلسل دکھائی دیتے ہیں سے عد وجب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے پار نہاں میں تحریک احمدیت کی اس مخصوص روایت کو ۱۳۳۱اہش / ۱۹۵۲ء کے مصائب و آلام میں قائم رکھنا از لیس ضروری تھا اسی حکمت کے پیش نظر منضرت مصلح موعود نے اس سال رمضان المبارک کے آخری جمعتہ المبارک میں خاص تحریک فرمائی کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سے اُن کا زندہ تعلق پیدا ہو جائے.چنانچہ فرمایا :
۱۷۸ خد اتعالیٰ کی محبت خدا تعالیٰ پر یقین اور وثوق پیدا کرنا اور اسے ملنے کی کوشش کرنا ایک طبیعی بعد یہ ہے لیکن کتنے نوجوان ہیں جو ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی فرمایا تھا اُس وقت ہر انسان کا ایک ہی مقصد تھا کہ وہ آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کو ملے گا.وہ لوگ آگے بڑھتے تھے کیونکہ ان میں سے ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ اگر کسی چیز نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دوسرے علماء پر امتیاز دیا ہے تو وہ یہی چیز ہے کہ آپ کی پیروی کرنے سے بعد ملتا ہے.مسائل دوسرے علماء بھی سہانتے ہیں.اگر آپ کی وجہ سے کوئی فرق پیدا ہوا ہے تو وہ یہی ہے کہ آپ کی پیروی سے خدا تعالیٰ ملتا ہے.آپ کا دعوی ہے کہ خدا تعالٰی کو ملنے کا دروازہ کھلا ہے بند نہیں لیکن اب کتنے نوجوان ہیں جو خدا تعالٰی کو ملنے کی کوشش کرتے ہیں جتنا وقت دور ہوتا جاتا ہے لوگوں سے یہ خواہش مٹتی جاتی ہے.حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ ہمت اور کوشش سے اس بجذبہ کو اُبھارا جاتا.اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا آنا بھی بیکا نہ ہے.پس ان دنوں میں دعائیں کرو.نوجوان اپنے اندر یہ روح پیدا کریں کہ خدا تعالیٰ کا زندہ تحلق حاصل ہو جائے.پہلے اگر ایک شخص بہاتا تھا جیسے خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا تھا تو اس کی جگہ کئی اور پیدا ہو جاتے تھے.بجائے اس کے کہ تم یہ کہو کہ اب ایسا کوئی شخص نہیں جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو یا جیسے الہام ہوتا ہو.تم خود کوشش کرو کہ اگر ایک ایسا شخص مرجائے تو نہیں اور ایسے آدمی پیدا ہو جائیں.اور اگر ۲۰ آدمی مر جائیں تو ۲۰۰ اور ایسے آدمی پیدا ہو جائیں.اگر ۲۰۰ مر جائیں تو ۲۰ ہزار اور ایسے آدمی پیدا ہو جائیں.یہ چیز ہے جو تمہارے حوص بلوں کو بڑھائے گی اور دنیا کو بایوس کر دینے والی ہوگی.دنیا بادی ہتھیاروں کی طرف دیکھتی ہے.اگر ہزاروں لوگ ایسے پیدا ہو جائیں جو خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہونے والے ہوں.خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھنے والے ہوں خدا تعالٰی پر یقین رکھنے والے ہوں اور اس کا ظہور اپنی ذات میں محسوس کرنے والے ہوں تو دوسرے لوگ خود بخود مایوس ہو جائیں گے.کیونکہ دوسرے لوگ قصے سناتے ہیں اور یہ لوگ آپ بیتی بنائیں گے اور جگ بیتی آپ بیتی جیسی نہیں ہوتی.جب ہزاروں کی تعدادمیں ایسے لوگ پیدا ہو بہائیں گے جن کا مند اتعالیٰ سے تعلق ہوگا تو جگ بیتی بھاگ جائے گی اور آپ بیتی غالب آجائیگی
149 کیونکہ سنی سنائی بات دیکھی ہوئی بات پر غالب نہیں آسکتی یا لے سندھ مسلم لاء کالج نے ایک سہ ماہی رسالہ پاکستان پاکستان میں قانون کا مستقبل اور رویوں کے نام سے کراہ سے جاری کیا جس کے است لاد ریویو کے نام جس ۱۹۵۲ء کے شمارہ میں حضرت مصلح موعود کار قم فرمودہ حسب ذیل مقالہ سپر د اشاعت ہوا :- مجھے یہ معلوم کر کے ازحد مسرت ہوئی ہے کہ سندھ مسلم لاء کالے عنقریب ایک سہ ماہی رسالہ ایس مقصد کے لئے جاری کر رہا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو قانون کے سائنٹیفک طور پر مطالعہ کرنے کی طرف عموماً اور پاکستان میں قوانین کو بہتر بنانے کے متعلق امور پر بحث کرنے کی طرف خصوصا ہنمائی کر سکے تاکہ اس طرح عام لوگوں اور ماہرین علیم قانون کے نظریات اور خیالات میں بیگانگت اور ہم آہنگی پیدا کی جا سکے اور تاکہ ماہرین علیم قانون اپنے اہم فرائض سے بہتر طریق پر زیادہ سہولت کے ساتھ عہدہ برآ ہو سکیں.اس میں شک نہیں کہ علیم قانون دوسرے علوم کی طرح بلکہ ان میں سے اکثر سے کچھ زیادہ ہی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کو انسانی عمل اور تجربہ کی روشنی میں منضبط اور مرتب کیا جائے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی صحیح راہنمائی کر سکے لیکن بدقسمتی سے ایشیا کے باشندے کئی صدیوں سے غیروں کی ماتحتی میں رہنے کی وجہ سے اس ضروری علم سے بالکل بے بہرہ ہو چکے ہیں.اب جبکہ کم از کم ایشیا پر مکمل آزادی کا سورج طلوع ہو چکا ہے اور اس کے باشندوں نے بھی دنیا کی آزاد اقوام کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا ہے یہ امر اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کے مقابلہ پر علیم قانون کے مطالعہ کے لئے زیادہ توقیہ اور زیادہ وقت صرف کریں.دنیا کی آزاد اقوام نے علیم قانون کے لیے مطالعہ اور تجربہ کے بعد آخر کار اپنے ممالک کے قوانین کے لئے ایک مخصوص راستہ اور لین منتظر پیدا کر لیا ہے جو کامل طور پر ان کی شخصی اور اجتماعی ضروریات کو پورا کرتا ہے.علاوہ اس کے ان میں وسیع اور گہرا علم رکھنے والے ماہرین قانون موجود ہیں جو اپنے لوگوں کے پرانے اختیار کردہ راستہ کے مطابق نئے پیدا ہونے والے دشوار اور دقیق قانونی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں.ایشیائی لوگوں کے لئے ہر حال پیشکل ہے کہ ان میں جو لوگ ه روزنامه الفضل لاہور ۸ روفا ۳۳۱ پیش کر د ر جولائی ۱۹۵۲ء ص :
قانون کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کا علم بھی رکھتے ہیں وہ کوئی گزشتہ تجربہ اور قومی روایات نہیں رکھتے جن سے انہیں نئے قوانین بنانے میں مدد مل سکے.پس ان کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے لئے ایک نیا راستہ بنائیں اور پھر ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے ان پر قابو پائیں جو مبتدیوں کو پیش آتی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کو اس راہ میں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئے گی کہ اس کے باشندوں میں ایک بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور پاکستان کی حکومت کسی فوجی یاملکی فتح کے نتیجہ میں قائم نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک معاہدہ کے ذریعہ سے معرض وجود میں آئی ہے.اس لئے اپنے قوانین بناتے ہوئے پاکستان کو با وجود اپنی وسیع مسلمان اکثریت کے اس معاہدہ کا لحاظ رکھنا پڑے گا ورنہ اس کو اس بات کا بجا طور پر ملزم گر دا نا جائے گا کہ اس نے ایک باہمی معاہدہ توڑ دیا.جوش اور ولولہ اگر چہ ایک قابل تعریف خصلت ہے لیکن اس کا حد سے بڑھ بھاتا بھی غلط اقدام کا باعث بن جاتا ہے.ترکی میں مذہب کا سیاست سے بالکل الگ کیا جانا در اصل اسی قسیم گئے غلط مذہبی جوش کا رد عمل تھا.اسلام سے محبت اور اپنے ملک میں اس کے قیام کی خواہش یقیناً بہت اعلیٰ جذبات ہیں لیکن اگر ان ہی جذبات کو مناسب حدود سے تجاوز کرنے دیا جائے تو یہی ہمیں اسلام سے دور لے جانے کا باعث بن جائیں گے.ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ والوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے.اس معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمانی کفر اختیار کرلے تو اسے منہ بجانے کا پورا اختیار ہو گا لیکن اس کے پرٹیکس اگر کوئی کا فر اسلام لے آئے تو اسے مدینہ کی اسلامی ریاست میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ ایسے اس کے وارثوں اور رشتہ داروں کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا.یہ مشرہ مسلمانوں کے لئے بظا ہر نقصان دہ اور ذلیل کی معلوم ہوتی تھی او انہوں نے اس بہتک کو محسوس بھی کیا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے لیڈر بھی کچھ وقت + کے لئے تذبذب میں پڑ گئے.ابھی اِس معاہدہ پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ایک نو جوان جس کا نام ابو جندل نو تھا بیٹیوں میں جوڑا ہوا بشکل تمام اس مجلو میں آپہنچا جہاں اس کے باپ سہیل نے ابھی ابھی مگر والوں کی طرف سے معاہدہ پر دستخط کئے تھے سہیل نے فوراً مطالبہ کیا کہ معاہدہ کے مطابق ابو جندل کو
JA) مگر واپس کیا بجائے مسلمانوں نے جب اس معاہدہ کا عملی پہلو دیکھا تو اسے نہایت خطرناک اور دلیل گئی خیال کیا اور ابو جندل کی حفاظت میں فوراً تلواریں کھینچ لیں لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا اور فرمایا :- خدا کے رسول اپنا عہد کبھی توڑا نہیں کرتے لے اور مسلمانوں کی جذبات انگیز درخواستوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابو جندل کو اس کے باپ کے حوالہ کر دیا.اس لئے ایک پاکستانی مسلمان خواہ کتنا ہی مخلص اور دینی جوش رکھنے والا ہو کبھی یہ نہیں کر سکتا ہ وہ اسلام کی محبت اور بخاری میں اتنا گداز ہے جتنا حضرت نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم تھے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس معامہ میں ہمارے لئے خود ایک اعلی نمونہ چھوڑ گئے ہیں.اگر ایک مسلمان اللہ تعالی کی نظر میں ویسا ہی اچھا مسلمان ثابت ہونا چاہتا ہے جیسا کہ وہ خود گمان کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ لفظی اور معنوی طور پر ان تمام معاہدات اور وعدوں کو پورا کرے جو پاکستان بننے کے وقت اقلیتوں اور دوسری قوموں سے کئے گئے تھے اگر وہ ان وعدوں کے الفاء سے ذرا بھی پہلوتی کرتا ہے تو وہ درحقیقت اسلام سے دور جاتا ہے.پاکستان کے قوانین بناتے ہوئے ہمیں خاص خیال رکھنا ہو گا کہ :.تعلیم اسلام کی روح ہمیشہ ہمارے مد نظر ر ہے.ب ہمارے قوانین فطرت انسانی کے ساتھ کامل مطابقت رکھتے ہوں.جہ.ہم ان وعدوں کو ہر لحاظ سے پورا کریں جو اقلیتوں سے کئے گئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ہر بچہ فطرانت اسلام پر پیدا ہوتا ہے.(بخاری کتاب القدر) اب اگر حضور کا یہ ارشاد صحیح اور سچا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بچا کون ہو سکتا ہے تو پھر اسلام کے قوانین بھی انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انسانی فطرت قوانین اسلام کے خلاف ہو سکتی ہے.ایس ہمارا یہ ایک مقدس فرض ہے کہ ہم مندرجہ بالا حدیث کو سامنے رکھیں اور اس حقیقت پر یقین رکھیں کہ اسلام نے جو کچھ سکھایا ہے فطریت اپنے پانی کے عین مطابق ہے اگر اسلام کی تعلیم کا وہ جمعتہ جسے ہم انسانی فطرت کے خلاف کھتے ہیں واقعی انسانی فطرت کے ه طبری جلد ۲ د حالات صلح دیلیه ) العلامہ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری (۲۳۴ ھ - ۳۱۰ ه )
TAY خلاف ہے تو ظاہر ہے کہ ہم اس حصہ تعلیم کی روح کو اخذ نہیں کیا لیکن اگر ہم نے اسلامی تعلیم کو صحیح طور پر بچھا ہے تو فطرت انسانی کبھی بھی اس کے خلاف نہیں ہو سکتی اور یقیناً کہیں پر ہماری ہی غلطی ہوگی.اس صورت میں ہمیں چاہیے کہ اس معاملہ پر زیادہ گہرے طور پر غور کریں اور مزید کوشش کر کے اصل حقیقت کو معلوم کر یں.اگر ہم اس نہایت ہی مضبوط اصل کو سامنے رکھیں گے تو ہم ملینا بہت جلد صداقت کو پالیں گئے اور اپنے ملک کے لئے بہترین قوانین بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے بغیر....ی صحیح ہے کہ ہم اپنے ملک کے ہر طبقہ یعنی مولویوں، مغربیت زدہ تعلیم یافتہ لوگوں ، غریبوں اور ائیروں کو پوری طرح مطمئن نہیں کر سکتے لیکن مندرجہ بالا دانشمندانہ اصول پر عمل کر کے ہم یقیناً انسانی فطرت کے تقاضوں کو ٹو پہ کر سکیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے یکن دعا کرتا ہوں کہ پاکستان کے قوانین بنانے والوں اور ان پر عمل کرانے والوں کو.انکے وکیلوں کو اور قوانین کی کتابیں لکھنے والوں کو اور ان کے شارحین کو اللہ تعالی اسلام کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ مفید رسالہ جوکہ سندھ مسلم لاء کالج کی طرف سے جاری کیا جا رہا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے ایک مفید آلہ ثابت ہوتا ہے و احترام مساجد سے تعلق ایک فقہی مسئلہ پنجاب میں احمدیوں کے خلاف فرقہ ارادہ تقاریر سے اور رحضرت صوبہ بھر کا امن و امان درہم برہم ہونے لگا تو پنجاب صلح موعود کا موقف کے وزیر اعلیٰ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے ارجون ۱۹۵۲ء کو فرقہ وارانہ نوعیت کے تمام جلسوں پر پابندی لگادی اور تمام ڈسٹرکٹ مجسٹریوں کو ہدایت دی کہ جمعہ کے ایسے اجتماعات پر بھی نگاہ رکھیں جن کو خطیب فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے لئے استعمال کریں لیے حکومت پنجاب نے اس پابندی کی وضاحت میں حسب ذیل پر ایس نوٹ بھاری کیا :- حکومت پنجاب عوام کی اطلاع کے لئے ان واقعات کا پس منظر بتانا چاہتی ہے جس کے پیش نظر صوبہ کے مختلف اضلاع میں ایک خاص نوعیت کے پبلک جلسوں کے انعقاد پر پابندی عائد کرنا کے روزنامه الفضل لاہور مورخہ ۲۰ تبوک ۱۳۳۱ پیش مطابق ۲۰ ستمبر ۱۹۵۲ء ص : کے سیول اینڈ ملٹری گزٹ ۷ ارجون ۱۹۵۲ء صٹ کالم عنگ ؟
۱۸۳ پڑی.کچھ عرصہ سے صوبہ میں مجلس احرار اور احمدیوں کے درمیان مناقشت نے پبلک جلسوں میں اشتعال انگیز تقاریر کی ناگوار صورت اختیار کر لی ہے.ان تقریروں میں اکثر مذہبی بحث و مناظرہ کی تمام جائز حدود کو نظر اندازہ کر دیا گیا اور ان تقریروں سے زیادہ تر پاکستانی شہریوں کے دوطبقات کے درمیان نفرت اور کشیدگی بڑھتی جارہی ہے.اس طرح ماحول میں جو کشیدگی پیدا ہوئی اسکے باعث چند مقامات پر تشدد کے واقعات بھی پیش آئے جن سے بھائی نقصان اور دوسرے نی ایت افسوسناک نتائج بر آمد ہوئے....امن عامہ بر قرار رکھنے کے اولین فریضہ کا خیال کرتے ہوئے حکومت اس صورت حال کے بھاری رہنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی خصوصاً اس خطرہ کے پیش نظر کہ اگر تشدد کے لئے بالواسطہ اور بلا واسطہ اشتعال انگیزیوں کا مؤثر سد باب نہ کیا گیا تو حالات اور بھی ابتر ہو جائیں گے اور آبادی کے دو حصوں میں کھلم کھلا زبر دست تصادم شروع ہو جائینگے.نفرت انگیزی کے اس ماحول میں بعض لوگوں کے ذہنوں کی افتاد کیا ہو گئی ؟ اس کی مثال ایک پوسٹر سے ملتی ہے جس کی کاپیاں متعلقہ جماعتوں میں سے ایک جماعت کے دفتر سے دستیاب ہوئی ہیں اس پوسٹر میں اعلانیہ تلقین کی گئی ہے کہ دوسری جماعت کے مبلغوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی مساجد پر جبراً قبضہ کر لیا جائے.اس پوسٹر میں ایک طبقہ کے مزار عین سے بھی کہا گیا ہے کہ دوسرے طبقہ سے تعلق رکھنے والے جاگیرداروں کو بٹائی بھی نہ دیں...اور ان کی جائداد کی ضبطی کو ایک جائز اقدام تصور کریں.ان حالات میں ضروری تھا کہ حالات کو ابتر ہونے سے بچایا جاتا چنانچہ پبلک جلسوں پر پابندی عائد کرنا ضروری سمجھا گیا تا کہ دونوں میں سے کوئی جماعت باہمی مناقشت کو جاری نہ رکھ سکے.حکومت اس ضمن میں اس امر کی پوری وضاحت کر دینا چاہتی ہے کہ اس نے پوری پوری احتیاط کی ہے کہ یہ احکام کسی جگہ بھی عوام کی جائہ مذہبی سرگرمیوں میں مداخلت یا ایسی دیہی مر گیا پر معمولی سی پابندی عائد کرنے کے طبی موجب نہ ہوں.حکومت عبویہ میں کسی جائز سیاسی یا سماجی سرگرمی کے رستہ میں بھی رکاوٹ سمائل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی جلسوں پر پابندی کے احکام اسی سپرٹ میں عائد کئے گئے ہیں یا لے آفاق یکم جولائی ۶۱۹۵۲ بحواله روزنامه افضل لاہور مورثہ یکم جولائی ۶۱۹۵۲
JAM حکومت کے اس قیام املاک او می دیدی گئی تا کہ اسے ماخلت فی الدین کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا گیا.خانہ خدا پر کسی سلطنت کا کوئی قانون لاگو نہیں ہو سکتا مساعد حکومت کے قوانین سے مستثنیٰ ہوا کرتی ہیں ؟ لے اس پر حکومت پنجاب نے اعلان کیا :." یہ بالکل غلط ہے کہ سرکاری احکام کسی قسم کے مذہبی اجتماعات یا ذہبی عبادات یا مساجد میں کسی مذہبی سرگرمی میں مخل ہوتے ہیں.اگر کوئی شخص قانون کے خلاف کوئی حرکت کرتا ہے تو اس سے یقینا مواخذہ کیا جائے گا قطع نظر اس سے کہ اس سے یہ حرکت مسجد میں سرزد ہوئی ہے یا مسجد سے باہر سے احرار حکومت کی اس کشمکش سے عوام میں یہ سوال خود بخود اُبھر آیا کہ کیا حکومت پنجاب نے ایسا حکم دے کر واقعی مداخلت فی الدین کا ارتکاب کیا ہے یا وہ اس کی شرعاً میانہ ہے.سید نا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے اس اہم فقہی مسئلہ پر راہنمائی کے لئے حسب ذیل مضمون سپر و فیلم فرمایا :- آج کل یہ سوال بڑے زور شور سے پیدا ہے کہ آیا حکومت کسی ایسے معاملہ میں دخل دے سکتی ہے جس کا فیصلہ یا جس کا انعقاد کسی مسجد میں ہوا ہو.اور آیا حکومت اگر ایسا کرے تو یہ تداخل فی الدین ہوگا یا نہیں ؟ اس سوال کے دو پہلو ہیں.اول تو یہ کہ کیا مساجد میں منعقد ہونیو الے جلسوں یا مساجد میں کئے گئے فیصلوں یا مساجد کی پناہ میں آنے والے لوگوں کو اسلامی شریعت نے قانون سے بالا سمجھا ہے.دوسرے یہ کہ کیا عقلاً یہ بات قابل قبول اور قابل عمل ہے ؟ ان دونوں سوالوں کے جواب میں لیکن یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورہ تو بہ میں کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے حکومت وقت یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لئے ایک مسجد تیار کی تھی اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں ه آزاد لاہور ۳۰ جون ۱۹۵۲ ء ص بحواله الفضل ۶ جولائی ۱۹۵۲ء ه آفاق" لاہور ۳.جولائی ۱۹۵۲ء بحوالہ افضل ۳ جولائی ۱۹۵۲ء حث
۱۸۵ آ کرنماز پڑھنے اور دعا کرنے کی دعوت دی تھی.در حقیقت ان لوگوں کی غرض یہ تھی کہ اس جگہ پر جمع ہو کر بعض سیاسی امور کا تصفیہ کریں جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کے خلاف تھے غالباً ان لوگوں کا خیال بھی آجکل کے احرار کی طرح تھا کہ جو امر مسجد میں طے کیا جائے وہ قانون کی زد سے بالا ہوتا ہے اور جو کوئی اس معاملہ میں دخل اندازی کرے وہ مداخلت فی الدین کا موجب سمجھا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر کیا اور ان کے اس فعل کو نا جائز قرار دیا.چنا نچہ فرماتا ہے:.وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِد اصْرَارًا وَكَفْرًا وَ تَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وار صَادَ المَنْ حَارَبَ اللهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إلَّا الْحُسْى وَاللهُ يَشْهَدُ إنَّهُمْ تَكْذِبُونَ لَا تَقُمْ فِيهِ اَبَدًا لَمَسْجِدُ اُسّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالُ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَرُ وا وَاللهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ آفَمَنْ آمَسَ بنْيَانَهُ عَلَى تَقَوَى مِنَ اللهِ وَرِضْوَانِ خَيْرُ امْرُ مَنْ اَمَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرْنِ هَارِ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ ON KORANGAG لا يزال بُنْيَانَهُمُ الَّذِي بَنَارِيَةً فِي قُلُوبِهِمْ إلا أن تَقطَّعَ قُلُوبُهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ 0 ( التوبة ) ران آیات کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ جو کوئی مسجد بناتے ہیں یا کسی مسجد کو اختیار کر لیتے ہیں اسلئے کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کو نقصان پہنچائیں اور نا فرمانی کی تعلیم وہیں اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور وہ لوگ جو کہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر لڑ رہے ہیں ان کے لئے گھات ہیں بیٹھیں اور ان کے اوپر حملہ کریں اور بڑی شدت سے اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم اپنے افعال سے صرف نیکی اور بھلائی چاہتے ہیں.اللہ گواہی دیتا ہے کہ ایسے لوگ جھوٹے ہیں.اسے خدا کے رسول کو ایسی مسجد میں مت کھڑا ہو.وہ مسجدیں جن کی بنیاد تقوئی پر قائم کی گئی ہے ابتدائی دینی سے وہ زیادہ حقدار ہیں کہ تو ان میں کھڑا ہو.ان مسجدوں میں ایسے لوگ بھاتے ہیں جو کہ نفس کی پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی پاکیزہ نفس لوگوں کو پسند کرتا ہے.کیا وہ لوگ جو کہ سجدوں کی
JAY بنیاد اللہ تعالی کے تقوی پر رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی پر رکھتے ہیں وہ اچھے ہیں یا وہ لوگ جو مسجد کی بنیاد ایک ایسی کھو کھلی زمین کے کنارے پر رکھتے ہیں جو کہ گرنے والی ہے اور جو ان لوگوں کو دوزخ کی آگ میں گرا کر پھینک دیتی ہے.اللہ تعالیٰ ظلم اور فساد کرنے والے لوگوں کو کبھی پسند نہیں فرماتا.جو لوگ اس قسم کی مسجدوں کی بنیادیں رکھتے ہیں یعنی جن میں مرد اور فتنہ کی کارروائیاں ہوتی ہیں، ان کی یہ تعمیر ہمیشہ ان کے دلوں میں شک و شبہات ہی پیدا کرتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ بہت جاننے والا اور بہت حکمت والا ہے.ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد اپنی ذات میں کسی شخص کو نہیں بچا سکتی.اگر مسجد میں کوئی برا کام کیا جائے گا تو اس کو برا سمجھا جائے گا اور اگر مسجد میں کوئی اچھا کام کیا جائے گا تو اس کو اچھا سمجھا جائے گا.اگر مسجد اپنی ذات میں ہر ایک فعل کو بچالیتی ہے اور مسجد میں کیا جانے والا فعل مذہبی کہلاتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ وہ منافق لوگ جن کا مذکورہ بالا آیات میں ذکر ہے اور جو سجد ہیں اسلامی سیاست کے خلاف منصوبے کرتے تھے وہ بھی مسجد میں مجالس کرنے کی وجہ سے دینی افعال کرتے تھے اور ہر قسم کی گرفت سے بالا تھے بلکہ حکومت اگر ان کو پکڑتی تو وہ مداخلت فی الدین کی مرتکب ہو بھاتی تھی اور اس صورت میں نعوذ باللہ من ذالك رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام آئے گا کہ آپ نے جو مذکورہ مسجد کو گرا دیا اور اس کی جگہ کھاد کا ڈھیر لگوا دیا یہ فعل نعوذ باللہ نا جائز کیا.پس تعجب ہے اگی لوگوں پر جو علمائے اسلام کہلاتے ہیں اور مسجد کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور پلک کو دھوکہ دیتے ہیں.اگر فعل کی نوعیت کو دیکھے بغیر صرف مسجد کے نام سے کوئی فعل مذہبی ہو جاتا ہے تو پھر یہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم کی اس مذکورہ بالامسجد میں انجمنیں اور میلے کرنے شروع کئے تھے انہیں کیوں حق بجانب نہ سمجھا جائے مگر کیا کوئی مسلمان کہلانے والا ایسا خیال بھوا کر سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درست فصل کرنے والے کو سزادی اختیار اور انکے ساتھی یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے جو فعل مسجد میں کیا وہ قانونی تھا مسجد کے باہر بھی اگر وہ فصل ہم کرتے تو اس پر گرفت کرنی ناجائز تھی لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر فعل جو مسجد میں کیا جائے وہ مذہبی ہوتا ہے اور اگر ہر فعل جو مسجد میں کیا جاتا ہے وہ مذہبی نہیں ہوتا.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دنیوی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خلاف قانون ہو تو سجد کے اندر کئے گئے ایسے فعل پر گرفت بھی جائزہ ہوگی جیسا کہ
የ ረ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالامسجد میں فتنہ کر نے والے لوگوں پر گرفت کی اور ان کی مجد کو توڑ دیا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسجد کے اندر گرفتاریاں کرتی مداخلت فی الدین ہے اور اسی سے متاثر ہو کر حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری نے ایک اعلان بھی کیا ہے کہ ہم نے تو ہدایت دی ہوئی ہے کہ مسجد کے اندر کسی کو گرفتار نہ کیا جائے لیکن احرار اور ان کے ساتھی علماء کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط اور خلاف اسلام ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فعل ان کے اس دعوی کے خلاف ہے.تمام کی تمام مساجد خانہ کعبہ اور سید نیوئی کے نمونہ پر بنائی گئی ہیں یعنی تمام مساعد ان کے اخلال ہیں.چونکہ ہر شخص خانہ کعبہ میں نہیں جا سکتا اور ہر شخص مسجد نبوی میں نہیں جا سکتا اس لئے اجازت دی گئی ہے کہ ان کی نقل میں ہر جگہ پر مسجدیں بنائی جائیں.پس کسی مسجد کو وہ فضیلت حاصل نہیں ہو سکتی جو خانہ کعبہ کو یا سجد یبوٹی کو حاصل ہے اور کسی مسجد کو وہ حفاظت حاصل نہیں ہو سکتی جو خانہ کعبہ یا مسجد نبوی کو حاصل ہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقعہ پر گیارہ افراد کے نام لے کر فرمایا کہ کعبہ بھی ان لوگوں کو پناہ نہیں دے گا اگر یہ کعبہ میں بھی پائے جائیں تو وہاں بھی انکھ قتل کر دیا جائے.بلکہ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر تم ان لوگوں کو خانہ کعبہ کے پردوں سے بھی لٹکا ہوا پاؤ تو وہاں بھی ان کو نہ چھوڑو.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ ص ) اب پر علماء کہلانے والے لوگ مجھے بتائیں کہ کیا یہ سجدیں جن میں وہ سازشیں کرتے ہیں اور حکومت کے احکام کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں یہ خانہ کعبہ سے زیادہ معزہ ہیں ؟ اگر بعض مجرموں کو رسول کی ا سلئے علیہ وسلم خانہ کعبہ میں بھی قتل کر دینے یا پکڑ لینے کاحکم دیتے ہیں تو دوسری مسجدوں کی خاطر کعبہ کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے کہ ان میں خلاف آئین کام کرنے والے لوگوں کو قانون سے آزادی ملنی چاہیئے.قرآن کریم تو صاف فرماتا ہے کہ مساجد تقویٰ کے قیام کے لئے قائم کی گئی ہیں نہ کہ قانون شکنی کے لئے.اگر مسجدیں قانون شکنی کے لئے ہیں تو پھر شیطان کے لئے تو کوئی گھر بھی بند نہیں رہتا.جن گھروں کو خدا تعالے نے امن کے لئے تسکین کے لئے ، روحانیت کے لئے، تقویٰی کے لئے ، تعاون کے لئے ، اتحاد کے لئے بنایا تھا ان گھروں کو مسلمانوں میں فتنہ ڈالنے کا ذریعہ بنانا ، ان گھروں کو حکومت سے بغاوت کا ذریعہ بنانا ، ان گھروں کو فتنہ و فسادکی بنیاد رکھنے کی جگہ بتانا تو ایک خطرناک ظلم ہے.ان افعال کے مرتکب کو مؤلفہ حضرت علامہ علی بن برہان الدین الی الشافعی
^^ مسجدوں میں پکڑنے والا مسجدوں کی بے حرمتی نہیں کرتا وہ مسجدوں کی عزت کو قائم کرتا ہے اور مسجدوں میں ایسے افعال کے مرتکب لوگ اول درجہ کے بزدل ہیں کہ حکومت کے ڈر کے مارے مسجدوں کی پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسول کے نام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں اور تقویٰ کے مقامات کو فساد اور گناہ کی جگہیں بنا نا چاہتے ہیں.ان کے پاس اس کے سوا کیا زور ہے کہ وہ عوام الناس کو بھڑکا رہے ہیں لیکن عوام الناس کے مل جانے سے نہ قرآن بدل سکتا ہے نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم بدل سکتی ہے نہ محمد رسول اله صل اللہ علیہ سلم کا عمل بدل سکتا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ گو مسلمان عوام تعلیم اسلام سے لیے ہرہ ہیں مگر ثبت اسلام ان کے دلوں میں باقی ہے اور وہ اس دھوکے میں نہ آئیں گے اور ان لوگوں سے پوچھیں گے کہ شہید گنج کی مسجد کے سوال پر تو تم کو مسجد کی مرمت کا خیال نہ آیا مگر اب مسجد کے نام سے اپنے آپ کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کرتے ہو آخر اس کی کیا وجہ ہے تعجب کی بات ہے کہ ایک عالم کہلانے والے صاحب نے تاریخ اسلام میں سے ایک مثال مسجد کی مرمت کی پیش کی ہے.انہوں نے ایک عباسی تخلیفہ کا ذکر کیا ہے کہ اس نے اپنی بیوی سے خفا ہو کر حکم دیا کہ شام سے پہلے پہلے وہ بغداد سے نکل بجائے اگر وہ نہ گئی تو اسے پیزا دی جائے گی لیکن بعد میں وہ اپنے حکم سے کچھپایا اور اس نے علماء سے پو چھا کہ آپ میں کیا کروں سب علماء نے بے بسی کا اظہار کیا لیکن امام ابویوسف نے کہا کہ اس کا علاج تو آسان ہے وہ مسجد میں پھیلی جائے اس طرح وہ بچ جائے گی.میں ان عالم سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہر چور اور ڈاکو اور قاتل اور زانی اگر مسجد میں چلا جائے تو اس کا پکڑا جانا نا جائز ہو جائے گار کیا اگر کوئی شخص مسجد میں کھڑے ہو کر اسلام اور اس کے شعائر کو نعوذ باللہ گالیاں دینی شروع کر دے تو اس کی گرفتاری نا جائز ہو جائیگی اور چونکہ آپ لوگوں کے نزدیک جو جگہ ایک دفعہ مسجد بن جائے پھر وہ مسجد کی شرطوں سے باہر نہیں ہوتی.اگر کوئی شخص مسجد میں کھڑے ہو کر مسجد کی عمارت ہی کو گرانے لگ جائے تو اس کو کوئی سزا نہیں مل سکتی کیونکہ وہ مسجد میں کھڑا ہے اور ایک دینی کام کر رہا ہے.نعوذ باللہ من ذالك.امام ابویوسف نے اگر یہ واقعہ صحیح ہے ( جو بظا ہر صحیح نہیں، تو بادشاہ کو ایک حیلہ بتایا ہے کیونکہ جب بادشاہ اپنے کئے پر پچھتایا تو بادشاہ خود اس عورت کو بچانا چاہتا تھا اس لئے مسجد میں جا کہ وہ عورت قانون شکنی کی مرتکب نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ قانون بنانے والے کی مرضی کو پورا کر رہی
۱۸۹ تھی.پس ان دونوں باتوں کا جوڑ کیا ہے ؟ اگر تو امام ابویوست یہ کہتے کہ سجد میں گھس کے جو چاہے جرم کرنے اس کی اجازت ہے تو بے شک ان کے فتوئی کے یہ معنی لئے جاسکتے تھے مگر وہ تو بادشاہ کی تائید میں ایک فتوئی پیش کرتے ہیں اس کے خلاف فتوی پیش نہیں کرتے ہیں ان فتوئی دینے والے مفتیوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر اپنی مسجدوں میں اور ان کے جلسوں میں کھڑے ہو کر کوئی احمدی ان کے خلاف تقریر شروع کر دے تو کیا وہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ مسجدیں کوئی فساد نہیں ہوگا اور کوئی اس آدمی کو بارے بیٹے گا نہیں اور کیا مسجد اس کو بھی پناہ دے گی جو احرار کے خلاف مسجد میں بولے یا صرف ان احرار کو پناہ دے گی جو حکومت کے خلاف مسجد میں بولیں ؟ یہ علماء یہ بھی تو سوچیں کہ اگر مسجد ہر عمل کو پاک کر دیتی ہے تو جب پولیس مسجد کے اندریا کو غیر آئینی کارروائی کرنے والے کو کپڑے تو اس کا یہ سجد کے اندر کیا ہوا فعل کیوں دینی قرار نہ دیا جائے.آخر یہ امتیاز کہاں سے نکالا گیا ہے کہ دوسرے لوگ مسجد میں کوئی بھی کام کریں تو وہ دینی ہو جاتا ہے لیکن اگر پولیس یا حکومت مسجد میں کوئی کام کرے تو وہ دینی نہیں ہوتا.آخر میں میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے ایک احراری اخبار نے لکھا ہے کہ قانون شکن لوگوں کو مسجد میں گرفتار کر کے پاکستان کی حکومت نے وہ ظالمانہ فعل کیا ہے کہ انگریز کی حکومت نے بھی ایسا نہ کیا تھا.اول تو ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب نے اس امر کی تردید کی ہے اور بیان دیا ہے کہ حکومت نے مسجد کے اندر گرفتار گرنے سے حکام کو روکا ہوا ہے لیکن فرض کرو یہ صحیح ہو تو کیا احرار اس واقعہ کو بھول گئے ہیں جب انگریزی حکومت نے مساجد میں گھس کر خاکساروں پر حملہ کیا تھا اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے تھے.میں یہ نہیں کہتا کہ ان کا فعل اچھا تھا کیونکہ سارے واقعات میرے سامنے نہیں لیکن لکن یہ کہتا ہوں کہ اپنے پاکس سے بات گھڑ کر اس کی بنا پر انگریزی حکومت کو پاکستان کی حکومت پر ترجیح دینا کیا محض فساد کی نیت سے نہیں ؟ جماعت احمدیہ اپنے محبوب امام شنیدنا عروج احدیت کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی حضرت بالمصلح الموعود کی قیادت میں ه روزنامه الفضل لاہور ہ جولائی ۱۹۵۲ء مت۲
14- خارق عادت رنگ میں ترقی کرتے ہوئے اس مقام تک جا پہنچی تھی کہ اس پر سورج غروب نہیں ہو سکتا تھا لیکن اس کے باوجود تحریک احمدیت کی آخری منزل کو قریب سے قریب تر لانے اور عالمگیر اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لئے مزید ایک لمبی جد و جہد کی ضرورت تھی.ر اس ضرورت کے پیش نظر حضور نے ۲۷- احسان ۱۳۷۳۱ ش / جون ۱۹۵۲ء کو بذریعہ خطبہ جمیعد ایک تو یہ اصولی راہنمائی فرمائی کہ جب قومیں اپنے زمانہ جوانی میں داخل ہوتی ہیں تو اُن کا ہر تغییر آن کے لئے ایک نیک نتیجہ پیدا کرتا ہے.دوسرے یہ پیش گوئی فرمائی کہ علیہ احمدیت میں جتنی دیر لگ رہی ہے اسی نسبت سے جماعت احمدیہ کی عظمت و شوکت کا زمانہ بھی لیا ہو گا.حضور کے اس انقلاب انگیز خطبہ کے بعض ضروری حصے درج کئے جاتے ہیں :.سلسلہ احمدیہ اور میری عمر ایک ہی ہے جس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا ہے اور بیعت لی ہے میں اسی سال پیدا ہوا تھا.گویا جتنی میری عمر ہے اتنی عمر سلسلہ کی ہے لیکن افراد کی عمروں اور قوم کی عمر میں فرق ہوتا ہے.ایک فرد اگر ہے یا ۱۰ سال زندہ رہ سکتا ہے تو تو میں ۳۰۰، ہم سال تک زندہ رہ سکتی ہیں.اگر تین سو سال بھی کسی قوم کی زندگی رکھ لی جائے تو اس کی جوانی کا زمانہ اس کے چوتھے حصہ کے قریب سے شروع ہوتا ہے.اگر ایک انسان کی عمر ۷۲، ۷۴ سال فرض کر لی جائے تو اس کی عمر کے چوتھے حصہ سے جوانی شروع ہوتی ہے یعنی ۱۸-۱۹ سال سے انسان جوانی کی عمر میں داخل ہوتا ہے.اس طرح اگر کسی قوم کی عمر ۳۰ سال قرار سے لی جائے تو اس کی جوانی 40 سال کی عمر سے شروع ہوگی.تمہاری عمر تو ابھی ۶۳ سال کی ہے.ہماری جماعت کو یا درکھنا چاہئیے کہ وہ ابھی جوان بھی نہیں ہوئی.اس پہ ابھی وہ زمانہ ہے کہ جب انسان کچھ بھی کھا لے تو وہ اُسے ختم ہو جاتا ہے ہزاروں مخالفت میں ہوں، مصائب ہوں، ابتداء ہوں.یہ اس کی قوت کو بڑھانے کا موجب ہونے چاہئیں کمزوری کا موجب نہیں.اگر تم اس چیز کو سمجھ لو و یقینا تمہارے حالات اچھے ہو جائیں گے جولوگ جسمانی بناوٹ کے ماہر ہیں ان کا خیال ہے کہ انسانی جسم اس یقین کے ساتھ بڑھتا ہے کہ اس کی طاقت بڑھ رہی ہے طاقت کا مشہور ماہر سینڈو گزرا ہے اس نے طاقت کے کئی کرتب دکھائے ہیں اور کئی بادشاہوں کے پاس جا کہ اس نے اپنی طاقت کے مظاہرے کیئے ہیں.اس نے ایک رسالہ لکھا ہے کہ مجھے ورزش کا کہاں سے خیال پیدا ہوا اور میرا جسم کیے سے مضبوط ہوا.وہ لکھتا ہے کہ تجھے J
191 ایسے رنگ میں کام کرنے کا موقعہ ملتا تھا کہ میرے بازو بنیان سے باہر رہتے تھے.میں نے ایک دن اپنے بازو دیکھ کر خیال کیا کہ میرے بازو مضبوط ہو رہے ہیں.اس خیال کے آنے کے بعد یکی نے ورزش شروع کر دی اور آہستہ آہستہ میرا جسم مضبوط ہوتا گیا.سینڈو کا یہ خیال تھا کہ ورزش لنگوٹا باندھ کر کونی چاہیے تا ورزش کرنے والے کی نظر اس کے جسم کے مختلف حصوں پر پڑتی رہے اور اُسے یہ خیال رہے کہ اس کا جسم بڑھ رہا ہے.وہ لکھتا ہے کہ میں نے لنگوٹا باندھ کر ورزش شروع کی.میں ہمیشہ یہ خیال کرتا تھا کہ میرے جسم کا فلاں حصہ بڑھ رہا ہے اور مجھے پر یہ اثر ہوا کہ صحت کی درستی خیال کے ساتھ ساتھ چلتی ہے.جب تک انسان کا خیال اس کی مدد نہیں کرتا اس کیا جس مضبوط نہیں ہوتا.اور یہ اسی صورت ہیں ہو سکتا ہے کہ ورزش کرنے والا اپنے جسم کو دیکھ رہا ہو.یہ نہایت کامیاب اصل ہے.ہزاروں نے اس کا نگیریمہ کیا اور اسے کامیاب پایا اور انہوں نے اپنے جسموں کو درست کیا تمہیں بھی اٹھتے بیٹھتے یہ خیال رکھنا چاہئیے کہ تم تمت محسوس کر رہے ہو اور تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ تم تو ابھی جوان بھی نہیں ہوئے.تمہاری عمر ابھی ۶۳ سال کی ہے.اور اگر تمہاری عمر کم سے کم عمر بھی قرار دے لی جائے تو تم نے ۷۵ سال کے بعد بجا کر جوان ہوتا ہے اور پھر ، ۱۵-۷۵ اسال جوائی سے بھی گزرتے ہیں.حضرت سیح علیہ السلام کی قوم کی عمر کولیا جائے تو اس کی جوانی کی ہر ۵۰ سال کی تھی ۲۷۰ سال گزر جانے کے بعد انکی جوانی کا وقت شروع ہوا تھا ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے ہیں ان کے مطابق ہماری جوانی پہلے شروع ہو گی.ہر حال ہماری آنی سے کچھ مشابہت تو ہونی چاہئیے ممکن ہے ہماری جوانی کا وقت..ایا سوا سو سال سے شروع ہو یا اس صورت میں جوانی کا زمانہ پونے دوسو سے اڑھائی سوسیال تک کا ہو گا.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جن کی جوانی میں دیر لگتی ہے ان کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں اور جن کی عمریں چھوٹی ہوتی ہیں ان کی جوانی بھی جلدی آتی ہے.جانوروں کو دیکھ لو جن بھانوروں کی عمر چار پانچ سال کی ہوتی ہے ان کی جوانی مہینوں میں ہوتی ہے اور جو بھانوں ۲۷ ۲۸ سال تک زندہ رہتے ہیں ان کی جوانی مسالوں میں آتی ہے ، گھوڑے کو لے لو اس کی عمر بیس کیس سال کی ہوتی ہے اور اس کی جوانی کی عمر کمیں چار سال سے شروع ہوتی ہے.لیکن بکری اور بکی چو تھے پانچویں ماہ جوان ہو جاتے ہیں.گو یا مینی کسی کی عمر چھوٹی ہو گی اسی نسبت سے اس کی جوانی پہلے آئے گی اور جتنی کسی کی عمر لمبی ہوگی اسی نسبت سے اس کی جوانی بھی بعد میں
۱۹۲ آئے گی.تمہاری زندگی کا لمبا ہونا مقدر ہے.اور یہ نیک فال ہے کہ ابھی تمہاری جوانی کا وقت نہیں آیا.اگر تم 4 سال کی عمر میں ابھی نیم جوانی کی حالت میں ہو تو معلوم ہوا کہ تمہاری عمر نہیں ہے.عمر اور جوانی میں کچھ نسبت ہوتی ہے لمبی عمر ہو تو جوانی دیر سے آتی ہے اور اگر جوانی دیر سے آئے تو معلوم ہوا کہ عمر لمبی ہوگی.بہر حال اس زمانہ تک جماعت احمدیہ کا ترقی نہ کرنا حیرت کا موجب نہیں ۶۳ سال جماعت پر گزر چکے ہیں اگر ۶۳ سال میں جماعت غالب نہیں آئی تو یہ خوشی کی بات ہے عیسائیوں پر پونے تین سو سال میں جوانی آئی اور آج تک وہ پھیلتے چلے جا رہے ہیں.ایک لیے عرصہ تک انہیں مصاب جھیلنے پڑے تکالیف برداشت کرنی پڑیں اور وہ غوروخت کر کرتے رہے جس کی وجہ سے انہیں ہر کام کے متعلق غور کرنے اور منکر کرنے کی عادت پڑ گئی اور اس کے نتیجہ میں انہوں نے بعد میں شاندار ترقی حاصل کی.پس ہماری جماعت پر جوانی کا وقت آنے میں جو دیر لگی ہے اس کی وجہ سے ہمیں گھیرانا نہیں چاہیئے جوانی دیر سے آنے کے یہ معنے ہیں کہ جماعت کی عمر بھی لمبی ہو گی اور احمدیت دیر تک قائم رہے گی.یہ چیزیں تمہاری گھبراہٹ کا موجب نہیں ہونی چاہئیں بلکہ تمہیں خوش ہونا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ جماعت کو لمبی عمر دینا چاہتا ہے، تم سوچنے اور شکر کرنے کی عادت ڈالو.تمہاری طاقت، تمہارا ایمان، تمہاری قوت مقابلہ اور عقل سوچنے سے بڑھے گی یا لے صبر مسلوق کی پرزورتحریک انیوں اور رانوں کے ان رات ایام میں جب مخالف مظاهر وسلواۃ کا سارا زور غیر اسلامی بلکہ غیر اخلاقی حر وانی کے استعمال پر صرف ه خطبه جمعه فرموده ۲۷ جون ۱۹۵۲ء بمقام ربوه مطبوعه روزنامه الفضل لاہور ۱۲ جولائی ۶۱۹۵۲ * له احراری آرگن " آزاد لکھتا ہے :- دیہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار کے خطیبوں میں جذباتیت، بھیڑ بازی اور اشتعال انگیزی کا عنصر غالب ہے یہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہے ؟..آپ ذرا حقیقت پسند سنجیدہ اور متین بن جائیں پھر آپ مسلمانوں میں مقبول ہو جائیں اور کوئی تعمیری اور اصلاحی کام کرلیں تو ہمارا ذمہ یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق و واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے آپ بڑے بڑے دیانتدار، با اخلاق اور سنجیدہ متین پہاڑوں کو کھو دیں تو اشتعال کا رباقی اگلے صفحہ پر
١٩٣ ہو رہا تھا ، حضرت مصلح موعود اپنے مستقل طریق کے مطابق قدم قدم پر خدا کی جماعت کو صبر و صلواۃ کی تاکید فرما رہے تھے.چنانچہ حضور نے ہم روفا ۱۳۳۱ امش / جولائی ۱۹۵۲ء کے خطبہ میں ارشاد فرمایا :- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دعوئی تو یہ کریں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن ان کو آزمائشوں اور بتلاؤں کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے.احب الناس ان يتركوا أن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ہے کیا یہ لوگ ہم بھی کر سکتے ہیں.کیا مسلمان اس قسم کے خیالات میں مبتلا ہیں کہ انہیں کونسی چھوڑ دیا جائے گا ؟ انہیں آزمائشوں اور ابتلاؤں کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے گا.انہیں تکالیف اور مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا.انہیں ٹھوکریں نہیں لگیں گی حالانکہ وہ دعوی یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے.یہ قاعدہ کلیہ ہے جو شخص ایمان کا دعوئی کرتا ہے اسے ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھیٹی میں ضرور ڈالا جاتا ہے.اگر یہ قاعدہ کلیہ نہ ہوتا تواللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ابتدائے اسلام میں یہ نہ فرما تا کہ تم کس طرح یہ خیال کرتے ہو کہ تم دعوئی تو یہ کرو کہ ہم ایمان لائے لیکن تمہیں ابتلاؤں اور آزمائشوں میں نہ ڈالا جائے.بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ :.چوہا نکلے گا.الیکشن بازی میں تو دیندار اور بے دین سب کے سب اشتعال انگیزی ہی سے کام لیتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کوئی کم کام لیتا ہے اور کوئی زیادہ ہمارے احراری بزرگ اس میں سب سے آگے ہیں " اخبار آزاد ۲۷ ستمبر ۱۹۵۸ء مناتا) جہاں تک کذب بیانی کا تعلق ہے جناب مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا یہ فتولی ہے:.* احیائے حق کے واسطے کذب درست ہے مگر تا امکان تعریف سے کام لیوے.اگر نا چار ہو تو کذب صریح بولے یا رفتاوی رشید یہ خدام مولفہ مولوی رشید احمد صاحب گنکور ہیں.ناشران محمد سعید اینڈ منتر قرآن محل مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی) اس دور میں جناب گنگوہی صاحب کے اس فتوئی پر ان کے معتقدین اور مریدان با صفا نے جس شدت ، کثرت اور وسعت سے عمل کیا ہے اس کی نظیر گذشتہ زمانوں میں بہت کم ملتی ہے جو العنكبوت :
۱۹۴ ایسے ٹھوکریں نہ لگیں.وہ مخالفت کی آگ میں نہ پڑے.پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یہ امریز نظر رکھنا چاہیئے کہ جب اس نے یہ دعوی کیا ہے کہ ہم ایک مامور زمین اللہ کی آواز پر لبیک کہنے والے ہیں تو انہیں ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ڈالا جائیگا غدا تعالیٰ فرماتا ہے وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.اگر یہ سچ ہے کہ تم ایمان لائے ہو تو یہ بات بھی سچ ہے یہ یہ کہ تمہیں ابتلاؤں میں ڈالا جائے گا حضور نے یہ حقیقت ذہن نشین کرانے کے بعد ارشاد فرمایا :- پس ہماری جماعت کو مشکلات کے مقابلہ میں دعا اور نماز کی طرف تو یقہ کرنی چاہیئے.میرے تو ہم میں بھی یہ نہیں آیا کہ کوئی احمدی نماز چھوڑتا ہے.اگر کوئی ایسا احمدی ہے جو نماز کا پابند نہیں تو یکی اسے کہوں گا کہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس وقت تم پر نمازگراں نہیں ہونی چاہیئے مصیبت کے وقت میں نمازگراں نہیں ہوتی مصیبت کے وقت لوگ دعائیں مانگتے ہیں گریہ وزاریاں کرتے ہیں.۱۹۵ء میں جب زلزلہ آیا تو اس وقت ہمارے ماموں میر محمد اسمعیل صاحب لاہور میں پڑھتے تھے آپ ہسپتال میں ڈیوٹی پر تھے کہ زلزلہ آیا.آپ کے ساتھ ایک ہند و طالب علم بھی تھا جود ہر یہ تھا اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق ہنسی اور مذاق کیا کرتا تھا جب زلزلہ کا جھٹکا آیا تو وہ رام رام کر کے باہر بھاگ آیا جب زلزلہ رک گیا تو میر صاحب نے اُسے کہا تم رام پر مذاق اڑایا کرتے تھے اب تمہیں رام کیسے یاد آ گیا ؟ اس کے بعد خوف کی حالت بھاتی رہی تھی.زلزلہ ہٹ گیا تھا.اس نے کہا یونی عبادت پڑی ہوئی ہے اور منہ سے یہ لفظ نکل جاتے ہیں.ایسی حقیقت یہ ہے کہ مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ یاد بجھاتا جس شخص کو مصیبت کے وقت بھی بعد اتعالیٰ یاد نہیں آتا سمجھ لو کہ اُس کا دل بہت شقی ہے.وہ ایک ایسا لا علاج ہو گیا ہے کہ خطرہ کی حالت بھی اسے علاج کی طرف تو یہ نہیں دلاتی پس اگر ایسے لوگ جماعت میں موجود ہیں جو نماز کے پابند نہیں تو میں انہیں کہتا ہوں کہ یہ وقت ایسا ہے کہ انہیں اپنی نمازوں کو پکا کرنا چاہئیے اور جو نماز کے پابند ہیں میں انہیں کہتا ہوں آپ اپنی نمازیں ستوار ہیں اور جو لوگ نماز سنوار کو پڑھنے کے عادی ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ بہتر وقت دعا کا نتید کا وقت ہے نماز عید کی عادت ڈالیں.دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری مشکلات کو دور فرمائے اور گوں کو صداقت قبول کرنے کی توفیق دے مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ دشمن کیا کہتا ہے لیکن
190 یہ ڈر ضرور ہے کہ جب اسی قسم کا پروپیگینڈا کیا جاتا ہے تو اکثر لوگ صداقت کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں.پس ہماری سب سے مقدم دعا یہ ہونی چاہیے کہ بخدا تعالیٰ ہماری مشکلات کو دور کر دیے جو لوگوں کے صداقت قبول کرنے میں روک ہیں اور اُن کی توجہ اس طرف پھیر رہی ہیں.ابتلاء مانگنا منع ہے لیکن اس کے دور ہونے کے لئے دعا مانگنا سنت ہے اس لئے یہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ وہ روکیں ڈور کر دے جو لوگوں کو صداقت قبول کرنے سے ہٹا رہی ہیں اور ہماری منکر مندیوں کو دور کر دے.ہاں وہ ہمیں ایسا بے منکر اور بے ایمان نہ بنائے کہ جس کی وجہ سے ہمارے ایمان میں خلل واقع ہو.در حقیقت ایمان کا کمال یہ ہے کہ انسان خوف اور امن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے سامنے مجھکے.اگر کوئی شخص خوف اور امن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے امن دیتا ہے لیکن جو مومن خوف کی حالت میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے امن کی حالت میں نہیں خدا تعالیٰ اس کے لئے ٹھوکریں پیدا کرتا ہے.اگر بخدا تعالیٰ اسے مرتد کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے لئے امن کی حالت پیدا کر دیتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے.پس جو لوگ نماز کے چاہت ہیں وہ نماز سنوار کر پڑھیں اور جو نما ز سنوار کر پڑھنے کے عادی ہیں وہ تہجد کی عادت ڈالیں پھر نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیں پھر نہ صرف نوافل پڑھیں بلکہ دوسروں کو بھی نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیں.خدا تعالیٰ نے لوگوں کو روزہ کی عادت ڈالنے کے لئے ایک ماہ کے روزے فرض کئے ہیں.روزے فرض ہونے کی وجہ سے ایک مسلمان ایک ماہ جاگتا ہے، اور پھر اپنے ساتھیوں کو بھی جگاتا ہے ڈھول بٹتے ہیں اور اس طرح تمام لوگ اس مہینہ میں تہجد کی نماز پڑھ لیتے ہیں.اگر ایک ہمسایہ روزہ کے لئے نہ اُٹھتا تو دوسرا بھی نہ اُٹھتا لیکن چونکہ ایک آدمی روزہ کے لئے اُٹھتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرا بھی بیدار ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس طرح روزے فرض کرتے ہیں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ سب لوگوں کو اس عبادت کی عادت پڑ جائے یہی اسی قسم کی تدبیریں اور گوشہ نہیں ہماری رکھنا بھی ضروری ہے.ریدہ کی جماعت کے افسران اور عہدیداران محلوں میں تہجد کی تحریک کریں اور جو لوگ تہجد پڑھنے کے لئے تیار ہوں اور یہ عہد کریں کہ وہ تہجد پڑھنے کے لئے تیار ہیں ان کے نام لکھ لیں اور جب وہ چند دنوں کے بعد اپنے نفوس پر قابو پالیں تو انہیں تحریک کی جائے کہ وہ باقیوں کو بھی جگائیں.جب سارے لوگ اُٹھنا مشروع ہو جائیں.پیسے بجنے لگ جائیں تو کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا نماند
194 پڑھنے کو دل تو چاہتا ہے لیکن نیند کے غلبہ کی وجہ سے بیدار نہیں ہوتے وہ بھی تہجد کے لئے اٹھ بیٹھیں گے رمضان میں لوگ اٹھ بیٹھتے ہیں اس لئے کہ اردگر د شور ہوتا ہے.اکیلے آدمی کو اُٹھائیں تو وہ سو جاتا ہے لیکن رمضان میں وہ نہیں سوتا اس لئے کہ اردگرد آوازیں آتی ہیں.کوئی قرآن کریم پڑھتا ہے.کوئی دوسر کو جگاتا ہے.کوئی دوسرے آدمی سے کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ماچس نہیں ذرا ماچس دے دو.ہمارے ہاں مٹی کا تیل نہیں تھوڑا سا مٹی کا تیل دو.کوئی کہتا ہے کہ ہمارے ہاں آگ نہیں آگ دو.کوئی کہتا ہے یک سحری کھانے کے لئے تیار ہوں روٹی تیار ہے؟ یہ آوازیں اس کا سونا دو بھر کر دیتی ہیں وہ کہتا ہے نیند تو آتی نہیں لیٹنا کیا ہے چلو چند نفل ہی پڑھ اور رمضان بیشک برکت ہے لیکن رمضان میں جاگنے کا بڑا ذریعہ یہی ہوتا ہے کہ اردگرد سے آوازیں آتی ہیں اور وہ انسان کو جگا دیتی ہیں.ایک آدمی آٹھ بجے سوتا ہے اور اسے دو بچے بھی بھاگ نہیں آتی لیکن ایک آدمی بارہ بجے سوتا ہے لیکن تین بجے اٹھ بیٹھتا ہے اس لئے کہ ارد گرد سے آوازیں آتی ہیں.ذکر الہی کر نے کی آوازیں آتی ہیں.قرآن کریم پڑھنے کی آوازیں آتی ہیں.کوئی کسی کو جگا رہا ہوتا ہے اور کوئی کھانا پکا رہا ہوتا ہے اور اس کی آواز اُسے آتی ہے.اس لئے صرف تین گھنٹے سونے والا بھی اٹھ بیٹھتا ہے یہ ایک تقدیر ہے جس سے بھاگنے کی عادت ہو جاتی ہے اس مقامی دیداروں کو چاہیے کہ وہ اس کا محلوں میں انتظام کریں اور پھر اسے باہر بھی پھیلایا جائے تا آہستہ آہستہ لوگ تہجد کی نماز کے عادی ہو جائیں پھر اگر کوئی تجد کا مسئلہ پوچھے تو اسے کہو کہ اگر تجد رہ جائے تو اشراق کی نماز پڑھو جو دو رکعت ہوتی ہے وہ بھی رہ جائے تو صحی پڑھو جو نتیجہ کی طرح دو سے آٹھ رکعت تک ہوتی ہے اس طرح تہجد اور نوافل کی عادت پڑ جائے گی.صلوۃ کے دو معنے ہیں نماز اور دعا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا بالصبر والصلوة تم مد در الگو صبر، نماز اور دعا سے.اور جو شخص خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ کوئی شخص اس پر غالب نہیں آسکتا.اگر خدا تعالی ہے تو سیدھی بات ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں.اگر خدا تعالیٰ سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں تو یقیناً وہی شخص جھیلتے گا جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے.بے شک کسی کے ساتھ دنیا کی سب طاقتیں ہوں، مجلسے ہوں، جلوس ہوں ، نعرے ہوں، قتل و غارت ہو ، قید خانے ہوں، پھانسیاں له البقره ١٩٤ +
192 نگار ہوں، لعنت و ملامت ہو لیکن جیتے گا وہی جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے.دلوں کی حالت کے متعلق رسول کریم صلى اللّه علیہ سلم فرماتے ہیں إِنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلب ے خدا تعالیٰ اسی دلوں کے بھید جانتا ہے وہی دلوں کو بدل سکتا ہے.خدا تعالیٰ بھانتا ہے کہ انسان کے کیا خیالات ہیں اور ان کا رد عمل کیا ہے ؟ وہ دلوں کو جانتا ہے.وہ اعمال کو جانتا ہے اور ان کے رد عمل کو جانتا ہے.بخدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو میری طرف آتا ہے اسے دلوں کی طرف ایک سرنگ مل جاتی ہے.آخر دلوں کو بدلنے کا کونسا ذریعہ ہے سوائے اس کے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں بخدا تعالیٰ نے اس کا ذریعہ صبر و صلوۃ مقرر کر دیا ہے.جبر کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے کامل محبت ہو.وہ سمجھتا ہے کہ خد اتعالیٰ مقدم ہے اور باقی ہر چیز موخر ہے اس لئے وہ اس کے لئے ہر شکل اور تکلیف کو برداشت کر لیتا ہے.گویا میر میں جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہوتا ہے اور صلوٰۃ میں عشقیہ طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہوتا ہے.صبر جبری محیت ہے اور نماز طوعی محبت ہم کچھ کام جبری طور پر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑنا یہ چیز جبری ہے مشکلات اور مصائب تم خود پیدا نہیں کرتے.شیمن مشکلات اور مصائب لاتا ہے اور تم انہیں برداشت کرتے ہو اور خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑتے لیکن نماز طوعی ہے نماز تمہیں کوئی اور نہیں پڑھا تا نماز تم خود پڑھتے ہو.پس تم صیر میں جبری طور پر خدا تعالی کی محبت کا ثبوت دیتے ہو اور نماز میں طوعی طور پر اس کا اظہار کرتے ہو اور یہ دونوں چیزیں مل جاتی ہیں تو محبت کامل ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا فیضان بھاری ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے فیضان کو حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس سے صبر و صلوۃ کے ساتھ مدد مانگو.خدا تعالے کا دلوں پر قبضہ ہے وہ انہیں بدل دے گا میں جب تم سے کہتا تھا کہ جماعت پر مصائب اور ابتلاؤں کا زمانہ آنے والا ہے اس لئے تم بیدار ہو جاؤ اُس وقت تم میری بات پر یقین نہیں کرتے تھے تم ہنسی اُڑاتے تھے اور رکھتے تھے کہ آپ کہاں کی باتیں کرتے ہیں ہمیں تو یہ بات نظر نہیں آتی.اور جب کہ فقلتہ آ گیا ہے میں تمہیں دوسری خبر دیتا ہوں کہ جس طرح بگولا آتا ہے اور پھلا جاتا ہے یہ فتنہ مٹ جائے گا.یہ بے کارروائیاں هباء منثورا ہو جائیں گی.خدا تعالیٰ کے فرشتے آئیں گے اور وہ ان مشکلات اور ابتلاؤں کو جھاڑو دے کر صاف کر دیں گے لیکن بعد التعالیٰ فرماتا ہے اس لے سوره انفال آیت ۲۵ *
19A کے لئے ضروری ہے کہ تم میر اور مصلوۃ کے ساتھ میری مدد مانگوئیں تمہیں مدد دوں گا لیکن تم دو باتیں کر و اول مصائب اور ابتلاؤں پر گھیراؤ نہیں انہیں برداشت کرو، دوسرے نمازوں اور دعاؤں پر اور دو تا مجھے پتہ لگ جائے کہ تمہاری محبت کامل ہو گئی ہے.اور جب تمہاری محبت کا مل ہو جائیگی تو میں بھی ایسا ہے وفا نہیں ہوں کہ میں اپنی محبت کا اظہار نہ کروں سے فصل سوم لمان فرق احمدیت کی خیرکانی اور مطالبه فیلم اقلیت فرقتها مختلف مسلمان حلقوں کی طرف سے تشویش و اضطراب • احمدی علم کلام کی برتری کلاعتراف اور ایک دلچسپ تجویز.اور ماہ جولائی ۱۹۵۲ء کے شروع میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے نمائندہ خصوصی تقسیم مصر نے یہ انکشاف کیا کہ مصر میں بھارت اور افغانستان میں کہ اس قسم کی سازشیں کر رہے ہیں کہ پاکستان کو عرب ممالک سے بالکل الگ کر دیا جائے.پاکستان اور عرب ملکوں میں کشیدگی پیدا کر نیکی ایک عرصہ سے یہاں بھارتی اور افغان ایمنٹ منصوبے بنا رہے ہیں تا کہ عرب ممالک میں پاکستان کو بدنام کر کے عرب ملکوں کو بھارتی حلقہ اقتدار میں شامل کر دیا جائے لیئے اس انکشاف کے چند روز بعد احرار کی کوشش سے ۱۳.جماعت احمدیہ کی تکفیر کا نیا دورہ جولائی ۱۹۵۳ء کو برکت علی محمون ہال لاہور میں ایک شه الفضل يكم طور ۱۳۳۱ بیش تریکم اگست ۶۱۹۵۲ صت ے جنگ (کراچی) در جولائی ۱۹۵۲ء صل :
199 ل مسلم پارٹیز کنونشن منعقد ہوا جس میں مختلف مکاتیب فکر کے سیاسی اور مذہبی راہنما اور دیگر مندوب کم و بیشیں سات سو کی تعداد میں جمع ہوئے اور احراری مطالبات کے حق میں زور شور سے پراپیگنڈا کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد حکومت پاکستان اور جماعت احمدیہ کے خلاف جارحانہ سرگرمیاں تیز کر دی گئیں اور مسلمان فرقہ احمدیہ یا احمدی مذہب کے مسلمانوں ہے کے خلاف تکفیر کا نیا دور شروع ہوا.جماعت احمدیہ اپنے قیام کے روزہ اول ہی سے دوری کا فرگری کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تو را این احمدیہ یہ عظیم الشان تصنیف اور علمی شاہکار کی پاداش میں ۱۸۸۴ء ہی سے فتوی کفر لگ چکا تھا اور اس میں مختلف فرقوں کے علماء حتی کہ حرمین شریفین کے حنفی مسلک کے مفتیان بھی شامل ہو گئے تھے جیسا کہ نومبر ۱۸۸۸ء کے مطبوعہ رسالہ نصرت الابرار سے ثابت ہے کیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بار فرمایا تھا.عجیب بات یہ ہے کہ جتنے اہل اللہ گزرے ان میں کوئی بھی تکفیر سے نہیں بچا.کیسے کیسے مقدس اور صاحب برکات تھے.یہ تو گھر بھی مبارک ہے جو ہمیشہ اولیاء اور خدا تعالیٰ کے مقدس لوگوں کے حصہ میں ہی آتا رہا ہے" کے کنونیشن کی مفصل کا روائی مجلس احرار کے آرگن، آزاد ۱۷ جولائی ۱۹۵۲ء مت میں شائع شدہ ہے ہے سے یہی دونوں نام حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نئے اشتہار واجب الانظار (۴) نومبر ۶۱۹۰۰ ) میں اپنے قلم سے تجویز فرمائے تھے چنانچہ فرمایا وہ نام جو اس سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمد یہ ہے اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے پکاریں.یہی نام ہے جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات اور مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی مسلمان فرقہ احمدیہ اشتہار مشمولہ ترياق القلوب " ) سے یہ رسالہ مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی سابق صد مجلس احرار اسلام کے بزرگوں کی تصنیف ہے جس میں آل انڈیا کانگریس میں شرکت کو مباح اور سرسید کی تحریک علی گڑھ سے وابستگی کو حرام قرار دیا گیا تھا.یہ رسالہ مطبع صحافی انکی سن گنج لاہور میں چھپا تھا کے الحکم ۱۸ مئی ۶۱۹۰۸
۲۰۰ اس اعتبار سے ۱۹۵۲ء کا فتنہ تکفیر احمدیوں کے لئے تحیر کے قدیم و جدید دوری ایک فرق کو ایران ایرانی با بیان این البته ی فرق ضرور تھا کہ تقسیم ملک سے قبل جو فتاوی کفر صادر کئے گئے اُن سے انگریزی حکومت یا ہندوؤں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ تقویت پہنچتی تھی مگر تکفیر کے اس نئے دور رہیں اس کا مقصد ایک اسلامی مملکت کو نقصان پہنچانا تھا.چنا نچہ ملک محمد جعفر خاں (وزیر مملکت پاکستان برائے اقلیتی امور و سیاست فرنانیان ملک محمدجعفر خاں کا بیان فرماتے ہیں :- پنجاب میں ختم نبوت کی ایجی ٹیشن میں سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ احمدیوں کو سیاسی لحاظ سے 31 ایک اقلیت کا درجہ دے دیا جائے.اس مطالبے کی تہ میں کوئی قابل ستائش ملکی یا قومی مفاد نہ تھا." یہ بات تو انسانی فہم ہی سے بالا ہے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے سے ختم نبوت کا کیا تعلق ہے بہر حال تحریک جو کچھ بھی چلی اور خوب چلی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مملکت کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا یه است که ا ملک صاحب موصوت نے کھلے لفظوں میں اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ محمول لفظی نزاع مشاور ختم نبوت میں احمدی اور غیر احمد عامر یامی من لخلق اتنا ہے اس لئے مخالف احمدیت علماء احمدیوں کو خارج از اسلام اور غیر مسلم اقلیت قرار دئے جانے کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں :.ے احرار کی دوڑ خی پالیسی ملاحظہ ہو کہ یہ اصحاب ان دنوں جہاں پاکستان میں احمدیوں کے اکابر بزرگوں بلکہ بانی سلسلہ پر کیچڑ اچھالنا " تحفظ ختم نبوت کا لازمی تقاضا سمجھتے تھے وہاں انہوں نے جامع مسجد دہلی میں یہ قرارداد پاس کی کہ ہندوستان کے تمام مذہبی گروہوں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بزرگوں کی عزت کرنا سیکھیں اور سکھائیں تاکہ ہمارا ملک دنیا میں اخلاقی بلندی کے ساتھ ترقی کر سکے یا آراؤں ہو.۲۸ مئی ۱۹۵۱ ءحت کالم ہے.احمدیہ تحریک مولفه ملک حمد جعفرخهای صاحب صد که ناشر سندھ ساگر اکادمی لاہور چوک مینار بیرون لوہاری دروازہ لاہور.جنوری ۱۹۵۸ء *
۳۰۱ ہمیں اس امر نے ہمیشہ حیران کیا ہے کہ جس ختم نبوت کے عقیدہ سے انکار کی بناء پر علماء جماعت احمدیہ کو اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں اس کی روشنی میں یہ علماء اپنی پوزیشن پر کیوں غور نہیں کرتے ہے اگر ختم نبوت سے یہ مراد ہے کہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور ہمارے نزدیک یہی مراد ہے تو جماعت احمدیہ اور غیر احمدی علماء جونند ولی سیج پر ایمان رکھتے ہیں دونوں ہی ختم نبوت کے منکر ہیں مسیح ابن مریم کے نبی ہوتے ہیں کوئی شبہ نہیں.اور اگر انکو رسول کریم کے بعد آتا ہے تونبی کریم خاتم النبیین نہیں ہو سکتے.احمدیوں کے نزدیک مسیح ابن مریم کو نہیں آتا بلکہ ان کے مثیل کو آنا تھا جو مرزا صاحب کی ذات میں آ گیا.ساتھ ہی ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ مشیل بھی نبی ہے بلکہ اپنی شان میں کسیح ناصری سے بڑھ کر ہے.اس طرح بنیا دی لحاظ سے ان دو فریقوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے صرف اتنا فرق ہے کہ ایک فریق ایک نبی کے آنے کا منتظر ہے اور دوسرے کا خیال ہے کہ نہی آچکا ہے لے ان لوگوں کو ختم نبوت اور اس کے تحفظ سے تحفظ ختم نبوت کا ادعا اور اس کی حقیقت مردان کی اعلی قاری کا زمانہ امیر شین احرار سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے مندرجہ ذیل بیان سے بخوبی لگ سکتا ہے جو انہوں نے 4 جولائی ۱۹۵۲ء کو ملتان کے ایک معرکہ اجتماع میں دیا :- یک ممتاز صاحب دولتانہ کو اس لئے اپنا لیڈر جانتا ہوں کہ ایک تو وہ صوبہ سلم لیگ کے صدر ہیں اور دوسرے وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیں.اگر دوستانہ صاحب کہہ دیں کہ مرنا غلام احمدقادیانی کی نبوت پر ایمان لے آؤ تو میں اس پر ایمان لے آؤں گا اور مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خلیفہ اسیح مان لوں گا نے سے ن احمدیہ تحریک ، خطا ہے لکھا ہے، شاہ جی نے فرمایا..یار لوگوں نے شریعت کو نہ ماننے کے لئے مجھے امیر شریعت بنا رکھا ہے ؟ اگر مورتات امیر ترین دانه در تنظیم فشار هو صاحب امینی ناشر مکن تعمیر حیات در جمعیت علمای اسلام چوک رنگ اصیل ایرانی سے اشتہار سید زین العابدین گیلانی سابق صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ ملتان ۲۰ جولائی ۱۹۵۲ - پاکستان پیپٹی پرنٹنگ ورکسی چو کہ شہیداں سلمانی شهر به
۲۰۲ یہ وہی " امیر شریعت تھے جنہوں نے قبل ازیں ختم نبوت کا نفرنس کراچی میں یہ فرمایا تھا کہ.اگر خواجہ غریب نواز اجمیری، سید عبد القادر جیلانی، امام ابو حنیفہ، امام بخاری ، امام مالک، " امام شافعی، ابن تیمیہ، غزالی حسن بصری ، نبوت کا دعوی کرتے تو کیا ہم انہیں نبی مان لیتے عملی دعوی کرتا کہ جیسے تلوار حق نے دی اور بیٹی نہی نے دی عثمان غنی دعوی کرتا ، فاروق اعظم دعوای کرتا، ابو بکر صدیق دعوای کرتا تو کیا بخاری اسے نہیں مان لیتا ہے آل مسلم پارٹیز کنونشن کے انعقاد کے بعد حکومت پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی اور کس طرح مل ملا قند اور بغاوت پر اکسایا بجانے لگا اس کا صرف ایک نمونہ کافی ہے.احرار کے مجاہد یکت مولوی محمد علی صاحب بجالندھری نے اگست ۱۹۵۲ء میں ملتان کا نفرنس میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :- اگر حکومت نے کراچی کی طرح سنگینوں کے سائے میں مرزائیت کی جبری تبلیغ کروانی ہے تو پھر ہماری تمہاری جنگ ہے ، اگر اظہارہ استبداد کے معنی بغاوت ہے.اگر مظلوم کی فریاد کے معنی بغاوت ہے.اگر بیزاری بیداد کے معنی بغاوت ہے.اگر ایک فطریت آزاد کے معنی بغاوت ہے تو پھر میں ایک باغی ہوں میرا مذہب بغاوت ہے " محمد ملک کے لئے نہیں ملک محمدؐ کے لئے ہے اور ایسے کروڑوں خطہ ارضی محمد کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جا سکتے ہیں لگے اپنی وزارتوں کے تحفظ کے لئے سیفٹی اور سیکیورٹی ایکٹ بنانے والو! اس دن کے متعلق بھی سوچ لو...جب حوض کوثر پر محمد کوثر کا پیالہ ہاتھ میں لئے سوال کریں گے تمہاری زار توں میں میری نبوت کیوں کہ رسوا ہوئی تو سوچ لو اس وقت تمہارا کیا جواب ہوگا ہے سے اه آزاد لاہور ۱۸ مئی ۱۹۵۱ به سے اسی سے ملنے جھیلتے الفاظ رئيس الاحرار موادی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی نے بھی استعمال فرمائے تھے فرق یہ تھا کہ انہوں نے محمد کی بجائے جواہر لال نہرو کا نام لیا اور فرمایا " دس ہزار جینا اور شوکت اور ظافر خواہ مرلانی شرو کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جا سکتے ہیں" چمنستان طلت از مولانا ظفر علی خان - ٹا اثر مکتبہ کا رتان کچہری روڈ لاہور طبون ۴۱۹۲۳) سے ہفت روزہ حکومت کراچی عقیدہ ختم نبوت کا علمبر داده ام را گست ۱۹۵۲ م کالم ۴۰۳*
۲۰۳ یہ شعلہ نوائی جلد ہی رنگ لائی اور عوام میں اپنے سلمان محبت وطن حلقوں میں تشویش و اضطراب عمرانوں کے خلاف اتش انتقام ملنے لگی میں عورت اور سیاسی رد عمل ہونے لگا اور انتشار اور بدامنی اور بے اطمینانی کا مہیب طوفان اٹھتا دکھائی دینے لگا تو تمام محب وطن مسلمان حلقوں میں تشویش و اضطراب کی زیر است پر پیدا ہوگئی حتی کہ وہ طبقہ بھی جو اب تک خاموش کھڑا اس معاملہ کو ایک دینی مسئلہ مجھے بیٹھا تھا، احتجاج کرنے لگا.ان دنوں اس تحریک کا اصل مرکز مان تھا جس کے ہیں صحافیوں نے تحریک ختم نبوت کا ملتان موجودہ دورہ کے عنوان سے حسب ذیل اشتہار شائع کیا.کے.تحریک ختم نبوت کی ابتداء جن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر کی گئی اس نے بلا امتیاز فرقہ پر ایک مسلمان کا دل و د بارغ اپنی طرف متوقہ کر لیا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ یہ مقدس تحریک جس موجودہ دور سے گزر رہی ہے اور اس سے پاکستانی عوام، پاکستان کی سالمیت، سکون اور امن پر چو ہولناک جملے ہو رہے ہیں اُس نے ہر ایک ذی شعور مسلمان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بانیان تحریک کون ہیں اور اس تحریک سے ان کا اصل مقصد کیا ہے؟ ہم صحافیان ملتان نے دیگر صوبہ جات مملکت خدا داد پاکستان کے مسلمانوں کے خیالات کا مطالعہ بھی کیا ہے ہم نے حکومت کے اعلانات، بیانات اور انسدادی تدابیر پر بھی غور کیا ہے ہم نے اگی خیالات پر بھی دھیان دیا ہے جو دیگر ممالک کی صحافت نے اس تحریک کے متعلق ظاہر کئے ہیں.ہم نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ سمجھدار طبقہ اس تحریک کی موجودہ انتشار انگیز هر در سال شکل کو سخت نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ مسلم عوام کا ایمان تازہ ، ارا دئے ستقل اور قدم مضبوط ہیں اور وہ ہر ایسی تحریک سے دیوانہ وار منسلک ہو جاتے ہیں جو قوم، ملک اور مذہب کے نام پر چلائی جائے لیکن اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ ان کی یہ قربانیاں ملک و ملت کے لئے مفید بھی ہیں یا نہیں ؟ اگر تحریک کے علمہ دار پاکستان دشمنی، قوم کی تباہی اور دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے درپے ہوں تو خدایان ناموس رسول کا اولین فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے دشمنوں کے دھوکہ میں نہ آئیں اور ہم سجھتے ہیں کہ ایسے وقت میں قومی مفاد کے تحفظ کی ذمہ داری جہاں گورنمنٹ پر عائد ہوتی
۲۰۴ ہے وہاں لکی صحافت اور عوام پر بھی اسی طرح اس ذمہ داری کا بوجھ پڑتا ہے.ہم صحافیان ملتان پورے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ تحریک کو موجودہ انتہائی خطر ناک اور غیر آئینی رنگ دیتے ہیں یقیناً دشمنان پاکستان کا ہاتھ ہے اور وہ اس مقدس نعرہ کی آلے کر ملک کی خوشحالی و امن و سکون کو برباد کرنا چاہتے ہیں.لہذا ہم صحافیان ملتان اپنا قومی فرض سمجھتے ہیں کہ اسلامیان پاکستان اور بالخصوص اہالیان ملتان کو تحریک کے اصل اپنی نظر سے آگاہ کرتے ہوئے ان پر یہ واضح کر دیں کہ تحریک کی موجودہ شکل کو تحریک ختم نبوت کا نام دینا ہی اس مقدسی میں نام کی توہین ہے لہذا وہ اسے تحریک ختم نبوت کا نام نہ وہیں بلکہ اسے دشمنان پاکستان کے ایجنٹوں کی تحریک سمجھیں.(شیخ مظفر الدین ایڈیٹر روز نامہ زمیندار سدھار (چوہدری محمد ظفر محزون ایڈیٹر روزنه کار زیاده رصاحبزادہ ڈاکٹر عبدالستار حامد ایڈیٹر ہفت روزہ کلیم (شیخ) عاشق حسین حسینی ایڈیٹر روشن چراغ ؟ (مولانا) منظور احمد اختر ایڈیٹر الجمیلان ، (مسٹر) رسول بخش ارشد ملتانی ایڈیٹر ہفت روزہ صدائے حق (مسٹر) امان الله غازی ایڈیٹر جدت (قاری وحید الزمان رزمی ایڈیٹر ہفت روزہ "بیوپاری ہے مولانا الحاج محبوب احمد اویسی ایڈیٹر ہفت روزہ "محسن و (مولانا) خدا بخش اویسی ایڈیٹر سنت اوزه مقبول (مسٹر) اختر رسول ایڈیٹر ہفت روزہ " طوفان ، شیخ غلام علی ظفر حیدری ایڈیٹر ہ الکائنات (شیخ علاؤ الدین اختر ایڈیٹر زمیندار سدھار (خان) محمد اکرم خان ایڈیٹر روزنامه "شمس" به (شیخ متحد دین ایڈیٹر سہ روزہ نوائے عامہ : (خواجہ عبد الکریم کا صرف ایڈیٹر ہفت روزه ملتان کی انسیکل به (چوہدری) نظر حسین نظر ایڈیٹر ہفت روزہ زلزلہ ، (ڈاکٹر) احتشام الحق ایڈیٹر صو میں میتھی ، بیگم شمیم حسینی مدیره شمیم ، (ڈاکٹر حکیم فاروق احمد و کسی جرنلسٹ (خادم کا تب) یونین پریس ملتان شهر " اے لاہور لاہور جہاں پہلی مسلم پارٹیز کنونیشین منعقد ہوئی اور جہاں سے آزاد اور زمیندار وغیرہ اخبارات شورش کو ہوا دینے میں سرگرم تھے سول اینڈ ملٹری گزٹ ، امروز اور نوائے وقت جیسے وقیع اخبارات نے ڈٹ کر اس امن شکن تحریک کے خلاف آواز بلند کی.چنانچہ ے اصل اشتہار خلافت لائبریری میں محفوظ ہے ؟
۲۰۵ روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۲۳ جولائی ۱۹۵۲ء کے الیشوع میں مسلمانوں کی فرقہ وارانہ کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:.اہم مسلمانوں کے پڑھے لکھے افراد سے یہ پوچھتے ہیں کہ آخر وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کو کیوں محسوس نہیں کرتے ؟ اور اپنے ان پڑھ اور سادہ لوح بھائیوں کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ اگر مسلمانوں میں یہ باہمی مناقشت اسی طرح جاری رہی تو مسلمانوں کا یہ نیا ملک پاکستان خدانخواستہ بالکل تباہ ہو جائے گا.کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ سپین میں مسلمانوں کی تباہی کا باعث ان کے باہمی جھگ ہے ہی تھے ؟ اور یہ ان جھگڑوں ہی کا نتیجہ ہے کہ آج سپین میں ایک مسلمان بھی نہیں ملتا حالانکہ مسلمانوں نے صدیوں اس ملک پر حکومت کی ہے.خلافت بغداد کی بربادی بھی مسلمانوں کے ان باہمی مناقشات کے باعث ہوئی اور آپ کے اپنے زمانہ میں سلطنت عثمانیہ محض اس وجہ سے پارہ پارہ ہوئی کہ مسلمان مسلمان کا دشمن تھا سپین ، بغداد اور ترکان عثمانی کی سلطنتیں اپنے اپنے زمانہ میں دنیا کی طاقتور ترین سلطنتوں میں شمار ہوتی تھیں اور ہم عصر یورپ ان کے دبدبہ اور ہیت سے کا پتا تھا مگر آج ان عظیم الشان سلطنتوں کے صرف کھنڈر باقی رہ گئے ہیں مسلمانوں نے آپس میں لڑ بھڑ کر اپنے ہاتھوں سے ان سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی.وطن عزیز پاکستان سے محبت اور عقیدت بجا ہنگر ان سلطنتوں کے مقابلہ پر پاکستان کی حیثیت ہی کیا ہے.اس بچہ نے تو ابھی گھٹنوں پر چلنا بھی نہیں سیکھا.اور ہم خود اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹنے کے درپتے ہیں.کیا وطن سے محبت اور عقیدت کا یہ تقاضا نہیں کہ پڑھے لکھے لوگ مسلمان عوام کو اس مہیب خطرہ سے آگاہ کریں.ابھی پاکستان میں قومیت یار بیثیت کا شعور کیر نا پید ہے ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت ، اخبارات ، سیاسی کارکن اور پڑھے لکھے لوگ عوام میں ملکیت اور قومیت کا شعور پیدا کرتے اور ہر شخص میں یہ احساس پیدا کیا جاتا کہ وہ مسلمان اور پاکستانی ہے مگر ہماری قوم کی جھگڑوں میں الجھ گئی ہے؟ اور ان جھگڑوں کا کیا انجام ہوگا؟ جن خود غرضوں کے منہ کو لہو لگ چکا ہے.کیا وہ اسی پر اکتفاء کریں گے ؟ جن کی دکانی مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کی وجہ سے چلتی ہے.کیا وہ شیعہ سنی کو ایک دوسرے سے لڑانے کے بعد یہ دکان بند کر دیں گئے ؟ ہر گز نہیں آج شیعہ سنی جھگڑ رہے کل یہی لوگ منیوں کو وہابیوں سے لڑائیں گے.پھر اہل حدیث اور اہل قرآن
میں جنگ ہوگی.اور اگر یہی لیل و ہار رہے تو کچھ عرصہ بعد پاکستان میں شیعہ شستی ، وہابی ، چکڑالوی بریلوی، دیوبندی تو بہت بل بجائیں گے مگر سیدھے سادے مسلمان اور پاکستانی چراغ لے کر ڈھونڈے سے بھینی نہ مل سکیں گے.شکر ہے کہ ارباب اقتدار میں سے دو اصحاب کو اللہ نے توفیق دی کہ وہ اس مسئلہ پر لب کشائی کریں.میاں ممتاز دولتانہ نے پسرور میں کہا ہے کہ :.فرقہ وارانہ نفرت پھیلانا پاکستان کے وجود کے لئے تباہ کن ثابت ہو گا.جب بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالا جارہا تھا تو کسی نے مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں کوئی تمیز روانہ دیکھی تھی.اس کے برعکس بھی انشائیہ ستم بنے محض اس لئے کہ وہ مسلمان تھے کیا خان عبد القیوم وزیر اعلیٰ سر بعد نے ماہرہ میں یہ کہا ہے کہ : " ماضی میں مسلمانوں کی سلطنتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ دوسروں نے ان سلمان سلطنتوں میں انتشار کا بیج بو دیا مسلمانان پاکستان کو ان تاریخی واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہیئے اور اندرونی انتشار پیدا کر کے اپنی آزادی خطرے میں نہ ڈالنی چاہئیے نئی اور پرانی سامراجی طاقتیں پاکستان کے وجود سے سخت نا خوش ہیں.وہ ہر مکن ذریعہ سے اسے ختم کرنا چاہتی ہیں بنگال میں زبان کا جھگڑا اسی قسم کا ایک بارود تھا.اب پنجاب؟ میں اور دوسری جگہ حد درجہ کھک سے اُڑ جانے والے بارودی جھگڑے کھڑے کر دئے گئے ہیں.خدا کا شکر ہے کہ ارباب اقتدار اس خطرے سے آگاہ ہیں جو ملک و ملت کو درویشی ہے.پھر وہ اس کا استیصال کیوں نہیں کرتے ؟ اس معاملہ میں دوڑ فی یا نیم دلانہ پالیسی ملک و ملت کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے.ارباب اقتدار کا فرض ہے کہ حکومت کی مشینری کو اس خطرہ کے استیصال کے لئے استعمال کریں تبلیغ اور تشہیر کے بے شمار ذرائع حکومت کے پاس ہیں یہ ذرائع اس کام آنے چاہئیں کہ مسلمان عوام کو یہ بتایا جائے کہ ماضی میں دنیا کے ہر خطہ میں مسلمانوں کے باہمی جھگڑے نے ہی ان کی تباہی و بربادی کا باعث بنے.اب پاکستان کو بھی (جیسا کہ قیوم صاحب اور دولتانہ منا
۲۰۷ دونوں نے فرمایا ہے ، یہی خطرہ دریشیں ہے مسلمان عوام کو ملک و ریخت کے ان دشمنوں سے خبر دار رہنا چاہئے جو مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کو برباد کرنا چاہتے ہیں.تبلیغ و تشہیر کے ذرائع کے علاوہ قانون کی قوت بھی حکومت کو حاصل ہے.آخر وہ قوت جائز اؤ نیک مقصد کے لئے کیوں استعمال نہیں کی جاتی ؟ دولتانہ صاحب نے بعض سرگرمیوں کے متعلق صاف لفظوں ہمیں یہ کہا ہے کہ وہ پاکستان کے وجود کے لئے تباہ کن ہیں.اور قیوم صاحب نے صرف یہی نہیں یہ بھی اشارہ کر دیا ہے کہ بعض نئی اور پرانی سامراجی طاقتیں پاکستان کے وجود پر سخت ناخوش ہیں اور ہر مکن ذریعہ سے اسے ختم کرنا چاہتی ہیں اور یہ خطرناک سرگرمیاں اسی نا پاک ہم کے ہتھیار ہیں.اگر یہ بات ہے تو ارباب اقتدار کے اختیارات ملک و ملت کے ان بدترین دشمنوں کے خلاف حرکت ہیں کیوں نہیں آتے جو ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جو خود ارباب اقتدار کے قول کے مطابق ملک کے لئے تباہ کن ہیں؟ حیرت ہے کہ جائز سیاسی اختلاف کا اظہار کرنے پر تو زبان کٹتی ہو مگر ان عناصر کو جو ملک کو برباد کر دینے والی سرگرمیوں میں مصروف ہوں گھلی چھوٹتی ہو.اس کی وجہ دوڑ بھی ہے یا تیم ولی اور کمزوری ؟ خدا را اب بھی آنکھیں کھولئے ورنہ جب پانی سر سے گذر گیا تو پھر جاگنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا ملک اپنی زندگی کے ابتدائی چند سالوں بعد ہی تباہی کے موڑ پر پہنچ گیا ہے اور اس کے ذمہ دار ہمیں لوگ ہیں.یہ آگ ہم نے لگائی ہے اب اگر نیک نیتی کے ساتھ ملک کو بربادی سے بچانا مقصود ہے تو ہم سب کا صرف حکومت کا نہیں.حکومت، لیڈروں، اخبارات، علمائے کرام، پڑھے لکھے افراد سب کا فرض ہے کہ وہ اس آگ کو بجھانے کی کوشش کریں ورنہ یاد رکھئے شیعہ ،اشتی ، وہابی کسی کا گھر محفوظ نہیں کئے جو ڈوبی یہ ناؤ تو ڈولو گے سارے“ روز نامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور نے اینٹی گیشن سے متاثر ہو کر حسب ذیل ادار یہ لکھا.عین اس وقت جبکہ مسئلہ کشمیر کے متعلق بات چیت انتہائی نازک مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے ظفر اللہ کے خلاف موجودہ ایجی ٹیشن اس یقینی کیفیت کا پتہ دیتی ہے کہ جب کہ کشمیر جل رہا ہے علماء شہری
۲۰۸ ا بجارہے ہیں.دو ہفتہ کے اندر اندر جینیوا میں کشمیر کے متعلق آخری بات چیت جس پر پاکستان کی موت و حیات کا دارومدار ہے شروع ہو جائے گی لیکن اسلام کے ان مقدس پاسبانوں نے اسلام خطرے میں ہے" کا نعرہ لگا کہ اس شخص کی فوری برطرفی کا مطالبہ شروع کر دیا ہے جو پاکستان کی زندگی اور موت کی لڑائی لڑنے کے لئے جارہا ہے.اگر احرار شور و غوغا کریں تو یہ بات بڑی حد تک سمجھ میں آنے والی ہو سکتی ہے کہ وہ عین اس موقعہ پر جبکہ مسئلہ کشمیر اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے اور دوٹوک فیصلہ کا وقت آچکا ہے.اس مسئلہ سے لوگوں کی توبہ کو ہٹا کر اپنے آقاؤں کا نمک حلال کر رہے ہیں لیکن جب بعض علماء بھی دشمن کا کردار ادا کرنے لگیں تو ان کی سمجھ کی کمی پر ماتم کناں ہونے کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے ؟ بات چیت کے اس خطر ناک مرحلہ پر ملک کو صرف ایک امر کا تہیہ کر لینا چاہیئے تھا یعنی ہر قیمت پر کشمیریوں سے انصاف کرانا لیکن جبکہ کشمیر کا معامل تیزی سے بگڑتا جارہا ہے عوام کی طرف سے جو چند روز قبل گلے پھاڑ پھاڑ کر اس جنت ارضی کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کا اعلان کیا کرتے تھے اب اس کے متعلق ایک آواز بھی نہیں اُٹھتی.کیا آپ بھی ملا کے نشہ آور نعرے اسلام خطرے میں ہے“ کا شکریہ ادانہ کیا جائے؟ قوم کو اس زیر دست غریب پر جو نہ ہب کے نام پر اسلام اور پاکستان دونوں سے کھیلا گیا ہے ہوش میں آجانا چاہیے.اب یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ جہاں تک ظفر اللہ کے خلاف اینچی نشین کے پیچھے اندرونی طاقتوں کا سوال ہے سب کچھ ذاتی اغراض اور خواہشات کو بروئے کارلانے کے لئے کیا جارہا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی یک جہتی اور سلامتی کے لئے ذاتی اغراض کو پس پشت ڈال دیں ہمیں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ اگر مذہب کا لبادہ اوڑھ کر قائد اعظم کا ایک رفیق کار بھی محض ذاتی مقاصد کے لئے پاکستان کی ایک جہتی قائم رکھنے کے اصول کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کو رہا ہے تو پھر پاکستان کا خدا ہی حافظ ہے.ایک سے زائد بار ہم واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم قادیانیوں کی ختم نبوت کی تاویل کو قبول نہیں کرتے تاہم ایک سرکاری ملازم کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لئے اس کے مذہبی خیالات کو بیچ میں لانے کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں مملکت کے کسی وزیر یا افسر کو پرکھنے کی واحد کسوٹی
٢٠٩ یہ ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ کیا اس کے ذریعہ ملک کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں اور اس کا وجود بلک کے لئے سود مند ہے یا کہ نہیں ؟ اس میزان پر جب ہم چوہدری ظفر اللہ خان کو جانچتے ہیں تو ملک ہیں اس کے متعلق کو مختلف رائیں نہیں ہو سکتیں کہ حیثیت وزیر خارجہ کے چوہدری صاحب نے ایک عظیم الشان کام سر انجام دیا ہے اور اپنی ٹھوس خدمت کی وجہ سے ان کا شمار معمار این پاکستان کی صف اولین میں ہونے کے قابل ہے.ہم قوم کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جب فضیلت مآب غلام محمد کو گورنر جنرل کا عہدہ تفویض کیا گیا اور آپ کی جگہ ممالک اسلامی کی اقتصادی کانفرنس کی صدارت کا مسئلہ پیش ہوا تو ہرمسلم ملک نے بلا استثناء اس اعزاز کے لئے چوہدری ظفر اللہ خان کا نام ہی تجویز کیا.اکیلا ہی امر اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ وزیر خارجہ کے خلاف پراپیگنڈا کی جو عمارت کھڑی کی جارہی ہے اس کی حقیقت کیا ہے شاید لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ ظفر اللہ خان نے کبھی کسی عہدے کے لئے درخواست نہیں کی.اور دو موقعوں پر جب پاکستان کی نیابت کا سوال اٹھا قائد اعظم کی نظر آپ پر ہی پڑی.باؤنڈری کمیشن کے سامنے پاکستان کی پیروی کرنے کے موقعہ پر اور بعد از ان پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کرنے کے وقت دونوں مواقع پر متحدہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے مسلم لیڈر کی معرفت آپ سے ان اہم ذمہ داریوں کو اٹھانے کی درخواست کی گئی.یہ لیڈر جن کا نام ہم بعض مخصوص وجوہات کی وجہ سے ظاہر نہیں کر سکتے ابھی تک بھارت میں مقیم ہیں.باؤنڈری کمیشن کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کرنے کے معاملہ میں بھی آپ کو ہدیت سلامت بنایا جاتا ہے اور کیا جاتا ہے کہ آپ ہی گورداسپور کو پاکستان کے ہاتھ سے کھو دینے کے ذمہ دار ہیں.ایک معمولی آدمی بھی اگر ذراسی سمجھ بوجھ سے کام لے تو سمجھ سکتا ہے کہ اگر اس الزام میں رائی برابر بھی صداقت ہوتی تو قائد اعظم آپ کو وزارت خارجہ جیسے اہم عہدہ کے لئے کسی صورت میں بھی نہ چن سکتے تھے.یہ ایک کھلا راز ہے کہ ظفر اللہ خان نے اس عہدہ کو قبول کرنے میں بڑی پہچکچاہٹ ظاہر کی.قائد اعظم کی پیشکش کے جواب میں آپ نے کہا کہ اگر آپ کو میری قابلیت اور دیانت و امانت پر پورا اعتماد ہے تو میں وزارت کے علاوہ کسی اور صورت میں پاکستان کی خدمت کرنے کو تیار ہوں.اس پر قائد اعظم نے یہ تاریخی جواب دیا " آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے مجھ سے ایسے جذبات کا اظہار کیا ہے.مجھے پتہ ہے کہ آپ عہدوں کے بھوکے نہیں ہیں ؟
قائد اعظم کا یہ جواب چوہدری صاحب کی قابلیت اور راستبازی کا ایک روشن ثبوت ہے.یہ امریکی یا دیکھنے کے قابل ہے کہ چوہدری صاحب کے مذہبی معتقدات کے باوجود قائد اعظم آپ سکے ہاتھوں پاکستان کے مفادات کو پوری طرح محفوظ سمجھتے تھے.اس پاکستان میں جس کا تصور قائد اعظم کے ذہن میں تھا عوام کے خادموں کو ان کی قابلیت اور دیانت وامانت کے پیمانہ سے ناپنا چاہیئے نہ کہ ان کے مذہبی معتقدات کی بناء پر.قائد اعظم کے تصور میں ایسے پاکستان کا نقشہ تھا جس میں نہ مسلمان ہو گا، نہ ہندو نہ عیسائی مذہبی اعتقاد کی بناء پر نہیں بلکہ پاکستان کے شہر میں ہونے کی بناء الحاج خواجہ ناظم الدین کو جن کے کندھوں پر قائد اعظم کا بوجھ آپڑا ہے قائد اعظم کے مقدس ترکہ پاکستان کی جیسے علماء ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں پوری حفاظت کرنی چاہئیے.حالات کی موجودہ رفتار سے پاکستان کی نوزائیدہ مملکت میں ابتری پیدا ہونے کا سخت خطرہ ہے.علماء جو پاکستان کو اپنے خود ساختہ مذہبی اصولوں کی بناء پر اپنی جائداد سمجھتے ہیں موجودہ ایکی نیشن کو ملک میں اپنی قیادت قائم کرنے کا ایک ذریعہ بنا رہے ہیں.ان کا اصل مقصد طاقت حاصل کرنا ہے لیکن انتخابات کے سیدھے راستہ سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اب وہ مذہبی عصبیت کے چور دروازہ سے داخل ہو کر اپنی اغراض حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ان کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ مملکت نوزائیدہ پاکستان کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا.ہمیں یقین ہے کہ مرکزی کا بینہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ وہ مضاء جو ظفر اللہ خان کو ان کے عہدے سے ہٹانے سے پیدا ہو گا اس کا پیر کرنا ناممکن ہو گا.چند روز قبل ان کے استعفے اے قائد اعظم کا اہل امریکہ کے نام نشری پیغام (فروری ۶۱۹۴۸ ) :- "پاکستان ایک ایسی بذر سبی مملکت نہیں ہو گا جس میں مذہبی پیشوا با مور من اللہ کے طور پر حکومت کریں گے.ہمارے ہاں بہت سے غیر مسلم ہیں.ہند و عیسائی اور پارسی.لیکن وہ سب پاکستانی ہیں.وہ بھی تمام دوسرے شہریوں کی طرح یکساں حقوق اور مراعات سے بہرہ ور ہوں گے اور پاکستان کے معاملات میں کما حقہ کردار ادا کریں گے؟ دورہ پاکستان مصنفہ چوہدری محمد علی را که ناشر مکتبہ کارواں کچہری روڈ لاہور.طبع دوم ۱۹۷۲ ۶) +
کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو روشن خیال عوام کو سخت دھنگا پہنچا تھا.ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے موجودہ کشتی بان خواجہ ناظم الدین جنہوں نے دلیر قیادت کی ایک مثال قائم کر دی ہے اور قوم کی زندگی ہیں جن طوفانوں سے انہیں سابقہ پڑا ان کا انہوں نے دلیری سے مقابلہ کیا حالات کی نزاکت کو پوری طرح محسوس کریں گے اور ملک کی ایسی دلیرانہ قیادت کریں گے جس کا حالات تقاضا کر رہے ہیں.وزیر خارجہ کو جبکہ وہ اس آخری نازک مرحلہ پر پاکستان کی نیابت کرنے جنیوا تشریف لے جا رہے ہیں ملک کے واحد ترجمان کی حیثیت سے قوم کا پورا اعتماد حاصل ہونا چاہیئے.دشمن کے جاسوسوں نے ایسے آدمی کے عزت و وقار اور اقتدار کو کھو بھائی کرنے کی کوشش میں جو ملک کی جنگ لڑنے باہر جا رہا ہے کشمیر کے معاملہ پر بھر پور ضرب لگائی ہے.اب یہ پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس نقصان کی تلافی ایک ایسے جرات مندانہ بیان سے کرے جس میں وزیر خارجہ کی قابلیت دیانت و امانت اور نمائندہ حیثیت پر پورا اعتماد ظاہر کیا گیا ہو.لے (ترجمہ) اسی طرح سالا نیشنل گارڈ مسلم لیگ نے امروز کے ایک حقیقت افروز مضمون کی بناء پر حسب ذیل اشتہار دیا :- " بسم اللہ الرحمن الرحيم محمدة وتصلى على رسوله الكريم پاکستان کے دوست نما دشمنوں کو انتباہ کراچی میں احرار نے یہ پوسٹر لگا یا کہ ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ سے ہٹا دو اس کی بابت سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں ہٹایا جائے ؟ کیا اس لئے کہ چوہدری صاحب کو ہمارے محبوب رہنما بانی پاکستان حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی دوربین نگاہ نے وزارت خارجہ کے لئے منتخب کیا اور حضرت قائد ملت لیاقت علی خاں نے ان کے کام کی تعریف کی.حضرت قائد پاکستان الحاج خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم و صدر مسلم لیگ اور آپ کے رفقاء کار قائدین نے بار بار ان پر اعتماد کا اظہار فرمایا.تمام اسلامی ممالک کے مدتیرین نے ان کی اسلامی خدمات کی تعریف کی اور آج بھی اسلام اور مسلمانوں کے ہمدردو نمائندوں نے انہیں اپنا مشیر و معاون بنا رکھا ہے.نے سول اینڈ ھری گزٹ " لاہور ۱۲ اگست ۱۹۵۷ء کو الہ روزنامه افضل لا ہو کر اگست ۱۹۵۷ مث
یا اس لئے کہ ؟ ۲۱۲ اس فتنہ کو کھڑا کرنے والے اور ہوا دینے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے شروع سے ہی ہمارے ان ٹیوب رہنماؤں پر اعتماد نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے محبوب وطن پاکستان کی تعمیر میں حصہ لیا بلکہ شدید مخالفت اور پاکستان کو پلیدستان اور بیوقوفوں کی جنت بتایا اور آج بھی ان کی موجودہ روش سے یہی ظاہر ہے کہ وہ فرقہ وارانہ کشمکش پھیلا کر ہمارے زریں اصول اتحاد يقين محكم و برباد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط ہوں.وہ اپنی روش سے حضرت قائد اعظم اور قائد ملت کی ارواح کو اذیت پہنچارہے ہیں.ہم ان کو اپنے محبوب رہبر ملت جناب الحاج خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان و صدر مسلم لیگ کا ارشاد پیش کرکے تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ انتشار پسندی اور فرقہ پرستی سے باز آجائیں.اپنے بے اعتمادی کے مرض کا علاج کریں اور قوم کا شیرازہ منتشر کر کے غرقابی کی طرف نہ دھکیلیں ورنہ یہ یاد رکھیں کہ قوم ان باتوں کو ہر گز برداشت نہ کرے گی ہوشیار باش رہبر ملت وزیر اعظم کا ارشاد مالک کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں...جو ہماری آزادی ہے....بالواسطہ حملہ کر رہے ہیں....تا کہ ملک کے لیڈروں اور حکومت کے ارکان کے متعلق عوام کے دلوں میں سے اعتمادی پیدا ہو جائے.یہ...صوبہ پرستی، فرقہ پرستی اور اسی قسم کے دوسرے امور چھیڑ کر پاکستانیوں کے درمیان نفاق و نفرت پیدا کرنے ہیں مصروف ہیں.تمام مسلم لیگی حضرات....اور ہر وفادار پاکستانی کا فرض ہے کہ ان شر انگیز سر گر میوں کی مخالفت کرے.انہیں رسوا کرنے میں کوئی کسر باقی نہ اُٹھا رکھے یہ وہی ہیں جو تقسیم سے پیشتر پاکستان کے عقیدے ہی کے خلاف تھے.اگر چہ ان میں سے بعضی آج پاکستان اور اسلام کی حمایت کا دعوی کر رہے ہیں لیکن ہم ان پر ہرگز اعتبار نہیں کر سکتے (امروزه در اکتوبر ۱۹۵۲) اما به المشتهر - سالار نیشنل گارڈ مسلم لیگ لاہور) (ناظر پولیس کی پانچی)
۲۱۳ گوجرانوالہ گوجرانوالہ بھی احراری تحریک کا ایک مضبوط مرکز بنا ہو ا تھا.اس شہر کے اخبار " لاحول نے اپنی ماہ ستمبر ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں احراری ایجی ٹیشن کو ملک و ملت کے مفاد کے لئے سخت مضرت رساں قرار دیتے ہوئے لکھا:.گذشتہ تین ماہ حکومتِ عالیہ پاکستان کی آزمائش کے دن تھے.احرار جو کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو پاکستان تو کیا اس کی پ بھی میسر نہ آئے گی ختم نبوت کی آڑ میں ملک میں شور و شر پھیلانے اور کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اور حکومت یہ جانتی تھی کہ ان کے تار دہلی سے مولوی حبیب الرحمنی ہلا رہے ہیں جو پنڈت نہرو کے معتمد خاص بنے ہوئے ہیں.اور حکومت یہ بھی جانتی تھی کہ احرار جو کام کرتے ہیں قوم یا اسلام کی خاطر نہیں کرتے بلکہ اپنے ذاتی وقار اور بگڑی ہوئی شہرت کو بنانے کے لئے کرتے ہیں.چنانچہ مسئلہ شہید گنج جو خالص قومی اور اسلامی مسئلہ تھا اور مسلمانوں کی موت وحیات کا سوال تھا اس کو احراری لیڈروں نے اس لئے ادھورا چھوڑ دیا اور عین موقعہ پر اس سے الگ ہو گئے کہ اگر یہ کامیاب ہو گیا تو نام خدائے ملت حضرت مولانا ظفر علی خان کا ہو گا جو اُس وقت اس تحریک کے قائد تھے.چنانچہ ایک چوٹی کے احراری لیڈر کے ایک خط کا عکس بھی اخبار زمیندار میں شائع ہوا تھا جس میں خود ساختہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو اس تحریک سے علیحدہ رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا اور صاف لکھا تھا کہ کام تو احرار کریں گے لیکن نام مولانا ظفر علی خاں کا ہو جائے گا.انا للہ وانا الیہ راجعون.یہ اس پارٹی کے لیڈروں کا کردار ہے کہ مسجد شہید گنجے ایسے اہم مسئلہ کو جس پر لاہور کے مسلمانوں نے اپنی جانیں نچھاور کر دی تھیں اور یگی دروازہ کے باہر ان کے خون کی ندیاں بہر گئی نقیں محض اس لئے ادھورا چھوڑ دیا کہ کام تو احرار کریں گے نام دوسروں کا ہو جائیںگا.فاعتبروا يا اولى الابصار اس کے بعد اس پارٹی نے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے لئے جتنے بھی ہتھکنڈے اختیار کئے وہ ناکام رہے شہید گنی کے مسئلہ پر قوم کے ساتھ غداری کرنے والوں کو مسلمانی کبھی بھی معاف نہیں کر سکتے چاہے وہ فرشتہ بن کر بھی آجائیں.چنانچہ جب بھی اعتمار کوئی نئی تحریک ے ملاحظہ ہو کتاب رئیس الاحرار از عزیز الرحمن جامعی لدھیانوی ؟
۲۱۴ شروع کرتے تھے تو اخبار زمیندار لکھا کرتا تھا کہ 8 نیا بحال لائے پرانے شکاری روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر نمازی اپنے جوتوں سے رہیں ہوشیار لیکن جوئندہ یابندہ آخر وہ ایک ایسا مسئلہ تلاش کر ہی لائے جس سے وہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی بحا صل کر لیں اور دہلی کے مخالف پاکستانی آقاؤں کو بھی خوش کر لیں اور یہ دونوں مقاصد اس پارٹی نے قریب قریب حاصل کر لئے ہیں.وقار تو خیر چند روزہ ہی ہے کیونکہ جونہی ان کا ساتھ دینے والوں پر یہ بھید کھل گیا کہ احرار کا دوسرا مقصد حاصل ہو چکا ہے اور وہ ملک میں بدامنی اور انتشار اور عوام اور حکومت میں بدظنی ، غلط فہمی اور ایک حد تک نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو ان کے دہلوی آقاؤں کے مدنظر تھا، تو وہ ان سے الگ ہو جائیں گے.ملک بچاروں طرف سے دشمنوں سے گھرا ہوا ہے.بھارت نے پاکستان کو گلے سے پکڑ رکھا ہے اور کشمیر ہضم کرنے کے لئے سرحدوں پر ساری فوج جمع کئے بیٹھا ہے اور احرار حکومت کے خدات عوام میں نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور عوام سمجھنے لگے ہیں کہ حکومت دیدہ و دانستہ ایک جماعت کا ساتھ دے رہی ہے اس کی پشت پناہی کر رہی ہے اور اسے کشتنی و گردن زدنی قرار دیتے ہیں بہت بہت و لعل کر رہی ہے، جو مسئلہ ختم نبوت میں ان کے ہم خیال نہیں اور اپنی تبلیغ کے وسیلے وسائل اختیار کر رہی ہے جس سے مسلمان اور خود ساختہ امیر شریعت کے ساتھی قطعا غافل ہیں.ان کے پالس دلائل کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے اور اب وہ مجبور ہو کہ دھینگا مشتی پر اتر آئے ہیں اور حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس جماعت کا حقہ پانی بند کر دے.ان پر کا روبار اور ملازمت کے دروازے بند کر دے اور پھر ان کو دیس نکالا دے.لاحول ولا قوۃ.ایک مٹھی بھر جماعت سے سات کروڑ پاکستانی مسلمانوں کو خائف کرنے اور اس جماعت کی ناکہ بندی کرتے ہیں احرار پوری طاقت خرچ کر رہے ہیں حالانکہ صاف اور سیدھی سی بات ہے.اگر یہ جماعت باطل پر ہے تو کسمپرسی سے اپنی موت آپ مر جائے گی اسے اتنی اہمیت دینے کی کیا ضرورت ہے.اور اگر وہ راستی پر ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کی ترقی ، غلیہ اور قیام سلطنت کے منصوبہ کو نہیں روک
۲۱۵ سکتی.معلوم نہیں احرار کو پاکستان کی وفاداری کا بار بار اظہار کرنے کا مروڑ کب سے اٹھا ہے بانی پاکستان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ للہ تعالیٰ ان کی روح پر لاکھ لاکھ رحمتیں نازل فرمائے، ان کے متعلق احرار جو کچھ کہا کرتے تھے فحاشی کی ڈکشنری بھی اس سے شرمسار ہو جاتی تھی.اور ابھی چند ہی روز قبل کی بات ہے سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا میں قائد اعظم ہوں جاؤ جو کچھ میرا کر سکتے ہو کر لو یا اس پر بھی مسلمان ان کی پاکستان ہمدردی کے قائل ہو جائیں تو یہ ان کی بدقسمتی ہے.جب بھی ملک پر کوئی مصیبت آئے گی احرار کے ہاتھوں آئے گی.نوٹ کر لیں.مسئلہ ختم نبوت کی نوعیت اور اہمیت سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں لیکن اس کی باگ ڈور ایک ایسی پارٹی کے ہاتھ میں دے دینا جو اپنے وقار کے لئے سرگرم عمل ہو ترین دانش و عقلمندی نہیں مسلمانوں کو ٹھنڈے دل سے اس پر غور کرنا چاہئیے اور حکومت اس سلسلہ میں جو کچھ کر رہی ہے یا آئندہ کر رہے گی وه مسلمانان پاکستان و مملکت پاکستان کے شایان شان ہوگا اور دنیا بھر میں اہمیت اور فوقیت حاصل کرنے والا پاکستان قرین انصاف و دانش طرز عمل اختیار کرے گا.حکومت کسی بھی جماعت کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کر سکتی.احرار کو تبلیغ کا جواب تبلیغ سے دینا چاہیے اور حکومت کو مجبور و پریشان کرنے یا عوام کو اس کے خلاف اکسانے کا طرز عمل ترک کر دینا چاہیئے.مسلمان عوام نہایت صائب رائے اور دانشمند ہیں اور وہ ہر معاملہ میں حکومت کا ساتھ دیں گے اور پاکستان کی شہرت و سالمیت کو کبھی مجروح نہ ہونے دیں گے اور ہر معاملہ میں ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کریں گے اور وقتی جوش میں کوئی ایسا اقدام نہ کر یں گے جو بعد میں انہیں کون افسوس ملنے پر مجبور کر دے.وما علینا الا البلاغ له صوبہ سرحد مغربی پاکستان کا واحد صوبہ تھا جہاں عبد القیوم خاں صاحب کی مسلم لیگی صوبہ سرحد وزارت کے ہاتھوں صورت حال مکمل طور پر قابو میں تھی.اس صوبہ کے اخبارہ تنظیم نے اس نام نہاد تحریک کو ختم پاکستان کی سازش قرار دیتے ہوئے لکھا :.لے اخبار " لا حول (گوجرانوالہ) ستمبر ۱۹۵۲ء بحوالہ روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۲۵ ستمبر ۱۹۵۲ء مطابق ۲۵ تبوک ۱۳۳۱ مش مش به
مخدا کی شان آج وہی لوگ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے ارکان حکومت پر اس امر کا زور دے رہے ہیں کہ پاکستان کے مختلف العقائد مسلمانوں کو جن میں ایک جماعت احمدیہ بھی ہے اقلیت قرار دیا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو اور پاکستان کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اس مطالبہ کی تائید میں ان دونوں جماعتوں (مولانا مودودی کی جماعت اسلامی اور امیر شریعت پر عطاء اللہ شاہ صاحب کی جماعتِ احرار) نے مسلم رائے عامہ کو بھی متاثر کہ رکھا ہے جو سرے سے پاکستان کے قیام کے ہی نہ صرف مخالف تھے بلکہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم اور ان کے دوسرے ساتھی مسلم لیگی زعماء بھی ان کے نزدیک صحیح مسلمان ہی نہ تھے مطالبہ پاکستان کی مخالفت میں قائد اعظم سمیت مسلم لیگی لیڈروں کو جو بڑی سے بڑی فحش کلامی ہو سکتی ہے سے یاد کیا.جماعت احمدیہ نے مطالبہ پاکستان کی تائید میں ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہوئے اپنے مرکز اور لاکھوں روپیہ کی جائداد کو چھوڑ کر اپنے کلمہ گو بھائیوں کے زیر سایہ آگئے ہیں مہر و محبت سے انہیں اپنے میلنوں سے ملانے کے بجائے یہ کہاں کا انصاف اور اسلام ہے کہ اقتدار کے خواہشمند چند سیاسی لیڈروں کی خاطر ایک کلمہ گو فرقہ سے متعلق ہزاروں انسانوں کی زندگی دو بھر کر دی جائے بے حکومت کو پریشان کرنے اور مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کی خاطر ایک ایسا مطالبہ پیش کر دیا گیا ہے جسے اگر آج تسلیم کر لیا جائے تو اس سے کل دوسرے علم فرقوں کو بھی اقلیت قرار دینے کی راہ صاف ہو جاتی ہے.نیز حکومت اور مسلمانوں کے پاس اس امر کی کیا گارنٹی ہو سکتی ہے کہ جب اسلام کا دائرہ احرار کے نزدیک اس قدر تنگ ہے کہ کلمہ، نماز ، روزہ ، حج ، زکواۃ پانچوں ارکان اسلام کی سختی سے پابندی کرنے والے ایک گروہ کو سرے سے ہی کافر اور غیر مسلم قرار دیا جا رہا ہے خدانخواستہ اگر ان کے ہاتھ اقتدار آجائے تو پاکستان کے دوسرے مسلمانوں سے جو کئی فرقوں میں بیٹے ہوئے ہیں اسلامی اور منصفانہ سلوک روا رکھیں گے.دوسری صورت میں جب تک ان کے ہاتھ اقتدار نہیں آجاتا پھر بھی یہ لوگ اسی طرح پاکستان میں رہنے والے دوسرے فرقوں کو بھی اقلیت قرار دلوانے کے لئے پاکستان میں کسی نہ کسی وقت قومی جنگ کی ہوئی گرم کر کے ہی دم لیں گے.جب یہ لوگ سرے سے ہی مسلم حکومت کے قیام کے مخالف تھے اور ہیں تو انہیں اس سے کیا غرض (اگر اقتدار ان کے ہاتھ نہیں آسکتا ، تو مسلمانوں کی اس کمزوری سے خواہ ہندو
۲۱۷ فائدہ اٹھائیں یا روس لیکن یہ لوگ موجودہ حکومت کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں بہندو سے ان کا تعاون ہو سکتا ہے.انگریزی ڈپلومیسی کی یہ تائید کر سکتے ہیں اور ان کے اشتراک عمل سے بقول احرار مرزا غلام احمد اگر انگریزوں کا خود ساختہ پودا تھا اور انگریزوں نے اس پودا کی کاشت اس لئے کی کہ مرزا غلام احمد جہاد کا مخالف تھا اور اس نے حکومت وقت (یعنی انگریزوں) کے خلاف مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کے جذبہ کو مفقود کرنے کی کوشش کی لیکن ان مذہبی رہنماؤں (جماعت احرار و اسلامی) والوں کو تو جہاد کی حقیقت و اہمیت معلوم تھی کہ ایک غیر ملکی مشترک محکمران قوم کے خلاف جہاد روا بلکہ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے.آپ بتائیے آپ لوگوں نے کسی حد تک انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے کام کیا.کیا پاکستان میں شرعی آئین کے نفاذ کے یہ دعویدار ( جماعت اسلامی اور احرار) ایک اسلامی سلطنت کے قیام کی مخالفت میں غداری کی جو سر اشرعی آئین پیشش کرتا ہے اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے تو قیام پاکستان کے پہلے روز سے ہی پاکستان میں خود ہی شرعی آئین کے نفاذ کا اجراء ہو جاتا.غداری سے بڑھ کر اسلامی آئین میں کوئی جرم نہیں.جب یہ لوگ خود اس سے بچ نکلے ہیں تو یہ پاکستانی عوام کے کونسے اتنے خیر خواہ ہیں جو ہندوؤں سے ان کی فروختگی کا سودا د متحدہ ہندوستان کی صورت میں کرنا چاہتے تھے شرعی آئین کے قیام کے لئے زمین و آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے.کیا شرعی آئین کے دعویدار یہ وہ لوگ نہیں جب سکھوں کے قبضہ سے مسجد شہید گنج کو چھڑانے کے لئے ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے شہید گنج کے حصول کے لئے قربانیاں پیش کیں...اس وقت بھی شہید گنج ایجی ٹیشن میں احرار بزرگوں نے فوج کی گولی سے ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی شہادت کو حرام موت اور کتے کی موت مرنے کا فتویٰ دیا تھا اور بجائے اس کے کہ مسلمانوں کے ساتھ شہید گنج ایجی ٹیشن میں شریک ہوتے الٹا ان کی انگریزوں اور سکھوں سے ساز باز تھی ہم حیران ہیں کہ جس جماعت نے ہر موقعہ پر سلم رائے عامہ کے خلاف مشرکوں اور مرتدوں کا ساتھ دیا ہو وہ آج کسی طرح پاکستان کو ضعف پہنچانے اور اپنے اقتدار کے لئے ایک کلمہ گو فرقہ کو اقلیت اور اقلیت بھی غیر مسلم قرار دلوانے کے لئے ایک بار پھر مذہبی روپ میں پاکستان کے سادہ لوح اور مذہب کے نام پر اپنا سب کچھ لٹا دینے والے غیور مسلمانوں کو اپنے ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے اور قوم ان کے سابقہ کا نہ ناموں کو جانتے بوجھتے ہوئے پھر ان کا آلہ کار بنے
PIA کے لئے تیار ہو گئی ہے.باہمی خانہ جنگی کے ذریعہ بیرونی اقتدار کے ہاتھوں غلامی کے ایک ایسے گڑھے میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں سے نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی.ایک طویل عرصہ کی غلامی کے بعد اللہ تعالٰی نے مسلمان قوم کو قائد اعظم کے اخلاص و استقلال کے ذریعہ ایک آزاد ملک دیا تھا اور آج اس ملک کو دوبارہ غیر ملکی استبدادیت کے پنجہ میں دینے کی کوششیں شروع ہیں.چونکہ ہماری موجودہ حکومت ایک دقعہ خود مذہب کے نام پر پاکستان کے حصول میں قوم کو استعمال کر چکی ہے اور اس لئے اب وہ مسلم رائے عامہ کے جوش و خروش کا اپنے آپ میں مقابلہ کی تاب نہ پاتے ہوئے باوجود نتیجہ سے باخبر ہونے کے یہ کھیل دیکھ رہی ہے اور لے لیس ہے یا نادانستہ طور پر پہلے اس تحریک کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی.اور اب پانی سر سے چڑھ چکا ہے اور ہمارے یہ مولوی جو پاکستان کے اور جو مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں پاکستان کے دشمنوں سے قیام پاکستان سے پہلے جو سودا کر چکے ہیں نصحت قوم ملاک اور تباہ و برباد کر انے کے باوجود بھی اپنے اس سودا پر پوری ایمان داری سے قائم ہیں، خواہ ملک در ساری قوم اس سودا کی نذر ہو جائے.احمدی توخوش قسمت ہیں کہ ہمارے احرار بزرگ خود انہیں سرکاری طور پر اقلیت قرار دلوار رہے ہیں.اب جبکہ انکو پاکستان کے کسی صوبہ میں آئین ساز اداروں یا لوکل باڈیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کوئی ایک نشست بھی مخصوص نہیں اور نہ ہی احرار نظریات کے رو سے ان کی جان و مال ، عزت و آبرو محفوظ ہیں عیسائی مشتریوں کی طرح قانوناً انہیں بھی اپنے عقائد کی اشاعت یا تبلیغ کی اجازت مل گئی.احمدیوں کو اس رعایت کے لئے احرار کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کہ انہیں پاکستان سے باہر نکالنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا.نیز اگر احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور ہیں تو احرار کی طرف سے غیر مسلم اقلیت“ کا لیبل اُلٹا ان کے لئے مفید ثابت ہو گا جب آپ عملاً قولا اور فعلاً مسلمان ہوں گے تو غیر سلیم اقلیت کا ٹائیٹل آپ کے لئے مزید تقویت کا باعث ہوگا کیونکہ پاکستان کے مقتدر علماء کی تمامتر تو بہ سیاسیات اور اقتدار کی طرف لگی ہوئی ہے اور ان کی سیاسیات کی راہ میں مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی اثر انداز ہوا اس کی بھی یہی سزا ہو گی جو آپ کے لئے تجویز کی گئی ہے.جہاں تک ہماری ناقص رائے کا تعلق ہے ملک افتراق پشت سے اسی صورت میں بیچ سکتا
۲۱۹ ہے کہ موجودہ حکمران احرار اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کے حق میں دستبردار ہو جائیں ورنہ اختراق وتشتت کے بیچ کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے نہایت موثر اور مدتل پراپیگنڈا کی ضرورت ہے جو پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں مسلمانوں کی کئی شاندار حکومتیں فتوی ساز علماء کے ہاتھوں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں اور اگر یہاں پاکستان میں بھی جو کئی مسلم فرقوں کا ملک ہے فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دی گئی تو پاکستان اور پاکستان کے مسلمانوں کا بھی وہی حشر ہو گا جو ماضی میں کئی شاندار اسلامی سلطنتوں کا ہو چکا ہے کابل اور امان اللہ کی مثال سامنے ہے.آخر میں ہم اس حقیقت کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ نہ احرار سے ہماری فی سبیل اللہ دشمنی ہے اور نہ ہی ہم احمدی ہیں البتہ احرارا اور احمد می جنگ کے نتیجہ میں پاکستان کو نقصان پہنچنا کسی حالت میں برداشت نہیں کر سکتے ہے کراچی کراچی پریس نے بھی ان ملک دشمن سرگرمیوں پر تنقید کی چنانچہ ہفت روزہ مسلم آواز کے لکھا:- ہ یوں تو یہ حقیقت مدتوں قبل بے نقاب ہو چکی بلکہ اسلامی دنیا کے علاوہ یورپ کے تمام ممالک کے سیاستدان تسلیم کر چکے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے تمام امور ہیں...آج تک جو اعلی خدمات انجام دی ہیں ان کے ہر پہلو کے نقش و نگار کو دیکھ کر بڑے بڑے مدیترین وقت انگشت بدنداں ہیں.امور خارجہ میں سیادت تدبیر کے اعتبار سے ایک طرف آپ سارے ایشیا کے لئے سرمایہ ناز و صد افتخار ہیں تو دوسری طرف اکناف عالم میں سیاسی دانش کے آئینہ دار بھی.وہ اوصاف اور قابلیت کے وہ جوہر ہیں جن کی قدر قائد اعظم اور قائد ملت کرتے تھے لیکن افسوس بھارتی ایجنٹ اور لبعض احراری علماء جو کل تک کانگریس کی ہمنوائی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قائد اعظم اور سلم لیگ میں شریک ہونے والوں کو گھر کا فتویٰ دیتے تھے آج ایک طرف پاکستان کا ایمیل لگا کر ملک اور ملت ہیں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف امذ ہب کی آڑ لے کر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں.لے بحوالہ روزنامہ الفصل“ لاہور مورخہ ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۲ء صدا
۲۲۰ کہیں تو عوام کو قادیانی اور غیر قادیانی کا غلط فلسفہ سمجھا کر اپنے ہمخیال بنانے کی کوشش کرتے اور کہیں خلیفہ جماعت احمدیہ کے خلاف عدالت میں استغاثہ پیش کرتے ہیں تا کہ عوام کے دلوں میں فرقہ احمدیہ کے خلاف بدظنی قائم رہے اور وقت ضرورت یہ حضرات جہلاء کو جیتی ہوئی آگ میں دھکیل دیں.ان حضرات کی غلط روش کی ایک زندہ مثال میرے پاس موجود ہے جو عنقریب ایک خاص ایڈیشن میں بمعہ نام عوام کے سامنے پیش کر دیں گے.پولٹن مارکیٹ کے پاس نیومین مسجد زیر تعمیر تھی چند علماء حضرات میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ حکیم صاحب آپ کے اخبار کے لئے دس ہزار روپیہ دلوانے کے لئے ہم ذمہ دار ہیں اگر آپ اس فتوی کو اپنے اخبار میں شائع کر دیں.یکس نے شائع کرنے کا وعدہ کر لیا اور فتوئی ان حضرات سے لے لیا جس میں لکھا تھا کہ ایس ہمیں مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے.اس فتویٰ پر تیرہ مقتدر علماء حضرات کے دستخط بمعہ مہر ثبت ہیں.میں نے دوسرے ایڈیشن میں مختصر واقعات لکھتے ہوئے آخر میں لکھا تھا کہ اصل فتوئی میرے پاس موجود ہے.پہر شخص میرے دفتر میں آکر دیکھ سکتا ہے.فتولی یکس نے اس وجہ سے شائع نہیں کیا کہ مجھ کو یقین تھا کہ یہ علماء حضرات قوم میں ٹکراؤ پیدا کرنیکی کوشش کر رہے ہیں اور بعد میں چندے بازی سے جب میں گرم کریں گے.آج یہی علماء حضرات جنہوں نے فتوی دیا تھا اسی نیو میمن مسجد میں خود نماز پڑھتے ہیں اور لمبے لمبے وعظ کرتے ہیں.یہ حالت ہے ان حضرات کی ہے ہفتہ وار سٹارٹ، کراچی ۲۳ اگست ۱۹۵۲ء نے اپنے اداریہ میں لکھا:.اب جبکہ احمدادی احمدی تنازعہ سے پیدا شدہ شور و غوغا کچھ مدہم ہو گیا ہے تو آئیے ہم ایک لمحہ کے لئے بیٹھ کر غور کر ہیں کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو مرکزی وزارت سے علیحدہ کرنے کے جو طالبات کئے جارہے ہیں اُن کے سیاسی نتائج کیا ہو سکتے ہیں ؟؟ حکومت پاکستان نے حسب معمول نرم طریقے سے پوزیشن کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے ا بحوالہ روزنامہ الفضل لاہور موریہ ۱۲۸ نومبر ۱۹۵۲ء صل
۲۲۱ اور چوہدری ظفر اللہ خان نے بھی جنیوا بجاتے ہوئے ایک بیان دیا ہے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک کسی نے اس سانپ کے سوراخ کو بند کرنے کی پوری کوشش نہیں کی اور نہ دلیری سے اس شورش کے خطرات کو واشگاف کیا ہے.ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے کہ ہم مسئلہ کے مذہبی پہلو پر بحث کریں کیونکہ سب مسلمان ختم نبوت پر متفق ہیں ہمارے نز دیک جو خطرہ بڑا اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایسی شورش پاکستان کو بطور ایک ایسی جدید قسم کی جمہوری ریاست کے سخت نقصان پہنچا سکتی ہے جو مشترک قومی ثقافت و کر داره مشترک تاریخ، مشترک رسم و رواج ، مشترک مقاصد اور مطیع نظر مشترک معیار اور آرزوؤں سے باہم پیوست ہے.افسوس ہے کہ یہ تمام تنازعہ ایسی جذباتی فضا میں ہوا ہے کہ کوئی آدمی عقل کی بات سننے کو تیار نہیں لیکن ہم عصر جدید کے تقاضوں اور پاکستان کو پیش آمدہ حالات سے پنچھیں بند نہیں کر سکتے ہمارا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اگرچہ تعداد میں تھوڑے ہیں مگر ان میں آنکھیں کھول کر دیکھنے کی صلاحیت ابھی کچھ باقی ہے ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے فہمیدہ ناظرین ہمار خیالات کو تسلیم کرنے سے پہلے حالات پر گہری اور دانشمندانہ نظر ڈالیں گے.کیا یہ مجرمانہ دیوانگی نہیں ہے کہ ہم اپنا وقت ، قوت، جوش اور تعمیری فوائد ایسے معاملات پر ضائع کریں جو قوم کے وسیلے مفادات کے مقابلہ میں نہایت حقیر اور بے وقعت ہیں.پاکستان ایسے ملک میں جہاں ابھی ہمیں اپنا دستور مکمل کرنا ہے جہاں ابھی ہمیں زندگی اور موت کے سوالات حل کرنے ہیں....جہاں مہاجرین ابھی تک تباہ حال پڑے ہیں جہاں فاقہ کش عورتیں بد اخلاقی پر مجبور ہیں.جہاں گداگر اور معذور سینکڑوں کی تعداد میں آوارہ گردی کر رہے ہیں.جہاں پر بیماریاں، بھوک اور جہالت مستولی ہیں کیا ہم ایسے تنازعات میں اُٹھ سکتے ہیں جو ہمارے قومی اتحاد کی جڑیں کھوکھلی کر سکتے ہیں.اور یہ تنازعہ بھی کیا ہے.ہمیں یہ انہیں بھولنا چاہئیے کہ قادیانیت کے یہ مخالف مولوی جو اس وقت پیش پیش ہیں اس فریق کے نمائندہ ہیں جس کے ارکان نے ماضی میں قائد اعظم اور علامہ اقبال تک کو بھی نہیں چھوڑا بلکہ مولانا ظفر علی خاں کو بھی نہیں چھوڑا جو اس تحریک کے سالہا سال تک قائد رہم سے ہیں.بات یہ ہے کہ ان مولویوں نے جس طریقے سے کفر کے فتوے صادر کئے ہیں اس نے ان کے موقف کے نیچے سے زمین نکال دی ہے.یہ فتو سے اس طرح بے سوچے سمجھے دئے گئے ہیں کہ وہ عام مسلمانوں کیلئے
کوئی اپیل نہیں رکھتے اور نہ ان کے کوئی معنے ہیں.دوئم -:- اگر آج ہم قادیانیوں کو اقلیت قرار دیدیں تو کل ان پیشہ ور تلاؤں کو یہ مطالبہ کرنے سے کون روک سکتا ہے کہ شیعوں ، وہابیوں اور آفاتعانیوں کو بھی غیر مسلم قرار دیا جائے.اخراج کا طریق اگر چا ہی رہا تو اس کے انجام کا کون اندازہ کر سکتا ہے ہم تو اس خیال سے بھی کانپ اُٹھتے ہیں.کیا آپ بھی ؟ سوم: تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اگر کسی مذہبی فرقہ یا معاشی گروہ یا سیاسی پارٹی کو زیر دوستی دیا دیا جائے تو وہ مرتا نہیں ہے بلکہ زمین دوز ہو کر زیادہ خطر ناک بن جاتا ہے.اگر ہم یہ فرمن بھی کرلیں کہ قادیانی پاکستان کے لئے مفید نہیں تو ہمیں اس بات کا بھی پہلے سے اندازہ کر لینا چاہئیے کہ انہیں مسلمانوں سے نکالنے کے بعد کیا ان کا سوال اور زیادہ ہچپیدہ نہ بن جائے گا ؟ چھارو: اگر ہم تعصب سے اس طرح اقلیتیں پیدا کرتے جائیں تو کیا ہم دنیا کی نظروں میں بیوقوف اور مذہبی دیوانے نہ سمجھے جائیں گے حالانکہ جمہوری رجحانات تو یہ ہیں کہ مختلف ثقافتی واحد توں کو ملک میں یکجا کر دیا جائے اور ذات پات اور رنگ کے اختلافات مٹا دئے جائیں تا کہ ایک قوم کہلانے کے لئے لوگوں میں مشتر کہ شہریت کا شعور پیدا ہو.آؤ ہم سوچیں کیا ہم پاکستان کا یہ نقشہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں مذیب کو محض نمائشی رنگ دے دیا گیا ہے.جہاں مذہبی دیوانگی کا دور دورہ ہے اور جہاں قانون محض تعصب ہے.پنجم : اگر ہم احراری مولویوں اور ان کے پٹھوں کے کہنے پر قادیانیوں کو اقلیت قرار دیدین اور انہیں کلیدی آسامیوں سے محروم کر دیں.پھر اگر بھارت بھی ہمارے نقش قدم پر چل کر بھارت کے مسلمانوں کو ایسی اقلیت قرار دیدے جس کے ارکان ملک میں کسی کلیدی عہدے پر نہیں لگائے جا سکتے تو ہم اس کو کس طرح محسوس کریں گے ؟ اگر ہم میں ذرا بھی دور اندیشی کا مادہ ہے اور ہم ایسی حرکت کے نتائج کا اندازہ کر سکتے ہیں تو ہمیں اپنے ملک میں حقائق کو بنظر غور دیکھنا شروع کر دینا چاہیئے.ششم : ہمیں یاد ہوگا کہ کشمیر پر ہمارے دعوئی کی بنیاد اس دلیل پر تھی کہ ضلع گورو اسپور یلیں مسلمانوں کی اکثریت تھی.اور اگر ریڈ کلف اس علاقہ کو بدنیتی سے پاکستان سے علیحدہ نہ کر دیتا تو
۲۲۳ ریاست کشمیر خود بخود پاکستان کا ایک حصہ بن جاتی.اگر ہم قادیانیوں کو سلمانوں سے علیحدہ کر دیں تو کیا ہماری یہ دلیل بے اثر نہیں ہو جائے گی ؟ آخری سوال یہ ہے کہ چونکہ اس شورش کا مرکزی نشانہ چوہدری ظفر اللہ خان ہیں کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم پاکستان کے وزیر خارجہ کو فی الفور وزارت سے علیحدہ کر دیں تومشرق ولی اور مغرب کے اسلامی ممالک میں اس کا کیا رد عمل ہو گا ؟ سوال یہ نہیں ہوگا کہ وہ قادیانی ہیں یا نہیں بلکہ اس بات کو پیش نظر رکھتا ہوگا کہ چوہدری ظفر اللہ خان کا غیر ممالک میں بطور ایک پاکستانی ترجمانی کے کیا مقام اور کیا مرتبہ ہے؟ چونکہ اس کے متعلق دو رائیں نہیں ہوسکتیں اس لئے اگر ہم احراری مطالبہ کو مان لیں تو اس کے بین الاقوامی نتائج کے متعلق ہم کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیئے.ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آؤ ہم غور کریں اور پھر غور کریں کہ اگر ہم نے پاگل بننے کا عزم بالجرم کر لیا ہے تو ہمارے پاگل پن میں بھی کچھ نہ کچھ نظم تو ہونا چاہیئے.لے (ترجمہ) مشرقی پاکستان پریس کی نظر میں احراری تحریک کے عزائم و مقاصد کسی درجہ مشرقی پاکستان مکروہ اور ملک و ملت کے لئے تباہ کن تھے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل مدیریت و سے بآسمانی لگ سکتا ہے :- ا روزہ نامہ ستیہ جوگ ڈھاکہ نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۵۲ء میں احراری تحریک کو خالص سیاسی قرار دیتے ہوئے مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کیا :- کراچی 19 جولائی مغربی پاکستان کے سیاسی اور سماجی میدان میں ایک اشتعال پیدا ہو کر انتہاء کو پہنچ گیا ہے.ادھر قادیانیوں کے خلاف تحریک زوروں پر ہے اور ملتان میں فساد ہوا ہے ادھر د پاکستان کی راجدھانی کراچی میں مزدوروں اور ملازمین نے ہڑتال کر رکھی ہے.قادیانی فرقہ کے خلاف تحریک اور اس کے نتیجہ میں جو فسادات رونما ہوئے ہیں اس کی خبر اس سے پہلے اخباروں میں چھپ چکی ہے.اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قادیانیوں کے خلاف جو تحریک چھلائی بھا رہی ہے اس کا پس منظر سیاسی ہے.ان دنوں یہ تحریک کچھ مدھم پڑ گئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی بلکہ خفیہ خفیہ اس کا پر بھار جاری ہے.پاکستان کے سب سے پرانے روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ نے ہفتہ وار اسٹار مورخہ ۲۳ را گست ۱۹۵۲ء تجواله الفضل ۲۳ اگست ۱۹۵۲ء مث.
۲۲۴ ناہوں کی ایک خبر سے ظاہر ہے کہ احراری پارٹی کے لوگ مسجدوں یاں گھوم گھام کر خلاف فرقہ قادیانیہ تحریک کے لئے عام لوگوں کی امداد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بہت سے مقامات میں ان کی یہ کوشش ناکام ہوئی ہے.لاہور کے قانون پیشہ لوگوں کا خیال ہے کہ احرار کی یہ تحریک اہل پاکستان کے اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی ایک خطر ناک کوشش ہے.اسلامی دنیا کے لیڈر کی حیثیت سے ملک پاکستان کو دنیا میں جو مقام اور عزت حاصل ہے احراریوں کی یہ تحریک صرف اس مقام کو گنوانے اور عزت کو بٹہ لگانے کی خاطر جاری ہے وہ لوگ ریعنی لاہور کے قانون پیشہ) یہ امید رکھتے ہیں کہ رائے عامہ کا تعاون حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک آہستہ آہستہ اپنی طبعی موت مر جائے گی تاہم پاکستان میں اس قسم کے خود غرض لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اس قسم کی فساد انگیز تحریکات اور ذلیل اور ناجائز پروپیگنڈے کے سہارے سے اپنے ناجائز مقاصد حاصل کرنے کی کوشیش کرتے رہتے ہیں اس قسم کے لوگ اس طرح کے فسادوں کے لئے لوگوں کو اُکساتے رہتے ہیں.حکومت اگر سختی سے اِن فسادات کی روک تھام کا انتظام کرے تو حکومت اور عوام دونوں کی خیر اسی میں ہے لیے (ترجمہ) بنگال کے ہفت روزہ شیئی نیک اپنی اشاعت مورخہ ۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء میں لکھتا ہے:.ان دنوں مغربی پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک کا بہت چر چاہیے افواہ ہے کہ مرکزی مجلس کے وزراء کے بعض ایسے ارکان نے جو اپنا اقتدار بڑھانا چاہتے ہیں غالباً اس تحریک کی بنیا د رکھی ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں جو مرکزی مجلس وزراء کے نمبر ہیں آئندہ انکے وزیر اعظم ہو جانے کا امکان ہے.اسی ڈر سے ان کو ملیں وزراء سے خارج کرانے کے لئے غالباً احمدیت کے خلاف تحریک پیدا کی گئی ہے.یہ امر اس بات سے ظاہر ہے کہ ہر جگہ احمدیت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ چوہدری ظفر اللہ خان کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے.ان دنوں مختلف مقامات پر اس بات پر فسادات بھی ہوئے ہیں اور ملتان میں اسی شورش کی وجہ سے پولیس لوگوں پر گولیاں پھلانے پر بھی مجبور ہوئی.۲۱ جولائی کو شہر بغداد الجدید (ریاست بہاولپور) سهروردی صاحب ے روزنامہ ستیہ جوگ ڈھاکہ ۲۴ جولائی ۱۹۵۲ء بحوالہ روزنامه افضل لاہور اور اگست ۱۹۵۷ مطابق اس ظهور ۱۳۳۱ ش صدا :
۲۲۵ کی صدارت میں عوامی لیگ نے ایک جلسہ کیا اور اس میں احمدیوں کو اقلیت قرار دیتے ہوئے ظفر اللہ ہیں احمدیوں کو خان کی برطرفی کا مطالعہ کیا گیا.کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر این قدر شور و غوغا کے ساتھ احمدیوں کی مخالفت کی اس وقت کیا ضرورت تھی ؟ خیال کیا جاتا ہے کہ چند خود غرض لوگ اپنی مطلب براری کے لئے یہ تحریک چھلا کر عوام کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں.پاکستان ابھی اندرونی اور بیرونی مشکلات میں گھرا ہوا ہے.مسئلہ کشمیر ابھی حل ہونے میں نہیں آتا.افغانستان والے روز بروز دشمنی میں بڑھ رہے ہیں ان حالات میں خواہ مخواہ آپس میں انجھنے سے کیا حاصل ہوگا ؟ حصول پاکستان کی جنگ شیعہ اشتی، احمدی سبھی نے مل کر لڑی تھی.خود قائد اعظم شیعہ تھے مگر ان کی قیادت پر کوئی اعتراض نہ اُٹھا ظفر اللہ خان احمدی ہیں لیکن قائد اعظم کے وقت سے لے کر چار سال تک ان پر کوئی اعتراض نہیں اُٹھایا گیا.ایک صحیح العقل آدمی کے لئے اس بات کا سمجھنا ناممکن نہیں ہے کہ جو گند رناتھ جو غیر سلم تھے ان کی وزارت پر غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اعتراض نہیں اٹھا یا گیا تو سر ظفر اشہ خان کو غیرمسلم قرار دے کر وزارت سے برطرف کرنے کی تحریک کیوں کی جارہی 14 اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ وزراء میں ظفر اللہ خان بہترین قابلیت کے مالک ہیں.بعض دیگر وزراء کی نسبت بہت سی باتیں سنی جاتی ہیں لیکن ظفر اللہ خان کے خلاف آج تک کوئی شکایت سنتے ہیں نہیں آئی.اہم عہدوں پر نا قابل لوگوں کے ہجوم سے پاکستان کے تباہی کی طرف جانے کا خطرہ ہے.اندریں حالات ظفر اللہ جیسے قابل ترین شخص کو وزارت سے برطرف کرتے کا مطالبہ قوم کے لئے مہلک ہے.ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی اہم ترین بھلائی کی خاطر اسی قسم کی دیوانگی اور آپس کی گوگوئیں ہیں کو بند کر دینا چا ہیے.اسے (ترجمہ) ه هفت روزه اخبار شیئی نیک بنگال بحوالہ روز نامہ الفضل" لاہور ۳۰ اگست ۱۹۵۲ء مطابق نظیر ۳۳۱ ابش مش
۲۲۶ روز نامہ"ملت" (ڈھاکہ) نے ور اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں چوہدری محمد ظفر اللہ نشاں صاحب کے استعفی کی خبر پر حسب ذیل ریمارکس دئیے :- کراچی میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے استعفیٰ کی خیر غیر سرکاری طور پر جاری ہے.گذشته 14 اگست کو یہ خبر ڈی کہ وزیر خارجہ نے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن وزیر اعظم نے دوسرے زراء سے مشورہ کر کے ان سے استعفیٰ واپس لینے کو کہا ہے.وزیر خارجہ کے استعفیٰ کی ابھی تک صرف افواہ ہی ہے لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا استعفیٰ دے دینا قرین قیاس بھی ہے اور اس سے جو نقصان ہوگا اس کے خیال سے پاکستان کے تمام بہی خواہوں کا پریشان ہونا ایک طبعی امر ہے.بین الاقوامی سیاست کے میدان میں پاکستان نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ صرف چوہدری ظفر اللہ خان کی سیا نفشانی اور مساعی جمیلہ ہی کا نتیجہ ہے.ایک قابل سیاستدان کی حیثیت سے انہوں نے تمام حکومتوں کی نگاہ تخمین و استعجاب کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے، مصر، ٹیرونیشیا، ایران اور فلسطین کی جنگ آزادی میں ان کی گرانقدر امداد کی اہمیت سب کے نزدیک ستم ہے.اقوام متحدہ کی تنظیم جو با وجود طرفداری کے ارادے اور نیت کے بہندوستان کی جنبه داری نہیں کر سکی تو اس کا موجب وہ براہین قاطعہ کے پہاڑ ہیں جو انہوں نے اپنے حسن خطابت سے ان کی راہ میں رکھ دیئے ہیں.ابھی تک مسئلہ کشمیر عمل ہونے میں نہیں آیا اور ان دنوں یہ سوال ایک نازک مرحلے میں ہے اور انہی دنوں میں ہر سہ فریق خصومت کی مجلس (جنیوا میں شروع ہونے والی ہے ایسے وقت میں چوہدری صاحب کے استعفیٰ کا امکان نمایت و ریہ تکلیف دہ ہے.اگر واقعی انہوں نے استعفیٰ دے دیا...اور وہ استعفیٰ منظور بھی کر لیا گیا تو مملکت پاکستان کو ایسا نقصان پہنچے گا کہ پھر تلافی نہ ہو سکے گی...پاکستان کے سامنے جبکہ کشمیر کا مسئلہ ابھی لانچیل ہے ایسے وقت میں ظفر اللہ خان جیسے آدمی کو کھو دینا بڑی غلطی ہے.آخر پاکستان کے اعلیٰ محمد وں پر بعض یورپین اور دوسرے غیر مسلم بھی تو کام کر رہے ہیں اسی طرح اگر ظفر اللہ خاں سے بھی کام لیا جائے تو اس میں پاکستان کا کیا نقصان ہے؟ ہمارے مسلمان بھائیوں کی اس تحریک نے تو فقط یہی ثابت کیا ہے کہ مخالفت رائے کو برداشت کرنے کی تربیت ابھی ہمیں حاصل نہیں ہوئی لیے (ترجمہ) لے روزنامہ ملت ڈھاکہ ور اگست ۱۹۵۲ ( بحوالہ روزنامه الفضل لاہور س ا ستمبر ۰۶۱۹۵۲
۲۲۷ بنگالی اخبار انصاف نے اپنے ۵ را اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں ایک اداریہ لکھا جس کا آخری حصہ درج ذیل ہے :- چوہدری ظفر اللہ خان کی مغرب زدہ مارجی پالیسی کو جو لوگ نا پسند کرتے ہیں وہ بھی ان کے خلات افواہیں پھیلانے والے اخبارات اور ملک کی متعصب پارٹی کے غیر روا دارانہ رویے اور نا جائز پراپیگنڈے کو دیکھ کر دلی صدمہ محسوس کرتے ہیں.پاکستان کی سیاست میں یہ لوگ فرقہ پرستی کا زہر داخل کر رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کے لئے ایک ترقی یافتہ ملک بننا نا ممکن ہو جائے گا.آیا فرقہ قادیانیہ مسلمان ہے یا نہیں ؟ اس سوال کو اُٹھا کر جو ان لوگوں نے وزیر خارجہ کے خلاف جنگ شروع کی ہے اس سے طبعاً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ پاکستان کے دشمن ہیں.اس قسم کی تفرقہ اندازی کو جتنی جلدی روکا جائے اتنا ہی بہتر ہے.یہ (ترجمہ) پاکستانی پریس کی طرف سے احراری تحریک کے سیاسی مطالبہ اقلیت کا ند ہی رد عمل پہلوؤں پر جو رد عمل ہوا اس کا ذکر آچکا ہے، آپ یہ بتانا باقی ہے کہ جہاں تک اس مطالبہ کے مذہبی پہلو کا تعلق تھا اُس زمانہ کے بعض سنجیدہ، باوقار اور مذہبی اقدار کے علمبردار رسائل و اخبارات نے اسے فتنہ تکفیر سے تعبیر کیا اور اس کی پر زور دقت کی جس کے ثبوت میں حیدرآباد سندھ کے اخبار ناظم، پشاور کے اختبار تنظیم اور کوئٹہ کے رسالہ کو ہسار کے ادارتی نوٹ درج ذیل کئے بجاتے ہیں.ا.اخبار ناظم حیدر آباد (سندھ) نے ۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء کے پرچہ ہمیں اس فتنہ کو قلب پاکستان میں چھرا گھونپنے کی ناپاک سازش قرار دیتے ہوئے لکھا:.کفر سازی : ہمارے علماء کرام کو فر سازی کا پورا ملکہ ہے تبلیغ دین کی بجائے کفر کرسی آج کل ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے.غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی بجائے خود مسلمانوں کو کافر بناتے ہیں.دیوبندی علماء کی تحریرات ملاحظہ کیجئے.بریلوی علماء کو گھر کی سند دیتے نظر آئیں گے اور بریلوی علماء کے دربار سے دیوبندیوں کو گھر کا سرٹیفکیٹ ملے گا وغیرہ وغیرہ شستی ، شیعہ ، مقلد غیر مقلد وہابی بدعتی خدا معلوم کتنے فرقے ان علماء کی بدولت پیدا ہو گئے اور کتنے اور پیدا ہوں گے.کمال یہ نے بحوالہ افضل ہے.اتفاء ۱۳۳۱ پیش کرے.اکتوبر ۱۹۵۲ء ص 4
۲۲۸ ہے کہ جن کے علاوہ خو د کفر کے فتاوی موجود ہوں وہ کسی طرح دوسروں پر گھر کا فتولی صادر کرتے ہیں.ان ہی فرقہ بندیوں کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمانوں پر اوبار کی گھٹائیں رہیں اور یہی فرقہ بندی اور عقائدی جنگ آج پاکستان کے مسلمانوں کی شیرازہ بندی کو ختم کرنے اور اُنہیں باہم متصادم کرنے کے لئے مشروع کی جارہی ہے جس کو فتنہ عظیم کہنا بیجا نہ ہو گا جہاں تک عقائد ہی اختلافات کا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے.بڑے بڑے مصلحان دین اور برگزیدہ ہستیوں کی ان تھک کوششوں کے با وجود یہ اختلاف قائم رہے پھر بھلا یہ ہمارے موٹر نشین اور نرم گروی کہ استراحت کرنے والے علماء جو اپنے نفس کی فرمانبرداری کا کسی حد تک عہد کر چکے ہیں اور جن کا عودوا من ملوث ہے کس طرح اُن سے کوئی توقع کی جا سکتی ہے ؟ ہوشیار باش : آج پاکستان میں جس تحریک کا آغاز کیا جا رہا ہے.جا بجا جیسے کر سکے کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں اور فنڈ اکٹھے کئے جارہے ہیں کیا اس تحریک کا مقصد خدایت اسلام ہے؟ کیا اس تحریک سے مسلمانوں میں ختم نبوت کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ؟ کیا اس سے پاکستانی مسلمانوں کی تنظیم پر ضرب نہیں لگتی ہے کیا اس تحریک سے استحکام پاکستان پر چوٹ نہیں پڑتی ؟ آخر یہ اتنی مقدرت کے بعد یاسی کڑھی میں کیوں ابال ہے ؟ کیا اس میں سیاسی اغراض پوشیدہ نہیں ہیں ؟ کیا اس طرح و شمنان پاکستان کے عزائم کو تقویت نہیں پہنچتی ؟ اور کیا یہ پاکستان اور پاکستانیوں سے غداری نہیں ہے ؟ مسلمان بالکل سادہ واقع ہوا ہے.اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ آج جو معصومیت کا چولہ بین کر ان کے سامنے آیا کل وہ کون تھا ؟ اور قوم کے لئے کس طرح کا عذاب بنا ہوا تھا ؟ یہی ہم اسے احتراری علماء کرام اور احراری بھائی قیام پاکستان کی مخالفت میں ہندو دوستوں کی آغوش میں بیٹھے ہوئے مسلمانوں کی پھبتیاں اُڑانے میں کونسی کسر چھوڑ رہے تھے مسلم لیگیوں اور مسلم لیگ پر دشنام طرازی سے کسی وقت چور کتے تھے؟ کیا انہوں نے قائد اعظم پر گھر کے فتوے نہیں جاری کئے ؟ کونسا ہوا لفظ مضا جوان مولوی حضرات نے قائد اعظم کی بیان میں استعمال نہیں کیا ؟ پاکستان بھی جانے پر طوعاً و کرہا ہمارے ان استرادی بھائیوں نے پاکستان بننا قبول کیا.کیونکہ بھارت کی زمین ان کے لئے تنگ تھی.ہندوؤں نے کہ دیا کہ جب تم اپنے بھائیوں کے ہی نہ ہوئے تو
۲۲۹ ہمیں کیا توقع رکھنی چاہیے.ہماری جمعیتہ العلماء پاکستان کے محترم صدر جو آج اسراری بھائیوں کے دوش بدوش پاکستان میں عقائدی جنگ کے علمبردار بنے ہوئے ہیں برائے خدا اتنا تو بتا دیں کہ قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد انہوں نے قادیانیوں کے خلاف کتنے احتجاجات کئے ؟ کیا انہوں نے مسلم لیگ کے ذریعہ سے قادیانی امید واروں کو اسمبلیوں میں کامیاب نہیں کیا کیا کام لیگی حکومت پاکستان نے جب چوہدری ظفر اللہ خان کو وزیر خارینہ فقر کیا تو کوئی احتجاج کیا گیا؟ جب دستور پاکستان کے لئے بنیادی حقوق کی کمیٹی میں چوہدری ظفر اللہ خاں کو لیا گیا تو کوئی احتجاج کیا گیا ؟ اور جب آپ نے اس کمیٹی سے علیحدگی کی خواہش ظاہر کی تو انہیں مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ اس کمیٹی سے الگ نہ ہوئی اگر یہ سب حقائق ہیں تو پھر اس وقت راگنی کا مقصد کیا ہے ؟ پاکستان سے غداری نہیں کی جا سکتی :.ہر پاکستانی جانتا ہے کہ استحکام پاکستان کے لئے تمام پاکستانیوں کا بلالحاظ امذ ہب و ملت متحد منظم رہنا ضروری ہے.اس وقت کی ذرا سی لغزش نہ صرف پاکستانیوں بلکہ پاکستان کے ساتھ غداری ہے.ایسی حالت میں فرقہ پرستی اور عقائدی جنگ کے حامی خواہ ان کی نیت صاف ہی کیوں نہ ہو سیاسی نوعیت سے پاکستان دوستی کا ہر گز ثبوت نہیں دے رہے بلکہ پاکستان کے قلب میں چھرا گھونپنے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں.یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام اس تحریک سے عدم دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں.اے ے با ہوتا مہ کو ہسار کوئٹہ (ماہ اگست ۱۹۵۳ء) نے لکھا.پاکستان سے ہندوؤں اور سکھوں کے انخلاء کے بعد خیال ایسا تھا کہ اس ملک میں اب فرقہ وارانہ قضیوں کے لئے کسی قسم کی گنجائش کا امکان نہیں ہوگا مگر یار لوگ پھیلا کی چکین سے بیٹھنے والے تھے ؟ فرقہ وارانہ ہنگامہ آرائی کے لئے آخر کار انہوں نے موقعہ تلاش کر ہی لیا.احمدیت اور غیر احمدیت کا مسئلہ آجکل پاکستان کے بعض حصوں میں خطرناک حد تک نزاعی صورت اختیار کر چکا ہے.اس ضمن میں ہمارے احراری دوست اور احمدیوں کا ایک طبقہ بہت پیش پیش نظر آتے ہیں.جہاں تک احمدیوں کے عقائد کا تعلق ہے کوئی مسلمان انہیں اسلامی اصولوں کے مطابق ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا.اس سلسلہ میں علمائے اسلام کے فتاوی اور بیانات واضح ہیں مگر ناظم حیدر آباد سندھ ۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء بحواله الفضل کم ستمبر ۱۹۵۲ء مث :
۲۳۰ ان اختلافات کی بناء پر کسی انسان کو گردن زدنی قرار دیتا نہ اسلام کی رو سے جائز ہے، نہ انسانیت کی رُو سے احسن، اور نہ اختلافات کو ہوا دینے سے کسی فائدہ کی توقع ہو سکتی ہے.البتہ بر خلاف اس کے ملی اور ملکی نقصان کے امکانات زیادہ ہیں.پاکستان بننے کے بعد خود احمدیوں کا وطن اور اصلی مرکز ان سے اس بناء پر چھن گیا کہ انہیں بھی مسلمان سمجھا گیا تھا.اس لئے اس سر زمین میں رہنے بناء اور لینے کے لئے ان کے حقوق بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ہیں.پاکستان سے پہلے احمدیوں کے ملالی تکفیر بازی کا فتوی دینے والے سات کروڑ کی اکثریت کے باوجود حکومت وقت سے یہ مطالبہ نوائے سے قاصر رہے کہ احمدی مسلمانوں سے علیحدہ ایک مختصر سی جماعت ہیں.آج پاکستان میں وہ ایک پناہ گزین جماعت کی حیثیت سے مقیم ہیں.ایسی صورت میں ان کے خلاف ہنگامہ آرائی کا جواز پیدا کرنا ہمارے نزدیک بین الانسانی اخلاق کے لحاظ سے بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا.ہمارا اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ احمدیوں کو اپنے عقائد کی بر سر عام اشاعت اور تبلیغ کے لئے کھلی چھٹی دے دی جائے.احمدی ہوں یا غیر احمدی کسی کو کسی کے جذبات کی بے احترامی کی اس سرزمین پر اجازت نہیں دی جا سکتی.یہ امن اور رحمت کی سرزمین ہے جسے ہم نے لاکھوں بھانی، مالی اور آبروئی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے.اس سر زمین پر اس قسم کی ہنگامہ آرائیوں کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ دشمنان وطن اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر ملک کی تو بقیہ تعمیری کاموں سے ہٹا کر ہماری تباہی کا باعث نہیں اور لیں.احمدیوں کے عقائد کی تردید اور مخالفت بو سعہ احسن بھی ہو سکتی ہے وہ اس طرح کہ علمائے اسلام متفقہ طور پر اُن صحیح عقائد سے مسلمانوں کو روشناس کرنے کی کوشش کریں جنہیں اچھی طرح سمجھ کر کوئی مسلمان احمدیوں کے پھندے میں نہیں پھنس سکے گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس موعظہ حسنہ سے بعض احمدی حضرات بھی آپ کے ہم خیال ہو جائیں.کسی کے عقیدہ کو طاقت اور قانون سے توڑنا کامیابی کی دلیل نہیں ہو سکتی ہے اقلیت کی برصغیر پاک و نے ماہنامہ کو مسمار کوئٹہ ماہ اگست ۱۹۵۲ ء بجوار الفضل ۲۳ اگست ۱۹۵۲ء مطابق ۲۳ ظور ۱۳۳۱ اہش ہے
۲۳۱ ہند کی جن شخصیتوں نے زبر دست نوقت کی ان کے نام یہ ہیں :.دیوبندی عالم مولانا منتور الدین صاحب - ۲- اہل حدیث عالم مولانامحی الدین صاحب قصوری ممتاز صحافی مولانا عبدالمجید سالک - ۴- صدق جدید لکھنو کے ایڈیٹر مولانا عبد الماجد صاحب دریا آبادی ه مصور فطرت خواجہ حسن نظامی مدیر منادی دہلی.۶.بھارتی مسلمانوں کے رسالہ مولوی کے مدیر مولوی عبد المجید خان صاحب ا مولانا منتور الدین صاحب ( معتقد مولاناحسین علی آن واں بھچراں ضلع میانوالی) نے اپنے رسالہ مکتوب بنام علماء“ میں لکھا:.حضرات میں یقینا کہتا ہوں جس ڈھب سے تم لوگ مرزائیوں پر فتح پانا چاہتے ہو اس میں تم ہرگز کامیاب نہ ہو سکو گے کیونکہ اعداء پر فتح پانے کی جو شرائط قرآن مجید نے بیان کی ہیں قرآن کو اٹھا کر پڑھو خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے.اِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ادھر تمہارے لیڈیوں کو ایمان کی خر نہیں.خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے انتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنتُم مُؤْمِنين و هر تمهاری تحریک میں اکثریت مشرکوں کی ہے.بخدا تعالیٰ تو فرماتا ہے ومن يتول الله ورسوله والذين امنوا فان حزب الله هم الغالبون یہ ادھر آپ کی تولی والدین اشر کو ا سے ہے خد اتعالیٰ کی ذات کو حاضر ناظر جانتے ہوئے آپ فرمائیں کیا یہ تحریک ساری کی ساری مجموعہ علماء سوء نہیں ؟ کیا آپ لوگ قلباً وصدر اظفر علی خاں اور اختر علی جیسے ابناء الوقت کو دینی پیشوا ما.ہیں؟ کیا تمہاری تحریک میں کوئی کامل اہل اللہ وارث علوم نبوی ہے؟ کیا تم میں کوئی حکیم الامت تھانوی کیا ہے ؟ کیا تم میں کوئی المعیل شہید جیسا امام موجود ہے ؟ کیا تم میں کوئی جنید وقت حضرت مولانا حسین علی مرحوم حبیبی کوئی موحد موجود ہے.ہاں لے دے کر آپ کے پاس ایک امیر شریعت موجود ہے جس کی شریعت کی حقیقت سے آپ لوگوں کے مینے تو واقف ہیں لیکن کیا کہوں اُن زبانوں کو جن پر آج مہریں لگ گئی ہیں.ادھر خدا کے چند بندے جو خدا کی توحید سناتے تھے انہوں نے قسم اٹھالی کہ ہم کلمہ توحید ہر گز کسی کو نہ سنائیں گے.گویا ان کے نزدیک ربانی حکم سَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَ اصيلا آج سے منسوخ ہو گیا ؟ جس کا یہ مطلب تھا کہ اے مومنو اصبح شام خدا کی توحید بیان کرو اور اس کو جیروم ے سورہ غافر : ۵۲ سے آل عمران : ۱۴۰ به سه الانبیاء: ۳۵ + که الاحزاب : ۵۴۳ کے
۲۳ مشریکوں سے پاک کہو.سوچئے ابھلا جس کشتی تحریک کے ایسے ناخدا ہوں کیا وہ ساحل تک پہنچ سکتی..."94 یہ حضرات نیز اصلاحاً کہتا ہوں کہ آپ کی تحریک کسی خدائی تحریک کے نقش قدم پر نہیں ہے کیونکہ آسمانی کتابیں گواہ ہیں کہ خدائی تحریکوں نے ابتداء ہمیشہ دلائل سے کام لیا نہ کہ زور اور لاٹھیوں سے.ہاں باطل تحریکیں جب دلائل سے عاجز آجاتی ہیں تو کبھی اکثریت کے بل پر اقلیتوں کو ملک بدر کرنے کو تازیانہ دکھاتی ہیں جس طرح قوم لوط نے کہا لان لَمْ تَنْتِهَ يَالُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ المخرجين اور کبھی واویلا کرتی ہیں کہ فلاں اقلیت ملک میں ارتداد پھیلانا چاہتی ہے اور ملک میں انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے جس طرح فرعون نے کہا ائی اخاف ان يبدل دینکم او ان يظهر فی الارض الفساد اور کبھی حکام کے پاس جا کر سیتی اقلیتوں پر جھوٹے الزام لگاتی ہیں جن کی وجہ سے ہزاروں خدا کے پیارے بندوں کو بے جا آلام و مصائب کا شکار ہونا پڑتا ہے.اسلامی تاریخ میں ذرا امام اعظم امام احمد مقبل " امام ابن تیمیہ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیم کے حالات ملاحظہ فرمائے بائیں....اور باطل تحریکیں کبھی اکثریت کے نشہ میں آکر سختی اقلیتوں کو کھلنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں اور مملکت کے کونہ کو نہ میں اپنے دائی بھیجتی ہیں جو عوام میں یہ پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ فلاں اقلیت نے ہم کو تنگ کر رکھا ہے آؤ ہم سب اکٹھے ہو کر اس کا استیصال کر دیں جس طرح فرعون نے کیا فارس فرْعَوْنَ فِي الْمَدَا بِنِ حَشْرِينَ إِنَّ هَؤُلَاءِ لَشِرُ ذِمَةُ قَلِيلُوْنَ لا وَ إنَّهُمْ لَنا لَنَا بِظُونَ وَاِنَّا لَجَمِيعُ حَدِرُونَ سے اس مقام پر یکی حکومت پاکستان کے با اقتدار طبقہ کی روشن ضمیری پر بھی داد دیتا ہوں جنہوں نے خوب سمجھ لیا ہے کہ اگر مطالبیرا خوار آج مرزائیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تو کل دیو بندیوں کو اقلیت قرار دینا پڑے گا اور پرسوں اہلحدیثوں کو علیٰ ہذا القیاس.اور اس طرح سے ملت پاکستانیہ کا شیرازہ یکھر جائے گا اور اس نوزائیدہ مملکت کا وجود ہی سرے سے ختم ہو جائے گا.اور میں گورنر جنرل پاکستان کے ان الفاظ کی بہت قدر کرتا ہوں جو انہوں نے کراچی میں ایک کا نفرنس میں کہے کہ ه الشعراء : ۱۶۸ ب له غافر : ۲۷ : سے الشعراء : ۰۵۴ :
۲۳۳ گذشتہ ہزار سال میں شخصی حکومتوں اور ملاؤں نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے...حضرات خدا اور انبیاء اور بعثت انبیاء اور آخرت کا واسطہ دیتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ تاریخ توحید کو ہاتھ سے نہ چھوڑو.کیا مشرکین سے الگ ہو کہ ہم مرزائیوں کا کہ نہیں کر سکتے.کیا علماء شود کے تعاون سے کہا بغیر دین کا کام نہیں ہو سکتا ؟ کیا ختم نبوت کا مسئلا ختیم توحید کے بغیر حل نہ ہوسکتا تھا.مرزائیوں نے ایک فئتہ قلیلہ ہوتے ہوئے اتنی مخالفت کے باوجود اپنی تبلیغ کو نہ چھوڑا.اہل شرک و بدعت کے پیشواؤں نے یہ اعلان نہ کیا کہ آئندہ ہم عقائد مشرکیہ کی تبلیغ نہ کریں گے مگر ہمارے موقد علماء نے سوچا کہ مصلحت وقت کا تقاضا ہے کہ مسئلہ توحید کو بند کر دیا جائے کیونکہ تحریک کو نقصان پہنچتا ہے.یکی پوچھتا ہوں اگر تحریک کے با اثر لوگ مشرک ہیں تو آپ لوگوں کو ان کی اطاعت کرنی ہو گی اور ان کی خوشامد کے لئے کتمان حق کرنا ہو گا جیسا کہ گجرات میں کیا گیا ہے تو پھر وان اطعتموهم انكم لمشرکون کے مصداق کون ہوں گے ؟ کیا مرزائیت کا دور ہمارے حضرت صاحب کی زندگی میں نہ تھا.کیا ان کی کوئی تحریر و تقریر ملتی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ جب تک مرزائیوں کو اقلیت قرار نہ دیا گیا ئیں گولڑے والوں یا ستال والوں کے ساتھ مل کر دینی کام کروں گا ؟ خدارا سوچیے ! اگر کل ابو الحسنات ، قمر دین سیالوی، پیر گولڑوی جن کے گھٹنوں پر تمہارے امیر شریعت نے لاہور میں سجدہ کیا یا شیعہ مجتہدین جیسے بزرگوں کے ہاتھ میں زمام حکومت آگئی اوبر قانون ان کے ہاتھ میں آگیا تو جیسے آج مرزائیوں کو اقلیت قرار دے رہے ہیں کل ہمیں اقلیت قرار دیں گے.اگر یہ لوگ بر سر اقتدار آگئے تو حمد بن عبد الوہاب، اسمعیل شہید محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیم اجمعین تو ان کے ہاتھ نہ لگیں گے ہم ہی ہیں جو ان کی گولی کا اولین نشانہ بنیں گے.لهذا آخری التجا کرتا ہوں کہ ہم کو ان لوگوں سے کسی بھلائی کی امید نہ رکھنی چاہئیے اور مرزائیوں سے بڑھ کر ان لوگوں کے عقائد مشرکیہ کو دلائل سے رد کرنا چاہیئے.اگر مرزائی اِس وجہ سے کا فرین سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک انسان میں وہ صفات اور کمالات ثابت کئے جو تقریباً ایک لاکھ چھوٹیں اہ سر مرد اگرہ گیا ہے ؟
مهم ۲۳ ہزار انسانوں میں پہلے پائے بجاتے ہیں تو یہ لوگ جو ہزاروں انسانوں میں خدائی صفات ثابت کرتے ہیں یقیناً مشرک اور اصل ہیں.خدا کے لئے اپنے دلوں کو ٹٹو لو اور ان سے پوچھو ان دونوں قنوں میں کو نسا بڑا فتنہ ہے پہلے علامہ مولانا محی الدین صاحب قصوری ممتاز اہلحدیث عالم نے لکھا : آپ ذرا اعلمائے کرام کی حالت ملاحظہ فرمائیے: ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے.تمام ابر کاین اسلامی کا پابند ہے لیکن کسی ایک عقیدے یا عمل میں اس کا آپ سے اختلاف ہے.بس وہ مرتد ہے.واجب القتل ہے.کوئی اگر ان سے کہہ دے کہ آپ کر سکتے ہیں کہ وہ شخص گمراہ ہے.اسکے بعض عقائد اسلام کے ٹھیٹھ عقائد کے خلاف ہیں.وہ فاسق ہے لیکن خدا را آپ کس دلیل سے اسے مرتد کہتے ہیں.تو آپ خود فھو منھم کی بناء پر کافر، مرتد اور واجب القتل او ر ہی ہیں.وزراء کے خلاف کچھ کہنے والا تو صرف یہاں چند مہینوں یا زیادہ سے زیادہ چند برسوں کے لئے محبوس کر دیا جاتا ہے مگر ہمارے خدائی فوجدار، خدائی جنت و دوزخ کے مالک ایسے آدمی کو اگلی دنیا میں بھی نہیں چھوڑتے.ہم نے صرفت ان دو مثالوں پر اکتفاء کیا ہے.اگر نہ یادہ اطناب سے کام لیں تو صرف اس ایک موضوع پر پوری تصنیف تیار ہو جائے.بریلویوں کی طرف سے تمام اہل سنت والجماعت (اہل حدیث دیوبندی، احناف وغیرہ اور تمام شیعہ حضرات کی تکفیر ، شیعہ صاحبان کی طرف سے تمام اہل سنت الجرات اور بریلویوں کی بلکہ اہل سنت کے آئمہ ہدی خلفائے راشدین المحدثین کی تکفیر ( نعوذ بالله من هذه الأباطيل الكاذبه : ان يقولون الاكذبا ، اور پھر سب کی طرف سے ایعنی سنیوں اور شیعہ کے گل فرقوں کی طرف سے) مرزائیوں کی تکفیر کیا یہ اسی جہالت اور کبر و نخوت کا گو شہر نہیں جو لوگوں کے دلوں میں نہ تو قرآن پاک کی وعید : وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السلام لَسْتَ مُؤْمِنًا اور اِنَّ الَّذِينَ فَرَقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ في شئ له کا خون پیدا ہونے دیتا ہے اور نہ مل لا شفقت قلب کی تنبیہ کی طرف نہیں له مكتوب بنام علماء حث تا من از مولانا صفد ر الدین صاحب پیک منگا مسرور رہا، مطبوعہ خالد پر یس سرگودہا ۶۱۹۵۲ ه النساء : ۹۵ + منه الانعام: ۱۶۰ : لکه مسلم کتاب الایمان - ابوداؤ وابواب الجهاد نه این واحد کتاب الفتن من در احمد بن فضیل جلد ۳ ۴۳۶ جلد ۵ منه
۲۳۵ متوقعہ ہونے دیتا ہے.کیا یہ قرآن پاک کی اسی تہدید کا بالکل عملی نمونہ ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں پیش کرتا جو بنی اسرائیل کو ہوئی تھی ؟ قَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصْرَى عَلَى شَئ وَقَالَتِ النَّصري ليست الْيَهُودُ عَلَى شَى وَهُمْ يَتْلُونَ الكتب بہ مجھے ذاتی طور سے علم ہے کہ لاہور کے دو نهایت جید دیوبندی علماء نے جن کی میرے دل میں عزت ہے بر سر مجلس ایک جماعت کو مرتد کہ کچھ اسکے واجب القتل ہونے کا فتوی دیا.لایکا دون يفقهون حديثا لے س - مولانا عبدالمجید خان سالک نے تجویز پیش کی کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت تکفیر مسلمان کو قانوناً جرم قرار دے.اُن کے الفاظ یہ تھے:.اسلام کے بعد ایمان کا درجہ ہے اور قرآن مجید کے نزدیک ایمان یہ ہے کہ اللہ اس کے فرشتوں، پیغمبروں ، اس کی کتابوں ، حشر ونشر اور سزاو جزا کا اقرار کیا جائے.حدیث میں اسلام کے ارکان پانچ بیان کئے ہیں، شہادت، نماز، روزہ، زکوہ ، حج.صفت ایمان مفصل اور ارکان اسلام پر عمل کا درجہ تو بعد میں آتا ہے اولین چیز توحید و رسالت کا اقرار ہے اور جو شخص یہ اقرار کرتا ہے اُسے دنیا کی کوئی طاقت کا فرقرار نہیں دے سکتی.بخاری میں حدیث ہے.ابوہریرہؓ فرماتے ہیں.ایک شخص نے حضور سے سوال کیا.اسلام کیا ہے ؟ ارشاد ہوا اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو.کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ.نماز کو قائم کرو.رمضان میں روزہ رکھو اور زکواۃ دو پھر جو شخص تو حید و رسالت کا اقرار کرنے کے بعد حضور کے ان احکام پر بھی عمل کرتا ہے.اس کو کون کا فر قرار دے سکتا ہے؟ قرآن حکیم کا حکم " سورة النساء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَلَا تَقُولُو المَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّامَ لَسْتَ مومنا جو شخص تم کو سلام کہے اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے.یعنی اللہ کے نزدیک اس من شخص کو کبھی کافر قرار نہیں دیا جا سکتا جو سلمانوں کو السلام علیکم کہتا ہے.اس پر بعض شائقین کر کہا کرتے ہیں کہ اگر کوئی عیسائی یا ہندو ہم کو سلام کہے تو کیا ہم اس کو بھی سنا ان مان لیں ؟ اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ تمہارے اعتراض کا جواب ہم نہیں دے سکتے کیونکہ آیت صاحت ہے اور اللہ کا حکم ہے اگر تم ه البقره : ۱۱۶ : سه اخبار هفت روزه الاعتصام گوجرانوالہ ستمبر ۱۹۵۲ء مت
۲۳۶ اللہ کے بندے ہو تو تمہیں اللہ کا حکم ماننا ہو گا.دوسری بات یہ ہے کہ کست مؤمنا" کے الفاظ کا مطلب یہی ہے کہ کسی مومن کو یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے جس حالت میں وہ تم کو مومنانہ سلام کہتا ہے.غیر مسلم کا تو اس سے تعلق ہی نہیں مقصود یہ ہے کہ جو شخص مسلمان کہلاتا ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ ظاہر اخوت کا ثبوت (یعنی سلام و کلام بھی دیتا ہے اُس کو کافر کہنا از روئے قرآن ممنوع ہے.حدیث رسول کا حکم عن ابن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلى صلو واستقبل قبلتنا واكل ذبيحتنا فذالك المسلم الذى له ذمة الله وذمة رسول الله فلا تخفر وا الله في ذمته.(بخاری کتاب الصلوة ) انس بن مالک روایت کرتے ہیں فرمایا رسول اللہ نے جو شخص ہماری طرح نماز پڑھتا ہے، ہمارہے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہے تو ی شخص سلم ہے جس کے لئے اللہ کا حمد ہے اور رسول اللہ کا مہینہ ہے پس اللہ کے عمد کو نہ توڑ و حضور نے فرمایا جسے لا اله الا اللہ کہنے والوں کی تکفیر کی وہ خود کفر سے زیادہ قریب ہے.ایسی حدیثیں متعدد ہیں جن میں حضور کے قول و عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص تو حید کا اقرار کر لیتا تھا حضور اُسے سلمان سمجھتے تھے.اور اگر کوئی اعتراض کرتا تھا کہ فلاں شخص شاید دل سے مسلمان نہ ہوا ہو تو حضور فرماتے کہ مجھے یہ حکم نہیں ملا کہ میں لوگوں کے دلوں کو پھاڑ کر دیکھوں.اسلام کے لئے اقرار کافی ہے.لے آئمر اسلام اور تکفیر ہمارے آئمہ کبار نے اہل قبلہ کی تکفیر کو ہمیشہ ناواجب ٹھرایا ہے.امام طحاوی نے کیا خوب بات کہتی ہے کہ جس اقرار کے بعد کوئی مسلمان ہوتا ہے جب تک اس اقرار سے برگشتہ نہ ہو جائے اسلام سے خارج نہیں ہو سکتا ہے (رد المحتار سوم صفحہ (۳۱) نے صحیح مسلم (کتاب الایمانی) روبی متن ہے " لا يخرج الرجل من الايمان إلا بجهود ما ادخله فيه ور ایضاً معين الحكام عش ام4
۲۳۷ ساری دنیا جانتی ہے کہ ایک کا فرجس وقت کا پڑھ کر توحید و رسالت کا اقرار کر لیتا ہے تو مسلمان ہو جاتا ہے اور تمام کلم اورغیرمسلم اس کومسلمان سمجھ لیتے ہیں.اب جب تک وہ اس اقرار کو واپس نہ لے یعنی توحید و رسالت سے منکر نہ ہو جائے اس کو کافراور غیر مسلم کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے.حاکم نے اپنی کتاب منتظمی میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ سے بیان کیا ہے کہ وہ اہل قبلہ میں سے کسی کو بھی کافر نہیں کہتے اور ابوبکر رازی نے امام کرخی سے بھی یہی روایات کی ہیں.(شرح مواقف) شرح عقائد نسفی صفحہ ۳۱ میں لکھا ہے کہ اہل السنت والجماعت کے قواعد میں سے ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہ کی جائے.ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے وصال کے بعد مسلمانوں میں کئی امور پر اختلاف ہوا.وہ ایک دوسرے کو گمراہ کہنے لگے اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے لیکن اسلام ان سب کو یکجا کر کے اپنے دائرہ میں جمع کرتا ہے."مقالات الاسلاميين ابوالحسن اشعری صفحہ (۲) مولانا احمد بن الصطفیٰ لکھتے ہیں کہ حنفیوں، شافعیوں، مالکیوں اور اشعریوں کے معتمد علیہ اور مستند اماموں کی رائے یہی ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہا جا سکتا.(مفتاح دار السعادة حصہ اول صفحہ ۴۶) فقہ حنفی کی مستند ترین کتابوں سے صاف ظاہر ہے کہ اہل السنت کو تکفیر کی ممانعت کی گئی ہے.مثلاً ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں.کیسی مسلمان کی تکفیر نہ کی بجائے جب تک اس کے کلام کے کوئی اچھے معنے نہ لئے بھاسکیں.(در مختار) اگر کسی مسئلے میں ننانوے وجوہ کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفی کفر کا، تو قاضی وسختی کا فرض ہے کہ اس احتمال کو اختیار کرے جو نفی کفر کا ہے.(شرح فقہ اکبر ملا علی قاری صفحہ ۱۴۶) جب کسی مسئلے میں کئی وجوہ گھر کے ہوں اور ایک وجہ عدم تغیر کی ہو تومفتی پر واجب ہے کہ وہ حسین مکن کی راہ سے اسی وجہ کو اختیار کر سے جو تکفیر کی مانع ہے.(سل الحسام البندری سید محمدعابدین صفحه (۳) ہم کسی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے.اگر چہ وہ بہت سی باتوں میں باطل پر پہنی ہو کیونکہ اقرار توحید الہی و تصدیق رسالت محمدیہ اور توجہ الی القبلہ کے بعد کوئی شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ لا اله الا اللہ کہتے ہیں انہیں کافر نہ کہو.علم الکتاب میرور و خودی
۲۳۸ حضرت شاہ اسمعیل شہید نے اپنی کتاب منصب امامت میں جہاں عقیق سلاطین کو ان کے اعمال یک پر زجر و توبیخ کی ہے وہاں یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ لوگ چونکہ ظاہری شعائر اسلامی مثلا خفتنہ ، عیدین پر اظہار شکریہ تجہیز وتکفین، نماز جنازہ وغیرہ کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوتے ہیں.پس یہ دعوئی اسلام جو ظاہر اطوار پر ان کی زبانوں سے صادر ہوتا ہے انہیں کفر صریح سے محفوظ رکھتا ہے.اگر چہ آخرت کے مواخذہ کے لئے خفیہ کفر کافی ہے لیکن ظاہری اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے ساتھ دنیوی احکام میں مسلمانوں کا سا سلوک کیا جائے اور معاملات کی حد تک انہیں بھی مسلمانوں میں ہی شمار کیا جائے.ابو الحسن اشعری نے اپنی کتاب مقالات الاسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کا ذکر کیا ہے مثلاً شیعہ ، خوارج، مرحبہ معتزلہ وغیرہ پھر ان فرقوں کے اندرونی گروہوں پر بھی بحث کی ہے مثلاً شیعہ کے تین گروہ ہیں عالیہ، را فقیہ، زیدیہ، ان میں سے غالیہ کے پندرہ چھوٹے گروہ ہیں.اشعری کے نزدیک یہ بھی مسلمان ہیں یہاں تک کہ وہ غالیہ کو خارج از اسلام قرار نہیں دیتے حالانکہ وہ اپنے ایک سردار کو ہی کا رتبہ دیتے ہیں مثلا بیا نیہ فرقہ کے لوگ ایک شخص بیان کو اور عبداللہ بن معاویہ کے پیرو اس کو اپنا خداوند اور پیغمبر مانتے ہیں لیکن چونکہ یہ سب لوگ حضرت رسول کریم کی نبوت اور قرآن مجید کا کلام الہی ہونا تسلیم کرتے ہیں اسلئے وہ خارج از اسلام قرار نہیں دئے جاتے لیے مسلمانوں کو کافر نہ بناؤ غرض جہاں تک دیکھا جائے کتاب اللہ، حدیث رسول الله ، تصانیف اہل السنت والجماعت میں تکفیر اہل قبلہ کو قطعی طور پر ناجائز قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ دین اسلام دنیا میں توحید و رسات کا اقرار کرانے کے لئے آیا تھا.اس لئے نہیں آیا کہ اچھے خاصے تو حید و رسالت کے اقراری انسانوں کو جو مسلمان ہیں مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور مسلمان ہی رہنا چاہتے ہیں زبر دستی اسلام کے دائرہ سے نکال کر باہر کرے.تکفیر کا مشغلہ پاکستان میں مسلمانوں کی وحدت کے لئے سخت مہلک ہے.اگر اس کو رائے عامہ نے اپنی توت سے فوراً دبانہ دیا تو دین مقدس اور قیمت پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے.له ايضا " كتاب الفرق بين الفرق والا نام حضرت ابو منصور عبد القاهر بن طاهر متوقى ٢٢٩ هـ) ناشر مطبة المعارب.11-9 #.
۲۳۹ کفر کی دو قسمیں ممکن ہے تکفیر کے بعض شوقین بزرگان اسلام کی بعض تحریروں سے ایسے اقوال نقل کریں جن میں بعض مسائل پر گفٹ کی مہر لگائی گئی ہے اس لئے میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ گھر کی دو قسمیں ہیں جیسا کہ علامہ ابن النیرم اپنی کتاب نہایہ میں لکھتے ہیں :.گھر کی دو قسمیں ہیں.ایک گھر تو وہ ہے جس میں خود دین کا انکار ہو یعنی توحید و رسالت کا) اور دوسر اکثر یہ ہے جس میں کسی فروع کا انکار ہو.احکام اسلامی فروع کا حکم رکھتے ہیں ان میں سے کیسی کے انکار سے کوئی شخص دین سے خاریج نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپسی ہیں قتال بھی شروع کر دیں جو صر بجا دین و ملت کے مقاصد کے خلاف ہے تو خود قرآن بھی ان کو کا فرنہیں کھتا بلکہ ان کو طائفتان من المؤمنین قرار دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو یعنی وہ آپس میں لڑنے کے بعد بھی مومن ہی رہتے ہیں کا فرنہیں ہو جاتے.علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ علامہ از بہری سے کسی نے پوچھا کہ آیا فلاں شخص فلاں قسم کی رائے ظاہر کرنے کی وجہ سے کافر ہو گیا جواب ملا کہ ایسی رائے گھر ہے.پوچھا گیا کیا وہ مسلمان رہا ؟ آپ نے جواب دیا بعض اوقات مسلمان بھی گھر کا مرتکب ہو جاتا ہے لیے " نے حضرت علامہ امام حسین بن محمد راغب اصفہانی (متوفی ) فرماتے ہیں :.الاسلام في الشرع على ضربين احد هما دون الايمان وهو اعتراف باللسان وبه يحقن الدماء حصل معه الاعتقاد أو لَمْ يحصل واياه قصد بقوله قالت الاعرابُ امَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا ولكن قُولُوا أَسْلَمْنَا والثاني فوق الايمان وهو ان يكون مع الاعترات واعتقادًا بالقلب ووفاء بالفعل واستسلام الله جميع ما قضى وقدرة (مفردات امام راغب ص ۲۳) یعنی اسلام دین محمدی کی رو سے دو طرح کا ہوتا ہے ایک اسلام ایمان سے نیچے ہوتا ہے اور وہ زبان سے اعتراف کرنا اور کلر پڑھنا ہے جہان کی حفاظت اتنے (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )
۲۴۰ اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان کوئی کافرانہ عمل بھی کرے تو اس کو فاسق، عاصی، گمراہ تو کہ سکتے ہیں لیکن کافر نہیں کہ سکتے.جس طرح اگر کسی کافر سے کوئی مومنانہ عمل سرزد ہو جائے تو اس عمل کو تو مومنانہ کہ سکتے ہیں لیکن وہ کا فر محض اس عمل سے مومن وسلم تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مسلم اور کافر کے درمیان خط فاصل توحید و رسالت کا اقرار ہے.مر سلمان کہلانے والا مسلمان ہے لمذا ہر شخص جو تو حید و رسالت کا اقراری ہے وہ مسلمان ہے.باقی رہے اس کے اعمال تو اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.اگر شریعیت ظاہری ان اعمال کو جرم سمجھے گی تو اُسے سزا دے گی اور اگر وہ اعمال شریعت کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اُسے عذاب دیگا ہمارا کام صرف اتنا ہی ہے NAAT AN INTENANTA اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ کے پر قائل کو سلمان سمجھیں اور مسلمانوں کی تعظیر کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دیں بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ اسلامی حکومت تکفیر سلمین کو قانونا جرم قرار دے تاکہ معاشرہ اسلامی اس لعنت سے ہمیشہ کے لئے پاکی ہو جائے لیے ہم مولانا عبد الماجد صاحب دریا باد کی مدیر صدق جدید کو ہمیشہ یہ خصوصیت حاصل رہی ہے کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کی تکفیر کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کی ہے اور ان ایام میں تو آپ نے مسلسل پُر زور شذرات سپر و قلم فرمائے.مثلاً ایک صاحب نے لائل پور سے مولانا عبد الماجد خان صاحب دریا بادی کو بطور شکوہ لکھا کہ وہ متفقہ مطالبہ تکفیر کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں ؟ آپ نے اس کا جواب حسب ذیل الفاظ ہیں دیا :." یہ مطالبہ اگر مکتوب نگار صاحب اپنے دل میں سوچیں تو انہیں خود کچھ عجیب سا نظر آئیں گا که مدیر صدق کے نزدیک تکفیر قادیانیہ کا فتوی غیر د تلی ہو، غیر تشفی بخش ہو پھر بھی اسے بولنے کا بقیه حاشد صفحه گذشته : شتہ :.سے ہی ہو جاتی ہے اس کے ساتھ اعتقاد کی صحت کا کوئی سوال نہیں ہوتا.قرآن کریم کی آیت قالت الاعراب الخر میں اسی طرح کے اسلام کی طرف اشارہ ہے.اور دوسرا اسلام وہ ہوتا ہے جو ایمان سے اوپر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان سے کلہ پڑھنے کے علاوہ دل میں بھی اس کا اعتقاد ہوا ور عملاً بھی وفاداری کا اظہار کرے اور بعد اتعالیٰ کی تمام قضا و قدر کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دے؟ ه اخبار آفاق " لاہور ۴-۵ر دسمبر ۶۱۹۵۲ مث :
۲۱ حق نہ تھا.اسے خاموشی ہی اختیار کر لینا تھی.گویا انظار حق کا حق صرف اکثریت کو حاصل ہے.اور جو فردا اپنے کو اس درجہ میں حق پر سمجھتا ہے لیکن چونکہ اقلیت میں ہے اس لئے اسے اکثریت پر جرح کا بھی حق نہیں اور اس پر لازم ہے کہ اگر وہ بے چون و چر اسیر اطاعت تم نہیں کرتا توکم از کم خاموش ہی رہے خواہ اس میں اپنے ضمیر و دیانت کا گلا ہی گھونٹ دینا پڑے.اکثریت کی یہ نازک مزاجی مکتوب نگار خود غور کریں کہ کس حد تک معقول ہے.کان اُن کے وہ نازک کہ گراں میری غزل بھی مکتوب میں کوئی نئی اور منتقل دلیل تکفیر قادیانیہ پرپیشیں کرنے کی بجائے اکتفا صرف اس پر کیا گیا ہے کہ یہ چونکہ دنیائے اسلام کا فتویٰ ہے متفقہ فیصلہ ہے.فلاں فلاں بزرگوں کا اس پر اجماع ہو چکا ہے.اس لئے یہ ہر صورت واجب التسلیم ہے لیکن گزارش یہی ہے کہ اتفاق رائے کا یہ منظر بے نظیر اند آخر کیسے قرار دے لیا گیا ہے ؟ یہ اتفاق و اجماع کب اور کسی فرقہ کی تکفیر سے متعلق ایسے ہی بزرگوں کا نہیں ہو چکا ہے ؟ کون فرقہ ایسا ہے.کسی کی تکفیر کا اعلان بالظہر انہیں دلائل کے ماتحت اسی جوش و قوت کے ساتھ بار بار نہیں کیا جا چکا ہے ؟ کیا فرقہ شیعہ ؟ مولانا عبد الشکور صاحب لکھنوی تنظلہ ماشاء اللہ ابھی ہمارے درمیان بہ خیریت و عافیت موجود ہیں اور وہ یقینا اہل سنت کے ایک بڑے اور ممتاز عالم دین ہیں ذرا انہیں سے دریافت فرمایا جائے ان کے قلم کا مرتب کیا ہوا ء علمائے کہ ام کا متفقہ فتوی دی لفظ یاد رہے) درباب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ بھی یاد میں تازہ ہے جس میں تیتر ریچ موجود ہے کہ شیعوں کی تکفیر میں کسی کو اختلاف ہو ہی نہیں سکتا اور تصریح در تصریح یہ کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام، ان سے مناکوت ناجائز، ان کا جنازہ پڑھنا نا جائز ، انہیں اپنے جنازوں میں شریک کرنا نا جائز، ان کا چندہ اپنی مسجدوں میں لینا تا جائز.غرض یہ کہ ان سے کوئی سا بھی معاملہ مسلمانوں کا سا کرنا جائز نہیں.گویا سید کلب حسین اور لالہ بھگوان دین ایک سطح پر.اس فتوی کفر و ارتدا و شیعر پر آپ دستخط سنیں گے کہ کن کن بزرگوں کے ہیں.کہنا چاہئیے کہ سارے دیوبند کے مولانا مرتضیٰ حسن، مولانا حسین احمد، مولانا محمد شفیع ، مولانا اعزاز علی، مولانا اصغر حسین مولانا عقیل احمد مولانا محمد انور اعجب نہیں کہ یہ وہی مشہور فاضل عصر مولانا انور شاہ کاشمیری ہی ہوں) مولانا محمد طیب ، مولانا مفتی مهدی حسن شاہجہانپوری، مولانا محمد چراغ گوجرانوالہ، مولانا
۲۴۲ محمد نظور نعمانی و غیر هم، پھر اس مسلہ پر دہلہ جناب ناظم صاحب تعلیمات دیو بند کے قلم سے کہ" اور صرف مرند اور کافر خارج از اسلام ہی نہیں ہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بھی اس درجہ میں ہیں کہ دوسرے فریق کم ہی نکلیں گے اور اسی متفقہ فتوی میں تائیدی حوالہ حضرت بحر العلوم فرنگی محلی کا بھی درج ہے.او خود موجودہ امیر شریعت پنجاب آج سے چند سال قبل اپنی لکھنو ( احاطہ شیخ شوکت علی کی تقریروں میں فرقہ شیعہ کے باب میں جو کچھ فرما چکے ہیں اسے کوئی کیسے بھلا دے؟ پھر انہیں حضرات کا فیصلہ ایسے ہی دلائل کی بناء پر اسماعیلیوں اور آغا خاں اور سارے آغا خانیوں کے گھر اور اسلام سے تعلق کیا ہے ؟ اور خود بانی پاکستان قائد اعظم کے عقائد نہ میں سے تعلق انہیں مقدمات و مبادی کو تسلیم کرنے کے بعد فتوی کیا مرتب ہوتا ہے؟ سرسید کا زمانہ گزرے ابھی ایک ہی گشت ہوئی ہے مکتوب نگار کے علم یا حافظ میں یقیناً یہ ہی ہوئی ہے مکتوب کے علم یا ہیں حقیقت محفوظ نہیں رہی کہ جمہور علماء کے حلقہ میں ان کا استقبال کی روش و انداز سے ہوا تھا ؟ وہ پیر پنچر شائد مرزائے قادیان اور اُس کے پیرو نچری شائد قادیانیوں سے کچھ بڑھ چڑھ کرہی تھے اور ان کے اسلام کا دعوی کرنا حریق اجماع" کا مرتکب ہونا تھا.آپ اسے مبالغہ سمجھ رہے ہیں ؟ مولوی امادا اعلی مرحوم کا رسالہ امداد الآفاق یہ ریم اہل النفاق کی لائبریری کے پرانے ذخیروں میں بادیایا ہوا ضرور پڑا مل جائے گا.ذرا اسے ملاحظہ فرما لیا جائے یا اس زمانہ کے دوسرے اخبارات اور سالوں کی فائلوں کو لکھنو، دہلی، سہارنپور، رام پور، ہندوستان کے ہر ہر شہر کے فقہاء کرام کا متفقہ فتوئی اس شخص کے کفر و ارتداد اور اس کے کالج اس کی کانفرنس سب کی ملعونیت پر ناطق ملے گا.دہلوی فتوئی آپ سنیں گے ؟ ا ایسے مکان ناپاک کا نام مدرسہ رکھنا اور عمل تعلیم وتحصیل سمجھنا آدمیت سے نکلنا ہے.اور زمرہ حیوانات میں داخل ہوتا ہے...صرف کر نا مال کا ایسے محل میں موجب کندہ ہونا جہنم اور ایسے بے حمل d میں سائی ہونا ہیمہ اور حطب بننا لازمی ہے اور لکھنوی فرنگی محلی مفتولی : به حیات جاوید حصہ دوم ص ) ( مولفہ مولانا الطاف حسین حالی) طبع اول :
۲۴۳ >> وجود شیطان اور اجنہ کا منصوص قطعی ہیں اور منکر اس کا شیطان ہے بلکہ اس سے بھی زائد کیونکہ خود شیطان کو بھی اپنے وجود سے انکار نہیں...وہ شخص مخرب دین ابلیس لعین کے وسوسہ سے صورت اسلام میں تخریب دین محمدی کی تشکر میں ہے.لے اور مفتیان حرم شریف حنفیہ، شافعی ، مالکیہ مغلیہ چاروں مفتی صاحبان کے متفقہ فیصلہ کی تاب نافعی، آپ آج لاسکیں گے ؟ شخص مالی و مصل ہے بلکہ ابلیس لعین کا خلیفہ ہے...اس کا فتنہ یہودو نصارے کے فتنہ سے بھی بڑھ کر ہے خدا اس کو مجھے.واجب ہے اولوالامر پر اس سے انتقام لینا...اگر باز آوے تو بہتر ہے ورنہ ضرب اور جنس سے اس کی تادیب کرنی چاہئیے سے مدینہ منورہ کے مفتی احناف کا قلم کیوں پیچھے رہنے لگا تھا ؟ شخص یا تو ملحد ہے یا شرع سے گھر کی کسی بجانب مائل ہو گیا ہے یا زندیق ہے کہ کوئی دین نہیں رکھتا یا اباجی ہے کیونکہ متفقہ کا کھانا مباح بتاتا ہے اور اہل مذہب (حنفیہ) کے بیانات سے مفہوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تو بہ گرفتاری کے بعد قبول نہیں ہوتی...ورنہ اس کا قتل واجب ہے دین کی حفاظت کے لئے اور ولاۃ امر پر واجب ہے کہ ایسا کریں یہ سکے اور شیعہ نیچر یہ اسماعیلیہ کے علاوہ عام اہل اہوا و بدعت و خوارج اور وہابیہ تجدید) اور تازه ترین" مودودیہ سے متعلق جو جو موتی قلم پر وچکا ہے اگر ان سب کے اقتباسات نمونہ کے طور پر ہی نقل ہونے لگیں تو مقابلہ رسالہ نہیں پوری ضخیم کتاب میں جائے مغالطہ سب میں مشترک ہے نہیں یہی ہے کہ نصوص کی تاویل و تغیر کو ہر جگہ انکارو تکذیب کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے اور تاویل تغیر میں ٹھو کر کھانے والوں کو جوش دینی سے مغلوب ہو کر منکرین و مکذبین کے حکم میں رکھ دیا گیا ہے.اس بے علم و بے عمل کے دل میں اپنے اکابر کی حمد الله گوری عزت و رفعت عظمت و عقیدت موجود ہے لیکن انقیاد کامل کا رشتہ صرف ذات رسول معصوم کے ساتھ محدود و مخصوص ہے اور جو حضرات آج اپنے علماء و شیوخ کے ہر فیصلہ کو ناطق اور ان کے ہر قول کو له حیات جاوید حصہ دوم ص ۲۳ به کے حیات جاوید هسته دوم از مولانا الطاف حسین حالی ها ۲۳ سے حیات جاوید حصہ دو سر خط ۲۳ ہے *
۲۴۴۴ گفته او گفته الله بود سمجھے ہوئے ہیں.وہ خوش عقیدگی کے فلو میں مبتلا ہیں اور نا دانستہ و غیر شعوری طور پر یہی عملاً خود ختم نبوت کے منکر ہو رہے ہیں کہ غیر معصوم کو معصوم کے درجہ پر رکھے ہوئے ہیں....آرچ سے ۳۰ - ۳۱ سال بیشتر جب تحریک خلافت ہندوستان میں زور شور سے اُٹھی ہر شہر ہر قریہ میں ملیں خلافت بننے لگی اور بوڑھے سے لے کر بچے تک پورے جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگے تو ایک بڑا اہم اور سنجیدہ مسئلہ یہی پیش ہوا تھا کہ آخر مسلمان سمجھا کیس کو جائے گا ؟ اور کن کی فرقوں کو امت سے الگ رکھا جائے گا ؟ اس وقت پورے غور و خوض کے بعد بڑے بڑے علماء و مفکرین امت کے مشورہ سے یہی فارمولا طے ہوا تھا کہ جو بھی اپنے کو مسلمان کہے اور توحیدو رسالت کا قائل ہو پس اُسنے مسلمان سمجھا جائے گا اور اُس کے دوسرے عقائد سے قطع نظر کر لی جائیگی.ران غلط و باطل عقائد پر جرح یقیناً بجائے خود جاری رہے گی لیکن کسی کلمہ گو کو بھی اسلام کی عام وسیع برادری سے خارج نہ کیا جائے گا.مجلس خلافت کے زمانہ میں بھی غالباً سر کار کی طرف سے سوال اُٹھا تھا کہ مسلمان کے سمجھا جائے؟ اس کا جواب اس مرد ظریف و لطیف نے یہ دیا تھا کہ جو رائے شماری کے رجسٹرین مسلمان لکھائے...وحدت کلمہ کی یہ ضرورت بینیت، اُس وقت تھی تو موجودہ حالت منف وانتشار میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے.جن حضرات نے دین کے تحفظ کی خاطر اخلاص نیت سے گھر کے فتوے دئے ہیں یقینا وہ عبد الله ماجور ہوں گے لیکن دوسرے شائد معذور ہیں جنہوں نے اپنی فہم و بصیرت کے موافق اس قطع و بریدو عمل اخراج کو امت کے حق میں زہر سمجھا ہے (اور اُن ہی میں مولنا محمد علی اور شوکت علی اور خود قائد اعظم سے لے کر آپ کے صوبہ کے شہر صاحب اور سالک صاحب شامل ہیں، انہیں بھی اخلاص اسلامی اور در دیلی سے مہرانہ سمجھ لیا جائے ہے مولا نا عبد الماجد صاحب د ر یا بادی نے ایک اور خط کے جواب میں لکھا :.ه صدق جدید ۲ ستمبر ۱۹۹۲ بحوالہ اختبار الفصل یکم اتحاد ۱۳۳۱ ش مطابق یکم اکتوبیمه ۶۱۹۵۲ صفحه ۶۵
۲۴۵ " ختم نبوت اور ہیم --- ایک طرف ایک ایسا شخص ہے جوختم نبوت کا قول منکر ہے (؟) اب دوسری طرت ایک شخص ہے جو قول تو منکر نہیں ہے لیکن عملاً اس کی تکذیب کرتا ہے آپ اس کو مسلمان کہتے ہیں حالانکہ حقیقت میں دونوں ہی ختم نبوت کا انکار کر رہے ہیں زبانی اقرار کی وجہ سے تہی طور پر ہم اس کو کا فرنہ کہیں یہ اور بات ہے لیکن آیا میزان عمل میں بھی کوئی قدرو قیمت وزن رکھے گا یا نہیں ؟ قابل غور ہے.پھر ذرا سوچئے تو سہی کہ آج دنیا بھر کے مسلمانوں میں کتنے فیصدی ایسے ہیں کہ ختم نبوت کے عملاً معتقد ہیں ؟ جاہلوں اور امتیوں ہی میں نہیں عالموں اور صوفیوں میں بھی قادیانیوں کو کافر کہنے والوں اور ظفر اللہ خان کو وزارت سے ہر طرف کرنے والوں کو بھی ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر سوچنا چاہئیے کہ کہیں خدانخواستہ ہے ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا والا معاملہ تو نہیں ہے؟ کیا ہم نے اپنی سیاست و معیشت ، اخلاق و معاشرت ، حکومت و عدالت سے اس عقیدہ کو عملاً خیر باد نہیں کہہ دیا ہے ؟ کیا ہمارے مدرسے ، سمانتھاہ بھی اب اس کی روح سے تعالی نہیں ہو گئے ہیں.پھر ایک فریق ایک جرم کی وجہ سے کافر اور گردن زدنی اور دوسرا قریباً اسی محرم کا مجرم لیکن نہ اسلام ہیگڑے نہ ایمان جائے.(الانصان) لے ۵.خواجہ حسن نظامی صاحب نے اخبار منادی بابت ماہ جون ۱۹۵۲ء میں لکھا ہے یں نے مئی کے منادی میں قادیانی جماعت کراچی کی نسبت لکھا تھا کہ اس جماعت کے جلسے کے خلاف جو ہنگامہ ہوا وہ مصلحت وقت کے خلاف تھا.میں نے قرآن مجید کی آیت بھی لکھی تھی کہ خدا نے فرمایا ہے کہ ہرشخص سے اس کے عمل کا حساب لیا جائے گا دوسروں کے اعمال کی پوچھ کچھ نہیں ہوگی اور یہ بھی لکھا تھا کہ میں قادیانی جماعت کے عقائد کے ہمیشہ خلاف رہا ہوں اور اب بھی خلاف ہوں مگر موجودہ وقت ایسا نازک ہے کہ مسلمانوں کو شیعہ ہستی ، مقلد ، غیر مقلد کے اختلافات ترک کر دینے چاہیں.چوہدری ظفر اللہ خان نے باوجود قادیانی ہونے کے پاکستان بننے کے بعد سے آج تک یورپ له صدق جدید لکھنو مورخه ۵ ستمبر ۱۹۵۷ ء بجوالله الفضل ، اکتوبر ۱۹۵۲ء مث
۲۴۶ اور امریکہ اور اسلامی دنیا میں جو خدمات پاکستان کی انجام دی ہیں وہ بے مثل ہیں.اگر پاکستان کی تخت گاہ کراچی میں مسلمان ان کی مخالفت کریں گے تو امریکہ اور یورپ اور اسلامی ملکوں کے دیوی سے پاکستان کا وقار جاتا رہے گا.مجھے یقین تھا کہ کراچی میں مولانا عبد الحامد صاحب بدایونی اور مولانا سید سلیمان صاحب ندوی ہے معالم فہم اور تاریخ کے ماہر موجود ہیں وہ عوام کی غلط فہمیاں دور کر دیں گے اور یہ فتنہ زیادہ نہ پڑھے گا مگر یہ میرا خیال غلط ثابت ہوا اور اخباروں نے ایک ایسی خبر شائع کی کہ میرا دل پاش پاش ہو گیا یعنی اخباروں نے شائع کیا کہ مولانا عبد الحامد صاحب بدایونی اور مولانا سید سلیمان صاحب ندوستی وغیرہ علماء نے جمع ہو کر ایک نیا جلسہ کیا جس میں سر ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے الگ کر دینے کا مطالبہ کیا گیا.مولانا عبد الحامد صاحب بدایونی کو جب کراچی میں نظر بند کیا گیا تھا تو میں نے کیا چی جا کر حاجی خواجہ شہاب الدین صاحب وزیر داخلہ پاکستان سے کہا تھا کہ آپ نے ایسے عالم کو نظر بند کیا ہے جس نے ساری عمر سلم لیگ کی خدمات انجام دی ہیں اور خواہیہ شہاب الدین صاحب نے اس کو تسلیم کر کے نظر بندی کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ان کو رہا کہ دیا تھا.اور مولانا سید سلیمان صاحب ندوی کی نسبت تو بھارت کے پانچ کروڑ مسلمانوں اور پاکستان کے سب چھوٹے بڑے مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آج بھارت اور پاکستان میں ان سے زیادہ گذشتہ تاریخ کے نیک و بد حالات کے نتائج پر کسی دوسرے مورخ کی نظر نہیں جاتی.پھر میں کیو نکر یقین کر لوں کہ جو کچھ اخباروں میں چھپا ہے وہ درست ہے ؟ اخباروں میں بہت سی غلط باتیں بھی شائع ہو جاتی ہیں.میں پچاس برس اخبار نویسی کرتا ہوں اور آج کل با وجود بنیائی خراب ہو جانے کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے سب روزانہ اخبار پڑھتا ہوں اور بھارت اور پاکستان کے عوام کے رجحان طبع اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں.اس لئے جب میں نے مذکورہ خبر پر بھی تو بے اختیار میری زبان سے نکلا خبر غلط ہے.مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا سید سلیمان ندوی کبھی ایسی بے عقلی کا کام نہیں کر سکتے لیکن، اب تک کسی نے اس خبر کی تردید نہیں کی.پاکستان کے اخباروں کو بھی پڑھا ریڈیو بھی سنتے مگر اس خبر کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی.اگر بچے کچھ علماء مذکور نے ایسا جلسہ کیا تھا تو مجھے خدا کے سامنے سجدے میں گر کر اور رو رو کر
۴۴۷ دعا کرنی چاہیئے کہ و علماء مذکور کو اس غلط طرز عمل سے بچائے اوریا مجھ کو اس دنیا سے جلدی اُٹھالے تاکہ یکن اپنی مسلمان قوم کی تباہی اور پاکستان کی تباہی نہ دیکھوں جو ایسے غلط کاموں سے ہوتی ضروری ہے یہا سے -4 مولوی عبدالحمید خان صاحب مدیر رسالہ مولوی (دہلی) ( ذوالحجہ ۱۳۷۷ھ مطابق تمبر ۱۹۵۲ء) نے حسب ذیل اداریہ سپر و اشاعت کیا." اب ذرا ان کو بھی دیکھئے.یہ بھی اسی بار عیب بھارت کے مسلمانوں کے خوش نصیب بھائی ہیں جن پر خدا کا فضل ہوا.آزادی ملی، مختار ہوئے، اپنے آپ حاکم بہتے ، اپنی قسمتوں کے مالک ہوئے.جہاں بھارت کے مسلمان آسمانی بلاؤں، اپنے وطنی بھائیوں کی بے انصافیوں سے پامال ونڈھال وہاں ان ہی کے صدقہ میں پاکستان والے چونچال نال نہال اور خوش حال ہوئے.ہم نے فاقوں پر بھی بھوک سے واویلا نہ کی کہ اسلام صبر کی تلقین کرتا ہے ہم نے اپنی بے عزتی پور بھی لیکن نہ کیا کیونکہ قرآن کا فرمان تھا کہ نہیں آتی تم پر کوئی مصیبت مگر تمہارے ہی ہاتھوں یا آب یکی کا موقعہ تھا نہ شکوہ کا وقت غم ہے تو یہ اور صرف یہ کہ مسلمان کہیں پیٹ کے لئے دین نہ پیچ دیں اور کمیونزم کے سیلاب میں نہ یہ جائیں کہ اس سے بھوک تو مٹے گی.تن پوشی تو ہو گی مگر بہت بڑی قیمت دے کہ ایمان و اسلام.ہم سر جوڑ کر بیٹھنے کے سو سو جتن کرتے ہیں.لڑنا بھول گئے.ایک دوسرے کے آنسو پونچھتے ہیں کہ اللہ کو راضی کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے بلکہ شاید ہی ایک طریقہ ہے.جب سیلاب آتا ہے تو شیر اور بھیڑ دونوں برابر کھڑے ہو جاتے ہیں تو یہ تو مصائب کا سال ہے.ان کا بھال جن کو اللہ نے بندوں سے بے خوفی دی یہ ہے کہ ان کو اللہ کا بھی خوف نہ رہا اور وہ سب کچھ کیا جو اللہ کے پسندید و دین اسلام کے یکسر خالات تھا منہیات قبول کرنے کے ساتھ وہ آپس میں بھی شروند سے دست و گریبان ہونے لگے.اگر آنکھیں فاضل نہ ہوتیں تو اللہ کی ایک ہلکی سی تنبیہ کافی تھی کہ اللہ نے ان کا رزق کم کر دیا.جو ملک دوسرے ممالک کو غلہ فراہم کرتا تھا آج لے بحوالہ روزة من الفضل الاسود الجولائی ۱۹۵۲ء مطابق از وفا ۱۳۳۱ پیش ص : سے ہوشیار چالاک سمجھدار.توانا (فرہنگ آصفیہ کہنے
۲۴۸ اسے دوسروں سے مانگنا پڑا.شتی سنتی سے لڑتا ہے.شیوہ سستی سے لڑتا ہے اب مرزائیوں اور سنیوں کا مقابلہ ہے اور مقابلہ بھی ایسا سخت کہ اب مرزائی مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم اقلیت اور کافروں سے بھی بدتو.یہ کاغذی مولوی فتوی دینے کے اہل نہ اس نے فتوی بازی کو اپنے صفحات میں جگہ دی.اس کو یہ دُکھ ہے کہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والے پاکستانی غیر مسلموں کو کیا منہ دکھائیں گے وغیر مسلم کہتے ہیں کہ وہ کبھی مسلم حکومت میں بے خوف اور با حرارت نہیں رہ سکتے ہیں ہوگا اسلام صلح گل اور اسلام قرآن میں ہو تو ہو مسلمانوں میں کم از کم نہیں ہے.تمہاری کتنی ہی چھوٹی بڑی حکومتوں میں ایک پاکستان ہی کا تو دعوی تھا کہ وہ اسلامی حکومت ہے اور اس کی بنیاد ہی اس پر رکھی گئی اور تم ناسمجھ بھارت کے مسلمانوں نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنی زندگی خراب کر لی.اچھا احمدی ہم ہی جیسے غیرمسلم سہی تو کیا اسلام کہتا ہے کہ اپنے غیر مسلم محکوموں کے جان لیوا بن جاؤ.ان کی عزتیں خاک میں ملاؤ.ان سے نوکریاں واپس لے اور پرستانہ کرے اگر ان کو پو را بنگال ، آسام اور پورا پنجاب مل جاتا تو ہمارا کیا بناتے بتائیے ہمارے پاس کیا جواب ہے ؟ ہم شرم سے بھی گردنیں کر لیتے ہیں وہ توئیکی کہتے ہیں کہ ہم احراریوں کو لیگیوں سے بدرجہا بہتر سمجھتے تھے لیکن یہ بھی حکومت ملتے ہی ننگے ہوئے اور ہند وسلم بھائی بھائی کہتے نہ تھکنے والے آج مسلم مسلم قصائی قصائی بن رہے ہیں ؟ ایک تو ہم پر فاقوں کی بھر مار دوسرے بے عزت اور بے کار اس پر ان طعنوں کی بوچھاڑ ہمارا ہی دل گروہ ہے کہ یہ سب سہہ رہے ہیں.یا نعوذ بالله من شرور انفسنا کبھی کبھی تو ہمارے دل میں وسوسہ اٹھنے لگتا ہے کہ ہمارے غیر مسلم بھائی جومسلمانوں کے عمل سے اسلام کو برا سجھتے ہیں کہیں یہ سچ تو نہیں ہے.شیعہ ، سنیوں ، وہابی اور بدعتیوں میں پہلے ہی یہ انتشار کیا کم تھا کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھتے تھے.ایک دوسرے کے ہاں شادی نہ کرتے تھے اور یہی بیو پار قادیانیوں سے بھی تھا.یہ افتراق نجی تھا منظر عام پر نہ آتا تھا کہ ایسی مگر بازی ہوتی تھی کہ غیر مسلموں کو طعنہ زہنی اور نشتر چھونے کا موقعہ ملتا.آج پاکستانیوں نے اس کو بھی اجاگر کر کے اور ہمارا جینا دو بھر کر دیا.سے نقل مطابق اصل پر سا ہو گا جس کے معنی عذر خواہی اور ماتم بپرسی کرنے کے ہیں.(فرہنگ آصفیہ)
۲۴۹ نہ یہی موشگافیاں فتوے سازوں کو مبارک.اِس کاغذی مولوی کو اس میں دخل نہیں.لیکن یہاں اپنے غیر مسلم بھائیوں سے موقعہ یہ موقعہ اسلام کی رواداریوں اور خوبیوں کا بقدر استطاعت ذکر کرتا رہتا تھا اور چاہتا تھا وہ سلمانوں کو چاہے برا کہیں لیکن اسلام کی خوبیوں کے قائل ہو جائیں.ان میں سے ایک بھائی میر نے پچڑانے کو کہیں سے افضل کا خاتم النبیین نمیرے اُٹھا لائے اور مجھ سے فرمایا مولوی جی ذرا اس کا پہلا پیچ پڑھنا.یہ آپ کے دکھانے کو لایا ہوں.دیکھئے اس میں لکھا ہے :.ہم بچے مسلمان ہیں جماعت احمدیہ کسی نئے مذہب کی پابند نہیں بلکہ اسلام اس کا مذہیب ہے اور اس سے ایک قدم رادھر اُدھر ہونا وہ حرام اور موجب شقاوت خیال کرتی ہے اس کا نیا نام اس کے نئے مذہب پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اس کی صرف یہ غرض ہے کہ یہ جماعت ان دوسرے لوگوں سے جو اسی طرح اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ممتاز حیثیت سے دنیا میں پیش ہو سکے.غرض ہم لوگ پیچھے دل سے مسلمان ہیں اور ہر ایک ایسی بات کو جس کا ماننا ایک پیچھے مسلمان کے لئے ضروری ہے مانتے ہیں اور ہر وہ بات جس کا رد کرنا ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے اسے رد کرتے ہیں اور وہ شخص جو با وجود تمام صداقتوں کی تصدیق کرنے کے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو ماننے کے ہم پر گھر کا الزام لگاتا ہے اور کسی نئے مذہب کا مانے والا قرار دیتا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے او خدا تعالیٰ کے حضور میں جواب دہ ہے.انسان اپنے منہ کی بات سے پکڑا جاتا ہے نہ کہ اپنے دل کے خیال پر.کون کہہ سکتا ہے کہ کسی کے دل میں کیا ہے ؟ جو شخص کسی دوسرے پر الزام لگاتا ہے کہ جو کچھ یہ منہ سے کہتا ہے وہ اس کے دل میں نہیں ہے وہ خدائی کا دعوی کرتا ہے کیونکہ دلوں کا حال جاننے والا صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں کہ سکتا کہ کسی کے دل میں کیا ہے " ( دعوۃ الا شیر صفحہ ۱ ، ۲ ) پھر فرمانے لگے کہ مولوی جی این دستو.اگر یہی بات پوری کی پوری میں کہوں تو کیا آپ مجھے مسلمان نہیں کہیں گے اور مجھے اپنا دینی بھائی نہیں جائیں گے.اس کے بعد بھی اگر مجھ پر اتیا چار ہو اور یہ کیا جائے کہ تم مسلمان نہیں ہو تو کیا یہی اسلام کی تعلیم ہے؟ اور میں نے سنا ہے کہ غیرمسلم کو مسلمان ے پر چھہ ۲۷ جولائی ۶۱۹۵۲ کے تالیف حضرت خلیفة أسبح الثاني الصلح الموعود (۱۹۲۳ء)
۲۵۰ کرتے وقت یہی تو اس سے کہلواتے ہیں یکں دم بخود رہ گیا.کہا شرما جی اس میں ایک بات یہ ہے کہ وہ ہمارے رسول کو خاتم الانبیاء نہیں مانتے.انہوں نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور کہا بھلا اس فقرے میں یہ بات نہیں آتی اسلام اس کا مذہب ہے اور اس سے ایک قدم ادھر اُدھر ہونا حرام اور موجب شقاوت خیال کرتی ہے کیا خاتم الانبیاء کی تصدیق کے لئے یہ کافی نہیں ہے اور جناب اِس فقرے میں کیا خاتم الانبیاء کی تصدیق نہیں ہے " ہم لوگ سچے دلی سے سلمان ہیں اور ہر ایک ایسی بات کو جو ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے مانتے ہیں اور ہر وہ بات جس کا رد کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے اسے رو کرتے ہیں اب کی بالکل خاموش تھا.کہنے لگے کہ اگر یکی مسلمان ہونا چاہوں تو اتنی بات کہ دینی مسلمان ہونے کے لئے کافی سمجھتا ہوں.پھر قہقہ لگایا اور کہا دیکھیئے اب کیا فرمائیں گے آپ جناب مولوی صاحب ! احمدیوں کے امام کے بیانات پر جو اسی پر بچہ کے صفحہ ۷، ۸ پر درج ہیں.انہوں نے جگہ اقرار کیا ہے کہ آپ کے رسول خاتم الانبیاء ہیں اور کرتی دیکھئے، مجھ کو خدا کی عزت و جلال کی قسم کہ یکی ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے رسول حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے افضل اور خاتم الانبیاء ہیں یا ایک غیر مسلم کو سمجھانے کے لئے میرے پاس کیا تھا ؟ پسینہ آگیا کہ اب یہ میرے سلمان ہونے اور اسلام کے گن گانے پرہمیشہ تقیہ ہی لگائیں گے پھر نہیں کیونکر اسلام کی رواداری پر بیٹ کر سکوں گا.شرما جی کو تاریخ اسلام پڑھنے کی کیا ضرورت ان کے تو آنکھوں کے سامنے مملکت اسلامی پاکستان کی جیتی جاگتی تاریخ موجود ہے.ہمارے شور ما بھائیو اگر اس کی تہر میں کوئی سیاسی جوڑ توڑ تھا تو ویسے ہی داؤ پیچ کرتے، ہماری گردنیں تو یہاں کے غیر مسلموں کے سامنے تم نہ ہوتیں اور ہم ان کی زبان سے اسلام رسوا ہوتا نہ دیکھتے.یہ ہیں ہمارے ابتکار اور یہ ہیں ہماری مشکلات جن سے ہم اور بایوس و ہر اس مند ہو جاتے ہیں اور اسے پاکستانی بھائیو آپ کی ان باتوں کا کوئی ڈیفنس نہیں کر سکتے.ہم نے آپ کے لئے اپنی ساری آسودگیاں تقریبا ہی کیں.ہم شکل پر صابر و ضابط رہے.آپ سے کوئی مدد نہیں چاہتی.آپ سے کسی ہمدردی کی توقع نہیں رکھی.جو بچے، بیویاں، مائیں ، بہنیں
۲۵۱ ہم سے بند ہو کر آپ کے زیر نگیں آئیں ہم نے تو ان کے مصائب پر بھی آپ کو متوجہ نہیں کیا اور لیس مرا بخیر تو امید نیست بد مرساں " سے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبہ احرار کا مطالبہ اقلیت ارشیان پاکستان پر پاکستان میں انانیت کے مشہور آگئی ویرات (۲۴ اگست (۱۹۵۲ء) میں ایک شیعہ دوست کا حسب ذیل مکتوب شائع ہوا :- یک اتفاق یکن السلمین کا ہمیشہ حامی رہا ہوں اور ہوں لیکن صرف معاملات معاشرت اور حدود سیاست تک.ہمارا مذہبی اتحاد نہ کسی فرقہ سے ممکن ہے نہ آج تک ہو سکا.جب ہمارے اصول دین ہی کسی سے متحد نہیں تو دینی اتحاد کے کوئی معنی نہیں.اس لئے گزارش ہے حدود پاکستان میں جو خلفشار سواد اعظم اور جماعت قادیانیہ کے درمیان اس وقت نظر آرہا ہے اور اہل شگفت زیم اکثریت میں قادیانیوں پر حملے کر رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ ان کی پرانی روایات ہیں جن کا دہرانا اگر فرض نہیں تو سیرت شیخین کے لحاظ سے سنت ضرور ہوگا سواد اعظم نے جب جہاں کسی کو کمزور دیکھا بڑھ گئے.دبا لیا تو شیر ورنہ میدان چھوڑ بھاگے.قادیانی جماعت کوئی اجنبی جماعت نہیں سواد اعظم کی ایک شاخ، عقائد و اعمال میں ہم خیال توحید - رسالت - امامت قیامت میں سارے معتقدات قریب قریب یکساں ، عبادات ملتے جلتے ہیں فرقہ حقہ امامیہ کو نہ ان سے واسطہ نہ ان سے مطلب.پھر قادیانیوں کے دیس اور بھی یہی ہیں جتنا مال اٹھایا اسی منڈی سے.خدا کا شکر ہے ہماری جماعت پر نہ کسی فرقہ باطلہ کا اثر اب تک ہو سکا نہ آئندہ بتصدق ائمہ المہا علیہم السلام اندیشہ ہے.ران حالات میں علماء شیعہ کا ختم نبوت کے نام پر ان برادران یوسف سے تعاون عمل کیسا ؟ کیا اطمینان ہو گیا ؟ یہ لوگ ہمارے دوست بن گئے.ان کے دلوں سے فرقہ شیعہ کی عداوت دیرینہ شکل گئی ؟ حکومت بنی امیہ و بنی عباس کے روایات دہرائے نہیں جا سکتے ؟ قادیانیوں پر گھر کے فتوے شائع کرنے والے ہم کو مسلمان سمجھنے لگے ؟ انہوں نے اپنے سابقہ فتووں سے تو یہ کر لی ؟ ان کی غلطی نه رساله مولوی دہلی ذوالحج ۱۳۷۱ھ مطابق ستمبر ۱۹۵۲ء بحوالہ روز نامہ الفضل، لاہور ۱۹.ستمبر ۱۹۵۲ء مث ؟
۲۵۲ کا اعتراف کر چکے ؟ عزاداری سید الشہداء علیہ السلام کو بدعت کہنا چھوڑ دیا ؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو آپ حضرات کا ان سے کسی معاملہ میں تعاون کیا معنی رکھتا ہے؟ تعجب ہے جو لوگ رسول خدا پر طرح طرح کے الزامات قسم قسم کے اتہامات لگاتے رہے پیغمبر اسلام کو (معاذ الله) خاطی، گنهگار وغیرہ وغیرہ قرار دے کر نبوت رسالت تو در کنار آپ کی شرافت و نجابت سے بھی انکار کرتے رہے خدا جانے آج اثبات ختم نبوت پر کس منہ سے تیار ہوئے ہیں ؟ اور اس سے زیادہ تعجب خیز و حیرت انگیز علمائے شیعہ کا ان سے تعاون ہے.اگر ایک خالی غیرمعصوم جس کی حیثیت بڑے بھائی سے زیادہ نہ ہو اس کی ختم نبوت تو در کنار اصل نبوت ہی ثابت نہ ہو تو کیا تعجب ؟ بالخصوص جبکہ اس جماعت کے سرپرست مولوی عنایت اللہ شاہ بخاری ، مولوی محمدعلی صاب جالندھری ، مولوی لعل حسین اختر جیسے حضرات ہوں تو ہمارا تعاون حیرت بالائے حیرت ہے ہے.یہ لے ۳ جولائی 19۵۵ء کی بات ہے کہ کوٹ سما یہ تحصیل و ضلع رحیم یار خان میں ایک مناظرہ ہوا جس میں غیر عالم جناب مولوی محمد محبیل صاحب گوجرہ نے حضرت امام علی القاری رحمہ اللہ کی یہ عبارت پڑھی ہے فلا يناقض قوله تعالى خاتم النبيين اذا لمعنى انه لا يأتي نبي بعده ينسخ ملته ولم يكن من امته (موضوعات کبیر صفحہ ۵۸ ۵۹ یعنی حضور کے بعد کسی نبی کا آنا خدا کے قول خاتم النبیین کے مخالف نہیں ہے.اس آیت کے محتے یہ ہیں کہ حضور کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی بات کو منسوخ کر دے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.مولوی محمد اسمعیل صاحب نے یہ حوالہ پیش کرنے کے بعد کہا" یا معشر العلماء بالله خبر وا.او احرار و تنظیم کے عالمو ! تاج و تخت ختم نبوت کے جھوٹے محافظو با خدا لگتی کہو کہ ملا علی قاری اور مرزا قادیانی کے تے یہ ہیں کیا فرق رہا.اگر مرزا قادیانی کافر ہے تو ملا علی قاری کیا ہیں ؟ یہ ہے تمہاری ختم نبوت جس کے لئے عوام کو ٹوٹتے پھرتے ہو یہ الشمعيار الصحابة مرتقبه جناب خادم بخاری صاحب، ناشر شیعه دار تبلیغ گوجرہ ضلع لائلپور)
۲۵۳ ہر سہ حضرات تقریباً تین سال ہوئے جلیانی متصل بھر یا روڈ (سندھ) آئے تو اپنی تقریر میں کہا مخلفائے راشدین تو بڑی چیز ہیں اگر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں بھی کوئی شخص گستاخی کا کلمہ کہے تو کافر خارج از اسلام اس پرسید امام علی شاہ صاحب ریگیس بھر یا رسٹی سے بحث ہوئی.دوران بحث میں فدک کا ذکر آگیا تو اپنی مولوی صاحبان نے برجستہ کہا " حضرت ابو بکر مفتی پر تھے بی بی فاطمہ زہرا کی تخت غلطی تھی جو نا جائز دعوی لے کر ان کے پاس گئیں ، ان خیالات اور ایسے دریدہ دہن لوگوں سے علماء شیعہ کا اتحاد کسی جگہ ممکن ہے ؟ مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے بجا مع مسجد خیر پور میرس میں اہلبیت رسول علیہم السّلام کی شان میں جس قدر سب وشتم کر کے شیعوں کی دل آزاری کی اہل خیر پور ہی خوب واقف ہیں بالخصوص محصولہ عالم کی ذات پر جو استرا الزامات لگائے بس خدا کی پناہ.آج تک اہالیان خیر پور بے چین ہیں.کیا اس کے بعد بھی تعاون درست ہے ؟ حضرات علماء کرام کو سمجھتے رہنا چاہیے کہ قادیا نیوں سے ان کی ناچاقی ان کا گھریلو معاملہ ہے کسی سیاسی مصلحت سے ناراض ہو گئے تو اپنی کمزوری محسوس کر کے آپ حضرات کو اپنا ساتھی بنانے کی کوشش کی.آؤ بھگت کرکے ریا کاری کا مکمل مظاہرہ کر رہے ہیں جانتے ہیں کہ قادیانی علماء کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے ان کا منہ توڑ جواب اگر دے سکتے ہیں تو علمائے شیعہ اس لئے آپ کو ہر تدبیر سے ہمنوا بنا کر وقتی کام نکالنا چاہتے ہیں اور وقت نکل جانے پر حسب دستور قدیم آنکھیں پھر بائیں گی غنیمت ہے.اس وقت سواد اعظم اور ہمارے درمیان یہ قادیانی موجود ہیں اگر کبھی ان کو اس گروہ سے فرصت ملی تو دوسرا قدم ہمارے سروں پر رکھنے کی کوشش کریں گے.وہی ہتھیار جو آج قادیانیوں کی گردن پر چلا رہے ہیں کل کو براہ راست دوبارہ تیز کو کے ہماری گردنوں پر پھیلائیں گے جس طرح انکاری خاتمیت کی وجہ سے قادیانیوں پر کفر کے فتوے لگائے جارہے ہیں کل کو انکا ایلافت ثلاثہ کی وجہ سے ہم پر صادر ہو کر مطالبہ پیش کریں گے چونکہ روافض خلفائے راشدین سے حسن عقیدت نہیں رکھتے ان کی خلافت و امامت کے منکر ہیں.اس لئے کا فر ہیں ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.اس لئے بصد ادب التجاء ہے کہ آپ اپنی اور اپنی پوری قوم کی حفاظت کی تدابیر پر غور کریں تا کہ بر اور این یوسف جب قادیانیوں سے فرصت پا کر ہماری طرف رخ کریں تو ہم بھی پوری طرح سے تیار ہوں.
۲۵۴ آپ حضرات کے لئے یہ فرصت کا وقت اور اپنے تحفظ کے ذرائع پر غور کرنے کا قدرتی موقع ہے اور یہ کام موجودہ تعاون سے زیادہ اہم اور قابلِ تو یہ ہے.یہ لوگ جائیں ان کے بھائی قادیانی جانیں نہ ہم گھر ان سے مطلب جنہوں نے سر سندی کو دوسری ہزار صدی کا مجدد مانا اور نہ ان سے واسطہ جنوں نے مرزا غلام احمد کو چودھویں صدی کا مجد د مان لیا اور نہ ان سے تعلق جنہوں نے خاتم المرسلین کی نبوت کو جبریل امین کی طرفداری کا نتیجہ قرار دیا ورنہ حضرت ابو بکرہ ہی ہوتے.نہ ایسے لوگوں سے غرض جو مرزا غلام احمدکو نبی جانتے ہیں.اصل یہ ہے کہ سواد اعظم نے تو وہیں رسول خدا میں کونسی کسر باقی رکھی جو قا دیانی پوری کریں گے.فقط یا لے ابزرگان امت محمدیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تحریرات سے احمدی عظیم کلام کی برتری کا چونکہ ختم نبوت کے اُن معنون کی تائید ہوتی تھی جو احمدی تعلیم بالواسط اعتراف اور تحسیب جوتے کلام نے پیش کئے ہیں اس لئے ان دونوں بعض غیر احمدی نے اصحاب نے یہ دلچسپ تجویز پیش کی کہ ہمارے علماء کرام کو چاہیے کہ ہمارے ان بزرگوں کا لڑ پچر ہی غائب کر دیا جائے.یہ تجویز ایک ٹریکٹ کی شکل میں شائع کی گئی جس کا متن یہ تھا :- یہ عمل کا وقت ہے خاموشی کا نہیں برادران !! احرار اسلام مولوی عبد الحاء، صاحب بدایونی اسید سلیمان صاحب ندوی اور مولوی احتشام الحق صاحب دیوبندی لئے مسلمانوں کی ترقی کے لئے ایک کشادہ راستہ کھول دیا ہے یعنی یہ کہ جو لوگ بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں لیکن اہل سنت و الجماعت کے عقائد سے یا بالفاظ دیگر اس وقت کے علماء سے اختلاف رکھتے ہیں انہیں اسلام سے باہر کیا جائے تا آئندہ اختلافات کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہے.نہ رہے گا بانس نہ باجے کی بانسریا.اس عمدہ نسخہ کے ذریعہ سے امید ہے کہ آئند مصلحت دیکھتے ہوئے مناسب وقت پر لعیض اور فرقوں کو بھی اسلام (سے) باہر کرنے اور اختلاف کا نام ونشان مٹا دینے کی صورت نکلتی رہے گی.اِس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے بہت سے ممالک میں جہاں تک ہماری دسترس نہیں یہ کانٹ موجود رہے گا اور اسلام کے وہ معنی نہیں مجھے بجائیں گے جو یہاں کے علماء سمجھتے ہیں بلکہ وہی پرائے معنے جو امام ابوحنیفہ اور بعض دوسرے بزرگوں کی طرف منسوب ہیں سمجھے }} در نجفت سیالکوٹ ۲۴ اگست ۱۹۵۴ ۶ بجواله الفضل ۲۶ اگست ۱۹۵۲ء حث به
۲۵۵ جائیں گے لیکن اپنے ملک کو پاک کرنا یہاں کے علماء کا کام ہے.باہر والے جانیں ان کا کام بجانے.موجودہ موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم سجھتے ہیںکہ علماء کو پوری طرح گھر کی صفائی کر دینی چاہئیے مثلاً مرزائی لوگ کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے متعلق ہمارا وہی عقیدہ ہے جو مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا تھا جو دیوبند کے بانی تھے اور مولانا احتشام الحق صاحب اور مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے روحانی باپ تھے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کتاب تحذیر الناس میں ایسے فقرات موجود ہیں جن کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مرزائی لکھ رہا ہے.جب تک یہ کتاب موجود ہے مرزائیوں کو دوسرے مسلمانوں پر غلبہ رہے گا اور موجودہ جد و جہد نا کام رہے گی.اس لئے ہمارے نزدیک وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے احرار اسلام اور مولانا احتشام الحق صاحب کو اس بات پر راضی ہو جانا چاہیئے که نانوتوی صاحب کی یہ کتاب اور دوسری کتابیں جن میں اس قسم کا ذکر ہے پاکستان میں ممنوع الاشاعت قرار دی جائیں.بے شک مولانا بخاری اور مولانا احتشام الحق کے لئے یہ گھونٹ پینا تلخ ہو گا لیکن اِس بڑے کام کے پورا کرنے کے لئے جو انہوں نے شروع کیا ہے یہ تلخ گھونٹ پیا کوئی ایسا بڑا کارنامہ بھی نہیں.مرزائیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے تو ان علماء سے بھی گلی برات کا اظہار کیا جائے جنہوں نے مرزائی عقائد کی تائید کی ہے اور نا دانستہ ان کی اشاعت میں محمد ثابت ہوئے ہیں.یہ پتھر تو سخت ہے مگر چاٹنا ہی پڑے گا ورنہ وہ مغرب زدہ مسلمان جو ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں وہ کمزور ایمان والے اپنی عقل کے برتے پر شور مچائیں گے کہ جب دیوبندی علماء یہی کہتے پہلے آئے ہیں جو یہ مرزائی کہتے ہیں تو ان پر یہ فتوی کیوں نہیں لگایا جاتا.دلوں میں ان لوگوں کی بے شک عربت کی بجائے مگر ظاہر میں برأت ضرور ظاہر کی جائے ورنہ یہ ہم ناکام رہے گی.ہاں ایک اور شکل ہے اور وہ یہ کہ مخالص حنفی طبقہ کے علماء نے بھی کچھ اسی قسم کی حرکات کی ہیں.ملا علی قاری جن کو عقائد کے بیان میں امام ابوحنیفہ صاحب سے کچھ ہی کم مرتبہ دیا جاتا ہے اور مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی نے جو احسان ہند کے لئے گو یا شیخ المشائخ کا رتبہ رکھتے ہیں اسی قسم کے الفاظ اپنی کتابوں میں لکھ دئے ہیں جو مرزائی کہتے ہیں اور مرزائی ان کتب کو دکھا دکھا کر کہتے ہیں کہ یہ لوگ ان عقیدوں کے باوجود بزرگ اور امام اور ہم کافر و مرتد ؟ آخر یہ فرق کیوں ؟ اور پیر نے وہ مسلمان اس دلیل کو سن کر متاثر ہو جاتے ہیں حالانکہ عقل انسان کو علماء کی تائید کے لئے ملی ہے نہ کہ
۲۵۶ ان کی مخالفت کے لئے مگر ہر حال اس مغربیت کی مرض کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.اس لئے اگر کسی نہ کسی رنگ میں ملا علی قاری اور مولانا عبد الحی فرنگی محلی کی کتب کو بھی ضبط کر لیا جائے تو یہ ایک بڑی دینی خدمت ہوگی اور اس سے احرار اسلام جیسے مجاہدین کو بڑی تقویت پہنچے گی.مگر ایک اور بات بڑی مشکل ہے اس کا علاج ذرا جان جوکھوں کا کام ہے مگر احرار اسلام ارادہ کر لیں تو وہ بھی کوئی ایسی بڑی بات نہیں اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں پیروں فقیروں کا بہت زور ہے اور یہ لوگ محی الدین صاحب ابن عربی معین الدین صاحب پشتی اور خواجہ میر درد صاحب کے ذرا ضرورت سے زیادہ معتقد ہوتے ہیں اور ان بزرگوں نے بھی اپنی کتب میں ویسی ہی باتیں لکھی ہوئی ہیں جیسے مرزائی کہتے ہیں حضرت معین الدین صاحب چشتی نے تو اپنے آپ کو مسیح تک کر دیا ہے اور اپنے اوپر جبرائیل کے اترنے اور ان پر وحی نازل کرنے تک کا دعوی کر دیا ہے.ان حوالوں سے مرزائیوں کو بہت تقویت ملتی ہے اور ان حوالوں کو سُن کر صوفیوں کے شاگرد اور معتقد چلا اٹھتے ہیں کہ ان بزرگوں کو کا فرکمیں یا مرزائیوں کو مسلمان اور پھر گھبرا کر کہ اٹھتے ہیں کہ ان بزرگوں کو تو کا فرکہتا مشکل ہے.ان مرزائیوں کو ہی مسلمان سمجھ لیتے ہیں.اب اس نشتر کا ازالہ یہی ہے کہ کم سے کم مرزائی فقہ کے استیصال تک ان بزرگوں کی کتب کو پاکستان میں مضبوط کر لیا جائے اور داخلہ ممنوع قرار دیا جائے تاکہ مرزائی ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں.اور تمام مساجد میں علماء یہ خطبہ پڑھیں کہ جن ضروری مصالح کی وجہ سے ان کتب کا پڑھنا ممنوع قرار دیا جاتا ہے.کم سے کم عقل کی مرض میں مبتلا ان کو ہر گز نہ دیکھیں.اس وقت مسلمانوں کی تو وہی حالت ہے کہ ح اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے چند سال ہوئے ایک شخص نے شیخ شلتوت پر وفیسر جامعہ ازہرہ صدر مجلس افتاد سے پوچھا کہ قرآن کی رو سے بیح زندہ ہیں یا فوت ہوگئے ؟ تو انہوں نے صاف کر دیا کہ قرآن کی رو سے مردہ ہیں.ان کی تو تہ جب اس طرف پھرا ئی گئی کہ مولانا علماء ہند تو متوفيك کے معنی موت کے نہیں کرتے تو انہوں نے اس اشارہ کو بھی نہ سمجھا اور صاف لکھ دیا کہ غیر عرب جو عربی نہیں جانتے دیہ بہتک کی ہمارے علماء کی ) جو چاہیں معنے کریں ہم عرب لوگ جن کی مادری زبان عربی ہے متوفیات کے معنے وفات دینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے.اس پر بھی حسب فتوی پوچھنے والے نے کہا کہ اس فتوے سے
۲۵۷ مرزائیت کو تقویت پہنچتی ہے تو انہوں نے یہ جواب لکھ کر بھیجوا دیا کہ مجھے اس سے کیا کہ اس فتوئی سے مرزائیت کو تقویت پہنچتی ہے میں نے تو وہ فتویٰ دیا ہے جو قرآن سے ثابت ہے.اگر موجودہ دور کے علماء بھی صلحت وقت کو نہیں سمجھ سکتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں تو ان علماء سے اس دنیا میں کیا فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے ؟ یہ وقت کام کا ہے ہمیں سب پر اپنے بزرگوں کا ایسا لر بچر غائب کر دینا چاہیئے جس سے مرزائی فائدہ اٹھا سکیں.آخر ان بزرگوں سے ہم نے اب کیا فائدہ اُٹھانا ہے ؟ انہوں نے جو کچھ لکھنا تھا لکھ کے اور فوت ہو گئے کام تو آپ احرار اسلام آئیں گے کوئی ایکشن لڑنا پڑایا باہمی مناقشقوں میں استمداد کی ضرورت ہوئی تو آخری کام تویں گے پس اپنی کی تائید ہمیں کرنی چاہئیے.اگر ایسانہ کیا گیا تو موجودہ علماء کے فتوں سے مرزائیوں کا کچھ نہ بگڑے گا مسلمان فطرتا بہادر اور شریف اطبع واقع ہوا ہے وہ ان فتووں سے متاثر ہو کر اور زیادہ تحقیق کرنے لگ جائے گا اور مرزائیوں کے قتل اور ان کے بائیکاٹ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شریف اور بہادر مسلمان مظلوم کی حمایت کے بہذیہ سے متاثر ہو کر کھڑا ہو جائے گا.یہ پس اس وقت کے آنے سے پہلے سب ایسا لٹریچر غائب کر دینا چاہیئے.نہ وہ لٹریچر ہوگا.مرزائی اُسے مسلمانوں کو دکھا سکیں گے.خاکسار کامریڈ محمد حسین پریذیڈنٹ انجمن نوجوانان اسلام پاکستان پنجاب لاہور
۲۵۸ فصل چهارم سیدنا حضرت مصلح موعود کا اخبار لنڈن ڈیلی میل کے نمائندہ کو اہم انٹرویو پنجاب سلم لیگ کا اجلاس لاہور اراکین پنجاب کے لیگ کی خدمت میں چند محرومنات" وزیر اعلی پنجاب کا احمدیوں سے تعلق موقف اور حضرت مصلح موعود کا بیان.ت صلح موعود کا نمائندہ ڈیلی میل احرار نے احمدیوں کے خلاف تحریک تو جاعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے اٹھائی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے کو ایک اہم انٹرویو محض اپنے فضل و کرم سے اسے جماعت احمدیہ کی تبلیغ اور اس کی عالمی شہرت میں اضافہ کا موجب بنا دیا.چنانچہ جب مطالبہ اقلیت کا زور بڑھا اور احرار بعض مسلم لیگی عہدیداروں اور نمبروں کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو بیرونی پرلین نے بھی دلچسپی لینا شروع کر دی.اسی کی ایک کڑی اخبار لنڈن ڈیلی میل کے نمائندہ خصوصی (میاں محمد شفیع صاحب) کا اہم انٹرویو ہے جو انہوں نے ربوہ میں جولائی ۱۹۹۲ء کے تیسرے عشرہ میں حضرت مصلح موعود سے لیار اصل انٹرویو انگریزی میں چھپا جو ضمیمہ میں درج کیا گیا ہے جس کا اردو ترجمہ یہاں لکھا جاتا ہے.مرنہ البشیر الدین محمود احمد نے لنڈن ڈیلی میل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اتوار کو فرمایا ہے مجھے یقین ہے کہ احمدیوں کے خلاف موجودہ اینٹی گیشن میں مہندوستان کا منفی ہاتھ کام کر ہے.ے یہ انٹرو ای گونٹ لاہور میں بھی شائع ہوا ہے
۲۵۹ آپ نے بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پاس اس کا حتمی ثبوت موجود ہے جسے متعلقہ حکام کو مناسب وقت پر پیش کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر پاکستان کی ہائی کمان نے ان کی جماعت کو اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کر دیا تو انہیں اپنی جماعت کو یہ حکم جاری کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو احمدی نہ کہیں بلکہ علم کہیں.ڈیلی میل کے میاں محمد شفیع کو خصوصی بیان دیتے ہوئے جماعت احمدیہ کی قادیانی شاخ کے تری مٹھ سالہ سربراہ نے اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی کہ طاقت کے زور پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے انہوں نے کسی قسم کا کوئی منصوبہ بنایا ہے.آپ نے فرمایا کہ احمدیت کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے ہماری جماعت توند نہیں جماعت ہے.احمدیوں اور غیر احمدیوں کی موجود کشمکش کے پیش نظر صرف ایک دیوانہ ہی احمدیوں کے لئے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا سوچ سکتا ہے.آپ نے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر بفرض محال یہ مان ہی لیا جائے کہ یہ چھوٹی سی اقلیت طاقت سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی بھاتی ہے تو اگلے ہی دن غیر حیوانی کی شدید مخالفت کے پیش نظر اسے چھوڑنے کے لئے تیار بھی رہنا چاہیئے سوال :.کیا یہ فرض کرنا صحیح ہوگا کہ حکومت کے ساتھ تصادم کے نتیجہ میں حکومت کے احمدی ملازم آپ کی اطاعت کو حکومت کے احکام پر ترجیح دیں گے ؟ جواب :.حکومت وقت کے ساتھ وفاداری ہمارے مذہب کا جزو ہے.اگر کسی وقت بھی میرے ساتھ ایسے تصادم کا وقت آجائے میں سے احمدیوں کی حکومت وقت کے ساتھ اطاعت پر آزمائش آجائے تو اسی لمحہ بحیثیت خلیقہ اپنا موجودہ مقام چھوڑنے کے لئے مجھے تیار رہنا چاہیئے.اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا ہم کسی ایسی ملکی حکومت کے خلاف کبھی کوئی غیر قانونی اقدام نہیں کریں گے جو قانون کے ذریعہ قائم کی گئی ہو.احمدیوں کے خلاف اس ملک گیر تحریک کے خلاف کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے مرزا صاحب نے فرمایا : " مجھے یہ پسند نہیں اور اس لئے پسند نہیں کہ ہمیں اِس سے کوئی نقصان ہوگا بلکہ اسلئے کہ اس سے اسلام پر نام ہو جائے گا.
۲۶۰ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:.ہماری جماعت بین الاقوامی طور پر ترقی پذیر جماعت ہے اور تبلیغی کاموں کی وجہ سے ہم اسلام اور مسلمانوں کے لئے کئی شاندار کام سر انجام دیتے ہیں.اگر میں مسلمانوں سے علیحدہ ایک اقلیت قرار دے دیا جائے تو ممالک بیرون میں ہمارے کاموں میں روک پیدا ہوگی اور اسے مجموعی طور پر ایک مسلم قوم کی کوشش نہیں سمجھا جائے گا بلکہ یہ ایک علیحدہ مذہبی فرقہ کا کام سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج بھی پیدا ہو جائے گی اس پر نہایت ذہین لیڈر نے یہ سوال کیا کہ پھر مجوزہ احمدی اقلیت کے لئے کونسی حدود مقرر کی جائیں گی ؟ ہیئت حاکمہ نے اگر جماعت کو اقلیت قرار دیا تو میں یہ حکم جاری کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کروں گا کہ ہم اپنے ساتھ احمدی کا نام ترک کر دیں اور صرف مسلم کہلائیں.آپ نے فرمایا کہ ہماری مذہبی کتب میں لفظ احمدی ہمارے لئے قطعی (یا لازمی نہیں.یہ نام بانی سلسلہ نے اپنے معتقدین کو مردم شماری کے لئے اپنی زندگی میں صرف امتیاز کے لئے استعمال کرنے کا ارشاد فرمایا تھا.فرض کریں کہ حکومت آپ کی انجمن کو سیاسی جماعت قرار دے کر غیر قانونی قرار دے دیتی ہے اس وقت آپ کا رویہ کیا ہوگا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں انجمن کا نام تبدیل کر دوں گا لیکن حکومت کے ساتھ تصادم نہیں ہونے دوں گا.اسلامی مملکت پاکستان میں آپ سے دریافت کیا گیا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں بھی آپ مکمل مذہبی آزادی کی حمایت کریں گے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ایک اسلامی ریاست میں مکمل میں آزادی ہوتی ہے.اسلام غیر مسلموں سے بھی امید کرتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی اصولوں پر عمل کہیں گے.آپ نے پھر فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ موجودہ احمدیہ ایکی میشوں میں ہندوستان کا مخفی ہاتھ کام کر رہا ہے.ہمارے پاس اس کا حمتی نبوت ہے جسے وقت آنے پر متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کے لئے ہم تیار ہوں گے.
۲۶۱ سوال : کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ ساری دنیا کے علما یہ اسلام کا ایک کنونشن بلایا جائے جو احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے بارہ میں غور کرے.جواب : ہاں بیشتر طیکہ ہمیں مجوزہ کنونشن میں نمائندگی دی جائے.سوال :.فرض کریں کہ اکثریت آپ کو عقائد کی بناء پر غیر مسلم قرار دیتی ہے تو کیا پھر بھی آپ اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر اصرار کریں گے ؟ جواب :.ہاں ہم پھر بھی عالمی اسلامی برادری کے ساتھ منسلک رہیں گے لیے ا مندرجہ بالا انٹرویو کی اشاعت کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ایڈیٹر سول اینڈ وضاحت ملٹری گزٹ کو ایک وضاحتی مکتوب لکھا جو جولائی ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں شائع ہوا اس مکتوب کا اُردو ترجمہ حسب ذیل ہے:.جناب عالی ! آپ کی بروز منگل ۲۲ ماه حال کی اشاعت میں میرے ایک انٹرویو کی رپورٹ شائع ہوئی ہے.میاں محمد شفیع صاحب جنہوں نے انٹرویو لیا ہے ایک آزمودہ کار اور دیانت دار شخص ہیں انہوں نے میرے جوابات کو نہایت احتیاط کے ساتھ ریکارڈ کیا ہے اور معمولی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے وہی چیز شائع کی ہے جوئیں نے بیان کی لیکن ایک امر کے بارہ میں کچھ غلط فہمی رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ میاں محمد شفیع صاحب نے یہ اثر لیا ہے کہ ہمارے پاس اس امر کا حتمی ثبوت موجود ہے کہ احرار کو ہندوستان سے مدد مل رہی ہے لیکن میرا مطلب یہ تھا کہ مجھے بعض لوگوں نے بتایا ہے کہ ان کے پاس کچھ ثبوت موجود ہے کہ احرار کو سرحد پار سے کچھ عدد مل رہی ہے لیکن میرے پاس اس کی تصدیق کے لئے کوئی طاقت نہیں ہے.میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے بعض لوگوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس کچھ ایسی اہم باتیں موجود ہیں کہ بعض احراری کارکنان بعض ہندوستانی پارٹیوں سے امداد حاصل کر رہے ہیں ہم ان کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اور یکن نے مزید کہا تھا کہ جب یقینی معلومات حاصل ہو جائیں گی تو ہم مناسب وقت پر یہ معلومات متعلقہ حکام کے سامنے پیش کر دیں گے معلوم ہوتا ہے کہ لیکن بدقسمتی سے یہاں ے ترجمہ از سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخہ ۲۲ جولائی ۱۹۵۲ء صاروس
یہ بات واضح نہ کر سکا اور دونوں باتیں آپس میں خلط ملط ہو گئیں.اے ۲۷-۲۶ جولائی ۱۹۵۲ء کو لاہور میں پنجاب پنجاب سلم لیگ کونسل کا اجلاس لاہور اسلامی کونسل کا ایک خصوصی اجلاس منعقد لیگ ہوا جس میں کونسل کے بعض نمبروں کی ان قراردادوں کو زیر بحث لایا گیا جن میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے.سے اکین پنجاب سلم لیگ کی خدمت میں چند معروضنا ہے عمر جاب است مینی ماحب ان اسے کے اصغر بھٹی بی.ایل ایل بی ایڈووکیٹ سرگودہا کی طرف سے بعنوان اراکین پنجاب سلم لیگ کی خدمت میں چند معروضا" ایک حقیقت افروز رسالہ شائع ہوا جس میں مطالبہ اقلیت کی حقیقت واضح کی گئی تھی.اس رسالہ کے دو اقتباسات ذیل میں نقل کئے جاتے ہیں :- ا." یکی تو ایک سیدھا سادھا مسلمان ہوں قرآن پاک نے اسلامی زندگی کی بنیا دو چار باتوں پر رکھی ہے.ایمان - عمل صالح - توصیت حق - توصیه مبر میں نہ قادیانی مرزائی ہوں اور نہ لا ہوری.نہ میرا شیعہ فرقہ سے تعلق ہے اور نہ ہی کسی اور فرقہ سے یکی محض مسلمان ہوں جس کا مسلک یہ ہونا چاہیے کہ وہ حتی کے اعلان میں کسی سے نہ ڈرے نہ تو دنیا کا کوئی لالچ اس پر غالب آئے اور نہ کوئی خوف مسلمان اگر طبع بھی رکھے توصرف خدا سے اور ڈرے بھی تو صرف خدا سے.پاکستان نوزائیدہ بچہ ہے جس کو معرض وجود میں آئے ابھی صرف پانچ سال ہوئے ہیں.عمار ملت حضرت قائد اعظم نے ہمیں اپنے اندر اتحاد یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم کی صلاحیتیں پیدا کرنے کی ہدایت فرمائی تھی اور حکم دیا تھا کہ فرقہ پرستی کا چیفہ اتار کر اسلام کے نام پر متحد ہیں تاکہ ہم عالم اسلام اور خود اپنے لئے ایک طاقت بن سکیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وہی سیاسی پارٹی جو ے ترجمہ سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲۵ جولائی ۱۹۵۲ء ص رمتن اور وضاحتی مکتوب شامل ضمیمہ ہے) سے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ر پورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۶۱۹۵۳
۲۶۳ قیام پاکستان کے خلاف تھی اور جس نے حضرت قائد اعظم کو کافر قرار دیا تھا ایک نئے لیبل کے تحت ہماری ملی وحدت اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے.ابھی حالی ہی ہیں پاکستانی بنگال میں بنگالی اُردو جھگڑ اکھڑا کر دیا گیا جس کو اگر محکمت عملی سے نہ دبا دیا جاتا تو یں لیکن تھا کہ ہم ایک اندرونی خلفشار میں مبتلا ہو جاتے جس سے نکلنا اگر چہ ناممکن نہ تھا لیکن محال ضرور تھا.یہ سیاسی بساط کے بٹے ہوئے مہرے یعنی اراکین مجلس احرار بمصداق نیاد ام لائے پرانے شکاری نے ہمارے دیس پنجاب میں مرزائی اور غیر مرزائی کا نیا فتنہ کھڑا کر دیا اور یہی نہیں بلکہ سادہ عوام کو گمراہ کر کے حکومت وقت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ قادیانیوں کو پاکستان کی ایک اقلیت قرار دیا جائے " سادہ لوح عوام احراریوں کی گذشتہ سیاسی زندگی سے کما حقہ، آگاہ ہونے کے باوجود بجذبات کے سمندر میں بہے جارہے ہیں اور اس طرح نادانستہ نظام ملت کو پارہ پارہ کرنے میں ان کے ممدو معاون ثابت ہورہے ہیں.ان حالات میں ضروری ہو گیا ہے کہ اعلائے کلمتہ الحق کا فرض ادا کیا بجائے اور عامتہ السلمین کو آنے والے خطرہ سے قبل انہ وقت آگاہ کر دیا جائے ہے کھول کر آنکھ میرے آئینہ گفتار ہیں آنے والے دُور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھے امتیاز حین و باطل کی طاقتیں خواہ کس قدر ماند پڑ گئی ہوں تا ہم حقیقت ایک ایسی چیز ہے کہ اخلاص کے ساتھ مؤثر انداز میں جب بھی اس کو پیش کیا جائے گا تو سخت سے سخت طبائع بھی اس کے آگے مرتسلیم خم کر دیں گی.ان حالات کے پیش نظر میں آپ سے مودبانہ گذارش کرتا ہوں کہ مندرجہ ذیل کوائف کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کریں اور پھر جائزہ لیں کہ احرار اپنے اس مطالبہ نہیں کہاں تک حق بجانب ہیں.کیا ان کا کھڑا کیا ہوا ختنہ کہیں پاکستان کو نیست و نابود کرنے کا ایک دوسرا حیلہ تو نہیں ہے ! ا.مرزائیوں کو اقلیت بنا کر ہم کیا فائدہ اُٹھا لیں گے ؟ کیا ہم سیاسی حقوق سے ان کو محروم کر دینگے؟ کیا ہم ان کو تبلیغ سے روک دیں گے ؟ کیا عیسائی تبلیغ نہیں کر رہے ؟ کیا آریہ سماج تبلیغ نہیں کر ر ہے ؟ کیا بہائی ہمارے ملک میں بیٹھے ہوئے تبلیغ نہیں کر رہے ؟ کراچی کے قریباً تمام ہوٹل ان کے قبضہ میں ہیں.
۲۹۴ وہ قرآن کریم کو منشوخ قرار دیتے ہیں اور بہاء اللہ کو خدا تعالیٰ کا منظر قرار دیتے ہیں مگر وہ تبلیغ کر رہے ہیں اور پاکستان ان کو نہیں روکتا.پارٹیشن کے بعد بھی کئی لوگ عیسائی ہوئے ہیں ان کو گورنمنٹ نہیں روکتی اور نہ روک سکتی ہے.خود ہم بھی تو ہر ملک میں اسلام کے لئے تبلیغ کا حق محفوظ رکھتے ہیں.- اگر مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہے تو ہمارا ان کو اقلیت قرار دینے سے بنتا ہی کیا ہے یا پھر تمہیں یہ قانون بنانا پڑے گا کہ کوئی شخص مولویوں کی اجازت کے بغیر اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا اور پھر اگر میں جھگڑ ا جاری رہا تو اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ آئندہ سنیوں اور شیعوں اور حنفیوں اور دیوبندیوں کے خلاف ایسے ہی الزام نہیں لگائے جائیں گے اور ایسی ہی شورشی نہیں کی جائے گی اور پاکستان میں فتنہ کی خلیج وسیع سے وسیع تر نہیں کی بجائے گی ؟ ۳.پھر ایک یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر اصرار کرتے رہے اور مسلمانوں کے دین پر چلتے رہے تو آپ کو گورنر جنرل سے ایک ایسا آرڈی نفس نافذ کرانا پڑے گا کہ جس کی رو سے کوئی مزائی اپنا نام مسلمانوں کا سانہ رکھے نہ ہی کلمہ پڑھے اگر پڑھے تو اس کی زبان گڈی سے نکال لی جائے.قرآن کو ہاتھ لگائے تو ہاتھ کاٹ دیے جائیں.اور اگر مسلمانوں کے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے بلکہ مسلمانوں کی طرح نماز بھی پڑھے تو اس کو سخت سزادی جائے یا اور کوئی اسلامی کام کرے تو اس کو ازروئے قانون ماخوذ کیا جائے.ظاہر ہے کہ کوئی مہذب حکومت ایسا قانون نافذ نہیں کر سکتی.اور جب یہ حقیقت ہے تو پھر خدا را سوچیں کہ ہم کہاں اور کس طرف جا رہے ہیں.آخر دنیا ہمیں کیا کہے گی ؟ ۴.اس کے علاوہ ہمیں ایک قربانی اور دینی پڑے گی اور وہ ہے کشمیر کا ہندوستان سے الحاق.ضلع گورداسپور کی قبل تقسیم سلم اور غیرسلم آبادی کا تناسب کچھ اس قسم کا تھاکہ سلمان نصف سے زیادہ تھے اور غیرمسلم جن میں ہندو، سکھ اور عیسائی وغیرہ سب شامل تھے بل بلا کر مسلمانوں کے براہر نہ تھے.اس لحاظ سے یہ ضلع بحیثیت مجموعی مسلم اکثریت کا ضلع تھا.اس ضلع میں مرزائی کثرت سے آباد تھے ان کی آبادی کو الگ کر کے شمار کیا جاتا تو پھر مسلمان نصف سے کم رہ جاتے تھے اس صورت میں ر ضلع غیر مسلم اکثریت کا ضلع ہو کر رہ جاتا تھا.چونکہ کانگرس کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی اور اس راہ میں گورداس پور کا ضلع بری طرح حائل تھا کیونکہ
۲۶۵ ہندوستان کو کشمیر جانے کے لئے ہر حال گورداس پور سے ہو کر جانا پڑتا تھا اس لئے کانگرس نے پورا زور لگایا کہ ضلع گورداسپور بھی ہندوستان میں شامل ہو جائے چنانچہ اس نے گورداسپور کو ظفر سلم اکثریت کا ضلع ثابت کرنے کے لئے پوری کوشش کی.اس وقت احرار سلم لیگ کے سخت مخالف بلکہ پاکستان کے نظریے ہی کے قائل نہ تھے اور بڑے سرگرم کا نگر سی تھے اس لئے کانگریس نے ان سے خوب فائدہ اُٹھایا اور ان کے پوسٹر اور لٹریچر وغیرہ کمیشن کے سامنے پیش کئے جن میں ثابت کیا گیا تھا کہ مرزائی مسلمانوں سے الگ فرقہ ہیں یعنی خود مسلمان مرزائیوں کو اپنا حصہ نہیں سمجھتے.ظاہر ہے کہ ایسا ثا بت ہونے سے مسلم لیگ کو ایک عظیم نقصان کا ڈر تھا چنانچہ اس وقت کے دور میں قائد اعلم اور مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اس سازش کو بر وقت بھانپ لیا اور اس کے جواب کے طور پر خود قادیانیوں کی طرف سے ایک میمورنڈم ٹریبیونل کے سامنے پیش کیا اس میں قادیانیوں نے خود اس بات کو پیش کیا کہ وہ مسلمانوں کا ایک حصہ ہیں اور کوئی الگ فرقہ نہیں ہیں یعنی احرار نے ثابت کرنا چاہا کہ قادیانی الگ فرقہ ہیں اور مسلم لیگ نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کا حصہ ہیں ، گو بعد میں ضلع گورداسپور پاکستان کو نہ مل سکا لیکن پاکستان کی یہ دلیل کہ ضلع گورداس پور مسلم اکثریت کا ضلع ہے قائم رہی اور یہ دلیل ایک ایسی مضبوط بنیاد تھی جس پر آئندہ مسئلہ کشمیر، نہروں اور بجلی وغیرہ کے مسائل میں پاکستان نے دلائل کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کر دی جس کے ساتھ ٹکرا ٹکراکر ہندوستان کی تمام ویلیں ٹوٹی پھوٹتی ہیں.آج بھی یہ دلیل قائم ہے اور پاکستان کے ہاتھ میں ایک زبر دست ہتھیا رہے ہیں.پر سرار کشمیر کا دارو مدار ہے.۵.ہندوستان میں اس وقت پانچ کروڑ مسلمان آباد ہیں.انتہائی کسمپرسی اور قابل رحم حالت میں ان کی زندگی کے دن گزر رہے ہیں.پاکستان میں اقلیتوں سے جس قسم کا سلوک ہوتا ہے اس کی طرف ان کی ملتجیانہ نگا میں لگی رہتی ہیں.پاکستانیوں کی ذرا سی لغزش ان کے لئے قیامت کا نمونہ بن سکتی ہے.اگر مرزائیوں کو محض اقلیت قرار دینے کی بات ہوتی تو کچھ نہ تھا لیکن آج کل خونی مولوی تو بر ملا اعلان پر اعلان کر رہے ہیں کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دے کر اس ملک سے ہی نکال دیا جائے اور شاید ان کا پیٹ تو اس طرح بھی نہ بھرے گا خواہ ایسا کرنے سے پانچ کروڑ جائیں خطرہ ہمیں پڑھائیں.ذرا غور کیجئے کہ اگر مرزائیوں کو آپ نے اقلیت قرار دے دیا تو آخر ان سے
۲۶۶ وہی سلوک ہو گا جو ہندوؤں سے.اور ہند و پاکستان میں دو کروڑ ہیں.یہ دو کروڑ ہند و کیا پانچ کروڑ مسلمانوں کو زندہ رہنے دے گا ؟ کیا یہ دو کروڑ ہندو مسلمانوں کا اپنے میں سے علیحدہ کئے ہوئے فرقہ پر ہوتا ہوا ظلم دیکھ کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھے گا ؟ کیا وہ اس خدشہ پر ہی آفت نہ لے آئے گا.خدارا ذرا تو سوچئے کہ آیا آپ چند لاکھ مرزائیوں پر ظلم کر کے پاکستان کے وجود کو خطرے میں تو نہیں ڈال رہے ؟ تازہ خواہی داشتن گر داخھائے سینہ را گا ہے گا ہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را “.کیا یہ حقیقت نہیں کہ مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.ان کا ایمان ہے کہ خدا ایک ہے اور رسول اکرم خدا کے آخری نبی ہیں.نماز قائم کرتے ہیں وہی نماز جس کی حقیقت ہم لوگوں نے کھو دی ہے.زکواۃ ادا کرتے ہیں (جس کا ہم میں اخلاص باقی نہیں رہا) حج کرتے ہیں، ہاں وہی جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے.ہمارے اور ان کے عقیدہ میں صرف لفظ نبی کا اختلاف ہے.وہ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں ایسا نبی کہ جس کی نبوت رسول اکرم کی غلامی کی رہین منت ہے ہمیں ان کے اس عقیدہ سے ایک بنیادی اختلاف ہے.ہمارا ایمان ہے کہ نبی کا لفظ سوائے رسول خدا کے اور کسی پر استعمال نہیں ہو سکتا.وہی نبی آخر الزماں نہیں ان کے بعد نبوت کے دروازے ہمیشہ کے لئے مسدود ہو گئے.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا محض عقیدہ کے اس اختلاف پر ہم ان کو خارج انہ اسلام قرار دے سکتے ہیں؟ مسلمانوں کے اِس وقت بہتر فرقے ہیں ان میں سے ایسے بھی ہیں جو قرآن کے دن پاروں کو نہیں مانتے بعض ایسے ہیں جو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے چند ایک کو کالعدم قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلمان ہیں اور ہماری حکومت میں اور سوسائٹی میں ایک امتیازی درجہ حاصل کئے ہوئے ہیں اور ہمیں بجا طور پر اُن سے کوئی پرخاش نہیں.اگر ایک آدمی اپنے آپ کو مسلمان کہے تو از روسے قرآن پاک ہم اس کو خارج از اسلام نہیں کر سکتے ہمارے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں جس کے تحت ہم ان کو کا فربنا سکیں.مذہب کا تعلق ول سے ہے اور دل کے بھید سوائے حق تعالیٰ کے اور کسی کو معلوم نہیں ہو سکتے.ہاں اگر مرزا غلام محمد صاحب نے اسلام سے ماوری دعوائی نبوت کیا ہوتا ، قرآن سے انکار کیا ہوتا، کسی آیت قرآنی
۲۶۷ کو کالعدم قرار دیا ہوتا یا اس میں تبدیلی پیدا کی ہوتی ، کوئی نئی شریعت لائے ہوتے ، حضور سرورِ کائنات کی اطاعت سے آزاد ہو کر کسی نئی نبوت کا اعلان کیا ہوتا تو ہم حق بجانب تھے کہ ان کو غیر سلم اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے حالانکہ قرآن کا فیصلہ یہ ہے:.جو لوگ پیغمبر اسلام پر ایمان لا چکے ہیں وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو سیمو دی ہیں یا نصاری اور صابی ہوں کوئی ہو اور کسی گروہ بندی میں ہو لیکن کوئی بھی جو خدا پر اور اس کے آخرت کے دن پہ ایمان لایا اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان اور عمل کا اجر اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا.اس کے لئے نہ تو کسی طرح کا کھٹ کا ہو گا نہ کسی طرح کی غمگینی میرا خطاب حضرات احرار سے ہے کہ خدارا پاکستان میں نیا فتنہ نہ پھیلائیے.فساد کو اللہ کریم نے قرآن حکیم میں قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا ہے اور فتنہ و فساد سے ارضی الہی کو پاک کرنے کے لئے تلوار سے مدد لینے تک کی اجازت دے دی ہے.آپ نے قیلیم پاکستان کی مخالفت کی اور اس وقت کی تھی جبکہ ہمیں آپ کی امداد کی اشد ضرورت تھی لیکن آپ جان کو جھ کر دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلئے مسلمانوں کی من حیث القوم مخالفت کی.حضرت قائد اعظم کو کا فرقرار دیا اور ان کو طرح طرح کی گالیاں دیں ہم نے یہ سب کچھ سنا اور سہما کیونکہ اس وقت ہمارا دشمن قوی تھا اور ہم میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ہم اپنوں کا مقابلہ کرتے لیکن آپ کو اپنے عزائم میں شکست ہوئی اور خدا کے فضل و کرم سے پاکستان معرض وجود میں آگیا.اب نہیں ایک عظیم سلطنت کی بنیادوں کو تسلیم کرتا ہے.اسلام کے تمام فرقے اسلام کے نام در حد ہیں.آپ شیرازہ ملت کو پارہ پارہ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگائیے.مسلم لیگ اسلامی وحدت کی علمبردار ہے اس کو اللہ کریم نے اتنی طاقت بخشی ہے کہ آپ کے ان خطرناک ہتھکنڈوں کو یکسر نا کام بنادے.ہاں اگر آپ صدق دل سے مرزائیوں کو مسلمانوں کے لئے ایک فی العظیم کھتے ہیں تو آپ تبلیغ فرمائیں وعظ کریں، اعلیٰ اخلاق پیش کریں تا کہ نئی پود مرزائیوں کے چنگل میں نہ پھنسے اور پرانے مرزائی اپنے عقیدہ کو خیرباد کہہ کر آپ کی صفوں میں آملیں.آپ اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کر دیں تاکہ ہند و عیسائی اور دوسری خارج از اسلام جماعتیں اسلام کی لذتوں سے سرشار ہو کر مسلمان ہو جائیں.
۲۶۸ ایک تبلیغی مذہب کے پیر و صرف محبت اور اسوۂ حسنہ پیش کر کے مخالفین کے دل موہ سکتے ہیں.نفرت اور مقارنے کا آلہ استعمال کر کے کوئی مبلغ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکا حضرات اصوفیائے کرام کا طریقہ تبلیغ استعمال کریں کہ کس طرح غیر مسلموں سے بے پناہ محبت کرنے اور ان کو اپنے ہمہ گیر اخلاق حسنہ سے گرویدہ بنا کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیتے تھے اسوۂ رسول کو مشعل راہ بنائیں کیا اسلام تلوار سے پھیلا ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر فرمائیں کہ کیا آپ کا یہ مطالبہ کہ مرزائیوں کو جو بیانگ دہل اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں قانون کے ذریعہ کافر قرار دیا جائے حق بجانب اور نیک نیتی پر مبنی ہے ؟ وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغ مطالبہ اقلیت پر پنجاب سلم لیگ کونسل نے وزیراعلی پنجاب کا احمدیوں سے تعلق موقف کے مقابلہ میں ۲۷۲ عمران کی بھاری اکثریت سے یہ فیصلہ کیا کہ گروہوں اور جماعتوں کو اقلیت قرار دینے کے جملہ مسائل مرکزی قیادت کی بالغ نظری اور مدبرانہ فراست پر چھوڑ دئے جائیں.اس موقعہ پر پنجاب مسلم لیگ کے صدر میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے اپنی تقریر میں اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں تفصیل سے روشنی ڈالی.آپ نے تمام عواقب سے آگاہ کرنے کے بعد متنبہ کیا کہ اگر سوچے سمجھے بغیر جلد بازی میں کوئی فیصلہ کیا گیا تو ( اس انوکھے اقدام یہ کہ جس کی تاریخ عالم میں اور کوئی مثال موجود نہیں ہے ) نہ صرف یہ کہ دنیا پاکستان کا مضحکہ اڑائے گی بلکہ آئینی اور قانونی لحاظ سے ایسی الجھنیں پیدا ہوں گی جنہیں کسی صورت میں حمل نہیں کیا جاسکے گا.ان کی تقریر کے بعض ضروری اقتباسات درج ذیل ہیں.انہوں نے کہا." جہاں تک اقلیت قرار دینے کا سوال ہے اس کے متعلق اکثر کو نسلر صاحبان نے سیاسی شعور کے لحاظ سے کچھ اچھی مجھے بوجھ کا ثبوت نہیں دیار عقائد کی بحث سے قطع نظر این امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اقلیت قرار دینے کا سوال ایک آئینی اور سیاسی سوال ہے جو بعض دوسرے مسائل کے ساتھ بری طرح اُلجھا ہوا ہے.آپ لوگوں نے ان محمکہ مسائل اور ان بے شمار پیچیدگیوں پر قطعا غور نہیں کیا ہے.اور جب تک آپ تو تبر اور فراست کے ساتھ ٹھنڈے دل سے ان پچیپ دگیوں کا حل تلاش نہ کرلیں آپ فیصلہ دینا تو گیا مشورہ دینے کے بھی اہل نہیں ہیں بے اراکین پنجاب سلم لیگ کی خدمت میں چند معروضات مطبع پاکستان پرنٹنگ ورکس ایک روڈ لاہور :
۲۶۹ اگر پورے غور و خوض کے بعد آپ ان مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے تو آپ بے شک مشورہ دے سکتے ہیں تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود میں ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے مہنگا ہوں یہ امر میرے لئے مجال ہے کہ میں چار دن کے جلسے جلوسوں سے متاثر ہو کر دو ٹوک فیصلہ دے دوں.کیسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ہمیں تمام پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا اور اس کی وجہ سے جو ایک نہیں لو پیپر گیاں پیدا ہونی لازمی ہیں ان کو بھی حل کرتا ہو گا.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں ان میں سے بعض بچیپ ریگیوں کا یہاں ذکر کر دوں.تقریر جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا سوچئے.اقلیت سے مراد کیا ہوتی ہے ؟ کہیں نا کہ ایک ملک میں کچھ ایسے لوگ لیتے ہیں جو اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ عام قانون کے تحت ان کے حقوق محفوظ نہیں رہ سکتے تو وہ اپنے لئے اکثریت سے علیحدہ تحفظات کا مطالبہ کر تے ہیں.اقوام عالم کی تاریخ میں آج تک کوئی اس کی دوسری مثال نہیں ہے کہ اقلیت قرار دئے جانے کا مطالبہ اکثریت والے گروہ کی طرف سے تحفظ حقوق کے علاوہ کسی اور شکل میں پیش کیا گیا ہوں.آپ کو یاد ہو گا کہ متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں نے خود کبھی نہیں کہا کہ مسلمانوں کو ہم.علیحدہ کو دو مطالبہ کیا تو ہم نے کیا کہ ہمیں ہندوؤں سے علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے.ہندو یہی چاہتے تھے کہ وہ ہمیں کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ رکھیں اور ہم علیحدہ تحفظات حاصل نہ کر سکیں.آج ہم کسی مصلحت کی بناء پر تاریخ عالم اور تمام دستوری روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مسلم اکثریت میں سے ایک حصہ کو اقلیت قرار دے دیا جائے.اس انوکھے آتی دام کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس انتہائی مدلل جواز ہو ایسا جواز جس سے کم ہی قائل نہ ہوں بلکہ باقی دنیا کو بھی قائل کر سکیں.آج کل کی دُنیا میں پاکستان الگ تھلگ زندہ نہیں رہ سکتا اس کی زندگی دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات پر مبنی ہے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ کہیں اس اقدام سے ہماری بین الاقوامی ساکھ پر تو اثر نہیں پڑتا.ہمارے خلاف پہلے ہی یہ جھوٹا پراپیگینڈا کیا جارہا ہے کہ ہم اقلیت کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر سکتے نئی اقلیت میں بنانے سے اس غلط پراپیگنڈے کو مزید تقویت پہنچے گی اور پھر دنیا والے کیا کہیں گے کہ مجیب لوگ ہیں پاکستان بننے سے پہلے کہتے تھے کہ ہمیں اکثریت سے بچاؤ اور اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایک معمولی سی اقلیت سے بچاؤ.
۲۷۰ پہلے اکثریت کا خون سوار تھا اور اب اقلیت کا فکر دامنگیر ہے.اس ضمن میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے مزید فرمایا.اس مسئلہ کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم نے اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کر بھی دیا تو اس فیصلہ کو نافذ کرنے کا طریقہ کیا ہوگا احمدی کی آپ کیا تعریف مقرر کریں گے کسی ملک کا طور طریق اور آئین اٹھا کر دیکھ لو اس ضمن میں ایک ہی تعریف ملے گی اور وہ یہ کہ جو شخص اپنے آپ کو جس مذہب کی طرف منسوب کرتا ہے وہ اسی مذہب کا پیر و شمار ہو گا.جو اپنے آپ کو عیسائی کہتا ہے وہ عیسائی شمار ہو گا اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان کہلائے گا.اگر احمدی بھی جیسا کہ انہوں نے اعلان کیا ہے اپنے آپ کو صرف مسلمان ظاہر کرنا شروع کردیں تو آپ کیا کریں گے.اس کا ایک حل یہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ علماء کا بورڈ بنا دیا جائے اور ہر شخص کے لئے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ ووٹنگ رجسٹر میں درج ہونے سے پہلے امتحان میں سے گزرے اگر علماء اسے مسلمان قرار دیں تو وہ مسلمان شمار ہو ورنہ نہیں.بظاہر تو یہ تجویز درست معلوم ہوتی ہے لیکن اگر کل کلاں کو ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ بعض اغراض کے ماتحت مسلمانوں ہی کو غیر مسلم قرار دیا جانے لگا تو اس کا کیا علاج ہوگا ہے اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایک وقت میں ایک دو نہیں اٹھی چالیس فیصدی آبادی کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے تو ان بے چاروں کا کیا حال ہو گا ؟ اس مسئلہ کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر پنجاب مسلم لیگ نے فرمایا :- یہ بھی کہا گیا ہے کہ (نعوذ باللہ ) احمدیوں نے قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کا ساتھ نہیں دیا اگر یہ صحیح ہے اور اس بنیاد پر ان کو اقلیت قرار دینا جائز ہے تو پھر ہمیں سوچنا ہو گا کہ کس کس کو اقلیت قرار دیا جائے مسلم لیگ اور قیام پاکستان کی مخالفت تو اور بڑے بڑے لوگوں نے بھی کی تھی اور پھر اس کی زدمیں اور بہت سے لوگ بھی آئیں گے.لیکن کہنا تو نہیں چاہتا لیکن مثال کے طور پر کہنا پڑتا ہے کہ کیا اس بناء پر آپ احراریوں کو بھی اقلیت قرار دینے کے لئے تیار ہیں ؟ پر زور تالیاں) ہر حال ایسی صورت میں ہمیں یہی فیصلہ کرنا ہو گا کہ جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا ہم میں اتنی وسعت قلبی موجود ہے کہ ہم مخالفوں کو بھی اپنے میں جگہ دینے کے لئے تیار ہیں بشر طیکہ وہ کامل وفاداری کا یقین دلائیں.ہاں ہمارے اندر رہ کر اگر کوئی سازش کرے گا اور ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آئے گا تو پھر ہم
۲۷۱ ان کا قلع قمع کئے بغیر نہیں رہیں گے.دوران تقریر میں آپ نے مزید فرمایا :- پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم احمدیوں کو اس لئے اقلیت قرار دلانا چاہتے ہیں کہ انہیں اسمبلیوں وغیرہ میں نمائندگی مل سکے.اس میں شک نہیں کہ اب احمدیوں کا کوئی نمائندہ نہیں ہے اور ان کے حقوق متعین ہو جانے پر انہیں نمائندگی مل جائے گی اور وہ فائدے میں رہیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات میں وزن تو اُس وقت ہو کہ جب یہ مطالبہ خود احمدیوں کی طرف سے کیا جائے.اس مسئلہ کی مذکورہ بالا پیچیدگیاں بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا ایک خطرہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ احمدی لوگ سروستر میں بہت گھنے ہوئے ہیں حالانکہ ان کی وفاداری مشتبہ ہے تو پھر واقعی یہ بہت گہر ا مسئلہ ہے.لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا انہیں اقلیت قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان کے کم سے کم حقوق کا تعین کرنا ہو گا، کم از کم سے مراد یہ ہے کہ ان کی تعدا د سروسز میں تقرہ مد سے کم نہیں ہونی چاہئیے زیادہ ہو کوئی حرج نہیں کیونکہ حد مقر کرنے کا مقصد حقوق کا تحفظ ہوتا ہے ان کا اتلاف نہیں.ایسی صورت میں موجود ملازمین کو ہم بیٹا نہیں سکیں گے اور آئندہ مقررہ کوٹے کے مطابق نئے آدمی لازمی طور پر ملازم ہوتے رہیں گے " رو مرزائیت نہیں فروغ مرزائیت کا خود اپنے ہاتھ سے راستہ صاف کریں گے.ان آئینی اور قانونی مشکلات کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ہمارے جذبات خواہ کتنے بھی مشتعل کیوں نہ ہوں ہمیں اپنی مرکزی قیادت کو جو ہم سے زیادہ بالغ نظر اور نصاب فراست ہے کامل غور و خوض اور تحمل بردباری سے فیصلہ کرنے کا موقعہ دینا چاہیے ہے دوران تقریر میں شہری حقوق کی حفاظت کا ذکر کرتے ہوئے آنریبل میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے فرمایا : احمدیوں کے متعلق خواہ تمہارا کچھ ہی اعتقاد کیوں نہ ہو مگر جب تک انہیں شہریت کے حقوق حاصل ہیں تمہارا فرض ہے کہ ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی پوری پوری حفاظت کرو لیکن آپ لوگوں سے مجھے توقع نہیں کہ آپ اس فرض کو کما حقہ ادا کر سکیں گے بچاہئیے یہ کہ اس کو نسل کا ایک ایک رکن شہید ہو جائے قبل اس کے کہ کسی احمدی کے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرے.اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو آپ لوگ حکومت کے نا اہل ہیں.
۲۷۲ ہم میں سے کوئی مارا جائے یا نہ مارا جائے اس کی اتنی اہمیت نہیں لیکن پاکستان میں ایک ہندو ایک سکے یا ایک نیسائی کا مارا جانا بہت بری بات ہے.اگر ان میں سے ناحق کوئی مانا جاتا ہے تو حیف ہے ہم ہیں اور ہمارے صاحب اقتدار ہونے پر امن کیسے قائم رہے ؟ تقریر جاری رکھتے ہوئے آپ نے مزید فرمایا :- لیکن موجودہ حالات میں امن کیسے قائم رہے گا ؟ ہمار سے مولوی صاحبان آسمانی مقصد کی خاطر یا کسی بھی غرض کے تحت غم و غصہ پھیلاتے ہیں اور امن بحال کرنے کے لئے جب پولیس مداخلت کرتی ہے یا واقعہ ہم پہلگائی جاتی ہے تو اس پر برا منایا جاتا ہے.پچھلے دنوں مجلس احرار کے بعض بر گزیدہ کارکن تشریف لائے اور انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ ان کا مطالبہ آئینی مطالبہ ہے امن برقرار رکھنے میں تھے حکومت کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں گے بلکہ انہوں نے کہا امن کا تحفظ ہما.اسیا سی ہی تھیں بلکہ مذہبی فرض بھی ہے.اس ضمن میں یکی احراریوں اور مسلم لیگیوں سے ایک بات کہوں گا اور وہ یہ ہے کہ امن و امان قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے شہری حقوق کی حفاظت کی جائے لیکن وزیر آباد کے شہر میں جو کچھ ہوا ہے وہ اس لحاظ سے بہت قابل اعتراض ہے.وہاں بعض نوجوان طلباء نے جلوس نکالا کہ ایک احمدی استاد کو بر طرف کیا جائے.اسی شام میونسپل کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہوا اور ہر آئینی پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس احمدی استاد کو برطرف کرنے کا اعلان کر دیا گیا میں احرار سے کرتا ہوں کہ اگر تحفظ امن کا وعدہ سچا ہے تو لاہور چھوڑ کر وزیر آباد جائیے اور لوگولی کو بتائیے کہ یہ مسئلہ محض عقید ے کا ہے ہم انسانیت کا خون نہ ہونے دیں گے اور اس بات کو گوارا نہ کریں گے کہ لوگوں کے شہری حقوق تلف ہوں.مسئلہ زیر بحث کے تمام پہلوؤں پر بخوبی روشنی ڈالنے کے بعد آپ نے فرمایا جب تک غورو خوض کے ساتھ تمام پہلوؤں پر غورنہ کیا جائے ہم میچ نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے اور اگر آپ ناز کی مسائل پر صبر و تحمل سے غور کرنے کے لئے تیار نہیں تو مجھے ایسی جماعت کی صدارت قبول نہیں جو مسائل کی نزاکت کا احساس نہ کرتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں تدبر سے کام نہ لے.اگر آپ نے جلد بازی میں کوئی غلط فیصلہ کر دیا جو پاکستان کے مجموعی مفاد کے خلاف ہوا تو یہ پنجاب سلم لیگ پر ایک وقتہ ہو گا یا ہے لے ٹریکٹ بعنوان میاں ممتاز محمد خان دولتانہ صدر پنجاب سلم لیگ مطبوعہ ایس ڈیلیو پر لین رام نگری ہور ۲۷ جولائی ۲۶۱۹۵۲
۲۷۳ قائد اعظم کا مسلک امین مندرجہ بالا بیان قائد اعظم کی اس مستقل پالیسی اور عملی مسلک کے عین مطابق اتاکہ تمام کلمہ گو بلا تفریق فرقہ سب سلمان ہیں اور پاکستان کی آئینی و قانونی جنگ میں مسلم لیگ کی کامیابی کا سارا راز اسی نکتہ میں عمر تھا جیسا کہ قائد اعظم نے ۲۳ مئی ۱۹۴۷ کو کشمیر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :- مجھ سے ایک پریشان کن سوال پوچھا گیا کہ مسلمانوں میں سے مسلم لیگ کا نمبر کون بن سکتا ہے ؟ یہ سوال خاص طور پر قادیانیوں کے سلسلے میں پوچھا گیا میرا جواب یہ ہے کہ جہاں تک آئی انڈیا مسلم لیگ کے آئین کا تعلق ہے اس میں درج ہے کہ ہر سلمان بلا تمیز عقیدہ و فرقہ مسلم لیگ کا ممبر بین سکتا ہے بشرطیکہ مسلم لیگ کے عقیدہ، پالیسی اور پروگرام کو تسلیم کرے، رکنیت کے فارم پر تحفظ کرنے اور دو آنے چندہ ادا کرے.کیکی جموں وکشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ فرقہ وارانہ سوالات نہ اُٹھائیں بلکہ ایک ہی پلیٹ فارم پر ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اسی میں مسلمانوں کی بھلائی ہے.اس سے نہ صرف مسلمان مؤثر طریقے سے سیاسی ، سماجی تعلیمی اور معاشرتی ترقی کر سکتے ہیں بلکہ دیگر اقوام بھی اور حیثیت مجموعی ریاست کشمیر بھی اللہ حضرت مصلح موعود کا بیان جاری فرمایا :- " امام جماعت احمدیہ حضرت مصلح موعود نے وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے موقف کی حمایت میں استقامت دکھانے پر حسب ذیل پنجاب مسلم لیگ کو نسل کے اتوار کے اجلاس کی رپورٹ میں نے مطالعہ کی ہے جو الفاظ احراری احمدی تنازعہ کے متعلق قرار داد میں کہے گئے ہیں مجھے اُن سے اختلاف ہو سکتا ہے ہے لیکن اس قرار داد کے متعلق جو بحث کو نسل میں ہوئی ہے اس سے ایک بات نہایت نمایاں طور پر واضح ہو گئی ہے اور وہ یہ کہ پنجاب کی سیاسی دنیا میں وزیر اعلی میاں ممتاز محمد تقان دولتانہ کے وجود میں ایک ایسا انسان موجود ہے جو اپنے معتقدات کی خاطر اپنے دوستوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی مخالفت کے علی الرغم استقامت دکھانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے یہ نہایت صحتمند آثار ہیں.اگر پاکستان مه هفت روزه اصلاح سرینگر کشمیر) ۱۳ جون ۶۱۹۴۴ م : سه رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کے صفحہ ۹۶-۹۷ پر اس قرارداد کا مکمل متن درج ہے ،
کے مسلمانوں کے ہر طبقہ میں سے ان جیسے دل گردہ کے انسان اور بھی نکل آئیں تو پنجاب محفوظ ہو جائیگا اور پاکستان کے متعلق کہا جاسکے گا کہ وہ بفضلہ تعالیٰ ہر خطرہ سے باہر ہے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانان پاکستان کا حامی و ناصر ہوتا کہ وہ ان فرائض اور ذمہ داریوں کو جو خدا وند تعالی ، حضرت محمد رسو ان اللہ صلی الہ علیہ وسلم اور وطن عزیز کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں پوری کیری اور دیانتداری سے بجا لائیں.اللہ تعالیٰ انہیں اپنی برکات سے نواز سے لے فصل پنجم جاعت حدیث کے وفدکی جناب وزیراعظم پاکستان ملاقات ابتلاؤں میں لقاء الہی کی بشارت.بحیثیت تسلیم بحیثیت مسلم بہترین شان انفرادیت دکھانے کی تلقین مسئلہ اقلیت سے متعلق ) حضر مصلح موعود کا ایک اہم خطبہ جماعت احمدیہ کے وفد کی اس سال کے اہم واقعات میں سے جماعت احمدیہ کے وفد کی عربات مآب خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر نظام جناب وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات پرستان سے ملاقات ہے جو کراچی میں ،اور جولائی ۱۹۵۲ء کو ہوئی.وفد ہیں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مندرجہ ذیل ممتاز اور بزرگ علماء میں لین شامل تھے.ے انگریزی سے ترجمہ (الفضل ۲۹ وفا ۱۳۳۱ مش مطابق ۲۹ جولائی ۱۹۵۲ء مط)
مبلغین احمدیت کا مرکزی و فد کراچی است دائیں سے بائیں: مولانا ابوالعطاء صاحب، جناب ملک عبدالرحمن صاحب خادم جناب شیخ بشیر احمد صاحب، مولانا جلال الدین صاحب شمس، جناب مولانا عبد الرحیم صاحب درڈ
۲۷۵ ا مولانا عبد الرحیم صاحب دیر و سابق مبلغ انگلستان و ناظرا مور عامه ربوده ایه - مولانا جلال الدین صاحب شمش مجاہد بلاد عربیه و انگلستان یه ۳.مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مبلغ بلا و عربیہ.ہم.ملک عبد الرحمن صاحب خادم گجراتی سیسے -۵ - جناب شیخ بشیر احمد صاحب سینٹر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ لاہوریے وفد کی تبلیغی او دا د مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کے قلم سے درج ذیل کی بھاتی ہے:.سید نا حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفتہ السیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک وفد تجویز فرمایا جو کراچی جا کہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب سے ملاقات کرے اور حقیقت حال سے انہیں مطلع کرے.اس وفد میں (۱) جناب مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.اسے ناظر امور عامہ ربوہ (۲) جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس ۳ (۳) جناب شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ لاہور (۳) جناب ملک عبدالرحمن صاحب خادم ایڈووکیٹ گجرات اور (۵) خاکسار ابو العطاء مجالندھری شامل تھے.ہم سب محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی کو ٹی ٹمپل روڈلاہور پر جج ہوئے.پہلے دن کراچی کے لئے ریل میں سیٹیں رہندو نہ ہو سکیں ہمیں ایک رات لاہور میں قیام کرنا پڑا.شام کے وقت صوفی عبدالرحیم صاحب نے محترم شیخ بشیر احمد صاحب کو فون کیا کہ آج جناب مودودی صاحب سے ملاقات ہو سکتی ہے اگر چاہیں تو آجائیں.جناب شیخ صاحب موصوف ، جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم اور خاکسار ذ ریعہ کار جناب مود و دی صاحب کے مکان پر پہنچ گئے وہ گویا ملاقات کے لئے تیار ہی بیٹھے تھے کہنے لگے کہ اچھا ہوا کہ آپ لوگ آگئے لیکن چاہتا ہی تھا کہ جماعت احمدیہ کے کوئی نمائند سے مل جائیں تو میں آپ کے امام کو ایک پیغام بھجواؤں ہم نے کہا کہ فرمائیے کیا پیغام ہے؟ له ولادت ۱۹ جون ۱۸۹۴ ء وفات فتح ۳۳۲اہش مطابق - دسمبر ۴۶۱۹۵۵ له ولادت ۶۱۹۰۱ وفات ۴ اراخاء ۳۳۵ اہش مطابق بم در اکتوبر ۴۶۱۹۲۶ سے ولادت ۱۹۰۶ ء وفات اور فتح ۱۳۳۶ مش مطابق اور دسمبر ۰۶۱۹۵۷ ه وفات نیم شهادت ۱۳۵۲ مش مطابق یکم اپریل ۶۱۹۷۳ :
جناب مودودی صاحب نے فرمایا کہ آپ لوگ بجا کہ اپنے امام سے کہیں کہ اس وقت جماعت احمدیہ کے خلاف سخت شورش برپا ہے اور شدید خونریزی کا خطرہ ہے.اس لئے بہتر یہی ہے کہ آپ خاموشی سے اپنے آپ کو غیرمسلم اقلیت تسلیم کرلیں یا پھر وہ عقائد اختیار کر لیں جو ہمیں گوارا ہوں ورنہ سخت خطرہ ہے.یکن مودودی صاحب سے پٹھانکوٹ کےدارالاسلام میں اچھی طرح گفت گو کر چکا تھا اور غالیاً اس کیس میں میں ان کے قریب اور سامنے تھا لیکں نے جواباً عرض کیا کہ جناب آپ نے ہمیں کیا پیغام دیا ہے؟ یہ پیغام ہم اپنے امام ایدہ اللہ نمرہ کو کس طرح دے سکتے ہیں ؟ اس پیغام کو توش کہ ہم خود شرمند ہیں کہ آپ ہمیں کیا کہہ رہے ہیں.اپنی جماعتوں کی مخالفتیں ہوتی آئی ہیں اور نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے اس ملک میں بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت ہو رہی ہے یہ وہی مخالفت ہے.مودودی صاحب نے ناصحانہ انداز میں کہا کہ آپ میری بات مان لیں اور یہ پیغام اپنے امام کو پہنچا دیں اس مرتبہ کی مخالفت عام مخالفت نہیں یہ بہت گہری ہے اور اس کے نتائج بڑے سخت ہیں بخاکسار نے مودودی صاحب سے پھر زور سے کہا کہ پیغام دینے کا تو سوال ہی نہیں ہے ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ مخالفت بھی بعینہ ویسی ہی ہے جیسی جملہ نبیوں کے وقت میں ہوتی رہی ہے.ایک لاکھ چو میں ہزار مرتبہ تجربہ ہوچکا ہے کہ مخالفتوں کے باوجود الی جماعت ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی رہی ہے آج بھی یہی نظارہ دہرایا جائے گا.پھر میں نے کہا کہ جناب معاملہ دو حال سے خالی نہیں یا تو حضرت باقی اسلسلہ احمدیہ علیہ السلام اپنے دعوائی ماموریت میں بچے ہیں یا معاذ اللہ جھوٹے اور مفتری ہیں.اگر وہ بیچتے ہیں اور تمہیں کامل یقین ہے کہ وہ پیچھے ہیں تو اس مخالفت سے کچھ احمدیوں کے گھر جلائے جا سکتے ہیں ، ان کی فصلیں اُجاڑی بھا سکتی ہیں، ان کی دکانیں ٹوٹی جا سکتی ہیں، ان میں سے بعض کو شہید بھی کیا جا سکتا ہے مگر یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی جاری کردہ تحریک کو مٹایا جا سکے یا اس کی قائم کر دہ جرات کونا بود کر دیا جائے اور اگر خدانخر استہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مفتری اور جھوٹے تھے جیسا کہ آپ کہتے ہیں تو پھر آپ کو ان کی جماعت سے کیا ہمدردی ہے ؟ اگر ایسی جماعت نے کل ہلاک ہونا ہے تو اسے آج ہلاک کر دینا اچھا ہے اس لئے آپ کے پیغام دینے کا عملاً بھی کوئی سوال نہیں
ہے.مرحوم مله اس مرحلہ پرگفت گو دیگر کار می و سیاسی مسائل کے متعلق جاری ہوگئی اور خاکسار کے علاوہ محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب او رفترم مولانا شمسی مرحوم میں گفتگو فرماتے رہے.اس گفتگو ہیں مسلمان کی تعریف اور جماعت کے خلاف ہنگامہ آرائی کا جواز بھی زیر بحث آیا.دوسرے روز ہم کراچی کے لئے روانہ ہو گئے.یہ جولائی ۱۹۵۲ء کے آخری ایام تھے یا اگست ۱۹۵۲ء کے شروع کے دن تھے ہمارا قیام ایک ہوٹل میں تھا.امیر و فد جناب مولانا عبد الرحیم صاحب درد نے ہر رکن کے فقہ الگ الگ مضمون مقرر کر دیا اور ہم سب نے باقاعدہ حوالے نوٹ کر لئے.اصل کتا بیں ساتھ رکھ لیں مقررہ تاریخ پر یسم سب و زیر اهم خواجه ناظم الدین صاحب مرحوم کے بالائی کمرہ میں حاضر ہوئے.بڑے تیز کے ایک حرارت خواجہ صاحب موصوف کے علاوہ سردار عبدالرب نشتر، میاں مشتاق احمد صاحب گورمانی فضل الرحمن صاحب بنگالی اور خواجہ صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری تشریف فرما تھے اور میز کے دوسری طرف علی الترتیب خاکسار ابو العطاء، محترم مولانا جلال الدین صاحب میں ، ملک عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم، محترم شیخ بشیر احمد صاحب اور محترم مولانا عبدالرحیم صاحب در دمرحوم بیٹھے تھے ہمارے امیر وفد نے خواجہ صاحب اور دیگر وزیروں سے ہمارا تعارف کرایا اور یہ بھی فرمایا کہ پہلے ہماری طرف سے ابو العطاء بات کریں گے.خاکسار نے آغاز گفتگویوں کیا کہ ہم احمدی بھی پاکستان کے آزاد شہری ہیں اور ہمیں بھی ایس ملک میں تمام باشندوں کی طرح مساوی حقوق حاصل ہیں.آپ اس ملک کے ذمہ دار وزراء ہیں آپ کے پاس ہمارے مخالف علماء نے آکر ہمارے خلاف بہت سی باتیں کہی ہیں ہم اس بارے میں وفات کرنے کے لئے حاضر ہوگئے ہیں امید ہے کہ آپ ہماری باتوں کو بھی تو جہ سے سماعت فرمائیں گے.یکن نے جناب وزیر اعظم صاحب کو تو یقیہ دلاتے ہوئے عرض کیا کہ علماء کے جو وفود آپ کو ملے ہیں انہوں نے آپ سے کہا ہوگا کہ احمدی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے.محترم خواجہ صاحب مرحوم نے اثبات میں جواب دیا میں نے عرض کیا کہ میں صرف اس مقصد کے تعلق وضاحت کرنا چاہتا ہوں.یکی نے عرض کیا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانتے ہیں انہوں نے ہمیں فرمایلہ ہے کہ.
۲۷۸ "تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا بھائے گا.نوع انسان کے لئے رُوئے زمین پر آپ کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور رفیع نہیں مگر مر مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہستم کوشش کرو کہ سچی محبت اس بجاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کیسی نوع کی بڑائی مست دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ (کشتی نوح ما میں نے مؤثر انداز میں یہ عبارت پڑھتے ہوئے اصل کتاب جناب وزیر اعظم کے سامنے رکھ دی اور پھر عرض کیا کہ جب ہمیں بائی سلسلہ احمدیہ نے قرآن مجید پر ایسے مضبوط ایمان کی تلقین فرمائی ہے اور قرآن مجید کی صریح نص ہے مَا كَانَ محمد ابا احدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِن بلا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں تو آپ یہ امکان کس طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا انکار کریں؟ ایسا الزام سراسر غلط اور باطل ہے.یکی نے عرض کیا.محترم وزراء کرام !! اگر علماء کرام یہ کہتے کہ خاتم النبیین کے معنوں اور تفسیر میں ہمارا احمدیوں سے اختلاف ہے تو بات قدرے معقول ہوتی مگر انہوں نے تو آپ کو بھی اور سارے ملک کے باشندوں کو بھی یہ کہا ہے کہ احمدی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے.ظاہر ہے کہ ان کا یہ زعم ہرگز درست نہیں.پھر میں نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سے مندرجہ ذیل و حوالہ جات مجلس میں بلند آواز سے شنائے اور ہر حوالہ پر اصل کتاب میز پر کھول کر سامنے رکھ دی بھاتی تھی.وہ حوالہ جات یہ ہیں :.ا.لیکن جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں.اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج کھتا ہوں یہ اشتهار تقریر واجب الاعلان هث مطبوعه ۱۸۹۹۱ ز مشموله تبلیغ رسالت جلد دوم ۱۲:۳ اکتوبر ۶۱۸۹۱) ه احزاب : ۴۱
۲۷۹ ۲.مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ کہیں کا فرنہیں.لَزَالَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ پر میرا عقیدہ ہے اور ولیکن مرسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایسان ہے.(کرامات الصادقين ص۲۵ مطبوعه ۱۶۱۸۹۴ ۵۱۳۱۱) ۳."ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں " (ایام الصلح ما مجریه ۱۸۹۹ء) ہم عقیدے کی رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نہی ہے.اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے ، رگشتی نوح ما مطبوعه ۶۱۹۰۲ ) ۵.آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کو اتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنے ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمال نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا اور اس طرح وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہو گائے ریویو پر مباحثہ بٹالوی، پیچکڑالوی منت مطبوعه ۶۶۹۰۲ عث ) ہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبلیقین نہیں مانتے یہ ہم پر افتراء عظیم ہے ہم جس قوت یقین و معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی وہ لوگ نہیں مانتے؟" اخبار محکم به در مارچ ۱۹۰۵ء ست کالم مگ).اب بحر محمدی نبوت کے سب بہت تیں بند ہیں شریعیت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہوئی (تجلیات البیہ ص ۲ مطبوعہ ۱۹۰۶ ء صفحه ۱۳..
۳۸۰ وران نبينا خاتم الانبياء لا نبي بعده الا الذي ينور بنورة ويكون ظهوره ظل ظهور الاستفتاء من مطبوع ١٩٠٧ء) اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نہی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبو یخ بہشتی ہے اور آپ کی توجیہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدر یہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.حقيقة الوحي منه ما شد مطبوعہ ۱۹۰۷ ء ) ا خدا اس شخص سے پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اس کے رسول حضرت محمد (صطفے صلی اللہ علیہ ولم کو در حقیقت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے.رشد معرفت ۳۲۵۰ مطبوعه ۲۶۱۹۰۸ ان دسی حوالہ جات کے پڑھنے سے اس مجلس میں عجیب موقعہ پیدا ہو گیا تھا، الحمد للہ یکیں نے کہا کہ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں.خود بانی سلسلہ احمدیہ کے کلمات آپ کے سامنے ہیں.کتابیں موجود نہیں تو پھر کسی مولوی صاحب کا یہ کہنا کیا وزن رکھتا ہے کہ احمدی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے؟ یں نے واضح کیا کہ آنحضرت کو خاتم النبیین تو احمدی بھی مانتے ہیں اور غیر احمدی بھی.اس تفسیر میں بھی دونوں فریق متفق ہیں کہ خاتم النبیین کی رو سے نئی شریعت والانہیں نہیں آسکتا.اس مرحلہ پور خاکسار نے سلف صالحین کے دن اقتباسات عربی واردو میں پیش کئے اور اصل کتابیں میز میں رکھ دیں.ان اقتباسات کا خلاصہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انقطاع صرف تشریعی نبوت کا ہے.پھر میں نے واضح کیا کہ ہمارے معنوں کی رو سے فیوض محمد یہ جاری ہیں اور آنحضرت کی پیروی سے خیر اقت کے افراد کو وہ تمام انعام مل سکتے ہیں جو پہلی امتوں کو ملے تھے ان معنوں کی رُو سے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور برتری نمایاں ہوتی ہے.پچیس تیس منٹ کے اس بیان کے آخر میں میں نے کہا کہ در حقیقت تو خاتمیت محمدیہ کے بارے میں ہمارے اور دوسرے علماء میں اختلاف کا کوئی سوال نہیں وہ بھی ایک مسیح موعود کے اقمت میں آنے کے
۲۸۱ قائل ہیں اور ہم بھی.اور دونوں فریق حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے مسیح موعود کو آنحضرت کا تابع نبی مانتے ہیں جس کے صاف معتے یہ ہیں کہ خاتم النبیین کے بعد اتنی اور تابع ہیں آسکتا ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں.اختلاف تو صرف شخصیت میں ہے کہ امت محمدیہ کا سیح موعود کون ہے ؟ آیا حضرت عیسی ابن مریم ہیں جنہیں قرآن مجید نے صرف رَسُولاً إلى بني اسرائیل کے قرار دیا ہے یا امت محمدیہ کا ایک فرد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اُمتی ہے پس جماعتِ احمدیہ پر یہ الزام سراسر خلاف واقع ہے کہ ہم معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبيين نہیں مانتے ہم حضور علیہ السلام کو پورے یقین سے اور حقیقی رنگ میں خاتم النبیین مانتے ہیں میری تقریر کے دوران دو ایک موقعہ پر مکرم سردار عبد الرب صاحب نشتر نے سوال کئے تھے جن کے خاکسار نے جواب دے دیئے مگر جناب خواجہ ناظم الدین صاحب کی خواہش تھی کہ تقریر کا تسلسل قائم رہے اور سوال بعد میں ہوں.جب یکی آخری حصہ بیان پر پہنچا تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ یہ پوائنٹ تو واضح ہو چکا ہے اب دوسرے صاحب بیان شروع کریں.اس پر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمش مرحوم نے مخالفین کی اشتعال انگیزی پر مدلل تقریر فرمائی اور اخبارات کے حوالے پیش فرمائے.یاد رہے کہ شروع ہی سے مخالف علماء بہ آمدہ میں ہمارے بیانات سُن رہے تھے وہ بعض کتابیں وزراء کرام کو بھیجوانے لگے جس پر مجلس کا رنگ کچھ بدل گیا تیسرے نمبر پر جناب ملک عبد الرحمن صاحب قادم مرحوم نے جب مختلف فرقوں کے علماء کے باہمی فتووں کے انبار پیش فرمائے تو خواجہ صاحب موصوف حیران رہ گئے کہ علماء نے بات کہاں تک پہنچادی ہے ، اسی دوران مکرم فضل الرحمن صاحب بنگالی بول پڑے کہ ہم آپ لوگوں کو اب تک برداشت کرتے رہے ہیں آئندہ یہ صورت نہ ہوگی اسکے جواب میں محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے نہایت غیورانہ جواب دیا کہ آپ لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا سخاک سلوک یا رعایت کی ہے اور آپ آئندہ کیا کریں گے گفت گوئیں قدرے تلخی پیدا ہو گئی گفت گو کا یہ حصہ زیادہ تو انگریزی میں ہوا حضرت مولانا عبد الرحیم ماہیے درو نے بھی اس میں مؤثر حصہ لیا اور جماعت کی خدمات پاکستان کا بھی تذکرہ فرمایا نیز بتا یا کنیم آل عمران : ۵۰
۲۸۲ تو اپنے اصول کے مطابق حکومت سے تعاون کرتے ہیں یہ ہماری مذہبی تعلیم ہے ہمیں کوئی لالچ پاٹھے نہیں ہے.اس مرحلہ پیر وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب مرحوم کی علمی اور بردباری نے پھر ماحول کو تحقیقی اور علمی بنا دیا اور قریباً تین گھنٹے کی یہ مجلس آخر نہایت اچھی فضا میں ختم ہوئی.خواجہ صاحب کے آخری بیان سے مترشح ہوتا تھا کہ ان کے نزدیک جماعت احمدیہ کو منکر ختم نبوت ٹھرانا یا انہیں غیرمسلم اقلیت قرار دینا بے معنی بات ہے البتہ انہوں نے فرمایا کہ میں یہ اعلان کر دوں گا کہ سرکاری ملازم تبلیغ نہ کیا کریں اور یہ اعلان سب فرقوں پر یکساں حاوی ہوگا.چنانچہ انہوں نے چند روز بعد یوم پاکستان کے موقعہ پر اپنی تقریر میں یہ اعلان کر دیا تھا پہلے مولانا ابو العطاء صاحب مزید سردار عبد الرب ضنا نشتر سے انفرادی ملاقات فرماتے ہیں :." وزیر اعظم کے بالائی کمرہ کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے میں نے سردار عبد الرب مرحوم سے کہا کہ آپ ایک علم دوست بزرگ ہیں اگر کبھی موقعہ ملے تو آپ سے فصل گفت گو کرنا چاہتا ہوں.کہنے لگے کہ ضرور تشریف لائیں.جب ربوہ واپس پہنچنے پر حضرت امام جماعت احمدیہ سے اس امر کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں جامعہ احمدیہ میں تعطیلات ہیں (یکی اُن دنوں نجا معہ احمدیہ کا پرنسپل تھا، چند دن کے لئے کراچی ہو آئیں.چنانچہ یک جلد ہی کراچی گیا اور محترم سردار صاحب کو ملاقات کے لئے وقت معین کرنے کے لئے چٹھی لکھی.غالباً ، ار اگست ۱۹۵۲ء کی تاریخ تھی که یکی اور محترم مولوی عبدالمالک خاں صاحب مرتی کہ اچھی سردار صاحب کے ہاں پہنچے.وہ ملاقات کے لئے تیار بیٹھے تھے.خیر و عافیت کی ابتدائی گفت گو کے بعد سردار صاحب نے فرمایا کہ فرمائیے کسی طرح آنا ہوا ؟ میں نے عرض کیا کہ میں حسب وعدہ آپ کو تبلیغ کرنے کے لئے آیا ہوں کہنے لگے کہ آپ نے وزیر اعظم کا پندرہ اگست والا اعلان نہیں شنا کہ سرکاری آدمی تبلیغ نہ کریں ؟ میں نے کہا کہ میں تو سر کاری آدمی نہیں ہوں میں تبلیغ کرنے آیا ہوں مسکرا کر فرمانے لگے کہ آپ مجھے کیا تبلیغ کریں گے میں تو آپ کی جماعت کے عقائد کا کٹر مخالف ہوں.کس نے کہا کہ ایسے آدمی کو ہی تبلیغ کرنے کا لطف ہوتا ہے کیونکہ ایسا آدمی جب احمدی ہو گا تو وہ تختہ احمدی ہو گا.له الفرقان ربوه ماه نومبر ۱۹ منت به حال ناظر اصلاح و ارشاد صد را نحمن احمدیه پاکستان
۲۸۳ سردار صاحب کہنے لگے کہ میں تو پہلے ہی نمازیں پڑھتا ہوں ، قرآن مجید پڑھتا ہوں، آپ مجھے کسی ام کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ آج کی اس مختصر ملاقات میں میں صرف ایک بات کی تبلیغ کرنے آیا ہوں اور وہ یہ کہ آپ قرآن مجید تدبر سے تلاوت فرمایا کریں سردار صاحب کہنے لگے کہ قرآن مجید سوچ کر ہی پڑھتا ہوں ، نماز میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں لیکں نے عرض کیا کہ میری بات ابھی واضح ہو جائے گی آپ فرمائیں کہ جب آپ سورۃ فاتحہ میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاط الَّذِيْنَ الْعَمْتَ عَلَيْهِم لے کی دُعا کرتے ہیں تو منعم علیم سے آپ کی مراد کون لوگ ہوتے ہیں ؟ سردار صاحب نے جھٹ سُورہ نساء کی آیت وَمَنْ يُطِعِ اللَّهِ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولئِكَ رَفِیقاً پڑھ کر فرمایا کہ اس وقت میرے ذہن میں انعام پانے والے یہ لوگ مراد ہوتے ہیں.میں نے کہا کہ جناب ! اس آیت میں انعام پانے والے لوگوں کے چار گروہ مذکور ہیں (۱) نبی (۲) صدیق (۳) شہید (۴) صالح.اب آپ فرمائیں کہ کیا انعَمتَ عَلَيْهِمْ کی دعا کے نتیجہ میں امت میں یہ سارے گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت میں بن سکتے ہیں ؟ سردار صاحب نے ذرا توقیف کے بعد سوچ کر فرمایا کہ نہی تو آنحضرت کی اطاعت میں نہیں ہیں سکتے.میں نے کہا کہ بس قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنے کی تبلیغ کا یہی مقصد ہے.آپ غور فرمائیں کہ قرآن مجید تو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرنے والوں کے لئے چاروں انعامات کے دروازے گھلے قرار دیتا ہے مگر آپ سب سے پہلے ذکر شدہ اور سب سے بڑے انعام کے دروازہ کو سند و قرار دیتے ہیں.سردار صاحب ذرا حیران ہو کر کہنے لگے کہ کیا آپ حیات وفات شیخ کی بات کرنا چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ ہر گو نہیں میرا تو آج کا پیغام بس قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنے کی تلقین تک محدود ہے.ذرا سوچ کر سردا ر صاحب کہنے لگے کہ اب مجدد اور عالم تو ہو سکتے ہیں مگر نبی نہیں ہو سکتا کیونکہ آفتاب کی موجودگی میں ٹماٹے چراغوں کی کیا ضرورت ہے ؟ میں نے کہا کہ یہ اعتراض تو آپ کے عقیدہ پر پڑتا ہے.آپ آفتاب کی موجودگی میں علماء اور مجد دیوں کی ضرورت کو جو ٹماتے چراغ میں مانتے ہیں ہمارا عقیدہ تو قانوں نیچر کے میں مطابق ہے یعنی آفتاب کے ساتھ ہم ماہتاب ل الفاتحة النساء:
۲۸۴ کے قائل ہیں.ماہتاب اتنی نبی مسیح موعود ہے.باقی یہاں تقابل نہیں ہے بلکہ آفتاب کی فیض رسانی اور اہتاب کے فیض کے قبول کرنے کا مسئلہ ہے.سردار صاحب نے فرمایا کہ حدیث میں تو لا نبی بعدی آیا ہے.میں نے کہا کہ اس پر گفت گو کرنے سے پہلے یہ مکے ہو جائے کہ ہم نے ہی ایک حدیث مانتی ہے یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب بعد نہیں مانتی ہیں.فرمانے لگے کہ نہیں سب حدیثیں ماننی ضروری ہیں.یکی نے کہا کہ پھر حدیث میں مجتہدین کے آنے کا بھی ذکر ہے.امام مہدی کے آنے کا بھی ذکر ہے.مسیح موعود کے مبعوث ہونے کا بھی بیان ہے.اور پھر حدیث صحیح مسلم میں مسیح موعود کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار دفعہ نبی اللہ کے لفظ سے یاد فرمایا ہے.احادیث پر مجموعی غور کیا جائے تو وہ قرآن مجید کے عین مطابق ہیں.حدیث میں صاحب شریعت یا مستقل نہی کے آنے کی نفی ہے اور آیت میں تابع اور مطیع نبی کے آنے کی خبر ہے.پس قرآن مجید اور حدیث میں واضح تطبیق موجود ہے.سردار صاحب فرمانے لگے کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ پیدائشی احمدی ہیں یا بعد میں آپنے احمدیت کو قبول کیا ہے ؟ یکسن نے کہا کہ سردار صاحب ! اگر کسی شخص کو میں اسلام کی دعوت دوں اور اس کے پاس کوئی عذر نہ رہے تو وہ مجھے کہے کہ آپ پیدائشی مسلمان ہیں یا بعد میں مسلمان ہوئے تھے تو کیا اسکا یہ طریق معقول ہے ؟ فرمانے لگے کہ میں صرف علم حاصل کرنا چاہتا ہوں.یکیں وہ طریق اختیارنہ کہ ونگا یکن نے کہا کہ یکی پیدائشی احمدی ہوں میرے والد صاحب مرحوم نے اوائل زمانہ میں احمدیت کو قبولی کیا اور پیدائش کے وقت سے ہی انہوں نے مجھے خدمت دین کے لئے وقف کر دیا تھا لیکں نے اپنی زندگی میں دہریوں ، آریوں ، یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے جملہ فرقوں کے ماہر علماء سے گفت گو اور مناظرے کئے ہیں اور یکن علی وجہ البصیرت اس بات پر قائم ہوں کہ اسلام کے وہ عقائد - ነ جو احمدیت پیش کرتی ہے وہی تھی اور سب پر غالب آنے والے ہیں.اس پر سردار صاحب کہنے لگے کہ لیکن تیران ہو رہا تھا کہ ایسا عالم ہم میں سے نکل کر احمدیوں میں کس طرح شامل ہو گیا ہے ؟ میں نے کیا کہ بات تو وہی ہوئی جس کا میں نے اشارہ کیا تھا.اس مرحلہ پر انہیں ملیں وزراء کے اجلاس کے لئے بلایا گیا.ہم نے انہیں چند کتب اور ایک تفضل تحریری بیان پیشیں کیا جس کا مطالعہ کرنے کا انہوں نے بخوشی وعدہ فرمایا.اس طرح یہ گفت گو ختم ہوئی.وآخر دعوانا ان الحمد لله اه مسلم ( با سید ذکر الدجال ) "
رب العلمين لے ۲۸۵ ایکم طور ۱۳۲۱ امیش مطابق یکم اگست ۱۹۵۲ء کو محرر او ابتلاؤں میں لقاء الہی کی بشارت مصلح موعود نے جماعت احمدیہ کو خوشخبری یک اگرچہ ہم ابتلاء سے دو چار ہیں مگر خدا کے قرب کو پانے کے یہی ایام ہیں حضور نے فرمایا :- دی ان ایام میں جو فتنہ پاکستان کے مختلف حصوں خصوصاً پنجاب کے مختلف مقامات میں پیدا ہو رہا ہے اگر چہ حکومت کے بعض اعلانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رپورٹوں کے مطابق اس میں کمی آرہی ہے لیکن جو ہماری اطلاعات ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کمی نہیں آرہی بلکہ وہ اپنی جگہ بدل رہا ہے بعض جگہوں سے ہٹتا ہے اور پھر آگئے بعض دوسری جگہوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے.جہاں تک فتنہ کا سوال ہے میرے نزدیک کوئی اول درجہ کا نا واقف اور جاہل احمدی ہی ہو گا جو یہ کہے کہ یہ فتنہ ایسی چیز ہے جس کی مجھے امید نہیں تھی.تم دریا میں گووتے ہوا اور بعد میں شکایت کرتے ہو کہ مارا جسم گیلا ہوگیا ہے یا تمہارے کپڑے گیلے ہوگئے ہیں.تم آگ میں ہاتھ ڈالتے ہو اور کہتے ہویری اُنگلی جل گئی ہے یاتم دھوپ میں بیٹھتے ہو اور کہتے ہو مجھے گرمی لگتی ہے یا تم مبرون پیتے ہو اور کہتے ہو مجھے ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو یہ کوئی عقل کی دلیل نہیں.تم برف پیتے ہو تو یہ مجھ کر پیتے ہو کہ تمہیں ٹھنڈی لگے گی.تم دھوپ میں بیٹھتے ہو تو یہ مجھ کر بیٹھتے ہو کہ تمہیں گرمی لگے گی.تم آگ میں تم ہاتھ ڈالتے ہو تو یہ سمجھ کر ہاتھ ڈالتے ہو کہ تمہارا جسم قبل جائے گا یا تم دریا میں کودتے ہو تو تم یہ جانتے ہوئے گو تے ہو کہ ہمارا جسم گیلا ہو گا.پس جب تم ایک صداقت کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے ہو اور تم نے مسلمانوں کے اندر بیداری پیدا کرنے کی آواز کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بلند ہوئی ہے سنا یا مان لیا تو تمہیں لازماً اس بات کے لئے بھی تیار ہونا پڑے گا کہ لوگ تمہاری مخالفت کریں ، شورشیں برپا کریں اور تمہارے خلاف منصوبہ بازی کی بھائے نہیں کون احمدی ہے جس کے منو اس درست ہوں اور وہ یہ کہہ سکے او ہو یہ کیسا فساد ہے مجھے تو اس کی امید نہیں تھی.حالانکہ جب وہ احمدی ہوا تھا تو یہ سمجھ کر ہوا تھا کہ لوگ اس کے خلاف نشاد کریں گے ، شورش کریں گے اور منصوبہ بازی کریں گے.اس کا کام یہ ہے لے ماہنامہ الفرقان" دسمبر ۱۹۷۰ء مثا تا منا
۲۸۶ کہ ان فسادوں ، شورشوں اور منصوبہ بازیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائے.دیکھو رمضان کے مہینہ میں اپنی مرضی اور ارادے سے ایک پروگرام کے ماتحت انسان تکلیف اٹھاتا ہے.وہ رات کو اُٹھتا ہے.بے شک وہ یہ تدبیر کر لیتا ہے کہ اگر گرمی ہو تو وہ ٹھنڈے پانی سے وضو کرے پھر اگر گرمی کا موسم ہو تو وہ چھت سے باہر تجد کی نماز پڑھ لے اور اگر سردی ہو تو چھت کے نیچے تہجد کی نماز پڑھ لے یا گرم لباس نہیں ہے.پھر اگر وہ بیمار ہے تو بیٹھ کرنماز پڑھ لے صحت اچھی نہیں ہے تو زیادہ عمدہ غذا کھا لے یا اگر معدہ خراب ہے تو نرم غذا کھائے.پیاس کے دن ہوں تو دو تین گلاس پانی کے اکٹھے پی لے یا چائے کی ایک پیالی پی لے تا تکلیف دور ہو.دن کو گرمی کی تکلیف ہو تو وہ سائے اور ٹھنڈک میں رہے تاگرمی کی شدت کم ہو مگر با وجود اس کے کہ رمضان میں تمہارے پاس ایسے ذرائع موجود ہوتے ہیں جن سے تم گرمی کی شدت کو کم کر سکتے ہو پھر بھی تمہاری تکلیف کو دیکھ کر خدا تعالی فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں میں دعائیں سکنے کے لئے آسمان سے نیچے اتر آتا ہوں اور کہتا ہے مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا.پس اگر خدا تعالیٰ روزہ میں جس کی تکلیف کم کی جا سکتی ہے، جس کے مزار سے بچنے کے لئے تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں مومن کے لئے اتنی رعایت کرتا ہے کہ وہ کہتا ہے چونکہ تم تکلیف اُٹھاتے ہو اس لئے میں تمہارے قریب ہو جاتا ہوں.اجیب دعوة الداع اذا دھانے میں اس پکارنے والے (یعنی روزہ دار) کی آوازہ کو سنتا ہوں اور یکیں اس کی دعائیں قبول کرتا ہوں.پھر ان تکالیف اور مصائب میں جو تمہارے اختیار میں نہیں جن کو کم کرنے کے لئے تم کوئی تدبیر نہیں کر سکتے ان میں وہ تمہارے کسی قدر قریب ہو جائے گا.ظاہر ہے کہ اگر روزہ میں خدا تعالیٰ تمہارے لئے بے چین ہو جاتا ہے کہ جس میں ہر قسم کی سہولت ہم پہنچانا تمہارے اختیار میں ہوتا ہے تو دوسرے آلام اور مصائب میں وہ کتنا قریب ہو جاتا ہو گا.مومن کو را بتلاؤں میں خوشی محسوس ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے قریب آگیا ہے " سے حضور نے اس خطبہ کے بعد ۲۶ تبوک ۱۳۳۱ اہش / ۲۶ ستمبر ۱۹۵۲ء کو اسی موضوع پر ایک اور خطبہ دیا جس میں خصوصاً نوجوانان احمدیت کو نصیحت فرمائی کہ :.اگر تم احمدیت، اسلام اور مذہب سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو وہ فائدہ تم اس وقت ه البقره : ١٨٤ : له الفضل فی ۱۳۳۱ پیش ۱۸ اگست ۱۱۹۵۷ ۳۰ به
۲۸۷ تک نہیں اُٹھا سکتے جب تک کہ تمہیں خدا تعالیٰ نہ ملے.باقی چیزیں اس کی تابع ہیں...مذہب اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ تعلق باللہ پیدا نہ ہو.مذہب خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا نام ہے.آپ لوگ نمازیں پڑھیں ، ذکر الہی کی عادت ڈالیں، غوروفکر کی عادت پیدا کریں، ہر ایک بات کو سوچیں اور اس سے نتیجہ نکالیں.آجکل لاکھوں میں کوئی ایک ہو گا جیسے سوچنے کی عادت ہو سب لوگ نقتل کے عادی ہوتے ہیں بات سن لی اور نقل کر دی یہ نہیں کہ خود سوچ بچار کر کے کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے وہ خود اس بات پر غور نہیں کرتے کہ سچ کی کیا تعریف ہے تو میں کیسے بنتی ہیں کن ذرائع سے بھلائیاں برائیاں نظر آتی ہیں اور برائیاں بھلائیاں نظر آتی ہیں.جب انسان بجائے غوروت کر کے محض جذبات سے کام لیتا ہے وہ ٹھو کر کھاتا ہے تم اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تم اگر بامراد ہونا چاہتے ہو، تم اگر خوشی کی موت مرنا چاہتے ہو تو تم اپنی زندگی کو مفید بناؤ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بہتر عبادت یہی ہے کہ تم یہ محسوس کرو کہ تم خدا تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ رہے تو تمہیں یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھتا ہے.تم بھی اپنے اندر یہی رنگ پیدا کر و تا جب موت آئے تو اگر تم خدا تعالی کونہیں دیکھتے تو تمہیں یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے، اس کے بغیر حقیقی راحت حاصل نہیں ہو سکتی باقی چیزیں سب ھکوسلے ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں.اگر کسی مذہب پر عمل کرنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ انہیں ملتا تو وہ مذہب محض نام کا مذہب ہے اس کے اندر کوئی حقیقت نہیں ہے ۱۵ ظهور ا۱۳۳ مش / ۱۵ اگست ۱۹۵۲ ء کو شان انفرادیت کا نمونہ دکھانے کی تلقین حضرت مصلح موعود کے انضرت صلی اللہ علیکم نے کے فیض یافتہ صحابہ کی شان اجتماعیت و انفرادیت کے موضوع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور جماعت احمدیہ کو پیش آمدہ حالات کے مطابق بحیثیت مسلمان بهترین رنگ میں شان انفرادیت کا نمونہ قائم کرنے کی تلقین کی.چنانچہ ارشاد فرمایا.تو میں امن کی حالت میں اور شرارت کی ابتداء میں اجتماعی طاقت سے فائدہ اُٹھاتی ہیں لیکن اگر شرار سے لمبی ہو جاتی ہے تو پھر انفرادیت کام کرتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اه روزنامه الفضل لاہور مورخه ۱۳ اکتوبر ۶۱۹۵۲ ه
میں بھی جب شرارت بڑھ گئی تو آپ نے اجتماعیت کو بکھیر دیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میشہ چلے جاؤ اور بعض کو آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کر بھانے کا ارشاد فرمایا.پھر انہوں نے اپنی اپنی جگہ اکیلے کام کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی انفرادیت اجتماعیت کی شکل اختیار کرگئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب خلافت کا دور شروع ہوا صحابہ پر کچھ ابتلاء آئے صحابہ کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعیت اور انفرادیت دونوں چیزیں کھائی تھیں.آپ کی وفات کے بعد حضر او کرایہ تخلیفہ ہوئے.حضرت ابوبکر ام ایسے خاندان سے نہیں تھے جو حکمران خاندان ہو.بے شک آپ ایک شریف خاندان کے ایک فرد تھے لیکن وہ خاندان ایسا نہیں تھا کہ دوسرے خاندان اس کی ماتحتی بر داشت کر لیں.آپ کے والد کا نام ابو قحافہ تھا.ابو جا نہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور وہ بھی رسمی طور پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کی وفات کی خبر مکہ میں بھی پہنچی.ابو قحافہ بھی ہیں مجلس میں بیٹھے تھے کہ جس میں پیغا مہر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنائی.عرب لوگ پراگند تھے کہ محمد رسول اللہ صلی ل صل اللہ علیہ وسلم نے آکر انہیں ایک نظام کے ماتحت کر دیا جس طرح اس شخص کی زندگی اہین کے لئے نرالی تھی اسی طرح اس کی وفات بھی ان کے لئے نرالی تھی.انہوں نے کہا کہ اب کیا ہو گا؟ اس شخص نے کہا ہوگا کیا.ایک شخص خلیفہ بن گیا ہے اور اس نے نظام کو دوبارہ قائم کر دیا ہے.انکا خیال تھا کہ عربوں کی تلواریں میانوں سے نکل آئی ہوں گی اور قتل و غارت شروع ہو گئی ہوگی.انہوں نے دریافت کیا کہ کسی شخص کو خلیفہ منتخب کیا گیا ہے تو پیغا مہر نے کہا ابو بکرہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا ہے.ابو قحافہ کو اس بات پر یقین نہ آیا انہوں نے خیال کیا میرا بیٹا خلیفہ نہیں ہو سکتا کوئی اور ابو بکر ہوگا جس کی اطاعت سب سوب قبائل نے قبول کر لی ہے.چنانچہ انہوں نے دوبارہ دریافت کیا کون الو برای اشخص نے کہا وہی ابو بکر جو آپ کا پرانا ساتھی اور دوست تھا.ابو قحافہ نے پھر دریافت کیا کیس کا بیٹا ؟ تو اس شخص نے کہا تیرا بیٹا.ابو قحافہ کے لئے یہ عجیب بات تھی عرب قبائل آزاد تھے، بختور تھے اور اپنے سے چھوٹے آدمی کی اطاعت نہیں کرتے تھے لیکن سب سوالوں نے حضرت ابو بگردین کو مان لیا اور خونریزی کے اخیر مان لیا.یہ بات ابو قحافہ کے لئے نہایت عجیب تھی اس لئے انہوں نے دوبارہ دریافت کیا کہ کیا بنو ہاشم نے ابوبکر کی بیعت کر لی ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں ابو قحافہ نے پھر کہا کیا بو عبد المطلب نے ابو بکر کی بیعت قبول کرلی ہے؟ اس شخص نے کہا ہاں.ابو قحافہ نے جب یہ سنا کہ کیا
۲۸۹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کی وجہ سے عربوں میں اجتماعیت اس حد تک آگئی ہے کہ ایک شخص جو حاکم قوم میں سے نہیں سب قبائل اس کی بیعت کے لئے تیار ہو گئے ہیں اور انہوں نے بلا چون پھر ا اس کی بیعت کرلی ہے تو بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا اشهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاشْهَدُ انَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوله - آج میرا دل مان گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی بعد اتعالیٰ کے رسول تھے.اگر سارے قبائل میرے بیٹے کی بیعت کے لئے تیار ہو گئے ہیں تو یہ کام ایک رسول کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا.گویا مولوں نے اجتماعیت کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا.پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر عرب میں پھیلی تو نئے مسلمان مرتد ہو گئے اور وہ مدینہ پر چاروں طرف سے حملہ کر کے آگئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کو اپنی زندگی میں مشام کی طرف جانے کا حکم دیا تھا جس کی روانگی آپ کی وفات کی وجہ سے رک گئی تھی حضرت ابو بکر نے خلافت کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس لشکر کو شام کی طرف روانہ کر دیا صحابہ نے اس بات کو برا منایا اور کہا مدینہ اس وقت ننگا ہوگیا ہے اور یہ بوڑھا شام کی طرف شکر بھیج رہا ہے.انہوں نے حضرت عمریض کو کہا کہ ابو بکر کو سمجھاؤ شاید اس بوڑھے نے حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھا چنانچہ حضرت عروہ آپ کے پاس گئے اور کہا کیا آپ نے لشکر کو شام کی طرف جانے کا حکم دیا ہے ؟ حضرت ابو یکرہ نے فرمایا ہاں حضرت عمر نے کہا کہ میرا اور صحابہ کا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس لشکر کو روک لیں کیونکہ چاروں طرف سے اس قسم کی خبریں آرہی ہیں کہ دشمن مدینہ کی طرف بڑھ رہا ہے.نئے مسلمان کثرت سے مرتد ہو گئے ہیں اور بہت تھوڑی جگہیں ایسی رہ گئی ہیں جہاں پرانے مسلمان ہیں.اس حالت میں شکر کا باہر بھیجنا اچھا نہیں جس طرح حضرت ابو کیکر کی جان خطرہ میں تھی اسی طرح حضرت موڑ کی جان خطرہ بھی تھی ، اسی طرح حضرت عثمان کی جان خطرہ میں تھی ، اسی طرح حضرت علی، حضرت طلورہ اور حضرت زیرہ کی جانیں خطرہ میں تھیں، اسی طرح ان کے بیوی بچوں کی جانیں خطرہ میں تھیں ، اسی طرح جوش کر روانہ ہو رہا تھا ان کے بیوی بچوں کی جانیں خطرہ میں تھیں.اس وقت ہر ایک شخص یہ سمجھ رہا تھا کہ اس وقت اُسے اپنے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر لڑنا چاہیئے اور اپنے بیوی بچوں کی جانیں بچانی چاہئیں لیکن حضرت ابو بکر رض نے فرمایا ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے شکر کو روک سکے؟ پھر جب ایسی خبریں آنی شروع ہوئیں کہ لوگوں نے زکواۃ دینے سے انکار
٢٩٠ کر دیا ہے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہمارا روپیہ مدینہ کیوں جائے بنجد کا روپیہ نرین خریج ہونا چاہیئے، بکرین کا روپیہ بر ہی میں خرچ ہونا چاہیئے مدینہ اپنے اخراجات کا خود انتظام کرے ہم روپیہ علاقہ سے باہر نہیں لے جانے دیں گے تو صحابہ نے آپس میں مشورہ کیا اور حضرت عمرہ کو حضرت ابو کرین کے پاس بھیجا حضرت عمر نے کہا وقت نازک ہے آپ لوگوں کو کچھ وقت تک ڈھیل دے دیں آہستہ آہستہ ان میں اسلام آ جائے گا تو وہ زکوٰۃ دے دیں گے حضرت ابوبکر ا نے فرمایا عمرہ تم وہ بات کہتے ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہی.خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اونٹ باندھنے کی ریتی بھی بطور زکواۃ دیا کرتے تھے تو میں اور سے وہ رسی بھی لیکر چھوڑوں گا.اور اگر کوئی شخص زکواہ نہیں دے گا تو اس سے لیکن اس وقت تک لڑوں گا یہاں تک کہ کین مارا جاؤں یا وہ مارے جائیں عمر اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے ؟ اگر دشمن ، بینہ کی تمام عورتوں کو ماردے اور گھتے ان کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھریں تب بھی یکی ڈروں گا نہیں.اب دیکھو مدینہ خطرہ میں گھرا ہوا ہوتا ہے.شہ سلمان کا گھر، مال اور اس کی عربات خطرہ میں ہوتی ہے لیکن حضرت ابو بکرانہ کے منہ سے یہ فقرات نکلتے ہیں تو ہر مسلمان امنا و صدقنا کہہ کر اطاعت پر تیار ہو جاتا ہے.یہ اجتماعی روح کا کمال تھا.پھر اسلام پر وہ زمانہ آیا جب خلافت کے پر نچے اُڑ گئے.اب مسلمانوں کے لئے انفرادیت دکھانے کا وقت آیا اور اس میں بھی انہوں نے کمال کر دکھایا.کوئی ایران چلا گیا، کوئی افغانستان پہلا گیا ، کوئی افریقہ کے صحراؤں کی طرف چلا گیا اور کوئی چین چلا گیا.آجکل جو کروڑوں کروڑ مسلمان ان ممالک میں موجود ہیں وہ انہی لوگوں کی اعلیٰ درجہ کی انفرادیت کا نمونہ ہیں.پیس صحابہ منا کو جہاں انفرادیت میں کام کرنا سکھایا گیا تھا وہاں اجتماعیت میں بھی انہوں نے کام کیا.وہ یہ بھی بجانتے تھے کہ ایک ہرار کے ماتحت کس طرح کام کیا جاتا ہے اور یہ بھی جانتے تھے کہ فرداً فرداً کام کس طرح کر نا چا ہیے.چنانچہ اب بھی بیوی میں ایسے صحائی کی قبریں موجود ہیں جو اس وقت ہندوستان آئے اور یہاں تبلیغ اسلام کی.خدا کی قدرت ہے کہ سندھ میں یہاں ہم نے زمین خریدی ہے خصوصاً جہاں پر میری ترمین ہے وہاں ایک جگہ ولیہ صابوہ کہلاتی ہے اس جگہ کے متعلق بھی مشہور ہے کہ وہاں کسی صحابی کی قبر ہے.جب صحابہ نے دیکھا کہ خلافت کے ماتحت جو نظام چلا تھا وہ درہم برہم ہو گیا ہے تو انہوں نے خیال کیا کہ ایے قوت کیوں ضائع کیا جائے وہ دنیا میں پھیل گئے اور مختلف ممالک میں جا کہ انہوں نے اشاعت اسلام
۲۹۱ کی نہیں ہماری جماعت کو یہ دونوں طاقتیں یعنی اجتماعیت اور انفرادیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں بسا اوقات اجتماعیت کمزور پڑ جاتی ہے تو اس وقت انفرادیت کی ضرورت ہوتی ہے.اگر ہر جگہ فتنہ و فساد برپا ہو جاتا ہے اور مرکز سے تمہارے تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں تو اس وقت ہر احمدی اپنی ذات ہیں مرکز احمد نیت ہونا چاہیئے اور اُسے سمجھ لینا چاہیئے کہ احمدیت کا جھنڈا اس کے ہاتھ میں ہے.اُسے یہ خیال نہیں کرنا چاہئیے کہ ربوہ آکر وہ مشورہ کرے بلکہ اس وقت اُسے یہ سمجھے لینا چاہیے کہ وہ خود خدا تعالیٰ کا خلیفہ ہے.اس وقت اس کا گھر ربوہ ہونا چاہیئے.اس وقت اس کا گھر قادیان ہونا چاہیئے.اور جس طرح خلافت کا نظام ٹوٹ جانے کے بعد صحابہ نے ایک ایک گھر کو مدینہ بنا لیا اور جب تفرقہ ہوا تو پر سلمان نے یہ عزم کر لیا کہ وہ اسلام کا جھنڈا نیچے نہ ہونے دے گا اسی طرح تم نے اجتماعیت کی حالت میں نہایت اعلی نمونہ دکھایا.تم تھوڑے تھے تم نے اپنے پیٹ کاٹے اور معمولی آمد نوں میں سے ایک حصہ امتناعیت اسلام کے لئے دیا تم نے چندے دئے اور جماعت نے مبلغ تیار کئے.پھر جماعت نے ان مبلغوں کو دیانت کے ساتھ بیرونی ممالک بھیجا.جماعت نے تمہارے روپیہ کو اعلیٰ طور پر استعمال کیا یہاں تک کہ دنیا میں احمدی جماعت کی دھوم مچ گئی اور دشمنوں نے بھی اقرار کیا کہ پچھلے تیرہ سو سال میں سلمانوں نے وہ کام نہیں کیا جو اس چھوٹی سی جماعت نے ایک قلیل عرصہ میں کر دیا ہے پس تم نے اجتماعیت کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے اب تم نے انفرادیت کا بھی نمونہ دکھاتا ہے.بہت سے احمدی گھیرا کر میرے پاس آتے ہیں تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک خلیفہ کا قائمقام ہے.تم میں سے ہر ایک دین کا مرکز ہے.تم میں سے ہر ایک کو سمجھ لینا چاہئیے کہ احمدیت اور اسلام کا احیاء اور بقاء اس کے ذمہ ہے.تم میں سے ہر ایک کا گھر احمدیت کا مرکز ہے جس سے احمدیت کا نور دنیا میں پھیلے گا.تم نے اجتماعیت کا بہت اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے.اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم انفرادیت کا نمونہ بھی کھاؤ اگر مخالفت بڑھ جائے تو تم نے مرکز سے مشورہ کئے بغیر اپنا مدعا اپنے سامنے رکھ کہ اسلام کو پھیلاتا ہے احمدیت کی اشاعت کرنا ہے تمہیں یہ عزم کر لینا چاہئیے کہ اگر تمہارے چاروں طرف دشمن کا ٹھاٹھیں گے کیا ہے مارتا ہوا سمندر بھی ہوا تو تمہاری گردن نیچے نہیں ہو گی تیم چپ نہیں ہوئے بلکہ اسلام اور احمد تیت کے پیغام کو مرتے دم تک لوگوں تک پہنچاتے پہلے جاؤ گے له خطبه جمعه فرموده ۱۵ار اگست ۱۹۵۲ء بمقام ریوه مطبوعه روز نامه افضل لاہور ۱۲۶ اگست ۱۹۵۷ء ۹۵
۲۹۲ اُن دنوں پاکستان کے مختلف حلقوں میں خاص مسئله اقلیت متعلق اہم خطبه جمعه ا طور پر یہ افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ پاکستان کی مرکزی حکومت احراری ایجی ٹیشن سے متاثر ہو کر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دے گی.اس خدشہ کی بناء پر حضرت مصلح موعود نے نمائندہ لنڈن ڈیلی میل کو بیان دینے کے علاوہ ۱۸.ظهور ۱۳۳۱ اہش کر ۱۸ اگست ۱۹۵۲ء کو مفصل و مبسوط خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں حضور نے مسئلہ اقلیت کے مختلف امکانی گوشوں پر بصیرت افروز روشنی ڈالی اور بحیثیت خلیفہ آسیج اپنے رد عمل کا اظہار کیا.یہ خطبہ اس موضوع پر ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا تھا.حضور نے فرمایا :.یکس نے کہا تھا کہ اگر حکومت احمدی نام کو خلاف قانون قرار دید سے تو ہم احمدی مسلمان کی جگہ محض مسلمان کہلانا شروع کر دیں گے کیونکہ ہمارا اصل نام مسلمان ہے احمدی تو اس کے ساتھ صرف امتیاز کے طور پر شامل کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، هُوَ سَتْكُمُ المسلمين اُس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے پس جب ہمارا اصل نام سلمان یہی ہے تو اگر کوئی حکومت احمدی نام پر پابندی لگائے گی تو ہم صرف مسلمان کہلانے لگ جائیں گے.بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور بعض اخبارات نے بھی لکھا ہے کہ آجکل کی حکومتیں، ایسی نہیں جو محض نام پر پابندی عائد کرنے پر اکتفاء کریں یہ جکل نظم ونسق اس قسم کا ہے کہ جب لوگ سوال کرتے ہیں تو اس سے کوئی چیز با ہر نہیں نکل سکتی.یہ درست ہے کہ انسان اگر کرنے پر آئے تو کیا کچھ نہیں کر سکتا لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ جہاں ہم اس بات کو جائز سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی حکومت ایسا حکم دے جو افرات کے مذہب سے تعلق رکھتا ہو اور وہ ہماری اصولی چیزوں سے ٹکراتا نہ ہو تو ہم جماعت کو یہ تعلیم دیں گے کہ وہ حکومت کی اطاعت کرنے وہاں شریعت یہ بھی کہتی ہے کہ اگر تمہارے ایمان کا امتحان ہو اور تمہارے سروں پر آرے رکھ کر تمہیں چیر دیا جائے تو تم آخر تک چر جاؤ لیکن ایمان کو ضائع نہ ہونے دو.پس جہاں یہ ٹھیک ہے کہ کوئی حکومت ایسی بھی ہو سکتی ہے جو اس قسم کے عقل کے خلاف احکام دیدے اور وہ افراد کے مذہب میں مداخلت کرے ه الحج : 29
۲۹۳ وہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ دنیا میں ایسے سمت بھی ہو سکتے ہیں جو مذ ہب کے لئے جائز قربانیاں کرتے چلے جائیں اور ایمان پر قائم رہیں جس شخص کو ہم نے مانا ہے اس کا شعر ہے در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کیکه لاب تعشق زندهنم یعنی اگر تیر سے کوچہ میں عشاق کے سروں کو کاٹنے کا حکم دے دیا جائے تو سب سے پہلے جو عشق کا شور مچائے وہ میں ہوں گا پس یہ ٹھیک ہے کہ بعض حکومتیں ایسا ظلم بھی کر سکتی ہیں جیسا کہ روس میں ہو رہا ہے کہ وہاں مذہب کو بالکل بیکار کر دیا گیا ہے.اسی طرح اور بھی ایسے ممالک ہو سکتے ہیں لیکن میرے خیالی میں روس سے زیادہ ان میں مذہب پر پابندی نہیں ہوسکتی.آجکل کی ظاہری روش اور جمہوری خیالات کے نتیجہ میں کوئی حکومت روس کا سا طریق اختیار نہیں کر سکتی اور کوئی قوم ایسی نہیں جو مذہب میں اس حد تک دخل دے پس عقلی بات تو یہی ہے کہ کوئی حکومت افراد کے مذہب میں دخل نہیں دے سکتی لیکن کوئی حکومت اگر عقل سے باہر جا کہ ایسے قوانین بنا ولے جو مذہب میں روک پیدا کر دیں.اور الفاظ کی تبدیلی سے کام نہ بنے تو ہم بھی کہیں گے کہ تم ہمیں گولی مار دو لیکن ہم اپنے اصول کو نہیں چھوڑیں گے ہم مرتے جائیں گے لیکن صداقت کا انکار نہیں کریں گے.موت سے زیادہ حقیر چیز اور رہے ہی کیا ؟ ساری چیزوں پر کچھ نہ کچھ خرچ ہوتا ہے.دستخطوں کے لئے سیاہی لینے جائیں تو اس پر بھی دھیلہ خرچ آجاتا ہے لیکن موت پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا موت آخر آتی ہے اور جو چیز ضرور آتی ہے اس پر خرچ کیا آئے گا پس یہ ٹھیک ہے کہ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں آجکل کی متمدن دنیا میں کسی حکومت کے قوانین مذہب کے بارہ میں اس حد تک نہیں جایا کرتے کہ وہ ظالمانہ صورت اختیار کر جائیں بعض جگہوں پر حکومتیں ایک حد تک سختی کرتی ہیں مثلاً ساؤتھ افریقہ کی حکومت نے یہ قانون بنایا ہے کہ کالے گوروں سے الگ رہیں لیکن وہ یہ نہیں کر سکتی کہ کالے ملک میں نہ رہیں.اس نے یہ کہا ہے کہ گورے اور کالے ریلوں میں اکٹھے سفر نہ کریں لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ کالے سفر یہی نہ کریں.اس نے یہ کہا ہے کہ گوروں کے ہسپتال میں کالے نہ جائیں لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ کالوں کا علاج ہی نہ ہو.استے یہ کہا ہے کہ گورے اور کالے آپس میں شادی نہ کریں لیکن وہ نہیں کہتی کہ کالے شادی ہی نہ کریں
۲۹۴ پر لبعض ممالک میں بے شک سختیاں ہوتی ہیں مگر ایک حد تک لیکن دنیا چونکہ متمدن ہو چکی ہے اس لئے اب کوئی ایسی حکومت نہیں ہو سکتی جو کوئی ایسا قانون بنائے جو عقل کے خلاف ہو لیکن فرض کرو کہ اگر کوئی ایسی حکومت ہو جو عقل سے باہر جا کر ایسے قانون بنا سکتی ہو تو عاشق بھی عقل سے باہر جا کر اپنی جانوں کو شہادت کے لئے پیش کر سکتے ہیں اور یہ کوئی عجیب بات نہیں جس پر لوگوں کو حیرت ہو ہماری جماعت امن پسند جماعت ہے لیکن جن ملکوں میں احمدیوں کے لئے امن نہیں رہا وہاں ہم نے اپنے آپ کو کچا یا نہیں.کابل میں دیکھ لو احمدی پتھر کھاتے گئے مگر مرتد نہیں ہوئے.پس حکومت کی فرمانبرداری اور چیز ہے اور عقائد اور چیز ہیں.متمدن دنیا افراد کے مذاہب میں دخل نہیں دیتی متمدن دنیا حریت ضمیر میں دخل نہیں دیتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مکہ میں تھے جہاں تک آئین کا سوال تھا آپ مکہ کی حکومت کے قانون کے پابند تھے اور حکومت کی اطاعت کرے تھے لیکن آپ نے تبلیغ کو ترک نہیں کر دیا تھا.سچ کو آپ نے ترک نہیں کر دیا تھا کسی کے کہنے پر آپ نے اپنا کام نہیں چھوڑ دیا تھا لیکن جہاں تک آئین اور قانون کا سوال تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت کے قوانین کی پابندی کی.اور جہاں تک عقائد کا سوال تھا آپ نے اپنے آپ کو ان پر مضبوطی سے قائم رکھا.حضرت مسیح علیہ السلام پر بھی ہماری طرح متضا و سوالات کئے بجاتے تھے.لوگ عوام الناس کے پاس جاتے تو کہتے یہ حکومت کے خوشامدی ہیں اور حکومت کے پاس بجاتے تو کہتے یہ باغی ہیں.ہمارے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے.مخالفوں کی کتب میں وہ مضامین بھی موجود ہیں جن میں لکھا گیا ہے کہ ہم حکومت کے خوشامدی ہیں اور حکومت کے نام ایسے محضر نا مے بھی موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ہم حکومت کے باغی ہیں.ایک طرف باغی کنا اور دوسری طرف خوشامدی کہنا یہ دونوں اور چیزیں اکٹھی کیسے ہو سکتی ہیں ؟ لیکن لوگ اکثریت کے گھمنڈ میں سب کچھ کہ لیا کرتے ہیں.وہ طاقت کے گھمنڈ میں یہ خیال نہیں رکھتے کہ پنچ کیا ہے ، لوگ اکثریت کے گھمنڈ میں بجائے دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے کے یہ کہتے ہیں کہ تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہم ڈنڈا ما رہیں گے مثل مشہور ہے کہ کوئی بھیڑیا ندی کے کنارے پانی پی رہا تھا.ایک بکری کا بچہ آیا اور اُس نے بھی پانی پینا شروع کر دیا.بکری کا بچہ دیکھ کر بھیڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا اور اُس نے یہ چاہا کہ اسے کھالے.انسانوں اور حیوانوں کے حالات ایک سے نہیں ہوتے انسان دلیل دیتا ہے لیکن ایک حیوان
۲۹۵ دلیل نہیں دیتا.مثال میں چونکہ دلیل دی گئی ہے.اِس لئے یہاں بھیڑیے سے مراد وہ آدمی ہے جو بھیڑیے کے سے خصائل رکھتا ہو.بہر حال بھیڑیے کو یہ لالچ پیدا ہوا کہ کسی نہ کسی طرح بکری کے بچہ کو کھالے بچنا نچہ وہ بکری کے بچہ کو دیکھ کر کہنے لگا تجھے شرم نہیں آتی کہ میرا پانی گدلا کر رہا ہے.بکری کے بچہ نے کہا سر کاریہ کونسی بات ہے ،آپ نے سوچا نہیں کہ آپ اُوپر ہیں اور لیکن نیچے آپ کا پیا ہوا پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میرا پیا ہوا پانی آپ کی طرف جا رہا ہے.بھیڑ لیے نے آگے بڑھ کر بکری کے بچہ کو تھپڑ مارا اور اُسے مار دیا اور کہا نالائق آگے سے جواب دیتا ہے.پس زیر دست کثرت پر گھمنڈ کرتا ہی ہے جیسے آجکل احراری اخبار آزاد، زمیندار اور آفاق کر رہے ہیں.وہ کہیں گے اور ہم سنیں گے.اور چونکہ ہم تھوڑے ہیں...اس لئے ہم تھوڑے ہونے کی سر اٹھیگتیں گے یہانتک کہ ہمارہ سے خدا کی غیرت بھڑک اُٹھے اور وہ ہمیں اقلیت سے اکثریت میں تبدیل کر دے لیکن جب تک ہم تھوڑے ہیں تمہیں تھوڑے ہونے کی سزا بھگتنی پڑے گی ، ماریں کھانی پڑیں گی، گالیاں سنی پڑیں گی.کئی احمدی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آخر ہم کب تک ان تکالیف کو برداشت کریں گے ؟ میں انہیں یہی کہتا ہوں تم تھوڑے ہو اور جب تک تم تھوڑے ہو تمہیں تھوڑا ہونے کی سرا ٹھگتنی پڑے گی.خدا تعالی اگر تمہیں ڈکھوں میں میتلا نہ کرنا چاہتا تو وہ تمہیں اقلیت میں نہ رہنے دیتا.لیکن جس طرح کثرت دماغ میں غرور پیدا کر کے عقل مار دیتی ہے اسی طرح عشق بھی ایک عاشق صادق کے اندر کبریائی پیدا کر دیتا ہے مگر عشق ہمیشہ کبریائی کے نشہ میں آکر مرتا ہے ماند تا نہیں.چنانچہ دیکھ لو عاشقوں نے معشوقوں کے لئے اپنی جانیں دی ہیں اور کثرت والوں نے تھوڑی تعداد والوں کو غرور میں آکر مارا ہے.پس خدا تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے جو بدل نہیں سکتی.تم کوئی نئی جماعت نہیں جو اقلیت میں ہو.کثرت والے کہتے ہیں ہم تمہیں اقلیت بنا دیں گے ہم کہتے ہیں بنانے کا کیا سوال ہے ہم تو پہلے ہی اقلیت میں ہیں کیونکہ ہم تھوڑے ہیں.جس چیز کا ہمیں انکار ہے وہ یہ ہے کہ ہم وہ اقلیت نہیں جس کے معنے غیر مسلم کے ہیں.کیا مسلمان ہندوستان میں اقلیت میں نہیں ہے ہندوستان میں ہندو زیادہ ہیں اور مسلمان کم ہیں.پھر اگر پاکستان میں کوئی ناجائز سلوک اقلیت سے ہو سکتا ہے تو کیا وہی سلوک ہندوستان میں مسلمانوں سے بھی ہو سکتا ہے یا چین میں مسلمانوں سے ہو سکتا ہے.اگر اقلیت پر سختی کرنا جائز ہے تو پھر وہی سلوک انگلستان میں بھی
۲۹۶ مسلمانوں سے جائز ہے.یہ کتنی بے حیائی ہے کہ ایک قوم متمدن ہونے کا دعوی بھی کرے اور پھر وہ یہ خیال کرے کہ اگر وہ اقلیت والوں سے اپنی کثرت کی وجہ سے کوئی برا سلوک کرتی ہے تو جائز ہے لیکن دوسری شریف حکومتوں سے جہاں وہ قوم خود اقلیت میں ہے یہ امید رکھے کہ وہ اس سے ایسا سلوک نہیں کرے گی کتنے تعجب کی بات ہے کہ اسلام جو سب سے زیادہ شرافت سکھاتا ہے اُس کی طرف منسوب ہونے والے آج غیر قوموں کی شرافت سے تو نا جائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ملک میں تھوڑے ہیں اس لئے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرو لیکن اپنے ملک میں تھوڑوں پرظلم کرنا چاہتے ہیں اور تھوڑ سمجھ کر ان کو آزادی سے محروم کرنا چاہتے ہیں.کیا یہ شرافت ہے ؟ ہم اقلیت سے جو سلوک کرتے ہیں وہی سلوک اگر وہ ممالک ہم سے کریں جہاں ہم اقلیت میں ہیں تو ان کا یہ طریق جائز ہوگا لیکن ہم اسے جائز نہیں کہتے.جو سلوک ہندوستان میں مسلمانوں سے ہو رہا ہے کوئی احمدی ہو یا غیر احمدی اسے برا مناتا ہے کیونکہ مسلمان بھی حکومت کے اعضاء ہیں اور حکومت میں سب کو برا بر ہونا چاہیے.یہی سلوک پاکستان میں بھی ہونا چاہیئے.جو شخص لا إله إلا الله محمد رسول اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اس کا قرآن کریم کے احکام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ایمان ہے وہ مسلمان ہے اور پھر جتنا جتنا وہ احکام قرآن اور احکام رسول پر عملاً ایمان لاتا ہے اتنا اتنا وہ حقیقتا مسلمان ہے لیکن جب وہ منہ سے کہتا ہے کہ یکی مسلمان ہوں تو وہ ظاہر میں سو فیصدی مسلمان ہے کیونکہ وہ منہ سے کہتا ہے لیکن مسلمان ہوں اور نام کے لحاظ سے منہ سے کہنا کافی ہے اور عمل حقیقت کے لحاظ سے ضروری ہے.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کوئی کیسا مسلمان ہے بندے کا کام نہیں.میندے کا کام یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے تو وہ اسے مسلمان کہے.اگر یکی کہتا ہوں یکن مسلمان ہوں تو اسے مجھے مسلمان ماننا پڑے گا.اگر زید کہتا ہے لیکن مسلمان ہوں تو اُسے زید کو سلمان ماننا پڑے گا چاہے وہ شافعی ہو، حنفی ہو، مالکی ہو، مبلی ہو." تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ تم تھوڑے ہو اس لئے نہیں کہ تم مسلمان نہیں بلکہ اس لئے کہ احمدی کہلانے والے مسلمان غیر احمدی کہلانے والے مسلمانوں سے کم ہیں اور عربی زبان میں اسے اقلیت کہتے ہیں اقلیت کے یہ معنے نہیں کہ ہم مسلمان نہیں کیونکہ ہم منہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور قیامت
۲۹۷ تک اپنے آپ کو مسلمان کہتے جائیں گے یہاں تک کہ ہم بڑھ جائیں.اور اگر خد اتعالیٰ کی تقدیر چاہتی ہے کہ وہ احمدیت کو قائم رکھے تو یقینا ہم بڑھیں گے اور بڑھتے پہلے جائیں گے.میں دیکھتا ہوں کہ اسی فتنہ کے ایام میں بھی جن لوگوں میں جرات ہوتی ہے وہ لوگوں کے غلط الزامات کی تردید کر دیتے ہیں.ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ میں احمدی نہیں لیکن سیاسی آدمی ہوں مذہبی نہیں لیکن جوں جوں اخبارات میں میں نے پڑھنا شروع کیا کہ احمدی پاکستان کے غدار ہیں تو مجھے بہتر لگا کہ ایسا کہنے والے جھوٹے ہیں.لیکں کر پاکستانی تھا لیکس نے پاکستان کی خاطر بہت سی قربانیاں کیں اور میرے وفادار ساتھیوں میں سے بعض احمدی بھی تھے.پس جب میں اخبارات میں پڑھتا ہوں کہ احمدی غدار ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کہنے والے جھوٹے ہیں.یہ خیالات ہزاروں کے نہیں لاکھوں کے ہیں لیکن سب میں یہ جرأت نہیں کہ اس کا اظہار کریں لیکن ایک وقت آئے گا جب لوگ جرات سے اس کا اظہار کریں گے.لاہور، گورداس پور، فیروز پور وغیرہ کے لاکھوں آدمی ہیں جن کے ساتھ احمدی بدل کر کام کرتے رہے ہیں.راولپنڈی کا اخبار تعمیر آجکل زمیندار کا ہمنوا ہے لیکن آج سے کچھ سال پہلے ایڈیٹر نے اپنے ایک ناول میں لکھا تھا کہ احمدیوں نے پاکستان کی خاطر بہت سی قربانیاں کی ہیں.آج وہ جو کچھ چاہتے ہیں کہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اُس وقت ایڈیٹر اخبار تعمیر نے کیا لکھا تھا مصیبت کے وقت اس کے منہ سے پہنچے نکل گیا تھا.پس یہ چیزیں وقتی ہیں.مومن اور شریف آدمی وہی ہے جس کے ہاتھ سے ایک طرف چیونٹی کو بھی ضرر نہیں پہنچتا.وہ قانون کا بڑا ہی پابند ہوتا ہے.وہ قانون پر بڑا چلنے والا ہوتا ہے اور بڑا ہی بے ضرر ہوتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے اپنے سینیا اور منہ میں رہ کر وہاں کی حکومتوں کے قواعد کی پابندی کی لیکن ساتھ ہی وہ نڈر بھی ہوتا ہے کوئی اسے مارتا ہے یا گالیاں دیتا ہے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتا.ایک صحابی جو پہلے مسلمان نہیں تھے بعد میں وہ مسلمان ہو گئے ہمیشہ یہ واقعہ سنایا کرتے تھے.اس وقت سارا واقعہ تو سنا نہیں سکتا اختصار کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں.وہ کہتے ہیں لکھی مسلمان نہیں تھا یکن ایک لڑائی میں شامل ہو گیا اور ہم نے مسلمانوں کو مارنا شروع کیا.اتنے میں مسلمانوں کا ایک لیڈر نیچے اتر آیا ہم میں سے دو تین آدمیوں نے اس پر حملہ کر دیا اور ایک شخص نے آگے بڑھ کر اس کے
۲۹۸ سینہ پریزه مارا وہ گر پڑا جب وہ گرا تو اس کی زبان سے نکلا فزت برب الكعبة کے کعبہ کے ریت کی قسم میں کامیاب ہوگیا.میں نے کہا یہ مجیب آدمی ہے گھر سے دور ہے ، بے وطن ہے ہیوی بچے پاس نہیں ، دھو کہ میں اُسے یہاں لایا گیا ہے، اُسے وصیت کرنے کا موقعہ بھی نہیں ملا مگر بجائے اس کے کہ یہ روتا وہ نعرہ مارتا ہے کہ فرتُ بِرَتِ الكعبة کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.وہ صحابی بابیان کرتے ہیں کہ یکیں اس قبیلے کا آدمی نہیں تھا جس نے اس شخص کو شہید کیا نہیں ان کے ہائی بطور مہمانی تقسیم تھا اور لڑائی میں ان کے ساتھ شامل ہو گیا تھا.اس واقعہ کو دیکھ کر یکیں، دینہ آگیا تا دیکھوں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں موت ہیں لذت محسوس ہوتی ہے چنا نچہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت میں حاضر ہوا اور چند دن وہاں رہا مجھے صداقت کا احساس ہوا اور یک مسلمان ہو گیا.پھر آگے صحابی کہتے ہیں کہ خدا کی قسم اتنے سال گزر گئے کہ یہ واقعہ ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر بھی اتنے سال گزر گئے لیکن لیکن جب بھی یہ واقعہ سناتا ہوں وہ نظارہ میرے سامنے آجاتا ہے اور میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یکں اس نظارہ کو بھول نہیں سکتا.پس جہاں تک قانون کا سوال ہے جماعت اس کی پابندی کرے گی لیکن جہاں تک لٹھ بازی کا سوال ہے ہر مخلص احمدی لاٹھیاں کھاتا جائے گا اور صداقت کا اظہار کر تا جائے گا بعض کمزور کمزوریاں دکھا چکے ہیں اور ممکن ہے آئندہ بھی دکھائیں کیونکہ بعض طبائع کمزور بھی ہوتی ہیں.رسول کریم ملی الہ علیہ وسلم کے ساتھی احمد یہیں بھاگے تو آپؐ نے فرمایا تم لوگ قرار نہیں کردار ہو کیونکہ تمہارا جنگ میں دوبارہ جانے کا ارادہ تھا.اسی طرح ایک اور صحابی تھے ان پر مخالفین نے سختی کی.وہ ابھی بچے تھے مخالفین نے ان کے منہ سے بعض الفاظ نکلوا لئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پتہ لگا تو آنے نے محبت سے ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور ایسے الفاظ کہے جن سے ان کی دلجوئی ہو یو مین کی شان یہیں ہے کہ مجھے اسے مارتے ہیں تو مارتے رہیں...لوگ اسے صداقت سے پھیر نا چاہتے ہیں لیکن وہ پھرتا نہیں وہ صداقت پر قائم رہتا ہے لیکن اگر کوئی کمز و طبیعت شخص کمزوری دیکھا جاتا ہے توطاقتوروں کو بھی چاہیے کہ وہ کمزور کا خیال رکھیں.آپ اس کے ساتھ ایسے رنگ میں پیشیش آئیں کہ اسے شیمانی محسوس ہو اور وہ تو بہ کرے.ہر سال ایک مومن ڈار، رعب اور جتھے سے ڈر کر اپنا ایمان نہیں ه بخاری جلد ۳ منٹ (باب غزوة الرجيم مطبوعه مصر ۱۳۵۱ ۶۱۹۳۲/۵
۲۹۹ چھوڑتا ، وہ دوسروں پر خود حملہ نہیں کرتا، وہ خود آئین شکنی اور فساد نہیں کرتا، وہ دوسروں سے لڑتا نہیں لیکن جہاں تک عقائد کا سوال ہے وہ قانون سے بالا ہیں کیونکہ خدا تعالی اور بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں.خدا اور بندے کے درمیان کوئی حکومت بھی کھڑی نہیں ہو سکتی.جهای تک مذہب اور ایمان کا سوال ہے کسی حکومت کو اس میں دخل حاصل نہیں.ایسی کوئی حکومت نہیں جو کسی کے مذہب میں دخل دے..عقیدہ کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہے یہ حکومت کے زور سے بدلا نہیں جاسکتا.اگر عیسائی کسی مسلمان کو ماریں اور کہیں کہ تم تین خدا تسلیم کر لو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے.اگر کوئی شخص مجھے پکڑلے اور کہے تم یہ کہو کہ یکی ایک نہیں دو ہوں تو خواہ وہ کتنا عذاب دے میں اپنے آپ کو ایک ہی کہوں گا.پس اگر خدا تعالیٰ ایک ہے تو کون کہے گا کہ خدا تین ہیں اگر کمزور طبیعت کا کوئی شخص تین خدا کہ بھی دے تو اس کا اپنا دل تسلیم کرلے گا کہ میں ایسا کہنے میں سچا نہیں جان بچانے کی خاطر میں نے جھوٹ بولا ہے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیچھے ہیں تو خواہ سارا شہر چڑھ آئے ،لاکھ دو لاکھ کا جتھا حملہ کر دے ، ڈرائے اور طاقت کا رعب دے کر کہے تم کہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام (نعوذ باللہ) جھوٹے ہیں تو ہم کس طرح آپ کو جھوٹا نہیں گئے.کمزور طبیعت انسان اگر کہر بھی دے تو اس کا دل اُسے جھوٹا کہ رہا ہوگا دی سمجھتا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسّلام سینچے ہیں جھوٹا میں ہوں میں نے بزدلی دکھائی ہے پس تم اپنے ایمان کو مضبوط کر دو اور ساتھ ہی اپنے جذبات پر قابورکھور میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہم کیا کریں.ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آخر ہم کب تک مار کھاتے بجائیں گئے.یکی اُن کی اِس بات کا یہی جواب دیتا ہوں کہ تم ماریں کھاتے جاؤ جب خدا تعالیٰ نے تمہیں اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ تم ماریں کھاؤ تو میں کون ہوں جو تمہیں بچا سکوں جیس حرکت پر مشوق راضی ہوتا ہے عاشق وہی کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے لکھا جہاد کرنا بڑی اچھی چیز ہے لیکن اگر بخدا تعالیٰ نے تم سے انگریزوں کے مقابلہ میں جہاد کروانا ہوتا تو وہ تمہارے ہاتھ میں تلوار دیتا.اگر اُس نے ان کے مقابلہ میں تم سے تلوار چھین لی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انگریزوں سے جہاد کرنے کا موقعہ نہیں.اب تلوار ہمارے ہاتھ میں آگئی ہے.پاکستان آزاد ہو چکا ہے اب ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی پاکستان کی آزادی میں فرق لائے تو جہاد فرض ہو جائے گا.یہی دلیل ہمیں بھی
اپنے مد نظر رکھنی چاہئیے.اگر خدا تعالیٰ نے ہمیں مار سے بچانا ہوتا تو وہ ہماری تعداد زیادہ کیوں نہ کر دیتا.بعد اتعالیٰ آج یہ نظارہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم ماریں کھاؤ جتنی زیادہ ماریں تم کھاؤ گے خدا تعالیٰ تم سے اتنا ہی راضی ہو گا لے له الفضل وار ظهور ۳۳ اش / ۱۶ اگست ۶۱۹۵۲ مته تا حث
تیسرا باب مفتی مصر کے فتوتی بکھیر لے کرحضر مصلح ہونے کے پانی شاہ کے پر شوکت بام تک از احسان ۱۳۳۳ جون ۱۹۵۶ تا ۳ امان ۳/۱۳۳۵ مارس ۱۹۵۳) فصل اوّل مفتی مصر کا فتولی تکفیر، مصری پولیس کا احتجاج او خدائے فوالجلال کے جلالی نشان کا ظہور اخبار اليوم مصر کے نام حضرت مصلح موعود کا مکتوب اور سالانہ ختم نبوت سے تعلق ایک ضاحتی بیان نیر سویز پر برطانوی فومیں قابض تھیں ہر سویز کا قضیہ اور ورای ما اف ال ان انا جس کی وجہ سےحکومت پاکستان اور چوہدری مظفراللہ حکومت مصر کے درمیان تنازعہ چل رہا تھا اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب (وزیر خارجہ پاکستان) مشرق وسطی کے اسلامی ممالک کے دوسرے مسائل کی طرح اس تنازعہ کو نمٹانے کی بھی بعید و جہد فرمار ہے تھے.اس سلسلہ میں آپ نے جنوری ۱۹۱۲ء کے اجلاس جنرل اسمبلی کے بعد لنڈن میں برطانوی وزیر اعظم
مسٹر ایڈن سے بھی بات چیت کی برطانیہ نے مصر کو مطلع کر دیا کہ وہ ایک معینہ میعاد کے اندر نہر سویز سے اپنی تمام فوجیں ہٹا لے گا.احبارہ الاہرام مصر (۲۱) فروری ۱۹۵۲ء) نے یہ خبر دیتے ہوئے لکھا کہ ایس فیصلہ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان کی مساعی کا بھاری دخل ہے لیے اس کا میاب گفت و شنید کے بعد چوہدری صاحب مشرق وسطی کے دورہ کے سلسلہ میں چار روز تک قاہرہ میں ٹھرے اور اس قضیہ کو نمٹانے کے لئے مصر کے وزیر اعظم علی ماہر پاشا، عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عزام پاشا نیز صلاح الدین پاشاء، فوزی بے داقوام متحدہ میں مصر کے مستقل مندوب ) اور دیگر زعماء سے ملاقاتیں کیں کہ اخبار المصری (قاہرہ) نے ۲۵ فروری ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں آپ کی مصر میں تشریف آوری پر ایک مقالہ افتتاحیہ سپر و قلم کیا جس میں آپ کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے اعتراف کیا کہ آپ کی سرگرمیوں اور دینی صلاحیتوں سے اسلامی ممالک کو بہت فائدہ پہنچا ہے.اقوام متحدہ میں اختیار المصری کے نامہ نگار نے اس سے بھی شاندار الفاظ میں آپ کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ پہلے تین برسوں میں اسلام اس کے فلسفے اور مقاصد کے متعلق مغربی طاقتوں کے رویہ میں جو تبدیلی ہوئی ہے وہ اکثر و بیشتر چوہدری (محمد ظفر اللہ خان کی قابلیت اور فہم و تقریر کی رہین منت ہے سیکھے اه بحواله الفضل ۲۲ تبلیغ ۳۳ انش ۲۲۷ فروری ۲۶۱۹۵۲ کے اخبار زمیندار لاہور (۲۹ فروری ۱۹۵۲ء میں یہ خبر شائع ہوئی :- قاہره ۲۷ فروری - سر محمد ظفر اللہ خان وزیر خارجہ پاکستان نے کل علی ما ہر پاشا وزیر اعظم مصر سے ملاقات کی.وزیر اعظم مصر سے وزیر خارجہ پاکستان کی دوسری ملاقات تھی.سر ظفر اللہ خان حکومت کے مر کے مہمان کی حیثیت سے قاہرہ میں مقیم ہیں.آپ خیر سگالی کے دورہ پر مصر آئے ہیں.سلامتی کونسل میں پاکستان کے متبادل نمائند ہے محمد اسد نے الگ تین منٹ تک وزیر اعظم سے ملاقات کی سر ظفر اللہ خان نے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل غازی عبد الرحمان عظام پاشا کے ساتھ لنچ کھایا اور بعد دو پر آپ نے پاکستانیوں کے اجتماع میں شرکت کی.عربی کے بہترین مصنف شیخ محمد ابراہیم نے ایک دستی لکھا ہوا قرآن مجید سر ظفراللہ خان کو پیش کیا.سر ظفر اللہ خان جمعرات کو قاہرہ سے بذریعہ طیارہ کراچی روانہ ہو جائیں گے.(اپ پ) (ص) مجھ کو الله روزنامه افضل ۲۷ تبلیغ ۱۳۳۱ ایش ۲۷ فروری ۱۹۵۲ء حث و
مفتی مصر کا فتویٰ تکفیر حضرت چوہدری صاحب تو ملت اسلامیہ کے بطل جلیل کی حیثیت سے عرب ممالک کی بے لوث عالمی خدمات میں سرگرم عمل تھے کہ استعماری طاقتوں کی ان خفیہ اور جارحانہ کوششوں میں یکا یک تیزی پیدا ہو گئی جو اُن کی طرف سے الکفر ملۃ واحدۃ کے مضمون کی اشاعت کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف جاری تھیں.دشمنان دیں نے اپنی انتقامی کارروائی کیلئے مصر کی سرزمین کو چنا اور مفتی دیار مصریہ فضیلۃ الاستاذ الشیخ حسنین محد مخلوف کے ذریعہ حضرت چوہدری صاحب پر احمدی ہونے کی بناء پرفتو ی کفر شائع کر ادیا گیا یہ فتوئی اخبار الال جدیدہ کے ۲۲ جون ۱۹۵۲ء کے پرچہ مں منظر عام پر آیا جس میں فضیلت الاستاذ اشیخ مخلوف نے لکھا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان وزیر خارجہ پاکستان غیر مسلم ملکہ کافر ہیں کیونکہ پاکستان کے ایسے مخصوص فرقہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معالم الا نبیاء ہونے کا منکر ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اسلام میں سلسلہ انبیا جاری ہے کی یہ فتونی مشرقی وسطی کے عرب ممالک نے نمایاں طور پر شائع کیا آئیے ہو چکا ہے.مصرى عالم الاستاذ احمد بہاء الدین نے اپنی کتاب " فاروق...ملكا میں اس فقولی اس ضمن میں الاستاذ علی الخیاط آفندی کا سنسنی خیز انکشاف" تاریخ احمدیت سابق جلد ۲ صفحہ ۳ ۳۹ تا ۳۹۸ میں درج نه اليوم ( یا فام ۲۱ شوال ۱۳۳۷ در تجواله البشري محله مره سے مغربی پنجاب کا اخبارہ زمیندارہ اُن دنوں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور فتنہ آرائی میں دوسرے مخالف اخبارات میں پیش پیش تھا.اس اخبار نے اپنی در جولائی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں اس فتوی کو صفحہ اتوں پر چوکھٹر کے ساتھ شائع کیا بعنوان یہ تھا :."مرزائی دائرہ اسلام سے خارج ہیں.مفتی اعظم مصر السید محمد حسنين المخلوت کا فتوای بیه
۳۰۴ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت چوہدری صاحب کو زبر دست خراج تحسین بھی ادا کیا لیکن ساتھ ہی ایک فرضی واقعہ بھی ان کے قلم سے لکھا گیا ہے.فرماتے ہیں السيد ظفر الله خان معروف بجرأته وصراحته، وقد كان مارا بالقاهرة فى طريقه إلى بلده وتشرف بمقابلة الملك وكان الرجل قد عاش في الخارج زمنا طويلًا ، وقد أمن فضائح فاروق و مها ز له مايسي اليه والى مصر والى بلاد الشرق كلها وقال الرجل لفاروق بلباقة مولمة: إن بلاد العالم الاسلامي محط انظار العالم اجمع - وان اعداءها الكثيرين يتربصون بها ويحصون عليها الاخطاء وان هذا الموقف يلزم روساء الدول الاسلامية بان يرعوا في سلوكهم تقاليد الاسلام وان يتمسكوا بقواعده، وان تكون حياتهم المستقيمة قدوة لشعوبهم و دعاية امام العالم اجمع !! وفهم فاروق المقصود - فنهض واقفا...وانهى المقابلة...وكتم الملك السابق غيظه ونقمته على الوزير الصريح...وبات يتربص به و يتربص معه الشيخ مخلوف مفتي الديار المصرية أو بالأخرى مفتي القصور الملكية - وانتهز الشيخ مخلون الفرصة ، واولى بحديث عجيب : قال فيه ان ظفر الله خان من طائفة القاديانية ، وهى ملة كافرة ولم يقف عند ذلك حتى يبقى غرض الحديث مستورا ، بل استطرد يقول : ان على حكومة الباكستان وهي حكومة اسلامية ان تطرد من وزارة خارجيتها هذا الوزير الكافر الانه لا يجب ان يبقى على رأس دولة اسلامية وزير كافر ! ل پر کتاب ۱۹۵۲ء میں ادارہ مجلہ روز الیوسف المصریہ نے چھپوائی تھی اور اس کا یہ اقتباس پہلی بار مولاتنا محمد شریف صاحب مجاہد بلاد وبیہ نے رسالہ البشری (حيفا) دسمبر ۱۹۵۲ء میں شائع فرمایا تھا.اولم: اجتمع خلقه وعقله (منجد)
وهكذا ردّ على قول ظفر الله خان انه لا يجب ان يبقى على رأس دولة اسلامية ملك فاسق !! وثارت الصحف فى مصر والباكستان تحمل على المفتى المدفوع واقسم الهلالي.وكان رئيسا للوزارة ليعز لنه من منصبه جزاء رعونته ولكن الهلالى لم يلبث ان تبين الامر وعرف ان الملك لا يقبل ابدا ان تمس شعرة من رأس مخلوف هذه الرأس التي تخرج له الفتاوى والتحليلات !!" صفحه ۷۱-۲-۲۷۳ (ترجمہ) چوہدری محمد ظفر اللہ خان صا سب اپنی جرات اور دلیری میں مشہور ہیں.آپ ایک مرتبہ پاکستان واپس جاتے ہوئے قاہرہ سے گزرے تو قاہرہ میں آپ کو شاہ فاروق سے ملنے کا اتفاق ہوا.بیرونی دنیا میں انہوں نے ایک لمبا عرصہ گزارا ہے.فاروق کی ایسی رسوائن اور بیہودہ حرکات کے متعلق انہیں پڑھنے کا اکثر موقعہ ملا ہے جو فا روق ملک مصر اور تمام مشرقی ممالک کی بدنامی اور رسوائیوں کا موجب ہیں.چنانچہ چوہدری صاحب نے نہایت حکمت، دانشمندی اور کمال ملاطفت کے ساتھ شاہ مصر سے کہا کہ ساری دنیا کی نظریں عالیم اسلام پر ہیں.اسلامی ملکوں کے دشمن بے شمار ہیں اور ان کی تاک میں ہیں نیز ان کی لغزشوں پر نگاہ رکھتے اور شمار کرتے رہتے ہیں.ان حالات میں مسلمان حکومتوں کے سربرا ہوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ اپنی زندگی میں اسلامی طریقوں کو رواج دیں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں تا ان کی راستباز زندگی ان کی قوموں کے لئے نمونہ ہو اور تمام دنیا کے لئے اسلام کی تبلیغ کے پروپیگنڈا کا موجب ہو.شاہ فاروق چوہدری صاحب کا مقصد بھانپ کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور ملاقات ختم کر دی ہی شاہ فاروق نے وزیر خارجہ پاکستان کی اس جرات پر اپنا غیظ و غضب چھپایا اور موقعہ کی تلاش میں رہے بشیخ مخلوف بھی موقع ڈھونڈتے رہے مفتی الدیار المصریہ کی بجائے وہ شاہی محلات کے مفتی کہلانے کے زیادہ مستحق تھے.شیخ مخلوف نے بالآخر موقع پاتے ہی اس سے فائدہ اُٹھایا اور ایک عجیب بیان شائع کر دیا ۱۹۷۵ ء میں اس جلد کے پہلے ایڈیشن میں جب یہ اقتباس شائع ہوا تو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے سختی سے تردید فرمائی اور کئی مجالس میں بتایا کہ قصہ بے بنیاد ہے میری ایسی کوئی ملاقات شاہ فاروق سے نہیں ہوئی.
۳۰۶ جس میں کہا کہ ظفراللہ خانی قادیانی ہے اور یہ لوگ کا فر ہیں شیخ مذکو رنے اسی پر ہیں نہ کی بلکہ اس نے اپنے مقصد کو چھپا نہ رہنے کی خاطر یہ بھی کہ دیا کہ حکومت پاکستان چونکہ اسلامی سلطنت ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ اس کا فروزیر کو اپنی وزارت خارجہ سے نکال دے کیونکہ اسلامی سلطنت میں کا فرو زیر کا باقی رہنا مناسب نہیں.گویا اس طرح شیخ مخلوف نے چوہدری ظفر اللہ خاں کے اس قول کا جواب دیا کہ اسلامی سلطنت میں بد کار بادشاہ کی کوئی جگہ نہیں.شیخ مخلوف (جنہیں آلہ کار بنایا گیا تھا) کے بیان پر مصر اور پاکستان کے اخبارات نے پر جوش جوابی حملہ کیا اور اس کی تغلیط کی.ہلالی پاشا نے جو ان دنوں مصرکے وزیراعظم تھے قسم کھائی کہ شیخ مخلون کی اس حماقت اور رعونت کے باعث انہیں افتاء کے منصب سے معزول کر دوں گا لیکن انہیں بہت باد معلوم ہو گیا کہ (سابق) شاہ مصر تو شیخ مخلوف کے شہر کا بال تک بیکا نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہی با یہ شیر بادشاہ کے لئے حسب منشاء فتوئی اور جواز پیدا کرتا رہتا ہے لیه الاستاذ احمد بہاؤ الدین نے شاید یہ بات ہفت روزہ’ الصیاد ۷ /اگست (۱۹۵۲ ء ) کی مندرجہ ذیل خبر سے اخذ کی ہے.اشتهر عن الملك السابق فاروق انه كان يكره النصح والارشاد وخاصة في المسائل السياسية والدينية ويكره الذين يجراؤن على نصحه و ارشاده وحدث حسين مر السيد ظفر اللہ خان، وزیر خارجية الباكستان بمصر عائدا من هيئة الامم المتحدة ان استقبله الملك السابق ، فما كان من الوزير الباكستاني الذي يعتبر من كبار رجالات السياسة والاسلام الا ان وجه للملك بعض النصائح السياسية والدينية يغضب الفاروق واستدعى على اثر المقابلة شيوخ الازهر واجبرهم على اصدار فتوای ضد ظفر الله خان بانه ملحد و خارج على الدين، وصدرت الفتوى ونشرت في المرحت..وقامت قيامة لباكستان، وقدم وزيرها في القاهرة احتجاجا رسميا إلى الحكومة المصرية التي كانت يرئسها احمد نجيب له کتاب فاروق ملكا مطبوع مصر ہے بحوالہ رسالہ البشری حیفا فلسطین) مجلد من بابت دسمبر ۶۹۵۷
الهلالى فبادر الهلالى الى وضع المرسوم بد حض الفتوى الجرئية والغائها ، ثم حمله إلى الملك ليوقعه ولكن فاروق رفض توقيع المرسوم ناصر الهلالى وهذه بالاستقالة...وهذا الملك السابق كتفيه مستهزأ واستقال الهلالي..له یعنی سابق شاہ فاروق کے متعلق یہ شہور ہے کہ وہ ہر صحت اور راہنمائی کو نا پسند کرتے تھے بالخصوموں سیاسی اور مذہبی معاملات میں جو لوگ ان کو نصیحت کرنے کی جرات کرتے وہ انہیں سخت حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے.ایک دفعہ جناب پیچوہدری محمد ظفراللہ خان وزیر خارجہ پاکستان مجلس اقوام متحده میں شمولیت کے بعد واپسی پر مصر سے گزرے تو سابق شاہ فاروقی نے جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خماں کا استقبال کیا.اس موقعہ پر موصون نے جن کا شمار دنیا کی خاص سیاسی اور اسلامی محرز شخصیتوں میں ہوتا ہے شاہ فاروق کو دورانِ، لاقات مذہبی امور پشتمل اہم مشورے دئے، اس پر شاہ فاروق خفا ہو گئے اور اس ملاقات کے بعد علماء ازہر کو بلا کر مجبور کیا کہ وہ چوہدری محمد ظفر اللہ ناں کے ملحد اور خارج اندر دین ہونے کا فتوی دیں.چنانچہ فتوی صادر کر دیا گیا اور اخبارات میں اس کی اشاعت بھی ہوئی.اس فتوئی سے پاکستان میں گہرام بچ گیا.پاکستانی سفیر مقیم قاہرہ نے سرکاری طور پر مصری حکومت کے پاس احتجاج کیا.اُس وقت اس حکومت کے وزیر اعظم نجیب الہلالی تھے.وزیر اعظم السلامی نے ایس پیدا کا نہ فتوی کی تردید اور اسے لغو قرار دینے کا محاطہ شاہ فاروق کے سامنے رکھا اور دستخط کے لئے کاغذ پیش کی لیکن شاہ فاروق نے اسلامی کی تجویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا جس پرور ایلام السلالی نے اصرار کرتے ہوئے استعفیٰ کی دھمکی دی.بایں ہمہ سابق شاہ فاروق نے عواقب سے بے نیاز ہو کر متکبرانہ انداز میں فتوی کی منسوخی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا چنانچہ وزیر اعظم البلالی پاش استعفی ہو گئے.زبردست اسی فون کی اشاعت پر مروں ک از متقلق مصری زعماء اور صحافیوں کا زبر دست احتجاج ہوا اور مصری عوام و خواص سر تا پا احتجاج بن گئے چنانچہ اس موقعہ پر بھری زعماء اور پر لیس نے جو بیانات دئے وہ اُن کی فرض شناسی، تدبیر لة الصیاد کاراگست ۶۱۹۵۳ :
۳۰۸ اور معاملہ فہمی کی بہت عمدہ مثال تھی.ان بیانات میں سے بعض کا مشن ضمیمہ میں شامل ہے اور ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبد الرحمن عوام پاشا عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کا بیان نے شدیت یدکی و الاختبار الجدید ہوں میں یہ فتو میں شائع ہوا تھا) کے نمائندہ خصوصی کو حسب ذیل بیان دیا :- (ترجمہ) لیکن حیران ہوں کہ آپ نے قادیانیوں یا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب وزیر خارجہ پاکستان کے متعلق مفتی کی رائے کو ایک مؤثر مذہبی فتوی خیال کیا ہے.اگر یہ اصول مان لیا جائے تو پھر بنی نوع انسان کے عقائد، ان کی عزت و وقار اور ان کا سارا مستقبل محض چند علماء کے خیالات و آراء کے رحم و کرم پر آرہے گا.فتوئی کسی مخصوص اور غیر ہم واقعہ سے متعلق ہونا چاہیئے اور پھر ایسی صورت میں بھی اس کی حقیقت محض ایک رائے سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور نہ شخص کے لئے اس کا تسلیم کرنا واجب اور لازمی قرار دیا جا سکتا ہے.اسلام نے علماء کے ذریعہ کسی کلیسائی نظام کی بنیاد نہیں ڈالی جو لوگوں کوخدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم کر سکے.بلاشبہ یہ رائے کی حیثیت محض رائے کی ہے نہ کہ دین کی کیسی کی رائے نہ تو کسی کو دین سے خارج کر سکتی ہے اور نہ داخل.ہر وہ شخص جو کلمہ لا إله إلا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ کا قائل ہے اور قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے وہ یقیناً مسلمان ہے.یہ امر سلمانوں کے مفاد کے سراسر خلاف ہے کہ کسی ایک فرقہ کو بے دین قرار دیا جائے.اسلام کی بنیادی باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے کو کافر قرار دینے سے بچے." ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ظفر اللہ خان اپنے قول اور اپنے کردار کی رو سے مسلمان ہیں.روئے زمین کے تمام حصوں میں اسلام کی مدافعت کرتے ہیں آپ کا میاب رہے اور اسلام کی مدافعت میں جو موقف بھی اختیار کیا گیا اس کی کامیاب حمایت ہمیشہ آپ کا طرہ امتیاز رہا اس لئے آپ کی عزت عوام کے دلوں میں گھر کرگئی اور مسلمانان عالم کے قلوب آپ کے لئے احسان مندی کے جذبات
٣٠٩ سے لبریز ہو گئے.آپ ان قابل ترین قائدین سے میں نہیں عوامی اور بھی مسائل کو خوش اسلوبی سے مجھے کرنے کا ملکہ حاصل ہے.لے مصر کی حکمران وفد پارٹی کے مشہور اخبار المصری نے ۲۶ جون و در اخبار المصری کا بیان کے پرچہ ہمیں ایک زوردار مقالہ افتاحی سیر و ظلم کیا جس میں کھا.اے کا فر خدا تیرے نام کی عزت بلیت کرے ہماری مسلمان مملکت پاکستان نے "شاہ سوڈان کی حیثیت سے شاہ فاروق کے نئے خطاب کو تسلیم کیا.پاکستان نے یہ لقب برطانوی تاج کے تحت دولت مشترکہ کا رکن ہونے کے باوجود تسلیم کیا.شاہ فاروق کو سوڈان کا بادشاہ تسلیم کرنا ایک جرأت مندانہ اقدام تھا اور اس کے لئے ہم چوہدری حمد ظفر اللہ خان کی مساعی جمیلہ کے متون احسان ہیں.یہ ہم پر ایک نئی کرم فرمائی تھی.یہ ہماری دلجوئی اور ہمارے ساتھ ہمدردی کا ایک نیا اظہار تھا ہمیں احسان مندی کے بعد بات کے ساتھ اس کا اعتراف کرنا چاہیئے تھا.بالکل خلاف توقع اور اچانک ہمیں معلوم ہوا کہ مفتی مصر نے اسی ظفر اللہ خان کو ایک بے دین اور ایک غیر مقلد فرقہ کا رکن قرار دے دیا ہے.ہمیں رحم آتا ہے کہ اس فتوئی کی موجودگی میں ہمارے سفیر مقیم کو اچھی عبدالوہاب عزام کی کیا حالت ہوگی جو اس ملک میں شاہ سوڈان کا نمائندہ ہے اور جس ملک نے برطانوی تاج سے وابستہ ہونے کے باوجود ہمارے بادشاہ کا نیا لقب تسلیم بھی کر لیا ہے.ہاں ہاں ! اہمیں ترس آتا ہے اپنے وزیر خارجہ عبدالخالق حسونہ پاشا پر جیسے اپنے محمد ے کی وجہ سے ہمارے ملک اور ہمارے قومی مطالبات کے بارے میں پاکستان کے موقف کا بخوبی علم ہے اور جیسے اچھی طرح معلوم ہے کہ جہاں تک ہماری امنگوں اور ہمارے قومی مطالبات کا تعلق ہے ان کے بارے میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے کیا جذبات ہیں.ہمیں ترس آتا ہے اپنے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد صلاح الدین پاشا پر بھی کہ جس نے چو ہدری محمد ظفراللہ خان کا اعتماد حاصل کیا اور اقوام متحدہ میں ان کی امداد و حمایت سے فائدہ اُٹھایا.له البشری دسمبر ۱۹۵۳ء مجلد ۱۳ مدل ، ملا ہے
اسی طرح ہمیں رحم آتا ہے محمد علی علویہ پانشا پر احمد نقشابہ پاشا دیگر سیاستدانوں اور دنیا ئے عرب و اسلام کے نقتند رندترین پر جو چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو جانتے ہیں اور مصر فلسطین ، تونس اور دیگر مسلمان و عرب مملکتوں کے مفاد کی خاطر آپ نے جو دوڑ دھوپ کی ہے وہ اس سے بخوبی واقف ہیں.یہ سب بدترین کیا سوچتے ہوں گے ہمیں رحم آتا ہے ان سب پر اور پھر خود مفتی پر.اس نے صفائی کا موقعہ دئے بغیر خوا خواہ ایک شخص کو مجرم قرار دے دیا اور اس پر بے دینی کا الزام لگا ڈالا خدا کی پناہ بخدا کی پناہ.ظفر اللہ خالی ہماری ہمدردی کے محتاج نہیں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیںکہ وہ اب بھی اسلامی مفادات کی حفاظت کی خاطر اسی طرح سینہ سپر رہیں گے اور مصر کے ساتھ اپنی دوستی کا دم بھرتے رہیں گے مفتی نے ظفر اللہ کو کا فرو بے دین قرار دیا ہے.آؤ ہم سب مل کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان پر سلام بھیجیں.ظفر اللہ خاں کافر کے کیا کہنے ان جیسے اور بڑے بڑے دسیلوی" کافروں کی ہمیں ضرورت ہے.بال آخریم پوچھتے ہیں کہ حکومت مصر اس بارے میں کیا کہنا چاہتی ہے؟ ایسی حالت میں اس پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے ؟ اس سلسلہ میں وہ کیا بیان جاری کرے گی ؟ اور یہ کہ آئندہ اُسے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیئے تا کہ اسے محض چند احمقانہ الفاظ کی وجہ سے جو کوئی عاقبت نا اندیش سوچے سمجھے بغیر زبان سے نکال دے اپنے محدودے چند دوستوں کی رفاقت سے ہی ہاتھ دھونا پڑے.بے مصر کی با اثر شخصیت احمد خشابه پاشا کا حسب ذیل بیان اخبار احمد خشابہ پاشا کا بیان الزمان ( ۲۵ جون ۱۹۵۲ء) میں شائع ہوا : (ترجمہ) خشابہ پاشا نے اعلان کیا ہے کہ مجھے اس فتولی سے سخت رنج پہنچا ہے کیونکہ چوہدری محمد ظفراللہ خان نے اسلام اور عرب دنیا کی بالعموم اور مصر کی بالخصوص بہت مات سر انجام دی ہے.عالم اسلام ان کی خدمات جلیلہ کے لئے ان کا ممنون احسان ہے ، خشابہ پاشا نے مصر کے معاملات میں چھ بڑی محمد ظفر اللہ خان صاحب کی اس تائید و حمایت کا بھی ذکر کیا ہے جو موصوف نے اقوام متحدہ کے مختلف اجلاسوں میں ہمیشہ روا رکھی اور بالخصوص سلامتی کونسل کی نشست حاصل کرنے میں نه المصری ۲۶ جون ۱۹۵۲ بجواله البشر کی مجله ۱۸۱۱ مثلا صلا حیفا فلسطین
Yll آپ نے مصر کو بے حد تقویت پہنچائی خشابہ پاشا نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا.یکی اس عظیم شخصیت کا بے حد ممنون احسان ہوں کیونکہ اس نے میرے ملک کی بے حد خدمت سر انجام دی ہے اور مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ایسا فتوی دیا بھی گیا ہے تو ایسی نمایاں اور بند ہمتی کے خلاف ہے أخبار النداء (یکم جولائی ۱۹۵۳ء) نے لکھا :.(ترجمہ) ر اخبار النداء کا بیان نمائندہ النداء و معلوم ہوا ہے گریختی کی شخصیت بالکل حمل بحث نہیں تھی بلکہ ارباب حل و عقد نے مفتی کے منصب کے دائرہ عمل پر غور کیا ہے.اور یہ معاملہ مفتی کے منصب کے محدود کرنے پرش عملی ہے کہ اس کو کس حد تک اجتہاد کرنا چاہیئے.ہاں سرکاری حدود میں اس کو اجازت نہیں ہے.چونکہ مطالبات دارالافتاء میں آتے ہیں.اس لئے کوئی فتوی اس وقت تک صادر نہ کیا جائے جیتک اس کو مجلس افتاء کے سامنے پیش نہ کیا جائے جونا ہی اولیہ کے آئمہ پر مشتمل ہو.مولانا محمد شریف صاحب مدیر البشری نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ :.بعد انداں ہم دریافت کرتے ہیں: کیا حضرت مفتی ارمصر کئی سالوں سے نہیں جانتے کہ سر ظفر اللہ خان احمدیت کے ستاروں میں سے ایک ستارہ ہے؟ وہ کونسی وجہ ہے جس کی وجہ سے مفتی اس فتوی کے جاری کرنے پر مجبور کیا گیا.جیسا کہ کہاگیا ہے کہ غلطی ہے یا اس کا بیان ہے جیسا کہ فاضل مفتی نے خود بیان دیا ہے موجودہ نازک حالات میں جن میں سے عالم اسلامی گزر رہا ہے مسئلہ کشمیر مسئلہ حیدر آباد، ملک فارس کے پٹرول کا مسئلہ مسئلہ ٹیونس، ہر سویز کا مسئلہ مسئلہ سوڈان فلسطین کے پناہ گزینوں کا مسئلہ، اسلامی ممالک کی حفاظت کا مسئلہ ، جو آنے والی جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ہے جس کے لئے جنگجو اقوام مسلح اور تیار ہو رہی ہیں.اس کے علاوہ اور کئی مشکل وسائل ہیں جو ان ایام میں سلمانوں کو دور میں ہیں.کیا یہ سائل مسلمانوں کے اتحاد کا تقاضا کرتے ہیں یا مسلمانوں کے افتراق کے فتاوی یا اس قسم کی شخصی آراء کی اشاعت کا تقاضا کرتے ہیں.ہم ان مشکلات کے پیش نظر اور مشرق میں سب سے بڑی اسلامی حکومت مصر اور دنیا میں سب سے بڑی اسلامی حکومت پاکستان کے اتحاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اُن کے اسلامی اور عالمی له بحواله البشرى حيفا فلسطين المجلد ۱۲۳۱۸ A
۳۱۲ مسائل میں متفقہ موقف کو دیکھتے ہوئے اس نتیجہ کے اخذ کرنے - پر مجبور ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن جو سر ظفر اللہ خاں کے سامنے اپنے نظریات کو عالمی مجالس میں بذریعہ ودلائل و براہین ثابت کرنے سے عاجز آگئے ہیں اور جنہوں نے قاہرہ (۲۶ جنوری ۶۱۹۵۲ ) کو بروز سیاہ ہفتہ آگ کے شعلہ میں تبدیل کر دیا.ایسے ہی اشخاص نے مفتی مصر کو استعمال کیا ہے اور مفتی کو اس امر کا احساس ہی نہیں ہے میفتی کو افتراق کے لئے دو بڑی اسلامی حکومتوں کے درمیان آلہ کار بنایا گیا ہے اس کے سوا کچھ مقصد نہیں تھا.وسيعلم الذين ظلموا اتى منقلب ينقلبون اخبار الجمهور المصری (۲۱ جولائی ۱۹۵۲ء) نے اخبار الجمہور صحری کا بیان ایک شدہ میں لکھا.اور میری ہم اس امر کی وضاحت کرتا پسند کرتے ہیں کہ ہم ڈاکٹراحت شلبی پر وفیسر خواد الاول یونیورسٹی کی رائے کی تائید کرتے ہیں کہ مفتی مصر کا فتوی برطانیہ کی چھال ہے اور ان برطانوی اخبارات کی سازش ہے جو عربی زبان میں مصر سے شائع ہوتے ہیں.عوام کے تصور سے ہی مسئلہ کہیں گرا ہے.دھوکہ کی بنیاد.یہ واضح حقیقت ہے کہ ظفر اللہ خان نے جو تمام دنیا کے مسلمانوں کے معاملات میں دفاع کیا ہے اس نے انگریزوں کو خوفزدہ کر دیا ہے.اسلام اور مسلمانوں کی خاطر اور اس کی ویرانہ آواز نے انگریزوں کو پریشان کر دیا ہے اور ان کو اس امر کا خون ہے کہ پاکستان مضبوط ہاتھ ہو جائے گا جو ہر جگہ مسلمانوں کے معاملات میں ان کو سہارا دے گا...ظفر اللہ خان نے کہا ہے کہ پاکستان ہرگز اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا چاہے عرب لیگ اس کو تسلیم کرے.اس وجہ سے انگریزوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے خلاف سازش کی تاکہ وہ مصر اور مشرق کو اِس پاکستانی بڑے لیڈر کی تائید سے محروم کر دے.الدكتور ابراهيم اللبان يك پرنسپل کلیه و ار العلوم الدكتور اللبان بك كا بيان المصريہ نے النحلة القاديانية وما اعرف عنها ر فرقہ قادیانی کے متعلق میری معلومات کے زیر عنوان لکھا:.ت مجھہ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ عرب حکومتوں نے ظفر الله عالی وزیر خارجہ پاکستان جیسی شخصیت کو
تکلیف دی جس نے عرب حکومتوں کے دفاع میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جس کی وجہ سے اس تابخر اور مثالی شخصیت کی تائید اور دوستی کو مفقود کر دیا گیا ہے حالانکہ آج کے عالمی سیاسی تنازعہ اور خطرناک ناری بحران میں عرب حکومتیں ظفر اللہ خان کی شجاعت، بلاغت اور آپ کے دفاع کی بہت ضرورت محسوس کرتی ہیں.قادیانی فرقہ کے متعلق یکی انتہائی باریک بینی پر مبنی اپنی معلومات بیان کرتا ہوں اور پڑھنے والے پر اس کا فیصلہ چھوڑتا ہوں کہیں ہرگزہ اس امر کا دعوی نہیں کرتا کہ میں نے قادیانیت کا کما حقہ مطالعہ کیا ہے.میرا ان سے مسلسل تعلق رہا ہے بلکہ اس جماعت سے مجھے واسطہ بھی پڑا ہے.قادیانی مذہب سے میرا تعلق پہلی مرتبہ میرے قیام لندن کے دوران ہوا جن دنوں میں وہاں تعلیم حاصل کرتا تھا.میرا پہلا تاثر یہ ہے کہ یہ دو قسموں میں منقسم ہے.جماعت کا ایک گروہ تو اس رائے کا حامل ہے کہ اس کا امام (احمد) القادیانی اسلامی مصلح سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.وہ مصلحین جن کو خدا تعالیٰ وقتا فوقتا دین کی تجدید کے لئے مبعوث کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اپنے امام کی عزت میں غلو کرتا ہے اور وہ اس کو نبی یقین کرتا ہے.لندن کے محملہ پلٹنی میں اس گروہ کی مسجد بھی ہے.ران ایام میں اس فرقہ کے خلاف یکس نے سخت ناقدانہ حملہ کیا چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ امام مسجد کو میرے ہاں بھیجے اور وہ میرے ساتھ تبادلہ خیالات کرے، یاتو وہ مجھے خاموش کرا دے اور یا یکن اس کو خاموش کر دوں.چنانچہ دوم نیز مصری کلب لندن میں ہم مناظرہ کے لئے اکٹھے ہوئے بحث کا دائرہ ان کے زعیم (احمد) القادیانی کی نبوت کا تھا.میں نے امام صاحب کی تو بقیہ کو اس طرف پھیرا کہ یہ مسئلہ قرآن کے صریح خلاف ہے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ما کان محمد ابا احد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبین.یہ دلیل رسول اکرم کے بعد ہر شخص کے لئے اس رستہ کو ختم کر دیتی ہے کہ وہ اپنے کو ہی کہے.لیکن اب تک اس امام کے جواب کو یاد کرتا ہوں کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح ہی محمد کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کی کتاب قرآن کریم ہے اور اس کے سوا اور کوئی ان کی کتاب نہیں ہے.اس سے وہ عقیدہ اور شریعت حاصل کرتے ہیں.لیکن امام نے جیسا کہ مجھے یاد ہے قادیانی کی نبوت کے عقیدہ پر اصرار کیا اور جیب یکی نے اسکے سامنے قرآنی آیت کو پیش کیا تو اس نے تاویل کرنی شروع کر دی اور صراحتنا کہا کہ یہ ان کے لئے
۳۱۴ ناممکن ہے کہ وہ کوئی ایسا عقیدہ اختیار کریں جو قرآن کے خلاف ہو لیکن یہ عقیدہ قرآن کے ہر گئے مخالف نہیں ہے.آیت قرآنی خاتم النبلی زمین کے ساتھ اس امر کا اظہار کر رہی ہے اور زمجر کے ساتھ ہی آیت وارد ہوئی ہے.زیر کے ساتھ وارد ہوئی ہوتی تو یہ قطعی دلیل ہوتی کہ محمدعلیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہے.قرآنی آیت میں لفظ خاتم کی وہ خاص تاویل کرنے لگا جس کی رو سے انبیاء کے ظہور کے لئے دروازہ کھلا ہے اور اس میں ان کے لئے کوئی روک نہیں ہے.بعد انہاں امام نے نبی اور رسول کے فرق کو بیان کرنا شروع کر دیا.ان قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ محمد کے بعد کوئی رسول نہیں ہے اور آپؐ کی رسالت ہی آخری دینی رسالت ہے لیکن وہ یہ بھی عقیدہ دیکھتے ہیں کہ یہ مکن ہے کہ آپ کے بعد انبیاء ظاہر ہوں بینکا کام احیاء شریعت ہو اور اس کی تعلیم کی انسانی اشاعت قادیانی بھی ان انبیاء سے ایک ہے جو لوگوں کو اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی شریعیت پر عمل کونے کی تلقین کرتا ہے.اس صورت میں یہ لوگ تاویل کرنے والے ظہر تے ہیں نہ کہ قطعی منکر اور تاویل کرنے والے کا حکم قطعی مکر جیسا نہیں ہوا کرتا ہے الشیخ محمد ابراہیم سالم بک (سابق چین جیٹس ہائیکورٹ الشیخ محمد ابراہیم سالم یک کا بیان مصر نے ایک بیان میں کہا.:- بلاشبہ ہماری طرف سے یہ جلد بازی ہوگی کہ ہم قادیانیوں پر کفر کا فتو ی لگائیں اور یہ اس لئے کہ ہمیں ابھی تک ایسے وسائل میسر نہیں کہ ہم اس مذہب کے متعلق علم اور اس کے میلانات بذیعہ کتب معلوم کر سکیں.اور جب تک ہمیں اس مذہب کے متعلق کچھ معلوم نہ ہو تو یہ جلد بازی اور مہارت ہو گی کہ ہم اس مذہب کے پیرو کاروں پر کفر کا فتویٰ لگا وہیں.وہ اس وقت تک مسلمان ہی نہیں جب تک کہ ان کے کفر پرولیل قائم نہیں ہو جاتی.اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ کئی ایسے پہلو ہیں جو فرقہ قادیانی کے مسلمان ہونے کی تائید کرتے ہیں بلکہ ان کے دسلمان ہونے کی تائید میں یہ پہلو بھی ہے کہ احمدی اسلام اور مسلمانوں کی تائید کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے بلکہ ہر موقعہ سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں.یہ تائید لة المصري ۲۷ جون ۵۸۱۹۵۲
۳۱۵ خواه سر کاری تقریبات کے مواقع پر ہو یا ان کے علاوہ.مان امور کی بناء پر یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ جناب ظفر اللہ خان کی ذات پر کفر کا اتمام لگایا ہے ہم جانتے ہیں کہ و شخص اسلامی اخلاق سے آراستہ ہے اور اسلامی روایات اور سنت پر عامل ہے.ظفر اللہ خان مصر میں کئی مرتبہ آئے ہیں ہم نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے معاملات ہیں ان کی مدد کرتے ہیں.اور آپ ہر ایسے معاملہ میں جس میں اسلام اور مسلمانوں کی شان بلند ہوتی ہو دلیر ہیں.اس بناء پر اس شخص کے مسلمان ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے.ان اشیخ علام نصاری کا بیان اسی کے عایق یعنی این مقام انصاری نے اپنے بیان میں نہ تو یہ جائز ہے اور نہ آسان کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے کسی فرقہ پر کفر کا فتوی لگا یا جائے اور نہ ایسے دلائل ہی پائے جاتے ہیں جو اس امر کو جائز قراردیں کہ قادیانی جماعت پاکستان میں اسلام سے خارج ہے.میں اس امرکو مناسب نہیں سمجھتا کہ ایک عظیم سیاسی آدمی پاکستان کے وزیر خارجہ کی پوزشی جیسے شخص سے تعرض کیا جائے کہ ان کا دین کا عقیدہ کیا ہے حالانکہ و شخص دین اسلام کا علی الاعلان اظہا کرتا ہے.اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بڑی بڑی مجالس میں دفاع کرتا ہے.اپنے موقف اور بیانات کی تائید میں قرآن کریم اور احادیث محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور دلیل پیش کرتا ہے اور علی الاعلان اس کی اقتداء کا اظہار کرتا ہے اور اسلام کو ہی بہترین رابطہ مصر، اسلامی ممالک اور پاکستان کے درمیان تعیین کرتا ہے اس لئے دین میں انصاف کی خاطر یہ امر حکمت کے خلاف ہے کہ کوئی ان کو خارج از اسلام قرار دینے کی مصیبت میں مبتلا ہو حالانکہ وہ شخص اپے اسلام کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے اور اس کو پاکیزہ تعلق یقین کرتا ہے.اسلام اورا قوام اسلامیہ کی خدمت کے لئے قابل قدر ہستی سے کام لیتا ہے ان کے دوست اور جاننے والے اشخاص (جو مصر میں اکابرین اسلام ہیں) کی آراء سے یہ واضح تاثر لیا جاتا ہے کہ وہ آپکو ایک مسلم شخصیت ہی تصور کرتے ہیں جو اسلام کے آداب اور شرائط پر مضبوطی سے عامل ، اسلامی اخلاق و صفات سے مزین اور اسلام کی اتباع اور اس کے اصول کے الزام پر ترغیب دیتے ہیں.له البلاغ ۲۶ جون ۶۱۹۵۲ *
مسلمان اس واقعہ سے ناواقف نہیں ہیں جو آنحضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا جبکہ کیسی نے ایک آدمی کو جنگ میں قتل کر دیا حالانکہ وہ شہادتین کا اقرار کر چکا تھا کیونکہ قاتل کو یقین تھا کہ اس شخص نے قتل کے ڈر سے کلمہ شہادت پڑھا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس کے اس فعل پر مات کی اور اس کے مزار کو قبول نہ کیا اور آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کے دل کو پھاڑ کر دیکھا تھا ؟ لے اختبار البوم (۲۹ جولائی ۱۹۵۲ء) نے خبار الیوم کے نام نگار و یتیم کراچی کابیان نامدار موتی لکھنا - اپنے نامہ نگار خصوصی تقسیم کراچی کے حوالہ سے اصبح الابرار کا فرین (نیک لوگ کافر ہو گئے ) شیخ مخلوف نے جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اب اس پر پردہ ڈالنے کی کوشیش عبث اور بے معنی ہے.اس غلطی کا نام وہ فتوی رکھیں یا بیان نام دیں دونوں برابر ہیں.بہر کیف وہ خود ہی اس کا شکا ر ہو گئے ہیں.حکومت کے لئے اگر اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے تو اب مفتی صاحب کو ان کے اس منصب سے علیحدہ کرنا ضروری ہو گیا ہے میفتی صاحب کے فتویٰ کے جاری ہونے کے وقت ہی سے ہم نہ صرف اس کو نا قابل التفات سمجھ رہے تھے بلکہ لوگوں کے اسے طاق نسیان پر رکھ دینے ہیں بھی انکے محمد تھے مگر اس کے باوجود مفتی صاحب اپنی اسی غلطی کا دفاع کر رہے ہیں اور ایک غلطی کو محو کرنے کے دار میں دوسری کا ارتکاب کر رہے ہیں اور ایک گمراہی کے عوض دوسری میں اپنے کو ملوث کر رہے ہیں."+ مفتی صاحب اس بات کو جانتے ہیں کہ قادیانی جماعت میں اعتدال پسند اور صاحب و قار لوگ بھی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ خفر اللہ خان بھی ان ہی میں سے ایک ہوں.معنی صاحب یہ سب کچھ بھی جانتے ہیں جبہ یا کہ الاخبار کو انہوں نے بیان بھی دیا ہے اور جو جمعرات کو شائع بھی ہو چکا ہے ان کا فرض تھا کہ کسی کو خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم کرنے اور اس کے دین سے نکالنے سے پیشتر وہ فقہ اسلامی کے عام اور معمولی قوانین ہی ملاحظہ فرما لیتے جو انہیں اس معاملہ پر تحمل اور بردباری سے غور کرنے کی طرف توجہ دلا رہے تھے اور جلد بازی سے کام نہ لیتے.له البلاغ ۲۶ جون ۲۱۹۵۲
فاضل مفتی صاحب کو علم ہو گا کہ ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ کو فرمایا تھا کہ کیا تو یہ سورج دیکھ رہا ہے پس اسی طرح گواہی دے ورنہ رہنے دے.اسی طرح ان کو یہ بھی علم ہوگا کہ علماء اسلام اور آئمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ مسلمان میں کے اسلام کا ایک فیصدی بھی احتمالی ہے اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا.پس اس شخص کے لئے جو منصب افتاء پر فائز ہو مناسب نہ تھا کہ کسی مسلمان کے خلاف کفر کا فتوئی سجاری کرتے ہیں جلد بازی سے کام لیتا اور مسلمان بھی اتنی عظمت شان کا مالک کہ صحافت اس کے وجود ہی کو ایک بڑی خبر تصور کرتی ہو.اگر بالفرض ایسی کوئی بات تھی جو مفتی صاحب کو ظفر اللہ خاں کے اسلام سے خارج کرنے ہی پر مجبور کرتی تھی (جس کا ہمیں علم نہیں ، تب بھی انہیں اپنے فتوئی یا بیان کو بہتر اور مناسب صورت دینا چاہئیے تھی اور پاکستان سے وزیر زندیق کی معزولی کا مطالبہ نہیں کہنا چاہیئے تھا.معلوم ہوتا ہے کہ مفتی صاحب نے اپنی تعیناتی سے تعلق قوانین کا مطالعہ ہی نہیں کیا اور یہ گمان کر لیا کہ وہ مصر اور پاکستان کے مفتی ہیں اور اس طرح اپنے ہم مشرب کے معاملات میں بھی دخل اندازی کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس کے حقوق کا احترام نہیں کیا.مفتی پاکستان اپنے ملک، اور اپنے وزیر کے متعلق یقیناً وہ کچھ جانتا ہے جس کا شیخ مخلوف (مفتی مصر) کو کوئی علم نہیں.اس مسئلہ کے اور بھی کئی پہلو ہیں جو زیادہ خطرناک ہیں اور نتائج کے لحاظ سے سنگیں بھی.اسلامی اصول ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو کافر کہا وہ خود کا فر ہو گیا.ظفر اللہ خاں جب تک ہم آنکھوں سے اُن کا کفر مشاہدہ نہ کر لیں اور اس بارہ میں ہمیں یقینی علم نہ حاصل ہو جائے ہمارے نز دیک مسلمان ہیں اور ان کا اسلام کا مل ہے.مفتی مصر نے خود اپنے آخری بیان میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ظفر اللہ خان اعتدال پسند اور وقارہ کے حامل ہوں یہ امر بھی مفتی صاحب کو اس کے خلاف فتوی صادر کرنے کا حق نہیں پہنچاتا اور نہ ہی غیض و غضب اور لعنت ملامت کے نشانہ بنانے کا.ہماری رائے ہے کہ مفتی صاحب نے ایک مسلمان کو کافر ٹھہرایا ہے اور جس کسی نے کسی مسلمان کو کا فر ٹھہرایا ہو وہ خود کا فر ہو جاتا ہے.
۳۱۸ میں قارئین سے امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے کسی کی تنقیص کا مرتکب نہ تصور کریں گے کی حقیقت کے اظہار میں سنجیدہ ہوں.اس سلسلہ میں تمام ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہوں.جہاں تک ظفر اللہ خان کا تعلق ہے.اس قسم کی کہی گئی باتوں سے اس کا کوئی نقصان نہیں لیکن یہ واقعہ اس امر کی ضرور یاد دلاتا ہے کہ لوگوں نے رسول عظیم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بھی کا ہن، ساحر، صابی اور مکنون کے الفاظ استعمال کئے تھے.وہ شخص جو استعماریت کا بڑی قوت ، بلاغت اور صدق بیانی سے مقابلہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی جس کی زبان اور دل پر حتی جاری کرتا ہے وہ بھی اگر کافر قرار دیا جا سکتا ہے تو نیک لوگوں کی اکثریت ایسے کا فرین سجانے کی خواہش کرے گی.(خالد محمد خالد) اخبار المصری نے اپنے مقالہ خصوصی (مورخہ ۲۷.جون اخبار المصری کا مقالہ خصوصی ۱۹۵۲ء میں بعنوان ظفر الدخان لکھا - :- المصری کے قارئیں اس کالم کے علاوہ کسی دوسری جگہ مصر میں پاکستان کے سفیر کے بیان کا مطالعہ کریں گے جس میں آپ نے مصری صحافت کی عزت افزائی کی ہے اور بالخصوص روزنامہ المصری کی جس نے اپنے اور پاکستان کے دوست بھری لوگوں کے خیالات کی اشاعت اس انتہام کے نہ ہ میں کی ہے جسے مصر کے علماء عظام میں سے ایک نے عوام کی خلاف توقع مشرق کی عظیم شخصیت محمد ظفر الل تاں پر عائد کیا تھا.اس اتہام سے قبل شاید پاکستان اس امر سے واقف نہ تھا کہ مصر پاکستان کے لئے دل کی گہرائیوں سے محبت ، خلوص اور ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے اور عالمی اخترت کا بھی حامل ہے.دونوں ایک جیسے مقاصد رکھتے ہیں.عربوں میں کیا خوب یہ کہاوت ہے کہ بسا اوقات ضرر رساں اشیاء بھی مفید مطلب ہو جایا کرتی ہیں.پاکستان کے مصری دوست ظفر اللہ خاں کے مقام کا اندازہ ہی نہیں اسکتے ہیں الاقوامی سوسائیٹیوں میں وہ قضیہ مصر کے بلند پایہ ارکان میں سے ہیں اور دنیا کی عظیم ترین ان شخصیتوں سے ایک ہیں جنہوں نے مصر کی خاطر اپنی ذات، وقت اور وطن تک کو وقف کر رکھا ہے.استعماریت کا مقابلہ کھلم کھلا اور بڑی جرأت سے کرتے ہیں.اس شخص کے وجود میں اور له بحواله البشری ۱۹۵۲ء ص ۱۳ ، مش ۱۲
۳۱۹ بھی کئی خوبیاں موجود ہیں.یہ سب باتیں اس امر کی متقاضی ہیں کہ آپ کے خلاف نہ صرف کچھ بھی نہ کہا جائے بلکہ آپ کی گرانقدر خدمات کو سراہا جائے اور ان کے بارہ میں انصاف سے کام لیا بہائے محمد ظفر اللہ خان عصر حاضر میں دولت اسلامیہ کی نہایت درجہ بلند پایہ اور رمتا شخصیتوں سے ایک ہیں بلکہ سیر فرست ان ہی کا اسم گرامی آتا ہے.آپ ہی وہ شخص ہیں جس نے سیاست کا مطالعہ تو اچھی طرح کیا ہے لیکن نظری سیاست کے اصولوں کو پتا یا نہیں بلکہ سیاسی ثقافت کو قرآنی انداز منکر کے تابع اور ہم آہنگ کر دیا ہے.آپ نے ایسا اسلامی نظریہ اختیار کیا ہے جو عصر حاضر کے افکار کی آراء اور اسلامی نظریات مشتمل ہے.ظفر اللہ خان کو اقتصادیات پر وسیع نظر حاصل ہے.آپ نے اقتصادیات کا نہ صرف مطالعہ کیا ہے بلکہ ایک بڑی قوم کا جس کے اغراض و مقاصد وسیع تر ہیں اور جو ابھی ابھی استعماری اقتصاد یا کے بھنور سے نکلی ہے بجٹ تیار کیا ہے.اقتصادی نظام میں آپ علیم اقتصادیات پر صرف انحصار نہیں کرتے بلکہ اقتصادی ثقافت کو اسلامی تعلیم کے تحت لے آتے ہیں.دولت اسلامیہ کی تعمیر میں آپ کا یہ نظریہ ہے کہ افراد کے فرائض اور حقوق حکومت کے حق میں کیا ہیں اور حکومت کے فرائض اور حقوق افراد کے حق میں کیا ہیں ؟ ظفراللہ خان وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے حکومت کے جھنڈے کو اٹھایا اور پاکستان کی خارجہ سیاست کو حکومت کے دو بڑے وجودوں محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی طرف سے سپرد ہونے پر سنبھالا اور ان کے اسلامی طریق کار کو جاری رکھا.اس طرح اس نوزائیدہ مملکت کو عمیر حاضر کی ترقی یافتہ صف میں لاکھڑا کیا.پاکستان کی ہر دور مذکورہ بالا) بڑی شخصیتوں نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی اقتداء میں جو روایات قائم کی تھیں ان کو نہ صرف بر قرار رکھا بلکہ مزید چار چاند لگا دئیے.امریکہ اور یورپ کے عالمی سیاسیات کی شہرت کے مالک ان کی قدر و منزلت محض نمائش کے طور پر نہیں کرتے بلکہ ان کی ذاتی خوبیوں کے مداح ہونے کی صورت میں نہایت قدر کی نگاہ سے ان کو دیکھتے ہیں.انہیں یہ بھی علم ہے کہ آپ اپنی لیاقت اور قابیت کی بدولت اطراف عالم میں کیسی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.
۳۲۰ وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ آپ مشرقی محاسن کے آئینہ دار ہیں اور سلامتی کی دعویدار نئی دنیا میں آپ دو متقابل و متحارب بلاکوں میں تیسرے گروپ کی نمائندگی کرتے ہیں.یہ ہیں وہ ظفراللہ خان کو تکفیر کا نشانہ بنایا گیا ہے حالانکہ تنہا آپ ہی ہیں جو اقوام متحدہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کہ فریفی نماز اس کے وقت میں ادا کرتے ہیں اور اس غرض کے لئے اقوام متحدہ کے ہال میں کوئی علیحدہ جگہ تلاش کرتے ہیں تاکہ امت اسلامیہ کی نصرت طلب کرنے کے لئے خدا کی جناب ہیں سجدہ ریز ہو سکیں.مصر کے علاوہ بیروت کے پر لیس نے بھی فتوی پر تنقید کی چنانچہ برونی کیر الاشات بیروت پرلیس روزنامہ بیروت المساء نے لکھا." :- ہم وزیر خارجہ پاکستان السید محمد ظفر اللہ میاں کو اچھی طرح جانتے ہیں.بیروت میں ان سے کئی مرتبہ ملاقات ہوئی.ہم نے اُن کا فصاحت و طاعت سے پریکچر بھی شنا.آپ کا لیکچر سن کر ہمارا متاثر ہونا لازمی تھا جبکہ اقوام متحدہ کی مجالس آپ کی زور دار تقاریرین کو ورطہ حیرت میں پڑچکی تھیں.ہم نے آپ کو قرآن مجید کے علوم بیان کرتے ہوئے سنا جس میں آپ نے شاعر کا یہ قول بھی بیان فرمایا وكل العلم في القرآن لكن : تقاصر عنه افهام الرجال تمام علوم قرآن مجید میں موجود ہیں لیکن عام لوگوں کے فہم انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں پھر ہم نے آپ کو پالم منیش ، ہوٹل میں نماز تہجد پڑھتے اور عبادت کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے آپ کے پیچھے نماز میں آپ کے ساتھی بھی تھے.پھر ہم نے دیکھا کہ آپ اسلامی حکومتوں کے وزراء اعظم کی ایک کا نفرنس منعقد کرنے میں کوشاں ہیں.پھر آپ نے مصر کی امداد اور تائید و حمایت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے.اسی طرح مسئلہ تونس کے متعلق اسلامی مفادات کے تحفظ میں آپ جس طرح سینہ سپر ہوئے وہ بھی ہمیں اچھی طرح یاد ہے.یقینا الظفر اللہ خان ایک مفکر دماغ کے حامل ہیں اور آپ ترقی پذیر پاکستانی مملکت کے لئے سان ناطق کا درجہ رکھتے ہیں.اس مملکت کے لئے جس کی مسلم آبادی آٹھ کر وڑ نفوس سے بھی متجاوز ہے.جس نے قرآن کریم کو اپنا دستور بنایا ہوا ہے اور جہاں عربی زبان کو ممتاز درجہ پر شمار کیا جاتا ہے.
اس ہمسایہ مملکت کو جو ایشیامیں تعمیر وترقی کا علم بلند کر رہی ہے اور جو عربوں کے تمام مسائل میں خلوص نیت اور صدق دلی سے ان کا ہاتھ بٹا رہی ہے.عرب دنیا کے ایک وسیلے حصہ کی طرف ایک طعنہ دیا گیا ہے.ہماری مراد اس سے صر ہے.ہاں مفتی صاحب نے جہالت کا ثبوت دیا ہے.اس کا منصب صرف دیتی ہے.اس کا کام لوگوں کو کا فر قرار دینا نہیں ہے جس نے مومن کو کافر کہا وہ خود کا فر ہوا.آہ! اس نے یہ فتوی دے گڑ کہ پاکستان کا وزیر خارجہ کا فر ہے اور یہ کہ پاکستانی حکومت پر واجب ہے کہ وہ ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ سے الگ کر دے انتہائی غفلت کا ثبوت دیا ہے.مذہبی لوگ خدمت دین کے لئے پیدا کئے گئے ہیں سیاسی امور میں دخل دینا ان کا کام نہیں.اگر ظفر اللہ خان مختلف اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقے دیعنی جماعت احمدیہ ) کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو یہ امران کو کافر نہیں بناتا.وہ ایمان بالله وملئكته وكتبه ورسلہ کے قائل ہیں.وہ اسلامی ارکان پر پوری طرح عامل ہیں.کیا مفتی کے لئے جائز ہے کہ وہ ان مسلمانوں پر بھی کفر کا فتوی لگائے جو دین اسلام پر عمل پیرا ہوں ؟ شیخ مخلوف مسلمانوں کی صفوں میں انتشار برپا کر رہا ہے اور ایسے وقت میں تفرقہ کی اشاعت کر رہا ہے جبکہ انہیں اتحاد کی بے حد ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کافروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے لکم دینکم ولی دین مفتی مصر کو کیا ہو گیا کہ وہ احمدی مسلمانوں کو مخاطب کر رہا ہے اور ان پر کفر کا انتہام لگا رہا ہے جس نے مومن کو کافر کہا وہ خود کا فر ہوا.کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اہل مصر بالخصوص اور دیگر مسلمان بالعموم قرون وسطی کی جمہور انگیز اور غیر ترقی پذیر روش سے خلاصی حاصل کریں.شیخ مخلوف اور ظفر اللہ خاں کے درمیان نمایاں فرق ہے.اول الذکر مسلم غیر عامل ہے.اور اگر شیخ مذکور عمل کرتا بھی ہے تو تفرقہ انگیزی کے لئے بر خلاف اس کے ظفر اللہ خان مسلم عامل النخیر ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آیات میں ہمیشہ ایمان اور عمل صالح کا اکٹھا ذکر کیا ہے.آہ ! ایمان اور عمل صالح کے باوجود مسلمانوں کو کافر قرار دینا کتنا ہی دور از عقل ہے.لے ه (ترجمہ) بیروت المساء بحوالہ روزنامه افضل لاہور مدینہ - ارونا ۳۳۱ پیش مطابق - ارجولائی ۶۹۵۲ مد
مفتی مصر کے فتوئی پر صرف تنقید ہی نہیں کی گئی مفتی مصر کے لقب کی منسوخی کا مطالبہ بلکہ مشہور ومعروف مصری مصنف ڈاکٹر محمد کی بک نے مطالبہ کیا کہ مفتی مصر" کے لقب کو حکومت آئندہ کے لئے مفشوخ قرار دیدے.آپ نے کہا :- مفتی مصر نے کسی حیثیت سے خارجی مسائل و معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے وزیر خارجہ پاکستا کے متعلق کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے ؟ اور اسے حق کیا پہنچتا ہے کہ وہ حکومت پاکستان سے موصوف کو اس عہد و جلیلہ سے ہر طرف کرنے کا مطالبہ کرے جبکہ پاکستان ایک علیحدہ آزاد خود مختار مملکت ہے ؟ اس نے ہزارہا میل دور بیٹھ کر یہ مطالبہ سننے اور سُنانے کے بغیر کیا ہے اور اس طرح مذہب کے نام پر سب سے بڑی اسلامی حکومت کی پوزیشن کو نازک بتایا ہے لیکں پوچھتا ہوں و من اعطال حق الافتاء ہم کسی شخص نے مفتی کو فتوئی کا حق دیا ہے اور کس شخص نے مفتی کو مذہب کے نام پر تمام دنیا کے متعلق رائے ظاہر کرنے کی اجازت دی ہے.کیا مصر ہی صرف ایک اسلامی حکومت ہے اس کے سوا اور کوئی حکومت اسلامی حکومت نہیں ہے ؟ اور کیا صرف مفتی مصر ہی دنیا میں ایک مفتی ہے اور اس کے سوا اور کوئی مفتی نہیں ہے ؟ وفى اى رجل انتى ؟ فى رجل صنع للاسلام والمسلمين ما لم يصنعه المفتى ولن يصنعه ولو عاش مثل عمره الحاضر اس نے کسی عظیم المرتبت شخص کے متعلق یہ فتویٰ دیا ؟ ہاں اس شخصیت عظیمہ کے متعلق جس نے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لئے وہ کام کیا ہے جو نہ مفتی کر سکا ہے اور نہ آئندہ کر سکے گا خواہ وہ اپنی موجودہ عمر کے براہمہ بھی زندہ رہے.ان تمام وجوہات کی بناء پر ہم مطالبہ کرتے ہیں :.اول : یہ مفتی الدیار کے لقب کی منسوخی کا کیونکہ وہ ایک فرد کی حیثیت سے ڈکٹیٹر شپ کی نمائندگی کرتا ہے جس کی دین میں کوئی سند نہیں ہے.دوم : مجلس افتاء کے توڑنے کا کہاں اس مجلس کو مختلف علمی امور کی تحقیقات کے ایسے حلقے میں بدل دیا جائے جس کا فیصلہ نہ تو کسی کو عزم بنائے اور نہ ہی کسی مسلمان کو کا فر ٹھہرائے.سور :- از ہر یونیورسٹی کے ایک سو نو جوانوں کو یونیورسٹی سے فراغت کے بعد علوم میدیدہ کی
۳۳۳ تحصیل کے لئے دنیا کے ترقی یافتہ علاقوں میں بھیجا جائے تاکہ از ہر یونیورسٹی کو عیدید لباس پہنایا جاسکے اور اس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم کی تدریس کا بھی انتظام ہو سکے.یہ تبدیلی دور رس نتائج کی حامل ہونی چاہیے تاکہ الازھر علمی لحاظ سے ایک جدید یونیورسٹی کی شکل اختیار کرے جس میں صحیح خطوط پر آزادانہ بخشیں ہوں اور اس طرح دین قرآن کریم اور احادیث نبوی کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو اور اسے محض علماء کی سند کی بجائے عقل کی تائید بھی حاصل ہو.ہے ا مفتی مصر کو مصری پر لیں اور شخصیتوں کے احتجاج اور مذمت پر اپنے مفتی مصر کا بیان فتوئی کے چومیں گھنٹوں کے اندراندر یہ بیان دینا پڑا.:- " إن ما نشر ليس بفتوى رسمية وليس لها رقم في سجل خاص وإنما هي مجرد حديث دار فى مجلس خاص يتضمن رأى فضيلته في هذه المسئلة "له یعنی شائع شدہ بیان سرکاری فتویٰ نہیں ہے اور نہ اس کا اندراج خاص رجسٹر میں ہوا ہے اس کی حیثیت ایک بھی مجلس کی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں اور مسئلہ مذکور دین محض ایک شخصی رائے کی ہے.مفتی مصر نے ایک اور بیان میں کہا :- انه فوجى بنشر حديثه مُحَرَفاً ومنسوبا اليه بوصفه الرسمى و باعتباره فتوی صدرت عنه سے یعنی اچانک اُس کی گفت گو محترف و مبدل کر کے اور اسے فتوئی ظاہر کر کے شائع کی گئی ہے.بالآخر مفتی حسین محمد خلون ریٹائر ڈ کر دئیے گئے.اخبار مفتی مصر کو پنشن دیدی گئی المحشور ( ۱۲ مارچ ۱۹۵۴ء) نے لکھا یہ في الاسبوع الماضى احيل فضيلة الاستاذ الشيخ حسنين محمد ما لے (ترجمہ) اخبار اليوم عدد ۲۹۹ مورخه ۲۸ جون ۱۹۵۲ء بحواله روزنامه افضل لاہور، جولائی ۱۰/۶۱۹۵۷ و فا ۳۳ پیش لے اخبار المصرى (۲۳ جون ۴۱۹۵۲) سکے اختیار المصرى " ۲۸ جون ۱۹۵۲ بحواله البشري (حيفا) ذی الحجه ۱۳۷۱ منا:
۳۲۴ مخلوف مفتي الديار المصريه إلى المعاش بعد ان اثار اكثر من مشكلة واكثر من ازمة ) یعنی گزشتہ ہفتر شیخ حسنین محمد مخلوف کو پنشن دے دی گئی ہے انہوں نے بہت سی مشکلیں اور الجھنیں پیدا کر دی تھیں.نیز بتایا : " ولم تكن فتاوى الاستاذ الشيخ مخلوف عادية يمر عليها الانسان مر الكرام بل إن كثير امنها اثار روائح وعواصف وكان موضع القيل والقال وفي مقدمة هذه الفتاوى.....فتواه فى شان الطائفة القاديانية یعنی الاستاذ الشیخ مخلوف کے فتاوی ایسے معمولی حیثیت کے نہ تھے جن کو انسان بآسانی نظراندا کر دے بلکہ اُن کے اکثر فتوے آندھیاں اُٹھانے اور طوفان برپا کرنے کا موجب بنے.یہی وجہ ہے کہ ان پر ہر جگہ اعتراضات کی بوچھاڑ کی گئی.ان قابل اعتراض فتاوی میں سمیر فهرست قادیانی جماعت سے متعلق فتوی ہے.الشیخ حسنین محمد مخلوف تو دو سال کے بعد پیشن یاب ہوئے شاہ فاروق مصر کا عبرتناک انجام مگر شاہ فاروق کی نسبت خدائے ذو الجلال کا آسمانی فیصلہ اس نام نہا و فتوئی کے چند دن بعد ہی نافذ ہو گیا یعنی ہم جولائی ۱۹۵۲ء کی شب کو مصری افواج کے لیفٹیننٹ جمال عبد الناصر کی قیادت میں بغاوت کر دی.مصر و سوڈان کے اس مطلق العنان بادشاہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور عسکری انقلاب کے بعد جنرل محمد غنیب مصر کے سر براہ مقر ہوئے.جنرل محمد حبیب نے بادشاہ کو معزول اور ملک بدر کرنے کے لئے حسب ذیل اعلامیہ جاری کیا :- انه نظرا لما لاقته البلاد فى العهد الاخير من فوضى شاملة عمت جميع المرافق نتيجة سوء تصرفكم وعيشكم بالدستور دامتها نكم لارادة الشعب حتى اصبح كل فرد من افراده لا يطمئن على حياته أو ماله اوكرامته.ه نجواله الفضل الطور ۳۴۳ مش ۵۱۲۵
۳۲۵ ولقد ساءت سمحة مصر بين شعوب العالم من تماديكم في هذه المستلك حتى اصبح الخونة والمرتشون يجدون في ظلكم الحماية والامن والثراء الفاحش والاسران الماجن على حساب الشعب الجائع الفقير ولقد تجلت أية ذالك في حرب فلسطين وما تبعها من فضائح الأسلحة الفاسدة وما ترتب عليها من محاكمات تعرضت لتدخلكم السافر ممّا أفسد الحقائق وزعزع الثقة في العدالة وساعدا الخونة على ترسم هذه الخطى - فاشرى من اثرى.وفجر من فجر وكيف لا ؟ والناس على دين ملوكهم الذالك قد فوضى الجيش الممثل لقوة الشعب ان اطلب من جلالتكم التنازل عن العرش لسمو ولي عهدكم الامير احمد فواد على ان يتم ذالك في موعد غايته الساعة الثانية عشر من ظهر اليوم السبت الموافق ٢٦ يوليو ۱۹۵۲ والمرابع من ذى القعدة (۱۳۷) ومغادرة البلاد قبل الساعة السادسة من مساء اليوم نفسه والجيش يحمل جلالتكم كل ما يترتب على عدم النزول على رغبة الشعب من نتائج فریق ارکان حرب محمد نجيب القائد العام للقوات المسلحة الاسكندرية في يوم ٢٦ يوليو سنة ۱۹۵۲- (ترجمہ) ان آخری ایام میں یہ دیکھتے ہوئے کہ ملک میں عام افراتفری پھیل گئی ہے جسنے زندگی کے تمام شعبوں پر اثر ڈالا ہے.یہ سب کچھ آپ کے ناجائز تعترف اور آئین کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں ہے.عوام کی خواہش کو نظر انداز کیا گیا ہے یہاں تک کہ ہر فرد اپنی جان، مال اور عربت کو بھی محفوظ نہیں سمجھتا.آپ کی بے جا زیادتیوں کی وجہ سے مجملہ اقوام عالم میں مصر کے وقار کو نقصان پہنچا ہے.آپ کے زیر سایہ خائن ، رشوت خور اشخاص ناجائز حمایت بے جا اسراف اور ثروت کا نا جائز اور اندھا دھند استعمال کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مفلس اور غریب مصری عوام کے خزانہ سے ہو رہا ہے.یہ کوائف جنگ فلسطین میں منصہ شہود پر آچکے ہیں.ناقص اسلحہ کی خرید و فروخت کے
۳۲۶ رسوا کن واقعات عدالتوں کے فیصلے جن میں آپ کی شرمناک، در اخلت سے حقائق پر پردہ پڑتا رہا اعتماد اور انصاف کی بے حرمتی ہوئی جرموں کو جرائم کے ارتکاب کے لئے حوصلہ افزائی ہوئی ، کئی لوگ بے تحاشا دولتمند ہو گئے اور بدکرداری میں حمد کر دی.اور ایسے حالات کیوں نہ رونما ہوتے جبکہ عوام اپنے بادشاہوں کی عادات و خصائل کو ہی اختیار کرتے ہیں.ان حالات کی وجہ سے فوج نے جو در اصل عوام کے اقتدار کی نمائندہ ہے مجھے اختیار دیا ہے که یکی حلالہ الملک سے مطالبہ کروں کہ آپ ہفتہ کے دن ۲۶ جولائی ۱۹۵۲ء کو بارہ بجے دو پر و سعید شہزادہ احمد فواد کے حق میں دستبردار ہو جائیں اور اسی روز چھ بجے شام سے پہلے اِس ملک کو چھوڑ دیں ورنہ فوج عوام کی خواہش سے انکار کے جملہ نتائج کی ذمہ دار آپ کو قرار دے گی.محمد نجیب کمانڈر انچیف مسلح افواج (اسکندریہ ۲۶ جولائی ۶۱۹۵۲ ) مصری حکومت نے مطابق شاہ کی تمام جاندا دو املاک پر قبضہ کر لیا اور فاروق کو نوٹس دے دیا گیا کہ وہ اپنی جائداد میں کسی قسم کا تصرف نہیں کر سکتے.اور ان کی تمام خواہشات کو رد کر دیا گیا.شاہ کی ذاتی ملکیت مصر میں دو لاکھ ایکڑ سے زیادہ تھی اور اس کے علاوہ وہ دو کروڑ پونڈ کی دولت کے مالک تھے جو امریکہ اور سوٹزرلینڈ کے بنکوں میں جمع تھی.شاہی محل میں ایک کمرہ جو قیمتی جواہرات سے لبالب تھا، کئی محلات قسم قسم کے پھلوں کے باغات، یہ سب کچھ بحق سرکار ضبط کرلئے گئے اور شاہ فاروق نے اپنے ہاتھ سے پروانہ معزولی یوں تحریر کیا :- " أمر ملكي رقم ۶۵ لسنة ۱۹۵۲ نحن فاروق الأول ملك المصور السودان لما كنا نتطلب الخير دائمًا لأمتنا، ونبتغى سعادتها ورقيها وكنا نرغب رغبة اكيدة في تجنيب البلاد المصاعب التي تواجهها في هذه الظروف الدقيقة ونزولا على ارادة الشعب.قررنا النزول عن العرش لولى عهدنا الامير احمد فواد واصدرنا امرنا بهذا الى حضرة صاحب المقام الرفيع على ماهر باشا رئيس مجلس الوزراء للعمل بمقتضاه.فاروق صدر بقصر رأس التين في ٤ من ذى القعدة سنة ۱۳۷۱ - ۲۶ نوليو سنة ۲۱۹۵۲ المصور ( اکتوبر ۹۵۲(۶) بحواله البشری (جیها) شمارہ نومبر ۱۹۵۲ء طـ 195.140.مام
۳۲۷ (ترجمہ) شاہی فرمان نمبرہ ۶ مہ ہم ہیں فاروق الاول شاہ مصر و سوڈان چونکہ ہم ہمیشہ اپنی رعایا کی بہبود ، خوشحالی اور ترقی کے خواہشمند رہے ہیں اور ہماری یہ انتہائی خواہش رہی ہے کہ ملک کو مشکلات سے ان نازک حالات میں محفوظ رکھا جائے جن سے آجکل وہ دو چار ہے.لہذا عوامی خواہش کے مطابق ہم نے تخت شاہی چھوڑنے اور ولی عہد احمد فواد کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے.وزیر اعظم علی ماہر پاشا اس سلسلہ میں کارروائی کریں.فاروق راس التین کے محل سے پروانہ معزولی ۲۶.جولائی ۱۹۵۲ء کو بھاری کیا گیا شاہ فاروق اپنی معزولی پر دستخط کرنے کے بعد بیوقت شام سکتا ہے برس جلا پلینی کا دردناک منظر سے اپنے بھی جانیں بیٹھ کر اٹلی روانہ ہوگئے جہاں ماہرین تک گنام زندگی بسر کرنے کے بعد مارمارچ ۱۹۶۵ء کو اگلے جہان سدھار گئے.مصر سے اُن کی روانگی کا نظام نهایت درد انگیز اور عبرتناک تھا.ملک کو الوداع کہتے وقت شاہ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور انہوں نے اپنا چہرہ شرم کے مارے ڈھانپ لیا ،شاہ اس وقت حسرت و یاس اور بایوسی کی تصویر بنے ہوئے تھے اور زبان حال سے حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل حقیقت افروز عربی اشعار کی عملی تصدیق کر رہے تھے کہ.يا مكفرى إِنَّ الْحَوَاقِبَ لِلتَّقى فانْظُرُ مَالَ الْأَمْرِ كَالعُقَلَاء الي اراك تميس بالخيلاء اَنْسَيْتَ يَوْمَ الظَّيْنِ وَالْإِسْرَاءِ تب أيُّهَا الْغَالَى وَتَاتِي سَاعَةً تُمسى تعض يمينك الشلاء له (ترجمہ) اسے میری تکفیر کرنے والے ! عاقبت تو شقی کی ہے پس و انشمندوں کی طرح آخری " من الرحمن تصنيف ۱۸۹۵ ۶ :
انجام پر نظر رکھ یکیں دیکھتا ہوں کہ تو مٹک کرنا ز سے چلتا ہے کیا تو نے کوچ کے دن اور شام کو روانگی کو بھلا رکھا ہے ؟ اسے حد سے گزرنے والے تو یہ کیا وہ گھڑی آنے والی ہے کہ تو اپنے شل ہاتھ کو دانتوں سے کاٹے گا.مصریوں کا رو عمل اور تاثرات شاہ فاروق کی دستبرداری کی خبر ریڈ یو نے نشر کی تو ملک بھر میں بہجت و شادمانی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی کہ برطانیہ میں رہنے والے اکثر مصری باشندوں نے بھی شاہ کا تختہ الٹنے پر اظہار مسرت کیا نیز یہ رائے دی کہ شاہ کے خود غرض اور مطلب پرست حواری ہی شاہ سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر غیر ممالک میں مصر کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کا موجب بنتے ہیں کیے سابق وزیر اعظم حسین سری پاشا کے داماد ڈاکٹرمحمدہاشم پاشاہ نے شاہ فاروق کی پرائیویٹ زندگی کی تفاصیل بے نتخاب کیں جن میں ان کی عیش پرستی، رات کی زندگی، سرکاری کام میں مداخلت اور بددیانت افسروں سے میل ملاپ پر روشنی ڈالی ہے رائل آٹو بائل کلب کے صدر شہزادہ عباس حلم (شاہ کے بھتیجے ) کے حکم سے کلب کے اُن کمروں کو بند کر دیا گیا جن میں شاہ مصریوں کے ساتھ ایک رات میں لاکھوں پاؤنڈ کا جوا کھیلتے تھے کیتے وفد پارٹی کے لیڈر مصطفے نحاس پاشا اور سیکرٹری جنرل فواد سراج الدین پاشا نے انکشان کیا کہ شاہ فاروقی وفد پارٹی کو ختم کرنے کے لئے برطانوی استعمار پسندوں کے اشارات پر اخبارات کو مالی امداد دیتے رہے.شہ اخبار المصری نے لکھا کہ شاہ فاروق کی بے پروائی اور اُن کا تشدد اُن کے اِس حسرت ناک انجام کا باعث بنے ہیں اور ہمارے سینوں سے ایک بھاری بوجھ اُتر گیا ہے.الاخبار نے لکھا آج تاریخ کے ظالم اور جابز بادشاہوں کی فہرست میں شاہ فاروق جیسے ظالم اور تنگ دل بادشاہ کا نام بھی شامل ہو گیا ہے.فاروق ایک ایسا بادشاہ تھا جس نے اپنے لے نوائے وقت (لاہور) ہر چولائی ۱۹۵۷ء ص کالم ، ایک زمیندار دنا موی سر است ۱۹۵۲ م کالم على سے نوائے وقت دلاہور) اور جولائی ۱۹۸۲ وقت سے زمیندار (لاہور) ۲ اگست ۶۱۹۵۲ ص ش زمیندار (لاہور) ۲۶ اگست ۱۹۵۷ء ص :
۳۲۹ خوام پر بے انصافی، بد دیانتی اور تشدد سے حکومت کی جس نے انصاف اور آزادی کو کچلنے کیلئے شہنشاہیت کو تازیانے کے طور پر استعمال کیا اور میں نے مصر پر غلامی اور افلاس کو مسلط کیا.شاہ فاروق کو عوام نے تخت چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ ان کی کرتوتوں اور بد عنوانیوں نے انہیں تخت سے محروم کر دیا.لے کے حضرت مهدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.حضرت مهدی موعود کی پیشگوئی.انا نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے محکموں اور منصوبوں سے یہ بات بر کا جائے گی اور سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا مگر یہ تا دان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پا چکا ہے زمین کی طاقت نہیں کہ اس کو محو کر سکے.و فرعون جوموسی کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اب اس کا کچھ پتہ ہے ؟ پس یقینا کبھو صادق صنائع نہیں ہو سکتا وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے.بدقسمت وہ جو اس کوش پخت مند کر رہے یہ سکے ے سے دہم فرعونیان را ہر زمان به بچوں یکہ بینائے موسی صد نشان زیں نشانها بدرگاں کو رو گراند : صد نشان بیایند و فاشل بگذرند که قاہرہ (مصر) کے با اثر و ممتاز اخبار الیوم کی ۲۶ جوان سید نا حضر مصلح موعود کا مکتوب ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں ایشیخ حسنین نمی خلوت معنی دیار محد اخبار الیوم کے نام مصریہ کا تحریک احمدیت کے خلاف ایک مغالطہ آفریں مضمون شائع ہوا جو جھوٹ کا پلندہ تھا جس پر سید نا حضرت مصلح موعود نے اسلامی دنیا کو اصل حقیقت سے باخبر کر نے کے لئے اخبار اليوم" کے نام ایک تبلیغی مکتوب رقم فرمایا جس کا مکمل اردو متن اخبار الفضل ہم تبوک ۱۳۳۱ اہش / ۲ ستمبر ۱۹۵۲ء کے حوالہ سے درج ذیل کیا جاتا ہے :- لہ نوائے وقت (لاہور) ۳۱ جولائی ۱۹۵۷ء من : ن اختبار نوائے وقت" (لاہور) نے ۱۲ اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں شاہ فاروق کی ملت فروشی اور بد مالی پر ایک خیال افروز قاد بھی شائع کیا جو لائق مطالعہ ہے ہے سے ضمیمه برا این احمدیہ حصہ پنجم ها (۲) (تصنیف ۱۱۹۰۵) : که تحضر غزنویہ (ترجمہ) میں ہر زمانہ میں فرعون صفت لوگوں کو ید بیضا جیسے سینکڑوں نشان دکھاتا ہوں مگر یہ خطرات لوگ ان نشانوں کی طرف سے اندھے اور بہرے ہیں اور سینکڑوں نشان دیکھ کر بھی غافل رہے ہیں ؟
۳۳۰ حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ کا مکتوب مصری اخبار الیوم کے نام ياتها الذين أمنوا ان جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا ان تصيبوا قوما بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم نادمين منجر می ایڈیٹر صاحب اخبار اليوم" السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.آپ کے اخبار مورخه ۲۶ جون ۱۹۵۲ء میں مکرم شیخ حسنین مه خلون موتی دیار مصریہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے.اس میں لکھا ہے کہ احمدیوں میں کچھ خالی ہیں اور کچھ معتدل غلو کرنے والے وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیت میں نہیں مانتے اور انہوں نے ظاہر کیا ہے کہ شاید ظفر اللہ خاں ان لوگوں میں سے ہیں جو غالی نہیں ہیں.میں کیثیت امام جماعت احمدیہ ہونے کے اور حیثیت اس کے کہ ظفر اللہ خان بھی میرے اتباع میں سے ہیں سب سے زیادہ اس بات کا حق رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے عقائد کو عمومی طور پر اور ظفر اللہ خان کے عقائد کو بحیثیت اپنے تلمیذ کے خصوصی طور پر بیان کروں.پس میں یہ مضمون آپ کی طرف اس درخواست کے ساتھ بھجوا رہا ہوں کہ آپ اس مضمون کو اپنے اخبار میں شائع کر دیں تاکہ لوگوں کو تصویر کا دوسرا رخ بھی معلوم ہو جائے.چونکہ آپ کا اخبار سیاسی اور عام امور کے ساتھ تعلق رکھنے والا اخبار ہے اسلئے کسی مذہبی تفاصیل میں نہیں جاؤں گا صرف واقعات اور عقائد کے بیان تک محدود رہوں گا.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ تا کسی شخص کو یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ انہوں نے اپنے عقیدے کی دلیل نہیں بیان کی جس شخص کے دل میں دلیل اور توجیہ معلوم کرنے کا شوق ہو وہ براہِ راست مجھے خط لکھ کر ان سوالات کا جواب حاصل کر سکتا ہے جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں.یکی مفتی مصر کی شخصیت کا پورا احترام کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کاش آپ اپنا اعلان شائع کرنے سے پہلے مجھ سے یا ظفراللہ خاں سے پوچھ لیتے کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے عقیدہ کسی شخص کا وہی ہو سکتا ہے جو وہ خود بیان کرتا ہے کسی دوسرے شخص کا حق نہیں کہ و کسی شخص کی طرف اپنی طرف سے عقیدہ نکال کر منسوب کرے.یہ دعوی کہ احمد رسول الله لا اله علی کل کا نام ساتین نہیں سمجھتے یہ محض احمدیوں کے دشمنوں کا پراپیگینڈا ہے ہم اس عقیدہ کے قائل ہیں رضیت بالله رباً وبمحمد رسولاً و بالا سلام دینا.ہم قرآن شریف کو سورہ فاتحہ کی بشیر الله کی سب سے لیکر سورہ والناس کی آیت مِنَ الْجِئَةِ وَالنَّاسِ تک تمام کا تمام صحیح محفوظ اور ابدالاباد ه الحجرات : ۴۹
تک قابل عمل سمجھتے ہیں.قرآن کریم کی سورہ احزاب میں صاف طور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آتا ہے وَلكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِين قرآن مجید میں نسخ کا قائل تو شاید یہ کہ دے کہ یہ آیت منسوخ ہے مگر ہم تو قرآن مجید کے بین الدفتین کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو بھی اس میں ہے وہ قابل عمل ہے اور اس کا کوئی حقہ منسوخ نہیں اور خاتم النبیین تو عقائد میں سے ہے اور عقائد و واقعات کے متعلق تمام آئمہ اہلسنت کا اتفاق ہے کہ ان میں ناسخ و منسوخ کا قاعدہ جاری نہیں پیس کسی صورت میں بھی ممکن نہیں کہ ہم خاتم الیقین کے منصب کے منکر ہوں جو محض اس منصب کا منکر ہوگا اسے لکن رسول اللہ کا بھی انکار کرنا پڑے گا کیونکہ یہ دونوں منصب ایک آیت میں اکٹھے کئے گئے ہیں.یہ وہ عقیدہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں اور یہ وہ عقیدہ ہے جس کو ہم دل میں یقین کرتے ہیں ہم اسی عقیدہ پر انشاء اللہ اللہ رہیں گے اسی عقیدے پر مریں گے اور اسی پر انشاء اللہ اٹھائے جائیں گے.اگر یکن اپنے اس بیان میں جھوٹ سے یا اخفاء سئے یا تو ریہ سے کام لے رہا ہوں تو میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ لعنۃ اللہ علی الکاذبین کے وعدے کو میرے حق میں جاری کر دے اور اگر یں اور میری جماعت اس عقیدے کے اظہار میں سچ سے کام لے رہے ہیں تو یکی الزام لگانے والے کے لئے بددعا نہیں کرتا لیکن خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ سچے اس کی زبان پر جاری کرے او پیچ اس کے دل میں قائم کرے اور اسے توفیق بخشے کہ وہ كُونُوا مَعَ الصَّدِقِین کے ارشاد پر عمل کرنے والا ہو.اسے اہل مصر ! آپ کی تہذیب بہت پرانی ہے.آپ کا تمدن بہت قدیم ہے جس کا کچھ حصہ تاریخی زیانہ سے بھی پہلے کا ہے.کیں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اتنی پرانی تہذیب اور پیرا نے تمدن کی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ایک ایسی قوم پر الزام نہ لگتے ہیں جو آپ کے ملک سے سینکڑوں میل ڈور میٹھی ہے اور جو ان الزاموں کے دُور کرنے کی طاقت نہیں رکھتی جو اس کے پس پشت اس پر لگائے جاتے ہیں یکی نہیں سمجھتا کہ میرا یہ بیان بھی مصر کے کسی اخبار میں شائع ہو سکے گا یا نہیں لیکن لیکن اس یقین کے ساتھ اس بیان کو بھیجوا رہا ہوں کہ مصر کی روح انصات مقامی اور ذاتی حد بندیوں سے آزاد ہو کر ضرور اس آواز کو اپنے اہل ملک تک پہنچا دے گی جو صرف ایک تکلیف دہ الزام سے اپنی برأت کرنا چاہتی ہے مفتی صاحب کے مضمون کے ساتھ بعض اور مضامین بھی مصر کے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں جن ہیں
یہ کہا گیا ہے کہ سلسلہ احمدیہ نے کوئی نیا قبلہ بنایا ہے اور یہ کہ جماعت احمد یہ اپنے آپ کو کسی اور نبی کا امتی قرار دیتی ہے.لیکن یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں بالکل اتہام ہیں.ہم مکہ مکرمہ میں واقع کعبہ کو ہی اپنا قبلہ مجھتے ہیں.قادیان کے احترام کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہمارا قبلہ ہے مسلمانوں کے لئے سینکڑوں مقامات قابل احترام ہیں ہم سب لوگ بیت المقدس کو محترم سمجھتے ہیں.کیا بیت المقدس ہمارا قبلہ ہے ؟ اہل مصر خصوصاً اور سب مسلمان مجموٹا از ہر کو علوم اسلام میں کی تعلیم و تدریس کا ایک بڑا مرکز سمجھتے ہیں اور اس کا بڑا احترام کرتے ہیں.کیا اہل مصر اور ہم لوگ از ہر کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں ؟ قبلہ تو وہ ہے جس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے اور ہم سب نمازہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں اور اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح قرآن ، حدیث اور سنت نے بیان کیا ہے.خانہ کعبہ کا ہم حج کرتے ہیں.میں نے بھی خانہ کعبہ کا حج کیا ہے اور دوسری دفعہ حج کرنے کی خواہش رکھتا ہوں پس یہ ہرگز درست نہیں کہ ہم خانہ کعبہ کے سوا کسی اور مقام کو قبلہ قرار دیتے ہیں.اسلام کا قبلہ اور ہمارا قبلہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن مجید میں بیان فرما یا گیا ہے اور قیامت تک وہی قبلہ رہے گا.راسی طرح یہ امر بھی درست نہیں ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کا اتنی اپنے آپ کو سمجھتے ہیں.بانی سلسلہ احمدیہ کا دعوی تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور اس پر فخر کرتے تھے تو پھر ہم لوگ کس طرح کسی اور کے امتی ہو سکتے ہیں بعدا تعالے کے فضل سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی اگتی ہیں اور ہمارے سلسلہ کے بانی بھی حمدرسول علیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی تھے اور ان کے دعوئی کے مطابق انہیں جو کچھ ملا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی وجہ سے ہی ملا پیچ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے پر نفر کرتے ہیں اور اسی مقام پر زندہ رہنا چاہتے ہیں اور اسی مقام میں مرنا چاہتے ہیں اور اسی مقام پر دوبارہ اٹھنا چاہتے ہیں.بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں.وَمَوْنَ بِسُبُلِ المُصْطَفَى خَيْهية - فان فَرْتُهَا فَاحْشَرَنَ بِالْمُقْتَدَى له آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں میری موت بہترین موت ہے.اگر میری یہ آرزو پوری ہوئی تو ه كرامات الصادقين منه ( مطبوعه ۲۸۹۳
مجھے اپنے پیشوا کے ساتھ ہی اٹھایا جائے گا.إنا نطيم محمد ا خير الورى ، نور المهيمن دافع الظلماء له ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تمام جہان سے بہتر ہیں فرمانبرداری کرتے ہیں.آپ دنیا کی حفاظت کرنے والے خدا کے نور ہیں اور تمام اندھیرے آپ کی بدولت دور ہوتے ہیں.اور جو کوئی اس کے خلاف ہمارے متعلق کہتا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے خدا تعالیٰ اس پر رحم کرنے اور خدا تعالیٰ اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی قبیح عادت سے بچائے.ہمارے متعلق یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہم جہاد کے منکر ہیں.یہ درست نہیں.جہاد کا حکم قرآن کریم میں ہے اور قرآن کریم ہمارے نزدیک غیر منسوخ ہے پھر ہم جہاد کو کس طرح منسوخ کر سکتے ہیں ؟ جہاد کے متعلق ہم نے جو کچھ لکھا ہے وہ بعض ہندوستانی ملاؤں کے عقیدہ کے مخلان لکھا ہئے جن کے نزدیک اتحاد کا غیر مسلم مل جائے تو اسے قتل کر دینا یا جبراً کسی سے کلمہ پڑھوا لینا یا اپنی ہمسایہ قوموں سے بلا کسی ظہور فساد کے لڑ پڑنا جہاد کہلاتا ہے.اس عقیدہ سے اسلام دنیا میں بدنام ہو رہا ہے اور بدنام ہو چکا ہے.مصر کے تمام بڑے صنعت جہاد کی اس تشریح میں ہم سے متفق مصنف ہیں.ہمارے نزدیک جو جہاد قرآن کریم میں پیش کیا گیا ہے اس کے بغیر کوئی آزاد قوم دنیا میں محفوظ نہیں رہ سکتی.مذہبی اور سیاسی طور پر ان شرائط کے ساتھ ظالم سے لڑنا جو قرآن مجید نے بیان کئے ہیں ایک ایسا ضروری امر ہے کہ جس کے بغیر حریت ضمیر اور حریت بلا و قائم ہی نہیں رہ سکتی ہم اس جہاد کے صرف قائل ہی نہیں بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں ہم تو بربریت اور فونونیت کے مخالف ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے الْإِمَامُ جُنَّةَ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الله ہماری طرف یہ بھی منسوب کیا گیا ہے کہ ہم تناسخ کو مانتے ہیں اور شاید یہ عقیدہ اس امر سے مستلبط کیا گیا ہے کہ ہم پانی مسلسلہ کو مسیح کہتے ہیں.یہ الزام بھی غلط فہمی پر مبنی ہے.ہم تناصح کے منکر ہیں اور خود بانی سلسلہ نے تناسخ کے عقیدہ کا اپنی کتابوں میں رد کیا ہے ہمارا عقیدہ مردن یہ ہے کہ مسیح موعود جس کی آمد کی خبر انجیلوں میں دی گئی ہے یا حدیثوں میں ہے اس سے له انجام آعظم مثل ۲۷ (مطبوعہ جنوری ۶۱۸۹۷) ۸۲ فوضويت ، شورش اور نراج کو کہتے ہیں کے بخاری کتاب الجہاد مسلم کتاب الامارة - الجداو و كتاب الجبار - نسائي باب البيعة *
مراد وه مسیح ناصری نہیں ہے جس کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے یا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رافِعُكَ إِلى وَمُطَهَرُكَ مِنَ الذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُ وا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ بلكہ جیسا کہ شیخ نے خود یوحنا کو ایلیا کا نام دیا ہے اسی طرح ہمارا عقیدہ ہے کہ اس امت میں سے عیسائیت کے غلبہ کے وقت میں ایک ایسا شخص کھڑا ہو گا جو اسلام کی طرف سے عیسائیت کے ساتھ علمی و روحانی جنگ لڑے گا نہ یہ کہ شیخ کی روح اس میں حلول کی جائے گی.ایک بات ہماری طرف یہ بھی منسوب کی گئی ہے کہ ہم ہندوستان کو فتح کر کے ساری دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہیں.یہ اتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ مجھے تعجب ہے کہ ایک تعلیمیافتہ آدمی کو ہماری طرف یہ بات منسوب کرنے کی جرات کیسے ہوئی ؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں یہ پیش گوئیاں موجود ہیں کہ ہم پھر قادیان میں اکٹھے ہوں گے لیکن یہ بات تبلیغ سے بھی ہو سکتی ہے اور یہ بات پاکستان اور ہندوستان کے باہمی سمجھوتہ سے بھی ہو سکتی ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ لم یہ مفتر تین کہتے ہیں کہ یہ آخری زمانہ کے متعلق ہے کیونکہ جمیع ادیان پر غلبہ پہلے کسی زمانہ میں نہیں ہوا تو کیا ان آیات کے یہ معنی کئے بجائیں کہ مصر، شام یا سعودی عرب یا پاکستان یا کوئی اور اسلامی مملکت یہ ارادہ کر رہی ہے کہ باری باری چین، جاپان، روس اور جو منی پر حملہ کر کے انہیں فتح کریں گے اور ساری دنیا میں اسلام کو غالب کر دیں گے بند اتعالیٰ نے اسلام کے متعلق ایک خبر دی ہے اور مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں مگر ان میں سے کوئی دوسری اقوام پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں کرتا.وہ اس خبر کے پورا ہونے کی تفصیلات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے اسی طرح قادیان میں احمدیوں کے لئے آزادی حاصل ہونے کی پیش گوئی موجود ہے لیکن وہ ہو گی انہی ذرائع سے جو قرآن مجید کے نز دیک جائز ذرائع ہیں.اور قرآن کریم کسی ایسی قوم کو دوسرے ملک، سے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا جس کے پاس حکومت نہیں.وہ اسے فساد قرار دیتا ہے.پس ہمارا کوئی له آل عمران : ۵۶ ) له سورة التوبه : ۳۳، الفتح : ۲۹ ، الصف : ١٠ ه تفسیر ابن جریر طبوعه مصر زیر آیت سورة صفت تغییر سینی مترجم فارسی که زیر سوره صف مطلع کریمی بمبئی تیر غرائب القرآن بر حاشیہ ابن جریر- بحار الانوار جلد ۱۳ صدا رغاية المقصود جلد ۲ ص ۱۳۳
۳۳۵ ایسا ارادہ نہیں اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے مجانین نہیں جو اس قسم کے خیالات کو اپنے دل میں جگہ دیں.ہم یہ جائز نہیں سمجھتے کہ بغیر اس کے کہ غیر تو میں ہم سے لڑیں ہم ان سے خود ہی جنگ شروع کر دیں.یہ مغربی حکومتوں کا حصہ ہے اور انہیں کو مبارک رہے.اسلام نے کبھی بھی اپنی حکومت کے زمانہ میں اپنے کمزور ہمسایہ پر دست درازی نہیں کی.وسطی اور جنوبی افریقہ کے وسیع علاقے اس بات کے شاہد ہیں کہ شمالی افریقہ میں باقاعدہ حکومتیں قائم تھیں جو اسلام سے ٹکرائی اور اسلام اُن سے ٹکرا یا لیکن اسلام کے لشکر جب ان حدود تک پہنچے جہاں پر تخاصم حکومتوں کی حدیں ختم ہوتی تھیں اور کمزور قبائل کے علاقے شروع ہوتے تھے وہاں وہ ٹھر گئے اور انہوں نے جنگ بند کر دی.اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج یورپین لوگوں کے لئے افریقین کا لونیز کے بنانے کی گنجائش نہ رہتی.وسطی اور جنوبی افریقہ کی کونسی طاقت تھی کہ جس نے مسلمانوں کے ان شکروں کو روکا جنہوں نے روسی ، ہسپانوی، فرانسیسی اور اطالوی منظم لشکروں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا.وہ اسلام کی منصفانہ، عادلانہ اور ہیمانہ تعلیم ہی تھی جس نے یہ ظیم الشان معجزہ دنیا کو دکھایا اور جس کی بدولت ایک مسلمان ہر سیاسی مجلس میں یورپ اور امریکہ کے سیاسی لوگوں کے سامنے اپنا سر اونچا رکھ سکتا ہے.مضمون ختم کرنے سے پہلے یکیں عرب اور مصر کے پریس کو ایک خاص ذقتہ واری کی طرف تو بقیہ دلانا چاہتا ہوں.آپ لوگ جانتے ہیں کہ ایک لیسے افتراق کے بعد اکثر مسلمانوں میں اتحاد کا جوش پیدا ہو رہا ہے.پاکستان سے عرب ممالک اور مصر نے جس ہمدردی کا سلوک کیا ہے یا عرب اور اسلامی امور سے جس ہمدردی کا ثبوت پاکستان نے دیا ہے وہ اس زمانہ کی خوش گوار ترین باتوں میں سے ہے مگر مذکورہ بالا امر کی اشاعت نے جماعت احمدیہ ہی نہیں پاکستان کے دستہ میں مشکلات پیدا کردی ہیں.اس مضمون کی بناء پر جو سرتا پا غلط ہے ہندوستان پاکستان پر الزام لگا سکتا ہے کہ اس میں رہنے والی بعض جماعتیں ہندوستان پر حملہ کرنے کے خواب دیکھ رہی ہیں ہم بتا چکے ہیں کہ یہ الزام سو فیصدی غلط ہے مگر ہندوستان کا متعصب عنصر اس الزام سے ضرور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرے گا.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ الزام ایک جماعت پر ہے نہ کہ پاکستان پر کیونکہ ہندوستان کا متعصب گروہ کہے گا کہ جس امر کی اطلاع مصر کے ایک نامہ نگار کو مل گئی پاکستان کی حکومت کو اس کی کیوں اطلاع نہ ملی ہوگی.دوسرے وہ کہیں گے کہ جس جماعت پر
۳۳۶ یہ الزام ہے پاکستان کا وزیر خارجہ اس کا ممبر ہے پس وہ اس سے ناواقف نہیں ہو سکتا.ان حالات میں ایک نامہ نگار کی خواب پریشان پاکستان کے لئے کتنی مشکلات اور بدنامی کی صورت پیدا کر سکتی ہے اور کیا یہ ظفر اللہ خان کی خدمات پاکستان کا اچھا بدلہ ہو گا ؟ ہر گز نہیں، علاوہ اس کے کہ یہ جھوٹ ہے، یہ ایک و خانوار دوست پر نا واجب حملہ بھی ہے جیسے سر کا غیور مسلمان یقیناً برداشت نہیں کرے گا سے اس کوشش کے بعد جو عرب اور مصر نے پاکستان کی مملکت کے استحکام کے لئے کئی ایسی آواز کو اُٹھنے دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے گالَّتی نَقَضَتْ غَيْلُهَا مِنْ بَعْدِ قَوَّةِ الْكَا نا لیں اس وع پر اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالی تمام سلمان ممالک کو اس لمبی نیند سے بیدار ہونی کی توفیق بخشے جس میں وہ مبتلا تھے اور اغیار کے تصرفات سے ان کو آزاد کرے اور سلمان کی اس شان کو بحال کرے جو اسے گزشتہ زمانہ میں حاصل تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ عزت اسے عطا کی ہے.الہم آمین میر تا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کے مندرجہ بالا مکتوب کا عربی ترجمہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے کیا اور یہ اخبار الیوم کے علاوہ مشرق وسطی کے دوسرے اخبارات کو بھی بھیجوایا گیا جن میں سے المثقافة * بیروت المساء نداء الوطن» (۱۱-۱۲ - اگست ۱۹۵۲ء) میں چھپا.بر صغیر پاک و ہند کے اخبارات میں سے اخبار سول اینڈ ملٹری گزیٹ (۲۹ ستمبر ۱۹۵۲ء) جنگ (۲۹ ستمبر ۶۱۹۵۲ ) ٹریبیون (۳۰ اگست ۱۹۵۲۰ء) میں بھی اسکی خبر شائع ہوئی.عربی رسالہ البشری" (حیض) نے اپنے ماہ اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں اس کا تفصیل ترجمہ دیا اور مشرق وسطی کے علا وہ دوسرے ملکوں میں اس کی بکثرت اشاعت کی اور اس طرح عرب دنیا پر بتدائی نشان اور محبت و برہان دونوں اعتبار سے محبت تمام ہوئی.ا حضور نبی صلح موعود نے جہاں اخبار اليوم ما ختم نبوت متعلق ایک ضاحتی بیان کے ذریعہ مشرق وسطی کے اسلامی ملک ل النحل : ۹۳ (ترجمہ) اس عورت کی مانند مت ہو جس نے اپنے کا تے ہوئے سکوت کو اُس کے مضبوط ہو جانے کے بعد کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا ہے کے الفصل نہم تو کی ۱۳۳۱ ایش ۲۴۷ ستمبر ۶۱۹۵۲ ص ۳۶
٣٣ کو پیغام حق پہنچایا وہاں اہل پاکستان کے لئے مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مندرجہ ذیل وضاحتی بیان تحریر فرمایا جو ایک ٹریکٹ کی صورت میں شائع کیا گیا :- اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هوالت اصر جو خاتم النبیین کا منکر ہے وہ یقینا اسلام سے باہر ہے " اسے عزیز و ! آجکل احمدی احراری جھگڑے میں ایک طوفان بے تمیزی اُٹھ رہا ہے.اور جن لوگوں کا اس اختلاف سے دور کا تعلق بھی نہیں وہ بھی شنی سنائی باتوں پر کان دھر کے اشتعال میں آرہے ہیں اور غلط رائے قائم کر رہے ہیں لیکن یہ معاملہ ایسا نہیں کہ صرف اظہار غضب سے اسے حل کیا جاسکے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کا سوال ہو تو کم سے کم اس وقت رسول کریم علی الہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھنا چا ہیے کیونکہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص آپ کے احترام کے لئے جان دینے کا دعوی کرتا ہو لیکن اس غرض کے لئے وہ کام کرتا ہو جنہیں آپ نے منع فرمایا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ باتیں کرتے ہیں تو غلط بیانی کرتے ہیں اور جب کسی سے اختلاف ہوتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں شیعہ مومنوں کو ایسا نہیں ہونا چاہیئے.اب آپ لوگ خود ہی دیکھ لیں کہ کیا احمدیت کے خلاف تقریریں کرنے والے جن کی تقریریں آپ نے شنی ہیں اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہ نہیں ؟ کیا جب وہ یہ کہ رہے ہوتے ہیں کہ فساد نہ کرو تو کیا آپ پر یہی اثر ہوتا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ فساد نہ کر دیا اس کے نتیجہ میں بہت سے بچے اور چند نوجوان فوراً جلوس بناتے اور گلیوں میں احمدیوں کے خلاف شور مچاتے پھرتے ہیں اور بعض پرائیویٹ مجالس ہیں احمدیوں کے قتل اور بائیکاٹ کے منصوبے کرنے لگ جاتے ہیں.اگر یہ منتر ر واقعہ میں امن کی تعلیم دیتے ہیں تو اس کا الٹا اثر کیوں ہوتا ہے ؟ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ سامعین بین السطور مطلب ان نه بخاری کتاب الایمان جلد را منا مصری :
۳۳۸ تقریروں کا ہی سمجھتے ہیں کہ مقرر کہتا ہے کہ ہمیں قانون کی زد سے آزاد رہنے دو اور خود جا کر جو نقصان احمدیوں کا ہو سکتا ہے کرو.اسی طرح جو الفاظ وہ میری نسبت یا چوہدری ظفر اللہ خاں کی نسبت یا باقی جماعت احمدیہ کے متعلق بولتے ہیں کیا وہ گالی گلوچ کی صدی میں نہیں آتے؟ اور کیا یہ سچ نہیں کہ ان لوگوں کی طرف سے جو جلوس مختلف جگہوں پر نکالے گئے ان میں چوہدری ظفر اللہ خان کو نہایت نا پسندیدہ طور پر پیش کیا گیا اور ایک کتا پکڑ کر اُسے ظفر اللہ خان ظاہر کیا گیا اور اس پر جوتیاں لگائی گئیں.کیا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق نہیں کہ : جب وہ جھگڑتا اور مخالفت کرتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے " اسے اسلام کی غیرت رکھنے والو! اور اسے وہ لوگو! جن کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کا ذرا بھی عشق ہے میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال کر سکتے ہیں کہ ان مجالس اور ان معلوموں کو رسول کریم پسند کر سکتے تھے ؟ کیا اگر کوئی دشمن ایسے جلوس کا نقشہ کھینے کر یہ کہے کہ نعوذ باللہ من ذالك رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کسی جلوس کو پسند فرمایا تھا.تو کیا آپ کے جسم پر لرزہ طاری نہ ہو جائے گا ؟ کیا آپ اسے غلط بیانی کرنے والا نہیں کہیں گے ؟ پھر آپ یہ کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی تقریریں کرنے والے اور ایسے جلوس نکلوانے والے احترام رسول کی خاطر ایسا کر رہے ہیں ؟ کیا سچ جھوٹ سے قائم ہوتا ہے ؟ کیا احترام اور اعزاز گالی گلوچ کے ذریعہ سے قائم کیا جاتا ہے ؟ کیا یہ مظاہرات دنیا کی نگاہ میں اسلام کی عورت کو بڑھانے والے ہیں یا گھٹانے والے؟ کیا اگر اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نظارہ دکھا دے تو آپ فخر کرینگے کہ اُن کے نام پر تقریریں کرنے والے امن کا نام لے کہ فساد کی تعلیم دے رہے ہیں.کیا وہ اس جلوس کو دیکھ کر خوش ہوں گے ؟ جس میں گالیاں دی جاتی ہیں جس میں ماتم کیا جاتا ہے جس میں گفتوں کو جوتیاں مادر کو اپنے ملک کا وزیر خارجہ قرار دیا جاتا ہے.کیا اگر صحابہ یہ نظارہ دیکھیں تو وہ خوش ہو کر ایک دوسرے سے کہیں گے کہ یہ ہیں ہمارے بچے پر وہ یہ وہی کام کر رہے ہیں جس کا کرنا ہم پسند کرتے تھے ؟ اگر ایسا نہیں بلکہ آپ کا دل گواہی دیتا ہے کہ نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام پسند کر سکتے تھے نہ صحابیہ میدان کاموں کا کرنا پسند کر سکتے تھے تو بتائیں کہ حرمت رسولی کا عوامی کرنے والے اگر بیچتے ہیں تو یہ کام کیوں کرتے ہیں؟
۳۳۹ اسے عزیز و با عقیدہ وہی ہوتا ہے جو ایک شخص بیان کرتا ہے نہ وہ جو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.نہیں اچھی طرح سن لو کہ بائی سلسلہ احا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا م منی تھے اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے.آپ فرماتے ہیں :.لیکن مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا میں کرتا ہوئی کہ کہیں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور خوشخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین او سے دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں یا تقریر یجا مع مسجد دہلی ۱۸۹۱ء) اسی طرح فرماتے ہیں:.نوع انسان کے لئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم اور کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ سیتھی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کھاس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو پھر آگے لکھتے ہیں :- - آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور سول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے ر کتاب کشتی نوح ص۳) زندہ ہے یہ ان الفاظ کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و کلم کو خاتم النبیین نہ مانتے تھے تو وہ یا درکھے کہ وہ خدا کی گرفت سلے ہے اسے ایک ناکردہ گناہ یہ الہام لگانے کی خدا تعالیٰ اسمزا دے گا اور ہر شخص جو اس امر سے واقف ہو کر محض اس لئے اس الزام لگانے والے کے پیچھے پہلے گا کہ وہ اس کا مولوی ہے یا وہ قومی یا شہری عہد و جہد میں اس کی مدد کرنے گا اور اس کا رفیق کا ر ہو گا تو اسے یاد رہے کہ اتنے بڑے اتہام پر خاموش رہنے والا اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرنے والا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی جواب نہیں دے سکتا نہیں چاہئیے کہ وہ عاقبت کو سنوارے اور اس دنیا کے کاموں اور اس کی ترقیوں میں بھی اللہ تعالیٰ پر تو تحل کرے نہ کہ ان لوگوں پر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر یہ اخلاق سوز جلوس نکلواتے ہیں اور قتل که مشموله مجموعه اختصارات جلد اول صفحه ۲۲۵ ناشر الشركته الاسلامیہ دیوه
۳۴۰ اور فساد کی سازشیں کرتے ہیں.اسے عزیز و ا پانی سلسلہ ہی نے ختم نبوت کے عقیدہ پر اتنا زور نہیں دیا بلکہ میکن نے بھی اسے بہجت کی شرائط میں قرار دیا ہے اور ہر بیعت کرنے والے سے اقرار لیتا ہوں کہ میں رسولی کو ہیم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کروں گا.اب بتاؤ کہ اس سے زیادہ زور اس عقیدہ پر کیا ہو سکتا ہے؟ اب جو نہ مجھے قیامت کے دن ہمارا ہاتھ ہوگا اور اس کا دامن.باقی رہا یہ کہ ہم یہ سب کچھ دل سے نہیں کہتے بلکہ جھوٹ بولتے ہیں تو یہ دلیل تو دونوں طرف چل سکتی ہے.ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر الزام لگانے والے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے.اگر ہم ایسا کہیں تو کیا آپ ہماری بات مان لیں گے اور وہی غیرت جس کا مظاہرہ ہمار سے تعلق کرتے ہیں ان کے متعلق بھی دکھائیں گے ؟ اسے عزیزو! ایک دن ہم سب نے مرنا ہے اور خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتا ہے.آپ کے آباء بھی مرے اور آپ بھی مریں گے اور آپ کی اولاد بھی مرے گی اور یہی حالی میرا اور میرے ساتھیوں کا ہے پس بچاہئیے کہ ہم اس دن کے لئے تیاری کریں جو آنے والا ہے.یہ دنیا چند روزہ ہے یہ لاف و گزان اور کثرت پر نازہ اور پھکڑ بازی اور گالی گلوچ مالك الملك رب العلمین کے سامنے ہر گز کام نہ دیں گے لیپس چاہئیے کہ جس نے ایسی غلطی نہیں کی وہ اپنے بھائی کو سمجھائے اور جس نے کی ہے وہ تو بہ کرے.اُسی کی جان محفوظ ہے جو رسولی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اخلاق پر چلتا ہے نہ وہ کہ منہ سے آپ کے احترام کا دعویٰ کرتا ہے مگر عمل اس کے خلاف کرتا ہے.جو لوگ ایسے ہیں کہ ہمیں مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ بے شک اس کی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ وہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے ہیں مگر وہ اس دن کو بھی یاد رکھیں جس دن ہم سب خدا تعالیٰ کے سامنے پیشیں ہوں گے ، جس دن محمد نہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ دکھانا ہوگا.جو اس دن خوش ہوگا وہی کامیاب ہے اور جو اس دن آنکھ اُونچی نہ کر سکے گا اُس کی زندگی رائیگاں گئی.کاش وہ پیدا نہ ہوتا.کاش ! اسے رسول کریم علی اللہ علیہ وسلم کی فضینا ک آنکھ نہ دیکھنی پڑتی.والسلام نے ه المناشر انجمن ترقی اسلام ربوہ پاکستان کوالد روزنامه فصل مورخہ بار جولائی ۱۹۵۲ء مت !
فصل دوم عالمی یوم امن کے لئے دعا ن حکومت پاکستان کے اعلان کا خیر مقدم سیدنا حضرت مصلح موعود کی طر سے مساجد میں ذکر الہی کرنے و فرینی سے بجالانے کی تحریک آل پاکستان مسلم لیگ اجلاس ڈھاکہ گوجرانوالہ میں حمدیوں کا بائیکاٹ اور اخبار الاعتصام حضرت امام تمام کار فرح پرور پیغام جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے نام.امریکہ کے شہر بالٹی مور (BALTI MORE ) میں کیے.ابن رہی.ایل عالمی یوم امن کے لئے دُعا کے نام سے ایک تنظیم قائم تھی یہ تنظیم نے.اگست ۱۹۵۲ء کو اس اور دنیا بھر میں یوم امن منانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے ایک کمیٹی تشکیل کی کمیٹی کے ایگزیکٹو سیکرٹری جناب الفریڈ - ڈبلیور پارکو نے کیلیفورنیا (امریکہ) سے حضرت امیر المومین المصلح الموعود کی خدمت میں درخواست کی کہ عالمی یوم امن میں احمدی بھی شریک ہوں اور اس روز یا اس سے پہلے آنے والے جمعہ میں قیام امن کے لئے دعا کم ہیں.حضرت امیر المومینیوں نے اس تحریک کو سراہتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ امن کی اپیل خواہ کسی طرف سے ہو ہر حال قابل تعریف ہے.اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ دنیا میں امن NationS Citizenship League I کی مجلیس شہر گیت) THE UNITED ا متحده اقوام
کا دور دورہ ہو ہیں اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ یہ تحریک کس کی طرف سے ہے ؟ ہم اس تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہیں.تمام احمدی دوستوں کو چاہئیے کہ ۲.اگست ۱۹۵۳ء بروز جمعہ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی موجودہ بے اطمینانی اور بدامنی کی حالت کو دور فرمائے اور لوگوں کو امن او اطمینان بخشے.آمین اس سلسلہ میں حضور نے عالمی یوم امن کے لئے مندرجہ ذیل دعا بھی بھجوائی جو در اصل سورہ فاتحہ کا ترجمہ ہے." اے خدا ہمیں سیدھا رستہ دکھا.ایسا رستہ جس پر مختلف اقوام کے چنیدہ لوگ جنہوں نے تیری رضا مندی کو حاصل کر لیا تھا، پہلے تھے ہمارے ارادے پاکیزہ ہوں ہماری نیتیں درست ہوں ہمارے خیالات ہر بدی سے پاک ہوں اور ہمارے عمل ہر قسم کی کچی سے منزہ ہوں سینچائی اور صداقت کے لئے ہم اپنی ساری خواہشات اور رغبتیں قربان کر دیں، ایسا انصاف جس میں رحم ملا ہوا ہو ہمارے حصہ میں آئے اور ہم تیرے ہی فضل سے دنیا میں سنچا امن قائم کرنے والے ہو جائیں جیس طرح کہ تیرے برگزیدہ بندوں نے دنیا میں امن قائم کیا اور تو ہمیں ایسے تمام کاموں سے محفوظ رکھ جین کی وجہ سے تیری ناراضگی حاصل ہوتی ہے.اور تو ہمیں اس بات سے بھی بچا کہ ہم جوشی عمل سے اندھے ہو کہ ان فرائض کو بھول جائیں جو تیری طرف سے عائد ہوتے ہیں اور ان طریقوں سے لیے راہ ہو جائیں جو تیری طرف لے جاتے ہیں یا وکالت تبشیر ربوہ نے بذریعہ الفضل (۱۲ار احسان ۱۳۳۱ پیش ، حضرت امیر المومنین کے تندورچہ بالا فرمان اور دعائیہ کلمات سے جماعت احمدیہ و مطلع کر دیا اور تحریک کی کہ 14 اگست کو اسلام اور امین عالم کے موضوع پر خطبہ جمعہ دیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی میں کے مندرجہ بالا فرمان اور مرسلہ دُعا سے امریکی دنیا کو بالٹی مور کے روز نامہ ریکارڈ ( RECORD) نے اور افریقی ممالک کو نائیجیریا کے اخبار دی ٹروتھ " THE ) TRUT نے روشناس کرایا.موخر الذکر اخبار نے اس کو اپنی جولائی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں روزنامہ ریکارڈ کے حوالہ سے صفحہ اول پر شائع کیا.حکومت پاکستان کے اعلان کا خیر مقدم حکومت پاکستان نے ۱۴ اگست ۱۹۵۲ء کو
سلام بوم ایک پریس نوٹ جاری کیا کہ حکومت پاکستان کو اکثر شکایات موصول ہوتی رہی ہیں کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے بعض حکام جو ایک خاص فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اپنی سرکاری حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے ماتحتوں اور ایسے آدمیوں میں اپنے فرقوں کی تبلیغ کرتے ہیں جن سے انہیں اپنی سرکاری حیثیت کی وجہ سے ملنے جلنے کا موقعہ ملتا رہتا ہے.حکومت اس صورت حال کو بہت تشویش کی نگاہوں سے دیکھتی ہے اور اُس نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ مذموم اور نا پسندیدہ روش فوراً بند کی جائے اور اس قابل اعتراض طریقے سے کسی مذہبی فرقہ کے حق میں پروپیگینڈا کو مضوع قرار دیا جائے لیے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان نے حکومت کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے حسب ذیل پیغام دیا :- • یکن ایک مسلمان ہوں اور اس لحاظ سے یکیں اسلام کی قرآن میں دی گئی تعلیمات اور رسول کریم ر صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حیات کی روشنی میں آزادی ضمیر میں ایک مجذ باقی آدمی کی طرح یقین رکھتا ہوں.میرے تن دیک سرکاری دباؤ اور اثر کا استعمال آزادئی ضمیر میں مداخلت اور جبر و استبداد کے مترادت ہے، دوسری طرف جیسا کہ اسلام نے بتایا ہے ہر سلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھائے اور یہ ایک ایسا اہم فرض ہے جو مسلمانوں نے اپنے زوال کے ایام میں افسوسناک حد تک بھلا دیا تھا اور اس کا اثر ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر پڑا.میرے ذاتی نظریات کوئی سربستہ راز نہیں، ہر وہ آدمی جو ذاتی طور پر مجھے یا میرے نام سے جانتا ہے کسی حد تک میرے نظریات سے آگاہ ہے.حال ہی میں بعض حلقوں کی طرف سے میرے یہ نظریاتی خلط رنگ میں اور مسلح کر کے پیش کئے گئے ہیں.لیکن جیسا کہ اوپر بیان کر چکا ہوں اپنے مذہبی عقائد کو کسی بھی دوسرے شخص پر سرکاری حیثیت یا اختیار استعمال کر کے ٹھونسنا اسلام کے اصول کے خلاف تصور کرتا ہوں مجھے جس فرقہ سے وابستہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس میں اس تصور کو پوری طرح اپنایا جاتا ہے.اور اگر اس فرقہ کا کوئی فردانہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا جائے تو مجھے اس کا انتہائی صدمہ ہوگا.یہ درست ہے کہ ہمارے نظریات اور عقائد کی اشاعت ہمارے محدود وسائل سے کہیں بڑھ کر کی لے آفاقی ۱۷ اگست ۱۹۵۲ ۶ صبا به ܀
۳۴۴ بھاتی ہے.اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ صحیح طرزین کر رکھنے والوں تک ہمارے نظریات کو ان کے اصل رنگ میں پیش کیا جائے اور حق اور فلاح کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی بجائے.اس مطلب کے لئے دباؤ یا شہر کا استعمال خود اصل مقصد کے منافی ہوگا کیونکہ جس کسی آدمی پر یہ دباؤ استعمال کیا جائے گا اس کا رد عمل یہ ہوگا کہ جس منکر کی دعوت دی جارہی ہے اس کا آزادانہ مطالعہ کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا اور اسے ایک ایسی بات مانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جسے اس کا تخمیر تسلیم کرنے پر تیار نہیں.این مسئلہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے (کہ) جنس فرقہ کے نمبروں پر جبر و اختیار استعمال کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے خود ان کے عقائد و نظریات کو ان لوگوں کی طرف سے غلط طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو اکثریت میں ہونے کا دعوئی رکھتے ہیں، ان حالات میں اس فرقہ کے نمبروں کے لئے اثر ور شوخ استعمال کرنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا.اس بارے میں حکومت کی طرف سے جو اعلان کیا گیا ہے میں اُس کا خیر مقدم کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ پاکستان کے ہر طبقے کے لوگ دلی طور پر اس کا خیر مقدم کریں گے اور ملک میں امن و سکون اور برداشت کا ماحول پیدا کرنے میں محمد ہوں گے.ایمان اور یقین ایسے مقاصد ہیں جنہیں مناسب ماحول پیدا کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے.کسی شخص کو ایک ایسی بات تسلیم کرنے پر جسے اُس کا ضمیر نہیں مانتا مجبور کرتا کسی بھی طرح مناسب نہیں.کوئی آدمی جو اس قسم کا دباؤ ڈالتا ہے وہ چاہے کوئی وزیر ہو، افسر ہو یا عام آدمی پر خلص مومن پیدا کرنے کے بجائے ریا کار پیدا کرنے کا باعث ہوگا.(ا پ پ لے لو لے اخبار نوائے وقت (لاہور) کاراگست ۱۹۵۲ء صب کا لم ۲-۳ سے جناب خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر اعظم پاکستان نے تحقیقاتی عدالت پنجاب میں بیان دیا :- امس اعلامیہ نے وزیر خارجہ کے خلاف الزامات کو لازماً قبول نہیں کیا لیکن ان کے متعلق عام طور پر مشہور تھا کہ وہ احمدیوں کی امانت کرتے اور دوسروں کو اپنے فرقہ میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکں نے اس سلسلہ میں ٹھوس شکایات پیش کرنے کو کہا لیکن ایسی شکایات نہیں مل سکیں یا د روزنامه ، بیت لاہور ۵- دسمبر ۶۱۹۵۳ ص۲)
حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعود نے اس مساجد کو ذکر الہی سے معمور رکھنے کی تحریک سال جہاں احترام مساجد کے فقہی مسئلہ پر روشنی ڈالی وہاں مسجدوں کو ذکر الہی سے معمور رکھنے کی بھی تحر یک فرمائی چنانچہ ۲۹ طور ۱۳۳۱ اہش کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :- مساجد ذکر الہی کے لئے ہوتی ہیں اور انہیں اسی غرض کے لئے استعمال کرنا چاہیے، لیکن جب ہم اسلام کا اور خصوصا قرونِ اولیٰ کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے مساجد کو صرف ذکر الہی کی جگہ ہی نہیں بنایا بلکہ بعض دنیوی امور کے تصفیہ کا مقام بھی بنایا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجالس میں ہم دیکھتے ہیں کہ لڑائیوں کے فیصلے بھی مساجد میں ہوتے تھے، فضائیں بھی وہیں ہوتی تھیں تعلیم بھی وہیں ہوتی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد صرف اللہ اللہ کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ بعض دوسرے کام بھی جو قومی ضرورت کے ہوتے ہیں مساجد ہیں کھئے جا سکتے ہیں.ہاں مساعد ہیں مخالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہیں مثلاً رسول کریم صلے الہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے تو وہ اس گمشدہ چیز کے متعلق مسجد میں اعلان نہ کرے.اگر وہ اس گمشدہ چیز کے متعلق اعلان کرے تو خدا تعالیٰ اس میں برکت نہ ڈالے.پس ایک طرف تو مساجد میں جنگی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں تعلیم دی جاتی ہے، فضائیں ہوتی نہیں لیکن دوسری طرف گمشدہ چیز کے متعلق اعلان کرنا مسجد میں منع کیا گیا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ مسجد ہیں جو کام ہوں وہ قومی ہوں ذاتی نہیں.گویا مسجد اجتماعی جگہ ہے اور وہاں ایسے کام ہو سکتے ہیں جو اجتماعی اور قومی ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ جو کام وہاں ہوں وہ قومی فائدہ کے بھی ہوں اور نیکی کے بھی ہوں.گویا جو کام نیک ہے اور قومی فائدہ کا ہے اسے ذکر الہی کا قائمقام قرار دیا گیا ہے.اس کی تصدیق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے بھی ہو جاتی ہے کہ آپ فرماتے ہیں جو شخص وضو کر کے مسجد میں آئے اور وہاں امام کے انتظار میں بیٹھے تو خدا کے نزدیک وہ ایسا ہی ہے کہ گویا وہ نماز پڑھ رہا ہے.اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی قومی کام کے لئے انتظار میں بیٹھنا نماز کا قائمقام ہوتا ہے.پیس مساعد خالی سبحان اللہ سبحان اللہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ ان میں قومی کام بھی کئے جا سکتے
۳۴۶ ہیں بشرطیکہ وہ کام امن صلح اور نیکی کے ہوں مثلا اگر لوگ مسجد میں سیاسی جلسے کو ہیں اور قانون شکنی کی ہیں اور یہ کہ دیں کہ مسجد خد اتعالیٰ کا گھر ہے ہمیں حکومت مسجد میں قانون شکنی کی وجہ سے نہ پکڑے تو ان کا ایسا کہنا غلط ہو گا مساجد قانون شکنی اور نا جائز کاموں کے لئے نہیں بلکہ ساجد جائز قومی اجتماعوں کے لئے بنائی گئی ہیں.گویا مساجد میں ہر وہ کام جو اجتماعی حیثیت رکھتا ہو کیا جا سکتا ہے مگر وہ کام جو قانون کے مطابق ہو مسلح کی غرض سے ہو، نیا میں اس کی غرض سے ہو.خدا تعالیٰ نے مساجد کو حکومت کے خلاف فساد کی جگہ بنانا ناجائز قرار دیا ہے اور نہ صرف نا جائزہ قرار دیا ہے بلکہ اس قسم کی مساحید کو گرا دینے کا حکم دیا ہے.پس ایک تو میں پھر اپنے اس مضمون کی طرف جماعت کو توقیہ دلاتا ہوں کہ دوست مساجد ہیں زیادہ سے زیادہ ذکر الہی کریں لیکن یکی ذکر الہی کو محدود نہیں کرتا مساجد میں قومی اور اجتماعی کام بھی کئے جا سکتے ہیں.مثلاً مساجد ہی ہیں جن میں یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ کوئی باہر سے آیا ہے.فرض کرو کوئی احمدی گوجرانوالہ، لائلپور یا ملتان سے یہاں آتا ہے.وہاں چونکہ آج کل شورش ہو رہی ہے اس لئے قدرتاً ہر ایک احمدی کو یہ شوق ہو گا کہ اسے پتہ لگے کہ وہاں جماعت کا کیا حال ہے ؟ اور اس کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ کیا کر رہی ہے ؟ اب اگر وہ مسجد میں اس احمدی سے یہ باتیں نہیں پوچھتا تو اس کا اجتماعی علم نامکمل رہ جاتا ہے.اگر بچہ بظاہر یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اس سے دنیوی باتیں پوچھ رہا ہے لیکن حقیقت میں وہ دنیوی باتیں نہیں.اگر وہ اس قسم کی باتیں پوچھتا ہے تو اجتماعی اور قومی حالت سے واقفیت حاصل کرتا ہے اور یہ ذکر الہی ہے.بظاہر تو یہ ہوگا کہ اُس کے لڑکے کو کسی نے طمانچہ مارا ہے، یا فلاں لڑکے کو سکول سے نکالا گیا ہے، یا خلال استانی کو سکول سے ہٹا دیا گیا ہے یا کنوئیں سے پانی بھرنے سے احمدیوں کو روک دیا گیا ہے، لیکن یہ سب باتیں دینی ہوں گی اور ذکر ائلی کہلائیں گی.پس ایسے اہم امور کے متعلق مساجد میں باتیں کرنا جائز ہے اور دین کا ایک حصہ ہے.لیکن اگر کوئی اس قسم کی باتیں کرے کہ تم فلاں جگہ سودا لینے گئے تھے وہاں چاول کا کیا بھاؤ ہے؟ میں بھی چاول لینے وہاں جاؤں گا؟ یا آجکل قربانی کے بکرے کا کیا بھاؤ ہے ؟ تو یہ قومی بات نہیں اس لئے مسجد میں ایسی بات کرنا نا جائز ہے.الا ماشاء اللہ کسی حالت میں اگر وہ یہ پوچھتا ہے کہ فلاں ہگہ سے تم نے چاول خرید نے نہیں کیا وہاں چاول سکتے ہیں تا یکی بھی چاول وہیں سے لاؤں تو یہ نا جائز
۳۴۷ بات ہے لیکن اگر کسی علاقہ میں قحط کی صورت ہے اور وہ یہ پوچھتا ہے کہ فلاں جگہ غذائی مال کی ہیں ہے.چاول کا کیا بھاؤ ہے؟ وال کا کیا بھاؤ ہے ؟ گیہوں کا کیا بھاؤ ہے ؟ تو یہ باتیں جائز ہوں گی کیونکہ ان کا قوم اور ملک سے تعلق ہے اور ان باتوں کے لئے ہی مساجد بنی ہیں.پس یہ فرق یا درکھو کہ مساجد اصل میں ذکر الہی کے لئے بنتی ہیں لیکن ذکر الہی کا قائم مقام وہ کام بھی ہیں جو قومی فائدہ کے ہوں خواہ وہ کھانے پینے کے متعلق ہوں یا قضاء کے متعلق ہوں ، جھگڑے فسادات " کے متعلق ہوں تعلیم کے متعلق ہوں یا کسی اور رنگ میں سلمان قوم کی ترقی اور تنزل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان کاموں کے متعلق مساجد میں باتیں کی جاسکتی ہیں خواہ بظاہر یہ باتیں دنیوی معلوم ہوتی ہوں لیکن دراصل یہ قوم سے تعلق رکھتی ہیں اور دین ان سے ہی بنتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلم مساجد میں اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے ہمیں کیا کرتے تھے اور اس قسم کے دوسرے معاملات طے کیا کرتے تھے پس مساجد میں اس قسم کے کام جائز ہیں اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے این امور کو دین کا جزو بنایا ہے ہمارے دین میں ذکر الہی اس کا نام نہیں کہ انسان اللہ للہ کرتا ہے بلکہ اگر کوئی بیوہ کی خدمت کرتا ہے توہ بھی دین ہے، اگر کوئی نیم کی پرورش کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے، اگر کوئی شخص قوم کی خدمت کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے، اگر کوئی شخص جھگڑوں کو دور کرتا ہے، مقدمے ملکے کرتا ہے، صلح کراتا ہے تو یہ بھی دین ہے.پس تمام وہ قومی کام جن سے قوم کو فائدہ پہنچے وہ قوم کے اخلاق اور اس کی دنیوی حالت کو اونچا کہیں ذکر الہی میں شامل ہیں اور ان کا مساجد میں کرنا جائز ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے کام مساجد میں ہی کیا کرتے تھے مثلا اگر کوئی مہمان آجاتا تو آپ صحابہ کو مخاطب کر کے فرماتے فلاں جہاں آیا ہے تم میں سے کون اسے ساتھ لے جائے گا ؟ تو ایک صحابی اٹھنا اور عرض کرتا اسے یکی ساتھ لے جاتا ہوں، یا زیادہ مہمان آتے تو کوئی کتنا یکی ایک لے جاتا ہوں، یکی دھوئے جاتا ہوں، میں چار لے جاتا ہوں.بظاہر یہ روٹی کا سوال تھا لیکن یہ دین تھا اس لئے کہ اس سے ایک دینی ضرورت پوری ہوتی تھی.در حقیقت لوگوں نے دین کو محدود کر دیا ہے اور اس کے معنے اس قدر کمزور کر دیئے ہیں کہ کوئی چیز دین میں باقی نہیں رہی ورنہ دنیا کی سب چیزوں کو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ان سب چیزوں سے تعلق پیدا کرنا دین ہے.خدا تعالی برا و ماست کسی کو نہیں مقا بلکہ خدا تعالیٰ قسم کی پرورش کرنے سے
۳۳۸ ملتا ہے، بیوہ کی خدمت کرنے سے ملتا ہے، کافر کو تبلیغ کرنے سے ملتا ہے، مومن کو مصیبت سے نجات دلانے سے ملتا ہے.یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے ملنے کے ذرائع ہیں یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نیچے اتر آتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ روحانی بینائی اور معرفت کے مطابق انسان پر ایسی حالت آتی ہے کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ آ گیا ہے لیکن اس کا ذریعہ ہیوہ کی خدمت کرنا ہوتا ہے، یتیم کی پرورش کرنا ہوتا ہے یا دوسرے قومی کام کرنا ہوتا ہے اور یہی دین ہے.اگر تم مساجد میں ذاتی باتیں کرتے ہو مثلاً کہتے ہو تمہاری بیٹی کی شادی کے متعلق کیا بات ہے یا میری ترقی کا جھگڑا ہے انسر مانتے نہیں ہیں کوشش کو رہا ہوں تو یہ باتیں کرنا مسجد میں جائز نہیں سوائے امام کے کہ اس کا ذقہ قوم کی خدمت ہے اور نہ صرف ان باتوں کا کرنا مسجد میں جائز نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا بھی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کام میں برکت نہ وہے.اب اگر کسی شخص کو شوق ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسم کی بد دعائے تو ہیں ایسے دیر شخص کو کچھ نہیں کہ سکتا لیکن اگر کسی کو یہ شوق ہے کہ وہ رسول کریم صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں نے توہ مسجد سے نکل کر ایسی باتیں کرے.پس مساجد کے اندر ذکر الہی کرو لیکن ذکر الہی کے وہ تنگ معنے نہیں جو ملمان کلنٹے کرتے ہیں.ذکر الہی ان تمام باتوں پرمشتمل ہے جو انسان کی ملی بسیاسی علمی اور قومی برتری اور ترقی کے لئے ہوں لیکن تمام وہ باتیں جو لڑائی دنگا یا قانون شکنی کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں خواہ ان کا نام متی رکھ لو، سیاسی رکھ لو، قومی یا دینی رکھ لو مساجد میں ان کا کرنا نا جائز ہے یا ہے حضرت مهدي موعود عليه الصلاة والسلام کی اپنی جماعت کے لئے یہ واضح تعلیم ہے تحریک حج "جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہر گز داخل نہیں ہو گا ہو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ ایک شعلہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دینے نا تم اسی کے لئے پکڑے نہ جائے.میں تمہیں کچے پنچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے کہ اس ضمن میں فرایضیہ بچے کی نسبت خاص طور پر یہ حکم دیا کہ : مه روزنامه الفضل سور شما از تبوک ۳۳۱ ا م : سه کشتی نورخ ۲۳۴۲۲۳ وطبع اول)
جس پر حج فرم ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے یا نہ اس سال سید نا حضرت مصلح موعود نے بھی نائب مہدی کی حیثیت سے فریضہ حج کی بجا آوری کے لئے پر زور تحریک کی چنا نچہ خطبہ جمعہ یکم تبوک ۱۳۳۱ ہش کے دوران فرمایا :- یہ عید اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اپنے بھائیوں کو دیکھ کر ہمارے اندر بھی حج کرنے کا بعد یہ پیدا ہونا چاہیئے.جہاں اپنے یعنی بھائیوں کو میچ نصیب ہونے کی خبر سن کر ہم خوش ہوتے ہیں وہاں ساتھ ہی ہمیں یہ خیال بھی کرنا چاہئیے کہ ہم کیوں مجھ نہ کریں ؟ ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہونی چاہیئے کہ خدا تعالیٰ ہمیں بھی حج کا موقعہ دے مگر افسوس کہ میچ کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی ہے بہت کم لوگ ہیں جو بج کے لئے بہاتے ہیں.(۲) یہ عید اس لئے آتی ہے تا ہمارے دلوں کو بیدار کرے، اور ہمیں ہمارا فرض یاد دلائے عید ہمیں یہ بتانے آتی ہے کہ حج کی عبادت تم پر بھی فرض ہے جس طرح نماز ایک ضروری فریضہ ہے جس طرح زکوۃ ایک ضروری فریضہ ہے، جس طرح روزے ایک ضروری فریضہ ہیں اسی طرح کی بھی ایک ضروری فریضہ ہے لیکن افسوس کہ نہ غیر احمدیوں میں اس فریضہ کا صحیح احساس پایا جاتا ہے اور نہ احمدیوں کو اس کا پورا احساس ہے.غیر احمدیوں میں تو یہ لطیفہ ہوتا ہے.ان کے خطوط آتے ہیں کہ اگر حضرت مرزا صاحب مسلمان تھے تو انہوں نے حج کیوں نہیں کیا ؟ پھر ان کے پہلے تعلیفہ نے بھی صبح نہیں کیا اور آپ نے بھی حج نہیں کیا حالانکہ حضرت خلیفہ اسے اول نے نہ صرف حج کیا تھا بلکہ دو سال کے قریب آپ مکہ مکرمہ میں رہے اور میں نے بھی حج کیا ہے.حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صحت اس قابل نہیں تھی کہ آپ سفر کرتے اور پھر آپ کے لئے رستہ میں امن بھی نہیں تھا.اس لئے آپ نے حج نہیں کیا لیکن آپ کی طرف سے ہم نے مجھے بدل کر وا دیا تھا." (۳)" اب اس عید سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے دلوں میں حج کی عظمت پیدا کر و اور زیادہ سے زیادہ مچھ کے لئے جاؤ تا کہ حج کی غرض پوری ہو اور حج سے جو خدا تعالیٰ کا منشاء ہے وہ پورا ہو اور پھر جو لوگ حج کے لئیے جائیں ان کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس بات پر غور کریں کہ آج با وجود اتنی تعداد میں ہونے کے مسلمان آزاد کیوں نہیں ؟ مسلمانی منظم کیوں نہیں ؟ وہ له کشتی نوح من (طبع اقول )
۳۵۰ اسلام کو اس کی پہلی شان پر لے جانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ وہ ان ذرائع پر غور کیوں نہیں کرتے جن سے اسلام کو پہلی شان محاصل ہو یا اے پنجاب مینی مسئلہ اقلیت اُٹھائے جانے کے بعد آل آل پاکستان مسلم لیگ کا اجلاس ڈھا کہ پاکستان سلم لیگ کے اجلا میں ڈھاکہ مستند اکتوبر منعقدہ ۱۹۵ء) میں اس ریزولیوشن کا نوٹس دیا گیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے لیکن یہاں بھی محبت وطن اور بیدار مغرب سلم لیگی راہنماؤں نے قائد اعظم مرحوم کی طرح اس ریزولیوشن کے زیر بحث لانے کی اجازت تک دینے سے انکار کر دیا.در اصل بنگال کے اکثر مسلمان لیڈر اور نمبر پہلے ہی اس عزم کا اظہار کر چکے تھے کہ ہم اس مطالبہ کی پر زور مخالفت کریں گے بعض نے یہاں تک کہا کہ اسلام پر گل کرنے والے اور اکناف عالم تک اس کی اشاعت کرنے والے تو احمدی ہی ہیں اگر ان کو کافر اور غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو دنیا میں مسلمان کون رہے گا ؟ سے اس موقعہ پر مشرقی پاکستان کے مسلم پر یس نے عمدہ نمونہ دکھایا چنانچہ ڈھاکہ کے روزنامہ امت پر مورخہ ۱۸ اکتوبر ۱۹۵۲ء) نے اپنے ادارتی نوٹے میں لکھا کہ :.قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیئے جانے کے لئے گذشتہ آل پاکستان مسلم لیگ کونسل میں ایک ریزولیوشن کا نوٹس دیا گیا تھا لیکن موجودہ حالات میں اس معاملہ کو نہ اٹھا کرمسلم لیگی ایماء نے بہت دانشمندی کا ثبوت دیا ہے قطع نظر علماء کے فتوی بازیوں کے یہ امر ظاہر ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں کے اندر آپس کی تفرقہ اندازی اپنی بھی حکومت کو کمزور کرنے کا باعث ہوگی، قادیانی یا احمدی مسلمانوں نے ملک کی آزادی کے جہاد میں خاص حصہ لیا ہے اس لئے مسلمان قوم کی آئندہ تعمیری پیر وگرام کے سلسلہ ہیں اس جماعت کی قدرکم قرار نہیں دی جاسکتی سوامی شردھانند جی کی شدھی تحریک کے مقابلہ میں اس جماعت نے تحریک تنظیم قائم کر کے مسلمانان برصغیر کی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں.ه روزنامه الفضل ۳ انحاء ۱۳۳۱ ایش مطابق ۳ اکتوبر ۶۱۹۵۲ م ، حدث : کے روز نامه الفضل ، شهادت ۱۳۴۲ پیش مطابق - اپریل ۱۹۶۳ء صر مضمون مولوی محمد صاحب ہی.اسے امیر جماعت احمدیہ شرقی پاکستان جناب شیخ روشن دین منا تنوی، پیر فضل نے اس مضمون کو ایک حرس یوں بیان فرمایا ہے دنیا میں آج حایل قرآن کون ہے ؟ : گر ہم نہیں تو اور سلمان کون ہے ؟
۳۵۱ جذبات کی رو میں بیٹھے کہ اگر آج جماعت احمدیہ کو اقلیت قرار دے دیا جائے تو آئندہ شیعہ حضرات کے خلات بھی ہیں آواز اُٹھائی جا سکتی ہے، اس کے بعد آہستہ آہستہ شافعی، خلیلی، مالکی وغیرہ سب فرقوں کے بارہ میں ہی اقلیت قرار دیئے جانے کا سوال اُٹھ سکتا ہے لہذا اس کے خطرناک نتائج اور سلمانوں کے اندرونی خلفشار کا تصور کرتے ہوئے آج مسلمانوں کے اندر آپس میں اتحاد اور اتفاق کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے.یہ امر باعث خوشی ہے کہ موجودہ لم لیگی زعماء نے اس سوال کے خطرناک نتائج کو بر وقت بھانپ لیا ہے.بنگلہ سے ترجمہ) استید نا حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعود نے دور تبلیغ اسلام کاعالمی ادارہ تحریک دیت کو اس بنیادی نعت کا طالب جماعت کو توجہ دلائی کہ قیامی تحریک جدید کا مقصد دنیابھر میں تبلیغ اسلام ہے جومحض انفرادی قرض نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا اجتماعی فرض ہے.چنانچہ فرمایا." تحریک جدید ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ادارہ ہے جب تک قوم زندہ رہے گی یہ ادارہ قوم کے ساتھ وابستہ رہے گا اور جب افراد میں زندگی منتقل ہو جائے گی یعنی جماعت کے کچھ افراد مردہ ہو جائیں گے اور کچھ زندہ رہیں گے تو یہ ادارہ زندہ افراد کے ساتھ وابستہ ہو جائے گا.اسلام کی گذشتہ تاریخ میں جہاں مسلمانوں سے بعض بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں وہاں ایک اہم ترین غلطی ان سے یہ ہوئی کہ تبلیغ کو انفرادی فرض سمجھ لیا گیا.بے شک مسلمانوں میں مبلغ رہے، گذشتہ صدیاں تو الگ رہیں قریب کے زمانہ تک بھی مسلمانوں میں مبلغ رہے بلکہ اس زمانہ تک رہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ اس میں اسلام مٹ گیا اور مسلمانوں پر موت طاری ہو گئی، اس میں بھی خدا تعالٰی کے کچھ بندے ایسے تھے جو زندہ تھے اور تبلیغ اسلام کے فرض کو ادا کرنے میں خوشی ، رغبت اور لذت محسوس کرتے تھے.پہلی صدی کو تو جانے دو جب ہر سلمان ہی ایک مبلغ تھا، دوسری صدی کو بھی بجانے دو، تیسری صدی کو بھی جانے دو، چو تھی پانچویں چھٹی اور ساتویں صدی کو بھی بجانے دو جب تبلیغ کرنے والے اور اس کا انتظام کرنے والے بڑے اہم آدمی تھے، ان کی بعد کی صدیوں کو بھی جانے دو جب تبلیغ نہایت محدود دائرہ کے ساتھ وابستہ رہ گئی تھی لیکن پھر بھی لوگ دوسرے ملکوں میں جاتے تھے ، میں تو تیرھویں صدی کے لے روزنامه الفضل ۲۹ انفاء (۱۳۳ مش مش (ترجمہ)
۳۵۴ متعلق کہتا ہوں بلکہ چودھویں صدی کی ابتداء کے متعلق کہتا ہوں جب بظاہر مسلمانوں پر موت آگئی کہ اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے ایسے بندے موجود تھے جو اسلام کی تبلیغ کرتے تھے مثلاً مغربی افریقیہ ہے اس میں اسلام بہت قریب کے زمانہ میں پھیلا ہے یعنی اس ملک میں تبلیغ ، ۷۰ یا..اسال کے اندر ہوئی ہے.بالعموم بریری، شامی اور سوڈانی لوگ وہاں گئے اور انہوں نے اسلام کی تبلیغ کی جس کے نتیجہ میں لاکھوں لوگ مسلمان ہوئے.ہے پس انفرادی حیثیت سے مسلمانوں میں آخر تک تبلیغ ہوتی رہی ہے گو محدود ہوئی ہے لیکن اجتماعی رنگ میں تبلیغ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی قریباً مفقود ہوگئی کیونکہ خلفاء ان جنگوں میں بھی جو عیسائیوں اور زرو پشتیوں کے مخلاف لڑی گئیں اس قدر الجھ گئے کہ اس وقت جہاد اور تبلیغ دونوں کو ایک سمجھ لیا گیا اور خلفاء کے بعد مسلمانوں پر جمود طاری ہو گیا.وہ دنیوی شان و شرکت اور ترقیات وہ کو اپنا منتہائے مقصود سمجھ بیٹھے اور تبلیغ کی اصل روح کو بھول گئے.پس انفرادی طور پر اسلام میں نہایت عظیم الشان لوگ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے تبلیغ اسلام کے فرض کو اچھی طرح ادا کیا.افغانستان میں مسلمان پھیل گئے.افریقہ میں وہ گئے اور وہاں تبلیغ کی.وہ چین، جاپان ، انڈونیشیا اور ہندوستان میں آئے اور یہاں اسلام کی تبایے کی اور لاکھوں لوگ انکے ذریعہ مسلمان ہوئے.عرض انہوں نے تبلیغ کی اور بڑی شان سے تبلیغ کی لیکن یہ انفرادیت تھی جتما عیت نہیں تھی حالانکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلى الخير وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُونِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنکونے یعنی تم میں ہمیشہ ایک ایسی امت ہونی چاہئیے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف میلائے اور انہیں نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے.اور رافقت کے معنے ایسی ہی جماعت کے ہیں جو اپنے اندر نظم رکھتی ہو.چونکہ امت او را نام ایک ہی ماؤے سے نکلے ہیں اس لئے در حقیقت اُمت وہی ہے جو اپنا مرکز رکھتی ہوا جب وہ مرکز سے نکل جائے گی ہم اُسے اُمت نہیں کہیں گے.یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو امت محمدیہ کہتے ہیں مسلمانوں میں چاہے کتنا لے ملاحظہ ہو تاریخ اشاعت اسلام نه ماوه روانی ام اما این انی اری الا علی اینڈ سنز لاہوری طبع اول ۶۱۹۶۲- دعوت اسلام PREAKING OF ISLAM سر تھامس آرنیا زیر حالات آفریقہ میں اشاعت اسلام سے آل عمران : ۱۰۵ ہے
اختلاف ہو جائے، چاہیے اُن کے کتنے فرقے بن جائیں اقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی رہے گی اسی وجہ سے ہم با وجود حضرت مسیح موعود کو نبی کہنے کے اپنے آپ کو آپ (مسیح موعود ناقل) کی امت نہیں کہتے ہمارے بچوں تک سے پوچھو تو وہ کہیں گے کہ لیکن اللہ کا بندہ ہوں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہوں نہیچ موعود کی جماعت میں سے ہوں ہم عیسائیوں اور یہودیوں کو امت نہیں کہتے عیسائی اور یہودی حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کے وقت میں امت تھے اب وہ اقت نہیں رہے، اب وہ جماعت بھی نہیں رہے وہ ایک طائفہ ہیں، گروہ ہیں ، حزب ہیں امت نہیں کیونکہ کوئی اُمت صرف اس وقت تک اُمت کہلاتی ہے جب تک اس میں اتحاد ہو ، امت اس وقت تک اہمت کہلاتی ہے جب تک وہ امام کے گرد چکر کھاتی ہو، امت اس وقت تک امت کہلاتی ہے جبتک وہ خاص مقاصد لے کر کھڑی ہوئی ہو.اتم کے معنے خاص مقصد کے ساتھ چلنے کے بھی ہیں.اور امت وہی کہلاتی ہے جو کسی خاص مقصد کو لے کر کھڑی ہو، اس میں نظم ہو وہ کسی مرکزی نقطہ کے گر دیگر کھا رہی ہو.ولتكن مِّنكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ میں مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ہی حکم دیا گیا تھا کہ ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو مقصد تبلیغ کو لے کر کھڑے ہوں، ان کا عمر بھر یہی کام ہو کہ وہ ایک نظام کے ماتحت رہیں لیکن یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں ہوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آپ لوگوں کو ادھر ادھر بھیج رہتے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم فلاں جگہ پر جاؤ اور انہیں اسلام کی تعلیم دو، آپ کے زمانہ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آپ کے اردگرد لوگ بیٹھتے ہیں تاکہ وہ دین سیکھیں ہمیں نظر آتا ہے کہ وفود یا ہر جارہے ہیں تا وہ دوسرے لوگوں کو اسلام کی تعلیم سکھائیں اور باہر سے و خود آرہے ہیں تا مدینہ میں آکر وہ اسلام کی تعلیم حاصل کریں خلفاء کے وقت میں معیاری ہے جنگوں میں اُٹھے گئے اور اس طرح کی تبلیغ کے لئے وہ وقت نہ نکال سکے اور ان کے بعد لوگ شستی اور فضلات کی وجہ سے اس طرف سے ہٹ گئے اور انہوں نے اپنے مقصد کو ٹھیلا دیا.چونکہ درمیان میں وقفہ پڑ گیا تھا اس لئے بعد میں آنے والے اپنے اس مقصد کو بھول گئے اور وَلتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ الخر پر عمل نہ ہوا.
۳۵۴ اب تبلیغ جیسے عظیم الشان کام کو جاری کرنے کے لئے سلسلہ احمدیہ نے تحریک جدید بیاری کی ہے لئے جاری کی تا باہر سے لوگ بلوائے جائیں جو یہاں آکر دین سیکھیں اور ان میں سے ایسے لوگ تیار کئے جائیں جو باہر جا کہ لوگوں کو دین سکھائیں یہی قرآن کہتا ہے کہ تم باہر کے لوگوں کو تحریک کرو کہ وہ تمہارے پاس آکر دین سیکھیں اور مرکز میں تم ایک ایسی جماعت تیار کر وجو باہر جائے اور لوگوں کو دین سکھائے تحریک تجدید ان دونوں مقاصد کو پورا کرتی ہے.تیرہ سو سال کے عرصہ میں بعد از ز ما در ثبوت صحابہ کے وقت میں مجبوراً اور ان کے بعد مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے ہمیں یہ چیز نظر نہیں آتی.آج صرف ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دملی ہے.یہ کتنا عظیم الشان کام ہے اس ایک کام کی وجہ سے تمہیں دوسروں پر فضیلت حاصل ہو جاتی ہے اور تمہارے مقابلہ میں کوئی اور عصر نہیں سکتا ہے ۱ ۱۳۳۱ آرش بر ۱۹۵۲ء کے آخر میں گوجرانوالہ گوجرانوالہ میں احمدیوں کا بائیکاٹ اور الاعتصام میں امالیوں کے خلاف بائیکاٹ کی ایک مہم جاری کر دی گئی جس کی اہلحدین کے ترجمان الاعتصام نے سخت مذمت کی اور اس کے مدیر مسئول مولانا محمد علیف صاحب ندوی نے اقلیت کا مسئلہ اور مقاطعہ کی پالیسی کے زیر عنوان حسب ذیل اداریہ سپر و قلم کیا: و چند ہفتوں سے گوجرانوالہ میں مرزائیوں کے مقاطعہ کی باقاعدہ مہم جاری ہے پہلے تو ہم یہ مجھے کہ شائد یہ کوئی مقامی تحریک ہے، لیکن کتبوں سے جو اس سلسلہ میں دکانوں ، ہوٹلوں اور دیواروں پر آویزاں کئے گئے ہیں یہ معلوم ہوا کہ یہ اسلامیان پاکستان کا متفقہ فیصلہ ہے.کتبوں پر اس ڈھنگ کی عبارتیں مرقوم ہیں، مرزائیوں کا بائیکاٹ کرو“ ”مرزائیوں کے کھانے کے برتن الگ ہیں " مرزائیوں کا مقاطعہ اسلامیان پاکستان متحدہ فیصلہ ہے؟ ہمارے نزدیک یہ تحریک قطعا غلط غیر ذمہ دارانہ اور منتر ہے.جہاں تک ہمیں معلوم ہے مجلیس عمل نے اس نوعیت کا کوئی فیصلہ نہیں کیا حالانکہ مرزائیت کے خلاف یہی ایک نمائندہ جماعت ہے جیسے کہنے سنے اور مستقل پالیسی وضع کرنے کا حق پہنچتا ہے.مجلس احرارہ دوسری جماعت ہے اوّل روز سے جس کے مشن میں یہ بات داخل ہے کہ مرزائیت نے میں حسین فتنہ کو پیدا کیا ہے ان کی روک تھام کا اہتمام له یہ الفاظ مٹے ہوئے ہیں : کے روز نامہ الفضل افتح ۱۳۳۱ ش ص ہے
۳۵۵ کر ہے، اس کا بھی کوئی ایسا فیصلہ ہماری نظر سے نہیں گزرا جس میں مقاطعہ کی تلقین کی گئی ہو.ذقتہ وار اور صاحب بصیرت علماء سے بھی کوئی ایسا نہیں جس نے مرزائیوں کے مقاطعہ کا فتوی دیا ہو.لندا و دو سوال یہاں قدرتاً اُبھرتے ہیں اول یہ کہ جب یہ تحریک سوا گوجرانوالہ کے حلقہ کے اور کہیں نہیں پائی جاتی اور ملک کی کسی دینی و سیاسی جماعت نے اس انداز کا فیصلہ نہیں کیا تو اس تحریک کو چلانے والوں کو کیا حق ہے کہ اسے اسلامیان پاکستان کا متفقہ فیصلہ قرار دیں ؟ دوسرے مجلس عمل نے اس لغوثیت کے خلاف کیوں کوئی نوٹس نہ لیا ؟ حالانکہ تحریک کی دیکھ بھال اور نگرانی اس کے فرائض میں داخل ہے.کیا انہیں معلوم نہیں کہ اس طرح کی تحریک آئندہ چل کر کس قدر خان اک ثابت ہو سکتی ہے ؟ اور اس سے مجلس عمل کے راستے میں کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں؟ الاعتصام وہ پہلا پرچہ ہے جس نے اس موضوع پر پوری سنجیدگی سے قلم اُٹھایا کہ مرتبا ئیوں کو آئنده دستور میں اقلیت سمجھا جائے، نیز مرزائیوں کو از راہ اخلاص پر مشورہ دیا کہ وہ اس معقول مطالبہ کو تسلیم کر لیں لیکن اس کے ہر گز یہ معنی نہیں ہیں کہ مرزائیت کی مخالفت ہیں جو غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ قدیم بھی اٹھایا جائے ہم اس کی تائید کریں گے.یاد رہے کہ قرآن نے ہمیں ہر اعمال میں متوازن رہنے کی تلقین کی ہے اور ہم سے بحیثیت مسلمان کے مطالبہ کیا ہے کہ دشمنی میں بھی حدود عدل و اعتدال سے تجاوز نہ ہوں.اس اصول کے پیش نظر ہمارے لئے یہ ناممکن ہے کہ اس نوع کی زیادتی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور چپ رہیں.ہم اس طرز عمل کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہیں اور مجلس عمل سے درخواست کرتے ہیں کہ اس روش کے انسداد کے لئے وہ فوراً کوئی اقدام کرے ورنہ اگر یہ بدعت چل نکلی تو پورے پاکستان میں اس کے پھیل جانے کا اندیشہ ہے.ان لوگوں کو جو مقاطعہ کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں خدارا اپنے مطالبہ کا تو احترام کرنا چاہیے اور عداوت و دشمنی میں اتنا غیر محتاط نہ ہونا چاہئیے کہ نفس مطالبہ ہی لا یعنی ہو کر رہ جائے..ہمیں کوئی نہیں بات نہیں کرنی چاہیئے جس سے ہمارے اس مطالبے کو نقصان پہنچے کہ آئندہ آئین میں انہیں اقلیت ٹھرایا جائے.ان لوگوں کو اس نکتہ پر غور کرنا چاہئیے کہ اگر پاکستان میں انہیں کاروبار کی آزادی بہتا نہیں ہے بلکہ ہم ان پر اکتساب رزق کے دونوں کو اڑ سختی سے بند کر دیتے ہیں تو یہ اقلیت کیونکر ہوئے؟ انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مرزائی ایک اقلیت ہیں تو اس کا واضح
۳۵۶ مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان ہیں ان کی جان محفوظ ہے اور کاروبار و ملازمت کے تمام دروازے ان پر کھیلتے ہیں.یہی نہیں اِس سے آگے بڑھ کر یہ کہ یہ اپنے مذہب کی تبلیغ بھی کر سکتے ہیں.اگر آزادی کی ان سه گونہ نعمتوں سے یہ محروم ہیں تو پھر یہ اقلیت ہرگز نہیں ہو سکتے.حریت و معاند گر وہ ہو سکتے ہیں جس کو ہم نے بدرجہ بوری پناہ دے رکھی ہے.مقاطعہ کے بظاہر دو مقصد ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اس طرح کے بغیر شائستہ اور جارحانہ طرز عمل سے انہیں مجبور کیا جائے کہ یہ اپنا اقلیت ہونا ان ہیں، دوسرے یہ کہ اپنے عقائد سے تو یہ کر لیں.غور کیجئے گا تو دونوں صورتیں حمل اور غیر دانشمندانہ نظر آئیں گے.ہم جب مرزائیوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ ہم سے الگ ایک قومیت ہیں تو یہ نہایت ہی سنجیدہ اور آئینی مطالبہ ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اور نبوت سے چا ہے وہ جھوٹی ہو یا پیتی مستقل بالذات گروہ معرض وجود میں آتا ہے اس لئے مرزائیوں کو چاہیے کہ اپنی اس حیثیت کو تسلیم کر لیں اور حکومت انہیں اقلیت کے تمام حقوق سے بہرہ مند کرے.ہم جانتے ہیں کہ ان کے اقلیت بن جانے سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ الٹا کچھ فوائد ہی حاصل ہوتے ہیں.تاہم اس مطالبہ پر ہمارا اصرار اس بناء پر ہے کہ مرزائیت کا مزاج اور حکومت کا دینی موقف اِس کا متقاضی ہے.یہ مطالبہ چونکہ بالکل دینی اور آئینی ہے اس لئے اس کو منوانے کے لئے ہم کوئی ایسا طریق اختیار نہیں کریں گے جو مطالبہ کی معقولیت اور سنجیدگی کے منافی ہو.علاوہ ازیں اگر مرزائی پاکستان میں موجودہ حالات میں اپنے کو محفوظ نہ سمجھیں تو اقلیت کی صورت میں ان کو ان کی حفاظت کا یقین دلانا سخت احمقانہ ہے.دوسرا سداب اس روش کو حق بجانب ٹھرانے کا یہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح کی حرکات سے انہیں تو یہ پر مجبور کیا جا سکے گا؟ لیکن کیا کوئی سمجھدار آدمی یہ کہ سکتا ہے کہ بائیکاٹ سے عقیدوں میں تبدیلی پیدا کی جا سکتی ہے؟ ہم مجلس عمل کے ذمہ دار ارکان سے درخواست کریں گے کہ وہ اس سہودگی کو جس قدر جلد ہوگئے روکیں اور اپنے اعلانات اور طرز عمل سے ثابت کریں کہ ان کی جنگ کا رُخ اُن کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ جس فرض کے لیے کوشاں ہیں وہ سراسر آئینی اور سنجیدہ ہے یا ملے ه هفت روزه الاعتصام (گوجرانوالہ ) ۲۶ دسمبر ۳۶۶۱۹۵۷.نوٹ :- ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۶ء سے یہ اختبار لاہور سے نکلتا ہے :
جلسه سالانه قادیان ۱۳۲۹ھ / ۱۹۵۰ء ( اوپر) بہشتی مقبرہ قادیان سے آگے درویشان قادیان اور بھارتی احمدی قافلہ پاکستان کی آمد کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں.تصویر میں مولا نا شریف احمد صاحب امینی مبلغ سلسلہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب، حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ امیر جماعت قادیان اور مولانا برکات احمد صاحب را جیکی بھی موجود ہیں.( نیچے ) قافلہ پاکستان کے افراد نماز پڑھ رہے ہیں.
جلسہ سالانہ ۱۹۵۰ء کے دومناظر ( اوپر) سٹیج ( نیچے ) سامعین (چوہدری انور صاحب جلسہ کی فلم لے رہے ہیں )
TP% قافلہ پاکستان برائے جلسہ سالانہ قادیان ۳۳۱اهش / ۱۹۵۲ء
جلسه سالانه قادیان ۳۳۱اهش / ۱۹۵۲ء ( اوپر) مولوی محمد اسمعیل صاحب وکیل یادگیری حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی زیر صدارت تقریر فرما رہے ہیں ( نیچے ) سامعین ، سامنے کرسیوں پر غیر مسلم معززین ہیں
عشاق احمدیت لوائے احمدیت کا پہرہ دے رہے ہیں.ا ہے اور سارا دل میں درام ارمین شرک اور پستے کی چیزیں ا کیوں کے لیے خاک راہ اور مفت نہیں اے لوائے احمدیت قوم احمد کے نشان تجھ پہ کٹ مرنے کو ہیں تیار تیرے پاسباں اے خدا کی ایک چھوٹی سی جماعت کے علم تیرے سائے کے تلے آئیں گے شاہان جہاں عہد یہ کرتا ہوں میں جب تک ہے میرے تن میں جاں سرنگوں ہونے نہ دونگا تجھ کو زیر آسماں ( عبد المنان ناهید )
۳۵۷ حکام گوجرانوالہ سے حمد وفد کی ملاقات گو انوالہ کے مظلوم محمدیوں کے بائیکاٹ کی اطلاع سید نا حضرت بالمصلح الموعود کی خدمت میں نچھی تو حضور نے مولوی نورالدین صاحب میرے نائب ناظر دعوت و تبلیغ کو ضروری ہدایات دیگر گوجرانوالہ بھجوایا جہاں آپ نے قریباً پالیسی احمدیوں سے بالمشافہ بات چیت کی اور حالات کا جائزہ لیا بعد ازاں ۳ ماه فتح ۳۳۱ اش / ۳- دسمبر ۱۹۵۲ء کو مقامی سر بر آوردہ احمدیوں کے ایک وفد کے ساتھ سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس اور ڈپٹی کمشنر صاحب سے ملاقات کی اور اس ظالمانہ کارروائی کے سدباب کی طرف توجہ دلائی.اس وفد میں آپ کے علاوہ مولوی غلام مصطفے صاحب نائب امیر گوجرانوالہ شیخ غلام قادر صاحب تاجر اور سکھ لڑیچر کے سکالر گیانی عباد اللہ صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ بھی شامل تھے کیئے ۲۶ ۲۷ ۲۸ ماه فتح ۱۳۳۱اہش کر دسمبر ۱۹۵۲ء کو مصلح موعود کا پیغام نکلا ایا میں جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی چوتھی سالانہ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے نام کا نفرنس منعقد ہوئی جس کے لئے حضرت مصلح موعود نے درج ذیل پیغام ارسال فرمایا جو مکرم سید شاه محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا:.}} بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران جماعت احمدیہ انڈونیشیا ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی سالانہ کنونشن عنقریب ہونے والی ہے اور مجھ سے کہا گیا ہے کہ یکن اس کے لئے پیغام لکھ کر بھجواؤں.اس وقت طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میں زیادہ لیا پیغام نہیں لکھو اسکتا مختصراً اس بات پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ میرے سال گذشتہ کے پیغام کے نتیجہ میں جماعت انڈونیشیا نے دو ترقیاں تو یقینا کی ہیں ایک تو یہ کہ ان کا بجٹ شاندار طور پر ترقی کر گیا ہے ہمیں اس ترقی پر مغرور تو نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ کام ہمارے سامنے بہت بڑا ہے اور اس کی نسبت سے رقم بہت تھوڑی ہے لیکن جو ترقی ہوئی ہے اس کی ہم نا شکری بھی نہیں کر سکتے اور اس سے ہم لے آپ ان دنوں نائب وکیل التصنیف تحریک جدید ربوہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں.کے حال مینجر الفضل ریوں سے مراسلہ مولوی نورالدین صاحب منیر بحضور سید نا حضرت مصلح موعود و مورخه ۳ ماه فتح ۱۳۳۱ پیش )
۳۵۸ آنکھیں بھی بند نہیں کر سکتے.پس دل سے آپ کی اس قربانی پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور جزا کم شد کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو مزید قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کا بجٹ لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں اور کروڑوں اربوں تک پہنچے تاکہ تمام مشرقی ایشیا میں آپ کے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کا جھنڈا بلند ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ظاہر اور باطن پر قائم ہو جائے.اللہم آمین دوسرا امر جس میں آپ لوگوں نے ترقی کی ہے وہ مرکز سے تعلقات کا ہے.اس سال کچھ نئے طالب علم بھی یہاں آئے ہیں اور بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ آپ میں سے بہت سے لوگوں نے میرے ساتھ خط و کتابت بھی شروع کی ہوئی ہے جو کہ پہلے نہیں ہوتی تھی.اس ذریعہ سے مجھے بھی آپ لوگ یا د آتے رہتے ہیں اور دعا کی بھی میرے دل میں تحریک ہوتی رہتی ہے اور یہ خوشی بھی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس دور دراز ملک میں بھی مجھے ایسے روحانی فرزند بخش چھوڑے ہیں جن کے دلوں میں میری محبت ہے اور جن کے خیالات بار بار میری طرف پھرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی اس کنونشن کو مبارک کرے اور گذشتہ سال سے بھی زیادہ خدمت کی توفیق دے.یادر ہے کہ بغیر اچھے لٹریچر کے تبلیغ نہیں ہو سکتی اس لئے آپ لٹریچر کی طرف زیادہ توجہ کریں اور مختلف مضامین کے متعلق کتابیں اور رسالے اپنی زبان میں لکھ کر اپنے ملک میں شائع کریں.دوسرے اس امر کا بھی خیال رکھیں کہ سب سے زیادہ انڈونیشیا کی حفاظت اور اس کی ترقی کی ذمہداری احمدیوں کے کندھوں پر ہے کیونکہ آپ دوسروں سے زیادہ ایمان کے مدعی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَان بے وطن کی محبت بھی ایمان کا ایک جزو ہے پس اگر آپ میں ایمان زیادہ ہے تو آپ کی محب الوطنی بھی دوسروں سے زیادہ ہونی چاہیئے لیکن حب الوطنی کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ انسان تحت بنی نوع انسان سے محروم ہو جائے.حب الوطنی محبت بنی نوع کا ایک حصہ ہے جیسے انسان اپنے ماں باپ سے محبت کرنے کے بعد اپنے بھائی بہن کی محبت سے آزاد نہیں ہو جاتا بلکہ ماں باپ کی محبت جتنی زیادہ ہو بھائی بہنوں کی محبت اسی نسبت سے زیادہ ہونی چاہیئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خَلَقَ لَكُم کے موضوعات کبیر من از مولانا امام علی القاری طبع دوم مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۱۴ھ / ۲۶۱۸۹۶
۳۵۹ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ( البقرة لم ) یعنی جو کچھ اِس دنیا میں ہے سب ہم نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے.اور اسی طرح زمین کے متعلق فرماتا ہے وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرُ وَ مَتَاعُ إِلَى حِينٍ (البقرۃ ہے ، پس حقیقتا قرآن کریم نے ہمارا وطن ساری دنیا کو قرار دیا ہے.یہاں یہ بھی قرآن نے کہا ہے کہ سب سے پہلے اپنے قریب ہمسایوں کی طرف توقیہ کرو.اس کی وجہ سے ہم اپنے ملک کو اپنا H وطن قرار دیتے ہیں لیکن حقیقتا ساری دنیا مسلمان کا وطن ہے اور سارے بنی نوع انسان اس کے بھائی ہیں یہیں اپنے ملک اور اہل ملک سے محبت کے یہ معنے نہیں کہ اپنے زیادہ وسیع ملک اور اپنی زیادہ وسیع برادری کو انسان بُھول بجائے مومن کو چاہیے کہ اپنی نظروں کو وسیع کرے اور ساری دنیا کی بہتری اور ترقی کی طرف توجہ کرے.آپ آج تھوڑے اور کمزور ہیں دنیا آپ کو اس وسیع کام کے نا اہل سمجھتی ہے اور نہ اس کا ذمہ دار بجھتی ہے لیکن آنے والا دن یہ ذمہ داریاں آپ پر ہی ڈالنے والا ہے پس اگر آپ آج ان ذمہ داریوں کے اٹھانے کے لئے تیاری نہیں کریں گے اور اگر آپ آج اپنے خیالات کو وسیع نہیں کریں گے تو کل جب وہ وقت آئے گا آپ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر رہ جائیں گے.پس یہ نہ دیکھیں کہ آج آپ کے سپرد یہ کام نہیں ہے بلکہ اس امر کو مد نظر رکھیں کہ آپکے سپرد یہ کام ہونے والا ہے اور ہر کام کو ہاتھ میں لینے سے پہلے اس کے لئے پوری تیاری کرنی ضروری ہوتی ہے.اللہ تعالٰی آپ کو اپنی وسیلے ذمہ داریوں کی سمجھے عطا فرمائے اور اس کے لئے تیاری کرنے کی توفیق بخشے.آمین خاکسار مرزا محمود احمد " لے راس روح پرور پیغام نے انڈونیشین احمدیوں پر ایک خاص روحانی کیفیت طاری کر دی اور کئی ایک مخلصین اشکبار ہوئے.پیغام امام کا انڈونیشین میں ترجمہ کیا گیا اور اس کی ہزار کا پنیاں حضور کے عکسی دستخطوں کے ساتھے شائع کی گئیں.سے لے ہفت روزہ فاروق" لاہور ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صلا به ے روزنامه الفضل ۲۴ تبلیغ ۱۳۳۲ پیش مٹہ کالم :
فصل سوم سالانہ جلسه قادیان اور حضرت مصلح موعود کا روح پرور پیغام اس سال بھی قادیان اور ربوہ میں ابراہیمی طیور کا اجتماع ہوا میان مبارک ضروری کوائف ایام کے لئے دونوں مراکز احمدیت میں حسب دستور ۲۶ - ۲۷-۲۸ ماه فتح ا دبر کی تاریخیں مقرر تھہیں.اس دفعہ جلسہ سالانہ قادیان کے لئے دہلی سے رنگین پوسٹر چھپوائے گئے جو قادیان کے علاوہ گورداسپورا دھاریوال ، بٹالہ اور امرتسر میں بھی آویزاں کئے گئے.جلسہ میں میں ہندوستانی احمدی جماعتوں نے شرکت فرمائی ان کے نام یہ ہیں.وہلی ، یوپی ، سی پی ، مدراس، مالا بار، حیدر آباد دکن ، بمبئی ، نہیں ہے، بہار، اڑیسہ، پاکستان کے ۱۹۲ خوش نصیب زائرین کے قافلہ کو چوہدری اسد اللہ خان صاحب کی معیت میں مبارک تقریب میں شرکت کا فخر حاصل ہو ایک بر صغیر پاک و ہند کے علاوہ شام اور مشرقی افریقہ کے بعض احمدی دوست بھی شامل جلسہ ہوئے.علاوہ ازیں معز ز طبقہ کے غیر مسلم اصحاب اور خواتین کے کی حاضری گذشتہ سالوں کی نسبت اس سال زیادہ رہی اور پر اجلاس میں ان کی تعداد ایک ہزار سے بارہ سو کے لگ بھگ رہی.تقسیم ملک کے بعد یہ پہلا جلسہ تھا جس میں افتتاحی اجلاس سے انتتام تک لوائے احمدیت ہراتا رہا اور عشاق احمدیت والہانہ جذبہ سے سرشار ہو کہ اس کی پاس پانی کا فرض ادا کرتے رہے.ی مخلص جماعت اُن دنوں نئی قائم ہوئی تھی : کے قافلہ پاکستان کی تفصیل نامہ نگار افضل کے قلم سے افضل ۷۳، ۹ صلح ۳۳۲ آتش جنوری ۱۹۵۳ء میں شائع شدہ ہے.سے اس سال جلسئہ خواتین حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب کے مکان متصل عبداللہ عمال صاحبت کے احاطہ میں ہواء
بیک وقت چار مخلصین اس خدمت پر متعین رہے جلسہ میں پہلی بار صدر انجمن احمدیہ قادیانی کا خرید کیا ہواں اؤ د سپیکر استعمال کیا گیا.سید نا حضرت مصلح موعود نے اس مرکزی جلسہ کے لئے حضر ت صلح موعود کا روح پرور پیغام ایک روح پر در پیغام عطا فرما یا تھا جو پاکستانی قافلہ کے امیر جو ہد ری اسد اللہ خان صاحب نے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا جس کا منفی دریچ ذیل ہے :.أعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّحِيمِ بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيرُ : نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الت سامير برا در این جماعت احمدیہ السلام عليكم ورحمة الله وبرکانت آج پانچ سال سے اوپر ہو گئے کہ قادیان کی جماعت کا اکثر حصہ ہجرت کر کے پاکستان آچکا تخر ہے اور بر صغیر ہندوستان کی جماعت ، دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے، اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب بھی ہندوستان میں اتنی جماعت موجود ہے کہ اگر وہ صحیح طور پر خدمت کرے تو ایک اعلیٰ درجہ کی پنیری کا کام دے سکتی ہے اور میں آپ لوگوں کو آپ کے اس فرض کی طرف تو بقیہ دلاتا ہوں.آپ جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کی مالی مدونیلی کر سکتے.اسی وجہ سے ہم نے ہندوستان کو پاکستان کی انجیر کومدد دیتے سے بالکل آزاد کر دیا ہے اور تمام ہندوستانی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنا رو پیر صدر انجین احمدیہ قادیان کو دیں اور اسی کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ کسی قسم کی بین الاقوامی پچیدگی پیدا نہ ہو.بہت سے لوگ شرارت سے آپ لوگوں کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے رہتے ہیں کہ گویا خلیفہ وقت کے پاکستان آجانے کی وجہ سے آپ لوگ بھی پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں.ان لوگوں کی غرض محض حکومت اور جماعت کے درمیان تفصیلی رود او هفت روزه پدر (قادیان)، صلح ۳۳۲ پیش / جنوری ۱۹۵۳ فر مث منها و افضل ۳ صلح ۱۳۳۲ ش / جنوری ۱۹۵۳ء ص میں مندرج ہے ؟
منافرت پیدا کرنا ہے حالانکہ میرے نزدیک ہندوستان کے ہر احمدی کو سوائے اس کے کہ اُسے مجبور کر کے نکال دیا جائے ہندوستان میں ہی رہنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ہماری جماعت کا وہ مرکز جسے بانی سلسلہ احمدیہ نے قائم کیا تھا ہندوستان میں ہی ہے اور یہ کتنی حماقت کی بات ہوگی کہ وہ قوم جو اپنے مبلغ امریکہ اور جرمن اور سپین اور ہالینڈ اور فرانس اور انگلینڈ کو مسلمان بنانے کے لئے بھیجوا رہی ہے وہ ہندوستان کو خالی چھوڑ دے جو کہ کسی زمانہ ہیں.اسلام کی شان و شوکت کا ایک بڑا بھاری نشان تھا ہم تو اسے خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان اور حکومت ہند کے معاہدات میں دونوں طرف دونوں قوموں کو رہنے کی اجازت ہے اور اس طرح وہ مواد موجود ہے جو کسی وقت دونوں ملکوں میں صلح پیدا کرنے کا موجب ہو جائے گا.پس آپ لوگ اس قسم کے پراپیگینڈا سے بالکل متاثر نہ ہوں اور آپ کے دل غمگیوں نہ ہوں کیونکہ شریر لوگ ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں.آپ اسی طرح اپنے ملک کی وفاداری کریں جس طرح کہ ہم لوگ پاکستان کے وفادار ہیں لیکن اس بات کو یاد رکھیں کہ ہندوستان کا یہ اعلان ہے کہ وہ دنیوی حکومت ہے اور نہ ہی حکومت نہیں ہے اور اس طرح اس نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ کسی کے مذہب میں خل اندازی نہیں کرے گی جس کے معنے یہ ہیں کہ حکومت ہند وستان خدا کے سامنے اپنے آپ کو بری کر چکی ہے.اسی طرح مہذب دنیا کے سامنے بھی اپنے آپ کو بری کر چکی ہے.اگر اس کے اس اعلان کے بعد آپ لوگ تبلیغ میں شکستی کریں یا آپ لوگ اشاعت میں مستی کریں تو یقینا خدا کی نگاہ میں اور دنیا کی نگاہ میں مجرم ہوں گے حکومت ہندوستان مجرم نہیں ہوگی.ہند وستان میں اس وقت مسلمان جس کمزوری کی حالت میں سے گزر رہے ہیں وہ نینا ان کے دلوں میں خون تعد ا پیدا کرنے کا موجب ہو رہی ہے.اسی طرح ہند و قوم بھی آزادی کے بعد سیاست ہیں اب اتنی رغبت نہیں رکھتی جتنی کہ پہلے رکھتی تھی.ان میں بھی ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو دین کی جستجو کرنے لگ گیا ہے اور صداقت کی تلاش اس کے دل میں پیدا ہو گئی ہے پیس ان مسلمانوں تک پہنچنا جن کے دل شکر تے ہیں اور خدا کے خون سے معمور ہو چکے ہیں آپ کا فرض ہے.اسی طرح وہ نیر نام بھی کے دل میں آپ دین کی جستجو پیدا ہو گئی ہے اور جو یہ کجھتے ہیں کہ سیاست کا کام ہم نے پورا کر لیا، ہمارا ملک آزاد ہو گیا، اب ہمیں خدا کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے، ان کی طرف بھی آپ کا
۳۳ بہانا ضروری ہے.دیکھو شیخ نے کہا تھا کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے آیا ہوں اور شیخ صلیب کے شدید طور پر تکلیف دہ واقعہ کے بعد میں طرح بھی ہوا گرتا پڑتا ان گمشدہ بھیڑوں کی طرف گیا.قادیان میں جو انقلاب ہوا ہے وہ تمہارے لئے بھی ایک صلیب جیسا ہی واقعہ ہے، مگر اس میلیب پر سے صرف ایک شخص بچاتھا اور تم ہزاروں آدمی اس دوسری صلیب سے بچ گئے ہو.گر تم بھی شیر کی طرح یہ ارادہ کرلو کہ خدا کی گندہ بھیروں کوتم نے مجھے کہتا ہے تو تم ایک عظیم الشان کام کر سکتے ہو لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہندوستان کی جماعتوں نے موقع کی نزاکت کو نہیں سمجھا، اور مجھے افسوس ہے کہ صدر انجمن احمدیہ قادیان نے بھی اب تک اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھا.وہ صرف ایک گاؤں کی پنچائت کی حیثیت اپنے آپ کو دیتے ہیں اور ایک ملک کا بوجھ اٹھانے والے اور ملک کی آزادی کا بیڑہ اٹھانے والے لیڈروں کی حیثیت اپنے آپ کو نہیں دیتے.ایک پیاسے کو پانی پلازا ثواب کا موجب ہے لیکن ایک گمراہ کو ہدایت دینا تمہارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا.نہ صدر انجمن احمدیہ قادیان نے نہ تم نے اس بارہ میں کوئی موثر قدم اٹھایا ہے.سب سے پہلی چیز تو یہ تھی کہ امن کے قیام کے بعد قادیان کے جلسہ میں ہزاروں ہزار احمدی آقا مگر آپ لوگ تو اب بھی اُسی طرح آ رہے ہیں جس طرح کہ خطرہ کے وقت میں آتے تھے ، وہ وقت گذر چکا، ملک میں خدا کے فضل سے امن ہو گیا آپ آپ لوگوں کا کام ہے کہ سال میں کم سے کم ایک دفعہ تو قادیان آئیں اور یہاں آکر ان امور پر غور کریں جو آپ لوگوں کی بہتری کے لئے ضروری ہیں اور جو آپ کی ترقی کا موجب ہو سکتے ہیں.پس جب آپ لوگ واپس بھائیں تو ہر احمدی کے کان میں یہ بات ڈالیں کہ وہ آئندہ جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان چلنے کی کوشش کریں اور دوران سال میں بھی اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ زور سے قادیان آتے رہیں جیسا کہ تقسیم سے پہلے آتے تھے.دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو اُردو، انگریزی، ہندی، گو رکھی اور گجراتی پریس قائم کرنے چاہئیں مہندی تو ہندوستان کی حکومتی زبان ہو گئی ہے اور گو رکھی گویا پنجاب کی ایک رنگ میں حکومتی زبان ہے اور اُردو ملک کی غیر سیاسی ملکی زبان ہے.انگریزی جاننے والے اب تک بھی اس کثرت سے اس ملک میں پائے جاتے ہیں کہ جن علاقوں میں کسی اور زبان سے تبلیغ نہیں کی جا سکتی ان میں انگریزی کام دیتی ہے لیکن اب تک اُردو کا پر لیس بھی بھاری نہیں ہوا کجا یہ کہ اُسے ترقی دے کو بڑھایا جائے
۳۶۴ پھر مبلغین کا سوال ہے کیں متواتر کئی سال سے صدر انجمن احمدیہ کو لکھ رہا ہوں مگر اب تک مبلغین پیدا کرنے کی طرف ہر گز پوری توجہ نہیں ہوئی بہندوستان میں کم سے کم ہمارے دس بارہ علماء موجود ہیں لیکں نے کہا تھا کہ ہر عالم کے ساتھ دو دولڑ کے لگاؤ وہ چھ سات سال میں ان کو عالم بنا کر نکالے اس طرح دس بارہ سال میں تمہارے پاس سینکڑوں علماء ہو جائیں گے لیکن افسوس ہے کہ اس طرف کوئی تو بقیہ نہیں کی گئی.کہا جاتا ہے کہ خرچ نہیں کیا صحابہ کے پاس خرچ ہوا کرتا تھا ؟ کیاموت کے منہ میں آئی ہوئی قومیں بھٹوں کو دیکھا کرتی ہیں؟ کیا عظیم الشان ارادوں والے لوگ اپنی کوتاہ دامنیوں کا کبھی خیال کیا کرتے ہیں ؟ اپنی مستیوں کو چھوڑو، غفلتوں کو ترک کرو، اپنی تنگ دامنیوں کو بھول جاؤ خدا نے انسان کے دل کو بڑی وسعت دی ہے تم اس وسعت کو دیکھو جو خدا نے تمہارے دل میں پیدا کی ہے.تم اس کام کو دیکھو جو خدا نے تمہارے سامنے رکھا ہے.تم بنی نوع انسان کی ان تکلیفوں کو دیکھو جو کہ روحانی طور پر ان کو پہنچ رہی ہیں.تم مظلوموں کی اُن آوازوں کو سنو جو خدا کا رستہ دکھانے کے لئے کرب اور اضطراب کے ساتھ بلند کی جارہی ہیں اور تم اس بات کو دیکھو کہ تمہارے ان کاموں کو کرنے والا کوئی نہیں.اور خدا کے ان وعدوں کو دیکھو جو تمہارے لئے کئے گئے ہیں.اور اپنے اندر ایک عظیم انسان تغیر پیدا کر و جلد سے میلہ علماء پیدا کرو جلد سے جلد تبلیغ کا کام اپنے ہاتھ میں اور جلد سے جلد لٹریچر پیدا کرنے اور اس کو شائع کرنے کی کوشش کرو.اور تم میں شخص اپنے عمل میں تبدیلی پیدا کرے.اپنے دل میں محبت الہی پیدا کرے اور اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ خدا تعالیٰ اس کی مدد کر رہے.کاش خدا تعالیٰ تمہارے دنوں میں ان باتوں کی عظمت اور اہمیت ڈال دیئے، اور کاش! اس طلبہ پر تم ایک نئے وجو دین کر بجاؤ.ملک کو روحانی دعوت دینے والے ، ملک کو روحانی ترقی بخشنے والے او پھر ساری دُنیا کے لئے مفید وجود ثابت ہونے والے بن کر جاؤ خدا کے وعدوں کو ساتھ لے کر بجاؤ.اور خدا کی مدد کو ساتھ لے کر بجاؤ.اللهم آمین.۱۸؍ دسمبر ۶۱۹۵۲ مرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی و امام جماعت احمدیه ربوده شده سے ہفت روزه بدر (قادیان) ، صلح ۳۲ اش / جنوری ۱۹۵۳ ، ص ، ص :
سم حضرت مصلح موعودؓ کا مندرجہ بالا پیغام پورے جلسہ کی روح رواں تھا جس نے بھارتی جماعتوں میں اشاعت اسلام کی نئی روح پھونک دی.علماء احمدیت کی تقاریر بھی ازدیاد ایمان کا باعث بنیں.اس مبارک جلسہ سے فاضل مقررین خطاب کرنے والوں مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل یاد گیر، گیانی واحد حسین صاحب، مولوی شریف احمد صاحب امینی، مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، مولوی حمد سلیم منا، گیانی عباداللہ صاحب ، حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری ، حضرت مولوی رحمت علی صاحب مجاہد انڈونیشیا جیسے فاضل اور ممتاز مبلغین سلسلہ تھے.صدارت جلسہ کے فرائض انجام دینے والے اصحاب کے نام یہ ہیں :- جلسہ کے صدر حضرت سیٹھ عبدالله الدین صاحب حیدر آباد دکن ، حضرت مولوی عبدالامین صاحب فاضل سید بشارت احمد صاحب وکیل حیدر آباد، مولانا ابو العطاء صاحب، چوہدری اسد اللہ خاں صاحب ( امیر قافله) امیر قافلہ چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب نے قادیان سے مراجعت کے تاثرات قادیان بعد لا ہور میں ایک تقریر میں اس کامیاب جلسہ کے تاثرات بیان فرمائے.آپ نے درویشوں کے عملی نمونے، ان کی تبلیغی بعد وجد اور اس کے خوشکن اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور فرمایا کہ غیر اسلامی ماحول میں درویشوں کی بستی کا موجود ہوتا اور اپنے کردار سے اس ماحول کو متاثر کر نا صاف اِس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ آج اگر دنیا میں اسلام زندہ رہتا ہے تو اس جماعت کی مجاہدانہ کوششوں کے ذریعہ ہی رہ سکتا ہے جسے خدا نے اس زمانہ کے مصلح حضرت مرزا غلام احمد قا دیانی علیہ الصلوۃ والسّلام کے ہاتھوں قائم کیا ہے.اس میں شرک نہیں کہ مرکز سے بعد ائی پر ہمارے دل افسردہ ضرور ہیں لیکن اس میں بھی خدا تعالیٰ کی ایک حکمت کار فرما تھی.اسنے اپنی وراء الواسی حکمتوں کے تحت ایک وسیع علاقے کو اسلام کے روحانی ورثہ سے خالی کر کے اور وہاں درویشوں کے وجود میں ایک مختصر سی جماعت باقی رکھ کر تبلیغ کا میدان بے انتہاء وسیع کر دیا ہے ہوسکتا تھا کہ اگر ہم مرکز میں ہی تقسیم رہتے تو تبلیغ سے فاضل ہو جائے، بورا نے عالینی چدائی ڈال کر تمہیں بیدار کر دیا اور ساتھ ہی ایسے حالات بھی پیدا کر دیئے کہ ہم تبلیغ کے مواقع سے فائدہ اُٹھاتے چلے جائیں
چنا نچہ ہمارا ایمان ہے کہ غلبہ اسلام کے وہ وعدے جو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح سے کئے تھے عنقریب پورے ہوں گے اور تین سو سال نہیں گزریں گے کہ دنیا میں بجز اسلام کے اور کوئی مذہب قابل ذکر حالت میں باقی نہ رہے گا دوسرے مذاہب والے ہوں گے لیکن نہایت قلیل تعداد میں.چوہدری صاحب نے درویشوں کی قابل رشک زندگی اور ان کے جذبۂ قربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بتایا کہ درویشوں نے احباب کو بھی پیغام بھیجا ہے کہ آپ اپنی پنج گانہ دعاؤں میں تمہیں بھولیں ہمارے دل مسترت سے لبریز ہیں کہ خدمت دین کی توفیق ہمیں مل رہی ہے اور اس نے خدمت کا موقعہ عطا فرما کر ہمیں حصول رضا کے بہترین مواقع عطا کئے ہیں ہم ہر طرح خوش ہیں البتہ آپکی دعاؤں کے طالب ضرور ہیں.فی الحقیقت کسی درویش کے چہرے پر افسردگی نہ تھی وہ سب لبشاش تھے اور اس نشہ میں سرشار کہ انہیں شعائر اللہ کی حفاظت کا موقعہ مل رہا ہے اور خدا اور اسکے رسول کا نام بلند کرنے کی سعادت ان کے حصہ میں آ رہی ہے.آپ نے درویشان قادیان کے ذکر سن کر اور علمی مشاغل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہائے درویش بھائی ہر آن دین کی خدمت میں مصروف ہیں اور ساتھ ساتھ علمی لحاظ سے ترقی کرنے کی منکر بھی انہیں دامنگیر ہے.چنانچہ جو چیز میرے لئے انتہائی مسرت کا باعث ہوئی وہ یہ تھی کہ ڈسکہ کا ایک نوجوان رویش پہلے علم سے بالکل کو راتھا اور اپنے پیشے کے اعتبار سے حصول علم کی طرف اس کا مائل ہونا ممکن نظر نہ آتا تھا لیکن درویشی کی حالت میں اسے لکھنے پڑھنے اور دین کا علم حاصل کرنے کی طرف تو تبہ پیدا ہوئی اس نے علم حاصل کیا اور اتنا حاصل کیا کہ اسے مبلغ بنا کر ہندوستان کے ایک علاقے میں بھیج دیا گیا وہاں خدا نے اس کی تبلیغی کوششوں میں برکت دی اور اس نوجوان کے ذریعہ جو پہلے علم سے بالکل کو راتھا خدا نے سبات خاندانوں کو قبول حق کی توفیق عطا فرمائی جن کے افراد کی تعدا د ستر کے قریب بنتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کرتا ہے خدا تعالیٰ کی غیرت یہ کبھی گوارا نہیں کرتی کہ اسے ضائع ہونے دیا جائے خدا خود اس کا متکفل ہوتا ہے اور اس سے وہ کام لیتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے.چوہدری صاحب نے غیر مسلموں کے ساتھ درویشوں کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جب ابتدائی ایام میں ہندو اور سکھ تارکین وطن وہاں پہنچ کر آباد ہوئے تو انسانی ہمدردی کے طور
۳۶۷ پر درویشوں نے حسب توفیق ان کی امداد کی، انہیں کپڑے اور برتن وغیرہ مہیا کئے اس کا ان پر بہت گرا اثر ہوا.چنانچہ جب ابتداء درویشوں کو بائیکاٹ وغیرہ کے باعث تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تو ایک غیر مسلم ضعیف نماتون نے درویشوں کے ساتھ نہایت اچھا سلوک روا رکھا اور دوسروں کو بھی درویشوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی ترغیب دلائی.مکرم چوہدری صاحب نے درویشوں کے ساتھ اس جنیفہ کے مشفقانہ سلوک کے بعض نہایت پر اثر و اقعات بیان کئے اور اس کے نتیجہ میں خود اس ضعیفہ پر بعض خدائی نوازشات کا بھی ذکر کیا جو سامعین کے لئے بہت ازدیاد ایمان کا موجب ہوئیں.آپ نے بتایا کہ وہ ضعیفہ درویشوں کے ساتھ بیٹوں کا سلوک کرتی ہے اور جب کسی درویش کی شادی ہوتی ہے تو وہ اس کی بیوی کو اپنی ہو سمجھ کر اسے تقسیم کا آرام پہنچاتی ہے اور سام بن کر چند دن تک اس کے گھر کا کام کاج خود کرتی ہے.ابتداء میں جب درویشوں نے بہشتی مقبرہ کے گرد کچی چار دیواری تعمیر کی تو اس نے اپنی زمین سے چار دیواری کے لئے نہایت خوشی سے مٹی مہیا کی حالانکہ بعض لوگ اسے منع بھی کرتے رہے.اللہ تعالیٰ نے کئی رنگ ہیں اسے اس کا اجر عطا فرمایا.آپ نے یہ بھی بتایا کہ اس مرتبہ آپ کی درخواست پر حضور نے لاہور سے قافلے کی روانگی کے وقت زیادہ میں خصوصیت سے دعا فرمائی چنانچہ حضور کی دُعاؤں ہی کا یہ اثر تھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے لاہور سے قادیان تک اور واپسی میں بھی اہل قافلہ کوکسی مشکل سے دو چار ہوتا نہیں پڑا اور تمام سفر بفضلہ تعالی نهایت خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا لیے له روزنامه الفضل ہون تسلیح ۳۳۲ اهش / جنوری ۱۹۵۳ء ص :
فصل چهارم جلسہ سالانہ رتبه حضر الملح الموعود ی ایمان افروز و انقلاب بگیر تقاریر اور ان کا پاکستانی پریس تیز کره عین اس وقت جبکہ قادیان کی مقدس سرزمین ہمجوم تعلق کا عاشقانہ اور فدائیانہ نظارہ پیش کر رہی تھی ربوہ میں شیخ احمدیت کے پچاس ہزار پروالے جین تھے.یہ ایک منفرد اور مثالی اجتماع تھا جس میں پاکستان کے علاوہ جرمنی، امریکہ ، شام ، سوڈان، حبشہ ہیرا ہیں، انڈونیشیا اور برٹش گیا نا ر جنوبی امریکہ) کے بعض مخلص احمدیوں نے بھی شرکت فرمائی اور اپنے مقدس امام کی زبان مبارک سے زندگی بخش کلمات سن کر اپنے ایمانوں کو تازہ اور اپنی روحوں کو زندہ کیا.حضرت المصلح الموعود نے اس جلسہ سے (جو حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا افتتاحی خطاب کے وصال کے بعد پہلا جلسہ سالانہ تھا، حسب دستور تین خطابات فرمائے.حضور نے اپنے اختتامی خطاب میں جماعت کو اس نکتہ کی طرف بالخصوص تو تہ دلائی کہ جماعتی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ نئی نئی اصلاحات ہوں اور نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کیا جائے.دوسری اصولی نصیحت یہ فرمائی کہ حفاظت کے لئے ظاہری تدابیر ایک ضروری چیز ہیں لیکن خلافت ہے کو بادشاہت کا رنگ مت دو.اس دفعہ حفاظتی نقطہ نگاہ سے اسٹیج اور پنڈال میں بیٹھنے والے سامعین جلسہ کے درمیان غیر معمول فاصلہ ڈال دیا گیا تھا جس پر حضور نے اظہار خفگی کیا اور فرمایا : - تو جلسہ گاہ کے متعلق خود یکی نے اس نقش کو دیکھ کہ کہا کہ یہ مجھے پسند نہیں.یہ احتیاط سے گزر کر
۳۶۹ غیر اسلامی طریق کا جلسہ گاہ بن گیا ہے اور اسے میں پسند نہیں کرتا.اسلام نہیں بے شک احتیاط کا حکم دیتا ہے.قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خُذُوا حذركم لیکن موجودہ جلسہ گاہ کی جو شکل ہے یہ تو ایسی ہی ہے جیسے بادشاہ اعلانوں کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو دور دور بیٹھا دیا جاتا ہے اتنا لمبا فاصلہ میرے نزدیک ہرگز اس حفاظت کے لئے ضروری نہیں جس حفاظت کا خدا تعالیٰ ہم سے تقاضا کرتا ہے.پہلوؤں کے متعلق میں نے کہا تھا کہ انہیں تنگ کرو اور یہاں لوگوں کو بیٹھنے کا موقع دو.اسی طرح سامنے والے حصہ کے متعلق یکی نے کہا تھا کہ اسے بھی تنگ کرو جیسا کہ آپ لوگوں کو یاد ہو گا گذشتہ سال بھی بعض احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں لیکن اس وقت چاروں طرف لوگ بیٹھے ہوئے تھے.اچانک حملہ حسین کی آج کل زیادہ احتیاط کی جاتی ہے پستول کا حملہ ہوتا ہے اور پستول کا حملہ ایسی چیز ہے کہ ایسے ہنگامہ میں اگر کوئی شخص فائر کرنا چاہیے اور اس کے پاس بیٹھنے والے ذرا بھی مویشیاں ہوں تو وہ اس کے حملہ کو فوراً بے کا رکر سکتے ہیں پستول کا حملہ پچاس فٹ سے زیادہ فاصلے سے نہیں ہو سکتا، الّا ما شاء اللہ لیکن ایسا تو کبھی کبھی ہوتا ہے اور سفر رائیل لوگوں کی جانیں نکالنے کے لئے ہر روز آتا ہے پس جان نکالنا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں کہ اس کے لئے غیر معمولی احتیاط کی جائے.ایک مہینہ گاہ میں بیٹھنے والے اتنے دور دور بیٹھے ہیں کہ ان کا اس قدر دور بیٹھنا طبیعت پر سخت گراں گزرتا ہے اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ باوجود میرے کہنے کے اصلاح نہیں کی گئی.پس یک منتظمین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک اس جلسہ گاہ کی اصلاح نہ کی گئی میں کل تقریر نہیں کروں گا.اگلی صف آگے آنی چاہیئے اور پہلوں میں بھی لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہونا چاہیئے.اب تو ایسی شکل بنی ہوئی ہے جیسے بادشاہ اعلان کرنے کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ احتیا ط ضروری چیز ہے حضرت عمرہ ایسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے، حضرت عثمان نے اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے، حضرت علی اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے مصر میں ایک دفعہ مسلمان نماز پڑھ رہے تھے کہ ان پر اچانک حملہ کر دیا گیا ، شاید انہوں نے پیرہ مقرر نہیں کیا تھا جیسے آجکل کے مولوی ہمارے پہرہ پر اعتراض کرتے ہیں اسی طرح اُس زمانہ میں لوگ ه سے شہادت ۲۳ هـ (۶۶۴۴) : سے شہادت ۳۵ (۶۶۵۶) لى النساء : ۷۲ ؟ که شهادت ۴۰ هـ (۶۶۶۱) :
اختر احق کرتے ہوں گے چونکہ نیا نیا ملک فتح ہوا تھا اس لئے انہوں نے اس خیال سے ہے کہ لوگ اعتراض نہ کریں کہ نمازی کے وقت بھی یہ پر رکھتے ہیں اپنے لئے پرہ مقرر نہ کیا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن نے نماز کی حالت میں ہی کئی صفیں قتل کر دیں اور پھر کہیں جا کر اگلی صف والوں کو پتہ لگا کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے بیت یوں صحابیہ مارے گئے اور سینکڑوں دوسرے مسلمان شہید ہوئے پس پردہ ایک ضروری چیز ہے لیکن اس کی ایسی شکلی بنا دینا کہ پہرہ ہی رہ جائے اور کام ختم ہو جائے یہ بھی ایک لغو بات ہے.آخر ہر ایک نے مرنا ہے، پس ایسی احتیاط جو خلافت کو بادشاہت کونگ دیدئے یا تنظیم کو غیر معمولی شان و شوکت والی چیز بنا دے، تنظیم کہلا سکتی ہے اور نہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے یہ کوئی پسندیدہ امر ہے.اصل حفاظت خدا تعالے کرتا ہے بندے انہیں کرتے اور یہ چیز جو آج نظر آرہی ہے یہ احتیاط سے بالا ہوگئی ہے لوگ اتنی دور بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ تو شاہ مجھے دیکھ رہے ہیں لیکن میری نظر چونکہ کمزور ہے اس لئے مجھے شاذونادر رہی کیسی کی شکل نظر آ رہی ہے پس ان کو بھی قریب آنے کا موقعہ دینا چاہئیے.باقی نگرانوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ کو کا ہوشیار ہی سے کام لیں.بھلا ایسے احمقوں نے حفاظت کیا کرنی ہے جن کے سامنے ایک شخص رائفل لے کر آجاتا ہے ، ایسے اُٹھاتا ہے ، نشانہ باندھتا ہے اور فائر کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر نہ انہیں رائفل لاتے وقت و نظر آتا ہے، نہ رائفل اٹھاتے وقت نظر آتا ہے، نہ نشانہ باندھتے وقت نظر آتا ہے، مدار دگرد بیٹھنے والوں کو پتہ لگتا ہے کہ فلان شخص رائفل سہلانے لگا ہے، حالانکہ رائفل ایسی چیز ہے کہ ایک ہاتھ مارا جائے تو دور جاپڑے اور اس کا نشانہ آسمان کی طرف چلا جائے لیپس رائفل کا سوال نہیں سواتی پستول کا ہے مگر اس میں بھی تب کامیابی ہوتی ہے جب کوئی پچاس ساٹھ فٹ سے نشانہ لگائے اور ایک منٹ تو نشانہ لگاتے ہیں ہی صرف ہو جاتا ہے.اگر پاس کے لوگ ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ صرف ایک کہتی کی حرکت سے اس کے نشانہ کو ختم کر سکتے ہیں بلکہ گھتی تو الگ رہی سانس کی تیزی سے بھی نشانہ بگڑ جاتا ہے اگر کسی کو لگے کہ کوئی شخص پستول بھلانے لگا ہے اور وہ ذرا اپنی گئی اسے مارود سے تو اتنی معمولی سی بات سے ہی اس کا نشانہ خطا ہو جاتا ہے.پس پر کھیل میں پسند نہیں کرتا.اس کی فوراً اصلاح کی جائے جلسہ کے وقت میں تو اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی راتوں رات اس کی اصلاح ہو جانی چاہئے ورنہ کل میں تقریر کے لئے نہیں آؤں گا اور دوستوں کو خلاقیت کے لئے جو امکانات بنائے گئے ہیں ان میں ملاقات کا موقعہ دوں گا اور کھیر دوں گا کہ مجھ سے
مصافحہ کر لو اور پہلے بھاؤ ایسے ماحول میں تقریر کرنے کے لئے لیکن نہیں آسکتا ہماری جماعت ایک منی میں کی جماعت ہے اور دُور دُور سے لوگ جلسہ سالانہ کے لئے آتے ہیں ان کو مجرم کے طور پر بٹھا دیتا اور وجہ کے طور پر بند کر دینا ایسی چیز ہے جسے میری غیرت برداشت نہیں کرتی.وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور یکن ان سے محبت کرتا ہوں پھر ہم میں اتنی دوری کیوں ہو؟ دوسری طرف پیرہ کا انتظام بہت ناقص ہے پہلے بہت سے آدمی ہوا کرتے تھے مگر اس دفعہ اتنے آدمی نظر نہیں آتے جلسہ گاہ کے متعلق میں سمجھتے ہوں کہ اگر لوگوں کے لئے سٹیج سے پندرہ بیس فٹ پر سے جگہ بنادی جائے تو الیا یہ کافی ہوگا.ہے ایک گھر نوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھتے رہیں کہ کوئی شرعیہ آدمی تو اندر نہیں آگیا مگر بڑھی نامناسب امر ہے کہ کیسی ایک شریر کی وجہ سے سارے محبتوں کو دور بٹھا دیا جائے.اسی طرح میں کارکنوں کو تو ہے دلاتا ہوں کہ وہ بے تحقیق رپورٹیں نہ کیا کریں درست رپورٹیں کیا کریں.بے شک ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ سلسلہ کا روپیہ ضائع ہو مگر یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ مہمانوں کی بہتک ہو.آپ میکن ملبسہ کا افتتاح کر رکھے جاتا ہوں اس کے بعد دوسری کارروائی شروع ہوگی اسے اس تقریر کا فوری اثر ہوا او منتظمین جلسہ نے پنڈال کو اسٹیج تک وسیلے کر دیا.حضرت امیر المومنین نے اپنے مستقل طریق و دستور کے دوسرے دن کی پر معارت تقریر دن مطابق اس سال بھی مختلف اہم اور ضروری اور تفصیلی روشنی ڈالی مثلاً پاکستان کے بنیادی اُصولوں کے متعلق سفارشات حضرت ام المومنین کی و تعمیر دیوه فتنه ۱۹۵۲ء مسئلہ فلسطین، بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد اور جماعت کی اقتصادی حالت ، کو بہتر بنانے کی ضرورت وغیرہ.حضور نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ گذشتہ دو سال ۱۹۵۲ء کے فتنہ کا پس نظر سے جاری تھا مگر اس سال اس نے خاص شدت اختیار کر لی تھی کیونکہ ملک کے بعض عناصر نے اپنی اپنی سیاسی اور ذاتی اغراض کے ماتحت احراریوں سے جوڑ توڑ کرنے اور انہیں ملک میں نمایاں کرنے کی کوشش کی.احمدیت کی مخالفت اور اسی طرح سر چو ہدری محمد ظفر الله خان صاحب کی مخالفت تو محض ایک آڑ تھی ورنہ اصل مقصد در پر وہ اپنی سیاسی اغراض حاصل کرتا به روزنامه الفصل الا صلح ۳۳۷ آش م ، هلک به
تھا.اس ایجی ٹیشن کی ابتداء تو انہی عناصر نے کی جو ہمیشہ پاکستان کے اور سلم لیگ کے مخالف رہے ہیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنتا تو آہستہ آہستہ ایسے مولویوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کیا جو بظاہر سلم لیگ کے مخالف نہ تھے اور غیر جانبدار سمجھے جاتے تھے مگر اپنی اغراض کے ماتحت آگے آنا چاہتے تھے.چنانچہ مختلف گروہوں میں سے ایسے ہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کہ اس کا نام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ رکھ دیا گیا اور تحفظ ختم نبوت کے نام سے ایجی ٹیشن شروع کر دی گئی حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ بھلا محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ و ل کو اپنی ختم نبوت کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کی مدد کی کیا ضرورت ہے آپ کی ختم نبوت کا محافظ تو خود اللہ تعالیٰ ہے اور ختم نبوت کا جو موم جماعت احمدیہ بیان کرتی ہے وہی خوم صحابہ کرام اور امت کے بہت سے بزرگوں نے بیان کیا پھر یہ معصوم جماعت احمدیہ نے آج پیش نہیں کیا بلکہ ساٹھ سال سے پیش کر رہی ہے پس آج کوئی بھی ایسی نئی بات اس مسئلہ کے متعلق پیدا نہ ہوئی تھی جسے اس مہنگامہ اور ایکی نیشن کی وجہ قرار دیا جا سکے.بہر حال یہ ایجی ٹیشن اشتعال انگیزی اور جھوٹے پراپیگنڈا کے ساتھ بڑھتی چلی گئی حتی کہ حکومت کے بعض ذمہ دار افراد بھی ایک حد تک اس سے متاثر ہو گئے کیونکہ وہ اصل حالات سے ناواقف تھے.جہاں اس فتنے نے ہماری جماعت کے لئے نئی نئی مشکلات پیدا کیں اور انفرادی طور اثرات پر بعضی احمدیوں کو نقصان بھی اُٹھانا پڑا وہاں اس کے بعض فوائد بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئے.چنانچہ ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ملک کے جن ذمہ دار افراد کو جھوٹے الزامات کے ذریعہ جماعت احمدیہ سے بدظن کیا جا رہا تھا ہمیں بھی انہیں سمجھانے اور اصل حقیقت واضح کرنے کا موقع ملا چنانچہ نے بعد کہا تو چنا نچہ ان میں سے بعض نے بعد میں برملا کہا کہ ہم تویہ مجھے تھے احمدی اسلام کا اور قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں لیکن اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ یہ غلط ہے احمد بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا دیگر مسلمانوں کے ساتھ جو اعتقادی اختلاف ہے اسے صرف تفسیر اور تاویل کا اختلاف کہا جا سکتا ہے.دوسرا اثر اس فتنے کا یہ ہوا کہ کراچی میں جماعت احمدیہ کے جلسہ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان منا نئے اسلام زندہ مذہب ہے پر تقریر کی بیولوی بھلا یہ کب برداشت کر سکتے تھے کہ اسلام کو زندہ مذہب ثابت کیا جائے.انہوں نے اسلام کو زندہ ثابت کرنے کو اپنے لئے ایک بہت بڑی اشتعال انگیزی
قرار دیا اور ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی.کراچی میں چونکہ بیرونی ممالک کے سفیر بھی موجود ہوتے ہیں اس لئے جب انہوں نے یہ حالات دیکھے تو ان پر یہ اثر ہوا اور اسی اثر کے ماتحت انہوں نے اپنے اپنے ملک میں رپورٹیں بیچیں کہ احمدی جماعت ایک فعال جماعت ہے اور مولویوں کا طبقہ محض اعتقادی انتقالات پر عوام کو مشتعل کر رہا ہے وہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو رہا ہے اور مذہبی تعصب کو ہوا دیکر اسے ایک تنگ نظر ملک بنانا چاہتا ہے.ان میں سے بعض نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک ترقی کرنے والا ملک ہے مگر اس مہنگا مے کو دیکھ کر پاکستان کی ترقی کے متعلق ہمارے دل میں شبہات پیدا ہو گئے ہیں.گویا انہوں نے سمجھا کہ شاید یہی مولوی ملک کی آواز ہیں حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے.یہ لوگ پاکستان کا ایک چھوٹا سا جز و تو سمجھے جا سکتے ہیں مگر انہیں پاکستان کا دل قرار نہیں دیا جا سکتا پاکستان کا دل اور ہے.بے شک لوگ وقتی اشتعال کے ماتحت ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں مگر ملک کی حقیقی آواز ہر گز وہ نہیں ہے جو یہ لوگ بلند کرتے ہیں پس اس فتنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ غیر مالک میں ہمیں متعارف ہونے اور انہیں اسلام کی تبلیغ کرنے کا موقع مل گیا، الحمد الله ایک اثر اس فتنہ کا یہ ہوا کہ بنگالی نمائندوں نے اصل حقیقت کو بھانپ لیا اور انہیں علم ہو گیا کہ اہل عرض افراد مذہب کی آڑ میں سیاسی چالیں چل رہے ہیں چنا نچہ بنگال کے اخبارات میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب نے ہی لکھا کہ ہم اس گند کو جو مغربی پاکستان میں پھیلایا جا رہا ہے ہرگز بنگال میں نہیں آنے دیں گے.کراچی کے فساد کا ایک اور اثر یہ ہوا کہ ملک کے شریف اور سنجیدہ لیڈروں نے ان لوگوں کو سمجھانا شروع کیا جو کسی نہ کسی رنگ میں اس فتنہ سے متاثر ہو رہے تھے اور انہیں اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا.پھر جب جماعت اسلامی نے جو حکومت کی کھلی مخالف ہے ہماری نیت میں آگے آنا شروع کیا تو سیاسی لیڈروں کی بھی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے محسوس کیا کہ جماعت احمدیہ کے مخالف در اصل اس آڑ میں حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں چنانچہ جلد ہی اس کا ثروت بن گیا اور وہی لوگ جو شروع میں ہماری مخالفت کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہمیں سیاست سے یا حکومت کی مخالفت سے کوئی واسطہ ہی نہیں انہوں نے پر ملا حکومت کو دھمکیاں دینی شروع
۳۷۴ کر دیں.اس موقعہ پر چور نے اخبار آزاد اور زمیندار میں سے متعدد ایسے حوالے پڑھ کر سنائے جن میں حکومت کے ذمہ دار راہنماؤں کے نام لے لے کر کھلے طور پر یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر کو میں نے ہمارے مطالبے نہ مانے تو ہم حکومت سے ٹکرائیں گے ، بدامنی پیدا کریں گے اور جنرل نجیب کی طرح محکومیت کا تختہ الٹا دیں گے.اس طرح ان حوالوں میں عوام کو تلقین کی گئی تھی کہ وہ کسی لیڈر کا انتظار نہ کریں بلکہ خود آگے آکر ملک میں بد امنی پیدا کر ہیں.حکومت کے رویہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- حکومت پاکستان کا مخلصانہ رویہ ہمارے خلاف این فسادات کے ایام میں حکومت نے اکثر مقامات پر دیانتداری سے کام کرنے اور حالات کو بندھا رنے کی کوشش کی.اس نے جو حالات کا کئے وہ بھی درست تھے مگر عملاً لبعض مقامات پر حکومت حالات پر قابو رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی.صو با ئی مسلم لیگ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- صوبائی مسلم لیگ مجھے خوشی ہے کہ سلم لیگ کا رویہ بہت اچھا رہا.اس نے اپنے ہر اجلاس مسلم میان d میں دلیری سے اصل حالات کا جائزہ لیا.پاکستان کے دوسرے صوبوں نے تو پنجاب سے بھی بہتر نمونہ دکھایا بالخصوص سرحد کے وزیراشکی نے تو بڑی دلیری سے اس فتنے کو بڑھنے سے روکا اور اسے دبایا.اسی طرح سندھ میں بھی شرارتیں محدود رہی ہیں اور اب تو پنجاب میں بھی حالات بہتر ہورہے ہیں گو پوری طرح فتنہ دبا نہیں ہے.حضور نے فرمایا: بعض افسروں کی غلطیاں جہاں مجھے خوشی ہے کہ اکثر مقامات پر حکومت نے دیانتداری سے کام کی نے کی کوشش کی ہے وہاں مجھے افسوس ہے کہ حکومت کے بعض افسروں نے ہمارے متعلق غلطیاں بھی کی ہیں مثلاً حکومت نے ایک اعلان میں یہ الزام لگایا ہے گو نام نہیں لیا مگر اشارہ ہماری طرف ہی تھا کہ احمدی افسر اپنے عہدہ سے ناجائز فائدہ اٹھا کہ احمد نیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہبوں کو ملازمت میں بھرتی کرتے ہیں.اسی طرح ایک ذمہ دار افسر نے کہا کہ احمدی له خان عبد القیوم خان (موجودہ وزیر داخلہ پاکستان ) + بلے ہمارا گست ۱۹۵۲۰ء کا سرکاری اعلامیہ جیس کا ذکر فصل دوم میں ہے ؟
۳۷۵ افسر اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھا کر احمدیوں کو ناجائز الاٹمنٹ کرتے ہیں.جو شخص اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے نا جائز طور پر ایسے کام کرتا ہے اور اس طرح حقداروں کی حق تلفی کرتا ہے میرے نند یک وہ نہ صرف حکومت کا مجرم ہے بلکہ قرآن کا بھی مجرم ہے کیونکہ وہ قرآن کے احکام کی خلاف رہی کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک فعل کا جرم ہونا کسی کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ بغیر تحقیقات کے کسی پہرہ اس شرم کے ارتکاب کا الزام لگا دے؟ کیا حکومت کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ یہ الزام لگانے سے پیشتر اس شکایت کی تحقیقات کرتی اور یوں بغیر تحقیقات کے ایک قوم پر الزام لگا کر اسکی ہتک کا مرتکب نہ ہوتی ؟ کیا حکومت کے لئے یہ کوئی مشکل امر تھا کہ وہ ان الزامات کی باقاعدہ تحقیقات کراتی اور ان کے ثبوت بہم پہنچاتی ؟ پھر اگر یہ الزام کسی احمدی افسر کے متعلق درست ثابت ہوتا تو بے شک اسے مزا دیتی کیونکہ وہ واقعی مجرم ہے، نہ صرف حکومت کا بینکہ اسلام کا بھی لیکن اگر یہ الزام ! درست ثابت نہ ہو تو یقیناً یہ صریح بے انصافی ہے کہ ہم پر غیر تحقیقات کے صرف اس لئے الزام لگا دیا جائے کہ ہم غریب ہیں اور کمزور ہیں.اسلامی حکومت کا فرض اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ لک کے ہرفرد کی عوت کی حفاظت کرے.اسلامی حکومت کا تو یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کے ایک اوئی سے اونی انسان کی عزت کی بھی حفاظت کرے اور اس پر کوئی جھوٹا الزام نہ آنے دے.کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ گذشتہ پانچ سال کے عرصہ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے دفتر میں کسی چوہڑے نے بھی بیعت کی ہے اور احمدیت قبول کی ہے ؟ اگر یہ نہیں ثابت کیا جا سکتا تو یقینا ایسا الترام لگا نا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب پر ظلم نہیں ہے بلکہ اس قوم پر ظلم ہے جس کے وہ ایک فرد ہیں.پر پھر الزام لگانے سے پہلے یہ بھی تو دیکھ لیا جاتا کہ کون کون سے احمدی افسر ایسے ہیں جو بھرتی کرنے کے قابل ہیں؟ کوئی فینا نشل کمشنر احمدی نہیں ہے، کوئی ڈپٹی کمشٹر احمدی نہیں ہے، مہاجرین کو زمیں تقسیم کرنے والا کوئی اصلی افسر احمدی نہیں ہے، پھر یہ نا جائز الاٹمنٹ کرنے والا اور احمدیوں کو بھرتی کرنے والا ایسا احمدی افسر کون ہے ؟؟ پھر یہ بھی تو سوچنے والی بات ہے کہ اگر احمدی افسر نا جائز الائنشیں کرتے تو سب سے پہلے وہ مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے لیکن مجھے تو انہوں نے کچھ نہ لے کر دیا بلکہ میری جو زمین قادیان میں تھی
۳۷۶ اس کے کاغذات ابھی ا مواد بھر ہی پھر رہے ہیں گو احراری تو کہہ رہے ہیں کہ مجھے دس ہزار مرتجھے ملے ہیں مگر مجھے دس ہزار مرتھے چھوڑون مرتبان بھی نہیں ملے.یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ حکومت نے بغیر تحقیقات کے یہ الزام ہماری جماعت پر لگا دیا ہے اور انصاف کا طریق یہی ہے کہ حکومت اس کی پوری پوری تحقیقات کرنے ، اگر کسی احمدی افسر کے متعلق یہ الزام درست ثابت ہو تو پھر اس کی تردید کرے اور اعلان کرے کہ یہ الزام غلط ہے.حضور نے فرمایا کو الزام تو ہم پر لگایا جاتا ہے کہ محمدی حقیقت پر پردہ ڈالنے کیلئے احمدیوں پر الزام احمدی افسراپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے احمدیوں کی مدد کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے حقیقت یہ ہے کہ اس بارہ ہیں احمدیوں سے تعصب برتا جاتا ہے اور ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور اس طرح ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور اس حق تلفی پر پردہ ڈالنے کے لئے الٹا احمدیوں پر الزام لگا یا جا رہا ہے ہم حکومت کے سامنے کئی ایک ایسی مثالیں پیش کر سکتے ہیں جبکہ مختلف محکموں میں احمدیوں کو ملازمت یا ترقی سے صرف اس لئے محروم کیا گیا کہ وہ احمدی ہیں حالانکہ ان کی تعلیم، تجربہ ، قابلیت اور گذشتہ ریکارڈ ان کے حق میں تھے لیکن ہم نے ان حق تلفیوں پر کبھی شور نہیں مچایا کیونکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس قسم کی حق تلفی اور تعصب کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیم، قابلیت محنت، دیانتداری اور اچھے اخلاق کے معیار کو اور بلند کر کے ان کا مقابلہ کر یں نہ کہ شور مچائیں.اگر ہمارے نوجوان ہماری تعلیم پر عمل کریں گے تو اس قسم کی حق تلفی زیادہ عرصہ نہیں ہو سکتی اور نوکریاں اور ملازمتیں آپ اُنکے پاس آئیں گی.اے حضور نے فرمایا مجھے بڑی خوشی ہے کہ اس پاکستانی پولیس کی فرض شناسی اور دیانتداری نفتے کے دوران ہمارے ملک کے وقت دار ذمہ پولیس نے جو ملک کی رائے عامہ کی جان ہوتا ہے بڑی دلیری سے اپنے فرض کو ادا کیا ہے سب سے پہلے ہ ڈان نے بڑی جرات سے اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی پھر بنگال کے پریس نے اس کی تائید کی.پنجاب میں سول اینڈ ملٹری گزٹ اور بعض دیگر اخبارات نے بھی اپنا فرض ادا کیا.اُردو پریس شه روزنامه الفصل یکم صلح ۱۳۳۲ مش ص ۱۳۴۲ به
کے ایک حصہ کا رویہ شروع میں ڈانواں ڈول تھا مگر بعد میں اس نے بھی دیانتداری کا ثبوت دیا گو افسروں ہے کہ مسلم لیگی پر نہیں کے ایک حصہ نے اس موقعہ پر بہت برا نمونہ دکھایا.بہر حال جس قوم کے متعلق پیر شہور ہو کہ وہ بہت جلد پر اسپگینڈا سے متاثر ہو جاتی ہے اس قوم کے پولیس کا پراپیگنڈا کے مواد کو چھوڑ دینا ایک بہت امید افزا بات ہے.ما دوسری خوشی مجھے یہ ہوئی کہ اس موقعہ پر ہندوستان کے مسلم پریس نے بھارت کا کم پولیس بھی اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی حتی کہ وہ اخبارات جو پہلے ہمارے دشمن تھے انہوں نے بھی بڑے زور سے ہماری تائید کی.ان میں سے ایک نے تو لکھا کہ اس فتنہ کو دیکھ کر ہمارے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں اور ہم ہندوستان کے غیر مسلموں کے سامنے آنکھ اُٹھانے کے قابل نہیں رہے.یہ ایک بہت نیک تبدیلی ہے.ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے پھر ترقی کے مواقع پیدا کرے ، انہیں ہر قسم کے ظلم سے بچائے، ان کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا سامان پیدا کرے اور ہندوستان میں اسلام کو پھر وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ عزت حاصل ہو جو اسے پہلے وہاں حاصل تھی.فرمایا.اب اس فتنہ نے ایک اور پلٹا کھایا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے منظم بائیکاٹ کی تحریک خلاف منظم بائیکاٹ کی تحریک شروع کی گئی ہے لیکن اس قسم کی چیزیں عارضی ہوتی ہیں جو انشاء اللہ بہت جلد خود ہی ختم ہو جائیں گی.اب آخری تدبیر کے طور پر ہمارے مخالفین نے سراسر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی مہم بے بنیاد الزامات لگانے کی مہم شروع کی ہے.مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے جھوٹ بولنے میں جتنا کمال حاصل کر لیا ہے ہماری جماعت نے ابھی سچ بولنے میں اتنا کمال حاصل نہیں کیا.اگر سچ بولنے میں ہماری جماعت کمال حاصل کرلے تو یہ جھوٹا پراپیگنڈا ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا.حضور نے فرمایا (1) مثلاً پہلا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ ہم نے فرقان فورس کے ذریعے پاکستان کو سخت نقصان پہنچا یا مکمل فوجی وردیاں اور بہت سے ہتھیار اور گولہ بارو دوغیرہ حاصل کر کے ربوہ میں لے آئے.یہ الزام لگاتے ہوئے فوجی وردیوں اور گولہ بارود کی جو تفصیل پیش کی گئی ہے اول
۳۷۸ خود ہی میں الزام کی ترویز کے لئے کافی ہے کیونکہ بیان کردہ مقدار کبھی ایک بٹالین کو مل ہی نہیں سکتی ہے ہمارے پاس فوجی حکام کی باقاعدہ رسید موجود ہے کہ فرقان فورس نے جو ہتھیار اور وردیاں وغیرہ حاصل کیں وہ سب کی سب واپس دے دی گئیں اور کوئی چیز بھی ان کے پاس باقی نہیں رہی.ایسے الزام لگانے والوں کو علم ہی نہیں کہ فوج کا ایک خاص نظام ہوتا ہے اس میں ہر چیز کا ریکارڈ اور حساب ہوتا ہے.وہ کوئی احراریوں کا لیا ہوا چندہ نہیں ہوتا کہ جس کے پاس آیا اسی کی جبیب میں چلا گیا.(س) حکومت کا جو ملازم کسی الزام میں ملوث ہو اُسے احمدی مشہور کہ دیا جاتا ہے حالانکہ اس کا احمد ایں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.(۳) کہا جاتا ہے کہ احمدی غیر احمدی لڑکوں کو بھگا کہ ربوہ لے آتے ہیں یہ الزام بھی صریح جھوٹ ہے چنا نچہ عالی ہی میں جیب ایک اسی قسم کا الزام لگایا گیا تو پولیس نے اس کی تحقیقات کی اور اسے بالکل بے بنیا د پایا.(۴) احمدیت سے برگشتہ ہونے کی خبریں مشہور کر دی جاتی ہیں حالانکہ ان میں سے اکثر غلط ہوتی ہیں چنانچہ میں لوگوں کے متعلق ایسی خبریں شائع کی گئیں ان میں سے اکثر کو تو لیکن امین وقت بھی اپنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں.بھلا ظلم و تشدد اور جبر کے ساتھ بھی سچائی کسی کے دل سے نکلا کرتی ہے حقیقت یہ ہے کہ اس فتنے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ثابت قدم رہی ہے.چندایکی کزور لوگوں نے اگر تشدد او ظلم سے ڈر کر کمزوری دکھائی بھی تو بہت جلد اپنی حرکت پر وہ نادم ہوئے اور واپس آگئے.اور اس قسم کے کمزور لوگ تو ہر جماعت میں ہوتے ہی ہیں.(۵) کہا جاتا ہے کہ ہم نے چونکہ پرانی کتابوں میں سے ایسے حوالوں کی طرف مسلمانوں کو تو یہ دلائی ہے جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء کی ہتک کی گئی ہے لہذا ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کی ہے.حالانکہ اگر ہم نے صرف ان حوالوں کا ذکر کیا اور وہ قابل ضبط ہے تو ں کتا بیں کیوں نہیں قابل ضبط سمجھی جاتیں جن میں یہ بہتک کی گئی ہے ؟ کیا صرف اس لئے کہ وہ باتیں لکھنے والے وہ لوگ ہیں جومسلمانوں میں چوٹی کے عالم اور بزرگ سمجھے جاتے ہیں ؟ کیا حقیقت نہیں کہ آج بھی یہ کتا بیں مسلمانوں کے دینی مدارس اور خود پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل نہیں جگر
٣٤٩ کوئی انہیں ضبط کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا ہم تو کہتے ہیں کہ بے شک الفضل کا وہ پر پر ضبط کر لو حس میں ان کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے بہتر طیکہ ان کتابوں کو بھی ضبط کرو تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت قائم ہو.حضور نے اس قلقہ کے ازالہ کے لئے خاص طور پر اللہ تعالی کے حضور دعاؤں کی خاص تحریک دعائی کرنے کی تحری فرمائی حضور نے اس سلسل میں ارشاد فرمایا کہ احباب ۱۹۵۳ء کے شروع میں سات روزے رکھیں اور خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالی ملک میں فتنہ پھیلانے والوں اور ہم پر ظلم کرنے والوں کو سمجھ دے یا سزا دے اور ہمیں ان کے مظالم پر صبر کرنیکی توفیق دے اور اپنے مقاصد میں کامیاب کرے.یہ سات روزے جنوری سے شروع کئے جائیں اور ہر سوموار کو رکھے جائیں جنوری میں یہ روزے ۱۲،۵ ، ۱۹ اور ۲۲ تاریخ کو آئیں گے اور فروری میں ۲، ۹ اور ۱۶ تاریخ کو.حضور نے عالم اسلام کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایایہ عالم اسلام کے مسائل مختلف ممال میں مسلمانوں کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں مثلاً ایران، مصر، انڈونیشیا، عراق اور اُردن کے سیاسی حالات میں نئی نئی تبدیلیاں اور الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں ٹیونس اور مرا کو کے مسلمان آزادی کی عہد و جہد کر رہے ہیں لیکن کبھتا ہوں کہ اسلامی ممالک کے مسلمانوں کی مدہم دعا اور احتجاج سے تو کرتے ہی رہتے ہیں مگر ایک مسئلہ ایسا ہے جسکے متعلق ہماری حکومت کو بھی ضرور کوئی عملی کاروائی کرنی چاہیئے اور وہ ہے فلسطین میں یہودیوں کے اقتدار کا مسئلہ بود مسلمانوں کے شدید دشمن ہیں اور انہوں نے ایک ایسے ملک میں اپنی مادر فلسطین امارت قائم کیا ہے جو مار سے مقدس ترین اور حکومت قائم کر لی ہے جو ہمارے مقدس ترین مقامات یعنی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے بہت قریب ہے.ان کے ارادے یقیناً بہت خطرناک ہیں اس لیئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کو ضرور مجموعی طور پر کوئی عملی قدم اٹھانا چاہئیے کی بجھتا ہوں اگر تمام اسلامی ملک اس خطرے کے ازالہ کے لئے اپنے اپنے بجٹ کا پانچ فیصدی بھی مخصوص کر دیں تو ایک اتنی بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے جس سے ہم بیودیوں کی بڑھتی ہوئی مشرارتوں کا عملا مستقر باب کر سکتے ہیں.اس مسئلہ
۳۸۰ کی اہمیت کے متعلق یکں نے پہلے بھی تو تقیہ دلائی تھی اور اب پھر دلاتا ہوں مگر افسوس کہ اب تک مسلمانوں نے اس خطرے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا.مار کشمیر اسی طرح کشمیر کے علاقہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہی نہیں سمجھ سکتا کہ موجودہ طریق سے یہ مسئلہ کس طرح محال ہوگا کشمیر کے متعلق پاکستان اور ہندوستان کی پوزیشن بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص کا روپیہ گر جائے اور دوسرا اُسے اُٹھا کر اپنے قبضہ میں کرلے جس کا روپیہ گرا ہے اگر وہ محضن صبر سے کام لیتا چلا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے کبھی روپیہ ملنے کی اتید نہ کرنی چاہیئے.ہر حال دعا کرو کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کا بھی کوئی صحیح راستہ حکومت کو نظر آئے اور پھر اس راستہ پر اسے عمل کرنے کی بھی توفیق ملے کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ہر گز محفوظ نہیں ہے یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کوئی صحیح طریق اختیار کرے مگر وہ جو بھی راس نہ تجویز کرے تمہیں اس پھیل کرنے کے لئے ابھی سے تیار رہنا چاہیے لیے کےموضوع پایان ارانی حضرت امیر المؤمنين الصلح الموعود نے اپنی تعلق باللہ کے موضوع پر ایمان افروز تری اور تقریر ی ولاتان باشد کے موضوع پر میں می تصوف اسلامی کے بہت سے باریک اور ضروری مسائل پر آسان اور دلنشین پیرایہ میں روشنی ڈالی اور مندرجہ ذیل دینی ایسے ذرائع کی نشان دہی فرمائی جن سے انسان محبوبان الہی کے پاک گروہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کر سکتا ہے : (۱) صفات الہیہ کا ورد (۲) صفات اللبیہ پر تقریر (۳) خدمت خلق (۴) گناہ پر ندامت (۵) ضرورت دُعا کا احساس (۶) تدبیر کامل اور تو کل کامل (۷) انصاف پروری (۸) تقوے (9) صفات الہیہ کی عکاسی (۱۰) محبت الہی کے لئے دعا.اس پر معارف تقریر کے اختتام پر حضور نے فرمایا :- سارے کاموں کا آخری انحصار دعا پر ہے پس انسان کو بچاہیئے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں مجھکے اور اس.س سے کہے کہ الہی تیرا وجود مخفی ہے، میری مقتل سخت ناقص اور نا تمام ہے مگر میرے دل کے مخفی گوشوں میں تیرے وصال کی ایک نہ مٹنے والی خواہش پائی جاتی ہے.میرا دل تجھ سے ملنے کے لئے لے روزنامہ الفضل لاہور موریضہ ۱۲ صلح ۳۳۲ اہش منو
٣٨١ بیتاب ہے.لیکن چاہتا ہوں کہ تیری محبت کو حاصل کروں مگر اسے میرے رب !! میری کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک تیرے فضل میرے شامل حال نہ ہوں پس تو اپنی محبت سے مجھے حصہ عطا فرما اور مجھے اُن لوگوں میں شامل فرما جو تیر سے حسین کے پاک گروہ میں شامل ہیں ؛ لیے ۱۳۳۱۱ اہش / ۱۹۵۲ء کے اس کامیاب جلسہ پر جن اخباروں نے تبصرہ شائع کیا پریس میں ذکر ان میں ہمار اکشمیر مظفر آباد تنظیم" (پشاور) اور اقدام" (لاہور) خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ہماراکشمیر ا.اخبارہ ہمارا کشمیر نے ار فروری ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں صفحہ اول پر اخبار ہمارا کشمیر نہایت جلی عنوان کے ساتھ حسب ذیل خبردی - :- حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے مسلمانان عالم کو متوجہ کیا کرفلسطین میں سہود کا اقتدار ہمارے مقدس ترین مقامات کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے.کشمیر کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے بغیر پاکستان بالکل و محصور ہے رہوہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر پچاس ہزار کے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے جناب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے مسلمانان عالم کو متوقہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسلامی ممالک کو فلسطین کے متعلق کوئی ٹھوس اور علی قدم اٹھانا چاہیئے.آپ نے علیکم اسلام کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا مختلف ممالک میں مسلمانوں کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں مثلاً ایران مصر، انڈونیشیاء عراق اور اردن کے سیاسی حالات میں نئی نئی تبدیلیاں اور الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں.ٹیونس اور مراکز کے مسلمان آزادی کی جد و جہد کر رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی ممالک کے مسلمانوں کی مدد ہم دعا اور احتجاج سے تو کرتے ہی رہتے ہیں مگر ایک مسئلہ ایسا ہے جس کے متعلق ہماری حکومت کو بھی ضرور کوئی عملی کا رروائی کرنی چاہئیے اور وہ ہے فلسطین میں یہودیوں کے اقتدار کا مسئلہ پیو مسلمانوں کے شدید دشمن ہیں اور انہوں نے ایک ایسے ملک میں حکومت قائم کر لی ہے جو ہمارے مقدس ترین ل تعلق بالله" ص ۱۳۲۳ :
۳۸۲ مقامات یعنی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے بہت قریب ہے.ان کے ارادے یقینا بہت خطرناک ہیں اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کو مزہ مجموعی طور پر کوئی عملی قدم اٹھانا چاہیئے یں سمجھتا ہوں اگر تمام اسلامی ملک اس خطرے کے ازالہ کے لئے اپنے اپنے بجٹ کا پانچ فیصدی بھی مخصوص کر دیں تو ایک اتنی بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے جس سے ہم بیوردیوں کی بڑھتی ہوئی شرارتوں کا عملا سد باب کر سکتے ہیں.اس مسئلہ کی اہمیت کے متعلق میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر دلاتا ہوں مگر افسوس کہ اب تک مسلمانوں نے اس خطرے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا.اس طرح کشمیر کے علاقہ کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا یکن نہیں سمجھ سکتا کہ موجودہ طریق سے یہ سٹل کس طرح حل ہوگا ؟ کشمیر کے متعلق پاکستان اور ہندوستان کی پوزیشن بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص کا روپیہ گر جائے اور دوسرا اُسے اٹھا کر اپنے قبضہ میں کرلے جس کا روسپی گرا ہے اگر وہ محض صبر سے کام لیتا چلا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے کبھی بھی روپیہ ملنے کی اُمید نہیں کرنی چاہئیے.ہر حال دعا کرو کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کا بھی کوئی صحیح راستہ حکومت کو نظر آئے اور پھر اس راستے پر اسے عمل کرنے کی توفیق بھی لے کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ہرگز محفوظ نہیں ہے.یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کوئی صحیح راستہ اختیار کرے مگر وہ جو بھی راستہ تجویز کرے تمہیں اُس پر عمل کرنے کے لئے ابھی سے تیار رہنا چاہیئے.اس سلسلہ میں آپ نے اپنی جماعت کے افراد کو تلقین کی کہ وہ موجودہ مشکلات کے ازالہ کے لئے سات روزے رکھیں اور خصوصیت سے رات کو اُٹھ کر دعا کریں.(نامہ نگار) ہے ۲ اخبار تنظیم، پشاور (موریضہ جنوری ۲۸ زیر عنوان درج ذیل :- اخبار تیم پشاور منی اسے احمدیوں کا سالانہ پاکستان کی جماعت احمدیہ کا ۲۶، ۱۲۷ ور ۲۸ دسمبر ۱۹۵۲ء کو بمقام ربوہ ضلع جھنگ سالانہ جلسہ کے لئے اجتماع رہا.مردوں کی حاضری پچاس ہزار سے زائد اور شامل جلسہ ہونے والی مستورات کا اندازہ پندرہ ہزار کے قریب ہے.جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود کے صرف اس اعلان پر کہ دسمبر کے آخری ایام میں سالانہ جلسہ ہے ستر استی ہزار نفوس کا ایک مرکز پر اکٹھا ہو جانا ایک بہت بڑا معجزہ اور پاک و ہند کی تاریخ میں بہت بڑا اجتماع ہے خصوصاً اس لئے بھی کہ ایک عرصہ سے ے "ہمارا کشمیر و مظفر آباد) از فروری ۱۹۵۳ء ص :
۳۸۳ احمدیت کے خلاف ملک کے طول و عرض میں غم و غصہ اور ہیجان پھیلایا جا رہا ہے کہ یہ کافروں کی جماعت ہے اور خارج از اسلام ٹولہ ہے.یہ تمام لوگ جو اس اجتماع میں شامل ہوئے سوائے دو تین ہزارتی شائیوں کے جن کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا وہ احمدیت کے متعلق کیا تا شمات لے کر آئے باقی سارے لوگ یہ جانتے تھے کہ مرزا بشیر الدین محمود نے وہاں دولت کے خزانے تقسیم نہیں کرنے بلکہ اٹھا سلسلہ کے بعض شعبوں کے لئے امداد کی اپیل ہی کریں گے.اور انہیں پیڑ ھی علم تھا کہ ملک کی اکثریت پر انہیں بے دین ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے امام نے بیعت کے وقت کہا تھا کہ خدمت دین اور اشاعت اسلام کے لئے ایک فعال جماعت کا قیام مقصود ہے اور تمہیں دین کی خدمت کے لئے ہر قسم کی جانی و مالی قربانی پیش کرنی پڑے گی.جب انہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ دین کی خدمت کے لئے اپنے امام کی ہر آواز پر لبیک کہیں گے ، سفر کی صعوبتیں اور سینکڑوں روپیہ خرچ کر کے اپنے امام کا پیغام سننے کے لئے ربوہ پہنچے جہاں انہیں اپنے امام نے یہی درس دیا کہ تابعداری کر و خدا کی اس کے رسول محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی اور تمام دنیاوی امور اور زندگی کے ہر شعبہ کے لئے قرآن کریم کو مشعل راہ بناؤ.قرآن پاک کو پڑھو اور اس پر عمل کر وہ تقوی اختیار کرو اور تعلق باللہ قائم کرو.جوں جوں تم اللہ تعالیٰ کے تقریب ہوتے جاؤ گے تم میں تقولی پڑھنا جائے گا اور تم صحیح معنوں میں اللہ والے یعنی مومن بن جاؤ گے تمہاری دُنیاوی مشکلات اور رکاوٹیں تمہارے راستہ سے دُور ہو جائیں گی.انہیں انکے امام نے کہا تمہیں یورپی ممالک کو اسلام کی آغوش میں لانا ہے میغین ان حلقوں میں کام کر رہے ہیں اور یورپ اسلام کی اہمیت سے آگاہ ہو چکا ہے.کام کی رفتار کو تیز کرنے اور ضروری لٹریچر کی فراہمی کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ دین کے لئے ہے.اور آپ کے لئے یہ کیا کم سعادت ہوگی کہ یورپ آپ کے ذریعہ سلمان ہو جائے اور آپ دنیا میں خدمت دین اور اشاعت اسلام کرنے والی جماعت کہلاؤ.اور کہا جب تم خدا کے ہو اور خدا تمہارا ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دُنیا کے ساتھ اپنے دین کو بھی سنوارو.یہ تھامر زالبشیر الدین محمود کا اپنی جماعت سے خطاب.یہ تھا قادیان اور ربوہ سے متعلق لوگوں کا کفر و شرک جو اجتماع میں دیکھنے اور سنتے ہیں آیا.(نامہ نگار خصوصی) لے لے بحوالہ الفضل (لاہور) مورخہ ۱۷ صلح ۳۳۲ اہش مث :
۳۸۴ » ) س ہفت روزہ اقدام لاہور کے درجنوری ۱۹۵۳ء کے پر سیر میں احمدیوں کا ات رام لاہور اجتماع کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ چھپا :- و چنیوٹ سے چھ میل کے فاصلے پر چناب کے کنارے کالے کالے جیب پہاڑوں کے درمیان حیات ستھرے مکانوں کی ایک نئی بستی آباد ہو رہی ہے بریستی جماعت احمدیہ پاکستان کا مرکز ہے اور ڈیوٹ کے نام سے مشہور ہے.ہر چند کہ بستی تعمیر کے ابتدائی مراحل میں سے گزر رہی ہے پھر بھی اس درجہ اہمیت حاصل کر چکی ہے کہ اس کا اپنا ریلوے اسٹیشن، لاریوں کا اڈہ ، پوسٹ آفس، پبلک کال آفس اور تار گھر بھی معرض وجود میں آچکا ہے.ہر سال دسمبر کے آخرمیں یہاں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوتا ہے.پاکستان کے کونے کونے سے احمدی یہاں کچے پھلے آتے ہیں اور وہ چہل پہل ہوتی ہے کہ اس خاموش بستی کے ذرے ذرے میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور کثرت اثر دہام سے گردو غبار کے بادل اُٹھ اُٹھ کر دور دراز سے گزرنے والے راہگیروں کو اپنی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہتے.اس مرتبہ جہاں ہزاروں احمدی عقیدہ ربوہ میں آجمع ہوئے تھے وہاں مجھے جیسا سیدھا سادا مسلمان بھی بیا براجمان ہوا.میرا خیال تھا کہ انتہائی شدید مخالفت کے باعث اب اس جماعت کے حوصلے کست ہو چکے ہوں گے اور اس مرتبہ جلسہ پر وہ رواق نہیں ہوگی جوہمیشہ سنتے ہیں آتی ہے لیکن مجمع دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی.جب لیکن وہاں پہنچا تو جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد جلسہ کا افتتاح کرنے کے لئے جلسہ گاہ میں پہنچ چکے تھے اور اپنی تقریر کے ابتدائی فقر سے زبان سے اورا فرما رہے تھے جلسہ گاہ ہر قسم کے شان و شکوہ سے بالکل عاری تھی.ایک معمولی سی حد بندی کے وسیع احاطے میں خوش پوش لوگ ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے ہوئے تھے بیٹھنے کے لئے دریوں تک کا انتظام نہ تھا.مٹی پر مٹی ہی کے رنگ کی پرالی پھیلی ہوئی تھی جس پر مرزا صاحب کے ہزاروں مرید نے بے تکلف میٹھے ہمہ تن گوش بنے جلسہ سن رہے تھے.البتہ اسٹیج پر جو جلسہ گاہ کی مناسبت سے اچھا خاصہ وسیلے تھا دریاں بچھی ہوئی تھیں بیٹیج اور پبلک کے درمیان آجکل کے فیشن کے مطابق کافی فاصلہ تھا جو غالباً حفاظت کے پیش نظر چھوڑا گیا تھا.
۳۸۵ مرزا صاحب نے آتے ہی کہا :.یہ فاضلہ غیرضروری طور پر زیادہ ہے.اس میں شک نہیں کہ ایک حد تک حفاظت بھی ضروری ہے لیکن اصل محافظ خدا تعالیٰ ہے.حفاظت کے ظاہری سامانوں پر اس و ربیعہ بھروسہ کر نا خدائی حفاظت کے احساس پر گراں گزرتا ہے.اس لئے اس فاصلہ کو ختم کیا جائے.اور اگر دوسرے روز جلسہ شروع ہونے سے قبل اس فاصلہ کو پاٹا نہ گیا تو یکی تقریر نہیں کروں گا.پس پھر کیا تھا مریدان باصفا اس جرات مندانہ اعلان پر جھوم ہی تو اُٹھے اور چاروں طرف سے امیر المومنین زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے.وہ تو مرید تھے اس لیئے ان کا جھو منا لازمی تھا لیکن مرزا صاحب نے کچھ اس دلیری سے یہ اعلان کیا کہ میں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا.مرزا صاحب تو دعا کے ساتھ جلسہ کا افتتاح کر کے واپس چلے گئے لیکن مجمع اپنی جگہ بیٹھا رہا مبلغین اسلام کی تقریریں سکتا اور سر دھنتا رہا.اس روز تو بازار کی چہل پہل اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ دیکھ کر یں لائلپور واپس پہلا آیا دوسرے روز مرزا صاحب کی تقریر سے قبل میکں پھر وہاں بھا پہنچا لیکں نے دیکھا کہ واقعی اسٹیج اور سامعین کا درمیانی فاصلہ غائب تھا اور لوگ قریب قریب سٹیج سے لگ کر بیٹھے ہوئے تھے.مرزا صاحب نے ساڑھے چالہ گھنٹے کی تقریر میں جماعتی تنظیم کے علاوہ ہلکی اورعالمی سیاست کے ہر اہم مسئلہ پر روشنی ڈالی اور بالخصوص احمدیت کے سر پھرے مخالفین کی طرف سے جو اعتراضات کئے یا بقول مرزا صاحب مجھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں ان کے انہوں نے وہ بجھے ادھیڑے کہ مجمع پر کیف کا عالم طاری ہو گیا اور سامعین کے چہروں پر ایسی بشاشت نظر آنے لگی کہ گو یا مخالفتوں کے شور اور مشکلات کے پہاڑ اٹھا نے ان کے لئے اب پہلے سے بھی زیادہ آسان ہو گئے ہیں پھر بھی اپنی طویل تقریر کو دلچسپ بنانے کے لئے مرزا صاب نے ساتھ کے ساتھ نہایت با موقعہ چٹ پٹے لطیفے بیان کئے کہ مجمع میں اللہ اکبر" کے بلند نعروں کے علاوہ گاہے گاہےمسکراہٹ اور ہلکی ہنسی کی خوش آئند آواز میں گونجتی رہیں.اس تقریر کے بعد یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایشار و وفا کے یہ پہلے اب پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں اور یہ کہ ان میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے.میں جس قدر بھی جمع کی کیفیت کا مطالعہ کرتا تھا اسی قدر میرا یہ احساس بڑھتا جا رہا تھا کہ مولویون
کی مخالفت نے انہیں زیادہ راسخ العقیدہ بنا دیا ہے.یہ اپنے ارادوں میں اور زیادہ پختہ ہو گئے ہیں اور ان کے حوصلے نہ صرف بڑھتے ہیں بلکہ بڑھتے ہی بچا رہے ہیں.یہ نظارہ دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ ہمارے سے بعض علماء جذباتی نعرے لگا کر اور کانفرنسین منتقد کر کے اسی قلیل سی جماعت کے لئے اور زیادہ محمد منظم ہونے کے مواقع ہم پہنچا رہے ہیں.میرے دل نے کہا.اسے کاش ہمارے پیماء جذباتی نعرے لگانے اور کا نفرنسوں سے ہمارا لہو گرمانے کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر اس جماعت کا مقابلہ کریں لیکن ٹھوس بنیادوں پر مقابلہ خالہ جی کا گر نہیں اس کے لئے منفی قسم کی جہد و جہد کی بجائے مخالص مثبت نوعیت کے عمل کی ضرورت ہے.یعنی جو کام احمدی لوگ سر انجام دے رہے ہیں اسے ہم اور ہمارے مولوی صاحبان سر انجام دے رہے ہوں.ان کا ایک کشن قائم ہے تو اس کے مقابلہ میں ہمارے دینی مشن ہونے یا ہمیں جو ان کے تکلیفی کار تیمار کو نہیں نہیں کر کے رکھ دیں لیکن اس کے لئے روپہلے سے زیادہ عزم و استقلال اور جذ بہ قربانی کی ضرورت ہے اور وہ ہم میں مفقود ہے.چندے کی اپیلیں بہت ہیں اور کام کی تکمیل کوئی نہیں تیرے جتنے چاہونگا ولیکن عمل کے نام پر میدان صاف ہے.اس قسم کے غلط جوش دکھاتے ہیں ہر وقت شیر ہیں کہ جو احمدیوں کو زیادہ تقویت پہنچانے کا باعث ہو اور کھاد کا کام دے کہ انہیں ترقی کے امکانات سے اور زیادہ ہمکنار کر دے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کیا ہمارے لئے یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم تبلیغ و اشاعت کا ایک وسیلئے منصوبہ تیار کریں اور اسے نجار عمل نا کر اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیں میں یہ احمدیوں نے ہماری غفلت سے فائدہ اٹھا کر اپنا اجارہ قائم کر رکھا ہے.کیا کوئی اللہ کا بندہ ہمیں اس بے کار قسم کے جوش سے نجات دلا کر عمل و کردار کے مثبت تقا مضموں سے آگاہ کرنے کا بیڑا اُٹھانے کے لئے تیار ہے ؟ اور اگر واقعی اس دل گردے اور قربانی و ایشار سکے مجتمے ہم میں موجود ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ موجود نہ ہوں تو پھر حکمت اور موعظہ حمنہ کے ذریعے میدانی عمل میں احمدیت کو ناکام بنا نا ہمارے لئے محض آسان ہی نہیں بلکہ انتہائی سہل ہے.ہمارے چین مولویوں کی اندھی مخالفت اور لہو گرمانے کے موجودہ طریقے آجکل متمدن دنیا میں موثر ثابت نہیں ہوسکتے ہاں احمدیوں کے لئے مہمیز کا کام مزور دے سکتے ہیں کہ وہ اور زیادہ متحد منظم ہو جائیں.ه بحواله الفضل ۸ صلح ۱۳۳۲ ش.
۳۸۷ فصل: فصل پنجم جلیل القدر صحابہ کا انتقال ۱۳۳۱ پیش / ۱۹۵۲ء کا سب سے اندوہناک حادثہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم ام المومنين رضی اللہ عنہا کا انتقال ہے.حضرت سیدہ کے علاوہ بھی متعدد عظیم المرتبت صحابہ اس سال جہان فانی سے رحلت فرما گئے جن میں سے بعض مبارک ہستیوں کا ذکر اس فصل میں کیا جاتا ہے.ا چوہدری غلام قادر صاحب متوطن سیالکوٹ :- (ولادت ۶۴-۱۲۸۰/۶۱۸۶۳ هـ بیعت و زیارت ۶۱۹۰۲- وفات ۳۱ صلح ۱۳۳۱ مش / ۱۳۱ جنوری ۴۱۹۵۲) حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کے ماموں زاد بھائی اور حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوئی ف کے برادر اکبر تھے.اکتوبر ۱۹۰۵ء میں ہجرت قادیان کی اور مسجد مبارک کی چھت سے تفصیل کمرہ دار ایچ میں رہنے لگے.اکتوبر ۱۹۰۵ء سے ۱۹۳۵ء تک تعلیم الاسلام ہائی سکول میں مددگار کارکن رہے.نظام المیت او تحریک یا جدید کے بیام ولی میں سے تھے.باوجو د غربت کے حتی الوسع حضرت مصلح موعودہ کی ہر تحریک پر لبیک کہا.منارہ اسیح ہال کے لئے سو روپیہ چندہ دیا تحریک وقف جائیداد کی تعمیل میں اپنا مکانی قف کر دیا اور اُس کی قیمت بھی داخل خزانہ کر دی.تحریک جدید کا چندہ ہمیشہ شروع سال میں ہی ادا کر دیتے تھے.جوانی میں نماز کے بالکل تارک تھے مگر بیعت کے بعد آپ عابد شب بیدار بن گئے یہ حضرت مولوی عبد الله صاحت ریحان ہوتا لوی :- د ولادت ۲۰ مئی ۶۱۸۸۱- بیعت ۱۷ار فروری ۶۱۹۰۱ - وفات ۳ ماه هجرت ۱۳۳۱ اهش سرمئی ۶۱۹۵۲ ) U روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد صلا تا ملا ، اصحاب احمد جلد اول ما من ( از مکرم ملک صلاح الله صاحب ایم.اسے قادیان ، تالیف ۱۹۵۱ء)، الفضل ، تبلیغ ۳۳۱ مش حتی
۳۸۸ آپ کے والد ماجد مولوی محمد دین صاحب بوتالہ ضلع گوجرانوالہ کے خطیب اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ولی معتقد تھے یہ ۱۸۹۹ء کے اوائل میں حضرت اقدس علیہ السلام نے اُن کے پاس تعطیل جمعہ کا میموریل کے مع فارم بھجوایا جس کو انہوں نے خطبہ جمعہ میں سنایا اور حضور کی اس خدمت اسلامی کی بہت تعریف کی.جنوری ۱۹۰۱ء میں آپ نے حضرت مہدی موعود علیہ السّلام کے خلاف ایک اشتہار قبول احمد تیت شنا مطالعہ سے معلم ہوا کہ کا ازالہ اوہام کی عبارتوں کا مفہوم بگاڑ کر یہیں کیا گیا ہے.ابھی آپ تحقیق احمدیت کے اس ابتدائی مرحلہ ہی میں تھے کہ عوام نے مشہور کر دیا کہ آپ احدی ہو گئے ہیں.چند روز بعد ایک اہلحدیث عالم نے علماء زمانہ کا شہروں سے مصدقہ فتولی شنا کر گاؤں والوں سے آپ کا مقاطعہ کرا دیا اور آپ بوتالہ سے بھیرہ تشریف لے آئے.بائیکاٹ کا مقصد تو آپ کو حق سے محروم رکھنا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ پر اسی کے دوران اپنے جدائی برحق کی صداقت ایک رویا میں کھول دی اور آپ نے 19 فروری ۱۹۰۱ء کو بھیرہ سے بعیت کا خط لکھ دیا.ایک ہفتہ بعد الحکم ۷ ار فروری ۱۹۰۱ ء صفحہ پر آپ کا نام مبالعین کی فہرست میں چھپ گیا اور حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی قادیانی کے ہاتھ سے لکھا ہوا یہ خط بھی پہنچا کہ " آپ کا بیعت نامہ حضرت کی خدمت میں سنایا گیا.حضور نے بیعت کو منظور فرمایا ہے اور استغفار اور درود شریف کی مداومت کا ارشاد فرمایا ہے" بھیرہ میں آپ نے بیعت کے بعد پٹوار کا امتحان پاس کیا.۳.فروری ۱۹۰۲ء کو چاوه خدمات دینی حلقہ بھیرہ کے پٹواری بنے اور دوسرے مقامات کے علاوہ سوات میں بھی رہے اور چر ایسے عرصہ تک سرگودہا میں تعینات کئے گئے اور ۲۹ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو اہلمد کی اسامی سے ریٹائرڈ ہوئے.دوران ملازمت آپ قول و عمل سے پیغام احمدیت پھیلانے میں سرگرم عمل رہے.جماعت احمدیہ ه وفات از مارچ ۱۸۹۶ء.قبر بوتالہ کی خانقاہ کے احاطہ میں ہے: سه تار یخ احمدیت جلد دوم من ۳، ص ۳۵ میں اس میموریل کا ذکر آچکا ہے : ے اس پر بچہ نہیں آپ کا نام و پتہ یہ درج تھا، محمد عبد اللہ صاحب خوشنویس بوتالہ سردار جھنڈا سنگھ گوجرانوالہ حالی بھیرہ :
٣٨٩ سرگودھا کے مقامی نظام سے وابستہ ہو کر سالہا سال تک خدمات سلسلہ بجا لاتے رہے.تحریک جدید کے صف اول کے مجاہدین میں سے تھے پنشن کے بعد مطالبہ تحریک جدید کے تحت اپنی زندگی وقف کی.وصیت کا نمبر ۹۲ انتھا سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر جمع کرنے اور خلفاء احمدیت اور بزرگان جماعت کی تحریرات محفوظ کرنے کا بہت شوق تھا اور ڈائری لکھنے کا التزام فرماتے تھے.آپ کے تین مخطوطات جو خوشنویسی کے نادر نمونے ہیں خلافت لائبریری میں محفوظ ہیں اور حضرت حکیم الملت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب فوزالکبیر اور فتح الخیر اور قصیدہ شاطبیہ المشتمل ہیں اول الذکر دو قلمی نسخون فتح انجنیئر کی کتابت ۲۴ مارچ ۱۹۱۲ء کو مشروع کی کئی اور ۹ر اپریل ۱۹۱۲ء کو اختتام تک پہنچی.قلمی نسخہ آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے حکم پر تیار کیا تھا جیسا کہ اس کے درج ذیل الفاظ سے ظاہر ہے :.الحمد لله که رسالہ ہذا مسمی به فتح الخبير حسب الارشاد فيض بنیا د حضرت سیدنا و مولانا و مرشد نا خلیفہ السیم و المهدی حضرت حاجی حافظ مولوی نور الدین صاحب ادام الله فیوضہ و ایده الله بنصر از دست ذره بمقدار خاکسار محمد عبد الله عفا الله ساکن بوتالہ ضلع گوجر انوالہ بتاریخ ۹ ماه اپریل که با تمام رسیده ہر که خواند و با طمع دارم زانکه من بنده گنهگارم ، لے کتاب قصیدہ شاطبیہ کا مخطوط بھی جو ۲۵ صفحات پر مشتمل تھا حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے ارشاد مبارک پر لکھا گیا چنانچہ اختام پر لکھتے ہیں.الحمد لله والشكر لله که کتاب مستطاب السلمی به قصیده شاطبیه حسب الا به شاد فیض بنیاد سیدنا و مرشدنا و مولانا خلیفہ الشیخ حضرت مولوی نور الدین صاحب متعنا الله لطول حیاتم و ایده الله بصره از دست خاکسار احقر عباد الله محمد عبدالله عفاه الله متوطن موضع ہوتا لہ جھنڈا سنگھ مضلع گوجرانوالہ حال منشی نهر علاقہ سرگوده امروز بتاریخ ۲۱ ماه شعبان راسله بمجری مطابق ۲۶ ماه جولائی ۱۹۱۳ عیسوی بمقام موضع سلطانی پوران له مخطوط حده
۳۹۰ و اخلی بھلوال ضلع شاہ پور اختتام رسید گر قبول افتد زہے عز و شرف - وفات غرض نقشه ست که ما یاد ماند کہ ہستی را نمی بینیم بقائے مگر صاحبہ کے روزے برحمت کند بر حالی این مسکیں دعائے نے آپ نے حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگیر ام المومنین رضی اللہ عنہا کی رحلت کے چند روز بعد وفات پائی.نماز جنازہ حضرت مصلح موعود نے پڑھائی اور قبر پر اجتماعی دعا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے کرائی.آپ حضرت اُم المومنین کے مزار مبارک کے قریب سپرد خاک کئے گئے.آپ پہلے صحابی تھے نہیں بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطع صحابہ میں دفن کئے جانے کا اعزاز حاصل ہونا نہ سکتے محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ (ولادت مارچ ۲۱۹۰۵) اہلیہ خان صاحب قاضی محمد رشید اولاد صاحب سابق وکیل المال تحریک جدید و خوش و امین مکرم ابوالمنیر نور الحق صاحب پیجینگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین) ۲ مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب الور (ولادت اسم ملی ۱۱۹۰۸) سابق انچارج تحریک جدید و پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسی حال نائب ناظر بیت المال آمد ربوہ.۳ متر بر سعید بیگم صاحبہ (ولادت ۲۱۹۱۲) اہلیہ محترم مولانا ابو العطاء صاحب بجالندھری میکنی لانی ترین حال ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد میوه - مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب ( تاریخ ولادت ۲۲ فروری ۱۹۱۷ء) مبلغ ہالینڈ انڈونیشیا ۵- مکرم عنایت اللہ صاحب سلیم ( ولادت ۳ اپریل ۱۹۲۰) ریٹائرڈ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اریگیشن سیکرٹریٹ لاہور.مخطوط صدا ۳۵ : ۲- ملخصاً از اصحاب احمد جلد ختم مثلا تا ح ۲ و مولفہ ملک صلاح الدین صاحب اینم یہ اسے) سال طبع ۱۳۳۹ اش / ۱۹۶۰ ء - الفضل ۱۴ هجرت ۱۳۳۱ آتش (خود نوشت حالات) الفضل از ہجرت ۱۳۳۱اہش مگر مضمون مولانا ابو العطاء صاحب جالند مصری)
۳۹۱ حضرت سردار محمد یوسف نا تو سلم ایڈیٹر اخبار تور مهر ولادت انداز ، ۱۸۸۹ و تحریری بیعت ۶۱۹۰۵- زیارت ۱۹۰۶ - وفات در ہجرت ۱۳۳۱ ش / مئی ۱۹۵۲ م ) پیدائشی نام سورن سنگھے اور ویلن امرتسر تھا.کوئٹہ (بلوچستان) میں قبول اسلام کا واقعہ محکمہ ہند و سبت کے اہلکار تھے اور وہیں اسلام لائے اور دین کے شوق میں کشاں کشاں قادیان پہنچے حضرت حکیم الامت حاجی الحرمین مولانا نور الدین خلیفہ اول) نے آپ کو حضرت مہدی موعود علیہ السّلام کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے اپنے مسلمان ہونے کے حالات رض کئے اور گرنتھ صاحب وغیرہ سے کچھ اقوال اسلام کی تائید میں پڑھے جن کو حضور نے پچیس پی سے اتنا اور ارشاد فرمایا کہ ان کا پیکر ہونا چاہئے.چنانچہ مسجداقصی میں آپ کا پہلا پبلک ٹیچر ہوا جو کامیاب رہا.آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ملازم ہوئے.اٹھلے سال اسیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیر معروف حضرت مهدی موعود کی دعائیں تصنیف فرمائی اس کے لئے سکھ مذہب سے تعلق خواہ آپ کو بھی فراہم کرنے کی سعادت نصیب ہوئی حضور نے ایک گرامی نامہ میں تحریر فرمایا کہ میں آپ کے کام پر بہت خوش ہوا اور آپ کے لئے بہت دعائیں کیں لیتے خدا تعالیٰ کے فرستادہ اور نامور کی ان دعاؤں ہی کا اثر تھا کہ آپ عمر بھر سکھوں اور آئیلیوں لٹریچر کو محبت اور پیار سے دعوت اسلام دیتے رہے.نیز اخبار نور جیسے بلند یا نہ ہونہ نصبونه کے علاوہ جسے آپ نے اکتوبر 1909ء میں بھاری کیا اور جو تقسیم ہند تک باقاعدہ شائع ہوتا رہا آپ کے قلم سے قابل قدر علمی لڑ چوش کی ہوا جس میں سے قرآن مجید کے گورکھی اور ہندی تراجم اور سوانی بیشتر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (جیون پر تر) کے گورکھی اور مہندی ایڈیشن کو خوب مقبولیت حاصل ہوئی.آپ پاکی اس عظیم الشان اسلامی خدمت کے اعتراف میں اعلیٰ حضرت نظام حید ر آباد دکن، نواب نا ریال اور مہاراجہ صاحب پیٹیالہ نے امداد دی مہا راجہ صاحب پٹیالہ جب قادیاں آئے تو اُن کے دفتر میں بجا کہ اُن سے ملاقات کی.اور بہت سے متر ز ہندو اور سکھ دوستوں نے اپنے خطوط میں ان تصانیف روایات صحابہ انجیر طلوع جلد ۱۹۰۹ : که "الفضل ، ہجرت ۱۳۳۱ انش منا کالم ۲۴ + روایات صحابہ جلد ا ا ح ۱۹ ، ۱۹۸۰
۳۹۲ پر مبارکباد دی اور بہت متاثر ہوئے.آپ کی مندرجہ ذیل کتابوں کو بھی خاصی شہرت حاصل ہوئی:.باوا نانک کا مذہب، دھرم کی کسوٹی، آریہ دھرم کا فوٹو مسلمانوں کے احسانات سکھوں پر قدیم ہندوستان کی روحانی تعلیم، گرو کی پانی سومنگلا ناول اس کو مسلم اتحاد، با وا نانک کی سوانح عمری فتح مبیں، سکھ اور مسلمان ، آریہ مذہب کی حقیقت، برکات اسلام، آریہ دھرم کا پول ، ست اپریشن، رو تناسخ به آپ اسلام کے کامیاب مبلغ و مناظر تھے ہندوستان کی متعد دو اسلامی تقاریر اور مناظر سے انجنوں نے آپ کو اپنے جلسوں میں تقریر کے لئے خاص طور پر دھو گیا.شمالی ہند میں مسلمانوں کی قدیم انجمن انجمن حمایت اسلام کے پلیٹ فارم سے آپ کی کئی تقریر میں ہوئیں اور پسند کی گئیں.ملک میں آپ کے کئی زبانی اور تحریری مناظرے ہندوؤں اور سکھوں سے ہوئے.اپنی شہر میں زبانی سے مخالفین اسلام تک کے ولیوں کو موہ لیتے تھے یکے باوجود یکہ آپ سکھوں سے مسلمان ہوئے اور تمام عمر سکھوں کو اسلام کی غیر مسلموں کے تاثرات مدرن بجاتے رہے کہ حلقوں میں بھی آپ کو خاص عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور سکھ ود وانوں نے آپ کی وفات پر رنج و غم کا اظہار کیا.چنانچہ اخبار است (جالندھر) نے ارمئی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:."آپ نے قرآن شریف کا پنجابی میں ترجمہ کیا اور متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں.اس سے بڑھ کر قابل تعریف کام انہوں نے سیکھے مسلم اتحاد کے لئے کیا یہ لکھا:.۲ سردار جنگ بہادر صاحب ایڈیٹر اخبار شیر پنجاب دہلی میور رقصه ۲۲ ر جوان ۱۹۵۲ء) نے " وہ اپنے اخبار نور کے ہر ہر بچہ میں سکھوں سے اُنس اور محبت کرتے رہے اور انہیں سکھ حلقوں میں محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا.احمدیت کے وہ ایک عظیم الشان مبلغ اور پیرو کار تھے...آپ نے قرآن ه ان کتابوں کے نام جناب میاں عبد العظیم صاحب درویش و تاجر کتب قادیان کے رسالہ واذا لصحف نشرت میں بھی مذکور ہیں : ته الفصل ۱۳ ہجرت ۱۳۳۱ مش مث ا مضمون قاضی محمد نور الدین صاحب المل عضم
۳۹۳ کا پنجابی اور ہندی میں ترجمہ کیا اور بہت قابل اور دوست نوازہ انسان تھے.ان کا انتقال جماعت احمدیہ اور ان کے دوستوں کے لئے ایک افسوسناک سانحہ ہے" ۳.سردار رویل سنگھ صاحب گیانی ہیڈ ماسٹر پرائمری سکول موضع رتن گڑھ ضلع انبالہ نے سکتے لٹریچر کے ممتاز سکالر گیانی عباداللہ صاحب کو اپنی پیٹھی مورخہ ہم امینی ۱۹۵۳ء میں تحریر کیا.سردار صاحب موصوف بہت بڑی خوبیوں کے مالک تھے.لیکن اُن کا دیدار نہ کر سکا لیکن اُن کے مضامین سے اُن کی رُوح کا بخوبی پتہ چل جاتا تھا.سکھ مسلم ایکتا ان کی زندگی کا مقصد تھا.نہ صرف اخبار لوییں وفات پا گیا ہے بلکہ یہ مسلم ایکتا کا بڑا حامی اس دنیا سے کوچ کر گیا ہے اور اس سے صحافت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے.سردار صاحب موصوف اخبار نور کے متعد د ر ہے ہندوستانی سیکھوں میں مفت تقسیم کرتے تھے ان کا مقصد سکھ مسلم اتحاد تھا.انہوں نے اسلام کی خوبیاں شائع کر کے غیر مسلموں خاص کر سکتھوں میں اسلام کی بہت عزت بڑھائی ہے اس طرح انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے.اور جہاں وہ اسلام کے بڑے خدمت گار تھے وہاں سکھ مسلم اتحاد کے بھی بڑے حامی تھے.قرآن شریف کا پنجابی ترجمہ کر کے انہوں نے قوم کی بڑی خدمت کی ہے پہلے ترجمہ از گورکھی ۲ حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب تو مسلم (سابق مہر سنگھ ) : (ولادت اندازاً ۱۸۷۲ ۶ - بیعت و زیارت دسمبر ۶۱۸۹۰- وفات ام احسان ۱۳۳۱ ش / جون ۶۱۹۵۲ حضرت ماسٹر صاحب نے بھی ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے.چوتھی جماعت میں پڑھتے ریت قبول اسلام تھے کہ مجد و با طور پرخدا کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور اسلام قبول کرلیا.مجذوبا مسلمان ہونے کے بعد آپ نے حضرت حکیم الامت حاجی الحرمین مولانا نورالدین دو تعلیم و لازمت م ال ان کی سیاست اور ان میں سے جو پھر یرہ میں سیونی یک تعلیم پائی اور ایف اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر قادیان دار الامان میں پاس کیا.۱۳ جولائی ۱۹۰۰ ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے اسٹاف میں پیش روپے مشاہرہ پر شامل ہو گئے اور ایک لمبے عرصہ تک ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ میں تعلیمی و تدریسی خدمات بجالانے کے بعد ریٹائر ڈ ہوئے.له الفضل ۱۳ طور ۳۳۱ اصل مضمون جناب گیانی عباد اللہ صاحب )
۳۹۴ شروع ۱۹۰۱ء میں آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود حضرت مہدی موجود کے عہد مبارک کی خدمات الاسلام کی یاد کو تعلیم دین کا مقد ملا.فرماتے ہیں :- علیہا مبشر کو ہ جب حضور صیح و بلیغ عربی میں تفسیر قرآن علماء کے مقابلہ میں لکھ رہے تھے تو حضور نے فرمایا کہ ان دلوں میں بچوں کو پڑھا کر ہمارے گھر میں ہی سو جایا کر و چنانچہ اس موسم سرما میں داد نقد مس میں شب باشی رہونے کا فخر رکھتا ہوں " حضرت خلیفہ المسیح الثانی ۱۹۰۲ء کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.یکی آنکھوں کی تکلیف کی وجہ سے خود نہیں پڑھ سکتا تھا ماسٹر عبد الرحمن صاحب مجھے سناتے جاتے تھے اور میں سنتا تھا.اس بات کو سترہ سال کے قریب ہو گئے ہیں مگر اس وقت کے مجھے فقرے کے فقر سے ابھی تک یاد ہیں " ہے ۶۱۹۰۲ ۱۹۰۴۹ء کے دوران جبکہ حضرت مهدی موعود علیہ اسلام دوران مقدمات گورداسپور میں قیام فرا رہے آپ کو الزار کی نگرانی اور پہرے کے انتظام کا شرف حاصل ہوا حضرت اقدس علیہ السلام نے انہی دنوں آپ کو مندرجہ ذیل مکتوب تحریر فرمایا :- " بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى مجتی اخرویم ماسٹر عبد الرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالٰی.السّلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کے سب خطوط پہنچے جزاکم اللہ خیراً مگر میرے نزدیک سب پہرہ چوکی بے فائدہ ہے جب تک مسجد کے اندر اور بیت الفکر کے اندر دو تین آدمی نہ سلائے جائیں، سو یہ کوشش کریں کیونکہ گھر کے لوگ سب باہر کے دالان میں رہتے ہیں اور دالان خالی رہتا ہے بہت تاکید ہے.والسلام خاکسار میرزا غلام احمد عفی عمرا حضرت ماسٹر صاحب نظریہ فرماتے ہیں:." میں حضرت مسیح موعود کی ذریت طبیبہ کو نہ صرف اسکول میں بنکہ اندرون خانہ بھی تعلیم دیا کرتا تھا.ایک دفعہ یک صبح کے وقت حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو بیت الدعا میں کچھ پڑھا رہا تھا اور حضور لوٹا لئے قضاء حاجت کے لئے بیت الدعا میں سے گزرے حضور نے فرمایا کہ ان بچوں نے قوم کا سردار بننا له الفضل ۳۰ جون ۱۹۲۱ء مث ؛
۳۹۵ ہے ان کو بڑی محنت اور اخلاص سے پڑھایا کرو یکی نے عرض کی کہ میں تو اخلاص اور محبت سے تعلیم یا کرتا ہوں حضور میرے لئے اور میری اولاد کے لئے بھی دعا کریں حضور نے پنجابی میں فرمایا جہتی کہو آئی ہی دعا کراں گا ، یعنی میتنی کہو اتنی ہی دُعا کروں گا حضرت ماسٹر صاحب کے قلمی جہاد کا آغاز حضرت سلطان اعظم ہی کے عہد مبارک میں ہوا قلمی جہادہ ، میں ہم ہوگئے اور حکیم الات مولانا ۱۹۰۴ء میں آپ آشوب چشم سے بیمار ہو گئے حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صابت نے بینائی کے منائع ہونے کا خطرہ ظاہر کیا تو آپ حضرت مہدی موعود علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں محاضر ہوئے حضور نے فرمایا :- میں نے کہاتھا کہ نومسلم سلسلہ کے متعلق کچھ لکھیں آپ نے کچھ لکھا کہ نہیں ؟ عرض کیا میں نے ارادہ کیا ہوا ہے اور انشاء اللہ خوب لکھوں گا مگر اب آنکھوں میں سخت تکلیف ہے اس وقت نہیں لکھ سکتا.فرمایا " نیت کر لوخدا توفیق دے گا اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ دُعا کریں گے آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی.چنانچہ دو چار روز میں آنکھیں درست ہوگئیں اس کے بعد آپ نے ہزاروں صفحے مطالعہ کئے اور سینکڑوں صفحات پر شتمل کتابیں لکھیں مگر آپ کی آنکھیں دوبارہ رکھنے نہیں آئیں.آپ کے سوان الما ملک صلاح الدین صاحب نے اصحاب احمد جلد ہفتم میں آپ کی متعد د مختلف تصانیف اور پینلٹوں کے نام لکھتے ہیں.علاوہ ازیں آپ کے اشتہارات کے نمونے بھی درج کئے ہیں.آپ کی بعض مشہور کتابوں کے نام یہ ہیں :- خالصہ دھرم کے گروؤں کی تاریخ و با وا نانک کا مذہب سکھ تو سلم کا نیچر.اسلام اور گرنتھ صاحب با وانا تک کا چولہ.آنحضرت کا دس کروڑ ہندوؤں پر احسان - اخلاق محمدی.حضرت مسیح موعود وعلمائے زمانہ تین حصے).ضرورت زمانہ - محمد رسول اللہ کی مسلمان ہو گیا یا اختیار الاسلام دچار حصوں میں معنی موخر الذکر کتاب حضرت مولانا نورالدین نے ک تحریک پر لکھی گئی اور آپ نے اس پر یہ تبصرہ فرمایا کہ.میں اس کتاب کو بہت پسند کرتا ہوں یا حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے یہ رائے دی کہ :."ماسٹر عبدالرحمن نے نہایت بجانگر از محنت اور دردمندی سے کتاب لکھی ہے اور ہماری
امیدوں سے کہیں بڑھ کر لکھی ہے اور فی الجملہ علی الجملہ بہنوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوگی، انشاء الله له آپ کا جوش تبلیغ انتہاء تک پہنچا ہوا تھا جیسا کہ حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- ماسٹر عبد الرحمن صاحب کار آمد کارکن ہیں تبلیغ کا انہیں الیسا جوش ہے کہ بعض لوگوں کی نظروں میں جنون کی حد تک پہنچا ہوا ہے.ایسے آدمی شست لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لئے بہت مفید کام کرتے نہیں.اسے تان ۱۹۱۵ ء میں آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اجازت سے جزیرہ جزائر میں تبلیغ اسلام پورٹ بلیئر میں ایک سکول کی ہیڈ ماسٹری کے لئے تشریف لے گئے جہاں آپ اپنے تعلیمی فرائض کو نہایت محنت و خلوص سے سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ والہانہ طریق سے تبلیغ اسلام و احمدیت بھی کرتے رہے اور قریباً تین نفوس پر مشتمل ایک جماعت پیدا کر لی.اسی دوران میں آپ حضرت خلیفہ ثانی نے کے حکم سے بیٹی اور بدر اس سے ہوتے ہوئے سیلون بھی تشریف لے گئے اور کولہو، کانڈی جیسے اہم شہروں میں لیکچر دئیے اور لارڈ یشیوں اور بڑھوں کو چیلنج دیا اور مباحثہ کیا جس کا سیلونی پریس میں خوب چر بچا ہوا.۱۹۳۷ء میں پمفلٹ " حضرت بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کا دین دھرم کی پاداش میں فید و بند آپ پر مقدمہ پہلا یا گیا، عدالت نے چھ ماہ قید کی سزا دی ہتھکڑی پہنائی گئی تو آنے اس کو چوم لیا جیسا کہ حضرت مہدی موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.گر قضا را عاشقی گردو اسیر بوسد آن زنجیر را کز آشنا سے یعنی اگر قضائے الہی سے عاشق قید ہو جاتا ہے تو وہ زنجیر کو چومتا ہے اس لئے کہ وہ دوست کی طرف سے ہے.حضرت ماسٹر صاحبان نے جیل جاتے وقت نوجوانان احمدیت کو یہ پیغام دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے حضرت بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ کے مسلمان ہونے کی جس صداقت کا اظہار ۱۴۸ یکن مسلمان ہو گیا ، حصہ سوم صدا له الفضل ۲۳ جولائی ۶۱۹۲۴ مت ہے سے کتاب البریہ (سرورتی) :
فرمایا ہے اسے وہ دنیا کے سامنے پیش کرتے رہیں.مجھے اس صداقت کے اظہار میں جو سرا بھی دی جائے اسے بخوشی قبول کرنے کو تیار ہوں.چنانچہ آپ نے ایام اسیری کمال صبر و استقامت سے گزارے.قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ مہدی موعود اور آپ کے صحابہ کی امتیازی خصوصیہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نہ کی ایک بھاری خصوصیت حسب ذیل آیت میں بتائی گئی ہے :- قُلْ هَذِهِ سَبِيلِ ادْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي (یوست : ۱۰۸) (ترجمہ) تو کہ یہ میرا طریق ہے کہ میں اور میرے پیر علی وجہ البصیرت اللہ کی طرف بلاتے ہیں.منهاج نبوت کے اس قرآنی اصول کے مطابق حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا :- ہم نے اس خدا کی آواز شنی اور اُس کے پر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا.سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے ہمارا دل اُس یقین سے ایسا پر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے سو ہم بیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں اس سلسلہ میں اسد اللہ الغالب حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انصار صدی کی نسبت بالخصوص یہ پیشن گوئی فرمائی : Я اللهِ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا كُنُورُ لَيْسَت من ذَهَبِ وَلَا فِضَّةٍ وَلَكِن بِهَا رجال مُؤْمِنُونَ عَرَفُوا اللَّهَ حَقٌّ مَعْرِفَتِهِ وَهُمْ اَنصَارُ الْمَهْدِى عليه السّلامُ فِي أَخِيرِ الزَّمَانِ ، له الله عز وجل کے ہاں سونا چاندی کے علاوہ اور بھی خزانے ہیں اور وہ مومن مرد ہیں جن کو اللہ تعالے مه كتاب البریہ مثلا ( تاریخ اشاعت جنوری ۱۸۹۸ء) : " "كفاية الطالب في مناقب ه علی ابن ابی طالب ، من رمول الامام ابو عبد الله محمد بن يوسف الشافعي مقتول (۶۵۸ (هو) ناشر المطيعة الحيدريه النجف ١٣٩٠هـ / ۱۹۷۰ :
۳۹۸ کا حقیقی عرفان حاصل ہے اور وہ مہدی آخر الزمان کے انصار ہوں گے.اس پیشن گوئی کے عین مطابق حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے صحابہ کو تلقین فرمائی کہ.ہماری جماعت جس نے مجھے پہچانا ہے، کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانات کو باسی نہ ہونے دیں، اس سے قوت یقین پیدا ہوتی ہے.اس لئے ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ ان نشانات کو پوشیدہ نہ رکھے اور میں نے دیکھے ہیں وہ ان کو بتلادے جو غائب ہیں، تاکہ برائیوں سے بچیں اور خدا پر تازہ ایمان پیدا کریں اور ان نشانات کو عمدہ براہین سے سجا سجا کر پیشین کریں لے صاحب کشف و الهام بزرگی این کالا یا اس کا کیا ہوا کہ اس کی تکمیل کا اندی اے حت بھر موقعہ میسر آیا ان میں حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب نور مر سنگھ کا مقام بہت ممتاز ہے.آپ ۱۳۱۳ اصحاب کبار میں سے صاحب کشف و الہام اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے بعض نشانوں کے گواہ کی حیثیت سے آپ کا نام حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے قلم مبارک سے لکھا ہے.آپ کی زندگی قبولتی ہے دعا کے نشانوں سے لبریز تھی جن کو آپ اپنوں ہی میں نہیں غیر مسلموں میں بھی بڑی تحدی سے پیش فرماتے تھے جیسا کہ اپنی کتاب یکی مسلمان ہوگیا ، میں لکھتے ہیں کہ :- یکن اس بات کو بیان کرنے سے شرم نہیں کرتا بلکہ تحدیث بالنعمہ کے طور پر اقرار کرتا ہوں گھنی خدا کے فضل و کرم سے بارہا مجھے بھی الہام ہوا اور اُس ذات پاک کی آواز سنائی دی جو زمین آسمان کا خالق ہے.یکی اپنے کانوں سے اور روحانی قولی سے الہامات اور مکاشفات کو آزما چکا ہوں اس لئے مجھے الہام وغیرہ سے انکار کرنا ایسا ہے جیسا کہ اپنے تئیں آگ میں ڈالنا بلکہ اس سے بھی بڑھکت در حقیقت جب انسان اپنا آپ خدا کے لئے قربان کر دے تو تعجب مت کرو کہ اس سے خدا کا مکالمہ اور مخاطیہ ہوتا ہے بلکہ تعجب اس میں ہے کہ اگر ایسی بھاری قربانی اور تبدیلی کے بعد بھی خدا کی آواز نہ سنائی دے اور عجیب کرشمہ قدرت اس سے ظہور پذیر نہ ہوں یا ہے ستید تا الصلح الموعود نے ایک خطبہ جمعہ میں آپ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا :- ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری کی یہ عادت ہوا کرتی تھی کہ ذرا کسی آریہ اور کسی مخالف سے ا الحكم دار اکتوبر ۱۹ ء (بحوالہ ملفوظات حضرت مسیح موعودو جلد دوم صلا، الناشر الشركة الاسلامیہ لیٹر ریوه ، اشاعت نبوت ۱۳۳۹اہش / نومبر ۱۹۶۰) لئے لیکن مسلمان ہو گیا " حصہ اول ص ۵۳.|
۳۹۹ ات ہوئی تو حضرت یح موعود علیہ السلام کی ان میں بڑی دلیری سے کر دیتے کہ اگر تمہیں اسلام کی صدات میں شبہ ہے تو آؤ اور مجھ سے شرط کر لو.اگر پندرہ دن کے اندر اندر مجھے کوئی انہام ہوا اور وہ پورا ہو گیا تو تمہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور پھر اشتہار لکھ کر اس کی دُکان پر لگا دیتے.چنانچہ کئی دفعہ ان کا الہام پورا ہو جاتا اور پھر وہ آریہ ان سے چھپتا پھرتا کہ اب میرے پیچھے پڑھائیں گے اور کہیں گے کہ مسلمان ہو جاؤ تو گری نمونے قائم رہیں توفیر مذاہب پ ہمیشہ کے لئے اسلام اور احمدیت کی فوقیت ثابت ہو سکتی ہے رات حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ علمی اور تبلیغی خدمات بجالانے کے مالی جہاد میں حصہ علاوہ جماعت کے مالی جہاد میں بھی برابر شریک رہے.چنانچہ آپ نے تعمیر مناورة ہمشیح کے لئے چندہ ویار آپ ابتدائی مومیوں اور تحریک جدید کے اولین مجاہدوں میں سے تھے.آپنے دار افضل میں واقع سولہ مرلے کا ایک قیمتی قطعہ زمین بھی مسجد کے لئے وقف کر دیا تھا.۱۹۴۷ء میں قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور ہجرت اور اہل و عیال کو چیت بھلوال مضلع سرگودہا میں بینا نگیرین ہوئے.۸ ماه وفا ۳۲۹ انتشار جولائی ۱۹۵۰ء کو آپ نے اہل و عیال کے نام ایک وصیت تحریر فرمائی جو صرف دینی امور سے تعلق رکھتی تھی.راس و حقیقت میں آپ نے تاکید فرمائی کہ اگر تم صحابہ کرام کی برکات سے حصہ لینا چاہتے ہو تو ہماری طرح کشتی نوح کا مطالعہ کیا کرو یکیں اب بھی سال میں دو ایک مرتبہ ایسے پڑھتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں ہم کشتی نوح پڑھ پڑھ کر بعض ہدایات کو خط کشیدہ کر لیتے تھے اور ہفتہ بعد دیکھتے کہ وہ نقص دور ہوا یا خوبی ہم میں پیدا ہوئی یا نہیں.اسی طرح صحابہ کیا کرتے تھے اور میں خود تو اپنے بعض عیوب اور کوتاہیوں کو خط کشیدہ کر کے اصلاح کیا کہتا تھا اسی لئے گھر میں اس کتاب کا اور کبھی دوسری کتب حضرت اقدس کا درس دیتا تھا.ماہ اعضاء ۳۲۹اہش / اکتوبر ۱۹۵۰ء میں آپ نے اپنی اولاد کے لئے قیمتی نصائح تقریبہ فرمائیں جن میں بالخصوص اُن ادعیہ رسول کا ذکر کیا جو اکثر آپ کے وردِ زباں رہتی تھیں.ہے له الفضل ۲۲ احسان ۱۳۳۵ ش جون ۱۹۵۶ء مت له مشخص از اصحاب احمد جلد ہفتم مت ( مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ) ہے +
۴۰۰ دہلی بیوی محتر مہ غلام فاطمہ صاحب یہ بنت حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جمونی شر سے ) اولاد بشری بیگم صاحبہ مرحومه - بشارت احمد مرحوم.ڈاکٹر نذیر احمد صا حب مجاہد ایسے سینیا حال لندن ۴ سردار بشیر احمد صاحب انجنیئر سابق صدر اسلامیہ پارک لاہو ر حال دیوہ سردار بشارت احمد صاحب لندن - ڈاکٹر سعیدہ اختر صاحبہ کراچی ، ڈاکٹر محمودہ بیگم صاحبہ کراچی - شریف احمد مرحوم ۹ امتہ الحفیظ بیگم مرحومه ۱- امته الرشید بیگم صاحبہ - (دوسری بیوی محترم فضل بی بی صاحبہ بینت چوہدری پیر محمد صاحب اٹھوائی سے ) ۱۱- نصرت جهان بیگم صاحبه (تیسری بیوی محترمہ ممتاز مرجان بیگم صاحبہ آن ہزارہ سے) ۱۲- سردار میر احمد صاحب مقیم لندن ۱۳ - سردار حفاظت احمد صاحب مقیم لاہور ۱۴ سرو از رفیق احمد صاحب مقیم لاہور ۱۵- امتد الر فین میگم صاحی مقیم لاہور کے ۵ حضرت سید محمد اشرف صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ قادیان :- ولادت اندازاً ۶۱۸۷۷ء - بیعت ۶۱۹۰۴ء - زیارت ۱۹۰۳ء وفات در وفا ۱۳۳۱ ہش ہے حضرت مصلح موعود مرتے ان کی وفات پر خطبہ جمعہ میں فرمایا :- "مرحوم موصی تھے اس لئے کراچی میں بطور امانت دفن کئے گئے.ان کی طبیعت تیز تھی اور قریباً سب احمدی انہیں جانتے ہیں...وہ پرانے احمدی نہیں تھے لیکن اپنے اخلاق کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی اس رنگ میں گزاری کہ میرا نے احمدی بن گئے...جب یہ احمدی ہوئے تو ان میں اتنا جوش پیدا ہو گیا کہ ہر علی اور ہر کام میں حصہ لیتے تھے اس لئے لوگ انہیں پرانا احمدی سمجھنے لگے یہ لکھے ایستی محمد احمد شاہ صاحب ۲- سید محمد انورشاہ صاحب - ممتاز بیگم صاحبه اولاد آن بیگم صاحبه ۱۵ کشوم آرا بیگم صاحبہ ه مکرم سردار بشیر احمد صاحب انجنیر کی ایک یادداشت سے ماخوذ ہے" روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد مت شاہ صاحب کی خود نوشت روایات) سے لاہور تاریخ احمدیت ص۳۳۳ (مولفہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگریل طبع اول ۲۰ فروری ۱۹۷۶ء وطن پرنٹنگ پریس لاہور : آه لفضل در اکتوبر ۱۹۵۲ء مٹ ہے
۴۰۱ 4 حضرت منشی کرم صلی صاحب کا تب : (ولادت ؟ بیعت و زیارت ۱۸۹۷ء وفات ۱۵ فتح ۳۳۱ ہش ) حضرت قاضی محمدظہور الدین صاحب اکمل کہ آپ کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :.ایک وقت تھا کہ قادیان میں نہ کوئی پولیس تھانہ کا اتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے مسودات طبع کرانے کے لئے امرتسر جانا پڑ تا بعض اوقات پا پیادہ ہی چھل پڑتے.اس قسم کی دقتوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے آخر قادیان پر نہیں دستی قائم ہوگیا.ابتداء میں حضرت پیر سراج الحق نعمانی اور حضرت پیر منظور محمد صاحبان کتابت کی خدمات بجالاتے اور امرتسری کا تب بھی.اسی سلسلہ میں منشی کرد علی نصاب بھی آپہنچے اور قادیان کے ہو رہے.غیر احمدی کا تب اول تو آتے ہی نہ تھے پھر باوجود ڈبل اُجرت اور کھالے وغیرہ کی امداد کے ٹھرتے نہیں تھے مینشی کریم علی صاحب کا خط بہت شستہ تھا.ریویو آن پیجینز اردو کی کتابت وہی کرتے تھے.خط محکوم میں بھی ان کو قابل تعریف دسترس حاصل تھی جس سے سنگسازی کی مشکلات حل ہو گئیں.میں نے دیکھا کہ حقیقۃ الوحی چھپ رہی تھی چھاپنے والے مرنہ اسمعیل بیگ ہی تھے جو حضور کے بچپن کے خادم تھے.پرون حضور نے جو ملاحظہ فرما کر واپس بھیجا تو قریباً آدھا صفحه عبارت بڑھادی منشی صاحب نے بلا تکلف پتھر پر الٹا کھا چنانچہ جس خوبی سے یہ کام کیا گیا حقیقت الوحی طبع اول کے صفحات سے فتی واقفیت والے دیکھ کر داد دے سکتے ہیں.پھر حضور کا منشاء تھا کہ چراغ الدین جونی وغیرہ کی تحریروں کا عکس چھپے.لاہور سے فوٹو کرانے میں کئی وقت میں تھیں، جلدی بھی تھی مینشی صاحب نے باریک کا غذ کاپی کے طور پر رنگ کرائے.اصل تحریر پر رکھ کر کس نے لیا اور یوں بلا خرچ بہت جلد یہ کام بھی ہو گیا یہ منشی صاحب نے اپنے کئی شاگرد بھی تیار کئے.بالخصوص منشی اور سین صاحب کا تب بدر جو آخری دم تک بدر اور افضل لکھتے رہے اور سنگسازی بھی کرتے رہے.جب ریویو اُردو کا چارہ مجھے دیا گیا تومنشی صاحب کی نظر کمزور ہو چکی تھی اور ہاتھ مضبوط نہیں رہا تھا له منشی غلام محمد صاحب نے امرتسری مراد ہیں ؟ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی سوانح عمری مرقاة اليقين في حيات نور الدین (مولفہ اکبرشاه خان نجیب آبادی) کی کتابت بھی آپ ہی نے کی تھی ہے
۴۰۲ اس لئے جب ان کو معلوم ہوا کہ میں کتابت کا کچھ اور انتظام کرنا چاہتا ہوں تو وہ بیرونی محلہ سے جہاں ایک معمولی سامکان بنا لیا تھا دفتر میں آئے اور پاس بیٹھ کر مجھے کہا میری طرف دیکھئے اور میری گزارش سنئے.کس نے بچشم پر آب آپ سے یہ خواہش شنکر کہ ریویو کو میں نے ہی لکھنا شروع کیا تھا اب چند روز کی بات ہے یہ شرف مجھ سے نہ لیا جائے.انہیں تسلی دلائی کہ آپ ہی اسے لکھا کریں گے.چنانچہ وہی لکھتے رہے جب تک کہ لکھ سکتے ہے حضرت سید محمو واللہ شاہ صاحب : (ولادت دسمبر ۱۹۰۰ء - وفات ۱۲ فتح ۳۳۱ میش دسمبر ۴۱۹۵۲) ابتدائی حالات حضرت مهدی علیہ السلام کے جلیل القد حضرت مہدی علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب کے فرزند اور حضرت سیدہ زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے بھائی تھے.آٹھ یرینی کی عمرمیں قرآن عظیم حفظ کیا.بچپن ہی سے بہت سخی اور تین تھے.۱۹۱۷ءمیں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک کیا اور بی.اے کا امتحان اسلامیہ کالج لاہور سے پاس کر کے ریلو سے انجنیئرنگ کی فتنی تعلیم کے لئے انگلستان تشریف لے گئے.پھر وطن آکر علی گڑھ سے بی ٹی کا امتحان پاس کیا اور بی ٹی کرنے کے بعد آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں شیر مقرر کئے گئے.۱۹۲۹ء میں نیروبی کے محکم تعلیم نے آپ کی خدمات حاصل کر لیں نیروبی میں جماعتی خدمات اور آپ مشرقی افریقہ میں قریباً پندرہ سال تک رہے جہاں اپنے اور بیگانے سب آپ کا غایت درجہ عزت و احترام کرتے تھے.کئی افریقین مجالس کے رکن اور بعض کے صدر بنائے گئے.نیروبی میں اُن دنوں سیمین ( MA CHMILON) لائبریری شہر کے وسط میں تھی سیکمین نے کئی ہزار پاؤنڈ اس لائبریری پر خرچ کئے اور اسے ایک بورڈ کے سپرد کیا اور وصیت کی کہ یور مین کے علا وہ دوسروں کو اس سے استفادہ ممنوع ہو لیکن حضرت شاہ صاحب واحد ایشیائی تھے جنہیں لائبریرین نے کسی درخواست اور مطالبہ کے بغیر اس سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت دے رکھی تھی کہیے حضرت شاہ صاحب کا نام مشرقی افریقیہ کی احمدیہ تاریخ میں ہمیشہ علی حروف سے لکھا جائے گا.ه روزنامه الفضل ا صلح ۳۳۳ پیش / جنوری ۱۹۵۳ء مٹ : کے رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد به قادریان سال ۶۱۹۳۴- ۶۱۹۳۵ ص :
آپ نے سید معراج الدین صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ نیروبی اور دیگر مخلصین جماعت کے تعاون سے چار سال کے اندر جماعت میں زندگی کی ایسی روح پھونک دی کہ جماعت نیر راہی نے مرکز سے درخواست کی کہ وہ اپنے خرچ پر چھے ماہ کے لئے مبلغ منگوانا چاہتی ہے اس پر مولانا شیخ مبارک حد صاحب فاضل اور نومبر ۱۹۳۴ء کو قادیان سے مشرقی افریقہ تشریف لے گئے اور اس ملک میں پہلے احمدیہ تمام میشن کی بنیاد رکھی پیلے قیام مشن کے بعد بھی آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ بدستور جاری رہا.در بین قرآن، پلاک تقاریر اور انفرادی تبلیغ میں ہمیشہ ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے اور تبلیغ فنڈ کا مقامی چندہ بھی باقائدگی سے سے حق لیتے تھے تو تبلیغ فن کا مقامی سے دیا کرتے تھے یہ آپ مشرقی افریقہ میں قریباً پندرہ سال تک قیام فرما ر ہے اور بیان آخرا ارماہ اضاء ۳۲۳ پیش اکتوبر ۱۹۴۴ء کو قادیان تشریف لے آئے سیکسے تعلیم الاسلام ہای سکول کی ہیڈ ماسٹر اور امیر امینی اصلا الوجود کے ارشادپر حضرت المومنین آپ کو قادیان پہنچنے کے چند روز بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ہیڈ ماسٹری کے فرائض سونپے گئے.اس نئے عہدہ کے سنبھالنے کی اطلاع اختیار افضل نے اپنے ۲۹ اخا ۱۳۲۳ ہش کے شمارہ میں صفحہ اول پر زیر عنوان مدینتہ اشیح ، شائع کی.یہ مرکزی ادارہ اپنی پہلی عالیشان عمارت سے منتقل ہونے کے بعد کسمپرسی کی حالت میں تھا لیکن آپ نے حسن تدبیر معاملہ فہمی اور محنت و استقلال سے بہت جلد سکول کا ظاہری، اخلاقی او تعلیم یافتہ ہی بدل دیا اور عمدہ نتائج پیدا ہونے لگے.آپ نے ابتداء میں سکول کے نظام عمل میں متحد و اصلاحات کیں اور مندرجہ ذیل امور کی طرح خاص طور پر تو خیر دیجہ کہ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادریان سال ۱۹۳۵۶۱۶۱۳۴۲ برطه تفصیل تاریخ احمدیت جلد هفتم من پر آچکی ہے ) سے رپورٹ ہائے سالانہ صدر انجمن احمدیه (سال ۱۹۳۴ - ۱۹۳۵) م ت م ص (سال ۱۹۳۵ - ۱۹۳۶ ۶) مه ۳ - (سال ۱۹۳۶ - ۶۱۹۳۷) ۶۰ (سال ۱۹۳۷- ۱۹۳۸ء) مثلا، ۱۱۹ - در سال ۱۹۳۸ - ۲۱۹۳۹) ۱۰ سال ۱۹۲۰-۱۶۱۹۴۱ ص ۳۲ ۳ الفصل ۱۳ را فاء ۱۳۲۳ پیش ملا
۴۰۴ ا.اساتذہ اور طلبہ کا اردو زبان می گفت گو کرتا ضروری قرار دیا.ہر صبیح اساتذہ اور طلباء کی اسمبلی میں تلاوت قرآن پاک کے بعد طلباء کو عربی دعائیں کھلوائی جاتی تھیں اور پھر مناسب ہدایات دی جاتی تھیں.- پریفیکیٹ سسٹم جاری کیا جس کے مطابق ہر کلاس کے نمائندوں کو سکول کے انتظام اور صفائی میں مدد دینے کی ٹریننگ دی جاتی تھی..اساتذہ کرام سکول کھلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے باری باری تشریف لاتے اور صفائی اور دیگر امورہ کی نگرانی فرماتے تھے...سیکنڈری حقہ کے طلباء کو چار ایوانوں (NOUSES) ی تقسیم کیا گیاجن کے نام یہ تھے ہمزہ ہاؤس، طارق ہاؤس، خالد ہاؤس، اسامہ ہاؤس.ہر ایوان باری باری ایک ہفتہ کے لئے سکول کی صفائی کا نگران ہوتا تھا.اسی طریق کے ماتحت انٹر یا کواس ٹورنامنٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا.سکول میں حضرت مصلح موعود کی نئی بھاری فرمودہ تحریکات میں سے تراجم قرآن فنڈ اور وقت زندگی کو مقبول بنانے کی بہت جدوجہد کی گئی جس کے نتیجہ میں اس مالی جہاد کے لئے ایک معقول رقم جمع ہوئی اور بہت سے طلبہ نے اپنی زندگیاں خدمت اسلام کے لئے اپنے پیارے آقا کے حضور پیش کیں سے ۱۹۴۷ء میں ہندوستان فسادات کی لپیٹ میں آگیا اور سلسلہ احمدیہ کے دوسرے مرکزی تعلیمی اداروں کی طرح تعلیم الاسلام ہائی سکول کو بھی چنیوٹ ضلع جھنگ (پاکستان) میں از سر نو جاری کرتا پڑا.مارچ ۱۹۵۲ء میں اسے ربوہ میں منتقل کر دیا گیا سکول کی نشاۃ ثانیہ کے یہ ابتدائی پانچ سال بہت کٹھن اور صبر آزما تھے جس میں حضرت شاہ صاحب اور آپ کی زیر نگرانی سکول کے اساتذہ کو تھک محنت اور جد و جہد کرنا پڑی نو دا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے خلیفہ موعود کی دعاؤں کے طفیل اسٹاف کی کوششوں میں یہاں تک برکت ڈالی کہ مئی ۱۹۵۲ء میں سکول کے ایک طالب علم منور احمد صاحب میٹرک کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول رہے سعید احمد خان صاحب رحمانی ، بركات التي صاحب • PREFECT System a ے رپورٹ سالانہ صدر جمی احمد یه سال ۱۹۴۳-۱۹۲۷۵ و منت منه
۴۰۵ اور عبد الغفور صاحب نے یونیورسٹی میں بالترتیب تیسری، چھٹی اور ساتویں پوزیشن حاصل کی لیے اس شاندار نتیجہ پر سیدنا حضرت مصلح موعود نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: انگریزی تعلیمی اداروں میں سے تعلیم الاسلام ہائی سکول نہ بوہ پہلا ادارہ ہے میں نے ایک ایسا ریکارڈ قائم کر دیا ہے جو گذشتہ پچاس سال سے جب سے سکول قائم ہوا ہے قائم نہ ہو سکا....احمدی بچوں کا اول، سوم، ششم اور مفتم آنا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ہمارے بچے پروگرام کے مطابق تعلیم و تربیت حاصل کریں تو تعلیمی میدان میں بازی لے جا سکتے ہیں.اتھے شاہ صاحب کے دور میں ملتان ڈویژن کے انسپکٹر آف سکولز سکول میں تشریف لائے اور اس ادارہ کے بلند معیار ٹیلی سے بہت متاثر ہوئے اور ریمارکس دئے کہ ہمارے نزدیک یہ سکول ایک مثالی کو ہے جس میں بچوں کی گی اور اسلامی ان میں تربیت کی جاتی ہے اور اس کے سادہ بھی مفتی اور فرض شناس ہیں یہ تعلیم الاسلام ہائی سکول نے حضرت شاہ صاحب کے عہد میں تعلیمی رنگ میں ہی نہیں اخلاقی اور دینی اعتبار سے بھی بہت ترقی کی سکول میں فوجی ٹرینینگ اور طلبہ کی طبی امداد کے انتظامات ہوئے، ادبی اور ملی مجالس معرض وجود میں آئیں.بزرگان سلسلہ کی تقاریر کے علاوہ بیرونی ممالک سے آتے اور جانے والے مجاہدین احمدیت کے اعزاز میں تقاریب منعقد کی گئیں جن سے تحریک احمدیت کے بارہ میں بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا اور قوم کے نونہالوں کو ایک پاکیزہ اور خالص اسلامی ماحول میں پروان چڑھنے کے مواقع میسر آئے.آپ کے دور کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ سر پر ٹوپی رکھنا اور اپنے ہاتھ سے کام کرنا لیہ کا قومی شعار بن گیا تھا یہ له الفضل ۱۷ ہجرت ۱۳۳۱ پیش ملت ، رپورٹ سالانہ صدر انجین احمدیه ۱۹۵ - ۶۱۹۵۲ م ، منگا ؟ سے حضرت مصلح موعود نے ۲۵ رما و ہجرت ۱۳۳۱ پیش مئی ۱۹۵۲ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ایک ٹی پارٹی میں خطاب کیا مندرجہ بالا الفاظ حضور نے اسی تقریب پر ارشاد فرمائے تھے را متل تیم احسان اس انہیں ملے کے رپورٹ سالانہ صدر الیمین احمد یه سالی ۱۹۵۱ - ۱۹۵۲ء ص ۲، ص ۳ کے رپورٹ سالانہ صدر ایمین احمدیه سال ۱۹۵۱ - ۱۹۵۲ء صدا ، ما.
مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب جھوٹی ہیں.اسے (سال انتظامی اور تدریسی کارناموں پر ایک نظر مہنیے امریکہ نے آ کی وفات پر آپ کے آٹھ سالہ کامیابیہ، تدریسی دور کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا: لله محترم سید محمد اللہ شاہ صاحب نے اکتوبر ۱۹۴۴ء میںتعلیم الاسلام ہائی سکول کا ایسے وقت میں چارج لیا جبکہ سکول کے سٹاف میں وہ بیگانگت اور ہم آہنگی موجود نہ تھی جو ہمارے مرکزی سکول کا طرہ امتیاز ہونی چاہیئے تعلیمی حالت اگر نا گفتہ بہ نہیں تو معیار سے گرمی ہوئی ضرور تھی.اساتذہ کو آپس میں مربوط کرنا، ان کی صلاحیتوں کو خالصہ سکول کے لئے مخصوص کرنا، سکول کی گرتی ہوئی تعلمی حالت کو سنبھالنا مسلسلہ سے طلباء اور اساتذہ کو کما حقہ وابستہ رکھنا، قوم کا ایک مفید اور کار آمد وجود نباتا اور اغیار کی نظروں میں باوقار بنانا یہ وہ امور تھے جن کی تکمیل کے لئے محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب کا تقرر عمل میں لایا گیا اور اس سلسلہ میں بحیر العقول کامیابی آپ کو حاصل ہوئی.اس سات سال کے مختصر عرصہ میں آپ نے سکول کو جس قدر بلندی اور کمال تک پہنچا دیا وہ آپ کی خداداد قابلیت پر دال ہے.اسی پرانے سٹاف سے کام لے کر آپ نے سکول کو اس قدر اجاگر کیا کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا اسکول پنجاب کے چوٹی کے سکولوں میں شمار ہوتا ہے بلکہ مقدار، فیصدی اور کیفیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو بہترین ثابت کر چکا ہے.پچانوے چھیانوے فیصدی نتیجہ دکھلانا اور یونیورسٹی میں پہلے سات طلباء میں سے چار طلباء پیدا کر دنیا آپ کی ہی علمی نگرانی اور خداداد قابلیت کا نتیجہ ہے مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے سکول میں کام کرتے ۲۳ سال ہو چکے ہیں.میرے سارے عرصہ ملازمت میں افسران تعلیم نے سکول کے متعلق ایسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا جس کا انہوں نے گذشتہ سال زبانی اپنی تقریروں میں اور تحریراً لاگ بک میں کیا اور یہ شاہ صاحب کی مساعی اور دعاؤں کا نتیجہ ہے یا لے ہجرت کے بعد لاہور سے ہوتے ہوئے جب ہم چنیوٹ میں آئے تو اساتذہ اور طلباء کی مجموعی تعداد صرف ۳۴ تھی ادھر سے اُدھر سے احمدی طلباء ملا کر ہم نے پینیوٹ میں سکول کو الہ کی تعداد سے شروع کیا تھا جس میں اساتذہ بھی شامل تھے.ابتداء میں جس طرح خندہ پیشانی سے آپ نے ے یہاں سہواً نومبر ۱۹۴۵ء لکھا گیا تھا ہے کے روزنامه افضل لاہور مورخہ ۲۴ فتح ۳۳۱ امش / دسمبر ۱۹۵۲ء مث.
بے سر و سامانی اور مشکلات کا مقابلہ کیا اور احباب اور طلباء کی رہبری فرمائی یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ چنیوٹ میں ہمارے قدم جم گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سکول نے چنیوٹ کے پرانے سکولوں سے بھی زیادہ ناموری اور عزت حاصل کر لی اور آپ کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر غیر احمدی افسران اور معززین نے اپنے بچوں کو ہمارے سکول میں داخل کر وا دیا اور یہ سلسلہ آج تک زیورہ میں بھی قائم ہے.غیروں میں مقبول ہو جانا اور ان پر اپنے اخلاق کا سکہ بٹھا دینا شاہ صاحب کا ہی خاصہ تھا.انسان کی زندگی کے بعد تو اخلاق کا تقاضا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے کہ ہم ہر انسان کو اچھا ہتی تھیں اور صرف اس کی خوبیوں کا ہی تذکرہ کریں اور عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے لیکن شاہ صات کا وجود ایسا تھا کہ اپنے اور غیر سبھی آپ کی زندگی میں ہی آپ کے مدارج تھے چنانچہ چنیوٹ کے غیر احمدی بھی جن کو آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور آپ کی زندگی میں ہی آپ کے نہایت تواضع اور محبت سے ملتے تھے چنانچہ چو ہدری عبد الرحیم صاحب کار کی ہے نے ذکر کیا کہ وہ ایک روز ایک کام کے سلسلہ میں چنیوٹ تحصیل میں گئے آپ کا ذکر خیر آیا تو وہاں کے خزانچی صاحب نے کئے اپنے ایک غیر احمد کی ساتھی سے کہا کہ یہ شاہ صاحب کی بات ہے.اس نے پوچھا کو نسے شاہ صاحب ! ان صاحب نے تعجب سے کہا سید محمود اللہ شاہ صاحب ! آپ ان کو بھی نہیں جانتے وہ تو فرشتہ ہیں فرشتہ !! الغرون کوئی شخص خواہ جماعت اور سلسلہ کا کتناہی مخالف کیوں نہ ہو آپ کے اخلاق اور اخلاص کا معترف بلکہ مداح تھا اور سلسلہ کی اس طرح بلکہ بلا واسطہ تبلیغ جس خوبی اور احسن طور پر آپ کے وجود سے ہوئی اس کا اجر ہمیشہ آپ کو ملتا رہے گا.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ بہت خوش گفتارا اور جہاندیدہ تھے.ہم جلیس پر چھا جاتے محمد تعلیم کے انسپکڑ اور دیگر افسران جن سے تعلیم والے عام طور پر مرعوب ہوتے ہیں وہ خود شاہ صاحب کی مجلس میں بجائے باتیں سنانے اور مجلس پر چھانے کے ان کی طرف توبہ کرتے اور ان سے باتیں سننے پر مجبور ہوتے.ایک دفعہ متحدہ پنجاب کے زمانہ میں صوبہ کے ہیڈ ماسٹروں کی لدھیانہ میں ایک کا نفرنس ہوئی آپ بھی اُس میں شامل ہوئے محترم میاں عبد الحکیم صاحب ہیڈ ماسٹر اسلامیہ ہائی سکول لاہور آپ کو طالب علمی کے زمانہ سے ہی جانتے تھے، با وجود غیرانہ جماعت ہونے (کے ، آپ کو دیکھتے ہی صدارت کے لئے آپ کا نام ہ اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور دار الصدر بشرتی ربوہ میں رہائش پذیر ہیں ؟
۴۰۸ تجویز کر دیا اور دوسروں نے تائید کی.آپ کی اسی لیاقت اور ہر دلعزیزی کا ہی نتیجہ تھا کہ اس ایسوسی ایشن کا اگلا اجلاس قادیان میں بھی منعقد ہوا اور صوبہ بھر کے ہیڈ ماسٹر اس میں شریک ہوئے اور سلسلہ کے مرکز اور اس کے عہدیداروں سے متعارف ہوئے میلے با وجود اس کے طبیعت میں اس قدر استغالی اور بے نفسی تھی کہ کسی عہدہ یا اعزاز کو قطعا قبول نہ کرتے جب تک کہ خود دعا کر کے آپ کو اس بات کا یقین نہ ہو جاتا کہ اس میں سلسلہ کی بہتری ہو گی ہے ۱- سیدہ رقیه بیگم صاحبه مرحوم کی زوجہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحت سیال ولادت ۶۱۹۱۵ء وفات ۲۱ مارچ ۲۶۱۹۴۳ ۲ رسید مسعود مبارک شاہ صاحب (حال) سیکرٹری مجلس کارپرداز بہشتی مقبره ریوه - ولادت در جون ۶۱۹۱۹ ۳- سید داؤد مظفر شاہ صاحب (داماد حضرت مصلح موعود ولادت ۲۱ نومبر ۱۹۲۱) ۴ سید مشهد د احمد شاہ صاحب (ولادت دسمبر اولاد ۱۹۴۳ء غالباً ۵ لیڈی ڈاکٹر سیدہ مریم حنا صاحبہ (ولادت ۱۹۵۲ء غالیگا، اگے مندرجہ بالا جلیل القدر صحابہ کے علاوہ بعض اور قیمتی وجود بھی داغ مفارقت دے گئے مثلاً :.محترمہ شہر بانو صاحبہ ہمشیرہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید رحمتہ اللہ علیہ (وفات ۲۵ صلح ۳۳۱ رایش پسر جنوری ۱۹۵۲ و لعمر ۹۸ سال) ۲- حضرت صاحبزادہ سید عبد السلام صاحب فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید رحمتہ اللہ علیہ روفات ۳ تاریخ ۳۳۶ پیش / فروری ۶۱۹۵۲ بعمر ۵۸ سال) ۱۳ فاطر بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر عنایت علی صاحب لدھیانوی (وفات ۳۳۱ امش ۲۱۹۵۲) محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.انہوں نے 1900 ء میں بیعت کی لیکن در حقیقت ان کا تعلق احمدیت سے بہت پرانا تھا.ان کے خاوند ے یہ پراونشل ایجوکیشنل ایسوسی ایشن ۲۸ فروری تا ۲ مارچ ۱۹۳۵ء میں منعقد ہوئی تھی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد دہم م ) : ه الفضل ۲۵ فتح ۱۳۳۱هش/ دسمبر ۶۱۹۵۲ مث : سه مدفون بہشتی مقبره قادیان ( قطعه واحصہ ۲ قبرش ) : که متدرجه بالا تاریخی سید مسعود مبارک شاہ صاحب کی ایک یادداشت سے استاد کی گئی ہیں ؟
۴۰۹ میر عنایت علی صاحب الدھیانوی ان چالیس آدمیوں میں سے تھے جنہوں نے لدھیانہ کے مقام پر حضرت مسیح موعود علي الصلوۃ و السلام کی پہلے دن سبعیت کی اُن کی ہومی بھی در حقیقت اسی دن سے احمدیت سے تعلق رکھتی تھیں ۴- میر مرید احمد صاحب تالپور سناده -:- حضرت مصلح موعود نے ان کی وفات پر فرمایا :- " میر صاحب ریاست خیر پور کے شاہی خاندان میں سے تھے.طالب علمی کی حالت میں قادیان رہے اور شاید وہیں سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور بعد میں ان کی شادی ہوئی.احمدی ہو جانے کی وجہ سے اپنے خاندان سے بہت تکالیف اُٹھائیں.ریاست خیر پور میں فارسٹ آفیسر تھے.نواب صاحب خیر پور کی والدہ نے انہیں میرے پاس بھیجا کہ باپ کے بعد میرے بیٹے کا نواب ہونے کا حق ہے لیکن باپ بیٹے پر خفا ہے آپ دعا کریں کہ میرا بیٹا نواب ہو جائے لیکن نے کہا اچھا میں دعا کروں گا لیکن وہی بیٹا جب نواب بنا تو اس نے انہیں ڈسمس کر دیا.آپ موصی تھے اور نہایت مخلص احمدی تھے.ان کی اولا د بھی مخلص احمدی ہے کہ فصل ششم ۳۳۱ ایش کے محض متفرق مگر اہم واقعات ب اس سال کے بعض متطرق مگر اہم واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے.حضرت مهدی موعود عليه الصلوة والسلام خاندان حضرت مسیح موعود میں تقاریب مسترت فرماتے ہیں کہ غموں کا ایک دن اور چار شادی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی وفات کے سال میں بھی خوشیوں کے کئی دن دیکھا له الفضل ۲۹ ملح ، یکم ایمان ۲ ظهور، ۸ - اخفاء ۱۳۳۱ پیش
کیا اپنے پاک وعدہ کو پورا فرمایا مثلاً.ان کے ظہور ۳۳۱ اہش کو اللہ تعالیٰ نے صاحبزادہ مردہ امنتو را حمد صاحب کو چوتھا بیٹا اور اضاء کی درمیانی شب میں صاحبزادی امتر النصیر بیگم صاحبہ کو پہلی بچی عطا فرمائی.بیٹے کا نام مظفر احمد اور ی کا نام اما التصور رکھا گیا.بچی کے کانوں میںحضرت امیرالمومنین الصلح الموعود نے اذان کی اور شہر کی گھٹی دی.- ۱۲- اتحاد ۱۳۳۱ امیش کو محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب (قادیان ) کی تقریب شادی منعقد ہوئی بستید نا حضرت المصلح الموعود نے انہیں ۲۷ اعضاء کو والٹن کیمپ لاہور کے فضائی مستقر پر دعاؤں سے رخصت کیا.اس موقعہ پر افراد خاندان مهدی موعود استان تعلیم الاسلام ہائی سکول او دیگر مقامی اصحاب بکثرت موجود تھے.دہلی کے ہوائی اڈہ پر مرزا برکت علی صاحب آفت ابادان مع اہلیہ استقبال کے لئے موجو د تھے اور انہوں نے جماعت ہندوستان کی طرف سے پھولوں کے ہار ڈالے.۲۹۰۳ فتح ۳۳۱ اہش کو حضر ت صلح موعودہؓ نے صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کا نکاج سیده امتہ السمیع صاحبہ (بنت حضرت میر محمد اسمعیل صاحب) سے اور سیدہ آنسہ (بنت حضرت میرمحمد اسحق صاحب کا نکاح قاضی محمود شوکت صاحب سے پڑھائے اسید نا حضرت مصلح موعود کے ارشا د پر وسط ۱۳۳۱اہش / ۶۱۹۵۲ مسجد مبارک بوہ میں درس میں قرآن مجید حدیث اور فقہ کا در مسجد مبارک بادہ میں جاری ہوا.یہ درس مکرم مولوی ابو المنیر لورالحق صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ اور حال مینجنگ ڈائریکٹر ادارہ الاحتفین) ربون، مکرم مولوی خورشید احمد صاحب شاد اور مکرم ملک سیف الرحمن صاحب فاضل باری باری بعد نماز عصر دیا کرتے تھے.اس سال قصر خلافت کی مستقل عمارت مسجد مبارک ربوہ کے عقب میں قصر خلافت کی مستقل عمارت تعمیر ہوئی اور حضرت مصلح موعود قریباً پونے تین برس تک ایک سادہ له الفضل و ظهور را ۲۴ انجاء ۲۶ اضاءه ۲۸ را فاء ۱۳۳۱ امنش - اصحاب احمد جلاد ششم مر ۱۹ افضل ۱۸ صلح ۳۳۲ اش - بدر ۲۸ ابقاء ۳۳۱ امش صلو
ربوہ کا ایک یاد گار فوٹو ( ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعا گو کعبے کی پہنچتی رہیں ربوہ کو دعائیں) قصر خلافت مسجد مبارک ، خلافت لائبریری اور لنگر خانہ کی ابتدائی عمارتیں سامنے نظر آرہی ہیں )
۱۱ سے مکان میں فروکش رہنے کے بعد ۳۰ احسان ۱۳۳۱ ہش / جون ۱۹۵۲ء کو قصر خلافت کی نئی عمارت میں منتقل ہو گئے.پہلی رہائش گاہ سے روانگی کے وقت حضرت صاحبزاده مرته البشیر احمد صاحب ، حضرت صاحبزاده مرزا مر این احمد صاحب ، حضرت مولوی محمد الدین صاحب ، حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد نا حضرت خانی ضا مولوی فرزند علی صاحب نے اور دوسرے بزرگان سلسلہ کے علاوہ تحریک تجدید کے کارکنوں کی ایک خاصی تعداد موجود تھی بعضور نے موٹر میں سوار ہونے سے قبل حاضرین سمیت دعا فرمائی.دعا ختم ہوتے ہی بزرگان مسلسلہ اور دوسرے احباب ایک مختصر راستے سے بغرض استقبال قصر خلافت پہنچ گئے چند منٹ بعد حضور بھی تشریف لے آئے اور دوبارہ دعا کرانے کے بعد قصر خلافت میں مبارک قدم رکھا عین اس وقت جبکہ حضورہ اس نئی عمارت میں رونق افروز ہوئے باران رحمت کا بھی نزول ہوا لیے استید نا حضر امیر المومنین الصلح الموعود کے حکم سے بیاہ ہجرت اثر خلافت لائبریری کا قیام مئی ۱۹۵۳ء میں حضور کی ذاتی لائبریری اور صدر انجین احمدیہ پاکستان کی مرکزی لائبریری یکجا کر دی گئی اور اسکے انچا ورج مکرم مولوی محمد صدیق صاحب فاضل واقف زندگی مقرر کئے گئے.اس امر یہ ہی کے لئے قصر خلافت کے ساتھ ایک پختہ عمارت تعمیر کی گئی تھی جس کا جنوبی مقصد مشکل ہونے پر اس میں سب سے پہلے حضرت اقدس کی ذاتی کتب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے لائی گئیں اور ان کو حضور کی اجازت سے بعض قواعد کے مطابق پبلک کے استفادہ کے لئے عام کر دیا گیا.ازاں بعد ما و فتح ۳۳۲ پیش کر دسمبر ۱۹۵۳ء کو مرکزی لائبریری کا لڑ پر بھی پختہ عمارت کے شمالی کمرہ میں رکھ دیا گیا اور ایک ہزار سے زائد انگریزی کتابیں جو اب تک ٹرنکوں میں بند تھیں الماریوں میں ایک عمدہ ترتیب اور قرینہ سے لگا دی گئیں کہ جس سے علماء سلسلہ اور دوسرے صاحب علم و قلم اصحاب کو مطالعہ کرنے اور تحقیق تختص جاری رکھنے کی بہت سہولت پیدا ہو گئی.اس طرح ربوہ میں اس عظیم انسان لائبریری کی داغ بیل پڑی جس کا تختیل حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے مشاورت ۳۳۱ میش/ ه بدر (قادیانی) نه ظهور ۱۳۳۱ پیش صف کے رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بایت سال ۶۱۹۵۲-۶۱۹۵۳ ص۲، ص ۳۳ و ایضاً ۶۱۹۵۳-۱۹۵۴ منا، صلابه
۴۱۳ ۱۹۵۲ء کے دوران پیشیں فرمایا تھا.غیروں کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے اور افضل کو پہلے الفضل میں شذرات کا لیپ سلسلہ سے زیادہ مفید بنانے کے لئے سید نا حضرت مصلح موعود کی خصوصی ہدایت پر شذرات کا ایک دلچسپ علمی سلسلہ شروع کیا گیا جو ۲۰ ظهور ۱۳۳۱ انش بر اگست ۱۹۵۴ء سے لے کر ۲۷ ماه تبلیغ ۳۳۲ اتش / فروری ۱۹۵۳ء تک جاری رہا.اس نئے کالم کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل تھی کہ حضور نهایت با قاعدگی اور التزام کے ساتھ اس پر نظر ثانی فرماتے حضور کے ملاحظہ کے بعد اس کا مسودہ روزانہ لاہور بھجوا دیا جاتا تھا جہاں سے اُن دنوں اختیار افضل کی طباعت و اشاعت ہوتی تھی لیے راس تعلق میں حضرت مصلح موعود نے ۲۲ ظہور ۱۳۳۱ اہش کو ایک ضروری مکتوب رقم فرما یا جیس سے اس کے پس منظر کا پتہ چلتا ہے حضور نے ایڈیٹر صاحب الفضل کو لکھا :- ہ آپ کو ہدایت جا چکی ہے کہ ایڈیٹوریل چھوٹا لکھا کریں اور موجودہ فتنوں کے متعلق اور قومی مسائل پر زیادہ لکھا کریں اور ایڈیٹوریل کے بعد مولوی دوست محمد صاحب کے لکھے ہوئے شذرات شائع کیا کریں...الفضل کے متعلق عام شکایت آرہی ہے کہ اس کا سٹینڈرڈ گر رہا ہے سوائے ا جویا شده انسان و چوار ها که بر موادی درست که ساحت مانے جو بے شک رات سارے کے کریں خاتم النبیین نمبر کے کہ اُس کی بے شک بہت تعریف آئی ہے.کثرت سے اعتراض ہوتے ہیں جنکے کوئی جواب نہیں دیئے جاتے اور اسی لئے ہم نے شذرات لکھوانے شروع کئے ہیں " سے باره نیوک ۱۳۳۱ همش / ستمبر ۱۹۵۲ء میں بمقام جھنگ ار ماتماتیک سال مسلم لیگی بیوہ کو انامی کی مسلسل میں اداکاروں کی ریلی ہوئی جس میں سال مسلم لیگ لیگی ریوہ خان شیر احد خان صاحب کے اول آئے اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے ان کو انعامی کپ دیا.اس موقعہ که مولوی مبارک احمدخان صاحب ایمن آبادی مدیر نزیاق و رفتار زمانہ نے ان شذرات کا انتخاب ایک ٹریکٹ کی صورت میں بھی شائع کیا ؟ کے اصل چٹھی دفتر شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ میں محفوظ ہے ؟ سے آپ نے عمر کے آخری سال انگلستان میں بسر کئے اور وہیں انتقال کیا ہے
۴۱۳ کی تصویر اخبار زمیندار ۲۸ ستمبر ۱۹۵۲ء کے صفحہ اول پر شائع ہوئی.تخدام الاحمدیہ مرکز یہ پاکستان کی مجلس شورای ۱۲۹ انتشار ر سالہ خالد کا اجراء اور حضرت مرزا 1990ء میں یہ فیصلہ ہو کر گلی کی طرف سے سا منے ۱۹۵۰ کہ مجلس بشیر احمد صاحب کا خصوصی پیغام کا ایک منہ ماہی رسالہ جاری کیا جائے.ان دنوں مجلس کی مالی حالت اس کے گراں اخراجات کی متحمل نہ تھی اس لئے "الطارق“ نام سے 4 س صفحات کے ایک ناہوار رسالہ کی تجویز ہوئی اور ۳۳۰ ہش / ۱۹۵۱ء سے اس کے ڈیکلر مشین کی جد و جہد شروع کردی گئی.ابتدائی محکمانہ تحقیقات مکمل ہوئی تو مین آخری مرحلہ پر یہ اطلاع ملی کہ ایسی نام کا ایک اور رسالہ بھی بھاری ہے اور ضروری ہے کہ کوئی اور نام تجویز کیا جائے مجلس مرکز یہ نے سید نا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں نئے نام کے لئے درخواست کی حضور نے فرمایا مخالد نام رکھ دیں یا چنانچہ ۱.امان ۱۳۳۱ امیش / مارچ ۱۹۵۲ء کو خالد کے ڈیکلریشن کی درخواست دی گئی.کئی ماہ کی یاد دہانیوں اور دفتری جیپ رگیوں اور محکمانہ کارروائیوں کے بعد ۶ ستمبر ۱۹۵۲ء کو ڈیکوریشن کی باضابطہ منظوری ہوئی اور ساتھ ہی ایک ہزار روپیہ کی ضمانت کا مطالبہ بھی ہوا جس کے داخل کرانے کی آخری تاریخ ۶ استمبر ۱۹۵۲ء تھی مجلس کے پاس اِس قدر روپیہ نہیں تھا بڑی دوڑ دھوپ کے بعد استمبر کو روپیہ کا انتظام ہو سکا لیکن جھنگ پہنچ کر معلوم ہوا کہ وقت پر ضمانت داخل نہ کرنے پر ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا ہے اس پر دوبارہ درخواست دی گئی اور بالآخر ۲.اکتوبر ۱۹۵۲ء کو ڈیکلریشن ملا اور زرضمانت داخل کرا دی گئی.اس طرح نهایت لیبی جد و جہد اور صبر آزما حالات میں سے گزرنے کے بعد اکتوبر ۱۹۵۷ء میں رسالہ اسفالٹ جاری ہوائیے خالد کے پہلے دو پر سچے مولوی غلام باری صاحب سیف پر و فیسر جامعہ احمدیہ ، مولوی خورشید احد صاحب شاد پر و فیسر مجامعہ احمدیہ اور مولوی محمد شفیع صاحب مشرف کے زیر ادارت چھپے.اسکے بعد مولوی غلام باری صاحب سیف مدیر مقرر ہوئے منیجر کی خدمت شروع ہی میں سید عبد الباسط صاحب نائین معتمد مرکز یہ کے سپرد کی گئی.اداریہ کے علاوہ مشعل راہ ، جواہر پارے ، روشن ستارے ، ہماری مساعی دُنیا کے کناروں تک له خالد اضاء ۱۳۳۱ امتش / اکتوبر ۶۱۹۵۲ ص و ص.
سلام امام کو الف ربوہ اور اطفال الاحمدیہ اس کے مستقل نیچر قرار پائے.اس ابتدائی دور میں پہلے سال سالم خالد کو جو قلمی معاونین بیشتر آئے ان میں ملک سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ مفتی مسلسل احمدیه مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری، جناب حسن محمد خان صاحب عادت نائب وكيل التبشير، مولوی نور الحق صاحب اور فاضل (مبلغ امریکہ بھی شامل تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کے اجداد پر حسب ذیل پیغام سپرد قلم فرمایا :- بکوشید اسے جوانان تا به دین قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا نه مجھے مولوی غلام باری صاحب سیف معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ نے اطلاع دی ہے کہ انکی مجلس مرکز یہ کے زیر انتظام ایک ماہواری رسالہ خالد نامی بھاری ہو رہا ہے اور تکلیف صاحب نے جنہین خالد کے نام کے ساتھ ایک اہم تاریخی جوڑ حا صل ہے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں بھی اس رسالہ کے پہلے نمبر کے لئے کوئی مختصر سا پیغام لکھ کر دوں جو جماعت کے نوجوانوں کی ہمتوں کو بڑھانے والا ہو اور ان میں کام کی روح پھونکنے والا ہو سو مجھے اس پیغام کے لئے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ فارسی شعر نظر آیا ہے جو میرے اس نوٹ کا عنوان ہے اور میں کا اُردو زبان میں سلیس اور آزاد ترجمہ یہ ہے کہ اسے احمدیت کے نو جوانو ! دین کے رستہ میں اپنی کوششوں اپنی جد و جہد کو اس اخلاص اور اس ذوق و شوق اور اس جذبہ قربانی کے ساتھ بھاری رکھو کہ تمہاری اس مجاہدانہ مساعی کے نتیجہ میں دین کو غیر معمولی مضبو ملی حاصل ہو جائے اور اسلام کا باغ و مرغزار پھر دوبارہ ایک نئی رونق و بہار کے ساتھ مخالفوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے لگے ہیں یہی وہ مقصد ہوتی ہے جو ہمارے نو جوانوں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے.فاروق ہوں یا خالہ اور فلم ہو یا سیف سب اپنے اپنے میدان میں اور اپنے اپنے وقت پر اسلام اور صداقت کے خادم ہیں.صرف مومن کی نیت پاک صاف ہونی چاہئیے اور اس کے قلب میں سیمابی ولولہ پھر اس کے آگے رستہ بالکل صاف ہے.کتب الله لأغلب أنا وَرُسُلِى لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيمِ) - یہ وقت خاص خدمت کا ہے کیونکہ احترام کی مخالفت نے جماعت کے لئے تبلیغ کا نہ استہ اس طرح بے آئینہ کمالات اسلام سرورق ص مطبوعہ ۱۳ ۱۸۹ء کے المجاولہ رکوع ۳
کھول دیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح نہیں گھلنا تھا.بے شک مخالفت بہت سخت اور اس کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن یہی وہ وقت ہے جبکہ سعید رو میں خواب غفلت سے بیدار ہو کر تحقیق کی طرف بائل ہو رہی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ پورا ہو رہا ہے کہ اللی جماعتوں کے لئے مخالفت وہی کام دیا کرتی ہے جو ایک عمدہ کھیت کے لئے کھا دیتی ہے.پس اسے عزیزہ اور بھائیو ! ! زندگی کی ان قیمتی گھڑیوں کو قیمت جانو تمہیں کیا معلوم ہے کہ ماحول کا یہ زریں موقعہ کب بدل جائے یا تمہاری اپنی زندگی کا یہ دور کب ختم ہو جائے ؟ اسی لئے ہمارے آقا اور امام نے جہاں وہ شعر ارشاد فرمایا ہے جو اس نوٹ کے عنوان میں درج ہے وہاں دوسری جگہ یہ انتباہ بھی فرمایا ہے کہ اسے بے خیر بخدمت فرقاں کمر بند زان پیشتر که بانگ بر آید فلان نماند لے اور ایسی پر ہمیں اپنا یہ ختصر پیغام ختم کرتا ہوں اللہ تعالی آپ لوگوں کے ساتھ ہوا اور آپ کی ممبر نیک مساعی میں آپ کا حافظ و ناصر رہے.امین یا ارحم الراحمین.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد - ربوہ سے سید نا حضرت مصلح موعود ہو نے خدام الاحمدیہ کے بارھویں خدمت پاکستان کی خصوصی تقریب سالانہ اجماع کے موقع پر نوجوانان حریت و جاں ہے احمدیت کو قیمتی ہدایات دیں کہ مسابقت کی روح پیدا کرو، خدمت خلق کرو، ذکر الہی اور محاسبہ نفس کے لئے مراقبہ کی عادت ڈالو وہاں خدمت پاکستان کی خصوصی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :- " اپنے ملک کی سچی خدمت کرنے کی راہ میں اس امر کو کبھی روک نہ بناؤ کہ ہماری مخالفت بہت ہوتی ہے.جب ہم یہ جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کر ہماری مخالفت کرنے والے ملک کے اشتہار اہل اسلام کی فریاد بحوالہ درشین فارسی من ناشر محمداحمد اکیڈمی رام گلی نمی ۳- لا ہور * له منقول از ماهنامه تخالد ماه اضاء ۱۳۳۱ پیش / اکتوبر ۱۹۵۲ء مشت :
۴۱۶ دشمن ہیں اور دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہی ملک کے حقیقی خیر خواہ اور وفادار ہیں تو خود اندازہ لگاؤ کہ اس مخالفت کے نتیجہ میں ہمیں ملک کی خدمت میں کمزور ہونا چاہیے یا پہلے سے بھی بڑھ کر اس میں حصہ لینا چاہئیے ؟ جس چیز کے لئے سچی محبت اور ہمدردی ہوتی ہے اسے خطرے میں دیکھ کر تو قربانی کا جذبہ تیز ہوا کرتا ہے نہ کہ کم یا اے تیونس اور مراکش کے جانباز مسلمان ایک ڈھا تیونس اور مراکش کی تحریک آزادی کی حمایت او دعا عرصہ سے فرانس کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے موتمر عالیم اسلامی نے فیصلہ کیا کہ ۲۱ نومبر ۱۹۵۷ء کو دنیا بھر کے مسلمان یوم تیولیس و مراکش منائیں.اس فیصلہ کے مطابق حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر جماعت احمدیہ نے بھی ان مظلوم اسلامی ممالک کے مطالبہ آزادی کی حمایت میں جیسے گئے اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی بخشے لیے چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں ان ممالک کے حق میں پر زور آواز بلند کی جس تفصیل آپ کی خود نوشت سوانح " تحدیث نعمت طبع اول ۱۹۷۱م) صفحه ۵۶۹، ۵۷۳ میں ملتی ہے.۱۹۵۱ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مراکش اور تیونس کے مسئلے کو ایجنڈامیں شامل کرنے کا سوال پیش ہوا تو آپ ہی کی تقریر اس موقع پر سب سے نمایاں تھی.تقریر میں آپ نے امریکہ اور دیگر تمام ایسے ممالک کے طرز عمل کی مذمت کی جو ان مسائل کو شامل ایجنڈا کرنے کے خلاف تھے.آپ نے جب دوران احباس فرمایا کہ اگر ان مسائل پر غور کرنے سے انکار کیا گیا تو مراکش میں قتل و خون ہو گا اور اس کی تمام تر ذمہ داری امریکی نمائندہ پر ہوگی تو امریکی مندوب کا رنگ زرد پڑ گیا تے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی دعائوں، چوہدری صاحب کی کوششوں اور اہل تیونس و مراکش کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشا اور یہ دونوں ملک ۱۹۵۶ء میں آزاد ہو گئے ہیں الفضل ۲ نبوت ۱۳۳۱ ش ص الفضل ۲۱-۲۲ - ما و نبوت ۱۳۳۱ همش : سے ملت (لاہور) ۲۲ جنوری ۶۱۹۵۴ مک ہے کے انسائیکلو پیڈیا آف بریٹین کا ایڈیشن ۱۹۷۲ زیر لفظ TUNISIA اور Morocco :
۴۱۷ اسی قادیان کی مقامی احمدی آبادی ہر سال بڑھ رہی تھی.یوپی چودہ درویش خاندانوں کی واپسی کے بعض خاندان بطور ماہر آباد ہو چکے تھے.ان کےبعد وسط ۱۳۳۰ ش / ۱۹۵۱ء میں بارہ درویش خاندان پاکستان سے واپس گئے.اس سال کے آخر میں چودہ خاندانوں کا اضافہ ہوا جو بذریعہ سینی والا رضلع فیروزپور) داخل ہندوستان ہوئے جس سے گل احمدی آبادی کی تعداد ۴۷۹ تک جا پہنچی.اس آبادی میں مرد ۲۷۰، خواتین ۸۶ اور بچے ۱۳۳ تھے لیے اس سال مندرجہ ذیل میلین اسلام بیرونی دنیا تک پیغام مبلغین اسلام کی آمد ور روانگی اہمیت پہچانے کے لئے مرزا حریت راہ سے روانہ ہوئے.احمدیت ا.مولانا شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ (اما تبلیغ مشرقی افریقہ ) ۲.مولوی عبدالرشید صاحب ارشد (اما تبلیغ انڈونیشیا) س مولوی مبارک احمد صاحب ساقی ۱۳ ماہ اخاء برائے نائجیر یا ) ۴.مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپور ( ۱۸ ماه اخاء برائے سیرالیون) ۵ مولوی عبد اللطیف صاحب پریمی ( ۱۸ ماه اخاء برائے نانا ( ۶ مولوی عبد القدیر صاحب شاہد (۱۸ ماه اخاء برائے نانا) علاوہ ازیں غیر ممالک یعنی بیرون پاکستان سے مولوی محمدعثمان صاحب صدیقی ور ماه تبوک) صوفی محمد اسحق صاحب مبلغ سیرالیون (۱۵ شهادت مولوی امام الدین صاحب تین انڈونیشیا اور مولوی بشارت احد صاحب بشیر مبلغ مغربی افریقہ تبلیغ اسلام کا فریضہ کامیابی سے بجالانے کے بعد واپس تشریف لائے.بیرونی احمدی جماعتوں میں مرکز سلسلہ میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی ایک نئی کرو چل نکلی تھی یہی وجہ تھی کہ ربوہ واپس آنے والے اکثر مبلغین کے ہمراہ مختلف ملکوں کے بعض احمدی طلباء بھی تھے مثلاً علی امین صاحب (مغربی افریقہ) محی الدین صاحب (انڈونیشیا ، عبدالوہاب بن آدم صاحب بشیر بن صالح صاحب (مغربی افریقیہ ).ان طلباء میں سے عبدالوہاب بن آدم خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو آٹھ سال تک مرکز احمدیت میں تعلیم دین حاصل کرتے رہے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایده اللہ تعالیٰ کے حکم پر حیثیت مبلغ ۲۱ اضاء ۱۳۵۱ ہش / ۲۱ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو انگلستان پہنچے جہاں آپ ۲ فتح ۱۳۵۳ پیش / ۳- دسمبر ۱۹۷۴ء تک تبلیغ اسلام کے فرائض انجام دیتے رہے اور ہ.فتح ۳۵۳اہش / ۵ - دسمبر ۱۹۷۴ء سے احمد یسلم من غانا کے انچارج اور امیر کی حیثیت سے اشاعت اسلام ه بعد (قادیان) ۲۱ اخلطه ۱۳۳۱ امیش حث، مصباح (ریوه) ماه مصلح ۱۳۳۲ اش مال : سے محترم مبارک احمد صاحب ساقی جو ا ا را خاء اکتو بر کوروانہ ہوئے تھے کراچی میں موجود تھے کہ موخر الذکر تینوں مجاہدین بھی پہنچ گئے.سب بذریعہ بحری جہاز عازم لندن ہوئے.
۴۱۸ واحدیت کے جہاد میں سرگرم عمل ہیں لیے امریکہ :.اس سال امریکن میشن نے اشاعت لٹریچر کے ضمن میں بیرونی مشنوں کی سرگرمیان وایا اور ایک یونیم اینڈ یا کریسی کا چوتھا نمبر شائع کیا اور امریکہ کے صاحب اثر مطلقہ میں اس کی بکثرت اشاعت کی گئی.امریکن سپریم کورٹ کے جج ڈگلس نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ خواہش ظاہر کی کہ آئندہ بھی انہیں لڑیچر دیا جائے.۲.امریکہ کے ممتاز اور با اثر اخبار پٹس برگ کو ائر کے نمائندہ نے چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر الخارج مبلغ سے فصل انٹرویو لیا اور اسے جلی عنوان کے ساتھ دو قسطوں میں شائع کیا مضمون میں احمدیت کے بنیادی عقائد اور امریکہ میں معیشی قوم کے مسئلہ پر احمدیوں کا نقطہ نگاہ اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے جماعتی مسائلی پر روشنی ڈالی گئی تھی.اس مضمون کی اشاعت پر ملک کے مختلف اطراف سے بہت سے خطوط موصول ہوئے جن کے جواب میں مشن کی طرف سے سب کو لٹریچر بھجوایا گیا...اس سال ایک امریکی نومسلم عبدالشکور ریش زندگی وقف کرکے دینی تعلیم کے لئے ربوہ میں تشریف لائے لینے گولڈ کوسٹ : اکرانو گاؤں جماعت احمدیہ گولڈ کوسٹ (غانا) کی تاریخ میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے.یہی وہ مشہور بستی ہے جس کے چیف صدی آپا نے اپنے اور دوسرے نیٹی بھائیوں کی طرف سے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں مبلغ بھیجوانے کی درخواست کی جس پر حضور نے فروری ۱۹۲۱ء میں حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب تیرہ کو اس تاریک بر اعظم میں نور اسلام پھیلانے کے لئے بھیجا اور کئی ہزار لوگ وانیل احمدیت ہوئے سیتے اگرافو کی قدیم سجد کی تھی جسے اس سال مقامی مخلص جماعت نے پانچ ہزار پونڈ کی لاگت سے ایک پختہ اور شاندار مسجد میں تبدیل کر دیا جس کا افتتارج مولانا نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ انچارج نے تبلیغ ۱۳۳۱ میشی / فروری ۱۹۵۲ء کو کیا.اس تقریب پر تین ہزار سے زیادہ نفوس جن میں چینیس اور پیرا مونٹ چیفس بھی شامل تھے مدعو تھے.صدارت کے فرائض ریاست کے پیرامونٹ چیف نے ادا کئے ساڑھے چار سو پونڈ چندہ جمع ہوا ہے کے ریکارڈ وکالت تبشیر تحریک جدید ر بون له الفضل ۱۲-۱۳ تبلیغ ۳۳۲ امیش سے تفصیل تاریخ احمدیت جلد پنجم ۲۷۵، ص۲۷۶ میں گزرچکی ہے : که الفضل ۲۰ امان ۱۳۳۱ آرش صث :
ig انڈونیشیا :.اِس سال انڈونیشیا کی احمدی جماعتوں میں بیداری کے نئے اثرات پیدا ہوئے جس پر حضرت مصلح موعودہؓ نے درج ذیل الفاظ میں اظہار خوشنودی فرمایا :- اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشیا کی جماعتوں میں خاص بیداری پیدا ہو رہی ہے.اس سال کے عام چندوں کا بحیث ان کی طرف سے ایک لاکھ اسی ہزار کا آچکا ہے.اب انہوں نے تار دی ہے کہ اسی ہزار کے وعدے تحریک جدید کے ہو چکے ہیں اور ابھی سات جماعتوں کے وعدے باقی ہیں وہ بعد میں آئیں گے گویا گل وعد سے اس وقت تک دو لاکھ ساٹھ ہزار کے ہو چکے ہیں.امید ہے یہ رقم تین لاکھ تک پہنچ جائے گی.جماعتہائے پاکستان کے لئے یہ ایک سبق اور عبرت ہے.اتنی دور کی جماعتوں میں اتنا اخلاص پایا جاتا ہے جسے دیکھ کر پاکستان کے دوستوں کو اخلاص میں اور ترقی کرنی چاہیئے.انڈو نیشین جماعتوں کے علاوہ مغربی افریقہ کے تینوں ملکوں کے چندے سال میں پونے دو لاکھ کے قریب کے ہوئے ہیں اور مشرقی افریقہ کا چندہ قریباً ایک لاکھ شلنگ سے زائد کا ہوتا ہے اور امریکہ کا چندہ قریباً ایک لاکھ روپیہ کا ہو جاتا ہے اور عرب ممالک کے چندے کم سے کم مبلغین کے اخراجات برداشت کرنے لگ گئے ہیں.اللہ تعالی استارت کے مبلغوں کے کاموں اور نتائج میں برکت دے.احباب تمام بیرونی جماعتوں اور وہاں کام کرنے والے مبلغوں کے لئے خاص طور پر دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ ان نہتے سپاہیوں کی مدد کرنے اور انکے ہاتھ پر اسلام اور احمدیت کو فتح عظیم اور کامل بخشے اور جلد سے جلد بخشے سے انڈونیشیا کے مخلص احمدیوں اور مبلغوں کی سال زیر نظر کی سرگرمیوں میں سے بعض کا ذکر مناسب ہوگا.ا.ایک احمدی وفد نے جن میں دیگر مقامی مخلص احمدیوں کے علاوہ مولوی عبد الواحد صاحب فاضل، میاں عبدالحی صاحب ، حافظ قدرت اللہ صاحب بھی تھے سید شاہ محمد صاحب ہمیں الشیخ انٹر نیشیا کی قیادت میں پریذیڈنٹ سکار نو سے ان کے محل میں ملاقات کی اور ان کو تفسیر القرآن انگریزی کی دوسری جلد کا روحانی تحفہ پیش کیا.۲.مولوی محمد ہادی صاحب نے سرابا یا میں تعین ہونے کے بعد ایک کامیاب پر یس کا نفرنس کی جس میں ۱۵ نمائندگان شامل ہوئے جن میں سے بعض له الفضل الشهادت ۱۳۳۱ اسش / اپریل ۱۹۵۲ء ص.
۴۲۰ نے احمدیت پر عمدہ نوٹ شائع کئے.سرا بابا میں آپ کے زیر اہتمام ایک تبلیغی جلسہ بھی منعقد ہوا..پہلی ششماہی میں قریباً سو افراد احمدی ہوئے.۴.مغربی جاوا کے شہر بوگیر میں نئی احمدیہ سجد کا افتتاح عمل میں آیا یہ ایک پاکستانی دوست ڈاکٹر عبدالغفور صاحب نے سرابابا میں ایک مکان جماعتی ضروریات کے لئے وقت کیا بلہ و یا شرکت اسلام انڈونیشیا کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی ہے جس نے آزادی وطن کی بعد و جہد کا آغاز کیا.اس پارٹی کی چالیس سالہ سالگرہ میں سید شاہ محمد صنا اور حافظ قدرت اللہ صاحب نے شرکت کی اور کئی معززین سے تبادلۂ خیالات کیا ہیے.۵.اکتوبر ۱۹۲۵ء کو انڈونیشیا نے آزاد فوج قائم کی تھی.اس یادگار قومی دن کی تقریب میں وزارت دفاع کے چیف آف دی سٹاف نے سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ اور نائب صدر جماعت احمدیہ انڈونیشیا کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کر لیا.ماہ اکتوبر میں ہی میاں عبد الحی صاحب کو جزیره بالی کے ایک سابق راجہ سے ملاقات کرنے اور اسلام کا پیغام پہنچانے کا موقعہ ملا.میاں صاحب نے انگریزی لٹریچر کی ایک نمائش میں حصہ لیا اور اسلامی لٹریچر رکھنے کے علاوہ ہندوستان میں اُردو اور انگریزی کی ترویج پر تقریر کی.9.انڈونیشیا میشن کا ایک اہم واقعہ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی چوتھی کامیاب سالانہ کا نفرنس ہے جو مقام سکھلایا ( TASI KHALAYA) بتاریخ ۸-۲۷-۲۲ ہر ماہ فتح منعقد ہوئی ہے شام مشن : مفتی مصر کے رسوائے عالم فتوی کی حقیقت واضح کرنے کے لئے استاد میر امینی امیر جماعت احمدیہ مشق نے اخبار العلم (۱۱ جون ۱۹۵۲ء) میں ایک نوٹ دیا نیز، جولائی ۱۹۵۲ء کو ایک استفتاء سائیکو سٹائل کر کے علمی حلقوں میں تقسیم کیا ہے له الفضل بیکم ظهور ۱۳۳۱ امتش مث ، ۱۷ صلح ۱۳۳۲ پیش مٹ ہے له الفضل ۲ نبوت ۱۳۳۱ مش صا به الفضل ، فتح ۱۳۳۱ مش مث : که تفصيل الفضل ۲۴ تا ۲۷ تبلیغ ۱۳۳۲ اہش میں چھپ چکی ہے ؟ ٹے کھٹنگ رجسٹر خلاقت لائبریری ربوہ *
۴۳۱ فصل مفتم خطبات جمعہ میں وزہ رکھنے دین پھیلانے دعا کرنے اور پتے بولنے کی تلقین پاکستان اور احمدیت کے خلاف شورش کا آغاز حضر مصلح موعود کی رات قیام امن کے لئے پر حکمت ہدایات حضر مصلح موعود کی پریس کانفرنس اور پر شوکت پیغام.خلافت ثانیہ کا چالیسواں سال ۱۳۳۲ش (۴۱۹۵۳) ۲۱۹۵۳ (۱۳۳۲اہش کا سال جماعت احمدیہ کا سنگ میل (LAND MARK) اور اس کی ترقی کا نشان ہے جس میں مہدی موعود کی اس پیاری جماعت نے اپنی مظلومیت کا کمال نمونہ دکھایا اور اس کے صبر و استقامت دُعا اور اخلاق کی بے پناہ قوت نے صحابہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر کت دور کی یاد تازہ کر دی.اس سال کا آغاز چہار اصلاحی تحریکات سے ہوا.ا.سات سات روزے رکھنے کی تحریک روزوں کی تحریک ۲ - اشاعت دین کی تحریک ۳۰ دھائی ۲..تحریک.۴.سچ بولنے کی تحریک.حضرت مصلح موعودہؓ نے سالانہ جلسہ پر ارشاد فرمایا کہ احمدی ۱۳۳۲ ہش / ۱۹۵۳ء کے شروع میں سات نفلی روزے رکھیں اور ہر روزہ سوموار کو رکھا جائے حضور نے سال کے پہلے خطبہ ہیں
۴۳۲ اس کی یاد دہانی کرائی او نصیحت فرمائی کہ :- جوطاقتور ہیں، تندرست نہیں ان کے لئے سفر میں رمضان کے روزے جائز نہیں نفلی روزے جائز ہیں کیونکہ احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جب مسافر کے لئے فرض روزے منع ہو گئے تو بھی بعض صحابیہ سفر اور لڑائیوں میں نفلی روزے رکھ لیتے تھے.ان ایام کو خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں گذار اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو یا لے احمدیوں نے جو ہمیشہ فتنوں اور آزمائشوں کے ایام میں اس روحانی مجاہدہ کے خوش کن اثرات و نتائج کو آزماتے آرہے تھے اس تحریک پر بھی والہانہ لبیک کہا.پریسی رز دوسری تحریک اشاعت دین سے تعلق تھی جس کی طرف حضر مصلح موجود اشاعت دین کی تحریک نے ۲۳ صالح ۱۳۳۲ اہش کے خطبہ جمعہ میں بڑے موثر پیرا یہ میں تو یہ دلائی اور صیحت فرمائی کہ ہمارے ایمان و اخلاص کا تقاضا ہے کہ تحریک جدید ہمیشہ جاری رہے.اس سلسلہ میں تبلیغی نقطہ نگاہ سے جماعت احمدیہ کی امتیازی شان پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا.یاد رکھو کہ اس وقت اشاعت دین کا کام تم ہی کہ رہے ہو تمہارے سوا اور کوئی نہیں کر رہا.دنیا میں صرف تم ہی ایک جماعت ہو جو خدا تعالیٰ کے دین کے جھنڈے کو اُٹھائے ہوئے ہو.تمہیں شکوہ ہوگا کہ تمہیں وہ لوگ ہو جنہیں مخارج از اسلام کہا جاتا ہے تمہیں وہ لوگ ہو جن کے خلاف مولوی اکٹھے ہو کر کفر کے فتوے لگاتے ہیں لیکن یہ شکوہ کی بات نہیں اس سے تو تمہارے کام کی عظمت اور نشان اور بھی بڑھ جاتی ہے.ایک شخص دین کی اس لئے خدمت کرتا ہے کہ اسے اس کا بدلہ ملے گا.ایک شخص دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا بدلہ نہیں ملتا اور ایک شخص دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے نہ صرف اس کا بدلہ نہیں ملتا بلکہ الٹا اسے جھاڑیں پڑتی ہیں.اسے برا بھلا کہا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں.تم دیکھ لو ان تینوں میں سے کسی کا ذریعہ بڑا ہوتا ہے ؟ آیا اُس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے جو دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ ملتا ہے یا اُس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے جو دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ نہیں ملتا یا اس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے جو دین کی خدمت کرتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسے اس کا بدلا ہی نہیں ملتا بلکہ الٹا اُسے جھاڑیں پڑتی ه خطبه جمعه فرموده ۲ صلح ۱۳۳۲ ش ( مطبوعہ الفضل نے صلح ۱۳۳۲ مش حت)
۴۲۲۳ ہیں.اسے گالیاں دی بھاتی ہیں.صاف بات ہے کہ جو شخص ان حالات میں بند مت دین کرتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اسے اس خدمت کا معاوضہ نہیں ملتا بلکہ اسے الٹا جھاڑیں پڑتی ہیں، اسے گالیاں دی جاتی ہیں اس (کا) ور یہ ایمان اس شخص سے بلند ہے جو خدمت دین کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ ملتا ہے یا خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ نہیں ملتا لیکن جھاڑیں بھی نہیں پڑتیں.در حقیقت محبت کامل کا معیار ہی نہیں ہوتا ہے.اگر یکی غلطی نہیں کرتا تو غالب ابراہیم او ہم نہ تھے جن سے دو نرخ اور جنت کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا مجھے جنت اور دوزخ سے کیا غرض ہے خدا تعالیٰ جہاں مجھے رکھنا پسند کرے گا لیکن رہوں گا.اگر وہ مجھے جنت میں رکھنا پسند کرے گا تو میں جنت کو پسند کروں گا اور اگر وہ مجھے دونغ میں رکھنا پسند کرے گا تو میں دو رخ ہی کو پسند کروں گا.پس جو شخص قطع نظر کسی معاوضہ کے دین کی خدمت کرتا ہے بلکہ اسے معلوم ہے کہ اسے بجائے کسی معاوضہ کے الٹا جھاڑیں پڑیں گی اور اسے گالیاں کھانی پڑیں گی لیکن وہ پھر بھی خدمت سے باز نہیں آتا وہ یقینا خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کو جذب کرنے والا ہے.اور اس میں کیا شعبہ ہے کہ جب قیامت کے دن سب لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو انبیاء کے بعد سب سے مقدم وہ شخص ہو گا جس کو دین کی خدمت کا نہ صرف یہ کہ معاوضہ نہ ملا بلکہ اسے جھاڑیں پڑیں، اسے گالیاں کھانی پڑیں لیکن وہ خدمت سے پھر بھی باز نہ آیا.اگر روزہ رکھنے والوں کے متعلق رسول کو یم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ قیامت کے دن بعد اتعالیٰ کہے گا کہ ان کا معاوضہ میں ہوں تو یقیناً وہ لوگ جنہوں نے دین کی خدمت کی اور اس حالت میں خدمت کی کہ نہ صرف یہ کہ انہیں کوئی معاوضہ نہ ملا بلکہ انہیں جھاڑیں پڑیں، انہیں برا بھلا کہا گیا ، انہیں گالیاں دی گئیں، انہیں اجالقتل قرار دیا گیا، انہیں اخراج عن الوطن کی دھمکیاں دی گئیں انہیں خدا تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا کہ اگر انسانوں کے پاس تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں تو تمہاری جگہ میری گود میں ہے.اور اگر انسانوں کے ه حضرت خواجہ فرید الدین عطار نے تذکرۃ الاولیاء" (باب ۴۳) میں یہ بات حضرت جنید بغدادی کی طرف منسوب کی ہے ؟
۴۴۴ نزدیک تم واجب القتل قرار دیئے گئے تھے لیکن تم نے دین کی خدمت پھر بھی نہ چھوڑی تو تمہیں ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنا مجھ پر فرض ہے.پس تمہارے لئے خدا تعالیٰ نے اس نعمت کے دروازے کھولے ہیں جس کے دروازے سینکڑوں سال سے دوسروں پر نہیں کھولے گئے سینکڑوں سال گزر گئے اور دنیا اس نعمت سے محروم رہی جب ا سلام ترقی پر تھا اس وقت اسلام کی خدمت کرنے والوں کی تعریف کی سجاتی تھی ان کی قدر کی جھاتی تھی لیکن آج جب اسلام نہ صرف باطنی لحاظ سے بلکہ ظاہری لحاظ سے بھی اگر چکا ہے وہ نہ غیر مسلموں کے نزدیک مقبول ہے نہ مسلمانوں کے نزدیک مقبول ہے خدا تعالیٰ اپنی قبولیت اور اپنا دست محبت تمہاری طرف بڑھاتا ہے وہ تمہیں اپنی محبت اور پیار کی بشارت دیتا ہے.پس تم اپنی ذمہ داریوں کو بجھنے کی کوشش کی اور اپنے فرائض کو ادا کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو رحمتیں اور برکتیں تمہیں ملتی ہیں تم انہیں زیادہ سے زیادہ حاصل کر لو.ایسا زمانہ بہت کم آتا ہے اور مبارک ہوتے ہیں وہ لوگ جو ایسے زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں یہی لوگ نخوست سے دور اور خدا تعالیٰ کی جنت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں.بخدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ جو کہا ہے کہ اس دن جنت قریب کر دی جائے گی اس کا بھی یہی مفہوم ہے کہ خدا تعالیٰ ایسی جماعت کھڑی کر دے گا جو دین کی خدمت کرے گی اور نہ صرف یہ کہ اسے اس خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا بلکہ اسے جھاڑیں پڑیں گی اسے گالیاں دی جائیں گی ، دنیا اسے دھتکارے گی کہ وہ کیوں خدا تعالٰی کی ہو گئی ہے اور وہ خدا d تعالیٰ کے دین کی کیوں خدمت کر رہی ہے اس لئے لازمی طور پر خدا تعالیٰ اسے قبول کرے گا.پس تم ان وقتوں کی قدر کرو اور اپنے لئے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر لو تا خدا تعالٰی کے سامنے بھی تم سرخرو ہو جاؤ اور آئندہ نسلوں کے سامنے بھی تمہارا نام عزت سے لیا تھا.دعاؤں کی تحریک اس ام اس کو صرت مصلح موعود نے دعاؤں کی خصوصی تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :.م جماعت آجکل سخت مشکلات میں سے گزر رہی ہے وشم مختلف طریق سے جماعت کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے.جماعت نے خدا تعالیٰ کے فضل سے مٹنا تو نہیں لیکن جو شخص اس کے بچانے نے روزنامہ الفضل لاہور ۳۰ تبلیغ ۱۳۳۲ مش صدا +
۴۲۵ کے لئے کوشش کرتا ہے یقینا وہ خدا تعالیٰ کے حضور میں بڑا مقرب ہے.چونکہ ہم میں کوئی طاقت نہیں اس لئے ہمارے پاس یہی ذریعہ ہے کہ جن ہستی کو اس کی طاقت حاصل ہے ہم اس کے سامنے عرض کریں کہ حضور ! جماعت کو دشمن کی زد سے محفوظ رکھئے گویا ہمارا کام صرف منہ سے کہتا ہے اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کی شفاعت حسنہ کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کو بھی فائدہ سے محروم نہیں کرتا بلکہ اسے بھی فائدہ پہنچاتا ہے.تو جب ایک شخص کی شفاعت حسنہ کرنے سے انسان فائدہ سے محروم نہیں رہتا تو ایک جماعت کی شفاعت کرنے کے بعد وہ کیوں محروم رہے گا پہلے پس دوستوں کو خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ جماعت کی حفاظت کرے ، اسلام کی ترقی کے سامان بخشے، دشمن ناکام و نامراد ہوں ہم ان کی ناکامی اپنی آنکھوں سے دیکھیں تاہما ہے دل اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے لذت حاصل کریں یہ بہت بڑی چیز ہے اس کے لئے دوست دعا کریں بار بار خدا تعالیٰ کے حضور بھائیں، بار بار اس کے سامنے پیش ہوں اور اس سے دعا مانگیں.یہ ایسا کام نہیں جو دو بھر معلوم ہو یہ کام تو ایسا ہے جو جماعت کے ہر فرد کے لئے فائدہ مند ہے.اگر حجامت بچے گی تو اس کا ہر شخص بچے گا اگر جماعت ترقی کرے گی تو اس کا ہر فرد ترقی کرے گا ہماری جماعت اگر چہ تعداد میں تھوڑی ہے مگر لیکن پھر بھی اس وجہ سے کہ جماعت بی نظم ہے ہر سال ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں جو اس منصہ کی وجہ سے بہت سی مشکلات سے بیچے جاتے ہیں اگر وہ اس جماعت سے باہر ہوتے تو ان مشکلات سے نہ بچتے.بے شک بعض ایسے افراد بھی ہیں جو اپنی بد اخلاقیوں اور شتیوں کی وجہ سے نہیں بچتے لیکن جماعت کا ایک خاصہ حصہ ایسا ہے جو جماعت کی تائید کی وجہ سے بیچے جاتا ہے اور بعض اوقات گرے ہوئے لوگ دوبارہ کھڑے ہو جاتے ہیں.ابھی تو ہم تھوڑے ہیں لیکن پھر بھی جتھہ کی وجہ سے لوگ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں لیکن اگر جماعت بڑھ جائے اور اسے طاقت حاصل ہو جائے تو کمزوروں کو اس وقت سے کہیں زیادہ فائدہ حاصل ہوگا اور وہ ہ حدیث ہوتی ہے اشفعوا توجروا (بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، سفارش کرو تمہیں اجر ملے گا.اللہ جلشانہ بھی فرماتا ہے مَن تَشفَع شَفَاعَةُ حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبُ مِنْهَا " (النساء: (۸۶) جو شخص اچھی سفارش کرے اُس کے لئے اس میں سے ایک حصہ ہوگا ؟
۴۲۶ ظالموں کے ظلموں سے نیچے جائیں گے دنیوی طور پر بھی اور دینی طور پر بھی.پس جماعت کے لئے دعا در حقیقت اپنے لئے دعا ہے.اگر کوئی شخص جماعت کی ترقی کے لئے دعا کرتا ہے تو درحقیقت وہ اپنے لئے دعا کرتا ہے.وہ کسی پر احسان نہیں کرتا بلکہ اپنے فائدہ کا کام کرتا ہے یا اے حضرت مصلح موعودہ کی مولتی تحریک یہ تھی کہ سچائی کو اختیار سچائی اختیار کرنے کی تحریک کرو کہ اس کے نتیجہ میں نہیں دوسری بہت سی نیکیوں کی بھی توفیق مل جائے گی چنانچہ حضور نے 4 فروری ۱۹۵۳ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.تم فیصلہ کر لو کہ ہم نے پہنچ بولنا ہے چاہے اس کے بدلہ میں تم ذلیل ہوں شرمندہ ہوں یا ہمیں کوئی اور نقصان اُٹھا نا پڑے پھر دیکھو تمہارے اخلاق کی کتنی جلدی درستی ہو جاتی ہے پیس یں ان مختصر الفاظ میں جماعت کو اس امر کی طرف تو بقیہ دلاتا ہوں کہ وہ پنچائی کو اختیار کریں ربات مختصر ہے لیکن ہے بہت بڑی.کہنے کو تو یہ ایک منٹ میں کسی جا سکتی ہے لیکن نتیجہ اس کا صدیوں کی بھلائی اور قومی ترقی ہے ا سے احراری تحریک کے ہمنوا لیڈروں نے آل پاکستان ڈائریکٹ کراچی کو فیشن اور اٹیکیٹ کیس کا فیصلہ اسلامی کے سیاسی ڈھاکہ کے بعد پیسہ اجلاس کیا کہ اگر حکومت پاکستان نے ۲۲ فروری ۱۹۵۳ء تک ان کے مطالبات تسلیم نہ کئے تو ختم نبوت کی باغی حکومت کے خلاف ڈئریکٹ ایکشن کریں گے لیے اس سلسلہ میں راست اقدام کے مقتد راہنماؤں کی بے شمار تقاریہ کے چند مختصر نمونے سپرد قرطاس کئے جاتے ہیں.کفرہ ا جناب مولانا عبد الحامد صاحب بدایونی صدر جمعیتہ العلماء کراچی و کفر و اسلام کی جنگ سنده و رکن کونسل آن ایکیشن یہ نظریہ رکھتے تھے کہ میں آئین ساز اسمبلی کو دین کے متعلق قوانین منظور کرنے کا اختیار نہیں دے سکتا ہے روزنامه الفضل ۸ فروری ۱۹۵۳ء ص : الفضل ۱۴ تبلیغ ۱۳۳۲ پیش من نگے رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب اُردو ص۱۳۳، ص۱۳ کے روزنامه آفاق 1 اکتوبر ۱۹۵۳ء ص :
۴۴۲۷ مولانا صاحب نے ان دنوں اعلان کیا کہ :.ہم دیانتداری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ اس محاذ پر ہماری لڑائی کفر اور اسلام کی لڑائی ہے الے.جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری امیر شریعت احرا محافظین جسم نبوت کا بلند مقام نے اور جولائی ۱۹۵۲ء کے ایک جلسہ عام میں تقریر فرمائی ہے.اور عام کہ یں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم المرسلین پر ایمان رکھنے والے مسلمان کی گلی کے گتے کا بھی منہ چومنے کو تیار ہوں " کے اسی طرح مرکزی حکومت کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا :- تم ناموس مصطفے کا تحفظ کر وہیں تمہارے گتے پالنے کو تیار ہوں میں تمہارے سٹور چراؤں گا اسے جناب مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی کنوینر پاکستان کی سرمندی کی لازمی شرط آل پاکستان سلم پارٹیز کنوینشن نے کراچی میں تقریر کے دوران کہا :." جب تک مرزائیوں کو اقلیت قرار نہیں دیا جاتا پاکستان سربلند نہیں ہو سکتا ہے.جناب مولانا عبد الحامد صاحب بدایونی کی تقریر ۱۵ جنوری ۱۹۵۳ء کشمیر دلانے کی ضمانت المقام لاہور : از ظفراللہ کو آج وزارت خارجہ سے الگ کر دیا جائے تو علمائے کرام کشمیر حاصل کرنے کی گارنٹی دیتے ہیں یا شے ه جناب مولانا اختر علی خان صاحب مدیر زمیندائه تکمیل پاکستان کی واحد صورت خیر پور کا نفری استنده و اکتوبر ۱۹۵۸) کو نے منعقدہ 9 خطاب کرتے ہوئے کہا :- جب تک ہم مرزائیت صفحہ ہستی سے نہیں مٹا دیں گے اس وقت تک پاکستان صحیح معنوں ہیں که زمیندار ۱۷ فروری ۶۱۹۵۳ حت کالم ملبے کے انجام دکراچی ۷ ۲۴ جولائی ۱۹۵۲ء صنا ه آزاد ۱۸- فروری ۱۹۵۳ء متہ کالم کے زمیندار یکم اگست ۱۹۵۲ء صبا کاظم عث که شه زمیندار ۱۷ فروری ۱۹۵۳ء مل ہے
۴۲۸ پاکستان نہیں بنے گا لے احمدی ختم کرنے کا نسخه شه جناب تاج الدین صاحب انصاری صدر علی احرار مرکزیہ نے ۵ مجلس ستمبر ۱۹۵۲ء کی گوجرانوالہ کا نفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا :- آج ظفر اللہ کو ہٹا دو اگر کل کو پچاس فیصد مرزائی مسلمان نہ ہو جائیں تو میری گردن مار دو.اگر مرزائیوں کو اقلیت قرار دے دو تو محمود ڈھونڈے گا کہ میرے باوا کی امت کہاں ہے ؟انہ جناب صاحبزادہ فیض الحسن صاحب گدی نشین آلو صار شریف جماعت احمدیہ پیر احسان نے اکتوبر ۱۹۵۲ء میں تقریر کی کہ.مرزائیو! ہمارا احسان مانو کہ ہم تمہیں اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ورنہ قرآن ہے کی زبان سے پوچھا جائے تو وہ تو کہنا ہے کہ تمہیں انسانیت کے دائرہ سے ہی خارج کر دیا جائے ہے زمیندار 11 اکتوبر ۱۹۵۲ء ص کا لم ع : که آزاد دار اکتوبر ۱۹۵۲ء حتہ کالم.ه آزاد ۵ اکتوبر ۱۹۵۲ء صبا کالم ہے.خدائی تصرف ملاحظہ ہو اسی اخبار نے جناب الطاف پرواز کی ایک نظم شائع کی جس میں مطالبہ اقلیت کی نا معقولیت واضح کی.اس نظم کے چند اشعار یہ تھے سے اقلیت رواداری کی طالب بن کے آئے گی - کیو کیا پھر اجازت ہوگی انکار رسالت کی مٹاؤ گے تم اس فتنے کو کیونکر ملک و ملت سے چلے گی کیس طرح تحریک پھر تیر بہوت کی محمد کی رسالت پر اگر ایمان رکھتے ہو سیاست سے الگ رہ کر اصول دین سمجھاؤ اگر ظلمت کا اندیشہ ہے تم کو بے خطر ہو کہ جهان آدمیت میں ضیاء قرآن کی پھیلاؤ اگر تبلیغ دیں میں رنگ ہو اخلاص کا غالب رہے الحاد کا کوئی نہ پاکستان میں طالب لے ه آزاد ۱۸ جنوری ۱۹۵۳ء ص کالم علا
۴۲۹ جناب مولوی اختر علی خاں صاحب ابن مولوی ظفر علی خان نے نومبر ۷۲ فرقوں کا اجماع ۱۹۵۲ء میں کہا کہ - مجلس عمل نے گذشتہ تیرہ سو سال کی تاریخ میں دوسری مرتبہ اجماع امت کا موقعہ مہیا گیا ہے.آج مرزائے قادیان کی مخالفت میں امت کے ۷۲ فرقے متحد و متفق ہیں.جنتی اور وہابی ، دیوبندی، بریلوی شیعہ ،اشتی ، اہلحدیث سب کے علماء ، تمام پیر اور تمام صوفی اس مطالبہ پر متفق و متحد ہیں کہ مرزائی کافر ہیں انہیں مسلمانوں سے ایک علیحدہ اقلیت قرار دوڑا ہے ادر جناب سید عطاء الله شاه حتما بخاری وزیراعظم پاکستان کے حمد ہونے کا پراپیکین اور انکے رفقار نے پراپیگنڈا کا کہا.خواہ ناظم الدین مرزا محمود کے ہاتھ پر بیعت کر کے قادیانی ہو گئے ہیں اور ان کے قادیانیوں کے درمیان کوئی رشتے بھی ہو چکے ہیں ؟ ۲ مجاہد ملت جناب مولوی محمدعلی منیا جاند هری مرکزی وزراء پر انتشار پھیلانے کا الزام نے بھرے جلسوں میں یہ الزام لگایا کہ :- ملک میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کی ذمہ داری اُن لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو وزارتوں کی گریوں پر فائز ہیں.آج ملک میں جو پریشانی پھیلی ہوئی ہے وہ صرف ان کرسی نشینوں کی بدولت ہے جو اسلام کا نام لے کہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دھو کر کرتے ہیں ا سنے جناب مولانا منی اما صاحب یکیش نے ناصحانہ انداز میں ریاست در ریاست کیا :- یک ارباب اقتدار کو ایسی بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو پاکستان کے اندر پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے بنائی گئی ہے وہاں زمین دوز سر کیں ہیں وہاں ہم تیار ہوتے ہیں، وہاں مضبوط قلعہ بنایا جارہا ہے...وہ ریاست جہاں ایسی تیاریاں ہو رہی ہیں وہ مرزائیوں کی ریاست ہے جس کا لے زمیندار در نومبر ۱۹۵۲ء ص کالم : کے ہفت روزه حکومت ۱۴ فروری ۱۹۵۳ء و آزاد ۲۰ جنوری ۱۹۵۳ء مٹہ کالم ہے سے آزاد ، ستمبر ۱۹۵۲ء ص کالم علا و
نام ربوہ ہے یا اے ۳۰ گرم جناب مولا نا عبد الحامد صاحب بدایونی نے کہا :- حکومت کو چمکی اگر قراردینے الاستسلیم نہ اگر حکومت نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو اسکا وہی حشر ہوگا جو مصر میں شاہ فاروق کا ہوا ہے" کے ۱۲۱.پاکستان کے ممتاز علماء میں سے حکومت پاکستان کے خلاف فرضیت جہاد کا فتوی مولانا عارف اللہ صاحب، مولانا لکہ جب غلام اللہ خان صاحب، مولانا عبد الحنان صاحب، مولانا محمد اسمعیل صاحب، ذبیح، مولانا عبد الی منان مولانا محمد مسکین صاحب، مولانا محمد انہیں صاحب، مولانا عبد الستار صاحب اور دیگر علماء وخطباء نے پوری شرح وبسط سے تقاریر کیں کہ ہم مجلس عمل کے حکم کے منتظر ہیں ورنہ یہ قید و بند اور ہتھکڑیاں و بیڑیاں ہمارے لئے نئی نہیں ہیں یہ تو حق کی حمایت میں اُسوۂ یوسف و سنت سجاد کے درجہ میں ہیں اگر حکومت نے مرزائیت نوازی ترک نہ کی تو مندر کے نام پر قائم کیا ہوا پاک ملک کا فرستان بن جائیگا اور ہم پر جہاد فرض ہو جائے گا یا سے ۱۳ - اخبارہ زمیندار نے ۱۶ فروری ۱۹۵۳ء کو اداریہ میں لکھا خوفناک رد عمل کا انتباہ لانا خواجہ ناظم الدین نے اس قومی مطالبہ کو آپ بھی اگر تساہل وبے پروائی کی نگاہوں سے دیکھا تو ہمیں اندیشہ ہے کہ جو صورت حال رونما ہوگی اس پر قابو پانے میں حکومت کی اجتماعی قوت بھی کامیاب نہ ہو سکے گی یا آئے ۱۴- جناب صاحبزادہ فیض الحسن صاحب آلو صار شریف احکام مملکت ماننے سے انکار نا کار این مجلس عمل کے کنا اور انجیت نے ۲۳ فروری ۱۹۵۳ء کو حسب ذیل بیان جاری کیا." آج خواجہ ناظم الدین با عیان محمد عربی کی حمایت کر رہے ہیں.جو محمد عربی کا باغی ہم اس کے باغی ه آزاد ۱۳ اگست ۱۹۵۲ء صد کالم ، له زمیندار، یکم اگست ۱۹۵۲ء ص کالم " " سے دعوت ، لاہور ۱۹ - فروری ۱۹۵۳ء جواله الفضل " لاہور ۲۵ فروری ۶۱۹۵۳/ ۲۵ تبلیغ ۳۳۲ دانش کے زمیندار ۱۲ فروری ۱۹۵۳ء ع (اداریه) : ص ۳
السوم ہیں اس کے احکام کی ہم قطعاً پابندی نہ کریں گے لالے لو میٹر ۱۵ خطیب پاکستان جناب قاضی احسان احمدصاحب شجاع آبادی کی تقریر بہاول پور سی بیم دسمبر ۲۱۹۵۲) : ہمارے ذمہ داران حکومت ختم نبو سے بے اعتنائی کر کے اپنے خلاف بغاوت پر مجبور نہ کریں ہے محمد عربی کے باغی حکمران امیر شریعت احرار جناب سید عطاءاللہ شاہ بخاری نے مسجد ور کراچی میں تقریر کی کہ: 11 ایک مسلمان سلطنت اور سلمان قوم کے حکمران وہی ہوسکتے ہیں جومسلمان ہوں اور محمد عربی کے غلام محمد عربی کے باغی اور کافرو مرتد مسلمان قوم کے حکمران نہیں رہ سکتے یا سکے جناب سید مظفر علی صاحب شمستی نے کہا :- ہ خواجہ ناظم الدین اور اس کی حکومت پر ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ہم محمد عربی صلعم کے باغیوں کو اس اسلامی ملک کی مسند وزارت پر قابض ہوتے برداشت نہیں کریں گے.کیا پاکستان اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں محمد عربی مسلم کے دشمن اور ان کی تو میں کرنے والے دندناتے پھریں ؟ “ سے ار جناب حافظ قمر الدین صاحب سجادہ نشین پاکستان کا سب سے بڑا باغی ہونا عبادت سیال شریف نے ۱۳ نومبر ۱۹۵۲ء کو کہا :.اب پیمانہ صبر بریز ہو چکا ہے ہم تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ دیر تو ہین برداشت نہیں کر سکتے.حکومت تاجدار مدینہ کی عزت وعظمت کی حفاظت کرے ورنہ میں اس مملکت کا سب سے بڑا باغی ہوں اور یہ بغاوت میرے ہاں کوئی جرم نہیں بلکہ میں اس بغاوت کو عبادت خیال کرتا ہوں یا شے ماما انا باران اسید اولانا سید ها و قادر هند حکومت پاکستان کی حمایت حرام علی ما پنجاب نے ا، فروری ۱۹۵۳ کو ایک جلسہ میں مجلس ۵ فرمایا : اه آزاد ۲۵ فروری ۱۹۵۳ء ص : ے آزاد بار دسمبر ۱۹۵۲ء صبہ کالم عث سے ہفت روزہ " حکومت کراچی ۱۴ر فروری ۱۹۵۳ء صلا کالم ۳۶ + که آزاد در فروری ۱۹۵۳ء مت کالم رو که آزاد ۶ ار تو مہر ۱۹۵۲ء صب کالم عم :
م مهم یکی پولیس، فوج تمام سرکاری ملازموں، افسروں اور حکمرانوں کو یہ اطلاع دیتا ہوں کہ ایک دن آنے والا ہے جس کی خبر قرآن دے چکا ہے وہ دن قیامت کا ہے بہشت اور دوزخ میں سے ایک ٹھکانا منتخب کرنے کا ہے.اب تم خود سورج لو کہ اگر تم نے ختم نبوت کے علمبرداروں پر گولیاں چلائیں تو تمہاراٹھی کا نا کہاں ہو گا یا یکی اس فتولی کا اعلان کرتا ہوں کہ ایسی حکومت کی حمایت حرام ہے جو ختم نبوت کے محافظوں پر گولی چلائے اے پکڑ لیں گے ۱۹.جناب ماسٹر تاج الدین صاحب انصاری صدر واجہ ناظم الدین اگرایان کریں گے منتقده ۲۶ دسمبر ۱۹۵۲ء) کو و همکی دی کہ : مرکز بر مجلس احرار اسلام نے ختم نبوت کا نفرنس چنیوٹ اب جو دستوریہ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے اس میں مرزائیوں کو اقلیتوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا.ہم نے حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دی ہے اگر ایک ماہ کے بعد بھی حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا تو پر ہم خود ہاتھ پاؤں ماریں گے اور میں طرح ڈوبنے والا سہارا دینے والے کی ہروہ پہلی چیزی نبولی کے ساتھ پکڑ لیتا ہے جو اس کے ہاتھ میں آتی ہے ہم بھی جہاں ہمارا ہاتھ پہنچے گا اسی چیز کو پکڑ لیں گے خواہ وہ ناظم الدین کا گریبان ہو یا کسی اور کا یہ گئے ۲۰ جناب مولانا سید ابوالحسنات محمد احمد صاحب قادری صدر البيس نوٹس کی آخری میعا قطعی ہے.عمل پنجاب نے ۲۰ فروری ۱۹۵۳ء کو واضح کیا.بائیس فروری کے بعد حکومت پاکستان کو ایک دن کی بھی ملت نہیں دی جائے گی یا مجلس عمل کے نوٹس کی میعاد آخری ہے اور اس میں مزید توسیع قوم کے بجذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے ا سے ے آزاد ۸ار فروری ۱۹۵۳ء مٹہ کالم عمر : سے "آزاد" لاہور ۱۶ جنوری ۱۹۵۳ء ص کالم عبد ه آزاد ۲۳ فروری ۶۱۹۵۳ ص :
سلام سلم منهم ۲۱- جناب عید ابوالحسنات محمدا حمد صاحب مطالبات منظور کرائے بغیر باہر نہ آئیں گے قادری صد یہ ملائےپاکستان نے اس عوم جمعیتہ کا اظہار کیا.اگر ہمیں گرفتار کر لیا گیا توہم احمد مل کہ کہ آپ کی جیلوں میں ڈیرے ڈالیں گے اور اس وقت تک باہر نہیں آئیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کرلئے جاتے ہم جب باہر آئیں گے تو چوہدری ظفر اللہ ہمیں وزارتی گری پر نظر نہیں آئیں گے یا اے ۲۳- جناب ماسٹر تاج الدین صاحب انصاری صدر ہر طاقت کو پاش پاش کر دینے کا عزم مجلس ادار ے موچی دروازہ کے ایک جلسہ میں کلہ ہ مجلس عمل اپنا پروگرام مرتب کر چکی ہے اور اب دنیا کی کو ئی طاقت اسے آگے قدم بڑھانے سے لوگ نہیں سکتی اور ہمارا ایمان ہے کہ مرزائیوں کو شکست ہوگئی اور جو طاقت بھی ہمارے اس پروگرام میں حائل ہو گی ہم ایسے بھی ہٹا دیں گے“ ہے اور جناب مولانا اختر ی ان دیر نے ۱۹۶۵ء میں ۲۳- جناب مولانا اختر علی منار صاحب مدیر زمیندار نے نومبر ۱۹۵۲ ء میں جلسہ پیش گوئیاں پنڈی بھٹیاں سے خطاب کرتے ہوئے کہا :- میں اس پلیٹ فارم سے یہ پیش گوئی کرتا ہوں کہ قادیانیت بھی اسی طرح ختم ہوگی جس طرح انگریز یہاں سے گیا سے ازان بعد ۶ از فروری ۱۹۵۳ء کو کہا..۲۴ میکس اس ملک کے ساڑھے سات کروڑ مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت یک یہ آواز پہنچانا چاہتا ہوں کہ اب اس ملک میں مسلمان یہ ہیں گے یا مرزائی یہ سکے ۲۵- جناب تاریخ الدین صاحب انصاری نے موچی دروازہ کے جلسہ منعقدہ یکم فروری ۶۹۵۳) میں کہا :.مجلس عمل اپنا پروگرام مرتب کر چکی ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے آگے قدم بڑھانے ه زمیندار سر فروری ۱۹۵۳ء ص کام سے آزاد از فروری ۱۹۵۳ ء صلہ کالم ؟ زمیندار ۲۳ نومبر ۱۹۵۲ء خطہ کالم 1 : که زمیندار ۱۸ر فروری ۱۹۵۳ء مٹہ کالم ہیں.
سلام سلام سے روک نہیں سکتی.میں کہتا ہوں کہ حکومت جس قدر محبت کے ساتھ ہم پہ ہاتھ ڈالے گی اسی مجبلت کے ساتھ ہماری کامیابی ہمارے قدم چومے گی یا لے ۲۶ - جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ (منعقد ۲۲۰.دسمبر ۱۹۵۳م) کو خطاب کرتے ہوئے کہا :- مرزا محمود کو آگاہ رہنا چاہیئے کہ اس کی بڑ کا ٹٹ نہ گزر گیا ہے...لو آب سر بخاری کا ہے اور میں اپنے مولا کریم کے فضل و کرم سے کہہ رہا ہوں کہ تم ہوشیار ہو جاؤ آخری فتح میری ہوگی یا ہے تقادیانی مسلم فسادات کی مکی عبارت است اقدام کے نامورلیڈروں نے دستوری سفارت کے متعلق جنوری ۱۹۵۳ ء میں ایک مفصل بیان دیا جس میں انہوں نے حکومت پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے بیلیز بر دست انتباہ کیا :- ان کو پچھلے دور کے بیرونی حکمرانوں کی طرح نہ ہونا چاہیئے جنہوں نے مہند وسلم مسئلہ کی نزاکت کو اس وقت تک محسوس کرنے ہی نہ دیا جب تک متحدہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ دونوں قوموں کے فسادات سے خون آلود نہ ہو گیا جو دستور ساز حضرات خود اس ملک کے رہنے والے ہیں ان کی غلطی بڑی افسوسناک ہوگی کہ وہ جب تک پاکستانی میں قادیانی مسلم تصادم کو آگ کی طرح بھڑکتے ہوئے نہ دیکھ لیں اس وقت تک انہیں اس بات کا یقین نہ آئے کہ یہاں ایک قادیانی مسلم مسئلہ بھی موجود ہے اسے ہائی بداعت اسلامی سید ابوالاعلی صاحب مودودی نے موچی دروازہ کے ایک جلسہ عام میں علماء کے اس بیان کی مکمل حمایت میں تقریر کی اور کہا :- قوم کے متفقہ مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو بہت ممکن ہے یہ مسئلہ ہندو مسلم فسادات سے بھی نازک صورت اختیار کر جائے.حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمان اور مرزائی" سوال پیدا ہونے اور ه زمیندار ۳ فروری ۶۱۹۵۳ م کالم ۲ : سه آزاد ۱۶ جنوری ۱۹۵۳ء صٹہ کالم لا کے اخبار کو ٹر ۲۵ جنوری ۱۹۵۳ء منا کالم - جناب مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے انہی ونوں کیا کیا ہماری حکومت بھی مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے اور مسلمانوں کے دوسرے مطالبات اس وقت تعلیم کرے گی جب خون کی ندیاں بہہ نکلیں گی یا (آزاد ۱۸ر فروری ۱۹۵۳ء صب کا لم ۳۴ ) :
۴۳۵ اس سے رونما ہونے والے حالات سے پہلے ہی قوم کے مطالبات تسلیم کرنے والے اخبار زمیندار دیکم فروری ۱۹۵۳ء حت کالم عام میں یہیں بیان درج ذیل الفاظ میں شائع ہوا.اگر قوم کے متفقہ مطالبہ کو نظر انداز کیا گیا اور اس فرقہ کو علیحدہ اقلیت قرار دینے کا اعلان نہ کیا گیا تو بہت ممکن ہے کہ اس ملک میں ہندو مسلم فسادات کی طرح قادیانی اور سلم فسادات کا سلسلہ شروع ہو جائے.یہ وہ نازک صورت حال ہو گی جیسے شاید ہماری حکومت برداشت نہ کر سکے گی کہتے جماعت اسلامی کے مرغ کردار پر ایک نظر اس سرما پر یہ بتانا ضروری ہے کہ احمدیوں کے خلاف ایکی کمیشن کی بنیاد تو احراری علماء نے رکھی تھی جیسا کہ مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب بھی تسلیم کرتے تھے.اس ایجی ٹیشن کی ابتداء کرنے والے بلاشبہ احرار تھے اسے مگر جب فسادات کے لئے ماحول سازگار ہو گیا تو جماعت اسلامی بھی پیش پیش نظر آنے لگی حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اُس نے شروع ۱۹۵۲ء میں دستور ساز اسمبلی پاکستان سے دستور کو خالص اسلامی بنانے کے لئے جن آٹھ مطالبات کی قطعی صراحت کا مطالبہ کیا تھا اور حسین کے لئے اس نے ایک وسی مہم چلا کر بہت سے مسلمانوں سے دستخط کرائے تھے اُگی میں جماعت احمدیہ کو اقلیت قرار دینے کا ذکر یک نہیں تھا.یہ مطالبہ دستخط کرانے کے بعد پیر اسرار طریق سے از خود شامل کیا گیا جس پر راولپنڈی کے معززین وزعماء نے کھلا احتجاج کیا.اس غیر اسلامی اقدام کے نتیجہ میں جماعت اسلامی کی عملی پالیسی کے متعد د ایسے پہلو نمایاں ہو کر سامنے آگئے جو حد درجہ افسوسناک اور نا قابل فہم تھے مثلاً :- اوّل.جماعت اسلامی نے سات برس قبل تحریک پاکستان کی مخالفت کا شرعی جوازہ ہی یہ پیشین کیا تھا کہ اگر پر ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثر تین مطالبہ پاکستان پر شفق و متحد ہے مگر حدیث نبودگی اه آزا د ا س ر جنوری ۱۹۵۳ء ص کالم : که زمیندار یکم فروری ۱۹۵۳ء حت کالم عمل ه روزنامه آفاق (لاہور) ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۳ و صاب کے ملاحظہ ہو اشتہار ہم مطالبہ کرتے ہیں" مطبوعہ مرکنٹائل پر نہیں لاہور شائع کردہ جماعت اسلامی پاکستان دستوری تجاویز سرورق مگ از مسیر ابوالاعلی صاحب مودودی طبع بتولی ۱۲ اگست ۱۹۵۲ ۶- ناشهر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی انچاره وه
۴۳۶ کے مطابق اکثریت باطل پر ہے اور ۷۲ فرقوں میں سے صرف وہ فرقہ ناجی ہے جو اقلیت میں ہوگا چنا ہے جماعت اسلامی کے ترجمان رسالہ ترجمان القرآن، ستمبر، اکتوبیہ ۱۹۲۵ء نے لکھا:.گرام اسلام میں نہ اکثریت کا کسی بات پر متفق ہو جانا اس کے حق پر ہونے کی دلیل ہے، نہ اکثریت کا قام سواد اعظم ہے، نہ پر بھیڑ جماعت کے حکم میں داخل ہے اور نہ کسی مقام کے مولویوں کی کسی جماعت کا کسی رائے کو اختیار کر لینا اجماع ہے.ان ساری غلط فہمیوں سے تعرض کرنے کا یہ موقع نہیں ہے البته بذکورہ بالا حدیث کا مطلب ہم بیان کئے دیتے ہیں.لے بالکل اسی نظریہ پر احرار نے مخالفت پاکستان کی بنیاد رکھی.چنانچہ ایک بار سید عطاء اللہ شاہ صاحب نے کہا ہم سے کہا جاتا ہے کہ جدھر اکثریت ہو ادھر تم بھی چلو اور اکثریت کا ساتھ دوو) ہم اکثریت نہیں چاہتے ہمیشہ اقلیت حق پر ہوتی ہے.ہم نام نہا د اکثریت کی تابعداری نہیں کریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تکثریت باطل پر ہے ؟ (اخبار زمزم ۳۰ اپریل ۱۹۳۹ ء بحوالہ سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری ها مولفہ خان حبیب الرحمن صاحب کا بل " طبع اولی جون ۱۶۱۹۴۰ آپ نے ایک اور موقعہ پر تقریر کے دوران کہا " اگر اکثریت کا لحاظ ہے تو حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ پر درود کیوں سمجھتے ہو یزید پر درود پڑھوی فرمودات امیر شریعت ما مرتب جنابت کیم مختار احمد امینی صاحب مکتبہ تعمیر حیات چوک رنگ محمل کا ہور) شاہ صاحب نے قیام پاکستان کے بعد یہ بھی کہا : " کمیونسٹوں سے ہماری جنگ کیس ، اسلام در شورائیت کا جھگڑا کیا ہیں تو پوچھتا ہوں کہ اسلام ہے کہاں جس سے کمیونزم کی جنگ ہوگی.(خطبات امیر شریعت" ه مرتبه جانباز مرزا طبع اقوال پنجاب پریس لاہور ) نیز کہا :- کیہ سے کراچی تک ہر جگہ قانون گھر ہی مسلط ہے ؟." زکات کعبه تا کا دیا کراچی سراسر کفر و كفر دون كفره ory رحیات امیر شریعت ۲۵ ماه مرتبه جانباز مرزا - ناشر مکتبہ تبصرہ پر گلشن کالونی شاد باری
سم لهم مذکورہ بالا سدیری ترندی میں ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے : " ان الله لا يجمع امتی أو قال امة محمد على ضلالة ويد الله على الجماعة ومن شذ شذ في النار اللہ تعالیٰ میری امت کو بالیوں فرمایا کہ محمد کی امت کو ملالت پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں پڑا) اس کا مطلب یہ ہے کہ اس امت پیر کوئی ایسا دکور نہیں آئے گا کہ یہ پوری امت گمراہی میں پڑھائے بلکہ اس میں ایک گروہ خواہ وہ کھتا ہی چھوٹا ہو ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور وہی جماعت ہے اور اللہ کا ہاتھ اس جماعت پر ہے.اور جو اس جماعت سے الگ ہوا وہ ہم میں گرا.اس مطلب کی تائید اس حدیث نہوئی سے ہوتی ہے جو عبد اللہ بن عمرض سے بایں الفاظ مروی ہے : " ان بنی اسرائیل تفرّقت على اثنتين وسبعين ملة وتفترق امتى على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار الاملة واحدة قالوا من هي يا رسول الله ؟ قال ما انا عليه واصحابي؟ بنی اسرائیل ۷۲ فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ بھائے گی جو سب کے سب جہنم میں پڑھائیں گئے بجز ایک کے لوگوں نے پوچھا یہ کون لوگ ہوں گے یارسول الله ؟ آپ نے فرمایا وہ جو میرے اور میرے اصحاب کے طریقہ پر ہوں گے.احمر اور ابو داؤد کے یہاں پہلی روایت کسی قدر مختلف الفاظ میں ہے اور ان میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہی فرقہ جو آپ کے اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہو گا.جماعت ہے اور اس کے اوپر اللہ کی رحمت کا ہاتھ ہے.عن معاوية ثنتان وسبعون في النار و واحدة في الجنة وهى الجماعة (معاویہؓ سے روایت ہے کہ بہتر فرقے جہنم میں ہوں گے ایک جنت میں ہوگا اور وہی جماعت ہے) اس سے معلوم ہوا کہ ایک زمانہ اس اُمت پر ایسا آئے گا کہ اس کے بڑے حصہ میں منالت کا اثر اسی طرح سرایت کر جائے گا جس طرح باؤلے گتے کے کاٹنے سے اس کا زہر آدمی کی رگ رگ میں سرایت کر جاتا ہے، صرف تھوڑے لوگ بیچ رہیں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہوں گے اور وہی لوگ جماعت کے حکم میں ہوں گے یعنی اسی مضمون کی ایک حدیث اور بھی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:.لا تزال طائفة من أمتى على العنق..ا میری اُمت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر
۴۳۸ قائم رہے گا اور جو لوگ انہیں چھوڑیں گے ان کو کچھ ضرورنہ پہنچائیں گے.ان احادیث کی روشنی میں زیر بحث حدیث کا مطلب یہ نکلا کہ یہ پوری امت کبھی گمراہ نہ ہوگی بلکہ ایک جماعت خواہ وہ کتنی ہی مختصر ہو حق پر قائم رہے گی اور وہی جماعت ناجی ہے.اسی کے اُوپر اللہ کا ہاتھ ہے بقیہ سب جہنم میں پڑیں گی.ان احادیث سے یہ امر بالکل واضح ہے کہ یہ گروہ نہ کثرت میں ہو گا نہ اپنی کثرت کو اپنے برستی ہونے کی دلیل ٹھہرائے گا بلکہ اس امت کے ۷۳ فرقوں میں سے ایک ہو گا اور اس معمور دنیا میں ان کی حیثیت اجنبی اور بیگانہ لوگوں کی ہوگی جیسا کہ فرمایا ہے، بدء الاسلام غريباً وسيعود كما بدء، فطوبى للغرباء هم الذين يصلحون ما افسد الناس بعدى من شئی اسلام غربت میں شروع ہوا اور اسی غربت میں پھر مبتلا ہو گا پس مبارکباد ہے ان اجنبیوں کے لئے جو دوسروں کے بگاڑے ہوئے دین کی اصلاح کریں گے).پس جو جماعت محض اپنی کثرت تعداد کی بناء پر اپنے آپ کو وہ جماعت قرار دے رہی ہے جس ہا اللہ کا ہاتھ ہے اور جس سے علیحدہ ہوتا جہنم میں داخل ہونے کے مترادف ہے اس کے لئے تو اس حدیث میں اُمید کی کوئی کرن نہیں.کیونکہ اس حدیث میں اس جماعت کی دو علامتیں نمایاں طریقہ پر بیان کر دی گئی ہیں.ایک تو یہ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہوگی، دوسری یہ کہ نہایت اقلیت میں ہوگی یا لے کے له رساله ترجمان القرآن ماه ستمبر و اکتوبر ۱۹۴۵ و منت، خشو سے جناب مولانا احمد علی صاحب امیر انجمن خدام الدین لاہور نے ایک بار خطبہ جمعہ کے دوران بتایا اس عریف شریف کا حاصل یہ نکلا کہ آپ کی امت کہلانے والوں میں ۷۲ فرقے ہوں گے اور فقط ایک فرقہ صحیح معنوں میں آپ کی اُمت کہلانے کا مستحق ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ کھری اُمت کمیاب ہوگی اور کھوئی آفت کی بہتات ہوگی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کھوٹی آنت کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور کھری اُمت بہشت میں جائیگی.نیز معلوم ہوا کہ کھری آنست وہ ہے جو رسول اللہ صل اللہ علیہ سلم اور صحابہ کرام کے طریقہ پر ہو اور کھوٹی انت وہ ہے جو نام تو اسلام کا لے اور مسلمان کہلائے مگر ان کا دین رسول اللہ والا نہ ہو بلکہ بعد کی ایجاد شده چیزیں ہوں یا آزاد لاہور ۱۷ اکتوریه ۱۹۵۲ء جنگ )
۴۳۹ دوم.جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ صرف پاکستان کے اقلیتی طبقوں کا مطالبہ تھا.چنانچہ مودودی صاحب نے اپنے رسالہ قادیانی مسئلہ میں بھی لکھا کہ :- تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ابھی تک اس کی صحت و معقولیت کی قائل نہیں ہوسکتی ہے اور پنجاب و بہاولپور کے سوا دوسرے علاقوں خصوصا بنگال میں ابھی عوام الناس بھی پوری طرح اُس کا نے یہ رسالہ مودودی صاحب نے مارچ ۱۹۵۳ء میں عین اُس وقت شائع کیا جب کہ علماء کی شعلہ افشانیوں نے ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کے دہانے پر پہنچا دیا تھا.جناب غلام احمد صاحب پرویز مدیر طلوع اسلام لکھتے ہیں : ” سب سے زیادہ اہمیت مودودی صاحب کے رسالہ قادیانی مسئلہ کو دی جاتی ہے.ہمارے نزدیک اس رسالہ کے دلائل اس قدر پوچھے ہیں کہ ان کا تجزیہ کیا جائے تو وہ خود احمدیوں کے حق میں چلے جاتے ہیں یا مزاج شناس رسول ص طبع اول ناشر ادارہ طلوع اسلام کراچی) امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی (TUFTS UNIVERSITY) میں تاریخ کے پروفیسر مسٹر فری لینڈ ایبٹ (FREELAND ABBOT) نے مڈل ایسٹ جرنل کی سرمائی اشاعت ۱۹۵۷ ء میں قادیانی مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا.اس پمفلٹ میں خواہ علمی لحاظ سے کیسے ہی عمدہ دلائل کیوں نہ دیئے گئے ہوں ہر حالی ایک کشیدگی کی موجودگی ہیں اس کی اشاعت یقیناً کھچاؤ میں اضافہ کا باعث ہوئی.احمدی قبل ازیں ایک مدت سے جماعت اسلامی کی مخالفت میں بہت سرگرم رہے تھے عین ممکن ہے کہ مولانا مودودی اس مخالفت سے سرگراں ہو چکے ہوں اور مولانا موصوف نے مسلم سوسائٹی سے ان لوگوں کے اخراج کا موقعہ غنیمت جان کر یہ پمفلٹ لکھا ہو اور انہیں اس بات کا خیال نہ آیا ہو کہ یہ پیلٹ بھی کشیدگی ہیں اضافہ ہی کرے گا...مولانا مودودی کو اس وقت معلوم ہونا چاہئیے تھا کہ وہ در حقیقت ایک بہت بڑے آتش گیر ہم سے کھیل رہے ہیں.ان کا یہ عدم احساس در حقیقت ایک زبر دست غیر ذمہ داری کے مترادف ہے (ترجمہ) (بحواله رساله و چراغ راه تحریک اسلامی نمبر ۳۶۱ تاریخ اشاعت نومبر ۱۹۶۳ء ناشر اداره چراغ راه کراچی)
وزن نہیں محسوس کر رہے ہیں یا (ما) قبل ازیں انہوں نے ۲۲ فروری ۱۹۵۳ء کو ایک خط میں لکھا :- پنجاب سمیت پورے ملک میں تعلیم یافتہ پبلک کو قادیانیوں کے بارے میں ہمارے مطالبے کی صحت پر اب تک مطمئن نہیں کیا جا سکا ہے.دوم یہ کہ عوام الناس بھی صرف پنجاب اور بہا ولپور ہی میں اس مطالبے کی حمایت کے لئے تیار کئے جاسکے ہیں باقی دوسرے تمام صوبوں اور سب سے بڑھ کر بنگال سے بالکل غیر متاثر ہیں یا اے کے عوام اس سے پاک نیز لکھا:.ہمارے نزدیک یہ سخت غلط اور غیر مدبرانہ کا روائی ہے.اس طرح کے اگر چند مظاہرے اور کر ڈالے گئے تو بعید نہیں کہ بنگال میں اس کا بالکل الٹا ر و عمل پیدا ہو جائے اور ہم قادیانیوں کے مسئلے میں بنگال کی تائید حاصل کرنے سے ہاتھ دھو بیٹھیں.خود پنجاب میں بکثرت لوگ ان مظاہرات کے متعلق یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ در اصل دولتانہ صاحب کے اشارے سے مجلس عمل والوں نے کئے ہیں کیونکہ دولتانہ صاحب اس وقت خواجہ ناظم الدین پر دھونس جمانا چاہتے ہیں ؟ کے یہ ایسی واضح حقیقت تھی کہ اس کی تائید میں جماعتِ اسلامی کے ایک راہنما جناب نصر اللہ خاں عزیز (مدیر کوثر) کو مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد یہ بیان دینا پڑا کہ :.جب ہم قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے نکتے کا تذکرہ کرتے تو جواب ملتا یہ تو فرقہ بندی ہے فتنہ تکفیر ہے.مولوسی تو اس سے پہلے اسی طرح ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے آئے ہیں قادیانی گمراہ سہی مگر ان کو کافر کہنے سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہو گا.بعض کہتے وہ تو اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں.قرآن مجید کا ترجمہ انگریزی زبان میں انہوں نے کیا ہے اور ان کے مشن ممالک غیر میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں ، میں اس حقیقت کے باوجود حکومت کو اس غیر جمہوری مطالبہ کے سامنے سپر انداز ہونے کی دھمکی دینا نے یہ گرفتاریاں کیوں ؟ من ۲ ناظم شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی پاکستان - اشاعت اول اپریل ۱۹۵۳ء مطبوعہ ناظر پرنٹنگ پریس اخبار بلڈنگ میکلوڈ روڈ کراچی کے ایما شاء س اخبار کوثر" لاہور آمار فروری ۱۹۵۳ ء م * +
عقل واہم کے منافی تھا.سوم.بفرض محال اس مطالبہ کو ملک کے دونوں حصوں کے اکثر باشندوں کی حمایت بھی حاصل ہوتی تب بھی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا فرض تھا کہ وہ عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سپریم کورٹ کے اس واضح آئینی و قانونی فیصلہ کے سامنے سر سلیم تم کرنے کو اپنے لئے موجب سعادت کھیتی جو مولانا مودودی صاحب نے ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو کوچی دروازہ لاہور کے ایک جلسہ عام میں سنایا تھا اور جو انہی کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے.اسلامی حکومت کا چوتھا اصول یہ ہے کہ اس میں لوگوں کو بجان، مال اور عزت کے تحفظ کی جو ضمانت دی جائے گی وہ کسی شخص یا گروہ کی طرف سے نہیں بلکہ خدا اور رسول کی طرف سے دی جائینگی اور قانون خداوندی کے سوا کسی دوسرے قانون کے تحت کسی شخص کے ان بنیادی حقوق پر ہاتھ نہ ڈالا جا سکے گا.اس دستوری قاعدے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :- " جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم اور کرتے ہیں.اس قبلہ کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ ے یہاں یہ بتاتا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ مسلمانان ہند و پاکستان کی اکثریت کی نسبت مودودی صاحب کی حتمی رائے یہ تھی کہ ایک قوم کے تمام افراد کو محض اس وجہ سے کہ وہ نسلاً مسلمان ہیں حقیقی معنی میں مسلمان فرض کر لینا اور یہ امید رکھنا کہ اُن کے اجتماع سے جو کام بھی ہوگا اسلامی اصول پر رہی ہوگا پہلی اور بنیادی غلطی ہے.یہ انبو عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999 فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں نہ اُن کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے.باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو لیس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے اس لئے مسلمان ہیں یا مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم هنگا، جب طبع مہفتم ۱۹۵۵ء - ناشر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان اچھرہ لاہور) یہ قرآن میں جن کو اہل کتاب کیا گیا ہے وہ آخر نسل مسلمان ہی تو تھے“ (ایضاً ۱۹) پھر عہد حاضر کے مسلمان فرقوں کی نسبت فرماتے ہیں.مخدا (199) کی شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بناء پر اہلحدیث ، حنفی ، دیوبندی بریلوی ، شیعه ، اشتی وغیرہ الگ الگ منتیں بن سکیں.یہ اتنیں جہالت کی پیدا کی ہوئی ہیں ؟ (خطبات طبع چہارم من ناشر مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام جمالپور پٹھانکوٹ) ہے
کرتے ہیں اور ہمارا ذہجہ کھا یا و مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے پس تم اللہ کے دئے ہوئے ذمے ہیں اس کے ساتھ دغا بازی نہ کرویا اس کے حان معنیٰ یہ ہیں کہ اسلامی حکومت میں شہریوں کو بنیادی حقوق کی جو ضمانت دی جاتی ہے وہ در اصل خدا اور رسول کی طرف سے نیا نہ دی جاتی ہے.اور اگر کوئی حکومت یہ ضمانت دیتے کے بعد قانون الہی کے سوا کسی دوسرے طریقے پر شہریوں کے اس حق کو چھپنے تو وہ در اصل خدا کے ساتھ دنما بازی کی مجرم ہے یا لے چهارم - جناب مودودی صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اعزازی تحریک کا ختم نبوت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے جماعت اسلامی کی پوری مشینری اس کی حمایت میں لگادی.خود لکھتے ہیں :.اس کا روائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہو گئیں.ایک یہ کہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں بلکہ نام اور سہرے کا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کے لئے جوئے کے داؤ پر لگا نا چاہتے ہیں.دوسرے یہ کہ رات کو بالاتفاق ایک قرار داد ھے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر ساز باز کی ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود لکھ لائے ہیں ہیں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور طریقوں سے کیا جائے اس میں کبھی خیر نہیں ہو سکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جومسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کریں اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہو سکتے یہ ہے انہوں نے ایک تقریر میں یہ بھی بتایا کہ :- یکی صاف صاف کہتا ہوں کہ ختم نبوت کی تحریک اٹھوائی ہی اس غرض کے لئے گئی تھی کہ مطالبہ نظام اسلامی کو روکا جائے.اس موقع پر ختم نبوت کی تحریک کے لیڈروں کو بہتر آنجھایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ خدا کے لئے ایک مرتبہ و تقویہ پاس ہو جانے دو اس کے بعد تم اس مسئلے کو اٹھا سکتے ہو خواجہ ناظم الدین ه و سقوری سفارشات پر تنقید اسلامی اور جمہوری نقطۂ نظر سے مصنفہ سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب امر ناشر شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی پاکستان * رون امر سلیم کا ہوں کہ جولائی ۱۹۵۵ء (جماعت اسلامی کا آرگین ۲
۴۴۳ کی رپورٹ تیار ہو چکی تھی.دستور پاس ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہیں تھی صرف اتنا کام باقی تھا کہ دستور ساز اسمبلی میں بنیادی اصولوں کی رپورٹ پیش ہوا اور دستور پاس ہو جائے لیکن عین وقت پر ہنگامہ بر پا کر دیا گیا...اور بیورو کریسی اس طرح ملک کے سینے پر سوار ہوئی کہ آج تک اس سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سنتا ہے.یا ہے پنجم.جناب مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی کے فتنہ و یک ملک کے سب علمائے دین اور مسلمان سیاسی جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ گم کردہ راہ اور پاکستان در اصل نا پاکستان بلکہ کافرانہ دریاست تھی چنا نچہ وہ بر ملا برسوں سے اس عقیدہ کا پر زور اعلان کر رہے تھے کہ :.خواہ مغربی تعلیم و تربیت پائے ہوئے سیاسی لیڈر ہوں یا علمائے دین و مفتیان شرع مبین دونوں قسم کے رہنما اپنے نظریے اور اپنی پالیسی کے لحاظ سے یکساں گم کردہ راہ ہیں؟ یہ ویسا ہی نا پاکستان ہو گا جیسا ملک کا وہ حصہ جہاں آپ کی اسکیم کے مطابق غیرمسلم حکومت " کریں گے بلکہ خدا کی نگاہ میں یہ اس سے زیادہ نا پاک اس سے زیادہ مبغوض وملعون ہو گا یا اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہو گا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہو گی اس کا نام حکومت آئی رکھنا اس پاک نام کو ذلیل کرتا ہے کے اس نظریہ و مسلک کی موجودگی میں مودودی صاحب جیسے مفکر اسلام کا علماء سے گٹھ جوڑ کر کے پاکستان اسمبلی کے سامنے مطالبہ اقلیت پیش کرنا ان کی اصطلاح میں حاکمیت طاغوت کو تسلیم کرتے کے مترادف تھا.ششم.مولانا مودودی صاحب پر حقیقت بھی برسوں سے ببانگ دہل پیش کرتے آرہے تھے کہ عہد حاضر میں صرف اُسی شخصیت سے نظام اسلامی کی تشکیل ممکن ہے جو نبی کی نظر رکھتا ہو.چنانچہ آنے ال لکھا:.علماء (الا ماشاء اللہ خود اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہو چکے تھے.ان پر تو اسلاون کی اندھی له "جماعت اسلامی کے ۲۹ سال ملا ( تقریر سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی امیر جماعت اسلامی مورخه ۲۶ اگست ۱۱۹۷۰) شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی پاکستان لاہور طبع اول ستمبر 1966 ہے سے مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ص ۱۳ مه ده ها گاه
۴۴۴ اور بجامد تقلید کا مرض پوری طرح مسلط ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کو ان کتابوں میں تلاش کرتے تھے جو خدا کی کتابیں نہ تھیں کہ زمانے کی قیود سے بالا تر ہوتیں.وہ ہر معاملہ میں اُن انسانوں کی طرف رجوع کرتے تھے جو خدا کے نبی نہ تھے کہ ان کی بصیرت اوقات اور حالات کی بندشوں سے بالکل آزاد ہوتی.پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ ایسے وقت میں مسلمانوں کی کامیاب رہنمائی کر سکتے جبکہ زمانہ بالکل بدل چکا تھا اور علم و عمل کی دنیا میں ایسا عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا جس کو خدا کی نظر تو دیکھ سکتی تھی مگر کسی غیر نبی انسان کی نظر میں یہ طاقت نہ تھی کہ قرنوں اور صدیوں کے پر دے اٹھا کر ان تک پہنچ سکتی ہے لے جماعت اسلامی کا مقصد ان ا ا ا ا ا اور کی روشنی میں ان تیمی بر نانا نان شکل جماعت اسلامی کا مقصد نہ تھا کہ جماعت اسلامی اس شورش میں دینی نہیں خالص سیاسی مقصد کے لئے شامل ہوئی اور وہ مقصد میں کا اعلان جماعت اسلامی کے رہنما ۱۹۵۰ء میں کر چکے تھے صرف یہ تھا کہ ہ.جب صالحین کا گر و منظم ہو، ان کے پاس طاقت موجود ہو.اہل ملک کی عظیم اکثریت ان کے ساتھ ہو یا کم از کم اس بات کا ظن غالب ہو کہ عملی جد و جہد شروع ہوتے ہی اکثریت اُن کا ساتھ دے گی اور کیسی بڑی تباہی اور خون ریزی کے بغیر نفس دین کے اقتدار کو مٹاکر صالحین کا اقتدار قائم کیا جاسکے گا.اس صورت میں بلاشبہ صالحین کی جماعت کو نہ صرف حتی حاصل ہے بلکہ ان کے اوپر یہ شرعی فرض ہے کہ وہ اپنی طاقت منظم کر کے ملک کے اندر بزور شمشیر انقلاب پیدا کر دیں اور حکومت پر قبضہ کرلیں گے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ“ لاہور نے جناب اخبار سول اینڈ ملٹری گیٹ لاہور کا تبصر مودودی صاب کے موچی دروازے کی تقریر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:.گذشتہ جمعہ کو ایک پبلک جلسے میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے لوگوں کو قادیانیوں کے خانات تشد د استعمال کرنے پر علی الاعلان ابھارا ہے.تشدد کا یہ علی الاعلان پر چار اہل فہم حضرات کی نگاہ میں لے تنقیحات" من مثلا طبع اول ۱۹۳۹ء طبع هفتم ۶۱۹۶۳ - اسلامک پبلیکیشنز لینڈ ۱۱ - سی شاہ عالم مارکیٹ لاہور سے اسلامی ریاست ۲ ص ۲ شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی ذیلدار پارک اچھرہ لاہور طبع اول ۶۱۹۵۰ :
۴۴۵ مولانا کی قدرو منزلت بڑھانے کا موجب نہیں بن سکتا.اس روز تقریر کرتے ہوئے مولانا نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار نہ دیا تو عین ممکن ہے کہ ملک میں اسی طرح قادیانی غیر قادیانی فسادات شروع ہو جائیں جس طرح پہلے ہندو مسلم فساد ہوا کرتے تھے.یہ افسوسناک بات ہے کہ ایک تحریک کا سربراہ جو آزاد خیالی اور روشن ضمیری کا مدعی ہو جیسا کہ جماعت اسلامی دعوی کرتی ہے اور وہ غیر ذمہ دارانہ باتیں زبان سے ادا کرنے میں احراریوں اور دوسرے علماء کو بھی مات کر دکھائے قادیانیوں کے خلاف نفرت و حقارت کا پر چارہ کرنے کے باوجود یہ لیڈر بظاہر اپنی طرف سے سامعین پر یہی اثر ڈالتے رہتے ہیں کہ وہ اس تحریک کو پرا مسی ذرائع تک ہی محدود رکھیں گے اور تش کرد کی جانب خفیف سے خفیف میلان کو بھی پہنچنے نہ دیں گے لیکن مولانا مودودی نے حکومت کی مشکلات میں ایک اور اضافہ کرنے کی خاطر اور کچھ نہیں تو قادیانیوں کے خلاف ہی سامعین کو فساد برپا کرنے پر اکسانا شروع کر دیا..مولانا صاحب موصوف ایک گھٹیا سیاستدان کا کردار ادا کر کے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بٹہ لگا رہے ہیں.ان جیسے عالم سے بہتر اور کون جان سکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک لاقانونیت سے بڑھ کر اور کوئی جرم نہیں.یہ جرم اپنی نوعیت کے اعتبار سے مملکت کے خلاف بغاوت کے مترادف ہے.قرآن واضح الفاظ میں ہدایت فرماتا ہے لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ یعنی زمین میں فساد برپا نہ کر وہ مولانا نے تشدد کے علی الاعلان پر بچار کے ذریعہ اس قرآنی ہدایت لمتمسخر اڑانے میں نہ صرف کوئی مضائقہ نہ سمجھا بلکہ ایک گونہ خوشی محسوس کی.فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑ کا نا قوم وملک میں انتشار پھیلانے کے مترادف ہے.ملک کا کوئی سچا بہی خواہ ایسا خطرناک کھیل نہیں کھیل سکتا.اسلام ایک قوت ہے جس کا مقصد تخریب انہیں تعمیر ہے.وہ لوگوں کو اہم متحد بنانے اور انہیں ایک رشتہ میں منسلک کرنے آیا ہے.ہمارے علماء کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اختلافات مٹیں اور لوگوں میں اتنی فراخدلی پیدا ہو کہ وہ ٹھنڈے دل سے دوسروں کے نقطہ ہائے نظر بھی سن سکیں.اختلافی مسائل کے باوجود تمام فرقے شنی ، شیعہ، اہلحدیث، اہل قرآن اہل سنت والجماعت وغیرہ سب یکساں طور پر اسلام سے وابستہ ہیں.قادیانی بھی اِس بارے میں کسی سے پیچھے نہیں.اسلام کے ساتھ ان کی وابستگی دوسروں کی طرح اظہر من الشمس ہے.بانی اختلافات خواہ کچھ ہی ہوں و حقیقت کہ تمام فرقے اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں ہم سب کو متحد
۴۴۶ رکھنے کا موجب ہونی چاہیے.اختلافات ہمیشہ رہیں گے ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے رواداری سے کام لیں اور مختلف نقطہ ہائے نظر میں جو باتیں مشترک ہوی ان کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کرنے کی کوشش کریں.خود اسلام کے متعلق مولانا مودودی کے اپنے نظریات دوسرے لوگوں کے نزدیک سخت قابل اعتراض ہیں.مثال کے طور پر ان کا اعتقاد ہے کہ جو شخص اسلام سے ارتداد اختیار کرتا ہے اسے قتل کر دینا چاہیئے.ایسا اعتقاد رکھنا اس قرآنی آیت کی واضح لغی پر دلالت کرتا ہے کہ لا اكبر الا في الدِّینِ یعنی دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبرود باؤ جائز نہیں ہے.کیا قرآن مجید کی اس غلط توجیہ کے پیش نظر یہ کہنا درست ہوگا کہ مولانا اور ان کی جماعت قرآن سے پھر گئی ہے لہذا اسے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے ہے کبھی نہیں.ان کی بعض تو جہیات کتنی ہی غلط کیوں نہ ہوں لیکن جب تک وہ قرآن کو حکم مانتے ہیں دنیا کی کوئی طاقت انہیں اسلام سے خارج نہیں کر سکتی.یہی اصول قادیانیوں کے حق میں ناطق ہونا چاہیئے.جب تک کوئی شخص قرآن اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقراری ہے وہ اس بات کا حقدار ہے کہ اسے سلمان قرار دیا جائے.اس سے اتر کر کوئی ملا تو یہ کسی شخص کو خارج از اسلام کا مزا وار نہیں ٹھرا سکتی یہ علماء سے اپیل کریں گے کہ وہ سیاسی اغراض کی تکمیل کے لئے اسلام کو آلہ کار بنا کر خدارا اسے بد نام نہ کریں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ نے ملک میں ایک سو فیصدی اسلامی دستور کے نفاذ کی ضمانت دے دی ہے اور اس لحاظ سے علماء اب تک رپورٹ میں کوئی نقص نہیں نکال سکتے ہیں آب اور کچھ نہیں تو وہ قادیانیت کا نعرہ ہی وہ آخری سہارا رہ گیا ہے کہ جیس کی مدد سے وہ حکومت کی درگت بنانا چاہتے ہیں.یہ طریق نہ وطن دوستی کے موافق ہے اور نہ اسلام کے مطابق.ملک کا کوئی سچا بہی خواہ قوم کے اتحاد اور یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لائے گا کیونکہ اتحاد اور یکہتی ہی پاکستان کے بقا و استحکام کے اصل ضامن ہیں.علاوہ ازیں مذہب کے معاملات میں تشدد کی تعلیم دینا اسلام کے بھی سراسر منافی ہے کیونکہ اسلام مذہبی اختلافات طے کرنے کے لئے ایک ہی سہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ دلائل و براہین کا ہتھیار ہے ہمیں چاہیئے کہ ہم قادیانیوں کو دلائل سے سمجھائیں کہ ختم نبوت کے متعلق ان کی پیش کردہ تو جہیہ درست نہیں ہے
۴۴۷ اور اس طرح انہیں اپنے مسلک پر لانے کی کوشش کریں لیے ترجمہ) سوویٹ روس کے ایک مورخ GANKOVSKY ۷۰۷۰).ایک روسی مورخ کا نظریہ ( R.GORDON POLONSKAYA.اپنی کتاب A HISTORY OF PAKISTAN " میں ۱۹۵۳ء کی شورش کے ضمن میں لکھتے ہیں :.مخالف بورژوا اور جاگیر دار عناصر کے نزدیک احمدیوں کی ترقی ان کے حقوق اور مراعات پر ایک خطرے کا رنگ رکھتی تھی چنانچہ ۱۹۵۷-۱۹۵۳ء میں مذہبی بدعات کا قلع قمع کرنے کا مسئلہ ابھر کر سامنے آیا..مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ قادیانی جماعت مسلمانوں کی حکومت ، تجارت اور زراعت میں ایک آزاد پارٹی کی طرح ہر جگہ مخالفت کرتی تھی (قادیانی مسئلہ من) اور حقیقت میں یہی وجہ تھی جو مودودی صاحب کے لئے سردردی کا موجب تھی.شہنشاہیت (سرمایہ داری ) کے مابین حریفانہ سرگرمیاں بھی احمدیہ جماعت کی مخالفت میں پیش پیش تھیں.مثال کے طور پر جماعت اسلامی پاکستان سے امریکہ کے قریبی تعلق کی عامی تھی اور آب وہ احمدیوں کے برطانیہ سے پرانے تعلقات کی شاہ کی تھی.احمدیوں کے خلاف ایجی کیش اُونچے بورژوا کی اس بے چینی کا اظہار بھی تھا کہ یہ جماعت انگریزوں سے پرانے تعلقات کو نیا ہے چلی جاتی ہے.اور یہ وہ طبقہ تھا جو امریکہ کی طرف مائل تھا.امریکہ کی کوشش بھی یہ تھی کہ برطانیہ نواز حلقے کی جگہ ایسے لوگبر سراقت دار آجائیں جو اس کی طرف زیادہ مائل ہوئی.( ترجمه وتلخیص) جماعت اسلامی کے دریا کے دار بریختا روشنی ارباب حل و عقد سے براہ راست البطہ اور ملاقاتیں ڈالنے کے بعد ہم بتاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ پاکستان کا مرکز، اس کی صوبائی شاخوں کے امراء اور دیگر فقہ دار احمدی (جو حب الوطنی کے ناقابل تسخیر جذبہ سے سرشار تھے، شورش کے ابتدائی دنوں ہی سے افسران حکومت کو خطوں اور تاؤں کے ذریعہ صورت حال سے باخبر رکھنا اپنا قومی اور ملی فرض سمجھتے تھے.ه روز نامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ۱۲ فروری ۱۹۹۳ء جواله روزنام افضل لاہور مورد دار فروری ۱۹۵۳ ز من کے صفحہ ۱۸۴۲ ( ناشر PEOPELS PUBLISHING HOUSE LAHORE)
۴۴۸ اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ کے مرکزی نمائندوں نے چوٹی کے سرکاری افسروں سے ملاقاتیں بھی کیں چنانچہ کار جولائی ۱۹۵۲ء کو علمائے سلسہ کے تبلیغی وفد کی وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کا ذکر آ چکا ہے اس کے بعد جماعت کے سر بر آوردہ حضرات اور بزرگ گورنر صاحب پنجاب (۲۳ اگست ۶۱۹۵۲ و ۲۰-۲۲ فروری ۱۹۵۳) چیف سیکرٹری صاحب پنجاب (۱۳ دسمبر ۲۱۹۵۲) ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب (۱۱۳ دسمبر ۲۱۹۵۲ - ۳۱ جنوری و ۲ فروری ۱۹۵۳) اور وزیر اعلیٰ صاحب پنجاب ۲۲-۲۰۱ فروری ۱۹۵۳ء) سے بھی ملے.اُس دور کے جماعتی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب کے افسران سے ملاقات کرنے والوں میں حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ، حضرت سید اللہ شاہ صاحب ، حضرت صاجزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب جیسی نماز اور اہم شخصیات بھی تھیں.حقائق و واقعات سے باخبر ہونے کے باوجود پنجاب کی سلم لیگی وزارت نے جس قسم کا سلو کی حدوں سے روا رکھا اس کا خلاصہ جسٹس منیر اور جسٹس کیانی کے الفاظ میں یہ ہے کہ : احراریوں سے تو الیسا برتاؤ کیا گیا گویا وہ خاندان کے افراد ہیں اور احمدیوں کو اجنبی سمجھا گیا یہ ہے حالانکہ چیف سیکرٹری پنجاب جناب عبدالحمید صاحب تک بھی بخوبی جانتے تھے کہ ہا.اعزاء اس نزاع میں جارحانہ انداز لئے ہوئے تھے اور احمد می صرف مدافعت کر رہے تھے تے اور مطالبہ اقلیت کی نسبت تو اُن کی دو ٹوک رائے یہ تھی کہ :- جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے اسے سلمان ہی تصور کرنا چاہئیے.اگر پاکستان کو ایک زندہ قوم رہتا ہے تو میری رائے میں مسئلہ کا یہی واحد حل ہے.اس رائے کو دوسرے لفظوں میں کیوں پیش کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص کلمہ طیبہ پڑھے اُسے مسلمان مکھنا چاہیئے کلمہ گوا فراد اور سلمان ہونے کے کے رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ۲۲۲۵ ت روزنامہ ملت لاہور اور جنوری ۱۹۵۴ء مت کا ظلم سے ہے.
۲۴۹ ندیوں کے در میان خلیج حائل کرنا معاشرہ پر دشمنی پر مبنی اقدام ہے.اے کی زارا جناب چوہدری فضل اللہی صاحب اُس دور کی پنجاب سلم لیگ زارت کی سیاسی پالیسی اسلامی وزارت جناب کی ایسی پالیسی پر پانی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:.ا قادیانیوں کے خلاف تین مطالبات کی منظوری کے لئے جو ایٹی میشن شروع کی گئی تھی اسکی اصلیت پر پر وہ ڈالنے کے لئے میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے ایک آئینی ڈھونگ رچایا تھا حکومت پنجاب نے عدالت کو بتایا ۱۹۴۸ء میں پہلی بار جب یہ مطالبات پیش کئے گئے تھے اس وقت سے ہی صوبے میں احرار احمدی تنازعہ کو ہمیشہ امن و امان کا ایک مسئلہ سمجھا گیا تھا اور اسی نقطۂ نظر سے اس مسئلہ سے نپٹا گیا تھا اور جولائی ۱۹۵۲ ء تک اس مسئلہ کو امن عامہ کا ہی مسئلہ سمجھا جاتا رہا لیکن جولائی ۱۹۵۳ء تک میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے اچانک ان مطالبات کی آئینی نوعیت کے روز نامہ ملت" لاہور پر جنوری ۱۹۵۴ء ص به سے پاکستان کے موجودہ صدر مملکت آپ زراعتی کالج لائلپور کے فارغ التحصیل ہیں علیگ کو یونیورسٹی سے ایم.اے.ایل ایل بی کیا اور اپنے وطن مالون گجرات (پنجاب) سے وکالت کا آغاز کیا.۱۹۴۶ ہیں کلم لیگی امیدوار کی حیثیت سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے.قیام پاکستان کے بعد ممدوٹ وزارت کے زمانہ میں میال محمد ممتاز خان دولتانہ کے پارلیمنٹری سیکرٹری رہے.مٹی ۱۹۴۸ء میں میاں صاحب ممدوٹ وزارت سے الگ ہو گئے تو آپ بھی مستعفی ہو گئے.پھر تھوڑے عرصہ کے لئے ممدوٹ وزارت میں وزیر تعلیم رہے.محمدون وزارت اور پنجاب اسمبلی برخاست کر دی گئی تو آپ دوبارہ وکالت کرنے لگے.ایک یونٹ کے قیام کے بعد گجرات سے مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن چنے گئے.اکتوبر ۱۹۵۳ء میں پاکستان مسلم لیگ کے جنرل ا سیکرٹری منتخب کئے گئے اور مغربی پاکستان اسمبلی کے سپیکر رہے.(اگر دو انسائیکلو پیڈیا ڈیا ناشر فیروز سنز لاہور طبع اول ۶۱۹۶۲ ) قائد عوام جناب ذو الفقار علی بھٹو کے عہد حکومت میں سپیکر پاکستان اسمبلی کے فرائگی انجام دینے کے بعد ۱۴ اگست ۱۹۷۳ ء کو صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر ممتاز ہوئے ؟
۴۵ " دریافت کرلی.مغرب کے تعلیم یافتہ مسٹرد ولفانہ جو ترقی پسندانہ زرعی اصطلاحات کے مصنف بھی ہیں ان کے اور احرزار یوں مذہبی رہنماؤں کے درمیان کوئی بات مشترک تو نہ تھی البتہ سابق وزیر اعلیٰ (میاں دولتانہ) اس ایجی ٹیشن کو مرکز کے خلاف اپنے سیاسی فائدہ کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے ا لئے ۲.اس دوران میں جو پالیسی اختیار کی گئی تھی وہ کمزور، الجھی ہوئی اور تذبذب پر مبنی تھی حالانکہ کراچی کے فیصلوں نے گول مول بات کی کوئی گنجائش نہیں رکھی تھی اور لاقانونی کو سختی کے ساتھ روکتا ரம் میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کو ۱۶ فروری ہی کو معلوم ہو گیا تھا کہ قادیانیوں کے خلاف مطالبات کے سلسلہ میں خواجہ ناظم الدین کا موقف کیا ہے ، جب وزیر اعظم نے مسٹر دو لقانہ سے کہا تھا کہ وہ مطالبات کو منظور نہیں کر سکتے لیکن مسٹر دولتانہ کے ہاتھ میں دو پتے تھے اور وہ دو طرح کی باتیں کرتے تھے اور اب بھی انہوں نے کوئی قطعی موقف قائم نہیں کیا ہیں مطالبات اگر منظور کر لئے جائیں تو مسٹر دولتانہ اپنی حضوری باغ کی تقریر کی طرف اشارہ کر کے کہیں گے کہ انہیں ان کے مطالبات سے ہمدردی تھی اور اگر وہ مسترد کر دیے جائیں تو وہ اپنے دوسرے بیانوں کا حوالہ دے سکتے ہیں یا ہے مام سابق وزیر اعلیٰ نے ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائڈ کا پارٹ ادا کیا اور پنجاب میں حکومت کے حامی اخباروں نے نفرت کی تبلیغ کی میٹر دولتانہ چاہتے تھے کہ مرکز قادیانیوں کے خلاف مطالبات کو رڈکر دے تاکہ وہ تحریک والوں کے غیض و غضب کا رخ مرکز کی طرف موڑ سکیں اور احرار سے اپنے تعلق کو اپنے سیاسی اغراض کے لئے استعمال کر سکیں.یہ دعوئی حقائق پر مبنی ہے کہ خواجہ ناظم الدین جو اس وقت وزیر اعظم تھے علماء سے ملاقاتیں کرکےکچھ اس قسم کا تاثر پیدا کر رہے تھے کہ تحریک پر مولان جون ۱۹۵۲ء تک تحریک احرار تک محدود تھی اور یہ کہ ۱۳ جولائی سے ، ار اگست تک ختم نبوت کے روزنامہ آفاق " لاہور بم - فروری ۱۹۷۴ء مث : سے روزنامہ تخت لاہور دار فروری ۶۱۹۵۴ مت به
۴۵۱ تحریک کے سلسلہ میں کوئی جلسہ نہیں ہوار یہ بتاتے ہوئے وکیل موصوف نے کہا کہ مسٹر دولتانہ ہو اور جولائی کو ایک قرار داد منظور کرنے کے لئے صوبائی مسلم لیگ کا جلسہ بلایا.قرار داد کے پہلے حصہ میں ختم نبوت کے اصول سے گہرے لگاؤ کا اظہار کیا گیا اور صورتِ حال کا الزام قادیانیوں کو دیا گیا.دوسرے حصہ میں تحریک کو ایک راستے پر ڈالنے کی اس طرح کوشش کی گئی تھی کہ عام لوگوں سے اپیل کی گئی کہ صوبے میں امن اور قانون کو قائم رکھنے اور مرکز سے رجوع کیجئے کہ وہی اس مسئلہ کو طے کرسکتا ہے.متذکرہ بالا قرار داد نے کراچی کا رستہ دکھایا اور وفود خواجہ ناظم الدین سے ملنے روانہ ہونے لگے.جب علماء واپس آئے تو انہوں نے سابق وزیر اعظم کے طرفی کمال پر ہے اطمینانی کا اظہار کیا ہے لے جناب خواجہ ناظم الدین صاحب (وزیر اعظم پاکستان) اور جناب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ (وزیر اعلی پنجاب) کی اس رسہ کشی کی حقیقی و بہ مشہور احراری لیڈر جناب مولوی منظر علی صاحب اظہر کے الفاظ میں یہ تھی کہ :.مسر دولتانہ چاہتے تھے کہ مرکزی کابینہ میں ان کے چنتے ہوئے وزراء پنجاب کی نمائندگی کریں لیکن یہ بات خواجہ ناظم الدین کے لئے ناقابل قبول بھی خواجہ ناظم الدین کو مسٹرد والتانہ سے شکایت تھی کیونکہ انہوں نے مساوی نمائندگی کے مسئلہ پر ان کی مخالفت کی تھی یا ہے جناب میاں ممتاز محمد خان صاحب دولتانہ نے بھی اپنے ایک بیان میں یہ تسلیم کیا کہ :- خواجہ ناظم الدین کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ آئینی ڈھانچہ کے سوال پر ہمارے درمیان اختلاف تھا.وہ سمجھتے تھے کہ پیرٹی کے سوال پر بیس میں ان کے فیصلہ کی راہ میں حائل ہو رہا ہوں گا نیز بتایا کہ : کراچی میں مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کے اجلاس میں میں نے وزیر اعظم اور دوسرے اصحاب پر یہ واضح کر دیا تھا کہ پنجاب کے عوام مساوات کے خلاف ہیں کے در اس موقف نے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں میں پنجاب کے خلاف جو زہر پھیلا دی ہوگی اسکا لے روزنامہ آفاق" لاہور امر فروری ۱۹۵۴ء ص : که روزنامه است ۲۴ فروری ۶۱۹۵۴ سے روزنامہ آفاق" لاہور ۲۴ جنوری ۱۹۵۴ء ص به که روزنامه آفاق ۲۳ جنوری ۱۹۰۲
۴۵۲ اندازہ کر نا چندائی مشکل نہیں ہے ) تحریک راست اقدام کا خالص سیاسی ہونا حکومت کے ذمہ دارا فقروں خالص سیاسی تحریک پر روز روشن کی طرح واضح تھا چنانچہ میاں انور علی صاحب ڈپٹی اسپیکٹر جرائی سی آئی ڈی نے اپنے ایک بیان میں کہا :- احرار پارٹی اپنی پرانی سیاسی پوزیشن حاصل کرنا چاہتی تھی اور احرار کا خیال تھا کہ مطالبات پر زور دینے سے حکومت پریشان ہوگی اور احرار کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا یا لے یہ مطالبات کہنے کو تو مذہب کے نام پر پیش کئے جا رہے تھے لیکن بہت سی جماعتیں بھانتی تھیں کہ یہ بنیادی طور پر سیاسی جھگڑے ہیں اور وہ ان سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں.ان مطالبات کو چونکہ مذہبی رنگ دے کر پیش کیا جارہا تھا اس لئے سرکاری ملازموں کے لئے یہ ایک نازک و پیچیدہ مسئلہ بن گیا تھا کہ وہ کا روائی کریں تو اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ وہ مطالبات کی مخالفت کر رہے ہیں " سے تحریک کے ایک مشہور لیڈر مولانا اختر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار نے بھی اپنے ایک بیان میں یہ اعتراف کیا کہ : تحریک ختم نبوت میں احرار پیش پیش تھے کیونکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شہرت بحال کرنا چاہتے تھے سے اس سلسلہ میں احرار نے جناب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے ایک خفیہ سمجھوتہ کیا تھا جس کا سراغ ہمیں جناب " غازی سراج دین صاحب منیر کے ایک تحریری بیان سے ملتا ہے جو انہوں نے تحقیقاتی عدالت پنجاب میں دیا تھا یہ اس سمجھوتہ کی بعض تفصیلات محمد نور الحق قریشی ایم.اسے ایل ایل بی ایڈووکیٹ ملتان کی کتاب سوانح حیات خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی کے صفحہ ۳۵ ، ۳۶۶، ۳۶۷ میں بھی درج ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص معاہدہ کے تحت احراری لیڈروں نے انتخاب ۱۹۵۱ء کے دوران حلقہ بوریوالہ میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے حق میں کنوینگ سے روزنامہ ملت " لاہور کار دسمبر ۱۹۵۳ء مت : سه روز نامه انت لاہور ۱۸ر دسمبر ۶۱۹۵۳ مد سے روزنامہ آفاق کی ہو.۳۰ اکتوبر ۱۹۵۳ ۶ ست به که روزنامه آفاق لاہور ۲۸ اگست ۱۹۵۳ء صا
۴۵۳ کی اور میاں صاحب انتخاب جیت گئے جس سے احرار دولتانہ پیٹ کی بنیاد پڑی.انہی حقائق کی بناء پر جناب حمید نظامی صاحب مدیر نوائے وقت نے قطعی طور پر یہ رائے قائم کی کہ احراری مطالبات ہرگز قبول نہیں کئے جانے چاہیئے تھے اور یہ مطالبات بعض سیاسی طالع آزماؤں نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کئے تھے یا اے گٹھ جوڑ کے مقاصد پر سیاسی طالع آزما کیا چاہتے تھے اور ان کے گٹھ جوڑ کے بنیادی مقصد یہ کیا کیا تھے ؟ اس بارے میں مختلف آراء ہیں.ادارہ ثقافت اسلامیہ کے سربراہ جناب خلیفہ ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب ایم.اسے پی ایچ.ڈی کا بیان ہے کہ پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے مجھ سے حال ہی میں بیان کیا کہ ایک ملائے اعظم اور عالم مقتدر سے جو کچھ عرصہ ہوا بہت تذبذب اور سوچ بچار کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے ہیں میں نے ایک اسلامی فرقے کے متعلق دریافت کیا.انہوں نے فتوی دیا کہ ان میں جو غالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو خالی نہیں وہ واجب التعزیر ہیں.ایک اور فرقہ کی نسبت پوچھا جس میں کروڑپتی تاجر بہت ہیں.فرمایا کہ وہ سب واجب القتل ہیں.یہی عالم ان تنیس بیس علماء میں پیش پیش اور کرتا دھرتا تھے جنہوں نے اپنے اسلامی مجوزہ دستور میں یہ لازمی قرار دیا کہ ہر اسلامی فرقے کو تسلیم کر لیا جائے سوا ایک کے جس کو اسلام سے خارج سمجھا جائے ہیں تو وہ بھی واجب القتل مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں موقع آئے گا تو دیکھا جائے گا.انہیں میں سے ایک دوسرے سربراہ عالم دین نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے جہاد فی سبیل اللہ ایک فرقے کے خلاف شروع کیا ہے اس میں کامیابی کے بعد انشاء اللہ دوسروں کی خبر لی جائے گی یہ کہ مسٹر عبد الرحیم شبلی بی کام سابق چیف ایڈیٹر روز نامہ زمیندار کا بیان ہے کہ :.اس زمانے میں یہ خیال تھا کہ صوبہ میں گڑبڑ ہو گی اور دفعہ ۹۲ الف کے تحت صوبائی اسمبلی توڑ دی جائے گی جس کے بعد نئے انتخابات کی ضرورت پڑے گی.ایسی ہنگامی صورت حال کے لئے یہ انتظام " لے روزنامہ ملت " لاہور ۲۵ دسمبر ۱۹۵۳ء مت.+ سے اقبال اور ملا صدا مصنفہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ایم.اے پی اینکے.ڈی.ناشر بزم اقبال نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ.لاہور ؟
۴۵۴ کیا گیا تھا کہ میاں ممتاز دولتانہ ختم نبوت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں گے اسے لیکن جناب چوہدری فضل الفنی صاحب نے پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں یہ حیرت انگیز انکشاف حیرت انگیز انکشاف کیا کہ :- "مسٹر دولتانہ کی اس سیاست بازی کا مقصد صرف داخلی نہ تھا بلکہ بین الاقوامی سیاسیات سے بھی متعلق تھا.ان کا مقصد یہ تھا کہ خواجہ ناظم الدین کو اقتدار کی رسی سے اتار پھینکیں، خود اپنی قیادت میں ایک مرکزی حکومت قائم کریں اور پاکستان کو ایک کمیونسٹ مملکت بنا دیں ہی ہے چول چون ۲۲ فروری ۱۹۵۳ء کی میعاد کے اختتام کا وقت پنجاب سول سیکرٹریٹ کا خط قریب تر آنا گیا سول والے کی تیاریاں زیادہ زور شور سے مرکزی وزارت داخلہ کے نام ہونے لگیں.اس پر آشوب دور کی کیفیت پر پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور کا مندرجہ ذیل خط خوب روشنی ڈالتا ہے.یہ خط ۲۱ فروری ۱۹۵۳ء کو وزیر ہے پنجاب کی منظوری سے سیکریٹری حکومت پاکستان وزارت داخلہ کراچی کو لکھا گیا تھا.2249-BDSBA" پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور ۲۱ فروری ۶۱۹۵۳ مکرمی احمد صاحب از راہ کرم غیاث الدین احمد کی ڈی او چیھی نمبر 22,53 - 14682 مورینہ ۱۲۱ اکتوبر ۶۱۹۵۲ بنام حمید الدین احمد جو احمدی احرار شورش کے موضوع پر لکھی گئی تھی بغرض حوالہ پیش نظر رکھ لیجئے.کچھ وقت کے لئے شورش کی رفتار نرم پڑ گئی تھی لیکن حال ہیں میں عوام کی ایس پی کو تیز کرنے کی کوششیں خاصی شدت کے ساتھ دوبارہ جاری کر دی گئی ہیں.صوبے بھر میں بے شمار کا نفرنسیں اور جلسے منعقد کئے گئے ہیں اور آتش ریز تقریریں کی گئی ہیں.ملاؤں کی تائید و حمایت حاصل کر لی گئی ہے اور احمدیوں کے خلاف زہر اُگا جا رہا ہے.گو جرانوالہ میں مطبوعہ اشتہارات نشر کئے گئے جن میں ه روزنامه قمت ۴ در اکتوبر ۶۱۹۵۳ صد کالم علاه نے رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب م۳۰۲ به
۴۵۵ یہ مطالبہ کیا گیا کہ احمدیوں سے اچھوتوں کا سا سلوک کیا جائے اور کھانے پینے کی چیزوں کی دکانوں پر ان کے لئے علیحدہ برتن رکھے جائیں.کچھ مدت تک ضلع گوجرانوالہ میں اس امر پر بھی زور دیا گیا ہے کہ احمدیوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دی جائے.صرف پولیس کی مداخلت ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ ایسے واقعات نہ ہونے پائے.احمدیوں نے جو اس نئی حرکت سے بہت زیادہ مضطرب ہو گئے تھے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دی کہ انہیں اپنا علیحدہ قبرستان بنانے کے لئے زمین الاٹ کی بجائے یکم فروری ۱۹۵۳ء کو سرگودھا میں مسلمانوں کے قبرستان میں ایک احمدی حقیقت کی تدفین کے خلاف مزاحمت کی گئی.پولیس موقعہ پر پہنچ گئی جس سے صورت حالات پر قابو پا لیا گیا.احمدیوں کے مجلسی مقاطعہ کی تلقین کھلم کھلا کی جارہی ہے نیٹ ٹگری میں ایک مقرر نے کہا کہ احمدیوں کی دکانوں پر پکٹنگ کیا جائے اور اُن کو عوامی کنووں سے پانی بھرنے کی اجازت نہ دی جائے شورش کا لہجہ قطعی طور پر نہایت پست اور مقبول صورت اختیار کر گیا ہے.سو بے بھر میں رضا کاروں کی بھرتی کے لئے ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے اور صاحبزادہ فیض احسن پہلا ڈکٹیٹر مقر رکیا گیا ہے.رضا کاروں سے ایک حلف نامے پر دستخط کرائے جاتے ہیں کہ اگر رسول پاک کی عزت کے لئے جان دینے کی ضرورت پڑے گی تو وہ اُس میں دریغ نہ کریں گے.کہا جاتا ہے کہ بعض رضا کاروں نے حلف نامہ اپنے خون سے لکھ کر پیش کیا ہے.لاہور میں کوئی ڈیڑھ سو اشخاص بھرتی ہوئے ہیں.صوبے کے دوسرے حصوں میں اب تک جو بھنا کا بھرتی ہوئے ہیں اُن کی تعداد کا اندازہ پانچ سو کے قریب کیا جاتا ہے.صوبے بھر میں پچاس ہزار رضا کاروں کو بھرتی کرنا مقصود ہے.ماسٹر تاج الدین انصاری (صدر آل پاکستان مجلس احرار سید مظفر علی شمسی (سیکرٹری ادارہ تحفظ حقوق شیعہ) اور صاجزادہ فیض اس کا رویہ خصوصاً جا رھا نہ ہو رہا ہے.۳- آل سلم پارٹیز کنونشن جو گذشتہ ماہ جولائی میں احراریوں نے مرتب کی تھی اُس کا ایک اجلاس 14 جنوری سے ۱۸ جنوری تک کراچی میں منعقد ہوا جس میں حسب معمول مطالبات کی قراردادیں منظور کی گئیں.اس کنونشن کے مندوب جب سے پنجاب واپس آئے ہیں اُن کا طرز عمل پہلے کی نسبت زیادہ سرکشانہ ہو گیا ہے.ظاہر ہے کہ کراچی میں علماء کی کانفرنس نے احمدیوں کو ایک اقلیت قرار دینے کی جو حمایت کی اُس سے اُن لوگوں کو بہت تقویت پہنچی ہے.اُن کا بیان ہے کہ وزیر اعظم نے جن سے وہ
ملاقات کر چکے ہیں اُن کے مطالبات سے ہمدردی نہیں کی.لہذا انہوں نے صاحب موصوف کو الٹی میٹم دے دیا ہے کہ و ۲۳۰ فروری کو راست اقدام کریں گے.وہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کراچی کے عوام انکے حامی ہیں اور اگر تحریک شروع کی گئی تو وہ جوق در جوق اُس کی حمایت کریں گے.وہ مرکزی حکومت کے ارکان پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ انہوں نے وعدے کئے لیکن ان کا ایفاء نہ کیا.کراچی سے مندوبین کی واپسی کے بعد اس شورش میں ایک نئے پہلو کا اضافہ ہو گیا ہے یعنی عزت مآب وزیر اعظم پاکستان کے خلاف بل گوئی اور دشنام طرازی کی مہم شروع کر دی گئی ہے.شورش کے ابتدائی مرحلوں میں سر ظفر اللہ خاں کی موقوفی کا مطالبہ کیا جاتا تھا لیکن اب بعض مقررین یہ کہہ رہے ہیں کہ عربات مآب وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہئیے.ہے.کہا جاتا ہے کہ ڈائریکٹ الیکشن کراچی میں شروع کیا جائے گا اور اُسی کے لئے رھنا کا پنجاب اور دوسرے صوبوں سے بھیجے جائیں گے.ڈائریکٹ الیکشن احمدیوں کی دکانوں پر سکیٹنگ کی شکل اختیار کرے گا.یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر وفعہ ۱۴۴ کے تحت احکام جاری کئے گئے تو ان کی خلاف ورزی کی جائے گی.مطالبات حسب ذیل ہیں :.(1) سر ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ کے عہدہ سے برطرف کیا جائے.(ii) احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.(iii) جو احمدی حکومت کے کلیدی عہدوں پر قابض ہیں اُن کو اُن عہدوں سے موقوف کیا جائے.اس شورش کو جماعت اسلامی، اہل سنت و الجماعت، اہل حدیث اور شیعوں کی حمایت حاصل ہے.پیر صاحب گولڑہ شریف (ضلع راولپنڈی) پیر صاحب سیال شریف (ضلع سرگودہا) پیر صاحب علی پور سیداں (ضلع سیالکوٹ) پیر شوکت حسین (سجادہ نشین پیر صاحب ملتان) اور بعض دیگر حضرات نے اس شورش کو برکت کی دعا دی ہے.سرمایہ جمع کیا جا رہا ہے اور ایک روپے کے نوٹ چھاپ کر فروخت کئے جارہے ہیں.بازاری اور غنڈہ عناصر نے بھی شورش پسندوں کی تائید و حمایت اختیار کر لی ہے.آزاد پاکستان پارٹی کی شاخ بہا ولپور نے شورش پسندوں کو ایک ہزار چلے کی رقم عطا کی ہے.-۶- جب یہ معلوم ہوا کہ عزت مآب وزیر اعظم ۱۰ تاریخ کو لاہور آرہے ہیں تو ایک جلسہ عام متقد
۴۵۷ کیا گیا جس میں اعلان کیا گیا کہ وزیر اعظم کے درود کی تاریخ کو ہڑتال کی جائے اور مکانوں کی چھتوں پر کالی جھنڈیاں لگائی بجائیں مقررین نے احتیاط اس بات پر زور دیا کہ تشدد سے کام نہ لیا جائے لیکن عملاً وہ عوام کے احساسات کو مشتعل کرتے ہیں برابر مصروف رہے بعض مقررین نے اپنی تقریروں میں کہا: که نا فرمانی شروع ہونے کی حالت میں پولیس کے جن ملازموں کو گرفتاریاں کرنے کا حکم دیا جائے انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ روز قیامت، انہیں ان افعال کے لئے جواب دہی کرنی پڑے گی جوانی کے فرائض مند بھی کے منافی ہوں گے.۱۲ تاریخ کی صبح کو سکولوں کے لڑکوں اور بازار کے لونڈوں کے دستے ادھر ادھر بھیج دیئے گئے اور دکانداروں کو دکانیں بند کرنے کی ہدایت کی گئی.بہت سے لوگ اپنی دکانیں کھلی رکھنا چاہتے تھے لیکن ان کو دھمکایا گیا اور وہ غریب ان لڑکوں اور دوسرے لوگوں کے سامنے جو بازاروں میں پی کر کاٹ رہے تھے عاجز آکر دکانیں بند کرنے پر مجبور ہو گئے چند سکول بھی بند کر دیئے گئے.دو ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں تشدد اور خونریزی تک نوبت پہنچ گئی.ایک واقعہ دیال سنگھ کالی کے باہر اور دوسرا تعلیم الاسلام کا لیے احمدیوں کی درسگاہ میں رونما ہوا.جب ان کالجوں کے طلبہ نے ہڑتال کرنے سے انکار کیا تو طرفین کی طرف سے خشت باری ہوئی اور لوگ زخمی ہوئے.سر ظفر اللہ خان کا ایک جنازہ بھی نکالا گیا اور متعدد چھوٹے چھوٹے جلوس بازاروں میں چکر لگانے لگے پابند قانون شہری ان مظاہروں کو پسند نہ کرتے تھے لیکن محض اس خوف سے ناپسندیدگی کا اظہار نہ کرتے تھے کہ مبادا ان کو بھی احمد می قرار دے دیا جائے.ہے.کہا گیا ہے کہ کراچی میں ڈائریکٹ ایکشن، شروع کرنے کے لئے آخری تاریخ ۲۳ مقرر کی گئی تھی.احراری لیڈروں نے عوام کے لیظ و غضب کو اس حد تک مشتعل کر دیا ہے کہ اب اُن کے لئے پیچھے ہٹنا بے حد مشکل ہے.وہ بڑی تیز و تند اور منگو یا نہ تقریریں کرتے رہے ہیں اور ان میں محض اپنی عزت سلامت رکھنے کی خاطر بھی ۲۳ تاریخ کو کوئی نہ کوئی ڈرامائی اقدام کرنا پڑے گا.۸- لا ہور میں قریب قریب ہر شب کو جیسے ہو رہے ہیں، جن میں احمدیوں کے خلاف عوام کے احساسات کو مشتعل کرنے کے لئے تقریریں کی جاتی ہیں.۱۶ تاریخ کو بعض دکانداروں کے منہ کالے کہ دیئے گئے کیونکہ انہوں نے دکانیں بند کرنے سے انکار کیا تھا.دیال سنگھ کالج کے قریب مظاہرین نے ایک موٹر کار کو بھی کسی قدر نقصان پہنچایا.۱۸ تاریخ کو نارتھ ویسٹرن ریلوے کی ورکشاپ میں ایک
۴۵۸ احمدی جو کئی روز سے طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا تھا غصہ میں بھر گیا تھا اور اس نے ایک غیر احمدی کو لوہے کی ایک سلاخ مارکر بے ہوش کر دیا.اس وقت سے یہ احمدی مغرور ہے اور اس کا کوئی الہ بقیہ معلوم نہی ہیں.لاہور میں ایک ڈپو ہولڈر نے ایک احمدی عورت کے ہاتھ گیہوں فروخت کرنے سے انکار کر دیا اور آخر اُس وقت مہربان ہو ا جب عورت نے یہ وعدہ کر لیا کہ احمدیوں کے خلاف جو تحریک شروع کی جائے گی وہ اس میں شامل ہو گی سفت نگر کے پرائمری سکول کے ایک طالب علم کو اس کے ہم جماعتوں نے گھیر لیا.اس کو تھپڑ مار سے اور مرزائی کہتا کے نعرے لگائے.- یہ شورش صرف اسی صوبہ تک محدود نہیں.نہ وہ مطالبات جن پر بظاہر یہ شورش مبنی ہے صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں داخل ہیں، اِس لئے حکومت کو اس صورت حالات کا مداوا کرنے میں سخت وقت محسوس ہو رہی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اگر مرکزی حکومت ان مطالبات کے متعلق ایک مضبوط پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کرے تو صوبائی حکومت کے ہاتھ کافی مضبوط ہو جائیں گے.وہ پالیسی کچھ بھی ہو لیکن اس کے اعلان کے بعد کسی کو اس بارے میں کوئی شعبہ باقی نہ رہے گا کہ حکومت پاکستان کا ارادہ کیا ہے اور وہ کیا رویہ اختیار کرنا چاہتی ہے صو بائی حکومت محسوس کرتی ہے کہ وہ صوبے کے اندر اس پالیسی پر عمل در آمد کرنے کے لئے کافی طاقتور ہے.آپ کا مخلص (دستخط) ایچ.اسے مجید انسپکٹر جنرل جتنا پولیس پنجاب کے مراسلہ اسی دن مسٹر انور علی انسپکٹر جنرل پولیس نے چیف سیکرٹری صاحب پنجاب کو حسب ذیل یاد داشت بنام چیف سیکرٹری پنجاب بھجوائی : حکومت غالباً اس تقریر کی رو نداد پر مطلع ہونے کی خواہاں ہوگی جو مولوی محمد علی جالندھری نے طار فروری ۱۹۵۳ء کولاہور کے ایک جلسہ میں کی.ایک بات خاص طور پر قابل ملاحظہ ہے کہ ایک دفعہ زور فصاحت میں اس مقرر نے اعتراف کیا کہ وہ اور ان کی جماعت تقسیم ملک کے مخالف تھے.اس نے یہ بھی کہا کہ من وجوہ کی بناء پر تقسیم کے خلاف تھے وہ لوگوں پر ظاہر ہونے چاہئیں لیکن اگر آب تک انہیں ان کا شعور حاصل نہیں ہوا تو ایک یا دو سال کے اندر انہیں سب معلوم ہو جائے گا.اسنے
۴۵۹ حکومت کی شدید مذمت کی.اور اس کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف وزیر اعظم پاکستان تھے.اس جلسہ میں مقررین نے پنجاب اور صوبہ سرحد کے چیف منسٹوں کو بھی برا بھلا کہا وزیر اعظم پاکستان کو کھلم کھلا مرزائی کہا جارہا ہے.ایک اور جلسہ میں عطاء اللہ شاہ بخاری نے ان کو بدھو الذین احمقون کہا.ان تقریروں کی خصوصیت صرف تحقیر تھی.۲.جس زمانہ میں غذا کی کمی ہو، بیروزگاری عام ہو، کاروبار کی کساد بازاری ہوا اور کشمیر کے متعلق عام خیال یہ ہو کہ اس کو ہم کھو چکے ہیں.جو شخص با نظمی اور ابتری پھیلانے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دوست نہیں ہے.میری رائے یہ ہے کہ احرار اور دیگر علماء جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں عوام کی توقیہ کو ان سنگین مسائل کی طرف سے آج جو ملک کو درپیش ہیں منحرف کرنے میں خاص طور پر کامینا ہوئے ہیں.اس اینتری کی وجہ سے عوام کا وہ عزم کمزور ہو جائے گا جو ان مسائل کا مقابلہ اور ان کا مداوا کرنے کے لئے ضروری ہے.ہمارے پاس اِس امر کی شہادت موجود ہے کہ احرار نے آزاد پاکستان پارٹی کی شاخ بہاولپور سے رو پر لیا.یہ لو پاکستان کی بیخ کنی کر رہے ہیں.حکومت کو کمر ہمت باندہ کہ اس خطرہ کا مقابلہ کرنا چاہیے.حکومت پڑھے لکھے طبقے کی ہمدردی کھو چکی ہے.اور اب غیرملکی لوگ بھی یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومت غالباً اس بحران کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی جو علماء نے پیدا کہ رکھا ہے.لندن ٹائمز کے نمائندہ نے حکومت پنجاب کے ایک افسر سے یہ کہا کہ مرکزی حکومت کمزور ہے اور موجودہ مسائل کے مؤثر مداوا کی قوت نہیں رکھتی.رات لاہور کے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی صورت حالات بے حد تشویش انگیز ہے اور ایک عام ہنگامہ عنقریب برپا ہونے والا ہے حسین شہید سہروردی، ملک خضر حیات خان اور نواب ممدوٹ برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر سے ملاقات کر چکے ہیں ہم نے مرکزی حکومت کو صورت حالات کی نزاکت سے مطلع کر دیا ہے.امید ہے کہ وہ کوئی مضبوط طرز عمل اختیار کرے گی یہ اخبار نگهبان، کراچی (۲۵) فروری ۱۹۵۳ء) نے اخبار نگهبان کراچی کا بروقت انتباه سول نافرمانی کی دھمکی دینے والوں کو انتباہ کیا کہ :.رپورٹ تحقیقاتی عدالت صد تا ما مطبوعہ انصاف پر لیں.لاہور
مولویوں کا ڈائریکٹ الیکشن ملک اور قوم کے لئے خطرناک ہوگا.اگر ڈائریکٹ اکیشن سے براستی یا خونریزی ہوئی تو اس کے ذمہ دار صرف مولوی ہوں گے.حال میں آرام باغ میں چند مولویوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں حکومت پاکستان کو ڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے کی دھمکی دی ہے.مولویوں کے مطالبات یہ ہیں کہ (۱) چوہدری ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ سے علیحدہ کیا جائے (۲) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے (۳) قادیانیوں کو پاکستان کے کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے.ان تمام مطالبات کے جواز میں انہوں نے ایک قرار داد میں کہا کہ اس جماعت نے اسلام کے عظیم ترین رکن جہاد کی روح کو ختم کرنے کی کوششیں کی.پاکستان کے قیام کی بھی شدید مخالفتیں کیں اور پاکستان بننے کے بعد سے اب تک ربوہ میں حکومت پاکستان کے بالمقابل ایک متوازی نظام قائم کیا جا رہا ہے.ہم پہلے بھی ایک مرتبہ تحریر کر چکے ہیں کہ ہمیں قادیانیوں یا ان کے عقائد سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور ہم پھر ایک بارہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نہ تو قا دیانی ہیں اور نہ قادیانیوں کے عقائد سے ہمیں کوئی ہمدردی ہے لیکن ہم یہ کہے بغیر نہیں رہیں گے کہ چند مولوی جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ نہ ختم ہونے والا ایک تنازعہ ہو کر رہ جائے گا اور ملت اسلامیہ بختان ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر رہ جائیگی اور جس لئے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا ایک خواب ہو کر رہ جائے گا.آج قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا جارہا ہے تو کل شیعوں کو اور پھر حنفیوں کو اقلیت قرار دینے کے مطالبے ہو سکتے ہیں اور یہ سلسلہ اگر چل نکلا تو ملت اسلامیہ سینکڑوں فرقوں میں تقسیم ہو جائیگی اور ہر مولوی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرنا شروع کرے گا ہم ان مولویوں سے جو چاہتے ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے پو نچھتے ہیں کہ کیا تم قادیانیوں کو لا اله الا الله محمد رسول اللہ کہنے سے روک سکتے ہو؟ یا تم ان کو قرآن شریف کی تلاوت ، نماز، روزہ اور زکوۃ سے منع کر سکتے ہو ؟ کیا کوئی مسلمان یہ گوارا کر سکتا ہے کہ وہ کسی شخص کو کلمہ پڑھنے، روزہ نماز، زکوۃ اور اسی قسم کے دوسرے ارکان کو ادا کرنے سے روکے ؟ چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کر وہ احکامات کی ادائیگی کرنے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے.اِس لئے مولوی قادیانیوں کو کہیں طرح غیر مسلم کہہ سکتے ہیں ؟ اب رہا یہ سوال کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قادیانی آخری نبی نہیں مانتے بلکہ مرزا غلام احمد کو سیح موعود مانتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کی روح کو کچل رہے
۴۶۱ ہیں تو جناب آپ مولوی کس مرض کی دوا ہیں ؟ آپ کیوں نہیں یہ تبلیغ کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی تھے اور مسلمان پر جہاد فرض ہے اور ان گمراہوں کو کیوں صحیح راستہ پر چلنے کی تلقین نہیں کرتے.اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانیوں نے قیام پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی لیکن ہم مولویوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ کیا انہوں نے پاکستان کی مخالفت نہیں کی تھی ؟ کیا انہوں نے قائد اعظم اور دوسرے مخلص مسلمان لیڈروں کے مخلاف فتوے نہیں دیے تھے ؟ جب مولویوں کا دامن پاک نہیں ہے تو وہ کس منہ سے یہ ڈائریکٹ اکیشن کی دھمکی دیتے ہیں.کیا وہ ڈائریکٹ ایکشن کے نتائج سے واقف ہیں.کیا مسٹر سہروردی کی سول نافرمانی اور مولویوں کا ڈائریکٹ ایکشن ایک ہی چیز کی دو شاخیں ہیں ؟ ڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے سے پہلے بعد باتی مولوی اچھی طرح سوچ لیں.کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا یہ قدم کسی آنے والی تباہی کا پیش خیمہ ہو.اگر ڈائریکٹ ایکشن سے پاکستان میں خونریزی اور بدامنی پھیلی تو اس کی ساری ذمہ داری حکومت پاکستان پر نہیں بلکہ ان مولویوں پر عائد ہوگی مولویوں کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ سارے ملک میں دین حق کی تبلیغ کریں اور گرا مسلمانوں کو راہ راست پر لائیں.ان مولویوں پر مولانا حا کی مرحوم کا یہ شعر صادق آ رہا ہے ے رہے اہل قبلہ میں جنگ این باہم + که دین خدا پر ہے سارا عالم ہے پاکستان کی مرکزی کابینہ ڈائریکٹ ایکشن کو کس نگاہ پاکستان کی مرکزی کابینہ کی نظامی کے امین تھی اور طالبہ اعلی سے تعلق اس کا سے دیکھتی ؟ مطالبات اور ڈائریکٹ ایکشن انداز فکر کیا تھا؟ ان سوالات کا واضح جواب ہمیں ان بیانات کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیے جو مرکزی حکومت کے تین وزراء کی طرف سے فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت میں دیئے گئے اور جن کا ملخص انہی کے الفاظ میں حسب ذیل ہے: جناب خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر اعظم پاکستان :- نیکی نے علماء سے کہا تھا کہ ان کے مطالبات کو منظور کرنا بہت مشکل ہے اور آئین میں اگر اس کی لے ہفت روزه نگهبان (کراچی) ۲۵ فروری ۶۱۹۵۳
۴۶۲ گنجائش رکھ بھی دی گئی تو مسلمان کی صحیح تعریف پر اتفاق رائے مشکل ہو جائے گا.جب میکن نے مسلمانوں کی تعریف کا ذکر کیا تھا تو میرے ذہن میں ایک ایسی تعریف تھی جس کے مطابق احمد یوں پر پابندی لگادی جائے لیکن مسلمانوں کے دوسرے طبقوں پر اس کا اطلاق نہ ہو ختم نبوت کے مسئلہ پر مجھے علماء سے پورا پورا اتفاق ہے لیکن علماء کے اس بیان سے مجھے اتفاق نہیں کہ اس معاملہ میں ناموس پیغمبر علیہ السلام شامل ہے.پچھلے تجربات خاص طور پرتقسیم ملک سے پہلے کے تجربات نے بتایا ہے کہ سول نافرمانی کی تمام تحریکیں اس اعلان کے ساتھ مشروع ہوئیں کہ یہ پھر امن رہیں گی لیکن ان تمام تحریکوں کا خاتمہ نشد و بچہ ہوا اور یہی چیز پنجاب میں ہوئی.اس تحریک کے پیس پر وہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں.میری مراد صوبہ پنجاب کے اُن لیڈروں سے تھی جن کے ہاتھ میں صوبائی حکومت کی باگ ڈور تھی مجھے برابر اطلاع مل رہی تھی کہ خود وزیر اعلیٰ اور اُن کے افسر خود تحریک کی جو صلہ افزائی کر رہے تھے.یں نے اعلیٰ اختیارات والی سہ روزہ کانفرنس میں (جو ۱۳ فروری ۱۹۵۳ء کو شروع ہوئی اور جس میں گورنر مشرقی پاکستان کے سوا پاکستان کے باقی صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی تھی) کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ احمدیوں کو اپنے عقیدے کے مطابق دوسروں کو اپنے مذہب میں شامل کرنا چاہیے لیکن اس وقت کر وڑوں غیرمسلم دائرہ اسلام سے باہر ہیں ان کا فرض اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو احمدی بنانے کی بجائے غیر مسلموں کو مسلمان بتائیں.اس سلسلے میں مر ظفر اللہ خان نے دو سوالات کئے تھے (1) کیا احمدیوں کو نجی کا نفرنسیں کرنے کی اجازت ہوگی (۲) اگر کوئی مسلمان احمدیوں کا لٹریچر مانگے اور اگر اس کے لئے لڑر پھر فراہم کر دیا جائے تو کیا اس مسلمان پر کوئی اعتراض ہو گا.یکس نے پہلے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر احمدی کسی مسلمان کو مدعو نہ کریں اور وہ مسلمان اُن کی مجلس میں شریک ہو جائے تو اس پر اعتراض نہیں ہو گا.دوسرے سوال کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ اگر احمدی اپنا لڑ پر مسلمانوں میں خواتقسیم نہ کریں اور کوئی مسلمان اُن کا لڑ پھر مانگے تو اُس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا.اسی قسم کے دو ایک اور سوالات تھے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ گورنر پنجاب امیر جماعت احمدیہ پنجاب کو سہولت دیں گے کہ وہ اپنی جماعت کی کونسل کو تبلا کر ان سے اس سوال پر بحث کریں گے.
عدالت نے پوچھا کیا یہ درست نہیں ہے کہ یہ تینوں مطالبات اس فیصلہ کا نتیجہ تھے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہیئے.خواجہ ناظم الدین صاحب نے اصرار کیا کہ کر کے فتوے کا مطلب لا ز ما یہ نہیں کہ ایک فرقہ کو غیر مسلم اقلیت سے بدل دیا جائے خلفاء راشدین کے عین بعد سے موجودہ وقت تک متعدد افراد اور جماعتوں کے خلاف کفر کے فتوے دیئے جاتے رہے ہیں لیکن تاریخ اس بات کی کوئی شہادت نہیں دیتی کہ ایسی جماعت کو کبھی سلمان کی حیثیت سے شہری حقوق سے بھی محروم کیا گیا ہو.ایک مسلمان کے شہری حقوق فتوئی نہیں چھین سکتا.مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان کو غیر مذہبی مملکت قرار دیا جاتا تب بھی یہ تینوں ممالبات اپنی جگہ قائم رہتے اور انہیں منوانے کے لئے اسی طرح زور دیا جاتا جس طرح اب دیا گیا ہے.سوال کیا گیا آپ نے علماء کو کیوں نہیں بتایا کہ آپ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کے حق میں نہیں تھے ؟ جواب.اس کا نتیجہ علماء سے گھلی ٹکر لینے کے مترادف ہوتا جس سے میں اجتناب کرنا چاہتا تھا.یکں نے محسوس کیا اگر یکی علماء کو قائل کر سکا تو تحریک خود بخود ختم ہو جائے گی کیونکہ صرف علماء ہی تحریک کو ہوا دے رہے تھے.جہاں تک میری اطلاع کا تعلق ہے شیعہ ایک فرقہ کی حیثیت سے اس الٹی میٹم کے خلاف تھے.خود ساختہ نمائندہ سید مظفر علی شمسی بھی حیثیت سے موجود تھے.اہلحدیث اور دیوبندی گروہوں کی نمائندگی تو صحیح تھی لیکن یہ دونوں گروپ ڈائر یکٹ ایکشن کے خلاف تھے.پنجاب کے لے ممتاز محمد خان دولتانہ سے تحقیقاتی عدالت میں دریافت کیا گیا کہ جو علماء اس وقت ایجی ٹیشن چلا رہے تھے.ان کے متعلق خواجہ ناظم الدین کی روش کیا تھی ؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا ان کی طرف خواجہ ناظم الدین صاحب کا رویہ ہمدردانہ تھا.اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ملک کے سامنے آئین سازی کا مسئلہ درپیش تھا اور وہ برسر اقتدار پارٹی کے دیدہ تھے اور آئین سازی کے دوران میں انہوں نے علماء کے نقطہ نگاہ کا بہت لحاظ کیا تھا.اور جہاں تک نہیں سے اندازہ لگا یا خواجہ صاحب نے مذہبی رہنماؤں کے نقطہ نظر کو قبول بھی کر لیا تھا میرا خیال ہے کہ ان کی پالیسی یہ تھی کہ آئین کے صرف مذہبی مسائل پر پوری توجہ دی جائے تا کہ اس طرح ملک میں عام مقبولیت حاصل کر لی جائے اور پھر اسکے ذریعہ سے غیر مذہبی نوعیت کے مسائل مساویانہ نمائندگی اور قومی زبان کے مسائل کو حل کرتے ہیں مدد لی جائے (اخبار ملت ۲۳ جنوری ۱۹۵۴ م )
۴۶۴ وزیر اعلیٰ کو چاہئیے تھا کہ وہ چند سرغنوں کو منتخب کر کے اُن کے خلاف کارروائی کرے.احمدیوں بالخصوص چوہدری ظفر اللہ بخاں کے خلاف تحریک کو چلایا گیا.لاہور میں اور پنجاب کے بعض اضلاع میں چوہدری ظفر اللہ خان کو گدھے یا گنے کی صورت میں دکھایا گیا.احمدیوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں مردے وفن کرنے کی اجازت نہ دی گئی.ان کا سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا اور ان کی دُکانوں پر پہرے بٹھا دئیے گئے.اگر علماء نے احمدیوں کو محض کا فریا مرتد کہا ہوتا اور یکی پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہوتا تو یکی ان کو ایس بناء پر سزا نہ دیتا لیکن اگر علماء ایسی باتیں کہتے جن سے احمدیوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی تو میں ضرور کا درروائی کرتا.اگر قابل اعتراض ذرائع اختیار نہ کئے جائیں تو ایک جمہوری ملک میں حکومت کے سامنے ہر مطالبہ نہیں کیا جا سکتا ہے.لے لے جناب سردار عبد الرب صاحب نشتر مرکزی وزیر صنعت و حرفت : میری رائے یہ تھی کہ احرار کی سرگرمیوں کا یہ سبب ہو سکتا ہے کہ تقسیم کے بعد اپنی پوزیشن سے محروم ہو جانے کے بعد وہ عوام میں اپنی جگہ دوبارہ پیدا کرنا چاہتے تھے.پاکستان کے قیام کے بعد احرار نے پاکستان کی وفاداری کا اعلان کر دیا تھا لیکن احرار کی گذشتہ تاریخ کے پیش نظر مسلم لیگ بدستور اُن کے بارے میں محتاط رہی.میری یہ رائے تھی کہ مسلم لیگ اگر احرار کے خلاف پراپیگنڈا کرے له روزنامه ملت ۲ تا ۶ دسمبر ۶۱۹۵۳ : سے تحقیقاتی عدالت میں جماعت اسلامی کے وکیل چوہدری نذیر احمدرضا نے بھی کہا کہ چو ہدری ظفر اللہ خان کو نہایت ناپاک اور گندے الفاظ میں علانیہ طور پر گالی دی جارہی تھی جس کی اجازت کسی متمدن ملک کی متمدن حکومت نہیں دے سکتی.انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے ایک سینٹر رکن کو گالیاں دینے کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہا لیکن اس انتہائی شرمناک اور حوصلہ فرسا اقدام پر ان کے رفقائے کا بلینہ یا ملک کے رہنماؤں نے اس کو ختم کرنے کے لئے ذرہ بھر بھی آواز نہیں اُٹھائی.چوہدری نذیر احمد نے کہا گند سے دشنام آمیز اور زہر یلے نعروں کے باوجود جب ملک کے صحیح الخیال لوگوں نے دیکھا کہ یہ مظاہرے سرکاری افسروں کی جانب سے کسی روک ٹوک یا پابندی کے بغیر جاری ہیں تو ان میں شکست خوردگی کی ذہنیت پیدا ہوگئی ہے.انہوں نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کی حرکتوں کی مذمت میں نام نہاد مجلس عمل کے کسی رہنما نے بھی کوئی بیان بھاری نہیں کیا.دیکت ، فروری ۶۱۹۵۴ مت)
اور پاکستان کے عوام کو احرار کا ماضی یاد دلاوے تو احرار ہمیشہ کے لئے ذلیل ہو جائیں گے.احرار نے یقیناً پاکستان کے خلاف کام کیا تھا.سوال کیا گیا آپ نے کسی احمدی لیڈر یا احمدی مقرر کو بھی انتباہ کیا تھا؟ جواب نہیں مجھے فرقہ احمدیہ سے کسی بد امنی کا خدشہ نہ تھا.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک چھوٹا سا فرقہ ہے.ریاست کی بنیاد اگر قرآن اور سنت پر ہوئی تو احمدیوں اور غیر مسلموں کو اپنے عقائد کی علانیہ طور پر تبلیغ کرنے کی اجازت ہو گی.بنیادی حقوق ہیں اس کے متعلق ایک دفعہ پہلے ہی موجود ہے پاکستان میں غیر مسلموں کی حیثیت ذمیوں کی نہیں بلکہ معہدوں کی ہوگی کیونکہ وہ لوگ مفتوح نہیں ہیں.ان تینوں مطالبات میں سے کوئی مطالبہ قرار داد مقاصد یا بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی سفارشات سے پیدا نہیں ہوتا.جس مکتب خیال کی لیکن پیروی کرتا ہوں وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ کوئی جندی یا سیما آئے گا.سوال.کوئی شخص اگر غلطی سے لیکن دیانتداری کے ساتھ کسی کا یہ دعوئی تسلیم کرے کہ وہ مہدی یا مسیحا ہے تو آپ کے مکتب خیال کے مطابق وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا ؟ جواب.یہیں اس کے متعلق یقین کے ساتھ نہیں کر سکتا ہے جناب مشتاق احمد صاحب گورمانی وزیر داخلہ :- حکومت پاکستان سمجھتی ہے ہر چند کسی فرقے یا طبقے کے جائز حقوق پر کوئی ناروا پابندی عائد نہیں ہونی چاہیئے اور مختلف نظریات کے حامیوں میں کوئی امتیاز بھی روا نہیں رکھنا چاہیے تاہم مذہبی فرقہ بندی سے پیدا ہونے والے تنازعات کو اس حد تک بڑھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے جہاں امن و امان یہی خطرے میں پڑ جائے.اس کے علاوہ جنگجویانہ اور جارحانہ نوعیت کی مذہبی فرق ندی کے خلاف غیر جانبداری اور سختی سے قدم اُٹھایا جائے.سے جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خاریجہ :- جہاں تک اپنے عہدہ کے متعلق میرے رویہ کا تعلق ہے میں اسے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں جو خدا وند تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے.یہ چیز قابلیت اور صلاحیت کی بناء پر نہ میں میں ایسے ایک امانت به اخبار انت لاہور ۲۹۰۲۸ نومبر ۶۱۹۵۳ : که اخبار ملت لاہور ۱۶ دسمبر ۱۹۵۳ء مگ
تصور کرتا ہوں اور ذمہ داری بھی جیسے یکی معمولی نہیں سمجھتا اور دوسری طرف یہ بالکل واضح ہے کہ وزیر اعظم اپنے کسی ساتھی سے استعفاء طلب کر سکتے ہیں.جب یہ تحریک شروع ہوئی تو میں نے نہایت واضح لفظوں میں اُس وقت وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو یہ بتایا تھا کہ اگر وہ بار سمجھیں تو یکی علیحدہ ہونے کے لئے ہر وقت تیار ہوں.اے حکومت پاکستان کی طرف سے فروری ۱۹۵۳ء کے آخر میں حکومت پاکستان کا اعلامیہ سی ای اعلامیہ جاری کیا گیا.حسب ملک کے بعض حصوں میں جماعت احمدیہ کے متعلق جو فرقہ واری تحریک جاری ہے اس کے ارتقاء کی نمایاں خصوصیات سے عوام بے خبر نہیں ہیں.اس تحریک کے علمبرداروں نے اب حکومت کو تحکمانہ چیلنج دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو ڈائریکٹ ایکشن کریں گے.اس تحریک کا آغا ز احرار نے کیا تھا اور اگر چہ بعد میں اس کی تائید لبعض دوسرے عناصر نے بھی کی لیکن اسے چلانے والے اب بھی احرار ہیں.ہر شخص جانتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے اسرار مسلمانوں کی جد و جہد آزادی کے شدید ترین اور پیہم مخالف تھے اور انہوں نے ان میں سعتوں سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا جو حصول پاکستان کے لئے کوشاں تھیں بلکہ بہت سے احرار لیڈر کانگریس میں شامل ہو گو با ایسی جماعتوں سے مل کر کام کرتے رہے جو قائد اعظم کی تحریک آزادی کی دشمن تھیں.احرار نے اپنی تخریب پسندانہ سرگرمیوں کو قیام پاکستان کے بعد ترک نہیں کیا بلکہ اس بات کا حتمی ثبوت موجود ہے کہ احرار نے اب تک پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا اور وہ ملک کے دشمنوں سے مل کر نہ صرف مسلمانوں میں افتراق و نفاق پھیلا رہے ہیں بلکہ پاکستان کے استحکام پر عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کرنے کے دریے ہیں.احرار کی موجودہ انکی ٹیشن کا مقصد بھی ایک مذہبی تحریک کے پردے میں ملت اسلامیہ کی وحدت و سالمیت کو پارہ پارہ کرنے اور پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچانے کے سینہ کچھ نہیں ہے.اب تنگ، یہ اینجی کمیشن عام جلدوں میں اشتعال انگیز تقریروں اور بعض اخبارات میں تحریروں کے ذریعے سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں لبعض مقامات پر امن کنی اور لاقانونی کے واقعات بھی رونما ہوئے لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ اس تحریک کے علمبرداروں نے پورے ملک میں فتنہ و فساد پھیلانے کا تہیہ کر لیا لے اخبار ملت (لاہور) ۲۲ جنوری ۱۹۵۴ء مشہ:
ہے تاکہ حکومت اور عوام کو اپنے محکمانہ مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جاسکے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات منظور نہ کئے گئے تو وہ برا یا راست قدم اُٹھائیں گے.دنیا کی کوئی حکومت اپنے آپ کو ڈائریکٹ ایکشن کی دھمکی سے مرعوب ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی لہذا حکومت نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ امن و امان کو بر قرار رکھنے کے لئے اپنے تمام ائیر استعمال کرنے لگی.حکومت تمام متعلقہ عناصر کو تنبیہ کر دینا چاہتی ہے کہ اگر اس تحریک کے علمبردار بن کے الٹی میٹیم کے نتیجہ میں امن عامہ میں کوئی مخلل واقع ہوا تو قانون یقیناً حرکت میں آئے گا اور جو لوگ والدی لیکنی کے مرتکب ہوں گے ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا.بایں ہمہ حکومت کو امید ہے کہ اس تحریک کے علمبردار ہوش مندی سے کام لیں گے اور وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس سے امن عامہ میں فل پڑتا ہو یا ان تخریب پسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو جو عوام کے اعتماد کو ایک ایسے وقت میں متزلزل کرنے کے درپے ہیں جب پاکستان کو بعض اہم ترین اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامنا ہے.حکومت عوام کے ہر طبقہ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ کسی غیر آئینی حرکت کو برداشت نہ کر سے اور اس بات کا خیال رکھے کہ کوئی ایسی سرگرمی نہ دکھائی جائے جس سے پاکستان کی وحدت اور سالمیت کے خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہو؟ اے ا حکومت پاکستان کے اس اعلامیہ کا تجزیہ اگر بھارتی اسلامیہ کی ضرورت و اہمیت لیڈروں کے بیانات کی روشنی میں کیا جائے تو اس کی بھارتی لیڈ روس کے بیانات کی روشنی میں ضرورت و اہمیت بالکل عیاں ہو جاتی ہے.اس سلسلہ میں چند مشہور ہندوستانی نشاء کے بعض ضروری اقتباسات بطور نمونہ درج ذیل گئے جاتے ہیں.۱۹۲۵ء میں پنڈت نہرو نے ایک سینٹر برطانوی افسر سے کہا تھا کہ اُن کا اصل منصوبہ یہ ہے که و اجتماع کو اُن کا پاکستان دے دیں گے اور پھر بندر بھی پاکستان کے لئے معاشی طور پر اور دیگر لحاظ که روزنامه "زمیندار" لاہور یکم مارچ ۱۹۵۳ء ص : سے یہ سب اقتباسات جناب ممتاز احمد صاب کی کتاب مسئلہ کشمیر سے لئے گئے ہیں.یہ کتاب المحراب سمن آبا د لا ہور نے شائع کی ہے اور دیا چہ بانی جامات اسلامی بر جناب سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے لکھا ہے : ܀
۴۶۸ سے بھی ایسے حالات پیدا کر دیں گے جن میں پاکستان کا وجود ناممکن ہو کر رہ جائے گا.پھر ان دپاکستان کا مطالبہ کرنے والوں) کو ٹھک کر ہمارے سامنے آنا ہوگا اور یہ درخواست کرنی ہوگی کہ ہمیں ہندوستان میں دوبارہ شامل ہونے کی اجازت عطا کی بجائے کہ ہے ۲۰.آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے ہر جون کے پلان کی توثیق کرتے ہوئے حسب ذیل قرار داد منظور کی تھی :- جغرافیائی حالات نے پہاڑوں نے اور سمندروں نے ہندوستان کو ویسا ہی بنایا ہے جیسا کہ وہ اس وقت ہے، اور کوئی انسانی طاقت نہ تو اس صورت و ہیئت کو تبدیل کر سکتی ہے اور نہ ہی اس آخری صورت کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہے...آل انڈیا کانگریس کمیٹی اس بات پر پورا پورا یقین رکھتی ہے کہ جب موجودہ جذباتی شدت میں کی آجائے گی تو مہند وستان کا مسئلہ اسی حقیقی تناظر میں دیکھا جائے گا اور دو قوموں کے مصنوعی نظریے کو تمام لوگ ساقط اور ترک کر دیں گئے یا لے ہندو مہا سبھا کی مجلس عاملہ کی قرار داد کے الفاظ یہ تھے :- " ہندوستان ایک وحدت ہے.اور نا قابل تقسیم محدرت.ہندوستان میں اس وقت تک امن قائم ہی نہیں رہ سکتا جب تک کہ الگ ہونے والے علاقوں کو انڈین یونین میں واپس نہ لایا بجائے اور انہیں ہندوستان کا لازمی حصہ نہ بنایا جائے اس ۴ - ۲۸ ستمبر ۱۹۴۷ء کو قیام پاکستان کے چھ ہفتے بعد فیلڈ مارشل آکنلک نے لندن ہیں اپنے افسران بالا کو ایک خفیہ پیغام میں لکھا:.اس امر کی تصدیق ہیں میرے پاس شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ موجودہ انڈین کا بینہ اپنی ہرممکن کوشش اور طاقت کے ذریعے پاکستان کی مملکت کومستحکم بنیادوں پرکھڑا ہونے سے (VIDE KHALID BIN SAEED PAKISTAN FORMATIVE PHASE,” (KARACHI, 1960) P.283)( VIDE V.P.MENON, "THE TRANSFER (CALCUTTA, 1957), P.384 V.P.MENON, OP.CIT.P.382 Youroy, OF POWER IN INDIA, سے
۴۶۹ روکنے کا اعظم ارادہ کر چکی ہے میری اس رائے سے میرے تمام سینٹ افسر بھی متفق ہیں بلکہ اس کی تائید پر وہ ذمہ دار برٹش افسر کر رہا ہے جو حالات سے ذرہ برابر بھی آگاہ ہے یہ لے - ایک بھارتی مصنف ستیا ورتا را مداس تیل لکھتا ہے :- "پاکستان کا قیام بھارت کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے.پاکستان نے بھارت کی جغرافیائی وحدت کو پاش پاش کر دیا ہے...اس مصنوعی تقسیم سے ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر زد پڑی ہے جس سے نہ صرف بھارت کمزور ہو کر رہ گیا ہے بلکہ اس کی آزادی کو بھی خطرہ لاحق ہے.ایک تعمیری ڈپلومیسی کا تقاضا یہ ہوگا کہ اس تقسیم کو ختم کیا جائے.یہی ایک صورت ہے جس سے بھارت ایک عظیم طاقت کی حیثیت سے ابھر سکتا ہے " کے 4.ایک اور مقام پر یہی مصنف لکھتا ہے:.ہمیں پاکستان کو بھی ختم کرنے کی ویسی ہی کوشش کرنی چاہیئے جس طرح ہم نے پریش گال کا گوا سے قبضہ ختم کرنے کی کوشش کی ہے جس قدرہم گوا کی آزادی کے خواہاں تھے اسی قدرتمہیں پاکستان کو بھی آزاد کرانے کی خواہش کرنی چاہئیے یا این بھارتی پولیس اور ایچی میشد ر ان دونوں بھارتی پریس ایجی ٹیشن کی خبریں جس رنگ میں شائع کر رہا تھا اس کا ایک نمونہ دہلی کے اخبار تیج سے ملتا ہے.اس اخبار نے اپنی اور تاریخ ۱۹۵۳ء کی اشاعت کے صفحہ اول پر جعلی قلم سے جو نمایاں ترین خبر شائع کی وہ یہ تھی کہ : لاہور میں ڈائریکٹ ایکشن کرنے والوں نے متوازی حکومت قائم کر لی " بھارتی ایجنٹوں کی گرفتاری پاکستانی فوج کے ایک ریٹائر ڈ نانک میاں غلام نبی صاب کا بیان ہے کہ :.John Connell, AUCHINLECK" (London, 1959), P.920 بحوالہ مسئلہ کشمیر ۳۵۷ Satyavarata, RAMDAS PATEL,"Foreign Policy of INDIA: ENQUIRY AND CRITICISM" (BOMBAY, 1860) P.19 بدالستار کشمیر ۳۵
۴۷۰ ہمارے ختم نبوت کے فسادات کے موقع پر ان (بھارت) کی افواج کی تیز نقل و حرکت اور بارڈر سے ذرا ہٹ کر پوزیشن سیٹ کرنا ( مشقوں کے بہانے، نیز فسادات کے مرکز لا ہورا اور گردو نواح میں اُن کی جاسوسی اور مخالفانہ پراپیگنڈے کی زبر دست سرگرمیاں یہ کیا تھا حتی کہ جب ختم نبوت کا جھگڑا ختم ہوا تو جاسوسوں کے چرچا کی وجہ سے شہر میں بھارتی جاسوسوں کی سرگرمیوں کا جائن لیا گیا ران دنوٹی ہم نے بھی علاقہ بارڈر کے قصبہ ہڈیارہ و دیگر دیہات اور کھیتوں سے متعد د جاسوس گرفتار کرائے ) تو تقریباً چالیس ہمارے مقامی مسلمان صاحبان بھی بھارتی جاسوسوں کے دست راست بنے ہوئے پائے گئے جن میں (بڑے افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ چند ہمارے امام مجد مولوی مالیان بھی تھے مگر اس کیس کو مصلحتاً ڈراپ کر دیا گیا.حاصل یہ کہ ہمارے اندرونی اور داخلی جھگڑے کے اس موقع پر بھی دشمن جو ہر وقت تاک میں تھا حملے کے لئے تیار ہو کر امڈ آیا " اے امریکہ ( 45 ) کے ایک ممتاز ادیب اور سکالر مسٹر ڈانلڈ ایک امریکی سکالہ کی رائے این ولبر ( DONALD.N.WILBER) نے ۱۹۵۳ء کی شورشی پنجاب کی نسبت لکھا ہے.BUT IN 1953 AGITATION THEM BY OTHER MOSLEMS VIOLENT That SHOOK DIRECTED, AGAINST BECAME 50 THE VERY STATE” AY NEW THE OF FOUNDATIONS دوسرے مسلمانوں کی طرف سے ان کے خلاف ۱۹۵۳ء میں جو شدید ایجی ٹیشن بر پا کی گئی اس نے اس نوزائیدہ مملکت کی بنیا دیں تک ہلا دیں.ے رسالہ سیارہ ڈائجسٹ مئی ۱۹۷۲ء ص ۱۳ ، ۱۳۵ + "PAKISTAN” ITS ITS SOCIETY ITS PEOPLE CULTURE.P.95 (HRAF PRESS, NEW HAVEN) دسمبر ۴۱۹۲۳ سے
مشرقی پاکستا پوری کی ان سے مینار پاکستان کا ماموں کی تحریک پاکستان سے سے متعلق خدمات ہمیشہ آب زر سے لکھی جائیں گی.یہ راست اقدام کی مذمت اور اس کا پس منظر نخرہ ان یا اسی خطہ کو حاصل ہے کہ اسکے ایک بها در سپوت نواب سلیم اللہ خان کی تحریک اور دعوت پر ۱۹۰۶ ء میں بمقام ڈھا کہ آل انڈیامسلم لیگ کی بنیا د رکھی گئی.اور دوسرے مایہ ناز فرزند آنریل مولوی فضل الحق وزیر اعظم بنگال نے ۲۳ مارچ ۶۹۴۰ کے اجلاس لاہور میں قرار داد پاکستان پیش کی جس کے بعد بنگالی مسلمانوں نے پاکستان کو قائم کرنے کے لئے لا تعداد قربانیاں دیں اور باوجودیکہ احرار کے ہم خیال کا نگریسی اور نیشلسٹ علماء نے بنگال میں بھی پاکستان کی زبر دست مخالفت کی حتی کہ پاکستانی خیال کے مسلمانوں پر کفر و ارتداد اور فسخ نکاح تک کے فتوے بھی لگائے مگر انہوں نے ۱۹۴۵ - ۱۹۲۶ء کے انتخابات میں پاکستان کے حق میں ٹوٹ ڈالے.اُس زمانہ میں نشیلسٹ اور کانگریسی علماء کے ہاتھوں بنگالی مسلمانوں پر کیا بیتی ؟ اور پھر کس طرح یہ نام نہاد علماء اپنے سیاسی اور مذہبی حوالوں میں ناکام ہوئے ؟ اس کی تفصیل میں رسالہ طلوع اسلام کر اچھی لکھتا ہے کہ :.مولویوں کا بہت بڑا طبقہ پاکستان کا دشمن تھا اور قیام پاکستان کے راستے میں ہر قسم کے روڑے اٹکا رہا تھا.انہوں نے ہند و زمینداروں اور ہندو ساہوکاروں سے سازبانہ کر رکھا تھا اور کسی طرح سے بھی مشرقی بنگال کے عوام تک پاکستان کی آواز نہیں پہنچنے دیتے تھے لیکن پاکستان کی تحریک میں کچھ اس قسم کی جاذبیت تھی کہ مولویوں کی سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود مشرقی بنگال کے عوام تک یہ تحریک پہنچ ہی گئی.یہ الگ بات ہے کہ وہاں کے عوام کو انگریزوں اور مہندوؤں نے اس طرح دبا رکھا تھا کہ وہ اُن کی مرضی کے خلاف ایک لفظ تک زبان سے نہیں نکال سکتے تھے.وہاں کے سیدھے سادھے عوام پر بیک وقت تین جگر سوز طلاب مسلط تھے.انگریز ہندو اور مولوی جس طرح ظلوم بنی اسرائیل کے سر پر فرعون، قارون اور ہامان سوار تھے.عوام کا ایک طبقہ کسی نہ کسی طرح انگریزوں اور ہندوؤں کے شکنجہ سے تو نکل آیا لیکن وہ مولوی کے آہنی پنجوں سے چھٹکارا نہ پاسکا.یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تاسف انگیز بات یہ تھی کہ عوام
۴۷۲ سے بڑے دشمن مولوی کو اپنا دوست سمجھ رہے تھے حالانکہ یہ اسی کی سازشوں کا نتیجہ تھا کہ وہ اس قدر بری حالت تک پہنچ گئے تھے عوام کی سادہ دلی اور شدید ذہبی رجحانات کی وجہ سے نہ صرف مقامی مولوی عوام کو لوٹ رہا تھا اور اپنی من مانی کارروائی کر رہا تھا بلکہ ہندوستان کے تقریباً ہر گوشہ سے بڑا بڑا جغادری مولوی اور پر ہر سال مشرقی بنگال پہنچ جاتا اور تبلیغ دین کے نام سے اپنی اپنی جھولیاں بھر بھر کر واپس آیا کرتا تھا مولویوں کی آمد ورفت اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ اس طرح جاری تھا کہ ائے کے الیکشن کا اعلان ہو گیا جو پاکستان کے نام پر لڑا جار ہا تھا.الیکشن کے سلسلہ میں کلکتہ اور بھارت کے دوسرے مقامات کے بہت سے مسلم لیگی لیڈروں نے مشرقی بنگال کا دورہ کیا اور لوگوں پر پاکستان کی اہمیت واضح کرنی شروع کر دی مسلم لیگی لیڈروں کا اثر اور عوام کو پاکستان کی حمایت پر آمادہ دیکھ کر ہندوؤں نے اپنے امیر مولویوں کو مسلم لیگی لیڈروں کا زور توڑنے کے لئے بھیجا.دور جعفر کے ان تازہ پہنچیوں نے اپنی تقریروں میں مسلم لیگی لیڈروں پر کفر کے فتو سے لگائے.پاکستان کی تحریک کو انگریزوں کا شگوفہ بتا یا اور ہرممکن کوشش کی کہ یہ تحریک مقبول عام نہ ہونے پائے لیکن جناح کے خلوص اور پاکستان کے نام میں کچھ ایسی بجا ز بیت تھی کہ ہندوؤں اور انگریزوں اور مولویوں کے علی الرغم ملم عوام نے مسلم لیگ کو ووٹ دئے اور ۱۹۴۶ء کے مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں بنگال کے تمام کے تمام ممبر نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ ان کے حریفوں کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئیں.الیکشن کے نتائج کے اعلان کے بعد مولویوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی.انہیں الیسا معلوم ہوا کہ عوام نے ان سے بغاوت کردی ہے.ان کو اپنی شکست سے بڑا دھچکا لگا بنگال کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا کہ عوام نے مولویوں کی خواہش بلکہ حکم کے خلاف سلم لیگ کے نمائندوں کو کامیاب بنایا.تھا.انہیں اپنی نا کامیابی کا بڑا تعلق تھا.پھر ان مولویوں کے لئے سب سے بڑی مصیبت پڑھی کہ انہوں نے جن ہندو ساہوکاروں اور زمینداروں سے روپے لے کر عیش کئے تھے وہ ہندو بھی ان سے ناخوش تھے اور انہیں ناخوش ہونا بھی چاہیئے تھا چنانچہ انہوں نے ان مولویوں کو دھمکی دی کہ اب ہم تمہاری کیسی قسم کی کوئی مد کرنے کو تیار نہیں.تم نے ہمارے لاکھوں روپے مفت میں ضائع کر دئے.ان مولویوں نے ہندوؤں کو سمجھایا کہ اس الیکشن میں اتفاقی طور سے شکست ہو گئی ہے ورنہ عوام کے دلوں پر اب بھی ہمارا راج ہے.اگر تم ہماری مدد کرو تو ہم قیام پاکستان کے روکنے کے لئے سارے مشرقی پاکستان کے عوام
کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیں گے بہندوؤں کی تو یہ دلی خواہش تھی ہی کہ جس طرح بھی ہو سکے قیام پاکستان.کو روکا جائے چنانچہ انہوں نے دوبارہ اپنی تجوریوں کے پیٹ کھول دئے اور ان مولویوں پر بیدریغ روپے خروج کرنے شروع کر دئے.جب مولوی کو روپے کی طرف سے اطمینان ہو گیا تو اس نے اب منظم طریقے سے مشرقی بنگال پر دھاوا بول دیا.سب سے پہلے مولویوں کا گروہ مشرقی بنگال کے ایک بہت بڑے ضلع نو کھا لی پہنچا.پورے بنگال میں تو اکھالی مولویوں کا گڑھ شمار ہوتا تھا بنگال میں یہ عام طور پر شہور ہے کہ نواکھالی کے مضلع ہیں مولویوں کی تعداد چار لاکھ کے لگ بھگ ہے ) یہاں ان مولویوں نے مقامی مولویوں کے تعاون سے ایک بہت بڑا جلسہ کیا اور متفقہ طور پر یہ فتوی دیا کہ مسلم لیگ میں شریک ہونے والے مسلم لیگ کو ووٹ دینے والے اور مسلم لیگ کی تحریک پاکستان کا ساتھ دینے والے فاسق فاجرہ کا فراور منافق ہیں.ان مولویوں نے اسی فتوی پھر رہی اکتفا نہ کیا بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں جن لوگوں نے مسلم لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دئے تھے وہ سب کے سب کا فر ہیں اور دین سے خارج ہو چکے ہیں لہذا ان کی بیویاں ان پر حرام ہو چکی ہیں اگر وہ صدق دل سے توبہ کر کے دوبارہ مسلمان نہ ہو جائیں تو ایسے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے.مولویوں کے اس جلسہ میں شرکت کرنے والوں کا بیان ہے کہ کئی آدمی جلسہ ہی میں مولویوں کے دست حق پرست پر تو یہ کر کے دوبارہ مسلمان ہوئے اور مولوی صاحب نے ان کی بیویوں سے دوبارہ پرتی ان کا نکاح پڑھایا.نواکھالی کے اس جلسہ کو مولوی نے اپنی کامیابیوں کا پیش خیمہ قرار دے کر بڑے پیمانہ پر پاکستان کے خلاف پراپیگینڈا شروع کر دیا.جمعیتہ علمائے ہند کے سربراہ مولوی حسین احمد مدنی اور ان کے شاگردان رشید، مریدان حتی پست اور دیگر خوار بین پورے مشرقی بنگال میں پھیل گئے.مدنی صاحب ہر سال رمضان کے مہینہ میں سلوٹ آ جایا کرتے تھے اور عیاد کے بعد دیو بند واپس بھایا کرتے تھے سیلوٹ اور اس کے پاس مولوی صاحب کا کافی اثر تھا اسی لئے انہوں نے سلوٹ کو اپنا ہیڈ کواٹر قرار دے کر اپنے آدمیوں کو بنگال کے مختلف علاقوں میں بھیجنا شروع کیا مولوی صاحب کی امداد کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہنڈوں
نے ہوائی جہازوں اور ریلوں سے مولویوں کی کھیپ کی کھیپ بھیجنی شروع کی مگر تحریک پاک اس قدرسخت جان تھی کہ ان مولویوں کی ایک نہ پہلی اور آخر کا رس جون کو تقسیم ہند کے فیصلہ کا اعلان ہو یہی گیا.اب ہندوؤں کو مولویوں کی بالکل ضرورت نہ تھی کیونکہ ان کی ساری کوششیں بیکار ثابت ہو چکی تھیں لیکن تقسیم ہند کے اعلان کے چند دنوں بعد مولویوں کا نصیبہ پھر جاگا اور آسام کے ضلع سلوٹ اور تھانوں میں رائے شماری کا اعلان ہوا.ہندوؤں نے پھر مولویوں کی خدمات حاصل کیں اور مولوی حسین احمد مدنی کی سرکردگی میں ہزاروں مولویوں کو سلہٹ بھیجا تا کہ وہ مسلم اکثریت کے شہر سلیٹ اور اس کے آس پاس کے علاقہ کو پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان میں شامل کر سکیں.ان مولویوں نے اپنی جانیں لڑا دیں مگر انہیں اس مرتبہ بھی منہ کی کھانی پڑی اور مولوی حسین احمد مدنی معہ حواریوں کے اپنا سا منہ لے کر مشرقی بنگال سے تشریف لے گئے سیلوٹ میں ان حضرات کی عبرت ناک شکست سے ایک بات تو ہر حال ثابت ہو گئی کہ مشرقی بنگال سے مولویوں کا اثر ختم ہو چکا ہے سلہٹ ریفرنڈم میں مولویوں کی شکست اصل میں ان کے اقتدار کا آخری دن تھا.جب مولویوں کی مخالفتوں ے علی الرغم پاکستان بن ہی گیا تو وہ مولوی جنہوں نے ہر ہر قدم پر پاکستان کے قیام کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا تھا او ینہوں نے قیام پاکستان کے راستے میں ہر قسم کی روکاوٹیں کھڑی کی تھیں وہ پاکستان کے زبر دست دوست بن کر سامنے آئے.انہوں نے اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنے کے لئے یہ سوچا کہ اگر تمام مولوی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں تو اس طرح ایک متحدہ محاذ بن سکتا ہے " اے مشرقی پاکستان کے مظلمون مسلمانوں نے جو اوار کے ہم مشرب کانگریسی علماء کے فتاوی تکفیر کی شمشیر بے نیام سے پہلے ہی زختم رسیدہ لکھنے اسلام کے نام پر سول نافرمانی کی دھمکی دینے والے احراری علماء کی شدید مذمت کی ہم مسلم پریس نے ان کے خلاف پر زور نوٹ لکھے.نے رسالہ طلوع اسلام) کراچی ۲۶ مارچ ۱۹۵۵ صلا صلاه سے یادر ہے احراری علماء ان دنوں صاف لفظوں میں کہہ رہے تھے کہ ہمیں صرف چودھری سر ظفر اللہ کو اسکی گریسی سے علیحدہ کر نا نہیں ہے خواجہ ناظم الدین کوبھی یہی عزت دیتا ہے یا زمیندار سر فروری ۱۹۵۳ء مل کالم و بنیان را سیر تا جدین صاحب انصاری صدا مجلس احرار مرکز بید)
۴۵ چنانچہ اخبار نگا ڈھا کہ) نے یکم مارچ ۱۹۵۳ء کو مذہبی عصبیت کے عنوان سے اخبار شنگھا سب ذیل مشذرہ پر در ظلم کیا :- سپرد کیا: بعض عناصر نے جو قادیانی جماعت کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں چونکہ گذشتہ جمعہ کو کراچی میں ڈائریکٹ ایکشن کا اعلان کر کے فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی اس لئے حکومت پاکستان نے جمعہ کی صبیح ہی گیارہ مرکب وہ عمار کو گرفتار کرلیا حکومت کے اس ہر وقت اقدام سے ان لوگوں کا نصور پیوند خاک ہو گیا.قارئین جانتے ہیں کہ بعض فرقے کچھ عرصہ سے بے وجہ مذہبی منافرت پھیلاتے پہلے آرہے ہیں ان تکہ محض اپنے سیاسی مفاد کی خاطر کسی کے مذہبی عقائد کے خلاف عوام کو مشتعل کرنا انتہائی قابل مدقت ہے.مذہب کے نام پر اختلاف کے ہم قائل نہیں.اتحاد اور نظام ہی اسلام کا بنیادی اصول ہے، اور اسی اصول پر پاکستان قائم ہوا.جن لوگوں نے کراچی میں جمعہ کے دن اپنے سیاسی اغراض کے لئے فتنہ اُٹھانے کی کوشیش کی ان کی سیاست سے پورا ملک باخبر ہے کہ وہ پاکستان کے ہرگز خیر خواہ نہیں ہیں جیسا کہ سرکاری اعلامیہ سے بھی ظاہر ہے.پریس نوٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس فتنہ کے بانی مبانی احرار تھے کو بعد میں بعض اور فرقے بھی انکی تائید میں شامل ہو گئے.احرا تقسیم ملک سے قبل قیام پاکستان کے مخالف اور کانگریس کے ساتھی تھے ارا اب عوام کو مذہبی عقائد کی آڑ میں اشتعال دلا کر سیاسی طور پر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ہمارا ملک اس امر کو سمجھنے کے لئے دماغ رکھتا ہے.اس فرقہ نے ملکی بٹوارہ کے وقت جو گھناؤنا کردارا دا کیا ہے اس کو دیکھ کہ کوئی بھی پاکستانی اس کی موجودہ سرگرمیاں برداشت نہیں کر سکتا.پاکستان کے عوام مذہبی عصبیت کی تنگ نظری پسند نہیں کرتے اور نہ وہ ملک کے کسی مسل یا غیرمسلم طبقہ یا فرد کے جمہوری حقوق کو نظر انداز کر سکتے ہیں انذالک کو احراری طائفہ کی سازش سے ہوشیار رہنا چاہئیے.قادیانیوں کے مخلاف خواہ مخواہ اشتعال پیدا کرنا پاکستان کے لئے مفید نہیں ہے.(ترجمہ) اخبار آزاد ۲ - اخبار آزاد ڈھاکہ نئے اتحاد اور مذہبی عصبیت کے عنوان سے حسب ذیل
اوار پہ لکھا:.۱۷ فروری بوقت صبح کراچی میں گیارہ مشہور مولویوں کو گرفتار کر لیا گیا.ان گرفتار شدگان میں مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا سعید الحامد صاحب بدایونی بھی شامل ہیں.۱۶ فروری کو ایک جلسہ عام میں مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ورنہ ڈائر کٹے ایکشن تجویز کیا جائے گا حکومت پاکستان کے ایک پولیس کمیونگ میں ان گرفتار شدگان کے متعلق کیا گیا ہے کہ چند روز سے احمدیوں کے خلاف ایک تحریک چل رہی ہے.تحریک کرنے والوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے دعوئی کو حکومت تسلیم نہ کرے گی تو ڈائریکٹ ایکشن عمل میں لایا جائے گا.قیام پاکستان سے قبل احراری جماعت جو مسلمانوں کی تحریک آزادی کے مخالف تھی اسی ٹولہ نے اب یہ تحریک شروع کر رکھی ہے اجداری قائد اعظم کے خلاف کانگریس کے ساتھ تھے.قیام پاکستان کے بعد بھی ان لوگوں کو پاکستان پسند نہیں.اور وہ پاکستان کے دشمنوں کی سازش اور امداد سے قومی اتحاد کو درہم برہم اور پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.پہلے یہ لوگ اشتعال انگیز تقاریہ اور اخباروں کے ذریعہ مخالفانہ پر اسپیگنڈا کر رہے تھے مگر اب وہ تخریبی کارروائی پر اتر آئے ہیں.کوئی حکومت ایسی دھمکیوں کے سامنے جھک نہیں سکتی.یہاں پاکستان کے اتحاد اور استحکام کے خلاف تخریبی کارروائی کرنے والے فرقوں کی کوئی کمی نہیں.احراری ٹولی آج بھی اسی طرح پاکستان کی مخالف ہے جس طرح وہ گذشتہ زمانہ میں مخالفت کر رہی تھی.اب یہی فرقہ مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے مسلمانوں میں فتنہ و فساد پھیلانے کے درپے ہے اور چند ماہ سے احمدیوں کے خلاف منافرت پھیلا رہا ہے.اس فرقہ نے طرح طرح کی سازشیں کیں اور بالآخر خون خرابہ تک نوبت پہنچی حکومت پاکستان اب سختی کے ساتھ اس تحریک کو دبانے کا ارادہ رکھتی ہے.اس شورش کو بہت عرصہ قبل پوری قوت سے دبا دیا جانا چاہیئے تھا لیکن حکومت نے تغافل برت کہ اس کو نظر یہی کارروائی کا موقع دے دیا ہے.اس فرقہ کوجو پاکستان کے اتحاد واستحکام کا دشمن ہے اور مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ہے معاف نہیں کیا جا سکتا.اس کا وجود ہی ملک کے لئے ناقابل برداشت ہے اور اس کے ساتھ کسی طرح مل نہیں ہو سکتی.افسوس !! حکومت پاکستان اس فرقہ کے محاطہ میں خوشامدانہ طرز عمل اختیا ر کرتی چلی آرہی ہے.
ہمیں امید ہے کہ حکومت اب اپنی گزشتہ پالیسی کو بدل دے گی اور اس کو اپنے فولادی ہاتھوں سے دبا دینے اور کیفر کردار تک پہنچانے میں ذرہ برابر تامل نہ کرے گی.اس صورت میں حکومت نے جو بھی قدم اٹھایا اسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی.(ترجمہ) نے | ۳ - روزنامہ انصاف نے اپنی ہم.مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں " ناتا بیل اخبار انصاف برداشت کے زیر عنوان لکھا:.احرار نے قادیانیوں کے خلاف کیوں سر اٹھایا ؟ کیا یہ مذہبی مفاد ہے یا کچھ اور ؟...احمار تقسیم ملک سے قبل ہمیشہ سیاست سے وابستہ رہے اور مذہب سے ان کو چنداں دلچسپی نہ تھی.اور یہ تو مشہور بات ہے کہ ہندو کانگریس کے مسلم کش انتر عمل کو دیکھ کر سب مسلمان زعماء یکے بعد دیگرے کانگریس سے علیحدہ ہو گئے اور مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو کر اپنے حقوق کے تحفظ کی جد وجہد کرنے لگے ان دنوں احرار نے کانگریس کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کی ڈٹ کر مخالفت کی لیکن ان کی ساری کوششیں اکارت گئیں.پاکستان اس وقت مسلم لیگ کی قیادت میں تیزی کے ساتھ شاہراہ ترقی پر گامزن ہے خصوصاً چو ہری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ہاتھوں اسے نہ صرف شہرت نصیب ہوئی بلکہ بین الا قوامی برادری میں اسے ایک نمایاں مقام حاصل ہو چکا ہے.ایسے مرحلہ پر چوہدری صاحب کو وزارت خارجہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ حکومت کے خلاف بغاوت نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہم ہر پاکستانی سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ وقت اختلاف کا ہے؟ ایسے وقت میں جبکہ ہمارا وطن مختلف مسائل میں الجھا ہوا ہے دارالسلطنتکے امن اور سرکاری نظم ونسق کو درہم برہم کرنے کا عمولی خیال رکھنے والے ہر شخص کو ہم مشکوک سمجھتے ہیں ہمارا خیال ہے کہ ایسے لوگ پاکستان اور اسلام دونوں کے دشمن ہیں ان کی یہ حرکت ہر گز برداشت نہیں کی جاسکتی انہیں پوری قوت سے دبا دینے کی ضرورت ہے ورنہ آنے والی نسلوں کی نظر میں ہم قصور وار ٹھہریں گے.(ترجمہ) بنگالی مسلمانوں کی طرح ہندوستان کے متدین راست اقدام کی دھمکی اور بھارتی مسلمان اور قمت اسلامیہ کا دورہ رکھنے والے مسلمانوں له " آلاد یکم مارچ ۶۱۹۵۳
۷۸ نے بھی علماء کے راست اقلام کے فیصلہ کو انتہائی نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا.چنانچہ بیٹی کے مسلمان اخبار انقلاب نے احراری احمد کی کشمکش پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:.ے ہوئے لکھا.فته عظیم از پاکستانی علماء کد ھر جارہے ہیں" پاکستان میں احراریوں نے احمدیوں کے خلاف جو ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے اس کی ہر سلیم العقل انسان قدمت کرنے پر مجبور ہے ہمیں قادیانیوں کے مذہبی تصورات سے کوئی لچسپی نہیں ہے اور ختم نبوت کے باب میں ان کے عقائد کو ہم قطعاً غلط تصور کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہم اس مہنگامہ کی ہر گتہ تائید نہیں کر سکتے جو کراچی اور لاہورمیں برپا ہے اور جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ مملکت پاکستان کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں منافرت باہمی پھیلانے کا بھی شدید اندیشہ ہے.آج کے حالات میں جب کہ دنیا کے گوشہ گوشہ سے اتحاد اسلامی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں اور مسلمانوں کا صاحب شعور طبقہ فروعی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے اپنی متحدہ طاقت کے بل پر اسلامی نشاة ثانیہ کا خواب دیکھ رہا ہے.اختلاف عقائد کی بنیاد پر ایک تحریک کا شروع کر دیا جانا ایک ایسی مذموم اور تکلیف دہ حرکت ہے سننے سنجیدہ مسلمان برداشت نہیں کرسکتا.اور ہم انتہائی رنج و افسوس کے ساتھ ایک ایسی تحریک کی مذمت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں جس کی قیادت کا فریضہ منا علماء اسلام انجام وے رہے ہیں.جہاں تک ان مطالبات کا تعلق ہے جو احراریوں کی طرف سے پیش کئے جارہے ہیں ہم کسی حالت ہیں ان کی تائید نہیں کرسکتے.اگر مولوی صاحبان کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ جس فرقہ کو چاہیں ایک ذرا سا شور و شخب بر پا کر کے غیرمسلم اقلیت قرار دلا دیں تو پاکستان میں اسلام کا مستقبل تاریک ہو جائے گا.آج چند مولویوں کے مطالبہ پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا سکتا ہے تو کل شیعوں دیوبندیوں ، شافعیوں، مالکیوں حنفیوں ، مقلدوں، غیر مقلدوں، بوہروں ، آغا خانیوں اور دوسروں پر بھی ہی مصیبت طاری کی جا سکتی ہے.ہر فرقہ کے مولوی صاحبانی دوسرے فرقہ کے لوگوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں.اور اگر حکومت ان سب کے مطالبات قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کر دے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں سرے سے کوئی مسلمان باقی نہیں رہے گا اور وہ ایسی غیر مسلم
۴۷۹ اقلیت کا ملک بن جائے گا جس پر یہ شعر سو فیصدی صادق آئے گا کہ ے زاہد تنگ نظر نے مجھے کا فر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے سلماں ہوں میں رہا احمدیوں کا سرکاری ملازمتوں سے اخراج کا مسئلہ تو یہ بھی ایک قطعاً مکمل مطالبہ ہے.سر کاری مناصب کا تعلق اہمیت اور قابلیت سے ہوتا ہے مذہب سے نہیں.اگر کوئی قادیانی لائق ہے تو اسے ایک نالائق غیر احمدی کے مقابلہ میں سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا یقینا زیادہ حق ہے کسی شخص کو محض اختلاف عقائد کی بنیاد پر سرکاری ملازمت سے محروم کرنا قطعاً غلطہ اور احمقانہ بات ہے اور ہم کسی حالت میں اس کی تائید نہیں کر سکتے اور پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ آج جو مطالبہ قادیانیوں کے میسلسلہ میں کیا جارہا ہے وہی کل دوسرے فرقوں کے متعلق نہیں کیا جانے لگے گا ؟ آج اگر ظفراللہ خال کو قادیانی ہونے کی بنیاد پر وزارت سے تعفی کیا جا سکتا ہے تو کل مسٹر غلام محمد کو پیر وارث علی شاہ سے گہری عقیدت کے جرم میں ان کے عہدہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ وجود میں آسکتا ہے.یہ ای البسالا متناہی سلسلہ ہے جس پر کوئی روک نہیں کی جاسکتی.اور اگر حکومت پاکستان آج اس احمقانہ مطالبہ کو مان لے تو کل الیسا وقت آ سکتا ہے جب اُسے سرکاری ملازمتوں کے لئے ایک شخص بھی نصیب نہ ہو اس لئے کہ بہر حال ہر سلمان کسی نہ کسی فرقہ سے ضرور متعلق ہوگا اور بدقسمتی سے دوسرے فرقہ کے لوگوں کے نزدیک اس کا گھر اتنا گہرا اور اتنا شدید ضرور ہو گا کہ اسے وہ کسی حالت ہیں سرکاری ملازمت کا اہل نہیں قرار دے سکیں گے.جہاں تک احراری حضرات کا تعلق ہے ان کی گوری تاریخ مہنگا میای تدری اور فتنہ انگیزی شیل رہی ہے انہوں نے کبھی کشمیر میں تحریک چلا کہ مسلمانوں کو بیوقوف بنا یا اور کبھی اور اینی میشن کا قصہ کھڑا کر کے میواتی مسلمانوں کو مبتلائے مصائب کیا کہ بھی لکھنو میں شیعہ وشتنی جھگڑ اکھڑا کیا تو بھی مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں ملتِ اسلامیہ کو کھلا ہوا نقصان پہنچایا.یہ قطعا تخریبی ذہنیت رکھنے والے لوگ ہیں جو صرف ہنگاموں اور فسادات کی فضا میں زندہ رہنے کے قائل ہیں.قیام پاکستان کے بعد سے یہ لوگ خاموش تھے اس لئے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ان کے سابقہ کردار سے بخوبی واقف تھا اور وہ ان کو کسی حالت میں اُبھرنے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا.عوام میں بھی ان کی ساکھ گھر ہی ہوئی تھی اس لئے کہ ان لوگوں نے قیام پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی.ایسی حالت میں ان کو مجبوراً پانچ سال تک
۳۸۰ خاموشی کی زندگی گزارنی پڑی لیکن ان کی خوش قسمتی کہ چند مهاجرین مولوی صاحبان“ جو یہ محسوس کرتے تھے کہ ان کو قیام پاکستان سے اتنا فائدہ نہیں پہنچا ہے جتنا کہ وہ خود کو تصور فرماتے تھے ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور ان کو اس کا موقع مل گیا کہ وہ احمدی اور غیر احمدی کا فتنہ کھڑا کر کے اس پر دہ ہیں دوباره سیاست کے میدان میں آجائیں ہم جانتے ہیں کہ احراریوں نے یہ تحریک کسی دینی جذبہ کے ما تخت شروع نہیں کی ہے بلکہ وہ مذہب کے پردہ میں دوبارہ سیاسی عروج حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ان کی اس خود غرضی اور مطلب پرستی کے متعلق ہمیں کچھ عرض نہیں کرتا ہے وہ ہمیشہ اس ذہنیت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور آج بھی اپنی سابقہ روایات پر عمل کر رہے ہیں ہمیں افسوس تو ان دوسرے علماء کرام پر ہے جو اس فتنہ میں شریک ہو گئے ہیں اور اس طرح نا دانستہ طور پر نہ صرف اپنے وطن کو بلکہ در حقیقت اسلام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں.آج سارے اسلام کے علماء اس اجتہاد و تبدیلی کے شاکی ہیں جومسلمانوں کے مغربی تعلیم یافتہ طبقہ میں عام ہوتی جارہی ہے لیکن وہ یہ بھولتے ہیں کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو مذہب سے دور کرنے میں مغربی تعلیم کا اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا کہ ان اجارہ داران دین و ملت کا ہاتھ ہے جو نہ علم وفضل پر فائز نظر آتے ہیں.اگر آج کی لسٹ بے دین نظر آتا ہے تو اس میں مارکس کی مادہ پرستی کا اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا کہ زارینہ کے اس سازشی اور غلط کار پادری کا ہاتھ ہے جس نے مذہب کو حکومت ا کھلونہ بنا دیا تھا.ہمارے علماء کرام کی قدامت پسندی گفر سازی ، تنگ نظری اور شدید قسم کی متعصبانہ روش نے تعلیم یافتہ طبقہ کو نہ صرف یہ کہ علماء کی جانب سے بدظن کر دیا ہے بلکہ ان میں مذہب کی جانب سے بھی بیزاری پیدا کر دی ہے.پاکستان کے علماء بھی بدقسمتی سے رواپنی کٹھ ملاؤں کا کردار انجام دے رہے ہیں اور اس طرح وہ احمدیوں کے مقابلہ میں خود اسلام کو زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں تعلیم یافتہ مسلمان جب اس قسم کی حرکتوں کو دیکھتے ہیں اور مذہب کے نام پر علماء کرام کی تنگ نظرانہ روش کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ان میں مذہب کی جانب سے مایوسی پھیل جاتی ہے.پاکستان میں ابھی ہی ہو گا.آج نہیں تو کل تعلیم یافتہ طبقوں میں مولویوں کی اس روش کا رد عمل نہایت ہی شدت سے نمایاں ہوگا اور اس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ علماء کرام کی عزت کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ ان دینی جذیہ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جو آج پاکستان میں موجود ہے.
تر کی میں علماء کی اسی تنگ نظری نے جو نتائج پیدا کئے وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں.ایران میں علماء کا جو حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے، اور شام و مصر میں جو حالات پیدا ہوئے ان سے بھی ہم واقف ہیں.قسمتی سے پاکستانی علماء بھی اس غلط راہ پر چل رہے ہیں جس پر ترکی اور ایران کے علماء چلے تھے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے جلد ہی اپنی روش تبدیل نہیں کی تو ان کو بھی انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑیگا جن سے ترکی اور ایران کے علماء دو چار رہ چکے ہیں.ظاہر ہے کہ پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ ان حالات کو زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کر سکتا.وہ ملک کی سالمیت پر علماء کے وار دیکھتے ہوئے خاموش نہیں رہ سکتا اسے ایک نہ ایک دن علماء کے خلاف آواز بلند کہ نا پڑے گی.اور ظاہر ہے کہ جب یہ طبقہ میدان میں آئے گا تو علماء کرام کے ساتھ ہی اسلام کو بھی اس حشر سے دو چار ہونا پڑے گا جس کا ایک ادنی مظاہرہ ہم ترکی میں دیکھ چکے ہیں.سیاست میں تخریبی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال حد درجہ نقصان دہ ہوا کرتا ہے.پاکستان میں آج مذہب کو تخریبی سیاست کا آلہ کار بنایا جا رہا ہے.یہ چیز خود نذہب کے لئے انتہائی نقصان رسال ثابت ہوگی اِس لئے کہ جب پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ یہ محسوس کرے گا کہ مذہب کا بعد درجہ ناجائز استعمال ہو رہا ہے اور مذہب کے نام پر ملک کی وحدت کے پر خچے اڑائے بھارہے ہیں تو وہ لازما مذہب کے خلاف صف آراء ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں کم از کم یہ تو ضرور ہوگا کہ پاکستان کو ایک مثالی اسٹیٹ بنانے کا خواب ہمیشہ کے لئے شرمندہ تعبیر رہ جائے گا اور اسلامی اسٹیٹ کی جگہ ویسی ہی سیکیولر حکومت وجود میں آجائے گی جیسی کہ انتزاع خلافت اسلامی کے بعد ترکی میں جود میں لائی گئی.اگر پاکستانی علماء اسے پسند نہیں کرتے کہ پاکستان کو غیر مذہبی ریاست بنا دیا جائے اور وہ واقعی ایک مثالی اسلامی مملکت کے قیام کے خواہش مند ہیں تو ان کو اپنی موجودہ تنگ نظرانہ روش ترک کرنا پڑے گی.مذہب کے نام پر فتنہ آرائی کا راستہ چھوڑنا پڑے گا.احمدیوں کے نام پر فتنہ آرائی کر کے ممکن ہے کہ چند علماء کو کچھ عارضی شہرت حاصل ہو جائے لیکن یہ شہرت آگے پھل کے بہت مہنگی پڑ سکتی ہے.اور یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستانی علماء کو ان کی موجودہ روش کے باب میں ابھی سے نیتہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں.ان کی موجودہ سیاست اسلام مسلمانوں اور خود پاکستان کے حق میں سیم قاتل سے کم نہیں.اور اگر انہوں نے اسے ترک نہ کیا تو آج وہ جو زہریلے بیج بو رہے ہیں.ان کے کڑوے
۴۸۲ پھول کل خود انہیں کھانا پڑیں گے اور اس کا جو کچھ نتیجہ ہو سکتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے یا اے نمائندہ المصور (قاہرہ کے تاثرات قاہرہ کے شور اخبار امور کی امریکا خصوصی السیدہ امینتہ السعید ایجی ٹیشن کے اس زمانہ میں میر سے خاص طور پر پاکستان میں آئیں اور کراچی اور راولپنڈی کے حالات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ گئے.ان کے ذاتی تاثرات کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے :- جب ہم نو گھنٹے کی لمبی مسافت کے بعد راولپنڈی پہنچے تو چونکہ وہاں پر مصری صحافی وفد کی آمد کی خبر پہنچ چکی تھی اس لئے لوگ بڑی کثرت کے ساتھ گاڑی پر پہنچ گئے تاکہ قادیانیت یا احمدی مذہب کے بارے میں ہمیں اپنی رائے سے مطلع کریں، ملک میں لاقانونیت کا آغاز اس طرح ہوا کہ پہلے پانچ آدمیوں کی ایک کمیٹی کراچی گئی جس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام احمدیوں کو جن میں چوہدری ظفر اللہ خان بھی شامل ہیں تمام حکومتی عہدوں سے علیحدہ کر دیا جائے.نیز انہیں عیسائیوں، ہندوؤں اور پارکیوں کی طرح ایک علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے کیونکہ احمدیوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں کیونکہ وہ آخر صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے منکر ہیں.اس کمیٹی نے حکومت کو چند دن کی مہلت دی جیب حکومت پاکستان نے یہ مطالبات منظور نہ کئے اور مدت مقررہ گزرگئی تو ملک کے تمام اطراف میں سول نافرمانی کا اعلان کر دیا گیا.مظاہرے ہوئے.دکانیں بند کی گئیں اور وسائل آمد و رفت میں تعطل پیدا ہو گیا چونکہ حکومت پاکستان فتنہ پرور اصحاب کی حرکات سے پوری طرح آگاہ تھی اس لئے اُس نے اس فتنہ کے لیڈروں کو گرفتار کر لیا اور اس طرح وقتی طور پر بغاوت کی آگ فرو ہو گئی.یہ واقعہ ہے کہ جب ہم دار السلطنت پاکستان (کراچی) میں تھے تو اس تحریک کا آغاز ہوا اور ملک کے مختلف اطراف میں ہمارے ساتھ ساتھ یہ تحریک بھی چکر لگاتی رہی.اس تحریک پر مجھے بہت حیرت تھی کیونکہ قادیانی مذہب یا احمد یہ جماعت تو قریباً سو سال سے قائم ہے اور آج تک اس عقیدہ کے لوگ آزادی اور سلامتی سے لیتے رہے ہیں اور ان کی حیثیت مسلمانوں کے دوسرے فرقوں سنی اشیعہ اور وہابی و غیر سم کی طرح ہے.مجھے حیرت تھی کہ خاص طور پر ان دنوں میں احمدیوں کے خلاف طبائع میں کیوں اشتعال پیدا ہوگیا ہے، نیز یہ کہ انہیں عہدوں سے معزول کئے بجانے اور اقلیت غیر مسلمہ قرار دینے ه روزنامه انقلاب " بمبئی یکم مارچ ۶۱۹۵۳
۳۸۳ کے مطالبہ کا حقیقی راز کیا ہے ؟ اس سلسلہ میں میں نے بہت جستجو کی اور بہت سے سیاسی اور اجتماعی جماعتوں کے لیڈروں سے بات چیت کی.آخر کار مجھ پر واضح ہوگیا کہ موجودہ اینی میشن خالص سیاسی تحریک ہے اور اس ایجی ٹیشن کے محرک در اصل پاکستان کے دوست نہیں ہیں اور ان کا حقیقی مقصد اس سے بہت مختلف ہے جیسا کہ ظاہر میں نظر آتا ہے اور حکومت کو اس کا پورا پورا علم ہے وہ بخوبی جانتی ہے کہ اندھیرے میں کونسے ہاتھ یہ تاریں ہلا رہے ہیں.اس لئے حکومت نے اس فتنہ کے ذموار ہیں پر سختی سے گرفت کرنے میں ذرا غفلت نہیں برتی.اس بارے میلی یکی نے پاکستان کے ایک بہت بڑے سیاستدان سے گفتگو کی جو اپنی آزادانہ رائے اور ذاتی اغراض سے بالا ہونے میں معروف ہے.اس نے یہ کہتے ہوئے کہ میرا نام ظاہر نہ کیا بجائے مجھے بتایا کہ بیشک تم ایک ایسی چھوٹی سی سلم جماعت (حسین کی تعداد سات آٹھ لاکھ سے یاد نہیں) کے خلاف اس تحریک کو دیکھے کہ دہشت زدہ ہو گی خصوصاً اس لئے کہ جب پاکستان میں لاکھوں کروڑوں حسنی، شیعہ، آغا خانی اور وہابی موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مختلف آراء رکھتا ہے تو یہ شور و شر اور مہنگامہ صرف احمدیوں کے خلاف ہی کیوں ہے ؟ اس لئے لیکن اس جگہ معاملہ کی پوری وضاحت کے لئے بتاتا ہوں کہ اس کے لئے قادیانیوں کی ان گذشتہ چند سالوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیئے جب قائد اعظم محمدعلی جناح نے پاکستان بنانے کی تحریک شروع فرمائی تھی.اس وقت جماعت احمدیہ جان و دل سے قائد اعظم مرحوم کے دوش بدوش کھڑی ہوئی اور اس جہاد میں اس نے قائد اعظم کی پوری پوری تائید کی اور وہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے تک ہر طرح انکی مددگار رہی.اس زمانہ میں بر عظیم ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک جماعت احرار کے نام سے موجود تھی وہ لوگ تقسیم ہند یعنی پاکستان بننے کے مخالف تھے.انہوں نے مسٹر جناح کا مقابلہ کیا اور انکی دعوت کی پورے زور سے مخالفت کی لیکن جب ان کی مرضی کے خلاف پاکستان بن گیا تو انہوں نے ہتھیار ڈال دئے اور ہمارے ساتھ شامل ہو گئے.اگر چہ احرار کا لیڈر اب تک بھارت میں ہے تاہم انکی اکثریت پاکستان میں آگئی.پاکستان بننے کے دن سے لے کر آج تک جماعت احمدیہ اور احراریوں میں شدید شمنی ہے جو موجودہ فتنہ کے حقیقی محرک ہیں.ر مضمون نگار کہتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ اگر یہ بات ہے تو احرار نے اپنے مخالفوں سے اس
پہلے کیوں معاملہ نہیں نمٹایا اور خاص طور پر اس وقت اپنے دیرینہ بغض و کینہ کے نکالنے کے لئے سول نافرمانی کو کیوں ذریعہ بنایا ؟ (اس لیڈر نے جواب دیا کہ ) اس سوال کے جواب کے لئے بعض آؤ امور کا سلسلہ وار بیان کرنا ضروری ہے.یادر ہے کہ پاکستان کا قیام غیر متوقع طور پر ہوا ہے.ان حالات کا تقاضا تھا کہ ہم اپنی پوری کوشش سے اپنے وطن تجدید کی ابتداء مضبوط حالات سے کرتے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم نے ذمہ دارانہ عہدے دینے میں سمجھدار او تعلیم یافتہ لوگوں کی قابلیت پر دارومدار رکھا.اور چونکہ احمدی بہت زیادہ تعلیم یافتہ اور منذب تھے اس لئے ان کو بہت سے ذمہ داری کے منصب سپر د کئے گئے اور احراریوں کو ان مہدوں کے حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی.ایک تو اس لئے کہ وہ تعلیم یافتہ نہ تھے اور دوسرے اِس لئے کہ وہ ماضی میں پاکستان بننے کی مخالفت کرتے رہے تھے (ترجمہ) ہے احرار اور اُن کے ہمنوا علماء وزعماء قیام امن کیلے حضر مصلح موعود کی بر کت ہدایات کے معنوں میں باربار کہاں سے..سکے تھے کہ ۲۲ فروری کے بعد ملک میں سول نافرمانی کے آغاز کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر عائد ہو گی ہے.۲۲۰.فروری کے بعد صورت حال کی ذمہ داری ارباب حکومت پر ہوگی سول نافرمانی ہو یا جانو رض پھیلے ان تنائی کی ذمہ داری خواجہ ناظم الدین اور آئی کی کا مبینہ پر ہوگی یا کسے ب چونکہ صوبہ پنجاب کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی تھی اور پاکستان اور احمدیت کی مخالف قومی کھل کر سامنے آگئی تھیں اس لئے سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے ۱۳ فروری ۱۹۵۳ء کو مسجد مبارک زیوہ میں ایک پر جلال خطبہ دیا جس میں حضرت مہدی موعود کی مظلوم اور بے ہیں جماعت کو قیام امن کی احتیاطی اور حفاظتی تدابیر بتائیں اور پرحکمت اور ضروری ہدایات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا :.اور ابر اور ان کے ساتھیوں نے ۲۲ فروری کا آخری نوٹس دیا ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ اسکے المصور (قاہره) ار اپریل ۱۹۵۳ء بحواله الفرقان «ربوده) فروری مارچ اپریل ۱۹۵۳ ماه رفتنی درگیر) له "آزاد" (لاہور) از فروری ۱۹۵۳ ء مٹ کا تم عمل و حت کالم رہا ہے 1)
۸۵ بعد یہ لوگوں کو احمدیوں کے خلاف اکسائیں گے خود مساجد کے مجروں میں گھس بھائیں گے اور عوام کو کہیں گے کہ بھاؤ اور احمدیوں کو مار دو.بعد میں کہیں گے دیکھا ہم نے نہیں کہا تھا کہ اگر حکومت نے احمدیوں کو اقلیت قرار نہ دیا تو لوگ ان کو مار دیں گے.اگر واقعہ میں لوگوں نے احمدیوں کو مارنا تھا تو لوگ خود اس بات کا نوٹس حکومت کو دیتے ان مولویوں کو نوٹس دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ ان مولویوں کو کس طرح پتہ لگ گیا کہ لوگ ۲۲ فروری کے بعد احد یوں کو مار دیں گے.صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک سازش ہے...انگلا جمعہ اس نوٹس کے لحاظ سے آخری جمعہ ہوگا اور اگلے اتوار کو ان کا نوٹس ختم ہو جائے گا.میری کوشش ہوگی کہ یہ خطبہ اتوار کے اخبار میں چھپ جائے.پس جب اور جہاں یہ خطبہ پہنچے جماعت فوراً اسمیلاس بلائے اور مشورہ کرے کہ ان کے لئے کیا کیا خطرات ممکن ہیں اور ان کے کیا کیا علاج انہوں نے تجویز کرتے ہیں.اور پھر جن جماعتوں کو سخدا تعالیٰ توفیق دے اور ان کے پاس اتنار و پیہ ہو کہ وہ مرکز میں آدمی بھیجو اسکیس وہ مرکز میں آدمی بھجوائیں جو مقامی تجاویز لا کر نظارت امور عامہ سے اور نظارت دعوۃ و تبلیغ سے مشورہ کرنے ممکن ہے بعض مشورے ایسے ہوں جن کی اطلاع حکومت تک پہنچانی مقصود ہو یا لٹریچر کی اشاعت مقصود ہو تو اس کے متعلق نظارت امور عامہ اور دعوت و تبلیغ ہی مفید مشورہ دے سکتے ہیں اور مقامی حالات کو لو کل جماعتیں ہی صحیح طور پر کچھ سکتی ہیں.اس لئے مرکز کا یہ ہدایت دینا کہ تم کوئی کر و بعض اوقات فضول سی بات ہو جاتی ہے.جماعت میں پہلے آپس میں مشورہ کریں اور اس بات پر غور کریں کہ انہیں کیا کیا خطرہ پیش آسکتا ہے اور پھر اس کا کیا علاج کیا جا سکتا ہے ؟ پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ جن لوگوں سے خطرہ ہے انہیں وہاں کیا اہمیت حاصل ہے اور ان کی جرأت اور دلیری کی کیا حالت ہے، ان کے اندر قربانی کا بعد یہ کس حد تک پایا جاتا ہے.پھر آیا وہاں کے حکام دیانتدار ہیں ؟ اور وہ اس فتنہ کو دبانے کے لئے تیار ہیں یا نہیں.پھر اگر حکام دیانت دار بھی ہوں اور وہ فتنہ کو دبانے پر آمادہ بھی ہوں تو بعض اوقات کچھ کمزوری باقی رہ جاتی ہے.یا ہو سکتا ہے کہ وہ حکام فتنہ کو دبانے پر آمادہ نہ ہوں تو اس صورت میں اگر کوئی شورش ہوئی تو کیا حیات طاقت رکھتی ہے کہ شورش کا مقابلہ کرے پھر اس مقابلہ کے لئے انہوں نے کیا سکیم تیار کی ہے.یہ باتیں ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے.
۴۸۶ ہر حال تم یہ سمجھ لو کہ کسی احمدی نے اپنی جگہ کونہیں چھوڑتا.تمہارا اپنے گاؤں یا شہر میں اچانک مرنا یا لڑتے ہوئے مارے جانا تمہارے وہاں سے آجانے سے ہزار ہا درجہ بہتر ہے.اگر کیسی احمدی نے جگہ چھوڑی تو ہمیں اس سے کوئی ہمدردی نہیں ہوگی مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے اتنی تعداد میں قتل ہونے کی وجہ ہی ہی تھی کہ انہوں نے اپنی جگہوں کو چھوڑ دیا اگر وہ میری بات مان لیتے اور اپنی جگہوں کو نہ چھوڑتے تو اس قد رقتل و غارت نہ ہوتی ہے شک بعد میں امن ہو جانے پر ہجرت کر لیتے ہجر ہم نے بھی کی لیکن چونکہ ہم نے قادیان کو فتنہ کے وقت چھوڑا نہیں اس لئے ہم امن ہونے پر خیریت سے یہاں آگئے.پس یاد رکھو کہ اگر آپ لوگوں نے اپنی جگہ چھوڑی تو ہمیں آپ سے کوئی ہمدردی نہیں ہو گی.پر نہیں کہ تم اپنی جگہ چھوڑ کر یہاں آجاؤ اور پھر دریافت کرو کہ اب ہم کیا کریں اگر ایسا ہوا توہم ہی کیں گے کہ جس شخص کے مشورہ پر تم نے یہ فعل کیا ہے اُس سے اب بھی مشورہ لو ہم تو صرف ایک بات جانتے ہیں کہ مومن نظم ہوتا ہے.وہ سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط ہوتا ہے سیسہ پچھلائی ہوئی دیوار کو کوئی توڑ نہیں سکتا اور اگر وہ ٹوٹتی ہے تو اکٹھی ٹوٹتی ہے.اس تم اپنی جگہ کو مت چھوڑو.آپس میں مشورہ کرو اور مرکز میں اپنی تجاویز پہنچاؤ.تم اندازہ لگاؤ کہ کس حد تک گورنمنٹ کے حکام تمہاری حفاظت کرنے کے لئے تیار ہیں.اور اگر کوئی کمزوری باقی رہ جاتی ہے تو سوچو کہ دشمن کے حملہ کی صورت میں جماعت کیا کرے گی.مثلاً کیا وہ محلہ میں ایک جگہ جمع ہو جائے گی یا کونسی صورت ہے جسے وہ اختیار کرے گی.پھر جو مشورے ہوں انہیں یہاں لے کر آؤ.ڈاک کے ذریعہ اطلاع بھیجنا فضول اور لغو ہے ڈاک خانے ہماری ڈاک صنائع کر دیتے ہیں.محکمہ ڈاک کے بعض ملازمین اتنے بے ایمان ہیں کہ وہ روٹیاں تو سر کاری کھاتے ہیں اور نو کر احرار کے ہیں.اگر آپ لوگوں کی ڈاک پہنچ بھی گئی تو پھر غالباً مرکز کا مشورہ جماعت تک نہیں پہنچے گا.جماعتوں کے نمائندے خود آئیں اور ناظر صاحب امور عامہ اور ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ سے مشورہ کریں اور پھر اس مشورہ پر عمل کریں اور دعائیں کریں.یاد رکھو اگر تم نے احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے تو تمہیں یقین رکھنا چاہیئے کہ احمدیت خدا تعالیٰ کی قائم کی ہوئی ہے.مودودی احراری اور ان کے ساتھی اگر احمدیت سے ٹکرائیں گے تو ان کا حال اس شخص کا سا ہوگا جو پہاڑ سے ٹکراتا ہے.اگر یہ لوگ جیت گئے تو ہم جھوٹے ہیں لیکن اگر ہم بہتے ہیں تو یہی لوگ ہاریں گے
۴۸۷ انشاء الله تعالى وبالله التوفيق.یکن مکرر اجاب کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ یہ فتنہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے تعلق رکھنے والوں کے لئے بھی ویسا ہی خطرناک ہے جیسا ہمارے لئے.اس لئے ان سے بھی جہاں جہاں وہ ہوں مشورہ کریں اور اپنی حفاظت کی سکیم میں ان کو بھی شامل کریں اور ان کی حفاظت بھی پورے اخلاص اور جذبہ سے کریں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہوئی ہے d حضرت امیر المومنین الصلح الموعود نے فروری ۱۹۵۳ء کے آخر حضر مصلح موعود کا ایک اہم بیان میں لاہور کے انگریزی اخبار سول اینڈ مٹڑی گنٹ کے نمائندہ کو انٹرویو دیا جس کا متن یہ تھا :- سوال :.جماعت احمدیہ کے خلاف موجودہ ایجی ٹیشن کی سب سے بڑی وجہ یہ عام المنام ہے کہ احمدی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں سمجھتے کیا اس الزام کی کوئی حقیقت ہے ؟ جواب : یہ الزام قطعاً غلط ہے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کے واضح ارشاد کے مطابق خاتم النبیین مانتے ہیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ (علیہ السلام) نے بارہا حلقیہ اعلان کیا تھا کہ کیں ختم نبوت کے عقیدہ پر حکم ایمان رکھتا ہوں حقیقت یہ ہے کہ آپ نے اعلان کیا تھا کہ جو کوئی اس عقیدہ پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے.سوال :.دوسرا الزام یہ ہے کہ احمدی غیر احمدی مسلمانوں کو کا فرکہتے ہیں.کیا یہ الزام مبنی بر تیت ہے ؟ جواب : جو کوئی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اُسے مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہے.اسلام کی بناء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے رکھی گئی اور حضور کے ذریعہ ہی بنی نوع انسان کو قرآن حکیم کی صورت میں الہامی کتاب علی اس لئے جو کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ( آخر الانبیاء سمجھتا ہے اور قرآن کریم کو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے آخری الہامی کتاب تسلیم کرتا ہے اُسنے مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہے خواہ وہ قرآن کریم کی بعض تعلیمات پر عمل نہ کرتا ہوں نہ ہم نہ کوئی اور ایسے شخص کے متعلق یہ کر سکتا ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے اسی طرح له الفضل ۱۵ر فروری ۱۹۵۳ء صد تا مثه
۴۸۸ خارج ہے جس طرح ہندو اور عیسائی وغیرہ ہیں.بلاشبہ ایک سچا مسلمان بننے کے لئے اسلام کی تمام تعلیمات کا پابند ہو ناضروری ہے.جب تک کوئی شخص ایسا نہیں کرتا وہ محض نام کا مسلمان ہے اس سے ہماری پوزیشن واضح ہو جانی چاہئیے.اگر لفظ کا مطلب ایسا شخص ہے جو ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح دائرہ اسلام سے خارج ہو تو یقینا یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے.یہ امر افسوسناک ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین اس بارے میں ہمارے عقیدے کو غلط طور پر پیش کرتے ہیں.اور جہاں تک اس امر کا تعلق ہے عوامی ذہن کو گمراہ کر دیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے بلکہ میں تو اپنے پیروؤں سے یہی کہتا رہا ہوں کہ وہ ایسے القاب استعمال کرنے سے اجتناب کریں جن سے غیر احمدی مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے.سوال :.اس وضاحت کی روشنی میں آپ کی پوزیشین مولانا مودودی امیر جماعت اسلامی کے تقریباً مشابہ ہے.ان کے نزدیک مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں صالحین یعنی اصلی مسلمان اور دوسرے اسمی یا رسمی مسلمان.کیا میں آپ کی پوزیشن کو اس طرح سمجھنے میں درست ہوں؟ جواب :.ہاں اگر مولانا مودودی کے یہی خیالات ہیں تو ہماری پوزیشن نہیں ہے؛ لہ اس حقیقت افروز بیان کا خیر مقدم کرنے کی بجائے ایجی ٹیشن کی دھمکی دینے والے حلقوں نے اس پر تنقید کی اور پاکستان کے ایک سیمی لیڈر مسٹر ظفراقبال نے تو علماء کی تائید میں یہاں تک لکھا.یکی برادران ملت سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ --- مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو زور شور سے جاری رکھیں.مرزائی اسلام پاکستان کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں ہم اس تحریک میں برادران ملت کے ساتھ ہیں اور ہم دو قدم آگے بڑھ کر ہر قسم کی جانی و مالی قربانی دے کر مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے " اخبار آزاد (لاہور) نے اپنے ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء کے شمارہ میں سجی لیڈر کا یہ تائیدی بیان بڑے طمطراق سے شائع کیا جس پر سلمانوں کے سنجیدہ طبقہ میں سخت حیرت کا اظہار کیا گیا کیونکہ خاتم الانبیاء سید المرسلین محمصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات سے متعلق عیسائی دنیا کا عقیدہ یہ " له الفضل هم در تبلیغ ۳۳۲ آتش صدا "زمیندار" ۲۸،۲۶ - فروری ۶۱۹۵۳ ص به ! i
ہے کہ ۴۸۹ ابرا ہیمیں اسلام کا ختم المرسلین خداوند یسوع مسیح ہے یا لے صوبہ پنجاب کی سلم لیگی حکومت نے ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء کو جماعت الفضل کی جبری بندش احمدیہ پاکستان کے واسعد روزنامہ الفضل کی اشاعت ایک سال کے لئے جبراً بند کر دی.اس ظالمانہ اقدام کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا کہ بیرونی احمدی با نوری کا رابطہ اپنے مرکز سے حمل بلکہ مفلوج کر کے رکھ دیا جائے.الفضل کی جبری بندش کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے پورا صوبیہ صوبہ پنجاب بغاوت کے لپیٹ میں ناب دانی اند ر ہنگامہ آرائی اور بناوت کامرکز بن گیا اور احمدیوں اور مرکزی حکومت پاکستان کے خلاف سلگائی جانے والی آگ شہروں سے نکل کر دیہات تک میں پہنچ گئی.فتنہ و فساد کے ان ایام کا نظارہ حضرت مصلح موعود نے کئی ماہ پہلے ہی اپنے بعض دعائیہ اور القائی اشعار میں خوب کھینچ دیا تھا.حضور کے یہ اشعار الفضل در اگست ۱۹۵۳ ء میں چھپ گئے تھے جب کہ ۱۹۵۳ء میں خونی انقلاب لانے کے خفیہ منصوبے کئے جارہے تھے.حضور نے فرمایا ہے دنیا میں یہ کیا فتنہ اٹھا ہے مرے پیارے ہر آنکھ کے اندر سے نکلتے ہیں شرارے یہ منہ ہیں کہ آہنگروں کی دھونکنیاں ہیں دل سینوں میں ہیں یا کہ سپیروں کے پٹارے کہ پیروں کے پیارے ہے امن کا داروغہ بنایا جنہیں تو نے خود کر رہے ہیں فتنوں کو آنکھوں سے اشارے اسلام کے شیدائی ہیں خونریزی پر مائل ہاتھوں میں جو خنجر ہیں تو پیلو میں کنارے له الفرقان حصہ دوم موتلفه پادری نظام ہیں، ہاسٹر انبار شهر چیه ۱۱۹۰۵ ۰ سے کنارا - خبر +
٤٩٠ سے بیٹھا ہے اک کو نہ میں سر اپنا مجھکا کر اور جھوٹ کے اُڑتے ہیں فضاؤں میں غبارے ظلم وستم وجود پڑھے جاتے ہیں حد سے انی لوگوں کو اب تو ہی سنوارے تو سشوارے طوفان کے بعد اُٹھتے چلے آتے ہیں طوفانی لگنے میں نہیں آتی ہے مری کشتی کنارے گو زندگی دینی ہے تو دے ہاتھ سے اپنے کیا جینا ہے یہ جیتے ہیں غیروں کے سہارے ختم نبوت کے مقدس نام پر اس دور میں کیسے ختم نبوت کے مقدس نام پر مظاہرے کیے تقریب مظاہرے شروع ہوئے ؟اس کا نام سر سر می اندازہ لگانے کے لئے حکومت پنجاب کے مندرجہ ذیل دو اشتہارات کا مطالعہ کافی ہو گا :- 1 اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے" پچھلے دنوں پنجاب کے مختلف مقامات پر اور بالخصوص لاہور میں تخریبی مظاہرے ہوئے.ان مظاہروں میں میری پسند عناصر اور غیر ذمہ دار افراد نے اپنی قومی دولت کو نقصان پہنچایا.اور امن و امان کو تہ و بالا گیا.م ڈاک خانے بلائے گئے.ه اومنی نہیں اور لاریاں نذر آتش کی گئیں.امن پسند شہریوں کی زندگی تلخ بنادی گئی.سرکاری فرائض ادا کرنے والوں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں.ریل کے ڈبوں میں گھس کر مسلمان خواتین کی بے حرمتی کی گئی.ریل کی پٹڑی اکھاڑ دی گئی اور تارو ٹیلیفون کے سلسلے منقطع کرنے کی کوشش کی گئی.گاڑیوں کی آمد و رفت میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں.اور اس کا نتیجہ کیا ہوا ؟ ملک کے وقار کو سخت دھکا لگا.
۲۹۱ ہم اختیار کی تضحیک کا نشانہ بنے.صہ اغیار نے بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا.مہ خود ہمارے اندرونی مسائل سلجھنے کی بجائے اور مشکلات میں اضافہ ہوا " ناموس رسول" (استقلال پریس لاہور) ایک مسلمان کی جان و مال اور آبرو دوسرے مسلمان کے لئے اتنی مقدس ہونی چاہیئے جتنا یہ مینہ یہ دن اور یہ مقام ہے یا پیغمبر اسلام نے یہ فرمان ذی الحجہ کے مہینے حج کے دن عرفات کے میدان میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا.اور پھر اس پیغام کی اہمیت کے پیش نظر فرمایا :- جو لوگ یہ بات سُن رہے ہیں اسے دوسروں تک بھی پہنچا دیں " ذرا سوچئے اس صریح فرمان نبوی کے مقابلے میں ہمارا طرز عمل کیا ہے ؟ ہ پچھلے دنوں پنجاب میں ناموس رسول کے مقدس نام پر کیا کچھ نہیں کیا گیا ؟ فتنہ و فساد، خونریزی، آتش زنی، شرفاء کی توہین عورتوں کی بے حرمتی فحش کلامی ہائے ہائے کے ناچ کیا یہ سب کچھ اسلام، خدا اور رسول کے ساتھ محبت کی دلیل تھی ؟ کیا ہمارا مذہب اور ہمارا امتدان جس کے فروغ کے لئے ہم نے پاکستان حاصل کیا ہمیں نہیں کچھ سکھاتا ہے؟ در آن به قم ) (گورنمنٹ پرنٹنگ پریسی پنجاب ) سیدنا حضرت مصلح موعود کا پر شوکت پیام میں اس وقت کہ فقہ وفاد کے خطے پوری شرت سے بھڑک اُٹھے اور مادہ پرستوں کی جماعت احمدیہ کے نام نگاہ میں پنجاب بلکہ پاکستان بھر سے تحریک احمدیت کا نام و نشان تک معدوم ہو جا تا قطعی اور یقینی نظر آرہا تھا اسید تا محضرت امیر المونین مصلح المرور
۴۹۲ نے خدا تعالی کی تحریک خاص سے سایر امان ۳۳۲ ایش (مارچ ۱۹۵۳ء) کو جماعت احمدیہ کے نام سیب ذیل پر شوکت پیغام دیا.یہ پیغام اگلے روز ہفت روزہ فاروق کے صفحہ اول پر علی قلم سے شائع ہوا اور یل شوکت پیغام دیا.یہ اے ملک بھر میں پہنچ گیا ہئے اعوذ بالله من القيطنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الن سامير حضرت امیر المومنین ایک اللہ تعالیٰ کا پیغام برادران اسلام عليكم ورحمة الله و بركاته الفضل کھا ایک سال کے لئے بند کر دیا گیا ہے.احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی مہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے.پس دُعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مد مانگو اس میں سب طاقت ہے ہم مختلف سے اسی روز لاہور کے مندرجہ ذیل چھ ممتاز شیعہ زعماء نے احرار سی تحریک سے گھلے لفظوں میں لا تعلقی کا اعلان کیا :- ا مولانا شبیر حسین صاحب بخاری سیکرٹری ادارہ تحفظ حقوق شیعہ ۲.مولانا عبد الغفور صاحب ا مرد اما مینہ کر بلا گامے شاہ ۳ مولانا محمد حسین صاحب مختار الفاضل و مولوی فاضل ، مولانا محمد باقر صاحب در جناب سید عابد حسین صاحب -- جناب نوابزادہ اصغر علی خان ان کا ہر نے ایک مشترکہ بیان میں فرمایا :- پاکستانی مرزائی جماعت کے بارہ میں ہماری متفقہ اور سلمہ رائے ہے کہ عقائد کے اختلاف کی بنا پرکسی جماعت یا فرقے کو اقلیت قرار دینا اور اس پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا مطالبہ کرنا صریح ناجائز اور نا انصاف پر مبنی ہے ہم شیطان پاکستان کی جانب سے احراری مولویوں کی تحریک سے قطع تعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اپیل کرتے ہیں کہ اس نہیں کے نام کو جنگ اور بدامنی کابہانہ ہ بنائیے جو دنیا میں امن و آشتی اور سلامتی کا پیغام کی آبا د روزنامه آفاق در مارچ ۱۹۵۳ شاه الفضل کی بندش پر لاہور ہی سے ہفت روزہ فاروق مکرم مولوی محم شیفت صاحب الشرق درحال مرتی انڈونیشیا) کی ادارت میں جاری کیا گیا تھا.یہ اخبار بی ام را در وا ا مارچ ۱۹۵۳ء کی دو اشاعتوں کے بعد بند کہ دینا پڑا انت
۴۹۳ اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک مسلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے.1 انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے.آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دُعا کرتا ہوں، انشاء اللہ فتح ہماری ہے.کیا آپ نے گذشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ؟ توکیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا ؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگروہ انشاء الل مجھے کبھی نہیں چھوڑیگا سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے.وہ میرے پاس ہے ، وہ مجھ میں ہے خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دُور ہو جائیں گے.تم اپنے نفسوں کو سنبھا لو اور نیکی اختیار کرو وسیلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا.خاکسار مرزا محمود احمد پنجاب کی مسلم لیگی حکومت جو ایجی ٹیشن کے معامر میں محض خاموش حکومت پنجاب کا نوٹس تماشائی بنی ہوئی ھی حضرت صلح موعود کے اس پیغام پرسخت برہم ہوئی اور اس نے محضور کے نام نوٹس جاری کر دیا.اس اہم واقعہ کی تفصیل حضور کے قلم سے درج کی جاتی ہے.فرمایا :- یکن نے ایک اعلان میں کہا تھا کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد اور نصرت کو آرہا ہے.وہ چلا آرہا ہے وہ دوڑتا آرہا ہے.اس پر حکومت نے مجھے نوٹس دیا کہ تم نے ایسا کیوں کہا؟ اس سے دوسرے لوگوں کو اشتعال آتا ہے.ہاں نوٹس دینے والے افسر نے اتنی اصلاح کرلی کہ اُس نے کہا تم احرار کے متعلق کوئی ذکر نہ کرو.اگروہ مجھے حکم دیتے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مرد کو آرہا ہے یاد کو کہ وہ معدہ کو نہیں آتا تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ کر سکتی.حکومت اعمال پر کنٹرول کر سکتی ہے عقائد پر نہیں ہے حضور نے ایک اور موقعہ پر اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :- اُس وقت بعض افسروں نے کہا کہ آپ کے اِس فقرہ سے اشتعال پیدا ہوتا ہے.میں نے اُن کو جواب دیا کہ جب مجھے خدا آتا ہوا نظر آتا ہے تو کیا میں جھوٹ بولوں ، خدا تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے ے ہفت روزہ " فاروق" م ر مارچ ۶۱۹۵۳ : الفضل ۲۳ ر احسان ۱۳۳۳ پیش جنگ کالم ۳ ، ۴ به
۴۹۴ ستے بندوں کی مدد کے لئے آیا کرتا ہے اور آپ بھی آئے گا اور ہمیشہ ہی آتا رہے گا.اگر یہ سلسلہ جاری نہ ہو تو خدا تعالیٰ کے دین کے خادم تباہ ہو جائیں اور اُن کے دل غم سے ٹوٹ جائیں " لے سید نا حضرت مصلح موعود کے مندرجہ بالا ولولہ انگیز پیغام کے بعد جو الہامی رنگ پیغام کے بعد رکھنا تھا شیخ احمدیت کے پروانوں نے کس طرح اسلام کے عالمگیر غلبہ کی ہم کو تیز قف کرنے کے لئے پوری بشاشت سے اپنے نفوس و اموال اور عزت و آبرو کی قربانیاں اپنے خدا کے حضور میشیں کیں ، کیسے خون اور آگ کے طوفانوں میں حق و صداقت کا پرچم بلند رکھا.پھر خدا کی محنتوں اور برکتوں اور فینلوں کو اپنی آنکھوں سے اترتا دیکھا ؟؟ اس کی ایمان افروز تفصیلات بتوفیقہ تعالے تاریخ احمدیت کی انگلی جلدوں میں آرہی ہیں.تاہم یہاں خلاصہ اس قدر بنا دینا ضروری ہے کہ زمینی ابتلاؤں اور آسمانی شعر توں خلاصه کا یہ متوازی دور اُن روح پرور تخلیات کا صرف ایک حصہ تھا جس کی کسی قدر چھلک جماعت احمد یہ ۸۱۹۳۴-۱۹۳۵ء میں دیکھ چکی تھی اور جس کی خبر حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے قبل از وقت ۱۸۹۴ء سے درج ذیل الفاظ میں دے رکھی تھی کہ :.بجز خدا کے انجام کون بتلا سکتا ہے ؟ اور بجز اس غیب دان کے آخری دنوں کی کسی کو خبر ہے ؟ ایمن کہتا ہے کہ بہتر ہو کہ یہ شخص فوقت کے ساتھ ہلاک ہو جائے اور حاسد کی تمنا ہے کہ اس پر کوئی ایسا عذا پڑے کہ اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے لیکن یہ سب لوگ اندھے ہیں اور عنقریب ہے کہ ان کے بدخیالات اور بدا را د سے انہیں پر پڑیں.اس میں شک نہیں کہ مفتری بہت جلد تباہ ہو جاتا ہے اور جو شخص کہے کہ یکی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہوں حالانکہ نہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے نہ اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہے وہ بہت بری موت سے مرتا ہے اور اس کا انجام نہایت ہی بد اور قابل عبرت ہوتا ہے لیکن جو صادق اور اس کی طرف سے ہیں وہ مرکز بھی زندہ ہو جایا کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کا ہاتھ ان پر ہوتا ہے اور سچائی کی روح ان کے اندر ہوتی ہے.اگر وہ آزمائش سے کچلے جائیں اور پیسے جائیں اور خاک کے ساتھ ملائے جائیں اور چاروں طرف سے ان پر لعن و طعن کی " الفضل" - اروفا ۳۳۵ اتش صدا کالم ۳/۲ :
۴۹۵ بارشیں ہوں اور ان کے تباہ کرنے کے لئے سارا زمانہ منصوبے کرے تب بھی وہ ہلاک نہیں ہوتے کیوں نہیں ہوتے؟ اس بچے پیوند کی برکت سے جو ان کو محبوب حقیقی کے ساتھ ہوتا ہے.خدا ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں نازل کرتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ تباہ ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں.ہر یک جو ہر قابل کے لئے یہی قانون قدرت ہے کہ اول صدمات کا تختہ مشق ہوتا ہے مثلاً اس زمین کو دیکھو جب کسان کئی مہینہ تک اپنی قلیہ رانی کا تختہ مشتق رکھتا ہے اور ہل چلانے سے اس کا جگر پھاڑتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین جو پتھر کی طرح سخت اور درشت معلوم ہوتی تھی مرمہ کی طرح پیس جاتی ہے ، اور ہوا اس کو ادھر اُدھر اُڑاتی ہے اور پریشان کرتی رہتی ہے اور وہ بہت ہی خستہ شکستہ اور کمزور معلوم ہوتی ہے اور ایک انجان سمجھتا ہے کہ کسان نے چنگی بھلی زمین کو خراب کر دیا اور بیٹھنے اور لیٹنے کے لائق نہ رہی لیکن اس دانا کسان کا فعل محبت نہیں ہوتا.وہ خوب جانتا ہے کہ اس زمین کا اعلیٰ جو ہر بجز اس درجہ کے کوفت کے نمودار نہیں ہو سکتا.اسی طرح کسان اس زمین میں بہت عمدہ قسم کے دانے تخمریزی کے وقت بکھیر دیتا ہے اور وہ دانے خاک میں مل کر اپنی شکل اور بحالت میں قریب قریب مٹی کے ہو جاتے ہیں اور ان کا وہ رنگ و روپ سب جاتا رہتا ہے لیکن وہ دانا کسان اس لئے ان کو مٹی میں نہیں پھینکتا کہ وہ اس کی نظر میں ذلیل ہیں.نہیں بلکہ دانے اس کی نظر میں نہایت ہی بیش قیمت ہیں.بلکہ وہ اس لئے ان کو مٹی میں پھینکتا ہے کہتا ایک ایک دانہ ہزار ہزار دانہ ہو کر نکلے اور وہ بڑھیں اور پھولیں اور ان میں برکت پیدا ہو اور خدا کے بندوں کو نفع پہنچے.پس اسی طرح و حقیقی کسان کبھی اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے اور لوگ ان کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں اور ہر یک طرح سے ان کی ذلت ظاہر ہوتی ہے تب تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانے سبزہ کی شکل پر ہو کر نکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور تاب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے.یہی قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ ورطہ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں لیکن غرق کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ تا ان موتیوں کے وارث ہوں کہ جو دریائے وحدت کے نیچے ہیں اور وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں لیکن اس لئے نہیں کہ جھلائے جائیں بلکہ اس لئے که تا خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں.اور ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور لعنت کی جاتی ہے اور وہ ہر
۴۹۶ طرح سے ستائے جاتے اور دکھ دئے جاتے اور طرح طرح کی بولیاں ان کی نسبت بولی جاتی ہیں اور بر طنیاں بڑھ جاتی ہیں یہاں تک کہ بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ سچے ہیں بلکہ جو شخص ان کو دکھ دیتا اور لعنتیں بھیجتا ہے وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ بہت ہی ثواب کا کام کر رہا ہے.پس ایک مدت تک ایسا ہی ہوتا رہتا ہے.اور اگر اس برگزیدہ پر شہریت کے تقاضا سے کچھ بھی طاری ہو تو خدا تعالیٰ اس کو ان الفاظ سے نسلی دیتا ہے کہ صبر کر جیسا کہ پہلوں نے میر کیا اور فرماتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں، سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں نہیں وہ صبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ امر مقدر اپنے قدرت مقررہ تک پہنچ جاتا ہے تب غیرت اٹھی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے اور ایک ہی تجلی میں اعداء کو پاش پاش کر دیتی ہے سو اول نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور اخیر میں اس کی نوبت آتی ہے.اسی طرح خداوند کریم نے بارہا مجھے سمجھایا کہ ہنسی ہوگی اور ٹھٹھا ہوگا اور لعنتیں کریں گے اور بہت ستائیں گے لیکن نصرت الہی تیرے شامل ہوگی اور خدا کے دشمنوں کو مغلوب اور شرمندہ کرے گا چنانچہ براہین احمدیہ میں بھی بہت سار حصہ الہامات کا انہی پیش گوئیوں کو بتا رہا ہے اور مکاشفات بھی یہی بتدار ہے ہیں.چنا نچہ ایک کشف میں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا اور وہ کہتا ہے کہ لوگ پھرتے بھاتے ہیں تب یکں نے اس کو کہا کہ تم کہاں سے آئے ہے تو اس نے عربی زبان میں جواب دیا اور کہا کہ جئت من حضرة الوتر یعنی یکی اس کی طرف سے آیا ہوں جو اکیلا ہے.تب میں اس کو ایک طرف خلوت میں لے گیا اور میں نے کہا کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں مگر کیا تم بھی پھر گئے ہوں اس نے کہا کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں.تب میں اس حالت سے منتقل ہو گیا لیکن یہ امور درمیانی ہیں اور جو خاتمہ امر پر منعقد ہو چکا ہے وہ یہی ہے کہ بار بار کے الہامات اور مکاشفات سے جو ہزار ہا تک پہنچے گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ یں آخر کار تھے فتح دوں گا اور ہر ایک الزام سے تیری برتیت ظاہر کر دونگا اور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب رہیگی اور فرمایا کہ میں زور آور جملوں سے تیری سچائی ظاہر کرونگا.اور یاد رہے کہ یہ الہامات اس واسطے نہیں لکھے گئے کہ ابھی کوئی انکو قبول کرلے بلکہ اس واسطے کہ ہر یک چیز کیلئے ایک موسم اور وقت ہے پس جب ان المانت کے طور کا وقت آئیگا تو اسوقت یہ تحریر ستجد والوں کیلئے زیادہ تر ایمان اور سکی اور یقین کا موجب ہوگی.والسلام على من اتبع الهدى له (ختم) انوار الاسلام از حضرت مسیح موعود علیه السلام من نامه طلوع اول مطبوعہ قادریان 4 شباب الاسلام برای ایده)
متعلقه صفحه ۴۹ مر تاریخ احدیت جلد پانزدهم ۶۱۹۶۹ نمبر مکرم مولوی تاج الدین صاحب ناظم دار القضا ۱- فهرست اراکین مجلس افتاء ۱۹۵۲ ۶ تا ۶۱۹۶۹ ممبر داد ۱۳۹۳ بیش ۱۹۵۲ ۶ تا ۱۳۵۴ایش (۱۹۷۵) ۸ - مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل / A مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ ۱۹۵۲ تا ۱۹۷۵، نمبر صدر ۶۱۹۵۲ تا ۱۹۶۱ ء سیکرٹری ۱۹۶۱ ۶ تا مکرم مولوی محمد صدیق صاحب انچار ج خلافت لائبریری راده ۶۱۹۵۲ تا ۶۱۹۷۴ ممبر - /1928 ۲- مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمتون ۱۰- مکرم مولوی خورشید احمد صاحب شاد سیکرٹری ۱۹۵۲ ۶ تا ۱۹۶۱ء - ممبر ۱۹۶۱ء تا -۶۱۹۶۷ ۶۱۹۵۲ تا ۶۱۹۶۲ میمیر ۱۱.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۳- حضرت مولوی غلام رسول صاحب در می یابد ۱۹۵۲ ۶ تا ۶۱۹۶۲ نمبر ۱۹۶۲ ء سے اعزاز می میر ۱۱۹۵۲ تا ۱۹۹۳ء ممبر ۱۹۶۳ء سے ۱۲ - حضرت صاحبزادہ مرزا نا مرا حمد صاحب اعزازی ممبر ۴.مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب ۱۱۹۵۲ تا ۶۱۹۷۵ نمبر ۵- مکرم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ۶۱۹۵۲ تا ۶۱۹۶۸ ممبر - ۱۹۵۲ تا ۶۱۹۶۱ نمبر ۶۱۹۶۱ تا ۶۱۹۶۲ نائب صدر - ۱۹۶۲ ۶ تا ۱۹۶۵م صدر ۱۳ - مکریم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی مہر گر رہا.۱۹۵۲ء تا ۶۱۹۶۲ نمبر ۶۱۹۹۲ تا ۶۱۹۶۸ نائب صدر - ۶۱۹۶۹ تا - مکرم مولوی محمد احمد صاحب طبیل ۱۹۵۲ تا ۱۹۷۵ء صدر
1 ۱۴- مکرم شیخ محمد احمد صاحب منظر ایڈووکیٹ امیر ۱۹۷۷ء ممبر جماعت احمدیہ ضلع لائلپور ۶۱۹۵۲ تا ۱۹۶۷ ۲۳ - مکریم سید میر داؤ د احمد صاحب ۶۱۹۶۱ تا ممبر - ۶۱۹۶۷ تا ۱۹۶۸ ۶ صدر ۶۱۹۹۹ تا ۱۹۶۶ء مبر - ۶۱۹۶۷ تا ۶۱۹۷۳ نائب صد ۶۱۹۷۵ نائب صدر ۱۵ - مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب سب حج ۱- ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء ممبر ۲۴ مکرم شیخ بشیر احمد صاحب سینٹر ایڈووکیٹ و حج ہائیکورٹ پنجاب ۱۹۶۱ء تا ۶۱۹۶۲ ممبر ۲۱۹۶۲ تا ۶۱۹۷۳ نائب صدر - مکرم مولوی ابوالخیر نور الحق صاحب نیجنگ ۲۵.مکرم پر و فیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اسے ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ۱۹۶۱ ۶ تا ۱۹۶۷ء مبر ۶۱۹۶۱ تا ۶۱۹۶۲ ممبر - ۶۱۹۶۲ تا ۶۱۹۶۵ ۱۹۶۹ ۶ تا ۶۱۹۷۵ نمبر ۱۷ - مکرم چو ہد ری محمد ظفر اللہ خان صاحب اعزازی نمبر ۶۱۹۶۶ صدر - ۱۹۶۷ء نائب صدر ۶۱۹۶۸ تا ۶۱۹۷۰ نمبر - ۱۹۶۱ ۱ تا ۶۱۹۶۲ صدر - ۶۱۹۶۲ تا ۶۱۹۷۵ ۲۶- مکرم مولوی غلام باری صاحب تتلیف ۶۱۹۶۱ امه اندی ممبر تا نومبر ۶۱۹۷۵ نمبر - حسابات ۱۸ - حضرت سید زین العابدین ولی الله شاه مصاب ۲۷ - شکرم مولوی نذیر احمد صاحب بیشتر مبلغ غانا ۶۱۹۶۱ تا ۶۱۹۶۳ نمبر ۱۹۶۳ ۶ تا ۴۱۹۶۴ ۶۱۹۶۲ تا نومبر ۶۱۹۷۵ ممبر - ازانه ی ممبر -۱۹ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب با جود سابق -19 ۲۸ مکرم میاں عبد الیمینی صاحب نون ایڈووکیٹ ۱۹۶۲ تا ۱۹۶۳ء نمبر ۱۹۶۷ ۱ تا ۶۱۹۷۵ نمبر امام بعد لندن و بلغ سوئٹزر لینڈ ۱۹۶۱ ء تا ۲۹ - مکرم سید میر محمو د احمد صاحب ۶۱۹۶۲ تا.۱۹۷۲ء ممبر ۶۱۹۶۲ ممبر ۱۹۶۲ ۶ تا ۱۶۱۹۷۴ عزاز مبنی بر ۲۰ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کیل اعلی ۳۰ - محرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم ہے - تحریک جدید ۱۹۶۱ ۶ تا ۶۱۹۷۵ همبر ۶۱۹۶۲ تا ۱۹۷۵ء ممبر - ۲۱ - مریم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم از شاه ۳۱ - مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ایڈیٹر تفسیر القرآن انگریزی ۱۹۶۳ء تا وقف جدید ۶۱۹۶۱ ۱۹۷۵ء مبر ۲۲ مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ۱۹۶۱ توتا ۱۹۶۵ء ممیر
۳۲ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس البیلی مشرقی نومبر ۱۹۶۸ء تا نومبر ۱۹۹۹ء ممبر افریقیه ۱۹۶۳ ۶ تا ۶۱۹۷۴ ممبر ۱۳۳ مکرم مولوی عبد اللطیف صاحب فاضل بہاولپوری ۱۹۶۳ ۶ تا نومبر ۶۱۹۷۰ همبر ۴۳ - مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہر تو میر ۱۹۶۸ ۶ تا ۶۱۹۷۵ ممبر ۴۵.مکرم ڈاکٹر خلیل الرحمن صاحب ملتان نومبر ۳۲.مکرم مولوی محمد صادق صاحب سماری ۶۱۹۶۵ ۱۹۷۸ء تا نومبر ۶۱۹۶۹ ممبر - تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبرر وم - مکرم پر و فیسر سلطان محمود صاحب شاہر ۳۵ مکرم ملک مبارک احمد صاحب پروفیسر جامعه ایم ایس سی نومبر ۱۹۶۹ ء تا نومبر ۱۹۷۰ء میبر ۴.مکرم پر و فیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب (ممتاز کے احمدیه ۱۹۶۵ تا ۱۹۷۵ ۶ مبر مکرم شیخ عبد القادر صاحب (سابق سوداگریل) عالمی سائنسدان ) ۶۱۹۷۷ تا ۶۱۹۷۵ مرتبی لاہور نومبر ۱۹۶۶ء تا نومبر ۱۹۷۷ء ممبر اعزازی ممبر ۳۷ مکرم مولوی محمد یار تا رفت صاحب ( سابق مبلغ ۴۸۰ مکرم نور محمد سیم سیفی صاحب نومبر ۱۹۷۰ ۶ تا لندن ) نومبر ۶۱۹۶۶ تا نومبر ۶۱۹۶۷ ممبر ۶۱۹۷۵ ممبر مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب لاہور نو میز ۴۹ - مکرم پر و فیسر نصیر احمد خان صاحب نومبر ۶۱۹۷۰ تا ۱۹۷۵ء ممبر ۱۹۶۶ ۶ تا نومبر ۱۹۶۷ء ممبر ۱۳۹ مکرم مولوی عبد المالک نمان صاحب ۱۹۶۷ ۵۰- مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب بغیر مبالغ ماشین و تا ۱۹۶۸ء ممبر - ۱۹۷۰ء تا نومبر ۶۱۹۷۴ ممبر سیلون و افریقیه نومبر ۱۹۷۱ تا نومبر ۱۹۷۲ روبر ۴۰ مکرم مولوی امام الدین صاحب مبلغ انڈونیشیا ۵۱- مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام سجد لندن نومبر ۱۹۶۷ ء تا نومبر ۱۹۷۰ء ممبر نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۱۹۷۲ء مبر ۴۱ - مکرم سید احمد علی صاحب مرتی مسلسله ۵۲ - مکرم عبد الحکیم صاحب المتل میبلیغ ہالینٹ نومبر ۱۹۶۷ ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۶۱۹۷۲ ممبر ۴۲ مکرم پر و فیسر حبیب الله خان صاحب ۱۱۹۶۷ ۵۳ - مکرم مرزا خورشید احمد صاحب ناظر مدیت تا ۱۹۶۹ء ممبر نومبر ۱۹۷۰ء تا ۶۱۹۷۴ نمبر - در ویشان نومبر ۶۱۹۷۴ تا نومبر ۱۹۷۵ء مبر م و مکرم مولوی محمد اجمل صاحب مشاعر مربی سلسله ۵۴- مکرم صاحبزادہ مرزا انیس احمد صاحب (خلف اکبر
حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حضرت نومبر ۱۹۷۴ء تا نومبر ۶۱۹۷۵ (ووٹ کے پیر مہر سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب - مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے کینٹ.میکروم دیگر کوائف چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه ۱۹۵۲ تا ۶۱۹۶۱ - تعداد ممبران ۱۵ر صدر ۶۱۹۶۵ - تعدا د ممبران ۲۵ - صد ر حضر مب الجزاده مجلس محرم ملک سیف الرحمن صاحب.سیکرٹری مولانا مرزا ناصر احمد صاحب.سیکرٹری محرم ملک سیف الر یامین بجلال الدین صاحب شمس دینا صاحب - نائب صدر محرم شیخ بشیر احمد صاحبه و ۱۹۹۱ ۶ تا ۶۱۹۶۲ - تعداد ممبران ۲۵ ر صدیر مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ.اعزازی ممبر مجلس مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سیکرٹری مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مکرم پروفیسر مکرم ملک سیف الرحمن صاحب - نائب صدر محرم شیخ قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اسے مکرم چوہدری مشتاق احمد بشیر احمد صاحب سابق حج ہائیکورٹ و حضر می امامزاده صاحب با جوهر مرزا ناصر احمد صاحب - ۶۱۹۷۶ - تعداد ممبران ۲۸- صمد کریم پور وغیر ۱۹۶۲ تا ۶۱۹۶۳- تعداد ممبران ۲۴ صدر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.ایک سیکرٹری مکرم ملک مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سیکرٹری سیف الرحمن صاحب - نائب صدر محرم شیخ بشیر احمد مکرم ملک سیف الرحمن صاحب - نائب صدر محرم شیخ صاحبات و مکرم مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ.بشیر احمد صاحث و مکرم مرزا عبد الحق صاحب اعزازی اعزازی میر محکم چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب.مبر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مکرم چوہدری محمد مکرم پر و فیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب میکرم چوہوی ظفر اللہ خان صاحب مكرم قاضی محمد اسلم منا مکرم مشتاق احمد صاحب باجوہ.چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه ۱۹۶۷ تا ۶۱۹۶۸ - تعداد ممبران ۲۷- صدر ۱۹۶۳ ۶ تا ۶۱۹۶۴- تعداد مهران ۱۲۴ صدور مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ سیکرٹری مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بیماری مکرم ملک سیف الر حمن صاحب ، نائب صدر مکرم مکرم ملک سیف الرحمن صاحب - نائب صدر محرم شیخ شیخ بشیر احمد صاحبات و مکرم مرزا عبدالحق صاحب بشیر احمد صاحبه و مکرم مرزا عبد الحق منا اعزازی اعزازی میر مکرم چوہدری محمدظفر اللہ خان صاحب
مشتاق احمد صاحب یا جوه مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب - مکرم چوہدری صاحب مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب با جور مشتاق احمد صاحب یا جوه ۱۹۷۱ ۶ تا ۲۱۹۷۲ - تعداد ممبران ۲۶ مید ۱۹۲۸ ۶ تا ۶۱۹۶۹ - تعداد ممبران ۲۸ صادر مکرم مرزا عبدالحق صاحب سیکرٹری مکرم ملک مکرم شیخ محمد احمد صاحب منظر سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب نائب صدر محرم شیخ محمد احمد يليف الرحمن صاحب.نائب صدر مریم شیخ بشیر احمد صاحب منظر میکریم شیخ بشیر احمد صاحبه محروم سید صاحب مكرم مرزا عبدالحق صاحب میکردم سید میر میر داؤد احمد صاحبی.اعزازی میر مکرم چو در ردی داؤ د احمد صاحب محکوم پر و فیسر قاضی محمد اسلم صابت محمد ظفر اللہ خان صاحب مکرم پر و فیسر ڈاکٹر اسلام اعزازی میجر محکم چو ہدری محمدظفر اللہ خان صاحب صاحب میکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه در مکرم پر وفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب میکرم چوہدری ۱۹۷۲ تا ۱۹۷۳ء - تعداد ممبران ۲۲- صدر محکوم مرزا عبد الحق صاحب سیکر ٹری مکرم ملک ۶۱۹۶۹ تا ۶۱۹۷۰- تعداد ممبران ۲۳ سیف الرحمن صاحب - نائب صدر محرم شیخ محمد احمد صد ر مکرم مرزا عبدالحق صاحب سیکرٹری محرم ملک صاحب منظر مکرم شیخ بشیر احمد صاحب میکرم سید سیف الرحمن صاحب - نائب صدر مکریم شیخ محمد احمد میر داؤد احمد صاحب.اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد صاحب نظر میکرم شیخ بشیر احمد صاحبن مکرم سید ظفر اللہ خان صاحب.حکم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام میر داؤد احمد صاحب - اعزازی ممبر مکرم چوہدری صاحب میکردم چو ہدری مشتاق احمد صاحب با جوهر محمد ظفر اللہ خان صاحب مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام ۱۹۷۳ء تا ۶۱۹۷۴ - تعدا دو ممبران ۲۰ مار صاحب مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ مکرم مرزا عبدالحق صاحب سیکرٹری مکرم ملک ۱۹۷۰ء تا ۶۱۹۷۱- تعداد ممبر الی ۲۳- صدر سیف الرحمن صاحب - نائب صد ر مکرم شیخ محمد احمد مكرم مرزا عبد الحق صاحب سیکرٹری مکرم ملک صاحب منظر.اعزاز می نمبر محکوم چو ہد ری محمد ظفر الله سیف الرحمن صاحب - نائب صد ر مکرم شیخ محمد احمد خان صاحب میکردم پر وفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب صاحب منظر میکرم شیخ بشیر احمد صاحب یا مکرم سید مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه - میر و او و احمد صاحب.اعزازی عمر میکرم چوہدری ۶۱۹۷۴ تا ۶۱۹۷۵- تعداد ممبران ۲۸ صدر محمد ظفر اللہ خان صاحب مکرم پر و فیسر ڈاکٹرعبد السلام مجلس مرزا عبد الحق صاحب سی کوٹڈی مکرم ملک
سیف الرحمن صاحب مفتی اسلسلہ.نائب صدر کرم شیخ دونوں دنی بجے آتی تھی اور چناب ایکسپر لیس دن کے محمد احمد صاحب منظر - اعزازی نمبر مکرم چوہدری روانہ ہو جاتی تھی حضور نے آ گھنٹے حیدر آباد قیام محمد ظفر اللہ خان صاحب یہ کریم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام فرمانا تھا.صاحب لندن ۵ار مارچ کو جماعت کی میٹنگ ہوئی اور مکرم دار الافتاء ربوہ کے ریکارڈ سے مرتب شدہ ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب نے جو ہسپتال میں ڈاکٹر متعلقه صفحه 4 تھے اپنے تمام کمرے خالی کرکے دینے اور حضور کے قیام و طعام کا ذمہ لیا اور مکرم ماسٹر رحمت اللہ صاب ٹیچر ہائی سکول پیر و آباد نے مکروہ ماسٹر نو محمد صاحب ۲- سیدنا حضرت مصلح موعود کا سفر حد آباد سند موعود میدآباد ہیڈ ماسٹر سے اجازت لے لی کہ حضور کے ہمراہی اصحاب محروم بشیر احمد علی شاہ صاحب مرتی سلسلہ احمدیہ اور دیگر تمام مہمانوں کا قیام اور زائرین کے لئے ہائی کی ایک غیر مطبوعہ یاد داشت ) ۲ سکول کا ہوسٹل فارغ ہو گا جو ہسپتال کے ساتھ ہی مورخہ ۲۶ فروری ۱۹۵۲ء کو حضور پا تھا درمیان میں صرف سڑک تھی.بجے صبح کو پنجاب سے حیدر آباد تشریف لائے حضور حضور نے جلسہ کی اجازت کے ساتھ مجھے یہ ہدایت کو الوداع کہنے کے لئے ہم لوگ ٹنڈو الہ یار تک فرمائی کہ جماعت کراچی سے مدد حاصل کی جائے چنانچے گئے جہاں حضور کو ناشتہ دیا گیا.جماعت احمدیہ ۱۶ مارچ کو پھر ٹینگ کی گئی اور مورخہ ۲۵ مارچ حیدر آباد آدھی رات سے استقبال کے لئے موجود کی شام کو تھیا صوفیکل ہال میں جلسہ کا پروگرام تھی.۲۹ فروری کو جماعت حیدر آباد میں جلسہ بنا کو سندھ کی بڑی بڑی ۳۲ جماعتوں کو جلسہ کی کرانے کی تجویز ہوئی اور پھر حضور سے اجازت کے لئے دعوت دی اور حاضری کی تاکید کی گئی اور پرہ کا خاکسار نے ناصر آبا د جا کہ عرض کیا تو فرمایا :- خاص اہتمام کیا گیا.وہاں جلسہ ہو بھی سکے گا.ابھی تھوڑے ار مارچ کو مکرم چوہدری عبداللہ خان حساب دن قبل احراری تقریریں کر کے گئے ہیں.امیر جماعت احمدیہ کراچی کو میں نے چٹھی لکھی اور آخر حضور نے ہماری درخواست منظور فرمائی.حضور کے ارشاد سے آگاہ کر کے پہرہ اور صد حلیہ کیونکہ حضور کی گاڑی میر پور خاص کی طرف سے ان کا اہتمام کر کے آنے کے لئے تاکید کی اور ۳۲ جماعتوں
کو بھی دعوتی خطوط خاکسار نے لکھے.۲۲ مارچ کو دفتر تبلیغ ربوہ کی طرف سے ۲۰ مارچ کو پھر جلسہ اور حضور کے قیام کے تار آیا کہ حضور کی تقریر کے قلمبند کرنے کا انتظام کریں بارہ میں میٹنگ ہوئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ یکی حضور توسم چنانچہ جواب میں عرض کیا گیا کہ مکرم مولوی سلطان احمد ہوسٹل میں قیام کے انتظام کی اطلاع ناصر آبادمیں صاحب پر کوئی تقریر قلمبند کریں گے.کیا کہ دوں اور جلسہ کے لئے دعوتی پاس چھپوانے کا اسی رات کو پھر میٹنگ ہوئی اور مورخہ ۲۳ اہتمام کیا گیا چنانچہ خاکسار سید احمد علی جوان نوں مات کو حضور کے قیام کے لئے اسلم ہوسٹل کی بجائے زیریں سندھ ضلع حیدر آباد، ٹھٹھ ، نفر یار کی انسپکشن بنگلہ نزد سرکٹ ہاؤس انتظام کر لیا گیا سانگھڑ، نواب شاہ اور ضلع دادو) کا انچارج مبلغ اور جلسہ کے لئے حسب ذیل دعوت نامہ پوسٹ کارڈ تھا اور مارچ بروز جمعہ صبح کو ناصر آباد گیا اور سائز پر طبع کرایا گیا.۲۱ حالات تحریر ی میٹھی میں عرض کئے تو حضو ر نے میرے لفافہ میں حسب ذیل الفاظ تحریر فرمائے :- بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَى عَلى رَسُولِهِ الكريم اگر مسلم ہو شکل بہتر ہے تو وہ ہی انتظام مکر می جناب ! کر دیں لیکن موقعہ پر لوگوں کے شور سے عليكم السلام حمر ا و ر کنده امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین اکثر افسر ڈر جاتے ہیں.دیہ اصل لفافہ میرے پاس ہے جس کے اُوپر محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بروز یہ الفاظ ہیں) مشکل مورخه ۲۵ ر با ر ج ۱۹۵۲ء کو پام خاکسار حضور کی اقتداء میں نماز جمعہ کے بعد بجے شام تھیا صوفی کل ہال نزد جنرل پوسٹ رات کو واپس حیدر آباد پہنچا اور جماعت کو حالات آفس حیدر آباد میں اتحاد السلمین کے سے آگاہ کر کے کہا کہ ہمیں کوئی دوسرا انتظام فوری موضوع پر تقریر فرمائیں گے.انشاء اللہ طور پر کر لینا چاہیئے بینا پنچر ایسا ہی ہوا.بعد میں تعالی.بعض اساتذہ سے مرعوب ہو کر مکرم ماسٹر نور محمد آپ اسی جلسہ میں شرکت فرما منتظمین صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول میرہ آباد نے معذرت کو شکریہ کا موقعہ دیں.کر دینی ادھر ہم نے متبادل انتظام کر لیا ہوا تھا.نوٹ:.براہ مہربانی یہ دعوت نامه
ہمراہ لائیے گا.والسلام وہ بھی ضائع ہوگئی ہے میکرم یا بو عبد الغفار صاحب اللہ کی سیکرٹری جماعت احمدیہ حیدر آبادی فوٹو اسپیڈ کمپنی حیدرآباد سندھ کے پاس بھی ہے یہ دعوت نامہ صرف ۵۰۰ کی تعداد میں طبع کرایا ان کے بھائی مکرم نثار احمد صاحب کے پاس غالباً یہ گیا تھا کیونکہ ہال میں اسی قدر مشکل گنجائش تھی مگر مل سکیں گی جنہوں نے یہ تصاویر لی تھیں.شائقین و سامعین کا اتنا اشتیاق و اصرار ہوا کہ ۲۵ تاریخ پر روز شکل حضور سے مراد کی شہر کارڈ تقسیم کرنے کے بعد جس کو کارڈ بوجہ واقفیت حیدر آباد آ آکر دن بھر ملاقات کرتے رہے.دیا گیا اس کی سفارش پر اسی کے کارڈ پر دو دو تین مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر حاجات تین بلکہ پچار چار کے بھی نام مجھے درج کرنا پڑے.اور کراچی نے کراچی سے کافی تعداد میں موٹر کاروں کے ہال میں تنگی کی وجہ سے اکثر لوگوں کو جلسہ میں تقریر ذریعہ احباب جماعت کو حیدر آباد بھیجا اور خود بھی لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ باہر کھڑے ہو کر سننا پڑی.تشریف لائے ریکس نے ان سے پوچھا کہ حیدرآباد یکی دعوتی کارڈ دیکھ دیکھ کر لوگوں کو اندر جانے کی کے اس جلسہ کے لئے صدر کا آپ نے کیا انتظام کیا اجازت دیتا تو پیره داران کو داخل ہونے دیتے تھے ہے ؟ تو انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ میں اب ۲۲ مارچ بروز سوموار حضور روشن بجے شب یہاں کوشش کرتا ہوں چنانچہ ہم دونوں مکریم بذریعہ ٹرین ناصر آباد سے میر پور خاص کے راستے جناب ایم.اے حافظ صاحب بار ایٹ لاء ہیرو آباد حیدر آباد تشریف فرما ہوئے.جماعت احمدیہ حیدر آباد کے پاس پہنچے.انہوں نے اس جلسہ کی صدارت کو نے حضور کا استقبال کیا اور کاروں کے ذریعہ حضور اپنے لئے باعث فخر سمجھا.وہ مکرم چوہدری صاحب مع عمله انسپکشن بنگلہ نزد سرکٹ ہاؤس حیدر آباد کے واقف اور دوست تھے اور آنے کا وعدہ کیا میں تشریف لے گئے جہاں رات کو قیام فرمایا.بڑی خوشی کا اظہار کیا.۲۵ مارچ کی صبح کو مکرم چوہدری محمد سعید دستات وقت مقررہ سے قبل ہی ہال کھچا کھچ بھر گیا جس کے اپنے مکان واقع ہیرہ آباد میں حضور کو دعوت میں انتظامی لحاظ سے احمدی نصف کے قریب تھے ناشتہ دی.اس موقع پر لی گئی ایک تصویر میرے باہر بھی دعوت نامہ والے صحن میں کھڑے تھے.پاس تھی جو اب ہنگاموں میں ضائع ہو گئی ہے.حضور وقت مقررہ پر اہم بچے بذریعہ کا ر ہال میں اسٹیشن پر سے اترنے کے وقت کی بھی ایک تصویر اتنی تشریف لائے مکرم جناب ایم.اسے حافظ صاحب
بار ایٹ لاء کی صدارت کا مکرم چوہدری عبداللہ خان فضل تھا کہ جلسہ میں ہر طبقہ اور ہر فرقہ کے لوگ صاحب نے اعلان کیا.تلاوت قرآن کریم خاکسار سید یعنی شتی حنفی بریلوی ، شیعہ، اہل حدیث احد علی میگن نے کی نظم مکرم میر مبارک احمد صاحب تا پو دیوبندی وغیرہ بلکہ عیسائی اور بہندو بھی موجود تھے نے پڑھی اور پھر صدر جلسہ نے حضور سے تقریر کی اور بہت ہی اچھا اثر لے کر گئے اور حضور کی تقریر کے درخواست کی جو حضور نے " اتحاد المسلمین" کے موضوع مدح سرا تھے.پر ہے 4 بجے شام تک فرمائی.آخر میں دعا کرائی اور دن مجھے حضور چناب ایکسپریس پر سوار ہوئے پھر اس کے بعد چناب ایکسپریس کے ذریعہ پنجاب احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر خوشی و شادمانی کے سفر کے لئے بذریعہ کار حضور سید ھے حیدر آباد اور جلسہ کی شاندار کامیابی کے ساتھ پنجاب کو تشریف اسٹیشن تشریف لے گئے جہاں تمام احباب جماعتیتان لے گئے.احمدیہ حیدرآباد (سندھی) اور کراچی سے آنیوالوں اگلے ہی دن ۲۶ مارچ کو خاکسار نے ایسی نے حضور سے ملاقات کی.گاڑی کے آنے میں کافی جلسہ کی رپورٹ دفتر تبلیغ ربوہ " الفضل اور وقت تھا حضور کے لئے پلیٹ فارم پر کرسی کا انتظام المصلح کراچی کو روانہ کردی را افصل مورخہ ہو.کیا گیا جس پر رونق افروز ہو کر حضور نے مشتاقین کو مارچ ۱۱۹۵۲ صفحه ۲ پر زیر عنوانی حضرت امیرالمومنین زیارت سے مشرف فرمایا اور غیر از جماعت اصحاب ایدہ اللہ تعالیٰ کی حیدر آباد میں تشریف آوری او کو بھی شرف ملاقات بخشتے رہے.اس موقع پر بصیرت افروز تقریر شائع ہوئی، فالحمد لله حضور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ پھیلی دفعہ میری ۱۹۵۲ء کی ڈائری اب تک موجود ہے جب یہاں میر لیکچر ہوا تھا تو صرف ۳۵ افراد نے اس سے یہ حالات مرتب کئے گئے ہیں.والسلام والے تھے مگر اب کے تھیا صوفی کل ہال کے اندر ۵۰ خاکسار سید احمد علی مرتبی جماعت احمدیہ از شهر گوجرانواله ۷۷۵ سننے سے زائد اور باہر اس سے بھی زیادہ صحن میں موجود تھے اس طرح حاضری ہزار بارہ سو تھی مگر جو باہر کھڑے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ حضور کی تقریر سنتے متعلقہ صفحہ ۳۶۰ 1960 رہے وہ بھی کئی صدیقے حضور بے حد خوشی اور ۳- اہل قافلہ قادیان (دسمبر ۶۱۹۵۷) مسرت محسوس فرما رہے تھے.اور یہ خدا کا خاص نوٹے : مندرجہ ذیل فہرست قافلہ کی روانگی سے
قبل کی ہے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر -۱۵ - ملک احسان اللہ صاحب مبتلی افریقہ ولد ملک خدمت درویشان کی طرف سے افضل مورخہ 9 و خدا بخش صاحب مرحوم ، لاہور.ار دسمبر ۱۹۵۷ء میں چھپی.یہ حروف تہجی کے اعتبار ۱۶ امتہ القیوم بیگم صاحبه نیست چوری روایت مادر سے مرتب کی گئی ہے :.صاحب اکال گڑھ ضلع گوجرانوالہ.- اللہ رکھی صاحبہ زوجہ فضل الرحمن صاحب ۱۷ امته الرحمن صاحبہ نہ وید منشی عطاء الرحمن صاحب فتح جنگ ضلع کیمی پور ۲ A درویش ربوه امتہ الرحمن ریحانہ صاحبہ بہت چو ہدری ۱۸- آمنہ بی بی صاحبہ بہت کردم داد صاحب کو تو اللہ بخش صاحب.ربوہ.ضلع شیخو پوره استراسمیع صاحبه زوجہ مرزاعبد اللطیف مکار بوده ۱۹- مرزا اعظم بیگ صاحب ولد مرزا رسول بیگ آمنه میگم صاحبہ بات حکیم الله بخش منا مرحوم داوه صاحب.ٹنڈو آدم (سندھ) مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری ولد ۲۰ آمنہ بی بی صاحبہ زوجہ قاضی عبد العزیز صا شیخ امام الدین صاحب مرحوم - احمد دین صاحب ولد محمد عارف صاحب نیشگری ۲۱ - سید امجد علی صاحب ولد سید فضیلت على مرحوم ربوه اللہ بخش صاحب ولد فتح دین کا ڈسکہ کلاں شاہ صاحب مرحوم رسیالکوٹ اللہ بخش صاحب ولد میاں غلام رسول صاحب ۲۲ - احمد علی صاحب و لد چوہدری جهان محمد صاحب راولپنڈی.نصرت آباد اسٹیٹ (سندھ) اللہ الرحمن صاحبیہ نیت حاکم خان صاحب ریوه ۲۳.چوہدری اسد اللہ خان صاحب ولد چوہدری ۱۰ - احمد دین صاحب ولد صدرالدین صاحب ککرالی نصر اللہ خان صاحب مرحوم.لاہور - الہی بخش صاحب ولد جمال دین صاحب شاهدوره ۲۴.اللہ دتہ صاحب ولد اللہ جو ایا صاحب ۱۲ - اللہ رکھی صاحب زوجه غلام قادر نا ایک شیر کا سدو کے ضلع گجرات.۱۳.اللہ رکھی صاحبہ والدہ مرزا محمود بیگ منار یوه ۲۵ - آمنہ بی بی صاحبہ زویه مرزا محمد زمان صاحب ۱۴.چوہدری انوار الحق صاحب ولد چوہدری عبد الحق نوشہرہ ککے زئیاں ضلع سیالکوٹ.صاحب - جود امل بلڈ نگ لاہور.-۲۶ - اللہ وہ صاحب ولد علی محمد صاحب بوت میکر
بر اور نسبتی محمد احمد صاحب فقیر سائیں.ربوہ کونڈی خیر پور میرس سندھ.۲۷- ارشد علی صاحب ایڈووکیٹ سابق بٹالہ حال ۳۸ جمال الدین صاحب ولد مولوی فضل و ین فضا سیالکوٹ شہر مانگٹ اُونچے ضلع گوجرانوالہ ۲۸ - پیر بشیر احمد صاحب و در پیر عبدالرشید صاحب ۳۹ جنت بی بی صاحبہ اہلیہ محمد یوسف گنا زیر وی چک اپنا ضلع ملتان ماڈل ٹاؤن لاہور.۲۹.مولوی برکت علی صاحب کائق سابق امیر حاجات ہم - جان محمد صاحب ولد سردار محمد صاحب نشر قصور ۳۰- احمدیہ لدھیانہ والد میاں امام دین صاحب خور و ضلع شیخو پوره مرحوم.جڑانوالہ ام - چراغ بی بی صاحبہ بنت فضل دین صاحب ریوه بشیر احمد صاحب ولد میاں سلطان احمد صاحب -۴۲- حبیب اللہ صاحب ولد فتح دین صاحب گونڈی ڈوگری سریابی ضلع سیالکوٹ.خیر پور میرس سندھ.- بی بی صاحبہ اہلیہ عبد الرحیم صاحب سندھی ۲۳، حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا عظم بیگ صاحب ٹنڈو آدم (سندھ) درولیش کرنڈی خیر پور میرس سندھ.بیگم بی بی صاحبہ بنت احمد علی صاحب کونڈی ۲۴، خورشید بیگم صاحبه ز و بد بشیر احمد صاحب خیر پور میرسی سندھ ٹھیکیدار رہوں بشیر بیگم صاحبہ بنت چوہدری الله و ته صاب ۴۵ - مولوی خلیل الرحمن صاحب ولد عبد الرحیم خان چک ۸۲ بہاولپور صاحب محلہ رام پور پشاور ۳۷- بیگیر بی بی صاحبہ زوجہ عزیز الدین صاحب ۴۶ - حامد اختر احمد صاحب ولنڈ ا کٹر بشیر احمد هنا کوٹ عبد اللہ نبی سر روڈ سندھ درویش وسوعه ضلع لائلپور ۳۵ سردار بشیر اصر صاحب ولد حضرت ماسٹر عبدار مان ۴۷ - مستری دین محمد صاحب ولد امام الدین حنا صاحب مرحوم رسول گجرات.جہلم پیڑا بازار.۳۶ر بشر کی اسد اللہ بیگم صاحبہ بیت چوہدری ۲۸.رحمت بی بی صاحبہ اہلیہ فقیر محمد صاحب دیوہ عبید اللہ خالی صاحب مرحوم.لاہور ۴۹.ربیعہ خانم صاحبہ بنت قطب الدین صاحب ۳۷.ثناء اللہ صاحب ولد عبد الحق فور صاحب مرحوم - احمد نگر
۱۲ ۵۰ - مولوی رشید احمد صاحب چغتائی مبلغ ۶۲ - زینب بی بی صاحبہ بہت میان علی محمد صاحب بلاد عربیه ولد بابو نور احمد صاحب - ریده مرحوم، بھیک چند روڈ کوئٹر.۵۱ رحیم بخش صاحب ولد فتح دین صاحب احمد نگر ۶۳ - زینب بی بی صاحبہ بنت عبد الحمید صاحب الا یا رسول بیگم صاحبہ المہیم چو اور سی مبارک علی سید و الا ضلع شیخو پوره صاحب چک چور کا ضلع شیخو پوره ۶۴- زینب بیگم صاحبہ بنت عبد الخالق صاحب ۵ ریشیم بی بی صاحبه بیوه فتح دین صاحب مرحوم جلیا نوالہ گوجره شیخ پور ضلع گجرات.۶۵ زینب را بی صاحبہ بہت فضل کریم صاحب ۵ ر مولانا رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا شا دیوال گجرات ولد با با محمد حسن صاحب - ریوه ۵۵ - رابعہ بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ دین صاحب صاحب نصرت آباد سٹیٹ سندھ شاہدرہ - ۵- رشید بیگم صاحبہ اہلیہ نبی احمد صاحب اولیش دیر منیر خان شاہانی خیر پور میرس.ماها - ریمین صاحبہ بہت بھیجو صاحب معرفت تور محمد صاحب اہل بدلا ہوا.تو تیب بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری جان محمد بھابی زینب بی بی صاحبہ بنت احمد بخش میان راوه سید محمد صاحب ولد چوہدری نواب دین صاحب دھنی و پوچک ۳۳۲ لائلپور ۶۹ مسلیم حسن صاحب الحجابی (الشامی ) ولد رفیق احمد صاحب بران الله شیخ عبدالحمید حسن بصری صاحب - ریوہ صاحب کا ہا ہا ہوں.۵۹ - رفیق احمد صاحب ولد ملک محمد طفیل هنا صاحب.کلاس والا سیالکوٹ ٹمبر مرچنٹ لاہور ۲۰ - وہ یہ بیگم صاحبہ اہلیہ نواب خان صاحب گھنو کے حجر ضلع سیالکوٹ.دروئی - ریوه خلیفہ سراج الدین صاحب ولد شیخ قطب الدريبي اه میکنند بی بی صاحبہ المیر منشی یعقوب علی حناب ۷۲ سردار بی بی صاحبہ بہت سردار خان صاحب ۷۳ نے سردار بی بی صاحبر نه و عمر چوہدری نور احمد رحمت بی بی صاحبہ بہت صلابت مان هنا شادیوالی ضلع گجرات.پیک 99 شمالی سرگودنی
صاحب.دانا زید کا سیالکوٹ.سلطان محمود انور صاحب ولد چوہدری محمد دین صاحب ربوه ۸۵ر چوہدری شبیر احمد صاحب بی.اسے وکالت سال به ریوه -AY ۷۵ مسعد بن ظریف صاحب ولد محمد علی صاحب درویش گوجره وکیل.پر تاپ سکوئر لاہور ۸۶- صدیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد عیداللہ صاحب صدیقہ بی بی صاحبہ اہلیہ مولوی شریف احمد 24 - مسماۃ ساد و صاحبہ بہت عبد الکریم صاحب صاحب امینی.راولپنڈی راوه.۸۸ مستری صلاح الدین صاحب ولد مستری 24 - سعید احمد صاحب پر ٹھیکیدار بشیراحمدمنا نظام الدین صاحب بھا نگر یایی صلح درویش ربوه سیالکوٹ.سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ بھائی شیر محمد صاحب ۸۹ - طالع بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالحمید درویش - اوکاڑہ صاحب درویش - ربوه منشی سلطان عالم صاحب خسر محمد احمد صاب ۹۰ - عبد اللطیف صاحب ولد نور محمد صاحب 19 - گجراتی در ولیش - گوٹریالہ گجرات ریوه ملک شیر محمد صاحب ولد ملک کریم دین صاحب ۹۱ - عالم بی بی صاحبہ اہلیہ جلال دین صاحب ریوه ر درویش ربوه ۸۱ - چوه و ری شاه محمد صاحب ولد چوہدری ۹۲- عطایی بی صاحبہ الہیہ مولوی فیروز دین فضا حسن محمد صاحب دھار والی شیخو پوره درویش ربوه شمشیر علی صاحب ولد چوہدری فتح شیر ۹۳- خلیفہ عبدالرحیم صاحب ولد حضرت خلیفہ تو والدین صاحب نے جھوٹی سیالکوٹ صاحب میانوالی.۸۳ - شریف احمد صاحب ولد چوہدری فضل احمد ۹۴- عبد الرشید صاحب ولد مستری عبد الغفور صاحب.ربوہ صاحب درویش - ریوه -۸۴- شاه محمد صاحب ولد عبداللہ صاحب ۹۵- عبد الرشید صاحب ولد اللہ بخش صاحب لد هو والی و رکان شیخو پوره ریکارڈ کیپر سیالکوٹ
۹۶- عبد السلام صاحب ولد سیٹے فضل کریم صاحب ۱۰۸- مرزا عبد الرحیم صاحب ولد مرزا محمد عبد الله برخوم به دو پوه به صاحب - ربوه 94 - عصمت بیگم صاحبہ بہت مولوی عبد القادر ۱۰۹- عبد الرحمن صاحب ولد روشن دین صاحب صاحب دیوه آمیر ضلع شیخو بوده و - عبید اللہ صاحب ولد چوہدری مهر دین صابت ۱۱۰- عبدالحی صاحب ولد بابو عبد الغفور صاحب لاہور ہکس ہیں.کھو اور ایک شیخوپورہ -99 گیانی عباد اللہ صاحب ولد عبد الغفار صاحب 111- عبدالرحیم صاحب برادر عبد السلام صاحب درویش در گانوالی سیالکوٹ.گوجرانوالہ ۱۰۰- عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ حاجی محمد دین صاحب ۱۱۲ - عبدالحق صاحب داماد جلال الدین صاحب درویش - ربوه تهال ضلع گجرات.عبدالرحمن صاحب ولد نور محمد صاحب چک ۱۱۳ عبد الحق صاحب را همه رشتہ دار ڈاکٹر ۳۶۶ ضلع ملتان.بشیر احمد صاحب درویش کراچی ۱۰۲ - عبد المنان صاحب ولد عبد الكريم صاحب ۱۱۲ - عبد الرحمن صاحب لیپر عطا محمد صاحب تومسلم.ربوہ ۲۹۵ درویش بک پر لائلپور ۱۳ ۱ر عبد الغنی صاحب ولد چراغ دین صاحب ۱۱۵- عبد الغفار صاحب برادر عبد الستار صاحب چک ۶۶۱ ضلع منٹ گری.درویش خانقاہ ڈوگراں.۱۰۴- عبدالرشید صاحب ارشد ولد عبد الرحمن ۱۱۶- فریشی عبد الرحمن صاحب سکھر (سندھ) صاحب دکاندار ربوه ۱۰۵- عبد الکریم صاحب ولد بنتا صاحب ربوه 116.عطاء المنان صاحب قریشی ولد حافظ محمد امین صاحب مرحوم.کوئی ٹر ۱۰۶.عطاء اللہ صاحب ایم.اسے ولد چوہدری ۱۱۸- عبد الستار صاحب ولد بڈھا صاحب مولا بخش صاحب - احمد پور شرقیہ حال خانیوال مڑھ بلوچاں شیخوپورہ ۱۰۷- مرزا عبد العزیز صاحب ولد مرزا محمد عبد الله ۱۱۹ - سید عبدالحی صاحب ولد سید عبد المنان صاحب فتح پور گجرات صاحب - ریوه
۱۵ ۱۲۰ - عبد العزیز صاحب ولد جیون خان صاحب ۱۳۲ - غلام شهر صاحب ولد حمد قاسم صاحب تر گڑی، گوجرانوالہ بھیگو وال ست یا لکوٹ ۱۲۱- عبد الخالق صاحب مہتہ ولد بھائی عبد الرحمن ۱۳۳- فقیر محمد صاحب ولد عید صاحب ربوه صاحب قادیانی - راب لین کوئٹہ ۱۲۲.ڈاکٹر عبدالحق صاحب ڈینٹل سرجن لاہور ۱۲۳- غلام محمد صاحب ولد تحقو خان صاحب چک شمالی ببر کو دیا.۱۳۴ - سید فضل محمد صاحب ولد سید شاہ نواز صاحب چک ۳۲۲۳۰ انڈی ضلع لاکپور ۱۳۵ فاطمہ بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد طفیل صاحب درویش.کوٹ مرزا حبان - گوجرانوالہ ۱۳۶- مولوی شحصیل دین صاحب ولد کا لو خان صاحب ۱۲۴.غلام سرور صاحب ولد میاں اللہ رکھا صاحب مرحوم - کارخانه بازارت لائلپور رحیم یار خان بہاولپور ۱۲۵ غلام بی بی صاحیہ اہلیہ سردار محمد صاحب بھو د چک را شیخوپورہ - غلام حید ر صاحب ولد مغل دین صاحب مانگا ضلع گجرات.۱۳۰- فتح بی بی صاحبہ اہلیہ الہی بخش صاحب کوٹ عبد اللہ نبی سر روڈ.سندھ ۱۳۸ - با بو فضل دین صاحب ولد میاں فیروز الدین صاحب.ہائی کورٹ لاہور فضل احمد صاحب داماد محمد طفیل صاحب ۱۲۷- غلام رسول صاحب ولد سائیں دتہ صاحب درویشی داتہ مزید کا.سٹھیا لی پھک طلا شیخو پورہ.ایک به ۱۴۰ فضل بی بی صاحبه زوجه حسن دین صاحب ۱۲۸ ماسٹر غلام محمد صاحب ولد مولا دا د صاحب شادیوال اچھر کا گجرات ۱۲۹ - ماسٹر غلام محمد صاحب، عبد ولد محمد مراد صاحب درویش دیوه ۱۴۱.میاں کیتھو صاحب ولد فتح دین صاحب ملہو کے ضلع سیالکوٹ ۳۰ ان صوفی غلام محمد صاحب ولد جھنڈے خاں ۱۲۲- کرامت اللہ صاحب ہر اور محمد دین صاحب صاحب چهور فعلیان چک شما الشیخو پوره درویش.کوہاٹ ۱۳۱ - غلام فاطمه بی بی صاحبہ بنت رحیم بخش صاحب ۱۲۳- لالی خان صاحب ولد احمد خان صاحب خانقاہ ڈوگراں.کھاریاں.
مام نهم از مرز الطف الرحمن صاحب اور والد مرزا ۱۵۵- قریشی محمد یوسف صاحب بریلوی ولد حافظ سخاوت حسین صاحب ترقی جہلم برکت علی صاحب.ربوہ ۱۳۵ مهر دین صاحب ولد رسول بخش صاحب ۱۵۶.ماسٹر شفیع صاحب السلم امیر المجاہدین محمد ملكانه ولد نور محمد صاحب بجلیا نوالہ لائلپور به یوه ۱۴۲- مهران بی بی صاحبہ اہلیہ فضل دین صاحب ۱۵۷- ماسٹر محمد مکی صاحب ولد محمدعبداللہ صاحب ن سید والا شیخوپورہ درویش ریوه ۱۴۷- میاں محمد یوسف صاحب (سابق پرائیویٹ ۱۵۸ - محمد جمال صاحب ولد محمد اعظم صاحب سیکرٹری ) ولد میاں ہدایت اللہ صاحب تر گڑی ضلع گوجرانوالہ.لاہور.۱۲۸.صوفی محمد رفیع صاحب ولا صوفی محمد علی صاحب تر گڑی ضلع گوجرانوالدر ۱۵۹ - ملک محمد دین صاحب ولد ملک محمدجمال صابه ۱۲۰ - شیخ محمد عمر صاحب ولد ڈی آر شیخ ربوہ سکھر (سندھ) ۱۳۹ - کبیر الدین صاحب صدیقی والد قمر الدین صاحب ۱۶۱ - محمد اسمعیل صاحب ولد محمد رمضان صاب صدیقی.احمد نگر ربوه ۱۵۰ کرم داد صاحب ولد جلال دین صاحب ۱۶۲ - منصف خان صاحب ولد فتح محمدخان فضا چک ضلع مینسٹ گری.کر تو ضلع شیخوپورہ ۱۵۱- خواب محمد عبد الله صاحب عرف عبدل ولد ۱۶۳- بھائی محمود احد صاحب والد کیم پیر خیش هاب خواجہ گلاب دین صاحب.ربوہ سر گو وہا.۱۵۲ر مختار احمد صاحب ہاشمی ولد شاه دین صاحب ۱۶۴- متاب بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر برکت الله صاحب نئی آباد می گجرات.مرحوم - ریوه ۱۵۳ محمد شفیق صاحب قیصر و در منشی محمد صادق صاحب ۱۶۵ - محمد سلیمان صاحب ولد محمد سلطان صاحب ولد مختار عام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ربوه لاہور چھاؤنی.۱۵۲- سید مسعود احمد صاحب والد سید منظور احمد - محمد ابراہیم صاحب رشید اور چوری مرد بدات صاحب احمد نگر صاحب مرحوم دهنی دیو چک ۱۳۳۲ کلپور
16 ۱۹۷ - منشی محمد اسمعیل صاحب معتبر ولد مولوی غلام قادر صاحب مرحوم رہوہ ۱۶۸ - محمد رمضان صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب کھاریاں ضلع گجرات.-۱۲۹ محمد شریف صاحب ولد فضل دین صاحب رتن باغ.لاہور جھول چاہ موسٹی والا.بہاولپور.19 محمد الحق صاحب ولد حاجی اللہ بخش صاحب ریوه ۱۸۰ - مرزا مجید احمد صاحب ولد حضرت مرزا بشیرا کرامت اللہ صاحب ولد محمد عباد الله صاب صاحب ریوه درویش گوجین 11- معراج سلطانہ صاحبہ اہلیہ بدر دین صاحب صاحب معتبر و باوه عامل - گنج مغلپورہ لاہور.۱۲- محمد بی بی صاحبہ بنت کھیوڑہ صاحب بن باجوہ ضلع سیالکوٹ.بدوملہی ضلع سیالکوٹ.صاحب ربوه ۱۸۱ میر محمود احمد صاحب ناصر ولد حضرت پیر محمد الحق ۱۸۲ - قریشی مقبول احمد صاحب مبلغ والد محمد المعيل ۱۸۳- محمد مالک صاحب ولد شكر اللي صاحب ۱۸۴ مجید احمد صاحب ولد بھائی شیر محمد صاحب ۱۸۵- مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک عبدالوحید سلیم ۱۸۶.چوہدری محمد شریف صاحب ولد نواب محمد دین ۱۸۷- پروفیسر محبوب عالم صاحب مفاکد و از خانصاب ۱۷۳ مریم بی بی صاحبہ اہلیہ منتری محمد امیل اوکاڑہ صاحب - ریوه ۱۷۴ قاضی مبارک احمد صاحب ولد قاضی عبد العربية صاحب.گورنمنٹ کوارٹرز لاہور.صاحب ریوه ۱۷۵.ڈاکٹر محمد حسن صاحب والد سید محمد حسین شاہ صاحبان نفت نگری صاحب ننکانہ صاحب ۱۸۹ر مریم بیگم صاحبہ بنت علیا صاحب چک ۲۹۵ مولوی فرزند علی خان صاحبت.لاہور ضلع لائلپور ۱۸۸- چوہدری محمد علی صاحب ایم.اسے تعلیم الاسلام رسیده ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمد شریف کالج لاہور صاحب سیالکوٹی گولی روڈ.لاہور ۱۸۹ محمد شفیع صاحب پر فضل احمد صاحب درویش ۱۷۸ محمد شریف صاحب تنگلی ولد محمد بخش صاحب گھٹیا لیاں.
JA -۱۹۰ میان محمد مراد صاحب والد بشیر احمد صاحب ۲۰۲ - نواب بی بی صاحبہ والدہ دین محمد صاحب تشکلی درویش حافظ آباد بکو وال ضلع لائل پور.۱۹۱.مرزا مسعود احمد صاحب براور مرزا محمود احمد ۲۰۳ - گیانی مرزا و احد حسین صاحب ولد مرزا صاحب درویش ریوه حسین بیگ صاحب تلونڈی را ہوالی ضلع ۱۹۲.محمد یوسف صاحب.بالو کے بھگت مضلع سیال ہے گوجرانوالہ ۱۹۳- مولوی محمد اسمعیل صاحب استلم داماد مولوی ۲۰۴.ہدایت بی بی صاحبہ زوجہ محمد حمد صاحب فضل وین صاحب مبلغ حیدر آباد دکن فقیر سائیں درویش - ربوہ.۱۹۴ مختار بیگم صاحبہ اہلیہ غلام ربانی صاحب ۲۰۵ - یوسف علی صاحب ولد چوہدری شیر علی متمان درولیش - دها رو والی شیخو پوره ۱۹۵- مرزا منظور احمد صاحب ولد مرزا غلام الله ما صاحب.مری روڈ، راولپنڈی.مرحوم نیسیم آباد اسٹیٹ سندھ ۴- تصویر قافلہ پاکستان برائے جا سالانہ ۱۹۶ - ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ بشیر احمد صاحب -196 بانگروی - دیوه قاریان ۶۱۹۴۹ - نظام الدین صاحب ٹھیکیدار ولد ڈھونڈا دائیں سے بائیں.نیچے بیٹھنے والے :.صاحب ربوه ا قاضی مبارک احمد صاحب جامعہ احمدیہ ۱۹۸ - نذیر احمد صاحب ولد محمد اسمعیل صاحب (سابق مبلغ (افریقہ) ۲- (۹) ۳ - ( ؟ ) - ۴-(۹) ۵-(؟) - د مولوی ٹکٹر ضلع گوبر الوالہ ۱۹۹- ناصر احد صاحب والد ڈاکٹر برکت اللہ صاب عبد الحکیم صاحب (پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کتنے مغلپور نئی آبادی گجرات لا ہوں -(؟) 9- مولانا عطاء اللہ صاب ۲۰۰- ناصر احمد صاحب امیر سراج الدین صاحب کلیم (انچارج غاناشن) ۱۰- (؟) کوئیلوں پر بیٹھنے والے :- مودن درویش کو ہاٹ.۲۰۱ - چوہدری نور احمد صاحب ولد چوہدری فتح علی ار منشی عبدالحق صاحبة كاتب والد مولانا صاحب.دانہ زید کا ضلع سیالکوٹ.ابو المنیر نورالحق صاحب مینجنگ ڈائریکٹر دار یا مصنفین
14 راوه ۲- مرزا مهتاب بیگ صاحب ناظم دوزی خانه امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ کا معاشہ محمد عمر قاریان ۳- چوہدری نوراحمد صاحب دخترانه صاحب فاضل مبلغ معلہ مسلہ احمدیہ ۵-(۹) صدر انجمن احمدیه) - شیخ بشیر احمد صاحب -( ) ، ملک محمد شفیع صاحب ۸ خوابه ایڈووکیٹ (امیر جماعت احمدیہ لاہور) امیر قافلہ عبدالواحد صاحب پہلوان گوجره و گیانی مرزا حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ فاضل و احمد حسین صاحب مبالغ میکسلہ احمدیہ تلونڈی را ہوالی امیر جماعت احمدیہ قادیان - صاحبزادہ مرزا ضلع گوجرانوالہ ۱۰-(؟) وسیم احمد صاحب ناظر دعوة و تبلیغ قادیان- ۱۲- چوہدری فیض احمد صاحب نے چین اسپیکر بیت المال مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری در مبلغ سیرالیون و ریوه ۱۳ - (٤) (1)-1) فجی در مولانا شیخ مبارک احمد صاحب راہیں کھڑے قطار بہ التبليغ مشرقی افریقہ 9 منشی نور محمد صاحب ۱ (۹) ۲- میاں عبد الحمید صاحب آن (ہیڈ کلرک صدر انجمن احمدیہ قادیان ).دار الفتوح قادیان ۳-(؟) -(؟) کھڑے قطار :- ۵-(۹) ۲- ڈاکٹر محمد احمد صاحب سرماوی ا.ماسٹر محو شفیع صاحب التم دایر الجاہدین شفا میٹریکل ڈسپنسری ربوہ ).میاں الملكانه) ۲- ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب کیا ہو.مولا بخش صاحب آف رعیہ ضلع امرتسرر - (۹) - (۹) ۵- مرزا محمد حیات صاحب دواخانہ رفیق حیات قادیان ، سیالکوٹ تصویر قافله پاکستان بر جا سالانه (1)-9 کار خواجه محمد عبد الله صا حبیب کشمیری ۸ و دری فضل احمد قادیان ۰۶۱۹۵۰ صاحب انسپکٹر آن سکو از حال ہو ۹ (۴) دائیں سے بائیں نیچے بیٹھنے والے :- - - محمد یعقوب صاحب ننگلی کا تب الفضل 11 - ١ - (۹) ۲-(؟) ( ؟ ) ۱۲- ( ۹ ) کھڑے قطاری : -: (?)-r ۲۴۵/۴ ۵- ماسٹر محمد یکی صاحب رسید والا ر حال دار الیمین ریوه ) 4 عبد الرحمن صاحب ولد ۱(۲) ۲-(؟) - میر محمد بخش شهاب مولوی صدر الدین صاحب دارالیمین ربوہ.-2-
سردار بشیر احمد صاحب این حضرت ماسٹر عبد الرحمن بھنگواں ڈسکور ۱۴-۹۱) ۱۵ چوری صاحب اشهر سنگا - شیخ عبد المنان صاحب سردار خان صاحب پریذیڈنٹ جماعت ولد شیخ احمد اللہ صاحب ناگپوری - - - ڈاکٹر موہیلن کے ضلع گوجرانوالہ - ۱۶.ڈاکٹرمحمد یعقوب غلام مصطفی صاحب بالانوی (دار الصدر ربوہ) ۱۰ خان صاحب لاہور (9)-7 (5)-11 (9) کرسیوں پر بیٹھے ہوئے:.۷.گرسیوں پر بیٹھے ہوئے نما :- - (؟) ۲- ڈاکٹر عبد الرحیم صاحب دہلوی ا چوہدری رستم علی صاحب محمد آباد سندھ میانی ضلع سرگودہا (والد صوبیدار عبد المنان صاحب مولانا نور الحق صاحب النور مبلغ مشرقی افریقیه و دہلوی افسر حفاظت رہوه ) ۳-(۹) ۴- امریکہ ۳- مولانا عنایت اللہ صاحب مبلغ عبد الرحیم صاحب عادل لاہور حکیم محمد صدیق مشرقی افریقہ ۴.ماسٹر محمد ابراہیم صافی خلیل صاحب ربوہ ۶ ملک محمد الدین صاحب کارکن.مبلغ اٹلی و افریقیه در مولانا غلام حسین صاحب دفتر آبادی- دار المین رابوه (؟) - - - ایاز مبلغ سنگا پور -4 حضرت سید محمود اللہ شیخ خورشید احمد صاحب (اسسٹنٹ ایڈیٹر افضل شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول اور ربوده و مولوی تمایل الرحمن صاحب مولوی فاضل بابو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمد سیالولو ۱-(؟) -(۹) ۱۲- (۹) ۱۳(۲) صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب (افسر امانت کھڑے ہونے والے قطاری : تحریک تجدید و بوه) ابن حضرت مصلح موعود ۹ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ۵-(؟) -(۹) ۷-(۹) ۸-(؟) لاہور.امیر قافلہ ۱۰ حضرت مولانا غلام رسول ۹ - ۱۰ - مولوی تاج دین صاحب فاضل صاحب قدسی را نیکی و مبلغ سلسلہ احمدیہ ۱۱ لائلپوری ناظم دار القضاء ربوہ.11.میاں چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ کراچی ۱۲- مولوی عبد السلام صاحب عمر راولپنڈی ۱۲- ڈاکٹر محمد احمد صاحب ( این ر قلوب الرشید حضرت خلیفہ اقول (ض) لاکھا روڈ خان میر خان صاحب خادم خاص حضرت مصلح موعود سندھ ۱۳- چوہدری نذیر احمد صاحب آفت عمل کو ہاٹ.۱۳-(؟) ۱۴- (۹) ۱۵-(؟) - ١ - ( ؟ ) - (؟) -(٤) (؟)
۲۱ کھڑے ہونے والے قطار عن :- -16 چوہدری رستم علی صاحب یکیو آباد (سندھ) شیخ الله بخش صاحب پشاور (معاون امور عام -۱۸ سردار خان صاحب ، پچک ۱۳۳۷ بهاولپور ۱۹.سردار خان صاحب، مولینکی (گوجرانوالہ) - ۲۰ ملک سردار خان صاحب سیالکوٹ ۶ - فهرست افراد قافله قادیان ۶۱۹۵۰ ۲۱ - سلطان احمد صاحب با جرا (گجرات) ۱ - شیخ اللہ بخش صاحب پشاور ۲۲- سید احمد صاحب.لاہور ۲ - الله وتا صاحب چوہدری والا ضلع لائلپور.۲۳- شاہ دین صاحب، ظفر اسٹیٹ (سندھ) منشی احمد دین صاحب چوکناں والی ضلع ۲۴.صفی الرحمن صاحب.لاہور گجرات.م - اللہ لکھا صاحب گھٹیالیاں ؟ ۲۵.میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی.امام دین صاحب شام کی دشیخو پوره ) ۲۶ - مهته عبد الرزاق صاحب کراچی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور.عبدالمجید صاحب نیاز ابوه 4 - بشارت احمد صاحب بھٹی لاہور.۲۸- عزیز الدین صاحب کو نڈی ( خیر اورپریس) مولوی برکت علی صاحب سیالکوٹ.۲۹.ڈاکٹر عبد الرحیم صاحب دہلوی میانی (سرگورا) - A ۹ - حاجی بازخان صاحب - نورنگ (گجرات) ۳۰ میاں عزیز الدین صاحب محمد آباد (سندھ) سردار بشیر احمد صاحب.رسول (گجرات) ۳۱ - عنایت اللہ صاحب شیخ پور (گجرات) ۳۲.عبدالرشید صاحب گھبرات اد - مولوی تاریخ دین صاحب دیوه - ۱۲- ثناء اللہ صاحب لاہور.۳۳.مولوی عبد السلام صاحب عمر.لاکھا روڈ ۱۳ چوہدری حسن محمد صاحب کوٹ رحمت خاں (سندھ) (شیخوپورہ) ۳۴.عبد الرحیم صاحب عادل.لاہور - مولوی خلیل الرحمن صاحب پشاور ۳۵ عبدالعزیز صاحب بھائی پھیرو (لاہور) دار رفیق احمد صاحب مظفر - کراچی ۱۶ شیخ خورشید احمد صاحب لاہو ۳- چوہدری عبد اللہ خان صاحب کو اچی ۳۷.چوہدری عنایت اللہ صاحب.لاہور
۲۲ ۳۸ عبدالرحمی صاحب چوہر کا نہ (شیخو پورہ) -۵۹ میابی محمد مراد صاحب حافظ آباد ۳۹ عبد العزیز صاحب چک سکندر (گجرات) ۲۰ - ڈاکٹر محمد احمد صاحب این خان میر صاحب.، ۴۰- عبد الرحمن صاحب پچک ۳۶۶ ملتان ام چوہدری عبد الستار صاحب.درگا نوالی (سیالکوٹ) ་ ۲- -41 ٹل (کوہاٹ) ۶۱ - حکیم محمد صدیق صاحب.لاہور ۶۲ - محمد دین صاحب نصیره (گجرات) ۴۲- غلام قادر صاحب ایک شیر کا (لائلپور) ۶۳.ماسٹر محمد یکی صاحب رسید و الار شیخو پورہ) ۴۳ - چوہدری غلام محمد صاحب چک ۹۹ سر گو و یا ۶۴- شیخ منیر احمد صاحب.لاہور سرگودہا ۴۴.ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب لاہور ۶۵- محمد دین صاحب ککرالی (گجرات) ۴۵- چوہدری غلام محمد صاحب بقا پور گوجرانواله) ۶۶- محمد عبد اللہ صاحب چک علالامپور ۴۶ - چوہدری غلام قادر صاحب تیمیہ بھیک ما ملک محمد دین صاحب خادم - ربوه ۶۸ - میاں محمد دین صاحب - ڈسکہ بہاولپور ۴۷.چوہدری غلام محمد صاحب ظفر اسٹیٹ (سندھ) ۲۹- محمد سلیمان صاحب پلاک ۲۹۹ پور ۴۲۸ - مولوی غلام حسین صاحب آیات ربوه ۵۰- فقیر محمد صاحب بچک ۹۶ لائلپور - محمد عبد الله صاحب ریوہ ۴۹.چوہدری غلام محمد صاحب (سندھ) اے.چوہدری مہر دین صاحب - گوجرانوالہ ۷۲ - محمد دین صاحب پیک ۲۶ سرگودہا.۵۱ر فتح دین صاحب شمس آباد لاہور ۷۲- محمد شفیع صاحب شیخ پور ضلع گجرات ۵۲ - بابو قاسم دین صاحب سیالکوٹ شہر ۵۳.سیٹھ محمد ابراہیم صاحب.راولپنڈ کی ۵۴- مماته محمد عمر صاحبه ریوه ۵۵ - سید محمود اللہ شاہ صاحب په یوه ۵۶- چوہدری مظفر علی صاحب میاں محمد رمضان صاحب.تو گڑی ضلع گوجرانوالہ.- محمد عبد اللہ صاحب کھاریاں (گجرات) -64 - چوہدری محمد شریف صاحب.کوٹ نیناں (سیالکوٹ) ۵۷ - میرانی بخشی صاحب سوک کلان (گجرات) ہے.محمد اسلم صاحب.احمد نگر (جھنگ) ۵۸، قریشی محمد کریم صاحب.راولپنڈی ۷ - ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب.لاہور
۲۳ - مولوی محمد ابراہیم صاح فی خلیل.یہ بوہ مبشر احمد صاحب را جیکی - پیشاور - مهتاب بی بی صاحبہ زوبعه محمد بخش صاحب ناصر آباد (سندھ) چوہدری نذیر احمد صاحب آن کھنگوراں ڈسکہ محمد بی بی صاحبہ والدہ عطاء اللہ صاحب ۸۲ به مشتری نظام الدین صاحب په انگریان دیسان و وای میانوالی (سیالکوٹ) چوہدری نور احمد صاحب چیه دا تا زید کا ضلع - - مبار کہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب سیالکوٹ.(گول بازار ریوہ) ۸۴ - صاحبزادہ مرہ انعیم احمد صاحب ریوه ۱۰ - مهران بی بی صاحبہ رو به فضل دین صاحب ۸۵- مرند انور احمد صاحب نسو والی (گجرات) درویش دیوه ۲۸۶ مستری ناظر دین صاحب احمد نگر ضلع جھنگ 11 - خانم بی بی صاحبہ زوجہ رحمت عال صاحب چوکتانوالی (گجرات) ۸۷ - مولوی نور الحق صاحبی که بوده -AL - مرزا و احد حسین صاحب - ربوه (مرتبه مختار احمد صاحب ہاشمی انچارج دفتر ۸۹- مولوی عمر دین صاحب شادیوال (گجرات) خدمت درویشان ربوہ) مستورات ۱ - اہلیہ سید محمد شریف صاحب - کراچی تصویر قافلہ پاکستان برائے طلب سالانہ امتہ السمیع صاحبہ اہلیہ مرزا عبد اللطیف صاحب ۴- درویش قادیان ۶۱۹۵۲ - امینہ بی بی صاحبہ اہلیہ مهر دین صاحب دائیں سے بائیں نیچے بیٹھنے والے قطار :.فیروز والا (گوجرانوالہ) 1- عبد الطیف اسلم صاحب پھر تعلیم الاسلام ہائی عصمت بیگم صاحبہ بیوہ شاہ دین صاحب سکول ریوه - ۲-(۹) ۳.مرزا کرامت الله صاحب گنج مغلپوره ۴ - (۹) ۵ عبد السلام موسے والا ضلع سیالکوٹ.۵ - عائشہ بی بی صاحبہ رو به حمد صادق صاحب صاحب ٹیٹر ماسٹر گولبازار ربوہ 4.میاں چک ۱۳ سرگودہا.غلام حمد صاحب زرگر سیالکوٹ.۷.(؟) - کرم بی بی صاحبہ زوجہ محمد اسمعیل صاحب ربوه - (۹) ۹۱-۹) ۱۰- میان الله و ته صحاب
بد و طی والے.۱.چوہدری محمد اسمعیل صاحبت میاں محمد مر او صاحب آن پنڈی بھٹیاں.حافظ آبادر والد خلیل احمد صاحب حلوائی گولیا زار ریوه ۱۲ - سردار بشارت احمد صاحب این حضرت با سٹر عبیدار مکین - نذیر احمد صاحب دار الیمین ربوه - ۱۳- ملک صاحب فرسنگه ما رمیاں عبد الحق صاحب راهم شیر محمد صاحب دار الیمین ربوہ - ۱۴- عبد الغفار ہی اسے (سابق ناظر بیت المال ربوه) ۸ چوری صاحب جلد از ابن اللہ بخش صاحب ٹھیکیدار محمد اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور.و مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی ۱۰- واد النصر ربوه - ۱۵-(؟) نیچے بیٹھنے والے قطار ہے.-4.با بو فضل دین صاحب سیالکوٹ.11.السید - (۹) ۲- انوار الحق صاحب ( امور عام سلیم الطبایی- شام - ۱۲-(؟) ۱۳- پروفیسر ریده ۳-(۲) ۴ سید سعید احمد محبوب عالم صاحب خالد تعلیم الاسلام کا لین درحال صاحب جامعہ احمدیہ، واریوٹن - ۵-(؟) ناظر بیت المال ربوه و پرائیویٹ سیکرٹری حضرت - بابو قریشی محمد اسمعیل صاحب معتبر آڈیٹر خلیفہ المسیح الثالث ) ۱۴ - ( ؟ ) ۱۵-(۹) تحریک جدید ، میاں محمد یوسف صاحب ۱۶- چوہدری محمد شریف احمد صاحب گجراتی (این رپرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح الثانی چوہدری فضل احمد صاحب انسپکٹر مدارس دار ا رحمت - چوہدری محمد اسحق صاحب مبلغ چین ۹- ربوه) ۱۷- (کھڑے) مولوی سید عبد الحی صاحب ملک احسان اللہ صاحب میتبلیغ افریقیه ۱۰ر قریشی کشمیری فاضل شاہد ( دفتر نظارت اشاعت لٹریچر محمد یوسف صاحب بریلوی - دار الصدر ربوہ تصنیف (بوه) ۱۸- میاں اللہ بخش صاحب ۱۱-(؟) ۱۲- (۹) ۱۳- قاضی مبارک احمد حجام - ڈسکہ A صاحب شاہد جامعہ احمدیہ (مبلغ مغربی افریقہ) کھڑے ہونے والے قطار :- : ۱۴.چوہدری نظام الدین صاحب دار الیمین ریو ۱ (۹) ۲- مولانا ابو العطاء صاحب (9)-14 (9)-18 نیچے بیٹھنے والے قطار :- عت: (9)-7 (1)-1 جالندھری پرنسپل جامعہ احمدیہ ۳ - (؟) (8)-f -4 (9)-9 (9)-8 ۳ - (۹) مولانا رشید احمد صاحب چغتائی مبلغ بلاد غربیہ به ماسٹر غلام محمد صاحب عبد حافظ آباد ۵ قریشی عبد الرحیم صاحب کرد ناظم على الصاله
پر سند هوا پر میل سکه و یک آباد) - (۹) ۱۰ را ہوالی ۱۳- خواجه عبد الله صاحب کشمیری (1)- ڈاکٹر محمد جی صاحب ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر 11- ریده ۱۴-۹۱) ۱۵-۱۹۱ مهاله محمدعمر مها شده محمد عمر صاحب مبلغ سلسله ۱۲- صوفی کھڑے ہونے والے قطار ما :- ۱۳ (؟) ۲- ڈاکٹر عبد الحق صاحب محمد رفیع صاحب ڈی ایس پی سکھر.مستری دین محمد صاحب ) آف دار الفتوح قادیان) ڈینٹل سرجن لا ہور ۳- (۹) ۲ چی پوری جہلم ۱۴- حضرت مولانا رحمت علی صاحب نے محمد علی صاحب پر و فیسر تعلیم الاسلام کا لیے ربوہ رئیس التبلیغ انڈونیشیا ۱۵- ڈاکٹر بھائی رالی پرنسپل کالی) در سید میر محمود احمد محمود احمد صاحب سر گو رہا.۱۶ مهند عبد الخالق صاحب ناصر (پروفیسر جامعہ احمدیہ ).صاحب ( ابن حضرت بھائی عبد الرحمن ضاقادیانی) (؟) -(؟) - کبیر الدین صاحب ( جامعہ احمدیہ حال کراچی و مرز انتظور احمد ١ - ( ؟ ) کھڑنے ہونے والے قطار کی : صاحب شغل آف قادیان (حالی ربوه) ۱۰-(؟) (§)-11 (5)-17 ۳- سید کھڑے ہونے والے قطار : ا چوہدری عبد الرحمن صاحب چیک ۳۶۷ ضلع لقان امجد علی شاہ صاحب سیالکوٹ - ہم مختار احمد ١ - (؟) -(؟) (9)-F صاحب ہاشمی (حال انچارج دفتر خدمت درویشاں ہم.مولوی فضل دین صاحب بنگوری سیکرٹرمی صابیا ریوه ۵-۲۱) ۶-(۹) میکیم لائلپور (حال دیوه ) ۵ مرز لطف الرحمن عبد الرحمن صاحب آنبر ضلع شیخو پورہ.صاحب مبالغ جرمنی - ۶-(؟) کار ماسٹر سید احمد صاحب لاہور.چوہدری محمد یکی صاحب سید والا (حال دار الیمین ربوہ) -A محمد شریف صاحب وکیل امیر جماعت احمد مینشگری ۸-(۴) 9-(1) 1-( ) 11- (9)-! (ساہیوال) از مولوی خلیل الرحمن صاحب عبد الحی صاحب ۱۲ (۹) ۱۳- قریشی مولوی فاضل پیشاور 11 ملک عبد الکریم مقبول احمد صاحب سابق مبلغ امریکہ ( ابن قریشی صاحب آف تر گڑی ۱۲- گیانی مرزا تر.گیانی مرزا محمد اسمعیل صاحب معتبر واحد حسین صاحب مبالغ مسلسلہ احمدیہ تلونڈی کھڑے ہونے والے آخری قطار :
۲۶ (9)-1 ۲-(٤) ۳- چوہدری کالج ربوہ (حالی نائب ناظر بیت المال عطاء اللہ صاحب اینم سابق پروفیسر تعلیم الاسلام ریوه به - حضرت مصلح موعود کا مکتوب گرامی دستفقه فه ) ۳۰۲) رستید محمو د الله شاه صاحب ۱۲۵ نومبر ۱۹۲۲ء کو ریلوے انجنیٹر نگ کی ٹرینینگ کے لئے قادیان سے بیرون ملک روانہ ہوئے تھے حضرت مصلح موعودؓ نے اس موقع پر انہیں اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل نصائح تحریر فرمائیں ) :- عزیز یکی السلام عليكم - اللہ تعالے حافظ و ناصر ہو چند یا توں کو اگر یا در گیری تو تو انشاء اللہ فائدہ ہوگا.ا.اللہ تعالیے ہر تو کل کرتی وہ بہت بڑا کارساز ہے.ہم نے خود اسکی قدرت کو کیا ہے اور ساری دنیا کے انار بی این امن کی لگا دی کی امین کا اسکور نہیں کر سکتے.دعای امت ہے سفری مشکلات ہوتی ہیں اچھے وقت بھی اس کیے رجوع کی میں اس سے زیادہ محبت کرنیوالا کوئی نہیں رشتہ داروں عزیز محبوں سے بہت بڑھکر وہ خبر گیری کرینگے
۲۷ ۲.نمازوں می سنتی نہ ہو ایک ناز رہ جائے تو پریشی گا پوری کرنا نہایت شعری ہے.ہوا - اسبات کو مد نظر یکیسی که با ہر ایک انسان دوسروگی نظریہ نیچے ہوتا ہے تو آپکو کامی نظر سے دیکھنے والے ایسے ہو کر این که لونی کی نکتہ چینی کا موقع ہی ہے اور محسوس کی ہیں کہ اس شخصی ہو ینے ایک نمایان خون و لنک یہ ہے.یہ بے شک ایک ظاہر ہے مگر بہت سے ظاہر باطن اور مدد گار ہوتے ہیں ۰۴ اپنی تعلیم کی طرف زیادہ توجه دیس - اگر جنگ وغیرہ کا کوئی حادثہ ہو تو سید ولی الہ شاہ کا طرح ان والدین کو تکلیف کا شکار نہ بنائیں بلکہ قدر ائے سینٹ لے جائنگے یا کیا ہے ملک میں جیسے سوئٹزرلینڈ میں جنگ نہ ہو تسلیم باقی طقی انگلستان سے ہوتی ہے ایسے خطرناک مقامات پر اننا میں ہو
طالب علم کا کام نہیں ہے احمد یوں ہے وہ کی زیادہ میل جول رکھنا جائے خواہ ادنی تعلیم ہوں یا این عفواق مختلف ہوں جیک عصبیت نہ ہو اور اپنوں اور دو کردن ملی فرقا نہ ہو وہ کامل اتحاد پیدا نہیں ہوتا نہیں کیے تو میں ترقی کرتا ہے کی تلاوت ے.بلے کے لیے قرآن کرنا یا د اور حضرت صاحب کا کتب کی تلاوت نہایت مفید ہے.اللہ تعالیٰ مقصد میں کامیاب کرکے لاولے اور مجھولوں کے لیے موجب خوشی بنام سے الہج اپنی کاربر مرز المحمود لله براین من محمد الملا اور تری با نشاسته دختر ها کسی سالی کیجه به کیده شده مال یا دستا ایک خطہ سید عبد الجباره نام سید و یا انشاه صاحب پلیس مد المحمود البعد وضياء الاسلام پولیس ریوه )
ملحق : متعلقه صفحه ۳۰۳ تا ۳۲۳) مفتي الديار المصرية يقول أن ظفر الله خان كافر القاهرة - نشر الشيخ محمد حسنين مخلوف ، مفتي الديار المصرية ، بياناً في الصحف المصرية أعلن فيه بأن السيد ظفر الله خان ، وزير خارجية الباكستان ، غیر مسلم بل كافر لأنه ينتمى إلى طائفة خاصة في الباكستان لا تؤمن بأن النبي محمد هو خاتم الانبياء ، بل تعتقد بأنه سيطلع أنبياء آخرون في الاسلام.وقد أدى هذا البيان إلى هياج الخواطر في الباكستان و مصر ، و طلبت بعض صحف القاهرة إقالة المفتى لأجل ترضية الباكستان ، صديقة مصر.و يحاول بعض الساسة و الصحفيين المصريين التقليل من أهمية بيان المفتى بقولهم إن هذا كان رأيا شخصيا بحتا.و كان نشر أقوال المفتى مبعث استغراب الحكومة المصرية.وقد أوضح موظف كبير في المفوضية الباكستانية في القاهرة في صحيفة مصرية حقيقة الطائفة التي ينتمى إليها ظفر الله خان فقال ان ابناء هذه الطائفة لا يؤمنون بأنه سيطلع أنبياء بعد محمد لانهم هم ايضا يؤمنون بأن محمدا هو خاتم الانبياء ، إلا أنهم يعتقدون بأنه سيطلع مصلحون آخرون في الاسلام • ولأجل اصلاح الأمر نشرت صحف القاهرة مقالات فيها كثير من المدائح لظفر الله خان ، المسلم العظيم ، صديق مصر و الشعبيه المصرى.ومما قالته جريدة (المصرى) : اذا كان ظفر الله خان كافرا الميكثر عدد الكفار من أمثاله في الاسلام.،، (اخبار اليوم، يافا ۱۳ جولائی ۰۱۹۰۲)
اخبار المصری کے نمائیندہ نے مفتی شیخ حسنين محمد مخلوف سے اس فتوی کی اصل حقیقت کے بارے میں دریافت کیا تو مفتی مذکور نے اپنے فتوی کی وضاحت فرمایا - میں ان ما نشر ليس بفتوى رسمية وليس لها رقم في سجل خاص ، انما هي مجرد حديث دار فى مجلس خاص يتضمن راى فضيلته في هذه المسألة ،، اخبار المصري، ۲۳ - جون ۰۱۹۰۲) تحديد مهمة المفتى عرض الفتاوى على مجلس الافتاء علم مندوب النداء، أن شخصية المفتى لم تكن محل بحث إطلاقا ، وإنما عنى المسؤلون ببحث حدود منصب المفتى.و يشمل هذا البحث تقييد من يشغل هذا المنصب بالحد من الاجتهاد إلا في الحدود الرسمية وبناءاً على الطلبات التي تصل إلى دار الافتاء على أن لا تصدر فتوى إلا بعد عرضها على مجلس الافتاء المكون من المذاهب الأربعة...،، ائمة اخبار النداء ، المصرى و جولائی ۰۱۹۰۲ یو این او میں مصری نمائنیدہ نے اخبار الاهرام، مصری کے سانه گفتگو کے دوران فرمایا.- مواقف يفخر بها الشرق و تحدث أحد ممثلى مصر فى الجمعيات العمومية لهيئة الأمم المتحدة عن مواقف يفخر بها الشرق كلها وقفها السيد ظفر الله خان وزیر خارجية الباكستان ، فى الجمعية العمومية لأمم المتحدة عام ٠١٩٤٧
التي عن فلسطين الشهيدة خطبة استغرقت ثلاث ساعات كاملة لم يتناول خلالها جرعة ماء واحدة ، ولم يسكت عن الكلام لحظة واحدة وأثبت بها قوة ايمانه بالدين الاسلامي و بالوطن العربي ، ولقد بكى واستبكي تحت عبارات قوية فى معناها ورصينة في مبناها ، و شهد له الجميع بأنه رجل عظيم ، مسلم کریم ، وطنی صمیم ، سیاسی حکیم و متمكن من اللغة الانجليزية كأحد أبنائها من العلماء الافذاذ.وقال هذا القانوني الكبير ان السيد ظفر الله خان الرجل الوفور ذا اللحية المكتبة أخذته نشوة فرح لا توصف بانتصار الدول العربية و مؤيديها في قضية ليبيا أمام الجمعية العمومية لأمم المتحدة عام ١٩٤٩ ، وقال بصوت مسموع للجميع ان سروره لا يقدر بانتصار قضية ليبيا العربية وكذلك كان دفاعه مجيدا عن طرابلس...،، اخبار الاهرام» المصری ۲۷ جون ۱۹۰۲) عزام باشا يقول : ظفر الله خان رجل مسلم ورأى المفتى لا يخرج أحدا من دينه جريده الاخبار کے نمائیندہ نے جناب عبدالرحمن عزام پاشا سیکرٹری جنرل جامعه عربیه سے مفتی استاذ شیخ مخلوف کے فتوی کے بارے میں ان کی رائے دریافت کی جو اس نے قادیانیوں اور ظفر اللہ خان صاحب کے بارے میں دیا ہے.تو جناب نے فرمایا.عجبت لا عتبار كم رأى المفتى فى القاديانية أو في معالي وزير خارجية الباكستان محمد ظفر الله خان فتوى دينية لها أثرها ولو كان الأمر كذلك لكانت عقائد الناس وكرامتهم و مستقبلهم رهنا بأراء بعض العلماء.فالفتوى يجب أن تنصب على حادثة معينة و واضحة وهي بحد
رأى لادين يلزم الناس ، ان الاسلام تنزه عن أن يجعل من العلماء هيئات كهنوتية تفصل وتحرم من رحمة الله ولا شك في أن هذا الرأى هو رأى خاص لا يخرج أحدا من دينه ولا يدخل أحدا في دين.فمن قال "لا إله إلا الله محمد رسول الله ،، واستقبل القبلة المسلمين فهو مسلم وليس من مصلحة المسلمين في شتى تكفير طائفة لطائفة بل إن من أحسن مبادئ الاسلام البعد عن التكفير و ظفر الله خان رجل مسلم لم نشهد عليه إلا قولا حسنا وعملا حسنا وقد أوتى حظا كبيرا في الدفاع عن الاسلام في مشارق الأرض و مغاربها وله مواقف دولية مشهودة دفاعا عن الاسلام قدرها الناس و شكره المسلمون.وهو كذلك من اكفأ رجال الاسلام لتولى الشئون التي تولاها في مصر وفى الدولة العثمانية ايام الخلافة وفى دول غيرها في تاريخ المسلمين رجال ينتسبون إلى أديان مخالفة للاسلام ومع ذلك لم يعترض أحد باسم الدين على توليهم هذه المناصب و بذلك يعتبر كلام المفتى فى هذا الشأن رأيا شخصيا ويتحمل هو وحده مسئوليته ، الاخبار المصري ۲۳ جون ۰۱۹۰۲) أخبار الجمهور المصري لکھتا ہے."...نحب أن نوضح أننا نوافق الدكتور احمد المبي المدرس بجامعة فؤاد الأول ، فقد أرسل إلينا بقول أن فتوى فضيلة مفتي الديار المصرية كانت خدعة بريطانية ومناورة من الصحف البريطانية التي تصدر في مصر باللغة العربية و أن المسألة أعمق بكثير مما يتصور الرأى العام.و الحقيقة الواضحة هى أن الانجليز هالهم موقف السيد ظفر الله خان في الدفاع عن المسلمين وقضاياهم في جميع أقطار الأرض وأزعجهم صوته الجرى من أجل الاسلام والمسلمين وهالهم أن تكون الباكستان يدا قوية تسند قضايا المسلمين في كل مكان تبارك مصر فتعترف بلقب
ملك مصر والسودان وتصرح على لسان ظفر الله خان بأن الباكستان لن تعترف بإسرائيل ولو اعترفت بها الجامعة العربيه هذا هو جعل الانجليز يتربصون لوزير خارجية الباكستان فرسموا هذه المناورة ليحر.وا مصر والشرق من تأييد القطب الباكستاني الكبير ،، الجمهور ، المصري ۲۱ جولائی ۰۱۹۵۲) اخبار المصری نے اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا : " اعترفت الباكستان ، الدولة الاسلامية الشقيقة بلقب جلالة ملك مصر و السودان.اعترفت الباكستان بهذا اللقب ، وهى العضو بمجموعة الاسم البريطانية الخاضعة للتاج البريطاني.و كان هذا الاعتراف خطوة جريئة تمت بفضل جهود وزیر خارجية الباكستان السيد ظفر الله خان.و كان هذا صنيعا جديدا ، و مكرمة نبيلة ينبغي لنا أن نقابلها بالشكر ، و الاعتراف بالجميل...ولكنا مع ذلك قابلناها بما لم يكن يتوقعه أحد ، إذ أعلن فضيلة مفتي الديار المصرية أن السيد ظافر الله خان كافر ينتحل نحلة باطلة.و إننا لمشفقون على الموقف الذي يقفه الآن سعادة الدكتور عبدالوهاب عزام بك سفير مصر في كراتشي و ممثل جلالة ملك مصر والسودان في الدولة التي اعترفت باللقب مع أنها خاضعة للتاج البريطاني.و إننا لمشفقون على الموقف الذي يقفه الآن معالى عبد الخالق
حسونه باشا وزير الخارجية المصرية الذي يعرف بحكم منصبه موقف الباكستان منا و من قضيتنا ، و يعرف موقف ظفر الله خان من مطالبنا الوطنية و أمانينا...و مشفقون ايضا على سعادة الدكتور محمد صلاح الدين باشا وزير الخارجية المصرية الأسبق الذي وثق بظفر الله خان و تلقى منه العون في هيئة الامم المتحدة و مشفقون على محمد على علوبة باشا واحمد خشبة باشا وغيرهما من رجال السياسة ، و رجال العروبة ، و رجال العالم الاسلامي ، الذين يعرفون ظفر الله خان و جهوده في سبيل مصر و فلسطین و تونس وغيرها من الدول العربية و الاسلامية ، اننا مشفقون على هؤلاء جميعا ، و مشفقون على فضيلة المفتى إذ أدان رجلا دون محاكمة ، فأتهمه بالكفر و العياذ بالله • ولسنا نشفق على السيد ظفر الله خان ، فسيظل هو هو كما نعرفه ، المدافع عن قضايا الاسلام و الدولة ، و الصديق الحميم لمصر والمصريين.اذا كان فضيلة المفتى قد اتهمه بالكفر ، فأنعم بظفر الله خان كافرا ، و ما أحوجنا إلى عشرات من أمثاله من الكفار الكبار.و و بعد فما الذي تنوى الحكومة المصرية أن تفعله ؟ ما الاجراء الذى يجب أن تتخذه و ما البيان الذي ينبغي أن تصدره ، وما السياسة التي يجدر بها أن تنتهجها في المستقبل حتى لا تخسر مصر أصدقاءها القليلين بسبب بعض كلمات طائشة ، تقال دون روبة أو اتزان.(المصري ۲٦ جون ۱۹۰۲)
دكتور ابراهیم لبان بک عميد كلية دار العلوم المصری نے اس بارے ایک مضمون اخبار المصری میں شائع کیا.جو درج ذیل ہے.میں النحلة القاديانية و ما أعرف عنها إني لاسف أشد الأسف أن تنال الدول العربية من شخصية السيد ظفر الله خان وزير خارجية الباكستان ، الذى لم يدخر وسعا في سبيل الذود عن حياضها ، فتفقد بذلك ولاء هذا النابغة و تضعف من حمية هذا العبقرى و هى أحوج ما تكون إلى شجاعته و بلاغته و دفاعه المجيد عنها في حومة النضال السياسي الدولي المستعر الاوار.أما النحلة القاديانية فسأقرر ما أعرفه عنها بدقة تامة تاركاً للقارئ أن يصدر عليها حكمه.و لا أقول اني درستها حق دراستها ولكني.مع ذلك لم أكن مقطوع الصلة بها بل كان لي شأن معها.قابلت المذهب القادياني بصورة واضحة لأول مرة في حياتي في لندن في اثناء دراستى هناك.وكان أول ما لاحظته أن القوم ينقسمون قسمين.فطائفة ترى أن امامهم و«أحمد»، القادياني لا يعدو أن يكون مصلحا اسلاميا من اولئك المصلحين الذين يبعثهم الله من حين إلى حين ليجددوا شباب الدين....أما الطائفة الاخرى فتغلو في تقدير امامهم و تذهب إلى أنه نبي ، ولها مسجد خاص في بثنى أحد أحياء لندن.و قد حملت على هذه الطائفة حملة شعواء في ذلك الحين فقرروا أن يرسلوا إلى امام المسجد ليناقشني فاما أقنعني أو أفحمته ، و قد اجتمعنا للمناقشة بالنادي المصری بلندن مرتین و دار البحث حول نبوة زعيمهم «أحمد القادياني.فوجهت نظره إلى أن هذه الفكرة مخالفة لصريح القرآن فالله يقول "ما كان محمد أبا احد من رجالكم ولكن رسول الله و خاتم النبيين،،
و هذا يقطع الطريق على كل من تحدثه نفسه بالنبوة بعد ظهور الرسول : و لا أزال أذكر رده إلى الآن، فقد قرر أنهم كغيرهم من المسلمين يؤمنون برسالة «محمد» و بان كتابهم هو القرآن الكريم و ليس لهم کتاب سواه و منه يستمدون العقيدة والشريعة و لكنه في ما أذكر أصر على فكرة نبوة القادياني و لما واجهته بالاية سلك سبيل التأويل.فصرح بأنهم لا يمكن أن يعتنقوا عقيدة مخالفة لصرح الكتاب و لكن هذه العقيدة لیست مخالفة للقرآن.فالآية تقول انه خاتم النبيين بالفتح لا خاتمهم بالكسر.وردت الآية إذاً بالفتح و لو جاءت بالكسر لذات دلالة قاطعة على أنه لا نبي بعد محمد عليه السلام.أما كلمة خاتم التي وردت في الآية الكريمة فقد ذهب يؤولها تأويلا خاصا يترك الباب مفتوحا لظهور الأنبياء منهم.• و لا يوصده في وجه أحد ثم شرح بشرح الفرق بين النبى و الرسول و انهم يعتقدون انه لا رسول بعد محمد وان رسالته هي الرسالة الدينية الأخيرة ، و لكنهم يؤمنون ايضا بأنه من الممكن أن يظهر بعده أنبياء تقتصر مهمتهم على إحياء الشريعة وبث الروح فى تعاليمها.وان القادياني احد اولئك الأنبياء الذين جاؤوا ليحملوا الناس على كتاب وبهم و شريعة نبيهم • القوم اذا متأولون لا منكرون جاحدون و حكم المتأول غير حكم الجاحد المنكر • و في اعتقادي أنه لا يمكن الفصل في هذه المسألة إلا بعد دراسة علمية مستوعبة لتاريخها ولأصول هذا المذهب العامة و للفروق الرئيسية بينه و بین مذهب أهل السنة • و من الخير أن يدرس الأزهر النحل الدينية التي ظهرت أخيرا في بعض الممالك الاسلامية دراسة مستوعبة ليستطيع أن يصدر في حكمه عليها وتقديره لها عن علم وبصيرة.وقديما كانوا يقولون أن الحكم على الشي فرع عن تصوره ،، المصري ۲۷ جون ۰۱۹۵۲)
ود و صرح خشبة باشا يستنكر الفتوى لنا سعادة احمد خشبة باشا بأنه في شدة الألم مما نسب إلى سعادة ظفر الله خان وزير خارجية الباكستان إذ أن سعادته يرى أن الخدمات التي أداها السيد ظفر الله خان للاسلام و العالم العربي عامة و مصر خاصة خدمات جليلة يدين له بها العالم الاسلامي و مصر.أضاف سعادته قائلا : " انه لا يمكن أن ينسى مواقف السيد ظفر الله خان بجانب مصر سواء في دورات الامم المتحدة في باريس ، أو في الولايات المتحدة و خاصة عندما رشحت مصر نفسها لمجلس الأمن.و قال سعادة خشبة باشا هذا كله فضلا عن الخدمات التي أداها السيد ظفر الله خان للاسلام و المسلمين و التى لا تحصى ، و لا يمكن إلا أن تكون محل تقدیر و اعجاب من الجميع ،،، و اختتم حديثه قائلا : انني أشعر بأن في عنقى ديناً نحو هذا الرجل العظيم الذي أدى خدمات جليلة لبلادى و انتي في شدة الامتعاض لهذه الفتوى التي أفنيت بصدد هذا الرجل الكبير ،، اخبار الزمان ، المصرى ۲۵ جون ۱۱۹۵۲ رئيس المحكمة العليا الأسبق اخبار البلاغ، مصری کے نمائندہ سے انٹرویو کے دوران قال صاحب الفضيلة الشيخ محمد ابراهيم سالم بك :- تسرع منا دون شك أن نحكم على القاديانين بالكفر، و ذلك
لأننا لم تتح لنا بعد وسائل بحث هذا المذهب و اتجاهاته عن طريق كتب تعرفه و تحدده.و ما دمنا لم نعرف شيئاً عن هذا المذهب فانه يكون من أن نرى معتنقيه بالكفر ، فهم هم المسلمون إذن أن الجرأة و التسرع يقوم دليل على كفرهم.على انى أرى ان هناك نواحى تؤيد اسلام الطائفة القاديانية بل تؤيد انهم لا يدعون فرصة تمر إلا ويبذلون كل مظاهر التأييد للاسلام و المسلمين ، سواء أكان ذلك التأييد في المحافل الدولية أم في غيرها.من هنا نرى أن الأمر المؤلم أن يتهم سعادة السيد ظفر الله خان بالذات بالكفر و هو من تعرف الرجل المتخلق بخلق الاسلام الحريص على تقاليده و مننه في كلما يصدر عنه " ولقد زار السيد ظفر الله خان مصر أكثر من مرة ورأيناه يدافع عن الاسلام و المسلمين ويؤازر ،قضايا هم متحمسا لكل ما من شأنه اعلاء كلمة الاسلام و أهله ، و ذلك لاشك أن اسلام الرجل اسلاما لا تشوبه شائبة ،، البلاغ المصری ۲۶ جون ۰۱۹۰۲) المفتى الأسبق وقال صاحب الفضيلة الشيخ علام نصاربك : ليس من الجائز ولا من الهين ومى فرقة من فرق المسلمين بالكفر، ولا يوجد من الادلة ما يبرر القول بأن القاديانية بالباكستان خرجت عن الاسلام ! ولا أرى التعرض بصفة خاصة لمركز رجل سیاسی عظیم کوزبر
خارجية الباكستان في دينه وعقيدته وهو الرجل الذي ينادى بالاسلام دينا ، ويناضل عن الاسلام والمسلمين فى مواقف مشهودة وبجاهر باتباع القرآن و يتمثل به وبأحاديث محمد صلى الله عليه وسلم فى مواقفه و تصريحاته ، ويعتبر الاسلام رابطة عزيزة بين الباكستان ومصر ، والبلاد الاسلامية ، فليس من الحكمة لانصاف الدين أن يتورط أحد فى رسيه بالخروج عن الاسلام وهو يجاهر باسلامه ويعتبره رابطة مقدسة ويبذل نشاطاً ملحوظا في خدمة الاسلام و الشعوب الاسلامية و يتبين جليا من أقوال عارفيه و أصحابه من كبار رجال المسلمين فى مصر أنهم ينظرون إليه كرجل مسلم يتمسك بآداب الاسلام و قواعده ويتحلى بأخلاقه و مكارمه ، ويحث على اتباعه و التزام أصوله.ولا يجهل المسلمون ما كان فى عهد النبي صلى الله عليه وسلم حين قتل أحد رجلا في الحرب بعد أن نطق بالشهادتين لأنه أيقن أنه إنما نطق بها هربا من القتل فلامه النبى صلى الله عليه وسلم على فعله ولم يقبل عذره ، و قال هلا شققت عن قلبه • فيجدر بنا أن نتربث و نتدبر عواقب الأمور، ولا نتعجل بالتعرض لرجل كوزير خارجية الباكستان في دينه و عقيدته وهو يجاهر بالاسلام و يدافع عنه طول حياته ،، البلاغ ٢٦ جون ٠١٩٥٢) خطاب مفتوح الى مفتي الديار ثار حضرة صاحب الفضيلة الشيخ حسنين مخلوف على السيد ظفر الله خان وزير خارجية الباكستان، واتهمه الاستاذ المفتى ، أفادنا الله منه ولا حرمنا من واسع علمه وفضله ، اتهمه في النهاية بأنه كافر و زنديق.10
ولا أريد أن أتعمق فى اسباب ثورة الاستاذ مفتي الديار ، ولا في اسباب اتهامه للوزير الباكستانى بالكفر والزندقة ولكني أود أن أخرج من هذا البحث الضيق إلى بحث أوسع.كان على الاستاذ المفتى قبل أن يهاجم وزير خارجية الباكستان أن يفرق بين الدين و السياسة..ثم كان عليه بعد هذا أن يفرق بين المسلم الباكستاني محمد ظفر الله خان و بین الوزير الباكستانى السيد ظفر الله خان و وزير أية وزارة ؟ وزارة خارجية ! • منذ اعلنت الغاء ثم كان على الاستاذ المفتى أن يعلم شياً ، أو أن يطلب ممن يعلم أن يحيط فضيلته علما بما لا يعلمه فضيلته عن الوزير الباكستاني.خدمة أن ظفر الله خان لم يتوان عن المعاهدة وفي شهور ديسمبر ويناير و فبراير كنت في باريس اثناء انعقاد دورة هيئة الام المتحدة وفي هذه الفترة لمست وعلمت بعض ما حاول مم مصر مصر ظفر الله خان أن يقوم به من مساع لخدمة القضية المصرية وصدقونى انني لمست اخلاص هذا الرجل أكثر مما لمست اخلاص بعض رجالات العرب.ويومها لمس الجميع جهوده و شكروه عليها الاجريدة واحدة هي الأخبار اليوم، التي هاجمت ظفر الله خان ذات صباح و بلا مناسبة ، ولمصلحة من ؟ كلنا نعلم.فلنفرض أن ظفر الله خان كافر ، هل انتهى فضيلة المفتى من تعقب گذار مصر وبدأ يتعقب و يحصى كفار البلاد الأخرى.هل انتهى فضيلته من محاربة الزندقة فى مصر فانتقل إلى محاربتها IT
في الخارج.و الا يجدر بفضيلته أن يهتم قليلا بمصر بلده و بنفسه ، أن فضيلته هو مفتى الاسلام في مصر ، ومصر حسب الدستور بلد دينه الاسلام ، وفى مرتب فضيلته الذي يتقاضاه كل شهر جانب لا بأس به تحصله الحكومة من الكباريهات و الخمارات ومهمة الكباريه هى تهيئة الجو للزاني والزانية اللذين لا يرجمان بحجر في مصر الاسلامية • على فضيلة المفتى أن يأرب هذا أو ذاك أو عليه على الأقل ، و هذا أضعف الايمان، أن يتنازل عن كل مليم مرتبه يحصل من هز الارداف والبطون والتفاف الساق على الساق.على فضيلة المفتى أن يحارب هذا أو ذاك قبل أن يحرك علينا الدنيا بلا مناسبة ( النداء ۲٥ جون ۰۱۹۰۲) اجترحه أصبح الابرار كافرين عبثا يحاول الشيخ مخلوف أن ينفض من نفسه تراب الاثم الذي و سواء أسمى خطيئته هـذه فتوى أم حديثا ، فقد أحاطت به..وجعلت تنحيته عن منصبه حتما مفروضا على الدولة..إذا أرادت أن • تحترم نفسها ولقد آثرنا ألا نعقب على فتوى الشيخ يوم صدورها حتى تعاون الناس على نسيانها.بيد أن الشيخ وهو بسبيل الدفاع عن سقطته راج يمحو الخطأ بالخطأ..ويكفر عن الضلال بالضلال : والمفتي الذي يعلم أن منهم " في القاديانية "معتدلين متزنين و برجو أن يكون ظفر الله خان المفتي الذي يعلم ذلك كما قال في بيانه المنشور " بالأخبار» يوم الخميس كان واجبا عليه أن يلتزم أبسط قواعد الفقه الاسلامي التي تهیب به ان يتربت و يتأني قبل أن يخرج الناس من رحمة الله ودينه.ففضيلته يعلم أن الرسول عليه السلام قال لشاهد ذات يوم : ir
أترى هذه الشمس ؟ على مثلها فاشهد ، أو دع وهو أيضا يعلم : أن علماء الاسلام و أئمته مجمعون على أن المسلم الذي يساوى احتمال اسلامه واحدا في المائة لا يحكم بكفره...و إذن فما كان ينبغى لرجل وضعته الظروف في منصب الافتاء أن يسارع إلى تكفير مسلم ، و مسلم عظيم لمجرد خبر صحفى.وحتى لو كان هناك مالا تعلم ، مما حفز فضيلته إلى اخراج ظفر الله من الاسلام..فقد كان عليه أن يحسن صياغة فتواه ، أو حديثه ، فلا يطالب باكستان بعزل الوزير الزنديق ولكن يبدو أن الشيح لم يقرأ مرسوم تعيينه.فظن نفسه مفتيا لمصر وباكستان معاً..وهكذا أخل بواجبات الزمالة.ولم يحترم حقوق زميل له هناك، هو مفتي باكستان الذى يعلم عن بلده و وزيره مالا يعلمه الشيخ مخلوف.على أن للمسألة وجها آخر يفاقم من خطرها ، وتتمادى معه نتائجها..فالقاعدة الاسلامية تقول : من كفر مسلما ، فقد كفر ! و ظفر الله خان - بالنسبة لنا - مسلم كامل الاسلام حتى ترى کفره رأی العين ، و تعلمه علم اليقين • و مفتی مصر نفسه عاد يعترف بهذا في بيانه الاخير الذي تمنى فيه أن يكون ظفر الله خان من المعتدلين المتزنين ، الذين لا يستحقون تكفير فضيلته ، ولا يستأهلون رهبوته ولا لعنوته ومن ثم نرى أن فضيلة المفتى قد كفر مسلما ومن كفر مسلما فقد كفر ولكم أرجو من القراء أن لا يحسبونى مازحا.فأنا جاد في تقرير هذه الحقيقة وفى تحمل مسئوليتها.أما السيد ظفر الله خان فلن يضيره مما حدث شئى وانه ليذكركم قال الناس عن رسوله العظيم "كاهن..وساحر..وصایی..و مجنون.و إذا كان الرجل الذي يواجه الاستعمار في جبروت شامخ من 12
بلاغته و صدقه : والرجل الذى جعل الله الحق على لسانه وقلبه : اذا كان هذا الرجل كافرا فان كثير من الابرار يودون على هذا النحو أن يصبحوا كافرين.خالد محمد خالد اليوم ٢٦ جون ٠١٩٥٢) كلمة المصرى ظفر الله خان يطلع قراء المصرى، في غير هذا المكان على تصريح السفير باكستان في مصر عن تقديره للصحافة المصرية وعلى رأسها «المصرى،، الذي استطاع برايه وبما نشره عن آراء المصريين من أصدقاء باكستان أن يرد عن ظفر الله خان رجل الشرق الكبير ، تلك الدعوى التي ما كان أحد يتوقع أن تصدر ضد الرجل من مصر ومن علمائها الاجلاء.ولعل باكستان لم تكن تعرف قبل تلك الدعوى أن مصر تكن لها الحب من شغاف القلوب ، و العاطفة الصادقة من أعماق الضمير والأخوة الدولية التي تتكون من وحدة الأهداف والمصير ، وقد صدق العرب حين قالوا ! رب ضارة نافعة عملى ان مكانة ظفر الله خان لا يقدرها أصدقاء الباكستان من المصريين لأن الرجل من أصدق انصار القضية المصرية في المحافل الدولية وحسب ، ولا لأن الرجل أحد الرجال العالميين الكبار الذي شغل نفسه مصر ، و مناطحة الاستعمار و وقته ، بل ووطنه في سبيل مناصرة الشقيقة علنا و جهارا بل لصفات كثيرة تتركز فى الرجل وتجعله يحق من الذين لا تقال فيهم كلمة إلا بقدر و إلا بميزان.إن ظفر الله خان أحد رجال الدولة الاسلامية القلائل في العصر الحديث ، بل هو في الصدارة منهم ! فهو الرجل الذي درس السياسة ولم يسلك سبيله فيها على قواعد سياسية نظرية ، و إنما أخضع ثقافته 10
السياسية لفكرة القرآن ، ولنظرة الاسلام في تكوين الدولة وسار بمنهاجه العصري الفريد الذى يجمع بين آراء العصر ونظرة الاسلام.و ظفر الله خان ، هو الرجل الذي درس الاقتصاد ، و وازن مالية أمة كبيرة العدد ، كبيرة الغايات والأغراض ، قريبة عهد الانسلاخ من دولاب الاستعمار الاقتصادى ، و لم يقم في تطبيقه للنظام الاقتصادى على علوم الاقتصاد المجردة ، و إنما هو قد أخضع ثقافته الاقتصادية لتعاليم الاسلام ، ونظرته الشاملة في بناء الدولة الاسلامية من حيث حقوق الافراد و واجباتهم نحو الدولة ، وموازنة ذلك حقوق الدولة وواجباتها نحو الأفراد.و ظفر الله خان ، هو الرجل الذي تسلم راية الدولة وسياسة الباكستان الخارجية من رجليها الكبيرين، محمد علی جناح ، و لیاقت علی خان ، فسار على نهجهما الاسلامي ، و رغبتهما في دفع الدولة الوليدة سياسيا ، العريقة تاريخاً ، نحو حضارة العصر الحاضر ، الابقاء على سمات الدولة الاسلامية ، دينا وتقليدا وتعاليما ، واستطاع الرجل أن يحافظ على منهاج رجلى الباكستان ، بل و يعلى من شانه و ما كان لرجالات العالم السياسيين ، في اوربا و أمريكا أن يقدروا للرجل قدره ، مجاملة ، أو تظاهرا بالمجاملة ، و انما العرفانهم قدره ، و وقوفهم على الثقافة الضاربة من كل الآفاق بوعيه ، و إدراكهم له على أنه رجل يحمل بين طواياه روح الشرق الكبير ، و فكرة حاضر الدنيا الجديدة التي تنشد السلام ، مما جعلى الرجل يمثل فكرة الكتلة الثالثة بين الكتلتين المتنازعين هذا • أنه كان يقوم من هو ظفر الله خان الذي اتهم بالكفر مع مقعده في هيئة الأمم إذا حان وقت فرض من فروض الصلاة فيبحث عن مكان منزول في قاعة الهيئة يركع فيه الله مبتهلا إليه أن بنصر أمة الاسلام ! ،، المصرى ۲۷ جون ۰۱۹۵۲)
-- Clarification Sir, In your issue of Tuesday the 22nd instant a report of an interview with me has been published.The interviewer Mian Mohammad Shafi is a very experienced and honest person.He has most carefully recorded my replies to his questions and apart from some immaterial discrepancies he has very faithfully reproduced what I said.There has however been some misunder- standing regarding one point.Mian Mohammad Shafi has somehow taken the impression that we are already in possession of definite proofs of the Ahrar getting help from India.What I meant to say was that I had been informed by certain persons that they possessed some proof about the Ahrar getting help from the other side of the border but that I had no power to finally verify it.I also said that we too had some important clues as to some of the Ahrar workers receiving help from certain Indian parties and that we were following up those clues.I added that when we reached some definite conclusions we would put them before the proper authorities at the proper time.It seems that unfor- tunately I could not express myself clearly on the point and the two things got intermixed with each other.Mirza B.Mahmud Ahmad Head of the Ahmadiyya Community 00 8 (The Civil & Military Gazette Lahore, Friday, July 25, 1952, page 3)
a complete religious freedom.Islamic State in Pakistan, he said: "In an Islamic State there is complete religious freedom.Islam expects even non-Muslims to live up to their religious ideals." He then emphatically said "I am convinced that the secret hand of India is at the back of the present anti-Ahmadiyya agitation".He had positive proof in his possession and would be prepared to put it before the proper authorities at the proper time.Question: "Would you like that a convention of Ulema of Islam from all over the world be held to adjudicate upon the issue whether Ahmadis be declared outside the pale of Islam?" Answer: Yes provided we are made a party to the pro- posed convention.Question: "Suppose by a majority vote you are declared on doctrial basis to be non-Muslims.Will you even then persist in claiming that you are Muslims.' Answer "We will still, continue to be attached to the universal brotherhood of Islam." The Civil & Military Gazette, Lahore Tuesday, July 22, 1952 pages 1-3
Government, is it correct to presume that Ahmadis in Government service would owe their first loyalty to you? Answer: "Loyalty to the Goverment of the day is an article of faith with us.The moment I entered into such conflict which will put to the test the loyalty of Ahmadis in Govern- ment service I should be ready to be thrown out of my pre- sent position of being the Khalifa." Continuing he said: "We shall never do anything unconstitutional against the Government of the country established by law".If Referring to the country-wide agitation for declaring Ah- madis a minority community, Mirza Sahib said: "I dislike it, not because it is going to do any harm to us, but because it will bring a bad name to Islam." Explaining he added: "We are an internationally-growing community and because of our missionary work we bring lot of kudos to Islam and Muslims.we are branded a minority community separate from the rest of Muslims, our missionary activities abroad will not be inter- preted as an effort on behalf of the Muslim people as a whole but as the work of a distinct religious community.This will also creat an unbridgeable gulf between the Ahmadis and or- thodox Muslim." 31 The shrewd religious leader then posed a question: "What will be the delimiting lines of the proposed Ahmadiyya minority community He said that in the event of the authoritative body in Pakistan declaring it as a minority community, he would have no hisitation in issuing a mandate to his followers to drop the label of Ahmadi and call themselves Muslim only.He said: "The nomeclature of Ahmadi is not a manda- tory provision in our religious books.It was only for the sake of showing that the founder had asked his followers to declare themselves as Ahmadis in and during the census operations in his lifetime." Question: "Suppose the Government declare your Anjuman a political organisation and then bans it, what will be your attitude? " He promptly said: "I will change the name of the Anjuman, but never come into conflict with the Government." On being asked whether in view of the inter-sectarian con- flict on religious issues, he would advocate the establishment of 6
Agitation India Prompted Ahmadiyya Chief Distinctive lable to be given up if necessary "I am convinced that the secret hand of India is at the back of the present Anti-Ahmadiyya Agitation", declared Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad on sunday in an interview with the London Daily Mail.He had positive proof in his possession and would be prepared to put it before the proper Authorities at the proper time, he added.In the event of the authoritative body in Pakistan dec- laring his community a minority, he would have no hesitation in issuing a mandate to his followers to drop the label of Ahmadi and call themselves Muslims, the Ahmadiyya leader declared.Sixty-three year old head of the Qadiani branch of the Ahmadiyya Community, Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad, in the course of an exclusive interview with Mian Mohd.Shafi of the Daily Mail categorically denied the allegation that he was planning a coup d'etat to seize political power In Pakistan, He said "Ahmadiyyat is not a political theory.Ours is a religious movement.With the present tension between Ahmadyas and non-Ahmadyas only a mad man can think of seizing political power for Ahmadis".He added Even if, for the sake of argument, the tiny Ahmadiyya minority succeeds in getting into the seat of autho- rity by force, it should be prepared to be liquidated the very next day at the hands of the bitterly hostile non-Ahmadis.” Question: In case of a conflict between you and the 5
Foreign Hand? Who Directed Karachi Riots (From 'STAR' Karachi-Man) Observers here sense some foreign hand behind the spora.dic disturbances that greeted the Ahmadia Conference and re- sulted in several arrests, injuries and much of unpleasantness- a feature which had never defaced Karachi's characteristic calm.The time of such ugly demonstrations is considered rather significant immediately after the obviously American-inspired MPO Tamasha had so miserably flopped.The Americans are very bitter about the way the MPO was ignored and insulted not only by the public and press in Pakistan but also by the Government.Much of it was consi- dered due to the Foreign Minister, Ch.Zafrullah.The aggrieved Americans could not have got a better op.portunity to exploit to induce the public to dislike the Foreign Minister.The Ahmadi Conference is being held almost on the ruins of the MPO-The MPO Pandal is still only in the process of dismantling.And just here in the same Jehangir Park, Chaudhri Zafrullah has had to face perhaps the most-hostile-ever demonst- ration in his life.There is increasing evidence of the fact that perhaps the U.S.Offices and missions in this country are ever-playing the part they are entitled to play within the internationally recognised sphere of diplomacy.During the last several weeks U.S.has had to face an increasing stream of not so pleasant comment in the Press, particulary what is considered to be official or semi official.The spectacle that Karachi has had to witness at the Jehangir Park has been shocking.Never before was such un- ruliness seen in this city.Tear-gassing and Lathi charges have been practically alien to this town.What makes it worse is that the occasion was a relgious conference.Apart from the fact that inspiration was, probably foreign, the ugly sight of one conference being disrupted by an- other hostile camp and police trying in vain to ward off trouble was an insult to the capital of any country.4 *STAR' Exclusive.Vol.2 No.37, May 24, 1952 Shaban 29, 1371
.The Europeans hate Asiatics.As far as Ahmadiyyat goes, I assure you that we-and when I say we, I mean myself and all the Ahmadis who follow me-consider all the people on earth as equals.All of US are equal and have the same powers.I assure you that during my life time I am not going to allow any Ahmadi to adopt this mistaken idea.Just as the Holy Prophet said that he would crush such ideas under his heels, I also assure you that I will also crush such ideas under my heels.So, go and prove yourself a true Ahmadi.Tell your, brothers that you went to Pakistan and Rabwah and found that in Pakistan also there are brothers and you did not see Pakistanis but Africans in different colours and they are looking towards their African brothers as their own kith and kin.I am expecting the same sacrifice from Africans as from any other nation and ask you to preach and convey the message of Islam to every corner of your country.Rabwah will always look upon you to bring everybody in Gold Coast in the fold of Ahmadiyyat the true Islam, the religion of God." Extract from "The Nigeria Ahmadiyya Bulletin” August 1951 (Page 1) 3
A Great Future For Africa Following is the concluding part of the speech delivered by Hazrat Khalifatul Masih II, the Supreme Head of the Ahmad- iyya Movement at a party arranged by the Khuddamul Ahmad- iyya, Rabwah Pakistan in honour of Alhaj Alhasan Atta of the Gold Coast when the Alhaj visited the Headquarters of the Movement to attend the Annual Conference as the representative of the Ahmadiyya Movement, Gold Coast."To you Mr.Hasan my special message is that in future- I cannot say near future ΟΙ distant future-I am reading the writing on the wall that there is a great future for your race.God does not forsake a race for all the times to come.He does it for some time but not for ever.He once gives opportu- nity to one nation and one continent and then He gives the same opportunity to another nation and continent.Now is your time.** Rest assured your glorious time is fast approaching.People were made to think that yours is an inferior race.I can say about myself that in my younger age, when I used to read English books, I used to think your race as interior one.But when I grew up and read the traditions and the Holy Quran, I came to know that it was all humbug.God has not made an exception of your people.God mentions all races and nations as equals.When He sends Prophets in the world He gives sufficient intelligence also to the men who are addressed to accept that prophet.If you have not sufficient intelligence, or in other words are an inferior race, then God forbid it is the fault of God who sent a prophet to a people who have no intelligence to accept him.But this is not the case.Islam says Europeans, Americans, Asiatics, Africans and people in far off islands are all equal.All of them have the same power of understanding, learning, memorising and inventing.Americans consider themselves as super men.They even hate Europeans.** You have been oppressed and ruled for a very long time,
(APPENDIX) Muslim Leader's Prayer for U.N.O.Following is an article culled from The Daily Record Balti- more which contains and comments on the message issued by The Supreme Head of the Ahmadiyya Community.If all the members of U.N.O.were to take this message to heart and act accord- ingly, the world would be changed for the better in no time.One of the world's outstanding Moslem spiritual leaders has taken far-reaching action with reference to the nine-Point Program for Development of UN loyalty, sponsored by the United Nations Citizenship League.The UNCL has its world headquarters in Baltimore and was founded in this city.Point 3 of the program is: "Prayers for the U.N.in every house of worship throughout the UN whenever prayers offered for any member Government." The Khalif of the Ahmadiyya movement in Islam has prepared the following prayer for the United Nations: "O God! Guide us unto the right path, the path of those chosen ones of different nations who attained Thy plea- sure Make our resolve pure set right our intentions! Divest our thoughts of all evil and purge our thoughts from all weak- ness Enable us to sacrifice all our desires and wishes for the sake of the Truth I Grant us to establish true peace in the world just as Thine chosen ones did! Preserve us from all ac- tions which incure Thy wrath Save us from forgetting in the excitment of action obligations which devolve on us from Thee, and from losing the path which leads to Thee.Ameen.” The Khalif whose headquarters are in Rabwah, Pakistan, has also prepared a statement for the encouragement of the children of the world, with reference to the UNCL's ideal of "a generation the glorious like of which has never been seen on this earth before." (The Truth - Nigeria, July, 1952 Vol.1 No.8 Page 1) 1